Safar E Ishq By Harram Shah New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 14 July 2024

Safar E Ishq By Harram Shah New Complete Romantic Novel

 Safar E Ishq  By Harram Shah New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Safar E Ishq By Harram Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name: Safar E Ishq 

Writer Name: Harram Shah 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

وہ جتنی تیز ہو سکتا تھا بھاگ رہا تھا وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اس کے پیچھے اس کی موت ہے۔اس نے سر گھما کے دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا شائید وہ جا چکا تھا۔اس نے ابھی یہ سوچ کے سامنے دیکھا تو خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

' نن۔۔ نہیں دارا مجھے مم۔۔ معاف کر دو۔غطی ہو گگ۔۔گئ تھی'

وہ گھٹنوں پر بیٹھ کر اس سے معافی مانگے لگا۔جبکہ جواب میں دارا نے اس کے سر پر بندوق رکھ دی تو اس کے گڑگڑانے میں شدت آ گئی۔

'ننن ۔۔۔۔۔نہیں ایک بار معاف کر دے دارا'

اس کے ایسا کہنے پر دارا کے لبوں پر خوفناک سی مسکراہٹ آ گئی۔

'دارا نے معاف کرنا نہیں سیکھا کیونکہ سزا دینا اسکی مجبوری نہیں شوق ہے۔'

اتنا کہہ کر دارا نے بندوق اس کی ٹھوڈی کے نیچے رکھدی۔

'خدا کے لیے دارا۔۔۔'

اس شخص نے دارا کے پیر پکڑ کر کہا تو دارا نے بندوق کو ہٹا دیا۔دارا کے ایسا کرنے پر اس نے سکھ کا سانس لیا۔

'چل تیری مرضی سے مارتا ہوں۔'

دارا نے ایک چاقو نکال کر اسکی گردن پر رکھا تھا اور بندوق کو اس کے سر کے پاس کیا۔

'بول اب کس سے؟'

وہ آدمی بری طرح سے رونے لگا تھا اور اس سے اب دارا کو چڑ ہونے لگی تھی اس لیئے دارا نے بندوق والے ہاتھ سے اسکا سر تھام کر تیز دھار چاقو اسکی گردن پر چلا دیا اور اسکے وجود کو تڑپتا ہوا چھوڑ کے وہاں سے چلا گیا۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'دیکھیں سلمان صاحب  جو آپ سے بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ آپ کے ہی فائدے کی ہے۔'

عثمان ملک اس وقت سلمان شیخ کے گھر میں موجود تھا اور اس شخص کو نا پسند کرنے کے باوجود وہ اس کو برداشت کر رہے تھے۔کیونکہ جس سیٹ کو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ عثمان ملک پہلے جیت چکا تھا اور یہ بات سلمان صاحب بھی اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ اس بار بھی عثمان ملک سے ہار جائیں گے۔

'جی ملک صاحب ایسا کیا فائدہ ہے آپکی اس بات میں؟'

سلمان صاحب بے زاری سے بولے۔

'ارے شیخ صاحب آپ کہیں تو میں اس بار الیکشن پر کھڑا ہی نہیں ہوتا۔ اگرایسا ہو تو یہ سیٹ آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔'

سلمان صاحب نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا جو شاید پاگل ہو گیا تھا اسی لیے ایسی باتیں کر دہا تھا۔

'مگر آپ ایسا کیوں کریں گے؟'

سلمان صاحب نے حیرت سے پوچھا۔

'کیونکہ اس کے بدلے میں میں آپ سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں۔'

'کیا؟'

'آپ کی بیٹی جانان سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔'

سلمان صاحب اچانک سے برہم ہوئے۔

یہ کیا بکواس کر رہے ہو۔تم اس سے تقریباً پندرہ سال بڑے ہو گے اور ویسے بھی جانان شادی شدہ ہے۔

'جانتا ہوں میں اس کے بارے میں۔ پانچ سال کی عمر میں نکاح کر دیا تھا اسکا اس کرنل کے بیٹے سے اپنی دوستی کو رشتہ داری سے پکا کرنے کے لیئے۔مگر نتیجہ کیا نکلا آپکی رشتہ داری دشمنی میں بدل گئ اور جانان آج بھی اس میجر شایان شاہ کے نام کے ساتھ جڑی ہے۔جسکو چودہ سال سے اس نے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی کوئی امید ہے۔اسکو آپ شادی کہتے ہیں؟'

ان سب باتوں کا سلمان صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا کیونکہ یہ سب سچ ہی تو تھا۔

'دیکھیں سلمان صاحب اب بس آپ جانان سے ایک کاغذ پر دستخط کروائیں تو یہ رشتہ ختم ۔مجھ سے نکاح کر دیں رانی بنا کے رکھوں گا اسے۔عمر کیا ہے بس ایک ہندسہ اور پھر اس میں آپ کا فائدہ بھی تو ہے۔ آپکا بھی خواب پورا ہو جائے گا اور میرا بھی۔'

عثمان ملک نے مسکرا کر کہا۔وہ سلمان صاحب کے چہرے پر اضطراب دیکھ سکتا تھا جو اس کی فتح کی نشانی تھی۔

'میں سوچ کر جواب دوں گا۔'

آخر کار سلمان صاحب بولے۔

'ضرور! آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔مگر ایک بات یاد رکھئے گا انکار کی صورت میں اپنے خوابوں کو بھی الوداع کہہ دینا۔'عثمان ملک اتنا کہنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔

'خدا حافظ!'

اتنا کہہ کے عثمان ملک تو جا چکا تھا مگر وہ دونوں جانتے تھے کہ جیت کس کی ہوئی تھی۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان صاحب بہت عرصے سے سیاست میں تھے اور لاہور میں اپنی تین بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔سب سے بڑی حمنہ، پھر جانان جو حمنہ سے تین سال چھوٹی تھی اور پھر زرش جو جانان سے دو سال چھوٹی تھی۔زرش سن تو سکتی تھی لیکن بولنے سے قاصر تھی۔سلمان صاحب کی بیٹے کی خواہش ادھوری ہی رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ گھر میں موجود کسی بھی فرد کو خاطر میں نہ لاتے۔ان کے مطابق عورت کو مرد کا ہر حکم ماننا چاہئے  اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹیوں پر بھی بے جا سختی کی تھی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ دوسروں سے پہلے اپنے بارے میں سوچتے تھے اور گھر میں کوئی بھی انکے فیصلے پر سوال نہیں اٹھا سکتا تھا۔

اب انہیں اپنا سیاسی جیت کا خواب پورا کرنے کا ایک موقع ملا تھا۔وہ اپنے حلقے کے MNA بننا چاہتے تھے اور اس بار وہ یہ موقع کسی حال میں نہیں گنوا سکتے تھے اور اسی سوچ کے ساتھ وہ آخری فیصلہ کر چکے تھے۔

                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'بہالپور کے علاقے میں ایک آدمی کی لاش ملی جسے کسی شخص نے انتہائی سفاکی سے گردن کاٹ کے مار ڈالا بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک دہشت گرد دارا کا کام ہے۔لیکن اس بات کی تحقیقات نہیں ہو سکی۔اس گلی میں کوئی کیمرہ موجود نہ تھا اور دارا کے نام کے علاوہ اسکی پہچان کو کوئی نہیں جانتا۔بہت سے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک میں مختلف جگہوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں بھی دارا کا ہی ہاتھ ہے۔آئے دیکھتے ہیں اپنے نمائندے کی یہ رپورٹ۔'

حمنہ کمرے میں آئی تو جانان ٹی وی کے پاس بیٹھی نیوز دیکھ رہی تھی جبکہ خوفناک تصویروں اور خبروں سے پاس بیٹھی زرش ڈر کے مارے کانپ رہی تھی۔

'جانو کیا دیکھ رہی ہو بند کرو اسے تمہیں پتا بھی ہے کہ زری ڈر جاتی ہے۔' حمنہ کے ایسا کہنے پر جانان نے پاس بیٹھی زرش کو دیکھا جو اب رو رہی تھی۔

'پاگل زری سچ تھوڑی ہوتا ہے یہ سب۔جھوٹ بولتے ہیں یہ لوگ اب کون اتنا ظالم ہو گا کہ کسی کا گلا ہی کاٹ دے۔' 

جانان نے زرش کو پیار سے کہا تھا۔جانان کی ایسی باتیں حمنہ کو پریشان کر دیتی تھیں کیونکہ جانان کو کسی میں بھی برائی نظر نہیں آتی تھی ۔اس کے مطابق ہر کوئی اچھا تھا۔

'اچھا چلو کارٹون دیکھ لیتے ہیں میرا بچہ۔'جانان نے ڈری ہوئی زرش کے گال کھینچتے ہوئے کہا تو حمنہ ہنسنے لگی۔ایسا کرتے ہوئے جانان بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔سفید رنگت اور بھرے ہوئے گلابی گالوں کے ساتھ جانان ویسے ہی بہت معصوم لگتی تھی۔لیکن اس کی شرارتیں اسکی معصوم صورت سے بلکل الگ ہوتی تھیں۔

جانان نے کارٹون کا کہہ کر دوسرا چینل لگا دیا تھا جہاں پر ایک آدمی ڈر کر الماری میں چھپا ہوا تھا۔جانان نے شرارت سے مسکراتے ہوئے ریمورٹ میں سے سیل نکال دیا اور بٹنوں کو دبانے لگی۔

'ارے یہ ریمورٹ تو چل ہی نہیں رہا ۔' جانان نے معصوم صورت بنا کے زرش کو دیکھا تو وہ فوراً اٹھ کر کمرے سے بھاگ گئی اور اسے بھاگتے دیکھ کر جانان ہنسنے لگی۔

'ڈرپوک۔' اسے پہلے کہ حمنہ جانان کو ڈانٹتی ٹی وی میں چلتی ڈراؤنی فلم دیکھ کے حمنہ مسکرا دی کیونکہ جانان کو بھوتوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔جانان نے ہنستے ہوئے ٹی وی سکرین کو دیکھا تو اسکی چیخ نکل گئی اور اسنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔

'آپی چینج کریں اسے پلیز۔'جانان نے ڈرتے ہوئے کہا تو حمنہ ہنستے ہوئے بولی۔

'سوری جانان ریمورٹ نہیں چل رہا۔' حمنہ اتنا کہہ کر باہر چلی گئی تو جانان بھی بھاگتے ہوئے اسکے پیچھے آئی تھی۔

'آپی کتنی ظالم ہیں آپ۔' جانان نے منہ بنا کر کہا تو حمنہ نے قریب آ کر اسکے گال کھینچے۔

'تم نے زری کو ڈرایا نا اسی کا نتیجہ ہے۔' حمنہ نے اسے سمجھایا ۔

'جانان بی بی آپ کو صاحب بلا رہے ہیں۔'ملازمہ نے آ کر بتایا تو جانان نے دل پر ہاتھ رکھا۔

'ہائے کہیں زری نے شکایت تو نہیں لگا دی؟چل جانو آج تو تیرا قیمہ بنے گا اور پھر اسکے قوفتے بنیں گے۔آپی دعوت ہے آپ کی۔'جانان شرارت سے کہتی ہوئی چل دی تو حمنہ اسکی باتوں پر ہنسنے لگی۔

'فکر نا کریں ایسی مسکین صورت بناؤں گی کہ بابا میرا چہرہ چوم کر کہیں گے چھوڑ دو اس معصوم کو۔' جانان نے چہرہ بھی بنا کر دیکھا دیا تھا۔

'اب جا بھی اس سے پہلے کہ بابا خود آئیں تمہیں لینے۔'

'ہاہ بابا نے بلایا تھا امی نے نہیں۔تو بھی پاگل ہے جانو۔'

جانان نے ایک چت اپنے سر پر لگائی تھی اور پھر وہ سٹڈی کی طرف بھاگی کیونکہ اس وقت سلمان صاحب وہیں پر ہوتے تھے۔جانان نے دوپٹہ ٹھیک کیا اور سٹڈی کا دروازہ ناک کرنے لگی۔

'آ جاؤ'

سلمان صاحب کی آواز آئی تو جانان دروازہ کھول کر اندر گئی۔

'آپ نے بلایا بابا۔'

جانان نے ادھر ادھر زرش کو ڈھونڈا اور پھر اپنے پیروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

'آؤ بیٹھو یہاں'

سلمان صاحب نے کرسی کی طرف اشارہ کیا تو جانان وہاں بیٹھ کر اپنے ہاتھ مسلنے میں مصروف ہو گئی۔

'ان کاغذات پر دستخط کرو۔'

'جی۔'

جانان نے جلدی سے بول کر کاغذات کو دستخط کرنے کے لئے پکڑا مگر دستخط کرنے سے پہلے اس کی نظر ان کاغذات پر جا چکی تھی اور اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

'طلاق نامہ!'

اس نے سوالیہ نظروں سے سلمان صاحب کی طرف دیکھا۔

'ایسے کیا دیکھ رہی ہو میں نے یہ رشتہ جوڑا تھا اور میں ہی اسے ختم بھی کر رہا ہوں۔'

'مم مگر بابا میں نہیں کرنا چاہتی۔'

اس بات پر سلمان صاحب نے غصے سے اسے گھورا۔

'تمہاری راۓ نہیں مانگی جو کہا ہے کرو۔'

جانان کی آنکھوں میں  آنسو آ گئے وہ کافی دیر خاموش رہی پھر کافی سوچنے کے بعد اس نے کہا۔

'نن ۔۔۔۔۔۔نہیں۔'

سلمان صاحب کی رگیں غصے سے تن گئیں۔وہ کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آئے اور ایک زوردار طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا۔

'کیا بکواس کی ہے تم نے ۔دفع ہو جاؤ یہاں سے اور کل تک ان کاغذات پر سائن کر دینا ورنہ بہت برا ہو گا۔'

جانان حیرت سے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔

' مم مگر۔۔۔۔'

'دفع ہو جاؤ یہاں سے'

سلمان صاحب نے اس کی بات بھی نہ سنی۔جانان نے وہ کاغذات اٹھائے اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان جب سے سلمان صاحب کے پاس سے آئی تھی تب سے بس روئے جا رہی تھی اور حمنہ پریشانی سے پاس بیٹھی وجہ پوچھ رہی تھی۔


'آپی۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔ ان سے وو۔۔۔۔۔۔۔وعدہ کیا تھا۔'


جانان بس اتنا ہی بول پائی تھی اور پھر سے رونا شروع ہو گئی۔اب تو فاطمہ بیگم اور زرش بھی ان کے پاس پریشانی سے کھڑی تھیں۔


'مگر جانو ہوا کیا ہے ؟'


حمنہ نے پوچھا تو جانان نے وہ کاغذات اس کو دیے۔جن کو دیکھتے ہی حمنہ نے بھی پریشانی سے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔


' یہ سب کیا ہے امی؟' بابا ایسا کیوں چاہتے ہیں؟'


حمنہ کے سوالوں نے فاطمہ بیگم کو شرمندہ کر دیا اور وہ سر جھکا گئیں۔


'آپ اس بارے میں جانتی تھیں؟'


فاطمہ بیگم نے حمنہ کے سوالوں کو نظرانداز کیا اور جانان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔


'دیکھو بیٹا اگر آپ نے اس سے وعدہ کیا تھا تو اسے بھی تو وعدہ پورا کرنا چاہئے نا بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے بابا کی بات مان لو۔' ان کی بات پر جانان کے رونے میں مزید روانی آ گئی۔


'اپنا وعدہ ۔۔۔۔۔۔۔بھول جاؤں؟' جانان کے سوال نے فاطمہ بیگم کو مزید شرمندہ کر دیا۔


'ہاں بھول جاؤ۔زندگی میں بہت سے ایسے موڑ آ تے ہیں کہ انسان اپنے وعدے بھول کر راہ بدل لیتا ہے۔تم بھی بدل لو۔' لیکن اس بات سے حمنہ کو شدید غصہ آ گیا تھا۔


'مگر بابا ایسا چاہتے ہی کیوں ہیں؟ ابھی تو جانان ویسے بھی صرف انیس سال کی ہے۔ آ جائیں گے شایان بھائی بھی۔'


حمنہ پھر سے پوچھنے لگی۔


'تم جاؤ اپنے کمرے میں جانو آرام کرو ابھی, زری تم بھی جاؤ ساتھ۔'


انہوں نے جانان سے کہا تو وہ اٹھ کر چلی گئی اور زرش بھی اس کے پیچھے جانے لگی۔ان کے جاتے ہی حمنہ نے سوالیہ نظروں سے فاطمہ بیگم کی طرف دیکھا۔


'تمہارے ابا جانان کا رشتہ طے کر رہے ہیں عثمان ملک سے۔'


فاطمہ بیگم نے حمنہ پر بم پھوڑا۔


'وہ عثمان ملک جو ان کے مخالف الیکشن پر کھڑا ہوا ہے؟'


حمنہ کے سوال پر فاطمہ بیگم نے ہاں میں سر ہلایا۔


'ایسا کیسے کر سکتے ہیں بابا عثمان ملک بہت بڑا ہے

جانان سے اور پہلے شادی کر کے طلاق بھی دے چکا ہے۔'


'اس کا کہنا ہے کہ جانان اسے بہت پسند ہے۔'


فاطمہ بیگم نے حمنہ کو بتایا۔


سب جانتی ہوں میں کہ اس جیسے آوارہ لوگوں کو جانان جیسی لڑکیاں کیوں پسند آتی ہیں ۔بابا یہ سب نہیں سوچتے وہ کیسے مان سکتے ہیں؟ وہ جانان کو کسی کو بھی نہیں دے سکتے۔'


نا چاہتے ہوئے بھی حمنہ کی آواز بلند ہو رہی تھی۔


'بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں حمنہ،انکو کسی اور کا ہو جانا ہوتا ہے۔'فاطمہ بیگم نے گھایل آنکھوں سے حمنہ کو دیکھا۔


'جی سب بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں مگر جانان تو جب سے پیدا ہوئی ہے تب سے ہی شایان شاہ کی امانت ہے ۔اس پر کسی اور کا حق نہیں۔آپ ایسا نہیں ہونے دیں گی ،آپ بابا کو منع کر دیں۔' حمنہ نے گویا فیصلہ سنایا تھا۔


'تمہیں کیا لگتا ہے میں نے نہیں روکا انہیں اور کیا تمہارے باپ نے کبھی ہماری سنی ہے ؟ہم کچھ نہیں کر سکتے حمنہٰ بس دعا کرو جانان کے لئے بہت معصوم ہے وہ۔'


فاطمہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ کبھی اپنی بچیوں کے لیئے کچھ نہیں کر پائیں تھیں۔وہ ان کے باپ کے سامنے ہمیشہ کمزور پڑھ جاتی تھیں اور اسی بات سے سلمان صاحب کو مزید جرآت ملتی تھی۔


نہیں آپ غلط ہیں! حمنہٰ نے صرف سوچا تھا کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ اس کی ماں ان کے معاملے میں ہمیشہ کمزور رہی ہیں اور پھر وہ غصے سے وہاں سے چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان کو اپنے اور شایان کے نکاح کے بارے میں کچھ زیادہ یاد نہیں تھا وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اس نے شایان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کا انتظار کرے گی اور شایان نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ ضرور اس کے پاس آئے گا وہ بس شایان کو نہیں بھولے گی ۔اسے تو ٹھیک سے شایان کا چہرہ بھی یاد نہیں تھا۔ہو سکتا تھا کہ وہ اسے بھی بھول جاتی مگر جہاں اس کی بہنوں کے نام کے ساتھ سلمان صاحب کا نام لگتا تھا وہیں اس کے نام کے ساتھ شایان کا نام لگتا تھا اور شایان جاتے ہوئے اسے S لیٹر کا ایک لاکٹ دے کر گیا تھا جسے دیکھ کر جانان روز اسے یاد کرتی تھی۔اسے اپنا وعدہ یاد تھا تو کیا شایان بھول گیا تھا۔مگر شایان تو تب پندرہ سال کا تھا پھر وہ کیسے بھول گیا۔


جانان نے اس لاکٹ کو اپنی مٹھی میں پکڑا اور پھر سے رونے لگی۔ اچانک دروازہ کھلا اور حمنہٰ اس کے پاس آئی۔


'جانو اٹھو'


جانان نے ٹائم دیکھا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔


'کیا ہوا آپی؟'


حمنہ نے اس کے پاس ایک بیگ رکھا ،ایک چادر اس کے سر پر ڈالی اور کچھ پیسے اس کے ہاتھ میں دیے۔


'یہ سب کیا ہے آپی؟'


جانان حیرت سے سب دیکھ رہی تھی۔


'میری بات سنو جانو تم یہاں سے جا رہی ہو جو بابا چاہتے ہیں وہ نہیں ہو گا یہ پیسے پاس رکھو تم ۔باہر میری دوست اپنے بھائی کے ساتھ انتظار کر رہی ہے وہ تمہیں کراچی کی ٹرین پر بیٹھا دیں گے اور یہ کرنل حسن شاہ کے گھر کا ایڈریس ہے تم وہاں شایان کے پاس چلی جانا اس کے علاوہ بیگ میں تمہاری ضرورت کی ساری چیزیں ہیں اور تمہار آئی ڈی کارڈ بھی۔'


'مگر میں کیسے ان کے پاس جا سکتی ہوں؟'

''کیوں نہیں جا سکتی؟ شوہر ہے وہ تمہارا اور تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔چلو اب وقت ضائع نہیں کرو اور ہاں چاہے کچھ بھی ہو جائے جب تک شایان بھائی کے پاس نہ پہنچ جاو تب تک گھر فون مت کرنا ۔'

وہ جانتی تھی کہ اس سب سے جانان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے اس لیے اس نے اسے موبائیل بھی نہیں دیا۔حمنہٰ نے جانان کو کھڑا کیا۔

'پر آپی میں اکیلے کیسے کراچی جاؤں گی؟'

جانان بہت گھبرای ہوئی تھی۔

'بہادر بنو جانو تمہارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ میری جان وہ شخص تمہارا محافظ ہے اور کسی پے بھروسہ مت کرنا۔'

'تو پھر نکاح کے بعد کبھی آئے کیوں نہیں؟'جانان نے منہ بنا کر پوچھا۔

'وہ میں نہیں جانتی جانو تم بس جاؤ یہاں سے ورنہ بہت برا ہو گا تمہارے ساتھ اور میں یہ نہیں ہونے دوں گی۔'

حمنہٰ اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے باہر لےکر جانے لگی۔

حمنہٰ پہلے سے ہی گارڈز کے کھانے میں نیند کی دوائی ملا چکی تھی جس کے زیر اثر وہ سو رہے تھے۔انہوں نے آہستہ سے گیٹ کھولا اور باہر کھڑی کار کے پاس آ گئیں جہاں حمنہٰ کی سہیلی عاشی اسکا انتظار کر رہی تی ۔

حمنہ نے جانان کو خود میں بھینچا تو جانان اور زیادہ رونے لگی۔

'آپی۔۔۔۔۔۔۔'،

اس سے پہلے کہ جانان کچھ کہتی حمنہ نے اسے خود سے دور کیا اور اپنی نم آنکھوں کو صاف کرنے لگی۔

'جاؤ جانو ،اللّہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کریں۔'

جانان کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئی۔حمنہ نے اسے کار میں بیٹھایا اور اپنی دوست کا شکریہ ادا کرنے لگی اور پھر جانان پر ایک آخری نظر ڈال کے واپس گھر کے انر چلی گئی۔

کچھ دیر بعد کار ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گئی تھی جبکہ جانان کی نظریں ابھی بھی اپنے گھر کی طرف تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے اس پہر بھی دارا اپنے شکار پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔دارا کو معلوم ہوا تھا کہ اس آدمی نے دارا کو پکڑنے کے لیئے جال بچھایا تھا۔ لیکن اپنا یہ خواب پورا کرنے کے لیئے زندہ بچے گا تو نا۔دارا نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا جو اپنے آپ کو شراب کے نشے میں پوری طرح ڈوبا رہا تھا۔جبکہ وہ یہ جانتا بھی نہیں تھا کہ ایسا کرنے سے وہ اپنی ہی موت کو دعوت دے رہا ہے۔نا جانے کیوں آدمی اپنے ہوش کا قتل کر کے،اپنے آپ کو کمزور کر کے تسکین محسوس کرتا ہے ۔یہ بات دارا کی سمجھ سے باہر تھی وہ بس اتنا جانتا تھا کہ آج وہ اس کی موت بن کے آیا ہے۔

کچھ دیر بعد وہ حسین لڑکی جس کو دارا نے پیسے دیے تھے، اسکے شکار کو کمرے میں لے جانے لگی مگر آج اس کے نصیب میں گناہ کی لذت نہیں تھی۔

دارا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تو وہ آدمی اس لڑکی کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات میں اتنا مصروف تھا کہ اسے کسی کی آمد کا اندازی ہی نہیں ہوا۔لیکن دارا کو دیکھ کے وہ لڑکی اس سے دور ہوئی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔آخر کار اس کی نظر دارا پہ پڑی۔

'کون ہے رے تو۔۔۔۔۔۔'

دارا اس کی طرف بڑھنے لگا تو وہ آدمی بھی لڑکھڑاتے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔

'ارے کیا مسلئہ ہے تیرے ساتھ جانتا نہیں مجھے؟'

دارا کے تاثرات خوفناک ہو گئے اور وہ اسکے قریب پہنچ گیا۔

اس نے دارا پر حملہ کرنے کی ناکام سی کوشش کی تھی جس کو دارا نے اس کے پیٹ میں مکا مار کے ناکام کر دیا تھا اور اس کے پیچھے آ کر اسکی گردن کو دبوچ لیا۔

'میں نے تو سوچا تھا کہ سامنے آؤں گا تو پہچان جائے گا مجھے۔'

'د د۔۔۔۔۔ دارا۔۔۔۔۔۔۔۔'

وہ اب کافی ڈر گیا تھا۔

' واہ یاداشت تیز ہے تیری مگر افسوس تیرا یہ دماغ کچھ ذیادہ ہی چلنے لگا ہے۔دارا کو پھنسانے کے منصوبے بنانے لگا ہے اس لیئے اب اسکی مدت ختم ۔'

'ن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔'

دارا نے پسٹل نکال کر اسکے سر کے پیچھے رکھی۔اسے مزید بولنے کا موقع دیے بغیر دارا نے گولی چلا دی جو اسکی کھوپڑی کے آر پار ہو گئی تھی۔دارا نے اسکے بے جان وجود کو زمین پر پٹکا اور ایک نفرت بھری نگاہ اس پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے تقریباً ایک بجے کا وقت ہو رہا تھا۔عاشی جانان کو کراچی کی ٹکٹ دے کر ٹرین میں بیٹھا کے خود چلی گئی تھی اور اب اکیلے جانان کو بہت ڈر لگ رہا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ کراچی پہنچ کر شایان سے بہت لڑے گی۔ لیکن اگر انہوں نے مجھے پہچانا ہی نہ تو؟ یہ سوچ کر جانان کی آنکھوں میں پھر سے آنسو آ گئے۔


'بیٹا سنو!'


سامنے بیٹھی عورت نے اسے بلایا جو تقریبا پچاس سال کی لگ رہی تھیں۔


'جی'


'اکیلے سفر کر رہی ہو نہ وہ بھی پہلی دفعہ؟'


جانان نے انہیں حیرت سے دیکھا ۔


'آپکو کیسے پتا؟'


'تمہارے اس ڈرے ہوئے چہرے سے۔ کہاں جا رہی ہو ویسے؟'


'کراچی،کیا آپ نے بھی وہیں جانا ہے؟'


جانان نے امید بھری آنکھوں سے انہیں دیکھا۔


'نہیں بیٹا میں تو بہاولپور جا رہی ہوں اپنے بیٹے کے پاس۔


جانان اب مسکرائ تھی۔


'میں بھی کراچی اپنے شوہر کے پاس جا رہی ہوں۔'


'ارے کیسا ظالم شوہر ہے اپنی اتنی خوبصورت بیوی کو اکیلے آنے دیتا ہے کوئی ۔ تو جب وہاں پہنچ جائے تو لڑنا اس سے اتنی پیاری سی بیوی کا خیال بھی نہیں رکھ سکتا۔'


جبکہ ان کے ایسا کہنے پر جانان نے اپنے گال مزید پھولا لیے۔


'بہت لڑوں گی میں بات بھی نہیں کروں گی ان سے بلکل بھی اچھے نہیں وہ۔'


اور اس کی معصومیت پر وہ خاتون مسکرائے بنا نہ رہ سکیں۔


'نام کیا ہے تمہارا؟'


'جانان'


ان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔


'پیارا نام ہے بلکل تمہاری طرح۔ سو جاؤ تم بے فکر ہو کے میں تمہارے پاس ہوں۔'


جانان کا خوف بھی ان کی موجودگی میں کم ہو چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


'جانان کہاں ہے؟'


سلمان صاحب نے صبح کھانے کی میز پر پوچھا۔ اس سے پہلے کہ فاطمہ بیگم کوئی جواب دیتیں حمنہٰ کہنے لگی ۔


'طبیت خراب ہے اس کی سو رہی ہے وہ'


حمنہ نہیں چاہتی تھی کہ

کسی کو بھی جانان کے بارے میں پتا چلے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سلمان صاحب اتنی آسانی سے اسے نہیں جانے دیں گے۔


'سب معلوم ہے کہ کیوں یہ ڈرامے کیے جا رہے ہیں۔تم نے سمجھایا نہیں اسے۔'


وہ فاطمہ بیگم سے مخاطب ہوئے۔


'آپ فکر نہ کریں جانو پیپرز سائن کر دے گی میں خود کراؤں گی ۔'


فاطمہ بیگم کو بولنے کا موقع دیے بغیر حمنہ نے جواب دیا۔سلمان صاحب نے حمنہ کو گھورا مگر کہا کچھ نہیں آخر ان کا مقصد تو پورا ہو گا نا خواہ وہ کیسے بھی ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بادشاہ کا آدمی اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔


'ہمارا ہر دھندا خراب چل رہا ہے بادشاہ ایک آدمی ہر کام میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ہمارے کئی خاص آدمی مارے گئے بادشاہ اس کے علاوہ بہت سے چھوٹے آدمیوں کو بھی کوئی مارتا جا رہا ہے۔'


'تو پتا لگا کون ہے وہ سالا؟'


بادشاہ نے بے زاری سے پوچھا۔


'کوئ دارا ہے کل رات اس نے سلیم کو مار دیا۔ہمارا کوئی آدمی بھی پتا نہیں لگا پا رہا اس کے بارے میں۔نام کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہم۔'


'حرام خور ہو تم سب ایک کام نہیں ہو سکتا تم لوگوں سے ۔پتا لگاؤ اس دارا کا اور زندہ لانا میرے پاس سمجھے۔'


بادشاہ اس پر چلایا۔


'اب شکل گم کر اپنی۔'


وہ جانے لگا تو بادشاہ نے اسے بلایا۔


'سن سب آدمیوں کو محتاط کر دے ۔کون جنا ہے یہ بادشاہ سے بھڑنے والا اس سے تو ملنا پڑے گا۔'


ایک خطرناک مسکراہٹ نے بادشاہ کے لبوں کو چھوا تھا۔وہ بہت عرصے سے اپنے ہر گھناؤنے کام کو بہت چالاکی سے سر انجام دے رہا تھا۔یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کوئی بادشاہ کے لیئے مشکل پیدا کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان اب پھر سے پریشان تھی کیونکہ بہاولپور پہنچتے ہی وہ خاتون جا چکی تھیں اور اب ان کی جگہ پر دو لڑکے بیٹھے تھے جو جانان کو مسلسل گھور رہے تھے۔وہ بار بار اپنی چادر ٹھیک کر رہی تھی اور ان کے سامنے سے غائب ہونا چاہ رہی تھی۔


'واہ سوچا نہیں تھا کہ سفر اتنا رنگین ہو گا اتنے اچھے نظارے جو مل رہے ہیں۔'


ان دنوں میں سے ایک لڑکا بولا تو دنوں ہسنے لگے۔


جبکہ جانان کا دل کر رہا تھا کہ وہ رونے لگ جائے۔


'لگتا ہے اکیلے جا رہی ہے ہمارا ہی فائدہ ہو گا۔'


اب کی بار دوسرا لڑکا بولا تھا۔جانان بہت ڈر گئی تھی اس نے سوچا کے وہ جگہ بدل لے اور ایسا کرنے کے لئے وہ اٹھنے لگی تو ایک لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔


'اگر اپنا تماشا نہیں بنوانا تو بیٹھ جا چپ کر کے'

جانان اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔


'بیٹھ'


اب کی بار لڑکے نے غصے سے کہا تو جانان بھی ڈر کے بیٹھ گئی اور لڑکے نے مسکرا کے ہاتھ چھوڑ دیا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

اس نے سوچا کے ٹی سی آئے گا تو اس سے کہے گی کہ جگہ بدل دے وہ اس کی۔


ٹرین کے چلنے میں ابھی بھی وقت تھا جب دو اور آدمی ٹرین کے اسی ڈبے میں آۓ پہلے تو وہ دونوں ایک طرف کھڑے ہو گئے مگر تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک آدمی جانان کے بغل میں بیٹھ گیا ۔پہلے تو جانان اور گھبرا گئی مگر اس نے غور کیا کے اس آدمی کی وجہ سے وہ لڑکے اس کے بارے میں باتیں کرنا بند کر چکے تھے۔مگر ابھی بھی وہ اسے گھور رہے تھے اتنے میں ٹرین بھی چلنے لگی۔

تبھی ان کے ڈبے میں ٹی سی آیا مگر اس سے پہلے کہ جانان اسے کچھ کہتی اس کے ساتھ بیٹھا شخص بولا۔


'یہ لڑکے کب سے میری بہن کو تنگ کر رہے ہیں جگہ بدل دیں آپ ان کی۔'


اس بات پر ٹی سی نے جانان کو دیکھا ۔


'کیا سچ میں؟'


تو جانان نے بھی جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


'آپ دونوں وہاں آخری سیٹ پر چلے جائیں۔'


جبکہ ٹی سی کی اس بات پر ایک لڑکا ہٹ دھرمی سے ٹی سی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔


'یہ ہماری سیٹ ہے اگر ان بہن بھائی کو کوئی مسئلہ ہے تو یہ جائیں یہاں سے ہم اپنی جگہ پر ہی رہیں گے۔'


اس آوارہ لڑکے کی اس بات پر وہ دوسرا آدمی جو کب سے سائیڈ پر کھڑا تھا اس لڑکے کے سامنے آیا اور اسکا گریبان پکڑ لیا ۔


'جو کہا ہے نہ وہ کر۔'


اس لڑکے نے سامنے موجود آدمی کی گہری سنہری آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن نہ جانے اس کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا کہ وہ لڑکا اندر تک کانپ گیا اور اپنے ساتھی کو لے کر ٹی سی کی بتائی جگہ پر چلا گیا۔


'آپ بھی ان کے ساتھ ہیں ؟'


ٹی سی نے اس آدمی سے پوچھا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا۔


'ٹھیک ہے پھر آپ ہی ان کے سامنے بیٹھ جائیں تا کہ پھر سے مسلئہ نہ ہو۔'


ٹی سی ان کے جھگڑے سے اکتا چکا تھا اس لئیے ان کے بیٹھنے کے بعد ان کی ٹکٹیں چیک کر کے چلا گیا۔


جانان نے اپنے سامنے موجود مغرور شہزادوں کے نقوش والے آدمی کو دیکھا جو باہر کے نظارے دیکھنے میں مصروف تھا پھر اپنے ساتھ بیٹھے آدمی کو دیکھا جو چہرے سے بہت مہربان معلوم ہوا تھا اور جانان کے دیکھنے پر اس کی طرف دیکھ کے مسکرایا۔دونوں آدمی حلیے سے پٹھان لگ رہے تھے ۔دونوں نے شلوار قمیض کے ساتھ چادریں لی ہوئی تھیں اور دونوں کی نارمل سائیز کی داڑھی اور کندھوں تک بال تھے۔فرق بس ان کے نین نقش میں تھا۔جانان نے پھر سے اپنے ساتھ موجود آدمی کو دیکھا تو اس نے ہاتھ میں موجود پکوڑوں کو جانان کے سامنے کیا۔جانان نے بھی پکوڑوں کو للچاتی نظروں سے دیکھا۔اس نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب بھوک سے جان جا رہی تھی۔مگر گھبرا گئی کہ کہیں اس نے اندر کچھ ملایا تو نہیں۔ ایسا سوچتے ہی اس نے منع کر دیا اب وہ اتنی بھی بیوقوف نہیں تھی۔


جبکہ وہ آدمی بھی اس کے انکار کی وجہ سمجھ چکا تھا اس لیے چند پکوڑے کھانے کے بعد دوبارہ جانان کے آگے کیے۔


'اب؟'

جانان نے کچھ دیر سوچا پھر اسکے مسکراتے چہرے کو جانچنے والی نظروں سے دیکھ کے اس سے پکوڑے لے لیۓ۔

'آپ کا بہت شکریہ ان کے لیئے بھی اور ان لڑکوں کو بھگانے کے لیئے بھی۔'

'فکر مت کرو بہن کہا ہی نہیں مانا بھی ہے۔'

اس بات پر جانان مسکرا دی ۔

'آپ بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔'

'سعد خان۔۔'

سعد نے اپنا نام بتایا۔

'آپ بہت اچھے ہیں سعد بھائی'

اتنا کہہ کے جانان پکوڑے کھانے لگی جبکہ اسے ایسا کرتے دیکھ کے سامنے بیٹھا شخص غصے میں آ گیا تھا۔

'تم پاگل ہو کیا؟ ایک انجان آدمی سے کچھ لے کے کھا رہی ہو اور اسے اچھا بھی کہہ رہی ہو۔'

جانان اس کے اس طرح غصہ کرنے سے گھبرا گئی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ غصہ کیوں کر رہا ہے حالانکہ سعد اس کے ساتھ ہی تو تھا۔

'تم نے تو اپنا نام بتایا ہی نہیں ۔'

سعد نے جانان کا دھیان اپنی طرف کھینچا ۔

'جانان شایان شاہ'

جانان نے مسکرا کر جواب دیا تو سعد بھی مسکرانے لگا۔

'واہ نام تو بہت ہٹ کے رکھا ہے۔'

'میرے بابا کی بہت اچھی دوست نے رکھا تھا لوگوں کو عجیب لگتا ہو گا پر مجھے بہت پسند ہے۔'

جانان کے اترا کے بولنے پر سعد مسکرایا۔

'آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟'

'کراچی'

ارے واہ میں بھی وہیں جا رہی ہوں ۔آپ میرے ساتھ ہی رہیئے گا میں کبھی اکیلے نہیں گئی کہیں بھی اب جا رہی ہوں تو بہت ڈر لگ رہا ہے ۔'

جانان نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور سامنے بیٹھے شخص نے اب باقاعدہ غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی تھیں۔

'ایک مصیبت کم تھی نا اب یہ بھی مل گئی۔'

سعد کے کچھ کہنے سے پہلے دوسرا آدمی بولا۔مگر جانان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کو کس بات کا غصہ ہے شاید اس نے سعد کو اچھا کہا اور اسے نہیں اور اس کا شکریہ بھی تو ادا نہیں کیا ۔ہاں اسی بات کا غصہ ہو گا۔جانان نے سوچا اور پھر اس سڑیل آدمی کو دیکھتے ہوئے بولی ۔

'آپکا شکریہ ان لڑکوں کو بھگانے کے لیئے اور آپ بھی بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔'

اس نے نام کے لیئے سوالیہ نظروں سے سعد کو دیکھا۔

'دراب خان۔'

سعد نے فوراً بتایا۔

'جی آپ بھی اچھے ہیں دراب بھائی۔'

'چپ کوئی ضرورت نہیں میرے ساتھ رشتے داریاں کرنے کی بس اپنا یہ منہ بند رکھو ورنہ ٹیپ لگا کر بند کر دوں گا۔'

دراب غصے سے بولااور پھر سے باہر دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔دراب کے اس طرح سے بات کرنے پر جانان نے منہ پھولا لیا ۔وہ زیادہ تو بولی ہی نہ تھی ۔پھر اس نے سعد کی طرف دیکھا۔

'آپکو پتا ہے میں پہلی بار غلط تھی سعد بھائی۔'

'کس معاملے میں ؟''سعد نے حیرانی سے پوچھا ۔

'یہ بلکل بھی اچھے نہیں ہیں، ادرک۔'

جانان نے منہ بنا کر کہا جبکہ اسکی ادرک والی بات پر سعد نے اپنے قہقہے کو بہت مشکل سے روکا۔

'آپ کے بھائی ہیں یہ؟'جانان نے آہستہ سے پوچھا تو سعد نے ایک نظر دراب کو دیکھا جس کا ضبط اب ختم ہو رہا تھا۔

'نہیں دوست ہے۔' سعد نے بھی اسکی طرح آہستہ سے بتایا۔

'آپ کو بھی نا دوست بنانا نہیں آتا بھلا انسان اپنے جیسوں سے دوستی کرتا ہے۔' جانان نے بزرگوں کی طرح سمجھایا تھا۔

'اب تمہاری آواز بھی نکلی نا تو اٹھا کے ٹرین سے باہر پھینک دوں گا۔' دراب نے دانت پیستے ہوئے کہا تو جانان منہ پھولا کر اسے دیکھنے لگی اور پھر آہستہ سے بولی۔

'مبارک ہو آپکو،ادرک ہیں آپ۔'جہاں دراب نے اسے گھورا تھا وہیں سعد اپنے قہقہے کو نہیں روک سکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'آخر کہاں جا سکتی ہے وہ؟ اور کیسے کہاں مرے ہوئے تھے تم سب '


سلمان صاحب غصے سے پاگل ہو رہے تھے ابھی کچھ دیر پہلے انہیں پتا چلا تھا کہ جانان گھر میں موجود نہیں مگر وہ کیسے بھاگ سکتی تھی اتنی بہادر نہیں تھی وہ۔


'دفع ہو جاؤ یہاں سے اور پتا لگاؤ اس کا کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لاؤ اسے۔'


فاطمہ بیگم روئے جا رہی تھیں اور حمنہ انہیں چپ کروا رہی تھی۔


'بند کرو یہ ناٹک سب تمہارا قصور ہے بچوں کی پرورش بھی ٹھیک سے نہیں کر سکی لاڈلی منہ پر کالک پوت کے چلی گئی ۔تمہاری وجہ سے سب ہوا فاطمہ ۔'


سلمان صاحب فاطمہ بیگم کو قصوروار ٹھہرا کر چلے گئے ۔


'امی چپ ہو جائیں کچھ نہیں ہو گا جانو کو ۔'


'ایسے کیسے پریشان نہ ہوں نا جانے کہاں چلی گئی۔اسے تو دنیا کا کچھ پتا بھی نہیں اگر کچھ ہو گیا تو ۔'


'فکر نہ کریں کچھ نہیں ہو گا اور جو بابا اس کے ساتھ کرنے جا رہے تھے اس سے تو کچھ بھی بہتر ہو گا۔'حمنہ جل کر بولی تھی۔


'یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا ۔اسے اپنی امان میں رکھنا۔'

فاطمہ بیگم پھر سے بری طرح سے رونے لگیں تو

حمنہ ماں کو دلاسے دینے لگی مگر پریشان تو وہ بھی تھی وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ شایان شاہ کیسا انسان ہے کہیں جانو کے ساتھ کچھ برا نہ کرے۔حمنہ جلد بازی میں فیصلہ تو کر بیٹھی تھی لیکن اب اسکے دل میں برے خیالات آ رہے تھے۔ہا اللہ میری بہن کی حفاطت کرنا ۔حمنہ دل سے اپنی بہن کے لیئے دعا گو تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان نے زندگی میں کبھی اتنا سفر نہیں کیا تھا اور اب وہ حد سے زیادہ تھک گئی تھی بس وہ جلد از جلد کراچی پہنچنا چاہتی تھی۔رات بھی ہو چکی تھی اور راستے میں ٹرین کی خرابی کی وجہ سے انہیں کافی وقت لگ گیا تھا۔

دراب اس کے سامنے بیٹھا تھا اور سعد ان کے لیئے کچھ کھانے کو لینے گیا تھا۔جانان کیسے خاموش بیٹھی تھی یہ وہی جانتی تھی ۔حمنہ تو کہتی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے جانان کی بولتی بند نہیں ہو سکتی۔بہن اور گھر کی یاد آتے ہی جانان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔


'اب رو کیوں رہی ہو۔'


دراب نے بے زاری سے پوچھا۔


' گھر کی یاد آ رہی ہے۔'


'اتنا عزیز ہوتا تمہیں گھر تو بھاگتی نہ وہاں سے۔'


تب تک سعد بھی بریانی کے ڈبے لے آیا تھا اور دراب کی بات اسے بری لگی تھی۔


'دراب۔۔۔۔'


سعد نے کچھ کہنا چاہا مگر جانان اس کی بات کاٹ کے بولنے لگی۔


'بھاگی نہیں میں گھر سے ۔۔۔۔'


پھر کچھ سوچنے کے بعد بولی ۔


'ہاں ایک طرح سے بھاگی بھی ہوں مگر دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ایک تو مجھے میری آ پی نے بولا تھا جانے کو اور دوسرا میں اپنے شوہر کے پاس جا رہی ہوں تو یہ بری بات تو نہیں نا۔'


'اچھا تو آ پ شادی شدہ بھی ہیں ۔چھوڑو یہ سب میرے بہنوئی کے بارے میں بتاؤ مجھے تمہارے قابل بھی ہے یا نہیں۔'


سعد نے اس کا غصہ کم کرتے ہوئے اسے باتوں میں لگانا چاہا۔


'شایان جی آرمی میں میجر ہیں ۔باقی دکھتے کیسے ہیں یہ یاد نہیں اور اتنا پتا ہے مجھے کہ کیسے بھی ہوں کچھ لوگوں کی طرح ادرک نہیں ہوں گے جن کو لگتا ہو کہ ہسنا اور بولنا بہت مہنگا ہے اور وہ دنیا کے سب سے غریب انسان ہیں۔''


وہ بتا تو سعد کو رہی تھی مگر دیکھ دراب کو رہی تھی ۔دراب نے سارا دن جانان کو کچھ نہیں بولنے دیا جس کی وجہ سے جانان بھی اب اپنا غصہ نکال رہی تھی ۔پہلے تو جانان نے سوچا کے اٹھ کے کیبن میں موجود کسی عورت کے پاس چلی جائے مگر اسے سعد کے پاس تحفظ محسوس ہوتا تھا اور اگر وہ عورتیں بھی راستے میں اتر جاتیں تو کس منہ سے ان کے پاس واپس آتی۔ یہی سوچ کے وہ اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھی رہی۔


'کیا مطلب یاد نہیں کہ تمہارا شوہر کیسا دکھائی دیتا ہے؟'


سعد نے حیرانی سے پوچھا۔


'میں پانچ سال کی تھی جب ہمارا نکاح ہوا تھا آپ کو پتا ہے سعد بھائی انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے لینے آئیں گے اور میں نے بھی وعدہ کیا تھا کہ میں انہیں نہیں بھولوں گی اور انتظار کروں گی۔وہ تو آئے نہیں لینے لیکن میں اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑتی اور یہ بات تو آپی کو بھی پتا تھی اسی لیئے جب بابا نے طلاق کا کہا تو آپی نے مجھے ان کے پاس بھیج دیا۔لیکن اب میں ان کے پاس جاؤں گی اور پھر ان سے بہت لڑوں گی۔ پھر وہ معافی مانگے گیں اور پھر ہم مل کے لاہور جائیں گے اور بابا کو بھی منا لوں گی۔'


جانان بولنا شروع ہوئی تو بولتی گئی۔جبکہ دراب اس کی باتوں پر یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ہوتا اگر زندگی اتنی آسان ہوتی۔


'تمہارے بابا کیوں تمہارا رشتہ ختم کرنا چاہتے تھے؟'


اس دفعہ سوال دراب کی طرف سے آیا تھا۔


'پتا نہیں ۔'


جانان افسردہ ہوئی مگر پھر اس کی نظر سعد کے ہاتھ میں موجودہ بریانی کے ڈبے پر گئی اور اس نے ایک ڈبہ لے لیا ۔


'باتوں میں آپ نے بریانی ٹھنڈی کر دی مرغے کی روح بد دعائیں دے گی آپکو۔'


جانان کے ایسا کہنے پر دراب بھی مسکرایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہت معلوم کرنے سے بھی جانان کا کچھ پتا نہیں لگا۔سلمان صاحب فکر مند تھے لیکن زیادہ فکر انہیں عثمان ملک کی تھی کہ اسے کیا جواب دیں گے جسے وہ ہاں کر چکے تھے۔


ایک پل کو ان کے زہن میں خیال آیا کے کہیں جانان حسن کے گھر تو نہیں۔۔۔


نہیں نہیں جانان اتنی بہادر نہیں کے اکیلے کراچی چلے جائے ۔سلمان صاحب نے سوچا پھر بھی احتیاطً انہوں نے اپنے آدمی کو کراچی حسن صاحب کے گھر بھیجنے کا سوچا۔


ان کے لیئے اپنا خواب بہت اہم تھا جس کے آڑے کوئی نہیں آ سکتا ان کی اپنی اولاد بھی نہیں۔ اگر جانان شایان کے پاس بھی ہوئی تو بھی وہ اسے واپس لانے کا ارادہ رکھتے تھے۔

ابھی وہ اس بارے میں سوچ رہے تھے کہ نوکر نے انہیں عثمان ملک کی آمد کے بارے میں بتایا۔


' اسلام و علیکم سلمان صاحب کیسے ہیں آپ'


کمرے میں داخل ہو تے ہی عثمان ملک کی آواز سنائی دی۔مگر سلمان صاحب خاموش رہے۔عثمان ملک ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔


"آپ نے رابطہ کیا نہیں اس لیئے میں نے سوچا میں خود کر لوں تو پھر بتائیں آپ کس دن آؤں نکاح کے لیئے آپ نے ہی ہاں کی تھی مگر اب اور انتظار نہیں ہوتا الیکشن بھی سر پر ہیں سوچ لیں وقت گزر گیا تو سیٹ سے ہٹنا مشکل ہو جائے گا؟'


سلمان صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہیں آخر کب تک وہ یہ بات چھپاتے ۔مگر ان دونوں کی باتیں سنتی حمنہ اپنے باپ کا مقصد سن کے غصے سے وہاں آئی۔کیسا باپ تھا وہ اپنی ہی معصوم بیٹی کا سودا کر بیٹھا تھا۔


'آپ بھول جائیں ملک صاحب آپ کو جانان کبھی نہیں ملے گی ۔وہ کسی اور کی ہے اور اس کے پاس جا چکی ہے اس لیے بہتر ہے کہ یہاں سے چلیں جائیں آپ۔'


'خاموش ہو جاؤ حمنہ اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔'


سلمان صاحب غصے سے چلائے اور ان کی آواز سن کے فاطمہ بیگم اور زرش بھی وہیں آ گئیں۔


'جی خاموش ہو جاؤں میں اور آپ اپنی بیٹیوں کا سودا کرتے رہیں۔'


چٹاخ،۔۔سلمان صاحب نے زور دار تھپڑ حمنہ کو مارا لیکن یہ بھی حمنہ کو چپ نہ کروا سکا۔


'ماریں اور کر بھی کیا سکتے ہیں آپ شرم آتی ہے آپ کو اپنا باپ کہتے ہوۓ اور جو آپ دونوں کا مقصد ہے کبھی پورا نہیں ہو گا۔جانان اس آدمی کو نہیں ملے گی۔کیونکہ میں نے بھیج دیا ہے اسے اور اب تو وہ شایان بھائی کے پاس ہو گی آپ دونوں کے گھٹیا ارادوں سے دور ۔'


حمنہ نے عثمان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ فاطمہ بیگم بھی جانان کے بارے میں جاننے کے لیئے بے چینی اس کے پیچھے چلی گئیں۔جبکہ عثمان ملک سلمان صاحب کو غصے سے دیکھنے لگا۔


'اگر میں اپنا خواب بھول جاؤں تو آپ بھی بھول جائیں۔'


اتنا کہہ کے وہ بھی سلمان صاحب کو اکیلا چھوڑ کے چلا گیا۔جبکہ سلمان صاحب کا دل کر رہا تھا کہ وہ حمنہ کا منہ توڑ کر رکھ دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رات کا سفر ختم ہونے کے بعدآخر کار وہ کراچی پہنچ گئی تھی وہ سٹیشن پر سعد اور دراب کے ساتھ تھی ۔کراچی پہنچنے سے ذیادہ خوشی اسے سفر ختم ہونے کی تھی۔پہلے ہی رات کو اسے دراب کے بلکل سامنے والی برتھ پر سونا پڑا تھا جو کہ اسے اچھا نہیں لگا تھا۔لیکن اب ساری مشکل ختم ہو چکی تھی۔


'آپ نے میری بہت مدد کی اور خیال بھی رکھا اسکے لیئے تھینک یو ۔بس ایک آخری مدد کر دیں؟'


اس نے دراب سے کہا کیونکہ اتنا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ سعد ہر بات دراب کی ہی مانتا ہے۔


'بولو!'


دراب کے بولنے پر جانان نے اس کے ہاتھ میں ایک پرچی تھاما دی۔


'یہ کرنل حسن صاحب کے گھر کا ایڈریس ہے ۔میں کیسے ڈھونڈوں گی اتنے بڑے شہر میں آپ مجھے وہاں پہنچا دیں گے؟'


جانان نے بہت امید سے دراب کو دیکھا اور دراب جسکی زبان پہ انکار تھا اس کے معصوم چہرے کی وجہ سے کہیں دب سا گیا۔وہ اس ایڈریس کو دیکھنے لگا ۔سٹیشن سے اس پتہ پر پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگنا تھااور جہاں دراب کو جانا تھا وہ جگہ بلکل مختلف سمت میں تھی۔

دراب نے گہرا سانس لیا اور جانان کو دیکھا۔


'چلو'


جانان کی خوشی اس کے چہرے پر چھلکنے لگی۔


'آپ بہت اچھے ہیں۔'


جبکہ دراب نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کا وہ کچھ دیر بعد اسے پھر سے برا لگے گا اتنا تو وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ جانان زیادہ دیر اپنی رائے پر قائم نہیں رہتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریبا ایک گھنٹہ شہر میں سفر کرنے کے بعد وہ آخر کار کرنل صاحب کے گھر پہنچ گئے تھے ۔جانان بہت خوش بھی تھی اور پریشان بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر شایان نے اسے نہیں پہچانا تو کیا ہو گا؟ پھر خود کو خودی دلاسے دینے لگی۔دراب اسے سعد کے ساتھ چھوڑ کے خود فون کرنے چلا گیا اور جانان حیران تھی کہ آج کے زمانے میں بھی کوئی ایسا ہے جو موبائل نہیں رکھتا ۔

سعد اور وہ کرنل صاحب کے گھر کے باہر کھڑے تھے سعدکے بیل بجانے پر ایک چوکیدار باہر آیا ۔


'جی ؟۔'


'ہمیں کرنل صاحب سے ملنا ہیں یہ ان کی مہمان ہیں لاہور سے آئی ہیں۔'


سعد نے جانان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔


'مگر کرنل صاحب تو گھر نہیں بلکہ گھر پر کوئی بھی نہیں ۔'


'کیا شایان بھی نہیں ہیں گھر پہ کہاں گئے ہیں وہ؟'


جانان نے پریشانی سے پوچھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی رو دے گی۔


'جی مجھے تو کچھ عرصہ ہوا ہے کام کرتے ہوئے اور کرنل صاحب جب دو سال پہلے ریٹائر ہوئے تھے تب سے بیمار رہتے تھے اس لیئے بیگم صاحبہ انہیں لے کر آزاد کشمیر چلی گئیں باقی ذیادہ تو کچھ نہیں پتا ان کے بچے بھی وہیں رہتے ہیں ان کے پاس۔' شاید چوکیدار کو بھی جانان کی رونی صورت پر رحم آیا تھا۔


'آزاد کشمیر'


جانان بس اتنا ہی بول پائی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔یہ دیکھ کے سعد بھی پریشان ہو گیا۔


'آپ کے پاس موبائل نمبر ہو گا ان کا؟' سعد نے چوکیدار سے پوچھا۔


'صاحب ہم تو نوکر لوگ ہیں کوئی کام ہو تو وہ خود فون کرتے ہیں ٹیلی فون پہ اور اس پہ تو نمبر نہیں آتا اور ویسے بھی جہاں وہ رہتے ہیں وہاں موبائل کے سگنل نہیں آتے ۔'


'آپ مجھے وہاں کا اڈریس بتا دیں۔'سعد نے کہا ۔


'جی مجھے تو نہیں پتا مگر رفیق کو پتا ہے میں اسے فون کر کے پوچھتا ہوں۔'


اتنا کہہ کے وہ واپس اندر چلا گیا اور سعد جانان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے دلاسہ دینے لگا ۔ تھوڑی دیر کے بعد چوکیدار ایک پرچی پہ پتہ لکھ کے لے آیا اور سعد کے ہاتھ میں تھما دیا۔


'آپ کا شکریہ اگر ان کا فون آئے تو انہیں بتائے گا کہ جانان آئی تھی ۔'


جانان کے بتانے پر چوکیدار نے ہاں میں سر ہلایا اور سعد اسے لے کر وہاں سے جانے لگا ۔کچھ فاصلے پر دراب آتا ہوا نظر آیا جو جانان کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔

'کیا ہوا؟'

دراب نے روتی ہوئی جانان کو دیکھ کر پوچھا تو سعد نے اسے سب بتایا۔جسے سن کے دراب غصے میں آ گیا۔

'جانان تم واپس لاہور چلی جاؤ۔'

اس بات پر جانان نے انکار میں سر ہلایا۔

'میں یہاں پر ان کا انتظار کروں گی؟۔۔'جانان نے بتانے سے زیادہ پوچھا تھا ۔

جانان وہ دو سال سے کشمیر میں رہ رہے ہیں۔ نا جانے یہاں کب آئیں گے اور تم کہاں رکو گی ایسے بند گھر میں اکیلے نہیں رہ سکتی اور نہ ہی وہ چوکیدار ان لوگوں سے پوچھے بغیر تمہیں رہنے دے گا۔بہتر یہی ہے واپس چلی جاؤ۔'

جانان اس کی باتوں پر غور کرتی سوچنے لگی اور پھر بولی۔

'میں گھر واپس نہیں جا سکتی بابا پھر سے طلاق کی بات کریں گے اور آپی کو کتنا برا لگے گا وہ تو پہلے ہی مجھے نکما سمجھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان کے پاس آزاد کشمیر جاؤں گی۔'

اور اس بات پر دراب کا پارہ ہائی ہو گیا ۔

'پاگل ہو گئی ہو کشمیر جاو گی جانتی ہو کتنا دور ہے یہاں سے پاکستان کے ایک کونے میں کراچی ہے تو دوسرے میں کشمیر اور تم تو کسی شہر کے بارے میں کچھ جانتی بھی نہیں۔عقل سے کام لو اور واپس چلی جاؤ۔'

'دراب سہی کہ رہا ہے گڑیا۔'

سعد نے بھی دراب کا ساتھ دیا مگر جانان بھی اپنی ضد پے قائم تھی۔

'ٹھیک ہے بھاڑ میں جاؤ تم ہم سے توقع نہ رکھنا کہ وہاں لے کے جائیں گے اکیلی جاؤ تم۔'

دراب انتہائی غصے سے چلایا جس کی وجہ سے جانان پہلے تو سہم کے سعد کے پیچھے چھپنے لگی مگر پھر اپنا سارا غصہ او دکھ دراب پر نکالنے لگی آخر یہ اس کے لیۓ کتنا مشکل تھا یہ وہی جانتی تھی۔

'میں نے آپ سے نہیں کہا ساتھ آنے کو ۔آپ نے میری بہت مدد کی اس کے لیئے شکریہ مگر آپ فکر نہ کریں اب آپ کو تنگ نہیں کرتی اکیلے چلی جاؤں گی میں۔ آپ بس مجھے اتنا بتا دیں کہ کیا اتنے پیسوں میں پہنچ جاؤں گی ؟ '

اس نے چند ہزار کے نوٹ دراب کے آگے کر کے پوچھا۔جبکہ دراب کا دل کیا کہ اس کی عقل پہ اپنا سر پیٹ لے۔

'سعد تم اسے بس سٹیشن چھوڑ آو اور ٹکٹ بھی لے دینا۔ اب سے یہ اپنے راستے اور ہم اپنے۔جب ہماری منزلیں ہی جدا ہیں تو راستہ ایک کیوں ہو۔'دراب جانان کے پاس کھڑا اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔

'کام کی جگہ پہ ملنا مجھے'

اتنا کہہ کے دراب وہاں سے چلا گیا ۔ سعد کو اس کا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا مگر وہ چپ رہا کیونکہ دراب نے کونسا اسکی بات سن لینی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ جانان اکیلے اتنی دور نہیں جا سکتی اس لیئے اسے پھر سے سمجھانے لگا مگر جانان نہیں مان رہی تھی اس لیئے سعد بھی مجبور ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعد جانان کو بس سٹیشن کے کیبن میں چھوڑ کے آ گیا تھا۔ بس کی روانگی میں دو گھنٹے تھے اور اتنی دیر جانان کو وہیں انتظار کرنا تھا۔دراب اور وہ اس وقت ایک آدمی سے ملنے جا رہے تھے۔


'تم نے اچھا نہیں کیا دراب وہ اتنی دور اکیلے نہیں جا سکتی۔سعد نے پھر سے دراب کو سمجھانے کی کوشش کی ۔


'یہ اسی کا فیصلہ تھا اب کرے اپنی مرضی ۔'


'دراب وہ بہت معصوم ہے کسی پر بھی بھروسہ کر لیتی ہے اور پہلی ملاقات میں اسے اچھا بھی بول دیتی ہے۔ اگر کسی غلط شخص کے ہاتھ لگ گئی تو جانتے ہو کیا کیا ہو سکتا ہے اس کے ساتھ۔'


سعد جانان کے لیئے بہت پریشان تھا۔


'وہ پل بھر کی مسافر ہمارا مسلئہ نہیں ہے سعد سفر میں بہت سے لوگ ملتے ہیں اور جدا ہو جاتے ہیں۔ اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہماری منزل اور ہے اور اس کی منزل اور۔'


مگر سعد مطمئن نہیں تھا اس نے اپنی زندگی میں کوئی رشتہ نہیں دیکھا تھا اور جانان کو تو اس نے دل سے بہن مانا تھا اس لیئے اسکی حفاظت کے لیئے بہت فکر مند تھا۔


'کونسا فلیٹ ہے؟


دراب کی آواز نے سعد کو خیالوں کی دنیا سے نکالا تو وہ دراب کو فلیٹ نمبر بتاتا اسکے ساتھ ساتھ چل پڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے لیئے چائے بنا رہا تھا جب کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔وہ پریشان ہو گیا اور اپنی پسٹل اٹھا کر دروازے کی طرف جانے لگا ۔اس نے بندوق تانے دروازہ کھولا مگر اس سے پہلے کہ اسے کچھ سمجھ آتا کسی نے اس کے ہاتھ میں موجودہ پسٹل کو ٹانگ مار کے گرایا اور ایک گھونسہ اس کے پیٹ میں مارا جبکہ دوسرا آدمی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ چکا تھا۔


'خاموش رہے گا تو تیرے حق میں ہی بہتر ہو گیا۔'


دارا نے اسے بولا۔ اور ایک چاقو اپنی پنڈلی کے پاس سے نکالا۔دارا کا ساتھی اس کے ہاتھ باندھنے لگا۔تب تک دارا نے دروازہ بند کر کے لاک لگا دیا۔


'جو تجھ سے پوچھوں اس کا صاف سیدھی طرح جواب دینا ورنہ بولنے کے لیئے تجھے ان آنکھوں کی ضرورت نہیں اور اگر مجھے میرا جواب نہ ملا تو تیری زبان بھی میرے لیئے بے کار ہے۔'


دارا نے چاقو کی نوک اس کی دائیں آنکھ کے پاس کی۔


'بادشاہ کہاں ہے؟'


'مجھے نہیں معلوم۔'


اپنے منہ کو آزادی ملتے اس نے اتنا بولا تو دارا نے چاقو اس کی آنکھ میں گاڑھ دیا اور اس کے ساتھی نے منہ پر دوبارہ ہاتھ رکھ کے اس کی چیخ روک دی۔دارا نے چاقو نکال کے دوسری آنکھ کے سامنے رکھا ۔خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔


' ایک اور موقع دیا ۔بادشاہ کہاں ہے؟'اور یاد رکھنا اگلی باری تیری زبان کی ہو گی اگر یہ میرے کام نہیں آئی تو کوئی مقصد نہیں اسکا۔'


'کک ۔۔۔۔۔کوئی نہیں ج۔۔۔۔ جانتا بب۔۔۔ بادشاہ کے بارے مم۔۔۔۔ میں۔'


دارا نے چاقو کی نوک آنکھ کے بلکل پاس کی۔


'مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک صرف ملک کک۔۔۔۔۔۔۔کو پتا ہے بب۔۔۔۔۔۔بادشاہ کا۔


'کہاں ملے گا وہ ۔'


وہ آدمی تکلیف کے مارے بے ہوش ہونے لگا تو دارا نے ایک گھونسہ اس کے منہ پہ مارا۔


'بول'


'مم۔۔۔۔۔۔۔۔میر پور آا۔۔۔۔۔۔۔آزاد کشمیر۔ ہر بب۔۔۔۔برا آدمی جانتا ۔۔۔۔۔اا ۔۔۔۔اسے۔۔۔۔۔کسی سے بب۔۔۔۔۔بھی پوچھ لینا معلوم۔۔۔۔۔۔۔۔ہو جائے گا۔'


دارا نے ایک خوفناک مسکراہٹ کے ساتھ چاقو اس کے سینے میں گاڑ دیا اور اپنے ساتھی کی طرف دیکھا جو اس کے جواب سے کافی خوش نظر آ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان سٹیشن پر ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد اب بس میں بیٹھی ہوئی تھی اور وہ بھی پریشان تھی کہ اتنی دور اکیلے کیسے جائے گی ۔مگر وہ واپس بھی تو نہیں جا سکتی تھی اس کی منزل شایان تھا ۔ایسا نہیں تھا کہ شایان سے وہ بہت محبت کرتی تھی وہ تو محبت کا مطلب بھی ٹھیک سے نہیں سمجھتی تھی۔اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ شوہر ہی بیوی کا سب کچھ ہوتا ہے ۔لڑکی کی وفا ،محبت ،تمنا سب کچھ اس کا شوہر ہونا چاہیے اور پھر اس نے وعدہ بھی تو کیا تھا جو کہ جانان شایان شاہ کبھی نہیں توڑتی۔


جانان کے ساتھ بیٹھی عورت کو کنڈکٹر نے کچھ کہا تو پہلے تو وہ بحث کرنے لگی پھر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔جانان کو کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ وہ سندھی میں بات کر رہے تھے اور جانان نے اس کے اٹھنے پر شکر کیا کیونکہ وہ عورت بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے جانان کی بھی آدھی جگہ لے رہی تھی۔


مگر پھر جانان کے ساتھ ایک آدمی بیٹھ گیا ۔جانان ایک پل کو گھبرا گئی مگر اس کے چہرے کو دیکھتے ہی خوش ہو گئی لیکن اس کی باتیں یاد آئیں تو منہ پھلا کے باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی نظر پچھلی سیٹ پر بیٹھے سعد پر پڑی جسے دیکھ کے وہ مسکرانے لگی۔


جانان کی اس حرکت پہ دراب کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔


'سوچا تم اکیلی گم ہو جاؤ گی اس لیئے آ گئے کہ کہیں ہمیں بد دعائیں نہ دے دو ۔'خوشدراب شرارت سے بولا۔


'سعد بھائی ان کو کہہ دیں کہ میں نے نہیں کہا تھا آنے کو اس لیئے مجھ پہ احسان نہ کریں اور میں کسی کو بددعا نہیں دیتی کیونکہ وہ لوٹ کر دینے والے کے پاس ہی آتی ہے۔'


جانان نے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور دراب جس کو اس کے ساتھ سفر کرنے کے لیئے ٹکٹ کی چار گنا زیادہ رقم دینی پڑی تھی اس کی بات پر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔


'ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو ہم چلے جاتے ہیں آخر تم نے تو کہا ہی نہیں تھا آنے کو۔'


'نہیں ۔۔۔۔۔'


دراب اٹھنے لگا تو جانان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مگر پھر اپنی حرکت پہ گھبرا کر چھوڑ دیا ۔دراب واپس بیٹھ کر مسکرانے لگا ۔


'سعد بھائی ان کو کہہ دیں کہ آرام سے بیٹھ جائیں اور میرا مذاق نہیں اڑائیں۔'


جانان نے دراب کی مسکراہٹ کو دیکھ کر کہا تو اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔جبکہ سعد نے ان کی اس لڑائی سے دور رہنا بہتر سمجھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بادشاہ کو خبر مل چکی تھی کہ کراچی میں اس کا ایک اور آدمی مارا گیا ۔بادشاہ جانتا تھا کہ یہ کام بھی دارا کا ہے ۔ وہ سوچ سوچ کر تھک گیا تھا لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ دارا کون ہے اور بادشاہ کے پیچھے ہاتھ دھو کے کیوں پڑا ہے۔


بادشاہ یہ بھی جانتا تھا کہ دارا اب پھر سے اس کے کسی آدمی کے پاس جائے گا مگر کون۔بہت دیر سوچنے کے بعد اس نے اپنے سب سے خاص آدمی کو بلایا۔


'جی سردار' بہرام نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بادشاہ سے پوچھا۔


'ملک پہ نظر رکھ دارا کا شکار وہی ہو گا اب۔'


' پھر تو ہمیں ملک کو محتاط کرنا چاہیے۔'


بہرام کی بات پر بادشاہ کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی۔


'نہیں اب اپنے خاص آدمی کی وجہ سے ہی مجھے دارا کا پتہ چلے گا۔ ملک دارا کے لیئے چارے کا کام کرے گا سمجھ رہا ہے نا۔'


بادشاہ اپنے منصوبے پر کافی خوش اور مطمئن تھا۔بہرام ہاں میں سر ہلا کر باہر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رات ہو چکی تھی ۔سارا دن سفر میں رہنے کی وجہ سے جانان کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ٹرین میں سونے کی سہولت تو موجود تھی مگر بس میں بیٹھ کر جانان بہت تھک گئی تھی۔اب وہ راستے میں موجود ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے جو بہت مزے کا تھا۔


'چائے پینے کا موڈ ہے کسی کا؟'


سعد نے پوچھا تو جانان نے اسے یوں دیکھا جیسے وہ سب سے بڑا احسان کر رہا تھا یہ پوچھ کر۔


'سچ میں آپ اس دنیا کے سب سے اچھے بھائی ہیں۔'


'اور تم سب سے پیاری بہن۔'


سعد بھی دل سے تعریف کرتا چائے لینے جانے لگا۔

'جلدی کرو بس گزر گئی تو مشکل ہو گی۔'

دراب نے کہا تو سعد ہاں میں سر ہلا کے چلا گیا ۔دراب کی نظر جانان پے پڑی جو مزید سفر کے نام پر رونے والی صورت بنانے لگی۔دراب نے سوچا تھا کہ رات کہیں رک کے آرام کریں گے مگر انہیں کشمیر جلدی پہنچنا تھا۔

'میں نے تو بتایا تھا کہ کشمیر بہت دور ہے اور ابھی بہت سفر باقی ہے۔'دراب نے جانان کی رونی صورت دیکھ کر اسے بتایا۔

'میں پہنچوں گی تو شایان جی سے بہت ذیادہ جھگڑا کروں گی۔ میں اتنا تھک گئی اور وہ لینے بھی نہیں آ سکے۔بلکہ جھگڑا ہی کیوں تنگ بھی بہت کروں گی انہیں۔'

جانان نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

'جانان ۔'

دراب کے بلانے پر وہ اس کی طرف دیکھنے لگی جو بہت سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔

'اگر وہ شخص تمہارے قابل نہ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ اچھا نہ ہوا تو کیا کرو گی۔تمہیں تو اس کے بارے میں کچھ یاد بھی نہیں۔'

'وہ اچھے نہیں بہت ذیادہ اچھے ہوں گے۔'جانان نے مسکرا کے کہا۔

'اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟'

'کیونکہ میں اچھی ہوں اور آپ کو پتا ہے میری آپی نے بتایا تھا کہ اللہ تعالی اچھے لوگوں کے ساتھ برا نہیں ہونے دیتے۔اس لیئے مجھے پورا یقین ہے کہ وہ بہت اچھے ہوں گے اور مجھے دیکھتے ہی بہت زیادہ خوش ہو جائیں گے اور مجھے بتائیں گے کہ انہوں نے کتنا یاد کیا مجھے۔میں سوچتی تھی کہ وہ مجھے لینے کیوں نہیں آئے پھر خیال آیا کہ وہ تو آرمی میں ہیں نا اور ان کے پاس تو ٹائم ہی نہیں ہوتا اس لیئے میں خود چلی جاتی ہوں ۔ان کو میری وجہ سے مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔'

جبکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ اپنی باتوں سے وہ سامنے بیٹھے شخص کو کسی کی قسمت پر رشک کرنے اور اس آدمی کی جگہ پہ ہونے کی چاہ کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔

دراب اتنا جانتا تھا کہ زندگی اتنی آسان نہیں جتنا جانان سوچتی ہے لیکن وہ اس کے معصوم دل کے لیئے دعا گو تھا کہ وہ اس دنیا کے اندھیروں سے دور رہے ۔وہ اندھیرے اس معصوم لڑکی کو ختم کر دیں گے۔

'لو جی آگئی آپ کی چائے۔'

سعد کی آواز نے دراب کو اس کے خیالوں سے نکالا ۔جانان بھی چائے دیکھ کر ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے کوئی خزانہ ہو۔

'سعد بھائی آپ کو پتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔'

اس سے پہلے کہ جانان بات مکمل کرتی سعد بولا۔

'نہیں گڑیا مجھے نہیں پتا ۔بھلا تمہارے بتائے بغیر کیسے پتا ہو گا کوئی نجومی تو نہیں نا میں۔'

جانان نے اس کی بات پہ منہ پھولا لیا اور اسکا چہرہ دیکھ کے سعد نے قہقہہ لگایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان ملک کرسی پر بیٹھے اپنے آپ کو نشے میں غرق کرنے میں مصروف تھا۔اس نے آج تک جو چاہا تھا حاصل کیا تھا ۔لیکن اب جو اسے سب سے ذیادہ پسند آئی تھی اسے وہ حاصل نہیں کر سکا تھا۔ایسا نہیں کہ اسے جانان سے بہت محبت ہو گئی تھی مگر اس کی خوبصورتی اور معصومیت کو اپنی ملکیت میں لینے کا جنون تھا اسے۔اب وہ جنون ادھورا رہا تھا اور یہ سب صرف حمنہ کی وجہ سے ہوا تھا۔عثمان ملک نے اپنے ہاتھ میں موجود گلاس کو حمنہ تصور کر کے اتنی زور سے دبایا کے وہ ہاتھ میں ہی ٹوٹ گیا۔اس کے ہاتھ سے خون بہنے لگا لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔


اسکا جنون ادھورا رہا تھا اس حمنہ کی وجہ سے جس کی اسے سزا ملنی تھی۔ یہ خیال دماغ میں آتے ہی اس نے موبائیل پکڑا اور سلمان صاحب کو کال کرنے لگا۔


'بولیں عثمان صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟'


سلمان صاحب کی آواز سن کر عثمان تلخی سے مسکرایا۔


'میری ڈیل ابھی بھی قائم ہے نکاح کے بدلے الیکشن میں جیت ۔لیکن اب میری مانگ جانان نہیں حمنہ ہے ۔ آپ سوچ لیں اور اب تب رابطہ کرنا جب نکاح کے لیئے بلانا ہو ورنہ الیکشن میں بری طرح ہارنے کے لیئے تیار رہنا۔'


سلمان صاحب کو بولنے کا موقع دیے بغیر اس نےکال بند کر دی ۔


'اب تمہیں پتا چلے گا حمنہ بی بی کہ تم نے کس کے جنون کو للکارا ہے۔'


وہ حنمہ کا ایک فرضی سا وجود بنا کر اس سے بول رہا تھا جبکہ اس کی آنکھوں میں وحشت طاری تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان نے رات کا وہ سفر بہت مشکل سے گزارا تھا ۔وہ اتنا تھک گئی تھی کہ اب اسکی ٹانگیں بھی ٹوٹنے والی ہو گئی تھیں۔رات بارہ بجے تک تو وہ دراب اور سعد سے باتیں کرتی رہی تھی۔اب جانان سے ذیادہ اس کے گھر والوں کو سعد اور دراب جان گئے تھے کہ کیسے حمنہ اپنے بابا سے بغاوت کر کے یونیورسٹی جاتی تھی مگر جانان کو اجازت نہیں دی گئی تھی اس لیئے اس نے صرف انٹر ہی کیا تھا اور زرش تو ہمیشہ سے ہی گھر پر سپیشل ٹیچرز سے پڑھی تھی وغیر وغیرہ۔سوتے ہوئے بھی اس نے تھکنے کی بہت ذیادہ شکایت کی تھی۔نیند کے دوران وہ کئی بار اپنا سر ساتھ بیٹھے دراب کے کندھے پر رکھ دیتی۔دراب نے تین چار مرتبہ اس کا سر ہٹایا تھا مگر جب جانان نے سختی سے سر اس کے کندھے پر مار کے رکھا تھا تو وہ اسے نظر انداز کرتا خود بھی سونے لگا۔


وہ تینوں صبح صبح ہی کہوٹہ پہنچ گئے تھے۔ناشتہ کرتے ہوئے دراب نے بتایا تھا کہ یہاں انہیں تھوڑا سا کام ہے اس کے بعد وہ کشمیر جائیں گے جو یہاں سے تقریباً چار گھنٹے

کی مسافت پر تھا۔دراب اور سعد اسے ایک بازار میں لے کر آئے تھے جہاں پر موجود چیزیں جانان کو کسی اور دنیا کی لگ رہی تھیں۔کئی بار اسنے دراب کو دکان کے پاس رکنے کا بولا تھا لیکن وہ اسے گھور کر چپ کرا دیتا۔آخر کار جانان کی نظر ایک چوڑیوں کی دکان پر پڑی تو اس کا ضبط ختم ہو گیا۔


'آپ مجھے وہاں سے چوڑیاں لینے دیں ورنہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔'جانان کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے جب دراب نے اسے گھور کر دیکھا۔


'تم دو منٹ کے لیئے اپنا منہ بند نہیں رکھ سکتی۔' دراب نے چڑھ کر کہا تو جانان کا منہ بن گیا۔


'دراب وہ سامنے والی بلڈنگ ہے۔' سعد نے اسے بتایا تھا۔


'ٹھیک ہے تم اس کے پاس رکو میں وہاں ابھی آ جاؤں گا۔'دراب نے کہا تو سعد انکار میں سر ہلانے لگا۔


'میں جاتا ہوں دراب تم غصے میں بات کر کے سب برباد کر دو گے۔'دراب کو سعد کی بات درست لگی تو اس نے ہاں میں سر ہلایا۔


سعد وہاں سے چلا گیا تھا اور وہ دونوں ایک گلی کے پاس کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے ۔


'سعد بھائی جب تک آئیں گے ہم وہاں سے چوڑیاں لا چکے ہوں گے۔'


جانان نے اسے بتانا ضروری سمجھا تھا لیکن دراب خاموشی سے کھڑا رہا تھا اور اب جانان اس سے بہت زیادہ بے زار ہو گئی تھی۔اچانک اسکے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔اس نے اپنے گلے پر ہاتھ رکھا اور زور زور سے کھانسنا شروع کر دیا۔دراب پریشانی سے اسے دیکھنے لگا۔


'جانان کیا ہوا؟'دراب سچ میں پریشان ہو گیا تھا۔


'پپ۔۔۔۔۔۔پانی۔'


جانان نے گلا پکڑ کر کہا تو دراب ہاں میں سر ہلاتا ساتھ والی دکان میں سے پانی لینے چلا گیا۔دراب کے جاتے ہی جانان نے چوڑیوں کی دکان کی طرف دوڑ لگا دی۔وہ ہانپتے ہوئے دکان میں پہنچی اور جلدی سے چوڑیاں دیکھنا شروع کر دیں۔جانان کو اپنے آپ پر فخر ہو رہا تھا لیکن وہ جلدی واپس بھی جانا چاہتی تھی۔اس لیئے چوڑیاں ہاتھ میں لے کر جلدی سے اس آدمی کو پانچ سو کا نوٹ پکڑایا اور باہر آ گئی۔لیکن اب اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ دراب اور وہ کس گلی کے باہر کھڑے ہوئے تھے۔

جانان کی حالت رونے والی ہو گئی تھی۔

اسے ایک آدمی نظر آیا تو اس کے پاس چلی گئی۔


'بھائی صاحب یہاں میرے ساتھ ایک آدمی کھڑا تھا آپ نے ان کو دیکھا ہے کیا؟'جانان نے اس سے گھبراتے ہوئے پوچھا۔


'کہاں اس گلی کے پاس؟' وہ آدمی ایک گلی کے پاس اشارہ کر رہا تھا۔


'شاید۔' جانان منمنائی تھی۔


'وہ ڈاڑھی والا نا؟' اس آدمی کے ایسا کہنے پر جانان نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔


'ہاں بلکل ادھر کو گیا ہے آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں۔' اس نے ایک طرف کو اشارہ کیا تو جانان مسکراتے ہوئے ساتھ چل دی۔


دراب واپس آیا تو جانان وہاں نہیں تھی۔یہ دیکھ کر وہ حد سے زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔اس نے اردگرد دیکھا تھا۔اچانک اس کے ذہن میں چوڑیوں کا خیال آیا تو اس نے اس دکان کی طرف دوڑ لگا دی۔لیکن وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔


'کیا یہاں ایک لڑکی آئی تھی کالی چادر میں؟' دراب نے دکان والے سے پوچھا۔


' جی ادھر کو گئی تھی۔' دکاندار نے اشارہ کیا تو دراب ادھر کو بھاگ گیا۔اسے جانان پر حد سے ذیادہ غصہ آ رہا تھا۔وہ کئی جگہ گیا تھا پر اسے جانان کہیں نہیں مل رہی تھی۔اب اس کی پریشانی کافی بڑھ گئی تھی۔اچانک اسے ایک گلی کے پاس سے گزرتے ہوئے کسی لڑکی کی چیخ سنائی دی دراب بھاگ کر اس گلی میں گیا اور سامنے کا منظر دیکھ کے اس کا خون کھولنے لگا۔


جانان کو جب وہ آدمی ایک سنسان گلی کی طرف لے جانے لگا تو وہ ڈر گئی اور اس نے سوچا کے وہ واپس چلی جائے۔وہ جیسے ہی واپس جانے کے لیئے مڑی تو اس آدمی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


'ایسے کیسے میری بلبل کبھی کبھار تو تیرے جیسی کوئی ہاتھ آتی ہے۔' وہ جانان کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے بول رہا تھا۔


'چھوڑیں مجھے۔'


جانان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اچانک اس آدمی نے ہاتھ بڑھا کر جانان کی چادر کو کھینچ کر اس سے دور کیا تو جانان کی چیخ نکل گئی۔ وہ اس آدمی کو دور دکھیلنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔


'واہ تو تو کمال ہے' اس آدمی نے جانان کے وجود پر غلیظ نظریں ڈالتے ہوئے کہا۔اچانک سے کوئی بہت تیزی سے آیا تھا اور اس آدمی کو جانان سے دور دکھیل کے اسے بری طرح سے مارنا شروع کر دیا تھا۔


'تیری ہمت کیسے ہوئی اسے چھونے کی؟'


جانان گھبرا کے دراب کو دیکھ رہی تھی جو دیوانہ وار اس آدمی پر مکے برسا رہا تھا۔دراب نے اس ہاتھ کو دیکھا جس سے اس نے جانان کو چھوا تھا اور پھر اسکے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے کر اسکی انگلیوں کو چٹخا کر توڑ دیا۔

وہ آدمی بری طرح سے چلانے لگا۔دراب نے اسے چھوڑ کر ایک لات اس کے پیٹ میں ماری تھی اور اب وہ زمین پر لیٹا بری طرح سے کراہ رہا تھا۔


' چلو'

دراب اسے چھوڑ کر جانان کے پاس آیا اور اسکی چادر اٹھا کر جانان کے سر پر اوڑھی۔ جانان کا ہاتھ سختی سے پکڑ کے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔جانان کسی سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔سعد جو کب سے وہاں کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا انہیں آتا دیکھ کر پریشانی سے ان کی طرف بڑھا۔

دراب نے ایک جھٹکے سے جانان کو سعد کی طرف پھینکا اور غصے سے بولا۔

'اب اسکی منزل سے پہلے ہم کہیں نہیں رکیں گے۔'

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ بہت ذیادہ پریشان تھی جانان کو گئے ہوئے اتنے دن ہو گئے تھے اور اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔اب تک تو اسے کراچی پہنچ جانا چاہئے تھا۔حمنہ کے دل میں بہت برے برے خیالات گھر کر رہے تھے ۔وہ وضو کر کے نوافل ادا کرنے لگی اور پھر رو رو کے جانان کی سلامتی کے لیئے دعائیں کرنے لگی لیکن اپنے لیئے دعا کرنا بھول ہی گئی تھی۔

ابھی اس نے نماز ختم کر کے جائے نماز طے کیا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ بجنے لگا۔

'حمنہ بی بی آپ کو صاحب بلا رہے ہیں۔'

'آپ چلیں میں آتی ہوں۔ '

ملازمہ کو جواب دے کر وہ جوتا پہن کے باہر آنے لگی ۔وہ حیران بھی تھی کہ سلمان صاحب نے کیوں بلایا تھا اسے؟

وہ سلمان صاحب کے کمرے میں گئی تو انہوں نے اپنا دھیان کتاب سے ہٹا کے اسے دیکھا۔

'عثمان ملک اب جانان سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔بلکہ تم سے کرنا چاہتا ہے اور میں بھی یہ رشتہ طے کرنا چاہتا ہوں۔'

جہاں سلمان صاحب کی پہلی بات پہ وہ خوش ہوئی تھی وہیں ان کی دوسری بات پر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔

'آپ بول دیں اس شخص کو کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔'

حمنہ اتنا کہہ کے جانے لگی تو سلمان صاحب بولے۔

'میں نے تم سے پوچھا نہیں بتایا ہے ۔کل تمہارا نکاح ہو گا اور اگر تم نہیں مانی یا کچھ بھی الٹا سیدھا کیا تو میں زرش کا نکاح کر دوں گا اس سے۔'

حمنہ حیرت سے منہ کھولے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کوئی اتنا لالچی کیسے ہو سکتا ہے؟

'آپ ایسا نہیں کر سکتے۔'

'بلکل کر سکتا ہوں ،عثمان کو زرش کی خاموشی ویسے بھی اچھی لگتی ہے۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ نکاح نامے پہ تم دستخط کرو گی یا زرش۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاں جاتے ہوئے دروازہ بند کر کے جانا۔'

اس کی دنیا ہلا کے سلمان صاحب پھر سے کتاب پڑھنے لگے۔حمنہ وہاں سے بھاگتے ہوئے نکلی اور اپنے کمرے میں آ کے زارہ قطار رونے لگی کیونکہ وہ ہار گئی تھی کچھ نہیں کر سکتی تھی اب وہ ۔اپنی سترہ سال کی بہن کی زندگی وہ ایسے برباد نہیں ہونے دے سکتی تھی۔ہاں مگر اپنی زندگی کو ہونے دے گی۔اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ شخص اتنا گھٹیا ہو گا کہ اسکی معصوم بے زبان بہن کے بارے میں ایسا سوچے گا۔حمنہ کو عثمان ملک سے بے انتہا نفرت ہو رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان بس میں بیٹھ کر دراب سے کئی بار معافی مانگ چکی تھی لیکن دراب اس سے بات کرنا تو دور اسکی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔آخر کار جانان کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے دوسری طرف منہ کرکے رونا شروع کر دیا۔


'اچھا ٹھیک ہے معاف کر دیا چپ ہو جاؤ اب۔' دراب کی اس بات پر جانان نے آنسو پونچھ کر اسے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولی۔


'آپ بہت اچھے ہیں۔'


دراب اپنے دل کی کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا یا پھر سمجھ کر بھی انجان بن کے خود کو دھوکہ دے رہا تھا۔اسے لگتا تھا کہ اسکی کوئی کمزوری نہیں لیکن اب اس لڑکی کے آنسو اس کے دل پر تیزاب کی طرح گرتے تھے۔دراب کچھ دیر اسکے معصوم سے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اسکا دھیان جانان کے ہاتھ میں موجود چوڑیوں پر گیا۔


'اب اتنی محنت سے لائی ہو تو پہن بھی لو۔' جانان دراب کے الفاظ سن کر فوراً سے چوڑیاں کھول کے انہیں پہننے لگی۔ چوڑیاں پہن کر اس نے چوڑیوں والی نازک سی کلائی دراب کے سامنے کر کے پوچھا۔


'اچھی ہیں نا؟' دراب نے صرف اثبات میں سر ہلایا۔


'شایان جی کو اچھی لگیں گی نا؟'جانان نے بہت امید سے پوچھا تو دراب نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں تھیں۔


'ہاں' دراب کے جواب پر جو خوشی جانان کے چہرے پر آئی تھی وہ دراب کو ایک پل کے لیئے اچھی نہیں لگی تھی۔ باقی کا سفر بھی دراب نے خاموشی سے جانان اور سعد کی باتیں سن کر گزارا تھا۔


آخر کار طویل سفر کے بعد تقریباً بارہ بجے وہ کشمیر پہنچ گئے تھے اور اب اس وقت وہ کرنل صاحب کے گھر کی طرف جا رہے تھے۔جانان اپنی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتی تھی وہ ڈری ہوئی تھی،خوش بھی اور افسردہ بھی تھی۔اپنے دل کی اس کیفیت کی وجہ سے وہ باہر کے انتہائی خوبصورت نظاروں کو بھی نظر انداز کر رہی تھی۔


گاڑی کے رکنے کی وجہ سے وہ اپنے خیالات کے جہان سے باہر آئی۔دراب اس کے سامنے اسک سامان پکڑے کھڑا تھا۔جانان ڈرتے ہوئے گاڑی سے باہر نکل کے اپنے سامنے موجود عالی شان گھر کو دیکھنے لگی۔


'یہ ہی ہے کرنل صاحب کا گھر ،تمہاری منزل۔'


لیکن جانان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔دراب نے سعد کو اشارہ کیا تو وہ دروازے کی طرف بڑھا اور چوکیدار کو جانان کے بارے میں بتانے لگا۔چوکیدار اندر پوچھنے گیا اور پھر کچھ دیر بعد واپس آ کے بتایا کہ بیگم صاحبہ جانان کو اندر بلا رہی ہیں۔لیکن جانان کا سارا دھیان دراب کی طرف تھا ۔وہ نا جانے کیوں اسے چھوڑ کے جانا نہیں چاہ رہی تھی۔پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔



'اب ہم پھر کبھی نہیں ملیں گے؟'جانان نے افسردگی سے دراب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔


'نہیں جانان تم اپنی منزل پر پہنچ گئی ہو مگر میرا سفر ابھی باقی ہے۔'دراب اس سے نظریں چرا کے بولا


سعد نے جانان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔


'جاؤ گڑیا اور زندگی میں ہمیشہ خوش رہنا۔'


سعد نے اسے دعا دی تو جانان اس کی طرف دیکھنے لگی اور اپنا بیگ پکڑ لیا۔


' آپ کو پتا ہے آپ اس دنیا کے سب سے اچھے بھائی ہیں اور آپ۔۔۔۔۔۔۔'


اس نے سعد کے بعد دراب کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں میں آنسو لیئے بولی۔


'آپ سے تو کوئی رشتہ ہی نہیں میرا آپ نے بنانے ہی نہیں دیا تھا۔'


' آپ دونوں کا شکریہ ہر چیز کے لیئے ۔'


اتنا کہہ کے وہ اندر جا چکی تھی۔اس کے جانے کے بعد بھی دراب اسی راستے کو دیکھ رہا تھا جب سعد نے اسے چلنے کا کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حمنہ ساری رات ایک پل کے لیئے بھی سو نہ سکی ۔اتنی نادان تو نہیں تھی وہ ۔وہ جانتی تھی کہ عثمان ملک اس سے شادی صرف اپنی انا کو تسکین دینے کے لیئے کر رہا ہے۔مگر اس نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس کے سامنے نہیں جھکے گی۔حمنہ کوئی کمزور لڑکی نہیں تھی وہ اس سب کا بہادری سے مقابلہ کرے گی۔وہ اپنی سوچ کی دنیا میں اس قدر ڈوبی ہوئی تھی کی اسے فاطمہ بیگم کی آمد کا پتا نہیں چلا۔


'حمنہ۔'


اپنا نام پکارے جانے پر اس نے فاطمہ بیگم کی طرف دیکھا۔وہ جانان کے جانے کے بعد اسکی فکر کر کر کے بہت کمزور ہو گئی تھیں ۔فاطمہ بیگم نے ایک باکس حمنہ کے آگے کیا۔


'یہ تمہارے نکاح کا جوڑا ہے ملک صاحب نے بھجوایا ہے ۔'


حمنہ حیرت سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔


'آپ کو یہ سب نارمل لگ رہا ہے ۔ یہ نکاح،اسکا جوڑا اور باقی سب۔آپ کے مطابق کچھ بھی غلط نہیں؟'


حمنہ کی باتوں نے فاطمہ بیگم کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا۔


'ہم کر بھی کیا سکتے ہیں حمنہ ۔چلنی تو تمہارے ابا کی ہی ہے۔'


حمنہ کو اب ان کی ہمیشہ والی بات پر بہت ذیادہ غصہ آیا۔


'آپ اس دنیا کی سب سے کمزور عورت اور ماں ہیں جو آج تک نہ اپنے لیئے آواز اٹھا سکیں نہ اپنی اولاد کے لیئے۔بابا کا ہر ظلم برداشت کیا۔وہ آپ کو مار کے غصہ نکالتے رہے تو کبھی ہمیں مار کے۔لیکن آپ کی خاموشی انہیں اور بہادر بناتی گئی۔آپ کو کیوں نہیں سمجھ آیا کہ ظلم سہنے سے اس کے کرنے والے کو چھوٹ ملتی ہے۔آپ کمزور ہیں امی بہت ذیادہ کمزور۔'


بولتے ہوئے اس کی آواز کب بلند ہو گئی اس کا اندازہ حمنہ کو بھی نہیں ہوا تھا۔جبکہ فاطمہ بیگم کسی مجرم کی طرح سر جھکائے روئے جا رہی تھیں۔ان کی حالت دیکھ کے حمنہ کو بھی پچھتاوا ہوا مگر اس کے کچھ کہنے سے پہلے فاطمہ بیگم بول اٹھیں۔


'میرے حالات کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔جس کے پاس اس گھر کے علاوہ کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور ہر روز اس کا شوہر اپنے رشتے کو مجبوری اور احسان کا نام دیتا۔میں کمزور نہیں تھی حمنہ مجھے کمزور حالات نے اور میری اولاد نے بنایا۔'


فاطمہ بیگم اتنا کہہ کے وہاں سے چلی گئیں۔حمنہ ان کی بات سمجھی تو نہیں تھی لیکن اپنی باتوں پر اسے بہت زیادہ پچھتاوا ہو رہا تھا۔بہت سوچنے کے بعد وہ باکس کھول کے اپنے عروسی جوڑے کو دیکھنے لگی ۔


وہ آف وائٹ کلر کا لباس بلاشب بہت ذیادہ خوبصورت تھا لیکن حمنہ کو اپنے لیئے کفن کے مترادف معلوم ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان ڈرتے ہوئے قدم اٹھاتی گھر میں داخل ہوئی۔اس کی نظر سامنے موجود عودت پر گئی جو عمر کے اس دور میں بھی بہت سٹائلش تھی۔


' اسلام و علیکم'


جانان نے مسکرا کے کہا تو وہ ہاتھ میں موجود کتاب سے دھیان ہٹا کے اسے دیکھنے لگیں۔


'تو تم ہو ہو وہ لڑکی جس کا نکاح بچن میں حسن نے شایان سے کیا تھا؟'


وہ جانان کی سلام کا جواب دیے بغیر بولیں۔جانان نے ہاں میں سر ہلایا۔


'شکل سے تو تم اتنی پاگل بھی نہیں لگتی جتنی ہو۔'

جانان حیرت سے ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔

'پاگل بھی ہو اور بے شرم بھی ۔اگر ہم رخصتی کے لیئے نہیں آئے تو تم خود منہ اٹھا کے آ گئی واہ ۔تمہیں کیا لگا کہ بچپن میں جوڑے ہوئے رشتے کی کوئی اہمیت ہوتی ہے؟وہ رشتہ ایک بچپنے سے بڑھ کے کچھ نہیں ہوتا بے وقوف لڑکی۔'

جانان مجرم کی طرح سر جھکائے ان کی باتیں سن رہی تھی اور اپنے آنسو روکنے کی مکمل کوشش کرتی رہی۔ جانان کی یہ حالت دیکھ کے وہ خاتون اپنی نوکرانی کو بلانے لگیں۔

'جاؤ میرے لاکر میں ایک ریڈ فائل ہے لے کر آؤ۔'

نوکرانی ان سے چابیاں لے کر چلی گئی اور کچھ دیر بعد ایک فائل لا کر بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں دی جسے انہوں نے جانان کے قدموں میں پھینکا۔

'لو پکڑو اسے اور جان لو کے کیا اہمیت ہے تمہاری میرے بیٹے کی زندگی میں۔'

جانان نے وہ فائل اٹھا کر کھول کے دیکھا تو بہت دیر سے روکے ہوئے آنسو ٹوٹ کر ان کاغذات پر گرے۔وہ اسکا طلاق نامہ تھا جس پر شایان شاہ کے دستخط بھی موجود تھے۔

کیا ایسے شخص کے لیئے وہ یہاں آئی تھی ۔اس شخص کو تو اس کی بہن نے اسکا محافظ بولا تھا۔اسکی ماں نے اسے بتایا تھا کہ یہ رشتہ دنیا کے تمام رشتوں پر بھاری ہے سب سے ذیادہ مظبوط رشتہ۔تو پھر ایک سائن سے کیسے ختم ہو گیا۔جانان روتے ہوئے ان کاغذات کو دیکھ رہی تھی۔پھر آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔

'نن۔۔۔۔۔۔نہیں یہ جھوٹ ہے ۔مم۔۔۔۔۔۔مجھے شایان جی سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ یوں ہی ہمارا رشتہ ختم نہیں کر سکتے۔میں ان سے ملے بغیر نہیں مانوں گی کسی بھی فیصلے کو'

جانان نے بہت ہمت کے ساتھ کہا۔

'ٹھیک ہے تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دیتی ہوں ۔بلکہ۔۔۔۔۔۔۔'

'لو شایان بھی آ گیا ۔'

انہوں نے سیڑھیوں کی طرف دیکھ کر کہا تو جانان بھی وہیں دیکھنے لگی۔شایان چھوٹے بالوں ،داڑھی سے پاک چہرے اور مغرور نکوش کے ساتھ کافی خوب رو تھا۔شایان پر نظر پڑتے ہی وہ بھاگ کر اس کے پاس گئی۔جو حیرت اور اجنبیت سے اسے دیکھ رہا تھا ۔جانان کا خوف سچ ثابت ہوا تھا شایان نے اسے نہیں پہچانا تھا۔

'شایان دیکھو اس بے وقوف لڑکی کو اور بتاؤ اسے کے یہ پیپرز تم نے سائن کیے ہیں اور اسے طلاق دے چکے ہو۔'

فریحہ بیگم کی آواز پر اس نے حیرت سے انہیں دیکھا اور پھر معاملے کو سمجھتے ہی جانان کو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا۔

'ہاں جانِ من مام سچ کہہ رہی ہیں ۔طلاق دے چکا ہوں میں تمہیں لیکن اب افسوس ہو رہا ہے۔اگر پہلے تمہیں دیکھ لیتا تو اتنی جلدی نہ کرتا۔'

شایان غلیظ نظروں سے جانان کو دیکھتے ہوئے بولا۔جانان کو اپنے اندر سب بکھرتا ہوا محسوس ہوا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ارد گرد کیا و رہا ہے۔اسکے کانوں میں بس شایان کے الفاظ گونج رہے تھے۔

'سن لیا ہو گیا سکون ۔نکلو اب یہاں سے ۔آسیہ سامان پکڑو اس کا اور نکالو اس پاگل لڑکی کو یہاں سے۔'

فریحہ بیگم کے کہتے ہی ملازمہ نے جانان کا بازو پکڑا اور اسے ایک بے جان گڑیا کی طرح کھینچتے ہوئے گھر سے باہر سڑک پر پھینک دیا۔بہت دیر جانان وہیں بیٹھ کے روتی رہی پھر اپنے سامان اور فائل کو ہاتھ میں پکڑے چلنے لگی۔وہ کہاں جا رہی تھی وہ بھی نہیں جانتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دارا کو آخر کار بہت محنت کے بعد ملک کے اڈے کا پتہ چلا گیا تھا اس کے آدمیوں نے دارا سے اس کے سارے ہتھیار لے کر اسے اندر ملک کے پاس جانے کی اجازت دی تھی۔دارا نے انہیں بتایا تھا کہ ملک کے لیئے اس کے پاس ایک خفیہ خبر ہے جس کو جاننے کے لیئے ملک نے دارا کو پاس بلایا۔


'ہاں بول اب کون ہے تو اور کیا خبر ہے؟'


ملک نے دارا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے پوچھا ۔


' خبر بادشاہ کے بارے میں ہے اس کا وقت آ گیا ہے اور اس کی موت دارا کے ہاتھ سے لکھی ہے ۔جس دارا کو ابھی تو اسکا پتہ بتائے گا۔'


اس بات پر ملک نے دارا کو دیکھا۔


'تو ہے دارا ۔تجھے کیا لگتا ہے تو نے کہا اور میں نے تجھے بادشاہ کا پتا بتا دیا۔'


ملک نے قہقہہ لگایا اور اپنی بندوق اٹھا کر دارا پر گولی چلائی جسے دارا ایک طرف ہو کر بچ گیا۔اسے سے پہلے کہ ملک کو کچھ سمجھ آتا دارا بجلی کی رفتار سے ملک کے پاس گیا اور اپنے گلے سے چھین کھینچتے ہوئے اسے ملک کے گلے میں لپیٹ دی۔

دارا کا ساتھی دروازے کے پاس کھڑا تھا ۔ملک کے آدمی گولی کی آواز سن کر کمرے کی طرف لپکے تھے۔دارا نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا تو اس نے اپنی آستین میں چھپی ایک چھوٹی سی پسٹل نکالی اور بہت تیزی سے اس کے آدمیوں کو کوئی موقع دیئے بغیر گولیاں مار کے ختم کر دیا۔


'ایک سیکنڈ میں تیری گردن توڑ کے تجھے بے جان کر سکتا ہوں۔اس سے پہلے مجھے بادشاہ کا پتا بتا۔'


' مم۔۔۔۔مر جاؤں گا لیکن نہیں بب۔۔۔۔۔بتاؤں گا تجھے۔'


'ایسا کیا' دارا کے چہرے کے تاثرات ہو گئے اور اس نے چین کی پکڑ مظبوط کی ۔


' بب۔۔۔۔بادشاہ کے ہ۔۔۔۔ہاتھوں مرے گگگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گا تو۔'


دارا مسکرایا ۔


'لیکن پہلے تو اپنی فکر کر ۔'


'مم۔۔۔۔۔۔مار دے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے کام نن۔۔۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا۔'


دارا نے چین کی پکڑ اور مظبوط کر دی لیکن اس کی سانسیں بند ہونے سے پہلے ڈھیلی کر دی ۔تین چار بار یہی عمل دوہرانے سے بھے وہ کچھ نا بولا تو دارا نے اسے چھوڑ دیا اور پھر اپنے ساتھی سے بندوق لے کر ملک کے منہ میں رکھ دی۔ملک کی آنکھیں اب خوف سے باہر آ گئی تھیں ۔


'تیرے جیسوں کی ضرورت بھی نہیں دارا کو۔'


دارا نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ پسٹل کا رخ اسکی کھوپڑی کی طرف کیا اور گولی چلا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح سے موسم صاف تھا مگر شام کے اس وقت بارش ہو رہی تھی۔اکتوبر میں ہونے والی اس باش نے موسم کو اور ٹھنڈا کر دیا ۔دراب سعد کے ساتھ ٹیکسی میں بس سٹیشن کی طرف جا رہے تھے۔کہنے کو دراب کا دھیان باہر کشمیر کے خوبصورت نظاروں پر تھا لیکن اس کے خیالات کا مرکز جانان تھی۔وہ تو اس کے ساتھ بس ایک مسافر تھی جن کے راستے الگ تھے تو ان کی ایک منزل ایک ہو ہی نہیں سکتی۔وہ کسی اور کا نصیب ہے۔دراب اپنے دل کو سمجھا رہا تھا مگر دل بھی اس کی مخالفت کرنے پر آمادہ تھا۔


'گاڑی روکو!'


سعد کے کہنے پے دراب نے سعد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو سعد نے کھڑکی سے باہر اشارہ کیا۔جہاں جانان ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔دراب اور سعد گاڑی سے نکل کر اس کے پاس گئے ۔دراب جانان کے قریب ہوا تو اس کی نظر جانان کے بھیگے ہوئے اور سردی سے کپکپاتے وجود پر پڑی ۔دراب گھٹنوں کے بل جانان کے سامنے بیٹھ گیا۔


'جانان'


دراب کی آواز سنتے ہی جانان نے ایک نظر دراب کو دیکھا اور پھر اس کے سینے سے لگ کر زارو قطار رونے لگی۔دراب نے پریشانی سے سعد کو دیکھا جو خود حیرت سے جانان کو دیکھنے میں مصروف تھا۔


'جانان کیا ہوا؟'


دراب نے اسے کندھوں سے پکڑ کے خود سے جدا کرتے ہوئے انتہائی نرمی سے پوچھا۔


'وو۔۔۔وہ کہتی ہیں کک۔۔۔۔کہ میں پپ۔۔۔۔پاگل ہوں۔۔۔۔۔ ب۔۔۔۔۔۔۔بے حیا ہوں۔'


جانان بہت ذیادہ رونے کی وجہ سے ہچکیاں لیتے ہوئے بول رہی تھی۔ پھر دراب کو دیکھ کر آنسو پونچھ کر بولنے لگی۔


'آپ کو پتا ہے انہوں نے مجھے یہ سب کہا لیکن مجھے برا نہیں لگا لیکن جو شایان نے کہا اور کیا نا اس کی وجہ سے میرا سب کچھ مٹ گیا سب کچھ ختم ہو گیا۔'


'کیا کیا شایان نے؟


دراب نے حیرت اور غصے سے پوچھا تو جانان نے ہاتھ میں پکڑی فائل اس کے آگے کی جسے دیکھتے ہی دراب کا غصہ اور ذیادہ بڑھ گیا۔سعد نے اس کے ہاتھ سے فائل لے لی اور اسے دیکھ کر سعد کا بھی دراب والا حال ہوا تھا ۔دراب نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں اور غصے سے اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔


'نہیں دراب۔ابھی نہیں۔' سعد کے الفاظ نے اسکے قدم روک دیے ۔دراب نے دانت پیستے ہوئے اپنا غصہ ضبط کرنے ک ی کوشش کی ورنہ اسکا دل کر رہا تھا کہ اس شخص کا منہ توڑ دے۔دراب واپس جانان کے پاس آیا اور اسے کندھوں سے پکڑ کے اپنے سامنے کھڑا کیا۔


' انہوں نے ایسا کیوں کیا؟انہوں نے ہی تو مجھ سے وعدہ مانگا تھا پھر ایسا کیوں کیا؟'


جانان روتے ہوئے اپنی میں دنیا جہان کی مایوسی لیئے پوچھ رہی تھی۔


'مجھے تو لگا تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوں گے مجھے یاد کرتے یوں گے اور انہوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


جانان بہت ذیادہ رو رہی تھی اور اس کا ہر آنسو دراب کے دل پر گر رہا تھا۔جانان نے غصے سے اپنے گلے میں موجود لاکٹ کو کھینچا اور اسے بے دردی سے سڑک پر پھینک دیا۔


'نہیں چاہیے ان کی دی ہوئی کوئی چیز مجھے۔ خدا کرے وہ کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


جانان نے اپنے آپ کو بد دعا دینے سے روکا تھا لیکن دراب چاہتا تھا کہ وہ اس شخص کو ایسی بد دعا دے کے وہ جی نہ پائے۔دراب نے جانان کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما

اور اپنے انگوٹھے سے اس کے آنسو پونچھ دیے۔


'اب ایک بھی آنسو مت بہانا تم ۔وہ ان آنسوؤں کے قابل نہیں ہے۔ کوئی بھی ان کے قابل نہیں۔ جانان تم ایک شخص کی وجہ سے نہیں ٹوٹ سکتی کیونکہ تم کمزور نہیں ہو۔جو اس نے کیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ تمہارے قابل نہیں اور جو تمہارے قابل ہی نہ ہو اسکے لیئے دکھ کیسا۔جو شخص تمہارے قابل ہو گا اسے نہ تو قسمت تم سے دور ہونے دے گی اور نہ وہ خود تمہیں دور کر سکے گا کیونکہ تمہاری دوری کے خیال سے ہی اس کی سانسیں تھم جائیں گی۔'


دراب نے پھر سے اس کے آنسو پونچھے اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔


'اب ایک بھی قیمتی آنسو اس کے لیئے ضائع نہیں کرنا اور چلو کسی ہوٹل میں جا کے تمہارے کپڑے بدلواتے ہیں ورنہ بیمار پڑھ جاو گی اور پھر سچ میں کھانسنے لگو گی۔'


دراب نے اس کو مسکرا کے کہا تو اپنے آنسو صاف کرتی دراب کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔سعد اس کا سامان پکڑ کے ٹیکسی کی طرف چل دیا۔


'مجھے میری آپی سے بات کرنی ہے۔'


جانان نے فرمائش کی تو دراب مسکرانے لگا اور ٹیکسی کا دروازہ اس کے لیئے کھولا۔


'ضرور'

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بادشاہ غصہ سے پاگل ہو رہا تھا ۔بہرام نے اسے بتایا تھا کہ جس آدمی کو اس نے دارا کا پتا لگانے کے لیئے بھیجا تھا اس نے ملک کے کمرے میں ایک خفیہ کیمرہ لگا کے اس میں دارا کا چہرہ اور آواز ریکارڈ کر لی تھی۔اس کے زریعے بادشاہ اپنے ہر آدمی کو دارا کے بارے میں بتا سکتا تھا اور پھر دارا کا راز سب کے سامنے کھل جاتا تو وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔دارا اسکی پکڑ میں ہوتا۔بادشاہ چاہتا تو ملک کے اڈے پر اسے مروا سکتا تھا لیکن اسے دارا زندہ چاہیے تھا۔


اب بادشاہ کا آدمی شان اور دارا کے خلاف وہ ثبوت کشمیر میں پاک آرمی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔دارا کا تو اب بھی پاک آرمی سے بچنا نا ممکن تھا لیکن بادشاہ کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ دارا کو وہ اپنے ہاتھوں سے نہیں مار سکے گا۔بادشاہ نے غصے سے اپنا ہاتھ میز پر مارا۔


'دارا ۔۔۔اااا'


بادشاہ غصے سے چلایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ اپنے شادی کے جوڑے میں خود کو دیکھ رہی تھی جس میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔لیکن پہلے اسے وہ جوڑا جتنا اچھا لگا تھا اب اتنا ہی برا لگ رہا تھا کیونکہ اس جوڑے میں حمنہ کی کمر برہنہ ہو رہی تھی ۔اس قسم کے لباس نے حمنہ کے دل میں عثمان کا مقام اور زیادہ گرا دیا ۔


اپنی کمر کو کور کرنے کے لیئے اس نے پارلر والی سے اپنے بال کھلے رکھنے کو کہا تھا تاکہ وہ اس کی کمر کو ڈھانپ دیں جو پارلر والی کو پسند تو نہیں آیا تھا مگر وہ حمنہ کو مجبور نہیں کر سکی۔


حمنہ اپنی آنے والی زندگی سے ڈر تو رہی تھی مگر اس نے خود سے ہمت کرنے کا وعدہ کیا تھا۔چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ ملک عثمان کے آگے نہیں جھکے گی وہ اپنی ماں کی طرح کمزور ہو کے اپنے آپ کو اس کا کھلونا نہیں بننے دے گی۔ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسکا موبائیل بجنے لگا۔


انجانے نمبر کو دیکھتے ہی اسے جانان کا خیال آیا تو جلدی سے کال پک کر کے موبائیل کان سے لگایا۔


'ہیلو'


'آ آ ۔۔۔۔آپی۔'


جانان کی آواز سنائی دیتے ہی حمنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔


'جانو کیسی ہو اور اتنے دن بعد فون کیا کہاں تھی تم؟ تم ٹھیک ہو نا اور شایان بھائی کیسے ہیں ؟'


حمنہ نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے۔


'اور جانان جو کب سے رونا ضبط کیے ہوئی تھی حمنہ کی آواز سنتے ہی پھر سے رونے لگی۔


' آپی ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔'


اس سے پہلے کہ جانان کچھ کہتی دراب نے اس کے ہاتھ سے فون لے لیا اور اپنے کان کے ساتھ لگایا۔جبکہ جانان کے رونے کی وجہ سے حمنہ بہت پریشان ہو گئی اور اس سے پکارنے لگی۔


'جانو کیاہوا ہے؟'


جانان کا یہ نام سن کے دراب کے لب مسکرائے۔


'کچھ نہیں ہوا وہ بس آپ کو بہت یاد کر رہی ہے اس لیے دکھی ہے بہت۔'

حمنہ انجانے آدمی کی آواز سنتے ہی اسے شایان سمجھ بیٹھی۔


'شایان بھائی آپ پلیز اس کا بہت خیال رکھئے گا جانو نادان ہے مگر وہ دل کی بہت ذیادہ اچھی ہے پلیز اسے کبھی دکھی مت کریئے گا۔۔۔۔۔۔'


'کس سے بات کر رہی ہو۔۔؟'


حمنہ نے دروازے میں کھڑے ہوئے اپنے باپ کو دیکھا تو فوراً کال بند کر دی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔


'کسی سے نہیں۔' سلمان صاحب نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا لیکن خاموش رہے تھے۔


'چلو انتظار ہو رہا ہے تمہارا۔'


حمنہ نے ایک گہرا سانس لیا اور سلمان صاحب کے ساتھ چل دی ۔اس کی نئی زندگی اس کے انتظار میں تھی لیکن اب وہ جانان کے حوالے سے مطمئن تھی کیونکہ وہ شایان کے پاس پہنچ گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان اب غصے سے دراب کو دیکھ رہی تھی ۔


'آپ نے مجھے آپی سے بات بھی نہیں کرنے دی ۔'جانان شکوہ کناں آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔


'اگر تم انہیں اس طرح سے سب کچھ بتا دیتی تو وہ کتنا پریشان ہو جاتی۔جب ان کے پاس جاؤ گی تب سب کچھ بتانا اس طرح انہیں حوصلہ تو ہو گا کہ تم ان کے سامنے بلکل سلامت ہو۔'


دراب نے اسے سمجھایا تو وہ بھی ہاں میں سر ہلانے لگی۔


آپ کا بہت شکریہ آپ نے میرے لیئے بہت کچھ کیا۔اگر مجھے موقع ملا تو آپ کے لیئے بھی کچھ نہ کچھ ضرور کروں گی۔'

دراب اس کی بات پر مسکرایا اور اسے ہوٹل چلنے کا کہا۔ جہاں ان کے پہنچنے سے پہلے سعد کھانا منگوا چکا تھا۔

' لو گڑیا یہ ڈش ٹرائی کرو یہاں کی سب سے فیمس ڈش ہے۔'

جانان نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔سعد اور دراب اسکا دل بہلانے کی مکمل کوشش کر رہے تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ جانان ایسا افسردہ منہ بنا کر رہے۔

'تمہیں ایک بات بتاؤں گڑیا دراب نے بارہ سال کی عمر میں ایک بڑے آدمی سے لڑائی ڈال لی تھی اور اسے ہرایا بھی تھا جس کی وجہ سے وہ آدمی بہت شرمندہ ہوا۔۔۔۔۔۔' دراب نے اس واقعے پر سعد کو گھور کر دیکھا لیکن وہ چپ نہیں رہا۔

'پھر ۔' جانان نے دلچسپی سے پوچھا۔

'اگلے اسے سکول جا کر پتہ چلا کہ وہ آدمی تو اسکا نیا ٹیچر تھا اور پھر وہ روزانہ دراب کو کلاس کے سامنے ڈنڈے لگاتا تھا وہ بھی پیٹھ پر۔'

جہاں جانان اور سعد ہنس رہے تھے وہیں دراب منہ بنا کر دونوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

'چپ چاپ کھانا کھاؤ۔' دراب کے روب جمانے کو کوشش میں وہ دونوں اور ہنسنے لگے تھے۔جبکہ دراب کے لیئے جانان کے چہرے پر آنے والی مسکان بہت قیمتی تھی۔جانان نے کھانا کھاتے ہوئے دراب کی طرف دیکھا اور پھر سے کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکاح کی رسم ادا ہو چکی تھی۔ حمنہ ہمیشہ کے لیئے عثمان ملک کے نام لکھ دی گئی۔سب لوگ انہیں مبارکباد دے رہے تھے جس سے حمنہ کو کوئی فرق نہیں پڑھ رہا تھا وہ بت بنی عثمان کے ساتھ کھڑی تھی۔

'سلمان صاحب میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ گھر لے کے جانا چاہوں گا۔'

عثمان کی اس بات پر سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔

'لیکن آپ نے تو ابھی صرف نکاح کا بولا تھا رخصتی تو بعد میں ہونی تھی۔'

سلمان صاحب بھی اس کی بات پر حیران ہوئے۔

'اب جب نکاح ہو گیا تو انتظار کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔حمنہ میری بیوی ہے اور میں اسے جب چاہوں اپنے ساتھ لے کر جا سکتا ہوں ۔ہم الیکشن کے بعد ولیمہ کر کے یہ شادی اناؤنس کر دیں گے۔'

عثمان نے حمنہ پر پورا حق جتایا تھا۔

'ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔فاطمہ حمنہ کی رخصتی کی تیاری کرو۔'

'لیکن۔۔۔۔۔۔' فاطمہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا تھا۔

'جو کہا ہے چپ چاپ کرو۔'سلمان صاحب نے انہیں غصے سے کہا تو خاموشی سے حمنہ کا سامان پیک کروانے چلی گئیں۔

حمنہ یہ تو جانتی تھی کہ اس کے باپ کو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کے ساتھ کسی چیز کی طرح کا سلوک اسے سب سے بدگمان کر گیا اسی لیئے گھر سے نکلتے وقت وہ زرش کے علاوہ کسی سے نہیں ملی تھی اور ایک دوسرے کے گلے لگ کے وہ خوب روئی تھیں۔

عثمان ملک لاؤنج میں بیٹھا شراب پینے میں مصروف تھا ۔حمنہ کو ملازمہ کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں بھیج چکا تھا۔حمنہ کا خیال آتے ہی اس کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا ۔اسے لگا تھا کہ جانان جیسی معصوم لڑکی کو حاصل کرنا دلچسپ ہو گا مگر جو سکون وہ حمنہ کو حاصل کر کے محسوس کر رہا تھا اس کی توقع نہیں تھی اسے۔وہ حمنہ کو جھکانا چاہتا تھا اس کے غرور کو پاش پاش کرنا چاہتا تھا۔


اسنے گلاس میں موجود شراب کو ایک ہی گھونٹ میں پیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔جہاں اس کی بیوی اسکا انتظار کر رہی تھی۔


لیکن یہ خوش فہمی اس کی کمرے میں داخل ہوتے ہی دور ہو گئی۔حمنہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا زیور اتار رہی تھی ۔عثمان کی طرف اس نے دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ابھی تک وہ نکاح والے لباس میں موجود تھی لیکن دوپٹہ اس نے سر سے ہٹا کر کندھوں پر پھیلایا ہوا تھا اور اس کے لمبے سیاہ بال کمر پر پھیلے ہوئے تھے۔


عثمان کے قدم بے ساختہ طور پر اس کی طرف اٹھے۔حمنہ نے ایک نظر عثمان کو دیکھا اور اپنے کپڑے پکڑ کے واش روم جانے لگی۔عثمان کو اس کی یہ حرکت ناگوار گزری تو اس نے آگے بڑھ کے حمنہ کا ہاتھ تھام لیا۔


'کہاں جا رہی ہو شاید تمہیں پتا نہیں کہ اچھی بیویاں شوہر کا انتظار کرتی ہیں۔'


' یہ تمہارا خواب ہی رہے گا کہ میں تمہارا انتظار کروں اچھی طرح سے سمجھتی ہوں میں کہ اپنی انا کی تسکین کے لیئے تم نے مجھ سے شادی کی ہے۔لیکن یہ مت سمجھنا کے باقی لڑکیوں کی طرح تمہاری غلام بن کے رہوں گی۔'


حمنہ بہت ہمت کر کے بول رہی تھی جبکہ اس کی ان باتوں پر عثمان کے لب مسکرائے اور اس نے حمنہ کو اپنی طرف کھینچا تو وہ کسی ٹوٹی ہوئی ڈالی کی طرح اس کے سینے سے آلگی۔


'میری چوزی تم تو بہت بہادر ہو ۔


اتنا کہہ کے عثمان نے ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھا اور دوسرے سے اس کا دوپٹہ اتار کے سائیڈ پر پھینکا۔عثمان کی اس حرکت سے حمنہ اندر تک کانپ گئی اور اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔


اس نے خود کو پھر سے ہمت دی کہ وہ کمزور نہیں پڑے گی ۔عثمان اس کی طرف جھکنے لگا تو حمنہ نے اپنی پوری طاقت لگا کے عثمان کو دھکا دیا اور وہ بھی نشے میں ہونے کی وجہ سے لڑکھڑا کے پیچھے ہوا۔حمنہ نے انتہائ غصے سے عثمان کو دیکھا۔


'مرد ہو طاقت ور ہو تو کچھ بھی کرو گے ۔ آئندہ میرے قریب آنے کی ہمت نہ کرنا۔'


حمنہ بہادر ضرور تھی مگر تھی تو لڑکی، مرد سے کمزور اس لیئے وہ اپنے جسم کی کپکپاہٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔عثمان غصے سے اس کے پاس آیا اور اس کے چہرے کو سختی سے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔


'بیوی ہو تم میری ،حق رکھتا ہوں تم پر جو چاہے کر سکتا ہوں تمہارے ساتھ اور کوئی بھی نہیں روک سکتا مجھے تم بھی نہیں۔'


عثمان نے دانت پیستے ہوئے اسے بولا۔حمنہ پہلے بہت ڈر گئی مگر پھر ہمت کر کے ہاتھ اس کی کلائی پر رکھ کر اپنے منہ سے اسکا ہاتھ ہٹایا۔


'ضرور کر سکتے ہو لیکن حق کو پانے اور حاصل کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے تم اپنا حق حاصل تو کر لو گے لیکن میری مرضی کے بغیر پا نہیں سکتے اور اگر تمہیں لگتا ہے کہ مجھے زبردستی حاصل کر کے توڑ دو کے تو تمہاری خوش فہمی ہے یہ۔چاہے تو کوشش کر لو۔'


حمنہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہادری سے بول رہی تھی ۔عثمان کچھ دیر اسکی آنکھوں میں جھانکتا رہا اور پھر اسے چھوڑ دیا۔حمنہ نے اپنے کپڑے پکڑے اور واش روم میں چلی گئی ۔عثمان کچھ دیر کھڑا واش روم کے دروازے کو دیکھتا رہا اور پھر غصے سے کمرے سے نکل گیا ۔۔آج کی جنگ حمنہ جیت گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب نے سعد کو معملات کی خبر لینے بھیجا تھا۔ رات کے بارہ بج گئے تھے اور اس کا کچھ اتا پتا نہیں تھا ۔دراب کو پریشانی کے ساتھ غصہ بھی آرہا تھا۔ہوٹل میں اس نے دو کمرے بک کرائے تھے اور اسے جانان کو اپنی بیوی بتانا پڑا نہیں تو کمرہ ملنا مشکل ہو جاتا۔لیکن کھانے کے بعد اس نے جانان کو ایک کمرے میں بھیج دیا اور خود دوسرے کمرے میں سعد کے ساتھ رکنے کا اردہ کیا۔


دراب سعد کے بارے سوچ رہا تھا جب اس کے کمرے کا دروازہ بجا۔دراب نے دروازہ کھولا تو سامنے جانان کھڑی تھی ،ابھی آدھے گھنٹے پہلے وہ یہاں سے گئی تھی۔تبھی جانان نے بولنا شروع کیا۔


'وہ میرا کمرہ بلکل اچھا نہیں ہے۔وہ اتنا بڑا ہے مجھے وہاں اکیلے ڈر لگتاہے۔'


'کچھ نہیں ہے جانان جاؤ اور آرام کرو۔'


دراب بے زاری سے بولا ۔اسے کمزوری سے چڑ تھی اود جانان ہر دوسری چیز سے ڈرتی تھی ۔لیکن وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی،دراب نے سوالیہ نظروں سے اس کا چہرہ دیکھا۔


'وہ میں نے آپی کے ساتھ مووی دیکھی تھی جس میں وہ لوگ ایسے ہی ہوٹل میں رکتے ہیں مگر وہاں بھوت ہوتا ہے جو سب کو مار دیتا ہے ۔تب آپی نے بتایا تھا کہ اگر وہ سب اکیلے اکیلے نہیں سوتے تو آج زندہ ہوتے۔اگر اس ہوٹل میں بھی بھوت ہوا تو؟'


جانان کی بات پر دراب کو سچ میں اس کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا۔


'ایسا صرف فلموں میں ہوتا ہے، کچھ نہیں ہے یہاں جاؤ اپنے کمرے میں۔'


'جاؤ!'


دراب کے کہنے پر بھی جانان وہیں کھڑی رہی۔تو دراب نے اسے سختی سے جانے کا بولا جانان جانے تو لگی مگر اس کے پلٹنے سے پہلے دراب اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ چکا تھا اور جانان کا یہ ہتھیار دراب کو ہمیشہ ہی زیر کر جاتا تھا ۔


'رکو'


جانان نے دراب کے بلانے پر فوراً اسے پلٹ کے دیکھا ۔دراب نے اپنے کمرے کی طرف اشارہ کیا ۔بس ایک اشارے کی دیر تھی جانان جلدی سے اس کے کمرے میں چلی گئی۔دراب نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا تو جانان نے بیڈ میں گھس کر کمبل اوڑ لیا۔دراب خاموشی سے کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ گیا۔


کمرے میں کافی دیر خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو جانان کی آواز نے توڑا ۔


'آپ کو پتا ہے،آپ بھی اچھے ہیں ۔۔۔۔۔پر سعد بھائی سے کم۔'


دراب نے جانان کو دیکھا جو اب سونے لگی تھی اور سارا وقت وہ دراب کی نظروں کے حصار میں رہی۔


دراب نے ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں جب کمرے کا دروازہ بجنے لگا ،دراب جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا۔باہر سعد کو دیکھ کے فوراً دروازہ بند کر کے اس کے پاس گیا۔


'بادشاہ نے ملک کو چارہ بنایا تھا ۔اس کے آدمی نے کمرے میں خفیہ کمرہ لگا کر ہماری صورتیں بادشاہ تک پہنچانے کا سوچا۔لیکن وہ آدمی کشمیر سے نکلنے سے پہلے پاک فوج کے ہاتھ لگ گیا ۔پاک فوج دارا کے بارے میں جان گئی ہے ۔'


سعد خاموش ہوا تو دراب نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


'وجدان کل صبح کے بارہ بجے اسلام آباد ہمارا انتظار کرے گا ہمیں وہاں پہنچنا ہو گا۔دراب اب ہم پاک فوج سے کیسے بچ کر جائیں گے؟'


سعد نے دراب کے بے فکر چہرے کو دیکھا تو اس سے پوچھنے لگا کیونکہ مسلئہ اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا۔


'جانتا تھا میں بادشاہ کے اس آدمی اور اس کے خفیہ کیمرے کے بارے میں۔مجھے یہ بھی پتا تھا کہ ملک منہ نہیں کھولے گا کیونکہ بادشاہ کا سب سے خاص آدمی اتنا بھی کمزور نہیں ہو سکتا۔اس لیئے میں چاہتا تھا کہ بادشاہ ہمارے بارے میں جانے اور خود ہم تک پہنچے۔یہ بادشاہ کا خواب ہی رہے گا کہ وہ دارا کو اپنے بچکانا منصوبوں سے پھنسا لے گا۔لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ بیوقوف آدمی آرمی کے ہاتھ لگ جائے گا۔' دراب نے سنجیدگی سے اسے بتایا۔


' اب؟'


سعد نے آگے کا پلان جاننا چاہا۔

'ہم کل جانان کو اسلام آباد کے ریلوے سٹیشن سے لاہور کی ٹرین میں بیٹھا دیں گے اور خود وجدان کے ساتھ جائیں گے۔ ۔' دراب کی بات سے سعد کا پارہ ہائی ہو گیا۔

'تم اسے واپس بھیج رہے ہو؟تم اندھے ہو دراب یا جان بوجھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رہے ہو۔' نا چاہتے ہوئے بھی سعد کی آواز بلند ہوئی۔

'کہنا کیا چاہتے ہو؟' دراب کے چہرے پر کوئی خاص تاثر نہیں آیا تھ

'محبت کرتے ہو تم اس سے دراب تمہارے ہر عمل سے اسکے لیئے پیار چھلکتا ہے جو تم دونوں بے وقوفوں کو نظر نہیں آ رہا۔' سعد وہاں سے جانے لگا ۔

'اسے دراب ایک اچھا انسان لگتا ہے سعد لیکن دارا نہیں۔دارا کسی کو اچھا نہیں لگتا اور یہ تم بھی جانتے ہو کہ دارا کے ساتھ کسی کا کوئی مستقبل نہیں ۔میں وہی کر رہا ہوں جو بہتر ہے۔' دراب نے اسے بتانا ضروری سمجھا تھا جبکہ اس بات پر سعد مڑ کر اسکے پاس آیا۔

'رہ لو گے اس کے بغیر؟' سعد کے اس سوال پر دراب بہت دیر سوچتا رہا اور پھر بولا۔

'ہاں۔' سعد کو یہ بات پسند نہیں آیا تھا مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔اس لیئے اس نے اس بات کو چھوڑا اور دوسرے معاملے کی طرف آیا۔

'اور پاک فوج کا کیا؟ان سے بچ کے کیسے جائیں گے؟'

'فکر مت کرو اس وڈیو میں صرف ہمارا حلیہ آیا تھا چہرہ نہیں ہمیں بس اپنا حلیہ بدلنا ہوگا۔تم کل وجدان کو ریلوے اسٹیشن پر ملنے کی خبر دینا ابھی تم جا کے آرام کرو۔'

سعد بھی اب مطمئن ہو گیا تھا ۔دراب کی آخری بات پر اس نے حیرت سے دراب کو دیکھا۔

'جانان تمہارے کمرے میں ہے؟'

'ہاں اس کے مطابق کمرے میں بھوت ہے ،اکیلے نہیں سوئے گی وہاں۔'

دراب کی بات پر سعد قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔

'پھر تو مجھے بھی نہیں سونا چاہیے زندگی تو مجھے بھی پیاری ہے۔لیکن اگر بھوت کی جگہ چڑیل ہوتی تو سوچ بھی سکتا تھا۔'

سعد نے شرارت سے کہا تو دراب اسے گھورنے لگا۔جسے سعد نظرانداز کرتا ہنستے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شان پاک فوج سے بہت مشکل سے بچ کے بھاگا تھا۔لیکن دارا کے خلاف وہ وڈیو پاک فوج سے حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ویسے بھی دارا اس کی سوچ سے زیادہ چالاک نکلا تھا۔اس نے اپنا چہرہ ایک بار بھی وڈیو میں آنے نہیں دیا۔

لیکن اس نے دارا کو دیکھا تھا اور وہ شائید واحد ایسا آدمی تھا جو دارا کو پہچاننے کے بعد زندہ بچا تھا۔وہ جانتا تھا کہ بادشاہ کے پاس اگر وہ خالی ہاتھ گیا تو اس کے ساتھ بہت برا ہو گا۔

لیکن وہ بادشاہ کے پاس خالی ہاتھ نہیں جائے گا وہ دارا کو ختم کرے گا اور اس کی موت کی خبر سے بادشاہ کو خوش کرے گا۔اس نے سوچ لیا کہ دارا اب اس کے ہاتھوں سے ہی مرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان کی آنکھ صبح فجر کے وقت کھلی ۔حمنہ نماز باقاعدگی سے پڑتی تھی اور اس نے جانان کو بھی اپنے ساتھ عادت ڈالی ہوئی تھی۔ جانان وضو کی نیت سے اٹھی تو اس کی نظر صوفے پر سوئے ہوئے دراب پر پڑی۔جو اپنی چادر کو اپنے گرد لپیٹے ہوئے سویا تھا۔جانان کو خود پر غصہ آیا ،جس کی وجہ سے دراب بے سکون ہوا تھا۔جانان ایک آخری نظر دراب پر ڈال کے وضو کرنے چلی گئی۔


جانان اپنا غم اور خود پے ڈھایا ستم بھولنے کی مکمل کوشش کر رہی تھی لیکن اب اپنے رب کے حضور جھکتے ہی اسے سب یاد آ گیا۔دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا مانگے ۔اس کے پاس تو مانگنے کے لیئے کچھ نہیں بچا تھا اور یہ خیال آتے ہی وہ پھر سے بری طرح رونا شروع ہو گئی۔


دراب کی آنکھ اس کے رونے کی آواز سے کھلی۔وہ اٹھ کے جانان کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔


'تمہیں کہا تھا نا کہ اس شخص کے لیئے آنسو نہیں بہانا وہ ان کے قابل نہیں ہے۔'


دراب کی بات پر جانان نے اور ذیادہ رونا شروع کر دیا۔


'امی نے بتایا تھا کہ میاں بیوی کی محبت صرف ایک دوسرے کے لیئے ہونی چاہئے۔میں تو ان کی بیوی تھی نا تو کیا انہیں مجھ سے محبت نہیں ہوئی تھی؟'


'کیا تمہیں اس سے محبت تھی؟'


دراب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا جس کا جواب جانان کو نہیں پتا تھا۔


'مجھے نہیں پتا کہ کسی سے محبت ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔'


جانان نے سر جھکا لیا تو دراب نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے انگلی رکھ کے اسکا رخ اپنی طرف کیا۔


'جس سے محبت ہوتی ہے اس سے بات کرنے کا دل کرتا ہے،اس سے دور جانے کا خیال ہی آپ کو ختم کر دیتا ہے ،اس کی وہ باتیں بھی اچھی لگتی ہیں جو آپ کو پسند نہیں اور اس کی ہر خامی بھی اس کی خوبی نظر آنے لگتی ہے۔ اب تم سوچ لو تمہیں اس سے محبت تھی کہ نہیں؟'


اتنا کہنے کے بعد دراب خود بھی اٹھ کر وضو کرنے چلا گیا۔جبکہ جانان اس کی بتائی باتوں کے بارے میں سوچنے لگی تو اس کی روح تک کانپ گئی کیونکہ یہ سب وہ دراب کے لیئے ہی تو محسوس کرتی تھی،لیکن محبت تو صرف اپنے شوہر سے ہوتی ہے اور کسی سے نہیں یہ ہی تو اس کی ماں نے اسے بتایا تھا۔


'اب اٹھو یہاں سے اس کمرے میں ایک ہی جائے نماز ہے۔'


دراب کی آواز پر وہ گھبرا کے اٹھی تھی ۔دراب اس کی حرکت پہ مسکراتا ہوا نماز ادا کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان صبح اٹھا تو وہ باہر لاؤنج میں صوفے پر سویا ہوا تھا۔کل رات کے واقعات یاد آتے ہی اس میں غصے کی ایک لہر دوڑی کیسے اس کی بیوی نے اسے بے عزت کر کے دھتکارا تھا۔وہ چاہتا تو ایک پل میں اسے حاصل کر کے اس کے غرور کو مٹی میں ملا دیتا۔مگر پھر اسے حمنہ کی حاصل کرنے اور پانے والی بات یاد آئی۔


اتنا وہ سمجھ گیا تھا کہ حمنہ کو زبردستی حاصل کرنے سے اس کا سر نہیں جھکے گا ۔وہ اتنی آسان بھی نہیں تھی۔اسے جھکانے کے لیئے اسے حمنہ کو اس کی مرضی سے پانا ہو گا اور وہ ایسا کر کے رہے گا۔


وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا تو حمنہ اپنے بال باندھ رہی تھی ۔


'مجھے لگا تم سوئی ہو گی ابھی تک۔'


وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی حمنہ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا اور اسے آئینے میں دیکھنے لگا ۔حمنہ صاف گندمی رنگت اور سیاہ آنکھوں کے ساتھ جن کو وہ کاجل لگا کر مزید خوبصورت بنا لیتی تھی، کسی کو بھی گھایل کرنے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔عثمان مسکرایا ،وہ دونوں ساتھ بہت اچھے لگ رہے تھے۔


'نہیں میں کچھ لوگوں کی طرح نشہ کر کے صبح کے گیارہ بجے تک نہیں سو سکتی۔مجھے فجر پڑھنے کی عادت ہے اور میں تبھی اٹھ جاتی ہوں۔'


حمنہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا جبکہ حمنہ کے اس طنز پر عثمان مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔


'اسی لیئے تو اتنی اچھی بیوی سے شادی کی ہے جو مجھے بھی سدھار دے۔'


عثمان نے اس کے بالوں کو چھوتے ہوئے کہا ۔


' آپکی پرورش کرنا میرا کام نہیں ہے میں ناشتے کا دیکھنے جانے لگی ہوں فریش ہو کر آ جانا اگر ناشتہ کرنا ہوا تو۔'


عثمان کو سنا کر وہ خود دروازے سے چلی گئی جبکہ عثمان نے بھی فیصلہ کیا کہ اس کی ہر بات برداشت کرے گا اور اسے خود سے محبت پر مجبور کرنے کے بعد یوں ہی اسے دھتکارے گا تب صیح معنوں میں اس کی انا مٹی میں ملے گی۔


اپنے ارادوں پر مسکراتا ہوا وہ نہانے چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب نے جانان کو بتایا تھا کہ وہ لوگ یہاں سے جا رہے ہیں اس لیئے وہ اپنی تیاری مکمل کر لے۔سعد صبح فجر کے وقت سے کہیں گیا تھا اور دراب بھی اب کمرے میں موجود نہیں تھا جانان نے تسلی سے اپنا سامان پیک کیا اور نہانے کے بعد اپنے بال سکھانے کی کوشش کرنے لگی۔تبھی دروازہ کھلا اور دراب اندر آیا تو جانان نے جلدی سے کندھوں پر پھیلایا دوپٹہ سر پہ لیا۔


دراب کو اب اس طرح سے کمرے میں داخل ہونے پر شرمندگی ہوئی۔دراب کے ساتھ سعد بھی کمرے میں آگیا۔


'تم تیار ہو ؟چلنا ہے ہمیں۔'


دراب کی بات پر جانان نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ایک پل کے لیئے تو وہ اسے پہچان ہی نہ سکی۔دراب کو اس نے جب دیکھا تھا وہ شلوار قمیض میں ہی ہوتا اور اس کے اوپر بھی گرم چادر اوڑھ لیتا۔


لیکن ابھی دراب نے بلو جینز کے ساتھ وائٹ شرٹ پر براؤن جیکٹ پہنی تھی جبکہ اپنے کندھوں تک آتے بالوں کو پیچھے کی طرف سیٹ کر کے اور سٹائلش بنایا تھا۔داڑھی کو بھی معمول سے چھوٹا کیا تھا۔قد آور اور قامتی جسم کے ساتھ وہ بہت زیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔اپنی سنہری آنکھوں کو چھوٹا کیئے وہ جانان کو دیکھ رہا تھا۔

جانان نے گھبرا کر دراب سے نظر ہٹا کے سعد کو دیکھا تو وہ بھی دراب کی طرح مارڈن طرز کے کپڑوں میں ملبوس تھا۔وہ دونوں آج بہت زیادہ مختلف اور خوب رو لگ رہے تھے۔


'ہم کہاں جا رہے ہیں؟'


جانان نے ان سے نظر ہٹاتے ہوئے پوچھا۔


' فلحال تو اسلام آباد دراب کے بھائی کے پاس۔'


سعد کی بات پر جانان یہ سوچنے لگی کہ بھائی سے ملنے کے لیئے کوئی اتنا تیار ہوتا ہے۔


'اچھا آپ کے بھائی بھی ہیں ۔آپ سے بڑے ہیں یا چھوٹے ؟


'بڑا ہے مگر زیادہ نہیں۔'


دراب نے جانان کا سامان پکڑتے ہوئے بتایا جبکہ اس کی بات نے جانان کو خوش کر دیا۔


'یہ تو بہت اچھا ہے میں ان سے آپ کی بہت شکایتیں بھی لگاؤں گی اور ان کو اپنی اور سعد بھائی کی ٹیم میں لے لوں گی۔'


جانان نے چہکتے ہوئے کہا تو سعد نے بہت مشکل سے اپنا قہقہہ روکا کیونکہ وہ وجدان کو جانتی نہیں تھی۔اگر اس کو دراب ادرک لگا تھا تو وجدان تو ادرک کے ساتھ لہسن بھی تھا۔

ان لوگوں نے ہوٹل سے اچھا سا ناشتہ کیا اور پھر بس میں بیٹھ کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


'تو رات کو کیسی نیند آئی تمہیں؟'


عثمان کب سے اس سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن حمنہ نے بھی ٹھانا ہوا تھا کہ اس سے کوئی بات نہیں کرے گی۔


'آخر مسلئہ کیا ہے تمہارے ساتھ سیدھے طریقے سے بات نہیں کر سکتی ۔'


عثمان کافی حد تک اب اس سے چڑ گیا تھا۔جبکہ حمنہ اپنے دھیان ناشتہ کرنے میں مصروف تھی ۔عثمان کا دل کیا کہ اسے ایک تھپڑ لگا دے اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتا ملازم نے سلمان صاحب اور فاطمہ بیگم کی آمد کے بارے میں بتایا۔


'بھیجو انہیں ۔'


حمنہ وہاں سے اٹھ کے جانے لگی تو عثمان نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔


'تمہارے ماں باپ آئے ہیں اور تم ان سے ملنا تک گوارا نہیں کر رہی۔'


حمنہ نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کروایا اور وہاں سے جانے لگی تو سامنے موجود سلمان صاحب کو دیکھ کر رک گئی۔سلمان صاحب اس سے ملنے لگے تو اس نے منہ پھیر لیا اور فاطمہ بیگم کی طرف جا کر انہیں گلے لگا لیا۔


'کیسی ہیں آپ؟


ماں کے گلے لگتے ہی نہ چاہتے ہوئے حمنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔فاطمہ بیگم بھی اسے خود سے لگائے رونے لگیں۔انہیں یہ جان کے سکون ملا تھا کہ حمنہ ان سے ناراض نہیں۔


'میں ٹھیک ہوں ۔تم تو ٹھیک ہو نا؟


انہوں نے حمنہ سے پوچھا تو وہ ان کا ہاتھ تھام کے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔کمرے میں لا کر اس نے انہیں صوفے پہ بیٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئی۔


'آپ میری فکر نہیں کریں امی آپ کی بیٹی بہت بہادر ہے ایسے شخص سے ڈر کے نہیں جھکے گی۔'


فاطمہ بیگم مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگیں اور پھر پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں۔


'اللہ تمہیں ہمت دے میری جان اور جانان کو بھی۔'جانان کی یاد میں ان کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔


'آپ فکر مت کریں جانو بلکل ٹھیک ہے اور شایان بھائی کے پاس ہے ۔بات ہوئی تھی اس سے میری ۔'


'کیا سچ میں؟ٹھیک تو ہے نہ میری بچی۔' حمنہ کی بات پر فاطمہ بیگم نے بے چینی سے پوچھا۔


'جی اور اب جب بات ہو گی تو میں کوشش کروں گی کہ اسے آنے کا کہوں۔اب آپ بیٹھیں میں آپ کے لیئے کچھ لے کر آتی ہوں۔'


حمنہ فاطمہ بیگم کو کمرے میں چھوڑ کر خود کچن کی طرف جا رہی تھی جب اسکا دھیان سلمان صاحب اور عثمان کی باتوں پر گیا۔


'عثمان صاحب آپ نے جو چاہا تھا وہ تو ہو گیا آگئی حمنہ آپ کے نکاح میں۔ اب آپ بھی اپنا وعدہ پورا کریں اور الیکشن سے ہٹ جائیں تاکہ یہ الیکشن میں جیت سکوں۔'


سلمان صاحب کی بات نے حمنہ کے چلتے قدم روک دیے ۔وہ یہ تو جانتی تھی کہ اس کا باپ جانان کا سودا کرنا چاہتا تھا لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ حمنہ کے ساتھ بھی وہی کر چکا ہے ۔حمنہ کو اپنے باپ سے حد سے زیادہ نفرت ہو رہی تھی۔


'آپ فکر نہیں کریں عثمان ملک اپنی زبان کا پکا ہے ہمارے درمیان جیسا طے ہوا تھا ویسا ہی ہوگا۔'


حمنہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کو سن کر وہ واپس فاطمہ بیگم کے پاس جانے لگی ۔لیکن وہ اب جانتی تھی اسے کیا کرنا ہے ان دونوں مردوں کو وہ اس طرح سے کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


چار گھنٹے مسلسل سفر کرنے کے بعد اب وہ اسلام آباد پہنچ گئے تھے ۔جانان کو یہ سفر اتنا برا بھی نہیں لگا تھا ۔سارا راستہ وہ سعد اور دراب سے ہر طرح کی باتیں کرتی رہی تھی ۔سعد کو تو اس کی باتیں پہلے ہی اچھی لگتی تھیں لیکن آج تو دراب بھی بہت دھیان سے اس کی باتیں خاموشی سے سنتا جا رہا تھا۔


وہ بس سٹیشن سے باہر آئے تو سامنے ہی وجدان کو دیکھ کر دراب ان کی طرف چل دیا۔جانان نے وجدان کو دیکھا جو صاف رنگت کے ساتھ انتہائی سنجیدہ چہرے کا مالک تھا اور قدوقامت میں بلکل دراب کے جتنا ہی تھا۔


'یہ ان کے بھائی ہیں؟'


جانان نے شرارت سے سعد سے پوچھا تو سعد نے فوراً بتا دیا کیونکہ جانان کا وجدان سے بات کر کے جو چہرہ بننا تھا سعد کو وہ دیکھنے کا شدت سے انتظار تھا ۔

سعد کے بتاتے ہی جانان جلدی سے وجدان کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔


'اسلام و علیکم بھائی کیسے ہیں آپ؟'


جانان نے جلدی سے بولا تو وجدان اسے کوئی جواب دیے بغیر دراب کے پاس چلا گیا ۔بلکہ اس نے تو جانان کو دیکھا تک نہیں تھا اسے ایسا لگا کہ اس نے ہوا سے بات کی ہے۔جانان نے منہ پھلا لیا اور سعد کے پاس آ کے کھڑی ہو گئی جو اب بری طرح ہنس رہا تھا۔


'یہ تو ان سے بھی بڑے سڑو ہیں ۔آپ نے بتایا نہیں نا اسی لیئے میں اتنی ایکسائیٹڈ تھی۔'


جانان نے منہ بنا کے کہا تو سعد اود ہنسنے لگا۔


'اچھا تو یہ بھی ادرک ہے کیا؟'سعد نے شرارت سے پوچھا۔


'نہیں یہ تو کریلے کی کوئی قسم ہیں۔'


جانان نے پہلے سے پھولے ہوۓ گالوں کو اور پھولا لیا۔تبھی دراب جانان کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑایا۔


'یہ کیا ہے؟'


'تمہاری لاہور کی ٹکٹ۔'


جانان نے حیرت سے دراب کو دیکھا۔


'میں لاہور جا رہی ہوں؟'


'تو جانا نہیں تھا کیا؟'


دراب نے بے زاری سے پوچھا۔تو اس کے چہرے پر اس طرح

کے تاثرات جانان کے نازک دل سے برداشت نہیں ہوئے ۔اس نے آنکھوں میں آنسو لے کر سعد کو دیکھا۔


'آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟'


'گڑیا تم نے جانا تو تھا ہی آج نہیں تو کل ۔'


سعد نے سے سمجھانے کی کوشش کی حالانکہ جانان کے جانے پر وہ بھی بہت دکھی تھا۔وجدان نے چلنے کا کہا تو دراب نے جانان کا ہاتھ پکڑ کے اسے گاڑی میں بیٹھا دیا۔

سارا راستہ جانان ایک لفظ بھی نہیں بولی۔وہ بس دراب کو دیکھے جا رہی تھی۔وہ اپنے جذبات سمجھنے سے قاصر تھی وہ دراب سے محبت تو نہیں کرتی تھی پھر کیوں اس سے دور جانے کا خیال اس کی دھڑکنوں کو روک رہا تھا۔


ریلوے سٹیشن پہنچ کر وجدان نے گاڑی روکی تو دراب نے باہر نکل کر جانان کا سامان پکڑا ۔جانان ابھی بھی گاڑی میں بت بنی بیٹھی تھی۔


'باہر آؤ'


جب دراب کے بلانے پر بھی جانان باہر نہیں نکلی تو دراب نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے خود گاڑی سے نکال کر اپنے ساتھ کھڑا کیا ۔سعد بھی دراب کے پاس آ گیا۔


'دراب۔۔۔۔ '


دراب نے ابھی ریلوے اسٹیشن کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ جانان کی آواز نے اس کے قدم روک دیے۔جب دراب نے جانان کو اسے بھائی کہنے سے منع کیا تھا اس کے بعد جانان نے اب اسکا نام پکارا تھا اور یہ بات دراب سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔


پھر بھی اس نے جانان کا چہرہ دیکھے بغیر اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے ٹرین کے پاس لے آیا تھا سعد بھی دراب کے ساتھ آیا تھا جبکہ وجدان اسٹیشن سے باہر ہی کھڑا تھا۔

دراب نے جانان کو ٹرین میں لاکر سیٹ پر بیٹھایا اور واپس جانے کے لیئے مڑا۔لیکن اس کا ہاتھ ابھی بھی جانان کے ہاتھ میں تھا۔دراب نے جانان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں بے تحاشہ غم اور شکوہ تھا ۔

دراب نے اس سے منہ موڑ لیا اور بے دردی سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر باہر آ گیا ۔سعد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

جسے دراب جھٹک کر ٹرین کے پچھلے ڈبے کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ جانان اسے چھوڑ کر جائے لیکن اسے وہ کرنا تھا جو جانان کے لیئے سب سے بہتر ہو اود اس کے لیئے دراب سے دوری ہی سب سے بہتر تھی۔

جانان ٹرین میں بیٹھی بری طرح رو رہی تھی وہ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جب دراب ہی اسے پاس نہیں رکھنا چاہتا تو وہ کیا کرتی۔دراب کا خیال آتے ہی وہ اٹھ کر ٹرین کے دروازے میں آ گئی اور دراب کو دیکھنے لگی جو کچھ فاصلے پر اس کی طرف پیٹھ کیۓ کھڑا تھا اور سعد اسے کچھ کہ رہا تھا۔

ٹرین نے ہارن کی آواز سے اپنے چلنے کا اشارہ کیا اور آہستہ سے رفتار پکڑنے لگی۔جانان دراب پر آخری نظر ڈال کے واپس مڑنے لگی تو اس کی نظر ایک آدمی پر گئی جس نے خود کو پوری طرح سے چادر میں چھپایا ہوا تھا۔جانان اسے نظر انداز کرتی اگر وہ اسکے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھتی جس کا ہلکا سا سرا وہ اپنی چادر میں سے نکال کر نشانہ باندھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن لوگوں کے گزرنے کی وجہ سے وہ نشانہ نہیں لگا پا رہا تھا۔جانان نے جب اس کی بندوق کا رخ دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ اس کا نشانہ دراب تھا۔

'دراب!۔۔۔۔۔

جانان چلائی ،لیکن شاید ٹرین کے شور کی وجہ سے وہ اسے سن نہیں سکا۔جانان جلدی سے ٹرین سے اتری اور اس آدمی کی طرف بھاگنے لگی کیونکہ دراب اس سے بہت دور تھا وہ اس تک وقت پر نہیں پہنچ سکتی تھی ۔وہ بس اس آدمی کو دراب کو مارنے نہیں دے سکتی۔

شان بہت خوش تھا ۔دارا اس کے نشانے پہ تھا ۔بادشاہ کے تمام آدمیوں میں سے دارا کا خاتمہ اس کے ہاتھوں ہونا تھا ۔ آج صبح ہی تو اس نے دارا کے آدمی کا پیچھا کیا تھا جو پی سی او سے کسی کو فون کر کے اسلام آباد کے ریلوے اسٹیشن پر ملنے کا کہہ رہا تھا اور اسی بناہ پر وہ کب سے دارا کا انتظار کر رہا تھا جو کہ اب سکی نظروں کے سامنے تھا۔۔کافی کوشش کے بعد اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ دارا پر نشانہ بنایا اور گولی چلائی۔لیکن اس کے گولی چلاتے ہی ایک لڑکی اس سے آ کے ٹکرائی اور اس کے ہاتھ میں موجود بندوق اس سے چھیننے کی کوشش کرنے لگی ۔اس آدمی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اس نے لڑکی کو زور سے دھکا دیا لیکن وہ بری طرح سے اس کے بازو سے چپکی اسکی بندوق پر جھپٹ رہی تھی اور اس چھینا جھپٹی میں اس کی چادر بھی اس پر سے ہٹ گئی تھی۔اب اس کو ایک ہی حل نظر آیا اس نے بندوق کا رخ اس لڑکی کی طرف کیا اور گولی چلا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب کا دل اس سے بغاوت پر اترا تھا۔جانان اس کی محبت تھی ،اسکی چاہت تھی اسکی جدائی دراب کیسے برداشت کر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔آنسو آنکھوں سے نکلنے کی مکمل کوشش میں تھے مگر دراب نے بے رحمی سے انہیں قید ہی رکھا تھا۔

'دراب اسے روک لو پلیز یار نہیں رہ پاؤ گے اس کے بغیر۔'

سعد اسے کے ساتھ کھڑا اسے سمجھانے لگا۔

'نہیں سعد وہی ہو گا جو بہتر ہے اور بہتر یہی ہے۔'

ٹرین ہارن بجاتے ہوئے آہستہ سے چلنے لگی اور وہ ٹرین دراب کو اپنی دشمن لگی جو اس سے اس کی زندگی چھین رہی تھی۔اچانک دراب کو اپنے بلکل پاس سے ہوا کی تیزی سے کچھ گزرتا محسوس ہوا جسے دراب بخوبی واقف تھا۔لیکن گولی کی آواز نہیں آئی تھی شاید ٹرین کے شور کی وجہ سے یا پھر گن پر سائیلینسر لگا ہوا تھا۔

دراب نے فوراً مڑ کے دیکھا تو اسے جانان ایک آدمی سے بھڑتے ہوئے نظر آئی۔دراب کو سمجھ آگیا تھا کہ گولی اس نے ہی چلائی تھی اور اس کا نشانہ جانان کی وجہ سے چوک گیا تھا۔دراب نے فوراً اس کی طرف بھاگنا شروع کیا۔لیکن اس کے دیکھتے ہی دیکھتے جانان اس آدمی سے جدا ہو کر زمین پر گری تھی ۔

سعد نے جیسے ہی دراب کو جانان کی طرف بھاگتے دیکھا اس نے اپنی کمر کے پاس سے پسٹل نکالی اور جلدی سے نشانہ بناتے ہی اس آدمی پر گولی چلا دی جو اس کے کندھے کو لگی ۔لیکن جانان کے زمین پر گرنے کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی اور وہ آدمی بھیڑ میں غائب ہو گیا۔

دراب بہت تیزی سے جانان ے پاس پہنچا اور اسکا سر پکڑ کے اپنی گود میں رکھا ۔

'د۔۔۔۔۔۔در۔۔۔'

جانان نے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھی میں پکڑنے کی کوشش کی ۔گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی اور وہاں سے بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔جبکہ دراب کی آنکھوں میں بہت دیر سے قید آنسو آزادی پا کر جانان کے گال پر گرے۔جانان کی آنکھوں کے ساتھ سانسیں بھی بند ہو رہی تھیں۔دراب کو لگا کہ اسکا وجود،اسکی دنیا،اسکا سکون سب کچھ ختم ہو رہا تھا کچھ بھی نہیں بچا تھا اس کے پاس،کچھ بھی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ فاطمہ بیگم اور سلمان صاحب کے جانے کے بعد سے اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔اسے بہت زیادہ بے چینی ہو رہی تھی ۔جانان سے کل اس نے بات تو کی تھی لیکن نہ ہونے کے برابر۔جانان رو بھی تو رہی تھی اور شایان کے وجہ بتانے پر حمنہ نے فوراً یقین بھی کر لیا تھا ۔لیکن اب اسے خود پر غصہ آ رہا تھا۔کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ جانان سے کیسے بات کرے گی؟


ابھی وہ اس سب کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ عثمان کمرے میں داخل ہوا اور اس کے پاس آیا اور اس کی گود میں ایک باکس رکھا۔حمنہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔


'سوچا کہ ہماری شادی بہت جلدی میں ہو گئی اور ولیمہ بھی فلحال نہیں ہو رہا تو ہم کسی اور طریقے سے اسے بہتر کرتے ہیں۔تم اسے پہن کے تیار ہو جاؤ ہم باہر کھانے پر چلتے ہیں۔'


عثمان نے اسے کہا تو حمنہ نے وہ باکس اٹھا کر نیچے پھینک دیا۔


'نہ تو مجھے تمہارے ساتھ کہیں جانا ہے اور نہ ہی تمہاری دی ہوئی ڈریس پہننے میں کوئی دلچسپی ہے۔'


جبکہ حمنہ کی اس حرکت پہ عثمان کا پارہ ہائی ہو گیا ۔اس نے حمنہ کو سختی سے بازؤں سے پکڑ کے کھڑا کیا اور غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔


'کل رات سے میں تمہیں برداشت کر رہا ہوں، اب بس ۔میں نے تم سے کوئی رکویسٹ نہیں کی آرڈر دیا ہے۔


And my dear wife you should follow my commands.


حمنہ بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے گھورنے لگی۔


'تمہیں کیا لگتا ہے کہ اس طرح سختی کر کے اور اپنی طاقت کا رعب دکھا کر جو کہو گے وہ کروں گی تو غلط فہمی ہے یہ تمہاری۔


Because my dear husband I am not your slave.


حمنہ نے اتنا کہتے ہی سختی سے اپنے آپ کو چھڑوایا تھا۔جبکہ اسکی بات سن کے عثمان مسکرانے لگا۔


'ٹھیک ہے پھر اگر تمہیں اپنی مرضی کرنی ہے تو کرو ۔لیکن یہ یاد رکھنا کہ اگر تم اس ڈریس میں تیار ہو کے میرے ساتھ نہیں گئی تو آج اس گھر کا ہر نوکر بھوکا سوئے گا۔اب مرضی تمہاری ہے۔'


اتنا کہنے کے بعد عثمان وہاں سے مسکراتے ہوئے چلا گیا۔حمنہ نے غصے سے اس باکس کو اٹھا کر بیڈ پر پھینکا کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ عثمان آج کی جنگ میں فتح حاصل کر کے گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نہیں۔۔۔۔۔۔۔نہیں کچھ نہیں ہو سکتا اسکی جانان کو وہ اسے کچھ بھی ہونے نہیں دے گا۔دراب جانان کو خود میں بھینچ رہا تھا جیسے اسے اپنے اندر چھپا لے گا۔سعد جلدی سے دراب کے پاس آیا اور اسے زور سے ہلانے لگا۔


'دراب چلو ہمیں یہاں سے جانان کو لے کر جانا ہے، جلد ہی سیکیورٹی آ جائے گی یہاں ۔'


سعد دراب کو زور سے ہلاتے ہوئے بول رہا تھا لیکن دراب کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔


' وہ زندہ ہے دراب ہمیں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو گا اٹھو پلیز۔'


سعد کی بات پر دراب نے جانان کو دیکھا اور جلدی سے اسے باہوں میں اٹھا کر باہر کی طرف بھاگنے لگا۔وجدان ان کو اس حالت میں آتا دیکھ کر حیران ہوا پھر فوراً گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔


دراب نے جلدی سے جانان کو پچھلی سیٹ پر اپنی گود میں سر رکھ کر لیٹا لیا اور سعد کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی وجدان نے گاڑی چلا دی۔


'ہمیں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہو گا۔'


سعد نے وجدان سے کہا ۔وجدان نے جلدی سے اپنی پاکٹ سے ایک موبائیل نکالا اور سعد کے ہاتھ میں دیا ۔


'اس میں ڈاکٹر فہد صدیق کا نمبر ہے انہیں کال کر کے ساری سچویشن بتاؤ میں وہیں جا رہا ہوں اور دراب اس کے زخم پر کچھ رکھ کر خون کو بہنے سے روکو۔'


وجدان نے جیسا کہا تھا سعد اسی پر عمل کرنے لگا۔دراب نے جانان کے گلے سے اسکا دوپٹہ کھینچا اور اسے زور سے زخم پر رکھ دیا۔دراب اس سب کے بارے میں بہت اچھے سے جانتا تھا لیکن ابھی اسکا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔


ٹھیک دس منٹ بعد وجدان ایک پرائویٹ ہاسپٹل کے سامنے تھا جس کے گارڈ نے گاڑی کو دیکھتے ہی جلدی سے دروازہ کھولا۔گاڑی کے رکتے ہی دراب نے جانان کو اپنے بازؤں میں اٹھایا اور اندر کی طرف بھاگنے لگا۔وجدان اور سعد بھی اسکے ساتھ تھے۔


دراب کے ہال میں داخل ہوتے ہی ڈاکٹر فہد اس کے پاس آئے اور جانان کو سٹریچر پر لٹانے کا بولا۔دراب نے جلدی سے جانان کو سٹریچر پر لیٹا دیا تو ڈاکٹر فہد کا سٹاف فوراً اسے آپریشن کے لیئے لے گئے۔

دراب اپنے چہرے کو ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بینچ پر بیٹھ گیا اور بری طرح سے رونے لگا۔سعد مسلسل اسے حوصلہ دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آنکھیں اس کی بھی نم ہو گئیں۔


'سعد اگر اسے کچھ ہوا تو مر جاؤں گا میں نہیں رہ سکتا اس دنیا میں جہاں جانان نہ ہو۔'


'کچھ نہیں ہو گا اسے دراب تم بس اللہ سے دعا کرو۔'


جبکہ وجدان دراب کو بہت حیرت سے دیکھ رہا تھا کیونکہ اس کے مطابق دراب بلکل اس کے جیسا تھا ۔جذبات اور کمزوریوں سے دور رہنے والا۔لیکن وجدان عشق کی طاقت کو نہیں سمجھتا تھا۔


جانان کا آپریشن تقریباً دو گھنٹے تک چلتا رہا تھا اور یہ وقت دراب کے لیئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔وہ مسلسل اپنے رب کے حضور دعائیں کرتا رہا۔

آخر کار ڈاکٹر فہد آپریشن تھیٹر سے باہر آئے تو دراب فوراً کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔


'انکا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا اسے تو میں نے ہینڈل کر لیا لیکن ڈر اور خوف کی وجہ سے انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ۔جس کی وجہ سے انہیں ہوش نہیں آرہا۔اگر جلد انہیں ہوش نہیں آیا تو وہ کوما میں جا سکتی ہیں۔دعا کریں کہ انہیں ہوش آ جائے۔'


ڈاکٹر فہد کی باتیں دراب کے اعصاب پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اگر جانان کو کچھ ہو گیا تو دراب خود کو ختم کر دے گا یا دارا اس دنیا کو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شان جلد از جلد اسلام آباد سے نکلنا چاہتا تھا دارا اسے دیکھ چکا تھا اور یہ بات اس کے حق میں بہت بری ثابت ہو گی ۔ایک ڈاکٹر کو گن پوائنٹ پر رکھ کے اس نے خود کی پٹی کروائی تھی۔لیکن اس کے کندھے میں زخم گہرہ تھا اسے باقاعدہ علاج کی ضرورت تھی۔لیکن ابھی سب سے زیادہ ضروری اس کے لیئے یہاں سے نکلنا تھا۔


جس بس میں وہ سفر کر رہا تھا وہ ایک جھٹکے سے رکی تھی۔ ایک آدمی چہرے کو نقاب سے ڈھانپے اور ہاتھ میں بندوق لیئے بس میں داخل ہوا تھا۔اس نے سب مصافروں پر نظر دوڑائی جو بہت ڈر چکے تھے۔لیکن اس پر نظر رکتے ہی سیدھا اس کی طرف آیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر باہر لے جانے لگا۔


کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔اس نے اپنی بنوق نکالنا چاہی جسے اس نقاب پوش نے ناکام کر دیا اور اسے بنوق چھین کر اسے بند گاڑی میں ڈالنے لگا۔اب خوف سے اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے۔جبکہ مخالف نے اسکے خوف کو حقارت سے دیکھا تھا۔


'فکر مت کر دارا کا شکار ہے تو اتنی آسان موت نہیں ملے گی تجھے۔'


اتنا کہہ کر اس نے ایک رومال اس کے منہ پر رکھ کے اسے بے ہوش کر دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ بہت لگن سے تیار ہوئی تھی ۔وہ جان بوجھ کر بہت زیادہ خوبصورت لگنا چاہتی تھی تا کہ عثمان کو اپنی اہمیت دکھا سکے۔

وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آنے لگی تو لاؤنج میں کھڑے عثمان نے اس پر ایک نظر ڈالی اور پھر ہٹانا ہی بھول گیا۔

عثمان کے دیے ہوئے لائیٹ پنک کلر کے فراک میں ہلکے میک اپ کے ساتھ بالوں کو کھلا چھوڑے وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔عثمان کا دل اسے پانے کے لیئے اور ذیادہ مچلنے لگا تھا۔


'چلیں؟'


عثمان کے قریب کھڑی وہ ایک ادا سے بولی تو عثمان نے نہیں میں سر ہلایا۔


'کوئ چادر لو تم عثمان ملک کی ملکیت ہو اور تمہیں اس طرح سے دیکھنے کا اختیار صرف میرا ہے۔'


جبکہ حمنہ کو اس کی بات بری نہیں لگی تھی کیونکہ وہ خود بھی بے پردگی کو پسند نہیں کرتی تھی اس لیئے جلدی سے چادر اوڑھ کے آئی اور عثمان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔


عثمان خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور حمنہ لاہور کی رونک دیکھنے میں مصروف تھی۔اس نے ایک نظر عثمان کو دیکھا جو پینٹ کوٹ میں بہت ذیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔حمنہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عثمان اس طرح سے جانان سے کیوں شادی کرنا چاہتا تھا۔ہالانکہ کوئی بھی لڑکی اسکی خوبصورتی اور دولت پر فدا ہو سکتی تھی۔کہیں وہ جانان سے محبت۔۔۔حمنہ نے اس خیال کو اپنے دماغ سے جھٹک دیا تھا۔آخر کار وہ ریسٹورنٹ پہنچ گئے جہاں عثمان نے ان کے لیئے پرائیویٹ روم بک کروایا تھا۔


'میں نے تمہارے لئے یہ ڈریس سیلکٹ کی تھی تو سوچا تھا کہ تم پر اچھی لگے گی لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنی زیادہ اچھی لگے گی۔'


عثمان نے اس کو شرارت سے کہا تو حمنہ گالوں پر آنے والی سرخی کو روکتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔


'بھئ بیوی کی۔ تعریف تو بنتی ہے نا۔'


'کوئی ضرورت نہیں اسے پہننا میری مجبوری سے زیادہ کچھ نہیں۔'


حمنہ منہ پھیرتے ہوئے بولی تو عثمان نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔جسے حمنہ گھورنے لگی۔


'حمنہ ہم میاں بیوی ہیں زندگی بھر کا ساتھ ہے ہمارا ۔ایک دوسرے سے دوری اور نفرت سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ہمیشہ ایسے ہی تو نہیں رہ سکتے۔'


حمنہ نے ان کے ہاتھ سے نظریں ہٹا کر عثمان کو دیکھا۔

'کیا واقعی ایسا چاہتے ہیں آپ ؟'

'بلکل

عثمان نے نرمی سے جواب دیا۔

'تو ٹھیک ہے جو میں چاہتی ہوں آپ وہ کر دیں اور میں ہمارے رشتے کو اس کا اصلی مقام دوں گی۔بولیں کر سکتے ہیں میری ڈیمانڈ پوری؟'

حمنہ نے اسے چیلنج کیا تو عثمان سیدھا ہو کے اسے دیکھنے لگا۔

'بولو کیا چاہئے تمہیں جو چاہو گی عثمان ملک اسے دنیا سے چھین کر تمہارے قدموں میں رکھ دے گا۔'

جبکہ حمنہ دلکشی سے مسکراتے ہوئے بولی۔

'آپ الیکشن پر نہ صرف کھڑے ہوں گے بلکہ آپ جیتں گے بھی۔'

'میں نے تمہارے باپ کو زبان دی ہے'

'وہ میرا مسئلہ نہیں ۔ آپ بس اتنا جان لیں کہ جس دن آپ الیکشن میں جیت گئے اسی دن میں ہمارے رشتے کے سب تقاضے پورے کروں گی۔'

حمنہ نے اسے کہا تو وہ دلکشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔عثمان کا چہرہ دیکھ کر وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ اب اس کے باپ کو الیکشن میں ہارنے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب جانان کا ہاتھ پکڑے اس کے پاس بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔وہ ہمیشہ اس کے ذیادہ بولنے کی وجہ سے اسے ڈانٹتا تھا لیکن اب جانان کا خاموش ہو جانا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

'کیوں کیا تم نے ایسا ؟میری زندگی کے لیئے اپنے آپ کو خطرے میں کیسے ڈال سکتی ہو تم؟میری زندگی میں صرف ایک ہی بات اچھی ہے اور وہ تم ہو ۔اسے ہی مٹا کر تمہیں کیسے لگتا ہے کہ میں جی لوں گا ،پاگل لڑکی۔'

دراب کے دل کو یہ بات چیر رہی تھی کہ ایک انتہائی معصوم فرشتہ صفت انسان نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر دارا جیسے جانور کو بچایا تھا جسے دراب کے مطابق جینے کا حق نہیں۔

'پلیز ٹھیک ہو جاؤ پھر تم بھی مجھے بہت زیادہ ڈانٹنا ،بلکل میری طرح ۔بس پلیز اٹھ جاو جانان ۔'

دراب کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر جانان کے ہاتھ پر گرے۔

'بہت لڑا ہوں میں اپنے جذبات سے ،اپنے آپ سے ۔مجھے یہی لگا تھا کہ تم سے دوری ہی ہم دونوں کے لیئے بہتر ہو گی۔ لیکن تمہیں کھو نہیں سکتا ۔کوئی بھی سزا دے دینا یار لیکن ابھی ٹھیک ہو جاؤ پھر کبھی بھی تمہیں دور نہیں جانے دوں گا۔اپنا بنا لوں گا تمہیں اور سب سے دور لے جاؤں گا بہت دور۔'

دراب اسکا ہاتھ اپنے لبوں کے ساتھ لگائے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔اس کے ہاتھ کے ساتھ اپنا ماتھا لگا کر وہ وہیں بیٹھا رہا۔

وجدان ابھی بھی دراب کو باہر کھڑا حیرت سے دیکھ رہا تھا۔دراب تو بلکل اس کے جیسا تھا ایک سخت چٹان کی طرح جسے کوئی بھی توڑ نہیں سکتا۔لیکن ایک چھوٹی سی لڑکی اس چٹان کو بری طرح سے بکھیر چکی تھی۔وجدان کو اس سے چڑ ہو رہی تھی جس نے اس کے بھائی کو کمزور بنا دیا۔

ان سب کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں جانان کو دو دن کے بعد ہوش آ گیا۔یہ دو دن دراب چند پل کے لیئے بھی جانان سے دور نہیں گیا تھا۔ڈاکٹر فہد نے انہیں خوشخبری دی تھی کہ جانان اب خطرے سے باہر ہے۔


دراب جانان کے بلکل پاس کھڑا اسے غصے سے گھور رہا تھا۔جانان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سعد کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔


'سعد بھائی ان سے کہہ دیں کہ بیمار کو ایسے نہیں گھورتے گناہ ہوتا ہے۔'


سعد کے قریب ہوتے ہی جانان نے ہلکے سے اسے کہا تو سعد اس کی شرارتی باتیں سن کر مسکرا دیا۔سن تو دراب بھی چکا تھا لیکن اس کے ماتھے پر بل اور ذیادہ آئے۔


'سعد اسے کہہ دو کہ آئندہ میرے لیئے اپنی جان خطرے میں ڈالی نا تو خود گلا دبا دوں گا اسکا۔'


اتنا کہنے کے بعد دراب کمرے سے چلا گیا اور جانان سعد کو منہ پھولا کر دیکھنے لگی۔


'ایسے نہیں دیکھو دراب کے ساتھ ہوں میں اس معاملے میں ۔پتا ہے گڑیا جان نکال دی تھی تم نے ہماری۔'


جانان اس کی بات سن کے رونے والی ہو گئی۔


'تو کیا آپ دونوں ناراض ہیں مجھ سے؟'


'نہیں گڑیا صرف پریشان تھے۔دراب تو تمہارے پاس سے اٹھا ہی نہیں دو دن۔ مگر اب تم بلکل ٹھیک ہو۔'


سعد نے مسکرا کے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔لیکن جانان صرف یہ سوچ رہی تھی کہ دراب دو دن اس کے ساتھ کیوں رہا تھا اسے تو وہ اچھی بھی نہیں لگتی۔


'چلو اب تم سو جاؤ اور جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ تا کہ ہم خوب باتیں کریں۔'


سعد نے اسے کہا تو جانان نے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ ابھی عشاء کی نماز پڑھ کے جائے نماز رکھ رہی تھی جب عثمان اس کے پاس آ کے کھڑا ہوا۔حمنہ اسے حیرانی سے دیکھنے لگی کیونکہ اس دن ریسٹورینٹ والے واقع کے بعد عثمان سے اس کا آمنہ سامنا بہت کم ہوا تھا۔وہ بہت دیر سے گھر آتا اور حمنہ اسکا انتظار کیئے بغیر سو جاتی۔صبح وہ دیر سے اٹھتا اور ناشتہ کر کے باہر نکل جاتا۔

حمنہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو عثمان نے اس کے سامنے ایک فائل رکھی اور خود اپنا کوٹ اتارتا ہوا ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔حمنہ نے فائل کھول کے دیکھا تو اس کے چہرے کو ایک مسکراہٹ نے چھوا۔


'الیکشن پہ تو کھڑا ہو گیا اب مجھے ہرانا سسر صاحب کے تو کیا کسی کے بس میں نہیں۔'


وہ پھر سے حمنہ کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔حمنہ وہاں سے جانے لگی تو عثمان نے اسکا ہاتھ تھام لیا ۔


'وہ الیکشن پر کھڑے ہونے کے بعد آپ نے کچھ تقاضے پورے کرنے تھے۔


عثمان مسکراتا ہوا حمنہ کو اپنے قریب کر کے بولا تو حمنہ اسے گھورنے لگی۔


'ڈیل الیکشن جیتنے کی ہوئی تھی تب تک فاصلے پر رہو ذرا۔


حمنہ نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا۔


'بھئ الیکشن انسان سٹیپ بائے سٹیپ جیتتا ہے اس لیئے ہر سٹیپ پر کچھ نہ کچھ ملنا چاہیے۔اس طرح آہستہ آہستہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کی عادت ہو جائے گی۔'


عثمان اس کے نازک لبوں کو دیکھتے ہوئے کہا تو حمنہ جلدی سے ہاتھ چھڑوا کے دروازے کی طرف چلی گئی اور مڑ کے عثمان کو گھورتے ہوئے بولی۔


'میں آپ کے لیئے کھانا لے کر آتی ہوں۔'


جبکہ اس کے اس انداز نے عثمان کو اندر تک سر شار کیا۔وہ سمجھ گیا کہ حمنہ کا پہلا تقاضا اسے آپ کہنا ہے اور یہی چیز اس کی جیت کی پہلی نشانی تھی۔


'تمہارے غرور کو ختم کر کے تمہیں اپنے پیروں میں بیٹھاؤں گا مسز عثمان ملک ۔'


عثمان اپنے پہلے منصوبے کی کامیابی پر خوش تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شان اب پاک آرمی کے پاس بھی نہیں تھا وہاں سے تو وہ فرار ہو گیا تھا لیکن اب نہ جانے وہ کہاں غائب ہو گیا تھا۔بادشاہ کو یہ بھی پریشانی تھی کہ اگر وہ دارا کے ہاتھ لگ گیا تو بادشاہ کے لیئے بہت مسلئہ ہو جائے گا ۔ لیکن بادشاہ کو دارا کی خاموشی پریشان کر رہی تھی ۔کافی عرصے سے دارا نے اس کے کام میں ٹانگ نہیں اڑائی تھی اور بادشاہ کو اس کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔


'بہرام ۔۔۔۔۔۔بہرام'


دارا اپنے سب سے خاص آدمی کو بلانے لگا۔جو اس کے لیئے اسکا دایاں ہاتھ تھا۔ملک کو تو وہ پہلے ہی کھو شکا تھا اب بہرام اس کے لیئے کافی قیمتی تھا اور اگر وہ دارا کے ہاتھ لگ گیا تو بادشاہ کا کافی نقصان ہو سکتا تھا۔


'جی سردار !


'دارا کو پھانسنا پڑے گا وہ ضرور کچھ بڑا سوچ رہا ہے۔اتنی خاموشی کی اور کیا وجہ ہو گی؟' بادشاہ نے بہرام سے پوچھا۔


'مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے سردار۔اس دفع ہتھیاروں کی سمگلنگ کے درمیان بھی رکاوٹ نہیں بنا۔'


'پھر ہمیں کچھ سوچنا چاہئے اس کے بارے میں۔کچھ بڑا سوچ بہرام دارا کو پھنسانے کے لئے جس سے وہ زندہ ہمارے قبضے میں آ جائے۔' بادشاہ کو بہرام کے چالاک دماغ پر پورا بھروسہ تھا۔


'جی سردار بس کچھ وقت۔'


'ٹھیک ہے۔لیکن دارا اس سے بچنا نہیں چاہئے۔'


بادشاہ اپنے چہرے پر وحشت سجائے بول رہا تھا۔بہرام ہاں میں سر ہلاتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان صاحب بہت غصے سے عثمان ملک کے آفس میں داخل ہوئے۔


'یہ کیا حرکت ہے ہمارے درمیان سودا ہوا تھا اور اب تم پھر سے اس الیکشن پر کھڑے ہو۔'


سلمان صاحب کے انداز بے عثمان کا پارہ ہائی کر دیا۔


'آواز نیچی رکھیں سلمان صاحب یہ میرا آفس ہے ۔رہی بات الیکشن کی تو اس پر آپ کی بیٹی ہی کھڑا کر رہی ہے مجھے ۔اب اپنی بیوی کا حکم تو ٹال نہیں سکتا۔'


عثمان چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا۔


'لیکن تم اپنی بات سے پھر نہیں سکتے، میں حمنہ کو واپس لے آؤں گا۔'


اس بات پر عثمان ملک غصے سے مٹھیاں بھینچ کر سلمان صاحب کو دیکھنے لگا۔


'آج کہ بعد میں ایسا سننا بھی برداشت نہیں کروں گا۔حمنہ میری ہے اب ۔صرف میری۔آپ تو کیا وہ خود بھی اب خود کو دور لے جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ عزت سے چلے جائیں اور الیکشن کے لیئے ذیادہ پیسے ضائع مت کریے گا ۔کیونکہ آپ کچھ بھی کر لیں جیت نہیں سکیں گے۔'


سلمان صاحب اس بات پر غصے سے وہاں سے چلے گئے ۔لیکن یہ وہ بھی جانتے تھے کہ حمنہ کو وہ قابو میں رکھ کے عثمان سے بات نہیں منوا سکتے ۔اس کی جگہ جانان یا زرش ہوتی تو بات کچھ اور تھی۔اب انہیں عثمان کو الیکشن سے ہٹانے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈنا پڑے گا کیونکہ وہ عثمان کے ہوتے ہوئے جیت نہیں سکتے ۔عوام بھی عثمان کے ساتھ تھی اور اس کی پارٹی بھی ذیادہ سٹرونگ تھی۔اب جیت کے لیئے انہیں کچھ اور سوچنا پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان کی رکوری کافی اچھی طرح سے ہو رہی تھی کیونکہ اسکا بہت اچھے سے خیال رکھا جا رہا تھا۔دراب خود اس کے پاس بیٹھ کر اسے کچھ نہ کچھ کھلاتا اور اگر وہ منع کر دیتی تو اسے گھورنے لگتا۔جس کی وجہ سے جانان کو کبھی دلیہ تو کبھی فروٹس کھانے پڑتے جو اسے پسند بھی نہیں تھے لیکن دراب کے ڈر سے کھا لیتی۔

اس واقعے کو گزرے دو ہفتے ہو گئے تھے اور یہ سارا وقت دراب جانان کے پاس ہی رہا تھا۔جس کی وجہ سے اسکے بہت سے کام ادھورے رہ گئے تھے۔


'تم باہر نہیں جا سکتی جانان باہر سردی ہے بہت۔'


جانان باہر جانے کی ضد میں تھی کیونکہ کمرے میں رہ کر وہ بور ہو گئی تھی۔دراب کے منع کرنے پر جانان نے منہ پھولا لیا ۔


'آپ بلکل بھی اچھے نہیں ہیں سعد بھائی کو آنے دیں میں ان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔'


اس سے پہلے کہ دراب اسے بتاتا کہ سعد دراب سے پوچھے بغیر کچھ نہیں کرے گا ،سعد کمرے میں آیا اور دراب کو وجدان کے بارے میں بتایا جو اس کا باہر انتظار کر رہا تھا۔

وجدان جانان کو گولی لگنے کے ایک دن بعد ہی اپنے کام کو چلا گیا تھا اور دراب جانتا تھا کہ وہ ضرور کسی ضروری کام کی وجہ سے اتنی دور آیا ہو گا۔ویسے بھی دراب کے برعکس وجدان پہچان بدلنے اور نئی پہچان بنانے میں ماہر تھا۔اس لیئے بس یا ٹرین کی بجائے جہاز سے سفر کرتا تھا ۔


دراب اس کے پاس چلا گیا اور جانان سعد کو دراب کی شکایتیں لگانا شروع ہو گئی۔


'دراب مجھے تو لگتا ہے کہ اب تمہارا بادشاہ تک پہنچنے کا ارادہ نہیں رہا ۔کب تک یہاں رہو گے اپنے کام پھر سے شروع کر چکا ہے وہ۔ آگے سوچو کیا کرنا ہے۔'


وجدان نے بے زاری سے دراب کو کہا ۔دراب کے ماتھے پر بل پڑ گئے لیکن اس نے وجدان کو کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ صحیح کہہ رہا تھا۔


'ہم جانان کو پشاور لے کر جائیں گے اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔'


تم اسے واپس نہیں بھیج رہے؟'


وجدان نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔


'نہیں وجدان میں نے سیکھ لیا ہے کہ اپنی قسمت سے لڑا نہیں جاتا اس لیئے اب میرا ارادہ جانان کو اپنا بنانے کا ہے ۔'


وجدان نے ہاں میں سر ہلایا اور ڈاکٹر فہد کے پاس جانے لگا۔دراب واپس گیا تو جانان ابھی تک سعد سے شکایتیں لگانے میں مصروف تھی۔


'آپ کو پتا ہے سعد بھائی مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہاسپٹل نہیں جیل ہے اور آپ کے وہ ادرک دوست میرے جیلر۔'


'فکر مت کرو جا رہے ہیں ہم اس قید خانے سے۔'


وجدان کی آواز پر جانان اپنی آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے لگی۔


'کہاں؟


'پشاور'


جانان کے پوچھنے پر دراب نے اسے جواب دیا جسے سن کے نا جانے کیوں جانان کو عجیب سا سکون ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ اس وقت سلامت بابا کے ساتھ کھانا بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ان دنوں میں حمنہ اس گھر میں سب سے ذیادہ سلامت بابا کے ساتھ وقت گزارتی۔انہیں بھی حمنہ اپنی بیٹی جیسی لگتی۔


'ارے بیٹا اتنا نمک نہیں ڈالو عثمان بیٹے کو پسند نہیں۔'


ان کی بات پر چڑتے ہوئے حمنہ نے نمک تھوڑا سا ڈال کے واپس رکھ دیا۔عثمان آج کل الیکشن کمپنیز اور جلسوں وغیرہ میں بہت مصروف تھااور بہت دنوں سے گھر نہیں آیا تھا ۔اسی لیئے آج حمنہ اس کے لیئے کھانا بنا رہی تھی اور وہ ایسا کیوں کرنا چاہتی تھی یہ وہ بھی نہیں جانتی تھی۔


'آپکے اس بیٹے کو ہر کام سے ہی چڑ ہوتی ہے۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ سانس لینے والی ہوا کے بارے میں بھی کہیں گے کہ اچھی نہیں ہے چینج کرو اسے۔' حمنہ نے عثمان کی طرح بھاری آواز میں کہا تو سلامت بابا ہنسنے لگے۔


'او تو یہاں میرے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں مجھے بھی بلا لیا ہوتا تو اپنی رائے دے دیتا۔'


اپنے پیچھے سے عثمان کی آواز سن کر حمنہ چوک گئی اور مڑ کر اسے دیکھنے لگی جو آج ایک ہفتے کے بعد منہ دکھا رہا تھا۔پھر اپنی باتیں یاد آنے پر کنفیوز ہو گئی۔


'آآ۔۔۔۔۔۔۔آپ جا کے فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں ۔'


حمنہ کے کہنے پر عثمان جانے لگا کیونکہ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ابھی وہ سڑھیاں چڑ کے کمرے کی طرف مڑا ہی تھا جب کوئی باہر کے دروازے سے جلدی میں داخل ہوا۔


'عثمان ۔۔۔۔۔۔عثمان۔'


ردا کی آواز سنتے ہی عثمان غصے سے اس کے پاس جانے لگا جب اسکی نظر حمنہ پر پڑی جو ردا کے پاس جا رہی تھی۔


'کون ہیں آپ؟'


حمنہ نے بہت عزت سے پوچھا تھا۔لیکن ردا اسے سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی اور پھر چہرے پر حقارت لاتے ہوئے بولی۔


'تو تم ہو وہ جس سے عثمان نے شادی کی ہے ۔مجھے نہیں پتا تھا کہ عثمان کا ٹیسٹ اتنا گر گیا ہے۔میں اس کی پہلی بیوی ہوں اس کی پہلی محبت۔تم بھیجو اسے میرے پاس۔'


حمنہ کا چہرہ غصے اور شرم سے لال ہو گیا۔


'آپ انکی پہلی بیوی اور محبت ضرور ہوں گی لیکن اب آپ ماضی سے بڑھ کر کچھ نہیں جسے صرف یاد کیا جا سکتا ہے۔میں عثمان کا حال ہوں اور آپ اس وقت میرے گھر میں ہیں اس لیئے بہتر یہی ہو گا کہ آپ یہاں سے شرافت سے چلی جائیں اس سے پہلے کہ میں آپ کو یہاں سے نکلوا دوں۔'


ردا کا منہ حیرت سے کھل گیا۔


'تت۔۔۔۔تمہاری اتنی جرات۔'


اس نے حمنہ کو تھپڑ مارنے کے لیئے ہاتھ اٹھایا تھا جسے عثمان نے ہوا میں ہی تھام لیا۔


'یہ غلطی مت کرنا نہیں تو تمہارا ہاتھ توڑنے میں ایک منٹ نہیں لگے گا مجھے ۔جیسا میری بیوی نے کہا ہے کرو اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔'


عثمان غصے سے پھنکارا تھا۔


'عثمان۔۔۔۔۔۔'


"Get lost"

ردا نے ایک نظر دونوں کو دیکھا اور پھر پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔ عثمان حمنہ کو دیکھنے لگا جو واپس کچن کی طرف جا رہی تھی۔ردا کے سامنے حمنہ کا یوں کھڑے ہونا نہ جانے کیوں عثمان کو بہت اچھا لگا تھا۔


'آ کے مجھے کپڑے نکال کر دو۔'


عثمان حمنہ کو حکم دیتا کمرے میں چلا گیا جو حمنہ کو اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ چپ چاپ اسکے پیچھے کمرے میں چلی گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب جانان کو اپنے ساتھ پشاور لے آیا۔جانان کی حالت بہت بہتر ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وہ سفر کی وجہ سے بہت تھک گئی تھی۔اس لیئے دراب نے پہنچتے ہی اسے گل کے ساتھ کمرے میں بھیج دیا اور خود ہاشم صاحب کے کمرے کا رخ کیا۔


'آ گیا ہمارا شیر۔'


ہاشم صاحب اسے دیکھتے ہی خوش ہوئے اور اس کے قریب آتے ہی اسے گلے لگا لیا۔


'کیسا ہے لالے کی جان اور وہ کہاں ہے جسے تم ساتھ لانے والا تھا۔وجی نے بتایا ہم کو اس کے بارے میں سب کچھ۔تم سے زیادہ تو ہم اس سے ملنا چاہتا تھا۔'


دراب ان کے انداز پر مسکرایا۔


'وہ تھک گئی تھی اس لیئے گل کے ساتھ بھیج دیا کمرے میں۔'


'لو تو یہ کونسا بڑا مسلئہ ہے چلو ہم وہاں چلتے ہیں۔چلو۔۔'


ہاشم صاحب اٹھ کر چل دیے تو دراب بھی ان کے پیچھے جانے لگا۔جانان کے کمرے کے باہر پہنچ کر انہوں نے دروازہ ناک کیا تو گل نے ہنستے ہوئے دروازہ کھولا۔ضرور جانان اسے اپنی باتوں میں لگا چکی تھی۔


'ماشااللہ بہت پیارا ہے ہمارا بیٹی۔اگر اس نالائق نے ذیادہ تنگ کیا ہے تو بتانا ہمیں۔جوتے سے پٹائی کریں گے اسکی۔'


انہوں نے جانان کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو پہلے تو جانان انجان آدمی کو دیکھ کر گھبرا گئی۔لیکن ان کی باتیں سن کر ہنسنے لگی اور اسکا دل کیا انہیں دراب کی گن گن کر شکایتیں لگائے۔جبکہ ان کی بات پر دراب کا منہ بن گیا۔

ہاشم صاحب کا لہجہ اور مزاج بلکل پٹھانوں والا تھا جو جانان کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔


'آپ بیٹھ جائیں۔'


جانان نے ہچکچاتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دیے۔


'نہیں ابھی تم آرام کرو لیکن بعد میں ہمارے کمرے میں آ جانا پھر خوب ساری باتیں بھی کر لیں گے اور لڈو بھی کھیل لیں گے۔'


جبکہ باتوں اور لڈو کا سن کے جانان بہت ذیادہ خوش ہو گئی۔یہاں آتے ہی اسکی ایک اچھی سی دوست بن گئی تھی اور دراب کے بابا تو بہت زیادہ اچھے تھے۔جانان اب یہ سوچ رہی تھی کہ اگر انکل اتنے اچھے ہیں تو ان کے بیٹے کس پر چلے گئے۔


'میں نے اپنی آپی اور امی سے بات کرنی ہے ۔یہ آپ کے بیٹے مجھے بات نہیں کرنے دیتے-'


جانان نے منہ بصور کے کہا تو ہاشم صاحب دراب کو گھورنے لگے اور یہ دیکھ کر جانان دل سے خوش ہوئی۔


'تم فکر نہ کرو ہم خود بات کروائے گا ابھی بس آرام کرو ۔ٹھیک ہے؟


ہاشم صاحب مسکرا کر بولے تو جانان نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا ۔ہاشم صاحب نے اس کے سر پر پیار دیا اور باہر چلے گئے۔جانان کے کمرے سے باہر آتے ہی ہاشم صاحب دراب کو دیکھنے لگے۔


'تو کیا سوچا ہے آپ نے؟'


'میں اس سے نکاح کروں گا۔

ہاشم صاحب کے چہرے سے مسکان ایک پل کو غائب ہوئی۔

'سب کچھ چھپا کر نکاح کرو گے۔اتنی چھوٹی بات نہیں ہے دراب سوچا ہے اگر اسے پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔'

ہاشم صاحب اب بلکل صاف لہجے میں دراب سے بات کر رہے تھے جو ان کے سنجیدہ ہونے کی نشانی تھا۔

'نہیں اسے کبھی بھی پتا نہیں چلے گا ۔آپ فکر نہ کریں ۔میرا ارادہ اسے یہاں پر رکھنے کا ہے ۔یہاں وہ محفوظ بھی رہے گی اور اسے کبھی سچ پتا نہیں لگے گا۔

لیکن اب اس کے بغیر نہیں رہوں گا۔'

دراب نے پختہ لہجے میں کہا تو ہاشم صاحب مسکرائے۔

'او تو پھر تو اس کو نکاح کے لیئے منانا پڑے گا ۔'

'وہ میرا نہیں آپ کا مسئلہ ہے کیونکہ اس سے آپ بات کریں گے۔'دراب نے مسکرا کر کہا تو ہاشم صاحب اسے آنکھیں چھوٹی کر کے دیکھنے لگے۔

'سہی ہے بھئی لڑکی تمہیں پسند آئے اور منانے کا معاملہ مجھ پر ڈال دو۔بلکل صحیح ہے۔'

دراب ان کی بات پر مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ باہر آتے ہی اسے سامنے وجدان اور سعد نظر آئے تو وہ ان کی طرف چل دیا۔

'دراب بادشاہ کا کیا کرنا ہے ؟'وجدان نے اس سے پوچھا۔

'فلحال کچھ نہیں ابھی میں جانان پر دھیان دینا چاہوں گا لیکن اگر بادشاہ کچھ خطرناک پلان بنائے تو مجھے اس کی خبر ہونی چاہئیے۔'

'اور میرے تحفے کا کیا؟'

وجدان نے سپاٹ سا چہرہ بنائے پوچھا تو دراب اسے حیرانی سے دیکھنے لگا۔

'کیسا تحفہ؟'

'ہمارے ساتھ تو چلو دراب تحفہ تمہیں بہت پسند آئے گا۔'

جواب سعد کی طرف سے آیا تھا جو چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ دراب کو دیکھنے میں مصروف تھا۔

'ٹھیک ہے چلو۔'

دراب اتنا کہتا ہوا وجدان اور سعد کے ساتھ چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے ردا گئی تھی ،حمنہ اور عثمان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔عثمان بیڈ پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا اور لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے اس نے نظر کا چشمہ لگایا تھا جو وہ صرف پڑھتے ہوئے یا کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے لگاتا ۔


حمنہ کی ایک نظر اس پر پڑی تو اس کا دل کیا کہ عثمان کو بتائے کہ اسے گلاسز بہت سوٹ کرتے ہیں لیکن پھر خود کو ڈپٹتے ہوئے ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔

کپڑے بدل کر واپس آئی تو عثمان ابھی تک کام کر رہا تھا۔حمنہ کو لگا وہ سو گیا ہو گا لیکن آج تو لگ رہا تھا کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ ہی نہیں۔اس لیے خاموشی سے جا کے بیڈ کے بلکل کنارے پر لیٹ گئی۔


'اتنا کنارے پر سو گی تو گر جاؤ گی ۔'


عثمان نے کہا تو حمنہ منہ بنا کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔


'آپ کو مجھ سے نہیں اپنی اس پرانی بیوی سے تعلق ہونا چاہئے جا ابھی بھی آپ کے پیچھے آتی ہے'


حمنہ کی اس بات پر عثمان لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسے سائیڈ پر رکھا اور اپنی گلاسز بھی لیپ ٹاپ پر رکھ کرحمنہ کو دیکھنے لگا۔


'جیلس ہو رہی ہو؟'


'جی نہیں !بس ایک بات آپ کو بتانا چاہوں گی کہ جس طرح سے آپ مجھے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اسی طرح سے آپ بھی میرے ہیں۔میں برداشت نہیں کروں گی آپ کو کسی اور کے ساتھ ۔اپنے دماغ میں بٹھا لیں یہ بات۔'


عثمان کی بات پر حمنہ بیٹھ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔عثمان کو توقع نہیں تھی کہ حمنہ ایسا کچھ کہے گی۔اس سے پہلے کہ حمنہ واپس لیٹتی عثمان نے اس کا بازو پکڑ کے اسے اپنی طرف کھینچا۔حمنہ بھی توازن قائم نہ رکھتے ہوئے اس پر گر گئی۔

اس سے پہلے کہ اسے کچھ سمجھ آتا عثمان نے اسکا چہرہ پکڑ کے اپنے قریب کیا اور اس کے نازک لبوں پر جھک کے اس کی سانسیں روک گیا۔حمنہ اپنے آپ کو چھڑانے لگی تو عثمان کے انداز میں مزید شدت آ گئی۔حمنہ کی سانسیں تھم رہی تھیں۔آخر کار اس پر رحم کھا کر عثمان نے اسے چھوڑ دیا۔

حمنہ پہلے تو آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے لگی پھر وہی آنکھیں چھوٹی کر کے سرخ چہرے کے ساتھ اسے گھورنے لگ گئی۔


'سمجھتے کیا ہیں خود کو آئندہ میرے قریب مت آئے گا۔،'


حمنہ نظریں جھکاتی ہوئی بولی اور پھر دوسری طرف منہ کر کے سونے لگی۔عثمان کے دل میں اسے پانے کی تڑپ مزید شدت اختیار کر رہی تھی۔


بہت جلد تم مکمل طور پر عثمان ملک کی ہو جاؤ گی پھر تمہیں اپنی محبت میں اس قدر ڈوبا دوں گا کہ تم میرے سامنے خود جھکو گی ۔یہ وعدہ ہے تم سے۔عثمان حمنہ کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجدان دراب کو ان کے کام والی جگہ پر لایا تھا ۔جو ان کا سیکرٹ پلیس تھا اور وہ وہاں پر ذیادہ تر لوگوں کو اغواء کر کے ٹارچر کرنے لاتے تھے۔اس کے علاوہ ان کا اسلحہ بھی یہیں پر ہوتا ۔دراب کو پتا نہیں تھا کہ وجدان اسے یہاں کیوں لایا تھا۔

وجدان نے ایک بند کمرے کی طرف اشارہ کیا۔


'تمہارا تحفہ۔'


وجدان اتنا کہہ کے وہاں سے چلا گیا۔دراب کمرہ کھول کے اندر داخل ہوا جہاں ایک آدمی کو کرسی کے ساتھ باندھا گیا تھا۔دراب اسے دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ یہی تو وہ آدمی تھا جس نے جانان کو گولی ماری تھی۔

دراب غصے سے اس کے پاس گیا اور بالوں سے پکڑ کے اسکا سر اوپر کیا۔شان نے جیسے ہی دراب کو دیکھا ڈر سے کانپنے لگا۔


'د۔۔۔دارا۔۔۔۔۔۔معاف۔۔۔۔۔'


ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب دراب نے زور دار گھونسہ اس کے منہ پر مارا۔


'تیرے ساتھیوں نے تو دارا کا کچھ بگاڑا بھی نہیں تھا۔تو ان کا میں نے وہ حال کیا ۔تو نے تو دارا کی زندگی ،اسکی جان پر ہاتھ ڈالا تو یہ سوچ کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا۔'


وہ آدمی بری طرح سے رونے لگا۔دراب کمرے میں رکھے آلات کے پاس گیا اور اس میں سے ایک کٹر پکڑ کے لایا۔


'فکر مت کر اتنی جلدی نہیں مرے گا تو ۔روزانہ جتنا درد ملے گا نہ اس کا علاج بھی ہو گا ۔ایک ایک کر کے اعضاء ختم ہوں گے تیرے اور جس دن مر جائے گا تیرے بادشاہ تک پہنچا دیا جائے گا۔وہ بھی تو دیکھ لے دارا سے بھڑنے کا انجام۔اسی ہاتھ سے چلائی تھی نا گولی میری جانان پر۔'


اتنا کہتے ہی دراب نے اس کا دائیاں ہاتھ پکڑا اور اس کی انگلیاں کاٹنا شروع کر دیں۔پورے کمرے میں اسکی چینخیں گونج رہی تھیں لیکن وہاں کسی کو پرواہ نہ تھی۔دائیں ہاتھ کی انگلیاں کاٹنے میں ہی وہ درد سے بے ہوش ہو گیا۔


'سعد ہوش دلا اسے اور کل بائیں ہاتھ کی انگلیاں کاٹنا اور پھر پیروں کا رخ کر لینا۔'


دراب بے دردی سے اسکے انگلیوں کے بغیر ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے بولا،جہاں سے خون اب پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جانان یہاں پر بہت خوش تھی خاص طور پر گل اور ہاشم صاحب کی وجہ سے ۔ہاشم صاحب کی جانان سے بہت زیادہ دوستی ہو گئی تھی وہ ان کے کمرے میں بیٹھ کر یا تو ان سے باتیں کرتی رہتی یا پھر وہ دونوں لڈو کھیلتے۔جانان نے اپنے پلان کے مطابق دراب کی سب شکایتیں لگائی تھیں اور اب بس اسے جوتے پڑتے ہوئے دیکھنے کا انتظار تھا۔ہاشم صاحب نے اپنے وعدے کے مطابق اس کی حمنہ سے بات بھی کروائی تھی لیکن حمنہ کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا۔حمنہ کو ابھی بھی یہی لگتا تھا کہ وہ شایان شاہ کے پاس ہے۔جبکہ حمنہ نے جب اپنی شادی کے بارے میں بتایا تو جانان نے ناراض ہو کر فون بند کر دیا تھا۔تب سے وہ حمنہ سے ناراض تھی۔

ہاشم صاحب نے جانان کو جتنی توجہ اور پیار ان چند دنوں میں دیا تھا اسے ساری زندگی اسکے اپنے باپ سے نہیں ملا تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ اب ان کے بہت قریب ہو گئی تھی اور ان کے حکم کے مطابق انہیں بابا کہ کے بلاتی۔


'بابا آپ کتنی چیٹنگ کرتے ہیں۔آپ کو دو آیا تھا میں نے خود دیکھا تھا۔'


جانان کے شکوہ پر ہاشم صاحب ہنستے ہوئے اسے دیکھنے لگے۔


'اگر ایسا ہے تو تم ثابت کرو ہم بھی مان لے گا۔'


ہاشم صاحب کے ایسا کہنے پر جانان نے لڈو وہاں سے ہٹا کر سارا کھیل خراب کر دیا اور اب بہت فخر سے انہیں دیکھنے لگی۔


'اچھا کیا ویسے بھی ہم تو جیت ہی گیا تھا۔'


'بلکل چیٹنگ کر کے۔'۔


جانان نے منہ بسور کر کہا۔


'اچھا تم چھوڑو اسے، ہمیں تم سے کچھ بہت ضروری پوچھنا ہے۔'ہاشم صاحب نے جانان سے کہا تو وہ ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے انہیں دیکھنے لگی۔


'دیکھو جو تم سے پوچھیں گے نا اسے بہت آرام سے سننا اور سمجھنا۔ٹھیک ہے۔'


'جی ٹھیک ہے۔'جانان نے جلدی سے کہا۔


'تم ہمارا بیٹی ہے،اس لیئے ہم چاہتا ہے کہ یہں رہو تم ہمارے پاس اور اسکا ایک ہی طریقہ ہے۔'


'وہ کیا؟'جانان جو بہت غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی خوشی سے پوچھنے لگی۔


'ہم تمہارا اور دراب کا نکاح کرنا چاپتا ہے۔'


'جی۔'جانان حیرت سے اچھلی تھی۔


'ایسا نہیں ہو سکتا ،انہیں تو میں اچھی ہی نہیں لگتی ۔وہ مانیں گے ہی نہیں۔'جانان اطمینان سے چہکتے ہوئے بولی۔


'ہم نے تم سے تمہارا فیصلہ پوچھا ہے دراب کا نہیں۔تم اپنا بتاؤ ،کرو گی اس سے نکاح؟'


ہاشم صاحب کے ایسا کہنے پر جانان نے سر جھکا لیا۔پھر طویل خاموشی کے بعد بولی۔


'میں کیا بتاؤں آپ میرے بابا ہیں تو یہ تو اپ کو پتا ہونا چاہیے نا۔لیکن میں آپ کو بتا دیتی ہوں کہ انہیں میں بلکل پسند نہیں۔ان کا بس چلے تو مجھے غائب کر دیں اور کبھی تو یوں غصے سے دیکھتے ہیں جیسے مجھے کھا ہی جائیں گے۔اس لیئے وہ تو ماننے ہی نہیں والے تو میں کیوں سوچوں۔'


دراب جو ہاشم صاحب سے بات کرنے آ رہا تھا اسکی باتیں سن کر وہیں رک گیا۔پہلے تو وہ بہت حیران ہوا پھر اس کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ آئی۔

تو تمہیں یہ لگتا ہے کہ تم مجھے پسند ہی نہیں ۔یہ تو اب میں تمہیں اپنی دسترس میں آنے کے بعد بتاؤں گا کہ تم مجھے کتنی اچھی لگتی ہو۔بس تم خود کو تیار رکھنا میرے لیئے جانانِ دراب۔

دراب سوچ کر مسکراتا ہوا وہیں سے پلٹ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان صاحب کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں ۔عثمان ملک بہت آسانی سے جیت سکتا تھا اور اسکا اندازہ انہیں اس کے جلسے دیکھ کر ہو گیا تھا ۔وہ اگر کوئی جھوٹ بھی اس کے بارے میں پھیلا دیتے تو عوام کو کچھ فرق نہیں پڑنا تھا اور ثبوت کے بغیر تو وہ ہی جھوٹے مانے جاتے۔وہ الیکشن کو دھوکے سے نہیں جیت سکتے تھے ،عثمان ملک کافی بڑی پارٹی کا حصہ تھا اور ان کے خلاف تو دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


سوچ سوچ کر ان کا دماغ دکھنے لگا تھا۔آخر کار ان کے ذہن میں ایک ترغیب آئی ۔یہ سب عثمان صرف حمنہ کی وجہ سے کر رہا تھا انہیں کچھ ایسا کرنا تھا جس سے حمنہ اسے چھوڑ کر آ جائے اور عثمان پھر سے ان کے قابو میں آ جائے۔


وہ جان گئے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔بس اس مقصد کے لیئے انہیں ایک لڑکی کی ضرورت تھی جو حمنہ اور عثمان کے درمیان دوری کی وجہ بنے۔پھر وہی ہو گا جو وہ چاہتے ہیں۔

یہ سوچتے ہی انہوں نے اپنے پی اے کو کال کی۔


'باسط عثمان ملک کی پہلی بیوی کے بارے میں پتہ لگاؤ کہاں ہے ،کیا کرتی ہے ۔ایک گھنٹے میں مجھے ہر طرح کی انفارمیشن چاہئے۔


'یس سر'


سلمان صاحب فون بند کر کے پھر سے عثمان ملک کو راستے سے ہٹانے کے بارے میں سوچنے لگے۔انہیں اپنا خواب اور اپنی جیت عزیز تھی ،ان کے لیئے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا ۔وہ اس بات سے انجان تھے کہ خود غرضی انکا ہر تعلق ختم کر رہی تھی اور بہت جلد وہ اکیلے ہونے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان حیرانی سے اپنے سامنے موجود عروسی جوڑے کو دیکھ رہی تھی جو ابھی گل نے اس کے سامنے رکھا تھا۔مختلف رنگوں کے امتزاج میں وہ جوڑا بہت زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔


'ہائے جانان کتنا پیارا جوڑا ہے نا ۔تم تو شہزادی لگے گا یہ پہن کے۔'


گل اپنے مخصوص پختون لہجے میں جانان کے پاس کھڑی بول رہی تھی جبکہ جانان کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنی جلدی اسکا نکاح کیسے ہو سکتا ہے۔ابھی کل تو بابا نے اس سے پوچھا تھا اور آج اسے یہ پتا چل رہا تھا کہ وہ جانان دراب خان بننے جا رہی ہے۔

وہ کیسے یہ نکاح کر سکتی ہے اس میں تو کوئی اسکا گھر والا شامل نہیں اور ان سے پوچھے بغیر وہ کیسے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے۔یہ خیال آتے ہی جانان رونے لگی۔اسے روتے دیکھ کر گل بہت زیادہ گھبرا گئی اور باہر جا کر دراب کو ڈھونڈنے لگی۔


'لالا وہ جانان روتی جا رہی ہے۔'


گل کو جیسے ہی دراب ملا اس نے دراب کو بتایا جو فوراً اٹھ کر جانان کے کمرے کی طرف چل دیا۔

جانان نے دراب کو دیکھا تو اور زیادہ رونے لگی۔دراب اس کے پاس آ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔


'کیا بات ہے جانان ایسے کیوں رو رہی ہو؟'


دراب نے پریشانی سے پوچھا۔تو جانان آنسو صاف کرتی اسے دیکھنے لگی۔


'م۔۔۔۔میں کیسے آپ سے نکاح کر سکتی ہوں اپنے گھر والوں کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔انہیں برا لگے گا۔'


'تو مت کرو۔'


دراب نے اسے کہا تو وہ حیرانی سے دراب کو دیکھنے میں مشغول ہو گئی۔


'تم منع کر دو ،کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بس زیادہ سے زیادہ بابا کو ہی برا لگے گا نا کہ انہوں نے تمہیں اتنی محبت سے اپنے پاس رکھنے کے لیئے تمہیں کچھ کہا اور تم نے منع کر دیا۔دل ہی ٹوٹے گا نا ان کا،دکھی ہو جائیں گے لیکن کوئی بات نہیں میں سمبھال لوں گا۔'


جانان آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی ۔


'میں ایسا نہیں کر سکتی میں بھی بابا سے بہت پیار کرتی ہوں۔'


'تو پھر نکاح کر لو کیونکہ اگر نہیں کرو گی تو انکا دل ٹوٹ جائے گا آخر انہوں نے اتنے مان سے یہ فیصلہ کیا۔'


دراب نے ہاشم صاحب کو کس طرح سے نکاح کے لیئے منایا تھا یہ وہی جانتا تھا۔کیونکہ وہ جانان سے واضع طور پر جانے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن دراب کی ضد کے آگے جھک گئے۔


'میں نے آپی سے بات کرنی ہے۔'


جانان نے کہا تو دراب نے موبائیل نکال کر اس کو دیا جسے جانان حیرت سے دیکھنے لگی۔


'آپ کے پاس تو موبائیل تھا ہی نہیں۔'


'اب لے لیا۔'


دراب نے مسکرا کے کہا تو جانان حمنہ کا نمبر ملانے لگی۔کچھ لمحوں کے بعد حمنہ نے فون اٹھا لیا۔


'اسلام و علیکم۔ آپی کیسی ہیں آپ؟'


'میں بلکل ٹھیک ہوں جانو تم بتاؤ سب ٹھیک ہے نا؟حمنہ بہت محبت سے بولی۔


'آپی آپ سے کچھ پوچھوں؟' جانان کسی مجرم کی طرح سر جھکائے بات کر رہی تھی۔


'ہاں جانو بولو۔'


'آپی اگر مجھے خود سے کوئی بہت بڑا فیصلہ کرنا ہو تو مجھے کیا کرنا چاہیئے؟


جانان نے ڈرتے ہوئے پوچھا تو حمنہ پریشان ہو گئی۔


'کیا ہوا جانو سب ٹھیک ہے نا؟ہوا کیا ہے؟


'آپی آپ کو نہیں بتا سکتی نا ،آپ بس میرے سوال کا جواب دیں۔


حمنہ پہلے تو خاموش رہی پھر گہرا سانس لیتے ہوئے بولی۔


'جانان خود سے وہی فیصلہ لو جس میں تمہاری اور دوسروں کی خوشی ہو۔ایسا نہ ہو کہ خودغرضی سے اپنے تمام رشتوں کو خراب کر دو اور ایسا بھی نہ ہو کہ دوسروں کے لیئے اپنی خودی مٹا دو۔اس لیئے بہتر یہی ہے کہ دونوں میں توازن رکھو اور محبتوں کی قدر کرو۔کچھ پلے پڑا جھلی!'


حمنہ شرارت سے بولی تو جانان مسکرا دی۔


'تھینک یو سو مچ آپی آپ سب سے بیسٹ ہو۔اچھا میں پھر بات کروں گی میں نے تیار ہونا ہے۔اللہ حافظ!'


جانان حمنہ کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی فون بند کر چکی تھی اور پھر شرم سے سر نیچے کر کے موبائیل دراب کو دے دیا۔


'آپ گل کو واپس بھیج دیں۔'


اسکی بات پر دراب بھی مطمئن ہو کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'تو آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیٹی گھر آ جائے اور عثمان پر آپ قابو پا کر آسے الیکشن سے ہٹا دیں،وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس میں میرا کیا فائدہ ہوا؟'


ردا سلمان صاحب کے آفس میں بیٹھی ان کا پلان سن رہی تھی۔سلمان صاحب اسے استعمال کر کے حمنہ کو عثمان کے خلاف کرنے کا سوچ رہے تھے۔


'کیا چاہئے تمہیں؟۔'سلمان صاحب نے اسے پوچھا۔


' مجھے عثمان کی دولت چاہئے۔زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی میں نے اسے ایسے ہی چھوڑ کر ۔لیکن اب وہ ساری دولت میں حاصل کر کے رہوں گی۔'


ردا ادا سے بولی تھی۔


'ٹھیک ہے بس ہمیں کچھ ایسا کرنا ہو گا کہ عثمان ہماری مٹھی میں آ جائے اور ہماری ہر بات مان لے۔آخر عثمان نے مجھ سے بے زبانی کی ہے،اگر وہ وعدہ پورا نہیں کرے گا تو میں بھی حمنہ کو چھین لوں گا اس سے۔


'میرے پاس ہے ایک طریقہ بس میں جیسا کہتی ہوں آپ کرتے جائیں۔کیونکہ میں نے عثمان کی آنکھوں میں آپ کی بیٹی کے لیئے بہت کچھ دیکھا ہے۔اس لئے وہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔'


سلمان صاحب نے ہاں میں سر ہلایا۔وہ عثمان ملک سے ہارنا نہیں چاہتے تھے اور اس کے لئیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'قبول ہے۔۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔'


یہ لفظ ادا کرتے ہوئے جانان کی نظریں دراب پر تھیں جو دنیا جہان کی محبت اور اطمینان اپنی آنکھوں میں سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔ دراب سکن کلر کی شلوار قمیض پر براؤن ویسکاٹ پہنے بہت ذیادہ خوبرو لگ رہا تھا۔جانان کو لگا تھا کہ اس نے آج سے پہلے دراب کو کبھی غور سے دیکھا ہی نہیں تھا۔وہ سنہری آنکھوں والا لڑکا بہت زیادہ ہینڈسم تھا

اور جانان اب اس کے نام لکھ دی گئی تھی ۔سب لوگ اس نکاح سے بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے۔خاص طور پر ہاشم صاحب، وہ بار بار جانان اور دراب کی نظر اتار رہے تھے۔جانان شرمائے جا رہی تھی۔سعد نے تو اسے صاف صاف کہ دیا تھا کہ وہ اب جانان کو گڑیا نہیں بلکہ بھابھی کہہ کے بلائے گا۔جس پر جانان نے منہ بنا کر کہا کہ ایک ہی تو بھائی ہے وہ بھی ان ادرک کو دے دیں آپ۔اس بات پر سب قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے سوائے وجدان کے۔

جانان کو وہ آدمی عجیب ہی لگتا تھا ۔اس کے چہرے پر کبھی بھی کسی طرح کا تاثر آیا ہی نہیں تھا۔جانان کو تو اس سے بات کرتے بھی ڈر لگتا تھا۔

کافی دیر سب لوگ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے اور پھر ہاشم صاحب نے گل کے ساتھ جانان کو کمرے میں بھیج دیا تو جانان بہت زیادہ خوش ہو گئی کیونکہ وہ مسلسل دراب کی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی اور اسکی معنی خیز نظروں کی تپش سے وہ بہت زیادہ گھبرا رہی تھی۔


لیکن اس کی یہ خوشی پل بھر کی ہی تھی ۔گل اسے اس کے کمرے کی بجاۓ دراب کے کمرے میں لے آئی تھی۔گل جیسے ہی جانے کے لیئے مڑی تو جانان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


'گل کتنی ظالم دوست ہو تم مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر جا رہی ہو۔تم تو میری اچھی دوست ہو نا تو پھر یہیں رہو میرے ساتھ۔'


جانان بہت گھبرائی ہوئی آواز میں بولی تھی۔


'ارے اکیلا کہاں ہے تم ابھی دراب لالا آ جائے گا تم گھبراؤ نہیں۔'


گل کے ایسا کہنے پر جانان اور زیادہ گھبرا گئی۔


'انہیں کا تو ڈر ہے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کھا ہی جائیں گے۔جن کہیں کے۔بھلا کوئی اپنی دلہن کو ایسے بھی دیکھتا ہے؟'


جانان کے ایسا کہنے پر گل آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے لگی اور جلدی سے وہاں سے چلی گئی۔جانان نا سمجھی سے وہیں کھڑی اسے کوستی رہی۔


جانان کمرے کا جائزہ لینے لگی جو بہت زیادہ خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ۔ہر چیز کی سجاوٹ بہت ذیادہ کلاس سے کی گئی تھی اور ان سب چیزوں سے دراب کا انداز چھلک رہا تھا۔

جانان کھڑکی کے پاس جا کر باہر موجود چاند کو دیکھنے لگی جو کبھی بادلوں سے نکل کر دیدار کرواتا تو کبھی شرما کر دوبارہ چھپ جاتا۔جانان اس نظارے میں اتنا زیادہ کھوئی ہوئی تھی کہ اسے دراب کی آمد کا پتا ہی نہ لگا۔

دراب مسکراتا ہوا اس کے پاس آیا اور پیچھے سے اسے خود میں بھینچ لیا۔جانان گھبرا کر بلکل ساکت ہو گئی۔


'تو کیا کہا تھا تم نے بابا سے کہ میں تمہیں پسند نہیں کرتا اور اگر ہو سکے تو غائب کر دوں۔'


دراب کے ایسا کہنے پر جانان جلدی سے پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔تو دراب انتہائی محبت سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسکے سجے سنورے روپ کو دیکھنے لگا۔افغان طرز کا لباس اور زیوات جانان کو ایک پری کی طرح سجانے کے لیئے کافی تھے۔


'پسند نہیں جانانِ دراب ،دراب خان تم سے عشق کرتا ہے۔تم دراب خان کا سب کچھ ہو ۔اسکی دیوانگی،محبت،عشق،جنون،چاہت ہر جزبے کا مرکز ہو تم۔'


دراب اسکے سرخی مائل گال کو انگوٹھے سے سہلاتے بول رہا تھا ۔ جانان کے نظریں جھکانے پر دراب اس کے سجے ہوئے لبوں پر جھکا۔جانان کا وجود اسکی گرفت میں کانپنے لگا۔دراب کے عمل میں بہت نرمی تھی لیکن جانان کو لگ رہا تھا کہ اسکی سانسیں تھم جائیں گی۔کافی دیر بعد دراب نے رحم کھا کر اسے آزاد کیا ۔


جانان نظریں جھکائے بری طرح سانس لینے میں مصروف تھی۔دراب نے اسے باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لا کر بہت نرمی سے بیٹھا کر اسکی جیولری اتارنے لگا۔


'دراب۔۔۔۔۔'


جانان کچھ کہنے لگی تو دراب نے اس کے لبوں پر اپنی انگلی رکھ دی۔


'آج نہیں جانان ،بہت بولی ہو تم ۔آج تم چپ رہو گی اور مجھے سنو گی ،مجھے محسوس کرو ۔اب ہمیں موت کے سوا کوئی جدا نہیں کر سکتا جانان تم بھی نہیں،یاد رکھنا یہ۔'

دراب اسکا چہرہ تھامے شدت سے بول رہا تھا۔


وعدہ کرو جانان مجھ سے ہمیشہ محبت کرو گی چاہے کچھ بھی ہو جائے وعدہ کرو۔'


'وعدہ۔' جانان نظریں جھکا کر اتنا ہی بول پائی تھی۔


دراب نے ایک بریسلٹ اسکی نازک کلائی میں پہنایا تو اسکی نظر جانان کی انگلی سے بندھے رنگین دھاگے پر گئی۔


'یہ گل نے پہنایا ہے نا؟اسکا مطلب جانتی ہو تم؟'دراب نے اس دھاگے کو کھولتے ہوئے پوچھا تو جانان نے نہ میں سر ہلایا۔


'اسکا مطلب ہے کہ دلہن کی سجاوٹ اور اسکا روپ ضائع نہیں گیا۔'


دراب نے اتنا کہ کر اس کا دوپٹہ اس سے جدا کیا تو جانان گھبرا کر اسکے سینے سے لگ کر اسی سے چھپنے لگی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان دراب کے سینے پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔لیکن دراب ساری رات نہیں سویا تھا ۔اسے سونے سے بہتر جانان کے معصوم چہرے کو دیکھنا لگا تھا۔وہ اضطراب میں بھی تھا کہ جانان کہیں اس کی وجہ سے کسی خطرے میں نہ پڑ جائے یا پھر باقی سب کی طرح وہ بھی اسکو غلط سمجھ کے اس سے نفرت نہ کرنے لگے۔

لیکن پھر خود کو حوصلہ دیتا کہ جانان اس سے کبھی بھی نہیں نفرت کرے گی۔وہ تو اس سے بہت ذیادہ محبت کرتی ہے۔مگر اس نے ابھی محبت کا اقرار بھی تو نہیں کیا تھا۔لیکن دراب نے اب سوچ لیا تھا کہ وہ جانان سے اظہار محبت کروا کر دم لے گا۔

نماز کا وقت ہوا تو دراب جانان کے سر پر بوسہ دے کر فریش ہونے چلا گیا۔

نماز پڑھ کر واپس آیا تو جانان ابھی بھی سوئی ہوئی تھی۔دراب مسکراتے ہوئے جانان کے ساتھ بلینکٹ میں لیٹ گیا اور اپنے ٹھنڈے ہاتھ اسکی کمر پر رکھ دیے۔


'سونے دیں نا ۔'


جانان نے اسکا ہاتھ ہٹا کر کہا تو دراب مسکرا دیا۔میری نیندیں حرام کر کے محترمہ کو سونا ہے۔

دراب نے سوچا۔


'جانان اٹھو نماز کا ٹائم جا رہا ہے۔'


دراب نے جانان کو ہلاتے ہوئے کہا تو وہ اسکے سینے میں چھپنے لگی۔

'دراب سونے دیں نا پلیز بہت سردی ہے۔'

'اچھا تو نماز نہیں پڑھنی کیا؟چلو اٹھو شاباش۔'

دراب نے اسکا چہرہ پکڑتے ہوئے پوچھا۔ اسکی آنکھیں نیند کی شدت سے بند ہو رہی تھیں۔

'آپ میری طرف سے معافی مانگ لینا۔'

'جانان شرافت سے اٹھ جاؤ کہہ رہا ہوں میں۔'

دراب نے زرا ڈراتے ہوئے کہا لیکن جانان پھر سے آنکھیں بند کیئے سو گئی۔دراب کو اب بس ایک ہی راستہ نظر آیا،اس نے جانان کا چہرہ اوپر کیا اور اپنے ہونٹ اسکے لبوں پر رکھ دیے۔جانان کرنٹ کھا کر اٹھی اور جلدی سے بیڈ سے اتر گئی۔

'مجھے نماز پڑھنی ہے۔'

جانان اتنا کہہ کر بھاگتے ہوئے واش روم میں چلی گئی تو اسکی اس حرکت پر دراب قہقہہ لگا کر ہنسا ۔

جانان نماز پڑھ کے واپس آئی تو دراب کمبل میں گھسا سو چکا تھا۔جانان کچھ دیر کھڑے اسے دیکھتے رہی اور پھر شرارت سے اپنے گیلے بال کھول کر دراب پر جھٹکنے لگی۔دراب کی ابھی آنکھ لگی ہی تھی جب اسے اپنے اوپر پانی کی بوندیں محسوس ہوئیں۔ دراب کے اٹھتے ہی جانان جلدی سے ڈرائیر پکڑ کے بال سکھانے لگی۔دراب مسکراتا ہوا اٹھا اور جانان کے پاس جا کر اسے کمر سے پکڑ لیا۔جانان اپنی شرارت کو خود پر ہی پلٹتا دیکھ کر گھبرا گئی۔

'دراب چھوڑیں مجھے۔'

'کیوں جانانِ دراب میں تو آرام سے سو رہا تھا تم نے ہی جگایا مجھے اب بھگتو۔'

دراب نے اتنا کہہ کر اسے اپنے بازؤں میں اٹھا لیا۔

''نن۔۔۔۔۔نہیں دراب مجھے بال سکھانے ہیں۔نہیں تو سردی لگ جائے گی۔

جانان نے گھبرا کے کہا تو دراب مسکراتا ہوا ہیئر ڈرائیر لے کر جانان کے پاس آیا اور پھر اسے بیڈ کے پاس موجود سوئچ میں لگا کر خود اسکے بال سکھانے لگا۔جانان اپنا بہانا کامیاب ہونے پر چہرہ نیچے کیئے مسکرا رہی تھی ۔

'لو خشک ہو گئے تمہارے بال ۔'

دراب ڈرائیر سائیڈ پر رکھ کر جانان پر جھکا تھا۔جانان کی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی تھی۔

'نن۔۔ہیں دراب وہ۔۔۔۔۔۔۔'

اس سے پہلے کے جانان کوئی اور بہانا بناتی ،دراب اسکے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لیتا اس کی بولتی بند کر گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ کل سے جانان سے بات کرنے کے بعد بہت مطمئن تھی کیونکہ اسے جانان بہت ذیادہ خوش لگ رہی تھی۔حمنہ سلامت بابا کے ساتھ لان میں بیٹھی تھی ۔اس رات والے واقع کے بعد سے عثمان جلسوں میں مصروف تھا۔حمنہ کا اس سے سامنا تو نہیں ہوا تھا لیکن اس کے بارے میں سوچنا ہی حمنہ کی دھڑکنیں تیز کرنے کے لیئے کافی تھا۔


'آپ کو پتا ہے بیٹا کل عثمان بیٹے کی سالگرہ ہے۔'


حمنہ نے ان کی بات پر حیرانی سے انہیں دیکھا تو وہ مسکرا دیے۔


'ارے بیٹا اتنی بھی کوئی بڑی بات نہیں۔انہیں تو یاد بھی نہیں ہو گا اس بارے میں بلکہ انہوں نے تو اپنے ماں باپ کی موت کے بعد سے اپنی سالگرہ نہیں منائی۔جب صاحب اور بیگم صاحبہ زندہ تھے تو عثمان بیٹے کسی شہزادے کی ماند ہوتے تھے۔انکی زبان سے نکلنے سے پہلے صاحب انکی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔بس پھر نظر لگ گئی انکی خوشیوں کو۔'


سلامت بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے تو حمنہ بہت ہمت کر کے بولی۔


'کیا ہوا تھا بابا؟'


'نیکی کھا گئی ان کو ۔لوگوں کی مدد کرنے کے جزبے نے ان کی دشمنی بڑھا دی اور ان کے کسی دشمن نے ان کے جلسے میں دھماکہ کروا دیا۔عثمان بیٹا کو معلوم ہوا تو وہ بری طرح سے ٹوٹ گئے۔'


اب حمنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔


'وہ جو بننے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بلکل بھی نہیں ہیں۔وہ صرف محبت چاہتے ہیں ۔ویسے ہی جیسے ان سے صاحب اور بیگم محبت کرتے تھے۔'


'اور ردا؟' حمنہ ابھی تک ردا کے بارے میں سوچ رہی تھی۔


'اس کو تو صاحب سے زیادہ دلچسی ان کی دولت میں تھی۔ہمیشہ یہی کوشش کرتی رہیں کہ کسی طرح صاحب کی دولت حاصل کر کے اپنے اس عاشق کے پاس چلی جائے۔عثمان صاحب کو تو یہی لگا تھا کہ وہ ان سے سچی محبت کرتی ہیں مگر صاحب کے ٹوٹنے پر،انکی ماں باپ کی موت کے بعد ان کو چھوڑ کے چلی گئیں۔جب صاحب کو انکی سب سے ذیادہ ضرورت تھی۔'


حمنہ کو انکی باتیں اپنی نظروں میں گرا رہی تھیں۔اس نے عثمان کے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔اس میں اور ردا میں کیا فرق تھا؟محبت تو اس نے بھی نہیں دی تھی عثمان کو الٹا بے رخی ہی دیکھائی تھی ۔لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے ایک موقع دے گی ۔ آخر عثمان بھی تو اس کے لیئے اپنا وعدہ توڑ کر اتنی محنت کر رہا تھا۔تو اس کے بھی تو کچھ فرائض ہوئے۔


'بابا اٹھیں ہمیں بہت کام ہے ،کیک بنانا ہے اور ڈیکوریشن بھی تو کریں گے ۔جلدی کریں پہلے ہی چار بج چکے ہیں۔'


حمنہ ان کو کہتی جلدی سے اٹھی تو سلامت بابا بھی خوش ہو کر اس کے پیچھے چل دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان بہت سارا کام چھوڑ کے گھر آیا تھا ۔اسے شام کو حمنہ نے کال کر کے گھر آنے کو کہا تھا اس وارننگ کے ساتھ کہ اگر وہ نہ آیا تو اسے دس دن گھر سے کھانا ہی نہیں ملے گا۔عثمان ابھی بھی اس کی وارننگ کو یاد کر کے مسکرا رہا تھا۔

اس دن ردا والے واقع کے بعد سے عثمان کے جذبات بہت حد تک بدل گئے تھے۔حمنہ کا اس پر حق جتانا اسے سر شار کر گیا تھا۔وہ اب جلد از جلد حمنہ کو اپنی محبت میں گرا کر اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا اور اس کے لیئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔

اس نے گھر میں قدم رکھا تو پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ حیرت سے لائٹ جلانے کے لیئے آگے بڑھا تو لائٹ خود بخود جل گئی۔عثمان حیرانی سے سارا منزر دیکھنے لگا۔پورے لاؤنج کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔لاؤنج کے درمیان میں ایک میز پر کیک رکھا ہوا تھا جس پر ہیپی برتھ ڈے لکھا ہوا تھا۔


'Happy birthday to you ,happy birthday dear usman,happy birthday to you'


حمنہ بہت پیاری سی آواز میں گاتی ہوئی اس کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔گہرے لال رنگ کے لباس میں ،ہلکا سا میک اپ کیئے اور بالوں کو کھلا چھوڑے وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔

عثمان حیرانی سے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا۔اس نے اپنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ حمنہ اسے اس طرح سے سرپرائز کرے گی۔


'اب مجھے ایسے دیکھ کے نظر لگائیں گے کیا ،کیک کاٹیں۔اس کیک کے چکر میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔'


حمنہ نے منہ بنا کر کہا اور عثمان کے ہاتھ میں چھری پکڑائی۔عثمان نے مسکرا کر کیک کاٹا اور ایک پیس نکال کر حمنہ کی طرف کیا۔حمنہ نے جلدی سے اسے کھا لیا۔حمنہ نے عثمان کو کیک کھلانے کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا تو عثمان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


'کیا ہوا،آپ نے منہ میٹھا نہیں کرنا۔'


حمنہ نے حیرانی سے پوچھا تو عثمان نے اسے اپنی طرف کھینچا اور ایک ہاتھ اسکی کمر پر رکھ کر اسے خود کے قریب کر لیا۔


'کروں گا منہ میٹھا میرے جہان لیکن اس سے نہیں۔'


'عثمان۔۔۔۔۔'


'نہیں حمنہ اب بس ۔اب مزید میں ہم دونوں میں دوری برداشت نہیں کروں گا۔'


عثمان اسے کمرے میں لے آیا اور پاؤں سے دروازہ بند کر کے حمنہ کو بیڈ پر لیٹا کر اس پر جھکنے لگا تو حمنہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔عثمان نے اسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیۓ۔


'آج تمہاری نہیں چلنے دوں گا جان جہان ۔تم نے جتنا بھی تڑپایا ہے نا آج اسکے حساب کا دن ہے۔اس لیئے خود کو مظبوط کر لو اور مجھ سے تو رحم کی توقع بلکل مت رکھنا۔'


عثمان کی بات پر حمنہ نے زور سے آنکھیں بند کر لیں۔عثمان نے مسکراتے ہوئے اسکے کپکاتے وجود کو خود میں سمیٹ لیا اور پھر پوری رات اسے اپنی محبت اور شدت کی آگ میں جلاتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ کی آنکھ ہمیشہ کی طرح نماز کے وقت کھل گئی۔عثمان کسی تکیے کی طرح اسکو خود میں بھینچے سویا ہوا تھا ۔حمنہ کو رات کا گزرا ایک ایک منظر یاد آنے لگا تو وہ گھبراتی ہوئی اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔


'کہاں جانے کے ارادے ہیں جان جہاں۔'


عثمان سوئی ہوئی آواز میں بولا تو حمنہ کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔


'عثمان چھوڑیں نا۔'


'نہیں جان جہاں ایسا سوچنا بھی نہیں۔میں تمہیں کبھی دور نہیں جانے دوں گا۔


عثمان کی پکڑ مزید مظبوط ہو گئی اور اس نے اپنا چہرہ اس کے بالوں میں چھپا کر اسکی گردن کو چومنا شروع کر دیا۔حمنہ اسے پھر سے مدہوش ہوتا دیکھ گھبرا گئی۔


'عثمان چھوڑیں مجھے نماز پڑھنی ہے'


حمنہ کے ایسا کہتے ہی عثمان نے اسے چھوڑ دیا۔تو وہ جلدی سے واش روم میں گھس گئی۔کوئی پندرہ منٹ بعد وہ فریش ہو کر آئی اور عثمان پر نظر ڈالے بغیر نماز پڑھنے لگی۔

عثمان اسے دیکھتا سوچنے لگا کہ کیسے وہ حمنہ کو پا کر اسے جھکانا چاہتا لیکن اب پاسا پلٹ گیا تھا اور وہ خود اس کے سامنے جھک گیا تھا ۔اس کے بغیر اب وہ جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔حمنہ نے اسےاپنی ،بہادری ،محبت اور پاکیزگی سے جیت لیا تھا۔

عثمان مسکراتے ہوئے حمنہ کو دیکھ رہا تھا جو کی اب دعا

مانگ کر جائے نماز طے کر رہی تھی۔


'اگر مجھے گھورنے سے فرصت مل گئی ہو تو اٹھ کر آپ بھی نماز پڑھ لیں۔'


حمنہ کی اس بات پر عثمان کے چہرے سے مسکراہٹ اچانک غائب ہو گئی۔حمنہ نے اس کے پاس جا کر اسکا ہاتھ

تھام لیا۔


'کیا بات ہے عثمان؟'


'میں نماز نہیں پڑھتا۔'


عثمان کا یوں کہنا حمنہ کو حیران کر گیا۔


'وہ تو کافی لوگ نہیں پڑھتے پر آپ کی طرح یوں کہتے بھی نہیں پھرتے۔اس لیئے بہانے چھوڑیں اور اٹھ جائیں۔'حمنہ نے اسے مذاق کیا اور اٹھ کر اسکے کپڑے لینے کیلئے جانے لگی جب عثمان نے بولنا شروع کیا۔


'بابا کے دشمنوں نے ان کے جلسے میں دھماکہ کروا دیا۔ جب تک میں وہاں پہنچا مام کی دیتھ ہو گئی تھی مگر بابا زندہ تھے ۔وہ وینٹیلیٹر پر تھے اور ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ سب خدا کے ہاتھ میں ہے ۔مجھے میری امی نے ہمیشہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالی تھی حمنہ،میں نے بابا کی زندگی کے لیئے نفل پڑھے ،بہت رو رو کر دعائیں کیں اللہ تعالی سے کہ وہ بابا کو بچا لیں۔لیکن بابا نہیں بچے۔'


عثمان بولتے ہوئے ایک پل کو رکا تھا۔


میںّ اللہ تعالی سے ناراض ہو گیا۔میں نے نماز پڑھنا چھوڑ دی ۔پہلے ایک سال تک تنہائی میں رونے اور پھر ہر بری عادت میں،اپنی ضد میں سکون تلاش کرنے لگا۔لیکن وہ مجھے کہیں بھی نہیں ملا۔ جب مجھے اپنی ہٹ دھرمی کا احساس ہوا تو میں نے اللہ تعالی سے معافی مانگنے کا سوچا پر ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔اپنا آپ اس قابل نہیں لگتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ میری مغفرت نہیں ہو گی۔'


حمنہ واپس عثمان کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھ پکڑ کر اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی جس میں اب غم کی انتہا تھی۔


'اللہ تعالی ہماری دعائیں ضرور قبول کرتے ہیں اور اگر کوئی رد بھی ہو جائے تو اسکے پیچھے کو مصلحت ہوتی ہے۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کے بابا اس دنیا میں خوش رہ لیتے جہاں ان کی محبت نہیں تھی اور کیا آپ ان کو روزانہ روتے دیکھ کر سکون محسوس کرتے؟رہی بات معاف کرنے کی تو وہ تو اللہ تعالی منکروں کو بھی کر دیتے ہیں بس ایک بار معافی مانگ کر تو دیکھیں۔چلیں اب اٹھیں اور نماز پڑھ لیں انشاءاللہ آپ کا سکون آپ کو واپس مل جائے گا۔'


حمنہ نے اسے محبت سے کہا تو عثمان نے اسکا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا۔


'کوئی نیکی تو کی نہیں میں نے پھر بھی نا جانے تم جیسی فرشتہ صفت لڑکی کیسے مل گئی مجھے؟' عثمان انتہائی محبت سے پوچھ رہا تھا۔


'نیکی کا تو پتہ نہیں مگر میں آپکی ضد کا نتیجہ ضرور ہوں اب بھکتیں۔'


حمنہ شرارت سے کہتی ہوئی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تو عثمان بھی مسکراتا ہوا فریش ہونے واش روم میں چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


'سردار کام ہو گیا۔'


بہرام بادشاہ کے پاس آ کر اسے بتانے لگا۔بادشاہ نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


'میں نے سب سوچ لیا ہے ۔ایک بم دھماکے کا بندوبست کریں گے۔لیکن وہ دھماکہ صرف اور صرف دارا کو پھسانے کے لیئے کیا جائے گا۔ایک بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں دھماکے کا ناٹک کریں گے ۔وہاں پر ہمارا ہر آدمی ہو گا اور اپنی ہی ایک لڑکی کو دھماکہ خیز مواد پہنا کر اس بھیڑ میں بھیجیں گے۔جیسے ہی دارا اسے بچانے کی کوشش کرے گا وہ لڑکی اور باقی آدمی مل کر دارا کو پکڑ لیں گے۔اس بار وہ نہیں بچے گا۔'


بادشاہ بہرام کے منصوبے سے کافی خوش تھا۔


'واہ بہرام ترکیب تو کمال ہے۔لیکن یہاں کا کیا؟سب کو وہاں بھیج دیں گے تو ادھر ہر چیز کی حفاطت کون کرے گا؟'


'میں ہوں نا سردار۔کچھ دیر کی بات ہے پھر ہر آدمی واپس۔' بادشاہ نے بہرام کی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔


'جو بھی ہو جائے بہرام اسے زندہ لانا میرے پاس۔'


'جی سردار۔تیاری شروع کروا دیتا ہوں پھر دارا تک خبر پہنچا دیں گے۔'


بہرام چہرے پر شیطانیت سجائے بول رہا تھا۔


'جگہ کونسی چنی ہے؟' بادشاہ نے اس سے پوچھا۔


'یہیں سردار تربت میں ۔تا کہ اس کے پاس بھاگنے کا موقع نہ ہو'


بادشاہ نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔بہرام واقعی اس کے لیئے بہت کار آمد ثابت ہوا تھا۔بادشاہ جانتا تھا کہ اس بار اسکا پلان بہت مظبوط تھا اور دارا ضرور اسکی گرفت میں ہو گا۔پھر وہ دارا کی موت کو ان سب کے لیئے عبرت بنائے گا جو اسکے خلاف کھڑے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان نے سارا دن گل اور ہاشم صاحب کے ساتھ گزارا تھا وہ دراب سے بہت زیادہ ناراض تھی کیونکہ اس نے سعد کو کافی دنوں کے لیئے کام پر بھیج دیا تھا اور وہ اس سے مل بھی نہ سکی ۔دراب نے بہت دفعہ اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن جانان نے اسے کوئی موقع ہی نہیں دیا تھا۔دراب اس وجہ سے کافی غصے میں تھا اوپر سے سعد نے بھی اسے فون کر کے بتایا تھا کہ جانان پر گولی چلانے والا شخص مر چکا تھا ۔کل کے ہونے والے ٹارچر کو وہ برداشت نہیں کر سکا۔دراب کے نزدیک اسکی جان جلدی چھوٹ گئی تھی۔

ابھی بھی جانان گل کے ساتھ کچن میں نہ جانے کیا کر رہی تھی۔دراب غصے سے اسکے پاس گیا۔


'جانان میری براؤن کلر کی چادر نہیں مل رہی آکر مجھے دو۔'


دراب نے جانان کو بولا تو وہ گھبرا کر گل کو دیکھنے لگی۔


'لالا وہ تو ہم نے دھلوانے کے لیئے دھوبی کو دیا تھا۔'گل نے جانان کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر جھوٹ بولا۔


'غلی اوسئ او دروغ ودروئ گل۔'(چپ رہو اور جھوٹ بولنا بند کرو گل)


دراب نے آہستہ سے اسے کہا تو گل نے سر جھکا لیا۔جانان کو سمجھ تو نہیں آیا تھا کہ دراب نے کیا کہا لیکن اسے گل کا اترا ہوا چہرہ اچھا نہیں لگا تھا۔

دراب نے آگے ہو کر جانان کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا۔


'آپ بلکل اچھے نہیں ہیں،آپ نے گل کو ڈانٹا بات ہی نہیں کروں گی آپ سے اب میں۔'جانان منہ بنائے دراب کو کہہ رہی تھی۔


'میں نے گل کو نہیں ڈانٹا ،صرف سمجھایا ہے اور قصور سارا تمہارا ہے ۔مجھے تم سے باتیں کرنی ہیں اور تم باقی سب کے ساتھ وقت گزارو گی سوائے میرے۔'


دراب نے اسے بیڈ پر اپنے پاس بیٹھاتے ہوئے کہا۔


'آپ سے باتیں نہیں کروں گی۔مجھے گل نے بتایا کہ آپ نے سعد بھائی کو یہاں سے بھیج دیا اس لیئے بہت ذیادہ ناراض ہوں آپ سے اب جب منائیں گے پھر باتیں کروں گی۔'

جانان نے اترا کے کہا تو دراب بھی شرارت سے مسکرانے لگا۔


'میں نے سوچا تھا کہ باہر چلیں گے اور میں تمہیں سیر بھی کرواوں گا ۔لیکن اب تو تم ناراض ہو ۔۔۔۔۔۔چلو پروگرام کینسل۔'


جانان منہ کھول کر اسے دیکھنے لگی۔


'ارے ایسے کیسے کینسل۔میں نے باتیں کرنے سے منع کیا ہے سیر تو آپ کروا ہی سکتے ہیں بس چپ رہیے گا ۔زیادہ بولنے سے سر دکھنے لگتا ہے۔'


جبکہ دراب یہ سوچ رہا تھا کہ جانان اس سے بات نہ کرنے کا وعدہ کر کے خود ہی اتنا کیسے بول سکتی ہے۔


'چلیں پھر؟'


دراب نے پوچھا تو جانان چادر لینے چلی گئی۔


'جی چلیں ۔۔۔۔اور ہاں مجھے منانے کے لیئے کچھ سپیشل کریئے گا آخر کار نئی نویلی بیوی پہلی دفعہ ناراض ہوئی ہے۔'


دراب جانان کی بات سن کر مسکرانے لگا۔تم فکر مت کرو جانانِ دراب میں تمہیں بہت سپیشل طریقے سے مناؤں گا۔

دراب اپنے ذہن میں طریقہ بھی سوچ چکا تھا کیونکہ وہ اپنی جانان کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حمنہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ عثمان اسے اتنی زیادہ محبت اور عزت دے گا۔وہ تو اپنی قسمت سے بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی۔اسے لگا تھا کہ وہ بھی اپنی ماں کی طرح ایک انسان کے ہاتھ کی کٹ پتلی بن کر رہ جائے گی۔لیکن عثمان کی توجہ نے اسے خود کی قسمت پر رشک کرنے پر مجبور کر دیا۔

وہ کھانا بنا رہی تھی جب اچانک کسی نے پیچھے سے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا تو حمنہ چینخ مار کر ہاتھ میں پکڑی چھری سے اس پر حملہ کرنے لگی۔

اس سے پہلے کہ وہ چھری سے اس کے کندھے کو چیرتی ،عثمان نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔


'کیا بات ہے ،لوگوں کی بیویاں شوہر کی بلائیں لیتی ہیں اور میری خود کو بیوہ کرنا چاہ رہی ہے۔'


عثمان نے شرارت سے کہا تو حمنہ نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگی۔


'آپ کا ہی قصور ہے جان نکال دی میری۔'


عثمان نے مسکراتے ہوئے اسکے گال کو چوم لیا۔


'اب ٹھیک ہے؟'


عثمان کے ایسا کہنے پر حمنہ نے شرم سے منہ پھیر لیا۔


'آپ جا کر فریش ہو جائیں میں کھانا بنا لوں۔'حمنہ نے شرماتے ہوئے کہا۔


'نہیں یار یہ چھوڑو اور باہر چلتے ہیں آج کھانا کھانے ۔ایک کمال کی جگہ ہے تمہیں بھی اچھا لگے گا۔تم جا کر تیار ہو بس۔'


عثمان نے اسکے ہاتھ سے چھری لیتے ہوئے کہا۔حمنہ بھی خوشی سے تیار ہونے چلی گئی۔تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ کالے رنگ کے سوٹ میں تیار ہو کر ،ہاتھ میں چادر پکڑے آئی۔


'چلیں؟'


حمنہ نے پرجوشی سے پوچھا تو عثمان نے موبائیل سے دھیان ہٹا کر اسے دیکھا اور پھر نظریں ہٹانا ہی بھول گیا۔

وہ بے خود سا ہو کر حمنہ کے پاس آیا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔

'اتنا خوبصورت لگ کے باہر نہیں کمرے میں جایا جاتا ہے جان جہاں۔'

عثمان نے معنی خیز انداز میں کہا تو حمنہ نے منہ بنا لیا۔

'نہیں جی ابھی ہم باہر ہی جائیں گے ۔مشکل سے تو آپ کو وقت ملتا ہے۔چلیں'

حمنہ اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے باہر کو کھینچنے لگی تو وہ بھی مسکراتا ہوا ساتھ چل دیا۔حمنہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جا رہے ہیں لیکن عثمان نے جب گاڑی سلمان صاحب کے گھر کے باہر روکی تو حمنہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔

'حمنہ جب ہمارے درمیان سب ٹھیک ہو گیا ہے تو اپنے بابا سے بھی ناراضگی ختم کر دو۔ماں باپ بہت قیمتی ہوتے ہیں یار ۔ان کی قدر کرنی چاہیے ۔'عثمان نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

'عثمان میں ان سے صرف اس وجہ سے نہیں بلکہ انکے اس سلوک کی وجہ سے ناراض ہوں جو انہوں نے بچپن سے ہمارے ساتھ کیا ہے۔انہوں نے ہمیشہ صرف خود سے پیار کیا ہے وہ بھی اتنا کہ ہماری محبت انہیں کبھی نظر ہی نہیں آئی۔'حمنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

'یار اب ایسا نہیں ہے انہیں پچھتاوا ہے۔وہ مجھ سے معافی مانگنے آئے تھے ۔وہ تم سے اور جانان دونوں سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔ایک موقع تو دو میری خاطر۔'

عثمان نے انتہائ محبت سے کہا تو حمنہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

'چلو اب'

عثمان اسکا ہاتھ تھامے گھر میں داخل ہوا۔فاطمہ بیگم حمنہ کو دیکھتے ہی اس کے پاس آکر گلے لگ گئیں۔حمنہ بھی ماں اور بہں کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئی۔

سلمان صاحب کچھ فاصلے پر کھڑے سب دیکھ رہے تھے۔حمنہ فاطمہ بیگم سے جدا ہو کر ان کے پاس چلی گئی۔

'اسلام و علیکم بابا۔'

حمنہ کے ایسا کہتے ہی سلمان صاحب نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔

'مجھے معاف کر دو بیٹا ۔جانے انجانے بہت غلط کیا ہے میں نے۔بہت تکلیف دی ہے تم سب کو۔تم مجھے معاف کر دو تو میں جانان سے بھی معافی مانگ لوں گا۔'

سلمان صاحب کے ایسا کہنے پر حمنہ نے انکے ہاتھ تھام لیئے۔

'نہیں بابا آپ پلیز ایسا کہہ کے مجھے گناہ گار نہیں کریں۔پلیز۔'

سلمان صاحب نے حمنہ کو سینے سے لگا لیا تو حمنہ کے آنسو مزید روانی سے بہنے لگے۔

'چلیں داماد شادی کے بعد پہلی دفعہ آیا ہے اسے یہیں کھڑا رکھیں گے کیا۔'

فاطمہ بیگم نے ایسا کہا تو سب مسکراتے ہوئے لاؤنج میں چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اتنے دنوں کے بعد سعد واپس آ گیا تھا اور اسکی سب سے زیادہ خوشی جانان کو ہوئی تھی ۔ ابھی بھی وہ لان میں ہاشم صاحب ،گل اور سعد کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھی اور ساتھ بیٹھے دراب کو مکمل اگنور کر رہی تھی۔


'آپ لوگ میری ایک بات کا جواب دیں۔اگر ایک آدمی نے ایک دیوار چار دنوں میں بنائی ہے تو چار آدمی ایک دیوار کتنے دن میں بنائیں گے۔'


جانان نے سب کو دیکھتے ہوئے سوال پوچھا تو گل اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلدی سے بولی۔


' ایک دن'


'تم بھی ایک دم نالائق ہو گل۔جب دیوار بن گئی ہے تو وہ پاگل ہیں جو اسے دوبارہ بنائیں گے۔'


جانان اپنے سنائے لطیفے پر خود ہی ہنسنے لگی مگر باقی سب اسے ہنستے ہوئے دیکھ کر اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔


'رہنے دو جانان جوک پرانا ہو گیا ہے۔'


دراب نے چڑ کے کہا۔جانان اسے اتنے دنوں سے اگنور کر کے ناراضگی ظاہر کر رہی تھی جسکی وجہ سے وہ اب بہت ذیادہ چڑا ہوا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ جانان صرف اس سے باتیں کرے اور صرف اسی کے ساتھ وقت گزارے لیکن جانان کبھی ہاشم صاحب کے ساتھ پائی جاتی تو کبھی گل کے ساتھ۔جبکہ دراب کے ایسا کہنے پر جانان کا منہ بن گیا۔


'بابا ان سے کہہ دیں کہ ذیادہ جیلس نہ ہوں ۔سب کو پتا ہے کہ میں ان سے ذیادہ فنی ہوں۔'


جانان نے اترا کے کہا تو ہاشم صاحب دراب کو دیکھتے ہوئے بولے۔


'بھئی جیلس نہ ہو سب کو پتا ہے کہ ہمارا بیٹی تم سے زیادہ فنی ہے۔'


ہاشم صاحب نے جانان کی نقل اتارتے ہوئے کہا تو سب ہسنے لگے سوائے دراب کے۔


'دا سمہ نندا بابا'(یہ صحیح نہیں ہے بابا)


دراب نے منہ بنا کر کہا تو جانان کو لگا کہ اسکے خلاف کوئی بات کی گئی ہے۔


'بابا ان سے کہہ دیں کہ میری پشتو میں بے عزتی نہ کریں۔ورنہ مجھے بھی پنجابی آتی ہے اور اسکی سمجھ انہیں نہیں آئے گی۔'


'او اچھا۔'


دراب نے کہا تو جانان نے بھی اسکی طرف رخ کیا۔


'بلکل جی آپ کو کہنا چاہوں گی کہ

'بوتھی چنگی نہ ہوئے تے بندہ گل ای چنگی کر لیندا۔'(شکل اچھی نہ ہو تو انسان بات ہی اچھی کر لیتا ہے۔)


جانان نے اترا کے کہا۔دراب آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔جبکہ جانان بہت زیادہ خوش تھی کہ اسنے دراب کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تھا۔

اچانک گل نے جانان کا بازو پکڑ کے اسے اپنی طرف کھینچا۔


'جانو لالا کو پاکستان کی بہت سی زبانیں آتا ہے اور ان کو پنجابی بھی بولنا آتا ہے ۔کیا بول دیا تم ان کو؟'


گل کی بات سن کر جانان کے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔اس نے ایک نظر دراب کو دیکھا جو دانت پیستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا ۔بس پھر جانان جلدی سے اٹھی اندر کی طرف بھاگ گئی۔دراب اسکے پیچھے لپکا اور لاؤنج میں پہنچنے تک جانان دراب کی گرفت میں تھی۔دراب نے اسے پکڑتے ہی اپنی گود میں اٹھا لیا اور کمرے کی طرف لے جانے لگا۔جانان ڈر سے کانپ رہی تھی۔


'دراب آئی ایم سوری۔'


وہ جلدی سے بولی تو دراب مسکرا دیا اور اسے کمرے میں لا کر پاؤں سے دروازہ بند کر دیا۔


'نہیں جانانِ دراب شوہر سے بدتمیزی کی سزا تو ملنی ہی چاہئے۔'


دراب نے شرارت سے کہا تو جانان نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں۔دراب نے اسکے گال کو نرمی سے تھاما۔


'سزا تو ملے گی جانان لیکن اب پہلے تمہیں مناؤں گا ۔


اتنا کہہ کے دراب اسے کانپتے ہوئے چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سعد بہت زیادہ پریشان تھا ۔اسے جو خبر پتا چلی تھی وہ بہت خطرناک تھی اسکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اگر وہ دراب تک خبر نہ پہنچاتا تو بہت سے لوگوں کی جان کو خطرہ تھا ۔لیکن دراب نے ابھی تو جانان کے ساتھ زندگی شروع کی تھی پھر کیسے وہ اتنا بڑا خطرہ مول لیتا۔


'کیا بات ہے سعد کافی خاموشی ہے آج تو۔'


دراب نے پیچھے سے آ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔


'کہاں مصروف تھے تم؟'سعد نے اس سے پوچھا ۔


'یار تمہاری یہ جو بہن ہے نا تمہارے جانے کی وجہ سے ناراض ہو گئی تھی بس اسے ہی منانے کی تیاری کر رہا تھا۔'دراب نے مسکراتے ہوئے بتایا۔


'دراب بادشاہ نے کافی بڑے دھماکے کا پلان کیا ہے۔'


'کب اور کہاں؟'دراب نے اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے پوچھا۔


'تربت میں اب سے دس دن کے بعد ایک جلسہ ہے وہاں پر۔کافی زیادہ لوگ ہوں گے وہاں۔'سعد خود بھی پریشان تھا۔


'ٹھیک ہے ہم جائیں گے وہاں ۔بادشاہ مزید لوگوں کو مارنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔'

دراب اتنا بول کر وہاں سے جانے لگا تو سعد اس کے سامنے آیا۔


'پاگل ہو گئے ہو دراب ۔ہم بس اتنا جان پائے ہیں کہ وہاں پر دھماکہ ہو گا کون کرے گا اور کس طرح کرے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔تم نے سوچا ہے کہ یہ کتنا خطرناک ہے ۔تمہاری جان جا سکتی ہے۔'


'پروا نہیں۔'دراب نے پھر سے جانے کی کوشش کی تھی۔


'اور اپنے ساتھ جو زندگی جوڑ بیٹھے ہو اسکی بھی پروا نہیں؟سوچا ہے کہ کیا ہوگا جانان کا اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو؟'


'تم نے سوچا ہے کہ کیا ہو گا اگر دارا وہاں نہ پہنچا تو کتنے معصوم لوگ زندگی سے ہاریں گے۔'

دراب بہت چڑ گیا تھا کیونکہ جو نقشہ سعد نے کھینچا تھا وہ دراب کو اندر تک ہلا گیا تھا۔


'ضروری تو نہیں کہ تم ہی ایسا کرو دراب ہم آرمی کو انفارمیشن دے دیں گے تو ہو سکتا ہے وہ جلسہ رد کروا دیں ۔نہیں تو صرف میں جاؤں گا وہاں۔'


سعد بھی اپنی بات منوانا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر دراب کو کچھ ہو گیا تو جانان بھی جی نہیں پائے گی اور سعد اپنی بہن کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دینا چاہتا تھا اور اس کے لیئے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔


'تمہیں لگتا ہے کہ آرمی کسی ثبوت کے بغیر اس پر یقین کر لے گی اور اگر کر بھی لے تو بہت سے جاسوس ہیں بادشاہ کے آرمی میں سعد ۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔جلسہ سیاسی معاملات کا ہے اس لیئے عوام اس میں ضرور شامل ہو گی۔وہ سیاست دان اپنا جلسہ رد بھی نہیں ہونے دے گا اور آخری بات جو تم نے کی ہے نا اس کا تو سوچنا ہی مت۔'

دراب ایک پل کے لیئے رکا اور پھر سعد کے پاس آیا۔


'دیکھو میرے دوست میری زندگی یہی ہے میں اس سے بھاگ کر یا چھپ کر نہیں رہ سکتا اور نہ رہوں گا۔دارا دراب خان کا حصہ ہے اسے جدا نہیں کر سکتے۔'


دراب اپنی بات کر کے وہاں سے چلا گیا لیکن سعد نے بھی ٹھان لیا تھا کہ وہ دراب کو اپنی جان یوں خطرے میں نہیں ڈالنے دے گا اور اسکے لیئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا ،دارا سے بغاوت بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ اپنی زندگی سے بہت ذیادہ خوش تھی یہ پچھلا ایک مہینہ اس کی زندگی میں حسین ترین رہا تھا ۔اس نے سوچا نہیں تھا کہ سب کچھ اتنا اچھا ہو گا ۔بابا اور عثمان کو وہ سب سے غلط سمجھتی رہی اور اللہ تعالی نے دونوں کو سیدھی راہ دکھائی تھی۔اس کے لیئے حمنہ بہت زیادہ شکر گزار تھی۔وہ کھانے کے بعد عشاء پڑھنے چلی گئی اور عثمان کو بھی پڑھنے کا بول کر خود کمرے میں چلی گئی۔

عثمان نماز پڑھ کے آیا تو وہ ابھی بھی جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی۔عثمان اسے دیکھ کر مسکرا دیا ۔حمنہ نے اسکی زندگی بہت زیادہ حسین بنا دی تھی اور وہ اپنی ہر نماز کے بعد صرف حمنہ کے ملنے کا شکر ادا کرتا۔

حمنہ بھی دعا ختم کر کے جائے نماز رکھ کر اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور سورتیں پڑھ کر اس پہ پھونکنے لگی۔


'یہ کیا ہو رہا ہے جان جہاں۔'عثمان نے کافی محبت سے پوچھا۔


'طلسم پڑھ کر پھونکے ہیں آپ پر تاکہ آپ میری ہر بات مانیں اور بکل فرمابردار شوہر بن کر رہیں'۔حمنہ شرارت سے بولی۔


'اس کے لیئے کسی طلسم کی ضرورت نہیں آپ کو ہم تو پہلے ہی آپ کے غلام ہیں ملکہ عالیہ۔'

عثمان اس کے سامنے سر جھکاتے ہوئے بولا تو حمنہ کھلکھلائی۔عثمان نے اسے یوں مسکراتے دیکھ کر اپنی باہوں میں بھر لیا۔


'محبت ہو تم میری حمنہ اور میں صرف تمہارا ہونا ہی سب سے زیادہ پسند کروں گا۔' عثمان نے پیار سے اسکا گال تھامتے ہوئے کہا تو حمنہ مسکرا دی مگر پھر سے اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کی زد میں آ گئی۔آج وہ جاننا چاہتی تھی کہ عثمان جانان سے شادی کیوں کرنا چاہتا تھا کیونکہ یہ ہی ایک سوال اسے سکون سے دور رکھ رہا تھا۔


'عثمان آپ سے کچھ پوچھوں؟' حمنہ نے عثمان کو بلایا جو اسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا رہا تھا۔


'نہیں جان جہاں اب سوالوں کا وقت ختم اب آپ چپ رہیں اور غلام کو خدمت کا موقع بھی تو دیں ملکہ عالیہ۔'عثمان ذو معنی انداز میں بولا تو حمنہ شرماتے ہوئے اس کی پناہوں میں چھپ گئی۔وہ دونوں آنے والے اندھیرے سے بے خبر حال کی روشنیوں میں بہت خوش تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان رات کو کمرے میں سے باہر نکلی تھی۔دراب کے جانے کے بعد اس نے خود کو کمرے میں بند ہی رکھا تھا۔گل کئی بار آئی تھی لیکن جانان شرمندگی سے کسی کے سامنے نہیں گئی۔آخر کار ہاشم صاحب خود اسے کھانے کے لیئے بلانے آئے تو جانان خاموشی سے ان کے ساتھ چل دی۔دراب کو وہاں نہ پا کر وہ کافی خوش ہوئی تھی۔

اب وہ میز پر بیٹھی کھانا کھانے میں مصروف تھی جب اس کے کانوں میں دراب کی آواز پڑی۔


'اسلام و علیکم بابا۔'


دراب مسکراتا ہوا جانان کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور اپنے دونوں ہاتھ اسکی کرسی پر رکھے۔جانان بے چاری نظروں سے ہاشم صاحب کو دیکھنے لگی۔وہ ابھی بھی دراب کی سزا والی بات سے ڈری ہوئی تھی۔


'آؤ دراب خان بیٹھو۔'ہاشم صاحب جانان کی صورت شرارت سے دیکھتے ہوئے بولے۔


'نہیں بابا میں صرف جانان کو لینے آیا تھا سوچا کافی دنوں سے گھر ہے آج اسے گھما لاؤں۔'دراب نے اب ہاتھ جانان کے کندھوں پر رکھے۔


'ہاں ہاں کیوں نہیں بیوی ہے تمہارا۔ضرور لے جاؤ۔'ہاشم صاحب نے دل سے اجازت دی تو جانان کا منہ بن گیا۔


'چلیں جانان۔'


دراب نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو جانان شکوہ کناں آنکھوں سے ہاشم صاحب کو دیکھتی اس کے ساتھ چل دی۔دراب نے اسے گاڑی میں بیٹھایا اور خود ڈرائیو کرنے لگا۔


'کہاں جا رہے ہیں؟'


جانان نے ہلکی سی آواز میں پوچھا تھا۔لیکن دراب خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا۔


'دراب دیکھیں میں نے سوری بولا تھا نا مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ اتنے ذہین ہیں۔'


جانان نے پھر سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دراب تو ایسے ڈرائیو کر رہا تھا کہ جیسے گاڑی میں اور کوئی ہے ہی نہیں۔جانا کھڑی سے باہر دیکھتے سوچنے لگی کہ دراب اسے کیا سزا دے گا لیکن یہ سوچتے ہوئے وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔


جانان کو لگا کہ وہ کسی کے بازؤں میں ہے ۔اس نے آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ وہ لوگ کافی اونچائی پر تھے۔شاید وہ اس وقت پہاڑوں پر تھے کیونکہ وہاں سے پشاور کی روشنیاں آسمان میں موجود ستاروں کی طرح لگ رہا تھا۔جانان اسکی خوبصورتی میں کھو گئی تھی ۔اچانک اسکے ذہن میں ایک خوفناک سا خیال آیا۔


'کہیں پہاڑوں سے تو نہیں پھینکنے لگے مجھے۔اگر ایسے ارادے ہیں تو مجھے بتا دیں۔میں ابھی سے ہی بھاگ جاتی ہوں۔'


جانان اپنی آنکھیں بڑی کیئے بول رہی تھی۔دراب نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بولا۔


'آنکھیں بند کرو ۔'


'کیا؟'جانان نے اپنی آنکھیں مزید بڑی کر دیں۔


'جانان آنکھیں بند۔'دراب نے سختی سے کہا تو جانان نے آنکھیں بند کر لیں ۔دراب اسے کندھوں سے تھامے اپنے ساتھ چلا رہا تھا۔

'پہاڑ سے گرانا ہیں تو آنکھیں تو کھولنے دیں بندہ کچھ پکڑ کے لٹک ہی جاتا ہے۔'جانان نے آہستہ سے کہا تو نہ چاہتے ہوئے بھی دراب کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔

'اب اپنی آنکھیں کھولو زما مینہ۔'

دراب کی آواز آتے ہی جانان نے فوراً آنکھیں کھولیں اور پھر حیرانی سے چاروں طرف دیکھنے لگی۔

وہ ایک بہت زیادہ خوبصورت سا گھر تھا ۔بلکل خوابوں کی دنیا جیسا۔جانان نے لکڑی کی چھت کو دیکھا جہاں پر ہوئی لائٹننگ ستاروں کی مانند لگ رہی تھی۔جانان گھوم کر ارد گرد دیکھنے لگی۔

'دراب یہ تو بہت ذیادہ پیارا ہے۔'

جانان نے مسکراتے ہوئے اسکو دیکھا تو دراب اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔

'تو اب ناراضگی ختم؟'

دراب نے پوچھا تو جانان تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی۔

'جی ہو گئی لیکن پوری طرح نہیں۔'وہ شرارت سے بولی تھی۔

'تو کوئی مسئلہ نہیں جانانِ دراب ابھی پوری طرح سے ہو جائے گی۔'

اتنا کہہ کر دراب نے جانان کو اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور ایک دروازے سے باہر بالکونی میں لے آیا جو کافی وسیع تھی۔ جانان دراب سے جدا ہو کر ریلنگ کے پاس کھڑی ہو گئی تھی ۔وہاں سے وسیع آسمان اور پورے پشاور کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔ ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان پر موجود ستارے زمین پر موجود ستاروں سے مل رہے تھے۔جانان نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت کچھ نہیں دیکھا تھا۔ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تو دراب نے جانان کو پیچھے سے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔

'دراب یہ سب کتنا پیارا ہے۔'

'پتا ہے جانانِ دراب تم نے کہا تھا کہ تاروں کے نیچے ،کھلے آسمان تلے رات گزارنا سب سے اچھا ہو گا ۔اس لیئے ہم یہاں باہر سوئیں گے ،کھلے آسمان تلے۔'

دراب نے انتہائ محبت سے کہا تو جانان مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

'لیکن دراب یہاں تو بہت سردی ہے۔'جانان نے معصومیت سے کہا۔

'تو کیا ہوا ہم ہیں نا ایک دوسرے کے لیئے۔'

دراب کے ایسا کہنے پر جانان نے شرما کے اسکے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔دراب نے مسکراتے ہوئے اسے باہوں میں اٹھایا اور بالکونی میں موجود میٹرس پر بیٹھا دیا۔پھر خود بھی اسے پیچھے سے باہوں میں لے کر خود بھی اسکے قریب بیٹھ گیا اور دونوں کے گرد اچھی طرح سے بلینکٹ لپیٹ لیا۔

'تو اب ناراضگی ختم 'دراب نے اسکے سر پر بوسہ دیتے ہوئے پوچھا۔'

'جی ہنڈرڈ پرسینٹ ختم۔'جانان بھی مسکرانے لگی تو دراب نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔

'جانان آج تم مجھے بتاؤ گی کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتی ہو؟'جانان نے شرما کر چہرہ اس کے سینے میں چھپا لیا۔

'ایسے کام نہیں چلے گا جانو آج تو بتانا ہی پڑے گا۔'جانان نے دہکتے گالوں کے ساتھ اسے دیکھا۔

'آپ مت بلائیں مجھے ایسے۔ صرف آپی کے منہ سے ہی اچھا لگتا ہے۔'جانان کی بات پر دراب نے قہقہہ لگایا۔

'اور محبت کرتی ہو نا'دراب بہت پیار سے اسکا چہرہ تھامے پوچھ رہا تھا۔

'جی بہت زیادہ۔اتنی کہ آپ کے بغیر رہ نہیں سکتی۔'

جانان نے شرماتے ہوئے کہا ۔

'جانان عشق کرتا ہوں تم سے جان ہو تم میری۔کبھی غلط مت سمجھنا مجھے ۔چاہے کچھ بھی ہو جائے تم مجھ پر بھروسہ کرنا۔کرو گی نا؟'

جانان نے ہاں میں سر ہلایا تو دراب نے اسے خود میں بھینچ لیا۔

'تم میری ہو جانان صرف میری یاد رکھنا یہ۔'دراب شدت سے بھرپور لہجے میں بولا۔

'اب آپ مان گئی ہیں تو کیوں نہ اب سزا بھی دے دی جائے۔'

دراب نے اسکے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسکے کان کی لو کو چوما۔جبکہ سزا کا سن کر جانان پھر سے گھبرا گئی۔

'دراب آپ سچ مچ مجھے سزا دیں گے۔'جانان صدمے سے بولی۔

'بلکل تمہیں ملنی بھی چاہئے، شوہر سے کوئی ایسے بات کرتا ہے۔'

اتنا کہہ کے دراب نے اسکا رخ اپنی طرف کیا تو جانان نے زور سے آنکھیں بند کر کے اپنا گال آگے کیا۔

'یہ کیا ہے جانان؟'دراب نے حیرانی سے پوچھا۔

'آپ نے سزا دینی تھی نا تو مار لیں تھپڑ بس پلیز ذیادہ زور سے مت ماریے گا۔'

جانان آنکھوں کو مزید زور سے بند کرتے ہوئے بولی۔جبکہ دراب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسکے معصوم سے چہرے کو چومے یا اسے سچ میں ایک تھپڑ رسید کر دے۔اس نے سوچا بھی کیسے کہ دراب اپنی جانان پر ہاتھ اٹھائے گا۔

'ہاتھ گرم کرنے بیٹھ گئے کیا ،جلدیں کریں اب۔'

جانان کی آواز نے اسے خیالوں کی دنیا سے نکالا تو دراب نے اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں کی قید میں لے لیا۔

'یہ تو تمہاری سزا کا صرف ایک نمونہ تھا زما مینہ۔ابھی تو میں نے تمہیں باقائدہ سزا دینی ہے۔'

جانان نے گھبراتے ہوئے دراب کو دیکھا اور پھر اسکی پناہوں میں چھپنے لگی۔

'ویسے مجھ سے بچنے کے لیئے جگہ بہت اچھی چنتی ہو جانانِ دراب۔'دراب نے مسکراتے ہوئے اسکے نازک وجود پر اپنی گرفت مضبوط کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ کی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی ۔عثمان بھی اپنے کام کے سلسلے میں بہت مصروف ہو گیا تھا ۔الیکشن بھی بہت زیادہ قریب آرہا تھا۔صبح جب اسکی طبیعت خراب ہوئی تو سلامت بابا نے فوراً عثمان کو فون کر دیا۔جس کے نتیجے میں پندرہ منٹ کے بعد ڈاکٹر ان کے گھر آ گئی۔اس نے حمنہ کا چیک اپ کیا اور اسے دوائی دے کر چلی گئی۔حمنہ اب اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی جب اچانک اسکا موبائیل بجنے لگا ۔حمنہ نے فون اٹھایا تو سلمان صاحب کی آواز سنائی دی۔


'کیسی ہو بیٹا۔'


'بلکل ٹھیک بابا آپ بتائیں سب ٹھیک ہے نا؟'حمنہ کو ایک خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔


'ہاں بچہ سب ٹھیک ہے وہ تمہاری ماں کی طبیعت خراب تھی تو وہ تمہیں یاد کر رہی تھیں۔میں نے اپنا گارڈ اور ڈرائیور بھیجا ہے تم اسکے ساتھ گھر آ جاؤ۔'

سلمان صاحب آواز سے پریشان لگ رہے تھے اور یہ بات حمنہ کو بھی پریشان کر گئی۔


'جی بابا آپ فکر نہیں کریں میں ابھی آ رہی ہوں۔'

حمنہ جلدی سے اٹھی تو اسکا سر چکرایا جسے وہ نظر انداز کرتی ہوئی اپنی چادر لینے چلی گئی۔پھر خیال آیا کہ عثمان کو بتا دے۔حمنہ نے کافی دفعہ کوشش کی لیکن عثمان فون نہیں اٹھا رہا تھا شاید وہ مصروف تھا۔حمنہ نے سوچا کہ اسے راستے میں بتا دے گی ۔وہ باہر جانے لگی تو غفار جو اسکا باڈی گارڈ تھا اس کے ساتھ چل دیا۔حمنہ نے اسے بتایا بھی کہ سلمان صاحب کے گارڈز اور ڈرائیور لینے آ رہے ہیں۔لیکن وہ پھر بھی اسکے ساتھ چل دیا۔

باہر ایک گاڑی دو گارڈزکے ساتھ انکا انتظار کر رہی تھی۔حمنہ جلدی سے اس میں بیٹھ گئی۔وہ اپنی ماں کے لیئے بہت پریشان تھی۔

اس سے پہلے کہ غفار کو کچھ سمجھ آتا اچانک سے ایک گارڈ نے اسکے سر پر انتہائی زور سے بندوق ماری جس سے وہ بے ہوش ہو گیا۔حمنہ یہ دیکھ کر چلانے لگی لیکن دوسرا گارڈ حمنہ کے منہ پر رومال رکھ کے اسے بھی بے ہوش کر چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان کو جب سے سلامت بابا نے حمنہ کے بیمار ہونے کے بارے میں بتایا تھا وہ بہت زیادہ پریشان تھا ۔جتنی جلدی ہو سکتا تھا وہ واپس آیا اور گھر آتے ہی حمنہ کو آوازیں دینے لگا۔


'صاحب جی بیگم صاحبہ گھر نہیں ہے؟'عثمان ملازمہ کی بات پر حیران ہوا تھا۔


'تو کہاں گئی ہے اسکی تو طبیعت خراب تھی نا۔'عثمان غصے میں آیا تھا۔


'صاحب جی وہ تو نہیں پتہ کہ کہاں گئی ہیں بس غفار کو ساتھ لیا اور چل دیں۔'

عثمان نے یہ سنتے ہی اپنی جیب سے موبائیل نکالا جو کہ وہ پارٹی کی میٹنگ کے دوران سائیلنٹ پر کر چکا تھا۔موبائل پر حمنہ کی کئی ساری مس کالز دیکھ کر اسے خود پر غصہ آیا تھا۔اس نے جلدی سے حمنہ کا نمبر ملایا اور اسے فون کرنے لگا۔لیکن حمنہ کا نمبر بند پا کر وہ کافی ذیادہ پریشانی میں مبتلا ہو گیا۔اس نے جلدی سے غفار کا نمبر ملایا۔لیکن اسکا بھی موبائل بند تھا۔یہ جان کر عثمان کے ہاتھ پیر پھول گئے اور اسکا دماغ ماؤف ہونے لگا۔عثمان نے سب ملازموں سے حمنہ کے بارے میں پوچھا لیکن کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کہاں گئی ہے۔یہاں تک کہ سلامت بابا بھی اس سب سے بے خبر تھے۔

عثمان کا دل کر رہا تھا کہ سب کو ایک لائن میں کھڑا کر کے گولی مار دے۔

وہ پریشانی سے گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیور کو چلنے کا بول کر سلمان صاحب کو کال کرنے لگا مگر وہ بھی فون نہیں اٹھا رہے تھے۔عثمان نے ڈرائیور کو سلمان صاحب کے گھر جانے کا بولا۔

کچھ دیر کے بعد جب وہ وہاں پہنچے تو عثمان جلدی سے گھر میں داخل ہوا۔لیکن وہاں پر صرف فاطمہ بیگم اور زرش موجود تھے۔


'حمنہ یہاں آئی تھی کیا؟' عثمان نے پریشانی سے پوچھا۔


'نہیں بیٹا کیوں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا۔'فاطمہ بیگم بہت زیادہ پریشان ہوئی تھیں۔


'دعا کریں کہ سب ٹھیک ہو۔'عثمان نے اتنا کہہ کر جلدی سے باہر آ کر گاڑی میں بیٹھا۔جہاں جہاں حمنہ کو ڈھونڈ سکتا تھا اس نے ڈھونڈا۔وہ مسلسل حمنہ اور غفار کو کال کرنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔لیکن ان کا نمبر ابھی بھی بند تھا۔جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے پولیس کمشنر کو کال کی اور سارے معاملے سے آگاہ کیا۔


'آپ پریشان نہ ہوں عثمان ملک صاحب ہم جلد از جلد آپ کی بیوی کو ڈھونڈ نکالیں گے۔' کمشنر نے یقین دہانی کی کوشش کروائی تھی۔


'اگر وہ نہ ملی نہ تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا یاد رکھنا یہ۔'اتنا کہہ کر عثمان نے فون بند کر دیا۔

اسے تین سال پہلے کا واقعہ پھر سے یاد آنے لگا۔جب اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا اور آج پھر سے وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ اگر حمنہ کو کچھ ہوا تو وہ بھی مر جائے گا۔وہ آج پھر سے اپنے خدا کے حضور دل کی گہرائیوں سے دعا گو تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ کی آنکھ کھلی تو وہ کسی بند سے کمرے میں موجود تھی اور اسکے ہاتھوں پیروں کو رسیوں سے باندھا گیا تھا۔حمنہ نے چلانے کی کوشش کی لیکن اس دوائی کے زیر اثر وہ چلا بھی نہیں پا رہی تھی۔وہ بہت ڈر گئی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس نے اسکو اغواہ کیوں کیا ہے ۔اسے تو لگا تھا کہ گاڑی اسے بابا کی ہے پھر یہ لوگ کون تھے۔

سردی میں ٹھنڈے فرش پر پڑے اسکا جسم سن ہو رہا تھا۔وہ پہلے سے ہی بخار میں مبتلا تھی اور اب تو اسے اپنا وجود بے جان لگ رہا تھا۔حمنہ نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ اسے اس مصیبت سے نجات دلا دیں ۔کسی طرح عثمان کو یہاں بھیج دیں۔عثمان کو یاد کرتے ہی حمنہ بری طرح رونے لگی۔


'ع ۔۔۔۔۔عثمان پلیز آ جائیں۔'


اسکو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اس نے بہت دفعہ خود کو رسیوں سے چھڑانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں بہت مظبوطی سے باندھا گیا تھا۔اچانک سے دروازہ کھلا اور ایک انسان کا ہیولا حمنہ کو نظر آیا۔وہ قریب ہوا تو حمنہ اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔


'تم!'


ردا حمنہ کے پاس فرش پر بیٹھ کر مسکرانے لگی۔


'ہاں میں۔تمہیں کیا لگا تھا کہ تم مجھے بے عزت کر کے نکال دو گی اور میں چپ بیٹھ جاؤں گی۔'ردا چہرے پر وحشت سجائے بول رہی تھی۔


' تم دیکھنا عثمان مجھے لینے آ جائیں گے اور پھر تم جیل میں جاؤ گی پاگل لڑکی۔'


حمنہ بہت غصے سے بولی تھی۔ردا اس کی بات سن کر غصے سے اس کے قریب ہوئی اور اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا۔


'کیا کہا تو نے؟تیرا ابھی بھی بل نہیں گیا؟بتاتی ہوں تجھے۔'


اتنا کہ کر ردا نے حمنہ کے بالوں کو جھٹکے سے چھوڑا اور اسے بری طرح سے مارنا شروع کر دیا۔حمنہ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن بندھے ہونے کی وجہ سے کچھ کر نہیں پائی۔

نا جانے کتنی دیر ردا اسے جانوروں کی طرح مارتی رہی اور حمنہ کبھی چیختی تو کبھی عثمان کو بلاتی۔لیکن یہاں اس کی آہو پکار سننے والا کوئی نہیں تھا۔آخر کار حمنہ اپنے ہوش و حواس سے بے خبر ہو گئی تو ردا بھی اسے چھو ڑ کے وہاں سے چلی گئی۔

حمنہ کے جسم کا ہر حصہ درد میں لپٹا ہوا تھا لیکن اب وہ اس دنیا اور اس درد سے بے خبر ہو رہی تھی۔اس کے ذہن میں آخری خیال عثمان کا تھا ۔اسکے بعد اسکا وجود بے جان سا ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جانان اور دراب صبح ہوتے ہی واپس آ گئے تھے۔جانان نے بہت زیادہ اینجوائے کیا تھا۔صبح کی نماز کے بعد ایک لڑکا انہیں وہاں ناشتہ دے کر گیا تھا اور اس کے بعد وہ ہندو کش کے پہاڑوں پر سیر کرنے چلے گئے۔جانان نے دراب کو کہہ دیا تھا کہ وہ اب دراب کو زیادہ تنگ کرے گی کیونکہ اس نے بہت اچھی طرح سے اسے منایا تھا۔اس بات پر دراب نے اسے سزا یاد کروائی تو وہ شرما دی۔

گھر واپس آتے ہی جانان گل کے پاس چلی گئی اور اسے دراب کے سرپرائز کے بارے میں بتانا تھا۔

دراب کو وجدان کی کال آئی تھی اس نے ملنے بلایا تھا ۔

دراب وجدان کے پاس چلا گیا تھا۔جانان اب گل کے پاس بیٹھی کبھی اس گھر کی تعریف کرتی، تو کبھی پہاڑوں کی۔


'تم کو بس گھر اور پہاڑ اچھا لگا اور لالا نے تمہارے لئے اتنا کچھ کیا تو وہ سب سے اچھا ہوا نا۔'


گل کے ایسا کہنے پر جانان مسکرانے لگی۔


'دراب تو میرے لیئے سب کچھ ہیں ان کے بغیر تو نہ پہاڑ اچھے ہیں ،نہ آسمان ،نہ یہ جہان۔گل ان کے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ مجھ سے دور چلے گئے یا ناراض ہو گئے تو میں مر ہی جاؤں گی۔'


جانان پریشانی سے بولی تو گل اس کا موڈ اچھا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔


'لالا آئے گا نا تو یہ سب ہم اسے بتائے گا۔'گل شرارت سے بولی تھی۔


'نہیں بلکل نہیں۔کتنی شرم آئے گی مجھے۔'جانان اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپاتے ہوئے بولی۔


'ہم یہ بھی بتائے گا لالا کو۔'

گل ہنستے ہوئے بولی۔جانان نے منہ بنا لیا اور ہاشم صاحب کے کمرے کی طرف چل دی۔


'بابا کو بتاتی ہوں میں کہ میری سہیلی کو اپنے لالا سے زیادہ پیار ہے۔'

جانان کی بات پر گل ہنستے ہوئے اس کے ساتھ چل دی۔آخر اس کے لالا کی سپورٹ میں بھی تو کوئی ہو نا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔

عثمان پوری رات حمنہ کو ڈھونڈتا رہا تھا۔پولیس بھی اپنی پر ممکن کوشش کر رہی تھی کیونکہ یہاں سوال عثمان ملک کی بیوی کا تھا۔جس گاڑی میں حمنہ گئی تھی اس پر کوئی نمبر بھی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے اس گاڑی کا پتہ لگانا بہت مشکل ہو گیا تھا۔

عثمان حد سے زیادہ پریشان ہو رہا تھا ۔اس کا بس چلتا تو سب کچھ مٹا کر اپنی حمنہ کو ڈھونڈ لیتا۔اب شام ہونے کو تھی اور ابھی بھی وہ پولیس سٹیشن میں کمشنر کے پاس بیٹھا تھا۔


'عثمان صاحب ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں انہیں ڈھونڈنے کی ۔جس جگہ پر ان کا موبائیل فون آف ہوا تھا وہاں سے آگے بہت آبادی ہے۔ ہم نے ہر جگہ اپنے سپاہی تعینات کیے ہیں۔جیسے ہی کچھ خبر ملے گی ہم فوراً ایکشن لیں گے۔'


عثمان کمشنر کی باتیں سن کر اکتا چکا تھا۔اس نے آگے ہو کر کمشنر کی آنکھوں میں دیکھا۔


'سن کل صبح تک اگر مجھے حمنہ نہیں ملی نا تو اپنی نوکری کو خیر آباد کر دینا۔سمجھا۔'


عثمان اتنا کہہ کے وہاں سے چلا گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کو پوری رفتار سے چلانے لگا۔


'کہاں ہو حمنہ ۔پلیز یار میرے لیئے ٹھیک ہونا۔'


عثمان کی آنکھوں میں آنسو ہر منظر کو دھندلا کرنے لگے۔اس نے گاڑی کو ایک طرف روکا اور سیٹ کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔


'یا اللہ پلیز میری حمنہ کی حفاظت کرنا۔'


اس کے ذہن میں اچانک ایک شخص کا خیال آیا۔اس نے جیب سے موبائیل نکالا اور نمبر ڈائیل کرنے لگا۔


'ہیلو،' عثمان کو جانی پہچانی آواز سنائی دی۔


'مجھے تمہاری مدد چاہئے خان۔'عثمان جلدی سے بولا تھا۔


'بولو کیا مسلئہ ہوا ہے؟'اس نے سنجیدگی سے پوچھا تو عثمان نے سب کچھ اسے بتا دیا۔اس نے حمنہ کے بارے میں جو انفارمیشن پوچھی عثمان نے بتا دی۔


'دو گھنٹے چاہیں ملک ۔'اتنا کہہ کر خان نے فون بند کر دیا۔عثمان جانتا تھا کہ خان ایک اچھا انسان نہیں ہے لیکن اس وقت عثمان کے وہ بہت کام آ سکتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ خان حمنہ کے بارے میں پتہ لگا لے گا۔


'میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا حمنہ یہ تمہارے عثمان کا وعدہ ہے تم سے۔'

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ کو اچانک سے ہوش آیا تھا لیکن سردی اور تکلیف کی شدت سے اسکا جسم ہل بھی نہیں رہا تھا۔حمنہ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آئے تھے۔وہ نہیں جانتی تھی کہ مزید کتنی تکلیف اسے اٹھانی تھی۔

حمنہ دوبارہ سے ہوش کی دنیا سے بیگانا ہو رہی تھی جب اسکے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز پڑی۔


'تمہای ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کی۔'


سلمان صاحب کی آواز بند دروازے سے آئی تھی جو حمنہ کے لیئے امید کی سب سے بڑی کرن تھی۔ اس نے ہلنے کی کوشش کی تو اسکے وجود میں درد کی کئی لہریں اٹھیں۔اس کے منہ کو باندھا گیا تھا لیکن پھر بھی حمنہ چلانے کی اور سلمان صاحب کو آواز دینے کی مکمل کوشش کر رہی تھی۔


'آواز نیچی رکھیں سلمان صاحب کہیں آپ کی لاڈلی سن نہ لے۔'ردا نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔

حمنہ اپنے دکھتے جسم کو ہر تکلیف میں مبتلا کر کے دروازے تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگی۔


'تم ایسا نہیں کر سکتی لڑکی ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ حمنہ کو غائب کر کے صرف عثمان سے الیکشن اور اسکی پراپرٹی کا مطالبہ کریں گے لیکن اس سب میں حمنہ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔'


حمنہ دروازے تک پہنچی تھی اور اس نے دروازے سے ٹکر لگا کر اپنی طرف توجہ حاصل کرنا چاہی تھی جب اس کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے اور وہ ایک بت کی طرح وہیں جم گئی۔


'آپ نے جو بھی کہا ہو ۔عثمان کی پراپرٹی کے لیئے میں کسی بھی حد تک جاؤں گی ۔اس پر میرا حق ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کر کے رہوں گی۔'ردا اس بار غصے میں بولی تھی۔


'تمہیں کیا لگتا ہے کہ عثمان حمنہ کی اس حالت کے بعد تمہیں اپنی پراپرٹی دے دے گا ۔'اس بار سلمان صاحب کی آواز حمنہ کو سنائی دی ۔


'اب عثمان کروڑوں کی جائداد یوں ہی تو مجھے نہیں دے گا نا۔جب تک اسے اپنی پیاری بیوی سچ میں خطرے میں نہیں لگے گی وہ کچھ نہیں کرے گا۔آپ میری چھوڑ کر اپنی فکر کریں۔اگر دنیا کو معلوم ہو گیا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو اگواہ کروایا ہے تو آپ کا کیا بنے گا۔نہ تو آپکے گھر والے آپ کو قبول کریں گے اور الیکشن میں ووٹ کی بجائے عوام سے جوتے پڑیں گے۔'ردا کسی بھی قسم کا لحاظ رکھے بغیر بولی تھی۔


'اس لیئے بہتر یہی ہے کہ یہاں سے چلے جائیں ورنہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گی۔'


ردا کی بات سن کر سلمان صاحب وہاں سے چلے گئے۔وہ مجبور تھے ۔کیونکہ انکی چال ردا نے انہیں پر الٹی چلا دی تھی اور اگر سچ میں یہ سچ باہر آتا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔

جبکہ ان کے وہاں سے جاتے ہی حمنہ بری طرح سے رونے لگی۔وہ سوچ نہیں سکتی تھی کہ اسکا اپنا باپ اس قدر خود غرض ہو سکتا ہے کہ اپنے مفاد کے لئیے اپنی بیٹی کی ساری خوشیاں ختم کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔حمنہ وہیں فرش پر لیٹی روتی جا رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا اور ردا پھر سے اندر آئی۔


'او تو جاگ گئی تم۔چلو اچھا ہے میں نے تمہارے پیارے سے عثمان کو پیغام بھی تو بھیجنا ہے۔'

اس نے حمنہ کو بالوں سے پکڑا اور حمنہ کو بری طرح مارنا شروع کر دیا اور اسکے بالوں کو کھینچنے لگی۔

ساتھ آئے آدمی نے کیمرہ سے وڈیو بنانا شروع کر دی۔


'عثمان اگر اپنی پیاری سی بیوی کی سلامتی چاہتے ہو نا تو اپنی پراپرٹی کے پیپرز بتائی ہوئی جگہ پر لے کر حاضر ہو جانا اور اگر پولیس کو شامل کیا یا کوئی بھی ہوشیاری کی تو اپنی بیوی کی لاش دیکھو گے۔'


وہ آدمی بول رہا تھا۔ وڈیو کو اس نے یوں بنایا تھا کہ ردا کا چہرہ دیکھائی نہیں دیا تھا صرف اور صرف حمنہ ہی نظر آ رہی تھی۔کیمرہ بند ہوتے ہی ردا نے حمنہ کے بالوں کو چھوڑا اور زور سے اسکے پیٹ میں لات ماری۔حمنہ کی چیخ درد ناک تھی۔


'صبح ہوتے ہی یہ پیغام اس گارڈ کی لاش کے ساتھ عثمان کو پہنچا دینا۔'

ردا نے اسے کہا تو وہ ہاں میں سر ہلاتا باہر چلا گیا اور ردا بھی اس کے پیچھے دروازے کو لاک کرنے لگی۔جبکہ حمنہ اب مکمل طور پر ہوش کی دنیا سے بے خبر ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی رات ہو گئی تھی اور دراب ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔جانان کو اکیلے کمرے میں ڈر لگتا تھا اس لیئے وہ ہاشم صاحب کے پاس بیٹھ کر دراب کا انتظار کر رہی تھی۔

آج ہاشم صاحب جانان کو کچھ مختلف لگے تھے ۔وہ جانان سے مسکراتے ہوئے باتیں تو کر رہے تھے لیکن وہ مسکراہٹ صرف جانان کے لیئے ایک دکھاوا تھی اور یہ بات جانان بھی سمجھ رہی تھی۔


'بابا آپ اپنے بیٹے کو ڈانٹتے نہیں نا اسی لیئے بگڑتے جا رہے ہیں۔'جانان نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔


'بیٹے کو تو میں واقعی ڈانٹنا بھول گیا ہوں اسی لیئے اب اپنی قیمتی چیزوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔'


ہاشم صاحب بلکل صاف لہجے میں بولے تھے اور اب تک تو جانان بھی یہ سمجھ چکی تھی کہ وہ جب بھی سنجیدہ ہوتے ہیں تو ان کا لہجہ پختون نہیں رہتا تھا۔

جانان ان سے پریشانی کی وجہ پوچھنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔

تبھی کمرے میں دراب داخل ہوا

'اسلام و علیکم۔

'لیں بابا آ گئے آپ کے بیٹے اب ڈانٹ لیں انہیں اور یہ بھی بتائے گا کہ جانان کو اکیلے کمرے میں ڈر لگتا ہے اس لیئے ابھی تک سوئی نہیں۔'جانان نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا جو بارہ بجا رہی تھی۔دراب اسکی بات پر مسکرایا۔

'جانان بیٹا آپ کمرے میں جاؤ مجھے دراب سے بات کرنی ہے پھر میں اسے بھی بھیجتا ہوں۔

جانان ہاں میں سر ہلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی لیکن کمرے کی طرف جاتے ہوئے اس نے سوچا کہ دراب تھکا ہو گا اس لیئے چائے بنا لینی چاہیے۔وہ اپنا رخ بدل کر کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔

جانان کے جاتے ہی ہاشم صاحب نے غصے سے دراب کو دیکھا۔

'یہ میں کیا سن رہا ہوں دراب؟تم اپنی زندگی اب اس طرح سے خطرے میں نہیں ڈال سکتے اب تمہارے ساتھ جانان کی زندگی جڑی ہے اور یقین جانو کہ وہ مجھے تم سے بھی ذیادہ عزیز ہے۔'

دراب کو سعد پر غصہ آیا ۔وہ جانتا تھا کہ یہ سب کیا دھرا اسی کا تھا۔

'کوئی اور راستہ نہیں ہے۔آپ کیا چاہتے ہیں کہ معصوم لوگوں کی جانیں چلی جائیں۔'دراب نے نرمی س

ان سے کہا تھا

'دراب ضروری نہیں کہ سب تم ہی کرو یہ کام سعد اور وجدان پر چھوڑ دو۔'ہاشم صاحب نے اسے سمجھانا چاہا تھا۔

'اپنی وجہ سے ان کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔بادشاہ کی دشمنی مجھ سے ہے ان سے نہیں ۔'دراب اب زرا سا چڑ گیا تھا۔

'ٹھیک ہے پھر جانان کو سب سچ بتا دو اور پھر فیصلہ اس پر ہو گا کہ تمہیں کیا کرنا چاہیئے؟'

یہ بات دراب کو کافی غصہ دلا گئی تھی۔وہ کبھی بھی نہیں چاہتا تھا کہ جانان کو دارا کے بارے میں کچھ بھی پتا چلے وہ جانان کی نظروں میں تھوڑی سی بھی بے اعتباری برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اس لیئے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی آواز بلند ہوئی تھی۔

'آپ کو کیا لگتا ہے کہ میرا سب سے برا روپ دیکھنے کے بعد وہ مجھ سے یوں ہی محبت کرے گی۔ یہ جاننے کے بعد کہ میں ایک غدار ایک دہشت گرد ہوں جس کی وجہ سے نا جانے کتنے معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔یا یہ بتاؤں اسے کہ میں دارا ہوں جس نے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو بے رحمی سے مارا ہے اور جو اس ملک کا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔۔۔'

اس سے پہلے کہ دراب کچھ اور کہتا ان کے پیچھے سے کچھ گر کر ٹوٹنے کی آواز آئی۔دراب نے مڑ کر دیکھا تو وہاں جانان دم سادھے اور آنکھوں میں آنسو لیئےاسے بے اعتباری سے دیکھ رہی تھی ۔ہاشم صاحب بھی جانان کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔وہ نہیں جانتے تھے کہ جانان نے کیا سنا تھا۔

'جانان۔۔۔۔۔'دراب اس کی طرف لپکا تھا۔

جانان کا سر بری طرح سے گھوما، اس سے پہلے کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین بوس ہوتی دراب اسے اپنی باہوں میں تھام چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان کو پتہ لگ گیا تھا کہ حمنہ کو کہاں رکھا گیا تھا۔اپنے وعدے کے مطابق خان نے دو گھنٹوں میں اسے ساری معلومات دے دی تھی ۔انہوں نے حمنہ کو ایک خالی گودام میں رکھا تھا۔ عثمان پولیس کے ساتھ اس گودام کے باہر کھڑا تھا اور سب خاموشی سے داخل ہو رہے تھے تا کہ ان لوگوں کو پولیس کے آنے کی خبر نہ ہو۔

وہاں پر پولیس کو پانچ غنڈے ملے تھے جنہیں پولیس نے بہت آسانی سے زیر کر دیا تھا۔عثمان اس گودام میں پہنچ کر ہر جگہ حمنہ کو ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔


'سر یہاں دیکھیں۔'


ایک پولیس کانسٹیبل کی آواز پر عثمان بھاگ کر وہاں پہنچا تھا اور سامنے کا منظر اس کے حواس پر حاوی ہو گیا تھا۔

حمنہ فرش پر الٹا گری ہوئی تھی اور اسکے وجود میں ہلکی سی بھی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔عثمان بھاگ کر اس کے پاس گیا اور اسکا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا۔


'حمنہ'


حمنہ کا چہرہ بری طرح سے سوجا ہوا تھا اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔عثمان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔


'سر انہیں ہاسپٹل لے کر چلنا چاہیے۔'


انسپیکٹر کی بات پر عثمان کو ہوش آیا تو اس نے جلدی سے حمنہ کو اپنی گود میں اٹھایا اور گاڑی کی طرف بھاگنے لگا۔پولیس والے بھی اس کے ساتھ تھے۔عثمان حمنہ کو لیئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ڈرائیور بھی پوری رفتار سے گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔


'حمنہ یار پلیز آنکھیں کھولو ۔تم جانتی ہو کہ تمہیں کچھ ہو گیا تو میں مر جاؤں گا۔'


عثمان حمنہ کی منتیں کر رہا تھا۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ حمنہ بہت دیر کے بعد اسکی زندگی میں کوئی خوشی بن کر آئی ہے اور وہ اب اسے کھونے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

کچھ دیر بعد ہی وہ ہسپتال پہنچ گئے تھے۔ڈاکٹرز حمنہ کی حالت کو دیکھتے ہی فوراً اسے آئی سی یو میں لے گئے تھے۔

عثمان پر ہر گزرتا سیکنڈ بھاری تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کچھ ختم کر دے۔سلامت بابا نے شاید سلمان صاحب کو اطلاع کر دی تھی اس لیئے وہ فاطمہ بیگم اور زرش کے ساتھ وہاں پہنچ گئے تھے۔


'کہاں ہے حمنہ وہ ٹھیک تو ہے نا؟'


فاطمہ بیگم عثمان سے روتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔لیکن عثمان ایک بت کی مانند کھڑا تھا۔کوئی جواب نہ پا کر فاطمہ بیگم مزید رونے لگیں ۔سلمان صاحب نے فاطمہ بیگم کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انہیں لا کر کرسی پہ زرش کے ساتھ بیٹھا دیا جو ایسے لگ رہی تھی کہ ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔

ایک انسپکٹر عثمان کے پاس آیا۔


'سر جن پانچ غنڈوں کو ہم نے پکڑا ہے ان سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انہیں ایک آدمی اور ایک لڑکی نے انہیں پیسے دیے تھے میم کو اغواء کرنے کے لئے۔لیکن ان کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے کہ وہ لوگ کون تھے اور سر وہاں پر کوئی کیمرہ بھی موجود نہیں تھا جس سے ان کا پتہ چلتا۔آپ کے گارڈ غفار کی بھی ہمیں وہاں سے لاش ملی ہے۔اب تو میم کے ہوش آنے پر ہی کچھ۔۔۔۔۔۔'


عثمان نے اپنا ہاتھ اوپر کیا اور اسے مزید بولنے سے روک دیا۔عثمان کے لیئے حمنہ کی صحت سے ذیادہ ابھی کچھ ضروری نہیں تھا۔ایک بار وہ ٹھیک ہو جائے تو وہ انہیں جہنم سے بھی ڈھونڈ نکالے گا اور عبرت ناک انجام ہو گا انکا۔

جبکہ انسپکٹر کی بات سن کر سلمان صاحب کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔حمنہ جانتی تھی کہ اسے سلمان صاحب نے بلایا تھا۔اگر اس وہ ٹھیک ہو گئی تو ان کا بچنا ناممکن تھا۔ان کے دماغ پر اس وقت حمنہ کی خیریت سے ذیادہ یہ سوچ سوار تھی۔


کافی دیر بعد ایک ڈاکٹر باہر آئی تھی اور سیدھا عثمان کے پاس چلی گئی۔عثمان اسے بے چینی سے دیکھ رہا تھا۔فاطمہ بیگم بھی ان کے پاس آ گئی تھیں۔


'مسٹر ملک آپ کی بیوی پر کافی تشددد کیا گیا ہے۔بہت زیادہ مارا پیٹا گیا ہے انہیں۔ہم نے مکمل کوشش کی لیکن۔۔۔'ڈاکٹر ایک پل کے لیئے رکی تھی۔


'لیکن کیا؟'عثمان غصے سے دھاڑا تھا ۔


'سوری مسٹر ملک لیکن ہم آپ کے بچے کو نہیں بچا سکے۔'


'بچہ؟'عثمان نے صدمے سے پوچھا تھا اسے لگ رہا تھا اس کی سانسیں تھم جائیں گی۔


'جی آپ کی وائف پریگننٹ تھیں۔'


عثمان سے اب مزید کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا وہ ایک بار پھر سے سب کچھ کھونے جا رہا تھا۔اپنا بچہ تو وہ کھو چکا تھا اور اب حمنہ۔۔۔۔


'حمنہ کیسی ہے؟پلیز ڈاکٹر اسے بچا لیں آپ جو چاہیں گی آپ کو ملے گا پلیز اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔'عثمان ہاتھ جوڑے ڈاکٹر کی منتیں کر رہا تھا۔


'پلیز مسٹر ملک آپ مجھے شرمندہ نہیں کریں۔ہم اپنی مکمل کوشش کر رہے ہیں آپ بس اللہ سے دعا کریں۔'


عثمان کافی دیر بت بنا وہاں کھڑا رہا پھر حمنہ کی زندگی کا سوچ کر وضو کرنے چلا گیا۔وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر بھیک مانگے گا۔اپنی حمنہ مانگے گا۔بلکل جیسے تین سال پہلے اس نے اپنے باپ کو مانگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دراب ساری رات جاگتا رہا تھا اور جانان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے یہی دعا مانگتا رہا کہ جانان اس سے نفرت نہ کرے۔دور تو دراب اسے خود سے کبھی بھی ہونے نہیں دے گا۔پھر چاہے اسے جانان کے ساتھ زبردستی ہی کیوں نہ کرنی پڑتی۔لیکن وہ اس کی نفرت بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔فجر کا وقت ہوا تو دراب جانان کے سر پر بوسہ دے کر نماز پڑھنے چلا گیا ۔

نماز پڑھنے کے بعد وہ دوبارہ سے جانان کے پاس آکر لیٹ گیا اور اس کے چہرے سے بال ہٹا کر اسے دیکھنے لگا۔اپنے چہرے پر ہاتھوں کو لمس محسوس کر کے جانان ہوش کی دنیا میں آئی۔پر جیسے ہی اس کی دراب پر نظر پڑی تو وہ خوف سے چیخ مارتے ہوئے اس سے دور ہوئی۔دراب کو لگا تھا کہ جانان کی نفرت تکلیف دہ ہو گی لیکن اس کی آنکھوں میں دراب کے لیئے یہ خوف اس تکلیف سے بھی کئی گنا زیادہ تھا۔


'جانانِ دراب میری بات تو سنو۔'


دراب بہت نرمی سے کہتا ہوا اس کے قریب ہوا۔تو جانان بیڈ سے اتر کر ایک کونے میں کھڑی ہو گئی۔


'دور رہیں مجھ سے۔'جانان کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔دراب اٹھ کر اس کے پاس جانے لگا۔


'جانان میری بات تو سنو۔'دراب نے اس کے پاس آ کر اسے اس کے بازؤں سے پکڑا جنہیں جانان نے بے رحمی سے چھڑایا تھا۔


'ہاتھ مت لگائیں مجھے۔نفرت ہو رہی یے مجھے آپ سے بھی اور خود سے بھی۔میں آپ کو اس دنیا کا سب سے اچھا انسان سمجھتی رہی۔جس نے ایک لڑکی کا فائدہ اٹھائے بغیر نہ صرف اسکی مدد کی تھی بلکہ اسکی حفاظت بھی کی۔لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ انسان کی شکل میں ایک شیطان ہیں جس نے پتہ نہیں کتنے گھر اجاڑے۔کتنے لوگوں کو مار ڈالا۔مجھے خود سے نفرت ہو رہی ہے کہ میں نے آپ جیسے حیوان سی محبت کی۔'


جانان اپنے الفاظ سے نہ صرف دراب کے دل بلکہ اس کی روح تک کو چھلنی کر رہی تھی۔دراب نے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو واپس دھکیلتے ہوئے پھر سے کوشش کی۔


جانان پلیز ایک بار میری بات سن تو لو۔'


'کیا سن لوں۔آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ سب آپکے منہ سے سننے کہ بعد میں اب آپ پر یقین کر لوں گی۔کبھی بھی نہیں۔کسی اور سے سنا ہوتا تو میں تو اسے جھوٹا ہی کہتی مگر اچھا ہوا کہ اپنا سچ آپ خود سامنے لے آئے۔'


جانان وہاں سے جانے لگی تو دراب نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔


'پلیز صرف ایک بار میری بات سن لو۔'دراب نے بھیک مانگی تھی۔


'نہیں سننا مجھے کچھ اور نہ ہی میں آپ کے پاس رہوں گی ۔میں واپس چلی۔۔۔۔۔۔'


جانان کے الفاظ ابھی اس کہ منہ میں ہی تھے جب دراب نے سختی سے اسے اپنی طرف کھینچا اور ایک ہاتھ سے اسکی نازک گردن کو دبوچ لیا۔


'بس اب ۔میں سب کچھ برداشت کر لوں گا لیکن اگر یہاں سے جانے کی بات کی تم نے تو تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔'


دراب غصے سے دھاڑا تھا ۔جانان سہم کر اسے دیکھنے لگی لیکن پھر ہمت کر کے بولی۔


'مم۔۔۔۔۔۔۔۔میں آپ جیسے آدمی کے پپ۔۔۔پاس نہیں رہوں گی۔میں بھاگ جج۔۔۔۔جاؤں گی یہاں سے اور پھر کبھی نہیں ملوں گی آپ کو۔'


دراب کا دل کیا کہ اسکا منہ تھپڑوں سے لال کر دے ۔اس نے جانان کا گلا چھوڑ کر اسکے منہ کو سختی سے دبوچا اور خونخوار آنکھوں سے اسے دیکھا۔وہ اب اسکا دراب نہیں تھا وہ دارا تھا۔


'تم دنیا کہ کسی بھی کونے میں چلی جاؤ دارا تمہیں ڈھونڈ نکالے گا۔اگر تم دراب خان کی محبت اور اسکا عشق ہو تو تم دارا کا جنون اور دیوانگی بھی ہو۔یہ تمہارا خواب ہے کہ تم یہاں سے جا سکو گی اس لیئے اسے اپنے چھوٹے سے ذہن سے نکال دو۔'


جانان نے دراب کا یہ روپ کبھی نہیں دیکھا تھا اور اب وہ اس سے بری طرح سے ڈر چکی تھی۔


'مم۔۔۔۔میں آا۔۔۔۔۔۔۔آپ سے نفرت کک۔۔۔۔۔۔کرتی ہوں۔'


دراب جو جانان کو سب کچھ بتانا چاہتا تھا اس کے ایسا کہنے پر اسے جھٹکے سے چھوڑ کے وہاں سے چلا گیا۔وہ سمجھ چکا تھا کہ اب وہ کچھ بھی کہ لے جانان اسکا یقین نہیں کرے گی۔جانان کا اعتبار وہ مکمل طور پر کھو چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان نے ساری رات اللہ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے گزاری تھی۔ساری رات وہ سجدوں میں روتے ہوئے حمنہ کی زندگی مانگتا رہا تھا اور ابھی فجر کے بعد سلامت بابا اس کے پاس آئے تھے۔


'بیٹا حمنہ کو ہوش آ گیا ہے ڈاکٹروں نے کہا ہے وہ خطرے سے باہر ہے۔'


بس اتنا سننا تھا عثمان بھاگتا ہوا آئی سی یو کی طرف گیا۔ڈاکٹرز نے اسے اندر جانے کی اجازت دے دی تھی ۔عثمان آہستہ سے حمنہ کے پاس گیا تھا۔حمنہ کی آنکھوں میں اسے دیکھتے ہی آنسو آگئے تھے۔جو عثمان نے انتہائی نرمی سے صاف کیئے تھے اور اسے مسکرا کر دیکھا تھا۔حمنہ دوائیوں کے زیر اثر دوبارہ نیند میں چلی گئی تھی۔ڈاکٹر نے عثمان کو باہر آنے کا اشارہ کیا تھا۔


'آپ کی وائف اب مکمل طور پر خطرے سے باہر ہے ابھی ہم انہیں وارڈ میں شفٹ کر دیں گے۔'


ڈاکٹر کی بات سن کر عثمان مسکرایا اور پھر سنجیدگی سے ڈاکٹر کو کہنے لگا۔


'ڈاکٹر صاحبہ آپ حمنہ کو ہمارے بچے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہونے دیں گی۔میں نہیں چاہتا کہ وہ پریشان ہو۔'


ڈاکٹر نے عثمان کی بات پر اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے چلی گئیں۔عثمان نے اپنے ساتھ کھڑے انسپکٹر کو دیکھا۔


'حمنہ کو ہوش آتے ہی اسکا بیان لینا اور اسکے بعد ان لوگوں کو جہنم سے بھی ڈھونڈ کر لانا پڑے وہ مجھے اپنے سامنے چاہیں۔'


'جی سر۔' پھر انسپکٹر بھی وہاں سے چلا گیا تو عثمان بھی فاطمہ بیگم کی طرح اللہ کا شکر ادا کرنے چلا گیا۔

حمنہ نے سچ کہا تھا کہ اللہ تعالی دل سے کی التجا کو کبھی بھی نہیں جھٹلاتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جانان سارا دن کمرے میں بیٹھی روتی رہی تھی ۔اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی زندگی ایسا موڑ بھی لے گی۔وہ جانتی تھی کہ دراب اس سے بہت محبت کرتا ہے لیکن وہ کیسے اس انسان کے ساتھ محبت کر سکتی تھی جو نا جانے کتنے معصوم لوگوں کا قاتل تھا۔یہ سوچتے ہی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ دراب کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔

ہاشم صاحب اور سعد کئی بار اس سے ملنے آئے تھے لیکن وہ کسی سے بھی نہیں ملی تھی۔وہ جانتی تھی کہ وہ دونوں اسے دراب کے بارے میں صفایاں پیش کریں گے اور اب جانان جھوٹ سن کر اکتا چکی تھی۔

اچانک سے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور دراب اس کے پاس آیا۔اس کے ساتھ گل بھی تھی جس نے جانان کے پاس کھانا رکھا تھا۔جانان دراب سے منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھی۔


'جانان کھانا کھا لو تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا۔'دراب نے بہت نرمی سے کہا تھا۔لیکن جانان نے کوئی جواب نہیں دیا۔


'جانان پلیز یار اس معاملے میں ضد نہیں کرو۔دیکھو کھانا کھا لو۔'دراب نے اس مرتبہ پہلے سے بھی ذیادہ پیار سے کہا تھا۔ جواب میں جانان وہاں سے اٹھ کر جانے لگی تو دراب نے سختی سے اس کو بازو پکڑا اور اسے بیڈ پر بیٹھا دیا۔


'چپ چاپ کھانا کھاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔'


دراب نے اسکا منہ دبوچتے ہوئے سختی سے کہا تھا۔پتہ نہیں اس کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا جسے دیکھ کر جانان کی روح تک خوف سے کانپ گئی تھی۔اس نے روتے ہوئے کھانا کھانا شروع کر دیا۔دراب اس کے پاس بیٹھا اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔جب اس کو تسلی ہو گئی کہ جانان نے ٹھیک سے کھانا کھا لیا ہے اس نے گل کو بلایا جو خاموشی سے برتن واپس لے گئی۔دراب جانان کے پاس آ کر بیٹھا۔


'میں جانتا ہوں کہ میں تمہیں کچھ بھی کہہ لوں تم اس پر یقین نہیں کرو گی۔بس ایک بات کبھی مت بھولنا جانان ،تم میری محبت ہو اور میں اپنی آخری سانس تک تم سے ہی محبت کروں گا۔پھر مجھے بدلے میں تمہاری نفرت ہی کیوں نہ ملے۔'


جانان سر جھکائے اس کی بات سن رہی تھی۔دراب اٹھا اور ایک فائل اس کے پاس رکھی۔


'اگر ہو سکے تو اسے پڑھ لینا۔شاید تمہاری نفرت میں تھوڑی کمی ہو جائے۔' دراب نے جانان کا چہرہ ٹھوڈی سے پکڑ کر اوپر کیا اور اسکی جھکی ہوئی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔


'میں جا رہا ہوں جانان ۔تم یہیں رہو گی اور کوئی بھی بیوقوفی کر کے خود کو یا کسی کو تکلیف مت دینا۔سمجھی۔'


اتنا کہہ کر دراب نے انتہائی نرمی سے اس کی آنکھوں کو چوما تھا جن سے اب آنسو بہنے لگے تھے۔پھر بھی جانان ایک پتھر بنی ہوئی تھی۔دراب نے اسکا چہرہ چھوڑا اور باہر کی طرف چل دیا۔


'خدا حافظ۔'دراب اتنا کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا اور جانان پھر سے بری طرح رونے لگی تھی۔اس کی نظر دراب کی دی ہوئی فائل پر گئی تو اس نے بے دردی سے اسے اٹھا کر فرش پہ پھینکا اور بری طرح سے رونے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمنہ دو دن تک اس معاملے میں کوئی بات نہیں کر سکی تھی وہ اس سب کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔عثمان کے علاوہ باقی سب نے بھی اس سے پوچھا تھا لیکن حمنہ نے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔آخر کار عثمان نے اسے اپنی قسم دی تو حمنہ پولیس کو بیان دینے کے لیئے تیار ہو گئی۔اب اس وقت پولیس حمنہ سے بیان لے رہی تھی ۔سلمان صاحب وارڈ کے باہر عثمان کے ساتھ کھڑے انتظار کر رہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ پولیس ابھی انہیں گرفتار کر کے لے جائے گی لیکن اب انہیں اس بات کا کوئی بھی ڈر نہیں تھا۔جو سب وہ کر چکے تھے اس کے بعد وہ چاہتے تھے کہ پولیس انہیں جیل میں ڈال دے۔

آخر کار انسپیکٹر باہر آیا اور عثمان کے پاس کھڑا ہو گیا۔


'میم نے بتایا ہے کہ آپ کی پہلی بیوی ردا بیگ اور ان کے خاوند عمر بیگ نے ان کو اغوا کیا تھا۔ردا بیگ کا مقصد آپ کو بلیک میل کر کے آپ کی پراپرٹی حاصل کرنا تھا۔سلمان صاحب کا موبائیل چرا کر ردا بیگ نے میم کو کال کر کے بلایا تھا اور یہ کہا تھا کہ ان کی امی کی طبیعت خراب ہے۔لیکن جب وہ اس گاڑی میں بیٹھیں تو غفار کو مار کے انہوں نے میم کو بے ہوش کر دیا تھا۔'


پولیس والے نے ساری بات عثمان کو بتائیں تو غصے سے اس کی رگیں تن گئیں۔


'ان کو ڈھونڈ نکالو انسپیکٹر وہ بچنے نہیں چاہئے۔'


انسپیکٹر ہاں میں سر ہلا کر چلا گیا اور عثمان واپس حمنہ کے پاس کمرے میں چلا گیا تھا۔جبکہ سلمان صاحب بت بنے کھڑے تھے۔حمنہ کیسے ان کو اتنی آسانی سے معاف کر سکتی ہے اس نے تو کہیں بھی ان کا نام بھی نہیں آنے دیا تھا۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی حمنہ کے وارڈ کی طرف گئے۔


'کیا میں حمنہ سے اکیلے میں بات کر سکتا ہوں؟'

عثمان جو حمنہ کی کسی بات پر مسکرا رہا تھا سلمان صاحب کی آواز پر مڑ کے انہیں دیکھنے لگا اور پھر ہاں میں سر ہلاتا ہوا باہر چلا گیا۔حمنہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔


'تم جانتی تھی نہ کہ تمہارے اغواء ہونے میں میرا بھی ہاتھ ہے پھر کیوں نہیں بتایا پولیس کو اس بارے میں؟'


حمنہ نےان کی بات پر اپنا چہرہ اٹھا کر گھائل نظروں سے ان کو دیکھا۔پھر طویل خاموشی کے بعد بولی۔


'آپ ایک بیٹی نہیں نا ،آپ نہیں سمجھیں گے۔آپ نے اپنی ناکام محبت کی وجہ سے امی کو سزا دی،بیٹے کی خواہش پوری نہ ہونے پر اپنی بیٹیوں کو سزا دی،الیکشن کا خواب ٹوٹنے پر مجھے سزا دی۔شاید آپ بھول گئے تھے کہ بیٹا نہ سہی لیکن آپ کی اولاد تو ہوں۔۔۔۔۔۔۔'


حمنہ اتنا بول کر بری طرح سے رونے لگی تھی۔جبکہ اس کی باتیں سلمان صاحب کو اندر تک جھنجوڑ رہی تھیں۔


'لیکن دیکھیں نا پھر بھی میں نہیں بھول سکی کہ آپ میرے بابا ہیں۔کیونکہ میں ایک بیٹی ہوں جو ایک بیٹے کی طرح خواہش نہیں ،ذمہ داری ہوتی ہے۔لیکن وہ اپنے ماں باپ کو اس دنیا میں سب سے اونچا مقام دیتی ہے۔

میں آپ کو کیسے اس مقام سے گرنے دیتی بابا۔اس لیئے میں نے آپ کو معاف کیا۔'


حمنہ روتے ہوئے بولی تو سلمان صاحب اسکے پیروں میں بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اسکے پیروں پر رکھے جن کو ہٹانے کی حمنہ نے کوشش کی۔


'بابا آپ کیا کر رہے ہیں۔'حمنہ پریشانی سے بولی تھی۔

'مجھے سزا چاہیے حمنہ تمہاری معافی کے قابل نہیں ہوں۔تم کیسے مجھے معاف کر سکتی ہو۔۔۔نہیں مجھے سزا چاہیے تم سے صرف سزا۔'سلمان صاحب بری طرح سے روتے ہوئے بولے اور اپنے ہاتھ حمنہ کے سامنے جوڑ دیے۔

'نہیں بابا ایسا مت کہیں،میں نے آپ کو معاف کیا۔'حمنہ نے ان کے ہاتھوں کو تھاما تھا۔

'ایسے کیسے معاف کر دیا تمہارا تو سب سے بڑا مجرم ہوں میں قاتل ہوں تمہارے بچے کا۔'اس بات پر حمنہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔

'بچہ؟'حمنہ نے ان کے ہاتھ چھوڑ کر بے تحاشہ غم سے انہیں دیکھا۔

'ہاں حمنہ میں قاتل ہوں اسکا۔تم ایک بیٹی ہونے کے ناطے تو مجھے معاف کر سکتی ہو۔لیکن ایک ماں ہونے کے ناطے مجھے سزا دو حمنہ سزا دو۔'

سلمان صاحب بری طرح سے رونے لگے تھے اور حمنہ کی آنکھوں سے بھی کئی آنسو ٹوٹ کر گرے تھے۔وہ تو جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ کیا کھو چکی ہے۔

'اس ماں نے بھی آپ کو معاف کیا اور یہی آپ کی سزا ہے۔' ایک طویل خاموشی کے بعد حمنہ بولی تھی۔جبکہ اسکی یہ بات سلمان صاحب کو اندر تک ہلا گئی تھی۔

'حمنہ۔۔۔۔۔۔

'آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں بابا پلیز۔'

حمنہ ان کی بات کو کاٹ کے بولی تھی۔سلمان صاحب ایک آخری نظر حمنہ پر ڈالتے ہوئے باہر چلے گئے۔ان کے دماغ میں ابھی بھی حمنہ کی کہی ہوئی باتیں گھوم رہی تھیں۔انہیں اپنے کیئے ہوئے ہر فعل پر پچھتاوا ہو رہا تھا۔اچانک سے وہ زمین پر بیٹھ کر بری طرح سے رونے لگے۔ان کے دماغ میں درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں ۔انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا اور وہیں لیٹتے ہوئے ہوش و ہواس سے بے خبر ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب کو گئے ہوئے دو دن ہو گئے تھے اور ان دو دنوں میں نہ تو جانان نے کسی سے بات کی تھی اور نہ ہی وہ کمرے سے نکلی تھی۔گل اسے کمرے میں ہی کھانا دے جاتی تھی۔گل یا ہاشم صاحب اس سے بات کرنے کی کوشش بھی کرتے تو جانان بلکل خاموش رہتی تھی۔

جانان ابھی تک یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ دراب اتنا برا ہو سکتا ہے۔جانان کو لگتا تھا کہ وہ اس دنیا کی سب سے خوش قسمت انسان ہے کیونکہ اس کے نصیب میں دراب کی محبت لکھی تھی۔لیکن وہ کیسے اس بات کو نظر انداز کر سکتی تھی کہ دراب ایک برا انسان تھا،ایک قاتل تھا۔

جانان کی نظر پاس موجود فائل پر گئی تھی جو دراب جاتے ہوئے اسے دے کر گیا تھا۔ان دو دنوں میں کئی مرتبہ جانان کی نظر اس فائل پر پڑی تھی لیکن اسے پڑھنا تو دور اس نے اسے کھول کر دیکھا بھی نہیں تھا۔جانان کے قدم نہ چاہتے ہوئے بھی اس فائل کی طرف اٹھے تھے۔

کافی دیر اسے گھورنے کے بعد آخر کار جانان نے اسے کھولا تھا۔اسکے کھولتے ہی ایک لاکٹ فرش پر گرا جسے دیکھ کر جانان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔وہ وہی لاکٹ تھا جو چودہ سال پہلے اسے شایان شاہ نے دیا تھا اس وعدے کے ساتھ کہ وہ شایان شاہ کو یاد رکھے گی اور یہی لاکٹ تو جانان نے شایان کے گھر سے واپس آتے ہوئے پھینک دیا تھا۔لیکن جانان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ دراب کے پاس کیا کر رہا ہے؟

جانان نے فائل کو کھولا تو اس میں بہت سارے پروفیشنل ڈوکیومینٹس تھے اور وہ سارے ڈوکیومینٹس میجر شایان شاہ کے تھے ۔لیکن جو چیز جانان کے ذہن کو ماؤف کر رہی تھی وہ ان ڈوکیومینٹس پر موجود شایان شاہ کی آرمی یونیفارم میں تصویریں تھیں۔ جن کو وہ آنکھیں بند کر کے بھی پہچان سکتی تھی کیونکہ وہ اسکا دراب ہی تو تھا جو چھوٹے بالوں میں ڈاڑھی سے پاک چہرے کے ساتھ موجود تھا۔تو کیا دراب ہی شایان شاہ تھا؟ تو پھر وہ شخص کون تھا جس سے وہ ملی تھی؟جانان کے ذہن میں بہت سارے سوال گردش کر رہے تھے۔

جانان نے جلدی سے ان ڈوکیومینٹس کو ہٹایا تو ایک صاف صفحے پر چند تحریریں لکھی تھیں۔

'مجھے امید ہے جانان کہ یہ سب پڑھ کے تمہیں مجھ پر یقین آ جائے گا۔مجھے لگا تھا کہ تم سے سب کچھ چھپا کر رکھنا بہتر ہو گا۔لیکن اسکا نتیجہ بہت برا نکلا جانان اور ویسے بھی تمہارا حق بنتا ہے سب سچ جاننے کا۔اس لئے وقت آگیا ہے کہ تمہیں سب کچھ بتا دیا جائے دراب خان کے بارے میں اور شایان شاہ کے بارے میں۔'

ان تحریروں کو پڑھتے ہی جانان نے بے چینی سے اگلے صفحات کو دیکھا جہاں بہت کچھ لکھا ہوا تھا۔جانان نے آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو صاف کیا اور بیڈ پر بیٹھ کر پہلا صفحہ کھول کے پڑھنا شروع کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی


عائشہ خان اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت اپنے بڑے بھائی سے کرتی تھی جس نے اسے ماں باپ بن کر پالا تھا۔وہ دونوں تو بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے لیکن اس کے بھائی نے اس چیز کا کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیا تھا۔لیکن اتنی ہی محبت وہ حسن شاہ سے بھی کرتی تھی۔حسن آرمی میں کیپٹن تھا اور اسکی پوسٹنگ ان کی یونیورسٹی کی حفاظت پر لگی تھی۔پہلے تو عائشہ اسے نظر انداز کرنے کی مکمل کوشش کرتی تھی لیکن حسن کے بے پناہ عشق اور محبت نے عائشہ کے دل کو اس کے لیئے پگھلا دیا تھا۔

حسن نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں سے بات کریں گے اور اگر وہ مانے تو ٹھیک ورنہ وہ دونوں کورٹ میرج کر لیں گے۔اسے عائشہ کو اس بات پر منانے کے

لیئے دو ماہ لگے تھے ۔حسن عائشہ کے معاملے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا وہ عائشہ سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور اسے ہر حال میں پانا چاہتا تھا۔


عائشہ نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے بھائی سے حسن کے بارے میں بات کر کے رہے گی۔اس لئے اس وقت وہ ان کے سامنے بیٹھی اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔


'کب سے بولا ہے تم نے کہ بات کرنا ہے اب بولو بھی کیا چاہئے تم کو۔' ہاشم اس سے بہت محبت سے پوچھ رہا تھا۔


'لالا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لالا میں۔۔۔۔۔۔۔میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں ۔وہ آرمی میں کیپٹن ہے اور ہم شادی کرنا۔۔۔۔۔'


عائشہ نے بہت ہمت باندھ کر کہا تھا کیونکہ وہ اپنے بھائی کے غصے اور ضد سے واقف تھی۔لیکن ہاشم کے چہرے پر غصہ دیکھ کر اسکی بولتی بند ہو گئی تھی


'تم پاگل ہو گئی ہو؟جانتی بھی ہو کہ میں نے تمہاری منگنی اپنے دوست کے ساتھ پکی کر دی تھی اور وہ تم سے کتنی محبت کرتا ہے اسکا اندازہ ہے تمہیں۔میں اسے کیا جوب دوں گا کہ منگنی کے وقت میری بہن نے ہاں بول دیا تھا لیکن اب اسے کوئی اور لڑکا پسند آ گیا ہے۔'


عائشہ سر جھکائے اس کی باتیں سن رہی تھی۔


'منع کر دو اس لڑکے کو ،اب تمہاری ایک نادانی کی وجہ سے میں اپنے دوست کے سامنے شرمندہ نہیں ہوں گا۔سمجھی تم۔'


ہاشم اپنی بات ختم کر کے وہاں سے جانے لگا تھا جب اسکے کانوں میں عائشہ کی آواز پڑی۔


'میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں لالا۔نہیں رہ پاؤں گی اس کے بغیر۔'


'عائشہ بس اپنی یہ باتیں بند کرو ۔تمہاری منگنی میرے دوست سے ہوئی ہے اور اب ایک ہفتے کے اندر تم دونوں کا نکاح بھی کروا دوں گا۔'


اس بات پر عائشہ بری طرح سے رونے لگی تو ہاشم اسکے پاس آ کر بیٹھا۔


'دیکھو میری گڑیا یہ لڑکے بس دکھاوے کی محبت کرتے ہیں ،زندگی بھر ساتھ نہیں نبھا سکتے۔لیکن سلمان کی آنکھوں میں میں نے تمہارے لئے بے انتہا پیار دیکھا ہے ۔وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا ۔اس لیئے اب میں اس بارے میں کوئی بات نہیں سنوں گا اور اس جمعہ کو تمہارا نکاح ہو گا سلمان کے ساتھ۔'


ہاشم اپنی بات کہہ کر جا چکا تھا جبکہ عائشہ وہاں بیٹھی روتی رہی تھی۔اسے تو لگا تھا کہ اسکے بھائی کی محبت اسکی انا اور ضد سے کہیں زیادہ ہے ۔لیکن وہ غلط تھی اور یہاں وہ بری طرح سے مات کھا گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر والے تو حسن کے بھی نہیں مانے تھے۔اس کے گھر والے وڈیروں کے خاندان میں سے تھے اور وہ اسکی شادی خاندان میں ہی کرنا چاہیتے تھے ۔اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ عائشہ سے کورٹ میرج کرے گا۔مگر عائشہ کتنے ہی دنوں سے یونیورسٹی نہیں آئی تھی اور یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی۔لیکن جب اسے پتہ چلا کہ عائشہ کا بھائی اس جمعہ اسکا نکاح کر رہا ہے تو وہ برداشت نہیں کر سکا تھا۔


اس نے عائشہ سے بات کرنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن اسکے گھر کا فون پتہ نہیں کون اٹھاتا تھا ۔آخر کار ایک دن عائشہ نے فون اٹھایا تو اس نے عائشہ کو گھر سے بھاگ جانے کا کہا تھا۔


عائشہ نے فوراً منع کر دیا تھا وہ اپنے بھائی کو بدنام نہیں ہونے دے سکتی تھی اور ویسے بھی کل اسکا نکاح تھا۔حسن نے اسے صاف الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ کل اس کے پاس کورٹ میں نہ آئی تو وہ خودکشی کر لے گا۔اتنا کہہ کر حسن نے فون بند کر دیا تھا اور جہاں تک عائشہ اسے جانتی تھی وہ ایسا ہی کرے گا۔ساری رات عائشہ نے رو کر گزاری تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

دو لوگوں کی محبت میں سے وہ صرف ایک کو چن سکتی تھی اور اسکا فیصلہ وہ صبح تک کر چکی تھی۔

۔۔۔۔۔

سلمان شیخ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسکی محبت اسے ملنے جا رہی تھی۔عائشہ کو جب اپنے سب سے اچھے دوست کے گھر پہلی دفع دیکھا تھا تب ہی وہ اس سے محبت کر بیٹھا تھا۔


آج آخر کار اسکا عائشہ کے ساتھ نکاح ہونے جا رہا تھا۔سلمان کو تو بہت خوشگوار حیرت ہوئی تھی جب ہاشم نے خود سے نکاح کا پوچھا تھا۔اسے لگا تھا کہ خوابوں نے خود اسکے دروازے پر دستک دی ہے۔عائشہ کے ساتھ منگنی پر تو اس کو پوری دنیا مل گئی تھی لیکن اب نکاح کی خوشی اسے ہواؤں میں اڑانے کے لیئے کافی تھی۔


سب لوگ ہاشم کے گھر بیٹھے نکاح شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔اچانک ملازمہ ہانپتی ہو وہاں آئی تھی اور انہیں عائشہ کی غیر موجودگی کے بارے میں بتایا تھا۔ہاشم اور سلمان بھاگ کر اس کے کمرے میں گئے تھے جہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔ہاشم کو صرف ایک خط ملا تھا۔


'بھائی ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں۔لیکن میں یہ نکاح نہیں کر سکتی۔میں حسن کے بغیر نہیں رہ سکتی۔مجھے امید ہے آپ سمجھ جائیں گے۔آپکی عائشہ۔'


عائشہ کی یہ حرکت اور اسکے الفاظ ہاشم کو اندر تک ختم کر گئے تھے۔اسے تو لگتا تھا کہ عائشہ کو اس دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں لیکن اس نے اپنے بھائی کی عزت اور محبت کو روند کر کسی اور کو چنا تھا۔اس کل کے انسان کی محبت کو وہ اپنے بھائی کی محبت پر فوقیت دے گئی تھی۔


سلمان نے ہاشم کے ہاتھ سے وہ خط چھین کر پڑھا تھا جسے پڑھتے ہی اس کے دل کی دنیا اجڑ گئی تھی۔اس کا دل کر رہا تھا کہ سب کچھ تہس نہس کر دے۔اس حسن کو جس کی اس نے شکل بھی نہیں دیکھی تھی ،وہ اسے قتل کر دینا چاہتا تھا۔عائشہ ایک شخص کی محبت میں سب کچھ تباہ کر گئی تھی۔


'یہ سب کیا ہے ہاشم؟' سلمان نے غصے سے پوچھا لیکن ہاشم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ہوتا بھی کیسے اس کی سگی بہن نے اسکے بولنے کا اور سر اٹھانے کا حق اس سے چھین لیا تھا۔


'آج کے بعد تیرا میرا کوئی تعلق نہیں۔سب ختم۔تم جیسوں کے ساتھ تو کوئی تعلق بھی کسی کو بدنام کرنے کے لیئے کافی ہے۔'سلمان سے زیادہ اسکی بکھری ہوئی انا بول رہی تھی۔ہاشم کے جھکے ہوئے سر پر آخری نگاہ ڈال کر وہ وہاں سے جانے لگا۔


'اگر تیری جگہ میں ہوتا نا تو کبھی اسکی شکل بھی نہیں دیکھتا۔'سلمان نے جاتے ہوئے رک کر کہا تھا اور ہاشم کی ناراضگی کو نفرت میں بدل گیا۔

۔۔۔۔۔

حسن اور عائشہ نکاح کر چکے تھے۔جہاں حسن اس نکاح سے بے انتہا خوش تھا وہیں عائشہ بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اب کیا ہو گا۔اس نے سوچا تھا کہ اسکا بھائی اسے معاف کر دے گا کیونکہ وہ عائشہ سے بہت محبت کرتا تھا۔عائشہ کو شرمندگی بھی ہو رہی تھی مگر وہ کیا کرتی،وہ حسن کو مرتے ہوئے بھی تو دیکھ نہیں سکتی تھی۔

حسن عائشہ کے کہنے پر اسے اپنے ساتھ اسکے گھر لے کر جا رہا تھا۔حالانکہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ تو بس اپنی عائشہ کو سب سے دور لے جا کر اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔

عائشہ گھر پہنچ تو گئی تھی لیکن اندر جانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔حسن نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اسے ہمت دی تھی اور اس کے ساتھ چلتا ہوا گھر میں داخل ہوا تھا۔


'وہیں رک جاؤ۔'


وہ دونوں ابھی ہال میں داخل ہی ہوئے تھے جب انہیں ہاشم کی گرج دار آواز سنائی دی تھی۔


'کیا لینے آئے ہو اب یہاں۔اس سے پہلے کہ گولی مار دوں تم دونوں کو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔'ہاشم انتہائی غصے سے بولا تھا۔


'لالا۔۔۔۔ '


'مر گیا تیرا لالا۔مار دیا تو نے اسے اور میں تجھے اپنے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔'


عائشہ کی بات کاٹ کر ہاشم انتہائی غصے سے بولا تھا۔جبکہ عائشہ اس کے ایسا کہنے پر تڑپ اٹھی تھی۔وہ بھاگتے ہوئے ہاشم کے پاس گئی اور اس کے پاؤں پکڑ لیئے۔


'مجھے معاف کر دیں لالا خدا کے لیئے معاف کر دیں۔'


عائشہ بری طرح سے رو رہی تھی۔ایک پل کو ہاشم کے دل میں اپنی بہن کی محبت بہت زوروں شور سے آئی تھی لیکن اس کو ہاشم کی انا نے بے رحمی سے ڈھانپ دیا تھا۔

ہاشم نے سختی سے اپنے پاؤں اس سے چھڑائے تھے۔


'نہیں معاف کروں گا تجھے عائشہ کبھی بھی نہیں۔اس لڑکے کو لے اور یہاں سے دفع ہو جا۔آج کے بعد اگر سامنے بھی آئی نا میرے تو جان لے لوں گا خود کی۔'


'لالا۔۔۔۔۔۔۔۔'


عائشہ اس بات پر تڑپ اٹھی تھی لیکن ہاشم بے دردی سے اسے خود سے دور کر کے وہاں سے جا چکا تھا۔حسن نے یہ سب کیسے برداشت کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔اگر وہ عائشہ کا بھائی نہ ہوتا تو اسکی عائشہ کو اتنا رلانے کے لیئے وہ اسے مار چکا ہوتا۔

حسن روتی ہوئی عائشہ کے پاس آیا تھا اور اسے بازؤں سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا۔


'چلو عاشی۔'


وہ عائشہ کو اپنے ساتھ لے جا رہا تھا جبکہ عائشہ کی نظریں ابھی بھی وہیں پر تھیں جہاں ہاشم جا چکا تھا۔

جبکہ اندر موجود انسان بھی اپنی جان سے پیاری بہن کے ساتھ ایسا سلوک کر کے اور اسے جاتا دیکھ کر ہزار موت مرا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عائشہ نے کبھی بھی سوچا نہیں تھا کہ اسکی زندگی اس قدر حسین ہو جائے گی۔وہ تو ڈرتی تھی کہ حسن اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرے گا۔لیکن حسن نے اسے سہی معنوں میں ملکہ کی طرح رکھا ہوا تھا۔حسن کے ماں باپ نے اسے تو معاف کر دیا تھا لیکن عائشہ کو قبول نہیں کیا تھا۔حسن کو اس سے کوئی غرض بھی نہیں تھا ۔اس نے عائشہ کو لاہور علیحدہ گھر میں رکھا تھا اور کبھی کبھار اپنے گھر والوں سے ملنے کراچی چلا جاتا تھا۔


عائشہ نے ہاشم سے کئی بار معافی مانگنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ہمیشہ اسے نظر انداز کرتا رہا ۔جس کی وجہ سے عائشہ بہت زیادہ دکھی ہو جاتی تھی اس لیئے حسن نے اسے وہاں لے کر جانا چھوڑ دیا۔


پھر ان کی زندگی میں شایان کی آمد ہوئی تھی جس نے ان کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیے تھے۔شایان کی پیدائیش عائشہ کے لیئے کافی مشکل ثابت ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ عائشہ کے لیئے پھر سے بچے کی پیدائیش خطرناک ہو سکتی ہے اور اسے ڈپریشن سے جتنا ہو سکے دور رکھا جائے۔لیکن حسن کی سچی محبت نے اس پر غموں کا سایہ بھی نہیں آنے دیا تھا۔


ایک دن حسن اپنے ساتھ ایک دوست کو لے کر گھر آیا تھا۔عائشہ حیران ہوئی تھی کیونکہ حسن کبھی بھی کسی غیر کو گھر نہیں لایا تھا۔لیکن حسن کے ساتھ سلمان کو دیکھ کر بہت ذیادہ پریشان ہو گئی تھی۔


'عائشہ یہ میرے کافی اچھے دوست ہیں سلمان شیخ اور سلمان یہ ہے میرا وہ جہان جس کی میں تم سے باتیں کرتا تھا۔'حسن نے عائشہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔


'قابل رشک ہے تمہاری زندگی۔'


سلمان نے کہا تو حسن کو تھا پر نظریں اس کی عائشہ پر تھیں اور عائشہ بھی خود کو اسکا مجرم سمجھ رہی تھی۔


'چلو آؤ بیٹھو ،ابھی تو میں تمہیں اپنے صاحبزادے سے ملاتا ہوں۔'


حسن مسکراتا ہوا کمرے کی طرف چلا گیا۔سلمان نے ایک نظر عائشہ کو دیکھا جو سر جھکائے کھڑی تھی۔


'سلمان وہ۔۔۔۔۔'


'نہیں عائشہ تمہیں کوئی بھی صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے ،تم خوش ہو میرے لئے یہی کافی ہے۔میرے کافی خواب تھے تمہیں لے کر پر کوئی بات نہیں جو خدا کو منظور۔اس لیئے میں یہی چاہوں گا کہ تم پرانی باتیں بھولا کر خوش رہو اور ہم دوست تو رہ ہی سکتے ہیں نا۔'سلمان نے مسکرا کر کہا تو عائشہ بھی مسکرانے لگی۔


'بلکل ہو سکتے ہیں۔مجھے سمجھنے کا شکریہ۔''عائشہ نے دل سے کہا تھا۔


'ارے تم لوگ ابھی تک وہیں کھڑے ہو آ کر بیٹھو یہاں۔'


حسن شایان کو لے کر باہر آیا تھا۔سلمان اس کی طرف چل دیا تو عائشہ بھی مسکراتے ہوئے ان کے پیچھے چل دی تھی۔سلمان کی باتوں نے اسے مطمئین کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاطمہ عائشہ کے گھر کام کرتی تھی وہ چھوٹی سی نازک سی لڑکی عائشہ کو بہت پسند تھی۔غریب خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اسے سولہ سال کی عمر میں بھی کام کرنا پڑتا تھا۔لیکن عائشہ اسکا کافی خیال رکھتی تھی۔لیکن آج صبح جب فاطمہ آئی تھی تو وہ بہت ذیادہ رو رہی تھی اور اس نے جو عائشہ کو بتایا تھا وہ بات عائشہ کو شدید غصے میں مبتلا کر گئی تھی۔فاطمہ کا سوتیلا باپ اسکی پینتالیس سالہ آدمی سے شادی کرنے جا رہا تھا۔عائشہ چاہتی تو اسکے باپ کو جیل میں بھجوا دیتی لیکن اس سے فاطمہ کو تحفظ نہیں ملنا تھا۔عائشہ کا مقصد اس معصوم لڑکی کو مکمل تحفظ دلانا تھا۔


یہ سوچتے ہی عائشہ نے سلمان کو ضروری بات کرنے کے لیئے بلایا تھا اور اب سلمان وہ بات جاننے کے لیئےاس کے سامنے بیٹھا تھا۔


'پلیز سلمان میں آپ سے جو مانگوں گی آپ مجھے وہ دیں گے وعدہ کریں آپ مجھ سے۔'عائشہ بہت بے چینی سے بول رہی تھی۔

'جان حاضر ہے تم حکم کرو۔'سلمان نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

'سلمان پلیز آپ فاطمہ سے شادی کر لیں۔' عائشہ کے ان الفاظ نے سلمان کے چہرے کی مسکراہٹ کو غائب کر دیا تھا۔

'نہیں عائشہ تم نے آج تک جو بھی کیا وہ میں نے برداشت کر لیا مگر اب بس۔تم چاہے میرے جزبات کو سمجھ نہ سکو لیکن وہ بہت کھرے ہیں اور میری زندگی میں کبھی بھی کوئی بھی شامل نہیں ہوگا۔'سلمان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔

'سلمان آپ کو میری قسم ہے،آپ کو اپنی محبت کی قسم ہے ۔' عائشہ کی اس بات نے سلمان کے چلتے قدم روکے تھے۔اس نے مڑ کر عائشہ کو دیکھتا تھا جو آنکھوں میں آنسو لیئے اسے دیکھ رہی تھی۔

'ٹھیک ہے عائشہ مگر ایسا صرف تمہارے لئے کر رہا ہوں۔'ایک طویل عرصے کے بعد یہ الفاظ کہہ کر سلمان وہاں سے چلا گیا تھا۔جبکہ عائشہ یہ اسکی رضامندی جان کر مسکرا دی تھی۔اس نے سوچا کہ فاطمہ اپنی فرمابرداری اور پاکیزگی سے سلمان کو خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان نے فاطمہ سے شادی تو کر لی تھی لیکن اسے اپنی بیوی کا درجہ کبھی بھی نہیں دیا تھا۔وہ اسے ہمیشہ یہی احساس دلاتا تھا کہ اسکی ساری محبتیں صرف اور صرف عائشہ کے لیئے ہیں اور فاطمہ بھی عائشہ کی ہی محبت کا نتیجہ ہے۔فاطمہ نے اس کی محبت حاصل کرنے کے لیئے جی جان سی کوشش کی تھی لیکن سلمان ہمیشہ اس کے جذبات کو بے رحمی سے کچل دیتا۔

جب حمنہ پیدا ہونے والی تھی تب ہی سلمان نے بیٹے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو اسکے بزنس کا وارث ہو۔لیکن حمنہ کی پیدائیش پر انہوں نے فاطمہ کو بہت بری طرح سے بے عزت کیا تھا۔حمنہ کو تو سلمان نے کبھی پیار بھی نہیں کیا تھا۔تین سال بعد فاطمہ کو پھر سے امید ہوئی تو سلمان کی خواہش اس مرتبہ بھی بیٹا ہی تھا۔

فاطمہ بھی یہی سوچتی تھی کہ شاید بیٹے کی پیدائیش سلمان کو خوش کر دے اور اس وجہ سے اس نے بہت زیادہ دعائیں کی تھیں۔لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جانان کی پیدائیش پر عائشہ بھی شایان اور حسن کے ساتھ موجود تھی۔جانان کو سب سے پہلے باہوں میں عائشہ نے ہی اٹھایا تھا اور اسے بہت پیار سے دیکھ رہی تھی۔

'ماما یہ کتنی پیاری ہے نا بلکل ڈول کی طرح۔'شایان اسکے چھوٹے سے گال کو چھوتے ہوئے بول رہا تھا۔

'بلکل بہت پیاری ہے کتنا اچھا ہوتا نا کہ ہمارے پاس بھی ایسی پیاری سی گڑیا ہوتی۔'عائشہ نے جانان کا منہ چومتے ہوئے کہا تھا۔

'تو تم اسے لے لو میں اڈاپشن پیپرز تیار کروا دیتا ہوں۔'سلمان نے فاطمہ کے جزبات کی پرواہ کئے بغیر عائشہ کو کہا تھا ۔

'نہیں سلمان یہ تم دونوں کی بیٹی ہے اور تمہارے پاس ہی رہے گی۔میں اسے لوں گی تم لوگوں سے لیکن کسی اور طریقے سے۔کیوں شایان رکھنا چاہو گے تم اس گڑیا کو ہمیشہ کے لیئے پاس۔'عائشہ نے مسکراتے ہوئے شایان کو کہا تو اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا اور دوبارہ سے جانان کے ننھے ہاتھوں سے کھیلنے لگا۔عائشہ نے سوالیہ نظروں سے حسن کو دیکھا۔

'جو آپ کا حکم جناب عالیہ۔'حسن نے مسکرا کر کہا تھا

'تو پھر یہ میرے شایان کی دلہن بنے گی۔منظور ہے تم دونوں کو؟'عائشہ نے سلمان سے پہلے فاطمہ کو دیکھا تھا جس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔

'تو پھر اپنی بیٹی کا نام بھی میں خود ہی رکھوں گی۔آج سے اس کا نام جانان ہے میرے شاہ کی جانان۔'عائشہ نے مسکرا کر شایان اور جانان کو دیکھا تھا۔

'جانان کا کیا مطلب ہوتا ہے ماما؟' شایان نے دلچسپی سے پوچھا۔

'محبوب۔' عائشہ نے پیار سے جانان کے گال کو چوما۔

'اور محبوب کا کیا مطلب ہوتا ہے؟' شایان کے سوال پر سب نے قہقہہ لگایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانان جب پانچ سال کی ہوئی تو حسن اور عائشہ نے سلمان سے نکاح کا پوچھا تھا اور سلمان نے عائشہ کی خوشی کے لیئے فوراً ہاں کر دی تھی۔

نکاح والے دن چھوٹی سی جانان کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ۔وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔

سلمان اسے کمرے میں لینے گیا تو جانان سونا چاہ رہی تھی جبکہ فاطمہ اسے اٹھانے کی مکمل کوشش کر رہی تھی۔سلمان غصے سے اسکے پاس گیا اور سختی سے اسے پکڑ کر پیروں پر کھڑا کیا تھا۔


'اب اگر تم نہ اٹھی تو تھپڑ لگاؤں گا تمہیں۔'سلمان کے اس طرح سے چلانے پر وہ سہم کر رونے لگی تھی۔


'آواز بند کرو اپنی اور تم اسے باہر لے کے آؤ ۔ہر جگہ تماشہ لگانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے تم نے۔'سلمان غصے سے کہتا ہوا باہر چلا گیا تو فاطمہ بھی جانان کو چپ کروا کر ساتھ لے آئی۔جب سے زرش پیدہ ہوئی تھی تب سے سلمان کا رویہ ان کے ساتھ مزید برا ہو گیا تھا۔


جانان کو لا کر شایان کے بغل میں بیٹھایا گیا اور نکاح کی رسم ادا کی گئی۔نکاح کے بعد سب اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے تھے۔جانان نے رونی صورت بنا کر شایان کو دیکھا۔


'میں نے سونا ہے۔'جانان نے اپنے گال پھولا کر کہا اور ایسا کر کے وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔


'تو سو جاؤ'شایان نے اسے بہت پیار سے کہا تھا۔


'میں سوتی ہوں تو بابا مارتے ہیں۔'جانان نے روتے ہوئے کہا تو شایان کو غصہ آ گیا۔اس نے نرمی سے جانان کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔


'شایان شاہ کے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔'


'سچی؟'جانان نے معصومیت سے پوچھا تو شایان مسکرا دیا تھا جبکہ جانان آنکھیں بند کیئے سو گئی تھی۔


وہ لوگ دو دن وہاں رہے تھے اور دو دن تک شایان نے جانان کو صرف اپنے ساتھ رکھا تھا۔جانان صرف اسی کے ساتھ کھیل سکتی تھی،اسی کے ساتھ کھاتی تھی اور صرف اسی کے ساتھ باتیں کرتی تھی۔


حمنہ جو جانان کے سب سے قریب تھی اسے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا۔وہ جانان کو اپنے ساتھ لے کر آتی تو شایان کوئی نہ کوئی لالچ دے کر پھر سے جانان کو ساتھ لے جاتا۔


آخر ان کے جانے کا وقت آ چکا تھا۔شایان جانان کو اپنے ساتھ چھت پر لے گیا تھا۔وہ جانان کے سامنے اس کے ہاتھ پکڑ کر بیٹھا تھا۔


'جانان مجھ سے وعدہ کرو کہ تم مجھے کبھی نہیں بھولو گی۔'شایان نے سنجیدگی سے اسے کہا تھا۔


'تمہیں کیسے بھولوں گی ہم تو بیسٹ فرینڈ ہیں نا۔'جانان نے کھلکھلاتے ہوئے کہا۔لیکن شایان جانتا تھا کہ وہ پھر سے اس کو بھول جائے گی۔وہ جب بھی واپس آتا تھا جانان اسے بھول چکی ہوتی تھی اور یہ بات شایان کے لیئے بہت نا گوار تھی۔


شایان نے اپنے گلے سے ایک چین نکالی جس کو اس نے سکول میں جیتا تھا اور اسے جانان کے گلے میں پہنا دیا۔


'اسے کبھی بھی گم نا کرنا اور اسے روز دیکھ کر مجھے یاد کرنا اس طرح سے تمہیں میں ہمیشہ یاد رہوں گا اور اگر تم مجھے بھولی نا تو میں ناراض ہو جاؤں گا وہ بھی پکا والا۔ میرا انتظار کرنا ،بہت جلد تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔'شایان نے منہ بنا کر کہا تو جانان ہنسنے لگی۔


'شایان آ جاؤ بیٹا چلیں۔'حسن صاحب کی آواز پر شایان اٹھ کھڑا ہوا جبکہ اس کے ایسا کرنے پر جانان نے منہ بسور لیا۔

'پھر آؤ گے؟'جانان نے اپنے پہلے سے پھولے ہوۓ گالوں کو مزید پھولا لیا۔


'ضرور آؤں گا یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔'شایان مسکراتے ہوئے بولا۔


اللہ حافظ جانانِ شاہ۔'شایان نے جھک کر اسکا گال چوما اور چلا گیا جبکہ جانان نے ہنستے ہوئے اپنے لاکٹ کو دیکھا تھا جس پر سٹائلش سا S بنا ہوا تھا۔جانان اس سے کھیلتے ہوئے ہنسنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سلمان بزنس کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا تھا اور اس وقت وہ ایک کلائنٹ سے ملنے ہوٹل آیا ہوا تھا۔اچانک اس کی نظر سامنے موجودہ منظر پر پڑھی تھی۔وہاں پر حسن ایک عورت اور دو بچوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہا تھا۔

سلمان کے قدم بے ساختہ ان کی طرف اٹھے تھے۔


'اسلام و علیکم۔'سلمان نے ان کے پاس کھڑے ہو کر کہا تو حسن نے جیسے ہی اسے دیکھا تو اس کا رنگ اڑ گیا۔


'سس۔۔۔۔سلمان۔'حسن کافی گھبرا گیا تھا۔


'یہ کون ہے حسن ہمیں بھی تو ملواؤ۔'اس عورت نے مسکراتے ہوئے سلمان کو دیکھا تھا۔


'میں حسن کا دوست ہوں اور آپ؟'


'میں سلمان کی بیوی فریحہ اور یہ ہمارے بچے ہیں شاہرام اور ماہا۔'فریحہ کی اس بات پر سلمان نے حسن کو گھورا تھا۔


'فریحہ تم گھر جاؤ میں ابھی آتا ہوں۔'حسن فریحہ کا جواب سنے بغیر سلمان کو ساتھ لے کر چل دیا۔سلمان اسے اپنی گاڑی میں لے آیا تھا۔


'یہ سب کیا ہی حسن ایسے کیسے تم عائشہ کو دھوکہ دے سکتے جانتے ہو اسے پتہ چلا تو کیا ہو گا۔'سلمان کافی غصے سے بولا تھا۔


'سلمان یار میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔میرے باپ نے مجھے اپنی قسم دے کر فریحہ سے شادی کروائی تھی۔میں کبھی بھی عائشہ کو دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا لیکن میری مجبوری تھی۔اپنے باپ کے سامنے کمزور پڑ گیا اور ان کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیئے یہ شادی کرنی پڑی۔'حسن پریشانی سے بول رہا تھا۔


'دھوکہ تو تم نے دیا ہے۔'سلمان ابھی بھی غصے میں تھا۔


'خدا کے لیئے تم عائشہ کو اس کے بارے میں کچھ مت بتانا وہ مجھے لے کر بہت پوزیسو ہے ۔وہ یہ برداشت نہیں کر سکے گی۔خدا کے لیئے میرا راز رکھ لے یار۔'حسن نے سلمان کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے جن کو سلمان نے تھام لیا تھا۔


'ٹھیک ہے بس وعدہ کر کہ عائشہ کو اس سب سے دور رکھے گا۔'سلمان نے اسے کہا تو حسن نے ہاں میں سر ہلایا۔


'جا اب۔'


حسن اس سے مطمئن ہو گیا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے کار سے نکل کر واپس ہوٹل چلا گیا۔سلمان نے مسکراتے ہوئے اسے جاتے دیکھا تھا۔اتنے سال سے وہ یہی تو چاہتا تھا کہ عائشہ اسے چھوڑ دے لیکن عائشہ بھی اس پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتی تھی ۔مگر اب پاسا سلمان کے ہاتھ میں تھا۔اس نے اپنی جیب سے فون نکالا اور نمبر ڈائیل کرنے لگا۔


'حسن شاہ کراچی میں ایک الگ ہی شادی شدہ زندگی جی رہا ہے۔اس کی شادی سے متعلقہ ہر ثبوت میرے تک پہنچاؤ۔'


فون بند کر کے سلمان نے ایک قہقہہ لگایا تھا ۔اب تم میری ہو جاؤ گی عائشہ میں چھین لوں گا تمہیں حسن سے۔ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ سلمان نے سوچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان تمام ثبوتوں کے ساتھ اس وقت حسن کے گھر پر موجود تھا۔عائشہ اسے دیکھ کر مسکرائ تھی۔


'سلمان کیسے ہیں آپ؟۔'عائشہ نے خوشی سے پوچھا تھا۔


'میں تو بلکل ٹھیک ہوں تمہارے لئے ایک تحفہ لایا ہوں۔'سلمان نے حسن کو دیکھتے ہوئے عائشہ کو ایک فائل دی۔


'پراپرٹی تو میرے نام نہیں کر دی۔'


عائشہ نے شرارت سے کہتے ہوئے فائل کو کھولا تھا۔لیکن فائل کو کھولتے ہی اسکے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔اس فائل میں حسن اور فریحہ کا نکاح نامہ اور ان کی کئی تصاویر تھیں۔حسن پریشانی سے اٹھ کر عائشہ کے پاس آیا مگر فائل میں موجود چیزیں دیکھ کر اس نے غصے سے سلمان کو گھورا جو اب مسکرا رہا تھا۔


'حسن یہ جھوٹ ہے نا۔'عائشہ نے روتے ہوئے حسن سے پوچھا تھا اور پھر اسکے پاس جا کر اسکا گریبان پکڑ لیا۔


'پلیز کہہ دیں حسن یہ جھوٹ ہے۔' عائشہ بری طرح سے روتے ہوئے حسن کو جھنجوڑ رہی تھی جبکہ حسن کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔


'بتاؤ حسن سچ کیا ہے عائشہ کا حق بنتا ہے۔'


سلمان نے ایسے کہا تو حسن نے خونخوار آنکھوں سے سلمان کو دیکھا جو دوست کے بھیس میں اسکا سب سے بڑا دشمن نکلا تھا۔ حسن نے ایک نظر عائشہ کو دیکھا اور پھر اپنی محبت کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔لیکن عائشہ کی محبت کی طاقت کو وہ بھی نہیں جانتا تھا۔


'نہیں یہ سب سچ ہے لیکن پلیز میری۔۔۔۔۔۔۔عائشہ!'


حسن کے الفاظ ابھی اس کے منہ میں ہی تھے جب عائشہ بے ہوش ہو کر اسکی باہوں میں جھول گئی۔سلمان بھی پریشانی سے عائشہ کو دیکھ رہا تھا۔شایان جو ابھی بیڈمنٹن کھیل کر واپس آیا تھا سامنے کا منظر دیکھ کر دوڑ کے اپنی ماں کے پاس آیا تھا۔


حسن نے جلدی سے عائشہ کو اٹھایا اور گاڑی میں ڈال کر ڈرائیور کو ہسپتال جانے کا کہا۔سلمان اور شایان بھی ان کے ساتھ تھے ۔شایان بری طرح سے رو رہا تھا جبکہ حسن بار بار عائشہ کو جھنجوڑ کر اسے آنکھیں کھولنے کا کہہ رہا تھا۔


ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹرز فوراً عائشہ کو آبزرویشن میں لے گئے تھے۔حسن نے غصے سے آ کر سلمان کا کالر پکڑا تھا۔

'اگر میری عائشہ کو کچھ ہوا تو تیری جان لے لوں گا۔'حسن نے آنکھوں میں انگارے لیئے سلمان کو دیکھا تھا۔

'دھوکہ تم نے دیا تھا میں نے نہیں۔'

سلمان اپنا کالر چھڑاتے ہوئے بولا۔جبکہ شایان کو دونوں پر غصہ آ رہا تھا دونوں اسکی ماں کی فکر چھوڑ کر لڑنے میں مصروف تھے۔تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر باہر آئے تھے۔شایان بے چینی سے ڈاکٹر کی طرف گیا تھا۔

'دیکھیں پیشنٹ کا بہت برا نروس بریکڈاؤن ہوا تھا ۔ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن انہیں بچا نہیں سکے۔'ڈاکٹر نے شایان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔جبکہ ڈاکٹر کے یہ الفاظ سب پر بم کی طرح گرے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عائشہ کی وفات نے حسن کو مکمل طور پر توڑ دیا تھا۔لاہور اس گھر میں رہنا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔اس لیئے حسن شایان کو اپنے ساتھ کراچی لے گیا تھا۔وہ سلمان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا اور ایک پل کہ لیئے اس نے یہ سوچا تھا کہ شایان اور جانان کے بیچ موجود رشتے کو ختم کر دے لیکن پھر اس نے سوچا کہ یہ رشتہ عائشہ کی خواہش سے بنا تھا اسے ختم کر کے وہ عائشہ کی روح کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ شایان کو جانان سے ہمیشہ دور رکھ کر سلمان کو سزا دے گا۔اس نے شایان کو اپنی قسم دی تھی کہ وہ جانان سے ملنا تو دور اس کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔شایان اس معاملے میں خاموش ہی رہا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ ابھی وہ اپنے باپ کے سامنے کمزور پڑھ جائے گا لیکن بڑے ہو کر وہ اپنی جانان کو ہمیشہ کے لیئے اپنے پاس لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

فریحہ اور اس کے دونوں بچے شایان کی آمد سے خوش نہیں تھے۔وہ لوگ تو بہت پہلے سے ہی عائشہ اور شایان کے بارے میں جانتے تھے اور ان سے بے تحاشہ نفرت بھی کرتے تھے۔فریحہ تو عائشہ کے مرنے سے بہت خوش تھی ،لیکن اس شایان نامی بلا کو گھر میں پا کر اسے غصہ آیا تھا۔

شایان بھی ان لوگوں سے زیادہ گھلتا ملتا نہیں تھا وہ ذیادہ تر اپنے کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں عائشہ کی تصویر سے باتیں کرتا تھا۔اس نے شاہرام سے تھوڑا گھلنے ملنے کی کوشش کی تھی کیونکہ وہ اس سے بس ایک سال چھوٹا تھا جبکہ ماہا تو ابھی صرف نو سال کی تھی۔ لیکن شاہرام کے برے رویے کی وجہ سے اس سے بھی بات کرنا بند کر دی تھی۔شایان کو لگا تھا کہ یہاں پر اسکے بہن بھائی ہوں گے مگر یہاں آ کر وہ بہت اکیلا محسوس کرتا تھا۔حالانکہ حسن شایان کو اپنے دونوں بچوں سے دگنی توجہ دیتا تھا اور کوئی بھی حسن کے غصے کے ڈر سے شایان کو کچھ نہیں کہتا تھا۔

شاہرام کا برتھ ڈے تھا اور فریحہ بیگم نے اس کے لیئے بہت ذیادہ تیاریاں کی تھیں۔شام کو لان مہمانوں اور شاہرام کے دوستوں سے بھرا پڑا تھا۔شایان وہاں آنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن حسن کی خوشی کے لیئے آ گیا تھا۔وہ سائیڈ پر کھڑا سب کو دیکھ رہا تھا جب شاہرام اپنے دوستوں کے ساتھ شایان کے پاس آیا تھا۔

'تو یہ ہے تمہارا وہ بھائی جو لاہور سے آیا ہے۔'ایک لڑکی نے شایان کو دلچسی سے دیکھتے ہوئے پوچھا تو شاہرام نے برا سا منہ بنایا تھا۔

'اسکا مطلب تمہارے بابا نے دو شایان کی ہیں؟'دوسرے لڑکے نے حیرانی سے پوچھا تھا۔شایان وہاں سے جانے لگا تھا جب اسکے کانوں میں شاہرام کے الفاظ پڑے۔

'کہتے تو یہی ہیں کہ شادی کی تھی لیکن کیا پتا سچ ہے بھی یا نہیں۔میں نے تو سنا ہے شادی کے بغیر ہی رہتی تھیں بابا کے ساتھ گھٹیا عورتوں کی طرح۔'

شایان یہ الفاظ سن کر غصے سے شاہرام کے پاس آیا تھا اور ایک زور دار مکا اسکی ناک پر مارا۔شاہرام نے اپنی ناک کو چھوا تھا جہاں سے اب خون نکل رہا تھا۔

'تیری اتنی ہمت۔'

شاہرام نے غصے سے شایان کا کالر پکڑا تھا لیکن اس سے پہلے کہ دونوں کچھ کرتے حسن وہاں آیا اور شاہرام کو کھینچ کر ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا تھا۔

'تمہاری جرات کیسے ہوئی شایان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی ۔آج کے بعد میرے بیٹے کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو جان نکال دو گا تمہاری۔'حسن نے شایان کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا تھا۔

فریحہ کھا جانے والی نظروں سے شایان کو دیکھ رہی تھی اور اس دن ان دونوں کی شایان کے لیئے نا پسندیدگی نفرت میں تبدیل ہو گئی تھی۔

لیکن اس کے بعد حسن نے شایان کو وہاں نہیں رکھا تھا بلکہ اسے کیڈٹ کالج میں بھیج دیا ۔وہ شایان کو اپنی طرح آرمی میں دیکھنا چاہتا تھا جبکہ شایان نے بھی اپنے باپ کے خواب کو اپنا مان کر دل و جان سے محنت کرنے کا فیصلہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

11سال بعد


میجر شایان کی ساری ٹیم جشن منانے میں مصروف تھی ابھی کچھ دنوں پہلے ہی تو انہوں نے ایک بہت بڑی دہشتگرد پارٹی کو ہرا کر ان کا ایک اہم آدمی پکڑا تھا۔

اس وقت سب جشن منا رہے تھے جبکہ شایان کیمپ سے کافی دور تنہائی میں بیٹھا اپنی جانان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔بس ایک اور سال میری جان پھر ہمیشہ کے لیئے تمہیں اپنے پاس لے آؤں گا۔تیار رہنا جانان شاہ کوئی تمہارا بہت شدت سے انتظار کر رہا ہے۔وہ سوچ کر مسکرایا تھا۔


'ہائے کاش ہمارا بھی کوئی اپنا ہوتا جس کے بارے میں ہم یوں سوچ کر مسکرایا کرتے۔'


شایان اپنے قریب سے آتی سعد کی آواز سن کر مسکرایا تھا جو دل پر ہاتھ رکھے انتہائ ڈرامائی انداز میں بات کر رہا تھا۔ سعد اس کا سب سے اچھا دوست تھا۔ وہ بچپن سے ہی ایک یتیم خانے میں پلا بڑھا تھا۔اسی لیئے اس نے اپنی زندگی کو اپنے وطن کے لیئے وقف کرنے کا سوچا تھا۔سعد اور علی ہی شایان اور اسکی جانان کے بارے میں سب جانتے تھے۔


'اس کے پاس جانے کے ارادے بھی ہیں میجر یا صرف اسے یاد کر کے ہی دیوداس بنے پھرتے رہیں گے۔'سعد نے شرارت سے کہا تھا۔


'نہیں کیپٹن ابھی وہ صرف سولہ سال کی ہے کالج میں پڑھتی ہو گی۔میرے جزبات کو سمجھنے سے قاصر ہو گی ابھی وہ۔ زرا آزادی اینجوائے کر لے آنا تو اسے میرے پاس ہی ہے۔'شایان کی بات پر سعد نے قہقہہ لگایا تھا۔


'چلیں ٹھیک ہے لیکن میرے خیال میں اب ہمیں فنکشن کا رخ کرنا چاہیئے۔کہیں بریگیڈیئر صاحب برا نہ مان جائیں۔'

سعد کہتا ہوا اٹھ کر چل دیا تو شایان بھی اسکے پیچھے چل دیا۔

وہ لوگ آرمی کی Investiture ceremony میں شامل ہونے کے لیئے راولپنڈی آئے تھے۔شایان ہال میں داخل ہوا تو اسے حسن صاحب برگیڈیئر سے بات کرتے ہوئے نظر آئے۔شایان مسکراتا ہوا ان کی طرف گیا اور انہیں سیلیوٹ کیا۔


'ارے میجر شایان شاہ ہم آپ کی بات ہی کر رہے تھے۔آپ نے جو کام کیا ہے اس سے ہمارے ملک کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا اور مجھے آئندہ بھی آپ سے ایسے ہی عظیم کارناموں کی امید ہے۔' بریگیڈئیر صاحب نے دل کھول کر شایان کی تعریف کی تھی۔


'شیور سر۔'شایان نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔


'کرنل صاحب آپ کو تو میجر شایان پر فخر ہو گا۔'


'فخر نہیں شایان میرا غرور ہے۔'


حسن صاحب نے شایان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔تبھی ان کے پاس شاہرام آ کر سیلیوٹ مار کر کھڑا ہوا تھا۔اسے دیکھ کر بریگیڈیئر صاحب مسکرائے۔


'کیپٹن شاہرام شاہ مجھے امید ہے کہ آپ بھی اپنے بھائی کی طرح عظیم کام کریں گے۔'


'انشا اللہ سر۔' شاہرام نے مسکرا کر کہا تھا لیکن وہ مسکراہٹ اس کی آنکھوں تک نہیں پہنچی تھی۔


شایان اور اس کے تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی وہ ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔لیکن شایان کو اس سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔فنکشن کافی دیر کے لیئے چلتا رہا تھا۔شایان اور اسکی ٹیم کو بہترین کارکردگی کے لیئے اعزاز دیا گیاتھا۔اس کی وجہ سے حسن صاحب نے جس فخر سے شایان کو دیکھا تھا وہ اسے سر خرو کر گیا تھا۔


فنکشن کے بعد برگیڈیئر صاحب نے شایان اور حسن صاحب کو اپنے پاس بلایا تھا۔


'ہماری انٹیلیجنس سے ہمیں خبر ملی ہے کہ لاہور کی ایک بہت بڑی پارٹی کے سربراہ آج سے ایک ہفتے بعد ایک جلسہ نکالیں گے۔جس میں بہت زیادہ عوام ہو گی۔ویسے بھی فواد ملک صاحب عوام کو کافی پسند ہیں اس لیئے ان کی حفاطت کی ذمہ داری ہم پر ہے۔آپ کی بہترین کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام ہم نے آپ کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا ہے میجر شایان شاہ۔'


'او کے سر۔'شایان نے مکمل پروفیشنل انداز میں کہا تھا۔


'ہمیں آپ پر مکمل اعتماد ہے میجر،کل تک آپ کو ساری انفارمیشن دے دی جائے گی۔' بریگیڈیئر صاحب نے انہیں جانے کا اشارہ کیا تو وہ واپس آ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شایان نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مل کر فواد ملک کی حفاطت کی پوری تیاری کی تھی اور اس سب میں انہوں نے پورا ہفتہ دن رات محنت کی تھی۔


لوگ جلسے کی جگہ پر آنا شروع ہو گئے تھے۔شایان نے چاروں طرف سپاہی تعینات کیے تھے اور کوئی بھی آدمی مکمل تلاشی کے بغیر اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔فواد صاحب کافی ایماندار اور اچھے سیاست دان تھے اور اسی وجہ سے وہ عوام کے دلوں میں بستے تھے۔اس بار جلسے میں ان کی بیوی بھی ساتھ آئی تھی جو سٹیج پر بیٹھی تھیں۔فواد صاحب نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تھا۔


شایان کچھ فاصلے پر کھڑا ہر چیز کا جائزہ لے رہا تھا۔تبھی اچانک سٹیج کے پاس آیک بہت بڑا دھماکہ ہوا تھا ۔جس کے بعد بری طرح سے بھگدڑ مچ گئی۔لوگ باہر جانے کی کوشش میں تھے۔جبکہ شایان کی ٹیم کے کچھ سپاہی لوگوں کو نکال رہے تھے تو کچھ مزید دھماکہ خیز مواد کی تلاش میں تھے۔شایان بھاگ کر سٹیج کی طرف گیا تھا۔آگ کی پروا کیۓ بغیر وہ فواد ملک کے پاس پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔اس نے جا کر انہیں چیک کیا تو ان کی سانسیں ابھی چل رہی تھیں۔اس نے فوراً انہیں سعد کے ساتھ ہسپتال پہنچا دیا۔لیکن ان کی بیوی اور سٹیج پر موجود باقی لوگ بچ نہیں پائے تھے۔


شایان نے زندہ لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی جو بہت نازک حالت میں تھے۔ہر طرف خون ،آگ اور تباہی کہ سوا کچھ نہیں بچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دھماکے میں فواد ملک ،ان کی اہلیہ اور ان کے علاوہ تقریباً تین سو لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔جن میں پانچ آرمی کے سپاہی شامل تھے۔کل تک جو لوگ اور میڈیا شایان شاہ کی کارگردگی پر داد دے رہا تھا۔آج وہی سب اسے کوسنے پر لگے ہوئے تھے۔وہاں پر موجود سپاہیوں نے دو مشتبہ افراد کو پکڑا تھا جن سے ابھی پوچھ گچھ جاری تھی۔شایان کا ذہن ہر لحاظ سے سوچ سوچ کر ماؤف ہو چکا تھا لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ دہشت گرد داخل کیسے ہوئے تھے اور ان کی نظروں سے بچ کر اتنا سب کچھ کیسے کر گئے تھے۔کہیں انہیں اندر سے تو مدد۔۔۔۔

ابھی شایان نے یہ سوچا ہی تھا جب ملازمہ نے اسے حسن صاحب کا پیغام دیا ۔


شایان لاؤنج میں آیا تو وہاں پر حسن صاحب اور شاہرام کے ساتھ کئی آرمی والے کھڑے تھے۔ایک آرمی والا شایان کے پاس آیا اور بولا۔


'لاہور جلسے میں ہونے والے دھماکےمیں دہشتگردوں کی مدد اوروطن کے ساتھ غداری کے جرم میں آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے۔'


شایان کے اعصاب پر یہ الفاظ ہتھوڑوں کی طرح پڑے تھے۔اس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا جو یہ لوگ کہہ رہے تھے۔


'کیا ثبوت ہے آپ کے پاس؟'شایان نے غصے سے پوچھا تھا۔


'ثبوت عدالت میں آپ کے سامنے آ جائیں گے فلحال یہ رہا آپ کا وارنٹ۔'


اس فوجی نے ایک کاغذ شایان کے سامنے کیا تھا۔جسے شایان نے اس سے لے کر پڑھنا شروع کیا تھا۔شایان پریشانی سے حسن صاحب کے پاس گیا تھا۔


'بابا میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔'شایان نے بے چینی سے کہا تھا۔


'جانتا ہوں بیٹا تم فکر مت کرو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔میں جانتا ہوں کہ تم بے قصور ہو اور یہی عدالت میں بھی ثابت ہو گا۔'حسن صاحب نے شایان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔


'چلیں ۔'اس فوجی نے شایان کو ہتھ کڑی پہناتے ہوئے کہا تھا اور پھر اسے گاڑی میں بیٹھا کر فوجی جیل کی طرف لے جایا گیا۔جبکہ شایان کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن صاحب نے سب سے بہترین وکیل شایان کے کیس پر لگایا تھا۔لیکن سب کچھ بے سود تھا۔ہر ثبوت شایان کے خلاف تھا۔جن دو دہشتگردوں کو پکڑا گیا تھا انہوں نے شایان شاہ کو اپنا ساتھی بتایا تھا۔شایان کے آئی پی اے ایڈریس سے ان دہشتگردوں کے ساتھ کانٹیکٹ ہوتا رہا تھا۔اس کے علاوہ ایسی بہت سی میلز اور ڈاکیومینٹ شایان کے کمرے سے ملے تھے جن کی بناہ پر اسے دہشتگردوں کا ساتھی سمجھا جا رہا تھا۔اب تو حسن صاحب بھی تھک چکے تھے اور شایان پر سے انکا اعتبار بھی ہٹنے لگا تھا۔


دو مہینے تک شایان کا کیس عدالت میں چلتا رہا تھا۔آخر کار فیصلہ بھی آ گیا تھا جس میں شایان شاہ کو غدار اور دہشت گرد کہا گیا تھا۔سعد اور اسکی ٹیم نے شایان کو بے گناہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن اتنے پختہ ثبوتوں کے سامنے ان کے دلائل کچھ نہیں کر پائے تھے۔


شایان کو چھے ماہ کے لیئے جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔جانے سے پہلے حسن صاحب اس کے پاس گئے تھے اور ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر مارا تھا۔


'تم میرا غرور تھے شایان اور تم نے ہی وہ غرور توڑ دیا۔کیوں کیا ایسا شایان کیوں۔'


شایان کے اندر جو ہمت باقی تھی حسن صاحب کے الفاظ سے وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔حسن صاحب نے آرمی میں اپنے اچھے تعلقات استمعال کر کے اس خبر کو میڈیا تک جانے سے بچا لیا تھا۔لیکن شایان کے جانے کے بعد انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور پھر وہ زیادہ تر بیمار رہتے تھے۔


ابھی اسکو جیل آئے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا جب شاہرام اس سے ملنے آیا جو شایان کے لیئے بہت حیران کن بات تھی۔شاہرام اس کے پاس کھڑا اسے مصنوعی رحم سے دیکھ رہا تھا۔


'چچچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے تو بابا کا غرور مٹی میں ملا دیا شایان وہ تو اب تمہارا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے ۔'شایان سر جھکائے بیٹھا تھا۔شہرام اس کے پاس آیا اور اسکے کان کے پاس ہو کر بولا۔


'کیسا لگا مجھ سے میرے باپ کی محبت چھیننے کا انجام،۔مجھے پل پل غصہ دلانے کا انجام،میری ماں کے لیئے اذیت بننے کا انجام۔اب تم اس سب کی سزا بھگتو شایان شاہ اس جرم کی شکل میں جو تم نے کیا ہی نہیں۔'


'اسکا مطلب تم۔۔۔۔۔۔۔۔' شاہرام نے اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی زور دار قہقہہ لگایا۔


'ہائے میرا معصوم بھائی۔اپنی اچھائی اور بہادری پر بہت غرور تھا نا۔لیکن کاش ان کے ساتھ تھوڑے چالاک بھی ہوتے تو میں تو کیا تمہیں کوئی بھی پھنسا نہیں سکتا۔لیکن تم ایسے ہی رہنا بے وقوف ۔' شایان صرف اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔شاہرام اس کے پاس سے اٹھ کر دروازے کی طرف چلا گیا۔


'اور ہاں بابا کی فکر مت کرنا میں ہوں ان کے پاس اور اب انکی محبت مان اور غرور سب میرے لیئے ہو گا۔تمہارے لئے کچھ نہیں۔بلکل جیسے تم نے گیارہ سال پہلے کیا تھا ۔مزے کرو۔' شاہرام ہنستا ہوا وہاں سے چلا گیا تھا اور شایان اپنا غصہ ضبط کیۓ وہیں بیٹھا رہا۔


شایان کو چھ ما تک سخت قسم کی جسمانی ریمانڈ پر رکھا گیا تھا۔ہر ممکن طریقے سے اسے ٹارچر کیا جاتا۔کبھی اسکے جسم پر برف والا ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا تو کبھی اسے باندھ کر گھنٹوں اسے مارا جاتا۔لیکن اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا کیونکہ شایان نے اپنا منہ ہر تکلیف کے باوجود بند رکھا تھا۔شایان کی ریمانڈ بڑھتی ہوئی ایک سال تک چلی گئی تھی۔لیکن ہر طرح کے ٹارچر کے باوجود شایان کچھ بھی بتانے سے قاصر تھا۔وہ کچھ جانتا تو شاید بتا بھی دیتا لیکن اس سے پوچھے گئے سوالوں کا شایان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔


کال کوٹھری میں ایک سال تک پڑے رہنے کے دوران وہ کبھی اپنی بدلی زندگی کے بارے میں سوچتا،کبھی اپنی ماں کو یاد کرتا تو کبھی جانان کو،بلکہ سب سے زیادہ وہ جانان کے بارے میں ہی سوچتا تھا جسے دیکھنے کی خواہش اب ہمیشہ خواہش ہی رہنے والی تھی۔آخر کار جب اتنے عرصے کے ٹارچر کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا تو شایان شاہ کو غداروں کے لیئے عبرت بنانے کی غرض سے عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنا دی تھی اور شایان کو اپنی عبرت ناک زندگی کی بجائے یہ موت کی سزا آزادی ہی لگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آج شایان کی اس جیل میں آخری رات تھی۔صبح ہوتے ہی اسے پھانسی دے دی جانی تھی۔شایان فرش پر لیٹا الگ ہی دنیا میں تھا۔


مجھے بھول جانا جانان شاہ اپنے اس وعدے کو بھول جانا کیونکہ میں اپنا وعدہ پورا نہیں کر پاؤں گا۔


شایان اپنے ذہن میں جانان سے مخاطب تھا۔اسے اگر اس سب میں کسی چیز کا افسوس تھا تو وہ جانان کو کبھی نہ دیکھنے کا تھا۔اس نے سوچ لیا تھا کہ صبح ہوتے ہی سعد یا علی میں سے کسی کی ذمہ داری لگائے گا کہ وہ جانان کو اس کی موت کے بارے میں بتا دیں۔


اچانک باہر سے کچھ شور سنائی دیا تھا جسے سن کر شایان کھڑا ہوا تھا۔کسی نے اسکی جیل کا دروازہ کھولا تھا۔شایان سامنے موجود سعد کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔


'سر چلیں ہمارے پاس ذیادہ وقت نہیں ہے۔'سعد نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا۔


'سعد پاگل ہو کیا؟جانتے بھی ہو کہ کتنی بڑی مصیبت میں پڑو گے۔'شایان نے غصے سے کہا تھا۔


'سعد جلدی کر۔'علی نے سائیڈ پر کھڑے ہو کر اسے کہا تو وہ شایان کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔شایان کی جیل کے باہر موجود سپاہیوں کو وہ بے ہوش کر چکے تھے۔لیکن باقی سپاہیوں کی نظروں سے چھپ چھپا کر باہر جانا کافی مشکل کام تھا۔اچانک ایک سپاہی ان دونوں کے سامنے آیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ باقیوں کو اگاہ کرتا کسی نے پیچھے سے اس کے سے میں بندوق ماری تھی جس سے وہ بے ہوش ہو کر گرا تھا۔


'چلو'


وہ آدمی ان دونوں کو کہتا جلدی سے آگے بڑھ گیا تو سعد اور شایان بھی اس کے پیچھے چل دیے۔ شایان حیرانی سے اس آدمی کو دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ اسے بلکل بھی نہیں جانتا تھا۔


آخر کار سب سے چھپ چھپا کر وہ دونوں شایان کو باہر لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔باہر دو آدمی انکا انتظار کر رہے تھے جو فوراً ان کو ایک گاڑی میں بیٹھا کر خود ایک بائیک پر بیٹھ کر انکی گاڑی کے پیچھے آ رہے تھے۔شایان حیرت سے سب دیکھ رہا تھا۔


'سعد یہ سب کیا ہے اور کون ہیں یہ لوگ؟'شایان نے سعد سے پوچھا تھا جو اس کے مقابل بیٹھا تھا۔


'میرا نام وجدان خان اور باقی ساری باتیں گھر پہنچ کر تمہیں پتہ لگ جائیں گی۔'سعد کی بجاۓ ڈرائیو کرتے وجدان نے اسے جواب دیا تھا۔


'ان لوگوں نے cctv میں تم لوگوں کو دیکھ لیا ہو گا۔'شایان نے انہیں بتانا ضروری سمجھا تھا۔


'آپ اسکی فکر نہ کریں سر ہمارے ایک آدمی نے انکا سارا سسٹم ہیک کر لیا تھا ۔انہیں صبح سے پہلے آپکے غائب ہونے کی خبر نہیں ہو گی۔بس اس سے پہلے ہمیں پشاور پہنچنا ہے۔'


سعد نے ساری بات شایان کو بتائی تھی لیکن وہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہوا تھا اور وہ جانتا بھی نہیں تھا کہ سعد نے کس قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہونے تک وہ پشاور پہنچ چکے تھے۔وجدان نے ایک عالی شان گھر کے باہر جا کر ہارن دیا تو ملازم نے دروازہ کھولا۔شایان اور سعد گاڑی سے اتر کر وجدان کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے۔


لاؤنج میں بیٹھے ہاشم صاحب کی نظر جب ان لوگوں پر پڑی تو وہ جلدی سے اٹھ کر شایان کے پاس آئے اور اسے گلے سے لگا لیا۔


'تم ٹھیک تو ہو نا۔'شایان نے ان کے گلے سے ہٹ کر سعد کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔


'یہ آپ کے ماموں ہیں ہاشم خان اور وجدان انہی کا بیٹا ہے۔'سعد نے اس کی مشکل آسان کی تھی۔


ایسا نہیں تھا کہ شایان اپنے ماموں کے بارے میں جانتا نہیں تھا۔اسکی ماں بہت ذیادہ اپنے بھائی کا ذکر کرتی تھی۔لیکن اس نے سوچا نہیں تھا کہ وہ انہیں یوں ملے گا۔


'تمہاری آنکھیں بلکل میری گڑیا کے جیسی ہیں۔بہت غلط کیا میں نے اس کے ساتھ شاید اس سے وہ مجھے معاف کر دے۔'انہوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کافی پیار سے شایان کا ماتھا چوما تھا ۔


'جاؤ جا کے آرام کرو پھر تفصیل سے بات کریں گے۔'


انہوں نے شایان کو کمرے میں بھیج دیا تھا۔فریش ہونے اور ریسٹ کرنے کے بعد سعد اسے رات کے کھانے کے لیئے بلانے آیا تھا۔


'آپ کو میرے بارے میں کیسے پتا چلا؟کیسے کیا آپ نے یہ سب کچھ؟' شایان نے اپنے ذہن میں آنے والے سوال پوچھ ڈالے تھے۔


'میں نے اور علی نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر بہت مرتبہ آپ کو آزاد کروانے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ ہمیں ناکامی کا سامنا ہوا تھا۔لیکن جب ہمیں آپ کی پھانسی کی سزا کے بارے میں پتہ چلا تو ہم نے مدد کے لیئے آپ کے اپنوں کے پاس جانے کی کوشش کی۔آپ کے بابا تو یہ خبر سن کر مکمل طور پر ٹوٹ گئے تھے اور شاہرام پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس لیئے ہم آپ کے ماموں کا پتہ لگا کر ان کے پاس مدد کے لیئے آئے۔'سعد نے اسے ساری بات سے آگاہ کیا۔


'وجدان نے اپنا ایک گینگ بنایا ہوا ہے تا کہ وہ برے لوگوں کا پتہ لگا کر انہیں ان کے انجام تک پہنچا سکے۔جب سعد میرے پاس آیا تو میں نے اسے تمہاری مدد کے لیئے بھیجا۔'

اس بار ہاشم صاحب بولے تھے۔


شایان حیران تھا کہ کس طرح وہ اسے بچانے کے لیئے آرمی سے بھڑے تھے۔


'اب آگے کیا سوچا ہے؟کیا کرو گے اب تم؟'وجدان نے شایان سے پوچھا تھا۔


شایان نے اس سوال کے بارے میں بہت سوچا تھا۔


'اس شخص کا پتہ لگاؤں گا جس نے وہ دھماکہ کروا کر معصوم لوگوں کی جانیں لیں اور آرمی میں موجود ان غداروں کا بھی پتہ لگاؤں گا جنہوں نے شاہرام کا ساتھ دے کر الزام مجھ پر لگایا۔'شایان نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔


'تو ہم شاہرام کو اٹھا کر اس کے منہ سے سب اگلواہ لیں گے۔'سعد نے کہا تھا۔


'اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ہمارے پاس ثبوت نہیں ہیں شاہرام کے خلاف اور اس کے خلاف ثبوت ہمیں اسی آدمی سے ملیں گے جس نے وہ دھماکہ کروایا تھا۔' شایان نے انہیں بتایا تو وجدان نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔


'یہ کام تم شایان شاہ بن کے نہیں کر سکتے تمہیں آرمی ہر جگہ ڈھونڈ رہی ہو گی۔ہمیں تمہیں ایک نئی پہچان اور ایک نیا نام دینا ہو گا۔'وجدان نے اسے بتایا تھا۔


'تو تم ہی نام بتا دو اس سب میں ایکسپرٹ ہو گے تم۔'شایان نے اس وجدان سے پوچھا تھا۔


وجدان نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا ۔

'دراب خان ہو اب سے تم ۔' وجدان نے اتنا ہی اسے بتایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجدان نے شایان کو ہر طرح سے دراب خان بننے میں اسکی مدد کی تھی۔اسکا حلیہ مکمل طور پر بدل دیا تھا ۔شایان کا کوئی بہت قریبی ہی اسے پہچان سکتا تھا۔اسے دراب خان کے ناٰم کا نقلی آئی ڈی بھی بنوا کر دیا تھا۔سعد نے شایان کا ساتھ دینا چاہا تو اس نے منع کر دیا۔اس کے مطابق سعد پہلے سے ہی اس کی وجہ سے بہت مشکل اٹھا چکا تھا۔لیکن سعد نے بھی اسے کہہ دیا تھا کہ وہ یہ سب شایان کے لیئے نہیں بلکہ اپنے ملک کے دشمنوں اور غداروں کو پکڑنے کے لیئے کر رہا ہے۔

سعد نے اپنا نام بھی نہیں بدلا تھا۔بس اس نے رفیق کو ہٹا کر اپنے نام کے ساتھ خان لگا لیا تھا۔

وجدان نے بم دھماکے میں ملوس ایک آدمی کا پتہ لگوایا تھا۔جس سے شایان نے ساری معلومات لے کر اسے بہت بے رحمی سے مار دیا اور اس کے ماتھے پر دارا لکھ دیا۔جس کے بعد دارا کا نام ہر طرف مشہور ہو گیا تھا۔لیکن کوئی بھی اسے پہچان نہیں سکتا تھا۔

اس نے اور سعد نے مل کر بادشاہ کا پتہ لگایا اور پھر اسکے ہر چھوٹے بڑے آدمی کا شکار کرنا شروع کر دیا۔

دارا بادشاہ کے ہر منصوبے کے آڑے آتا تھا اور اسکا ہر طرح کا غیر قانونی کاروبار برباد کرتا گیا اور ایسا کرنے پر بہت بار اس کام کو کروانے کا الزام دارا پر آ گیا۔اب آرمی بھی دارا کو پکڑنا چاہتی تھی لیکن دارا کے نام کے علاوہ کوئی اور انفارمیشن کبھی کسی کے ہاتھ نہیں آئی تھی۔دارا کی منزل بادشاہ کو پکڑنا اور اس سے ان غداروں کے ناموں کو اگلوانا تھا کیونکہ اس کا کوئی بھی آدمی فوج میں چھپے غداروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا ۔اس سب کی معلومات صرف بادشاہ کے پاس تھی اس لیئے وہی دارا کا سب سے بڑا ٹارگٹ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب کی معمول سے چلتی زندگی میں بدلاؤ اس دن آیا جب وہ بہاولپور سے کراچی جانے کے لیئے ٹرین پر چڑھا تھا اور اس کی نظر ایک سہمی سی لڑکی پر پڑی جو سامنے موجود لڑکوں سے گھبرا رہی تھی۔دراب نے سعد کو اشارہ کیا تو وہ اس لڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا۔

دراب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ لڑکی کیوں اسکا دھیان کھینچ اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔لیکن اس کا جواب اسے اس لڑکی کا نام جانتے ہی مل گیا تھا۔دراب بہت غصے میں تھا کیونکہ اسکی سب سے بڑی خواہش اور جنون اسکے سامنے موجود تھا لیکن اب وہ کچھ اور ہی بن چکا تھا۔

پھر اسکے غصے میں اضافہ تب ہوا جب جانان ان انجان لوگوں پر بھر میں بھروسہ کر بیٹھی تھی۔دراب یہ جانتا تھا کہ اس کے گھر پہنچ کر جانان کو اسکے بارے میں سب معلوم ہو جائے گا اور اسے یہی بہتر لگا تھا۔لیکن جانان کا اپنا وعدہ پورا کرنے کا جنون اور شایان کو لے کر اسکی معصوم سی خواہشیں دراب کے دل کی دنیا ہلانے کے لیئے کافی تھیں۔

دراب کے دل میں خواہش پیدا ہونے لگی کہ جانان اس کے بارے میں کبھی بھی کچھ غلط نہیں جانے۔اسی لئے اس نے جانان کو واپس لاہور جانے کے لیئے مجبور کیا۔مگر یہاں بھی اسکی ضد نے دراب کو مجبور کر دیا۔

دراب کے لیئے اس سے دوری اختیار کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔اس لیئے اس نے دونوں کےراستے الگ کرنے کا سوچا۔لیکن پھر سے قسمت نے انہیں ایک ہی راستے پر چلنے کے لیئے مجبور کر دیا۔

وہ سفر دراب کی زندگی کا سب سے حسین تجربہ رہا تھا۔مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں جانان کو پانے کی تڑپ بڑھتی جا رہی تھی۔آخر کار وہ وقت بھی آ گیا جب دراب نے اسے حسن صاحب کے گھر چھوڑا تھا۔وہ یہ جانتا تھا کہ اب جانان کی محبت اسکی چاہت سب ختم ہو جائے گی اور اس دن بہت عرصے کے بعد دراب نے اپنی قسمت کو کوسا تھا۔

دراب نے سوچا تھا کہ حسن صاحب اسے سب سچ بتا کر واپس بھیجوا دیں گے۔مگر اس سڑک کے کنارے جانان کو روتے دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا تھا۔اس نے نہیں سوچا تھا کہ اس کے بابا اتنے ظالم بھی ہو سکتے تھے۔

لیکن جب جانان نے اسے طلاق کے کاغذات دیکھائے تو دراب کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔وہ ان کاغذات کو دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ فیک ہیں۔اس کے تو سائن تک اصلی نہیں تھے۔وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ فریحہ اور شاہرام کا کام ہے ۔وہ دونوں دراب سے اس کی آخری خوشی بھی چھیننا چاہ رہے تھے۔

دراب نے جانان کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔لیکن جانان نے اس کو بچانے کے لیئے اپنی جان کو داؤ پر لگایا تو دراب نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب اس سے کسی بھی صورت دور نہیں رہے گا۔وہ سب کچھ جانان سے چھپا کر اسے ہاشم صاحب کے پاس محفوظ رکھے گا ۔لیکن اب اس سے مزید دوری وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ جانان کے وجود اور اس کے کردار نے شایان شاہ کی چاہت اور خواہش کو عشق میں بدل دیا تھا اور دراب کا عشق جانان کی ہر سانس پر اپنی ملکیت چاہتا تھا۔اس لیئے اس نے جانان کے ساتھ شایان شاہ کی بجاۓ دراب خان بن کر رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


جانان نے ابھی بھی وہ فائل ہاتھوں میں پکڑی تھی۔اسے دراب کو کہے گئے سب الفاظ یاد آ رہے تھے۔جانان کو خود سے نفرت ہو رہی تھی اس نے کس طرح اپنے الفاظ سے اس شخص کو گھائل کیا جو اس سے عشق کرتا تھا۔


جانان نے اپنے آنسو صاف کئے تھے۔وہ دراب سے معافی مانگے گی اور ان کو منا لے گی پھر چاہے اسے دراب کے پیر ہی کیوں نہ پڑنا پڑے۔یہ سوچتے ہی جانان جلدی سے کمرے سے باہر نکلی تھی اور ہاشم صاحب کے کمرے میں چلی گئی تھی۔


ہاشم صاحب کرسی پر بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔کسی کی موجودگی کے احساس پر انہوں نے اپنی کتاب سے نظریں ہٹا کر جانان کو دیکھا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔جبکہ جانان ان کے دیکھتے ہی بھا گ کر ان کے پاس گئی اور انکی گود میں سر رکھ کر بری طرح سے رونے لگی۔


'مم۔۔۔۔۔میں بہت بری ہوں بابا بب۔۔۔۔بہت ذیادہ بری۔میں نے دراب کو اتنا برا بھلا کہا۔انہوں نے مجھے اتنی بار کہا کہ ان کی بات تو سن لوں پر میں نے انکو کچھ بتانے ہی نہیں دیا تھا۔'


'نہیں میرا بچہ تم تو بہت زیادہ اچھی ہو۔تمہاری جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو یہی کرتی۔'انہوں نے جانان کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔


'بابا میں دراب سے معافی مانگ لوں گی۔کہاں ہیں وہ۔'جانان نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔


'آ جائے گا بیٹا کچھ دنوں میں واپس تم فکر مت کرو۔'ہاشم صاحب نے مسکرا کر کہا تھا لیکن وہ مسکراہٹ ان کی آنکھوں تک نہیں پہنچی تھی۔جانان نے انکا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا۔


'آپ کو میری قسم بابا پلیز بتائیں دراب کہاں گئے ہیں؟'جانان نے بے چینی سے پوچھا تو ہاشم صاحب نے اپنا ہاتھ اسکے سر سے ہٹا لیا۔


'بادشاہ کے پیچھے گیا ہے وہ ۔اب یہ قصہ ختم کرنا چاہتا ہے۔'ہاشم صاحب نے بتایا تو جان پریشانی سے رونے لگی۔


'تم پریشان نہیں ہو بیٹا بس اس کی سلامتی کی دعا کرو۔' ہاشم صاحب نے اسکے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا تھا۔جانان نے پھر سے انکی گود میں سر رکھ دیا اور بری طرح سے رونے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب اور سعد کو تربت پہنچے ایک دن ہو گیا تھا۔جلسے سے پہلے وہ جتنی معلومات اکٹھی کر سکتے تھے وہ کر چکے تھے۔دراب اس وقت جلسے میں کھڑا اس انسان کی تلاش میں تھا جو کسی بھی لحاظ سے مشکوک نظر آ سکتا تھا۔


اچانک اسکی نظر ایک لڑکی پر پڑی جس نے اپنے آپ کو پوری طرح سے چادر میں ڈھانپا ہوا تھا اور وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی لگ رہی تھی۔دراب نے سعد کو ڈھونڈنے کے لیئے نظر دوڑائی تو وہ اسے کافی دور نظر آیا تھا۔دراب سب لوگوں میں سے ہو کر اس لڑکی کی طرف گیا تھا۔دراب نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانا شروع کر دیا۔لڑکی اپنے آپ کو چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔لیکن دراب کی پکڑ کافی مظبوط تھی۔دراب نے ایک گلی میں لا کر دیوار کے پاس کھڑا کیا اور اسکی چادر کو ہٹایا تھا۔دراب کے شک کے عین مطابق اس لڑکی کو بم والی جیکٹ پہنائی گئی تھی۔


'سیدھی کھڑی رہو۔'دراب نے اس لڑکی سے کہا تھا جو بری طرح سے رو رہی تھی۔


دراب نے بم کا معائنہ کیا تھا جسے بہت عام سی طرض سے بنایا گیا تھا۔ایسے بم کو بے اثر کرنے کی ٹریننگ انہیں آرمی میں دی گئی تھی۔دراب نے ایک مخصوص تار کو کھینچ کر اس بم کو بند کیا تھا۔جب اچانک پیچھے سے کسی نے دراب کے سر پر ڈنڈا مارنا چاہا تھا جسے دراب نے تیزی سے مڑ کر ہوا میں ہی تھام لیا تھا۔


اس سے پہلے کہ دراب اس آدمی پر حملہ کرتا دراب کے پیچھے موجود لڑکی نے اسکے منہ پر مضبوطی سے ایک رومال رکھا تھا۔جس کی وجہ سے دراب بے ہوش ہو کر زمین بوس ہو گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان صاحب اس وقت ہسپتال میں تھے۔ان کا بی پی شوٹ کرنے کی وجہ سے انہیں فالج کا بہت برا اٹیک ہوا تھا اور انکے جسم کا دائیاں حصہ کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔فاطمہ بیگم انکے پاس بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ان کو دیکھتے ہی سلمان صاحب کو اپنے سارے ظلم اور خود غرضی یاد آئی تھی۔جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہر رشتے کو تکلیف پہنچائی تھی۔

'کیا ہوا؟آپ ٹھیک تو ہیں نا؟'ان کے اس طرح سے دیکھنے پر فاطمہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا تو وہ رونے لگے۔

'مم۔۔۔۔میں نے تت۔۔۔۔۔۔۔تم پر بہت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظلم کیئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہو سس۔۔۔۔۔۔۔۔سکے تو ۔۔۔۔۔۔معاف کر دینا۔'سلمان صاحب نے روتے ہوئے فاطمہ بیگم سے کہا تو انہوں نے انکا ہاتھ تھام لیا۔

'آپ ایسے نہیں کہیں میں نے تو آپ کو کب سے معاف کر دیا۔'فاطمہ بیگم نے انکی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔

'حمنہ مم۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے ناراض ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مم ۔۔۔۔۔ملنے نہیں آئی۔۔۔۔۔۔'

آپ آرام کریں میں خود اسے لے کر آؤں گی آپ فکر نہیں کریں۔'فاطمہ بیگم نے انہیں تسلی دی تھی۔

'ککا۔۔۔۔۔ش میں اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بب۔۔۔۔۔بیٹیوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا پپ۔۔۔۔۔۔پیار دیتا ۔۔۔۔۔۔جتنا وہ مجھ سس۔۔۔۔۔۔سے کرتی ہیں۔'سلمان صاحب پھر سے رونے لگے تھے اور فاطمہ بیگم کے لیئے انکو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔آج انہیں اپنا ہر ظلم پچھتاوے میں مبتلا کر رہا تھا لیکن اب گذرا ہوا وقت لوٹ کر نہیں آ سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب کو ہوش آیا تو اسے ایک کمرے میں کرسی سے باندھا گیا تھا۔آہستہ سے دراب کے ذہن نے کام کرنا شروع کیا تو اسے سب کچھ یاد آنے لگا۔دراب نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کی تھی لیکن اسے بہت مظبوطی سے باندھا گیا تھا۔دراب یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ سعد کہاں ہے لیکن وہ امید کرتا تھا کہ وہ خیریت سے ہو گا۔

دراب سمجھ چکا تھا کہ یہ سب صرف اسے پھسانے کے لیئے کیا گیا تھا اور اب وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اس مصیبت سے کیسے نکلے گا۔

اچانک سے دروازہ کھلا اور ایک نقاب پوش آدمی اندر آیا تھا۔ اس نے دراب کے ہاتھ پیر کھولے تھے اور دراب کو گن پوائنٹ پر رکھ کر باہر چلنے کو کہا تھا۔دراب اسکا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا اگر اس نے سامنے کھڑے مزید تین نقاب پوش آدمیوں کو نہ دیکھا ہوتا۔

وہ بلڈنگ دیکھنے میں کافی پرانی لگ رہی تھی شاید اسے آبادی سے کافی دور بنایا گیا تھا۔وہ لوگ دراب کو لے کر ایک ہال نما کمرے میں آئے تھے اور اسے دھکا دے کر ایک آدمی کے سامنے پھینکا تھا۔

'تو دارا آخر ملاقات ہو ہی گئی۔'بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

'بادشاہ۔'دراب نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔

'ہاں بادشاہ جس کے ساتھ تو فالتو میں بھڑا اور اسے بہت ذیادہ نقصان پہنچایا۔کافی چالاک تھا تو لیکن بادشاہ سے زرا کم۔'بادشاہ نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور ایک بندوق نکال کر اسے دراب پر تانا تھا۔

'لیکن اب تو دارا یہاں ہے میرے رحم و کرم پر ۔میں چاہوں تو تجھ ابھی مار دوں۔'بادشاہ نے وہ بندوق دراب کے سر کی طرف کی تھی۔

'تو پھر کیا خیال ہے ایک گولی اور دارا ختم۔'بادشاہ نے ہنستے ہوئے کہا تو دراب اسے غصے سے گھورنے لگا۔

'تیری کوئی بھی گولی دارا کو مار نہیں سکتی۔'دراب نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

'ایسا کیا۔'بادشاہ نے اتنا کہہ کر دراب کے سر کا نشانہ لیا اور مسکراتے ہوئے گولی چلا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گولی دراب کے سر کے پاس سے گزری تھی لیکن دراب نے کوئی خوف ظاہر نہیں کیا تھا۔بادشاہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔


'اتنی آسانی سے نہیں دارا تیری موت تو عبرت کا نشان بنے گی بادشاہ سے بھڑنے والوں کے لیئے۔' بادشاہ نے اسکو بالوں سے پکڑ کے ایک مکا اسکے منہ پر مارا تھا۔


'تجھے کیا لگا میں تجھے پہچان نہیں سکوں گا میجر شایان شاہ۔بادشاہ اپنے شکار کو کبھی نہیں بھولتا اور تو نے تو میرا ساتھ دیا تھا۔'بادشاہ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔


'کیوں کیا تو نے میرے ساتھ ایسا آخر کیا دشمنی تھی تیری مجھ سے؟'دراب نے دانت پیستے ہوئے اس سے پوچھا تو بادشاہ نے ایک زور دار گھونسہ دراب کے پیٹ میں مارا تھا۔


'دشمنی میری نہیں تھی تیرے سے کسی اور کی تھی میں نے تو بس مدد کی تھی۔اب تیرے اپنے ہی تیرے دشمن نکلے تو اس سب میں میرا کیا قصور۔'


'کون تھا وہ؟' دراب نےپوچھا تو بادشاہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔


'جان کے بھی کیا کر لے گا میجر اب تو اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔مگر چل تیرے پہ احسان کیا۔وہ کیا ہے نہ اسے تیری آخری خواہش سمجھ کے پورا کیا۔' بادشاہ نے اسے اپنے پیر سے مارتے ہوئے کہا۔


'تیرا بھائی شاہرام شاہ۔اس نے ہی تیرے طور پر مجھ سے رابطہ کیا ،تیرے بارے میں ہر معلومات مجھے دی اور جلسے میں بھی میرے آدمیوں کو اسی نے گھسایا اور اس سب کے بدلے میں اس نے صرف تیری بربادی ہی مانگی تھی۔'دراب جانتا تھا کہ شاہرام اس سے نفرت کرتا تھا اور اس نے بادشاہ کا اس معاملے میں ساتھ بھی دیا تھا لیکن اس کا اس حد تک گرنا اس کو غصہ دلا رہا تھا۔


'اس نے تو تجھے برباد کر دیا لیکن اب میں تم لوگوں کا یہ ملک برباد کر کے دم لوں گا۔بڑا غرور ہے نا اپنے اس چمن پر اپنی فوج پر،اپنی اس آئی ایس آئی پر لیکن مجھے تو نا پکڑ سکے اور نہ روک سکے۔انہیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ کئی جاسوس انہیں کے اندر چھپے مجھے انکے پل پل کی خبر دیتے رہے۔' بادشاہ نے پھر سے قہقہے لگا کر ہنسنا شروع کر دیا۔


'کون ہے تو؟'دراب نے گھبراتے ہوئے اس سے پوچھا تھا تو بادشاہ غرور سے اسے دیکھنے لگا۔


'تم لوگوں کے سب سے بڑے دشمن ملک کا حصہ ہوں میں ،بربادی ہوں تم لوگوں کی۔تم لوگوں کی ناک کے نیچے سب برباد کر دوں گا لیکن کوئی بھی دو کوڑی کا میجر یا پاک فوج مجھے روک نہیں سکے گا۔' بادشاہ نے بہت غرور سے کہا تھا۔


'تیرا خواب ہے۔'


دراب نے اتنا کہا اور اس سے پہلے کہ بادشاہ کو کچھ سمجھ آتا دراب نے بادشاہ پر حملہ کر کے اسے پیچھے سے دبوچ لیا۔ دراب نے اپنے گلے میں موجود چین کو نکال کر بادشاہ کے گلے میں لپیٹ دیا تھا۔بادشاہ کے سب آدمیوں نے اس پر بندوقیں تان دی تھیں۔


'بہت بڑی غلطی کر رہا ہے میجر مرے گا تو ۔'بادشاہ نے اسے ڈرانے کی کوشش کی لیکن دراب کے لبوں کو ایک مسکراہٹ نے چھوا تھا۔


'تو میری نہیں اپنی فکر بادشاہ ایک سیکنڈ نہیں لگے گا مجھے تیری گردن توڑنے میں۔'دراب نے اپنی پکڑ اس پر مزید تنگ کی تھی۔بہرام بادشاہ کے پاس آیا تھا اور بندوق دراب پر تانی تھی۔


'مار دے بہرام اسے۔''


بادشاہ نے بہرام سے کہا تو اس نے ایک نظر دراب کو دیکھا اور بندوق کا رخ بدل کر بادشاہ کی طرف کر دیا۔بادشاہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔


'پاگل ہو گیا ہے کیا تو بہرام؟' بادشاہ چلایا تھا۔


'بہرام نہیں آئی ایس آئی ایجنٹ وجدان خان۔'وجدان کے چہرے پر دراب نے بھی پہلی دفعہ کوئی تاثر دیکھا تھا جو کہ بھر پور فخر کا تھا۔


'تجھے ہماری فوج ہماری سیکرٹ ایجنسی بے وقوف لگتے ہیں نا بادشاہ تو اپنے سامنے دیکھ یہ سب آدمی پاک فوج کے جوان ہیں جو اس جلسے میں سے تیرے ہر آدمی کو پکڑوا کر کے ان کی جگہ خود یہاں آئے لیکن تجھے پتہ نہیں چلا۔'دراب نے اسے چھوڑتے ہوئے کہا تھا۔


'بے وقوف تو تو ہے بادشاہ جسے لگا کہ پاک فوج کے ہاتھ نہیں آئے گا اور پاک فوج کا ہی ایک ایجنٹ تیرا دو سال سے سب سے خاص آدمی رہا۔تجھے کیا لگا کہ میں تیرے آدمیوں سے تجھ تک پہنچ رہا تھا۔بلکلہ میں نے تو تیرے ذریعے سے تیرے ہر آدمی کو اس کے انجام تک پہنچا دیا اور اب تو تم نے آرمی میں موجود گناہ گار کا بھی بتا دیا اور باقی کا تو اب یہ فوج ہی تجھ سے پتہ لگوائے گی۔'

وجدان بادشاہ کو پکڑ کر کھڑا کیا اور ایک آفسر نے ہتھکڑی سے اسکے ہاتھ باندھ دیے۔وجدان نے دراب کو دیکھا تھا۔


' بچے گا تو تو بھی نہیں دارا آخر کار تو بھی تو ایک دہشت گرد ہے۔' بادشاہ نے ہنستے ہوئے کہا تو دراب کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔


'کون دارا؟ہم نے تو یہاں صرف ایک جاسوس اور جیل سے بھاگے ہوئے قیدی شایان شاہ کو پکڑا ہے جسے آزاد کروانے کے لیے تیرا وہ بیان ہی کافی ہو گا جو ہم نے ریکارڈ کیا ہے۔' علی نے بادشاہ کو بتایا تو باقی سپاہی بھی ہنسنے لگے جو تین سال پہلے شایان کی ٹیم کا حصہ تھے اور کچھ وجدان کے سب سے خاص ساتھی تھے۔


'تمہیں بھی اریسٹ کرنا پڑے گا دراب لیکن اب تم بے قصور ثابت ہو گے۔' وجدان نے دراب کو کہا تو دراب نے اپنے ہاتھ آگے کر دیے۔ایک اور فوجی نے دراب کے ہاتھوں پر ہتھکڑی پہنا دی تھی۔


'یہ سب تمہاری بدولت ہوا ہے وجدان۔'دراب کی بات پر وجدان صرف مسکرا دیا تھا۔


وجدان نے دراب کو بلا کر پہلے سے ہی بادشاہ کا سارا منصوبہ بتایا تھا۔جس سے دراب نے ایک نیا منصوبہ بنایا تھا اور بادشاہ کے منہ سے سارا سچ پاک فوج کے سامنے اگلواہ دیا تھا۔سعد نے اس جلسے میں موجود بادشاہ کے ہر آدمی کو پکڑوا دیا تھا اور ان کی جگہ وجدان نے پاک فوج کے جوانوں کا بھیس بدلوا کر بادشاہ کو بہت بری طرح سے پھنسایا تھا اور وہاں پر خفیہ کیمرے لگا کر بادشاہ کا بیان بھی لیا تھا جو اب دراب کی بے گناہی کا ثبوت تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلمان صاحب آنکھیں بند کیئے لیٹے ہوئے تھے جب انہیں اپنے ہاتھ پر کسی کا لمس محسوس ہوا۔انہوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو حمنہ ان کے پاس بیٹھی تھی۔جبکہ زرش اس کے پیچھے کھڑی باپ کو دیکھ رہی تھی۔


'حح۔۔۔۔۔۔۔۔حمنہ مجھے معاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔کر دو۔' سلمان صاحب نے روتے ہوئے کہا تو حمنہ نے ان کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔


'خدا کے لیئے بابا آپ ایسا نہ کہیں۔ہم نے آپ کو معاف کر دیا ہے بابا کب سے۔ بس پلیز اب آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں پھر بہت سی فرمائشیں کرنی ہیں ہم نے آپ سے۔'


حمنہ نے ان کی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کے کہا تھا۔جبکہ سلمان صاحب حیران تھے کہ وہ کیسے ان کے اتنے بڑے گناہ کو معاف کر سکتی ہے۔انہوں نے حمنہ سے نظر ہٹا کے زرش کو دیکھا تو اس نے بھی مسکرا کے ہاں میں سر ہلایا۔


'جج۔۔۔۔۔جانان۔'سلمان صاحب بمشکل بولے تھے۔


'میں جس نمبر پر اس سے بات کرتی تھی وہ بند ہے لیکن میں نے عثمان سے کہا ہے وہ بہت جلد شایان شاہ سے رابطہ کر لیں گے۔پھر جانان بھی آ جائے گی آپ فکر نہیں کریں۔'


سلمان صاحب مسکرا دیے۔


'اا۔۔۔۔۔۔۔اس دنیا کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب سے خخ۔۔۔۔۔۔۔۔خوش نصیب انسان ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔خدا نے تم۔۔۔۔۔۔۔۔جیسی بب۔۔۔۔۔۔۔بیٹیوں سے نوازہ۔'حمنہ نے مسکرا کے ان کا ہاتھ چوما تو انہوں نے اطمینان سے آنکھیں بند کر لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جانان جائے نماز پر بیٹھی رو رہی تھی۔وہ کل سے دراب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔وہ دراب کی ساتھ کیئے ہوئے سلوک کو لے کر ابھی بھی پریشان تھی ۔وہ سوچ رہی تھی کہ اگر دراب کو کچھ ہو گیا تو وہ خود کو بھی کبھی معاف نہیں کر سکے گی اور یہ سوچتے ہی اس کے رونے اور اسکی دعاؤں میں روانی پیدا ہوئی تھی۔


اچانک سے دروازہ کھلا اور ہاشم صاحب کمرے میں آئے تھے۔وہ مسکرا کے اس کے پاس آئے اور جانان کے سر پر ہاتھ رکھا۔


'اللہ نے تمہاری سن لی ہے بیٹا۔دراب بلکل ٹھیک ہے اور انشاءاللہ کچھ عرصے میں واپس آ جائے گا۔'


'سچ میں بابا؟' ہاشم صاحب کے ایسا کہنے پر جانان نے بے چینی سے ان کے ہاتھ تھام کر پوچھا تھا۔


'ہاں میرا بچہ ،وجدان کا فون آیا تھا۔دراب فلحال آرمی کو کسٹڈی میں ہے لیکن اصلی گناہ گار کا پتہ چل چکا ہے اور بہت جلد دراب بلکل بے گناہ ثابت ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔' ہاشم صاحب نے اسے بتایا تو جانان نے پھر سے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملازمہ نے دروازہ کھولا تو باہر پاک فوج کے سپاہی کھڑے تھے۔


'کیپٹن شاہرام شاہ گھر پر ہیں؟ ' علی نے پوچھا تو ملازمہ نے ہاں میں سر ہلایا ابھی کچھ دنوں پہلے ہی وہ چھٹیوں پر گھر آیا تھا

۔علی باقی فوجیوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تھا۔


لاؤنج میں فریحہ بیگم اور شاہرام حسن صاحب کے ساتھ بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔علی ان کے پاس گیا اور حسن صاحب کو سیلیوٹ کیا۔


'سر ہمارے پاس آپ کے بیٹے شاہرام شاہ کا اریسٹ وارنٹ ہے۔'علی نے انہیں بتایا تو فریحہ بیگم اور شاہرام پریشانی سے کھڑے ہو گئے۔

'کس جرم میں گرفتار کر رہے ہیں آپ میرے بیٹے کو۔' فریحہ نے بے چینی سے پوچھا تھا جبکہ حسن صاحب کے سامنے بہت سے پرانے منظر گھوم گئے تھے۔

'آج سے تین سال پہلے لاہور کے جلسے میں ہونے والے دھماکے میں خطرناک دہشت گرد بادشاہ کا ساتھ دینے کے جرم میں اور اس سب کا الزام میجر شایان شاہ پر لگانے کے جرم میں۔'

علی نے بتایا تو حسن صاحب بھی پریشانی سے کھڑے ہو کر علی کو دیکھنے لگے۔جبکہ شاہرام کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کچھ کر بیٹھے۔

'بابا یہ سب جھوٹ ہے سازش ہے اس غدار شایان کی۔' شاہرام نے بے چینی سے کہا تو علی نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالی تھی۔

'سچ اور جھوٹ تو عدالت میں ثابت ہو ہی جائے گا کپتان آپ اسکی فکر مت کریں۔' شاہرام نے گھبراتے ہوئے فریحہ بیگم کو دیکھا تو ان کے رونے میں روانی آ گئی تھی۔

'چھوڑو میرے بیٹے کو کچھ نہیں کیا اس نے ۔جھوٹ ہے یہ سب کچھ۔اسی کمبخت کا کیا دھرا ہے سب کچھ چھوڑو میرے معصوم بیٹے کو۔'

فریحہ بیگم دہائیاں دیتی رہیں مگر علی حسن صاحب کو سیلیوٹ کرتا شاہرام کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وجدان دراب کے پاس جیل میں گیا تھا۔دراب اس وقت بیٹھا جانان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ جانان نے اسکا سچ پڑھا بھی تھا کہ نہیں۔ابھی وہ ان سوچوں میں ہی گم تھا جب اسکے کانوں میں وجدان کی آواز پڑی۔

'شاہرام کو پکڑ لیا گیا ہے اور اس کے خلاف سارے ثبوت ہمیں بادشاہ کے اڈے سے ملے جن کی بدولت بادشاہ اسے بلیک میل کر کے اپنے اور بھی کام کروا رہا تھا۔تم بہت جلد یہاں سے آزاد ہو جاؤ گے ' وجدان نے دراب کو بتایا۔

'بابا سے بات ہوئی تمہاری ؟' دراب نے اس سے بے چینی سے پوچھا۔

'ہم' وجدان نے مختصر سا جواب دیا تھا۔

'جانان کے بارے میں پوچھا کیسی ہے وہ؟'

'تمہیں یاد کرتی رہتی ہے اور تم سے مل کر معافی مانگنے کے لیئے ترس رہی ہے۔' وجدان نے سپاٹ سے انداز میں کہا تو دراب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی۔

'تم چاہو تو اسے ملوا سکتا ہوں تمہیں۔'اسکی مسکراہٹ کو دیکھ کر وجدان نے کہا تھا۔

'نہیں وجدان اس کے پاس اب دراب خان نہیں بلکہ شایان شاہ جائے گا۔۔۔۔۔تمہارا شکریہ میرے بھائی تمہاری برولت ہی یہ سب ہوا ہے ورنہ میں تو کب کا ہار مان چکا تھا۔' دراب نے وجدان کے پاس آ کر کہا تھا۔

'نہیں دراب اگر میں کوشش کرتا تو تم کب سے بے گناہ ثابت ہو جاتے اور تمہیں دارا بن کے اتنا سب کچھ کرنا پڑتا۔لیکن اپنے بہت سے خفیہ کاموں میں بادشاہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتا تھا اور شاہرام کے خلاف ثبوت بھی ان میں سے ایک تھے۔میں اسکے ساتھ کام کر کے بھی انہیں نہیں ڈھونڈ سکا یہ میری نا اہلی ہے۔' وجدان کی یہ بات دراب کو بلکل پسند نہیں آئی تھی۔

'میں نے دارا بن کے جو گند ختم کیا ہے اس پر مجھے فخر ہے اور رہی تمہاری بات تو تم بہت کمال کے ایجنٹ ہو وجدان مگر بادشاہ بھی تو ایجنٹ ہی تھا نا تو اتنا چالاک تو اسے ہونا تھا۔مگر تم پر وہ شک بھی نہیں کر سکا اور یہی تمہاری قابلیت ہے۔' دراب نے مسکرا کے کہا تو وجدان نے صرف ہاں میں سر ہلا دیا۔

'ویسے مسکرانے سے گناہ نہیں ہوتا۔' دراب نے ہنس کر کہا تھا لیکن وجدان کا چہرہ پھر بھی کسی تاثر سے عاری رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراب کا کیس ایک مہینے میں ہی ختم ہو گیا تھا اور آج نہ صرف اسے با عزت بری کیا گیا تھا بلکہ اسکی پوسٹ بھی اسے واپس کر دی گئی تھی۔ بادشاہ چلاتا رہا تھا کہ شایان شاہ ہی دارا ہے لیکن یہ بات ثابت کرنا اس کے لیے نا ممکن تھا۔دارا کا تو آج تک کسی نے چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا اسکے خلاف ثبوت کہاں سے آتا۔


بادشاہ ایک جاسوس تھا جس کا مقصد ہمارے ملک میں رہ کر اسے کھوکھلا کرنا تھا لیکن اب اسے ساری زندگی کال کوٹھری میں گزارنی تھی۔


شاہرام پر غداری اور ایک ایماندار افسر کو پھسانے کا جرم عائد ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے فلحال تو جسمانی ریمانڈ پر رکھ کر باقی کے غداروں کے بارے میں معلومات حاصل کی جانی تھی اور اس کے بعد اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لیا جانا تھا۔

دراب سب فیصلے سن کر کٹہرے سے نکل رہا تھا جب حسن صاحب اس کے سامنے آئے تھے۔


'شایان۔' دو سال بعد یہ نام سن کر دراب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور حسن صاحب نے اسے گلے سے لگا لیا۔


'مجھے معاف کر دو بیٹا میں نے تم پر یقین نہیں کیا۔صرف اس پر یقین کیا جو اس وقت مجھے سامنے نظر آ رہا تھا۔ایک بار نہیں سوچا کہ میرا شایان ،میرا غرور ایسا نہیں کر سکتا۔' حسن صاحب اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر رونے لگے۔


'نہیں بابا۔آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔' دراب نے ان کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو پکڑا تھا۔


'شایان پلیز شاہرام کو بچا لو وہ تمہارا بھائی ہے غلطی ہو گئی اس سے پلیز میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔' فریحہ بیگم روتے ہوئے دراب کو کہہ رہی تھیں لیکن اس سے پہلے کہ دراب ان کو کچھ کہتا حسن صاحب بولے تھے۔


'نہیں فریحہ وہ شایان کا نہیں اس ملک کا گناہ گار ہے اور اسے سزا ملنی ہی چاہیے۔غداری کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔' حسن صاحب نے ایسا کہا تو فریحہ بیگم ان کے پیروں میں بیٹھ گئی تھیں۔


'ایسا نہیں کہیں خدا کے لیئے اسے بچا لیں بیٹا ہے وہ آپ کا'۔ حسن صاحب نے انہیں دیکھا۔


'بیٹا تو میرا شایان بھی تھا لیکن تب تم نے ہی کہا تھا کہ غدار کو سزا ملنی ہی چاہیے اور اب ایسا ہی ہو گا۔'


حسن صاحب ان سے پاؤں چھڑوا کر وہاں سے چلے گئے۔دراب نے انکے بازو پکڑ کر انہیں کھڑا کیا تھا اور انہیں اپنے ساتھ لیئے حسن صاحب کے پیچھے چل دیا۔راستے میں فوجی شاہرام کو لے کر جا رہے تھے۔ فریحہ بیگم اپنا بازو چھڑوا کر اس کے پاس گئی تھیں لیکن فوجیوں نے ان کو شاہرام سے ملنے نہیں دیا تھا۔دراب ان کے پاس گیا اور آفسر کو اشارہ کیا تو اسنے فریحہ بیگم کو راستہ دے دیا۔انہوں نے شاہرام کے پاس جاتے ہی اسے گلے سے لگا لیا لیکن شاہرام کی نظریں دراب پر تھیں اور ان میں اس بار نفرت کی بجائے ہار تھی۔


شاہرام نے بے دردی سے خود کو چھڑوایا تھا اور آرمی کے ساتھ چلا گیا۔جبکہ فریحہ بیگم وہیں بیٹھی روتی رہی تھیں ۔ان دونوں کی بے جا نفرت نے انہیں برباد کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سلمان صاحب سب کی توجہ پا کر کافی بہتر ہو گئے تھے۔وہ اپنی پچھلی ہر غلطی کو سدھارنے کے لیئے سب کے ساتھ بہت محبت اور توجہ سے پیش آتے اور حمنہ کو اس بات کی بہت خوشی تھی۔


وہ آج کافی دنوں کے بعد سلمان صاحب کے گھر سے واپس اپنے گھر آئی تھی۔عثمان نے اسے کافی دفعہ واپس بلایا تھا لیکن حمنہ اسے ٹال دیتی۔اب یہاں آ کر حمنہ کو پتہ چلا تھا کہ عثمان اس سے بہت زیادہ ناراض ہے۔حمنہ نے کافی دیر اسکے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا لیکن اس نے دروازہ نہیں کھولا۔


حمنہ سلامت بابا سے چابی لے کے دروازہ کھول کر اندر آئی تھی۔عثمان اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔


'عثمان۔'


'چلی جاؤ اب کیوں واپس آئی ہو۔'


عثمان نے غصے سے کہا تھا۔حمنہ مسکراتےہوئے اس کے پاس آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر چہرے سے ہٹانا چاہا تو عثمان نے بے دردی سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔


'میری جان اتنا غصہ ہیں تو پھر ٹھیک ہے میں واپس چلی جاتی ہوں۔'


حمنہ نے شرارت سے کہا تو عثمان نے اسکے بازو پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔


'ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری اب اگر تم نے میری اجازت کے بغیر گھر سے قدم بھی نکالا تو۔'


حمنہ مسکرائی تو عثمان نے اسے خود میں بھینچ لیا۔ابھی کچھ دن پہلے ہی پولیس والوں نے ردا اور اسکے شوہر کو پکڑا تھا جن کا عثمان نے وہ حال کروایا تھا کہ دونوں اسے موت کی بھیک مانگنے لگے تھے۔جتنا انہوں نے حمنہ کو مارا تھا ،اتنا ہی روزانہ پولیس والے ان کو مارتے تھے ۔عثمان نے سوچ لیا تھا کہ وہ انہیں آزاد نہیں ہونے دے گا اور اس کے الیکشن جیتنے سے یہ کام اور بھی آسان ہو گیا تھا۔


'میں آپ سے کیسے دور جا سکتی ہوں عثمان،آپ ہی تو میرا سب کچھ ہیں۔آپ کے بغیر میں کچھ بھی نہیں۔' حمنہ کے ایسا کہنے پر عثمان مسکرایا تھا۔


'اچھا تو اتنے دن سے تمہیں نا میرا خیال آیا تھا نہ میری محبت کا۔' عثمان نے جل کر کہا تو حمنہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔


'چلیں چھوڑیں یہ سب آئیں کھانا کھاتے ہیں۔'


حمنہ اتنا بول کر اٹھنے لگی تو عثمان نے اسکی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر خود پر گرایا۔


'تمہیں ہی نا کھا جاؤں میں۔' عثمان نے شرارت سے کہتے ہوئے اسکی سانسوں کو خود میں قید کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عثمان ڈاکٹر کے ساتھ اس اندھیرے کمرے میں داخل ہوا تو کرسی سے بندھا وجود خوف کے مارے کانپنے لگا۔


'نن۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں عثمان پلیز مجھے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔کروانا اا۔۔۔۔۔۔اپنا علاج ۔'


ردا نے بری طرح سے روتے ہوئے کہا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکے ٹھیک ہوتے ہی یہ اذیتیں اس واپس دی جانی تھیں۔


'ارے تم تو ابھی سے گھبرا گئی۔ابھی تو تمہیں ساری زندگی یہیں پر اسی طرح سے گزارنی ہے۔'


عثمان نے ہنستے ہوئے اسے کہا اور ڈاکٹر کو اشارہ کیا تو وہ ردا کی ڈریسنگ کرنے لگا۔جس طرح سے ردا نے حمنہ کو مارا تھا روزانہ ایک پولیس آفسر اسکو اتنا ہی مارتی اور اسکے بے سدھ ہونے پر اسکا علاج کروایا جاتا تا کہ وہ ساری اذیت واپس برداشت کر سکے۔مگر عثمان کے مطابق اس کے لئے یہ سزا بھی کم تھی۔اسکا کمزور سا خاوند تو ایک ہفتہ بھی ٹک نہ سکا لیکن عثمان تو ردا کو موت بھی نصیب نہیں ہونے دے رہا تھا۔


'عثمان پپ۔۔۔۔۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دو۔' ردا کی روز والی بات پر عثمان کا قہقہہ بلند ہوا۔


'تمہیں معاف کر دوں؟اپنی محبت کی ستم گر کو؟اپنے بچے کی قاتل کو؟'نہیں ردا بی بی تمہیں مجھ سے معافی تو کیا موت بھی نصیب نہیں ہو گی۔' عثمان نے ایک حقارت سے بھری نگاہ اس پر ڈالی اور ڈاکٹر کے ساتھ باہر کی طرف چل دیا۔


'عثمان پلیز مزید ایسا نہیں کرو مار دو مجھے پلیز خدا کے لیئے مجھے مار دو۔'


وہ لوگ تو اس اندھیرے کمرے سے باہر آ چکے تھے لیکن ردا کی آہ و پکار ابھی بھی وہیں گونج رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جانان کو مہینہ ہو گیا تھا دراب کا انتظار کرتے ہوئے لیکن وہ نہیں آیا تھا اور اس وجہ سے وہ اب اس سے بہت ناراض تھی۔کچھ دن پہلے ہی اسے حمنہ کی کال آئی تھی اور اس نے بتایا تھا کہ بابا کی طبیعت خراب ہے۔یہ جانتے ہی جانان رونے لگی تھی اسکا دل کیا کہ اڑ کر وہاں پہنچ جائے لیکن دراب سے ملے اور معافی مانگے بغیر وہ کہیں جانا نہیں چاہتی تھی ۔اس لیئے اس نے حمنہ کو بتایا تھا کہ شایان کام پر گئے ہیں اور ان کے واپس آتے ہی وہ وہاں آئے گی۔حمنہ نے اسکی بابا سے بھی بات کروائی تھی۔سلمان صاحب جانان سے بھی روتے ہوئے معافی مانگ رہے تھے جبکہ جواب میں جانان بھی رونے لگی تو ہاشم صاحب نے اس سے فون لے کر اپنے پرانے دوست کی ٹھیک سے ٹھکائی کی جو کہ ایک واقعے کے بعد ان کو چھوڑ چکے تھے۔جبکہ اتنے سالوں کے بعد اپنے پرانے دوست سے بات کر کے سلمان صاحب کو بھی اچھا لگا تھا۔


رات ہو چکی تھی جانان ابھی عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی جب کسی نے کمرے کا دروازہ بند کر کے لاک لگایا تھا۔جانان نے مڑ کر دیکھا تو شایان دروازے کے پاس آرمی یونیفارم میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔جانان بھاگ کر اس کے پاس آئی تھی اور اسے اس طرح سے پاس آتے دیکھ کر شایان نے اسکے لیئے اپنے بازو کھولے تھے۔جانان نے پاس آتے ہی اسکے سینے پر زوردار مکوں کی برسات شروع کر دی تھی۔


'آپ بہت برے ہیں میں آپ سے بلکل بھی بات نہیں کروں گی۔اتنے دنوں بعد واپس آتا ہے کوئی۔' شایان نے ہنستے ہوئے اسے اپنی باہوں میں تھاما تھا۔


'ہاں تو جانان شاہ تم نے بھی تو اتنا کچھ مجھے سنایا تھا میرا بھی تو حق بنتا تھا نا تمہیں تڑپانے کا۔'شایان نے اسے خود میں بھینچتے ہوئے کہا تھا۔


'میں نے آپ کو سوری بولنا تھا لیکن اب نہیں بولوں گی۔' جانان نے منہ پھولا کر کہا تو شایان مسکراتے ہوئے اسے اٹھا کر بیڈ پر لا کر بیٹھایا اور اپنی ٹوپی اتار کر سائیڈ پر رکھ دی۔جانان نے اسکی طرف دیکھا تو اسکا اور منہ پھول گیا۔


'آپ نے بال کٹوا لیئے اور داڑھی بھی ہٹا دی! آپ کو پتہ تھا نا کہ آپ مجھے ویسے ہی اچھے لگتے ہیں ۔'جانان کے ایسا کہنے پر شایان نے قہقہہ لگایا۔


'آرمی میں الاؤڈ نہیں ہوتے نا لمبے بال لیکن کوئی بات نہیں میں ان سے لڑ کر لمبے کر لوں گا آخر میری بیوی کو پسند ہیں۔'


شایان نے شرارت سے کہا تو جانان نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔جبکہ اسے ایسا کرتے دیکھ کر شایان کا دل بے ایمان ہونے لگا۔اس نے جانان کا چہرہ اوپر کر کے جگہ جگہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرنا شروع کر دی۔


'دراب۔' جانان نے اسے بلایا تو وہ اس سے دور ہو کر اسے دیکھنے لگا۔


'آپ کا نام دراب بھی ہے اور شایان بھی میں آپ کو کیا بلایا کروں گی۔'جانان نے معصومیت سے پوچھا تو شایان نے اسکے ماتھے کو چوما۔


'جو بھی تم چاہو جانانِ شاہ۔'دراب نے اسکی آنکھوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے کہا۔جانان نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی۔


'میں دونوں نام ملا کر آپ کا نام بناؤں گی۔'


'اچھا وہ کیا۔'شایان نے اسکے ہونٹوں کے پاس جاتے ہوئے پوچھا تھا۔


'دراب اور شایان کو ملا کر شاداب۔' شایان یہ سن کر ایک جھٹکے سے اس سے دور ہوا تھا۔


'بلکل بھی نہیں اس سے بہتر ہے کہ تم مجھے شاہ بلا لیا کرو۔'شایان نے منہ بنا کر کہا۔


'لیکن ایسے تو شاہ اور خان کو مکس کر کے خاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔'


اس سے پہلے کہ جانان اپنا جملہ مکمل کرتی شایان نے اس کے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں قید کر لیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شایان جانان اور ہاشم صاحب کو سلمان صاحب اور باقی سب سے ملانے لایا تھا اور اتنے عرصے کے بعد اپنوں کو دیکھ کر جانان بہت زیادہ خوش ہوئی تھی۔اس نے سلمان صاحب کو محسوس ہی نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ ان سے ناراض تھی بلکہ دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھ کر اوٹ پٹانگ باتیں کرتی رہی۔

شایان بھی سلمان صاحب کی حالت دیکھ کر اپنے سارے گلے بھول گیا تھا۔اپنے باپ کی طرح وہ سلمان صاحب کو مکمل قصور وار نہیں مانتا تھا بلکہ شایان کے مطابق اس سب میں غلطی دونوں کی برابر تھی۔

حمنہ بھی شایان سے مل کے بہت خوش ہوئی تھی۔چاہے وہ بچپن میں جانان کی وجہ سے بہت لڑتے تھے لیکن اب جانان کی خوشی دیکھ کر حمنہ شایان سے بہت خوش تھی۔

عثمان کو بھی یہ پتہ چل گیا تھا اسکے ماں باپ کے اصلی قاتلوں کو پکڑ لیا گیا تھا۔مگر وہ شایان کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا تھا۔اپنے ماں باپ کی موت سے وہ اتنا ٹوٹ چکا تھا کہ وہ عدالت یا اس سب کے چکر میں نہیں پڑا تھا۔لیکن اب اسے یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ اصلی گناہ گار اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے۔


شام کو اسے پتہ چلا تھا کہ سلمان صاحب نے جانان اور حمنہ کے ولیمے کا فیصلہ کیا تھا جس میں ہاشم صاحب کی رضا مندی بھی شامل تھی۔عثمان اور شایان کو یہ اچھا لگا تھا اور اسی طرح ولیمے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی تھیں۔

شایان نے سعد اور وجدان کو بھی لاہور بلا لیا تھا۔بلایا تو اس نے حسن صاحب کو بھی تھا لیکن انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تھا وہ آج بھی سلمان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

جانان اور حمنہ کو ایک جیسے جوڑے میں سجایا گیا تھا اور وہ دونوں اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ فاطمہ بیگم بار بار دونوں کی بلائیں لیتیں۔ شایان تو جانان پر سے نظریں ہی نہیں ہٹا پا رہا تھا اور یہی حال عثمان کا بھی تھا۔حمنہ کے گھورنے کے باوجود وہ بار بار اسی کو دیکھ رہا تھا۔

شایان کو خوشگوار حیرت تب ہوئی تھی جب اس نے حسن صاحب کو آتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ جانان کا ہاتھ پکڑ کے فوراً سے اسے حسن صاحب کے پاس لے گیا۔شایان ان کے گلے لگا تو حسن صاحب مسکرا دیے۔


'ایسا ہو سکتا تھا کہ میں اپنے بیٹے کی سب سے بڑی خوشی میں شامل نہیں ہوتا؟' شایان سے ملنے کے بعد انہوں نے جانان کے سر پر پیار دیا۔جانان ان کے بیٹے کی محبت اور عائشہ کی پسند تھی اس لیئے انہیں بھی وہ بہت عزیز تھی۔فریحہ اور شاہرام نے اس معصوم بچی کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اسکا انہیں کافی دکھ بھی تھا۔لیکن وہ دونوں اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہے تھے۔

جانان حسن صاحب کو اپنے ساتھ سب سے ملوانے چلی گئی تھی۔

تبھی وجدان اور سعد شایان کے پاس آئے تھے۔


'شایان میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں وجدان کے ساتھ کام کروں گا۔'سعد نے شایان کو بتایا تھا۔


'آر یو شور؟' شایان اسکا فیصلہ جان کے حیران ہوا تھا۔


'بلکل دارا کے ساتھ کام کرنا کافی انٹرسٹنگ تھا تو وجی کے ساتھ بھی ہو گا۔' سعد نے وجدان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔


'تمہاری اپنی مرضی ہے کپتان بس بعد میں شکلیں بدلنے سے اکتا نہ جانا۔' وجدان نے سنجیدگی سے کہا تھا لیکن شایان اور سعد اسکی بات پر ہنسنے لگے تھے۔


'خان!' عثمان کی بات پر سب نے اسے دیکھا تھا جو کہ وجدان کو دیکھنے میں مصروف تھا۔


'تم یہاں کیا کر رہے ہو؟' عثمان نے حیرت سے پوچھا تھا۔


' وجدان بھائی ہے میرا ۔' شایان نے اسے بتایا تو اس نے ایک مشکوک نظر سے وجدان کو دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔


'تمہارا شکریہ ،تمہاری وجہ سے ہی میں وقت پر حمنہ کے پاس پہنچ سکا تھا۔اگر آج وہ میرے ساتھ ہے تو اسکا کا کریڈٹ تمہیں بھی جاتا ہے۔' عثمان نے وجدان کا شکریہ ادا کیا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔


شایان کی نظریں بھی جانان کو ڈھونڈنے لگی تو وہ ویل چیر پر بیٹھے سلمان صاحب کے سامنے حسن صاحب کا بازو تھامے دونوں سے مسکراتے ہوئے باتیں کرنے میں مصروف تھی۔اب اسکی محبت کا سفر مکمل ہو چکا تھا۔اسکا سفر جتنا مشکل تھا اسکی منزل بھی اتنی ہی حسین تھی اور وہ اسکی ہمت اور زیست کا نتیجہ تھی۔وہ خود بھی مسکراتا ہوا اپنی منزل کی جانب چل دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان بہت ذیادہ خوش تھا آخر کار اتنے عرصے کے بعد اسے اسکی بیوی آخر کار واپس مل گئی تھی اور اس پل کے لیئے اس نے بہت خاص انتظامات کئے تھے۔حمنہ گاڑی سے باہر نکلی تو عثمان نے اسے اپنے بازؤں میں اٹھا لیا۔


'عثمان کیا کر رہے ہیں کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔' حمنہ نے اسے ڈپٹا تو عثمان مسکرانے لگا۔


'دیکھنے دو جان جہاں میں بھی تو یہی چاہتا ہوں کہ سب کو میری محبت کا اندازہ ہو جائے۔' عثمان نے شرارت سے کہا تو حمنہ اپنے آپ کو چھڑانے لگی۔


'فکر مت کرو کوئی نہیں ہے گھر پہ آج ہم دونوں کے علاوہ۔اس دن ایک سرپرائز تم نے دیا تھا تو سوچا کہ آج ایک میں دے دیتا ہوں۔' عثمان اسے اپنے کمرے میں لے کر گیا جسے پھولوں اور موم بتیوں سے بہت ذیادہ خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔عثمان نے حمنہ کو کھڑا کیا اور خود میوزک آن کرنے چلا گیا تھوڑی دیر بعد کمرے میں میوزک کی آواز گونجی تو عثمان نے حمنہ کو پیچھے سے خود میں سمیٹ لیا اور آہستہ سے موو کرنے لگا۔


دل مانگ رہا ہے مہلت تیرے ساتھ دھڑکنے کی

تیرے نام سے جینے کی تیرے نام سے مرنے کی

تیرے سنگ چلوں ہر دم بن کر کے پرچھائی

اک بار اجازت دے مجھے تجھ میں ڈھلنے کی


کمرے کا ماحول اس قدر رومانوی تھا کہ حمنہ اور عثمان مکمل طور پر اس میں ڈوب چکے تھے۔


'عثمان آپ سے کچھ پوچھوں؟' حمنہ نے عثمان کی طرف اپنا چہرہ کر کے پوچھا تو عثمان نے اسے اپنی باہوں میں تھام لیا۔


'ہاں ضرور میرے جہان۔' عثمان نے اسکے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا۔


'آپ جانان سے شادی کیوں کرنا چاہتے تھے؟' جب حمنہ کو اسکے سوال کا جواب نہ ملا تو وہ اپنا چہرہ اوپر کر کے عثمان کو دیکھنے لگی۔


'ردا نے مجھے تب چھوڑا تھا جب میں مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔جب مجھے کسی اپنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اس نے تو کئی بار دھوکے سے میری جائیداد حاصل کرنے کی مکمل کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہو سکی۔ُ عثمان کچھ دیر خاموش ہوا ۔


'میرے باپ نے مجھے ہمیشہ عورت کی عزت کرنا سکھایا تھا لیکن ردا کے جانے کہ بعد مجھے یہ لگنے لگا کہ عورت عزت کے قابل نہیں ہوتی۔لیکن پھر ایک دن میری نظر جانان پر گئی۔وہ بلکل میری ماں جیسی تھی۔سیدھی سادی کسی سے بھی محبت سے پیش آنے والی۔' حمنہ اپنا دم سادھے عثمان کو دیکھ رہی تھی۔

'مجھے لگا کہ وہ میری زندگی میں آ کر میری محرومیاں ختم کر دے گی۔میں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے کافی چھوٹی ہے اور کسی کی منکوحہ ہے ۔اسی لئے میں نے سلمان صاحب کو وہ لالچ دیا تھا۔' عثمان نے حمنہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑا۔

'لیکن پھر تم نے خود کو میری ضد بنا دیا اور پھر میری زندگی میں شامل ہو کر مجھے جینا سکھایا،پھر سے محبت کرنا سکھایا۔تم مجھے اپنے رب کا دیا ہوا انتہائی قیمتی تحفہ لگتی ہو حمنہ جس کا شکر میں ساری زندگی بھی ادا نہیں کر سکتا۔' عثمان نے اتنا کہہ کر اسکی آنکھوں کو چوما جہاں اب آنسو آگئے تھے۔

'اب رو کر اس حسین شام کو برباد نہیں کرو جان جہاں آج میں صرف تمہارا پیار چاہتا ہوں۔' عثمان اسکے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو حمنہ نے اپنا چہرہ پھیر لیا۔

'پہلے منہ دکھائی دیں۔' حمنہ کی بات پر عثمان نے قہقہہ لگایا اور پھر اسے اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ تک لے آیا۔سائڈ ٹیبل کو کھول کر اس نے ایک مخمل کی ڈبیا نکالی اور ایک پیاری سی پائل نکال کر حمنہ کے پیر میں پہنانے لگا۔

'آئی لو یو سو مچ حمنہ۔۔' عثمان نے شدت سے کہہ کر اسے اپنی باہوں میں لے لیا تو حمنہ نے بھی مسکراتے ہوئے اپنا آپ اسکے سپرد کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شایان کمرے میں آیا تو خالی کمرہ اسکا منہ چڑا رہا تھا۔ابھی وہ پریشانی سے واپس پلٹا ہی تھا جب اسے پردے کے پیچھے سے کھلکھلانے کی آواز آئی۔شایان مسکراتے ہوئے اندر آیا اور دروازہ لاک کر کے بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد جانان منہ بسورتے ہوئے اسکی طرف آئی اور کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھنے لگی۔

'اگر کوئی چھپتا ہے تو اسے ڈھونڈتے ہیں نا کہ یوں چپ کر کے بیٹھ جاتے ہی کیا بنے گا آپ کا۔' جانان نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو شایان مسکرا دیا اور اسے کھینچ کر خود پر گرا لیا۔

'میں جانتا ہوں جانان شاہ کہ تم لوٹ کر مجھ تک ہی آؤ گی کیونکہ تمہاری منزل ہی میں ہوں۔' شایان نے اسکے سجے سنورے روپ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

'آپ نا بہت ہی بورنگ ہیں ادرک کہیں کے۔' جانان نے منہ بنا کر کہا۔

'ارے اب تو میں اتنا ادرک نہیں رہا تم نے اپنی مٹھاس جو گھول دی ہے میری زندگی میں۔سوچ رہا ہوں تھوڑی اور مٹھاس شامل کر لینی چاہئے۔' دراب نے اسکے لبوں کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے کہا تو جانان نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔

' آئی ایم سوری شایان میں نے آپ سے بہت بد تمیزی کی تھی اور آپکو کچھ بولنے کا موقع بھی تو نہیں دیا تھا۔آئندہ کچھ ایسا کروں تو ایک تھپڑ لگانا مجھے خودی عقل آ جائے گی۔' شایان کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔

'ٹھیک ہے بھئی جو حکم۔'شایان نے جانان کو کھینچ کر خود میں سمیٹا تو جانان نے اپنے ہاتھ میں موجود چیز اسے پکڑائی۔' شایان نے انتہائی محبت سے اس لاکٹ کو دیکھا تھا۔

'آپ مجھے اپنے ہاتھوں سے پہنائیں شایان میں وعدہ کرتی ہوں اب اسے کبھی بھی گم نہیں کروں گی۔'

شایان نے انتہائی نرمی سے اسکے گلے میں وہ لاکٹ پہنایا اور اسکے ماتھے کو چوما۔

'میں نے تمہیں پا لیا جانان کیونکہ تمہیں میرے خدا نے میری قسمت میں لکھا تھا۔چاہے میرے عشق کا سفر بہت مشکل تھا لیکن میری منزل بھی تو اتنی ہی خوبصورت ہے اور یقین جانو جانانِ شاہ یہ سفر عشق میری زندگی کا سب سے حسین حصہ تھا۔'

اتنا کہہ کر شایان نے جانان کو خود میں سمیٹا تھا۔جبکہ باہر موجود چاندنی بھی انکے اس حسین ملن پر مسکرا دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

❤❤❤❤❤❤

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Safar E Ishq Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Safar E Ishq  written by Harram Shah . Safar E Ishq by Harram Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages