Main Tera Hi Mujrim Hua By Malisha Rana Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Main Tera Hi Mujrim Hua By Malisha Rana Complete Romantic Novel |
Novel Name: Main Tera Hi Mujrim Hua
Writer Name: Malisha Rana
Category: Complete Novel
صبح کا وقت تھا جب عروج گھر کی چھت پر موجود آج پھر چڑیوں کو دانہ ڈال رہی تھی یہ اس کا روز کا معمول ھوتا صبح سویرے پرندوں کی دعا لینا ، آج بھی نیچے سے مسلسل ماہ نور عروج کو آوازیں دیے جا رہی تھی جس وجہ سے وہ جلدی جلدی اپنا کام کرتی اوپر سے ہی اچھا آتی ھوں کی ہانک لگا دیتی مگر مصروف وہ ابھی تک اپنے ہی کام میں تھی تب تنگ آ کر ماہ نور ہی چھت پر چلی آئی۔۔۔۔
" عروج پہلے مجھے تو تم آفس بھیج دیا کرو ، پھر ڈال دیا کرو دانہ چاہے سارا دن یہی کام رکھو تم اپنے ذمے ، لیکن صبح جانتی بھی ھو مجھے دیر ہو رہی ھوتی ھے پہلے ہی اتنی مشکل سے اتنی کم ایجوکشین کے باوجود بھی مجھے نوکری ملی ہے اور تم روز ہی لیٹ کروا دیتی ہو مجھے ان چڑیوں کی وجہ سے۔۔۔۔"
چڑیوں کے پنجرے کو آنکھیں چھوٹی کیے گھورتے ھوئے ماہنور عروج سے مخاطب تھی جو اب تک ان چڑیوں کی خدمت میں مصروف دیکھائی دیتی۔۔۔۔
" آپی ان چڑیوں کی دعا کی وجہ سے ہی تو آپ کو نوکری ملی ہے۔۔۔۔"
عروج نے معصومیت سے ماہ نور کی معلومات میں اصافہ کرنا چاہا جبکہ وہ پہلے ہی چڑچری ھوئی پڑی تھی۔۔۔
" بس کر دو لڑکی ، یہ میری امی کی دعا سے ملی ہے مجھے نوکری نا کے تمہاری چڑیوں نے دعا کی تھی , اب بس کرو ان کی خدمت کدنا اور آ کر مجھے چاۓ بنا دو میں نے ابھی کپڑے بھی بدلنے ہیں ، جاؤ جلدی۔۔۔۔"
" جی آپی بس آئی ابھی۔۔۔"
ماہ نور عروج کو حکم دیتی واپس چھت سے نیچے اتر گئی تو جلدی سے عروج بھی اس کے پیچھے ہی نیچے پہنچ کر سیدھی کچن میں گھس کر چاۓ ناشتہ بنانے میں جٹ گئ۔۔۔۔
" کتنی پیاری ہیں میری بچیاں۔۔۔۔"
ممتاز بیگم چار پائی پر بیٹھی اپنی بیٹیوں کو کام کرتا دیکھ دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہی تھیں ، ہڑبری میں ناشتہ کرنے کے بعد ماہ نور جلدی جلدی اپنا بیگ اٹھائے گھر سے جانے لگی اتنے میں عروج نے ماہ نور کو پیچھے سے آواز دے دی۔۔۔۔
" آپی جوتے تو پہن لیں ، اپنے۔۔۔"
" او سوری۔۔۔۔"
عروج کی پکار پر اپنے پاؤں کو سلیپر میں موجود دیکھ ماہ نور تیزی سے واپس برآمدے میں آ کے بیٹھی اپنے جوتے پہننے لگی۔۔۔
" آپی سب آپکی غلطی ہے کون کہتا ہے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد آپ سو جایا کریں ، میں بھی تو ہوں نا کالج بھی جاتی ہوں بلکل ٹھیک ٹائم پر کیونکہ میں فجر کے بعد سوتی نہیں۔۔۔۔۔"
ماہ نور کو افراتفری میں کام کرتے دیکھ عروج نے اس کی غلطی یاد کروائی۔۔۔
" عروج اب ہر کوئی تمہاری طرح پرفیکٹ تو ہوتا نہیں مجھے تو بہت نیند آتی ہے اس لیے سو جاتی ہوں میں ، اب مجھے جانے دو پہلے ہی بہت لیٹ ہو گئ ہے خدا حافظ۔۔۔۔".
کہنے کے ساتھ ہی ممتاز بیگم کو گلے لگاتی ماہ نور گھر سے نکل گئ۔۔۔۔
" عروج اب جاؤ تم بھی کالج دیر ہو رہی ہے تمہیں بھی۔۔۔"
" ہاں امی بس جانے ہی والی ہوں آپ دعا کیجیےگا کہ آج کا میرا پیپر بہت اچھا ہو جاۓ کیونکہ اگر میں ہمیشہ ہی اچھے نمبروں سے پاس ہوں گی تو مجھے بھی اچھی نوکری ملے گی پھر ہم بھی امیر ہو جائیں گے امی۔۔۔۔"
اپنا سر ممتاز بیگم کے سامنے کرتی وہ ان کی دعا لینے کی خواہشمند تھی وہیں اس کی معصومیت پر ممتاز بیگم کو ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔
" انشا اللہ میری بچی اللّٰہ تم دونوں کو بہت ترقی دیں گے۔۔۔۔"
ممتاز بیگم نے عروج کی پیشانی چومتے اسے دعا دی تب عروج مسکرا کر پرسکون ھوتی کالج کے لیے نکل گئی۔۔۔۔
ماہ نور جب آفس پہنچی تو اس کی دوست شبنم کو آفس کے باہر ایک شخص ہاتھ پکڑ کر باتیں سناۓ جا رہا تھا ماہ نور دور کھڑی اس منظر کو دیکھنے لگی کہ تبھی شبنم اپنا ھاتھ چھڑوا کے بھاگ کر کے پاس آ گئ۔۔۔۔
" کیا ہوا شبنم تم اتنی پریشان کیوں ہو۔۔۔۔؟؟؟
" ک۔۔۔ک۔۔۔کچھ نہیں تم بس اندر چلو۔۔۔۔"
اس کا ھاتھ تھامے شبنم آفس میں داخل ھو گئی۔۔۔۔
" کیا ہوا شبنم کچھ تو بولو تم اتنی پریشان کیوں ہو وہ لڑکا کیا تمہیں تنگ کر رہا تھا۔۔۔۔"
پریشانی سے ماہنور نے اپنے ذہن میں ابھرنے والا سوال پوچھ ڈالا بدلے میں شبنم اسے دیکھتی سر اثبات میں ہلانے لگی۔۔۔۔
" ہاں ماہ نور وہ بہت ہی امیر گھرانے کا لڑکا ہے کب سے میرے پیچھے پڑا ہے پر تجھے تو معلوم ہے میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں پھر بھی اسے یہ بات سمجھ ہی نہیں آ رہی اب کیا کروں میں۔۔۔۔"
" شبنم تم ایسے کرو کہ بھائی عدیل سے شادی کر لو پھر تو تمہاری جان وہ چھوڑ ہی دے گا۔۔۔"
اپنی دوست کو بھلا کیسے پریشان رہنے دیتی وہ اسی وجہ سے اسے ایک آسان حل پیش کر دیا ماہ نور نے۔۔۔۔
" نا یار لیکن میں گھر والوں کو کیسے مناؤں تجھے تو معلوم ہے کتنے غصے کے تیز ہیں میرے بابا وہ اس رشتے سے صاف منع کر دیں گے۔۔۔"
سر جھکائے شبنم نے اپنے بابا کے مزاج سے آگاہ کیا۔۔۔۔
" ہاں لیکن اگر تم چاہو تو میں بات کروں انکل انٹی سے۔۔۔۔"
" نہیں نہیں ماہ نور میں خود کر لوں گی اور چھوڑو ان سب باتوں کو یہ بتاؤ تم کب شادی کر رہی ہو اپنے رومیو سے۔۔۔۔"
بات کو پلٹتے شبیم نے ماہ نور سے سوال کر ڈالا۔۔۔
" شبنم آہستہ بولو اور اتنی جلدی میں نہیں کر سکتی ، اب گھر کا خرچہ عروج کی پڑھائی سب کچھ میری ہی ذمے داری ہے ہاں جب عروج نوکری پر لگ جاۓ گی تب سوچوں گی اس متعلق۔۔۔۔"
اپنے اردگرد دیکھتے کہ کہیں کسی نے اس کی بات تو نہیں سن لی وہ اپنے دوست کے ساتھ اپنی بات شئیر کر رہی تھی۔۔۔۔
" ماہ نور کتنی بڑی پاگل ہو تم بھائی عمران تم سے کتنی محبت کرتے ہیں یار وہ تو یہی کہیں گے کہ شادی کے بعد بھی تنخواہ تم اپنے گھر والوں کو ہی دے دینا ، پھر بھی تم ہو کہ مان ہی نہیں رہی کتنا صبر کریں یار وہ ، اور وہ دیکھو سامنے آ رہے ہیں عمران بھائی۔۔۔۔"
شبنم کا اشارہ سامنے سے بڑے بڑے قدم اٹھا کر اسی سمت آ رھے عمران کی جانب تھا جو سیدھا ماہ نور کے پاس آیا اور اسے سلام کرنے لگا۔۔۔
" کیسی ہو تم ،بسوری آج کافی لیٹ ہو گیا میں ، امی کو میں نے اسپیشل تمہارے لیے بریانی بنانے کا کہا تھا بس اسی چکر میں ٹائم زیادہ ھو گیا۔۔۔"
اپنے ھاتھ میں موجود ٹفن ماہ نور کے سامنے کرتا وہ اسے اپنے لیٹ آنے کی وجہ بتا رھا تھا۔۔۔۔
" او تھینک یو سو مچ ، عمران بھائی آپ کتنے اچھے ہیں ہمیں بریانی کھانے کو دے دی۔۔۔۔"
شبنم نے بریانی والا ڈبہ جھٹ سے اس کے ھاتھ سے چھین لیا تھا۔۔۔۔
" نہیں شبنم یہ آپ کے لیے نہیں ہے صرف امی نے ماہ نور کے لیے بنایا ہے واپس کریں اسے ، شبنم واپس کرو ماہ نور نے ڈبہ اس سے چھین لیا اور عمران کو واپس پکڑا دیا۔۔۔
" ہم اسے بریک ٹائم میں کھائیں گے۔۔۔۔"
اس سے کہتا وہ مسکرا کر اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا شبنم تو ھنستے ھوئے لوٹ پوٹ ھو رہی تھی جبکہ ماہ نور اس کی بازو پکڑ کر کھینچتے ھوئے اس کو اپنی سیٹ کی جانب چل پڑی ، عمران اور ماہ نور کالج ٹائم سے ہی ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے اور عمران کی ہی وجہ سے اسی آفس میں ماہ نور کو نوکری بھی لگ گئ تھی اب بھی ماہ نور اپنی سیٹ پر بیٹھ کر شبیم کی کہی گئی باتوں کو سوچنے لگ گئ۔۔۔
" سچ میں اب مجھے شادی کر لینی چاہیے اور رہی بات پیسوں کی تو وہ ویسے بھی میں اپنی امی کو شادی کے بعد بھی دے سکتی ہو کیونکہ انٹی اور عمران اتنے اچھے ہیں انھیں مجھ سے مطلب ھے میری تنخواہ سے نہیں۔۔۔۔"
انھی سوچوں میں گم دوپہر ھو گئی تب بریک ٹائم میں عمران اور ماہ نور بریانی کھانے لگےشبنم کے لیے ماہ نور نے تھوڑی سی بریانی نکال کر اسے دے دی تھی بدلے میں اسے شبیم نے ڈھیروں دعاؤں سے نوازا اس کے اس ڈرامہ پر وہ ھنس پڑی تھی اب خود خاموشی سے بیٹھی وہ بریانی کھانے میں مصروف تھی کی اچانک عمران نے اسے مخاطب کیا۔۔۔
" صبح امی کہہ رہی تھیں اب میری بہو آ جاۓ تو اس گھر میں خوشیاں ہی بھر جائیں گی۔۔۔۔"
اس کی کہی گئی بات پر وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی پھر خود کو کمپوز کرتے اس نے بھی اپنی دل کی بات کہہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
" عمران آپ سے میں ایک بات کہوں کیا آپ مانے گے۔۔۔"
" ہاں ماہ نور بولو کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
عمران نے فوراً نے اسے اجازت دے دی اپنی بات کہہ دینے کی۔۔۔۔
" عمران میں آپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔"
" کیا شرط بولو میں تو تمہارے لیے جنگ بھی لڑ جاؤں۔۔۔۔"
ہلکا سا مسکراتے وہ اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کر رھا تھا۔۔۔
" عمران شادی کے بعد کیا میں اپنی تنحواہ اپنے گھر والوں کو دے سکتی ہوں تمہیں تو معلوم ہے بابا کے جانے کے بعد صرف میری نوکری ہی ہے گھر کا گزارا کرنے کے لیے۔۔۔۔"
نظریں جھکائے ماہ نور نے آخر اپنی بات کہہ ہی دی جبکہ عمران نے بدلے میں اس کے ھاتھ پر اپنا ھاتھ رکھتے اسے ہلکا سا دبایا۔۔۔
" تو ماہ نور کیوں نہیں یار ، یہی بات تو میں کرنے والا تھا تمہیں کہ مجھے تمہاری تنخواہ کا ایک روپے بھی نہیں چاہیے تو کیا پھر آج ہی میں رشتہ لے آؤں کیونکہ میرا تو دل کر رہا ہے ابھی اسی وقت نکاح پڑھ لوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔"
" عمران آپ بھی نا اور ہاں شام کو آپ رشتہ لے آئیں میں امی سے بات کر لوں گی۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی ماہ نور اٹھ کر چلی گئی آفس سے چھٹی ھونے پر جب وہ واپس گھر گئ تو تبھی عروج بھی کالج سے واپس گھر آ گئی۔۔۔۔
" عروج تم رکو میں کھانا بنا لیتی ہوں۔۔۔۔"
عروج کو فریش ھونے کے بعد کچن کی طرف بڑھتا دیکھ ماہ نور نے اسے پکارا۔۔۔۔
" نہیں آپی میں ہوں نا میں کر لیتی ہوں سب۔۔۔۔"
" نہیں چلو ہم مل کر بنا لیتے ہیں۔۔۔۔"
اگلی کچھ دیر میں دونوں بہنیں کچن میں کھڑی کھانا بنانے لگ گئیں ماہ نور عروج سے عمران والی بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کیسے کرے بات کا آغاز ، عروج نے اس کی بے چینی نوٹ کر لی تھی تبھی اسے پکار لیا۔۔۔
" کیا ہوا آپی کوئی بات کرنی ہے آپکو۔۔۔؟؟؟
اچانک عروج کے سوال کرنے پر وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی پھر گہری سانس بھرتے اس نے خود کو پرسکون کیا۔۔۔
" ہاں وہ عروج شام کو میرا رشتہ لے کر کوئی آ رہا ہے میرے ہی آفس میں کام کرتا ہے وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔"
" آپی کیا کہا آپ نے آپ کا رشتہ آ رہا ہے مطلب کہ آپ کی شادی ہو گی فینگشنز ہوں گے دھوم دھڑکا ہو گا کتنا مزہ آۓ گا آپی۔۔۔"
عروج تو لمحوں میں خوشی سے اچھل پڑی تھی۔۔۔۔
" تمہیں ان سب کی پڑی ہے ، لڑکی امی کو کیسے بتاؤں میں۔۔۔؟؟؟
منہ بنائے اسنے اپنی اصل پریشانی واضح کی۔۔۔۔
" امی کو کچھ نہیں بتائیں گے ہم بس شام کو جب آپ کو دیکھنے وہ لوگ آئیں گے تو امی سوچے گیںی کہ ویسے ہی کوئی رشتہ آیا ہے ، آپی سچ میں بہت زیادہ خوش ہوں میں بہت بہت بہت زیادہ۔۔۔۔"
" ہاں ہاں وہ تو دیکھائی دے ہی رہا ہے بڑی خوشی ہو رہی ہے تمہیں مجھے اس گھر سے نکالنے میں۔۔۔"
ماہ نور چہرے کا رخ موڑے شکوہ کر گئی جبکہ عروج معصوم کا چہرہ فوراً ہی مرجھا گیا تھا۔۔۔
" آپی کیسی باتیں کر رہی ہے آپ ، آپ کے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں ھوں بچپن سے لے کر اب تک امی سے زیادہ میں نے آپ کے ساتھ وقت گزارا ہے آپی ، پلیز ایسے دوبارہ مت کہیے گا ورنہ تو پڑنا ھے میں نے ، آپی مجھے انتظام بھی تو کرنا ہے نا کیا کروں میں جلدی بتائیں میرے بہنوئی نے آنا ہے سب کچھ بہت اچھا ھونا چاھیے۔۔۔"
خوشی کے مارے وہ اتنی زور سے بولی کہ سارا کچن ہی گونج اٹھا۔۔۔
" عروج آہستہ بولو کیا ھو گیا ھے اور اگر تم پہلے سے ہی کھانے بنانے لگ گئ تو امی کو شک نہیں ہو جاۓ گا اس لیے جب وہ گھر آئیں گے تب بنا لینا کچھ بھی۔۔۔"
" اوکے آپی۔۔۔"
ماہ نور کو مضبوطی سے اپنے گلے لگاتی وہ چٹا چٹ اس کے گال چومنے لگی خوشی تھی کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی اس کی۔۔۔۔
شام کو عمران اپنی والدہ کے ساتھ ماہ نور کا ہاتھ مانگنے آ گیا اتنا اچھا لڑکا دیکھ فوراً سے ممتاز بیگم نے ہاں کر دی۔۔۔۔
" پھر کچھ دنوں میں شادی کر لیتے ھیں کیونکہ میرے گھر میں اب مجھ سے کام نہیں ہوتے بس جلدی سے بہو آ جاۓ اور سارا گھر سنبھال لے۔۔۔۔"
عمران کی والدہ نے اپنی بے قراری کا اظہار کیا تو ماہ نور شرمانے لگی۔۔۔
" ہاں جیسا آپ بہتر سمجھیں ، آپ ایسے کریں کہ پرسوں اتوار کو آ جائیں پھر شادی کے دن رکھ لیں گے ہم۔۔۔"
" ج ہتر۔۔۔"
مزید کچھ دیر بیٹھنے کے بعد عمران اور اس کی ماں واپس چلے گۓ رات کو ممتاز بیگم نے ماہ نور کو اپنے کمرے میں بلایا تاکہ اس کی مرضی جان سکیں۔۔۔
" بیٹا تم خوش تو ہو نا جو میں نے فیصلہ لیا ہے تمہارے لیے اس پر ، اگر تمہیں یہ رشتہ پسند نہیں تو بتا دو بیٹا ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ے۔۔۔۔"
اپنی بیٹی کا ھاتھ تھامے ممتاز بیگم نے اس کی رائے مانگی وہ تو نظریں بھی حیرا کے سبب نہیں اٹھا پا رہی تھی۔۔۔
" نہیں امی میرا مطلب آپ نے جو بھی میرے لیے فیصلہ لیا ہے اچھا ہی ہو گا۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تب اسے اداسی سے روتی ھوئی عروج دیکھائی دی۔۔۔
" آپی کچھ دنوں میں آپ یہاں سے چلی جائیں گی پھر میں کس سے اپنے کالج کی باتیں کیا کروں گی کیونکہ امی تو بیمار رہتی ہیں اس لیے جلدی سو جاتی ہیں پھر کیا کرو گی میں۔۔۔۔"
ماہ نور کو اپنے قریب پا کر وہ اس کے گلے لگی اپنی معصوم معصوم سی پریشانیاں اسے بتانے لگی۔۔۔
" عروج اس گھر سے جا رہی ہوں میں دنیا سے تو نہیں ، کال کر لیا کرنا میری گڑیا۔۔۔"
عروج کے بالوں میں ھاتھ پھیرتی وہ اس کے مسلے کا حل پیش کر رہی تھی جبکہ اس کی بات پر تڑپ کے عروج اس سے الگ ھوئی اور غصیلی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
" آپی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ، مریں آپ کے دشمن دوبارہ ایسی بات مت کرنا ورنہ میں آپ سے بہت ناراض ھو جاؤں گی نہیں بلکہ میں آپ کے اتنی گدگدی کروں گی کہ آپ ہنس ہنس کر موٹی ہو جائیں گی۔۔۔"
ماہ نور کے گدگدی کرتی وہ ھنستے ھوئے اس وارننگ دینے لگی۔۔۔۔
" نہیں نہیں اچھا ٹھیک ہے ، دوبارہ بات نہیں کروں گی ایسی اب خوش ، بس کر دو میں نے پھٹ جانا ھے ورنہ۔۔۔"
ماہ نور ھنستے ھوئے اس کے ھاتھ پکڑتی اسے روکنے لگی تب ھنستے ھوئے عروج نے اس کے گال کو چوما اور ساتھ ہی اس کے لیٹ گئی۔۔۔۔
اگلے دو دن بعد عمران اور اس کی ماں نے صلح مشورہ کر کے شادی کے دن فکس کرنے لگے۔۔۔۔
" اگلے جمعہ کو نکاح رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔"
" اتنی جلدی کیسے ہم تیاریاں کریں گے۔۔۔۔"
ممتاز بیگم نے فوراً ہی اپنی پریشانی بیان کر دی۔۔۔
" انٹی جی سب کچھ اب آپ کا یہ بیٹا کرے گا اس لیے آپ اس بات کی فکر چھوڑ دیں۔۔۔"
عمران نے جھٹ سے ان کی پریشانی کو دور کر دیا جس پر ممتاز بیگم پرسکون ھوتی اسے دیکھنے لگیں۔۔۔
" بیٹا اللّٰہ تمہاری لمبی زندگی کریں اب ایسے لگ رہا ہے جیسے اتنے سالوں بعد ہمارے گھر میں بھی خوشیاں آنے والی ہیں۔۔۔۔"
عمران کے سر پر پیار دیتی ممتاز بیگم دل ہی دل میں اللّٰہ کا شکر ادا کرنے لگیں۔۔۔
" انٹی جی اب صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی آپ دیکھ لیجیے گا۔۔۔۔"
عمران کی کہی گئی بات پر ممتاز بیگم نے دل میں آمین کہہ دیا ، اگلے دن ماہ نور آفس گئ اور اپنی دوست شبنم کو اپنی شادی کے بارے میں بتا دیا۔۔۔۔
" واہ کیا بات ہے یار لیکن یہ بات جان کر تم حیران ہو جاؤ گی ، میری بھی شادی ہے کچھ دنوں میں ، امی ابا مان گئے یار میری شادی کے لیے سچ میں ماہ نور اگر تم نا ہوتی تو شاید کبھی یہ آئیڈیا میرے دماغ میں آتا ہی نہیں کہ عدیل سے گھر رشتہ لانے کا کہوں میں۔۔۔۔۔"
شبنم زور سے اسے گلے لگاتی اس کا شکریہ ادا کرنے لگی۔۔۔
" تھنک یو وینکیو چھوڑو شبنم اور تیاریاں شروع کر لو کیونکہ میری شادی میں تمہارا ہونا لازمی ہے۔۔۔"
خود سے شبیم کو الگ کرتی وہ اس سے بولی۔۔۔
" ہاں ہاں لیکن پہلے یہ تو دیکھ لو جو میں تمہارے لیے لے کر آئی ہوں۔۔۔"
" کیا تم میرے لیے گفٹ لائی ہو۔۔۔؟؟؟
ماہ نور نے حیرانگی سے سامنے موجود ایک گفٹ کو دیکھا۔۔۔
" ہاں میری شادی کا گفٹ ھے یہ دیکھو یہ سوٹ میں نے اپنے لیے اور تمہارے لیے ایک جیسا خریدا ہے ، یہی پہنیں گے ہم اپنی اپنی شادی پر۔۔۔۔"
" شبنم اس کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟؟؟
ماہ نور نے مہنگے برائڈل ڈریس کو دیکھتے شبنم سے کہا۔۔۔
" اس کی ضرورت کیوں نہیں تھی یار یہ میری طرف سے تھنیکیو گفٹ ھے تیرے لیے۔۔۔"
شبنم کی محبت دیکھ وہ مزید اسے منع نا کر سکی اور گفٹ پکڑ لیا۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے لے لیا گفٹ تیرا ، یاد رکھو اب پرسوں میری مہندی ہے میں صرف چھٹیاں لینے آئی تھی آج آفس اور ساتھ تمہیں بلانے بھی ، یاد سے آ جانا۔۔۔"
ماہ نور نے شبنم کو گلے لگاتے اسے پھر سے اپنی شادی پر انوایٹ کیا اور پھر باس کے آفس کی طرف چل پڑی تاکہ ان سے چھٹیاں مانگ سکے۔۔۔
🌟🌟🌟
" میرا بھائی کہاں ہے کل سے اس کی کوئی خبر نہیں ھے کچھ پتہ نہیں چل رہا اور تم لوگ آرام سے بیٹھے ہو۔۔۔۔"
محل نما گھر میں اس کی آواز بہت زور سے گونجی تھی۔۔۔
" س۔۔۔س۔۔۔س۔۔۔سر ہم نے بہت ڈھونڈھا بہت کوشش کی مگر ابھی تک ان کے متعلق معلوم نہیں ھو سکا کچھ بھی۔۔۔۔ "
" او اچھا۔۔۔۔"
اگلے ہی پل اس شخص نے بندوق نکال کر اپنے مینجر کے سر پر رکھ دی۔۔۔۔
" اگر آج کے آج میرے بھائی کی کوئی خبر مجھے نا ملی تو کل تیرا گمنام لوگوں میں نام آ جاۓ گا ، سمجھا۔۔۔۔"
" ج۔۔۔ج۔۔۔جی سر۔۔۔۔"
خوف سے کانپتے مینیجر نے ھاں کی کہ تبھی اسکو کال آ گئی جسے پک کرتے وہ موبائل کان سے لگا چکا تھا۔۔۔
" سر آپ کا بھائی نشے میں دھت سڑک پر گرا ہوا ہے۔۔۔"
کال بند کرتے مینیجر نے اسے بتا دیا۔۔۔
" کس جگہ میں ابھی اسے لے کر آتا ہوں۔۔۔"
" سر وہ لا رہے ہیں آپ ادھر ہی انتظار کریں۔۔۔"
تبھی کچھ غنڈے ساحر کو پکڑے محل نما گھر میں داخل ہوئے اپنے بھائی تو دیکھتے ہی وہ تیزی سے اس جانب لپکا۔۔۔
" ساحر ساحر تو تو ٹھیک تو ہے نا بچے ، یہ تیرے کپڑے اتنے گندے کیسے ھو
ساحر میں سے کافی گندی بری بدبو آ رہی تھی کیونکہ سڑک کے کنارے کوڑا کرکٹ میں وہ گرا ہوا تھا لیکن وہ شخص بنا بدبو کی پرواہ کیے اپنے بھائی کو گلے لگاۓ جاۓ تو کبھی اس کا چہرہ چومنے میں مصروف تھا۔۔۔
" کچھ بول نا میرا بیٹا ، کیا ہوا ہے تجھے۔۔۔؟؟؟
بے چینی سمیت تڑپتے ھوئے وہ اپنے بھائی کی تکیلف معلوم کرنا چاہتا تھا اس کا بس نہیں چل رھا تھا ورنہ ناجانے کیا کر دیتا۔۔۔
" بھائی۔۔۔۔"
بولنے کے ساتھ ہی ساحر نے زور سے اپنے بھائی کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔
" کیا ہوا میرے بچے، تو رو کیوں رہا ہے ، اپنے بھائی کو بتا تیرا بھائی اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا کس نے تکیلف دی تجھے ، بول بیٹا بتا مجھے۔۔۔۔"
" بھائی ٹکڑے تو میرے دل کے ہوۓ ہیں جو اب کبھی نہیں جڑیں گے ، م۔۔۔م۔۔میں اس غم کے سہارے اب کیسے جیوں گا بھائی۔۔۔۔"
ساحر کسی بچے کی مانند اپنے بھائی کے سینے میں گھس کر اسے اپنی تکیلف بیان کرنے کی کوشش کر رھا تھا جبکہ اس کے بھائی کی آنکھیں سرخ انگارہ ھوتی جا رہی
" ٹھیک ٹھیک بول ہوا کیا ہے تو کیوں ایسے رو رہا ہے ساحر ، بچپن سے لے کر اب تک کبھی بھی میں نے تیری آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیے اور آج تو ان آنسوؤں کو پانی کی طرح بہا رہا ہے بول تو سہی وجہ کیا ہے۔۔۔۔"
ساحر کو خود سے الگ کر وہ اس سے اصل بات معلوم کرنا چاہتا تھا۔۔۔
" بھائی دھوکا دیا مجھے ، بے وفائی کی ہے میرے ساتھ اس نے ، کسی اور کی ہونے جا رہی ہے وہ۔۔۔"
" ایسے کیسے ہونے جا رہی ہے وہ کسی کی بھی ، تیرا بھائی ہے نا وہ اسے ابھی کے ابھی تیرے سامنے پیش کر دے گا پھر دیکھتے ہیں کیسے وہ کسی اور سے شادی کرے گی۔۔۔۔"
ساحر کو کاندھوں سے تھامے وہ اسے تسلی دینے لگا۔۔۔
" نہیں بھائی آپ ایسا ہر گز نہیں کریں گے مجھے بھیک میں دی ہوئی کسی کی بھی محبت نہیں چاہیے جب وہ مجھے پسند ہی نہیں کرتی تو زبردستی ایسے محبت لینے کا فائیدہ ، وہ جسے پسند کرتی تھی وہ اس کی اب ہونے والی ہے ، میں مر جاؤں گا بھائی یہ تکیلف جان لے لے گی میری۔۔۔۔"
زمین پر گر کے اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تب اپنے بھائی کی تکیلف دیکھتے وہ خود بھی زمین پر بیٹھ گیا اور ساحر کو اپنے گلے لگا لیا کچھ دیر رونے کے بعد ساحر اپنے بھائی کی گود میں سر رکھ کر بای کے آنسو بہانے لگا اور اس کا بھائی پیار سے اسے تسلی دینے کی کوشش کر رھا تھا مگر وہ ویسے ہی روتے روتے ہی وہیں پر سو گیا تب ساحر کو اٹھا کر وہ اسے اس کے کمرے میں چھوڑنے چلا گیا تب پیچھے سے سبھی غنڈے آپس میں باتیں کرنے لگے۔۔۔۔
" ساحر بابا کے ایک آنسو پر ایول سر غصے سے پاگل ہو جاتے تھے اور آج تو وہ اتنا روۓ ہیں اب ایول سر نا جانے کیا کریں گے۔۔۔۔"
وہ ابھی بول ہی رہے تھے کہ تبھی ایول کمرے سے باہر آ گیا۔۔۔
" مجھے وہ لڑکی میرے سامنے چاہیے ، اگر وہ میرے بھائی کی نہیں ہو سکتی تو وہ کسی اور کی بھی نہیں ہو گی اگر میرا بھائی اس کے غم میں اداس رہے گا تو وہ کیسے خوش رہ سکتی ہے ، جاؤ اور صبح تک وہ مجھے اپنے سامنے چاہیے کسی بھی طرح۔۔۔"
" پر ایول سر ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کون ہے۔۔۔۔؟؟؟
جس نے یہ سوال کیا تھا اسے ایول نے اگلے ہی پل غصے میں گولی مار دی جسے دیکھ سبھی خوفزدہ ھو گئے۔۔۔
" اب بھی کیا کسی نے کوئی سوال کرنا ہے۔۔۔۔"
ایول کے چیخنے پر سب نفی میں سر ہلانے لگے۔۔۔
" اب جاؤ جلدی ، نکلو سب۔۔۔"
حکم ملتے ہی سب داخلی دروازے کی جانب دھوڑ پڑے جبکہ وہ دوبارہ ساحر کے کمرے میں گھس گیا۔۔۔ See less
اگلے دن ایول کے غنڈے اس لڑکی کے متعلق دریافت کرتے رھے کہ وہ کونسی لڑکی ہے کہاں رہتی ھے سب کچھ ، تبھی انہیں معلوم ہوا جس آفس میں وہ لڑکی کام کرتی ہے کل ہی اسنے اپنی شادی کے لیے وہاں سے چٹھی لے لی اور آج اس کی مہندی ہے ، ایک ایک بات سے وہ ایول کو آگاہ کر رھے تھے ان غنڈوں نے غلطی سے ماہ نور کو شبنم سمجھ لیا تھا ایول کو بھی یہی نام بتایا انھوں نے ، انکی یہی غلطی کسی پر بہت بھاری پڑنے والی تھی جس کا کسی کو احساس نہیں تھا رات کو آفس سے ماہ نور کو اس کے باس کی کال آئی جسے کاش وہ پک نا ہی کرتی۔۔۔
" مس ماہ نور ایک فائل تمہارے پاس موجود ہے جس پر ہمیں ابھی اسی وقت لازمی کام کرنا ھے ، کیا تم دو منٹ کے لیے آ کر وہ فائل دے سکتی ہو کافی ضروری ہے وہ سمجھو اس بات کو۔۔۔۔"
اپنی مہندی کی رات اچانک اسے آفس فائل کے ساتھ بلایا گیا یہ بات ماہ نور کو کافی پریشان کر چکی تھی۔۔۔۔
" سر پر آج تو میری مہندی ہے تو کیسے میں۔۔۔"
" ماہ نور اگر ضروری نا ہوتا تو میں تم سے نہیں کہتا۔۔۔"
بندوق کی نوک پر ماہ نور کو آفس میں بلانے کے لیے کہا گیا تھا ان غنڈوں کے کہے الفاظ وہ باس ادا کر کے ماہ نور کو اس وقت آفس بلا رھا تھا۔۔۔
" اوکے سر میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔"
ماہ نور نے کہنے کے ساتھ کال کٹ کر دی اور فائل کے ساتھ اپنی چادر لیے دور ھنستی مسکراتی ھوئی عروج کے پاس چلی گئ وہ۔۔۔
" عروج میں ابھی واپس آ رہی ہوں ضروری ھے اس وقت جانا ، تم پیچھے سے سنبھال لینا سب اوکے بائے۔۔۔"
عروج کو ہدایت دیتی وہ چادر اوڑھے فائل تھامے جانے لگی جب پیچھے سے عروج نے اس کی بازو تھام کر اسے روک لیا۔۔۔
" آپی یہ کیا بات ہوئی آج کے دن کون جاتا ہے گھر سے باہر ، آپ کہیں نہیں جا رہی بس چپ چاپ بیٹھیں یہاں ، وقت تو دیکھیں آپی نو نو۔۔۔۔"
عروج نے صاف الفاظوں میں اسے جانے سے منع کر دیا مگر ماہ نور کی بھی تو مجبوری تھی۔۔۔۔
" عروج ضد مت کرو ، بہت ضروری کام ہے یار سمجھو ، بس ابھی واپس آ جاؤں گی میں ، تم سنبھال لینا سب وعدہ کرو سب ھینڈل کر لو گی۔۔۔۔"
آنکھوں میں ہلکی سی نمی لیے ماہ نور نے زور سے عروج کو گلے لگا لیا عروج پہلے تو نروٹھے پن سے اسے دیکھتی رہی اور پھر خود بھی ماہ نور کے گلے لگتے ہی ٹھیک ھو گئی۔۔۔
" اچھا اب چھوڑو مجھے جانے دو عروج۔۔۔۔"
یوں ہی مضبوطی سے عروج ماہ نور کو اپنے ساتھ چپکائے ھوئے تھی جیسے اگر وہ اب چلی گئی تو واپس کبھی نہیں آئے گی۔۔۔
" آپی پلیز مت جائیں نا۔۔۔۔"
آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیے وہ اپنی بہن کو جانے سے روک رہی تھی۔۔۔
" عروج میری گڑیا ، میں جنگ لڑنے نہیں جا رہی جو زندہ واپس نا آنے کا خطرہ ہو ، بس یوں گئ اور یوں آئی ، اب جلدی جانے دو مجھے پھر ہی جلدی لوٹوں گی ، تم سب سنبھال لینا عروج امی سمیت سب کچھ۔۔۔"
عروج کے گالوں پر پھیلی نمی کو صاف کرتے اس کی پیشانی چوم کر ماہ نور اسے ہدایت دیتی تیزی سے فائل لے کر گھر سے باہر نکل گئی کچھ دیر میں رکشے کے ذریعے وہ آفس پہنچ گئ ، ابھی ماہ نور آفس کےاندر داخل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک کچھ غنڈوں نے اس کو پکڑ کر زبردستی گاڑی میں بیٹھا دیا اور تیزی سے اپنی منزل کی جانب جانے لگ گۓ۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھاتے ہی انھوں نے ماہ نور کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی جس سے اسے کوئی علم نہیں ھو رھا تھا کہ اسے کہاں لیجایا جا رھا ھے۔۔۔
" کون ہو تم لوگ اور مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو ، کیا کیا ہے میں نے ، پلیز مجھے جانے دو پلیز۔۔۔۔"
ماہ نور نے خوفزدہ ھوتے ان سب کی منت کی جس کا کیا ہی اثر ھونا تھا ان بے حس لوگوں کو۔۔۔
" چپ کر جا لڑکی اب تیرے ساتھ کیا کرنا ہے صاحب جی ہی بتائیں گے۔۔۔۔"
ان میں سے ایک غنڈے نے ماہ نور کو غصے سے جھڑک دیا ۔۔۔۔
" کیا کہہ رہے ہو تم لوگ ، کون صاحب جی ، مجھے جانے دو۔۔۔۔"
ماہ نور کی باتوں کا کوئی بھی جواب نہیں دے رہا تھا بس خاموشی سے اسے کہیں لے جا رھے تھے وہ سب ، کچھ دیر بعد گاڑی ایک جھٹکے سے محل نما گھر کے باہر رک گئی اور ماہ نور کو کھینچ کر گاڑی سے نکال کے وہ غنڈے اندر لے جانے لگ گۓ۔۔۔۔
دوسری سمت کافی دیر ہو چکی تھی مگر ماہ نور ابھی تک گھر واپس نہیں لوٹی تھی یہی بات عروج کو فکر میں مبتلا کر گئی وہ بے چینی سے ادھر اًدھر چکر کاٹے جائے ساتھ ہی دل ہی دل میں ماہ نور کی سلامتی کی دعائیں کرتی وہ بار بار باہر کی طرف دروازے کو دیکھے جا رہی تھی کہ کب اس کی بہن واپس آتی ھے۔۔۔۔
" کیا ہوا ہے بیٹا , ماہ نور کہاں ہے سبھی مہمان انتظار کر رہے ہیں اس کا۔۔۔۔"
ماہ نور کو تلاش کرتے ممتاز بیگم عروج کے قریب آتی اس سے ماہ نور کے بارے میں دریافت کرنے لگیں جانتی جو تھیں وہ ماہ نور عروج سے کچھ نہیں چھپاتی۔۔۔
" امی آپی کسی آفس کے کام سے گئ تھیں باہر لیکن ابھی تک واپس نہیں آئیں ، مجھے فکر ہو رہی ہے پتہ نہیں کہاں ہوں گی وہ ، میں نے فون بھی ٹرائے کیا لیکن کوئی اٹھا ہی نہیں رہا لگتا ہے اب ہمیں عمران بھائی کو بتا دینا چاہیے وہ جا کر ڈھونڈ لائیں آپی کو۔۔۔۔"
" ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو ، کرو اسے کال۔۔۔"
ممتاز بیگم بھی عروج کی بات سے رضامند ھو گئیں اگلے ہی پل انھوں نے عمران کو کال کر کے سب بتا دیا وہیں عمران کو جب معلوم ہوا تو وہ ماہ نور کو ڈھونڈھنے کے لیے نکل پڑا لیکن کسی بھی جگہ ماہ نور کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔۔۔۔
جبکہ ماہ نور کو تو وہ لوگ کھنچ کر اس محل نما گھر میں داخل ھو رھے تھے ، ہاتھوں کو جوڑ کر روتی ہوئی وہ مسلسل ان سب کی منت کیے جا رہی تھی۔۔۔
" پلیز کون ہو تم لوگ مجھے جانے دو جو بھی مجھ سے گناہ ہو گیا ہے مجھے معاف کر دو اور میری آنکھوں سے یہ پٹی تو کھول دو ، گھر پر سبھی انتظار کر رہے ہوں گے میرا ، آج مہندی ہے میری پلیز کچھ تو بولو ، کوئی تو جواب دو مجھے۔۔۔۔"
" اے لڑکی چپ چاپ چل اب ہمارے مالک ہی بتاۂیں گے تیرے ساتھ کیا کرنا ھے۔۔۔۔"
" کون مالک میں نے تو کبھی کسی کو کچھ نہیں کہا پھر کیوں آپ لوگ مجھے یہاں لے کر آۓ ہو۔۔۔۔"
ماہ نور نے حیرانگی سے سوال کیا تبھی بجائے اسے جواب دینے کے ایک غنڈے نے زور سے اسے زمین پر دھکا دے دیا بہت بری طرح وہ زمین پر گر گئ اس بات کی پرواہ ہی کب تھی انھیں۔۔۔
" مالک یہ رہی وہ لڑکی۔۔۔۔"
ان میں سے ایک غنڈے نے ماہ نور کی طرف اشارہ کیا تو ان کے مالک نے ھاتھ اٹھا کر اشارے سے ان غنڈوں کو اس سے دور ھونے کا حکم دے دیا اور خود وہ اٹھ کر ماہ نور کے پیچھے کی طرف جا کر ہلکے سے کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگا جس سے وہ مزید ڈر گئ اور بامشکل کھڑی ھو کر چیخنے لگی۔۔۔
" کون ہو تم پلیز مجھے جانے دو پلیز۔۔۔۔"
ماہ نور کے چیخنے کی پرواہ کیے بنا اس شخص نے ایک ہاتھ سے ماہ نور کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لیا اور اپنے دانتوں سے اسکی آنکھ پر بندھی پٹی کو اتارنے لگا ، آنکھوں سے پٹی اتار دینے کے بعد ماہ نور میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ پیچھے مڑ کر اس شخص کو دیکھ سکے خوف بری طرح اس کے حواسوں پر سوار ھو چکا تھا وہیں اس شخص نے اپنی گرفت میں مزید مضبوطی لاتے ھوئے ماہ نور کے کان کے پاس سرگوشی کی اس کی گرم سانسوں پر اسے اپنا دل بند ھوتا محسوس ھوا۔۔۔
" ایسے کیسے چلی جاؤ گی تم ، پہلے تمہیں میں تمہارے گناہ کی سزا تو دے دوں۔۔۔"
ایک پراسرار سی آواز اس کے کان کے قریب گونجی تھی خوف سے ماہ نور کی سانسیں بند ھونے لگیں۔۔۔
" ک۔۔۔کونسا گناہ کیا کیا ہے میں نے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ، میں تو ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں بہت عام سی لڑکی ھوں میں۔۔۔"
ابھی اس نے اتنا ہی بولا تھا کہ تبھی اس شخص نے زور سے ماہ نور کو زمین پر دھکا دے گرا دیا۔۔۔۔
" میرے بھائی کو دھوکا دینے کا گناہ کیا ہے تو نے جس کی سزا اب وہ نہیں میں دوں گا ، پہلے تو تیرے جسم پر صرف اور صرف میرے بھائی کا ہی حق ہونا تھا لیکن اب یہاں پر موجود وہ سبھی لوگ جو کسی عورت کو دیکھ منہ میں پانی لے آتے ہیں ان کے سامنے جب ایک خوبصورت لڑکی ہو گی تو سوچ کیا کریں گے وہ تیرے ساتھ۔۔۔۔"
" م۔۔۔م۔۔۔م میں آپ کے بھائی کو نہیں جانتی میری تو شادی ہونے والی ھے ، ھاں آپ کو لگتا ہے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں وہ لڑکی نہیں ھوں۔۔۔۔"
ماہ نور نے کانپتے ھوئے اس شخص سے کہا جو کہ سچ بھی تھا مگر اس وقت اس کی بات سنتا کون۔۔۔
" جسٹ شٹ اپ پہلے میں دوں گا تجھے تیرے گناہ کی سزا پھر میرے کتے نوچیں گے تجھے۔۔۔۔"
وہ شخص غصے سے دھاڑا تھا اس کی آواز سے وہ کمرہ گونج اٹھا ساتھ ہی ماہ نور بری طرح کانپننے لگی۔۔۔
" آپ میں رحم نام کی چیز ہے بھی کہ نہیں ، چھوڑیں مجھے ، نہیں ھوں میں وہ۔۔۔"
ماہ نور نظریں جھکائے پھر سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اس کی بات سن وہ شخص جھکا اور ماہ نور کی گردن سے اسے پکڑ چہرہ اوپر کرنے کے بعد اس کی آنکھوں میں اپنی وحشت زدہ نظریں گاڈھ دیں۔۔۔
" ایول ہوں میں اور ایول کو کسی پر بھی ترس نہیں آتا ، تو تو کیا چیز ہے۔۔۔۔"
اس شخص کی نظروں کے علاؤہ بات سن کر ماہ نور کے خوف میں اب مزید اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔
" میرے بھائی نے تجھ سے صرف محبت ہی کی تھی اور بدلے میں وہ کیا مانگ رہا تھا صرف محبت ، وہ بھی تجھ سے نا دی گئ اسے ، اگر تو زندہ رہی تو شاید میرا بھائی بہت تکلیف میں رہے گا لیکن تیرے مر جانے سے اسے ایک سکون تو مل جاۓ گا کہ چلو وہ اب اس دنیا میں ہی نہیں ہے۔۔۔۔"
اپنی بات کہنے کے ساتھ ہی نفرت سے اس نے ماہ نور کی گردن چھوڑ دی۔۔۔۔
" ی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں قسم سے مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کا بھائی ہے کون ، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔"
" غلط فہمی , بکواس بند کر۔۔۔"
ایول نے زور دار تھپڑ ماہ نور کے منہ پر دے مارا جس سے اس کے ہاتھوں میں پہنی انگوٹھیوں کی وجہ سے ماہ نور کے منہ سے خون نکلنے لگ گیا۔۔۔۔
" اب کچھ یاد آیا۔۔۔۔؟؟؟
سرخ آنکھوں سے ماہ نور کو گھورتے وہ سوال کر رھا تھا۔۔۔
" مجھے نہیں پتہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔"
ماہ نور نے معصومیت سے اپنے منہ سے خون صاف کرتے سچ بولا مگر پھر سے اس نے ماہ نور کو ایک اور تپھڑ مار کر اپنا غصہ کم کرنا چاہا۔۔۔۔
" ص۔۔۔ص۔۔۔صاحب جی اگر آپ برا نا منائیں تو پہلے آپ یہ مٹھائی چکنے کو دے دیں ہمیں ، کیونکہ مار مار کے اگر اس کی حالت بگڑ گئ تو ہم پھر کیسے۔۔۔"
اسی کمرے میں موجود خاموشی سے سب دیکھ رھے غنڈوں میں سے ایک نے ایول سے کہا تب طنزیہ مسکراہٹ ماہ نور کی طرف اچھالتے وہ اٹھ کھڑا ھوا۔۔۔
" بھوکے کتوں ، ایک ہی شرط پر تجھے یہ ملے گی۔۔۔۔"
نفرت زرہ نظر ماہ نور کے وجود پر ڈالتے وہ گویا ھوا۔۔۔
" جی صاحب جی بولیں۔۔۔"
" اسے اس اس تکلیف سے گزارنا تم لوگ ، جس سے یہ خود مرنے کے لیے تم سے بولے ، سمجھا۔۔۔۔"
" آپ کا حکم سر آنکھوں پر صاحب جی۔۔۔"
حوس بھری نظروں سے ماہ نور کو دیکھتے ایول کو جواب دینے کے بعد وہ غنڈے کھنچ کر ماہ نور کو باہر لے جانے لگے۔۔۔
" خدا کے خوف سے ڈریں ، میں بے گناہ ہوں ، مت کریں یہ گناہ۔۔۔"
ماہ نور مسلسل چینختے ھوئے ایول سے کہہ رہی تھی لیکن اسے کسی کی بھی کوئی پرواہ ھوتی ہی کب تھی سوائے خود کے اور ساحر کے وہ تو پرسکون سا ھو کر صوفے پر بیٹھا سگریٹ پینے لگا ، کچھ ہی دیر میں ماہ نور کے بری طرح چیخنے چلانے کی ایسی خوفناک دل دہلا دینے والی آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی بھی عام انسان سن کر رونے لگ جاتا مگر اس ظالم بے حس انسان کو ان آوازوں سے گویا راحت مل رہی تھی۔۔۔
مزید کچھ دیر بعد وہ غنڈے ایول کے پاس چلے آئے۔۔۔۔
" صاحب جی وہ ابھی بھی زندہ ہے کیا کریں۔۔۔؟؟؟
ان کی بات سن ایول جھٹ سے اٹھ کھڑا ھوا اور باہر نکل کر ایک سٹور میں موجود ماہ نور کے پاس چلا آیا جس کی حالت اتنی خوف ناک تھی کہ کوئی بھی ڈر جائے ، ناخنوں سے ماہ نور کے جسم کو ایسا نوچا گیا تھا جیسے کسی بھیڑیے نے نوچا ہو صرف ماہ نور کا دوپٹہ ہی اس کے جسم کو ڈھانپے ہوۓ تھا منہ پر تپھڑوں کے مارنے کی وجہ سے اتنی سوجن تھی کہ شاید اسے دیکھائی بھی بامشکل دے رہا تھا مگر وہ پھر بھی نیم بے ہوش ھوتی ھوئی ایول کو دیکھ کر با مشکل ہاتھ جوڑ کے اس کی منت کرنے لگی۔۔۔۔
" مجھے جانے دو میرے بغیر میری فیملی کا کیا ہو گا میری کوئی غلطی نہیں ہے ، بے قصور ھوں میں۔۔۔"
" ابھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر رہی تو ، بندوق کہاں ھے میری لے کر آ۔۔۔"
ماہ نور پر چیختے ھوئے وہ اپنی بندوق مانگنے لگا جو غنڈے نے فوراً ہی اسے پکڑا دی۔۔۔۔
" تیری غلطی یہ ہے کہ تو میرے بھائی کو پسند آئی۔۔۔۔"
دانت پیستے ھوئے بول کر وہ ہلکا سا جھکا اور ماہ نور کے سر پر بندوق رکھ کر گولی چلا دی ، اگلے ہی پل آنکھیں کھولے ہی ماہ نور اس دنیا سے چلی گئی تھی مگر اس شخص کو کوئی فرق نا پڑا نفرت سے ماہ نور کی لاش کو دیکھتا وہ وہاں سے باہر نکل گیا جبکہ اشارے سے ماہ نور کی لاش کو پھینکنے کا وہ بول چکا تھا۔۔۔۔
عروج بے چینی سے بار بار ماہ نور کو کال کیے جا رہی تھی اس کا دل اس بات کی گواہی دے رھا تھا کہ اسکی آپی ٹھیک نہیں ھے۔۔۔۔
" امی مجھے بہت گبھراہٹ ہو رہی ہے ، میں کیا کروں کیسے آپی کو ڈھونڈوں میں ، سب میری ہی غلمی ہے مجھے آپی کو جانے ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔۔۔۔"
آخر میں ضبط کھو کر روتی ھوئی وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگی اس بے چینی کی وجہ سے جان جا رہی تھی اسکی اس کا دل ہی بتا رھا تھا کچھ بہت غلط ھو گیا ھے۔۔۔
" بیٹا اچھا سوچو ہماری ماہ نور کو کچھ نہیں ھو گا ، اللّٰہ ہمارے ساتھ کچھ برا نہیں کریں گے۔۔۔"
خود بھی پریشانی میں مبتلا ممتاز بیگم اپنی معصوم سی بیٹی کو تسلی دے رہی تھیں۔۔۔
" امی پولیس میں رپورٹ لکھوائیں کیا ہم ، آپی کو وہ پکا ڈھونڈ لیں گے۔۔۔"
" ہاں بیٹا یہ ٹھیک رہے گا۔۔۔"
ممتاز بیگم عروج کی بات سے متفق ھو گئیں کہ تبھی عمران وہاں آ گیا اسے دیکھتے ہی عروج بھاگ کر اسکے پاس گئی۔۔۔
" بھائی چلیں ہم پولیس اسٹیشن جا کر رپورٹ لکھوائیں آپی کے بارے میں وہ۔۔۔"
" لکھوا آیا ہوں میں وہ کہہ رہے ہیں ڈھونڈ دیں گے۔۔۔"
عمران نے اس کی بات کاٹتے جھٹ سے کہہ دیا۔۔۔
" ہاں اب انشااللہ میری آپی مل جائیں گی انھیں کچھ نہیں ھو گا۔۔۔"
مسلسل روتے ھوئے وہ خود کو تسلی دیے جا رہی تھی اس بات کو پوری رات گزر گئی مگر ماہ نور کی کوئی خبر نا ملی ساری رات سبھی نے بے چینی میں گزار دی صبح کے تقریباً 7 بجے پولیس کا سائرن عروج کو سنائی دیا تب بھاگ کر وہ باہر گئ جہاں اس کا خیال تھا اس کی آپی موجود ھوں گی۔۔۔
" آپی کہاں رہ گئ تھی آپ۔۔۔؟؟؟
تیزی سے بولتے اس نے جب غور سے دیکھا تو پولیس کی گاڑی کے ساتھ ایمبولینس بھی موجود تھی جس میں سے اب ماہ نور کی لاش کو نکالا جا رہا تھا سارا محلہ ماہ نور کو اس حالت میں دیکھ توبہ توبہ کرنے لگا وہیں عروج نے جب یہ منظر دیکھا تو اسکی سانس اکھڑنے گئ کیونکہ عروج کو بچپن سے ہی دمے کا مرض تھا وقت پر انہیلر نا ملنے پر وہ وہیں بے ہوش ہو کر گر گئ۔۔۔۔
ایسی حالت کسی غیر کی دیکھ کر انسان شوکڈ ہو جاتا ہے اور وہ تو اسکی سگی بہن تھی عروج بے ہوشی میں بھی مسلسل روئے جا رہی تھی تب اچانک اس کو خواب آیا کہ ماہ نور کی حالت بہت خراب تھی اور وہ عروج سے ایک ہی بات کہے جا رہی تھی۔۔۔۔
" میرا کیا قصور تھا کیوں مجھے یہ سزا ملی لیکن عروج اب تمہیں خود کو اور امی کو سمبھالنا ہے وعدہ کرو مجھ سے تم سب سنبھال لو گی۔۔۔"
ماہ نور کی آخری دفعہ کہی گئی بات یاد آتے ہی اچانک عروج چیخ کر اٹھ بیٹھی۔۔۔
" آپی آپی کہاں ہیں آپ۔۔۔؟؟؟
خود کو کمرے میں موجود پا کر وہ بھاگ کے جب باہر صحن میں آئی تو ماہ نور کی لاش کو کفن میں لپٹ کر وہیں رکھا ھوا تھا اور سبھی لوگ اسے دیکھ کر رو رہے تھے۔۔۔۔
" آ۔۔۔آ۔۔۔آپی۔۔۔۔"
زور سے چیختی وہ مضبوطی سے ماہ نور کو اپنے گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
" آپی پلیز اٹھ جائیں نا ، آپ کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں پلیز اٹھ جائیں ، امی آپی سے کہیں نا کہ وہ اٹھ جائیں میں مر جاؤں گی آپی ، مجھے نہیں رہنا آپ کے بغیر ، آپ ایسے نہیں کر سکتی میرے ساتھ اٹھیں آپی پلیز اٹھ جائیں نا۔۔۔"
عروج کو تڑپتے دیکھ عمران کی ماں اسے اپنے ساتھ لگا کر چپ کروانے لگیں۔۔۔
" بیٹا سنبھالو خود کو پہلے تمہاری امی کی حالت خراب ہوئی پڑی ہے تم تو ہمت سے کام لو ، اب تمہاری بہن واپس نہیں آنے والی صبر کرو بیٹا۔۔۔۔"
" استغفر اللہ اتنی بری موت اللّٰہ کسی دشمن کو بھی نا دے جتنا جلدی ہو سکے دفنا دیں اسے ورنہ لوگ کیا کیا باتیں کریں گے۔۔۔۔"
ان میں سے ایک عورت کانوں کو ھاتھ لگاتی ھوئی مشورہ دینے لگی۔۔۔
" ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔۔"
عمران کی ماں نے اس عورت کی ھاں میں ھاں ملاتے اٹھ کر دور کھڑے عمران سے ماہ ماہ نور کو لیجانے کا کہہ دیا کچھ ہی دیر میں ماہ نور کے جنازے کو اٹھائے وہ سب لیجانے لگے تب اچانک ممتاز بیگم کے دل میں درد ہوا اور وہ بے ھوش ھو گئیں تب عروج اور عمران کی ماں انھیں جلدی سے ہسپتال لے گئیں عروج مسلسل روئے ہی جا رہی تھی ایک بہن کا غم اور دوسرا اب ماں کی بری حالت، ممتاز بیگم کو آئی سی یو میں لے جایا گیا تھا ان کی حالت ہی اتنی خراب تھی کچھ دیر بعد جب ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر آئے تو عروج بھاگ کر ان کے قریب ھوئی۔۔۔
" ڈاکٹر انکل امی ٹھیک ہیں نا پلیز ڈاکٹر انکل کچھ تو بتاۂیں۔۔۔۔"
بے چینی سے آنسو بہاتی وہ اپنے واحد سہارے واحد رشتے کے متعلق دریافت کر رہی تھی۔۔۔
" ہاں آپ کی والدہ ٹھیک ہیں اب ، ہارٹ اٹیک آیا تھا انہیں ٹینشن سے دور رکھیں آپ ورنہ۔۔۔"
" ٹھیک ہے تھینک یو۔۔۔"
عروج ڈاکٹر کو جواب دے کے ممتاز بیگم کے کمرے میں شفٹ ھوتے ہی ان کے پاس بیٹھ گئ ، وہ ابھی بھی سوئی ہوئی تھیں تب عروج اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئ۔۔۔۔
" پوری زندگی تباہ ہو گئ ہماری امی ، پتہ نہیں کون تھا وہ شخص جو ہمارا مجرم ہے ، جس نے میری آپی کے ساتھ یہ سب کیا میں اسے چھوڑو گی نہیں امی ، برباد کر دوں گی اس کو۔۔۔۔"
اپنے آنسو صاف کرتے جوش سے کھڑی ھوتی وہ پولیس اسٹیشن چلی گئ تاکہ اپنی بہن کو انصاف دلوا سکے۔۔۔۔
" پولیس انکل آپ کو کچھ پتہ چلا کون تھے وہ لوگ کیوں کیا انہوں نے ہمارے ساتھ ایسا۔۔۔۔"
انسپیکٹر کے قریب جا کر وہ اپنے آنسوؤں کو کنٹرول کرتی ان سے سوال کرنے لگی۔۔۔
" دیکھو بیٹا ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا شاید کسی امیر شخص کا یہ کام ہے اس لیے اگر ہمیں کچھ بھی معلوم ہوا تو ہم اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔۔۔۔"
" کیوں پولیس انکل وہ امیر ہے تو کیا کسی کے ساتھ کچھ بھی کرے گا ، کسی کی بھی زندگی برباد کر دے گا وہ ، یہ اختیار کس نے دیا اسے ، میری آپی معصوم تھیں آج تک کبھی کسی کے ساتھ اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی تھی انھوں نے اور ان کے ساتھ ایسا ، کتنی تکلیف سہی ہو گی انہوں نے کیسے وہ جانے کے لیے منتیں کر رہی ہوں گی لیکن پتہ نہیں کون تھا وہ ظالم شخص جس کے دل میں رتی بھر کا بھی رحم موجود نہیں تھا جسے ذرا سا بھی ترس نا آیا آپی پر۔۔۔۔"
ماہ نور کا سوچتی وہ روتے ھوئے کہنے لگی تب اس پر ترس کھاتے انسپیکٹر نے اس کے سر پر ھاتھ رکھ دیا۔۔۔
" بیٹا ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن تم فکر نہیں کرو ہم پتہ لگانے کی کوشش کریں گے۔۔۔"
انسپیکٹر کے تسلی دینے پر اپنی آنسو صاف کرتی عروج وہاں سے چلی گئ پورے راستے وہ روتی ہی رہی۔۔۔۔
" کچھ نہیں کر پائیں گے یہ پولیس والے بھی ، یا اللّٰہ اب آپ ہی اس شخص کے ساتھ وہ کیجیے گا جس سے اسے موت سے بھی زیادہ تکلیف دے سزا ملے۔۔۔۔"
یوں ہی روتے ہوۓ عروج ہوسپیٹل چلی گئ ، وقت کا کام ھے گزرنا جو گزرتا گیا آج ماہ نور کو بچھڑے ایک ہفتہ ھونے کو تھا ، عروج اپنی ماں کو گھر واپس لے آئی تھی اب گھر کا خرچ چلانے کے لیے پیسے بھی موجود نہیں تھے کیونکہ ممتاز بیگم کے علاج میں جمع کی گئی رقم بھی خرچ ھو گی تھی۔۔۔
" اب کیا کروں میں ابھی تو میری گریجوشن بھی پوری نہیں ہوئی تو نوکری کیسے ملے گی۔۔۔۔"
پریشانی سے کچن میں کھڑی وہ ختم ھو گئے راشن کے متعلق فکر مند تھی کہ اب اپنی ماں کو کیا پکا کر کھلائے تب اچانک عروج کو ماہ نور کی دوست شبنم کی یاد آئی تو اس نے فوراً اسے کال کر دی تب اپنا مسلہ بیان کرنے پر شبنم نے اسے ایک کافی مشہور کمپنی کے بارے میں آگاہ کیا۔۔۔
" وہاں پر جا کر تم ٹرائے کر سکتی ہو شاید نوکری مل جاۓ۔۔۔۔"
" جی بہت شکریہ آپی۔۔۔"
عروج نے کہہ کر کال کاٹ دی اور اگلی صبح اٹھ کر تیار ہونے لگ گئ اسے آج اس آفس جانا تھا جس کے بارے میں اسے شبنم نے بتایا تھا ممتاز بیگم اب بستر کے ساتھ ہی لگ چکی تھی کیونکہ اپنی جوان بیٹی کی موت وہ بھی اتنی بھیانک اور ذلت بھری کون سی ماں برداشت کر سکتی ہے اوپر سے لوگوں کی باتیں وہ تو یہی کہہ رہے تھے ضرور کسی لڑکے کا چکر ہو گا اور پھر جب یہ کسی اور سے شادی کرنے لگی تو مار دیا اس نے ، عروج اپنی ماں کو ہلکا پھلکا کھانا کھلا کر خود گھر سے باہر نکل گئ پیدل چلتے ھوئے وہ کچھ دیر بعد ایک بہت بڑے آفس کے سامنے موجود تھی خود کو کمپوز کرتی وہ اس کے اندر داخل ھو گئی اور ریسپشن پر موجود لڑکی سے پوچھ کر ویٹنگ روم میں بیٹھ کے انتظار کرنے لگ گئ جب انٹرویو کے لیے اسے بلایا گیا تو عروج بہت نروس تھی مگر مجبوری انسان سے کیا کچھ نہیں کرواتی۔۔۔
اپنے خشک لبوں کو تر کرتی وہ ایک کیبن میں گھس گئی وہاں سب سے پہلے اس کی ایجوکیشن کے بارے میں ہی پوچھا گیا تھا تو اس نے بتایا کی ابھی وہ گریجیوشن کرنے والی ہے تو اس شخص نے عروج کو نوکری دینے سے صاف انکار کر دیا۔۔۔۔
" ہمیں نہیں چاہیے اپنی کمپنی میں کوئی بچی ، نکلو یہاں سے یہ کوئی ڈرامہ نہیں چل رھا آ جاتا ھے یہاں کوئی بھی منہ اٹھا کر ، جاؤ پہلے دو چار سال پڑھو بعد میں آنا۔۔۔۔"
" سر پلیز ہم بہت مجبور ہیں پلیز میری مدد کر دیں مجھے یہاں پر کوئی بھی چھوٹی ہی سہی نوکری دے دیں پلیز سر۔۔۔۔"
روتے ھوئے عروج اس شخص کی منت کرنے لگی۔۔۔
" یار ہم نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا کسی کی مجبوری کا ، جو بھی یہاں پر نوکری لینے آتا ہے وہ ضرورت مند ہی ہوتا ہے جاؤ اب نکلو دماغ خراب نہیں کرو میرا۔۔۔۔"
وہ شخص غصے سے عروج پر چیخنے لگا اور زبردستی اس کو اپنے کیبن سے باہر نکلا دیا کہ تبھی ایک شخص آفس میں داخل ھوا ہر کوئی اسے دیکھ سلام کیے جا رھا تھا ، عروج اتنی بے عزتی سہنے کے بعد روتے ھوئے واپس جانے کے لیے پلٹی تو اچانک اس شخص کے ساتھ ٹکرا کر نیچے گر گئ۔۔۔۔
" سعاد سر آپ ، اے لڑکی دیکھائی نہیں دیتا تجھے سوری کر انہیں۔۔۔۔"
وہی شخص عروج کو پھر سے ڈانٹے لگا عروج مسلسل اپنی نظریں جھکائے روتی ھوئی اٹھ کر کھڑی ھونے لگی۔۔۔۔
" سوری سر۔۔۔"
اپنے آنسو کو صاف کرتے ہوۓ عروج نے معافی مانگ لی۔۔۔
" کیا ہوا یہ رو کیوں رہی ہے۔۔۔؟؟؟
سعادت نے عروج کے چہرے کو دیکھتے سوال کیا۔۔۔
" سر وہی نوکری مانگ رہی ہے اس کی عمر تو دیکھیں ابھی پڑھ رہی ہے , اب کیا نوکری دیں ہم اسے۔۔۔۔"
" اس میں عمر کہاں سے آ گئ یہ مت بھولو کہ میں نے 18 سال کی عمر میں یہ بزنس سنبھال لیا تھا اور رہی بات ایجوکیشن کی تو کوئی چھوٹی موٹی نوکری ہو گی ہی دے دو اسے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ آج میرے ہاتھوں کسی کا دل دھکے ، پہلے ہی لائف میں بہت مشکل ہوئی پڑی ہے۔۔۔۔"
عروج سعاد کو مشکور نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔
" تھنک یو سر۔۔۔"
" او پلیز یہ تھنیکس وینکس مجھے نہیں چاہیے اب کام بھی ٹھیک سے کرنا تم کیونکہ کام میں کوتاہی میں برداشت نہیں کرتا۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔"
ہلکا سا مسکراتی وہ سعاد کو دیکھنے لگی جو شکل سے ہی کافی مغرور محسوس ھوتا ، پرسنالٹی کافی اٹریکٹیو تھی اسکی مگر عروج کو اس بات سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔۔
"جاؤ اس سے اوپر والے پورشن میں تمہاری ڈیٹوی ہے جا کر وہاں پر موجود شائستہ سے مل لینا وہ تمہیں بتا دے گی کیا کام ھے اور کیسے کرنا ہے۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔۔"
سر کو ھاں میں ہل
سعاد کا حکم ملتے ہی وہ لفٹ کی طرف چل پڑی مگر لفٹ کو دیکھتے ہی وہ حیران رہ گئی۔۔۔
" مجھے تو لفٹ چلانی آتی ہی نہیں لیکن سیڑھیوں سے اگر اوپر گئ تو پھر سے استھیما کا اٹیک آ جاۓ گا ، کیا کروں۔۔۔"
کچھ دیر کھڑی سوچنے کے بعد عروج نے لفٹ سے ہی جانے کا فیصلہ کر لیا ابھی مشکل سے لفٹ اوپن کر کے وہ اندر کھڑی ھو کے بٹنز دیکھتی اسے چلانے کا سوچ ہی رہی تھی مگر پہلے کونسا بٹن دبائے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رھا تھا ، اتنے میں سعاد بھی لفٹ میں چلا آیا اسے دیکھتے ہی خوامخواہ میں وہ ڈر گئی۔۔۔۔
" تم نے کہاں جانا ہے بولو۔۔۔۔؟؟؟
خود ہی وہ اسے اوپر والے پورشن میں جانے کا کہہ چکا تھا مگر اب پھر سے وہ اس سے یہ سوال کرنے لگا۔۔۔۔
" سر وہ اس سے اوپر والے فلور پر۔۔۔۔"
اپنی نظریں جھکائے عروج نے بہت دھیرے سے جواب دیا۔۔۔
" ھاں تو سوچ کیا رہی ہو ، بٹن دباؤ پہنچ جاؤ گی اوپر۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن عروج پھر سے بٹنز کو دیکھتی سوچنے لگی کچھ سمجھ ہی نہیں آ رھا تھا اسے تو کرتی کیا۔۔۔
" سر مجھے لفٹ چلانی نہیں آتی۔۔۔۔"
عروج نے آخر سچ بتا ہی دیا۔۔۔
" اس میں مشکل کیا ھے ، اب اس پر منتر تو پھونکنے ہوتے ھیں نہیں ، چلو ہٹو سامنے سے۔۔۔"
عروج پر طنز کرتے سعاد نے اسے ھاتھ سے بائیں جانب کیا اور خود ہی آگے بڑھ کر بٹن دبا دیا۔۔۔
" صحیح کہہ رہا تھا آصف جو لڑکی لفٹ تک نہیں چلا سکتی وہ یہاں پر نوکری کیا کرے گی ، یو نو واٹ تمیہں ایسے کرنا چاہیے تھا کہ تم کوئی سرکاری سکول میں ٹیچر لگ جاتی آفس کا کام کرنا تمہارے بس کی بات نہیں۔۔۔۔"
بغیر عروج کو دیکھتے سامنے نظریں کیے وہ مسلسل اسے باتیں سنائے جا رھا تھا۔۔۔
" سر ٹرائے کیا تھا میں نے ، لیکن وہاں پر بھی پڑھا لکھا ہونا ضروری ھے مگر ابھی میری ایجوکیشن مکمل نہیں ھوئی۔۔۔"
" ھاں تو ٹھیک ہے ، ایجوکیشن کم ھے تو تم کسی کے گھر ملازمہ لگ جاتی، وہ تو لگ ہی جانا تھا کیونکہ اس کے لیے ایجوکیشن امپورٹینٹ نہیں ھوتی۔۔۔"
سعاد کی سفاکیت سے کہی بات سن عروج پھر سے آنسو بہانے لگ گئی تو سو سو کی آواز سن سعاد اسے روتا دیکھنے لگا۔۔۔
" کیا مسلۂ ھے جو پھر سے رونے لگ گئ ھو ، روتے صرف بزدل لوگ ہیں اور تم بھی انہیں میں سے ایک ہو ، مجھے بزدل لوگوں سے بہت چڑ ھے۔۔۔"
پیشانی پر بل ڈالے وہ عروج کو ڈانٹنے لگا کہ اچانک سے لفٹ رک گئ۔۔۔۔
" اب یہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟
سعاد نے بے زارگی سے کہا وہیں لفٹ کو رکا دیکھ عروج ڈر گئ اور آنکھیں پھیلائے سعاد سے گویا ھوئی۔۔۔
" یہ کیوں رک گئ۔۔۔۔؟؟؟
" مجھے کیا معلوم میں بھی تو تمہارے ساتھ ہی یہاں موجود ہوں ، حد ہے کوئی اتنا بے وقوف کیسے ھو سکتا ھے۔۔۔"
سعاد مسلسل عروج کو باتیں ہی سنائے جا رھا تھا وہیں خوف کی وجہ سے اس کی سانس رکنے لگ گئ اور پھر سے اسے استھیما کا اٹیک آ گیا جس وجہ سے اچانک وہ چکرا کے زمین پر گرنے لگی مگر لپک کر سعاد نے اسے پکڑ لیا کر گرنے سے بچا لیا۔۔۔۔
" اب تمہیں کیا ہوا ، ویٹ کرو لفٹ ٹھیک ہو جاۓ گی۔۔۔۔"
یوں ہی عروج کو سہارا دیے کھڑا وہ اسے تسلی دینے لگا تب عروج اسے ھاتھ سے اشارہ کرنے لگ گئ کہ اسے سانس نہیں آ رہی ، وہ اس وقت بالکل بے ھوش ھونے کو تھی۔۔۔۔
" تمہیں استھیما ہے ، شٹ بتاؤ تمہارا انہیلر کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟
کہنے کے ساتھ ہی وہ عروج کا بیگ چیک کرنے لگ گیا لیکن وہاں پر انہیلر موجود نہیں تھا کیونکہ گھر میں پیسے راشن تک کے لیے موجود نہیں تھے تو عروج نیا انہیلر کہاں سے خرید لاتی۔۔۔۔"
" تم کیا پاگل ہو اتنی امپورٹنٹ چیز ساتھ لانا بھول گئ تم , ریلیکس کرو خود کو اور آہستہ آہستہ سے سانس لو۔۔۔۔"
تیزی سے خود نیچے لفٹ میں بیٹھ کے سعاد عروج کا سر اپنی گود میں رکھ کے اسے تسلی دینے لگا ساتھ ہی اسے پرسکون کرنے کی کوشش میں وہ مصروف تھا تاکہ عروج کو سانس آ جائے۔۔۔
" جلدی ٹھیک کرو اس لفٹ کو کہاں مر گۓ ہیں سبھی ۔۔۔۔"
بلند آواز وہ لفٹ ٹھیک کرنے کا کہتے ساتھ ہی مدد کی پکار لگا رھا تھا مگر اس وقت شاید کوئی ان کے آس پاس موجود نہیں تھا ، عروج سانس نا آنے کی وجہ سے بے ہوش سی ہونے لگی تھی ، یہ دیکھ سعاد کی بے چینی مزید بڑھ گئی۔۔۔۔
" نہیں نہیں بے ہوش نہیں ہونا تم نے ، یار کوشش کرو سانس لینے کی۔۔۔۔"
عروج کے چہرے کو تھپتھاتے وہ اسے ھوش میں رھنے کی تاکید کرنے لگا مگر عروج کو اپنا ہی ھوش نہیں تھا تب کچھ سوچتے وہ عروج کا سر اونچا کیے اس کے چہرے پر جھک کر اسے ماوتھ اکسیجن دینے کی کوشش کرنے لگا مگر جیسے ہی وہ عروج کے چہرے کو پکڑ ھاتھ سے ا سکا منہ کھولے مزید جھکنے لگا تبھی ایک لمبی سانس لیتے عروج دوبارہ سے ہوش میں آنے لگی اور سعاد کو اپنے قریب چہرے پر جھکے دیکھ وہ جلدی سے اسے دھکا دے کر دور ہو گئ وہ تو شکر تھا سعاد ابھی کچھ کر نا سکا ورنہ عروج خود کو معاف نا کر پاتی کہ اسے کسی غیر محروم نے چھوا ھے۔۔۔۔
" اب کیا تم ٹھیک ہو ، سانس آ رہی ہے تمہیں۔۔۔؟؟؟
سعاد نے اپنے لب دانتوں تلے دبا کر پہلے تو کچھ دیر عروج کو دیکھا جو اپنا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اور پھر اچانک سے سوال کر دیا جس پر عروج اپنے ہونٹ مضبوطی سے آپس میں بھینچے انھیں ھاتھ سے صاف کرنے کے بعد دوبارہ سے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگ گئ۔۔۔۔
" او ھیلو مجھے بھی کوئی شوق نہیں تھا ایسا کچھ کرنے کا لیکن اگر نا کرتا تو تم بے ہوش ہو جاتی اور یہ لفٹ پتہ نہیں کب ٹھیک ہو گی تو مدد ہی کر رھا تھا تمہاری سمجھی اچھا ھوا خود ہی ٹھیک ھو گئی تم ورنہ ، یہ بتاؤ مجھے کوئی اتنا لاپروا کیسے ہو سکتا ہے اپنا انہیلر ساتھ نہیں لے کر آنا چاھیے تھا تمہیں۔۔۔۔"
" وہ ہے ہی نہیں سر۔۔۔۔"
سعاد سے نظریں چراتی وہ بہت آہستہ سے بولی۔۔۔
" کیوں پوری عمر کیا ایسے ہی رہ رہی ہو تم انہیلر کے بغیر۔۔۔۔؟؟؟
" پہلے ھوتا تھا میرے پاس مگر اب پیسے نہیں تھے تو کہاں سے لیتی۔۔۔۔"
اب بھی صاف گوئی سے کام لیا تھا اس نے جس پر سعاد کافی حیران ھوا۔۔۔
" کیا، ایسی بات ھے ، ویٹ۔۔۔۔"
اپنے وائلٹ کو جیکٹ سے نکال کر وہ کچھ پیسے نکال عروج کو دینے لگ گیا جسے دیکھ وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔
" نہیں سر مجھے نہیں چاہیے یہ پیسے۔۔۔"
" اب ڈرامے بند کرو ، ادھار سمجھ کر لے لو ، مجھے کوئی شوق نہیں ہے بار بار تمہیں اس طرح دیکھنے لگا ،اب لو انہیں۔۔۔"
سعاد کے فورس کرنے پر عروج نے وہ پیسے پکڑ لیے ابھی بھی اس کو ٹھیک طریقے سے سانس نہیں آ رہی تھی مگر وہ خود کو کمپوز کرنے کی کوشش جاری رکھے ھوئی تھی۔۔۔
" تمہارے گھر میں کیا کوئی مرد نہیں ہے جو تمہیں مجبوراً نوکری کرنی پڑھ رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟
غور سے عروج کو دیکھتے وہ سوال کرنے لگا۔۔۔
" نہیں ھے کوئی ، بابا تھے پہلے جو ہماری ہر خواہش کو پورا کرتے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد میری آپی نے سب سنبھال لیا ، مجھے کسی بھی چیز کی کمی محسوس نا ہونے دی انھوں نے۔۔۔"
" تو اب کیا شادی کر لی ہے اس نے۔۔۔۔؟؟؟
سعاد نے غصے سے کہا تو وہ اسے دیکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئ جس پر اچھا خاصا چڑ گیا وہ۔۔۔۔
" اب کیا بات ہے جو رونے لگ گئ ھو ، ہر کوئی شادی کرتا ہے تو کیا اس پر پوری فیملی ہمیشہ روتی ہی رہے ، عجیب ھو تم بہت۔۔۔۔؟؟؟
بے زارگی سے اپنی مہنگی گھڑی میں ٹائم دیکھتا وہ عروج سے بولا۔۔۔
" کاش آپی شادی کر کے گئ ہوتیں تو ان سے ملنے کی امید باقی تو ہوتی لیکن اب تو وہ اس جگہ گئ ہیں جہاں سے ملنے کی امید تک نہیں ھے ، میری آپی کو مجھ سے چھین لیا گیا سر۔۔۔۔"
عروج ابھی بات ہی کر رہی تھی کہ تبھی سعاد کو کال آ گئ جسے پک کرنے کے بعد اس نے فکر مندی ظاہر کی۔۔۔۔
" او شٹ یہ لفٹ کب چلے گی ، کیا مسلۂ ہے جلدی کھولو اسے۔۔۔۔"
سعاد کو اتنا بے چین دیکھ عروج حیران ہو گئ تھی۔۔۔۔
" آج کا دن ہی بکواس ہے ، پتہ نہیں کس کی شکل دیکھ لی۔۔۔۔"
منہ ہی منہ میں وہ بڑبڑانے لگا کہ تبھی لفٹ چل پڑی۔۔۔
" شکر ہے۔۔۔۔"
عروج نے دل سے شکر دادا کیا ، لفٹ کے کھولتے ہی اس نے عروج کو نکلنے کا حکم دے دیا۔۔۔
" اب جاؤ جلدی نکلو ، مجھے جانا ہے واپس نیچے۔۔۔"
خوفزدہ نظروں سے سعاد کو دیکھتی وہ جانے لگی کہ اچانک سے پھر چکرا کر گرنے لگی تبھی سعاد نے اگلے کو بڑھ کر پھر سے عروج کو پکڑ لیا ، عروج کی معصوم سی آنکھیں جن میں سے معصومیت ٹپک رہی تھی انھیں دیکھتے سعاد کو ایسے محسوس ھوا جیسے عروج ان دنیاوی برائیوں سے کوسوں دور ہے ، بغیر پلکیں جھپکائے وہ اسے ہی دیکھے جا رھا تھا وہیں سبھی لوگ سعاد کو ایسے دیکھ حیران ہو گۓ ، سعاد مرزا جو کے کبھی زندگی میں کسی سے اچھے طریقے سے بات تک نہیں کرتا آج کیسے وہ عروج کو پکڑ کر اسے دیکھے ہی جا رہا تھا ، سعاد کو تو کوئی ھوش نا رھا مگر عروج سب کی نظریں محسوس کرتی اس سے الگ ھونے لگی۔۔۔
" ت۔۔۔ت۔۔۔تھینک یو سر۔۔۔"
عروج کی آواز سن سعاد کو ہوش آیا تو خود پر اسے شرمندگی ھونے لگی۔۔۔
" تم کیا دیکھ کر نہیں چل سکتی , ہر جگہ گری ہی رہتی ہو یہ دنیا تم جیسوں کو روند کر نکل جاتی ہے سمجھی ، ہر جگہ میں تمہیں سنبھالنے کے لیے موجود نہیں ہوں گا۔۔۔"
غصے سے کہنے کے ساتھ ہی سعاد وہاں سے چلا گیا جبکہ شرمندہ ھوتی عروج جا کر شائستہ سے کام سیکھنے لگ گئ ، ہر چیز اسکو مشکل ہی لگ رہی تھی اوپر سے اسے یہ بھی ڈر تھا اگر اس نے ٹھیک طریقے سے کام نا کیا تو اسے اس آفس سے نکال دیا جاۓ گا پھر کیسے گزارا ہو گا ان کا۔۔۔۔
خود کو سمجھاتی وہ کام پر غور کرنے لگی اسے کسی بھی طرح بس یہ نوکری چاھیے تھی اسے کھونے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
" ساحر ساحر بیٹا پلیز دروازہ کھولو تم کیوں ایسے کر رہے ہو ،دیکھو تمہارا بھائی آیا ہے پلیز ساحر دروازہ کھولو ، ساحر اگر تم نے دروازہ نہیں کھولا تو میں پوری عمر یہیں پر ہی بیٹھا رہوں گا۔۔۔۔"
ایول کی بات سن ساحر نے دروازہ کھول دیا۔۔۔
" بھائی۔۔۔۔"
روتے ھوئے وہ لپک کر ایول کے گلے لگ گیا۔۔۔۔
" کیا ہوا بچے کیوں ایسے رو رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟
ساحر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتا وہ اس سے وجہ پوچھ رھا تھا۔۔۔
" بھائی یہ لوگ کہہ رہے ہیں جس سے میں محبت کرتا ہوں وہ مر گئ ھے ، ایسے تھوڑی ھو سکتا ھے بھائی میں بھی مر جاؤں گا بھائی۔۔۔"
" کس نے کہا تم سے ساحر۔۔۔۔؟؟؟
لمحوں میں اس کی آنکھیں سرخ ھوئی تھیں۔۔۔
" بھائی صبح میں نے ان کی باتیں سن لیں کہ اب ساحر بابا ٹھیک ہو جائیں گے کیونکہ اگر وہ میری نا ہوئی تو کسی اور کی بھی نہیں ھو پائی ، مار دیا اس کو ، کیا یہ سچ ہے بھائی بولیں نا۔۔۔۔"
ایول سے الگ ھو کر وہ اس سے سوال کرنے لگا۔۔۔
" ساحر دیکھو تم نے تو اسے چھوڑ دیا تھا اب پھر وہ مرے جیئے ہمیں کیا اس بات سے مطلب ، تم کیوں خود کو بدحال کیے جا رہے ہو شاباش جاؤ نہاؤ کپڑے بدلوں اتنے دنوں سے ایک ہی کپڑے پہنے ہوۓ ہیں بیٹے۔۔۔"
ساحر کے چہرے کو تھامے آنسو صاف کرتے ھوئے وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
" بھائی مجھے کچھ بھی نہیں کرنا اور رہی بات میری محبت کی تو کیا ہوا جو وہ میری نا ہو سکی ، ایٹلیسٹ وہ زندہ تو رہتی اسی کے سہارے میں زندگی گزار لیتا ، اب تو وہ مجھ سے بہت بہت دور چلی گئ ہے بھائی لیکن بھائی آپ بتائیں آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں نا۔۔۔۔"
ایول کے دونوں ھاتھ تھامے وہ آنسو بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
" ساحر بچے تو میری پوری زندگی ہے یہ کیسا سوال کر رہا ہے تو۔۔۔"
" ھاں تو بھائی ایک رحم کریں مجھ پر مجھے بھی مار دیں بھائی ، کم از کم مرنے کے بعد ہی ہم ایک ہو جائیں گے پلیز بھائی کیل می پلیز۔۔۔"
ایول کی بندوق اس کی جیکٹ سے نکال کر اپنی پیشانی پر رکھے ساحر زبردستی وہ بندوق ایول کو پکڑانے لگ گیا۔۔۔
" ساحر ہوش میں آؤ ، یہ کیا بولے جا رہے ہو تم ، جتنی محبت میں تم سے کرتا ہوں اتنی تم بھی مجھ سے کرو بیٹا ، ایک لڑکی کے لیے تم اپنے بھائی کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہو۔۔۔۔"
اپنے جان سے عزیز بھائی کی حالت دیکھ ایول کی آنکھوں میں آنسو آ گۓ ساحر کو کھینچ کر ایول نے اپنے گلے لگا لیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔
" کیسے برداشت کروں میں یہ غم بھائی ، اس محبت کا غم آپ کو نہیں معلوم دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل اپنی محبت سے دور رہنا ہوتا ہے بھائی۔۔۔۔"
ہچکیوں کے درمیان با مشکل اسنے یہ الفاظ ادا کیے۔۔۔
" ایسا کچھ بھی نہیں ہے ساحر محبت کے سوا اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے زندگی میں کرنے کو ، کچھ ختم نہیں ھوا تو کیوں ایسے سوچ رہا ہے۔۔۔۔"
ساحر کے بالوں میں بوسہ دیتے وہ اسے محبت سے سمجھانے لگا۔۔۔
" آپ نہیں جانتے بھائی ، یہ آپ صرف اس لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ ابھی تک اس مرض سے کوسوں دور ہیں لیکن میرے ساتھ شرط لگا لیں جس دن آپ کو محبت ہو گئ تو آپ کیا کیا کرتے پھریں گے اس بات کا ھوش خود آپکو نہیں ھو گا ، میرا بھائی دی موسٹ فیمس پرسن ایک مجنوں بن کر رہ جاۓ گا دیکھ لینا آپ ، جس سے لوگ ڈرتے ہیں وہ خود ڈرے گا کہ کہیں اس سے اس کی محبت دور نا ہو جاۓ۔۔۔۔"
" ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ یہ مت بھول میں کون ہوں ، اب تک تو لاکھوں لڑکیاں روز ملتی ہیں مجھ سے ، ایسی مجھے تو کوئی نا دیکھائی دی جس سے مجھے محبت ھو ، مطلب آگے بھی مجھے ایسی کوئی لڑکی نہیں ملے گی۔۔۔۔"
ایول نے صاف انکار کر دیا اس بات سے مگر ساحر قہقہہ لگائے ھنسے لگا اور ایول سے الگ ھو کر اسے کاندھوں سے تھام کر دیکھنے لگا۔۔۔
" بھائی جن سے ہمیں محبت ہونی ہوتی ہے نا ، اتنی بھیڑ میں بھی ہمیں وہ نظر آ جاتی ہے اور ایسی نظر آتی ھے کہ دوبارہ کسی اور پر نظر جاتی ہی نہیں۔۔۔۔"
" اچھا بس کر ساحر اب جا ، جا کر فرش ہو جا پھر آج میں تجھے ایسی جگہ لے کر جاؤں گا جہاں پر تو کچھ دیر کے لیے سب کچھ بھول جاۓ گا اوکے۔۔۔"
ساحر کی باتوں پر نظریں چراتے وہ بات بدل چکا تھا۔۔۔
" مجھے کہیں نہیں جانا بھائی ، مجھے بس یہیں رہنا ہے پلیز آپ جائیں۔۔۔۔"
" پر مجھے تو جانا ہے اور میرے ساتھ تو بھی چل رہا ہے سمجھا۔۔۔۔"
" بھائی مجھے نہیں جانا پلیز کچھ دیر کے لیے مجھے اکیلا رہنے دیں۔۔۔۔"
چیخنے کے ساتھ ہی زبردستی ایول کو روم سے نکال کر ساحر نے روم اندر سے لاک کر لیا ، یہ منظر دیکھ باہر کھڑے غنڈے ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگ گۓ۔۔۔
" اپنے بھائی کے سامنے نہیں لگتا کہ یہ ایول سر ہوں گے کیونکہ ایول سر کو نا ہی کسی بھی چیز پر رحم آتا ہے اور نا ہی پیار مگر اپنے بھائی کے لیے مرنے لگتے ھیں وہ اس کے ساتھ ہی ہم نے ایول سر کو ہنستا ہوا دیکھا ہے ورنہ وہ تو کبھی مسکراتے بھی نہیں اور ایول بھی تو صرف وہ اپنے بھائی کے لیے ہی بنتے ہیں۔۔۔۔"
ابھی وہ سب آپس میں سرگوشیاں ہی کر رہے تھے جب ایول ان کے قریب چلا آیا۔۔۔
" کیا میری شکل کیا دیکھ رہے ہو جا کر اپنا کام کرو اور ہاں سب سے ضروری بات کس نے یہ منہ ماری کی تھی ، وہ مر گئ ہے۔۔۔؟؟؟
ایول کے سوال پر سبھی غنڈے خاموش کھڑے رھے یہی بات ایول کے غصے کو ھوا دینے کا سبب بن رہی تھی۔۔۔۔
" بھونکوں گے کس نے یہ بکا تھا ورنہ سب کو سزا ملے گی۔۔۔۔"
سزا کی بات سن وہ سبھی ایک ساتھ بول پڑے۔۔۔۔
" اس موٹے نے بکا تھا سر۔۔۔۔"
" اچھا اس موٹے کو اپنا پیسہ کھلا کھلا کر اتنی چمٹری چڑھا دی و اب کچھ زیادہ ہی بکنے لگ گیا ہے میرے خلاف تو ، اگر آج میرے بھائی میری جان کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا سوچ ، میری تو پوری دنیا ہی ختم ہو جانی تھی صرف اور صرف تیرے منہ مارنے کی وجہ سے۔۔۔۔"
ایک پل میں ہی ایول کا چہرہ خوفناک حد تک سنجیدہ ھو چکا تھا۔۔۔۔
" سر معاف کر دیں ، مجھے نہیں معلوم تھا ساحر بابا وہاں موجود ہیں سوری سر۔۔۔۔"
" تیری یہ سوری مجھے نہیں چاھیے ایسے شخص کو تو زندہ رھنے کا بھی حق نہیں جسے اپنی زبان پر کنٹرول نہیں رہتا یہ لے بندوق اپنے آپکو خود تو گولی مار ، چل جلدی سے میرا ٹائم خراب مت کر۔۔۔"
اپنی بندوق نکال اس غنڈے کو پکڑاتے ایول نے گویا اسے حکم دیا۔۔۔
" سر یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟
خوفزدہ نظروں سے ایول کو دیکھتے وہ رو دینے کو تھا۔۔۔
" فوراً سے جو میں نے کہا ہے وہ کر کیونکہ اگر میں نے تجھے مارا تو وہ اذیت تکلیف برداشت نہیں کر پاۓ گا تو ، اب سوچ لے ویسے مرنا بہتر ہے یا ایول کے ہاتھوں۔۔۔"
ایول کی دھمکی سے ڈرتے جلدی سے اس نے ایول کے ہاتھوں سے بندوق لے لی اور اپنے سر پر رکھ دی۔۔۔
" اب کیا تیرا باپ آ کر چلاۓ گا اسے ،چلا جلدی چلا ورنہ میں ماروں گا۔۔۔۔"
غصے سے ایول کے چیخنے پر ڈرتے ھوئے اس نے گولی چلا دی اور وہیں پر ہی وہ گر کر مر گیا تب نفرت زدہ نظروں سے اسے دیکھتے وہ اپنے چہرے کا رخ موڑ چکا تھا۔۔۔
"صاف کرو یہ سب ،اگر ساحر نے دیکھ لیا تو پھر سے دکھی ہو جاۓ گا چلو جلدی، کیا فضول کے لوگ رکھے ہوۓ ہیں میں نے ، کسی کام کے نہیں ، یہ بندوق صاف کر کے میرے کمرے میں رکھ دینا ، سمجھے لگو کام پر۔۔۔"
غصے سے چیختے ایول وہاں سے چلا گیا جبکہ خوفزدہ سے کھڑے وہ غنڈے اپنے ساتھی کے مردہ وجود کو اٹھانے لگ گئے۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
سعاد نے عروج کو جو پیسے دیے تھے آفس سے واپسی پر وہ ان کا سامان خرید کر گھر واپس آ گئ تھی۔۔۔۔
" امی میں آ گئ اور دیکھیں راشن بھی لے آئی ہوں میں ، آج میری کمائی ایڈوانس میں مل گئی مجھے ساتھ ہی نوکری بھی امی۔۔۔۔"
صحن سے ہی وہ بولنا شروع ھو گئی تھی لیکن بدلے میں ممتاز بیگم نے کوئی جواب نا دیا وہ تو بس ایک ہی جگہ دیکھتی رہتی تھیں کیونکہ دماغ پر ان کے کافی برا اثر ہوا تھا عروج نے اپنی آنکھوں میں در آئی نمی کو ھاتھ سے صاف کیا اور ممتاز بیگم کو گلے لگا کر پیشانی چومنے کے بعد ان کے کمرے سے نکل کے وہ خود فریش ھو کر کچن میں جا کے کھانا بنانے لگی جو کچھ ہی دیر میں تیار ھو گیا تب عروج نے اپنی ماں کو کھانا کھلایا اور پھر خود کھانا کھا کر چھت پر چلی گئ وہاں پر موجود چڑیوں سے عروج باتیں کرنے لگ گئ جیسا کہ ہمیشہ کرتی تھی وہ اب اور کوئی تھا بھی تو نہیں اس کا جس سے اپنا دکھ درد بانٹ پاتی۔۔۔
" تم لوگوں کے لیے میں اپنی بہن کو اگنور کرتی تھی صرف اس لیے کہ تم لوگ دعائیں دو ہمیں جس سے ہم پوری عمر خوش رہیں لیکن اب ایسے لگ رہا ہے مجھے جیسے بددعاۂیں دیا کرتی تھی تم ، جاؤ چلی ، جاؤ یہاں سے مجھے نہیں چاہیے تمہاری دعاۂیں۔۔۔۔"
بولتے بولتے رونے کے ساتھ پنجرا کھول کر عروج نے ساری چڑیوں کو اڑا دیا۔۔۔۔
" زندگی برباد ہو گئ ھے ہماری۔۔۔۔"
روتے روتے وہ چھت پر ہی بیٹھ گئی اور کب اس کی آنکھ بھی لگ گئ اسے پتہ ہی نہیں چلا صبح جب عروج کی آنکھ کھلی تو تب صبح کے سات بج چکے تھے وہ روشنی پھیلی دیکھ بھاگ کر نیچے آئی۔۔۔
" او ہو اتنی لیٹ ہو گئ ھوں۔۔۔۔"
جلدی جلدی تیار ہو کر عروج نے ناشتہ بنا کے اپنی امی کو کھلا دیا لیکن خود نہیں کھایا ٹائم جو نہیں تھا اس کے پاس ، پہلے اتنی مشکل سے نوکری ملی تھی اور یہ نوکری اسکے لیے بہت امپورٹینٹ بھی تھی ، ممتاز بیگم سے مل کر وہ تیزی سے گھر کے دروازے کو باہر سے لاک لگا کے جلدی جلدی قدم اٹھاتی پیدل ہی آفس پہنچ گئ۔۔۔·
اگلے دو دن تک عروج آفس نہیں گئ یعنی وہ سعاد مرزا کی نوکری کو خیرآباد کہہ چکی تھی اس دوران وہ نئی نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی تب اسے ایک مہنگے ہوٹل میں ویٹریس کی نوکری مل گئ رات کی شفٹ میں اسے کام کرنا تھا ھوٹل کے مالک نے بھی جان بوجھ کر ایک خوبصورت جوان لڑکی کو ویٹریس کی نوکری دے دی تاکہ اس بنا پر لوگ زیادہ آئیں گے اسکے ھوٹل میں۔۔۔۔
عروج نے پہلے دن جب کام کرنا شروع کیا تو امیر لوگ وہاں پر اسکے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کرنے لگے کبھی جان بوجھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتے تو کبھی بے ہودہ بات کر کے اس کو رونے پر مجبور کر دیتے ، سب کچھ وہ معصوم برداشت کرنے پر مجبور تھی کیونکہ پیسوں کی اشد ضرورت ھونے کی وجہ سے اسے اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنا پڑتا۔۔۔۔
" پیسے چاہیںے تو ہم سے مانگ لے ، بارش کر دیں گے پیسے کی تجھ حسینہ پر۔۔۔۔"
آج پھر ایک بوڈھے امیر شخص نے اس کی کمر میں چٹکی کاٹتے ساتھ ہی اسے گھٹیا بات کی تب وہاں سے بھاگ کر ایک کونے میں جا کے وہ اپنا پسندیدہ کام کرنا یعنی رونا شروع ھو گئی۔۔۔۔
" کیسی بے حس یہ دنیا ہے اگر کوئی مجبور لڑکی ایسی جگہ کام کر رہی ہے تو اس کی کوئی عزت نہیں ھے کیا وہ فری کا مال ھو گئی ، اس کے ساتھ کچھ بھی کریں گے کیا ، خوف خدا بھی نہیں ان میں ، پہلے سعاد سر جن پر میں نے اتنا بھروسہ کیا انھوں نے برباد کر دیا مجھے اور اب یہ لوگ ، امیر لوگوں کی سوچ ہی انتہائی گھٹیا ہوتی ہے ویسے تو وہ پیسوں سے بہت امیر ہوتے ہیں لیکن سوچ سے انتہائی غریب ، قابل رحم ھوتے ھیں ایسے لوگ۔۔۔۔"
زیر لب وہ خود سے ہی بڑبڑا رہی تھی کہ تب مینجر نے آ کر اس کو مخاطب کیا۔۔۔
" ادھر کیوں کھڑی ھو ، جاؤ باہر کسٹمرز ویٹ کر رھے ھیں۔۔۔"
مینیجر کی ڈانٹ سنتے ہی وہ سر اثبات میں ہلاتی تیزی سے دوبارہ باہر جا کر اپنے کام میں جٹ گئی ، دور ایک کونے میں بیٹھا شخص کب سے اسی کو نظروں کے حصار میں لیے ھوئے تھا اس بات سے بے خبر تھی وہ ، مزید کچھ دیر گزرنے کے بعد اچانک اس نے اشارہ کر کے عروج کو اپنے پاس بلا لیا وہ معصوم اس کی نیت سے بے خبر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی کہ کب اور کیا وہ آڈر دیتا ھے مگر اس نے تو سیدھا عروج کا ہاتھ ہی پکڑ لیا اس کی گرفت کافی مضبوط تھی جو لاکھ کوششوں کے باوجود عروج اس شخص سے اپنا ہاتھ چھڑوانے میں ناکام ثابت ھو رہی تھی مزید بے باک ھوتے وہ شخص اپنے دوسرے ہاتھ سے عروج کے کاندھے کو پکڑ اسے دبانے لگا اگلے ہی پل اچانک ایک شخص ان دونوں کے قریب آیا اور کھینچ کر ایک طماچہ اس شخص کے منہ پر جڑ دیا۔۔۔۔
" تجھے شرم نہیں آتی کسی لڑکی کے ساتھ بد تمیزی کرتے ہوۓ اور تم کب سے ہاتھ چھڑوانے کی صرف کوشش کرے جا رہی ھو یہ نا ہو سکا اس کے منہ پر ایک زور دار تپھڑ مار دو۔۔۔۔"
اپنے دائیں جانب سے کسی کی با روعب آواز سن کر روتے ھوئے جب عروج نے اس شخص کی طرف دیکھا تو بالکل حیران رہ گئ۔۔۔۔
" سعاد سر آپ یہاں۔۔۔۔؟؟؟
" ہاں میں یہاں ، میں تو ہمیشہ سے ادھر آتا ھوں یہ سوال مجھے پوچھنا چاھیے تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ بھی رات کے اس وقت ، کیا اس لیے میری جاب چھوڑی تھی تم نے تاکہ یہاں کام کر سکو ، تمہیں معلوم بھی یہاں پر کس قسم کے لوگ آتے جاتے ہیں دیکھا نا ابھی کیسے اس گھٹیا شخص نے تمہارے ہاتھ کو پکڑ لیا ، عزت دار لوگ ایسی جگہاؤں پر کام نہیں کرتے مس عروج ، اتنی ہی بد نام جگہ ھے یہ اور تم ایک لڑکی ہو کر یہاں کام کر رہی ہو عقل نام کی کوئی چیز ھے بھی کہ نہیں تم میں۔۔۔۔"
سعاد کو تو مانو آگ لگ گئی ھو جو وہ نان سٹاپ برسے ہی گیا اس پر۔۔۔۔
" سر یہ میری لائف ہے میں یہاں پر کام کروں یا کسی بھی جگہ آپ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ھونا چاھیے۔۔۔۔"
اپنے آنسو صاف کرتی وہ نظریں جھکائے بولی۔۔۔
" اس بات سے لینا دینا ہے مجھے کیونکہ تم نے مجھ پر ایک گھٹیا الزام لگا کر اس جاب کو چھوڑ دیا تھا تو پھر کسی اچھی جگہ نوکری کرتی تم نا کہ یہاں ذلت بھری نوکری ، کیوں کر رہی ہو یہاں پر کام ، جواب دو مجھے۔۔۔۔"
" ھاں کرتی ھوں یہاں کام کیونکہ کوئی بھی یہاں پر آپ کی طرح بد تمیزی نہیں کرتا میرے ساتھ۔۔۔۔"
ہمیشہ کی طرح اب بھی وہ غصے میں بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی بولے جا رہی تھی وہیں سعاد کی پیشانی پر موجود بلوں میں اصافہ ھونے لگا۔۔۔
" او اچھا ، زرہ بتانا پسند کریں گی آپ ، میں نے ایسا کیا کر دیا تھا اس رات ، بولو کچھ یاد بھی ہے تمہیں جو الزام لگائے جا رہی ھو۔۔۔۔"
ان دونوں کی بحث سن سبھی ارد گرد موجود لوگ اکٹھے ہو کران دونوں کی باتیں سنے لگے جس کی ان دونوں کو ہی اپنے غصے میں پرواہ نہیں تھی۔۔۔
"دماغ اور کان کھول کر سن لو میں نے تو کچھ نہیں کیا تھا تمہارے ساتھ ، لیکن اس شخص نے فلحال تو تمہارا ہاتھ پکڑا تھا ناجانے بعد میں کیا کیا کرنا تھا اس نے تمہارے ساتھ ، تمہارے لیے یہی اچھا ہو گا ، چپ چاپ تم یہ نوکری چھوڑ دو اگر میرے ساتھ تم کام نہیں کر سکتی ، نفرت کرتی ھو مجھ سے ، تو یہاں پر بھی میں تمہیں یہ گھٹیا کام ہر گز نہیں کرنے دوں گا۔۔۔۔"
سنجیدگی سے عروج کو گھورتے وہ اس سے بولا۔۔۔
" کیوں آپ ہوتے کون ہیں ایسا کہنے والے ، میں تو یہیں پر ہی نوکری کروں گی ، مرضی میری لائف میری آپ دور رھیں مجھ سے تو بہتر ھو گا۔۔۔۔"
عروج نے بھی بغیر کسی لحاظ کے چیختے ھوئے سعاد کو جواب دیا تبھی جسے سعاد نے تپھڑ مارا تھا وہ شخص اٹھ کر سعاد کا گریبان پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کر گیا۔۔۔
" تیری کیا بیوی لگتی ہے یہ جو تو اس کی اتنی فیور کر رہا ہے جب یہ خود یہاں نوکری کرنا چاہتی ہے ، اسے مردوں میں رہنا پسند ہے تو تجھے کیوں مرچی لگ رہی ہے۔۔۔۔"
" تیری تو ، تو مجھے بکواس کرے گا مجھے ، سالے تو نے ھاتھ کیسے لگایا۔۔۔۔"
بے رحمی سے سعاد اس شخص کو مارنے لگ گیا کہاں کا اور کس بات کا غصہ وہ کہاں نکال رھا تھا ، سبھی لوگ ان دونوں کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگے جبکہ عروج یہ سب دیکھ کر پھر سے رونا شروع ھو گئی تب چڑتے ھوئے آخری مکا اس شخص کے منہ پر جڑتے وہ پلٹ کر عروج کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
" تمہیں رونے کے سوا اور کچھ آتا بھی ہے کہ نہیں ہر بات پر روتی ہی رہتی ہو ، سن لیا اس کتے نے بھی کہہ دیا ، تمہیں ہی شوق ہے مردوں کے بیچ رہنے کا اب تو ایک نے بات کی ہے لیکن پھر سبھی یہی بات کہیں گے ، بات سن تو ھاں تو ہی ، مینجر ھے یہاں کا رائٹ ، اگر یہ لڑکی یہاں دیکھائی دی مجھے تو یہ ہوٹل تو سمجھو گیا۔۔۔۔"
اپنے قریب کھڑے مینیجر کو گھورتے شہادت کی انگلی اٹھا کر وہ اسے وارننگ دینے لگا۔۔۔
" نہیں سر آپ غصہ مت ھوں ، اے لڑکی نکلو یہاں سے ، سر ہم تو ابھی اسے نوکری سے فارغ کرنے لگے ہیں ، سمجھ نہیں آئی تمہیں نکلو ابھی۔۔۔۔"
مینیجر کے چیخنے پر عروج روتے ہوۓ ھوٹل سے باہر نکل گئی وہ مسلسل آنسو بہاتی سڑک پر چلتی اپنے گھر جا رہی تھی , سعاد بھی اس کے پیچھے ہی ھوٹل سے باہر نکلا اور اب اس کے ساتھ ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر سلولی سلولی ڈرائیو کرتا ، گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے وہ عروج کو ہی مسکرا کر دیکھے جا رھا تھا۔۔۔
" اب کیا مسلۂ ہے آپ کا کیوں پیچھا کر رھے ھیں میرا ، نوکری تو چھڑوا دی میری پھر بھی سکون نہیں ملا ، اب اور کیا چاہتے ہیں آپ ، کیا مر جاؤ میں پھر خوش ھوں گے آپ ، پلیز جان چھوڑ دیں میری غلطی ہو گئ جو آپ کے آفس جا کر نوکری مانگ لی تھی میں نے۔۔۔۔"
سعاد کو دیکھتی وہ بھرائی ھوئی آواز میں اسے کوسنے لگی ، جبکہ یہ سن کر وہ فوراً ہی سنجیدہ ھو گیا تھا۔۔۔۔
" گاڑی میں بیٹھو پھر آرام سے بات کرتے ہیں۔۔۔۔"
سنجیدگی سے اس نے کہا۔۔۔۔
" نہیں غلطی ایک بار ہی ہوتی ہے انسان سے ، مجھے آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی آپ جائیں جان چھوڑیں میری پلیز۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ اپنے قدموں میں تیزی لا چکی تھی وہیں سعاد اپنے لب بھینچتا گاڑی سے باہر نکل آیا اور دو ہی قدموں میں عروج کے سامنے کسی دیوار کی مانند جا کر کھڑا ھو گیا۔۔۔
" اتنی رات ہو چکی ہے اور بارش بھی ہونے والی ہے تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں گا میں ، بغیر کسی نخرے کے چلو میرے ساتھ۔۔۔۔"
" آپ کیوں میری اتنی فکر کرنے کے ڈرامے کر رہے ہیں سعاد سر ، کیا چاہتے ہیں آپ ، مجھے مرے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے ، کوئی تماشہ نہیں چاہیے مجھے آپ جائیں۔۔۔۔"
سعاد سے کہتی وہ اس کے قریب سے گزر کر پھر سے چلنے لگی۔۔۔۔
" عروج سنائی نہیں دے رھا تمہیں ، چلو ابھی میرے ساتھ۔۔۔۔"
سعاد نے بلند آواز پھر سے اپنی بات دہرائی اتنے میں بارش ھونا شروع ہو گئ تھی تو جو دو چار لوگ سڑک پر دیکھائی دیتے تھے اب وہ بھی بھاگ کر وہاں سے کہیں چلے گۓ یعنی سنسان سڑک پر اب عروج اور وہ ہی موجود تھے۔۔۔
" بارش ہونے لگ گئ ہے عروج اور اتنا ویران راستہ ہے کچھ تو عقل کا استعمال کرو ،یار چلو میرے ساتھ۔۔۔۔"
" مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا کہیں بھی ، میں خود کو سنبھالنا جانتی ھوں ، پوری زندگی کیا آپ میری حفاظت کریں گے نہیں نا ، مجھے خود ہی اپنے آپ کو سنبھالنا سیکھنا پڑے گا سعاد سر ، اور آپ کیوں بھیگ رہے ہیں یہاں کھڑے ھو کے ، پلیز اپنے گھر جائیں آپ۔۔۔۔"
عروج ایک مرتبہ پھر سے انکار کر کے جانے لگی کہ فوراً سعاد نے اسکی بازو پکڑ کر اسے روک لیا۔۔۔
" تم ایسے نہیں مانو گی ، خاموشی سے چلو میرے ساتھ ، دماغ خراب نہیں کرو میرا۔۔۔۔"
زبردستی عروج کو کھینچتے وہ گاڑی کی طرف جانے لگ گیا تب وہ جسے پہلے سعاد پر غصہ تھا اس نے جب اس کی یہ حرکت دیکھتی تو ایک جھٹکے سے اپنی بازو اس کی گرفت سے آزاد کروا کے اس نے سعاد کو تپھڑ دے مارا۔۔۔۔
" ہر بات ہر کام میں آپ کی مرضی نہیں چلے گی سعاد مرزا ، یہ میری زندگی ہے میں جب چاہوں جیسے چاہوں اسے جیوں ، کوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں ھے میرا آپ سے ، آپ کیوں زبردستی اپنی مرضی مجھ پر تھوپنتے ھیں کس حیثیت سے ، جواب دیں مجھے۔۔۔۔"
عروج کے چیخنے پر سعاد اپنے گال پر ھاتھ رکھے غصیلی نظروں سے اس کو گھورنے لگا۔۔۔
" کیا دیکھ کیا رہے ہیں آپ ، اب کیا غصہ آ رہا ہے مجھ پر ، جان سے مار دینے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے کیونکہ آپ جیسے موسٹ فیمس پرسنالٹی پر دو مرتبہ ھاتھ اٹھا دیا میں نے ، پلیز آئی ریکوسٹ یو ، جان سے مار دیں مجھے ، تھک گئی ھوں میں مجھے بھی کوئی شوق نہیں ھے ایسی زندگی جینے کا ، آپ کیا جانیں گھر میں جب ایک روپے بھی موجود نا ہو تو تب کتنی فکر ہوتی ہے یہ مجھے ہی معلوم ھے بے بسی سے انسان کا دل کرتا ھے مر جائے ، امی کی دواۂیاں گھر کا راشن سب کچھ کیسے مینج کروں گی ميں ، اتنی مشکل سے نوکری ملی تھی وہ بھی آپ کی وجہ سے چھوٹ گئ ، ہو جائیں خوش اب آپ ، جیت گئے آپ تو اب کیا چاھیے مجھ سے۔۔۔۔"
" یو نو واٹ ، تم ڈیزرو وہی کرتی ہو جس کی وجہ سے پاگل ھوئے جا رہی ھو ، پہلی مرتبہ اس دنیا میں موجود کسی انسان کی میں نے سعاد مرزا نے پراہ کرنے کی کوشش کی ، لیکن تم جیسے لوگ یہ چاہتے ہی نہیں ہو کوئی تمہاری مدد کرے ، اور رہی بات اس رات کی تو یہ دیکھ لو وہاں پر موجود کیمرے کی فوٹیج اس رات ہمارے بیچ کچھ بھی نہیں ہوا تھا اب دوبارہ مجھ پر کوئی بھی گھتیا الزام مت لگانا۔۔۔"
اپنا موبائل نکال کر سعاد نے ایک ویڈیو چلا کے عروج کے سامنے کر دیا ، جیسے ہی عروج نے وہ ساری ویڈیو دیکھ لی ویسے ہی پلٹ کر غصے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کیے چلا گیا جبکہ عروج کو اب ڈھیروں شرمندگی نے ان گھیرا تھا۔۔۔۔
" افففف کتنی بڑی پاگل ہوں میں ، سعاد سر کو دو مرتبہ تپھڑ مار دیا ، کتنی باتیں سنائی غصے میں بالکل پاگل ھو گئی تھی میں ، یہ سب اس دنیا میں موجود بھیڑیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے انسان کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کون سا انسان ہمارے ساتھ مخلص اور اچھا ہے اور کون برا ، سر تو واقعی میں اچھے انسان ھیں میں نے ٹھیک نہیں کیا ان کے ساتھ ، کتنی بڑی غلطی ہو گئ مجھ سے اب تو میں معافی بھی مانگ نہیں سکتی۔۔۔۔"
راستے میں کھڑی وہ خود کو ہی کوسے جا رہی تھی جب اچانک ایک گاڑی اسکے قریب آ کر رک گئ اس میں بیٹھے کچھ لڑکے ڈرنک کر رہے تھے مگر اب ان کی نظریں عروج کو گھورنے میں مصروف تھیں۔۔۔
" اکیلی کیا کر رہی ہو اتنی بارش میں ، ہمارے ساتھ چلو مزے کریں گے۔۔۔۔"
ان کی نازیبا گفتگو سن عروج خوف زدہ ھو کر چپ چاپ تیزی سے چلنے لگ گئ۔۔۔۔
" کیا ہوا بات تو سنو ہماری اتنا حسین موسم ہے اور اوپر سے اتنی حسین لڑکی آج تو سچ میں دوگنا مزہ آ جاۓ گا ، بھاؤ کیوں کھا رہی ھے ، جتنے چاہے پیسے لے لینا ایک مرتبہ چلو تو سہی ہمارے ساتھ۔۔۔۔"
مسلسل عروج کا پیچھا کرتے وہ بولے ہی جا رہے تھے۔۔۔
" بکواس بند کرو اپنی ورنہ میں پولیس کو بلا لوں گی۔۔۔۔"
رک کر وہ انھیں دھمکی دینے لگی تبھی گاڑی روک اس میں سے دو لڑکے باہر نکل پڑے۔۔۔
" او رئیلی پولیس کو بلاؤ گی لیکن تمہاری سنے گا کون کیونکہ شریف گھرانے کی لڑکیاں آدھی رات کو سڑکوں پر یوں اکیلی نہیں پھرتی ، اب ڈرامے بند کر پارسا بننے کے ، پکڑ اسے گاڑی میں ڈال۔۔۔۔"
زبردستی عروج کو پکڑ کر وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے جانے لگ گۓ کہ تبھی سعاد جسکی گھڑی تب عروج کے بازو جھڑکنے پر سعاد کی بازو سے نیچے اسی جگہ گر گئ تھی وہ اس کی فیورٹ گھڑی تھی سعاد کی نظر اپنی بازو پر پڑی تو یاد آنے پے وہ اس گھڑی کو واپس لینے وہیں دوبارہ آ گیا تب اسے اپنے سامنے عروج کو کچھ لڑکے کھنچ کر لے جاتے ھوئے نظر آئے ، یہ منظر دیکھتے ہی اس کی کنپٹی کی وینز پھول گئی تھیں اگلے ہی پل اس نے اپنی گاڑی کی سیٹ کے نیچے سے بندوق نکالی اور باہر نکل کر ہوا میں فائر کر دیا۔۔۔۔
" چھوڑ اسے ، تیرے اندر کیا زیادہ گرمی موجود ھے ، ابھی نکالو کیا اسے۔۔۔۔"
سعاد کے چیخنے پر رک کر وہ اسے دیکھنے لگے بندوق کو دیکھتے ہی خوفزدہ ھوتے عروج کو وہیں چھوڑ جلدی سے وہ سبھی گاڑی میں بیٹھ بھاگ نکلے عروج کا دوپٹہ بھی وہ کھینچ کر اپنے ساتھ ہی لے گۓ تھے اور اب وہ کھڑی روتے ہوۓ سعاد کو تھنک یو کہنے لگی مگر وہ اس کے قریب سے گزرتا کافی پیچھے گری اپنی گھڑی اٹھا کر واپس اسے بازو مین پہن کے اپنی گاڑی کی طرف سنجیدگی سے جانے لگا۔۔۔
" سر آئی ایم سوری ، پلیز معاف کر دیں مجھے۔۔۔"
پیچھے سے بلند آواز وہ سعاد سے معذرت کرنے لگی۔۔۔
" کیوں اب کیوں مانگ رہی ھو معافی ، تم تو یہی سب کروانا چاہتی تھی رائٹ ، اگر میں نا آتا تو تمہیں معلوم بھی ہے کیا ہو جانا تھا تمہارے ساتھ ، مجھے تو دو مرتبہ تپھڑ مار دیا بغیر سوچے سمجھے ، ان کی مرتبہ کیا ہوا تھا بولو تب ھاتھوں میں جان نہیں تھی تمہارے۔۔۔۔"
سعاد نان سٹاپ بولے ہی جا رھا تھا وہیں عروج کا سر چکرانے لگا اسے اپنی بہن ماہ نور والا سارا واقعہ یاد آنے لگ گیا تھا کیسے اس کے وجود پر گہرے نشان موجود تھے کیسے کیسے اسے اذیت دی گئی ، یہی سب سوچتے وہ اونچا اونچا چیخنے لگ گئ۔۔۔۔
" نہیں نہیں آپی۔۔۔۔"
چیخنے کے ساتھ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی تھی تب سعاد کا غصہ جیسے ھوا ھو گیا۔۔۔
" عروج عروج سنبھالوں خود کو یار ، بچ گئ ہو تم ، میں تمہیں کچھ نہیں ھونے دوں گا کبھی بھی ، بھروسہ کرو۔۔۔۔"
سعاد کو خود نہیں معلوم تھا وہ کیا بول رھا ھے وہیں عروج اتنی خوفزدہ ہو گئ کہ لپک کر سعاد کے گلے لگ گئ اچانک عروج کا نازک لمس پاتے ہی اس کو کچھ عجیب سا احساس ہوا ، ایسے محسوس ہوا اسے جیسے کسی نے ٹھنڈک ڈال دی ھو اس کے دل میں ، آج سے پہلے ایسا کبھی بھی محسوس نا ہوا تھا اسے۔۔۔۔
" آپی کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہو گا نا سر ، آج تو آپ مجھے بچانے کے لیے آ گۓ کاش تب ، تب بھی کوئی آ جاتا تو میری آپی بچ جاتی ان کو تکیلف دہ موت نہیں ملتی ، میری آپی آج زندہ ھوتیں ، ہماری زندگی یوں برباد نا ہوتی سر آپی کے ساتھ اتنا برا نا ہوتا ، سوچ کر ہی مجھے میرا دل بند ھوتا محسوس ھوتا ھے ، کتنی تکلیف سہی ھو گی انھوں نے۔۔۔۔"
مضبوطی سے سعاد کی شرٹ کو پشت سے مٹھیوں میں دبوچے وہ کانپتی ھوئی اپنی تکیلف بیان کر رہی تھی جبکہ سعاد نرمی سے اس کے بالوں میں ھاتھ پھیرتا اس کو پرسکون کرنے لگا۔۔۔۔
" وہ وقت واپس تو آ نہیں سکتا عروج ، تو پھر کیوں تم ہر وقت اس واقعے کو یاد کر کے دکھی ہوتی ھو ، چھوڑو اسے یار کوشش کرو بھولنے کی ، اور دیکھو کتنی بارش ہو رہی ہے کافی دیر سے بھیگ رہی ھو تم چلو گاڑی میں بیٹھو گھر چھوڑ دوں تمہیں۔۔۔۔"
سعاد کے سمجھانے پر وہ فوراً اس سے الگ ھو کر سر جھکائے کھڑی ھو گئی۔۔۔
" سوری سر میں نے آپ کے ساتھ اتنا برا رویہ اختیار کیا تب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی سچ میں عقل کی کمی ھے مجھ میں ، میری آپی ہی باہر کا ہر کام کرتی تھیں یہاں تک کہ میرے لیے کپڑے بھی وہیں خرید کر لاتیں ، آپی کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں سر۔۔۔۔"
" کیوں نہیں ھو ، ہر انسان کو اللّٰہ نے ایک جیسا ہی بنایا ہے تمہیں اللّٰہ نے دماغ دیا ہے دل دیا ہے تو پھر کیسے تم اپنی آپی کے بغیر کچھ نہیں ھو ، یار اب معلوم ہے تمہیں کی وہ لوٹ کر نہیں آ سکتی تو مضبوط بنو اب تم ہی سہارا ہو اپنے گھر والوں کا اور رہی بات میرے ساتھ برا رویہ اختیار کرنے کی ، اگر تمہیں اس بات کا پچتھاوہ ہو رہا ہے تو جب کبھی بھی میں تم سے کچھ مانگوں تب تم مجھے وہ دے دینا سمپل۔۔۔۔"
مسکرا کر وہ گویا اس کے گلٹ کو ختم کرنے کی کوشش کر رھا تھا وہیں عروج اس آخری بات پر سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
" جی ٹھیک ھے مگر دینا کیا ہو گا سر۔۔۔۔؟؟؟
" یار ابھی تو مجھے نہیں پتہ لیکن اگر دوبارہ کبھی کوئی ایسی بات ہوئی تو تب بتاؤں گا میں تمہیں ، ادھار ھے یہ میرا تم پر ، اب چلو بھی یا ساری رات یہیں پر ہی رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ چل پڑا تو عروج بھی اسکے پیچھے چلتی گاڑی تک آئی اور دروازہ کھول پچھلی سیٹ پر بیٹھنے لگی تب سعاد نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔۔۔
" تمہیں میں تمہارا ملازم دیکھائی دے رہا ہوں کیا ، چپ چاپ آگے آ کر بیٹھو۔۔۔۔"
" نہیں سر میرا وہ مقصد نہیں تھا۔۔۔۔"
شرمندہ ھوتی وہ خاموشی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور دونوں جانے لگ گۓ۔۔۔۔
" پہلے ہی مان جاتی میری بات ، اتنا ڈرامہ نا ہی ہوتا۔۔۔"
" سوری سر مجھے پتہ نہیں تھا۔۔۔۔"
وہ مسلسل شرمندگی سے سر جھکائے یی بیٹھی تھی گیلے کپڑے ہو جانے کی وجہ سے عروج ہلکا ہلکا کانپنے لگی تب سعاد نے اسے ایک نظر دیکھا۔۔۔
" تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے شٹ یار اب پکا صبح تک بیمار ہو جاؤ گی تم۔۔۔۔"
" اللّٰہ نا کریں سر کیونکہ اگر میں بیمار ہو گئ تو امی کو کون سنبھالے گا وہ تو خود ہل جل بھی نہیں سکتیں۔۔۔۔"
اسے خود سے زیادہ اپنی ماں کی پرواہ تھی یہ بات سعاد کو اچھی لگی۔۔۔
" تمہارا اور کوئی بھی اپنا موجود نہیں ہے مطلب کوئی رشتے دار دوست وغیرہ۔۔۔؟؟؟
" جب سے بابا گۓ ہیں رشتے دار بھی دور ہو گۓ ہم سے کہ عورتوں کی ذات ہے کہیں ان سے ہی کوئی مدد طلب نا کر لیں اور پھر اب جب سے آپی والا واقعہ ہوا ہے آس پڑوس سب ایسے نفرت کرتے ہیں ہمارے گھر بھی آنے سے جیسے وہ بدنام ہو جائیں گے میری آپی نے کیا خود یہ سب کیا ہے پھر بھی لوگ ہمیشہ جن کے ساتھ یہ سب برا ہوا ھو بجائے ان کا ساتھ دینے کے سب نفرت کرنے لگتے ھیں جیسے ساری غلطی انکی ھو۔۔۔۔"
ایک مرتبہ پھر سے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔
" تمہارا گھر کہاں پر ہے۔۔۔۔؟؟؟
" سر بس آپ گاڑی یہیں سڑک پر روک دیں کیونکہ اس گلی میں گاڑی جا نہیں پاۓ گی ، میں خود چلی جاؤں گی۔۔۔۔"
" یار تمہارا گھر ہے کونسا۔۔۔۔؟؟؟
" وہ سامنے جو سب سے لاسٹ والا ریڈ گیٹ ہے ، وہ ہے ہمارا گھر ، بہت شکریہ سر۔۔۔۔"
گاڑی سے اتر کر شکریہ ادا کرتی عروج اپنے گھر چلی گئ جبکہ سعاد اس کے گھر میں داخل ھونے تک وہیں رک کر اسے دیکھتا رھا اور پھر جب وہ گھر کے اندر چلی گئی تب گاڑی سٹارٹ کیے وہ اپنے گھر کی جانب جانے لگا۔۔۔۔
بھی خبر لیتا۔۔۔۔
گھر میں کوئی دوا تک موجود نا تھی اور نا ہی عروج کے پاس پیسے تھے جس سے کوئی دوا خریدی جا سکتی ویسے بھی وہ خود ہی دوا لینے جاتی بھی تو کیسے اس سے تو کھڑا تک نہیں ھوا جا رھا تھا جب درد حد سے زیادہ بڑھ گیا تو وہ اپنے حواس بھلائے بے ہوش ہو گئ۔۔۔۔
وہیں دوسری جانب رات سے ہی اسے عجیب سی بے چین نے ان گھیرا تھا اب بھی صبح سے اس کا دل اداس اور بے چین ھوا پڑا تھا کچھ سوچتے اس نے شائستہ سے عروج کا نمبر مانگا اور اسے کال کر دی لیکن عروج بے ہوش ھوئی پڑی تھی ساتھ ہی اس کا موبائل تو خود اس نے توڑ دیا تھا جس وجہ سے اس کا نمبر بند تھا۔۔۔۔
" یہ فون بند کیوں جا رہا ہے یار ، کہیں سچ میں عروج کی طبیعت خراب تو نہیں ، مجھے جانا چاہیے اس کے گھر ، جب تک خود دیکھ نا لیا مجھے سکون نہیں ملے گا۔۔۔۔"
فوراً ایک فیصلہ کرتے وہ تیزی سے آفس سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ گیا کچھ دیر بعد وہ عروج کی گلی کے بالکل سامنے موجود اس کے گھر کے سرخ گیٹ کو منتظر نظروں سے دیکھے جا رہا تھا کہ کب عروج اس گیٹ کو کھولتی ھے ، وہ ایک نظر اسے صحیح سلامت دیکھ کر ہی واپس چلے جانے کا سوچے ھوئے تھا۔۔۔
آدھے گھنٹے تک وہ اسی انتظار میں بیٹھا رہا مگر جب وہ اسے نظر نا آئی جو کہ آتی بھی کیسے تو وہ ایک پل میں گاڑی سے باہر نکل کر عروج کے گھر کی طرف جانے لگ گیا ، سارا محلہ حیرانگی سے اسے دیکھے جا رھا تھا جس کی مہنگی گاڑی سب کو چونکا گئی تھی۔۔۔
" ارے دیکھو تو سہی ، یہ اتنا امیر شخص کس سے ملنے جا رہا ہے۔۔۔۔"
اپنے گھروں کے دروازوں میں کھڑی عورتیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں جس کی پرواہ کبھی سعاد مزرا کو کہاں ھوئی تھی وہ تو ویسے ہی شاہانہ چال چلتا عروج کے گیٹ کے آپس گیا اور فوراً اسے کٹھکٹھانا شروع کر دیا اندر عروج بے ہوش موجود تھی اس لیے کوئی گیٹ کھولتا بھی تو کیسے واجدہ بیگم تو اس حالت میں بھی موجود نا تھیں کہ خود سے بیٹھ بھی پاتیں۔۔۔۔
" یہ عروج کیوں نہیں کھول رہی گیٹ یار۔۔۔۔؟؟؟
پیشانی پر سلوٹیں لیے وہ زیر لب بڑبڑایا وہیں بے ھوش پڑی عروج کو خواب میں دیکھائی دینے لگ گیا جیسے کہ ماہ نور آئی تھی اسکے پاس اسی حالت میں اور خوفزدہ سی وہ عروج سے کچھ کہہ رہی ہے تھی جب غور سے عروج نے وہ باتیں سنیں تو خود بھی وہ خوفزدہ ھو گئی۔۔۔
" کہیں چھپ جاؤ تم ، گیٹ مت کھولنا عروج ورنہ وہ شیطان اندر آ جائے گا ، امی کے ساتھ تمہیں بھی مار دے گا وہ ، بہت بے رحم ظالم ھے وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔"
" آپیییییی۔۔۔۔"
اچانک ہڑبڑا کر ماہ نور کو پکارتی وہ بے ھوشی سے اٹھ گئ ، پسینے میں شرابور وہ آنکھیں پھیلائے اردگرد دیکھ رہی تھی تب اسے گیٹ پر دستک کی آواز سنائی دی کوئی سچ میں ان کے گھر آنا چاہتا تھا مگر کون ، یہی جاننے کی خاطر با مشکل خود کو سنبھالتی وہ آہستہ آہستہ چل کر گیٹ کے قریب گئی اور باہر موجود شخص کا تعارف مانگا تو آگے سے اسے ایک با روعب آواز سنائی دی۔۔۔۔
" عروج میں ھوں سعاد ، تم ٹھیک ھو کیا۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کی آواز سن عروج کو حیرانگی تو ھوئی مگر کچھ سوچنے سمجھنے کی حالت میں وہ موجود نہیں تھی بغیر کچھ سوچے اسنے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔۔۔۔
" سر آپ یہاں۔۔۔۔؟؟؟
اپنا سر ھاتھوں میں تھامے وہ ہلکی سی آنکھیں کھولے بہت آہستہ سے بولی وہیں اسے دیکھ سعاد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔۔
" تمہیں کیا ہوا ہے یار اپنی حالت تو دیکھو۔۔۔۔"
" سر آپ اندر آئیں باہر مت کھڑے ھوں۔۔۔"
عروج کی بات مان کر وہ گھر کے اندر داخل ہو گیا تبھی اچانک سے پھر چکرا کے وہ زمین بوس ھونے لگی لیکن سعاد نے اسے فوراً پکڑ لیا۔۔۔
" او مائے گاڈ کتنا تیز بخار ہے تمہیں ، تم نے میڈیسن لی کیا عروج۔۔۔۔؟؟؟
اسکی پیشانی کو چھوتے سعاد کو اندازہ ھو گیا تھا عروج کے تیز بخار کا۔۔۔۔
" نہیں سر وہ۔۔۔۔"
کچھ الفاظ کے بعد بولنے کی بھی ہمت نہیں رہی اس میں ، بخار اتنا زیادہ تھا اسے کہ عروج سے اب کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔
" تم فوراً سے میرے ساتھ چل رہی ہو سمجھی مجھے کوئی ڈرامہ نہیں چاھیے۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی کاندھے پر اپنی بازو رکھے سہارا دے کر سعاد عروج کو گھر سے باہر لے جانے لگ گیا لیکن عروج سے تو چلا بھی نہیں جا رہا تھا تب سعاد نے کچھ سوچتے اس کو ایک جھٹکے سے اپنی گود میں اٹھا لیا اور گیٹ سے باہر نکل گیا ، سارا محلہ اکھٹا تو پہلے ہی ھو گیا تھا اب یہ منظر دیکھ کر وہ سبھی حیران رہ گئے۔۔۔۔
" یہ ہو کیا رہا ہے سرے عام اتنی بے شرمی توبہ توبہ۔۔۔"
کچھ لوگ اونچی آواز میں بولنے لگے جس کو نظر انداز کرتا وہ جلدی سے اپنی گاڑی تک آیا اور عروج کو سیٹ پر بیٹھا کر گاڑی سٹارٹ کر کے اس کا رخ ہوسپیٹل کی جانب کر دیا کچھ ہی دیر میں وہ دونوں ھوسپیٹل پہنچ چکے تھے ، ڈاکٹر نے عروج کو کچھ انجیکشنز وغیرہ لگا دیے جس سے وہ فلحال پرسکون ھو گئی تھی اور سو جانے کی وجہ سے ہوسپیٹل میں ہی رک گئی تو سعاد بھی اسکے قریب بیٹھ گیا دو گھٹنوں بعد جب بخار اتر گیا اس کا تو نیند سے جاگ کر اس نے دیکھا تو اسے سعاد اپنے قریب بیٹھا دیکھائی دیا۔۔۔۔
" سر مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے کہ آپ آۓ تھے ہمارے گھر لیکن آپ کیوں آۓ تھے وہاں آپ کو بتایا کس نے۔۔۔۔؟؟؟
معصومیت سے اس کو دیکھتی وہ سوال کرنے لگی۔۔۔۔
" بتایا تو کسی نے نہیں بس مجھے معلوم تھا ضرور کوئی پروبلم ہو گئ ہے اس لیے تو تمہارا نمبر بند تھا۔۔۔۔"
" پر سر موبائل ٹوٹ گیا تو نمبر اسی وجہ سے بند ھے اور میں نے ٹھیک ہو جانا تھا ویسے ہی۔۔۔۔"
عروج نے اداسی سے اپنے موبائل نا ھونے کا بتایا جانتی جو تھی وہ اب نا اتنے پیسے ھوں گے اور نا وہ نیا موبائل خرید پائے گی۔۔۔۔
" او سوری یار اس دن کے لیے ، اور پلیز بس کر دو ایسی باتیں حالت دیکھتی تھی اپنی کتنی خراب تھی ، اب چلو اٹھ ڈاکٹر نے میڈسن لکھ دی ہے وہ لے کر چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔"
کھڑے ھوتا وہ عروج کو سہارا دینے لگا تاکہ وہ پھر سے چکرا نا جائے ، ڈرتے ھوئے اپنا ھاتھ عروج سعاد کی پھیلائی چوڑی ہتھیلی پر رکھ کر بیڈ سے نیچے اتر گئی۔۔۔
" سر آپ کیوں ہم پر اتنے احسان کر رھے ھیں جنہیں میں کبھی اتار نا پاؤں ، آپ نے خود ہی کہا تھا مجھے اب خود ہی بہادر بن کر سب کچھ سنبھالنا پڑے گا تو پھر آپ ایسے ہی۔۔۔۔"
آہستہ آہستہ سعاد کا ھاتھ تھامے چلتی وہ اس سے بولی۔۔۔
" ھاں ٹھیک کہا تھا میں نے مگر تمہاری حالت دیکھی تھی تب کتنا خوفزدہ ھو گیا تھا میں ، اور مجھے تو لگتا ہے کوئی میڈیسن بھی نہیں لی ہو گی تم نے۔۔۔۔"
فوراً ہی وہ بات بدل گیا تھا۔۔۔
" سر وہ گھر میں تھی ہی نہیں کوئی میڈیسن تو کہاں سے لیتی۔۔۔۔"
" یار حد ہو گئ ہے اب تو ، نہیں چاھیے تمہیں احسان رائٹ تو جب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی تو دوبارہ اپنی جاب پر آ جانا کیونکہ میں بہت سخت باس ہوں جو فضول میں چٹھیاں نہیں دیتا ، اب چلو گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔"
پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی تک جانے کے بعد دروازہ کھول کر سعاد نے عروج کو اندر بیٹھایا اور پھر خود بیٹھ کے گاڑی سٹارٹ کر دی راستے میں وہ ایک دکان کے سامنے رکا اور وہاں سے ایک قیمتی موبائل لیے واپس آ گیا پھر ایسے ہی اس نے بہت سے فروٹس بھی خرید کر گاڑی میں رکھ دیے مگر جب عروج کو معلوم ھوا تو وہ اسے منع کرنے لگی۔۔۔
" خاموشی سے بیٹھی رھو یہ کوئی احسان نہیں ھے موبائل میں نے توڑا تھا اور ان فروٹس کے پیسے تم اپنی تنخواہ میں سے واپس کر دینا مجھے۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن عروج خاموشی سے اسے دیکھ کر سوچنے لگ گئ۔۔۔۔
" کیا واقعی میں میری اتنی اچھی قسمت ہے جو اتنا احساس کرنے والا شخص میری اتنی مدد کر رہا ہے۔۔۔۔"
لگاتار سعاد کو ہی دیکھتی وہ گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔۔۔
" کیا ہوا کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کے سوال پر وہ گھبرا کر اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔
" ک۔۔۔۔کچھ نہیں سر۔۔۔۔"
اگلی کچھ دیر میں عروج کا گھر آ گیا تب گاڑی سے نکل کر سعاد ان سامان کے شاپرز کو اٹھاۓ اس کے ساتھ اس کے گھر جانے لگ گیا تبھی گلی میں کھڑی ایک محلے کی عورت نے عروج کو پکار کر روک لیا۔۔۔۔
" کیا بہن یہ شریفوں کا محلہ ہے یہاں ایسی بے شرمیاں نہیں چلیں گی ، تمہاری بہن بھی پکا انہی حرکتوں کی وجہ سے مری تھی اب تم شروع ھو جاؤ اسکے نقش قدم پر چلنا۔۔۔۔"
اس عورت کی کاٹ دار باتوں پر عروج رونے لگ گئ مگر اس کے قریب کھڑے سعاد نے ان الفاظوں کے بعد جب عروج کو روتا پایا تو دماغ گھوم ہی تو گیا اس کا۔۔۔
" تم ہوتی کون ہو یہ بکواس کرنے والی اور بے شرمی کہاں سے دیکھائی دی تمہیں ، تم جیسے بے حس لوگوں کو یہ تو دیکھائی نا دیا کسی کی طبیعت خراب ھو سکتی ھے ، جا کر ان کے گھر ہی ایک مرتبہ دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے وہاں کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں ، جانتی بھی ہو تم کتنا تیز بخار تھا اسے ، بے ہوش ہو گئ تھی وہ مگر تم لوگوں کو کیا پرواہ ، اور اگر کوئی احساس کر کے مدد کر دے کسی کی تو تب تم لوگوں کو بہت جلدی بے شرمی نظر آ جاتی ہے لیکن کسی کی محبوری ایک مرتبہ بھی دیکھائی نہیں دیتی اب دوبارہ اس قسم کا بکواس مت کرنا ورنہ میں کیا کروں گا اندازہ بھی نہیں ھو گا تمہیں ، چلو عروج۔۔۔۔"
خونخوار نظروں سے اس دعوت کو گھورتے وہ عروج سے کہتا کھلے ہی گیٹ سے( جو سعاد نے ویسے ہی چھوڑ دیا تھا )گھر میں گھس گیا۔۔۔
" کیا یار کتنے گھٹیا محلے میں رہ رہی ہو تم جہاں پر لوگوں کی اتنی گندی سوچ ہے۔۔۔۔"
گھر میں داخل ھوتے ہی وہ غصے سے بولا۔۔۔
" سر ہم غریب لوگ ہیں ہمارے لیے یہ گھر بھی کسی محل سے کم نہیں ہوتا اور رہی بات لوگوں کی تو چاہے پھر لوگ غریب ہوں یا امیر ان کی سوچ ایک جیسی ہی ہوتی ہے ، ھاں کئ لوگ ہوتے ہے جن کی سوچ آپ جیسی نیک اور اچھی ہوتی ہے مگر آپ نے بھی یہ دیکھا ہو گا نوٹ کی ھو گی بات کہ کئ لوگ بہت بہت امیر ہوتے ہیں لیکن سوچ کے معاملے میں انتہائی غریب ثابت ھوتے ھیں وہ ، بعض اوقات کسی چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر وہ ایسا کچھ کر جاتے ہیں جس سے کئ لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جائیں۔۔۔۔"
" یار عروج چھوڑو ان سب باتوں کو ، یہ بتاؤ کچھ کھایا تم نے ، نہیں کھایا ہو گا آئی نو ، چلو تم یہاں بیٹھو میں فروٹ کاٹ کر دیتا ہوں تمہیں۔۔۔"
صحن میں موجود چار پائی پر عروج کو بیٹھا کر وہ اس سے بولا۔۔۔
" سر آپ رہنے دیں میں خود کھا لوں گی بعد میں۔۔۔"
" نہیں عروج ڈاکٹر نے کہا تھا کچھ ہی دیر میں لازمی میڈیسن کھانی ھے تمہیں اور وہ کچھ دیر اب ہو چکی ہے ، یہ بتاؤ کچن کہاں ھے۔۔۔۔"
سعاد کے سوال پر عروج نے اپنی دائیں جانب اشارہ کر دیا تب سعاد ان فروٹس کو اٹھائے کچن میں گھس گیا اور وہاں سے چھری اور پلیٹ لے کر ساتھ ہی فروٹس کو دھو کر واپس آ گیا خود بھی عروج کے قریب بیٹھ کے وہ سیب کاٹ کر اسکو کھلانے لگا وہیں عروج دیوانہ وار سعاد کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔
" کیا دیکھتی رہتی ہو عروج تم ، جلدی ایپل کھاؤ یار۔۔۔"
سعاد کے سوال پر وہ فوراً سے اپنی نظریں جھکا گئ ایک سیب پورا عروج کو کھلانے کے بعد وہ واپس کچن میں گیا اور گلاس میں پانی لے آیا اب اپنی نگرانی میں ہی اس نے عروج کو میڈیسن کھلا دی جسے بغیر کسی نخرے کے عروج نے بھی کھا بھی لیا۔۔۔
" اچھا پھر اب میں چلتا ہوں کیونکہ تم نے میڈیسن کھا لی ہے ، آنٹی کہاں پر ہیں جاتے جاتے ان سے مل لیتا ہوں۔۔۔۔"
" امی وہ اس روم میں ہیں۔۔۔"
عروج کے اشارہ کرنے پر سعاد تیزی سے ایک کمرے میں چلا گیا تو اسے پلنگ پر چت لیٹی چھت کو دیکھتی ھوئی ممتاز بیگم نظر آئیں ، دبے قدموں کو ان کے قریب گیا اور ان کو سلام کر دیا جس کا اسے کوئی جواب موصول نا ھوا تب افسوس بھری نظر ان پر ڈال کر خاموشی سے وہ کمرے سے باہر نکل کے عروج کو خدا حافظ کہتا گھر سے باہر چلا گیا۔۔۔۔
اپنی گاڑی میں بیٹھ کے اسے ڈرائیو کرتے وقت سعاد گہری سوچ میں پڑ گیا تھا اسے اپنی باتوں اور حرکتوں کی کوئی سمجھ نہیں لگ رہی تھی خود اپنی کیفیت سے انجان تھا وہ۔۔۔
" میں کیوں عروج کی اتنا فکر کرتا ہوں کیوں اس پر مجھے ترس آتا رہتا ھے ورنہ اور بھی تو دنیا میں میرے اردگرد مجبور لوگ موجود ھیں لیکن ان کی طرف تو میں کبھی دیکھتا بھی نہیں پھر عروج ہی کیوں۔۔۔۔؟؟؟
" سعاد مرزا خود کو سنبھال تو ، ایک فیمس پرسنالٹی ہے تیری ، لوگ اب تجھے سوالی نظروں سے دیکھنے لگ گۓ ہیں بس بہت ھو گیا اب عروج کو تو باقی سبھی لوگوں کی طرح ہی ٹریٹ کرے گا۔۔۔۔"
خود سے بڑبڑاتے وہ خود کو کمپوز کر رھا تھا کہ تبھی سعاد کو کسی کی کال آ گئ فوراً سے بغیر نمبر دیکھے کال پک کر کے اس نے موبائل کان سے لگا لیا۔۔۔۔
" کیا ہوا عروج تم ٹھیک ہو نا۔۔۔۔؟؟؟
بغیر کچھ سوچے سمجھے وہ جھٹ سے بول پڑا مگر آگے سے آواز سن اس نے اپنے لب بھینچ لیے۔۔۔
" سر یہ میں ہوں آصف۔۔۔۔"
" او اچھا ، میں ابھی بزی ہوں بعد میں کال کرنا۔۔۔۔"
گاڑی روک کر وہ اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کر کے سٹیرنگ پر ھاتھ مارتا خود کو کوسنے لگا۔۔۔۔
" کیا ہو گیا ہے مجھے ، عروج عروج عروج صرف عروج ہی کیوں ،وہ صرف اب تیری سیکٹری ہے کیوں اسے اپنے دل و دماغ پر حاوی کر رہا ہے تو ، ھو کیا گیا ھے تجھے سنبھال یار خود کو ، مجھے آرام کی ضرورت ہے ھاں میں ھو جاؤں گا ٹھیک ، گھر چلتا ہوں ، سو جاؤں گا تو مائنڈ سیٹ ھو جائے گا۔۔۔۔"
خود سے کہتے وہ واپس گاڑی سٹارٹ کر کے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا وہیں دوسری جانب عروج اسی چار پائی پر لیٹی سعاد کو سوچے جا رہی تھی۔۔۔
" سر کیوں میری اتنی کئیر کرتے ہیں ورنہ سر جیسے اتنے امیر و کبیر شخص میرے لیے اس گندے سے محلے میں کیوں آئیں گے اوپر سے میری اتنی مدد کی انھوں نے ، خیر جو بھی ہے لیکن سر میرے لیے ایک مسیہا بن کر آۓ ھیں ، تھنک یو اللّٰہ جی آپ نے سر کو میری لائف میں بھیج دیا۔۔۔۔"
انھی باتوں کو سوچتی وہ ناجانے کب وہیں سو گئ اگلی صبح عروج کا برتھ ڈے تھا اور آج کا دن ہمیشہ اس کا پسندیدہ دن ہوتا کیونکہ آج کے دن ماہ نور اس کی ہر بات مانا کرتی تھی اور اسے بہت سارے گفٹز بھی دیا کرتی تھی یہی باتیں سوچ سوچ کر صبح سے ہی عروج رو کر خود کا درد بانٹ رہی تھی۔۔۔۔
" آپی آج بہت بہت یاد آ رہی ہے آپ کی ، آئی مس یو سو مچ۔۔۔۔"
اپنی نم آنکھوں کو صاف کرتی وہ خود کو کمپوز کرنے لگی۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
رات پوری اسی بے چینی میں گزار کر وہ صبح سویرے ہی اٹھ کے تیار ھو کر اپنے آفس پہنچ گیا اس کی نظریں عروج کی متلاشی تھیں اسی کو تو دن رات سوچنے لگا تھا اب وہ۔۔۔
" ابھی تک عروج آفس کیوں نہیں آئی کہیں طبعیت پھر سے خراب تو نہیں ہو گئ اس کی ، مجھے کال کر کے پوچھنا چاہیے ، نہیں نہیں سعاد تجھے کیا یار وہ جیسی بھی ہو ، تو اپنا کام کر اور ریلیکس رہ۔۔۔۔"
عروج کو یاد کرتے سعاد ابھی خود سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ اچانک وہ اس کے کیبن میں داخل ھوئی اس کی طبیعت پہلے سے بہتر ضرور تھی مگر مکمل صحت یاب نہیں ھوئی تھی وہ ،لیکن ڈیوٹی تو دینی ہی تھی اسے اس لیے چھٹی کیے بغیر آفس چلی آئی وہیں اسے دیکھ کر سعاد کی آنکھوں کو جیسے ٹھنڈک نصیب ھو گئی ھو۔۔۔۔
" تھینک گاڈ تم آ گئ عروج ، یار اتنی لیٹ کیوں کر دی جانتی بھی ھو کب سے انتظار کر رھا ھوں میں۔۔۔"
عروج کو دیکھتے ہی وہ اسے کہنے لگا۔۔۔
" سوری سر وہ ، آئیندہ سے ایسے نہیں ہو گا کبھی۔۔۔"
اداس چہرے کے ساتھ وہ نظریں جھکائے بولی۔۔۔
" کیا ہوا تم آج اتنی اداس کیوں ہو۔۔۔۔؟؟؟
عروج کے چہرے سے چھلک رہی اداسی بھلا وہ کیسے نا جان پاتا جو اسی پر نظریں ٹکائے ھوئے تھا۔۔۔
" جن کی قسمت سے خوشیاں چھن لی جائیں وہ پھر خوش کیسے رہ سکتے ھیں سر۔۔۔۔"
" عروج لیکن زندگی کا مطلب ہی جینا ہوتا ہے یا تو پھر اداس ہو کر گزار لو یا خوش ہو کر ، گزر تو اس نے جانا ہی ھے ، تم ان سب باتوں کو چھوڑو اور آج ہم نے ایک امپورٹنٹ کام پر باہر جانا ہے تو تم چونکہ میری سیکٹری ہو اس لیے تمہیں بھی میرے ساتھ چلنا ہو گا۔۔۔۔"
عروج کا موڈ ٹھیک کرنے کی خاطر اسنے بات بدل دی تھی۔۔۔
" وہ تو ٹھیک ھے سر پر میں کیسے جاؤں گی آپ ایڈریس بتا دیں پھر۔۔۔۔"
" یار ایڈریس بتانے کی ضرورت نہیں ، تم میرے ساتھ جاؤ گی۔۔۔۔"
" اوکے تو کتنے بجے جانا ہے سر ہمیں۔۔۔۔؟؟؟
یوں ہی نظریں جھکائے وہ اگلا سوال کرنے لگی۔۔۔
" 6 بجے نکلنا ہے۔۔۔۔"
" پر سر تب تو مجھے گھر جانا ہوتا ہے۔۔۔۔"
نظریں اٹھائے وہ اپنی مجبوری بتانے لگی ممتاز بیگم کو سنبھالنا بھی تو ھوتا تھا اسے۔۔۔۔
" تو کیا ہو گیا یار کام کے سلسلے میں ہی جانا ہے ہمیں نا کے انجوائمنٹ کے لیے۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔۔"
سر کو اثبات میں ہلاتی وہ اس کے کیبن سے باہر نکل گئی شام کو سعاد نے عروج کو اپنے پاس بلا لیا۔۔۔
" چلو عروج پھر چلتے ہیں ہم۔۔۔"
" جی سر۔۔۔۔"
عروج کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے وہ آفس سے باہر کھڑی اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ھو کر اچانک عروج سے بولا۔۔۔
" یار وہ میرے گلاسز تو کیبن میں ہی رہ گۓ کیا تم لا دو گی۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔"
فوراً سے عروج بھاگ کر دوبارہ آفس کے اندر چلی گئی اور سعاد کے کیبن میں جا کے اس کے گلاسز لے کر باہر آنے لگی تبھی وہاں پر موجود ایک لڑکی نے اس کو مخاطب کر لیا۔۔۔
" واہ عروج کیا جادو کیا ہے تم نے اب تو تمہارے بغیر سر کو سکون ہی نہیں ملتا لیکن یہ بات کبھی مت بھولنا امیر لوگ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا صرف استمعال کرتے ہیں انھیں اپنی عزت نہیں بناتے اور جو تم آج بڑی خوشی سے جا رہی ہو نا شاید آج ہی تمہیں سر کے ارادوں کے بارے میں معلوم ہو جاۓ تو سنبھل کر رہنا۔۔۔۔"
اس لڑکی کی بات سن عروج بھی ڈر گئ مگر پھر فوراً ہی خود کو ڈپٹ دیا اسنے۔۔۔
" عروج کیوں غلط سوچ رہی ہے تو پہلے غلط سوچنے کا انجام بھگت لیا تھا نا ، ہر شخص ایک جیسا نہیں ہوتا ، سر اچھے انسان ہیں۔۔۔۔"
سعاد کی طرف قدم اٹھاتی وہ مسلسل منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔۔۔
" کیا ہوا عروج اتنی لیٹ کیوں کر دی۔۔۔؟؟؟
"کچھ نہیں سر۔۔۔"
سنجیدگی سے جواب دیتی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تو سعاد نے اسے سٹارٹ کر دیا اور وہ دونوں اپنی منزل کی طرف جانے لگ گۓ۔۔۔
" سر میٹنگ کہاں پر ھو رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟
اپنے خوف کے زیر اثر اس نے سعاد سے سوال کر دیا۔۔۔
" میٹنگ تو میرے فام ہاؤس میں ، یار ایکچولی میٹنگ اس وجہ سے وہاں پر رکھتا ہوں میں کیونکہ وہ میری لکی جگہ ہے جہاں پر ہر کام ٹھیک طریقے سے ہو جاتا ہے میرا ، پہنچنے ہی والے ھیں ہم بس کچھ ہی دور ہے ، میٹنگ اچھے سے ھو جائے پھر اس کے بعد میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں گا۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔۔"
سعاد کے تفصیل سے آگاہ کرنے پر وہ سر ہلانے لگی۔۔۔
" عروج تم کوئی بات کرو یار ، کتنا کم بولتی ہو تم ورنہ تمہاری عمر کی لڑکیاں ہر وقت پڑپڑ ہی کرتی رہتی ہیں۔۔۔۔"
مسکرا کر عروج کو دیکھتے وہ اسے بولنے پر اکسا رھا تھا۔۔۔۔
" میں کیا بات کروں سر۔۔۔۔؟؟؟
" یار کوئی بھی بات کر لو ، کیوں تم کیا اپنی فرینڈز سے بھی باتیں نہیں کرتی ہو۔۔۔۔؟؟؟
ناجانے وہ کیا سننا چاہتا تھا جبکہ عروج اپنی گود میں رکھے ھاتھوں کو گھورے جا رہی تھی۔۔۔۔
" فرینڈز میری کوئی ہیں ہی نہیں اور اگر کوئی ایک دو تھیں اب وہ بھی کالج چھوٹ جانے کی وجہ سے دور ھو گئیں۔۔۔۔"
" کالج چھوڑ دیا تم نے۔۔۔۔؟؟؟
حیرانگی سے وہ اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
" ہاں سر لیکن اب میں جب ٹائم ملا کرے گا گھر میں ہی پڑھ کر پیپرز دے دوں گی۔۔۔۔"
" یار یہ تو غلط کیا تم نے۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن پھر سے عروج خاموش ہو گئ۔۔۔۔
" کیا یار کتنا چپ رہتی ہو تم , اچھا چلو میں ہی تم سے سوال پوچھ لیتا ہوں تم صرف جواب دے دینا۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔"
عروج نے سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔
" تمہاری ہوبیز کیا ہیں یہ بتاؤ۔۔۔۔؟؟؟
" میری ہوبی پڑھائی کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا مطلب کہ میں چاہتی ہوں دنیا میں کوئی بھی ضرورت مند اور مجبور نا رہے ، میرے پاس اتنی دولت آ جائے جس سے میں سب کو امیر کر دوں۔۔۔۔"
اپنی بات کہہ کر ایک نظر اس نے سعاد کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رھا تھا۔۔۔
" اس لیے ہی نہیں آ رہی تمہارے پاس دولت عروج ، جانتی ھو اللّٰہ ہر کسی کو اس کی اوقات میں رکھتا ہے پھر تم کون ہوتی ہے یہ فیصلہ کرنے والی۔۔۔۔"
" تو کیا سر ، میں بھی اس قابل ہوں جو میرے ساتھ ھو رھا ھے۔۔۔۔؟؟؟
عروج نے معصومیت سے سوال کیا۔۔۔۔
" ہاں ، اس لیے تو تم میری سیکٹری بن گئ ، میرے قریب رہتی ھو۔۔۔۔"
سعاد کی لاپرواہی سے کہی گئی باتیں عروج کو حیران کر دیتی تھیں۔۔۔۔
" سر آپ کی کیا ہوبیز ہیں۔۔۔۔؟؟؟
بات کو بدلتے اب کی دفعہ اس نے سعاد سے سوال کر دیا۔۔۔۔
" میری ہوبی ہے اپنا کام کرنا اور اپنوں کے لیے کچھ بھی کر جانا جو بھی میری زندگی میں میرے امپورٹینٹ ہیں چاہے پھر وہ کوئی خونی رشتہ ہو یا دوستی کا۔۔۔۔"
عجیب سی چمک امڈ آتی تھی اس کی نظروں میں عروج سے بات کرتے۔۔۔
" سر آپ کی فیملی میں کون کون ہے۔۔۔۔؟؟؟
" میری فیملی میں صرف ایک ہی میرے پاس رشتہ ہے جو کے میری جان ہے اسی کی وجہ سے ہی میں اس مقام پر پہنچا ھوں کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا وہ غریبوں والی زندگی گزارے کسی چیز کی ضرورت ھو اسے اور میں پوری نا کر سکوں ، اس کی خوشی کے لیے میں ہر حد پار کر سکتا ہوں عروج۔۔۔۔"
" پھر تو بہت لکی ہوں گے وہ جنہیں آپ جیسا رشتہ ملا میری آپی بھی ایسی ہی تھیں اپنی فیملی کے لیے کچھ بھی کر جانے والی۔۔۔۔"
عروج کو دکھی ھوتے دیکھ وہ جھٹ سے بول اٹھا۔۔۔
" عروج میں تم سے ایک پرسنل سوال پوچھوں۔۔۔۔؟؟؟
" پرسنل کیا سر پوچھ لیں۔۔۔۔"
عروج نے فوراً ہی اجازت دے دی۔۔۔۔
" تمہاری زندگی میں کوئی ایسا شخص ہے کیا جس سے تم یو نو مطلب کہ ہر انسان کی زندگی میں کبھی نا کبھی کوئی ایسا شخص اسے ملتا ہے جن سے ہم محبت کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا سوچتے ھیں ، آئی مین۔۔۔۔"
وہ خود نہیں جانتا تھا ایسا سوال کیوں پوچھ رھا ھے۔۔۔۔
" نہیں نہیں نہیں بالکل بھی نہیں سر ، ابھی میری زندگی کا مقصد کام اور پڑھائی ہے بس ، ان سب کاموں کے بارے میں میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔"
عروج کی بات سن سعاد کو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔۔۔۔
" آپ کی زندگی میں ایسی کوئی لڑکی ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
عروج نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا جبکہ وہ تو اس وقت بہت مطمئن اور خوش تھا۔۔۔
" اتنا ٹائم ہی نہیں کبھی ملا مجھے اور نا ہی کوئی ایسی لڑکی ملی جس سے دوبارہ ملنے کی خواہش پیدا ہوئی ھو اس دل میں ، یہ دیکھو آ گیا فام ہاؤس ، چلو جلدی اندر چلتے ہیں۔۔۔۔"
وہ فام ہاؤس کسی ویلا سے کم دیکھائی نہیں دے رھا تھا پورچ میں گاڑی روک دینے کے بعد سعاد کے ساتھ عروج جب اندر داخل ہوئی تو ایک عجیب سا خوف اسے محسوس ہوا لیکن اپنے ڈر کو ختم کرتے ہوۓ وہ خاموشی سے اندر چلی گئ ، لاوئج میں سامنے صوفوں پر دو شخص بیٹھے تھے ، سعاد کو دیکھ وہ کھڑے ھو کر اپنا ھاتھ بڑھائے اس سے حال چال پوچھنے لگے ، اگلی کچھ دیر میں میٹنگ سٹارٹ ھو گئی جسے بہت کانفیڈینس کے ساتھ سعاد انجام دے رھا تھا عروج کو کچھ کچھ دیر بعد وہ مخاطب کر کے ڈیٹیلز مانگ لیتا تب فائل کھول کر وہ سنجیدگی سے بتا دیتی صرف اس کام کے لیے وہ عروج کو اپنے ساتھ لایا تھا ، اچھے سے میٹنگ کرنے کے بعد سعاد نے الوداعی کلمات ادا کرتے ان لوگوں کو چلتا کیا اور پھر اپنی گردن کے پیچھے ھاتھ رکھ کر اس نے صوفے کے ساتھ کمر لگا لی۔۔۔۔
" شکر ہے یار سکون سے میٹنگ ختم ہو گئ۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن عروج نے جب ٹائم دیکھا تو رات کے دس بج چکے تھے۔۔۔۔
" کتنی دیر ہو گئ ہے ہمیں سر۔۔۔۔"
جھٹ سے کھڑی ھوتی وہ سعاد سے بولی۔۔۔
" رک جاؤ یار کچھ دیر آرام کرنے دو پھر چلے جائیں گے ، میں نے تو صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے اب بہت بھوک لگی ھے یار۔۔۔۔"
" سر کچھ لا دوں آپ کے لیے۔۔۔۔؟؟؟
یوں ہی کھڑی وہ اپنی خدمت پیش کرنے لگی۔۔۔۔
" نہیں تم بیٹھو میں ملازم سے کہہ دیتا ہوں وہ لا دیں گے کچھ کھانے کو۔۔۔۔"
" کوئی بات نہیں سر میں بنا دیتی ہوں ، کیا کھائیں گے آپ۔۔۔۔؟؟؟
" کچھ بھی لا دو بس لا دو یار۔۔۔۔"
سعاد کا حکم ملتے ہی عروج کچن ڈھونڈ کر جلدی جلدی چاۓ پراٹھا بنا کر لے آئی ، جیسے ہی اس نے سعاد کے سامنے انھیں پیش کیا تو وہ حیرانگی سے عروج کو دیکھنے لگا۔۔۔
" عروج یہ کیا ہے ، کیا بنا لائی ھو۔۔۔۔؟؟؟
" سر اسے چاۓ پراٹھا کہتے ھیں ، وہ جلدی میں تو اب یہ ہی بن سکتا تھا۔۔۔۔"
خوفزدہ ھوتی وہ آہستہ سے بولی جیسے سعاد ابھی اسے ڈانٹ دے گا۔۔۔۔
" وہ تو ٹھیک ھے لیکن یار اسے کھائیں گے کیسے۔۔۔۔؟؟؟
" سر ایک نوالہ پراٹھے کا اور اس کے ساتھ چاۓ کا گھونٹ ایک مرتبہ ٹرائے کر کے تو دیکھیں۔۔۔۔"
عروج کے سمجھانے پر جب سعاد نے اسے کھانا شروع کیا تو دو منٹوں میں سب چٹ کر گیا۔۔۔۔
" یار یہ تو سـچ میں بہت ٹیسٹی تھا مزہ ہی آ گیا۔۔۔"
کھلے دل سے اسنے عروج کے ھاتھ میں موجود ذائقے کی تعریف کر دی جبکہ عروج کو جو واپس جانے کی جلدی تھی۔۔۔
" سر اب مجھے گھر چھوڑ دیں پلیز۔۔۔"
بلآخر وہ بول ہی پڑی۔۔۔
" تمہیں گھر جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے ، چلی جانا آرام سے صبح، ابھی دیکھا تھا نا کتنا لمبا سفر طے کر کے آۓ ہیں ہم۔۔۔۔"
" نہیں سر 1 گھنٹے کا ہی سفر تھا۔۔۔۔"
" ہاں تو ایک گھنٹہ کم تو نہیں ہوتا , میں تھک گیا ھوں یار اتنا بڑا گھر ہے کسی بھی کمرے میں جا کر سو جاؤ تم ، او شٹ یار میں تو پوچھنا ہی بھول گیا تم نے کچھ کھایا یا نہیں۔۔۔۔"
وہ مسلسل باتیں بناتے صرف عروج کو ادھر روکنا چاہتا تھا۔۔۔۔
" سر مجھے بھوک نہیں ہے بس گھر جانا ھے مجھے۔۔۔۔"
" یار ایسے کیسے بھوک نہیں ، رکو میں کچھ لاتا ہوں تمہارے لیے کھانے کو۔۔۔۔"
صوفے سے کھڑا ھوتا وہ بولا۔۔۔۔
" نہیں سر پلیز رہنے دیں مجھے نہیں کھانا کچھ بھی۔۔۔"
" ایسے کیسے رہنے دوں ، تم بیٹھو ویٹ کرو۔۔۔"
تیزی سے کچن میں جا کر سعاد جوس اور بریڈ پر جیم لگا کر انھیں ٹرے میں رکھے لے آیا۔۔۔۔
" یہ لو عروج اتنا تو کھا ہی سکتی ہو یار۔۔۔۔"
ٹرے اسکے سامنے کرتے سعاد نے اسے کہا۔۔۔
" سر مجھے سچ میں بھوک نہیں ہے پلیز آپ رہنے دیں۔۔۔۔"
" عروج چلو یہ جوس تو پی لو یار میں نے اتنی محنت کی ھے اسے بنانے میں۔۔۔"
سعاد کی بات سن وہ ناچاھیتے ھوئے بھی مان گئی تب سعاد گلاس اٹھا کر عروج کو جوس پکڑانے لگا کہ اچانک وہ جوس عروج کے کپڑوں پر گر گیا۔۔۔۔
" اوو سوری یار ، یہ کیا ہو گیا تم ایسے کرو کپڑے چینج کر لو ، جاؤ وہ رھا روم۔۔۔۔"
" لیکن سر کپڑے اور کہاں سے لاؤں میں یہاں پر تو کوئی لیڈیز کپڑے موجود بھی نہیں ہوں گے۔۔۔۔"
" ھاں یہ تو ھے تم ایسے کرو ، میرے کپڑے پہن لو۔۔۔۔"
" نہیں سر میں ٹھیک ہوں ایسے ہی آپ بس مجھے میرے گھر چھوڑ دیں۔۔۔۔
" کیا یار اب ایسے جاؤ گی تم ، پہلے ہی کل بیمار تھی ، تم نہیں جاؤ گی رکو میں ہی تمہیں لے جاتا ہوں وہاں چلو میرے ساتھ۔۔۔۔"
ہاتھ پکڑ کر سعاد عروج کو کمرے میں لے گیا وہ چاہ کر بھی سعاد کو روک نا پائی۔۔۔۔
" دیکھو وہ رہا واش روم اور یہ لو شرٹ جاؤ بدل لو۔۔۔۔"
کمرے میں جا کر واڈروب سے ایک سیاہ شرٹ نکال کر وہ عروج کو پکڑا چکا تھا جسے لیے عروج باتھروم میں چلی گئی مگر وہاں جا کر وہ سوچنے لگی۔۔۔
" یہ ہو کیا رہا ہے اب میں سعاد سر کی شرٹ پہنوں گی ، کہیں یہ سب سعاد سر جان بوجھ کر تو نہیں کر رہے ، نہیں نہیں نہیں عروج کیا ہو گیا ہے کیوں نیگٹیو سوچ رہی ہو تم ، سعاد سر ایسے نہیں ہیں وہ اچھے انسان ھیں۔۔۔"
خود کو ڈانٹتی وہ شرٹ بدل کر پجامے کے اوپر اسے پہنے باتھ سے باہر آ گئ سعاد کی شرٹ عروج کے گھٹنوں تک پہنچ رہی تھی ، اس وقت سعاد روم میں موجود نہیں تھا اس بات سے کافی سکون ملا اسے کہ تبھی دروازے کو نوک کر کے سعاد نے پوچھا۔۔۔۔
" عروج تم نے چینج کر لیا۔۔۔۔؟؟؟
" جی سر۔۔۔۔"
" اوکے تو اب چپ چاپ یہیں پر ہی سو جاؤ گڈ نائٹ۔۔۔۔"
" پر سر۔۔۔۔"
" باۓ۔۔۔۔"
بغیر عروج کی بات سنے وہ اپنی کہتا وہاں سے چلا گیا عروج منہ بنائے روم کو دیکھنے لگ گئ جہاں اسے رات گزارنی تھی۔۔۔
" اب تو کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے یہیں پر ہی سونا پڑے گا۔۔۔۔"
خود کو سمجھاتی وہ جا کر بیڈ پر لیٹنے لگی تھی کہ اچانک اسے بیڈ کے قریب کاکروچ دیکھائی دیا جس سے وہ خوف زدہ ہو کر جلدی سے سامنے والی دیوار کے ساتھ چپک گئ لیکن وہاں پر موجود ٹیبل پر پڑے گلاس کے ساتھ ٹکرانے سے گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا ، کوکرچ بھاگ کر عروج کے قریب آنے لگا کہ وہ ڈر سے ٹوٹے گلاس کے ٹکڑوں پر پاؤں دے کر جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئ سعاد ابھی تک لاوئج میں ہی موجود تھا عروج کو باہر آتے دیکھ وہ اٹھ کر اس کے قریب ھوا۔۔۔
" کیا ہوا عروج شور کی آواز کیوں آ رہی تھی اور تمہارے پاؤں سے یہ شٹ یار ، اتنے زخمی کیسے ہو گئ تم۔۔۔۔"
زمین پر خون موجود دیکھ سعاد کا چہرہ اچانک ہی سفید پڑ گیا ، عروج کے خون بہت تیزی سے نکل رہا ہے تھا جس کی اسے پرواہ تک نہیں تھی کاکروچ کے خوف سے۔۔۔
"چلو جلدی ہوسپیٹل تمہیں لے چلوں میں۔۔۔"
" نہیں سر ہوسپیٹل نہیں میں یہیں پر ہی مرہم پٹی کر لوں گی۔۔۔۔"
" اچھا چلو یہ بھی ٹھیک ھے۔۔۔۔"
عروج جب چلنے لگی تو پاؤں میں چبے کانچ کے ٹکڑے مزید پاؤں کے اندر دھنس گۓ جس پر درد سے چیخ پڑی وہ۔۔۔۔
" تم رکو۔۔۔۔"
تیزی سے سعاد اس کے مزید قریب ھوا اور فوراً سے عروج کو گود میں اٹھا لیا اس نے اور اپنے روم میں لے گیا بیڈ پر بیٹھا کر اسے سعاد جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لے آیا اور عروج کے پاؤں کے قریب زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
" سر پلیز آپ رہنے دیں میں خود کر لوں گی پلیز مجھے برا لگے گا اس طرح آپ میرے۔۔۔"
" کیا برا لگے گا یار مجھے کرنے دو پلیز ، اتنا بڑا زخم ہو گیا ہے۔۔۔۔"
" سر پلیز رہنے دیں۔۔۔۔"
عروج مسلسل اسے منع کیے جا رہی تھی۔۔۔
" اب میں تم سے اتنا بھی بوڈھا نہیں ہوں یار ، زیادہ سے زیادہ 9 یا 10 سال کا ہی فرق ہو گا ہم میں ، اور خاموشی سے کرنے دو مجھے جو کر رہا ھوں میں۔۔۔۔"
عروج کا پاؤں پکڑ سعاد نے کانچ کھینچ کر نکالا اور پھر پٹی کرنے لگ گیا۔۔۔۔
" اب بتاؤ کیا بات ہوئی تھی جو یہ چوٹ۔۔۔؟؟؟
" سر وہ کاکروچ تھا تو۔۔۔۔"
" آر یو سیریس مطلب کہ کاکروچ سے ڈر کر اتنی بڑی چوٹ لگا لی تم نے اپنے ، چھوٹا سا کاکرچ ہی تھا یار۔۔۔۔"
" سر ڈر لگتا ہے مجھے اس سے۔۔۔۔"
عروج کی بات سے سعاد مسلسل ھنسے ہی جا رہا تھا۔۔۔۔
" اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے سر ، آپ کو بھی تو ڈر لگتا ہی ہو گا کسی نا کسی چیز سے۔۔۔۔"
" لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں میں کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا ۔۔۔۔"
" لوگ کیوں آپ سے ڈرتے ہیں آپ تو اتنے اچھے انسان ہیں پھر کیوں۔۔۔۔؟؟؟
" کیا سچ میں میں اچھا ہوں۔۔۔۔؟؟؟
" ہاں سر بہت بہت اچھے اگر آپ جیسا اس دنیا میں موجود ہر شخص ہو جاۓ تو ساری دنیا ہی اچھی ہو جاۓ گی۔۔۔۔"
" لیکن آفس میں یا پھر جن سے بھی میں ملتا ہوں تو ایک ہی راۓ ہوتی ہے ان سب کی میرے بارے میں کہ میں بہت روڈ ہوں یا پھر آسان لفظوں میں کہو تو میں بہت سڑیل ہوں کسی کی بھی پرواہ نا کرنے والا۔۔۔۔"
" سر وہ صرف اس لیے کیونکہ آپ کسی کو ٹھیک طریقے سے نہیں بلاتے لیکن آپ کو معلوم ہے جب میں پہلی مرتبہ آپ کے آفس گئ تھی تو جو لڑکیاں وہاں پر کام کرتی ہیں ، کرش ہیں آپ ان کا پتہ نہیں کیا کیا خواہشیں کرتی ہوں گی آپ کے بارے میں۔۔۔۔"
" یار خواہشیں کر لینے سے کیا ہوتا ہے ، میری وائف بننے والی تو صرف ایک ہی ایسی لڑکی ہو گی جو سب سے الگ ہو گی جس کی میں سعاد مرزا پراوہ کرے گا۔۔۔۔"
سعاد باتیں کرتا کرتا عروج کی طرف عجیب سی روشن نظروں سے دیکھنے لگ گیا وہین عروج کو معلوم بھی تھا کہ سعاد صرف اسی کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کر رہا ہے تبھی وہ اپنی نظریں مزید جھکا گئی۔۔۔
" اور تم۔۔۔تمہارے ساتھ میں اس لیے ایسے دوستانہ ماحول رکھتا ہوں کیونکہ تم باقی سبھی لڑکیوں سے الگ ہو ورنہ جس لڑکی سے بھی ملوں میں وہ اپنی اصلیت کو چپھا کر ان کے پاس جو موجود نہیں بھی ہوتا وہ بتاتی ہیں جیسے ہم بہت امیر ہیں ، معصوم ھیں یہ وہ ، مگر تم نے ہر چیز صاف بتائی مجھے تو اس لیے پھر تم مجھے اچھی لگی۔۔۔۔"
سعاد کی باتیں سن اب عروج شرمانے پر مجبور ھو گئی جو سعاد سے مخفی نا رھا۔۔۔۔
" اوکے تو ، اب تم یہی پر ہی سوجاؤ صبح پھر گھر چھوڑ دوں گا تمہیں ، ٹھیک ہے میں چلتا ہوں ، گڈ نائٹ۔۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی سعاد عروج کو وہیں چھوڑ کر خود کمرے سے باہر چلا گیا ، عروج بار بار سعاد کو ہی سوچ کر مسکراۓ جاۓ رہی تھی۔۔۔۔
" یہ مجھے کیا ہو رہا ہے ، عروج وہ صرف تمہارے باس ھیں ، پھر تم کیوں بار بار سعاد کے سر کے بارے میں سوچے جا رہی ہو تمہارے اور سعاد سر کے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے اور تم سوچ رہی ہو سعاد سر بھی تمہیں پسند کرتے ہیں ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ شادی کریں گے تو کوئی اپنی جیسی سے ہی کریں گے ، میں تو ان کے قابل بھی نہیں ہوں یہ کیا سوچ رہی ہو میں بس اففففف۔۔۔۔"
اسی کشمکش میں عروج کی آنکھ لگ گی رات کو اچانک پیاس لگینے کی وجہ سے وہ جاگ اٹھی مگر کمرے میں پانی موجود نہیں تھا تو عروج آہستہ آہستہ کمرے سے باہر چلی گئ جب اسے سعاد کی آواز سنائی دی۔۔۔۔
" سعاد سر اتنی رات کو کس سے بات کر رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
عروج کو ایک اور شخص سعاد کے پاس کھڑا دیکھائی دے رھا تھا جس کے صرف کپڑے ہی دیکھ پا رہی تھی وہ مگر اتنا معلوم ھو گیا اسے وہ کوئی خاص ہی شخص ھے جس کے کبھی منہ تو کبھی کاندھوں کو ھاتھ لگاتے سعاد کچھ سمجھا رھا تھا اسے۔۔۔۔
" یہ کون ہے , خیر مجھے کیا۔۔۔۔"
کاندھے اچکاتی وہ پانی پی کر واپس کمرے میں چلی گئ اور پھر سے سو گئی صبح کے ناجانے کتنے بجے سعاد عروج کے کمرے میں داخل ھوا۔۔۔۔
" عروج اٹھ گئ تم چلو چلتے۔۔۔۔؟؟؟
ابھی وہ اسے پکارتا اندر آیا ہی تھا تو اسے عروج گہری نیند میں سوئی ہوئی ملی ، اسے دیکھتے ہی سعاد عروج کے پاس جا کر زمین پر بیٹھ گیا اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
" کتنی معصوم ہو تم اس دنیا کی ہر برائی سے دور کاش کچھ ایسا ہو جاۓ کہ ہمیشہ کے لیے تم یہیں پر ہی رہ جاؤ۔۔۔۔"
وہ دل ہی دل میں خود سے ہی مخاطب تھا کہ اچانک ایک مچھر عروج کے چہرے پر آ کر بیٹھ گیا سعاد پھونک مار کر مچھر کو اڑانے لگا جو اس کے کام میں خلل پیدا کر رھا تھا ، جس پر عروج کی آنکھ کھل گئی تو اسے سعاد اپنے پاس بیٹھا نظر آیا ، سعاد کو اپنے قریب دیکھ وہ ڈر گئ۔۔۔۔
" سر آپ یہاں کیوں ، کیا ھوا۔۔۔۔؟؟؟
" کچھ نہیں یار ابھی آیا ہوں میں ، 8 بج گۓ ہیں تو پھر ناشتہ وغیرہ کر لو تم اس کے بعد چلتے ہیں ہم واپس۔۔۔۔"
"جی سر۔۔۔۔"
" تمہارا پاؤں کیسا ہے اب ، لاؤ دیکھاؤ مجھے۔۔۔۔"
پٹی کھول کر سعاد عروج کے پاؤں کے زخم چیک کرنے لگ گیا۔۔۔
" ابھی تک تو ویسے ہی ہے ڈاکٹر کے پاس جانا ہو گا۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن عروج اٹھنے لگی۔۔۔
" کیا ہوا۔۔۔؟؟؟
" کچھ نہیں سر , واش روم جا کر میں اپنے کپڑے پہن لوں۔۔۔"
" ھاں اوکے۔۔۔۔"
سعاد دور کھڑا ھو گیا تب عروج کھڑی ھونے لگی مگر پاؤں میں درد ہونے سے سسک پڑی وہ۔۔۔
" تم رکو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں سہارا دے کر۔۔۔۔"
کمر میں ھاتھ ڈالے سعاد عروج کو باتھروم تک چھوڑ آیا کچھ دیر بعد عروج سعاد کی شرٹ ھاتھ میں پکڑے باہر آ گئ۔۔۔۔
" چلو ناشتہ کر لو دیکھو گرما گرم پراٹھے اور چاۓ بنائی ھے۔۔۔۔"
سعاد کے منہ سے چائے پراٹھے کا سن وہ ہنسنے لگ گئ۔۔۔۔
" یار وہ کیا ہے کل مجھے بہت ٹیسٹی لگے یہ تو اس لیے سوچا صبح بھی یہی بنوا لوں۔۔۔۔۔"
" سر آپ کھائیں میں گھر جا کر ہی کھاؤں گی۔۔۔۔"
" یار تھوڑا بہت تو کھا لو کبھی غریبوں والا کھانا بھی کھا لیا کرو۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن عروج پھر سے ہنسنے لگ گئ۔۔۔
" سر کھانا تو کھانا ہوتا ہے امیر غریب کی اس میں کونسی بات آ گئ۔۔۔۔"
" یار مزاق کر رہا ہوں چلو کھا لو بھی اب۔۔۔۔"
سعاد کے فورس کرنے پر سر اثبات میں ہلاتی وہ شرٹ کو بیڈ پر رکھ کر لنگڑاتے ھوئے کمرے سے باہر نکل گئی اور تھوڑا بہت ناشتہ کر لیا۔۔۔۔
" سر اب چلیں ہم ، بہت دیر ہو گئ ہے۔۔۔۔"
سعاد کے مکمل ناشتہ کر لینے کے بعد وہ فوراً بولی۔۔۔۔
" یار چھوڑو یہیں پر ہی رہ لو۔۔۔۔"
" جی سر آپ نے کچھ کہا۔۔۔۔؟؟؟
" نہیں میں نے کہا ہاں چلو چلتے ہیں۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑا ھوا تو عروج بھی اپنا پرس صوفے سے اٹھائے سعاد کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی اگلی کچھ دیر میں وہ اسے ایک کلینک لے گیا جہاں سے اس کی اچھے سے مرہم پٹی کروا کر اس نے آخر کار عروج کو اس کے گھر چھوڑ ہی دیا جب عروج اپنے گھر داخل ھو گئی تب
اپنے گھر میں داخل ھوتے ہی سیدھا اس کا رخ اپنی ماں کے کمرے کی طرف تھا مگر سامنے کا منظر دیکھ اسے اپنے پاؤں تلے سے زمین کھستے محسوس ھوئی ، ممتاز بیگم اوندھے منہ زمین پر ناجانے کب سے گری ھوئی تھیں جبکہ ان کے سر پر چوٹ لگنے سے خون نکلتا ھوا اب پیشانی پر جم چکا تھا۔۔۔
عروج اپنی ماں کو اس حالت میں دیکھ کر بالکل شوکڈ ھو گئی اسے خود سے نفرت محسوس ھوئی جو اپنی ماں کی زمہ داری نبھانے میں بہت بری طرح ناکام ھو چکی تھی ، بھاگ کر وہ ممتاز بیگم کے پاس گئی اور انھیں پکڑ کر سیدھا کرتے اور آوازیں دیتے انھیں پکارنے لگی مگر آگے سے اسے کوئی رسپانس نہیں مل رھا تھا ممتاز بیگم ویسے ہی بے ھوش پڑی رہیں۔۔۔
تڑپتے ھوئے با مشکل اس نے ممتاز بیگم کو سہارا دیے کھڑا کیا اور بیڈ پر لیٹا دیا پھر بھاگتے ھوئے وہ گھر سے باہر نکل کر اپنے پڑوس کا دروازہ کھٹکھٹانے لگی جو کچھ دیر بعد کھول دیا گیا۔۔۔
" آنٹی پلیز امی کو چوٹ لگی ھے بے ھوش ھیں وہ انھیں ھوسپیٹل لے کر جانا ھو گا ، مدد کر دیں آنٹی خدا کا واسطہ ھے۔۔۔۔"
روتے ھوئے ھاتھ جوڑ کر وہ منت کرنے لگی تو اس عورت کے دل میں بھی رحم آ گیا جو اس نے اپنے بیٹے کو آواز دے کر باہر بلایا اور ٹیکسی لانے کا کہتے وہ عروج کے ساتھ اس کے گھر میں داخل ھو گئیں۔۔۔
اگلی کچھ دیر میں عروج اسی عورت کے ساتھ سہارا دے کر ممتاز بیگم کو ٹیکسی میں بیٹھائے ھوسپیٹل لے گئی ، اس عورت کے تعلقات ممتاز بیگم کے ساتھ کافی اچھے تھے مگر پھر ماہ نور کی موت کے بعد سبھی لوگوں کی طرح یہ عورت بھی عروج کے گھر آنے سے پرہیز کرنے لگیں مگر آج عروج کے مدد مانگنے پر وہ چاہ کر بھی اسے منع نہیں کر سکی تھیں۔۔۔
ھوسپیٹل پہنچتے ہی ممتاز بیگم کا علاج ھونا شروع ھو گیا تھا چوٹ زیادہ گہری نہیں تھی اور کچھ دیر تک ممتاز بیگم کو ھوش بھی آ جاتا پھر بھی عروج کو خود پر بہت غصہ تھا جس کی وجہ سے اس کی ماں اس کا واحد رشتہ تکلیف میں مبتلا ھو گیا رات ساری وہ زمین پر بے ھوش پڑی رھیں ، سوچ سوچ کر وہ مسلسل روئے جا رہی تھی جبکہ اس کے سر پر پیار دے کر وہ عورت اپنے بیٹے کے ساتھ وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔
دو دنوں تک عروج آفس نہیں گئ تھی وہ ممتاز بیگم کو واپس گھر لا کر صرف دن رات ان کی خدمتوں میں لگی رہی اسے اپنی لاپرواہی پر حد سے زیادہ پچھتاؤ تھا وہ تو شکر تھا ھوسپیٹل کے بلز اس عورت نے ادا کر دیے اس احسان پر بہت مشکور تھی وہ ان کی اور سوچے بیٹھی تھی کہ ان کے پیسے واپس کر دے گی جس کے لیے اسے آفس جانا تھا ، کچھ سوچتے وہ ممتاز بیگم کو دوا کھلا کے ان کے کمرے سے باہر نکل کے خود آفس جانے کے لیے تیار ھونے لگی ، گھر سے نکلنے کے پہلے اس نے ممتاز بیگم کو ایک نظر دیکھا تو وہ سو رہی تھیں تب وہ ٹھندی آہ بھر کر گھر سے باہر نکل گئی اور اسی پڑوسن کا دروازہ کھٹکھٹا دیا جو آگے ہی پل کھول دیا گیا تھا۔۔۔
" آنٹی میں آفس جا رہی تھی آپ پلیز امی کا خیال رکھیے گا ، کچھ کچھ دیر بعد گھر کا چکر لگا لیں یہ چابی ھے گھر کی۔۔۔۔"
منت بھرے انداز میں کہتی وہ انھیں تالے کی چابی پکڑانے لگی جسے سر ھاں میں ہلاتے اس عورت نے پکڑ لیا ، تب جا کر وہ تھوڑا پرسکون ھوئی اور پیدل آفس کی جانب بڑھنے لگی ، پاؤں کا درد کافی بہتر تھا اب اس کا مگر اسے اب خود ہی پرواہ رہی کب تھی۔۔۔۔
وہیں دوسری سمت سعاد دو دنوں سے بے چینی میں مبتلا عروج کو ہی سوچے جا رھا تھا مگر خود سے کال کرنے یا اس کے گھر جانے سے انکاری تھا وہ ، اسے خود کو سمجھاتے ہوئے دو دن گزر گئے مگر بے چین دل کو قرار نا آ رھا اس کے ، آج پھر آفس میں بیٹھا وہ شدت سے اسے یاد کر رھا تھا اور امید بھری نظروں سے اپنے کیبن کے دروازے کو ہی دیکھنے میں مصروف تھا وہ۔۔۔۔
" کیا ہوا ھو گا عروج آفس کیوں نہیں آ رہی ، آج کال کر کے پوچھوں کیا ، نہیں کیا سوچے گی وہ ، تم کیوں اتنا سوچتے رہتے ہو عروج کو سعاد مرزا ، کیا عام سی ہی لڑکی ہے وہ پھر بھی تمہارے دل میں اس کے لیے اتنی فکر کیوں ھے کیوں بے چین ھو جاتے ھو اسے دیکھے بغیر ، کہیں مجھے اس سے محبت تو نہیں ہو گی نہیں کیسی باتیں کر رہے ہو تم ، کئ لوگ ہوتے ہے جن سے بات کرنا انسان کو پسند ہوتا ہے تو اب اسے محبت کا نام تو نہیں دے سکتے ، عروج کا بھی میرے ساتھ ویسا ہی رشتہ ہے۔۔۔۔"
زیر لب بڑبڑاتے وہ خود کو سمجھانے کی جدوجہد میں دیکھائی دیتا تبھی عروج اچانک دروازہ کھولے اس کے کیبن میں داخل ھوئی اسے دیکھتے ہی سعاد کے چہرے پر خوشی کی لہر دھوڑ گئی تھی۔۔۔
عروج کو دیکھتے ہی اس کا انداز بدل جاتا تھا ہر کسی سے پیار سے بات کرنے لگتا وہ جس سے سبھی آفس کا سٹاف حیران رہ جاتا۔۔۔۔
" جب تک عروج آفس نہیں آ رہی تھی تو سر ہر کسی پر کتنا غصہ ہو رہے تھے اور آج کیسے خوش ہو گئے اسے دیکھ کر ہی ، مجھے تو کوئی اور ہی معاملہ لگ رہا ہے۔۔۔"
پین جو سعاد کے کیبن میں موجود تھا جب عروج وہاں داخل ھوئی وہ باہر نکل کر سب کو یہ بات بتانے لگا جس سے کافی لڑکیاں جلن کا شکار ھونے لگی تھیں۔۔۔
" عروج تمہیں کال کر کے بتاتے تو رہنا چاہیے یار کہ کیسی ہو تم ، جانتی بھی ھو دو دنوں سے کتنا پریشان تھا میں۔۔۔۔"
" سوری سر یاد ہی نہیں رہا ، امی کو ہوسپٹل لیجانے اور لانے میں کافی بزی رہی میں ، پھر ان کا خیال رکھنا۔۔۔"
سر جھکائے عروج نے اسے وجہ بتا دی اپنی غیر حاضری کی۔۔۔
" کیوں کیا ہوا انہیں۔۔۔؟؟؟
پریشانی سے وہ گویا ھوا۔۔۔
" چوٹ لگ گئی تھی سر پر ، میں ان کو ٹائم نہیں دے پاتی سر جس وجہ سے۔۔۔۔"
بات کرتے ھوئے اس کی آنکھوں میں آنسو جمع ھونے لگے جنہیں دیکھ چکا تھا وہ۔۔۔
" یار تم پریشان کیوں ھو رہی ھو ،ہم آنٹی کا بہت اچھا علاج کروائیں گے جس سے وہ بالکل پہلے جیسی ھو جائیں گے ، فکر چھوڑو اور تم بیٹھو یہاں ، کیا پیو گی چاۓ کافی۔۔۔۔"
" سر کچھ بھی نہیں بس آپ مجھے بتا دیں کام وغیرہ پچھلے دو دنوں کا بھی کام میں آج ہی کر دوں گی۔۔۔۔"
بغیر بیٹھے ویسے ہی کھڑی وہ اپنا کام پوچھنے لگی۔۔۔
" یار چھوڑو آج کوئی کام نہیں ہو گا ٹھیک ہے تو ریلیکس کرو ، اتنے دنوں بعد تم آئی ہو تو باتیں وغیرہ کرتے ہیں تم بیٹھو تو سہی یار۔۔۔۔"
مسکرا کر کہتے رسیور اٹھا کر کال کر کے سعاد نے چاۓ منگوا لی تب تک عروج بھی خاموشی سے سعاد کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی ، اگلی کچھ دیر میں چائے آ گئی جس کا عروج نے ابھی ایک گھونٹ ہی پیا تھا کہ سعاد نے عروج کو مخاطب کر دیا۔۔۔
" اپنی چاۓ دینا مجھے۔۔۔"
سعاد کی بات سن وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی اور پھر اپنا کپ اس کی جانب کر دیا تب جھٹ سے کپ پکڑ وہ اس کی چائے کو اپنے لبوں سے لگا چکا تھا۔۔۔۔
" یہ والی چائے ٹھیک ہے پرفیکٹ ، یو نو واٹ میری چاۓ تو پھیکی تھی ، یہ لو تم میرے والی چائے پی لو۔۔۔۔"
اس کی بات سن کر عروج حیران ہو گئ کہ وہ میٹھی چائے کب سے پینے لگا گیا وہ بھی اس کی جوٹھی مگر وہ خاموش رہی اور سعاد والی چاۓ کو اٹھا کر پینے لگی۔۔۔
" نہیں تو سر ایک جیسی ہی ہیں دونوں پھیکی تو نہیں آپکی چائے۔۔۔۔"
اس کے بتانا ضروری سمجھا۔۔۔
" نہیں عروج یہ چاۓ بہت ٹیسٹی ہے اور ہاں سب سے ضروری بات یہ تم مجھے سر ور مت کہا کرو یار ہمارے بیچ یہ سر والا رشتہ نہیں ہے اسے ہم دوستی کہہ سکتے ہے تو کال میں آنلی سعاد۔۔۔۔"
" پر سر میں آپ کا نام کیسے لے سکتی ہوں۔۔۔۔؟؟؟
حیرانگی سے آنکھیں پھیلائے وہ معصومیت سے بولی۔۔۔
" یار اتنا تو پیارا نام ہے میرا اور جب میں تمہیں عروج کہتا ہوں تو تم کیا مجھے سعاد نہیں کہہ سکتی۔۔۔"
" نہیں وہ سب لوگ کیا سوچیں گے پہلے ہی پتہ نہیں کیا کیا بولتے رہتے ہیں۔۔۔"
آفس میں ھو رہی باتوں کو سوچتی وہ سعاد کو منع کرنے لگی۔۔۔
" تم مجھے سعاد بلاؤ گی ڈیٹس اٹ اب اور مجھے کچھ بھی نہیں سننا ،چلو بولو سعاد۔۔۔"
سعاد کی فرمائش سن وہ مزید بوکھلا اٹھی۔۔۔
" سر سوری ، س۔۔۔سعاد جی۔۔۔۔"
آنکھیں مضبوطی سے موندے وہ بلآخر بول پڑی جس سے سعاد کی مسکراہٹ گہری ھو گئی تھی۔۔۔
" یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔"
ھنستے ھوئے وہ عروج سے مزید باتیں کرنے لگا ، سعاد اور عروج ایک دوسرے کے ساتھ کافی خوش رہنے لگ گۓ تھے اب عروج بھی اسکے ساتھ کمفرٹیبل محسوس کرنے لگی تھی ، کافی دن گزر گئے تھے ان کی اس گہری دوستی کو جس سے تمام آفس کا سٹاف جیلس تھا مگر سعاد کے ساتھ اب عروج کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں رہی۔۔۔
ایک دن عروج ممتاز بیگم کے ڈاکٹر سے بات کرنے کے لیے ہوسپیٹل گئ ہوئی تھی اپنی ماں کے ساتھ تب ویٹنگ روم میں بیٹھی وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگی کہ اچانک ایک شخص اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا ، اس کی بازو سے خون نکل کر فرش پر گر رہا تھا جب عروج نے یہ دیکھا تو اس شخص کو مخاطب کر دیا۔۔۔
" آپ کے تو بہت خون نکل رہا ہے ، ڈاکٹر ڈاکٹر پلیز کوئی آ کر ان کی پٹی کر دیں ، دیکھیں کتنا خون ضائع ھو رہا ہے۔۔۔۔"
اپنی فطرت سے مجبور وہ اس شخص کی مدد کرنے کے لیے کھڑی ھو کر بلند آواز میں ڈاکٹرز کو پکارنے لگی مگر اسکی بات کوئی بھی نہیں سن رہا تھا تب نفی میں سر ہلاتی وہ فوراً اپنا دوپٹہ پھاڑ کر اس شخص کی کلائی پر باندھنے لگی ، عروج کی اس حرکت پر وہ لڑکا حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
" بہت درد ہو رہا ہے کیا ، بس ابھی ڈاکٹر آ جائیں گے آپ فکر نہیں کریں۔۔۔۔"
اس شخص کو دیکھتی وہ اسے تسلی دینے لگی تب تک ایک نرس آ گئ ان کے پاس۔۔۔
" آپ جائیں ان کے ساتھ پلیز ، آپ کا علاج کر دیں گے ابھی۔۔۔۔"
نرس اس شخص کی اسی کلائی کو پکڑ کر دیکھتی اسے کھڑا کر کے اپنے ساتھ لیجانے لگی جبکہ وہ شخص پلٹ کر بس عروج کو ہی دیکھے جا رہا تھا جو اب ممتاز بیگم کو سہارا دے کر ایک طرف چل پڑی تھی۔۔۔
عروج اور سعاد کی دوستی کافی پروان چڑھ چکی تھی اور اب ایک دن سعاد اور عروج دونوں نے سوچ لیا کہ وہ ایک دوسرے سے اظہار محبت کر لیں گے اب ایک دوسرے کے بغیر ان کا گزارا نہیں تھا کچھ سوچتے ھوئے اپنا موبائل اٹھا کر عروج نے رات کے وقت سعاد کو کال کر دی جو فوراً پک کر لی گئی تھی۔۔۔۔
" سعاد جی مجھے آپ سے ایک بہت ہی امپورٹنٹ بات کرنی ہے تو کیا ہم کل کہیں مل سکتے ہیں۔۔۔"
شرماتے ھوئے وہ بولی تھی۔۔۔
" عروج مجھے بھی تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔"
" ٹھیک ہے پھر ہم کل شام کو ملتے ہیں میرے گھر کے قریب فیملی پارک میں۔۔۔"
سعاد کی بات سن وہ جھٹ سے کہنے لگی۔۔۔
" اوکے عروج بائے۔۔۔"
سعاد نے کہہ کر کال کاٹ دی تب وہ بھی سکون سے سو گئی اگلے دن وہ کافی خوش اور ساتھ ڈری ہوئی بھی تھی کیونکہ اس کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سعاد بدلے میں اسے کیا جواب دے گا۔۔۔
" کہیں سعاد جی مجھے ڈانٹ ہی نا دیں کیونکہ مجھ جیسی عام سی لڑکی سے وہ کیوں شادی کریں گے لیکن خیر شاید سعاد بھی مجھ سے یہی بات ہی کہنا چاہتے ہوں گے ان کی آنکھیں ان کی باتیں ، شاید وہ بھی مجھے پسند کرتے ھیں۔۔۔"
انھی باتوں کو سوچتی وہ آج آفس نہیں گئی بلکہ گھر میں رک کر بے صبری سے شام کی اپنی تیاریاں کرنا شروع ہو گئ۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
" بھائی بھائی کہاں ہیں آپ۔۔۔؟؟؟
ساحر دھوڑتا ھوا ایول کے کمرے میں داخل ھوا۔۔۔
" کیا ہوا ساحر آج کافی خوش لگ رہے ہو ہممم کوئی خاص بات ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟
مسکراتے ھوئے ایول نے ساحر کے کاندھے پر ھاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو بھی لاڈ سے بگاڑ دیا۔۔۔
" بھائی آج سچ میں بہت بہت خوش ہوں کیونکہ آپ کے بھائی کو پھر سے جینے کا مقصد مل چکا ہے۔۔۔۔"
" کیوں کیا ہوا ,کیا مل گیا تمہیں۔۔۔۔"
ایول نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔
" بھائی مجھے پھر سے محبت ہو گئ ہے اور اب کی بار بھائی میں اسے خود سے دور ہونے نہیں دوں گا ،چاہے پھر مجھے کچھ بھی کیوں نا کرنا پڑے اور بھائی آپ میری مدد کریں گا نا میری محبت کو مجھ سے ملانے میں۔۔۔۔؟؟؟
اپنی زخمی کلائی کو ایول کے سامنے کرتا وہ گویا اسے دھمکی دینے لگا کچھ دن پہلے ہی اس نے خود کشی کر نے کوشش جو کی تھی۔۔۔
" بیٹا تو بول تو سہی ، تیرے بھائی کو پھر چاہے اس لڑکی کے دل میں تیرے لیے زبردستی محبت ہی کیوں نا ڈالنی پڑے ، میں وہ بھی کروں گا مگر تجھے وہ لڑکی ضرور ملے گی۔۔۔۔"
ساحر کی دھمکی سے خوفزدہ ھوتے وہ اس کی تسلی کروانے لگا۔۔۔
" نہیں بھائی آپ زبردستی نہیں کریں گے میں خود اس سے بات کروں گا پھر دیکھتے ہیں وہ کیا جواب دیتی ہے ، میں بہت خوش ھوں بھائی بہت زیادہ۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی زور سے ساحر نے اپنے بھائی کو گلے لگا لیا۔۔۔۔
"اچھا تو نام تو بتا مجھے ، کیا نام ہے اس لکی لڑکی کا جس کو میرا بھائی اتنا پسند کرنے لگ گیا ہے۔۔۔۔"
ساحر کی کمر سہلاتے وہ مسکرا کر اس لڑکی کا تعارف مانگا رھا تھا۔۔۔
" بھائی نام کیا اس کی تصویر بھی دیکھا دیتا ہوں آپ کو ، بہت بہت پیاری اور معصوم سی ہے وہ ، یہ دیکھیں۔۔۔۔"
ایول سے الگ ھو کر وہ اپنا موبائل نکال کر اسے کسی کی تصویر دیکھانے لگا جو کے اس نے ہوسپٹل میں ہی چپ کر اس لڑکی کی لی تھی۔۔۔۔
" بھائی عروج نام ہے اس کا اچھی دیکھتی ہے نا۔۔۔۔؟؟؟
ساحر کے موبائل میں تصویر دیکھ ایول بالکل شوکڈ ھو گیا۔۔۔
" ہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔ہاں۔۔۔۔"
کافی دیر بعد اس نے سر اثبات میں ہلاتے لب بھینچ کر ساحر کو دیکھا۔۔۔
" کیا ہوا بھائی اچھی نہیں ہے کیا ، آپ اتنے سیریس کیوں ھو گئے۔۔۔۔؟؟؟
" نہیں اچھی ہے اللّٰہ تمہارے نصیب میں کرے اسے ، وہ اکچولی ساہر مجھے لیٹ ھو رہی ھے آج ایک بہت ضروری کام ھے ، اس لیے میں چلتا ہوں۔۔۔۔"
اتنا کہہ ایول تیزی سے وہاں سے چلا گیا جبکہ ساحر اس کے بیڈ پر لیٹ کے عروج کی تصویر کو دیوانہ وار دیکھنے لگا۔۔۔
سارا دن ممتاز بیگم کے ساتھ گزارنے اور گھر کی صفائی وغیرہ کرتے گزر گیا تو اب وہ شام کے 5 بجے خود پر دھیان دیتی تیار ہونے لگی ٹھیک 1 گھنٹے بعد اچھے سے تیار ھو کر 6 بجے عروج ممتاز بیگم کو اپنے گلے لگا کے گھر سے باہر نکل گئی اور پیدل چلتی پارک میں پہنچ گئ۔۔۔۔۔
موسم کافی خراب تھا آج کبھی بھی بارش ہو سکتی تھی اسی بات کا خوف اسے ستائے جا رھا تھا وہ امید بھری نظروں سے پارک کے گیٹ کو دیکھتی دل ہی دل میں سعاد کو پکارے جا رہی تھی۔۔۔
" سعاد جی جلدی آ جائیں اتنی دیر کیوں کر رہے ہیں آپ آنے میں ، آج تو مجھ سے ویٹ بھی نہیں ہو رہا۔۔۔۔"
زیر لب بڑبڑاتے وہ خود سے ہی باتیں کرتی ھوئی مسکرانے لگی کچھ دیر بعد پارک کے باہر ایک سیاہ مہنگی گاڑی رکی اور اس میں سے سعاد باہر نکلا کر پارک کے گیٹ سے اندر داخل ھوا ، جیسے ہی عروج کو وہ نظر آیا ویسے ہی اس کے لبوں پر ایک شرمیلی سی مسکان در آئی تھی اس وقت ہلکی ہلکی سی بارش ہونا بھی شروع ہو گئ جسے اپنا چہرہ اوپر کیے وہ یوں ہی مسکراتی محسوس کرنے لگی ، سنجیدگی سے قدم اٹھاتا وہ اس کے قریب آیا تب عروج نے آنکھیں کھولے اسے دیکھا۔۔۔
" کتنی دیر لگا دی آپ نے آنے میں ، کب سے ویٹ کر رہی تھی میں آپ کا ، کہاں تھے۔۔۔؟؟؟
ایک ساتھ ناجانے کتنے ہی سوال پوچھ ڈالے تھے اس نے۔۔۔
" جلدی بتاؤ کیا بات کرنی ھے تم نے۔۔۔۔؟؟؟
بجائے اسکی بات کا جواب دینے کے وہ الٹا اسی سے سوال کر بیٹھا۔۔۔
" نہیں نہیں سعاد جی ایسے بالکل نہیں چلے گا ، پہلے آپ بتائیں پھر میں بتاؤں گی۔۔۔۔"
شوخ نظروں سے اسے دیکھتی وہ لاڈ سے بولی یہ حق بھی اسی نے دیا تھا عروج کو جو کہ اب عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا۔۔۔
" دھیان سے سنو میری بات پلیز عروج ، اگر میں تم سے کچھ مانگوں آج تو کیا دو گی تم۔۔۔۔؟؟؟
" ہاں سعاد آپ سے میں نے تب کہا بھی تھا کہ آپ جو مانگیں گے میں دوں گی ، تو کہیں کیا چاھیے آپکو۔۔۔۔؟؟؟
اپنی بات یاد کرتی وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اس سے بولی جبکہ وہ ویسے ہی سنجیدہ تھا انھیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی اس وقت کہ وہ بارش میں بیگ رھے ھیں۔۔۔
" عروج آج میں تم سے تمہاری سب سے قیمتی چیز مانگنا چاہتا ہوں ، کیا اب بھی تم وہ مجھے دو گی۔۔۔۔؟؟؟
اس وقت سعاد کی آنکھیں سرخ انگارہ ھوئی پڑی تھیں نا جانے اس کی وجہ کیا تھی جبکہ اس کی کہی بات عروج کو خومخواہ میں شرمانے پر مجبور کر گئی۔۔۔
" سعاد آپ مانگیں تو سہی میں آپ کو کبھی انکار نہیں کر سکتی۔۔۔۔"
" مجھے تمہاری محبت چاہیے عروج۔۔۔۔"
سعاد کی کہی بات پر وہ اسے دیکھتی مسکرانے لگی۔۔۔۔
" سعاد میں وہ۔۔۔۔"
" مجھے تمہاری محبت اپنے بھائی کے لیے چاھیے عروج تو کیا تم وہ محبت میرے بھائی کو دے دو گی۔۔۔۔"
اچانک سعاد کی کہی گئی بات سن وہ فوراً شوکڈ ہو گئ ابھی سعاد کی مکمل بات بھی نا سنی تھی تو خود کو کتنی خوش قسمت سمجھ بیٹھی تھی وہ جبکہ اس کی کہی مکمل بات اسے لمحوں میں زمین پر پٹخ دینے کا سبب بنی۔۔۔
" آپ کو معلوم بھی ہے سعاد آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
صدمے کی زیادتی سے منہ کے ساتھ آنکھیں بھی وا کیے وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی بولی۔۔۔
" ھاں مجھے سب معلوم ہے ، ان باتوں کو چھوڑو اور عروج تم مجھے میرے سوال کا جواب دو ابھی۔۔۔۔"
سعاد کی خود کی آنکھوں میں آنسو جمع تھے جنہیں وہ با مشکل روکنے کی سعی میں موجود تھا۔۔۔۔
" کون ھیں آپ کے بھائی سعاد ، مجھے اور کوئی نہیں چاھیے پلیز ، میں آپ سے محبت کرتی ہوں آپ کے سوا کسی اور کی طرف میں دیکھ بھی نہیں سکتی سعاد ، اور آپ کیسی بات کر رہے ہیں کسی کو کیسے میں اپنی محبت دے دوں جس پر صرف آپ کا حق ھے۔۔۔۔"
" لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتا عروج مگر میرا بھائی کرتا ھے بہت محبت کرتا ھے تمہیں ، پوری عمر بہت بہت خوش رکھے گا وہ تمہیں میری بات کا یقین کرو یار۔۔۔"
" سعاد وہ ہے کون میں تو شاید کبھی ان سے ملی بھی نہیں۔۔۔۔"
اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتی وہ بے بسی سے سوال کرنے لگی۔۔۔
" میں نہیں جانتا اس نے تمہیں کہاں دیکھا لیکن اب وہ تم سے بہت محبت کرنے لگ گیا ہے اور عروج تم اس کا دل نہیں دکھا سکتی ورنہ اب کی بار وہ ٹوٹ کر بکھر جاۓ گا یار ، تم سمجھ رہی ہو نا میری بات۔۔۔"
عروج کو کاندھوں سے تھامے وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔
" معاف کرنا سعاد مرزا ، میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتی جس سے میں محبت کرتی ہوں اس کی بھابھی بن کر پوری زندگی میں نہیں گزار سکتی ، اسی غم سے مر جاؤں گی میں اور محبت کوئی کھلونا نہیں ھوتی جو آپ کے بھائی کو پسند آیا تو اسے دے دیا ، جائیں آپ سمجھائیں اسے ، مجھے آپ سے مجبت ھے اور ہمیشہ آپ سے ہی رہے گی اگر میں کبھی کسی کی ہوں گی تو وہ شخص آپ ہوں گے اور کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"
سنجیدگی سے سعاد کو دیکھتی وہ اسے اپنا فیصلہ سنا چکی تھی۔۔۔
" عروج تم سمجھ کیوں نہیں رہی ہو ، اگر تم اسے نا ملی تو وہ خود کو کچھ کر لے گا یار اور اگر اسے کچھ بھی ہو گیا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا ، میں اپنے بھائی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں کچھ بھی ، تم جانتی نہیں ہو کس حد تک میں اپنے بھائی سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔"
" محبت ایک جگہ درست ھے مان لیا ، لیکن کیا ہر ضد اپنے بھائی کی پوری کرنا لازمی ہے سعاد ، آپ مجھے ان سے ملنے کے لیے اجازت دے دیں میں انھیں سمجھاؤں گی ، مان جائیں گے وہ میری بات۔۔۔۔"
اپنے کاندھوں سے سعاد کے ھاتھ پیچھے کرتی وہ اس سے بولی۔۔۔
" مجھے کچھ نہیں سننا بس تم میرے بھائی کو اظہار محبت کرو گی اور پھر شادی ڈیٹس اٹ ، یار تم کیا پاگل ہو ایک بار میں سمجھ نہیں آ رہی پہلے بھی اس کا دل ٹوٹ چکا ہے اور مجھے ہی معلوم ہے کیسے میں نے سنبھالا ہے اپنے بھائی کو اور اب کی بار بھی تم چاہتی ہو کہ وہ خود کو کوئی نقصان پہنچا لے ، میں نے اور کچھ نہیں سننا مجھے بس میرے بھائی کی خوشی چاہیے جو کہ تم ھو ، سمجھی ، تم ساحر سے شادی کرو گی لازمی۔۔۔"
غصے سے چیختے وہ اسے زبردستی اپنے بھائی کے قریب کرنا چاہتا تھا جیسے کہ عروج کے دل میں بھی ساحر کے لیے محبت ڈال دے گا وہ جبکہ اب عروج کو بھی غصہ آ گیا۔۔۔۔۔
" میں زر خرید غلام نہیں ھوں آپ کی مسٹر سعاد مرزا ، مجھے نا آپ کی محبت چاہیے اور نا ہی آپ کے بھائی کی بس بہت سن لیا ، خدا حافظ دوبارہ آپ سے نہیں ملوں گی کبھی آئی پرومس۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر عروج وہاں سے جانے لگی تب پیچھے سے بلند آواز میں اس نے عروج کو پکارا۔۔۔
" اگر میرے بھائی کو تمہاری وجہ سے کچھ بھی ہوا ایک ہلکی سی کروچ بھی آئی ، تو آئی پرومس تم میرا وہ روپ دیکھو گی جسے دیکھنے سے پہلے لوگ مر جانا پسند کرتے ہیں۔۔۔۔"
سعاد کی بات سن روتے ہوۓ وہ وہاں سے چلی گئ اور سیدھا اپنے گھر جا کر کمرے میں بند ہو کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔
" کیوں کیوں میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ، اتنی بڑی مشکل میں مجھے کیوں لا کر کھڑا کر دیا میرے اللّٰہ ، جو سعاد مجھ سے کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں وہ میں کیسے کر سکتی ہوں دل پھٹ جائے گا میرا ، جب میرا دل صرف سعاد کے لیے ہی دھڑکتا ہے تو کیسے پھر کسی اور سے میں شادی کر لوں ، چاہے کچھ بھی ہو جاۓ میں یہ ہر گز نہیں کروں گی سعاد کو ہو گی اپنے بھائی سے محبت لیکن میں ایسا کرنے سے پہلے مر جانا پسند کروں گی۔۔۔۔"
خود سے مخاطب وہ روتے ھوئے ایک حتمی فیصلہ کر چکی تھی جس پر اب اسے قائم رہنا تھا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
عروج کے انکار کر دینے کے بعد کافی دیر وہ گاڑی کو بے مقصد سڑکوں پر بھاگتا رھا کسی طور اس کی تکلیف کم ھونے کو نا تھی ایک عجیب سا درد اپنے دل میں ھوتا محسوس کر رھا تھا وہ ، تقریباً رات کے 11 بجے تھک ہار کر وہ واپس اپنے گھر آیا تو ساحر اسے خود کا انتظار کرتا لاونج میں بیٹھا دیکھائی دیا جو اب اسے آتا دیکھ اٹھ کھڑا ھوا تھا۔۔۔
" بھائی میں کیسے عروج سے ملوں ، مطلب کیا بات کروں میں اس سے ، کیسے کہوں گا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ، بھائی آپ کو نہیں معلوم بہت بہت محبت کرنے لگ گیا ہوں میں اس سے ، اب تو ایسے محسوس ھوتا ھے کہ اس کے بغیر میں زندہ ہی نہیں رہ پاؤں گا مگر کیسے میں عروج کو پرپوز کروں اور وہ کیا مانے گی مجھے ایکسپٹ کر لے گی نا بھائی ، یار کچھ تو بولیں ، آپ یوں بھيگ کر کیوں آۓ ہیں آپ آپ کے کپڑے گیلے ھیں بھائی ، کیا ہوا سب ٹھیک تو ھے۔۔۔۔"
نان سٹاپ بولتا وہ سعاد کو خاموش پا کے اس سے سوال کرنے لگا۔۔۔
" کچھ نہیں ساحر بس ایک کشمکش میں پھنس چکا تھا میں لیکن اب وہ حل ہو چکی ہے ، تو فکر مت کر اب تیری شادی میں کرواؤں گا وہ بھی دھوم دھام سے تیری ہی محبت کے ساتھ۔۔۔۔"
سنجیدگی سے ساحر کو دیکھتے وہ خود پر ضبط کرتا ھوا بولا جبکہ اس کی کہی گئی بات ساحر کو خوشی سے اچھلنے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔
" کیا سچ میں بھائی ، او تھینک یو سو مچ آپ دنیا کے سب سے اچھے بھائی ھیں۔۔۔۔"
" شکریہ ادا کرتا ساحر سعاد کے گلے لگ گیا ، بہت کچھ اندر سے ٹوٹ رھا تھا اس کے ، وہ ہی جانتا تھا کیسے خود کو سنبھالے ھوئے ھے کاش کوئی اسکا بھی دکھ اور تکلیف دیکھ پاتا۔۔۔
" بھائی میں کیسے صبح عروج سے ملوں کچھ تو آئیڈیا دیں آپ۔۔۔۔"
سعاد سے الگ ھو کر وہ معصومیت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
" تو ابھی فلحال ایسے کر ، نا مل اس سے ، میں ہوں نا تیرا بھائی میں اس سے مل کر اسے منا لوں گا تیرے لیے ، پھر تیری شادی اس سے ہو جاۓ گی اور خوش رہنا تو۔۔۔۔"
" پر بھائی ایک بار میں اس کے منہ سے خود سننا چاہتا ہوں کہ کیا وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔؟؟؟
کسی خوف کے زیر اثر وہ اپنی خواہش ظاہر کر گیا جو کہ عروج کے منہ سے اپنے لیے اظہار محبت کی تھی۔۔۔
" ساحر جو کہا میں نے وہ سن تو ، ابھی اس سے نہیں ملے تو سمجھا ، تجھے اپنے بھائی پر بھروسہ ھونا چاھیے میں منا لوں گا اسے کسی بھی طرح ۔۔۔۔"
" اوکے بھائی پر پلیز جلدی کیجیے گا کیونکہ اب یہ گھر کاٹنے کو دھوڑتا ہے مجھے۔۔۔۔"
سعاد کی بات سے متفق ھوتا وہ اپنے کمرے کی سمت چل پڑا جبکہ سعاد وہیں صوفے پر گر سا گیا اور انکھیں موند لیں ، دو آنسو چپکے سے اس کی آنکھوں سے نکل کر بالوں میں جذب ھو گئے تھے ، آج اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اسنے اپنی محبت اپنے بھائی کی جھولی میں ڈال دی تھی ، تکیلف تو تھی ہی مگر وہ خود کو سنبھالنے کے ہنر سے واقف تھا ، ناجانے کب خود کو سمجھاتے ھوئے وہ وہیں صوفے پر سو گیا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
اگلے دن ساحر گھر میں اکیلا بیٹھا عروج کو ہی یاد کیے جا رھا تھا ، روزانہ کی طرح سعاد تو آفس چلا گیا جبکہ وہ ایک عجیب سی بے چینی میں مبتلا تھا ، بار بار وہ اپنے بھائی کو کال کرے جائے جبکہ دوسری سمت سعاد ایک میٹنگ میں بزی تھا جس وجہ سے وہ موبائل کو سائلنٹ پر لگائے ایک جانب رکھے ھوئے تھا تو اسے ساحر کی کالز کا علم نا ھوا۔۔۔
" بھائی نہیں عروج کو منا پائیں گے پکا ، اب مجھے ہی کچھ کرنا ھو گا ، عروج کو اپنی محبت کے بارے میں خود میں بتاؤں گا۔۔۔۔"
خود سے کہتے وہ گھر سے باہر نکل گیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔
عروج اپنی ماں کی دوائیں لینے گھر سے باہر نکلی تھی جو کہ مکمل ہی ختم ھو گئی تو لازمی تھا انھیں لانا ورنہ وہ ابھی کہیں جانے سے پرہیز کر رہی تھی ، پیدل چلتی وہ اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک راستے میں ایک بڑی گاڑی اس کے قریب رکی اور پھر اس میں سے ساحر باہر نکل کر عروج کے سامنے کسی دیوار کی طرح کھڑا ھو گیا۔۔۔
" ہاۓ آئی ایم ساحر۔۔۔۔"
ساحر کا یوں اچانک اپنا راستہ روکنے پر عروج نے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
" سوری اکچولی آپ نے مجھے پہچانا نہیں ہو گا میں وہی ھوں ھوسپیٹل میں آپ نے اپنے دوپٹے سے میری پٹی کی تھی یار قسم سے میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے تب سے بھول پانا ناممکن لگنے لگ گیا ہے مجھے ، بس شادی کرنا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔"
مسکراتا ھوا وہ اس سے بولا وہیں عروج بے حد سنجیدہ تھی۔۔۔
" دیکھیں ساحر میں آپ سے محبت نہیں کرتی وہ صرف ایک ہمدردی تھی نا کہ کچھ اور ، مانا آپ مجھ سے محبت کرتے ہوں گے لیکن میں پہلے سے ہی کسی اور کی محبت میں گرفتار ہوں ، تو پلیز بھول جائیں مجھے ، مجھے امید ہے آپ میری بات سمجھ چکے ہوں گے ، بھروسہ رکھیں اللّٰہ پر آپ کو مجھ سے بھی زیادہ اچھی لڑکی مل جاۓ گی جو آپ سے محبت بھی کرتی ہو گی ، دوبارہ مجھے تنگ مت کریے گا پلیز۔۔۔۔"
اتنا کہہ عروج سائیڈ سے گزرتی وہاں سے چلی گئ جبکہ ساحر اسکی باتوں کو سوچ کر رونا شروع ھو گیا یوں ہی روتے ہوۓ وہ گھر آیا اور اپنے کمرے میں بند ھو گیا ، وہ بچپن سے ہی جب سے اس کی ماں اس دنیا سے گئی تھیں تب وہ تھوڑا سا پاگل ہو گیا تھا لیکن سعاد اپنے بھائی سے بے لوث محبت کرتا تھا اس کی اسی محبت نے ساحر کو بہت ضدی بنا دیا اسی وجہ سے جس چیز پر ساحر کی سوئی اٹک جاتی وہ پھر چاہے کچھ بھی ہو جاۓ اسے چاہیے ہی ہوتی تھی لیکن اب کی بار کیسے سعاد اپنی محبت کو اپنے بھائی کے لیے قربان کر دے گا یہ بات سوچنے والی تھی۔۔۔۔
آدھی رات کو جب وہ واپس گھر آیا تو روزانہ کی طرح سب سے پہلا سوال ملازم سے ساحر کے متعلق ہی پوچھا تھا اس نے مگر آج اسے معلوم ھوا ساحر روتا ھوا اپنے کمرے میں بند ھے اور نا ہی کچھ کھایا پیا اس نے ، سعاد کو اس کے ایسے برتاؤ کی وجہ عروج ہی محسوس ھوئی ، آج وہ اپنی مصروفیات کی بنا پر عروج سے بات نہیں کر سکا اور ساحر کی کالز دیکھ اسے اندازہ ھو گیا تھا وہ کیا کہنا چاہتا ھے اسی لیے وہ اب عروج کو کسی بھی طرح منانے کی ٹھان چکا تھا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
صبح کے 8 بجے کا وقت تھا جب عروج اپنے گھر میں موجود صفائی کرنے میں مصروف تھی ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسنے ناشتہ بنا کر ممتاز بیگم کو کھلایا تھا مگر خود کچھ کھانے کا من نہیں تھا اس کا تبھی اچانک دروازے پر دستک ہوئی ، حیرانگی سے جا کر جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے سعاد موجود تھا۔۔۔۔
" مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ، جائیں پلیز۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی عروج دوبارہ سے دروازہ بند کرنے لگی کہ ھاتھ کی مدد سے دروازہ کھول زبردستی وہ ان کے گھر کے اندر داخل ہو گیا اسکی حالت دیکھ ایک پل کو تو وہ خوفزدہ ھو گئی تھی مگر پھر خود کو کمپوز کر لیا اس نے۔۔۔۔
" عروج پہلے تو میں تم سے پیار سے کہہ رہا تھا سوچا تھا سمجھ جاؤ گی مگر اب میں کسی بھی حد تک جانے سے پرہیز نہیں کروں گا ، یقین کرو یار میرا بھائی تمہیں بہت خوش رکھے گا پلیز مان جاؤ ورنہ وہ پتہ نہیں کیا کر جاۓ گا پلیز عروج ،میں نے وعدہ کیا ہے اس سے تمہیں منا لوں گا ، میری بات مان لو پلیز۔۔۔۔"
" آپ کو ایک بار مں سمجھ نہیں آ رہی سعاد ، کیا بچے ہیں آپ یا اپنے بھائی کی محبت میں اندھے ہو چکے ہیں ، جو آپ کو میری محبت اپنے لیے نظر نہیں آ رہی کبھی اپنے لیے بھی سوچ لیں سعاد خود کو بھی کوئی خوشی دے دیں آپکو بھی ایک دفعہ ہی زندگی ملی ھے ، بھروسہ کریں اگر اپنے بھائی کو آپ اتنی سی بات سمجھا دیں گے تو آپ کی محبت میں وہ ضرور سمجھ جائیں گے ، انھیں بھی آپ بہت عزیز ھوں گے سعاد۔۔۔۔"
سعاد کو دیکھتے وہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ اس وقت سعاد کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ سمجھ پاتا۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے ایسے نہیں مانو گی تم اوکے ڈونٹ وری ، یہ بتاؤ کہاں ہے تمہاری ماں اب صرف یہی ہے نا تمہارا سب کچھ اسے بھی اب میں تم سے دور کر دیتا ہوں۔۔۔۔"
اپنی جیکٹ سے بندوق نکال کر سعاد ممتاز بیگم کے کمرے میں جانے لگا جبکہ عروج کے تو مانو ھاتھ پیر پھول گئے۔۔۔
" سعاد سعاد کیا کر رہے ہیں آپ ہوش میں آئیں۔۔۔"
سعاد کی بازو پکڑ وہ اسے کھینچتی ھوئی چیخ پڑی۔۔۔۔
" تم میری بات مان رہی ہو یا نہیں ، ابھی کے ابھی چلو گی تم میرے ساتھ اور ساحر سے اظہار محبت کرو گی، ڈیٹس اٹ۔۔۔۔"
عروج کا ہاتھ پکڑ وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگا عروج کا دوپٹہ بھی وہیں زمین پر گر گیا تھا۔۔۔
" سعاد میرا ہاتھ چھوڑیں ، پاگل ھو گئے ھیں کیا آپ۔۔۔۔؟؟؟
سارا محلہ ان دونوں کو دیکھ کر حیران تھا کہ آخر یہ ھو کیا رھا ھے۔۔۔۔
" اوئے چھوڑ عروج کو ایسے سرعام تو کسی لڑکی کو اغوا نہیں کر سکتا سمجھا۔۔۔۔"
ایک شخص جو کہ گلی میں ہی کھڑا تھا اونچی آواز میں بولا تبھی ایک عورت بھی اپنے گھر کے دروازے میں کھڑی گویا ھوئی۔۔۔
" اسی لیے ہم کہتے تھے کسی لڑکے کے ساتھ نا گھومے پھرے یہ ، اب اپنی بہن کی طرح اس کے ساتھ بھی وہی سب ہو گا دیکھ لینا ، دونوں بہنیں ایک جیسی ہی ہیں آوارہ۔۔۔۔"
لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رھے تھے مگر سعاد بنا کسی کی پراوہ کیے عروج کو گاڑی میں زبردستی بیٹھا کر اپنے ساتھ لیے گاڑی سٹارٹ کر گیا۔۔۔۔
" میرے بھائی کو جب پہلے محبت ہوئی تھی تب بھی بہت خوش تھا وہ جیسے اب ، مگر اس نے بھی تمہاری طرح انکار کر دیا شادی کرنے سے اور جانتی ھو وہ کسی اور سے شادی کرنے والی تھی ٹوٹ گیا تھا میرا بھائی بہت مشکل سے ٹھیک ھوا ھے ، تو اب پھر سے تم بھی وہی سب کرنا چاہتی ہو جس سے ساحر پہلے جیسا ھو جائے۔۔۔۔"
گاڑی ڈرائیو کرتے وہ بھرائی ھوئی آواز میں گویا ھوا۔۔۔
" سعاد آپ کیا سمجھتے ہیں یوں زبردستی کے رشتے بنانے سے کیا سچ میں وہ رشتہ بن جائے گا مت بھولیں رشتے دل سے بنتے ہیں اور جب میں محبت آپ سے کرتی ہوں تو پھر کیسے آپ کے بھائی کے بارے میں وہ سب سوچوں جو میرا دل صرف آپ کے لیے سوچتا ہے۔۔۔۔"
" بٹ آئی ہیٹ یو ، کیوں نہیں سمجھ آ رہی تمہیں میں تمہیں پسند بھی نہیں کرتا محبت تو بہت دور کی بات ھے ، تم میرے ٹائپ کی ہو ہی نہیں ، اپنی اوقات دیکھی ہے تم نے کیا ھو تم ، سوچ بھی کیسے لیا سعاد مرزا تم سے شادی کرے گا ، وہ تو ناجانے میرے بھائی نے کیا دیکھ لیا تم میں جو محبت کر بیٹھا ، بہت خوش قسمت ھو تم جو وہ تمہیں محبت کرنے لگا ھے اس لیے خاموشی سے میری بات مان لو۔۔۔"
بغیر عروج کو دیکھے وہ سرد مہری سے بولا وہیں اس بات پر عروج کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔۔
" او اچھا ایسی بات ھے اگر آپ مجھے پسند نہیں کرتے تو پھر مجھے ایسا محسوس کیوں نہیں ہو رہا سعاد ، کیوں میرا دل یہی بار بار مجھے احساس کروا رھا ھے کہ آپ بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی میں آپ سے کرتی ہوں۔۔۔"
" جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔"
گاڑی کو وہی پر روک سعاد غصے سے عروج کی طرف دیکھتے ہوئے چیخ پڑا۔۔۔۔
' میں نے کہا جو ابھی گھسا لو اپنے دماغ میں ، نفرت کرتا ہوں تم سے مطلب نفرت ہی ھے ، اگر ایک مرتبہ بھی دوبارہ تم نے یہ بولا تم مجھے پسند کرتی ہو تو جان لے لو گا تمہاری۔۔۔۔"
لہو رنگ آنکھوں سے اسے گھورتا وہ شہادت کی انگلی اٹھائے دھمکی دینے لگا جبکہ عروج کو جیسے کوئی فرق نا پڑا ھو وہ ویسے ہی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔۔۔
" لے لیں اس سے اچھا آپ میری جان ہی لے لیں سعاد ، ویسے بھی مجھے نہیں جینا آپ کے بغیر۔۔۔۔"
" خاموش رھو , میں تمہیں ساحر کے پاس لے جا رہا ہوں جا کر اس سے خود کہو گی تم اسے پسند کرتی ہو اور شادی کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔"
اپنے چہرے کا رخ موڑے اس نے گویا حکم دیا۔۔۔
" میں ایسا ہر گز نہیں کہوں گی چاہے پھر آپ مجھے جان سے بھی مار دیں۔۔۔"
عروج کے دو ٹوک انداز پر سعاد نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔۔۔
" ٹھیک ہے مت کہو ، تم مجھے پسند کرتی ہو محبت ھے رائٹ ، تو پھر میں ہی مر جاتا ہوں ، جو تم دونوں کے راستے کا پتھر بنا ھوا ھے۔۔۔۔"
" سعاد بھول کر بھی ایسا لفظ مت بولیں گا آپ ورنہ۔۔۔۔"
عروج تڑپ ہی تو اٹھی تھی اس بات پر۔۔۔
" ورنہ کیا بولو ، اگر تم نے میرے بھائی سے شادی نا کی تو قسم خدا کی ، ابھی کے ابھی جان دے دوں گا میں اپنی ، میں اپنے بھائی کی وہ حالت جو تمہارے بغیر ھو گی وہ دیکھ نہیں پاؤں گا میں ، اس سے اچھی موت ھے ، اب بولو تم کرو گی نا میرے بھائی سے شادی۔۔۔۔"
سعاد کے سوال پر عروج خاموش سے سر جھکائے بیٹھی آنسو بہانے لگی۔۔۔۔
" اوکے ، تمہارا جواب مل گیا مجھے۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی اپنی جیکٹ سے بندوق نکال کر سعاد نے اپنی پیشانی پر رکھ لی جبکہ اس حرکت دیکھ عروج نے نظروں کا رخ اس کی جانب گیا ، لمحوں میں اس کا چہرہ فق ھوا تھا۔۔۔
" سعاد نہیں پلیز مت کریں ایسے ، اوکے اوکے میں کروں گی آپ کے بھائی سے شادی ، آپ اسے پیچھے کریں پلیز ، ہٹائیں اسے۔۔۔۔"
سعاد کے ھاتھوں سے بندوق پکڑتے وہ اس کی منت کرنے لگی۔۔۔
" تم وعدہ کرو , وہاں جا کر وہ سب کہو گی جو میں نے تم سے کہا ہے۔۔۔۔"
" اوکے کہہ دوں گی میں سب کچھ کہہ دوں گی آئی پرامس۔۔۔۔"
روتے ھوئے بلآخر اسنے حامی بھر ہی لی۔۔۔
" ٹھیک ہے۔۔۔۔"
عروج کا جواب سن پاگلوں کی طرح ہنستے ہوۓ سعاد نے بندوق دوبارہ اپنی جیکٹ میں ڈال کے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔۔
اگلی کچھ دیر میں وہ لوگ سعاد کے گھر پہنچنے میں کامیاب ھو گئے ، سنجیدگی سے سعاد اور عروج گاڑی سے اتر کر بھاری قدموں کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہوئے تو اچانک ان پر پھولوں کی بارش ہونا شروع ھو گئ جسے دیکھ سعاد بالکل حیران ہو گیا مگر پھر اس نے سوچا کہ شاید عروج کے گھر آنے کے بارے میں ساحر کو پتا چل گیا ہو گا وہیں عروج سوچے جا رہی تھی کہ ساحر نے لگتا ہے وہ ملاقات والی بات سعاد سے ابھی تک نہیں کہی ورنہ سعاد ایسے زبردستی اسے ساحر کے لیے مجبور نا کرتا ابھی وہ دونوں اپنی ہی سوچوں میں گم تھے تبھی انھیں ساحر ایک پلیٹ ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر آتا دیکھائی دیا۔۔۔۔۔
" بھائی آپ آ گۓ۔۔۔۔؟؟؟
قدم اٹھاتے مسکرا کر اس نے ان دونوں کو دیکھا تھا۔۔۔
" ہاں ہاں ساحر آ گیا میں تمہاری ہونے والی بیوی کو لے کر۔۔۔۔"
پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سعاد نے اسے جواب دیا۔۔۔
" نہیں نہیں بھائی میری ہونے والی بیوی نہیں بلکہ میری ہونے والی بھابھی کہیں۔۔۔۔"
ساحر کی اب کی کہی بات عروج کے ساتھ سعاد کو بھی حیران کر گئی۔۔۔
" یہ کیا بات کر رہا ہے تو ساحر ،دیکھ عروج ھے یہ جو تجھے چاھیے تھی ، تجھ سے محبت کرتی ہے یہ ، عروج بولو نا ساحر سے۔۔۔۔"
سعاد نے عروج کو دیکھتے بولنے کا اشارہ کیا تو وہ بھی نان سٹاپ بولنا شروع ہو گئ۔۔۔
" ہاں میں ساحر سے بہت محبت کرتی ہوں اور اس سے ہی شادی کروں گی۔۔۔۔"
" ہاہاہاہا یار بھائی یہ ایسے کیوں لگ رہا جیسے عروج کو پٹی پڑھائی گئی ہو ، بھائی یار مجھے علم ھو گیا ھے اس بات کا کہ آپ اور عروج ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو ، قسم سے مجھ سے زیادہ اور کوئی خوش نہیں ہو گا جب آپ دونوں ایک ہو جائیں گے۔۔۔۔"
عروج کے اظہار محبت پر بھرپور قہقہہ لگائے وہ ھنستا ھوا سعاد کے کاندھا پر ھاتھ رکھتا اس سے بولا۔۔۔
" ساحر ایسا کچھ نہیں نے غلط سنا جو بھی سنا تو نے ، مجھے تو عروج بالکل بھی پسند نہیں یار اور عروج بھی تمہیں پسند کرتی ہے۔۔۔۔"
" بھائی پلیز مجھ سے تو جھوٹ نا بولیں ، آپ کا ہی بھائی ہوں میں ، آپ کے کچھ نا کہنے پر بھی سمجھ جاتا ہوں سب کہ میرے بھائی کے دل میں کیا ہے اور مجھے اب صرف آپ کی شادی دیکھنی ہے یار لاسٹ وش سمجھ لو آپ میری ، تو بس اب آپ یہ مٹھائی کھائیں اور میری وش پوری کریں فوراً۔۔۔۔"
اپنے ہاتھ سے وہ پلیٹ میں موجود گلاب جامن اٹھا کر سعاد اور عروج کو کھلانے لگا جو صدمے کے زیر اثر دونوں نے کھایا تھا۔۔۔۔
" یار بھائی آپ کب تک میرے لیے جیئں گے خود کا بھی سوچو ، اب آپ کی عمر ہو چکی ہے شادی کی اگر دو تین سال مزید آپ کنوارے رہے تو آپ کے بچے آپ کو دادا جی بلائیں گے جو مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا ، اب میں بھی چاہتا ہوں چھوٹے چھوٹے سے بچے مجھے چاچو چاچو بولیں میں ان کے ساتھ کھیلوں ، دل تو کر رھا ھے ابھی مولوی بلاوا لوں اور نکاح ھو جائے آپ کا ، لیکن اپنے بھائی کی دھوم دھام سے شادی کرنی ہے میں نے تو مزید تھوڑا صبر کر لیتا ھوں۔۔۔"
" ساحر ساحر کیا ھو گیا ھے تجھے یار ، آئی نو تو جذباتی ہو کر یہ سب کہہ رہا ہے ، یقین کر یار مجھے سچ میں عروج سے محبت نہیں ہے۔۔۔۔"
ساحر کو کاندھوں سے تھامے وہ اسے سمجھانے کی سعی کرنے لگا جبکہ عروج بالکل خاموش کھڑی تھی۔۔۔
" آپ کی آنکھوں سے آپ کے دل کا حال جان لیتا ہوں میں بھائی اور مجھے آپ کی آنکھوں میں عروج کے لیے صاف صاف محبت دیکھائی دے رہی ہے تو کیوں آپ جھوٹ بول رہے ہیں اور جب میں خود کہہ رہا ہوں آپ دونوں شادی کر لو تو مان جاؤ یار ، میرا کیا ہے میں تو دل پھینک قسم کا انسان ھوں مجھے کل کو کوئی مل جاۓ گی جس سے میں شادی کر لوں گا ، اب بس جلدی سے میں شادی کیا تیاریاں شروع کرنے والا ھوں ٹھیک ہے بھائی بائے۔۔۔"
" اوکے ساحر۔۔۔۔"
سعاد نے اس کی بات مان تو لی مگر اسے کافی عجیب محسوس ھو رہا تھا اچانک ساحر کا ایسا برتاو کوئی تو وجہ لازمی تھی۔۔۔۔
" کس نے ساحر کو بتایا میں عروج کو پسند کرتا ہوں اور میرا بھائی جو اتنا ضدی ہے کیسے مان گیا وہ عروج کو مجھے دینے کے لیے۔۔۔۔"
دل ہی دل میں وہ خود سے مخاطب تھا۔۔۔
" آج سے ہی تیاریاں شروع ہو جائیں گی بھائی۔۔۔"
اونچی آواز میں ہانک لگا کر وہ ھنستا ھوا وہاں سے چلا گیا تب عروج نے ہلکا سا مسکرا کر سعاد کے کاندھے پر ھاتھ رکھا تو وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔
" دیکھا آپ نے سعاد جی جب محبت سچی ہو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے نا ممکن کام بھی کتنی آسانی سے سر انجام پا گیا ، ساحر خود ہی مان گیا ہماری شادی کے لیے ، میں کہتی تھی آپ سے ، جتنا آپ سوچتے ہیں اتنا ساحر ضدی نہیں ہے اب آپ اس سے اتنی محبت کرتے ہیں تو وہ بھی تو آپ سے محبت کرتا ہی ہو گا۔۔۔۔"
رسانیت سے وہ اسے سمجھا رہی تھی جبکہ سعاد گہری سوچ میں مبتلا ہر پہلو پر غور کر رھا تھا۔۔۔
" کہیں تم نے تو نہیں کچھ کہا اسے ، بولو عروج کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو یہ بتایا تو نہیں تم نے اسے۔۔۔؟؟؟
" نہیں تو میں نے تو نہیں کہا ایسا کچھ بھی۔۔۔۔"
عروج نے بے فوراً سچ بتا دیا۔۔۔
" تو پھر کیسے معلوم ھوا ساحر کو ، مجھے پتہ لگانا پڑے گا۔۔۔۔"
" سعاد کیا ہو گیا ہے ، آپ کیوں اپنے بھائی کو ایسے ناسمجھ سمجھتے ہیں وہ ایک بہت سمجھدار انسان ہیں تو سمجھ گئے بات کو ، اب جب خدا ہمیں ملا رہے ہیں ایک کرنا چاہتے ھیں تو آپ کیوں نہیں قبول کر رہے اس رشتے کو ، اگر آپ واقعی میں مجھے پسند نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں میں آپ کی محبت کے سہارے زندگی گزار لوں گی آپ اپنے ٹائپ کی لڑکی سے کر لینا شادی۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ واپسی کے لیے پلٹی مگر وہ جھٹ سے اس کا ھاتھ پکڑ چکا تھا۔۔۔
" یار نہیں عروج ایسا نہیں ہے لیکن ساحر۔۔۔۔"
" سعاد اتنا کیوں سوچ رہے ہیں آپ ، ریلیکس رھیں پلیز ان باتوں کو سوچنا بند کریں اور ایک اچھی سی سمائل دیں مجھے ، پلیز سعاد جی۔۔۔"
عروج کے مسکرا کر کہنے پر ہلکا سا سعاد بھی مسکرا دیا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
ساحر خود اپنی نگرانی میں سعاد اور عروج کی شادی کی تیاریاں کروا رھا تھا اور اس بات سے عروج بہت خوش تھی لیکن سعاد کو تھوڑا سا عجیب محسوس ھوتا یہ سب ، جیسے ساحر زبردستی صرف اسکے لیے مسکراتا ہے لیکن اندر سے وہ بہت دکھی ہو ، عجیب سی بے چینی میں مبتلا ھو گیا تھا وہ۔۔۔۔
آج مہندی کی رات تھی سارے گھر کو کسی دلہن کی طرح سجایا ھوا تھا بہت اچھے سے سب انتظام کروایا تھا اس نے اپنے بھائی کی شادی کا ، وہیں اپنی بے چینی کے زیر اثر سعاد ساحر کے روم میں گیا اور اس سے سوال کر دیا جو اسے کب سے تنگ کیے ھوئے تھا۔۔۔
" کیا تم خوش ہو ساحر ، اس شادی سے۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کے سوال پر وہ اسے حیرانگی سے دیکھنے لگا۔۔۔
" بھائی یہ کیا بات ہوئی یار میں بہت خوش ہوں ، بلیو می ، ہاں زندگی میں ایک عدد محبت کی کمی ہے ابھی میرے لیکن وہ بھی اگر قسمت میں ہوئی تو ضرور مل جاۓ گی۔۔۔۔"
ہلکا سا مسکراتے وہ سعاد کی تسلی کروانے لگا۔۔۔
" انشااللہ ساحر ، یار میں تو یہ کہہ رہا ھوں ابھی کوئی ڈھونڈ لیتے ھیں لڑکی اس طرح دونوں بھائیوں کی اکٹھی ہی شادی ہو جائے گی۔۔۔۔"
" بھائی کیا ہو گیا ہے آپکو ، محبت کونسی بازاروں میں ملتی ہے یار جو فوراً سے میں خرید لاؤں گا اور میں نے کونسا مر جانا ہے ، جب کبھی مجھے کوئی ایسی لڑکی مل گئ جو مجھ سے محبت کرے گی تب کر لوں گا اس سے شادی میں اور بھائی اب آپ میری فکر چھوڑ دیں ،یار اپنی آنے والی لائف کا سوچیں آپ اور بس خوش رہیں۔۔۔"
ساحر کی کہی گئی باتیں حیران ہی کر گئی تھیں اسے آج وہ اسے بہت بڑا بڑا سا محسوس ھوا۔۔۔۔
" تو اتنا بڑا اور سمجھدار کب سے ہو گیا ساحر ،ایسی بڑی بڑی باتیں کیسے کر رہا ہے تو۔۔۔۔؟؟؟
ساحر کے گال پر ھاتھ رکھتے وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
" اب کیا پوری عمر بچہ ہی رہوں گا میں ، آپ کا بھائی بڑا ہو چکا ہے ساتھ سمجھدار بھی ، اچھا آپ نے بھابھی کی تصویر مانگی کہ وہ کیسی لگ رہی ہیں آج۔۔۔۔؟؟؟
" تصویر میں نے نہیں تو میں نے تو بات بھی نہیں کی اس سے۔۔۔۔"
سعاد نے جھٹ سے جواب دیا۔۔۔
" لو بھئ بہت بورنگ ہیں آپ یار ، رکیں۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی سعاد کی جیب سے موبائل نکال کر ساحر نے عروج کو ویڈیو کال کر دی جو وہ پک کر چکی تھی۔۔۔
"السلام وعلیکم ، کیسی ھیں آپ ، واؤ بھابھی ، قسم سے بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ ، چلیں یہ لیں بھائی سے بات کریں ، بائے۔۔۔۔"
دل سے تعریف کرتا وہ موبائل سعاد کو پکڑا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
" کیسے ہیں آپ سعاد ، آپ نے تو بات بھی نہیں کی مجھ سے یہ تو ساحر کو ہی احساس ھو گیا میرا۔۔۔"
فوراً شکواہ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔
" یار میں نے سوچا اب شادی تو ہونے والی ہی ہے ، چھوڑو تم بتاؤ آج کیسے مہندی لگوائی دیکھاؤ تو۔۔۔۔"
بات بدلتے وہ عروج سے بولا تو وہ بھی مسکراتے ھوئی اپنی مہندی اسے دیکھانے لگی۔۔۔
" گھر میں فینگشن تو تھا لیکن محلے میں سے کوئی بھی ہمارے گھر نہیں آیا ، سوائے ایک آنٹی کے اور بس میری دو سہلیاں تھیں اس کے علاؤہ اور کوئی بھی نہیں ، انہوں نے ہی مجھے یہ مہندی لگائی ھے اور اب بھی گانے گا رہی ھیں وہ ، ویسے مجھے ان باتوں سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا ہمیشہ سے ہی اکیلے زندگی گزاری ہے اور خدا نے دیکھیں تو سہی مجھے آپ کا ساتھ دے دیا اب مجھے زندگی سے اور کچھ نہیں چاہیے ، ساحر نے بہت اچھا انتظام کیا ہر بات کا آپ جانتے ھیں ان کا پلین تھا آپ سے ویڈیو کال پر بات کروانے کا میں کب سے موبائل پکڑے بیٹھے انتظار کر رہی تھی ، اور سعاد جی مجھے آپ سے ایک اور بات کرنی تھی امی کا میرے سوا اور کوئی نہیں ہے تو کیا شادی کے بعد میری امی ہمارے ساتھ رہ سکتی ہیں۔۔۔۔"
ہلکے سے خوف کے زیر اثر ہچکچاتے ھوئے اس نے اجازت طلب کی۔۔۔
" یار یہ بات تو میں خود تم سے کہنے والا تھا اور اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے عروج اب سے یہ گھر تمہارا بھی ہے جو چاہے تم کرو میری پرمیشن کی ضرورت نہیں۔۔۔۔"
" تھنک یو سعاد جی سچ میں بہت خوش قسمت ہوں میں جو آپ میری قسمت میں لکھے تھے ، ورنہ مجھ جیسی اتنی غریب لڑکی اور آپ جیسے اتنے امیر شخص میں تو زمین آسمان کا فرق ھوتا ہے۔۔۔۔"
" بس کر دو عروج میں یہ سب نہیں مانتا ہر کسی کو اللّٰہ نے ایک جیسا ہی پیدا کیا ہے چاہے پھر کوئی جتنا بھی امیر ہی کیوں نا ہو یا پھر کوئی بہت زیادہ غریب ہو سبھی ایک جیسی ہی مٹی سے بنے ہیں ، تمہاری سوچ عادتیں اور دل مجھے اپنی طرف اٹریکٹ کرنے میں کامیاب ہوا ہے ورنہ میں تو کسی لڑکی کی طرف کبھی ایک نظر دیکھتا بھی نہیں تھا لیکن جب تمہیں دیکھا تو دل ہی نہیں کیا کسی اور کو دیکھنے کا۔۔۔۔"
آج وہ اپنے دل میں موجود جذبات اس پر عیاں کیے جا رہا تھا وہیں وہ شرماتے ھوئے ہلکا سا مسکراتی رہی۔۔۔
" آپ کو تو بہت پیاری پیاری باتیں بھی آتی ہیں سعاد۔۔۔۔"
" ابھی تم نے مجھے جانا ہی کتنا ہے , مجھے تو اور بھی بہت کچھ کرنا آتا ہے جسے آسان لفظوں میں لوگ رومانس کہتے ہیں۔۔۔"
اپنی ایک آنکھ دباتا وہ اسے تنگ کرنے لگا۔۔۔
" سعاد آپ تو شرارتی بھی بہت ہیں بس اب بہت ہو گئ باتیں اب آپ سے بات نکاح کے بعد ہی بات ہو گی ، خدا حافظ۔۔۔۔"
اتنا کہہ عروج نے کال کاٹ دی جبکہ اس کی اس حرکت پر سعاد کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔۔۔
آج وہ دن آ چکا تھا جس کا ان دونوں کو بے صبری سے انتظار تھا آخر عروج اور سعاد ایک ہونے والے تھے عروج کافی خوش تھی اتنی خوشی شاید اسے اپنی اب تک کی زندگی میں نا ملی ھو۔۔۔
" کتنی خوش نصیب ھوں میں جو اتنی آسانی سے مجھے میری محبت ملنے والی ہے ورنہ ایسا کب ہوتا ہے میں اتنی غریب لڑکی اور سعاد جی اتنے امیر یہ تو بالکل ایسے لگ رہا ہے مجھے ، جیسے میں بچپن میں کہانیاں پڑھتی تھی سینڈریلا والی ، تھنیک یو اللّٰہ جی میری دلی مراد پوری کرنے کے لیے۔۔۔۔"
دلہن کے روپ میں موجود وہ خود کو ہی دیکھتے شرمائے جا رہی تھی وہیں دوسری جانب سعاد دلہا بن کر بیٹھا گہری سوچ میں مبتلا تھا جب اچانک ساحر اس کے پاس آ گیا۔۔۔۔
" بھائی تیار ہو گۓ آپ ، چلیں پھر اٹھیں بارات لے کر جانی ھے۔۔۔۔"
مسکرا کر اسے دیکھتا وہ بولا مگر سعاد ابھی بھی ویسے ہی سنجیدہ تھا۔۔۔
" ہاں بس چلتے ہیں لیکن ساحر ایک منٹ بات سن۔۔۔۔"
" ہاں بھائی بولیں کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کے قریب بیٹھتے وہ کہنے لگا۔۔۔
" ساحر تو کیسے اتنا سمجھدار ہو گیا یار یہ شادی کا سارا انتظام کیسے تو نے کیا میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا۔۔۔۔"
سوالیہ نظروں سے وہ اسے دیکھتا گویا ھوا۔۔۔
" اب میں بچہ نہیں رہا بھائی ، ان سب باتوں کو چھوڑیں اور چلیں یار دیر ھو رہی ھے۔۔۔۔"
زبردستی سعاد کو کھینچتے وہ گھر کے باہر بالکل تیار کھڑی گاڑی کے پاس گیا اور سعاد کو گاڑی میں بیٹھا کر دروازہ بند کرنے لگا تب اچانک سعاد نے ھاتھ سے دروازہ پکڑ اسے دیکھا۔۔۔
" تم تو آؤ یار بیٹھو میرے ساتھ۔۔۔۔"
" بھائی میں دوسری گاڑی میں آ جاؤں گا آپ جائیں بس۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ گاڑی میں جھٹ سے گھسا اور سعاد کو زور سے خود میں بھینچ لیا اس کے مضبوط بازوؤں کے گھیرے کو تنگ ھوتا محسوس کرتے سعاد کو عجیب لگا۔۔۔۔
" کیا بات ھے ساحر ، بیٹے تو ایسے برتاؤ کیوں کر رھا ھے۔۔۔۔؟؟؟
خود سے ساحر کو الگ کرتے وہ اس کے چہرے کو چھوتا سوال کرنے لگا۔۔۔۔
" کچھ نہیں بھائی بس ویسے ہی دل کیا ، آئی لو یو بھائی آپ بہت اچھے ہیں بہت زیادہ دنیا کے بیسٹ بھائی ، آپ نے میرے لیے پوری عمر بہت کچھ کیا ھے جس کا بدلا میں کبھی نہیں اتار سکتا ، تھنک یو سو مچ بھائی۔۔۔۔"
" ساحر کیسی باتیں کر رہا ہے یار تو میرا بھائی کم بچہ زیادہ ہے ، جان ہے تو میری سمجھا اور یہ تھنک یو کیوں کہہ رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟
" اچھا بھائی اب جائیں آپ ، بھابھی ویٹ کر رہی ہوں گی خیریت سے جائیں گڈ بائے۔۔۔۔"
اپنی آنکھوں میں امڈ آنے والی نمی کو چھپاتے وہ فوراً گاڑی سے باہر نکل گیا۔۔۔
" ٹھیک ہے میں ابھی جا رھا ھوں تو دوسری گاڑی میں آ جا۔۔۔۔"
سعاد کے کہنے پر وہ مسکراتا ہوا اسے ھاتھ کے اشارے سے بائے کرنے لگا سعاد کی گاڑی جیسے ہی گھر سے باہر نکلی وہ بھی ایک ٹھندی آہ بھرتا اپنی گاڑی میں بیٹھ وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
کچھ دیر کی مسافت کے بعد سعاد عروج کے محلے میں داخل ھو چکا تھا اس کے پیچھے 10 12 مہنگی گاڑیاں بھی موجود تھیں جسے دیکھ سارا محلہ حیران ہو گیا۔۔۔۔
" یہ عروج نے کس نواب کو پھنسا لیا ہے اتنی مہنگی گاڑیاں اور دلہا دیکھو مرسڈیز میں آیا ہے۔۔۔۔"
سارے میں محلے میں کانا پھوسی شروع ھو گئی جس کی پرواہ کبھی سعاد مزرا کو سرے سے نہیں ھوئی تھی۔۔۔
عروج تو آج ویسے ہی بہت خوش تھی مسکراہٹ ایک پل کے لیے بھی اسکے لبوں سے جدا نا ھوئی ، ممتاز بیگم کے پاس بیٹھی وہ ان سے باتیں کرنے میں مصروف تھی جب اچانک اسے سعاد کی گاڑی کی آواز سنائی دی یہ ھارن بھی شاید اس نے اپنی موجودگی کا احساس کروانے کے لیے بجایا تھا ، جسے سن عروج کی دھڑکنیں بے ترتیب ھونے لگیں بہت تیزی اختیار کر گئی تھیں وہ ، اگلی کچھ دیر میں سعاد عروج کے گھر میں اپنے خاص آدمیوں کے ساتھ داخل ھوا تو مولوی صاحب پہلے سے ہی وہاں پر موجود تھے سب انتظام ساحر کروا چکا تھا ان سب کے بیٹھنے سے لے کر عروج کے گواہوں تک کا ، سب کچھ اس نے اپنی نگرانی میں کروایا تھا آج سعاد کو فخر محسوس ھوا اپنے چھوٹے بھائی پر۔۔۔۔
" چلو پھر نکاح شروع کرتے ھیں۔۔۔۔"
مولوی صاحب انھیں دیکھتے ہی بولے مگر سعاد مسلسل پلٹ کر دروازے کی جانب دیکھے جا رھا تھا اسے ساحر کا انتظار تھا۔۔۔
" ابھی تک ساحر نہیں آیا کیا ، کہاں ھے وہ اسے بلاؤ فوراً ، جاؤ جلدی۔۔۔۔"
اپنے پیچھے کھڑے باڈی گارڈ کو اس نے حکم دیا۔۔۔
" سر وہ شاید بزی ہوں گے جو ابھی تک نہیں پہنچے سارے انتظامات انھوں نے ہی تو سنبھالے ھوئے ھیں کسی اور کی مدد نہیں لے رھے ، آپ پلیز نکاح شروع کریں تاکہ پھر ہم یہاں سے جا سکیں ، ادھر کے لوگ نمونوں کی طرح گھر کے باہر کھڑے ہیں ، سمجھیں بات کو اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔"
" اوکے ، لیکن تم ساحر کو دیکھو وہ کدھر ھے پتہ لگاؤ اس کا اپنے بھائی کو اتنی امپورٹنٹ جگہ پر اکیلا چھوڑ کر خود ناجانے کہاں گم ھے ۔۔۔۔"
سعاد کے پھر سے کہنے پر باڈی گارڈ نے سر اثبات میں ہلا کر اسکی تسلی کروائی تب سعاد مولوی صاحب کے سامنے بیٹھ گیا تو انھوں نے نکاح کروانا شروع کر دیا جسے دل کی گہرائیوں سے قبول کیا اس نے ، سعاد کے سائن کروانے کے بعد مولوی صاحب عروج کے پاس چلے گۓ ، اس کمرے میں عروج کی سہیلیوں کے علاؤہ وہ پڑوس والی آنٹی اور ممتاز بیگم موجود تھیں اس وقت تو عروج خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔۔۔
آج وہ دن آ گیا جس کے بعد اس کی زندگی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی یہی بات اسے پرسکون اور خوش کیے ھوئی تھی ، مولوی صاحب نے اس بھی قبول ھے پوچھا تو وہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلاتے جواب دینے لگی ، آخر میں سائن کر دینے کے بعد سبھی ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے لگے نکاح مکمل ہو گیا تھا اور گواہوں کے بھی سائن لے لیے گئے تھے۔۔۔۔
کچھ وقت بعد رخصتی کا شور مچ گیا تب ممتاز بیگم کو بہت احتیاط کے ساتھ سعاد کے باڈی گارڈز کے انھیں کسی اور گاڑی میں لیجانا چاہا مگر عروج نے انھیں منع کر دیا اور اپنے ساتھ انھیں گاڑی میں بیٹھایا اس کی اس حرکت پر سعاد کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی۔۔۔۔
" یار یہ ساحر کہاں رہ گیا ، ہمارا نکاح بھی مکمل ہو چکا ہے لیکن اس کا کوئی آتہ پتا ہی نہیں۔۔۔۔"
اپنے موبائل کو ھاتھ میں پکڑے وہ پریشانی سے عروج سے مخاطب تھا۔۔۔
" سعاد جی وہ اب بچے نہیں ہیں آپ نے دیکھا کتنے سمجھدار ہیں وہ آپ سے بھی زیادہ ، خوامخواہ میں آپ کیوں اسے انھیں بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ، اب اس بات کی فکر چھوڑیں آپ اور ریلیکس ھوں ، بیچارے بزی ہوں گے کسی نا کسی کام میں ، دیکھیں تو کتنا کچھ اکیلے مینج کیا انھوں نے۔۔۔۔"
عروج بہت تحمل سے اسے سمجھا رہی تھی مگر سعاد پھر بھی ساحر کو کال کرنے لگا لیکن سامنے سے کال پک نہیں کی جا رہی تھی۔۔۔۔
" ساحر نے ایسے کبھی نہیں کیا جو میری کال کو اگنور کر دے یار مجھے فکر ہو رہی ہے اس کی۔۔۔۔"
سارے راستے وہ پریشانی سے ساحر کو لگاتار کالز کرتا رھا ، گھر پہنچتے ہی سعاد نے عروج اور ممتاز بیگم کو سنبھال کر گاڑی سے باہر نکالا۔۔۔۔
" تم اندر جاؤ آنٹی کے ساتھ میں ساحر کو ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔۔۔۔"
سعاد کو پریشان دیکھ وہ بھی اداس ہو گئ اور ممتاز بیگم کو سہارا دیے گھر میں داخل ھوئی۔۔۔
" یا اللّٰہ سب خیریت ہو ، پلیز کچھ بھی برا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔"
ایک کمرے میں ممتاز بیگم کو بیڈ پر لیٹا کر وہ خود ان کے قریب بیٹھی دل ہی دل میں دعا گو تھی۔۔۔
سعاد ہر جگہ ساحر کو ڈھونڈ چکا تھا جہاں اس کی موجودگی کی امید تھی مگر ہر جگہ اسے ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا تبھی اچانک اسکو اپنے باڈی گارڈ کی کال آئی جسے فوراً اٹینڈ کیا اس نے۔۔۔
" سر ساحر سر اپنی گاڑی میں قائدے اعظم روڑ پر سر پر گولی لگنے کی وجہ سے مر چکے ہیں شاید خودکشی کی ہے انھوں نے۔۔۔۔"
یہ بات سنتے ہے اس کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر نیچے گر گیا وہ مکمل کانپنے لگا تھا دماغ سن ھو چکا تھا۔۔۔۔
" ی۔۔۔ی۔۔۔یہ کیا کہہ رہا ہے ، ایسے نہیں ہو سکتا بکواس کیوں کر رہا ہے یہ مجھے ساحر پاس جانا ھے۔۔۔۔"
خود سے بڑبڑاتے وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ تیز رفتار میں ڈرائیو کرتے اس جگہ پہنچ گیا جہاں ساحر موجود تھا سامنے سے ساحر کو اس کے باڈی گارڈز گاڑی سے باہر نکال رہے تھے ، سر پر اتنا بڑا گھاؤ تھا جہاں سے سارا خون نکل کر سڑک پر گرتا جائے ، ساحر کی باڈی بالکل سفید پڑ چکی تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے سارا خون جسم سے نکل چکا ہو ، ساحر کو اس طرح دیکھ سعاد لڑکھڑاتا ہوا بے جان ھو رہی اپنی ٹانگوں سے ڈھوڑتا ھوا اس کے قریب جا کر سڑک پر گر سا گیا۔۔۔
" ساحر میرے بچے شاباش آنکھیں کھول ، پلیز یار ایسا مزاق مجھے پسند نہیں ھے اٹھ جا ، دیکھ میری طرف ، میری شادی ہو گئی تو یہی تو چاہتا تھا میری خوشی میں تو ایسا گندا مزاق کر رہا ھے ، اٹھ جا بیٹے ساحر بات نہیں مانے گا تو میری۔۔۔۔"
بولتے بولتے جب سعاد نے اس کے خون سے بھرے چہرے کو ہاتھ لگایا تو خوفزدہ ھوتے دور کھسک گیا وہ ، ساحر کا جسم بالکل ٹھنڈا برف کے مترادف تھا ، وہ چلا گیا تھا اسے چھوڑ کر۔۔۔۔۔
" سر ساحر سر اب نہیں اٹھیں گے وہ کب کے مر چکے ہیں۔۔۔۔"
اس کے مینجر نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔۔۔۔
" اپنی بکواس بند کر , کچھ نہیں ہوا ہے میرے ساحر کو ، اس کا بھائی ابھی زندہ ہے تو پھر اسے کیسے کچھ ہو سکتا ہے ، ساہر پلیز اٹھ جا دیکھ نا ، کیا کیا بکواس کر رہے ہیں سب تو میری ہر بات مانتا ھے ساحر ، پلیز اٹھ جا میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں ، بھیک مانگتا ہوں ساحر پلیز اٹھ جا ورنہ مر جاؤں گا میں۔۔۔۔"
پھر سے ساحر کے قریب ھوتے وہ اس کے سینے پر سر رکھ تڑپتے ھوئے اسے پکارے رھا تھا جو کہ کب کا اس دنیا کو چھوڑ چکا تھا ، تب تک امبولینس بھی وہاں آ گئ اور وہ لوگ ساحر کو اپنے ساتھ لے جانے لگے۔۔۔
" ہاتھ مت لگانا میرے بھائی کو ، دور رہو سب۔۔۔۔"
خونخوار نظروں سے ان سب کو گھورتے وہ چیخ پڑا۔۔۔
" سر مت کریں ایسے ساحر سر کو جانے دیں ، اور مجھے لگتا ہے خودکشی کی ہے ساحر سر نے۔۔۔۔"
" کیوں وہ کیوں کرے گا ایسے خودکشی وہ وہ تو بہت خوش تھا پھر وہ ایسا کچھ بھی کیوں کرے گا۔۔۔۔"
جواب دیتے ھوئے اچانک سعاد کے دماغ میں ایک بات گھوم گئی۔۔۔۔
" عروج سے ساحر محبت کرنے لگا تھا لیکن جب اسے یہ معلوم ھوا کہ میں بھی عروج کو پسند کرتا ہوں تو میری خوشی کے لیے اس نے اتنے دنوں تک ڈرامہ کیا اور آج جب اس سے یہ سب برداشت نہیں ہو سکا تو جان دے دی اس نے اپنی۔۔۔۔"
سعاد شوکڈ سا انھی باتوں کو سوچے جا رھا تھا جب مینیجر اس کے قریب بیٹھ کر اس کے کاندھے پر ھاتھ رکھ کے اسے ھوش میں واپس لایا۔۔۔
" سر پلیز ساحر سر کو جانے دیں یہاں راستے میں ٹریفک رک رہی ہے ، پلیز سر سمجھیں بات کو۔۔۔۔"
مینیجر کی بات سن غصے سے سعاد نے اسے دیکھا اور اٹھ کر خطرناک تاثرات لیے گاڑی میں بیٹھ کر وہ اسے بھگانے لگا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
بے چینی جب مزید پروان چڑھنے لگی تو وہ ممتاز بیگم کے کمرے سے باہر نکل ادھر اُدھر چکر کاٹنے لگی۔۔۔۔
" جلدی سے سعاد اور ساحر کا پتہ چل جاۓ کہاں ھیں وہ دونوں۔۔۔۔"
اپنے ھاتھ مروڑتی وہ خود سے ہی بڑائی جب اسے گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی تیزی سے بھاگ کر وہ باہر پورچ میں آئی اسے لگا سعاد اور ساحر دونوں واپس گھر آ گئے ھیں لیکن سامنے اسے اکیلا سعاد گاڑی سے باہر نکلتا ھوا نظر آیا اس کے چہرے ھاتھوں اور کپڑوں پر خون کے دھبے دیکھ وہ خوفزدہ ھو گئی۔۔۔
" سعاد کیا ہوا یہ خون ، ساحر کہاں ھیں۔۔۔۔"
ڈھوڑ کر سعاد کے پاس آتے ابھی اس نے اتنا ہی پوچھا تھا کہ تبھی سعاد نے غصے سے زمین پر دھکا دے دیا۔۔۔۔
" تیری وجہ سے میرا بھائی مر گیا صرف تیری وجہ سے۔۔۔۔"
سعاد کے منہ سے ادا ھونے والے الفاظ عروج کو شوکڈ کر گئے۔۔۔۔
" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں سعاد ، ساحر نہیں نہیں ایسے نہیں ہو سکتا۔۔۔۔"
" ایسا ہی ہوا ہے خودکشی کی ہے اس نے ، تیری وجہ سے مر گیا وہ کہہ رہا تھا نا میں ، جانتا تھا اپنے بھائی کو ، محبت کرنے لگ گیا تھا وہ تجھ سے اس تکلیف کو وہ برداشت نہیں کر سکا تو موت کو گلے لگا لیا ، اب تو تم خوش ہو گئ ہو مجھ سے شادی کر کے ، بہت شوق تھا نا تجھے میری بیوی بننے کا مگر اب تجھے پتہ چلے گا کتنا بڑا گناہ ، غلطی قصور ہو گیا ہے تجھ سے پچھتاوا ھو گا تجھے اپنے ہی فیصلے پر ، میری جان میرا بھائی مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا اس کی خوشی کے لیے میں نے ہر گناہ کیا لیکن پھر بھی اب اپنے بھائی کی موت کا ذمےدار میں خود ہی بن گیا۔۔۔۔"
خود کو کوستے وہ اپنے چہرے ہر تھپڑ مارنے لگا۔۔۔۔
" سعاد آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں ، مت دیں خود کو اذیت۔۔۔"
کھڑے ہو کر وہ سعاد کے قریب ھوتی اس کے ھاتھ پکڑ چکی تھی مگر نفرت سے اسے پھر سے خود سے دور کر سعاد نے ہاتھ میں پکڑی بندوق جو اس نے گاڑی کی سیٹ کے نیچے سے نکالی تھی اسے عروج کی پیشانی پر رکھ دیا۔۔۔
" جسٹ شٹ اپ ، دل تو کر رہا ہے ابھی کے ابھی اس بندوق میں موجود ساری کی ساری گولیاں تیری بیجھے میں گھسا دوں لیکن نہیں اتنی آسان موت کی تو حق دار نہیں ھے ، جتنا بڑا تیرا گناہ ہے تجھے اس سے بھی زیادہ خوفناک سزا ملے گی۔۔۔۔"
" ھاں تو مار دیں ، بہت غصہ ہے آپ کو مجھ پر قصور وار ھوں میں ، تو مار دیں مجھے کیونکہ آپ کے ہاتھوں سے مجھے مرنا بھی قبول ہے ، بلکہ خوش قسمتی ھو گی میری ، مری بھی تو اپنی محبت کے ہاتھوں ہی۔۔۔۔"
" شٹ اپ۔۔۔۔"
عروج کی بات سے تیش میں آتے وہ چیختا ھوا بندوق اسکی پیشانی سے پیچھے کر زمین پر گولیاں چلا کر اپنا غصہ زائل کرنے لگا۔۔۔۔
" اس تکلیف کو برداشت نہیں کر پا رہا ہوں میں ، دماغ پھٹ جائے گا میرا ، دل کر رہا ہے خود بھی مر جاؤں کیا کروں میں کیوں ساحر۔۔۔۔"
اپنے بالوں میں ھاتھ پھنسائے وہ بے بسی سے تڑپ رھا تھا ، تب تک امبولینس بھی ان کے گھر آ گئی جس میں ساحر کی لاش کو باہر نکال کر گھر کے اندر لے آۓ اور سٹریچر زمین پر رکھ دیا ، سعاد اسے دیکھتے ہی جلدی سے ساحر کے پاس چلا آیا۔۔۔
" چھوڑو میرے بھائی کو دور ہو جاؤ سب ، ساحر میری جان پلیز اٹھ جا تیرا بھائی تجھ سے کہہ رہا ہے نا تو اپنے بھائی کی بات نہیں مانے گا ، مجھے بھی اپنے ساتھ لے جا ساحر تیرے بنا زندگی نہیں چاہيے مجھے ، تو مت ستا یار مان لے میری بات ، اٹھ جا ساحر ایک دفعہ بس ایک دفعہ انکھیں کھول دے۔۔۔۔"
مضبوطی سے ساحر کو اپنے گلے لگائے وہ بے دردی سے روتا بار بار ساحر کو اٹھنے کا کہہ رھا تھا ، اس کی تڑپ دیکھ وہاں پر موجود سبھی لوگ رونے لگے کہ کیسے سعاد اپنے بھائی کے لیے تڑپ رہا ہے اس کی منتیں کر رھا ھے تب عروج نے روتے ھوئے سعاد کے کاندھے پر ھاتھ رکھا۔۔۔
" ساحر ایسے نہیں کر سکتے آپ پوسٹ مارٹم کروائیں ان کا ، ضرور سچ پتہ چل جاۓ گا۔۔۔۔۔"
" اپنی بکواس بند کرو کتنی تکلیف اور دینا چاہتی ہو میرے بھائی کو ، آخر کونسی ایسی دشمنی ھے تمہیں اس سے۔۔۔۔؟؟؟
" سعاد آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
" دفع ھو جاؤ تم۔۔۔"
سعاد کے چیخنے پر عروج رونا شروع ھو گئی اور ممتاز بیگم کے کمرے میں بھاگ کر چلی گئی صبح تک سعاد ویسے ہی اپنے بھائی کو لیے بیٹھا رھا اب تو اس کے آنسو بھی خشک ھو گئے تھے تب اس کے مینیجر نے سعاد کے پاس آ کر اسے ھوش دلایا۔۔۔
" سر اب پلیز ساحر سر کو لے جانے دیں نہلانے کے لیے اور کفن پہنانے کے لیے۔۔۔۔"
" دور ہٹو میرے بھائی سے وہ کہیں نہیں جاۓ گا۔۔۔۔"
لہو زنگ آنکھوں سے اسے گھورتا وہ غرایا تھا۔۔۔
" سر پلیز ایسے مت کریں ، اس طرح ساحر سر کو مزید تکلیف پہنچ رہی ہے ان کے ساتھ آپ ایسے مت کریں یہ ٹھیک نہیں کیونکہ ہر مسلمان کو سکون تو مرنے کے بعد قبر میں ہی ملتا ہے۔۔۔۔"
مینیجر کی بات سن کر سعاد نے ساحر کو جانے دیا اور خود رخ موڑ کر بیٹھ گیا ، نہلانے کے بعد کفن پہنا کر ساحر کو واپس اس کے پاس لے آۓ ، سبھی لوگ سرگوشیاں کیے جا رہے تھے۔۔۔
" کتنی منحوس لڑکی ہے آتے ہی دیور کو کھا گئ۔۔۔۔"
باتیں وہ سبھی کی سن رھا تھا مگر بالکل خاموش بیٹھا تھا نظریں صرف ساحر پر مرکوز کیے ھوئے۔۔۔۔
" سر اب ہم لے چلیں ساحر سر کو ، آپ چلیں گے نا ساتھ۔۔۔۔"
دوپہر کے وقت مینیجر نے پھر سے اسے مخاطب کیا اس بات پر مضبوطی سے سعاد نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
" نہیں میں نہیں جاؤں گا تم لوگ لے جاؤ ، یہ منظر مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔۔۔۔"
" اوکے سر آپ یہیں رہیں۔۔۔۔"
سر اثبات میں ہلاتے مینیجر کے ساتھ باقی سبھی لوگ ساحر کو وہاں سے دفنانے کے لیے لے گئے وہیں اب سعاد غصے سے پاگل ہوۓ جا رھا تھا ، اسے خود بھی معلوم نہیں تھا اپنے اندر موجود تکلیف کو وہ کیسے کم کرے اس لیے اس نے جام کا ہی سہارا لیا کہ شاید کچھ پل کے لیے ہی سہی وہ سب کچھ بھول جائے۔۔۔
نان سٹاپ سعاد شراب پیے جا رھا تھا تب کسی نے اسے پکارا۔۔۔
" سر بس کریں آج آپ بہت زیادہ پی رہے ہیں۔۔۔"
اس مداخلت پر شراب سے بھرا گلاس اس نے زمین پر پٹخ دیا اور غصے سے سامنے موجود شخص کو گھورا۔۔۔
" تجھے اس سے کیا میں چاہے یہاں موجود ساری شراب پی جاؤں اپنے کام سے کام رکھ۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی بوتل اٹھاۓ وہ اسے منہ سے لگا کر پینے لگا تبھی اس کے دماغ میں کوئی سین گھوم گیا۔۔۔۔
" یہاں پر ماہ نور کو لے کر آۓ تھے اور کیسے تڑپا تڑپا کر مار دیا تھا اسی کی سزا مل رہی ہے مجھے اسی لیے میرا بھائی بھی مجھے چھوڑ کر چلا گیا ، کیسے وہ بھیک مانگ رہی تھی میرے سامنے لیکن مجھے ذرا بھی ترس نا آیا اس پر اور اب میں ساحر کے آگے بھیک مانگ رہا تھا کہ پلیز اٹھ جاؤ لیکن وہ وہ تو کب کا چلا گیا تھا مجھے چھوڑ کر۔۔۔۔"
انھی باتوں کو سوچتے روتے ھوئے وہ ساتھ ساتھ ڈرنک کیے جا رھا تھا آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رھے تھے اس کے ، یہ سب سوچ کر ، آخر میں جب انتہا ہو گئ تو سعاد نیچے زمین پر گر گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
یے بنا اسے کھری کھری سنا دیتا اپنی عزت کو قائم رکھنے کی خاطر اس نے کمرے سے باہر جانے سے اجتناب برتا ، اور اپنی ماں کے پاس ہی رہی جنہیں ملازم سے کہہ کر سوپ پلا دیا تھا اس نے خود تو وہ باہر جانے سے رہی اور ممتاز بیگم کی حالت کو دیکھتے انھیں کھلا پلا کر میڈیسن دینا لازمی تھا جو اب سو چکی تھیں مگر عروج ایک پل کے لیے بھی آنکھیں بند نا کر سکی سعاد کا اسے ساحر کی موت کے لیے قصور وار ٹہرانا اسے اذیت سے دوچار کیے جا رہا تھا وہ انھی سوچوں میں گم ممتاز بیگم کے قریب بیڈ پر بیٹھی دروازے کی سمت دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
" جیسے میری آپی کے جانے پر مجھے نا قابل برداشت تکلیف ہوئی تھی بالکل ویسی ہی حالت سعاد جی کی بھی ہے میں محسوس کر سکتی ھوں وہ کیسا درد سہہ رھے ھوں گے ، ان کا درد بھی تو مجھ سے جڑا ھے ہماری روحوں کا رشتہ ھے جسے اب سعاد جی گناہ ٹھہرا رھے ھیں ، جب کسی سے حد سے زیادہ محبت ھو اس کی زرہ سی تکلیف ہماری جان پر بن آتی ھے اور یہاں تو ان کا بھائی ان سے بچھڑ گیا، لیکن میں تو کچھ کر بھی نہیں سکتی اپنی بے گناہی کیسے ثابت کروں ، ساحر کی موت کا ذمے دار مجھے ہی سمجھ رہے ہیں سعاد جی لیکن مجھے نہیں لگتا ساحر نے خودکشی کی ہو گی ، وہ ایسا تب ہی کیوں کرے گا جب اس کے بھائی کی زندگی میں خوشیاں شامل ھونے والی تھیں اتنا خودغرض تو وہ نہیں ہو سکتا جب سعاد جی اس سے اتنی محبت کرتے تھے تو وہ بھی تو اتنی ہی بدلے میں محبت کرتا ہو گا سعاد جی سے ، ایک لڑکی کی خاطر وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے کبھی نہیں کر سکتا ضرور اس میں کوئی راز پوشیدہ ہے لیکن سعاد جی تو میری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہیں ، کچھ تو کرنا ھو گا مجھے۔۔۔۔"
اسی سوچ بچار میں ایک فیصلہ کرتی وہ کمرے سے باہر گئ اور سعاد کو ڈھونڈھنے لگی جو اسے زمین پر گرا ہوا دیکھائی دیا ، وہ بے ھوش نہیں ھوا تھا بس ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا جب بھی کوئی ملازم یا باڈی گارڈ اسے زمین سے اٹھانے کی کوشش کرتا تو وہ انہیں غرا کر خود سے دور کر دیتا ، کافی دیر تک یہی عمل دہرانے کے بعد بلآخر اب وہ خود اٹھنے کی کوشش میں مبتلا ھو گیا مگر چکرا کر پھر سے زمین پر گر گیا وہ تب تڑپ کر عروج تیزی سے اسکے پاس گئ اور کاندھوں سے تھامے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
" پلیز اٹھیں سعاد یہاں مت لیٹیں ، کمرے میں چلیں اپنے ، حالت تو دیکھیں کیا بنا لی ھے اپنی۔۔۔۔"
اس کا لمس پاتے ہی وہ اپنی سرخ ڈوروں سے لبریز آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اگلے ہی پل وہ اسے دھکا دے کر خود سے دور کر چکا تھا وہیں ان دونوں کو اکیلا چھوڑ سبھی ملازم اور باڈی گارڈز گھر سے باہر نکل گئے۔۔۔
" ڈونٹ ٹچ می , اپنے ان گندے ہاتھوں کو مجھ سے دور رکھو ، تم ہو قاتل میرے بھائی کی ، کیا ہو جاتا اگر آج یہاں میری جگہ ساحر تمہارا شوہر بن جاتا ، کم از کم اس طرح زندہ تو رہتا وہ۔۔۔۔"
اپنی آنسوؤں سے بھری نظروں سے عروج کو دیکھتا وہ کس قدر تکیلف سے گویا ھوا۔۔۔
" سعاد جی ان باتوں پر بحث صبح ھو جائے گی ، اب فلحال آپ اٹھیں اور کمرے میں چلیں اپنے۔۔۔"
دوبارہ سعاد کے قریب ھوتی وہ اسے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی مگر پھر سے اسے بدلے میں زور دار دھکا ہی ملا تھا جس کی بدولت کہنی بری طرح متاثر ھو گئی اس کی۔۔۔۔
" دور رہو مجھ سے ، سمجھ نہیں آ رہی تمہیں ، مجھے تم سے اور تمہارے وجود سے نفرت آ رہی ہے ، دل کر رہا ہے ابھی تجھے بھی مار کر اپنے بھائی کے پاس پہنچا دوں۔۔۔۔"
" ھاں تو مار دیں ، اگر اس سے آپ کو سکون ملتا ہے تو پلیز مار دیں مجھے۔۔۔۔"
اپنی کہنی پر ھاتھ رکھے وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتی پھٹ پڑی۔۔۔
" کیسے کر لیتی ہو یہ ڈرامہ ، تمہارے اس ڈرامے نے ہی میرے بھائی کو بھی پاگل کر دیا تھا ، مرنے لگا تھا تم پر ، محبت میں اندھا ھو گیا تھا وہ تم جیسی لڑکی کی۔۔۔۔"
نفرت زرہ نظروں سے اسے دیکھتا وہ اسے کھری کھری سنا رھا تھا جو اب عروج کے لیے سننا نا قابل برداشت تھا۔۔۔
" سعاد بس کر دیں پلیز مجھ پر یہ الزام لگانا بند کریں ساحر نے خودکشی نہیں کی ہے یہ میں جانتی ہوں ، زیادہ سے زیادہ دو تین مرتبہ ہی ملاقات ھوئی ھو گی ہماری لیکن مجھے اتنا یقین ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا اور آپ تو بھائی ہیں نا اس کے بچپن سے جانتے ہیں اسے ، خون ایک ہی ھے آپ دونوں کا ، پھر بھی آپ کو اتنا نہیں پتہ کہ وہ کیسا تھا کیا وہ ایسے خودکشی کر سکتا ھے۔۔۔۔"
" جانتا ہوں اسی لیے تو کہہ رہا ہوں ، ساحر نے خودکشی ہی کی ہو گی وہ بہت سینسٹیو تھا یہ صدمہ برداشت نہیں ھوا اس سے۔۔۔۔"
" سعاد ایسے تو میری بہن کا بھی کسی نے قتل کر دیا تھا تو پھر مجھے بھی ان سے بدلا لینا چاہیے نا ، لیکن میں نے صبر کیا اللّٰہ پر چھوڑ دیا وہ ہی بہتر سزا دیں گے اس شخص کو ، لیکن آپ بلا وجہ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں سعاد ، سچائی جاننے کے بجاۓ مجھے ہی مجرم ٹھہرا دیا آپ نے۔۔۔۔"
عروج کی باتیں سنے بغیر ہی سعاد وہیں زمین پر لیٹا سو گیا تب افسوس بھری نظروں سے اس نے سعاد کو دیکھا اور خود اٹھ کر گھر کے باہر کھڑے باڈی گارڈز کے پاس چلی گئی۔۔۔
" پلیز آپ سعاد جی کو اٹھا کر کمرے میں لے جائیں۔۔۔"
حکم ملنے کی دیر تھی تابیداری کا مظاہرہ کرتے وہ باڈی گارڈز گھر میں داخل ھوئے سعاد کو سہارا دیے اس کے کمرے میں لے گۓ اور بیڈ پر لیٹا کر خود فوراً کمرے سے باہر چلے گۓ تب عروج دبے قدموں کمرے میں داخل ھوئی جیسے کہ وہ نیند سے بھی جاگ جائے گا۔۔۔
" سعاد کے پاس آ کر ڈرتے ھوئے وہ بیڈ کی دوسری سمت بیٹھ گئی تھی نرمی سے اس کے ھاتھ کو تھام اس نے اپنے لبوں سے لگایا ، بے اختیار کتن ہی آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے تھے۔۔۔۔
" سعاد جی میں آپ کو ایسے دکھی نہیں دیکھ سکتی ساحر کی سچائی کیا ہے یہ آپ کے سامنے میں ضرور لے کر آؤں گی اور خود کو بے گناہ ثابت کر کے ہی رہوں گی میں۔۔۔۔"
جھک کر سعاد کی پیشانی پر بکھرے بال پیچھے کرتے وہ وہاں اپنے لب رکھے دل ہی دل میں تہیہ کرنے لگی۔۔۔
" ساحر پلیز مجھے اکیلا مت چھوڑ کر جا بابا اور ماما کی طرح تو مت جا ، میں نہیں رہ سکتا تیرے بغیر ، میرا کوئی نہیں تیرے سوا ، پلیز ساحر میں منت کرتا ھوں تیری آ جا واپس۔۔۔۔۔"
مسلسل نیند میں ایک ہی لفظ بار بار دہرائے جا رھا تھا وہ اس وجہ سے عروج کافی دکھی ہو گئ آخر کہاں اپنی محبت کو اذیت میں مبتلا سہہ سکتی تھی وہ۔۔۔
" بہت برا ہوا سعاد کے ساتھ ، کتنی محبت کرتے ھیں وہ اپنے بھائی سے ، اتنی تو شاید میں بھی آپی سے نہیں کرتی تھی ، اپنی آپی کا غم پھر بھی برداشت کر لیا تھا میں نے لیکن سعاد وہ کیسے سہہ سکیں گے یہ اذیت ، میری آپی کے لیے محبت میں کمی تھی یا پھر غریب لوگوں کی زندگی میں مسلۓ ہی اتنے ہوتے ہیں جسے برداشت کرتے وہ نا چاہتے ہوئے سب بھول جاتے ھیں ہر تکلیف پریشانی کو انھیں کسی بھی طرح برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔"
سعاد کے قریب بیٹھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم ناجانے کب خود بھی گہری نیند سو گئی۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
صبح سعاد کی آنکھ کھلی تو پاس عروج کو سوتا دیکھ پھر سے اس کا غصہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا اس کا دماغ اتنا خراب ھوا جو اس نے فوراً اٹھ کر کھڑا ھوتے سائیڈ ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ کو اٹھا کر عروج کے منہ پر دے مارا پانی منہ پر گرتے ہی وہ ہڑبراتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔
" کیا ہوا کیا ہوا ، میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔"
ھاتھوں سے اپنے منہ پر گرے پانی کو صاف کرتی وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی کہ آخر ھوا کیا ھے۔۔۔۔
" تمہاری ہمت کیسے ہوئی ، یہاں میرے پاس لیٹنے کی اوقات ھے کیا تمہاری میرے بارے میں سوچ بھی سکو ، مجھے یہاں پر لایا کون ، اس کی تو۔۔۔۔"
" سعاد جی یہ آپ کا روم ہے آپ یہاں پر نہیں تو اور کہاں سوئیں گے۔۔۔۔"
بیڈ سے نیچے اترتی وہ اسے سمجھانے کی سعی کر رہی تھی۔۔۔۔
" جہاں کہیں تمہارا وجود ھو گا مجھے اس جگہ سے ہی نفرت ہے ، رہو تم یہاں پر لیکن میں نہیں ایک پل بھی ادھر رکوں گا۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ وہاں سے جانے لگا مگر عروج اسکا ھاتھ تھام کر اس کی اس کوشش کو ناکام بنا گئی۔۔۔
" سعاد جی آپ کیوں چھوڑ کر جائیں گے اس روم کو یہ آپ کا کمرا ہے آپ یہاں پر سکون سے رہیں میں ہی چلی جاتی ہوں۔۔۔۔"
اپنی بات کہہ کر وہ اس کا ھاتھ چھوڑ وہاں سے جانے لگی مگر اپنے پیچھے سے سعاد کی آواز سن وہ پلنٹے پر مجبور ھو گئی۔۔۔۔
" یہ اچھے بننے کے ڈرامے کرنے سے کیا میں تمہارے ساتھ ٹھیک ہو جاؤں گا ، ہر گز نہیں نفرت کرتا ہوں میں تم سے ، بہت بڑی بھول ہو گئ پتہ نہیں کیا سوچ کر محبت کر بیٹھا تھا تم سے ، ناجانے دماغ کہاں چلا گیا تھا میرا اس وقت ، لیکن مجھے کیا معلوم تھا تم ایک خودغرض ظالم بے حس لڑکی ہو جو اپنی خود غرضی کے لیے کسی کی جان لینے سے بھی گریز نا برتے۔۔۔۔"
" میری خود غرضی کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔۔؟؟؟
عروج نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔
" اتنی معصوم نہیں ھو تم ، جتنی ظاہر کرتی ھو ، ساحر کیا تم سے ملا تھا ہماری شادی سے پہلے۔۔۔۔؟؟؟
" ہاں وہ آپ کو کیسے علم ھوا اس بات کا۔۔۔۔؟؟؟
حیرت زدہ نظروں سے وہ اسے دیکھنے لگی۔۔۔
" تو یہ بات تم نے مجھے کیوں نہیں بتائی تھی ، جب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ساہر کو کیسے پتہ چلا میں اور تم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تب تم صاف صاف کیوں مکر گئ تھی بولو۔۔۔۔"
پیشانی پر بل ڈالے وہ خونخوار تاثرات کے ساتھ اس سے سوال کر راج تھا ، اس کے اس انداز ہر ہی عروج کو اپنی سانس رکتی محسوس ھونے لگی۔۔۔۔
" س۔۔۔س۔۔۔سعاد جی م۔۔۔م۔۔۔میں بتانا چاہتی تھی آپکو لیکن پھر۔۔۔۔"
" لیکن پھر میں تمہیں بتاتا ہوں ، پھر تم خودغرض ہو گئ سوچا ، جب ساحر قربانی دینے کے لیے تیار ہو ہی گیا ہے تو مجھے کیا فرق پڑتا ھے ، چاہے وہ جو کچھ بھی کر لے پوری عمر تڑپ تڑپ کر گزار لے یا پھر ایک بار میں ہی اپنی زندگی کو ختم کر لے۔۔۔۔"
" سعاد ایسا نہیں ہے جب ساہر مجھ سے ملا تھا تو میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا اسے میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ، میں نہیں جانتی ساحر کو کیسے معلوم ھوا میں آپ سے محبت کرتی ہوں اور آپ مجھ سے۔۔۔۔"
" نہیں کرتا ہوں میں تم سے محبت۔۔۔۔"
زور سے اپنے ہاتھ کو دیوار پر مارتے ہوۓ سعاد چیخ پڑا۔۔۔۔
"یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے میں کتنا بڑا بے وقوف ہوں یہ بات میں نے پہلے کیوں نہیں پتہ لگائی کہ تم ہی میرے بھائی کے ساتھ اتنا غلط کر رہی تھی اسے ٹارچر کر رہی تھی تم۔۔۔۔"
اپنے ھاتھ پر ھونے والی زخم کی پرواہ کیے بنا وہ مسلسل چیخے جا رہا تھا۔۔۔۔
" سعاد جی آپ کیوں نہیں سمجھ رہے ایک مرتبہ آرام سے سوچیں اس بات کو ، ساحر ایسا نہیں کر سکتا اس کے چہرے سے صاف صاف دیکھائی پڑ جانا تھا ہمیں اگر وہ دکھی ھوتا ، آپ تو بھائی ہیں اس کے تو آپ کو تو معلوم ھو گا ہی اگر وہ ٹارچر ھو رھا ہوتا تو نظر آتا نا ہمیں۔۔۔۔"
" میں نے غور ہی نہیں کیا ، اتنا بزی ہو گیا تھا جو اپنے بھائی کو نظر انداز کر دیا ، لیکن تم تمہیں تو سب پتہ تھا مگر خاموش رہی تم کیونکہ مرے جا رہی تھی مجھ سے شادی کرنے کے لیے ، اب پچتھاوہ ھو گا تمہیں اپنے فیصلے پے ، خود مجھ سے دور ہونے کی کوشش کرو گی جو کہ نا ممکن ھے۔۔۔"
بالوں سے عروج کو پکڑ سعاد نے اسے زمین پر دھکیل دیا۔۔۔
" سعاد جی مجھ پر یہ الزام لگانا بند کریں اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے ، میری بھی تو بہن مری ہے نا میں تو یوں ہر کسی پر الزام نہیں لگاۓ پھر رہی اور آپ آپ کل سے مجھ پر بار بار الزام لگا رہے ہیں یہ کہاں کا انصاف ھے۔۔۔"
بامشکل کھڑے ہوتے ہوۓ عروج غصے سے سعاد سے بازپرس کرنے لگی کہ تبھی سعاد نے تیش میں آتے عروج کے منہ پر پلٹ کے تپھڑ دے مارا جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گئ اور اسے استھیما کا اٹیک آ گیا ،جس کی پرواہ کیے بنا وہ بنا عروج کو دیکھے کمرے سے باہر چلا گیا ، عروج بامشکل کھڑے ہوتے ہوئے کمرے سے باہر نکلنے لگی تاکہ ممتاز بیگم کے کمرے میں موجود اپنا انہیلر ڈھونڈ کر سانس بحال کر سکے لیکن اس سے تو چلا بھی نہیں جا رھا تھا ، سانس نا آنے کی وجہ سے وہ وہیں پر ہی بے ہوش ہو کر گر گئ۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد جب سعاد واپس اپنے کمرے میں آیا تو اسے عروج زمین پر بے ہوش پڑی دیکھائی دی ، عروج کو دیکھ اس نے گھبراتے ھوئے جلدی سے اسے زمین سے اٹھا کر بیڈ پر لیٹایا اور ڈاکٹر کو کال کر دی ٹھیک 10 منٹ بعد ڈاکٹر ان کے کمرے میں حاظر تھا ، عروج کا معائنہ کرنے کے بعد وہ اپنا رخ سعاد کی جانب کر چکا تھا۔۔۔
" سانس نا آنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئ ہیں آپ کو اتنی سی بات کا خیال رکھنا چاہیے نیکسٹ ٹائم رسکی ھو سکتا ھے۔۔۔۔"
اوکے ڈاکٹر تھینکس ، اب جائیں آپ۔۔۔"
عزت سے اس نے ڈاکٹر کو چلتا کیا اور خود کھڑا عروج کو سنجیدگی سے گھورنے لگا۔۔۔
" کتنا پاگل ہوں میں کیوں بچایا اسے ، پڑے رہنے دیتا ویسے ہی ، ڈاکٹر کو کیوں بلایا تو نے سعاد کیا ہو گیا ہے تجھے ، جب پہلے تجھے کسی پر ترس نہیں آتا تھا تو اب اب کیا ہو گیا ہے تجھے اب کیوں تو کچھ کر نہیں رہا جبکہ تجھے پتہ بھی ہے تیرے بھائی کی موت کا ذمےدار کون ھے ، لیکن تو تجھے تو بہت ہمدردیاں جاگ رہی ہیں اس خود عرض لڑکی کے لیے۔۔۔۔"
یوں ہی کھڑا وہ خود کو کوس رھا تھا کہ عروج کو ہوش آ گیا جب اس نے سعاد کو اپنے پاس کھڑا دیکھا تو ایک سکون سا برپا ھو گیا اس کے اندر ساتھ ہی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی۔۔۔
" آپ یہاں۔۔۔۔؟؟؟
محبت بھری نظروں سے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
" میں نے صرف تمہیں اس لیے بچایا ہے تاکہ تم زندہ رہو اور پوری عمر تڑپو ، اس زندگی سے چھٹکارا پانے کے لیے منت کرو موت مانگو اپنی۔۔۔۔"
نفرت سے وہ گویا ھوا۔۔۔
" جب آپ میرے پاس ہیں تو میں سوچوں گی بھی کیوں ایسا اور مجھے کچھ نہیں چاہیے اس زندگی سے اب کیونکہ آپ کا ساتھ مل گیا مجھے ، جیسے بھی آپ مجھے رکھیں گے جس حال میں بھی ، میرے لیے وہی زندگی سب سے اچھی ہو گی۔۔۔۔"
" اپنی بکواس بند کرو۔۔۔۔"
غصے سے اسے ڈپٹ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔
" سعاد جی میں جانتی ھوں آپ میرے ساتھ کچھ غلط نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کا دل بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ساحر کی موت کی وجہ میں ھوں ، آپ بھی محبت کرتے ھیں مجھ سے ابھی تک۔۔۔۔
خود کو تسلی دیتی وہ مسکرانے لگی۔۔۔۔۔
عروج کو ڈانٹتے کمرے سے ہی کیا وہ تو گھر سے ہی باہر نکل گیا تھا گاڑی کو فل سپیڈ میں بگاتا وہ سیدھا قبرستان پہنچ کر بھاری قدموں کے ساتھ ساحر کی قبر کے پاس جا کر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا بے اختیار اسکی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر اس مٹی پر گر گئے جس کے تلے اسکا بھائی موجود تھا۔۔۔۔
" تو نے ایسا کیوں کیا ساحر ، کیا تجھے معلوم نہیں تیرے سوا میرے اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے ایک دوسرے کا سہارا تھے ہم ، ایک مرتبہ نہیں سوچا تو نے میرے بارے میں ، چلا گیا یار مجھے چھوڑ کر ، پوری عمر میں اس گلٹ میں کیسے جیوں گا کہ میرا بھائی جس کے لیے میں نے کسی پر بھی کبھی ترس نہیں کھایا اس کی موت کی وجہ میں خود ہی بن گیا میری ہی وجہ سے تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا لیکن ساحر میں تجھ سے یہ وعدہ کرتا ہوں شادی تو ھو گئی مگر عروج ہمیشہ تیری ہی رہے گی میں اسے کبھی چھوؤں گا نہیں اور بیوی کا درجہ تو ہر گز نہیں دوں گا۔۔۔۔"
خود سے وعدہ کرتا وہ کتنی ہی دیر اپنے بھائی سے باتیں کرتا رھا اس طرح اسے شام ھو گئی وہ وہی بیٹھا رھا ہر گزرتے لمحے اسکا دکھ پروان چڑھتا جا رھا تھا جب انتہا ھو گئی برداشت کی تو پھر آخر میں سورت فاتحہ پڑھ کر دعا کرنے کے بعد آٹھ کر وہ وہاں سے واپس اپنے گھر آ گیا تب اسے عروج کھانے کے برتن ٹیبل پر رکھتی ھوئی دیکھائی دی ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے ممتاز بیگم کو کھانا کھلا کر میڈیسن دے کر سلا دیا تھا مگر خود وہ سعاد کے ساتھ کھانے کا ارداہ رکھتی تھی تو اب سعاد کو اپنے سامنے دیکھ وہ ہلکا سا مسکرا پڑی۔۔۔
" آپ آ گئے سعاد شکر ھے کب سے انتظار کر رہی تھی میں ، اب جائیں جلدی فریش ھو لیں پھر کھانا کھا لیتے ہیں ، کل سے آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا۔۔۔۔"
" وہ کیا ہے نا تیری طرح میں خودغرض نہیں ہوں ، حلق سے کھانا نیچے نہیں اترے گا میرے ، تو کھا تجھے کیا کسی سے لینا دینا اس بات کی تجھے کیا پرواہ کسی کے ساتھ جو بھی ھوا ھو۔۔۔۔"
سعاد کی کڑوی باتیں ہر دفعہ اس کا دل دکھا دینے کا سبب بنتیں اس بات سے انجان وہ ہمیشہ اسے جھڑک کر رکھ دیتا۔۔۔
" اب کیا آپ کے نا کھانے سے ساحر واپس آ جاۓ گا بولیں سعاد جواب دیں ، میں بھی یہی سوچتی تھی اب آپی مجھے چھوڑ کر چلی گئ ھیں تو میں بھی مر جاؤں ، پانی کا قطرہ تک میرے گلے میں پھنسنے لگتا ، پورے دو دن تک کچھ نہیں کھایا تھا میں نے لیکن پھر بھی آپی واپس نہیں آئیں اور جب میں نے امی کی حالت دیکھی ان کے علاج کے لیے اور کھانے کے لیے بھی پیسے ختم ھو گئے تھے ، تب اگر مجھے بھی کچھ ہو جاتا تو امی کا کیا ہوتا واحدہ سہارا اب میں ہی تو تھی انکا ، اس لیے مجھے سنبھالنا پڑا خود کو ، اپنی امی کے لیے زندہ رہی میں۔۔۔"
" تمہارے پاس وجہ ھے جینے کی لیکن میرے پاس کیا ہے ، بچپن میں ماں باپ مر گئے جن کے بغیر کچھ نہیں تھا میں اور اب بھائی چلا گیا ، رہا کیا میرے پاس جینے کو۔۔۔۔"
بھرائے ھوئے لہجے میں وہ اپنا درد اس دشمن جان کے سامنے بیان کرنے لگا جس سے وہ نفرت کرنے کا دعویدار تھا۔۔۔
" میں تو ہوں نا سعاد آپ کی محبت۔۔۔۔"
" جسٹ شٹ اپ ، بار بار ایک ہی بکواس کرتے تھکتی نہیں ہون تم۔۔۔۔؟؟؟
سرخ آنکھوں کا رخ اسکی طرف کیے وہ اس پر برس پڑا تھا۔۔۔۔
" جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہی رہے گی ، آپ کے یوں جھٹلانے سے کیا ہوتا ہے ، کچھ بدل تھوڑی جائے گا ، ٹھیک ہے مت کھائیں مگر جب تک آپ کچھ نہیں کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گی۔۔۔۔"
" ھاں تو مت کھاؤ چاہے پوری عمر ہی مت کھاؤ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۔۔۔"
لاپرواہی سے کاندھے اچکاتا وہ ساحر کے کمرے میں چـلا گیا جبکہ وہ سنجیدگی سے اس کے پشت کو دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔۔
" ٹھیک ہے سعاد جی اگر آپ ضدی ہیں تو میں بھی آپ ہی کی بیوی ھوں ، آپ سے زیادہ ضدی ہوں میں ، تب تک نہیں کھاؤں گی کچھ بھی میں جب تک آپ خود نہیں کھا لیتے۔۔۔۔"
خود سے عہد کرتی وہ جا کر صوفے پر بیٹھ گئی کتنی ہی دیر سے وہ اسی جگہ موجود تھی کیونکہ اپنے کمرے میں سعاد اسے گھسنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور باقی وہ صرف ممتاز بیگم کے کمرے کو جانتی تھی جہاں وہ انھیں ڈسٹرب نا کرنے کا ارادہ کرتی وہیں صوفوں پر ٹک گئی ، سعاد جب آدھی رات کو باہر ساحر کے کمرے سے آیا تو اسے عروج وہیں صوفے پر بیٹھی ملی ، اس کی طرح وہ بھی سعاد کو دیکھ چکی تھی۔۔۔
" امی صحیح کہتی ہیں جب انسان کو بھوک لگی ہو تو نیند بھی نہیں آتی۔۔۔۔"
عروج کے بلند آواز میں کہی گئی بات سن وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا (جو رات کے 2 بجے تک جاگ رہی تھی) اسے اگنور کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
صبح کے 6 بجے جب سعاد کی آنکھ کھلی تو اسے بھی کافی بھوک لگی ہوئی تھی کیونکہ اس بات کو دو دن گزر چکے تھے وہیں عروج کا بھی ایسا ہی حال تھا جس کی پرواہ سعاد مزرا کو کہاں تھی۔۔۔
" اب تو تو کچھ بالکل نہیں کھاۓ گا پھر دیکھ لیتے ہیں عروج صاحبہ کتنے دنوں تک بھوکی رہتی ہیں۔۔۔۔"
خود سے بڑبڑاتے وہ اسی حالت میں جب کمرے سے باہر آیا تو عروج وہاں پر موجود نہیں تھی ، ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔۔۔
" لگتا ہے کھا پی کر کمرے میں سونے چلی گئ ہو گی ایسی خودغرض لڑکی کیوں بھوکی رہے گی میرے لیے۔۔۔۔"
زیر لب کہتا وہ چاروں اطراف نظریں گھمانے لگا شاید کسی ملازم کو تلاش کر رھا تھا تبھی اس کی نظر ٹیبل پر پڑے سارے کے سارے کھانوں پر پڑی جو یوں ہی برتوں میں ڈھکا پڑا تھا۔۔۔۔
لمحوں میں اس کی پیشانی پر سلوٹیں پڑیں اور نفرت سے نظروں کا رخ بدلا اس نے۔۔۔
" نہیں کھاتی تو نا کھاۓ مجھے کیا۔۔۔۔"
خود سے کہتا وہ گھر سے باہر لان میں چلا گیا نرم ہری گھس پر ننگے پاؤں کھڑا وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا تب اچانک اسے کسی کی آواز سنائی دی جو یقینا اس سے ہی مخاطب تھا ، آنکھیں کھول کر اپنے قریب اپنے مینیجر کو دیکھ اس کی بے زارگی میں اضافہ ھوا۔۔۔۔
" سر حمزہ ٹیکسٹائل کمپنی آپ سے میٹنگ کرنا چاہتی ھے بہت لازمی ھے سر ، میں نے کوشش کی سب سنبھال سکون مگر انھوں نے آپ سے ہی کوئی بات کرنی ھے جو بہت ضروری ھے۔۔۔۔"
سنجیدگی سے اس نے اپنے مینیجر کی بات سنی اور پھر نظروں کا رخ موڑے اپنے پیروں کو دیکھنے لگا۔۔۔
" آج دوپہر کی میٹنگ رکھ لو آ جاؤں گا میں۔۔۔"
دو ٹوک انداز اپنائے وہ بولنے کے ساتھ ہی واپس اپنے کمرے کی جانب قدم اٹھانے لگا جہاں اسے اب اپنا حلیہ پہلے جیسا کرنا تھا دو دونوں سے انھی کپڑوں اور حالت میں موجود تھا وہ ، لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اپنے کمرے میں داخل ھوا تو عروج جو اس کے بیڈ پر بیٹھی تھی اچانک اسے دیکھ کھڑی ہو گئ۔۔۔۔
" آپ ، آپ کو کچھ چاہیے سعاد ، کہیں جا رھے ھیں آپ۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کو واڈروب کھول کر کپڑے نکالتا دیکھ وہ سوال کرنے لگی جسے سرے سے نظر انداز کرتا وہ اپنے کام میں مصروف تھا مگر اچانک عروج کے کپڑے جو کے اس نے کل ہی اس کمرے کی واڈروب میں سیٹ کیے تھے ان کو نفرت سے کھینچ کر وہ زمین پر پھنکنے لگا۔۔۔۔۔
" یہ کیا کر رہے ہیں آپ ، میرے کپڑے کیوں پھینک رہے ہیں باہر۔۔۔۔؟؟؟
صدمے سے آنکھیں بڑی کیے وہ سعاد کی طرف اسے روکنے کے لیے بڑھی مگر سر چکرا کر وہ زمین بوس ھونے کو تھی لیکن سعاد نے لپک کر اسے پکڑ لیا۔۔۔۔
" تمہارا مسلۂ کیا ہے کبھی زمین پر بے ہوش ہو کر گر جاتی ہو تو کبھی اب چکرا کر گرنے لگی تھی۔۔۔۔"
اپنا ھاتھ اس کی کمر سے ہٹاتا وہ نفرت سے بولا۔۔۔
" سوری وہ تین دن سے بھوکا رہنے کی وجہ سے شاید چکر آ گیا ہو گا۔۔۔۔"
نظریں جھکائے وہ بہت آہستہ سے بولی۔۔۔۔
" تین دن تو تمہاری اس شادی کو بھی نہیں ہوۓ تو تم تین دن سے کیسے بھوکی ہو ، بند کرو یہ ڈرامہ۔۔۔۔"
" نکاح والے دن میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا کہ اب آپ کے ساتھ ہی کھانا کھاؤں گی لیکن پھر۔۔۔۔"
ابھی وہ اپنی بات مکمل بھی نا کر پائی تھی کہ پھر سے عروج کو چکر آ گیا اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ گر پڑی۔۔۔۔
" یہ کیا ڈرامہ ھے بولو ، مرنا چاہتی ہو تاکہ تمہیں کوئی سزا نا مل سکے لیکن میں ایسے ہونے نہیں دوں گا۔۔۔۔"
عروج سے کہتا وہ بلند آواز میں ملازمہ کو کھانا لانے کا حکم دے چکا تھا جو ٹھیک 10 منٹ بعد ان کے کمرے میں حاظر تھا ، کھانا آتے ہی سعاد نے وہ ٹرے بیڈ پر اب بیٹھ چکی عروج کی طرف کر دی۔۔۔۔
" یہ لو اور چپ چاپ کھا لو۔۔۔۔"
" سعاد میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا جب تک آپ نہیں کھا لیتے میں بھی نہیں کھاؤں گی۔۔۔۔"
ضدی انداز میں وہ اپنے بات کہہ کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔
" بچوں جیسی ضد کرنا بند کرو۔۔۔۔"
" اگر یہ بچوں جیسی ضد ہے تو ٹھیک ہے اگر بھوکا رہنے کی وجہ سے مجھے کچھ بھی ہوا تو آپ ذمہ دار ہوں گے اس بات کے۔۔۔۔"
شہادت کی انگلی اٹھائے وہ اسے ڈرانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔
" ٹھیک ہے کھا رہا ہوں میں اب تم بھی چپ چاپ کھاؤ۔۔۔۔"
باتھروم سے ھاتھ دھو کر وہ واپس آیا اور ایک نوالہ کھا کر اس نے عروج کی طرف کھانے کی ٹرے بڑھا دی۔۔۔۔
" ٹھیک ہے یہ لیں میں نے بھی کھا لیا ایک نوالہ ، افف کتنا ٹیسٹی کھانا ہے۔۔۔۔"
آنکھیں بند کیے چباتے ھوئے وہ دل سے تعریف کر رہی تھی۔۔۔
" ہاں تو پھر کھاؤ تم یہ سارا۔۔۔"
" آپ کھائیں نا پھر ہی تو میں بھی کھاؤں گی ، پلیز کھا لیں سعاد دیکھیں رزق کو نا نہیں کرتے ورنہ رزق ناراض ہو جاتا ہے ، اور ٹیسٹی کھانے کی تو بد دعا بھی لگ جاتی ہے۔۔۔۔"
معصومیت سے اسے دیکھتی وہ اس کی معلومات میں اضافہ کر رہی تھی۔۔۔
" میری زندگی کو بد دعا لگ تو چکی ہے اب اور کیا لگے گی۔۔۔"
" سعاد جی پلیز کھا لیں ورنہ پھر یہ کھانا لے جائیں اسے کیونکہ اگر میرے پاس پڑا رہا یہ تو اتنا لذیذ کھانا دیکھ دیکھ کر ہی مر جاؤں گی میں۔۔۔۔"
بات کو پلٹتے وہ پھر سے گویا ھوئی۔۔۔
" کھا رہا ہوں کھانا صرف اس لیے ، کہ تم اتنی آسان موت نا مر جاؤ ، اب تم بھی کھاؤ جلدی۔۔۔۔"
" ہاں کھا رہی ہوں۔۔۔۔"
سعاد کو دیکھ دل میں شکر ادا کرتے وہ کھانا کھانے لگی۔۔۔
" سعاد جی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت آپ کو میری ہی ہے لیکن آپ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔۔۔"
دل ہی دل میں وہ سعاد سے مخاطب تھی ، کچھ دیر بعد کھانے سے فارغ ھو کر وہ اپنے کپڑے لیے کمرے سے جانے لگا تبھی عروج نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
" پلیز مت جائیں دیکھیں مجھے آپ سے باتیں کرنی ہیں بہت ساری۔۔۔"
" میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے جو باتیں کروں تم سے ، کھانا کھلایا بھی صرف اس لیے ہے تاکہ تم بھوکی بیمار نا پڑ جاؤ ورنہ پھر میرا بدلا کیسے پورا ہو گا۔۔۔۔"
اس کی نفرت سے کہی گئی بات پر بھی وہ پاگل لڑکی مسکرا پڑی تھی۔۔۔
" اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے تو پھر آپ مجھے سزا کیا دیں گے میں کوئی سجیشن دوں ، جیسے کہ آپ مجھے ہری مرچی کھانے کے لیے دے سکتے ہیں یا پھر مجھے دھوپ میں کھڑا رکھ سکتے ہیں یا پھر۔۔۔۔"
ابھی عروج نے اتنا ہی کہا تو سعاد نے غصے سے ھاتھ اٹھا اسے بولنے سے منع کر دیا۔۔۔
" مجھے سزا دینے کے لیے تم سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہارے لیے میرا برا رویہ ہی بہت بڑی سزا ہو گی اور سزا تمہیں نہیں دوں گا میں خود کو دوں گا جس سے تکلیف تمہیں ہو گی۔۔۔۔"
اتنا بول سعاد روم سے چلا گیا عروج اس کی باتیں سوچ رونے لگی۔۔۔
" سعاد کیوں خود کو اور مجھے ذمہ دار سمجھ رہے ہیں آپ ، لگتا ہے مجھے ہی حقیقت معلوم کرنی پڑے گی ، آپی کے قاتلوں کو تو ڈھونڈ نا سکی میں کیونکہ تب میری کوئی اوقات نہیں تھی ، لیکن اب ، اب تو میں سعاد مرزا کی بیوی ہوں تو پولیس بھی میری مدد ضرور کرے گی۔۔۔۔"
کچھ سوچتے عروج نے اپنا موبائل اٹھا کر پولیس کو کال کر دی پہلے جو پولیس افسر عروج کا فون تک نہیں اٹھاتے تھے اب پہلی بیل پر ہی کال اٹھا لی گئی ورنہ کتنی دفعہ اپنی بہن کو انصاف دلانے کی خاطر اس نے انھیں کالز کی تھیں جیسے نظر انداز کر دیا جاتا۔۔۔
" جی میڈم کیا کام ہے ، کیسے خدمت کر سکتے ھیں ہم آپ کی ، دیکھیں ہم آپ کی بہن کے قاتلوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو ہمیں مل جائیں گے بہت جلد۔۔۔"
سامنے سے مؤدبانہ انداز میں کہا گیا تھا۔۔۔
" جی سر اب آپکو ایک اور کام بھی کرنا ہے۔۔۔۔"
" ھاں جی حکم کریں آپ۔۔۔۔"
" سر آپ کو معلوم تو ہو گا ہی میری شادی سعاد مرزا سے ہو گئ ہے۔۔۔۔"
" جی جی میڈم ہمیں معلوم ہے۔۔۔۔"
" ہاں تو پھر جو میرے دیور تھے مجھے لگتا ہے انہوں نے خودکشی نہیں کی بلکہ انہیں کسی نے مارا ہے قتل ھوا ھے ان کا ، تو کیا آپ پلیز جلد از جلد یہ پتہ لگا سکتے ہیں۔۔۔۔"
عروج نے فوراً اپنے کام کی بات کی۔۔۔
" جی میڈم آپ نے کہہ دیا تو بس ہم ابھی سے انویسٹیگیشن شروع کر دیتے ہیں اس کیس کی۔۔۔۔"
" بہت بہت شکریہ سر آپ کا۔۔۔۔"
پرسکون ھوتی وہ ان کا شکریہ ادا کرنے لگی۔۔۔
" شکریہ کی ضرورت نہیں ، بس میڈم سعاد سر کو ہماری طرف سے سلام کہہ دیجیئے گا۔۔۔۔"
" نہیں نہیں سر سعاد جی کو تو پتہ بھی نہیں چلنا چاہیے بس جب ثبوت مل جائیں گے تب میں انہیں بتاؤں گی۔۔۔۔"
" ٹھیک ہے میڈم۔۔۔۔"
" اوکے سر۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی عروج نے فون بند کر دیا۔۔۔۔
" سعاد جی میں بالکل بے گناہ ہوں یہ ضرور کسی آپ کے دشمن کا کام ہو گا ہماری زندگی کو جہنم بنانے کے لیے۔۔۔۔"
ایک گہری سانس لیتی وہ بیڈ پر لیٹ اپنی آنکھیں موند گئی ناجانے کب وہ نید کی وادیوں میں اتر چکی تھی۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
کافی دیر تک نیند پوری کرنے کے بعد وہ جب اٹھی تب شام کے سائے گہرے ھو چکے تھے کافی حد تک اندھیرا بھی ہر سو پھیل گیا تھا ، فریش ھو کر اپنے کمرے سے نکل کر وہ ممتاز بیگم کے پاس گئی جنہیں ملازمہ سوپ پلا رہی تھی۔۔۔
یہ منظر دیکھ عروج کو کافی سکون ملا اس ملازمہ کا شکریہ ادا کر کے میڈیسن کا بتا کر وہ وہاں سے نکل کے گھر میں سعاد کو ڈھونڈھنے لگی جو اسے کہیں دیکھائی نا دیا تب اسے ملازم سے معلوم ھوا کہ وہ تھرڈ پورشن یعنی چھت پر موجود ھے۔۔۔۔
جیسے ہی وہ اوپر پہنچی تو اسے سعاد وہاں پر موجود اکلوتے کمرے میں بیٹھا ڈرنک کرتا نظر آیا ، موسم بھی کافی خراب تھا آج ، ایسے لگ رہا تھا جیسے ایک خوفناک طوفان کے ساتھ بارش آنے والی ہے ، عروج نے پہلے تو خود کو کمپوز کیا جو اس موسم سے وہ خوفزدہ ھو گئی تھی اور پھر مسکراتے ہوۓ سعاد کے پاس چلی گئ۔۔۔۔
" سعاد جی ڈیٹس ناٹ فئیر ، یہاں پر آپ اکیلے اکیلے موسم انجواۓ کر رہے ھیں ، مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔۔"
مسکراتی ھوئی وہ بولی تھی۔۔۔
" تمہیں اس سے کیا تم یہاں پر کیوں آئی ہو ، پلیز دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔"
اپنی نظریں اتھیے عروج کو دیکھتا وہ بے زارگی سے بولا ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ میٹنگ سے فری ھو کر گھر واپس آیا تھا اور اپنی تھکن کو دور کرنے کی خاطر وہ شراب کی بوتل اٹھائے اس کمرے میں چلا آیا جہاں صرف تنہائی تھی۔۔۔۔
" ایسے کیسے چلی جاؤں اتنا پیارا موسم چھوڑ کر ، آپ ویٹ کریں میں ابھی پکوڑے بنانے کا کہہ کر آتی ہوں ، صرف دو منٹ رکیں۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی عروج کمرے سے نکل کر نیچے جانے کے لیے سیڑھیوں کا دروازہ کھولنے لگی جو کہ اب کھل نہیں رہا تھا۔۔۔۔
" سعاد جی یہ دیکھیں نا دروازہ نہیں کھل رہا پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے اسے۔۔۔"
اپنا مکمل زور لگا کر کھینچتے ھوئے وہ بے بسی سے بولی۔۔۔
" تم جہاں پر بھی جاؤ گی وہاں پر ہمیشہ کام بگڑتا ہی ہے کبھی ٹھیک نا ہوا کچھ ، پیچھے ہٹو۔۔۔۔"
عروج پر غصہ ھوتے وہ خود بھی کمرے سے نکل کر باہر آیا اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر نا کام رھا وہ۔۔۔۔
" دروازہ تو لگتا ھے جام ہو گیا۔۔۔۔"
" سعاد جی آپ اتنے امیر ہیں پھر بھی خراب دروازے رکھے ہوۓ ہیں گھر میں۔۔۔"
منہ پھلائے وہ اس پر غصہ کرنے لگی۔۔۔
" میرے پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہوتا جو ایسے کاموں پر دھیان دوں ، یہ نوکر ہی کام چور ہیں سارے ، ایک گھر کا خیال تک نہیں رکھ سکتے انہیں تو دیکھ لوں گا میں۔۔۔۔"
ابھی وہ بات ہی کر رھا تھا کہ بارش ھونا شروع ہو گئ تب بھاگ کر سعاد اور عروج دونوں جلدی سے کمرے میں چلے گۓ ۔۔۔۔۔
" تم یہاں پر کیا کرنے آئی ہو نکلو میرے کمرے سے۔۔۔۔"
" سعاد جی میں کہاں جاؤں گی ، دروازہ تو جام ہے اور باہر بارش ہو رہی ہے۔۔۔۔"
" ڈیٹ از ناٹ مائے پروبلم نکلو روم سے۔۔۔ "
زبردستی سعاد نے عروج کو کمرے سے باہر نکال دیا اور لاک لگا لیا تب بارش سے خوفزدہ ھوتی عروج سیڑھیوں کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی ساتھ ہی اس نے ملازموں کو بھی آواز دینا شروع کر دیں لیکن ملازموں نے ایک دوسرے کو منع کر دیا۔۔۔۔
" نا بھئ سر نے منع کیا تھا اوپر ہم میں سے کوئی بھی نا جاۓ میں تو نہیں جا رھا۔۔۔۔"
تیز بارش کے سبب عروج مکمل بھیگ چکی تھی اور ٹھنڈ سے کانپنا شروع کر دیا اس نے ، وہیں سعاد لاپرواہی سے بیٹھا ڈرنک کرنے کے ساتھ ساتھ بار بار کھڑکی میں سے عروج کو دیکھے بھی جا رہا تھا ، ٹھنڈ پہلے ہی زیادہ تھی اور اب بارش کی وجہ سے مزید بڑھ گئی جس وجہ سے عروج نیلی پڑنے لگی اور اچانک بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئ تب سعاد پریشانی سے بھاگ کر کمرے سے باہر آیا اور عروج کو جھک کر اپنی بازوؤں میں اٹھائے واپس کمرے میں لے آیا اور بیڈ پر لیٹا دیا۔۔۔۔
عروج مسلسل کانپے جا رہی تھی اس کا لباس بھی گیلا ھونے کے سبب اس کے وجود کو کافی حد تک عیاں کرنے کا باعث بن رھا تھا ایک تو سعاد نشے میں تھا اس لیے اس کا دماغ زیادہ کام نہیں کر رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے تب اس نے کچھ سوچتے کمرے میں موجود لینڈ لائن سے ڈاکٹر کو کال کی۔۔۔
" میری بیوی پوری بھيگ چکی ہے بارش میں اور کانپ رہی ہے میں کیا کروں ڈاکٹر۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کی بات تفصیل سے سن کر پہلے تو ڈاکٹر نے اسے عروج کے کپڑے بدلنے کا مشورہ دیا اور پھر اسے گرمائش دینے کا کہا ساتھ ہی کال کاٹ دی۔۔۔
" گرمائش کیسے یہاں پر تو ہیٹر بھی نہیں ھے۔۔۔۔"
خود سے بڑبڑاتے اس کے عروج کو دیکھا جو کہ اس وقت نیم بے ہوش تھی باتھروم سے ٹاول لا کر سعاد نے اپنی آنکھوں کو بند کر کے عروج کے کپڑوں کو اتارا اور وہی ٹاول اس کے گرد باندھ دیا اور خود کمبل اٹھائے خود پر لپیٹ عروج کو بھی اپنے ساتھ چپکا کر لیٹ گیا وہ ، ایسا کرنے پر تھوڑی سی عروج کو ٹھنڈ لگنی کم ہوئی تھی اس لیے اسنے سعاد کی طرف کروٹ لے کر بے ہوشی کے عالم میں بولنا شروع کر دیا۔۔۔
" سعاد جی آئی لو یو ، آپ کے بغیر میں ایک پل بھی نہیں رہ سکتی ، مجھے معاف کر دیں سعاد جی ، مجھے مت چھوڑیں۔۔۔۔"
عروج کی باتوں کو سن وہ اپنی نفرت بھلائے خود بھی اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھ کر پرسکون ھوتا آنکھیں موند گیا۔۔۔
" آئی لو یو ٹو ، تمہیں کچھ نہیں ہو گا عروج ، میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں یار ، کبھی نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔۔۔"
اپنے ہوش میں نا ہونے کی وجہ سے سعاد عروج کے قریب جانے سے خود کو روک نا پایا اور نرمی سے اس کے کپکپاتے لبوں پر اپنی گرفت مضبوط کر کے سانسوں کا تبادلہ کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی جس ہاتھ سے عروج کے ٹاول کو اس کے پکڑا ھوا تھا اسے چھوڑ وہ عروج کے جسم کو اپنی گرفت میں لے کر اپنی محبت برسانا شروع ہو گیا سعاد کا ساتھ پا کر وہ بھی بہت پرسکون ھو چکی تھی جبکہ ان کی محبت کو دیکھ کر بارش بھی آج خوب برسی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد سعاد عروج کی طرف کروٹ لے کر اسے اپنے ساتھ لگاۓ پرسکون ھوتا سو گیا وہیں عروج کو جب ٹھنڈ لگنی بند ہو گئ تو اس نے ھوش میں آتے اپنی آنکھوں کھول کر دیکھا تو سعاد اسے اپنی باہوں میں لیے لیٹا ہوا تھا خود کو اس حالت میں دیکھ پہلے تو وہ شرمائی لیکن پھر خود بھی سعاد کی پیشانی اور آنکھوں کو اپنے لبوں سے متعبر کرتی دوبارہ سے وہ سو گئ۔۔۔۔
صبح فجر کے وقت سعاد کی آنکھ کھلی تب خود کو اور عروج کو اس حالت میں دیکھ وہ غصے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے ، تم کیا اتنا ہی گر چکی ہو جو یہ سب کر لیا ، ایسے کیا تم میری محبت جیت لو گی۔۔۔۔"
سعاد کے چلانے پر وہ بھی نیند سے جاگ اٹھی تھی۔۔۔
" کیا ہو گیا ھے سعاد مجھے تو خود نہیں پتہ کہ کب ہم میں یہ سب کچھ ہو گیا۔۔۔"
" جسٹ شٹ اپ بہت بڑی غلطی تھی جو تم سے شادی کر لی میں نے۔۔۔۔"
غصے کی زیادتی سے پاگل ھوتے اس نے اپنا ہاتھ دیوار پر دے مارا۔۔۔۔
" سعاد پلیز ایسے مت کریں بیوی ہوں میں آپ کی حق ہے ہمارا ایک دوسرے پر تو آپ ایسے کیوں برتاؤ کر رہے ہیں۔۔۔۔"
" دفع ہو جاؤ یہاں سے ، اس سے پہلے میں تمہیں یا خود کو کچھ کر لوں ، نکلو۔۔۔"
سعاد کی باتوں پر آنسو بہاتی وہ کمبل اوڑھے زمین پر گرے اپنے گیلے کپڑے جو کے اب تک سوکھ چکے تھے انھیں اٹھائے باتھ میں چلی گئ اور نہا کر اپنے انھی کپڑوں کو پہن کے خاموشی سے ایک نظر صوفے پر سر اپنا ھاتھوں میں گرائے بیٹھے سعاد کو دیکھ کے وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور دوبارہ سے جام دروازہ کھولنے لگی جو کہ اب کی بار کھل بھی گیا ، شاید وہ سب کچھ عروج اور سعاد کو ایک کرنے کے لیے ہی ہوا تھا ، تیزی سے سیڑھیاں اترتی وہ نیچے اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر گر کے رونے لگی۔۔۔۔
" کیا گناہ ہو گیا ہم سے جو سعاد اتنا غصہ ہو رہے ہیں یا اللّٰہ اب آپ ہی کچھ کریں جس سے سعاد جی میرے ساتھ ٹھیک ہو جائیں یوں مجھ سے نفرت کرنا چھوڑ دیں۔۔۔۔"
دل ہی دل میں دعا کرتی وہ آنسوؤں کے ذریعے اپنی تکلیف کم کرتی رہی۔۔۔۔
عروج کے کمرے سے نکلتے ہی وہ چیختے ھوئے صوفے پر مکے برساتے اپنا غصہ اس پر نکالنے لگا۔۔۔۔
" پاگل ہو گیا تھا کیا تو ، کیسے اس لڑکی کے قریب آ گیا جو تیری مجرم ھے ، بہت بہت کمینہ ہے تو جس کی وجہ سے تیرا بھائی تجھ سے دور ھو گیا اسی کے ساتھ تو نے چھھھھھی ، بہت برا بھائی ہے تو اسی ڈر کی وجہ سے کی کہیں میرا بھائی خودکشی نا کر لے میں نے اس کی ہر خواہش کو پورا کیا چاہے پھر وہ جائز ہوتی یا نا جائز ، بس وہ میرے ساحر کی خواہش ھوتی جسے ہر حال میں پورا کرنا فرض تھا میرا ، لیکن اب کی بار تو میری ہی ذات میرے ساحر کو مجھ سے دور کر دینے کا سبب بن گئی۔۔۔۔"
بلک بلک کر روتے وہ خود کو ہی قصور وار تصور کرتے لگاتار خود کو اذیت دیئے جا رھا تھا وہیں عروج بھی مسلسل آنسو بہانے میں مصروف تھی ناجانے مزید کتنی دیر یہی سلسلہ جاری رہتا اگر جو اس کے موبائل کی رنگ ٹون خاموشی میں شور برپا نا کر گئی ھوتی ، خود کو کمپوز کرتے اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو ایس ایچ او کی کال تھی جسے اپنے آنسو صاف کرتے اسنے پک کر لیا۔۔۔
" بولیں سر ، کچھ معلوم ھوا آپکو۔۔۔۔؟؟؟
بھرائی ھوئی آواز میں سوال کیا گیا تھا۔۔۔
" جی میڈم جی ہمیں اس گاڑی میں جہاں سے ساحر کی لاش برآمد ھوئی وہاں کچھ گفٹس ملے ہیں ھیں ، جس میں اپنے بھائی کی شادی کی مبارک بعد دی جا رہی تھی اور آپ کے نام سے بھی بہت سے گفٹس موجود تھے جن پر لکھا تھا میرے بھائی کو ہمیشہ خوش رکھیے گا بھابھی جیسی نصیحت دی جا رہی تھی اور ساتھ شکریہ ہماری زندگی میں آنے کے لیے ، اب آپ خود سوچیں ایک مرنے والا شخص ایسی باتیں اور گفٹس تھوڑی نا خریدے گا جو کہ خود کشی کرنے والا جو ، اس بات سے تو یہ اندازہ ھو رھا ھے جیسے ساحر کافی خوش تھا آپ دونوں کی شادی سے ، آپ بالکل درست ثابت ھوئیں ، ساحر نے خودکشی نہیں کی ھے بلکہ قتل کیا گیا اسے۔۔۔۔"
سامنے سے تفصیل سے آگاہ کیا گیا تھا۔۔۔۔
" دیکھیں سر بس اب تھوڑی سی اور کوشش کریں آپ کو قاتل کے بارے میں بھی کوئی نا کوئی ثبوت لازمی مل جائے گا۔۔۔۔"
" جی میڈم ہم اسی کوشش میں مصروف ھیں ، آپ فکر نہیں کریں۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی کال کاٹ دی گئی تب عروج گہری سوچ میں مبتلا ھو گئی۔۔۔
" سعاد جی آپ کو اپنے بھائی پر بھروسہ ہو یا نا ہو لیکن مجھے یقین ہے وہ خودکشی نہیں کرے گا ، جتنا آپ اس سے محبت کرتے ہیں بھائی ھونے کے ناطے وہ بھی تو کرتا ہوگا تو پھر بھلا اپنے بھائی کی خوشی میں اس سے زیادہ اور کون خوش ہو سکتا ہے ، میں اپنی بہن کو تو انصاف دلوانے میں ناکام رہی لیکن ساحر کو ضرور دلواؤں گی۔۔۔۔"
🌟🌟🌟🌟🌟🌟
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عروج کمرے سے باہر نکل آئی ارادہ اس کا ممتاز بیگم کے پاس جانے کا تھا مگر لاونج میں بیٹھے سعاد پر نظر پڑتے ہی ڈر کر وہ واپس اپنے کمرے کی طرف دھوڑی لیکن ھائے رے قمست ، ملازمہ نے اسے پکار کر سعاد کی توجہ بھی حاصل کر لی تھی۔۔
"میڈم آپ آ جائیں ناشتہ تیار ھے۔۔۔"
عروج کا نام سنتے ہی اس کے سنجیدہ تاثرات کچھ اور تن گئے اس کی قہر آلود نظروں کا رخ اب عروج کی جانب ہی تھا وہیں ملازمہ سعاد کے تاثرات سے خوفزدہ ھوتی فوراً چلتی بنی۔۔۔
"س۔۔۔س۔۔۔س سوری میں نہیں جانتی تھی آپ یہاں پر موجود ہیں آپ بیٹھیں میں واپس کمرے میں جا رہی ھوں۔۔۔"
نظریں جھکائے اپنے لب چباتی بولنے کے ساتھ ہی وہ وہاں سے جانے لگی جب سعاد کی کہی بات اس کے قدموں میں زنجیر ڈالے کے مترادف ثابت ھوئی۔۔۔
" بہت شوق ہے تمہیں خود کو مظلوم ثابت کرنے کا جبکہ میری نظر میں تم سے زیادہ چلاک اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔"
اس کے صبیح روشن چہرے کو دیکھتی ( پیشانی پر بکھرے گیلے بال اسکے ابھی ابھی نہانے کی گواہی دے رھے تھے) وہ ہلکا سا مسکرا پڑی تھی۔۔۔
" ٹھیک ہے سعاد ، میرے لیے تو یہی بات بہت بڑی خوشی کا سبب ھے آپ مجھے کسی طرح ہی سہی سوچتے تو ہیں۔۔۔۔"
اپنی مخصوص مسکراہٹ لیے وہ محبت سے بولی تھی۔۔۔
" تم تھکتی نہیں ہو یہ ڈرامہ کرتے ھوئے۔۔۔۔؟؟؟
صوفے سے کھڑا ھوتا وہ اس کی طرف قدم اٹھانے لگا۔۔۔
" میں جانتی ھوں جب انسان کو کوئی برا لگتا ھو تو اس کی ہر حرکت ہمیں صرف بری ہی لگتی ھے ،سو ڈونٹ وری آپ کو فلحال غلط فہمی کی وجہ سے میں بہت بری لگ رہی ہوں لیکن آہستہ آہستہ آپ کو مجھ سے ،( جو کے آل ریڈی آپ کے دل میں میرے لیے موجود ہے ) جو محبت ھے اس وجہ سے میری ہر حرکت بہت پیاری لگے گی مجھے اس دن کا بے صبری سے انتظار ھے سعاد جی۔۔۔۔"
" بھول ہے تمہاری لیکن اگر تمہیں شوق ہے غلط فہمی میں جینا کا ، تو جیتی رہو آئی ڈونٹ کیئر تمہاری بکواس کبھی ختم نہیں ہو سکتی لیکن مجھے کام پر جانا ھے تو میں خود ہی یہاں سے چلا جاتا ھوں۔۔۔"
اتنا بول غصے سے سعاد گھر سے باہر چلا گیا جبکہ وہ اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
سارا دن ممتاز بیگم کے پاس بیٹھ اسکا اپنی ہی سوچوں میں مگن گزرا کب شام بھی ھو گئی اس بات کا بھی اسے اندازہ نا ھوا مگر اپنے موبائل پر آنے والی ایس ایچ او کی کال اسے پھر سے ھوش کی دنیا میں کھینچ لائی تھی ، بغیر ایک بھی پل ضائع کیے اس نے کال اٹینڈ کی۔۔۔
" میڈم ہمیں ایک بہت بڑی بات معلوم ھوئی ھے جو کے آپکے حق میں بھی ھے اور بہت بڑا ثبوت بھی ھو سکتی ھے۔۔۔۔"
" کیا سر مجرم کا پتہ چل گیا اپکو۔۔۔؟؟؟
جھٹ سے سیدھی ھو کر بیٹھی وہ سوال کرنے لگی۔۔۔
" ہاں یہی سمجھ لیں میڈم ، جس جگہ ساحر کی لاش ملی تھی وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ھے ہم نے ، جو دیکھنے ہر ہمیں معلوم ھوا ساحر کے ساتھ ایک اور شخص بھی گاڑی میں بیٹھا تھا جو کچھ دیر بعد گاڑی سے نکل کر بھاگ گیا ، شکل پر ماسک موجود تھا اس کے ورنہ اب وہ سلاخوں کے پیچھے ھوتا ھاں لیکن کمیرے میں اس کے ہاتھ پر بنا ٹیٹو دیکھائی دے دیا۔۔۔۔۔"
" ٹیٹو کونسا ٹیٹو سر ، کون تھا وہ۔۔۔۔؟؟؟؟
ٹیٹو کی بات سن وہ چونک اٹھی تھی۔۔۔۔
" میڈم شاید بازو پر ایم لفظ لکھا ہوا ھے اس کے ، اتنا ہی دیکھائی دیا ، اب بس وہ قاتل ڈھونڈھنا باقی ہے۔۔۔۔"
" سر پلیز ڈھونڈھیں اسے ، اس گنہگار کو سزا دینا لازمی ھے۔۔۔۔"
" جی میڈم ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں بہت جلد معلوم ھو جائے گا۔۔۔۔"
اپنی بات کہہ ایس ایچ او نے کال کاٹ دی۔۔۔۔
" کون ہے وہ جس کے ایم بازو پر لکھا ہوا ھو۔۔۔۔"
فون بند کر کے عروج سوچنے لگ گئی کہ تبھی اس کو عمران کی کال آ گئی۔۔۔
" عمران بھائی ان کو کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
" آج کیسے آپ نے مجھے یاد کر لیا عمران بھائی ویسے تو رابطے ختم کر دیے آپ نے ، اور میرا نیو نمبر آپکو کیسے معلوم ھوا۔۔۔۔؟؟؟
کال پک کرتے ہی وہ سوالات کی بوچھاڑ کرنے لگی تھی۔۔۔۔
" کچھ نہیں عروج ، وہ بس مل گیا نمبر بھی ، اچھا سنو تمہیں یاد نہیں کیا آج ماہ نور کو ہم سے دور گۓ ہوۓ دو ماہ گزر چکے ہیں۔۔۔۔"
" جی بھائی میں کیسے بھول سکتی ہوں اس خوفناک واقعہ کو۔۔۔۔"
لمحوں میں اداسی کے سائے لہرا گئے تھے اسکے خوبصورت چہرے پر۔۔۔۔
" ھاں عروج اسی لیے میں نے اپنے گھر پر ماہ نور کے سبھی دوستوں کو بلایا ہے آج ، تو تم بھی آ جاؤ آج ہم سب ماہ نور کی باتوں کو یاد کریں گے صرف اس کی باتیں ہوں گی۔۔۔"
" ٹھیک ہے بھائی میں آ جاؤں گی ، کب آنا ہے۔۔۔؟؟؟
" ابھی آ جاؤ 8 بجے تک۔۔۔"
" جی بھائی ٹھیک ھے ، میں آ جاؤں گی آپ ایڈریس سینڈ کر دیں۔۔۔"
کال بند کر کے عروج ممتاز بیگم کی پیشانی پر بوسہ دیتی انھیں سوتا چھوڑ ، اپنے کمرے میں تیار ہونے چلی گئی ، کچھ دیر بعد مکمل تیار ھو کر وہ گھر سے نکلنے سے پہلے ملازمہ کو بتانے لگی کہ وہ سعاد کو با خبر کر دے مگر پھر سعاد کے ڈر سے وہ بغیر کوئی خبر دیے ڈرائیو کے ساتھ عمران کے گھر پر پہنچ گئی۔۔۔۔
جیسے ہی عمران نے دروازہ کھولا ایک پل کو تو اس کی حالت دیکھ عروج خوفزدہ ھو گئی ، دو ماہ میں کیا سے کیا ھو گیا تھا وہ کیا محبت سے دوری انسان کو اسی قابل رحم حالت میں مبتلا کر دیتی ھے ، افسوس سے نظریں جھکائے وہ گھر میں داخل ھوئی تو سامنے اسے سارے گھر میں ماہ نور کی ہی تصویریں لگیں دیکھائی دیں جنہیں ناجانے کہاں سے جمع کیا تھا اس نے اور کب سے وہ تصویریں کمیرے میں محفوظ کی ھوئی تھیں عروج حیرانگی کے سبب ہلکے سے لب وا کیے چاروں اطراف لگی ماہ نور کی تصویروں کو دیکھ رہی تھی تب اسے وہیں موجود دیکھ عمران اسکے قریب چلا آیا۔۔۔۔
" تم ادھر کیوں کھڑی ھو اندر کمرے میں آؤ میں نے وہاں ماہ نور کی پسند کی ہر چیز بہت حفاظت سے رکھی ھے آج ماہ نور کی ہی پسند کا کھانا بنایا ھے میں نے اور وہ سب کچھ کیا جو میری ماہ نور کو پسند تھا ، اچھی ہے نا ہر چیز۔۔۔۔"
عمران کے پیچھے وہ کمرے میں داخل ھوئی تو وہاں بھی ماہ نور سے وابستہ چیزیں دیکھ اس کی آنکھیں بھر ائیں۔۔۔
" ہاں بھائی بہت اچھا ھے سب۔۔۔۔"
" عروج روؤ نہیں تم ورنہ ماہ نور کو برا لگے گا ، ہمیں صرف اسے ہیپی رکھنا ھے۔۔۔۔"
عمران کی باتیں سن وہ اسے نرم نظروں سے دیکھتی دل ہی دل میں سوچنے لگی۔۔۔۔
" عمران بھائی کتنی محبت کرتے ہیں آپی سے ، کتنے خوش رہنا تھا ان دونوں نے لیکن۔۔۔۔"
ابھی وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ عمران کے باقی کے دوست بھی دروازہ کھلا ھونے کی وجہ سے سیدھا گھر کے اندر آ گۓ جنہیں بھاگ کر وہ اس کمرے میں ہی لے آیا تھا سبھی اپنی اپنی جگہ سنبھال ماہ نور کی یادوں کو تازہ کرنے لگے۔۔۔۔
" میری ماہ نور بہت اچھی تھی کسی کا بھی کبھی برا نہیں کیا اس نے ، ہر ایک کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے بات کرتی تھی لیکن ایک شیطان میری ماہ نور کی خوشیوں کو برداشت نا کر سکا اس لیے اس نے اسے اپنی نفرت کا نشانہ بنا لیا ، ہم سب سے بہت دور کر دیا اسے۔۔۔۔"
بات کرتے کرتے اچانک سے شرٹ عمران کی بازو سے اوپر ہو گئ تب عروج کی نظر اس کی بازو پر بنے ایم پر پڑی جسے دیکھ عروج کو خوف سے پسینہ آنا شروع ھو گیا جبکہ آنکھیں بھی حیرت انگیز طور پر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔
" کیا ہوا عروج تم ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟؟؟
عروج کو دیکھ شبنم نے اسے مخاطب کیا۔۔۔
" نا۔۔۔۔ھا۔۔۔۔ھاں وہ وہ می۔۔۔میں مجھے واش روم جانا ہے۔۔۔۔"
خود کے کانپتے لہجے پر قابو پاتے وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ھوئی۔۔۔
" اوکے ، سیدھا مڑ کر داۂیں جانب ہے باتھروم۔۔۔۔"
عروج کو دیکھتے عمران نے اسکی معلومات میں اصافہ کیا۔۔۔
" ج۔۔۔جی شکریہ۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ ڈھوڑنے کے انداز میں کمرے سے باہر نکل گئی اور باتھ میں گھس کر پانی کے چھینٹے اپنے منہ پر مارتے وہ خود کا تنفس بحال کرنے لگی جو خوف کے سبب بگڑ چکا تھا۔۔۔
" عمران بھائی نے کیا ھے ایسا ، لیکن کیوں ، ساحر نے کیا بگاڑا تھا ان کا ، وجہ کیا تھی مجھے پتہ لگانا ہو گا سب کچھ ، میں ویسے نہیں چپ رہ سکتی۔۔۔۔"
کافی دیر تک خود کو کمپوز کرنے کے بعد ٹینشن سے عروج اپنے چہرے کو پانی سے دھونے لگی ، اپنے اندر موجود حبس کو وہ اسطرح ختم کرنے کی سعی میں مصروف تھی جب کافی حد تک وہ نارمل ھو گئی تب عروج باتھروم سے باہر نکلی اور واپس کمرے میں جانے لگی مگر راستے سے گزرتے اس کی نظر ایک کمرے میں بیٹھیں عمران کی ماں پر گئ جو کے اداس کرسی پر بیٹھیں ھاتھ اٹھائے دعا کر رہی تھیں ، انھیں دیکھ خیر خیریت دریافت کرنے وہ ان کے پاس چلی گئ۔۔۔۔
" آنٹی آپ یہاں پر کیا کر رہی ہیں باہر آئیں ، دیکھیں عمران بھائی نے ماہ نور آپی کی یاد میں کتنا انتظام کیا ہے بہت محبت کرتے ھیں وہ ان سے۔۔۔۔"
سلام دعا کرنے کے بعد وہ ان کے قریب بیٹھی شائستگی سے بولی وہیں ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ھو چکی تھیں۔۔۔۔
" بیٹا یہی سب تو دیکھتی آ رہی ہوں ، دو ماہ سے عمران ماہ نور کی یاد میں پاگل ہو چکا ہے پتہ نہیں روز کیا کیا کرتا رہتا ہے اس کے لیے یہاں تک کے ماہ نور کا نام اپنی بازو پر میرے سامنے چھری سے لکھ لیا۔۔۔"
" آنٹی آپ فکر نہیں کریں میں ان سے بات کرتی ہوں۔۔۔"
ان کے ھاتھ پر اپنا ھاتھ رکھ ہلکا سا دباتے وہ انھیں تسلی دینے لگی۔۔۔
" بیٹا کچھ تو کرو جو وہ پہلے جیسا ھو جائے ، کہیں میرا اکلوتا بیٹا پاگل خانے ہی نا مجھے بھیجنا پڑ جائے اسی بات کا خوف مجھے سونے نہیں دیتا۔۔۔"
" نہیں آنٹی ایسا کچھ نہیں ہو گا انشاللہ آپ بے فکر رھیں۔۔۔"
اتنا بول انھیں تسلی دیتی عروج کمرے سے باہر آ گئ۔۔۔
" کیا کروں میں اگر یہ بات سچ ہے کہ عمران بھائی نے ہی ساحر کا قتل کیا تو سعاد عمران بھائی کو نہیں چھوڑیں گے اور اگر عمران بھائی کو کچھ ہو گیا پھر آنٹی کا کیا ہو گا ، آففف کیا کروں میں اب اتنی بڑی مشکل میں پھنس چکی ہوں جہاں سے رہائی نا ممکن ھے ، عروج اگر تو نے عمران بھائی کو بچایا تو یہ بھی گناہ ہو گا کیونکہ کسی گناہگار کا گناہ چھپانا بھی تو گناہ ہی ہے ، مجھے حقیقت عمران بھائی سے معلوم کرنی ھو گی اور پھر وہ ثبوت میں پولیس کو دیکھاؤں گی تاکہ جیل ہو جاۓ انھیں اور سعاد اپنے طور پر انھیں کوئی نقصان نا پہنچا سکیں۔۔۔۔"
اپنے تیئیس منصوبہ بندی کرتے وہ واپس عمران کے کمرے میں داخل ھو گئی اس وقت وہ خود کو مکمل پرسکون کر چکی تھی جس سے کسی کو کوئی شک نا ھو سبھی لوگ کچھ دیر بعد آٹھ کر واپس اپنے گھر چلے گۓ وجہ رات کافی ھو چکی تھی لیکن عروج وہیں پر ہی بیٹھی رہی۔۔۔۔
" کیا ھوا عروج ، کوئی بات کرنی ہے تم نے مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟
نظریں جھکائے اس کو اپنی انگلیوں مروڑتے دیکھ عمران نے سوال کیا۔۔۔
" ہاں بھائی اصل میں مجھے کچھ کہنا ھے ، وہ آپی بھائی ، ماہ نور آپی کے گناہگاروں کے بارے میں مجھے بات کرنی تھی ، بھائی میرے خواب میں روز آپی آتی ہیں وہ روتی ھیں وہ تکیلف میں ھیں بھائی ، مجھے بہت دکھ ہوتا ہے میری آپی کے گناہگار ابھی تک آزاد پھر رہے ہیں پولیس کو ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ، میں کیسے جیوں گی اس غم کے ساتھ کہ اپنی آپی کو انصاف تک نا دلوا سکی میں۔۔۔۔"
" عروج تم فکر نہیں کرو تمہاری آپی کو انصاف مل چکا ہے۔۔۔۔"
" کیا بھائی آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ، آپی کو انصاف کیسے مل گیا آپ کیا ان لوگوں کو جانتے ہیں جو میری آپی کے مجرم ھیں۔۔۔؟؟؟
سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتی وہ بولی۔۔۔
" ھاں عروج دیکھو اب تم دھیان سے سننا میری بات مجھے صرف اتنا ہی پتہ چل سکا تھا کہ ماہ نور کو ایک لڑکے نے مارا ہے اب اس نے خود مارا تھا یا کسی نے اس کے کہنے پر مارا تھا یہ مجھے نہیں پتہ لیکن تمہیں انٹرسٹنگ بات بتاؤں میں نے اس لڑکے کو مار دیا بہت مشکل تھا یہ کام لیکن میں نے کر دیا اپنی ماہ نور کے لیے ، پہلے اس کے ساتھ تعلقات بنائے بات چیت شروع کی پھر اسکو سکون کی نیند سلا دیا۔۔۔"
پاگلوں کی طرح مسکراتے وہ عروج کو حقیقت سے آگاہ کر رھا تھا۔۔۔
" بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ، آپ نے مار دیا آپی کے گناہگار کو مگر یہ تو سزا نا ہوئی اس کی بھائی ہمیں اسے جیل کروانی چاہیے تھی تاکہ پوری عمر وہ تڑپتا وہاں اور پچھتاتا کہ اس نے کیوں یہ گناہ کیا۔۔۔"
نارمل سا انداز اپنائے وہ کہنے لگی۔۔۔
" عروج وہ بہت امیر تھا اور میں باخبر ھو اس بات سے ، امیر لوگ جیل میں نہیں رہتے وہ چھوٹ جاتے ہیں ، پھر میں یہ سب کیسے دیکھ سکتا تھا کہ وہ آزادی کی زندگی گزارے ، اس لیے میں نے اس کا کھیل ختم کر دیا۔۔۔"
" بھائی آپ نے کیسے کیا اکیلے اتنا سب۔۔۔۔؟؟؟
" عروج بتایا تو ھے ابھی تمہیں میں نے اس سے دوستی کی پھر اپنے بھائی کی شادی کے لیے گفٹس خرید رہا تھا وہ بہت شوپنگ کر کے واپس جا رھا تھا ، میری اس پر کب سے نظر تھی تو راستے میں میں نے اس سے لفٹ مانگی وہ بھی دوست تھا میرا تو دے دی تب گاڑی میں بیٹھ کر گن نکالے پیشانی پر رکھ گولی چلا دی میں نے ، تم جانتی ھو سبھی لوگ یہی سوچ رہے ہیں اس نے خودکشی کی کیونکہ میں نے سب ثابت ہی ایسے کیا ، وہ جس لڑکی سے محبت کرتا تھا اس کی وہی بھابھی بن گئی ھے اس بات کا دکھ تھا اسے اور برادشت نا کرتے اس نے خود کو مار لیا ،ھے نا انٹرسٹنگ بات ، ویسے میں ابھی بھی پتہ لگا رہا ہوں اس کے ساتھ کوئی اور بھی وابستہ تھا یا نہیں اگر ھے تو اس کی بھی جان لینے سے گریز نہیں برتوں گا میں۔۔۔۔"
پہلی بات مسکرا کر جب کے آخر میں وہ خطرناک حد تک سنجیدگی سمیٹ لایا تھا اپنے لہجے میں ، وہیں عروج کو اب اس سے خوف آنے لگا۔۔۔۔
" تھنک یو بھائی آپ نے میرا بہت بڑا بوجھ ہلکا کر دیا اب میں چلتی ہوں، کافی دیر ہو چکی ہے۔۔۔"
جھٹ سے وہ اٹھ کھڑی ھوئی اور واپسی کو پر تولنے لگی۔۔۔
" ٹھیک ہے جاؤ تم لیکن عروج یہ بات کسی کو نہیں بتانا ہمارا سیکرٹ ہے یہ , ٹھیک ہے۔۔۔۔"
خود بھی کھڑا ھوتے وہ سرگوشی نما انداز میں بولا۔۔۔
" جی بھائی بس آپی کو بتاؤں گی تاکہ وہ اب پرسکون ھو جائیں۔۔۔"
" ہاں ہاں ٹھیک ہے ماہ نور کو بتا دینا۔۔۔۔"
عمران کا پاگل پن دیکھ عروج تیزی سے وہاں سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ کے واپس گھر جانے لگی ، عمران کی باتیں سوچ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔۔۔
" عمران بھائی مکمل پاگل ہو چکے ہیں اور اب تو قاتل بھی بن گۓ ھیں وہ ،لیکن وہ بار بار ساحر کو آپی کا قاتل کیوں کہہ رہے تھے کہیں سچ میں تو ایسا نہیں ، مجھے اس بات کا بھی پتہ لگانا ہو گا لیکن پہلے یہ میں پولیس کو دیکھا دوں جو ریکورڈنگ میں نے عمران بھائی کی کی ہے کیونکہ میری آپی بھی یہ نہیں چاہیں گی عمران بھائی سے مزید کوئی اور گناہ ہو۔۔۔۔"
اپنے موبائل کو دیکھتی وہ گھر پہنچنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔
بی
ا پاتی تھی جبکہ اس کو نظر انداز کرتے گھر کے اندر جاتے دیکھ سعاد تو مانو غصے کی زیادتی سے پگلا سا گیا۔۔۔۔
" کہاں سے آ رہی ھو ، ایسا بھی کونسا کام یاد آ گیا جس کی اطلاع دینا بھی ضروری نا سمجھا تم نے۔۔۔۔"
دو تین قدموں میں ہی وہ اس کے سامنے کھڑا کڑے تیوروں سمیت سوال کرنے لگا۔۔۔۔
" پلیز سعاد ، ابھی میں بہت ڈسٹرب ہوں ہم بعد میں بات کریں گے۔۔۔۔"
اپنی بات کہہ کر وہ اس کے قریب سے گزرتی گھر کے اندر داخل ھونے لگی مگر اپنی بازو پر اس ظالم شخص کی مضبوط پکڑ اسے کسی شکنجے کے مترادف لگی جس نے اسکے قدموں کو بریک لگا دی۔۔۔
" تو اب مجھے تم سے بات تمہارا موڈ دیکھ کر کرنی ہو گی ، اتنے برے دن نہیں آئے میرے۔۔۔۔"
عروج کو اس کی انگلیاں اپنی بازو میں دھنستی محسوس ھو رہی تھیں۔۔۔
" سعاد پلیز بلیو می آج بہت دکھی ہوں میں اپنی آپی کی وجہ سے مزید مجھے ٹارچر مت کریں۔۔۔۔"
بولتے بولتے اسکی آواز بھرا سی گئی تھی جبکہ سامنے موجود سفاک انسان کو اس کی کہاں پرواہ ھونی تھی۔۔۔
" تمہاری آپی اچھا ڈرامہ ھے جب دیکھو ہر وقت آپی آپی ، یو نو واٹ تمہاری بہن بھی تمہاری طرح ہی ہوں گی کسی کو دھوکا دیا ہو گا تب غصے میں اًس نے تمہاری بہن کو مار دیا ، جو جس قابل ھوتا ھے وہی ملتا ھے اسے۔۔۔"
" بس کر دیں سعاد بہت بول لیا آپ نے ، مجھے کچھ بھی کہنے کا حق رکھتے ھیں آپ مگر میری آپی کے خلاف میں کوئی بھی بکواس برداشت نہیں کروں گی۔۔۔۔"
شہادت کی انگلی اٹھائے وہ اس کے سامنے کسی چٹان کی طرح تن کر اسے دھمکی سے نوازنے لگی وہیں اس کا یہ روپ سعاد مرزا کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ بکھیر گیا۔۔۔
" کیا کر لو گی ہاں بولو ، کیا بگاڑ لو گی میرا کچھ نہیں کر سکتی تم ، میں تو کہوں گا ہزاروں مرتبہ چیخ چیخ کر کہوں گا تمہاری آپی ایک بدکردار گندی گھٹیا لڑکی تھی جس کے تعلقات ہزاروں لڑکوں کے ساتھ تھے کسی ایک کی نا ھو سکی وہ تو مار دیا کسی نے بدلے میں اسے ، اگر سیدھے الفاظوں میں کہوں تو تمہاری آپی دو نمبر لڑکی تھی جس کا کسی ایک مرد کے ساتھ گزارا نہیں ھوتا تھا۔۔۔۔"
" بکواس بند کریں اپنی ، اگر ایک لفظ بھی مزید ادا ھوا آپ کے منہ سے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ھو گا۔۔۔۔"
ایک زور دار طماچہ سعاد کے منہ پر جڑتے وہ چیخ پڑی تھی۔۔
" آپ کیا جانیں مسٹر سعاد مرزا میری آپی کیا تھیں ، ایک انتہائی شریف لڑکی تھیں وہ جو کے اپنی فیملی کو پالنے کے لیے بامشکل ایف اے کر کے چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرتیں جسے دن رات کی مانگی گئی دعاؤں کے بعد حاصل کیا تھا انھوں نے ، در در کے دھکے کھا کر ہم دونوں کا سہارا بنی تھیں وہ ، ساتھ ساتھ خود بھی راتوں کو جاگ کر پڑھتی وہ تاکہ زیادہ ایجوکیشن ھونے سے مزید اچھی نوکری مل جاۓ انھیں ، ہمیشہ پیدل ہر جگہ جاتیں کہ پیسے فضول میں خرچ نا ہوں ، ارے آپ کیا سمجھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ محبت صرف آپکو ہی اپنے بھائی سے ھے ، غلط سوچ ھے آپکی مسٹر سعاد ،در حقیقت آپ صرف اپنے بھائی کی خواہشوں کو پورا کر کے اسے مزید بگاڑ چکے تھے ، ضدی پاگل ھو چکا تھا وہ ، یا پھر آسان لفظوں میں یہ کہنا بہتر ھو گا ، کوئی بدلا لے رہے تھے آپ اس سے ورنہ اس کو سمجھاتے بگاڑتے نہیں، محبت تو میری آپی کرتی تھیں اپنی فیملی سے جو اپنی خوشیوں اپنی خواہشات کو پس پشت ڈالتے صرف اپنی فیملی کے بارے میں سوچتی تھیں ان کی سوچوں کا مرکز صرف ہماری ذات ھوتی ، آج کہہ دیا آئندہ میری آپی کے خلاف بولنے سے پہلے لاکھ مرتبہ سوچئے گا۔۔۔۔"
عروج کو پہلی مرتبہ اتنا بہادر اور نڈر دیکھ کر سعاد حیران رہ گیا وہیں وہ اپنے آنسو صاف کرتی بھاگتی ھوئی ممتاز بیگم کے کمرے میں گھس گئی۔۔۔
" اس نے مجھے تپھڑ مار دیا اور میں چپ چاپ کھڑا رہا , برادشت کیسے کر لیا میں نے ، تجھے ھو کیا گیا ھے سعاد ایول ھے تو ، یہ دو ٹکے کی لڑکی تجھے بے بس کر دینے کا حوصلہ رکھتی ھے ، سنبھال خود کو اپنی حیثیت اپنا مقام مت بھول۔۔۔۔"
خود کو کوستا وہ گھر کے پیچھے بنے پول کی جانب قدم اٹھانے لگا ، غصہ تھا جو مزید پروان چڑھے جا رھا تھا اس کا جسے کم کرنے کی سعی میں وہ پانی میں غوطہ لگانے کا ارداہ کر چکا تھا۔۔۔۔
ممتاز بیگم کے پاس جا کر انھیں افسوس بھری نظروں سے دیکھتی وہ اپنے آنسوؤں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
" اگر یہ حقیقت ہوئی سچ میں ساحر ہی میری آپی کا قاتل ہوا تو برداشت نہیں کروں گی میں ، کیا اس بات کا علم سعاد کو ہو گا یا بے خبر ھوں گے وہ ،کیا سعاد اپنے بھائی کا گناہ چپھا رہے ھیں مجھ سے ، یہ بات میں خود معلوم کروں گی اپنے طریقے سے ، لیکن اب عمران بھائی جو کراۂم کر رہے ہیں انھیں روکنا ھو گا یہ ریکورڈنگ سینڈ کر دوں پہلے ایسا نا ھو مجھے دیر ھو جائے۔۔۔۔"
خود سے مخاطب اس نے تیزی سے اپنے موبائل میں موجود ریکورڈنگ پولیس کو بھیج دی اور پھر ساتھ ہی ایس ایچ او کو کال کر دی کال پک ھوتے ہی عروج نے ساری بات ان کے گوش گزار کر دی تھی کہ وہ شخص عمران ہے ایس ایچ او نے اسے تسلی دے کر کال کٹ کر دی وہیں عروج نے پوری رات جاگ کر گزاری ایک پل کو بھی اسے سکون نا ملا جو اپنی تختہ ھو چکی کمر ہی لیٹ کر سیدھی کر لے ، اگلی صبح پولیس نے عمران کو پکڑ لیا کیونکہ ثبوت تو سب سے بڑا وہ ریکاڈنگ تھی جسے عروج نے انھیں سینڈ کر دیا تھا ، 10 بجے عروج کو کال کر کے پولیس اسٹیشن بلایا گیا تب خود کو کمپوز کرتی وہ ممتاز بیگم کی پیشانی پر بوسہ دیتی کمرے سے نکل سعاد کے پاس اس کے کمرے میں چلی گئ جو کہیں جانے کے لیے تیار ھو رہا تھا دروازہ کھلنے کی آواز پر پلٹ پڑا وہ۔۔۔
" تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے سامنے آنے کی نفرت ھے مجھے تمہارے اس چہرے سے پہلے تو یہ بتاؤ رات کو تم نے مجھے تپھڑ کیسے مارا۔۔۔۔؟؟؟
خطرناک تاثرات لیے وہ اس کی جانب لپکا تھا جو اس کے غصے کی پرواہ کیے بنا اگلے ہی پل اسکی بازو تھام چکی تھی۔۔۔۔
" یہ غصہ بعد میں نکال لینا آپ فلحال میرے ساتھ چلیں بہت ضروری کام ہے۔۔۔۔"
" تمہارا ضروری کام جو بھی ہو میرے لیے وہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔۔۔"
ایک جھکٹے سے وہ اسکی گرفت سے اپنا بازو آزاد کروا چکا تھا۔۔۔
" ٹھیک ہے مجھے کیا میں تو اکیلی بھی چلی جاؤں گی ساحر کے قاتل کے پاس اسے سزا دلوانے۔۔۔۔"
" کیا کیا کہا تم نے ساحر کے قاتل کو سزا ، کون ہے وہ اور ساحر نے تو خودکشی کی تھی پھر اس بات کا مطلب۔۔۔"
حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھتا وہ سوال کرنے لگا۔۔۔
" ساحر نے خودکشی نہیں کی تھی ہزار مرتبہ کہی ھے یہ بات میں نے ، جو بھی حقیقت ھے آپ کو پولیس اسٹیشن سے معلوم ھو جاۓ گی ، اب دیر مت کریں چلیں میرے ساتھ۔۔۔۔"
" ہاں چلو۔۔۔۔"
تیزی سے اپنی شرٹ کے بٹن لگاتا وہ عروج کے ساتھ گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور تیزی سے اسے بھگاتے وہ دونوں پولیس اسٹیشن پہنچ گئے جیسے ہی انھوں نے اندر قدم رکھا وہاں پر ایک الگ ہی تماشہ جاری تھا۔۔۔
" چھوڑ دو مجھے میری ماہ نور کو ابھی انصاف نہیں ملا ابھی اس کا قاتل آزاد گھوم رہا ھے ، پلیز مجھے جانے دو جب سبھی گناہگاروں کو میں خود ختم کر دوں گا پھر چاہے پھانسی لگا دینا مجھے ، اف بھی نہیں کہوں گا اب پلیز مجھے جانے دو ، میری ماہ نور کو اذیت سے نجات دلانا ھے مجھے۔۔۔۔"
بلند آواز میں چیختے وہ خود کو چھڑوانے کی سعی میں مصروف تھا۔۔۔۔
" اے پاگل ہو گیا ہے کیا تو ، کیسے انصاف دلواۓ گا ہمیں تو ابھی تک معلوم ھوا نہیں ، اس کا قاتل کون ہے ، تو کیا سی آئی ڈی میں بھرتی ھے۔۔۔۔"
ایک کانسٹیبل نے اس کی بازو کو مضبوطی سے پکڑتے طنز کیا جس پر سبھی پولیس آفیسرز کا قہقہ گونج اٹھا۔۔۔
" آپ سب کو خوف ھے ان امیروں کی دولت کا ، جانتا ھوں میں ماہ نور کا قاتل بہت امیر شخص ھے اور۔۔۔۔"
اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کر پاتا اچانک پولیس اسٹیشن میں داخل ھوتے ہی عمران پر نظر پڑتے سعاد ڈھونڈنے کے انداز میں اس کے قریب پہنچا عروج اس کے ارادوں کو بھانپتی خود بھی وہیں بھاگ کر چلی گئی تب اسے دیکھتے عمران نے لپک کر عروج کی گردن کو دبوچ دیا۔۔۔۔۔
" دشمن ہے کیا تو اپنی بہن کی ، ایک تو میں اتنی مشکل سے ماہ نور کے قاتلوں کو ڈھونڈ کر ختم کر رہا ہوں اور اوپر سے تو مجھے پھنسا رہی ہے۔۔۔۔"
" چھوڑ عروج کو۔۔۔۔"
سعاد نے غصے سے عمران کا ھاتھ عروج کی گردن سے ہٹا اسے زمین پر دھکا دے دیا۔۔۔۔
" تو نے میرے بھائی کو چھوا بھی کیسے ، تجھے تو نہیں چھوڑوں گا ایسی موت دوں گا روح بھی پچھتائے گی تیری کہ کس کا بدن نصیب ھوا اسے۔۔۔۔"
ٹھوکروں کے ساتھ عمران کو لہو لہان کرتا وہ ڈھاڑ اٹھا اور پھر بغیر سوچے سمجھے ایس ایچ او کے قریب جا کر اس کی بندوق نکال سعاد نے عمران کی طرف نشانہ باندھ لیا وہیں عمران اسے دیکھ ہنسنے لگا۔۔۔۔
" مار مار چلا گولی ، مار دو مجھے کیونکہ مرنے کے بعد میں اور ماہ نور ایک ھو جائیں گے۔۔۔۔"
عمران کی بات سن چیختے ھوئے وہ بندوق کو زمین پر پھینک رونے لگا۔۔۔
" تیری دشمی کیا ھے ہم سے گٹھیا انسان ، میرا بھائی معصوم تھا اس نے تیری ماہ نور کو نہیں کیا تجھ سے دور ، میرا ساحر تو اپنی ذات کے سوا کسی کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا پھر۔۔۔۔"
" جانتا ھوں میں اس کے ساتھ اور لوگ بھی شامل تھے ان کی جان بھی میں ہی لوں گا ، عروج تم کیا نہیں چاہتی تمہاری بہن کو انصاف ملے تم کیا دشمن ہو اپنی بہن کی ، پلیز ان سے کہو مجھے جانے دیں میں ان سب قاتلوں کو مار کر خود واپس آ جاوں گا آئی پرامس۔۔۔۔"
سعاد کی بات کاٹتا وہ خاموشی سے نظریں جھکائے کھڑی عروج کی منت کرنے لگا۔۔۔۔
" سوری بھائی میں ایسا نہیں کر سکتی آپی کو انصاف ملے گا ضرور ملے گا لیکن ایسے نہیں جو آپ کا طریقہ ھے ، پولیس دے گی انصاف انہیں آپ نہیں تو آپ ایسا سوچنا چھوڑ دیں۔۔۔۔"
عروج کے انکار پر تیش میں آتے پھر سے عمران اسکو مارنے کے لیے لپکا لیکن پولیس نے اسے فوراً پکڑ لیا تھا اب وہ اسے کھینچتے لاکپ کی جانب لے جا رہے تھے۔۔۔
" چھوڑو مجھے ، عروج تمہاری بہن کا دشمن تمہارے پاس ہی ہے کہیں اکیلا ساحر گناہگار نہیں تھا ایول نامی شخص ھے وہ جو اصل مجرم ھے ، تم بہت بڑی بھول کر رہی ہو پتہ لگا سکتی ہو تو لگا لو کون ہے ایول۔۔۔۔"
عمران کی باتیں سن کر سعاد اپنی نظرون کو چرانے لگا۔۔۔۔۔
" سعاد آپ کیا کسی ایول نامی شخص کو جانتے ہیں کون ہے وہ۔۔۔؟؟؟
سعاد کو دیکھتی وہ سوال کرنے لگی۔۔۔۔
" م۔۔۔م۔۔۔۔۔مجھے کیا پتہ ایول کون ہے ، چلو اب بس تم گھر چلو شریف گھرانے کی عورتوں کا تھانے میں کوئی کام نہیں ھوتا، اسے سزا میں دلواؤں گا سخت سے سخت سزا۔۔۔"
بہلا پھسلا کر وہ اسے پولیس اسٹیشن سے باہر لے آیا اور دروازہ کھول عروج کو بیٹھا کے واپس گھر جانے لگا۔۔۔۔
" پلیز سعاد اب تو اپنا رویہ میرے ساتھ درست کر لیں۔۔۔۔"
معصومیت سے آنکھیں پھیلائے وہ اس سے گویا ھوئی۔۔۔
" ہاں تھنک یو میں تو چپ چاپ بیٹھ گیا تھا یہی سوچ کر کہ ساحر نے شاید خودکشی کر لی ھے۔۔۔۔"
گہری سوچ میں ڈوبا وہ اچانک ھوش میں آتا عروج کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
" سعاد اب آپ پرامس کریں میری آپی کو انصاف دلائیں گے کیونکہ مجھے نہیں لگتا ساحر نے میری بہن کا قتل کیا ، شاید بھائی کسی غلط فہمی میں مبتلا ھوں ، یہ ایول نامی شخص کے بارے میں معلوم کرنا ھے مجھے ، تب ساری بات کلیئر ہو جائے گی۔۔۔۔"
" تمہاری بہن ہے کون میں نے کبھی اسے دیکھا نہیں۔۔۔۔"
اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے وہ عروج سے بولا۔۔۔۔
" کیا آپ نے میری آپی کو دیکھا بھی نہیں ایسے کیسے ھو سکتا ھے ، چلیں ابھی تو میرے پاس موبائل موجود نہیں وہ گھر میں ھو گا ، آپ گھر چلیں میں وہاں آپ کو ماہ نور آپی کی تصویر دیکھا دوں گی ویسے میری آپی مجھ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں ، آپ ایسے سمجھ لیں ہن دونوں بہنوں کی شکلیں بہت ملتی تھیں جڑواں لگتی تھیں ہم ، سعاد آپ اتنے فکر مند کیوں دیکھائی دے رھے ھیں اب تو ساحر کو انصاف مل چکا ہے پھر فکر کیسی ، خود کو پرسکون کریں آپ۔۔۔۔"
" کچھ نہیں ، میں ٹھیک ھوں۔۔۔۔"
خود کو کمپوز کرتا وہ دل ہی دل میں خوفزدہ ھوتے عروج کو دیکھنے کی بھی خود میں ہمت نا جٹا پا رھا تھا۔۔۔
" میرے مولا رحم کر ،جس لڑکی کو عبرت ناک موت دی میں نے وہ ماہ نور نا ہو ورنہ میں عروج سے نظریں ملانے کے بھی قابل نہیں رھوں گا۔۔۔۔"
دل ہی دل میں دعا گو وہ گاڑی کی سپیڈ بڑھا چکا تھا۔۔۔
اگلی صبح سویرے ہی عروج جاگ اٹھی اور شاور لیتی جھٹ سے تیار ھو گئی تب تک سعاد بھی نیند سے جاگ گیا تھا آخر اپنی محبت کی قربت سے دور کہاں سکون تھا اسے۔۔۔
" اٹھ گئے آپ جلدی سے فریش ھو جائیں پھر ناشتہ کرتے ھیں ، بہت بھوک لگی ھے مجھے۔۔۔۔"
عروج نے معصومیت سے اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھ اسے اپنے رات بھی بھوکے سونے کی بات بتائی تب سعاد کھسک کر اس کے قریب ھوتے ایک بازو اس کی کمر سے گزارتا ھاتھ پیٹ پر رکھ کے نرمی سے اس کے کاندھے پر اپنے لب رکھے سر گوشی نما انداز میں گڈ مارننگ کے بعد تھینک یو بول گیا وہیں اس کی اس طرح پر وہ بوکھلا سی گئی۔۔۔۔
" سعاد جلدی کریں نا پھر ہمیں آج گھومنا پھرنا بھی تو ھے۔۔۔۔"
عروج کی آواز میں کپکپی محسوس کرتا وہ اس سے دور ھو کر مسکرا کر اسے دیکھتا بیڈ سے نیچے اتر گیا اور سیدھا باتھروم میں داخل ھو گیا ، تب عروج دو تین گہری سانسیں لیتی خود کو کمپوز کر کے سعاد کے کپڑے بیگ سے نکال کر اسے بیڈ پر رکھتی کمرے سے باہر نکل گئی اور کچن میں گھس کر فریج کھولے بریڈ اور انڈے اٹھائے ناشتہ تیار کرنے لگی۔۔۔۔
اگلی کچھ دیر میں وہ دونوں ناشتے سے فارغ ھو کر گھر سے باہر نکل پڑے اور شہر کی مشہور جگہوں پر جا کر خوب انجوائے کیا مگر عروج تھک بھی گئی تھی شام کو گھر واپس آ کر سعاد نے رہی سہی کسر اپنی محبت سے اسے سرشار کرتے پوری کر دی۔۔۔
اسی طرح گھومتے پھرتے ان کو دو دن گزر گۓ اب عروج کا یہاں دل نہیں لگتا تھا اسے شدت سے ممتاز بیگم کی یاد ستاتی۔۔۔۔
" سعاد ہم پاکستان واپس کب جا رہے ہیں آپ نے تو میرا فون بھی لے لیا ورنہ۔۔۔۔"
" عروج ابھی صرف دو دن ہوئے ہیں یار رک جاؤ کچھ ٹائم ، پھر چلے جائیں گے ہم واپس بھی۔۔۔۔"
عروج کی بات کاٹتا وہ اسے سمجھانے لگا۔۔۔
" اچھا ٹھیک ھے مجھے فون تو دے دیں میرا۔۔۔"
" نو بالکل بھی نہیں ہم ہنی مون پر آۓ ہیں اور ڈونٹ وری آنٹی کی کئیر بہت اچھے سے کی جا رہی ھے ،یہ ٹینشنز سٹریس سے دورر نجات حاصل کرنے آئے ھیں ہم اور تم ہو کہ ابھی بھی فون مانگ رہی ہو تمہارا شوہر تمہارے پاس ہے بس اس کی فکر کرو یار۔۔۔۔"
عروج کے قریب ھوتا وہ اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپانے لگا۔۔۔
" اگر ایسی بات ھے تو پھر آپ بھی اپنا موبائل میرے حوالے کریں ، انصاف کی بات ھو گی کیوں موبائل ہر وقت کان سے چپکائے رکھتے ہیں جبکہ مجھے ایک کال کرنے کی بھی اجازت نہیں۔۔۔۔"
سعاد کا موبائل اس کی جیب سے نکالتی وہ اسے دور کر بیڈ سے نیچے اتر گئی۔۔۔
" یار عروج پلیز میرا فون دے دو ، ٹرائے تو انڈرسٹینڈ یار میرا تو بزنس ہے اسے سمبھالنا ھوتا ہے تو لازمی ھے میرے پاس موبائل رہنا۔۔۔۔"
" نو یہ رول ہم دونوں کے لیے لاگو ھو گا ,فون یہاں استعمال کرنا ممنوع ھے ، اب آپکا فون میرے پاس رہے گا اور میرا فون آپ کے پاس۔۔۔"
" اچھا ٹھیک ہے یار۔۔۔۔"
عروج کا ھاتھ تھام اسے اپنے قریب کرتے وہ اس کے بالوں میں بوسہ دیتے ایک ٹھندی آہ بھر کر رہ گیا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
شام کا وقت تھا جب وہ کھڑکی کے قریب کرسی پر بیٹھی باہر ھو رہی برف باری کو دیکھتی گہری سوچ میں مبتلا تھی تب سعاد کے موبائل نے بجنا شروع کر دیا اور لگاتار بجتا ہی چلا گیا مسلسل اسے کالز آۓ جا رہی تھیں جس سے اب عروج چڑ گئی۔۔۔۔
" یہ کون ہے جو پاگلوں کی کالز کرے جا رہا ہے ، لوگوں کو سکون نہیں ملتا کیا۔۔۔؟؟؟
سعاد چونکہ گھر سے باہر عروج کے لیے گفٹ لینے گیا تھا ورنہ اس ان ناؤن نمبر کو پہچان جاتا ، کچھ سوچتے چوتھی دفعہ کال آنے پر عروج نے پیشانی پر بل ڈالے اسے پک کر لیا ، آگے سے ایک شخص بنا سوچے سمجھے بولنے لگا اس نے یہ بھی جاننے کی زحمت نا کی کہ کال اٹھائی کس نے ھے۔۔۔۔
" سر آپ جو بات میڈم سے چھپانا چاہتے تھے وہ پولیس کو معلوم چل چکی ہے اب وہ ایک بھاری رقم اس کے بدلے میں مانگ رہے ہیں تاکہ اس راز کو راز رکھا جائے اب آپ کا کیا فیصلہ ھے ، آگے کیا کرنا ھے۔۔۔۔؟؟؟
حیرانگی سے منہ کھولے وہ اس شخص کی بات سن رہی تھی کہ تبھی سعاد دروازہ کھولے کمرے میں آ گیا ، عروج کو فون کان سے لگائے دیکھ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔۔۔
" کس سے بات ھو رہی ھے۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کو اپنے سامنے دیکھ ڈر سے عروج کے ہاتھ سے فون نیچے گر گیا۔۔۔
" کیا ہوا تم تو ایسے بیہیو کیوں کر رہی ہو جیسے میں نے تمہاری کوئی چوری پکڑ لی ہو۔۔۔۔"
عروج کی جانب قدم اٹھاتا وہ اس سے سوال گو تھا۔۔۔۔
" چوری نہیں تو ، ہاں لیکن آپ کی ایک راز ضرور جان چکی ھوں میں ، ایسی کونسی بات ہے سعاد جو آپ مجھ سے چپھا رہے ہیں اور پولیس کو اب پتہ چل چکی ہے اور اب وہ بہت سارے پیسے مانگ رہے ہے اس راز کو راز رکھنے کے لیے۔۔۔۔"
عروج کی بات سن سعاد خوف زدہ ہو گیا۔۔۔۔
" عروج تم غلط سوچ رہی ہو وہ ہمارے بزنس کی بات ہو گی یار ورنہ میرا کونسا راز ھو گا۔۔۔"
" سعاد مجھے سچ سننا ہے میں ساری بات تو جان چکی ہوں اب حقیقت آپ کے منہ سے سننا چاہتی ہوں کون ھے وہ شخص اور کیا راز ھے۔۔۔۔؟؟؟
سنجیدگی سے سعاد کو دیکھتی وہ دو ٹوک انداز اپنائے بولی۔۔۔
" وہ وہ عروج یہ بات اصل میں تمہاری بہن کے بارے میں ہے اسے میں کہہ رہا تھا تمہیں معلوم نا چلے ایسے ہی تم پریشان ہو جاؤ گی اور تو کوئی ایسی خاص بات نہیں۔۔۔۔"
" میری آپی کی کونسی بات سعاد ، آپ کے لیے اتنی امپورٹنٹ بات کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی اور مجھے کیوں نہیں پتہ چلنی چاہیںے میری بہن تھیں وہ اس لیے انہیں انصاف دلوانا میری ذمہ داری ہے ، حد ھے سعاد آپ ان کی ہر بات کو مجھ سے چھپانا چاہتے ہیں میری آپی سے مجھے دور کرنا چاھیتے ھیں۔۔۔۔"
آنسو بھری نظروں سے اسے دیکھتی وہ چیخ پڑی تھی۔۔۔
" عروج ایسی بات نہیں ھے میں صرف تب تک کے لیے کہہ رہا تھا یار جب تک ہم یہاں موجود تھے ، تم یہاں اپنا مائنڈ فریش کرنے آئی ہو ادھر بھی اگر تمہیں وہ بات پتہ چل جاتی تو صرف ٹینشن لینی تھی تم نے۔۔۔۔"
عروج کو کاندھوں سے تھامے وہ اسے بہت محبت سے بہلانے لگا۔۔۔
" مجھے ہر وقت آپی یاد آتی ہیں سعاد بظاہر میں آپ کو پریشان نا کرنے کے لیے مسکرا دیتی ہوں لیکن اندر سے یہ بات مجھے کھاۓ جا رہی ہے کہ آپی کو کس نے مارا وہ بھی ایسی بھیانک موت اگر وہ شخص میرے سامنے آ گیا نا کبھی تو چھوڑو گی نہیں اسے جان لے لوں گی اس کی بھی ، اتنا گٹھیا کوئی کیسے ہو سکتا ہے ایک لڑکی کے ساتھ ایسے چھییی ، اپنی ماں بہن بیوی تو ہو گی ہی نا ، خدا کرے اس کی بیوی کے ساتھ اس سے بھی زیادہ غلط ہو۔۔۔۔"
عروج کی بات پر سعاد نے تڑپ کر اس کے لبوں پر ایک ھاتھ رکھ دیا۔۔۔
" عروج بس کرو یار کیا ہو گیا ہے تمہیں ، مل گیا ہے تمہاری بہن کا گنہگار۔۔۔۔ "
اپنے دانت پیستا وہ بلآخر بول ہی پڑا۔۔۔۔
" کیا یہ سچ ھے ، سعاد کون ھے وہ ، پلیز مجھے بتائیں کون ہے وہ۔۔۔۔؟؟؟
اپنے آپے سے باہر ھوتی وہ اس کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑتے ھوئے چلانے لگی۔۔۔۔
" وہ وہ سڑک چھاپ غنڈے تھے پہلے بھی ایسے کر چکے تھے وہ لیکن اب کی بار تو انتہا کر دی انھوں نے قتل ہی کر دیا ، پولیس گرفت کر چکی ھے انھیں ، جیل میں ڈال دیا ہے بس یہی بات میں تم سے چپھا رہا تھا۔۔۔۔"
ایک نیا جھوٹ گھڑتے وہ اس کے ھاتھ اپنے گریبان سے ہٹا کر اسے اپنے لبوں سے لگا چکا تھا۔۔۔۔
" سعاد پلیز مجھے پاکستان جانے ھے واپس ، ان گٹھیا لوگوں سے میں سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیوں کیا انہوں نے ایسا ، میری آپی کے ساتھ آخر کیا بگاڑا تھا انہوں نے ان گھٹیا لوگوں گا ، پلیز سعاد پلیز چلیں نا۔۔۔۔"
تڑپتے ہوۓ وہ سعاد کی منت کرنے لگی تب سعاد اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا اسے اپنے سینے سے لگا کر کمر سہلانے لگا۔۔۔۔
" اوکے عروج ہم چلیں گے بس تم روؤ نہیں تمہارے آنسو تکیلف دیتے ھیں مجھے ، اب تمہاری بہن کو انصاف مل چکا ہے تو صبر کرو خاموش ھو جاؤ۔۔۔۔"
" پر سعاد کاش وہ ایسا نا کرتے تو آج میری آپی زندہ ہوتیں خوش ہوتیں وہ اور آپ کا بھائی ، ساحر بھی تو۔۔۔۔"
بات کرتے کرتے اچانک عروج کے دماغ میں ایک سوچ آئی تب وہ خاموش ھو گئی۔۔۔۔
" اگر ان غنڈوں نے میری آپی کو مارا ہے تو عمران بھائی نے ساحر کو مجرم سمجھ کر کیوں اسے جان سے مار دیا ساحر کا ان غنڈوں سے کیا تعلق ھو سکتا ھے۔۔۔۔؟؟؟
سعاد سے الگ ھوتی وہ بولتی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
" عروج وہ عمران پاگل ہو چکا تھا ماہ نور کی موت کے بعد ، تم نے مجھ سے شادی کر لی اس لیے پتہ نہیں تمہیں اور ہمیں مجرم سمجھنے لگ گیا وہ ، اچھا تم چھوڑو یہ باتیں ، پولیس نے خود انہیں ڈھونڈا ہے تو ثبوتوں کے ساتھ ہی ڈھونڈا ہو گا ، تم اب چلو بیٹھو کب سے رو رو کر کیا حالت بگاڑ لی ھے اپنی۔۔۔۔"
عروج کو لیے بیڈ پر لیٹا کر سعاد خود بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا اس وقت وہ عروج کو اتنی مضبوطی سے خود میں بھینچے ھوئے تھا جیسے وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جائے گی ناجانے کونسا خوف اس کے دل میں گھر کر گیا تھا۔۔۔۔
" مجھے معاف کر دو عروج مجرم تو میں ہوں تمہارا لیکن یار تمہاری نفرت کو برداشت نہیں کر پاؤں گا اتنی ہمت نہیں ھے مجھ میں بہت کمزور ھوں ، جذبات میں آ کر جو میں نے گناہ ، جرم کر دیا اب اس کی سزا بھگتنے کے قابل نہیں ہوں میں ، تم بن مر جاوں گا میری سانسوں کا سلسہ جاری تمہیں دیکھ کر ہی ھے اگر تم دور ھوئی یہ سعاد مرزا اسی پل مر جائے گا۔۔۔"
خود کو کوستے وہ عروج سے دل ہی دل میں مخاطب تھا وہیں وہ روتے روتے ناجانے کب سو گئی۔۔۔
tiر کا خیال آتا جب اسے ایمبولینس سے قابل رحم حالت میں باہر نکالا جا رھا تھا تو کبھی اسکی سوچوں کا رخ سعاد کے ساتھ بیتاۓ ان سبھی اچھے پلوں کی جانب ھو جاتا۔۔۔۔
" یا اللّٰہ یہ کیا کر دیا آپ نے اتنی بڑی آزمائش میں کیوں مبتلا کر دیا مجھے ، میں بہت کمزور ھوں میرے اللّٰہ کیسے اس آزمائش میں کھری اتر پاؤں گی ، جسے میں نے اپنا محافظ سمجھا وہی میرا مجرم نکلا اسی نے میری بہن کو مجھ سے چھین لیا یہی ھے وہ درندہ جس نے میری آپی پر رحم نا کیا اور میں بے وقوف اسی کو اپنا دل دے بیٹھی اس سے اتنی محبت کرنے لگی اسی کو اپنی زندگی بنا لیا ، اس کے ساتھ شادی کی تعلق بنایا چھھھھھی ، نفرت آ رہی ہے مجھے خود سے دل کر رھا ھے جان دے دوں۔۔۔۔"
سڑک پر پیدل چلتے وہ خود سے بڑبڑاۓ جا رہی تھی کہاں کے کہاں قدم رکھ ھو رہے تھے اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا اسے ، بارش بھی آج خوب آب و تاب سے پرس رہی ہھی جیسے اسکی تکلیف میں آسمان بھی رو پڑا ھو اردگرد موجود سبھی لوگ بارش کی بدولت بھاگ کر وہاں موجود دکانوں میں چلے گۓ جبکہ ان سب کو فراموش کیے وہ بس بغیر رکے چلے ہی جا رہی تھی۔۔۔۔
تکلیف جب انتہا پر پہنچ گئی اندر کا غبار اس کی سانس روکنے لگا تو وہیں سڑک پر رک وہ فٹ پاتھ پر گرتی چلی گئی اور زور زور سے چیختے اپنا درد باہر نکلنے کی سعی میں مصروف ھو گئی اس کی آواز سن وہاں موجود سبھی لوگ چونک اٹھے۔۔۔
" اسے کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
سبھی کی زبان پر ایک ہی سوال تھا جس کی پرواہ کیے بنا وہ چیختے ہوئے تھک کر گھٹنوں کے گرد اپنی بازو لپیٹے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔
" کیوں کیوں کیوں میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا کیوں میری ہی بہن کا مجرم میری قسمت میں لکھا تھا کیوں میں نے اسی سے محبت کی جسے سزا دلوانے کے لیے بدلے کی آگ میں دن رات جلتی تھی میں ، ہمیشہ یہی سوچا میں نے جب کبھی بھی مجھے میرے گنہاگار کا علم ھوا اسے چھوڑوں گی نہیں اور اب اب تو اسے چھوڑنا ہی مشکل ہے میرے لیے ، مجھے یہ بات یہ حقیقت سعاد کے منہ سے سننی چاھیے ، وہ کیا سوچ رکھتے ھیں۔۔۔۔"
ایک فیصلہ کرتی وہ اٹھ کھڑی ھوئی اور تیزی سے قدم اٹھاتی گھر کی جانب چل پڑی کچھ ہی دیر میں وہ گھر پہنچنے میں کامیاب ھو گئی تھی ، گیٹ کے اندر سے مکمل بھیگ چکی عروج کو سعاد نے ٹیریس سے ہی دیکھ لیا وہ اسی کے انتظار میں وہاں موجود تھا جو اب جلدی سے نیچے سیڑھیاں اترتے لاونج میں چلا آیا تب اسے اپنے سامنے عروج گھر کے اندر داخل ہوتی دیکھائی دی اس کی حالت دیکھ وہ لپک کر اسکے قریب ھوا۔۔۔
" یار کیا ہوا تمہیں ، پیدل کیوں آئی ہو واپس ، پورا بھیگ چکی ہو اندر روم میں چلو کپڑے بدل لو ورنہ بیمار ہو جاؤ گی۔۔۔۔"
عروج کے قریب ھوتے وہ اس کے نم بالوں کو چہرے سے پیچھے کرتا فکرمندی ظاہر کرنے لگا۔۔۔
" اپنے خونی ھاتھ دور رکھو مجھ سے مت چھوؤ مجھے گھٹیا انسان۔۔۔۔"
سعاد کے ہاتھ کو جھڑکتے ہوۓ عروج نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔۔
" عروج کیا کہہ رہی ھو جانتی بھی ھو کچھ اپنے الفاظوں پر غور کرو کس طریقے سے بات کر رہی ہو مجھ سے۔۔۔۔"
عروج کی بات پر حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھتے سعاد نے جتانا ضروری سمجھا۔۔۔
" اسی طریقے سے جو تم ڈیزرو کرتے ہو ، مجھے صرف سچ بتاؤ مسٹر سعاد مزرا ، ورنہ میرے اندر موجود نفرت اور غصے میں مزید اضافہ ھوتا رہے گا اگر تم نے اب ایک بھی اور جھوٹ بولا تو میں نہیں جانتی کیا کیا جاؤں گی۔۔۔۔"
سرخ آنکھوں سے اس کے چہرے کو دیکھتی وہ لفظ چبا چبا کر بولی۔۔۔۔
" عروج تم تم کہنا کیا چاہتی ہو میں نے تم سے کون سا جھوٹ بولا یار۔۔۔۔۔؟؟؟
" او اچھا ایسی بات ھے تو پھر یہ بتاؤ میری بہن کا قاتل کون ھے ، بولو کون ہے وہ ، جواب دو۔۔۔"
سعاد کے سینے کو دھکیلتے وہ اپنے غصے کا اظہار کرتی اس سے سوال گو تھی۔۔۔۔
" یار وہی ھیں قاتل جو اس وقت جیل میں ہیں ، تم مجھ سے ایسے کیوں بات کر رہی ہو وجہ بتاؤ گی۔۔۔۔؟؟؟
اس کے ھاتھوں کو تھام سعاد نے وہی جھوٹ بول دیا جسے حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کر رھا تھا وہ۔۔۔
" پھر سے جھوٹ بند کرو یہ بکواس ، تمہارے اندر کیا زرا بھی شرم باقی نہیں بچی اب تو جھوٹ بولنا بند کر دو معلوم چل چکا ہے مجھے ساحر کو عمران بھائی نے کیوں قتل کیا ، میری بہن کے ہی نہیں بلکہ تم تو اپنے بھائی کے بھی قاتل ہو تمہاری وجہ سے ہی وہ مرا ہے تمہارے گناہوں کی سزا اسے ملی ہے۔۔۔۔"
چیختے ھوئے وہ اس پر حقیقت آشکار کر رہی تھی ، اپنا ہی بھیانک روپ دیکھ وہ غصے سے پھٹ پڑا۔۔۔۔
" بس کرو عروج بہت بول لیا تم نے ، مانتا ہوں میں تب غلطی ہو گئ مجھ سے اس کا مطلب یہ نہیں کوئی بھی بکواس کرو گی تم ، میرے گناہوں کی سزا میرے بھائی کے ذریعے مل گئ ہے مجھے تو اب بس جیسے تم نے اپنی بہن کو کھو دیا ویسے میں بھی اپنے بھائی سے دور ھو گیا ، تو پھر اب یہ لڑائی کیسی ، حساب برابر ھو گیا ھے۔۔۔۔"
" حساب برابر ، کیسا حساب برابر بولو میری بہن نے کیا بگاڑا تھا تمہارا جو اس قدر خوفناک موت دی اسے ایسا تو کوئی بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا اور تم نے میری معصوم سی بہن کے ساتھ کیا وہ سب ، جب وہ چیخ رہی ہو گی چلا رہی ہو تمہارے آگے بھیک مانگ رہی ہو گی تمہیں ذرہ بھی ترس نا آیا دل نا کانپا تمہارا ، بولو ، او میں بھی کتنی بڑی بے وقوف ہوں کس سے کیا امید رکھ رہی ھوں ، ترس تو انہیں آتا ہے جن کے پاس سینے میں دل موجود ہو اور تم تو ایک پتھر دل حیوان ہو جس نے اپنی حیوانیت میری معصوم سی بہن کے ساتھ غلط کرنے کے بعد جان سے ہی مار کر ظاہر کر دی ، ان ان گھٹیا ہاتھوں سے ہی مارا ہو گا نا تم نے انھیں ، گھن آ رہی ہے مجھے خود سے تمہارے ان ہاتھوں کو چھوتی تھی میں ان خونی ہاتھوں کو ، اپنے بہن کے خونی کے ساتھ رہ رہی تھی تم کتنے گھٹیا کے ساتھ جانتے بھی تھے میری بہن کے قاتل ھو پھر بھی مجھ سے شادی کی ذرا خیال نا آیا جب مجھے تمہاری اصلیت پتہ چلے گی تو مجھ پر کیا بیتے گی اب اس وقت میرا دل کر رہا ہے کہ میں یا تو خود کو مار لوں یا پھر تمہاری جان لے لوں۔۔۔۔"
سعاد کے ھاتھوں کو چھوتی وہ انھیں دیکھ کر نفرت سے جھڑکتی روتے ھوئے کرب کی زیادتی سے اپنی لب کچلنے لگی اسے خود کے وجود سے نفرت ہی ایسی محسوس ھو رہی تھی ، بے بس تھی دونہ ناجانے کیا کر جاتی۔۔۔۔
" عروج دیکھو میری بات سنو یار مجھے نہیں پتہ تھا ماہ نور تمہاری بہن ہے اور تب غلطی ہو گئ مجھ سے معاف کر دو تم جو سزا دینا چاہتی ہو مجھے دے دو میں کچھ نہیں کہوں گا ایک لفظ بھی نہیں ، مجھے تمہاری ہر سزا منظور ہے سواۓ ایک کے چھوڑنا مت یار مجھے ، تمہاری جدائی موت سے بدتر ھے میرے لیے۔۔۔۔"
شرمندگی سے اسے دیکھتا وہ لاچارگی ظاہر کرنے لگا اپنے دل پر اختیار کھو جو بیٹھا تھا یہ دل عروج کے بغیر بند جو ھو جاتا اس کی جدائی سہنے کی سکت باقی نا تھی اس میں۔۔۔
" سزا تو دوں گی میں اور اس میں تمہاری مرضی نہیں چلے گی سمجھے تم گھٹیا انسان۔۔۔۔"
" نہیں عروج دیکھو تم مجھے جیل کروا دو جتنی سزا مجھے عدالت سناۓ گی میں بھگت لوں گا لیکن مجھ سے دور مت جانا یہ موت سے بھی بڑھ کر ھو گا میرے لیے۔۔۔۔"
منت بھرے لہجے میں وہ اس سے کہنے لگا جو اسے حیرت انگیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
" کیا، امید کیا رکھی ہوئی ہے تم نے اب بھی میں تمہاری اصلیت جاننے کے بعد بھی تمہارے ساتھ رہوں گی ، تم پر تھوکتی بھی نہیں ہوں میں رہنا تو بہت دور کی بات ہے ، کس قدر گرے ہوۓ ہو تم ، نہیں پہلے تو مجھے یہ بتاؤ ایسی بھی کیا غلطی ہو گئ تھی میری بہن سے جو تم نے ایسی سزا دی انہیں۔۔۔۔"
"عروج دیکھو معاف کر دو تب ساحر پاگلوں کی طرح رو رہا تھا کہ وہ جسے پسند کرتا ہے اس کی شادی کسی عدیل سے ہونے والی ہے مرنے والی حالت ہو گئ تھی اس کی تب مجھے کچھ سمجھ نا آئی تو اسے کڈنیپ کروا کے گھر لے آیا۔۔۔۔"
خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتا وہ ساری بات بتانے لگا جسے ہر پل سوچتا تھا وہ۔۔۔۔
" کیا کہا تم نے ، او مائے گاڈ ، میری بہن بے گناہ تھی کسی کی جان لینے سے پہلے تمہیں اتنا بھی معلوم نا ھوا کیسے انسان ھو تم ، آپی کی دوست شبنم آپی کو تمہارا بھائی پسند کرتا تھا ان کی بھی تب شادی ہونے والی تھی ، ماہ نور آپی تو معصوم تھیں بنا قصور کے تم نے جان لی ہے ان کی اللّٰہ تمہیں چھوڑیں گے نہیں ، کبھی معافی نہیں ملے گی تمہیں نا اللّٰہ کی نا ہی میری ، بہت بہت بری سزا دیں گے وہ تمہیں یہ ایک بہن کی بد دعا ہے۔۔۔۔"
" عروج مجھے معاف کر دو تب سے بہت گلٹ میں مبتلا ہوں میں ہر دن یہی سب سوچتا رہتا تھا پچھتاوتے کی آگ میں جلتا ھوں ہر پل ، غلطیاں بھی تو انسانوں سے ہوتی ہیں ھو گیا جرم مجھ سے ، پلیز معاف کر دو مانتا ہوں میں بہت برا ہوں گھٹیا انسان ہوں تمہارا مجرم ہوں مگر تم تو بڑے دل کی مالک ہو سخی ھو تو کیا معاف نہیں کر سکتی تم مجھے۔۔۔۔"
عروج کے سامنے ھاد جوڑتا وہ نظروں کے ساتھ سر بھی جھکائے اس سے معذرت خواہ تھا۔۔۔
" کر دیتی معاف ، لیکن ایک بہن مجھے سکون کی زندگی کبھی جینے نہیں دے گی وہ بھی تمہارے ساتھ ، جا رہی ھوں تمہیں چھوڑ کر تمہارے لیے یہی سزا مخصوص ھے پوری عمر کا پچھتاوا ھو گا تمہیں سوچ سوچ کر مارو گے ۔۔۔۔"
اتنا بول عروج ممتاز بیگم کے کمرے میں گھس انھیں سہارا دیے اٹھانے لگی تبھی سعاد بھی تیزی سے وہاں چلا آیا اور عروج کا ہاتھ پکڑ اسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔
" یہ لو عروج۔۔۔"
اپنے ھاتھ میں موجود بندوق (جسے وہ تیزی سے اپنے کمرے سے لے کر آیا تھا) کو اس نے سامنے ہر سعاد سر جھکائے اس سے بولا۔۔۔۔م۔۔
" تم مجھے جان سے مار دو ، لے لو بدلا جس طریقے سے میں نے تمہاری بہن کو مارا تھا بالکل ویسے ہی مجھے تم مار دو ، میں اپنا قتل بخش دوں گا تمہیں۔۔۔"
" اپنے جیسا گھٹیا سمجھا ہوا ہے کیا مجھے تم نے ، میں نہیں یہ کام اللّٰہ کریں گے مجھے کوئی اختیار نہیں کسی کی جان لینے کا تو اللہ ہی ماریں گے تمہیں بہت بری موت ، تمہارے لیے تو یہی بہت ہو گا اکیلے پن کی سزا اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے پچھتاوے میں ہر لمحہ موت سے بدتر زندگی۔۔۔۔"
ھاتھ سے اس بندوق کو خود سے دور کرتی وہ نفرت زرد لہجے میں گویا ھوئی۔۔۔۔
" عروج پلیز ایسے مت کرو مجھے مت چھوڑ کر جاؤ میں موت کو گلے لگا سکتا ہوں لیکن تم سے دور نہیں رہ سکتا میں مر جاؤں گا ویسے بھی تم سے دور ، ختم کر لوں گا خود کو ، تو اس سے اچھا ہے تم خود ہی مجھے مار دو ایسے تم تو سکون سے رہ پاؤ گی۔۔۔۔"
عروج کا ھاتھ تھامے وہ وحشت زدہ انداز میں بولا ، بالکل پگلا گیا تھا اس وقت وہ ، خود کا ہی مانو ھوش نا ھو۔۔۔۔
" میرا ہاتھ چھوڑو میں کیوں تم جیسے درندے کو مار کر جہنم میں جاؤں ، جب کہ اس سے اچھا فیصلہ کر چکی ھوں میں ، میری مقرر کردہ سزا بہت بہتر ھے۔۔۔۔"
اپنے ھاتھ جھڑ اسے دھکا دے کر خود سے دور کرتی وہ نفرت سے دانت پیستے بولی۔۔۔
" عروج پلیز۔۔۔۔"
سعاد نے زبردستی عروج کے ہاتھ میں دوبارہ آگے بڑھ کر بندوق پکڑا دی۔۔۔۔
" یہ لو اب تمہارے پاس دو آپشنز ہیں یا تو مجھے چھوڑ کر مت جاؤ اور سب کچھ بھلا کر یہیں پر میرے ساتھ رہو ، یا پھر تمہارے ہاتھ میں بندوق ہے چلا دو گولی ختم کر دو سعاد مرزا کا قصہ ، اور مجھے معلوم ہے کہ تم مجھے معاف نہیں کر سکتی ویسے بھی تمہارے ساتھ میں آنکھوں سے آنکھیں ملائے رہ نہیں پاؤں گا تو دوسرا آپشن از گڈ ، پلیز میں مرنا بھی اپنی محبت کے ہاتھوں ہی چاہوں گا مار دو یار یہ احسان کر دو۔۔۔۔"
" تم پاگل ہو گۓ ہو کیا۔۔۔۔؟؟؟
حیرانگی سے آنکھیں پھیلائے وہ چیخ پڑی۔۔۔۔
" ڈر گئ تم ، جیسے تمہاری بہن خوفزدہ ھو گئی تھی جب اسے یہاں لایا گیا تھا ، یہ جو صوفہ دیکھ رہی ھو تم۔۔۔۔"
کمرے میں موجود صوفے کی جانب اشارہ کیا گیا۔۔۔۔
" وہیں میں بیٹھا تھا تب میرے قدموں میں لا کر پٹخا اسے ، زمین پر بیٹھی تھی وہ میں نے کھڑے ھوتے زور دار طماچہ مارے اسے ، یہاں ھونٹ سے خون نکلنے لگا ، چیخ پڑی تھی وہ اس تھپڑ پر ہی۔۔۔۔"
اپنے ھونٹ ہر انگلی رکھ وہ عروج کو ایک ایک بات سے آگاہ کر رھا تھا۔۔۔۔
" روتے ھوئے بھیک مانگ رہی تھی میرے سامنے وہ لیکن مجھے تب اس پر ذرا بھی ترس نہیں آیا ، نفرت آ رہی تھی بس اس کے چہرے سے ، اپنے وہ جو باہر غنڈے کھڑے رہتے ہیں جنہیں باڈی گارڈز بولتا ھوں میں انہیں حکم دیا میں نے ، جاؤ اسے باہر جو کرنا ہے کرو ، توبہ یار وہ تو حیوان ہی بن گۓ ٹوٹ پڑے اس پر ، وہ اتنا چلائی مدد کی پکار لگاتی رہی اور میں سکون اترتا محسوس سکر راج تھا اپنے دل میں ، اپنے موبائل میں سونگس سنتا رہا اور مسکراتا رہا۔۔۔
ہنس ہنس کر سعاد عروج کو ایک ایک سین بتائے جا رھا تھا وہیں عروج رونے کے ساتھ ساتھ بندوق کو ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑے کھڑی تھی مگر ٹریگر دبانے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں۔۔۔
" کیا ہوا غصہ آ رہا ہے ، آنا بھی چاہیے کیونکہ کسی بھی غیرت مند بہن کو غصہ تو آۓ گا ہی جب کے اس کی بہن کا گناہگار اس کے سامنے موجود ہو گا ، تمہیں کیا غصہ نہیں آ رہا ، لعنت ھے تم جیسی بہن پر ، آگے سنو تو جب وہ سب اپنے حوس پوری کر چکے تو آ کر مجھے بتایا وہ ابھی تک زندہ ھے تب میں خود غصے سے اس کے پاس گیا مجھے دیکھ وہ آگے ہاتھ جوڑنے لگی ، بولا تو جاتا ہی نہیں تھا حالت اتنی بری تھی توبہ توبہ اگر تم دیکھ لیتی تو شاید بے ہوش ہو جاتی لیکن مجھے ، مجھے اس وقت نفرت کے سوا اور کوئی احساس محسوس نا ھوا ، غصے سے پاگل جو ہو گیا تھا میں اپنی بندوق مانگ کر اس کی پیشانی پر اسے رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا جو کھل بھی نہیں رہی تھیں مکمل ، کیونکہ چہرے پر سوجن ہی بہت تھی مار کی وجہ سے ، بامشکل خود کی موت کا سوچ وہ بولی۔۔۔۔
" پلیز مجھے جانے دو میری فیملی کا میرے بغیر کیا ہو گا ، مجھے اس کی بکواس میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا ، بنا کچھ سنے میں نے گولی چلا دی آنکھوں کو وہیں پر کھول ماہ نور کی سانسیں رک گئ عروج ، یہاں پیشانی پر بہت گہرا گھاؤ تھا میں نے انھی غنڈوں کو حکم دیا اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیں اور خود سکون سے جا کر سو گیا۔۔۔۔"
" خاموش ہو جاؤ کتنے گھٹیا ہو تم ، کیسے بکواس کرے جا رہے ہو تمہاری زبان کیا کانپ نہیں رہی یہ سب بکتے ہوۓ ، کس قدر بے رحم ہو تم انسانیت نام کی کیا کوئی چیز نہیں ہے تم میں۔۔۔۔"
اپنے کان پر ایک ھاتھ رکھ وہ بلک اٹھی تھی جبکہ وہ ویسے ہی ھنسے جا رہا تھا ، دماغی توازن کھو چکا تھا شاید وہ۔۔۔۔
" نہیں ہے رحم ، حیوان ھوں میں ایول کہتے ھیں سب اب تمہیں بھی رحم نہیں کرنا چاہیے مجھ پر ، مار دو مجھے۔۔۔۔"
سعاد کی سنجیدگی سے کہی گئی بات کر زور سے اپنے ھاتھ میں اس کی پکڑائی گئی بندوق کو زمین پر پٹخ دیا۔۔۔۔
" بس بہت سن لی میں نے تمہاری بکواس یہ گناہ میں نہیں کر پاؤں گی ، جا رہی ہوں میں تمہاری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ، اگر ہمیں تنگ کرنے کی کوشش کی کبھی بھی تم نے تو ، جان لینے سے گریز نہیں برتوں گی میں اپنی۔۔۔۔"
اتنا بول عروج ممتاز بیگم کو سہارا دیے آہستہ آہستہ چلتے ھوئے گھر کے دروازے سے باہر نکل گئ اسے جاتا دیکھ سعاد روتا ہوا زمین پر گر گیا اور زور زور سے فرش پر ھاتھ مارتے اپنا غصہ کم کرنے کی سعی کرنے لگا ، دل تھا کہ قرب کی شدت سے پھٹنے کے مقام پر تھا مگر سانسوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا اس کے۔۔۔
" عروج تمہاری محبت نے تمہیں روک دیا مجھے کچھ کرنے سے ورنہ اگر نفرت ھوتی تو میری جان سے پیچھے نا ہٹتی تم ، کتنا بد نصیب ہوں میں جس سے زندگی میں اتنی محبت کی جو جینے کی وجہ بن گئی ، اس کا ہی مجرم ہوا۔۔۔۔"
5 سال بعد۔۔۔۔۔
" ماما ماما کہاں ھیں آپ ، جلدی آ جائیں ورنہ کیک ٹھنڈا ہو جاۓ گا۔۔۔۔"
درمیانے سائز کے ایک کمرے میں چھوٹے سے کیک کے قریب کھڑا ایک دبلا پتلا سرخ و سفید بچہ بلند آواز میں توتلا بولتے اپنے ماں کو پکار رھا تھا اس کی آواز سن کچن سے تیزی سے ایک وجود باہر اس بچے کی سمت قدم اٹھانے لگا۔۔۔۔
" اتنی جلدی کس بات کی ھے ساحر کیا ہو گیا ہے میرے بیٹے کو ، اور بچے کیک کبھی ٹھنڈا نہیں ھوتا۔۔۔۔"
زمین پر بیٹھ محبت سے اس خوبصورت سبز آنکھوں والے بچے کے سلکی لمبے بالوں میں بوسہ دیتے عروج نے اس کی معلومات میں اصافہ کیا۔۔۔۔
" پر ماما آپ کو دیر نہیں کرنی چاھیے ، ماہ نور آنٹی ویٹ کر رہی ہوں گی۔۔۔۔"
عروج کو اپنی بے حد مصوم آنکھوں سے دیکھتا وہ اسے سمجھانے کی اپنی سی کوشش میں مصروف تھا۔۔۔
" اچھا اچھا ٹھیک ھے اب تو آ گئ ھوں میں آپ کے لیے پلیٹ لینے گئی تھی ، بس اب چلو جلدی سے کیک کاٹو ، کب سے ویٹ ھے آپکو اس کا۔۔۔۔"
" ساحر کو مسکرا کر دیکھتے عروج نے اس کا ہاتھ پکڑ چھری اٹھا کے کیک کاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔
" ہیپی برتھڈے ٹو یو ، ہیپی برتھڈے ٹو یو ، ہیپی برتھڈے ماہ نور آپی ، ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔۔"
بولتے بولتے اس کی آواز بھرا سی گئی تھی وہیں ان سب باتوں سے انجان ساحر کیک کاٹ کے کھلکھلا کر ھنس پڑا۔۔۔
" یہ لو کھا لو جلدی سے کیک فینش کرو ساحر پھر ہمیں کہیں جانا بھی ھے۔۔۔۔"
اپنے نم آنکھوں کو صاف کرتی وہ پلیٹ میں کیک کا ٹکڑا نکال کر چمچ رکھ ساحر کو پکڑاتی خود اٹھ کھڑی ھوئی۔۔۔۔
" اوکے ماما ابھی فینش کر دوں گا میں ، یو نو آئی ایم آ سپر بوائے ،اینڈ آئی نو ماما ہمیں کہاں جانا ہے ، آج کا سارا دن ہم صرف پارٹی کریں گے ، اوکے نا۔۔۔۔"
چمچ بھر کیک منہ میں ڈالتے وہ عروج کو سر اونچا کیے دیکھتا اپنے پلینگ سے آگاہ کر رھا تھا۔۔۔۔
" ہاں بیٹا ، لیکن پہلے سکول بھی تو جانا ھے۔۔۔۔"
" ماما آپ ابھی بھی سکول جاتی ہیں سٹرینج ، میں تو چلیں بے بی ہوں ، لیکن آپ تو بڑے ہو پھر بھی آپ سکول جاتی ہو۔۔۔۔؟؟؟
ان سبر آنکھوں میں اس وقت حیرت در آئی تھی جبکہ اس کی بات پر عروج کے اداس لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل کر معدوم ھو گئی۔۔۔۔
" بیٹے لیکن آپ میں اور مجھ میں فرق بھی تو ھے ، آپ سٹوڈنٹ ھو مگر میں آپ جیسے بے بیز کو پڑھاتی ہوں ٹیچر ہوں میں ، جیسے آپکی ٹیچرز ھیں۔۔۔۔"
شفقت سے ساحر کے بالوں میں ھاتھ پھیرتے وہ اسے رسانیت سے سمجھا رہی تھی۔۔۔۔
" او آئی سی ، ماما کیک فینش کر دیا میں نے اب چلیں لیٹ ہو رہے ھیں ہم۔۔۔۔"
پلیٹ کو ٹیبل پر رکھ ساحر جھٹ سے اٹھ کھڑا ھوا۔۔۔۔
" ہاں چلو۔۔۔۔"
ساحر کا ھاتھ پکڑ وہ گھر سے باہر نکل گئی اور دروازے کو تالا لگائے رکشے کو روک اس میں بیٹھ کر وہ دونوں قبرستان پہنچ گئے۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟
ان پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا عروج اس دن ممتاز بیگم کو لیے اپنے اسی محلے میں چلی آئی جہاں ان کے باپ کی آخری نشانی ان کا گھر موجود تھا ، چابی تو خیر اسکے پاس اس وقت تھی نہیں مگر پڑوس کی آنٹی کو اس نے ایک چابی پکڑا رکھی تھی جو اب کام آئی۔۔۔۔
گیٹ کھول کر وہ اپنے ویران گھر میں ممتاز بیگم کو سہارے دیے داخل ھو گئی اور ان کو اسی کمرے میں بستر پر لیٹا دیا۔۔۔۔
اس کا غم تھا جو اندر ہی اندر کھائے جا رھا تھا اسے ، دل تھا جو مر جانے کا ارادہ کیے ھوئے تھا مگر اسے جینا تھا اپنی ماں کے لیے جن کا اور کوئی سہارا نا تھا سوائے اس کے۔۔۔۔
خود کو سنبھالتے (جو زندگی کا مشکل ترین کام ثابت ھوا ) وہ اپنی بے رونق زندگی پھر سے گزرنا شروع ھو گئی پڑوس کی آنٹی کافی محسن ثابت ھوئیں انھی کی بدولت اسے ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر کی نوکری پر پابند کر دیا گیا۔۔۔۔
زندگی کے دن جیسے تیسے گزر رھے تھے اس کی دھمکی کارآمد ثابت ھوئی سعاد نے اس کو بالکل تنگ نا کیا ،غافل ہی ھو گیا مکمل اس سے مگر وہ اتنا ضرور جانتی تھی وہ زندہ ھے ابھی تک ،لیکن اس بات سے اسے کوئی سروکار نا تھی۔۔۔
اچانک ایک دن اسے انکشاف ھوا وہ ماں جیسے مقدس مقام کر فائز کر دی گئی ھے ، یہ بھی کرم تھا اللّٰہ کا جو اسے زندہ رہنے کی ایک وجہ مل گئی ، ممتاز بیگم کے ساتھ ساتھ وہ اپنا بھی اب بہت خیال رکھنے لگی تھی وجہ اس کے پیٹ میں پل تھا وہ بچہ تھا۔۔۔
رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا اور وہ دن بھی آ گیا جب اللّٰہ نے اس کی جھولی میں ایک خوبصورت بیٹے کی نعمت ڈال دی جس کو اس نے ساحر کے نام سے نوازا ، جتنی اسے اس بچے کی خوشی تھا وہیں دل میں ایک خلش بھی موجود تھی جس کو وہ کہیں دبا سی دیتی۔۔۔۔
ساحر کا ساتھ پا کر وہ خوشی سے پھولے نا سماتی لیکن اس کی خوشی زیادہ وقت قائم نا رہ سکی اچانک ایک دن جب ساحر صرف کچھ مہینوں کا تھا ممتاز بیگم رات کی سوئیں صبح اٹھ نا سکیں۔۔۔۔
خاموشی سے روح ان کے بدن سے جدا ھو گئی ان کی جدائی میں عروج ٹوٹ سی گئی تھی ایک واحد رشتہ اس کی ماں بھی اسے چھوڑ کر چلی گئیں ، پڑوس کی آنٹی نے عروج کی حالت سمجھتے جنازے کا انتظام بھی خود کیا اور بعد میں بھی وہ خیر خواہ ثابت ھوئیں اس کے لیے۔۔۔۔
آہستہ آہستہ اسے بھی اپنے بیٹے ساحر کی خاطر نارمل ھونا پڑا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا ، ہر سال وہ ماہ نور کی برتھڈے مناتی اس نے ساحر کو بھی ماہ نور کے بارے میں بتایا تھا ، اصل بات وہ چھپا گئی بس اتنا کہا وہ اب اس دنیا میں نہیں ھے۔۔۔۔
ہر سال کی طرح آج بھی وہ ماہ نور کی برتھڈے پر کیک کاٹنے کے بعد ساحر کو لیے اس کی قبر پر جا پہنچی ، قبرستان کے باہر کھڑی پھولوں کی ریڈیہی سے کچھ پھول خریدے وہ ساحر کا ھاتھ تھام کر ماہ نور کی قبر کے قریب گئی اور زمین پر بیٹھ شاہر سے پھولوں کو نکال اس کی قبر پر گرا دیا اور باقی کچھ اس قبر کے قریب موجود ممتاز بیگم کی قبر پر ڈال دیے، خاموش لب کچھ نا بولے ویسے ہی ساکت رھے مگر آنکھوں کی سرخی بہت کچھ بیان کر گئی تھی دل میں نادم سی وہ اپنی بہن سے معافی طلب کرنے لگی۔۔۔۔
" آج اتنے سال ہو گۓ آپی لیکن پھر بھی گلٹ محسوس کرتی ہوں ، کہیں نا کہیں آپ کی گناہگار میں بھی ھوں ، پلیز مجھے معاف کر دیجئے تاکہ سکون حاصل ھو اس بے چین دل کو۔۔۔۔"
کچھ لمحے خاموشی کی نظر کرنے کے بعد وہ ھاتھ اٹھائے سورت فاتحہ پڑھ کر دعا کرنے کے بعد (جس میں ساحر بھی اس کا ساتھ دے رھا تھا) واپسی کے لیے اٹھ کھڑی ھوئی۔۔۔۔
" ماما یہ پھول پہلے سے کیوں پڑے ھیں یہاں ، آنٹی سے کیا کوئی اور بھی ملنے آتا ہے۔۔۔۔؟؟؟
ساحر نے دونوں قبروں پر موجود پھولوں کی طرف اشارہ کرتے سوال کیا۔۔۔۔
" نہیں بیٹے شاید جب ہم پیچھلے ہفتے آۓ تھے یہاں یہ تب کے ہوں گے۔۔۔۔"
ساحر کی نرم گالوں کو تھپتھاتے وہ اسے بہانے لگی۔۔۔
" نہیں ماما یہ نیو لگ رہے ہیں ، دیکھیں تو۔۔۔۔"
" ساحر تم بہت بحث کرنے لگے ہو مجھ سے ، ماما کو مت تنگ کیا کرو بچے ، پلیز اب چلو دعا کر لی۔۔۔۔"
" ہاں ماما کر لی۔۔۔۔"
" گڈ بوائے ، چلو پھر۔۔۔۔"
مضبوطی سے ساحر کا ہاتھ پکڑ عروج تیزی سے قدم اٹھاتی اسے فبرستان سے باہر لے آئی اور سڑک پر کھڑی رکشے کا ویٹ کرنے لگی تبھی ان کے سامنے ایک بڑی سی گاڑی کو رکتے دیکھ ساحر عروج کی بازو ہلانے لگا۔۔۔
" وہ دیکھیں ماما کتنی بڑی کار ہے ، ماما آپ مجھے ایسی کار لے دیں نا پلیز۔۔۔۔"
ساحر کے اشارہ کرنے پر اس نے اپنی نظروں کو ویسے ہی زمین کی جانب مرکوز کیے رکھا مجال تھی جو اس جانب دیکھ لیتی ، گاری میں موجود کب وہ شخص اس کے قریب سے گزرا اسے اندازہ ہی نا ھوا۔۔۔
" ساحر ابھی آپ چھوٹے ہو تو اپنی ٹوائے کارز سے کھیلو ، جب بڑے ہو جاؤ گے تب بڑی گاڑی مل جائے گی آپکو کیونکہ آپکو ماما کو گاڑی تھوڑی نا ڈرائیو آتی ہے وہ تو آپ ہی ڈرائیو کرو گے ، رائٹ ، اس لیے فلحال ہم رکشے میں چلتے ہیں۔۔۔۔"
" اوکے ماما لیکن جب میں بِگ بوائے بن جاؤں گا تو بہت سی کارز ھوں گی میرے پاس۔۔۔۔"
" ہاں ہاں ٹھیک ہے اب بیٹھوں رکشے میں۔۔۔۔"
رکشے کو روک تیزی سے ایڈریس بتا کر اس میں بیٹھ عروج اور ساحر سکول جانے لگے ، وہیں اس گاڑی میں سے جو شخص باہر نکلا تھا اس کا رخ سیدھا ماہ نور کی قبر کی جانب تھا ، اپنے گلاسز کو اتار وہ قبر کے قریب بیٹھا ناجانے کب سے جاری اپنے آنسوؤں کو صاف کرنے لگا۔۔۔۔
" آئی ایم سوری ماہ نور ، پلیز معاف کر دو مجھے ، ایک غلطی کی وجہ سے اپنے بیٹے اور محبت سے آج تک اتنی دوری قائم کر رکھی ھے ، می۔۔۔۔میرا بیٹا میرا ساحر ، اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ، اس کا باپ کون ہے اور ذندہ ھوں میں اس کا بابا زندہ ھے ، اتنی شان و شوکت ھونے کے باوجود غربت کی زندگی گزار رہا ہے وہ ، اسے چھونے اسے پیار کرنے کا بھی حق حاصل نہیں مجھے ، سب کھو چکا ھوں ، خود کے کیے گناہوں کی بدولت اپنے جگر کے ٹکڑے سے مل بھی نہیں سکتا ، یہ خواہش حسرت بن چکی ھے میری ، ہر دن پل مر رھا ھوں لیکن موت بھی خفا ھے مجھ سے جو مجھے اپنانا نہیں چاہتی۔۔۔۔"
روز کی طرح آج بھی سعاد ماہ نور کی قبر پر آ کے بے اختیار آنسو بہاتا ھاتھ جوڑے اس سے معافی طلب کر رہا تھا لیکن انسان کے زندگی میں کیے گۓ گناہ بعض اوقات اس کی زندگی کا عذاب بن سکتے ھیں ، اپنی زندگی کو آباد اور برباد خود اپنے کرموں کی وجہ سے بناتا ہے انسان وہی حال اب سعاد مرزا کا تھا ، کچھ لمحے اسی کیفیت کے زیر اثر رھنے کے بعد وہ سورت فاتحہ پڑھنے کر دعا کرتے اٹھ کھڑا ھوا اور واپس قبرستان سے نکل کر عروج اور ساحر کو رکشے میں جاتا دیکھ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟
رکشے میں سکول جاتے ہوئے راستے میں ساہر نے ضد کرنا شروع کر دی ، یہ حرکت اسے وارثت میں اپنی چاچو سے ہی ملی تھی جس کے نام پر اسکا نام رکھا گیا تھا۔۔۔۔
" ماما مجھے آج برگر چاہیے اتنے ڈیز سے مانگ رہا ہوں لیکن آپ میری کوئی بھی بات نہیں سنتیں ، میری کلاس کے سبھی بیبز روز اپنے بابا کے ساتھ جاتے ہیں گھومنے پھرنے ، کھانے پینے ، بٹ میرے پاس تو بابا ہی نہیں ہیں تو آپ سے بول دیتا ھوں بٹ آپ بھی میری بات نہیں مانتی ، ماما ٹیل می میرے بابا کہاں ھیں وہ کیوں نہیں ھیں ہمارے ساتھ ، مجھے چاھیے میرے بابا اب وہی میری بات کو غور سے سنا کریں گے میری ہر وش پوری کریں گے ، آپ پھر صرف جاب ہی کرنا ، بابا اور میں ہر ٹائم انجواۓ کیا کریں گے ، بہت مزہ آئے گا۔۔۔۔"
ساحر کی معصومیت سے کہی گئی باتیں عروج کو کسی جنجر سے کم محسوس نا ھوئیں جو اس کے دل کو وار کرتے لہو لہان کر چکی ھوں ، لیکن وہ اپنے آنسوؤں کے ذریعے اپنی تکلیف زائل کر کے ساحر کے مزید سوالوں کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت خود میں نا پاتی تھی۔۔۔
اسی خوف کے زیر اثر وہ خود کو کمپوز کرتی زبردستی کی منصوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکشہ ڈرائیور سے مطالبہ کر بیٹھی۔۔۔
" بھائی آپ پلیز کسی اچھی سی برگر شاپ کے پاس لے جائیں ہمیں۔۔۔۔"
عروج کے منہ سے ساحر برگر کا نام سن کر خوشی سے اچھل پڑا اسی خوشی میں وہ بابا والی بات کو فراموش کر عروج کے سامنے اپنے ڈیمانڈز رکھنے لگا۔۔۔
" ماما برگر میں چیز بہت ساری ہو اور ایگ وائٹ بالکل نا ہو ، چیلی تھوڑی زیادہ ، بٹ بہت زیادہ بھی نہیں۔۔۔۔"
عروج مسلسل ساحر کی ڈیمانڈز کو سن کر چہرے پر منصوعی مسکراہٹ لاۓ اسے سر اثبات میں ہلاتی اثبات میں جواب دے رہی تھی ، کچھ دیر بعد برگر شاپ کے آگے اترتے ہی ساحر اور عروج شاپ کے اندر چلے گۓ وہیں سعاد جو کے مسلسل انہی کا پیچھا کر رہا تھا اس شاپ کے سامنے انہیں روکتا دیکھ خود بھی اپنی گاڑی کو بریک لگا چکا تھا ، چرر کی آواز کے ساتھ گاڑی رک گئی وہ ونڈو سے اس دکان کو دیکھتے خود سے بڑبڑانا شروع ھو گیا۔۔۔۔
" آج کوشش کر کے دیکھ لیتا ہوں کیا پتہ آج اس کے دل میں میرے لیے رحم آ جائے ، پانچ سال ہو چکے ہیں میرا بیٹا اتنے امیر باپ کی اولاد ہونے کے باوجود بھی کیسی زندگی گزار رہا ہے، جو بھی ھوا مانتا ھوں غلط تھا وہ سب لیکن ہمارے بچے کا کیا قصور ھے اسے کس بات کی سزا مل رہی ھے۔۔۔۔۔"
گاڑی میں موجود سعاد اپنے اندر عروج سے ایک مرتبہ پھر سے معافی مانگنے کی ہمت پیدا کر رہا تھا جو ناجانے کب اور کیسے اکٹھی ھوتی وہیں ساحر کے لیے برگر پیک کروا کر عروج اور وہ باہر آئے اور رکشے کے قریب جانے لگے یہ منظر اس کی نظروں سے مخفی نا رہا ، ایک لمبی سانس بھرتے وہ گاڑی سے باہر نکل کر ان کی جانب قدم اٹھانے لگا۔۔۔۔
" عروج۔۔۔۔"
اپنے تعاقب سے کسی کی آواز سن عروج کے قدم وہیں تھم گئے ، سعاد کی آواز کو اخر کیسے بھول سکتی تھی وہ اس آواز کو سنتے ہی بے اختیاری میں وہ پلٹ کر اپنے پیچھے موجود شخص کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
اتنے سالوں بعد اپنے سامنے قابل رحم حالت میں موجود سعاد کو دیکھ وہ چونک اٹھی ، یہ وہ سعاد تو نا تھا جسے وہ جانتی تھی، جسے پانچ سال پہلے اس کے حالات پر چھوڑ علیحدگی اختیار کر گئی تھی وہ ، اس کے سامنے تو کوئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار زندگی سے بے زار شخص موجود تھا ، آخر کہاں وہ اپنی محبت کو اس حالت میں برادسشت کرنے کا حوصلہ رکھتی تھی تیزی سے اپنی نظروں کا رخ موڑ وہ ساحر کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے پیدل ہی جانے لگی وہیں سعاد اب کی مرتبہ اس سے بات کرنے کی گویا ٹھان چکا تھس اسی وجہ سے وہ بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔
" عروج یار بات تو سنو پلیز۔۔۔۔"
لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ عروج کے ہاتھ کو پکڑ اسے کھینچتے اپنے مقابل کر چکا تھا۔۔۔۔
" پلیز عروج معاف کر دو یار ، پانچ سال کی میری اذیت ختم کر دو ، ہر دن ہر پل کی موت مقرر مت کرو میرے لیے ، میرے گناہوں کی سزا میرے بچے کو مت دو ، ساحر کی خاطر مجھے معاف کر دینے کا حوصلہ پیدا کر لو۔۔۔۔"
سعاد کی کوئی بات تو جیسے اس نے سنی ہی نہیں اس کی نظریں تو صرف اپنے ہاتھ پر ٹھہریں تھیں ، اس ظالم شخص کی گرفت میں اپنا ھاتھ موجود دیکھ وہ بلبلا اٹھی۔۔۔
" میرا ہاتھ چھوڑو ، اپنے ناپاک وجود کو ہم دونوں سے جتنا ھو سکتا ھے دور رکھو تم ، تمہارا سایہ بھی میں اپنے بیٹے پر پڑتا برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔"
ایک ایک لفظ عروج نے چبا چبا کر ادا کیا تھا وہیں اپنی ماں کا ہاتھ کسی مرد کو پکڑا دیکھ ساحر کی پیشانی پر لاتعداد بل پڑ گئے ، غصے میں بالکل اپنے باپ کی کاپی تھا وہ۔۔۔۔
" چھوڑو میری ماما کا ہینڈ ، ورنہ میں آپ کا یہ ہینڈ توڑ دوں گا۔۔۔۔"
ساحر کے غصے سے چیخنے پر سعاد کی نظروں کا رخ اس چھوٹا سے وجود کی سمت ھو گیا اپنے ہی بیٹے کو خود کو ایسے کہتا دیکھ کرب سے آنکھیں مینچتے اس نے عروج کاہاتھ چھوڑ دیا تب ساحر عروج کو روتے دیکھ اسکی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ کے اسے سنھبالنے لگا۔۔۔
" آپ فکر نہیں کرو ماما ، میں ہوں نا آپ کو بیڈ پیلوپل سے بچانے کے لیے ، یہ کون ہیں ماما ، آپ جانتی ھو ان کو۔۔۔۔؟؟؟
معصوم سی آنکھوں میں حیرت در آئی تھی اس کا پوچھا گیا سوال عروج کے ساتھ ساتھ سعاد کو بھی بوکھلا گیا۔۔۔
" ب۔۔۔ب۔۔بیٹا کوئی نہیں ہے ، بس جلدی چلو یہاں سے آپ۔۔۔۔"
ساحر کو لیے وہ تیزی سے چل پڑی ، بے بسی کی انتہا سے وہ عروج کو اپنے بیٹے کے ساتھ جاتا دیکھتا رھا دل تھا کہ پھٹنے کے قریب تھا۔۔۔۔
" پلیز معاف کر دو یاررر ۔۔۔۔"
سعاد کی پیچھے سے لگائی گئی ہانک کو نظر انداز کرتی وہ فوراً رکشہ روک ساحر کو لیے سکول جانے کی بجائے واپس گھر آ گئ۔۔۔۔
یادیں کیوں میری نظروں کے سامنے لہرا سی جاتی ھیں ، جن باتوں کو میں فراموش کر چکی ھوں وہ کیوں مجھے پھر سے اسی اذیت میں دھکیلنا چاہتا ھے۔۔۔۔"
راستے سارے عروج کی سوچوں کا مرکز یہی باتیں تھیں ، بہت سے سوال اسے بے چین کر دینے کا باعث تھے جن کے جواب وہ اس شخص سے وصول کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔
ناجانے کب گھر آیا اسے علم ہی نا ھوا ، ساحر کے جھنجوڑ دینے پر وہ ھوش کی دنیا میں لوٹی اور رکشہ ڈرائیور کو پیسے دینے کے بعد ساحر کا ھاتھ تھامے اپنے گھر میں داخل ھو گئی۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟
" ماما وہ کون تھا جس نے آپ کا ھیںنڈ پکڑا ، وہ آپ سے معافی کیوں مانگ رہا تھا اور ان کے بیٹے کو آپ کیا سزا دے رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟
رات کے کھانے کے دوران اچانک ساحر نے اپنے معصوم سے ذہین میں اٹھنے والا سوال اس سے پوچھ ڈالا جو صحیح معنوں میں عروج کو حواس باختہ کر چکا تھا ، چونکتے ھوئے وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے لگی۔۔۔
" ساحر کھانے پر فوکس کرو اپنا ، بیٹا تم کیوں سوچ رہے ہو ابھی تک وہ سب ، وہ تو پاگل انسان تھا ایسے ہی سب کو تنگ کرتا رہتا ھے ، بھول جاؤ وہ بات۔۔۔۔"
گلاس میں پانی ڈال اپنے لبوں سے لگانے کے بعد خود کو کمپوز کرتی وہ ساحر کو سمجھانے کی سعی کرنے لگی۔۔۔۔
" لیکن ماما میں نے انہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔۔۔۔"
آنکھیں بند کیے اپنی کنپٹی کو سہلاتے ہوۓ ساحر اپنے دماغ پر زور دینے لگا ، یاد آنے پر جھٹ سے گویا ھوا وہ۔۔۔۔
" ہاں ہاں ماما میں نے یاد کر لیا ، یہ انکل تو جب بھی ہم باہر جاتے ہیں تب ہمارے پیچھے پیچھے ھوتے ھیں ، ہمارے گھر کے پاس وہ قسبکستان نہیں ھے جہاں ماہ نور آنٹی اور نانی رہتی ھیں ،وہاں اس کے باہر اپنی بڑی سی کار میں بیٹھے ھوتے ھیں وہ۔۔۔۔۔"
" کیا بول رہے ھو ساحر یہ نہیں وہ کوئی اور ہوں گے اور صحیح لفظ قبرستان ہوتا ہے بچے۔۔۔۔"
نظریں چراتی وہ اپنے بیٹے سے جھوٹ بولنے لگی۔۔۔۔
" نہیں ماما سچ میں میں نے غور سے دیکھا ہے انہیں یہ وہی تھے ، ویسی داڑھی موچھ ویسی لانگ ہائٹ اور کپڑے وہی اسی کلر کے ہوتے ہیں بلیک۔۔۔۔"
ساحر کی بات پر عروج حیران تھی کہ سعاد کیا واقعی میں ان کا ہر وقت پیچھا کرتا رہتا تھا ، کیوں نظر رکھے ھوئے تھا وہ ان کی حرکات پر۔۔۔۔
" کہیں مجھ سے میرا بچہ تو نہیں چھیننا چاہتا وہ گھٹیا انسان ، ویسے بھی ہمیشہ سے اس نے مجھ سے میرے انمول رشتوں کو چھینا ہی تو ہے اب کیا نا معقول بات ھو گی یہی تو شوق ھے اسکا دوسروں کو اذیت میں مبتلا کر کے سکون حاصل کرنا ، م۔۔۔م میں اب یہاں نہیں رہوں گی ہم چلے جائیں گے اس شہر کو چھوڑ کر ، تم کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ھو پاؤ گے سعاد مرزا۔۔۔۔۔"
ساحر کے خود سے دور ھو جانے کے ڈر سے عروج اب اس شہر سے ہی دور جانے کے بارے میں سوچنے لگی تھی ، اسے اپنا بچہ عزیز تھا جو کل کائنات کے مترداف تھا اس کے نزدیک۔۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟
صبح ساحر کو سکول چھوڑنے کے بعد عروج اپنی کلاس میں چلی گئ وہ دونوں ایک ہی سکول میں موجود ھوتے ساحر کی کلاس الگ تھی اور عروج کسی اور کلاس کے بچوں کو تعلیم دیتی ، اپنے کام میں مصروف بھی اس کی سوچوں کا مرکز ساحر کی صبح کی کہی گئی باتیں ہی تھیں ، ناجانے وہ اور کتنی ہی دیر انھی سوچوں میں غرق رہتی اگر جو پیون نے کمرے میں قدم رکھتے اسے پکارا نا ھوتا۔۔۔۔
" آپ کو میڈم اپنے آفس میں بلا رہی ھیں۔۔۔۔"
پیون کی بات سن وہ تھوڑی حیران تو ھوئی مگر پھر یہ سوچتے کہ کل کی چھٹی کے بارے میں پوچھنا ھو گا ، ایک دن کی تنخواہ کے پیسے کاٹنے کے لیے ، اب فری میں تھوڑی نا اس چھٹی کے پیسے مل جاتے اسے ، وہ خود سے ہی سوچیں اخذ کی جا رہی تھی وہیں اسے خاموش پا کر پھر سے وہ گویا ھوا۔۔۔۔
" آپ کے بیٹے ساحر کے متعلق کوئی بات کرنی ہے ، جلدی چلی جائیں۔۔۔۔"
ساحر کا نام سنتے ہی عروج نے چونک کر اس کی جانب نظریں گھمائیں اور پھر جھٹ سے اٹھ حرکت میں آتے بچوں کو ڈسپلن کا مظاہرہ کرنے کا بولتی کلاس کو چھوڑ تیز تیز قدم اٹھاتی پرنسپل کے آفس کی سمت چل پڑی۔۔۔۔
دروازے کو ہلکا سا نوک کر کے اس نے میڈم کی اجازت طلب کی جو اسے فوراً دے دی گئی تھی ، مضبوط قدموں کے ساتھ وہ روم میں داخل ہو کر پرنسپل میڈم کے سامنے کھڑی ان سے اسے بلانے کی وجہ پوچھنے لگی تو پرنسپل میڈم نے تو جیسے کب سے عروج کے لیے غصہ دبایا ھوا تھا جو اس کے سوال پوچھتے ہی پھٹ پڑیں۔۔۔۔
" مس عروج تم نے اپنے بیٹے کی یہ تربیت کی ہے اس لڑکے نے آج مسز فراز کے بیٹے کو بے دردی سے پیٹ ڈالا ، اس معصوم کا دانت ٹوٹ گیا اسی جھگڑے کے سبب ، تمہجں اندازہ بھی ھے مجھے کتنی باتیں برداشت کرنی پڑیں مسز فراز کی۔۔۔۔"
سرخ چہرے کے ساتھ اپنے سامنے موجود ٹیبل پر ھاتھ مارتے انھوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا جبکہ ان کی کہی گئی بات عروج کو چونکا گئی۔۔۔۔
" کیا یہ ساحر نے کیا ہے ، ایسا کیسے ھو سکتا ھے میم آپ جانتی ہیں اسے وہ تو بہت پولائٹ بچہ ھے ، پچھلے ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں اسے یہاں ایڈمیشن لیے لیکن کبھی بھی اس نے کسی سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی اور اب وہ کیسے کسی بچے کو مار سکتا ہے۔۔۔۔"
اپنے لہجے کو نرم رکھے عروج نے ساحر کی حمایت کی جس پر مزید سلگ اٹھیں تھیں پرنسپل میڈم۔۔۔۔
" یہی بات جا آپ اپنے لاڈلے سے پوچھیں کیا وجہ ھے کیوں کیا اس نے ایسا ، اور ویسے بھی صحیح کہتے ہیں سب ، اکیلی عورت اپنے بچوں کی تربیت ٹھیک طریقے سے کبھی کر ہی نہیں سکتی جن بچوں کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہوتا وہ ایسے ہی بگڑ جاتے ہیں جیسے تمہارا بیٹا۔۔۔۔"
آج پھر سے عروج کو اس کے شوہر کا ساتھ نا ہونے کا طعنہ دیا گیا جسے سن عروج نے بے اختیار ہی اپنی نظروں کے ساتھ سر بھی نیچے جھکا لیا ، وہ دل ہی دل میں بہت دکھی ہونے لگی تھی جس کا بظاہر وہ اظہار کرنے کے موڈ میں نا تھی اپنی تکلیف اپنے خدا کے علاوہ کبھی کسی پر عیاں نا ھونے دی اس نے تو بھلا اب کیسے وہ اپنی ہمت ہار دیتی۔۔۔۔
" سوری میم دوبارہ ساحر ایسا کچھ نہیں کرے گا اور اس بات کی میں آپکو گارینٹی دیتی ہوں۔۔۔۔"
کچھ دیر بعد یہ چند الفاظ ادا کیے اسنے۔۔۔
" ہونا بھی نہیں چاہیے مس عروج ورنہ پھر تم اور ساحر دونوں سکول سے نکال دیے جاؤ گے ، یہ میری لاسٹ وارننگ ھے۔۔۔۔"
" اوکے میم بہت شکریہ۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی وہ آفس سے باہر نکل گئ اور اپنی آنکھوں میں آ رہے آنسوؤں کو بامشکل کنٹرول کرنے کی سعی میں مصروف دوبارہ اپنی کلاس میں گھس گئی۔۔۔
دوپہر کے بارہ بجے جیسے ہی سکول کی چھٹی ہوئی وہ ساحر کی بازو پکڑے اسے کھینچتے غصے سے اپنے ساتھ گھر لیجانے لگی ، پیدل چلتے گھر کی طرف قدم اٹھاتے اس نے خود کو کمپوز کرتے فٹ پاتھ پر رک کر ساحر کو اپنے سامنے کیا جس کا اپنا موڈ ابھی تھا خراب تھا پیشانی پر شکنیں ابھی تک واضح تھیں۔۔۔
" بیٹے آپ نے آج اس بے بی سے کیوں فائٹ کی ، آپ جانتے ھو میری بہت انسلٹ کی پرنسپل میم نے ، آپ کی وجہ سے ماما کو میڈم کی ڈانٹ وہ سب بیڈ ورڈز برداشت کرنے پڑے۔۔۔۔"
عروج کے سوال پر ساحر منہ پھلاۓ بنا جواب دیے اپنے کاندھوں سے اس کے ھاتھ ہٹا کر پھر سے چلنا شروع ھو گیا تبھی عروج نے ساحر کو بازو سے پکڑ روکتے دوبارہ اپنے مقابل کیا۔۔۔۔
" ساحر میں تم سے ہی سوال کر رہی ہوں بتاؤ مجھے کیوں تم نے اس بچے کو اتنے برے طریقے سے مارا۔۔۔۔"
ساحر کا یہ انداز اسے بھی تاؤ دلا گیا تھا وہیں عروج کے سخت لہجے کو سہتے ساحر اسے گھورتا اپنی بازو کو اس کے ھاتھ سے نکال کر چیخنے لگا۔۔۔۔۔
" ماما وہ مجھے بنا باپ کے بے بی بول رہا تھا ، ہِی سیڈ میرے کوئی بابا نہیں ، سکول کے سبھی بے بیز کے بابا ھیں سواۓ میرے ، مجھے تو اپنے بابا کا نیم بھی نہیں معلوم ، ماما آپ کیوں نہیں بتاتیں سب کو ، کہ کون ہیں میرے بابا ، کہاں ھیں وہ۔۔۔۔۔؟؟؟
ساحر کے سوال پر عروج آنکھیں چراتی بات پلٹنے کی کوشش کرنے لگی مگر ساحر نے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔
" مجھے بابا چاہیے ماما ، آئی نید ہِم ادر وائز مجھے بنا بابا کے یہ لائف نہیں چاہیے اللّٰہ مجھے اپنے پاس بلا لیں ، میں آپ سے بہت ناراض ھو جاؤں گا ماما کبھی واپس نہیں آؤں گا۔۔۔۔۔"
ساحر کی بات سن عروج نے تڑپ کر اسے اپنے گلے لگا لیا۔۔۔۔
" بے بی کیوں کہہ رہے ہو آپ ایسے ، میرا بچہ آپکی ماما تو ہیں نا ان سے لو نہیں ھے کیا آپکو۔۔۔۔"
عروج کی بات سن وہ اسے خود سے دور کرتے ہوئے غصے سے چیخ پڑا۔۔۔۔
" ماما آپ بہت بیڈ لیڈی ھو ، مجھے میرے بابا سے نہیں ملوا رہی آپ ، وائے یو کانٹ انڈرسٹینڈ ، مجھے آپ دونوں کا لو چاہیے۔۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی روتے ھوئے وہ اندھا دھند سڑک پر بھاگنے لگا عروج اسے پیچھے سے آوازیں دیتی رکنے کا بول رہی تھی آخر کیوں وہ چلتی سڑک پر بھاگ رہا تھا ، جبکہ یہ خطرے سے خالی نہیں تھا مگر اپنے غصے میں وہ سب فراموش کیے بس بھاگے جا رہا تھا۔۔۔
سعاد جو کے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا فون پر اپنے میجنجر سے محو گفتگو تھا اور گاڑی کو اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا تب اچانک ان کی گاڑی کے سامنے دھوڑتے ھوئے ساحر آ گیا اور گاڑی کو اپنے قریب آتے دیکھ پیچھے ہٹنے کی بجاۓ وہی پر سہم کر کھڑا ہو گیا۔۔۔
ایک بچے کو سامنے دیکھ ڈرائیور نے بریک لگانے کی بہت کوشش کی لیکن پھر بھی ساحر گاڑی کے ساتھ ٹکرا کر دور فاصلے پر گر گیا ایکسیڈینٹ ھوتے ہی ڈرائیو نے گاڑی روکے خوفزدہ ھوتے کانپنا شروع کر دیا جبکہ گاڑی کے اچانک رکنے پر سعاد چونک اٹھا اور ڈرائیور سے وجہ دریافت کی۔۔۔۔۔
" کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔؟؟؟
اس کے کانپتے وجود کو دیکھتے سعاد نے سوال کیا ، بدلے میں جھٹ سے دروازہ کھولے ساحر کو دیکھتے ڈرائیو نے سعاد کی جانب نظریں کیے ھاتھ اٹھائے ساحر کی جانب اشارہ کر دیا۔۔۔۔
" سر ایک بچہ ٹکرا گیا ہے گاڑی کے ساتھ۔۔۔"
بچے کا نام سنتے ہی سعاد فوراً گاڑی سے باہر نکلا اور سامنے سڑک پر پڑے ساحر کو دیکھ اس کی تو جیسے سانسیں ہی رک گئ ہوں۔۔۔۔۔
" س۔۔۔س۔۔۔س ساحر۔۔۔۔"
ہاتھ میں پکڑا موباۂل نیچے پھینک وہ اندھا دھند ساحر کی سمت دھوڑا ، گرنے کے انداز میں سڑک پر بیٹھ وہ ساحر کا خون سے بھرا سر اپنی گود میں رکھے پاگلوں کی طرح رونا شروع ھو گیا ، کبھی وہ اس کے نرم گالوں کو تھپتھپاتے تو کبھی اسے بول کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا جو سبھی بے سود ثابت ھوا۔۔۔۔
" میرا بچہ میرا ساحر ، پلیز آنکھیں کھول نا پلیز ساحر اٹھ جا یار۔۔۔۔"
اپنے سینے سے اسے چپکائے وہ پاگلوں سا برتاؤ کر رھا تھا ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے جیسے محروم ھو گیا ھو ورنہ رونے کی بجائے ہمت جٹاتے وہ اسے ھوسپیٹل لے کر جاتا وہیں دوسری سمت عروج جو کے ساحر کو ڈھونڈ رہی تھی اپنے سے کچھ فاصلے پر موجود لوگوں کا ہجوم دیکھ وہ خوف زدہ ہو گئ اور بھاگ کر جب وہ وہاں پہنچنے میں کامیاب ھوئی تو ساحر کے ساتھ سدھ بدھ بھلائے روتے سعاد کو دیکھ اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔۔۔
کتنی ہی دیر تو وہ خود بھی حرکت کرنے کے قابل نا رہی مگر اسے ہمت کرنی تھی اپنے بچے کی زندگی کی خاطر ، خود کو سنبھالتے وہ ساحر کے قریب ھوئی اور خاموشی سے سعاد کی گود سے اسے اٹھاتے چل کر سعاد کی کھڑی گاری میں اسے لیٹا دیا۔۔۔۔
ساحر کے خود سے دور ھوتے ہی وہ بھی ھوش میں آتا اٹھ کھڑا ھوا اور عروج کو اپنے قریب پا کر کرب سے اسے دیکھنے لگا جو ڈرائیو سے گاڑی چلانے کا بول رہی تھی ، مگر وہ خوفزدہ ھوتے اسے منع کیے جا رھا تھا۔۔۔
جب یہ باتیں سعاد مرزا کی سماعت میں گئی تو وہ عروج کا ھاتھ پکڑ اسے گاڑی کے قریب لے آیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ،عروج بھی اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ فوراً خود ساحر کے قریب بیٹھ گی اور دروازہ بند کر دیا تب سعاد نے گاڑی سٹارٹ کر دی جو فوراً فراٹے بھرنے لگی۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
ھوسپیٹل پہنچتے ہی سعاد فوراً گاڑی سے اتر کر دروازہ کھولے ساحر کو اپنی گود میں بھر کر بھاگتے ھوئے ھوسپیٹل کے اندر داخل ھوا۔۔۔۔
" کہاں ھو سب باہر آؤ ، ڈاکٹر۔۔۔۔"
بلند آواز دھاڑتے وہ ڈاکٹر کو پکارنے لگا اسے دیکھ واڈبوائے نے نرس کو ڈاکٹر کو بلانے کا اشارہ کیا اور سٹریچر لیے سعاد کو گود سے ساحر کو اس پر لیٹانے کا کہا جس ہر وہ فوراً عمل درآمد کر چکا تھا۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے ان دونوں کی نظروں کے سامنے سے ساحر کو آپریشن تھیٹر میں لے گئے ، ان کے قریب سے ہی نرس کے ساتھ ڈاکٹر بھی بھاگ کر آپریشن تھیٹر میں گھس گیا تھا جبکہ ساحر کا سوچ سوچ سعاد کو اپنا دل بند ھوتا محسوس ھو۔۔۔۔
وہ مسلسل کوریڈور میں چکر کاٹتے ڈاکٹر کے باہر آنے کا انتظار کر رھا تھا جبکہ عروج پاس کھڑی اپنے رب سے اپنے لخت جگر کی زندگی مانگنے میں مصروف تھی۔۔۔۔
ساحر کے کہے گئے آخری وہ الفاظ اسے پاگل کر دینے کے در پر تھے ، تو کیا اس کے اللّٰہ نے اس معصوم کی بات مان لی تھی اگر وہ اپنے بابا کی شفقت پانے میں ناکام رھا تو اس سے یہ زندگی بھی واپس لے لی جائے گی۔۔۔۔
" نہیں ایسے نہیں ھو گا میرے ساحر کو کچھ نا ھو اللّٰہ ، ایک ماں سے اس کی جینے کی وجہ مت دور کریں ، میں مر جاؤں گی یہ دل اتنا بڑا صدمہ سہنے کی سکت نہیں رکھتا ، میرے ساحر کو زندگی دے دیں چاہے تو میری زندگی کے بدلے میں ہی سہی ، ساحر کو کچھ نا ھو میرے اللّٰہ۔۔۔۔"
مسلسل آنسو بہاتی وہ اپنے رب کی بارگاہ میں دعا گو تھی جسے ناجانے قبولیت کا شرف عطا ھوتا بھی یا نہیں ، اچانک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ایک نرس باہر آئی اسے دیکھ سعاد بھاگ کر اس کے قریب ھوا ، اس طرف دھوڑی عروج بھی تھی مگر نرس کی کہی گئی بات سن اسے اپنے پیروں تلے سے زمین کھستی محسوس ھوئی۔۔۔۔
" بچے کی حالت بہت نازک ھے خون بہت ضائع ھو گیا ، ہم اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کریں گے باقی جو اللّٰہ کو منظور ، آپ دعا کریں زندگی موت تو بے شک اس پروردگار کے ھاتھ میں ھے وہ چاھے تو کیا نہیں ھو سکتا۔۔۔۔"
سعاد سے کہتی وہ نرس پاس بالکل ساکت کھڑی عروج کے کاندھے پر ھاتھ رکھ اسے تسلی دیتی وہاں سے چلی گئی ، اسے خون کا انتظام کرنا تھا اسی کی تلاش میں وہ بلڈ بینک سے رجوع کرنے والی تھی۔۔۔۔
سعاد کی حالت بھی عروج سے مختلف نا تھی ، ٹوٹ تو وہ بھی چکا تھا مگر نرس کے کہے الفاظ اسے امید کی ایک کرن تھما گئے تھے ، ھونے کو کیا نہیں ھو سکتا وہ تو بے اختیار ھے جو چاھے کرے ، اسی کے دم سے نا ممکن بھی ممکن کا روپ دھار لیتا ھے تو کیوں نہیں وہ اس کی سنے گا اسے نوازے گا ، وہ مانگے گا تو کیسے وہ پاک ذات اسے مایوس کر دے گی جو اپنے بندے کے گڑگرانے پر اسے ڈھیروں خوشیاں عطا کر دیتی ھے پھر بھلا کیسے وہ اسے اس کے ساحر کی زندگی کی نعمت سے محروم کر دیتی۔۔۔۔
اچانک اپنے وجود کو حرکت میں لاتے سعاد چل پڑا اور قدم اٹھاتے کوریڈور کی حدود پار کر گیا۔۔۔۔
کتنی ہی دیر وہ اسی کیفیت کے زیر اثر خود تک کو فراموش کیے ھوئی تھی ، اولاد کو کھو دینے کا غم آخر کہاں برداشت ھو پاتا ھے اور وہ تو عروج کا واحد رشتہ واحد جینے کا سہارا تھا اس کو کیسے خود سے دور ھوتے سہہ سکتی وہ۔۔۔۔
دیوار کا سہارا لیے کھڑی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی بچپن سے لے کر اب تک کا ساحر کے ساتھ بیتایا گیا ایک ایک لمحہ کسی فلم کی طرح اس کے ذہن میں گھوم رھا تھا ، آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کا دامن بھگو رھے تھے بے بسی سے اس نے سر اٹھائے اپنے رب کو دل کی گہرائیوں سے پکارا وہ جانتی تھی کبھی اس کا اللّٰہ اسے بے سہارا نہیں چھوڑے گا کبھی وہ اپنے بندے کو اسکی سکت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔۔۔۔
کچھ سوچتے اچانک وہ چل پڑی اور ڈھوڑنے کے انداز میں ھوسپیٹل میں موجود چھوٹی سے مسجد میں گھس کر بے اختیار نیچے گرتی چلی گئی ، دعا کے لیے ھاتھ اٹھائے آنکھیں بند کیے ،ساکت لبوں کے ساتھ وہ روتے ھوئے اپنے بچے کی زندگی مانگ رہی تھی۔۔۔۔
وہ تو دلوں پر قادر ھے کوئی بات مخفی نہیں اس سے ، وہ با خبر تھا اس کی دلی کیفیت سے وہ جانتا تھا اسے کیا چاھیے۔۔۔۔
ناجانے کب تک وہ یوں ہی روتی ھاتھ اٹھائے اپنے رب کی باہ گاہ میں سوالی بنی رہتی اگر جو اس کی سماعت میں کسی کی آواز نا آتی ، کتنی شدت کتنی تڑپ کتنی اذیت تھی اس کی آواز میں جیسے کوئی اپنی آخری سانس کی بھیک مانگ رہا ھو کچھ پلوں کی زندگی کا خواہشمند ھو کچھ تو تھا ایسا جو عروج کو اس جانب رخ کرنے پر مجبور کر گیا مگر اس وجود پر نظر پڑتے ہی وہ شوکڈ ھو گئی۔۔۔۔
سجدے کی حالت میں گرا وہ بلک بلک کر روتے ھوئے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا اس کے کہے الفاظ عروج کو دل میں کسی پھانس کی مانند گڑھتے محسوس ھوئے۔۔۔۔۔
" معاف کر دے میرے مولا اب تو معاف کر دے ، بے شک تو انسان کو اس کے صبر سے زیادہ نہیں آزماتا ، پانچ سالوں سے لمحے لمحے کی موت مر رھا ھوں میں تجھ سے معافی طلب کر رھا ھوں بے شک تو معاف فرمانے والا ھے ، میرے گناہوں کو بھی معاف کر دے میرے بچے کو زندگی دے دے مجھے اس طرح سزا مت دے تیرا یہ گناہگار بندہ اتنی اذیت برداشت نہیں کر سکتا وہ مر جائے گا ، تھک گیا ھوں میں بخش دے میرے اللّٰہ ، مجھے میری زندگی دے دے ، میرا ساحر میری عروج میرے جینے کی وجہ مت چھین مجھ سے۔۔۔۔"
ناجانے وہ اور کیا کچھ بولے جا تھا تھا جسے سننے کی ہمت ہارتے وہ اٹھ کھڑی ھوئی اور خوفزدہ ھوتی واپس ساحر کے پاس چلی آئی ،بے جان ھوتے قدموں کے ساتھ وہ بینچ پر بیٹھتی سعاد کے کہے الفاظوں پر غور کرنے لگی جو مسلسل اس کی سماعت میں گونجے جا رھے تھے ، وہ اس کی دعا کی شدت دیکھ خوفزدہ ھو گئی تھی اس کو ٹھکرایا نہیں جانا تھا وہ کب اپنے بندوں کو مایوں س لٹاتا ھے مگر جو وہ دعا کر رھا تھا وہ قبول ھوتی تو عروج کو بھی اسکا مقدر بنا دیا جاتا یہی بات اس کا دل گھبرانے کا سبب بن رہی تھی۔۔۔۔
ناجانے کتنی دیر سے انھی سوچوں میں غرق تھی وہ کہ اچانک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور نرس اس کے قریب چلی آئی ، اس کے مخاطب کرنے پر عروج کو واپس ھوش آیا اور وہ متوجہ ھوتی نرس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟
ٹونکل ٹونکل لیٹر سٹار
ھاؤ آ ونڈر واٹ یو آر
اپ ابوو آ ورڈ سو ھائے
لائیک آ ڈائمنڈ ان دا سکائے
پوئم کے اختتام پر اس نے اپنے لخت جگر کی پیشانی پر بوسہ دیتے اسے دیکھا تو وہ کب کا گہری نیند سو چکا تھا ، نرمی سے اس کے بالوں کو سہلاتی وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھے گئی۔۔۔۔
رات کے 9 بجے کا وقت تھا وہ دونوں ہمیشہ اس وقت ہی سو جایا کرتے مگر آج تو جیسے نیند اس سے روٹھے ھوئی تھی جو کسی طور آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تو وہ چہل قدمی کرنے کا ارادہ کرتی دبے قدموں ساحر کے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
اپنے سامنے موجود اسی محل نما بڑے سے گھر کو پا کر اس کے دل میں موجود اداسی پروان چڑھنے لگی ، آج پانچ سالوں بعد پھر سے وہ اسی گھر واپس لوٹ ائی جہاں دوبارہ نا آنے کی قسم کھا چکی تھی وہ مگر یہ ظالم زندگی انسان سے بہت کچھ ایسا کروا دیتی ھے جس کا تصور بھی کرنا محال ھوتا ھے اس کے لیے۔۔۔۔
ایک مرتبہ پھر سے وہ ساحر کی ضد اس کی محبت میں خود پر بندھ باندھتی وہیں لوٹ آئی جہاں اس کی بہن کی جان لی گئی تھی ، کیسے پانچ سال پہلے وہ دھتکار کر گئی تھی سعاد مرزا کو مگر اب وہ اسی کے گھر میں موجود تھی۔۔۔۔
" کیا واقعی میں انسان خود چاہیے جو کچھ بھی کر لے جتنا بھی زور لگا لے ھاتھ پاؤں چلا لے ، قسمت کے سامنے وہ بے بس ھو جاتا ھے ھوتا وہی ھے جو نصیب ھو اس کے۔۔۔
عروج اسی باتوں کو سوچ کر اپنی قسمت کے کھیل پر حیران ہو رہی تھی اسے تو اس بات کا بھی علم نا ھوا کہ کب وہ دشمن جان اس کے قریب چلا آیا ، کتنی جاندار مسکراہٹ موجود تھی اس کے صبیح چہرے پر۔۔۔۔
" تم یہاں کیا کر رہی ھو یار روم میں جا کر آرام کرو ، سو جاؤ مجھے تو ویسے بھی خوشی سے اب نیند نہیں آنے والی ہے کم از کم تم تو نیند پوری کرو۔۔۔۔"
" اپنے اندر کی خوشی ( جو کے اس کو پانچ سال بعد عروج اور ساحر کا ساتھ پا کر اس کی زندگی میں واپس لوٹ آنے سے ملی تھی وہ اسے چہکتے ھوئے ظاہر کر رہا تھا وہیں عروج نے اس کی بات پر سنجیدہ تاثرات لیے پلٹ کر ایک سخت گھوری اس کی جانب اچھالتے وہاں سے ساحر کے کمرے کی طرف جانا چاہا مگر اس کی یہ کوشش وہ اس کا ھاتھ پکڑ کر ناکامی میں تبدیل کر چکا تھا۔۔۔
عروج کے قدموں کو فوراً بریک لگی تھی مگر اسے دیکھنے کی دوبارہ اس نے ہمت نا کی تھی ناجانے کیا خوف تھا اسے۔۔۔۔
" عروج بات سنو میری ، یار جب ساہر کے لیے تم اس گھر میں آ ہی چکی ہو تو اب مجھے دل سے معاف بھی کر دو ، جب خدا نے توبہ قبول کر لی میری پانچ سالوں کی شدتوں سے مانگی گئی معافی مجھے مل گئ ، ساحر اور تمہارے اس گھر میں واپس آنے کی دعا قبول ھو گئی ، میرے اللّٰہ نے مجھے بخش دیا تو پھر کیا تم مجھے معاف نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔؟؟؟
سوالیہ نظروں سے وہ اسے دیکھتا عجیب کشمکشِ میں دھکیل چکا تھا اسے آگلے ہی پل ایک جھٹکے سے اپنا ھاتھ اس کی گرفت سے آزاد کرواتی وہ اسے خود سے دور کر چکی تھی۔۔۔۔
" سوری مسٹر سعاد مرزا ، بٹ میں اتنے وسیع دل کی مالک نہیں ھوں نا ہی میرا طرف اتنا بڑا ھے جو سب کچھ بھلا کر آپکو معاف کر دوں اور نارمل کپل کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دوں ، دوبارہ مجھے چھونے یا قریب آنے کی ہمت مت کریے گا یہاں پر میں صرف ساحر کی بدولت موجود ھوں مت بھولیں اس بات کو ، تو بس ہمارا رشتہ بھی ساحر تک ہی محدود رہے گے۔۔۔۔"
سفاکی سے کہتی وہ پھر سے قدم اٹھانے لگی مگر سعاد کی بات اسکے بڑھتے قدموں کو روک دینے کا باعث بنی۔۔۔۔
" پلیز معاف کر دو یار ساحر اپنے ماں باپ دونوں کو اکھٹے خوش دیکھنا چاہتا ہے اور تم بول رہی ھو ہم دونوں ایک ہی گھر میں اجنبیوں کی طرح رہیں یہ کیسے ممکن ھو گا ، ان پچھلے پانچ سالوں میں پل پل مرا ہوں میں ،صرف میں جانتا ھوں وہ اذیت سہتے بھی سانسسوں کا تسلسل کیسے جاری رکھا ، کوئی ایک ایسا لمحہ نہیں ھوتا جب اپنے رب سے معافی نا مانگی ہو میں نے ، اپنے کیے گناہوں کی بہت بڑی سزا پا لی ھے ، تب ھو گیا جرم مانتا ھوں اس بات کو مگر اپنے بھائی کو کھو کر ویسے ہی آدھا مر چکا ھوں یار ، پلیز عروج اب تو سب کچھ بھول جاؤ میں جانتا ہوں یہ آسان نہیں لیکن کوشش تو کرو ، تمہیں ابھی تک مجھ سے محبت ہے مجھ معلوم ھے یہ بات تبھی تو تم واپس آ گئ ہو میرے پاس تاکہ میں زندہ رہ سکوں۔۔۔۔"
عروج کو کاندھوں سے تھامے وہ اسے یہ باور کروانے کی جدوجہد میں مصروف تھا کہ وہ ابھی بھی اس کے لیے جزبات رکھتی ھے اپنے دل میں۔۔۔۔
" ایسا کچھ بھی نہیں ہے میں یہاں پر اپنے بیٹے کے لیے آئی ہوں بس ، یہ اس کی خواہش تھی جو پوری کر دی میں نے ، اس کے علاؤہ کوئی خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"
نظریں چراتی وہ جھوٹ بول گئی۔۔۔۔
" جھوٹ مت بولو عروج میرا دل گواہی دیتا ھے تمہیں ھے مجھ سے محبت ، اگر صرف ساحر ہی وجہ ھوتا تو پھر تم میرے ساتھ انکھیں دوچار کرتے بات کیوں نہیں کر پا رہی ، میں بتاتا ھوں صرف اس ڈر سے کہ کہیں میں تمہاری آنکھوں میں موجود اپنے لیے محبت نا دیکھ لوں۔۔۔۔"
" آپکا مسلۂ کیا ہے کیوں نہیں سمجھ رھے میری بات ، ابھی کہا مجھے آپ سے کوئی سروکار نہیں، جتنی جلدی ھو اس بات کو قبول کر لیں آپ کے حق میں بہتر ھو گا۔۔۔۔"
اتنا کہہ عروج اپنے کاندھوں سے اس کے ھاتھ جھڑکتی واپس ساحر کے روم کی طرف جانے لگی اس کی بات سے ملنے والی اذیت کو سہتے سعاد نے غصے سے اپنا ہاتھ دیوار میں لگے کیل میں دے مارا اگلے ہی پل اسکے ہاتھ سے خون کسی فوارے کی طرح نکلنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔
عروج نے شور کی آواز سن کر پیشانی پر بل ڈالے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سعاد کے ہاتھ سے خون کے قطرے زمین پر گرتے دیکھ وہ بوکھلا اٹھی جھٹ سے وہ اس کے پاس پہنچی تھی۔۔۔۔
" ی۔۔۔ی۔۔۔یہ آپ نے کیا کیا سعاد ، کتنا خون نکل رہا ہے چلیں میرے ساتھ پلیز۔۔۔۔"
سردار کو بازو سے تھامے وہ اسے کھینچتی اپنے ساتھ لیجانے لگی مگر سعاد مضبوط قدموں کے ساتھ وہیں جما رھا۔۔۔
" کیوں چلوں میں، اب تمہیں کیوں تکلیف ھو رہی ھے جبکہ نفرت کرتی ہو تم مجھ سے ، تو پھر ٹھیک ہے نا خود کو روز سزا دیا کروں گا میں ، انجانے میں ایسا گناہ جو کر دیا ہے جس کی معافی شاید میری قسمت میں موجود نہیں۔۔۔۔"
عروج کو سرخ نظروں سے دیکھتا وہ اپنا کرب اس پر عیاں کر رھا تھا۔۔۔
" تو کیا ایسے خود کو سزا دینے سے آپ کو معافی مل جائے گی ، بس کریں ضد کرنا اور چلیں میرے ساتھ ، کتنا خون ضائع ھو رھا ھے۔۔۔۔"
سعاد کو بہلا کر وہ اسے اپنے ساتھ لیجانے کی کوشش میں مصروف تھی جو شاید ہی ممکن ھو پاتی۔۔۔۔
" پلیز چلی جاؤ تم یہاں سے ، خیرات میں دی گئی تمہاری توجہ نہیں چاھیے مجھے ، ایسی تکلیف روز خود کو دیتا آ رہا ہوں تب کونسا میری فکر کرنے والا کوئی وجود میرے پاس موجود ہوتا تھا تو۔۔۔۔"
" اب میرے سامنے ایسی حرکتیں کرنے کا مطلب ، اب تو میں اور ساحر یہاں آ گئے ھیں رہنے پھر۔۔۔۔"
" یہاں پر بھی تم صرف ساحر کی ماں کی حیثیت سے رہو گی ، معاف تو اب بھی تم مجھے نا کر سکی ، بتاؤ کیا کر رہی ہو تم مجھے معاف اور رہو گی اس گھر میں میری بیوی کی حیثیت سے۔۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کے سوال پر وہ نیچے نظریں جھکائے اس کی بازو کو چھوڑ کر دور کھڑی ہو گئ۔۔۔۔
" ٹھیک ہے آپ کی مرضی جب دل کرے بینڈج کر لیں۔۔۔۔"
بولنے کے ساتھ ہی وہ پلٹی وہیں سعاد نے جھٹ سے اسکے ہاتھ کو پکڑ کھینچ کر اسے خود کے قریب کیا اچانک ہی نظروں کا باہم تصادم ھوا اس کی لہو زنگ آنکھوں کو دیکھتی وہ گھبرا کر اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔۔
" تمہیں ذرا ترس نہیں آتا میری حالت پر ، کس اذیت سے گزر رہا ہوں میں ہر پل ، کوئی پرواہ نہیں تمہیں۔۔۔۔"
بھرائے ھوئے لہجے میں بولتے وہ اس سے سوال گو تھا ، عروج کو اسکی آواز کسی گہرے کنویں کے آتی محسوس ھوئی۔۔۔۔
" سعاد پلیز مجھے چھوڑیں۔۔۔۔"
عروج بھی اپنے آنسوؤں کو کنٹرول کرتی اپنی کمر کے گرد حائل اس کی بازو نکالنے کی کوشش میں مصروف تھی لیکن سعاد بھی آج عروج کو اس کے دل میں ابھی بھی اپنے لیے محبت ثابت کیے بغیر چھوڑوانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا عروج کے احتجاج کو بڑھتا محسوس کر وہ ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کر چکا تھا۔۔۔۔
" مر جاؤں گا میں تمہاری نفرت کو سہتے ھوئے ، اب زرہ بھی نہیں ہمت نہیں باقی مجھ میں ، شاید میرے مرنے کے بعد ہی رحم کھا کر تمہارا دل مجھے معاف کر دے۔۔۔۔"
سنجیدگی سمیت سعاد کی کس اذیت کی انتہا سے کہی گئی یہ بات عروج کے دل کو مٹھی میں دبوچ لینے کا باعث بنی ، اپنی آنکھون میں در آئے سفید موتیوں کو لیے اس نے سعاد کو دیکھتے جھٹ سے اسے خود میں بھینچ لیا اس کے سینے میں سر دیے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔۔۔۔
" پلیز ایسے مت کہیں ، سعاد مت کہیں۔۔۔۔"
عروج کو یوں اپنے گلے لگا دیکھ سعاد اپنی آنکھوں پر کوئی قابو نا رھا آنسو بے اختیاری میں بہنے لگے مگر اب ان میں فرق تھا یہ ندامت کے نہیں خوشی کے آنسو تھے ایک پرسکون سی مسکراہٹ اس کے لبوں کا احاطہ کر گئی۔۔۔
" عروج تو کیا تم نے مجھے معاف کر دیا۔۔۔۔؟؟؟
" ہاں سعاد جی میں نے آپکو معاف کر دیا ان پانچ سالوں میں اپنے دل میں آپ کے لیے نفرت پیدا کرنے کی بہت کوشش کی میں نے لیکن میرے دل میں آپکے لیے محبت اس قدر تھی جس کی جگہ نفرت ہر بار لینے میں ناکام ہو جاتی۔۔۔۔"
" تھینک یو سو مچ عروج مجھے معاف کرنے کے لیے اور واپس میری زندگی میں آنے کے لیے۔۔۔۔"
آنکھیں بند کیے اسکے بالوں میں بوسہ دیتے وہ عروج کا شکریہ ادا کر رہس تھا تبھی عروج کی نظر اسکے زخمی ہاتھ پر پڑی ، فوراً ا اسے جدا ھو کر وہ اس کی بازو پکڑ جلدی سے اپنے ساتھ کمرے میں لے آئی اور بیڈ پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی خود ڈرا سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر وہ سعاد کے ہاتھ کا زخم صاف کرتی اس کی پٹی کرنے لگی اپنے فکر میں اسے ہلکان ھوتا دیکھ سعاد دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتا بس محبت بھری نظریں اسی پر جمائے ھوئے تھا اچھے سے پٹی باندھ وہ فرسٹ ایڈ باکس اس کی جگہ پر رکھتی اٹھ کھڑی ھوئی۔۔۔
" اب آپ آرام کریں میں لائٹ آف کر دیتی ہوں۔۔۔۔"
وہ واپی کو پر تول رہی تھی۔۔۔۔
" تم کہاں جا رہی ہو یار کیا اب بھی تم میرے ساتھ اس کمرے میں نہیں رہنا چاہتی۔۔۔۔؟؟؟
" وہ سعاد جی اکچولی میں ساحر کو دیکھ آؤں اور ویسے بھی صبح اپنی ماما کو نا پا کر وہ فکر مند ہو جاۓ گا۔۔۔۔"
وہ اچانک ایک مرتبہ پھر سے سعاد کے قریب آتے ہوۓ ہچکچا رہی تھی اسی وجہ سے ساحر کا بہانا لگا کر آج کی رات وہ وہی پر ہی سونے کا ارادہ رکھتی تھی جبکہ سعاد فوراً بیڈ سے اتر کر اس کے مقابل کھڑا ہوتے عروج کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں پکڑے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
" اتنے عرصے بعد مجھے میری عروج ملی ہے جانتی ھو کتنا بے سکون ھوں میں ، کسی ویران بنجر زمین کی مانند ، آج اپنے سعاد کو اپنی زرہ سی محبت سے شاداب کر دو بس اتنی سی تمنا ہے میری۔۔۔۔"
عروج سعاد کی بات سن چہرے پر بکھری سرخی کو چھپاتی وہ اس سے الگ ھو کر دروازے کی جانب بڑھی مگر سعاد لپک کر اسکی کمر میں بازو حائل کرتا ھاتھ اس کے پیٹ پر رکھ چکا تھا ، اپنا چہرہ جھکائے ہلکے سے عروج کی گردن پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے وہ اس کے کان پر بھی اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا سرگوشی کرنے لگا۔۔۔۔
" آئی لو یو عروج ترس چکا ہوں تمہاری قربت کے لیے آج میرے اندر کے خالی پن کو اپنی محبت سے بھر دو یار ، ہمیشہ احسان مند رھوں گا تمہارا۔۔۔"
اپنی بات کہنے کے ساتھ ہی وہ اس کے بالوں کو ایک کاندھے پر ڈالتے اب اس کے کاندھے کو اپنے لبوں کو چھونا شروع ھو گیا وہیں اس کے لمس پر تڑپتے وہ اس کا ھاتھ اپنے پیٹ سے ہٹا کر چہرے کا رخ اس کی جانب کیے سر جھکائے اسے پھر منع کرنے لگی۔۔۔۔
سعاد نے بے خود ھوتے اسکے نرم و نازک گلابی ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھتے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ساتھ ہی وہ عروج کی پیشانی کو چومتے ہوۓ اپنا بڑھاؤ رفتہ رفتہ اس کے حیا کی سرخی لیے رخساروں کی طرف ھونے لگا ، اس کی قربت میں عروج کی سانسیں بے ترتیب ھونے لگیں ، دل تھا کہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کا ارادہ رکھتا تھا اس کی حالت سے باخبر وہ آج اپنی من مانیاں پوری کیے بغیر عروج کو چھوڑنے نہیں والا تھا۔۔۔
نرمی سے اسے اپنی گود میں بھر کر وہ اسے بیڈ کے قریب لایا اور اسی نرمی سے اسے لیٹانے کے ساتھ ہی وہ اس کے نازک ھاتھوں کو عروج کے چہرے سے پیچھے کرتے انھیں چومتا باری باری اس کی آنکھوں پر بوسہ دینے لگا۔۔۔۔
" اب مجھے بس ایک ننھی سے بالکل تمہارے جیسی گڑیا چاہیے عروج ، کیونکہ ساحر کے بچپن کو انجواۓ کرنا میرے نصیب میں نا تھا بٹ اپنی گڑیا کے ساتھ سب سے زیادہ میں ہی وقت گزاروں گا۔۔۔۔"
عروج سعاد کی بات پر مزید سرخ پڑنے لگی اس کا روشن چہرہ لمپ کی روشنی میں کچھ زیادہ سے خوبصورت دیکھائی پڑ رہا تھا ، ہلکا سا مزید جھکتا وہ اس کی گال پر اپنا ایک ھاتھ رکھ کر نرمی سے اس کے لبوں کو قید کرنے لگا کہ اچانک کسی آندھی طوفان کی طرح ماما ماما کی گردان لگاتا ساحر ان کے کمرے میں گھس کے بھاگ کر بیڈ پر چڑ گیا ساحر کو دیکھ فوراً سے عروج اٹھ بیٹھی اور سعاد بھی بیڈ سے دور کھڑا ھو گیا۔۔۔۔
" کیا ہوا میرے بے بی کو۔۔۔۔؟؟؟
سعاد کو ایک نظر دیکھتی وہ ساحر سے سوال کرنے لگی۔۔۔
" ماما وہ میرے روم میں کوئی موشٹل تھا۔۔۔"
ساحر کے توتلے پن کو سعاد نا سمجھ پاتے ہوئے فکر مند ھو گیا۔۔۔"
" میرے بچے کیا چیز ہے وہاں پر ، میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں۔۔۔"
سعاد کو قدم اٹھاتے محسوس کرتا ھاتھ بڑھا کر وہ ھنستے ھوئے اس کی بازو پکڑ چکی تھی۔۔۔
" سعاد جی جب بھی ساحر روم میں اکیلا ہو تو اسے ایک مونسٹر دیکھائی دیتا ہے جو کے صرف اس کی ایمیجینشن ہے آپ بے فکر رھیں۔۔۔۔"
" ماما نہیں بلیو می ، سچ میں وہاں پر ہے وہ ، اس لیے وہ میں بھی یہی پر ہی سوؤں گا۔۔۔"
ساحر کی فرمائش پر سعاد جھٹ سے گویا ھوا۔۔۔۔
" نا میرا بچہ آپ تو بہت بریو ہو تو پھر بریو بچے اکیلے سوتے ہیں جاؤ جا کر تم اپنے روم میں سو جاؤ اور ماما بابا کو بھی سونے دو۔۔۔۔"
" نہیں بابا مجھے یہی سونا ہے آپ لوگوں کے ساتھ پلیز ماما۔۔۔"
عروج کے سینے پر سر رکھتے وہ ضدی انداز میں بولا۔۔۔۔
" ہاں ساحر ٹھیک ہے آپ ماما اور بابا کے ساتھ سو جاؤ۔۔۔۔"
عروج کی بات پر سعاد کا منہ بن گیا۔۔۔۔
" ٹھیک ہے میرے شیر چلو سو جاؤ تم بھی بٹ ساحر تمہیں ایک ننھی منھی سی بہن نہیں چاہیے کیا جس کے ساتھ تم کھیل سکو وہ بھی بہت سارا۔۔۔۔"
ساحر کے پاس آتے اسکے بالوں کو بگاڑتے ھوئے وہ شرارت سے بولا۔۔۔۔
" ہاں بابا مجھے چاہیے بٹ بہن نہیں بھائی کیونکہ لڑکیاں تو گڑیا کے ساتھ کھیلتی ہیں ، یہ گیم مجھے پسند نہیں۔۔۔۔"
ساحر بھی سعاد کے قریب ھوتا اس سے اپنی فرمائش کرنے لگا۔۔۔۔
" ہاں تو یہی تو میں کہہ رہا ہوں اگر میرے شیر کو ایک چھوٹا شیر چاہیے تو پھر اسے اکیلے سونا ہو گا کیونکہ اس روم میں ایک ننھی سی پری آتی ہے جو کے آپ کے ماما کے پیٹ میں آپ کا بھائی چھوڑ جاۓ گی۔۔۔۔"
" کیا بابا سچ میں فائری آۓ گی۔۔۔۔"
" ہاں بے بی سچ میں۔۔۔۔"
سعاد کی باتیں سن سن کر عروج شرم کے مارے پانی پانی ہو رہی تھی وہیں ساحر بھی سعاد کی باتوں پر بھروسہ کر بیٹھا۔۔۔۔
" بابا مجھے بھی وہ پری دیکھنی ہے۔۔۔"
" نو ساحر وہ بچوں کے سامنے نہیں آتی اس لیے اگر تمہیں بہن یا بھائی چاہیے تو تھوڑا بہت سیکریفائس تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔"
" ٹھیک ہے بابا میں اکیلے سو جاؤں گا۔۔۔"
کہنے کے ساتھ ہی فوراً ساحر بیڈ سے نیچے اتر گیا۔۔۔
" بابا آپ نا اس پری کے ساتھ پک لے لیجئے گا میں بعد میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔
" ساحر کی بات پر سعاد نے ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا کہہ کر اسے اپنی گود میں اٹھایا اور اس کے روم میں چھوڑ کر سونے کا بولا واپس اپنے روم میں آ کے دروازہ لاک کر دیا۔۔۔۔
" تو اب عروج ساحر کے بہن یا بھائی کو لانا ہی پڑے گا یار ، پرامس جو کیا ہے۔۔۔۔"
عروج کے سامنے بیٹھتا وہ ایک آنکھ دباتے ھنسنے لگا۔۔۔
" سعاد جی آپ بھی نا بہت ناٹی ھیں ، ساحر کے سامنے کیا کیا کہہ دیا۔۔۔"
" ہاں تو کیا میرا بچہ ہے وہ اور دیکھو یار اپنے بہن یا بھائی کے لیے ابھی سے ہی سیکریفائس کرنا شروع ہو گیا ہے وہ۔۔۔"
" ھاں یہ تو آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔۔"
عروج نے بھی اسکی ھاں میں ھاں ملائی جبکہ اگلے ہی پل وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔
" اب سے تم خاموش رہو گی عروج اور میں جو بھی کرنا چاہتا ہوں اس سے تم مجھے ہر گز نہیں روکو گی آج کی رات خود کو میرے حوالے کر دو پلیز یار۔۔۔۔"
لیمپ کو بند کرتے وہ اس کے لبوں کو قید کرتا عروج کو اپنی محبت کی دنیا میں آج کی رات کے لیے لے گیا وہ بھی دل کی آمادگی سے خود کو اس کے سپرد کر چکی تھی۔۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟
"دو سال بعد۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے وہ فریش ہو کر اپنے نم بال کھلے چھوڑے کمرے سے باہر نکلی تو ساحر اور براق کو ان کے روم میں نا پا کر وہ فکر مندی سے سارے گھر میں انھیں تلاش کرنے لگی لیکن کہیں پر بھی ان دونوں کو نا پا کر آخر میں گھر کے بیک یارڈ میں وہ پہنچی تو ساحر زمین پر بیٹھا کچھ کر رہا تھا اور پاس ہی براق بھی زمین پر ہی اس نے بیٹھا دیا تھا وہ ایسے ہی ہر وقت اپنے بھائی کو لیے پھرتا رہتا تھا ویسے تو صرف وہ 6 سال کا تھا مگر اپنی عمر سے دوگنا محسوس ھوتا۔۔۔۔
ان دونوں کو دیکھ سکون کا سانس لیتی وہ ساحر کو پکار چکی تھی اس کی آواز سن ساحر ڈر کر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے کانچ کے ٹکڑے کو زمین پر گرا دیا۔۔۔۔
" کیا کر رہا تھا میرا بے بی صبح صبح۔۔۔۔؟؟؟
پیار سے سوال کرتی جب وہ ساحر کے قریب پہنچی تو زمین پر مردہ ھو چکی چڑیا کے ہاتھوں کو الگ کیا گیا تھا جبکہ اس کے پیٹ کو بے دری سے چھیرا ھوا تھا یہ منظر دیکھ تاؤ میں آتے کاندھوں سے پکڑ وہ اسے جھنجھوڑنے لگی۔۔۔۔
" یہ کیا کیا تم نے۔۔۔۔؟؟؟
عروج کے غصے سے ڈرتے وہ اپنی نظریں جھکائے گویا ھوا۔۔۔۔
" ماما اس نے براق کو مارا وہ دیکھیں اس کے چہرے پر نشان ھیں ، اس لیے میں نے اس کے ھینڈز ہی کاٹ دیے جو بھی میرے بھائی کی طرف بری نظر سے دیکھے گا بھی میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔"
ساحر کی آنکھوں میں سعاد سے بھی زیادہ اپنے بھائی کے لیے جنونیت کو دیکھ عروج خوف زدہ ہو گئ۔۔۔۔
ختم شد۔۔۔۔۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Main Tera Hi Mujrim Hua Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Main Tera Hi Mujrim Hua written by Malisha Rana . Main Tera Hi Mujrim Hua by Malisha Rana is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment