Wo Aashiqui Hai Meri By Malisha Rana Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Wo Aashiqui Hai Meri By Malisha Rana Complete Romantic Novel |
Novel Name: Wo Aashiqui Hai Meri
Writer Name: Malisha Rana
Category: Complete Novel
وہ جب اپنے کمرے میں داخل ھوا تو اس کی نظر سامنے زمین پر بے ھوش پڑے وجود پر ٹھہر سی گئی جسے وہ دو گھنٹے پہلے بری طرح مار پیٹ کر گیا تھا۔۔۔۔۔
مگر اب جب غصہ ختم ھو گیا تو اپنی جان سے عزیز بیوی کو یوں زمین پر بے سدھ پڑا دیکھ کے اسے اپنی سانس رکتی ھوئی محسوس ھوئی۔۔۔۔۔
"اینجل اینجل اٹھو میری جان !!!
اس نے اپنی بیوی کے گالوں کو ہلکا سا تھپتھپاتے ھوئے اسے ھوش میں لانے کی کوشش کی مگر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ھو رھا تھا۔۔۔۔۔
"آئی ایم سوری آئی ایم ایکسٹریملی سوری مائے اینجل !!! "پلیز یار اٹھو میں مر جاؤں گا تمہارے بغیر بہت برا ھوں نا میں بٹ یار میں تمہیں کھو نہیں سکتا اتنی ہمت نہیں ھے مجھ میں۔۔۔۔۔" زندگی میں ایک واحد تمہارا رشتہ ہی ھے میرے پاس۔۔۔۔۔"
وہ مسلسل اپنی بیوی کو ھوش میں لانے کی جدو جہد میں مصروف کبھی اس کے نیل پڑے گال کو تھپتھا کر تو کبھی اس کے پورے چہرے کو اپنے ھونٹوں سے چھو کر۔۔۔۔۔
کتنا کرب تھا اس وقت اس کی آواز میں کتنی وحشت تھی اس کی نظروں میں جیسے کسی انمول چیز کو کھو دیکھنے کا خوف ھو۔۔۔۔۔۔۔
وہ دیوانہ وار اپنی محبت ھونٹوں کے ذریعے اپنی اینجل کے چہرے پر نچھاور کر رھا تھا جس سے اب اس کی بیوی کے جسم میں ہلکی ہلکی سے حرکت محسوس ھونے لگی تھی شاید یہ اس کی محبت کی ہی شدتوں کا اثر تھا کہ وہ اب ھوش میں آنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی بیوی کو اپنے سینے سے اسی طرح چپکائے رو رو کر اسے ھوش میں لانے کی کوشش کر رھا تھا کہ وہ ھوش میں آ کر ایک بار پھر بے ھوش ھو جاتی اتنی ہی سختی سے وہ اسے اپنے سینے سے لگائے زمین پر بیٹھا مسلسل بول رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
"پلیز یار ایک بار ٹھیک ھو جاؤ آئی پرومس میں دوبارہ ایسے کبھی نہیں کروں گا پلیز اینجل پلیز یار۔۔۔۔۔"
اب اس نے بولتے ھوئے ایک پل کے لئے اپنی بیوی کو خود سے الگ کیا تو اچانک اس کی نظر اپنی بیوی کے ھونٹ کے کنارے پر جمے خون پر گئی۔۔۔۔۔۔
جو شاید بہہ بہہ کر اب جم چکا تھا بس یہ خون دیکھنے کی دیر تھی وہ ایک بھی سیکنڈ ضائع کیے بغیر فوراً جھکا اور اپنے ھونٹوں کو اس زخم پر رکھ دیا شاید یہ بھی ایک طریقہ تھا اپنی طرف سے مرہم لگانے کا۔۔۔۔۔۔
جبکہ اس کے ایسا کرنے کی دیر تھی اس کی بیوی جو ھوش میں آنے کی کوشش کر رہی تھی فورآ آنکھیں کھول کر لمبے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔۔۔۔
" پ۔۔۔۔۔پانی !!!
کچھ دیر اسی طرح سانس لینے کے بعد جب اس کی حالت کچھ سمبھلی تو بہت آہستہ سے اس کے لبوں سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا ھوئے جسے سنتے ہی اس کے شوہر نے ایک بھی پل ضائع کیے بغیر جلدی سے اسے اپنی گود میں اٹھایا اور بیڈ پر بیٹھا کر پانی کا گلاس اپنی اینجل کے لبوں سے لگا دیا جسے وہ ایک ہی سانس میں ختم کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر جیسے ہی اس نے نظر اٹھا کر اپنے شوہر کو دیکھا تو ڈر کر نہیں نہیں کرتی بیڈ کی پشت کے ساتھ چپک کر آنکھیں بند کیے بری طرح کانپنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
اس کے کپکپاتے ھونٹ مسلسل کچھ بول رھے تھے جن کی آواز اتنی کم تھی جو اس کے شوہر تک پہنچنے میں ناکام ھو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
" سوری یار میں ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا بٹ تم بھی تو ہمیشہ ضد کرنے لگتی ھو تمہیں پتہ ھے نا کہ مجھے بحث کرنے سے کتنی نفرت ھے غصہ آ جاتا ھے مجھے پھر بھی تم مجھے سمجھتی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔"
" آئی لو یو اینجل آئی رئیلی لو یو"
" تم تو اینجل ھو نا میری تو سمجھا کرو نا مجھے۔۔۔۔۔"
وہ تیزی سے اپنی اینجل کے پاس گیا اور پھر زبردستی اسے سینے سے چپکا کر کسی پاگل جنونی انسان کی طرح بولتے ھوئے اس کی کمر سہلانے لگا۔۔۔۔۔
اگر کوئی نارمل انسان اس کے اس روپ کو دیکھ لیتا تو یقیناً اسے ایک مکمل سائیکو انسان کا خطاب دیتا ایسے ہی برتاؤ کر رھا تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔
"اینجل میں بہت اکیلا ھوں کبھی کوئی رشتہ نہیں ملا مجھے اس معاملے میں میں ہمیشہ سے بہت غریب رھا ھوں لیکن جب تم ملی نا مجھے تو مجھے لگا مجھے میری دنیا مل گئی مجھے بھی کوئی ایسا رشتہ مل گیا جو مجھے سمجھے گا جو ہمیشہ میرے ساتھ رھے گا جو مجھے محبت کرے گا۔۔۔۔۔"
" تم کرتی ھو نا مجھ سے محبت اینجل کہیں تم آج کے بعد مجھ سے نفرت تو نہیں کرنے لگو گی۔۔۔۔ "
اس نے ایک پل کے لئے اپنی اینجل کو خود سے الگ کر کے اس کی خوفزدہ نظروں میں اپنا جواب ڈھونڈنا چاہا جبکہ اس کی بیوی مسلسل ڈر سے کانپ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"میں یہ برداشت نہیں کر پاؤں گا اینجل میں مر جاؤں گا
اینجل یا اس دنیا کو آگ لگا دوں گا تمہیں ہمیشہ میرے پاس رہنا ھے کیونکہ تم میری ھو محبت کرتی ھو مجھ سے تو میری ہر برائی سمیت مجھے برداشت کرو گی۔۔۔۔"
" محبت کرتی ھو نا مجھ سے اینجل میں سہی کہہ رھا ھوں نا میں ؟؟؟
اس نے دوبارہ سے اپنی بیوی کو کاندھوں سے تھام کر اس سے وہی سوال کیا مگر اس دفعہ ھاتھوں میں سختی واضح طور پر اس کی اینجل اپنے کاندھوں پر محسوس کر سکتی تھی تبھی ڈر اور خوف سے وہ تیزی سے اپنے سر کو ھاں میں ہلا کر اپنے شوہر کو یقین دلانے لگی۔۔۔۔۔
جبکہ اس کے ایسا کرنے سے اس کا شوہر ایک بار پھر آگے کو جھکا اور پھر سے اپنی ایجنل کے ھونٹ کے زخم کو وہ اپنے ھونٹوں سے چھونے کے بعد اپنا سر اس کی گود میں رکھ چکا تھا اب اس کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔۔۔۔۔۔
تمہاری قربت ہی میرا سکون ھے اینجل جب میں تمہارے قریب ھوتا ھوں نا تو میں بالکل وہ شخص نہیں ھوتا جو میں اس دنیا کے سامنے ھوتا ھوں جس سے یہ سب لوگ ڈرتے ھیں۔۔۔۔۔"
" مجھے کسی بات سے کوئی لینا دینا نہیں ھے کچھ بھی نہیں چاھیے مجھے میں تو صرف اپنی اینجل کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ھوں اس سے عشق کرنا چاہتا ھوں اور بدلے میں اس کی محبت چاہتا ھوں یہ تو کوئی ناجائز فرمائش نہیں ھے نا ایجنل اتنا تو حق میرا بھی بنتا ھے نا۔۔۔۔۔۔"
" اب تمہیں ہمیشہ میرے ساتھ رہنا ھے اینجل کیونکہ تم تو میری اینجل ھو اور میں تمہارا ڈائمن۔۔۔۔۔"
👻👻👻👻👻👻👻👻👻👻
"کیا کیا کر کیا رھے تم لوگ پچھلے 24 گھنٹوں سے ؟؟؟
" تم سب کو پتہ بھی ھے کہ مشہور پولیٹیشن رضا میر کا بیٹا کڈنیپ ھوا ھے کوئی عام شخص نہیں جسے اگر وقت پر نہ ڈھونڈا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔
" تم لوگ جانتے بھی ھو کہ کیا حیثیت رکھتا ھے رضا میر اور اگر صادق میر (رضا میر کا بیٹا) سہی سلامت نہ ملا تو ہم سب کے ٹرانسفر تو ھوں گے ہی ھوں گے ساتھ ساتھ اس شہر میں ہی ناجانے کتنے ہنگامے ھو جائیں گے۔۔۔۔۔"
ایس پی سرفراز پچھلے 2 گھنٹے میں کوئی 15 بار یہ بات رپیٹ کر چکے تھے انھیں یہ سوچ سوچ کر ہی انتہائی ٹینشن ھو رہی تھی کہ اگر صادق میر انھیں سہی سلامت واپس نہ ملا تو حالات کس قدر بگڑ جائیں گے۔۔۔۔۔۔
"سر ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رھے ھیں لیکن ہمیں ایسا کوئی سراغ نہیں مل رھا جس سے ہم ان کی لوکیشن ٹریس کر سکیں۔۔۔۔۔"
"نا جانے کہاں غائب ھو گئے ھیں وہ لوگ "
اے ایس پی مراد انتہائی پریشانی سے اپنی رپورٹ دینے لگے جبکہ بے زاریت ان کے چہرے پر بالکل واضح نظر آ رہی تھی پچھلے چوبیس گھنٹوں سے وہ لوگ صرف کام ہی کرے جا رھے تھے نہ کھانے پینے کی فکر تھی اور نہ ایک بھی منٹ آرام کر سکے تھے لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ خالی ھاتھ بیٹھے تھے یہی بات اے ایس پی مراد کو غصہ دلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
" سر یہ کام اگر کسی عام انسان کا یا کسی چھوٹے موٹے گنڈے کا ھوتا تو اسے پکڑنا ہمارے لئے بائیں ھاتھ کا کام تھا یوں چٹکیوں میں پکڑ لیتے ہم اسے لیکن صادق میر اس دفعہ ایول ڈائمن کے ہتھے چڑھا ھے اور ڈائمن اپنا کام کیے بغیر اسے چھوڑے گا نہیں تو میرے خیال میں ہمیں یہ سب کوشش بند کر کے کسی انتہائی فیصلے کے ھونے کا انتظار کرنا چائیے کیونکہ میں جتنا ایول ڈائمن کو سمجھ چکا ھوں تو وہ صادق میر کو زندہ تو نہیں چھوڑے گا اور میرے خیال میں یہ ایک طرح سے سہی ہی ھے وہ زندہ رھنے کے قابل ھے بھی نہیں امیر باپ کی بگڑی اولاد اچھا ہی ھے مر جائے ورنہ ناجانے کتنی لڑکیوں کی عزتوں کو پامال کرتا وہ نیچ شخص۔۔۔۔۔۔"
انسپکٹر فرحان انتہائی نفرت سے بولے انھیں صادق میر جیسے شخص سے انتہا کی نفرت تھی مگر وہ اس حیثیت میں نہیں تھے کہ صادق میر کا کچھ بگاڑ سکتے اور اب جب یہ کام خود ایول ڈائمن کر رھا تھا تو وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے جبکہ ان کی یہ بات ایس پی سرفراز کو غصہ دلا گئی تبھی وہ انسپکٹر فرحان کو کھرکھری سنانے لگے جو انھوں نے سن تو لیں مگر دل میں وہ ایول ڈائمن کی اس حرکت سے کتنا خوش تھے یہ تو بس وہ ہی جانتے تھے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منظر تھا ایک ریڈ روم کا جہاں کی ہر چیز سرخ تھی دیواروں پر ھوئے پینٹ سے لے کر وہاں جلتے بلب کی روشنی تک سرخ رنگ کی تھی۔۔۔۔۔
اس کمرے کے بالکل درمیان میں ایک کرسی پڑی تھی جس پر کسی کو باندھ کر رکھا گیا تھا وہ شخص یقیناً اپنے ھوش وحواس میں نہیں تھا تبھی یوں بے سدھ کرسی کی پشت پر سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
ابھی ناجانے وہ اور کتنی دیر تک بے ھوش رہتا جب کسی نے اس کے منہ پر بالٹی (جس میں آئس ڈالا پانی تھا) اٹھا کر سارا پانی انڈیل دیا جس سے وہ کھانستے ھوئے ھوش میں آیا اور پھر لمبے لمبے سانس لیتے اپنے ادر گرد کا جائزہ لینے لگا تو اسے اپنے سامنے ایک شخص کھڑا نظر آیا جو شاید اسی کمرے کے ایک کونے میں پڑی ٹیبل سے کچھ اٹھا رہا تھا اور پھر وہ چلتے ھوئے اس کے پاس آیا اور ایک لکڑی کی کرسی کھینچ کر اس کے بالکل سامنے بیٹھ گیا۔۔۔۔
"میں کہاں ھوں اس وقت یہ کونسی جگہ ھے میں تو رات کو بار سے باہر نکل رھا تھا پھر کسی نے مجھے کلوروفارم تو تو نے مجھے کڈنیپ کیا ھے مگر کیوں ؟؟؟
"یہ جرآت کرنے سے پہلے تجھے میرا بیک گراؤنڈ چیک کرنا چاھیے تھا کہ کیا حیثیت رکھتا ھوں میں "
" ویسے ھے کون تو اور کیوں کیا تو نے مجھے کڈنیپ ؟؟؟
"دیکھ چھوڑ دے مجھے تو جانتا نہیں ھے کہ تو کس سے پنگا لے رھا ھے میرے باپ کو جب تیرا پتہ چلے گا تو وہ تجھے اتنی بھیانک موت دے گا کہ تیری روح تک کانپ جائے گی "
" آخر تیری دشمنی کیا ھے میرے ساتھ کیوں پکڑا کر لایا ھے تو مجھے "
کرسی پر بندھا صادق میر چیختے ھوئے خود کو آزاد کروانے کی بھرپور جدوجہد کرنے میں مصروف تھا جبکہ اس کے سامنے موجود شخص بس سنجیدہ چہرے کے ساتھ اس کی ہر کوشش بغیر کوئی جواب دیے دیکھے جا رھا تھا۔۔۔۔۔
" بک بھی منہ میں زبان نہیں ھے تیرے "
صادق میر جب کافی دیر تک اس شخص کے جواب کا انتظار کرتا رھا مگر بدلے میں صرف اسے خاموشی ملی تو وہ غصے سے لال پیلا ھوتے ھوئے دھاڑا۔۔۔۔
جس کے جواب میں وہ شخص صادق میر کو دیکھ کر پر اسرا مسکراہٹ چہرے پر لائے کھسک کر کچھ آگے کو ھوا اور پھر صادق میر کے چہرے کو بغیر پلکیں جھپکائے غور سے دیکھنے لگا۔۔۔۔
کافی دیر تک اسے یوں ہی دیکھتے رھنے کے بعد اس شخص نے صادق میر کے چہرے پر زور کی پھونک ماری اور پھر قہقہ لگاتے ھوئے واپس اپنی جگہ پر آیا۔۔۔۔
عجیب سی چمک تھی اس کی نظروں میں جب وہ صادق میر کو گھور رھا تھا جیسے کوئی شکاری اپنے شکار کو چمکیلی نظروں سے دیکھتا ھے۔۔۔۔
صادق میر کو وہ کوئی سائیکلو لگا اس کا برتاؤ بھی تو کسی نارمل انسان جیسا نہیں تھا اس وقت اس سائیکو شخص کے ساتھ اس خوفناک جگہ پر اکیلے رہنے پر صادق میر کو واقعی میں ڈر لگا وہ بس یہاں سے نکلنا چاہتا تھا تبھی ایک بار پھر سے خود کو آزاد کرنے کے لئے وہ ھاتھ پاؤں چلانے لگا۔۔۔۔۔
" یار کون ھے تو ؟؟؟
"چھوڑ دے مجھے اگر تجھے پیسے چاہیے تو میرا باپ دے دے گا تجھے ,اور تیری ڈیمانڈ سے بڑھ کر ہی وہ رقم ھو گی لے لے جو تجھے چاھیے بس مجھے جانے دے "
صادق میر جب ایک دفعہ پھر سے کوشش کرتے ھوئے تھک گیا تو کچھ آرام اور تحمل سے بات کرنے لگا۔۔۔۔ صادق میر کی بات سنتے ہی وہ شخص پھر سے آگے کو جھکا اور اپنے ھاتھ میں موجود چھوٹی سی چھری ٹائپ اوزار (جو آپریشن کے لیے استعمال ھوتا ھے ) اسے صادق میر کی گردن پر رکھ کر ہلکا سا دبایا جس سے صادق میر کی چیخ نکل گئی مگر اس کی چیخ اس شخص کی باروعب آواز میں کہیں دب سی گئی۔۔۔۔۔
" جان چاہیے تیری یہ دے دے مجھے "
" تو جاننا چاہتا ہے نا کہ کون ھوں میں اور تجھے کڈنیپ کیوں کیا ھے تو سن "
" ڈائمن ایول ڈائمن ھوں میں !!!
" جو تجھ جیسے گندی نالی کے کیڑوں کو ان کے انجام تک پہنچاتا ھے , تجھ جیسے گند کی اس دنیا میں کوئی ضرورت نہیں ھے کیونکہ جب تک تو زندہ رھے گا تب تک صرف برائی ہی پھیلائے گا ویسے کتنی عجیب بات ھے نا کہ میرے کا مطلب بدترین شیطان ھے لیکن کام میں تجھ جیسی برائی ختم کرنے کا کرتا ھوں "
" تیرے پاپوں کا گھڑا اب مکمل بھر چکا ھے تو اب تیار ھو جا ان پاپوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے"
ڈائمن بولنے کے ساتھ ہی سنجیدہ خوفناک تاثرات چہرے پر سجائے اٹھا اور پھر صادق میر کا دایاں ھاتھ رسی سے آزاد کروا کر سامنے پڑی کرسی پر رکھا جہاں وہ خود بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
" انھی ھاتھوں سے تو ان لڑکیوں کو چھوتا ھے نا , انھی سے تو انھیں احتجاج کرنے پر مارتا پیٹتا ھے اور پھر انھی ھاتھوں سے انھیں پولیس کی دھمکی دینے پر جان سے مار دیتا ھے"
" سہی کہہ رھا ھوں نا میں ؟؟؟
" چل ایک گیم کھیلتے ھیں دیکھتے ھیں کہ تیری قسمت کتنی اچھی ھے "
پہلے تو ڈائمن دانت پیسنے کے ساتھ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ھوئے بول رھا تھا مگر بعد میں پراسرار مسکراہٹ لئے صادق میر کی آنکھوں میں دیکھتے ھوئے کہا جبکہ اس کے ھاتھوں میں موجود وہی چھوٹی سی چھری دیکھ کر (جسے ڈائمن اس کے ھاتھ کے پاس لے جا رھا تھا) صادق میر چیختے ھوئے ڈائمن کی منتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔
" ارے ارے ڈر کیوں رھا ھے تو تیری قسمت ہی تو آزما رھا ھوں میں کیا پتہ تو لکی ھو اور بچ جائے "
ڈائمن نے صادق میر کو پیار سے پچکارا جبکہ وہ اب مکمل کانپنا شروع ھو چکا تھا۔۔۔۔
" ون , ٹو, تھری اینڈ لیسٹ سٹارٹ '
ڈائمن نے گنتی کاؤنٹ کرنے کے ساتھ وہی چھری اب صادق میر کی انگلیوں کے درمیان چلانی شروع کر دی تھی۔۔۔۔
تیزی سے وہ چھری کو اس کی ایک انگلی سے دوسری اور پھر دوسری سے تیسری اسی طرح وہ اس کے ھاتھ کی پانچوں انگلیوں کے درمیان چھری چلا رھا تھا اور رفتہ رفتہ اس کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔
صادق میر کی نظر اور دھیان اس وقت صرف اپنے ھاتھ کی طرف تھا اور سانس روکے وہ یہ عمل دیکھ رھا تھا ساتھ ہی ساتھ یہ دعا بھی کر رھا تھا کہ کہیں وہ چھری اس کے ھاتھ میں میں لگ جائے۔۔۔۔۔۔
"""" ااااہ """""
ڈائمنڈ جب دس منٹ تک یہی عمل کرتا رھا تو بور ھوتے ھوئے اس نے چھری صادق میر کے ھاتھ کی پشت میں گاڑھ دی جس سے وہ ایک دلخراش چیخ مارتے ھوئے زور زور سے رونے لگا۔۔۔۔۔
کیونکہ چھری اس قدر گہرائی میں گاڑھی گئی تھی کہ صادق میر کا ھاتھ کرسی کے ساتھ ہی چپک گیا تھا۔۔۔۔
" چپ کر چپ مجھے شور پسند نہیں ھے کیا لڑکیوں کی طرح رو رھا ھے"
کیا کر دیا میں نے ھاں ؟؟؟
" رو کیسے رھا ھے وہ بھی تو روتی ھوں گی نا تیری منتیں بھی کرتی ھوں گی تب ترس آتا تھا تجھے ان پر نہیں "
" تو سوچ ایول ڈائمنڈ کو کیسے ترس آئے گا تجھ جیسی گندھی پر'
اب آواز نہ آئے تیری بالکل چپ کر !!!
صادق میر جیسے مرد کو اپنے سامنے روتے اور چیختے دیکھ کر ڈائمن اپنے کانوں پر ھاتھ رکھ کر غصے سے اسے ڈانٹنے لگا اور صادق میر واقعی میں ڈر کر اپنی چیخوں اور آنسوؤں کو اندر ہی اندر دبانے لگا۔۔۔۔
" اب کیا کروں تیرا یار مجھے زیادہ خود خرابا پسند نہیں ھے یو نو گندگی بدبو اف قے آنے لگتی ھے مجھے "
" کیا کروں کیا کروں اااہاہا "
"چل تو بتا تجھے کیسی موت دوں ؟؟؟
ڈائمن کمرے میں ٹہلنے کے ساتھ اپنے دایاں ھاتھ کی شہادت کی انگلی کو اپنی کنپٹی پر ہلکا ہلکا مارتے ھوئے پر سوچ انداز میں سوچتے صادق میر سے مخاطب ھوا
اور ڈائمنڈ کی بات سنتے ہی صادق میر فوراً دوبارہ سے چیخنا اور منتیں کرنے کے ساتھ اسے پیسوں کا لالچ دینے لگا اب اپنی جان عزیز ہی اتنی تھی اسے مگر سامنے بھی ڈائمن موجود تھا یہ بات وہ شاید بھول گیا تھا تبھی ایسی گستاخی کر دی اس نے جس کا خمیازہ اسے انتہائی اذیت کی بدولت بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔
ڈائمن غصے میں اسی ٹیبل کی طرف بڑھا اور پھر وہاں سے ایک اور بہت بڑا چاقو اٹھا کر واپس صادق میر کی طرف آیا اور اس کے پاؤں کے ٹخنے کے نیچے اتنا گہرا کٹ لگایا کہ اگر وہ ایک قدم بھی چلنے کی کوشش کرتا تو اس کی ٹانگ یقیناً پاؤں سے الگ ھو جاتی۔۔۔۔۔
ڈائمن کے اس فعل پر بھی اس ریڈ روم میں ایک بار پھر سے چیخیں گونجنے لگی تھیں جبکہ یہ چیخیں ڈائمنڈ کے غصے کو ھوا دینے میں کارآمد ثابت ھو رہی تھیں تبھی وہ جو اب کمرے میں واک کر رھا تھا دوبارہ غصے میں تن فن کرتے صادق میر تک گیا اور پھر اس کے منہ پر زور کا پنچ مارا جو اس کی ناک توڑنے کا باعث بنا۔۔۔۔۔
اب اگر تیری آواز آئی تو تجھے یہ جو کچھ منٹس کے لیے زندگی دے رھا ھوں نا وہ بھی نہیں ملے گی ' اور یقین کر کہ تجھے مارنے سے پہلے اس حد تک ٹارچر کروں گا کہ تیرا باپ تیری لاش کو پہنچاننے سے انکاری ھو جائے گا "
" تو چپ کر بالکل چپ "
ڈائمن صادق میر کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں اپنی دہشت بھری نظروں کو گاڈھے اپنے دائیں ھاتھ کی شہادت کی انگلی کو اپنے ھونٹوں پر رکھ کر اسے دھمکانے لگا اور یہ دھمکی صادق میر پر اثر انداز ھوئی بھی اسی لئے وہ چپ کر گیا مگر جسم ابھی بھی سسکنے کے ساتھ جھٹکوں کی زرد پر تھا۔۔۔۔
" تجھے پتہ ھے کہ جو ایسڈ ھوتا ھے یہ اگر جسم پر گر جائے تو کتنی تکلیف ھوتی ھے پورا جسم کس قدر جل رھا ھوتا ھے ایسے محسوس ھوتا ھے جیسے جسم کے ساتھ ساتھ ہڈیاں بھی جل کر راکھ ھو جائیں گی ' اتنا درد ھوتا ھے جو نا قابل برداشت ھو جاتا ھے دل کرتا ھے کہ اسی وقت انسان خودکشی کر لے کیونکہ وہ جلن سہی نہیں جاتی اس سے"
" بہت برا ھوتا ھے یہ ایسڈ بہت زیادہ برا "
ڈائمن اپنے اسی ٹیبل کی طرف رخ کیے بولنے کے ساتھ کسی کام میں مصروف تھا جبکہ اس کی باتوں سے صادق میر کے رونگٹے کھڑے ھو رکھے تھے اور ساتھ ہی سانس رکنی شروع ھو گئی تھی اسے خوف ہی اتنا آ رھا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ ناجانے ڈائمن اسے کیسی موت دے گا۔۔۔۔
" تجھے کبھی محسوس نہیں ھوئی نا یہ جلن یہ تکلیف یہ اذیت تبھی تجھے اندازہ نہیں ھے دوسروں کی تکلیف کا' بہت شوق ھے نا تجھے معصوم لڑکیوں کے جسموں کو نوچنے کا ان سے اپنی ھوس پوری کرنے کا ' انھیں مارنے پیٹنے کا کبھی نہیں سوچا کہ انھیں کتنا درد ھوتا ھو گا ' کبھی نہیں سوچا کہ انھیں اس بدتر حالت میں دیکھ کر ان کی فیملی کا کیا ھوتا ھو گا وہ کیسے جیتے جی مر جاتے ھوں گے "
" کسی بات کا احساس نہیں ھے نا تجھے صرف اپنی خود غرضی سے مطلب ھے مگر میرے نزدیک تجھ جیسے کمینوں کے لئے صرف سزائے موت ھے اسی بہانے کچھ تو کندگی ختم ھو گی اس دنیا سے "
ڈائمن اب بولنے کے ساتھ چلتے ھوئے صادق میر کے ایک ایک گناہ کا اسے احساس کروا رہا تھا جبکہ وہ اپنی موت کو اپنے اتنے نزدیک دیکھتے بالکل شوکڈ ھو گیا تھا۔۔۔۔ وہ بس آنکھوں کے ساتھ منہ بھی کھولے اپنے گناھوں کو شمار کر رھا تھا جب اسے ڈائمن اپنی طرف بڑھتے ھوئے نظر آیا اس کے ھاتھ میں کوئی انجیکشن تھا جس میں کوئی لیکوڈ ٹائپ چیز تھی۔۔۔۔
صادق میر آنکھیں پھاڑے ڈائمن کا رخ اپنے اسی ھاتھ ہی طرف ھوتا دیکھنے لگا جو کرسی کے ساتھ گاڑھا ھوا تھا۔۔۔۔
" کیا کر رھے ھو تم کیا ھے اس میں ؟؟؟
اتنی دیر کے وقفے کے بعد اب صادق میر نے ڈرتے ڈرتے ڈائمن سے سوال کیا اور جواب میں اسے وہی پراسرار مسکراہٹ دیکھنے کو ملی۔۔۔۔۔
" ایسڈ "
" تو بھی تو محسوس کر اس تکلیف کو جو کہ ہر تکلیف پر بھاری ھے"
ڈائمن ھنستے ھوئے صادق میر سے بولا اور پھر وہی انجیکشن اس کے کے چیخنے چلانے کے باوجود بھی اس کی بازو کی وین میں لگا دیا انجیکشن لگانے کے کچھ سیکنڈ بعد ہی اتنی زور دار چیخیں نکل رہی تھیں صادق میر کے منہ سے جو سن کر ڈائمن نے اپنے ھیڈ فونز جسے وہ اسی چھوٹی ٹیبل پر رکھے ھوئے تھا انھیں اٹھا کر کانوں پر لگایا اور پھر فل والیوم میں میوزک سننے لگا۔۔۔۔
جبکہ نظریں اس کی ابھی بھی صادق میر کے وجود پر تھیں جس کی حالت ہر گزرتے لمحے بد سے بدتر ھوتی جا رہی تھی اس کے منہ کے علاوہ ناک کان یہاں تک کہ آنکھوں سے بھی خون خارج ھونا شروع ھو گیا تھا کچھ منٹس بعد ہی اس کا درد سے تڑپتا وجود ٹھنڈا پڑ گیا تو ڈائمن نے ایک حقارت بھری نظر صادق میر کے مردہ جسم پر ڈالی اور پھر ویسے ہی میوزک سنتے ریڈ روم سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ماہ بعد
صادق میر کی لاش اس کی موت کے 3 دن بعد انتہائی بدتر حالت میں کوڑے کی ڈھیر سے ملی تھی۔۔۔۔
جس وجہ سے رضا میر نے نہ صرف سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا تبادلہ کروا دیا تھا بلکہ شہد میں بھی جلوس نکالنے شروع کر دیے تھے اسی وجہ سے شہر کا ماحول بہت خراب ھو گیا تھا اور اسی ماحول کو ٹھیک کرنے کے لئے ایس پی سلیمان لودھی کو کراچی سے اسلام آباد ٹرانسفر کیا گیا تھا کیونکہ ایک وہی تھے جو یہ سب نارمل کر سکتے تھے ورنہ کوئی بھی اس جگہ تبادلہ کروانے سے انکاری تھا آخر ایول ڈائمن کا جو علاقہ تھا یہ اسی لئے صرف سلیمان لودھی کو ہی یہاں بھیجا گیا کیونکہ ان کا ریکارڈ ایک انتہائی بہادر اور جینیس پولیس اہلکار کا تھا۔۔۔۔
حالانکہ ان کی صاجبزادی عائشہ کا 1 ہفتے بعد نکاح ھونے والا تھا پھر بھی اپنی ڈیوٹی سے انصاف کرتے ھوئے وہ اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
سلیمان لودھی اکیلے اپنی بیٹی عائشہ کے ساتھ رہتے تھے ان کی زندگی کا واحد رشتہ اور مقصد صرف عائشہ ہی تھی انھوں نے ماں کی جگہ بھی اسے محبت اور شفقت دی تھی کیونکہ عائشہ 5 سال کی عمر میں ہی اپنی ماں سے محروم ھو چکی تھی۔۔۔۔۔
سلیمان لودھی انتہائی سخت مزاج کے انسان تھے مگر صرف دوسروں کے سامنے عائشہ کے لئے تو وہ ایک اچھے دوست تھے جن سے وہ ھنسی مزاق شرارتیں سب کرتی تھی۔۔۔۔
اچانک اسلام آباد شفٹ ھو جانے پر عائشہ ان سے ناراض ھو کر اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جب سلیمان صاحب نوک کر کے اس کے کمرے میں انٹر ھوئے۔۔۔۔
" کیا کر رھا ھے میرا بچہ ؟؟؟
سلیمان صاحب نے محبت سے عائشہ کے سر کر ھاتھ رکھا تو عائشہ نے اپنی فرینڈ سے بعد میں بات کرنے کا کہتے ھوئے کال کاٹی اور پھر انھیں مسکرا کر دیکھنے لگی۔۔۔
وہ ایسی ہی تھی زیادہ دیر تک کسی سے ناراض نہیں رہ سکتی تھی اور یہ تو اس کے بابا تھے پھر بھلا ان سے کیسے ناراض رہ لیتی۔۔۔۔۔
" تیاری کر رہی ھوں بابا "
جس کے لئے رمشا کو بھی بلا لیا ھے وہ کل تک آ جائے گی"
عائشہ آنکھوں میں ڈھیروں چمک لئے اپنے بابا سے بولی جبکہ سلیمان صاحب کو عائشہ کچھ عجیب لگی جیسے وہ کوئی بہت بڑی شرارت کرنے والی ھو۔۔۔۔
کیونکہ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی تھی اپنی 20 سال کی زندگی میں اس نے بہت بڑے بڑے مزاق صرف انجوائمنٹ کے لئے کیے تھے جن کا خمیازہ ہمیشہ سلیمان صاحب کو بھگتنا پڑتا تھا۔۔۔۔
" کس چیز کی تیاری کر رہی ھو عائشہ میں بتا رھا ھوں تمہیں اس شہر میں تم ایسا کوئی کام نہیں کرو گی جس سے مجھے تمہیں ڈانٹے کی ضرورت پڑے ' صرف 5 دن سکون سے گزار لو پھر تو چلی ہی جاؤ گی تم لندن شادی کے بعد "
" سو پلیز بی کیئر فل "
سلیمان صاحب آخر پولیس میں ایس پی تھے پھر بھلا عائشہ کے چہرے کو کیسے نہ پڑھ پاتے جبکہ عائشہ ان کی اس بات پر معصومیت سے آنکھیں پھلائے انھیں دیکھنے لگی۔۔۔۔
میں آپ کو ایسی لگتی ھو بابا اب ضروری تو نہیں کہ میں ہمیشہ مزاق یا مستی کروں گی چینج بھی تو ھو سکتی ھوں نا میں لیکن جب آپ کو ہی مجھ پر بھروسہ نہیں ھے تو پھر کیا فائیدہ اس بات کا "
'چلی جاؤں گی نا تو یاد کریں گے آپ کہ کس طرح مجھ معصوم پر الزام لگاتے تھے "
عائشہ نے معصومیت کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دئے تھے وہ تھی بھی اتنی کیوٹ سی تبھی سلیمان صاحب بھی اس کے ڈرامے پر یقین کرتے ھوئے اسے منانے لگے۔۔۔۔۔
اور پھر شفقت سے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا جبکہ عائشہ اب مسلسل سمائل کر رہی تھی جو سلیمان صاحب دیکھنے سے قاصر تھے۔۔۔۔
ناجانے اب عائشہ کے دماغ میں کیا چل رھا تھا وہ ایسا کیا کرنے والی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منظر تھا ایک شاندار آفس کا جہاں فاران احمد صوفے پر بیٹھا اپنا لیپ ٹاپ لیے کام کرنے میں بہت مصروف تھا جب اچانک اس کے کیبن کا دروازہ بغیر نوک کیے ہاشم کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔۔
ہاشم فاران کا بچپن کا دوست تھا جس سے فاران اپنی دل کی ہر بات شئیر کرتا تھا اور ہاشم نے ہمیشہ ایک اچھے دوست اور بھائی کی طرح اسے سہی مشورہ دیا تھا۔۔۔۔
فاران احمد ایک انتہائی امیر کبیر بزنس مین احمد حسن کا اکلوتا بیٹا تھا فاران کی ماں جب وہ 10 سال کا تھا تب اپنے سابقہ منگیتر کے ساتھ اسے چھوڑ کر بھاگ گئی تھی جس کا اثر احمد حسن صاحب کو تو اتنا نہ ھوا کیونکہ وہ خود زیادہ تر آؤٹ آف پاکستان رہتے تھے جہاں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے لیے ہر قسم کی عورتوں سے لے کر لڑکیاں موجود ھوتیں تھیں اور اگر انسان کے پاس پیسہ روپے ھو تو پھر اسے کبھی کسی چیز کا محتاج نہیں ھونا پڑتا یہ سوچ خود احمد حسن صاحب کی تھی۔۔۔۔
اپنی انھی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے وہ فاران سے بہت دور رہتے تھے فاران کی تربیت پہلے بھی( جب اس کی ماں موجود تھیں) اماں بی نے کی تھی جو کہ ایک انتہائی نیک خاتون تھیں اور بیٹوں کے گھر سے نکال دینے کے بعد فاران کے گھر میں ہی رہتی تھیں اور پھر فاران کی ماں کے چلے جانے کے بعد وہی فاران کو سنبھالتی آئی تھیں۔۔۔۔
احمد حسن صاحب تو صرف خرچہ وغیرہ بھیجتے رہتے تھے یہاں پاکستان میں تو ان کا آنا چھ ماہ یا سال بعد ھوتا تھا تب بھی صرف اپنے کام کے سلسلے میں آتے تھے وہ جو کہ انھوں نے اپنے مینجرز کے حوالے کیا ھوا تھا۔۔۔۔۔
مگر اب 2 سال پہلے اماں بی کے انتقال کے بعد فاران بہت تنہا ھو گیا تھا ساتھ ہی وہ ڈپریشن کا شکار ھو گیا تھا تب احمد حسن صاحب پاکستان آئے تھے کچھ دنوں کے لئے۔۔۔۔۔
جب ایک شام وہ گھر واپس آتے ھوئے ایک بہت برے ایکسیڈنٹ ھو جانے کی صورت میں پیرالایز ھو چکے تھے تب فاران 25 سال کا تھا تب اسے ہاشم نے ہی دوبارہ نارمل ھونے میں بہت مدد کی تھی اس دن سے ہی فاران کے کاندھوں پر بہت سی ذمے داریوں کا بوجھ آ چکا تھا نہ صرف پاکستان کے بزنس کو وہ با خوبی سنبھال رھا تھا بالکل آؤٹ آف پاکستان بھی وہ اپنی صلاحیتوں سے اپنے بزنس کو ھینڈل کر رھا تھا۔۔۔۔۔
" کبھی ادر گرد کی بھی خبر رکھ لیا کر فاران سارا وقت صرف کام ہی نہیں کرتے تجھے پتہ بھی ھے کہ شہر میں کیا کچھ ھو رھا ھے ؟؟؟
ہاشم چلتے ھوئے فاران کے سامنے صوفے پر ایزی ھو کر بیٹھتے ھوئے اس سے مخاطب ھوا جس کے بدلے میں فاران نے ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ اپنی نظریں لیپ ٹاپ پر گاڑھ دیں۔۔۔۔
" کیا ھے یار اتنا کام کون کرتا ھے؟؟؟
بات سن میری !!!
جب بدلے میں ہاشم کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے چڑ کر فاران کا لیپ ٹاپ چھین کر بند کیا اور پھر اسے صوفے کے پاس پڑی چھوٹی سی ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔۔۔
" کیا ھو گیا ھے ہاشم یار تجھے معلوم بھی ھے کہ کتنا لوس ھو گا مجھے اگر شام تک میں نے کینیڈا آی میل نہ سینڈ کیا تو۔۔۔۔۔۔
فاران اپنی گردن دائیں بائیں کر کےخود کو ریلکس کرتے ہوئے ہاشم سے بولا تو ہاشم نے آنکھیں گھماتے ھوئے جیسے اس کے جواب پر بے زاریت ظاہر کی اور پھر تیزی سے فاران کے قریب ھوتے ھوئے سرگوشی کرنے لگا۔۔۔۔۔
" یار آج پھر ایول ڈائمن نے کسی کو مارا ھے جس کی لاش وہیں کوڑے کے ڈھیر سے ملی ھے لوگ کہہ رھے ھیں کہ یہ بھی کوئی بہت برا شخص تھا جو لڑکیوں کی ویڈیوز بنا کر انھیں بلیک میل کرتا تھا اور جہاں برائی ھو گی وہاں ڈائمن تو ھو ہی اسے ختم کرنے کے لئے "
" اچھا ہی کیا ڈائمن نے مار دیا سالے کو اس کا انجام ایسا ہی ھونا تھا میں تو فین ھو گیا ھوں یار ڈائمن کا ' کاش ایک بار میں اسے مل سکوں دیکھوں تو سہی کہ کون ھے وہ مگر وہ کسی کے سامنے شو ہی کب ھوتا ھے' خیر چھوڑ ان باتوں کو تو بتا تجھے ڈائمن کیسا لگتا ھے تو کبھی اس کے بارے میں بات نہیں کرتا "
ہاشم اپنی خواھش ظاہر کرتے ھوئے ساتھ فاران سے سوال بھی کر رھا تھا جس کا جواب فاران نے کاندھے آچکا کر دیا۔۔۔۔
" مجھے نہیں پتہ ہاشم میں نے کبھی اتنا سوچا ہی نہیں میرے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں ھوتا ' ویسے بھی میرا کیا لینا دینا ڈائمن سے بقول تمہارے وہ صرف برائی کو ختم کرتا ھے اور میں تو برا ھوں نہیں پھر کیوں سوچوں میں اس کے بارے میں سوچنا اور ڈرنا تو انھیں چاھیے جن کا جسم برائی اور گناھوں سے بھرا پڑا ھے "
فاران نے آنکھیں بند کئے اپنی تھکاوٹ اتارتے ھوئے ہاشم سے سچائی بیان کی جس پر ہاشم بھی ھاں میں ھاں ملاتے ھوئے آٹھ کھڑا ھوا۔۔۔۔
" چل گھر چلتے ھیں شام کے 5 بج گئے ھیں آج تو نے ڈرنر کرونا ھے اپنے پیسوں سے تو بھولے نہیں اسی لئے خود آیا ھوں تجھے لینے چل جلدی کر "
ہاشم فاران کا ھاتھ تھام کر اسے زبردستی اٹھاتے ھوئے بولا تو فاران آنکھیں کھولے سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
" سوری یار آج پاسیبل نہیں ھو گا تجھے پتہ تو ھے کہ شام تک آی میل کرنا ھے پھر رات کو گھر میں ایک میٹنگ بھی ھے پھر ڈیڈ کے ڈاکٹرز بھی آج ان کا چیک اپ کرنے والے ھیں تو ٹائم نہیں ھو گا میں تجھے کل پکا ڈنر کروا دوں گا پلیز یار ناراض نہیں ھونا "
فاران بے بسی سے ہاشم کو دیکھتے ھوئے اپنے کام گنوانے لگا اور ساتھ اس کے ناراض نہ ھونے جانے کے ڈر سے اس منت بھی کرنے لگا تو ہاشم اس کی مجبوری سمجھتے ھوئے اس کے گلے لگ کر ایک دھپ اس کی کمر پر لگا کر سی یو ٹومارو کہتے ھوئے آفس سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
ہاشم کے باہر جاتے ہی فاران بھی اپنی واچ میں ٹائم دیکھتے ھوئے گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ھوا اور پھر اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر آفس سے باہر پارکنگ ایرے میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
شام کے وقت عائشہ اپنی دوست رمشا کے ساتھ کمرے میں بیٹھی تیار ہو رہی تھی جبکہ اس کے ساتھ بیٹھی رمشا چہرے پر پریشانی کے تاثرات سجائے اسے ہی مسکینوں کی طرح دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔۔
آج عائشہ کا نکاح ھونے والا تھا اور وہ بجائے خود تیار ھونے کے رمشا کو دلہن بنانے میں مصروف تھی جبکہ خود وہ جینز شرٹ میں موجود تھی اور ساتھ وہ سنیکر پہنے گھر سے بھاگنے کی مکمل تیاری کیے ھوئی تھی۔۔۔۔
" انکل مجھے پہچان جائیں گے ڈمپی سمجھو بات کو تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی انکل سے جوتے پڑواو گی"
رمشا نے ایک دفعہ پھر ڈرتے ھوئے عائشہ سے بات کرنی چاہی جس کا جواب اسے ایک گھوری کی صورت میں ملا ۔۔۔۔
" کیا ھے ؟؟؟
رمشا اتنا سا بھی نہیں کر سکتی میرے لئے تمہیں پتہ تو ھے کہ میں یہ سب ایڈونچر کے لئے کرتی ھوں اب تک ہر کام کیا ھے بٹ شادی سے کبھی نہیں بھاگی اب یہ بھی تو کرنا فرض تھا نا مجھ پر تم سمجھو میری بات کو"
عائشہ نے اپنی بات پر ضرور دیا تو وہ خاموشی کر گئی۔۔۔۔
"اور کیسی دوست ھو تم دو جوتے بھی نہیں کھا سکتی میرے لئے ویسے ڈونٹ وری بابا تمہیں جوتے تو نہیں ماریں گے کم از کم "
مسکراتے ھوئے عائشہ نے رمشا کو تسلی کروانی چاہی۔۔۔۔
"بس تم میرے بھاگنے کی خبر پھیلنے تک اپنا نکاح مت ھونے دینا ورنہ میرا تو کچھ نہیں جائے گا آپ شادی شدہ ضرور ھو جائیں گی میڈم"
عائشہ نے رمشا کے پھولے ھوئے گالوں پر چٹکی کاٹتے ھوئے ایک آنکھ دبائی تو وہ غصے سے عائشہ کو گھورنے لگی۔۔۔۔۔
" اب چلو باہر نکلو ورنہ سب ادھر آ جائیں گے اور میرا پکڑے جانے کا تو باکل کوئی ارداہ نہیں ھے "
لاسٹ میں مانگ ٹیکا سیٹ کرتے ھوئے عائشہ نے رمشا کا گھونگھٹ نکالا اور پھر اسے اٹھانے لگی تو وہ بھی منہ بناتے ھوئے عائشہ کی بات ماننے لگی آخر اب اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا فرینڈ شپ میں تو انسان کیا کچھ نہیں کر جاتا تو یہ تو صرف چھوٹی سی ایک بات تھی۔۔۔۔۔
" تم کیسے بھاگو گی ڈمپی باہر سب موجود ھیں پھر کیسے نکلو گی گھر سے ؟؟؟
رمشا کمرے سے نکلتے وقت رک کر عائشہ سے بولی جس کے بدلے میں عائشہ نے ایک بھرپور سمائل کے ساتھ ونڈو کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
" لڑکی عائشہ کے لئے کوئی بھی کام ناممکن نہیں ھے اور ویسے بھی اگر لگن سچی ھو تو انسان کبھی مایوس نہیں ھوتا اب میری فکر کرنا چھوڑو اور جاؤ دلہن صاحب ورنہ میرا پلین سارا فلاپ ھو جانا ھے"
عائشہ نے زبردستی رمشا کو کمرے سے نکالا اور پھر خود کھڑی ہلکی سے کھول کر باہر لان کا جائزہ لینے لگی جب اس نے نوٹ کیا کہ ایک گارڈ ٹھیک 2 منٹ بعد اس کے روم کا چکر لگا کر واپس چلا جاتا ھے تو وہ ویٹ کرنے لگی اور پھر جب گارڈ یہاں کا چکر لگا کر واپس چلا گیا تو وہ تیزی سے کھڑی پلانگ کر لان میں آئی اور پھر بغیر پیچھے دیکھے مین گیٹ کی طرف دھوڑنے لگی جبکہ اسے بھاگتے دیکھ کر گارڈز نے شور مچانا شروع کر دیا اور پھر ساتھ خود بھی عائشہ کو پکڑنے کی غرض سے اس کے پیچھے دھوڑنے لگے۔۔۔۔۔
عائشہ کے لاکھ ایکٹنگ کرنے کے باوجود بھی سلیمان صاحب اس بات سے آگاہ تھے کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی پھنڈا کرے گی تبھی انھوں نے ساری تیاری کر رکھی تھی۔۔۔۔
جب ایک گارڈ گھر میں انٹر ھو کر سیلمان صاحب کو عائشہ کے بھاگنے کی خبر دینے لگا تو انھوں نے افسوس سے عائشہ کے بارے میں سوچا اور پھر خود بھی لڑکے والوں سے معزرت کرنے کے بعد اپنی گاڑی کی کیز اٹھاتے ھوئے گھر سے باہر نکل پڑے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام اب رات میں ڈھل رہی تھی اور ادر گرد آندھرا پھیلنا شروع ھو چکا تھا جب فاران جو اپنے گھر جانے کی جلدی میں تھا وہ گاڑی خراب ھو جانے کی صورت میں چہرے پر بے زاریت سجائے اب اپنے ڈرائیور کو فون کر کے دوسری گاڑی لانے کو کہہ رھا تھا جو ٹھیک 15 منٹ بعد فاران کے سامنے موجود تھی اس سے پہلے کہ وہ گاڑی میں بیٹھتا اسے اپنی دائیں جانب سے ایک لڑکی دھوڑتی ھوئی نظر آئی جس کا بہت سارے باڈی بلڈرز پیچھا کر رھے تھے ابھی فاران یہ سچویشن سمجھنے میں ہی مصروف تھا جب وہ لڑکی بھاگتے ھوئے اس کے پاس پہنچ گئی اور پھر اسے ہیلپ ہیلپ بول کر تیزی سے اس کی گاڑی کھول کر اس میں بیٹھ گئی۔۔۔۔
" او ھیلو مسٹر کار سٹارٹ کرو نا یا مجھے پکڑوانے کا ارادہ ھے "
فاران شوکڈ سا اسے اپنی گاڑی میں عائشہ کو بیٹھے دیکھ رہا تھا جب وہ دوبارہ غصے سے فاران سے بولی تو فاران نے بھی اپنے ھونٹ چباتے ھوئے فوراً گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کر دی جبکہ وہ تمام گارڈز عائشہ کو کسی کے ساتھ گاڑی میں جاتے دیکھ کر خود رک کر سلیمان صاحب کو گاڑی کے نمبر کے ساتھ ساری بات بتانے لگے۔۔۔۔۔۔
" کون تھے وہ لوگ جو تمہارا پیچھا کر رھے تھے ؟؟؟
فاران گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے ساتھ موجود فرنٹ سیٹ پر بیٹھی عائشہ سے پوچھنے لگا جو اپنے موبائل میں کسی کو میسج سینڈ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
" ھاں وہ وہ تو میرے باڈی گارڈز تھے ایکچولی آج شادی تھی میری تو میں وہاں سے بھاگ گئی فار ایڈونچر"
" اصل میں نا یہی ایک چیز تھی جس کا ایڈونچر لینا باقی تھا تو اس لئے میں اپنا یہ شوق بھی پورا کر رہی ھو بٹ بابا کو میرے اس ایڈونچر سے بہت نفرت ھے تبھی انھوں نے ان گارڈز کو میرے پیچھا بھیجا ھے تاکہ میں پکڑی جاؤں صرف کچھ ٹائم کی ہی بات ھے پھر خود ہی چلی جاؤں گی واپس گھر بلکہ بابا تب تک خود آ جائیں گے مجھے لینے "
عائشہ نے اپنا موبائل گاڑی کی ڈیش بورڈ پر رکھتے ھوئے فاران کو جواب دیا تو فاران نے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
کیا تھی وہ لڑکی کوئی پاگل ہی تھی یقیناً جو صرف ایڈونچر کے لئے اپنی شادی سے بھاگ گئی تھی۔۔۔۔
"ھائے آئی ایم عائشہ سیلمان یہاں کے ایس پی سیلمان لودھی کی صاحب زادی "
" اپنا بھی کچھ تعارف کروا دیں مسٹر ایکس وائے ذی "
عائشہ اپنے وہی دوستانہ رویہ اختیار کیے اپنا دایاں ھاتھ فاران کے سامنے کرتے ھوئے اس کا تعارف مانگنے لگی تو اس سے پہلے کہ فاران کوئی جواب دیتا اچانک سے اپنے سامنے دو چار گاڑیاں رکتی دیکھ کر فوراً اس نے بریک لگائی اور پھر عائشہ کی طرف دیکھنے لگا جو منہ بناتے ھوئے اسے ہی اشارہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
" آ گئے بابا مجھے لینے سو گڈ بائے مسٹر ایکس وائے ذی اگر قسمت نے چاہا تو دوبارہ ملاقات ھو گی تب آپ اپنا نام ضرور بتا دینا "
""" اور ھاں """"
اس سے پہلے عائشہ مزید کوئی بات کرتی اس کی طرف کا دروازہ چہرے پر غضب ناک تاثرات سجائے سلیمان صاحب نے بجایا اور پھر اسے باہر آنے وہ کہا تو عائشہ بھی بغیر مزید کچھ بولے گاڑی سے باہر نکل کر سیلمان صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھتے ھوئے تیزی سے وہاں سے غائب ھو گئی۔۔۔۔۔
جبکہ اس کے وہاں سے جاتے ہی فاران نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی تو اچانک اس کی نظر ڈیش بورڈ پر پڑے موبائل پر گئی جو یقیناً اس کا تو نہیں تھا یعنی عائشہ جلدی میں اپنا موبائل اس کی گاڑی میں ہی چھوڑ گئی تھی کچھ سوچتے ھوئے فاران نے وہ موبائل اٹھایا اور پھر اپنے پاکٹ میں رکھ لیا۔۔۔۔۔
جبکہ عائشہ کے پاگل پن کو سوچ کر بے اختیار اس کے ھونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے 8 بجے کا وقت تھا جب عائشہ چہرے پر معصومیت کے ساتھ افسوس کے تاثرات سجائے سلیمان صاحب کے کمرے میں داخل ھوئی جو اس وقت مکمل تیار کھڑے تھے اپنے کام پر جانے کے لئے۔۔۔۔۔
کل رات عائشہ کو گھر میں لانے کے بعد سلیمان صاحب ایک لفظ بھی بولے بغیر غصے سے خود کو کمرے میں بند کر چکے تھے ایسا پہلی بار ھوا تھا کہ انھوں نے عائشہ کو اس کی غلطی پر ڈانٹا نہ ھو اس طرح وہ وقتی اس پر غصہ کر لیتے تھے اور پھر خود ہی غصہ ختم ھونے کے بعد پیار سے اسے سمجھانے لگتے۔۔۔۔۔
لیکن اس بار تو عائشہ نے حد ہی کر دی تھی یہ بھلا کیسا ایڈونچر تھا جس سے نہ صرف ان کی عزت خراب ھوئی تھی لڑکے والوں کے سامنے بلکہ ساتھ تماشا الگ بن گیا۔۔۔۔۔
سلیمان صاحب کا چپ ھو جانا ہی عائشہ کو بے چین کیے ھوئے تھا اور جب اس نے اپنی بے چینی خاموش بیٹھی رمشا سے شیئر کی تو پہلے تو اس نے لمبا سارا ایک لیکچر دیا پھر بعد میں سلیمان صاحب کو منانے کا مشورہ دے کر خود سو گئی جبکہ اسی بے چینی کی وجہ سے عائشہ ساری رات جاگتی رہی آخر اس کے پیارے بابا جو خفا تھے اس سے جو کہ اس کا واحد رشتہ تھے جن سے اسے سب سے زیادہ محبت تھی۔۔۔۔
" بابا آپ آج کیوں جا رھے ھیں ؟؟؟
"ابھی تو کچھ دن کی چھٹیاں تھیں نا آپ کی "
عائشہ نے یونیفارم زیب تن کیے اپنی واچ پہن رھے سیلمان صاحب سے سوال کیا جس کا جواب اسے مکمل خاموشی کی صورت میں ملا یہاں تک کہ انہوں نے غلطی سے ایک نظر بھی عائشہ پر نہیں ڈالی تھی یہی حرکت عائشہ کو مزید دکھی کر گئی تبھی وہ تیزی سے چلتی ھوئی سلیمان صاحب کے پاس آئی اور پھر ان کے سینے پر اپنا سر ٹکا دیا ساتھ ہی اپنے دونوں بازوؤں سے ان کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کر لیا۔۔۔۔
بابا آپ ناراض ھیں نا مجھ سے آئی ایم سوری بابا آئی نو کہ اس دفعہ کچھ زیادہ ہی ھو گیا مجھ سے ' بٹ ناؤ آئی پرومس کہ آئیندہ میں کوئی ایڈونچر نہیں کروں گی اتنا بڑا تو کبھی بھی نہیں "
" میں آپ کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی ھوں بابا پلیز مجھے معاف کر دیں لاسٹ ٹائم پلیزززز !!!
میرا آپ کے سوا اور ھے ہی کون جن سے میں مزاق کر سکوں اس لئےے آپ سے کر لیتی ھوں لیکن آئیندہ سے وہ بھی نہیں کروں گی اپنی چھوٹی چھوٹی سی خواھشوں کو زہر پلا دیا کروں گی اب سے ' لیکن آپ کو تنگ نہیں کروں گی اب تو مان جائیں بابا اس طرح مجھ سے خفا تو نہ ھوں اور اگر آپ نے ابھی ناراضگی ختم نہ کی نا تو میں نے چمچ سے اپنی وین کاٹ کر سوسایڈ کر لینی ھے پھر پچھتاتے رھیں آپ "
عائشہ پہلے تو سنجیدگی سے بات کرتی رہی جبکہ آخر میں وہ واپس اپنی ٹون آ کر مزاق کرنے لگی اس کا یہی طریقہ تھا منانے کا جو یقیناً کارآمد ثابت بھی ھوا کیونکہ سلیمان صاحب نے ھنستے ھوئے عائشہ کے گرد اپنی بازوؤں کا گھیرا بنایا اور پھر اس کے سر پر بوسہ لینے کے بعد سنجیدگی سے بولے۔۔۔۔
بیٹے آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ کل کتنی ذلت سہنی پڑی ھے آپ کے بابا کو ' وہ لوگ بولے تو کچھ نہیں مگر ان کی نظریں بہت کچھ بیان کر رہی تھیں"
" آج تک میں نے کبھی کسی کی بات برداشت نہیں کی کیونکہ مجھے میری عزت عزیز ہی اتنی ھے کہ آج تک میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو مجھے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دے "
آپ اس بات کو سمجھتی بھی ھیں کہ جوان لڑکی کا گھر سے یوں بھاگ جانا کتنی بڑی بات ھے لوگ کس نظر سے دیکھتے ھیں اس لڑکی کے ساتھ اس کی فیملی کو بھی' یہ صرف آپ یا میں جانتا تھا کہ آپ نے یہ صرف ایڈونچر کے لیے کیا مگر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے وہ صرف باتیں بنانا جانتے ھیں "
بلکہ یہ تو بریکنگ نیوز تھی ان کے لئے ' میں مانتا ھوں کہ میں آپ کو اتنی توجہ یا محبت نہیں دے پایا جتنی ایک ماں دیتی ھے شاید اسی وجہ سے آپ کو ان باتوں کی نوعیت کا اندازہ نہیں ھے مگر پھر بھی بیٹے اب آپ خود ماشاءاللہ سے بہت سمجھدار ھو گئی ھیں تو خود ان باتوں پر غوروفکر کریں"
آپ کو آپ کی غلطی کا احساس ھوا میرے لیے اتنا ہی کافی ھے مگر دوبارہ آپ ایسا کچھ نہیں کریں گی مجھے آپ سے یہی امید ھے کیونکہ میری عزت آپ کے لئے بھی اہم اور ہر چیز سے عزیز ھونی چاھیے "
سلیمان صاحب عائشہ کو اسی طرح اپنے ساتھ لگائے انتہائی محبت اور شفقت سے سمجھاتے گئے اور عائشہ کو واقعی میں اب اس بات کا اندازہ ھوا کہ سلیمان صاحب کی عزت پر کتنی بڑی چوٹ لگی ھے۔۔۔۔۔
تبھی اس نے شرمندہ ھوتے ھوئے سلیمان صاحب سے ایک دفعہ پھر سے معافی مانگی اور پھر ان سے وعدہ بھی کیا کہ آئیندہ ایسا کچھ نہیں ھو گا جن سے سلیمان صاحب کا نام اور عزت خراب ھو۔۔۔۔
عائشہ کا یوں وعدہ کرنا اور انھیں آئیندہ ایسا کچھ نہ کرنے کا یقین دلانا سلیمان صاحب کو بہت خوش کر گیا اسی خوشی میں انھوں نے اپنا کریڈٹ کارڈ عائشہ کو دیا اور پھر اسے رمشا کے ساتھ شاپنگ کرنے کا کہتے ھوئے خود گھر سے باہر نکل گئے کیونکہ آج ان کا فرسٹ ڈے تھا یہاں یعنی گھر واپس آنے میں کافی دیر ھو جاتی اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ عائشہ گھر میں اکیلی بور نہ ھو مگر عائشہ کے ساتھ وہ ڈرائیور کے علاوہ دو باڈی گارڈ بھی چھوڑ کر گئے تھے جن کے ساتھ وہ شاپنگ پر جاتی۔۔۔۔
کیونکہ بقول ان کے وہ اپنی لاڈلی بیٹی کی زندگی کا کوئی رسک نہیں لے سکتے تھے جو ان کے جینے کا واحدہ ذریعہ تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ماموں آپ یہاں کیسے ؟؟؟
" واٹ آ سرپرائز !!!
سلیمان صاحب اپنے آفس میں بیٹھے اب تک کے کیسز دیکھ رھے تھے جن کا قتل ڈائمن کے ھاتھوں ھوا تھا جب اچانک سے اے ایس پی زیان علی اپنے نیو ایس پی سے ملاقات کرنے جیسے ہی ان کے آفس میں داخل ھوا تو سلیمان صاحب کو دیکھ کر خوشی سے چہکا جبکہ اس کی آواز سن کر سلیمان صاحب نے اپنی نظروں کا رخ زیان کی طرف کیا تو مسکراتے ھوئے اٹھ کر اس سے ملنے لگے۔۔۔۔۔
ریان علی سلیمان صاحب کی بڑی بہن خالدہ بیگم کا اکلوتا بیٹا تھا جو یہاں اسلام آباد میں ہی اے ایس پی کے عہدے پر فائز تھا دو ماہ پہلے دہشت گردوں کو روکنے کے چکر میں اسے شدید چوٹیں آئی تھیں اسی لئے چھٹیوں پر ھونے کی وجہ سے اس کا ٹرانسفر کہیں اور نہیں کیا گیا تھا اور اب جب مکمل صحتیاب ھو کر وہ دوبارہ ڈیوٹی پر جوائنگ دینے لگا تو اسے پتہ چلا کہ کوئی نیو ایس پی آئے ھیں جن سے ملاقات کرنے وہ ان کے آفس میں چلا آیا تھا۔۔۔۔۔۔
" آپ یہاں کب سے موجود ھیں ماموں اور آپ نے ایک چکر بھی گھر کا نہیں لگایا ڈیٹ از ناٹ فیئر"
زیان سلیمان صاحب سے بغل گیر ھونے کے بعد ان سے شکوہ کرتے ھوئے سامنے موجود چیئر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
" ایک ہفتہ ھو گیا ھے یہاں آئے مگر پہلے عائشہ کی شادی کی تیاریوں میں بہت معروف تھا جس وجہ سے لیو لی ھوئی تھی تو اس لئے آج جوائنگ دی ھے"
سلیمان صاحب عائشہ کا ذکر کرتے ھوئے نظریں چرا گئے جبکہ عائشہ کی شادی کا سن کر زیان کا چہرہ شدت ضبط سے سرخ ھو گیا۔۔۔۔
" ھو گئی عائشہ رخصت ؟؟؟
زیان نے خود پر ضبط کرتے ھوئے سلیمان صاحب سے سوال کیا جس کا جواب انھوں نے سر کو نفی میں ہلا کر دیا جبکہ نظریں ابھی بھی وہ زیان سے چرا رھے تھے۔۔۔۔
" یہ شادی ھوئی ہی نہیں زیان عین نکاح کے وقت عائشہ گھر سے بھاگ گئی فار ایڈونچر "
اب کی دفعہ بات کرنے کے بعد سیلمان صاحب نے زیان کے چہرے کو دیکھا تو وہاں انھیں ایک عجیب سی خوشی نظر آئی جسے دیکھ کر سلیمان صاحب کو بھی بہت اچھا لگا۔۔۔۔۔
زیان عائشہ سے محبت کرتا ھے اس بات کا علم سلیمان صاحب کو کب سے تھا جب وہ صرف 12 سال کا تھا تب سے ہی ' وہ بھی زیان کو بہت محبت کرتے تھے اور ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ زیان ان کی بیٹی کا مقدر بنے مگر جب ایک دفعہ زیان اور اس کی والدہ کراچی سلیمان صاحب کے گھر آئے تھے تب سیلمان صاحب نے سب کی موجودگی میں اس بات کا ذکر عائشہ سے کیا تو اس نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا کیونکہ وہ زیان کو کبھی بھی پسند نہیں کرتی تھی وجہ اس کی جاب تھی وہ سلیمان صاحب کو کتنی ہی دفعہ یہ کہہ چکی تھی کہ وہ پولیس کی جاب چھوڑ دیں ناجانے کیوں شدید نفرت تھی اسے پولیس کی نوکری سے اور یہ اس کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد بھی وہ ایک پولس مین کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔۔
دوسری طرف زیان بھی اپنی جاب سے بہت محبت کرتا تھا تبھی وہ عائشہ کی اس بات پر غصے میں یہ بول گیا کہ وہ عائشہ کے لئے اپنی جاب کبھی نہیں چھوڑے گا تو عائشہ بھی غصے میں لال پیلی ھوتی ھوئی جان بوجھ کر سلیمان صاحب سے بولی کہ وہ جلد از جلد شادی کرنا چاہتی ھے یہ بات سن کر جہاں زیان کے چہرے کا رنگ اڑا وہیں عائشہ کو ناجانے کتنا ہی سکون پہنچا۔۔۔۔
جب 2 ہفتے پہلے کال پر سلیمان صاحب نے عائشہ کی شادی کا بتایا تو زیان نے آنے سے منع کر دیا کیونکہ وہ خود میں اتنی ہمت نہیں پاتا تھا مگر پھر اب جب اسے پتہ چلا کہ عائشہ کی شادی ھوئی ہی نہیں تو ایک عجیب سی خوشی ملی اسے مطلب ابھی بھی چانسز ھیں اس کے۔۔۔۔۔
" ماموں آپ گھر ضرور آئیں امی سے ملنے وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ھوں گی "
جب مسلسل سلیمان صاحب کی نظریں زیان نے خود پر محسوس کیں تو وہ بات بدلتے ھوئے بولا جس کا جواب انھوں نے پہلے زیان اور خالدہ بیگم کو اپنے گھر انوایٹ کر کے دیا جس پر زیان نے خوش دلی سے سر کو ھاں میں ہلایا اور پھر ایک دو باتیں کر کے اپنے آفس کی طرف چل پڑا جبکہ زیان کی نظروں میں عائشہ کے لئے موجود محبت دیکھ کر سلیمان صاحب پر سکون سے ھو گیے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" آپ بات کیوں نہیں کرتے یا مجھ سے نہیں کرنا چاہتے' کب سے خاموش نظروں سے بس مجھے گھورے ہی جا رھے ھیں۔۔۔۔ "
فاران جو اس 10 منٹ کی ڈرائیو میں بھی گاہے بگاہے ناجانے کتنی ہی دفعہ اپنے ساتھ بیٹھی عائشہ کو پسندیدگی بھری نظروں سے دیکھتا رھا تھا اور اب بھی بس عائشہ کو ہی دیکھ رھا تھا پھر چاہے سامنے سے کوئی ٹرک ہی کیوں نا آ جائے اسے اس بات کی پرواہ ہی کب تھی۔۔۔۔۔
مگر اچانک عائشہ کے جتانے کرنے پر اس نے شرمندہ ھوتے ھوئے فوراً ہی نظروں کا زاویہ بدل کر سڑک کی طرف کر لیا مگر عائشہ اس کی اس حرکت پر مسکراتی نظروں سے اسے دیکھے گئ۔۔۔۔۔
جو اب ایسے تن کر ڈرائیو کر رھا تھا جیسے اگر غلطی سے پھر ایک نظر مزید عائشہ پر ڈال دی تو پتھر کا بن جائے گا یا پھر عائشہ اس کا قتل کر دے گی۔۔۔۔
" نہیں تو میں میں تو آپ بات کریں عائشہ میں جواب دے دوں گا آپ کو ' اصل میں مجھے زیادہ بات کرنے کی عادت نہیں ھے تو اس لئے آپ سے بھی بات نہیں کر رھا اور ویسے بھی کیا بات کروں میں کچھ سمجھ نہیں آ رہی مجھے۔۔۔۔۔"
پہلے تو فاران سامنے نظریں کیے ہلکا سا ہکلایا مگر پھر فوراً ہی خود کو سنبھالتے ہوئے وہ عائشہ سے گویا ھوا جبکہ اس کے اتنا سب کچھ بول دینے پر عائشہ زور سے ھنسے لگی۔۔۔۔
" آپ کو پتہ ھے آپ بہت انوسینٹ ھو اور ساتھ تھوڑے تھوڑے کیوٹ بھی۔۔۔۔"
عائشہ نے تھوڑے تھوڑے لفظ کو اپنی انگلی کی پور فاران کے سامنے کرتے ھوئے بیان کیا جبکہ اب بھی فاران نے عائشہ کی طرف دیکھنے سے اجتناب برتا تھا۔۔۔۔۔
"مسٹر فاران اپنے بارے میں کچھ بتائیں تو سہی اس دن ریسٹورینٹ میں بھی صرف میری ہی باتیں سنتے رہے تھے آپ جس سے آپ کو میرے بارے میں تو ہر چھوٹی چھوٹی بات کا علم ھو گیا ھے مگر آپ کی فیملی میں کون کون ھے مجھے یہ تک نہیں پتہ۔۔۔۔۔ "
" اور نا ہی "
"کیا ھوا ؟؟؟
عائشہ جو ڈیش بورڈ پر کہنی ٹکائے اپنا مکمل رخ فاران کی طرف کیے اس کا موبائل اٹھا کر یوز کرنے کے ساتھ ساتھ بات بھی کر رہی تھی اچانک سے فاران کی بریک لگا دینے پر اس سے وجہ پوچھنے لگی۔۔۔۔
"سامنے سڑک پر کوئی بے ھوش پڑا ھے شاید ' عائشہ آپ گاڑی لوک کر لیں میں چیک کر کے آتا ھوں یاد سے گاڑی لوک کر لیں باہر مت آئیے گا۔۔۔"
فاران عائشہ کو ہدایت دیتے ھوئے خود گاڑی سے باہر نکلا اور پھر سامنے سڑک پر چلنے لگا جہان کوئی شخص اوندھے منہ سرک پر گرا ھوا تھا۔۔۔۔۔
" ان مسٹر بلین ائیر کو بھی کیا ضرورت ھے اس ویران میں ہمدردی جتانے کی ' یہ کوئی ٹریپ بھی تو ھو سکتا ھے مگر نہیں ان کے اندر تو ہمدردی کے کیڑے چلبلا رھے تھے پھر بھلا مدد۔۔۔۔ "
" کون ھو آپ۔۔۔ ؟؟؟
" بازو چھوڑیں میری فاران۔۔۔۔ "
عائشہ جو بجائے فاران کی ہدایت پر عمل کرنے کے اپنی ہی ہانکے جا رہی تھی اچانک سے اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر کسی کو خود کا بازو پکڑتے دیکھ کر زور سے فاران کا نام لیتے ھوئے چیخی۔۔۔۔
اور اس کی یہی لاؤڈ آواز جب کچھ فاصلے پر موجود فاران نے سنی تو پلٹ کر عائشہ کو دیکھنے لگا مگر اس سے پہلے وہ عائشہ کی طرف لپکتا سڑک پر پڑا شخص پھرتی سے اٹھا اور پیچھے سے فاران کی کن پٹی پر گن رکھ دی۔۔۔۔۔
" چل گاڑی کی طرف۔۔۔۔ "
فاران کے پیچھے موجود شخص نے اس کی ٹانگ پر ٹھوکر مار کر اسے گاڑی کی طرف بڑھنے کو بولا تو فاران دانت پیسنے کے ساتھ عائشہ کی طرف چلنے لگا جو سہمی ھوئی اسے ہی دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ شخص ابھی بھی اس کی بازو دبوچے ھوئے تھا۔۔۔۔
" دیکھو بھائی جو کچھ چاہیئے لے لو مگر ہم میں سے کسی ایک کو بھی کوئی نقصان مت پہنچانا۔۔۔۔"
" یہ گاڑی میرا والٹ یہ واچ سب کچھ لے لو مگر ہمیں جانے دو یہاں سے۔۔۔۔ "
فاران نے سہولت سے ان ڈاکوؤں کو بات سمجھانی چاہی جب اس کی نظر عائشہ کے ھاتھ میں موجود اپنے موبائل پر اٹک سی گئی کیونکہ عائشہ ان ڈاکوؤں کی نظروں سے بچتے ھوئے کوئی نمبر ڈائل کر رہی تھی۔۔۔۔
" ہیلو عائشہ کہاں ھو تم اور تمہارا موبائل کیوں بند ھے انکل کب سے۔۔۔۔ "
" زیان لسن ہیلپ پلیزززز ہمیں کچھ ڈاکوؤں۔۔۔۔"
"تھڑا !!!
"سالی دو کوڑی کی چھوکری ہمارے ساتھ چلاکیاں کر رہی ھے تیرا تو میں ایسا حشر کروں گا کہ تیری روح تک فنا ھو جائے گی۔۔۔۔ "
" عائشہ نے جب سلیمان صاحب کے موبائل پر زیان کی آواز سنی تو بغیر ایک بھی پل ضائع کیے وہ تیز تیز موبائل کان سے لگائے بولنے لگی( جب اسی ڈاکو نےجس نے عائشہ کا بازو پکڑا ھوا تھا) عائشہ کے منہ پر تھپڑ مارتے ھوئے ساتھ ہی بکواس بکتے ھوئے موبائل عائشہ سے چھین کر سڑک پر پٹخ دیا جبکہ موبائل گرتے ہی فوراً کرچی کرچی ھو کر سڑک پر ہی بکھر گیا اور ساتھ ہی کال کاٹ گئی۔۔۔۔
" اے تیری ہمت کیسے ھوئی عائشہ کو ھاتھ لگانے کی تیری تو میں۔۔۔۔۔ "
فاران عائشہ کے تھپڑ لگتے ہی چیختے ھوئے آگے کو بڑھا جب دوبارہ اس کے پیچھے موجود ڈاکو نے اس کی ٹانگ پر ٹھوکر مارنے کے ساتھ گن اس کے سر پر ماری۔۔۔۔
جس سے ایک پل کے لئے فاران کا سر چکرا گیا اور ساتھ وہ فورس بھی ماند پڑ گئی جو وہ آگے کو بڑھنے کے لیے لگا رھا تھا۔۔۔۔۔
" سالی نے اتنا نقصان کروا دیا موبائل دیکھ تو کتنا مہنگا تھا جسے اس بے غیرت عورت کی وجہ سے توڑنا پڑا مجھے۔۔۔۔ "
" اور اس کے یار کو دیکھ کہ کیسے مرچیں لگ رہی ھیں ابھی تو اور لگیں گی تجھے مرچیں جب ایک ایک چیز کا حساب تیری اس بلبل کے وجود سے وصولیں گے۔۔۔۔"
وہی ڈاکو جس نے عائشہ کو پکڑا ھوا تھا اپنی غلیظ نظروں سے جس سے ہوس ٹپک رہی تھی اسے عائشہ کے نازک سراپے پر گاڈھتے ھوئے بولا اور پھر ساتھ ہی عائشہ کی بازو کاندھے کی پاس سے اپنے ھاتھ سے کھینچ کر پھاڑ دی۔۔۔۔
اور بس فاران جو کب سے بے سدھ سا ھو گیا تھا اب اس بکواس سے اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا تبھی وہ اپنے پیچھے موجود ڈاکو کو ٹانگ مار کر گراتے ھوئے ایک پنچ اس کے منہ پر جڑنے کے بعد غضبناک تاثرات چہرے پر سجائے عائشہ کے مزید قریب ھوا اور پھر اپنے دائیں ھاتھ سے اس ڈاکو کا گریبان پکڑ کر اسے عائشہ سے کھینچ کر الگ کرتے ھوئے ایک زور دار پنچ اس کے پیٹ میں مار کر روتی ھوئی عائشہ کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر دو چار ٹھوکریں مزید اس ڈاکو کو مارتے ھوئے وہ خود بھی آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔
وہ اسوقت جلد از جلد عائشہ کو سیفلی اس کے گھر چھوڑنا چاہتا تھا پہلے ہی اس کی بے وقوفی کی بدولت اتنا سب کچھ ھو گیا جس کے لیے وہ خود کو کبھی معاف نہ کرتا جبکہ عائشہ اپنی پھٹی ھوئی بازو پر ھاتھ رکھے مسلسل رونے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔
عائشہ کے آنسو فاران کو برزخ میں دھکیلنے کے مترادف لگے تبھی اس نے گاڑی کی سپیڈ کچھ اور تیز کر دی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" کتنی محبت کرتی ھو مجھ سے۔۔۔۔ ؟؟؟
اینجل جو ابھی ابھی نماز مکمل کر کے جائے نماز اس کی جگہ پر رکھ کر باہر کچن کی طرف جانے کا ارادہ رکھتی تھی اچانک ڈائمن کی بات پر سن سی کھڑی ھو گئی اور ساتھ ہی سہمی ھوئی نظروں سے بیڈ پر براجمان ڈائمن کو دیکھنے لگی جو کب سے ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رھا تھا جب وہ نماز پڑھ رہی تھی تب سے ہی۔۔۔۔
" بہت زیادہ محبت کرتی ھوں اس دنیا میں سب سے زیادہ۔۔۔۔ "
اینجل نماز کے سٹائل میں دوپٹہ لپیٹے پہلے تو خاموش ہی کھڑی تھی مگر جب اس نے ڈائمن کو آٹھ کر خود کے نزدیک آتے دیکھا تو اپنے ھونٹوں پر زبان پھیر کر انھیں تر کرنے کے بعد نظروں کے ساتھ سر بھی جھکائے بہت آہستہ سے جواب دیا۔۔۔۔
اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ ڈائمن نے اپنا کان اینجل کے چہرے کے قریب کرتے ھوئے دوبارہ اسے بولنے کا حکم دیا۔۔۔۔
جبکہ اینجل اس کے ھاتھ میں موجود سگریٹ پر نظریں جمائے دوبارہ سے اسے اپنی محبت کا یقین دلانے لگی۔۔۔۔۔
" کس می !!!
" جی "
ڈائمن کے یوں اچانک نئے حکم پر اینجل آنکھوں میں نمی لائے اسے دیکھنے لگی جو سنجیدگی سے اسے ہی گھور رہا تھا۔۔۔۔
" آئی سے کس می ناؤ "
ڈائمن اینجل کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کو فوکس کیے مزید گویا ھوا اس دفعہ اس کے لہجے میں وارننگ واضح تھی تبھی اینجل اس کی وارننگ سے ڈرتے ھوئے آنکھیں بند کر کے اپنے پاؤں کے ساتھ چہرہ اوپر کئے ڈائمن کے ھونٹوں کے قریب ھونے لگی۔۔۔۔
جب درد سے اچانک اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی جیسے ڈائمن اپنے لبوں کو اینجل کے لبوں پر رکھ کر روک چکا تھا جبکہ اینجل اپنی بازو پر سیگریٹ کی جلن برداشت کرتے ھوئے درد سے مزید رونے لگی۔۔۔
" اگر تمہیں مجھ سے محبت ھوتی نا اینجل تو میری قربت میں تمہاری آنکھیں نم نا ھوتیں۔۔۔"
"جبکہ ہمیشہ ہمیشہ میرے چھونے پر تمہیں رونا آتا ھے' جھوٹ مت بولو مجھ سے ' دھوکہ دینا بند کرو مجھے' شدید نفرت ہے مجھے جھوٹ اور دھوکے دونوں سے۔۔۔ "
" بند کرو اینجل مجھے بے وقوف بنانا۔۔۔ "
" آئی سے سٹاپ اٹ !!!
ڈائمن نے ایک ھاتھ سے اینجل کے جبڑے کو دبوچے دانت پیستے ہوئے اس سے کہا اور پھر ساتھ ہی اسے بیڈ پر دھکا دے کر خود غصے سے تن فن کرتے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ اینجل اپنی قسمت پر آنسو بہانا شروع ھو گئی اور کر بھی کیا سکتی تھی وہ پچھلے ایک ماہ سے یہی ہی تو کر رہی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیمان صاحب کے ساتھ زیان بھی شدید پریشانی سے عائشہ کی کال ٹریس کروانے کی جدوجہد کر رھا تھا جب اچانک سے انھیں اپنے گھر کی پورچ میں کوئی گاڑی روکنے کی آواز سنائی دی۔۔۔۔
جہاں سلیمان صاحب تیزی سے باہر کی طرف بڑھے تھے وہیں زیان بھی اپنا موبائل پاکٹ میں ڈالتے ھوئے سلیمان صاحب کے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔۔
ھال میں داخل ھوتے ہی اس کی نظر عائشہ پر پڑی جو سلیمان صاحب کے سینے سے چپکے اونچا اونچا رو رہی تھی جبکہ اس کے پیچھے کھڑے شخص کی پیشانی سے خون کی ایک لکیر بہتی ھوئی اس کا گریبان سرخ کر رہی تھی۔۔۔۔
زیان آج بھی عائشہ کو دیکھنے کی خاطر سلیمان صاحب کے ساتھ ہی ان کے گھر میں داخل ھوا تھا جب اسے عائشہ کے اتنی دیر تک گھر سے لاپتہ ھونے کا علم ھوا۔۔۔۔
کسی کی ہیلپ لے کر گاڑی لیے باڈی گارڈز گھر واپس آ چکے تھے اور عائشہ کا انھوں نے بتایا تھا کہ وہ کسی جاننے والے شخص کے ساتھ گھر واپس آ رہی ھے مگر ابھی تک وہ واپس کیوں نہیں آئی یہی سوچتے ھوئے زیان نے فوراً ہی عائشہ کے نمبر پر کال کی تو نمبر گاڑی میں ہی پڑا سوئچ آف جا رھا تھا جبکہ اس بات سے اسے اور زیادہ عائشہ کی فکر ستانے لگی۔۔۔۔
وہ بار بار عائشہ کے نمبر کو ٹرائی کیے جا رھا تھا جب اسے سیلمان صاحب کے موبائل پر رنگ ھوتی سنائی دی۔۔۔۔
سلیمان صاحب لینڈ لائن پر کسی سے محو گفتگو تھے اسی لئے زیان نے کال پک کر لی مگر آگے سے عائشہ کی ڈری سہمی ھوئی آواز سن کر وہ ساکت رہ گیا۔۔۔
اس سے پہلے وہ اپنا ایڈریس بتاتی کسی نے اس کے منہ پر تھپڑ مارنے کے بعد اس سے موبائل چھین لیا اور پھر ساتھ ہی کال کٹ گئی۔۔۔۔
عائشہ کو پڑنے والے تھپڑ سے زیان کے دماغ کی رگیں ایک پل میں ہی تن گئیں تھیں کاش وہ اس وقت عائشہ کے پاس ھوتا تو پھر بتاتا وہ اس کی عائشہ کو ھاتھ لگانے کا انجام کیا ھوتا ھے۔۔۔۔
فوراً ہی زیان نے غصے سے آگ بگولہ ھوتے انسپکٹر کو ڈانٹنے کے ساتھ جلد از جلد کال ٹریس کرنے کو کہا جو کہ انھیں لاسٹ لوکیشن 10 منٹ میں سینڈ کرنے والا تھا مگر اس سے پہلے ہی عائشہ گھر واپس آ گئی تھی۔۔۔۔۔
عائشہ کو دیکھتے ہی زیان کی سانسیں بحال ھوئی تھیں جو کب سے رکی ھوئی تھیں اس کی۔۔۔۔
مگر فاران کو وہاں دیکھ کر اسے کچھ جلن کا احساس ھوا جسے پھر یہ سوچ کر کہ وہ خود زخمی ھونے کے باوجود عائشہ کو سہی سلامت واپس لے آیا ھے زیان نے خود کو ریلیکس کیا اور فاران کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔
" آئیں مسٹر میں کو ھوسپیٹل لے چلتا ھوں کافی چوٹ آئی ھے آپ کو تو۔۔۔"
زیان نے روتی ھوئی عائشہ کو خاموش نظروں سے دیکھ رھے فاران کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اسے مخاطب کیا جبکہ فاران نے زیان کی آواز پر چونک کر اسے دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلانے لگا۔۔۔۔
" نہیں نہیں بہت شکریہ میں خود چلا جاؤں گا ' ایکچولی آئی ایم سوری یہ سب میری وجہ سے ھوا اگر میں گاڑی نہ روکتا تو وہ ڈاکو۔۔۔۔"
" آئی ایم ایکسٹریملی سوری فار ڈیٹ عائشہ پلیز آپ رونا بند کریں' " اب میں چلتا ھوں اللّٰہ حافظ ' میں گھر جا کر کال کروں گا آپ کو اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔"
" اور آپ ؟؟؟
" اے ایس پی زیان علی !!!
فاران نے سیلمان صاحب سے بولتے ھوئے زیان کی طرف رخ کیا جب زیان نے اسے اپنا نام اور تعارف کروایا۔۔۔۔
" جی اے ایس پی زیان علی ' آپ پلیز بہت خیال رکھیے گا اپنی بہن کا وہ بہت ڈر گئی ھیں ان ڈاکوؤں کی وجہ سے۔۔۔۔"
فاران نے جان بوجھ کر زیان کو عائشہ کا بھائی بنایا جبکہ بھائی لفظ پر ایک بار پھر زیان کی رگیں تن گئیں۔۔۔۔
" جی آپ بے فکر رہیں میں بہت خیال رکھوں گا اپنی منگیتر عائشہ زیان کا ' اب آپ جائیں خون بہت تیزی سے بہہ رھا ھے' اور ھاں بہت شکریہ آپ کا میری عائشہ کی حفاظت کرنے کا ' آیندہ آپ کو اس کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ میں خود عائشہ کی حفاظت کر لوں گا۔۔۔۔"
زیان بھی کہاں چپ رھنے والوں میں سے تھا اور اسے ویسے بھی فاران کی نظروں میں عائشہ کے لئے پسندیدگی صاف نظر آ رہی تھی تبھی اسی جتانے لگا کہ عائشہ کے بارے میں وہ کیا فیلنگ رکھتا ھے۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف فاران سنجیدگی سے زیان کی طرف دیکھتے ھوئے آخر میں اس کی طرف ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھال کر ایک بار پھر سلیمان صاحب کے سینے لگی عائشہ کو دیکھنے کے بعد واپسی کے لئے پلٹ گیا۔۔۔
مگر زیان کو اس کی طنزیہ مسکراہٹ بہت مشکوک سی لگی جسے وہ اگنور کرتے ھوئے عائشہ کے قریب ھوا تو اسے عائشہ کی بازو پھٹی ھوئی نظر آئی اور بس زیان کا جو غصہ کچھ دیر پہلے ختم ھو چکا تھا اب دوبارہ عروج پر پہنچ گیا۔۔۔۔۔
" عائشہ یہ کام انھی ڈاکوؤں کا ھے نا ؟؟؟"
ان کا تو میں ایسا عبرت ناک حشر کروں گا کہ دنیا توبہ توبہ کرے گی۔۔۔۔"
" ماموں آپ عائشہ کو اس کے روم میں لے کر جائیں میں اب جا رھا ھوں صبح ڈیوٹی پر جانے سے پہلے چکر لگاؤں گا خدا حافظ !!!
زیان سے عائشہ کا یوں رونا برداشت نہیں ھو رھا تھا ساتھ ہی اس کا غصے سے برا حال ھو چکا تھا تبھی وہ سلیمان صاحب کو ہدایت دیتے گھر سے باہر نکل گیا جبکہ اس کے جاتے ہی سلیمان صاحب بھی عائشہ کو اسی طرح اپنے ساتھ لگائے اس کے کمرے کی جانب چل پڑے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے تقریباً 11 بجے ڈائمن نے کمرے میں قدم رکھا تو اسے کمرے میں پھیلی نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی میں عائشہ بیڈ کے ایک کونے میں سمٹی ھوئی گہری نیند میں مبتلا نظر ائی۔۔۔
عائشہ کو دیکھتے ہی ڈائمن سست روی سے چلتے ھوئے بیڈ پر چڑھ گیا اور پھر عائشہ کے قریب ھوتے ھوئے اس نے عائشہ کا چہرہ اپنے ھاتھوں کے پیالے میں بھرتے ھوئے ایک کس اس کی پیشانی پر دی اور پھر ساتھ ہی ابھی بھی ہلکی ہلکی نمی لیے اس کی دونوں آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھونے لگا۔۔۔۔
جو اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ ابھی تک روتے ھوئے ہی سوئی ھے۔۔۔۔
" آئی ایم سوری میری جان ' پتہ نہیں مجھے کیا ھو جاتا ھے میں تمہیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا پھر بھی تمہیں تکلیف دے دیتا ھوں۔۔۔۔"
" آئی ایم سوری یار "
" بہت درد ھوا ھو گا نا تمہیں بہت جلن برداشت کی ھوگی۔۔۔ "
" کیسے سہا ھو گا تم نے ؟؟؟
" دوبارہ میں نہیں کروں گا ایسے ' آئی پرومس بٹ مجھے کبھی چھوڑنا نہیں اینجل مر جاؤں گا میں تمہارے بغیر سچ میں مر جاؤں گا "
" بس معاف کر دیا کرو مجھے مانا کہ بہت برا ھوں مگر جیسے بھی ھوں تم سے عشق کرتا ھوں وہ بھی انتہا درجے کا۔۔۔۔ "
ڈائمن نے بھرائی ہوئی آواز میں اینجل کی بازو جس پر سیگریٹ لگائی تھی اس زخم کو چومتے ھوئے دیوانہ وار عائشہ کے چہرے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرنے لگا اور ساتھ بولتے ہوئے اس نے معافی بھی مانگی اینجل سے۔۔۔۔
مگر ایسا تو وہ ہمیشہ ہی اسے تکلیف پہنچا کر کرتا تھا یہ کوئی نئی بات تو نہیں تھی مگر حیرت کی بات تو یہ تھی کہ عائشہ اس کے یوں خود کو چھونے پر بھی گہری نیند میں سوئی ھوئی تھی شاید درد کی شدت سے اس کا دماغ اتنا سن ھو گیا تھا کہ وہ اس قدر گہری نیند میں جا چکی تھی۔۔۔
" تم صرف میری ھو اینجل صرف اپنے ڈائمن کی !!!
ڈائمن آخری بار اینجل کے ھونٹوں کو چھونے کے بعد اپنا سر اس کے سینے پر رکھ کر خود بھی گہری نیند میں چلا گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے کسی پہر اینجل کی آنکھ کھلی تو اسے شدت سے پیاس کا احساس ہوا روتے ھوئے سونے کی وجہ سے اس کا گلا مکمل خشک ھو چکا تھا لیکن جب اس نے آٹھ کر جگ کو دیکھا تو وہ خالی پڑا دیکھائی دیا۔۔۔۔
اتفاق سے اس کی نظر اپنے قریب ہی سو رھے ڈائمن پر پڑی تو وہ کرب سے اسے سکون کی نیند سوتے دیکھ کر مسکرائی اور پھر اٹھ کر ناچار کچن کی جانب چل پڑی کیونکہ اب مزید پیاس برادشت نہیں ھو رہی تھی اس سے۔۔۔۔
دوسری طرف ڈائمن نے جب نیند میں اپنے برابر کی جگہ پر ہاتھ پھیرا تو وہ اینجل کو نہ پا کر جھٹ سے اُٹھ بیٹھا اور پھر اسے سارے کمرے میں تلاشنے کے لیے نظر گھمانے لگا تو اینجل کو کمرے میں نہ پا کر وہ تیزی سے باہر کی جانب لپکا جہاں کچن کی لائیٹ آن دیکھ کر وہ سکون کی سانس لیتے ھوئے کچن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
اینجل ابھی فریج سے بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیل ہی رہی تھی کہ اچانک اس نے خود کو ڈائمن کے حصار میں پایا۔۔۔
ڈائمن نے اسے پیچھے سے کمر سے پکڑتے ھوئے اسے اپنے سینے سے لگانے کے بعد اپنے لب اُسکے داہنے شانے پر رکھ دیئے تھے۔۔۔۔۔
ڈائمن کے ایسا کرتے ہی گلاس اینجل کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین بوس ہو چکا تھا لیکن ڈائمن نے اسے ویسے ہی تھاما ھوا تھا۔۔۔۔
اینجل سیگریٹ والے واقعے سے اتنا گھبرا چکی تھی کی کوئی احتجاج کرنے کی ہمت ہی نہ کر سکی۔۔۔۔۔
" پیاس تو مجھے بھی بہت لگی ھے اینجل مگر پانی کی نہیں بلکہ تمہاری "
ڈائمن نے بولتے ھوئے اب اپنے ھونٹوں کو اینجل کی گردن پر رکھ کر اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا مگر جب اس نے اینجل کو خاموش پایا تو اچانک اس نے اینجل کو کندھوں سے تھام کر اُسکا رخ اپنی طرف کیا اور پھر جھک کر اپنے تشنہ لب اسکے لبوں پر رکھ کر خود کو سیراب کرنے لگا۔۔۔۔
جبکہ اینجل آنکھیں بند کیے خود کو رونے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگی کیونکہ اس کے آنسو ڈائمن کو غصہ دلاتے تھے اور وہ اب کوئی ریسک نہیں لے سکتی تھی۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب ڈائمن نے خود کو سیراب کر لیا تو ذرا سا جھک کر اینجل کے نازک وجود کو اپنی باہوں میں بھر کے کمرے کی طرف چل پڑا۔۔۔۔
کمرے میں پہنچ کے ڈائمن نے اُسکے نازک وجود کو بیڈ پر لیٹا کر خود تیزی سے اس پر جھک گیا۔۔۔۔۔
وہ دیوانہ وار اینجل کے ایک ایک نقوش کو اپنے لبوں سے چھو کر معتبر کر رھا تھا جبکہ اینجل ابھی بھی اپنے آنسو روکنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔۔۔۔۔
اُسکے چہرے سے ہوتے ہوئے اب ڈائمن اسکی گردن پر جھک چکا تھا اینجل نے جب ہلکا سا احتجاج کرنا چاہا تو اسنے اینجل کے لبوں پر اپنے لب رکھ کر اُسکے سارے احتجاج کو اپنے لبوں سے سمیٹ لیا۔۔۔۔
کچھ لمحے بعد ڈائمن کا جھکاؤ اپنے سینے پر ھوتے دیکھ کر اینجل نے اُسے شانوں سے پکڑ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا تو ڈائمن نے اُسکے ہاتھوں کو اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کر تکیے سے لگانے کے بعد اسے اپنی مکمل اپنی گرفت میں لے لیا اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اُسے کمر سے اونچا کر کے اُسکے شرٹ کی زپ کھول دی۔۔۔۔۔
اینجل مضبوطی سے آنکھیں بند کیے اپنی دھڑکنیں شمار کر رہی تھی جبکہ ڈائمن اب اُٹھ کر اپنی شرٹ نکلنے لگا تھا۔۔۔۔
خود سے ڈائمن کو دور ھوتے محسوس کر کے اینجل نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور پھر بیڈ سے اٹھنا چاہا لیکن ڈائمن تیزی سے اسے پکڑتے ھوئے اسکی اس حرکت کو ناکام کر چکا تھا اور پھر اینجل کو شانوں سے تھام کر دوبارہ بیڈ پر لیٹانے کے بعد وہ اس پر جھک گیا۔۔۔۔
ہر گزرتے لمحے وہ دیوانہ وار اپنی محبت اینجل پر لٹا رہا تھا اور وہ بیچاری راہِ فرار نہ پا کر خود کو اُسکے سپرد کر چکی تھی۔۔۔۔
اینجل گھر میں اکیلے بیٹھے ڈائمن کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ رات کے 11 بج رھے تھے اور وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا اتنے بڑے گھر میں وہ سارا دن خود کو پاگل پاگل سا محسوس کرتی۔۔۔۔۔
شکر تھا کے وہ رات کو گھر آ جاتا تھا ورنہ تو شاید وہ مکمل پاگل ہی ہو جاتی کیونکہ تہنائی سہنا آسان کام تو نہیں ھوتا اور ویسے بھی اسے کہاں عادت تھی تنہا رھنے کی۔۔۔۔
ابھی وہ بار بار دروازے کی سمت دیکھے اُسکا انتظار ہی کر رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھول کر ڈائمن کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔
ڈائمن کو دیکھتے ہی اینجل بیڈ سے آٹھ کر تیزی سے اُسکے قریب آئی۔۔۔۔۔
" آپ اتنی دیر سے کیوں آتے ہیں؟؟؟
مجھ۔۔۔مجھے اکیلے بہت ڈر لگتا ہے اتنے بڑے گھر میں۔۔۔"
وہ سہمی ھوئی نظروں سے ڈائمن کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی کچھ دنوں سے ڈائمن کی ملنے والی بھرپور محبت سے وہ کافی حد تک نارمل ھو گئی تھی تبھی اب بھی وہ اس سے شکوہ کرنے کی ہمت کر پا رہی تھی مگر آج اسے ڈائمن کچھ دنوں کی بانسبت عجیب لگا یا یہ کہنا زیادہ بہتر ھو گا کہ اینجل کو وہ وہی ظالم ڈائمن لگا جو صرف اسے تکلیف پہنچانا جانتا تھا اس وقت ڈائمن کا مکمل چہرہ غصے کی زیادتی سے سرخ ھو چکا تھا ناجانے کس بات پر اس کا ایسا حال ھوا تھا جسے اینجل سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔
" اب میں سارا وقت تمہارے قدموں میں تو نہیں بیٹھا رہ سکتا اور بھی بہت سے کام ھوتے ھیں مجھے۔۔۔۔"
ڈائمن غصے اور سنجیدگی کے ملے جلے تاثرات لئے اسے کہنے کے ساتھ ہی الماری کی طرف بڑھا اور اینجل کا نائٹ سوٹ نکال کر اُسکی طرف بڑھاتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔
"جاؤ، جا کر چینج کر کے آؤ"
"لیکن وہ۔۔۔وه میں۔۔۔آپ کھانا نہیں کھائنگے؟؟؟
ڈائمن کے ملنے والے حکم پر اسنے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔
اصل میں وہ اُس کا دھیان دوسری طرف کرنا چاھتی تھی مگر ڈائمن اس وقت بہت غصے میں تھا اور اینجل کا آگے سے پوچھا گیا سوال اس کے غصے کو مزید ھوا دینے کا باعث بنا۔۔۔۔
تبھی اس نے اینجل کا نائٹ سوٹ زمین پر پھینک کر خود اُسکی طرف بڑھا اور پھر اُسکے قریب آ کر رکنے کے بعد ایک جھٹکے سے اُسکا دوپٹہ اُسکی گردن سے نکال کر صوفے پر اچھال دیا۔۔۔۔۔
پھر اینجل کے مزید قریب آتے ھوئے اس نے اینجل کے بالوں کو کیچر کی قید سے آزاد کیا جس سے اُسکے بال آبشار کی طرح اُسکی پشت پر پھیل گئے۔۔۔۔۔
اینجل حیرانگی کے ساتھ آنکھوں میں خوف سموئے ڈائمن کی حرکات نوٹ کر رہی تھی جب اچانک سے اسنے اینجل کا ہاتھ پکڑ کر اپنی شرٹ کے بٹن پر رکھا۔۔۔۔۔
"کھولو انہیں۔۔۔"
اپنی نظریں اینجل کے سہمے ھوئے چہرے پر گاڈھے وہ زور سے دھاڑا۔۔۔۔۔
جبکہ اینجل اس کی گرج پر اچھل کر خوف سے سہم کر اُسے دیکھنے لگی لیکن اُسکی آنکھوں میں غصّے کے ساتھ وارننگ دیکھ کر وہ جلدی جلدی اُسکی شرٹ کے بٹن کھولنے میں مصروف ھو گئی۔۔۔۔۔
جب شرٹ کے سارے بٹن وہ کھول چکی تو ڈائمن نے اپنی شرٹ اتار کر صوفے پر پڑے اُسکے دوپٹے کے پاس اچھال دی اور پھر ایک جھٹکے سے اینجل کو اپنے سینے میں بھینچ کر اُسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔۔۔۔۔
ڈائمن نے اتنی زور سے اسے خود میں بھینچا ھوا تھا کہ اینجل کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ ڈائمن کی جسارتیں بھی بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔۔۔۔۔
وہ اُسکے کاندھوں کو اپنے لبوں سے چھوتا ھوا اب اُسکی گردن پر جھک چکا تھا۔۔۔۔
اس وقت وہ اینجل کی گردن پر جا بجا اپنی محبت کی مہریں ثبت کرتے ہوئے جھک کر اُسکی کولر بون پر کس کرنے لگا تھا اور پھر ساتھ ہی ڈائمن کے ہاتھ اُسکی پیٹھ پر رینگ رہے تھے۔۔۔۔۔
اینجل چپ چاپ کھڑی ڈائمن کی حرکات پر اب مکمل کانپنے لگی تھی جب اچانک سے ڈائمن نے اُسکی شرٹ کی زپ کھول دی اور شانوں سے اُسکی شرٹ کو نیچے کرتے ھوئے اُسکی کالر بون کے نیچے جھک کر کس کرنے لگا۔۔۔۔
ڈائمن کا جھکاؤ اپنے سینے پر ھوتے دیکھ کر اینجل نے اپنی بھاری ھو رہی سانسوں کے درمیان ہلکا سا احتجاج کرنا چاہا جب ڈائمن جھک کر اُسکے نازک وجود کو باہوں میں بھر کر بیڈ تک لایا اور ایک جھٹکے سے اُسے بیڈ پر لیٹا کر خود اُسکے وجود پر قابض ہو گیا۔۔۔۔
اینجل نے اُسکے شانوں پر ہاتھ رکھ کر اُسے خود سے دور کرنا چاہا تو ڈائمن نے اُسکے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی اُنگلیاں پھسا کر تکیے سے لگا دیے اور ساتھ ہی اُسکے وجود پر دیوانہ وار اپنی محبت کی شدّت کی نشانیاں چسپاں کرنے لگا۔۔۔۔۔
اینجل اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اُسکی شدتوں کو برداشت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی اور وہ اُسکے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو اپنے لبوں سے معتبر کر رہا تھا تو کبھی وہ اُسکے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوتا، کبھی اُسکے رخسار تو کبھی اُسکی گردن پر جھک جاتا۔۔۔۔
اینجل اس وقت خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی پچھلے ایک ہفتے سے اسے ڈائمن کی محبت اس کی چاہت کی عادت ھو گئی تھی پھر بھلا یہ کیا ھو گیا تھا ڈائمن کو جو وہ دوبارہ ویسے ہی برتاؤ کرنے لگا تھا۔۔۔۔
یہ بات اینجل سمجھنے سے قاصر تھی تبھی وہ بغیر کوئی احتجاج کئے اب خود کو ڈائمن کے سپرد کر چکی تھی جس سے وہ ساری رات اینجل کے وجود پر قابض رہا اور پھر صبح فجر سے کچھ دیر پہلے اُس سے الگ ہو کر اینجل کے وجود پر لحاف ڈالنے کے بعد خود آنکھیں بند کیے نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔۔۔
اینجل اب بری طرح ٹوٹ چکی تھی ڈائمن کا یہ روپ ہمیشہ ہی اس کی روح تک فنا کر دیتا تھا وہ رونے کے ساتھ ڈائمن کے متعلق سوچتے ھوئے ایسے ہی لحاف میں لیٹی ناجانے کب خود بھی ھوش و حواس سے بیگانہ ھو گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" سر کچرے کے ڈھیر سے آج پھر دو لاشیں ملی ھیں۔۔۔"
"لاشوں کی حالت بہت خراب ھے گلی سڑی پڑی ھیں بالکل اور کہا جا رھا ھے کہ یہ کام بھی ایول ڈائمن کا ھے کیونکہ لاشوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔۔۔۔"
سلیمان صاحب اپنے آفس میں بیٹھے کسی کیس کی فائل کھولے ھوئے تھے جب اچانک سے نیو انسپکٹر جاوید انھیں آج ملنے والی لاشوں سے باخبر کرنے لگے۔۔۔۔"
" یہ پہلا کیس ھے انسپکٹر جاوید جو میری موجودگی میں ڈائمن نے سر انجام دیا ھے , تم جا کر مکمل تفصیل اکٹھی کرو کہ کون لوگ تھے وہ جن کا قتل ھوا ھے اور ایسا کیا کر دیا تھا انھوں نے جو ڈائمن نے انھیں ایسی موت دی۔۔۔۔"
" سب کچھ پتہ کر کے رپورٹ دو مجھے"
" اور ھاں یاد سے پہلے زیان کو بھیجو میرے کیبن میں۔۔۔۔۔ "
سلیمان صاحب نے جاوید کو آرڈر دے کر اسے اپنے آفس سے چلتا کیا اور خود کرسی کی پشت پر سر گرائے ڈائمن کے متعلق سوچنے لگے۔۔۔۔
" کون ھو تم ڈائمن؟؟؟
" بہت بے صبر ھوں تمہیں دیکھنے تم سے ملنے کر لئے"
" کم ان !!!
سلیمان صاحب ڈائمن کے متعلق ہی سوچتے ھوئے ہلکا سا بڑبڑا رھے تھے جب اچانک سے دروازے پر ھونے والی دستک پر کم ان بول کر سیدھے ھو کر بیٹھ گئے۔۔۔۔
"ماموں آپ نے بلایا مجھے ؟؟؟
زیان ان کی سامنے والی کرسی پر ریلیکس سا بیٹھتے ھوئے گویا ھوا۔۔۔۔
جب سلیمان صاحب سر کو اثبات میں ہلاتے ھوئے اسے غور سے دیکھنے لگے۔۔۔۔
" زیان مجھے یہ ایول ڈائمن چاھیے کچھ بھی کرو پکڑو اسے۔۔۔"
سلیمان صاحب کی بات پر زیان کرسی پر سیدھے ھو کر بیٹھا اور ساتھ ہی انھیں سنجیدگی سے دیکھنے لگا...
" کیا بات ھے ماموں کیا کیا ڈائمن نے۔۔۔۔؟؟؟
سلیمان صاحب کو زیان کی لاعلمی پر ایک پل کو حیرت ھوئی جسے وہ اگنور کرتے ہوئے اسے آج کے کیس سے آگاہ کرنے لگے۔۔۔۔
" بٹ ماموں ڈائمن تو برائی ختم کرتا ھے میرے خیال میں وہ بالکل سہی کام کر رھا ھے ورنہ ہمارے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے کونسا کسی ایسے درندے کو پکڑا ھے جنہیں ڈائمنڈ موت کی سزا دیتا ھے۔۔۔۔۔"
زیان کی بات پر سلیمان صاحب شوکڈ ہی تو رہ گئے تھے کیونکہ بقول ان کے ڈائمن کو کسی نے حق نہیں دیا انسانی زندگیوں کو لینے کا وہ ایک مجرم تھا اور اسے سزار ملنی ہی چاھیے۔۔۔۔
" تم ھوش میں تو ھو زیان کیسی بے وقوفوں والی بات کر رہے ھو ہم محافظ ھیں لوگوں کے, ان کر حفاظت کرنے کا زمہ لیا ھے ہم نے اور اب جب تم ہی ایسی باتیں کرو گے تو معاشرے میں یوں کوئی بھی کسی کو بھی مار کر ڈائمن بن جائے گا اور تم جیسے افسر یہ کہہ کر کے وہ برائی ختم کر رھا ھے ایک دن دنیا کو ہی ختم کر لو گے۔۔۔۔"
"سمجھ رھے ھو کچھ کیا کہہ رھا ھوں میں ؟؟؟
" جاؤ پتہ لگاؤ ڈائمن کا اور سلاخوں کے پیچھے پٹخو اسے۔۔۔۔"
سلیمان صاحب لمحوں میں تیش میں آ چکے تھے تبھی زیان کو اتنا ڈانٹ گئے جبکہ ریان بھی انھیں غصے میں دیکھ کر سر ھاں میں ہلاتے ھوئے اٹھ کر وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
دن بہت تیزی سے گزر رہے تھی آج اس ڈاکوؤں والے حادثے کو گزرے ایک ہفتہ بیت چکا تھا اس رات کے بعد سے فاران روز ہی گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کے میسجز کے علاوہ دن میں ایک آدھ بار عائشہ سے کال پر بات بھی کر لیتا تھا اور عائشہ بھی بہت جلدی فاران کی طرف اٹریکٹ ھو رہی تھی۔۔۔۔
ھوتی بھی کیوں نہ وہ تھا ہی اتنی خوبرو پرسنالٹی کا مالک اور ویسے بھی جب کوئی شخص خود سے آپ کو ایکسٹرا اٹینشن دے آپ کا خیال رکھے تو بے شک ہر انسان کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ھونا واجب ھے۔۔۔۔
یہی عائشہ کے ساتھ بھی ھوا تھا جو وہ من ہی من میں فاران احمد کو پسند کرنے لگی تھی مگر اظہار کرنے کی ہمت وہ ابھی بھی خود میں نہ پاتی تھی بلکہ وہ یہ امید رکھے ھوئی تھی کہ پہل فاران کی طرف سے ھو گی۔۔۔۔
اتنا تو وہ بھی سمجھ ہی چکی تھی کہ فاران بھی اسے پسند کرتا ھے اور یقیناً اس کے متعلق کھرے خذبات رکھتا ھے اب بس اسے فاران کے پرپوزل کا ویٹ تھا۔۔۔۔
مگر نہ تو آج فاران کا مارننگ میسج آیا تھا اور نہ ہی اس نے کل رات گڈ نائٹ کا میسج کیا تھا پچھلے ایک ہفتے سے عائشہ کو عادت ھو گئی تھی فاران کے میسجز کی تبھی اب وہ بے تابی سے اس کے میسج کا ویٹ کر رہی تھی مگر نہ میسج کو آنا تھا اور نہ وہ آیا تھا۔۔۔۔
عائشہ بیڈ پر چت لیٹی موبائل ھاتھ میں تھامے دوپہر تک انتظار کرتی رہی مگر فاران کا میسج یا کال نہ آتی دیکھ کر عائشہ نے خود اسے کال کرنے کا سوچا اور پھر تیزی سے بیڈ پر بیٹھتی ھوئی موبائل میں فاران کا نمبر ٹچ کر کے اسے کال کی۔۔
جبکہ اگلے ہی لمحے فاران کا نمبر سوئچ آف پا کر وہ شدید پریشانی میں مبتلا ھو گئی آخر ایسا بھی کیا ھو گیا تھا کہ اس کا نمبر آف جا رھا تھا کہیں کچھ۔۔۔۔
" نہیں سب ٹھیک ھو گا۔۔۔"
عائشہ نے اپنے ذیہن میں پیدا ھونے والی نیگٹو سوچوں کو پرے دھکیلتے ھوئے خود فاران کے آفس جانے کا سوچا کیونکہ اس کے گھر کا ایڈریس تو وہ جانتی نہیں تھی مگر پرسوں باتوں باتوں میں فاران نے اسے اپنے آفس کا بتایا تھا تبھی اب وہ وہاں جا کر اس کی خیر خبر معلوم کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
عائشہ نے حتمی فیصلہ کرتے ھوئے اٹھ کر اپنے کپڑے لیے اور فوراً باتھ روم میں گھس گئی۔۔۔۔
آگے 15 منٹ بعد وہ بلیک جینز کے اوپر لیمن ٹاپ پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے گیلے بالوں کو برش کر رہی تھی۔۔۔۔
بالوں کو کنگھی کرنے کے بعد اس نے انھیں کھلے ہی چھوڑ دیا اور پھر بیڈ پر پڑے اپنے دوپٹے کو اٹھا کر گلے میں ڈال کر ایک سائیڈ پر پھینکا اور پھر اپنا موبائل اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
ابھی وہ سیڑھیاں اتر کر ڈرائیو کو ہی آواز دے پائی تھی جب اس کے موبائل نے بجنا شروع کر دیا عائشہ نے بے تابی سے فوراً موبائل کی سمت دیکھا کہ شاید فاران کی بیک کال ھو گی مگر سکرین پر زیان کا نام جگمگاتے ھوئے دیکھ کر اسے مایوسی ھوئی۔۔۔
بے دلی سے اس نے کال اٹینڈ کر کے موبائل کان سے لگا لیا جب زیان نے اسے سلام کیا۔۔۔
" وعلیکم السلام !!!
" کیا بات ھے زیان تم نے یوں اچانک کال کیوں کی۔۔۔۔؟؟؟
ٹھنڈی سانس لینے کے بعد عائشہ زیان سے مخاطب ھوئی اسی ایک ہفتے میں زیان کی روز کی آمد یہ رنگ لائی تھی کہ وہ عائشہ کی ناراضگی دور کرنے میں کامیاب ھو چکا تھا۔۔۔۔
عائشہ تھی بھی اس نیچر کی کہ وہ زیادہ دیر کسی سے ناراض نہیں رہ سکتی تھی تبھی دوبارہ وہ زیان سے پہلے جیسا برتاو کرنے لگی جو کہ اس سے بات کرنا کم اور لڑنا زیادہ ھوتا تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے دشمن بھی تھے اور دوست بھی۔۔۔۔
عائشہ کے لیے تو وہ دوست ہی تھا جبھی اس نے زیان سے شادی سے انکار بھی ایک بے فضول سی ضد کو بنا کر کیا تھا وہ جانتی تھی کہ زیان اپنی جاب کو لے کر کتنا پاگل ھے تبھی وہ سب کی نظروں میں اچھی بھی بنی رہی اور زیان سے شادی کرنے سے بھی بچ گئی۔۔۔۔
مگر زیان بچپن سے ہی اس کی محبت میں گرفتار تھا اور اب جب سے فاران کی توجہ عائشہ کی طرف دیکھی تھی تب سے وہ جلد از جلد عائشہ کو اپنا بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
اس لئے اب بھی عائشہ کی ہر بات مانتے ھوئے نہ صرف اس کی لڑائیاں برادشت کرتا بلکہ اسے سوری بھی خود ہی کرتا وہ اسی بات میں بہت خوش تھا کہ کم از کم عائشہ کی ناراضگی تو ختم ھوئی اس لئے وہ دوبارہ اسکی ناراضگی تو بالکل افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔۔۔۔
لیکن کل عائشہ نے سپیشل اسے آرڈر دیا تھا کہ وہ اسے شاپنگ کروانے مال لے کر جائے گا زیان نے کہا بھی کہ اس کے پاس اتنا ٹائم نہیں ھوتا کیونکہ آج کل وہ سلیمان صاحب کے حکم پر ایول ڈائمن کا پتہ لگا رھا ھے مگر وہ عائشہ ہی کیا جو اپنی بات سے ہٹ جائے وہ تو زیان کو گھوریاں ڈالتے ھوئے اسے ناراضگی کی دھمکیاں دینے لگی تو زیان کو بھی ماننا ہی پڑا۔۔۔۔
تبھی وہ اب عائشہ کو کال کر کے یہ بولنے والا تھا کہ وہ اسے پک کرنے آ رھا ھے مگر عائشہ کے منہ سے ادا ھونے والے الفاظ پر وہ چونک ہی تو گیا تھا کہ وہ کس طرح بھول سکتی ھے شاپنگ پر جانے کا۔۔۔۔
" کیا بات ھے عائشہ سب ٹھیک تو ھے ۔۔۔۔؟؟
" تم بھول گئی ھو کہ کیا آج شاپنگ پر جانا تھا یار تم نے کل ہی تو گن پوائنٹ پر مجھے رضا مند کیا ھے پھر اب کیوں انجان بن رہی ھو۔۔۔۔۔"
زیان کے یاد دلوانے پر عائشہ نے زور سے اپنی آنکھیں مینچ لیں پھر اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دبانے کے بعد زیان سے گویا ھوئی ۔۔۔
" سوری زیان آج پاسیبل نہیں ھو گا ایکچولی مجھے بہت ضروری کہیں جانا ھے تو شاپنگ کا پلین کینسل کر لیتے ھیں پھر کبھی چلی جاؤں گی شاپنگ پر۔۔۔۔"
" اچھا میں پھر بات کروں گی تم سے بائے "
عائشہ نے تیز تیز بول کر اپنی بات کمپلیٹ کی اور بائے بول کر بغیر زیان کا جواب سنے کال کاٹ دی پھر تیز تیز قدم اٹھاتی وہ گھر سے باہر نکل پڑی کیونکہ گاڑی کا ہارن وہ سن چکی تھی جو ڈرائیو اسے باہر بلانے کے لیے دے رھا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی گاڑی رکی ویسے ہی عائشہ تیزی سے گاڑی کھول کر باہر نکلنے کے بعد سامنے موجود کافی منزلہ اونچی بلڈنگ کو دیکھنے لگی جو یقیناً فاران احمد کا افس تھا۔۔۔
دھڑکتے دل سے عائشہ نے ایک لمبی سانس کھینچ کر اپنا رخ اس بیلڈنگ کے جانب کیا گارڈز کو وہیں چھوڑ کر بلڈنگ کے اندر گھس گئی۔۔۔۔
ریسیپشن پر جا کر عائشہ نے فاران کے متعلق پوچھا تو اسے جو سننے کو ملا وہ اس کے اعصاب سلب کرنے کے لئے کافی تھا ۔۔۔۔۔
" کب ھوا یہ ؟؟؟
کافی دیر بعد جب عائشہ کچھ بولنے کے قابل ھوئی تو یہی الفاظ اس کے منہ سے ادا ھوئے جبکہ بدلے میں اسے کل رات کا وقت بتایا گیا۔۔۔۔
" آج صبح 10 بجے جنازہ تھا ان کا۔۔۔۔"
" سر تو کل سے ہی بہت غمزدہ ھیں اپنے گھر میں بند ھو کر رہ گئے ھیں اپنے والد کی موت کا بہت صدمہ پہنچا ھے انھیں مجھے لگا کہ آپ کو۔۔۔۔"
" ان کے گھر کا ایڈریس بتائیں مجھے ابھی۔ !!!
عائشہ نے جلدی سے بول کر رسیپشن پر موجود لڑکی کی بات کاٹتے ھوئے ایڈریس پوچھا جو اسے ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیا گیا اس کاغذ کو مضبوطی سے اپنی مٹھی میں تھامے عائشہ واپس اپنی گاڑی تک آئی اور ڈرائیور کو وہ کاغذ پکڑا کر چلنے وہ بولا تو ڈرائیو نے بھی گاڑی کاغذ پر لکھے ایڈریس کی طرف بڑھا دی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" آپ سب ادھر ویٹ کریں میں کچھ دیر میں واپس آتی ھوں۔۔۔۔۔"
عائشہ فاران کے عالیشان گھر کے سامنے گاڑی سے اترتی ھوئی اپنے گارڈز سے مخاطب ھوئی اور پھر بغیر ان کا جواب سننے گیٹ کی طرف چل پڑی۔۔۔
عائشہ کے گیٹ پر دستک دیتے ہی ایک اڈھیر عمر سخص باہر نکلا جس کے تعارف مانگنے پر عائشہ نے اسے صرف یہ کہا کہ وہ فاران کو جانتی ھے اور اس سے ملنا چاہتی ھے۔۔۔۔۔
یہ بات سنتے ہی وہ سخص عائشہ کو راستہ دینے لگا کیونکہ آج تک کبھی کوئی لڑکی فاران سے ملنے نہیں آئی تھی اور اب جب آئی تھی تو ضرور وہ کوئی خاص ہی ھو گی یہی سوچتے ھوئے وہ شخص عائشہ کو فاران کے کمرے کا راستہ بتاتے ھوئے خود واپس گیٹ کی طرف چل پڑا۔۔۔۔
عائشہ مسلسل اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دبائے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس چوکیدار کے بتائے گئے کمرے میں داخل ھوئی۔۔۔۔
دروازہ پہلے سے ہی ہلکا سا کھلا ھوا تھا اس لیے عائشہ نے نوک نہیں کیا مگر جیسے ہی اس نے تاریکی میں ڈوبے کمرے میں نظریں گھماتے ھوئے فاران کو تلاش کیا تو وہ اسے بیڈ کے قریب زمین پر بیٹھا گھٹنوں میں سر دیے نظر آیا۔۔۔۔
فاران کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر عائشہ کو اس پر بہت ترس آیا وہ کس طرح خود کو اذیت پہنچا رھا تھا کسی اپنے کو کھو دینا کا دکھ کیا ھوتا ھے یہ عائشہ بھی جانتی تھی جب 5 سال پہلے اس کی بیسٹ فرینڈ رانیہ ایک کار ایکسیڈنٹ میں خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔۔۔۔
عائشہ کو اس سے بہت محبت تھی وہ اپنی ہر بات اس سے شئیر کرتی رمشا اسی کی جڑوا بہن تھی دوستی تو رمشا سے بھی تھی عائشہ کی مگر جو وہ رانیہ سے اٹیچ تھی وہ رمشا سے نہیں۔۔۔۔
کیونکہ رمشا تھوڑی ڈرپوک اور معصوم سی تھی جبکہ رانیہ عائشہ کے جیسی چلبلی اور نڈر لیکن رانیہ کی موت کے بعد عائشہ کا گم صُم ھو جانا رمشا کو برداشت نہیں ھوا اور وہ عائشہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹائم سپینڈ کرنے لگی۔۔۔۔
عائشہ کو واپس نارمل کرنے میں سلیمان صاحب کے بعد سب سے بڑا ھاتھ رمشا کا ہی تھا۔۔۔۔۔
فاران کی تکلیف کو سمجھتے ھوئے عائشہ آنکھوں میں آنسو لیے دبے قدموں سے فاران کی طرف بڑھی اور پھر ہلکا سا جھکتے ھوئے فاران کا نام پکارنے کے ساتھ بہت نرمی سے اس کے کاندھے پر ھاتھ رکھا۔۔۔۔
فاران نے جیسے ہی عائشہ کی آواز سنی ویسے ہی اس نے سر اٹھایا تو عائشہ اس کا چہرہ دیکھ کر ایک پل کے لئے پلکیں جھپکانا بھول گئی وہ اس وقت بہت قابل رحم لگ رھا تھا سرخ سوجھی ھوئی آنکھیں جو اب بھی برس رہی تھیں۔۔
سرخ ہی چہرہ کپکا رھے ھونٹ اور بکھرے بال اس کے اذیت بیان کر رھے تھے فاران کے لیے دکھ اور تکلیف تو اب عائشہ کے چہرے پر بھی واضح تھی وہ اس وقت ایسا محسوس کر رہی تھی جیسے فاران کے آنسو اس کے دل پر گر رھے ھوں۔۔۔۔
"فاران دیکھو "
عائشہ کچھ دیر بعد خود کو نارمل کر کے بہت ہمت کرتے ھوئے بولنے لگی جب اچانک فاران نے اسے کھینچ کر خود میں بھینچ لیا اور اپنے دونوں بازو مضبوطی سے عائشہ کی کمر کے گرد باندھ لیے جس سے عائشہ کی بات تو منہ میں ہی رہ گئی ساتھ وہ ایک پل کو سانسیں روکے فاران کی تیزی سے دھڑک رہی دھڑکن کو بہت قریب سے محسوس کرنے لگی۔۔
وہ تو ناجانے کب تک یوں ہی بازو پھیلائے منہ کھولے ساکت بیٹھی رہتی جب اس کا سکتہ فاران کی بھرائی ھوئی آواز نے توڑا۔۔۔
" ڈیڈ بھی چلے گئے عائشہ وہ بھی چلے گئے مجھے اکیلا چھوڑ کر' سب چلے جاتے ھیں کسی کو میری پرواہ نہیں مام کو میں پسند نہیں تھا مجھ سے زیادہ محبت انھیں اپنے منگیتر سے تھی تو وہ چلی گئیں مجھ سے دور ' پھر اماں بی جو میرے لیے سب کچھ تھیں سب کچھ عائشہ لیکن انھیں بھی مجھ سے دور جانا تھا تو وہ بھی مجھے تنہا کر گئیں اور اب ڈیڈ بھی۔۔۔۔ "
" مانا کہ وہ میرے ساتھ کبھی بھی نہیں تھے نا کبھی انھیوں نے مجھے پیار دیا بٹ ایک اسرا تو تھا کہ میرا کوئی رشتہ ھے مگر اب وہ بھی۔۔۔۔"
" بہت بد نصیب ھوں میں کوئی اپنا نہیں ھے میرے پاس
سب کو دور جانا ھے مجھ سے لیکن مجھے تنہا نہیں رہنا عائشہ مجھے بھی چاھیے کوئی ایسا جو مجھ سے محبت کرے جو میرے ساتھ رھے میرا بھی دل کسی کی قربت کا خواہشمند ھے جو صرف میرا ھو صرف میرا جو ہمیشہ میرے قریب رھے۔۔۔۔"
" میں مر جاؤں گا عائشہ مجھ سے یہ تنہائی سہی نہیں جاتی دنیا کے سامنے میں ایک پرفیکٹ انسان ھوں جس کے پاس سب کچھ ھے دولت شہرت سب کچھ ' بقول ان کے میں دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتا ھوں مگر میں یہ کہتا ھوں عائشہ کہ مجھ سے سب کچھ لے لو ایوری تھنگ بٹ مجھے کوئی ایسا رشتہ دے دو جو میرا ھو جس کی ہر دھڑکن پر میں اپنا نام سن سکوں۔۔۔۔"
" جس سے اگر میں عشق کروں تو وہ بدلے میں مجھے محبت دے لیکن ایسا کبھی نہیں ھو گا کیونکہ کوئی میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتا کوئی بھی نہیں۔۔۔۔"
فاران ایک جذب کے عالم میں اپنا تمام دکھ درد عائشہ سے بانٹ شئیر کر گیا جبکہ وہ بھی بغیر کوئی احتجاج کئے یوں ہی فاران کے ساتھ لگی اس کی تکلیف خود بھی محسوس کرتی رہی۔۔۔۔
جب اچانک فاران کے بولنے کے بعد ہچکیوں کے ساتھ اس کا رونا عائشہ کو مزید اذیت پہنچانے لگا تو وہ اپنے بازو جہنیں وہ ڈھیلا چھوڑے بیٹھی تھی اسے فاران کے گرد لپیٹے ھوئے اس کی کمر سہلانے لگی۔۔۔۔
" پلیزززز فاران روئیں نہیں "
"ایسا مت سوچیں آپ کو بھی بہت جلد کوئی ایسا رشتہ مل جائے گا جو آپ کو اتنی محبت دے گا کہ آپ کے پچھلے تمام دکھ دکھ درد دور ھو جائیں گے بس آپ حوصلہ رکھیں اور انتظار کریں اس رشتے کے ملنے کا۔۔۔۔"
عائشہ نے بہت رسان سے فاران کو سمجھانا چاہا جب اچانک ایک جھٹکے سے فاران نے اسے خود سے الگ کیا اور پھر اسے کرب سے دیکھنے لگا۔۔۔
" جھوٹ مت بولیں عائشہ میں کوئی بچہ نہیں ھوں جسے آپ بہلا لیں گی اچھے سے جانتا ھوں میں کہ پوری عمر ترس ترس کر یوں ہی مر جاؤں گا مگر مجھے کوئی ایسا رشتہ نہیں ملے گا۔۔۔۔"
" سوری آپ کو تکلیف دی لیکن آپ کو مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں ھے اب آپ جا سکتی ھیں۔۔۔۔"
فاران بغیر عائشہ کو دیکھے نظریں جھکائے اب بھی بھرائی ہوئی آواز میں بات کر رھا تھا جب عائشہ نے فاران کے بازو پر اپنے ھاتھ سے دباؤ ڈالتے ھوئے اسے دوبارہ یقین دلایا کہ وہ مایوس نہ ھو اسے بھی کوئی چاھنے والا ملے گا مگر بدلے میں فاران کے جواب پر عائشہ شاکڈ رہ گئی۔۔۔۔
" بولیں نہیں ھے نا کوئی جواب "
" جب آپ مجھ جیسے انسان کو اپنانے میں انٹرسٹڈ نہیں ھیں تو اور کوئی کیوں ساتھ رھے گا میرے۔۔۔۔"
آپ صرف مجھے وقتی دھوکہ دے رہی ھیں اپنی باتوں سے' ورنہ میرے ساتھ رہنے کی ہمت تو آپ خود میں بھی نہیں پاتیں تو باقی کسی سے کیا امید کروں گا میں۔۔۔۔"
" آپ جائیں پلیزززز اور بہتر ھو گا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔۔۔۔"
" پلیززز جائیں !!!
فاران نے غصے سے سر جھکائے بیٹھی عائشہ کو ھاتھ اٹھا کر جانے کو کہا تو وہ بغیر کوئی جواب دیے کسی گہری سوچ میں مبتلا وہیں بیٹھی رہی جب اچانک فاران اسے دیکھتے ھوئے زور سے چیخا۔۔۔۔
" آئی سے گو ناؤ "
" یس یس آئی ایم ریڈی "
" میں بنو گی آپ کا وہ رشتہ جس کی آپ کو ضرورت ھے جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رھے گا جس سے آپ عشق کر سکیں گے آپ اور جو بدلے میں آپ کو محبت دے گا۔۔۔۔"
عائشہ نان سٹاپ بول کر فاران کو یقین دلا رہی تھی جبکہ وہ منہ کھولے حیرانگی سے عائشہ کو دیکھے جا رھا تھا۔۔۔۔
" بلیو می فاران میں بہت سوچ سمجھ کر بول رہی ھوں کوئی ترس نہیں کھا رہی میں آپ پر آپ بابا سے بات کریں میری طرف سے ھاں ہی ھو گی۔۔۔۔"
فاران کے خود کو یوں مسلسل دیکھنے سے عائشہ دوبارہ بول کر اسے یقین دلانے کی کوشش کرنے لگی جب دوبارہ اچانک فاران نے سے خود میں بھینچا اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں تھینکس بول دیا۔۔۔۔
جبکہ عائشہ کچھ منٹس بند اپنے تیز ھو رہی دھڑکنوں کو شمار کرتی فاران سے الگ ھو کر اسے موبائل آن کرنے کا بولتی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی جبکہ فاران کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون ایک عجیب سی خوشی پھیل گئی تھی جسے وہ آنکھیں بند کیے محسوس کرنے لگا۔۔۔۔۔
"بابا جانی میں آجاؤں۔۔۔۔ "
عائشہ نے اگلی ہی صبح سلیمان صاحب کے روم میں نوک کرکے اندر آنے کی اجازت مانگی جو کہ اسے فوراً دے دی گئی۔۔۔۔
کل شام جب وہ واپس گھر آئی تو سلیمان صاحب اپنی ڈیوٹی پر ہی تھے تبھی وہ ان سے صبح بات کرنے کا سوچتی ھوئی اپنے روم میں چلی گئی اور پھر نماز پڑھ کر لیٹتے ہی ناجانے کب وہ گہری نیند سو گئی۔۔۔۔
شاید اسے سکون ہی اتنا ملا تھا کہ نیند آنی واجب ھو گئی آخر کو اپنی محبت کے منہ سے اظہار محبت جو سن لیا تھا اس نے تبھی ساری رات وہ اپنے حسین فیورچر کے خواب دینے کے بعد صبح کے 5 بجے اٹھ گئی۔۔۔۔
آنکھ کھلتے ہی اس نے دیکھا تو سورج کی ہلکی ہلکی سی روشنی پھیل رہی تھی یعنی اس کی نماز قضا ھونے والی تھی جبکہ اسے تو اب خدا کے حضور شکر ادا کرنا تھا۔۔۔
عائشہ نے پھرتی دیکھاتے ھوئے جلدی جلدی وضو کیا اور پھر صرف 2 فرض پڑھ کر ہی دعا مانگنے لگی اور ساتھ ہی ڈھیروں اللّٰہ کا شکر ادا کیا کیونکہ انھوں نے عائشہ کی محبت ( فاران ) کے دل میں بھی عائشہ کے لئے فیلنگز ڈال دی تھیں۔۔۔۔۔
نماز سے فارغ ھو کر وہ کچھ دیر بیڈ پر لیٹ کر اپنا موبائل یوز کرنے لگی جہاں آج پھر فاران کا مارننگ میسج شو ھو رھا تھا جبکہ گڈ نائٹ وہ نہیں کہہ پایا تھا کیونکہ کل وہ سیڈ ہی اتنا تھا یہی سوچ کر عائشہ بھی سیڈ ھو گئی اور پھر ساتھ ہی وہ یہ خود سے وعدہ کرنے لگی کہ وہ فاران کو دوبارہ کبھی رونے نہیں دے گی وہ دوبارہ کبھی دکھی نہیں ھو گا عائشہ اسے اتنی محبت دے گی کہ وہ اب تک کی تمام محرومیوں سے نجات حاصل کر لے گا۔۔۔۔
خود سے عہد کر کے عائشہ نے بھی فاران کو گڈ مارننگ کا میسج کیا اور پھر ساتھ ہی اس کی طبیعت کا پوچھا پھر وہ بیڈ سے اٹھ کر اپنے کپڑے اٹھائے واش روم میں داخل ھو گئی اور اب باتھ لینے کے بعد وہ فریش فریش سے سلیمان صاحب کے روم میں موجود تھی۔۔۔۔۔
"بابا آپ رات کب گھر واپس آئے تھے مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔ ؟؟؟
"ویسے بابا جانی آپ آج کل کچھ زیادہ ہی بزی ھو گئے ھیں اور اپنی لاڈلی کو تو مانو بھول ہی گئے ھیں آپ ۔۔۔۔"
عائشہ سلیمان صاحب کے قریب بیڈ پر بیٹھتی ھوئی ان کے کاندھے پر سر رکھے شکوہ کرنے لگی جب سیلمان صاحب نے فوراً اسے اپنے سینے سے لگانے کے بعد سر پر بوسہ دیا۔۔۔۔۔
" آئی ایم سوری میرے بچے میں آپ کو وقت نہیں دے پا تھا لیکن آپ کو معلوم تو ھے کہ پولیس کی جاب کتنی ٹف اور مصروفیت سے بھرپور ھوتی ھے اور ویسے بھی بچے آج کل میں ایول ڈائمن کے متعلق پتہ کرنے میں مصروف ھوں جس وجہ سے میرا یہاں ٹرانسفر کیا گیا۔۔۔۔"
" مگر آپ سیڈ نہیں ھو اب سے آپ کے بابا جانی اپنی گڑیا کے لیے وقت ضرور نکالیں گے۔۔۔۔"
سلیمان صاحب کا لہجہ شفقت سے بھر پور تھا اور ان کی یہی محبت عائشہ کو ہمت دے رہی تھی فاران کے متعلق بات کرنے کے لئے تبھی وہ آنکھیں موند کر ایک لمبی سانس لینے کے بعد سلیمان صاحب کے سینے سے سر اٹھا کر انھیں دیکھنے لگی اور پھر اپنے دونوں ھاتھوں میں ان کے ھاتھوں کو تھام کر گویا ھوئی۔۔۔۔۔
"بابا جانی وہ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔"
عائشہ اتنا بول کر چپ ھو گئی جبکہ سلیمان صاحب نے مسکرا کر اس کے ھاتھوں کو ہلکا سا دبا کے اسے بولنے کو کہا یہ بھی ان کا ایک انداز تھا محبت اور شفقت ظاہر کرنے کا۔۔۔۔
" وہ بابا آپ کو یاد ھیں فاران جو مجھے ان ڈاکوؤں سے بچا کر لائے تھے۔۔۔۔؟؟؟
عائشہ نے پھر اتنی سی بات کر کے سلیمان صاحب کے چہرے کو دیکھا جو اب اثبات میں سر ہلا رھے تھے۔۔۔۔
" بابا وہ پرسوں ان کے والد کی ڈیتھ ھو گئی تو میں ان کے گھر گئی تھی افسوس کرنے تب انھوں نے مجھے پروپوز کر دیا اور میں نے بھی آپ سے پوچھے بغیر ھاں کر دی۔۔۔۔"
" آئی ایم سوری بابا جانی بٹ وہ سچویشن ایسی تھی کہ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی بٹ ناؤ آئی ریلائز کہ میں نے بہت بڑا گناہ کر دیا ھے مجھے آپ سے پوچھ کر جواب دینا چاھیے تھا آئی ایم۔۔۔۔۔"
" آپ اسے پسند کرتی ھو عائشہ۔۔۔۔؟؟؟
عائشہ شرمندہ سی ڈر جھکائے مسلسل بولتے ھوئے سلیمان صاحب سے معافیاں مانگ رہی تھی جب اچانک انھوں نے عائشہ کی بات کاٹتے ھوئے سوال کیا۔۔۔۔
سلیمان صاحب کے سوال پر عائشہ نے چونکتے ھوئے انھیں دیکھا جو سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رھے تھے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہی عائشہ پھر سے اپنا چہرہ جھکا گئی جیسے وہ اس کی نظروں میں فاران کا عکس دیکھ لیں گے اور جان جائیں گے کہ وہ بھی اس سے محبت کرتی ھے۔۔۔۔۔۔
" عائشہ بیٹے آپ جانتے ھو کہ مجھے صرف آپ کی خوشی عزیز ھے جس بات میں آپ خوش اور مطمئن ھو گئیں میرا حتمی فیصلہ وہی ھو گا بھروسہ کرتی ھو نا مجھ ہر سو ریلکس۔۔۔۔"
" اور بتاؤ کیا تمہیں بھی فاران احمد سے شادی کرنی ھے ۔۔۔۔"
سلیمان صاحب کی محبت اور چاہت کے مدنظر عائشہ آنکھوں میں خوشی کے آنسو سجائے انھیں دیکھنے لگی اور پھر سر کو ھاں میں جنبشِ دے کر پھر سے ان کے سینے لگ گئی۔۔۔۔
جبکہ سلیمان صاحب ہلکے ہلکے اس کے سر پر اپنا شفقت بھرا ھاتھ پھیرتے ھوئے اسے فاران سے ملاقات کروانے کا بولنے لگے۔۔۔۔۔
اس رات کے بعد اگلے دن ہی سلیمان صاحب فاران کے متعلق معلومات حاصل کر چکے تھے اور انھیں صرف اچھائیاں ہی نظر آئی تھیں فاران میں تبھی وہ اب بھی اپنی بیٹی کی چوائس پر مطمئن تھے۔۔۔۔۔۔
سلیمان صاحب کی بات پر عائشہ ایک ھاتھ سے اپنے آنسو صاف کرتے ھوئے ان سے الگ ھوئی اور پھر مسکرا کر انھیں دیکھتے ھوئے ھاں کرنے کے بعد شرما کر اندھا دھند اپنے کمرے کی طرف دوڑ پڑی اس بات سے انجان کہ زیان جو آج پھر ڈیوٹی پر جانے سے پہلے عائشہ کا دیدار کرنے آیا تھا وہ ان باپ بیٹی کی ساری گفتگو تفصیل سے سن چکا ھے۔۔۔۔
زیان کی حالت اس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اس کا چہرہ مکمل سفید پڑ چکا تھا جیسے اس کے جسم میں موجود خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا گیا ھو۔۔۔۔۔۔
اسے نہیں یاد وہ کس طرح اپنی گاڑی تک آیا اور کس طرح وہ ڈرائیور کرنے لگا ایک بار پھر وہ اپنی محبت کو کھو دینے والا تھا ایک بار پھر اسے ریجیکٹ کرکے عائشہ نے کسی اور کو اس پر فوقیت دی تھی۔۔۔۔
ٹھکرا دینے کی تکلیف کیا ھوتی ھے یہ کوئی زیان سے پوچھتا جو اس وقت اذیت کی آخری حد کو چھو رھا تھا۔۔۔۔
اچانک گاڑی چلاتے چلاتے زیان نے بریک لگائی اور پھر اپنے سر کو سیٹ کی پشت پر گرائے زور سے چیخنے لگا۔۔۔۔
ناجانے کتنی ہی دیر تک وہ چیخ چیخ کر اپنی تکلیف کم کرنے کی جدوجہد کرتا رھا پھر اپنے چہرے کو ھاتھوں سے رگڑتے ھوئے آنسوؤں کو صاف کرنے کے بعد اس نے عائشہ کو زور سے پکارا جیسے وہ اس کے قریب ہی موجود ھو۔۔۔۔۔
" تم میری ھو عائشہ صرف میری !!!
" بچپن سے بچپن سے تمہارے سوا کسی اور کو دیکھنا بھی گناہ سمجھا میں نے حرام کر لیا ہر لڑکی کو خود پر۔۔۔۔"
"صرف تمہارا انتظار کیا اب تک صرف تمہارا انتظار اور تم تم نے کیا کیا ایک دفعہ پھر مجھے ٹھکرا کر اس اس کل کے آئے لڑکے کو اہیمت دی۔۔۔"
زیان نے چیختے ھوئے سٹیرنگ پر ھاتھ مارا جبکہ اس کا چہرہ چیخنے کے باعث مکمل سرخ ھو چکا تھا۔۔۔۔۔
ایسا کیا نہیں ھے مجھ میں عائشہ جو تمہیں میں نظر نہیں آتا ایسا کیا ھے فاران میں جو تم اس سے محبت کر بیٹھی۔۔۔۔"
" بہت ھو گیا بہت کر لیا صبر اب اور نہیں "
" تم میری ھو میرے لیے بنائی گئی ھو اور تمہیں میرا ھونا پڑے گا تم ضد ھو اب میری عائشہ اور ضد پوری کرنے کے معاملے میں زیان علی کس حد تک جا سکتا ھے یہ تمہیں اب پتہ چلے گا۔۔۔۔۔"
زیان نے زہر خند سے سوچتے ھوئے فاران اور عائشہ کا تصور کیا اور پھر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا جب اچانک اس کے موبائل کی رنگ ٹون بجنے لگی۔۔۔۔۔۔
نمبر دیکھتے ھوئے زیان نے ایک لمبی سانس لی اور پھر کال ریسور کر کے موبائل کان سے لگایا۔۔۔۔۔
" ٹھیک ھے تم وہیں ویٹ کرو میں ابھی آ رھا ھوں۔۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر زیان نے کال کاٹی اور پھر فوراً گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ خوش خوش مسکراتی ھوئی اپنے کمرے میں واپس آئی اور پھر فوراً ہی بے تابی سے موبائل اٹھا کر دیکھا جہاں اب فاران کا ریپلائے آ چکا تھا مگر میسج پڑھتے ہی عائشہ کا چہرہ مرجھا سا گیا اور وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتی ھوئی سیلیمان صاحب کے کمرے میں داخل ھوئی جو اب اپنے بالوں کو کنگھی کر رھے تھے۔۔۔۔
" بابا وہ وہ فاران "
عائشہ آندھی طوفان کی طرح روم میں داخل ھو کر بولی جبکہ اتنا بول کر ہی وہ رونے والا چہرہ بنائے سلیمان صاحب کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔
" کیا بات ھے عائشہ کیا ھوا فاران کو۔۔۔۔؟؟؟
سلیمان صاحب بھی اس کے چہرے کے تاثرات سے اچھے خاصے پریشان ھو گئے تھے۔۔۔۔۔
" بابا فاران کو بہت بخار ھے وہ میڈیسن بھی نہیں کھا رھے کہہ رھے ھیں کہ ملازموں سے میڈیسن نہیں لیں گے مجھے بلا رھے ھیں وہ۔۔۔۔۔"
" میں کیا کروں بابا۔۔۔۔؟؟؟
عائشہ بولنے کے بعد سر جھکا کر اپنے ھونٹ چباتے ھوئے آنسو روکنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ سلیمان صاحب گہری سوچ میں مبتلا چھوٹے چھوٹے قدم چلتے اس کے پاس آئے اور پھر عائشہ کے چہرے کو اپنے ھاتھ سے پکڑ کر اونچا کیا جس کی آنکھیں اب برسنے کو تیار تھیں۔۔۔۔
" جا کر میڈیسن دے آؤ اسے مگر ایک گھنٹے میں تم واپس گھر آؤ گی۔۔۔۔"
سیلیمان صاحب نے اجازت تو دے دی تھی مگر ان کے لہجے میں موجود سختی کو سمجھتے ھوئے عائشہ نے اثبات میں سر ہلانے کے ساتھ ان کے سینے پر سر رکھ کر اپنے آنسوؤں کو آزاد کر دیا جب کچھ دیر بعد سلیمان صاحب نے اسے خود سے الگ کرتے ھوئے اسے منہ دھو کر ناشتے کی ٹیبل پر آنے کو کہا اور خود کمرے سے باہر نکل گئے جبکہ عائشہ پھر سے فاران کے متعلق سوچ کر اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دبائے سلیمان صاحب کے باتھ روم میں ہی منہ دھونے چلی گئی جو کہ آنسوؤں سے بھرا پڑا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینجل کی برتھ ڈے کے اگلے دن سے ہی ڈائمن اپنے کام میں بہت بزی ھو گیا تھا وہ سارا سارا دن گھر سے باہر رہتا اور رات گئے جب اینجل سو چکی ھوتی تب وہ گھر میں قدم رکھتا اینجل کو سوتا دیکھ کر وہ کپڑے چینج کر کے بغیر کچھ کھائے بس اینجل کی پیشانی چوم کر اپنا سر اس کے سینے پر رکھے سو جاتا۔۔۔۔
کچھ تھکاوٹ اور کچھ اپنی اینجل کی قربت کی بدولت نیند اس پر فوراً مہربان ھو جاتی اور پھر صبح وہ ویسے ہی اینجل کا بنایا گیا ناشتہ کر کے اسے اپنے سٹائل سے گڈ بائے کرتا (جو کہ اسے کس کرنا تھا) گھر سے باہر نکل جاتا اور اینجل پھر سارا دن اکیلے گھر بیٹھی ڈائمن کے آنے کا ویٹ کرنے لگتی۔۔۔۔
خود کو مصروف کرنے کی خاطر وہ زوزانہ ہی گھر کے کچھ نہ کچھ کام کرتی ہی رہتی تھی اور ویسے بھی کام تو اسے کرنے ہی تھے ڈائمن نے کوئی سرونٹ بھی تو نہیں رکھنے دیا تھا۔۔۔۔۔
بقول اس کے وہ اپنی اینجل پر کسی کی بھی پڑنے والی نظر برداشت نہیں کرسکتا چاھے وہ کسی فی میل کی ہی کیوں نہ ھو۔۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ ڈائمن صرف اینجل سے ہی کام کرواتا تھا بلکہ جب بھی وہ فری ھوتا تو گھر کے کاموں میں وہ اینجل کی بھرپور مدد کرتا تھا چاھے وہ گھر کی صفائی ھوتی یا پھر کھانا بنانا۔۔۔۔۔
مگر آج کل تو وہ خود بہت مصروف رہنے لگا تھا پھر اینجل کی مدد تو کیا کرنی تھی تبھی اینجل اس کے گھر سے جاتے ہی گھر کی صفائی کرنے میں مصروف ھو گئی۔۔۔۔۔
سارے گھر میں صفائی کرتے ھوئے وہ صفائی والا کپڑا اٹھائے لائیبریری کی طرف بڑھی اور ایک ایک کر کے کتابوں پر سے مٹی جھاڑنے لگی جب اسے ایک بہت وزنی کتاب دیکھائی دی جو کہ تقریباً نیچے گرنے ہی والی تھی اینجل نے ھاتھ بڑھا کر اسے پیچھے کو دھکیلا تو سامنے موجود منظر دیکھ کر وہ آنکھیں جھپکنا بھول گئی۔۔۔۔
کیونکہ کتاب پیچھے کرتے ہی وہاں اچانک ایک دروازہ نمودار ھو گیا تھا جو کہ پہلے بکس شیلفس کے پیچھے کہیں چھپا ھوا تھا اور اس بات کا اندازہ آج تک کبھی اینجل کو نہیں ھوا کہ وہاں کوئی سیکریٹ روم بھی ھو سکتا ھے۔۔۔۔
کچھ دیر تک تو اینجل یوں ہی شوکڈ کھڑی سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ اس دروازے کے پیچھے کیا ھو سکتا ھے ۔۔۔۔
کچھ سوچتے ھوئے اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دبائے اینجل نے دروازے کے ھنیڈل پر ھاتھ رکھ کر گھمایا تو ایک چرر کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلتا گیا مگر یہ کیا دروازہ کھلتے ہی سامنے ایک بہت لمبی سی گیلری ٹائپ سی جگہ تھی جہاں صرف ریڈ روشنی سے کچھ کچھ نظر آ رہا تھا۔۔۔۔
اینجل ایک کہ بعد ایک کھلنے والے راستوں سے شوکڈ ھوتی آگے کو قدم بڑھانے لگی تقریباً 5 منٹ تک چلنے کے بعد دائیں جانب اسے ایک دروازہ نظر آیا جو کہ اس خوفناک جگہ پر بہت پراسر لگ رھا تھا۔۔
اینجل نے پہلے تو سوچا کہ یہیں سے واپس چلی جائے مگر پھر اپنے دل میں اٹھنے والے تجسّس کے ھاتھوں مجبور ھو کر اس نے وہ دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ اس ریڈ روم میں موجود تھی۔۔۔۔
ریڈ روم میں داخل ھوتے ہی اینجل پورے کمرے کا جائزہ
لینے لگی جو کہ تمام سرخ رنگ کا تھا یہاں جل رھے بلب میں اس روم کا پینٹ جو کہ سرخ ہی تھا بہت خوفناک منظر پیش کر رھا تھا یہاں سے آ رہی بھینی بھینی خوشبو ایسا محسوس کروا رہی تھی جیسے ابھی کچھ دن پہلے اس کی صفائی کی گئی ھو۔۔۔۔
یوں ہی چلتے چلتے ایںجل ریڈ روم میں موجود اس چھوٹی ٹیبل کی طرف آئی جہاں چھوٹے بڑے عجیب و غریب اور ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک اور خوفناک ہتھیار پڑے تھے اینجل نے تو ایسے ہتھیار اپنی زندگی میں پہلی دفعہ دیکھے تھے۔۔۔۔
ناجانے کیوں ان ہتھیاروں کو دیکھ کر اینجل کو قے آنی شروع ھو گئی تبھی وہ وہاں سے ہٹ کر باقی روم میں موجود چیزیں دیکھنے لگی جن میں ایک جگہ دیوار پر بہت بڑی ایل ای ڈی لگی تھی ایک جگہ 2 سیٹر صوفہ اور ایک کونے میں دو کرسیاں رکھی گئی تھیں۔۔۔۔
اینجل کو عجیب تو بہت لگیں یہ سب چیزیں لیکن وہ ابھی اور تفتیش کرنا چاہتی تھی تبھی چلتی ھوئی اس 2 سیٹر صوفے کی طرف آئی اور پھر بیٹھ کر وہاں پڑا ایک چھوٹا سا کیمرہ اٹھا کر غور سے دیکھنے لگی جو یقیناً بہت قیمتی تھا کچھ سوچتے ھوئے اینجل نے اسے ان کیا تو وہاں پہلے سے ہی کوئی ویڈیو چل رہی تھی جو کہ پوز کی ھوئی تھی۔۔۔۔
اینجل نے پھر سے اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دبا کر ویڈیو سٹارٹ کی تو سامنے چلنے والے مناظر دیکھ کر وہ چیخے بغیر نہ رہ سکی کیونکہ اس میں ڈائمن کسے شخص کے ھاتھ میں کیل گاڑھ کر اس کے ناخن اکھاڑ رہا تھا۔۔۔۔
یہ مناظر دیکھتے ھوئے اینجل کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے اور ساتھ ہی وہ کپکپاتے ہوئے ھاتھوں سے کمیرے میں موجود باقی ویڈیوز کو اوپن کرنے لگی جو کہ ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک چیخوں و پکار سے بھری ھوئی تھیں۔۔۔۔۔۔
اچانک ایک ویڈیو سٹارٹ کرتے ہی اینجل کا حیرت کے مارے برا حال ھو گیا کیونکہ وہ ویڈیو ان ہی ڈاکوؤں کی تھی جنہوں نے اینجل پر بری نظر رکھنے کی جرات کی تھی۔۔۔۔
اور بس یہیں اینجل کی ہمت جواب دے گئی اور اس کے ھاتھوں سے کمیرہ چھوٹ کر صوفے پر گر گیا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ڈائمن اتنا ظالم بھی ھو سکتا ھے وہ تو سمجھ رہی تھی کہ جب شادی سے پہلے ایک دفعہ اس نے اینجل سے اقرار کیا تھا کہ وہ کوئی ڈان ھے تو کس طرح اینجل نے اس کی بات کو مزاق کا رنگ دے کر بھلا دیا تھا مگر اب یہ سب کچھ دیکھ کر وہ ڈئمن سے اور زیادہ خوفزدہ ھونے لگی۔۔۔۔۔
دل میں تو پہلے ہی اس کے ڈائمن کے لئے بیزاری اور ناپسندیدگی پیدا ھو رہی تھی مگر اب وہ ڈائمن سے الگ ھونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ھو گئی۔۔۔۔۔۔
وہ ایک سائیکو ظالم شوہر کے ساتھ تو رہ سکتی تھی مگر ایک قاتل کے ساتھ وہ اپنی زندگی گزارنے کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی تبھی ایک حتمی فیصلہ کرتے ھوئے وہ تیزی سے صوفے سے اٹھی اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتی ریڈ روم سے باہر نکلنے لگی مگر یہ کیا ریڈ روم کا دروازہ لوک ھو چکا تھا۔۔۔۔
ناجانے یہ روم کیسا تھا کہ یہاں کا دروازہ بھی آٹو میٹک لوک ھونے والا تھا اور اینجل کے یہاں آنے کے بعد وہ لوک ھو چکا تھا اور یقیناً اسے صرف ڈائمن ہی ان لوک کر سکتا تھا کیونکہ یہاں ھینڈ پرنٹ کا آپشن تھا اور وہ ھنیڈ ڈائمن کے علاوہ اور کس کا ھو گا۔۔۔۔
اینجل جو ڈائمن کی غیر موجودگی میں یہاں سے بھاگنے کا ارادہ کر چکی تھی اب خود کو اس روم میں لوک ھوئے دیکھ کر خوف سے پاگل ھونے لگی وہ زور زور سے اپنی پوری طاقت لگاتے ھوئے دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہی تھی مگر یہ دروازہ تو کوئی طاقتور انسان بھی توڑ نہ پاتا پھر بھلا اینجل کی کیا حیثیت تھی یوں ہی چیختے چلاتے اپنی فورس لگاتے وہ تھک ہار کر دروازہ سے ہی سر ٹکائے رونے لگی اور ناجانے کب روتے روتے وہ ھوش وحواس سے بیگانی ھو گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" فاران فاران اٹھیں پلیز کچھ کھا کر دوا لے لیں میں خود آئی ھوں آپ کو میڈیسن دینے۔۔۔۔۔"
عائشہ جیسے ہی فاران کے کمرے میں داخل ھوئی تو اسے وہ بیڈ پر بے سدھ پڑا دیکھائی دیا فاران کو اس حالت میں دیکھ کر عائشہ کو اپنی سانسیں بند ھوتی محسوس ھو رہی تھیں جبھی وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی اور پھر آنکھیں بند کیے لیٹے فاران کے گال کو ہلکا سا تھپتھپاتے ھوئے اسے مخاطب کیا۔۔۔۔
مسلسل تیسری دفعہ یہی عمل دہرانے کے بعد فاران نے ہلکی ہلکی اپنی آنکھیں کھول کر عائشہ کو دیکھا جو تقریباً اب رونے ہی والی تھی کیونکہ آنسو اس کی آنکھوں میں ڈیرے لگائے بیٹھے تھے۔۔۔۔
" عائشہ یہ تم ھو کیا۔۔۔۔؟؟؟
" میری جان میری اینجل "
فاران نے عائشہ کو اپنے قریب بیٹھے دیکھ کر مسکراتے ھوئے بے خودی کے عالم میں بولنے کے ساتھ کھینچ کر اسے اپنے سینے پر گرا لیا اور پھر اپنے دونوں بازو اس کی کمر کے گرد باندھتے ھوئے اسے اپنے ساتھ چپکا لیا تاکہ وہ الگ نہ ھو سکے۔۔۔۔۔
جبکہ عائشہ تو فاران کے اس عمل پر ہی بوکھلا گئی تھی جبھی اس نے فوراً فاران سے الگ ھونے کی کوشش کی جو کہ ناکام ہی رہی۔۔۔۔
" میں نے بہت مس کیا تمہیں اینجل بہت زیادہ اکیلے رھا نہیں جاتا یار اب اور ویٹ نہیں ھوتا پلیزززز آجاؤ نا ہمیشہ کے لیے میرے پاس۔۔۔۔"
فاران عائشہ کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپاتے ھوئے اس کے کان کے قریب سرگوشی کر رھا تھا اور عائشہ کی ھاٹ بیٹ اتنی تیز ھو چکی تھی کہ فاران بھی اسے اپنے سینے سے لگے ھونے کے باعث محسوس کر سکتا تھا اور ساتھ ہی وہ بہت تیزی سے سانسس لے رہی تھی جیسے اسے سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی ھو۔۔۔۔
عاائشہ کی بگڑتی ھوئی حالت کو دیکھ کر فاران نے اس کی کمر پر سے اپنی بازوؤں کو ہٹا لیا تو اگلے ہی لمحے عائشہ اس سے الگ ھو کر نظریں جھکائے اپنی سانسیں بحال کرنے کی سعی میں مصروف تھی۔۔۔۔۔
" سوری اینجل میں کچھ زیادہ ہی۔۔۔۔ "
" اٹس اوکے فاران آئی انڈرسٹینڈ "
فاران عائشہ کو سر جھکائے دیکھ کر شرمندہ ھوتے ھوئے معافی مانگنے لگا جبکہ عائشہ نے فوراً ہی اسے ٹوک کر مزید بولنے سے منع کر دیا۔۔۔۔۔
" آپ میڈیسن کھا لیں فاران پلیزززز !!!
" تاکہ آپ ٹھیک ھو سکیں آپ کو نہیں پتہ مجھے کتنی ٹینشن ھو رہی ھے آپ کی۔۔۔۔۔"
" اور ھاں ایک گڈ نیوز بھی ھے آپ کے لیے جو آپ کو تب سننے کو ملے گی جب آپ میڈیسن کھا لیں گے تو جلدی سے اٹھیں اور یہ سوپ پی لیں۔۔۔۔"
عائشہ سائیڈ ٹیبل پر پڑے سوپ کا باؤل اٹھا کر( جو کہ فاران کا کک رکھ کر گیا تھا ) فاران سے بولی اور فاران بھی وہ گڈ نیوز سننے کی خاطر جلدی جلدی اٹھ کر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا مگر سوپ کا باؤل اس نے ابھی بھی نہیں تھاما تھا۔۔۔۔۔
ارادہ عائشہ کے ھاتوں سوپ پینے کا تھا اور عائشہ بھی اس کا ارادہ بھانپتے ھوئے سوپ کا چمچ بھر کر اس کے منہ کے قریب لے جانے لگی تو فاران بھی مسکرا کر اسے دیکھتے ھوئے سوپ پینے لگا اسے تو اپنی نظروں پر یقین ہی نہیں آ رھا تھا کہ عائشہ اس کی اینجل جسے وہ پہلی نظر میں ہی دیکھ کر اپنا دل ھار چکا تھا وہ اس کے پاس اس کے کمرے میں اس کے بیڈ پر بیٹھی اسے اپنے ھاتھوں سے سوپ پلا رہی ھے۔۔۔۔۔
آج تو فاران کو یہ ویجیٹیبل سوپ بھی دنیا کا سب سے ٹیسٹی سوپ لگ رھا تھا ورنہ وہ سوپ وغیرہ سے بہت چڑتا تھا لیکن آج بات سوپ پلانے والی کی تھی جس سے وہ عشق کر بیٹھا تھا۔۔۔۔
سوپ کا باؤل ختم کروا کر عائشہ نے فاران کو میڈسن دی جب اچانک فاران نے منہ بناتے اس کا ھاتھ پکڑا۔۔۔۔۔
" یار اینجل اب تو سوپ پی کر میڈسن بھی کھا لی ھے اب تو بتا دو وہ گڈ نیوز۔۔۔۔"
فاران کی بے چینی سے لطف اندوز ہوتے عائشہ کھل کر مسکرانے لگی مگر پھر بدلے میں فاران کی ملنے والی گھوری سے دوبارہ سنجیدہ چہرے بناتے اسے سلیمان صاحب کی رضا مندی کے بارے میں آگاہ کر دیا۔۔۔۔
اس کی سوچ کے بر عکس فاران سجیندہ ھو کر نظریں چرانے لگا جبکہ وہ تو سوچ رہی تھی کہ فاران خوشی سے چہک اٹھے گا۔۔۔
" کیا ھوا فاران آپ کو خوشی نہیں ھوئی۔۔۔۔؟؟؟
عائشہ اپنے دل کے ھاتھوں مجبور ھو کر پوچھے بغیر رہ نہ سکی تو فاران بھی نظریں اٹھائے اسے غور سے دیکھنے لگا۔۔۔۔
" یار اینجل مجھے تمہیں کچھ بتانا ھے آئی تھنک کہ یہ بہت ضروری ھے کہ تمہیں میرے بارے میں سب کچھ پتہ ھو ورنہ بعد میں بہت غلط فہمیاں پیدا ھو جاتی ھیں' لڑائی جھگڑے علیحدگی میں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا اس لیے تم پہلے ہی میرے بارے میں سب کچھ جان کر اپنا فیصلہ کرو۔۔۔۔ "
" اگر تمہاری نا بھی ھوئی نہ تو آئی سویر میں تمہیں چھوڑ دوں گا تم جی سکتی ھو اپنی مرضی سے' لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا ھو گا میرا۔۔۔۔۔"
فاران سر جھکائے اپنے ھاتھوں کو گھورتے ھوئے بولے جا رھا تھا جبکہ آخر میں اس کی آواز بھرا سی گئی تھی۔۔۔۔
" فاران کیا بات ھے آپ ایسے کیوں بول رھے ھو آپ بلیو می میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رھوں گی ہمیشہ۔۔۔۔"
عائشہ نے اس کے ھاتھوں کو پکڑ کر ہلکا سا دباتے ھوئے اپنی محبت کا یقین دلایا جب فاران نے چونک کر عائشہ کے معصوم سے چہرے کو دیکھا اور پھر سے نظریں جھکا گیا۔۔۔۔۔
" اینجل میں میں ایک ڈان ھوں۔۔۔۔۔"
" ایول ڈائمن کہتے ھیں اب مجھے۔۔۔۔"
" بہت سے قتل کئے ھیں میں نے لوگ ڈرتے۔۔۔۔۔"
رئیلی فاران آپ ایک ڈان ھو او مائے گاڈ "
" لیکن پھر تو آپ کو موٹا بھدا سا ھونا چاھیے تھا جس کا اتنا بڑا پیٹ ھوتا( اپنے دونوں ھاتھوں کو پیٹ کے آگے کرتے ھوئے سائز بتایا )اور کالا سیاہ رنگ "
جبکہ نہ تو آپ کے لمبے لمبے کرلی بال ھیں اور نہ ہی ٹرک ڈرائیور جیسی داڑھی مونچھ"
اور سب سے بڑھ کر آپ کے ادھر (چک پر انگلی رکھی) بڑا سا مسا نہیں ھے"
" تو پھر آپ کیسے ڈان ھو سکتے ھو کیونکہ ہمارے پاکستان میں تو میرے بتائے حلیے والے ہی ڈان ھوتے ھیں"
اور آپ کو پتہ ھےفاران مجھے ایک ڈان سے شادی کرنے کا کتنا شوق ھے سچ میں بہت زیادہ آپ یہ سمجھ لو کہ میری لائف کا سب سے بڑا ڈریم ھے یہ اور اگر آپ ڈان ھو تو میری تو لائف ہی بن گئی۔۔۔۔
"ڈائمن ایول ڈائمن ھائے بولنے میں ہی کتنا مزہ آ رھا ھے۔۔۔۔"
فاران نے ابھی اپنی بات مکمل بھی نہ کی تھی جب اچانک عائشہ ایکسائیٹڈ ھوتے ھوئے اس کی بات کاٹ کر اپنی ہی کہنے لگی اور فاران منہ کھولے اس پاگل لڑکی کو دیکھنے لگا جس کی خواہشیں کتنی عجیب وغریب تھیں۔۔۔۔
" اینجل میں سچ میں "
" ھاں نا ٹھیک ھے آپ سچ میں ایک ڈائمن ھو اور میں آپ کی اینجل ویسے نام تو بڑا پیارا دیا ھے آپ نے ڈائمن۔۔۔۔"
" آپ میرے ڈائمن اور میں اینجل کتنے پرفیکٹ نام ھیں نا۔۔۔۔"
عائشہ ھنستے ھوئے فاران سے رائے مانگی مگر فاران بدلے میں بس اسے دیکھے گیا۔۔۔۔۔
" اب آپ جلدی سے مکمل ٹھیک ھو جائیں میرے ھونے والے ہبی جی پھر بابا سے آ کر ملنا ھے آپ کو۔۔۔۔۔"
" اب میں چلتی ھوں بابا نے فوراً واپس آنے کو بولا تھا بائے۔۔۔۔۔"
عائشہ نان سٹاپ بول کر اپنی بات کرنے کے بعد ھاتھ کے اشارے سے فاران کو بائے کرتی کمرے سے نکل گئی جبکہ فاران کچھ دیر اس کی باتوں کو سوچنے کے بعد اپنے شانے اچکا کر خود بھی ریلیکس سا ھو کر اپنے فیوچر کے خواب دیکھنے لگا مسکراہٹ تھی کہ اس کے چہرے سے جدا ھونے سے انکاری ھو گئی تھی اتنا ہی خوش تھا وہ آج آخر اسے اس کی اینجل ملنے والی تھی تو خوش کیوں نا ھوتا اور سب سے بڑھ کر اس کی اینجل کو وہ ہر حال میں پسند تھا وہ چاہتی تھی اسے محبت کرتی تھی اس سے جو کہ واقع بہت بڑی بات تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ھاں بولو جاوید کیا خبر ھے۔۔۔۔۔"
زیان چہرے پر سنجیدگی لائے انسپکٹر جاوید سے مخاطب ھوا جبکہ آنکھیں اس کی ابھی بھی سوجھی ھوئی تھیں جو اس بات کا پتہ دیتی تھیں کہ وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کتنی جدوجہد کرتا رھا ھے۔۔۔۔
ابھی کچھ منٹ پہلے ہی وہ جاوید کی کال پر بتائی گئی جگہ پر پہنچا تھا جہاں اسے جاوید نے کوئی بہت ضروری بات بتانے کے لیے بلایا تھا۔۔۔۔۔
" سر غور سے دیکھیں اس جگہ کو کچھ یاد آیا آپ کو۔۔۔۔؟؟؟
جاوید نے بغیر زیان کو جواب دینے کے الٹا اس سے سوال پوچھا۔۔۔۔
جاوید کے سوال پر زیان نے ایک نظر ادر گرد موجود سنسان جگہ پر ڈالی مگر اسے کچھ بھی ایسا یاد نہ آیا لیکن پھر جیسے ہی اس نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو وہاں موجود کوڑے کے ڈھیر پر نظر پڑتے ہی اسے ڈائمن کی مخصوص جگہ یاد آ گئی جہاں وہ ہمیشہ قتل کر کے لاشوں کو پھینکتا تھا۔۔۔۔
" یہ تو ایول ڈائمن !!!
" جی سر یہ ایول ڈائمن کی ہی مخصوص جگہ ھے جہاں وہ لوگوں کو عبرت ناک موت دے کے ان کی لاشوں کو پھینکتا ھے اور آج تک کوئی اسے پکڑ نہیں سکا , بہت چالاک جو ھے وہ مگر اس دفعہ ایک غلطی ھو گئی اس سے, وہ دھیان نہیں دے پایا کہ اس جگہ کوئی اور بھی موجود تھا جو اسے اور اس کی گاڑی کے نمبر کو دیکھ چکا ھے۔۔۔۔۔۔"
جاوید سڑک پر نظریں جمائے بہت ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات مکمل کر رھا تھا اور دوسری طرف موجود زیان کے چہرے پر اس ایک خبر سے ہی خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی آخر ایول دائمن کے متعلق جو پتہ چلنے والا تھا اسے۔۔۔۔۔۔
" کون ھے وہ جلدی بتاؤ مجھے جاوید "
زیان کی بے تابی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی جب اچانک جاوید نے ایک نظر زیان کو دیکھتے ھوئے اسے مکمل بات سے آگاہ کیا کہ کس طرح ایک فقیر یہاں کوڑا کرکٹ چھان رھا تھا کہ شاید کچھ قیمتی چیز مل جائے جب اچانک وہ ایک لمبی بلیک مرسیڈیز دیکھ کر وہیں چھپ گیا رات کا اندھیرا پھیل رھا تھا جبھی وہ گاڑی والا شخص اسے دیکھ نہ سکا اور ایک سفید چادر میں لپٹی کوئی چیز وہیں پھینک کر واپس چلا گیا۔۔۔۔
جبکہ اس کے جاتے ہی وہ فقیر تیزی سے اس چیز کی طرف لپکا مگر جیسے ہی اس نے غور کیا تو وہ ایک بہت بری حالت میں موجود لاش تھی جسے دیکھتے ہی وہ چیختے ھوئے وہاں سے رفو چکر ھو گیا۔۔۔۔
مگر جاوید کی تفتیش کرنے پر اسے وہ فقیر مل ہی گیا اور وہ اس رات کے متعلق سب کچھ جاوید کو بتانے لگا اس کے بتائے گئے حلیے اور گاڑی کے نمبر سے جاوید نے اس شخص کا پتہ لگایا اور اب وہ زیان کو بھی اس شخص کے بارے میں آگاہ کرنے لگا مگر جیسے ہی زیان نے وہ نام سنا ویسے ہی کچھ پل کے لئے تو وہ منہ بند کرنا اور آنکھیں جھپکانا دونوں بھول گیا۔۔۔۔
ھوش تو اسے تب آیا جب جاوید نے اسکا کاندھا ہلا کر اسے پکارا۔۔۔۔
" کیا ھوا سر کیا سوچ رھے ھیں آپ....؟؟؟
جاوید کی الجھی ہوئی نظروں کو خود پر جمے دیکھ کر زیان بدلے میں مسکرایا اور پھر چہرہ اوپر آسمان کی طرف کئے ایک زور کا قہقہہ لگا کر پاگلوں کی طرح ھنسے لگا۔۔۔۔
" سر کیا ھوا آپ ٹھیک تو ھیں۔۔۔۔؟؟؟
جاوید زیان کے اس ری ایکشن پر حیران ہی تو رہ گیا تھا جبھی اس سے وجہ پوچھنے لگا اسے اسوقت زیان کی دماغی حالت پر شبہ ھو رھا تھا۔۔۔۔
جاوید کے سوال کے جواب میں زیان نے آگے کو بڑھتے ھوئے زور سے جاوید کو ہگ کیا اور پھر اسے صرف تھینکس بول کر تیزی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی جبکہ جاوید ابھی بھی وہیں کھڑا زیان کی حالت سمجھنے کی سعی میں مصروف تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے 8 بجے کا وقت تھا جب ڈائمن نے نیند میں کسمساتے ھوئے اپنے بائیں جانب بیڈ پر ھاتھ رکھا مگر وہاں اینجل کو نہ پا کر فوراً اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ آنکھوں کو مسلتے ھوئے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر کمرے کا جائزہ لینے لگا مگر اسے اینجل کہیں بھی نظر نہ آئی اور نہ ہی باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی مطلب وہ وہاں بھی موجود نہیں تھی۔۔۔۔۔
اینجل کی غیر موجودگی پر ڈائمن کی پیشانی پر اچانک سے لاتعداد بل پڑ گئے اور وہ تیزی سے کمفرٹر پھینکتے ھوئے شرٹ لیس کمرے سے باہر نکل کر زور زور سے اینجل کو آوازیں دینے لگا۔۔۔۔
مگر نہ وہ یہاں تھی اور نہ اسے سامنے آنا تھا پورا گھر چھاننے کے بعد بھی جب اسے اینجل نہ ملی تو وہ زمین پر ڈھے سا گیا۔۔۔۔
اس کی آنکھیں اس وقت مکمل کھلی ھوئی تھیں اور ساتھ ہی وہ ہلکا سا منہ کھولے زمین پر بیٹھا کسی گہری سوچ میں غرق ھو گیا۔۔۔۔
ناجانے کتنی ہی دیر تک وہ اسی حالت میں اسی جگہ بیٹھا تھا جب اچانک کچھ سوچ کر وہ اردگرد دیکھتے ھوئے زمین سے اٹھا اور پھر تقریباً بھاگتے ھوئے اپنے کمرے میں داخل ھونے کے ساتھ ہی اس نے اتنی ہی تیزی سے واڈروب سے اپنے کپڑے اٹھائے اور باتھ روم میں بند ھو گیا۔۔۔۔۔
اپنی جینز میں ہی ڈائمن نے شاور چلا کر خود پر پانی گرتے ھوئے چہرے اوپر کیے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو آزاد کر دیا جو کب سے اس کی پلکوں کی باڑ توڑنے کی کوشش کر رھے تھے۔۔۔۔۔
" اینجل کہیں نہیں گئی وہ کہیں جا ہی نہیں سکتی مجھے کیسے تہنا چھوڑ سکتی ھے وہ , وہ تو محبت کرتی ھے مجھ سے وہ بھی انتہا کی , وہ بس اپنے بابا سے ملنے گئی ھو گئی 2 مہینے جو ھو گئے ھیں اسے ان سے ملے ھوئے۔۔۔۔"
" یاد آ رہی ھو گئی ان کی تبھی چلی گئی ملنے واپس آ جائے گی وہ , میں لینے جاؤں گا تو واپس آ جائے گی وہ, مانا کہ میں بہت برا بیہیو کر دیتا ھوں لیکن محبت بھی تو کرتا ھوں نا اور معافی بھی مانگتا ھوں اپنی اینجل سے اور وہ ہمیشہ معاف بھی کر دیتی ھے مجھے , میری اینجل جو ھے وہ جس نے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گی۔۔۔"
میں آ رھا ھوں اینجل تمہیں لینے پھر ہم دونوں خوشحال زندگی گزاریں گے , آئی پرومس اینجل میں دوبارہ تمہیں تکلیف نہیں پہنچاؤں گا اور اور میں تمہارے بابا سے بھی تمہیں ملوا دیا کروں گا اور تو اور کال بھی کروا دیا کروں گا۔۔۔۔"
" سب کچھ ٹھیک ھو گا۔۔۔۔"
" سب کچھ میں تم اور ہمارا فیوچر۔۔۔۔"
ڈائمن نان سٹاپ دیوانہ وار بولتے ھوئے اپنے سر پر سپیڈ سے بہہ رھے پانی سے خود کو پرسکون کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھا کیونکہ اینجل سے الگ ھونے کا تصور ہی اس کی دماغ کی رگیں پھوڑ دینے کا باعث بن رھا تھا۔۔۔۔۔
اسے ایسا محسوس ھو رھا تھا وہ اگلی سانس بھی نہیں لے پائے گا اس کی اینجل اس سے دور چلی گئی تھی اور یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا ڈائمن۔۔۔۔
" اینجل کیوں کیوں یار کیوں آخر کیوں۔۔۔۔۔"
خود کو بہلانے اور جھوٹی تسلیاں دینے کے باوجود بھی ڈائمن یہ بات جانتا تھا کہ اینجل اس سے الگ ھو گئی ھے وہ چلی گئی ھے ہمیشہ کے لئے لیکن وہ ابھی بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری تھا اس وقت اس کی کیفیت عجیب وغریب ہی ھو رہی تھی۔۔۔۔
کبھی وہ رو رھا تھا تو کبھی مسکراتے ھوئے خود کو جھوٹی تسلیاں دینے کے ساتھ اینجل کے واپس آنے کی امید دلا رھا تھا۔۔۔۔
کچھ دیر تک یہی سب باتیں دہراتے ھوئے (کہ اینجل واپس آ جائے گی وہ اس سے محبت کرتی ھے وغیرہ وغیرہ) ڈائمن زور زور سے روتے ھوئے باتھ روم کی زمین پر بیٹھ کر اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے شاور کے نیچے ہی بیٹھے روتا رھا کتنی ہی دیر تک صرف روتا ہی رھا مگر اس کی تکلیف تھی کہ کم ھونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔
تقریباً دو گھنٹوں بعد ڈائمن اپنی آنکھیں ھاتھ کی ہتھیلی سے رگڑتے ہوئے اٹھا اور شاور بند کر کے ٹاول سے خود کو خشک کرتے اپنے کپڑے چینج کر کے باتھ روم سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
پھر ماؤف ذہن کے ساتھ اس نے اپنے بالوں کو برش کر کے ایک نظر خود کو ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں دیکھا اور پھر فوراً ہی نظریں جھکا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
اب اسے جلد از جلد اپنی اینجل کو منانے جانا تھا لیکن کیا اینجل اس کے منانے پر مان بھی جائے گی اور واپس اسی دوزخ میں واپس آ جائے گی یہ اس کی غلط فہمی تھی۔۔۔۔۔
کیونکہ انسان کو کبھی بھی کسی کو بھی اس حد تک آزمانا نہیں چاھیے کہ اس کے برداشت ہی ختم ھو جائے اور وہ آپ سے نفرت محسوس کرنے لگا لیکن یہ بات ڈائمن کو سمجھاتا کون وہ تو ناجانے کن خوش فہمیوں میں مبتلا تھا کہ اینجل اسے کبھی چھوڑ ہی نہیں سکتی جبکہ اس کی یہ خوش فہمی بھی بہت جلد ختم ھونے والی تھی۔۔۔۔۔۔
"عائشہ عائشہ بچے کیا ھوا آپ کو آپ رو۔۔۔۔۔۔"
" ایک منٹ یہ کیا حال ھو گیا ھے آپ کا اور فاران وہ کیوں باہر روتے ھوئے۔۔۔۔"
" کیا کیا بات کیا ھے عائشہ کوئی لڑائی جھگڑا ھوا ھے آپ دونوں کا یا فاران آپ کو مارتا۔۔۔۔"
"نہیں نہیں نہیں وہ تو بہت محبت کرتا ھے آپ سے پھر بھلا وہ کیسے میں ہی غلط سوچ رھا ھوں۔۔۔۔۔"
سلیمان صاحب جیسے ہی عائشہ کے کمرے میں داخل ھوئے تو اسے زمین پر بیٹھے روتے دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف لپکے اور پھر عائشہ کے چہرے کو اپنے ھاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس سے ایک ساتھ کتنے ہی سوال کر گئے۔۔۔۔۔
انھیں عائشہ کی اس حالت پر حیرانگی کے ساتھ شدید دکھ بھی ھوا تھا کیسے لاڈوں میں پالا تھا انھوں نے عائشہ کو باپ کی شفقت کے ساتھ ساتھ ماں کا بھی پیار بھی دیا تھا انہوں نے اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے دوست کی طرح رہتے تھے وہ عائشہ کے ساتھ جس سے وہ اپنا ہر سیکرٹ شئیر کرتی تھی مگر اب ان جان سے پیاری بیٹی ان دو ماہ میں کیسے مر جھا سی گئی تھی۔۔۔۔
انھوں نے تو عائشہ کی محبت کو ہی ترجیح دیتے ھوئے فاران کو اس کی زندگی میں شامل کیا تھا کیونکہ اس کی نظروں میں بھی تو انھوں نے عائشہ کے لئے عشق کی انتہا دیکھی تھی پھر وہ کیسے عائشہ کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا تھا یہی بات انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔
وہ تو یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ فاران ایسا کچھ کر سکتا ھے تبھی اب وہ عائشہ کے جواب کا انتظار کر رھے تھے کہ وہ خود کچھ بول کر انھیں حقیقت بتائے جبکہ وہ تو بس روئے ہی جا رہی تھی اور اب ان کے فاران کے متعلق یقین پر( کہ وہ عائشہ کو ٹارچر کر ہی نہیں سکتا ) سسکتے ھوئے وہ اپنا سر سلیمان صاحب کے سینے پر رکھے زاروقطار رونے لگی۔۔۔۔
اس کے یہ آنسو سلیمان صاحب کو مزید پریشان کر رھے تھے وہ ہلکے ہلکے عائشہ کی کمر تھپکتے ھوئے اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگے تاکہ کم از کم وہ رونا تو بند کرے۔۔۔۔۔
" بابا مجھے فاران کے ساتھ نہیں رہنا وہ بہت برے ھیں وہ مجھے مارے پیٹتے ھیں شک کرتے ھیں مجھ پر۔۔۔۔" "سائیکو ھیں وہ بابا انھیں مجھے تکلیف پہنچا کر سکون ملتا ھے۔۔۔۔"
" مجھے نہیں رہنا بابا پلیز مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا پلیزز پلیززز مجھے یہیں رہنے دیں۔۔۔۔"
جیسے ہی عائشہ کی حالت تھوڑی سی سنبھلی ویسے ہی وہ سلیمان صاحب سے الگ ھو کر نم چہرے کے ساتھ سلیمان صاحب کے ھاتھوں کو پکڑے ان کی منتیں کرنے لگی جیسے وہ اسے ابھی گھر سے نکال دیں گے۔۔۔۔۔
" آپ کہیں نہیں جاؤ گی بچے یہیں رہو گی کوئی کچھ نہیں کرے گا آپ کو ' کوئی لاوارث نہیں ھو آپ ' آپ کے بابا ابھی زندہ ھیں جو اپنی بچی کا دھیان رکھ سکتے ھیں لیکن پہلے آپ فوراً رونا بند کرو اور کچھ کھا پی کر مائنڈ ریلیکس کرو۔۔۔۔"
" میں کھانا بھیج رھا ھوں۔۔۔۔"
سلیمان صاحب نے عائشہ کو اپنے ساتھ لگائے زمین سے اٹھاتے ھوئے بیڈ پر بیٹھایا اور پھر اس کے آنسوؤں کو اپنی انگلی کی پوروں سے صاف کرتے ھوئے اسے اپنے ھونے کا احساس بخشا تاکہ وہ خود کو محفوظ سمجھے۔۔۔۔
پھر بغیر کچھ بھی اور کہے وہ وہاں سے باہر نکل گیے اور کک کو عائشہ کے لئے کھانا بنانے کا بولتے ھوئے اپنے کمرے کی جانب چل پڑے۔۔۔۔
اب وہ صرف فاران سے ایک ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جس میں وہ چند باتیں کلیئر کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
""""" شادی سے پہلے کے سینز۔۔۔۔""""
"فون اٹھاؤ فاران کیا ھو گیا ھے اللّٰہ خیر کریں۔۔۔۔"
عائشہ صبح سے ہی فاران کو کال کر رہی تھی مگر اس کا نمبر پہلے بزی جبکہ اب بند جا رھا تھا۔۔۔۔
فاران کی طبیعت بھی مکمل ٹھیک نہیں تھی تبھی عائشہ کو اب پریشانی نے آن گھیرا تھا۔۔۔۔۔
رات کو بھی وہ فاران کا نمبر کافی دیر تک ٹرائی کرتی رہی مگر ہمیشہ کی طرح اسے مایوسی ہی ھوتی ناجانے رات کے کس پہر وہ فاران کو ہی کال کرتی نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔۔۔۔
صبح فجر کے وقت اس کی دوبارہ آنکھ کھلی تو اسے سب سے پہلا خیال فاران کا ہی آیا تو اس نے پھر سے اسے کال کی مگر اب بھی نمبر بند تھا۔۔۔۔
" کہیں فاران کو کچھ نہیں۔۔۔۔"
عائشہ نے اپنے ہی وہم کو جھٹلاتے ھوئے اذان کا جواب دینے کے بعد اٹھ کر واشروم میں جاکر وضو کیا اور پھر نماز پڑھتے ہی وہ سجدے میں گر کر شدت سے روتے ھوئے فاران کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔۔۔۔
جنہیں فوراً قبولیت کا شرف بخش دیا گیا۔۔۔۔۔
کچھ دیر تک یوں ہی سجدے میں گرے رھنے کے بعد وہ اٹھی اور اپنی ہتھیلیوں سے چہرہ صاف کرتے ہوئے جائے نماز اٹھا کر کے اس کی جگہ پر رکھنے کے بعد دوبارہ بیڈ پر بیٹھ کر موبائل اٹھا کے اس نے فاران کا نمبر ٹرائی کیا جو کہ دوسری ہی بیل پر اٹھا لیا گیا۔۔۔۔۔
" ھیلو فاران کہاں ھیں آپ۔۔۔۔؟؟؟
" آپ کا نمبر کیوں بند تھا۔۔۔؟؟؟؟
" آپ آپ ٹھیک تو ھیں مجھے کتنی ٹینشن ھو رہی تھی آپ کی۔۔۔۔"
" ایکسوزمی میم کون ھیں آپ۔۔۔۔؟؟؟
" اپنا تعارف کروانا پسند فرمائیں گی آپ۔۔۔"
عائشہ جو بغیر فاران کی آواز سنے صرف کال پک کر لینے سے نان سٹاپ بولنا شروع ھو گئی تھی اچانک آگے سے کسی اور کی آواز سن کر شوکڈ ھو گئی۔۔۔۔۔
" میم بتائیں تو سہی کون ھیں آپ اور فاران کو کیسے جانتی ھیں۔۔۔۔"
جب کافی دیر تک عائشہ نہ بولی تو ہاشم نے کچھ اونچی آواز میں اسے پکارا۔۔۔۔
" م۔۔۔۔می۔۔۔۔میں فارن کی فرینڈ ھوں عائشہ' فاران کہاں ھیں وہ ٹھیک تو ھیں نا۔۔۔۔"
عائشہ اپنے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے یہی چند الفاظ ادا کر کے ہاشم کے جواب کا انتظار کرنے لگی جب بدلے میں اسے انتہائی سخت لہجے میں جواب دیا گیا۔۔۔۔
" آپ آ کر خود دیکھ لیں کہ وہ کس حال میں ھے۔۔۔۔"
ہاشم نے انتہائی بدتمیزی سے اتنا کہہ کر کال کاٹ دی جبکہ عائشہ تو اس کی بات میں ہی الجھ گئی آخر کیا مطلب تھا اس بات کا کہ خود آ کر دیکھ لوں ایسا بھی کیا ھو گیا تھا فاران کو۔۔۔۔۔
عائشہ اپنے دل میں پیدا ھو رھے اندیشوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اپنا موبائل ہاتھ میں تھامے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
اور پھر تیزی سے سیڑھیاں اتر کر ڈرائیو کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا بولتی ھوئی سلیمان صاحب کے کمرے میں داخل ھوئی تو وہ ابھی سو رھے تھے۔۔۔۔۔
عائشہ نے انھیں ڈسٹرب نہ کرنے کا سوچتے ھوئے ان کے نمبر پر مسیج کیا کہ وہ فارن کی طرف جا رہی ھے اور پھر گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی اور ایڈریس بتا کر چلنے کو کہا جبکہ اس کے بولتے ہی ڈرائیو نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" او مائے گاڈ فاران "
" یہ سب کیا ھو گیا ھے آپ اتنے زخمی کیسے ھو گئے۔۔۔۔؟؟؟
عائشہ جیسے ہی فاران کے کمرے میں داخل ھوئی ویسے ہی اسے سفید پٹیوں میں لپٹا دیکھ کر چیختے ھوئے اس کی طرف بڑھی۔۔۔۔
فاران عائشہ کی آواز پر ہلکی ہلکی آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگا جو اب رونا شروع کر چکی تھی۔۔۔۔
" اینجل میں ٹھیک ھوں یار پلیز تم رونا بند کرو۔۔۔۔"
فاران نے اپنی طرف سے عائشہ کی تسلی کروانی چاہی جبکہ وہ اس کی بات پر اور زور و شور سے رونے لگی۔۔۔۔
" اینجل یار کیا ھو گیا ھے مر تو نہیں گیا میں جو تم"
" اللّٰہ نہ کریں فاران آپ کو کبھی کچھ ھو آپ کو تو میری بھی عمر لگ جائے۔۔۔۔"
فاران کی بات پر عائشہ نے تڑپ کر بولتے ھوئے اس کے ھونٹوں پر اپنا ھاتھ رکھ کر اسے مزید بولنے سے روکا جبکہ فاران اس کی اتنی محبت پر مسکرانے کے ساتھ عائشہ کے ھاتھ کو اپنے بائیں ھاتھ سے تھام کر اسے اپنے ھونٹوں سے لگا چکا تھا۔۔۔۔
" اب بتائیں بھی کیسے ھوا یہ سب۔۔۔۔"
" اس سے کیا پوچھوں رہی ھیں جا کر اپنے کزن سے پوچھیں جس نے اپنی پرسنلی دشمنی نکالی ھے فاران سے ' بغیر کسی جرم کے اسے اتنا پیٹا کس لیے۔۔۔۔؟؟؟
" کیونکہ آپ فارن کو چاہتی ھیں جبکہ وہ آپ سے شادی کا خواہشمند ھے۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ فاران عائشہ کو کوئی جواب دیتا ہاشم غصے سے بولتے ھوئے عائشہ کو ڈانٹنے لگا جیسے ان سب میں اس کا قصور ھو۔۔۔۔
" زیان نے کیا یہ سب "
عائشہ پہلے تو شوکڈ سی منہ کھولے ہاشم کی بات سنتی رہی اور پھر جب بولی تو صرف اتنا۔۔۔۔
" جی اے ایس پی زیان علی نے کیا ھے یہ سب کیوں کہ اس سے یہ برداشت نہیں ھو رھا کہ آپ فاران احمد سے محبت کرتی ھیں ' وہ منگیتر کہتا ھے آپ کو اپنی تبھی فاران کو راستے سے ہٹانے کی پلینگ کر رھا تھا وہ '
" وہ تو مار ہی دیتے فاران کو پیٹ پیٹ کر اگر میں کوئی ایکشن نہ لیتا تو۔۔۔۔۔"
" اپنے آپس کے معاملے خود ہی حل کریں آپ فاران کو ان سب سے دور رکھیں ' حالت تو دیکھیں اس کی بازو توڑ دی ھے ' جگہ جگہ نیل پڑے ھوئے ھیں جانتی بھی ھیں کہ کتنا خون ضائع ھوا اس کا ' لیکن آپ کو کیا اگر فاران سے محبت کرتی تھیں تو اپنے منگیتر کو تو سمجھا دیتیں یا پھر اسے بھی کوئی امید دلائی ھوئی تھی آپ۔۔۔۔"
" ہاشم بس کر چپ کر جا ورنہ منہ توڑ دوں گا تیرا۔۔۔۔"
" عائشہ آپ پلیز !!!
ہاشم جب نان سٹاپ بولے ہی گیا تو آخر میں فاران کو ہی اسے ڈانٹ کر چپ کروانا پڑا جبکہ جیسے ہی اس نے عائشہ سے ہاشم کی باتوں پر معزرت کرنی چاہی ویسے ہی وہ اپنے منہ پر ھاتھ رکھے روتے ھوئے باہر کی طرف بھاگ پڑی۔۔۔۔
اور فاران نے ایک غصیلی نگاہ ہاشم پر ڈالتے ھوئے اسے کشن دے مارا جسے وہ فوراً کیچ کر چکا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" عائشہ بیٹے تم اس وقت یہاں کیا بات ھے سب خیریت تو ھے تم تو کیوں رہی ھو۔۔۔۔؟؟؟
" زیان کہاں ھے پھوپھو۔۔۔؟؟؟
عائشہ جو روتے ھوئے فاران کے گھر سے نکل کر سیدھی زیان کی طرف ہی آئی تھی مگر اسے وہاں اچانک دیکھ کر خالدہ بیگم اس سے سوال جواب کرنے لگیں جنہیں اگنور کرتے ھوئے عائشہ نے زیان کا پوچھا۔۔۔۔
" کمرے میں ھے اپنے لیکن بات کیا ھوئی ھے عائشہ۔۔۔؟؟؟
عائشہ نے جیسے ہی زیان کا سنا ویسے ہی تیزی سے اس کے کمرے کی جانب چل پڑی اس وقت وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ سرخ ہی چہرے میں بہت جنونی لگ رہی تھی تبھی خالدہ بیگم بھی حیران ھو کر سلیمان صاحب کو کال کرنے لگیں۔۔۔۔
" کیوں کیا تم نے ایسا آخر کیوں ؟؟؟
تمہیں کیا لگا کہ فارن کو اس طرح مجھ سے دور کر دو گے اور میں تمہاری ھو جاؤں گی۔۔۔۔"
" ھاں"
عائشہ کے زیان کے کمرے میں داخل ھوتے ہی اسے وہ باتھ روم سے باہر نکلتا ھوا نظر آیا جسے دیکھتے ہی وہ زور زور سے چیختے ھوئے اس سے سوال کرنے لگی جبکہ زیان حیران پریشان سا سچویشن سمجھنے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔۔
" کیوں کیا کیوں فاران کو مارا آخر کیوں دی اسے تکلیف؟؟؟
" میرے لیے مجھے پانے کے لیے میرے لیے کیا نا سب کچھ"
اب کی دفعہ عائشہ نے چیخنے کے ساتھ آخر میں اپنا سر دیوار میں دے مارا جس سے اس کے سر سے فوراً خون کی ایک لیکر بہنا شروع ہو گئ مگر وہ اب بھی جنونی انداز میں دوبارہ اپنا سر دیوار میں پٹخنے لگی تھی جب زیان سکتے سے باہر آتے ھوئے تیزی سے اس کی جانب لپکا کر اسے شانوں سے پکڑ کر روکا۔۔۔۔
" دور رھو مجھ سے قریب مت آنا گھن آ رہی ھے مجھے تمہارے وجود سے۔۔۔۔"
" دوست سمجھتی تھی تمہیں اپنا لیکن تم تو دوستی کیا ہمدردی کے بھی ومقابلہ نہیں ھو۔۔۔۔"
" فاران کو اس سے زیادہ چوٹیں آئی ھیں اس سے زیادہ خود نکلا ھے ان کا۔۔۔۔"
" اس زخم سے زیادہ تکلیف مجھے انھیں اس حال میں دیکھ کر ھوئی ھے۔۔۔۔"
عائشہ زیان کو دھکا دینے کے بعد اپنے سر پر ھاتھ رکھ کر اس نے پھر وہی ھاتھ زیان کی طرف کرتے ھوئے اس سے کہا۔۔۔۔"
جبکہ زیان بے یقینی سمیت کرب سے عائشہ کو ہی دیکھے جا رھا تھا۔۔۔۔۔
" ایک بات اپنے اس دماغ میں اچھے سے ڈال لو میں صرف اور صرف فاران کی ھوں محبت کرتی ھو ان سے اور ہمیشہ کروں گی۔۔۔۔"
" تمہاری ھونے سے پہلے میں اسی طرح خود کو ختم کر لوں گی مگر تمہیں کامیاب کبھی نہیں ھونے دوں گی۔۔۔۔"
" ایک ماہ بعد شادی کر رہی ھوں میں فاران احمد سے یہی بتانے آئی تھی اگر دوبارہ تم میرے اور فاران کے درمیاں آئے تو جان سے مار دوں گی تمہیں۔۔۔۔"
" اور قسم سے مجھے اپنے اس فعل پر زرہ پچھتاوا نہیں ھو گا۔۔۔۔"
عائشہ دانت پیستے ھوئے زیان سے بولی اور پھر واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔۔۔۔۔۔
جبکہ ابھی وہ زیان کے گھر سے باہر ہی نکلی تھی کہ سلیمان صاحب کی گاڑی وہاں رکی اور وہ تیزی سے باہر نکلتے ھوئے عائشہ کی طرف بڑھے لیکن جیسے ہی انھوں نے عائشہ کے سر سے خون بہتا دیکھا ویسے ہی انھوں نے کچھ بھی پوچھے بغیر عائشہ کو ھوسپیٹل لے جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔
صبح کے تقریباً 10 بجے عائشہ نیند سے بیدار ھوئی تو اچانک اسے اپنے سینے پر کچھ وزن سا محسوس ھوا جیسے ہی اس نے مکمل اپنی آنکھیں کھول کر کچھ سر جھکاتے ھوئے اپنے سینے کی طرف دیکھا تو اسے فاران اپنے بے حد قریب سینے پر سر رکھے گہری نیند میں سویا ھوا نظر آیا۔۔۔۔
نیند میں اس کے ھونٹ جو ہلکے سے کھلے ھوئے تھے ان میں سے خارج ھو رہی فاران کی گرم سانسیں عائشہ اپنی گردن پر باخوبی محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔
ناجانے کتنی ہی دیر تک وہ یوں ہی لیٹی فاران کے چہرے کو محبت بھری نظروں سے دیکھتی رھی وہ ابھی بھی اس کی خوشبو اپنے وجود میں محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔
کل رات کے متعلق سوچتے ھوئے اچانک وہ شرما کر اپنے نچلے ھونٹ کو دانتوں تلے دبا کر مسکرانے لگی۔۔۔۔
فاران نے کس طرح اسے محبت سے چھو کر صندل کر دیا تھا کل رات ہی تو اس نے اپنے ہر ایک فعل سے ثابت کیا تھا کہ عائشہ اس کے نزدیک کتنی اہمیت رکھتی ھے۔۔۔۔
کتنا عشق کرتا ھے وہ اس سے۔۔۔۔
ابھی بھی ناجانے کتنی ہی دیر تک عائشہ فاران کو دیکھتی رہتی جب اچانک اسے شدید بھوک کا احساس ھوا کل رات بھی اس نے زیادہ کچھ نہیں کھایا تھا تبھی اب اسے اتنی بھوک لگ گئی تھی۔۔۔۔
عائشہ نے بیڈ سے اٹھنے کا سوچتے ھوئے بہت نرمی سے فاران کا سر اٹھا کر سرھانے پر رکھا اور پھر کمفرٹر کو اپنے کاندھوں تک کھینچے کچھ آگے کو جھک کر فاران کے خوبرو فریش سے چہرے کو دیکھتے ھوئے اس کی پیشانی پر کس کر کے جلدی سے اٹھی اور باتھ روم میں داخل ھو گئی۔۔۔۔۔
ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ فریش فریش سی ٹاول سے اپنے نم بالوں کو رگڑتی ھوئی بیڈ کے قریب گئی اور فاران کو آواز دینے لگی۔۔۔۔
مگر وہ ویسے ہی گہری نیند میں سویا رھا فاران کو یوں ہی ٹس سے مس نہ ھوتے دیکھ کر عائشہ (جو اب ڈریسنگ ٹیبل کے قریب جا چکی تھی) نے ایک بار پھر کچھ اونچی آواز میں پکارتے ھوئے فاران کو جگانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
مگر ابھی بھی اس کے جسم میں کوئی حرکت پیدا نہ ھوئی تھی۔۔۔۔۔
" فاران آپ سن رھے ھیں مجھے اٹھ بھی جائیں۔۔۔۔"
اب کی بار عائشہ نے پہلے سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولتے ھوئے فاران کو جگانا چاہا مگر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ھوا۔۔۔۔
" اٹھ بھی جائیں فاران میں کتنی دیر۔۔۔۔"
عائشہ کافی دیر تک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے گیلے بالوں میں برش کرتے ھوئے مسلسل فاران کو جگانے کی کوشش کرتی رہی تھی مگر وہ تھا کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رھا تھا تبھی تھک ہار کر وہ اب بیڈ کے قریب گئی اور پھر ہلکا سا جھک کر فاران کو اٹھانا چاہا مگر ابھی وہ بات بھی مکمل نہ کر پائی تھی جب فاران نے اسے کھینچ کر خود پر گرا لیا اور پھر ساتھ ہی اپنی ایک بازو اس کے کمر کے گرد باندھتے ھوئے اسے اپنے سینے سے چپکا لیا جبکہ عائشہ پہلے تو یوں اچانک کھینچ لینے سے خوف میں مبتلا ھو گئی تھی مگر پھر فاران کو مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
" آپ اٹھے ھوئے تھے اور میں کب سے۔۔۔۔"
" ششش !!!
عائشہ جو اپنی کمر سے فاران کا بازو ہٹاتے ھوئے اس سے بات کر رہی تھی جب اچانک فاران کی انگلی اپنے نرم و نازک ھونٹوں پر رکھ دینے سے خاموش ھو کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی جہان ڈھیروں جذبے سمائے ھوئے تھے۔۔۔۔
کچھ سیکنڈز گزرنے کے بعد فاران نے عائشہ کے ھونٹوں کو فوکس کیے اس کے نم بالوں میں اپنے دوسرے ھاتھ کی انگلیاں پھساتے ھوئے اس کا چہرہ مزید اپنے قریب کیا اور پھر بہت ہلکے سے اس کے ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں میں قید کر لیا اس کا ٹچ اتنی محبت اور نرمی لیے ھوا تھا کہ عائشہ کو دنیا جہان سے غافل کرنے کا باعث بننے لگا۔۔۔۔
وہ مدھوش سی آنکھیں بند کئے فاران کی سانسیں خود میں اترتی ھوئی محسوس کر رہی تھی جب اچانک فاران نے بغیر اس کے ھونٹوں کو آزاد کیے یوں ہی پلٹ کر اتنی ہی نرمی سے عائشہ کو بیڈ پر لٹایا اور پھر اسی طرح اس کی قربت کو محسوس کرنے لگا جبکہ اب عائشہ بھی اپنے بازو اس کی گردن میں ڈالے اس لمس کو محسوس کر رہی تھی جو صرف اس کا طلب گار تھا۔۔۔
10 منٹ بعد جب فاران نے خود کو مکمل سیراب کر لیا تو وہ بہت نرمی سے عائشہ کے ھونٹوں کو آزاد کرتے ھوئے ہلکا سا اپنا چہرہ اوپر کیے اسے دیکھنے لگا جو اب بہت تیزی سے سانسیں لے رہی تھی۔۔۔۔
فاران نے عائشہ کے سرخ ھو رھے چہرے کو دیکھ کر ہلکا سا مسکراتے ھوئے اس کے ھونٹوں پر دوبارہ ایک چھوٹی سی کس دی اور پھر اس کے سرخ گالوں کو باری باری چوما جبکہ وہ فاران کی بڑھتی جسارتوں پر مسکراتی ھوئی اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی جو کہ ناکام ہی تھی۔۔۔۔
اب فاران عائشہ کے گالوں سے لگاتار کس کرتے ھوئے اس کی گردن تک آیا اور پھر اس کی کولر بونز کو اپنے لبوں سے معتبر کرنے لگا مگر اس کی بڑی ھوئی شیو کی چبھن سے عائشہ کو ھنسی آنی شروع ھو گئی تھی۔۔۔۔۔
" کیا ھوا یار ھنس کیوں رہی ھو۔۔۔۔؟؟؟
فاران نے اپنا سر اٹھا کر حیرانگی سے پوچھا تو عائشہ ایک ھاتھ سے اس کا کالر کھینچ کر اسے اپنے قریب کرتے ھوئے ہلکی سے اونچی ھو کے فاران کے گال کے ساتھ اپنا گال رگڑتے ھوئے ایک بار پھر سے ھنسنے لگی۔۔۔۔
"بہت ھنسی آ رہی ھے تمہیں ھاں ابھی بتاتا ھوں۔۔۔۔"
فاران مسلسل عائشہ کے ھنسے پر شرارتی انداز میں عائشہ کے پیٹ پر گُدگُدی کرنے لگا۔۔۔۔۔
جبکہ عائشہ زور زور سے ھنسے کے ساتھ بیڈ پر لوٹ پوٹ ھوتے ھوئے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی دوسری طرف فاران بھی مسلسل ھنستے ھوئے اسے گُدگُدی کرے ہی جا رھا تھا۔۔۔۔۔
" فاران بس کریں نا مر جاؤں گی میں۔۔۔"
جب مزید 5 منٹ تک فاران اسے یوں ہی گُدگُدی کرے گیا تو عائشہ ھنسی کے درمیان میں ہی بولی مگر عائشہ کے اتنا بولنے کی دیر تھی فاران کی ھنسی کو فوراً بریک لگ گئی اور ساتھ ہی وہ اٹھ کر بیٹھتے ھوئے تڑپ کر عائشہ کو دیکھنے لگا جو ابھی بھی اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھے مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔
" کیا ھوا فاران آپ اتنے سیریس کیوں ھو گئے ھیں۔۔۔۔"
عائشہ نے اچانک فاران کو سنجیدہ ھوتے دیکھ کر اس سے سوال کیا جب وہ دوبارہ عائشہ پر جھکنے کے بعد اپنی سرخ ھو رہی آنکھوں سے اسے دیکھتے ھوئے اپنے ایک ھاتھ سے عائشہ کی چِن کو سہلاتے ھوئے اس سے گویا ھوا۔۔۔۔
" تم میرے لیے کیا ھو شاید اس بات کا تمہیں ابھی تک اندازہ نہیں ھوا اینجل' تمہیں پا لینے کے بعد کھو نہیں سکتا میں اتنی برداشت نہیں ھے مجھ میں 'میں ایسا کچھ دیکھنے سے پہلے موت کو گلے لگانا بہتر سمجھوں گا' آج یہ بات بول دی ھے دوبارہ ایسا کچھ کہا نا تو میں نہیں جانتا میرا ری ایکشن کیا ھو گا۔۔۔۔"
فاران کا انداز اتنا جنونی اور وحشت لیے ھوئے تھا کہ ایک پل کے لیے تو عائشہ بھی خوفزدہ ھو گئی مگر پھر اگلے ہی پل وہ بیڈ پر اپنے ھاتھوں سے دباؤ ڈالتے تیزی سے اٹھی اور فاران کے گال پر کس کر کے اسے بھوک لگی ھے بولا۔۔۔۔
اور عائشہ کا یہ طریقہ فاران کو تو مانو ھواؤں میں اڑانے کا باعث بنا تبھی وہ فوراً اپنے موڈ کو خوشگوار کرتے ھوئے عائشہ کی پیشانی کو اپنے لبوں سے چھو کر بیڈ سے اٹھا اور عائشہ کو 15 منٹ ویٹ کرنے کا بولتے ھوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
جبکہ عائشہ فاران کی محبت پر ایک بار پھر سے خود پر رشک کرنے لگی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تیزی سے گزر رھے تھے آج عائشہ کو فاران کے ساتھ رہتے ھوئے پانچواں دن تھا ولیمہ تو انہوں نے کیا کرنا تھا کیونکہ ولیمے میں بھی عائشہ کو لوگ دیکھتے اور فاران کو کہاں یہ گوارہ تھا۔۔۔۔
تبھی اس نے ریسپشن کرنے سے انکار کر دیا اور نہ ہی عائشہ کو اس نے سلیمان صاحب کے گھر جانے دیا تھا وجہ ایک ہی تھی کہ وہ عائشہ کی جدائی سہہ نہیں سکتا تھا پھر بھلا وہ کچھ گھنٹوں کی ہی کیوں نہ ھو۔۔۔۔۔
عائشہ بھی فاران کی محبت میں اتنی آندھی ھوئی پڑی تھی کہ اس نے بھی صرف سلیمان صاحب سے کال پر بات کرنے پر ہی اتفاق کیا۔۔۔۔
شام کے 6 بج رھے تھے جب عائشہ لان میں پودوں کو پانی دینے کی غرض سے وہاں موجود تھی جبکہ فاران اپنے کمرے میں سو رھا تھا۔۔۔۔۔
ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہی وہ آفس سے واپس گھر آیا تھا تو شدید سر درد کی وجہ سے وہ ٹیبلیٹ لے کر سو گیا۔۔۔۔
تین گھنٹے کی نیند لے کر بیدار ھوتے ہی خود کو فریش فریش سا محسوس کر رھا تھا تو سب سے پہلے اسے عائشہ کا ہی خیال آیا جبھی وہ عائشہ کو کمرے میں ڈھونڈنے کے بعد اس کی تلاش میں باقی گھر میں پھرنے لگا جب اچانک اسے لاوئج میں موجود کھڑکی کے باہر عائشہ پودوں کو پانی دیتی ھوئی نظر آئی تو وہ مسکراتے ھوئے اسی طرف چل پڑا۔۔۔۔
" اینجل یار کیا کر رہی ھو۔۔۔۔؟؟؟
"سارے کپڑے گیلے کر دیے تم نے میرے , کیا ضرورت تھی تمہیں اس ٹائم پودوں کو پانی دینے کی۔۔۔۔۔"
فاران کے اچانک پکارنے پر عائشہ جو پودوں کو پانی دے رہی تھی پائپ سمیت فاران کی طرف مڑی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی کی ایک موٹی سی دھار فاران کے وجود پر گرتے ہی اسے سر سے پاؤں تک بھگو گئی اور وہ اچانک چڑتے ھوئے عائشہ سے بولا۔۔۔۔۔۔
جبکہ عائشہ فوراً پائپ کو زمین پر پھینک کر منہ پر ھاتھ رکھے اپنی ھنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
اور عائشہ کو خود کا یوں مزاق اڑاتے دیکھ کر فاران غصے میں اس کی طرف بڑھا اور پھر زمین سے پائپ اٹھا کر عائشہ کی سمت کر دیا اب عائشہ بھی لاکھ کوششوں کے بعد بھی پوری طرح پانی میں بھیگ چکی تھی۔۔۔۔
ساتھ ہی وہ اب فاران کے ھاتھ سے پائپ چھیننے کی جدوجہد کرنے لگی جو کہ ناکام ہی رہی البتہ اب فاران نے ایک ھاتھ سے عائشہ کی کمر کو پکڑ کر اپنے قریب کیا اور پھر دوسرے ھاتھ سے پائپ کو اپنے سر کے اوپر کرتے ھوئے عائشہ کے ساتھ خود بھی پانی میں بھیگنے لگا۔۔۔۔
شام کا وقت ، سہانا موسم اور دو محبت کرنے والے وجود اس وقت ایک بہت ہی دل موہ لینے والا منظر پیش کر رھے تھے ان دونوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ایک دوسرے کے لئے ہی بنائے گئے ھوں ۔۔۔۔۔
اچانک کچھ دیر بعد فاران نے پائپ کو زمین پر پھینکتے ھوئے عائشہ سے الگ ھو کر پانی بند کیا اور پھر دوبارہ عائشہ کے پاس آ کر ایک ھاتھ اس کی گردن میں ڈال کر عائشہ کے ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں کے درمیان لیتے ھوئے اپنے دوسرے ھاتھ کو عائشہ کی کمر میں ڈال کر اسے زمین سے اونچا کر دیا جبکہ عائشہ بھی اب اپنی دونوں ٹانگوں کو فاران کی کمر کے گرد باندھ کر اپنے بازو اس کے گردن میں ڈال چکی تھی۔۔۔۔
عائشہ کے اس فعل کے بعد فاران نے یوں ہی اس کے ھونٹوں کو گرفت میں لئے اسے اٹھا کر اپنے کمرے کی جانب چلنا شروع کر دیا۔۔۔
کمرے میں لا کر اس نے عائشہ کو بیڈ پر لیٹایا اور پھر یوں ہی اسے کس کرے گیا۔۔۔۔
عائشہ نے بھی اسے خود ہی دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ خود کو سیراب کرتے ھوئے عائشہ سے الگ ھوا اور پھر اسے کپڑے چینج کرنے کا بولتے ھوئے خود بھی ڈریسنگ روم کی طرف قدم بڑھانے لگا۔۔۔۔
10 منٹ بعد جب وہ دوبارہ روم میں داخل ھوا تو عائشہ بھی باتھ روم سے باہر اپنے نم بال ٹاول کی مدد سے خشک کر رہی تھی۔۔۔۔۔
" یار اینجل بہت بھوک لگی ھے پلیز کھانا دے دو پھر کافی بھی لینی ھے ' اور پھر رات کو دونوں مل کر ایک رومنٹک سی مووی دیکھیں گے اور پھر ساتھ ہم نے اپنی مووی بھی تو سٹارٹ کرنی ھے جو کہ ابھی کچھ دیر پہلے سٹاپ کی تھی۔۔۔۔"
فاران نے ایک آنکھ دباتے ھوئے عائشہ کو معنی خیزی سے کہا تو وہ بلش کرتی ھوئی کمرے سے باہر نکل گئی اور فاران اسے جاتا دیکھ کر مسکراتے ھوئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ھو کر اپنے بالوں میں برش پھیرنے لگا۔۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Wo Aashiqui Hai Meri Season1 Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Aashiqui Hai Meri Season 1 written by Malisha Rana .Wo Aashiqui Hai Meri Season 1 by Malisha Rana is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment