Das Ghalati Meri Tu Yara By Hoor Bano New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 14 July 2024

Das Ghalati Meri Tu Yara By Hoor Bano New Complete Romantic Novel

Das Ghalati Meri Tu Yara By Hoor Bano New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Das Ghalati Meri Tu Yara By Hoor Bano New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Das Ghalat Meri Tu Yara

Writer Name: Hoor Bano

Category: Complete Novel

گھڑی کا الارم بار بار بج رہا تھَا..... وہ اٹھتی اور پھر بند کر کے لیٹ جاتی..... کہ اچانک اس کے کمرے کا دروازہ دھرام کر کے کھلا.... 

او..... بی بی..... اٹھ وقت دیکھ کیا ہو رہا ہے..... سات بج رہے ہیں..... ناشتہ کیا تیرے ماں باپ قبر سے آ کر بنا کر دیں گے...... انیلہ بیگم اس کے اوپر سے کمبل ہٹاتی ہوی بولیں...... 

جی.... جی... مامی..... اسے اب ان باتوں کی عادت ہو چکی تھی..... اس لیے آگے سے بغیر کوئی جواب دیے وہ فریش ہونے چلی گئی..... 

جنت شیشے کے سامنے کھڑے اپنے بال بنا رہی تھی.... اس کی ممانی کی چلانے کی آوازیں اسے اپنے کمرے میں بھی سنائی دے رہی تھیں..... 

اس نے جلدی سے چادر کو اچھی طرح سے اپنے گرد لپیٹا.... اور بیگ اٹھا کر نیچے چلی گئی.... 

کچن میں جاکر اس نے جلدی سے سب کے لیے ناشتہ بنایا..... اور میز پہ ناشتہ لگانے لگی.....

ہانیہ جلدی کرو.... بیٹا... سکول سے دیر ہو جائے گی..... انیلہ بیگم اپنی اکلوتی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرواتے ہوئے بولیں.... 

جنت غور سے ان دونوں کو دیکھنے لگی..... اور دل میں سوچنے لگی کہ کاش اس کے ماں باپ زندہ ہوتے تو آج اس کے وجود کو یوں زلیل نہ کیا جاتا..... 

اے... کیا دیکھ رہی ہے.... منحوس نظر لگاے گی میری بچی کو..... ہاں بول.... ماں باپ کو تو کھا گئی اب کیا ہمیں بھی برباد کرنا چاہتی ہے توں.... انیلہ بیگم اب جنت کے بازو کو بے رحمی سے دبا رہی تھیں..... 

نہیں..... نہیں... مامی.... ایسا کچھ نہیں ہے..... کہ جنت کا فون بجنے لگا...... 

جنت کہاں ہو یار کب سے تیرا ویٹ کر رہی ہوں..... کال کی دوسری طرف سے آواز آئی...... 

بس آتی ہوں.....جنت آنسو ضبط کرتی ہوی بولی...... انیلہ بیگم ہانیہ کو وین تک چھوڑنے چلی گئیں...... 

انیلہ بیگم اور وقار صاحب کی ایک ہی بیٹی تھی.... ہانیہ..... انیلہ بیگم کو شروع سے ہی وقار بیگم کی اکلوتی بہن ساجدہ ایک آنکھ نا بھاتی تھی...... کیونکہ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امیر گھر میں بیاہی ہوی تھی..... ساجدہ کی آنکھیں سبز رنگ کی تھیں..... ساجدہ اور عدیل کو اللہ نے بیٹی سے نوازا...... جس نے آنکھیں َاپنی ماں کی طرح خوبصورت تھیں.... چہرے کے باقی نقش اس کے باپ پہ تھے...... 

عدیل نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اس کا نام اس نے جنت رکھا..... 

لیکن کچھ عرصے بعد ہی انکا کار حادثے میں انتقال ہو گیا..... 

اور جنت کو اس کے ماموں گھر لے آئے..... عدیل نے ساجدہ سے پسند کی شادی کی تھی.... جس کی وجہ سے اس کی فیملی اس سے ناراض تھی..... وقار صاحب نے جنت کو بہت پیار سے رکھا...... 

اور پھر وقار صاحب اپنے آفس کی سیڑھیوں سے گر کر چلنے پھرنے سے قاصر ہو گئے... 

بس تب سے انیلہ بیگم نے کوی کسر نہیں چھوڑی جنت کو زلیل کرنے کی.... بات بات پر مارنے کی..... 

جنت کراچی کی ایک اچھی یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی تھی.... اپنی یونیورسٹی کی فیس وہ شام کو اکیڈمی پڑھا کر پورا کرتی...... 

گھر کا خرچہ وقار صاحب کی پینشن سے چلتا تھا..... لیکن مشکل سے...... 

کیا ہوا..... عائشہ جو کہ جنت کی دوست تھی اس گھر چھوڑنے اور لینے بھی وہ خود آتی تھی..... 

کچھ نہیں بس..... سر میں تھوڑا درد تھا..... جنت  گاڑی میں آ کر بیٹھی.... اور نظریں چراتی ہوی بولی.... 

ادھر دیکھو.... میری طرف.... بہن مانتی ہو مجھے 

... اور  جھوٹ بھی بولتی ہو..... عائشہ جنت کا منہ اپنے طرف کرتی ہوئی بولی..... 

یار وہ مامی.... پتا نہیں کیوں وہ میرے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں.... میں تو انہیں اپنی ماں سمجھتی ہوں.... جنت عائشہ کے گلے لگ کر رونے لگی..... کاش میں بھی مر جاتی.... مر جاتی... مما بابا آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر کیوں چلے گئے.... کیوں..... 

بس جنت...... میں ہوں تمہارے ساتھ.... میں بات کرتی ہوں آنٹی سے..... یہ بازو پہ کس چیز کا نشان ہے.... جنت بولو....چپ رہنے سے تم مزید اپنے آپ کو مشکل میں کیوں ڈال رہی ہو.....آنٹی نے کیا ہے نا یہ..... تم انکل کو کیوں کچھ نہیں بتاتی.... 

انہیں سب معلوم ہے..... پر وہ میری وجہ سے چپ رہتے ہیں.... ممانی نے انہیں دھمکی دی ہے.... کہ اگر وہ ممانی کے کسی بھی معاملے میں بولے تو.... وہ میری شادی اپنے شرابی بھائی سے کر دیں گی....... 

اف...... اچھا تم نے کچھ کھایا ہے یا ایسے ہی آ گئی..... عائشہ جنت سے پوچھنے لگی..... 

نہیں..... جنت اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی بولی..... 

چلو....یونیورسٹی جاکر سب سے پہلے کینٹین سے ناشتہ کرتے ہیں.... اوکے..... 

اتنے میں عائشہ کا فون بجنے لگا..... موبائل پر عائشہ کی جان لکھا آ رہاتھا...... جنت دیکھ کر مسکرانے لگی......

او......غازی بھائی کی کال ہے.... تم کر لو بات.... میں کانوں میں انگلیاں ڈال لیتی ہوں.... جنت شرارت سے بولی..... ویسے اس ٹائم تو وہ ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں..... عائشہ نے کہتے ہوئے فون اٹھایا... 

ہیلو.... کیسی ہو عائشہ......شاہ کی جان.... غازی  فون کے دوسری طرف سے بولا...... 

میں ٹھیک.... آپ کیسے ہیں..... عائشہ شرماتی ہوی بولی..... 

جان تمہاری یاد آ رہی تھی....اب بس تمہاری آواز سن لی ہے.... تو اب بلکل ٹھیک ہوں..... 

اچھا آج یونیورسٹی کے بعد تمہیں پک کرنے میں خود اوں گا....  لنچ آج اکھٹے کریں گے...... اچھا جان اللہ حافظ ایک ضروری کام آ گیا ہے.... 

اللہ حافظ... انسپکٹر غازی...... 

غازی اور عائشہ تین سال سے ایک دوسرے کو جانتے تھے..... غازی اس پہ اپنی جان چھرکتا تھا..... وہ جلد ہی اپنے گھر والوں سے عائشہ کے بارے میں بات کرنے والا تھا..... 

عائشہ تمہیں غازی بھائی کو اب تک بتا دینا چاہیے.... اپنی مما کے بارے میں...... جنت اور عائشہ یونیورسٹی پہنچ چکی تھیں..... کینٹین میں آرڈر کرنے کے بعد جنت عائشہ سے بولی..... 

ہمممم..... اگر سچ جاننے کے بعد غازی نے چھوڑ دیا مجھے تو..... عائشہ ڈرتے ہوئے بولی..... 

نہیں پاگل..... وہ تم سے سچا پیار کرتے ہیں.... تمہارا ساتھ دیں گے.... وہ.... تم ہمت کر کے انہیں سب بتا دو........ 

سر.... یہ لوگ تو کہہ رہے ہیں.... انھیں کچھ نہیں پتا..... کہ لڑکیوں کی اسمگلنگ میں اور کون کون ہے..... اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے...... کانسٹیبل حمید دو آدمیوں سے پوچھ گچھ کر کے واپس آیا...... جسے کل ہی انھوں نے چھاپہ مار کر پکڑا تھا....... 

ہمم..... چلو میرے ساتھ...... تم سے ایک کام کہا تھا وہ نہیں کرسکے........لمبا قد...... رنگ نا زیادہ گورا اور نا ہی زیادہ سفید..... اس کی پرسنیلٹی کسی کو بھی آسانی سے اپنا دیوانہ بنا سکتی تھی..... پر وہ تو ایک ہی لڑکی کا دیوانہ تھا وہ تھی عائشہ....... 

لاک اپ کا دروازہ کھولو..... غازی حکم دیتا ہوا بولا.... 

ہاں..... تو ایک بات پہلے ہی بتا دیتا ہوں..... ایک بار پوچھنے پہ ہی سچ بتا دینا.... ورنہ نتیجے کے زمہ دار تم دونوں خود ہو گے...... 

دیکھو.... ہم کتنی دفعہ کہہ چکے ہیں..... کہ..... ابھی اس آدمی کی بات پوری نہیں ہوئی تھی.... کہ غازی نے ایک زور دار مکہ اسکے منہ پر مارا...... آدمی کے ناک سے خون نکلنے لگا.... 

کافی دیر دونوں کی درگت بنانے کے بعد.... آخر کار.... وہ بول پڑے..... 

اس دھندے میں ہم نئے ہیں.... زیادہ لوگوں کو نہیں جانتے..... ہاں دو دن بعد یہ لوگ لاہور سے کچھ لڑکیوں کو اسمگل کر کے باہر بھیجنے والے ہیں..... ہمیں اسی کام کے سلسلے میں یہاں بلایا گیا تھا ......

مطلب کہ مین اڈا یہیں ہے.... کراچی میں..... غازی کہہ کر دونوں کو لاتیں مارتا ہوا باہر نکل گیا...... 

غازی نے شوق اور وطن سے محبت میں یہ شعبہ سلیکٹ کیا تھا.... وہ اپنے کے ساتھ بہت مخلص تھا.. کام کے وقت صرف کام پہ ہی کرتا..... ایمانداری اور سچے جذبے..... کی وجہ سے ہی وہ چند عرصے میں ہی کافی ترقی کر چکا تھا..... 

عائشہ.... میں چلتی ہوں........

تم تو غازی بھائی کے ساتھ جاو گی..... جنت چادر کو صحیح سے سر پہ لیتی ہوی بولی..... 

نہیں.... ہم تمہیں چھوڑ دیں گے...... آو غازی آ گئے ہیں..... عائشہ گاڑی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی...... 

چلو......... 

لیکن میں کباب میں ہڈی کیوں بنو..... جنت شرارت سے بولی..... وہ تھی تو شرارتی..... ہنسی مذاق کرنے والی..... لیکن وقت اور حالات نے اس کی زندگی کا ہی مذاق بنا دیا تھا...... 

میری جان..... ایسا کچھ نہیں ہے...... اور یوں وہ دونوں غازی کی گاڑی کے پاس پہنچ گئیں..... 

غازی گاڑی سے باہر نکلا...... اور عائشہ کے لیے دروازہ کھولا..... 

جنت غازی کو سلام کرنے کے بعد گاڑی کی پیچھلی سیٹ پہ بیٹھ گئی........ 

بس یہیں اتار دیں..... جنت اکیڈمی پہنچ گئی تھی......جہاں وہ اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے..... ٹیچنگ کی جاب کرتی تھی...... 

غازی عائشہ کو لے کر ریسٹورنٹ میں آیا...... کھانا کھانے کے دوران عائشہ نے بات شروع کی...... 

غازی وہ مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے..... 

ہمممم..... بولو..... غازی پانی پیتا ہوا بولا.... 

وہ.... وہ.... ابھی عائشہ نے ہمت کر کے بَات کو آگے بڑھایا ہی تھا..... کہ غازی کے گھر سے کال آ گئی.... اس کی مما کی...... انھوں نے غازی کو فوراً گھر پہنچنے کا کہا تھا...... 

سوری عائشہ تمہاری بات بعد میں سنوں گا..... ابھی مما نے جلدی سے گھر بلایا ہے...... غازی بل ادا کرنے کے بعد گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا باہر نکل گیا..... عائشہ بھی اس کے پیچھے چل دی....... 

آ گئی تم....... عائشہ کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ پیچھے سے اس کو کسی نے آواز دی....... 

وہ ایکسٹرا کلاس تھی میری.... اس لیے..... عائشہ گھبراتی ہوی بولی..... 

دیکھو..... عائشہ.... ماں تو تمہاری مر چکی.... اور باپ بھی..... تو میں سوتیلی ہی سہی ماں تو ہوں تمہاری...... 

کل وہ لوگ آیں گے..... شرافت سے ان کے ساتھ چلی جانا..... سمجھی..... بہت ہوگئی پڑھائی..... اب اپنی ماں کے دھندے میں اس کا ساتھ دو...... 

آپ کو شرم نہیں آتی..... دوسروں کی بہن...... بیٹیوں کو بیچتے ہوئے..... اور اب آپ یہ کہہ رہیں ہیں کہ میں بھی اپنی عزت کو بھرے بازار میں نیلام کر دوں...... بھول ہے آپ کی..... کہ میں ایسا ویسا کچھ کرنے والی ہوں..... اور اگر آپ نے زبردستی کی..... تو میں اپنی جان دے دوں گی..... عائشہ کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئی اور دروازہ لاک کر لیا...... 

میں بھی دیکھتی ہوں...... کیسے نہیں جاتی تم.....ان کے ساتھ..... پارٹی نے تمہیں پسند کیا ہے..... ایڈوانس میں لے چکی ہوں...... جانا تو تمہیں پڑے گا...... اور نیلم بیگم کو یہ کام اچھے سے کرنے آتے ہیں....... 

ہیلو... مسٹر فراز اپنے آدمیوں کو کل بھیج دیجئے گا...... عائشہ آ جاے گی..... یا پھر آپ خود ہمارے گھر آ جائیے گا..... آپ کی خدمت کرنے کا موقع بھی مل جائے گا.... نیلم بیگم کمینگی دکھاتی ہوی بولیں...... 

مما خیریت.... آپ نے اتنی ایمرجنسی میں بلایا..... غازی گھر آیا تو اپنی ماں صباحت بیگم سے سوال کرنےلگا..... 

کس لڑکی کے ساتھ تھے تم..... ابھی کچھ دیر پہلے.... صباحت بیگم بیڈ سے اٹھ کر غازی کے پاس آئیں.... 

مما!!!! وہ عائشہ ہے..... جس کے بارے میں کچھ دن پہلے ہماری بات ہوئی تھی..... غازی اپنی ماں کے پاس آتا ہوا بولا.....

جو بھی ہے..... وہ.....ابھی کیا رشتہ ہے تمہارا اس کے ساتھ...... ہاں.... بولو.... اس طرح سے تم سرعام بازار میں ہماری عزت کا جنازہ نکالو گے..... جب کہ تم جانتے ہو کہ تمہاری ماں کی اس معاشرے میں کتنی عزت ہے....... سب مٹی میں ملانا چاہتے ہو تم...... صباحت بیگم آواز کو اونچا کرتی ہوئی بولیں.....

پلیز مما... اتنی بڑی بات نہیں ہے..... جتنا آپ اس بات کو کھینچ رہی ہیں..... 

میرے کہنے پہ وہ آی تھی...... اور میں اسے تین سال سے جانتا ہوں.... ایسی نہیں ہے وہ جیسا آپ سمجھ رہیں ہیں اس کو...... غازی تحمل سے اپنی بات مکمل کر رہا تھا...... اور میری ایک بات آپ اچھے سے سمجھ لیں.... شادی میں صرف عائشہ سے کروں گا..... صرف اور صرف عائشہ سے..... اور یہ کان آپ کے ایمن نے بھرے ہیں.... کیونکہ وہ مجھ سے شادی کی خواہش مند ہے..... اور آپ بھی یہ چاہتی ہیں کہ آپ کی بھانجی اس گھر کی بہو بنے.... آخرکار سگے تو وہیں ہیں آپ کے.... میں تو ٹہرا سوتیلا...... غازی کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں.....

پاگل ہو گئے ہو تم...... تم مجھے میرے سگی اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہو..... ارمان اور شانزے سے زیادہ میں تم سے پیار کرتی ہوں میرے بچے.... آج تو ایسا کہہ دیا..... آیندہ نہ کہنا....... صباحت بیگم اپنے لاڈلے بیٹے کے آنسو پونجھتے ہوئے بولیں..... 

چار سال کے تھے تم..... جب تمہارے مرحوم والد تمہیں میرے پاس لے کر آے تھے...... تب میری کوئی اور اولاد نہیں تھی..... تم ہی میرا سب کچھ تھے.... تب بھی اور آج بھی..... 

بس میں اتنا چاہتی ہوں کہ اب تم تب تک اس لڑکی سے نہیں ملو گے جب تک وہ تمہاری محرم نہیں بن جاتی..... صباحت بیگم غازی کو گلے لگاتی ہوی بولیں..... 

سچ... مما آپ سچ کہہ رہی ہیں.... مجھے پتا تھا آپ مان جائیں گی..... عائشہ بہت اچھی لڑکی ہے.... آپ کو ضرور پسند آے گی

صباحت بیگم اور ان کے شوہر زیشان کی شادی کو تین سال ہوگئے تھے.... لیکن انھیں اولاد کا سکھ نصیب نہیں ہوا..... پھر ایک دن زیشان کو سڑک پہ روتا ہوا بچہ ملا..... وہ اسے گھر لے آئے.... اس کے ماں باپ....خاندان کا کافی پتہ لگایا.... پر ناکام رہے.......... 

صباحت نے اس بچے کا نام غازی رکھا..... اور اسے ماں بن کر پالا..... غازی جب چھ سال کا ہوا تو صباحت بیگم کو اللہ نے ایک اور بیٹے سے نوازا اور اس کے بعد ایک بیٹی سے..... ان کا خاندان مکمل ہو چکا تھا...... پھر کچھ عرصے بعد زیشان کا انتقال ہو گیا.... صباحت بیگم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے شوہر کے بزنس کو سنبھالا.... اور آج ان کی کمپنی کو پاکستان کی بیسٹ کمپنی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے.... اس کے ساتھ ساتھ صباحت بیگم نے پورے پاکستان میں عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص ادارے بھی متعارف کروائیں ہیں...... کون کہتا ہے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے.... اگر عورت چٹان کی طرح کھڑی ہو جائے تو اس کے سامنے سب زیر ہو جاتا ہے.....

ہیلو.... عائشہ.... غازی کال کر کے فون کان کے ساتھ لگاتا ہوا بولا... 

جی... جی..... اتنی صبح کال کی خیریت.... عائشہ گھبراتی ہوی بولی..... 

سب خیریت ہے.... بس یہ بتانے کے لیے کال کی تھی کہ میں دو دن کے لیے لاہور جا ریا ہوں کام کے سلسلے میں..... واپس آوں گا تو مما کے ساتھ تمہارے گھر..... آئیں گے..... میں نے کہا تھا نا مما مان جائیں گی..... اور دیکھو...... جلد ہی ہم ساتھ ہوں گے..... غازی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی.... جب سے اس کی ماں اس رشتے کے لیے راضی ہوی تھی..... 

کب آئیں گے واپس آپ..... غازی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے.... جیسے کچھ ہونے والا ہے..... عائشہ روتی ہوئی بولی.... 

رونا بند کرو..... مجھے رونے والی لڑکیاں بلکل نہیں پسند..... جانتی ہو تم..... اور میں تمہاری آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کر سکتا..... اچھا اب فون رکھتا ہوں.... سر کی کال آ رہی ہے.... 

اوکے اللہ حافظ..... اپنا خیال رکھیے گا..... عائشہ فون رکھتی ہوی بولی...... 

ارے او بی بی...... ناشتہ بنا کہ نہیں اب تک..... ایک تو تیری آنکھ نہیں کھلتی.... اور اوپر سے اتنی سست ہے تو.... کہ بس نہ پوچھو..... انیلہ بیگم نے کچن میں آتے ہی جنت کو ڈانٹنا شروع کر دیا.....

مامی.... وہ آج چھٹی تھی تو اس لیے.... دیر سے آنکھ کھلی...... جنت چائے کپ میں ڈالتی ہوی بولی.... 

بہت زبان چلنے لگ گئی ہے تیری.... منحوس.... بند کر منہ اپنا..... اب وہ جنت کے بال کھینچ رہی تھیں..... زبان کم اور ہاتھ جلدی چلایا کر سمجھی..... ڈاین کہی کی..... 

ماموں چائے..... سوری وہ آج لیٹ ہو گئی.... جنت نم آنکھوں سے بولی..... 

ادھر او میرے پاس..... وقار صاحب پیار سے جنت کو بلانے لگے....

مجھے معاف کر دو.... میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا.... میں نے تو سوچا تھا کہ تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا.... تم پر تپتی دھوپ کا سایہ بھی نہیں پڑنے دوں گا.... جیسے تمہاری ماں کی ہر خواہش پوری کرتا تھا..... وقار صاحب ہاتھ جوڑ کر جنت سے معافی مانگنے لگے..... اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا.... یہ تو قسمتوں کے کھیل ہوتے ہیں جو انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں...... 

ماموں.... آپ شرمندہ کر رہے ہیں مجھے..... آپ نے میرے لیے بہت کچھ کیا ہے..... مجھے کوئی شکایت نہیں ہے آپ سے..... آپ کے لیے تو میں یہ سب برداشت کر رہی ہوں..... جنت اپنے ماموں جو سہارا دیتے ہوئے بولی...... 

یہ کس کی برائیاں ہو رہی ہیں..... یقیناً میری ہو رہی ہوں گی.... چل تیرا ناٹک ختم ہو گیا ہو تو جا کہ صفائی کر.... یا پھر تیرے ماں باپ قبر سے آ کے کریں گے...... 

جنت کمرے سے نکل گئی.... 

ارے تم تو کمرے سے باہر ہی نہیں آی کل سے..... نیلم بیگم عائشہ کو کمرے سے باہر آتا دیکھ کر بولیں..... 

بس ایسے ہی..... مما وہ آپ سے کچھ بات کرنی ہے.... میں نے بتایا تھا نا آپ کو کہ غازی مجھے بہت پسند کرتاہے.... اور میں بھی.... وہ لوگ کچھ دنوں تک آ رہے ہیں.... میرا ہاتھ مانگنے..... 

عائشہ گھبراتی  ہوی بولی.... مما میں غازی سے بہت پیار کرتی ہوں....... میں کسی کو کچھ نہیں بتاوں گی.... آپ کے بارے میں..... بس آپ مجھے غازی کی زندگی میں شامل ہونے دیں.... میں اس کی امانت ہوں..... اور آپ جو مجھ سے کہہ رہی ہیں..... وہ میرے لیے گناہ ہے گناہ..... 

یہ تو اچھی بات ہے....مجھے کوی اعتراض نہیں ہے..... رات کو کافی سوچا میں نے.... کہ تمہارے ساتھ زیادتی کروں گی تو میں تمہارے باپ کو کیا جواب دوں گی

..... مجھے معاف کر دو..... میں بھی یہ سب تمہارے اچھے مستقبل کے لئے کر رہی تھی.... لیکن اب تم فکر نہ کرو...... تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گی......... نیلم بیگم چالاکی سے بولیں..... 

تم بیٹھو میں تمہارے لیے جوس لے کر آتی ہوں..... کل سے کچھ کھایا نہیں میری بچی نے..... اپنی ماں سے کوئی ایسے ناراض ہوتا ہے..... نیلم بیگم عائشہ کو شیشے میں اتار رہی تھیں.... لیکن عائشہ سمجھی کہ شاید اس کی ماں اسے اس گھٹیا دھندے سے دور رکھے گی..... اور اب وہ غازی کے ساتھ اپنی زندگی آسانی سے گزار سکتی ہے.... 

پانچ منٹ کے بعد نیلم بیگم عائشہ کو جوس دے کر چلی گئیں..... عائشہ جوس پی کر غنودگی میں جاتی جارہی تھی.... اسے سب سنائی تو دے رہاتھا..... مگر اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ کر سکے...... 

لے جاو اسے..... اور ہاں ٹھیک جگہ پہنچانا اسے..... ایڈوانس لے چکی ہوں میں..... نیلم سفاکی سے بولی....... ویسے بھی آج کل پولیس ہمارے اڈوں پر چھاپے مار رہی ہے..... دھیان سے.....

نہیں.... نہیں... چھوڑو مجھے..... ماں.... پلیز ایسا مت کریں.... وہ غنودگی کی حالت میں اپنی عزت کی بھیک مانگ رہی تھی... کہ شاید اس کی سوتیلی ماں.... جس نے اسے صرف اس لئے پال کر جوان کیا کہ وہ اس کے کام میں اس کا ساتھ دے گی..... 

اگلے دن..... 

آج عائشہ کی کوئی کال نہیں آی..... کیا پتا وہ اج یونیورسٹی نہ آئے..... 

جنت جو کہ کب سے عائشہ کی کال کا انتظار کر رہی تھی.... خود ہی رکشہ کر کے یونیورسٹی پہنچی..... کافی دفعہ کال کرنے پر بھی کوئی جواب نہ ملا...... 

اس کی امی کے نمبر پر کوشش کرتی ہوں.... کیا پتا وہ اٹھا لیں.... عائشہ نے پہلے تو ایسا کبھی نہیں کیا.... 

اسلام و علیکم آنٹی..... دوسری طرف سے جواب موصول ہوا تو جنت بولی.... 

کون.... کون بول رہا ہے...... نیلم بیگم اکتاتی ہوی بولیں... 

جی وہ میں جنت بات کر رہی ہوں.... عائشہ کی دوست.... آج آی نہیں..... عائشہ یونیورسٹی.... اور نا ہی میرا فون اٹھا رہی ہے.... طبیعت ٹھیک ہے اس کی...... جنت پریشان ہوتی ہوی بولی...... 

دراصل عائشہ.... اپنی کزن کی طرف رہنے گئی ہوی ہے..... دو تین دن تک آ جائے گی..... نیلم نے بڑی چالاکی سے بات کو گھمایا..... 

اچھا.... عائشہ نے تو کبھی نہیں بتایا.... کہ اس کی کوئی کزن ہے..... جنت حیرانی سے بولی..... 

جب کہ دوسری طرف سے فون کٹ چکا تھا...... 

تیسرے دن وہ لوگ عائشہ کو وہ گھر چھوڑ کر گئے..... اور کچھ پیسے بھی دیے...... 

عائشہ کو ہوش بلکل نہیں تھا...... اس کی سوتیلی ماں.... جس کو اس نے ماں کا درجہ دیا ہوا تھا..... اسے یوں درندوں کے سامنے چھوڑ دے گی..... اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا..... 

نیلم بیگم اس کے کمرے کو تالا لگا کر..... گھر کے دروازے کو بھی بند کرکے چلی گئیں...... انھیں کسی پاڑٹی میں انوایٹ کیا گیا تھا....  

میں غازی کو کیا جواب دوں گی..... کہ اسکے جانے کے بعد میں اپنی عزت کی حفاظت نہ کر سکی..... اس کی امانت میں خیانت کیسے کی میں نے کیسے....... عائشہ پاگلوں کی طرح کمرے کی ہر چیز کو تہس نہس کر رہی تھی...... 

نہیں.... مجھے جینے کا کوئی حق نہیں ہے..... یہ کہہ کر اس نے دراز سے نیند کی گولیاں نکالیں..... اور ساری کھا لیں....... 

مجھے معاف کر دینا غازی..... میں اب تمہارے قابل نہیں رہی..... گندی ہو چکی ہوں میں..... ناپاک.....اور مجھ جیسا ناپاک اور گندا وجود..... اس لائق نہیں ہے...... کہ تمہیں کوئی خوشی دے سکے...... 

جنت کو جب عائشہ کی موت کی خبر ہوی تو..... وہ مرے ہوئے قدموں کے ساتھ  اس کے گھر پہنچی.....وہ ہوشوحواس کھو چکی تھی..... نیلم بیگم اچھی ایکٹنگ کر رہی تھیں سب کے سامنے.... اور رو رو کر یہ کہہ رہی تھی کہ کچھ دنوں سے پریشان تھی..... پھر اچانک جب وہ گھر آئیں.... کمرے کی طرف بڑھیں..... تو.... اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی.... اس کا وجود مردہ ہو چکا تھا..... 

جنت کے ماموں کی طبیعت خراب ہوگئی تھی.... ورنہ اس نے سوچا ہوا تھا کہ وہ  عائشہ کے گھر جا کر اس کا پتا کرے گی کہ وہ تین دن سے یونیورسٹی کیوں نہیں آی..... لیکن اگلے دن اس کی موت کی خبر نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دیئے...... 

عائشہ کو اِس دُنیا سے گئے ہوئے تین دن گزر چکے تھے..... جنت بھی تین دن سے یونیورسٹی نہیں گئی تھی..... اُسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ عائشہ اب اس دنیا میں نہیں رہی.....

دیکھا.... جن لڑکیوں کے زیادہ پَر پُرزے نکل آتے ہیں نا تیری طرح.... تو وہ خودکشیاں ہی کرتی ہیں.... 

انیلہ بیگم جنت کو طعنے دے رہی تھیں..... پتا نہیں کس کے ساتھ منہ کالا کر کے آی ہوگی..... اور بعد میں بدنامی کے ڈر سے اپنی جان دے دی.... تم بھی اب پڑھائی مکمل کرو تاکہ ہم تمہیں بھی یہاں سے چلتا کریں.... کل کو کچھ ہو گیا تو ہم بھی منہ چھپاتے پھرے گیں..... 

اب دفعہ ہو.... کھڑے کھڑے میری شکل کیا دیکھ رہی ہے..... چائے بنا کر لا.... منحوس....

جی..... جنت کے لیے ایک عائشہ ہی تو تھی..... جس کو وہ اپنی ساری دل کی باتیں کرتی تھی...... کوئی بھی پریشانی ہوتی تو وہ اُسے بتاتی تھی..... بہنوں جیسا رشتہ تھا..... جنت کو اب اکیلے ہی سب برداشت کرنا تھا....

غازی ایک ہفتے بعد واپس آیا...... عائشہ کا نمبر کافی بار لگانے پر بھی..... اُسے کوئی جواب نہ ملا..... تو اس نے عائشہ کے گھر جانے کی سوچی...... لاہور میں اس نے اپنا فون بند کیا ہوا تھا..... کیونکہ وہ ایک مشن پہ تھا..... واپس آنے پر اُس نے سب سے پہلے عائشہ کا نمبر ملایا..... صبح سے شام ہونے تک آی تھی لیکن کوئی جواب نہ آنے پر وہ پریشان ہو چکا تھا.....

آ رہی ہوں..... اس وقت کون آ گیا ہے...... نیلم بیگم غصے سے دروازہ کھولنے گئیں...... 

اسلام و علیکم!!!!! آنٹی میں غازی ہوں.... عائشہ کہاں ہے.... سوری اس وقت آپ کو پریشان کیا.... غازی تین سالوں میں پہلی بار عائشہ کے گھر آیا.....

تم ہو غازی.... انسپکٹر غازی...... نیلم بیگم غور سے غازی کا معائنہ کر رہی تھیں..... اندر آو..... 

عائشہ کو بلا دیں.... غازی صوفے پہ بیٹھتا ہوا بولا.... 

کیسے بلاوں..... کیسے..... وہ اب بہت دُور جا چکی ہے...... نیلم بیگم تو ویسے بھی اداکاری میں اچھی خاصی مہارت رکھتی تھیں...... 

کیا مطلب ہے آپ کا.... کہاں چلی گئی ہے وہ..... بتائیں.... غازی کی آواز بیٹھ چکی تھی.......

یہ خط چھوڑ گئی ہے وہ..... نیلم بیگم غازی کو ایک کاغذ پکڑاتی ہوئی بولیں.... 

کچھ دنوں سے بہت پریشان تھی.... وہ میں نے پوچھا بھی..... لیکن کوئی ڈر تھا اسے..... یونیورسٹی بھی نہیں جارہی تھی..... 

خط پڑھ کر غازی کے چہرے کے تاثرات بدل گئے..... 

جنت..... جنت..... وہ تو اُس کی دوست تھی.... بہن مانتی تھی اُسے..... غازی چیختا ہوا بولا..... 

وہ کوئی دوست نہیں تھی..... خط پڑھ کر مجھے بھی بہت حیرانی ہوئی...... وہ ایک اسمگلر تھی..... لڑکیوں کو بیچتی تھی...... میری عائشہ کو بھی اُس نے درندوں کے آگے ڈال دیا..... 

میری بچی نے خودکشی کر لی...... اپنی ماں کا بھی نہیں سوچا اُس نے..... ہائے میری بچی اکیلے ہی سب برداشت کرتی رہی...... 

نہیں چھوڑوں گا.... میں اُسے..... غازی کی روح کو نکال دیا ہے اس نے..... اُس کی محبت کا قتل کیا ہے....... غازی بچوں کی طرح رو رہا تھا..... 

دیکھو بیٹا..... اُن کا بہت بڑا گینگ ہے..... جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے....اِن سب کے پیچھے کون ہے..... کوئی نہیں جانتا...... فلحال تمہیں یہ سب معلوم کرنا ہے...... ہمت کرو..... تم ہی میری بچی کو انصاف دلا سکتے ہو..... نیلم روتے ہوئے بولی...... مردوں کو قابو کرنا وہ اچھے سے جانتی تھی..... اور غازی جیسے ذخمی شیر کو اُس نے آسانی سے اپنے جال میں پھسا لیا........ 

آپ فکر نہ کریں..... ایسی سزا دوں گا کہ موت بھی مانگے گی تو نہیں دوں گا...... تڑپا تڑپا کر ماروں گا...... 

بیٹا... میں تو کل اپنی بہن کی طرف شفٹ ہو جاوں گی..... لاہور میں.... اب یہاں میرا کیا کام..... نیلم اپنے جھوٹے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی.... 

غازی بغیر کوی جواب دیے..... وہاں سے نکل گیا..... 

نیلم بیگم اپنا کام کر چکی تھیں..... پوری ہوشیاری سے.... 

گاڑی کو ہوا کی طرح دوڑاتے ہوے وہ قبرستان پہنچا..... اور عائشہ کی قبر کے ساتھ لپٹ کر رونے لگا.... 

ہنسنا یا رونا ہو مجھے..... 

پاگل سا ڈھونڈو میں تجھے.....

بے تحاشہ دل نے تم کو ہی چاہا ہے....

تیرا جانا جیسے کوئی بددعا.....

دُور جاو کے جو تم...... 

مر جائیں گے ہم...... 

صنم تیری قسم.... 

صنم تیری قسم..... 

میرا انتظار تو کیا ہوتا..... ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھیں.... ہم نے..... مجھے کچھ تو بتایا ہوتا.... کیسے رہوں گا تمہارے بغیر..... پلیز واپس آ جاو.... 

نہیں رہ سکتا.... تمہارے بغیر...... عائشہ.... عائشہ..... کچھ تو بولو..... غازی پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا....... 

قسم کھاتا ہوں میں.... جب تک تمہارے قاتلوں کو سزا نہ دوں.... چین سے نہیں بیٹھوں گا... غازی چیختے ہوئے بولا..... بارش بھی اچانک ہی شروع ہو گئی..... 

میرا دل کرتا اے سوال..... 

تیری محبت دا کی حال.....

بجلی گرجنے کی آواز سے جنت کی آنکھ کُھلی..... وہ ایسے ہی ڈر جاتی تھی.... بادلوں کے گرجنے کی آواز اسے خوفزدہ کر دیتی تھیں..... پر اب تو یہ خوفناک بادل اُس کی زندگی میں تباہی مچانے والے تھے.... 

لڑکی کی تصویر بھیج دی ہے میں نے.... شام تک کام ہو جانا چاہیے..... غازی فون پر کسی کو ہدایت دے رہا تھا.....

اب میں بتاوں گا میڈم جنت..... تم نے میری عائشہ کو مجھ سے چھینا ہے..... تمہاری زندگی کو دوزخ سے بھی بدتر ہ  بنایا تو میرا نام بھی غازی نہیں..... 

جنت یار میں سچ کہہ رہا ہوں.... میں جلد ہی اپنی امی کو تمہارے گھر بھیجوں گا..... عمیر نے جنت کو اکیڈمی سے نکلتے دیکھا تو اُس کے پیچھے چل پڑا.... 

پلیز.... عمیر جب آپ کی امی مان ہی نہیں رہیں.... تو آپ مجھے جھوٹے دلاسے کیوں دے رہے ہیں.... 

جنت نے قدموں کو روکا.... اور پیچھے مُڑ کر عمیر کو کہا...... 

آپ کی امی تو اس بہو کو لائیں گی جو ڈھیر سارا جہیز لے کر آے گی..... اور میرے ماموں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ آپ کی فرمائشوں کی لسٹ پوری کرسکیں..... 

تم تو ایسے نہ کہو..... ایک تم ہی تو ہو جو میری ہر بات کو اچھے سے سمجھتی ہو..... عمیر جنت کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لیتا ہوا بولا..... 

جنت اور عمیر ایک دوسرے کو کچھ مہینوں سے جانتے تھے..... جب جنت نے اکیڈمی جواین کی تھی..... تب سے عمیر جنت کو پسند کرنے لگا تھا..... اور جنت بھی.....عمیر بھی اکیڈمی میں پڑھاتا تھا.. 

جنت نے عمیر سے کوئی بات نہیں چھپای تھی..... اپنے بارے میں.... اپنی فیملی کے بارے میں سب کچھ عمیر جانتا تھا...... 

عمیر کافی وقت سے اپنی امی کو منانے کی کوشش کر رہا تھا.... مگر اس کی امی اپنی ہی زد پر اڑی تھیں کہ بہو وہ اُس لڑکی کو بنا کر لائیں گی...  جو اپنے ساتھ بھاری جہیز لاے گی....... 

لیکن عمیر بھی اپنی ماں کی طرح زدی تھا.... وہ بھی جنت کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنے کا روادار نہیں تھا...... 

اچھا آو میں چھوڑ دیتا ہوں.... عمیر جنت کا ہاتھ پکڑ کراُس کو اپنی بائیک کی طرف لے کر جارہا تھا..... 

نہیں میں چلی جاوں گی.... آپ رہنے دیں...... جنت عمیر کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھرواتے ہوئے بولی...... 

میں نے کہا نا..... چھوڑ دوں گا میں..... بیٹھو..... عمیر مصنوعی غصہ دکھاتا ہوا بولا..... ورنہ میں اٹھا کر خود بھی بٹھا سکتا ہوں..... اتنے میں عمیر کا فون بجنے لگا...... 

جنت... تم ایک کام کرو.... تم خود چلی جاو.... آپی کی کال آئی تھی..... امی کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی ہے..... مجھے جلدی جانا پڑے گا..... سوری.... عمیر کان پکڑتے ہوئے بولا..... 

ہمممم.... میں تو ویسے بھی خود ہی جارہی تھی..... 

اللہ حافظ..... گھر پہنچ کر آنٹی کی طبیعت کے بارے میں اطلاع لازمی کر دیجئے گا..... 

جنت ابھی کچھ فاصلے پہ پہنچی ہی تھی...... کہ ایک گاڑی اُس کے آگے آ کر رُکی.... جنت ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہوی....... گاڑی میں سے چار افراد..... لمبے ترنگے.... مضبوط جسم کے آدمی...... باہر آئے..... انھوں نے جنت کو بازو سے پکڑا.... اور بے ہوشی والی دوائی.... جو انھوں نے پہلے سے رومال پہ لگای ہوی تھی.... جنت کے منہ پہ رومال رکھا..... جنت وہی بے ہوش ہو گئی...... اکیڈمی سے گھر جانے والے راستے پہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی...... جس کی وجہ کوئی جنت کی مدد نہ کر سکا...... اگر ہوتا بھی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا.. .... ہمارے ملک میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں.... جو دن کی روشنی میں..... بھرے بازاروں میں ہوتے ہیں.... لیکن مدد کے لیے کوئی آگے نہیں آتا..... 

تیری بھانجی کا کچھ پتہ نہیں ہے..... 9 بجنے والے ہیں.... پر منحوس اب تک گھر نہیں آی......میں بتا رہی ہوں.... اگر کوئی چاند چڑھا کر آی..... تو جان سے مار دوں گی..... انیلہ بیگم جو کب سے جنت کا انتظار کر رہی تھیں..... کیونکہ وہ 8 بجے آ جاتی تھی...... وقار صاحب بھی پریشان تھے...... اور انیلہ کے طعنے اُن کی بے چینی میں مزید اضافہ کر رہے تھے..... 

جنت جیسے ہی ہوش میں آی..... اس نے دیکھا کہ وہ ایک سٹور نما کمرے میں بند ہے..... جہاں پرانا فرنیچر پڑا ہے..... بھاگ کر دروازے کے پاس گئی..... اور زُور زٌور سے دروازہ بجانے لگی...... جو کہ باہر سے بند تھا......... 

خدا کا واسطہ ہے.... دروازہ کھولو...... میں نے کیا بگاڑا ہے..... تمہارا..... کیوں ایسے بند کیا ہے..... مجھے.... جانے دو..... جنت چیخ چیخ کر تھک گئی..... تو.... دروازے کے پاس بیٹھ گئی...... 

اتنے میں دروازہ کھلا..... قدموں کی آہٹ کی آواز جب جنت کے کانوں میں پڑی.... تو جنت نے جیسے ہی چہرہ اُوپر کیا...... اُس کے اوسان خطا ہو گئے..... 

غازی کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ چونک گئی..... 

غازی بھائی..... آپ..... یہ دیکھیں نہ پتا نہیں کون لوگ ہیں.... جو مجھے ایسے اٹھا کر لے آئیں ہیں.... پلیز اِن سے کہیں مجھے جانے دیں..... 

غازی جنت کے پاس آیا...... اور بالوں سے پکڑ کر اُسے کھڑا کیا..... جنت کی سبز..... آنکھیں.... غازی کا رویہ دیکھ کر سَکتے میں چلی گئیں..... 

میں ہی لے کر آیا ہوں تمہیں...... میں.... غازی آنکھیں نکالتا ہوا بولا...... 

پر کیوں..... میرا قصور کیا ہے..... جنت التجای نظروں سے غازی کو دیکھ رہی تھی...... 

او.... تو اب میں تمہیں بتاوں..... گریٹ.... ایکٹنگ..... پر تمہاری یہ اداکاریاں میرے سامنے نہیں چلیں گی..... 

قصور جاننا چاہتی ہو..... شرم نہیں آی تمہیں..... اپنی بہن جیسی دوست کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے......اُسے بے آبرو کرتے ہوے..... قاتل ہو تم.... قاتل..... میری خوشیوں کی...... میری عائشہ کی...... اور یہ جو تمہارا دھندہ ہے نا جلد ہی.... سب پتا لگا لوں گا کہ اور کون کون شامل ہے تمہارے ساتھ..... اور کس کے کہنے پہ تم نے یہ کیا...... غازی نے ایک جھٹکے سے جنت کو اپنے سے دور پھینکا...... 

آپ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں.... میں کچھ نہیں جانتی..... عائشہ کو میں نے نہیں مارا..... وہ میری بہن تھی...... اور یہ دھندا کیا ہوتا ہےمیرا کوئی دھندا نہیں ہے..... جنت نے روتے ہوئے جملہ پورا کیا...... لیکن غازی کی آنکھوں پہ بدلے کی پٹی بندھی ہوئی تھی..... 

بکواس بند کرو..... چور کب مانتا ہی ہے کہ اُس نے چوری کی ہے...... 

بی جان..... بی جان..... غازی اپنی بوڑھی ملازمہ کو بُلا رہا تھا..... جو کافی عرصے سے اُنکے گھر کام کرتی تھیں.... غازی انھیں احتراماً بی جان کہتا تھا..... 

کپڑے لے آئیں.... اور اسے تیار کر دیں..... نکاح ہے اِس کا کچھ دیر میں..... اور ہاں اگر یہ پہننے سے انکار کرے...... تو مجھے بلائیے گا..... میں اچھے سے پہنا دوں گا..... غازی خونخوار نطروں کی تپش جنت پہ ڈالتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا...... غازی جنت کو اپنے فارم ہاؤس لے آیا تھا..... جو کہ زیادہ تَر گیسٹ کے استعمال میں ہوتا تھا...... 

نہیں.... آپ تو میری مدد کریں.... آپ کی بھی تو کوئی بیٹی ہو گی.... آپ کو اُس کا واسطہ.... جنت بی جان کے قدموں میں بیٹھ کر اُن سے مدد کی بھیک مانگ رہی تھی...... 

دیکھو بیٹا!!! اس وقت میں کچھ نہیں کر سکتی.... شاہ بیٹے جو کہہ رہے ہیں مان لو.... غازی جب کوئی بات ٹھان لیتا ہے وہ کرکے رہتا ہے.... بی جان جنت کو پیار سے سمجھاتے ہوئے بولیں... کیونکہ وہ غازی کے غصے کو اچھے سے جانتی تھیں....

بی جان جنت کو کپڑے دے کر چلی گئیں.... 

جنت نے جب کپڑے نکالے..... خیالوں کی ایک وادی میں چلی گئی.....

عمیر!!!جب میرا نکاح ہو گا..... تو میں اسطرح کا ڈریس لوں گی.... جنت عمیر کو موبائل پہ ایمبرویڈری سے بنے ہوئے ڈریسز  کی تصویریں دکھاتی ہوی بولی...

ہممم.... میں نے تو کچھ اور ہی سوچا ہے..  عمیر جنت کے ہاتھوں سے موبائل لیتا ہوا بولا...

کیا؟؟!...جنت عمیر کے چہرے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی....

ریڈ کلر کا دوپٹہ..... اور سفید کلر کا کُرتا.. پجاما.... ویسے بھی تم پہ سفید کلر بہت جچتا ہے... عمیر جنت کے بالوں کی لِٹوں کو پیچھے کرتا ہوا بولا....

جنت ڈریس پہن چکی تھی... جو کہ بالکل اُسی رنگ میں تھا.... جو عمیر نے اُس کے لیے سوچا تھا.... 

عمیر!!! آج یہ ڈریس تو ہے... مگر کسی اور کی دی ہوئی.... اپنی جنت کو معاف کر دینا.... 

بی جان اندر آئیں.... اور جنت کو لے کر نیچے لے آئیں... 

غازی کے کچھ دوست اور گواہان کی موجودگی میں نکاح ہوا..... اور جنت اب ایک گمنام راستے پہ چلنے والی تھی.... جس کی کوی منزل نہ تھی.....

ابھی تک کیوں بیٹھے ہو.... اب نہیں آنے والی وہ.... جا چکی ہے.... اِسی لیے منع کرتی تھی کہ مت پڑھاو... لیکن نہیں تم پہ  تو بھانجی کی محبت کا بھوت سوار تھا.....انیلہ بیگم  نے وقار صاحب کو بیٹھے دیکھا تو بولیں.....

میری بچی ایسی نہیں ہے..... تم جاو... یہاں سے.... میری بھانجی ضرور آے گی... وقار صاحب اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے..... 

بی جان.. جنت کو غازی کے کمرے کے باہر چھوڑ کر چلی گئیں... 

جنت نے دروازہ ناک کیا.... لیکن کوئی جواب نہ آنے پر دروازہ کھول کر اندر چلی گئیں .... جنت اندر گئی اِس کی سانس پھول رہی تھی..... اُسے ڈر تھا کہ اس کا مزاجی خدا اب کیا کرنے والا ہے.... تو غازی کھڑکی کے پاس کھڑا... سگریٹ پی رہا تھا.... سوچوں میں گم....

غازی تم مجھے شادی پہ کیا گفٹ کرو گے... عائشہ فون پہ غازی سے بات کر رہی تھی. کہ اچانک اُس کے زہن میں سوال آیا.. 

جو آپ کہیں.... غازی کی جان.... غازی بولا 

مجھے نا رنگز بہت پسند ہیں.... عائشہ خوشی سے بولی... 

سگریٹ کے کش لگاتا... وہ اپنی دُنیا سے باہر آیا.... آنکھوں سے آنسو جاری تھے.... 

غازی کو پتا تھا کہ جنت کمرے میں آچکی ہے... پر اس نے کوی توجہ نہ دی.... 

کچھ دیر بعد غازی سگریٹ کو جوتے سے مسل کر پیچھے مڑا... تو جنت ویسے ہی کھڑی تھی.... چہرے سے ڈر اور خوف سامنے ظاہر تھا.... 

غازی جیسے جیسے قدم بڑھا رہا تھا... جنت بھی ڈر سے اپنے قدموں کو پیچھے ہٹاتی جارہی تھی.... 

اچانک ہی جنت دیوار کے ساتھ جا لگی..... اُسے غازی کی لال آنکھوں سے خوف آنے لگا... ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں... 

تم جیسی لڑکی کو چھونا میرے لیے گناہ سے کم نہیں ہے.... غازی جنت کے چہرے کے پاس اپنا چہرہ لاتا ہوا بولا.... وہ جنت کی بے ترتیب ہوتی ہوی دھرکن کو آسانی سے محسوس کر سکتا تھا.... 

غازی نے جنت کا بازُو پکڑا اور اُسے کمرے سے باہر نکال دیا.... 

جنت وہیں دروازے کے پاس بیٹھ گئی.... اُسے اِس  سنسان گھر سے خوف آرہا تھا.. کافی دیر وہ دروازہ کھٹکھٹاتی رہی... پر غازی جو جنت کسی بات میں دلچسپی نہیں تھی.. 

ایش ٹرے سگریٹ سے بھر چکی تھی... مگر غازی کے اندر جو آگ لگی ہوئی تھی.. وہ بجھنے کی بجائے مزید سلگتی جارہی تھی... 

فجر کی ازان سے جنت کی آنکھ کھلی... جو کچھ دیر پہلے ہی لگی تھی... وہ فرش سے اُٹھی... اور کمرے کے دروازے کو ہلکا سا ہاتھ لگایا.... تو وہ کُھلا ہوا تھا.... 

اندر جھانک کر دیکھا تو غازی نہیں تھا... 

پَر کمرے سے آتی ہوئی بے تحاشہ سگریٹ کی اسمیل سے وہ یہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ غازی رات بھر سویا نہیں... 

کچھ دیر بعد بی جان آئیں.. اُن کے ہاتھ میں دو شاپنگ بیگ تھے..... 

یہ صاحب نے دیئے ہیں... بی جان جنت کو بیگز پکڑاتی ہوی بولیں...

اتنے میں غازی بھی اندر آیا... جاگنگ سے واپس آنے کے بعد وہ کافی لازمی پیتا تھا... 

صاحب آپ کے لئیے کافی لاوں... بی جان غازی کو اندر آتا دیکھ کر بولیں... 

آج آپ نہیں یہ کافی بناے گی.... آپ جائیں یہاں سے... غازی کہتا ہوا فریش ہونے چلا گیا... اور واپس آنے کے بعد بغیر جنت کو دیکھے صوفے پہ موبائل لے کر بیٹھ گیا... 

جنت کو رات والی... غازی کی غصے بھری لال آنکھیں یاد آگیں.... 

غازی کے آنے کے بعد جنت نے شاپنگ بیگ میں سے ایک ڈریس نکالا... اور واشروم چلی گئی...

واپس آی تو غازی صوفے پہ بیٹھا موبائل کے ساتھ لگا ہوا تھا.... 

یہ تمہارا فون... غازی جنت کو اُس کا فون پکڑاتا ہوا بولا... 

اتنے میں جنت کا موبائل بجنے لگا... 

اسپیکر آن کرو... غازی جنت کے پاس آتا ہوا بولا.... 

جنت نے کانپتے ہوے ہاتھوں سے اسپیکر آن کیا... کیونکہ اِس وقت موبائل کی سکرین پر جو نمبر جگمگا رہا تھا... وہ عمیر کا تھا... 

ہیلو... کپکپاتے ہاتھ..... لڑکھراتی زبان.... سے جنت بولی.... 

جنت کہاں ہو تم.... رات سے فون ٹرائی کررہا ہوں.... تم ٹھیک تو ہو.... تمہیں پتا ہے ہمارا کام ہو گیا ہے.... جنت کو تو معلوم تھا کہ عمیر کس کام کی بات کر رہا ہے... 

پر غازی نے یہ سنتے ہی جنت کے ہاتھوں سے فون لیا اور دیوار پہ زور سے مارا... 

کیا کہہ رہا تھا یہ... کون سا کام... ہاں... بولو... غازی نے جنت کے  بالوں کو زور سے کھینچا.. اور ایک زُور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا....

یہ بھی تمہارے ساتھ شامل ہے.... تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں... 

غازی درد ہو رہا ہے.. چھوڑیں... جنت کی سبز.... گہری آنکھوں.. سے... آنسو لہروں کی طرح بہنا شروع ہوگئے.... 

رونا بند..... یہ ڈرامے میرے سامنے کرنے کی کوشش بھی مت کرنا... اور تم کیا سمجھتی ہو... تم کچھ نہیں بتاو گی.... تو میں تماشا دیکھتا رہوں گا.... 

نہیں... جلد ہی تم... اپنے ساتھیوں کے ساتھ جیل میں ہوگی.... 

شکل کیا دیکھ رہی ہو میری... دفعہ ہو جاو... میری نظروں کے سامنے سے... 

کافی لے کر آو.... اور آج سے میرے سارے کام تم کرو گی... کسی کام میں بھی لاپرواہی دکھائی تو یہ ہاتھ پاؤں توڑ دوں گا.... غازی جنت کے بالوں سے اپنی گرفت ہٹاتا ہوا بولا... 

شام... کو تمہارے گھر جائیں گے.... اور تم وہاں جاکر یہ کہو گی.. کہ تم نے مجھ سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے... 

لیکن!!! ابھی جنت کچھ کہتی کہ غازی کی کال آگئی... 

اور جنت کمرے سے نکل کر کچن کی طرف بڑھی... 

جنت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کافی کیسے بنے گی...

کیونکہ اُس نے کبھی زندگی میں کافی نہیں بنائی تھی...... 

اُسے جو سمجھ آیَا... اُس نے وہ کیا... اور کافی کو مگ میں ڈالا.... اور غازی کے روم کی طرف چل دی....

سبز آنکھوں میں آتی ہوئی نمی کو ڈوپٹے سے صاف کرتے ہوئے..... ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے کمرے کی طرف بڑھی

غازی صوفے بیٹھا موبائل کو غور سے دیکھ رہا تھا..... دروازہ کھلنے کی آہٹ سے اس کا دھیان سامنے سے آ تی ہوئی جنت پہ پڑا..... جس کی سبز رنگ کی آنکھیں اس کے مقصد میں خلل ڈال رہیں تھیں.....

کافی.....!!!! جنت نے گھبراتے ہوئے کافی کا مگ غازی کو پکڑایا.....

غازی نے بغیر اسے دیکھے کافی کا مگ اس کے ہاتھ سے لیا.... اور کافی کا ایک سپ لیتے ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے...

کیا ہے یہ..... ہاں..... تم سے پوچھ رہا ہوں....  غازی نے غصے سے کافی کا مگ دیوار پر مارا..... 

اور جنت کا منہ دبوچتے ہوئے بولا..... کافی بنای ہے تم نے...... اسے کافی کہتے ہیں..... گرفت سخت ہو چکی تھی.... 

وہ...... وہ....... مجھے کافی نہیں بنانی آتی.... آپ نے کہا کہ بنا لاو تو بنا لای...... جنت نے مشکل سے جملہ پورا کیا....

غازی نے زور سے اسے پیچھے دھکیلا..... 

دفعہ ہو جاو یہاں سے..... نکلو..... اور یہ رونا دھونا بند کرو..... مجھے تمہاری اصلیت پتا ہے..... میرے سامنے یہ ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں..... ابھی تو شروعات ہے..... آگے دیکھو تمہاری زندگی دوزخ سے بھی بدتر بنا دوں گا...... پھر تم اپنی زبان سے اپنا جرم قبول کرو گی..... 

میں کتنی بار آپ سے کہہ چکی ہوں.... کہ میں نے کچھ نہیں کیا.... جس کے قتل کا الزام آپ مجھ پہ لگا رہے ہیں..... وہ میری بھی کچھ لگتی تھی....... جنت اب اس شخص کے پاوں میں بیٹھ گئی...... 

لیکن غازی کو اس کی کہاں پرواہ تھی....... وہ تو بس اسے مجرم تسلیم کر چکا تھا...... اور اب اس کی سزا شروع ہونے والی تھی............

غازی جنت کو لے کر اُس کے گھر لے کر روانہ ہو گیا... 

گاڑی گھر کے سامنے رُکی... 

جیسا کہا ہے ویسا ہی ہونا چاہیے... اگر کوئی فضول بکواس کی.... تو تمہارے پورے گھر کو آگ لگا دوں گا.... 

اب اُترو گاڑی سے....

جنت.. گھر کے اندر داخل ہوئی... غازی اُس کے پیچھے تھا...

ارے تو کہاں منہ اُٹھا کر آ رہی ہے... نکل یہاں سے... انیلہ بیگم جنت کو دھکے دینے لگیں... زُور دار دھکا دینے پر جنت گرنے ہی والی تھی کہ غازی نے اُسے تھام لیا...

مامی یہ غازی ہیں... می... میرے شوہر ہیں... میں نے اپنی مرضی سے اِن سے شادی کی ہے.... آپ کو بتاتی تو آ پ یہ شادی نہ ہونے دیتی...

جنت آنکھیں نیچے کرتی ہوئی بولی... 

کیا.. کیا... کہا تو نے.... شادی کر لی ہے... تو یہاں کیا کرنے آی ہے... انیلہ بیگم نے جنت کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا... 

غازی یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا.... پر اُسے ان سب سے کوئی مطلب نہیں تھا.. 

وقار... وقار یہاں آو اور دیکھو اپنی شریف بھانجی کے کرتُوت... بڑی پارسا بنی پھرتی تھی.... 

وقار صاحب ویل چیئر پہ بیٹھے ہوئے باہر آئے.... 

سنُو تمہاری باکردار بھانجی شادی کرکے آی ہے.... دعائیں نہیں دو گے.... 

جنت... یہ سب سچ ہے... میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں بیٹا... وقار صاحب جنت کی طرف دیکھتے ہوئے بولے.... 

جی.. ماموں جان...  ممانی ٹھیک کہہ رہی ہیں... میں کب تک ایسے گُھٹ گُھٹ کر زندگی گزارتی.... ملا کیا ہے مجھے اس گھر سے.... جنت آنکھیں بند کر کے سب بول رہی تھی... اور دل ہی دل میں اپنے باپ جیسے ماموں سے معافیاں مانگ رہی تھی....

جاو یہاں سے.... اور آیندہ یہ شکل دکھانے کی ضرورت نہیں... انیلہ بیگم نے جنت کو بازُو سے پکڑا... اور گھر سے باہر پھینک دیا.... غازی کی کال آگئی تھی... جس کو اٹینڈ کرنے وہ باہر گیا تھا.... 

دروازہ بند کر کے انیلہ وقار کے پاس آی.... 

میری بھانجی ایسی نہیں ہے... بہت حیا والی ہے... دیکھ لیا... آج کتنا کچھ کہہ کر گئی ہے... اور تم کچھ بھی نہیں بولے... 

جنت زمین سےاُٹھ کر گاڑی میں بیٹھ گئی.... غازی سب کچھ دیکھنے کے باوجود گاڑی کے اندر جا کر بیٹھ گیا.... 

فارم ہاؤس واپس آنے کے بعد جنت کمرے میں چلی گئی.... رو رو کر اُس کا برُا حال تھا.... غازی کسی کام سے باہر نکل گیا..... 

مغرب کی نماز ادا کر کے جنت کمرے سے باہر آی... 

کچن میں گئی... تو بی جان اور اُن کے ساتھ ایک اور ملازمہ کھانے کی تیاری کر رہی تھیں... 

کیا ہوا بیٹا کچھ چاہیے... بی جان نے جنت کو کچن میں آتے دیکھا تو بولیں... 

وہ میں اکیلے بیٹھے تنگ آگئی تھی... تو سوچا کچن میں آ کر آپ کا ہاتھ بٹا دوں... جنت گھبراتے ہوئے بولی... 

ٗاِتنے میں غازی کچن میں آتا دکھائی دیا... کھانا آپ نہیں جنت بناے گی... ایک اور بات آپ میں سے کوئی اِس کی مدد نہیں کرے گا... غازی کہتا ہوا باہر نکل گیا.... 

کچھ گھنٹوں بعد جنت ٹیبل پہ کھانا لگا رہی تھی... غازی بغیر کچھ بولے آکر بیٹھ گیا... جنت بھی پاس ہی کھڑی تھی... 

غازی نے پہلا لقمہ لیا ہی تھا... مرچیں تیز ہونے کی وجہ سے اس نے پانی کا گلاس جلدی سے پیا....

اور غصے سے جنت کی طرف دیکھا... 

بیٹھو اِدھر... جنت غازی کے ساتھ والی چیر پہ بیٹھ گئی... 

غازی نے پلیٹ میں سالن ڈالا...اور پلیٹ جنت کے سامنے رکھ دی... جنت یہ سب دیکھ کر حیران ہو گئی 

بی جان... بی جان.. ایک پلیٹ میں زیادہ ساری لال مرچ ڈال کر لیں آئیں... 

جب بی جان رکھ کر گئیں... تو غازی نے لال مرچیں جنت کی پلیٹ میں ڈال دیں.. 

چلو اب کھاو.... غازی جنت کو کہنے لگا... 

کیا... جنت کے چودہ طبق روشن ہو گئے... اُسے نہیں پتا تھا کہ غازی یہ کرنے کو کہے گا... 

کھاؤ... غازی نے لقمے بنا کر جنت کے منہ میں زبردستی ڈالنے لگا... 

جنت کی آنکھوں سے زیادہ مرچیں کھانےکی وجہ سے پانی نکلنا شروع ہو گیا پر وہ کچھ بول نہیں سکتی تھی... 

یہ کھانا.. بنایا ہے... اگر اس کے بعد ایسا کھانا بنایا... تو تم مجھے اچھے سے جانتی ہو... لڑکوں کے دلوں کو بہلانا آتا ہے.... کھانا نہیں بنا سکتی... غازی نے غصے سے پلیٹ اُٹھائی... اور زور سے فرش پر پٹخ ڈالی...

اور اُٹھ کر چلا گیا.... 

جنت وہیں بیٹھی اپنی قسمت کو رونے لگی... کچھ دیر بعد... برتن اُٹھا کر کچن میں رکھنے لگی... 

رات کا 1 بج چکا تھا... پر غازی کا کچھ پتہ نہیں تھا

جنت غازی کا انتظار کرتی کرتی... بیڈ پر سو گئی... 

ویسے وہ بیڈ پہ نہیں سُوتی تھی...ایک ہفتے سے وہ فرش پہ چادر ڈال کے سوتی تھی... وہ بھی غازی کے کہنے پہ

دروازہ کھلنے کی آہٹ سے جنت کی آنکھ کُھلی.... غازی لڑکھراتے ہوئے قدموں کے ساتھ اندر داخل ہوا.... نشے سے جُھولتا  بیڈ کے پاس آیا.... جنت یہ سب دیکھ کر ڈر گئی... 

بیڈ سےاُٹھ کر سایڈ پہ ہو گئی... 

تم کیا سمجھتی ہو... تمہاری سزا ختم ہو گئی.. نہیں تمہاری سزا ابھی شروع ہوئی ہے.... کتنا پیار کرتا تھا.. میں عائشہ سے... زندگی تھی وہ میری....اور تم نےاُسی کا قتل کر دیا... غازی پاگلوں کی طرح چیختا ہوا بولا..... اب وہ جنت کی طرف بڑھ رہا تھا... 

میں نے کچھ نہیں کیا... کتنی دفعہ آپ سے کہہ چکی ہوں غازی... پلیز میں سچ کہہ رہی ہوں.. میری بات کا یقین کریں... جنت غازی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی.... 

جھوٹ... جھوٹ... بکواس.. نہیں مانتا میں... عائشہ نے خودکشی کرنے سے پہلے خط میں تمہارا نام لکھا تھا... تمہارا... غازی کہتا ہوا بیڈ پہ بیٹھ گیا... تم یہاں سے دفعہ ہو جاو... اِس وقت میں تمہاری شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوں.... غازی ہاتھ کے اشارے سےاُسے کہنے لگا... 

جنت باہر نکل گئی... اور باہر صوفے پہ جاکر لیٹ گئی... 

غازی نے پورے کمرے کی حالت بگاڑ دی... وہ غصے سےبُری طرح چیخ رہا تھا... 

کیوں عائشہ کیوں چھوڑ کر گئی... مجھے... تمہیں پتا تھا کہ... میں تمہارے بغیر کچھ نہیں ہوں... کچھ نہیں... 

ممکن نہیں ہے تُجھ کو بُھلانا...

روئیں نہ جو یاد میری آی اے.....

خوش رہیں اکھاں نہ پر آئیں وے...

کیا ہوا جو تو مجھ سے دور ہو گیا...

سپنا دونوں کا چُوڑ و چُوڑ یو گیا.... 

تیرے ساتھ رہے میری پرچھائی وے...

جنت باہر بیٹھی غازی کے کمرے سے آنے والی آوازوں سے سہم چکی تھی... 

جنت کی آنکھ چھے بجے کھل گئی....مشکل سے ہمت کرکے... وہ غازی کے کمرے میں داخل ہوئی... رات والے واقعے سے وہ کافی ڈر چکی تھی.... 

سارا کمرہ بکھرا ہوا پڑا تھا... اور غازی بیڈ پہ سویا ہوا تھا.... شوز پہنے ہی.... 

جنت بیڈ کے پاس گئی... اور آرام سے غازی کے جوتےاُتارے....

اور چادر غازی کے اُوپر ڈالی.... 

مجھے نہیں پتا غازی آپ کس خط کی بات کر رہے ہیں.... اور میں عائشہ کو کیوں ماروں گی.... وہ بہن تھی میری.... پتا نہیں کس نے یہ غلط فہمی آپ کے دل و دماغ میں ڈال دی ہے.... جنت بکھرا ہوا سامان اُٹھاتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی....

دن میں بی جان آئیں اور جنت سے سامان پیک کرنے کو کہا.... 

پھر وہ دونوں گیٹ کی طرف چل دیں.... غازی گاڑی میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا... 

کہاں جا رہے ہیں ہم.... جنت بی جان سے پوچھنے لگی.... 

غازی صاحب کے گھر.... بی جان نے اتنا ہی کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئیں.... جنت بھی ان کے ساتھ پیچھلی سیٹ ہر بیٹھ گئی.... 

گاڑی شاہ حویلی کے باہر آ کر رُکی.... 

غازی جنت کو اگنور کرتا ہوا حویلی میں داخل ہو گیا...... 

میرا بیٹا آ گیا.... صباحت بیگم غازی کے انتظار میں کب سے کھڑی تھیں.... 

بھائی کیسے ہیں آپ.... صباحت بیگم سے ملنے کے بعد ارمان غازی سے ملا.... 

اور بتاو تمہارے دوست چلے گئے واپس.... صباحت بیگم.... غازی سے اُس کے دوستوں کے بارے میں پوچھنے لگیں....سب لوگ لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے... 

 غازی نے ان سے یہ کہا تھا کہ اُس کے کچھ دوست آ رہے ہیں باہر مُلک سے.... جن کو وہ فارم ہاؤس میں رکھے گا... اور خود بھی کچھ دنوں کے لیے وہیں رہے گا... 

جی مما... آج صبح ہی گئے ہیں.... غازی نطریں چُراتا ہوا بولا... 

اتنے میں بی جان جنت کو لے کر اندر داخل ہوئیں.... 

بی جان کو تو سب پہچانتے تھے... پر جنت کو دیکھ کر سب حیران رہ گئے... اور خاص طور پر ارمان.... جس کی نظریں جنت کی سبز آنکھوں پر ٹہر سی گئیں تھیں.... 

یہ کون ہے.... صباحت جنت کو دیکھ کر بولیں... 

مما... یہ بی جان کی دُور کی رشتہ دار ہیں... بی جان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی.... تو یہ بی جان کے ساتھ گھر کے سارے کاموں میں مدد کرواے گی.... ملازمہ ہی ہے... اِس سے زیادہ کچھ نہیں غازی کہتا ہوا اپنے روم کی طرف چلا گیا.... جنت کی آنکھوں سے آنسو کا اک موتی گرا..... 

بی جان آپ اس لڑکی کو کوارٹرز میں لے جائیں... نام کیا ہے ویسے تمہارا... صباحت بیگم جنت کو غور سے دیکھتے ہوئے بولیں.. 

ج.. جنت... جنت نظریں نیچے کیے کھڑی تھی... 

ہممم.. ٹھیک ہے ابھی جاو... تھوڑی دیر آرام کرو... رات کے کھانے کا انتظام بھی تم ہی کرو گی..ہمارے ہاں سب جلدی کھانا کھا لیتے ہیں... اور مجھے ہر کام وقت پر کرنے کی عادت ہے... اِس لیے تمہیں بھی تمام کام وقت پر کرنے ہوں گے... صباحت بیگم جنت کو سمجھانے کے بعد کمرے میں چلی گئیں... پر ایک شخص جس کی نظریں ابھی تک جنت پر ٹِکی ہوی تھیں وہ تھا ارمان....

رات کے کھانے کی ٹیبل پر سب موجود  تھے... جنت سب کو کھانا سرو کر رہی تھی...ساتھ میں ایک اور ملازمہ اُس کی مدد کر رہی تھی... 

شانزے اور ایمن جو کہ ابھی شاپنگ کر کے آئیں تھیں.... ایمن صباحت بیگم کی اکلوتی بہن کی بیٹی تھی... ایمن کی امی کچھ دِنوں کے لئیے اپنے بیٹے سے ملنے دبئی گئ ہوی تھیں.... اور ایمن کو صباحت بیگم کے گھر چھوڑ گئی تھیں... 

غازی کب آئے تم... غازی کو ایمن ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی....

آج ہی آیا ہوں.. تم بتاؤ خالہ کیسی ہیں... اور تمہاری پڑھائی کیسی جار ہی ہے... غازی پلیٹ سے ہاتھ صاف کرتا ہوا بولا.... 

 اچھی جا رہی ہے پڑھائی بھی... ایمن شاپنگ بیگز ملازمہ کو پکڑاتی ہوی بولی.... اور خود غازی کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی... 

شانزے کی نظر جنت پہ پڑی... 

یہ کون ہے... مام... ناگواری سے جنت کو دیکھتے ہوے بولی... 

یہ.. ملازمہ ہے... بی جان کی رشتہ دار..... صباحت بیگم.. دیکھ کر بولیں... 

سُنو لڑکی... میں.. یہ سب نہیں کھاتی... میری لیے... کچھ آئل فری بنا کر لاو....

ایمن جنت کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی... 

جی.. جی... جنت کہتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی... غازی وہیں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا.... 

جنت رات کے کھانے کے برتن دھو رہی تھی... کہ اچانک ارمان کچن میں آیا... 

سُنیں... جنت... ارمان نے جنت کو بلایا... 

جی... جی.. آپ کو کچھ چاہیے... جنت کہتی ہوئی پھر سے اپنے کام میں لگ گئی.... 

کھانا اچھا بنا لیتی ہیں آپ... ارمان دھیمے لہجے میں بولا... 

جی شکریہ.... اِتنے میں غازی وہاں سے گزر رہا تھا... ارمان کو جنت کے ساتھ دیکھ کر ٹَھٹَک سا گیا... 

کیا ہو رہا ہے.... اور ارمان تم سوئے نہیں اب تک...صُبح یونیورسٹی نہیں جانا.... غازی کہہ تو ارمان سے رہا تھا پر دیکھ جنت کو رہا تھا.... 

اور تم لڑکی... کافی لے کر آو... ایک منٹ میں سمجھی.... اور اپنے کام پہ دھیان دو.... 

اوکے بھائی.. گڈ نائٹ... ارمان کہتا ہوا کچن سے باہر نکل گیا.... 

جنت وہیں کھڑی کانپ رہی تھی.... کافی لے کر کمرے میں آو... 

جی... جنت بس اِتنا کہہ کر جلدی سے کافی بنانے لگی.... اُمید تھی کہ اِس بار وہ کَافی صحیح سے بنالے گی .... 

جنت دروازہ ناک کر کے اندر گئی.... تو غازی بیڈ پہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا.... 

جنت نے کَافی کا مگ سایڈ ٹیبل پہ رکھا...... اور واپس مُڑنے لگی... 

نیچے کچن میں کیا کر رہی تھی ارمان کے ساتھ.... غازی کے اچانک بولنے پر  جنت گھبرا سی گئی... 

کچھ نہیں میں تو اپنا کام کر رہی تھی.... کہ..... جنت کے الفاظ ابھی پُورے نہیں ہوے تھے... 

غازی بیڈ سے اُٹھا... اور جنت کا منہ دبوچنے لگا.... 

ہاں تو اب میرے بھائی کو پھسانا چاہتی ہو تم..... تم جیسی لڑکیاں کبھی کسی ایک مرد کے پَلو کے ساتھ نہیں بندھ کہ رہ سکتی.... پہلے تم جو بھی... تھی... پر اب جب تک تم میرے نکاح میں ہو.... یہ بے حیائی بند کرنی ہو گی تمہیں.... ورنہ جان سے مار دوں گا... 

تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تمہارے گینگ کے دو لوگ ہمارے ہاتھ لگیں ہیں.... اور جلد ہی میں اس گینگ کے سربراہ کو بھی پکڑ لوں گا..... غازی کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی.... 

میں کتنی بار آپ سے کہوں.... میں کسی گینگ کا حصّہ نہیں ہوں... جنت پھر سے اپنے اوپر لگے الزامات کو مسترد کرتے ہوے بولی..... 

اچھا... آج سے تمہاری سزا شروع ہے... بہت سوچا کہ تمہارے ساتھ زبردستی نہ کروں.... لیکن پھر تم نے کون سا میری زندگی پھولوں اور رنگوں سے بھر دی ہے.... 

تمہاری زندگی اتنی دردناک بنا دوں گا کہ اپنی موت کی دُعا تم خود کرو گی..... غازی نے کہتے ہوئے جنت کو زمین پہ پھینکا..... 

اور بیلٹ نکال کر لے آیا..... آواز نہیں آنی چاہیے تمہاری.... بلکل نہیں... ہمارے ہاں اکثر مرد اپنی مردانگی دکھانے کے لئے عورت پہ ہاتھ اُٹھاتے ہیں.... لیکن مار اور ظلم و زیادتی صرف وہی مرد کرتا ہے جو بُزدل ہوتا ہے..... اور اکثر ناولز میں اور ٹی وی ڈراموں میں بھی مار پیٹ دکھائی جاتی ہے.... لیکن اس لیے نہیں کہ لوگ اس کو دیکھ کر یا پڑھ کر اپنی بیوی پہ ہاتھ اُٹھائیں.... مارنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا.... وہ بھی بغیر کسی تحقیق کے..... 

غازی... پلیز... نہ کریں یہ سب بعد میں آپ بہت پچھتائیں گے... میں نے سب کچھ بُھلا کر آپ کو اپنا شوہر مان لیا ہے.... جنت غازی سے فریاد کر رہی تھی.... 

غازی نے بغیر کچھ سُنے جنت کو بُری طرح مارنا شروع کر دیا.... اِتنے دِنوں کی سلگتی ہوی آگ آج چنگاڑی کی طرح بھڑک کر باہر آ رہی تھی.... 

میری عائشہ کے ساتھ ایسا کرنے کا سوچا بھی کیسے تم نے.... میں بتاتا ہوں.... درندگی کسے کہتے ہیں.... کسی کے وجود کو کیسے پامال کیا جاتا ہے.. بہت سی معصوم لڑکیوں کو تم نے بھیڑیوں کے آگے ڈالا ہو گا... اب تم. خود بھی اس کا مزہ چکھو.... غازی جنت کو زمین سے گھسیٹ کر بیڈ کے پاس لایا 

اور بیڈ پر زور سے پھینکا.... 

غازی کی حیوانیت نے جنت کے وجُود کو ایک زندہ لاش بنا دیا.... 

اللہ اکبر... 

اللہ اکبر.... 

ازان کی بلند آواز.... کھڑکی سے آتی ہلکی روشنی.... سے غازی کی آنکھ کھُلی...... رات کا سارا منظر اُس کے سامنے گھوما..... جلدی سے بستر سے اُٹھا.... آج اُسے جلدی جانا تھا.... پولیس اسٹیشن.... لڑکیوں کو باہر ممالک میں بھیجنے.... اور اُن کا جسم بیچنے والے گینگ کے دو اہم آدمی پولیس کے ہاتھ لگے تھے.... 

غازی جیسے ہی بستر سے اُٹھا... سامنے فرش پر پڑا ہو جنت کا ساکت وجود.... دیکھ کر.... اُس نے آنکھیں بند کر لیں.... دل میں کہیں دُور ندامت اور شرمندگی نے گھنٹی تو بجای.... پر بدلے اور نفرت کی آگ کے سامنے کچھ ٹہر نہ سکا.... 

اُس نے بی جان کو بلایا.... اور جنت کو اُن کے ساتھ ملازموں کے ہیڈکوارٹرز میں بھجوا دیا.... جہاں اُسے بی جان کے ساتھ رہنے کو بولا گیا تھا... 

اس سے پہلے کے جنت کو کوئی ایسی حالت میں دیکھ لیتا.... اور وہ بھی غازی کے ساتھ اُس کے کمرے میں... 

غازی جنت کو بی جان کے کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا.... کیونکہ جنت بے ہوش ہو گئی تھی.... جس کی وجہ سے بی جان جنت کو اکیلے کمرے میں نہیں لے کر جا سکتی تھیں.... گھر میں اِس وقت سب سُو رہے تھے.... جنت کی حالت بہت بُری تھی.... بی جان نے پہلے جنت کے کپڑے تبدیل کروائے... جنت کا جسم بخار سے تپ رہا تھا... جنت درد اور بخار کی وجہ سے بے ہوش تھی....

غازی ناشتہ کیے بغیر ہی چلا گیا تھا... اور جاتے جاتے بی جان کو کہہ گیا کہ وہ جنت کا خیال رکھیں... 

کیا خوب ہوتے ہیں وہ لوگ.... 

جو زخم دے کر پھر مرہم رکھتے ہیں..

آٹھ بجے سب ناشتے کی میز پر موجود تھے... 

بی جان جنت کہاں ہے.... صباحت بیگم نے بی جان کو ناشتہ لگاتے ہوئے دیکھا تو سوال کیا... 

جی بیگم صاحبہ... جنت بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے... بُخار ہے اُسے.... بی جان صباحت بیگم کے کپ میں چائے ڈالتی ہوی بولیں... 

ارمان جو آملیٹ کھا رہا ہے.... اُس کے گلے میں اٹک گیا... جنت کی خراب طبیعت کا سُن کر....

کیوں رات کو تو ٹھیک تھی.... شانزے لاپرواہی سے بولی... 

بی جان آپ نے اُسے میڈیسن دی.... ارمان پریشان ہوتا ہوا بولا... 

جی صاحب دے دی ہے.... دوائیوں کے اثر سے سُو رہی ہے.... 

بی جان کہتی ہویں کچن کی طرف چلی گئیں.... 

اور یہ غازی ناشتہ کیے بغیر ہی چلا گیا.... صباحت بیگم غصے سے بولیں... 

مام میں چلتا ہوں... یونیورسٹی کے لیے دیر ہو رہی ہے.... ارمان کہتا ہوا باہر نکل گیا....

شانزے ایمن نہیں جاے گی آج یونیورسٹی... صباحت بیگم شانزے سے پوچھ رہی تھیں... 

پتا نہیں مام... خیر میں بھی چلتی ہوں... آی ایم گیٹینگ لیٹ... شانزے بیگ اٹھاتی ہوی باہر نکل گئی...

ارمان اور شانزے الگ الگ یونیورسٹیز میں پڑھتے تھے... جبکہ ایمن اور شانزے ایک ہی کلاس اور یونیورسٹی میں تھیں... 

پولیس اسٹیشن میں چیخوں کی آوازیں گونج رہی تھیں.. 

غازی پاگلوں کی طرح اُن دو آدمیوں کی مار رہا تھا.....

جو کچھ بتانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے.... سر بس کریں ورنہ مَر جائیں گے یہ لوگ.... کانسٹیبل کاشف غازی کو منع کر رہا تھا..... پر غازی کو اِس وقت عائشہ کی آنکھیں نظر آ رہی تھیں... جن کو دیکھ کر وہ جیتا تھا.....

بتاتے ہیں... سب بتاتے ہیں... مار کھا کھا کر جب منہ اور ناک سے خون کی ندیاں بہنے لگیں..... 

یہ ہے وہ جو اِن سب کے پیچھے ہے... بولو... غازی موبائل فون پہ جنت کی تصویر دِکھاتے ہوئے بولا... 

اُن دونوں آدمیوں نے تصویر دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا.... اب مار سے بچنے کا یہی راستہ تھا.... اِس طرح اُن کی مالکن بھی بچ جائیں گی...

ہاں ہاں یہی ہے.... پر اِس لڑکی کے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے.... جو باہر ملک سے اِس لڑکی کی مدد کر رہا ہے.....وہ دونوں آدمی ایک ساتھ بولے... 

اور کتنے لوگ شامل ہیں تم لوگوں کے ساتھ.... غازی ایک آدمی کی گردن دباتے ہوئے بولا... 

یہ تو آپ اِسی لڑکی سے پوچھ لیں.... وہ آدمی روتے ہوئے بولا..

جاتے ہوئے لاتیں اُن دونوں کو لاتیں رسید کرتا نکل گیا.... 

جنت.... تم اب نہیں بچ سکتی.... تمہارے پورے گینگ کو تم سمیت جیل میں ڈالوں گا.... 

غازی نے ایک زوردار مکہ دیوار پر مارا..... 

جنت کو رات کو ہوش آیا.... بی جان اُسے کھانا کھلا رہی تھیں... 

جنت بیٹا تھوڑا سا کھا لو.... صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ نے.... 

بی جان... مجھے زہر لا دیں.... مجھے نہیں جینا اب....

جنت روتے ہوئے بولی....

بیٹا ایسا نہیں کہتا..... میں نہیں جانتی بیٹا... غازی نے تمہارے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا ہوا ہے..... تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا.... بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.... 

کتنا صبر کروں... بی جان.... غازی میری کسی بات کا یقین ہی نہیں کرتے.... وہ میری بات سُنے بغیر ہی مجھے مجرم ثابت کر چُکے ہیں.... 

اچھا چلو... اب تُھوڑا سا کھا لو.... بی جان جنت کی طرف نوالہ بڑھاتی ہوئے بولیں.... 

غازی گھر آ چُکا تھا.... پر شدید غصے میں ہونے کی وجہ سے وہ کسی سے بات کیے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا.... 

کچھ دیر میں صباحت بیگم کمرے میں آئیں... غازی کو کھانے پہ بلانے کے لیے آئیں... 

جی... مما.. آپ... آئیے بیٹھیں... غازی اپنی ماں کو پکڑتا ہوا لایا... اور صوفے پہ بٹھایا... 

کیا بات ہے.... غازی... جب سے تم فارم ہاؤس سے واپس آے ہو... کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے ہو... صباحت بیگم غازی کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتی ہوئی بولیں.. 

اور نہ ہی تم مجھے اُس لڑکی کے گھر لےکر گئے... صباحت بیگم... عائشہ کی بات کر رہی تھیں.... 

مما... وہ بات اب ختم ہو گئی ہے... بہتر آپ اِس بارے میں کوئی بات نہ کریں.... آپ جہاں چاہیں گی میں وہی شادی کروں گا... آپ ایمن کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں... مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے... غازی صباحت بیگم کی گود میں سر رکھ کر بولا.... آواز بھاری ہو چکی تھی.... الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے.... 

سچ کہہ رہے ہو تم.... صباحت نے اپنی یقین دہانی کے لئے پھر پوچھا.... 

ج.... جی.... غازی نے سر ہلا کر کہا.. 

تم...ریسٹ کرو... میں کھانا بھجواتی ہوں.... صباحت بیگم کہتی ہوئی باہر نکل گئیں.... 

غازی وہیں بیٹھا سوچنے لگا.... کہ اُس نے عائشہ کے علاوہ کسی کا سوچا ہی نہیں تھا.... اور آج کیسے وہ کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرے گا... 

مجھے عشق سکھا کر کے رُخ موڑ تو نہ لو 

رکھو ہاتھ میرے دل پہ کہو چھوڑ تو نہ دو گے

کسی اور کے مت ہونا تم..... جیتے جی میں مر جاؤں گی...

جو تم نے نظر پھیری... تو میں ٹوٹ بکھر جاوں گی...

میڈم لگتا ہے اُنھوں نے اپنا منہ نہیں کھولا... ورنہ پولیس کی ریڈ پر چکی ہوتی.... قمیض شلوار میں ملبوس شخص... ایک عورت سے بات کر رہا تھا..... 

ہاں ہو سکتا ہے پر ہمیں چوکنا رہنا ہو گا.... ورنہ غازی کبھی بھی ہمارا دھندہ ختم کرواسکتا ہے.... عائشہ کی بار تو میں نے حالات سنبھال لیے تھے.... اور بیچاری جنت کو پھسا دیا تھا.... نیلم بیگم ہنستے ہوے بولیں.... 

بیچارہ مجھے تو ترس آتا ہے.... ایسے لوگوں پر جو پیار میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں.... کہ اُن کو جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے.... 

ملازمہ کھانا رکھ کر جانے لگی تو... غازی نے اُسے روک لیا... 

جنت کو بھیجُو.... کچھ کام ہے مجھے.... غازی ملازمہ کو کہنے لگا... 

جی صاحب...!!! ملازمہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی.... 

جنت عشاء کی نماز پڑھ کر... قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی.... 

کہ اچانک دروازہ ناک ہوا.... 

کون ہے آ جائیں.... 

ارمان کمرے میں داخل ہوا.... جنت ارمان کو دیکھ کر گھبرا گئی... اُسے غازی کی باتیں یاد آنے لگیں..... 

آپ.... یہاں... جنت نے قرآن مجید کو غلاف میں ڈال کر سایڈ پہ رکھا.. اور ارمان کے پاس آکر کھڑی ہو گئی.... 

میں نے سوچا آپ کی طبیعت کا پوچھ لوں.... اب ٹھیک ہیں آپ.... ارمان گہری آنکھوں سے جنت کا جائزہ لیتا ہوا بولا.... جو سادہ لباس میں بھی اچھی لگ رہی تھی.... 

بہتر ہوں میں... اب آپ جائیں یہاں سے... جنت ارمان سے کہتی ہوئی صوفے پہ بیٹھ گئی... 

مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے.... ارمان کہتا ہوا جنت کے پاس آیا.... 

جنت میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے.... میرے ہوش و حواس پر صرف آپ چھائیں ہوی ہیں.... ارمان کہتا ہوا، جنت کے قریب صوفے پہ جا کر بیٹھ گیا.... 

پلیز ارمان.. کیا بکواس کر رہے ہیں آپ... جنت کہتی ہوئی اُٹھی....

اتنے میں دروازہ کھٹکا..... جنت... تمہیں غازی صاحب بُلا رہے ہیں...ملازمہ نے باہر سے ہی کہا.... 

اچھا میں آتی ہوں... تم جاو.... جنت کہتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھنے لگی... کہ ارمان نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا...

جنت.. تم میرے سوالوں کا جواب دیے بغیر کہیں نہیں جا سکتی..... 

ارمان چھوڑیں.... مجھے آپ سے اس رویے کی توقع نہیں تھی.... 

ٹھیک ہے... میں تمہارے جواب کا انتظار کروں گا.... ارمان نے جنت کا ہاتھ چھوڑا... اور کمرے سے باہر نکل گیا.... 

جنت بھی جلدی جلدی غازی کے کمرے کی طرف چل دی.... 

جنت کمرے میں آی تو غازی شرٹ اُتار کر بیڈ پہ لیٹا تھا.... آنکھیں بند تھیں..... آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے...... شاید کسی کی یاد میں..... 

آپ نے بُلایا....جنت کی سانسیں روکنے لگی تھیں.... اُسے غازی کے پاس آنے سے بھی ڈر لگتا تھا.... 

سایڈ میز پہ کھانے کی ٹرے ویسے کی ویسی ہی پڑی ہوی تھی.... 

ہاں.... کیوں کوی خاص کام کر رہی تھی تم.... جو میرے بلانے پہ تمہیں تکلیف ہو گئی....شوہر ہو تمہارا ایک بار بلاؤں تو آجایا کرو.... غازی سیدھا ہو کر بیڈ پہ بیٹھ گیا... 

آج سے تم اسی کمرے میں رہو گی.... بی جان کے ساتھ نہیں.... سمجھی.... کیونکہ اب میں کوی رِسک نہیں لے سکتا.... 

جنت کچھ نہیں بولی... کیونکہ وہ کل غازی کا پاگل پن دیکھ چُکی تھی... 

فرش پہ چادر بچھاو اور لیٹ جاو..... اور یہ کھانا واپس رکھ کے آو... مجھے نہیں کھانا.... کچھ لائیٹ سا بنا کر لاو میرے لیے.... غازی نے جنت کو کھانے کی ٹرے پکڑائی..  

جنت واپس کچن میں گئی اور غازی کے لیے دلیہ بنانے لگی.... 

جلدی سے دلیہ بنا کر وہ واپس روم میں گئی... غازی روم میں بیٹھا سگریٹ کے کش لے رہا تھا... 

دلیے کا باؤل سایڈ پہ رکھا.... اور چادر بچھا کر لیٹ گئی.... 

جنت کی آنکھ لگ گئی.... کچھ گھنٹوں بعد جنت کی آنکھ کُھلی.... تو روم کی لایٹ جلی ہوی تھی.... جنت لائیٹ بند کرنے کے لیے اُٹھی... 

غازی منہ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا.... نیند میں.... دلیہ بھی اُس نے نہیں کھایا..... 

جنت اُٹھ کر غازی کے پاس گئی.... تو غازی عائشہ کو ہی پکار رہا تھا.... 

جنت اُس کے سرہانے بیٹھ گئی.... جیسے ہی جنت نے غازی کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا.... بُخار سے تپ رہا تھا.....

جنت جلدی سے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لے کر آئی..... اور غازی کے ماتھے پر رکھیں..... 

کافی دیر تک وہ یہی عمل دُہراتی رہی.... اب غازی کا بُخار کم ہو گیا تھا..... 

جنت غازی کے بالوں میں آرام آ رام سے ہاتھ پھیرنے لگی.... تاکہ اُس کی نیند میں کوئی خلل پیدا نہ ہو.... 

جنت نے غازی کا سر اپنی گود میں رکھا..... اور خود بیڈ پہ بیٹھ گئی.... 

جنت غازی کے چہرے کو غُور سے دیکھنے لگی.... آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے.... بڑھی ہوئی شیو....

وہ پہلے والا غازی تھا ہی نہیں جس کا زکر اُس سے عائشہ کیا کرتی تھی.... 

غازی میں اتنی بُری  نہیں ہوں... جتنا آپ مجھے سمجھتے ہیں.... آپ نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا.... میرے ماموں کی نظروں میں مجھے گِرا دیا.... مجھے مارا....

آگے پتا نہیں کیا کریں گے میرے ساتھ.... جنت غازی سے باتیں کر رہی تھی... دھیمے لہجے میں.....کچھ گھنٹے ایسے ہی جنت اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی رہی.... اور پھر کب اُس کی آنکھ لگ گئی..... اُسے معلوم نہیں...

غازی کی آنکھ اچانک سے کُھلی... تو اُس نے جیسے ہی چہرہ اُوپر کیا... جنت بیڈ سے ٹیک لگائے سوئی ہوئی تھی.... معصوم بچے کی طرح...

کاش تم واقعی میں اتنی معصوم ہوتی... غازی کہتا ہوا اُٹھا.... اور جنت  کواُٹھانے لگا.... 

پتا نہیں کیسے آنکھ لگ گئی.... جنت گھبراتے ہوئے بولی...

آپ کی طبیعت کیسی ہے... رات کو بُخار تھا آپ کو... جنت کہتی ہوی.... غازی کے پاس آی.... 

تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے.... ٹھیک ہوں میں.... اور تُم جلدی سے نکلو یہاں سے....

غازی کہتا ہوا.... فریش ہونے چلا گیا..،

جنت کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی.... 

سب ناشتہ کر رہے تھے کہ ایمن بھاگتی ہوی آی... 

خالہ... میرا.... ڈایمنڈ کی رنگ نہیں مل رہی.... بھائی نے دُبئ سے بھیجی تھی... 

بیٹا کمرے میں ٹھیک طرح سے دیکھا ہے....صباحت بیگم پریشان ہوتی ہوئی بولیں...

جی خالہ... دیکھ چُکی ہوں... میرا کمرہ کس نے صاف کیا تھا آج.... ایمن مشکوک نظروں سے جنت کو دیکھنے لگی.... 

جی میں نے کیا تھا پر میں نے تو نہیں دیکھی.... جنت بولی... 

پھر تو تم ہی چور ہو.... بتاو کہاں ہے میری رنگ.... ہاں ایمن جنت کا بازُو مرورتے ہوئے بولی.... 

بیٹا چھوڑو اُسے... بنا کسی ثبوت کے کیسے الزام لگا سکتی ہو تم.... صباحت بیگم جنت کا بازٌو چُھرواتے ہوے بولیں.... 

خالہ آپ نہیں جانتی... یہ لوگ پروفیشنل چور ہوتے ہیں.... 

غازی جلدی ہی نکل گیا تھا.... پولیس اسٹیشن.... ارمان سویا ہوا تھا.... شانزے وہ بھی ایمن کی طرح سب کو کمتر سمجھتی تھی... سواے اپنے... 

مما ایمن صحیح کہہ رہی ہے.... آپ جائیں.... ہم اس مسئلے کو حل کر لیں گے.... 

کہ اچانک صباحت بیگم کی کال آگئی.... اُن کی آج بینوالاقوامی فلاحی ادارے کے ساتھ میٹنگ تھی.... تو وہ بیگ اُٹھاتی ہوئی باہر نکل گئیں... 

ہاں تو.... بتاؤ گی یا.... ایمن نے تھپڑ مارتے ہوے جنت سے کہا... 

دیکھیں میں کہہ رہی ہوں آپ سے میں نے کچھ نہیں کیا.... پھر شانزے نے جنت کو تھپڑ مارا... اب وہ دونوں مل کر جنت پر تھپیڑوں کی برسات کرنے لگیں...

بی جان نے بہت روکنے کی کوشش کی.... پر

چل بڑھیا تو نکل یہاں سے.... کیوں اس عمر میں اپنی ہڈیاں توروانا چاہتی ہے.... 

کہتے ہیں جب دولت جا نشہ سَر پہ چڑھ جائے تو باقی سارے انسان کیڑے مکوڑے نظر آنے لگتے ہیں.... 

اِس کے بعد انھوں نے جنت کو اسٹور روم میں بند کر دیا.... 

پر جیسے ہی ایمن کمرے میں بیگ سے فون نکالنے کے لئیے آی.... رنگ بیگ میں ہی تھی.....

ایمن اور شانزے دونوں ہی باہر نکل گئیں.... انھیں اپنی ایک دوست کی برتھ ڈے پاڑٹی پہ جانا تھا..... 

اُن دونوں کے جاتے ہی بی جان نے اسٹور روم کا دروازہ کھول کر جنت کو باہر نکالا.... ملازمہ کی مدد سے وہ اُسے اپنےکمرے میں لے گئیں.... 

اتنے میں غازی بھی واپس آگیا.... 

صاحب وہ جنت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے.... آپ ڈاکٹر کو کال کریں.... بی جان جو کہ ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہہ رہی تھیں... تاکہ وہ جنت کو ہسپتال لے کر جا سکیں..... 

کیوں کیا ہوا ہے.... غازی لاپرواہی سے بولا.... 

تو بی جان نے اُسے َساری واردات کی کہانی سُنا دی.... 

غازی نے ڈاکٹر کو کال کی..... 

دراصل اِن کا بی پی شُوٹ کر گیا تھا.... بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو گئ تھیں.... اور یہ ان کےچہرے پہ نشان کیسے ہیں.... نچلا ہونٹ بھی پھٹا ہوا ہے... مارا ہے انھیں کسی نے.... 

دیکھیں شاہ صاحب یہ آپ کا اندرونی معاملہ ہے... آپ کی گھر کی ملازمہ ہے.... لیکن مار کُٹای کرنا اچھی بات نہیں ہے.... 

ڈاکٹر غازی کا جاننے والا تھا.... اس لیے معاملہ سنبھل گیا... 

جنت کو کچھ دیر میں ہوش آیا... تو غازی کمرے میں آیا.... بی جان ملازمہ کو لے کر باہر نکل گئیں... 

غازی میں نے چوری نہیں کی... میں سچ کہہ رہی ہوں....جنت غازی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بولی.... 

کیا چاہتی ہو تم... ہاں... میری بہن سے دُور رہو... کیونکہ تم پہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا.... غازی کہتا ہوا جنت کے پاس آیا.... پاس سے سوپ کا باؤل اُٹھایا اور جنت کو پِلانےلگا.... پیو.... کیونکہ تمہیں زندہ جیل میں لے کے جانا ہے.... مُردہ نہیں... بہت جلد... 

جنت بھی غازی کے ہاتھوں سے سوپ پینے لگی.... وہ غازی کے تلخ جُملے بھول کر اُس کے چہرے کو غُور سے دیکھنے لگی.... 

سوپ پلانے کے بعد.... غازی نے دوائی جنت کو دی.... جو کہ جنت نے کھا لی.... اور کمرے سے باہر نکل گیا... 

غازی اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ... سامنے سے ایمن آتی ہوئی دکھائی دی.... 

ہیلو... غازی... کہاں غائب رہتے ہو.... مجھے تو بلکل وقت نہیں دیتے.... ایمن غازی کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی.... 

جنت کو تم نے مارا ہے.... جب وہ کہہ رہی تھی کہ چوری اُس نے نہیں کی.... پھر مارنے کی کیا تُک بنتی تھی.... 

غازی غصے سے ایمن کا ہاتھ ہٹاتے ہوے بولا... 

کیا...مطلب ہے غازی... تم اُس دو ٹکے کی ملازمہ کے لیے مجھے... بلیم کرو گے... ہاں مارا ہے میں نے... کیونکہ ملازمہ کو اُن کی اوقات میں رکھنا چاہیے.... ایمن غرور دکھاتے ہوئے بولی... 

میری بات کان کھول کر سُنو.... اگر آیندہ اس طرح کی کوئی حرکت کی.... تو تمہیں خالہ کے پاس بھجوا دوں گا.... 

مما کے پاس... مما کو تو خود خالہ نے یہاں بلوایا ہے.... 

ہماری منگنی کی تقریب کے حوالے سے بات کرنے کے لیے... ایمن کہتی ہوئی چلی گئی.... 

غازی وہیں کھڑا... غصے سے مٹھیاں دبانے لگا.. 

شام کو جب صباحت بیگم گھر آئیں تو بی جان نے اُن کو ساری بات بتائی... 

صباحت بیگم نے ایمن اور شانزے کو بلا کر اُن کی کافی سرزنش کی.... 

اور جنت کے پاس جاکر بھی اُس کی طبیعت بھی پوچھی.... 

رات کے کھانے کے بعد سب لاونج میں بیٹھے ہوے تھے.... 

کہ شانزے بولی... 

ممَا... آج کیوں نا باہر جایا جائے... کتنا ٹائم ہو گیا ہے ہم نے فیملی آوٹنگ نہیں کی... 

بیٹا یہ کون سا وقت ہے.. آؤٹنگ کا.... صباحت بیگم بولیں... 

مما پلیز نا چلتے ہیں... چلیں نا خالہ... شانزے ٹھیک کہہ رہی ہے.... 

اچھا بھئی چلتیں ہیں.... لیکن میری اگر شرط ہے.... 

غازی بھی جاے گا ہمارے ساتھ.... صباحت بیگم غازی کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں.... جو الگ ہی سوچوں میں گُم تھا... 

مام میں کیا کروں گا آپ لوگ جائیں... آنکھوں سے نکلتے آنسو کو صاف کرتا ہوا بولا... جو فون میں عائشہ کی تصویریں دیکھ رہا تھا... 

نہیں تم چلو گے... تو میں بھی چلوں گی صباحت بیگم ضد پکڑ کر بیٹھ گئیں.... 

اچھا آپ لوگ تیار ہو جائیں میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں.... غازی کہتا ہوا باہر نکل گیا.... 

یس... ایمن اور شانزے خوشی سے بولیں.... 

اب چلو تیار ہو جاؤ... ورنہ غازی انتظار نہیں کرے گا.... 

صباحت بیگم کہتی ہوئی تیار ہونے چلی گئیں.... 

سب لوگ چلے گئے... جنت دوائیوں کے زیر اثر سُو رہی تھی.....اچانک اُس کی آنکھ کُھل گئی.... ابھی وہ بیڈ سے اُتری ہی تھی کہ لائیٹ چلی گئی.... 

جنت ڈرتے ڈرتے کمرے سے نکل گئی... اور بی جان کو پُکارنے لگی.... 

بی جان بی جان.... کہاں ہیں آپ.... کہ اچانک جنت کو ایک سایہ نظر آیا.... جنت اُس کو غازی سمجھ کر اُس کی طرف بڑھی.... 

کہاں تھے... آپ... آپ کو نہیں پتا مجھے اندھیرے سے کتنا ڈر لگتا ہے.... جنت اُس کے گلے لگتے ہوے بولی... 

کہ اچانک لائیٹ آ گئی یا پھر کسی نے جنریٹر آن کر دیا.. .... جنت ابھی بھی گلے سے لگی ہوئی تھی... بغیر یہ دیکھے کہ کون ہے.... 

اِتنے میں سب لوگ اندر آتے دکھائی دیے..... سب لوگ سامنے کامنظر دیکھ کر حیران رہ گئے... خاص طور پر غازی.... جس کی آنکھیں لال ہو چکی تھیں... 

کیا ہو رہا یہ سب... صباحت بیگم زُور سے چلائیں.... 

جنت ڈر کر پیچھے ہوی.... تو ارمان کو دیکھ کر اُس کے اوسان خطا ہو گئے... وہ اتنی دیر سے ارمان کے گلے سے چپکی ہوئی تھی.... یہ سمجھ کر کہ وہ غازی ہے.... 

غازی غصے سے چلتا ہوا آیا....اور زور دار تھپر جنت کو رسید کیا.... بھائی یہ کیا کر رہے ہیں آپ...ارمان غازی کو پیچھے دکھیلنے لگا.... 

تم دفعہ ہو جاو یہاں سے... غازی غصے سے ارمان کا گریبان پکڑتا ہوا بولا.... 

صباحت بیگم ارمان کو چھرواتے ہوے... اوپر کی طرف لے گئیں.... 

ایمن اور شانزے بھی پیچھے اُن کے پیچھے چل پڑیں.... 

اور غازی جنت کو گھسیٹ کر کمرے کی طرف لے گیا... 

بی جان اِس وقت گھر میں موجود نہیں تھیں.... اُن کے بیٹے کی کال آئی تھی... اُن کو ایمرجنسی میں بلایا گیا تھا.... 

غازی نے زور دار دھکے سے جنت کو بیڈ پہ پھینکا.... 

غازی آپ جیسا سمجھ رہے ہیں... ویسا کچھ نہیں ہے.... جنت غازی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر بولی... 

منع کیا تھا نا میں نے... میرے بھائی سے دُور رہو... کہا تھا نا.... غازی جنت کی گردن کو دبانے لگا.... 

غازی پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا..... 

اچانک باہر کا موسم بدلنے لگا.... تیز ہوائیں چلنے لگیں..... 

بجلی گرجنے کی آوازوں سے جنت مزید سہم گئی.... 

غازی نے جنت کی گردن کو چھوڑا.... 

اور کمرے کی لائیٹ بند کر دی...... 

اپنا غصہ اور بھڑاس جنت پہ نکالنے کے بعد... اُس نے جنت کو... فرش پر پھینکا.... 

پھر غازی کمرے سے نکل گیا... جنت وہی بیٹھی... آنکھوں کے آنسو بھی خُشک ہو گئے تھے.... 

تھوڑی دیر بعد غازی پھر روم میں آیا.... ہاتھ میں چُھری اُٹھائے.... 

جنت کے پاس آیا... 

تکلیف دینا چاہتی ہو تم مجھے... جان بوجھ کر تم یہ سب کرتی ہو.... اب میں تمہیں بتاتا ہوں... تکلیف کیا ہوتی ہے.... کہا تھا میں نے جب تک تم میرے نکاح میں ہو... تب تک تمہیں یہ حرکتیں تَرک کرنی پڑیں گی... پر تم نے میری بات نہیں مانی... جنت اس وقت جواب دینے کے قابل نہیں تھی... اور نہ کچھ بولنے کے... 

غازی نے چُھری.... سے جنت کے دونوں بازوں ... پر کٹ لگا دیے.... خون لہروں کی طرح... بہنا شروع ہو گیا.... 

غازی خود چلا گیا.... 

بے مقصد سڑکوں پہ گاڑی دوڑانے کے بعد.... رات کے تین بجے گھر واپس آیا.... بارش بھی زور و شور سے جاری تھی.... 

غازی کمرے میں داخل ہوا.... تو جنت فرش پہ پڑی ہوئی تھی.... بازوؤں سے خون نکل رہا تھا... 

غازی فرسٹ ایڈ باکس نکال کر لایا.... اور جنت کو فرش سے اُٹھا کر بیڈ پہ لٹایا... اور دونوں بازوؤں سے خون صاف کیا.... پھر پٹی کر دی....

چادر اچھی طرح سے اُس کے اوپر ڈالی.... اور خود دوسری سایڈ پر آ کر لیٹ گیا.... 

جنت کے چہرے کو غُور سے دیکھنے لگا....

لمبی...گھنی پلکیں.... صاف شفاف چہرہ.... آج وہ پہلی دفعہ اُس کے چہرے کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا.... 

صبح جنت کی آنکھ کھلی تو...وہ بیڈ پر تھی.... غازی سامنے شیشے کے پاس کھڑا تھا.... 

یہ کپڑے پہنو.... بی جان دے کر گئیں ہیں.... اور جاؤ.... 

غازی میری بات سُنیں.... جنت ابھی آگے بولتی... 

مجھے کچھ نہیں سُننا.... کیا سُنو... تمہاری بے حیائی کے قصے.... غازی گھڑی ہاتھ پہ پہنتا ہوا بولا... 

جاو یہاں سے.... جنت فریش ہو کر واپس آی.... اور کمرے سے باہر نکل گئی.... 

یہ تمہارے ہاتھ پہ کیا ہوا ہے.... صباحت بیگم ناشتے کی میز پر جنت سے سوال کرنے لگیں... 

کچھ نہیں... پتا نہیں کیسے چوٹ لگ گئی... پتا نہیں چلا... جنت کہتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی.... 

غازی ارمان نے رات کو مجھے بتایا... کہ اچانک لائیٹ کے چلے جانے سے جنت ڈر گئی تھی... بہت.... اس لیے وہ ایسا بی ہیو کر رہی تھی.... اور کوئی بات نہیں ہے.... صباحت غازی کو بتانے لگیں... 

اتنے میں ارمان آیا... اُس نے غازی سے رات والے رویے کی معافی مانگی..... 

جنت کو آج صبح سے ہی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی.... کچن میں کام کے دوران بھی اسے چکر آے... تو بی جان نے اُسے ریسٹ کرنے کے لیے کمرے میں بھجوا دیا.... 

گھر کے سب افراد اس وقت ایمن کی امی کو ایرپورٹ سے لینے گئے ہوے تھے.... جنھوں نے اچانک ہی اپنے آنے کی اطلاع دی.... غازی کے علاوہ.... 

بی جان کو جنت کی طبیعت زیادہ خراب ہوتی نظر آی تو انہوں نے غازی کو کال کر کے بلا لیا.... 

اب اس وقت وہ ہسپتال میں تھے.... 

غازی خود باہر گاڑی میں انتظار کر رہا تھا... وہ ہسپتال کے اندر نہیں گیا.... 

پندرہ منٹ بعد بی جان اور جنت گاڑی میں بیٹھے.... غازی نے کچھ نہیں پوچھا... اور گاڑی حویلی کی طرف روانہ کر دی... ..

گھر پہ پہنچنے کے بعد.... غازی نے جنت کو کمرے میں بلایا... 

رپورٹس میں کیا ہے.... کیا کہا ہے ڈاکٹر نے... غازی جنت کے ہاتھ سے رپورٹس لیتا ہوا بولا... 

غازی وہ وہ.... جنت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بتائے.... 

غازی نے رپورٹس کھول کر پڑھنا شروع کیں.... تو چہرے کے تاثرات بدلنا شروع ہو گئے.... 

کیا بکواس ہے یہ... غازی رپورٹس جنت کے منہ پہ مارتا ہوا بولا... 

بچہ... بچہ کہاں سے آ گیا.... غازی حیرانی سے جنت کو دیکھنے لگا.. 

کیا مطلب ہے غازی یہ آپ کا بچہ ہے... ہمارا بچہ ہے.... 

جنت غازی کا ہاتھ اپنے پیٹ پہ رکھتی ہوی بولی... 

میں کیسے مان لوں... ہاں... جب تم ہو ہی بدکردار.... تو میں کیسے اس بچے کا باپ ہو سکتا ہوں.... 

غازی پلیز اب یہ ظلم نہ کریں.... آپ کو یقین نہیں ہے تو آپ ڈی این اے کروا لیں.... جنت غازی کے قدموں میں بیٹھ چکی تھی... 

مجھے جب پتا ہے کہ میرا اس بچے سے کوئی تعلق نہیں ہے.... تو ٹیسٹ کیسا.... 

شام کو میرے ساتھ ہسپتال چلو.... اس قصے کو میں آج ہی ختم کر دوں گا....

بس غازی... بس...بات میری ہوتی تو میں نے آج تک آپ کے َسامنے کچھ نہیں بولا.... آپ کے ہر ظلم و زیادتی کو برداشت کیا.. پر میں یہ ہر گز نہیں ہونے دوں گی... سمجھے آپ جنت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غازی سے پہلی بار بات کر رہی تھی...

ٹھیک ہے... مجھے کیا لگے... جو مرضی کرو تم... ویسے بھی کچھ وقت بعد جیل ہی جانا ہے تمہیں.... بس کیس ایک ہفتے تک حل ہو جائے گا.... غازی کہتا ہوا باہر نکل گیا....

کچھ دیر میں عازی کی خالہ اور ایمن کی امی آگیں.. سب لوگ لاؤنج میں جمع تھے.... صباحت بیگم نے غازی اور ایمن کی شادی کا زکر کیا.... اور منگنی کی ڈیٹ فکس کی...

اور اب حویلی میں منگنی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں.... 

اُس دن کے بعد سے جنت اور غازی میں کوئی بات نہ ہوئی... اور نا ہی جنت غازی کے کمرے میں گئی... 

ارمان نے کہیں دفعہ جنت سے بات کرنے کی کوشش کی پر جنت ارمان سے دُور ہی رہی.....

جنت کچن میں کام کررہی تھی.... کہ غازی نے اُسے کمرے میں آنے کو کہا... 

کافی کام ہے یہاں... کل آپ کی منگنی ہے... آپ جائیں یہاں سے... جنت کہتی ہوی کچن سے باہر جانے لگی... تو غازی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا....

تمہارے منہ میں بھی زبان ہے.. آج پتا چلا... غازی مسکرا کر بولا... 

شرافت سے چلو.... میں جا رہا ہوں... اور تم بھی آؤ... 

جنت احتیاط سے غازی کے کمرے میں داخل ہوئی...کیونکہ اس وقت گھر میں کافی چہل پہل تھی... 

جنت کمرے میں داخل ہوئی تو غازی کسی جگہ پہ ریڈ کرنے کی بات کر رہا تھا...

جنت کو دیکھ کر اُس نے کال کٹ کی... 

میں نے سوچا کہ اب جتنے دن تمہارے رہ گئے ہیں... وہ تم اچھے سے گُزار لو... یہ کپڑے ہیں جو تم نے کل کے فنکشن میں پہننے ہیں.... ایک خوبصورت کلر کی میرون شرٹ.. جس پہ سفید  موتیوں کا کام بڑی ہی نفاست سے ہوا تھا... اور گولڈن کلر کا شرارا تھا.... 

َجنت ڈریس لے کر جانے لگی... تو غازی نے پھر سے کچھ کہا... 

کچھ پتا چلا کہ یہ جو گند تم میرے سر پہ ڈال رہی تھی... اصل میں کس کا ہے... اب میرے سامنے کیا شرمانا.... غازی جنت کے قریب آتا ہوا بولا... 

غازی.. بس کر دیں... میں اب مزید اپنی صفائی پیش نہیں کروں گی... آپ کو جو کرنا ہے وہ آپ کریں... 

آج ریڈ پڑنے والی ہے... تمہارے مین اڈے پر... غازی بتاتا ہوا جنت کو غُور سے دیکھنے لگا... 

تو اچھی بات ہے... اللہ آپ کو کامیاب کرے... جنت کہتی ہوئی باہر نکل گئی... غازی جنت کی بات پر بڑا حیران ہوا... یا وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کال کر کے اپنے گینگ کو اطلاع کرے گی.....

غازی اور اس کی ایکسپرٹ ٹیم.... نے چھاپا مارا... اور ان کے آدمیوں کو گرفتار کر لیا... پر نیلم بیگم اور اُس کا ایک خاص آدمی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے.... 

 اب ان سب سے تفتیش ہورہی تھی.... سب کو الگ الگ لاک اپ میں بند کیا گیا تھا... کافی لڑکیوں کو بھی.... آزاد کروایا گیا تھا.... 

میڈیا سے بات چیت کرنے کے بعد جب غازی نے گرفتار ملزمان سے تفتیش شروع کی... تو غازی کے ہوش اُڑ گئے... 

جب نیلم بیگم کا نام لیا گیا.... مزید حیرت انگیز انکشافات نے کیس کو مزید اُلجھا دیا.... آخرکار جنت کی سچائی اور صبر نے غازی کی نفرت اور بدلے کی آگ کو بُجھا ہی دیا.... 

غازی گھر جاتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ وہ جنت کا سامنا کیسے کرے گا.... وہ تو ان سب سے بے خبر تھی.... 

یہ میں نے کیا کر دیا عائشہ.... میں مجرم بن گیا ہوں جنت کی نظر... غازی اس وقت عائشہ کی قبر کے قریب بیٹھا ہوا تھا.... 

ایک غلط فہمی سے میں نے ایک لڑکی کی زندگی برباد کردی... 

وہ مجھ سے کہتی رہی... پر میں نے کچھ نہیں سُنا.... کیوں... کیوں... میں نےایک معصوم لڑکی کے خوابوں کو اپنے بدلے کی آگ... میں جُھلسا دیا...برباد کردیا سب میں نے.... غازی نے روتے ہوئے جملہ مکمل کیا... 

بی جان مجھے جانے دیں... میں یہاں اب مزید نہیں رُکنا چاہتی... 

جنت سامان پیک کر رہی تھی.... 

پر بیٹا غازی. .... 

بی جان غازی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا... میرے جانے سے.... 

اِس وقت کہاں جاؤ گی.... بی جان جنت کے ساتھ سامان پیک کرواتے ہوئے بولیں... 

کہیں بھی چلی جاؤں گی..... جنت بیگ پیک کر چُکی تھی... میں کیسے اپنی آنکھوں کے سامنے غازی کو کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھ سکتی ہوں.... 

َاور ہاں... بی جان غازی آپ سے کچھ پوچھیں تو بتا دیجیے گا... کہ میں مر گئی ہوں... 

بے خیالی میں بھی تیرا ہی خیال آئے... 

کیوں بچھڑنا ہے ضروری یہ سوال آے... 

تیری نزدیکیوں کی خوشی بے حساب تھی..... 

غازی رَش ڈرائیونگ کرتا ہوا گھر پہنچا.... سیدھا بی جان کے پاس گیا.... 

پر جب بی جان نے.... اُسے بتایا کہ جنت جا چُکی ہے....کہاں گئی ہے.... بتا کر نہیں گئی.... 

غازی پھر گاڑی لے کر اُسے ڈھونڈنے نکل گیا... 

جنت بیگ اُٹھائے... ایک سُنسان سڑک پہ چل رہی تھی.... کہ اچانک.... ایک وین اُس کے سامنے آ کر رُکی.... اور اس کو زبردستی گھسیٹ کر وین میں ڈالا 

اور لے گئے.... 

جب وہ ناکام گھر لوٹا.... کمرے میں جا کر فرش پہ بیٹھ گیا.... اور زُور زُور سے رونے لگا.... 

جنت مجھے معافی مانگنے کا موقع تو دیا ہوتا.... جانتا اس قابل نہیں ہوں.... غازی ہاتھ سے مُکے بنا کر فرش پہ مارنے لگا.... 

میری ظلم.. زیادتی کو تم برداشت کرتی رہی.... 

غازی جب رُو رُو کر تھک گیا.... تو.... اُٹھ کر کپڑے چینج کیے.... اور وضو کرکے نماز بچھائی.... اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا... 

اے میرے رب.. تو غفور رحیم ہے.... میں جانتا ہوں جو کچھ میں نے کیا ہے.... اس کی معافی مشکل ہے.... پر تو ایک دفعہ مجھے جنت سے ملوا دے.... کب سے میں یہ بات دل میں چُھپاے بیٹھا تھا.... کہ میں جنت کے بغیر نہیں رہ سکتا.... محبت کا جذبہ تو تھا میرے دل میں اُس کے لئیے... پر نفرت کا طوفان سب بہا کر لے گیا

... سب کچھ.... 

اللہ تعالیٰ میں عائشہ کو تو کھو چکا ہوں پر میری جنت کو مجھ سے مت چھینیں.... غازی رب کے حضور سجدہ میں گر گیا..... 

صبح غازی نے منگنی کرنے سے انکار کر دیا.... سب پریشان ہو گئے.... خاص طور پر ایمن اور اُس کی امی.... اب حویلی میں ایک نیا طوفان آ چکا تھا

غازی شادی کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے... صباحت بیگم غصے سے بولیں... 

مما میں منع کر چکا ہوں......

پر کیوں... وجہ کیا ہے... تمہارے کہنے پہ ہی میں نے آپا کو ہاں کی تھی..... 

مما.... کیونکہ میری زندگی میں کوئی اور ہے.... اور اُس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا.... اور نا میں کسی کو لینے دوں گا..... 

غازی نے اپنے اور جنت کے رشتے کے بارے میں بھی بتا دیا.... کہ وہ اُس کی بیوی ہے..... 

مہمانوں سے معذرت کر لی گئی تھی..... 

کیا کہہ رہے ہو تم.... جنت... وہ ملازمہ تمہاری بیوی ہے..... صباحت بیگم نے زُور دار تھپڑ غازی کو مارا..... 

ملازمہ نہیں ہے بیوی ہے میری.... غازی کہتا ہوا باہر نکل گیا.. 

دیکھا خالہ.... میں کہتی تھی آپ سے اُس ملازمہ پہ نظر رکھیں... پر آپ کو تو وہ بیچاری لگ رہی تھی.... 

کہیں دفعہ میں نے اُسے غازی کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھا... ایمن غصے سے بولی... 

صباحت... یہ تربیت ہے تمہاری.... ویسے میں تو بھول ہی گئی... تھی کہ.. غازی تو تمہارا خون ہی نہیں ہے.... بھائی صاحب تو اسے سڑک سے اُٹھا کر لاے تھے.... پتا نہیں کس کا گندا خون تھا... جو آج ہمیں یہ دن دیکھنے کو مل رہے ہیں.... تہمینہ بیگم.... ایمن کو چُپ کرواتی ہوی بولیں.... 

آپا... کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں... پر غازی کا باپ ساری جائیداد اُس کے نام پہ کر گیا ہے.... 

میں نے سوچا تھا... ایمن میری بہو بنے گی.... تو جائیداد آسانی سے میرے نام ٹرانسفر ہو جائے گی.... جائیداد اپنے نام کروا کر غازی کا قصہ ختم کر دوں گی..... صباحت بیگم کا اصلی روپ جو کہ صرف اور صرف اُن کی بہن اور بھانجی جانتی تھیں.... کیونکہ وہ بھی اس پلان کا حصہ تھیں... 

کہتے ہیں انسان کا لالچ کبھی ختم نہیں ہوتا... اُس کی زیادہ سے زیادہ دولت کی خواہش اُس کے رشتوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں.... 

جنت کی آنکھ کھلی... تو اُس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے.... اور منہ پر ٹیپ لگی ہوئی تھی.... 

تب ہی دروازہ کھلا... تو سامنے سے آتے ہوئے شخص کو دیکھ کر جنت کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں... 

نیلم بیگم.... ساڑھی کو باندھے ہوئے.... پان چباتے ہوئے اندر آئیں... 

یہ لے فون پکڑ.... ارے پکڑ.... زور دار آواز.... پورے کمرے میں گونجی.... 

فون لگا اُس پولیس والے کو.... باقی کی بات ہم خود کریں گے.... 

جنت کو فون پکڑایا گیا... منہ سے ٹیپ اُتاری گئی.... 

غازی پولیس اسٹیشن میں بیٹھا جنت کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا...

 کہ موبائل بجنے کی آواز سے اُس کا دھیان فون پر گیا.... 

ہیلو... غازی  فون اُٹھاتا ہوا بولا.. 

ہم بول رہے ہیں... نیلم بیگم.... بھاری آواز سماعت سے ٹکرای.... 

تم.... گھٹیا عورت... عورت زات پہ دھبہ ہو تم.... غازی غصے میں بولا... 

او... زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے.... ورنہ تیری اس دوسری لیلہ کا بھی وہی حال کریں گے... جو عائشہ کا کیا تھا... مجنوں کی اولاد..... ویسے یہ پیس بڑا ہی مست ہے... کیونکہ کامی... نیلم بیگم اپنے ساتھ کھڑے ہوئے آدمی کو دیکھ کر بولیں... 

بکواس بند کر اپنی.... ورنہ تیرے ٹکرے ٹکرے کر کے کُتوں کو کھلا دوں گا.... غازی چیختا ہوا بولا.... 

غازی... غازی مجھے بچا لیں... ورنہ یہ لوگ میرا عائشہ کی طرح مجھے بھی مار دیں گے.....جنت روتے ہوئے کہہ رہی تھی... 

جنت تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے... میں ہوں تمہارے ساتھ... کچھ نہیں ہونے دوں گا.....تمہیں.... کیا چاہتے ہو تم لوگ... غازی کی آنکھیں ندامت کے آنسوؤں سے بھر چکی تھیں... پر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا.. 

ہمارے اتنے آدمی جو پکڑے ہیں... چھوڑنے ہوں گے... تمہیں... نیلم بیگم پان تھوکتی ہوی بولیں.... 

مجھے سوچنے کا وقت چاہیے.... غازی بالوں پہ ہاتھ پھیرتا ہوا بولا... 

ٹھیک ہے... لیکن... یاد رکھنا.... اگر کوی چالاکی کی تو اِس کی لاش مل جائے گی... نیلم بیگم نے کہتے ہوئے کال کٹ کر دی....

غازی نے فوراً نمبر ٹریس کرنے کے لیے بھیج دیا.... 

مجھے جلدی ہی کچھ کرنا پڑے گا....غازی پریشانی سے بولا.... 

کچھ پتا چلا... جنت کا... کہاں ہے وہ... صباحت بیگم غازی کو اندر آتا دیکھ کر بولیں... 

نہیں مما... جنت کو کچھ لوگوں نے کڈنیپ کر لیا ہے... 

غازی نے تفصیل سے بات نہیں بتائی..

اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا.... 

اللہ کرے مر ہی جائے... صباحت بیگم دل میں بولی... 

غازی اپنی ساتھیوں کے ساتھ...دی گئی ہوی لوکیشن پر پہنچا... جو اُس نے پتا کروائی تھی

ایک سنسان بلڈنگ... تھی... جو شاید ابھی تیار ہی نہیں ہوی تھی.... 

پر شاید وہ بلڈنگ تو اُن کے آنے سے پہلے ہی خالی ہو چکی تھی.... یا اُن کو پہلے اطلاع مل چکی تھی.... 

پھر غازی کا فون بجا... 

تم کیا سمجھے.... تم اتنی آسانی سے ہمیں ڈھونڈ لو گے.... نیلم بیگم خوفناک طریقے سے ہنستی ہوئی بولی.... 

اب  ہم تمہیں جگہ بتاتے ہیں.... تم وہاں پہنچو... وہ بھی اکیلے... کوی بھی ہوشیاری کی... تو سمندر کی لہریں جنت کو اپنے ساتھ لے جائیں گی.... نیلم بیگم چیخ کر بولیں... 

کال کٹ چکی تھی..... دو منٹ بعد غازی کے فون پر میسج آیا.... 

لوکیشن دیکھ کر غازی گاڑی لے کر نکل گیا... اور اپنے باقی آفیسرز کو ہدایت دے کر.... 

سمندر کی لہریں اِس وقت خوفزدہ کر رہی تھیں... شاید کچھ غلط ہونے والا تھا.... 

غازی بتای ہوی جگہ پر پہنچا... سامنے نیلم بیگم... کھڑی تھیں... جنت کے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے گرفت میں تھے... 

ویسے ہماری بات نہ مان کر اچھا نہیں کیا... تم نے غازی... نیلم بیگم... ہاتھ میں اُٹھائی ہوی پستول کو... جنت کے چہرے پہ رکھتی ہوی بولیں... 

دیکھو تم جو کہو گی... میں وہ کروں گا.... تمہارے جتنے آدمی ہمارے پاس ہیں... میں چھوڑ دوں گا.... غازی کہتا ہوا.... تھوڑا آگے آیا... 

اب کیا فائدہ... اب تو وقت گُزر گیا... نیلم بیگم غازی کے قریب آتی ہوئی بولیں... 

لو پستول پکڑو... اور فارغ کر دو.... ان دونوں کو... آج کا قصہ یہیں ختم کر دو.... نیلم بیگم... آدمیوں کو پستول پکڑاتی ہوی بولیں... 

نہیں پلیز.... پلیز ایسا نہ کریں.... غازی کو جانے دیں... اِن کا کوئی قصور نہیں ہیں... جنت روتے ہوئے بولی...

یہ کیا... یہ تو رونا ہی شروع ہو گئی... اے رہنے دو... یہ میں کیا کرنے جا رہی تھی... دو پیار کرنے والوں کو الگ کر رہی تھی... میں تو.. چھوڑو اس کے ہاتھ... جانے دو اِسے... نیلم بیگم اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتی ہوی بولیں....

شکل کیا دیکھ رہے ہو میری.... چھوڑو... جانے دو.. نیلم بیگم....اشارہ کرتی ہوئی بولیں.. 

جنت کا ہاتھ جیسے ہی چھوڑا گیا.... وہ بھاگتی ہوئی غازی کے گلے لگنے ہی لگی تھی.... کہ نیلم بیگم نے پستول سے تین فایر کیے.... غازی نے جیسے ہی دیکھا.... جنت کو پیچھے دھکیلا.... اور خود آگے آگیا....تین فایر غازی کے سینے کو چیرتے ہوے آر پار ہوگئے.... 

غازی کے ساتھ جو باقی آفیسرز آے تھے.....جو پیچھے ہی کہیں کھڑے... اپنی اپنی پوزیشن سنبھالے... 

اس سے پہلے کہ نیلم بیگم کی پستول سے اور گولیاں غازی کے سینے کو چھلنی کرتیں.... 

ایک آفیسر نے نیلم بیگم پر اندھا دھند فائرنگ کی.... جس سے نیلم بیگم...اپنے کالے کرتوتوں کے ساتھ ہی دنیا سے کوچ کر گئیں.... 

باقی افراد کو گرفتار کر لیا گیا.... 

غازی... غازی... کچھ تو بولیں... آپ ایسے مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے.. 

جنت غازی کو جھنجھوڑ رہی تھی... اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی.... 

غازی کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا.... 

آپریشن تھیٹر کی سرخ بتی جل چکی تھی.... 

صباحت بیگم.. ارمان .. شانزے... سب لوگ اس وقت ہسپتال میں تھے.... 

جنت وضو کر کے آی... نماز بچھا کر دعا کرنے لگی.... 

جب واپس آی تو... سب لوگوں کو دیکھ... تھورا سا جھجک سی گئی... 

صباحت بیگم... دوڑتے ہوئے آئیں... 

اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو... جان سے مار دوں گی.... 

مما کیا کر رہی ہیں... اس میں جنت کا کوئی قصور نہیں ہے... ارمان نے صباحت بیگم کو سمجھایا... اور واپس کرسی پہ بٹھا دیا.. 

ایمن اور اُس کی امی تو جنت پہ ہی نظریں گاڑے بیٹھی تھیں... 

کچھ دیر بعد ڈاکٹر.... آپریشن تھیٹر سے باہر آیا.... 

آپریشن تو ہو گیا ہے... پر حالت نازک ہی اُن کی... بس آپ دعا کریں.... 

جنت بیٹا گھر چلو... تھوڑا آرام کر لو... رات کو پھر آ جانا... بی جان جنت سے کہہ رہی تھیں... 

ہسپتال میں اس وقت جنت ارمان اور بی جان موجود تھے.... 

جنت بی جان ٹھیک کہہ رہی ہیں.... تم ابھی چلی جاؤ... کل رات سے تم یہاں ہو... طبیعت خراب ہو جائے گی.... ارمان جنت کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھتا ہوا بولا.... 

نہیں.... مجھے کہیں نہیں جانا.... جنت کہتی ہوئی کھڑکی کے پاس آئی.... دروازے کی.... جہاں غازی کو شفٹ کیا گیا تھا.... 

ٹھیک ہے بی جان آپ جائیں... میں ہوں یہاں پہ.... 

غازی کو تین دن کے بعد ہوش آیا.... لیکن ابھی اُسے ہسپتال میں ہی رکھا گیا تھا.... 

سب لوگ جب غازی سے مل چکے تو جنت آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی اندر آی.... 

اور غازی کے پاس جا کر بیٹھ گئی.... غازی بھی جنت کو دیکھ رہا تھا کہ وہ کوئی بات کرے.... پھر غازی نے ہی خاموشی توڑی.... 

جنت... ناراض ہو اب تک... اور ہونا بھی چاہیے.... 

میں نے بہت ظُلم کیے ہیں تم پر... فیصلہ تمہارے پر چھوڑتا ہوں... تم چاہو تو مجھ سے الگ ہو کر اپنی زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتی ہو.... غازی نے اتنی بڑی بات تو کر دی پر شاید اس بات کو نبھانے کا حوصلہ غازی میں نہیں تھا..... 

جنت بغیر کچھ بولے.... وہاں سے چلی گئی.... 

ایک ہفتے بعد غازی گھر آیا... جنت اُس کا خیال اچھے سے رکھتی تھی.... پر بات نہیں کی اُس نے اب تک... 

بھائی کیسے ہیں... جنت غازی کے روم سے باہر آی تو ارمان بھی سیڑھیاں اُتر کر نیچے جا رہا تھا... 

جی کافی بہتر ہیں... جنت نظریں چراتی ہوی بولی... 

میں اپنے پہلے رویے کی معافی مانگتا ہوں... شرمندہ ہوں... مگر مجھے آپ کے اور بھائی کے رشتے کا معلوم ہوتا... کہ آپ بیوی ہیں اُن کی... تو میں بلکل یہ حرکت نہ کرتا.... 

کوی بات نہیں... آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے... جنت کہتی ہوئی چلی گئی.... 

اب کیا کرنا ہے.... وہ منحوس تو یہاں قدم جما کر بیٹھ ہی گئی ہے.... تہمینہ بیگم پریشان ہو کر بولیں... 

مما... کچھ بھی کریں.. اُس جنت کو غازی کی زندگی سے نکالیں... کیسے وہ اُس کے آگے پیچھے گھومتی ہے... زہر لگتی ہے مجھے... اور جب تک وہ ہے... ہم اپنے مقصد میں کامیاب کیسے ہوں گے.... ایمن ناخن تراشتے ہوئے بولی... 

آپ لوگ فکر نہ کریں... ابھی جیسا چل رہا ہے چلنے دیں.... اس جنت کا کام تو میں خود تمام کروں گی..... ایسے ہی میں نے اتنے سال غازی کے سامنے اچھے بننے کی ایکٹنگ کی.... سچ تو یہ ہے کہ وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا.... 

پیسے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے.... سڑک چھاپ لوگوں کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنانا پڑتا ہے.... 

جیسے ہی ساری پراپرٹی... میرے نام ہو گی.... غازی کا قصہ ختم.... وہ بھی ہمیشہ کے لئے.... صباحت بیگم خطرناک تیور دکھاتی ہوی بولیں.... 

کہ اچانک روم کے باہر پڑا ہوا واسک ٹوٹ کر گرا.... شاید وہاں کوئی کھڑا یہ ساری کارروائی سُن چکا تھا.... 

جنت بھاگتی ہوئی آی.... اور کچن میں جا کر اپنا کام کرنے لگی... تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ وہ صباحت بیگم کی ساری باتیں سُن چکی ہے.... 

ایمن ملازمہ کو بُلانے آی تاکہ... ٹوٹا ہوا واسک کا کچرا اُٹھوا سکے..

جنت... جنت... ملازمہ کہاں ہے... اُسے بھیجو... خالہ کے کمرے کے باہر کا واسک ٹوٹ گیا ہے.... وہ اُٹھانا ہے... کہیں کسی کو لگ نہ جائے... 

ایمن ملازمہ کو بُلانے نہیں بلکہ یہ دیکھنے آی تھی کہ جنت اس وقت کہاں ہے... کہیں وہ تو کمرے کے باہر کھڑی تھی...

جنت ماتھے پہ آے ہوے پسینے کو صاف کرتے ہوے.... 

جی... میں بھجواتی ہوں.... 

زرا جلدی.... ایمن کہہ کر چلی گئی... 

جنت نے تب جا کر سُکھ کا سانس لیا... 

جنت کمرے میں آی.... غازی... کھڑکی کے پاس کھڑا... سوچوں میں گُم تھا... 

جنت غازی کو دودھ کا گلاس پکڑاتی ہوی بولی... 

آپ کو اپنی مما پر کتنا بھروسہ ہے.... اتنے دن کی خاموشی آج جا کر ٹوٹی... 

کیا مطلب ہے اس بات کا... جب کہ تم جانتی ہو کہ مجھے مما پہ خود سے زیادہ یقین ہے...

ایسے ہی پوچھ لیا... جنت غازی کو میڈیسن دیتی ہوی بولی.... 

تمہیں پتا ہے... میں بہت چھوٹا تھا.. جب میرے ماں باپ مجھے... سڑک پہ پھینک گئے تھے... لاوارثوں کی طرح... پھر بابا مجھے لے کر آئے... 

بابا کے جانے کے بعد مما نے مجھے بہت پیار کیا... اپنی اولاد سے زیادہ مجھے چاہا... 

اور آج بھی جب مجھے کوئی بات پریشان کرتی ہے... تو مما کے پاس جاتا ہوں... وہ میرا سب کچھ ہیں...

غازی جنت کے پاس آیا... اب وہ کافی بہتر تھا.... 

پھر تُم نے کیا سوچا.... تمہاری زندگی ہے... تم فیصلہ کرنے کا پورا حق رکھتی ہو...کیا فیصلہ کیا تم نے؟؟؟ غازی میڈیسن لیتا ہوا بولا.. 

کیسی زندگی... کیسا حق.... سب کچھ تو تباہ کر چکے ہیں آپ... میری زندگی... یہی کہہ رہے نا آپ... میری زندگی... اگر میری زندگی تھی... تو آپ نے کیا کیا...  میری زندگی کا تماشا بنا دیا.... میرے گھر والوں کے سامنے... سارے معاشرے کے سامنے... مجھ پہ بدکرداری کا لیبل لگا دیا....

اپنے بچے کو بھی گالی دی.... اگر آپ جیسے لوگوں کو مرد کہتے ہیں... تو پھر ہم عورتیں آپ مردوں کے بغیر بھی یہ زندگی گزار سکتی ہیں... غازی کچھ نہیں بولا... بولتا بھی کیا... جنت سچ ہی تو کہہ رہی تھی... 

اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں چلی جاؤں... آپ کو اپنے بچے کا خیال نہیں آیا... کہ جب لوگ اُس کے باپ کے بارے میں پوچھیں گے.... تو کیا کہوں گی میں... آپ کو کیا لگے...اپ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ میں یہاں سے چلی جاؤں... اور آپ آسانی سے اپنی زندگی کے مزے لے سکیں....

ٹھیک ہے پھر ایک کام کریں... گلا دبا دیں میرا.... یہ قصہ بھی ختم ہو جائے گا... یا پھر میں خود کو مار دیتی ہوں.... ویسے بھی آپ مجھے کب کا مار چُکے ہیں.... بس اس ننھی سی جان کی وجہ سے میری سانسیں چل رہی ہیں... 

جنت پاگلوں کی طرح اپنے چہرے پہ تھپر مارنے لگی.... 

جنت... جنت... کیا ہو گیا ہے تمہیں.... پاگل مت بنو... غازی نے کہتے ہوئے جنت کو اپنے حصار میں لے لیا.... 

غازی مجھ پہ مزید ظُلم مت کریں.... میں نہیں برداشت کر سکوں گی.... آپ کی نفرت کو... آپ کے سخت رویے کو.... جنت روتے ہوئے بولی.... ابھی بھی وہ غازی کے گلے سے لگی ہوئی تھی.... 

مجھے معاف کر دو... میں تو معافی مانگنے کے بھی قابل نہیں رہا.... پر میں کوشش کر سکتا ہوں کہ تمہاری زندگی کو مطمئین اور پُرسکون بنا دوں.... میں بہت پیار کرتا ہوں تم.... سے نہیں رہ سکتا... اب مزید یہ تکلیف مجھ سے برداشت نہیں ہوتی.... 

نکاح ایک ایسا خوبصورت بندھن ہے... جو نفرت کو بھی محبت اور خلوص میں بدل دیتا ہے....

ہمارا حال نہ پوچھو... یہ دُنیا بھول بیٹھے ہیں...

چلے آؤ تمہارے بن نا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں...

سُنو اچھا نہیں ہوتا یوں دل کو تڑپانا.

محبت میں کیوں ہر عاشق یوں بن جاتا ہے دیوانہ... 

جب کسی سے پیار ہو جائے یوں اقرار ہو جائے...

بڑا مشکل ہوتا ہے دل کو سمجھانا.... 

غازی کی آنکھ کھلی تو جنت بلکل معصوم بچے کی طرح سوئی ہوی تھی... 

غازی پیار سے اُس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرنے لگا..... 

ابھی وہ غور سے اَس کے چہرے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ جنت کی آنکھ کھل گئی... 

ارے... کہاں جا رہی ہو... جنت غازی کے ارادوں کو دیکھ کر اُٹھنے لگی... تو غازی نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا.... 

غازی کے اتنے قریب آ کر جنت نے آنکھیں بند کر لیں... 

غازی نے جنت کے چہرے پہ پیار کیا... 

غازی وہ.... کچن میں مجھے کچھ کام ہے....جنت کو جب اپنی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی سنائی دیں... تو جلدی سے بیڈ سے اُٹھی... اور واشروم کی طرف بھاگ گئی... 

غازی وہیں بیٹھا... جنت کی حرکت پہ ہنسنے لگا.... 

ناشتے کی میز پہ سب بیٹھے ہوئے تھے... 

سامنے سیڑھیوں سے... غازی اور جنت اُتر رہے تھے... غازی نے جنت کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.... 

ارمان اپنے بھائی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا.... 

اُٹھ کر اِن دونوں کے پاس آیا.... 

ویلکم.... ویلکم... مسز غازی.... 

ارمان نے کہتے ہوئے... کرسی... کی طرف اشارہ کیا اور جنت کو بیٹھنے کو کہا... 

واہ!! بھابھی کے آتے ہی بھائی کو بھول گیا.. غازی مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے بولا... 

نہیں بھائی.. آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں... آپ میرے آئیڈیل ہیں.. آپ بھی تشریف رکھیے.. ارمان کہتا ہوا بیٹھ گیا... 

غازی.. ارمان اور جنت ہنسنے لگے... 

باقی سب لوگ... حقارت اور غصے سے دیکھنے لگے..... 

پر کچھ کر نہیں سکتے تھے.... 

ناشتے کے بعد غازی جنت کو ڈاکٹر لے کر چلا گیا....

واپس آیا تو صباحت بیگم.. اور تہمینہ بیگم لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے 

مما... جنت کا اب ہمیں بہت خیال رکھنا ہے... ڈاکٹر نے خاص طور پر پر اسے آرام کا کہا ہے... اور یہ سارا دن کچن میں لگی رہتی ہے... آپ منع کیا کریں... غازی صباحت بیگم کے ساتھ بیٹھتا ہوا بولا... 

ہم تو اسے کام کرنے کا نہیں کہتے... خود ہی شوق ہوتا ہے اسے... صباحت بیگم ناگواری سے بولیں... 

بس مما... میں کچھ نہیں جانتا اب آپ کو ہی جنت کا خیال رکھنا ہے... آگے ہی میں بہت غلط کر چکا ہوں... جنت کے ساتھ اب میں مزید کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا...

اور ایک اور بات جس کو جنت سے کوئی بھی مسئلہ ہے... تو وہ یہاں سے جا سکتا ہے.... غازی تہمینہ بیگم پہ نگاہیں ڈالتا ہوابولا.. 

 غازی کہتا ہوا.. جنت کو کمرے میں لے کر چلا گیا.. 

آپ کو آنٹی سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیئے تھی.. وہ کیا سوچ رہی ہوں گی کہ میرے کہنے پہ آپ نے یہ سب کہا... جنت پریشانی سے بولی... 

کوی کچھ نہیں سوچے گا....بس تم اپنا خیال رکھو... گھر کے کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے... غازی جنت کے ماتھے پہ لب رکھتا ہوا بولا... 

غازی آپ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے... نا... بدل تو نہیں جائیں گے.... جنت غازی کے کندھے پہ اپنا سَر رکھتی ہوی بولی.... 

بلکل بھی نہیں... بھلا اتنی خوبصورت بیوی کو کوئی کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہے.... غازی مسکرا کر بولا... 

اچھا اگر میں خوبصورت نہ ہوتی تو آپ مجھے چھوڑ کر چلے جاتے.... جنت سبز آنکھوں سے غازی کو غور سے دیکھتی ہوئی بولی.... جیسے وہ غصے میں ہو.... 

مذاق کر رہا تھا... میں... سچ میں.... غازی جنت کے چہرے کو چھوتا ہوا بولا... 

غازی جنت کو اُس کے ماموں کے گھر لے کر گیا... اور ساری بات انہیں کُھل کر بتای.....وقار صاحب تو پہلے ہی جانتے تھے کہ اُن کی جنت کی کوئی غلطی نہیں ہے.... انیلہ بیگم بھی دولت کی چمک دیکھ کر خوش ہو گئیں.... 

بھابھی.... ارمان یونیورسٹی سے واپس آیا تو جنت کو آوازیں لگانے لگا.... اُس کی عادت بن چُکی تھی.... اب وہ جنت کو ڈھونڈتے ہوئے کچن میں آیَا... 

بھابھی آپ یہاں ہیں... کب سے بُلا رہا ہوں... بہت بھوک لگی ہے.. جلدی سے کھانا لگا دیں... 

اچھا... ارمان صبر تو کرو... آتے ہی ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہوتے ہو تم... جنت کو چار مہینے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا یہاں آے ہوے.... ارمان سے اُس کی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی.... 

کیا مطلب ہے بھابھی.. آپ کا مجھے مارنے کا ارادہ ہے... بھوک سے... ارمان نے کہتے ہوئے... ہاتھ... پتیلے کو لگایا... جو گرم تھا... 

اوو.. یہ کیا کر دیا.... یہ لڑکا بھی نا.... ہٹو پیچھے.. میں دوائی لاتی ہوں... یہاں سے ہلنا نہیں... جنت دوائی لے کر آی اور ارمان کے ہاتھ پر لگانے لگی.... 

ابھی وہ دوائی لگا ہی رہی تھی کہ ایمن... کچن میں آی... 

ارے واہ!!! یہاں تو رومانٹک فلم کا سین چل رہا ہے... ایمن فریج سے بوتل نکال کر پانی پینے لگی... 

تمیز نہیں ہے تمہیں بات کرنے کی.... ارمان غصے سے بولا... 

کیا کہا تم نے مجھے تمیز نہیں ہے... مجھے... ایمن ارمان کے پاس آتی ہوئی بولی.. 

ہاں تمہیں ہی کہہ رہا ہوں... بہری ہو کیا... اور تم ابھی تک ہمارے گھر میں کیا کر رہی ہو... خالہ بھی جب سے آئیں ہیں... جانے کا نام ہی نہیں لے رہیں.... دونوں اِس گھر کے ساتھ چِپک ہی گئی ہو.... مقصد کیا ہے.... ارمان ایمن کو کہتا ہوا باہر نکل گیا.... 

ایمن جنت کو خونخوار نظروں سے گھورتی ہوی کچن سے نکل گئی... 

ارمان تم نے ایمن سے بدتمیزی کی ہے... وہ بھی اُس لڑکی کے سامنے... صباحت بیگم نے ارمان کو کمرے میں بلا کر اُسے ڈانٹ رہی تھیں.. 

مما..اس نے آپ کو یہ نہیں بتایا... یہ کیا فضول باتیں کر رہی تھی.....ارمان غصے میں بولا.. 

اچھا!!! بے حیائی پھیلاؤ تم لوگ....اور میں باتیں بھی نہ کروں... ایمن کہتی ہوئی ارمان کے پاس آئی... 

ارمان نے جیسے ہی یہ بات سُنی....تھپڑ ایمن کے چہرے پہ مار دیا... آیندہ اگر بھابھی کے بارے میں کوئی بھی بکواس کی... تو جان سے مار دوں گا... تمہیں.... ارمان کہتا ہوا باہر نکل گیا..

دیکھا تم نے یہ عزت ہے ہماری اس گھر میں... چلو ایمن سامان پیک کرو.... صباحت سے تو کچھ ہونے نہیں والا....اور نہ یہ کچھ بولے گی.... تہمینہ بیگم ایمن کو بازو سے پکڑ کر باہر لے گئیں....

صباحت بیگم نے بڑی مشکل سے اپنی بہن اور بھانجی کو روکا.... یہ کہہ کر کہ وہ جلد ہی جنت کو یہاں سے نکلوا دیں گی.... 

کیا ہوا غازی ایسے کیا دیکھ رہے ہیں... غازی جنت کی گود میں سر رکھ کر مسلسل اُسے دیکھ رہا تھا... 

کچھ نہیں... تمہاری آنکھیں دیکھ رہا ہوں... بہت گہری ہیں... جیسے تم نے بہت کچھ چھپا کر رکھا ہو... جیسے تم مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی ہو پر کہہ نہیں پا رہی غازی کہنے لگا.. 

تو آپ آنکھیں بھی پڑھ لیتے ہیں... کچھ نہیں چھپا ہوا ان آنکھوں میں... بس... وقت کا انتظار ہے... صحیح...جنت سوچ رہی تھی کہ اگر وہ غازی کو صباحت بیگم کے بارے میں بتا بھی دے... تو غازی کبھی یقین نہیں کرے گا...

فلسفے بعد میں کریے گا....مجھے ایسکریم کھانی ہے... جنت منہ پھولا کر بولی.....

یہ وقت ہے...دس بج رہے ہیں....غازی اُٹھ کر بیٹھا..

کوی زیادہ وقت نہیں ہوا... نا جانے کے بہانے... سارا دن آپ اپنے کام میں بزی ہوتے ہیں... میرا تو کوی خیال، ہی نہیں... جنت رونے لگی... بلکہ ایکٹنگ کر رہی تھی... تاکہ غازی مان جائے.... 

پلیز رونا مت.... تم جانتی ہو مجھے رونے والی لڑکیوں سے سخت چڑ ہے.... اُٹھو چلو.... میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں... جلدی آنا... 

غازی ایک منٹ.... جنت غازی کے گال پر لب رکھتی ہوی بولی... تھینک یو سو مچ.... 

اب جائیں میں آ رہی ہوں.... جنت ڈریس نکال کر واشروم میں چلی گئی.... 

ابھی وہ لوگ ریسٹورنٹ میں داخل ہی ہوے تھے... کہ سامنے سے آتے ہوئے شخص نے جنت کو دیکھ کر قدم روک، لیے.... 

اب وہ جنت کی طرف بڑھ رہا تھا.... جنت بھی عمیر کو دیکھ کر ڈر گئی... 

جنت... یار کہاں تھی تم... کتنی کالز کی میں نے تمہیں.... عمیر جنت کے پاس آ کر بولا... 

اور یہ کون ہے... عمیر غازی کو دیکھتا ہوا بولا... 

بلیک شرٹ.... اور بلیک جینز... بالوں کو ماتھے پہ ڈالے کھڑا تھا... 

بیوی ہے جنت میری... اور میں اس کا شوہر.... غازی.. نام ہے میرا... غازی جو چپ کھڑا عمیر کی گفتگو سن رہا تھا... اور جنت کے چہرے کے بدلے تاثرات دیکھ چکا تھا.... 

آپ کون؟؟؟؟ میں نے تو آپ کو نہیں دیکھا... اِس سے پہلے... غازی عمیر کو غور سے دیکھتا ہوا بولا... 

میں جنت کا دوست ہوں... میں اور جنت اکیڈمی کے اکٹھے پڑھاتے تھے... عمیر جنت کو دیکھ کر بولا.... 

جو نظریں جھکائے کھڑی تھی.... 

چلتا ہوں میں... عمیر کہتا ہوا نکل گیا... 

چلو جنت بیٹھتے ہیں.....غازی اور جنت اب بیٹھ چکے تھے.... 

ایسکریم کھانے کے بعد وہ لوگ گھر کے لیے روانہ ہو گئے.... 

غازی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے.... جنت جو بیڈ پہ لیٹی ہوی تھی....اُٹھ کر غازی کے پاس آئی... جو کہ صوفے پہ بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا.... 

ہاں بولو... غازی لیپ ٹاپ بند کیا اور جنت کی طرف متوجہ ہوا.... 

غازی... وہ عمیر... میرا دوست نہیں تھا.... مطلب کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے... لیکن اب میری زندگی میں آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے.... میری زندگی کی تمام خوشیاں اب آپ سے جڑی ہوئی ہیں... جنت آنکھیں بند کرکے بول رہی تھی..... یہ سب اس لیے بتایا کیونکہ شوہر اور بیوی.... ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں.... اور ان کا یہ رشتہ تب تک قائم رہتا ہے... جب تک اِن کے درمیان اعتماد اور بھروسہ ہو.... اور کل کو اگر یہ بات کوئی اور بتائے اور آپ مجھ پہ شک کریں 

جنت... تم یہ سب نہ بھی بتاتی... تو مجھے کوئی گلہ نہیں تھا.... اور نا ہی اس بات سے ہمارے رشتے پر کوئی فرق پڑنا تھا.... اور عمیر کو تم شادی سے پہلے جانتی تھی.... اور مجھے خود سے زیادہ تم پہ یقین ہے... جنت.... غازی نے کہتے ہوئے جنت کے ماتھے کو چوما... 

مجھے خوشی ہے کہ تم نے خود آ کر مجھے سب سچ بتایا.... 

اُٹھو اب... سُو جاؤ جا کر.... تھک گئی ہو گی... غازی جنت کو تھام کر بیڈ پہ لٹایا.... اور خود بھی جنت کو اپنے قریب کر کے آنکھیں بند کر لیں.... 

غازی اُٹھیں نماز کا وقت نکل جائے گا..... جنت روز غازی کو نماز کے لیے اُٹھاتی.... فجر اور عشاء کی نماز تو وہ پڑھتا تھا... پر باقی کے اوقات میں وہ پولیس اسٹیشن ہوتا تھا.... وہاں بھی غازی کوشش کرتا اور قریب مسجد میں فرض ادا کر آتا... 

نماز پڑھ کر.... غازی نے جنت کی فرمائش پہ سورت رحمان کی تلاوت کی.... زُبانی.... آواز میں ایسا سحر تھا کہ جنت نے غازی کےکندھے پہ سر رکھا.... اور آنکھیں بند کر لیں.....

تلاوت ختم ہوی.... غازی نے جنت کو ہلایا.... پر وہ سُو چکی تھی..... 

غازی نے جنت کو اُٹھایا اور بیڈ پہ لٹا دیا.... اچھے سے اُس کے اوپر چادر کی.... اور خود فریش ہونے چلا گیا.... 

غازی بیٹا ناشتہ تو کر کے جاؤ... غازی جو صباحت بیگم سے مل کر.... جا رہا تھا.... صباحت بیگم نے اُسے روک لیا.... 

نہیں مما.... مجھے دیر ہوگئی ہے.... میں ناشتہ وہیں کر لوں گا... 

اور بی جان جنت جب اُٹھے تو یاد سے اُسے ناشتہ کروا دیجئے گا.... اور میڈیسن بھی.... آپ جانتی ہیں کتنی لا پرواہ ہے وہ اپنے معاملے میں... 

جی صاحب... آپ فکر نہ کریں.... میں جنت بیٹی کو ناشتہ کروا دوں گی.... 

شکریہ بی جان.... غازی کہتا ہوا نکل گیا.... 

ارمان یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا کہ... جو شرٹ اُس نے پہننے کے لیے نکالی....تھی....اُس کا بٹن ٹوٹا ہوا تھا.... تو وہ جنت کے کمرے کی طرف گیا... 

بھابھی.... میں اندر آ جاؤں... ارمان دروازہ ناک کرتے ہوئے بولا... 

جنت جو کہ ابھی باتھ لے کر نکلی... تھی... شیشے کے آگے کھڑے ہو کر.... کانوں میں جھمکے ڈال رہی تھی... 

پنک کلر کے قمیض شلوار پہنے ہوئے.... 

ہاں آ جاؤ.... 

بھابھی یہ میری شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا ہے.. پلیز لگا دیں.... ارمان معصومیت سے بولا... 

لاؤ.... جنت شرٹ لیتی ہوی بولی.... 

بھائی چلیں گے ہیں.... ارمان کمرے میں نظر دوڑاتا ہوا بولا.... 

کچھ دیر میں ہی جنت نے ارمان کو شرٹ واپس کی.... 

تھینک یو بھابھی.... ارمان جلدی سےباہر نکل گیا... کیونکہ یونیورسٹی سے وہ پہلے ہی لیٹ ہو چکا تھا.... 

پاگل تو  نہیں ہو گی.... تم... ارمان میرا بیٹا ہے.... اور میں اُسی پہ ہی الزام لگا دوں.... صباحت بیگم ایمن کی بات سُن کر غصے میں آ گئیں... 

دیکھیں خالہ.... اس پلان سے ہم جنت کو آسانی سے گھر سے نکال سکتے ہیں.... ایمن صباحت کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتی ہوی بولی.... 

ٹھیک ہے... لیکن ارمان اُس کو کوی نقصان تو نہیں پہنچے گا.... صباحت بیگم فکر مندی سے بولیں... 

نہیں خالہ... آپ فکر نہ کریں.... 

اب مزہ آئے گا... بہت جنت جنت کرتے تھے.. تم....مسٹر ارمان.... ایک تیر سے دو شکار ہوں گے.... ایمن دل ہی دل میں خوش ہو کر بولی.... 

تو اس پلان پہ آج ہی عمل ہوگا.... میں اب مزید دیر نہیں کر سکتی.... ایمن کہتی ہوئی صباحت بیگم کو سارا پلان سمجھانے لگی.... 

ارمان بیٹا... روکو زرا.... صباحت بیگم نے ارمان کو روکا جو یونیورسٹی کے لیے نکل رہا تھا.... 

مما... میں آگے ہی لیٹ ہو چکا ہوں.... ارمان پیچھے مڑتا ہوا بولا... 

ناشتہ کیے بغیر ہی جا رہے ہو... تم صباحت بیگم ارمان کو کہتی ہوی بولیں... 

دودھ کا گلاس.... ارمان کو پکڑایا.... یہ پیو اور پھر جانا... صباحت بیگم.... ارمان کو دودھ کا گلاس پکڑاتی ہوی بولیں.. 

مما دیر ہو رہی ہے... مجھے یونیورسٹی سے اور آپ ہیں کہ مجھے اور دیر کروا رہی ہیں... ارمان نے ناگواری سے دودھ کا گلاس پکڑا... 

کیا مطلب ہے تمہارا... نہ تم ناشتہ کرتے ہو... اتنے دن سے تمہاری یہ روٹین دیکھ رہی ہوں... چلو اب پیو اور جاؤ... صباحت بیگم خود کمرے میں چلی گئیں.... 

ارمان نے دودھ کا گلاس ختم کر کے سایڈ پہ رکھا... 

مما بھی نا....  ارمان اُٹھ کر کھڑا ہوا... اُس کا سر گھومنا شروع ہو گیا... 

اور وہ صوفے پہ دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر لیٹ گیا.... 

ارمان کیا ہوا... میرے بچے... صباحت بیگم ارمان کو سہارا دیتی ہوی بولیں.... جو دُور کھڑی سب دیکھ رہی تھیں... 

اُٹھو... چلو کمرے میں... ایمن بیٹا یہاں آؤ.. 

اب صباحت بیگم اور ایمن نے ارمان کو سہارا دے کر صوفے سے اُٹھایا.... اور کمرے کی طرف لے کر جانے لگیں.... 

کس کے کمرے میں لے کر جا رہی تھیں...یہ وہ دونو ہی جانتی تھیں.. 

جنت کے کمرے میں ارمان کو لا کر بیڈ پہ لٹا دیا گیا..اور ساتھ ہی جنت لیٹی ہوی تھی... بے ہوش....

دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کر کے لٹا دیا گیا.... 

چلیں خالہ.... وہ دونوں کمرے سے نکل گئیں... 

غازی کو کال کی ہے تم نے.... صباحت بیگم ایمن سے پوچھا... 

جی خالہ کر دی ہے.... 

اتنے میں غازی آتا ہوا دکھائی دیا.....

کیا ہوا مما... ایمن کی کال آئی تھی.... کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے...

کیا ہوا آپ کو.... غازی صباحت بیگم کے ہاتھ چومتے ہوئے بولا... 

ارے کچھ نہیں میرے بچے... ایمن بھی نا ایسے ہی پریشان ہو جاتی ہے... میں نے تو منع بھی کیا تھا... اِسے.... صباحت بیگم غازی کے چہرے پہ ہاتھ رکھتی ہوی بولیں.... 

جنت... جنت کہاں ہے... غازی نظر گھوماتا ہوا بولا.... 

پتا نہیں بیٹا... میں نے تو اسے نہیں دیکھا صبح سے.... 

ایمن چالاکی سے بولا... 

اچھا رکیں میں دیکھتا ہوں....شاید طبیعت خراب ہو اُس کی.... غازی کمرے کی طرف بڑھا.... اور کمرے کا ڈور کھول کر جیسے ہی اس کی نظر سامنے بیڈ پہ پڑی.... 

چہرہ اور آنکھیں لال ہو چکی تھیں... وہ بیڈ کہ پاس آیا.... جنت کو ارمان کے پاس سے کھینچا.... اور زور زور سے چلانے لگا.... 

سب لوگ غازی کے چلانے کی آواز سے اوپر کمرے میں آے.... 

صباحت بیگم... ایمن... تہمینہ بیگم تو یہ سب جانتی تھیں... شانزے گھر پہ نہیں تھی..  

اُف میرے اللہ... یہ کیا ہے.... میں کہتی تھی نا غازی یہ بدکردار لڑکی تیرے قابل نہیں ہے... 

غازی دیوار کے ساتھ لگ کے بیٹھ گیا.... صدمے کی سی کیفیت میں تھا.... 

اور میرے ارمان پر بھی ڈورے ڈال رہی تھی.... 

جنت کو آہستہ آہستہ سے ہوش آیا... دوائی کی مقدار اتنی ہی ڈالی گئی تھی... کہ اُن دونوں کو جلدی ہوش آ جائے.... 

جنت کو جیسے ہی ہوش آیا.... غازی نے اَس پہ تھپیڑوں کی بارش کر دی.... جنت کو خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے..... 

شرم نہیں آی تمہیں.... کیا کمی رہ گئی تھی... میرے پیار میں... میرے خلوص میں... جو تم نے یہ سب کیا... بولو... جواب دو....ارمان ہمارے بیڈروم میں تمہارے ساتھ  کیا کر رہا تھا..... بولو... غازی جنت کو جھنجھوڑنے ہوے بولا...

دوسری طرف صباحت بیگم اور ایمن ارمان کواُٹھا رہی تھیں.... 

غازی کیا کہہ رہے ہیں آپ... جنت کا سر ابھی بھی درد کر رہا تھا... 

ارمان کو بھی ہوش آ چکا تھا.... پر اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا... کہ وہ غازی کے کمرے میں کیا کر رہا ہے... 

نکلو یہاں سے.... نکلو.... غازی جنت کو دھکے دے کر نکال رہا تھا... اب وہ ارمان کے پاس آیا... 

کیوں کیا تم نے ایسا... بھائی ہو کر بھائی کی خوشیاں برباد کر دیں... غازی نے ارمان کو بیڈ سے اُٹھایا... اور اُسے مارنے لگا... 

بھائی کیا کر رہے ہیں... کیوں مار رہے ہیں مجھے کیا... کیا ہے میں نے.... ارمان چیخ کر بولا... 

صباحت بیگم اور ایمن جنت کو نیچے لے گئیں... اب غازی ارمان کو نیچے لا رہا تھا... گھسیٹ کر... 

اب جنت اور ارمان کٹہرے میں کھڑے تھے.... اور عدالت لگ چکی تھی... 

غازی یہ رپورٹس ہیں... جنت کی... مجھے ارمان کے کمرے سے ملی ہیں.... ایمن غازی کو رپورٹس دیتا ہوا بولا... 

جس کے مطابق یہ بچہ تمہارا نہیں... ارمان کا ہے.... ایک اور جھوٹ... ایک اور الزام.... ارمان اور جنت پہ لگایا جا رہا تھا... 

بھائی یہ کیا بکواس کر رہی ہے... جھوٹ بول رہی ہے... میں نہیں جانتا کہ میں بھابھی کے کمرے میں کیسے گیا....پر یہ سب غلط ہے...الزام لگاے جا رہے ہیں... 

ارمان روتے ہوئے بولا.... 

اتنا بڑا دھوکا.....فریب.... کیوں....جنت.... کیوں غازی جنت کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولا..... 

غازی آپ کو مجھ پہ یقین نہیں ہے.... یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں.... اور اِس میں آپ کی مما بھی شامل ہیں... جنت صباحت بیگم کی طرف دیکھتی ہوی بولی.... بکھرے بال... ہونٹ کنارے سے پھٹا ہوا.... آنکھیں رو رو کر سوجھ چکی تھیں... پر غازی کو جو جھوٹی فلم دکھائی جا رہی تھی.... وہ اُس کو ہی سچ مان چکا تھا....

ایک اور تھپڑ.... جو کہ صباحت بیگم نے جنت کو مارا.... 

کیا کہہ رہی ہو تم.... بیٹے کو ماں سے بدگمان کر رہی ہو تم.... بے غیرت... بے حیا لڑکی... 

آپ جو کر رہی ہیں وہ غلط نہیں ہے کیا... جائیداد کے لیے آپ غازی کی خوشیوں کو آگ لگا رہی ہیں.... چلیں غازی تو سوتیلے ہیں پر ارمان تو آپ کا اپنا بیٹا ہے... اُس کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آی

... جنت صبا بیگم کو دیکھ کر بولی.... 

بس جنت... بس.... بہت ہو گیا... دفعہ ہو جاؤ یہاں سے.... تمہاری جیسی گندگی کی اس گھر میں کوی جگہ نہیں ہے.... غازی بولتا ہوا جنت کے پاس آیا.... 

ایک منٹ غازی... آپ پھر سے غلطی کر رہے ہیں....جنت غازی کی بازُو پکڑتی ہوی بولی.... 

بھائی... بھابھی سچ کہہ رہی ہیں.... میں یونیورسٹی جا رہا تھا... مما نے مجھے روک کر دودھ کا گلاس دیا... جسے پینے کے بعد... کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں.... ارمان غازی جو بتانے لگا.... 

مما مجھے یقین نہیں آتا... کہ آپ نے یہ گھٹیا سازش کی.... ارمان اپنی ماں کو ناگواری سے دیکھتا ہوا بولا...... 

غازی یہ لوگ اپنا جرم چھپانے کے لیے مجھ پہ الزام لگا رہے ہیں.... میں نے کافی بار جنت کو ارمان کے کمرے سے نکلتے دیکھا ہے.. صباحت بیگم.... چالاکی سے بولیں.... 

جنت میں نے کہا نکلو یہاں سے... غازی چیختا ہوا بولا.... 

اور جنت کو گھسیٹ کر دروازے تک لایا.... اور زور سے دھکا دے کر باہر کی طرف پھینکا... 

غازی کیا آپ کو اپنی جنت پہ بھروسہ نہیں ہے.... ایسا نہ کریں... میں اس وقت کہاں جاؤں گی.... جنت غازی کے پاؤں پکڑتی ہوی بولی.... 

اگر تھوڑی سی بھی شرم باقی ہے نا... تو مر جاؤ.... غازی نے کہتے ہوئے دروازہ بند کیا... اور گاڑڈز کو ہدایت دی کہ وہ جنت کو باہر نکال کر آیں.... 

اور تم ارمان.... تم کیوں کھڑے ہو... تمہارے ... ناجائز..... بچے کی ماں کو تو نکال دیا میں نے.....غازی کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف تیز رفتاری سے بڑھ گیا....

خدا کا واسطہ ہے آپ کو بھائی بس کر دیں.... بس کر دیں.... 

پچھتائیں گے آپ لوگ.... اور خاص طور پر مما آپ.... ارمان لال آنکھیں دکھاتا ہوا بولا.... 

اور وہاں سے چلا گیا...

کیوں.... کیوں.... جنت کیوں.... کیا تم نے.... غازی چیختا ہوا اپنے کمرے کی ہر چیز کو تہس نہس کر رہا تھا.... 

کب سے تم میری نظروں میں دُھول جھونکتی رہی.... اور مجھے پتا ہی نہیں چلا.....

پھر غازی اُٹھا.... اور جنت کے واڈروب سے اُس کے سارے کپڑے نکالے..... اور آگ لگا دی.... 

کیسے سانس چلے گی.....

کیسے جی میں سکوں گا.... تیرے بن....

سجنا تیری جُدائی مینوں راس نہ آی....

قسمت نے میری ایسا کیوں کیا..... جو کبھی نہ بھرے وہ ذخم کیوں دیا....

ہے نصیب میرا.... یا کوئی سزا.... دے کے ساری خوشی پھر غم کیوں دیا.....

دل یہ مانگے دعائیں.... سُن لے میری صدائیں.... کیسے جی میں سکوں گا..... تیرے بن....

ارمان نے کمرے میں جا کر کمرا لاک کر لیا.... 

نہیں میں ایسا نہیں ہوں... اور بھابھی بھی ایسی نہیں ہیں.... 

مما نے مجھے بھائی کی نظروں میں اتنا گرا دیا کہ میں تو ساری زندگی اُن کے سامنے سر نہیں اُٹھا سکوں گا..... 

ارمان نے کہتے ہوئے... دراز کھولا.... اور نیند کی ساری ٹیبلٹز کھا لیں.... 

جنت کے کانوں میں بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی....

بدکردار... بدکردار.... 

مجھے تم پہ خود سے زیادہ یقین ہے....... غازی کی باتیں.... جنت کے آنسو آنکھوں سے بہہ رہے تھے.... شاید اب آنسو جنت کی زندگی کے ساتھی بن چکے تھے.... 

اپنے ماموں کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا.....

کون ہے.... صبر.... تو کرو.... 

انیلہ بیگم نے جیسے ہی دروازہ کھولا.... جنت کو دیکھ کر... چہرے پہ ناگواری آ گئی.... 

تو... تو یہاں کیا کر رہی ہے.... صباحت بیگم کا فون آیا تھَا.....سب بتا دیا ہے انہوں نے.... کہ کیسے تو منہ کالا کر کے آی ہے.... ارے شوہر کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کے ساتھ.... استغفار استغفار... اللہ معاف کرے... 

اور اوپر سے بچہ بھی  اُسی کا لیے گھوم رہی ہے... بدچلن لڑکی دفعہ ہو ادھر سے... انیلہ بیگم نے کہتے ہوئے دروازہ بند کر دیا....

مامی... مامی... دروازہ کھولیں... پلیز.... میں کہاں جاؤں گی... 

جنت دروازے کے ساتھ بیٹھ گئی...... 

میں زرا جا کر ارمان کو دیکھ لوں... اُس جنت کے چکر میں... میں نے اپنے بیٹے کو ہی غلط کہہ دیا.... پتا نہیں کس حال میں ہو گا..... صباحت بیگم.. کھانے کی ٹرے ارمان کے کمرے کی طرف لے کر جا رہی تھیں... ساتھ میں ایمن بھی تھی.... 

کافی دیر دروازہ کھٹکھٹانے پر بھی... جب دروازہ نہ کھلا... تو کمرے کی چابی منگوائی گئی... 

جب دروازہ کھولا گیا.... ارمان زمین پر پڑا تھا... 

ایمن نے کھانے کی ٹرے سایڈ پہ رکھی.... 

ارمان.. ارمان آنکھیں کھولو.... پر ارمان کا جسم حرکت نہیں کر رہا تھا.... 

غازی بھی کمرے سے باہر نہیں آیا.... پھر صباحت بیگم اور ایمن، شانزے ارمان کو ہسپتال لے کر گئیں.... 

بہت مشکل سے ارمان کی جان بچی..... 

غازی یار تو کیا کر رہا ہے.... تو بھابی کے ساتھ غلط کر رہا ہے... ہو سکتا ہے یہ سب کچھ تجھے اُن سے بدگمان کرنے کے لیے کیا گیا ہو.....غازی سمندر کے کنارے گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا.... اُس کا دوست فہد جو کہ ایک بزنس مین تھا... آج کافی سالوں بعد پاکستان واپس آیا.... 

َوہ مجھے دھوکہ دیتی رہی... میرے جذبات کا مذاق اُڑاتی رہی.... غازی گھونٹ حلق سے اُتارتا ہوا بولا.... 

چل اُٹھ... گھر چھوڑ دوں تجھے....ویسے بھی تیری حالت ایسی نہیں ہے کہ توں ڈرائیو کر سکے... اور نا ہی تیرا دماغ اس وقت کام کر رہا ہے.... فہد نے غازی کو سہارا دے کر اُٹھایا... اور گاڑی میں بٹھایا.....اور گاڑی سٹارٹ کر دی.... 


جنت چلتی جا رہی تھی.... اُسے نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں جاے گی.... 

کہ اچانک ایک گاڑی سے اُس کا ٹکراؤ ہوا..... اور وہ بے ہوش ہو گئی....

ارمان بیٹا... بات تو سُنو... صباحت بیگم.. ارمان کو ہوش آیا تو... وہ اُس سے ملنے روم میں گئیں...

پلیز... جائیں... یہاں سے.... کیوں لے کر آئیں آپ مجھے یہاں... مرنے دیا ہوتا... کس قدر گندے اور جھوٹے الزامات لگائے... آپ نے مجھ پہ اور بھابھی پر....

کوی بات نہیں کرنی مجھے نا آپ سے اور نہ کسی اور سے.... ارمان نے چہرے کا رُخ دوسری جانب کر لیا.... 

صباحت بیگم بھی چلیں گئیں...

جنت کی آنکھ کُھلی تو... وہ ایک گھر میں موجود تھی.... 

شُکر ہے آپ کو ہوش آیا... ورنہ میں تو ڈر ہی گئی تھی... ویسے غلطی آپ کی تھی.... بے دھیانی میں آپ رات کو سڑک پہ چل رہی تھیں.... اور وہ بھی اس حالت میں... 

جنت نے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا.... جو کہ ٹاپ اور جینز پہنے... بالوں کی ٹیل پونی بناے کھڑی تھی....

آپ کون... مطلب میں یہاں کیسے... جنت گھبراتے ہوئے بولی... 

میرا نام ڈاکٹر پلوشہ ہے.... اور آپ رات کو میری گاڑی سے ٹکرا گئی تھیں.... اور اس وقت آپ میرے گھر میں ہیں.... پلوشہ جنت کے پاس بیٹھتی ہوی بولی... 

آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ اکیلی رات کو کہاں جا رہیں تھیں.... آپ کے شوہر کہاں ہیں.. اُن کو تو اس وقت آپ کے ساتھ ہونا چاہئیے...

جی... نہیں میرے ہسبنڈ نہیں ہیں... میں اکیلی ہوتی ہوں.. جنت نے کہتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں.... 

ارمان ٹھیک ہو کر گھر آ گیا تھا.... پر وہ زیادہ تر کمرے میں ہی رہتا.... 

یہی حال غازی کا بھی تھا.... ڈیوٹی سے آنے کے بعد یا وہ کمرے میں بند ہوتا... یا پھر.. سڑکوں پہ....

صباحت بیگم کی اچانک کار ایکسیڈنٹ کی خبر آئی.... سب لوگ ہسپتال میں موجود تھے.... سوائے غازی اور ارمان کے.... ارمان سچائی جانتا تھا.. اور غازی کو اپنی نئی دُنیا سے فرصت نہیں تھی.... صباحت بیگم کی لالچ نے اُن کے سارے رشتوں کو ختم کر دیا.... 

مکافات عمل اسی کو کہتے ہیں..... 

اور وہ معذور ہو گئیں..... نا کچھ بول سکتیں تھیں... اور نہ ہی چل سکتی تھیں....

شانزے کا رُو رُو کر بُرا حال تھا....

غازی کی شراب پینے کی عادت.... زیادہ ہو گئی تھی.... جب بھی وہ گھر آتا تھا.... نشے میں ہی ہوتا تھا.... 

ایمن کا دُبئ سے کافی امیر فیملی سے رشتہ آیا اور تہمینہ بیگم منع نہ کر سکیں... اور ہاں کر دی.... ایمن بھی بہت خوش تھی.... کیونکہ وہ اب صباحت بیگم کی بیماری سے تنگ آ گئی تھی..... 

تہمینہ بیگم اور ایمن دُبئ  روانہ ہو گئیں.... پر دوسروں کا ہستا بستا گھر برباد کر کے... وہ خود کیسے خوش رہ سکتی تھی...

غازی.... فریش ہو کر باہر آیا.... تو... اچانک کھانسی آنے پر اُس نے منہ کے آگے ہاتھ رکھا.... تو ہاتھ خون سے بھر گیا....

غازی یہ سب دیکھ کر خود بھی ڈر گیا.... واشروم جا کر ہَاتھ دھوے... اور ٹشو سے ہاتھ صاف کیے....

مسٹر غازی ہم آپ کو بتا چکے ہیں.... اس حالت میں آپ کو پینے کی عادت چھوڑنی پڑے گی.... کینسر ہے آپ کو

.... بلڈ کینسر..... آپ کو یہ بات مذاق لگ رہی ہے.... 

دیکھیں ڈاکٹر... میں یہ عادت نہیں چھوڑ سکتا.... غازی کہتا ہوا اُٹھا.... 

ٹھیک ہے پھر ان میڈیسنز کا بھی کوئی فائدہ نہیں.... آپ کو اپنی زندگی کی کوئی فکر نہیں... اپنی زندگی سے جڑے ہوئے رشتوں کی.... ڈاکٹر غازی کو سمجھانے لگا... 

غازی بغیر کوئی جواب دیے چلا گیا..... 

بی جان صباحت بیگم کو سوپ پلا رہی تھیں.... پر وہ انکار کر رہی تھیں.... بی جان ہی صباحت بیگم کا خیال رکھتی تھیں.... 

شانزے کے پاس ٹائم نہیں ہوتا تھا... کہ وہ اپنی پارٹیز چھوڑ کر اپنی ماں کا دھیان رکھ سکے.... 

ارمان دروازے کے پاس سے گزر رہا تھا.... 

ارمان صاحب دیکھیں نا.... بیگم صاحبہ... سوپ پینے سے منع کر رہی ہیں.... 

مجھے دیجئے... میں پلا دیتا ہوں.... آپ جائیں.... 

مما.... کتنا سمجھایا تھا میں نے آپ کو.... مت کریں بھابھی کے ساتھ... ایسا.... اب آپ اپنا حال دیکھیں 

... جو دوسروں کے ساتھ غلط کرتا ہے.... اُس کے ساتھ اُس سے زیادہ بُرا ہوتا ہے.... 

صباحت بیگم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے..... 

جیسے وہ معافی مانگ رہی ہوں...کتنا آسان ہوتا ہے کسی کی زندگی کو دوذخ بنا کر.... پھر دو لفظ معافی کے مانگنا..... 

یہ لو.... تمہارے پیارے سے بے بیز.... پلوشہ جنت کو اُس کے دو جڑواں بچے پکڑاتی ہوی بولی.... 

ایک لڑکا اور ایک لڑکی.... 

اور دیکھو لڑکے کی آنکھیں تو سبز رنگ کی ہیں.. بلکل تمہاری طرح... اور لڑکی کی گرے کلر کی شاید اس کے بابا کی آنکھوں کا کلر گرے ہو گا.... پلوشہ جنت کی طرف دیکھتی ہوئی بولی.... 

ہمممم.... جنت سر ہلاتی ہوی بولی.... 

نام کیا سوچا ہے بچوں کا.... 

پریشے اور ازلان.... جنت دونوں کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوی بولی....

واؤ... ماشاءاللہ سے نام بھی بہت پیارے ہیں ان دونوں کی طرح.... 

جنت نے پلوشہ کو سب بتا دیا تھا جس کے بعد... پلوشہ نے جنت کو اپنے ساتھ ہی رکھا.... پلوشہ کی اپنی فیملی دوسرے شہر میں مقیم تھی.... آج جنت کی نارمل ڈلیوری ہوی تھی.....

کچھ دنوں بعد... پلوشہ جنت اور بچوں کو لے کر پارک گئی.... 

پارک میں ارمان بھی بینچ پر بیٹھا ہوا تھا.... اپنی ہی دُنیا میں کھویا ہوا.... 

لیکن جیسے ہی ارمان کی نظر جنت پہ پڑی..... 

بچوں کے غور سے دیکھ رہی تھی.... بالوں کو کلپ کی مدد سے باندھا ہوا تھا.... کچھ بالوں کی لٹیں چہرے پہ آ رہی تھیں.... 

سبز رنگ کی آنکھوں کے گرد سیاہ پلکوں کے ڈیرے تھے.... 

ارمان پاس آیا.... 

بھابھی.... جنت کے کانوں میں جب.... جانی پہچانی آواز پڑی.... تو... 

آپ...یہاں کیوں آے ہیں.... مجھے کوئی بات نہیں کرنی... جنت بولی... 

پلیز... ایک دفعہ میں بچوں کو دیکھ سکتا ہوں.... ارمان التجای انداز میں بولا... 

ٹھیک ہے.... ارمان جنت کے ساتھ بیٹھ گیا.... 

آپ کے جانے کے ایک دو دن بعد... مما کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا.... چلنے پھرنے.... اور بولنے سے قاصر ہیں اب وہ.... ارمان بچوں کو پیار کرتا ہوا بولا.... 

جنت کو دھچکا تو لگا پر اس نے اپنے چہرے کے انداز نہیں بدلے....جیسے اُسے کوئی فرق نہ پڑا ہو... 

نام کیا رکھا ہے آپ نے.... ارمان پوچھنے لگا.... 

ازلان اور پریشے.... غازی نے دوسری شادی کر لی ہے... 

جنت ارمان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی... 

نہیں.... ایمن اور خالہ تو... مما والے حادثے کے اگلے دن ہی واپس چلی گئی تھیں.... 

بھائی نے اُس دن کے بعد سے مجھ سے کوئی بات نہیں کی.... نفرت سے دیکھتے ہیں وہ مجھے.... ارمان... بتاتے ہوے آبدیدہ ہو گیا.... 

آپ واپس نہیں آئیں گی.... ارمان جاتے ہوئے پوچھنے لگا... 

کس حیثیت سے... جنت ابھی بول رہی تھی.... کہ پلوشہ آ گئی.... جو کال اٹینڈ کرنے تھوڑا دور گئی تھی.... سگنل ایشو کی وجہ سے... 

میں چلتا ہوں... آپ اپنا نیا نمبر مجھے دے دیں... تاکہ آپ سے اور بچوں سے ملنے آ سکوں.... 

جنت نے ارمان کو نمبر دیا..... 

ارمان جا چکا تھا.... 

کون تھا یہ!!!!! پلوشہ جنت سے پوچھنے لگی.... 

ارمان.... غازی کا بھائی..... 

اب وہ دونوں بھی پارک سے باہر آ کر.... گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں.... 

ارمان گھر واپس آیا تو...اُس نے سوچا کہ وہ آج غازی سے بات ضرور کرے گا... 

ارمان نے جیسے ہی دروازہ کھولا.... 

غازی فرش پہ بے ہوش پڑا تھا.... 

بھائی... بھائی... ارمان بھاگتا ہوا غازی کے پاس آیا..... 

کیا ہوا ڈاکٹر... آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں.... ڈاکٹر نے غازی کا چیک اپ کیا...

اپ جانتے ہیں.... ڈاکٹر ارمان کو غور سے دیکھتا ہوا بولا.... 

کیا... کیا جانتا ہوں... کس بارے میں بات کر رہے ہیں؛ آپ.... ارمان بے چینی سے بولا... 

آپ ان کی ڈرنکنگ کی عادت سے واقف ہیں.... ڈاکٹر اور َارمان اب کمرے سے باہر آ چکے تھے.... 

نہیں... کیا ہوا ہے آپ کھل کے بتائیں....

مسٹر ارمان... آپ کے بھائی کو بلڈ کینسر ہے.... جو کہ ان کو اسی غلط عادت کی وجہ سے ہوا ہے....ڈاکٹر نے تو کہہ دیا.. 

کیا... کینسر.... یہ سب.... بھائی َیہ کیا کر دیا آپ نے... ارمان زمین پر بیٹھ گیا.... 

دیکھیں اب آپ کو ہمت کرنی ہو گی...اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں... تاکہ یہ اس چیز کی طرف جائیں ہی نا... ڈاکٹر کے جانے کے بعد.... ارمان غازی کے کمرے میں گیا.. اور صوفے پہ بیٹھ کر.... غازی کے چہرے کو دیکھنے لگا.... 

مما... یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے... اگر بھائی کو کچھ ہوا تو ساری زندگی آپ کو معاف نہیں کروں گا..... 

غازی کی آنکھ کھلی تو.... سامنے صوفے پر ارمان کو سوتا دیکھ کر اُس کے ماتھے پہ بل پڑ گئے... 

یہاں کیا کر رہے ہو تم.... غازی ارمان کو اُٹھاتا ہوا بولا... 

بھائی آپ ٹھیک ہیں... ارمان غازی کے گلے لگتا ہوا بولا..... 

بھائی یہ کیا کر رہے ہیں آپ... کیوں اپنی زندگی کو آگ میں جھونک رہے ہیں.... 

کون سی زندگی... وہی جو تم نے جنت کے ساتھ مل کر ختم کر دی.... ارے مار دیا تھا... تم دونوں نے مجھے اُسی دن.... غازی ارمان کو جھٹکے سے پیچھے کرتا ہوا بولا.... 

بھائی وہ سب پلان تھا آپ کو اور بھابھی کو الگ کرنے کے لیے.... آپ کو کیوں سمجھ نہیں آ رہا.... 

مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے.... جاؤ یہاں سے غازی چیختا ہوا بولا.... 

جنت آج بچوں کو ویکسینیشن کے لیے لے کر جانا ہے... میں لینے کے لیے آ جاؤں...پلوشہ فون کان کے ساتھ لگاتی ہوی بولی.... 

نہیں میں لے جاؤں گی.... تم ٹینشن نہ لو... 

پکا.... بھول مت جانا.... پلوشہ نے کہہ کر فون رکھ دیا... 

جنت ہسپتال میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی..... 

کہ نظر غازی پہ پڑی.... جو کہ سامنے روم سے نکل رہا تھا.... 

جنت نے نظریں پھیر لیں.... 

غازی بھی جنت کو دیکھ چکا تھا.... اگنور کرتا... سن گلاسز لگاتا ہوا باہر نکل گیا.... 

جنت جنت... جب سے واپس آی ہو کمرے میں ہی بیٹھی ہو باہر ہی نہیں آی.. پلوشہ جنت کے کمرے میں آتی ہوئی بولی.....

اج ہسپتال میں غازی کو دیکھا....اتنے ٹائم کے بعد.... وہ تو بلکل بھی نہیں بدلے.... ان کی نظروں کی تپش سے میں اندازہ لگا سکتی ہوں کہ وہ آج بھی مجھ سے نفرت کرتے ہیں... انہیں میری کوئی پرواہ نہیں... میری نہ سہی اپنے بچوں کے ساتھ تو ایسا نہ کریں... جنت روتے ہوئے پلوشہ کے گلے لگ گئی... 

دیکھو... جنت ایسے لوگوں کو کسی کی کوئی فکر نہیں ہوتی.... بہتر ہے کہ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے... ورنہ... ساری عمر پچھتانا پڑتا ہے.... 

کیا ہوا ایمن رُو کیوں رہی ہو.... تہمینہ بیگم پریشانی سے بولیں....

مما... عمران... مجھے روز ٹارچر کرتے ہیں... مارتے ہیں... پوری پوری رات باہر رہتے ہیں.... کتنی لڑکیوں سے اُن کے چکر چل رہے ہیں.... ابھی تو صرف دو مہینے ہوئے تھے میری شادی کو مما.. یہ سب تو نہیں سوچا تھا میں نے... کیا ہو گیا.... وہ مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں.... ہر روز طلاق کی دھمکی دیتی ہیں.... ایمن روتی ہوئی اپنی ماں کو فون پر بتا رہی تھی.... 

بس کر میری بچی... بس کر... ہم نے بھی تو کتنے ظلم کیے ہیں... ایمن توبہ کر لے تو... اور میں بھی.. ہم دونوں نے صباحت کے ساتھ مل کر جنت کے ساتھ بہت غلط کیا... اُس پر طرح طرح کے الزام لگاے.... تہمینہ بیگم بھی رُو پڑیں.... 

ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ... میں آج ہی غازی کو کال کر کے سب بتاتی ہوں.... اور اُس سے معافی بھی مانگ لوں گی.... ایمن سر پکڑ کر بیٹھ کر رونے لگی....

فون سایڈ پہ رکھا ہی تھا کہ عمران اندر آیا... اور تھپڑ رسید کرتے ہوئے ایمن کو طلاق دے دی اور گھر سے دھکے دے کر نکال دیا.... ایمن کو وہ سارا منظر یاد آیا... جب غازی جنت کو دھکے دے کر نکال رہا تھا... اور وہ سب کھڑے ہنس رہے تھے.... 

ارمان تم یہاں.... جنت ارمان کو اندر آتا دیکھ کر بولی... 

بھابھی کتنی دفعہ آ چکا ہوں... پر آپ مجھے دروازے سے ہی واپس بھیج دیتی ہیں... وہ تو شکر ہے کہ ان محترمہ نے مجھے اندر آنے دیا...

ارمان پلوشہ کی طرف دیکھتا ہوا بولا.... 

تم دونوں باتیں کرو... میں چائے بھجواتی ہوں.... پلوشہ کہتی ہوئی چلی گئی.... 

بھابھی پلیز واپس آ جائیں.... اُس گھر کو آپ کی ضرورت ہے.... ارمان کہتا ہوا جنت کے قدموں میں بیٹھ گیا... 

کون سا گھر؟؟؟ کس گھر کی بات کر رہو تم...

وہی گھر جو میرا کبھی تھا ہی نہیں.... جس گھر کے لوگوں نے مجھے کبھی اپنا نہیں سمجھا.... جنت کہتے ہوئے اُٹھی.. اور کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی.... 

بھابھی وہ گھر آپ کا ہی ہے.... بھائی کو آپ کی بہت ضرورت ہے... ارمان بھی جنت کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا.... 

اچھا.... جب مجھے اُن کی ضرورت تھی... جب مجھے اُن کا ساتھ چاہیے تھا... تب تو اُنہوں نے مجھے دھتکار دیا.... اب میں کبھی بھی اُنھیں معاف نہیں کروں گی.... میری زندگی کی ڈکشنری میں..... کسی کو معاف کرنا.... جرم ہے... ایک دفعہ کیا تھا معاف.... دیکھو سب کی نظروں میں مجرم بن گئی میں.... جنت ارمان کی طرف دیکھتی ہوی بولی.... 

ارمان کا فون بجا..... اور وہ ایمرجنسی میں وہاں سے چلا گیا..... 

ایمن تم یہاں... وہ بھی اتنے مہینوں بعد.... ارمان نے ایمن کو دیکھا تو پوچھنے لگا... ایمن نے ہی اُسے کال کر کے بلایا تھا.... 

غازی کہاں ہے.... ایمن نظریں چُراتی ہوئی بولی.. کیونکہ اُس کی انا اور خودپرستی نے اُسے کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا.... 

بھائی تو کمرے میں ہوں گے... تم بیٹھو... میں بلا کر لاتا ہوں....مما سے  نہیں ملو گی.... 

پہلے غازی سے ضروری بات کرنی ہے... تم بلاؤ اسے... ایمن کہتی ہوئی کرسی پہ بیٹھ گئی.... 

کچھ دیر میں غازی کمرے سے باہر آیا.... 

غازی.... یہ تم نے کیا حال بنا رکھا ہے.. ایمن کہتی ہوی غازی کے پاس آئی... 

تم میری فکر.... چھوڑو.... بتاؤ کیوں بلایا ہے.... کیا بات کرنی ہے تمہیں.... غازی نے ایمن کی بات کو اگنور کیا.... 

غازی... دیکھو جنت بے قصور ہے... اور ارمان بھی....ان دونوں کے درمیان.... دوستی کے علاوہ َاور کوئی دوسرا رشتہ  نہیں تھا... وہ سب جو تم نے دیکھا... وہ سب پلان تھا.... ہاں غازی... میرا اور خالہ کا.... خالہ چاہتی تھیں کہ تم جنت کو چھوڑ دو.... اور مجھ سے شادی کر لو.... تاکہ وہ جائیداد اپنے نام کر سکیں.... کیونکہ ساری جائیداد کے اکلوتے مالک تم ہو... غازی مجھے معاف کر دینا.... مجھے میرے نیک کاموں کی سزا مل گئی ہے.... شادی کے کچھ مہینے بعد ہی طلاق ہو چکی ہے میری.... مما کو بھی فالج کا اٹیک ہوا ہے.... بستر پر ہیں وہ بھی.... جیسے خالہ... ایمن روتے ہوئے سب بتا چکی تھی.... 

کیا... پلان... مطلب کہ جنت کا کوئی قصور نہیں تھا.... بے گناہ تھی.... وہ.... غازی کہتا ہوا گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا..... 

ہاں.... ہو سکے تو معاف کر دینا مجھے.... اور ارمان تم بھی..... ایمن کہتی ہوئی اوپر سیڑھیوں کی طرف چل دی... صباحت بیگم کو ملنے.... 

بھائی اُٹھیں.... بھابھی نے کتنی بار کہا تھا آپ سے... کہ وہ بے گناہ ہیں....پر آپ نے اُن کی کوی بات نہیں سُنی... 

پر ابھی بھی دیر نہیں ہوئی... میں جانتا ہوں بھابھی کہاں ہیں اس وقت.... آپ جائیں وہ ضرور آپ کی بات سُنیں گی.... ارمان نے کہتے ہوئے غازی جو فرش سے اُٹھایا..... 

سچ کہہ رہے تم.... ارمان.... غازی نے غور سے ارمان کے چہرے کو دیکھا.... 

جی بھائی.... اب وہ دونوں جنت کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے.... 

ارمان غازی کو چھوڑ کر خود چلا گیا..... 

آ رہی ہوں.... پتا نہیں کون ہے... کب سے بیل بجائے جا رہا ہے.... جنت دروازے کی طرف بڑھتی ہوئی بولی..... 

پر سامنے غازی کو دیکھ کر جنت کے قدم رُک گئے.... شیشے کے اُس پار کھڑا غازی جنت کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا.... جو اُس کی بے اعتباری کی وجہ سے خالی ہو چکی تھیں..... 

جنت.... ایک بار میری بات سُنو.... دروازہ کھولو.....غازی رُوتے ہوے بولا.... 

کیوں آئیں ہیں آپ..... جنت چیخ کر بولی..... مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سُننی..... 

جنت مجھے سب پتا چل گیا ہے.... تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی.... غازی کانپتی ہوی آواز میں بولا.... 

اچھا.. جب میں آپ سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی.... تب تو آپ نے میری بات نہیں مانی.... جنت کہتی ہوئی دروازے کے پاس آئی.... 

جنت... میں غلطی تسلیم کر رہا ہوں.... ہمارے بچے کا واسطہ ہے دروازہ کھول دو.... 

کون سا بچہ... وہی جس کو ناجائز کہہ کر آپ نے ساری دُنیا میں اُس کا تماشا بنا دیا...... آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے.... اُس سے اور نہ ہی میرا.... جا سکتے ہیں آپ.... جنت  کہتے ہوئے اندر آ گئی....

غازی وہیں دروازے کے پاس بیٹھ گیا....

اتنے میں پلوشہ آی اور غازی کے پوچھنے پر اُس نے ساری بات پلوشہ کو بتای....

آپ  بیٹھیں... میں جنت کو بھیجتی ہوں..... 

پلوشہ تم مجھے بتا دو.... اگر تمہیں میرا اس گھر میں رہنا پسند نہیں ہے.... تو میں کہیں اور چلی جاتی ہوں.... جنت بچوں کے کپڑے تبدیل کرواتے ہوئے بولی.... 

یار میں کون سا تجھے اس کے ساتھ جانے کو کہہ رہی ہوں.... یہی کہہ رہی ہوں کہ مل لو.... پلوشہ نے جنت کو سمجھا کر بھیجا....

جنت... تم بے شک مجھے معاف نہ کرنا..... پر پھر بھی معافی مانگنا میرا فرض ہے..... اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم مجھے معاف نہیں کرو گی.... غازی جنت کے قریب آتا ہوا بولا.... 

آپ مردوں کے لئے بہت آسان ہوتا ہے.... عورت پہ ظلم کر کے.... دو لفظ معافی کے مانگنے..... جنت غازی کے آنکھوں کے آنسوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی.... 

مت کرو معاف... مگر ایک دفعہ مرنے سے پہلے.... اپنے بچے کو دیکھنا چاہتا ہوں.... منع مت کرنا.... غازی جنت سے کہنے لگا....

مرنے سے پہلے کیا مطلب ہے... اس کا.... اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی.... آپ کو زرا شرم نہیں آتی.... جو آپ مرنے کی باتیں کر رہے ہیں.... جنت کہتی ہوئی اندر کمرے میں گئی.... اور پریشے اور ازلان کو لے کر آئی... 

غازی جنت کے ہاتھوں میں دو بچوں کو دیکھ کر حیران ہو گیا.... 

یہ پریشے ہے.... جس کی آنکھیں آپ پر ہیں... گرے کلر کی... جنت روتے ہوئے بولی....

اور یہ ازلان ہے... جس کی آنکھیں سبز رنگ کی ہیں... بلکل میرے طرح... 

غازی بچوں کو پاگلوں کی طرح چومنے لگا..... 

بلڈ کینسر ہے مجھے.... زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس.... غازی بچوں کو پیار کرتا ہوا بولا.... 

غازی... آپ ہوش میں تو ہیں کیا کہہ رہے ہیں... جنت بچوں کو اپنی گود میں واپس لیتی ہوی بولی.... 

یہی سچ ہے.....اتنا کہنا تھا کہ غازی کو خون کو اُلٹیاں شروع ہو گئیں....

غازی... غازی..... جنت چیختی ہوئی بولی..... 

غازی کو ہسپتال لے جایا گیا.... جنت نے ارمان کو کال کرکے بلایا.....

آپ کے پیشنٹ کے پاس وقت بہت کم ہے.... ڈاکٹر باہر آتا ہوا بولا.... 

مس جنت آپ اندر جائیں... اور اُن کی بات سُن لیں... وہ بار بار آپ کو ہی پکار رہے ہیں.... 

جنت کمرے میں داخل ہوئی.... غازی نے آنکھیں کھولیں....

کیوں کیا آپ نے یہ سب.... میرا نہیں تو اپنے بچوں کا سوچ لیا ہوتا.... غازی جنت نے روتے ہوئے غازی کا ہاتھ پکڑا.... 

جنت... جنت... مجھے معاف کر دینا.... تم نے معاف نہیں کیا... تو اللہ بھی مجھے معاف نہیں کرے گا.... 

غازی اُکھڑتی ہوی سانس کے ساتھ بولا.....

غازی معاف کر چکی ہوں آپ کو.... میں آپ کے بچوں کی خاطر... اب پلیز یہ ناٹک بند کریں... جنت غازی کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے بولی.... 

میری زندگی اتنی ہی تھی.... جنت... میرے جانے کے بعد اپنا خیال رکھنا اور میرے بچوں کا بھی.... جنت غازی کے قریب ہوی.... غازی نے اُس کے چہرے پہ آخری دفعہ بوسہ دیا.... 

آنکھوں نے آنسو جاری تھے.... 

رونا بند کرو... جنت.. تم جانتی ہو مجھے رونے والی لڑکیاں بلکل نہیں پسند.... غازی مسکرا کر بولا... 

ارمان بھی اندر آیا.... 

ارمان دیکھو... نا جنت کو سمجھاؤ... یہ ایسے رُو کر مجھے رُخصت کرے گی.... غازی ارمان کو دیکھتا ہوا بولا... 

بھائی بس کریں.... کچھ نہیں ہو گا آپ کو.... میں کچھ نہیں ہونے دوں گا آپ کو.... 

ارمان میری بات دھیان سے سُنو.... جنت اور بچے تمہاری زمہ داری ہیں.... تمہاری..... 

غازی کی روح نکل چکی تھی....... 

بھائی... بھائی.... ارمان غازی کو ہلانے لگا.... 

ڈاکٹر...ڈاکٹر.... 

ارمان بھاگتا ہوا ڈاکٹر کو بُلانے گیا.... جنت وہیں زمین پہ بیٹھ کر چیخنے لگی.....

ارمان غازی آنکھیں نہیں کھول رہے.... انہیں کہو نہ ایک دفعہ مجھے دیکھ لیں.. جنت غازی کی میت کے پاس بیٹھی تھی.....

جنت بس کرو.... غازی مر چکا ہے.... ایمن جنت کو پانی پلاتے ہوے بولی.... 

نہیں... ایسے لفظ مت نکالیں.... غازی زندہ ہیں.... سو رہے ہیں.... ابھی اُٹھ جائیں گے.... جنت کہتے ہوئے غازی کی میت کے پاس آئی.... 

غازی اُٹھیں.... نا... دیکھیں لوگ کیا کہہ رہے ہیں.... کہہ رہے ہیں آپ مَر چکے ہیں... لیکن آپ نے تو کہا تھا آپ مجھے چھوڑ کر کبھی نہیں جائیں گے.... جنت دیوانوں کی طرح چیخ رہی تھی..... 

کچھ دیر میں غازی کی میت کو قبرستان لے جایا گیا.... نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد... اُسے دفنا دیا گیا......

ارمان کچھ دیر وہیں بیٹھ گیا.... 

بھائی.... اکیلا چھوڑ  دیا... آپ نے مجھے.... کیوں.... کیوں... ارمان آنسو صاف کر رہا تھا... 

میں وعدہ کرتا ہوں... بھابھی.. اور بچوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا.... کبھی نہیں.... 

بھابھی کی طبیعت کیسی ہے.... ارمان واپس آ کر ایمن سے پوچھنے لگا.... 

بلکل ٹھیک نہیں ہے... بار بار بے ہوش ہو رہی ہے.... ایمن پریشانی سے بولی... 

بچے کہاں ہیں!!! ارمان فکر مندی سے پوچھنے لگا....

بچے بی جان کے پاس ہیں.... 

ارمان صباحت بیگم کے کمرے میں گیا.... 

دیکھا مما آپ کی لالچ اور نفرت نے سب ختم کر دیا.....

اب خوش ہیں... آپ..ساری جائیداد کی اکیلی مالکن بن گئیں ہیں آپ... ارمان سرد نگاہ ڈالے صباحت بیگم سے کہنے لگا...

نفرت ہے مجھے آپ سے... فکر نہ کریں آپ کی خدمت میں کوی کمی نہیں ہو گی...

ارمان کہتا ہوا باہر نکل گیا.... 

وقت پَر لگاے گزر گیا.... جنت کی عدت بھی گُزر چکی تھی... 

کہاں جا رہی ہیں آپ... جنت سامان پیک کر رہی تھی کہ ارمان کمرے میں آتا دکھائی دیا... 

وہیں جہاں سے آی تھی.. اور کہاں جاؤں گی.... 

اور ویسے بھی اس گھر سے میرے سارے رشتے ختم ہو چکے ہیں.... جب غازی ہی نہیں رہے... تو میرا یہاں کیا کام.... جنت اب بچوں کے کپڑے ڈال رہی تھی.... 

کیا کہہ رہی ہیں... مطلب کیا ہے.... یہ گھر آپ کا ہے... اور آپ کہیں نہیں جا رہیں... ارمان نے کہتے ہوئے سوٹ کیس سے کپڑے واپس باہر رکھنے لگا....

ہٹیں... پیچھے.... میں نہیں رہ سکتی... غازی نہیں ہیں... تو میرا اس گھر میں رہنے کا کوئی مقصد نہیں ہے..... جنت ارمان سے کہنے لگی.... 

بھائی... مجھے آپ کی اور بچوں کی زمہ داری دے کر گئے ہیں.... ارمان کہتا ہوا جنت کے پاس آیا.... 

میں کس حیثیت سے یہاں رہوں.... لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے.... جنت نے کہتے ہوئے دوپٹہ سر پہ اوڑھا.... 

لوگوں کا یہی کام ہے باتیں کرنا... اور وہ کریں گے.... اور رہی بات حیثیت کی.... تو آپ مجھ سے نکاح کر لیں.... پھر تو آپ یہاں رہ سکتی ہیں.... ارمان جنت کے چہرے کو دیکھ کر بولا... 

چٹاخ.... ایک زور دار تھپڑ کی آواز.. کمرے میں گونجی.... 

ہمت کیسے ہوئی تمہاری.... یہ سب کہنے کی.... دفعہ ہو جاؤ... یہاں سے.... ارمان میں نے کہا جاؤ یہاں سے... جنت نے چیخ کر کہا.... 

ارمان بغیر کچھ کہے چلا گیا....

ہاں تو کیا غلط کہا ارمان نے..... پلوشہ جنت سے ملنے حویلی آی تھی.... 

تمہارا دماغ خراب ہے پلوشہ... میری زندگی غازی سے شروع ہوتی ہے.... اور اُسی پر ختم ہوتی ہے.... میں غازی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتی ہوں..... جنت پریشے کو چپ کروا رہی تھی.... 

پریشے اور ازلان کے لیے تمہیں کوئی قدم اُٹھانا ہو گا.... 

اور تم... بغیر مرد کے سہارے کے کیسے تنہا زندگی گزارو گی.... پلوشہ جنت کو سمجھانے لگی.... 

جیسے تم.. رہ رہی ہو... مرد کے سہارے کے بغیر... میں بھی گزار لوں گی.... پریشے سُو چکی تھی... جنت پلوشہ کے پاس بیٹھتی ہوی بولی.... 

میری بات الگ ہے... میرے ساتھ بچے نہیں ہے.... تمہاری مرضی.... میرا کام تمہیں سمجھانا تھا.... آگے تمہاری مرضی.... میں چلتی ہوں..... کافی دیر ہو گئی ہے.... تم بچوں کا خیال رکھنا..... 

رات میں اچانک ازلان کی طبیعت خراب ہو گئی..... جنت اس وقت ارمان کے ساتھ ہسپتال میں تھی..... 

بچے کے والد کون ہیں.... یہاں ساین کر دیں.... ڈاکٹر کچھ ٹیسٹ کروانے سے پہلے ارمان کی طرف بڑھی..... 

جی میں ہی ہوں... کہاں کرنے ہیں..... ارمان ڈاکٹر سے پین لیتا ہوا بولا.... 

جنت پاس ہی کرسی پہ بیٹھی تھی... پر کچھ نہیں بولی.... 

آخر کیا چاہتے ہیں آپ..... جنت ارمان سے کہنے لگی..... 

بس آپ کا ساتھ اور کچھ نہیں.... دیکھیں جنت میں آپ کواور بچوں کو زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لئیے نہیں چھوڑ سکتا.... 

پر میں صرف غازی سے محبت کرتی ہوں....تو پھر کیسے آپ سے نکاح کر لوں.... 

جانتا ہوں.... اور یہ بات آپ آج کہہ رہی ہیں.... میں آپ کو اتنا خوش رکھوں گا.... کہ کل کو آپ یہ بات میرے سامنے نہیں کریں گی..... 

صباحت بیگم.... کی طبیعت بگڑنے لگی.... تو ڈاکٹر کو بلایا گیا.... 

صباحت بیگم.... نے جنت کو بُلا کر معافی مانگی...

وہ کچھ بول تو نہیں سکتی تھیں... پر ہاتھ جوڑ کر... 

جنت نے دل پہ پتھر رکھ کر انہیں معاف کر دیا..... 

اور صباحت بیگم بھی دُنیا سے رخصت ہو گئیں..... 

جنت کمرے میں کھڑی اپنی سوچوں میں گُم تھی.... کہ ہوا کا ایک جھونکا کھڑکی سے اندر آیا.... 

جنت. جنت.... کیا سوچ رہی ہو.... 

جنت نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو غازی مسکراتا ہوا کھڑا تھا.... 

غازی آپ آ گئے... مجھے پتا تھا آپ آئیں گے.... جنت غازی کے سینے سے لگتی ہوی بولی.... 

تم یہی سوچ رہی تھی... کہ تم ارمان سے نکاح کرو یا نہ..... غازی جنت کو سینے سے بڑے پیار سے ہٹاتا ہوا بولا.... 

ہاں....پر آپ کو کیسے پتا چلا.... جنت غازی کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی.... جنت نے آنکھیں بند کر لیں 

محبت کرتا ہوں تم سے اتنا تو جان ہی لیتا ہوں..... 

دیکھو جنت... معاشرے میں اکیلی عورت کا رہنا آسان نہیں ہے... لوگ زندگی اجیرن کر دیتے ہیں... اور میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے یتیموں کی طرح بڑے ہوں.... 

میں چاہتا ہوں کہ تم اسی گھر میں رہو ارمان کی بیوی بن کر..... اسے میری آخری خواہش سمجھ کر پوری کر دو..... اس کے بعد کبھی دوبارہ کچھ مانگنے کے لئے نہیں آؤں گا.... غازی کہتَا ہوا کھڑکی کے پاس آیَا.... 

لیکن!!!! جنت نے بند آنکھیں کھولیں.... تو غازی جا چکا تھا..... 

ٹھیک ہے غازی.... آپ کہہ رہے ہیں تو مان لیتی ہوں... آج تک آپ کی کوئی بات رَد نہیں کی میں نے.... تو یہ کیسے کر سکتی ہوں..... 

سورج کی آتی ہوئی.... خوشگوار کرنیں.... جنت کی آنکھوں میں پڑیں.... تو جنت نے آہستہ سے اپنی آنکھ کھولی... پاس... دو سال کا مزمل سویا ہوا تھا..... جنت نے اُس کے چہرے پہ لب رکھے..... 

بالوں کو باندھنے کے بعد اُٹھی...وضو کر کے فجر کی نماز پڑھنے لگی.... 

یہ ارمان اتنی صبح کہاں چلے گئے..... دعا مانگ کر نماز سایڈ پہ رکھی.... اور نیچے کچن کی طرف بڑھی 

یہ کیا ہو رہا ہے.... جنت کچن میں آی تو کچن کی حالت دیکھ کر غصے سے پوچھنے لگی.... 

ارمان... آستین فولڈ کیے آملیٹ بنا رہا تھا... ساتھ میں پریشے اور ازلان بھی.... شیلف پہ بیٹھے ہوئے تھے.... جو کہ ایک دوسرے کو کہنی مار رہے تھے کہ وہ بتاے.......

مما....وہ آج چھٹی تھی.... سنڈے تھا تو سوچا آپ کے لیے ناشتہ بنا لیں.... پریشے اور ازلان ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولے.... 

اچھا اور یہ آئیڈیا کس کا تھا.... جنت ارمان کو گھورتی ہوی بولی... 

بابا کا..... ارمان دونوں کو اشارے بھی کر رہا تھا کہ وہ اُس کا نام نہ لیں.... 

نہیں وہ میں نے سوچا کہ روز تم بناتی ہو... آج میں بنا لوں گا تو کوی قیامت تھوڑی آ جائے گی....ارمان جنت کے چہرے پہ غصے کے آثار دیکھتا ہوا بولا... 

اُف بابا... آپ کتنا ڈرتے ہیں مما سے پریشے اور ازلان ہنستے ہوئے بولے... 

تو یہ آئیڈیا آپ کا تھا.... جنت ارمان کے پاس آئی اور اس کا کان کھنچتے ہوے بولی. .. 

پریشے اور ازلان بھاگ گئے یہ سوچ کر کے اب اُن کی باری آنے والی ہے.... 

جیسے ہی جنت نے ارمان کان چھوڑا..... ارمان جنت قریب آیا.... اور اُس کے چہرے کو نرمی سے چھوا.... اور اُس کے ہونٹوں پر اپنے لب رکھے..... 

جنت نے گھبراتے ہوے... ارمان کو پیچھے دھکیلا.... اور ہاتھ میں بھرا ہوا پانی کا گلاس ارمان پہ پھینک دیا..  جو پاس ہی پڑا ہوا تھا.... 

اور خود بھاگ گئی.... 

جنت... جنت.... اب جنت آگے آگے.... اور ارمان اُس کے پیچھے..... 

ختم شد...... 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Das Ghalati Meri Tu Yara Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Das Ghalati Meri Tu Yara written by Hoor Bano . Das Ghalati Meri Tu Yara  by Hoor Bano is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages