Sun Mere Humsafar By Sanaya Khan Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Sun Mere Humsafar By Sanaya Khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Sun Mere Humsafar
Writer Name: Sanaya Khan
Category: Complete Novel
وہ جلدی جلدی ریستوران سے نکلا تھا دروازے سے باہر نکلتے ہی اک لڑکی سے ٹکراگیا وہ گرتے گرتے بچ گئ البتہ شاپنگ بیگ زمین
پر بکھر گئے
" سٹوپڈ! اندھے ہو کیا دیکھ کر نہی چل سکتے "
."اے-- مائنڈ یور لینگویج مجھے کوئ شوق نہیں ہے تم سے ٹکرانےکا تمہیں بھی دیکھ کر چلنا چاہئے"
ساحر خان اور کسی کی بد کلامی سن لے
عیشا زمین پر بکھرے سامان کا جائزہ لے رہی تھی اس کی بات پر بھڑک کر اسے دیکہا
"ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری دیکہتے نہیں تم نے میرا سامان توڑ دیا"
"اوکے یہ لو اور نکلو یہاں سے"
ساحر والٹ سے سارے نوٹ نکال ک اس کی اور بڑھاے
ہا......................ہاؤ ڈیر یو تم نے کیا مجھے بہکاری سمجھ رکھا ہے. اے مسٹر اپنی دولت کا رعب"
" اپنے پاس رکھو اور چپ چاپ یہ سارا سامان سمیٹو سمجہے
انگلی کے دکہاتے ہوے وہ رعب سے بولی
"جانتی ہو کس سےبات کر رہی ہو"
" ہاں ایک اندھے سے"
" دیکھو تم نہیں جانتی میں کون ہوں"
میں کچھ جاننا بھی نہیں چاہتی جلدی سے یہ سب اٹھاؤ ورنہ میں شور مچا کر سب کو جمع"
" کرلونگی
ساحر نے اسے بغور دیکہا
"کتنی بد ذبان لڈکی ہے"
اس نے دل میں سوچااور اپنے ملازم کو فون لگایا وہ جلدی میں تھا اسلیے بحث کو ختم کرنا چاہتا تھا ورنہ وہ بھی کسی سے ہار
ماننے والا نہیں تھا اگلے پانچ منٹ میں تین باوردی ملازم وہاں پہنچے اور ساحر کے آرڈر مطابق سارا سامان اٹھا کر عیشا کی گاڑی
میں رکھا
"دیکھ لونگا تمہیں"
.
عیشا کے قریب سے گزرتے ہوے اسے گھور کر وارنگ کے انداز میں بولا
!******************************
پھر کیا ہوا"
الیشا نےتجسس سے پوچھا
پہر کیا---- میں نے کہ دیا چپ چاپ یہ سارا سامان سمیٹو ورنہ میں شور مچا کر سب کو جمع کرلونگی---- خود تو اٹھانے سے رہا اپنے ملازموں کو فون کر کے بلایا اور پتا ہے جاتے جاتے کہنے لگا------ میں تمہیں دیکھ لونگا "
اس کے منہ بنانے پر الیشا ہنس دی
تمہیں کہا تھا یے سب لانے کی ضرورت نہیں ہیں خواہ مخواہ الجھن ہو گئ وہ کوی گنڈہ بدمعاش ہوا تو"
افوہ آپی نگیٹیو مت سوچا کریں انجواے کیجےشادی ایک بار ہی ہوتی ہے"
پھر وہ سامان نکال کر الیشا کو دیکھاتی رہی
اچھا آپی میں ذرا زوبی سے مل کر اتی ہوں "
ابھی کیوں صبح چلی جانا نا چلو کھانا کھاتے ہیں"
افوہ اپی مجھے کونسا سو میل جانا ہے ابھی آئ"
کہ کر وہ بنا کچھ سنے نکل گئ اور الیشا بیگس الماری میں رکھنے لگی
عیشا کے والد یوسف علی اسکول ماسٹر تھے ان کے تین اولاد تھی سب سے بڑا بیٹا ریحان اس سے چھوٹی الیشا اور سب سے چھوٹی عیشا تینوں انھیں بے حد عزیز تھے لیکن عیشا سب کی لاڈلی تھی الیشا اور عیشا کے درمیان پانچ سال کا فاصلہ تھا وہ سب سے چھوٹی ہونے کے علاوہ بچپن سے ہی بےحد باتونی تیز دماغ اور شرارتی تھی جو بھی اسکی میٹھی باتیں سننتا بے اختیار اسے پیار اجاتا خاص طور پر یوسف علی کی اس میں جان تھی وہ اسی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو خوب سراہتے امی اس سے اکثر زیادہ باتیں کرنے پر اسےڈپٹ دیتی مگر ابوّ فوراً اس کی حمایت کے لئے تیار رہتے ریحان اور الیشا بھی اس پر جان چھڑکتےتھے عیشا بی.اے فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی الیشا کا رشتہ دو سال پہلے ہی اپنے خالہ زاد امران کے ساتھ طے تھا ریحان کی جاب ملتے ہی اسکی رضاسے ابو نے امران کی بہن فائزہ کا رشتہ مانگ لیا جسے ُخالہ نے بخوشی قبول کر لیا عیشا بے حد خوش تھی یہ دونوں کزنس اسے بہت پسند تھے اپنے ساتھ ساتھ وہ سب کے لئے زور شور سے شاپنگ میں مصروف تھی
وہ ابھی اپنی دوست زوبی جو پڑوس میں ہی رہتی اسے سارے دن کا احوال سنا کر لوٹی تو ڈاینگ ٹیبل پر سب کو اپنا منتظر پایا
لیجےآگئ"
ریحان نے اسے دیکھتے ہی سب کو اطلاع دی
اسللام و علیکم---- کھانا نہیں کھایا اپ لوگوں نے اب تک؟"
ابو کی پاس والی اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گئ
ہاں اپ تو اس گھر میں نئ آئ ہے----- آپ کو تو جیسے کچھ پتا ہی نہیں----- جب تک آپ موجود نا ہو کوئ کھانا نہیں کھاتا"
آپی آپ اتنا غصہ کیوں ہو رہی ہے ----- میں تو نہیں کہتی نا کہ میرا انتظار کرے"
پلیٹ میں سبزی ڈالتے ہوے وہ بے نیازی سے بولی
لیکن جانتی توہو نا یہاں سب خوامخواہ تمہیں کتنا بھاؤ دیتے ہے"
الیشامنہ بناتے ہوے بولی
آپی آپ مجھ سے اتنا جلتی کیوں ہے اب اگر سب مجھے آپ سے ذیادہ پیار کرتے ہے تو اس میں میری کیا غلطی ہے"
میں نہیں جلتی ولتی کسی سے مجھے کیا دیکھنا کل سے میں تو بلکل بہی انتظار نہیں کرونگی تمہار
ایک بات بتاؤ آپ کو------ سب میرے بنا کھانا کھا سکتے ہے مگر اپ کبہی نہیں کھائنگی"
اچھا!"
سب ہی اس کی بات پر ہنس دیے واقعی الیشا کے غصہ میں بہی اس کے لیے پیار ہی پیار ہوتا تھا
لیکن عادت تو ڈالنی پڑے گی سب کو کل جب تیری شادی ہوگی تو کیا کرینگے"
امی ہمیشہ کی طرح سنجیدگی سے کہنے لگی
کچھ نہیں کیونکہ میں شادی ہی نہیں کرنے والی ہوں"
سب یہی کہتے ہے لیکن کہنے سے کچھ نہیں ہوتا شادی تو ہونی ہی ہےایک دن"
ائے دن امی کو یہی فکر تھی
جی نہیں وہ دن نہیں آئگا. ابو آپ کہ دیں امی سے میں کبھی شادی نہیں کرونگی اسلیے بار بار مجھے پریشان نا کرے "
پلیٹ میں چمچ پٹخ کر وہ اپنے کمرے میں اگئ
امی اسے پسند نہیں تو آپ کیوں شادی کا ذکر کرتی ہے"
ریحان نے بہن کی حمایت کی
الیشا کی شادی کے بعداس کے رشتے انے شروع ہو جاینگے اگر ایسے ہی ضد کرتی رہی تو کیسے چلیگا"
وہ فکرمندی سے بولی
امی ابھی تو وہ صرف اٹھارہ سال کی ہے-- آپ تین چار سال اس کی شادی کے بارے میں سوچو بھی مت--- اسے پڑھنے دو ارام سے"
لیکن بیٹا اگر رشتہ اچھا ہو تو سوچنا پڑتا ہے"
ریحان صحیح کہ رہا ہے اتنی جلدی مت کریں عمر کے علاوہ اسے زہنی طور پر بہی تیار ہونا ضروری ہے."
وہ خاموش ہو گئیں
امی آپ فکر نا کریں"
خاموش دیکھ کر ریحان نے انہیں تسللی دی تو وہ دھیرے سے مسکرادی
*-*-*-*-**-*-*-*-*-*-*-*--*-
سر--- کافی
ملازم نے ڈرتےڈرتے اسے کافی پیش کی کیوں کہ جب وہ غصےّ میں ہوتا تھا تو کسی کی اسکے سامنے جانے کی ہممت نہیں ہوتی تھی
ایڈیٹ اتنی دیر لگتی ہے کافی لانے میں
حسب توقع اس نے غصےّ سے کہا
سوری سر
ملازم ٹرے لے کر نکل گیا
کیا ہوا--- کیوں اتنا غصہ کر رہے ہو
دادی اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئ
پہلے یہ بتایے اپ اج پارک نہیں گئ
نہیں آج من نہیں کر رہا
ساحر نے انہیں مصنوعی غصے سے دیکھا
نینا نینا
اس نے دادی کی خاص ملازمہ کو بلایا
جی----جی سر
تم دادی کو پارک کیوں نہیں لے گئ
سر--- وہ----- دادی نے منع کردیا
تم سے کہا تھا نا اگر یہ منع کرے تو مجھے بتانا
سوری سر -----دادی نے کہا تھا کہ میں آپ کو نا بتاؤ
وہ سر جھکا کر معزرت کرنے لگی
تمہیں دادو کے انسٹرکشنس ماننے کی کوئ ضرورت نہیں---- انڈرسٹینڈ.
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
اٹھیے-----جلدی چلیے
وہ دادی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کھڑا ہوا
اج رہنے دو نا بیٹا
دادی لاڈ سے بولی
کیوں اج میں کیا خاص ہے چلیے
وہ کہاں ماننے والا تہا انہیں ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا پچھلی سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبہال لی ساتھ ہی نینا کو بیٹھنے کو کہا
جب سے دادی کو ہارٹ اٹیک ہوا تہا وہ بہت محتاط ہو گیا تہا ملازموں کی پوری فوج ہونے کے باوجود وہ ان کے ہر پل کی خبر رکھتا تہا دوائ ہو یا کہانا زرا سی کوتاہی ہو جاتی تو ملازموں کی شامت اجاتی
بلکل ہٹلر لگتے ہو کبھی کبھی
دادی نے ناراضگی سے کہا
اپکو تو خیال نہیں اپنی صحت کا اسلیے مجھے ہٹلر بننا پڑتا ہے
ایک دن نہ جاؤ تو کیا ہوجاےگا
روز بلا ناغہ جاونگے تو کیا ہو جاینگا
وہ انہی انداز بولا
وہ اپنی دادی کو لےکر بہت حسساس تھا سات سال کی عمر میں اس نے اپنے والدین کو کہودیا تہا تب سے دادی ہی اس کے لیے سب کچھ تھی اور اسے اب ان کے کھونے کے خیال سے ہی خوف اتا تھا
دادی کو پارک کے باہر ڈراپ کرکے اس نے نینا کو چند ہدایات دی اور ابھی کچھ دوری پر ہی پہنچا تہا کہ اچانک گاڑی کے سامنے ایک کتا آگیا اسنے ایکدم سے بریک لگای جس کی وجہ پیچھے والی گاڑی اس سے بری طرح ٹکرا گئ وہ گھبرا کر باہر نکلا
یو------آر یو میڈ---- دماغ خراب ہے کیا تمہارا------ گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیو چلا رہے ہو
عیشا اسے دیکھ کر مزید جہلا گئ
ون منٹ----- تمیز سے بات کرو میں نے کوئی جان بوجھ کر نہیں کیا
پھر وہی-------تم ہمیشہ مجھے ہی کیو ہٹ کرتے ہو---- - دوسرا کوئ نظر نہیں اتا کیا تمہیں
سامنے ڈاگ اگیا تھا---- مجھے بریک لگانی پڑی---- مجھے کیا پتا تھا کہ پیچھے تمہاری گاڑی ہے
وہ بمشکل ضبط کر رہا تھا
دیکھو-- کیا حال کردیا میری گاڑی کا
اسنے ٹوٹے ہوے ہیڈ لائٹ کو بغور دیکھتے ہوے کہا ساحر نے والٹ سے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاے
یے لو
عیشا نے اس کے ہاتھ کی جانب دیکھ کر غصے سے مٹھیاّں بھینچ لی
پاگل ادمی!--- تمہیں شرم نہیں آتی غلطیاں کرتے ہو اور پیسے دکہاتے ہو------- مجھے میری گاڑی ٹھیک کر کے دو ابھی
میں کوئ مکینک نہیں ہوں------ اڈریس دے دو گاڑی پہنچادونگا
واہ !-------اپنا اڑریس دےدوں تاکہ تم مجہے گھر آکر پریشان کرو----- غنڑے کہیں کے
تم خود کو سمجھتی کیا ہو--- کب سے بکواس کئے جارہی ہو-- لڑکی ہو اسلیے لحاظ کر رہا ہوں ورنہ-----
بکواس بند کرو----- ایک تو چوری اوپرسے-----
ون منٹ
اسے ہاتھ دکھاتے ہوئے بیچ میں ٹوک کر وہ اگے بڑھا اور ایک زور کی لات مار کر دوسری ہیڈ لائٹ بھی توڈ دی
ہاو------یہ---- یہ کیا کیا تم نے
اسے کہتے ہیں جان بوجھ کر کرنا------- اب تک بنا غلطی کے سن رہا تھا اب تم جو چاہو بول سکتی ہو
اب کے وہ ارام سے بولا
پاگل سٹوپڈ مین------ اسے ٹھیک کرو ورنہ جیل جاونگے
اب نا سوری بولونگا نا کچھ ٹھیک کرونگا---- گو ٹو ہیل
وہ گاڑی میں بیٹھ گیا عیشا اسے روکتی رہ گئ اور وہ بڑی آسانی سے وہاں سے نکل گیا
اللہ کرے تمہاری گاڑی پھاڑ سے گرجائے--- دوبارہ ملے نا تو سمجھ لینا تم تو گئے
وہ دانت پیستی گاڑی میں بیٹھ گئ
****************************
سن میرے ہمسفر
سنایا خان
قسط 2
اسلام و علیکم دادای جان
وہ گھاس پر دو زانو بیٹھ گئ
وعلیکم اسسلام جان
کیسے ہیں آپ؟
پہلے یہ بتاؤ کل تم کیوں نہیں آئ؟
آرہی تہی دادی جان لیکن راستے میں چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا
ایکسیڈنٹ---- خیر تو ہے نا بیٹا؟
انہونے فکرمندی سے پوچھا
جی ہاں---- بس کچھ کم عقل لوگ ہوتے ہے گاڑی چلانی اتی نہیں شو آف کرنے کے چکر میں لوگوں کو پریشان کرتے ہے-------- اگر وہ آدمی دوبارہ مجہے دکھ گیا نا تو بس
عیشا کا معمول تھا روزانہ فجر پڑھ کر تھوڈی دیر تلاوت کرتی اور گھر کے پاس والے پارک میں چہل قدمی کے لیے آجاتی چند دنوں میں ہی اس کی دادی کے ساتھ اچھی خاصی جان پہچان ہو گئ تھی اس کی وجہ اس کا باتونی مزاج تھا دادی کو یہ چلبلی لڑکی اپنی اپنی سی لگتی تھی
خیر دادی جان یہ بتایے آپ نے اس ہفتے چیک اپ کروایا ڈاکٹر سے؟
ہاں دو دن پہلے ہی کروایا ہے
کیا کہا پہر- سب ٹھیک ہے نا؟
وہ واقعی اُن کے لیے فکر کرتی تھی
ہاں کہ تو رہا تھا ٹھیک ہے-- آگے اللہ مالک ہے
انھونے مسکراتے ہوئے کہا
فکر مت کیجیے دادی جان انشاء اللہ اپ بلکل ٹھیک ہوجائینگے
اس نے ان کے گلے میں بانہین ڈالتے ہوے پیار سے کہا
مجھے اپنی فکر کب ہے بیٹا مجھے تو ساحر کی فکر ہے---زرا سا بیمار ہوجاوں تو پریشان ہو جاتا ہے میرے بعد بھلا ہے ہی کون جو اس کا خیال رکھے----- ماں باپ بچپن میں ہی کھو چکا ہے--- بس میں تو اتنا چاہتی ہوں اپنے جیتے جی اچھی سی لڑکی دیکھ کر اس کی شادی کردوں تاکہ سکون سے مر سکوں
ایسا کیوں کہ رہے ہو دادی--- ابھی تو اپکو بہت دن جینا ہے -----اور رہی شادی کی بات تو سوچنا کیسا کر دیجیے نا شادی
عیشا نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوے کہا
بس ایک یہی بات تو وہ مانتا نہیں یا تو نظر انداز کردیتا ہے یا غصہ ہو جاتا ہے
ایسے کیسے نہیں مانتے آپ ان کی دادی ہے. ---- لگایے کان کے نیچے دو پھر دیکہتے ہیں کیسے غصہ کرتے ہیں
عیشا کے انداز پر دادی دیر تک ہنستی رہی
ہو سکتا ہے ان کی نظر میں کوئ لڑکی ہو اسلیے ٹال رہے ہیں؟
وہ کچھ دیر سوچ کر بولی
ارے نہیں نہیں ایسا نہیں ہے--- میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں وہ چھپانے والوں میں سے نہیں----- اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے مجھے پتا چلنا تھا---- بس کہتا ہے اتنی جلدی شادی کرنا نہیں چاہتا
تبھی ان کا فون رنگ کرنے لگا اور سکرین پر ساحر کا نام روشن ہوا
ہیلو
دادو اپ اب تک آئ کیوں نہیں---- نو بجنے والے ہیں
عیشا سے باتیں کر رہی تھی وقت کا پتا ہی نہیں چلا--- بس ارہی ہوں تھوڑی دیر میں
انھونے عیشا کی جانب مسکرا کر دیکھا
ٹھیک ہے جلدی آئے مجھے افس کے لئے نکلنا ہے
کال بند کرکے وہ دوبارہ عیشا کی جانب متوجہ ہوئ
اچھا بیٹا اب میں چلتی ہوں کل ملاقات ہوگی
انھونے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
دادی جان میں تو آ نہیں پاونگی---- شادی میں چند دن ہی رہ گے ہے ایسے میں میرا آنا پاسیبل نہیں ہے---اور ہاں اپ شادی پر ضرور آئینگا
تمہارے والد گھر آے تھے دعوت دینے میں تو ضرور آؤنگی ساحر سے بہی کہونگی انشاء اللہ.
عیشا نے اُنھیں سہارا دیکر کھڑا کیا
جی اللہ حافظ
اُن کے گلے ملتے بولی
اللہ حافظ
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعاؤں سے نوازا اور ملازمہ کو اواز دی اور گاڑی میں بیٹھ گئ
گھر پہنچتے ہی ساحر کو ڈائنگ ٹیبل پر اپنا منتظر پایا
حد کرتی ہے اپ بھی دادو کب سے انتظار کر رہا ہوں میں
وہ آرام سے اپنی کرسی پر بیٹھ گئں
بتایا تو سہی عیشا کے ساتھ تھی--_- اور ہاں اگلے اتوار کو اس کی بہن کی شادی ہے تمہیں بہی چلنا ہوگا
انہونے گویا حکم سنایا
جی
اس نے جوس کا گلاس رکھتے ہوے سکون سے کہا
ہیں؟--------
انہوں نے اسے حیرت سے دیکھا کیونکہ انہیں ساحر کے اتنی جلدی مان جانے کی بلکل توقع نہیں تھی
جسٹ چل دادو _----جس عیشا نے آپ کو انوائیٹ کیا ہے وہ عمران کی کزن ہے اور الیشا بھابھی کی بہن اور عمران کی شادی تو مس کرونگا نہیں
تم جانتے ہو اُسے
اُنھیں حیرت ہوئی
کارڈ پڑھا ہے دادو اس سے پتا چلا جانتا نہیں ہوں
اس نے ان کی حیرت سیکنڈ میں دور کردی دادی اس کی اور عمران کی دوستی سے بخوبی واقف تھی
اچھا.------_--
دیکھا اب تو امران کی بھی شادی ہورہی ہے -------بس ایک تم ہی ہو میری مانو تو تم بہی -------
دادو پلیز- پھر سے وہی ٹاپک لیکر مت بیٹھ جانا
اس نے ان کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی
آخر تجھے شادی کے نام سے اتنی چڑ کیوں ہے؟
مجھے کوئ چڑ نہیں ہے دادو بس اتنی جلدی نہیں
وہ بے نیازی دکھاتا رہا
ماشاء اللہ ستائیس کے ہورہے ہو اگلے ماہ اور جلدی لگ رہا ہے تمہیں ---------کوئ لڑکی پسند ہو تو مجھے بتاؤ میں بات اگے بڑھاتی ہوں؟
میری پیاری دادو اطمینان رکھیے مجھے کوئ لڑکی پسند وسند نہیں ہے
وہ مسکراتے ہوئے بولا
میری نظر میں ایک لڑکی ہے
انھوں نے کچھ سوچتے ہوے کہا
کون؟
ساحر حیران ہوا
ہے کوئ ملے گا اس سے
ہر گز نہیں -----اگلے چار پانچ سال انتظار کیجیے شاید مل لونگا
اس نے ایک دم سکون سے کہا
تجھے اس طرح مجھے پریشان کرکے کیا ملینگا؟
آپ کو میری آزادی چھین کر کیا ملے گا؟
اس نے بلکل ان ہی کے انداز میں خفگی سے کہا
ہاں تجھے تو بس اپنی آزادی کا خیال ہے میری خواہش کا کوئ خیال نہیں
دادو نو اموشنل ڈرامہ پلیز میں چلتا ہوں لیٹ ہورہا ہے اور ہاں دوائ لینا مت بھولیے گا خدا حافظ
وہ جلدی سے جان چھڑا کر نکل گیا اور دادی نے ایک گہری سانس لیکر اسے دیکھا
*-*-*-*-*-******************
سارا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا نزدیک دور کے سب ہی رشتہ دار موجود تھےاج الیشا کی مہندی کی رسم ہوئی تھی صبح سے وہ عورتوں کی بھیڑ میں گھری بیٹھی تھی تو اب فارغ ہوکر روم میں گئی تھی پہلے ریحان اور فائزہ کی شادی تھی اگلے دن اُن کا ولیمہ اور امران الیشا کی شادی تھی
عیشا بھی زوبی کے ساتھ زبردستی ریحان کو مہندی لگانے آگئی اس نے لاکھ منع کیا لیکن وہ بھی عیشا تھی a
عیشو میں کوئ لڑکی نہیں ہوں مجھے اتنی مہندی مت لگاؤ
ریحان نے جھنجلاتے ہوے کہا ہے
ریحان بھائ لگالیجے ورنہ پہلے ہی دن فائزہ بھابھی کی مار کھانی پڑےگی
زوبی نے ریحان کا دوسرا ہاتھ سجانا شروع کر دیا
میں مار کھانے والوں میں سے نہیں ہوں زوبی---- اور اپکی بھابھی کی مجال ہے جو نظر اٹھا کر بھی دیکھ لے
بھائ جان کیوں پھینک رہے ہیں دن میں دس بار تو سوری کہنا پڑتا ہے -----ففٹی پرسینٹ میسیج سوری کے ہی ہوتے ہے اوپر سے.……
عیشو کیوں میری انسلٹ کر رہی ہو لوگوں کے سامنے
ریحان نے اس کی بات کاٹی
ون منٹ.--- بھائی جان آپ دونوں کے بیچ پہلے سے بات چیت کا سلسلہ تھا یا منگنی کے بعد سے ہے
زوبی تشویش ہوئی
میڈم. بات چیت سے کہیں زیادہ تھا دونوں کے بیچ ----ان شورٹ دھس اس دا ارینجڈ لو میریج -------اور اس کہانی کی اہم کردار ہے دا ون این اونلی عیشا یوسف
جواب عیشا سے ملا
وہ کیسے
وہ مہندی روک کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
میں نے ہی تو ابو کو ان دونوں کی شادی کا سجیشن دیا تھا ورنہ ان میں اتنی ہمت کہاں
عیشو بیٹا-- لگے ہاتھوں یہ بھی بتادو اس کام کے لیے مجھے کتنی بڑی رشوت دینی پڑی
ریحان اس کے اترانے پر تپ کر بولا
کیا مانگا تھا اس نے
زوبی نے تشویش سے پوچھا
ابو سے گاڑی چلانے کی اجازت------- اور اسکے لیے مجہے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے یہ میں ہی جانتا ہوں----- بس مار کھانی باقی تھی-------- اس پر میڑم پچھلے ہفتے ایکسیڈنٹ کر آئ اس کا بہی سارا بھگتان ابو نے مجھے ہی ڈانٹ کر پورا کیا
زوبی اور عیشا اس کی حالت پر دیر تک ہنستے رہے
مے آی کم ان
اسی وقت ریحان کے دوست جاوید نے دستک دی
ارے جاوید آؤنا یار
کیا بات ہے بڑی محفل سجا رکھی
اس نے عیشا کے خوبصورت سراپے کو بغور دیکھتے ہوے کہا
کچھ نہیں بس تھوڈا ہنسی مزاق ہورہا تھا تم بتاؤ صبح سے کہاں غائب تھے
اب دونوں باتوں میں لگ گئے عیشا نے بار بار اس کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کی لیکن نظر اٹھا کر دیکھا نہیں
مہندی پوری ہوگی تو عیشا اور زوبی جانے کے لیے اٹھ گئ
عیشو چاے بھجوادینا
جی بھائ جان
اجاوید اس کے باہر نکل جانے تک اسے ہی دیکہتا رہا
وہ کچن میں چاے کا کہ کر زوبی کو لیے ڈراینگ روم میں اگئ اور زوبی اس کے ہاتھوں میں خوبصورت مہندی لگانے لگی
عیشا تم نے انکل سے ریحان بہائ اور فائزہ کے متعلق بات کیسے کی
زوبی کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی تھی
میں نے ابو سے کہا ابو آپی کی شادی ہوجاینگی تو گھر بہت سونا ہو جاینگا اسلیے بہائ کی بہی شادی ساتھ ہی کردیں---- اور فائزہ آپی کا اپشن سامنے رکھ دیا سمپل
رئیلی عیشا تم بہت لکی ہو------ تمہارے گھر میں سب کتنے فرینڈلی ہے ایک دوسرے سے
دونوں باتیں کرتی رہی تب ہی جاوید اگیا
ارے جاوید بھای اپ جارہے ہیں
اس نے اخلاقاً پوچھ لیا
کتنی بار کہا ہے عیشا مجہے بھائ مت کہا کرو انسلٹ لگتی ہے یار
وہ یہ بات کہیں بار کہہ چکا تھا عیشا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا
مسٹر جاوید بہائ کے دوست کو بہائ ہی کہا جاتا ہے
اب کے زوبی بولی
لیکن مس زوبی میں بہائ ٹایپ نہیں لگتا نا
تو اپ کیا چاہتے یہ اپ کو کیا کہ کر بلاے
زوبی نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا
بلانے کی کیا ضرورت بس اشارہ کردے بندہ حاضر ہوجاینگا
وہ عیشا کی جانب دیکھتے ہوے دھیمے سے بولا
جی
عیشا نے نا سمجھی سے پوچھا
جسٹ جوکنگ یار اچھا چلتا ہوں پھر ملاقات ہوگی باے
وہ باہر نکل گیا اور وہ دونوں دوبارہ مہندی کی جانب متوجہ ہو گئ
عیشا مجھے یہ آدمی ٹھیک نہیں لگتا اس کی باتیں اس کا انداز زرا مشکوک ہے
سی بی ای کی ہیڑ آفیسر جی ایسا کچھ نہیں ہے میں انہیں دو سال سے بہائ کے ساتھ دیکھ رہی ہوں وہ اچھے انسان ہے بس زرا مزاقیہ ہے
عیشا بی بی اپ ان باتوں کے معنی نہیں جانتی سوری مگر اپ اس معاملے میں زرا بدھو ہے
اوکے دادی ماں جیسا اپ کہے بس زرا دھیان سے مہندی لگاو اگر زرا بھی خراب ہوی تو میں نے تمہارا چہرا خراب کر دینا ہے افٹر ال میرے بہائ جان اور آپی دونوں کی شادی ہے دوبارہ کہاں موقع ملےگا
اس نے جان چھڑائی اتنا تو وہ بھی سمجھتی تھی کے جاوید کی باتیں بے معنی نہیں ہے
***********************-*-**
وسیع و عریض لان مہمانوں سے بہرا تہا ریحان اور فائزہ کا ولیمہ اور امران الیشا کا نکاح تھا رات کا فنکشن تھا چاروں اور روشنی کہیں ہنسی کے ہنگامے تو کہیں سماجی مسائل پر تبصرہ کہیں چوڑی پایل کی آوازیں تو کہیں دوستوں کی چہ میگویاں
عورتوں اور مردوں کا علاہدہ انتظام تھا سٹیج پر ریحان اور عمران مہمانوں سے مبارکباد وصول کر رہے تہے ساحر نے بہی جاوید کے ہمراہ آگے بڑھ کر ریحان اور امران کو مبارکباد دی دادی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس وجہ سے وہ ریحان کی شادی پر نہیں آ پایا تھا نا امران کے باقی فنکشن اٹینڈ کر پایا تھا آج دادی کی طبیعت کافی بہتر تھی اسلئے وہ آگیا تھا پہلے وہ ریحان سے ہی ملا
تھینک یو سو مچ فور کمنگ مسٹر ساحر
ریحان اور وہ خوشدلی سے گلے ملے
اگر میں نہیں اتا تو عمران نے میری شادی نہیں ہونے دینا تھی
عمران نے اس کے بازو پر ایک ہلکا سا مکاّ جڑا
وہ مصنوعی غصے سے اسے دیکھتے ہوے بازو سہلانے لگا
محفل اختتام پر تہی مہمان تقریبا جا چکے تھے وہ چاروں ایک کونے میں آکر بیٹھ گئے
جاوید سے اپکی کافی تعریف سنی تھی اپ سے مل کر سب کم معلوم ہوتی ہے
ڈارک بلیو سوٹ میں کلین شیو اور اس کا مخصوص پرفیوم اس کی شخصیت کا واضح ثبوت تھا وہ پیر پر پیر جمایے آرام سے بیٹھ گیا
ریحان اپ خواہ مخواہ مجھے چڑھارہے ہے جبکہ میں تو کافی مغرور انا پرست انفیکٹ غنڈہ مشہور ہوں
اسے عیشا کے کہے جملے یاد آگے
نو مسٹر ساحر---- ایکچولی مجہے شروع سے ہی اس بزنس میں کافی انٹریس ہے اور اس حوالے سے ہر نیوز اور ارٹیکل میں اپ ہی ٹاپ پر ہے----- یو آر دا گریٹ پرسن
وہ ساحر کا متعارف نظر ارہا تھا
شکریہ--- یہ سب تو میرے دادی کی دعاوں کا اثر ہے
سگریٹ
ریحان نے سگریٹ کا پیکیٹ آگے کرتے ہوے اسے آفر کیا
نو تھینکس میں سگریٹ نہیں پیتا
ریحان نے بے یقینی سے اسے دیکھا
ریحان یہ جناب زرا مختلف قسم کی مخلوق ہے ہائ سوسایٹی کے ماحول میں رہ کر بہی سگریٹ شراب اور لڑکیاں تینوں سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں
امران نے خلاصہ کیا اس سے بہتر ساحر کو کوئی نہیں جانتا تھا
امران صاحب بزنس مین ہوں وہی ڈیلس کرتا ہوں جس میں فائدہ نظر آۓ
اس نے پوری سنجیدگی سے کہا
دوست سلمان خان نے کہا ہے_-- ایک بار جو جاۓ جوانی پھر نا آے--- ابھی وقت ہے تو مزے کرلو
جاوید کے انداز پر وہ خوبصورتی سے ہنس دیا
تمہارے مزے تمہیں ہی مبارک مجھے تو معاف کرو----- میں ان بیکار چیزوں کو اہمیت دے کر ان کاغلام نہیں بن سکتا
اس نے دونوں کان پکڑے
یو آر رایٹ ساحر آئ ایم ایگری ود یو------- واقعی یہ عادتیں وقت کے ساتھ کمزوریاں بن جاتی ہے
امران نے اس کی تائید کی
تب ہی یوسف علی وہاں آگےء
ریحان --خالد صاحب کے گھر سے کوئ نہیں ایا انہیں کارڈ تو بھجوایا تھا نا
وہ اپنے کسی دوست متعلق پوچھ رہے تھے
جی ابو میں اپکو بتانا بھول گیا وہ لوگ آؤٹ آف ٹاون ہے
اچھا
ساحر بھی اُن کی جانب متوجہ ہوا
ساحر یہ میرے ابو ہے ابو مسٹر ساحر خان
ریحان نے تعارف کروایا
اسلام و علیکم انکل
ساحر نے کھڑے ہوکر ان سے مصافہ کیا انھونے بھی خوشدلی سے جواب دیا
انہیں بھلا کون نہیں جانتا----- بیٹا اپکے والد ہماری اسکول کے ٹرسٹی تھے ایک دو بار ان سے ملاقات ہوی ہے---- بہت ہی نیک دل انسان تھے
اپنے پاپا کے زکر پر اس کی آنکھیں اداس ہوگی
نایس ٹو میٹ یو انکل
بیٹا گھر سے کوئ نہیں ایا
دراصل دادی جان آنا چاہ رہی تھی لیکن ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تہی اسلیے.
اوہ
اچھا بیٹا میں زرا-------
انھوں نے چند مہمانوں کو جاتے دیکھ کر معذرت کی
جی. انکل
وہ ان کی بات سمجھتے ہوے بولا
بیٹا کبھی وقت نکال کر گھر ضرور آنا
انشاء اللہ
اس نے دوبارہ مصافہ کیا
اوکے فرینڈز اب میں چلونگا
ارے یار اتنی بہی جلدی کیا ہے بیٹھ نا
جاوید بولا
نہیں مجھے کل صبح سات بجے کی فلایٹ سے نیویارک کے لئے نکلنا ہے اور الریڑی کافی لیٹ ہوچکا ہوں
تھینکس اگین فور کمنگ
ریحان نے اس سے ہاتھ ملایا
وہ باری باری سب سے ملا اور جلدی جلدی پارکنگ ایریا میں ایا دور سے ہی ریموٹ سے گاڑی انلوک کی موبائل کی میسج ٹون پر موبائل چیک کرتا آگے بڑھنے لگا تھا کے گفٹ پیک سنبہالتی عیشا سے ٹکرا گیا گفٹ پیک اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا وہ لڑ کھڑائی لیکن سنبھال گئی لیکن اس کی سینڈل ٹوٹ گئی
او گاڈ------نوٹ اگین-----
عیشا کو دیکھ کر اس نے پریشانی سے ماتھا پکڑ لیا
-اوہ تم-------- میں کیسے بہول سکتی ہوں کہ یہ تم ہی ہونگے---- کیونکہ ساری دنیا میں ایک تم ہی تو ہو میرے واحد دشمن------یو نو وھاٹ اب تک تو مجھے شک تھا لیکن اج یقین ہوگیا کہ تم واقعی اندھے ہو-----دیکھو مجھ سے پیسے لے کر اپنی آنکھوں کا علاج کروالو اور میری جان چھوڑو
اس نے ہاتھ زور سےجوڑتے ہوے کہا ساحر سپاٹ چہرے سے اُسے دیکھتے ہوے سکون سے اس کی باتیں سنتا رہا
اب الو کی طرح گھور کیوں رہے ہو
عیشا اس کے مسلسل دیکھنے پر اور بھڑک گئی
لڑکی کچھ نہیں تو کم سے کم اس بات کا ہی لحاظ کر لیا کرو کہ میں تم سے بڑا ہوں یا تمہیں بڑوں کی عزت کرنا آتا ہی نہیں
اتا ہے لیکن تب جب وہ عزت کرنے کے لایق ہو تمہاری طرح ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے نا پڑا ہو
تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے میں تمہیں فالو کررہا ہوں یہ تو اتفاق سے ----------
اتفاق-------اتفاق ایک بار ہوتا ہے مسٹر یوں باربار نہیں اخر تم چاہتے کیا ہو کیوں بار بار مجھے پریشان کر رہے ہو
ساحر نے تاسف سے سر ہلایا
میرے پاس تم سے بحس کرنے کے لیے فالتو وقت نہیں ہے
اس نے ایک نظر پونے بارہ بجاتی گھڑی پر ڈالی اور اگے بڑھنے لگا مگر عیشا نے فوراً سامنے اکر اس کا راستہ روک دیا
تم یوں جا نہیں سکتے مسٹر یہ اٹھاؤ
اس نے ساحر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے رعب سے کہا تو وہ اسے حیرانی سے دیکھتا رہا
اگر نا اٹھاؤں تو------
وہ دونوں ہاتھ جیب میں ڈالتے ہوئے بولا
تو تمہارے لیے بہت برا ہوگا
اچھا-----_ٹھیک ہے جو کرنا ہے کرلو --خوش
کہ کر وہ سایڈ سے آگے بڑھنے لگا لیکن وہ دوبارہ سامنے آگئی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کا راستہ روک دیا
اس بار تم نقصان کی بھرپائی کیے بنا یہاں سے جا نہیں سکتے
بھرپای کر دیتا اگر تم میں بات کرنے کی تمیز ہوتی لیکن افسوس تم اس قابل نہیں ہو
وہ اس کے ہاتھوں کے نیچے سے جھک کر نکل گیا اور آکر گاڑی میں بیٹھ گیا
عیشانے گاڑی سٹارٹ ہونے سے پہلے ہی بالوں سے ہیر پن نکال کر ٹایر کی ہوا نکال دی سائڈ مرر میں اس کی کاروائ دیکھ ساحر نے باہر اکر پہلے ٹایر کو پہر اسے دیکھا ایک گہری سانس لی اور بنا کچھ کہے فون نکال کر کال ملای اور باہر نکل ایا عیشا بہی گفٹ اٹھا کر اندر چلی گئ اگلے پندرہ منٹ میں اس کا ڑرائیور گاڑی لے آیا
گاڑی پنکچر ہے ٹھیک کرواکر لے آؤ
اسنے ڈرائیور کو چابی تھمای اور خود اکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا
پتا نہیں کس قسم کی لڑکی ہے مجال ہے جو کبھی یہ سوچ لے کہ واقعی غلطی سے کچھ ہوا ہو --------میں اسے فالو کرونگا خود کو مس ولڈ سمجھتی ہے کیا
اس کہ نظر میں عیشا کا خوبصورت سراپا گھوما سفید دودھیا رنگت میں ہلکی گلابیاں پرکشش نقوش گھنے براؤن کلچر میں جکڑے بال اور گھنی پلکوں کے نیچے بڑی بڑی براؤن آنکھیں
اس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہے
وہ ونڑ اسکرین پر نظریں جماے مسکرادیا لیکن اگلے ہی لمحے مسکراہٹ غائب ہو گئ
میں اس کے بارے میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں
یا اللہ ہر بار اس لڑکی سے ہی کیوں سامنا کرواتے ہیں- جب دیکھو اچھی خاصی بے عزتی کردیتی ہے بندہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کے ایک تو خود کی غلطی ہے اوپر سے لڑکی ذات ہے تھپڑ کھاتے ہی خدا کو پیاری نا ہو جائے----------- واقعی اتنے اتفاق اب تو مجھے بھی ڈاؤٹ ہونے لگا ہے کہ میں جان بوجھ کر اس کے پیچھے پڑا ہوں------------- بس ایک بار ایک بار مجھے موقع مل جاے اسے کچھ کہنے کا ساری کسر ایک ساتھ پوری کرلونگا وہ بھی یاد کریگی کے کس سے پالا پڑا تھا
اس نے گاڑی پورچ میں روک دی اور دادی کے روم میں چلا آیا وہ سونے ہی لگی تہی
دادو کیسی طبیعت ہےاب آپکی
وہ بیڑ کے کنارے پر بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھامتے ہوے بولا
ٹھیک ہوں تم بتاؤ شادی میں گئے تھے
جی ہاں وہی سے ارہا ہوں
عیشا سے ملے
سب چھوڑ کر انھونے پہلا سوال وہی کیا جس کی اسے اُمید تھی
نہیں دادو مگر میں ریحان اور اس کے ابو سے ملا ہوں
اچھا کاش کے عیشا سے بہی مل لیتے خیر کیسے ہے وہ لوگ
اس نے ایک لمحہ دادی کو غور سے دیکھا
بہت اچھے ہے آپ کا بھی پوچھ رہے تھے گھر آنے کی دعوت بھی دی
کاش کے میں بھی جا پاتی تو ان سب سے ملاقات ہو جاتی--------- ٹھیک ہے تم جاؤ رات بہت ہورہی ہے اور صبح تمہیں جانا بھی ہے---- واپس کب تک آؤگے
لگ بھگ دو تین دن لگ جاینگے
ٹھیک ہے شب بخیر
گڑ نائٹ دادو
وہ اُنکا ہاتھ چوم کر چادر ٹھیک کیے باہر آگیا
زوبی یہ کہاں لے آئ مجھے
گاڑی ایک عالیشان بلڑنگ کے اگے رکی
گاڑی سے اتر کر اس نے اطراف کا جائزہ لیا
عیشا کاشف یہی کام کرتے ہیں
زوبی نے مصنوعی شرماتے ہوے کہا
کون کاشف
یا اللہ یہ لڑکی---------عیشا کاشف جن سے میری منگنی ہوئ ہے اور شادی ہونے والی ہے
اوہ ہاں کاشف----- تو ہم یہاں کیوں آۓ ہے
میں انہیں دیکھنا چاہتی ہوں--- افٹر آل شادی ہے یار مزاق نہیں ہے------ پتا نہیں کیسے ہے شادی تک یہ سوچ سوچ کر پریشان ہونے سے اچھا ہے انہیں دیکھ ہی لوں
لیکن وہ تو آۓ تہے نا تمہیں دیکھنے تب دیکھا نہیں تھا کیا
اس وقت تو میں شرمیلی دلہن بنی ہوئ تہی اتنے لوگوں کے سامنے انہیں دیکھنا ممکن تہا کیا
زوبی اس کا تھام کر آگے بڑھنے لگی
زوبی اگر کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا خواہ مخواہ تیری امیج خراب ہو جائگی
اس نے سمجھاتے ہوئے کہا
کچھ نہیں ہوگا وہ یہاں جنرل مینیجر ہے خاموشی سے دیکھ کر واپس اجاینگے------ کسی کو پتا بہی نہیں چلے گا
پتا نہیں کیا کیا خرافات چلتی رہتی ہے تمہارے شیطانی دماغ میں
اس نے دوپٹہ ٹھیک کرتے کوفت سے کہا
اب چل ٹائم ویسٹ مت کر
وہ اسے بلڈنگ کے اندر لے گئ لفٹ لے کر دونوں اوپر آئ سامنے سے گزرتی ایک لڑکی سے انہوں نےجنرل مینیجر کے کیبن کا پتا لگایا
زوبی ایک بار پہر سوچ لے کہیں اس نے دیکھ لیا اور کچھ غلط سوچ لیا تو
کیبن کے دروزاے تک اکر اس نے سرگوشی میں کہا
چپ--- کچھ نہیں ہوگا
زوبی نے اسے ڈانٹ کر خاموش کرایا اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر اندر جھانکا کرسی خالی تھی زوبی نے اطراف میں نظریں دوڈا کر کمرے کا جائزہ لیا مگر اندر کوئ نظر نہیں آیا دروازہ دوبارہ بند کرنے ہی لگی تہی کہ کاشف اگیا اور دو لڑکیوں کو دروازے پر کہڑا دیکھ کر حیران ہوا
ایسکیوز می
اس کی اواز پر دونوں نے ایک ساتھ ہڑبڑا کر پیچھے دیکھا
آپ
زوبی کو دیکھتے ہی وہ فوراً بولا
ج ج_-- جی و-- و--- وہ
زوبی بمشکل بولی جبکہ عیشا پریشانی سے اس کے تاثر دیکھنے لگی
آپ یہاں کیسے
اس کے لہجے میں حیرت کے ساتھ خوشی بہی تھی زوبی کی کچھ ہمت بندھی
وہ دراصل ہ--- ہم کسی کام سے -_-یہاں آئے تھے تو------
اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا
چلیے ویسےبھی میں اپ سے ملنا چاہتا تھا لیکن سوچا کہیں اپ برا نا مان جاے شادی ہونے والی ہے اور ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے-------اب جب اپ یہاں ا ہی گئ ہے تو کیوں نا ایک کپ کافی ہو جاے اسی بہانے بات کرنے کا موقع مل جایگا
زوبی اور عیشا نے ایک دوسرے کو دیکھا
کیوں نہیں کاشف بہائ---- زوبی جاؤ نا
زوبی خاموش رہی تو اسے بولنا پڑا
یہ عیشا بے میری بیسٹ فرینڑ
اس نے عیشا کی بات کو نظر انداز کرتے ہوے تعارف کروایا
ہیلو عیشا------ اپ بھی چلیے نا ہمارے ساتھ
نہیں میں یہی ویٹ کرتی ہوں اپ لوگ جایئے
زوبی نے اسے اشارے سے چُلنے کو کہا مگر اس نے دھیرے سے گردن ہلا کر نہیں کر دیا بھلا اس کی موجودگی میں وہ کیا بات کرپاتے
ٹھیک ہے اپ اندر بیٹھ جایے
جی
وہ اندر چلی آئ کرسی پر بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لیا ائیر فون کانوں میں لگایا گانا سنتے ہوے مسیجیز بہی دیکھنے لگی
ساحر اندر داخل ہوا تو اسے دیکھ کر ٹھٹک گیا بلیک پلازو پر وہائٹ لانگ شرٹ گلے میں بلیک اسکارف وہ یقیناً وہی تھی ساحر اسے ایک لمحے میں جان گیا جہاں کسی میں اس سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی ہمت نہیں تھی وہاں یہ چہوٹی سی لڑکی اس پر بہاری تہی مینیجر کے کال رسیو نا کرنے پر وہ اس کے کیبن میں ہی اگیا تھا اس نے عیشا کو متوجہ کرنے کے لئے اندر سے ہی دروزاے پر دستک دی رسپانس نہ پاکر دوبارہ دستک دی مگر وہ ہیڈ فون کی اواز میں کچھ سن نا پائ ساحر اس کی کرسی کے قریب اگیا عیشا کی نظر اس پر پڑی ہیڈ فون کھینچ کر وہ فوراً کھڑی ہوگئ
تم یہاں کیا کر رہی ہوں
اس کے لہجے میں حیرانی سے زیادہ غصہ تھا عیشا شاکی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی ساحر نے اس کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجا کر اسے متوجہ کیا
ہیلو آئ ایم ٹاکنگ ٹو یو. وہاٹ دا ہیل آر یو ڈوئنگ ہیئر
اس نے سختی سے کہا
تم کون ہوتے ہو یہ پوچھنے والے کہ میں یہاں کیا کر رہی ہوں
اگلے ہی لمحے سنبھل گئی
جس بلڈنگ میں اس وقت تم کھڑی ہو وہ میری پراپرٹی ہے اور یہاں آنے جانے والے ہر شخص سے وجہ پوچھنے کا مجھے پورا حق ہے سمجھ آیا
دونوں ہاتھ ٹراؤزر کی جیبوں میں ڑالتے ہوے اسنے رعب سے کہا
اگر مجھے اندازہ بھی ہوتا نا کہ یہ جگہ تم سے وابستہ ہے تو میں کیا میری جوتی بھی یہاں نہیں آتی
لیکن اب تو جوتی کے ساتھ تم بھی اگئ ہو----- بٹ ڈونٹ وری میں یہ نہیں کہونگا کہ تم یہاں جان بوجھ کر آئ ہو مجھے فالو کر رہی ہو مجھے کوئ نقصان پہنچانا چاہتی ہو-------- اینی وے جس دروازے سے آئ تھی اسی دروازے سے چپ چاپ چلی جاؤ ورنہ مجھے موقع مل جایگا اپنی ساری بھڑاس نکالنے کا
اس کے لہجے میں طنز تھا
جارہی ہوں ویسے بھی مجھے تمہاری صورت سے سخت نفرت ہے
اس سے مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا تم جیسی تھرڑ کلاس لڑکیوں کو میں یہاں----- اپنے جوتے کے نیچے رکھتا ہوں
اس نے آنکھوں سے جوتے کی جانب اشارہ کیا
تم نے مجھے تھرڈ کلاس کہا------ یو تمہارے ماں باپ نے تمہیں اتنی بہی تمیز نہیں سکھای کہ لڑکیوں سے کیسے بات کرتے ہے بدتمیز_---
جسٹ شٹ اپ---
ساحر نے غصے میں آکر اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن بیچ میں ہی روک لیا مگر اسی ہاتھ سے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنے جانب کھینچا
تک میں نے تمہپاری ہر بدتمیزی کو صرف اسلیے برداشت کیا ہے کیونکہ تم ایک لڑکی ہو اور کسی لڑکی سے الجھنا میرے اصولوں کے خلاف ہے لیکن اگر تم نے میرے امی ابو کے متعلق کوئ بھی غلط بات کہی تو سارے اصول گئے بھاڑ میں تمہاری جان لینے میں مجھے زرا بہی افسوس نہیں ہوگا. سمجھی
وہ پوری نفرت سے عیشا کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا عیشا کو اس سے خوف انے لگا ایک تو انجان جگہ میں اس کے اتنے قریب تھا اوپر سے اس کی مضبوط انگلیاں بازو میں گڑتی محسوس ہورہی تھی اس کی آنکھیں بھر گئ ساحر نے جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا وہ لڑ کھڑای
جسٹ گیٹ آؤٹ فروم ہیئر
وہ غصے سے دھاڑا
دعا کرتی ہوں اگر زندگی میں دوبارہ کبھی تم سے سامنہ ہونا لکہا ہوگا تو اس سے ایک سیکنڈ پہلے مجھے موت آجاے
وہ روتے ہوے پوری نفرت سے بولی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی
ساحر نے کرسی کو لات مار کر غصہ کنٹرول کیا
****************************
کہاں غائب تھی اتنے دن فون بہی بند ارہا تھا
دادی نے آتے ہی شکوہ کیا
سوری دادی میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور فون خراب ہے
سوری کی کوئ بات نہیں ہے تم نہیں آتی نا تو میرا من ہی نہیں لگتا
سو نایس آف یو دادی
اس نے ان کے گلے میں بانہی ڈال دی
دادی میرے پاس آپ کے لیے ایک سر پرائز ہے
اس نے بیگ سے ایک چھوٹا سا گفٹ باکس نکال کر ان کی طرف بڑھایا
یہ کیا ہے
آج فرینڈشپ ڑے ہے اور اپ میری بیسٹ فرینڈ ہے اسلیے میری طرف سے چھوٹا سا گفٹ
تم پہلی ایسی لڑکی ہو جس کی دوستی اپنی دادی کی عمر والی عورت سے ہے
یہی تو اصلی دوستی ہوتی ہے دادی جس میں چھوٹا بڑا اچھا برا کچھ نہیں دیکہا جاتا بس ایک بے غرض سا رشتہ بن جاتا ہے جیسے کہ آپ سے بن گیا ہیں------- سچ دادی آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہے
اس نے ان کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا
کیونکہ تم خود بہت اچھی ہو بیٹا
وہ ہنس دی دھیرے سے
کیا بات ہے آج کچھ اداس لگ رہی ہو
انہوں نے اس کی ہنسی میں اداسی محسوس کی
نہیں تو بس اتنےدن سے باہر نہیں نکلی اسلیے بوریت محسوس ہو رہی ہے------- آپ دیکہیے تو سہی میں آپ لے کیا لای ہوں
اس نے گفٹ کھول کر اس میں سے ایک خوبصورت چاندی کا بریسلیٹ نکالا
یہ وہ چیز ہے جو آپ کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیگی--------- چھ سات دکانیں ڈھونڑنے کے بعد کچھ پسند آیا ہے مجھے ---------دیکہے میں نے اپنے اور زوبی کے لیے بھی سیم لیا ہے
ان کی کلای میں بریسلیٹ پہناکر اپنی کلای دکھائ جس پر ویسا ہی بریسلیٹ بندھا تھا
اب اس عمر میں میں یہ چیزیں پہنتی اچھی لگوں گی بھلا
دادی جوانی بڑھاپا کوئ چیز نہیں ہوتی انسان کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی وہ فیل کرتا ہے
اس نے فلمی انداز میں کہا
ویسے بھی خود کو میری نظر سے دیکہے بس بالوں کو کلر کردے تو آپ کسی ہیروئن سے کم نہیں کسی ڈایریکٹر کی نظر پڑگی نا تو اپکو رنویر کپور کے ساتھ سائن کر لیگا
پاگل
دادی دیر تک اس کی باتوں پر ہنستی رہی پہلے دن سے انہیں اس کی باتیں اس کی معصوم صورت اور اس کا ہر انداز بے حد پسند تھا
چلو تحفہ بھی لے لیا اور تعریف بھی سن لی اب بتاؤ اداس کیوں ہو
دادی کہاں سے اداس لگ رہی ہوں میں اپ کو بتیسی تو دکہا رہی ہوں کب سے
تمہارے چہرے پر ہمیشہ ایک خوبصورت مسکراہٹ ہوتی ہے اج وہ غائب ہے اس کا مطلب-------
شاید وہ کچھ اور بھی کہتیں تب ہی ان کا فون رنگ کرنے لگا اور عیشا نے چین کا سانس لیا اب وہ انہیں کیا بتاتی کی تین دن بعد بہی اپنے بازو پر کسی کی گرفت محسوس کر رہی تھی کبھی اس کے ماں باپ نے بہھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا اور ایک اجنبی نے اس سے کس قدر بے رحمی سے سلوک کیا تھا بنا کسی غلطی کے ہمیشہ بے فکر نڑر رہنے والی لڑکی کو خوف کا احساس دلایا تھا وہ جو کسی کا بھی سامنا کرنے کی ہمت رکھتی تھی پہلی دفعہ کسی کے اگے خود کی یوں کمزور محسوس کیا تھا اگلے دو دن وہ لگاتار بخار میں مبتلا رہی تھی گھر والے بھی اس کی اس حالت سے پریشان تھے مگر وہ کسی کو کیا بتاتی اس نے واقعی اللہ سے دعا کی تھی کہ دوبارہ اس شخص سے سامنہ نا ہوں لیکن اس کی قسمت میں کچھ اور طے تھا
وہ سارے خیال, جھٹک کر دادی کہ جانب متوجہ ہوئ جو فون پر بات کررہی تھی
دادو میں باہر ویٹ کر رہا ہوں جلدی آئے
ساحر تم اندر اجاونا بیٹا میں تمہیں عیشا سے ملواتی ہوں
انہوں نے عیشا کی جانب دیکھتے ہوے کہا وہ مسکرادی
افوہ دادو کیا آپ ہر وقت بس عیشا عیشا کرتی رہتی ہے وہ کیا آٹھواں عجوبہ ہے جو میرا اسے دیکھنا اتنا ضروری ہے---- دیکہے مجھے پانچ منٹ میں اپکو گھر ڈراپ کر کے کہیں پہنچنا ہے اسلیے جلدی باہر آئے اور اکیلی آئیے گا میں کسی اور دن مل لونگا آپکی اس عیشا سے ابھی میں جلدی میں ہوں
ٹھیک ہے آرہی ہوں
انہیں غصہ تو بہت ارہا تھا مگر عیشا کو برا نا لگے اس لئے کچھ کہنے سے گریز کیا
کہ رہا ہے جلدی میں ہوں بعد میں مل لونگا
جی
وہ اور کیا کہتی اُسے ساحر سے ملنے سے کوئی مطلب نہیں تھا
انہوں نے بینچ پر سوتی نینا کو جگایا جو ہمیشہ عیشا اور دادی کے ساتھ ہونے کا فائدہ اٹھا کر بینچ سنبہالیتی وہ دونوں اپنے میں مگن رہتی اور نینا ارام سے ان کے فارغ ہونے تک سوتی
اچھا بیٹا اپنا خیال رکھنا خدا حافظ
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
خدا حافظ دادی
دادی کے نکلتے ہی وہ بھی اٹھ گئ اج اسے کالج بہی جانا تھا
دادی اور نینا کے بیٹھتے ہی اس نے گاڈی فوراً آگے بڑھای
بہت بد تمیز ہو تم
انہوں نے بیٹھتے ہی ڈانٹ لگائ
بڑی جلدی معلوم ہوگیا اپکو
سامنے نظریں جماے وہ سکون سے بولا
چپ------کیا ہوجاتا اگر ایک بار اسے مل لیتے
دادو میں نے منع تو نہیں کیا------- بس اس وقت میں جلدی میں ہوں اسلیے نہیں مل سکتا تھا
تم تو ہمیشہ ہی اپنے گھوڑے پر سوار رہتے ہو اگر اتنے بزی تھے تو آۓ ہی کیوں ڈرائیور کو بہیج دیتے
ان کے لہجے میں غصّہ تھا روز ان کے وہاں ہونے تک ڈرائیور بھی رہتا تھا اج گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے وہ چلا گیا تھا اسلیے ساحر خود انہیں لینے آگیا
بڑی پیاری بچی ہے اس سے بات کرتے من ہی نہیں بھرتا
اب اُن کا عیشا نامہ جاری ہوچکا تھا جو وہ پچھلے چار پانچ مہینوں سے سنتا آرہا تھا بلکہ برداشت کرتا آرہا تھا لیکن اس وقت اس کا دماغ کہیں اور تھا اسلئے سننے کے باوجود اپنی دھن میں بس گاڑی چلاتا رہا دادی نے اسے بغور دیکہا تو وہ انہیں کچھ الجھا الجھا سا لگا
کیا ہوا بیٹا تم کچھ پریشان لگ رہے ہو
آں............ کچھ نہیں دادو مجھے کیا ہونا ہے
اس نے مسکرا کر کہا انہیں اور نینا کو گیٹ کے باہر ہی اتار کر وہ آگے بڑھ گیا
***************************
ہاے عیشا
کالج کے گیٹ سے نکل کر چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ ایک مرسریز اس کے نزدیک اکر رکی
اسلام و علیکم جاوید بہائ
اف پھر بہائ
اس نے دل میں کہا
وعلیکم اسسلام عیشا--------- اؤ بیٹھو میں تمہارے ادھر ہی جارہا ہوں
نہیں اپ جائے میں آجاونگی پاس ہی تو ہے
کالج گھر سے کچھ دوری پر ہی تھا روزانہ وہ زوبی کے ساتھ ہی کالج آتی جاتی تھی مگر آج زوبی کالج نہیں آئ تھی اس لئے عیشا کو اکیلے ہی جانا تھا
ڈونٹ بی سٹوپڑ عیشا بیٹھو ساتھ چلتے ہے
وہ زمانے بہر کی فری ماینڈ تھی مگر اپنی حد سے باہر نکل کر کبھی کوئ کام نہیں کیا اور اس کی یہی عادت گھر والوں کو پر سکون کیے ہوے تھی ایک غیر آدمی کی گاڑی میں اسکے ساتھ اکیلے جانے میں اسے جھجک محسوس ہورہی تھی
کیا سوچ رہی ہو بیٹھو نا ----_---ایک کام کرتا ہوں ریحان سے پوچھوا دیتا ہوں
نہیں------ رہنے دیجیے
مجبوراً اسے بیٹھنا ہی پڑا ویسے بھی گھر پاس ہی تھا
اج تمہاری دوست نہیں آئ
نہیں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے
اسلیے خدا نے مجھے اس راستے سے بہیج دیا کہ اج بھی تمہیں اکیلے نا جانا پڑے
وہ اس کی جانب دیکھ کر بولا عیشا مسکرا بھی نا سکی اسے جاوید کے اتنے سلو گاڑی چلانے پر شدید کوفت ہو رہی تھی
پڑھائ کیسی چل رہی ہے تمہاری
ٹھیک چل رہی ہے
اگے کا کیا پلان ہے
وہ بات کرنے کا موزوں ڈھونڈ رہا تھا
ابھی کچھ سوچا نہیں ہے
وہ بمشکل مسکرا رہی تھی
میں کینیڑا جا رہا ہوں کچھ دن کے لیے سوچا ایک بار تم سب سے مل لوں
اس نے کچھ ری ایکٹ نہیں کیا بس سامنے دیکھتی رہی
عیشا تم مجھ سے بات کرنے میں اتنا ڈرتی کیوں ہو میں کیا تمہیں کھا جاوگا
دو سال سے جانتی ہو مجھے کیا میں بات کرنے لائق بہی نہیں لکتا تمہیں
اس کے لہجے میں سختی آگئی تھی
ایسی تو کوئ بات نہیں ہے اپ کو غلط فہمی ہوئ ہے
اس نے دھیرے سے کہا
دو سال میں مشکل سے ہمارے بیچ چار پانچ بار بات ہوئ ہے اس میں بہی شروعات میری جانب سے ہی تھی
ایکچولی میں بنا سوچے سمجھے کچھ بہی بول دیتی ہوں--- اور اپ بہای جان کے دوست ہے کہیں برا نا مان جایے اس لئے تھوڑا ڑرتی ہوں
اس نے سنبھل کر وضاحت کی
چلو اب میں خود کہ رہا ہوں کہ میں تمہاری کسی بات کا برا نہیں مانتا تو کیا اب بات کرو گی بلا جھجھک
اس نے صرف اثبات میں گردن ہلادی
عیشا میں ریحان کی طرح تمہیں بھی اپنی دوست ہی سمجھتا ہوں اگر موقع ملے نا تو آزما کر دیکھ لینا
وہ کچھ نہیں بولی گاڑی رکتے ہی اتر کر دونوں اندر آگے جاوید امی ابو سے بات کرنے لگا اور وہ کمرے میں اگئ بیگ پیک کرسی پر پہینک کر بیڑ پر اوندھے لیٹ گی
دوستی کرنے میں حرج ہی کیا ہے دو سال سے جانتی ہوں انہیں برے انسان تو نہیں ہے
وہ کافی دیر اسی ٹاپک پر سوچتی رہی یہاں تک کہ اسے نیند اگئ اور وہ بے خبر ہو کر سو گئ
****************************
لیپ ٹاپ پر نظر جماے وہ کچھ ٹایپ کر رہا تھا سکرین کو بغور دیکھا اور پھر لیپ ٹاپ بند کر کے کرسی سے ٹک گیا ٹای تھوڑی ڑھیلی کی آنکھیں ایک نقطے پر مرکوز تھی
میں اس کے ساتھ کچھ زیادہ ہی روڈ ہو گیا تھا
نا چاہتے ہوے بہی وہ اس وقت اس لڑکی کے بارے میں سوچنے لگا اس کی آنکھوں کے آگے اس کا رویا رویا سا خفا خفا سا چہرہ انے لگا اسے اپنے ہاتھ کی سختی اور اس کے نازک بازو کو گرفت میں لینے پر ندامت ہوئ
لیکن غلطی بھی تو کی تھی نا اس نے---------اگر وہ مجھے غلط سمجھ رہی تھی تو مجھے ہی برا بھلا کہتی میرے امی ابو کے بارے میں کچھ کہنے کی کیا ضرورت تہی وہ کیا جانے ان کے بارے میں
وہ اس سے ناراض ہورہا تھا پتہ نہیں کیوں
میں اس کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہو آیندہ وہ مجھے نا ہی ملے تو بہتر ہے میرے لیے
اس نے فوراً آنکھیں بند کرلی چند سیکنڈ بعد کہول کر چھت پر جمادی
اگر ہمارا سامنا اس انداز میں نہیں ہوا ہوتا تو شاید اس وقت میں تمہارے متعلق یہ سب نہیں سوچ رہا ہوتا
اسلام و علیکم خان صاحب
وہ سوچوں میں اسے مخاطب کئے تھا جب جاوید نے اسے ہوش دلایا
جاوید کب آۓ یار
اس نے بیٹھے بیٹھے ہی ہاتھ ملایا
١
جب تم کسی اور دنیا میں گم تھے----- کیا سوچ رہے تھے اتنی گہرائی سے
ایک لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا
اس کی زبان سے نکل گیا
کیا ----------لڑکی کے بارے میں------- ساحر خان جو لڑکیوں سے دور بہاگتا ہے اتنی گہرائ سے کسی لڑکی کے بارے میں سوچ رہا ہے-------- کہیں یہ میرا خواب تو نہیں
میرے بھائ پوری بات تو سن لے ------میں ایک ایسی لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا جسے میں دوبارہ کبھی نہیں ملنا چاہتا
اوووہ ----ویسے ہے کون
پتا نہی -------بس ایکسیڈنٹلی ایک دو بار ملاقات ہوی تھی--------- ملاقات کیا جھگڑا ہی ہوتا ہے ہر بار کون ہے کہاں سے ہے کچھ نہیں جانتا
خوبصورت ہے کیا
وہ ایک پل کو سوچنے لگا کیا کہے اگر ہاں کہ دیتا تو اس نے غلط مطلب نکالنا تہا اس لیے بہانہ بنا دیا
میں نے غور نہیں کیا. ہاں------- گھمنڈی ضرور ہے
تب تو خوبصورت بہی ہوگی_----- خوبصورتی پر گھمڑ کا کامبینیشن ہی کچھ ہٹ کر ہے سچ یار
اس ٹاپک پر فل اسٹاپ لگا اور اپنی بات کر آئ جسٹ وانٹ ٹو لیو دس چیپٹر---- یہ بتا کیا لےگا
کافی بول دے
ساحر انٹرکام پر کافی کا کہ کر دوبارہ اس کی جانب متوجہ ہوا
ساحر مجھے تیری کچھ ہیلپ چاہیے
ہاں بولنا
وہ کرسی کو ہلکا گھماتے ہوئے اسے سننے لگا
مجھے کینیڈا جانا ہے انے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے تب تک تو زرا یہاں کے مسلے دیکھ لےنا
وہ تو ٹھیک ہے دیکھ لونگا مگر یوں اچانک کینیڈا
ہاں بس سارے جھمیلے ختم کرنے ہیں سمجھو بہت لک ٹراے کر لیے بزنس کے معاملے میں مگر کوئ خاص کامیابی نہیں ملی----- سوچ رہاں ہوں اب شادی کرکے سیٹل ہوجاوں
وہ ایک پل حیران ہوا
کیوں گرل فرینڑس گھمانے کا شوق ختم۰یا پھر اب لڑکیاں ہی گھاس نہیں ڈالتی
اونہوں----------ایک ایسی لڑکی مل گئ ہے جس کی تلاش تھی جو گرل فرینڑ ٹائپ نہیں ہے سوچا اب شادی ہی کر لوں -------دو سال سے اسے امپریس کرنے کی کوشش کررہا ہوں
کیا بات ہے------ کون ہے بے چاری جو تیرے ساتھ شادی کر رہی ہے
مجھے بس کینیڈا سے واپس آنے دے تجھے تیرے سارے سوالوں کے جواب مل جایگا باقائدہ ملاقات کروادونگا
چل خدا نے تجھے راستہ تو دکھایا اب بے چاری کی قسمت بھی اچھی کرے اور تجہے نیکی کی ہدایت دے
اے یہ بے چاری بے چاری بول کر زیادہ ہمدردی نہ جتا میں جیلس ہوتا ہوں
ساحر نے قہقہہ لگایا ملازم کافی اور پیسٹریز لے آیا اس کے نکلنے کے ساتھ ہی امران داخل ہوا
یہ تم کیسے اج راستہ بھٹک گئے
جاوید نے اسے دیکھ کر حیرت سے پوچھا
تمہارے افس گیا تھا پتا چلا تم یہاں ہو
اس نے ایک کافی کا کپ اٹھالیا
خیریت کیا ادھار کی ضرورت پڑ گئ
کمینے میں تجھ سے کب ادھار مانگنے کو ملا ہوں خدا کا دیا بہت کچھ ہے یہ تو تم بے ایمانوں کی دوستی کھینچ لاتی
واہ واہ واہ شادی ہوی جب سے اج شکل دکھا رہے ہو اور ہمیں بے ایمان کہ رہے ہو
جاوید نے ہاتھ اٹھا کر کہا
سالے اج بہی میں خود ہی ایا ہوں تو نہیں آیا اسلیے طعنے مت مار سمجھا
تینوں دیر تک ہنسی مزاق اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے
ساحر اب کیسی ہے دادی کی طبیعت
امران نے پوچھا
پہلے سے بہتر ہے
کیا ہوا تھا انہیں
جاوید اب تک انجان تھا
شوگر لیول بڑھ گیا تھا اسلیے ایڑمٹ کرنا پڑا تھا کل ہی ڈسچارج ہوئ ہے
ایک بات کہوں ساحر غلط مت سوچنا
عمران نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
بول نا کیا بات ہے
دیکھ میں جانتا ہوں تو دادی سے بہت پیار کرتا ہے اور ان کا پورا خیال بھی رکھتا ہے مگر زندگی اور موت کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی حقیقت کو قبول کرنا ہی عقلمندی ہے تو دادی کی بات مان کر شادی کیوں نہیں کر لیتا یار ان کی بہت خواہش ہے تیری شادی کروانے کی اگر یہ تیری نانا کے چلتے اک دن انہیں کچھ ہوگیا نا توتو بہت پچھتایگا
دو دن دادی ہسپتال میں تہی وہ بہی ساحر کے ساتھ ہی رہا تہا اور اس درمیان دادی نے ہی اس سے اپنا یہ ڑر بیان کیا تھا اسلیے اج اس نے ساحر سے براہ راست بات کی
ایسا کچھ نہیں ہوگا
ساحر ایک بار تو اس بارے میں غور کر
اس نے اثبات میں گردن ہلادی
****************************
اج سنڑے تھا اسلیے وہ دیر تک سویا رہا تھا تیار ہوکر نیچے اگیا
نینا دادو نے ناشتہ کرلیا
جی سر ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کیا ہے
اوکے میں دادو کو روم میں ہوں میرا ناشتہ وہیں بھجوادو
جی سر
وہ دادی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئ تھی وہ پاس رکہی کرسی پر بیٹھ کر انہیں دیکھتا رہا بیماری نے انہیں بے حد کمزور کر دیا تھا سفید پڑتا چہرا تھکا تھکا سا محسوس ہوتا تھا ہوش سنبھالتے ہی اس ایک چہرے میں اس نے اپنا ہر رشتہ ڈھونڑ لیا تھا ہر کمی کو ان کی محبت سے مکمل کر لیا تھا اس عمر میں بھی وہ دادی سے بچوں کی طرح لاڈ اٹھواتا تھا
دادو
بیڈ کے کنارے بیٹھ کر اس نے دھیرے سے اواز دی وہ جاگ ہی رہی تھی فورا آنکھیں کھول کر دیکھا
یہ کیا دادو اپ ارام کر رہی ہے اپ کو میری کوی پرواہ ہے کہ نہیں
وہ مصنوعی خفگی سے بولا
کیا ہوا بیٹا
اسے یوں اچانک سنجیدہ دیکھ کر انہوں نے اٹھتے ہوے دھیمی آواز میں پوچھا
اپ کو پتا ہے کتنا جیلس فیل کر رہا ہوں میں---------- میرے سارے دوستوں کی شادی ہوگی-------- بیویوں کو ساتھ لئے شو اف کرتے گھوم رہے ہیں اور میں--------- اپ کو تو میری زرا پرواہ نہیں دادو
دادی اسے بے یقینی سے دیکھتی رہی
زرا بستر چھوڑکر اچھی سی لڑکی ڑھونڑیے میرے لئے.----------کب تک یوں ہی اکیلا دوسروں کی شادیاں اٹینڑ کرتا رہونگا
یا اللہ کہیں یہ میرا خواب تو نہیں
انہیں حیران دیکھ کر ساحر نے آگے بڑھ کر ان کے ماتھے بوسہ دیا
یہ کوئ خواب نہیں ہے دادو
وہ سنجیدہ ہوگیا
تو کیا تم واقعی شادی کے لیے تیار ہو
ہنڑریڑ پرسنٹ
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے----- جانتے ہو اگر میں زرا سا بھی بیمار پڑتی ہوں تو دل بہت بے چین ہو جاتا ہے یہ سوچ کر کہ کہیں یہ میرا آخری وقت تو نہیں دل سے دعا کرتی رہتی ہوں یا اللہ جب تک ساحر کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک مجھے زندہ رکھ میں اسے یوں تنہا نہیں چھوڈ سکتی کہ میرے بعد اس کے پاس رونے کو کسی اپنے کا کاندھا بہی نہ ہو جب تک اس کی اپنی دنیا بستے نہ دیکھ لوں تب تک سکون سے نہیں مر سکتی -------جب ٹھیک ہوجاتی ہوں تو کگتا ہے خدا نے موقع دیا ہے لیکن تمہارا انکار سن کر بے بس ہوجاتی ہوں کہ شاید میری قسمت میں ہی چین وسکون کی موت نہیں لکھی
دادو پلیز اپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں اپ جانتی ہے نا----------
ساحر زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہیں میرے یا تمہارے چاہنے سے تقدیر میں لکھا بدل نہیں سکتا وہ کچھ لیتا ہے تو کچھ دیتا بھی ہے
دادو دنیا کا کوئ رشتہ اپ کی کمی پوری نہیں کر سکتا میرے لیے اپ میری سب کچھ ہو اللہ نے مجھے امی ابو کے سایہ سے محروم رکھا ہر وقت دل میں یہ شکایت رہتی ہے کہ وہ میرے پاس نہیں ہےاگر آپ کو بہی کچھ ہوگیا تو میں ………
اس کے آگے وہ کہ نہیں پایا ان کے دونوں ہاتھ تھام کر اس نے اپنی آنکھوں پر رکھ لئے
ساحر اداس مت ہو بیٹا --------میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتی ہوں--_--- تمہیں تکلیف میں دیکھ کر میری روح تک بے چین ہو جاتی ہے------- تم تو میری زندگی کا حاصل ہو--------- اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو کر بہی زندہ ہوں تو تمہاری خاطر اس کا عکس ہو تم
ملازم نے دستک دی تو وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ملازم نے میز پر ناشتہ رکھا ساحر کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا دادی سے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا
ساحر میں نے تمہارے لئے ایک ایسی لڑکی ڈھونڑی ہے جو لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ایک ہے
اس کا منہ تک جاتا ہاتھ ایک دم رک گیا
کیا------- اپ نے میرے لیے لڑکی ڑھونڈ بھی لی
بہت پہلے سے یہ تو تم راضی نہیں ہوتے تھے ورنہ اب تک تو شادی ہو جانی تھی
کون ہے
اس نے بے نیازی سے پوچھا
عیشا پارک والی لڑکی پہلے دن سے ہی وہ مجھے بہت پسند ہے اور میں چاہتی ہوں وہی تمہاری دلہن بنے
عیشا
اس نے زیر لب دہرایا اسے کوئ خاص حیرت نہیں ہوئ کیوں کہ اسے اس بات کا اندازہ دادی کی باتوں سے بہت پہلے ہو چکا تہا البتہ وہ الجھن میں ضرور تھا
کیا سوچ رہے ہو تم
اسے الجھا ہوا دیکھ کر دادی نے پوچھا
دادو آپ جلد بازی نہیں کر رہیں----- آئ مین اس لڑکی کو اپ جانتی ہی کتنا ہے چند ملاقات میں بہلا کوئ پہچانا جاتا ہے کیا --------آپ سے اپنے پن سے بات کر لی اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ واقعی اچہی ہو------- اپ کو ایک بار سوچنا چاہئے
اس نے انہیں سمجہاتے ہوے کہا
وہ لڑکی کھلی کتاب ہے اسے جاننے کے لیے کوی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں------ اور میں نے دنیا دیکھی ہے اسلیے اچھا برا صحیح غلط سب سمجھتی ہوں وہ میری پہلی اور اخری پسند ہے
کیا وہ جانتی ہے کہ آپ کیا چاہتی ہے
اس نے سکون سے جوس پر نظریں جماے ہوے کہا
تمہارے انکار کی وجہ سے میں نے ایسی کوئ بات نہیں کی اسے تو اندازہ بہی نہیں ہے
تو کیا اسی لیے اپ ہر وقت اس سے ملنے پر زور دیتی رہتی تھی
اس نے مصنوعی غصے سے دیکھا
ہاں. تم ایک بار اس سے مل لو ساحر وہ خوب سیرت ہی نہیں بےحد خوبصورت بھی ہے
انہوں نے مسکراتے ہوے کہا
اپ کہ رہی ہیں تو بے شک اچھی ہوگی لیکن
وہ کہتے کہتے رک گیا
وہ پانی پی کر ان کے پاس چلا آیا اور پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا
تو میں بات آگے بڑھاوں
انہوں نے اسے خاموش دیکھ کر کہا
دادو کم سے کم سوچنے کا موقع تو دیجے
اس نے شاکی کیفیت میں کہا
ٹھیک ہے مگر جلدی جواب دینا تاکہ میں اس کے گھر والوں سے بات کرسکوں
اسنے اثبات میں سر ہلادیا کچھ دیر ان سے باتیں کرتا رہا پھر اپنے روم میں اگیا کرسی پر بیٹھ کر دیر تک اسی بارے میں سوچتا رہا اچانک کچھ سوچ کر اٹھا اس نے گاڑی کی چابی جیب میں ڈالی بلیک ٹی شرٹ اور بلیک پینٹ پر وھائٹ جیکیٹ پہنی بکھرے بالوں کو جیل سے سیٹ کیا اور اپنا فیوریٹ پرفیوم لگا کر باہر نکل گیا
اسلام وعلیکم بھابھی
وعلیکم اسلام _--------- آئے نا ساحر بھائی
الیشا نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تآثرات سے کہا
کافی دیر سے عمران کو کال کررہا ہوں پر فون بند ارہا ہے سوچا آکر ہی مل لوں
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوے کہا
وہ سو رہے ہیں اپ بیٹھیے میں ابھی جگاتی ہوں
الیشا نے اسے پانی پیش کیا اور اندر چلی گی ساحر نے پانی پی کر گلاس ٹیبل پر رکھا اور جیب سے موبائل نکال کر گیم میں بزی ہوگیا کیونکہ اسے عمران کو نیند سے جگانے کا تجربہ تھا اس کے توقع کے عین مطابق عمران بیس منٹ بعد آنکھیں رگڑتا ہوا آیا اور
صوفے پر بیٹھ کر ساحر کے کندھے پر سر رکھ کر سونے لگا
لگتا ہے اب تک شہزادے کی نیند پوری نہیں ہوئ
اس نے عمران کو گھورتے ہوے الیشا سے کہا
کچھ مت پوچہے انہیں جگانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے
الیشا نے بیچارگی سے کہا
جی ہاں جانتا ہوں اس کمبھ کرن کے بھائی کو
عمران نے سر اٹھا کر اسے گھورا
صبح صبح کیوں اگیا میرا سنڑے خراب کرنے
ساحر نے کشن اٹھا کر اس کے منہ پر مارا جسے عمران نے واپس اسی پر پہینکا
ساحر بھائی آیے ناشتہ لگ گیا ہے
الیشا دونوں کو باقاعدہ لڑتے دیکھ کر بیچ میں بولی
شکریہ بھابھی لیکن ابھی ناشتہ کرکے نکلا ہوں بس ایک کپ چاے
جی------ ابھی لائ
الیشا فوراً کہکر باہر نکل گئ
اب بک بھی دے کیا کام ہے
الیشا کے جاتے ہی امران اسے دیکھتے ہوے بولا
کیوں بنا کام کے نہیں آسکتا کیا
جہاں تک میں جانتا ہوں تو اتنا شریف نہیں ہے
ساحر نے تاسف سے سر ہلایا
تیری نصیحت پر عمل کرتے ہوے دادو کو شادی کے لیے ہاں کر دی ہے
اس نے ارام سے بتایا
کیا------ آر یو سیریس------- دادی تو بہت خوش ہوگئ ہوگی یار
امران خوش ہوتے ہوے بولا
خوش------ وہ تو سہرا لے کر تیار بیٹھی ہیں لڑکی بھی پہلے سے ڈھونڈ رکھی ہے
وہ سنجیدگی سے بتابے لگا
رئیلی-------- کون ہے
امران کو خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئ
آپ کی سالی صاحبہ
عیشا کی بات کر رہے ہو
امران نے حیرانی سے پوچھا
کیوں اور بھی سالیاں ہے کیا تیری
ساحر نے جل کر پوچھا
نہیں یار------------ لیکن تم عیشا کو کیسے جانتے ہو
میں نہیں جانتا دادی جانتی ہے مجھے تو بس اتنا پتا تھا کہ اس کا نام عیشا ہے نتھنگ ایلس
وہ بڑے آرام کے بولا
ساحر آئ ایم ریئلی ہیپپی یار---------عیشا اینڑ یو آر جسٹ پرفیکٹ فور ایچ ادر
عمران اسے گلے لگاتے ہوے خوشی سے بولا
تو تو مجھ سے عیشا کے متعلق کچھ پوچھنے آیا ہے یا اس سے ملنے کا ارادہ ہے
عمران چھیڑنے کے انداز میں بولا مگر وہ اب بھی سنجیدہ تھا
نہیں------- نا اس سے ملنا ہے نا کچھ معلوم کرنا ہے یہ دادو کی خواہش ہےاور میرے لیے یہی کافی ہے یو نو دیٹ اور کونسا مجھے کسی سے عشق محبت ہےجو کوئ اعتراض ہوگا ایکچولی ایک بات کرنی ہے تجھے
کیا ہوا بول نا
امران نے فکر مندی سے پوچھا
باہر چلتے ہی
اوکے ------لیکن پہلے چاے تو پی لے
ساحر نے گردن اثبات میں ہلادی
اتنا سسپینس کہیں کوئ خاص سیکریٹ تو نہیں
امران نے دبی اب اواز میں شرارت سے کہا وہ کچھ نہیں بولا بس اسے گھور کر رہ گیا
بھائی میرے اگر کچھ ایسا ویسا ہے تو پہلے ہی بتادینا ورنہ تیرے ساتھ میں بھی مارا جاونگا
الیشا چاے لے آی دونوں نے باتوں کے درمیان چاے پی اور باہر چلے گئے
****************************
گھر کے سارے مکین ڑراینگ روم میں بیٹھے حیرت اور خوشی کی کیفیت میں مبتلا تھے کچھ دیر پہلے ہی ساحر کی دادی امران اور الیشا کے ہمراہ آئ تھی اور اپنی خواہش ظاہر کرکے ان سب کو شاک کر گئ تھی بہت زیادہ نہیں مگر اللہ نے انہیں توقع سے زیادہ بخشا تھا لیکن ساحر خان جیسی اثر و رسوخ رکھنے والی ہستی اس گھر سے ان کی بیٹی کا رشتہ آنا انہیں خواب سا معلوم ہورہا تھا امران دادی کو گھر چھوڑنے چلا گیا تھا الیشا اب بھی وہیں موجود تھی اور وہ لوگ کب سے اسی موزوں پر تبصرہ کررہے تھے عیشا سب سے بے خبر کالج گئ ہوئ
ریحان اور ابو کو تو کوئ اعتراض نہیں تھا کہ وہ امران سے پہلے ہی ساحر کے متعلق سب جان چکے تہے البتہ امی حیران پریشان تھی اتنے بڑے گھر سے رشتہ اس پر شادی میں جلد بازی لیکن الیشا نے ان کی الجھن بھی آسانی سے دور کردی
عیشا کو جب علم ہوا تو اس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا دادی کو اپنے پوتے کی شادی کیلئے منانے کے آئیڈیا دینے والی وہی تو تھی اور دادی کو صلاح دیتے دیتے اس نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تھی سب ہی اس رشتے سے خوش تھے لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار اسے دیا گیا تھا دادی نے بھی اس سے بات کرکے کافی سمجھایا تھا لیکن اس کی مرضی کے آگے زبردستی نہیں کی وہ تو شادی کرنے سے انکاری تھی حالانکہ یہ بات جانتی تھی کے اس کا انکار کوئی معنی نہیں رکھتا اور ایک دن یہ سب ہونا ہی ہے لیکن اتنی اچانک اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا الیشا اور امران نے دو ہی دنوں میں ساحر کے قصے اور تعریفیں سنا سنا کر اس کا سر پکادیا تھا وہ تو صاف صاف انکار کردینا چاہتی تھوڑا لیکن سب کی خوشی اور دادی کی خواہش کے لیے سوچنے پر مجبور ہو گئی
****************************
دادو آپ نے بلایا
وہ اندر داخل ہوا تو دادی تیار ہوکر صوفے پر بیٹھی تھی
میں عیشا کے گھر جارہی ہوں------ شادی کی تاریخ لینے تم بھی میرے ساتھ چلو
میں ابھی جاکر کیا کرو دادو---- شادی پر اونگا انشاء اللہ
وہ ان کے بازو بیٹھ کر شرارت سے بولا دادی نے گھورتے ہوے اس کے سر پر چپت لگائ
بدتمیز-----.شادی سے پہلے ایک بار عیشا سے مل تو لو
نہیں دادی اس کی کوئ ضرورت نہیں ہے اپ جایئے------ چاہے تو امران اور الیشا بھابہی کو ساتھ لے لیں
ارے ضرورت کیسے نہیں کیا بناء ملے بناء دیکھے شادی کرلو گے ایک بار تو مل لو اس سے
ساحر کیا تم صرف میری خوشی کے لیئے مجبور ہوکر یہ شادی کررہے ہو تمہاری کوئ مرضی نہیں
ایسا کچھ نہیں ہے دادو------ نہ میں مجبور ہوں نا آپ کے فیصلے سے مجھے کوئ ناراضگی ہے اور میں انکار نہیں کر رہا ہوں اس لڑکی سےملنے پر ------بس اس کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا ------*کیونکہ میں جانتا ہوں اپ نے میرے لئے جسے چنا ہے وہ میری امید سے کہیں زیادہ اچھی ہوگی----- اور میرے لئے تو اتنا ہی کافی ہے تسسلی کے لیے-------- ہاں اگر وہ مجھ سے ملنا چاہے تو پوچھ لیجیے گا مل لونگا
دادی نے اسے پیار سے دیکھا اور بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی
عیشا کے ہاں کہتے ہی ان کا بس نہیں چل رہا تھا اگلے ہی دن وہاں جاکر تاریخ طے کر آئ انہوں نے تو کافی کوشش کی تھی کہ شادی اگلے ہفتے میں ہو جاے مگر یوسف علی نے مزید ایک ہفتہ بعد پر اصرار کیا تو وہ انکار نہیں کر سکیں کسی بھی طرح کے لین دین سے انھوں نے سختی سے منا کر رکھا تہا پھر بھی ریحان اور ابو نے تمام رقم سے قیمتی زیورات بنا کر اپنا فرض پورا کیا تھا دادی نے عیشا کو بھی ساحر سے ملنے کی صلاح دی تھی مگر اس نے بھی آسانی سے نفی کردی وہ اس بات سے مطمئن تھی کہ اس کے ایک فیصلے سے گھر والے بے حد خوش تھے اور اسے اپنے اللہ پر بھروسہ تھا وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے گھر میں ایک رونق سی جمی تھی شادی میں بہت کم دن تھے اس لیے روزانہ ہی شاپنگ پیکنگ اور باقی انتظامات ہوتے رہتے امران اور الیشا نے بھی بھر پور حصہ لیا تھا کم وقت میں بھی سب نے مل کر بہت ہی خوبصورت انتظام کیا ریحان نےہر کام اپنی لاڈلی بہن کی پسند کو دھیان میں رکھ کر کیا تھا سارے گھر میں مہمانوں کی آمد سے چہل پہل شروع ہوگی تھی ہر طرف خوشی کا ماحول بناہوا تھا دوسری طرف دادی بھی ساحرکے بہرپور احتجاج کے باوجود ساری رسمیں زور شور سے پوری کررہی تھی ہلدی اور مہندی لگانے میں بھی انہوں نے اس کے غصے کو خاطر میں نا لیا وہ بس منہ بنا کر رہ گیا ساحر کے کچھ فرینڈز اور رشتےدار دو دن پہلے سے ہی آئے ہوئے تھے سارے گھر میں خاص سجاوٹ کی گئی تھی ناچنا گانا بڑے زوروں شوروں سے جاری تھی عمران اور الیشا بھی ہر رسم میں موجود ہوتے تھے دادی کی طبیعت تو پہلے ہی بہتر ہوگئی تھی اور اب جیسے اُنہیں نئی زندگی مل گئی ہے
**************************
ساحر نے بیک ویو مرر سے ایک نظر پچھلی سیٹ پر ڈالی سرخ رنگ کےلہنگے میں جو دادی نے اس کے لئے پسند کیا تھا چہرہ چہپاے شاید وہ اب بھی آنسو بہانے میں مصروف تھی کیونکہ گاڑی کے پرسکون ماحول میں اس کی ہلکی ہلکی ہچکیاں اسانی سے سنی جاسکتی تھی دادی اس کا ہاتھ تہامے اپنے ساتھ لگاکر بیٹھی تھی
یہ آخر اتنا رو کیوں رہی ہے رونا تو مجھے چاہئے
اس نے دل میں سوچااور نظریں پہیر کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا گرمی کا موسم تھا اس لئے شادی کا فنکشن رات کا رکھا گیا تھا رخصتی ہوتے ہوتے کا کافی وقت ہوگی تھا گاڑی جیسے ہی پورچ کے نیچے رکی وہاں موجود مہمان عیشا اور دادی کو اندر لے آۓ جبکہ وہ اب بھی کار کے بو نٹ سے ٹیک لگاے کھڑا رہا آف وھائٹ سلوار سوٹ پر بلیک صافہ باندھے کلین شیو کئے دادی کی خواہش پر آنکھوں میں سرمہ لگاے اس وقت وہ ہمیشہ سے بے حد مختلف لگ رہا تھا شادی کے شور شرابے سے اس کا سر درد کرنے لگا تھا
یار تمہارا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے--- شادی ہوی ہے مگر تم زرا بھی خوش نظر نہیں ارہے
امران نے شرارت سے کہتے ہوے خود بھی اس کے پاس کہڑا ہو گیا
اب کیا بھنگڑا کرکے اپنی خوشی دکھاوں
اس نے جل کر پوچھا
نہیں خیر اب ایسا بہی مت کرنا ورنہ لوگ کہیں گے لڑکا خوشی کے مارے پاگل ہی ہو گیا
وہ ہنسنے لگا
امران میں آلریڑی بہت ٹینشن میں ہوں بکواس کرکے مجھے اور پریشان مت کر
ارے اس میں ٹینشن کی کیا بات ہے یار
ہاں یہ جو بیوی نام کی بلا ہے آپ نے میرے سر ڈالی ہے تو آپ کو بہلا کیا ٹینشن
اے خبرداد جو میری بہن کو بلا کہا----- جب دیکہے گا نا تب پتا چلے گا بلا ہے کہ پری ہے
ساحر چپ رہا
یہ بتا جاوید کو کال کیا تھا
دو دن سے کوشش کر رہا ہو مگر کال لگ ہی نہیں رہا------ کافی میلز بھی کئے لیکن کوئ رپلاے نہیں ملا
ڈونٹ وری میں اسے بتا دونگا.----- تو جا بہت دیر ہو رہی ہے میری سویٹ کزن کم سالی کم بھابہی جان انتظار کر رہی ہوگی اور سن---------
اس کے کان کے نزدیک آکر وہ دھیمی اواز میں کچھ کہنے لگا ساحر نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوے اسے گھورا
امران پٹ جاوگے مجھ سے
ساحر اب میں تمہاری بیوی کا کزن کم بہنوئ بھی ہو اس لئے زرا عزت کیا کرو میری سمجھے
امران نے ہنسی روک کر مصنوعی سنجیدگی سے کہا
ہاں میں تو مار مار کر عزت کرونگا تیری سالے تو بعد میں ملنا
جانتا ہوں سب ناٹک ہے اندر تو لڈو پھوٹ رہے ہیں
امران نے دور ہوتا ہوے کہا پھر بھی ساحر نے آگے بڑھ کر اس کا گریبان پکڑ لیا لیکن اپنی ہنسی نہیں روک سکا
اندر سے بلاوا انے پر دونوں اندر آگے اندر سارے کزنس نے اسے گھیر لیا امران سب سے مل کر گھر چلا گیا اور وہ کزنس کے ساتھ دیر تک بیٹھا رہا
بیڈ پر دو زانو بیٹھے وہ روم کا جائزہ لے رہی تہی جو بڑی ہی خوبصوتی سے سجایا گیا تھا دیواروں پر وھائٹ پینٹ کے ساتھ بلیو ٹچ دیا گیا تھا ایک اور دیوار کی جگہ شیشے کا سلائڈنگ ڈور تھا جو بالکونی میں کھلتا تھا اس پر وھائٹ رنگ کے ڈیزائنر پردے لگے تھے سارا سامان جدید طرز کا قیمتی اور خوبصورت تھا ہر چیز سے سامنے والے کی پسند اور حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا گلاب کےپھولوں کی خوشبو نے ماحول کو معطر کیا ہوا تھا گلاب کی پتیوں کی خوبصورتی سے سجے کنگ سائز بیڈ پر وہ پچھلے ایک گھنٹہ سے بیٹھی تھی دلہن کے روپ میں وہ بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی رونے کی وجہ سے ناک اور آنکھیں سرخ ہو رہی تہی چہرے پر بیزاری عیاں تھی شام سے وہ اپنے نازک وجود پر اتنے بھاری کپڑے اور زیور کا بوجھ برداشت کررہی تھی اس پر بھوک سے پیٹ میں درد ہونے لگا تھا کیونکہ صبح سے اس نے صرف دو گلاس جوس ہی پیا تھا حالانکہ دادی نے اسے کھانا کھانے کے لئے کئ بار کہا لیکن اس وقت وہ اپنوں کے چھوٹنے پر دل ہی دل میں رو رہی تھی اس لئے انکار کرتی رہی لیکن اب من کر رہا تھا کہ کچن میں جاکر جو سامنے نظر آۓ کھالے مگر مجبوری تھی
اپنی سوچوں میں گم تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک کرسیدھی ہوگی گھونگٹ کو اور زیادہ لمبا کھینچ لیا دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر بڑھتی دھڑکن کو روکنے کی نا کام کوشش کی ابھی وہ دروازہ بند کرکے بیڑ کے قریب بڑھا ہی تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا جانتا تھا باہر اس کے کزنس اسے پریشان کرنے کے لیے نئے نئے نمبرس سے کال کر رہے ہے فون اٹھا کر دو تین بار ہیلو کرتا رہا جواب نا پاکر ڈسکنیکٹ کر دیا اور آکر بیڑ کے کنارے پر بیٹھ گیا
اس کے اواز سن کر عیشا کو کچھ شک سا گزرا مگر اس نے اپنی غلط فہمی سمجھ کر سر جھٹک دیا
اسلام و علیکم
عیشا بیڈ کے بیچ میں بیٹھی تھی جبکہ وہ کافی فاصلہ پر پیر نیچے لٹکاے اس کے چھپے چہرے کی جانب دیکھ کر کہ رہا تھا اس نے سر کو ہلکی سی جنبش دے کر جواب دیا
ابھی وہ بات شروع کرنے کے لئے الفاظ ڑھونڈ ہی رہا تھا کہ دوبارہ موبائل شور کرنے لگا اس نے دل ہی دل میں انہیں کوسا
ہیلو
مگر دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی
دوبارہ فون کیا نا تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا
اب کے کچھ جاندار قہقہے بلند ہوے
وہی اواز وہی لہجہ عیشا کو انجانے ڈر نے گہیر لیا اس نے فوراً گھونگٹ پیچھے کر کے اس کی جانب دیکھا اور شاک رہ گئ وہی تھا اس کا واحد دشمن دوسری جانب رخ کئے فون کی بکواس سے بیزار ہوکر سیل آف کر رہا تھا
تم
اگلے ہی لمحے اس نے شاک سے نکل تصدیق کرنی چاہی ساحر نے اس اچانک حملے پر پلٹ کر دیکھا
تم
وہ بھی اسی کے انداز میں بولا
ڈونٹ ٹیل می کہ تم ساحر ہو
اسے اب بہی یہ سب ایک مزاق لگا
ہیلووو میں ہی ساحر ہوں
او گاڈ
اس نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیےکیا واقعی دنیا اتنی چھوٹی تھی اسےیقین نہیں ارہا تھا
ساحر اب بھی حیرت سے اسے دیکھتا رہا
او گاڈ
اس کہ منہ سے نکلا
کیا تم مجھے کاپی کر رہے ہو
میں کیوں تمہیں کاپی کروں میں واقعی شاکڈ ہوں تم اور میری بیوی امپاسبل
اس نے بیزاری سے کہا
او ہیلو مجھے بھی کوئ شوق نہیں ہے تمہاری بیوی بننے کا ----اگر مجھے زرا بھی آئیڈیا ہوتا نا کہ میری شادی تم سے ہو رہی ہے تو میں بیچ نکاح کے انکار کر دیتی
اب کے وہ بیڈ سے اتر کر اس کے مقابل کھڑے ہوکر انگلی دکھاتے ہوے بولی ساحر بھی کھڑے ہو گیا
اور اگر تم دنیا کی اخری لڑکی بھی ہوتی نا تو میں کنوارہ رہنا پسند کرتا مگر تم سے ہرگز شادی نا کرتا
یا اللہ---- کیا اک یہی بد تمیز لڑکا رہ گیا تھا میرے لئے
یا اللہ --کیا اک یہی بد تمیز لڑکی رہ گئ تھی میرے لئے کچھ تو رحم کرتے مجھ پر
ساحر نے اسی کے انداز میں دہرایا تو وہ مزید سلگ کر رہ گئ
میں ہی بیوقوف ہو کیا ہوجاتا اگر شادی سے پہلے ایک بار دیکھ لیتی کی کون ہے
اب کے وہ دل میں بولی
میں ہی بیوقوف ہوں کاش کے شادی سے پہلے ایک بار دیکھ لیا ہوتا تو یہ نوبت نا آتی
ساحر نے کہا تو عیشا حیران رہ گی دل میں کہی بات کو وہ کیسے کاپی کر سکتا تھا
میں اس شادی کو نہیں مانتی-----_- ابھی جاکر دادی اور سب کو بتادوں گی سب کچھ میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں رہ سکتی
وہ جلدی جلدی آگے بڑھی لیکن ساحر فورأ اس کے سامنے آگیا
راستہ چھوڈو میرا
تم اس وقت کسی کو کچھ نہیں بتاؤگی
تم کون ہوتے ہو مجھے ارڈر دینے والے ہٹو یہاں سے
کون ہوں کیا ہوں سب بعد میں دیکھے گے فلحال میری بات سنو
ابھی دادو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اگر یہ سب بتایا تو انہیں صدمہ پہنچے گا اور ان کی طبیعت بگڑ سکتی ہے اس لیے کچھ وقت کے لیے انتظار کرو موقع دیکھ کر میں خود دادی کو سب بتادونگا
اب کے وہ نرمی سے بولا
کب تک
عیشا کو اس کی بات صحیح لگی دادی نے اتنے ارمانو سے اسے چنا تھا بدلے میں وہ ان کی بیماری کا سبب نہیں بن سکتی تھی
صرف تھوڑا سا وقت دو مجھے
مگرمیں تمھاری بات کیوں مانوں
وہ دونوں ہاتھ باندھ کر بولی ساحر کو غصہ تو بہت آیا مگر دادی کے لئے ضبط کرلیا
کیوں کہ جہاں تک میرا خیال ہے تمہارے لیے بھی دادی کچھ معنی رکھتی ہے تو ان کی خاطر اتنا تو کر ہی سکتی ہو اور تمہاری فیمیلی کیا انہیں تکلیف نہیں ہوگی اگر یوں اچانک شادی والے دن ہی شادی ٹوٹ گئ تو جسٹ تھنک اباؤٹ دھیٹ
اس. نے یہ شادی دادی کی خواہش پر کی تھی اور اب بھی ان کا سوچ رہا تھا
اوکے لیکن صرف دو مہینے اس کے فورأ بعد تم مجھے بنا کسی احتجاج کے طلاق دے دوگے
ساحر اسے دیکھتا رہ گیا کس بے شرمی سے وہ اپنے ہی لیے طلاق مانگ رہی تھی
ہاں ٹھیک ہے دےدوں گا-------- مگر تب تک تم کسی سے کچھ نہیں کہوگی دادی کو بلکل بھی محسوس نہیں ہونے دوگی کے ہمارے بیچ کوئ پرابلم ہے اوکے
وہ جتاتے ہوے بولا
اوکے------ مگر میری ایک شرط ہے
وہ کچھ سوچ کر بولی
کیا شرط ہے
میں تمہارے ساتھ اس ایک کمرے میں نہیں رہ سکتی-- تم اپنا انتظام کہیں اور کرلو
وہاٹ--------- ار یو میڈ یہ میرا گھر میرا بیڈروم ہے----- تم مجھے ہی یہاں سے جانے کو کہ رہی ہو
کافی دیر سے ضبط کر رہا تھا مگر عیشا کی بات پر اسے بےحد غصہ آیا
تو میں کوئ اور روم لے لونگی لیکن تمہارے ساتھ نہیں رہوں گی
وہ دوبارہ اگے بڑھنے لگی ساحر پھرسامنے اگیا
اگر ہم اس طرح الگ الگ روم میں رہے گے تو دادی کو پتا چل جاے گا وہ کیا سوچییں گی. ایک کام کرو تم یہاں بیڈ پر سوجاؤ میں صوفے پر ایڈجسکٹ کر لونگا اوکے
من تو کر رہا تھا کہ اسے اٹھاکر باہر پھینک دے مگر اس وقت اس کی باتیں مان لینا مجبوری تھی ورنہ اس کے کسی عمل سے گھر میں موجود مہمان بھی باتیں بناتے
ٹھیک ہے.
ساحر نے ایک سکون کا سانس لیا اور واش روم میں چلا گیاعیشا بھی ڑریسنگ ٹیبل کے پاس اگئ سارے زیورات سے خود کو آزاد کرکے سکون کا سانس لیا اوپری دوپٹّہ نکال کر بیڈ پر ڈالا پیٹ درد زیادہ ہونے لگا تھا اس لئے اب کھانا کھانا ضروری ہو گیا تھا یہ سوچ کر دروازے کی جانب بڑھی
اب کہاں جارہی ہو تم
ابھی ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا تبھی ساحر واش روم سے نکلا اسے باہر جاتے دیکھ کر جلدی سے پوچھا کہ اب اسے باہر جانے کی کیا سوجھی
بھوک لگی ہے مجھے----- کچن میں جارہی ہوں کچھ کھانے
اس نے منہ پھلا کر کہا ساحر نے اسے بغور دیکہا اور سوچنے لگا
کیسی لڑکی ہے زرا خیال نہیں اسے کہ یہ ابھی ابھی دلہن بن کر یہاں آئ ہے رات کے تین بجے اگر یوں کھانے کے لیے باہر نکلے گی تو لوگ کیا سوچے گے
اس کے لیے تمہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے جو چاہئے یہی منگوالو
وہ انٹر کام پر فروٹس کا کہہ کر واش روم کی جانب بڑھ گئ
ساحر صوفے پر آکر لیٹ گیا اس کے لیے یہاں سونا کافی تکلیف دہ تھا اس کے قد کے مقابلے صوفہ کچھ چھوٹا تھا مگر اس وقت مجبوری تھی بلیک ٹراؤزر پر سکاے بلیو شرٹ پہنے چند بال ماتہے پر بکہرے ہوے لب بہینچے وہ اس وقت بھی عیشا کے رویے کو ہی سوچ رہا تھا جب وہ باہر آئ بلیک سلوار پر بلیک ہی ڈھیلی سی گھٹنے کے اوپر تک آتی ٹی شرٹ پہنے کاندھے پر دوپٹہ ڈالے دھلے دھلے چہرے کے ساتھ بال کو کلچر میں باندھے ہوے وہ اپنی دھن میں بیڈ شیٹ سے پتیاں ہٹا رہی تھی ساحر بنا پلک جھپکاے اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ تو پہلے بھی اس کی خوبصورتی کا متعارف تھا مگر سوچا نہیں تھا کہ ایک دن اسے اپنے روم میں اتنے قریب سے دیکھے گا اس کی محویت ٹوٹی جب دروازے پر دستک ہوئ عیشا کو اشارہ سے روک کر وہ آگے بڑھا ہلکا سا دروازہ کھولا اور ٹرے لیکر اندر اگیا وہ بلکل نہیں چاہتا تھا کہ کوئ بھی کچھ نوٹ کرے یا غلط مطلب لے
ٹرے میز پر رکھ کر دوبارہ صوفے پر لیٹ گیا تھکان اتنی تھی کہ بے ارام جگہ ہونے باوجود ٹھوڈی ہی دیر میں اسے نیند اگئ
*************************** ساری رات وہ سو نہیں پائ ایک تو نئی جگہ اس پر دماغ میں چلتی کشمکش کروٹیں لے لے کر تھک گئ تو اٹھ کر ٹائم دیکھا فجر کا وقت ہوچکا تھا اس نے ایک نظر سامنے صوفے پر سکون سے سوتے ساحر پر ڈالی اور وضو کرنے چلی گئ نماز پڑھ کر دعا مانگی اور قران مجید پڑھنے لگی صوفے پر نظر ڈالی تو وہ خالی تھا شاید واش روم گیا ہو وہ پڑھنے میں محو ہوگی اسے کافی سکون محسوس ہورہا تھا تھوڑی دیر پڑھ کر اس نے قران مجید بند کردیا کیونکہ ساری رات جاگتی رہی تھی اس لیے تھوڑی دیر سونا ضروری تھا کیونکہ اج ولیمہ تھا اور پھر اسے شاید سکون سے بیٹھنے کا بھی وقت ملنا مشکل تھا وہ بیڈ پر آئ صوفہ اب بہی خالی تھا شاید وہ ابھی تک واش روم میں ہی تھا سوچ کر وہ لیٹ گئ تب ہی روم کا دروازہ دھیرے سے کھول کر وہ اندر آیا ایک سرسری نظر عیشا پر ڈالی ٹوپی اتار کر ڈراور میں رکھی اور صوفے پر لیٹ کر آنکھیں موندیے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا
تم نماز بھی پڑھتے ہو
عیشا جو حیران تھی ایک دم پوچھ بیٹھی
اس نے پہلے تو سوچا کیا واقعی وہ پوچھ رہی تھی
کیوں کوئ شک ہے تمہیں ماشاء اللہ چار وقت کی پڑھ ہی لیتا ہوں
چار وقت کی کیوں
اس نے حیرت سے پوچھا
کیونکہ کسی نا کسی وجہ سے ایک نماز چھوٹ ہی جاتی ہے زیادہ تر فجر نہیں پڑھ پاتا اور عشاء بھی اکثر ناغہ ہو جاتی ہے
وہ بلکل ایسے بات کررہے تھے جیسے ان کے بیچ کبھی کچھ تلخ تھا ہی نہیں ساحر کہ کر کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا
کیا رات کو تمہیں ٹھیک سے نیند نہیں آئ
اس کی نیند گہری نہیں تھی اس نے محسوس کیا تھا کے وہ بار بار کروٹ بدل رہی ہے اس نے ہمت کرکے پوچھ لیا مگر کوئ جواب نہیں آیا اس جانب دیکھا تو وہ سو چکی تھی سوتے ہوے وہ کسے معصوم بچے کی طرح لگ رہی تھی صوفہ بیڈ کے سائیڈ والے حصے کے سامنے تھا اورعیشا کا رخ اسی طرف تھا اسے دیکھتے ہوے وہ دوبارہ نیند کی وادی میں چلا گیا
****************************
بڑے ہی عالیشان طریقے سے ولیمہ کا اہتمام کیا گیا تھا مرد عورتوں کی مشترقہ تقریب تھی خوبصورتی سے سجاے گئے سٹیج پر وہ دونوں ایک ساتھ ایک خوبصورت صوفے پر بیٹھے تھے دونوں کو دیکھ کر کوئ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا ان کے درمیان کوئ تلخی ہے پاس ہی ایک صوفہ چیئر پر دادی بار بار دونوں کی بلاے لینے میں مصروف تھی ساحر اج قیمتی بلیک سوٹ میں بالوں کو ہمیشہ کی طرح سیٹ کئے کلین شیو میں چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے مہمانون سے مبارکباد وصول کر رہا تھا تو عیشا بھی خوبصورت فل آستین کے وھائٹ گاؤن میں بالوں کو جوڑے میں باندھے ڈائمنڈ سیٹ پہنے میک اپ میں کسی پری کی مانند سج رہی تھی تقریب میں بڑی بڑی ہستیاں شامل تھی اور ہر کوئ عیشا کی خوبصورتی کی تعریف کر رہا تھا اور دونوں کی جوڑی کو سراہ رہا تھا امی ابو سے مل کر وہ دوبارہ اداس ہوگی تھی لیکن اگلے ہی پل ریحان نے اسے ہنساکر ہنساکر بیزار کر دیا تھا فائزہ بھی اسے باقائدہ چھیڑ رہی تھی سارے مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد سب گھروالوں نے ساتھ کھانا کھایا اور دیر تک باتیں کرتے رہے ساحر بھی دوستوں میں گھرا رہا اور ان کے بے تکے سوالوں اور چھیڑ چھاڑ سہتا رہا ایک بجے کے قریب سب ہی چلے گئے تو دادی نے عیشا کو روم بھجوا کر خود بھی آرام کرنے چلی گئ
ساحر جب روم میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا وہ رو رہی تھی بلیک سلوار پر ریڈ کرتی پہنے دوپٹہ گلے میں ڈالے دھلا دھلا بے داغ چہرہ لیمپ کی مدھم روشنی میں اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا بالوں کی ڈھیلی چوٹی بناکر آگے کو ڈالی ہوئ تھی رونے سے خوبصورت آنکھیں سرخ ہورہی تھی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاے بیٹھی بار بار ہاتھ کی پشت سے انسو صاف کرتی ایک نظر ساحر پر ڈال کر دوبارہ پہیر لی ساحر کو اسے یوں روتے دیکھ کر تکلیف ہوئ شاید اس لئے کے اس کے رونے کی وجہ وہ تھا مگر بناء کچھ کہے وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا جانتا تھا اگر کچھ کہا تو ہنگامہ کریگی
چینج کرکے ڈارک بلیو نائٹ پینٹ پر آف وھائٹ ٹی شرٹ پہنے جب وہ باہر آیا تو وہ اب بھی رونے میں مصروف تھی وہ آکر صوفے پر بیٹھ گیا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا
کیا ہوا----- تم---- رو کیوں رہی ہو
اخر اس نے پوچھ ہی لیا عیشا نے پہلے تو اسے غصے سے گھور کر دیکھا
میری مرضی رؤں یا ہنسوں تمہیں اس سے کیا تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے
وہ غصےّ سے بولی
عجیب لڑکی ہو یار ہر سیدھے سوال کا الٹا جواب دیتی ہو------- کوئ رو رہا ہے تو وجہ جاننے کے لئے کوئ ہونا ضروری نہیں ہے انسانیت نام کی بھی کوئ چیز ہوتی ہے
اس نے کوئی پر زور دیا
اپنی یہ انسانیت اور یہ جھوٹی ہمدردی اپنے پاس رکھو-- کسی اور کے کام آۓ گی----- مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے سمجھے
وہ زور کی آواز میں بولی
دھیرے بولو دنیا کو سنانے کی ضرورت نہیں ہے-------- میں ہی بیوقوف ہوں جو خواہ مخواہ تم سے الجھ رہا ہوں------ روتی رہو مجھے کیا
بے نیازی دکھاتے ہوے اس نے لیٹ کر آنکھیں موند لی
ہر وقت ایک ہی ڈائلاگ تم کون ہوتے ہو تم کون ہوتے ہو------ بیوقوف
سوچ کر اس نے کروٹ بدل لی لیکن سسکیوں نے دیر تک اسے سونے نہیں دیا
****************************
وہ تیار ہوکر نیچے آیا تو دادی اور عیشا پارک سے واپس اکر ڈائنگ ٹیبل پر باتوں میں مصروف تھی وہ ہمیشہ جس کرسی پر بیٹھتا تھا اج وہ اسی پر بیٹھی تھی اسلیے وہ اس کے مقابل دادی کی بائیں جانب بیٹھ گیا اور ایک ہاتھ سے موبائل میں میسیج چیک کرتے ہوے خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا
ساحر عیشا کو کالج جانا ہے اسے چھوڑ دو اور گھر بھی لے انا
دادی نے رخ اس کی جانب کیا اور حکم نامہ جاری کیا
دادو ڈرائیور ہے نا------- اسے ٹائمنگ بتا دیں پک اینڑ ڑراپ کر دے گا
بے نیازی سے کہتے ہوے وہ سینڈوچ کھانے لگا نظریں اب بھی موبائل پر تھی
بیٹا بیوی شوہر کی زمہ داری ہوتی ہے ڈرائیور کی نہیں
دادو-------
انکی جانب دیکھتے ہوے اس نے کچھ کہنا چاہا
بس کچھ نہیں اج سے تم ہی اسے کالج لے جاؤگے اور لاؤگے یہ میرا ارڈر ہے
انھونے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا
اگر آپ کے جیسی دادی ہو نا تو آدمی کو کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں------- اب یہ بھی کرنا ہوگا
کہ کر وہ جوس پینے لگا دادی نے اسے غصے سے دیکھا اور دوبارہ ناشتہ کرنے لگیں
اور کہیں باہر گھومنے لے جا اسے بیچاری گھر میں بیٹھی بیٹھی بور ہو رہی ہوگی
انھوں نے یاد آنے پر فورأ کہا
نہیں دادی مجھے کہیں نہیں جانا اور آپ کے ہوتے ہوے میں بور ہوسکتی ہوں کیا
اس کے کچھ کہنے سے پہلے عیشا بول پڑی
دادی نے پیار سے اس کا گال تھپتھپایا
بوریت دور کرنے کا ایک سولوشن ہے
وہ موبائل پر نظریں جمائے کہنے لگا
کیا
اگر آپ کہے تو ایک سوتن لے آؤں
دونوں نے اسے غصے سے دیکھا جو بے نیازی سے جوس پی رہا تھا
لڑائی میں وقت کا پتہ بھی نہیں چلیگا
چپ بدتمیز کچھ بھی بکتے رہتے ہو خبردار جو آئندہ ایسی بات کی
وہ خاموش ہوگیا عیشا رخ موڈ کر دوبارہ دادی کی جانب متوجہ ہو گئی
اگر تمہاری باتیں ختم ہوگی ہو تو اب چلیں
وہ پانی پی کر کھڑا ہوگیا عیشا نے اسے گھور کر دیکھا اور دادی سے گلے ملی بدلے میں انہونےاس کا ماتہا چوما بیگ لینے کا کہ کر وہ اوپر چلی گئ دادی نے ساحر کا ہاتھ پکڑ کر اسے کرسی پر بیٹھایا اور اس کا کان مروڑا
بہت بد تمیز ہو تم
وہ معصوم سے شکل بنا کر ان کے گلے لگ گیا عیشا نیچے آئ تو ساحر نے انہیں ڑھیر ساری ہدایات دی اور دونوں خدا حافظ کہتے ہوے باہر آگے سارا راستہ دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی ساحر نے بھی کوشش نہیں کی
اس نے گاڑی کالج کے گیٹ کے پاس روک دی عیشا کے اندر جانے تک وہیں کھڑا رہا اور پہر آگے بڑھ گیا
اپنے کیبن میں داخل ہوتے ہی کسی نے اس پر پیپر ویٹ سے وار کیا وہ فوراً سائڈ میں ہوا پیپر ویٹ دروازے پر لگ کر کانچ توڑ گیا ورنہ شاید اس کا سر پھوڑ دیتا
سالے کمینے اج تجھے نہیں چھوڑونگا
جاوید نے پانی کا گلاس اٹھایا ساحر نے دوڑ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا
میرے بھائی کیا کر رہا ہے---- چار دن پہلے شادی ہوئ ہے کیوں میری بیوی کو بیوہ کرنا چاہتا ہے----- سکون سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں نا
ساحر نے گلاس لے کر دوبارہ میز پر رکھا
سالے تیری شادی کی خبر مجھے لوگوں سے مل رہی ہے اور تو سکون سے بیٹھنے کو کہ رہا ہے---------- بے شرم آدمی کیا یہ سچ ہے
اب کے اس نے ساحر کالر پکڑ کر کھینچا
سب بتاتا ہوں یار------ تو بیٹھ تو سہی
ساحر نے مشکل سے اسے بٹھاکر خود اس کے نزدیک بیٹھ گیا اور اسے بتایا کہ کس طرح دادی کی خواہش پر اسے یوں فوری شادی کرنا پڑا اور اس نے کئ بار رابطہ کرنے کی کوشش کی
کل جب میں گھر پہنچا اخبار میں یہ خبر پڑھی -------بہت غصہ ایا تجھ پر چل تو تو مصروف تھا مگر امران نے بھی کچھ نہیں بتایا
اس نے بھی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تو --------
اچھا اس کی چھوڑ مجھے اپنی بھابھی کے بارے میں بتا کون ہے
تو شاید اسے جانتا ہے
ساحر نے سوچتے ہوے کہا
اچھا---کون ہے----- کہیں وہ روبی تو نہیں
اس نے ساحر کی ایک دوست کا نام لیا
روبی--------میں اس میک اپ کی دکان سے شادی کرونگا--------- کچھ تو میری پرسنالیٹی کا خیال کر کے بولتا
اب سبپپینس مت بڑھا--- جلدی بول کون ہے
الیشا بھابہی کی بہن----- عیشا
عیشا-------ریحان کی بہن عیشا
جاوید نے اسے بے یقینی سے دیکہا
ہاں وہی -------ون منٹ
اس کا موبائل رنگ کیا تو وہ بات کرنے لگا جاوید شاکی کیفیت میں اسے ہی دیکھتا رہا دس منٹ تک بات کرنے کے بعد وہ دوبارہ اس کی جانب مڑا
کیا سوچ رہا ہے
کچھ نہیں اللہ مہربان ہے تجھ پر
اس کا لہجہ دھیما تھا دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے جاوید کام کا کہ کر اٹھ گیا اور وہ بھی لیپ ٹاپ آن کرکے کام میں بزی ہوگیا
****************************
سونے کی کوشش کرتے کرتے عاجز آکر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ایک نظر ارام سے سوتی عیشا پر ڈالی کاندھے تک بلینکٹ اوڑھے اس کا معصوم چہرہ بہت پر کشش لگ رہا تھا لیکن ساحر کو اس پر بہت غصہ آرہا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنے ہی روم میں صوفے پر بے ارام سونا پڑرہا تھا اج وہ دیر تک افس میں خوار ہوتا رہا اور اب گھر میں بھی سکون سے نہیں سو پا رہا تھا
اگر میں چین سے نہیں سو سکتا نا تو اسے بھی نہیں سونے دوگا
عیشا کی جانب دیکھتے ہوے اس نے دھیرے سے کہا اور ارد گرد نظر دوڈای میز پر اسے ریموٹ نظر آیا اٹھا کر ٹی وی آن کیا اور والیوم فل کر دیا عیشا کی نیند کچی نہیں تھی لیکن شور اتنا تھا کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور صورت حال کو سمجھنے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگی ساحر نے والیوم تھوڑا کم کیا اور بے نیازی سے ٹی وی دیکھنے لگا مگر دھیان سارا دوسری طرف تھا
یہ کیا کر رہے ہو تم
عیشا نے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوے پوچھا
اندھی ہو کیا جو دکھائ نہیں دے رہا ٹی وی دیکھ رہا ہوں
اس کے لہجے سے اس کا غصہ ظاہر تھا
یہ کونسا وقت ہے ٹی وی دیکھنے کا اور وہ بھی اتنی تیز آواز میں
اس نے ایک ہاتھ کان پر رکھتے ہوے کہا
میری نیند حرام کرکے خود تو ارام سے میرے بستر پر سو رہی ہو--- اب کیا ٹی وی دیکھنے کے لیے بھی تمہارے اجازت لینی پڑے گی
میں اس وقت تم سے کوئ بحس نہیں کرنا چاہتی فوراً اسے بند کرو مجھے سونا ہے
سوری ملکہ عالیہ یہ تو ممکن نہیں
بے نیازی سے کہ کر اس نے والیوم دوبارہ فل کیا
اگر تم نے فوراً ٹی وی آف نہیں کیا تو میں ابھی کے ابھی دادی سے جاکر کہونگی کہ میں اپکے نالئق پوتے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور مجھے اسی وقت اس سے طلاق چاہہے
زور سے چیخ کر کہا
اس کی بات پر وہ فورا اٹھ کر اس کے قریب آیا
کیسی لڑکی ہو تم لڑکیاں تو طلاق کا لفظ استعمال کرنے سے بہی ڈرتی ہے اور تم اس قدر بے شرمی سے------
اگر تمہاری جگہ کوئ اور ہوتا نا تو میں بھی انہیں لڑکیوں کی طرح سوچتی مگر تمہارے ساتھ رہنے سے بہتر میں مرنا پسند کرونگی
عیشا نے اس کی بات کاٹ دی
تو میں کونسا تمہارے پیر پڑرہا ہوں کہ میرے ساتھ رہو بلکہ جلدی دفع ہو جاؤ تو جان چھوٹے میری
اس نے ہاتھ جوڈتے ہوے کہا
تمہیں رات کے اس پہر لوگوں سے لڑنے کا واہیات شوق ہوگا لیکن مجھے نہیں ہے------ تم ٹی وی بند کر رہے ہو یا میں جاوں دادی کو بتانے
اگر دادی کا خیال نہیں ہوتا نا تو تمہیں بتاتا
ریموٹ لے کر ٹی وی بند کیا اور زور سے دیوار پر دے مارا عیشا نے بے نیازی سے اس جانب دیکہا اور واپس آکر سوگئ
اگر مجھے ایک خون معاف ہوتا نا تو میں اس کی جان لے لیتا
عیشا کو دیکھ کر اس نے دانت پیس کر کہا جو اپنی جیت پر مسکرا کر خود کو شاباشی کہ رہی تھی
****************************
رات دیر سے نیند آئ اس وجہ سے وہ ابھی تک ارام سے سویا ہوا تھا اچانک اسے اپنے اوپر ٹھنڈے پانی کے بوند گرتے محسوس ہوے بیزاری سے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور دوبارہ سوگیا ٹھیک ایک منٹ بعد دوبارہ سے چہرے پر ہلکی بارش ہوی اور دو سیکنڈ میں تھم گئ اس نے جھنجلا کر آنکھیں کھولی عیشا ڈریسنگ ٹیبل کے اگے آنکھوں میں کاجل لگانے میں مصروف تھی خوبصورت آنکھیں ہلکا سا کاجل لگانے پر اور زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی وہ اسے دیکھے گیا نیند جیسے اچانک کہیں غائب ہوگئ تھی لائٹ بلیو جینس پر یلو لانگ کرتی پہنے دوپٹے کو ایک کاندھے پر پہیلا کر پن اپ کئے کاجل کے بعد اس نے گولڈ چین گلے میں پہنی اور ہاتھ سے بالوں کو پیچھے ڈالا تو ایک بار پھر سے ڈھیر ساری بارش نے ساحر کا چہرہ بھگودیا وہ اپنے خوبصورتی سے سٹیپ کٹ کئے گئے بالوں میں برش کر کے انہیں سلجھانے لگی ساحر نے دوبارہ آنکھیں موند لی ہر دفعہ ایسا ہی ہوتا اس کی تمام باتیں بدتمیزیاں بہول کر وہ اسے یونہی دیکھنے پر مجبور ہو جاتا لیکن آنکھوں کی بات دل تک پہنچنے سے پہلے خود پر قابو پالیتا اور اس وقت بھی وہ اسی کوشش میں تھا
آج انہیں ریحان نے لنچ کے لیے گھر پر انوایٹ کیا تھا اس نے تیار ہوکر آئنے میں اپنا جائزہ لیا ساحر کو اب تک سوتا دیکھ اسے بے حد غصہ آیا کیونکہ دادی رات کو ہی دس بار کہ چکی تھی کہ صبح جلدی جانا ہے وہ صوفے کے قریب آئ لیکن اسے آواز بھی دینا گوارہ نہ ہوا موبائل میں الارم سیٹ کرکے اس کے کان کے قریب رکھ دیا ایک منٹ میں الارام کے شور پر وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور موبائل کو زمین پر پہینک دیا جس سے وہ تین حصوں میں ادھر ادھر بکھر گیا
تم کر کیا رہی تھی
وہ جاگ ہی رہا تھا اس لئے اس اچانک حملے پر پریشان ہو گیا
تمہیں جگا رہی تھی----- اور کیا ------اور تم نے میرا فون توڈ دیا
فون کی جگہ تم بھی ہوتی نا تو یہی کرتا-------- یہ کونسا گھٹیا طریقہ ہے کسی کو جگانے کا
دادی نے تم سے کہا تھا اج صبح جلدی تیار ہونا------- اور تم اب تک ارام سے سو رہے ہو
اوہ ہاں دادو سے کہو میں ادھے گھنٹے میں تیار ہوکر ارہا ہوں
اور میرا فون
شام تک تمہیں نیا فون مل جایگا
نہیں مجھے نیا نہیں چاہئے----- بس اسے ٹھیک کروادو
ساحر نے اسے یوں دیکہا جیسے کہیں کسی اور دنیا کی مخلوق تو نہیں
مجھے تمہارا کوئ احسان نہیں چاہئے
اس کی نظریں پڑھنے میں عیشا کو چند سیکنڈ لگے تھے
اوہ----- میں تو بہول ہی گیا تھا کہ میں ملکہ عالیہ سے مخاطب ہوں ------- جو حکم ملکہ غلام حاضر ہے
اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر طنز کیا
زیادہ بکواس مت کرو پہلے ہی بہت دیر ہو رہی ہے
کہ کر وہ روم سے باہر نکل گئ ساحر تاسف سے سر ہلا کر رہ گیا
پوری دنیا میں بس ایک ہی پیس ہے
******************************
ایک گھنٹے بعد وہ تینوں جانے کے لئے تیار تھے ساحر نے دونوں کو بیک سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اس کی عادت تھی جب بھی کہیں جانا ہو وہ گاڑی خود ڈرائیو کرتا
شادی کے بعد پہلی بار اپنے گھر جانے پر وہ بے حد خوش تھی دادی کو لطیفے سنا کر ہنساتی تو کبھی بچپن کی شرارتوں کے قصے لے کر بیٹھ جاتی ساحر خاموشی سے ان دونوں کی باتوں کو اگنور کرتا ڈرائیونگ کرتا رہا اج اس نے وھائٹ جینس پر ڈارک بلیو شرٹ پہنا ہو تھا بال اپنے خاص انداز میں سیٹ کیے اور آنکھوں پر کالے گلاسس لگائے سب سے خاص اس کا پرفیوم تھا جو پوری گاڈی کو مہکا رہا تھا ہونٹوں پر سیٹی بجاتے ہوے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کن انکھیوں سے بیک ویو مرر میں دیکہتا جس میں عیشا کی جھلک دکھائ دے رہی تھی جو کبھی ہنستی ہوی تو کبھی بنا رکے بولتی اس کا دھیان بھٹکارہی تھی
گاڑی گھر کے آگے پارک کرکے تینوں اندر آۓ سب ہی ڈراینگ روم میں بیٹھے ان کے منتظر تھے الیشا اور امران بھی وہیں موجود تھے
سب نے مل کر تینوں کا پرجوش استقبال کیا سب ہی ایک ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے سے حال احوال دریافت کرنے لگے عیشا الیشا اور فائزہ کچن میں اگئ امران ریحان اور ساحر ایک جانب صوفے پر بیٹھ گے دوسری طرف امی ابو دادی کے ساتھ بیٹھے تھے ساحر زیادہ سے زیادہ خاموش ہی رہا اس کا سارا دھیان اپنی دادی پر تھا جو عیشا کی تعریف پر تعریف کیے جا رہی تھی ان کے لہجے سے ان کی خوشی کا اسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا جہاں وہ انہیں یوں دیکھ کر خوش تھا وہیں فکر مند بھی
کتنا دکھ ہوگا دادی کو جب انہیں پتا چلے گا کہ وہ ہمارے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی--- ان سب لوگوں کے سامنے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی انہیں-- اس سے کہہ تو دیا ہے مگر میں دادی کو کیسے بتاونگا کہ ان کی ساری خوشی بس وقتی تھی مستقل نہیں------- بس ایک نام کا رشتہ ہے----- جو قائم بھی ہے تو ختم ہونے کی شرط پر------------ لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسا کبھی ہو ہی نا شاید وہ.............
ساحر
مسلسل دادی کو دیکھتے ہوے یہی سب سوچ رہا تھا جب ریحان کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائ
کیا ہوا تمہیں کچھ چاہئے کیا
نہیں ریحان بھائی شکریہ
اسے اپنی بے خیالی پر بہت شرمندگی ہوئ
سوری ساحر شاید تم یہاں کچھ انکمفرٹیبل ہو
یہ اپ کیا کہ رہے ہو ------پلیز ایسا کچھ نہیں ہے------ میرے لئے یہ بھی میرا گھر ہی ہے
ریحان تم یہ فارمیلیٹی والی باتیں کرتے ہو نا تو قسم سے بلکل داداجی لگتے ہو------ بے فکر رہو یار اللہ نے تمہیں بہت ہی اچھے اور نیک دل داماد دیے ہیں------- کیوں ساحر
امران کی بات ساحر دھیرے سے ہنس دیا جبکہ ریحان نے اسے غصے سے گھورا
اسی طرح ہنسی مزاق کے درمیان سب نے کھانا کھایا فائزہ اور ریحان نے اپنی طرف سے سب کو تحفے دیے
جاتے وقت بھی ساحر نے خوشدلی سےسب کے گلے مل کر شکریہ ادا کیا وہ واقعی ان سب کے ساتھ اپنا پن محسوس کر رہا تھا
****************************
آج وہ لیٹ گھر پہنچا تھا دادی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پر ٹیک لگاے بیٹھیں تھیں عیشا ان کے پیروں پر سر رکھے سکون سے سو رہی تھی اور دادی اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوے دھیمی اواز میں کچھ کہ رہی تھیں اس نے موبائل نکال کر چار پانچ تصویریں لے لی اور ہاتھ سینے پر باندھے چوکھٹ سے ٹیک لگاے کھڑا ہوکر اس خوبصورت منظر کو دیکھتا رہا
دادی کی ساری زمہ داری عیشا نے اپنے اوپر لے لی تھی صبح انہیں پارک لے جانا اپنے ہاتھ سے انہیں وقت پر دوائ کھلانا اس کا معمول تھا ان کا پورا خیال رکھتی اپنی باتوں سے ہنساتی رہتی ان کے کھانے میں پرہیز کا پورا پورا دھیان رکھتی سارے کچن کا مینو سلیکٹ کرنا اس کا زمہ تھا لیکن اج تک اس نے خود کچن کا رخ نہیں کیا تھا دوپہر کا کھانا کالج سے آکر اکیلی کہاتی لیکن ناشتہ اور ڈنر دادی کے ساتھ ہی ہوتا تھا ساحر بھی صرف لنچ ہی باہر کرتا تھا دادی کے سونے تک ان کے پاس بیٹھی قصے کہانیاں سناتی اور خود بھی سنتی ان کے سونے کے بعد ہی خود سونا اس کی عادت تھی سونے سے پہلے بھی ملازموں کو ہدایت دیکر ہی روم میں آتی اس کے کسی عمل میں زرا بھی بناوٹ نہیں تھی وہ جو بھی کرتی پورے خلوص کے ساتھ کرتی بنا کسی دکھاوے بنا کسی لالچ کے شاید اسی لئے وہ آسانی سے کسی کا بھی دل جیت لیتی تھی
وہ مسکراتے ہوے آگے بڑھا
دادو وہ سوگئ ہے
اس نے دھیرے سے کہا دادی نے جھک کر عیشا کی جانب دیکھا اور دھیرے سے مسکرادی
میں نے کہا بھی کہ ساحر کے انے سے پہلے مجھے نیند نہیں آۓ گی اس لیے تم سوجاؤ---- لیکن مانی ہی نہیں ------حالانکہ اس کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی اور اب دیکھو
دادو میں نے کہا تھا نا میں لیٹ آؤنگا----- اپ کیوں اتنی دیر تک جاگتی ہیں میری وجہ سے
وہ کرسی کہینچ کر بیڑ کے قریب بیٹھ گیا
مجھے تو اب عادت پڑگی ہے-_------ جب تک تمہیں دیکہتی نہیں نیند بھی نہیں آتی
ساحر نے ان کا ہاتھ اٹھاکر بوسا دیا
لیکن اس لڑکی نے تو خود اپنی عادت بنالی ہے----- جب تک میں نا سوجاؤ یہ بھی نہیں سوتی------ اب تو مجھے بھی اس کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا
وہ اب بھی عیشا کی پیشانی پر آۓ بال ہاتھ سے پیچھے کر رہیں تہیں اور ساحر انہیں ہی دیکھ رہا تھا
ساحر تم خوش تو ہو نا بیٹا
انہوں نے اس کے گال پر پیار سے میں ہاتھ رکھ کر پوچھا ساحر نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور ان کے چہرے کو بغور دیکھا
ہاں دادو------ میں بہت خوش ہوں اس لڑکی کی دل سے عزت کرتا ہوں جو میری دادو کو اتنا خوش رکھتی ہے
میں چاہتی ہوں تم بھی اسی کی طرح خوش رہو ہر غم وپریشانی سے سے بے فکر بے نیاز یہ جو اُداسی کی چادر اوڈھ رکھی ہے اسے اتار کر پہینک دو اور اس کی طرح جینا سیکھو
دادو اس کی اور میری عمر میں بہت فرق ہے
وہ مسکراتے ہوے بولا
عمر میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے بس تم اپنی عمر سے کئ زیادہ بڑے ہوگے
یہ خوش ہے کیونکہ اس کے پاس سب کچھ ہے----- کئ رشتے ہیں-----پر میرے پاس تو سواے آپ کے اور کچھ بھی نہیں ماں باپ کی یادیں بھی نہیں کیا یہ کمی کم ہے دادو
------ ہمارے پاس جو نہیں ہے اس کے لئے پچہتانے سے بہتر ہے جو ہے اس میں خوش رہوں جو چہوٹ گیا اسے بہول کر نیا کچھ بناؤ
وہ خاموشی سے عیشا کی جانب دیکھتا رہا
رات بہت ہورہی ہے جاکر سوجاؤ اور عیشا کو بھی لے جاؤ
دادو اگر میں نے اسے اٹھایا نا تو یہ مجھے دنیا سے ہی اٹھادے گی
وہ انہیں ہنسانے کی خاطر بولا دادی نے خفگی سے دیکھ کر اس کے کاندھے پر مارا
کیوں ہمیشہ ایسا کہتے رہتے ہو---- عیشا تو تمہاری کتنی تعریف کرتی ہے
دادو یہ اور میری تعریف کرے گی------- آپ کیوں مجھے حیرت سے مارنا چاہ رہی ہیں
میں سچ کہ رہی ہوں بیٹا----- اس نے مجھے خود کہا کہ تم بہت اچھے انسان ہو اس کا بہت خیال رکھتے ہو اور یہ بہت خوش ہے
وہ حیرانی سے اُنھیں دیکھنے لگا
چلیے اس بارے میں بھی سوچتے ہیں------ فلحال ایسا کریں اسے آج یہیں سونے دیجیے
ٹھیک ہے------- اسے ٹھیک سے یہاں سلادو
انہوں نے اپنی بائیں جانب اشارہ کرکے کہا ساحر نے اسے غور سے دیکھا جھجھکتے ہوئے اس کی گردن کے نیچے ایک ہاتھ ڈالا دوسرے ہاتھ سے اس کا بازو تھام کر اسے اپنے قریب کرتے ہوےسر تکیہ پر رکھا پیر سیدھے کرکے رضائ اوڈھادی اور لایٹ آف کرکے باہر آگیا
اج بیڈ خالی تھا اسلیے وہ وہی آکر لیٹ گیا روزانہ صوفے پر سونے سے گردن اکڑ جاتی تھی اس نے شکر ادا کیا کہ ایک دن تو ارام سے سو پاےگا لیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی ایک عجیب سی بے چینی نے گھیرا ہوا تھا کسی کی غیر موجودگی اسے بڑی شدت سے محسوس ہورہی تھی حالانکہ ان کے درمیان کبھی کوئ بات نہیں ہوتی دونوں ایک دوسرے پوری طرح اگنور کرتے تھےاج جب اس نے سکون سے رات گزرنے کی امید کی تھی رات کے کئ گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سو نہیں پایا سر کے نیچے بازو رکھے مسلسل چھت کو دیکھتے ہوے وہ صرف اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا پتا نہیں کیوں اج روم میں ایک خوشبوکی کمی تھی جو اسے ہر سانس کے ساتھ محسوس ہورہی تھی
فجر پڑھ کر اسے سکون کی نیند آئ اور اج بھی اس کی نیند اسی ہلکی بارش کو چہرے پر محسوس کرتے ہوے بیدار ہوئ ارد گرد سے بے نیاز گیلے بالوں کو ٹاول سے سکھاتے ہوے ایک خوبصورت منظر تھا جو کسی کو بھی متوجہ کر سکتا تھا
گڈ مازنگ
ساحر نے ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی جانب دیکھا عیشا نے چونک کر اسے دیکھا اور اس کے مسکرانے پر ناگواری سے رخ پہیر لیا آئینہ میں سے بھی وہ اسے ہی دیکھ کر خوشدلی سے مسکرارہا تھا
کیا ہوا اج اتنے دانت کیوں نکل رہے ہے تمہارے
چبھتا ہوا انداز تھا لیکن اسے برا نہیں لگا
بہت دنوں بعد بڑی اچھی نیند آئ------- ویسے کل رات دادی مجھے بتارہی تھی کہ تم میری بہت تعریف کرتی ہو
وہ بیڈ سے اتر کر اس کے پاس آگیا عیشا نے اسے غور سے دیکھا
یہی کے میں تمہارا بہت خیال رکہتا ہوں----- بہت اچھا ہوں ہینڈسم ہوں----- گڈلکنگ ہوں
نہیں ------میں نے اتنا سب کچھ نہیں کہا تھا
وہ فوراً بولی
تو کیا کہا تھا
وہ اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا
صرف یہ کہا تھا کہ تم اچھے ہو اور میرا خیال رکھتے ہو
رئیلی
اس نے سٹائل سے سر میں ہاتھ پھیرا
اگر تم یوں فضول کے خوش ہونے کی بجاے زرا سا بھی دماغ لگاتے نا تو جان جاتے میں نے یہ سب کیوں کہا
اچھا کیوں کہا
وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے بولا
کیونکہ دادی کو لگ رہا تھا کہ ہمارے بیچ کوئ پرابلم ہے اور وہ چاہتی تھی کہ ہم بھی اور کپلس کی طرح شادی کے بعد کہیں باہر جاے -----اس لئے مجھے انہیں سمجہانے کے لئے تمہاری جھوٹی تعریف کرنی پڑی تاکہ انہیں یقین ہوجاے کہ کوئ پرابلم نہیں ہے
اوہ------ مجھے تو لگا تم سدھر گئ ہو
زیادہ خوش فہمیاں مت پالو -------میں صرف دادی کی وجہ سے مجبور ہوں------* تم جیسے انسان کی وجہ سے میں انہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتی
بات کوئ بھی ہو تم ہمیشہ جھگڑنے کیوں لگتی ہو
وہ اب سنجیدہ ہو گیا
یہ بھی تمہاری غلط فہمی ہے کیونکہ میں تو تم سے بات بھی کرنا نہیں چاہتی------- جھگڑنا تو بہت دور ہے
کہ کر وہ دروازہ کہول کر باہر نکل گئ ساحر دروازے کو حیرت سے دیکھتا رہا
****************************
دادی کے آرڈر پر وہ اسے شاپنگ کے لئے لے جارہا تھا حالانکہ عیشا نے بہت منع کیا لیکن دادی کے آگے اسے ہار ماننی پڑی وہ روزانہ بھی ساحر کے ساتھ کالج آتی جاتی تھی لیکن اج تک اس سے کبھی کوئ بات نہیں کی تھی اور اب بھی رخ کہڑکی کی جانب کئے مسلسل باہر ہی دیکھ رہی تھی تب ہی اسے پانی پوری کا اسٹال نظر آیا جہاں وہ زوبی کے ساتھ اکثر آتی رہتی تھی
گاڑی روکو
کیوں----- کیا ہوا
ساحر نے سپیڈ سلو کرکے اس کی جانب دیکھا
وہ------ مجھے پانی پوری کھانی ہے
ساحر نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا
یہاں کیوں -----کسی رسٹورانٹ میں چلتے ہیں وہاں کھالو
نہیں-- مجھے یہی سے کہانا ہے
اوکے---- ایس یو وش
ساحر نے گاڑی سٹال کے قریب روک دی دونوں باہر آگے
کھالو----- یہ ولڈ کی بیسٹ پانی پوری ہے
عیشا نے پانی پوری کہاکر داد دیتے ہوے کہا
پر میں نے پہلے یہ سب کہایا نہیں ہے
تو اج ٹراے کرلو
اوکے----- ناٹ ا بیڈ آئڈیا
اس نے عیشا کی پلیٹ سے ایک پوری اٹھالی منہ میں رکھتے ہی اسے ٹھسکا لگا اور وہ لگاتار کھانستا چلا گیا
اُف---بہت--------تیکھی ہے
کہانسنے کے دوران اس نے مشکل سے کہا اس کی حالت دیکھ کر عیشا اپنی ہنسی روک نہیں پائ اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئ ساحر اسے دیکھتا رہ گیا پہلی بار اس نے عیشا کو یوں ہنستے ہوے دیکھا تھا چوڑیوں کی چھنکار جیسی ہنسی جیسے دور کہیں آبشار سے گرتا پانی کھانسی اب بھی ہو رہی تھی مگر اسے کوئ احساس نہیں تھا وہ تو بے ساختہ غیر محسوس طریقے سے بس اسے ہی دیکھ رہا تھا لائٹ بلو لانگ سکرٹ پر وہائٹ کرتی اور سفید گوٹے والا دوپٹہ بالوں کو کلچر میں باندھے بناء کسی میک اپ کے صرف کاجل میں بھی وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی اپنا ایک ہاتھ پیٹ پر رکھے دوسرے ہاتھ کو جھٹکتے ہوے ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسٹال والے نے آواز دے کر اسے اس جادوئ لمحے سے باہر نکالا ساحر نے اس کی جانب رخ کیا اس نے ساحر کو پانی پیش کیا اس نے اس پانی کو بڑی مشکوک نظروں سے دیکھا اور بنا کچھ کہے گاڑی کی ونڈو سے ہاتھ ڈال کر بوتل نکالی اور پینے لگا یہ دیکہ کر عیشا کی رکتی ہوئ ہنسی دوبارہ شروع ہوگی ساحر پیسے دے کر گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور اسے بھی آنے کا اشارہ کیا وہ اپنی ہنسی بمشکل دباتی ہوئ اگئ وہ اب بھی بار بار اس کی جانب دیکھ کر اندر ہی اندر ہنس رہی تھی اتنا مضبوط فائٹر جیسی باڈی والا آدمی اور ایک پانی پوری سے اسطرح بے حال ہوگیا تھا
مجھے یہ سب کہانے کی عادت نہیں ہے اسلیے------
وہ کچھ شرمندہ سا بولا عیشا کی ہنسی چھوٹ گئ
اب اس میں اتنا بھی ہنسنے کی کیا ضرورت ہے
لہجہ ایکدم دھیما تھا
یہ میری زندگی کا سب سے یادگار دن ہے-- میں یہ دن کبھی نہیں بھول پاؤں گی
وہ اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بولی
بھول تو میں بھی نہیں پاونگا آج پہلی بار اپنے دل کو محسوس کیا ہے
وہ بھی اس کی جانب دیکھتے ہوے سوچنے لگا
وہ سارا وقت اسی الجھن میں رہا کہ اسے آخر کیا ہو گیا تھا اس نے عیشا کو اس کی مرضی سے ڈھیر ساری شاپنگ کروای اس نے اپنے ساتھ دادی کے لیے بھی کافی کچھ لیا وہ جہاں بھی جاتے انہیں خاص اہمیت دی جاتی اور یہ ساحر کی موجودگی کا اثر تھا
گھر آکر اس نے دادی کو بھی ہنستے ہنستے پانی پوری کا سارا واقعہ سنایا ساحر نے کچھ بھی ری ایکٹ نہیں کیا خاموشی سے روم میں اگیا اور اپنا اور کوٹ اتار کر کرسی پر ڈالا اور کف کے بٹن کھولتے ہوے واش روم کی جانب بڑھ گیا
کتنی دیر تک وہ اسی جادوی لمحے کے متعلق سوچتا رہا اس سوچ نے اسے پریشان کر رکھا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر عیشا اس کی یہ تبدیلی نوٹ کرے گی تو بہت برا ری ایکٹ کرے گی اس لئے وہ سٹڈی روم میں آکر سو گیا
صبح اسے جلدی گھر سے نکلنا تھا اس لیے وہ روم میں اگیا عیشا اس وقت دادی کے ساتھ باہر گئ ہوتی تھی لیکن وہ اج گھر پر ہی تھی بیڈ پر بیٹھی رونے میں بزی تھی ساحر کو دیکھ کر سر گھٹنوں پر رکھ لیا ساحر پریشان ہوکر رہ گیا
اگر پوچہونگا کیوں رو رہی ہے تو واویلا مچادے گی -------پہر وہی کہے گی میں کون ہوتا ہوں-------- یہ لڑکی میرے سمجھ کے بلکل باہر ہے
وہ یہ سب سوچ کر اپنا لیپ ٹاپ لئے صوفے پر اگیا لیکن دھیان اب بھی وہیں تھا بیچ بیچ میں اسے دیکھ لیتا
یہ روتی ہے تو مجھے اتنا برا کیوں لگتا کیوں میں اس کے رونے کو اتنا فیل کررہا ہوں
اس نے عیشا کی جانب دیکھا اس کا ایک ہاتھ پیٹ پر تھا مطلب شاید اسے پیٹ درد ہورہا تھا وہ خود کو مزید روک نہیں پایا
اگر تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو ڈاکٹر کو بلاوں کیا
عیشا نے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے حیرت سے دیکھا اور اگلے ہی لمحے حیرت ناگواری میں بدل گئ اس نے فوراً منہ پہیر لیا ساحر کو اس کی حرکت پر بہت غصہ آیا
ایک کام کرو تم نا بیان کر کے رویا کرو------ مثلاً ہاے اللہ یہ ہوگیا ہاے اللہ وہ ہو گیا------ پریشان ہوجاتا ہوں میں------ کم سے کم آدمی کو پتا تو چلے کہ کس وجہ سے رو رہی ہو
عیشا نے اسے غور سے دیکھا
تمہیں میرے لئے پریشان ہونے کی کوئ ضرورت نہیں ہے----- اپنے کام سے کام رکھو سمجھے -----مجھے تم سے سخت نفرت ہے
ساحر کو اس کی بات پر بے حد غصہ آیا
تمہاری اطلاع کے لئے بتادوں---- مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا---- تم مرو یا جیو میں صرف اپنی دادی کے لئے پریشان ہوں----- انہیں تکلیف نہ ہو اس لئے تم جیسی لڑاکو لڑکی سے بات کرنا پڑتاجو ہر بات میں بس لڑنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے
میں تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتی اسلیے----------
میں بھی تمہیں منہ نہیں لگانا چاہتا
ساحر فوراً اس کی بات کاٹ کر بولا عیشا کو اس جواب کی بلکل امید نہیں تھی اسلیے خاموش ہوکر رہ گئ وہ بھی اسے اگنور کرتے ہوے باہر نکل گیا
****************************
روزانہ اس کے کالج سے باہر نکلنے سے پہلے ساحر گاڑی لئے موجود ہوتا تھا لیکن اج وہ اب تک نہیں آیا تھا اس نے پانچ منٹ تک ادھر ادھر نظر دوڈای لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا وہ کالج سے منسلک رسٹورانٹ میں اگئ تاکہ اس کے آنے تک کچھ کھا لے وہ دروازے سے اندر داخل ہوئ تھی کہ ایک بھاری بھرکم ادمی نے سامنے آکر اس کا راستہ روک لیا اور مکروہ ہنسی ہنستے ہوے اسے گھورنے لگا
یہ کیا بدتمیزی ہے راستہ چھوڑو
غصہ سے کہ کر وہ سایڑ سے نکلنے لگی لیکن اب دوسرے نے اس کا راستہ روک لیا ان کا پورا گروپ ہنس ہنس کر مزے لے رہا تہا
اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی کچھ وقت ہمارے ساتھ بھی گزار لو
عیشا نے ایک زور دار تھپپڑ اس لڑکے کے گال پر جڑ دیا جس سے وہ تلملا رہ گیا سارے لوگ اسی طرف توجہ تھے اس کے اس عمل پر پہلے والا لڑکا جو شاید انکا لیڈر تھا غصے سے اس کی جانب بڑھا عیشا اسے اپنی اور بڑھتا دیکھ خوفزدہ ہوکر پیچھے ہوتی گئ وہ چاہے جتنی ہمت والی ہو لیکن ان سے مقابلہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا
اب تجھے کوئ نہیں بچاسکتا
وہ لڑکا غصے سے کہ کر اس کا بازو پکڑنے لگا لیکن دوری پر ہی کسی نے اس کا ہاتھ جکڑ کر روک لیا عیشا کو اپنے پیچھے سے جانی پہچانی خوشبو محسوس ہوی تو اس نے رخ پہیر کر دیکھا ساحر کو دیکھ کر اس کا سارا خوف جاتا رہا ساحر نے ایک زوردار جہٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڈ کر پیچھے دھکیلا
شرافت سے اپنا اپنا راستہ ناپو ورنہ کسی کو چلنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا
اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے وہ اُن سے مخاطب ہوا
تو بیچ میں کیوں کود رہا ہے تیری کیا بہن لگتی ہے
ان میں سے ایک نے ساحر کے مقابل اکر کہا ساحر نے اس کی کالر پکڑ کر اپنی جانب کھینچا
بہن تو تیری ہے سالے میری تو یہ بیوی ہے
کہ کر اسے دھکیل دیا وہ لڑکھڑاتا ہو دور جاگرا
اور قسم سے بتارہا ہوں میرے ہوتے ہوۓ کسی کی گندی نظر بھی میری بیوی کو نہیں چہوسکتی
اب کے وہ غصے سے بولا بدلے میں سامنے والے نے اس پر وار کرنا چاہا جسے روک کر ساحر نے ایک لات میں اسے دیوار تک دھکیل دیا ایک کے بعد ایک سب کو اس نے بری طرح سے پیٹا کافی دیر تک ہاتھا پائ چلتی رہی عیشا کو یہ سب دیکھ کر گھبراہٹ ہورہی تھی سارے لوگ بھی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر باہر نکل رہے تھے ریسٹورانٹ لوگوں سے خالی ہو چکا تھا کچھ لوگوں نے ساحر کو زبردستی پکڑ کر روکا وہ سارا گروپ ڈر کے مارے فوراً بہاگ گیا ریسٹورانٹ میں کافی تحس نحس ہو چکی تھی کئ کرسیاں اور ٹیبل ٹوٹ کر بکھرے پڑے تھے ساحر نے خود کو چھڑا کر اپنا غصہ کنٹرول کیا اور عیشا کی کلائ پکڑ کر اسے باہر لے آیا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا عیشا بار بار اسے ہی دیکھتی رہی اس نے دادی سے کئ بار سنا تھا کہ وہ غصےّ کا بہت تیز ہے لیکن آج اس کا یہ روپ دیکھ کر خود بھی ڈر گئ تھی اس کے بال پسینے سے بھیگ کر بکھر گئے تھے آنکھیں سرخ ہو رہی تھی سفید بے داغ شرٹ بھی پسینے سے پوری بھیگ چکی تھی اس کی نظر ساحر کے سٹیئرنگ پر رکھے ہاتھ پر پڑی جو کافی زخمی ہو چکا تھا اور اس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا
گاڑی میں فرسٹ ایڈ نہیں ہے کیا
اندر ہے-----کیا تمہیں کہیں چوٹ لگی ہے
اس نے فکر سے پوچھا
نہیں----- مجھے نہیں------ تمہارے ہاتھ میں چوٹ لگی ہے
اس نے انگلی کے اشارے سے دکھایا
معمولی سی ہے
اسے بھی اب پتا چلا تھا
نہیں معمولی سی نہیں ہے ----بہت خون بہہ رہا ہے--- ہاتھ دکھاؤ
نہیں---- رہنے دو
اس کے انکار پر عیشا نے خود ہی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کاٹن سے خون صاف کرکے دوائ لگائ
ایک بات پوچھوں تم سے
گاڑی کی سپیڈ سلو کرکے ایک ہاتھ میں سٹئرنگ سنبہالے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا
پوچھو
وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اس وقت میں تمہارا کون ہوں جو یوں حق جتاکر پٹٹی کر رہی ہو لیکن پہر کچھ سوچ کر بات بدل دی
یہ مہربانی کس لیے
تمہاری جگہ کوئ بھی ہوتا نا تو بھی میں یہی کرتی
لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا
وہ اتنے دھیمے بولا کے وہ سمجھ نہیں پائی ہاتھ روک کر اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا کچھ تھا اس کی آنکھوں میں عیشا نے گھبرا کر نظر پھیر لی کچھ بولی نہیں پٹی بندھ گئ تو ساحر نے ہاتھ واپس کھینچ لیا عیشا نے سامان باکس میں رکھ کر باکس اندر رکھ دیا کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی
ان بدمعاشوں سے الجھنے کی ضرورت کیا تھی------ پولس میں رپورٹ کر دیتے------ اگر انہوں نے تمہیں دوبارہ کچھ نقصان پہچایا تو
میں اتنا بزدل نہیں ہو جو میرے سامنے کوئ ایسی حرکت کرے اور میں پولس کے انتظار میں تماشا دیکھتا رہوں
عیشا کچھ نہیں بولی دونوں گھر پہنچے دادی ان کے دیر سے آنے پر پریشان کھڑی تھی
دادی کو کچھ مت بتانا
ساحر نے آگے بڑھتے ہوۓ اس کے نزدیک سرگوشی کی اس نے سر اثبات میں ہلادیا
کہاں رہ گئے تھے تم دونوں
دادو گاڑی خراب ہو گئ تھی اس لئے لیٹ ہوگے
یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا کیا کسی سے لڑ جھگڑ کر آۓ ہو
نہیں دادو افس میں گلاس ٹوٹ گیا تھا اس لئے چوٹ لگ گئ اچھا مجھے کام ہے اس لیے چلتا ہوں
دادی کے سوالوں سے بچنے کے لئے وہ فوراً اپنے روم میں اگیا دس منٹ میں کپڑے بدلےفریش ہوکر نیچے اگیا دادی کے لاکھ کہنے کے باوجود بناء کھانا کھاے ہی چلا گیا
******,*********************
ساحر ناشتہ کرتے باربار اسے ہی دیکھ رہا تھا جو دادی سے باتیں زیادہ کررہی تھی اور ناشتہ کم کررہی تھی
یہ مجھ سے کبھی سیدھے منہ بات تک نہیں کرتی ہر بات پر جھگڑنے لگتی ہے سامنے ہونے پر بھی نظر انداز کرتی ہے اتنی انسلٹ ہونے کے بعد بھی میں اسے مخاطب کرتا ہوں اسے ہی دیکھنا چاہتا ہوں ایسا کیوں ہورہا ہے میرے ساتھ اس لڑکی میں کچھ تو ایسا ہے جو مجھے اپنی جانب کھینچتا ہے شاید اسلیے کیونکہ اس میں وہ بات ہے جو ساحر خان کی بیوی میں ہونی چاہئے
وہ اپنی سوچ پر مسکرا کر رہ گیا تبھی امران آگیا اس نے دادی کو جھک کر سلام کیا انہونے اس کی پیشانی چوم کر اسے دعائیں دی عیشا کے سلام کا جواب دے کر اس کے بال جھنجھوڑتے ہوے ساحر کو نظر انداز کرکے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا اور سینڈوچ بنا کر کہانے لگا ساحر اسے دیکھتا ہی رہ گیا
بے شرم آدمی کسی کے پوچھنے کا انتظار تو کرلیا کر آتے ہی بھوکے قیدیوں کی طرح شروع ہوگیا
کس بات کی شرم میری بہن کم سالی کا گھر ہے
ہاں جیسے پہلے تو کبھی اپ نے یہاں انے کی زحمت کی ہی نہیں
دادی دیکھا اپ نے--_----ساحر خان صاحب میں اج اپ سے نہیں اپنی بہن سے ملنے آیا ہوں خواہ مخواہ کی بکواس کرکے دماغ خراب مت کر
ساحر نے گلاس میں جوس ڈالا امران نے فوراً اٹھاکر منہ سے لگا لیا
راکشس کہیں کے وہ میرا تھا
دوستی میں کیا تیرا کیا میرا یار
وہ سر ہلا کر رہ گیا
بھابہی کو ساتھ کیوں نہیں لایا --تیرے پاگل پن پر کچھ کنٹرول رہتا
وہ گئ اپنے مائکے
کیا کردیا تم نے جو روٹھ کر مایکے چلی گئ
دادی نے پوچھا
میں نے کچھ نہیں کیا دادی ---_-- ڈاکٹر نے اسے آرام کرنے کو کہا ہے اس لیے گئ ہے
کیوں----- کیا آپی کی طبیعت خراب ہے
ہاں--- کیونکہ ------*گڈ نیوز ہے
وہ رکتے ہوئے بولا
کیا -----اپ سچ کہ رہے ہو بہائ جان
میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے کیا عیشو
واو----- آئ ایم سو ہیپپی بہائ جان
ساحر اور دادی نے بھی اسے مبارک باد دی دادی نے ملازم سے مٹھائ منگوائ سب نے ایک دوسرے کو مٹھائ کھلای ساحر نے ایک بڑا سا پیس لے کر اس کے میں بھر دیا اور مسکراتےہوے اسے زور سے گلے لگا لیا
دادی میں آپی سے مل کر آؤ
وہ بہت خوش تھی
ہاں ہاں بلکل جاؤ اور میری طرف سے بھی مبارکباد دے دینا ---ساحر--------
نہیں دادی مجھے بہت ضروری کام ہے میں نہیں جاسکتا ----عمران پلیز یار
دادی کے کھنے سےپہلے اس نے ٹوک دیا
کوئ نہیں----- ویسے بھی میں تیرا غلام ہی تو ہوں------ چلو عیشو
عیشا نے دادی کی جانب دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوۓ اجازت دے دی وہ تیار ہونے کے لئے اوپر چلی آئ
بلیک لانگ کرتی پر ریڑ کلر کی پینٹ پہنی بالوں کو کہلا چہوڈا کانوں میں چھوٹے چھوٹے ایئر رنگ پہن کر ہلکا سا میک اپ کیا ریڈ اینڈ بلیک کامبینیشن کا خوبصورت دوپٹہ کاندھے پر ڈال کر جیسے ہی پلٹی سامنے سے آتے ساحر سے ٹکرا گئ وہ اپنی دھن میں تھا اس لئے توازن نہیں رکھ پایا اور اس کے ساتھ ہی گرتے ہوے دیوار سے جا لگا عیشا اس کے اتنے قریب ہونے پر گھبرا گئ اس کا قد ساحر کے کاندھے کے نیچے تک ہی تھا وہ اس کے اتنے قریب تھی کے آسانی سے اس کی دھڑکن سن سکتی تھی اس کے پرفیوم کی خوشبو ایک الگ احساس جگا رہی تھی اس نے سر اٹھا کر دیکھا ساحر اسے ہی دیکھ رہا تھا کچھ تھا جو اس نے گھبرا کر پلکیں جھکالی ساحر کو اس کی یہ ادا دل میں اترتی محسوس ہوئ وہ بے خود سا بس اس کی جھکی پلکوں کو دیکھتا رہا عیشادھیرے سے اس سے دور ہوئ ساحر بھی خود کو سنبھال کر سیدھا ہو گیا
آر یو اوکے
وہ بس اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گئ
****************************
گھر آکر وہ سب سے پہلے الیشا سے زبردست گلے مل کر اسے مبارک باد دی تبھی اسے پتا چلا کہ ایک نہیں دو دو خوش خبریاں اس کی منتظر تھی اتنا سنتے ہی وہ چینختے ہوۓ فائزہ کی جانب بڑھی اور اسے گلے لگ کر پورا گہمادیا اور وہ بس عیشا عیشا کرتی رہ گئ اس کے بعد عیشا نے امی ابو کو کھینچ کر ان کے گرد گھومتے ہوے ڈانس شروع کردیا امران نے بھی اس کا ساتھ دیا سب ہی دونوں کی حرکتیں دیکھ کر ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے
شام تک وہ اسی کے متعلق باتیں کرتی رہی یہاں تک کہ بچوں کے نام کمرے کا کلر کھلونے سب کچھ فکس کر لیا کھانے پر عمران نے خاص اس کی پسند کی کی چیزیں ہوٹل سے منگوائ ریحان کے گھر انے پر دوبارہ شور شرابا شروع کردیا ریحان بھی اس کی ان حرکتوں پر ہنستا رہا اور اسے پیار کرتا رہا امی نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری سب کو ایک خوبصورت دن دے کر وہ ریحان کے ہمراہ واپس اپنی دنیا میں اگئ
ریحان دادی اور ساحر کو سلام دعا کرکے چلا گیا کیونکہ بہت دیر ہوچکی تھی اس کے جانے کے بعد عیشا ہنس ہنس کر دادی کو سارے دن کا قصہ سناتی رہی اسے اتنا خوش دیکھ کر دادی نے اس کی بلائیں لے لی کچھ دوری پر بیٹھا ساحر بنا پلک جھپکاے اسی کو دیکھ رہا تھا عیشا کی اس پر نظر پڑی تو اسے اپنی جانب دیکھتے پاکر عجیب سی اُلجھن ہونے لگی وہ دادی کو لئے روم میں اگئ ہنس ہنس کر اس کا پیٹ درد کرنے لگا تھا وہ اج واقعی بہت خوش تھی
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ عیشا سے بات کرے گا کہ اس شادی کو ایک موقع دے پچھلا سب کچھ بھول کر نئے سرے سے سوچ کر دیکھے اور یہی سوچ کر وہ روم میں آیا عیشا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے ائیر رنگ کانوں سے نکال رہی تھی غیر محسوس طور پر وہ ساحر کےمتعلق سوچ رہی تھی وہ ناشتے کے وقت بھی محسوس کر چکی تھی کے وہ اُسے ہی دیکھ رہا ہے اور جب و اس کے قریب تھی اس کی آنکھوں میں کیا تھا وہ سمجھ نہیں پائی اتنے دن میں بھی وہ اس بات سے بے فکر تھی لیکن آج جانے کیوں اس کا دل گھبرا رہا تھا موبائل بجنے لگا کسی نئے نمبر سے میسیج تھا اس نے اوپن کیا تو کچھ تصویریں تھی جنھوں نے آگ پر تیل کا کام کیا جس سے اس کی دن بھر کی ساری خوشی خاک ہوگی تھی وہ منہ پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے ایک کے بعد ایک تصویر کو دیکھنے لگی اس کا سارا جسم ٹھنڈا ہورہاہے تھا آنکھیں خوف اور غصے سے لال انگارا ہورہی تھی
عیشا
اج پہلی بار اس نے عیشا کو اس کے نام سے پکارا تھا بے حد نرمی سے عیشا نے آئینہ میں ہی اسے غصے بھری نظروں سے دیکھا
عیشا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے
صوفے پر بیٹھتے ہوے اس کی جانب دیکھے بنا ہی کہنے لگا
کتنی بار کہ چکی ہو تم سے مجھے تم سے کوئ بات نہیں کرنی ہے------ نا ہی میں تمہیں سننا چاہتی ہوں------ اتنی بار کہنے کے باوجود سمجھ کیوں نہیں آتا تمہیں --------تم مجھے میرے حال پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے------- میں تم سے ریکویسٹ کرتی ہوں مجھے پریشان مت کرو
وہ جو پہلے ہی بھری بیٹھی غصہ اتارنے کا جیسے موقع مل گیا ساحر اسے حیرت سے دیکھتا ہی رہ گیا غصہ کنٹرول کرتے ہوۓ اٹھ کر اسکے مقابل آگیا
تم ہر بات پر اتنا اوور ری ایکٹ کیوں کرتی ہوں------ میں صرف بات کر رہا تھا تم سے------ تم میں اتنی بھی تمیز نہیں ہے کیا کہ کوئ کچھ کہ رہا ہے سن تو لو--------پہلے ہی پاگلوں جیسا بی ہیو کرنے کی کیا ضرورت ہے--------- آخر تمہاری پرابلم کیا ہے یار
میری پرابلم تم ہو------- میں تم سے نفرت کرتی ہوں------- تم سوچ بھی نہیں سکتے اتنی نفرت------- کیونکہ تم انتہای قسم کے زلیل اور گرے ہوۓ انسان ہو
عیشا-----------
غصے سے دھاڑتے ہوے اس نے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن ایک بار پھر ہاتھ بیچ میں ہی روک کر عیشا کو دیکھا اور ہاتھ سے اپنی پیشانی کو مضبوطی سے پکڑ کر آنکھیں بند کی گہری سانس لے کر اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی جب آنکھیں کہولی تو ضبط سرخ ہو رہی تھی عیشا کو ایک پل کے لیے اس کی حالت سے بہت خوف آیا
بس------------
بڑی مشکل سے خود کو کنٹرول کرکے صرف اتنا کہا اور اسے شعلہ بار نگاہوں سے دیکھ کر تیزی سے باہر نکل گیا
عیشا وہیں کھڑے ہوکر دیر تک آنسو بہاتی رہی اس نے ساحر کے کیفیت کا جو مطلب لیا تھا اس سے کئی زیادہ وجہ وہ تصویریں تھی جن کے مطابق یہ غصہ ہر طرح سے جائز تھا
ساری رات ساحر نے سٹڈی روم میں جاگ کر گزاری وہ کبھی کسی کی اتنی بدتمیزی برداشت کرنے والوں میں سے نہیں تھا لیکن عیشا کے معاملے میں وہ صرف دل سے کام لیتا تھا اپنی سوسایٹی میں وہ ہر لڑکی کی دلی خواہش تھا لیکن اس نے کبھی کسی لڑکی کے لئے اپنے دل میں کوئ جزبہ محسوس نہیں کیا تھا جبکہ عیشا کے اتنے نفرت کرنے کے باوجود وہ ہر وقت اسے اپنے سامنے دیکھنا چاہتا تھا
جب اسے روتے دیکھتا تو من کرتا اسے سینے لگا کر اس کے سارے آنسو اپنے اندر لےلے اس کی ہنسی سے اسے اپنی روح تک سکون محسوس ہوتا تھا پہلے تو اس نے اسے ایک وقتی کشش سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن ہر وقت کی بے چینی اور دل کی کیفیت سے مجبور ہوکر اس نے خود سے یہ اعتراف کرلیا کہ وہ عیشا سے محبت کرنے لگا ہے وہ عیشا سے صرف اتنا وقت چاہتا تھا کہ وہ اسے اپنی محبت کا یقین دلا سکے لیکن عیشا کے دل و دماغ پر غلط فہمی کا پردہ تھا وہ ساحر کو ایک بدکردار شخص سمجھ رہی تھی
****************************
اس دن کے بعد ساحر نے اسے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اس کی موجودگی میں بھی انجان بنا رہتا حالانکہ کالج چہوڈنے اور گھر لانے کا کام اب بھی اسی کے زمے تھا لیکن اس سارا وقت میں بھی وہ اس طرح رہتا جیسے وہاں دوسرا کوئ موجود ہی نہیں عیشا کو اس کی ناراضگی یا بے نیازی کی کوئ پرواہ نہیں تھی اسے بس ساحر سے ہمیشہ کے لئے جان چہڑانے کا انتظار تھا دادی کی طبیعت اکثر ناساز ہو جاتی تھی اس لئے وہ چاہ کر بھی کچھ کر نہیں پارہی تھی
فجر کا الارم بجا تو وہ آنکھیں ملتے ہوۓ اٹھ کر بیٹھ گئ لڑکھڑاتے ہوے قدموں سے واش روم میں آکر ٹھنڈے پانی سے وضو کیا تاکہ نیند کا خمار اتر جاے باہر آکر اپنا دوپٹہ باندھا اور جاے نماز بچھا کر فجر کی نماز ادا کی اس کے بعد کچھ دیر قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہی
یہ اس کا روز کا معمول تھا نماز کے بعد ساحر کے واپس آنے تک وہ قرآن شریف پڑھتی تھی اس کے بعد کبھی تھوڑی دیر کے لیے سوجاتی یا کبھی دادی کے روم میں آکر انہیں قران شریف پڑھ کر سناتی اس کے بعد دونوں مارنگ واک کے لئے باہر چلے جاتے دادی کو ڈاکٹر نے پرسکون و صاف ماحول میں رہنے کی صلاح دی تھی کیونکہ اج کل زیادہ تر بیماریوں کی وجہ ہوا کی آلودگی ہی ہے
ساحر کے آنے پر اس نے تھوڑی دیر پڑھ کر قران مجید رکھ دیا جاےنماز بھی لپیٹ کر اپنی جگہ پر رکھی انٹرکام پر کافی کا کہا اور لائٹ بند کرکے ڑریسنگ روم میں آئ سکای بلیو کلر کی گھٹنوں کے اوپر تک اتی ٹی شرٹ پر بلیو ٹریک پینٹ پہنے دوپٹہ کاندھے پر پھیلائے ا وہ ہمیشہ ہی مختلف کپڑے پہنتی تھی لیکن صرف ایسے جن سے بدن کا کوئ حصہ نظر نا آۓ اور کپڑے چاہے ویسٹرن ہو دوپٹہ ساتھ ہونا لازمی تھا بھلے سر پر نا اوڑھے کپڑے چینج کرکے باہر آئ تبھی ملازم نے دروازے پر دستک دی دروازے کو تھوڑا سا کہول کر اس نے کافی کا کپ تہام لیا اور شیشے کے ڈور کو سلایڈ کر کے بالکونی میں اگئ یہ روم گھر کے باقی کمروں کے مقابلے بہت خوبصورت تھا رنگ سے لیکر سامان تک بیسٹ چوائس تھا جیسے کسی ریاست کے شہزادے کا کمرہ ہو بیڈ ایسی جگہ رکھا ہوا تھا کی بالکونی کے سلائڈنگ ڈور سے پردے ہٹانے پر روشنی سیدھے بیڈ پر پڑتی بالکونی کی سفید دیواریں جامنی پھولوں کی بیل سے سجی ہوئ تھی جو چھت سے نیچے آرہی تھی وہیں ایک جانب کچھ ایگسرسائز مشینیں اور ڈمبلس رکھ کر ساحر نے اپنا چہوٹا سا جم بنایا ہوا تھا اس کی باڑی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اسے جمنگ کا کتنا شوق ہے دوسری طرف ایک ارام دہ کرسی تھی عیشا گرل کو تھامے کھڑی کافی پیتے ہوۓ وسیع عریض لان کا جائزہ لے رہی تھی بارش کا موسم ہونے کی وجہ سے ہوا میں ہلکی ہلکی سردی تھی سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا تھا لیکن مالی اپنے کام سے لگ چکا تھا وہ ایک کے بعد ایک سارے پودوں کو پانی دے رہا تھا سارے لان میں گھاس کی ہری چادر سی بچھی ہوئ تھی اطراف میں طرح طرح کے پھولوں والے پودے تھے جن پر گری شبنم کی بوندیں موتیوں کی مانند چمک رہی تھی اتنا خوبصورت نظارہ تھا کہ روح تک پرسکون ہوجاے
کافی ختم کرکے وہ روم میں اگئ کپ میز پر رکھ کر پرس لینے الماری کی جانب بڑھی لیکن اچانک پیر مڑ گیا اور وہ لڑکھڑا کر صوفے پر سیدھے ساحر کے اوپر گر گئ
اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولی عیشا کو اتنے قریب دیکھ کر اسے ایک پل کو خواب سا گمان ہوا وہ اسے دیکھتا ہی رہا عیشا بھی پریشان ہوگئ چار دن بعد اس سے سامنا ہوا بھی تو کیسی حالت میں جہاں اس کے اتنے قریب تھی کہ اس کی گرم سانسوں کی تپش سیدھے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی
اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے گلے کی چین ساحر کے شرٹ کی بٹن میں الجھ گئ تھی اسلیے دوبارہ وہیں گر گئئ
کیا ہے یہ سب
ساحر نے دھیمے مگر سخت لہجے میں پوچھا لیکن عیشا نے کوئ جواب نہیں دیا بلکہ اپنی چین آزاد کرنے لگی
زرا دیکھ کر چلا کرو خود بار بار آکر مجھ پر گرتی ہو اور گرا ہوا مجھے ہی کہتی ہو
عیشا نے اس کےطنز پر اسے غصے سے دیکھا
مجھے کوئ شوق نہیں ہے تم پر گرنے کا میرا پیر مڑ گیا تھا
وہ دوبارہ چین چھڑانے میں لگ گئی
میں مان لونگا کیونکہ میں تمہاری طرح نہیں ہو
ساحر نے ایک جھٹکے سے چین کو کھینچ کر الگ کر دیا چین تو نہیں لیکن شرٹ کی بٹن ٹوٹ گی عیشا سکون کا سانس لے کر اس سے الگ ہوئ لیکن اس سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا پیڑ مڑنے سے موچ اگئ تھی بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے وہ بیڑ تک آئ اور پیر کا جائزہ لیا ہلکی سی سوجن اگئ تھی درد کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگے ساحر غور سے اسے ہی دیکھ رہا تھا عیشا کے آنسو تو اس کی کمزوری تھے فوراً اٹھ کر ڑریسنگ ٹیبل سے سپرے لیا اور بیڈ پر اس کے پیر کے قریب بیٹھ گیا عیشا نے اپنے دونوں پیر سمیٹ کر اس سے دور کر لیے اس کی اس حرکت پر ساحر نے اسے غصے سے دیکھا اور موچ والا پیر کھینچ کر پینٹ کو ٹخنے کے اوپر کیا
کیا کر رہے ہو تم----- چھوڑو میرا پیر
اس نے دوبارہ پیر کو کھینچنا چاہا لیکن ایک تو درد اس پر اتنی مضبوط پکڑ کہ وہ ایک انچ بھی ہلا نہیں پائ ساحر نے پیر کا جائزہ لیا اور ایک زور سے انگھوٹھے کو کھینچ کر پیر کو جھٹکا دیا درد کے مارے اس کی چینخ نکل گئ اس نے ساحر کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن ساحر نے خود تک پہنچنے سے پہلے اس کی کلائ کو پکڑ لیا دوسرے ہاتھ سے پیر پر ٹھیک سے اسپرے کیا اور عیشا کا ہاتھ چھوڈ کر وہاں سے اٹھ گیا سارے وقت میں وہ کچھ نہیں بولا جبکہ عیشا غصے کے مارے اسے گھورتی رہی جسے نظر انداز کرتا وہ واش روم میں آگیا
تم خود کو سمجھتے کیا ہو
وہ اس کے باہر آتے ہی برس پڑی ساحر نے کوئ جواب نہیں دیا انٹرکام پر کافی کا کہا اور ڈریسنگ ٹیبل کے اگے اکر بالوں میں برش کرنے لگا
میں تم سے پوچھ رہی ہوں
ساحر نے پہلے آئینے میں اسے دیکھا اور برش رکھ کر اس کے مقابل اکر کھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے
کیا ہے
اس کا لہجہ سخت تھا
تمہاری ہمت کیسے ہوئ مجھے ہاتھ لگانے کی
وہ دانت پیستے ہوئے بولی
میں یہ جاننا چاہتا تہا کہ کیا واقعی تمہارا پیر مڑ گیا تھا یا تم جان بوجھ کر مجھ پر-------
شٹ اپ یو راسکل میں تمہاری گندی صورت کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی
وہ غصے سے بولی
جانتا ہوں لیکن اگر ایک ہی چیز اتنی بار ہو تو کسی کو بھی ڈاؤٹ ہوگا
بے نیازی سے کہتا ہوا وہ دروازے کی جانب بڑھا کافی کا کپ لیا اور صوفے پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ آن کرلیا
تہارا مطلب ہےمیں جان بوجھ کر تمہیں اٹریکٹ کرنے کی کوشش کررہی ہوں
اس نے بے یقینی سے پوچھا
اتنا صاف صاف تو کہ رہا ہوں
سکرین پر نظریں جماے وہ بے نیازی سے بولا عیشا صدمے سی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی
یا اللہ اگلی بار اگر میں گرجاؤں تو بھلے ہی میرے جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ جاے لیکن مجھے اس آدمی کا سہارا مت دینا
وہ غصے میں اسے گھور کر بولی
سوچ سمجھ کر دعا مانگا کرو--- تمہاری دعا کا اثر دیکھ چکا ہوں ایک بار
اس نے ایک سپ لے کر کپ میز پر رکھا عیشا کا دھیان اب تک اس طرف نہیں گیا تھا ساحر کے کہنے پر اسے یاد آیا واقعی اس نے ساحر کو کبھی نا دیکھنے کی دعا مانگی تھی لیکن وہی اس کی زندگی کا سب سے اہم شخص بنادیا گیا اس نے شکوہٰ کناں نظروں سے چھت کی جانب دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ سے ناراضگی جتایء وہ یہ بھول گئ تھی کہ جب بندے کا فیصلہ اللہ اپنی مرضی سے کرتا ہے تو اس میں ہماری بہتری چھپی ہوتی ہے لیکن ہم نا شکری کرکے اپنی ہی خوشیوں کے دشمن بن جاتے ہیں
اس نے دادی کو فون کرکے اپنی صورت حال بٹائ اور ان سے معزرت کی دادی نے اسے آرام کرنے کا کہ کر دعائیں دیتے ہوۓ فون بند کردیا
وہ کافی دیر تک سوتی رہی جب آنکھ کہلی تو دادی اس کے نزدیک بیٹھی شفقت سے اس کے بالوں میں انگلیاں پہیر رہی تھی وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئ
دادی آپ یہاں-----آپ اوپر کیوں آے------- مجھے کہ دیتے میں آجاتی
وہ جانتی تھی دادی کو سیڑھیاں چڑھنے میں کتنی تکلیف ہوئ ہوگی
اس حالت میں تم کیسے آتی------ کیا اپنی بیٹی کے لیے میں چند سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی
اس کی موجودگی میں اج وہ پہلی بار اوپر آئ تھیں وہ بھی اس کی خاطر عیشا کو ان پر بہت پیار آیا
دادی آپ بہت اچھے ہو
وہ ان کے گلے لگ کر بولی اسے اپنے امی ابو کی محبت یاد اگئ تو آنکھوں میں آنسو اگئے
ارے تم رو رہی ہو ------کیا بہت درد ہورہا ہے
اس نے انگلیوں کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوۓ گردن نفی میں ہلادی
دادو میں نکل رہا ہوں آپ سیڑھیاں اترنے کے لئے نینا کو ساتھ میں ضرور لینا
وہ ڈریسنگ روم سے باہر آکر بالوں کو جیل سے سیٹ کرتے ہوے بولا
تم جا کہاں رہے ہو------ وہ بھی بنا ناشتہ کئے
ایک امپورٹمٹ میٹنگ ہے دادو ------میں وہیں پر کچھ کہالونگا
وہ ٹائی باندھنے لگا
نہیں تم کہیں نہیں جاونگے----- عیشا کو تمہاری ضرورت پڑ سکتی ہے اس لئے اج سارا وقت اس کے ساتھ رہنا
دادی نے سختی سے حکم دیا
دادو میں بس میٹنگ اٹینڈ کرکے واپس آجاؤنگا تھوڑی دیر میں
اب کے وہ اُن کے پاس آکر بولا
بلکل نہیں میں نے کہ دیا کہ تم نہیں جاؤگے تو نہیں جاؤگے---- ڈاکٹر کو فون کرکے بلاؤ
نہیں دادی اس کی ضرورت نہیں ہے میں بلکل ٹھیک ہوں
عیشا نے اُنہیں روکنا چاہا
دیکھ رہی ہوں کتنی ٹھیک ہو چہرہ دیکھو کیسا مرجھا گیا ہے -----اور تم اب تک یونہی کھڑے ہو جاؤ ڈاکٹر کو بلاؤ اور اس کے لئے کچھ کھانے کو بھی لے آؤ
اس بار انہوں نے کچھ سختی سے کہا
سوری دادو میں اپنا قیمتی وقت ان لوگوں کو نہیں دیتا جنہیں میری ضرورت نا ہو اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ
ایک ساتھ کہ کر وہ بنا دیر کئے باہر نکل گیا عیشا اس کی پشت کو دیکھتی رہ گئ
تم اس کی باتوں کا برا مت مانو بیٹا شروع سے ہی زرا کم دماغ ہے زرا زرا سی بات پر غصہ ہوجاتا ہے- لیکن دل کا برا نہیں ہے-- بس کبھی کبھی ہٹ دھرمی کرنے لگتا ہے
سات سال کا تھا جب ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا_--- اس وقت تو کچھ سمجھنے کا بھی شعور نہیں تھا ماں باپ کی موت کا دکھ کیسے مناتا----- ہر کسی سے بس ایک ہی بات کہتا تھا دونوں بزنس ٹور پر گئے ہے آۓ گے تو اس کے لیے ڑھیر سارے کھلونے لے کر آۓ گے -----کبھی کبھی گیٹ سے جھانک کر ان کا انتظار کرتا تھا ----مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے بتاتی کہ اب وہ دونوں کبھی نہیں آۓ گے----- اکلوتے بیٹے کو کھونے کا دکھ بھول کر اس کا درد کم کرنا چاہتی تھی -----میرے بیٹے کی آخری نشانی جو وہ میرے بھروسے چھوڑ گیا تھا----- لیکن تمہارے داداجان اس دکھ کو برداشت نہیں کرسکے اور انہوں نے بھی میرا ساتھ چہوڑ دیا --اس وقت میں حقیقت میں ٹوٹ گئ تھی زندہ رہنے کی خواہش ختم ہو گئ تھی----- لیکن ساحر کا معصوم چہرہ مجھے اپنا دکھ بھولنے پر اکساتا تھا وقت کے ساتھ ساتھ اس نے یہ یقین تو کرلیا کہ اس کا انتظار لاحاصل ہے لیکن اج بھی افسوس کرتا ہے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ گزارا ایک لمحہ بھی یاد نہیں جسے یاد کرکے سکون پاسکے
ان کا چہرہ آنسووں سے تر ہو چکا تھا عیشا نے روتے روتے اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو صاف کی اور ان کے گلے لگ گی
لیکن اب مجھے اس کی کوئ فکر نہیں ہے تم جو ہو اس کا خیال رکھنے کے لئے
وہ کہنا چاہتی تھی کہ میں اس کاخیال نہیں رکھ سکتی دادی اپ نے مجھ سے غلط امید لگائ ہے
لیکن وہ صرف سوچ کر رہ گئ دادی نے اسے خود سے الگ کیا
دادی اپ کی طبیعت خراب ہو جاے گی
سوری بیٹامیں نے تمہیں بھی پریشان کردیا
نہیں دادی آئ ایم سوری اگر مجھ سے کوئ غلطی ہوگئ تو آپ مجھے معاف کر دینا پلیز
دادی نے اس کی معصومیت پر مسکراکر اس کی پیشانی چوم لی تبھی دروازہ کہول کر ساحر اندر داخل ہوا
ڈاکٹر کو فون کردیا ہے میں نے ------پہنچتا ہی ہوگا وہ
وہ اپنی ٹائی نکال کر سائڈ میں رکھتے ہوئے بولا
مجھے معلوم تھا تم واپس آؤگے
دادی نے عیشا کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا
اپ کی وجہ سے آنا پڑا ورنہ اپ خود کو بھول کر دوسروں کی خدمت میں لگ جاتی
یہ کوئ دوسری تھوڈے ہی ہے یہ تو میری بیٹی ہے
انہوں نے عیشا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا
لیکن اپ نے تو بتایا تھا پاپا اپ کے اکلوتے بیٹے تھے تو اب یہ بیٹی کہاں سے اگئ میری کوئ چھوٹی دادی بھی ہے کیا
وہ چہرے پر سنجیدگی لیے شرارت سے بولا
ساحر مار کہاوگے میرے ہاتھ سے چلو مجھے نیچے چھوڑ آؤ اور عیشا تم کھانا کھا کر آرام کرنا اور کوئ بھی ضرورت ہو تو بلا جھجھک ساحر سے کہنا
انھونے پیار سے اس کا گال تھپتھپایا
جی دادی
ساحر انہیں لئے نیچے چلا گیا جب وہ واپس آیا تو ڈاکٹر کے ساتھ تھا ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کرکے دوائ دی اور آرام کرنے کی صلاح دی ساحر نے ملازم سے کہ کر اس کا کھانا وہیں لگوادیا وہ سارا دن وہ دوائ کے زیر اثر سوتی رہی اس لئے اسے ساحر کی مدد کی ضرورت ہی نہیں پڑی ساحر دن بھر گھر کو ہی افس بناے فائلوں میں الجھا رہا لیکن وقفہ وقفہ سے ایک نظر اس کے سوتے ہوے وجود پر ڈال لیتا تھا
!!!************!!
دو دن تک ریسٹ لے کر وہ لگ بھگ ٹھیک ہو گئ تھی لیکن چلتے ہوے اب بھی تکلیف محسوس ہو رہی تھی دو دن تک ساحر نے ایک ملازمہ کو سارا دن اس کے پاس رہ کر اس کا دھیان رکھنے کی تاکید کر رکھی تھی اس لئے وہ مکمل بیڈ ریسٹ لے رہی تھی ساحر کے انے تک ملازمہ اس کے پاس ہی رہتی
وہ رات کا کھانا کھاکر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاے بیٹھ گئ دادی کو فون کرکے ان سے دیر تک بات کرتی رہی دو دن سے وہ اپنے روم میں ہی تھی دادی اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود صبح آکر اس سے ضرور ملتی تھی دو دن کمرے میں بند رہنا اسے دو مہینے قید میں ہونے کے برابر لگ رہا تھا فون بند کرکے اس نے ٹی وی ان کرلیا اور گانے دیکھنے لگی ساحر کے آنے پر ملازمہ کھانے کے برتن لئے باہر نکل گئ
عیشا کو ہلکا ہلکا سا بخار تھا جس سے کمزوری محسوس ہورہی تھی اس نے بیڈ سائڈ ٹیبل سے باکس نکال کر بخار کی گولی لی پانی پیتے ہوۓ غلطی سے پانی اس کے کپڑوں پر بھی گر گیا بخار کی وجہ سے پانی گرنے پر اس کے جسم میں کپکپی سی ہونے لگی وہ پریشان ہوکر بیڈ سے اترنے لگی کھڑے ہوتے ہی اسے پیر میں ایکدم سے شدید درد ہوا جس سے اس کی چیخ نکل گئ لیکن وہ سنبہلتے ہوے اگے بڑھنے لگی
کیا ہوا-- تم ٹھیک تو ہو
ساحر اس وقت ڈریسنگ روم میں کپڑے چینج کر رہا تھا اس کی چیخ سن کر فوراً باہر آگیا اس نے صرف ڈارک گرین کارگو پینٹ پہن رکھی تھی عیشا کی چینخ پر گھبرا کر بنا شرٹ کے ہی باہر آگیا تھا
عیشا نے اسے پہلی بار ایسے دیکھا تھا اسے بہت عجیب لگ رہا تھا اس لئے اس نے نظریں نیچے کرلی
کچھ چاہئے کیا تمہیں
جواب نا پاکر اس نے دوبارہ پوچھا عیشا نے بنا دیکھے گردن نفی میں ہلادی اور لڑکھڑاتے ہوۓ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھانے لگی
کہا جا رہی ہو
ساحر نے بیزاری سے پوچھا
کپڑوں پر پانی گر گیا ہے چینج کرنے جارہی ہوں
وہ بنا اُسے دیکھے ہی بولی
اوکے آؤ میں تمہیں وہاں تک چھوڑ دوں
اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاکر کہا
نہیں میں چلی جاونگی
عیشا نے اسے نظر انداز کر دیا
تم اتنی ضدی کیوں ہو----- دو قدم بڑھا نہیں پا رہی ہو اور وہاں تک جاوگی-_---- چلو میرے ساتھ
مجھے تمہاری کوئ ہیلپ نہیں چاہئے
اس نے تلخ لہجے میں کہا
جہنم میں جاؤ
غصے میں آکر اس نے اپنا ہاتھ جھٹک کر رخ پھیر لیا وہ مشکل سے چل کر چار قدم آگے بڑھی تھی کہ اگلے قدم پر بری طرح لڑکھڑا کر گرنے لگی لیکن ساحر نے اس کی کلائ پکڑ کر کھینچتے ہوۓ اپنے قریب کرلیا اس نے شکر ادا کیا کیونکہ اس بار گرتی تو دیوار سے ٹکراکر سیدھے سر پھٹ جاتا ساحر نے اسے قریب کرکے ہاتھ اس کی کمر پر رکھ دیے
چار قدم چل نہیں سکتی اور اکڑ دنیا سے زیادہ دکہاتی ہو---- ابھی اگر گرجاتی تو پیر نہیں ساری کی ساری تم ٹووسٹ ہو جاتی
اس کے لہجے میں طنز تھا
چھوڑو مجھے
وہ اب بھی اس کی جانب دیکھنے سے گریز کررہی تھی
تم ایسی کیوں ہو بچپن میں کسی پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا کیا
آۓ سے لیو می
عیشا نے اسے غصے سے کہا جبکہ وہ بڑے سکون سے اپنی کہتا رہا
اتنی ضدی ہو تم کہ من کرتا مار مار کر تمہاری ساری اکڑ نکال دوں
وہ غصے سے بولا
تم نے سنا نہیں میں نے کہا چھوڑو مجھے
اب کے سختی سے کہنے کے ساتھ وہ پوری طاقت لگاکر اس کی قید سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ساحر بس اسے دیکھتا رہا
بہت جلدی ہے مجھ سے پیچھا چھڑانے کی کسی اور کے قربت کی عادی ہو کیا جو میرے قریب انے پر یوں پسینے چھوٹتے ہے
کاٹ دار لہجہ میں کہتے ہوۓ اس نے ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس کے پیشانی پر آۓ پسینے کے قطرے صاف کئے عیشا شاکی کیفیت سے اسے دیکھتی رہی اور دونوں ہاتھوں سے زوردار دھکا دے کر خود کو چھڑالیا اور پوری قوت سے اسے مارنے کو ہاتھ اٹھایا لیکن ساحر نے خود تک پہنچنے سے پہلے ہے اس کی کلائ کو جکڑلیا
میں تو بڑے بڑے فائٹرس کی مار نہیں کھاتا تو تمہارے نازک ککڑی جیسے ہاتھوں کی مار کیسے کھالونگا
جسٹ شٹ اپ---- تمہاری ہمت کیسے ہوئ میرے بارے میں اتنی گھٹیا بات کرنے کی
وہ غصے سے بولی
اگر کوئ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ ایسا سلوک رکھے گی تو بیچارہ شوہر اور کیا سوچ سکتا ہے
اس نے کلائی پر اپنی گرفت اور مضبوط کردی
تم میرے شوہر نہیں ہو سمجھے تم_---- ہاتھ چھوڑو میرا
اس نے دانت پیستے ہوئے کہا
اچھا اگر شوہر نہیں ہوں تو میرے ساتھ تنہا اس کمرے میں کیوں رہتی ہو
اس کا لہجہ سپاٹ تھا
تمہارے ساتھ رہنا صرف میری مجبوری ہے اگر دادی کی پرواہ نہیں ہوتی نا تو میں کیا میرا سایا بھی اس کمرے میں نہیں ہوتا
وہ حقارت سے بولی
مطلب اگر مجبوری ہو تو کسی بھی نامحرم کے ساتھ رہ لیتی---- بنا کسی رشتے کے
وہ بڑے اطمینان سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کررہا تھا جبکہ عیشا کا سارا دھیان اپنا ہاتھ چھڑانے میں تھا
شٹ اپ---- اینڈ لیو مائے ہینڈ
وہ بھلا اسکا کیا جواب دیتی
پہلے بتاؤ میں تمہارا شوہر ہوں کے نہیں
نہیں میں تم جیسے شرابی آوارہ اور بدکردار انسان کو کبھی اپنا شوہر قبول نہیں کرسکتی
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی
ارے واہ---- یہ ساری خوبیاں بھی ہے کیا مجھ میں
اس نے مسکراتے ہوئے کہا
زیادہ بھولے بننے کی کوشش مت کرو----- میں نے خود تمہیں ڈرنک کرتے ہوۓ دیکھا ہے
غصے سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی
بڑی ہی تیز آنکھیں ہے تمہاری------ ویسے کہاں پکڑا گیا میں
ولیمے والی شام تم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک طرف بیٹھے شراب پی رہے تھے میں نے خود اوپر اتے وقت تمہیں دیکھا تھا روم میں تمہارے کپڑوں سے سمیل بھی آرہی تھی
اس نے نفرت اور غصے سے کہا
او نو کتنا چھپا کر پیتا تھا میں ----لیکن تمہیں پتا لگ ہی گیا---- یو آر سو انٹیلیجنٹ یار ----تب تو تم نے مجھے کسی لڑکی کے ساتھ کوئ شرمناک حرکت کرتے ہوۓ بھی دیکھا ہی ہوگا
وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے بولا
مجھے تمہارے کسی حرکت سے کوی لینا دینا نہیں ہے----جسٹ گو ٹو ہیل.----- یو باسٹرڈ
عیشا------------
اُسے ایکدم سے غصّہ آگیا اس نے ایک ہاتھ سے عیشا کا چہرہ دبوچ لیا
اپنی حد میں رہو---_- اگر میں سن رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمہارے جو جی میں آۓ کہدو--- تم مجھے نہیں جانتی ------بتارہا ہوں اگر میں اپنی والی پر آگیا نا تو تم بہت پچھتاوگی------- نرمی سے بات کررہا ہوں تو فائدہ مت اٹھاؤ
وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا
چہوڈو مجھے ورنہ میں ابھی دادی کو سب کچھ بتادونگی----- سارا قصہ ابھی ختم ہو جایگا
اس نے اپنے چہرے سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوۓ مشکل سے کہا ساحر نے اس کا چہرہ تو چھوڑ دیا لیکن کلائی ویسے ہی پکڑے رکھا اور مکروہ ہنسی ہنستے ہوے بولا
مائ ڈئیر وائف ------مجھے دھمکی سننا بلکل بھی پسند نہیں ہے------ دادی کو بتانا چاہتی ہو نا -----بتادو------ لیکن اس کے بعد دادی کا جو ری ایکشن ہو گا اس کے مطابق میں تمہارا فیوچر ڈیسائڈ کرونگا
.
اس نے عیشا کو اپنے قریب کھینچ لیا اتنا کہ صرف ایک انچ کا فاصلہ رہ گیا
مجھے ہلکے میں مت لو عیشا----- اگر میں چاہوں نا تو اسی وقت تمہارے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہوں----- کچھ بھی--* اور مجھے کوئ نہیں روک سکتا -----تم بھی نہیں
کہ کر واپس تھوڑی دور ہوگیا
لیکن میں ایسا کرونگا نہیں ------کیونکہ اس معاملے میں مجھے زبردستی منظور نہیں ہے
ساحر سکون سے کبھی اس کی آنسو بہاتی آنکھوں کو تو کبھی کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھتا رہا عیشا پورے زور سے جھٹکے دے کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش میں لگی رہی ناکام ہو کر اس نے ساحر کو نفرت سے گھورا اور اس کی کلائ میں اپنے دانت گاڑ دیے وہ جانتا تھا وہ ایسا ہی کچھ کرےگی لیکن وہ ٹس سے مس نا ہوا اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر درد برداشت کرتا رہا لیکن چہرے پر درد کی ایک شکن تک نہیں آئ مقصد صرف اسے اپنی ہمت کا احساس دلانا تھا تھک کر عیشا نے اس کی کلائ چہوڈ دی اس نے اتنی سختی سے کانٹا تھا کہ اس کے ہٹتے ہی خون اُبھرنے لگا
بس اتنی ہی طاقت ہے اس لئے انسان کو ہمیشہ ہیلدی فوڈس کھانا چاہئے چڑیا کی طرح کھانا کھاتی ہو اور غصہ شیرنی کی طرح کرتی ہو
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا اس کی ہمت جواب دے گئ اور اس نے ساری کوشش ترک کردی
پلیز-----مجھے چھوڈ دو------- مجھے ب-------بہت چکر آرہے ہے پیٹ بھی درد کررہا ہے------پ پلیز
ہارمانتے ہوۓ اس نے تھکے تھکے انداز میں پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا اور بے ہوش ہوکر اس کے سینے پر گر گئ- ساحر اس کی ایسی حالت دیکھ کر گھبرا گیا
عیشا-------عیشا کیا ہوا ----او نو
اس نے فکرمندی سے اس کا گال تھپتھپاتے ہوۓ پوچھا کوئ جواب نا پاکر اسے یونہی ساتھ لگاۓ بیڈ تک لے آیا بیڈ پر لٹا کر اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے اور ٹشو پیپر سے چہرہ صاف کیا عیشا نے آنکھیں کہولی اور دوبارہ بند کرکے سونے لگی
تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تم صرف دادی کی خاطرمجھے یہاں روک رہے ہو---- اسی لئے میں نے تمہاری بات مان کر ان کے سامنے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا اب تم میرے ساتھ ایسا کیوں کررہے ہو------ کم سے کم دادی کا تو خیال کرو انہیں کتنا برا لگے گا اگر وہ تمہارا یہ روپ دیکھے گے
وہ اپنے آپ میں ہی بڑبڑارہی تھی ساحر کو اپنی حرکت پر بےحد افسوس ہوا اس کا مقصد ہر گز عیشا کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا اس سے عیشا کی ضد اور ہٹ دھرمی برداشت نہیں ہوتی تھی وہ صرف اسے اپنے اور اپنے رشتے کی اہمیت کا احساس دلانا چاہتا تھا
تم میرے کوئ نہیں ہو میں تمہیں-------- اپنا شوہر نہیں مانتی میں تم سے نفرت کرتی ہوں------ میں
ساحر نے اسے تسسلی دینے کے لیے منہ کھولا لیکن اسے نیند میں ایک ہی بات بڑبڑاتا دیکھ بیزار ہوکر وہاں سے اٹھ گیا اسے چادر اوڈھا کر بالکونی میں آگیا رات کے تین بجے وہ بنا شرٹ کے ٹھنڈ سے بے نیاز بالکونی میں کھڑا ایک نقطہ پر نظر جماے صرف اتنا سوچ رہا تھا کہ وہ اس سے اتنی بدگمان کیوں ہے کیوں اس سے اتنی شدید نفرت کرتی ہے کیوں اس کے لئے اپنے دل میں اتنی غلط فہمیاں رکھتی ہے مگر لاکھ سوچنے پر بھی اسے ان سوالوں کا جواب نہیں ملا
****,***********************
صبح جب آنکھ کھلی تو اسے اپنے سامنے پایا وہ سینے پر ہاتھ باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا عیشا نے بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ ایک غصہ بھری نظر اس پر ڈالی اور منہ پہیر لیا
یہ لو دوائ کہالو
ساحر نے اسے بے حد سرد لہجے میں مخاطب کیا عیشا نے اس کی جانب دیکھا اور اطمینان سے گولیاں اس کے ہاتھ سے لےلی اور اگلے ہی لمحے زور سے اس کے چہرے پر اچھال دی ساحر کو اس کے اس ردعمل کی پوری امید تھی اس لیے نا وہ حیران ہوا نا غصہ
Accha----- لگتا ہے کل کی رات بھول گئ تم
وہ طنز کرتے ہوئے بولا
اگر تم یہ سوچتے ہو کہ تمہارے ڈرانے دھمکانے سے میں ڈر جاونگی تو یہ محض تمہاری خوش فہمی ہے
کہ کر وہ بیڈ سے اترنے لگی لیکن اس کے لئے یہ نا ممکن تھا اس کی حالت پر ساحر ہنسنے لگا اسے نظر انداز کرکے اس نے انٹرکام کے زریعے ملازمہ کو بلایا
دادی کے سامنے اگر کوئ بھی بکواس کی نا تو یاد رکھنا-----
اس کا نیچے جانے کا ارادہ دیکھ کر وہ دھمکی امیز لہجے میں بولا
میں دادی کو کچھ نہیں بتاونگی----- صرف اس لیے کہ میں تم جیسے انسان کے وجہ سے انہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتی
بہت سمجھدار ہو
ملازمہ کی مدد سے کپڑے بدل کر دوائ لی اور نیچے اگئ دادی پہلے سے وہیں موجود تھیں اسے دیکھ کر خوش بھی ہوئیں اور حیران بھی
دادی بہت خراب لگ رہا تھا روم میں بیٹھے بیٹھے اس لئے میں اگئ
اس نے دادی کی سوالیہ نظروں کو پڑھ لیا
چلو اچھا کیا کمرے میں رہ رہ کر بور ہورہی ہوگی
دونوں نے ناشتہ شروع کیا تبھی ساحر بھی آگیا تینوں خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے دادی ناشتہ کرتے کرتے عیشا کو غور سے دیکھنے لگی جو آج اتنی خاموش تھی جیسے وہاں موجود ہی نا ہو ورنہ ہمیشہ وہ ناشتہ کم اور باتیں زیادہ کرتی تھی انہیں اس وقت وہ کوئ اور لگی مرجھایا ہوا چہرہ تھکی تھکی آنکھیں خاموش سی
فوک سے پلیٹ میں چھوٹے چھوٹے دائرے بنارہی تھی ساحر دادی کو دیکھ کر ان کی سوچ پڑھ گیا دادی نے اسے پکارا لیکن وہ رات والے واقعے کو ہی سوچ رہی تھی اسلئے ان کی آواز سنی ہی نہیں دادی نے دو تین مرتبہ آواز دی لیکن وہ متوجہ نہیں ہوئ تو انہونے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا وہ چونک گئ اور چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجالی
دادی یہ بہت اچھا بنا ہے نا
اس نے خود کو نارمل دکھانے کی کوشش کی
پہلے یہ بتاؤ تمہیں کیا ہوا ہے
دادی نے فکرمندی سے پوچھا
مجھے کیا ہوگا دادی میں تو بلکل ٹھیک ہوں
عیشا میں نے ابھی ابھی تمہیں تین بار اواز دی تھی
انہوں نے اسے حیران نظروں سے دیکھا
اوہ سوری دادی میرا دھیان ہی نہیں تھا
وہ واقعی شرمندہ ہوئی
کیا ہوا عیشا اتنی اداس کیوں ہو تم
انھونے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
کچھ نہیں دادی----- بس امی ابو کی یاد آرہی تھی-_------ دادی کیا میں کچھ دن کے لئے امی ابو کے گھر جاؤں
وہ رکتے ہوئے بولی
کچھ دن کے لئے -----
دادی نے انکار کرنا چاہا لیکن اس کی اداس صورت دیکھ کر مانتے ہوۓ بولی
ٹھیک ہے لیکن جلد سے جلد آنے کی کوشش کرنا
وہ خوش ہوگئ کچھ دن کے لیے ہی سہی لیکن وہ ساحر سے دور جارہی تھی دادی نے ساحر کو اسے گھر چھوڑ کر انے کو کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا
عیشاملازمہ کی مدد سے تیار ہونے اوپر چلی گئ ساحر بھی ناشتہ کرکے باہر گاڑی میں بیٹھے اس کا ویٹ کرنے لگا جب وہ تیار ہوکر باہر آئ ساحر کی نظر اس پر پڑی اور وہ نظر ہٹانا بھول گیا وھائٹ سلوار سوٹ میں ہائ لائٹ پنک کلر کا دوپٹہ دونوں کاندھے پر پہیلاے کانوں میں چاندی کے جھمکے اور ناک میں چھوٹی سی رنگ پہنے ہلکے سے میک اپ میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی کلائ پر پڑے انگلیوں کے نشان کوچھپانے کے لئے اس نے فل آستین والے ڈریس کا انتخاب کیا تھا اپنی سینڈل کو ٹھیک کرتی ہوئ ساحر اس کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بھی اسے ہی دیکھتا رہا عیشا نے اس کی جانب دیکھ کر نفرت سے رخ پہیر لیا اس نے ہلکا سا مسکرا کر گاڑی آگے بڑھادی
تو تم مجھ سے پیچھا چھڑاکر بھاگ رہی ہو-- لیکن مجھ سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں ہے
تم جہاں جاوگی میں ہر جگہ موجود رہونگا اپنے نام کی صورت میں جو تم سے جڑ چکا ہے میری طرح
وہ مسکراتے ہوئے بولا
ول یو پلیز شٹ اپ ----مجھے تمہاری بکواس نہیں سننی ہے
وہ کچھ دیر خاموشی سے مسکراتے ہوۓ ڈرائیو کرتا رہا
اج یہ پہننے کی کوئ خاص وجہ
وہ اکثر الگ الگ ٹائپ کے کپڑے پہنتی تھی لیکن ساحر نے اج پہلی بار اسے سلوار سوٹ میں دیکھا تھا
کیوں کیا اب مجھے کپڑے سلیکٹ کرنے سے پہلے تمہاری عدالت میں اپیل دینی ہوگی کہ کب کیوں اور کیسے کپڑے پہننے ہے
وہ غصے سے بولی
تمہاری اس طرح کسی بھی بات پر اوور ری ایکٹ کرنے کی عادت نے مجھے ایسا رویہ رکھنے پر مجبور کیا ہے
ویسے اج قاتل لگ رہی ہو
اس کی جانب جھک کر کان کے نزدیک سرگوشی کی عیشا نے اسے گھور کر دیکھا تو اس کے گھورنے پر وہ مسکرا کر گانا گاتے ہوۓ پیچھے ہو گیا
جادو تیری نظر
خوشبو تیرا بدن
تو ہاں کر
یا ناں کر
تو ہے میری کرن
تو ہے میری کرن
سامنے دیکھتے ہوۓ وہ لگاتار یہی گنگناتا رہا اور بار بار بےباک نظروں سے اس کی جانب دیکھتا رہا عیشا نے بیزار ہوکر بیگ سے موبائل اور ہیڈ فون نکال لیا اور فل اواز میں گانے سننے لگی ساحر اس کی حالت پر ہنسنے لگا
گھر آنے پر اس نے گاڑی روک دی
رات تک آجانا یا مجھے بلا لینا لینے آجاؤنگا اوکے
عیشا ڈور کھولتے کھولتے رک گئ اور اسے دیکھنے لگی جو بڑے اطمینان سے آنکھوں سے گلاسس نکال کر سامنے دیکھ رہا تھا
میں یہاں کچھ دن رہنے کے لیے آئ ہوں
جانتا ہوں لیکن میں چاہتا ہو تم رات تک آجاؤ---- مطلب آجاؤ
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سنجیدگی سے کہنے لگا
تم کیا چاہتے ہو اس سے مجھے کوئ مطلب نہیں ہے---- میں دادی سے پوچھ چکی ہوں اور میرے لئے اتنا ہی کافی ہے
وہ کہ کر گاڑی سے نکل گی ساحر بھی باہر آگیا
اگر تم رات تک واپس نہیں آئ تو میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دونگا
عیشا کے قدم ایکدم رک گۓ حیرانی سے اسے مڑکر دیکھا ساحر اس کے پاس آیا
سارا دن ہے تمہارے پاس -----سوچ لینا----- یا تو رات تک گھر آجانا --_--یا کل صبح میں تمہیں سب کے سامنے ہاتھ پکڑ کر واپس لے جاونگا --_-اوکے ٹیک کیئر
گلاسس لگاکر وہ گاڑی میں بیٹھ گیا ایک طنزیہ مسکراہٹ سے اس کی جانب دیکھا اور گاڑی آگے بڑھالی عیشا دیر تک وہیں کھڑی شاکی کیفیت میں اس راستے کو دیکھتی رہی اور تھکے قدموں سے اندر اگئ
اس نے گھر والوں پر اپنی کیفیت بلکل محسوس نہیں ہونے دی کیونکہ وہ انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ساحر کے ڈر سے جھکے گی نہیں اپنوں سے مل کر وہ سب کچھ بھول گئ تھی سارا وقت خوشی خوشی باتیں کرتی رہی سب ہی اس کے آنے پر بہت خوش تھے اتنے دن بعد وہ زوبی سے بھی ملی تھی اور اب تک کی ساری کسر پوری کرلی تھی
رات کا کھانا کھاکر وہ اپنے روم میں کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ گئ تب صبح کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا
وہ کیا سمجتا ہے میں اس سے ڈر کر اس کی ہر بات مان لونگی دیکھتی ہوں کیا کرتا ہے اب تک بہت برداشت کرلیا اس کی حرکتوں کو لیکن اب نہیں-----_
یا اللہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے میں نے تو سب کی خوشی چاہی تھی نا اپنی قسمت کے فیصلے کو خوشی خوشی قبول کیا تھا اپ کی رضا جان کر تو پھر یہ سب کیوں------- میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کیا کروں
پہلے بھی مجھے اپ پر پورا بھروسا تھا اور اب بھی ہے یا اللہ میری مدد کریں میں جو بھی کروں اس میں بس اپکی رضا ہو کیونکہ اپ کی رضا میں ہی میری بہتری ہے یا اللہ مجھے ہمت دینا کہ میں ہر حالات کا سامنا کر سکوں
کچھ دیر یونہی کھلے آسمان کو تکتی رہی
وہ کچھ نا کچھ ضرور کرے گا دادی کو کتنی تکلیف ہوگی یہ سب جان کر وہ پہلے ہی بیمار ہے اگر ان کی طبیعت زیادہ بگڑ گئ تو نہیں جو بھی ہو اس انسان کی وجہ سے میں دادی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتی کتنی اچھی ہے دادی مجھے کتنا پیار کرتی ہے کتنا خیال ہے انہیں میرا اگر میری وجہ سے انہیں کچھ ہو گیا تو
نہیں مجھے اس وقت واپس چلے جانا چاہئے ورنہ اسے بہانہ مل جاے گا اور اگر سچ میں اس نے مجھے طلاق دینے سے انکار کردیا تو نہیں میں ساری زندگی خود کے ساتھ اس کا نام بھی برداشت نہیں کرسکتی ابھی چلی جاتی ہوں ورنہ سب کے سامنے تماشہ کرے گا سب پریشان ہو جاےگے امی ابو کی کتنی بے عزتی ہوگی نہیں میں ایسا نہیں ہونے دونگی میری وجہ سے میرے اپنوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے
اس نے گھڑی پر نظر ڈالی جو رات کے پونے بارہ بجا رہی تھی فورا باہر اکر ادھر ادھر نظریں دوڈای ریحان اور فائزہ اب بھی ڈروائنگ روم میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے
بہائ جان مجھے گھر چھوڑ دیجیے
ریحان نے اسے حیرت سے دیکھا اور اٹھ کر پاس آیا فائزہ بھی حیران نظروں سے اسے دیکھتی رہی
کیا ہوا عیشو
کچھ نہیں بہائ جان دادی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے انہیں میری ضرورت پڑ سکتی ہے اسلیے مجھے واپس چلے جانا چاہئے میں بعد میں آجاونگی
عیشو بہت دیر ہوگئ ہے اس وقت جانا صحیح نہیں ہے صبح ہوتے ہی چلی جانا
فائزہ نے اسے روکنا چاہا
نہیں بھابھی مجھے رات بہر فکر ہوتی رہے گی اس سے اچھا ابھی ہی چلی جاتی ہوں
اس کا پکا ارادہ دیکھ کر دونوں نے مزید کچھ نہیں کہا اور وہ ریحان کے ہمراہ گھر اگئ ریحان اسے باہر ہی اتار کر چلا گیا اور اس نے بھی اسے اندر انے کا نہیں پوچھا کہ کہیں ساحر اس کے سامنے ہی کچھ نا کہہ دے
اندر آتے ہی اس کی نظر ساحر پر پڑی جو بڑی شان سے پورچ کے ستون سے ٹیک لگاے ہاتھ سینے پر باندھے مسکراتے ہوۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا عیشا کے دیکھنے پر دونوں ہاتھ اپنی بلیک ٹراؤزر کی جیب میں ڈالتے ہوے اس کے قریب اگیا
مجھے پتا تھا تم ضرور آؤگی
مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی
میں یہاں صرف دادی کے لیے آئ ہوں کیونکہ میں تم جیسے انسان کی وجہ سے انہیں تکلیف نہیں پہنچاسکتی
چلو یہی سہی -------اج دادی کے لئے آئ ہو کل کو میرے لئے بھی آ ہی جاوگی
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ تمہارا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا تم جیسے انسان کی بات ماننے سے میں مرنا پسند کرونگی------_-- ہٹو میرے راستے سے
اس پر ایک نفرت بھری نظر ڈال کر وہ سائڈ سے نکل کر اندر اگئ ساحر نے ایک گہری سانس لی اور اسے جاتے دیکھتا رہا
****************************
وہ واپس تو یہ سوچ کر آئ تھی کہ اس انسان کا ڈٹ کر مقابلہ کریگی لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئ اگلے ہی دن وہ کسی کام سے کہیں باہر چلا گیا اسے دادی کی باتوں سے پتا چلا کہ وہ کچھ دنوں کے لئے لنڈن گیا ہے اور عیشا کو لگا کہ وہ خوشی کے مارے پاگل ہوجاے گی وہ اپنی پہلی زندگی میں واپس اگئ تھی وہی ہنسی مزاق وہی بےفکری سب کچھ جو وہ چاہتی تھی ہر دن وہ یہی دعا کرتی کہ ساحر اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے نکل جاے اور اس کی ساری زندگی اسی طرح سکون سے گزرے تو دوسری طرف وہ ہر لمحہ اس کی کمی محسوس کررہا تھا دشمنی ہی سہی پر وہ نظر کے سامنے تو ہوتی تھی جس کی ایک جھلک اس کی ساری بے چینی کو ختم کرنے کے لئے کافی تھی اس کا لنڈن آنا ضروری نہیں تھا لیکن وہ عیشا کی خاطر اس سے دور آیا تھا اس نے عیشا کو ناشتے پر جب بہت اداس دیکھا تو اسے اپنے اپ پر بہت غصہ آیا کہ اس کی وجہ سے عیشا اتنی پریشان ہے اور اپنے امی ابو کے گھر جانے پر مجبور ہوگئ ہے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کچھ دن کے لیے باہر چلا جایگا تاکہ وہ سنبہل سکےاور دادی کو بھی عیشا کے بغیر نا رہنا پڑے اسی لیے اس نے عیشا کو اسی دن واپس انے کو کہا تھا لیکن جانتا تھا اگر اس سے سیدھی طرح بتایا تو کبھی نہیں مانے گی اس لیے اسے دھمکی دی تاکہ وہ مجبور ہوجاے اور اس کے انے کے اگلے دن صبح ہی لنڈن آگیا اس نے اپنا کام دو دن میں ہی ختم کرلیا تھا لیکن پھر بہی ایک ہفتہ مزید وہیں رہا
وہ واپس تو یہ سوچ کر آئ تھی کہ اس انسان کا ڈٹ کر مقابلہ کریگی لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئ اگلے ہی دن وہ کسی کام سے کہیں باہر چلا گیا اسے دادی کی باتوں سے پتا چلا کہ وہ کچھ دنوں کے لئے لنڈن گیا ہے اور عیشا کو لگا کہ وہ خوشی کے مارے پاگل ہوجاے گی وہ اپنی پہلی زندگی میں واپس اگئ تھی وہی ہنسی مزاق وہی بےفکری سب کچھ جو وہ چاہتی تھی ہر دن وہ یہی دعا کرتی کہ ساحر اس کی زندگی سے ہمیشہ کے لئے نکل جاے اور اس کی ساری زندگی اسی طرح سکون سے گزرے تو دوسری طرف وہ ہر لمحہ اس کی کمی محسوس کررہا تھا دشمنی ہی سہی پر وہ نظر کے سامنے تو ہوتی تھی جس کی ایک جھلک اس کی ساری بے چینی کو ختم کرنے کے لئے کافی تھی اس کا لنڈن آنا ضروری نہیں تھا لیکن وہ عیشا کی خاطر اس سے دور آیا تھا اس نے عیشا کو ناشتے پر جب بہت اداس دیکھا تو اسے اپنے اپ پر بہت غصہ آیا کہ اس کی وجہ سے عیشا اتنی پریشان ہے اور اپنے امی ابو کے گھر جانے پر مجبور ہوگئ ہے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کچھ دن کے لیے باہر چلا جایگا تاکہ وہ سنبہل سکےاور دادی کو بھی عیشا کے بغیر نا رہنا پڑے اسی لیے اس نے عیشا کو اسی دن واپس انے کو کہا تھا لیکن جانتا تھا اگر اس سے سیدھی طرح بتایا تو کبھی نہیں مانے گی اس لیے اسے دھمکی دی تاکہ وہ مجبور ہوجاے اور اس کے انے کے اگلے دن صبح ہی لنڈن آگیا اس نے اپنا کام دو دن میں ہی ختم کرلیا تھا لیکن پھر بہی ایک ہفتہ مزید وہیں رہا
***************************=
وہ نیند سے جاگی تو مسکراتے ہوے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاے انگڑائ لینے لگی جب نظر دیوار سے ٹیک لگاے وجود پر پڑھی تو مسکراہٹ ایک دم سے غائب ہو گئ اور ہاتھ جہاں جیسے تھے وہیں تھم گئے ایک پل کو یقین نہیں ہوا کہ سکون بھرے دن اتنی جلدی ختم ہوگے اور شیطان کی دوبارہ واپسی ہوگئ وہ گہری سانس لے کر سیدہی ہوکر بیٹھ گئ وہ کالج سے آئ تو دادی سورہی تہیں اس لیے وہ کھانا کھانے کے بعد بالکونی میں ناول پڑھنے بیٹھی تھی پڑھتے پڑھتے اسے وہیں نیند لگ گئ اور اب جاگی تو اسے سامنے دیکھ کر جاگنے پر ہی افسوس ہونے لگا
اسسلام و علیکم---** ہوگئ نیند
چاکلیٹ کا بائٹ لیتے ہوۓ پوچھا عیشا نے اس کی جانب دیکھا بھی نہیں
ون منٹ
اب وہ چل کر چیئر کے قریب آگیا
یہ کپڑے کچھ جانے پہچانے لگ رہے ہیں لگتا ہے کہیں دیکھا ہے
اس نے اپنے اوور کورٹ کو جانچتی نظروں سے دیکھا جو عیشا نے پہن رکھا تھا اسے نیند لگتے ہی سردی محسوس ہورہی تھی اس لئے اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے کرسی پر رکھا کورٹ پہن لیا تھا اس وقت وہ نیند کے خمار میں تھی اسلیے کچھ سوچ پانا ممکن نہیں تھا
مجھے نہیں پتا تھا--- کہ یہ تمہارا ہے
وہ دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی
تو شاید دادی کا سمجھا ہوگا---- ہے نا
وہ ایکدم اٹھ کر کھڑی ہوگئ
نہیں میں اس وقت نیند میں تھی اس لئے کچھ سوچے بغیر پہن لیا تھا
وہ چاہ کر بھی لہجہ سخت نہیں کر پائی
کیوں جھوٹ بول رہی ہو ---سچ سچ کہو نا -تم مجھے یاد کررہی تھی ---مجھے پتا ہے تم نے مجھے بہت مس کیا
وہ دھیرے سے مسکرای
سچ کہا تم نے------ میں نے واقعی تمہیں بہت مس کیا------روز اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی تھی کے اللہ میری زندگی سے تم جیسے کمینے انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دے تاکہ میں سکون سے جی سکوں کاش تمہارا پلین راستہ بھٹک جاے اور تم کبھی گھر واپس نا آؤ یا تمہارا ایکسیڈنٹ ہو جاے اور تمہاری یادداشت چلی جاے
اوووو چلو ایسے ہی سہی تم نے مجھے اپنی دعا میں تو شامل کرلیا-- ایک دن دل میں بھی کرہی لوگی
وہ چاکلیٹ چباتے ہوے اس سے نظریں ملاے بات کررہا تھا اس نے بلیک ٹی شرٹ اور بلیک جینس پہنی تھی ساتھ ہی ڈلوھائٹ جیکیٹ تھا ہلکی بڑھی ہوئ شیو اور ماتھے پر بکھرے بال اسے بہت دلکش بنا رہے تھے
تم لنڈن سے واپس کیوں اگئے---- تمہیں تو وہیں رہنا چاہئے تھا وہاں کی لڑکیاں تو تمہاری ان لوفرانہ حرکتوں پر مر مٹتی
آج وہ اسی کی طرح بات کررہی تھی
یو آر رائٹ -----اللہ نے شکل ہی ایسی دی ہے لنڈن تو کیا جہاں بھی جاؤں بس ایک دیدار کے لئے ترستی ہے بیچاری لڑکیاں------ لیکن کیا کروں شروع سے ہی مجھے وہ چیز پسند نہیں اتی جو آسانی سے مل جاے -----آۓ لائک چلینجیز لائک یو
ہاتھ اگے بڑھا کر اس کے چہرے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرنا چاہا جسے عیشا نے خود تک پہنچنے سے پہلے ہی جھٹک دیا
یہ کیا کرہے تھے تم -------خبردار جو آیندہ مجھے چھونے کی کوشش بھی کی مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا-_-- اب میں خاموش نہیں رہوگی--- ہر بات کا حساب لونگی سمجھے تم
وہ غصّہ ہوکر انگلی دکھاتے ہوئے بولی
باپ رے -----تو کیا اب تک تم خاموش تھی ----واہ----- ہر بات کا تگڑا جواب دیتی ہو اور اسے خاموشی سمجھتی ہو
وہ ہلکا سا ہنس کر کچھ سوچنے لگا
سوچتا ہوں آزماں ہی لوں کس حد تک بدلہ لے سکتی ہو
اس کے لبوں کو دیکھتے ہوے شرارت سے بولا اور پھر اس کی آنکھوں میں دیکھا عیشا اس کی بات کا مفہوم سمجھی تو گھبرا کر پلکیں جھکالی اور وہ لمحہ ساحر کے دل میں قید ہوگیا اسے عیشا کی یہ ادا بہت پسند تھی اتنی بولڈ جھگڑالو لڑکی ایک لمحہ نظر ملنے پر یو گھبرا جاے تو کتنی معصوم لگتی ہے
یلو ٹراوزر پرڈارک بلیو اوور کورٹ جو اس کے سائز سے کئ زیادہ بڑا تھا اس کی گلابی رنگت پر کافی سوٹ کررہا تھا
عیشا نے تھوک نگل کر گھبراہٹ کو کنٹرول کیا کیونکہ وہ اس کے آگے کمزور نہیں پڑنا چاہتی ساحر اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا
راستہ چھوڑو میرا مجھے تم جیسے فضول آدمی کی فضول باتیں نہیں سننی ہے
اس پر ایک نفرت بھری نظر ڈال کر وہ ایک سائڈ سے نکل گئئ
یا اللہ اس بیوقوف لڑکی کو تھوڑی سی عقل دے دے
اس نے کھلے آسمان کی جانب دیکھ کر دھیمی اواز میں دعا کی
***************************
کڑی دھوپ میں وہ پچھلے ادھے گھنٹے سے سڑک کے کنارے کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی بدقسمتی سے موبائیل گھر پر ہی بہول آئ تھی ورنہ گھر فون کرکے ڈرائیور کو بلالیتی ساحر کی غیر موجودگی میں اسے لانے لیجانے کا کام ڈرائیور کے زمہ تھا لیکن واپس اتے ہی اس نے دوبارہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لی تھی اج تک کبھی وہ اتنا لیٹ نہیں ہوا تھا اس کے باہر نکلتے ہی گیٹ پر موجود ہوتا تھا دھوپ سے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اس لیے وہ ایک گھنے پیڑ کے نیچے اکر کھڑی ہوگئ اور سکارف سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا تبھی ایک گاڑی اس کے ٹھیک سامنے آکر رکی لیکن وہ نہیں تھی جس کا اسے انتظار تھا دوسری جانب سے جاوید باہر آیا تو اس نے سلام کیا
کیسی ہو عیشا---- ویسے تو میں تم سے بہت ناراض تھا سوچ رکھا تھا کبھی بات نہیں کرونگا لیکن کیا کروں مجبوری ہے -----تمہاری وجہ سے میں نے ساحر سے ملنا بھی کم کردیا ہے کم سے کم بتا تو دیتی
بلیو جینس اور سکائ بلیو شرٹ میں اس کے مقابل ا کھڑا ہو جب گلاسس ہٹاے تو اس کی آنکھوں میں خفگی واضح تھی
آۓ ایم سوری----- سب کچھ اتنا جلدی جلدی ہوگیا کہ----------
کہ تمہیں ایک پل کے لئے بھی میرا خیال نہیں آیا---- آتا بھی کیسے میں ہوتا کون ہوں تمہارا
بہائ جان نے بتایا تھا آپ سے رابطہ ہو نہیں پا رہا تھا
وہ بنا نظریں ملائے بات کر رہی تھی
ہاں جب قسمت ہی خراب ہو تو سارے راستے اپنے آپ بند ہوجاتے ہے----- اینی وے میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم ساحر کے ساتھ خوش ہو---- ہو نا
اس نے سر اثبات میں ہلادیا
چلو تمہیں گھر ڈراپ کردوں
اس نے آفر کی
نہیں اپ رہنے دیں وہ آتے ہی ہونگے مجھے لینے
ایک گھنٹے سے دھوپ میں کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہو ہوسکتا ہے کسی میٹنگ میں پھنس گیا ہو یا بھول گیا ہو
عیشا نے سوچا اسے کیسے پتا کیا یہ بہی ایک گھنٹے سے یہی پر تھا
نہیں وہ بھول نہیں سکتے روز وقت پر پہنچ جاتے ہیں شاید کہیں ٹریفک وغیرہ میں پہنس گۓ ہو
جاوید نے اسے غور سے دیکھا
فون بھی تو کر سکتا تھا تم کب تک یہاں کھڑی رہوگی یا پھر میرے ساتھ جانا ہی نہیں چاہتی
عیشا خاموشی سے زمین کو دیکھتی رہی اور وہ اس کو دیکھتا ربا
کہا تھا تم سے---- تم چاہے جو سمجھو لیکن میں تمہیں اپنی دوست سمجھتا ہوں تمہاری مدد کرنا فرض ہے میرے لئے ---چاہو یا نا چاہو
عیشا نے اسے غور سے دیکھا اس شخص کی باتوں کو وہ جان بوجھ کر نظر انداز کر جاتی تھی کیونکہ جاوید اس کے متعلق کیا سوچتا ہے اسے اندازہ ہوچکا تھا
چلو بیٹھ جاؤ
پلیز رہنے دیجیے میں ٹیکسی لے لونگی
وہ واقعی اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی
ٹیکسی والے پر بھروسہ ہے لیکن مجھ پر نہیں
اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی عیشا پریشان ہوگئ ایسی بات کرتا تھا کہ سامنے والا صفائ بھی نہ دے سکے
ایسی بات نہیں ہے اپ کو بھی کہیں جانا ہوگا نا
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا سارے راستے ختم ہوگے چلو تمہیں ہی تمہاری منزل تک پنہچادوں
اس کی ہر بات پر معنی تھی عیشا نے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا ویسے بھی گرمی سے اس کے اوسان خطا ہورہے تھے اس لئے خاموشی سے فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئ جاوید بھی اپنی جانب آیا لیکن اس کے دروازہ کھولتے ہی ساحر کی گاڑی سامنے سے اکر رکی
ساحر باہر آیا ایک گہری نظر گاڑی میں بیٹھی عیشا پر ڈالی اورجاوید کی جانب بڑھ کر خوشدلی سے گلے ملا
یار تم تو اج کل عید کا چاند بن گۓ----- نظر ہی نہیں آتے
اج کل تو میں خود کو نظر نہیں آتا تو تمہیں کیسے اونگا ----خیر تم بتاؤ کہاں رہ گۓ تھے عیشا کب سے تمہارا انتظار کررہی ہے وہ تو میں یہاں سے گزررہا تھا تو سوچا اسے گھر چھوڈ دوں
ہاں یار وہ راستے میں چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اس لیے تھوڈا لیٹ ہوگیا فون بھی شاید وہیں کہیں گرگیا اس لئے انفارم نہیں کر پایا---- عیشا چلو دادی ویٹ کررہیں ہوگی
عیشا نے دیکھا وہ پسینے میں نہاگیا تھا اس کے لائٹ گرین شرٹ کے بازو پر خون لگا ہو تھا
ساحر تمہیں چوٹ لگی ہے تم ہاسپٹل جاؤ عیشا کو میں ڈراپ کردونگا ایک ہی بات ہے
تونے کہا اس کے لئے شکریہ -----لیکن ایک بات نہیں ہے اگر میں اسے نہیں لےگیا تو دادی مجھے بہت مارے گی اس کی ڈیوٹی انہوں نے مجھ پر لگائ ہوئ ہے اسلیے سارے کام ایک طرف پہلے اپنی ڈیوٹی-------- تم اب تک وہیں ہو چلو
ساحر کی آواز پر وہ فوراً گاڑی میں بیٹھ گئ ساحر بھی جاوید سے خدا حافظ کہ کر آگیا اور گاڑی سٹارٹ کر لی سارا راستہ وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا جب کہ اجکل وہ عیشا کو پریشان کرنے کا کوئ موقع نہیں چھوڑتا تھا شاید ایکسیڈنٹ کی وجہ سے پریشان تھا لیکن اس نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ کیسے کہاں ایکسیڈنٹ ہوا
گھر آکر اس نے دادی کو اپنے انے کی اطلاع دی گرمی نے جو حال کیا تھا اس کے بعد کھانے سے زیادہ نہانا ضروری تھا اس لئے وہ روم میں اگئ جہاں ساحر کپڑے چینج کرکے صوفے پر ٹیک لگائے پیشانی پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا دروازہ کھلنے پر سیدھا ہوا اور اس کی جانب دیکھا عیشا نے اپنا بیگ ٹیبل پر رکھا اور گلاس اٹھا کر پانی پینے لگی
تم نے جاوید سے لفٹ کیوں لی
عیشا نے جیسے سنا ہی نہیں اب کے وہ کچھ زور سے بولا
تم سے بات کرہا ہوں میں جواب دو کیا ضرورت تھی اس سے لفٹ لینے کی کچھ دیر اور انتطار نہیں کر سکتی تھی
وہ اس کے غصے سے کہنے پر پلٹی
ایک گھنٹہ دھوپ میں کھڑی رہی اور کتنا انتظار کرتی چکر آنے لگے تھے مجھے فون بھی گھر میں بھول گئ تھی اور کیا کرتی
اس کا مطلب کیا منہ اٹھا کر کسی کی بھی گاڑی میں بیٹھ جاوگی ٹیکسی بھی تو لے سکتی تھی نا
وہ اس کے سامنے اکر کھڑا ہوگیا عیشا بے نیازی سے اپنے کانوں کو ٹاپس سے آزاد کرنے لگی
جاوید کوئ اجنبی نہیں ہے جانتی ہوں میں انہیں بہائ جان کے دوست ہے وہ
وہ بے نیازی سے بولی
اور بھی دوست ہے تمہارے بہائ جان کے کل کو اگر ضرورت پڑی تو ان کی بھی ہیلپ لے لینا اور کبھی راستے سے چلنے والوں کو بھی یہ نیکی کرنے کا موقع دینا
اس نے غصے سے کہا
اتنا اوور ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو تم اگر میں کسی کی ہیلپ لے لوں تو تمہیں اس سے کیا پریشانی ہے
وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی
دیکھو عیشا----- میں تم سے کوئ بحث نہیں کرنا چاہتا جو میں کہ رہا ہوں وہ سنو آیندہ کسی بھی ایرے غیرے کی مدد مت لینا اور جاوید کی ہرگز بھی نہیں
اس نے اپنے غصے کو ضبط کرکے نرمی سے کہا
اگر میں جاوید کے ساتھ جاؤں بھی تو تمہیں کیا پرابلم ہے جبکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ تم سے کہیں زیادہ اچھا انسان ہے لیکن تم خود کی برائیاں نہیں دیکھ سکتے صرف دوسروں پر الزام لگانا جانتے ہو پہلے خود میں جھانک کر دیکھو تو تمہیں بھی گھن آئے گی خود سے ایک بات بتاؤں اگر تمہاری جگہ وہ ہوتے نا تو میری زندگی یوں جہنم نہیں ہوتی کیونکہ-------
اس کے پہلے وہ کچھ اور کہتی ساحر نے پوری طاقت سے ایک زور دار تھپپڑ سے اسے دیوار پر گرادیا اور بازو کو زور سے پکڑ کر سیدھا کیا
کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ کیا بول رہی ہو------ اپنے ہی شوہر کے سامنے اس کی جگہ غیر مرد کی خواہش کررہی ہو----_-- اور یہ جاوید جاوید کیا لگا رکھا ہے تم نے جاوید بہائ جان بولو اسے -----کیا جانتی ہو اس کے بارے میں جو اتنی بڑی بات کہ رہی ہو---- کبھی پوچہنا اپنے بہائ جان سے اس کی اچھائیاں تب پتا چلے گا کون بہتر ہے
وہ عیشا کو قریب کرتے ہوے غصے میں دھاڑرہا تھا
اور اگر اب غلطی سے بھی یہ کہا نا کہ میں کون ہوتا ہوں تو قسم سے کہ رہا ہوں سب کے سامنے بڑی ہی بے شرمی سے بتاونگا کہ میں تمہارا کون ہوں_-- تم مانو یا نا مانو لیکن میں نے خدا کو حاضر ناظر جان کر تمہیں قبول کیا تمہاری حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ میرے سامنے کوئ میری بیوی کو غلط نظروں سے دیکھے اور میں تماشائ بن جاؤں
اگر تمہیں یہ لگتا ہے نا کہ میں مر رہا ہوں تمہیں حاصل کرنے کے لیے تو ایک بات بتادوں تم جیسی اور تم سے کئ زیادہ بہتر میرے قدموں میں پڑی ہے یہ تو میری انسانیت تھی جو تمہاری ایسی حرکتوں کے باوجود تمہیں اہمیت دے رہا تہا-_-- تمہاری ہر بدتمیزی کو برداشت کررہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم جو چاہو کرو------- اپنی حد تک تو مجھے سب منظور ہے لیکن تمہاری وجہ سے میرے خاندان میرے پاپا کے نام کی بے عزتی ہو یہ میں برداشت نہیں کرونگا سمجھی تم----- بعد میں تم جاوید کے ساتھ گھومو یا کسی اور کے ساتھ- -----_لیکن جب تم میرے نکاح میں ہو اور میرا نام تمہارے ساتھ جڑا ہے میں تمہیں ہر گز بھی اجازت نہیں دونگا کہ تم اپنے ساتھ میرے نام کی بھی رسوائ کرو
اس نے عیشا کا بازو جھٹک کر اسے چہوڑدیا وہ وہیں دیوار سی لگی رہی ساحر نے ڈراور کھول کر کاغذات نکالے اور لاکر اس کے اوپر پھینکے
یہ لو یہی چاہتی ہو نا تم طلاق کے لئے یہ سب کررہی ہو نا
جانتی ہو یہ پیپرس میں نے ایک مہینہ پہلے ہی بنواے تھے لیکن میں اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتا تھا تمہیں ایک موقع دینا چاہتا تھا مگر یہ میری بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ تم اس لائق ہو ہی نہیں ------ کےاور اگر تم شادی سے پہلے ہوئ ان معمولی سی لڑایوں کی بنیاد پر اتنی نفرت پال کر بیٹھی ہو تو کہنا پڑے گا تم دنیا کی سب سے بےوقوف عورت ہو اور اچھا ہی ہے کہ تم میری زندگی سے نکل جاؤ مجھے بھی تم سے کوئ عشق نہیں ہے جو تمہارے جانے سے کوئ افسوس ہوگا رہی بات دادی کی تو میں اپنی دادی کو سنبھال لونگا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب بھی چاہو جا سکتی ہو پیپرس سائن کردونگا میں
سرخ آنکھیں لئے وہ عیشا کی جانب جھکا جو خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اس کا یہ روپ عیشا کے لئے بہت خوفناک تھا ساحر نے اس کا چہرہ اپنی گرفت میں لیتے ہوۓ نفرت سے کہا
لیکن اس کے پہلے تم نے کوئ بھی ایسی ویسی حرکت کی تو میں تمہارے ساتھ بہت برا کرونگا سمجھی
پوری زور سے دھکا دیکر اسے ازاد کردیا وہ سیدھے زمین پر گری ساحر ایک نفرت بھری نظر ڈال کر باہر نکل گیا اور وہ پیٹ گھٹنے میں لئے پوٹلی بن کر آنسو بہاتی رہی اس کے ہونٹ سے خون نکل رہا تھا گال پر انگلیوں کے سرخ نشان واضح تھے بازو بھی درد کررہا تھا اس کے دماغ میں ساحر کی جو امیج بنی ہوئی تھی اس لیے بنا سوچے سمجھے کہ دیا تھا لیکن ساحر کا یہ روپ اس نے پہلی بار دیکھا تھا
اس نے اٹھ کر اُن کاغذات کے پرزے پرزے کردیئے کیوں وہ خود نہیں جانتی تھی کتنی ہی دیر تک اس کی سسکیاں کمرے میں گونجتی رہی
************///*************وہ فیصلہ کرکے روم سے نکلی تھی کہ اج دادی کو سب کچھ سچ بتادے گی لیکن اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نینا نے اسے بتایا کہ دادی کو کل سے بخار ہے اس اپنی قسمت پر بہت رونا آرہا تھا جو بار بار اسکا امتحان لے رہی تھی لیکن وہ اپنا سب کچھ بھول کر دادی کی فکر میں لگ گئ کیونکہ اس کے لیے دادی زیادہ اہمیت رکھتی تھی ڈاکٹر کو کال کرکے دادی کا چیک اپ کروایا سارا وقت ان کے ساتھ ہی رہی اگلے دن تک ان کی طبیعت کافی بہتر ہوگئ تھی اس نے سوچ لیا تھا کہ دادی کے ٹھیک ہوتے ہی وہ بنا کچھ بتاے ہی یہاں سے چلی جاے گی ساحر نے اس سےپوری طرح لاتعلقی اختیار کرلی تھی وہ سامنے ہو یا نا ہو ساحر کے لئے ایک برابر ہی تھا اس نے اپنی روٹین ایسی سیٹ کی تھی صبح جلدی گھر سے نکل جاتا اور رات دیر سے واپسی ہوتی اب نا ناشتہ پر موجود رہتا نا ڈنر پر دادی کی ڈانٹ خاموشی سے سن لیتا اور کام کا بہانہ کرکے ٹال دیتا
اگر روم میں بھی ہوتا تو ایک نظر بھی اس کی جانب نا دیکھتا عیشا اس کے رویہ سے پرسکون تھی اسلیے اسے وہاں رہنے میں کوئ ڈر نہیں تھا وہ بھی زیادہ وقت دادی کے ساتھ ہی گزارتی تھی اس کا گریجویشن پورا ہوچکا تھا عمران اور دادی کے لاکھ کہنے کے باوجود اس نے آگے پڑھنے سے انکار کردیا تھا کیوں کہ شروع سے ہی اُسے اتنا پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی
تیار ہوکر وہ افس کے لئے نکلنے لگا تو دادی اور عیشا گھر اچکے تھے دادی کو سلام کرکے اس نے نکلنے کا ارادہ کیا مگر انہوں نے اسے ناشتہ کہ لئے روک لیا اور مجبور ہوکر اسے بیٹھنا ہی پڑا
اج کل کیا ہوگیا ہے تمہیں
انہوں نے اسے بغور دیکھتے ہوے کہا
مجھے کیا ہونا ہے دادو
وہ بے نیازی سے بولا
تو اتنے پریشان کیوں رہنے لگے ہو---- تم دونوں میں کوئ ان بن ہوئ ہے کیا
دادی کافی دنوں سے دونوں کی تبدیلی نوٹ کررہیں تھی اس لئے اج پوچھ لیا پندرہ دن میں پہلی بار ساحر نے براہ راست اسے دیکھا تھا لیکن وہ خاموشی سے سر جھکاے ناشتہ کرتی رہی
اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس کا فون بجنے لگا اور وہ دادی سے خدا حافظ کہہ کر فون کان سے لگاے باہر نکل گیا
****************************
وہ دادی کے روم میں تھی جب ملازم نے اسے امران کے انے کی اطلاع دی دادی سورہی تہیں وہ اپنا ناول سائیڈ میں رکھ کر ڈرائینگ روم میں آئ جہاں امران اور ساحر شترنج میں پوری طرح الجھے تھے
اسسلام و علیکم
وہ ساحر کے مقابل صوفے پر امران کے پاس بیٹھ گئ
وعلیکم اسسلام کیسی ہو عیشو
اس کا دھیان میز پر تھا جہاں دو خوبصورت مگ تھے جن میں کوئ براؤن رنگ کی ڈرنک تھی اور اوپر برف کے ٹکڑے ڈالے ہوے تھے اسے ساحر کا تو پتا تھا لیکن وہ شاک تھی کہ امران بھی شراب پیتا ہے
بہائ جان آ---- آپ بھی ڈ----ڈرنک کرتے ہو
امران نے اسے حیرت سے دیکھا اور ہنسنے لگا
پاگل---- یہ شراب نہیں ایپپل جوس ہے اور میری اتنی مجال کہ تمہارے شوہر کے سامنے ڈرنک کروں تمہیں پتا نہیں کیا تمہارے شوہر کی شراب سے سوتن والی دشمنی ہے
عیشا نے ایک نظر ساحر پر ڈالی جو پوری طرح سے بورڈ پر متوجہ تھا
انکل انٹی کی ڈیتھ ہوئ تھی تب پولیس رکارڈ کے مطابق ڈرائیور نے بہت زیادہ ڈرنک کر رکھی اسلیے ساحر کو -------
امران
اس نے بنا دیکھے ہی امران کو کچھ کہنے سے ٹوکا
سوری
وہ جانتا تھا یہ زکر ساحر کے لئے بے حد تکلیف دہ تھا عیشا حیرانی سے اس کے جھکے ہوے سر کو ہی دیکھ رہی تھی
اور یہ جو مائنڈ بلوئنگ ائیڈیا ہے نا یہ بھی تمہارے جینیس ہسبینڈ نے ہی ایجاد کیا ہے اپنے سرکل کے لوگوں کے بیچ بڑی شان سے اسے برینڈی سمجھ کر پیتا ہے اور بے وقوفوں کو شک بھی نہیں ہوتا
وہ ہنس رہا تھا لیکن وہ مسکرا بھی نا سکی
اپ سچ کہ رہے ہو بہائ جان
اس نے بے یقینی سے پوچھا
تم خود دیکھ لو
اس نے ساحر کے ہاتھ سے آدھا خالی مگ لے کر عیشا کو دے دیا ساحر نے اسے گھور کر دیکھا عیشا نے بنا یہ سوچے کہ وہ جھوٹا ہے مگ منہ سے لگالیا
جوس ہی ہے نا
عمران کے پوچھنے پر وہ مسکرادی اسے دل ہی دل میں پچھتاوا ہو رہا تھا کہ کیوں بناء سوچے سمجھے اس پر الزام لگادیا اس کے دماغ میں کچھ دن پہلے ملنے والی تصویریں گھومنے لگی
کہیں وہ سب بھی کوئی غلط فہمی نا ہو-_---- جو بھی ہو مجھے کیا
وہ عمران سے باتیں کرتے کرتے سارا جوس پی گئ اور ساحر حیرت سے دیکھتا رہ گیا کیا
امران کے جانے کے بعد وہ دادی کے روم میں آئ دونوں نے شام کی چاے پی اور وہ دادی کو دوائ دیکر ان کے پاس والی کرسی پر بیٹھ کر انہیں حدیث سنانے لگی تبھی ساحر وہاں آیا
دادو میں ایک پارٹی میں جا رہا ہوں رات کو کھانے پر انتظار مت کریں گا
اس نے دروازے سے ہی انہیں اپنا فرمان سنادیا
ہاں روز تو جیسے ہمارے ساتھ ہی کھانا کھاتے ہو
انھونے شکایت کی
سوری دادو ----لیکن کل پکا اپ کے ساتھ ہی ڈنر کرونگا پرامس اچھا چلتا ہوں خدا حافظ
وہ شرمندہ سا بولا
ایک منٹ ہمیشہ اکیلے ہی جاتے ہو کبھی عیشا کو بھی ساتھ لے جایا کرو سارا دن گھر میں ہی رہتی ہے اج تک تمہیں اسے کہیں باہر لے جاتے نہیں دیکھا اج اسے بھی ساتھ لے جاؤ
وہ دونوں سے لاتعلق بیٹھی تھی دادی کی بات سن کر پریشان ہوگئ ساحر خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا
دادی میں وہاں جاکر کیا کرونگی میں تو وہاں کسی کو جانتی بھی نہیں
اگر جاوگی تو ہی جانوگی نا چلو جاؤ جلدی سے تیار ہوجاؤ کبھی دونوں ساتھ ساتھ بھی گھوما پھرا کرو لگتا ہی نہیں کہ نئ نئ شادی ہوئ ہے
انھونے اٹل لہجہ میں کہا
دادی اپ اکیلے کیسے رہوگے اپ کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے میں کسی اور دن چلی جاونگی
اس نے پھر سے ٹالنا چاہا ساحر خاموشی سے اُسے سنتا رہا نظریں اپنے گھڑی پر مرکوز کردی
میں بلکل ٹھیک ہوں----- اور نینا ہے میرا خیال رکھنے کے لئے---- تم دونوں جاؤ
دادی---------
عیشا اگر تم میری بات نہیں مانوگی تو میں تم سے ناراض ہوجاونگی
دادی کا پکا ارادہ دیکھ کر وہ اور کچھ نہیں کہ پائ اور خاموشی سے تیار ہونے چلی گئ دادی نے دونوں کے بیچ کی خاموشی کا اندازہ لگاکر انہیں جان بوجھ کر ساتھ بھیجا تھا
روم میں اکر اس نے جلدی جلدی شاور لیا پون آستین والی بلیک لانگ کرتی پر بلیک پینٹ پہنے اورینج ڈیزاینر دوپٹہ ایک کاندھے پر سیٹ کیا کانوں میں ڈایمنڈ ٹاپس اور گلے میں خوبصورت ڈایمنڈ چین پینڈینٹ پہنا بالوں کو برش کیا سائڈ سے مانگ نکال کر بالوں کو اچھا سا اسٹائل دیتے ہوے دائیں کاندھے پر کھلا چھوڈ دیا لائٹ میک اپ کرکے ناک میں ڈائمنڈ رنگ پہنی باہر سے ہارن کی آواز آنے لگی تو آئینہ میں بغور اپنا جائزہ لیا خوبصورت سی سینڈل پہن کر موبائل لیا اور دادی کو خدا حافظ کہنے آئ تو انہوں نے اس کی نظر اتارکر ڈھیر ساری دعائیں دی اس نے نینا کو دادی کا دھیان رکھنے کی تاکید کی اور باہر اگئ
وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے فون پر بات کر رہا تھا جب اسے آتا دیکھا تو نگاہیں ایک پل کو تھم گئ دل نے کہا بس اسے یونہی دیکھتا رہے بنا پلکیں جھپکاے لیکن اس نے اپنے دل کو ڈانٹ کر چپ کرایا اور عیشا کے جاننے سے پہلے نظریں سامنے کرلی وہ خاموشی سے آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئ اندر ہی اندر اسے ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ وہ پہلے کبھی اس طرح کی مکس پارٹی میں نہیں گئ تہیں اسلیے کہیں کوئ غلطی نا کردے اور یہ لوگ جو لوگوں میں خامیاں تلاشتے رہتے ہے کہیں اس کا مزاق نا بناے
گاڑی ایک بہت بڑے ہوٹل کر پارکنگ ایریا میں پارک کرکے وہ دونوں اندر آۓ ساحر نے دیکھا کے وہ مسسلسل دونوں ہتھیلیوں کو رگڑ رہی تھی وہ سمجھ گیا کہ نروس ہو رہی یے لیکن چاہ کر بھی تسلی نہیں دے سکتا تھا
ان کے اندر آتے ہی سب سے پہلے ایک خوبصورت عورت نے ان کا استقبال کیا جو عمر میں لگ بھگ چالیس کے قریب تھی لیکن بہت مارڈن تھی بنا آستین والے گولڈن بلاوز پر ڈارک بلیو قیمتی ساڑی پہنے اچھا خاصا میک اپ کیا ہوا تھا شاید وہ میزبان تھی ساحر اسے مسز مہرا کہ کر مخاطب کر رہا تھا خوشدلی سے ساحر کے گلے ملی اس نے عیشا کا تعارف کروایا تو عیشا کو بھی اسی انداز میں گلے لگاکر گال پر بوسہ لیا
وہ دونوں کو اندر ہال میں لے گئ جو بڑی خوبصورتی سے سجا ہوا تھا ساحر کے اندر جاتے ہی ایک کے بعد ایک کئ لوگ اس سے مل رہے تھے مسز مہرا نے بھی عیشا کا تعارف سب سے کروایا کئ لڑکیاں جو جدید فیشن کا نمونہ بنی ہوئ تھیں ساحر سے بڑی بے باکی سے گال سے گال مس کرتے ہوے گلے مل کر اس کا ویلکم کرنے لگی عیشا کو ان کی یہ حرکتیں بےحد ناگوارہ لگی کافی دیر تک یہی سلسلہ چلتا رہا نئے نئے لوگوں سے اس کا تعارف کروانے کا کام مسز مہرا ہی کر رہی تھی وہ لڑکیوں سے ہاتھ ملالیتی جبکہ مردوں کو صرف سلام کرکے خاموشی سے ان کا تعارف سنتی اندر ہی اندر وہ بہت نروس ہورہی تھی ان سب کے بیچ اسے اپنا اپ بہت کمتر محسوس ہو رہا تھا جبکہ وہاں کوئ ایسا بھی تھا جس کے لئے وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی مگر وہ اس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہا تھا
تو اپ ہے وہ جن کی خاطر مسٹر خان نے لاکھوں لڑکیوں کا دل توڈا ہے
ایک خوبصورت لڑکی نے اس سے مل کر طنزیہ انداز میں کہا وہ ساحر کو دیکھنے لگی جو کسی آدمی سے بات کرنے میں مصروف تھا اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بات کرے
اپ کرتی کیا ہے
جی م---میں ابھی پڑھ رہی ہوں
ہاں مسٹر ساحر نے بتایا تھا تو کیا اپ آگے انہیں بزنس میں جوائن کرینگی
اب کے دوسری لڑکی نے پوچھا
ابھی ایسا کچھ سوچا نہیں ہے
ویسے اپ مسٹر خان کو کب سے جانتی ہے
وہ لوگ باقاعدہ انٹرویو لینے لگے اب وہ کیا جواب دیتی کہ شادی کے رات ہی اس کا چہرہ دیکھا تھا اس نے بے اختیار ساحر کا بازو تھام لیا اس نے حیرانی سے پلٹ کر پہلے اپنے بازو کو پہر عیشا کو دیکھا جس پر اس نے ہاتھ ہٹالیے وہ چاہ کر بھی کچھ پوچھ نہیں سکا اپنے کچھ فرینڈس کے پکارنے پر وہ ان کے پاس چلا گیا اور عیشا مزید پریشان ہوگی کسی کے بات کرنے پر وہ زبردستی مسکراتی رہی لیکن سارا دھیان تھوڑی دوری پر کھڑے ساحر پر ہی تھا جو وھائٹ شرٹ اور لائٹ ڈادک بلیو جینس پہنے بڑے اسٹائل سے کھڑا تھا اج پہلی بار وہ اسے اپنے پاس دیکھنا چاہتی تھی تب ہی اس کے موبائل کی میسیج ٹون بجی نمبر سیو نہیں تھا لیکن اسے اندازہ تھا کس کا نمبر ہے اس لئے کافی حیران و پریشان تھی وہ سب سے تھوڑے فاصلے پر آئ
کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہی ہو
اس نے ایک منٹ تک بار بار میسیج پڑھا پھر ٹائپ کرنے لگی
پہلی بار ایسی پارٹی میں آئ ہوں- تھوڑا عجیب لگ رہا ہے- یہاں تو سب فیشن شو کا حصہ لگ رہے ہیں کہیں میرا مزاق نا بناے
چند سیکنڈ بعد میسیج آیا
نروس ہونے کی ضرورت نہیں ہے یو آر لوکنگ پرفیکٹ
لیکن اپ کو کیسے پتا میں پریشان ہُوں
اگر کوئ لڑکی مسلسل اپنی ہتہیلیاں رگڑے اور بے دردی سے ہونٹ کانٹتی جاے تو اس کی وجہ خوشی تو نہیں ہوگی نا
ویسے اپ ہے کون
اس نے مسکراتے ہوۓ ٹائپ کیا دوسری طرف سے ہنسی والی امیجی آئ
سچ میں تمہیں نہیں پتا میں کون ہوں
نہیں پتا تبھی تو پوچھ رہی ہوں
وہ سامنے دیکھنے لگی ساحر کی اس طرف پشت تھی
لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا نمبر ہے تمہارے فون میں
کچھ دن پہلے فون ٹوٹ گیا تھا سارا ڈاٹا ڈیلیٹ ہوگیا
وہ مسکراہٹ روک کر سینڈ کرنے لگی
تب بھی تمہیں پتا ہے اسلیے تو پہلے میسیج میں نہیں پوچھا
وہ بھی بضد تھا
دھیان نہیں رہا اب بتادو کون ہو
تمہارا دشمن شوہر
اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکنا چاہی
یہ مہربانی کیوں
ہنسی روک کر ٹائپ کیا
بس اندر جو شوہر ہے نا وہ لاکھ بے عزتی کرنے پر بھی اپنی بےشرمی سے باز نہیں آتا بیوی پریشان ہو تو دوڈا چلا آتا ہے بھلے ہی بعد میں گالیاں پڑے
ایک منٹ تک اس نے کچھ نہیں کہا تب دوسرا میسیج آیا
تم پریشان تھی اس لئے پوچھ لیا اگر برا لگا ہو تو سوری آئیندہ ایسا نہیں ہوگا
لیکن اس نے کوئ جواب نہیں دیا کیونکہ کچھ سوجھا ہی نہیں پتا نہیں کیوں لیکن اسے برا نہیں لگا
مسز مہرا دونوں کو زبردستی کھینچ کر ڈانس فلور پر لے آئی جہاں مدھم روشنی میں کئی کپلس ڈانس کرنے میں مصروف تھے دھیمی آواز میں میوزک بج رہا تھا چند منٹ و یونہی نظریں جھکائے کھڑی زمین کو جانچتے رہی اور ساحر اُسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا عیشا نے اس کے ہاتھ کو دیکھا اور دوبارہ نیچے دیکھنے لگی اصل میں وہ بہت نروس ہو رہی تھی اس کا ارادہ بھانپ کر ساحر نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اُسے غصّہ آنے لگا تھا وہ واپس جانے لگا تب ایک لڑکی نے اسے ڈانس کے لیے کہا تو وہ عیشا پر ایک نظر ڈال کر اس کے ساتھ چل دیا وہ اُسے جاتے دیکھتی رہی لیکن روک نہیں پائی
اس لڑکی کے کمر میں ہاتھ ڈالے وہ خوبصورتی سے ڈانس کر رہا تھا بار بار عیشا کی جانب دیکھتا اور وہ اس کے دیکھتے ہے نظریں پھر لیتی تھی جانے کیوں اُسے ساحر کا اس لڑکی کے اتنے قریب ہونا بہت تکلیف دےرہا تھا ایک آنسو آنکھ سے گرنے لگا جسے اس نے رخ پھیر کر صاف کرلیا اور واپس پلٹ گئی
ساحر نے ایک ملازم کو کچھ کہا اور دوبارہ ڈانس کرنے لگا کچھ دیر بعد میوزک بند ہوکر گانا بجنے لگا
کیسے بتاے
کیوں تجھ کو چاہے
یارا بتا نا پاے
باتیں دلوں کی
دیکھو جو باقی
آنکھیں تجھے سمجھاے
تو جانے نا
تو جانے نا
وہ مسلسل اُسے ہی دیکھ رہا تھا وہ پلکیں جھکائے کھڑی رہی نظریں اٹھاتی تو اسے دیکھتے پاکر دوبارہ جھکالیتی
مل کے بھی ہم نا ملے
تم سے نا جانے کیوں
میلوں کے ہے فاصلے
تم سے نا جانے کیوں
انجانے ہے سلسلے
تم سے نا جانے کیوں
سپنے ہے پلکوں تلے
تم سے نا جانے کیوں
کیسے بتاے
کیوں تجھ کو چاہے
یارا بتا نا پائے
باتیں دلوں کی
دیکھو جو باقی
آنکھیں تجھے سمجھاے
تو جانے نا
تو جانے نا
تو جانے نا
تو جانے نا
وہ ایک پل کے لیے بھی اس سے نظر نہیں ہٹا رہا تھا اور وہ لڑکی اس حرکت سے بیزار نظر آرہی تھی پر اُسے کہاں پرواہ تھی
نگاہوں میں دیکھو میری
جو ہے بس گیا
وہ ہے ملتا تم سے ہوبہو
جانے تیری آنکھیں تھی
یا باتیں تھی وجہ
ہوۓ تم جو دل کی آرزو
تم پاس ہوکے بھی
تم آس ہوکے بھی
احساس ہوکے بھی اپنے نہیں
عیشا نے نظریں اٹھائیں اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں دنیا بھر کے شکوے گلے تھے بےبسی تھی ناراضگی تھی اور ---------پھر پلکیں جھک گئی
ایسے ہے ہم کو گلے
تم سے نا جانے کیوں
میلوں کے ہے فاصلے
تم سے نا جانے کیوں
وہ اس لڑکی سے مسکرا کر معزرت کرتا وہاں سے آگیا اور اپنے چند دوستوں کے گروپ میں شامل ہوگیا اور اُن سے بات کرنے میں لگ گیا
پہلی بار عیشا نے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے بے پناہ محبت کی جھلک دیکھی تھی وہ بے خبر تھا کہ جس کی ایک نظر کے لئے اس کا دل بےچین رہتا تھا اج بنا کسی کی پرواہ کیے بس اس کے مسکراتے چہرے کو ہی دیکھ رہی تھی ساحر نے اس کی جانب دیکھا تو وہ رخ پھیر کر مسکرادی
گاڑی رکی تو موبائل اور ہیڈ فون سیٹ پر رکھ کر وہ بیگ لئے اندر آئ اج وہ دوسری دفعہ یہاں آئ تھی
بنا دستک دیے ہی دھیرے سے دوروازہ کھولے اندر آئ وہ بڑی تیزی سے لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ کررہا تھا کسی کی موجودگی کا احساس کرکے سامنے دیکھا تو اسے اپنا وہم ہی سمجھا جو کوئ نئ بات نہیں تھی وہ بنا کچھ ری ایکٹ کیے دوبارہ کام کرنے لگا عیشا نے اس کی یہ حرکت نوٹ کی لیکن اس کی کچھ سمجھ نہیں آیا اسلیے سلام کرکے اسے متوجہ کرنا چاہا
اسلام و علیکم
ساحر حیرانی سے اسے دیکھتے ہوۓ کھڑا ہوگیا جواب دینے کا بھی ہوش نہیں تھا بس شاک ہوکر اسے دیکھتا رہا
وہ---دادی نے کہا کہ تم نے رات کو ڈنر نہیں کیا تھا صبح بھی ناشتہ کئے بنا ہی آگے کام میں بزی ہو اس لئے پتا نہیں کچھ کھایا کہ نہیں اسلیے انہوں نے تمہیں ٹفن دینے کو کہا ہے
اس نے ٹفن بیگ اس کی ٹیبل پر رکھ دیا
دادی نے------
وہ سوالیہ نظریں لیے بولا عیشا نے اثبات میں سر ہلا دیا
کوئ اور لے آتا تم نے کیوں تکلیف کی
اس کا لہجہ عیشا کو پسند نہیں آیا
دادی نے زبردستی بھیجا ہے مجھے کہا تم ہی جاوء
وہ جتاتے ہوئے بولی
اوکے--- تھینک یو
بس تھینک یو سڑیل یہ نہیں کہ بیٹھنے کو ہی کہہ دے
اس نے دل میں سوچا اور واپسی کے لئے مڑ گئ
کیا میں تمہیں گھر چھوڑ دوں
اس نے جاتے دیکھ کر پوچھا
نہیں میں چلی جاونگی تمہیں تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے
بنا مڑے اسی کے لہجے میں جواب دے کر وہ باہر نکل گئ اور وہ اس کے روٹھے انداز پر مسکرادیا جس سے بات کرنا پسند نہیں تھا آج اسکی بے توجہی پر بچوں کی طرح روٹھ رہی تھی
سڑیل_-- کیا سمجھتا ہے خود کو---- اوکے تھینک یو---- یہ بھی کوئ بات ہوئ ایسا لگ رہا تھا جیسے سر پر سو کلو وزن رکھے شکریہ ادا کررہا ہو -------انسان چاے نہیں تو پانی ہی پوچھ لیتا ہے کہ کوئ ہماری خاطر یہاں تک آیا ہے لیکن نہیں اسے تو اپنی اکڑ ہی بڑی پیاری ہے_-_-- سڑو
وہ غصے سے بڑبڑاتی ہوئ گاڑی تک آئ تبھی اس کے موبائل کی میسیج ٹون بجی
جانتا ہوں اگر تمہاری مرضی نہیں ہوتی تو تم کبھی یہاں تک نہیں آتی اگر میرا خیال سہی ہے تو سپیشلی تھینکس فور دھیٹ
وہ مسکراتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھ گئ
تم اتنے بھی سڑیل نہیں ہو
سوچتے ہوے خود ہی مسکرادی پتا نہیں کیوں لیکن ساری بدگمانیاں خود بخود ختم ہوگئی تھی سب کچھ بھول کر اس نے ماں لیا تھا کہ ساحر اچھا انسان ہے یا اب اچھا بن چکا ہے
******************,*,,,*****
زندگی ایک نئے راستے پر چلنے لگی جہاں دکھ اور اداسی تو ہرگز نہیں تھے کچھ تھا تو انجانی سی خوشی نیا نیا انداز لیکن زندگی کا رخ بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا
رمضان کی امد رحمت و برکت لےکر آئ ہر طرف پر نور سماں دل کو سکون دیتا ماحول لیکن ساتھ ہی ایک بہت بڑا غم بھی لکھا تھا ساتویں روزے کا دن ان کے لئے دکھ کا طوفان لیکر آیا جب ان کی عزیز ہستی جس نے انہیں جوڑے رکہا تھا قدم قدم پر جن کی دعائیں ساتھ ہوتی تھی ان سے منہ موڑ گئ تھی
ساتویں روزے کی رات نیند میں ہی دادی کا دل بند ہوگیا تھا یہ ان کی نیکیوں کا ہی صلہ تھا جو خدا نے انہیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب کیا تھا لیکن یہ تکلیف قابل برداشت نہیں تھی عیشا صرف چند مہینے سے ان کے ساتھ تھی لیکن ان کی بے پناہ محبت و اپنایت کا اثر تھا جو وہ ان کی جدائ کو ہر لمحہ محسوس کررہی تھی اس کی آنکھوں سے بہتا سمندر رکنے کو تیار ہی نہیں تھا سب سے الگ ایک طرف بیٹھی وہ دادی کے ساتھ گزرے ہر لمحے کو دماغ میں دہرارتی ان کی بےلوث محبت کو یاد کرکے وہ بچوں کی طرح رودیتی
جبکہ ساحر کی تکلیف کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل تھا اس کی ساری دنیا دادی سے ہی تھی بچپن سے اج تک وہ اسی ایک چہرے کو دیکھتا آیا تھا اس کا ہر رشتہ دادی سے ہی تھا اور اج دادی کے جانے پر اسے محسوس ہورہا تھا کہ ایک نہیں کئ سارے اپنوں سے ایک ساتھ جدا ہوگیا ہے
وہ ان سے لپٹ کر بچوں کی طرح رورہا تھا امران ریحان جاوید سبھی اسے بار بار تسسلی دے رہے تھے لیکن اس کئ سننے سمجھنے کی حالت نہیں تھی وہ بس اپنی دادی کے محبت بھرے لمس کا عادی ہوچکا تھا لیکن وہ ہمیشہ کے لئے اس سے جدا ہوگئ تھی
تیسرے دن سبھی مہمان رخصت ہوگے بس امی ابو کے ساتھ امران اور جاوید ہی تھے مہمانوں کے جاتے ہی ساحر اندر چلا گیا دادی کے جانے کے بعد سے اس نے ایک خاموشی کی چادر اوڈھ رکھی تھی لاکھ سمجھانے کا اس پر کوئ اثر نہیں ہورہا تھا تین دنوں سے اس نے ایک نوالہ نہیں لیا تھا سب ہی اس کہ حالت سے پریشان تھے
وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے اسی کے متعلق بات کررہے تھے عیشا ایک جانب بیٹھی غیر مرعی نقطہ میں کھوئ ہوئ تھی اسے ایک عجیب سی بےچینی محسوس ہورہی تھی آخر اٹھ کر خاموشی سے اندر اگئ سوچا کہ کچھ دیر دادی کے روم میں گزارے شاید کچھ سکون محسوس ہو تھکے تھکے قدم بڑھاے وہ دروازے کے قریب آئ تو قدم وہیں تھم گۓ
سفید سلوار سوٹ میں زمین پر بیٹھے بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگاکر آنکھیں موندے وہ اندر ہی اندر اب بھی رو رہا تھا اس وقت وہ کوئ اور ہی لگ رہا تھا اسے دیکھ کر عیشا کے رکے انسو دوبارہ جاری ہوگے اسے اپنی بے چینی کی وجہ سمجھ میں آئ دادی نے ساحر کو اس کے حوالے کیا تھا لیکن وہ تو اسے تسلی بھی نہیں دے سکتی تھی اسے شدت سے احساس ہو رہا تھا کی جب خود کی یہ حالت ہے تو ساحر پر کیا گزر رہی ہوگی اس نے کتنی دفعہ ساحر کی بےعزتی کی تھی اسے برا بھلا کہا تھا لیکن پھر بھی وہ دادی کی خاطر اس رشتے کو قائم رکھنا چاہتا تھا کیونکہ یہ ان کی خواہش تھی
دونوں میں کافی وقت سے کوئ بات نہیں ہوئ اور اس میں ہمت نہیں ہورہی تھی اسے کچھ کہے کہیں وہ برا نا مان جاے اس نے ملازم سے کہ کر امران کو بلوایا امران نے اسے تسسلی دی اور اندر آکر اس کے برابر زمین پر ہی بیٹھ گیا عیشا وہیں دروازے میں کھڑی رہی
ساحر
وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا نظریں سامنے جمادیں
چل کر کھانا کھالے
مجھے بہوک نہیں لگ رہی
رونے سے اس کی اواز بہاری ہورہی تھی آنکھوں میں سرخی جمی ہوئ تھی
ساحر ایسا نہیں کرتے چل بس بہت ہوا زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے ہمارے چاہنے نا چاہنے سے قسمت بدل نہیں جاتی جو جب ہونا ہے تب ہوکر رہتا ہے اور یوں خود کو تکلیف دیکر خدا کی نا فرمانی کرنا سہی نہیں ہے
امران مجھے یاد نہیں ہے جب امی ابو مجھے چھوڈ گۓ تھے مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ موت کس چیز کا نام ہے ایک انسو نہیں رویا تھا میں ان کی موت پر میرے سامنے دو جنازے رکھے تھے مگر میں انہیں صرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میرے اپنے مجھے ہمیشہ کے لئے چہوڑ کر جارہے ہے تو کیا دکھ مناتا اور جب احساس ہوا تو بہت دیر ہوگئ تھی لیکن اج محسوس ہورہا جیسے دادو ہی نہیں امی ابو اور داداجان بھی مجھے چھوڑ گۓ ہے جیسے ایک نہیں کئ اپنے ایک ساتھ جدا ہوگے پریشان رہوں یا خوش میرا چہرہ دیکھ کر دادو کو معلوم ہو جاتا تھا کیسے یہ میں کبھی نہیں سمجھ پایا لیکن ہاں یہ پتا ہے دادو مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتی تھی
ایک آنسو اس کے آنکھ سےگرا جسے اس نے فوراً ہاتھ سے رگڑ کر صاف کیا امران نے اسے گلے لگالیا
کچھ مت بول سب جانتا ہوں میں تیری ہر تکلیف سے واقف ہوں اور مجھے افسوس بھی ہے کہ میں چاہ کر بھی اسے کم نہیں کرسکتا لیکن دادی کے لئے تو خود سنبھال سکتا ہے نا ایسے رہے گا تو کتنی تکلیف ہوگی انہیں وہ کیا تجھے کبھی تکلیف میں دیکھ کر سکون سے رہ سکتی ہے ایسے اپنے اپ میں بیٹھا خود کے ساتھ اُنھیں بھی ازیت دے رہا ہے
وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگیا
چل کھانا کھاکر کچھ دیر آرام کر تیری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی
امران کو اس کا جسم جلتا ہوا محسوس ہوا ساحر نے اس سے الگ ہوکر اسے دیکھا سچے دوست خدا کا بہترین تحفہ ہوتے ہیں امران نے ہر وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا چاہے کوئ بھی پریشانی کیوں نا آۓ ہمیشہ اس کا سچا دوست ہونے کا سبوت دیا تھا دونوں کی دوستی بے غرض تھی مطلب تھا تو ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے اور اج بھی اسے روتا دیکھ کر خود اس کی آنکھیں نم ہورہی تھی
تو چل میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں
عیشا نے اپنے آنسو صاف کئے ملازم کو کہانا لگانے کا کہا اور بنا دستک دیے اندر چلی ائ
بہائ جان
وہ امران سے کہ رہی تھی لیکن نظریں ساحر پر جمی ہوئ تھی جو مسلسل چھت کو دیکھ رہا تھا
بھائ جان کھانا لگ گیا ہے چلیں
وہ باہر اگئ امران نے ساحر کو زبردستی اٹھایا اور ٹیبل تک لے آیا وہ بھی بنا کسی احتجاح کے بیٹھ گیا عیشا نے خود پلیٹ بنا کر اس کے آگے رکھی وہ دیر تک سپون ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہا عیشا نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس نے ہاتھ دکھا کر اسے روک دیا
*************/********
عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر وہ بالکونی میں بیٹھی اسی کے متعلق سوچ رہی تھی دادی کا چہلم ہوے دو دن ہو گے تھے لیکن بات کرنا تو دور وہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا عید کے دن اس کے سلام کا جواب جس بے رخی سے دیا تھا اس کے بعد خود کوئی بات کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی وہ اُسے جس طرح سے اگنور کررہا تھا یہ فکر اُسے بری طرح ستارہی تھی وجہ و خود بھی نہیں جانتی تھی لیکن اب وہ ساحر سے نفرت تو نہیں کرتی تھی
شام سے پیٹ درد کرہا تھا لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اج بھی کب سے نظر انداز کررہی تھی لیکن اب درد بڑھنے لگا تو پین کلر لینے کا سوچ کر اندر ای لیکن ڈراور میں پین کلر تھی ہی نہیں اسے یاد ایا کہ دو دن پہلے ہی اس نے لاسٹ ٹیبلیٹ لے لی تھی اس نے انٹرکام پر دوائ کا کہا اور انتظار کرنے لگی بڑھتے بڑھتے درد اب برداشت کے باہر ہورہا تھا اس لیے وہ پیٹ پکڑے درد کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگی اکثر اس کے پیٹ میں تکلیف ہوتی تھی لیکن اج جیسی کبھی نہیں ہوی تھی پیٹ درد کے ساتھ اب سر بھی چکرارہا تھا وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی پریشان ہوکر خود ہی باہر کے لیے قدم بڑھادیے لیکن قدم اٹھانا بھی نا ممکن ہورہا تھا رہ رہ کر ٹیسیں اٹھنے لگی تو اس کے منہ سے ہلکی سی چینخ نکلی بڑی مشکل سے ایک ہاتھ سے پیٹ پکڑے دیوار سے لگتی ہوی وہ باہر ائ خوف کے مارے وہ بے اواز رونے لگی چند منٹ میں ہی درد اتنا بڑھ گیا تھا کے اس کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہورہا تھا منہ سے مسلسل اہ نکل رہی تھی روم سے باہر آکر گرل کو تھامے اگے بڑھنے لگی وہیں سے اسے ساحر نیچے صوفے پر بیٹھا نظر ایا جو دوسری طرف رخ کیے لیپ ٹاپ پر کسی سے ویڈیو کال میں مصروف تھا
س----سسا------ساحر--------سا-ساحر
اس نے اسے اواز دینی چاہی لیکن سانس لینے میں اتنی دشواری ہورہی تھی کہ اواز نکالنا ناممکن تھا اور جو ہلکی سی اواز نکلی وہ ساحر تک نہیں پہنچ پائ بے بسی سے روتے ہوے وہ گرل کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھامے لڑکھڑاتے قدموں سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی
س----سا--ساحر
لاکھ کوشش کے بعد صرف اس کے لب ہل رہے تھے چہرہ انسو اور پسینے سے بھیگ رہا تھا بال بے ترتیبی سے چہرے پر بکھر گئےتھے
س------سسس-------ساحر
اس نے ہمت کرکے اپنے لڑکھڑاتے وجود کو سنبھالتے ہوے سیڑھیاں اترنے کی کوشش کی لیکن تیسری سیڑھی پر ہی بے قابو ہوکر گر پڑی اور لڑھکتے ہوے سیدھے زمین پر آکر گری اس کے گرنے کی اواز پر ساحر نے مڑ کر دیکھا اور اسے یوں زمین پر اوندھے منہ پڑا دیکھ کر اس کے منہ سے زور کی چینخ نکلی
عیشااااا-----------------
وہ دوڈ کر اس کے پاس ایا اور اسے ہاتھوں میں تھامے سیدھا کیا اس کی پیشانی پر ایک طرف بہت گہری چوٹ لگی تھی جس سے پانی کی طرح خون بہہ رہا تھا وہ شاکی کیفیت میں اس کے زخم پر ہاتھ رکھے خون روکنے کی کوشش کررہا تھا عیشا نے بوجھل پلکوں سے اسے دیکھا اس کی شرٹ مضبوطی سے پکڑے اس سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی بےہوش ہوگی
عیشا -_--عیشا----- او مای گاڈ-- یہ---- یہ------- عیشا -------انور جلدی گاڑی نکالو
اس نے گھبراتے ہوے زور کی اواز لگائ اور اسے باہوں میں اٹھاکر تقریباً دوڑتے ہوے باہر لے ایا اس کے باہر انے کے ساتھ ہی ڈرائیور گاڑی بھی لے آیا اس نے عیشا کو سیٹ پر لٹاکر اس کا سر اپنی گود میں رکھے بیٹھ گیا
عیشا--- عیشا یہ کیا ہوگیا تمہیں----- یا اللہ رحم کرنا
وہ اس کے چہرے سے بال ہٹاکر ہاتھ سے اس کاچہرہ صاف کرنے لگا دوسرے ہاتھ سے اسے مضبوطی سے تھامے خود کے قریب کرلیا
آئے ایم سو سوری عیشا--_-_-- میں نے تمہارا خیال نہیں رکھا
وہ اس کے سر پر لگی چوٹ سے بہتے خون کو ہاتھ سے روکنے کی کوشش کررہا جس سے اس کی پنک کرتی سرخ ہورہی تھی
ڈونٹ وری عیشا تمہیں کچھ نہیں ہوگا بس تھوڑی ہمت رکھو ہم ابھی ہاسپٹل پہنچ رہے ہیں-- ہاں
وہ اس کی بند آنکھوں کو دیکھتے ہوئے جزبات سے بھاری آواز میں کہہ رہا تھا
گاڑی فاسٹ کرو
اس نے ڈرائیور سے کہا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر وہاں پہنچ جائے بیس منٹ بعد گاڑی ہاسپٹل کے آگے رکی اور وہ فوراً اسے اٹھاے اندر لے آیا اسے دیکھ کر ہاسپٹل کی ٹیم نے فورًا اپنا کام کرنا شروع کردیا اور اسے سٹریچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر میں لے گئے اور ٹریٹمنٹ شروع کیا آپریشن تھیٹر کے بند دروازے پر نظریں جمائے اس نے دیوار پر گرتے ہوے ایک ہاتھ سے سر کو تھام لیا وہ تو اسے روتے ہوے نہیں دیکھ پاتا تھا اور اس کی ایسی حالت دیکھ کر اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہورہا تھا لب بھینچے وہ مسلسل اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کررہا تھا اس کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہورہا تھا ٹھیک پندرہ منٹ بعد دروازہ کھول کر ایک جونئیر ڈاکٹر باہر آیا تو وہ فوراً اس کے پاس آیا
ڈاکٹر کیا ہوا اسے
مسٹر خان ان کی حالت بہت کریٹیکل ہے اپینڈکس پھٹنے سے پیٹ میں پوائزن پھیل گیا ہے
اپینڈکس
اس نے حیرت سے پوچھا
جی ہاں اور خون بھی کافی بہہ چکا ہے فوراً آپریشن کرنا ضروری ہے اپ پلیز یہاں سائن کر دیں
ڈاکٹر نے ایک فائل اس کے اگے کی اس نے حیران نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا اور جھٹ سے فائل لے کر دو تین مطلوبہ جگہ پر سائن کردیا
ڈاکٹر اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے
اس کے لہجے میں التجا تھی
ڈونٹ وری مسٹر خان ہم پوری کوشش کررہے ہیں
ڈاکٹر نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے دلاسا دیا اور واپس چلا گیا اور وہ وہیں بینچ پر بیٹھ گیا لب بھینچ کر اس نے کافی کوشش کی لیکن ایک انسو انکھ سے نکل کراس کے ہاتھ پر گرا اس کی سفید شرٹ ایک سائڈ سے سرخ رنگ میں بدل چکی تھی لائٹ بلیو پینٹ گھٹنے تک خون سے بھیگی ہوئ تھی دونوں ہاتھوں بھی رنگے ہوے تھے وہ پریشان سا ہاتھوں کو دیکھنے لگا آنکھوں میں بس اس کا خون سے سنا وجود گھوم رہا تھا وہ بار بار تھوک نگل کر لب بھینچے اپنی گھبراہٹ کو قابو کررہا تھا
یا اللہ میں نے کیا کیا جو اپ میرے ساتھ ایسا کررہے ہیں پہلے ہی اتنا کچھ کھو چکا ہوں اب اور ہمت نہیں ہے مجھ میں اسے کچھ ہوا تو میں کیا کروں گا یا اللہ مجھ پر رحم کر میرے گناہوں کی سزا اتنی بھیانک مت دے اس کے بناء میری کوئ زندگی نہیں ہے اپنے محبوب کے صدقے اسے سلامت رکھ اس کی ساری تکلیف ختم کردے اس کی سانسوں کی حفاظت کر یا اللہ رحم کر اپنے گناہگار بندے کی دعا قبول کرلے اس کی حفاظت کر
دیوار سے سر ٹکائے وہ مسلسل اپنے رب سے فریاد کرتا رہا ایک ایک کرکے عیشا سے متعلق ہر بات کسی فلم کی طرح دماغ میں چل رہی تھی ہر سیکینڈ کے ساتھ دل کی بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا
دو گھنٹے سے زیادہ وقت اسی طرح بے چینی سے گزرا تب ایک ڈاکٹر باہر ایا اور اپنے چہرے سے ماسک نکال کر ساحر سے مخاطب ہوا
مسٹر خان آپریشن تو کامیاب رہا لیکن جب تک ہوش نہیں اجاتا کچھ کہہ نہیں سکتے سر پر چوٹ لگنے سے کافی بلڈ لوس ہوچکا ہے اسلیے اب بھی خطرہ ہے
وہ کچھ نہیں بولا بس انھیں دیکھتا رہا ڈاکٹر نے بازو پر ہاتھ رکھے اسے تسسلی اور آگے بڑھ گیا اسے اپریشن تھیٹر سے آی سی یو میں شفٹ کردیا گیا پیشانی پر سفید پٹی بندھی ہوئ ایک کلائ بھی چوڑیاں ٹوٹنے سے زخمی ہوئ تھی دوسرے ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئ تھی وہ پوری طرح سے نیم جان پڑی تھی ساحر نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اور بےچین ہوگیا ہمت نہیں ہوئ تو رخ پھیر لیا اپنی انکھیں رگڑ کرصاف کی فوراً وضو کرکے ایا اور آی سی یو کے سامنے ہی اپنے اللہ کے حضور کھڑے ہوگیا اور کتنی ہی دیر گڑگڑاکر اپنے مالک کو مناتا رہا اتے جاتے لوگ اسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے وہ کوئ عام ادمی نہیں تھا ایک جانی مانی ہستی کو اس طرح دیکھ کر ان کا حیران ہونا لازمی تھا صبح ہونے کو ائ تھی اس نے وقت دیکھ کر فجر ادا کی اور کچھ سکون حاصل کرکے وہاں سے اٹھا اور شیشے سے اسے دیکھا تو وہ اب تک اسی طرح تھی جانے کیوں وہ اسے دیکھ نہیں پارہا تھا واپس اکر دیوار سے منسلک صوفے پر بیٹھ گیا اب وہ کافی حد تک پرسکون لگ رہا تھا لیکن اندر ہی اندر ایک ڈر نے پریشان کر رکھا تھا رات نو بجے سے وہ اتنی ازیت میں تھا اور اب صبح کا سورج چاروں اور اپنی روشنی بکھیر رہا تھا لیکن اسے اتنا بھی ہوش نہیں تھا کہ کسی کو اطلاع کرے
سوری عیشا جانتا ہوں تمہارے قابل نہیں ہوں لیکن کیا ایک موقع نہیں دوگی مجھے کہ تمہارے قابل بن سکوں ایک بار ٹھیک ہوجاؤ عیشا اس کے بعد میں تمہاری آنکھ میں ایک آنسو بھی نہیں رہنے دونگا ہر حال میں تمہارے اگے رہونگا تاکہ کوئ مصیبت آے تو تم سے پہلے مجھ پر آے تم نہیں جانتی تم میرے لیے کیا ہو میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں
اس کا موبائل رنگ کرنے لگا اس نے موبائل نکال کر دیکھا اس کے سیکریٹری کی کال تھی
ہاں
سر میٹینگ کا ٹائم ہوچکا ہے سبھی یہاں موجود ہے ہماری پریسینٹیشن بھی تیار ہے بس اپ کا انتظار ہورہا ہے
دوسری جانب سے آواز آئی
سب کینسل کروادیں نواز اس وقت کچھ ممکن نہیں ہے
لیکن سر اگر ڈیل کینسل ہوئ تو کافی لاس ہوگا
نواز جو ہوتا ہے ہو میری طرف سے ان سے معزرت کرلینا
کہہ کر اس نے فون بند کردیا وہ پچھلے ایک ہفتے سے اس پراجیکٹ پر محنت کررہا تھا لیکن اس وقت اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی فون دیکھ کر دھیان آیا کہ عیشا کے گھر بھی اطلاع دینی چاہیے ریحان کا نمبر ٹراے کیا لیکن بند تھا اسلیے امران کو کال کی
ہاں بول میرے بھائ
امران نے کال لیتے ہی اپنے مخصوص انداز میں کہا
امران وہ عیشا
وہ کہ نہیں پایا
کیا ہوا
امران کو اس کے لہجے سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا
امران میں ہاسپٹل میں ہوں عیشا----
ساحر کیا ہوا عیشا کو
عمران نے گھبرا کر پوچھا
تو فوراً یہاں اجا
ہاں میں ارہا ہوں بس دو منٹ میں ڈونٹ وری
اس نے موبائل جیب میں ڈالا اور آی سی یو کے بند دروازے پر ایک نظر ڈال کر دوبارہ اپنی جگہ بیٹھ گیا
ادھے گھنٹے بعد ہی امران وہاں اگیا ساحر کے کپڑوں پر اتنا خون دیکھ کر ہی وہ سمجھ گیا کہ کوئ چھوٹی بات نہیں ہے
ساحر کیا ہوا عیشا کو یہ کیا ہے
وہ ساحر کے سارے کپڑوں کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا ساحر اس کے گلے سے لگ گیا اسے کب سے کسی کے سہارے کی ضرورت تھی لیکن وہ کسی کو بتانے کے لیے اپنے ہواسوں میں نہیں تھا اس نے کم سے کم لفظوں میں اسے سب کچھ بتادیا امران بھی پریشان ہوگیا
ڈونٹ وری
اسے دلاسا دیتے ہوے صوفے پر بٹھایا اور ریحان کو فون کرکے صورتحال بتائ تبھی ایک نرس نے انھیں اطلاع دی
مسٹر خان اپ کی وائف کو ہوش اگیا ہے آپ ان سے مل سکتے ہے
ساحر نے خوشی سے امران کی جانب دیکھا اور بنا وقت ضائع کیے دونوں اندر ائے
ڈاکٹر عیشا کا معائنہ کررہا تھا ایک رات میں ہی اس کی گلابی رنگت سفید ہوگئ وہ بے حد کمزور لگ رہی تھی ساری تسسلی کرکے ڈاکٹر نے ساحر کو مخاطب کیا
اب یہ بلکل ٹھیک ہے فکر کی کوئ بات نہیں تھوڑی ہی دیر میں ہم انھیں روم میں شفٹ کردینگے
ڈاکٹر نے مسکرا کرکہا
تھینکس ڈاکٹر
ڈاکٹر باہر چلا گیا تو وہ اسکے قریب ایا اور اس کے چہرے کو چھوکر اپنے دل کو تسسلی دی پھر دھیرے سے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیے وہ کچھ کہہ بھی نا پائ کن انکھیوں سے امران کو دیکھنے لگی جو زیر لب مسکراتے ہوئے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا اسے بہت شرمندگی محسوس ہوئ ساحر سکون کا سانس لیتے ہوئے اس سے دور ہوا اور ساری تکلیف ساری فکر ایک طرف رکھ کر اسے غصے سے دیکھا
کیا سمجھتی ہو تم خود کو---- بہت جینیس ہو---- ہر پریشانی کا حل صرف تمہارے پاس ہے---- دوسرے بیوقوف اور گدھے نظر اتے ہے کیا تمہیں
وہ غصے سے بولا عیشا کو بہت حیرانی ہوئ امران بھی اسے حیرت سے دیکھتا رہا
میں نے کیا کیا
کمزوری سے اس کی اواز بہت دھیمی نکل رہی تھی
کیا کیا _---_ یہ جو ہوا ہے نا یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے------- اگر کسی کو بتانے میں شرم ارہی تھی تو خود ہی اکر خاموشی سے علاج کرواتی کم سے کم بات یہاں تک تو نہیں پہنچتی
مجھے کیا پتا تھا یہ سب ہوجایگا
وہ معصومیت سے بولی
ہاں تم تو چھوٹی سی بچی ہو نا ------تمہارا دماغ تو صرف لوگوں کو جج کرنے میں کام آتا ہے اور جہاں ضروری ہو وہاں تمہاری عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے
اس کا غصّہ مزید بڑھ گیا
تم مجھے اتنا ڈانٹ کیوں رہے ہو
اس نے معصوم شکل بنا کر کہا امران اپنی مسکراہٹ دبائے دونوں کو دیکھنے لگا
ڈانٹوں نہیں تو کیا پیار کروں تمہیں----- اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ اگر اتنی بار درد ہورہا ہے تو پین کلر لینے کی بجاے ایک بار ڈاکٹر کو دکھادو---- اتنے وقت سے اپینڈکس تھا اور بیوقوف کو پتا بھی نہیں چلا
سوری
وہ ایک ہاتھ سے کان پکڑ کر بولی
سوری----- بس ہوگیا----- جانتی ہو کیا حالت ہوگی تھی میری-----_ جان----_ یہاں تک اگئی تھی--_-- لائف میں پہلی بار کسی سچویشن سے اتنا ڈر لگا مجھے---- اتنا بے بس محسوس کیا میں نے---- تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے اس ایک رات میں ہزار بار موت کا سامنا کیا ہے میں نے----- تم نے کبھی سوچا اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں کیا کرتا------ کیسے------ سمجھارہا ہوں عیشا اگر آئندہ تمہاری وجہ سے مجھے دوبارہ ایسے حالات سے گزرنا پڑا نا تو میں تمہاری جان لے لونگا -------وارن کررہا ہوں اب ایسی کوئ بھی بیوقوفی کی تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا سمجھی
عیشا نے معصومیت سے سر اثبات میں ہلادیا اسے ساحر کی باتوں پر تعجب بھی ہورہا تھا اور انجانی خوشی بھی ساحر پاس رکھی چئیر پر بیٹھ کر اس کی فائل تھامے رپورٹس دیکھنے لگا
اب کیسی ہو عیشو
عمران اس کے پاس آکر نرمی سے بولا
میں ٹھیک ہوں بھائ جان
اتنی لا پرواہی اچھی نہیں ہوتی آئیندہ دھیان رکھنا ہوں
اس نے سمجھاتے ہوئے کہا
جی
وہ ہلکا سا مسکرائی
گڈ گرل اب ارام کرو اوکے
اس کا گال تھپتھپاکر وہ باہر چلا گیا عیشا اسے غور سے دیکھنے لگی جو فائل پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اس کی باتوں میں عیشا کے لیے جو چاہت تھی عیشا اسے اسانی سے محسوس کرگئ خون آلود کپڑے بکھرے بال اور ہلکی بڑھی شیو کے ساتھ وہ جانے کیوں اج دل کے بہت قریب لگ رہا تھا
اگلا ایک ہفتہ ہاسپٹل کے وی ائ پی بیڈ پر ہی گزرا حالانکہ اس نے تیسرے دن سے ہی گھر جانے کی رٹ لگادی تھی لیکن ساحر نے اس کی ایک نہیں چلنے دی ساحر نے اس کا بہت خیال رکھا وہ زیادہ وقت وہیں رہتا
اس کے علاوہ امی بھی سارا دن اس کے ساتھ ہی رہتی لیکن ساحر رات کو انھیں ارام کی غرض سے گھر بھیج کر خود وہاں رک جاتا افس بھی بہت کم وقت کے لیے جاتا تھا اور بار بار کال کرکے طبیعت پوچھتا وہ مزید یہاں رہنے کو تیار نا ہوئ تو ساحر نے اس کی ضد دیکھتے ہوئے ایک ہفتے میں ہی ہاسپٹل سے ڈسچارج لے لیا ڈاکٹر نے اسے کچھ ضروری ہدایات دے کر اجازت دیدی
ریحان بھائی میں نے ڈاکٹر سے بات کرلی ہے اُنہونے ڈسچارج دے دیا ہے
اس نے روم میں آکر اطلاع دی جہاں ریحان کرسی پر بیٹھا عیشا سے بات کر رہا تھا اور امّی اسے دوائی دےرہی تھیں
ریئلی
وہ یہاں سے اتنا اُکتا گئی تھی کی یہ خبر سن کر خوش ہوگئی ساحر پہلے ہی اس کی ضد پر غصہ تھا لیکن اس وقت کچھ کہا نہیں بس گھور کر دیکھا
ہاں لیکن یہ بھی کہا ہے کہ آرام کرنا ہے اسٹریچز نکالنے میں ابھی کافی وقت ہے تب تک کافی دھیان رکھنا ہوگا لا پرواہی نہیں چلیگی
اس نے اطراف کا خیال کرتے ہوئے دبے دبے غصے میں کہا
ساحر بیٹا برا نا مانو تو ہم عیشا کو کچھ دن کے لیے اپنے ساتھ لے جائے
امی نے کچھ جھجھکتے ہوئے پوچھا
مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے انٹی
دل تو نہیں چاہا لیکن اس وقت اسے
عیشا کا اُن کے ساتھ رہنا ہی صحیح لگا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر کوئی پرابلم ہوئی تو وہ اسے نہیں بتائے گی اور اس وقت وہ کوئی رسک نہیں لیے سکتا تھا اسلئے اس نے حامی بھردی
گھر آکر اسے بہت اچھا لگ رہا تھا اس نے لائٹ بند کی اور سونے لگی تھی جب اس کا فون بجنے لگا ساحر کے نمبر سے میسیج تھا پچھلے ایک ہفتے سے وہ اس سے بس ضرورتاً ہی بات کرتا تھا کسی بات کا جواب بھی روٹھے ہوئے انداز سے دیتا تھا ایسے وہ اپنی ناراضگی ظاہر کر رہا تھا اس نے میسج اوپن کیا
کیسی ہو
وُہ مسکرائی پورے ایک ہفتے بعد یہ سوال کیا تھا اس نے
بڑی جلدی فرصت مل گی آپ کو میرا حال چال پوچھنے کی
اس نے شکوہ کرنے میں دیری نہیں کی
تم نے مجھے جیسے پریشان کیا-_-__ کیا میرا ناراض ہونا غلط تھا
لیکن ایسی بھی کیا ناراضگی جو ختم ہونے کا نام ہی نا لے
میسیج بھیج کر وُہ انتظار کرنے لگی تین منٹ بعد جواب آیا
تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کے وہ رات کتنی خوفناک تھی میرے لیے ہر سیکنڈ کے ساتھ میری دھڑکن بڑھ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے دل نکل کر باہر آ جائے گا تمہیں ایسے دیکھنے کا حوصلہ نہیں تھا مجھ میں کیا کروں اتنا کچھ کہو چکا ہو کے اب تمہیں کھونے کی ہمت نہیں ہے تمہارے سوا ہے بھی کون ایک تم ہی تو ہو اور تمہاری ذرا سی لاپرواہی نے مجھے جیتنا پاگل کیا تھا اس کے بعد میری ناراضگی جائز تھی وعدہ کرو کے آج کے بعد ایسا نہیں ہوگا تم خود کو میری امانت سمجھ کر اپنی حفاظت کروگی
اس کی باتیں ایسی تھی کے دل کی کیفیت گھبراہٹ میں بدلنے لگی اب تک تو صرف تلخ کلامی ہی ہوئی تھی اب اچانک سے اس کی ایسی باتیں اُسے نروس کررہی تھی ہاسپٹل میں جس طرح اس نے اتنا قریب آکر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا وہ اس سے نظر ملنے سے بھی ڈرنے لگی تھی شکر ادا کیا کے اس وقت وُہ سامنے نہیں تھا
وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کے کیا جواب دے دو منٹ سوچنے کے بعد ٹائپ کرنے لگی
سوری----- آئندہ ایسا نہیں ہوگا
اوکے یہ بتاؤ دوائی لے لی
وہ مسکرادی
ہاں ابھی لی ہے
کوئی تکلیف تو نہیں ہے نا سر یا پھر پیٹ میں تو نہیں
اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی کچھ دیر پہلے ہی اسے لمبا ہدایات نامہ سنا کر گیا تھا اور اب پھر سے
تم دو گھنٹے پہلے ہی تو ساری تسلی کر کے گئے تھے
دو گھنٹے کی بات کر رہی ہو یہاں ہر سیکنڈ بھاری ہے---- ہاسپٹل میں ساتھ تھا اسلیے ٹھیک تھا پتہ نہیں آج نیند آئیگی بھی کے نہیں
مسکراہٹ گہری ہو گئی
مجھے یقین نہیں ہو رہا کے کوئی میرے لیے اتنا فکر مند ہے
کیا کرے دل کے ہاتھوں مجبور ہے
اس کی ہر بات میں کچھ ایسا تھا جو وہ گھبرا جاتی
گڈ نائٹ
پتا نہیں آگے کیا کہہ دے اسلئے اُسنے فوراً بات ختم کرنی چاہی
اوکے گڈ نائٹ صبح ملتے ہے
چند سیکنڈ بعد جواب آیا اس نے سکون کا سانس لیا اور فون رکھ کر سونے لگی خوش بھی تھی اور بے چین بھی وہ خود بھی بے خبر تھی کہ دشمن اچانک دل میں جگہ کیسے بنا گیا
******************---*******
ناشتہ سے فارغ ہو کر روم میں آئی تھی تبھی عمران اور الیشا آگئے الیشا کی طبیعت اس وقت ٹھیک نہیں تھی اسلئے کسی نے اسے عیشا کے متعلق نہیں بتایا تھا لیکن اب جب وہ گھر آگئی تھی عمران نے اسے بتادیا تھا سب کچھ سن کر پہلے تو وہ بہت پریشان ہوئی لیکن پھر عمران نے اسے تسلی دی تو کچھ مطمئن ہوئی اور فوراً اس سے ملنے آگئی
وہ بیڈ پر بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی تب ہی وہ دونوں اندر آئے اس نے دونوں کو سلام کیا الیشا نے بڑھ کر اسے گلے لگالیا اپنی بہن کی تکلیف کا سن کر اس آنکھیں نم ہوگئی تھی
آپی
وہ بھی اس سے ملنے پر بہت خوش تھی
کیسی ہو عیشو
اس نے بیڈ کے کنارے بیٹھتے ہوئے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا
میں بالکل ٹھیک ہوں آپی ٹاپ آن دا ولڈ
اس نے ہمیشہ کی طرح مسکرا کر کہا
تم اتنے دن سے ہاسپٹل میں تھی اور مجھے کسی نے بتایا بھی نہیں
اس نے خفگی سے عمران کو دیکھا جو آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا
آپی بھائی جان آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے
سنا تمہاری چھوٹی بہن تم سے زیادہ سمجھدار ہے اچھائی کی تو آج کل کسی کو قدر ہی نہیں ہے
اس نے مسکین صورت بنا کر کہا تو عیشا ہنسی روک نہیں پائی جبکہ الیشا کا غصہ برقرار تھا
تم تو بات ہی مت کرو ورنہ مجھ اس برا کوئی نہیں ہوگا
اس کی دھمکی پر عمران نے ڈرنے ایکٹنگ کی دونوں کی تکرار دیکھ کر عیشا ہنستی گئی تب ہی ساحر اندر آیا تو اس کی ہنسی کو بریک لگ گئے پتا نہیں کیوں اس سامنا کرنے سے اُسے گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی
اسلام و علیکم
اس نے سب مشترکہ سلام کیا
آگئے تم میری بیچاري بہن کو ذرا سکون مت لینے دینا
عمران
الیشا نے اُسے گھور کر کہا
اور کیا ایک ہفتے سے پاگل کر رکھا ہے ابھی دیکھنا اپنی ڈیوٹی سٹارٹ کریگا
تم نے ناشتہ کیا
دوائی لی کے نہیں
رات کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی
ایسے کیوں بیٹھی ہو آرام کرو
اور تو اور ابھی سے دن بھر کے انسٹرکشنس دیدیگا اس کے بعد بھی کم سے کم دن بھر میں دس فون کر کے پوچھ تاچھ کرے گا مطلب حد ہوتی ہے یار
اس نے ساحر کے انداز میں کہا تو عیشا اور الیشا دونوں ہنسنے لگی ساحر اپنی ہنسی روکے اُسے دیکھنے لگا اس کی ہر بات صحیح تھی
تو اس میں غلط کیا ہے انہیں اپنی بیوی کی پرواہ ہے
الیشا نے مسکرا کر کہا
یہ پرواہ نہیں ہے میڈم سراسر زیادتی ہے بیماری کیا کم ہے جو یہ بھی ٹاچر جھیلا جائے کیوں عیشو
عیشا نے کوئی جواب نہیں دیا ساحر کو دیکھنے لگی جو عمران کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دھمکی دےرہا تھا
بس کرو کچھ بھی بکتے رہتے ہو چلو---- ساحر بھائی آپ بیٹھیے
عيشو اگر زیادہ پکائے تو آواز دے دے نا آج اس سے نپٹ ہی لونگا
الیشا اس کا ہاتھ تھامے باہر لےگئی جاتے جاتے بھی وہ اپنی کہنے سے باز نہ آیا عیشا ہنستی چلی گئی وہ مسکراتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر اُسے دیکھنے لگا
شاید وہ صحیح کہہ رہا ہے آج کل میں کچھ زیادہ ہی پریشان کر رہا ہُوں
وہ کچھ نہیں بولی خاموشی سے اپنے ہاتھ کے ناخنوں کو جانچنے لگی
ٹھیک تو ہو نا
اس نے اثبات میں سر ہلایا لیکن دیکھا نہیں جبکہ وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا
وہ اب بھی نظریں جھکائے بیٹھی رہی کتنی دیر خاموشی چھائی رہی تب وہ بولا
اوکے میں چلتا ہوں کچھ کام ہے رات کو شاید آ نہیں سکوں گا ضرورت پڑے تو کال کرنا
اس نے صرف سر ہلا کر ہاں کہا ساحر باہر نکلا تو اس نے ایک گہرائی سانس لی یہ پہلی بار تھا جب وہ اس سامنے اتنی نروس تھی
اس کے جانے کے کچھ دیر بعد فائزہ اندر آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت بکے تھا جو ریڈ اور يلو فلاورس سے سجا تھا
عيشو آپکے شوہر یہ ڈرائنگ روم میں ہی بھول کر چلے گئے تھے سنبھالیں اسے
اس نے مسکراتے ہوئے عیشا کو بکے تھمایا اور باہر آگئی اس نے پھولوں کو قریب کرکے اُن کی خوشبو اپنے دل تک محسوس کی جانے کیوں یہ سب اُسے اچھا لگ رہا تھا ساحر سے بات کرنا اس کی فکر مندی اس کا دیکھنا بھی اب برا نہیں لگتا تھا
نیند سے جاگی تو سب سے پہلے موبائل چیک کیا رات کو وہ نہیں آیا تھا تقریباً ساڑھے بارہ بجے کا میسیج تھا وہ نیند میں تھی اسلیے پتا نہیں چلا فوراً میسیج اوپن کیا
السلامُ علیکم سوری بزی تھا اسلیے آ نہیں پایا ابھی گھر آیا تو سب سے پہلے تمہیں میسیج کیا ٹھیک ہو نا
اس نے وقت دیکھا نو بج رہے تھے اس وقت وہ جم میں ہوتا تھا اُسنے میسیج کیا
السلامُ علیکم جاگ رہے ہو
جواب ایک منٹ بعد آیا
ہاں بس ابھی اٹھا ہُوں رات دیر سے سویا تھا اسلیے آج فجر بھی قضا ہوگئی
میں جلدی سوگئی تھی اسلیے میسیج کا ریپلائے نہیں کرپائی
جانتا ہو ٹھیک تو ہو نا کوئی پرابلم تو نہیں
اس کے ہونٹوں پر خوبصورت مسکان آگئی
اللہ کے کرم سے بالکل ٹھیک ہو
میرا گفٹ ملا تھا
اس کا اشارہ پھولوں کی جانب تھا
ہاں ملا تھینک یو بہت خوبصورت تھا
سوری خود نہیں دے پایا ڈر لگ رہا تھا کہ تم برا نا مان جاؤ
وہ ہنس دی
میری دوست زوبی کی شادی ہے سنڈے کو----- کل ہی انویٹیشن دے کر گئی ہے اور تمہیں بھی ضرور آنے کہ کہا ہے
اس نے بات بدل دی
لیکن تم ابھی کہیں نہیں جاسکتی جب تک پوری طرح ٹھیک نا ہو جاؤ
اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی
کیا مطلب میں اپنی بیسٹ فرینڈ کی شادی مس کردوں
عیشا اس وقت تمہارا کہیں جانا صحیح نہیں ہے تم ٹھیک سے چل بھی نہیں پارہی ہو ایسے میں طبیعت اور بگڑ جائیگی
اس نے سمجھانے کی کوشش کی
میں بالکل ٹھیک ہوں میری ایک ہی تو بیسٹ فرینڈ ہے پلیز مجھے جانا ہے باقی رسمیں نہ سہی کم سے کم شادی پر تو جانے دو نا پلیز پلیز پلیز پلیز
تین منٹ بعد جواب آیا
اوکے صرف شادی پر لیکن پرومس کرو کوئی لاپرواہی نہیں ہوگی کیونکہ تم ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہو ڈاکٹر نے کہا ہے سٹریچز پر زور نہیں پڑنا چاہیے ورنہ پرابلم ہو سکتی ہے
پرومس کوئی لاپرواہی نہیں ہوگی پورا دھیان رکھوں گی
وہ خوش ہوگئی
اوکے
تھینک یو سو مچ لیکن آپ بھی چلوگے نا
میں آکر کیا کرونگا تم ہی جاؤ
نہیں آپ بھی ساتھ چلنا زوبی نے بہت بار کہا ہے اُسے برا لگےگا تو
وہ خود ایسا چاہتی تھی
ساری دنیا کی پرواہ ہے تمہیں سوائے ایک کہ جسے کسی کی پرواہ نہیں تمہارے علاوہ
ایسا بھی نہیں ہے اچھا بعد میں بات کرتی ہو امی بلارہی ہے
اس نے گھبرا کر بات ختم کرنی چاہئے
ٹھیک ہے بنا لو اور بہانے آ رہا کچھ دیر میں بائے
بائے کے ساتھ ہارٹ والا اموجی بھیجا وہ کچھ کنفیوز ہو گئی کی آئیگا تو کیسے بات کریگی کیونکہ سامنا کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی
********//***********/******
ایک گھنٹے سے وہ اُسکا انتظار کر رہی تھی اس کا فون لگ نہیں رہا تھا اس نے گھر پر فون کیا تو پتا چلا ابھی وہاں سے نکلا ہے شادی کا فنکشن ایک ہوٹل میں تھا وہ فائزہ کو بتا کر پارکنگ ایریا میں آگئی اور اس کی راہ دیکھنے لگی آج اُسے خو فائزہ نے تیار کیا تھا اسی کی خواہش پر آج اُسنے لیمن یلو کلر کی بلیک گوٹے والی شیفوں کی ساڑی پہنی تھی ہلکا سا میک اپ اور کانوں میں ڈائمنڈ ایئرنگ پہنے کھلے اسٹیپ کٹ بالوں میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی ایک ہاتھ آنچل سے ڈھکا ہوا تھا دوسرے میں ایک خوبصورت گھڑی پہنی ہوئی تھی
اس نے ساحر کو آنے کے لیے راضی تو کرلیا تھا لیکن اس کے اتنا لیٹ ہونے پر اُسے بہت غصّہ آرہا تھا وہ آج اپنی ساری سہیلیوں کو ساحر سے ملانا چاہتی تھی لیکن اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا اوپر سے فون بند کر رکھا تھا وہ پندرہ منٹ تک انتظار کرکے واپس جانے لگی تب ہی اس کی گاڑی آکر رکی و فوراً وہاں چل دی ساحر گاڑی سے باہر آیا تو اُسے وہاں دیکھ کر ہی اندازہ لگالیا کی بہت غصے میں ہے
سوری سوری سوری میں تھوڑا لیٹ ہوگیا کیا کروں ایک ایمرجنسی آگئی تھی اسلیے------
تو میں کیا کرو--- میں نے پوچھا کیا تم سے ----_کیوں بتا رہے ہو مجھے--- تم تو اپنی مرضی کے مالک ہونا میں کون ہوتی ہو تم سے کچھ کہنے والی
اس کی بات پر ساحر نے سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں دیکھا
تم تو ساحر خان ہو نا جب تک کہیں ایک دو گھنٹے لیٹ نا پہنچو تو لوگوں پر تمہارا امپریشن کیسے پڑے گا بھلے ہی کوئی تمہاری راہ دیکھ دیکھ کر آدھا ہوجائے لیکن تمہیں اس سے کیا مطلب تم تو صرف اپنے بارے میں سوچو گے کیونکہ تم تو سا
اس کے باقی کے الفاظ منہ میں ہے رہ گئے کیونکہ وہ ایکدم سے اس کے بہت قریب آگیا چہرے پر بکھرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے چہرہ تھام کر جھکتے ہوئے ساری شکایتوں کا جواب ایک ہی بار میں دیدیا اُسے تو اس اچانک آفت نے جیسے پرالیز کردیا تھا جو ایک انچ بھی ہل نہیں پائی
چند لمحوں تک اپنے جذبات کا اظہار کرکے اس نے عیشا کے لبوں کو آزاد کردیا چہرہ یوہی تھامے اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکائے آنکھیں بند کئے اپنی بے ترتیب سانسوں کو بحال کرنے لگا
تمہارے ہر سوال کا جواب تھا یہ
اس نے سرگوشی میں کہا عیشا کی جھکی نظریں اس کے سرخ ہونٹوں پر تھمی ہوئی تھی وہ اس سے الگ ہوا ایک نظر اُسے غور سے دیکھ کر بنا کچھ کھے اندر چل دیا وہ اب تک وہاں ویسے ہی کھڑی تھی اس کا فون بجنے لگا تو وہ ہوش میں آئی فائزہ کی کال تھی اس نے کال کاٹ دی چور نظروں سے ارد گرد کا جائزہ لیا اور کسی کو نہ پاکر ایک سکون کا سانس لیا دھیمے قدموں سے اندر کی جانب بڑھ گئی
سارا وقت وہ خاموشی سے ایک طرف میں بیٹھی رہی اب تک کہ سارا جوش خاک ہو چکا تھا نہ کسی سے ملنے کی خواہش ہورہی تھی نہ ہی کسی سے بات کرنے کی امی اور فائزہ سب سے باتیں کرنے میں مصروف تھے اور وہ اُن سے کچھ فاصلے پر کرسی پر بیٹھی بنا پلک جھپکے سامنے دیکھ رہی تھی اسے اب تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب ایک بار پھر سے سب کچھ سوچ کر سارے جسم میں بجلی سے دوڑ گئی
تم یہاں کیوں بیٹھی ہو
قریب سے آواز آئی تو اسے دیکھ کر وہ فوراً آٹھ کر کچھ پیچھے ہو گئی اور اسے خوف اور حیرانی سے دیکھنے لگی
یہ کیا اتنی ٹھنڈ ہے اور تم نے کچھ گرم نہیں پہنا اگر سردی لگ گئی تو
اس نے اپنا گرے کوٹ اُتار کر اس کی جانب بڑھایا لیکن وہ اُسے نظر انداز کرتے ہوئے پلٹ کر تیزی سے چلی گئی اور ساحر دھیرے سے مسکرادیا آج اس کے انداز میں خوف و گھبراہٹ تھی شرم تھی بے یقینی تھی لیکن نفرت نہیں تھی اسلیے و پرسکون تھا
****************************
وہ فائزہ سے باتیں کررہی تھی جب اس کا ٹیبل پر رکھا فون وائبریٹ ہونے لگا پچھلے دو دن سے وہ اُسے اوائڈ کررہی تھی نہ کال نا میسیج لیتی اگر گھر آتا تو سونے کی ایکٹنگ کرتی وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی دو دن میں کتنے ہی میسیج اور کال کر چکا تھا لیکن اس نے کوئی میسیج اوپن ہی نہیں کیا نا ہی کال لی بلکہ فون ہی سائلینٹ کردیا اس کے ساتھ فائزہ نے بھی بار بار کال آتی دیکھی تو پوچھ لیا کیونکہ نمبر سیو نہیں تھا
پتا نہیں بھابھی کون آوارہ لوفر ہے پریشان کر رکھا ہے
اس نے بے دلی سے کہا
میں دیکھتی ہوں اس نے فون اٹھا کیا
باپ رے صبح سے اب تک بیالیس مس کال اس کی تو خیر نہیں اب آنے دو ذرا
عیشا مسکرانے لگی
اچھا ہے اسی لائق ہو تم
اس نے دل میں سوچا
اگلے پندرہ منٹ تک اس کال نہیں آئی
لگتا ہے اب نہیں کریگا
فائزہ جانے لگی تو اس نے روک لیا ساحر سے بدلہ لینے کا موقع چھوڑنا نہیں تھا اُسے
بھابھی آپ ہی کال کرلو نا ورنہ پھر آپ کے جاتے ہی آجائیگی
فائزہ نے ہاں کہ کر کال ملائی اور فون اسپیکر پر کیا دوسری ہی رنگ پر فون اٹھایا گیا تو وہ شروع ہو گئی
بدتمیز لوفر آوارہ کون ہو تم اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں کال کرنے کی موالی کہیں کے دوسروں کو تنگ کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے تم لوگ کے تمہاری گھر بھی ماں بہن ہے انہیں اگر کوئی ایسے پریشان کرے تو تمہیں کیسا لگے گا آئندہ اگر ایک بھی کال آئی تو تم سلاخوں کے پیچھے نظر آؤ گے
وہ غصے سے بولتی گئی
بھابھی دنیا میں کوئی قانون نہیں ہے جو مجھے میری ہی بیوی کو کال کرنے پر سلاخوں کے پیچھے کردے
وہ حیرانی سے اس کی بات سن رہا تھا آخر میں مسکراکر بولا وہ فائزہ کی آواز پہچان گیا تھا اس لیے سمجھ گیا کے وہ کسی اور کی کال سمجھ رہی ہے
ساحر بھائی کیا یہ آپ ہے
اس نے سوالیہ نظروں سے عیشا کو دیکھا تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی فائزہ کے ساتھ ساحر بھی اس کی شرارت سمجھ گیا
ساحر بھائی معاف کیجئے گا میں نے آپکو پتا نہیں کیا کیا کہ دیا لیکن یہ ساری شرارت آپکی بیگم کی ہے ان نون نمبر سے اتنی ساری مس کال دیکھ کر پوچھا تو کہنے لگی کوئی لوفر آوارہ تنگ کررہا ہے اور میں نے بنا جانے آپ کو اتنا برا بھلا کہہ دیا سوری میں بہت شرمندہ ہو
کوئی بات نہیں بھابھی لیکن اپنی پاگل سسٹر ان لو کو سمجھائے کے ایسے بیوقوفانہ حرکتِ نا کرے دو دن سے ہزار بار ریکویسٹ کر رہا ہو لیکن کال نہیں لی اور اب یوں اچانک کال آگئی خوشی سے اگر مر جاتا تو دوسرا نہیں ملتا اتنے نخرے جھیلنے والا
وہ ہنسنے لگی فائزہ اُسے غصے سے گھورا
سوری لیکن یہ نا ذرا بیوقوف قسم کی ہے ویسے آپ نے کیا کیا جو بات نہیں کررہی
فائزہ کے سوال پر اُسنے فون کو دیکھا جانے کیا کہے گا
میرے حساب سے تو میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے یوں منہ پھلایا جائے خود پوچھ لیجئے بتادیا تو شاید کیا بھی ہوگا
اس نے بڑی ہوشیاری سے بات عیشا کے سر ڈال دی اس کا منہ اور آنکھیں حیرانی سے کھلا رہ گیا
سوری بھابھی لیکن اس وقت تھوڑا بزی ہوں کچھ دیر میں کال کرتا ہو
کسی کے پکارنے پر اس نے معزرت کی
جی خدا حافظ ایک بار پھر سے سوری
پلیز بھابھی بار بار سوری بول کر شرمندہ مت کیجئے اللہ حافظ
عیشااا کتنی بری ہو تم بیچارے کو کیا کیا سنوادیا
فائزہ خفگی سے بولی
بھابھی وہ بیچارہ اسی لائق ہے
وہ لاپرواہی سے کہہ کر ہنسنے لگی
پاگل ہو بالکل
فائزہ نے اس سر پر چپت لگائ
****************************
عیشو ساحر بھائی کہ کر گئے ہے کے آج شام تک تیاری کرلو وہ تمہیں واپس گھر لے جارہے ہیں
وہ جو ساحر کے جاتے ہی بستر سے نکل کر کھڑکی کے آگے بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی حیرت سے فائزہ کی دیکھنے لگی پانچ دن سے وہ اُسے اگنور کررہی تھی بات تو دور سامنا بھی نہیں کررہی تھی اب پریشان ہو گئی
لیکن بھابھی ابھی سے مطلب ابھی تو میں ٹھیک سے چل بھی نہیں پارہی ہو اور سر سے سٹریچز بھی تو نہیں نکلے اگر کوئی پرابلم ہوئی تو
ارے تو وہ کونسا تمہیں جنگل میں لے جاکر چھوڑ دینگے خود خیال رکھے گے نا تمہارا اب اتنے دن سے تم یہاں ہو تو بیچارے وہاں اکیلے ہوگئے ہوگے نا
فائزہ نے مسکراتے ہوئے کہا
آپ کہئے نا اُن سے کہ کچھ دن بعد لیجائے ابھی میرا من نہیں کر رہا
اُسے نے ایک کوشش کی
پاگل ہو تم اپنے من کا خیال ہے شوہر کا نہیں -----ویسے بھی امی نے ہاں کہہ دیا ہے منع کیا تو انہیں برا لگ سکتا ہے
فائزہ کو اندازہ تھا کہ دونوں میں کوئی ناراضگی ہے اسلئے منع کر رہی ہے تو اُسے سمجھانے لگی وہ کیا کرتی کوئی وجہ نہیں تھی کیا بتاتی سب کو کی اس کا سامنا کرنے پر گھبراہٹ ہورہی ہے تو کیسے جاؤں اسلئے خاموشی سے تیاری کرلی شام سات بجے کے قریب و گھر آیا اور آج پورے پانچ دن بعد وہ اس کے سامنے تھی
اس نے وہائٹ سلور سوٹ پر اورینج پرنٹڈ دوپٹہ کاندھے پر ڈالا ہوا تھا ہاتھ میں بھری چاندی کی چوڑیاں اور کانوں میں سلور جھمکے اور گہرے کاجل سے سجی مدہوش کرتی آنکھیں لیکن وہ اس کی جانب دیکھ نہیں رہی تھی سب نے ساتھ میں کھانا کھایا وہ کچھ اُداس تھی اتنے دن رہ کر پھر گھر والو سے دور جانا تھا اس نے سب سے مل کر دعائیں لی اور نم آنکھیں لیے اس کے ساتھ آگئی
ساحر نے اُسے گاڑی میں بٹھایا خود بھی باری باری سب سے ملا اور آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا سارا راستہ وہ خاموش رہا کبھی کبھی ایک نظر اُسکے اُداس چہرے پر ڈال دیتا
گھر آکر اُسے ایک بار پھر سارا واقعہ یاد آگیا کس طرح وہ تکلیف میں تھی کس طرح سیڑھیاں اترتے ہوئے گرپڑی تھی جب ساحر نے اُسے اپنی باہوں میں اٹھا کر سہارا دیا تھا اور اسے محسوس ہوا تھا کہ وہ اُسے کچھ نہیں ہونے دیگا وہ ساحر سے کہنا چاہتی تھی کے بہت تکلیف میں ہے لیکن الفاظ ہونٹوں تک آنے پہلے ہی دم توڑ دیتے تھے اسے آج دادی کی بھی شدّت سے یاد آرہی تھی کتنا وقت گزارتی تھی وہ اُن کے ساتھ اپنی ہر بات اُنھیں بتاتی تھی اپنے ہر مسئلے کا حل اُن سے پوچھتی تھی اس کی آنکھیں بھر آئیں اس نے اپنا کاجل بچاتے ہوئے آنکھیں صاف کی
نینا
اس نے نینا کو پکارا تاکہ سیڑھیاں چڑ سکے کیونکہ ابھی تک اُسے چلنے میں تکلیف ہوتی تھی اور سیڑھیاں چلنا تو کافی مشکل تھا اور کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا
جی میڈم
نینا پلیز آپ سیڑھیاں چڑھنے میں میری مدد کردو
جی میڈم
نینا نے آگے بڑھ کر کہا
نینا تم رہنے دو اور یہ سارا سامان روم میں رکھوا دو
ساحر فون جیب میں ڈالتے ہوئے اندر آیا اور نینا کو منع کر دیا تو وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی سامان لینے باہر چلی گئی عیشا نے حیران نظروں سے اُسے دیکھا اور اس کے دیکھنے سے پہلے رخ پھیر لیا سوچنے لگی کے اب اوپر کیسے جائے ساحر نے آگے بڑھ کر اُسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا وہ اس کے لیے تیار نہیں تھی گھبرا گئی اور دونوں ہاتھ اس کے گلے میں ڈال دیئے
ی -_یہ کک -ک --کیا کر رہے ہو تم
ڈر کے مارے اس کے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے
وہ کیا ہے نہ ہمارے یہاں ایک رسم ہے دلہن کو گود میں اٹھا کر روم تک لے جاتے ہے شادی کے وقت یہ رسم ادھوری رہ گئی تھی اسلئے آج پوری کررہا ہو
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرارت سے بولا
ن ن ن نہیں----- م م میں--- خود چلی جاؤنگی
چپ کرکے بیٹھی رہو ورنہ تمہاری بولتی بند کرنے کا آئیڈیا ہے میرے پاس
اس نے گھبرا کر پلکیں جھکالی وہ اس کی جھکی پلکوں کو دیکھتے ہوئے روم میں لے آیا اندر آکر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی سارا روم بڑی ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا بیڈ پر سرخ پھولوں کی چادر بچھی تھی چاروں طرف کینڈلس لگی تھی جس کی روشنی ماحول کو خوبصورت بنا رہی تھی
اب تو اُتار دو مجھے
ساحر روم میں آنے کے بعد بھی ایک منٹ تک یونہی اس کے حیران چہرے کو دیکھتا رہا تو اسے کہنا ہے پڑا
دل تو نہیں کر رہا لیکن اتنا کہہ رہی ہو تو اُتار دیتا ہو
مسکراتے ہوئے اس نے عیشا کو اُتار دیا وہ اب بھی حیرت سے روم کی سجاوٹ ہی دیکھ رہی تھی کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا جانے کیوں اے سی میں بھی اُسے پسینہ آنے لگا
کیسا لگا
ساحر نے اس کے کان کے نزدیک سرگوشی کی جس پر اس نے اُسے دیکھا لیکن اس کی آنکھوں سے گھبرا کر پلکیں خود بخود جھک گئی
جب تم ایسی شرماتی ہو تو اور زیادہ خوبصورت لگتی ہو
وہ اس کے سامنے آکر جھکی پلکوں کو دیکھتے ہوئے دھیمے پیار بھرے لہجے میں بولا
تمہاری ہنسی اتنی پیاری ہے کہ من کرتا ہے ساری دنیا سائلینٹ ہو جائے اور صرف تمہاری ہنسی سنائی دے
وہ اس کے اتنے قریب آگیا کے دونوں کے درمیان صرف دو انچ کا فاصلہ رہ گیا
تمہارے بالوں سے پانی گرنے پر میں نیند سے جاگتا ہُوں تو لگتا ہے اس سے زیادہ خوبصورت صبح کوئی نہیں ہو سکتی
عیشا نے حیران ہوکر نظریں اٹھائی
میں چاہتا ہوں میری زندگی کی ہر صبح ایسی ہی خوبصورت ہو
اس نے دوبارہ نظریں جھکلی کچھ دیر خاموشی رہی
کچھ تو بولو اتنا شرما کیوں رہی ہو
وہ اس کے بھینچے ہوئے لبوں کو دیکھنے لگا
م م م میں ----- ش ش شرما نہیں رہی ہو
اچھا تو پھر اتنا ہکلا کیوں رہی ہو مجھ سے ڈر تو نہیں لگ رہا
وہ اس کے کان کے قریب آکر بولا
اور اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے تمہیں
وہ مصنوعی حیرت دکھاتے بولا
و و وہ مجھے---- مجھے پیاس لگی ہے
اس کی حالت دیکھ کر وہ محظوظ ہوتا رہا لڑاکو لڑکی کا نیا روپ بہت ہی معصوم تھا
پیاس لگی ہے
وہ کبھی اس کی آنکھوں تو کبھی ہونٹوں کو دیکھتا اُس نے سر ہاں میں ہلا دیا
اچھا یہاں بیٹھو
ساحر نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل کر وہاں آکر بیٹھ گئی ساحر نے اُسے پانی دیا تو ایک گھونٹ پی کر سائڈ پر رکھ دیا ساحر وہیں اس کے نزدیک ہوکر بیٹھ گیا اس کی دھڑکن اور بڑھ گئی اور وہ خود میں سمٹنے لگی
چاکلیٹ
اس نے چاکلیٹ اس کی طرف کیا لیکن اس نے سر نفی میں ہلادیا ساحر نے زبردستی اس کے ہونٹوں سے لگادیا تو اس نے مجبورا ایک چھوٹی سی بائٹ لے لی
اپنا ہاتھ دو
ساحر نے چاکلیٹ بائٹ لیکر رکھ دی اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے کیا ساحر نے اس کا ہاتھ تھام کر تیسری انگلی میں ایک خوبصورت ڈائمنڈ رنگ پہنا دی اور اس پر اپنے لب رکھ دیئے عیشا نے ہاتھ کھینچنا چاہا لیکن اس نے دونوں ہاتھ میں مضبوطی سے تھام کر اس کی کوشش ناکام کی
ناراض ہو
وہ ہاتھ کی گرفت کو اور مضبوط کر کے بولا
نہیں تو
اس نے جھکی نظروں سے فرش کو جانچتے ہوئے کہا
تو اتنے دن سے بات کیوں نہیں کی----
ساحر نے ایک ہاتھ سے اس کے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کیا اس کے مدہوش کرتے پرفیوم نے سانس لینا دشوار کر رکھا تھا ہاتھ اس کی گرفت میں بھی کانپ رہا تھا اس نے سوکھتے ہونٹوں کو تر کیا
میں نے کچھ ایسا تو نہیں کیا تھا جو غلط ہو تمہارا شوہر ہوں میں
ہوں نا
اس نے تسلی کرنی چاہی کی کہیں اب بھی اس رشتے سے انکاری تو نہیں
ہاں
اس نے ساحر کی آنکھوں نے دیکھتے ہوئے کہا اس کی آنکھوں میں یہی جواب تھا وہ مسکرادیا
یہ رنگ میں نے تمہیں شادی پر گفٹ کرنی تھی لیکن سچویشن کچھ ایسی ہو گئی تھی کے اگر اس وقت دیدیا ہوتا تم مجھے جان سے مار دیتی
عیشا کو اس کی بات پر ہنسی آگئی شاید وہ صحیح کہہ رہا تھا
کچھ اور بھی دینا ہی تمہیں
اس نے ڈراور سے ایک باکس نکالا جس میں خوبصورت ڈیزائن کے کڑے تھے اس نے باری باری دونوں ہاتھوں میں کڑے پہنادیے
یہ میری امی کے ہے اُن کی طرف سے تمہارے لیئے
اس کی آنکھیں اُداس ہو گئی تھی
تھینک یو
وہ مسکرا دیا چند لمحے خاموشی سے اُسے دیکھتا رہا عیشا میں اسکی نظروں سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی اسلئے یونہی بیٹھی اپنی چوڑیوں سے کھیلتی رہی
بہت رات ہو گئی ہے سو جاؤ کل ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہے
اس کے ہاتھ کو آزاد کرکے وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں آگیا
عیشا نے ایک گہری سانس لی اور کان سے جھمکے نکالنے لگی اس کے بعد ساری چوڑیاں بھی اُتار کر رکھ دیئے اور صرف ساحر کے دیئے کڑے رہنے دیئے انگلی میں پہنی رنگ کو غور سے دیکھنے لگی اب بھی اُسے وہ اپنے قریب ہی محسوس ہو رہا تھا اس کی خوشبو بہت پاس ہی تھی اب بھی ہاتھ پر اس کے ہونٹوں کا لمس باقی تھا مسکراتے ہوئے اس نے اسی جگہ اپنے لب رکھ دیئے
وہ گرے نائٹ پینٹ پر بلیک ٹی شرٹ پہنے باہر آیا اور آکر بیڈ کے ایک طرف بیٹھ کر تکیہ ٹھیک کیا اور وہیں لیٹ گیا عیشا حیران نظروں سے اُسے دیکھتی رہی
ایسے کیا دیکھ رہی ہو اب اور اس صوفے پر نہیں سو سکتا میں بہت پرابلم ہوتی ہے اب تو مجھے یہیں بیڈ پر آرام سے سونا ہے تمہارے پاس
آخری جملہ اس نے شرارت سے کہا
وہ کچھ نہیں بولی کہتی بھی کیا خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی ساحر اس کی گھبراہٹ کو انجوائے کر رہا تھا دو منٹ بعد اٹھ کر صوفے سے سارے کشن لے آیا اور بیچ میں لائن سے رکھ کر دیوار سی بنادی
جب تک تم نہ چاہو یہ دیوار نہیں ہٹے گی مجھے اپنا حق بھی تمہاری اجازت سے چاہیے زبردستی نہیں
اس نے سنجیدگی سے عیشا کو دیکھا اور دوبارہ لیٹ گیا عیشا اب بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی
سو جاؤ بہت وقت ہے تمہارے پاس یہ سب سوچنے کے لیے فلحال تمہیں ریسٹ کرنا ہے گڈ نائٹ اینڈ ڈونٹ وری مجھے نیند میں ہاتھ پیر چلانے کی عادت نہیں ہے اسلیئے تم بے فکر ہو کر سکتی ہو
اس نے عیشا کی جانب کروٹ لے کر آنکھیں موند لی وہ لیٹ گئی اور اس کے دلکش چہرے کو دیکھنے لگی
میں تمہارا شوہر ہوں ہوں نا
ساحر کی محبت میں بھیگی آواز اُس کی دماغ میں گونجی
پہلے بتاؤ میں تمہارا شوہر ہوں کے نہیں
ہر بار وہ یہی بات سننا چاہتا تھا
اور قسم سے بتا رہا ہو میرے ہوتے ہوئے کسی کی گندی نظر بھی میری بیوی کو چھو نہیں سکتی
اس کی ساری باتیں دماغ میں گردش کرنے لگی نظریں اس کے ماتھے پر بکھرے براؤن سلکی بالوں پر جم گئی
تم مانو یا نا مانو لیکن میں نے خدا کو حاضر ناظر جان کر تمہیں قبول کیا ہے اور اتنا بے غیرت نہیں ہو میں کہ میرے سامنے کوئی میری بیوی کو غلط نظروں سے دیکھے اور میں تماشائی بن جاؤں
اندر جو شوہر ہے نہ وہ لاکھ بےعزتی ہونے پر بھی اپنی بےشرمی سے باز نہیں آتا بیوی پریشان ہو تو دوڑا چلا آتا ہے
ہر بار بتاتے ہو لیکن کبھی جتاتے نہیں
اتنا اچھا کوئی کیسے ہو سکتا ہے ساحر تم انسان ہی ہو یا کوئی فرشتہ کیا میں اتنی پاگل ہو جو اتنا وقت لگ گیا تمہیں جاننے میں یا اب بھی میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں
وہ اُس کی بند آنکھوں کو دیکھ کر سوچ رہی تھی ساحر نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھنے لگا
سوئی نہیں اب تک ---کیا ہوا
اس نے سر نفی میں ہلا دیا
عیشا---- کیا تمہیں مجھ پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہے
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا وہ بھی بنا پلکیں جھپکائیں اُسے دیکھنے لگی کتنے لمحے یوں ہی گزر گئے تب وہ بولی
ساحر
آج پہلی بار اُس نے ساحر کو نام سے پُکارا تھا وہ بھی اتنے پیار بھرے لہجے میں
ہاں
وہ بیخود سا ہوکر اُسے دیکھتا رہا
کیا یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب
ہاتھ بڑھا کر دیکھ لو پتا چل جائیگا جب میں ہمیشہ کے لیئے تمہیں تھام کر خود میں شامل کرلوں گا
اس نے آنکھیں بند کر لی اور ہمیشہ کے لیے اُن لمحوں کو قید کرلیا آج اُسے بہت سکون بھری نیند نصیب ہونی تھی
ساحر نے مسکرا کر اُسے سوتے دیکھا اور دوبارہ آنکھیں بند کرلی
****************************
وہ نیند سے جاگی تو بستر خالی تھا شاید وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا سائڈ ٹیبل پر گلاب کے پھولوں کا بکے رکھا تھا ساتھ میں ایک چٹ تھی
پریوں کی شہزادی کے لیے اُسکے دیوانے کی طرف سے
ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ بکھر گئی اس نے پھولوں کو نزدیک کرکے خوشبو کو اپنے اندر اُتارا محبت کا پہلا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے
فریش ہوکر وہ بالکنی میں آگئی سردی میں ہلکی ہلکی دھوپ نے موسم کو خوشگوار بنایا ہوا تھا وہ کرسی پر بیٹھ کر کھلے آسمان پر نظریں جمائے پچھلے رات کے ہر واقعے کو دماغ میں دہرارہی تھی
کیا کوئی اتنا اچھا بھی ہو سکتا ہے
اس نے خود سے سوال کیا
لیکن بہت فلمی ہے---- اونہوں----- فلمی نہیں رومینٹک------ وہ کیا کہ رہا تھا ----ہاں---- تم جب شرماتی ہو تو اور خوبصورت لگتی ہو
وہ ساحر کے انداز میں کہ کر خود ہی ہنسنے لگی
دیکھنے میں بالکل ہیرو ہے باڈی بھی ہیرو جیسی بنائی ہوئی ہے فائٹنگ میں چیمپئن ہے گانا بھی بہت اچھا گاتا ہے ملٹی ٹیلنٹڈ ہیرو
عجیب عجیب حرکتِ کرتا ہے---- نہیں عجیب نہیں--رومینٹک
رومینٹک ہیرو
دروازے پر دستک ہوئی تو روم میں آئی
آگیا رومینٹک ہیرو
آئینے کے آگے کھڑے ہوکر خود جائزہ لیا ڈوپٹے کو گلے سے نکال کر دونوں شانوں پر پھیلایا
لیکن وہ نوک تھوڑے ہی کرکے آتا ہے میں بھی نہ پاگل ہوں بالکل
کم ان
دوبارہ دستک ہوئی تو اس نے اجازت دیدی ملازم اُس کے لیے کورئیر لیکر آیا تھا اس نے سائن کرکے کورئیر لے لیا ملازم واپس چلا گیا وہ بیڈ پر بیٹھی پارسل کھولنے لگی
رومینٹک ہیرو نے ہی کچھ بھیجا ہوگا
اس نے سوچا اندر ایک لیٹر اور انولیپ تھا لیٹر کھول کر پڑھنے لگی
السلامُ علیکم
میں کون ہُوں یہ جاننے سے زیادہ ضروری یہ ہے جو میں آپکو بتانا چاہتا ہوں
میں نے پہلے بھی آپکو ساحر خان کا اصلی چہرہ دکھانے کی کوشش کی تھی وہ جو دکھتا ہے ویسا ہے نہیں آپکی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر آپکے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے
اس آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئی سب کچھ بھول گئی یاد رہا تو صرف وہ تصویریں جو اُسے کچھ دن پہلے ملی تھی جس میں ساحر کسی لڑکی کی ساتھ گلے ملتے تو کبھی ڈانس کرتے ہوئے اُس کے شانوں پر ہاتھ رکھے ہنس کر اُس سے باتیں کر رہا تھا اتنے دن میں وہ انہیں بھول چکی تھی کیونکہ ساحر کو قریب سے جاننے پر اُسے وہ سب بے معنی لگی تھی لیکن اب پھر سے
آپ اب تک یہی سوچتی ہے کے آپ کی اور اس کی شادی ایک اتفاق ہے جبکہ ایسا نہیں ہے اُسنے جان بوجھ کر آپ سے شادی کی اپنی پہچان چھپائی کیونکہ وہ جانتا تھا آپ اُس سے شادی کے لیے کبھی راضی نہ ہوتی اسلئے آپ کے سامنے آنے سے بھی گریز کیا خود ہی سوچیے اتنا بڑا بزنس مین جو ساری دنیا گھوم چکا ہے اور بنا دیکھے ایک انجان لڑکی سے شادی کرلے گا نہیں وہ جان بوجھ کا شادی تک نا خود آپ سے ملا نا آپکو ایسا کوئی موقع دیا یہ سب اُس نے آپ سے بدلا لینے کے لیے کیا ہے جس طرح آپ نے کئی بار لوگو کے سامنے اُس کی بے عزتی کی اُسے گنڈا موالی کہا وہ آپ کو بےعزت کرنا چاہتا تھا وہ جانتا تھا آپ اُن لڑکیوں میں سے نہیں ہے جو چند پیسوں کے لیے اس کے آگے جھک جائیگی اس لیے اُس نے آپ سے شادی کی وہ آپ کو چند دن محبت اور اچھائی کا دھوکا دے کر حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے بعد آپ کے ساتھ بھی وہی کریگا جو باقی لڑکیوں کے ساتھ کرتا ہے یہ اُس کی عادت نہیں شوق بن چکا ہے وہ لڑکیوں کو ایک کھلونے سے زیادہ نہیں سمجھتا اُس نے کئی معصوم لڑکیوں کی زندگی تباہ کی ہے آپ اس کے جھانسے میں مت آئیگا اتنا سوچیے جب وہ اتنا بڑا کھیل کھیل کر آپ سے شادی کر سکتا تو اور کیا کیا جھوٹ نہیں کہا ہوگا آپ پر نظر رکھنے کے لیے اُس نے آپ کے کالج کے باہر اور جہاں بھی آپ اکیلے ہوتی ہے وہاں ایک گارڈ بھی تعینات کر رکھا ہے جو ہر پل اُسے آپ کی خبر دیتا ہے آپ چاہئے تو خود اُس سے پوچھ کر تصدیق کر سکتی ہے یا پتا لگا سکتی ہے کے کیسے اُس نے میڈیا پر آرہی اپنی شادی کی خبروں کو رکوایا تھا
اس کی اصلیت دکھانے کے لیے چند تصویریں بھیج رہا ہُوں میرا مقصد آپ کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے صرف آپکو دھوکا کھانے سے بچانا چاہتا ہوں کیوں کی آپ بے قصور ہے اور ساحر جیسے انسان کی وجہ سے آپ کے ساتھ کچھ غلط ہو یہ نہیں دیکھ سکتا
اللہ آپکی مدد کرے
آپکا خیر خواہ آپکا دوست
اُس نے خط کو دوبارہ شروع سے آخر تک پڑھا اُسے یقین نہیں ہو رہا تھا دل ماننے کو تیار نہیں تھا کے ساحر کسی کو دھوکا دیگا لیکن اکثر دل اور دماغ کی جنگ میں جیت دماغ کی ہو جاتی ہے انولپ سے تصویریں نکال کر دیکھی تو جیسے کسی نے جسم سے روح کھینچ لی ہو ایک کہ بعد ایک ساری تصویروں کو بے یقینی سے دیکھتی رہی ساحر بنا شرٹ کے کسی لڑکی کی بہت قریب تھا دوسری تصویروں میں بھی الگ الگ لڑکیوں کہ ساتھ ایسے منظر تھے جو ہر گز دیکھنے کے قابل نہیں تھے کچھ بستر پر سوئے ہوئے کچھ سوئمنگ پول میں تو کچھ اس کے آفس میں
کتنی دیر ساکت بیٹھی رہی جیسے جسم جان ہی نہیں بچی ہو
یہ یہ یہ کیا کر دیا میں نے ک ک کیسے بھول گئی کے وہ کیسا انسان ہے کیسے اُس کی باتوں میں آکر اس پر اعتبار کر بیٹھی کیسے اتنی بڑی بیوقوفی کر سکتی ہوں میں کیسے اُس سے محبت ن ن ن نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ایسا نہیں ہوسکتا وہ ایسا نہیں ہے یہ سب جھوٹ ہے یہ سب جھوٹ ہے جھوٹ ہے
دل نے آواز لگائی تو اس نے کاغذ کے پرزے کر دیے تصویروں کو اٹھا کر دور پھینک دیا اس پر جیسے ایک جنون سوار ہو گیا تھا آنکھوں آنسووں کے ساتھ خوف اتر آیا تھا سر پھٹنے لگا تھا ہوش حواس کھوکر نظریں پاگلوں کی طرح ادھر ادھر کچھ تلاش کر رہی تھی کچھ ایسا کے یہ منظر غائب ہو جائے یہ وہ خود
ساحر ایسا نہیں کرسکتا وہ ایسا نہیں ہے اس کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں سچّائی ہے دھوکا نہیں ہے فریب نہیں ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا وہ کسی کو بھی دھوکا نہیں دے سکتا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے مجھے پتا ہے مجھے پتا ہے وہ وہ
دل کی آواز زبان پر آرہی تھی لیکن دماغ دل کو روک کر اس کی نفی کر رہا تھا اس نے سائڈ ٹیبل سے گلاس اٹھا کر زور سے زمین پر مار دیا بیڈ سے تکیے اٹھا کر دور پھینک دیے پھولوں سے سجے بکے کو غور سے دیکھا اور ایک ایک کرکے سارے پھول نوچ نوچ کر پھینک دیے سر اتنی شدت سے درد کر رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائیگا اس نے سر کو دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا زخم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا تھا اتنی زور سے پکڑنے پر ٹانکوں سے خون نکلنے لگا تھا ماتھے پر بندھی سفید پٹی لال ہو رہی تھی لیکن اس وقت وہ اپنی اندرونی جنگ لڑ رہی تھی اُسے کوئی ہوش نہیں تھا
یا اللہ یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ابھی ابھی تو اس پر یقین ہورہا تھا اور اب ایک نئی سچّائی کون سا چہرہ اصلی ہے اس کا وہ جو مجھے نظر آتا ہے يا یہ جو میرے سامنے ہے یا اللہ میری مدد کر مجھے راستہ دکھا کیا وہ سچ میں وہ مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے مجھے نیچا دکھانے کے لیے اچھائی کا ناٹک کر رہا ہے کیا مجھے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر کے اپنے ہی ہاتھوں مات دینا چاہتا ہے اس کر بعد مجھے-- نہیں ----نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گی میں اس کا یہ مقصد کامیاب نہیں ہونے دوں گی سنا تم نے میں تم جیسے انسان سے ہرگز محبت نہیں کرونگی ساحر میں تمہارے جھانسے میں کبھی نہیں آؤنگی میں تمہیں نہیں جیتنے دونگی ساحر میں تمہیں کبھی نہیں جیتنے دونگی نہیں جیتنے دونگی نہیں
وہ خود سے ہی بڑبڑاتی رہی سر سے بہتا خون لکیر بناتے ہوئے گال پر آرہا تھا چہرہ آنسووں سے بھیگا اور سانسیں بے ترتیب چل رہی تھی پیٹ گھٹنوں میں دیے آنکھیں مسلسل ادھر اُدھر نیچے کچھ تلاش رہی تھی
وہ دروازہ بند کرکے مسکراتے ہوئے اندر آیا اور اپنی جگہ پر ہی تھم گیا کمرے کی اور اس کی حالت دیکھ کر اس کے ہاتھ پیر سن ہوگئے
وہ جو اپنی میٹنگ ختم ہوتے ہی اس سے ملنے آیا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کے چند گھنٹوں میں منظر یوں بدل جائیگا صبح سے جو خوشی اس کے چہرے پر چھائی تھی ایک پل میں ہوا ہو گئی
عیشا
وہ فوراً اس کے پاس آیا بیڈ پر اس کے مقابل بیٹھ کر اس کے ہاتھ سر سے ہٹائے وہ بے تاثر بھیگا چہرہ لیے اُسے دیکھتی رہی
عیشا کیا ہوا ------تم ٹھیک تو ہو نا یہ سب کیا ہے--- کیا ہوا
اس کے زخم پر ایک ہاتھ رکھے خون روکنے کی کوشش کرنے لگا دوسرے سے چہرہ تھامے اس کی روتی آنکھوں کو دیکھ کر گھبرا کر پوچھا وہ یوں ہی دیکھتی رہی
عیشا خدا کے لیے کچھ بولو----- مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے
اس کے آواز سے ہی گھبراہٹ ظاہر ہو رہی تھی
ساحر کیا یہ سچ ہے کہ ہماری شادی ایک اتفاق نہیں ہے
وہ ساحر کے چہرے پر کچھ ڈھونڈتے ہوئے بولے اس کی پکڑ ڈھیلی ہو گئی لب بھینچ کر ایک پل کو نیچے دیکھا پھر اس کی آنکھیں میں دیکھنے لگا چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا
پلیز بتاؤ ساحر میں شادی سے انکار کردونگی اس لیے تم جان بوجھ کر مجھ سے کبھی ملے نہیں -------کبھی مجھے پتا نہیں چلنے دیا
ساحر لب بھینچے اس کے چہرے کو دیکھتا رہا آنکھوں میں بے بسی تھی
میں کچھ پوچھ رہی ہوں ساحر جواب دو مجھے ورنہ میں مر جاؤں گی
عیشا
اس نے دھیمی آواز میں لیکن تڑپ کر کہا
ہاں یہ سچ ہے کہ میں بہت پہلے جان چکا تھا کہ تم ہی ہو میں نے تمہیں پارک میں دادی کے ساتھ دیکھا تھا جب میں اُنھیں لینے آیا تھا میں جان بوجھ کر تمہارے سامنے نہیں آیا کیونکہ اگر تم مجھے دیکھ لیتی تو دادی سے بھی دور ہوجاتی جو میں نہیں چاہتا تھا شادی طے ہونے کے بعد بھی میں نے تم سے یہ سچائی چھپائی کے کہیں تم شادی سے انکار نا کردو کیونکہ ------
بس اور کچھ مت بولو اس سے زیادہ سننے کی نا ہمت ہے نا ضرورت مجھ سے بدلہ لینے کے لیے تم اتنا گر سکتے ہو ساحر مجھے اندازہ بھی نہیں تھا اب تک انجان بننے کا ناٹک کرتے رہے جھوٹ بولتے رہے مجھ سے
عیشا میں تمہیں بتانے ہی والا تھا کہ -----
کیا بتانے والے تھے ایک اور جھوٹ ایک اور فریب کیوں ساحر
وہ آنکھیں بند کئے رونے لگی ساحر كا من کیا خود کو کہیں غائب کرلے تاکہ اُسے روتا ہوا نہ دیکھنا پڑے
پلیز عیشا ایک بار میری بات تو سن لو نا
وہ بےبسی سے بولا اس نے آنکھیں کھول کر سر نفی میں ہلا دیا مضبوطی سے سر تھامے رونے لگی سفید پٹی سرخ ہو چکی تھی خون اس کے آنسووں میں شامل ہوکر چہرے پر پھیل رہا تھا
عیشا یہ کیا کر رہی ہو تم -----دیکھو کتنا خون بہہ رہا ہے چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہے ورنہ پرابلم ہو سکتی ہے
اس نے عیشا کے ہاتھ سر سے ہٹاکر اپنے ہاتھوں میں لے لیے
تمہیں یہ خون نظر آرہا ہے تمہیں اندازہ بھی ہے ساحر کے میں اس وقت کس تکلیف سے گزر رہی ہوں اندر ہی اندر مر رہی ہوں میں ساحر
ساحر نے ایک ہاتھ سے اس کا سر اپنے سینے سے لگالیا اور اس کے بالوں پر اپنے لب رکھ دیئے
ایسا کیو کر رہی ہو عیشا کیو خود کو اتنی اذیت دے رہی ہو ایک بار تو مجھ پر بھروسہ کرلو میں تمہاری ہر تکلیف ہر درد دور کردونگا تمہارے آنسووں کی وجہ کو جڑ سے ختم کردونگا بس ایک موقع دے دو میں تمہیں خود میں ایسے محفوظ کرلونگا کے ایک تنکا بھی تمہیں تکلیف نہیں دے پائیگا تم نہیں جانتی عیشا تمہیں ایسے دیکھ کر مجھ پر کیا گزرتی ہے تمہارے آنسو میرے دل پر تیزاب کی طرح محسوس ہوتے ہے بہت تکلیف دیتے ہیں یہ مجھے
اس نے عیشا کو اپنے بازو میں مزید بھینچ لیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو صاف کیے کتنی دیر وہ اس کے مضبوط سینے سے لگ کر آنسو بہاتی رہی اس کا سہارا پاکر سب کچھ بھول کر اپنا درد نکالنے لگی کچھ دیر بعد آنکھیں کھولی تو کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی اور اُسے دھکا دیکر خود کو آزاد کیا وہ ایک پل کو لڑکھڑایا پھر فورا سیدھا ہوکر اُسے دیکھنے لگا
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے قریب آنے کی میں نے کہا تھا نا مجھ سے دور رہو نفرت ہے مجھے تم سے تم نے کیا سوچا تھا یہ اچھائی کا جھوٹا ناٹک کرکے مجھے بیوقوف بنالو گے نہیں مسٹر ساحر میں جانتی تمہارا اصلی چہرہ کیا ہے
وہ ادھر اُدھر نظریں دوڑائے کچھ ڈھونڈنے لگی بیڈ کے ایک کونے پر ہی ایک تصویر تھی اس نے وہ تصویر ساحر کے سامنے کی جس میں وہ بنا شرٹ کے ایک لڑکی کے قریب کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ اس کی کمر پر تھے ساحر نے غور سے اس تصویر کو پھر اسے دیکھا
یہ ہے تمہارا اصلی چہرہ تمہاری حقیقت ساحر تم مجھ سے بدلہ لینے کے لیئے ے سب کر رہے ہو نا میں اپنی ساری غلطیوں کے لیئے تم سے معافی مانگتی ہوں لیکن پلیز یہ جھوٹی محبت کا ڈراما مت کرو میں نے دادی سے وعدہ کیا تھا کے میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گی اور میں اپنا یہ وعدہ نبھاونگی لیکن تمہاری یہ حقیقت جاننے کے بعد میں تمہیں اپنے نزدیک برداشت نہیں کر سکتی گھن آتی ہے مجھے تم سے پلیز ساحر اگر تم بدلہ ہی لینا چاہتے ہو تو مجھے مار دو مگر میرے جذبات کے ساتھ مت کھیلو میں اُن لڑکیوں کہ طرح نہیں ہوں جن کے ساتھ اپنا مطلب پورا کرکے تم اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیتے ہو میں اپنے جذبات کی بے عزتی برداشت نہیں کر پاونگی ساحر میں مر جاؤں گی میں مر جاؤں گی مجھ سے دور رہو میں تم سے محبتوں نہیں کرنا چاہتی میں تم سے محبت نہیں کرتی صرف نفرت کرتی ہُوں نفرت کرتی ہوں
ساحر اُسے دیکھتا رہا اس کی آنکھوں میں درد تھا اُداسی تھی بےبسی تھی
محبت لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی عیشا تم لاکھ کہہ لو محبت نہیں کرتی لیکن تمہاری آنکھیں آج تمہارا ساتھ نہیں دے رہی میں نہیں جانتا تم مجھے اتنا غلط کیوں سمجھتی ہو کیوں تمہارے دماغ میں مجھے لیکر اتنا زہر بھر چکا ہے کے تمہیں کچھ نظر نہیں آتا
وہ چند پل خاموش رہا
جس سوسائٹی کہ میں حصہ ہو اس میں لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن میں نے کبھی اپنی حد پار نہیں کی کسی سے محبت کے جھوٹے سچّے وعدے نہیں کیے صرف اپنی حد تک
عیشا نے سر اٹھا کر اسے غور سے دیکھا اس کی آنکھوں میں تڑپ تھی
تمہیں لیکر کوئی غلط خیال من میں نہیں آ ہی نہیں سکتا کیوں کے تم میری بیوی ہو میرا حصہ ہو تمہیں تکلیف پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور جس سے محبت ہوتی ہے اُن کی عزت کی جاتی ہے بے عزتی نہیں
اس نے کھلے الفاظ میں اپنی محبت کا اقرار کیا عیشا ساکت ہوکر اُسے دیکھنے لگی جیب سے رومال نکال کر اس کے چہرے کو صاف کیا اور رومال کو پٹی کے اوپر ہی باندھ دیا تاکہ خون بہنا روک جائے
اگر سچّائی یہ ہے تو یہ کیا ہے ساحر
اس نے تصویر اٹھا کر ساحر کے آگے کی
یہ ایک جھوٹ ہے یہ کس نے کیا کیوں کیا یہ میں پتا لگا ہی لونگا عیشا ثابت کردونگا کے یہ سب غلط ہے ایک سازش ہے لیکن کیا فائدہ اگر تمہیں میری محبت پر یقین ہی نہیں ہے اگر ہوتا تو اسے سچ مان کر مجھ پر الزام لگانے سے پہلے ایک بار تسلی کرتی مجھ سے سچ جاننے کی کوشش کرتی لیکن تم نے ایسا نہیں کیا تمہیں مجھ سے زیادہ ان کاغذ کے ٹکڑوں پر یقین ہے محبت کا نہیں اس رشتے کا سوچ کر ہی اعتبار کر لیتی ----میں بھی کیا کہ رہا ہوں تم نے تو کبھی اس رشتے کو قبول ہی نہیں کیا
وہ چند پل رک کر اُسے دیکھنے لگا عیشا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی
آج اپنی صفائی دیکر تمہاری غلط فہمی دور کر بھی دوں کل پھر کوئی اور بات تمہارے سامنے آئے گی اور پھر تم اسی طرح مجھ پر شک کروگی میری بےعزتِی کروگی مجھ سے پھر جواب مانگو گی نہیں عیشا میں تھک گیا ہوں تمہیں اپنی محبت کا احساس دلاتے دلاتے اب اور ہمت نہیں ہے مجھ میں ابھی ابھی تم نے کہا کے تم اپنے جذبات کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتی مر جاؤ گی اور تم جو ہر بار میری پاک محبت پر اتنے غلط الزام لگاتی ہو سوچا ہے میں کیسے برداشت کرتا ہوں نہیں عیشا بہت ہو گیا اب نہیں
تم سے دور رہنا میرے لیے بہت مشکل ہے لیکن تمہیں ایسے بھی نہیں دیکھ سکتا میرے دور جانے سے تمہیں راحت ملتی ہے تو ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں واپس کبھی نہیں آؤنگا تمہیں پریشان کرنے کتنی بھی یاد آئیگی تو نہیں آؤنگا شاید میری محبت کا انجام یہی ہے کے اتنا مضبوط رشتہ ہونے کے باوجود یا نا مکمل رہے تم اپنا خیال رکھنا عیشا خوش رہنا تمہاری خوشی دل کو سکون دیتی ہے
اس نے اُداس نظروں سے عیشا کو دیکھا ہلکی سی زخمی مسکراہٹ تھی زیادہ دیر نظریں ملانا مشکل ہو رہا تھا ہاتھ سے اُسکے آنسوں صاف کیے اور ماتھے پر لب رکھ دیئے چند لمحے یونہی گزرے نا چاہتے ہوئے بھی ایک آنسووں گر کر عیشا کے لبوں پر ٹہر گیا وہ بنا اس کی طرف دیکھے نیچے گری چند تصویریں اٹھا کر خاموشی سے باہر نکل گیا وہ مرد تھا اس کے سامنے رو نہیں سکتا تھا
عیشا بےجان سے اُسے جاتے دیکھتی رہی دل نے اسے روکنا چاہا لیکن جیسے جان ہی نہیں تھی جو ایک انچ بھی ہل سکے کچھ ہی وقت میں اس پر کی باتیں ایک ساتھ ظاہر ہوئی تھی جنہیں لیکر من میں اب بھی ایک خلیش باقی تھی
دادی کے روم میں آکر و کتنی دیر دنیا سے بیگانہ ہوکر ایک جگہ ساکن بیٹھا رہا آج اُسے شدّت سے دادی کی یاد آرہی تھی وہ ذرا بھی پریشان ہوتا تو دادی کی گود میں سر رکھے سکون سے سو جاتا لیکن آج وہ اکیلا تھا کوئی نہیں تھا اس کے ساتھ جو اس کا درد کم کر سکے اُسے اپنی بے غرض محبت کی سزا مل رہی تھی شام کے سائے پھیلنے لگے تھے اس نے اٹھ کر الماری سے دادی کی شال نکال کر کاندھے پر ڈالی اور باہر آگیا ایک نظر اپنے روم کے بند دروازے کو دیکھا اور ایک گہری سانس لیکر باہر آگیا
***********************-***
کمال کے فوٹو گرافس ہے یار کیسے کر لیتے ہو
اس نے سای تصویریں ٹیبل پر ٹھیک اس کی نظر کے سامنے پھینکی وہ ایک پل کو گھبرایا لیکن اگلے ہی پل سنبھل گیا
یہ کیا ہے ساحر
یہی تو پوچھنے آیا ہوں تم سے کے یہ سب کیا ہے کسی کے اتنے پرائیویٹ موومینٹ کی ایسے تصویریں بنانا صحیح ہے کیا اوپر سے میری بیوی کو بھی بھجوادیا
لہجہ طنزیہ تھا
یہ تم کیا کہ رہے ہو ساحر کچھ سمجھ نہیں آرہا
سمجھ میں تو میری بھی نہیں آرہا اتنی لڑکیوں کے ساتھ میرا افئیر رہ چکا ہے اور مجھے آج پتا چل رہا ہے تھینک یو میرے یار اسے کہتے سچّی دوستی
اس کے لہجے میں طنز کے ساتھ دکھ بھی تھا
ساحر تم ٹھیک تو ہو نا کہنا کیا چاہتے ہو
مجھے پتہ تھا کہ تم ایک کتے انسان ہو جسے یہاں وہاں منہ مارنے کی عادت ہے لیکن ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ تمہیں اپنی کتا گری کرتے وقت دوستی کا بھی خیال نہیں آئے گا
اس نے تلخی سے دانت پیستے ہوئے کہا
ساحر تمیز سے بات کرو
وہ غصے سے اٹھ کر اس کے سامنے آیا
تمیز کی بات کر رہا ہے سالے تو تو بات کرنے کے قابل نہیں ہے تیری جگہ کوئی اور ہوتا تو اس وقت اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوتا تیری ہمت کیسے ہوئی ایسی گری ہوئی حرکتِ کرنے کی کیا سوچ کر تونے عیشا کو یہ جھوٹی تصویریں بھیجی کیا سوچا تھا مجھے پتا نہیں چلے گا تیری بری نیت کو اچھے سے جانتا ہوں میں تونے اس دن آفس میں میرے ڈیورس پیپرس دیکھ لیے تھے اسلئے میں نے تجھے سب کچھ سچ سچ بتا دیا لیکن تونے میرے بھروسہ کا یہ صلہ دیا ذرا بھی شرم نہیں آئی تمہیں کیوں کیا تونے ایسا
وہ غصے سے بولا
کیوں کے تونے اسے مجھ سے چھینا ہے دو سال تک اس کے پیچھے جھک مارتا رہا اُس کے بھائی کو ایمپریس کیا اس کی فیملی کو ایمپریس کیا اور پتا چلا کے اس کی شادی تجھ سے ہو گئی کیسے برداشت کر لیتا کوئی اور ہوتا تو شاید میں سب بھول جاتا لیکن تو تونے ہمیشہ مجھے ہرایا ہے ہر وہ چیز جو میں نے چاہی تجھے ملی جو پوزیشن میری ہونی چاہیے تھی وہ تیرے حصے میں آئی کالج سے لے کر اب تک تیری وجہ سے میں پیچھے رہا لیکن اس بار نہیں میں عیشا کو حاصل کر کے رہونگا اسلئے میں نے اسے تیری جھوٹی تصویریں بھیجی تھی تاکہ وہ تجھ سے نفرت کرے لیکن وہ تو پہلے سے ہی تجھ سے نفرت کرتی تھی میرے اس عمل سے نفرت آگ بھڑک ضرور گئی اور جب مجھے پتہ چلا کہ تم اسے ڈیورس دے رہے ہو تو مجھے ایسا کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی میں بس خاموشی سے انتظار کرتا رہا ہاسپٹل سے جب وہ اپنے گھر گئی تو مجھے لگا کے وہ واپس تیرے ساتھ نہیں آئیگی لیکن وہ آگئی اس لیے میں نے بنا دیر کیے اسے وہ سب بڑھا چڑھا کر بتادیا جو تونے اس سے چھپایا تھا اور یہ تصویریں تاکہ کوئی کمی نہ رہ جائے تو اس طرح میں نے تمہیں ہیرو سے ویلن بنا دیا اب اسے میرے پاس ہی آنا ہے تو ہار گیا ساحر نام کی ہی سہی بیوی تو تھی نہ اب وہ بھی نہیں رہےگی ناؤ شی اس مائن
وہ چہرے پر فاتحانہ چمک لیے بولا
خبردار جو اس کا نام بھی لیا ساری زندگی حلق سے آواز نکالنے کو ترس جائیگا
ساحر نے اس کی کالر پکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور زور کا دھکا دیکر اسے ٹیبل پر گرا دیا
تیرے دل میں میرے لیے اتنا زہر بھرا ہوگا میں نے سوچا بھی نہیں تھا میں نے تو تو تجھے اپنا دوست سمجھا تھا میں نے جو کچھ پایا اپنی محنت اور قسمت سے پایا ہے میں نے تجھے پیچھے نہیں کیا تو ہی خود آگے بڑھنے کی بجائے مجھ سے مقابلے میں لگا رہا ایسا ہی ہوتا ہے حسد انسان کو کبھی آگے بڑھنے نہیں دیتا جاوید دوسروں کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے اپنی راہیں ہموار کرنے کی سوچتے تو تم بھی پیچھے نہیں رہتے اور جہاں تک بات عیشا کی ہے وہ اللہ کی مرضی تھی اسے عیشا کو تجھ جیسے حرامی سے بچانا تھا اس لیے مجھے اس کا محافظ بنا دیا اور اس سے میرا رشتہِ ٹوٹ بھی جاتا تب بھی میں تجھ جیسے انسان کو اس کے پاس نہیں آنے دیتا چاہے اس کے لیے مجھے تیری جان ہی کیوں نہ لینی پڑے تجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کے میں کیا کرسکتا ہو تو تو میرے ہر قصے سے واقف ہے تجھے تو خود تجربہ ہے نا یا بھول گیا
جاوید اس کی بات کے معنی سمجھ کر تھوڑا گھبرا گیا
اس لڑکی کو تو میں جانتا بھی نہیں تھا جس کے ساتھ تونے زبردستی کی تھی لیکن پھر بھی میں نے تجھے اس کے لیے سزا دی تھی یاد آیا
یہاں تو سوال میری محبت کا ہے سوچ کیا کرونگا اس بار میرا ٹارگٹ تیرا پیر نہیں تیرا سر ہوگا جاوید
پہلی اور آخری بار بخش رہا ہوں کیوں کے دوست پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دل نہیں دیتا لیکن آج دوستی ختم ہوئی اگلے بار ایسی حرکتِ کی تو تیرے سامنے وہ ساحر خان کھڑا ہوگا جو اپنا دل لاکر میں بند کرکے آتا ہے سمجھا
جاوید کی زبان گنگ ہوگئی کالج میں اس نے ایک لڑکی کو چھیڑا تھا جس پر ساحر نے بنا کوئی موقع دیئے اس کے پیر پر گولی مار دی تھی آج ساحر نے اسے یاد دلایا تو وہ گھبرا گیا وہ اس کے کئی کارنامے دیکھ چکا تھا جب وہ غصے میں ہوتا تو کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا
ایک اور بات سن لے میرا اس سے رشتے رہے نا رہے جب تک زندہ ہوں اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دونگا
کہہ کر وہ بنا رکے باہر نکل گیا جاوید کی ساری ہمت جواب دے گئی تھی اسے لگا تھا ساحر اب پہلے والا ساحر نہیں ہے جو ہر بات پر گن نکال لیتا تھا لیکن آج اس کی غلط فہمی دور ہو گئی تھی کیوں کے وہ آج بھی وہی تھا
-***************************
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر دو زانو بیٹھی اپنی ہتھیلیوں میں کچھ کھوج رہی تھی ساری رات روتے ہوئے گزری تھی اور اب بھی وہ صبح سے یونہی بیٹھی وقفے وقفے سے آنسو بہا رہی تھی دل اور دماغ کی جنگ نے اسے توڑ دیا تھا وہ بس دل کی ماننا چاہتی تھی
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور جس سے محبت ہوتی ہی اس کی عزت کی جاتی ہے عزتی نہیں
ساحر کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے آنکھوں آنسو گر کر اس کا دامن بھگو رہے تھے
تمہارے آنسو میرے دل پر تیزاب کی طرح محسوس ہوتے ہیں بہت تکلیف دیتے ہیں مجھے
اس نے ہتھیلی سے دونوں گال رگڑ کر آنسو صاف کیے
ساحر کہا ہو تم مجھے پتا ہے تم ایسے نہیں ہی میں غلط تھی جو تم پر شک کیا پلیز واپس آجاؤ میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر
دروازے پر دستک ہوئی تو اس نے دوپٹے سے چہرہ صاف کیا ہاتھ سے بالوں کو درست کر کے دوپٹہ سر پر لیا اور دروازہ کھولا سامنے عمران کھڑا تھا
عيشو ڈاکٹر صاحب آئے ہے
اس کا لہجہ بہت دھیما تھا وہ وہاں سے ہٹ کر بیڈ پر آگئی وہ جانتی تھی ساحر نے اسے بھیجا ہے چاہے جو بھی ہو وہ اس کا خیال رکھنا نہیں بھولتا تھا ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرکے ڈریسنگ کی اسے دوائی دی اور چلا گیا عمران بھی اُسے چھوڑنے باہر چلا گیا عیشا نے سائڈ ٹیبل سے وہ رومال اٹھا لیا جو وہ اس کے ماتھے پر باندھ کر گیا تھا اور ابھی ڈاکٹر نے نکالا تھا وہ ہاتھ میں لیے اسے دیکھتی رہی کچھ دیر بعد عمران واپس آیا
عیشو یہ تمہاری دوائی ہے ٹائم سے لے لینا میں چلتا ہوں
عمران اس سے نظر ملائے بنا ہی بات کر رہا تھا مطلب وہ خفا تھا
بھائی جان و و وہ کہاں ہے
عمران نے خفگی بھری نظر اس پر ڈالی لیکن کچھ بولا نہیں خاموشی سے باہر جانے لگا
وہ ٹھیک تو ہے نا بھائی جان
وہ اٹھ کر اس کے پاس آئی
تم نے جو کیا اس کے بعد وہ ٹھیک ہو سکتا ہے کیا
بنا مڑے ہی بولا
نہیں بھائی جان میں
عیشا مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی
عمران نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی
نہیں آپ نہیں جانتے اس نے مجھ سے دھوکے سے شادی کی
میں سب جانتا ہوں عیشا میں نے ہی اسے کہا تھا ایسا کرنے کو وہ تو تمہیں بتانا چاہتا تھا کئی بار کوشش بھی کی لیکن میں منع کرتا رہا
اُسے صرف میرے کہنے کی تسلی نہیں ہوئی تھی اس نے الیشا کی بھی رضا مندی لی اور اُسے بھی یہی صحیح لگا
عیشا بہتی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی
میں تمہیں کزن نہیں اپنی بہن سمجھتا ہُوں عيشو مجھے لگتا تھا کہ ساحر اور تم دونوں ایک دوسرے کے لیے بلکل ٹھیک ہو اسلئے چھوٹی سی بات کو لیکر تمہارا انکار کرنا صحیح نہیں ہوگا اسلئے ایسا کیا مجھے لگا تھا کچھ دن میں تم اسے سمجھ جاوگی لیکن میں غلط تھا تم نے تو اس کی لائف پہلے سے زیادہ خراب کر دی پہلے روتے ہوئے تو نہیں دیکھا تھا اُسے کبھی
اس کا لہجہ چبھتا ہوا تھا
بب ب بھائی جان میں
اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن لفظوں نے ساتھ نہیں دیا
وہ جو کسی کی اونچی آواز سننا پسند نہیں کرتا تھا تم نے اسے کیا کچھ نہیں کہا جب کے اس کا کوئی قصور بھی نہیں تھا یاد کرکے بتاؤ عیشو اتنے وقت میں کونسی حرکت تھی جس سے تمہیں لگا وہ تم سے بدلہ لیے رہا ہے وہ تو تمہارے لیے سب کچھ کر کے بھی چھپاتا ہے مجھے یہاں بھیجا اس نے تمہیں دیکھنے کیا غرض تھی اس میں
بھائی جان وہ----- مجھے اس سے بات کرنی ہے
وہ جہاں بھی ہے اُسے وہیں رہنے دو فلحال تم سے دور رہے یہی صحیح ہے
اس کا لہجہ تلخ تھا
نہیں بھائی جان پلیز ایسا مت کہیے میں_-____-
وہ جہاں کھڑی تھی وہیں بیٹھ گئی عمران فوراً آگے بڑھا اور اُسے بازو پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا عیشا نے بےبسی سے اُسے دیکھا اور چہرے پر ہاتھ رکھ لیے
عیشو اس وقت وہ تم سے نہیں ملےگا کچھ وقت دو اُسے سنبھلنے کو اس وقت وہ تم سے بہت ناراض ہے کچھ نہیں سنے گا بات اور بڑھ جائیگی
نہیں آپ بس میری بات کروادو میں اس سے معافی مانگ لونگی
اس نے عمران کا ہاتھ تھام کر التجا کی
اوکے میں بات کرونگا تم رونا بند کرو اور دوائی لیکر آرام کرو میں کل صبح آتا ہُوں اوکے
عمران اُسے دلاسہ دیکر باہر آگیا وہ دوائی لیکر بیڈ پر لیٹ گئی
وہ دونوں کافی دور آگئے تھے لیکن وہ اب بھی خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوئے ڈرائیونگ کر رہا تھا
میرے بھائی اب بول بھی دے کیا شہر کے باہر لیجائے گا
عمران اب تک کتنی بار پوچھ چکا تھا لیکن وہ بنا کچھ کہے آگے بڑھتا جارہا تھا
کہیں پہلے ہی کوئی سیکریٹ شادی وادی تو نہیں کی ہوئی ہے نا
عمران نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا
زیادہ واحیات باتیں کی نا تو آج میرے ہاتھوں ضائع ہو جائیگا میں الریڈی بہت پریشان ہوں
اس نے گاڑی ایک ریسٹورانٹ کے پارکنگ میں روکی جو شہر سے کچھ دوری پر ایک خوبصورت جگہ بنا ہوا تھا دونوں اندر آکر ایک کونے والی ٹیبل پر بیٹھ گئے ساحر شیشے کی دیوار سے باہر دیکھنے لگا عمران نے ویٹر کو کافی کا آرڈرز دیا اور ساحر کو دیکھنے لگا اس کے چہرے پر اُلجھن صاف نظر آرہی تھی
ساحر کیا پریشانی ہے--- شادی کی خوشی میں پاگل تو نہیں ہو گئے نا
ساحر نے اس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچنے لگا
میں نے تجھے بتایا تھا نا ایک لڑکی کے بارے میں----- وہ ایکسیڈنٹ والی
اس نے بات شروع کی
ہاں وہ مس طوفان-_--- جو تجھے ساحر خان نہیں لوفر خان سمجھتی ہے کیا ہوا اسے
عمران نے خود اسے مس طوفان کا خطاب دیا تھا
اُسے میں نے دو دن پہلے دیکھا پارک میں دادی کے ساتھ
ویٹر نے ان کے آگے کافی رکھی
دادی سے شکایت کی اس نے
عمران نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا
نہیں اُسے پتا نہیں ہے کہ میں کون ہُوں وہ دادو کو پہلے سے جانتی ہے میں جان بوجھ کر سامنے نہیں گیا کے کہیں میری وجہ سے وہ دادی سے بات بند نا کردے مجھے پہلے سے ڈاؤٹ تھا کہ دادی اُسے پسند کرتی ہے لیکن آج انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کی وہ میری شادی اُس سے کروانا چاہتیں ہے لیکن-------
ون منٹ تونے تو کہا تھا کہ دادی نے تیرے لیے عیشا کو پسند کیا ہے
عمران نے حیرانی سے پوچھا
ہاں وہ وہی ہے وہ مجھے جانتی نہیں ہے دادی اُسے جانتی ہے میں اسے-----
رک رک رک تو کیا بول رہا ہے وہ جانتی نہیں جانتی ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا صاف صاف بتا نا
عمران بیزاری سے بولا
دیکھ جس لڑکی سے میرا جھگڑا ہے اور جسے دادی نے میرے لیے پسند کیا ہے وہ-----وہ وہی ہے
وہ رکتے ہوئے بولا
وہی کون
عمران اب بھی حیران پریشان
وہ----- تیری کزن
وہ عیشا کا نام نہیں لے رہا تھا
عیشا
عمران نے پوچھا
ہاں وہی ------ عیشا
مطلب اس دن عیشا تھی جو تیرے آفس آئی تھی اور تونے اُسے ڈانٹا تھا مطلب مس طوفان عیشا ہے
عمران کی حیرت اور بڑھ گئی
ہاں
عمران شاک ہوکر اُسے دیکھنے لگا
دادی جسے جانتی ہے وہ تیری سالی ہے یہ تو پتا تھا لیکن وہ وہی لڑکی ہے یہ مجھے دو دن پہلے ہی پتا چلا اور اب دادی نے کہا ہے کہ وہ اس سے میری شادی کرنا چاہتی ہے مجھے پتا ہے وہ ہرگز نہیں مانے گی الریڈی سمجھتی ہے کہ میں اُسے فالو کر رہا ہوں اسے بھی میری سازش ہی سمجھے گی --------
ایک سیکنڈ
عمران کافی کا مگ رکھ کر پورا اس کی جانب متوجہ ہوا
تو یہ بتا کیا تو اس سے شادی کرنے کے لیے تیار ہے
وہ ایک پل کو رکا
اگر---- وہ مان جاتی ہے تو------ مجھے کوئی----- پرابلم نہیں ہے
وہ سوچتے ہوئے بولا
کیا بات ہے جس نے بیچ سڑک پر تجھے لوفر خان بنا دیا اس سے شادی کرنے میں تجھے کوئی پرابلم نہیں ہے آئی کانٹ بلیو دھیٹ
عمران دونوں ہاتھ اوپر کرکے بولا
ارے یار میری اُس سے کوئی دشمنی تھوڑے ہی ہے چھوٹا موٹا جھگڑا ہے ویسے بھی میں صرف دادی کی وجہ سے یہ سوچ رہا ہوں
اسے کہتے ہیں لو ایٹ فرسٹ سائٹ
عمران اس کی بات گول کر کے بولا
شٹ اپ--- کوئی لو نہیں ہے بکواس مت کر وہ صرف دادی کی چوائس ہے
وہ سنجیدگی سے بولا
اس لیے اس کی اتنی بد تمزیوں کو اگنور کر رہا ہے نا ورنہ تو کسی کے باپ کی سننے والوں میں سے نہیں ہے مجھے پتہ ہے تو جان بوجھ کر مجھ سے چھپا رہا
عمران اُسے شک بھری نظروں سے گھورتے ہوئے بولا
ایسا کچھ نہیں ہے میں صرف دادی کا سوچ رہا
اس نے صفائی دی
مطلب وہ تجھے پسند نہیں ہے---- بول
اس نے تجھے پر زور دیا
پسند ہے
وہ دھیمے سے بولا
دیکھا مجھے معلوم تھا
عمران نے مسکرا کر کہا
پسند ہے مطلب---- ٹھیک ہے--- بری نہیں ہے
ہاں اس نے تجھے گنڈا موالی کہا گدھا اسٹوپڈ اندھا کہا لیکن بری نہیں ہے ٹھیک ہے ارے مان لے نا لو ایٹ فرسٹ سائٹ ہے
عمران نے اس کی نقل اتارتے ہوئے کہا
یار تو بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہا ہے میرا دماغ خراب ہے جو تجھ سے بات کرنے کا سوچا چھوڑ
وہ خفا ہوکر جانے لگا عمران نے اس زبردستی واپس بٹھایا
اوکے سوری----- تو تو اس شادی کرنا چاہتا ہے----- اس میں کوئی پرابلم نہیں ہے
وہ بے نیازی سے بولا
تیرا دماغ خراب ہے اس میں پرابلم نہیں ہے میں اس سے کہونگا اسلامُ علیکم عیشا جی میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور وہ کہے گی تھینک یو سو مچ میں تو کب سے آپکے انتظار میں بیٹھی تھی کے آپ آکر مجھے پرپوز کرے اور میں ہاں کہو
اس نے غصے سے کہا بدلے میں عمران نے قہقہ لگایا اس کا غصہ اور بڑھ گیا دوبارہ اٹھنے لگا لیکن عمران نے اسے اُٹھنے نہیں دیا
وہ کہاں جانتی ہے کہ اس کی شادی تجھ سے ہو رہی ہے دیکھ تو شادی سے پہلے اس سے مت مل اُسے پتا ہی نہیں چلیگا تو انکار کیسے کریگی
عمران ہنسی روک کر بولا
تو پاگل ہو گیا ہے تیرا مطلب ہے دھوکے سے شادی کروں
وہ حیران ہوکر بولا
میں اسے بہت اچھے سے جانتا ہوں وہ نہ تھوڑی سے کم عقل ہے
عمران بولا
وہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے
وہ بیچ میں بولا
اکزیکٹلی تجھ سے بہتر کون جانتا ہے --پہلے ہی شادی کے نام سے چڑتی ہے اگر پتا چلا کہ تو ساحر خان ہے تو ایک سیکنڈ نہیں لگائے گی انکار کرنے میں اور پھر دادی کو کتنا دکھ ہوگا اور تجھے بھی
وہ نیچے نظریں جمائے اُسے سن رہا تھا اس کی آخری بات پر اُسے غصے سے دیکھا
مطلب دادی کو دکھ ہوگا تو تجھے بھی ہوگا نا
اس نے بات بدل دی
نہیں یہ غلط ہے جو بھی ہو ایسا دھوکا دینا سہی نہیں ہے جب کے مجھے اچھے سے معلوم ہے وہ مجھے پسند نہیں کرتی اور اس کی مرضی کے خلاف اس سے سچ چھپا کر شادی کرنا سراسر زیادتی ہے
اس نے انکار کرتے ہوئے کہا
میرے بھائی کبھی اپنا شرافت کا کاسٹیوم اُتار کر سائڈ میں رکھ دیا کر دادی کا سوچ اور بیچارے اپنے دل کا سوچ
آخری بات پھر سے شرارت سے کہی جس پر ساحر سے سامنے رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے منہ پر پھینک دیا
آئندہ میرے دل کی سوچنے سے پہلے اپنے سر کی سوچ لینا مزید بکواس کی تو گلاس مار کر سر پھوڑ دونگا
عمران نے رومال نکال کر چہرہ صاف کیا اس کی ٹی شرٹ بھی بھیگ گئی تھی
میں جا رہا ہوں تجھ سے بات کرکے کوئی فائدہ نہیں
وہ پھر سے اٹھا عمران نے اس کا ہاتھ کھینچ لیا
ارے رُکنا یار ایک تو تو محبوبہ کی طرح ہر بات پر بھاگنے لگتا ہے اب سیریسلی بات کرتے ہیں دیکھ ایک یہی سولیوشن ہے ادر وائز دادی کو منع کردے
وہ خاموش رہا
ساحر وہ ابھی تجھے غلط سمجھتی ہے ہرگز نہیں مانے گی لیکن وہ دل کی بہت اچھی ہے ایک بار تجھے سمجھ گئی نا تو سب ٹھیک ہو جائیگا
اور جب شادی کے بعد اُسے پتا چلےگا یہ میں ہوں تو کیا وہ یہ نہیں کہے گی کے اُسے میرے ساتھ نہیں رہنا تب کیا ہوگا
ساحر نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
تو نگیٹو مت سوچ چاہئے و لاکھ غصے والی ہے لیکن رشتوں کی قدر ہے اُسے کچھ غلط نہیں ہوگا اور اگر اُسنے ایسا کیا بھی تو دادی ہے نا وہ دادی کو کبھی ہرٹ نہیں کریگی
وہ تسلی دیتے ہوئے بولا
پتا نہیں کیوں پر مجھے یہ صحیح نہیں لگ رہا
وہ دھیرے سے بولا
بس کچھ وقت کی بات ہے ایک بار وہ تجھ سے ایمپریس ہو گئی نا تو اسے سچ بتا دینا
تو اس کے بھائی اور ابّو کو بتا دے وہ مان گئے تو ٹھیک ہے
وہ کچھ سوچ کر بولا
پاگل یہ اُنھیں بتانے والی بات ہے کیا اور میں بھی تو اس کا بھائی ہے ہوں نا
تو کزن ہے سگا بھائی نہیں ہے
اس نے یاد دلایا
تو الیشا -----وہ تو سگی بہن ہے نا اُسے بتاتے ہے اور آگے کچھ ہوا بھی تو الیشا اُسے سمجھا لیگی
یہ بھی ٹھیک ہے بات کر کے دیکھ لے لیکن زیادہ کی الٹی سیدھی باتیں مت لگانا
اس نے انگلی دیکھا کر وارننگ دی عمران اس کا مطلب سمجھ کر مسکراديا اور زبان دانتوں میں دبائے دونوں ہاتھ کان کو لگا کر توبہ کی
********-*************-*****
وہ کب سے بالکونی میں بیٹھی عمران کی بتائی گئی باتیں سوچ رہی تھی وہ ہر پل تڑپ کر گزار رہی تھی وہ نا واپس آنا چاہتا تھا نا اس سے بات کرنا چاہتا تھا جس سے وہ ڈپریشن میں جا رہی تھی عمران روز صبح آتا تھا اور وہ نئی اُمید سے ساحر کا پوچھتی تھی بدلے میں و بےبسی سے اُسے دلاسہ دیکر لوٹ جاتا اس کے جانے کے بعد اس کی اہمیت کا احساس ہو رہا تھا عمران نے الیشا کو بھی سب بتادیا تھا اور وہ بھی اس سے ملنے آئی تھی اس کی کئی ساری غلط فہمیاں دور کرنے اور اس کہ درد بانٹنے ایک کے بعد ایک کئی باتیں اُسے پتا چلی جس سے وہ اندر تک ندامت محسوس کرنے لگی ساحر نے نکاح سے پہلے بھی اُسے بتانے کے لیے فون کیا تھا لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا تھا کیوں کہ وہ فون گھر پر ہی بھول آئی تھی ریسٹورانٹ میں لڑکوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اسلئے ساحر نے وہاں ایک گارڈ لگا دیا تھا اس کی حفاظت کی خاطر جاوید کی اصلیت بھی عمران نے اسے بتا دی تھی اسے جاوید سے زیادہ خود سے نفرت ہورہی تھی کہ اس نے ساحر پر ذرا بھی اعتبار نہیں کیا اور وہ دور چلا گیا تھا تو اس کی کمی شدّت سے محسوس ہورہی تھی لیکن اب کے وہ ایسا ناراض ہوا تھا کہ کسی صورت ماننے کو راضی نہیں تھا وہ لندن چلا گیا تھا عمران اُسے روز فون کرکے عیشا کی حالت بتاتا اور واپس آنے گذارش کرتا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اس نے خود کو کام میں اس قدر مصروف کر لیا تھا کہ عیشا کے بارے میں سوچنے کو وقت ہی نا ملے
اور وہ ہر وقت اپنے اللہ سے رو رو کر دعا کر رہی تھی اپنی غلطی کی معافی مانگ رہی تھی کوئی نہیں تھا اس کے پاس اتنے بڑے گھر میں وہ اکیلی تھی عمران نے اسے کہا تھا کہ کچھ دن کے لیے اپنے امی ابو کے گھر چلی جائے لیکن اس نے انکار کردیا اس کہ زیادہ وقت دادی کے روم میں ہی گزرتا تھا وہ اُن کی بھی گنہگار تھی اور اب اپنے گناہ کی سزا بھی کاٹ رہی تھی
**************************+*
وہ ایک ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے ادیتیہ کمار اس کا کالج فرینڈ اور بزنس پارٹنر تھا انڈین ہی تھا لیکن گریجویشن کے بعد جاب کرکے وہیں سیٹل ہو گیا تھا اور اب ساحر کا لندن کا سارا کاروبار وہی سنبھال رہا تھا دونوں بہت اچھے دوست تھے ساحر کو اس پر بہت بھروسہ تھا اور وہ واقعی بھروسے کے قابل تھا وہ جب بھی یہاں ہوتا دونوں ساتھ میں ہی زیادہ وقت گزارتے تھے اور اب بھی وہ دونوں ڈنر کے لیے باہر آئے تھے
ادیتیہ وسکی کی بوٹل گلاس میں انڈیل رہا تھا ساحر نے اپنے پاس رکھا گلاس اس آگے کردیا
آدی آج ایک میرے لیے بھی
ساحر کی بات پر پہلے تو اس نے حیرانی سے دیکھا پھر ہنسنے لگا
ساحر آر یو سیریس تم ڈرنک کروگے
اس نے تم پر زور دیتے ہوئے کہا
ہاں ویسے بھی بن کیے بدنام ہوں کرکے بد نام ہونے میں کیا حرج ہے شاید کچھ سکون مل جائے
وہ مسکرا کر بولا زخمی مسکراہٹ
ساحر خان اتنا کمزور نہیں ہے کہ اسے حالات سے لڑنے کے لیۓ شراب کا سہارا لینا پڑے
دوست ایسے ہی ہوتے ہیں جو ہمیں برائی کی طرف بڑھنے سے روکتے ہے
محبت اچھے اچھو کو کمزور کر دیتی ہے دوست کیوں کے اس میں اپنے ہی دل سے اپنے ہی جذبات سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور آپ ساری دنیا سے تو لڑ سکتے ہیں لیکن خود سے لڑنا آسان نہیں ہوتا
وہ اُداس سا بولا
تم اس سے بہت محبت کرتے ہو نا ساحر
آدیتیہ نے پوچھا
محبت تو کب کی اپنی حدیں توڑ کر عشق کے مقام تک پہنچ چکی ہے لیکن کیا فائدہ سب لا حاصل ہے وہ میری ہوکر بھی میری نہیں ہے اور یہ چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے
وہ میز پر نظریں جمائے بولا
چھوڑ نا یار کیوں خود کو تکلیف دے رہا اس کے لیے جسے نا تیری پرواہ ہے نا اپنے رشتے کی
نہیں اُسے میری بھی پرواہ ہے اور اس رشتے کی بھی اگر پرواہ نہیں ہوتی نا تو اب تک میرے ساتھ نہیں ہوتی اسی دن چلی جاتی جس دن میں نے اسے ڈیورس پیپر دیے تھے لیکن وہ نہیں گئی میں مان لیتا کے وہ دادی کی خاطر نہیں گئی تھی لیکن ایسا نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو وہ ڈیورس پیپرس سنبھال کر رکھتی پھاڑ کر پھینک نہیں دیتی یہ ساری آگ جو ہے نا اس کمینے جاوید نے لگائی ہے سالا دوست کے نام پر گالی نکلا اس نے جو گھناونی سازش کی اگر عیشا کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو ایسے ہی ری ایکٹ کرتا جیسا اُس نے کیا
اگر تجھے معلوم ہے کہ سب سازش کسی اور کی ہے اور اس کی کوئی غلطی نہیں ہے تو پھر تو اس سے ناراض کیوں ہے بات کیوں نہیں کر رہا
آدی نے حیرانی سے پوچھا
اس کی غلطی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر بھروسہ نہیں کیا لیکن اُن جھوٹی تصویروں پر بھروسہ کرلیا جیسے بھیجنے والے کو وہ جانتی تک نہیں ایک انجان انسان کی باتیں سچ مان کر میری انسلٹ کی مجھ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کے سچ کیا ہے میں نے کچھ کیا بھی ہے کی نہیں اتنے وقت سے ہے میرے ساتھ ہے کیا اسے اتنا بھی خیال نہیں آیا کے میں ایسا نہیں کر سکتا پتا ہے اس نے کیا کہا مجھ سے اس نے
وہ کہتے کہتے رک گیا اور باہر دیکھنے لگ گیا کچھ باتیں ہم چاه کر بھی کسی کو نہیں بتا سکتے آدی سمجھ گیا
چھوڑ نا فلحال بھول جا اسے اور انجواۓ کر
آدی نے اس کا موڈ بدلنا چاہا اس کے ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کا گلاس تھما دیا
اس نے کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی آدی اور عمران دونوں ہی تھی جن کے سامنے وہ کھل کر بات کرتا تھا اور آج اتنے دن بعد اسے یہ موقع ملا تھا
مجھے یقین نہیں ہوتا ساحر کے تو وہی ہے جس کے لیے کہا جاتا تھا کہ اس کے اندر دل نہیں پتھر ہے
آدی نے بے یقینی سے کہا
پتھر ہی تھا لیکن وہ زندگی میں آئی تو پتھر میں جان آ گئی اور محبت کر بیٹھا -
اس نے مندی آنکھوں سے کہا آدی اسے دیکھنے لگا بظاھر وہ جتنا مضبوط نظر آتا تھا اندر سے اتنا ہی کمزور تھا
چل یہ سب چھوڑ اور کوئی اچھا سا گانا سنا کافی وقت ہوگیا تیرا گانا سنے
وہ ہنستے ہوئے سیدھا ہوکر بیٹھ گیا
اب تو صرف ایک ہی گانا یاد ہے
مسکرا کر بولا
کونسا
آدی بھی مسکرا دیا
میرا دل جس دل پہ فدا ہے
وہ بے وفا ہے ایک بے وفا ہے
وہ دل پر ہاتھ رکھے گانے لگا دونوں نے ہنستے ہوئے چیئرس کیا
اوکے اب میں چلتا ہوں ڈھائی بج رہے ہے صبح آفس بھی جانا ہے تم بھی گھر جاؤ آج کے لیے اتنا کافی ہے
اس نے بوتل اس کے ہاتھ سے سائڈ میں رکھ دی اور اسے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا اپنا کورٹ کرسی سے اٹھا کر کاندھے پر ڈالا کاؤنٹر پر بل پے کرکے باہر آگیا
یہاں اس نے ایک فلیٹ لیا ہوا تھا اور وہیں رہتا تھا اپنے روم میں آکر اس نے کپڑے چینج کیے اور بیڈ پر آگیا سائڈ ٹیبل سے نیند کی دوائی لے کر دو گولیاں لے لی کیونکہ آج ایک گولی کوئی اثر نہیں کرتی روز بھی دن بھر کام کرکے تھکنے کے باوجود اُسے نیند نہیں آتی تھی دوائی لیکر بھی وہ صرف چند گھنٹے ہی سکون سے سوتا تھا وہ اس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ اس کے بس میں نہیں تھا لائٹ آف کرکے وہ سونے ہی لگا تھا جب اس کا فون بجنے لگا عمران کا فون تھا جسے وہ دو تین دن سے اگنور کررہا تھا کیونکہ ہر بار وہ اُسے عیشا سے بات کرنے کی ہی گذارش کرتا تھا اسلئے تنگ آکر اس نے فون اٹھانا ہی بند کردیا
اسلام علیکم بھائی جان
اس نے خوشدلی سے سلام کیا
ساحر تم__-----
ایک منٹ پہلے یہ بتا مجھے میرے دوست نے فون کیا ہے یا میری بیوی کے بھائی نے
وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
ساحر یہ کیا پاگل پن لگا رکھا ہے تونے میری کال کیوں نہیں لیے رہا
وہ غصے سے بولا
کیوں کی میں فلہال اپنی بیوی یا اس سے ریلیٹڈ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا
اس نے فون اسپیکر پر ڈال کر سینے پر رکھ لیا
بس بہت ہوگیا ساحر حد ہوتی ہے یار ایک مہینہ ہوچکا ہے اور کتنا انتظار کرواو گے اُسے
ایک مہینے کی بات کر رہا ہے میں زندگی بھر اس کے سامنے نہیں آنا چاہتا تڑپنے دے اُسے
اس نے تلخئ سے کہا
اچھا ----لیکن کچھ دن بعد جب وہ مر جائیگی تو اس کے جنازے میں تو آئیگا نا کندھا دینے
عمران
اس کے لہجے میں ایکدم سختی آگئی
ہاں صحیح کہ رہا ہوں میں کیوں کے جو تو کر رہا ہے اس کہ انجام یہی ہونا ہے تجھے پتا ہے وہ دو دن سے ہاسپٹل میں ہے
ہاسپٹل میں کیو کیا ہوا
وہ فون اٹھا کان سے لگاتے ہوئے بولا
نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے دن رات بس روتی رہتی ہے دو دو دن تک کھانا نہیں کھاتی سر میں پہلے ہی گہری چھوٹ لگی ہوئی تھی اور اب ہر وقت کے ڈپریشن نے اسے یہاں تک پہنچایا ہوا ہے بیہوشی میں بھی تیرا نام لے رہی ہے اُسے ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ کچھ دن کے لیے ہمارے ساتھ گھر چلے لیکن مانتی ہے نہیں انکل آنٹی کو بھی بتانے سے روکا ہوا ہے وہاں بھی نہیں جانا چاہتی
چند پل خاموشی چھائی رہی
اس نے جو کیا وہ غلط تھا لیکن تو بھی کچھ صحیح نہیں کر رہا ہے ساحر جتنی غلطی تھی اس سے زیادہ سزا دے چکا ہے تو اُسے اب بس کر ورنہ وہ پاگل ہو جائیگی اس وقت اُسے تیری ضرورت ہے
وہ خاموشی سے چھت پر نظریں جمائے سنتا رہا
فلہال ہاسپٹل سے ڈسچارج مل گیا ہے میں اسے گھر لے جا رہا ہوں تجھ سے اب تب ہی بات کرونگا جب تو واپس آئیگا خدا حافظ
وہ کتنی دیر یونہی چھت کو دیکھتا رہا پھر فون سائڈ پر رکھ کر بازو آنکھوں پر رکھے سونے لگا
***********//******/*******
پتا نہیں تم دونوں بھی اتنے ضدی کیوں ہو
عمران اُسے اپنے ساتھ چلنے کا کہہ کہہ کر تھک گیا لیکن وہ نہیں مانی تو غصے سے واپس چلا گیا وہ بالکنی میں بیٹھی پورے چاند میں کچھ کھوج رہی تھی نینا اس کا کھانا لے آئی تو روم میں واپس آئی کھانا کھاکر نیچے دادی کے روم میں آگئی ساحر کے جانے کے بعد سے اس کا زیادہ وقت یہیں گزرتا تھا اس ایک مہینے میں وہ برسوں کی بیمار لگ رہی تھی زمین پر بیٹھے بیٹھے ہی اُسے نیند لگ گئی
صبح جب آنکھ کھلی تو وہ اپنے بیڈروم میں بیڈ پر تھی پہلے حیران ہوئی لیکن پھر اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا کیونکہ آج کل تو اسے وہم ہوتے ہی رہتے تھے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر آنکھیں کھول کر دیکھی ایک پل کو یقین نہیں آیا کیونکہ یہ وہم تو روز ہی ہوتا تھا وہ فون پر بات ختم کرتے ہوئے اندر آیا گرے ٹی شرٹ پر بلیک نائٹ پینٹ پہنے
ہاں بس آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں
فون بند کر کے صوفے پر پھینکا اور واش روم میں بند ہوگیا اُس کی نظریں خود پر محسوس کر چکا تھا لیکن خود ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالی اور اتنے سب میں بھی وہ ساکت بیٹھی واشروم کے بند دروازے کو ہی دیکھنے لگی پھر صوفے پر رکھے موبائل اور لیپ ٹاپ کو جس نے یقین دلایا کہ یہ کوئی وہم نہیں ہے وہ بےچینی سے اُنگلیاں مروڑتے ہوئے ادھر اُدھر ٹہلتے ہوئے اس کا انتظار کرنے لگی
وہ ڈارک بلیو ٹراؤزر پر سکائے بلیو شرٹ پہنے گیلے بالوں کو ٹاول سے سکھاتے ہوئے باہر آیا ٹاول کو کرسی پر ڈال کر ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑا ہوکر شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا جب عیشا نے دوڑ کر اس کی پشت سے سر ٹکا دیا ساحر آئینے میں اس کے ہاتھوں کو دیکھنے لگا جو اس کے سینے پر رکھے تھے کچھ لمحے بعد دھیرے سے ہاتھ ہٹا کر تھوڑا آگے ہوگیا اور شرٹ کے بٹن بند کیے
ساحر
اس کے یوں بے نیازی دکھانے پر وہ بھرائی آواز میں بولی
کیا تم اب تک مجھ سے ناراض ہو
وہ اس کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ساحر اُسے ایک نظر دیکھ کر نظر پھر گیا
کیا نہیں ہونا چاہیے تھا
اس کا لہجہ بہت دھیما تھا دھیان اپنی بلیو ٹائ باندھنے میں تھا
ہونا چاہیے بلکل ہونا چاہیے میں ہوں ہی اس لائق کے تم مجھ سے ناراض ہو غصہ ہو لیکن مجھ سے دور تو مت جاؤ نا
وہ اس کے سینے سے لگ گئی
آئے ایم سوری ساحر مجھے احساس ہوگیا ہے کہ زندگی میں تمہاری کیا اہمیت ہے پلیز اب مجھ سے دور مت جانا تمہیں نہیں پتا یہ دن میں نے کیسے گزارے ہے
ساحر نے دھیرے سے اُسے خود سے الگ کیا
مجھے اس وقت کسی ضروری کام سے جانا ہے بعد میں بات کرتے ہیں اوکے خدا حافظ
سپاٹ لہجے میں کہ کر اس نے اپنا بلیو کورٹ ہاتھ پر ڈالا صوفے سے اپنا فون اور لیپٹاپ لیے باہر نکل گیا وہ جہاں کھڑی تھی وہیں جم گئی ساحر کے سرد رویے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اب تک ناراض ہے اور یہ حقیقت تھی وہ سوچ کر آیا تھا کہ اُس سے ناراضگی جتائیگا غصّہ کرےگا لیکن اس کی کمزور حالت دیکھ کر سب بھول گیا اپنے غصے کو قابو میں کرلیا لیکن ناراضگی اب بھی دیکھا رہا تھا لیکن اس کے لیے فلحال اتنا ہی کافی تھا کہ وہ نظر کے سامنے ہے اس نے خدا شکر ادا کیا ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا پرپل کلر کے سلور سوٹ میں سفید دوپٹے کے ساتھ سفید پڑتا چہرہ سوکھے ہونٹ تھکی تھکی آنکھیں ڈھیلی ڈھالی چھوٹی بنائے وہ پہلے والی عیشا ہرگز نہیں لگ رہی تھی اتنے دن میں اس نے پہلی بار خود کو آئینے میں جانچا تھا پھر سر جھٹک کر واش روم کی جانب بڑھ گئی
*********/****************/*
وہ آفس سے آکر تھکا ہارا سا بیڈ پر گر گیا اور آنکھیں موند لی عیشا ڈریسنگ ٹیبل کے پاس بیٹھی بالوں کو سلجھا رہی تھی ایک نظر اُسے دیکھا اور دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی آئی اور اس کے پیروں کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر اس کے جوتے اُتارنے لگی
یہ کیا کر رہی ہو تم
وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا اپنا پیر کھینچنا چاہا لیکن عیشا نے ایسا کرنے نہیں دیا
بس رہنے دو
جوتے اُتارنے کے بعد موزے بھی اُتارنے لگی ساحر نے روکا لیکن نہ مانی ساحر اُس کی جھکی آنکھوں کو دیکھنے لگا موزے نکال کر نیچے رکھنے کے بعد وہ یونہی اُس کے پیروں کو دیکھتے بیٹھی رہی ساحر نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے وہاں سے اٹھایا اور اپنے بازو بٹھالیا
تمہاری جگہ یہاں ہے
وہ بنا نظریں ملائے بولا
اچھا تو پھر مجھے چھوڑ کر کیوں گئے تھے میں تو بیوقوف ہوں لیکن تم تو بہت سمجھدار ہو نا مجھے سمجھا نہیں سکتے تھے
اس نے خفگی سے کہا ساحر نے پیچھے ہوکر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لیا
کیا کروں ہوں تو انسان ہی نہ فرشتہ تو نہیں ہوں جو کسی چیز سے کوئی فرق نہ پڑے تکلیف تو مجھے بھی ہوتی ہے بس دکھا نہیں سکتا میں ہی جانتا ہوں کیسا لگتا ہے جب بیوی ہی میرے قریب آنے پر گھن محسوس کرتی ہے
آخری جملہ پر اُسکا لہجہ تلخ ہو گیا
ساحر پلیز-----
دل کیا صرف تمہارے پاس ہے عیشا تکلیف کیا صرف تمہیں ہوتی ہے مجھے ہرٹ نہیں ہوتا کیا جب تم ہر بار مجھے ہیومیلیٹ کرتی ہو میری انسلٹ کرتی ہو میں نے تم سے کبھی کچھ مانگا بھی نہیں کبھی زبردستی نہیں کی بے غرض ہے میری محبت اگر کچھ چاہتا ہوں تو یہ کے تم خوش رہو کیا یہ قصور ہے میرا جس کے لیے تم مجھے سزا دیتی آرہی ہو
وہ خفگی سے بولا
نہیں ساحر میں-
اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن ساحر نے بات کاٹ دی اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا
نہیں عیشا کوئی صفائی مت دو کیونکہ تم غلط ہو کوئی لاکھ سازش کرے لیکن ہمارا ارادہ مضبوط ہو نا تو کسی کی ہمت نہیں ہے کے ہمیں الگ کر سکے لیکن تم نے کبھی میری محبت کو سمجھا ہوتا تو بھروسہ کرتی نا مجھ پر اتنے وقت میں بھی تمہیں احساس نہیں ہوا کیسے ہوتا تم نے تو اپنے دماغ میں میری الگ ہی امیج بنائی ہوئی ہے جس کے مطابق میں ایک دل پھینک عاشق ہوں تمہیں پتا ہے تم نے مجھے کتنی گندی گالی دی ہے یہ کہہ کر کے میں لڑکیوں کے ساتھ وقت گزار کر اُنھیں چھوڑ دیتا ہوں کین یو امیجن میرا کیا دل کر رہا تھا اس وقت تم نے صرف میرے کردار پر نہیں میری تربیت پر بھی الزام لگایا آج خدا کی قسم کھا کر کہ رہا ہو کسی لڑکی کو کبھی غلط ارادے سے چھوا بھی نہیں عزت کرنا سکھایا گیا ہے مجھے بےعزتي کرنا نہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ تم نے مجھے اتنا گھٹیا انسان سمجھا
وہ خاموش ہوکر سامنے دیکھنے لگا آنکھیں سرخ ہو رہی تھی
ساحر -----
عیشا آئندہ ایسا کچھ ہونا تو میری ہی گن سے مجھے شوٹ کردینا کیوں کے گالی سننے سے میں مرنا زیادہ پسند کرونگا
عیشا نے اس کے لبوں پر مضبوطی سے ہاتھ رکھ دیا اور سر نفی میں ہلانے لگی
ساحر نے اس کا ہاتھ ہٹا کر منہ پھیر لیا
تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو بہت کچھ کر چکا ہوتا اب تک لیکن کیا کرو یہ محبت چیز ہی ایسی ہیں انسان کو بے بس کردیتی ہے تمہیں چوٹ پہنچا کر سب سے زیادہ تکلیف مجھے ہی ہونی ہے
وہ بنا اس کی طرف دیکھے کہ رہا تھا
تم بلکل سہی ہو میں بہت بری ہُوں تمہاری محبت ڈیزرو ہی نہیں کرتی ہرگز بھی تمہارے لائق نہیں ہوں الزام لگاتے وقت تمہاری ہر اچھائی بھول گئی میں یہ بھی بھول گئی کے اللہ نے تمہیں میرے لیے چنا ہے اور وہ میرے لیے غلط کیسے کر سکتا ہے یہ بھی بھول گئی کہ دادی نے مجھ پر اتنا بھروسہ کیا وہ کتنی ناراض ہونگیں مجھ سے تمہیں تکلیف میں دیکھ کر ساحر پلیز مجھے معاف کردو میں نے بہت بڑا گناہ کیا آج تک تم نے کیا کچھ نہیں سہا میری وجہ سے شروع دن سے تمہیں بے عزت کرتی آئی ہوں اتنے پاکیزہ رشتے کا بھی لحاظ نہیں کیا اور تم پھر بھی مجھ سے محبت کرتے رہے ساحر پلیز مجھے اس کی سزا دو تاکہ مجھے ہمیشہ یاد رہے
ساحر نے سرخ آنکھوں سے اُسے دیکھا
ایک آخری موقع دیدو ساحر وعدہ کرتی ہُوں آئندہ تمہیں کبھی ہرٹ نہیں کرونگی بس ایک بار معاف کردو چاہئے کوئی بھی مقام دو لیکن خود سے دور مت کرو اب تمہارے بنا کوئی زندگی نہیں ہے تم جب تک ساتھ ہو تب تک ہی سانس لینا چاہتی ہوں صرف تمہیں دیکھنا چاہتی ہو
ساحر نے اس کے چہرے پر آتے بالوں کو ایک ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے ہاتھ اس کے چہرے پر رکھا اُس کی آنکھوں میں بے پناہ محبت تھی عیشا نے اس کا وہی ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگا لیا اور آنکھیں موندے آنسو بہاتی رہی ساحر نے آگے بڑھ کر اُسے سختی سے گلے لگا لیا
آئے لو یو ساحر آئے لو یو سو مچ
اس نے دونوں ہاتھوں سے ساحر کو مضبوطی سے تھام لیا وہ بھی اپنی گرفت کو اور سخت کرتا رہا بولا کچھ نہیں کتنے لمحے یونہی گزر گئے
آئندہ مجھ سے کبھی دور مت جانا پلیز ورنہ میں مر جاؤں گی
عیشا اس سے الگ ہوئی ساحر رخ پھیر کر دیوار کو دیکھنے لگا
عیشا نے اس کے چہرے کو ہاتھ سے اوپر کرکے نفی میں سر ہلا دیا اس نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے اس کا ہاتھ ہٹا دیا دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں رگڑ کر پیشانی پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور اسے دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرادیہ
کیا کروں بات جب تمہاری ہوتی ہے نا تو میرا خود پر کنٹرول نہیں رہتا وہی کرتا ہوں جو دل کرنا چاہتا ہے میرے بس میں نہیں ہے کہ میں تمہیں اپنی فيلنگس دکھا سکوں
وہ محبت بھرے لہجے میں بولا عیشا اس کے کاندھے پر سر رکھے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی
سوری ساحر میں نے تمہارا بہت دل دکھایا نا مجھے
بس بار بار سوری مت بولو
اس نے عیشا کے لبوں پر انگلی رکھ کر خاموش کروادیا وہ مسلسل اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جیسے کسی نے آنکھوں کو جادو سے اس جانب کھینچ رکھا ہو ایک ایک پل وہ اس چہرے کو دیکھنے کے لیے تڑپتی رہی تھی اور آج دل کررہا تھا اب تک کی ساری کسر ایک ساتھ پوری کرلے وہ اج اُسے ہمیشہ کے لیے آنکھوں میں بسا لینا چاہتی تھی تاکہ اس کے سوا کچھ نظر نا آئے اس ایک مہینے میں احساس ہوا تھا کہ وہ دل گہرائیوں تک بس چکا تھا
ایسے کیا دیکھ رہی ہو
ساحر نے اس کے چہرے پر آتے بال پیچھے کیے
تمہیں دیکھ کر دل ہی نہیں بھر رہا تم اتنے اچھے کیوں ہو
وہ چند لمحے رک کر بولی
پاگل خود تو مجھے دیکھ دیکھ کر پیٹ بھرلوگی میرا کیا اتنی بھوک لگ رہی ہے کھانا تو کھلاؤ
اوہ ہاں سوری چلو کھانا کھاتے ہے
وہ اس سے دور ہوئی
ایک منٹ
وہ جانے لگی تو ساحر نے ہاتھ پکڑ کر روک دیا
مجھے بھی تم سے سوری کہنا ہے عیشا تمہیں میری ضرورت تھی لیکن میں تمہارے پاس نہیں تھا اتنے دِن تم میری وجہ سے بیمار رہی پریشان رہی اور میں تمہارا خیال رکھنے کی بجائے اپنی ناراضگی کے چکر میں پڑا رہا
عیشا کچھ نہیں بولی کہتی بھی کیا ایک اچھائی نہیں تھی اس میں جس پر حیران ہوتی بنا غلطی کے خود کو قصوروار مان کر معافی مانگ رہا تھا
ساحر نے اس کے ہاتھ کو لب سے لگا کر متوجہ کیا
ساحر کیا تم ہمیشہ مجھے اتنا ہی پیار کروگے
اس کے سوال پر ساحر نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلا دیا عیشا نے اسے بے یقینی سے دیکھا اُسے ہرگز اُمید نہیں تھی کے ساحر کا جواب یہ ہوگا
اس سے بھی زیادہ کرونگا
وہ پھر سے رو نا دے اسلئے فوراً بولا عیشا نے اسے غصے اور خفگی سے دیکھا اور دھکا دیکر گرادیا وہ ہنستے ہوئے اُسے دیکھنے لگا
تم بہت برے ہو
وہ خفا ہوکر جانے لگی لیکن ساحر نے اسے ہاتھ پکڑ کر واپس بیڈ پر بٹھادیا اور دونوں ہاتھوں سے کان پکڑ لیے وہ مسکراتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی
******/*************/******/
الیشا اور فائزہ دونوں نے خوبصورت بیٹوں کو جنم دیا تھا عیشا کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی وہ گھنٹوں تک ایک ساتھ دونوں شہزادوں کو گود میں لیے رہتی تھی ساحر اُسے کئی بار اس بات پر چھیڑتا تھا سب ہی اس کی حرکتوں پر ہنستے تھے لیکن اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ خوشی سے سارے شہر میں جشن منائے چند دن پہلے بیمار لگنے والی صورت پھر گلابی پھول کی طرح تازہ لگنے لگی تھی اسکی سب سے بڑی وجہ ساحر کی محبت تھی جو وقت کے ساتھ اور گہری ہونے لگی تھی
ساحر جس پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا اس کے لیے اسے کچھ دن لندن میں ہی رہنا تھا لیکن اس بار وہ عیشا کو بھی ساتھ لے گیا دو مہینے لندن میں گزارکر وہ کل ہی واپس آئے تھے
وہ بالکونی میں کھڑی تھی ساحر افس سے آکر سیدھے اس کے پاس آیا اُسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے پیشانی پر پیار دیا
کیسی ہے میری جان
صبح وہ افس کے لیے نکلا تب عیشا کی طبیعت کچھ ناساز تھی اتنا لمبا سفر کرنے کے بعد اُسے بےحد تھکان محسوس ہورہی تھی وہ افس سے چار بار فون کرکے تسلی کر چکا تھا لیکن پھر بھی وقت سے پہلے گھر آگیا تھا عیشا ہلکا سا مسکرائی
ساحر تم سے کچھ کہنا ہے
وہ دونوں ہتھیلیوں کو رگڑتے ہوئے بولی
ہاں بولو نا
وہ اس کا چہرہ سامنے کرتے ہوئے بولا
وہ---- میں یہ کہہ رہی تھی --کے ------_-
ساحر سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا اس نے کچھ سوچتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پین سے کچھ لکھا اور اسے پڑھنے کا اشارہ کیا
سچ
ہتھیلی پر آئی ایم پریگننٹ لکھا دیکھ کر وہ حیرت اور خوشی سے بولا عیشا نے سر اثبات میں ہلاکر نظریں جُھکالی اس نے اس کی پیشانی پر پیار کیا
آئی لو یو سو مچ
وہ دھیمے محبت بھرے لہجے میں بولا اور اسے دونوں ہاتھوں کی اوپر اٹھالیا اور کتنے ہی چکر گھومنے لگا یہ اُسکا واحد شوق تھا جس سے عیشا کو شدید کوفت ہوتی تھی وہ بس اُسے یوں اٹھانے کا بہانا ڈھونڈتا تھا
ساحر----- ساحر کیا کر رہے ہو پلیز پلیز چھوڑو م م مجھے چکر آرہے ہے میں گر جاؤنگی
وہ گھبرا کر کہتی رہی ساحر نے اسے نیچے اُتار دیا
سوری---- لیکن کیا کرو میں آج بہت بہت بہت خوش ہوں تھینک یو سو مچ
اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے
میں سچ میں بہت خوش ہوں عیشا
میں بھی
وہ اس کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی
تو پھر ایک بار اور اٹھاؤں
ن ن نہیں---- نہیں ساحر پلیز -_--پلیز ابھی نہیں
وہ فوراً دو قدم پیچھے ہو گئی
پلیز بس ایک بار
اس کے مزید روکنے سے پہلے ہے وہ اُسے اٹھاکر گھماتے ہوئے روم میں لے آیا اور نیچے ا اُتار دیا اس نے سیدھے ہوتے ہوئے اپنے چکراتے سر پر ہاتھ رکھا
اُف---- میرا سر گھوم رہا ہی پتا نہیں تمہیں کیا ملتا ہے ایسا کرنے میں
وہ خفگی سے بولی
خوشی ملتی ہے میں تمہیں آسمان پر بیٹھے دیکھنا چاہتا ہوں
سیدھے بولو نا اللہ کے پاس پہنچانا چاہتے ہو
وہ منہ پہلا کر بولی
چپ پاگل --
اور کیا کسی دن ڈر کے مارے مر ہی جاؤں گی میں
ساحر نے اسے کھینچ کر دیوار سے لگا دیا اور اس کے قریب ہو گیا
بہت زبان چل رہی ہے کیا کہا ذرا پھر سے بولو
وہ مصنوعی غصے سے بولا
ک ک کچھ نہیں س س سوری
وہ ہکلاتے ہوئے بولی
اب سوری سے کام نہیں چلے گا
وہ اس کے لبوں کو دیکھتے ہوئے اس کے قریب ہوا تب دروازے پر دستک ہوئی
واؤ کیا ٹائمنگ ہے
وہ دروازے کو گھورتے ہوئے بولا عیشا منہ پر ہاتھ رکھے ہنسنے لگی
دیکھ لونگا
وہ عیشا کو دھمکی دیکر دروازے پر آیا ملازم نے اسے عمران کے آنے کی اطلاع دی تو عیشا کو بتا کر نیچے چلا گیا
اس نے آنکھیں بند کرکے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اسے اتنی خوشیاں دی اکثر ہم اپنی قسمت سے ناراض ہوجاتے ہیں بنا یہ سوچے کے یہ اللہ کی مرضی ہے زندگی میں اگر کچھ بھی برا ہوتا ہے تو اُس میں کوئی اچھائی چھپی ہوتی ہے بس اللہ پر بھروسہ رکھ کر اُن حالات کا سامنا کرے کیونکہ اللہ کبھی اپنے بندوں کو نا امید نہیں کرتا
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Sun Mere Humsafar Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sun Mere Humsafar written by Sanaya Khan.Tumhe Sun Mere Humsafar by Sanaya Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment