Saza e ishq by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday, 2 May 2025

demo-image

Saza e ishq by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel

Saza e ishq by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

67148857_2246955532285116_2665368584053587968_n
Saza e ishq by Rabia Bukhari Complete Romantic Novel 

Novel Name: Saza e ishq 

Writer Name: Rabia Bukhari 

Category: Complete Novel

بھائی جلدی چلے پلیز۔۔۔

 تیز چلائے رکشہ۔۔۔۔

مہرون ویلویٹ کی شرٹ اور سبز نیٹ لہنگے میں ملبوس سرخ گلابی پھولوں سے سجی مہندی کی دلہن مسلسل آگے بیٹھے رکشہ ڈرائیور کو ہر دس منٹ بعد اضطرابی سے چور رکشہ تیز چلانے کا کہہ رہی تھی۔۔۔

ابھی چلا تو رہا ہو۔۔۔

اب آپ کہے کہ اڑانا شروع کردو تو بہت معذرت یہ کام میرے رکشے سے ناممکن ہے۔۔۔

آگے بیٹھا ڈرائیور جو پہلے سے ہی پیچھے بیٹھی مہندی کی دلہن کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

بار بار اس کی روٹوک سے چڑ کر بولا۔۔۔

بھائی جیسا آپ کو کہا ہے براہ مہربانی ویسے ہی چلائے۔۔۔

جتنے پیسے اپکو چاہیے میں دونگی بس جتنی جلدی ہوسکے میرے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا دے مجھے۔۔۔

وہ پریشانی سے دوچار گھبرائی ہوئی آواز سے بولی۔۔۔۔

پھر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو آن کیا۔۔۔

اور ایک نمبر کو دیکھ کر  ملانا شروع کردیا۔۔۔

جس پر مسلسل بیلز جارہی تھی لیکن کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔۔۔

تذبذب کی شکار مسلسل پریشانی سے کال کاٹتی اور پھر دوبارہ کال ملا کر پریشانی اور ٹینشن سے اب وہ اپنے وجود کو ہلا رہی تھی۔۔۔

کہا بھی تھا اسے۔۔۔

کہ مجھ سے رابطہ رکھے۔۔۔

لیکن نہیں۔۔۔

اپنی فضولیات سے فرصت ملے تو کچھ کرے۔۔۔

فون اٹھا لو فیروز۔۔۔ 

اب وہ غصے سے بپھڑتے بولی۔۔۔

سانس کی اترتی چڑتی صورتحال سے دوچار دل میں خوف اور بھاگنے کے ڈر نے اس کو تنگ کر رکھا تھا۔۔۔۔

بلآخر وہ اپنی منزل تک پہنچ ہی گئی۔۔۔

ہانپتی کانپتی رکشے سے باہر نکلی۔۔۔

کتنے پیسے ہوئے بھائی؟؟؟

اپنے پرس کی جانب دیکھتے وہ بولی۔۔۔

پیسے دے کر ایک ہاتھ سے اپنا لہنگا سنبھالا اور دوسرے سے واپس اسی نمبر پر کال کرنے لگ گئی۔۔۔

رکشے والا وہی کھڑا اس کی مشکوک حرکتوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

کہ تبھی سامنے سے ایک وائیٹ ہونڈا گاڑی اس دلہن کے پاس آ کر رکی ۔۔۔۔

جس سے اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے تاثرات کم ہوئے ۔۔۔۔

اور تیز قدم بڑھاتی اونچی ہیل اور لہنگے کو سنبھالتی گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

اندر بیٹھے شخص نے اس کو گاڑی کے قریب آتے دیکھا تو اندر سے اس کیلئے دروازہ کھول دیا۔۔۔

جس سے وہ گاڑی میں سوار ہوگئی۔۔۔

اور احتیاط سے اس شخص کی ساتھ والی نشست کر براجمان ہوگئی۔۔۔۔

ٹھیک ہو تم؟؟؟ شخص نے اس کی جانب دیکھتے پوچھا۔۔۔

ہاں اب ٹھیک ہو ۔۔۔۔

اب چلاؤ گاڑی اور نکلو یہاں سے۔۔۔ لہنگا سیٹ کرتے وہ پرسکون انداز سے بولی ۔۔۔۔

اور پھر گاڑی وہاں سے نکل پڑی۔۔۔

رکشہ ڈرائیور جو وہی کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

لگتا ہے بھاگ کر آئی ہے اپنے گھر سے۔۔۔

خدا کی پناہ ایسی بیٹیوں سے جو اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال نہیں کرتی۔۔۔

اور یوں انہیں گلیوں چوڑاہوں میں رسوا کرتی ہے۔۔۔

خیر مجھے کیا؟؟؟۔۔۔

رکشہ ڈرائیور سو تن باتیں  سنانے کے بعد اپنا دامن جھاڑتے ہوئے دونوں کندھے لاپرواہی سے آچکا کر کہا اور چلتا بنا۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

گاڑی اپنی رفتار سے چل رہی تھی۔۔۔

اس راستے سے نکلے ہوئے اب انہیں پندرہ منٹ ہوچکے تھے۔۔۔

راستے سنسان جبکہ اردگرد سے گزرنے والی گاڑی تیز رفتاری کا مظاہرہ کررہی تھی۔۔۔

اردگرد ڈھیر و ڈھیر درختوں کے جھنڈ نے سڑک کو اپنی اوٹ میں لے رکھا تھا۔۔۔

کیوں آئی ہو تم؟؟؟؟

فیزور نے سکونت کا شیشہ توڑتے ہوئے  سپاٹ چہرے سے اسٹیرنگ سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔

شیزہ جو مہندی کی دلہن کے روپ میں اس کی ساتھ والی نشست پر براجمان تھی حیرت کی مورت بنے اس کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔

یہ تم کہہ رہے ہو فیروز؟؟؟

کہ میں یہاں کیوں آئی ہو؟؟؟

اپنی مہندی کا فنشن چھوڑ کر دلہن کے روپ میں تمہارے سامنے یوں بیٹھی ہو۔۔۔

اور آگے سے یہ سوال ؟؟؟

وہ چڑ کر بولی۔۔۔۔

میں نے کہا تھا آؤ؟؟؟

اور آئی بھی تو مجھے کیوں بلایا؟؟؟

جب تمہاری شادی طے پا ہی گئی تھی۔۔۔

تو مجھے بلانے کا مقصد؟؟؟

تیور چڑھائے وہ سامنے کی جانب نظریں مرکوز رکھے ایسے بول رہا تھا جیسے اسے اس بات سے کوئی فرق نہ پڑ رہا ہو ۔۔۔

گاڑی روکو۔۔۔۔

شیزہ کا پارہ اسکی بے تکی باتوں کو سن کر چڑھ گیا۔۔۔

پاگل ہوگئی ہو کیا ؟؟؟ وہ اس کی جانب سوالی نظروں سے  دیکھتے بولا۔۔۔۔

ہاں ہوگئی ہو پاگل۔۔۔

شیزہ چلا کر بولی۔۔۔

چلاؤ مت آئی سمجھ۔۔۔

چلانا مجھے بھی آتا ہے۔۔۔۔

فیروز اس کی جانب وحشت بھری نظروں سے دیکھتے بولا۔۔۔

میں نے کہا گاڑی روکو ابھی کہ ابھی۔۔۔۔

شیزہ ایک بار پھر سے چلائی اور سیٹ کے سامنے اپنا ہاتھ زور سے مارتے بولی جس سے اس کی کلائیوں میں بھری رنگ برنگی چوڑیوں میں سے کچھ ٹوٹ کر نیچے بکھر گئی۔۔۔

 فیروز نے ایک جھٹکے سے گاڑی کو بریک لگا دی اور اب اس کو دیکھنے لگا۔۔۔

شیزہ  اپنا لہنگا سنبھالے دروازہ کھولنے لگی۔۔۔۔

اب کیا ہے؟؟؟

کہا جارہی ہو اب؟؟؟

فیروز اسے یوں جاتا دیکھ کر زچ ہوتے بولا۔۔۔

شیزہ جس کی آنکھوں میں آنسوں اور نفرت دونوں ہی جھل مل کررہے تھے۔۔۔

فیروز کو دیکھتے بولی۔۔۔

جہاں مرضی جاؤ۔۔۔

تمہیں اس سے مطلب۔۔۔

تمہارے لیے اگر گھر چھوڑ کر آ سکتے ہو تو تمہیں بھی چھوڑ کر جا سکتی ہو۔۔۔۔

شیزہ کہتے ساتھ ہی گاڑی کا دروازہ کھولے باہر کو نکل پڑی جبکہ فیروز بھی اس کے اس پاگل پن کو دیکھتے ہوئے باہر کو نکل آیا۔۔۔

آخر اب مسئلہ کیا ہے؟؟؟

وہ اسے یوں جاتا دیکھتے بولا۔۔

مسئلہ!!!

وہ ایک دم رکی۔۔۔۔

مسئلہ یہ کہ میں نے ایک ڈرپوک بزدل انسان سے محبت کی۔۔۔

جس پر میں تکیہ کر کے بیٹھی تھی ۔۔۔۔

جس کیلئے اپنے ماں باپ کا گھر اس دن چھوڑ کر آئی جس دن انکی عزت نے کھلنا تھا۔۔۔

شیزہ کی آنکھوں سے ایک بوند آنسوں اس کی گال کو تر گیا۔۔۔۔

بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔۔۔

میں بزدل نہیں آئی سمجھ۔۔۔

فیروز اس کی بات سن کر چلایا۔۔۔۔

کیوں؟؟؟

سچ کڑوا لگا ہے تمہیں۔۔۔۔

تم جیسے بزدل انسان سے محبت کرنا کسی اندھیرے کنویں میں مرنے کے برابر ہے۔۔۔

اور میں اس اندھیرے کنویں میں گر گئی ہو۔۔۔۔

شیزہ کی سسکیاں اس کی محبت کا دم توڑنے کا ثبوت تھی۔۔۔۔

دیکھو شیزہ۔۔۔

جو ہوا سب تمہارے سامنے تھا۔۔۔

جب میرے والدین نہیں مانے تو میں کیسے ان کی مرضی کے بناء تمہارے ساتھ شادی کر سکتا تھا۔۔۔

فیروز نے تحمل بھرے لہجے سے  اس کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

وہی رکو اب فیروز۔۔۔

اب مزید تماشا مت بناؤ میرا اور مزید کوئی ٹوپی ڈرامہ مت کرو مجھ سے۔۔۔۔

جب میں ایک لڑکی ہو کر آ سکتی ہو سب کچھ چھوڑ کر۔۔۔

 تو تمہارا خون ٹھنڈا کیوں پڑ گیا؟؟؟

شیزہ اپنے اندر کے غبار کو نکالتے بولی جبکہ سامنے پتھر بنا فیروز کچھ نہ بولا۔۔۔۔

نفرت ہے تم سے اب۔۔۔

اس قدر کے تم مر بھی جاؤ تو آنسوں نہ بہے میرا۔۔۔۔

شیزہ کہتے ساتھ ہی سنسان سڑک پر لہنگا تھامے چل پڑی۔۔۔

فیروز وہی کھڑا اسے یوں جاتا دیکھتا رہا۔۔۔۔

پھر گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی اس کے پیچھے آہستگی سے لگا دی۔۔۔ 

آجاؤ میں تمہیں چھوڑ دونگا۔۔۔

فیزور کھڑکی سے اس کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔

شیزہ ایک پل کو رہی اور سرخ ہوتی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔

چھوڑ تو چکے ہو تم اب لگتا ہے کہیں کا نہیں چھوڑو گے مجھے۔۔۔ آنکھوں میں درد اور لبوں پر زخمی مسکراہٹ لیے وہ اس کو دیکھتے  بولی۔۔۔

جبکہ فیروز اس کی بات سن کر کچھ دیر وہی اسے یوں جاتا دیکھتا رہا۔۔۔

پھر مزید وقت کا ضیاع نہ کرتے ہوئے گاڑی کو گئیر لگایا اور گاڑی بھگا دیا ۔۔

گاڑی شیزہ کے پاس سے گزرتی ہوئی آگے کو نکل پڑی اور پل بھر میں آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔۔۔

جبکہ شیزہ کی امید اب مکمل چوڑ ہو چکی تھی۔۔۔

اب بس شیزہ اکیلی اس سڑک پر چل رہی تھی۔۔۔

دماغ میں ہزار وسوسوں نے جنم لے لیا تھا۔۔۔

اب تک تو سب کو پتہ چل گیا ہوگا کہ میں بھاگ گئی ہو۔۔۔۔۔ 

یہ میں نے کیا کردیا؟؟؟

شیزہ اس وقت وہ انسان راستے پر کھڑی خود کو کوس رہی تھی۔۔۔

لیکن اب کچھ بھی ممکن نہ تھا۔۔۔

اب میں کیا کرو؟؟؟

کہاں جاؤ؟؟؟

شیزہ سر پر ہاتھ پھیرے روہانسی ہوتے بولی۔۔۔

ابو تو مجھے مار ڈالے گے اگر میں واپس گئی تو۔۔۔۔

لیکن تبھی اس کی سوچ کا چراغ چمکا۔۔۔

اور جھٹ سے اس نے ایک نمبر کر کال ملادی۔۔۔

ہ۔۔۔۔ہ۔۔ہیلو!!!

م۔۔۔م۔۔۔میں ش۔۔۔شیزہ۔۔۔۔

میں اس سڑک پر اکیلی کھڑی ہو کیا آپ یہاں آ سکتے ہیں پلیز؟؟؟؟

شیزہ التجائی انداز سے بولی۔۔۔

۔

دوسری جانب سے رضامندی ملتے ہی اس کے چہرے پر پرسکونیت چھا گئی۔۔۔

اور اب کھڑی وہ بس اپنی حفاظت کیلئے اردگرد پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔۔۔

کچھ دیر وہ یونہی اسی سڑک پر ٹہلتی انتظار کرتی رہی کہ تبھی ایک اور گاڑی اس کے قریب آتے رکی۔۔۔۔

شیزہ بنا وقت ضائع کیے اس گاڑی میں سوار ہوگئی اور کچھ نہ بولی۔۔۔

گاڑی میں موجود شخص اس کو  مہندی دلہن کے لباس میں ملبوس حیرانگی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

لیکن کچھ پوچھ نہ پایا اور گاڑی چلا دی۔۔۔۔

پورے راستے دونوں خاموش رہے۔۔۔

جبکہ شیزہ تو بس گھر کا سوچ سوچ کر پگلا رہی تھی۔۔۔

وہ۔۔۔۔۔

کیا میں پوچھ سکتا ہو آپ اس وقت اس راستے پر اکیلی کیوں تھی؟؟؟

صالم کو خود بھی سفید شلوار قمیض اور پہلے رنگ کے اوورکوٹ میں ملبوس تھا۔۔۔

اس کو دیکھتے بولا۔۔۔۔

شیزہ جو پہلے سے بہت پریشان تھی اس کے سوال پر چونک سی گئی۔۔۔

ن۔۔نہیں۔وہ۔۔۔۔

دراصل میں۔۔۔۔

شیزہ کے پاس بتانے کے لائق کچھ نہ تھا۔۔۔۔

اچھا تو لگتا ہے آپ تیار ہونے کو پارلر گئی تھی۔۔۔

تبھی تو آپ اسی لباس میں ملبوس ہے جو میرے نام کا ہے۔۔۔۔

صالم ایک دلکش مسکراہٹ سجائے اس کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔

جو سچ میں ہی کسی حور سے کم نہ لگ رہی تھی۔۔۔

ہتھیلیوں پر چاروں اور لگی خوبصورت مہندی،  کلائیوں میں پہنے موتیوں کے گجرے، چوڑیاں ماتھے پر گلاب کی بندھی اور  کان میں موتی کے بوندے وہ سچ میں حسین تر لگ رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ پھولوں اور مہندی کی خوشبو نے پوری گاڑی کو مہکا ڈالا تھا۔۔۔

اور صالم پر اس خوشبو کی مہک نے گہرہ اثر طاری کر رکھا تھا۔۔۔

ہا۔۔ہاں وہی میں گھر ہی جارہی تھی جب رکشہ خراب ہوگیا راستے میں ۔۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور میں نے اپکو کال ملا دی۔۔۔

شیزہ صالم کی گئی بات پر  فورا حامی میں سر ہلاتے   بولی۔۔

شکر ہے خود ہی کچھ سوچ لیا اس نے۔۔۔۔

ورنہ ہزار سوال کرتا جن کا جواب میرے پاس سوائے خاموشی کے کچھ نہ ہونا تھا۔۔۔ شیزہ دل ہی دل میں خود کو ریلیکس کرتے بولی۔۔۔

اور چہرے پر نمودار ہوتے پسینے کے ننھے قطروں کو صاف کرنے لگ گئی۔۔۔۔

اچھا کیا آپ نے مجھے ہی بلا لیا۔۔۔

اور سب سے اچھا ہوا وہ رکشہ خراب ہوگیا۔۔۔

ورنہ ایسا موقع کہاں ملنا تھا کہ میں آپ سے یوں مل پاتا۔۔۔

صالم بات جاری رکھتے بولا۔۔۔۔

 شیزہ نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا بس خاموش بیٹھی فیروز کی بےوفائی کو سوچتی رہی۔۔۔

ویسے آپ بہت خوبصورت ہے۔۔۔

بہت پیاری لگ رہی ہے آپ۔۔۔۔

صالم نے ایک بار پھر شیزہ کے چہرے کا طواف اپنی آنکھوں سے کیا جس کا دیوانہ وہ ناجانے کب سے تھا۔۔۔

شیزہ جو ساتھ ہی بیٹھی تھی بناء کوئی تاثرات دیے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔

جواب نہ پا کر صالم نے اب چپ رہنا مناسب سمجھا۔۔۔

پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد شیزہ اب گھر کے سامنے موجود تھی۔۔۔

جس کو خوبصورت روشنی والی بتیوں سے سجایا گیا تھا۔۔

اور شادی والے گھر کا ثبوت بخوبی دے رہا تھا۔۔۔۔

صالم نے اپنی گاڑی گھر سے تھوڑا فاصلے پر روک دی۔۔۔

تاکہ کوئی بھی شیزہ کو اس کے ساتھ نہ دیکھ سکے۔۔۔۔

شیزہ بھی یہ بات سمجھ چکی تھی لہذا لہنگا سنبھالے دروازہ کھولنے لگ گئی۔۔۔۔

آپ تو جانتی ہے کل ہماری بارات ہے اور کسی نے یوں دیکھ لیا ہمیں ساتھ تو مزاق بنا دے گے ہمارا۔۔۔

صالم سنجیدگی سے اس کو دیکھتے بولا۔۔۔

جو لاپرواہی دیکھاتے ہوئے باہر کو نکل پڑی۔۔۔

تھینکس۔۔۔

شیزہ جاتے جاتے اس کی جانب دیکھتے بولی۔۔۔

اور پھر تیز قدم بڑھاتے اندر کیا جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

جبکہ صالم اس سے آگے کچھ بولتا. شیزہ نے اسے موقع ہی نہ دیا۔۔۔

کچھ دیر وہ یونہی کھڑا روشنی سے جگمگاتے گھر کو دیکھتا رہا اور پھر ایک مسکراہٹ دیتے ہوئے گاڑی چلا دی اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖

اب تک تو سب بمشکل ہی ٹھیک چل رہا تھا۔۔۔

صالم کو تو پہلے ہی وہ بےوقوف بنا چکی تھی یا وہ خود بننے کو تیار کھڑا تھا۔۔

لیکن اب اس سے بڑی مشکل اندر تیار  کھڑی اسکا انتظار کررہی تھی۔۔۔

وہ اور  کوئی نہیں بلکہ شیزہ کی فیملی تھی۔۔۔

مہندی کا انتظام باہر موجود گارڈن میں ہی کیا گیا تھا جبکہ اب تو مہمانوں کی آمدورفت بھی جاری تھی۔۔

پورے لاؤن کو گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا جبکہ ساتھ ہی نیٹ کے رنگ برنگے ڈوپٹوں کا استعمال بھی بخوبی کیا گیا تھا۔۔۔

ایک جھولے نما پالکی کو دلہن کیلئے گلابوں اور گیندوں کے پھولوں سے خوبصورت انداز  سے نکھارا گیا تھا۔۔۔

شیزہ کچھ پل گیٹ پر کھڑی سب کو چھپ کر اندر جاتا دیکھ رہی تھی۔۔

لیکن اب وقت گزرتا جارہا تھا اور رات کی تاریکی ناجانے کب سے چادر اوڑھے کھڑی تھی اور اگر اس صورت میں کسی کی بھی شیزہ پر نظر پڑھ جاتی تو ایک بہت بڑا تماشا ہونے کو تیار تھا۔۔۔

اگر میں یونہی کھڑی سوچتی رہی تو ناجانے کیا قیامت ٹوٹے گی میرے سر پر ۔۔۔

مزید انتظار بیوقوفی ہے۔۔۔

اب اندر جانا ہی ہوگا۔۔۔

کیسے بھی کر کے۔۔۔

مزید وقت ضائع نہ کرتے ہوئے شیزہ اپنے سر پر اوڑھے ڈوپٹے سے چہرہ کو اچھے سے ڈھانپتے ہوئے اندر کی جانب بڑھی۔۔۔

تیز قدم بڑھاتی وہ بناء کسی کو دیکھے اور رکے بھاگتے ہوئے گھر کی دہلیز تک پہنچی۔۔۔

کہ تبھی صوفے پر براجمان سفید کاٹن کی شلوار قمیض میں ملبوس فاخر کھوکھر جو سپاٹ چہرہ سجائے دروازے پر ہی نظریں جمائے بیٹھے تھے۔۔۔

شیزہ کو اندر کی جانب آتا دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔

لاؤنچ میں ملازموں کی بھاگ دوڑ کے علاوہ اور کوئی گھر کا فرد موجود نہ تھا۔۔۔

شیزہ فاخر صاحب کی خود پر پڑتی تیکھی چبھتی نظروں کو بھانپ چکی تھی۔۔۔

لہذا اب اپنا چہرہ مزید چھپانے کی بجائے چہرے کو چادر سے چاک کیا اور پھر سر جھکائے آہستگی سے قدم بڑھاتی اندر کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔

فاخر صاحب اسے یوں آتا دیکھ کر بھی کچھ نہ بولے۔۔۔

شیزہ فاخر صاحب کے پاس سے گزر کر سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

شیزہ کے جانے کے بعد فاخر صاحب کا چہرہ کچھ مطمئن سا ہوا اور وہ لمبی گہری سانس بھرنے کے بعد  باہر کے انتظامات کو دیکھنے چلے گئے۔۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖

کہاں گئے تھے صالم؟؟؟

نورین بی بی جو اسی کا انتظار کررہی تھی اسے آتا دیکھ کر بولی۔۔۔۔

امی وہ بس ایک دوست کی کال آگئی تھی اس کے۔۔۔۔

خیر کیا ہوا سب خیریت؟؟؟؟

صالم نورین بی بی کے گالوں کو چھوتے ہوئے بولا۔۔۔

سب خیریت ہے میرے بچے۔۔۔

بس آج تمہارے بابا کی بہت یاد آرہی ہے۔۔۔

کاش وہ آج زندہ ہوتے تو تمہیں یوں دلہے کے روپ میں دیکھ کر پورے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیتے۔۔۔۔

نورین بی بی آبدیدہ سی ہوگئی اور پھر صالم نے انہیں اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔۔

امی جان کیوں افسردہ ہورہی ہیں۔۔۔

ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ رافع اچھلتا کودتا دونوں کو یوں گلے لگے دیکھ کر ساتھ ہی چپک گیا ۔۔

واہ جی واہ میرے بغیر دونوں ماں بیٹا خود ایک دوسرے پر محبت نچھاور کرتے ہیں۔۔۔

مجھے تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔۔۔۔

منہ پھلائے وہ اپنا سر نورین بی بی کے کندھوں پر ٹکائے بولا۔۔۔

(رافع اور صالم نورین بی بی اور سفدر صاحب کے دو صاجزادے تھے۔ سفدر صاحب  ہارٹ اٹیک کے سبب تب چل بسے جب صالم صرف بارہ سال کا تھا اور رافع محض چھ سال کا)

ارے میرے بچے تم سے بھی بہت محبت ہے مجھے۔۔۔

نورین بی بی اس کے بالوں کو چھوتے بولی۔۔۔

اچھا تو میری شادی بھی میری پسند سے کرنا جیسے آپ صالم بھائی کی کروارہی ہیں۔۔۔

وہ چلبلاہت بھرے انداز سے معصومیت سے بولا۔۔۔۔

ہٹ بد تمیز۔۔۔

دونوں ہی اس کی بات سن کر قہقہ لگا بیٹھے۔۔۔۔

اچھا امی کب تک نکلنا ہے؟؟؟۔۔۔ صالم نورین  بی بی کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔

بڑی جلدی ہے؟؟؟ رافع شیطانی لہجوں اور نظروں سے دیکھتے بولا جس پر صالم کے چہرے پر شرماہٹ نما مسکراہٹ ابھر آئی۔۔۔۔

امی اس کو بھیجیں یہاں سے پہلے۔۔۔ صالم نے اسے وہاں سے بھگا دیا۔۔۔

رافع۔۔۔۔۔ نورین بی بی زور دیتے بولی۔۔۔

اچھا اچھا جاتا ہوں بھئی مجھے بھی تیار ہونا ہے ۔۔۔۔ رافع وہاں سے نورین بی بی کی آواز پر چلتا بنا۔۔۔۔

اچھا تو بس مہمانوں کا انتظار پھر نکل پڑتے۔۔۔نورین بی بی مسکرا کر بولی۔۔۔

اچھا تو میں کمرے میں ہوں جب نکلنا ہو آپ بلا لینا مجھے۔۔۔ صالم کہتے ساتھ ہی وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

شیزہ جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر کی جانب بڑھی تو ایک سوگوار سا ماحول خود کیلئے کھڑا پایا۔۔۔

تانیہ بیگم شیزہ کے بیڈ پر بیٹھی مسلسل اپنی قسمت پر رو رہی تھی۔۔۔

جبکہ پاس کھڑی شیزہ کی دونوں بہنیں حنا اور امبر اپنی والدہ کو تسلی دینے میں مصروف تھی۔۔۔

(حنا امبر شیزہ اور یوسف تانیہ بیگم اور فاخر صاحب کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ حنا اور امبر دونوں جڑواں بہنیں ہیں جبکہ شیزہ سب سے بڑی اور یوسف امبر سے چھوٹا بھائی ہے)

کمرے کے دروازے پر کسی کو کھڑا محسوس کیا تو حنا نے دروازے کی جانب دیکھا۔۔۔

امی دیکھیں شیزہ آپی آگئی ہے۔۔۔

حنا پرجوش چونکا دینے والی آواز سے بولی۔۔۔

کہ تانیہ بیگم اور امبر اس کی آواز پر سن ہوگئیں۔۔۔

جبکہ وہ خود تیزی سے مسکراتی ہوئی سامنے بت بنی کھڑی شیزہ کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

جو اس وقت ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کے مانند اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھائے کھڑی تھی۔۔۔

کہاں گئی تھی ہاں؟؟؟

حنا اس کی بازو کو تھامتے بولی۔۔۔

پتہ ہے امی کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔

اور ابو۔۔۔

ان کا تو پوچھو ہی مت وہ تو بس تمہیں قتل کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔۔۔

جبکہ ہم نے ابھی تک تو یوسف بھائی کو خبر بھی نہ ہونے دی کہ تم بھاگ گئی ہو۔۔۔

حنا بناء سوچے سمجھے مسلسل بولے جارہی تھی۔۔

جبکہ شیزہ کی آنکھیں اس وقت تانیہ بیگم کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی جس میں اب اپنی بیٹی کیلئے کسی بھی قسم کی محبت کا عنصر باقی نہ تھا۔۔۔

شیزہ حنا کی بات کا جواب دیے بناء تانیہ بیگم کی جانب بڑھی۔۔

جو ابھی بھی بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔

جبکہ امبر شیزہ کی کی جانے والی اس حرکت  پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کمرے سے چلتی بنی اور جاتے جاتے حنا کا ہاتھ بھی تھامے اپنے ساتھ لے گئی۔۔

شیزہ اب تانیہ بیگم کے سامنے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔

اور اپنا سر تانیہ بیگم کی گود میں رکھ دیا۔۔۔

تانیہ بیگم نے اس پر کوئی تاثر ظاہر نہ کیا۔۔۔

امی۔۔۔۔۔

شیزہ کی آواز لڑکھڑا سی گئی۔۔۔

مجھے محبت راس نہیں آئی۔۔۔۔

شیزہ کی آنکھیں اب بھر گئی اور وہ فیروز کی جانب سے ٹھکرائے جانے کے غم کو سوچ کر بولی۔۔۔

سوچا تھا۔۔۔

بھاگ جاؤں گی۔۔۔

اس انسان سے ہی شادی کرونگی جس کو میں نے پسند کیا خود کیلئے۔۔۔

جسے میں نے محبت کی ۔۔۔۔

ہر شے سے بڑھ کر چاہا۔۔۔

لیکن میں یہ بھول گئی تھی۔۔۔

جب میں اپنے چاہنے والوں کی محبت کو ٹھکرا کر بھاگ سکتی ہوں۔۔۔

تو وہ غیر انسان کیسے مجھے اپنی محبت کی پناہ گاہ میں لے سکتا ہے۔۔۔۔

شیزہ کی بات سن کر تانیہ بیگم اس کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔

شیزہ نے اپنا سر تانیہ بیگم کی گود سے اٹھایا اور اب ان کے چہرے کو دیکھنے لگ گئی۔۔۔

امی۔۔۔۔

مجھے مہندی کیلئے کب لے کر جائیں گے باہر۔۔۔

شیزہ کے چہرے پر ابھرتا درد اور کرب تانیہ بیگم کی ممتا کو جھنجھوڑ سا گیا۔۔۔

تانیہ بیگم شیزہ کو خود سے لگائے رو پڑی۔۔۔

امی مجھے معاف کردیں۔۔۔۔

میں بہت بڑی بھول کرنے جارہی تھی۔۔۔

اتنی بڑی کے شاید خود کیلئے دوزخ تیار کر لیا تھا میں نے۔۔۔۔

شیزہ تانیہ بیگم کے ساتھ لگی مسلسل رو رہی تھی۔۔۔

بس کر شیزہ۔۔۔

خدا کبھی بھی اپنے بندے کے ساتھ برا نہیں کرتا۔۔۔

ایک بندہ ہی ہے جو اس کی کرنی کو سمجھ نہیں پاتا اور پھر نصیب کو کوستا ہے۔۔۔۔

تانیہ بیگم اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے بولی۔۔۔

چلوں اب خود کو سنواروں۔۔۔

لڑکے والوں نے مہندی بھی لے کر آنی ہے۔۔۔۔

میں حنا اور امبر کو بھیجتی ہوں اندر وہ تمہارا میک اپ سیٹ کردیں گی۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔

تانیہ بیگم نے اسے بیڈ پر بیٹھایا اور پیار سے حوصلہ دیتے ہوئے ٹھوڑی کو چھوا اور کہنے کے بعد وہاں سے چلی گئی۔۔۔

شیزہ وہیں بیٹھی اپنی ماں کی فراخ دلی پر بمشکل مسکرا سی گئی۔۔

یہی تو فرق رکھا ہے اللّٰہ نے انسانوں اور ماؤں کی محبت میں۔۔۔

شیزہ دل ہی دل میں سوچتے بولی۔۔۔

اور پھر خود اٹھ کر شیشے کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔

⁦⁦💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

تانیہ بیگم شیزہ کو حوصلہ دینے کے بعد باہر نکلی تو سامنے فاخر صاحب کو کھڑا پایا جو اپنے اندر کا لاوا اندر ہی اندر تھامے کھڑے گھٹ رہے تھے۔۔۔

باہر آتی تانیہ بیگم کو دیکھ کر وہ عنقریب پھٹ سے گئے۔۔۔

پوچھا نہیں تم نے اپنی بیٹی سے کہ کس یار کے ساتھ بھاگ رہی تھی؟؟؟؟

اور اب واپس کیوں آئی ہے؟؟؟

مزید بڑی بدنامی کا سبب بننا چاہتی ہے کیا وہ؟؟؟

سخت لہجے اور سرخ آنکھوں سے تانیہ بیگم کو گھورتے بولے۔۔۔

تانیہ بیگم تو فاخر صاحب کا غصہ دیکھ کر سہم سی گئی۔۔۔

کیونکہ ان کی باتیں زہر آلود تھی جو تانیہ بی بی کو مار دی تھی۔۔۔

و۔۔۔وہ۔۔۔

کیا وہ وہ؟؟؟

اگر نہیں پوچھا تو پیچھے ہو میں پوچھ لونگا۔۔۔۔

فاخر صاحب غصے کو ہاتھ سے نکالتے ہوئے تانیہ بیگم کو پیچھے کرتے کمرے کی جانب بڑھنے لگے۔۔۔

رکیے کھوکھر صاحب۔۔۔

بس کریں اب ۔۔۔

شکر منائیں آپ کی عزت گھر کو لوٹی۔۔۔

ورنہ سوچیں ہم کہاں سے لاتے اسے اور کیا جواب دیتے سب کو؟؟؟؟

پوری برادری میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے ہم۔۔۔۔

تانیہ بیگم معاملے کو ٹھنڈا کرتے بولی۔۔۔

تم ابھی بھی اس کو شے دے رہی ہو تانیہ بیگم۔۔۔۔

فاخر صاحب تانیہ بیگم کی جانب مڑ کر انگاری نظروں سے دیکھتے  بولے۔۔۔

نہیں کھوکھر صاحب۔۔۔

ایسا کچھ نہیں۔۔۔

بس اب جو ہوا بھول جائیں۔۔۔

ویسے بھی کل بارات ہے پھر یہ اپنے گھر کو ہو جائے گی۔۔۔

ہمیں بس ابھی اپنی دوسری بیٹیوں کا سوچنا ہے جو ابھی دہلیز پر ہیں ہماری۔۔

گھر میں اس وقت کئی مہمان ہیں اگر اس کے جانے کی خبر کسی کے بھی کان میں  پہنچی تو نہ جانے کیا قیامت برپا ہوگی ؟؟؟

بس اب اپنی بیٹی کو سمجھا دو۔۔۔۔

کل بناء کسی  تماشے کے رخصت ہو جائے ورنہ میں اسے بھی مار دونگا اور خود بھی مر جاؤں گا۔۔۔ فاخر صاحب انگلی کے اشارے سے تانیہ بیگم کو  تنبیہ کرتے بولے۔۔۔۔

تانیہ بیگم کی باتوں نے کھوکھر صاحب کو روک ڈالا تھا اور وہ اب وہاں سے پیر پٹختے ہوئے چلتے بنے۔۔۔

تانیہ بیگم نے حنا اور امبر کو شیزہ کے کمرے میں بھیج دیا ۔۔۔۔

اور پھر کچھ ہی دیر میں مہندی کے پروگرام کا بخوبی آغاز کیا گیا۔۔۔

فنگشن اپنے عروج پر تھا۔۔۔

ہر کوئی مہندی کو اپنے طریقے سے انجوائے کررہا تھا۔۔۔

لیکن شیزہ مہندی کے جھولے پر بیٹھی اپنی محبت کے ٹھکرائے جانے کا سوگ بھول نہ پا رہی تھی۔۔۔

تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھیں نم ہو جاتی اور وہ خود کو رونے سے روکنے کی کوشش کرتی نظر آتی۔۔۔

 ہر کوئی آتا جاتا اس کی بالائیں لے رہا تھا۔۔۔۔

لڑکے والے ڈھول کی تھاپ پر مہندی لے کر آئے۔۔۔

اور بڑے بزرگوں نے مہندی کا استقبال بہت ہی خوبصورت طریقے سے کیا۔۔۔

صالم کو لا کر شیزہ کے ساتھ بیٹھا دیا گیا۔۔۔

اور مہندی کی رسم کا آغاز ہوا۔۔۔

ہر کوئی آتا چھوٹی سی شرارت کبھی شیزہ کے ساتھ کرتا تو کبھی صالم کے ساتھ ۔۔۔

شیزہ بمشکل چہرے پر مسکراہٹ سجائے بیٹھی ماحول کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

جبکہ صالم کی سرخ پڑتی گالیں اس کی خوشی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔۔۔

سب ہی صالم کو چھیڑ رہے تھے کیونکہ اس کی مسکراہٹ اور دانت بند ہی نہ ہورہے تھے۔۔۔

وہ مسلسل شیزہ کو جھکی نظروں سے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔۔۔

جب جب موقع ملتا وہ شیزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا اور ایسے ظاہر کرتا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔

جبکہ شیزہ اس کے ہاتھ تھامنے پر ہر بار چونک جاتی لیکن کچھ نہ کر پاتی۔۔۔

کیونکہ سب کی نظروں کا محور بس یہی دونوں تھے۔۔۔

مہندی کی رسم کے بعد سب واپس جانے کو تیار تھے۔۔۔

صالم کو ایک موقع ملا۔۔۔

وہ فورا شیزہ کے کان کے قریب آیا کہ شیزہ اب اس کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔

سچ میں بہت ہی خوبصورت ملاقات تھی آج کی اور اس سے بھی خوبصورت تم۔۔۔

انتظار کرنا میرا۔۔۔

کل آونگا لینے تمہیں۔۔۔۔

خوبصورت مسکراہٹ سجائے وہ اسے دیکھتے بولاجبکہ شیزہ نے کوئی رسپانس نہ دیا۔۔۔

صالم کہنے کے بعد ہاتھ پکڑاتا ہوا وہاں سے  چلا گیا جبکہ باقی بھی تانیہ بیگم اور کھوکھر صاحب سے مل کر رخصت ہورہے تھے۔۔۔

ان کے جانے کے بعد شیزہ کو واپس اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا۔۔۔۔

شیزہ اپنے کمرے میں گئی تو کمرے کو اندر سے لاک لگایا اور پھر  اپنے اوپر موجود پھولوں کو  نوچ نوچ کر پھینکنے لگی۔۔۔۔

جب کچھ نہ رہا تو بیڈ پر بازو لٹکائے وہ اپنی محبت کے جنازے پر نوح و کناں کرنے لگی۔۔۔

آج رات اس کے ماتم کی آخری رات  تھی کیوں کہ کل صبح اس کی زندگی اس کیلیے ایک نئی امید کی نوید لارہی تھی۔۔۔۔

پوری رات یونہی آنکھوں اور آنسوں میں کاٹنے کے بعد عین فجر کے وقت شیزہ پر نیند طاری ہوئی اور پھر وہ اسی انداز میں سو گئی۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

چلوں لڑکیوں جلدی جلدی تیار ہو ہم نے بارات سے پہلے پہنچنا ہے ہوٹل میں۔۔۔۔

ہم ہی نہیں ہونگے تو استقبال کون کرے گا۔۔۔۔

تانیہ بیگم ناشتے کے بعد سے پورے گھر میں اعلان کررہی تھی۔۔۔۔

امی میری بات سن لےلیں آپ اگر کسی نے بھی لیٹ کیا نہ میں نے واپس اسے لینے نہیں آنا بتا رہا ہوں میں۔۔۔۔

یوسف جو اپنے کمرے سے تانیہ بیگم کی آواز سن کر باہر آیا تھا بولا۔۔۔

سن لیا سب نے۔۔۔۔

بھائی نے کیا کہا۔۔۔۔

تو چلوں اب تیار ہو جا کر۔۔۔۔

امبر اور حنا جو دیگر کزنوں کے ساتھ واپس ڈھولک پر بیٹھی تھی منہ بسورے وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

اب تم کہاں جارہے ہو ؟؟؟؟

تانیہ بیگم نے یوسف کو یوں جاتے دیکھا تو ٹوکا۔۔۔

امی میں اکلوتا بھائی ہوں سب کی نظریں مجھ پر ہونگی۔۔۔تو میں پارلر جارہا ہوں بس آدھے گھنٹے میں آتا ہوں وآپس۔۔۔۔

موبائل پر نظریں جمائے وہ بولتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

لیکن تمہارے ابّا۔۔۔۔۔

امی آپ سنبھال لینا انہیں میں آتا ہوں بس۔۔۔۔

یوسف پوری بات سنے بناء تیزی سے وہاں سے نکل گیا جبکہ تانیہ بیگم کی بات نامکمل منہ میں ہی رہ گئی۔۔۔۔

اففف حد ہے مجھے آگے کردیتےتھے سب کھوکھر صاحب کے۔۔۔۔

اب ذرا میں شیزہ کو بھی دیکھوں پارلر جانا اس نے بھی۔۔۔

خود سے باتیں کرتی وہ شیزہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔⁦

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

شیشے کے سامنے کھڑی شیزہ گیلے بالوں میں سے نکلتی پانی کی ننھی ننھی بوندوں کو اپنی خالی ہتھیلیوں میں بھر رہی تھی۔۔۔۔

جو کہ اس کی ہتھیلی پر ٹہرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔

آآآآآآآآآآآآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔

شیزہ چلائی اور اپنا ہاتھ سامنے شیشے پر دے مارا۔۔۔۔

اور زور زور سے چلا کر رونے لگ گئی۔۔۔۔

کیوں کیا ایسا؟؟؟؟؟؟

کیوں؟؟؟؟؟؟

کرب بھری آواز سے زمین پر بیٹھتے بولی۔۔۔

میری محبت میری خواہشیں۔۔۔۔

میرے خواب سب کا قتل کردیا فیروز تم نے۔۔۔۔۔

لیکن نہیں۔۔۔۔

اس میں فیروز کا کیا قصور۔۔۔۔۔

قصور تو اس صالم کا ہے۔۔۔۔

ہاں۔۔۔۔۔ وہ دیوانگی سے سر حامی میں ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔

ہاں صالم کا ہے۔۔۔

وہ نہ آتا۔۔۔۔

تو آج فیروز اپنے والدین کو منا لیتا۔۔۔۔

میں اس کے نام کی دلہن بنتی۔۔۔۔

اپنے بکھرے بالوں کو وہ سمیٹتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

اب شیزہ کے تاثرات یکسر بدل چکے تھے۔۔۔

اپنی محبت پر ماتم کرنے والی اب انتقامی جذبے کے ساتھ خود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

بہت شوق ہے ناں مجھ سے شادی کا آپکو صالم صاحب۔۔۔۔

اب بتاتی ہوں میں آپ کو۔۔۔

یہ شادی کسی عذاب سے کم نہ ہوگی آپ کیلئے۔۔۔

ہر دن ایک نیا عذاب مسلط کرونگی میں آپ پر۔۔۔

کہ خود مجھ سے علیحدگی کا سوچیں گے۔۔۔۔

اب دیکھیے کیا کرتی ہوں میں۔۔۔۔

شیزہ شیشے میں دیکھتے اپنے آنسوں پونچھتے آنکھوں میں ایک نئی آگ جلائے بولی۔۔۔

ایسی آگ جو اس نے خود ہی اپنی سوچ میں جلائی تھی اور شاید خود ہی اس میں جل جانے کو تیار تھی۔۔۔

⁦💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

شیزہ بیٹا۔۔۔۔۔

شیزہ۔۔۔۔۔

تانیہ بیگم شیزہ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے بولی۔۔۔۔

کافی دیر سے کھٹکھٹانے کے باوجود جب کوئی جواب نہ پایا تو ان کے رنگ فق ہوگئے۔۔۔

یا میرے اللّٰہ کہیں یہ لڑکی بھاگ ؟؟؟؟

ابھی وہ مزید کچھ سوچتی ۔۔۔۔

شیزہ ہاتھ میں اپنا مکمل سامان سمیٹے دروازہ کھولے خالی آنکھوں سے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔

چلیں امی میں تیارہ ہوں۔۔۔۔

شیزہ سپاٹ چہرے سے  ہاتھ میں سارا سامانِ تھامے بولی۔۔۔

اللّٰہ میری تو جان ہی نکل گئی تھی ۔۔۔۔

کہاں تھی؟؟؟

کب سے دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی۔۔۔۔۔

شیزہ بناء جواب دیے بس کھڑی رہی ۔۔۔

خیر چھوڑو چلوں میرے ساتھ تمہارے اپاؤٹمنٹ کا وقت ہو رہا ہے ۔۔۔۔

کہتے ساتھ ہی تانیہ بیگم آگے کو چل پڑی۔۔۔

جبکہ بے جان قدموں کے ساتھ چلتی شیزہ ان کے پیچھے چل پڑی۔۔۔

💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖

صالم ۔۔۔۔۔

صالم بیٹا۔۔۔۔

نورین بی بی پستہ رنگ کے ہلکے لباس میں ملبوس افراتفری کی نوعیت لیے صالم کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔

صالم مہرون رنگ کی شیروانی جس پر سفید اور کالے رنگ کے دھاگوں اور موتیوں کا کام نہایت ہی نفاست سے ہوا ہوا تھا۔۔۔

سر پر کالے رنگ کا کلہ جس پر بھی جگہ جگہ نہایت ہی خوبصورتی سے کام اپنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ سر پر سجائے صالم خود کو شیشے میں چمکتے چہرے سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

ماشاء اللّٰہ۔۔۔

ماشاء اللّٰہ۔۔۔۔

نورین بی بی جو صالم کو دیکھنے ہی اندر کو آئی تھی۔۔۔

اسے ہوں سجا سنورا دلہے کے روپ میں دیکھ کر آنکھ نم سے بولی۔۔۔

بتائے پھر کیسا لگ رہا ہے آپکا دلہا بیٹا؟؟؟؟

صالم نورین بی بی کی جانب دیکھتے ہوئے شان سے بولا۔۔۔

بہت ہی حسین۔۔۔

میرے بیٹے کو کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے۔۔۔

نورین بی بی نے اپنی نم آنکھ سے کاجل کا ٹیکا انگلی پر سجایا اور آگے بڑھ کر صالم کے کان کے پیچھے لگا دیا۔۔۔

صالم بھی مسکرا کر نورین بی بی کے گلے لگ گیا۔۔۔

یونہی خوش رہو آباد رہو۔۔۔

بہت خواہش تھی تمہیں یوں دیکھنے کی۔۔۔

اور اللّٰہ پاک نے کتنی خوبصورتی سے اس خواہش کو پورا کردیا۔۔۔

نورین بی نے صالم کا چہرہ اپنے ہاتھ میں بھرا اور پھر اپنے لب اس کے ماتھے پر ٹکا دیے۔۔۔

صالم بس سامنے کھڑا انہیں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔۔۔

چلے چلے گاڑی تیار کھڑی ہے نیچے بھئی۔۔۔

رافع دھرم کرتا اندر کی جانب بڑھا اور ماں بیٹے کی محبت کو دیکھ کر بولا۔۔۔

ہاں ہاں چلوں چلوں۔۔۔

چلوں صالم۔۔۔

دیر نہیں ہونی چاہیے بیٹا۔۔۔

نورین بی بی نے بھی رافع کی ہاں میں ہاں ملائی اور صالم کو لیے سب ہی بارات کیلئے روانہ ہوگئے۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

سرخ رنگ کے اوپر سے لے کر نیچے تک نگینے اور کٹ ورک کے کام سے بھرے جوڑے میں ملبوس شیزہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔

نین نقش اور رنگت کے حساب سے وہ عام طور پر ہی کسی پری سے کم نہ تھی۔۔

تو آج تو اس پر دلہن کا روپ یوں آیا تھا کہ پارلر میں موجود ہر فرد اس کے حسن کا گرویدہ تھا۔۔۔

شیزہ جو ابھی ایک منصوبہ بندی کے تحت بیٹھی تھی برمخلف اس پر دلہن کا روپ چہک رہا تھا۔۔۔

ماشاء اللّٰہ۔۔۔

آپی میں نے آج بہت سی دلہنیں تیار کی ہے لیکن آپ پر الگ ہی روپ آیا ہے۔۔۔

بری نظر سے بچائے اللّٰہ آپکو۔۔۔

اور آج تو دلہے میاں کی خیر نہیں ہونی۔۔۔

بیوٹیشن جو اس کو شیشے میں دیکھ رہی تھی اور ساتھ اس کا ڈوپٹہ سیٹ کررہی تھی ہنستے ہوئے بولی۔۔۔

شیزہ نے بس بناوٹی مسکراہٹ سے مسکرانا مناسب سمجھا۔۔۔

صیحح کہا۔۔۔

سچ میں خیر نہیں۔۔۔

چہرے پر ہلکی سی زخمی مسکراہٹ سجائے وہ دل ہی دل میں سوچتے  بولی ۔۔

آپ دیکھے شاید مجھے کوئی  لینے آیا ہے کہ نہیں؟؟؟

شیزہ نے چوڑیوں کو ہاتھ میں پروتے ہوئے کہا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یوسف اور فاخر صاحب شیزہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔

تانیہ بیگم امبر اور حنا کے ساتھ شیزہ کے پیچھے کھڑی تھیں جب نکاح خواں سامنے بیٹھے نکاح کے کاغذات کو دیکھ رہے تھے۔۔۔

جی بیٹی میں اب آپکا نکاح پڑھانے لگا ہو۔۔۔

میری بولے جانے والے ہر حرف کے گواہ یہاں موجود سبھی لوگ ہونگے۔۔۔

جبکہ نا صرف یہ لوگ بلکہ سب کا مالک اور پروردگار بھی اس بات کا گواہ ہوگا کہ آپ کا نکاح اس موصوف کے ساتھ پڑھایا جارہا ہے۔۔۔

لہذا میرے ہر حرف پر بیٹی توجہ اور غور کرنی ہے۔۔۔

نکاح خواں نے شیزہ کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب اس مضبوط رشتے میں بندھنے جارہی ہے جس کی بنیاد خود اللّٰہ پاک نے رکھی تھی۔۔۔

جی تو بیٹی۔۔۔

شیزہ فاخر ولد فاخر ملک آپکا نکاح صالم فہد ولد فہد اکبر کے ساتھ سکہ رائج الوقت ایک کڑور اور دس تولے سونا حق مہر کے تحت پڑھایا جاتا ہے کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے؟؟؟

شیزہ جو نیٹ کے گولڈن رنگ کے گھونگھٹ میں نظریں گرائے آنکھوں میں کئی ہزار ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں سمیٹے بیٹھی تھی۔۔۔

مٹھی کو خوف اور کچھ دور ہوجانے کے ڈر سے بیھنچ کر کانپ اٹھی۔۔۔

فاخر صاحب اور نکاح خواں سمیت سب کی نظریں شیزہ کی جانب دھنسی ہوئی تھی۔۔۔

سب ہی اس کے جواب کے منتظر اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہے تھے۔۔۔

جس کا وجود کسی ایسے شخص کے نکاح میں آنے پر کانپ رہا تھا جسے وہ قطعاً ناپسند کرتی تھی۔۔۔

یاللہ کہیں یہ لڑکی انکار ہی نہ کردے۔۔۔

کیا ہوگا کس کس کو جواب دے گے ہم؟؟؟

کیا عزت رہے گی برادری میں ہماری؟؟؟

تانیہ بیگم شیزہ کی خاموشی پر کئی سوچوں کو سوچ سوچ پگلا سی گئی۔۔

شیزہ۔۔۔۔

مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں جواب دوں….

فاخر صاحب نے شیزہ کے ہاتھ کو تھاما جو اس وقت اس قدر ٹھنڈے پڑ چکے تھے کہ فاخر صاحب بھی اس کی کیفیت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔۔۔

ج۔۔۔۔ج۔۔۔۔جی مجھے قبول ہے۔۔۔۔ فاخر صاحب کے ہاتھ کو محسوس کیا تو بے اختیار زبان سے نکل پڑا۔۔۔

شیزہ کی آواز کی لڑکھڑاہٹ اور سرسراہٹ پورے کمرے میں گونجی۔۔۔

جسے سن کر تانیہ بیگم کے چہرے کے اڑتے رنگ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور کھل اٹھے۔۔۔

نکاح خواں نے شیزہ کی حامی سنی تو دوبارہ یہی سوال دھرایا۔۔۔

اب کی بات شیزہ نے بناء کسی ہچکچاہٹ کے دونوں بار حامی بھری۔۔۔

اور پھر کاغذات شیزہ کے ہاتھ میں تھما دیے گئے ۔۔۔۔

فاخر صاحب نے پین شیزہ کے ہاتھ تھمایا۔۔۔

کانپتے ہاتھوں سے یوں شیزہ نے اپنی قسمت کی لکیریں صالم کے ساتھ جوڑنے کا عندیہ دے دیا۔۔۔

نکاح کے بعد سب موجود افراد نے دعا کی اور اب نکاح نامہ ساتھ لیے فاخر صاحب نکاح خواں سمیت صالم کے پاس چلے گئے تاکہ نکاح مکمل کروایا جا سکے۔۔۔

سب کے جانے کے بعد تانیہ بیگم نے شیزہ کو خود سے لگایا اور اس کے مستقبل کیلئے دعا کرنے لگی۔۔۔

اللّٰہ پاک میری بیٹی کو ہر خوشی عطا کرے۔۔۔

کبھی کوئی غم نہ دے ۔۔

آنکھوں میں آنسوں لیے وہ اس کیلئے دعا گو ہوئی۔۔۔

جبکہ اس دعا پر آمین کہنے کی بجائے شیزہ کچھ اور سوچ رہی تھی۔۔۔

امی بس دعا کرے آپکی بیٹی اس شخص کی زندگی کو اس طرح اجیرن کردے کہ وہ اس شادی کو کسی سزا سے کم نہ سمجھے۔۔۔

اتنی ہمت دے مجھے کہ میں اس کی محبت کے قلعے کو قلہ قمہ کر سکون۔۔

میری محبت کی قبر پر جو محل تعمیر کرنے کا سوچ رہا وہ محل نہ میری روح سے اور نہ ہی میرے وجود سے کبھی آباد ہوگا۔۔۔۔

اندر ہی اندر خود سے کئی عہد لیتی شیزہ ماں کی دعاؤں کا رخ بدلنے کیلئے دعا گو تھی۔۔۔

لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور جو قسمت میں لکھا ہوا اس کو اکثر دعائیں بھی بدل نہیں پاتی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️

کئی رسموں اور اٹکلیوں کے بعد بلآخر رخصتی کا وقت قریب آ ہی گیا۔۔۔

صالم اور رافع نورین بی بی کے ساتھ کھڑے شیزہ کو سب سے ملتے دیکھ رہے تھے ۔۔

یہ وقت ہر لڑکی کیلئے کسی آزمائش سے کم نہ ہوتا ہے جب ایک جگہ جہاں اس نے اپنا پورا بچپن اور جوانی گزاری سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں اور دنیا قائم کرنے کو بھیجا جائے۔۔۔

امبر اور حنا۔یوسف ایک ایک کر کے شیزہ سے آگے ہو کر ملنے لگے۔۔۔

آنکھوں میں نمی لیے وہ بھی ڈوبے دل سے سب سے بغل گیر ہوئی۔۔۔

فاخر صاحب آگے کو بڑھے اور پھر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔

اپنے باپ کو کبھی غلط مت سمجھنا شیزہ۔۔۔

میں کبھی تمہارے مستقبل کیلئے غلط نہیں سوچ سکتا۔۔۔

اتنا اعتبار تو ہے ناں اپنے باپ پر۔۔۔

فاخر صاحب کی آنکھیں بھی ان کی محبت کی زبان کا منہ بولتا ثبوت تھی۔۔۔

شیزہ جو سب کے ملنے پر ضبط کیے بیٹھی تھی۔۔۔

فاخر صاحب کی بات سن کر رو پڑی۔۔۔

نہیں پاپا ۔۔

آپ سب سے اچھے ہو۔۔۔

شاید میں ہی بیٹی اچھی ثابت نہیں ہوئی۔۔۔

مجھے معاف کردے میں نے بہت دل دکھایا آپ کا ۔۔

وہ ایک ننھی بچی کی مانند باپ کے سینے لگی اپنا درد بیاں کررہی تھی۔۔۔

نہیں میری بیٹی تو سب سے اچھی ہے سب سے پیاری۔۔۔

فاخر صاحب اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامے فرط جذبات پر قابو رکھتے بولے ۔۔

تانیہ بیگم بھی پاس کھڑی آبدیدہ سی تھی آگے کو بڑھی اور پھر فاخر صاحب سے الگ کرتے اسے خود سے لگایا ۔۔۔۔

صدا سہاگن رہو خوش رہو ۔۔۔۔

فاخر صاحب نے شیزہ کا ہاتھ تھاما صالم اور نورین بی بی بھی ساتھ ہی کھڑے سب دیکھ رہے تھے۔۔۔

یوسف نے قرآن مجید ہاتھ میں اونچا کیا اور پھر بہن کو قرآن مجید کے پاک اور بابرکت سائے تلے گھر کی دہلیز سے رخصت کیا ۔۔

صالم گاڑی کی اگلی نشست پر براجمان ہوا جبکہ گاڑی کا اسٹیرنگ رافع نے سنبھالا۔۔۔

بہت ہی احتیاط اور محبت سے شیزہ کو نورین بی بی نے تانیہ بیگم کے ساتھ مل کر گاڑی میں بیٹھایا۔۔۔

اور پھر سب سے رخصت لیتے ہوئے گاڑی میں سوار ہوگئی۔۔۔

 اور یوں شیزہ صالم کے نام لکھ دی گئی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم ہاتھ میں کلہ تھامے حسین رومانوی مسکراہٹ چہری پر لب و زیب کیے دروازہ کھولے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔

سب سے پہلی نظر سامنے بیٹھی اس حور نما وجود پر پڑی جو اب صرف اس کی تھی۔۔

سرخ رنگ کے جوڑے میں ملبوس ہلکا سا گھونگھٹ چہرے پر ٹکائے وہ دونوں ہاتھ اپنی ٹانگوں کی تکون پر رکھے بیٹھی تھی۔۔۔

دروازے کے پاس کھڑے صالم دور سے ہی شیزہ کی خوبصورتی سے سرشاد مسرور تھا۔۔۔

دروازے کی کنڈی چڑھائی اور دھیمے قدموں کے ساتھ بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔

کمرے کی سیج کو سرخ گلاب رنگوں کے پھولوں اور پتیوں سے  سجایا گیا تھا جبکہ میز اور ٹیبل پر وقفہ بر وقفہ خوبصورتی کو بڑھانے کیلئے خوشبودار موبتیوں کا استعمال بخوبی کیا گیا تھا ۔۔۔۔

ایک مکمل رومانوی ماحول ، گلاب کی مسرور کردینے والی خوشبو اور سامنے  اپنی محبت کو بیٹھا دیکھ کر صالم کا دل کیا کہ پوری کائنات شیزہ کے قدموں میں بچھا دے۔۔۔۔

آہستگی سے اپنا کلہ پہلے بیڈ پر رکھا اور پھر خود بھی شیزہ کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔

 السلام وعلیکم!!!!

صالم نے آہستگی سے شیزہ کے گھونگھٹ سے نظر آنے والے سرخ گلابی ہونٹوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

سلام سن کر شیزہ نے آہستگی سے اپنے لب ہلائے۔۔۔

کیسی ہیں آپ؟؟؟

صالم ابھی بھی اسے یونہی دیکھ رہا تھا۔۔۔

ٹھیک۔۔۔

شیزہ نے بے تاثر سا جواب دیا۔۔۔

صالم سامنے بیٹھی اپنی محبت کو دیکھ پہلے ہی دیوانہ ہوا بیٹھا تھا آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے گھونگھٹ کو چاک کرنے کیلئے بڑھایا۔۔۔

کہ تبھی شیزہ نے اپنی جانب بڑھتے صالم کے ہاتھ کو دیکھا تو تھوڑا سا پیچھے کو ہوگئی۔۔۔

صالم کو شیزہ کا یوں کرنا ایک معصوم سی خوبصورت حرکت لگی جس نے اس کے چہرے پر سرخی کے ساتھ ساتھ ایک سنگین گہری مسکراہٹ بھی بکھیر دی۔۔۔

صالم نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ بڑھایا اور اب کی بار شیزہ کی مہندی بھرے ہاتھوں کو چھوا۔۔۔

شیزہ نے صالم کا گرم لمس اپنے ہاتھوں پر محسوس کیا تو فورا اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کھینچ لیے۔۔۔

شیزہ کی جانب سے مذمت صالم کی بے قراری کو ہوا دے رہی تھی۔۔۔

ایک بار پھر  صالم نے ہاتھ بڑھایا اور اب کہ بار شیزہ کے حسین چہرے کو گھونگھٹ کی اوٹ سے آزاد کیا۔۔۔ 

ناجانے کب سے اس لمحے کا انتظار کرتا صالم اب اپنی منزل کو دیکھ کر باغ باغ ہورہا تھا۔۔۔

 انکھیں جھکائے چپ سادھے بیٹھی شیزہ کا حسن صالم پر قیامت ڈھا رہا تھا۔۔۔

صالم کی  محبت کا لاوہ اگلتی  آنکھیں ایک پل کو بھی  جھپک کر لمحے کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

 بہت حسین ہو تم۔۔۔ 

بہت ذیادہ۔۔۔۔ 

صالم نے رکتی سانس کو آزاد کرتے کہا اور پھر تیز دھڑکنوں کی چادر اوڑھتے ہوئے اپنے دل کی بات کو سامنے رکھا ۔۔

آنکھوں سے شیزہ کی جھکی نظروں اور خاموش چہرے کا طواف کرتے  پھر سے واپس اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کی جانب بڑھایا۔۔۔

اب کی بار شیزہ نے ہاتھ پیچھے کرنے کی بجائے صالم کے ہاتھ کو جھٹکا۔۔۔

اور ایک دم لہنگا سنبھالے بیڈ سے اتر کر اس کے سامنے کھڑی سپاٹ چہرے سے دیکھنے لگی۔۔۔

سامنے بیٹھا صالم شیزہ کی جانب سے کی گئی اسی حرکت کو حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔۔۔

 مجھے یہ سب پسند نہیں۔۔۔

 دور رہے مجھ سے آپ۔۔۔ 

اور مت کوشش کرے مجھے چھونے کی۔۔۔

آنکھوں میں نفرت لیے نئی نویلی دلہن سامنے کھڑے صالم کو پل پل حیران کررہی تھی۔۔۔

 مطلب؟؟

میں کچھ سمجھا نہیں؟؟؟

میں تمہارا شوہر ہو اور یہ میرا حق ہے۔۔۔

صالم نے اس استفہامیہ نظروں سے شیزہ کو دیکھا۔۔۔

بس کرے یہ بیوی شوہر کا تعلق۔۔۔ میں نہیں مانتی یہ رشتہ۔۔۔. میرے نزدیک یہ رشتہ کسی بھی اہمیت کے حامل نہیں۔۔۔

 شیزہ تلخ و طرار اور تضیحک آمیز لہجے سے بولتے ہوئے لہنگا سنبھالے صالم کے پاس سے گزری۔۔۔ 

صالم نے جاتی شیزہ کی بازو تھام لی اور اسے اپنے قریب کر لیا۔۔۔

شیزہ ایک جھٹکے سے گرتی سنبھلتی صالم کی بانہوں میں سما سی گئی ۔۔

صالم شیزہ کے قریب اس کی آنکھوں پر اپنے لب جمائے کھڑا اسے استفہامی کیفیت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

 یہ سب کیا مذاق ہے شیزہ؟؟؟ 

تم جانتی ہو آج ہماری رات ہے تو پھر یہ سب؟؟؟ 

وہ ایک بار پھر گو ہوا۔۔۔

 چھوڑے  مجھے۔۔۔شیزہ چلا کر بولی 

چھوڑے۔۔۔

 یہ سب میری مرضی سے نہیں ہوا۔۔۔

 اور  میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔ 

لہذا اپنا حق مجھ پر مسلط نہ ہی کرے تو بہتر۔۔۔ 

شیزہ کا بدلتا لہجہ صالم کو الجھن میں ڈال رہا تھا۔۔۔

میں یہ سب نہیں مانتا۔۔۔

سب جھوٹ ہے۔۔۔

تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔۔

صالم نے ایک بار پھر شیزہ کو خود کے قریب کرتے ہوئے استفہام کیا۔۔۔

شیزہ صالم کی آنکھوں میں لاوا بھری نظروں سے دیکھتے بولی۔۔۔

پاگل ہو کیا۔۔۔

یا جان کر ناسمجھی کا ڈرامہ کررہے ہو۔۔۔

میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔۔۔ 

تو پھر؟؟؟

اگر مجھے پسند نہیں کرتی تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی تو وجہ ہوگی؟؟؟

صالم تذبذلی سے بولا۔۔

جی ٹھیک کہا آپ نے بلکل ٹھیک کہا۔۔

ہے وجہ اور بہت بڑی وجہ ہے۔۔۔

وہ آہستگی سے ہاتھ میں لہنگا تھامے صالم کے گرد چکر لگاتے اس پر ہے در پے انکشاف کررہی تھی۔۔

جبکہ صالم وہی کھڑا سن کیفیت میں مبتلا اس کی باتوں کو سن رہا تھا

 میں کسی اور کو پسند کرتی ہو ۔۔۔۔

شیزہ چلتے چلتے اب اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔۔

بس کچھ دن کی بعد میں آپ سے طلاق لے کر اسی کی ہو جاؤ گی جس کی ہونا چاہتی تھی میں۔۔۔ 

شیزہ بنا کسی لچک کے چہرے پر تزکیہ مسکراہٹ سجائے اسے دیکھتے بولی۔۔۔

 جبکہ سامنے شیروانی میں ملبوس صالم جس نے ناجانے کتنے خواب سجائے تھے ان سب خوابوں کی کرچی کرچی ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔۔

صالم پر سن کر ایک سکتہ طاری ہوگیا۔۔۔

ٹھنڈے پسینے اس کی کنپٹی پر سے گزرتے ہوئے اسے انہونی کا احساس دلا رہی تھی۔۔۔

اس نے کبھی سوچا بھی ناں تھا کہ جس رات کو وہ اپنی سب سے حسین رات تصور کررہا تھا اس کا پل پل اس پر قیامت ڈھا رہی تھی۔۔۔

ایک منٹ شیزہ۔۔۔

اگر یہ مذاق ہے تو ٹھیک ہے میں مان گیا۔۔۔۔

بہت اچھا مذاق کیا اور میں ڈر بھی گیا۔۔۔

اب یہ سب ختم کرو اچھا۔۔۔

میں یہ سب مزید سن نہیں سکتا۔۔۔

وہ اس کے سامنے کھڑا اپنے حواس پر بمشکل قابو کیے مسکراہٹ اور سنجیدگی کے ملے جلے تاثر سے شیزہ کے چہرے کو چھوتے بولا۔۔۔۔۔

تم پاگل ہو۔۔۔۔

شیزہ نے ایک بار پھر  ہاتھ بےدردی سے جھٹک دیا۔۔۔

جب میں کہہ چکی کہ مجھے کسی اور سے محبت ہے تو کیوں میرے سر پر سوار ہو رہے ہو ۔۔

میں اس رشتے کو نہیں مانتی اور اس رشتے کو مجھ پر تھوپنے کی کوشش بھی نہ کرنا۔۔۔ انگلی دکھاتے وہ اسے تنبیہہ کررہی تھی۔۔

بہتر ہے مجھ سے کسی بھی قسم کی خوش فہمی کی امید نہ رکھے۔۔۔

شیزہ  بے کل انداز سے بولی اور سیدھا واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔

جبکہ صالم وہی کھڑا اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کو یوں ماتم کناں ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

گیلے بالوں کو جھاڑتی شیزہ دلہن کے لباس سے چھٹکارا حاصل کیے سادہ لباس میں ملبوس واش روم سے باہر نکلی تو کمرے میں کسی کو بھی نہ پایا۔۔۔

پورے کمرے میں ایک بار نظر دہرانے کے بعد شیزہ سکونت بھری مسکراہٹ لیے شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئئ۔۔۔

شکر ہے نہیں ہے وہ یہاں۔۔۔

ناجانے پھر کتنے سوال کرتا پھرتا مجھ سے۔۔۔

ایک تو زبردستی مجھ پر مسلط کردیا گیا اسے۔۔۔

اور اب یہ محترم اس بات کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کو ان کے حق سے مالا مال کرونگی۔۔۔

ہہہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔

شیزہ اپنی ہی سوچ میں سوچتے مضیحکہ انداز سھث ہنس پڑی۔۔۔

بالوں کو سدھارنے کے بعد چہرے پر مسکان اور دل میں پہلی فتح کا جوش لیے گنگناتے ہوئے سیدھا اچھلتی کودتی بیڈ کی جانب ںڑھی۔۔۔۔

پھولوں کی پتیوں کو بیڈ سے بے دردی سے ہٹایا اور پھر پرسکون نیند کے مزے لینے کے لیے بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

گاڑی کی نشست پر براجمان اسٹرئینگ سنبھالے ہزار وسوسوں اور سوالوں کو دماغ میں لیے وہ تیز رفتاری سے گاڑی کو بھگا دیا تھا۔۔۔

”میں کسی اور کو پسند کرتی ہو۔

بس کچھ دن کی بعد میں آپ سے طلاق لے کر اسی کی ہو جاؤ گی جس کی ہونا چاہتی تھی میں۔۔۔ “

شیزہ کی باتیں صالم کے دل ودماغ میں کسی بھنور کی مانند گھوم رہی تھی۔۔۔

ایک ہاتھ اسٹرئینگ اور ایک ہاتھ اپنے سر پر جمائے وہ گاڑی کو تیز گام بھگا رہا تھا۔۔۔

سیٹ پر پڑے اپنے موبائل کو اٹھایا اور ایک نمبر کو ڈائل کردیا۔۔۔۔

والیم آن کیا اور سامنے اسٹیرنگ پر تھامے گاڑی کو ایک سائیڈ پر لگا دیا۔۔۔

ہیلو۔۔۔۔

صالم!!!!

کیا ہوا سب خیریت؟؟

 اس وقت کال؟؟؟؟

فائز کی آواز   ابھری ہوئی تھی بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس وقت نیند میں بول رہا ہے۔۔۔

فائز کی آواز سنی تو صالم کا ضبط ٹوٹ سا گیا۔۔۔

آنسوں گال پر بہا اور ہچکیاں زبان کا بند ٹوٹتے ہوئے ماحول میں گنگنانے لگی۔۔۔

فائز جو نیند میں تھا صالم کی آواز سن کر قلق سا ہوگیا۔۔۔

کیا ہوا ہے میرے یار؟؟؟

تو۔۔۔تو رو رہا ہے؟؟؟

آج تو تیری شادی۔۔۔۔

فائز بولتے بولتے رکا۔۔۔

اچھا اچھا تو یہ بتا تو ہے کہاں میں آتا ہو ابھی۔۔۔

ابھی آتا ہو میرے یار ۔۔

بس مجھے بتا تو ہے کہاں؟؟؟

 صالم نے فائز کو اپنا پتہ بتایا اور کال بند کردی۔۔۔۔

دوسری جانب فائز بھی بے کل عالم میں چابی تھامے رات کے آدھ پہر اپنے جگری دوست کی پکار پر کھڑا ہوا اور مکہ پڑا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

کتنی دیر یونہی بیٹھا رہے گا سوچوں میں گم۔۔۔

کچھ بتائے گا بھی کہ ہوا کیا ہے؟؟

کیوں اس وقت اپنی نیند حرام کررہا ہے اور ساتھ مجھے بھی بے سکون کیے رکھا ہے۔۔۔

فائز جو آدھے گھنٹے سے صالم کے پاس بیٹھا اسے شیروانی میں بے سود بیٹھا گھور رہا تھا۔۔۔

اب وقت کے انتظار سے تھک ہار کر بولا۔۔۔

صالم نے خالی نظروں سے فائز کی جانب دیکھا بظاہر ایک ایسے شخص کی مانند جو سب کچھ لوٹا چکا ہو اب خالہ بیٹھا اپنی قسمت پر خالی ہاتھ مل رہا ہو۔۔۔

میں سب کچھ ہار گیا فائز۔۔۔۔

میں سب کچھ ہار گیا۔۔۔۔

آنکھوں میں آنسوں کی جھلمل حزن بھرے لہجے سے وہ فائز کی جانب بھرا اور مضبوط بانہوں سے فائز کے گلے لگ گیا۔۔۔

اسے پا کر بھی نہ پا سکا میں یار۔۔۔

میں اسے پا نہ سکا۔۔۔

وہ بچوں کی مانند بلک بلک رو رہا تھا۔۔۔

جبکہ فائز صالم کی حالت دیکھ کر کچھ سمجھ نہ پا رہا تھا۔۔۔۔

صالم نے فائز کے بغل گیر گرفت مزید مضبوط کی جیسے اپنے درد کو ایک زبان دینے کی کوشش کررہا ہو۔۔۔

یار ہوا کیا ہے ؟؟؟؟

کچھ بتائے گا ؟؟؟

کیوں رو رہا ہے یار؟؟؟

میرا دل بیٹھ جائے گا۔۔۔۔

فائز نے صالم کو تھپکی دیتے ہوئے اسے بمشکل حوصلہ دیتے کہا۔۔۔

لیکن صالم مسلسل ایک بلکتے بچے کی مانند رو رہا تھا جیسے اس معصوم بچے سے اس کا سب سے پسندیدہ کھلونا کسی نے بےدردی سے توڑ دیا ہو۔۔۔۔

کیا بتاؤ یار۔۔۔

کیا بتاؤ۔۔۔

کس کس بربادی کی روداد تیرے سامنے سجاؤ۔۔

جس کو چاہا جسے محبت کی اپنا نام دیا۔۔۔

وہ میری تھی ہی نہیں۔۔۔ چہرے پر رنج کے عناصر لیے وہ سر جھٹکتے بولا۔۔۔

نہ تب تھی نہ اب ہے ۔۔

صالم فائز سے الگ ہوا اور ملال سے گاڑی کی بمپر پر اپنا ہاتھ مارا ۔۔۔۔۔

فائز نے صالم کی بات کہ تو اسکا اپنا بھی سر چکرا سا گیا۔۔۔

نہیں یار۔۔۔

تجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔۔۔۔

ایسے کیسے ہوسکتا ہے یار؟؟؟

ایسا ہی ہے۔۔۔۔

ایسا ہی ہے ۔۔۔ غم کی شدت سے نڈھال صالم چلا کر بولا۔۔۔

وہ کسی اور کی محبت کی اسیر نکلی۔۔۔

اور میں بیوقوف اسے اپنی محبت کا مندر سمجھتا رہا۔۔۔

زخمی مسکراہٹ لیے وہ خود کا تصخیر اڑاتے بولا۔۔۔

کیا بھابھی نے خود؟؟؟؟

فائز نے ایک بار پھر تصدیقی انداز سے پوچھا۔۔۔۔

صالم نے حامی میں سر ہلایا۔۔۔

فائز بھی اب صالم کے پاس بیٹھا تذبذب کا شکار تھا۔۔۔

ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کہ سمجھ سے باہر کہ زہر اگلا جائے کہ نگلا جائے۔۔۔

کچھ دیر دونوں ہی خاموش بیٹھے رہے ۔۔

صالم کے آنسوں مسلسل اس کی گال کو تر کیے رکھے تھے۔۔۔

جبکہ فائز کا دماغ بھی سوچنے کی نوعیت کھو چکا تھا ۔۔

اب ؟؟؟؟

فائز نے سوالی نظروں استفہام کرتے خاموشی کا شیشہ توڑا۔۔۔

میں اسے نہیں چھوڑونگا۔۔۔۔

صالم گہری سوچ میں ڈوبے بولا۔۔۔

تو پھر کیسے جیے گا یوں؟؟؟

روز مرے گا روز جیے گا؟؟؟

کیا تو دیکھ سکتا ہے کہ تیری بیوی کسی اور کے عشق کا رونا روئے؟؟؟

فائز اس کی جانب استفسار سے دیکھتے مڑا ۔۔

ہاں دیکھ سکتا ہو۔۔۔

وہ دیوانہ وار سر ہلاتے ہوئے بولا۔۔۔

لیکن جو بھی ہو اسے نہیں چھوڑونگا۔۔۔

میں اسے اپنے نام سے الگ نہیں کرونگا ۔۔

محبت تو اسے مجھ سے کرنے ہی پڑے گی۔۔۔۔

صالم اپنی محبت پر قائم زچ ہوا۔۔۔

نہیں یار۔۔۔۔

یہ غلط ہوگا۔۔۔

تو کسی کے ساتھ یوں زبردستی؟؟؟

محبت یوں نہیں ہوتی یار ۔۔

فائز نے آگے بڑھ کر اسے سمجھانا چاہا۔۔۔

تو کیا کرو؟؟؟۔۔۔۔

تو ہی بتا۔۔۔۔

چھوڑ دو اسے۔۔۔۔

جس کو اتنا چاہا۔۔۔

دن رات خواب دیکھے جس کے۔۔۔

  اسے کسی اور کے حوالے کردو۔۔۔۔

نہیں میں اتنے بڑے ظرف کا مالک نہیں۔۔۔۔

اور اپنی محبت تو کسی اور کو دینے کا قائل نہیں۔۔۔

آنکھوں میں ضد اور سنگینی لیے وہ حتمی فیصلہ کر چکا تھا اور  واپس اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔

فائز وہی کھڑا اسے ضدی بچے کی مانند  جاتے دیکھتا رہا۔۔۔

تو ابھی کچھ سمجھنے کی کیفیت میں نہیں۔۔۔

کل ملتا ہو تجھ سے۔۔۔

شاید تب کچھ سمجھا سکوں ۔۔۔۔

فائز نے جاتے صالم کو دیکھتے کہا۔ جو اس کی بات پر ردی برابر کان دھرے بنا وہاں سے چلا گیا۔۔

صالم گاڑی میں واپس بیٹھا ایک لمبی گہری سانس بھری نم آنکھوں کو صاف کیا جو اب تک رونے کی وجہ سے سرخ اور سوج چکی تھی ۔۔۔۔

گاڑی میں چابی بھری گئیر ڈالا اور بھگا دی۔۔۔

ناجانے کیا کرنے والا ہے یہ اب۔۔۔۔

کس قدر خوش تھا میرا یار۔۔۔

نظر لگ گئی بس اس کی محبت کو۔۔۔۔

فائز صالم کو دیکھ کر اس پر افسوس کرتے بولا اور خود بھی صالم کے جانے کے بعد وہاں سے چلا گیا ۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

رات کے تین بج چکے تھے ۔۔

سڑکوں کر بے ہنگم بے مقصد گاڑی چلانے کے بعد وہ اب گھر کی جانب رواں ہوا۔۔۔

آہستگی سے اجڑی حالت لیے وہ گھر میں داخل ہوا رونق مکاں جو چند گھنٹوں پہلے ایک نئے وجود کی آمد پر چہک رہا تھا۔۔

اب خاموش تھا۔۔۔

سب اپنے اپنے کمرے میں دن بھر کی تھکن آمیز بھاگ دور کے بعد آرام کی غرض سے نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔۔۔

صالم بے سکونی کے عالم میں اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔

آہستگی سے دروازہ کھولا تو کمرے میں مدہم سی نیلی روشنی دکھائی دی۔۔۔۔

داخل ہوتے ہی مسحور کن خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔۔۔

لیکن اب اس کے عصار پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔

چھوٹے ڈھیلے قدموں کے ساتھ وہ سیدھا واش روم کی جانب بڑھا۔۔۔

جہاں وراڈ روب پہلے سے فکس اندر ہی موجود تھی۔۔۔

اندر داخل ہوا تو اپنے سادہ کپڑے لیے فریش ہونے چلا گیا۔۔۔

کچھ دیر بعد ہاتھ میں تولیا تھامے باہر نکلا تو دماغ کو تھوڑا پرسکون پایا۔۔۔

تولیا سامنے موجود کنڈی پر ٹانگا تو سامنے ہی شیزہ کا دلہن لباس نظر آیا جسے دیکھتے ہی ایک بار پھر شیزہ کی ساری کارستان صالم کے دماغ میں گھوم سی گئی۔۔۔

چہرے پر ناگوار سے زاویے بکھرے۔۔۔

تیز قدم بڑھاتا باہر کی جانب بڑھا۔۔۔

وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟؟؟

میں اسے اپنی زندگی کے ساتھ ایسا کھیل کھیلنے کی ہرگز اجازت نہیں دونگا۔۔۔۔

دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ازبر کرتے کمرے میں داخل ہوا اور بیڈ پر سکون سے سوئی ہوئی شیزہ کی جانب بڑھا ۔۔

خود سکون کے مزے لوٹ رہی ہے مجھے بے سکون کرکے۔۔۔

مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ متانت سے بولا۔۔۔

چہرے پر سرخی اور آنکھوں میں آتشی ساماں لیے وہ جیسے ہی شیزہ کی نزدیک پہنچا تو اس کا پرسکون چہرہ دیکھ کر ایک دم ٹھٹک سا گیا۔۔۔

وہ واقعی ہی بہت ہی اطمینان سے آنکھیں موندے دنیا سے بے خبر سو رہی تھی۔۔۔

صالم آہستگی سے بنا مقصد اس کی جانب بڑھا اور پاس براجمان ہوگیا۔۔۔

ٹکٹی باندھے وہ اسے دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر سیاہ بادلوں کی مانند زلف چاند کے چہرے پر پہرہ دیے بیٹھی تھی۔۔۔۔

کیسے اس سے سوال کرو میں؟؟؟

جس کی جھلک ہی میرے وجود پر ایک قبظی کیفیت طاری کردیتی ہے۔۔۔

برجستگی اور دلجوئی سے بولتے صالم کا ہاتھ کب شیزہ کے چہرے کو زلف کی گھٹا سے صاف کرنے کو بڑھا اسے خود خبر نہ ہوئی۔۔۔

کہ اس سے پہلے اس کا ہاتھ شیزہ کے چہرے کو چھوتا۔۔۔

شیزہ کی آنکھ ایک انجانے وجود کے احساس سے کھل گئی۔۔۔

کہ تبھی اپنے سامنے بیٹھے صالم کو جو اسے نشے سے سرشاد دیکھ رہا تھا کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔۔

صالم بھی اس کی کھلی جھیل کی مانند آنکھوں کو دیکھ چکا تھا کہ تبھی اس سے پہلے شیزہ اسے کچھ کہتی صالم نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کر گرفت مضبوط کردی۔۔۔

شیزہ نے اپنے چہرے پر صالم کا ہاتھ کی مضبوطی کو محسوس کرتے ہوئے اپنے ناخنوں کو اس کے ہاتھ میں جست کردیا۔۔۔

لیکن صالم کے چہرے پر متانت برقرار تھی۔۔۔

شیزہ اپنے ساتھ کسی بھی قسم کی زبردستی کیلئے پہلے سے ہی مکمل مذمت کررہی تھی۔۔۔

صالم نے شیزہ کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ خوف کے عنصر کو دیکھا تو اس کے چہرے پر جھکا۔۔۔

ڈرو مت۔۔۔

کچھ نہیں کرونگا تمہارے ساتھ۔۔۔

اگر ایک کمرے اور ایک بیڈ کر سونے کی جسارت رکھتی ہو تو مجھ پر یقین رکھنے کی بھی ہمت کرنا ہوگی۔۔۔

صالم نے کہتے ساتھ اپنے گرفت ہلکی کی اور تیزی سے اس کے قریب سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

شیزہ صالم کے اٹھتے ہی فورا اٹھ بیٹھی۔۔۔

بکھرے بالوں اور اڑتے حواس کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے بولی۔۔۔

آ۔۔۔۔آ۔۔۔آپ صوفے پر سوئے گے۔۔۔

شیزہ نے ڈرتے ڈرتے صالم کی جانب دیکھتے کہا۔۔۔

جو یکسر ایک نئے روپ کے ساتھ اس کے سامنے نمودار ہوا تھا۔۔۔

کیوں؟؟؟

صالم ایک دم رکا اور اس کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔

ٹھیک تو پھر میں سو جاؤ گی صوفے پر۔۔۔

شیزہ تکیہ اٹھائے تیزی سے اٹھی۔۔۔

نہیں تم سو بیڈ پر ہی۔۔۔

میں چلا جاتا ہو صوفے پر۔۔۔

ویسے بھی  زندگی تو حرام کرنے کا مقصد تو تم لے کر آئی ہو۔۔۔

نیند بھی حرام کر لوگی تو زیادہ مضیحکہ خیز عمل نہ ہوگا۔۔۔

صالم طنز کے تیز چلاتے ہوئے بیڈ کی دوسری جانب بڑھا۔۔۔

تکیہ اٹھایا اور بناء شیزہ کی جانب دیکھے سیدھا صوفے پر جا لیٹا۔۔۔

شیزہ دبکی بیٹھی صالم کے اس روپ پر دنگ تھی۔۔۔

یہ سب کیا تھا؟؟؟

وہ حیرت سے صالم کو دیکھتے بولی۔۔۔

مجھے تو تھا کہ میں اسے ٹف ٹائم دونگی یہاں تو مجھے سب کچھ الٹا ہی معلوم ہورہا ہے۔۔۔

وہ بے کل انداز سے بالوں کو سمیٹتے خود کلام ہوئی۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔

میں اس سے ہار نہیں مانو گی۔۔۔

اور یہ سب تو میں کسی صورت برداشت نہیں کرونگی۔۔۔

خود کو سمجھاتے وہ واپس بیڈ پر سوچتے سوچتے لیٹی۔۔۔

بمشکل نیند کی چادر اس پر تنی اور صبح کب ہوئی اس کو گمان بھی نہ ہوا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ ابھی بھی بے خبر نیند کی وادیوں میں گم بے خبر سو رہی تھی۔۔۔

ساری رات بے چینی سے گزارنے کے بعد صالم اب مزید خود کو اوزار نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔

لہذا صوفے سے اٹھا تو سب سے پہلے نظر سامنے پرسکون اور اس کو دل پر سانپ روندنے والی اپنی ہی شریک حیات کو سوتا پایا۔۔۔

کس قدر چاہ تھی۔۔۔

کیا کیا خواب تھے میرے؟؟

کیا خبر تھی مجھے تعبیر اس قدر بھیانک ہوگی کہ آنکھیں موندنا بھی مجھے عذاب لگے گا۔۔۔

وہ خالی آنکھوں سے اڑتے خواب لیے شیزہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

کہ تبھی شیزہ معصومیت سے جمائی بھرتے اٹھ بیٹھی اور نیند سے بھری آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے وہ سامنے کھڑے بت کو دیکھنے لگی۔۔۔

آپ؟؟؟؟

آپ یہاں؟؟؟

مم۔۔۔میرے کمرے میں کیا کررہے ہو آپ؟؟

پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ استفہامیہ اور حیراکن نظروں سے صالم کے وجود کو دیکھتے بولی۔۔۔

صالم جو اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

بے تکی سے بات سن کر پہلے پہر تو پیچھے کی جانب دیکھنے لگا کہ شاید وہ کسی اور کو دیکھ کر بول رہی ہے لیکن۔ جب پیچھے کسی کو نہ پایا تو اس کو تسخیری نگاہوں سے گھورنے لگا۔۔۔

لگتا ہے دماغ کے ساتھ یاداشت بھی بے ہنگم ہے تمہاری۔۔

صالم طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسکا مسخر اڑاتے بولا۔۔

محترمہ یہ ہمارا کمرہ ہے۔۔۔

نیند کی وادیوں سے خود کو زرا ہوش دلائے اور حقیقی زندگی کی جانب اپنا قدم بڑھائے تبھی معلوم ہوگا کون زندگی میں ہے اور کون نہیں۔۔۔۔

صالم طنز کرتا ہوا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔

جبکہ شیزہ منہ کھولے اسے دیکھتی رہی۔۔۔

جب زرا دماغ نے ہوش سنبھالا تو اسے کل اپنا اور صالم کا نکاح یاد آیا جبکہ رات کی اس کی جانب سے کی گئی کارستانی بھی ازبر دماغ میں چمک اٹھی۔۔۔

افففففففف۔۔۔

کس قدر بھولکر ہو میں۔۔۔

وہ خود کو کوستے بولی۔۔۔

کیسے بھول گئی کہ اس انسان کے ساتھ مجھے بکری سمجھ کر باندھ دیا گیا ہے۔۔۔

لیکن حیرت کی بات ہے میرے عشق میں پاگل ہونے والا یہ مجنوں آج مجھ سے جلالی اور طنزیہ گفتگو کررہا ہے سمجھ سے باہر ہے۔۔۔

وہ سوچ میں پڑتے صالم کے سرد رویے کو سوچتے بولی۔۔۔

خیر مجھے کیا؟؟؟

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔

میری بلا سے میرے عشق میں پاگل ہو یا نفرت میں دیوانہ۔۔۔

شیزہ نے منہ چڑھاتے ہوئے دانت کچکچا کر بولا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

آدھے گھنٹے سے شیزہ باہر بیٹھی صالم کے نکلنے کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔۔

انتظار کر کر کے جب تھک گئی تو بولی۔۔۔

صالم نکل بھی آئے اب۔۔۔۔

آپ کونسا قلعہ فتح کر رہے ہیں اندر جو باہر آنے کا نام نہیں لے رہے۔۔۔

اس سے پہلے وہ دروازے کو پہلوانوں کی مانند پیٹتی صالم دروازہ کھولے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔۔

شیزہ جو اپنا ہاتھ بس بڑھا چکی تھی اب صالم کے سینے کر دھڑا تھا۔۔۔

ہاتھ میں تولیہ لیے وہ اپنے گیلے بالوں کو جھاڑ رہا تھا جب اسے اپنے دل کے پاس کسی کے نرم گرم لمس کا احساس ہوا۔۔۔

شیزہ نے صالم کو یوں اس کے ہاتھ کو دیکھتے دیکھا تو فورا پیچھے کو کر لیا۔۔۔

پیچھے ہو۔۔۔۔

مجھے جانا ہے اندر۔۔۔۔

شیزہ بے تاثر لہجے سے صالم کو دیکھتے بولی۔۔۔

تو جاؤ روکا کس نے ہے؟؟؟

صالم شیزہ کو اگنور کرتے ہوئے بالوں کو کھنگارتے آگے کو بڑھ گیا۔۔۔

شیزہ کو صالم کا پل پل کا رویہ حیرت میں ڈال رہا تھا۔۔۔

لیکن پھر وہ اس پر سر گھوماتی واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

جبکہ صالم شیشے کے سامنے کھڑا بظاہر شیشے میں دیکھ رہا تھا لیکن نظر شیزہ کے حیران زدہ چہرے پر تھی۔۔۔

میں جانتا ہو کیا سوچ رہی ہو گی تم۔۔۔۔

کہ ایک رات میں محبت نفرت میں کیسی بدلی۔۔۔

باخدا محبت وہی کی وہی ہے لیکن میں اپنی محبت کی تزلیل کو برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔

بہتر یہی کہ میں تم پر اپنی محبت کو ضائع نہ کرو۔۔۔

تب تک جب تک تم میری روح کا ایک اہم جزو نہیں بن جاتی ۔۔۔۔۔

ساکت کھڑا صالم دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔۔۔

کہ تبھی دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔۔۔۔

آجائے۔۔۔۔

صالم نے تولیہ سائیڈ پر رکھتے باہر کھڑے انسان کو دعوت دی۔۔۔۔

آجائیے۔۔۔۔۔

السلام وعلیکم صالم بیٹا۔۔۔۔

نورین بی بی خوشگوار لہجے سے اپنے بیٹے کی جانب بڑھتے ہوئے بولی۔۔۔

وعلیکم السلام ماما۔۔۔

صالم  فورا نورین بی بی کی جانب بڑھا اور سر جھکا کر پیار لینے لگا۔۔۔۔

کہاں ہے میری بہو؟؟؟

نورین بی بی نے اپنی نظروں کو چاروں اطراف گھوماتے پوچھا۔۔

ماما وہ واش روم میں ہے فریش ہونے گئی ہے۔۔۔

آپ بتائے کوئی کام تھا کیا؟؟

صالم واپس شیشے کی جانب بڑھا اور بال سنوارتے بولا ۔۔

ہاں شیزہ کے گھر سے ناشتہ آیا ہے۔۔۔

امبر اور یوسف لے کر آئے ہیں۔۔۔

تو اس لیے میں بلانے آئی ہو تم دونوں کو۔۔۔

نورین بی بی نے تاسف لہجے سے جواب دیا۔۔۔۔

اچھا تو چلیں میں چلتا ہو آپ کے ساتھ نیچے تب تک وہ آجائے گی۔۔۔

صالم نے خود ایک بار شیشے میں معائنہ کرنے کے بعد نورین بی بی کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

نہیں نہیں تم جاؤ میں شیزہ کے ساتھ ہی اؤ گی نیچے۔۔۔

جا کر امبر اور یوسف سے ملوں ۔۔۔۔

میں آتی ہو لے کر اسے۔۔۔

نورین بی بی صالم سے کہا تو وہ حامی میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا۔۔۔۔

جبکہ نورین بی بی وہی کمرے میں موجود صوفے پر براجمان ہوگئی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

السلام وعلیکم میرے سالا جی اور سالی جی۔۔۔

کیسے ہیں آپ دونوں؟؟؟

صالم سیڑھیاں اترتے ہوئے ان دونوں کی جانب مسرت لہجے سے ٹانگ کھینچتے بولا۔۔۔۔

یوسف اور امبر جو سامنے ہی لاؤنچ میں بیٹھے انتظار میں تھے۔۔۔

صالم کی آواز سن کر اس کی جانب متوجہ ہوئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔

وعلیکم السلام صالم بھئی۔۔۔۔

یوسف آگے کو بڑھا اور صالم سے گرمجوشی سے بغل گیر ہوا۔۔۔۔

میں ٹھیک ٹھاک آپ سنائیں کیسے ہیں آپ؟؟؟؟

میں بھی بلکل ٹھیک ۔۔۔۔

اللّٰہ کا کرم۔۔۔

صالم یوسف سے الگ ہوا تو مسکرا کر بولا۔۔۔

السلام وعلیکم صالم بھئی۔۔۔۔

پاس کھڑی امبر بھی اب صالم کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔

وعلیکم اسلام کیسی ہو گڑیا؟؟؟

میں بلکل ٹھیک صالم بھئی۔۔۔

امبر نے جواباً کہا۔۔۔

آؤ بیٹھو۔۔۔۔

اور بتاؤ ناشتہ کیا آپ دونوں نے کہ نہیں؟؟؟

صالم ان کے سامنے روبرو ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بولا۔۔۔

جی صالم بھئی ہم تو کر کے آئے ہیں اور آپکا لے کر آئے۔۔ امبر نے تسخر انداز سے جواب دیا۔۔۔

لوں بھئی یہ کیا بات ہوئی۔۔۔

میرے بغیر ناشتہ کر لیا آپ دونوں نے۔۔۔

یہ تو بہت ہی غلط بات ہے۔۔۔

صالم مصنوعی ناراضگی سجائے بولا۔۔۔

ہاں تو کیا ہوا صالم بھئی۔۔۔

آپکا یہ سالا ہے ناں پھر سے آپ کے ساتھ کھانے کو تیار ہے۔۔۔

یوسف بھانکے مارتا ہوا شرٹ جھاڑے بولا۔۔۔

ارے واہ۔۔۔۔

یہ تو بہت ہی اچھا ہوگیا پھر تو۔۔۔

اور گڑیا آپ؟؟؟

آپ دو گی  ہم دونوں کا ساتھ کہ نہیں؟؟؟؟

صالم اب امبر کی جانب بڑھا جو یوسف کو کاٹ کھانے کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔

نہیں نہیں صالم بھئی۔۔۔

یہ پیٹو ہے ناں آپ کے ساتھ تو میری کمی محسوس نہ ہوگی۔۔۔

 اتنا کھاتا ہے ناجانے کہاں جاتا کچھ اتہ پتہ نہیں۔۔۔

وہ یوسف کی کمزور مگر معدہ کھوں صحت کو دیکھ کر تمسخر اڑاتے بولی۔۔۔

ہاں تو اب تم کو اس سے کیا مسئلہ ہے۔۔۔

یوسف اس کی جانب بھنویں تنتی بولا۔۔۔

ارے ارے لڑو مت۔۔۔۔

یہ بتاؤ آنٹی کیسی ہے اور انکل اور دوسری گڑیا کیوں نہیں؟؟؟

صالم امبر اور یوسف سے گفتگو میں مگن تھا جبکہ نورین بی بی ابھی تک شیزہ کے کمرے میں موجود 

شیزہ تیار ہوکر جیسے ہی باہر نکلی سامنے نورین بی بی کو بیٹھے پایا جو اس کا ہی انتظار کررہی تھی۔۔۔۔

آگئی بیٹا ۔۔۔۔

کب سے انتظار میں تھی آپ کے میں!!!

نورین بی بی دیکھتے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

السلام وعلیکم آنٹی۔۔۔

شیزہ مسکرا کر آگے کی جانب بڑھی۔۔۔

وعلیکم السلام کیسی ہے میری بیٹی۔۔۔

نورین بی بی نے سر پر پیار دیا اور پھر تھوڑی چھوتے استفہامیہ ہوئی۔۔۔

میں ٹھیک ہو۔۔۔۔

اچھا وہ میں کہنے آئی تھی کہ امبر اور یوسف کب سے انتظار میں ہے۔

کیا امبر اور یوسف آئے ہیں؟؟؟

شیزہ چہک کر بولی۔۔۔

ہاں ناشتہ لے کر ۔۔۔۔

صالم ان کے پاس ہی ہے میں نے بھیجا ہے اسے۔۔۔

اور خود یہاں تمہارا انتظار کررہی تھی۔۔۔

شیزہ نے نورین بی بی کی بات سنی تو بولی۔۔۔

کیا ہوا آنٹی سب خیریت؟؟؟؟

شیزہ بے کل سی بولی۔۔۔

کہیں صالم نے انہیں سب کچھ ۔۔۔۔۔

وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ نورین بی بی بول اٹھی۔۔۔

ہاں بیٹا سب خیریت۔۔۔

مجھے تمہیں کچھ دینا ہے آؤ میرے ساتھ چلوں۔۔۔۔

نورین بی بی شیزہ کا ہاتھ تھامے اسے اپنے پیچھے لے کر چل پڑی۔۔۔

جبکہ شیزہ بھی بناء کوئی سوال گردانے چپ چاپ پیچھے کو ہوگئی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

آپی کہاں رہ گئی ہے صالم بھائی؟؟؟

اتنی دیر لگا دی ہے آپی نے تو۔۔۔

 ہم نے بہت کام کرنے ابھی گھر جا کر۔۔۔

امبر گھڑی میں گزرتے تیزی لمحوں کی رفتار کو دیکھ کر بولی۔۔۔۔

گڑیا تمہاری بہن میک اپ کررہی ہوگی تبھی۔۔۔

اب خود سوچوں آپ لوگوں کو اتنا انتظار کروا رہی تو مجھے کتنا کروائے گی۔۔۔

صالم کی بات سن کر صالم سمیت سب ہی قہقہ زور ہوئے۔۔۔

السلام وعلیکم۔۔۔۔۔

کیسے ہیں سب؟؟؟

اور تم کب آئے یوسف؟؟؟

رافع جس کے چہرے پر عیاں تھا کہ وہ بس ابھی اٹھا ہی تھا سب کو لاؤنچ میں بیٹھے دیکھ کر یوسف کی جانب بڑھا اور بغل گیر ہوا۔۔۔۔

یہی کوئی ایک گھنٹے سے انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں۔۔۔

تم سناؤ کیسے ہو؟؟؟

یوسف نے تاسف انداز سے کہا۔۔۔

میں بلکل ٹھیک بس تھکاوٹ ہی بہت ہوگئی ہے وہی اتار رہا تھا سو سو کر ۔۔۔

رافع اپنی بازوؤں کو جھٹکا دیتے بولا۔۔۔

اچھا صالم بھئی میں دیکھ کر آتی ہو کہاں رہ گئی ہے آپی؟

امبر سب کو یوں بیٹھا دیکھ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

ہاں ہاں جاؤ بلا لاؤ۔۔۔۔

امبر ابھی آگے کو بڑھی ہی تھی کہ سیڑھیوں سے شیزہ کو گرے اور بیلو رنگ کے لباس میں ملبوس نیچے اترتے دیکھا۔۔۔

آگئی آپی ۔۔۔۔

شکر ہے آپی ۔۔۔۔

آگئی آپ کرنا انتظار کروایا آپ نے۔۔۔۔

امبر تیزی سے آگے کی جانب بڑھی اور شیزہ کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔

یہ بتاؤ امی کیسی ہے؟؟؟

اور باقی سب؟؟؟

شیزہ الگ ہوئی تو آگے کی جانب بڑھ کر یوسف کے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔

صالم جو شیزہ کی آواز سن کر بھی نظریں موبائل پر جمائے بیٹھا تھا بناء کوئی تاثر دیے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

رافع جلدی سے فریش ہو کر آؤ پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔

میں ڈائیٹنگ ٹیبل پر ہی موجود ہو۔۔۔۔

صالم کہتے ساتھ ہی وہاں سے چلتا بنا۔۔۔

رافع نے صالم کی بات سنی تو پیروی کرنے کو اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

جبکہ سامنے کھڑی شیزہ بس اس کی بے رخی پر دانت چبائے کھڑی رہی۔۔۔۔۔

تو آپی کیسی ہو آپ؟؟؟

ہماری یاد آئی کہ نہیں؟؟؟

یوسف نے پاس کھڑی شیزہ جو صالم کو لیے سوچ رہی تھی اس کو دیکھتے کہا۔۔۔

ہاں۔۔۔۔(ایک دم ان سنی بات پر جواب دیا)

ہاں ہاں۔۔۔

آئی یاد مجھے۔۔۔۔

بہت یاد۔۔۔۔

شیزہ بمشکل مسکرا کر رہ گئی۔۔۔

اچھا چلوں آؤ ناشتہ کرتے ہیں سب مل کر۔۔۔

ہاں ہاں آپی جتنا انتظار کروایا نہ آپ نے مجھے تو دوبارہ بھوک لگ گئی ہے اب تو۔۔۔

چلوں چلے ناشتہ کرنے۔۔۔۔

یوسف نے شیزہ کی بات سنی تو بانچھیں کھلائے آٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

چلوں امبر۔۔۔۔

آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔

شیزہ امبر کا ہاتھ تھامے اسی اطراف مڑی جہاں صالم کو مڑتے دیکھا تھا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ناشتے کے بعد صالم کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جب نورین بی بی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔

صالم مجھے امید نہ تھی تم سے اس حرکت کی؟؟؟؟

نورین بی بی کے لہجے کی سرد مہری نے صالم کو بوکھلا سا دیا۔۔۔۔

کیا مطلب ماما؟؟؟

میں کچھ سمجھا نہیں؟؟؟

کونسی حرکت؟؟؟

صالم جو ٹی وی دیکھنے کو لیٹا ہوا تھا فورا اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

نورین بی بی اس سے پہلے کچھ بتاتی تبھی شیزہ بھی کسی کام کے سلسلے میں کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔

صالم نے ایک نظر شیزہ پر ڈالی۔۔۔

(پتہ نہیں اس نے ماما سے کیا کہہ دیا میرے بارے میں جو ماما یہ رویہ اپنائے مجھ سے پوچھ رہی ہے) دل ہی دل میں سوچتے وہ شیزہ کو گھور رہا تھا۔۔۔۔

کیا گھور رہے ہو بہو کو؟؟؟

اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔

بلکہ مجھے خود پتہ چلا۔۔۔۔

ورنہ اس معصوم نے تو شکوہ تک نہ کرنا تھا اور تم نے اس کے حق کی گردانی کر جانی تھی۔۔۔

نورین بی بی اب صالم کے سامنے کھڑی اس کو ڈانٹنے کے موڈ میں تھی۔۔۔

صالم ابھی بھی ناسمجھی سے کبھی نورین بی بی تو کبھی شیزہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

مجھے کوئی کچھ بتائے گا کہ میں نے کیا کیا ہے؟؟؟؟

ادھر آؤ شیزہ۔۔۔۔

نورین بی بی کے بلانے پر شیزہ سر جھکائے ان کے حکم پر پہنچ گئی۔۔۔۔

میں نے تمہیں کل ڈائمنڈ کی رنگ دی تھی منہ دکھائی کیلئے۔۔۔۔

کہاں ہے وہ رنگ ۔۔۔۔۔

شیزہ کے ہاتھ میں تو کہیں نظر نہیں آرہی مجھے؟؟؟

تو کہاں ہے پھر؟؟؟

نورین بی اب صالم کی ماں کم اور شیزہ کی وکیل زیادہ معلوم ہوئی۔۔۔۔

اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھااااااا۔۔۔۔

آپ رنگ کی بات کررہی ہے؟؟؟؟

صالم نے سنا تو ایک ٹھنڈی آہ بھری اور واپس بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

ہاں تو اور کونسی بات کرنی تھی؟

اور بتاؤ کیوں نہیں دی رنگ تم نے؟؟؟

نورین بی بی کمر پر ہاتھ جمائے اس کو گھور رہی تھی۔۔۔

ماما بھول گیا تھا۔۔۔

صالم نے ایک جھوٹ گاڑا اور مسکرا کر جواب دیا۔۔۔۔

کیا کرتے ہو لڑکے؟؟؟

یہ بھی بھلا بھولنے والی بات تھی۔۔۔۔

کل تم دونوں کی زندگی کا اہم ترین دن تھا اور تم بھول گئے۔۔۔۔

چلوں نکالو ابھی اور پہناؤ اسے ابھی میرے سامنے۔۔۔

چلوں شاباش۔۔۔۔

نورین بی بی نے صالم کو حکم صادر کیا۔۔۔۔

نہیں آنٹی۔۔۔

میں پہن لونگی خود ہی۔۔۔۔

اب اس کی بھی کیا ضرورت؟؟؟

شیزہ نے فورا نورین بی بی کی بات سنی تو جھٹ سے بولی۔۔۔

نہیں نہیں میری پیاری بیگم۔۔۔۔

میں ہو ناں۔۔۔۔

میں ہی پہناؤ گا آپکو۔۔۔۔

ابھی لاتا ہو۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کو زیر کرنے کیلئے فورا اس موقع پر چوکا مارا۔۔۔

اور اٹھ کر سیدھا الماری کی جانب بڑھا اور انگھوٹھی نکالے شیزہ کے روبرو استہزایہ مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔

شیزہ بھی اسے چھبتی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔۔

کیا اب؟؟؟

ایسے ہی دیکھتی رہو گی تو یقین جانو محبت مزید ہوجائے گی۔۔۔۔

صالم نے ایک اور کیل داغا جس پر شیزہ تو اب سیاہ شد بھن سی گئی۔۔۔۔

ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔

شیطان تنگ مت کرو میری بہو کو۔۔۔

نورین بی بی نے صالم کی کمر پر تھپکی دی۔۔۔۔

چلوں شیزہ بیٹا ہاتھ بڑھاؤ آگے ۔۔۔۔۔

نورین بی بی اب شیزہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

شیزہ اب خاموش بت بنی تذبذب کا شکار کھڑی تھی۔۔۔

ہاتھ بڑھاؤ بیگم۔۔۔۔

اچھا چلوں میں خود ہی پکڑ لیتا ہو۔۔۔۔

صالم نے فورا ہی آنکھ جھپکنے کی دیر لگائی شیزہ کا مٹھی بند ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبوچ لیا۔۔۔۔

چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے وہ شیزہ کو تاک رہا تھا جو نورین بی بی کی موجودگی کی بناء پر چنے چبوائے کھڑی تھی۔۔۔۔

اب پہنا بھی دے۔۔۔۔

شیزہ لفظوں کو دبا دبا کر مصنوعی مسکراہٹ لیے نورین بی بی کی دیکھتے بولی۔۔۔۔

ہاں ہاں پہنا ہی رہا ہو جی۔۔۔۔

اپنی بیگم کا ہی ہاتھ تھاما ہے میں نے کونسی کسی کی محبوبہ کا۔۔۔

طنز کے تیر چلاتے صالم نے شیزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں بل زور ہاتھ کے دبایا جیسے اسے تکلیف دینے کا مزہ لینا چاہتا ہو۔۔۔۔

شیزہ نے اپنا ہاتھ گرفت میں دبتے محسوس کیا تو درد کی شدت لیے وہ صالم کو کاٹ کھانے کی نظروں سے گھورنے لگی۔۔۔۔

صالم نے انگھوٹھی شیزہ کی انگلی میں پیوست کردی۔۔۔

لی جئے اب تو آپ مکمل ہماری ہوگئی ہے ہمارے نام کی مہر اب آپکے ہاتھوں پر بھی چسپاں ہے۔۔۔۔

 جیسے ہی انگھوٹھی شیزہ کے انگلی میں گئی اس نے فورا اپنا ہاتھ صالم کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔۔۔۔

دیکھے آنٹی پہن لی ہے میں نے ۔۔۔۔۔

شیزہ نے اپنا ہاتھ نورین بی بی کی جانب بڑھاتے ہوئے دکھایا۔۔۔۔

ماشاء اللّٰہ ماشاء اللّٰہ دیکھا انگھوٹھی کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگیا ہے جیسے ہی تمہارے ہاتھ میں آئی ہے۔۔۔۔

اچھا اب میں چلتی ہو ٹھیک ہے آج تم دونوں کا ولیمہ بھی ہے ناں۔۔۔۔

تو بہت کام مجھے ۔۔۔۔

مہمانوں کو دیکھنا اور باقی سب۔۔۔۔

وہ کام گنتے ہوئے کمرے سے نکل پڑی۔۔۔

صالم جو کھڑا تھا اب واپس بیڈ پر بیٹھ گیا اور ٹی وی دیکھنے لگا۔۔۔۔

یہ سب کیا حرکت تھی صالم؟؟؟؟

نورین بی بی جے جاتے ساتھ ہی شیزہ اس کی جانب آنکھیں نکالے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

کیا؟؟؟

کونسی حرکت؟؟؟

ایک تو سب میری حرکتوں پر ہی نظر دھڑے کیوں بیٹھے ہیں؟؟؟

بھنویں اچکائے وہ طنزیہ انداز سے بولا۔۔۔۔

دیکھو اپنی تو سب سے غلط فہمی ختم کرو۔۔۔

کہ میں تم پر نظر رکھے بیٹھی ہو۔۔۔

وہ انگلی دکھائے اسے تلملاتے بولی۔۔۔۔

اور دوسری بات۔۔۔۔

میرے ساتھ زیادہ اوور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

جتنے دن ہو ناں تمہارے ساتھ۔۔۔

طریقے سے گزارو۔۔۔

صالم نے شیزہ کی بات سنی تو اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

اتنی باتیں مجھے یاد کروا رہی ہو تو ایک بات اپنے ذہن نشین بھی رکھو ۔۔۔

ایک تو تمہیں میں کبھی آزاد نہیں کرونگا۔۔۔۔

میرے نام کے ساتھ ہی تمہارا نام جڑا رہے گا۔۔۔

تاکہ اگر میں تڑپ رہا ہو تو تم بھی تڑپو اور وہ جو تمہارا نام نہاد بھگورا عاشق ہے ناں وہ بھی پل پل کو مرے۔۔۔

صالم برجستگی اپنائے واپس بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔۔

تمممم!!!! شیزہ اس کی جانب بپھرتے پڑی۔۔۔۔

میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔۔

تو ذرا سکون۔۔۔۔

صالم نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہی رک جانے کا عندیہ دیا۔۔۔۔

جس پر شیزہ پل بھر میں رک گئی۔۔۔

دوسری بات۔۔۔۔۔

مزے سے موبائل اٹھائے وہ سکرین پر انگلیاں پھیرتے بولا۔۔۔

اب تو ہر وقت ہی تمہارا ہے میرا۔۔۔

تو طریقے سے میں نہیں تم رہنا سیکھو۔۔۔

ورنہ اگر میں اپنی آئی پر آیا تو یقین جانو بہت برا کرونگا۔۔۔۔

صالم ایک دم اٹھا بیٹھا اور شیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے وارن کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔

صالم کے جانے کے بعد شیزہ وہی کھڑی غصے سے لال پہلی ہونے لگی۔۔۔۔

تکیہ اٹھایا اور زمین پر دے مارا۔۔۔۔

دل تو ہے کہ سامنے تم ہو گولی سے تمہارا سر اڑا دو۔۔۔

لیکن ۔۔۔۔۔۔

وہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ہاتھ ملتے بولی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

سامنے پڑی کافی اب تک ٹھنڈی ہوچکی تھی۔۔۔

جبکہ فائز صالم کی باتیں سن کر اب تک تین مگ کافی اڑ چکا تھا۔۔۔

لیکن حیرت کا بھوت ابھی بھی سر پر چڑھے ڈگڈگی بجا رہا تھا۔۔۔

کہ اسے یقین نہ آرہا تھا کہ صالم بھی کسی کے ساتھ یوں رویہ اختیار کرسکتا ہے۔۔۔۔

کیا ہوا ہے تجھے؟؟؟

کیوں ایسے دیکھ رہا ہے مجھے کہ میں صالم کی جگہ کوئی اور مخلوق بیٹھا ہو؟؟؟

صالم نے اپنے اوپر فائز کی پھٹی آنکھوں کا سایہ پایا تو سپاٹ چہرے سے اس کو دیکھتے بولا۔۔۔۔

کیا کہوں؟؟؟

وہ ابھی بھی اسے یونہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

مجھے تو سچ میں ہی کوئی خلائی مخلوق لگ رہا ۔۔

سمجھتا تھا میں کہ تجھے تجھ سے زیادہ جانتا ہو لیکن افسوس مجھء صرف یہ فہمی ہی تھی وہ بھی خوش۔۔۔

فائز ایک ٹھنڈی آہ بھرتے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔۔۔

یہ تو مجھے بھی لگتا تھا فائز۔۔۔

صالم کافی کے کپ پر اپنی انگلیوں کو گھوماتے بولا۔۔۔

کہ تو مجھے سب سے زیادہ جانتا ہے۔۔۔

جتنا میں خود کو بھی نہیں جانتا۔۔۔

لیکن خود کے اندر کے اس نئے نمودار ہونے والے صالم نے مجھے خود حیرت میں مبتلا کر ڈالا ہے۔۔۔۔

یار میں ایسا تو نہیں تھا۔۔۔

انتہاء پسند ، ضدی، کھر دماغ۔۔۔

خود کی خصلتوں کو بیان کرتے وہ  خصیر سنجیدہ تھا۔۔۔

جانتا ہو۔۔۔

تو ایسا نہیں تھا۔۔۔

لیکن یہ بھی جانتا ہو تو اب ایسا ہی ہے۔۔۔

فائز نے ایک اور کپ کا آرڈر دیتے ہوئے جواب دیا۔۔۔

بس کر کتنے کپ پیے گا؟؟؟

تو کیا کرو۔۔۔

تیری عادتوں نے میرے حواس خراب کر ڈالے چین کیلئے کچھ تو چاہیے ناں مجھے۔۔۔

فائز کاٹنے کو دوڑا۔۔

اب بتا کیا چیز ہے جو تجھے پریشان کر رہی ۔۔۔۔

صالم نے فائز کی بات سنی تو ایک سرد آہ بھری۔۔۔

اور رات سے اب تک کی ہو ے والی ساری ہنگامی صورتحال اس کے سامنے رکھ ڈالی۔۔۔

یار تو !!!!!!

فائز نے خود کو ضبط کرتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔۔۔

یار میں کیا کرو۔۔۔۔

مجھے اس سے بہت محبت ہے۔۔۔

اس قدر کے احساس کم لفظ ناپید اور ۔۔۔۔۔

وہ بولنے کو ہی تھا کہ فائز ٹوک کر بولا۔۔۔

اور دل پتھر۔۔۔۔

یار ۔۔۔۔

تو کیسے کسی کو خود سے محبت کیلئے آمادہ کرسکتا ہے؟؟؟

پتہ نہیں کیسے؟؟؟

ہو خود بھی اپنی حرکتوں پر ملائمت کیے بیٹھا تھا۔۔

اچھا چل چھوڑ ۔۔

ریلیکس کر۔۔۔

ویسے بھی آج تیرا ولیمہ ہے ناں تو ذرا خود کو سکون دے۔۔۔

فائز نے بات رفع دفع کرتے کہا۔۔۔

ہممممممممممم

شاباش ۔۔۔۔

یہ بتا کافی پیے گا؟؟؟فائز نے صالم سے استفہام کیا ۔۔

صالم نے ایک سپاٹ نظر اس چہرے پر ماری۔۔۔

تو تو ہے ہی نشی۔۔۔۔

خود پی میں چلا ۔۔۔۔۔

صالم چابیاں اٹھائے وہاں سے چلتا بنا جبکہ فائز وہی بیٹھا کافی کا مزہ لینے لگا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں کسی کو بھی نہ پایا۔۔۔۔

”شیزہ ۔۔۔۔۔

شیزہ۔۔۔۔۔“

وہ کمرے میں آواز لگاتے ہوئے واش روم کی جانب بڑھا۔۔۔

لیکن وہاں بھی کسی کو بھی نہ پایا۔۔۔۔

شیزہ کو نہ پا کر صالم کی دنیا گھوم سی گئی معلوم ہوا جیسے ریت بند مٹھی سے نکل چکی ہو اوروہ خالی ہاتھ رہ گیا ہو۔۔۔۔

”کہاں گئی ہے یہ؟؟؟؟

کہیں اس سے ملنے؟؟؟؟“

الفاظ منہ میں اٹک گئے کھڑے پاؤں بھاگتا سانس پھولائے وہ لاؤنچ میں گیا۔۔۔۔

تبھی نورین بی بی کی آواز نے اس کے بڑھتے قدموں کو روک ڈالا۔۔۔۔

صالم بیٹا ۔۔۔۔۔

رکوں۔۔۔۔۔

جی ماما۔۔۔۔

خود کو نارمل کرتے اور تیز سانسوں کی بھاگ کو روک کر بمشکل مسکراہٹ سجائے وہ ان کی جانب پلٹا۔۔۔۔

کہاں جارہے تھے؟؟؟

اور کہاں تھے؟؟؟؟

نورین بی بی سی آئی ڈی آفیسر کی مانند اس سے سوالیہ ہوئی ۔۔

ماما میں فائز سے ملنے گیا تھا۔۔۔۔

بس وہی دیر لگ گئی مجھے۔۔۔

صالم نے مختصر سا جواب دیا۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔

دھیان رکھا کرو وقت کی پابندی کا۔۔۔۔

ابھی میں نے شیزہ کو رافع کے ساتھ بھیجا ہے پارلر۔۔۔

ورنہ تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے وہ لیٹ ہوجاتی۔۔۔

تو سارا فنشن خراب ہوجاتا۔۔۔۔

نورین بی بی صالم سے بات کرتے کرتے دوسری جانب مڑ گئی۔۔۔

صالم کی سانس بحال ہوئی جب اس نے شیزہ کے متعلق نورین بی بی سے سنا۔۔۔

ٹھنڈے پسینے جو کنپٹی سے بہہ کر اسے سرد کررہے تھے

ناجانے کیا کیا سوچ رہا تھا میں۔۔۔

فائز سہی کہتا ہے میں عجیب سا ہوگیا۔۔۔۔

جو دل آتا سوچ لیتا ہو۔۔۔

وہ خود کی تصنیح کرتے ہوئے دھیمے قدموں کے ساتھ واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ولیمے کا فنشن اپنے زور و شور پر تھا۔۔۔

سب ہی موبائل ہاتھ میں تھامے سلفیوں میں مصروف تھے۔۔۔

شیزہ اور صالم کی انٹری کا وقت ہوا تو سب کی نظریں سامنے آنے والے نئے نویلے جوڑے پر جم گئی۔۔۔

سلور رنگ کی میکسی پر جس پر نیلے رنگ کے موتیوں کا کام نہایت ہی نفاست سے ہوا تھا زیب تن کیے وہ کھڑی تھی۔۔۔۔

صالم نے بھی نیلے پینٹ کوٹ اور سلور ٹائی جو بلکل شیزہ کے ڈریس سے میچ کی گئی تھی پہنے اس کے ساتھ آن کھڑا ہوا۔۔۔۔

چلوں بھئی وقت ہوگیا ہے آنٹرس کا۔۔۔

تیار رہے ۔۔۔

فوٹوگرافر نے دونوں کی جانب دیکھتے کہا ۔۔۔

صالم نے اپنا ہاتھ شیزہ کی جانب بناء آہنگی سے آگے بڑھایا۔۔۔

جسے وہ ایک پل کو دیکھ کر ٹھٹک سی گئی۔۔۔

لیکن پھر سب کی نظریں خود ہر جمے دیکھا تو اپنا ہاتھ صالم کے ہاتھ میں تھما دیا۔۔۔

صالم نے شیزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے آہستگی سے اپنے قریب کرتے ہوئے ساتھ چلنے لگا۔۔۔۔

چہرے پر بڑی سی مسکراہٹ سجائے وہ خود کی آپ بیتی خود میں چھپائے چل رہا تھا۔۔۔

جبکہ شیزہ بھی بس ایک مجبوری کے تحت قدم بہ قدم ساتھ چل رہی تھی۔۔۔۔

اسٹیج پر پہنچتے ساتھ ہی صالم نے رومانوی انداز سے آگے بڑھ کر اس کی جانب واپس اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔

پورا ہال تالیوں اور سیٹیوں سے گونجنے لگا ۔۔۔

شیزہ نے ایک گھوری ڈالی۔۔۔

جس پر صالم نے ایک آنکھ بھینچی اور اشارہ دیا ۔۔۔

شیزہ بے دلی سے آگے کو بڑھی اور صالم کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اسٹیج پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

پورا فنکشن دونوں ہی ایک دوسرے کو مصنوعی محبت کے تاثرات سجائے دیکھ رہے تھے۔۔۔

فنکشن ختم ہوا تو مقلاوے کی رسم کیلئے شیزہ کے گھر والے صالم کے گھر جمع ہوگئے ۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

امبر اور حنا شیزہ کے کمرے میں کھڑی پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔۔

آپیا۔۔۔۔۔

حنا نے اردگرد نظر دہراتے کہا ۔۔۔۔۔

ہمممممممم۔۔۔۔۔

شیزہ جو اپنا سامان بیگ میں رکھ رہی تھی گو ہوئی۔۔۔

آپیا آپکا کمرہ تو ماشاء اللّٰہ بہت ہی اچھے سے سجایا گیا ہے۔۔۔

آپ کتنی خوش نصیب ہو کہ آپکو اتنا اچھا سسرال ملا ہے۔۔۔

حنا شیزہ کی قسمت پر رشک کررہی تھی۔۔۔۔

ہاں حنا بلکل ٹھیک کہا تم نے۔۔۔۔

صالم بھائی بھی بہت اچھے ہیں اتنے ہنس مکھ ہے اور پتہ مجھے تو اس بات کی زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ میرے بھائی سب دوستوں کے بہنوئیوں سے سب سے ڈیشنگ اور خوبصورت ہے۔۔۔۔

امبر حنا کی ہاں میں ہاں ملاتی بولی۔۔۔

شیزہ جو ان دونوں کی باتوں کو سن کر لال پیلی ہورہی تھی بولی۔۔۔۔

تم دونوں کو میں نے اس لیے بلایا تھا کہ میری مدد کروا سکون۔۔۔

اگر اپنے بھائی کی تعریفوں کے قصیدے ختم ہوگئے ہو تو ذرا بیگ پیک کروانے میں میری مدد کرو۔۔۔۔

شیزہ دونوں کو جھڑک کر پڑی۔۔۔

آپیا حیرت ہے پہلی بیوی دیکھی جو شوہر کی تعریف پر ناک پھولا رہی ہے۔۔۔۔

امبر شیزہ کی بات پر بولی۔۔۔۔

کیا ہورہا ہے بھئی؟؟

کیسی ہو دونوں گڑیا؟؟؟

صالم جو کسی کام سے کمرے میں آیا تھا دیکھ کر بولا۔۔۔

کچھ نہیں بھائی جان۔۔۔

بس آپکی دلہن کو چرا کر لے جارہے ہیں ہم کچھ دنوں کیلئے۔۔۔۔

حنا چہکتے انداز سے بولی۔۔۔

ارے وہ کیوں جی ۔۔

میری دلہن کو آپ کیوں لے کر جارہے ہیں؟؟؟

اتنی مشکل سے تو اسے اپنا بنایا ہے اب آپ کیوں جی؟؟؟

وہ صوفے پر بیٹھا سامنے کھڑی شیزہ کو دیکھتے بول رہا تھا۔۔۔

جس کی ناک غصے سے لال پیلی ہوچکی تھی اور سامان پٹخ پٹخ بیگ میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔

بھائی مقلاوے کی رسم ہے یہ۔۔۔۔

جس میں ہم آپکی دلہن کو لے جائے گے اور آپ ان کو لینے آؤ گے۔۔۔۔

امبر شیزہ کی جانب بڑھتے بولی۔۔۔۔

امبر حنا تم دونوں چلوں نیچے میں آرہی ہو ۔۔۔۔

شیزہ نے دونوں کو وہاں سے بھاگانے کیلئے کہا۔۔۔۔۔

دونوں کے جاتے ہی صالم ٹہلتا ہوا شیزہ کے پاس جا کھڑا ہوا جو بیگ کی زپ بند کرنے کیلئے زور لگا رہی تھی۔۔۔۔

پیچھے ہٹو میں کردیتا ہو بند۔۔۔۔

صالم نے آگے بڑھ کر کہا۔۔۔۔

نہیں میں کرولونگی۔۔۔۔

مجھے مدد کی ضرورت نہیں۔۔۔۔

وہ ناک پر مکھی نہ بٹھاتے ہوئے بولی۔۔۔

ٹھیک ہے پھر لگی رہو۔۔۔

صالم پیچھے کو ہٹا اور برجستگی سے بولتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

شیزہ نے اسے یوں جاتے دیکھا تو منہ میں بڑبڑانے لگی۔۔۔

بڑا آیا مدد کرنے کو۔۔۔

ہہہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔۔

میں خود کرسکتی ہو سب۔۔۔

کسی کی ضرورت نہیں مجھے۔۔۔

وہ بیگ پر زور لگاتے بول رہی تھی۔۔۔۔

صالم خاموش بیٹھا اس کی باتوں کو سن تو رہا تھا مگر کوئی ردعمل نہیں دے رہا تھا۔۔۔

تھک ہارنے کے بعد بھی جب بیگ بند نہ ہوا تو شیزہ اب سیدھی کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

صالم ایک نظر اس پر ڈالتا تو ایک نظر اپنے موبائل پر۔۔۔

یہ تو بند ہی نہیں ہورہا ہے اب کیا کروں؟؟؟؟

کمر پر ہاتھ اٹکائے بیگ کو دیکھتے بولی۔۔۔۔

صالم جو پیچھے بیٹھے دیکھ کر ہنسی دانتوں میں دبائے تھا۔۔۔

ہلکی سی کھی کھی کی آواز شیزہ کی کانوں میں گئی تو وہ تلملا سی اٹھی۔۔۔

آخر کیا مسئلہ ہے آپکو؟؟؟؟

میں نے کیا کیا اب؟؟؟

وہ بیگانگی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔

کیوں میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔۔۔

کس بات کا مزہ آتا ہے آپکو؟؟؟

میری بے بسی کا تماشہ دیکھنے کا؟؟؟

یا میری حالت زار پر ہنسنے کا؟؟؟

شیزہ کی آنکھوں میں اب نمی سی تیرنے لگی جبکہ ہونٹ بھی کپکپا سے گئے۔۔۔۔

صالم کے چہرے پر سپاٹ سنجیدگی چھائی۔۔۔۔

بناء کچھ کہے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

بیگ کی جانب بڑھا اور ایک ہی جھٹکے میں بند کردیا۔۔۔۔

مجھے کوئی شوق نہیں شیزہ۔۔۔

تمہارا تماشا بنانے کا ۔۔

بیوی ہو تم میری چاہے تم مانو یا نہ مانو۔۔۔

میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔ اور میں اپنے لباس پر کوئی حرف آنے نہیں دونگا۔۔۔

اتنا یقین رکھ سکتی ہو تم مجھ پر۔۔۔

صالم متانت بھرے انداز سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔

جبکہ شیزہ وہی کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ کو گئے ہوئے اب تک ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔۔۔

صالم اپنی روٹین میں یونہی گم تھا جیسے شادی سے پہلے مصروف ہوا کرتا تھا۔۔۔۔

بظاہر وہ شیزہ کی یاد کو ظاہر نہ کرتا تھا لیکن جب جب اکیلے ہوتا تصویریں کھول کر بیٹھ جاتا اور گھنٹوں اسے دیکھتا رہتا اور مسکراتا رہتا۔۔۔۔

اس دورانیے میں نہ ہی شیزہ کی جانب سے کسی بھی قسم کا رابطہ کیا گیا تھا اور نہ ہی صالم نے اس سے کوئی جوڑ بنایا۔۔۔۔

کمرے میں بیٹھا صالم لیپ ٹاپ پر اپنے اور شیزہ کے فوٹو شوٹ کو دیکھ رہا تھا جب نورین بی بی کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔

کیا میں اندر آجاؤ ؟؟؟؟

وہ دستک دیتے ساتھ بولی۔۔۔

صالم نے نورین بی بی کی آواز سنی تو فورا لیپ ٹاپ بند کرکے ایک سائیڈ پر رکھ دیا اور خود سیدھے ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔

امی یہ بھی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔۔

آپ مت پوچھا کرے  آپکے بیٹے کا ہی کمرہ ہے کسی غیر کا نہیں۔۔۔۔

بھئی کیوں نہ پوچھو ۔۔۔۔

پہلے تم اکیلے ہوتے تھے میں دھڑم اندر آجایا کرتی تھی۔۔۔

لیکن اب تو تمہاری بیوی بھی ہے ساتھ۔۔۔

تو پرائیویسی کا دھیان لازم ہے ۔۔۔۔۔

نورین بی بی مصلحت سے بولتے ہوئے صالم کے سامنے براجمان ہوگئی۔۔۔

اچھا ماما آپ اور آپکی معنی خیز باتیں ۔۔

بتائے کوئی کام تھا کیا آپ مجھے بلا لیتی میں آجاتاہے آپکے پاس۔۔۔۔

ہاں کام ہی تھا بہت ضروری کام اس لیے خود چل کر آگئی ہو ۔۔۔

نورین بی بی سپاٹ لہجے سے بولی۔۔۔

کونسا کام؟؟؟

کیا کوئی پریشانی ہے؟؟؟

صالم کے چہرے پر پریشانی کے بادل جھڑکے۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔۔

پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔

بس یہ کہنے آئی تھی کہ اب شیزہ کو گھر لے آؤ۔۔۔

نورین بی بی نے ٹھنڈی سے آہ بھری اور بات کا آغاز کیا ۔۔۔۔

صالم جو سامنے بیٹھا تھا چہرے پر ایک ناگواری لہر دوڑ گئی۔۔۔۔

اتنے دن ہوگئے ہیں اسے گئے ہوئے۔۔۔۔

تم بھی چلے جاتے ہو رافع بھی یونی چلا جاتا ہے پیچھے میں اکیلی رہ جاتی ہو اسی طرح جس طرح تمہاری شادی سے پہلے تھی۔۔۔

صالم نے نورین بی بی کے چہرے کی تنہائی اور مایوسی کو دیکھا تو بولا۔۔۔

چلے ٹھیک ہے میں کل ہی شیزہ کو واپس لے کر آتا ہو۔۔۔۔

بس آپ پریشان نہ ہو۔۔۔۔

صالم نے نورین بی بی کی ٹھوڑی کو چھوتے  ہوئے کہا جس پر وہ مسکرا گئی۔۔۔۔

چائے پیو گے؟؟؟؟

جی وہ بھی اپنی پیاری سی ماما کے ساتھ۔۔۔۔

تو بس ٹھیک پھر ابھی بنا کر لاتی ہو ۔۔۔

نورین بی بی کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔

جبکہ صالم ان کے جاتے ساتھ ہی سوچ میں پڑ گیا۔۔۔

چہرے پر دونوں ہاتھ جمائے وہ آنے والے مستقبل کے حوالے سے سوچنے لگا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ اپنے کمرے میں بیٹھی کپڑوں کو سمیٹ رہی تھی۔۔۔

جب تانیہ بیگم اندر کی جانب بڑھی۔ جو بظاہر چہرے سے خاصی پریشان معلوم ہورہی تھی۔۔۔

اندر آنے کی آہٹ سے شیزہ ان کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔۔

چہرے پر موجود پریشانی کو دیکھا تو جھٹ ان کے سامنے جا پہنچی۔۔۔

کیا ہوا ہے امی؟؟

آپ کچھ پریشان معلوم ہورہی ہے؟؟؟

سب خیریت؟؟؟

شیزہ۔۔۔۔

تانیہ بیگم نے خاصا پریشانی اور الجھن سے شیزہ کو دیکھا۔۔۔

مجھے ایک بات سچ سچ بتانا تم۔۔۔۔۔

وہ اس کی جانب تذبذب کا شکار سچ کی امید لگائے دیکھتے بولی۔۔۔

جی امی پوچھے؟؟

تمہارے اور صالم کے رشتے میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ؟؟؟

میرا مطلب سب ٹھیک ہے ناں؟؟

کوئی پریشانی یا کچھ ؟؟؟

وہ ٹھہرتے ٹھہرتے شیزہ سے سوالیہ ہوئی۔۔۔

امی آپ یہ سب کیوں؟؟؟

شیزہ ان کی جانب سے کیے گئے سوال پر سوچ کر بولی۔۔۔

تانیہ بیگم  آگے کی جانب بڑھی اور بیڈ پر براجمان ہوگئی۔۔۔

آمی بولے بھی کیا ہوا ہے؟؟؟

کیا کسی نے کچھ کہا؟؟؟

صالم نے کہا کچھ؟؟؟

شیزہ کا دماغ صالم پر ہی جا کر ٹھمکا۔۔۔

نہیں نہیں اس نے کیا کہنا۔۔۔

وہ تو ماشاء اللّٰہ بہت ہی سمجھدار اور فرمانبردار بچہ ہے۔۔۔

بس یہ تمہاری پھوپھو آئی ہے آج ۔۔۔۔

کل صبح سے تمہارے ابو کے کانوں میں بھن رہی کہ تم دونوں کی ازدواجی زندگی صیحح نہیں۔۔۔

تم خوش نہیں ہو اس رشتے سے۔۔۔

تانیہ بیگم کے چہرے پر الجھنوں نے بسیرا کیا جس پر شیزہ بھی پریشان ہوگئی۔۔۔۔

دیکھو شیزہ۔۔۔

اگر ایسا کچھ بھی ہے تو مجھے بتا دو۔۔۔۔

میں خود صالم سے بات کرونگی۔۔۔

امی۔۔۔

آمی ایسا کچھ نہیں۔۔۔

سب ٹھیک ہے کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔

اور مجھے یہ سمجھ نہیں آتی شادی پر انا ان کو گوارا نہیں تھا اور اب پھوٹ ڈالنے آگئی ہے۔۔۔

اور کیا سوچ کر وہ یہ سب بول رہی؟؟؟

شیزہ نے تانیہ بیگم کی بات سنی تو تذبذب کا شکار ہوتے بولی۔۔۔

تانیہ بیگم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔

کیوں کہ جب سے تم آئی ہو صالم کی جانب سے کوئی فون نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اسکا رابطہ؟؟؟

یہ بات مجھے بھی پریشان کررہی ہے ۔۔۔۔

امی آپکو کس نے کہا کہ میری بات نہیں ہوتی۔۔۔

روز ہوتی میری بات ان سے۔۔۔ وہ پرجوش انداز سے بولی

وہ بھی رات کو ۔۔

بس آپ سے نہیں کروا پاتی کیونکہ رات کافی ہوچکی ہوتی اور وہ آفس سے لیٹ آتے تو تبھی لیٹ کال کرتے ہیں۔۔۔

شیزہ نے پرسکون انداز سے جھوٹ بول کر تانیہ بیگم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔

مین کرتی ہو تمہارے بابا سے بات۔۔۔

تانیہ بیگم نے خود کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

ایک اور بات پوچھنا تو بھول ہی گئی؟؟

تانیہ بیگم جاتے جاتے پلٹی تو شیزہ بھی دوبارہ ان کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔

صالم کب آرہا ہے لینے؟؟

کوئی بات کی اس نے؟

کیوں امی؟؟؟

میرا یہاں رہنا آپکو اچھا نہیں لگتا تو جو آپ مجھ سے ایسا پوچھ رہی ہے؟؟

وہ قدرے منہ پھلائے مصنوعی ناراضگی سجائے بولی۔۔۔

ارے نہیں شیزہ۔۔۔۔

تانیہ بیگم اس کے چہرے کو تھامتے بولی۔۔۔

یہ تمہارا ہی گھر ہے میری جان ۔۔۔۔

لیکن بیٹی اپنے گھر میں اچھی لگتی ہے جب اس کی شادی ہوجاتی ہے۔۔۔

اسکا وہاں بسا رہنا ہی ماں باپ کے گھر کا سکون اور دل کا چین ہوتا ہے۔۔۔

سمجھ آئی کہ نہیں؟؟؟

تانیہ بیگم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا جس پر شیزہ نے حامی میں سر ہلایا۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے اب میں جاتی ہو ورنہ تمہاری پھوپھو نے پھر کوئی ڈرامہ کرنا ہے۔۔۔

اتنے دن پریشان کیے رکھا انہوں نے لیکن تمہاری باتوں کے مطمئن کردیا۔۔۔

خوش رہو ۔۔۔۔۔

وہ سر پر پیار دیتے وہاں سے چلی گئی۔۔۔

جبکہ اب ایک نئی پریشانی اس کے دل و دماغ پر قبضہ جمائے بیٹھی تھی ۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم آفس میں اپنے کیبن میں موجود تھا۔۔۔

کام کرتے کرتے اچانک اس کے دماغ میں نورین بی بی کی بات گھومی۔۔۔

دھیان کام سے ہٹا تو وہ کرسی پر سر گرائے شیزہ کے متعلق سوچنے لگا۔۔۔

تبھی کچھ سوچنے کے بعد سیدھا بیٹھا فون اٹھایا اور کال ملا دی۔۔۔۔

دو تین بیلز کے بعد فون ریسیو ہوا تو دوسری جانب کی آواز نے صالم کے دل میں کھلبلی سی مچا دی۔۔۔۔

”السلام علیکم صالم

کیسے ہیں آپ؟“

شیزہ کا اپنانیت بھرا لہجہ اسے کھٹک کر رہ گیا اور حیرت میں مبتلا وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

وہ لڑکی  جو شادی کی پہلی  رات دلہن بنے اسے دھتکار رہی تھی آج لب شیریں ٹپکا رہی تھی۔۔۔

”ہیلو؟؟؟

کوئی ہے ؟؟؟

صالم؟؟؟“

وہ ایک بار تصدیقی انداز سے بولی۔۔۔

صالم جو اس وقت شیزہ کے لہجے کے بھنور میں پھنسا تھا تو فورا گو ہوا۔۔۔

ج۔۔۔۔ج۔۔۔۔جی۔۔۔

و۔۔۔۔وع۔۔۔وعلیکم السلام ۔۔

مین ٹھیک آپ سنائے۔۔۔۔

وہ ہکلا کر حیرت سے بولا۔۔۔

میں بھی ٹھیک وہ امی پاس ہی کھڑی ہے پوچھ رہی ہے کہ آپ گھر کب آئے گے۔۔۔۔

شیزہ نے ادراکی انداز سے صالم کو اشارہ دیتے ہوئے بات کی۔۔۔۔

اوہ۔۔۔۔

۔صالم نے جیسے ہی سنا تو شیریں کا مقصد سمجھتے ہوئے بے اختیار بولا۔۔۔۔

کیا ہوا؟؟؟

”کچھ نہیں ایک پل کو تم نے مجھے حیران ہی کردیا تھا..

کہ تم اور مجھ سے اتنے دھیمے سے لہجے سے۔۔۔

ناممکن۔۔۔۔

ایک تسخر اڑاتی مسکراہٹ صالم کے لبوں پر نمودار ہوئی۔۔۔

دوسری جانب شیزہ جو پاس کھڑی تانیہ بیگم کی نظروں کا شکار تھی صالم کی یوں طنز و طرار پر دانت پیستی رہ گئی۔۔۔

آپ مجھے بتائے گے کہ آپ کب آرہے ہیں؟؟

لفظوں پر اپنا غصہ اتارے دبا دبا کر بولی۔۔۔۔

جی جی آج ہی کہوں تو آج ہی آجاؤ۔۔۔۔

لیکن شرط یہ ہے کہ اسی طرح محبت سے کہوں تو۔۔۔۔

چاہے مصنوعی ہی لیکن کہوں۔۔۔۔

شیزہ کو تنگ کرتے وہ اسے مزید اشتعال دلوا رہا تھا۔۔۔۔

شیزہ نے مزید صالم کی بات سننا گوارا نہ کیا وہ مزید اس کی باتوں کو برداشت نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔

لہذا فون کاٹ دیا۔۔۔۔

صالم فون کٹ جانے کے بعد مسکراتا ہوا واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

کیا کہہ رہا تھا صالم؟؟؟

تانیہ بیگم جو ایک پل کو ساں نہ کھا رہی تھی شیزہ کو جھنجھوڑتے بولی۔۔۔

امی وہ آرہے ہیں آج۔۔۔

شیزہ ان کی بے صبری کو دیکھتے منہ لٹکائے بولی۔۔۔

یاللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔۔

عزت رکھ لی ہماری تو نے۔۔۔۔

ورنہ مجھے تو ڈر تھا کہیں تمہاری پھوپھی کا شک درست ہی نہ ثابت ہوجائے ۔۔۔۔

وہ آسمانی نظر اٹھائے شکر ادا کرتے بولی۔۔۔

اچھا صالم آرہا ہے ناں ۔۔

تو کھانے بنانے اس کیلئے ایک خاص انتظام کرنا ہے۔۔۔۔

بہت کام ہے۔۔۔۔

تم بھی آجاؤ کیچن میں ہاتھ بٹاؤ میرا۔۔۔

میں تمہارے بابا کو بھی بتا کر آتی ہو کہ آج صالم آرہا ہے۔۔۔

وہ خوشی سے چور چہرے پر سکونت اختیار کیے افراتفری کے عالم میں وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

جبکہ شیزہ ان کے احساس کے برعکس منہ لٹکائے وہی کھڑی رہی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم آفیس سے نکلنے سے پہلے ہی نورین بی بی کو بتا چکا تھا کہ وہ آج شیزہ کو لینے جائے گا۔۔

لہذا بناء وقت کا ضیاع کیے وہ شیزہ کے گھر کی جانب کو نکل گیا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ بیٹا۔۔۔۔

جاؤ اب ۔۔۔۔

جا کر تیار ہو اور ہاں اپنا سارا سامان بھی پیک کر لینا۔۔۔۔

یہ نہ ہو کچھ رہ جائے یہاں۔۔۔۔

ہانڈی کی بھونائی کرتی تانیہ بیگم قدرے اطمینان سے بولی۔۔۔۔

امی ۔۔۔۔۔

میں کیوں سامان پیک کرو اپنا؟؟؟

شیزہ غیر معتقدی انداز سے بولی۔۔۔۔

شیزہ کی بات پر  تانیہ بیگم نے شیزہ کو ایک نظر گھورا۔۔۔

کیا مطلب ہے تمہارا ؟؟؟؟

”امی کیا پتہ وہ صرف یونہی ملنے آرہے ہو ۔۔۔

اور آپ مجھے زبردستی ان کے ساتھ بھیجنے پر تیار ہورہی ہے۔۔۔

کیا میرا یہاں رہنا آپکو اور اس گھر کے ہر فرد کو کھٹکتا ہے؟؟؟۔۔۔

شیزہ قدرے افسردگی سے بولی۔۔۔۔

”دیکھو شیزہ۔۔۔

میکے میں اتنے دن رہنا وہ بھی شادی کے فورا بعد۔۔

کئی سوالات کھڑے کردیتا ہے لڑکی کی ذات پر۔۔۔

جو اب تک کھڑے ہوچکے ہیں۔۔۔

میں نہیں چاہتی کہ کوئی مزید تمہاری زندگی کے متعلق پیشن گوئی کرتا پھرے۔۔۔

لہذا جو کہہ رہی ہو کرو جا کر۔۔۔“

وہ حکم صادر کرتے واپس ہانڈی کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔

شیزہ کچھ دیر وہی کھڑی تانیہ بیگم کو استفہامیہ نظروں سے دیکھتی رہی۔۔۔۔

”جاؤ بھی اب۔۔۔۔

اور جاتے ہوئے حنا اور امبر کو بھیج دو۔۔۔۔

ہر وقت کمرے میں دونوں گھنسی رہتی ہے ذرا سوچ نہیں آتی کہ ماں کا ہاتھ ہی بٹا دے۔۔۔۔“

تانیہ بیگم نے شیزہ ایک بار پھر کہا۔۔۔

”امی لوگ سہی کہتے ہیں۔۔۔

لڑکی کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔۔۔

نہ میکہ نہ سسرال۔۔۔

لیکن مجھے یہ امید نہ تھی کہ آپ بھی لوگوں میں سے ہونگی“

شیزہ پیر پٹختے وہاں سے کہتی چلتی بنی۔۔۔

”عجیب لڑکی ہے بھئی۔۔۔

پتہ نہیں کون اتنی کہاوتیں اس کو سناتا ہے“

تانیہ بیگم شیزہ کی بات کو سنتے ہوئے بناء کوئی سنجیدہ ردعمل دیتے واپس کام میں لگ گئی ۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

”ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔

یہ تو اپنے بلکل ٹھیک کہا آنٹی۔۔۔

واقعی ہی جو مزہ آپ کے ہاتھ کے کھانے میں ہے وہ ہمارے نصیب میں کہاں؟؟“

پورے گھر میں صالم کے قہقہوں کی آوازیں گونج رہی تھی۔۔۔

ڈائیٹنگ ٹیبل پر سب ہی موجود کھانے کا لطف اٹھا رہے تھے ماسوائے شیزہ کو جس کو صالم ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا۔۔۔

جبکہ باقی سب اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے میں اچھا شغل لگائے رکھے تھے۔۔۔۔

”اچھا صالم بیٹا۔۔۔۔

نورین بہن کیسی ہے؟؟؟

بھلا ان کو بھی ساتھ لے آتے۔۔۔۔“

خالد صاحب بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالے بولے۔۔۔

”جی انکل وہ ٹھیک اللّٰہ کا کرم۔۔۔

ان کو ساتھ لے آتا ان کی بھی خواہش تھی کہ وہ خود شیزہ کو لینے آئے اور آپ سب سے بھی ملنے آئے۔۔۔

لیکن مجھے شیزہ کی جب کال آئی تو میں آفس میں تھا۔۔۔

بس وہی سے براہ راست یہاں کی راہ لی۔۔۔

لیکن ہاں انہیں خبر ہے کہ آج ان کی بہوں بیگم آرہی ہے۔۔۔

امید ہے تیاریوں میں ہونگی وہ۔۔۔“

شیزہ کی جانب دیکھتے وہ بڑی مسکراہٹ سجائے بولا۔۔۔۔

”ہاں ہاں۔۔۔۔۔

ہنس لو مجھ پر۔۔۔۔

ہنس لو۔۔۔۔

جتنی ہنسی ہے آج ہی ہنس لو کیونکہ پھر جن آنکھوں سے آج ہنسی کے آنسوں نکل رہے ناں انہیں آنکھوں سے رلا نہ دیا تو میرا نام بھی شیزہ نہیں۔۔۔“

شیزہ جو بلکل صالم کے سامنے بیٹھی اس کو کینی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی دل میں ابلتے ابالوں کو ہوا دیتے بولی۔۔۔۔

”شیزہ آپ کچھ کیوں نہیں لے رہی۔۔۔

دیکھے کیسی کمزور ہوگئی ہے آپ ۔۔۔۔۔

کتنا خیال رکھ رہا تھا میں وہاں آپکا لیکن یہاں آپ اپنا بلکل خیال نہیں رکھتی۔۔۔۔

یہ لے یہ بریانی کھائے آپ بہت مزے اور لذت سے بھرپور پکوان بنایا آنٹی نے۔۔۔“

ہاتھ میں ٹرے پکڑے وہ اس کی پلیٹ کے جانب جھکا۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔

میں کھا رہی ہو آپ پیٹ بھر کر کھائے یہ نہ ہو مستقبل میں کمزوری آپکو چمر جائے۔۔۔

وہ لفظ بہ لفظ چبا کر بولی۔۔۔

”ارے شیزہ بیٹا ۔۔۔۔

صالم اتنے پیار سے کہہ رہا ہے تو لے کیوں نہیں رہی۔۔۔

چلوں شاباش صالم بیٹا ڈال کر دو اسے۔۔۔

بلکہ میں تو کہتی ہو دونوں ایک ہی پلیٹ میں کھایا کرو۔۔۔

محبت بڑھتی ہے اس سے میاں بیوی میں۔۔۔۔“

تانیہ بیگم کی بات پر صالم کو نت نیا موقع سا مل گیا۔۔۔

امی!!!!!

وہ ایک دم چڑ کر بولی۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے شیزہ۔۔۔

آنٹی ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے ۔۔

آنٹی ہم کل سے ایک ہی پلیٹ میں کھائے گے کھانا آپ فکر نہ کرے۔۔۔“

وہ مطمئن سا واپس کرسی پر براجمان ہوا۔۔۔

”چہرے پر تاثرات ایسے سجائے بیٹھا ہے جیسے بہت محبت کرتا ہے مجھ سے۔۔۔

جھوٹا فریبی ڈرامے باز۔۔۔ 

یہاں سب کے ساتھ ایسے لگا ہوا جیسے ان کا مرید ہو۔۔۔

اور وہاں میرے ساتھ جو یہ کرتا ۔۔۔۔

بہت ہی تیز انسان ہے یہ۔۔۔

شیزہ بیٹا اس کو بہت ہی طریقے سے ہینڈل کرنا پڑنا۔۔۔“

صالم کو سب کے ساتھ گلوں گپے اڑاتے دیکھ کر وہ دل میں عندیہ کر رہی تھی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

کھانا کھانے کے بعد تھوڑی سی گپ شپ کی اور پھر صالم  رخصت لینے کو اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

شیزہ اپنے کمرے میں کھانے کے بعد سے ہی جا چکی تھی۔۔۔

”آنٹی شیزہ کو بلا دے۔۔۔

دراصل ماما پریشان ہورہی ہونگی کافی دیر ہوگئی ہے اب۔۔۔

انتظار میں ہونگی وہ ہمارے۔۔۔۔“

صالم گھڑی کی بھاگتی سوئیوں کو دیکھتے بولا۔۔۔

”ہاں ہاں ایک منٹ بیٹا ۔۔۔

جاؤ امبر شیزہ کو بلا کر لاؤ اور یوسف سے کہوں شیزہ کا سامان گاڑی میں رکھ دے۔۔۔“

”جی امی“

امبر کہتے ساتھ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

کچھ ہی دیر میں شیزہ کو ساتھ لیے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔

اچھا آنٹی اب رخصت کیجئے۔۔۔

وہ آگے کی جانب بڑھا اور اپنا سر پیار لینے کو تانیہ بیگم کے آگے بڑھایا۔۔۔

”خوش رہو شاداب رہو۔۔“

”کھانا بہت مزے کا اور ذائقے دار تھا۔۔۔

امید ہے میری بیگم بھی ایسے ہی پکوان بنا بنا کر کھلائے گی“

شیزہ کو دیکھتے وہ طنزیہ مسکراہٹ سجائے بولا۔۔۔

”زہر نہ ملا دو اس میں۔۔۔

تاکہ ایک بار ہی بھرپور ذائقے سے لطف اٹھا لو تم۔۔۔“

دل ہی دل میں سوچتی وہ چہرے پر انگاری مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

”جی جی کیوں نہیں ۔۔۔

میں ضرور بناؤ گی آپ کے لیے“

صالم نے شیزہ کی بات سنی تو بمشکل ہنسی دبائے وہ خالد صاحب کی جانب بڑھا اور بغل گیر ہوا۔۔۔۔

”اچھا انکل اب چلتا ہو انشاء اللّٰہ جلد ملاقات ہوگی“

”اچھا گڑیوں۔۔۔

بھائی کو اجازت دو۔۔۔

اور کبھی بھائی کے گھر بھی چکر لگا جاؤ۔۔۔

ماما تم دونوں کو بہت یاد کرتی ہے۔“

دونوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھے وہ بولا۔۔۔۔

”جی بھائی ضرور“

دونوں یک بیک ایک ساتھ بولی۔۔۔

سب سے رخصت لینے کے بعد وہ باہر کو نکل پڑا۔۔۔

شیزہ بھی سب سے ملنے کے بعد اس کے پیچھے کو چل پڑی۔۔۔

سب دروازے پر کھڑے ان کو جاتا دیکھتے رہے اور ان کی زندگی کیلئے دعا گو ہوئے۔۔۔۔

پورے راستے دونوں ہی اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے سے قطع تعلق بیٹھے رہے۔۔۔

نہ کوئی گفتگو نہ کچھ۔۔۔

بس سامنے نظر ٹکائے آنے والے مستقبل کی سوچ نے دونوں کو ہی اپنے سکتے میں لیا ہوا تھا۔۔۔۔۔

گھر پہنچے تو سامنے نورین بی بی اور رافع کو کھڑا پایا جو ناجانے کب سے ان دونوں کی راہ لیے بیٹھے تھے۔۔۔۔

السلام وعلیکم ماما۔۔۔۔

صالم آگے کو بڑھا اور ان کے ساتھ لگ گیا۔۔۔

”وعلیکم السلام“

”لیجئے لے آیا آپکی بیٹی کو۔۔۔

اب اٹھائے اس کے چونچلے۔۔۔“

وہ ماحول سے حظ لیتا ہوا صوفے پر براجمان ہوا۔۔۔

”ہاں ہاں کیوں نہ اٹھاؤ اپنی بیٹی کے چونچلے۔۔۔

میری بیٹی ہے ہی اتنی پیاری اور اچھی کہ دل کرتا ہے ہر ناز اٹھاؤ اس کے اپنے سر پر ۔۔“

شیزہ کے سر بوسہ دیتے وہ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرتے بولی۔۔۔

شیزہ بھی ان کی اپنائیت اور محبت سے لطف ان کے احساس کو محسوس کررہی تھی۔۔۔

”جی جی بلکل بلکل اٹھائے نخرے۔۔۔

کل کو ناچے گی آپ کے سر پر پھر پتہ لگے گا آپکو۔۔۔“

”بس بھی کرو کیوں تنگ کررہے ہو بچی کو“

 نورین بی نے صالم کو ٹوکا۔۔۔

”شیزہ ادھر آؤ یہاں بیٹھو میرے ساتھ“

نورین بی اسکا ہاتھ تھامے اسے اپنے ساتھ صوفے پر لے آئی۔۔۔

”نجمہ۔۔۔۔۔۔

جلدی سے جوس لے آؤ۔۔۔۔“

نورین بی نے ایک آواز لگائی جس پر وہ بھاگ دور وہاں ٹرے تھامے نمودار ہوئی اور سب کو پیش کیا۔۔۔۔

صالم نے ایک سانس میں ہی سارا جوس گٹکا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

”کدھر صالم؟؟؟“

صالم جو جاتے دیکھ نورین بی بی سوالیہ ہوئی۔۔۔

”ماما میں ذرا ریلیکس ہو جاؤ ان کپڑوں میں بہت انکنفرٹیبل ہو میں ۔۔۔

تو اپنے کمرے میں جارہا ہو تاکہ ان سے چھٹکارا پا سکوں“

وہ اپنے پینٹ کوٹ کی جانب تنگ نظروں سے دیکھتے بےزاری ظاہر کرتے بولا۔۔۔۔

”اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔

جاؤ شیزہ بیٹا صالم کے ساتھ جاؤ اسے کپڑے دے دو۔۔۔

پھر میں کھانا لگواتی ہو“

شیزہ نے نورین بی بی کی بات سنی تو بناء کچھ کہے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

”نہیں امی میں نکال لونگا کپڑے اپنے خود ۔۔۔۔

اور کھانا ہم۔کھا کر آئے ہیں تو آپ اور رافع کھا لینا ۔۔

میں اب کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہو تھک گیا ہو بہت“

وہ واقعی ہی بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا چہرے پر تھکاوٹ اور سستی کے اثرات اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔۔۔

کہتے ساتھ ہی وہ وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔

جبکہ سب وہی کھڑے اسے جاتا دیکھتے رہے۔۔۔

”اچھا شیزہ بیٹا آپ بھی جاؤ تھوڑا ریلیکس ہوجاؤ۔۔۔

اپ بھی تھک گئی ہو گی۔۔۔

میں دونوں کیلئے چائے بھیجواتی ہو ۔۔۔

اور صالم کو ایسا کرنا ایک گولی دے دینا اس کی تھکاوٹ سے لگ رہا ہے کہیں بخار نہ ہو جائے اسے۔۔۔“

شیزہ نے نورین بی کی بات سنی تو بناء کچھ کہے حامی میں سر ہلاتے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔

”اکبر جاؤ دلہن بیگم کا سامان کمرے میں رکھ آؤ “

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ کمرے میں داخل ہوئی تو کمرہ اب پھولوں پتیوں سے مکمل صاف تھا۔۔۔۔

البتہ کمرے کی سیٹنگ ویسے ہی تھی جیسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔۔

واش روم سے پانی کے گرنے کی آواز ظاہر کررہی تھی کہ صالم فریش ہورہا ہے۔۔۔۔

اندر کی جانب بڑھ کر اپنا بیگ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

”جہاں سے بھاگ کر گئی تھی وہی واپس پھینک دی گئی

بہت خوش فہم تھی میں کہ واپس نہیں آؤ گی۔۔۔

سب فہمی سامنے غلط ثابت ہوئی۔۔۔

اور اس بار وہ جیت گیا اور میں ہار گئی۔۔۔“

صوفے پر سر گرائے وہ سوچ میں مبتلا تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔

”آجاؤ“

”دلہن بیگم آپکا سامان ….

جہاں رکھو اسے؟؟؟“

”وہ الماری کے پاس رکھ دے آپ اسے“

اشارہ دیتے وہ بولی۔۔۔

”جی اچھا“

سامان رکھنے کے بعد جیسے ہی وہ کمرے سے باہر گیا تو صالم ہاتھ میں تولیا اٹھائے باہر کی جانب بڑھا۔۔۔

شیزہ جو صوفے پر بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی بلکل اگنور کرتے شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔۔

بالوں کو کھگالنے کے بعد وہ انہیں کنگے سے سنوارنے لگا۔۔۔

کچھ دیر تو شیزہ اسے یونہی دیکھتی رہی ۔۔۔۔

لیکن پھر بناء کچھ کہے اٹھ کھڑی ہوئی اور واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

صالم نے اسے جاتا دیکھا تو بس ایک آس بھرتا رہ گیا۔۔۔

شیزہ کچھ دیر بعد جب نکلی تو صالم کو بیڈ پر سوتا پایا۔۔۔

جو دنیا کے شور سے بے خبر بیڈ پر خود کو پھیلائے مست سو رہا تھا۔۔۔۔

چہرے پر سادگی اور معصومیت لیے وہ بیڈ پر ترچھے انداز سے لیٹا تھا۔۔۔

ایک پل کو وہ اسے دیکھتے رک سی گئی۔۔۔

”کتنے سکون سے سو رہا ہے یہ۔۔۔۔

اور چہرے پر یہ معصومیت۔۔۔

لگتا ہی نہیں یہ وہی سوتا صالم ہے جو جاگنے میں میرے زندگی کو عذاب بنا رہا ہے۔۔۔

آنٹی ٹھیک کہہ رہی تھی واقعی ہی اج تھک گیا تھا یہ۔۔۔

تبھی تو بناء کوئی جنگ کیے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے ۔۔“

”خیر میں کیوں سوچ رہی ہو اس کے بارے میں۔۔۔

میری بلا سے جب مرضی سوئے۔۔۔“اپنی پہلی سوچ کو رد کرتے وہ شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔

فریش ہو کر اب وہ سوئے ہوئے صالم کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔

”اب میں کہاں سو؟؟؟

مجھ سے نہیں سویا جاتا صوفے پر؟؟؟

لیکن؟؟؟؟“

وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی ایک بار پھر سے دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔

اب کی بار وہ خود دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔

سامنے نجمہ کو کھڑا پایا جو ہاتھ میں دو کپ چائے اور کچھ بسکٹ کے ساتھ سر درد کی گولی لیے کھڑی تھی۔۔۔

”بیگم صاحبہ نے بھیجی ہے اور کہا کے صالم صاحب کو یاد سے دوائی کھلا دے“

”اچھا“

ٹرے ہاتھ میں پکڑے وہ دروازہ موندے واپس اندر کی جانب بڑھی تو صالم ابھی بھی بے سود سویا لیٹا تھا۔۔۔۔

”اب اس کو کیسے جگاؤ؟؟؟؟“

شیزہ یہی سوچ رہی تھی کہ آہستگی سے آگے کی جانب بڑھی اور سوئے ہوئے صالم کو اٹھانے کا عندیہ بھرا ۔۔۔

کندھے پر ہاتھ رکھا اور آہستگی سے اسے اٹھانے لگی۔۔۔۔

”صالم!!!!!

صالم اٹھے آنٹی نے میڈ بھیجی ہے اٹھے۔۔۔۔“

وہ اسے کئی بار ہلا چکی تھی لیکن وہ ابھی بےخبری سے سویا ہوا تھا۔۔

”توبہ ہے جس قدر بے خبری سے سویا ہوا ہے یہ

اب میں اسے میڈ کیسے کھلاؤ ۔۔۔

آنٹی کو ہی بتا کر آتی ہو“

یہ کہتے ساتھ ہی جیسے ہی وہ آگے بڑھنے کو پلٹی۔۔۔۔

صالم جو سویا ہوا تھا۔۔۔

شیزہ کی کلائی تھامے اسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔

اس جھٹکے سے بے خبر شیزہ لڑکھڑاتی ہوئی صالم کے اوپر جا گری۔۔۔۔

صالم نے پل بھر میں اپنے اوپر موجود شیزہ کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔۔

جس کا چہرہ صالم کے چہرے پر تھا اور بالوں نے دونوں کو اپنے اندر چھپا لیا تھا۔۔۔

جس بناء پر وہ کوئی آواز نہ نکال سکی۔۔۔

شیزہ اس کی بانہوں کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کامیاب نہ ہوسکی۔۔۔

بجھتی لائٹ کے ساتھ شیزہ کی ہلکی سی سسکی پورے کمرے میں گونجی اور پھر گہری خاموشی چھا گئی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صبح کے دس بج چکے تھے۔۔۔۔

شیزہ بستر پر ہی سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔

بکھرے بالوں کے ساتھ اس کا پورا تکیہ بالوں کی لپیٹ میں تھا۔۔۔۔

رات بھر کی قیامت اس کے وجود کو جھنجھوڑ چکی تھی۔۔۔

ٹرے ابھی بھی وہی پڑی تھی جہاں اس نے رکھی تھی۔۔۔۔

چہرے پر کھڑکی سے پڑتی دھوپ نے اس کی نیند کو جھٹکا دیا تو وہ آنکھیں ملتی ہوئی بمشکل خود کو سہارا دیتے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔

ابھی وہ نیند سے ہی خود کو ہوش دلا رہی تھی۔۔۔

کہ تبھی رات بھر کا منظر اس کی آنکھوں میں جھلک آیا۔۔۔۔

کانوں میں اپنی ہی سسکی اور خود کو نکالنے کی سر توڑ کوشش نے اس کو ابھی کپکپا رہا تھا۔۔۔۔

بے یقینی کے عالم میں وہ خود کو دیکھتے اٹھی۔۔۔۔

جس وجود سے وہ پہلے خود کو ہی محسوس کرتی تھی آج صالم کی خوشبو سے رنگ بس رہا تھا ۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔۔

میرے ساتھ ایسا نہیں!!!!

بے یقینی سے وہ خود کو شیشے میں دیکھتے بولی۔۔۔۔

آنکھوں میں خوف اور دل میں الجھن نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔۔۔۔

صالم میرے ساتھ ایسا نہیں۔۔۔۔

وہ ابھی بھی بے یقینی سے سر انکاری میں ہلا رہی تھی۔۔۔۔

کبھی بیڈ کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی تو کچھی خود کے وجود کو دھتکارنے کا سوچتی۔۔۔۔

کہ تبھی دروازے پر دستک کی آواز آئی۔۔۔۔

شیزہ تیزی سے بھاگتی دروازے کی جانب بڑھی تو سامنے نجمہ کو ہی کھڑا پایا جو جوس کا گلاس تھامے کھڑی تھی۔۔۔۔

”بی بی جی جوس“

”ص۔۔۔۔ص۔۔۔صالم کہاں ہے؟؟؟“

اس کی بات کو نظر انداز کرتے وہ اضطرابی کیفیت سے استہفامیہ انداز سے بولی۔۔۔۔

”بی بی جی وہ تو صبح صبح ہی ناجانے کہاں چلے گئے۔۔۔۔“

”مطلب؟؟؟

آنٹی کو تو پتہ ہوگا ناں۔۔۔

کہ وہ کہاں گئے“

وہ اب تلملا کر بولی۔۔۔۔

”نہیں نہیں۔۔۔۔

ان کو بھی نہیں پتہ۔۔۔

وہ تو میرے بھی اٹھنے سے پہلے ہی جا چکے تھے۔۔۔

نہ ناشتہ کیا نہ ہی کچھ بتایا!!!!“

نجمہ کہ بات سن کر شیزہ مزید ابتری کیفیت میں گھر گئی۔۔۔

”بی بی جوس“

”نہیں چاہیے لے جاؤ اسے“

برہمی کا برملا اظہار کرتے دروازے کو پٹختے ہوئی اندر کی جانب چلی گئی۔۔۔

جب کہ نجمہ شیزہ کے اس رویے کو سمجھ نہ سکی اور کندھے آچکے لاپرواہی سے وہاں سے چلی گئی⁦۔۔۔

❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

”صالم اٹھ جا یار دیکھ دن کے تین بج رہے ہیں کتنا سوئے گا یوں؟؟؟؟؟“

اکمل نے صالم کو ہلا کر اٹھانے کی کوشش کی۔۔۔۔

کھڑکی کی جانب بڑھا جہان پردوں نے سورج کی روشنی کو اندر آنے سے روک رکھا تھا۔۔۔

کھڑکی کو پردے کی اوٹ سے آزاد کیا ہی تو سورج کی روشنی جھلمل کرتے پرجوش انداز سے صالم کے چہرے پر رقص کرنے لگی۔۔۔

”یار پلیزززززز۔۔۔۔

پردہ تو آگے کردے۔۔۔

یہ روشنی مجھے اذیت دے رہی ہے۔۔۔

سونے دے مجھے تھک گیا ہوں میں بہت۔۔۔۔“

بیزاری سے بولتے ہوئے تکیہ منہ پر ٹکائے وہ خود کو روشنی سے دور کرتے بولا۔۔۔۔

”چل اٹھ دیکھ تیرے لیے میں کھانا لایا ہو۔۔۔

کھانا کھا اور گھر جا۔۔۔

لگتا ہے بھابھی قدرے فکر مند ہے تیرے لیے “

اکمل متانت سے بولتے اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔

صالم جو آنکھیں موندھے لیٹا تھا۔۔۔۔

اکمل کی بات پر جھٹکے سے منہ سے تکیہ کو اٹھا پیچھے کیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔

”کیوں کیا ہوا؟؟؟

تیری کوئی بات ہوئی ہے اس سے؟؟؟

اس نے تجھے کچھ کہا ہے کیا ؟؟

کچھ بتایا ہے کیا؟؟؟“

چہرے پر سنجیدگی اور پسیمانی لیے وہ سر جھکائے اپنی چوری پکڑی جانے کے خوف سے  بولا ۔۔

”آرے نہیں میری کہاں سے بات ہونی ان سے۔۔۔

وہ تو تیرا فون آن کیا تو بس ڈھیر لگ گیا ان کی کالز کا۔۔۔

میں تو بس ڈر کر نہیں اٹھایا کہ کہیں مجھے ہی نہ پڑ جائے وہ۔۔۔

اب تو اٹھ گیا ہے تو خود سن لے فون۔۔۔“

”کہاں ہے فون میرا؟؟؟“

وہ آنکھیں ملتے بیگانی سے بولا۔۔۔

”لاتا ہو میں۔۔۔۔

چارجنگ پر لگایا تھا میں نے اب تک ہوگئی ہو گی۔۔۔

تب تک تو کچھ کھا لے صبح سے یونہی پڑا ہوا ہے بناء کچھ کھائے پیے۔۔۔“

کہتے ساتھ ہی اکمل اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔۔

سر ہاتھوں میں تھامے وہ اپنی کی گئی نادانی پر سوچ سوچ کر پاگل سا ہورہا تھا۔۔۔

ہمت نہ رہی کہ کیسے اسکا سامنا کرے کیسے اس سے آنکھ ملائے لہذا صبح کی پہلی روشنی کے ساتھ ہی صالم کمرے سے بھاگ نکلا اور سیدھا اکمل کے گھر لینڈ کیا۔۔۔۔

”یہ سب کیا کردیا میں نے؟؟؟؟

میں کیسے خود کے حواس کو قابو میں نہ رکھ سکا؟؟؟

کیا سوچتی ہوگی میرے بارے میں وہ۔۔۔

کہ کس قدر گھٹیا انسان ہو میں۔۔۔

ایک طرف اسے خود سے زبردستی جوڑ رکھا دوسری جانب اس سے !!!!!!“

وہ کہتے کہتے رک گیا۔۔۔۔

”مجھے ابھی گھر ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔

کہیں وہ سب ماما کو نہ بتا دے۔۔۔۔“

صالم اتھل پتھل مچاتا افراتفری لیے بھاگتا ہوا باہر کو نکلا۔۔۔۔

”کہاں جا رہا ہے یار؟؟؟“

اکمل کو واپس کمرے میں آ ہی رہا تھا صالم کو جاتا دیکھ کر بولا۔۔۔

”یار مجھے ابھی گھر جانا ہے۔۔۔

اور یہ موبائل…..“

صالم نے اکمل کے ہاتھ سے موبائل لیا اور بھاگتا ہوا باہر کو نکلا۔۔۔۔

”ارے یار کچھ کھا تو لیتا۔۔۔۔

سن تو ۔۔۔۔۔

اچانک ہوا کیا ہے کچھ تو بتا!!!!!!“

اکمل صالم کے پیچھے بولتا رہا لیکن وہ بناء کچھ سنے کہے وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

پورے کمرے میں اندھیرا چاروں طرف اپنا بسیرا کیے تھا۔۔۔۔

کمرے کے ایک جانب بیڈ کے ایک رخ لگے شیزہ اپنی ٹانگوں پر سر ٹکائے بیٹھی تھی۔۔۔۔

دن کے تین بج چکے تھے۔۔۔

اور اب تک نجمہ کئی بار کمرے پر دستک دے کر نامیدی سے پلٹ چکی تھی۔۔۔۔

جبکہ کئی بار نورین بی بی بھی بذات خود دو تین بار کمرے پر شیزہ کو بلانے کو آئی لیکن کمرے سے کسی بھی قسم کا جواب نہ پا کر مایوسی سے چلے گئی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم بکھری اور الجھی حالت میں گھر مین داخل ہوا۔۔۔

شرٹ کا ایک کونہ پینٹ سے باہر جبکہ ایک اندر۔۔

بال عموماً بکھرے ہوئے جبکہ چہرے پر حواس باختگی کے تاثرات جھلک رہے تھے۔۔۔۔

اندر آتے صالم کو دیکھ کر صوفے پر بیٹھی ہاتھ میں چائے کی پیالی تھامے بیٹھی نورین بی بی جو بظاہر پریشان تھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

”رکوں صالم“

نورین بی بی کی آواز میں خاصی تلخی اور سختی عیاں تھی۔۔۔۔

صالم جو پہلے سے ہی عجیب کیفیت میں مبتلا تھا نورین بی بی کی آواز نے اسے مزید بوکھلا سا دیا۔۔۔۔

”ج۔۔۔۔۔جی ماما“

وہ رکتے ہوئے پلٹا ۔۔۔

نورین بی بی پیالی میز پر رکھے اٹھی اور  چند قدم چلتے ہوئے  صالم کے روبرو کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

”کہاں تھے صبح سے ؟؟؟؟“

لہجے میں ابھی بھی سختی تھی۔۔۔

”ماما وہ میں ۔۔۔۔۔۔۔“

صالم سوچ سوچ کر بولتے رکا۔۔۔۔

”اور کیا ہوا ہے تمہارے اور شیزہ کے درمیان ؟؟؟؟“

نورین بی بی کے سوال پر اب صالم خاصا  پریشان ہوگیا۔۔۔

”کیوں ماما اس نے کچھ کہا ہے؟؟؟“

”صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا۔۔۔

کچھ کھانے کی دور کی بات وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی اور نہ ہی کسی کو آنے دیا۔۔۔

اب بتاؤ کیا ہوا ہے ایسا کہ تم دونوں ایک دوسرے سے سخت ناراض ہو؟؟؟؟“

نورین بی بی کے استہفامیہ لہجے نے اس کو حیرت میں ڈال دیا۔۔۔۔

ماما ایسا کچھ!!!!!

اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتا نورین بی بی پھر سے بول اٹھی۔۔۔

”دیکھو صالم۔۔۔۔

جو بھی ہے سب ٹھیک کرو۔۔۔

مجھ سے بچی کے آنسوں نہیں دیکھے جاتے۔۔۔۔

جاؤ اور سب معاملات کو ٹھیک کرو۔۔۔

ابھی دن ہی کیا ہوئے ہین تم دونوں کی شادی کو۔۔۔

اور یوں جھگڑے اور ناراضگیاں تم دونوں میں آگ رہی ہے حیرت ہے ویسے۔۔۔

جاؤ اور مناؤ اسے جب تک وہ ناراض رہے گی مجھ سے بھی امید نہ رکھنا کہ میں بھی کوئی نرمی برتوں گی۔۔۔

ناجانے کیا سوچتی ہوگی وہ کہ کیسی تربیت کی ہے میں نے اپنے بیٹوں کی؟؟؟“

صالم نورین بی بی کی باتوں پر بناء کوئی رسپانس دیے سر گرائے کھڑا سن رہا تھا۔۔۔

”اب جاؤ اور مناؤ اسے پھر انا میرے پاس“

نورین بی بی نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے حکم صادر کیا۔۔۔۔

صالم نے ایک نظر ناراض نورین بی بی کے چہرے پر ڈالی جو واقعی ہی سختی اپنائے اسے ڈانٹ رہی تھی۔۔۔۔

”جی ماما جاتا ہو“

سر جھکائے صالم نے حامی میں سر ہلایا جبکہ نورین بی بی جو اب صالم سے براہ راست خفگی کا برملا اظہار کر چکی تھی اب وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩


صالم دروازے کے باہر  بے دل اور شرمساری سے سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔۔

”کیا کرو؟؟؟

کیسے کرو اس کا سامنا؟؟؟

ایک طرف شیزہ تو دوسری جانب ماما کی ناراضگی۔۔۔

یہ سب کیا ہورہا ہے ؟؟؟“

”لیکن اب غلطی کی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مداوا تو کرنا ہی پڑے گا“

ایک بار پھر خود کو ملامت کرتے وہ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر بولا۔۔۔۔

”لیکن اب وقت کا ضیاع کرنا بیوقوفی ہے۔۔۔

مجھے شیزہ سے بات کرنی ہی ہوگی۔۔۔

سب کچھ کلئیر کرنا ہوگا ۔۔“

دل میں عندیہ لیے اس نے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔

دستک کے باوجود کوئی جواب نہ ملا۔۔۔۔

ایک بار پھر دورازے پر اپنا ہاتھ دے مارا۔۔۔۔

لیکن پھر  اندر سے  کوئی جواب نہ ملنے پر صالم نے کچھ سوچا اور پھر  جیب سے کمرے کے ڈپلیکیٹ چابی نکالی اور دروازے کو کھول کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔

اندر کی جانب بڑھتے قدموں نے اس کے دل کو ایسے جکڑا جیسے کسی نے مٹھی میں بند کردیا ہو۔۔۔

ہر طرف اندھیرا اور خاموشی کسی آنے والی قیامت کی گواہی چیخ چیخ کر دے رہے تھے۔۔۔۔

ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وہ آہستگی سے آگے بڑھا اور کمرے کو روشنی سے اجاگر کیا۔۔۔۔

روشنی ہوتے ساتھ ہی کمرے کے حالات اس کے سامنے اپنا بیان دینے لگے ۔۔۔

ہر چیز اپنی جگہ کو چھوڑ کر زمین بوس ہوئی ہوئی تھی معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی بگولہ یہاں سے ناچ کر گیا ہو۔۔۔۔

پورے کمرے میں نظر دہرانے کے بعد اب شیزہ کی تلاش کرتی صالم کی نظریں پورے کمرے میں گھومی۔۔۔۔

”یہ کہاں گئی؟؟؟

کمرہ تو اندر سے لاک تھا لیکن وہ یہاں تو نہیں؟؟؟

تو پھر؟؟؟“

یہی سوچتے ہوئے صالم بیڈ کی جانب بڑھا تو وہی سر گھٹنوں پر گرائے بکھرے بالوں اور اجڑی حالت لیے بیٹھی شیزہ نظر آئی۔۔۔۔

صالم شیزہ کو دیکھ کر ایک دم دہک سا گیا اور قدم پیچھے کو ہوگئے۔۔۔۔

”ش۔۔۔۔ش۔۔۔شیزہ۔۔“

منہ سے بے اختیار نام نکلا تو شیزہ بھی دھیرے سے سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

صالم کی خالی آنکھوں کی مانند ہی شیزہ بھی خالی بھیگی آنکھوں سے جو رو رو کر سرخی لال ہوچکی تھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔

صالم صدمے سے دوچار سر پکڑے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔

جبکہ شیزہ بس اسے یونہی دیکھتی رہی۔۔۔۔

”میں جانتا ہو ۔۔۔۔۔“

صالم خود کو سیدھا کرتے چپ کی چادر چاک کرتے بولا۔۔۔

”میں اپنے قول پر قائم نہ رہ سکا۔۔۔

لیکن یقین جانو مجھے خبر نہ ہوئی۔۔۔

میں کیسے خود پر قابو نہ رکھ پایا ؟؟؟؟“

ایک بار پھر آنکھوں میں نمی لیے وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔

”لیکن اب میں نے سوچ لیا ہے۔۔۔

جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔

تم مجھ سے آزادی چاہتی ہو ناں؟؟؟“

اٹھکر شیزہ کے پاس گیا اور خود بھی ٹانگوں پر بازوؤں ٹکائے سر گرائے بیٹھ گیا۔۔۔۔

”مجھے آپ کی کسی بات کسی قول پر یقین نہیں۔۔۔

آپ فریب ہو دھوکا ہو۔۔۔

جھوٹے ہو۔۔۔“

شیزہ ہچکیاں بھرتے روتے ہوئے صالم کو دیکھتے بولی۔۔۔

”نہیں۔۔۔۔

نہیں شیزہ۔۔۔۔“

خود کی دلیل دیتے وہ نفی میں سر ہلاتے بولا۔۔۔۔

”ہاں۔۔۔

ایسا ہی ہے ۔۔۔۔

ایسا ہی ہے سن لیا ناں آپ نے۔۔۔۔۔“

وہ دھیرے دھیرے بلند آواز ہوتے چلاتے بولی۔۔۔۔

”کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟؟؟

کیوں؟؟؟؟

مجھے نفرت ہوگئی ہے آپ سے۔۔۔

اور اپنے اس وجود سے۔۔۔۔“

وہ خود کو چھوتے دیوانہ وار حواس باختگی سے بولی۔۔۔

”مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔“

وہ بمشکل اپنی الفاظ کو آنسوں کے بھگے لہجے سے نکالے بولا۔۔۔

”معافی۔۔۔۔

کس کس بات کی معافی؟؟؟؟

میری زندگی تباہ کرنے کی معافی۔۔۔

یا مجھ سے زبردستی نباہ کرنے کی معافی؟؟؟؟“

شیزہ ہچکیاں بھرتے روندی آواز سے بول رہی تھی جبکہ سامنے بیٹھا شخص بے بسی کا منظر لیے سر گرائے بیٹھا اپنی قسمت پر ماتم کناں تھا۔۔۔۔

”ایک بات کہوں….“

شیزہ آہستگی سے دھیمے لہجے سے صالم کو دیکھتے بولی۔۔۔۔

صالم سر اٹھائے اس کو سرخ ہوتی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔۔۔

”بہت ہی کم ظرف انسان ہے آپ۔۔۔

دھتکار ہے آپ جیسے مردوں پر۔۔۔۔“

شیزہ کہتے ساتھ ہی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

جبکہ صالم وہی بیٹھا شیزہ کی زہر گھلی باتوں کو اپنے کانوں میں دہراتا رہا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ فریش ہوکر باہر نکلی تو  اب بہتر محسوس کررہی تھی۔۔۔۔

نجمہ کمرے کے سامان کو واپس ان کی جگہ پر سمیٹ رہی تھی جو کچھ دیر پہلے اتھل پتھل پڑی بکھری تھی ۔۔۔

صالم؟؟؟؟

شیزہ نے سوالیہ نظروں سے کمرے کی ویرانی کو دیکھتے نجمہ سے پوچھا۔۔۔۔

”دلہن بی وہ کچھ دیر پہلے ہی باہر گئے ہیں۔۔۔

کہہ رہے تھے رات تک آجائے گے۔۔۔۔“

”اچھا ٹھیک ہے “

شیزہ نجمہ کی بات سن کر سوچ میں پڑتے بولی۔۔۔۔

”بی بی جی بڑی بی اپکو کب سے یاد کررہی ہے۔۔

آپ کہے تو انہیں بتا آؤ آپ کے بارے میں ۔۔۔۔

وہ کافی پریشان ہے صبح سے۔۔۔“ نجمہ بولی۔۔۔

”نہیں میں خود ان کے پاس چلی جاؤ گی تم کمرہ صاف کرو۔۔۔“

شیزہ ڈوپٹہ سنبھالے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل پڑی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

نورین بی بی اپنے کمرے میں موجود ایک آرام دہ کرسی پر براجمان تھی۔۔۔

ہاتھ میں کوئی کتاب تھامے اور ناک پر چشمہ ٹکائے وہ مطالعہ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔

”آنٹی میں آجاؤ اندر؟؟؟؟“

شیزہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر اندر کی جانب جھانکتے ہوئے بولی۔۔۔۔

”جی جی کیوں نہیں بیٹا؟؟؟

تمہیں اجازت لینے کی ہرگز ضرورت نہیں۔۔۔

جب چاہے آجایا کرو۔۔۔۔

تمہارا ہی گھر ہے ۔۔۔۔“

شیزہ کی آواز کو سنا تو فورا اس کی جانب دیکھا اور پھر کتاب پاس موجود میز پر رکھی اور چشمہ اتارے اسے اندر آنے کی دعوت خوشدلی سے دیتے بولی۔۔۔۔

”مجھے نجمہ بتا رہی تھی کہ آپ میری وجہ سے پریشان؟؟؟؟“

شیزہ نورین بی بی کے سامنے موجود کرسی پر روبرو ہوتے بولی۔۔۔

”ہاں پریشان تو بہت ہوگئی تھی۔۔۔۔“

وہ متانت انداز سے بولی۔۔۔

”لیکن پھر مجھے اپنے بیٹے اور اپنی پرورش پر پورا یقین تھا۔۔

کہ وہ کبھی غلط نہیں کرسکتا اور اگر کر بھی گیا تو اس کی معافی اس کے ضمیر کی ملامت سے پہلے ہی اس کے لبوں پر آجائے گی۔۔۔“

شیزہ دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پکڑے بیٹھی سن رہی تھی۔۔۔

”پتہ ہے شیزہ ۔۔۔!!!!“

نورین بی بی اٹھ گئی اور کتاب تھامے اپنی الماری کی جانب بڑھنے لگی جو کئی کتابوں کے جھرمٹ میں سجی ہوئی تھی۔۔۔۔

شیزہ نے اپنا دھیان نورین بی بی کی جانب کیا۔۔۔

”رافع بہت چھوٹا تھا جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔۔۔“

وہ ایک گہرا سانس لیتے ماضی کی تلخیوں کو دہراتے اذیت محسوس کررہی تھی۔۔۔

خود کو سنبھالنا ، چلتے کاروبار کو دیکھنا۔۔۔

اور سب سے بڑی بات اپنے سب سے حساس بیٹے صالم کو جو والد کے انتقال کے بعد ڈپریشن کا شکار ہوچکا تھا اس کو ریکورر کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔۔۔۔

نورین بی بی دوبارہ شیزہ کے سامنے براجمان ہوگئی جو بہت ہی محظوظ انداز سے ان کی باتوں کو سن رہی تھی۔۔۔

”رافع تو چھوٹا تھا مجھے اتنی مشکل نہ ہوئی۔۔۔

لیکن صالم۔۔۔۔“

نورین بی بی کہتے کہتے رک گئی آنکھوں میں نمی اور چہرے پر اداسی کے تاثرات صاف نمایاں ہونے لگے۔۔

آنٹی۔۔۔۔

شیزہ نورین بی بی کے ہاتھوں کو تھامتے حوصلہ دیتے بولی ۔۔۔۔۔

”نہیں میں ٹھیک ہو۔۔۔

بلکل ٹھیک ۔۔۔۔۔

وقت گزر گیا ہے سب سہہ لیا ہے۔۔۔

بس وقت کی تلخیوں کو یاد کرتی ہو تو آنکھ نم سی ہوجاتی ہے ۔۔۔۔“

نورین بی بی بمشکل خود کو سنبھالے بناوٹی مسکراہٹ سے آنکھ سے نکلتے آنسوں کو پونچھتے بولی۔۔۔۔

شیزہ کو ان کی باتیں سن کر بہت ہمدردی  ہورہی تھی۔۔۔

”صالم بچپن سے ہی بہت حساس رہا ہے۔۔۔۔

والد کو کھونے کے بعد وہ مجھ سے اس قدر اٹیچ ہوگیا کہ میری آواز نہ سنتا تو رو پڑتا تھا۔۔۔۔

رشتوں کی کمی اور چھوٹتے رشتوں نے اس کے اندر کئی خوف اجاگر کر دیے ہیں۔۔۔“

”آنٹی کس طرح کے خوف ؟؟؟

میں کچھ سمجھی نہیں؟؟؟؟“

شیزہ اچک نظروں سے انہیں دیکھتے بولی۔۔۔

”شیزہ صالم اپنے ہر رشتے کو اپنی جان سے بڑھ کر چاہتا ہے۔۔۔

ان سے دور ہونا یا ان کو خفا کرنا اس کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔۔۔

یہی وجہ کہ میری ناراضگی اور تمہارا۔کمرے میں بند رہنا اسے اس قدر بے چین کرگیا کہ دوڑتا ہوا تمہاری جانب آیا وہ۔۔۔“

نورین بی بی کی باتیں اسے کئی حد تک سچ پر مبنی معلوم ہورہی تھی۔۔۔

صالم کی آنکھوں میں آنسوں۔۔۔

اس کی ہچکیاں ۔۔۔۔

اس کی معافی۔۔۔

شیزہ کی آنکھوں میں چکرا سی گئی۔۔۔۔

”کیا ہوا شیزہ بیٹا؟؟؟؟

کس سوچ میں گم ہو؟؟؟“

نورین بی بی نے شیزہ کو کھوئے ہوئے انداز میں کھڑا دیکھا تو اسے ہوش دلایا۔۔۔۔

”ن۔۔ن۔نہیں کچھ نہیں آنٹی۔۔۔

وہ بس یونہی۔۔۔

اچھا آنٹی آپ ریلیکس کرے مجھے کچھ کام ہے میں وہ کر لو ۔۔۔“

شیزہ اپنی سوچ کے بھنور سے نکلتے ہڑبڑا کر بولی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

”ٹھیک ہے بیٹا تم بھی کچھ آرام کر لینا۔ اور کچھ کھا لینا۔۔

جب صالم آئے تو مجھے بتا دینا۔۔۔

ناجانے میری ناراضگی نے اس کو کس قدر دکھی کیا ہوگا؟؟“

نورین بی بی صالم کی سوچ پر افسردگی سے  بولی۔۔۔

شیزہ دروازے کی جانب بڑھی تو پیچھے سے نورین بی بی کی آواز آئی۔۔۔۔

شیزہ!!!!!

نورین بی بی کی آواز پر شیزہ کے قدم رک گئے۔۔۔۔

”جی انٹی“

”بیٹا صالم کو کبھی غلط مت سمجھنا۔۔۔

وہ اپنے رشتوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے۔۔۔

تمہیں کبھی تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا وہ۔۔۔“

نورین بی بی نے تاسف سے کہا۔۔۔

”جی آنٹی “

شیزہ بس اتنا ہی کہہ سکی اور پھر وہاں سے چلی گئی۔۔۔

شیزہ کمرے میں آئی تو دماغ میں کئی بھنور گھوم رہے تھے۔۔۔۔

نورین بی بی کی باتوں اور صالم کی معافی نے اسے کئی باتوں پر سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔

سوچتے سوچتے اپنے بیڈ کی جانب بڑھی اور پچھلے دنوں کے متعلق سوچنے لگی۔۔۔۔

 کہ اچانک اس کو اپنے فون کی آواز سنائی دی جو میز پر وائبریشن کی وجہ سے اچھل رہا تھا۔۔۔۔

”ضرور صالم کی ہی کال ہوگی۔۔۔

شاید پھر سے مجھ سے معافی مانگنا چاہتا ہے وہ؟؟؟“

سوچتے ساتھ ہی وہ موبائل کی جانب بڑھی اور کان ساتھ لگا لیا ۔۔

”ہیلو !!!!

صالم!!!!“

وہ بے اختیار بناء سوچے سمجھے بے چینی سے صالم کا نام لے بیٹھی ۔۔۔۔

اور پھر خود ہی اس کے نام بولے جانے ہر ایک دم ٹھٹک سی گئی۔۔۔۔

لیکن دوسری جانب سے آنے والی آواز نے اسے پہلے سے زیادہ حیران اور ششدر کردیا۔۔۔۔

”ہیلو۔۔۔۔

شیزہ!!!!!!“

دوسری جانب سے آنے والی مردانہ آواز اس کیلئے کوئی انجان نہ تھی۔۔۔

لیکن اس طرح یوں اس آواز کا اسکا تعاقب کرنا اسے حیران کررہا تھا۔۔۔۔

شیزہ کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔۔۔۔

”ہیلوں شیزہ!!!!!

شیزہ ہی ہو ناں تم؟؟؟؟

شیزہ کچھ تو بولو یار؟؟؟“

وہ ایک بار پھر سے احتجاجی انداز سے بولا۔۔۔۔

”ف۔۔۔۔فیروز۔۔۔۔

تمممممم؟؟؟؟؟“

وہ بے یقینی سی کیفیت سے بولی۔۔۔۔

”ہائےےےےےے۔۔۔۔۔

مطلب یاد ہے تم کو یہ تمہارا دیوانہ؟؟؟؟“

وہ دلجوئی اور بے تکلفی انداز سے قہقہ لگاتے بولا۔۔۔۔

شیزہ ابھی بھی فیروز کی آواز سن کر سکتے کی کیفیت میں مبتلا تھی۔۔۔۔

فیروز کی باتیں سن کر وہ ابھی تک کسی بھی قسم کا جواب دینے سے قاصر تھی ۔۔۔

شیزہ کی خاموشی سن کر فیروز پھر سے بولا۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے شیزہ۔۔۔

خاموش کیوں ہوگئی ہو؟؟؟

لگتا ہے میرے واپس آنے کی امید تم چھوڑ چکی تھی تبھی  میرے آنے پر  بے یقینی سی کیفیت میں مبتلا ہو۔۔۔

بتاؤ صیحح کہہ رہا ہو ناں میں؟؟؟“

”مجھے کال کیوں کی؟؟؟؟

اور میرا نمبر؟؟“

شیزہ سخت اور نفرت انگیز لہجے سے بولی۔۔۔۔

”شیزہ میری جان۔۔۔

اتنی نفرت ۔۔۔

یار تم جانتی تو تھی میری مجبوری پھر بھی۔۔۔۔

اور دیکھو کس قدر مشکل اٹھا کر تمہارا نمبر حاصل کیا ہے میں نے اور اوپر سے تمہارا یہ رویہ۔۔۔۔

کتنی بری بات ہے ناں۔۔۔“

وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔

”مجھے تم جیسے بزدل انسان سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔

خود پر شرم آتی ہے یہ سوچ کر کہ کبھی تم جیسے انسان سے میرا کوئی تعلق بھی تھا۔۔۔۔

 فون رکھ رہی ہو میں اب مجھے اب دوبارہ کال مت کرنا۔۔۔۔“

وہ سختی سے فیروز کو تنبیہہ کرتے بولی اور فون بند کردیا ۔۔۔

”کیا سمجھتا ہے خود کو؟؟؟

میں سب بھول جاؤ گی کیا؟؟؟

کس طرح مجھے بے راہی کا شکار کیے چھوڑ گیا تھا وہ۔۔

میری بے بسی کو سیج پر سجانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔۔“

شیزہ کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔ وہ تمام تلخ اور اذیت بھرے لمحات اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگے کہ کس بے بسی کے عالم میں فیروز اسے تن تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔

”یہ آنسوں؟؟؟

میں کیوں؟؟؟

یہ آنسوں کیوں ؟؟؟

میں کیوں رو رہی ہو؟؟؟

میں خوش ہو۔۔۔۔

ہاں بہت خوش ۔۔۔۔“

وہ بے چینی سے اپنے دل کو مارے آنسوں کو صاف کرتے بولی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم پورا دن یونہی گاڑی کو سڑکوں پر بھاگاتا رہا۔۔۔۔

دیر رات جب نورین بی بی کا خیال آیا تو واپسی کی راہ لی۔۔۔۔

گھر میں داخل ہوا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔۔

پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔

اپنی اجڑی حالت میں مبتلا ایک بھٹکی راہ کے مسافر کی مانند وہ بھاری قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔۔

دروازے پر پہنچا تو ایک پل کو رک گیا۔۔۔۔

دروازے کو یونہی کچھ دیر دیکھ کر سوچتا رہا اور پھر الٹے پاؤں سے گیسٹ روم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

دوسری جانب شیزہ گھڑی پر نظریں جمائے صالم کے آنے کا انتظار کرتی رہی۔۔۔۔

گھڑی پر نظریں جمائے وہ چلتی سوئیوں کو دیکھ رہی تھی کہ ناجانے کب نیند اس پر مہربان ہوئی اور وہ بیٹھی بیٹھی سو گئی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم کی آنکھ نجمہ کی آواز پر کھلی تو آنکھوں کو ملتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

”صاحب جی آپ یہاں صوفے پر؟؟؟“

”ہاں وہ کمرہ بند تھا تو میں یہاں آ کر سو گیا یہ بتاؤ ماما اٹھ گئی ہے کیا؟؟؟؟“

”جی صاحب جی اٹھ گئی ہے اور قرآن پاک کی تلاوت ہی کررہی ہے۔۔“

”اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔“

صالم کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔

رات بھر صوفے پر سونے کی وجہ سے اس کے جسم میں تکلیف سی محسوس ہوئی۔۔۔۔

انگڑائی بھرتے ہوئے وہ کراہ سا گیا۔۔۔۔

اور پھر باہر کو نکلنے لگا۔۔۔۔

”نجمہ!!!!

ماما کو بلکل خبر نہ ہو کہ میں رات گیسٹ روم میں سویا تھا۔۔۔۔“

وہ ایک پل رکا اور نجمہ کو اس بات کا پابند کیا۔۔۔۔

”جی صاحب “

نجمہ نے حکم کو مانتے ہوئے سر حامی میں ہلایا تو صالم وہاں سے چلا گیا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم صبح کے وقت کمرے میں داخل ہوا تو شیزہ کو بیڈ کی ٹیک ساتھ سر لگائے بیٹھے ہوئے سوئے پایا۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کی جانب دیکھا تو وہ دنیا سے بے خبر نیند کی وادی میں گم تھی۔۔۔۔

کچھ دیر یونہی اسے دیکھنے کے بعد آہستگی سے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

کچھ لمحوں بعد باہر نکلا اور اپنے کپڑے صوفے پر رکھتے ہوئے تیار ہونے لگا۔۔۔۔

”میری گھڑی؟؟؟؟

یہی تو رکھی تھی میں نے“

وہ ڈریسنگ ٹیبل پر ڈھونڈتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔

پھر کمرے میں نظر دہرائی تو بیڈ شیلف پر  گھڑی کو دیکھا۔۔۔۔

تو یہ وہاں پڑی ہے۔۔۔

خود سے بولتے ہوئے وہ بیڈ کی جانب پڑا۔۔۔۔

جیسے ہی اپنی گھڑی اٹھائی نظر شیزہ کے موبائل کی جانب پڑی ۔۔۔

جس پر کسی انجان نمبر سے مسلسل کال آرہی تھی۔۔۔۔

یہ کس کا نمبر ہے؟؟؟

اور اتنی صبح کال کون کررہا ہے؟؟؟

صالم نے دل ہی دل میں سوچا۔۔۔۔

جیسے ہی فون اٹھانے کو ہاتھ بڑھایا تو فون بند ہوگیا۔۔۔۔

اور سکرین پر تیس مس کال کی نوٹیفیکیشن ظاہر ہوئی۔۔۔

صالم نے نوٹیفکیشن دیکھی تو حیرت کی بناء پر شیزہ کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔

اس نمبر سے اتنی کالز کیوں آرہی ہے؟؟؟

فون اٹھائے وہ شیزہ کے موبائل کو دیکھنے لگا ۔۔۔

کہ تبھی پھر اسی نمبر سے کال آنے لگ گئی ۔۔۔

صالم ہاتھ میں موبائل تھامے سوچ میں پڑ گیا۔۔۔۔

فون اٹھاؤ کہ نہیں؟؟؟؟

لیکن اتنے کالز وہ بھی س نمبر سے کیوں؟؟؟

وہ آرام سے سوئی شیزہ کو شک سے دیکھتے بولا۔۔۔۔

لیکن پھر سوچتے سوچتے فون کان سے لگا لیا۔۔۔۔

اور کچھ نہ بولا۔۔۔۔

”ہیلو ۔۔۔۔۔۔

ہیلو شیزہ۔۔۔۔۔

یار کب سے کال کررہا ہو میں تمہیں؟؟؟

کل رات سے لگا ہو لیکن کوئی جواب ہی نہیں۔۔۔۔

خیریت تو ہے ناں ؟؟؟

بھئی شوہر کی اتنی فرمانبرداری کہ اپنے عاشق کو بھول گئی ہو؟؟؟؟“

صالم کا اتنا ہی سننا تھا کہ وہ تلملا سا گیا۔۔۔۔۔

فون کان پر لگائے آنکھوں میں انگارے اور غصے کے بگولے لیے اس کا بس نہ تھا کہ فون کی دوسری جانب موجود شخص کو تباہ کردے ۔۔۔

”ہیلو ۔۔۔۔۔

ہیلو۔۔۔۔

ہیلو شیزہ۔۔۔۔۔۔۔

کچھ بولو تو سہی یار۔۔۔۔

ہیلو!!!!!“

دوسری جانب موجود فیروز جواب نہ پا کر مسلسل شیزہ کو بلا رہا تھا جبکہ صالم کے چہرے پر چھاتی سرخی اور آنکھوں میں لالی کے ساتھ تیرتا پانی اس کا قابو کھونے کا سبب بن رہا تھا۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ کچھ بولتا دوسری جانب سے کال بند ہوگئی۔۔۔۔

جبکہ یونہی موبائل کان پر لگائے صالم پر آج پھر ایک قیامت ٹوٹی تھی۔۔۔۔

شیزہ جو سامنے سوئی ہوئی تھی اس کی ہلکی سی آہٹ کو دیکھا تو فورا موبائل واپس اسی جگہ کر رکھا جہاں سے اٹھایا تھا اور تیز ڈاگ بھرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

جبکہ شیزہ ابھی بھی۔ بے خبری سے صالم کی موجودگی سے بے خبر سوئی ہوئی تھی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

”بی بی جی۔۔۔۔

دلہن بی جی۔۔۔۔

اٹھ جائے۔۔۔۔

بڑی بیگم بلا رہی ہے آپکو “

نجمہ نے سوئی ہوئی شیزہ کو آہستگی سے اٹھاتے ہوئے ہلایا۔۔۔

شیزہ بمشکل آنکھیں کھولے نجمہ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

”بی بی جی آپ بیٹھے بیٹھے کیوں سو گئی تھی؟؟؟“

نجمہ نے شیزہ کو حیرتِ سے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔

شیزہ نے نجمہ کی بات سنی تو واقعی خود کو یوں سوتے دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔

”نہیں کچھ نہیں ویسے ہی۔۔۔۔“

”جی ٹھیک ہے دلہن بی اپکو کچھ چاہیے تو مجھے بتا دے۔۔۔

اور بڑی بیگم آپکا ناشتے پر انتظار کررہی ہے۔۔۔“

”ٹھیک ہے تم بتا دو انہیں کہ میں آرہی ہو۔۔۔“

نجمہ کے جانے کے بعد شیزہ بیڈ پر بیٹھی ہی اپنے بالوں کو سمیٹنے لگی۔۔۔۔

”پتہ نہیں پوری رات صالم کہاں تھے؟؟؟

اب اگر آنٹی مجھ سے پوچھا تو کیا جواب دونگی میں؟؟؟“

”میں کیا جواب دونگی بھلا۔۔۔۔

وہی کہوں گی جو سچ ہے۔۔۔

مجھ سے کونسی بھلائی کی جو میں ان کیلئے راستہ آسان کرو۔۔۔“

امڈتے ہوئے نرم گوشے کو شیزہ نے ایک دم کچلتے ہوئے دل ہی دل میں سوچتے کہا۔۔۔۔

اور اٹھ کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

کچھ دیر بعد فریش ہو کر نکلی تو شیشے کے سامنے کھڑی خود کو سنوارنے لگی۔۔۔۔

تبھی اس کی نظر  ڈریسنگ روم پر پڑے کپڑوں پر پڑی۔۔۔

”یہ تو وہی کپڑے ہے جو کل صالم نے پہن رکھے تھے۔۔۔

اسکا مطلب!!!!“

ابھی وہ اس متعلق سوچ ہی رہی تھی کہ فون کی گھنٹی نے اس کو اپنی جانب مبذول کیا۔۔۔

”صبح صبح کس کا فون آگیا مجھے؟؟؟

کہیں امی کا تو نہیں۔۔۔۔

شکر ہے انہیں بھی میرا خیال آیا۔۔۔“

شیزہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے بیڈ شیلف پر پڑے اپنے موبائل کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔

”یہ نمبر!!!!!

یہ نمبر امی کا تو نہیں!!!!

پھر کس کا ہے؟؟؟“

سکرین پر ابھرے نمبر کو دیکھ کر وہ انجان بنے خود سے بات کررہی تھی۔۔۔۔

اور پھر تصدیقی کیفیت کی بناء پر فون اٹھا کر کان سے لگا لیا۔۔۔۔۔

”ہیلو !!!!!“

شیزہ نے متانت بھرے انداز سے کہا۔۔۔۔

”ہیلو شیزہ بھئی کہاں غائب ہو؟؟؟

پہلے بھی کال اٹھا کر کوئی جواب نہ دیا اور اب پھر اتنی دیر بعد کال اٹھائی؟؟؟

آخر کیا وجہ ہے کہیں شوہر کی محبت کا رنگ خود پر چڑھا تو نہیں لیا۔۔۔؟؟؟“

فیروز جو طنزیہ لہجے سے شیزہ سے سوالیہ تھا بولا۔۔۔

”تم نے مجھے کب کال کی اور میں نے کب بات کی تم سے؟؟؟؟۔۔۔۔“

وہ استہفامیہ انداز سے فیروز کی بات سن کر بولی۔۔۔۔۔

”دیکھو مزاق مت کرو اچھا!!!!

خیر چھوڑو۔۔۔۔

یہ بتاؤ کیا پلان ہے آج کا؟؟؟“

”کہا تھا نہ مجھے کال کرنے کی ہمت نہ کرنا۔۔۔۔

لگتا ہے تم ایسے باز نہیں آؤ گے۔۔۔۔

میں اب تمہارا نمبر ہی بلاک کردونگی۔۔۔

زندگی سے تو نکال پھینکا ہے تمہیں لیکن اب نمبر بھی ہوا میں اڑا دونگی۔۔۔۔“

غصے سے بپھڑتی شیزہ نے فون بند کرتے ساتھ ہی بیڈ کر دے مارا۔۔۔۔

”میری زندگی کو تباہ کر کے اب پوچھ رہا ہے پلان کیا ہے؟؟؟“

وہ دانت چبائے لفظ بہ لفظ بولی۔۔۔۔

لیکن تبھی اسکا دماغ ٹھٹھکا۔۔۔

”ہیلو شیزہ بھئی کہاں غائب ہو؟؟؟

پہلے بھی کال اٹھا کر کوئی جواب نہ دیا اور اب پھر اتنی دیر بعد کال اٹھائی؟؟؟“

فیروز کی کی گئی بات پر شیزہ ایک دم سے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔

فورا بیڈ سے موبائل اٹھایا اور کال ہسٹری دیکھنے لگی۔۔۔۔

جسے دیکھ کر شیزہ کو لگا جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک گئی ہو۔۔۔۔

”اسکا مطلب وہ سچ کہہ رہا تھا۔۔۔۔

فون اٹھایا گیا ہے کسی نے سنا ہے فون۔۔۔

اور فیروز سے بات کی ہے۔۔۔

لیکن کون؟؟؟

کس نے اٹھایا فون؟؟؟“

شیزہ پریشانی سے موبائل کو دیکھتے بولی۔۔۔۔

”نورین آنٹی تو ۔۔۔۔

نہیں نہیں۔۔۔

وہ تو نہیں آئی میرے کمرے میں۔۔۔۔“

”کہیں نجمہ!!!!!“

وہ ایک بار پھر تکا لگاتے بولی۔۔۔۔

”نہیں نہیں اس کو یہ موبائل استعمال کرنا نہیں آتا۔۔۔“

وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے منہ میں انگلی دبائے بولی۔۔۔۔

”صالم!!!!!!“

ایک گہری سوچ و بچار کے بعد وہ پھر اس نتیجے پر پہنچ ہی گئی جو کسی بھیانک خواب کی تعبیر سے کم نہ تھا۔۔۔۔

”اسکا مطلب صالم نے فیروز سے۔۔۔۔“

شیزہ کے الفاظ منہ میں ہی اٹک سے گئے۔۔۔

جبکہ اب ایک نئی پریشانی اس کیلئے راہ کھولے تیار تھی۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم آفس کی کرسی پر براجمان آنکھیں موندے صبح کی کال پر سوچ رہا تھا۔۔۔

”کیا یہ وہی تھا جس کے متعلق مجھے شیزہ نے بتایا تھا؟؟؟

کیا وہ سچ میں اس کے ساتھ رابطے میں ہیں؟؟؟“

وہ سر تھامے سیدھے ہو کر بیٹھا۔۔۔۔

”یا میرے اللّٰہ۔۔۔۔

یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے؟؟؟؟

محبت کی اتنی بڑی سزا؟؟؟؟“

”میں نے بس چاہا تھا اسے۔۔۔۔

اس وقت سے چاہا تھا جب سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔

تو اتنی بڑی آزمائش کس بات کی؟؟؟؟“

ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ تبھی اکمل کا نمبر سکرین پر چمکنے لگا۔۔۔۔

”ہاں ہیلو!!!!“

”یار کہاں ہے؟؟؟

کب سے کال کررہا ہو؟؟؟

خیر تو ہے؟؟؟“

اکمل نے برجستگی بھرے انداز سے استہفامیہ کیا۔۔۔۔

”نہیں یار وہ بس میں۔۔۔۔“

آنکھوں کو ملتے وہ خود کو نارمل کرتے بولا۔۔۔۔

”تو سنا کال کیوں کی کوئی وجہ ؟؟؟؟“

”مطلب اب تجھے کال کرنے کی بھی وجہ مجھے ڈھونڈنی اور بتانے پڑے گی۔۔۔۔

حیرت ہے بھائی۔۔۔۔“

اکمل خفگی اپنائے بولا۔۔۔

”ارے نہیں یار میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔

بس ابھی آفس میں ہو تو کام کررہا تھا تبھی پوچھا تم سے۔۔۔

اچھا خیر بتاؤ کیا ہوا؟؟؟“

صالم پرامن انداز اپنائے بولا۔۔۔۔

”یار خیر تو سب ہے اور کام تو کچھ نہیں۔۔۔

بس دل کررہا تھا کہ تیرے ساتھ ایک کپ کافی پیوں۔۔۔

تو تجھے کال ملا دی۔۔۔

لیکن اگر تو بزی ہے تو کوئی بات نہیں۔۔۔

ہم پھر کبھی مل لے گے“

اکمل بظاہر نارمل انداز سے بولا لیکن اس کا لہجہ اس کی اداسی کی عکاسی کررہا تھا۔۔۔

”اوئے زیادہ ڈرامے نہ کر۔۔۔

اتنا تو رہتا نہیں۔۔۔۔

آرہا ہو میں بتا کہاں انا ہے؟؟؟“

صالم ایک اچھے دوست کی طرح اکمل کا دل بہلاتے ہوئے اس کی اداسی دور کرتے بولا۔۔۔۔

”سچ کہہ رہا ہے تو آرہا ہے پھر ؟؟؟“

”ہاں اور کیا جھوٹ بولو گا ؟؟؟

بتا کہاں انا ہے میں بس پانچ منٹ میں پہنچ جاؤ گا۔۔۔“

صالم اٹھ کھڑا ہوا اور لیپ ٹاپ بند کرتے فون کو کان سے لگائے بولا۔۔۔۔

”یار اسے کافی کیفے میں جہاں ہم ملتے ہیں۔۔۔

میں بھی وہی جارہا ہو تو بھی آجا “

اکمل نے جواب دیا۔۔۔۔

”ہاں ٹھیک ہے میں آرہا ہو ۔۔۔۔

پھر ملتے ہیں کچھ دیر میں ۔۔“

صالم نے فون بند کیا گاڑی کی چابی اٹھائی اور کیبن سے باہر کو نکل گیا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

نورین بی بی کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد شیزہ واپس اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔۔

”تو اسکا مطلب صالم آنٹی سے مل کر گیا تھا…

اور میں یونہی سوچ میں پاگل ہورہی تھی کہ آنٹی کو کیا جواب دونگی!!!!“

”اور اب تو مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ صالم نے ہی فیروز سے بات کی تھی۔۔۔

لیکن وہ سن کر بھی کچھ بولا کیوں نہیں؟؟؟؟“

شیزہ خود سے بات کرتے صوفے پر بیٹھ گئی اور ہاتھ میں موبائل تھامے استعمال کرنے لگ گئی ۔۔۔

کہ تبھی اسکا فون پھر سے بجنے لگا۔۔۔۔۔

جبکہ اب بھی کوئی نہیں بلکہ فیروز ہی تھا۔۔۔۔۔

جس کے نمبر کی پہچان اب شیزہ کو اچھے سے ہوگئی تھی۔۔۔

شیزہ کے چہرے کا زاویہ بظاہر آوازا سا ہوگیا۔۔۔

”کیا ہے کیوں مجھے بار بار کال کر رہے ہو؟؟؟

سب ختم ہوچکا ہے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی اس بات کی؟؟؟؟“

شیزہ بےزاری اپنائے بولی۔۔۔

”کیوں کہ مجھے یقین نہیں۔۔۔

کہ سب ختم ہوگیا ہے۔۔۔

میری محبت اتنی کمزور نہیں کہ کچھ تعلقات کی بناء پر خم ہوجائے۔۔۔

اور میں ویسے بھی کچھ ختم ہونے نہیں دونگا۔۔۔“

فیروز بظاہر ڈھٹائی اپنائے بولا۔۔۔

”دیکھو فیروز۔۔۔

مجھے اب تم سے نفرت ہے صرف نفرت۔۔۔

کیونکہ جس حال میں ہو میں آج اس کی وجہ صرف تم ہو۔۔۔“ شیزہ کی آنکھوں میں پھر سے نمی تیرنے لگی۔۔۔

”مانتا ہو میری جان۔۔۔

سب مانتا ہو۔۔۔

میں نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ۔۔۔

لیکن دیکھو نہ جب سے تم سے دور ہوا ہو اپنی کی جانے والی کوتاہی پر پیشمان ہو۔۔۔

میں مزید اس اذیت میں نہیں رہ سکتا۔۔۔“

”تو پھر کیا چاہتے ہو تم؟؟؟“ شیزہ دوٹوک بولی۔۔۔

”ملنا چاہتا ہو۔۔۔

وہ بھی آج ابھی۔۔۔“

فیروز نے تحمل بھرے لہجے سے کہا

”تم پاگل ہوگئے ہو فیروز۔۔۔

بلکل پاگل ۔۔

میں اور تم سے ملوں گی۔۔۔

کیوں؟؟؟

مجھے نہیں ملنا تم سے آئی سمجھ۔۔“

شیزہ فیروز کی بات سن کر تلملا سی گئی۔۔

ہاں صیحح کہہ رہی ہو ۔۔

پاگل ہو میں جو تمہیں بھیج راستے میں چھوڑ آیا تھا۔۔۔۔

لیکن اب میں سب ٹھیک کردونگا۔۔۔

تو اس لیے مجھے ملنا ہے تم سے وہ بھی آج۔۔۔

فیروز اب زبردستی اپناتے ہوئے شیزہ کو فورس کرتے بولا۔۔۔

”میں تم سے نہیں ملنا چاہتی آئی سمجھ۔۔۔

اب مجھے کال مت کرنا ہزار بار کہہ چکی ہو۔۔۔

تم سے اب میرا کوئی واسطہ نہیں۔۔“

شیزہ غصے سے بھپڑی۔۔۔

”تو ٹھیک ہے مت ملوں مجھ سے۔۔۔

میں خود چلا جاتا ہو تمہارے گھر ۔۔

اور بتا دونگا تمہارے گھر والوں کو سب کچھ کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔۔

اور مہندی کی رات بھی میرے ساتھ ہی بھاگنا چاہتی تھی۔۔۔

یہ سب بتانے سے تم جانتی ہو مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ میرا ہی فائدہ ہوگا۔۔۔

اب سوچ لو میں خود آؤ کہ تم ملوں گی مجھ سے؟؟؟“

فیروز چہرے پر کمینگی سجائے شیزہ کو بلیک میل کرتے مسکرا سا گیا۔۔۔۔

”تم مجھے بلیک میل کررہے ہو؟؟؟“

شیزہ فیروز کی بات سن کر اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوئی۔۔۔

”کہہ سکتی ہو سمجھ بھی سکتی ہو۔۔۔

کہ شاید ایسا ہی ہے۔۔۔

جو بھی سمجھو اب مجھے فیصلہ خود بتا دو۔۔۔۔

کہ میں سب خلاصہ کرو آ کر کہ یہ قصہ تم خود مل کر ختم کردو مجھ سے؟؟؟ ۔۔۔“ 

فیروز نے شیزہ کو دوہری آزمائش میں مبتلا کرتے کہا اور خود دوسری جانب مسکرا کر اس کی بے بسی کا تماشا بناتا رہا۔۔۔

شیزہ تذبذب کا شکار ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بےکل سی ہوگئی۔۔۔۔

”کیا ہوا؟؟؟؟

کس سوچ میں گم ہو؟؟؟

پہلے تو کبھی نہ سوچتی ہو جب بلاؤ بھاگ پڑتی تھی۔۔۔

اب کس کا خوف؟؟؟

شوہر کا؟؟؟“

فیروز طنز و طرار کرتا شیزہ کو نیچا دیکھاتے بولا۔۔۔

”بکواس بند کرو اپنی فیروز۔۔۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم جیسے انسان کے پیچھے میں ایک انتہائی قدم اٹھانے جارہی تھی ۔۔“

شیزہ فیروز کی باتوں کے نشتر برادشت کرتے بولی۔۔۔

”مجھ جیسا انسان مطلب؟؟؟

دیکھو زیادہ باتیں گول مت کرو۔۔۔۔

یہ بتاؤ آ رہی ہو کہ نہیں؟؟؟“

فیروز نے ایک بار پھر تصدیقی انداز سے پوچھا۔۔۔۔

”کہیں یہ سچ میں آباں کے گھر چلا گیا تو؟؟؟

میں کیا جواب دونگی ؟؟؟

تب تو بات سنبھل گئی تھی لیکن اب ؟؟؟“

شیزہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔۔۔

”نہیں نہیں۔۔۔۔

ایسا نہیں ہوسکتا اتنی مشکل سے سب کچھ ٹھیک ہوا ہے میرے گھر والے میری جانب سے مطمئن ہوئے ہیں یہ سب سب کچھ برباد کردے گا“

”کہاں انا ہے؟؟؟“

خود کو سوچ کے بھنور سے نکال کر شیزہ حتمی فیصلہ کرتے بولی ۔۔۔

”اوہ ڈیٹس لائیک آ گڈ گرل۔۔۔“

فیروز شیزہ کا جواب پا کر پرجوش انداز سے چلایا۔۔۔۔۔

”مین تمہیں ایڈریس میسج کردیتا ہو اور وقت بھی۔۔۔

انتظار کررہا ہو تمہارا۔۔۔۔“

”ٹھیک ہے۔۔“

شیزہ بے دلی سے بولی۔۔۔

”ایک منٹ رکوں۔۔۔

اگر کسی بھی قسم کی چال چلی۔۔۔

تو یقین جانو میرا ایڈریس تمہارا گھر ہی ہوگا۔۔۔

یاد رکھنا۔۔۔“

فیروز نے ایک بار پھر شیزہ کو سختی سے تنبیہہ کرتے کہا۔۔۔

جسے سن کر شیزہ نے فون غصے سے بیڈ پر دے مارا۔۔۔۔

اور پھر خود اٹھ کر کمرے سے باہر کو نکل پڑی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

فون بند ہوتے ساتھ ہی فیروز نے گلاس میں موجود شراب کی ایک لمبی چسکی بھری اور واپس میز پر رکھ دیا۔۔۔۔

اپنے کمرے میں بیٹھا فیروز ایک سینما کا ماحول بنائے مووی دیکھ رہا تھا ایک ہاتھ میں گلاس تو دوسر کبھی نمکو کی جانب جھگتا تو کچھی پاپ کارن کی طرف بڑھتا۔۔۔۔۔

”یہ سب کیا کررہا ہے یار تو؟؟؟

تیری فیملی نے تو اس سے شادی سے منع کردیا تھا تو پھر یہ سب روابط وہ بھی اس لڑکی سے۔۔۔

سمجھ سے باہر ہورہی بات میرے۔۔۔۔“

پاس بیٹھا فیروز کا دوست زین جو اس کے ساتھ بیٹھا شراب نوشی میں اسکا ساتھ دے رہا تھا نمکو منہ میں دبائے بولا ۔۔۔۔۔

”ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔

تو پاگل ہے یار۔۔۔۔

تبھی تجھے بات سمجھ نہیں آرہی۔۔۔“

ایک بار پھر شراب کو گلاس میں انڈیلتے وہ سامنے لگی ایل سی ڈی پر لگی فلم ہر نظریں گاڑے بولا۔۔۔

”مطلب تو اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ؟؟؟

اسی لیے اس کے پیچھے پڑا ہے؟؟

لیکن وہ تو شادی شدہ ہے ناں اب ۔۔۔۔

تو اب کیوں کررہا ہے یہ سب؟؟؟“

زین نے ایک بار پھر سوال داغا ۔۔۔

”ابے یار ۔۔۔

میں پاگل ہو جو اس سے شادی کرونگا۔۔۔

اتنی سی بات تجھے سمجھ کیوں نہیں آرہی۔۔۔“

وہ جھنجھلا کر گلاس میز پر رکھتے اس کی جانب مڑا۔۔۔۔

”پہلی بات تو یہ کہ میں اس سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا ۔۔

میرے گھر والوں کو تو اس کی خبر بھی نہ تھی۔۔۔۔“

”کیا مطلب؟؟؟

لیکن تو نے تو کہا تھا!!!!“

وہ ہکا بکا آنکھیں نکالے فیروز کو دیکھ رہا تھا جو شاطر مسکراہٹ دبائے آنکھوں میں چمک لیے بتا رہا تھا…

”ہاں کہا تھا لیکن وہ سب میری دھری کہانی تھی۔۔۔۔

جھوٹ بولا تھا میں نے اس سے۔۔۔۔“

”ارے تو جانتا تو ہے فیروز کو۔۔۔

یہ ہر لڑکی کے دل میں تو رہ سکتا ہے۔۔۔

لیکن بندھ نہیں سکتا اس سے۔۔۔

اور وہ پاگل لڑکی مجھ سے شادی  چاہتی کرنا چاہتی تھی۔۔۔

میرے ساتھ بھاگنے کو تیار تھی۔۔۔۔“

فیروز اپنی مکاری کو ایک عمدہ کارنامے کی شکل دیے فخر سے بیان کررہا تھا۔۔۔

 جبکہ زین بس اسے ٹکر ٹکر دیکھ کر دنگ ہورہا تھا۔۔۔۔ 

”تو پھر اب کیوں؟؟؟

جب تو نے شادی کرنی نہیں تو کیوں اس لڑکی کا ڈھول باندھ رہا گلے میں؟؟“

زین نے اس کی جانب تعجب سے دیکھا۔۔۔۔

”یار بڑا انویسٹ کیا تھا اس پر میں نے۔۔۔

اب کچھ ریٹرن میں بھی تو چاہیے ہی ہیں ناں۔۔۔

ایسے تھوڑی چھوڑ سکتا ہو اسے۔۔۔

ایسے ہی چھوڑتا رہا تو میری خواہشات کو ناجانے دم ہی نہ توڑ دے۔۔۔“

شیطانی مسکراہٹ سجائے آنکھ مارتے ہوئے اس نے زین کو اپنی غلیظ زہینت کے متعلق آگاہ کیا ۔۔۔

”لیکن یہ غلط ہے یار!!!

وہ شادی شدہ ہے اب۔۔۔

تجھے دوبارہ اس سے ملنا نہیں چاہیے۔۔۔“

زین نے اسے بغور سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔

”یار کچھ غلط نہیں ہے۔۔۔

جب اسے اپنی عزت کا خیال نہیں تو میں موقع کیوں چھوڑو۔۔۔

چل چھوڑ یہ سب ایک پیک بنا کر دے۔۔۔

پھر مجھے تیار ہو کر جانا بھی ہے۔۔۔“

فیروز نے زین کی توجہ کو مدنظر رکھتے اسے پیک کا کہا اور خود اپنی کارستانی پر سوچ سوچ کر ایک مسکراہٹ سجائے سوچنے لگا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم اکمل کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو وہاں پہلے سے ہی اکمل موجود تھا جو اسے اندر آتے دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے اپنی جانب متوجہ کیا اور اپنی جگہ کے متعلق آگاہ کیا۔۔۔۔

صالم اس کی جانب بڑھا تو اکمل اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

دونوں گرم جوشی سے ایک دوسرے کے بغل گیر ہوئے اور اپنی اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔۔۔۔

”ہاں جی تو اکمل صاحب یہ لے میں حاضر ہو ہی گیا آپکے بلاوے پر ۔۔۔

اب بتائے کونسی خاص باتیں تھی جس کیلئے خاص طور پر مجھے مدعو کیا گیا۔۔۔۔“

صالم تیکھی مسکراہٹ سجائے اسے طنز کرتے بولا۔۔۔

”ہاہاہاہاہاہا توبہ ہے صالم تمہارے۔۔۔۔

طنز کے تیر کیے چلاتے ہیں بخوبی واقف ہو اس ہنر سے ۔۔“

”خیر یار میرا دل کررہا تھا تجھ سے ملنے کو۔۔۔

بس پھر ملنا چاہا اور تجھے بلا لیا۔۔۔“

”اب بتا کیا پیے گا کافی کے چائے؟؟؟“

اکمل نے اس کی جانب دیکھتے پوچھا۔۔۔۔

”کافی!!!“ صالم نے متانتی انداز سے جواب دیا۔۔۔۔

اکمل آرڈر دے کر فارغ ہوا تو سامنے بیٹھے صالم کے چہرے کا بغور جائزہ کرنے لگ گیا۔۔۔۔

جو سنجیدگی اپنائے کسی چیز پر نظر گارے بیٹھا تھا ۔۔۔

کیا ہوا ہے کس سوچ میں گم ہو؟؟؟

بلآخر اکمل نے خاموشی کا آئینہ توڑا اور صالم کی متوجہ اپنی جانب سمیٹی ۔۔۔

”ہاں!!!!“

وہ چونک کر اس کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔۔

”ک۔۔۔۔ک۔۔۔کچھ نہیں بس یونہی۔۔۔

میری چھوڑ اپنی سنا ۔۔۔۔

سنا ہے اجکل شادی کی بات کررہی ہے تیری۔۔۔

تو کب برباد ہورہا ہے تو ؟؟؟؟“

صالم نے اسے چھیڑتے ہوئے اس کا دھیان اپنی جانب سے ہٹایا ۔۔۔

”ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔

اللّٰہ نہ کرے تیرا بھائی کبھی برباد ہے ۔۔۔“

”ثانیہ اتنی پیاری اور اچھی لڑکی ہے۔۔۔

اور سب سے بڑی بات ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہی ہیں۔۔۔

امید ہے اچھی طرح سے مل کر ہم ذندگی کی گاڑی کو منزل تک لے کر جائے گے۔۔۔“

اکمل پر اعتماد اور مسرت بھرے انداز سے بولا۔۔۔

”آمین اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو جیسا تو کہہ رہا ہے۔۔۔۔

اور شادی کی تاریخ کا کیا بناء؟؟؟

کب تک کا سوچ رہے ہیں؟؟؟“

صالم نے عام لہجہ اپناتے کہا۔۔۔۔

”پتہ نہیں ابھی اجکل بس بات چیت چل رہی ہے۔۔۔

دیکھو کب تک ہوتی ہے۔۔۔

لیکن جب بھی ہوئی سب سے پہلے تجھے ہی بتاؤ گا۔۔۔۔“

اکمل نے صالم کی جانب انگلی بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔

”ہاں ہاں ۔۔۔۔

کیوں نہیں۔۔۔۔“

صالم مسکرا سا گیا۔۔۔۔

”اور ہاں میں میری شادی میں اکیلے آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔

بھابھی کو بھی ساتھ لے کر آئی ۔۔۔۔

انہیں بھی پتہ چلے انکا صرف ایک ہی دیور نہیں ہے بلکہ ایک اور ہے جس کو چھپا کر رکھا ہوا ہے ان کے میاں جی نے۔۔۔۔۔“

اکمل صالم کو اچک بھری نظروں سے دیکھتے بولا ۔۔۔

”ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے آئی سمجھ۔۔۔۔

وہ تو بس موقع ہی نہیں ملا۔۔۔۔“

صالم ایک زور دار قہقہہ لگاتے بولا۔۔۔

”جی جی معلوم مجھے۔۔۔

موقع جو نہیں ملتا آپکو سب پتہ مجھے۔۔۔۔“

اکمل خفگی کا برملا اظہار کررہا تھا۔۔۔۔

”اچھا ناں یار بس کر شادی تو فکس ہونے دے ۔۔۔۔۔

اور یہ دیکھ کتنی دیر ہوگئی ہے کافی نہیں آئی ابھی تک۔۔۔۔

پتہ کر کہاں رہ گئے ہیں۔۔۔“

صالم نے چاروں اطراف نظریں گھوماتے ہوئے اسے یاد دہانی کروائی۔۔۔

”ہاں یار دیر تو کافی ہوگئی یے۔۔۔

رک میں پتہ کر کے آتا ہو۔۔۔۔“

اکمل نے سنا تو کہتے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تاکہ اکاونٹر سے پتہ کر سکے۔۔۔

جبکہ صالم وہی بیٹھا اردگرد کے ماحول سے محظوظ ہونے لگا ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کالے رنگ کے فراک میں ملبوس شیزہ کسی گڑیا سے کم نہ لگ رہی تھی۔۔۔۔

چہرے پر غصہ اور ناک پر سرخی اور آنکھوں کو گوگلز سے سجائے وہ فیروز کی جانب سے بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئی۔۔۔۔

کیفے کے اندر داخل ہوئی تو فیروز کو ڈھونڈنے کی غرض سے نظریں چاروں اطراف گھومائی۔۔۔

کہ تبھی ہاتھ میں پکڑا موبائل وائبریٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔

دیکھا تو فیروز کی کال تھی۔۔۔۔

”کہاں ہو؟؟؟

آگئی ہو میں۔۔۔۔

تمہاری ہی بتائی ہوئی جگہ پر۔۔۔“

وہ فون کان پر لگائے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

”جانتا ہو ۔۔

آگئی ہو۔۔

اپنے رائیٹ ہینڈ کی جانب نظر دہراؤ۔۔۔

میں ہی میں نظر آؤ گا ۔۔۔۔“

اپنا کالر جھاڑے وہ مسکرا کر بولا۔۔۔۔

شیزہ نے اسی جانب دیکھا تو بلیک جیکٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس فیروز کو بیٹھے پایا۔۔۔۔

تیز قدم بڑھاتی اپنے چہرے کو دوسروں سے چھپاتی وہ سیدھا جا کر اس کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔

زہے نصیب۔۔۔۔

کس قدر خوبصورت ہوگئی ہو ۔۔

خبر نہ تھی مجھے۔۔۔

فیروز شیزہ کی خوبصورتی کے قصیدے پڑھتے ہوئے اسے دلجوئی سے دیکھتے بولا۔۔۔۔

”ہمممممم۔۔۔۔۔

اگر یہ بتانے کو بلایا ہے مجھے۔۔۔

تو اپنے اور میرے وقت کا ضیاع کیا ہے۔۔۔“

شیزہ کچکچا کر بولی۔۔۔۔

”اچھا یہ چھوڑو ۔۔۔۔

بتاؤ کیا پیوں گی چائے یا کافی؟؟؟

ویسے یہاں کی کافی بہت مشہور ہے۔۔۔۔“

”زہر مل سکتا تو وہ منگوا دو۔۔۔۔

قصہ ہی ختم ہو اس ان کہی کہانی کا۔۔۔۔“

وہ ایک بار پھر زہر اگلتے بولی۔۔۔۔

”ہائے یہی تو اداء!!!!!!

کافی ہی جچے گی اس اداء پر۔۔۔۔۔“

وہ مکمل لٹو ہونے والے لہجے سے بولا۔۔۔۔

جبکہ شیزہ تو بس اپنے چہرے کو دوسروں کی نظروں سے چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔۔

آرڈر دینے کے بعد فیروز واپس اس کی جانب متوجہ ہوا تو اسے یوں ابتری کیفیت میں مبتلا دیکھ کر بولا۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے؟؟؟

ایسے کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔

ریلیکس ہو شیزہ۔۔۔“

اس کے کندھے کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے وہ اسے حوصلہ دیتے بولا۔۔۔۔

شیزہ نے اسکا ہاتھ اپنے کندھے کر دیکھا تو جھٹک کر اسے خود سے دور کیا۔۔۔۔

”لمیٹس میں رہو فیروز۔۔۔

میں یہاں تمہیں کسی بھی قسم کی امید دلاسی کیلئے نہیں آئی ۔۔۔۔۔

بات کرو جو کرنے کو بلایا ہے تم نے ۔۔“

شیزہ دانت چھباتے اچک بھرے انداز سے بولی۔۔۔۔

”اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے ریلیکس۔۔۔

اوور ری ایکٹ کیوں کررہی ہو۔۔۔۔“

وہ ہاتھ پیچھے کو کرتے نارمل انداز سے بولا۔۔۔۔

شیزہ!!!!!

فیروز نے کچھ لمحے کے توقف کے بعد سامنے بت بنی شیزہ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔

جو اس کے بلانے پر بس اسے گھورتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔۔

”تم ایسی تو نہ تھی۔۔۔۔

تم تو بہت محبت کرتی تھی مجھ سے۔۔۔

تو کہاں گئی وہ محبت؟؟

کیا بس ڈرامہ تھا وہ سب یا یہ جو اب ہے وہ اداکاری ہے؟؟؟؟“

فیروز نرم لہجہ اپنائے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے بولا۔۔۔۔

”تم کہہ رہے ہو کہ میں ایسی نہ تھی؟؟؟

میری محبت کہاں گئی؟؟؟

ڈرامہ اداکاری؟؟؟؟

یہ تم کہہ رہے ہو؟؟؟

تم؟؟؟“

وہ بھنویں اچکائے حیرت سے اس کی جانب سے کیے گئے انکشاف پر بولی۔۔۔۔

نہ میں نے تب کوئی ڈرامہ کیا تھا اور نہ اب اداکادی کررہی ہو۔۔۔۔

وہ تم ہی تھے جس نے میری محبت کا سرعام تماشہ بنا دیا تھا۔۔۔۔

تم ہی تھے جو بھیج چوراہے پر چھوڑ گئے تھے مجھے۔۔۔

اور آج تم کہہ رہے ہو کہ کہاں گئی محبت؟؟؟؟؟

وہ ایک دم اونچا لہجہ اپنائے فیروز سے سخت لہجے سے بولی۔۔۔۔۔

”شیزہ !!!!

میں جانتا ہو جو بھی تم کہہ رہی ہو ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔۔

لیکن میں کیا کرتا تب۔۔۔۔

تمہاری شادی کا فیصلہ اس قدر جلد بازی میں ہوا کہ مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا۔۔۔۔“

فیروز اپنی جانب سے اپنے حق میں بولا۔۔۔۔

”مجھے یقین نہیں تم پر۔۔۔

ایک لمحے کا بھی یقین نہیں “

نفی میں سر ہلاتی شیزہ اس کو گھورتے بولی۔۔۔۔

دیکھو شیزہ۔۔۔۔

فیروز نے شیزہ کا ہاتھ تھاما اور بولا۔۔۔۔

جبکہ شیزہ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ پر دیکھ کر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

”میں اب اپنانا چاہتا ہو تمہیں۔۔۔

تبھی تو آج تک تمہیں نہیں بھول پایا۔۔۔

تبھی تو واپس آیا ہو کہ تمہیں اپنا بنا سکوں ۔۔“

فیروز دلجمئ سے بولا۔۔۔۔

”میں شادی شدہ ہو فیروز اب۔۔۔۔“وہ سر جھکائے بولی۔۔۔

”جانتا ہو۔۔۔

شادی شدہ ہو لیکن خوش نہیں۔۔۔“

فیروز اس کے چہرے کی اداسی کو دیکھ کر بولا۔۔۔

”تم اس بات کا اندازہ کس حوالے سے لگا سکتے ہو کہ میں خوش نہیں۔۔؟؟؟“ شیزہ اس کی بات کو سن کر حیرت سے دیکھتے بولی۔۔۔

”تمہارا یوں آنا اور میرے سامنے تمہارے وجود کی موجودگی اس بات کی گواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔

کہ تم خوش نہیں۔۔۔

جبکہ مجھ سے صرف ناراض ہو اور ناراضگی کا عمل زیادہ دورانیے پر محیطِ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔“

فیروز متانت انداز سے بولا۔۔۔۔

فیروز کی باتوں نے اسے سوچ میں مبتلا کر رکھا تھا جبکہ فیروز اب اپنی چال میں دھیرے دھیرے کامیاب ہورہا تھا۔۔۔

”کس سوچ میں گم ہو اب؟؟؟

ایک بار حتمی فیصلہ کرو۔۔۔۔

طلاق کو اپنے شوہر سے تاکہ میں تمہیں اپنا سکوں۔۔۔“

فیروز نے سامنے کھڑے ویٹر سے کافی میز پر رکھنے کا اشارہ دیا اور پھر واپس سامنے بیٹھی شیزہ کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔

”یہ سب اتنا آسان نہیں۔۔۔

بہت دیر کر چکے تم اب“

شیزہ اداسی سے بولی۔۔۔۔

”میں نہیں مانتا یہ سب۔۔۔

تم بس اب جلدی سے کچھ کرو اور الگ ہو اس سے جو ہمارے درمیان آیا ہے ۔۔

اصل وجہ تو وہی ہے ناں جس کی وجہ سے ہم دور ہوئے ۔۔

تو تم کیسے اس کے ساتھ رہ سکتی ہو؟؟؟“

فیروز نے ایک اور پتہ شیزہ کی جانب پھینکا جو عنقریب سہی جا کر بیٹھا۔۔۔۔

شیزہ خاموشی سے فیروز کی باتیں سنتی رہی جس کا اثر اس پر ہورہا تھا۔۔۔

جبکہ اب فیروز مزے سے بیٹھا کافی کی چسکی بھرنے لگا اور اپنی پہلی سیڑھی پر کامیابی سے پہنچنے پر دبے دانت مسکرانے لگا۔۔۔۔

”کافی پی لو شیزہ ٹھنڈی ہورہی ہے“ 

شیزہ نے فیروزکوہ آواز سنی تو حامی میں سر ہلائے کافی تھامے بیٹھ گئی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 کہاں رہ گیا ہے یہ اکمل؟؟؟

اتنی دیر بھلا کافی پر لگتا ہے کسی کو کیا؟؟؟

صالم جو کافی دیر سے انتظار کررہا تھا اب تھک ہار کر خود ہی اکمل کے پاس جانے کو اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

اکمل کاؤنٹر پر کھڑا کسی ہر نظر جمائے سوچ میں مبتلا تھا۔۔۔۔

صالم نے اسے یوں کھڑا پایا تو تیور چڑھائے اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔

”یار کیا کر رہا ہے تو یہاں؟؟؟

کب سے انتظار کررہا تھا تیرا۔۔۔

اور تو یہاں کھڑا ناجانے کس کا دیدار کررہا ہے؟؟

کافی پلانے کا ارادہ ہے بھی کہ نہیں؟؟؟“

اکمل نے صالم کو اپنے پاس کھڑا دیکھا تو اس کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔

کیا ہے اب ایسے کیوں دیکھ رہا ہے مجھے؟؟

اب یہ مت کہنا کہ آج کافی اچھی نہیں۔۔۔

سب چھوڑ چھاڑ کر آیا ہو صرف تیرے کہنے پر یہاں۔۔۔

وہ ابھی بھی اکمل کو بول رہا تھا جبکہ وہ صرف چپ سادھے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔

صالم وہ۔۔۔۔۔۔

اکمل بمشکل نے الفاظ کا چناؤ کرتے بولا۔۔۔۔

کیا ہوا کیا وہ؟؟؟؟

وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔

اکمل کے چہرے پر اب الجھن اور پریشانی کے تاثرات ابھر آئے تھے ۔۔

وہ آنکھیں چرائے دوسری جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔

”کیسے بتاؤ اسے کہ میں نے بھابھی کو کسی کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھے باتیں کررہے ہیں“

”یہ تو ٹوٹ جائے گا۔۔۔

لیکن چھپا بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ کوئی چھوٹی بات بھی نہیں “

اکمل دل ہی دل میں سوچتے بولا۔۔۔

”کیا ہوا ہے اب ادھر منہ کیوں کیا ہوا ہے؟؟؟

کچھ بولے گا بھی کہ نہیں؟؟؟

صالم اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولا۔۔۔“

”کچھ نہیں۔۔۔

چل چلے یہاں سے۔۔۔“

”کیا مطلب؟؟؟

اب کیا ہے؟؟

کافی نہیں پینی اب کیا؟؟؟“

صالم اکمل کے بدلتے رنگ کو دیکھ کر بے کل سا بولا۔۔۔۔

نہیں موڈ نہیں پھر کبھی سہی۔۔۔

”اب چل یہاں سے ۔۔۔۔“

اکمل بے یقینی کی کیفیت سے بولتے ہوئے قدم بڑھاتے ہوئے باہر کو نکلا۔۔۔۔

”عجیب ہے بھائی یہ سہہ تماشا ہے۔۔۔

صالم بھی اس کی راہ اپنائے چلنے لگا۔۔۔۔“

کہ تبھی اس کی نظر اچانک ایک کپل پر پڑی۔۔۔۔

ایک جھلک سے ہی اسے شیزہ کی پرچھاہ سی پڑی۔۔۔۔

”یہ شیزہ تھی کیا؟؟؟“

صالم نے سوچا اور کہتے ہوئے اپنی غلط فہمی کو ختم کرنے کی غرض سے آگے کو بڑھا۔۔۔۔

اور دیکھتے ہوئے قدم وہی ٹھٹک گئے اور آنکھوں میں ایسے جیے اندھیرا سا چھا گیا ہو۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

بہت دیر ہوگئی ہے ۔۔۔۔

کہیں آنٹی مجھ سے پوچھ ہی نہ لے کہ میں گئی کہاں تھی؟؟

شیزہ تیز قدم بڑھاتی اندر کی جانب بڑھی ۔۔۔۔

پوچھ بھی لے گی تو کیا؟؟

میں ڈرتی ہو کسی سے کیا؟؟؟

شیزہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئی اندر کی جانب جھکی تو لاؤنچ میں کسی کو بھی نہ پایا۔۔۔۔

”شکر ہے اللّٰہ کا کوئی بھی نہیں یہاں۔۔۔

ورنہ سوالات کا ایک سلسلہ یوں شروع ہوتا کہ ختم میرے جھوٹ بولنے پر تھمتا۔۔۔۔

خیر اب جلدی سے کمرے میں جا کر ریلیکس ہو جاتی ہو۔۔۔“

کسی بھی اپنے سامنے نہ پا کر شیزہ اب اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھی سوچ فیروز کی باتوں پر ہی تھا ۔۔۔

فیروز سے آج کی ملاقات نے اسے دو دہاری تلوار پر کھڑا کردیا ۔۔۔

”میں نے صالم سے تو کہہ دیا تھا شادی کی رات کے میں اس سے الگ ہو کر واپس فیروز پاس چلی جاؤ گی۔۔۔

لیکن یہ سب اتنی جلدی ہونا یقین نہیں آرہا ۔۔“

شیزہ سوچتے سوچتے اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں اندھیرے نے اپنا بسیرا جمائے رکھا تھا۔۔۔

نارمل انداز سے وہ اندر کی جانب بڑھی اور کمرے کو روشنی سے اجاگر کرنے کی غرض سے جیسے ہی بٹن آن کیے۔۔۔

تو صوفے پر صالم کو بیٹھا پایا۔۔۔۔

جو سر پیچھے کی جانب گرائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا ۔۔۔

شیزہ نے صالم کو یوں دیکھا تو ایک پل کو ٹھٹک سی گئئ۔۔۔

آنکھوں میں روشنی کی کرنیں ڈلی تو صالم بھی آنکھیں ملتے ہوئے سامنے کھڑی شیزہ کو دیکھنے لگا جو اسے ہکے بکے اور حواس باختگی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

”آ۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔آپ؟؟؟

آپ کب آئے؟؟؟“

شیزہ صالم کی آنکھوں میں زیادہ دیر نہ دیکھ سکی اور پلک جھپکتے ہوئے ہچکچاہٹ سے اس کے سامنے سے گزر گئی ۔۔۔

”تب آیا تھا جب تم باہر گئی ہوئی تھی۔۔۔

سوچا تمہارا انتظار کر لو ۔۔

سو میں یہاں بیٹھے تمہارا انتظار کرنے لگ گیا ۔۔۔“

صالم نے اپنا لہجہ دھیمہ اور نارمل ہی رکھا وہ اسے ابھی کسی بھی قسم کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔

"ٹھیک“

اتنا سا جواب دے کر شیزہ اب شیشے کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتارنے لگی جو اس نے بس نام کی پہن کر رکھی تھی ۔۔۔

جبکہ صوفے پر بیٹھا صالم مسلسل اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں لیے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

ایک بات تو بتاؤ؟؟؟

صالم اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے بولا۔۔۔۔

جی پوچھے؟؟؟

شیزہ نے اسے بناء دیکھے جواب دیا۔۔۔۔

کس سے ملنے گئی تھی آج جو اتنی دیر لگا دی ؟؟؟

اب صالم کی نظریں صرف اس کے چہرے پر تھی جو سوال سن کر ہڑبڑا سی گئی تھی۔۔۔

بولو بھی ؟؟؟؟

کہاں گئی تھی تم؟؟؟

اب کی بار صالم نے آواز میں بھاری پن اور سختی لا کر کہا۔۔۔

سپاٹ چہرے سے شیزہ صالم کی جانب مڑی۔۔۔۔

میرے خیال سے ہم میں ایسا کوئی رشتہ نہیں کہ میں آپکے کسی بھی سوال کیلئے جوابدہ ہو۔۔۔

شیزہ کہتے ساتھ ہی آگے کی جانب بڑھی اور جیسے ہی صالم کے پاس سے گزرنے لگی۔۔۔

صالم نے اس کی بازو سے اسے پکڑا اور دبوچتے ہوئے اپنے قریب کھڑا کر لیا۔۔۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے صالم؟؟؟؟

چھوڑے مجھے۔۔۔۔

شیزہ بدستور چلا کر بولی۔۔۔۔

رشتے کی بات تو تم کرو ہی ناں۔۔۔

مجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہو تم کہ اب ہمارا رشتہ کس درجے پر ہے۔۔۔

صالم  سطور میں آچکا تھا ۔۔۔

مجھے کچھ نہیں جاننا۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔

صالم مجھے درد ہورہا ہے بازو پر ۔۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔۔

شیزہ ایک بے تاب پرندے کی مانند صالم کی مضبوط بانہوں کے پنجرے میں پھڑپھڑا کر بولی۔۔۔۔

”مجھے بتاؤ کہاں گئی تھی؟؟؟

کس سے ملنے گئی تھی؟؟؟“

صالم اسے اپنے قریب کرتے دھیمی انماد  آواز سے گو ہوا۔۔۔۔۔

”کیوں بتاؤ۔۔۔۔

تم ہوتے کون ہو یہ پوچھنے والے۔۔۔۔

میرا ہاتھ چھوڑو ورنہ میں اب چلاؤ گی۔۔۔۔

اور سب کو اکٹھا کرلونگی میں یہاں۔۔۔۔“

شیزہ بھی مدمقابل دستور بانسی ہوئی۔۔۔۔

اچھا چلاؤ گی  ۔۔۔ وہ تری لگاتے ہوئے بولا۔۔

آواز دو گی ماما کو۔۔۔۔

صالم نے ایک آنکھ اچکائے اسے دیکھا۔۔۔

اور جھٹکے سے اسے پیچھے کی جانب پھینکا۔۔۔۔

شیزہ ایک دم سے پیچھے کی جانب لڑکھڑائی اور زمین پر جا گری ۔۔۔

دو آواز ماما ۔۔۔

دو۔۔۔۔

میں بھی تو دیکھو کیا بتاؤ گی انہیں۔۔۔

ارے تم کیا بتاؤ گی ؟؟؟

 میں انہیں بتاؤ گا کہ جس لڑکی کو وہ اتنے چاہوں سے بیاہ کر لائی ہے وہ اپنے کسی ناکام عاشق کے ساتھ باہر گھومنے گئی ہوئی تھی ۔۔۔“

صالم اس کی جانب جھکا اور پھر واپس اپنے بگڑے انداز کو لیے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے بیٹھ گیا۔۔۔۔

بکواس بند کرے۔۔۔۔

شیزہ کی آنکھوں سے اب آنسوں رواں ہوگئے۔۔۔

اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب صالم سے اپنا پیچھا کیسے چھڑوائے۔۔۔

”سچائئ کو بکواس کہہ رہی ہو ہاں۔۔۔

اب کیوں نہیں دے رہی آواز ماما کو کہوں تو میں دو آواز انہیں؟؟؟۔۔۔“

صالم کچھ لمحے کے توقف کے بعد زچ آنداز سے بولا۔۔۔

لہجے میں ابھی بھی سختی اور جلالیت کا راج جبکہ آنکھوں میں سرخی جیسے خون کی نہر بہہ رہی ہو ۔۔۔

چہرے کے بگڑے تاثرات آج شیزہ کو اس سے خوف کا احساس دلا رہے تھے۔۔۔۔

شیزہ نے صالم کی دھمکی سنی تو خودکو سنبھالتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

اور صالم کے روبرو جا پہنچی بلآخر وہ بھی کہاں  ہار ماننے والوں میں سے تھی۔۔۔

”جس کو بتانا ہے بتاؤ جس کو بلانا ہے بلاؤ۔۔۔

میں تو خود چاہتی ہو یہ قصہ اپنے اختتام کو پہنچے۔۔۔

تو کیوں نہ یہی طریقہ اپنا لیا جائے اسے ختم کرنے کا۔۔۔۔“

اپنے چہرے کو صاف کرتے وہ بازوؤں کو باندھے اب اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔

”تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کر کے تم مجھ سے چھٹکارا حاصل کر لوگی ۔۔۔

اگر تمہیں اپنی محبت عزیز ہے تو میں بھی اپنی محبت کو یوں ہاتھوں ہاتھ جانے نہیں دونگا ۔۔۔

بیوی ہو تم میری۔۔۔

آج کے بعد اگر اس سے ملی ناں تو مار دونگا اسے میں۔۔۔۔“

صالم انگلی سے اشارہ کرتے اسے حف الفاظ میں تنبیہہ کرتے بولا۔۔۔۔

”ملوں گی میں۔۔۔

جو کرنا ہے کر لو۔۔۔۔

اب تو مجھے تم سے علیحدگی چاہیے ہی چاہیے۔۔۔

چاہے اس کی خاطر مجھے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔۔۔“ 

شیزہ بھی صالم کی بات سن کر اسے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے وہاں سے چل پڑی۔۔۔

جبکہ صالم شیزہ کی بات سننے کے بعد وہی کھڑا اسے یوں جاتا دیکھتا رہا۔۔۔

غصے کی جنونیت کو چھوتے ہوئے آگے کی جانب بڑھا اور میز پر گلدان کو زمین بوس کردیا۔۔۔۔

اور پھر تیز قدم بڑھاتا کمرے سے باہر نکل پڑا۔۔۔

شیزہ جو وہی ڈریسنگ روم میں موجود تھی۔۔۔

زور دار آواز پر ایکدم باہر کو نکلی۔۔۔۔

تو دیکھا فرش پر جا بجا کانچ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے جبکہ صالم اب کمرے میں موجود نہ تھا۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تو نے اس کو سب کچھ عیاں کر کے ٹھیک نہیں کیا یار۔۔۔

اکمل نے صالم کی جانب دیکھتے کہا۔۔۔

جو سر تھامے بیٹھا اپنی قسمت کو کوسنے میں مصروف تھا۔۔۔

”تو اور کیا کرتا۔۔۔

یہ سب دیکھتا رہتا۔۔۔

وہ جاتی اس بیگانے عاشق سے مل آتی اور میں بس محاصرہ لگائے بیٹھا رہتا۔۔۔

نہ مجھ میں نہ تو اتنا ظرف اور نہ میں اتنا بیغیرت ہو کہ یہ سب ہوتے دیکھتا رہتا۔۔۔“

صالم انیزوی لہجہ اپنائے بولا۔۔۔

”دیکھ میں جانتا ہو تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔

لیکن اگر تو ان سے آرام سے بات کرتا یا سمجھاتا تو شاید کوئی بات بن بھی سکتی تھی۔۔۔

لیکن اب تو وہ سب کھل کر کرے گی کیونکہ انہیں اب کوئی ڈر نہیں ہوگا۔۔۔“

اکمل نے صالم کو پرخلوص انداز سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

”بس پتہ نہیں یار مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔۔۔“ صالم بے بسی اپنائے بولا۔۔۔

”چل بس کر ٹھنڈا لاتا ہو وہ پی اور کچھ سکون سے سوچ اب۔۔۔۔“

اکمل کہتے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا جبکہ صالم وہی بیٹھا سوچتا رہا۔۔۔

❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شام۔کا وقت جب آسمان پر ہلکے ہلکے بادلوں کی ٹولی اپنے ہی موج و مستی میں گم ایک دوسرے کے سنگ ٹہل رہے تھے۔۔۔

شیزہ ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے لاؤن میں بیٹھی موسم کے بدلتے رخ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

”پتہ نہیں  آگے کیا ہوگا؟؟؟

صالم کے آج کے روپ نے مجھے حد درجہ حیران کن کردیا ہے۔۔۔

اس کی سوچ کس محور کے گرد گھوم رہی ہے سمجھ سے باہر ہے ۔۔۔۔

لیکن اب میں فیروز سے پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتی۔۔۔

اتنی مشکل سے میری منزل واپس میری جانب لوٹ کر آئی ہے کیسے اب اس سے منہ موڑ لو۔۔۔“

”مجھے صالم سے نرم اور میٹھے لہجے سے بات کرنی ہوگی۔۔۔

تبھی ہی کسی مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔۔۔

ورنہ تو ہم تینوں ہی ایک ناگہانی آگ میں جلتے رہے گے ساری عمر۔۔۔۔“

شیزہ چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے چائے پی رہی تھی۔۔۔

کہ تبھی اندر سے نجمہ بھاگتی ہوئی شیزہ کے روبرو کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

ب۔بب۔۔۔بی بی جی۔۔۔۔

وہ ۔۔۔۔۔

تیزی بھاگنے اور پریشانی کی وجہ سے نجمہ کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔۔۔۔

کیا ہوا ہے نجمہ ؟؟؟

سب خیریت؟؟؟

اتنی پریشان کیوں ہو؟؟؟

شیزہ اس کی پھولتی سانس دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

”دلہن بی ۔۔۔۔

وہ ۔۔۔۔

آپ کے گھر سے ابھی فون آیا تھا۔۔۔۔“

نجمہ نے بمشکل سانس سنبھالے بولنا شروع کیا۔۔۔

”میرے گھر ؟؟؟؟

کس کا؟؟؟

کیا کہہ رہے تھے؟؟؟

جلدی بتاؤ۔۔۔۔“

اب تو شیزہ بھی نجمہ کو دیکھ کر داسمہی  ہوگئی۔۔۔

”وہ اپکی بہن امبر کہہ رہی تھی کہ آپ کے ابو کو ہارٹ اٹیک آیا ہے۔۔۔

اور وہ اس وقت ہسپتال میں موجود ہے۔۔۔“

نجمہ نے ایک ہی سانس میں شیزہ کے سر پر ایک بم کی مانند گولا پھینکا۔۔۔۔

شیزہ نے جیسے ہی سنا ایک دم لڑکھڑا سی گئی۔۔۔۔

ہاتھ میں پکڑی چائے وہی زمین پر پھینکتے ہوئے وہ دیوانہ وار اندر کی جانب بھاگی۔۔۔۔۔

”آنٹی!!!!

آنٹی!!!!!“

شیزہ لاؤنچ میں کھڑی زور زور سے چلانے لگی ۔۔۔

نورین بی بی جو کمرے میں موجود تھے شیزہ کی چیخ و پکار سن کر حواس باختگی سے باہر کی جانب بھاگی۔۔۔۔

”کیا ہوا شیزہ بیٹا سب خیریت؟؟؟؟“

جبکہ اندر کمرے میں بیٹھا رافع جو اپنی پڑھائی میں مصروف تھا وہ بھی شور و غل سن کر باہر کو لپکا۔۔۔۔

”آنٹی۔۔۔۔

پاپا کو۔۔۔۔۔“

شیزہ کی آنکھوں سے زارو قطار آنسوں کی برسات شروع ہوگئی۔۔۔۔

اور وہ روتے ہوئے نورین بی بی کے گلے لگ گئی۔۔۔۔

نجمہ بھی اب شیزہ کے پیچھے موجود تھی۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے نجمہ؟؟؟

کیوں رو رہی ہے یہ اتنا؟؟؟“

نورین بی بی نے اب نجمہ کی جانب دیکھتے پوچھا جو کافی پریشان کھڑی تھی۔۔۔۔

”وہ بڑی  بی جی ابھی ان کے گھر سے فون آیا تھا دلہن بی کے والد کو ہارٹ اٹیک آیا ہے اور وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔۔۔۔“

نجمہ نے شیزہ کی حالت کو دیکھا تو نورین بی بی کو اس آفت سے آگاہ کیا۔۔۔۔

”یا میرے اللّٰہ خیر۔۔۔۔“ نورین بی بی نے نجمہ کی بات سنی تو وہ بھی چندھیا سی گئی۔۔۔

”ماما کیا ہوا ہے؟؟؟

بھابھی کیوں رو رہی ہے اتنا؟؟؟“

رافع جو دور کھڑا تھا اب قریب آئے تجسسی انداز سے سوال کرنے لگا۔۔۔۔

”شیزہ کے والد کو ہارٹ اٹیک آیا ہے جلدی سے بھائی کو کال کرو کہ ابھی گھر آئے ۔۔۔۔“

نورین بی بی شیزہ کو خود سے لگائے چلتی ہوئی بولی۔۔۔

رافع نے سنا تو فورا تیز دم تیز صالم کو کال ملانے لگ گیا۔۔۔

”نجمہ جلدی سے پانی لے کر آؤ۔۔۔

اور ہاں ساتھ ہی مجھے ہسپتال کا نام بھی بتاؤ۔۔۔

ہمیں وقت ضائع کیے بناء وہاں پہنچنا ہے۔۔۔“

”اور شیزہ چلوں میرے ساتھ ہم ابھی جاتے ہیں ہسپتال۔۔۔“

نورین بی بی نے نجمہ سے کہا تو وہ ایک پیر دوڑے پانی لے آئی ۔۔۔۔۔

نورین بی بی نے حواس سے محروم روتی دھوتی شیزہ کو بمشکل پانی کے چند قطرے پلائے۔۔۔۔

”ماما میں نے بھائی کو کال کردی ہے وہ سیدھا ہسپتال ہی آئے گے۔۔۔“

رافع نے فون بند کرتے ہوئے نورین بی بی کو بہرہ ور کیا ۔۔۔

”ٹھیک ہے پھر تم چلوں ہمارے ساتھ ۔۔۔۔

جاؤ گاڑی نکالو۔۔۔

میں شیزہ کو لے کر آتی ہو۔۔۔۔“

نورین بی بی کی بات سن کر رافع حامی میں سر ہلاتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گیا

”اور نجمہ ہمارے جانے کے بعد گھر کا خیال رکھنا ہوسکتا ہے مجھے شیزہ کے ساتھ وہی رہنا پڑ جائے ٹھیک ہے۔۔۔”

”جی بی بی جی میں سنبھال لونگی۔۔۔“

”اچھا ٹھیک ہے۔۔۔“

نورین بی بی نے اب خود سے لگی شیزہ کو اٹھایا جس کا رو رو کر برا حال ہورہا تھا۔۔۔۔

اور پھر خود کے ساتھ اسے باہر کی جانب لے گئی ۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦⁩⁦

 کچھ دیر کی مسافت اور منٹوں میں شیزہ نورین بی بی اور رافع کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گئی۔۔۔۔۔

ہربڑاہٹ اور ایک انجانے خوف نے شیزہ کے وجود کو یخ کر رکھا تھا ۔۔۔

نورین بی بی کے سہارے لیے وہ اندر کی جانب داخل ہوئی۔۔۔۔

صالم جو پہلے سے ہی ہسپتال کے دروازے پر کھڑا انہی کا انتظار کررہا تھا دیکھتے ساتھ ہی انکی جانب بڑھا۔۔۔۔

ایک نظر شیزہ پر پڑی جو غم کی تصویر بنے نورین بی بی کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔

صالم تم کب آئے یہاں؟؟؟

نورین بی بی نے اسے دیکھا تو استہفامیہ ہوئی۔۔۔

ماما بس کچھ دیر پہلے ہی آیا ہو۔۔۔۔

صالم کی نظریں ابھی بھی شیزہ پر جمی ہوئی تھی۔۔۔۔

اچھا کونسے وارڈ میں ہے اور کہاں ہے؟؟؟

نورین بی بی آگے بڑھتے بولی۔۔۔۔

ماما میں لے چلتا ہو چلے میرے ساتھ۔۔۔

صالم آگے کی جانب بڑھا تو سب ہی اس کے پیچھے کو ہوگئے۔۔۔۔

شیزہ ابھی بھی بناء کچھ بولے بس روتی جارہی تھی۔۔۔

جبکہ صالم کا اسکا یوں رونا کسی تکلیف سے کم نہ لگ رہا تھا۔۔۔۔

وارڈ کے قریب پہنچتے ساتھ ہی جب شیزہ کو امبر اور یوسف دکھائی دیے تو وہ نورین بی بی سے الگ ہوئی اور گرتی بھاگتی ان دونوں کے پاس جا پہنچی۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے پاپا کو؟؟؟

کیسے ہیں وہ اب؟؟؟“

شیزہ دونوں سے روہانسی ہوتے سوال گو ہوئی۔۔۔۔

امبر نے شیزہ کو اپنے سامنے دیکھا تو روتے ہوئے شیزہ کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔

”آپی۔۔۔“

دونوں بہنیں ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر رونے لگ گئی۔۔۔

صالم رافع اور نورین بی بی بھی ان کے پاس آ کھڑے ہوگئے۔۔۔۔

نورین بی بی آگے کی جانب بڑھی اور دونوں کے سر پر ہاتھ رکھتے حوصلہ دینے لگی۔۔۔۔

”صالم بھائی۔۔۔۔“

یوسف بھی آبدیدہ ہوتے ہوئے صالم کے ساتھ لگ گیا۔۔۔۔

”کچھ نہیں ہوتا یوسف ہم سب ہے ناں ۔۔۔۔

سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔

انکل جلد ہی اللّٰہ کے فضل سے صحت یاب ہوجائے گے۔۔۔“

صالم۔ اسے خود سے لگائے حوصلہ دیتے بولا۔۔۔۔۔

”تانیہ بہن کہاں ہے؟؟؟“

نورین بی بی ان کی موجودگی نہ پائی تو بولی۔۔۔۔

امبر شیزہ سے الگ ہوئی اور آنسوں صاف کرتے بولی۔۔۔۔

”امی حنا کے ساتھ نفل پڑھنے گئی ہے۔۔۔

وہ سامنے نماز روم میں۔۔۔۔

امبر کے اشارہ کرنے پر نورین بی بی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔“

سب ہی اب وارڈ کے باہر کھڑے ڈاکٹر کے انتظار میں تھے۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

رات کے دس بج رہے تھے۔۔۔۔

سب ہی باہر کھڑے انتظار میں۔ تھے ۔۔۔۔

شام سے رات ہوچکی تھی لیکن اس دوران فاخر صاحب کی طبیعت کا ابھی تک کسی کو بھی کوئی علم نہ ہوا۔۔۔۔

نرسوں کی ریل پیل ہوتی لیکن سوال کرنے پر بس صبر کا ہی دامن تھما دیا جاتا۔۔۔۔

شیزہ کرسی پر بیٹھی تھی جس کے ایک جانب عنبر اور دوسری جانب حنا سر ٹکائے مسلسل کلموں کا ورد کررہی تھی۔۔۔۔

جبکہ شیزہ خود آنکھیں موندے پیچھے کو سر گرائے بیٹھی تھی۔۔۔۔

سب ہی فاخر صاحب کی طبیعت کو لے کر مبہم  میں مبتلا تھے۔۔۔۔۔

کہ ایک لمبے انتظار کے بعد بلآخر ڈاکٹر صاحب نگہداشت وارڈ سے باہر نکلے۔۔۔۔

صالم کو ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا فورا ان کی جانب بڑھا۔۔۔۔

جبکہ باقی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈاکٹر کے گرد جمع ہو گئے۔۔۔۔۔

کیسے ہیں فاخر انکل؟؟؟

سب خیریت ہیں ناں؟؟؟

صالم آگے بڑھتے بولا۔۔۔۔

ہاں بتائے کیسے ہیں میرے پاپا؟؟؟

وہ ٹھیک ہے ناں؟؟؟شیزہ بھی صالم کے ساتھ جا کھڑی ہوئی اور ابتری کیفیت سے بولی۔۔۔۔

”جی جی۔۔۔۔

اللّٰہ پاک کا کرم اور آپ سب کی دعاؤں کے نتیجے میں آپکا پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہے۔“

ڈاکٹرکی بات سننے کو ہی تھی کہ سب  ایک ساتھ شکر بجالائے۔۔۔۔

سب کے چہروں پر اب خوف کے تاثرات کم اور سکونت کی لہر ابھر آئی۔۔۔۔

”ان کی کنڈیشن بہت کریٹیکل تھی۔۔۔

میجر اٹیک آیا تھا انہیں۔۔۔

تبھی ہمیں کافی دیر لگی ان کو اسٹیبل کرنے میں۔۔۔“

”یاللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔“

تانیہ بیگم نے سنا تو آنکھوں میں آنسوں لیے آسمان کی جانب نظر اٹھائے بولی۔۔۔۔

جبکہ ساتھ کھڑی نورین بی بی نے انہیں کندھوں سے تھاما۔۔۔۔

”تو ڈاکٹر انکل ہم پاپا سے کب مل سکتے ہیں؟؟؟“

امبر نے اب ڈاکٹر کی جانب دیکھتے کہا۔۔۔۔

”ابھی تو آپ لوگ نہیں مل سکتے۔۔۔۔

کیونکہ وہ ابھی انجیکشن اور میڈیسن کے اثر میں ہے ۔۔۔لیکن آپ کل ان سے مل سکوں گے ۔۔۔۔۔“

ڈاکٹر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔

”مجھے آپ میں سے کسی سے بات کرنی ہے تو آپ میں سے کوئی بھی مجھ سے میرے کیبن مل لے کچھ ادویات اور اخراجات کے متعلق بات کرنی ہے۔۔۔“

ڈاکٹر نے سب کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

تو نورین بی بی نے صالم کو اشارہ کیا۔۔۔۔

”میں چلتا ہو آپ کے ساتھ…“

صالم آگے بڑھتے بولا۔۔۔

”آپ؟؟؟؟“

ڈاکٹر نے تصدیقی انداز سے پوچھا۔۔۔۔

”جی میں انکا بیٹا ہو۔۔۔۔

بڑا بیٹا۔۔۔

اپ نے جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کر لے۔۔۔

میں چلتا ہو آپ کے ساتھ۔۔۔۔“

صالم نے پرخلوص اور اعتماد بھرے لہجے سے کہا تو شیزہ کی نظر غیر متوقع صالم کے چہرے پر پڑی۔۔۔۔

”جی اجائے ساتھ پھر ۔۔۔۔

ڈاکٹر کہتے ساتھ ہی آگے کو چل پڑھا جبکہ صالم اس کا تعاقب کرتا پیچھے چلتا رہا۔۔۔۔“

صالم کے جانے کے بعد سب ہی اب ویٹنگ کرسیوں کر براجمان ہوگئے۔۔۔۔

”شکر ہے میرے مالک تو نے ہمارا سائبان ہمارے سروں پر قائم رکھا۔۔۔“

تانیہ بیگم ہاتھ اٹھائے دعائیہ انداز سے بولی۔۔۔۔

”بلکل ٹھیک کہا آپ نے تانیہ بہن۔۔۔

شوہر کا سایہ عورت کی زندگی کا مضبوط ترین محافظ ہوتا ہے۔۔۔

جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں عورت ہر تکلیف ہر دکھ بخوشی برداشت کر لیتی ہے۔۔۔۔“

نورین بی بی تانیہ بیگم کے ہاتھوں کو تھامتے آبدیدہ سے ہوتے بولی۔۔۔۔

جبکہ سامنے بیٹھی شیزہ کی سماعت ان دونوں کی باتوں پر مرکوز تھی۔۔۔۔

”بہت شکریہ نورین بہن۔۔۔

آپ کے آنے سے مجھے اور میرے بچوں کو بہت حوصلہ ملا۔۔۔

ناجانے کونسی نیکی ہمارے کام آئی کہ میری بیٹی کو اتنا اچھا اور محبت خیال کرنے والا سسرال ملا۔۔۔۔

اور صالم جیسا خیال رکھنے والا داماد کی شکل میں بیٹا۔۔۔“

تانیہ بیگم نورین بی بی کا تشکر کرتے نم آنکھوں سے  بولی۔۔۔

”یہ تو اپنے پرائیوں والی بات کی۔۔۔

شیزہ میری بیٹی ہے اور ہم اسکا سسرال نہیں۔۔۔۔

جس طرح میرے لیے صالم رافع ہے اسی طرح یہ چاروں بچے بھی میرے ہی بچے ہیں۔۔۔“

نورین بی بی محبت بھرے انداز سے بولی۔۔۔۔

”بہت شکریہ آپکا بہن۔۔۔۔“

”اچھا چلے آئے نفل کی ادائیگی کرتے ہیں مل کر ۔۔۔

اللّٰہ پاک کا شکر کرنا واجب ہے۔۔۔“

نورین بی بی کے کہنے پر تانیہ بیگم اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

”امی میں نے بھی نفل پڑھنے ہے۔۔۔۔“

امبر ان دونوں خواتین کو جاتا دیکھ کر بولی۔۔۔

”ہاں امی مجھے بھی۔۔۔

مجھے بھی اللّٰہ جی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا ہے۔۔۔

کہ میرے ابو کو صحت عطا کی۔۔۔“

امبر کے بولتے ہی حنا بھی اس کی زبان گو ہوئی۔۔۔

”ہاں ہاں بچیوں آجاؤ۔۔۔

اللّٰہ کا زکر بجانا نہ صرف پریشانی میں بلکہ خوشی میں بھی ایک اہم جزو ہے۔۔“۔

نورین بی بی کے کہنے پر دونوں اب ان کے ساتھ چل پڑی۔۔۔۔

اب شیزہ رافع اور یوسف وہی بیٹھے تھے۔۔۔

کہ کچھ دیر بعد صالم بھی وہاں آگیا۔۔۔۔

”رافع یہ کچھ میڈیسن ہے جاؤ ڈسپنسری سے لے آؤ بھاگ کر ۔۔۔۔۔

اور یہ پیسے رکھوں۔۔۔۔“

صالم نے ادویات کی پرچی رافع کو تھمائی اور ساتھ ہی کچھ پیسے اسے پکڑا دیے۔۔

”جی بھائی لاتا ہو۔۔۔۔

رافع پرچی کا معائنہ کرتے بولا۔۔۔۔

میں بھی چلتا ہو رافع کے ساتھ۔۔۔۔“

یوسف بھی پیچھے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

”ہاں ٹھیک آپ دونوں جاؤ اور لے آؤ۔۔۔

اگر ہوا تو کچھ کھانے کو بھی لے آنا کسی نے رات کا کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔

تھوڑا کھا لے گے تو حوصلہ ہوجائے گا۔۔۔۔“

صالم نے کچھ اور پیسے نکالے اور یوسف کو پکڑا دیے۔۔۔۔

”نہیں بھائی اس کی ضرورت نہیں میرے پاس ہے میں لے آؤ گا۔۔۔۔“

یوسف نے پیسوں کو دیکھا تو فورا انکاری ہوا۔۔۔۔

شیزہ پیچھے خاموشی سے بیٹھے یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

”بھائی مانتے ہو نہ تو رکھو۔۔۔

بڑا ہو میں میری بات ماننا فرض ہے۔۔۔

جاؤ دونوں جلدی سے سامان لے کر آؤ شاباش۔۔۔“

صالم کے کہنے پر یوسف مزید کچھ نہ بول سکا اور خاموشی سے پیسے لیے رافع کے ساتھ چلا گیا۔۔۔۔

صالم ان دونوں کے جانے کے بعد آگے کی جانب بڑھا تاکہ کرسی پر بیٹھ کر سانس بھر سکے۔۔۔۔

کہ تبھی نظر سامنے بیٹھی شیزہ کی جانب بھری جو اسے ناجانے کب سے یونہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

صالم کی نظروں سے جب شیزہ کی نظر ملی تو وہ ایک بارود سی ہوئی اور آنکھوں کو تیز دم تیز حرکت دیتے اپنی نگاہ کہیں اور گھوما لی۔۔۔۔

صالم سامنے کھڑا اس کی اچھنبی سی حرکت کو دیکھتا رہا۔۔۔

اور پھر کرسی پر براجمان ہوگیا۔۔۔۔

کچھ دیر دونوں یونہی اپنی نظریں گھومائے آتے جاتے کسی مریض کو دیکھتے تو کبھی نرس اور ڈاکٹروں کی دور کو۔۔۔۔

”کیا کہا ہے ڈاکٹر نے؟؟؟“

شیزہ بمشکل الفاظ اکٹھے کرتی خاموشی کے سکونت کو توڑتے انگلیوں کو مڑوڑتے بولی۔۔۔۔

صالم جو شیزہ کی جانب سے پہل سے ناواقف تھا۔۔۔

تجسسی نظروں سے سے دیکھنے لگا۔۔۔

”مجھ سے کہا کچھ؟؟؟؟“

صالم بے یقینی سی کیفیت سے لبریز ہوا۔۔۔۔

”اگر یہاں کوئی اور ہوتا تو شاید میں نہ کہہ دیتی۔۔۔۔“

شیزہ صالم کی بات سن کر لبوں کو بھینچتے بولی۔۔۔

صالم اس کی جانب بدمستی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔

”ڈاکٹر کے مطابق انہوں نے کوئی گہرا صدمہ لیا ہے۔۔۔

اور وہی صدمہ ان کے ہارٹ اٹیک کا سبب بنا ہے۔۔۔“

صالم شیزہ کو فاخر صاحب کے متعلق ادراک کرتے بولا۔۔۔۔

صالم کی بات سن کر شیزہ مبہم سی ہوگئی۔۔۔۔

شیزہ کو یوں خاموش بیٹھے دیکھ کر صالم پھر سے گو ہوا۔۔۔

”کیا کوئی ایسی بات ہوئی تھی جس کا اثر فاخر انکل نے بہت زیادہ لیا ہے؟؟؟“

صالم اب استہفامیہ ہوا۔۔۔۔

”معلوم نہیں مجھے ۔۔

امی سے پوچھو گی کہ کونسی بات نے ابو کو اتنا منتشر کیا کہ وہ برداشت نہ کرسکے۔۔۔“

شیزہ سوچتے سوچتے بولی۔۔۔

”ہمممممممم۔۔۔

سہی۔۔۔۔

خیر اب وہ بہتری کی جانب ہے۔۔۔

لیکن احتیاط کی ابھی بھی ضرورت ہے۔۔۔۔“

صالم نے ڈاکٹر کی جانب سے ملنے والی ہدایت سے شیزہ کو بہرہ ور کیا۔۔۔۔

جسے سن کر شیزہ نے بس حامی میں سر ہلایا۔۔۔۔

صالم مزید شیزہ سے بات کرنا چاہتا تھا کہ تبھی شیزہ کا موبائل فون بجنے لگا۔۔۔۔

منہ میں انگلی دبائے بیٹھی نے فون کی آواز سنی تو فون کو دیکھنے لگی۔۔۔۔

صالم کی نگاہیں شیزہ پر ہی جمی تھی۔۔۔۔

شیزہ نے فون کی جانب دیکھا تو چہرے کے تاثرات یکسر بدل سے گئے۔۔۔۔

صالم کو اس کے چہرے پر چھاتی الجھن نے اسے اندیشے میں مبتلا کردیا۔۔۔۔

فون مسلسل بجتا جارہا تھا جبکہ شیزہ بناء کوئی رسپانس دیے فون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

”کس کا فون ہے شیزہ وہ بھی اس وقت؟؟؟“

بلآخر صالم نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔

”ہاں!!!“

شیزہ غیر متوقع طور پر صالم کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔

”کسی کا نہیں۔۔۔۔

مین آتی ہو ایک منٹ بس۔۔۔۔“

شیزہ کہتے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور موبائل تھامے کسی اور جگہ جانے کو چلنے لگی۔۔۔۔

صالم جو وہی بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا شیزہ کے جانے کے بعد آٹھ کھڑا ہوا تاکہ اس کا تعاقب کر سکے۔۔۔

اس سے پہلے وہ کہیں جاتا رافع اور یوسف سامان لیے واپس آگئے۔۔۔۔

یہ لے بھائی لے آئے ہیں سب جو آپ نے کہا تھا۔۔۔۔

رافع نے سامان صالم کی آگے بڑھایا۔۔۔۔

تو جاتے صالم۔ کے قدم وہی رک گئے جبکہ نظریں اسی راہ پر جمی تھی جہاں سے شیزہ گزر کر گئی تھی۔۔۔۔

ٹھیک ہے تم آنٹی اور ماما کو بلاؤ اور میں یہ دوائیاں ڈاکٹر کو دے کر  آتا ہو۔۔۔۔

صالم رافع اور یوسف کو کہنے کے بعد بے دلی سے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ موبائل ہاتھ میں تھامے تیز قدموں کے ساتھ ایسی جگہ کی جانب بڑھی جہاں کوئی اسے جانتا نہیں تھا۔۔۔۔

فون ابھی بھی مسلسل بج رہا تھا۔۔۔۔

اپنے پیچھے مڑ کر ایک بار اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کہیں صالم اس کے پیچھے تو نہیں۔۔۔

لیکن پھر جب کسی کو نہ پایا تو فورا فون اٹھائے کان کے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔

کہاں تھی شیزہ؟؟؟؟

کب سے کال ملا رہا ہو۔۔۔۔

پاگل ہو میں جو ہر وقت تمہارے پیچھے بھاگتا رہو۔۔۔

آخر مسئلہ کیا ہے اب ہاں؟؟؟

دوسری جانب سے فیروز غیظ و غصب ڈھاتا ہوا چنگارا۔۔۔۔

شیزہ اس کے غصریلی آواز کو سن کر خاموش سادھ گئی۔۔۔۔

”کیا ہے اب؟؟؟

بولو گی بھی کچھ کہ نہیں؟؟؟

کہاں بزی تھی تم؟؟؟

کہیں شوہر کے ساتھ رنگین؟؟؟“

فیروز اس سے پہلے آگے کوئی بکواس کرتا شیزہ ایک دم بول اٹھی۔۔۔۔

”اب بس بھی کرو فیروز۔۔۔

تم بناء کچھ جانے بغیر ایسا کیسے بول سکتے ہو؟؟؟

کس قدر گر رہے ہو تم اپنی ہی کی جانے والی خطا کو ختم کرنے کی خاطر۔۔۔

مجھے اب تم سے کوئی بات نہیں کرنی اور نہ ہی مجھے کال کرنا اب۔۔۔

جب دماغ ٹھکانے پر ہوگا نا تبھی بات کرنا۔۔۔۔“

شیزہ نے فیروز کو سخت لہجے سے انتباہ کرتے ہوئے بند کیا۔۔۔۔

فیروز مزید کچھ بول نہ سکا ۔ اور نہ ہی شیزہ نے کچھ بولنے کا موقع دیا۔۔۔۔

کچھ دیر اپنے پارے کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر وہ وہی رکی رہی اور جب سب نارمل محسوس ہوا تو واپس وارڈ کی جانب چل پڑی جہاں سب موجود تھے۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️

”رافع جو میں نے کھانے کا سامان منگوایا تھا وہ سب کو دو۔۔۔“

"جی صالم بھائی ۔۔۔۔۔“

”نہیں صالم بیٹا ابھی دل نہیں ہے اور نہ ہی بھوک۔۔۔“

تانیہ بیگم نے صالم کی بات سنی تو انکار کرتے کہا۔۔۔۔

”ماما سمجھائے انہیں۔۔۔

ان سب کا انرجی میں رہنا بہت ضروری ہے۔۔۔

تو سب کو کھانا کھانا پڑے گا اور ہاں کھانے کے بعد آپ سب گھر چلے جائے گے صرف میں رکو گا یہاں۔۔۔۔“

صالم نے سب کو ایک قسم کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔۔۔۔

”نہیں صالم بیٹا۔۔۔۔

میں نہیں جاؤ گی میں یہی رہو گی۔۔۔۔“

تانیہ بیگم نے صالم کی بات سنی تو جواب دیا۔۔۔

”امی ہم بھی نہیں جائے ہم دونوں بھی یہی رہے گے آپ کے اور ابو کے ساتھ۔۔۔“

حنا نے امبر کی جانب اشارہ کیا تو کہا۔۔۔۔

”دیکھو گڑیا۔۔۔

یہاں اتنے لوگ اکٹھے نہیں رہ سکتے ہیں۔۔۔

صرف دو کی اجازت ہے۔۔۔

تو آپ سب گھر جاؤ آرام کرو میں ہونگا فاخر انکل کے پاس لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔“

شیزہ بھی وہاں آگئی جب صالم حنا کو سمجھا رہا تھا۔۔۔۔

”تو ٹھیک ہے پھر میں رک جاؤ گی یہاں بیٹا آپکے ساتھ۔۔۔“

تانیہ بیگم نے ضد کرتے کہا۔۔۔۔

”نہیں ماما آپ بہت تھک گئی ہے آپ کو میں یہاں رہنے نہیں دونگی۔۔۔

میں رہ جاؤ گی صالم کے ساتھ یہاں پاپا پاس۔۔۔“

شیزہ صالم کی جانب دیکھتے ہوئے تانیہ بیگم کو جواب دیتے بولی ۔۔۔

”ہاں تو پھر ٹھیک ہے آپ سب کھانا کھائے اور اس کے بعد یوسف آپ ان تینوں کو گھر لے جانا اور رافع ماما کو گھر لے جانا۔۔۔۔“

صالم کے کہنے پر دونوں نے حامی میں سر ہلایا۔۔۔۔

”آجاؤ شیزہ بیٹا کچھ کھا لو آپ بھی۔۔۔“

نورین بی بی نے شیزہ کو کھڑا پایا تو نرمی سے ہاتھ تھامے اسے اپنی طرف بلایا۔۔۔۔

صالم بیٹا آپ بھی آجاؤ کچھ کھا لو ۔۔۔

جب سے آئے ہو بھاگ دور میں لگے ہو۔۔۔۔

تانیہ بیگم نے بھی صالم کو آواز دی۔۔۔۔

”نہیں آنٹی ابھی بلکل بھوک نہیں۔۔۔۔

آپ لوگ کھائے میں زرا ڈاکٹر سے مل کر آتا ہو۔۔۔۔“

صالم کا موڈ آف سا تھا جسے شیزہ اچھے سے محسوس کر چکی تھی۔۔۔۔

صالم شیزہ کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

”ارے اسے کیا ہوا؟؟؟

سب کو کہہ رہا تھا انرجی بناؤ اور خود لاپرواہی کررہا ہے۔۔۔“

نورین بی بی صالم کے اس رویے پر چپ نہ رہ سکی۔۔۔

”کوئی بات نہیں بہن۔۔۔

شیزہ تم صالم کو کچھ کھلا دینا یاد سے اسے بھوکا مت رہنے دینا اچھا۔۔۔۔“

”جی امی ۔۔۔۔۔“

”شاباش بہت اچھی بیٹی ہے میری۔۔۔۔“

تانیہ بیگم نے شیزہ کی بالائیں لیتے کہا۔۔۔۔

جبکہ شیزہ بے دلی سے بیٹھی نوالہ بنائے نوش کررہی تھی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

رات کافی ہوچکی تھی۔۔۔۔

 جبکہ اب سب بھی جا چکے تھے۔۔۔۔۔

 بس صالم اور شیزہ ہی وارڈ کے باہر بیٹھے ایک دوسرے کے سامنے والی نشست پر براجمان  اجنبیت اپنائے موجود تھے ۔۔۔۔

شیزہ سر گرائے پاؤں کرسی پر جمائے نیند کے جھٹکے بھر رہی تھی۔۔۔۔

صالم بھی سر دیوار ساتھ لگائے بیٹھا آنکھیں موندے تھا۔۔۔۔

شیزہ جو نیند اور اونگ کے جھٹکے بھر رہی تھی اچانک  ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی اور پھر کچھ یاد آنے کی پاداش میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔

صالم بھیجو نیند کی وادیوں میں گھومنا چاہتا تھا شیزہ کے حرکت کی آواز سن اٹھ گیا اور  اس کے یوں اٹھ کھڑے ہونے پر اچھنبی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔

شیزہ کچھ سوچتے ہوئے آہستگی سے آگے کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔۔

شیزہ کہاں جارہی ہو؟؟؟

صالم نے شیزہ کو یوں جاتے دیکھا تو ٹوکا۔۔۔۔

”وہ ۔۔۔۔۔۔“

شیزہ نے ہاتھ کا اشارہ دیا لیکن پھر بناء کچھ بولے آگے سامنے موجود نماز روم کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔

صالم اسے یوں جاتا دیکھ کر حیرت سے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔

ابھی وہ کچھ اور سوچتا شیزہ ہاتھ میں ایک پلیٹ لیے اور کچھ کھانا رکھے واپس اسی کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔

اور اب وہ اس کے روبرو کھڑی ہوگئی۔۔۔۔

”یہ سب؟؟؟؟“

صالم نے استفہامی نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔

”وہ امی نے کہا تھا کہ آپکو کچھ کھلا دو۔۔۔۔

تو بس جیسے ہی یاد آیا لے کر آگئی۔۔۔۔“

شیزہ آگے کی جانب بڑھی اور پھر کرسی پر پلیٹ رکھے خود بھی صالم کے ساتھ نشست پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

صالم شیزہ کو بدمستی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔

”دیکھے میں نے کھانا گرم کیا ہے تو پلیز کھا لے۔۔۔

پھر ٹھنڈا ہوجائے گا اور پھر گرم کرنا پڑے گا۔۔۔۔“

شیزہ نظریں گرائے بولی۔۔۔۔۔

صالم اب بناء کچھ کہے خاموشی سے بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

شیزہ نے پلیٹ اب صالم کی جانب بڑھائی جسے صالم نے خاموشی سے تھام لی اور اب کھانے کی جاب متوجہ ہوگیا۔۔۔۔

شیزہ صالم جو یوں کھاتا دیکھ کر نظر بھرے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

”آج اس شخص نے مجھ پر کئی احسان کر ڈالے۔۔۔۔

جس انسان کو میں تباہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔

وہی آج میرے سب سے حسین رشتے اور وجود کو بچانے کیلئے ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔۔۔“

شیزہ اسے دیکھتے سوچ رہی تھی۔۔۔۔

جبکہ کھاتے کھاتے اچانک صالم کو ہچکیاں شروع ہوگئی۔۔۔

شیزہ نے صالم کو یوں ہچکیاں بھرتے دیکھا تو فورا کھڑی پاؤں پانی لینے کو بھاگی۔۔۔۔۔

صالم شیزہ کے یوں بدلے رخ کو دیکھ کر حیران کن سا ہوگیا۔۔۔۔

وہ لڑکی جو اسے اپنے ساتھ برداشت نہ کرتی تھی اب اس کیلئے پانی اور کھانے کیلئے بھاگ دور کررہی تھی۔۔۔۔

کچھ ہی لمحوں میں شیزہ پانی کا گلاس لیے نمودار ہوئی اور صالم کے آگے بڑھا دیا۔۔۔۔

اب تو صالم منہ کھولے اسے ہکا بکا دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے؟؟؟

پانی ہی تو ہے لے لے۔۔۔۔“

شیزہ صالم کا منہ یوں حیرت سے کھلا دیکھ کر دوسری جانب چہرہ کرتے بولی ۔۔۔

صالم نے فورا اپنا منہ بند کیا اور بناء لمحہ ضائع کیے پانی کا گلاس تھام لیا اور گھونٹ میں بھر لیا۔۔۔۔۔

شیزہ نے گلاس واپس لینے کو ہاتھ بڑھایا جس پر صالم نے بناء کچھ کہے گلاس اسے پکڑا دیا۔۔۔۔

شیزہ گلاس لیے واپس کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔

جیسے ہی صالم نے کھانا کھایا شیزہ نے پلیٹ پکڑی اور واپس اسے کمرے کی جانب بڑھی جہاں سے وہ کھانا گرم کر کے لائی تھی۔۔۔۔

صالم کو شیزہ کی عجیب حرکتیں حیرت میں گرفتار کیے رکھے تھی جس کی بناء پر وہ اب پر تجسس ہوچکا تھا۔۔۔۔

جیسے ہی شیزہ واپس آئی تو صالم جس کے پاس کئی سوالوں کے بھنور تھا اسے پکارتے روکا۔۔۔۔۔

”شیزہ!!!!!!!“

شیزہ نے صالم کی آواز تو سنہ تو رک گئی اور اسے ایسے دیکھنے لگی جیے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔۔

جبکہ صالم کیلئے یہ سب کسی حادثے اور معرکے سے کم نہ تھا۔۔۔۔

”شکریہ۔۔۔۔۔۔“

صالم نے کسی بھی قسم کا سوال کرنے کی بجائے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔

جس پر شیزہ نے مسکرا کر سر ہلایا اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔

اب دونوں واپس اسی حالت میں بیٹھ گئے جیسے پہلے بیٹھے تھے۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں دونوں واپس ہی نیند میں ڈوب گئے ۔۔۔۔۔

صالم جو سر دیوار ساتھ لگائے بیٹھا تھا جھٹکے کی وجہ سے آنکھیں کھولے اردگرد دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

سامنے بیٹھی نظر شیزہ پر پڑی جو بمشکل سر ٹکائے سو رہی تھی۔۔۔۔

صالم کو محسوس ہوا کہ شاید وہ اب کی بار گر جائے گی۔۔۔۔

لہذا بناء کوئی لمحے کی تاخیر کیے بناء وہ جھٹ اٹھ کھڑا ہوا اور فورا شیزہ کی ساتھ والی نشست کر جا بیٹھا۔۔۔۔

اور پھر سوئی ہوئی شیزہ کا سر اپنے کندھے پر ٹکا دیا اور بازو اس کے گرد مائل کردیے تاکہ وہ گر نہ سکے اور اس کے حصار میں رہے ۔۔۔

پوری رات دونوں یونہی ایک دوسرے کے سہارے پر ایک دوسرے کے حصار میں رہے۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️

شیزہ ۔۔۔۔۔

شیزہ بیٹا ۔۔۔۔۔

نورین بی بی جو رافع کے ساتھ صبح سویرے ہی ہسپتال پہنچ چکی تھی دونوں کو یوں سوتا دیکھ کر پہلے تو ان کی بلائیں بھرتی رہی اور پھر جب اردگرد کے لوگوں کو یوں عجیب نظروں سے انہیں دیکھتے دیکھا تو پھر انہیں جگانے لگی ۔۔۔۔

رافع بھی پاس کھڑا منہ پر ہاتھ رکھے دبی دبی ہنسی ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔

صالم ۔۔۔۔۔

صالم بیٹا اٹھو۔۔۔۔۔

کھٹ پھٹ کی آواز اور کسی کی پکار نے نیند میں خلل پیدا کیا تو شیزہ نیند سے چھری آنکھوں کو بمشکل کھولے سامنے دیکھنے لگی۔۔۔۔

جہاں نورین بی بی اور رافع ان دونوں کی جانب مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔

شیزہ نا سمجھی سے ان دونوں کو یوں ہنستا دیکھنے لگی کہ تب اسے احساس ہوا کہ ناصرف وہ بلکہ اردگرد سے گزرتا ہر شخص انہی اسی طرح دیکھ کر ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔

اچانک شیزہ کے کانوں میں کسی کے سانسوں کی گرم لمس کا احساس ہوا ۔۔۔۔۔

نظر گھوما کر دیکھا پاس صالم کو سوئے پایا جو اس کے کندھے پر سر رکھے سو رہا تھا جبکہ صالم کی بازوؤں نے بھی اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔۔۔۔

ایک دم شیزہ نے خود کو صالم کے حصار سے نکالا اور ہڑبراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

صالم بھی شیزہ کی ہربڑاہٹ کی وجہ سے اٹھ گیا ۔۔۔

کیا ہوا ہے؟؟؟

سب یوں کیوں دیکھ رہے ہیں ہم دونوں کو؟؟؟

صالم آنکھوں کو ملتے ہوئے انگڑائی بھرتے بولا ۔۔۔

آنٹی میں آتی ہو ۔۔۔۔۔

شیزہ آنکھ بچاتی وہاں سے تیز قدموں سے نکل پڑی۔۔۔۔

ارے بھائی۔۔۔۔

آپکو پتہ ہےآپ بھابھی کو خود سے لگائے سو رہے تھے۔۔۔۔

واہ کیا رومانوی انداز تھا۔۔۔۔۔

رافع آگے کی جانب بڑھتے ہوئے صالم کے ساتھ جا بیٹھا اور شوخیاں بھرتا صالم کے کندھے پر تھپکی دیتے بولا ۔۔

سامنے کھڑی نورین بی بی نے رافع کو صالم کو تنگ کرتے دیکھا تو اس کے کان کھینچنے لگ گئی۔۔۔۔

بس کرو اچھا بھائی کو کیوں تنگ کررہے ہو۔۔۔۔

امی یہ کیا کہہ رہا ہے ؟؟؟

صالم ناسمجھی سے بولا۔۔۔۔

کچھ نہیں کہہ رہا تمہیں تو پتہ ہے اس کی حرکتوں کا ۔۔۔۔۔

خیر جاؤ فریش ہو کر آؤ میں ناشتہ لائی ہو۔۔۔۔

تم دونوں کیلئے جلدی سے آؤ اور کر لو۔۔۔۔

نورین بی بی رافع کو گھورا اور پھر اسے اٹھاتے ہوئے خود براجمان ہوگئی۔۔۔۔

شیزہ کہاں ہے؟؟؟

وہ بھی فریش ہونے گئی ہے بس آتی ہی ہوگی تم بھی ہو آؤ پھر مل کر ناشتہ کر لینا۔۔۔۔

نورین بی بی کھانے کے ڈبوں کو نکالے بولی۔۔۔۔

جبکہ صالم سر کو کھجاتے ہوئے وہاں سے چل پڑا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم جینٹس واش روم۔ میں کھڑا منہ پر پانی کے پے در پے چھینٹے مار رہا تھا کہ تبھی اس کو کل رات کی حرکت یاد آئی۔۔۔۔

”اوہ تو تبھی ماما بھی ہنس رہی تھی اور رافع بھی عجیب باتیں کررہا تھا۔۔۔۔“

صالم سوچتے سوچتے رکا۔۔۔۔

تبھی اس کی آنکھوں کے سامنے شیزہ کا چہرہ چھلکا۔۔۔

جس کے چہرے پر الجھن اور شرماہٹ کے تاثرات صاف عیاں تھے۔۔۔۔۔

”ناجانے کیا سوچ رہی ہو گی وہ ؟؟

کہ میں نے جان کے کیا سب؟؟؟

جبکہ میری نیت بس اسے کسی تکلیف میں مبتلا نہ کروانے کی تھی۔۔۔“

”خیر جا کر دیکھتا ہو کیا مزاج ہے اس کے؟؟؟“

صالم خود کو سامنے لگے  شیشے میں بغور دیکھتے بولا۔۔۔۔

اور پھر چہرے پر موجود ننھے ننھے پانی کے قطروں کو صاف کرتے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

سب ہی فاخر صاحب کے کمرے پر باہر جمع تھے۔۔۔۔

جبکہ صالم اب ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے انہی کے کمرے سے باہر نکلا تھا ۔۔۔

”کیا ہوا ہے صالم بیٹا کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب؟؟؟“

ڈاکٹر جو واپس کمرے کے اندر چلا گیا تھا۔۔۔

صالم ان کے جانے کے بعد سب کی جانب بڑھا۔۔۔۔

”آنٹی ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ابھی صرف ایک ہی شخص کو ملنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔۔۔

کیونکہ وہ ابھی مکمل ہوش میں نہیں ہے۔۔۔

اور زیادہ لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔۔۔۔“

”اچھا تو پھر تانیہ بہن آپ ہی اندر جانا فاخر بھائی کے پاس۔۔۔۔“

نورین بی بی نے تانیہ بیگم کے کندھوں کو تھامتے کہا۔۔۔۔۔

”ٹھیک ہے میں ڈاکٹر کو بلا لاتا ہو تاکہ وہ آپکو اندر لے جائے خود ۔۔۔“

صالم کہتے ہوئے واپس ڈاکٹر کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔

کچھ دیر کے توقف کے بعد واپس اپنے ساتھ ڈاکٹر کو کے کر باہر آیا۔۔۔

”ڈاکٹر صاحب یہ اندر جائے گی یہ پیشنٹ کی وائف ہے۔۔۔۔“

صالم نے تانیہ بیگم کی جانب اشارہ کرتے کہا۔۔۔۔

”جی ٹھیک ہے آئیے آپ۔۔۔۔“

ڈاکٹر نے ایک نظر دیکھا اور پھر تانیہ بیگم ان کے پیچھے چل پڑی۔۔۔۔۔

سب باہر کھڑے بس اب انتظار کررہے تھے۔۔۔۔

کچھ دیر ہی گزری کے تانیہ بیگم باہر کو آگئی۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے امی؟؟؟

آپ اتنی جلدی کیسے؟؟“؟

شیزہ اٹھ کر تانیہ بیگم کے پاس گئی اور سوال گو ہوئی۔۔۔۔

”وہ صالم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔“

تانیہ بیگم نے نذری نظر سے صالم کو دیکھا۔۔۔۔

جبکہ صالم کا نام سن کر سب ہی اس کو دیکھنے لگے جبکہ وہ خود بھی حیران تھا کہ فاخر صاحب اس سے ہی کیوں ملنا چاہتے ہیں وہ بھی اس حالت میں۔۔۔۔

”ٹھیک ہے آنٹی میں جاتا ہو۔۔۔۔“

صالم بناء وقت ضائع کیے اندر چلا گیا ۔۔۔۔۔

”حیرت ہے ابو نے امی سے بات کرنے کی بجائے صالم کو کیوں بلا لیا؟؟؟؟

ایسی کیا بات کرنی تھی انہوں نے صالم۔ سے کہ جس وقت سب سے زیادہ اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے تب اسے بلایا ہے اندر؟؟؟؟“

شیزہ صالم کے جانے کے بعد دل ہی دل میں سوچنے لگی۔۔۔۔

جبکہ اب سب وہی کھڑے پھر سے انتظار کرنے لگ گئے۔۔۔۔

پندرہ منٹ انتظار کرنے کا عمل تب ختم ہوا جب صالم کمرے سے باہر نکل آیا۔۔۔۔۔

چہرے پر سنجیدہ پن سجائے وہ بظاہر پریشان سا معلوم ہورہا تھا ۔۔۔

سب اس کی جانب ایک امید لیے بھرے ۔۔۔۔۔

کیا ہوا ہے کیا کہہ رہے تھے فاخر بھائی؟؟؟

ماما کچھ خاص نہیں بس یونہی آپ سب کا کہہ رہے تھے خیال رکھوں سب کا اور سب کا حوصلہ بنو۔۔۔۔

صالم۔ نظریں چرائے نیچھے دیکھتے بولا۔۔۔۔

اچھااااااا۔۔۔۔۔

تانیہ بیگم نے سکھ کا سانس لیے لمبا کرتے بولا ۔۔۔

اچھا وہ میں نے ڈاکٹر سے بات کرنی تھی کچھ۔۔۔۔

میں آتا ہو بات کر کے۔۔۔۔۔

صالم نے تیزی سے کہا اور خود کے دامن کو دوسروں کی نظروں سے بچاتے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔

جبکہ شیزہ کو صالم کا یہ رویہ مشکوک سا لگا۔۔۔

لیکن وہ سب کی موجودگی میں کچھ نہ بول سکی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

دو تین دن بعد۔۔۔۔۔۔۔۔

”شکر ہے فاخر انکل نے جلد ریکورر کر لیا ورنہ اتنے میجر اٹیک کے بعد یوں ٹھیک ہونا ناممکن سا تھا۔۔۔۔۔۔“

صالم جو فاخر صاحب کو ہسپتال سے گھر چھوڑ کر اب اپنے گھر آیا تھا اندر آتے ساتھ ہی لاؤنچ میں موجود صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔

”نجمہ ۔۔۔۔۔

صالم کو پانی لا کر دو جلدی۔۔۔۔“

نورین بی بی جو صوفے پر ہی بیٹھی تھی صالم کو یوں تھکا دیکھ کر کیچن میں موجود نجمہ کو آواز لگا کر بولی۔۔۔۔

”اب کیسی طبیعت تھی فاخر بھائی کی؟؟؟“

نورین بی بی نے خیریت دریافت کی۔۔۔۔

”اب ماشاءاللہ بہت بہتر ہے ان کی طبیعت۔۔۔۔

ان کو ہسپتال سے گھر چھوڑنے گیا تو شیزہ کو وہی چھوڑ آیا ۔۔۔۔“

نجمہ پانی کا گلاس لیے آئی تو صالم کے آگے بڑھا دیا ۔۔۔۔۔ 

صالم۔ نے پانی کا گلاس تھما اور ایک گھونٹ میں انڈیل لیا ۔۔۔

”صیحح کیا تم نے۔۔۔۔

اسکا وہاں رہنا لازم ہے۔۔۔

والد کی بیماری نے اسے توڑ دیا تھا اچھا ہے کچھ وقت ساتھ گزارے گی تو حوصلہ بھی ملے گا اور مطمئن بھی رہے گی وہ۔۔۔۔“ نورین بی بی مصلحتاً بولی

”ہمممم ٹھیک۔۔۔۔

اچھا میں اب کمرے میں جارہا ہو بہت تھک گیا ہو۔۔۔۔“

صالم گلاس میز پر رکھے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔

”ہسپتال کا بل ؟؟؟؟“

نورین بی بی نے جاتے صالم کو روک کر پوچھا۔۔۔۔۔

”جی ماما میں نے سب کلیئر کردیا تھا تبھی تو چھٹی ملی۔۔۔۔

اچھا اب میں جارہا ہو مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے بہت تھکاوٹ ہے مجھے جسم میں۔۔۔۔“

صالم کے چہرے سے تھکاوٹ اور سستی صاف عیاں تھی۔۔۔۔

”اچھا ٹھیک ہے میں کھانے کے ساتھ پین کلر بھیجتی ہو کھا کر سو جانا۔۔۔۔۔“

”نہیں ماما کچھ بھی نہیں چاہیے۔۔۔۔

بھوک نہیں ہے مجھے بس آرام کرونگا۔۔۔۔

بعد میں ملتا ہو۔۔۔۔“

صالم کہتے ساتھ ہی کراہتا ہوا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔۔۔۔

نجمہ یہ گلاس اٹھا لو بیٹا یہاں سے۔۔۔۔

نورین بی بی بھی صالم کے جانے کے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ فاخر صاحب کے کمرے سے باہر نکلی تو سیدھا اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔۔

رات کافی ہوچکی تھی۔۔۔۔

امبر اور حنا گھوڑے بیچے مزے سے سورہی تھی۔۔۔۔

شیزہ نے ان کو سوتے دیکھا تو کمرے میں جلتی لائٹ کا بند کیا اور اپنے بستر پر آ کر سونے کی غرض سے لیٹ گئی۔۔۔۔

ابھی کچھ دیر ہی آنکھیں موندے گزری تھی کہ اس کے موبائل نے وائیبریٹ کرنا شروع کردیا۔۔۔۔۔

شیزہ وائبریشن کی وجہ سے اٹھی اور فون جو تکیے کے پاس ہی اوندھے منہ پڑا تھا اٹھا کر خود بیٹھ گئی۔۔۔۔

دیکھا تو کوئی اور نہیں بلکہ فیروز ہی تھا۔۔۔۔

جو آج اس سے تین دن بعد بذریعہ فون رابطہ کررہا تھا۔۔۔۔

”یہ اس وقت کیوں کال کررہا ہے؟؟؟“

شیزہ نے ساتھ سوئی ہوئی اپنی بہنوں کی جانب دیکھتے سوچا۔۔۔۔۔

”مجھے بات نہیں کرنی اس سے۔۔۔“

فون کاٹا اور واپس رکھ کر لیٹ گئی جہاں سے فون اٹھایا تھا ۔۔۔۔

ابھی پھر کچھ لمحے گزرے تھے کہ فون میں پھر سے وائبریشن شروع ہوگئی۔۔۔۔

شیزہ نے اب فون پکڑا اور خاموشی سے اٹھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی اور سیدھا رخ چھت کا کیا۔۔۔۔۔

چھت پر جاتے ساتھ ہی شیزہ نے فون اٹھا لیا۔۔۔۔۔

”کیا ہے اب کیا رہ گیا ہے کہنے کو؟؟؟

جو مجھے اس وقت کال کررہے ہو؟؟؟“

شیزہ سطور کو چھوتے بولی۔۔۔۔

”ایم سوری شیزہ۔۔۔۔

ریلی سوری۔۔۔۔

یار وہ بس مجھے تمہاری شوہر پر بلکہ یقین نہیں۔۔۔۔

بس جو منہ میں آیا بک دیا۔۔۔۔“

فیروز ڈرامائی انداز سے معصومیت اور پشیمانی اپنائے بولا۔۔۔۔

”یقین ہونا چاہیے فیروز اس رشتے میں۔۔۔۔

تم میرا ہاتھ میرا ساتھ پانا چاہتے ہو وہ بھی پوری زندگی کیلئے ۔۔۔

اگر اب ہی سوچ ایسی ہے تو آگے جا کر کیسے نباہ کرو گے؟؟؟؟“

شیزہ نے مستقبل کے متعلق اندیشہ ظاہر کیا۔۔۔۔۔

”نہیں یار ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔

بدگمانیاں ختم کرو اس متعلق۔۔۔۔

تب مجھے علم ہوگا کہ تمہارے نام کے آگے بس میرا ہی نام ہے۔۔۔۔“

شیزہ نے فیروز کی بات سنی تو خاموش ہوگئی۔۔۔۔

”اچھا تو بتاؤ پھر مجھے معاف کیا کہ نہیں؟؟؟؟“

فیروز دلجمعی سے بولا۔۔۔۔

”اچھا ٹھیک ہے کردیا معاف خوش۔۔۔۔“

شیزہ بمشکل مسکراہٹ سجائے بولی۔۔۔۔

”ہاں تو ٹھیک ہوا پھر کل ہم مل رہے ہیں۔۔۔۔

بہت دن ہوگئے تمہیں نہیں دیکھا تو آنکھیں ترس گئی یار۔۔۔۔

اب دوری برادشت نہیں۔۔۔

دل چاہتا ہے تمہیں سب سے چرا لوں اور کہیں چھپا دو جہاں بس میں جا سکوں۔۔۔۔“

فیروز میٹھی چپڑی باتیں بولا۔۔۔۔

”فیروز کل؟؟؟؟

نہیں کل میں نہیں مل سکتی گھر آئی ہوئی ہوں میں۔۔۔۔

شیزہ نے اکتفا نہ کیا ۔۔۔'”

”یہ تو اور بھی اچھی بات ہوگئی۔۔۔۔

شکر ہے تمہارا شوہر تو تم کر نظر نہیں رکھ سکے گا نہ۔۔۔۔

اب تو پکا کل ہم مل رہے ہیں۔۔۔۔

میں تمہیں جگہ بتا دونگا۔۔۔۔

اور مجھے انکار نہیں سننا۔۔۔۔

میں فون بند کررہا ہو اور کل انتظار کرونگا۔۔۔۔“

فیروز اپنی سناتے ہوئے فون بند کردیا۔۔۔۔

جبکہ شیزہ کو کچھ بھی کہنے کا موقع نہ ملا ۔۔۔۔۔

”پتہ نہیں کیوں دل نہیں مان رہا۔۔۔۔۔

یہ سوچ مسلسل آرہی ہے کہ کہیں میں کچھ غلط تو نہیں کررہی؟؟؟“

”یا اللّٰہ جو میرے حق میں بہتر ہوگا وہی مجھے عطا کرے۔۔۔۔

ناجانے میں صیحح کر بھی رہی ہو کہ نہیں؟؟؟“

شیزہ تذبذب کا شکار ہوئے واپس چھت سے نیچے کی جانب گئی۔۔۔۔

اور پوری رات بس فیروز اور صالم کے متعلق سوچ میں گزاری۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم آفس میں بیٹھا کام کررہا تھا ۔۔۔

اتنے دنوں سے غیر حاضر ہونے پر اس پر کام کا بوجھ کافی بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔

دلجمعی سے کام میں مصروف وہ کام نپٹا رہا تھا۔۔۔۔

کہ تبھی فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔

صالم نظریں سکرین پر جمائے فون کا بناء دیکھے کان پر لگاتے بولا۔۔۔۔۔

”ہیلو السلام وعلیکم۔۔۔۔“

”وعلیکم السلام بھائی۔۔۔۔“

دوسری جانب سے جانی پہچانی آواز نے تعاقب کیا تو صالم نے نظر لیپ ٹاپ سے ہٹائی اور فون کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

تو امبر کا نام سکرین پر چمک رہا تھا ۔۔۔

”ہاں گڑیا بولو کیا ہوا سب خیریت ہے ناں؟؟؟

فاخر انکل تو ٹھیک ہے ناں؟؟؟“

صالم نے ان کی سچ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

جی جی بھائی سب ٹھیک ہے وہ۔۔۔۔۔امںت کے لہجے میں ابتری کیفیت نمایاں تھی۔۔۔۔۔

”کیا ہوا ہے گڑیا کچھ کہنا چاہتی ہو؟؟؟

تو کھل کر کہوں بھائی ہو میں آپکا جو کہوں گی سب مانو گا ۔۔۔“

صالم لیپ ٹاپ سے پیچھے کو ہٹا اور کرسی پر صیحح بیٹھتے  بولا۔۔۔۔

بھائی وہ۔۔۔۔۔

آپی۔۔۔۔۔

امبر اتنا بولتے ساتھ ہی چپ ہوگئی ۔۔۔

صالم نے شیزہ کا نام سنا تو داسمہی سی کیفیت میں مبتلا ہوا۔۔۔۔۔

کیا ہوا ہے ؟؟؟

شیزہ کا کہہ رہی ناں تم؟؟؟

کیا ہوا ہے خیریت ہے؟؟؟

دیکھو گڑیا بتاؤ گی نہیں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا؟؟؟

صالم بے چینی سے لیکن لفظ بہ لفظ مکنل۔الفاظ ادا کرتے بولا ۔۔۔۔

”بھائی آپ پلیز کسی کو بھی  مت بتانا۔۔۔۔۔“

امبر نے صالم کے سامنے التجا کرتے ہوئے صف سے کہا۔۔۔۔

”ہاں گڑیا۔۔۔

پکا وعدہ آپکا بھائی کسی کو بھی نہیں بتائے گا۔۔۔

چلوں شاباش بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟؟“

صالم نے اضطرابی کیفیت اپنایا۔۔۔۔

”بھائی آپی ناں۔۔۔۔

کسی سے ملنے گئی ہے۔۔۔۔

وہ بھی کسی ہوٹل میں۔۔۔۔“

امبر نے آہستگی سے دبی آواز سے غیر یقینی کیفیت سے کہا۔۔۔۔

”کیا؟؟“

صالم خلط ملط سا ہوا۔۔۔۔

”ہاں بھائی۔۔۔۔

وہ گئی ہے۔۔۔۔“

امبر نے اعتماد سے جواب دیا۔۔۔۔

”اچھا تو آپکو کیسے پتہ بیٹا یہ سب؟؟؟“

صالم نے مزید کھوج بھیج کرتے پوچھا۔۔۔۔

”بھائی وہ میں نے انکی باتیں سن لی تھی کل رات۔۔۔۔

اور نہ آج صبح ان کے میسجز بھی پڑھ لیے تھے۔۔۔۔

بھائی آپ پلیز آپی کو روکے گے ناں۔۔۔

روکے گے ناں؟؟؟“

امبر نے آس لگائے صالم سے پوچھا ۔۔۔

صالم نے سنا تو ایک پل کو سکتے میں ہوا لیکن امبر کی آواز نے اسے حقیقی دنیا میں لا پھینکا۔۔۔۔

”ہاں۔۔۔۔

ہاں۔۔۔“

وہ بڑبڑاتے ہوئے بولا ۔۔۔

”بھائی میں آپ کو جگہ کا ایڈریس بھیجتی ہو۔۔۔۔

آپی کچھ دیر پہلے ہی نکلی ہے۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس کو بتاؤ کیا کرو ۔۔

پھر مجھے بس آپ ہی کا صیحح لگا۔۔۔۔

تو میں نے آپکو کال ملا دی۔۔۔۔“

”بہت صیحح کیا امبر گڑیا۔۔۔۔

کسی کو بتانا بھی مت یہ ۔۔۔۔

یہ بات بس آپکے اور میرے بھیج رہی گی آئی سمجھ۔۔۔۔

آپ مجھے ایڈریس بھیج دو میں ابھی نکلتا ہو۔۔۔۔“

صالم نے امبر کی بات کو مثبت لیا اور اس کی جواب دیا۔۔۔۔۔

”جی بھائی کرتی ہو۔۔۔“

امبر نے کہتے ساتھ ہی فون بند کردیا۔۔۔۔

جبکہ امبر کی بتائی ہوئی بات نے صالم کو اذیت میں مبتلا کردیا تھا۔۔۔۔

ابھی وہ اسی پر سوچ رہا تھا کہ تبھی امبر کی جانب سے ایڈریس میسج کی صورت میں صالم کو رسیو ہوا جسے پاتے ساتھ ہی صالم بنا سوچے سمجھے چابی پکڑتے ہوئے اٹھا اور باہر کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️ 

شیزہ فیروز کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچی تو وہ ایک ہوٹل تھا۔۔۔

جہاں بہت سے لوگ اندر باہر رواں دواں تھے۔۔۔۔

شیزہ نے فورا اپنا موبائل نکالا اور فیروز کو کال ملا دی ۔۔۔۔

کہاں ہو ؟؟؟

میں آگئی ہو۔۔۔

کچھ بیلز کے بعد جیسے ہی فیروز نے فون اٹھایا تو شیزہ نے اپنے آنے کے متعلق سے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔

اچھا روم نمبر 221 ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے آتی ہو۔۔۔۔

شیزہ نے دوسری جانب سے جواب پایا تو فورا لیفٹ کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم تیز رفتاری میں گاڑی بے ہنگم بھگا رہا تھا۔۔۔۔

کئی بار اس کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔۔۔۔

لیکن۔ وہ پھر بھی پرواہ کیے بغیر گاڑی کو ہوا میں اڑا رہا تھا۔۔۔۔

کئی سنگلز توڑ کر وہ بس ناقابلِ فہم حالت میں تھا۔۔۔۔۔

”اس کا شیزہ کو یوں کسی ہوٹل میں بلانا۔۔۔۔۔

یا خدا میں کچھ برا نہیں سوچنا چاہتا۔۔۔۔“

اپنی گاڑی کے آگے آتی گاڑیوں کو وہ مسلسل ہارن کی مدد سے اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔

منتشر کیفیت میں مبتلا دیوانہ وار اسٹیئرنگ کر زور زور سے ہاتھ پٹخ رہا تھا۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ کمرے کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔

دل میں عجیب خوف اور وسوسے نے بسیرا کیے رکھا تھا۔۔۔

ناجانے کیوں دل میں کئی خوف کئی سوال جنم لے رہے ہیں۔۔۔۔

ڈر ہے کہ کہیں کچھ غلط نہ ہوجائے۔۔۔

لیکن یہ ڈر کیوں؟؟

میں پہلے بھی تو کئی بار ملی ہو نا فیروز سے۔۔۔

تب کچھ غلط نہیں ہوا ہم میں تو آج یہ احساس کیوں آرہا ہے؟؟؟

دروازے کے باہر کھڑی وہ خود کے جنم کردہ اندیشوں کو سوچ رہی تھی۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ خود دروازے پر دستک دیتی۔۔۔۔

دروازہ کھلا اور فیروز مسکراتا ہوا باہر کو آ پہنچا۔۔۔۔۔

شیزہ؟؟؟؟؟؟

تم باہر کیوں کھڑی تھی یار؟؟؟

دروازہ نوک کیوں نہیں تھا؟؟؟

فیروز جو بظاہر کسی کان کے تحت باہر نکلا تھا شیزہ کو باہر پا کر بولا۔۔۔۔

نہیں وہ بس میں نوک کرنے ہی لگی تھی کہ تم آگئے۔۔۔۔

خیر آہی گئے ہو تو چلوں نیچے چلتے ہیں۔۔۔

کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔۔۔

شیزہ نے بمشکل اندر کے اندیشوں کو دبایا اور فیروز کو کہتے ساتھ ہی آگے کو بڑھی ۔۔۔۔

لوں کیوں؟؟؟

فیروز نے جاتی شیزہ کا ہاتھ پکڑا تو وہ شیزہ رک گئی اور اپنے ہاتھ کیمو فیروز کی گرفت میں پا کر مزید متزلزل کا شکار ہوگئی۔۔۔۔

شیزہ سوالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

میرا مطلب ہے کہ یار میں نے یہ روم بک کروایا ہے تاکہ ہم دونوں آرام سے باتیں کرسکے۔۔۔

وہاں لوگ ہمیں گھور گھور کر دیکھتے ہیں تو مجھ سے بات نہیں ہوتی۔۔۔

تو چلوں اندر۔۔۔۔

فیروز نے شیزہ کو عنقریب اپنے ساتھ کھینچا۔۔۔۔

جس پر شیزہ نے ایک دم مزمت سی کی۔۔۔۔

وہ تو ٹھیک ہے فیروز لیکن روم میں جانا نامناسب ہے۔۔۔۔

ہم کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں جہاں کوئی بھی نہ ہو لیکن یہ روم !!!!!

وہ کمرے کی جانب دیکھتے بولی۔۔۔۔

مجھ سے یوں آ کر ملنا وہ بھی اس صورت میں کہ تم شادی شدہ ہو اور اپنے شوہر کو دھوکا دے کر مجھ سے ملنے آتی ہو کیا یہ مناسب ہے جو تم اب اسے نامناسب کہہ رہی ہو ۔۔۔

فیروز کا رویہ یکسر بدل کر سرد سا ہوگیا جبکہ چہرے کے زاویے بھی بدل گئے۔۔۔۔۔

فیروز!!!!!!

میں یہاں صرف تمہاری وجہ سے آئی ہو آئی سمجھ۔۔۔۔

اور تم مجھے یہ باتیں سنا رہے ہو۔۔۔۔

چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔

مجھے نہیں جانا کہیں۔۔۔۔

اور آج کے بعد مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی نہ تو پھر دیکھنا۔۔۔۔

شیزہ اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے انگلی دیکھائے اسے وارن کرتے بولی اور کہتے ساتھ ہی وہاں سے جانے کو بڑھی۔۔۔۔۔

فیروز جو شیزہ کو جاتے دیکھ رہا تھا فورا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے؟؟؟

میں تمہیں یہاں سے ایسے ہی جانے دونگا۔۔۔۔

اگر آئی میری مرضی سے ہو ناں تو جاؤ گی بھی میری ہی مرضی سے۔۔۔۔

چلوں میرے ساتھ اندر۔۔۔۔۔

فیروز نے جھٹکے سے شیزہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے عنقریب گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ اندر کمرے میں لے گیا۔۔۔۔

شیزہ لاکھ مذمت کرتی رہی لیکن فیروز کو اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔۔۔۔

اور روم کا دروازہ پٹختے ہوئے بند کردیا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم امبر کی جانب سے بتائی ہوئی جگہ پر گیا تو وہ ایک ہوٹل تھا۔۔۔۔۔

اضطرابی اور بے چینی سے وہ اپنے اندر کے خوف سے ڈرتا ہوا ہوٹل کے اندر داخل ہوا اور سیدھا رخ ریسپشنسٹ کا کیا۔۔۔۔۔

”السلامُ علیکم۔۔۔۔

میں آپکی کیسے مدد کرسکتی ہو سر؟؟؟

آپکو کونسا کمرہ اور کس فلور پر چاہیے؟؟؟“

سامنے کھڑی لڑکی نے صالم کی جانب دیکھتے پوچھا۔۔۔۔

”دیکھیے مجھے یہاں کسی نے بلایا ہے۔۔۔۔

مجھے روم نمبر نہیں معلوم کیا آپ مجھے اس کا روم نمبر بتا سکتی ہے تا کہ میں مل سکوں؟؟؟“

صالم نے خود کے حواس کو قابو میں لاتے ہوئے تحمل انداز اپنائے کہا ۔۔۔۔

”جی سر آپ مجھے نام بتائے میں آپکو روم نمبر بتا دیتی ہو۔۔۔۔“

”نام؟؟؟؟؟“

صالم کو پریشانی میں امبر سے نام پوچھنا تو یاد ہی نہ رہا۔۔۔

”اب نام کہاں سے بتاؤ؟؟؟

مجھے یاد ہی نہیں نام کیا تھا اسکا؟؟؟“

وہ سر پکڑے خود سے آہستگی سے بولا۔۔۔۔

”جی سر آپ نے کچھ کہا ہے؟؟؟“

وہ صالم کو خود سے باتیں کرتے دیکھا تو بولی۔۔۔۔

”ایک منٹ بس۔۔۔۔“

صالم پیچھے کو ہٹا اور فون نکال کر کسی کو کال ملانے لگا۔۔۔۔۔

”فون اٹھاؤ امبر۔۔۔۔۔

فون اٹھاؤ۔۔۔۔۔“

صالم مسلسل کال ملائے بول رہا تھا۔۔۔۔۔

اچانک فون اٹھا تو وہ بے چینی سے لپکا۔۔۔۔

”امبر۔۔۔۔

امبر وہ نام ؟؟؟

نام کیا ہے اس کا؟؟؟“

”بھائی کس کا؟؟؟“

امبر ناسمجھی سے بولی۔۔۔۔

”اسی کا جس سے شیزہ ملنے آئی ہے جلدی بتاؤ۔۔۔۔“

صالم کا صبر اب ہاتھ سے چھوٹ رہا تھا ۔۔۔

”فیروز۔۔۔۔

ہاں فیروز۔۔۔۔۔“

امبر کے جواب ملنے پر صالم نے فورا فون کاٹا اور واپس ریسپشنسٹ کی جانب بڑھا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

فیروز شیزہ کو کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آیا اور اسے طرح اسے بیڈ پر دے پٹخا۔۔۔۔

شیزہ لڑکھڑاتی ہوئی اور غیر متوقع طور پر بیڈ کر اوندھے منہ جا گری ۔۔۔۔۔

فیروز کے تاثرات اب غلیظ و غصب اختیار کرتے جارہے تھے۔۔۔۔

بیڈ کے پاس کھڑا وہ شیزہ کو ناتواں پا کر ہنس رہا تھا۔۔۔۔

یہ سب کیا بد تمیزی ہے فیروز؟؟؟

پاگل ہوگئے ہو کیا؟؟؟

شیزہ بیڈ پر اپنے ہاتھوں کے سہارے سے اٹھی اور فیروز کو معترف نظروں سے دیکھتے بولی۔۔۔۔

کیا؟؟؟؟

کیا کیا ہے میں نے؟؟؟؟

ابھی تو کچھ نہیں کیا میں نے؟؟

فیروز دونوں بازوؤں باندھے چہرے پر گھٹیا پن اپنائے اسے دیکھتے بولا۔۔۔۔

بکواس بند کرو۔۔۔۔

شیزہ چلا کر بولی اور فورا اٹھ کر فیروز جو اس کے سامنے ایک دیوار کی مانند کھڑا تھا اسے دھکا دیتے ہوئے دروازے کی جانب لپکی۔۔۔۔

فیروز جو شیزہ کے دھکے کر گرنے لگا تھا فورا سنبھلا اور شیزہ کی جانب لپکا۔۔۔۔

جو دروازہ کھولنے کو ہی تھی۔۔۔۔

شیزہ کو بازو سے پکڑتے ہوئے اس نے واپس پیچھے کی جانب کیا ۔۔۔۔۔۔۔

شیزہ دروازے سے پیچھے کو ہوئی تو سامنے کھڑے وحشی کو دیکھ کر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا۔۔۔۔۔

میرا راستہ چھوڑو فیروز ۔۔۔

مجھے اس بات کا احساس مت دلاؤ کہ تم سے محبت کرنا میری سب سے بڑی بھول تھی۔۔۔۔

مجھے میری محبت کے بھرم میں جینے دو۔۔۔۔

شیزہ روہانسی سی لیکن خود کو مضبوط بنائے اسے انگلی دکھاتے بولی۔۔۔۔

جو چہرے پر ہاتھ رکھے شیزہ کو حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

شیزہ فیروز کو تھپڑ لگا کر واپس دروازے کی جانب بھری۔۔۔۔

لیکن فیروز کیسے ایک بلبل کو اپنے پنجرے سے یوں آزاد جاتے دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔

شیزہ!!!!!!!!

وہ ایک دم غصے سے چلایا۔۔۔۔

اور مڑتے ہوئے شیزہ کو دونوں بازوؤں سے پکڑتے ہوئے اپنے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔۔

اور زبردستی اس کو اپنے قریب کیا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔۔۔

شیزہ کا خوف اب حقیقت کا رنگ بھر رہا تھا۔۔۔۔

اس کا اپنے یہاں آنے کی بھول صاف واضح ہورہی تھی۔۔۔۔

محبت ہاں!!!!

محبت!!!!

فیروز پاگلوں کی مانند شیزہ کے چہرے کو دیکھتے بولا۔۔۔۔

جس کی آنکھوں سے اب اپنی غلطی کے آنسوں نکل رہے تھے۔۔۔۔۔

مجھے تم سے کچھی محبت تھی ہی نہیں تو بھرم کیسا؟؟؟؟

وہ شیطانی مسکراہٹ سجائے اپنے سچ کو شیزہ پر عیاں کرتے بولا۔۔۔۔

جو اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے بے یقینی طور پر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

میں تو بس اپنا شوق پورا کردیا تھا تم سے۔۔۔

لیکن۔ ناجانے اس شوق میں تم شادی کہاں سے گھسیٹ لائے۔۔۔۔

فیروز نے شیزہ کے چہرے کو چھوڑا اور دھکا دے کر اسے واپس بیڈ پر پھینک دیا۔۔۔۔۔

اور خود کمرے کے چکر لگانے لگا۔۔۔۔۔

میں نے سوچا بھی کہ تمہارے ساتھ کچھ تنہائی تنہائی کھیلو گا تمہیں اپنے بانہوں کے حصار میں بھرو گا۔۔۔۔

لیکن نہیں تم کو تو شادی کا بھوت سوار تھا۔۔۔۔

فیروز ایک دم شیزہ کی جانب بڑھا اور گری ہوئی شیزہ کے اوپر جھکا۔۔۔۔

بتاؤ کیوں کرو میں شادی تم جیسی لڑکی سے؟؟؟

جو اپنے والدین کی نہ ہوئی پھر اپنے شوہر کی نہ ہوئی اور اب سمجھتی ہے کہ میں ۔۔۔۔

فیروز اپنی جانب اشارہ کرتے بولا۔۔۔۔۔

میں فیروز تم جیسی کو اپنے نکاح میں لونگا۔۔۔۔

ارے تم تو میرے بستر کی ہی زینت بن سکتی ہو بس۔۔۔۔

اس سے زیادہ عزت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔

شیزہ نے فیروز کی گھٹیا بات سنی تو ایک اور طمانچہ اسکے چہرے پر رسید کیا۔۔۔۔۔

بہت ہی گھٹیا انسان ہو تم۔۔۔۔

بہت ہی گھٹیا۔۔۔

تم جیسے انسان کے پیچھے میں اپنے گھر والوں کو چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔

اس شخص کو چھوڑ رہی تھی جس کا اس سے کوئی واسطہ نہ تھا۔۔۔۔۔

شیزہ روتی بلکتی چلا چلا کر اپنی کوتاہیوں کو بتا رہی تھی۔۔۔۔۔

جبکہ فیروز پیچھے ہوئے اسے دیکھ کر بس اس کی حالت دیکھ کر ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ شخص جس نے میری عزت رکھی ۔۔۔۔۔

میری ہر دھتکار کو اس نے برداشت کیا۔۔۔۔۔

میری نفرت کا بلاجواز نشانہ بنا۔۔۔۔۔

میں نے اس انسان کے ساتھ تمہارا۔۔۔۔

وہ فیروز کی جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے بولی ۔۔۔  

تم جیسے گھٹیا اور نیچ انسان کا موازنہ کیا۔۔۔۔

مجھ جیسی بیوقوف اور کم عقل کوئی نہیں اس دنیا میں۔۔۔۔

شیزہ بیڈ پر ٹانگیں سمیٹے سر رکھے  زارو قطار رو رہی تھی۔۔۔۔۔

اچھا اب بس کرو آئی سمجھ۔۔۔۔

مجھے کوئی شوق نہیں تمہاری کوتاہیوں کے ٹوکرے کے متعلق سننے کا۔۔۔۔

چلوں شاباش۔۔۔۔

اب زیادہ تماشہ مت کرو۔۔۔۔

فیروز اب آہستگی سے اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔

شیزہ نے فیروز کے ارادے بھانپے تو پیچھے کو ہونے لگی۔۔۔۔

میرے قریب مت انا فیروز ۔۔۔

پیچھے ہو کر بات کرو مجھ سے۔۔۔۔۔

شیزہ اسے تنبیہہ کرتے بولی۔۔۔۔

اچھا اگر دور ہونگا تو پاس کیسے آؤ گا میری جان۔۔۔۔۔

چلو۔ آجاؤ اب۔۔۔۔

دیکھو ایسے نخرے کرو گی ناں تو مجھے زبردستی کرنی پڑے گی۔۔۔

جو کہ مجھے بلکل پسند نہیں۔۔۔۔

آجاؤ شاباش۔۔۔۔۔

فیروز اپنا ہاتھ بڑھائے اس کے چہرے کو جیسے ہی چھونے لگا۔۔۔۔

شیزہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔۔

اور فورا اٹھ کر دروازے کی جانب بھاگی۔۔۔۔

جیسے ہی وہ اس طرف گئی ۔۔۔

فیروز بھی اس کے پیچھے لپکا۔۔۔۔

اور اس کو پیچھے سے پکڑتے ہوئے بیڈ پر لے آیا۔۔۔۔

کیا کرتی ہو میری جان؟؟؟

کیوں تھکا رہی ہو ؟؟؟

فیروز نے شیزہ کو دبوچنے کی کوشش کی۔۔۔۔

شیزہ مسلسل مذمت کررہی تھی۔۔۔۔

لیکن اس کی طاقت فیروز سے بہت کم تھی ۔۔۔

اور اب وہ مکمل طور پر فیروز کے شکنجے میں پھنس گئی تھی۔۔۔۔ 

فیروز مسلسل اسے زیر کررہا تھا۔۔۔۔۔

جبکہ شیزہ بری طرح چیخ و پکار کررہی تھی۔۔۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔۔

صالم۔۔۔۔۔۔۔

ااا۔۔۔۔

صالم۔۔۔۔۔۔

بچاؤ مجھے پلیز۔۔۔۔۔

شیزہ کی چیخ و پکار سن کر فیروز نے اپنا ایک ہاتھ شیزہ کے منہ پر رکھا اور اس کی آواز بند کردی۔۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

صالم بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔

بھاگ بھاگ کر اس کی سانس اب پھول چکی تھی جبکہ ایک انجانے خوف نے اسے کمزور بنا دیا تھا۔۔۔۔۔

دروازے کے باہر کھڑے ہوئے صالم کا وجود اب لزر رہا تھا ۔۔۔

اچانک اسے اندر سے چیخ و پکار کی آواز سنائی دی۔۔۔۔

اسے ایسا لگا جیسے اندر کوئی اسے ہی آواز دے رہا ہے۔۔۔۔۔

صالم نے پل بھر کا وقت ضائع کیے بناء دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کردیا ۔۔۔۔

اچانک اندر سے شورو غل کی آواز آنا بند ہوگئی۔۔۔۔۔

صالم نے اپنا کان اب دروازے کے ساتھ لگایا۔۔۔۔

تو اندر سے کھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔

صالم!!!!!!!!

ایک دم پھر سے صالم کا اندر کمرے سے اپنا نام سنائی دیا۔۔۔۔۔

اب تو صالم کا پکا یقین ہوگیا کہ اندر شیزہ ہی موجود ہے جو اسے پکار رہی ہے۔۔۔۔

صالم اب دیوانہ وار کمرے کے دروازے پر اپنا ہاتھ زور زور سے مارنے لگا۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

فیروز نے دروازے ہر جب دستک کی آواز سنی تو فورا شیزہ کا منہ اپنے ہاتھ سے دبوچ لیا۔۔۔۔۔

اس وقت کون آگیا ہے؟؟؟؟

فیروز نے پریشانی سے دروازے کی جانب دیکھا۔۔۔۔

شیزہ نے فیروز کے ہاتھ پر اپنے ناخنوں کا گارا تو فیروز نے درد کی شدت سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔۔۔۔

جس سے شیزہ نے ایک بار پھر صالم۔ کا نام پکارا۔۔۔۔۔

فیروز نے شیزہ کی اس حرکت کر ایک تھپڑ اسے منہ پر رسید کردیا۔۔۔۔۔

اور خود شیزہ کے اوپر سے اٹھا ۔۔۔۔۔

شیزہ فورا اٹھی اور بھاگنے کو لپکی ۔۔۔

لیکن فیروز نے اسے ایک بار پھر دبوچا۔۔۔۔۔

دروازے پر دستک اب شدت اختیار کرتی جارہی تھی۔۔۔۔

فیروز نے فورا شیزہ کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کوئی اور ہنگامہ ہو مجھے کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔

فیروز نے بولا اور فورا پاس پڑھ شیزہ کے ڈوپٹے کو پاؤں سے اٹھایا اور ہاتھ سے پکڑتے ہوئے شیزہ کے منہ پر باندھ دیا۔۔۔۔۔

اور اسی طرح اس ڈوپٹے سے پیچھے کی جانب اس کے ہاتھ باندھ کر کمرے واش روم میں اسے بند کردیا۔۔۔۔۔

شیزہ بے بسی کی تصویر بنے باتھ روم میں بند اپنے قسمت پر رو رہی تھی۔۔۔۔۔

اور دل ہی دل میں اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔

فیروز شیزہ کو بند کرنے کے بعد خود کو نارمل کرتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔۔

اور دروازہ کھول دیا۔۔۔۔۔

جیسے ہی دروازہ کھولا۔۔۔۔

صالم فیروز کو دھکا دیتے ہوئے اندر کی جانب ہڑبراتا ہوا داخل ہوا۔۔۔۔۔

کون ہو بھائی آپ؟؟؟

اور یوں میرے کمرے ؟؟؟؟

فیروز فورا اس کے پیچھے کو لپکا ۔۔۔۔۔

کہاں ہے شیزہ؟؟؟؟

شیزہ کہاں ہے؟؟؟؟

صالم نے شیزہ کو جب کمرے میں نہ پایا تو فیروزکوہ گریبان سے پکڑتا ہوا جنونی کیفیت اپنائے اسے جھنجھوڑنے لگا ۔۔۔۔

فیروز نے شیزہ کا نام سنا تو بوکھلا سا گیا۔۔۔۔

شیزہ؟؟؟؟

ک۔۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کون شیزہ؟؟؟؟

میں کسی شیزہ کو نہیں جانتا۔۔۔۔۔

اور چھوڑو مجھے۔۔۔۔

فیروز نے اپنا گریبان صالم کے ہاتھ سے چھڑواتے کہا۔۔۔۔

جھوٹ ۔۔۔۔۔

جھوٹ بول رہے ہو تم۔۔۔۔۔

بتاؤ کہاں ہے شیزہ۔۔۔۔

نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں۔۔۔۔۔

صالم ایک دم فیروز کی جانب جھڑپا۔۔۔۔۔

میں نے کہا نا میں کسی شیزہ کو نہیں جانتا۔۔۔۔

اور اپنی حد میں رہو ۔۔۔۔۔

نکلو یہاں سے ورنہ میں ابھی سکیورٹی کو بلا لونگا۔۔۔۔۔

فیروز نے صالم کو پیچھے دھکا دیتے کہا ۔۔۔۔

صالم سے جب کچھ نہ بن پایا ۔۔۔

تو وہ شیزہ کا نام لیتے اسے کمرے میں پکارنے لگا۔۔۔۔۔

آنکھوں میں آنسوں اور آواز میں سنگینی لیے وہ چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔

لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گے۔۔۔۔

ابھی بلاتا ہو سکیورٹی کو۔۔۔۔۔

فیروز کہتے ساتھ کمرے میں موجود ٹیبل پر پڑھ ٹیلیفون سے ریسپشن پر کال ملانے لگا۔۔۔۔۔

دوسری جانب واش روم میں بند شیزہ نے جب باہر صالم کی آواز سنی تو فورا اسے اپنے بارے میں بتانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔

لیکن بندھے ہاتھوں اور پٹی بند منہ سے وہ اسے اپنی موجودگی کے متعلق بتا نہیں پارہی تھی۔۔۔۔۔

مجھے کچھ بھی کر کے صالم کو اپنے متعلق بتانا ہوگا۔۔۔۔

اگر وہ چلا گیا تو ناجانے کیا ہوگا؟؟؟؟

شیزہ دل ہی دل میں سوچتے بولی۔۔۔۔

اور اب اپنی موجودگی کے متعلق اسے بتانے کیلئے ترغیب لگانے لگی۔۔۔۔۔

تبھی اسے ایک ترکیب سوجھی۔۔۔۔۔

سامنے موجود کمبوڈ پر زور زور سے اپنے پاؤں مارنے لگی۔۔۔۔۔

باہر موجود صالم جو شیزہ کو وہاں نہ پا کر جانے ہی والا تھا اچانک باتھ روم سے عجیب آوازیں سن کر رک گیا۔۔۔۔۔

فیروز بھی جو کان کے ساتھ فون لگائے کھڑا تھا آواز سن کر خلط ملط سا ہوگیا۔۔۔۔۔

کون ہے واش روم؟؟؟؟

صالم نے فیروز کی جانب دیکھا۔۔۔۔

ک۔۔۔ککک۔کوئی نہیں ہے۔۔۔۔

تم نکلوں یہاں سے۔۔۔۔۔

فیروز نے اسے دھکا دیتے ہوئے باہر جانے کا کہا۔۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔

اندر ضرور کوئی ہے ۔۔۔۔۔

پیچھے ہو ۔ججے دیکھنا ہے۔۔۔۔

صالم نے ایک دم فیروز کو پیچھے کیا۔۔۔۔

اور تیز قدموں کی ڈاگ بھرتا واش روم کا دروازہ کھولے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔

اندر کا منظر دیکھا دیکھا تو صالم کا دل کیا کہ وہ پوری دنیا کو تباہ کردے۔۔۔۔۔

کپڑے میں بندھی شیزہ ۔۔۔۔۔

جس کے اپنے کپڑے جگہ جگہ سے تاڑ تاڑ تھے۔۔۔۔۔

ایک اجڑی ہوئی بستی کا نشان بنے۔۔۔۔

صالم کے سوالیہ نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے چہرہ گرائے رو رہی تھی۔۔۔۔۔

فیروز بھی دروازے پر کھڑا اب بوکھلا سا گیا تھا۔۔۔۔

صالم فورا آگے کی جانب بڑھا اور شیزہ کے ہاتھ منہ کھولنے لگا۔۔۔۔۔

اور پھر اسے سہارا دیا اور اپنے ساتھ لگائے اسے باہر کو لے آیا۔۔۔۔۔

شیزہ نڈھال سی ہوچکی تھی اور اب صالم کے اوپر ہی منحصر تھی۔۔۔۔

دیکھو  تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔۔

یہ اپنی مرضی سے یہاں آئی تھی۔۔۔۔

فیروز نے آگے بڑھ کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کو بیڈ کر بٹھایا اور اپنا کوٹ اتار کر اس کے گرد لپیٹ دیا۔۔۔۔

جبکہ ہاتھ میں پکڑے ڈوپٹے کو اس کے سر پر دے دیا۔۔۔۔۔

شیزہ بیڈ سے ٹیک لگائے چپ سادھے بیٹھے تھی۔۔۔۔۔

صالم اب فیروز کی جانب مڑا۔۔۔۔۔

شیزہ کی حالت دیکھ کر اس کا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا۔۔۔۔۔

غصے سے اپنی مٹھی بھینچی اور فیروز کے منہ پر دے ماری۔۔۔۔۔

مکے کی شدت اس قدر تھی کہ وہ لڑکھڑا کر نیچے گر گیا۔۔۔۔

جبکہ اس کی ناک سے اب خون رواں ہوگیا۔۔۔۔۔

فیروز کو سامنے کھڑی انجان شخص کا یہ رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔

”تم ہو کون؟؟؟“

وہ کراہتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔۔۔

”میں صالم ہو شیزہ کا شوہر۔۔۔۔۔“

صالم نے اعتماد سے اس کی جانب دیکھتے کہا۔۔۔۔۔

فیروز نے جب سنا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔۔۔

”اوہ۔۔۔۔۔“

وہ ناک پر ہاتھ رکھے بمشکل اٹھا۔۔۔۔

”تو تم ہو اس کے شوہر۔۔۔۔

جو میری خاطر تمہیں دھوکا دے رہی تھی۔۔۔۔۔“

فیروز نے اپنے ناک کو رومال سے دبایا اور شیزہ کو حقارت سے دیکھتے بولا۔۔۔۔۔

”بکواس بند رکھو اپنی۔۔۔۔

تمہیں عورت کی عزت کرنی نہیں آتی کیا؟؟؟؟“

صالم نے ایک بار پھر اسے گریبان سے دبوچا  اور چنگارا۔۔۔۔۔

”عزت۔۔۔۔

وہ بھی اس جیسی عورت کی۔۔۔۔

ارے بھائی جان چھڑواو اس سے۔۔۔۔

یہ تو اپنے ماں باپ کے منہ کو کالا کر کے میرے ساتھ مہندی کی رات کو بھاگنے کیلئے تیار تھی۔۔۔ 

تو تم تو بس ایک شوہر ہو۔۔۔۔“

فیروز زیر اگلتے بولا۔۔۔۔۔

جبکہ صالم۔ نے جب فیروز کی بات سنی تو اچانک اسے اپنی مہندی کی رات یاد آئی جب اسے شیزہ ایک سنسان راستے پر ملی تھی جسے شیزہ نے خود فون کر کے بلایا تھا۔۔۔۔

”وہ بس میں ہی پیچھے کو ہٹ گیا تھا۔۔۔۔

ورنہ آج یہ تمہاری بیوی نہ ہوتی۔۔۔۔۔“

فیروز ابھی بھی بے شرمی دکھائے بول رہا تھا۔۔۔۔۔

”محبت کرتی ہے تم سے وہ۔۔۔۔۔“

صالم نے شیزہ کو دیکھتے کہا جو اس وقت ابتری حالت میں بیٹھی تھی۔۔۔۔

صالم کے منہ سے اپنے متعلق حمایت سن کر شیزہ نے اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔

”تبھی تو تمہارے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔۔۔۔

شرم تو تم جیسے مردوں کا آنے چاہیے۔۔۔۔

عزت کو تم جیسوں کی تاڑ تاڑ ہونی چاہیئے جو محبت کے نام پر بس لڑکی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔

اگر وہ محبت کی راہ میں بھٹکی تھی۔۔۔۔

تو تم نے بھی تو اسے اس راہ پر اکیلا چھوڑا تھا۔۔۔۔

اور آج جو تم کررہے تھے اسے صیحح مان کر سارا ملبہ اس پر ڈال رہے ہو۔۔۔۔

دھتکار ہے تمہارے مرد ہونے پر بھی ۔۔۔“

 صالم۔ نے فیروز کو پیچھے کی جانب دھکا دیتے چھوڑا۔۔۔۔

اور خود شیزہ کی جانب بڑھا۔۔۔۔جو آنکھوں میں پشیمانی لیے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کو بازوؤں سے تھاما اور اپنے ساتھ لگائے کمرے سے باہر جانے کو بڑھا۔۔۔۔۔

شیزہ کا گرا ہوا پرس راہ سے اٹھایا۔۔۔

اور پھر فیروز کو مڑ کر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

”آج کے بعد اگر تم شیزہ کے آس پاس بھی بھٹکے تو اس بار چھوڑ دیا کے اگلی بار جان سے ماردونگا۔۔۔۔“

تحقیر نظروں سے فیروز کو دیکھتے ہوئے تنبیہہ کی اور پھر شیزہ کو ساتھ لیے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

جبکہ فیروز اپنے منصوبے میں ناکامی دیکھ کر چیزیں اٹھا کر پھینکنے لگا۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

پورے راستے شیزہ اور صالم میں کوئی گفتگو نہ ہوئی۔۔۔۔۔

شاید دونوں ہی الفاظ ڈھونڈ رہے تھے یا دونوں میں ہمت نہ تھی کہ بار کی شروعات کر سکے۔۔۔۔

شیزہ اپنے دونوں ٹانگوں کو سمیٹے سیٹ پر جمائے ایک معصوم ڈرے ہوئے بچے کی مانند سر گرائے بیٹھی تھی ۔۔۔

جبکہ صالم بھی سامنے نظریں گاڑے سپاٹ چہرے سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔۔

گاڑی سیدھا صفدر ہاؤس کے سامنے رکی ۔۔۔۔۔

صالم نے ہارن دیا تو بھاگتے ہوئے گارڈ نے  گیٹ کا دروازہ کھولا تو صالم نے گاڑی سیدھا گیراج میں جا روکی ۔۔۔۔۔

شیزہ ابھی بھی صالم کے کوٹ میں اپنی عزت کو سمیٹے سر ٹانگوں پر ٹکائے بیٹھی اردگرد کے ماحول اور جگہ سے بے خبر  تھی ۔۔۔۔

صالم نے ایک نظر شیزہ پر ڈالی۔۔۔۔۔

جو اس وقت سکتے اور خوف کی گرد سے لپٹی تھی ۔۔۔

”شیزہ!!!!!!!“

صالم نے نرمی سے آواز دی۔۔۔۔۔

شیزہ نے صالم کی آواز پر کوئی ری ایکٹ نہ دیا۔۔۔۔۔

”شیزہ!!!!!!“

ایک بار بلند آواز کی مانند شیزہ کو پکارا۔۔۔۔۔

لیکن شیزہ تب بھی کچھ نہ بولی ۔۔۔۔

اب تو صالم کو شیزہ کی خاموشی سے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔۔۔۔۔

”کہیں یہ بے ہوش؟؟؟؟!!!“

اور اپنے دل کے اندر موجود امڈتے وسوسوں کو ختم کرنے کی غرض سے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔

”شیزہ!!!!!!“

اب صالم نے شیزہ کے کندھے کر ہاتھ رکھا۔۔۔۔

اور اسے آہستگی سے ہلایا۔۔۔۔۔

شیزہ نے اپنے کندھے پر کسی کے نرم لمس کا احساس محسوس کیا تو فورا ڈر سے کانپ اٹھی ۔۔۔۔

اور چیخنے چلانے لگی۔۔۔۔۔

”چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔

چھوڑو۔۔۔۔۔

میں قریب بھی نے آنا۔۔۔۔۔

صالم۔۔۔۔۔۔

صالم ۔۔۔۔۔۔“

شیزہ دیوانہ وار آنکھیں موندے روتے بلکتے صالم کو اپنے ہاتھوں سے مارتے  چلا رہی تھی۔۔۔۔

”شیزہ۔۔۔۔۔

شیزہ ۔۔۔

سنبھالو خود کو۔۔۔۔۔

شیزہ۔۔۔۔

میں ہو ۔۔۔۔۔

میں ہی ہو صالم ۔۔۔۔

ہوش میں آؤ۔۔۔۔۔“

شیزہ کی حالت کو دیکھتے ہوئے صالم نے اسے بازوؤں سے تھاما اور جھنجھوڑتے ہوئے اسے ہوش دلایا۔۔۔۔۔۔

”صالم!!!!

صالم۔۔۔۔۔“

شیزہ نے صالم کی بات سنی تو اس کے چہرے کو دیکھا تو توقف رکھے یقین کرنے کی غرض سے اس کے چہرے کو چھوتے  بولی۔۔۔۔

”ہاں ۔۔۔۔۔

میں ہو صالم۔۔۔۔۔

سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔

سب ٹھیک ہے اچھا۔۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوا۔۔۔

ہم گھر آگئے ہیں اب۔۔۔“

صالم نے شیزہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے تھاما اور اسے یقین دلایا۔۔۔۔

شیزہ کے چہرے پر صالم کی موجودگی سے اطمینان چھا گیا۔۔۔۔

جھٹ سے صالم کے ہاتھ کو پیچھے کیا اور اس کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔۔

”میں بہت ڈر گئی تھی۔۔۔۔

بیت زیادہ۔۔۔۔۔“

شیزہ بچوں کی طرح صالم کو اپنی روداد روتے دورے سنا رہی تھی۔۔۔۔۔

”ایم سوری۔۔۔۔۔

ایم ریلی سوری۔۔۔۔۔

میں بہت برا کیا آپکے ساتھ۔۔۔۔۔

میں بہت بری ہو۔۔۔۔

نہ اچھی بیٹی بن سکی نہ ہی اچھی بیوی۔۔۔۔“

شیزہ ہچکیاں بھرتے اپنے کیے پر پشیمان تھی آج کا دھچکا اسے راہ راست پر لانے کیلئے کافی تھا۔۔۔

”اچھا بس ۔۔۔۔۔

کہا ناں سب ٹھیک ہے سب نارمل ہے۔۔۔۔“

صالم  کو اس کا کانپتا وجود اور خوف سے لبریز آنکھوں کو دیکھ کر ہمدردی سی محسوس ہوئی اس کا دل کیا کہ وہ اچھی جا کر فیروز کو زمین درگور کردے لیکن پھر خود کو سمجھاتے ہوئے اس نے اسے خود سے الگ کیا تو حوصلہ دیتے کہا۔۔۔۔۔

شیزہ ابھی بھی صالم کو مشکور نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

”اچھا اب  اپنا حلیہ ٹھیک کرو ذرا۔۔۔

میں گھر لے آیا ہو تمہیں میں نہیں چاہتا ماما تمہیں اس حالت میں دیکھے ۔۔

 تو میں  دیکھ کر آتا ہو کوئی لاؤنچ میں موجود تو نہیں۔۔۔۔

آتا ہو بس دیکھ کر۔۔۔۔“

صالم نے شیزہ کے چہرے کو تھپکی دی اور کہتے ہوئے جیسے ہی باہر نکلنے لگا تو شیزہ نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔۔۔۔

صالم نے اپنا ہاتھ شیزہ کے ہاتھوں میں  تو رک گیا۔۔۔۔۔

”کیا ہوا؟؟؟؟“

صالم اس کے چہرے کی جانب دیکھتے بولا۔۔۔۔

شیزہ بھیگے چہرے سے اسے دیکھ رہی تھی شاید اس کے پاس کہنے کو لفظ نہ تھے یا لفظ تھے مگر حالات اس قابل نہ تھے۔۔۔۔۔

”میں نے کہا ناں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔

بس آتا ہو ابھی۔۔۔۔“

صالم نے ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے کہا جس پر شیزہ نے اس کے ہاتھ پر سے گرفت کھول دی۔۔۔۔۔

صالم کے جانے کے بعد شیزہ صالم کے کوٹ سے خود کو اچھے سے کورر کرنے لگی۔۔۔۔

کچھ ہی لمحوں میں صالم گیراج میں داخل ہوتا نظر آیا۔۔۔۔

”آجاؤ شیزہ۔۔۔۔

ابھی کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔۔

جلدی چلوں اس سے پہلے کوئی دیکھ لے تمہیں۔۔۔۔“

صالم شیزہ کی سائیڈ پر آیا اور دروازہ کھولے اسے دیکھ کر کہا۔۔۔۔

شیزہ نے صالم کی بات سنی تو حامی میں سر ہلایا۔۔۔۔

”لاؤ مجھے دو اپنا پرس۔۔۔۔

اور احتیاط سے باہر نکلو۔۔۔۔“

شیزہ نے صالم کو اپنا پرس پکڑایا اور خود گاڑی کے دروازے کے سہارے سے باہر نکل آئی۔۔۔۔

شیزہ کے باہر آنے پر صالم نے اپنا ہاتھ شیزہ کے آگے بڑھایا۔۔۔۔

شیزہ نے صالم کا ہاتھ اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو پہلے تو متانت سے اسے دیکھنے لگی لیکن پھر پل بھر کی دیر کیے بغیر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما اور مسکرا کر آگے کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔

جبکہ شیزہ بس اس کے ساتھ ایک تنکے کی مانند اڑتی چلی گئی۔۔۔۔۔

کمرے تک پہنچتے ہی صالم نے شیزہ کو باور کروایا۔۔۔۔

”شیزہ ماما تم سے واپسی کی وجہ پوچھے تو کہنا صالم لے کر آئے ہیں آگے میں خود سنبھال لونگا۔۔۔۔۔“

صالم نے سنجیدگی اور پروا کرتے ہوئے شیزہ کو کہا ۔۔۔۔

شیزہ نے بس رضامندی سے سر ہلایا ۔۔۔۔

”ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہو۔۔۔۔۔

اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔

اور زیادہ اس بارے میں

صالم نے محبت بھرے انداز سے شیزہ کی جانب دیکھتے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

جبکہ شیزہ اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

دل کیا کہ اسے روک لے لیکن اب صالم نظروں سے اوجھل دور جا چکا تھا۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

”پتہ نہیں صالم بھائی شیزہ سے ملے بھی کہ نہیں؟؟؟؟

آمی بھی کئی بار پوچھ چکی مجھ سے کہ شیزہ کہاں ہے؟؟؟

کب تک جھوٹ بولتی جاؤ ان سے۔۔۔۔“

امبر ٹیرس پر کھڑی متزلزل سی مسلسل چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔۔

مجھے صالم بھائی سے بات کرنی ہوگی۔۔۔۔

امبر نے فورا فیصلہ کیا اور پھر فورا موبائل فون نکالے کال ملا دی۔۔۔۔۔۔

دوسری جانب صالم آفس میں بیٹھا اپنے سر کو تھامے خود کو نارمل کر رہا تھا۔۔۔۔

بظاہر وہ شیزہ کے سامنے تو بہت مضبوط بنا رہا اور اسے حوصلہ دیتا رہا لیکن وہ یہ سب دیکھ کر سچ میں بری طرح ٹوٹا تھا۔۔۔۔

اپنی محبت کو یوں زلیل ہوتے دیکھنا کسی کیلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

تبھی صالم کا فون بجنے لگا۔۔۔۔۔

فون کی آواز سنی تو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے فون کو دیکھنے لگا۔۔۔۔

امبر کی کال؟؟؟؟

صالم بڑبڑایا اور فون اٹھا لیا۔۔۔۔۔

السلامُ علیکم صالم بھائی ۔۔۔۔

دوسری جانب سے امبر نے کہا۔۔۔۔۔

وعلیکم السلام جی گڑیا۔۔۔۔

صالم نے متانت سے جواب دیا۔۔۔۔

بھائی وہ آپی!!!!!

امبر نے تجسسی انداز اپنائے پوچھا۔۔۔۔

آپی ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔

گھر ہے ابھی۔۔۔

صالم نے جواباً کہا۔۔۔۔۔

شکر ہے اللّٰہ کا ۔۔۔

میں بہت پریشان ہوگئی تھی بھائی۔۔۔۔

سب پوچھ رہے تھے یہاں آپی کا اور میں بس جھوٹ بولتے جارہی تھی۔۔۔۔

آپ پلیز آپی کو گھر ڈراپ کردے واپس۔۔۔۔

امبر نے سکھ کا سانس بھرا اور اطمینانیت سے کہا۔۔۔۔۔

امبر میں آپکی آپی سے پوچھ لونگا اگر وہ واپس انا چاہے گی تو میں انہیں رات کو ہی واپس لے آؤ گا۔۔۔۔

لیکن بھائی ابھی گھر کیا کہوں؟؟؟؟

شیزہ نے استفہام کیا۔۔۔۔

آپ کہہ دو کہ ابھی صالم بھائی کا فون آیا تھا شیزہ اپنے گھر گئی ہے صالم بھائی لے کر گئے ہیں۔۔۔۔

صالم نے برجستگی سے جواب دیا۔۔۔۔

ٹھیک ہے صالم بھائی میں کہہ دونگی۔۔۔۔

امبر نے استفادہ کیا۔۔۔۔

اچھا امبر اس بات کی خبر کسی کو بھی نہ لگے اچھا۔۔۔۔

یہاں تک کہ شیزہ کو بھی خبر نہ ہو کہ اپنے مجھے بتایا تھا۔۔۔۔

صالم نے امبر کو رازدار بننے کا کہا ۔۔۔۔

جی بھائی میں کسی کو بھی نہیں بتاؤ گی ۔۔۔

اور آپکا بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔

امبر نے مسکراہٹ سجائے کہا اور فون بند کردیا۔۔۔۔

فون بند ہونے کے بعد صالم۔ نے ایک گہرا سانس بھرا اور واپس اپنا سر کرسی کے ساتھ ٹکا لیا۔۔۔۔۔

”شیزہ کو سنبھالنے کیلئے مجھے خود کو سنبھالنا ہوگا۔۔۔۔

میں تو پہلے سے ہی جانتا تھا کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے لیکن پھر یہ سب!!!!!

اس وقت وہ بہت اذیت میں ہے۔۔۔۔

مجھے اس کے پاس ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔

لیکن مجھ سے اس کی ایسی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی تو کیا کرتا۔۔۔۔“

وہ خود سے سوال کر کے خودی جواب دے رہا تھا۔۔۔۔۔

”نہیں مجھے اس کے پاس جانا ہوگا۔۔۔۔

اپنی محبت کا احساس اسے دلانا ہوگا۔۔۔۔

تاکہ وہ کبھی کسی نا محرم کی محبت کے اسیر نہ بھٹک سکے۔۔۔۔“

صالم نے سوچتے ساتھ ہی گاڑی کی چابی تھامی اور آفس سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شیزہ فریش ہوچکی تھی۔۔۔۔

بلیک رنگ کا فراک اور چوڑی پاجامہ پہنے وہ شیشے کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔

”میں صالم ہو شیزہ کا شوہر۔۔۔۔۔“

شیزہ شیشے میں خود کو دیکھتے بال بناتے سوچ رہی تھی۔۔۔۔

ہلکی سی دلکش مسکراہٹ اس کے لبوں پر نمودار ہوئی۔۔۔۔

کانوں میں رس گھولتے یہ الفاظ اسے کئی حد تک مسرور کررہے تھے۔۔۔۔

ابھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ تبھی اسے دروازے پر کسی کے آہٹ کی آواز آئی۔۔۔۔

مڑ کر دیکھا تو سامنے صالم کو کھڑا پایا۔۔۔۔

جو اسے محو نظر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کی پڑتی نظر دیکھی تو نظر چرائے ڈریسنگ کی جانب بڑھا جہاں وہ پہلے سے ہی کھڑی بال سنوار رہی تھی۔۔۔۔۔

کلائی سے گھڑی اتارتے ہوئے وہ بناء اسے دیکھے بولا۔۔۔۔

ماما آئی تھی کیا؟؟؟

انہیں پتہ ہے کہ تم واپس آگئی ہو؟؟؟؟

جی۔۔۔

آئی تھی ملنے وہ مجھ سے میں نے انہیں وہی کہا جو آپ نے مجھے کہا تھا۔۔۔۔

شیزہ برجستگی سے اسے دیکھتے بولی جو نظر گرائے بول رہا تھا۔۔۔۔۔

شیزہ کی نظر اچانک اس کے ہاتھ پر پڑی جہاں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے زخم اور جما ہوا خون اپنی زبان بول رہا تھا۔۔۔۔۔

یہ کیا ہوا ہے اپکو؟؟؟؟

شیزہ لپکتے ہوئے اس کے ہاتھ کی جانب بڑھی اور ہاتھ تھامے صالم کو بیڈ پر اپنے ساتھ لے آئی اور ہاتھ دیکھنے لگی۔۔۔۔

کچھ نہیں ہوا بس چھوٹی سی چوٹ ہے ٹھیک ہو جائے گی جلد۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کی اضطراری دیکھی تو کہا۔۔۔۔

ایک منٹ آپ یہی بیٹھے میں بس ابھی فرسٹ ایڈ باکس لے کر آتی ہو۔۔۔۔

شیزہ کہتے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی جبکہ صالم شیزہ کی اپنے لیے پرواہ دیکھ کر اسے تعجب سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

شیزہ ہاتھ میں باکس تھامے اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔۔

ایک ٹیوب نکالی اور صالم کا ہاتھ الٹا کیے اس ہر احتیاط سے لگانے لگ گئی۔۔۔۔

شیزہ محو ہوئے ٹیوب لگا رہی تھی جبکہ صالم اس کے چہرے کا طواف کررہا تھا۔۔۔۔

آج پہلے بار اسے شیزہ کی جانب سے کوئی امید کی کرن محسوس ہوئی۔۔۔۔۔

"درد تو نہیں ہورہی ناں؟؟؟؟“

شیزہ بناء اس کی جانب دیکھے بولی۔۔۔۔

”نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔۔

بلکہ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ کبھی زخم لگا ہی نہیں۔۔۔۔“

صالم است دیکھتے مدہوشی سے بولا ۔۔۔۔۔

شیزہ نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور پھر واپس مسکرا کر نیچے دیکھنے لگی۔۔۔۔

”مجھے آپ کی بات ماننی چاہیے تھی۔۔۔۔“

شیزہ نے اپنے دل میں بڑھتے بوجھ کو کم کرتے کہا۔۔۔۔

”لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور انا نے مجھے اندھا بنا دیا تھا۔۔۔۔“

شیزہ کے بولنے پر صالم نے اب اپنی متوجہ اس کی باتوں پر لگائی۔۔۔۔

”مجھے پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ وہ شخص جو مجھے بیچ راہ میں اکیلا چھوڑ کر جاسکتا ہے اب مجھے کیسے تحفظ دے گا؟؟؟“

”میں نے ایک بار پھر دھوکا کھایا۔۔۔

جس سے احساس ہوا کہ میں کس قدر بےوقوف ہو۔۔۔۔

جو اپنے اردگرد بہتا محبت کے سمندر کو چھوڑ کر ایک کنویں کی جانب بڑھی جہاں کا پانی کڑوا اور نا ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔۔“

شیزہ کی آنکھیں اب بولتے بولتے نم ہوگئی۔۔۔۔

جبکہ صالم تو بس اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔

”پتہ ہے صالم۔۔۔۔“

شیزہ نے آنسوں بھری آنکھوں سے صالم کی جانب دیکھا جو اسے ابھی بھی محبت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

”اس دن ہسپتال میں آنٹی اور امی کی باتوں نے ہی مجھے سوچنے کر مجبور کردیا تھا ۔۔۔

کہ کہیں میں کچھ غلط تو نہیں کررہی ۔۔۔۔

لیکن۔۔۔۔۔“

شیزہ ایک زخمی مسکراہٹ سے ہنسی اور آنکھوں سے آنسوں بہتے ہوئے اس کے چہرے کو تر کر گئے۔۔۔۔

”آج آپ نہ آتے تو ناجانے۔۔۔۔۔“

شیزہ اس سے آگے بولتی صالم نے فورا اپنا ہاتھ اس کے لبوں پر رکھ دیا اور اسے مزید بولنے نہ دیا۔۔۔۔۔

”کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔

میں ہونے ہی نہ دیتا ۔۔۔۔۔

عزت ہو تم میری ۔۔۔۔۔

اور اس سے بڑھ کر محبت ہو میری۔۔۔

میں تمہیں کبھی اکیلا تنہا نہیں چھوڑونگا ۔۔۔۔۔“

صالم نے شیزہ کا ہاتھ تھامتے اسے اپنی بات کی یقین دہانی کروائی۔۔۔۔

شیزہ نے مسکرا کر حامی میں سر ہلایا۔۔۔۔

”آپ جانتے ہیں میں آپکو جان کر تنگ کرتی تھی۔۔۔

تاکہ آپ مجھ سے زچ آجائے اور مجھے چھوڑ دے۔۔۔۔“

شیزہ شرارتی انداز سے صالم۔ کو دیکھتے بولی۔۔۔۔

”جی جی بہت ہی بہتر طریقے سے جانتا ہو۔۔۔۔

تبھی تو پھر میں نے بھی اسی انداز میں جواب دینا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔“

صالم نے شیزہ پر بھی ویسا ہی انکشاف کیا۔۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔

میں رات کو جان کر جلدی سو جاتی تھی۔۔۔۔“

شیزہ مزید بولتے ہنسی۔۔۔۔

”واہ اور میں جان کر لیٹ آتا تھا۔۔۔۔۔“

صالم بھی ہنس پڑا۔۔۔

شیزہ بس سن کر ہنستی جارہی تھی جبکہ پورا کمرہ اس کی ہنسی سے گونج رہا تھا۔۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کو یوں ہنستے دیکھا تو سوچنے لگا۔۔۔۔

”میں کبھی اسے اس بات کی پرکھ بھی لگنے نہ دونگا۔۔۔

کہ فاخر انکل نے اسے اور فیروز کو اس دن دیکھ لیا۔۔۔۔

اور خود اس سے ملے تھے۔۔۔

اور یہی وجہ بنی کہ وہ یہ سب برداشت نہ کرسکے ۔۔۔۔“

(صالم اچانک اس حوالے سے خیال دیکھنے لگا جب ہسپتال میں فاخر صاحب نے سب سے پہلے اس سے ملنے کے کہا تھا۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہوا تو سامنے فاخر صاحب کو کئی مشینری سے لپٹے آکسیجن ماسک پہنے لیٹے پایا۔۔۔۔۔

آہستگی سے قدم بڑھاتے وہ ان کی جانب بڑھا اور پاس موجود کرسی پر صالم براجمان ہوگیا۔۔۔۔۔

"انکل“

صالم نے آہستگی سے فاخر صاحب کو آواز دی۔۔۔۔

ہلکی مدہم آنکھیں کھولے فاخر صاحب نے صالم کو دیکھا تو ہاتھ کے اشارے سے ماسک اتارنے کا کہا۔۔۔۔

صالم نے ماسک اتارا اور واپس بیٹھ گیا۔۔۔۔

فاخر صاحب کچھ دیر خاموش چھت کو دیکھتے رہے اور پھر کچھ لمحے کے توقف کے بعد انہوں نے سب بتا دیا۔۔۔۔

”صالم بیٹا وہ شخص بس شیزہ کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔

وہ اسے اپنانا۔ نہیں چاہتا بس استعمال کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔

میں مرد ہو کر اس کی ساری باتوں کو پہنچان گیا ہو۔۔۔۔

لیکن میری بیٹی۔۔۔۔

شاید میری پرورش میں ہی کوئی کمی تھی جو وہ آج اس راہ پر چل رہی ہے جو اس کیلئے مضر ہے۔۔“

فاخر صاحب کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔۔۔۔

جبکہ صالم جو سر جھکائے خلط ملط تھا فورا ان کی جانب بڑھا…۔۔

”انکل آپ بلکل پریشان نہ ہو۔۔۔۔

میں ب سنبھال لونگا۔۔۔۔

میں کبھی بھی شیزہ کو بھٹکنے نہیں دونگا۔۔۔۔۔“

”جانتا ہو بیٹا۔۔۔

مجھے تم پر پورا اعتماد اور بھروسہ ہے۔۔۔۔

تبھی تو شیزہ کی مخالفت کے باوجود میں نے تمہیں ہی چنا ۔۔۔۔“

فاخر صاحب اٹکتے ہوئے بمشکل سے بول رہے تھے۔۔۔۔

”انکل آپ پریشان نہ ہو۔۔۔۔۔

مجھ پر یقین ہے ناں۔۔۔

بس آپ اپنا خیال رکھے۔۔۔۔“

صالم آنکھ چرائے فاخر صاحب کو حوصلہ دیتے وہاں سے باہر نکل آیا ۔۔)

”کیا ہوا ہے صالم آپ کس سوچ میں گم ہے؟؟؟؟“

شیزہ نے صالم۔ کو کھوئے کھوئے دیکھا تو چٹکی بجائے بولی۔۔۔۔۔

”ک۔۔۔۔کچھ نہیں بس یونہی تمہاری ہنسی کو سن رہا تھا اس کی چہک کو محسوس کررہا تھا۔۔۔۔۔

بس یونہی ہنستی رہا کرو۔۔۔۔“

صالم نے اس کی جانب گہری مسکراہٹ سجائے کہا ۔۔۔۔

شیزہ شرمائی شرمائی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور باکس واپس وہی رکھنے لگی جہاں سے اٹھایا تھا۔۔۔۔۔

صالم اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگ گیا۔۔۔۔۔

”آج آپ نے میری تعریف نہیں کی؟؟؟“

شیزہ دوسری جانب چہرہ کیے شرما کر بولی۔۔۔۔۔

صالم نے سنا تو فورا اس کی جانب چونکتے ہوئے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔

شیزہ واپس مڑی اور مسکرانے لگی۔۔۔۔

اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو تڑورتے مروڑتے وہ وہی نظریں گرائے کھڑی رہی۔۔۔۔۔

صالم جو شیزہ کو یوں کھڑا دیکھ کر اس کی محبت کی پہلی پروان کو سمجھ چکا تھا اٹھا اور اس کی جانب بڑھا۔۔۔۔

شیزہ نظریں جھکائے بس شرما رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

"شیزہ۔۔۔۔۔“

صالم نے نیچے دیکھتی شیزہ کی تھوڑی کو چھوا اور چہرہ اوپر کی جانب کیا۔۔۔۔۔۔

”میری محبت قبول ہے تمہیں؟؟؟؟؟“

صالم نے شیزہ کی جانب تیز دھرکتے دل اور بھاگتی سانسوں کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔

شیزہ نے صالم کی آنکھوں میں بہتے محبت اور عشق کے سمندر کو ٹھاٹھے مارتے دیکھا تو نہریں گرائے حامی میں سر ہلا کر جواب دیا۔۔۔۔۔۔

صالم نے شیزہ کا جواب پایا تو بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔

صالم نے دونوں بازوؤں سے اسے تھاما اور اپنے قریب کیا۔۔۔۔

اب شیزہ کی آنکھیں صالم کے لبوں کے پاس تھی۔۔۔۔

”ایک بار پھر سے کہوں؟؟“

صالم کا جذبہ اب اس کے وجود سے بیاں تھا۔۔۔۔۔

شیزہ نے دھیرے سے اپنی نظریں اٹھائی۔۔۔۔۔

اور آہستگی سے لب ہلائے۔۔۔۔۔

”مجھے آپکی محبت کا تحفظ چاہیے صالم ۔۔۔

مجھے اس طرح خود میں سمیٹے کے کسی اور کا وجود آنکھوں سے گزرے نہ۔۔۔۔

عشق اپنے کیا ہے لیکن اس کی سزا مجھے چاہیے۔۔۔۔

سزائے عشق ۔۔۔۔۔“

صالم نے شیزہ کی جانب سے ویسا ہی جذبہ پایا تو اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنی بانہوں کے حصار میں بھر لیا کیونکہ آج اسے اپنی محبت پر کرنے والے صبر کا صلہ مل رہا تھا۔۔۔۔۔

شیزہ بھی آج اپنی خوشی اور مسرت سے صالم کی ہورہی تھی۔۔۔۔۔

آج وہ خود اپنے آپ کو اپنی مرضی سے صالم۔ کو سونپ رہی تھی۔۔۔۔۔

محرم رشتے کی طاقت ہمشیہ نا محرم رشتے سے مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے جس کا ایک وار کئی خیالی محلوں کو چکنا چور کردیتا ہے۔۔۔۔۔

شیزہ بھی آج اپنے محرم رشتے کی طاقت سے اپنے نامحرم خیالوں کے محور سے آزار ہوئی تھی۔۔۔۔۔

اگر آج اسے محرم رشتہ بھی اکیلا چھوڑ دیتا تو محبت کے دعوے جو صالم کیا کرتا تھا سب فریب ثابت کو جانے تھے لیکن شیزہ کا صالم کی جانب سے پراعتماد ساتھ نے اسے عشق کی راہ پر گامزن کر ڈالا تھا۔۔۔

اور اب وہ عشق کی منزل میں اس قدر آگے تھی کہ لب و زبان عشق کی خطا پر ملنے کی سزا پر بھی سزائے عشق کی مہر لگا رہی تھی۔۔۔۔۔

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ختم شد۔۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Saza e ishq Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Saza e ishq  written by Rabia Bukhari .Saza e ishq by Rabia Bukhari is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *