Misal E Ishq Season 2 By AK New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 9 September 2024

Misal E Ishq Season 2 By AK New Complete Romantic Novel

 Misal E Ishq Season 2 By AK New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

 Misal E Ishq Season 2 By AK New Complete Romantic Novel 

Novel Name: Misal E Ishq Season 2

Writer Name: AK

Category: Complete Novel


آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں سنہری صبح نے اپنے پر پھیلائے تھے۔۔۔۔

ایڈیلیڈ جو آسٹریلیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے وہاں ہر روز کے معمول پر زندگی شروع ہوگئی تھی۔۔۔

ڈارک براؤن رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹے کو گلے سے لگائے بالوں کو ڈھیلی ڈھالی چوٹیاں میں باندھے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں پر ٹکائے  ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے وہ اپنی کالی آنکھوں سے اپنی بھابھی کو دیکھ رہی تھی جو غصے سے لال چہرہ لیے کچن میں کام کر رہی تھی ۔۔۔۔بالوں کی کچھ لٹیں اُسکے سفید میکپ سے پاک چہرے پر پڑتی اُسے حسین بنا رہی تھی ۔۔۔۔

برابر میں ہی ڈارک براؤن رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹے کو بلکل اُس کی طرح ہی گلے میں ڈالے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں پر ٹکائے  بالوں کی چٹیاں بنائے وہ پانچ سالہ عروہ بھی اپنی سبز انکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"آج تو بھائی کی خیر نہیں ہے"

۔۔۔انابیہ نے دھیمی آواز عروہ سے کہا۔۔۔

"سچی پھو اج بابا کی خیر نہیں ہے"۔

۔۔عروہ نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔۔۔

قدموں کی آواز پر۔اُن دونوں نے ویسے ہی بیک وقت سر گھما کر انے والے کو دیکھا اور کامل کو بلیک رنگ کی شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں بلکل تیار دیکھ اُن دونوں نہ واپس بیک وقت سر گھما کر فلک کی طرف دیکھا جو غصے میں اپنے دیہان سے کام کر رہی تھی۔۔۔۔

کچن سے اتی آوازوں پر کامل نے ایک نظر کچن میں دیکھا اور اپنی حیاتی کے سرخ چہرے کو دیکھتے وہ سمجھ گیا اج اُسکی خیر نہیں ہے۔۔۔۔

"آج موسم کافی آبر آلود لگتا ہے"۔۔۔ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے کامل نے ایک لمبا سانس بھرتے ہوئے اُن دونوں کی طرف دیکھا جو خود بھی اُسکی طرح پریشان تھی ۔۔۔

"آبر آلود نہیں ۔۔۔۔اج موسم طوفانی ہے اور اس طوفان کی زد میں آپ انے والے ہے "۔۔۔انابیہ نہ دھیمی آواز میں کامل کی طرف دیکھتے اُسے فلک کے ارادوں سے باخبر کیا۔۔۔۔

"اب اتنی غلطی بھی نہیں تھی میری"۔۔کامل منمنایا۔۔۔،

"بابا پوری رات آپ باہر رہے ہے افس میں صبح آپ گھر آئے ہیں آپکو پتہ ہے ماما آپکے بنا نہیں سوتی ہے ساری رات وہ جاگتی رہی ہے"۔۔۔عروہ نے اپنے بابا کو دیکھتے  افسوس سے کہا۔۔۔

کامل کو بھی اس بات کا اندازہ تھا اُسکی حیاتی اُسکے بنا نہیں سوتی لیکن آفس کے کام کا کیا کرتا ۔۔۔

"بہت ہوگئی باتیں جلدی سے دونوں ناشتہ کرو اور یونی اور اسکول کے لیے نکلو"۔۔۔فلک نے ٹیبل پر اتے جوس کا جگ رکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

عروہ انابیہ نے فوراً سے اثبات میں سر ہلایا اور جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی۔۔۔

"حیاتی"۔۔کامل نے کہنا چاہا جب فلک نے اُسکی بات کاٹی۔۔۔۔

"مجھے اس وقت کچھ نہیں سننا ۔۔۔ چپ چاپ سب ناشتہ کرے" ۔۔فلک کی آواز سنجیدگی میں ڈوبی ہوئی تھی کامل نے اُسکی بات پر اپنے لب بھینچے۔۔۔۔

"چلو پھو کی جان چلے"۔۔۔انابیہ نے ایک نظر فلک اور کامل کی طرف دیکھا اور عروہ سے کہا۔۔۔

"آل دی بیسٹ بھائی" ۔۔کامل کے پاس سے گزرتے انابیہ نے دھیمے لہجے میں کہا 

"ال دی بیسٹ بابا"۔۔۔عروہ نے بھی باپ کے پاس اتے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔کامل نے جھکتے اپنی بیٹی کے ماتھے پر بوسا دیا ۔۔۔۔۔

عروہ نے ماں کے پاس اتے اُسکے گال پر بھی بوسا دیا اور انابیہ کے ساتھ باہر نکلتی چلی گئی جہاں اُنکی گاڑی تیار تھی۔۔۔۔

💗💗💗

انابیہ کے جاتے ہی کامل نے ایک نظر اپنی روٹھی بیوی کی طرف دیکھا جو کالے رنگ کی ویلویٹ کی فروک میں کالے رنگ کے دوپٹے کو سینے پر پھیلائے سرخ و گلابی رنگ میں لال ناک اور گلابی لب لیے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے کرسی سے اٹھ کر ٹیبل پر سے سامان اٹھا رہی تھی۔۔۔

ایک ہی جست سے اپنی جگہ سے اٹھتے اُس نے فلک کی پشت سے ہاتھ گزار کر اُسکے پیٹ پر باندھا اور اُسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا۔۔۔

فلک چپ چاپ کامل کا لمس اپنے پیٹ اور اسکی دہکتی سانسیں اپنے کان پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔

"حیاتی ناراض ہے مجھ سے"!۔۔۔کامل نے اُسکی کان کی لو کو اپنے لبوں میں دباتے گھمبیر آواز میں پوچھا۔۔۔

"میں کیوں ناراض ہوگی آپ سے ۔۔آپکی زندگی ہے جو چاہے کرے جب چائے گھر آئے جب چاہے نہ آئے" ۔۔۔فلک نے ہاتھ میں تھامی پلیٹ واپس ٹیبل پر رکھتے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔

فلک کی نم آواز محسوس کرتے کامل نے اُسکا رخ پلٹا تھا۔۔۔

"میری جان آفس کا کام بہت تھا جانتی ہے  نہ ابھی ٹائم نہیں ہوا بزنس کو یہاں شفٹ کیے ہوئے۔۔بس اسی لیے مجھے کل افس میں ہی رکنا پڑا"۔۔۔۔کامل نے اُسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے پیار سے کہا۔۔

"پر آپ کو پتہ ہے مجھے آپکے بنا نیند نہیں آتی جب تک میں اپنا سر آپکے ان مضبوط بازوں پر نہ رکھ  لو میں سو نہیں پاتی۔۔"۔فلک کی بھوری آنکھوں میں نمی چمکی تھی وہ کامل سے ایک پل کی دوری بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

"پتہ ہے میری جان آئندہ ایسا نہیں ہوگا "۔کامل نے اُسے اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔۔

فلک اُسکے سینے سے لگی مسکرا دی ۔۔۔

"اب تو ناراض نہیں آپ مجھ سے حیاتی"۔۔۔کامل نے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھتے محبت سے پوچھا۔۔۔

"آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتی بس تھوڑی دکھی تھی رات بھر آپکا انتظار کرتی رہی اسی لیے تھوڑا غصّہ آگیا تھا  جو آپکی توجہ اور نزدیکی پر ختم ہوگیا "۔۔۔۔۔فلک نے اُسکے سینے سے لگے کہا۔۔۔

"چلے پھر رات بھر تو میں بھی نہیں سویا دونوں میاں بیوی اب اپنی نیند پوری کرے گے ۔"۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے بازوں میں اٹھایا تھا۔۔۔

کامل کی سبز انکھوں میں شوخی دیکھتے فلک کا رنگ سرخ ہوا۔۔۔

"شوخے مت ہو نیند آرہی ہے مجھے۔"۔۔فلک نے اُسکے کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے نروٹھے لہجے میں کہا۔۔۔

"آپکی نیند کی تو ایسی کی تیسی حیاتی"۔۔۔کامل نے دانت پیستے کہا اور قدم کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔

 فلک کامل کی بات پر مسکراتی  ہوئی اُسکی گردن میں منہ دیے اُسکے سینے میں  سمائی اور کامل مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھا گیا۔۔۔

💗💗💗

یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ  میں اس وقت ہر جانب طلباء کی چہل پہل تھی۔۔۔۔کچھ طلباء اپنی اپنی کلاسز لے رہے تھے تو کچھ یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے آپس میں باتوں میں مشغول تھے ۔۔۔

"یار بیہ دیکھو تو کتنا ہینڈسم لڑکا ہے"۔۔۔یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھی بیہ کی دوست سے سامنے موجود لڑکے کو دیکھتے بیہ سے کہا۔۔۔

بیہ نے کتاب سے سرسری نظر اٹھا کر سامنے دیکھا اور پھر اپنی نظریں واپس جھکا گئی۔۔۔۔

"وہ تمہیں ہی دیکھ رہا ہے مجھے لگتا ہے تمہیں اُس سے بات کرنی چاہیے"۔۔۔لیزا نے چپس کھاتے ہوئے بیہ سے کہا۔۔۔

جس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔۔

یونی ورسٹی اور ایڈیلیڈ میں بہت سے بچے ایسے تھے جو مسلم تھے کامل نے یہاں اُسکا ایڈمیشن کروایا تھا تاکہ انابیہ کا دماغ بٹ سکے ۔۔وہ یہاں سے بی ایس انگلش کر رہی تھی لیزا انہی کی سوسائٹی میں رہتی تھی اور اردو بھی ہول سکتی تھی اُسی لیے انابیہ سے اسکی دوستی ہوئی۔۔۔

"مجھے کسی سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔"انابیہ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔

"کیا یار ایک تو تم اتنی پیاری ہو یہاں سب لڑکیوں کا کوئی نہ کوئی بوئفریند ہے صرف تمہارے علاوہ "۔۔۔لیزا نے منہ بناتے کہا۔۔۔۔

"یہاں سب نے ایک ٹرینڈ کے لیے آپس میں ریلیشن بنایا ہوا ہے کیونکہ اس جدید دور میں اگر کسی کا کوئی ریلیشن نہ ہو تو لوگ اُسے کول نہیں سمجھتے تمہیں کیا لگتا ہے یہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں نہیں ۔۔۔یہ ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔۔۔محبت نہیں "۔۔۔انابیہ نے اس پاس بیٹھے کپل کو دیکھتے کہا جو ایک دوسرے میں کھوئے ساری حدیں بھی بھول گئے تھے ۔۔۔

"اوہ تو تمہارے حساب سے محبت کیا ہوتی ہے ؟۔۔۔لیزا نے دلچسپی سے پوچھا۔۔۔

"محبت ،،محبت پاک ہوتی ہے روح سے ہوتی ہے محبت میں الہام ہوتے ہے کسی ایک کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا اُس تکلیف کو خود پر گزرتا محسوس کرتا ہے۔۔۔اُسے پتہ چل جاتا ہے کہ اُسکا محبوب تکلیف میں ہے محبت میں فقط جسم کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔وہ انسان آپکے سامنے رہے اور آپ اُسے پہروں بیٹھ کر دیکھتے رہے  یہ محبت ہوتی ہے۔۔اور محبت تو بنا دیکھے بنا چھوئے بنا بات کیے بھی ہو جاتی ہے"۔۔۔۔انابیہ نے آسمان کو دیکھتے ایک جذب سے کہا۔۔۔

"اور تمہیں کیوں نہیں ہوئی یہ محبت" ،،،لیزا نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے پوچھا۔۔

"پتہ نہیں پر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کسی کی امانت ہو کوئی ہے جو میرے دل میری روح میرے جسم کا مالک ہے شاید اسی لیے مجھے یہاں موجود کسی لڑکے میں دلچسپی نہیں ہے۔"۔۔انابیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے کہا۔۔۔

"اوہو مطلب تمہارا کوئی شہزادہ ائے گا"۔۔لیزا نے اُسکے کندھے سے اپنا کندھا مس کرتے شوخی سے کہا۔۔۔

"نہیں مجھے شہزادے کا انتظار نہیں ۔۔۔کیا پتہ میں جسے شہزادہ سمجھو وہ ولن نکل آئے" ۔۔۔انابیہ نے کالی آنکھوں میں شرارت لیے کہا اور اپنا بیگ کندھے پر ڈالے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔

"چلے اب کلاس میں بہت ہوگئی محبت کی باتیں"۔۔۔انابیہ نے لیزا کے آگے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جس پر لیزا اُسکا ہاتھ تھامے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

جب تیز رفتاری سے ایک بلیک بی ایم ڈبلیو یونی میں داخل ہوئی۔۔۔انابیہ نے اس گاڑی کو دیکھتے کوفت سے اپنی نظروں کا ارتکاز بدلہ جبکہ لیزا نہایت خوشی سے  اس گاڑی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔

وائٹ دیمیج پینٹ،بلو شرٹ جس کےتمام  بٹن کھلے تھے سینے کو چھوتی چین ایک کان میں بالی اور بکھرے بال ہاتھ میں ڈھیر سارے بینڈز پہنے وہ کہیں سے بھی یونی میں پڑھنے والا لڑکا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔

زرفان خان جسے سب زر کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔۔۔۔اُسکے یونی میں اتے ہی ہر طرف سے شور گونجا ۔۔۔

اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔جس کے باعث اُسکے گالوں پر پڑتے اُن دمپلوں نے اپنی جھلک دکھائی ۔۔۔اور لڑکیاں اپنا دل تھامتی رہ گئی۔۔۔۔

یونی کا بیڈ بوائے جس کی چار چار گرل فرینڈ تھی ۔۔۔۔پوری یونی کا کرش ۔۔۔ہر لڑکی اُس پر اپنا دل ہار بیٹھتی تھی وہ تھا ہی اتنا حسین،سفید رنگت بھوری داڑھی ،اور شہد رنگ  آنکھیں اور آنکھوں میں وہ شوخی۔۔۔وہ شوخ مجاز انسان تھا۔۔۔۔ہر کسی کو تنگ کرنا اُسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔۔۔۔

"کتنا پیارا ہے یہ۔"۔لیزا نے فدا ہوتے لہجے سے کہا۔۔

"چپ کرو تُم ۔۔۔کہاں پیارا ہے لگتا ہے اسکو دیکھ کر کہ یہ مسلمان ہے"۔۔۔۔انابیہ نے چبھتے لہجے میں کہا۔۔اور اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔

لیزا نے ایک نظر ذرفان کو دیکھا جو اپنے دوستوں کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔

انابیہ کو جاتے دیکھ وہ اُسکے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔۔

💗💗💗

اسلاماباد کے ایک چھوٹے سے طرویل اجینسی کے ایک کمرے میں جائے نماز پر بیٹھا وہ خوبرو نوجوان جانے کن سوچوں میں گم تھا۔۔۔

سفید چہرے پر سنجیدگی تھی کالی آنکھیں خاموش تھی۔۔۔وہ جائے نماز پر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ساکت بیٹھا تھا۔۔۔

لب آپس میں پیوست تھے اُسکے چہرے سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا رہا ۔۔۔

"حسام"۔۔کمرے میں داخل ہوتے اُسکے کولیگ نے اُسے آواز دی۔۔۔۔

حسام کا فسوں ٹوٹا اُس نے آواز کی سمت دیکھا۔۔۔

جائے نماز سے اٹھتے اُسے لپیٹ کر سائڈ پر رکھی۔۔

"بولو" ۔۔سنجیدگی بھاری آواز کمرے میں گونجی۔۔۔

"دس لوگوں کی ٹریپ ہے جو آسٹریلیا جانی ہے اور سر نے کہا ہے اُس  بار  تم جا رہے ہو" ۔۔۔کولیگ کی بات پر اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔

کولیگ نے ایک نظر اس سنجیدہ مزاج شخص پر ڈالی جو ضرورت سے زیادہ بات کرتا ہی نہیں تھا۔۔۔

کرسی پر بیٹھتے ہی اُس نے اپنی کالی بے تاثر بند کرتے ہی دو حسین کالی آنکھیں اُسکے پردوں پر لہرائیں۔۔۔۔ہلکے ہلکے اُسکا چہرہ اُسکے ذہن کے پردوں پر نمودار ہوا۔۔۔۔

مسکراتا چہرہ وہ حسین آنکھیں جن میں محبت کا جہاں آباد تھا۔۔۔اُسکی طرف وارفتگی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

حسام کے لبوں پر مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔۔

یکدم منظر بدلہ ۔۔۔ہر طرف خون لال رنگ اور وہ کالے لباس میں خون میں لت پت نم زدہ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے اُن آنکھوں میں شکوہ تھا۔۔۔اُن آنکھوں میں اذیت تھی۔۔۔اُسکے اپنے ہاتھ جو خون سے رنگے ہوئے تھے۔۔۔اپنی  ہی محبت کے خون سے ۔۔۔۔

یہ سب دیکھنا نہ قابل برداشت تھا۔۔ایک جھٹکے سے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔

اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بنائے اپنے ہونٹوں پر رکھے وہ کالی آنکھوں میں آنسو لیے بیٹھا تھا۔۔۔۔

آنسو روکنے کی کوشش کرتے اُسکی آنکھیں لال تھی۔۔۔ایسا ہی تو ہوتا تھا اُن پانچ سالوں میں آنکھیں بند کرتے ہی وہ منظر پوری آب و تاب سے اُسکی آنکھوں کے پردوں پر لہراتے تھے صرف ایک وقت  ہی سکون اتا تھا ۔۔۔اور وہ تھا نماز کا جب جب وہ اپنے رب کے حضور جھکتا اُسے سکون محسوس ہوتا تھا۔۔۔

ان پانچ سالوں میں ہر روز رات دیر تک وہ اللہ کی عبادت کرتا نیند تو اسکو اتی نہیں تھی۔۔۔اور پھر نہ جانے رات کا کون سا پہر ہوتا جب وہ جائے نماز پر ہی سو جاتا ۔۔۔۔

ان پانچ سالوں میں ہر روز ہر لمحہ وہ تڑپا ہے اُسکے دل میں بےچینی بھری ہوئی ہے ان پانچ سالوں میں ہر رات کو وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتے عبادت کرتے رویا ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگی ہے ۔۔۔۔

لیکن بہت جلد اُسکی رگ رگ میں سمائی اذیت دور ہونے والی تھی اُسے جینے کی ایک نئی اُمنگ ملنے والی تھی لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا اس میں مشکلیں تھی ۔۔۔آسٹریلیا کا یہ سفر اُس کے لئے یادگار ہونے والا تھا۔۔۔۔۔جو اُسے شاید اُسکی بیہ سے ملوانے والا تھا۔۔۔

💗💗💗

کراچی ،،،

اپنی گردن پر پڑتی گرم سانسیں محسوس کرتے شجیہ کی آنکھ کھلی ۔۔

گردن موڑ کر خضر کو دیکھا جو اُسکے پیٹ کے گرد ہاتھ باندھے اُسکی گردن میں منہ دیے گہری نیند میں تھا۔۔ایک نظر دیوار گیر گھڑی پر دیکھا جہاں رات کے تین بج رہے تھے اُسے شدید بھوک کا احساس ہوا۔۔۔۔

اچانک سے باہر سے کوئی چیز گرنے کی آواز ائی۔۔۔شجیہ چونکی ۔۔۔اس وقت باہر کون ہوگا۔۔۔یکدم اُسے عزیر کا خیال آیا ۔۔۔۔

"خضر اٹھے" ۔۔۔خضر کے کندھے کو جھنجھوڑتے شجیہ نے دھیمی آواز میں کہا اُسے ایسا لگا تھا جیسے چور گھس آئے ہو اُنکے گھر میں ۔۔۔۔

"کیا ہوا"...شجیہ کی آواز پر خضر نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔

"خضر باہر سے آوازیں آرہی ہے کوئی ہے۔"۔۔شجیہ نے اُسکی طرف دیکھتے محتاط انداز میں کہا۔۔۔

"اس وقت باہر سخت سیکورٹی ہے کوئی نہیں ہوگا شجیہ "۔۔۔خضر نے دیوار گیر گھڑی پر دیکھتے کہا اور ایک جھٹکے سے شجیہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے اوپر گرایا ۔۔۔۔

ان پانچ سالوں میں وہ مزید حسین ہوگئی تھی ۔۔۔پہلے سے تھوڑی سی موٹی اور چہرے پر خضر کی محبت ہے کے رنگ سجائے مزید اُسکے دل میں اپنے لیے عشق بھر گئی تھی۔۔۔۔

"خضر میں کہہ رہی ہو باہر کوئی ہے اور آپکو رومانس سوجھ رہا ہے"۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے خفگی سے کہا۔۔۔

"کوئی نہیں ہے میری جان وہم ہے تمہارا اب تم نے اٹھا ہی دیا ہے تو رومانس کرنے میں کیا برائی ہے"۔۔۔خضر نے اُسکی ناک سے اپنی ناک رب کرتے خمار بھری آواز میں کہا۔۔۔اور اُسکے ہونٹوں پر جھکنے لگا۔۔۔

"ڈھر !!!!!۔۔۔یکدم سے باہر سے کچھ شیشہ ٹوٹنے کی آواز ائی۔۔۔

"دیکھا میں کہہ رہی ہو کچھ ہے کوئی ہے آپ عمران ہاشمی بننے میں لگے ہے چلے نہ ایسا نا ہو وہ میرے بچے کے کمرے میں گھس جائے۔"۔۔۔شجیہ جو اپنی آنکھیں بند کئے خضر کی سانسیں اپنے ہونٹوں پر محسوس کر رہی تھی باہر سے اتی آواز پر یکدم اُس کے اوپر سے ہٹتی چیخی اب تو خضر بھی پریشان ہوا تھا اُسکی بات پر۔۔۔۔۔

"تم یہی رکو میں ایا ٹھیک ہے"۔۔۔خضر نے بیڈ سے اٹھتے سائڈ ڈرو سے اپنی ریولور نکال کر شجیہ سے کہا۔۔۔

"بلکل نہیں میں بھی آپ کے ساتھ جاؤنگی"۔۔۔شجیہ نے کہتے اپنی سائڈ ڈرو سے اپنی ریولور نکالی  ۔۔۔۔

خضر نے نفی میں سر ہلا کر اپنی ضدی بیوی کو دیکھا جو جب سے ڈی ایس پی بنی تھی تب سے اُسکے اندر ایک ہٹلر کی روح آگئی تھی۔۔۔۔

دبے قدموں سے وہ دونوں محتاط انداز میں  چاروں طرف دیکھتے وہ لاؤنچ میں آئے تھے۔۔۔جہاں مکمل خاموشی تھی۔۔۔

کچن سے ہلکی ہلکی آواز وہ دونوں اپنی گن تیار کرتے کچن میں آئے تھے لیکن اگلا  منظر دیکھتے وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔

کیونکہ سامنے ہی انکا صاحبزادہ سٹول پر چڑھ کر اپنے لیے میگی بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔

"عزیر" ۔۔۔شجیہ نے حیرت سے گنگ لہجے میں اُسے پُکارا۔۔۔

"آپس امو جان میں نے آپ دونوں کو اٹھا دیا مجھے بھوک لگ رہی تھی تو میں میگی بنا رہا تھا"۔۔۔عزیر نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے دونوں سے کہا۔۔۔

اُسکے کہنے پر شجیہ اور خضر نے بیک وقت وہاں لگی گھڑی کی طرف دیکھا جہاں رات کے تین بج رہے تھے۔۔۔

"اس وقت!!!۔۔۔شجیہ اور خضر نے ایک زبان کہا ۔۔

"ہاں مجھے اس وقت بھوک لگ رہی تھی اور وہ بھی بہت تیز اور مجھ سے غلطی سے یہ تین پلیٹ بھی ٹوٹ گئی "۔۔۔بڑی معصومیت سے عزیر نے اپنا کارنامہ بتایا۔۔۔۔

شجیہ اور خضر کے لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری ۔۔

اُن دونوں کی رات کو بھوک لگنے کی عادت اُن کے بچے میں بھی تھی۔۔۔۔

"آپ دونوں گنز کے ساتھ کیا کر رہے تھے"؟۔۔عزیر نے اُن دونوں کے ہاتھوں میں گن دیکھتے پوچھا۔۔۔

"کچھ نہیں وہ ویسے ہی۔۔"۔شجیہ نے بات پلٹی۔۔۔جبکہ خضر عزیر تک اتا اُسے سٹول پر سے اٹھا کر اپنی گود میں لے گیا تھا۔۔۔

"نو نو آپ دونوں سمجھے گھر میں چوڑ آئے ہیں" ۔۔۔ائی ایم رائٹ۔!۔۔عزیر نے اطمینان سے اُن دونوں کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

جس پر وہ دونوں ہنس دیے۔۔۔۔۔

"بیگم بھوک تو مجھے بھی لگی تو کچھ بنا دے آپ"۔۔۔خضر نے ڈائننگ ٹیبل پر رکھی کرسی پر عزیر کو بیٹھا کر شجیہ سے کہا۔۔جس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

ایک نظر پھیلے کچن کو دیکھا اور نفی میں سر ہلاتی میگی بنانے لگی ۔۔۔

رات کے تین بجے وہ دونوں اپنے بیٹے کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے میگی کھا رہے تھے۔۔۔۔عزیر کی باتیں سنتے کبھی وہ ہنس دیتے تو کبھی اُس کی کسی پر بات غصّہ کا دکھاوا کرتے۔۔۔۔

ان پانچ سالوں میں انکا رشتہ مزید مضبوط ہوگیا تھا۔۔۔اُنکی زندگی حسین تھی اُنکی اولاد کے ساتھ۔۔۔پر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔۔۔آزمائشیں تو سب کی زندگی میں اتی ہے۔۔۔۔

ایڈیلیڈ کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اُس نے گہری سانس بھرتے آس پاس دیکھا ۔۔۔۔آسٹریلیا کے شہروں میں سے سب سے پہلے نہ جانے کیوں اُس نے ایڈیلیڈ کو چنا تھا۔   ۔۔

یہاں کی ہوا تازگی بخش تھی ۔۔۔لوگوں کی بھیڑ میں وہ تنہا سا اپنی  کالی سنجیدہ آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔۔۔وہ ماضی میں نہ جانے کتنی بار اس جگہ اچکا تھا۔۔کوئی ایسا ملک نہیں تھا جہاں لیپرڈ نہ گیا ہو اُسے ہر ملک کے بارے میں جانکاری تھی تبھی تو وہ یہ کام کر رہا تھا۔۔

لیکن آج یہ شہر الگ سا لگا اُسکا ساکت دل دھڑکا۔۔۔۔

ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ٹھندی ہواؤں نے اُسکا استقبال کیا۔۔۔۔

براؤن لیڈر جیکٹ وائٹ شرٹ اور براؤن ہی پینٹ پہنے ۔۔وہ سنجیدگی میں ڈوبا نہایت خوبرو لگ رہا تھا ۔۔۔

"بس یہاں پر موجود ہے پہلے ہم ہوٹل جائے گے اُسکے بعد ہماری پہلی دیستینیشن پر جو یہاں کا زو ہے "سنجیدگی سے اپنے ساتھ آئے ٹوریسٹ کو کہتا وہ چپ چاپ بس کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

اسکے ساتھ ائی ٹیم میں موجود لڑکیاں ستائش سے اس خوبرو گائیڈ کو دیکھ رہی تھی جو کام کی بات کے علاوہ کوئی بات کرتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔

بس میں بیٹھتے شیشے کے پار اس حسین شہر کو دیکھتے وہ اپنی بڑھتی ہوئی دھڑکنوں سے پریشان تھا جو اس شہر میں قدم رکھتے ہی بڑھ گئی تھی۔۔۔۔

وہ نہیں جانتا یہ دل کی دھڑکنیں بڑھتی اُسے اشارہ دے رہی ہے کہ تمھارے دل کا مکین تمہارے پاس ہے اسی شہر میں ہے جسے تم سے ملنا ہے اور جلد ملنا ہے ۔۔۔

💗💗💗

آمنہ بچے اٹھ جاؤ اج تمہیں یونی جانا ہے"..

اپنی والدہ کی آواز پر اُس نے لحاف میں سے اپنا منہ نکالا ۔۔۔۔

یونی کا نام سنتے ہی اُسکے گلابی لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ اُبھری۔۔۔۔

گولڈن سلکی بالوں نے اُسکے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا ۔۔ 

اٹھتے اپنے گولڈن بالوں کو جوڑے میں باندھا مسکان ہنوز لبوں پر تھی۔۔۔۔کھڑی ناک گلابی لب سفید رنگت اور ہیزل بلیو آنکھیں اور نازک سا سراپا، چہرے پر پھیلی معصومیت 

خدا نے اُسے حسن کی مورت بنایا تھا بس اُس میں ایک کمی تھی۔۔۔

والدہ کے اندر اتے ہی اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مخصوص اشارہ کیا۔۔۔

مجھے پتہ ہے گڑیا بہت خوش ہے کیونکہ اج اُسکا یونی میں پہلا دن ہے جلدی سے تیار ہو جاؤ پھر تمہارا ریڈیو بھی اتا ہوگا۔۔۔والدہ نے آمنہ کے پاس اتے اُسکے چہرے پر پیار سے ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔۔

بابا کہاں ہے۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے اُس نے اپنے بابا کا پوچھا۔۔۔

بابا بیکری گئے ہوئے ہے۔۔۔والدہ نے اُسکی الماری سے اُسکا ڈریس نکالتے اُسکو جواب دیا۔۔۔۔۔

آمنہ کے چہرے پر اُداسی چھا گئی اُسکا پھول سا کھلا چہرہ ایک دم مرجھایا۔۔۔۔۔۔

نجمہ بیگم اپنی بیٹی کے اُداس چہرے کی طرف دیکھتے مسکرا دی۔۔۔۔

اُنکی بیٹی انتہا کی خوبصورت تھی لیکن اس میں خامی تھی وہ بول نہیں سکتی تھی لیکن اُسکی بلیو ہیزل آنکھیں بات کرتی تھی۔۔۔اُسکے چہرے پر جو معصومیت تھی سب اُسکی طرف کھینچتے چلے جاتے تھے۔۔۔اور جب وہ اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے اُنھیں بات سمجھاتی اُسکے ہاتھ میں موجود وہ بریسلیٹ جس میں چھوٹے چھوٹے سے گھنگھرو ہوا میں اٹکھیلیاں کرتے اُسکی آواز بن جاتے تھے۔۔۔۔۔۔

میری حسینہ کہاں ہے۔۔۔ابھی وہ اپنی بیٹی کو کوئی جواب دیتی جب باہر سے ایک شوخ چنچل سی آواز ابھری اور اسی کے ساتھ دروازے پر کالی شرٹ اور وائٹ پینٹ میں بالوں کو اونچی پونی ٹیل بنائے سدرہ نظر ائی ۔۔۔۔

آئے میری حسینہ اُداس ہے اُسے تو اج خوش ہونا چائیے اج وہ یونی جا رہی ہے ۔۔۔۔آمنہ کا اُداس چہرہ دیکھتے اُس نے آنکھوں سے نجمہ بیگم سے اُسکی اُداسی کی وجہ جاننا چاہئ اور بولتے ہوئے اُسکے پاس آکر بیٹھی۔۔۔۔

بابا اج بھی بیکری چلے گئے مجھ سے ملے بنا اب تم بتاؤ میں کیسے جاؤنگی اُنھیں دیکھے بنا۔۔۔۔فوراً سے بیڈ پر گھٹنوں کے بال بیٹھتے اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھتے پیچھا۔۔۔۔

تو اس میں کون سی بری بات ہے ہم یونی سے واپسی میں انکل سے مل لیں گے بیکری جاکر اور وہاں جاکر مزیدار سے کیک بھی بنائے گئے۔۔۔۔سدرہ نے چٹکی بجاتے حل نکالا۔۔۔۔

اور اسکی بات سنتے آمنہ مسکرا دی۔۔۔۔جھکتے سدرہ کے گال پر اپنے نرم و نازک لب رکھے اور تیزی سے بیڈ سے اتری۔۔۔۔

سدرہ اُسکی حرکت پر مسکرا دی۔۔۔

اینٹی ذرا میری حسینہ کی نظر بھی اتار دی جئے گا باہر جاتے ہی لڑکوں نے اسکو دیکھ کر نظر لگا دینی ہے۔۔۔سدرہ کے شوشے پر آمنہ کا رنگ سرعت سے سرخ ہوا۔۔۔۔۔اُس نے گھور کر سدرہ کو دیکھا اور اپنے کپڑے لیتے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

آمنہ بیگم اور سدرہ دونوں اُسکے اتنی سی بات پر شرمانے پر ہنس پڑی ۔۔۔۔

ایڈیلیڈ کے ایک درمیانے طبقے کے علاقے میں آمنہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی ۔۔۔۔بچپن سے ہی وہ بول نہیں سکتی تھی۔۔۔لیکن تھی انتہا کی معصوم اور پیاری ۔۔۔۔نجمہ بیگم اور ماجد صاحب نے کبھی اپنی بیٹی کی اس کمی پر اسے کچھ نہیں کہا۔ نہ اللہ کی ناشکری کی ۔۔لیکن لوگ بعض نہیں اتے نہ جانے کتنے لوگ اج بھی اُسکی اس خامي کا مذاق اڑاتے ہیں ۔۔۔بچپن سے اُسکی صرف ایک ہی دوست تھی سدرہ جو اُسکے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی جسے آمنہ اتنی پسند ائی کہ اس نے آمنہ کی باتوں کو سمجھنے کے لیے اُسکی زبان سیکھی۔۔۔۔

نجمہ بیگم اور ماجد صاحب سدرہ کے بہت شکر گزار تھے جنہوں نے اُنکی بیٹی کا ہر جگہ ساتھ دیا ۔۔۔۔اج آمنہ اور سدرہ کا یونی میں پہلا دن تھا بہت مشکل سے ماجد صاحب آمنہ کے باہر جانے پر راضی ہوئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ آمنہ باہر جائے اور لوگ اُسے اُسکی کمی کا احساس دلائے لیکن سدرہ کے ساتھ ہونے پر انہوں نے اُسے اجازت دے دی تھی۔۔۔۔۔

💓💓💓💓

آج ہم زو جا رہے ہیں یونی نہیں۔۔۔لیزا کی بات پر انابیہ نے حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔

وہ عروہ کو اسکول چھوڑ کر لیزا کے ساتھ یونی جا رہی تھی جب لیزا نے یہ بات کی ۔۔۔

اور ہم کیوں جائے گے ۔۔۔انابیہ نے ونڈو سے باہر شہر کی مصروف سڑکوں کو دیکھتے پوچھا۔۔۔

کیونکہ اج میرا دل چاہ رہا ہے اور تمہارا بھی کیونکہ جانوروں کی مجھ سے زیادہ تم شوقین ہو۔ اور میں کیمرہ بھی لے کرائی ہو۔۔۔۔۔لیزا نے اپنی آبرو آپس میں ملاتے کہا۔۔۔

چلو پھر چلتے ہے ویسے بھی یونی میں کوئی اہم لیکچر نہیں ہے۔۔انابیہ نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا کیونکہ لیزا کہہ تو صحیح رہی تھی اُسکا موڈ وہاں موجود معصوم اور پیارے جانوروں کو دیکھتے ٹھیک ہوجاتا تھا۔۔۔

💗💗💗💗

آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ کے چڑیا گھر میں اس وقت سیاحوں کی ریل پیل تھی ۔۔۔۔مختلف ممالک سے آئے سیاح وہاں پر موجود جانوروں کی تصویریں اپنے موبائل میں قید کرتے ایک خوشگوار موسم کا مزہ لے رہے تھے۔۔۔۔

ایسے میں وائٹ شرٹ ،بلیو جینز،اور بلیو ہی جیکٹ پہنے ۔۔۔۔کالے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ اپنے ساتھ آئے لوگوں کو یہاں کی معلومات فراہم کر رہا تھا۔۔۔

سفید رنگت ہلکی دھوپ میں چمک رہی تھی  چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی کھڑی ناک ۔۔۔عنابی لب  ۔۔۔اور اُسکی ائی برو پر لگا وہ کٹ ۔۔۔۔۔۔۔اور سنجیدگی اسے جاذب بنا رہی تھی ۔۔۔کالی آنکھوں کو براؤن چشمہ کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔۔۔۔۔

اُسکے ساتھ موجود سیاح بہت غور سے اسکو دیکھ رہے تھے ۔۔جبکہ اُن میں موجود لڑکیاں تو اُس پر فدا ہوگئی تھی۔۔۔

"یہ اُس شہر کا سب سے بڑا زو ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں جانور ہے ۔۔۔۔اُمید کرتا ہوں آپ سب کو یہاں آکر اچھا لگا ہوگا آپ لوگ انجواۓ کرے میں باہر بس میں ہوں ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہمیں ہوٹل کے لیے نکلنا ہے"

سنیجدگی سے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی کو دیکھتے کہا۔۔۔

سب سیاح کے اثبات میں سر ہلانے پر اُس نے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔یہ حسین موسم ،اور خوبصورت جگہ بھی اُسکے دل کی ویرانی کو ختم نہیں کر پڑی تھی۔۔۔

تیز تیز قدم بڑھاتا وہ بس یہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔۔۔نہ جانے کتنی نظریں پلٹ کر اس خوبصورت اور مغرور شہزادے کو دیکھ رہی تھی جس نے ایک نگاہ اٹھا کر بھی کسی کی طرف نہ دیکھا تھا۔۔۔۔

ایک ہنستی کھلکھلاتی آواز پر اُسکے قدم رکے۔۔۔۔

یہ ہنسنے کی آواز یہ جانی پہچانی تھی بے اختیار وہ پلٹا اور ساکت ہوا۔۔۔

اُسکا پورا وجود پتھر ہوا۔۔۔کیا ایسا ہوسکتا تھا۔۔۔۔یہ سچ نہیں تھا سراب تھا ۔۔لیکن اگر یہ سچ تھا تو اُسے اُسکے جینے کی وجہ مل گئی تھی۔۔۔

لال فروک میں بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔گلابی لبوں پر مسکراہٹ سجائے ہاتھ میں کیمرہ تھامے وہ وہاں موجود جانوروں کی تصاویر لے رہی تھی۔۔۔

ہوبہو چہرہ ہوبہو بال۔۔۔وہ وہی تو تھی۔۔اُسکی بیہ۔۔۔انابیہ۔۔۔

حسام کا وجود سٹل تھا۔۔۔وہ جنبش تک نہ کر پا رہا تھا۔۔۔۔وہ جانا چاہتا تھا اُسکے پاس لیکن ایسا لگتا تھا جیسے اُسکے قدم زمین نے جکڑے ہوئے ہے۔۔۔۔

اُسکی کالی آنکھوں میں نمی اُبھری۔۔۔اور دیکھتے دیکھتے آنسو اُسکے گال سے گرتا اُسکی داڑھی میں جذب ہوا۔۔۔۔

اُسے آگے بڑھتا دیکھ وہ اپنی پوری طاقت لگا کر چیخا۔۔۔

بیہ ،،،،،، اُسکی چیخ اتنے لوگوں کی بھیڑ میں بیہ تک پہنچ جاتی نہ ممکن تھا۔۔۔۔

وہ پہلے تو اس سے دور ہو گئی تھی وہ اب اُسے خود سے دور نہیں جانے دے سکتا تھا۔۔

اپنے قدموں کو حرکت دیتے وہ تیزی سے آگے بڑھا۔۔۔۔

وہ اپنی دوست کے ساتھ بات کرتی بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی اور حسام تیز قدموں سے اُس تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

چہرے پر بیقراری ،تڑپ ، کیا کچھ نہ تھا۔۔۔۔

بیہ،،،،وہ دوبارہ چیخا۔۔۔

جب سیاحوں کا ایک مجمع اُسکے آگے ایا۔۔۔وہ بیقراری سے لوگوں کو سائڈ پر کرتا اُس تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔

لیکن پل کا کھیل تھا وہ اُسکی نگاہوں سے اوجھل ہوئی۔۔۔۔

وہ اُسکی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو اُسے اپنے قدموں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔

تیزی سے بیرونی دروازے تک بھاگا لیکن وہ وہاں نہ تھی۔۔۔

پھولی سانسوں کے ساتھ وہ حسین نوجوان وہی پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔

کالی سرخ دروں والی آنکھوں کو جسے چشمہ سے چھپایا تھا ۔۔۔وہ تو  کب کا گرتے اُسکی آنکھوں کو بیپردہ کر گیا تھا۔۔۔جّن میں ایک اذیت رقم تھی۔۔۔

اپنے گٹھنوں پر ہاتھ رکھے سر کو جھکائے وہ نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔آنکھوں سے آنسو نکلتے زمین پر گر رہے تھے۔۔۔

"یہ ۔۔یہ سچ نہیں ہوسکتا ۔۔انہی ہاتھوں میں تو اُس نے دم تو ۔۔۔توڑا تھا۔۔۔یہ سچ نہیں ہے۔۔۔سراب ہے میرا وہم ہے"

اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے حسام نے یہ لفظ ادا کیے۔۔۔

روز ایسے ہی تو وہم ہوتے تھے اُسے کبھی وہ اُسے خود کی طرف دیکھتا پاتا تھا۔۔ پہروں وہ اُسے تصور  میں لاتے اُس سے باتیں کرتا۔۔۔وہ اُسے ہر پل اپنے اس پاس محسوس ہوتی تھی۔۔۔ہر جگہ اُسے وہی تو نظر آتی تھی۔۔۔۔

اور اسی وہم کی وجہ سے تو وہ زندہ تھا۔۔۔وہ جانتا تھا اُسکا وہم ہے انابیہ نہیں ہے زندہ ۔۔۔وہ کیسے اُسکے اس پاس ہوسکتی ہے۔۔۔لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا اسی وہم نے اُسے زندہ رکھا ہوا ہے۔۔۔۔

"ہے مین کیا تم ٹھیک ہو"۔۔۔ایک لڑکے کی آواز پر اُس نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔۔۔۔

اثبات میں سر ہلاتے اپنے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرتے اپنی بھیگی پلکیں صاف کی۔۔۔

اُسے یہی لگ رہا تھا کہ ابھی بھی اُسے وہم ہوا ہے وہ انابیہ نہیں تھی۔ وہ کیسے اس بات پر یقین کر لیتا کہ انابیہ زندہ ہے جب اُس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی محبت کی ماراتھا۔۔۔۔۔۔زمین سے اٹھتے اُس نے ایک گہرا سانس بھرا۔۔۔۔

پانچ سال پہلے جو ہوا وہ منظر پوری آب و تاب سے اُسکے ذہن کے پردے پر لہرائے اور رگ رگ میں اذیت بھرتے چلے گئے۔۔۔۔۔

💗💗💗

کہاں رہ گئی یہ لیزا۔۔۔انابیہ نے گاڑی کے پاس کھڑے ہوتے کہا۔۔۔وہ زو سے باہر آئے تو لیزا میڈم کو یاد ایا کہ وہ تو اپنا بیگ اندر ہی بھول گئی ہے۔۔۔۔۔

میں خود جاکر دیکھتی ہو۔۔۔انابیہ نے اپنے ہاتھ میں تھامے کیمرے کو دیکھا اور خود اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

💗💗💗💗

وہ سر جھکائے اپنا شکست خوردہ وجود لیے بس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔جب جھٹکے سے اُسکے سینے سے کوئی ٹکرایا اور جانی پہچانی خوشبو اُسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔

اللہ جی کس پہاڑ سے ٹکڑا گئی میں اور میرا کیمرہ ۔۔۔۔انابیہ نے جھٹکے سے دور ہوتے اپنا سر سہلایا اور نیچے پڑے اپنے کیمرے کی طرف دیکھا۔۔۔

جبکہ مقابل وجود اپنی تیز دھڑکتی دھڑکنوں کے ساتھ بنا پلک جھپکائے اُسکے چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔۔

یہ وہم تھا یہ خدا کا کرم کے وہ اُسکے سامنے تھی حسام کو اپنے ہاتھ پاؤں سن ہوتے محسوس ہوئے سیاہ پوشیدہ آنکھوں میں نمی چمکی۔۔۔۔

وہی نین نقش وہی خوشبو وہی آواز ۔۔۔۔وہ اُسکی بیہ تھی جسے ابھی کچھ دیر پہلے وہ اپنا وہم سمجھ رہا تھا وہ حقیقت بنتے اُسکے سامنے تھی۔۔۔

اپنا ہاتھ بڑھاتے اُس نے انابیہ کے گال کو چھوا ۔۔۔اور اُسکے پورے وجود میں زندگی سی بھر گئی۔۔۔

انابیہ جو اپنے کیمرے کو دیکھتے اُسے اٹھانے کے لیے ابھی جھکنے لگی تھی اپنے گال پر ایک کھردہ۔   لمس محسوس کرتے تھمی۔۔۔آنکھیں تحیر سے پھیلی ۔۔۔۔۔۔

اس نے اپنی سیاہ حیران کن آنکھوں سے حسام کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا جبکہ اُسکا ہاتھ بیا کے گال پر رکھا تھا۔۔۔۔۔

افف حسام کو لگا اسکو زندگی مل گئی ہے وہی سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔۔وہ ایک جھٹکے سے اُسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔۔۔۔۔

شدت سے اُسے اپنے سینے میں بھینچے وہ اُسکے ہونے کا یقین کر رہا تھا اور بیا بلکل ساکت تھی اُسے سمجھ نہیں آیا کہ اُسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔

بیہ میری بیہ ۔۔۔تم زندہ ہو حسام کی بیہ زندہ ہے مجھے معاف کردو زندگی ۔۔اپنے حسام کو معاف کردو یہ اللہ میں کیسے تیرا شکر ادا کرو۔۔۔میری بیہ زندہ ہے۔۔۔اُسے سینے میں بھینچے وہ زیرِ لب بڑبڑایا اور بیہ اُسکے الفاظ سنتے حیرت میں ڈوبی۔۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔یکدم اُس نے مزاحمت شروع کی اطراف میں گزرتے لوگوں کی شوخ نظریں اپنے اوپر محسوس کرتے وہ سمجھ گئی کہ سب اُسکے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔

نہیں چھوڑو گا تم زندہ ہو میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی ۔۔۔نہیں نہیں گناہ ہوا تھا۔۔جانتا ہو میں کوئی بھی سزا دوگی منظور ہوگی لیکن دوری نہیں بیہ۔۔۔میں نہیں رہ سکتا تمھارے بنا مجھے میری زندگی ایک بوجھ لگتی ہے پلیز نہیں۔۔۔۔۔بیہ کے مزاحمت کرنے پر اُس نے اپنی گرفت میں مزید سختی کی  تھی اور بیہ کا سانس لینا دشوار ہوا۔۔۔۔

میں نے کہا چھوڑو مجھے نہیں ہوں بیہ میں تمھاری ۔۔۔بیہ نے اپنا  پورا زور لگا کر حسام کو خود سے دور کیا اور چیخی ۔۔۔

نہ جانے کیوں سامنے کھڑے انسان کے لمس اسکی خوشبو اور اُسکے الفاظوں پر اُسکا۔دل تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔

تم میری ہو بیہ ہو میں یقین نہیں کرتا کیونکہ انہی ہاتھوں پر خون ۔۔۔نہیں تم بیہ ہو میری یہ چہرہ یہ آواز یہ بال یہ خوشبو یہ آنکھیں۔۔۔۔اُسکے ہر نقش کو بیقراری سے چھوتے وہ اُسکی سیاہ انکھوں کو دیکھتے تھما ۔۔۔

یہ سیاہ آنکھیں تو اس سیاہ انکھوں سے الگ تھی زمین آسمان کا فرق تھا ان آنکھوں میں ۔۔۔۔وہ سیاہ آنکھیں جن پر وہ مرتا تھا اُس میں اُسکے لیے محبت تھی ۔۔۔۔لیکن اس میں ۔۔ان سیاہ انکھوں میں اجنبیت تھی۔۔۔۔۔

تم بیہ ہو بولوں تمہارا نام انابیہ ہے ۔۔۔بولوں میں حسام تمہارا حسام بیہ پہچانو مجھے۔۔۔ان آنکھوں میں تو محبت تھی ۔۔۔مجھے اس طرح اجنبیت سے مت دیکھو۔۔۔۔حسام تڑپ کر اُسکے بازو جھنجھوڑتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔

اُسکی سیاہ انکھوں میں آنسو بھر گئے تھے اُسکے چہرے پر اذیت رقم تھی وہ بیہ کو ایک پاگل لگ رہا تھا۔۔۔۔جس کا ذہنی توازن صحیح نہ ہو۔۔۔۔

پر وہ نہیں جانتی تھی اُسکی جدائی میں ہی تو وہ پاگل ہوا تھا۔۔

پلیز چھوڑو مجھے کوئی ہے مدد کرو میری پلیز۔۔۔بیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔اُسکے دل کی دھڑکن حد سے تیز تھی اُسکا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔وہ انتہائی بےبسی سے چیخی ۔۔۔۔

حسام نہ بےبس نگاہوں سے اُسکی طرف دیکھا وہ اُسکی بیہ تھی جو اُس سے دور جانے کے لیے مچل رہی تھی جو اُسے پہنچان نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔

بیہ کی چیخ پر وہاں سے گزرتا گا رڈ رکا تھا  اور جلدی سے وہاں موجود پولیس کو بلا کر لیا ۔۔۔پولیس نے اتے حسام کو ایک جھٹکے سے بیہ سے دور کیا۔۔۔۔

بیہ پلیز مجھے پہچانو میں حسام ہو مجھے یہ سزا مت دو بیہ۔۔۔پولیس حسام کو بیہ سے دور کر رہی تھی اور وہ خود کو چھوروانے کی کوشش کرتا چیخ رہا تھا۔۔۔۔

حسام بیہ سے دور ہوتے تڑپ اٹھا سفید رنگت لال تھی وہ رو رہا تھا ۔۔۔وہ سیاہ انکھوں میں اذیت اور بےبسی لیے اُسکی طرف دیکھ رہا رہا۔۔۔

بیہ نے بہتی انکھوں سے اس شاندار مرد کو دیکھا جو اُس سے دور ہو رہا تھا۔۔۔اُسکی زبان سے نکلتے لفظ سنتے اُسکا دل نہ جانے کیوں پٹھنے والا تھا۔۔۔

حسام کی زبان پر صرف ایک لفظ تھا اور وہ تھا بیہ دیکھتے دیکھتے پولیس نے اُسے اپنی وین میں بیٹھایا تھا اور اُسے اُسکی بیہ سے دور لے گئے تھے۔۔۔۔

پولیس وین میں بیٹھا  وہ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں گرائے سسک پڑا۔۔۔۔ایک بار پھر وہ اُس سے دور ہوگئی تھی اور پانچ سال پہلے کی طرح اج بھی وہ بےبس تھا کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔

بیہ نے دور جاتی وین کو دیکھا اور پھر اپنے چہرے سے آنسو صاف کرتے اپنے بھیگے ہاتھ کو دیکھا۔۔۔

یہ آنسو اُس شاندار مرد کے لیے اُسکی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے یہ آنسو ڈر کے نہیں تھے یہ اُس انسان کے لیے تھے جس کی سیاہ انکھوں میں بنجر پن تھا۔۔۔وہ تو اُسے جانتی نہیں تھی پھر اُسکی تکلیف پر اُسے کیوں درد ہو رہا تھا اُسے روتا دیکھ اُسکا دل کیوں پٹھ رہا تھا۔۔۔اُسے سمجھ نہ آیا۔۔۔۔

کئی سوال اُسکے دماغ میں گردش کر رہے تھے۔۔۔سن ہوتے سر کے ساتھ اُس نے زمین پر سے اپنا کیمرہ اٹھایا ۔۔۔۔اس پاس دیکھا تو سب لوگ حیرت سے اُسکی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔یکدم اُسے شرمندگی کا احساس ہوا وہ فوراً سے تیز قدموں سے وہاں سے نکلی۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓

کہاں تھی تم انابیہ۔۔۔لیزا نے انابیہ کے اتے ہی اُس سے پوچھا۔۔۔جس کا سفید چہرہ اس وقت لال ہو رہا تھا۔۔۔

میں وہ۔ ۔۔کچھ نہیں چلو گھر چلے ۔۔۔انابیہ کا سارا دہان تو حسام پر تھا اسی لیے گھبراہٹ میں جلدی سے کہتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

لیزا نے اُسکے اس طرح کہنے پر کندھے اچکائے اور جاکر گاڑی میں بیٹھی۔۔۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی اُسکے ذہن میں چھن سے حسام کی سیاہ اذیت سے چور آنکھیں لہرائی ۔۔۔اور ایک تیز لہر درد کی اُسکے سر میں اٹھی ۔۔۔

سر کا درد اب شدت اختیار کر رہا تھا وہ اپنی آنکھیں بند کئے درد برداشت کرتی سیٹ کی پشت سے سر ٹکا گئی۔۔۔۔۔

پر آنکھیں بند کرتے ہی اُسے حسام نظر آرہا تھا اُسکے الفاظ اُسکے دماغ میں گونج رہے تھے۔۔۔۔۔

اُس نے اپنی آنکھیں کھولی سر گھومتا ہوا محسوس ہوا یکدم آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا اور وہ برابر میں بیٹھی لیزا کے کندھے پر اپنا سر ٹکا گئی ۔۔۔۔

بیہ۔۔۔لیزا نے بوکھلا کر انابیہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔

ڈرائیور جلدی گاڑی چلاؤ ۔۔۔لیزا چیخی انابیہ کے گال کو تھپتھپاتے وہ اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔

انابیہ کی بند آنکھوں کو دیکھتے وہ ڈر گئی تھی نہ جانے اُسے کیا ہوا تھا جو وہ بیہوش ہوئی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا تھا اسے ۔۔۔۔کامل نے بیڈ پر بیہوش لیتی انابیہ کو دیکھتے لیزا سے پوچھا۔۔۔

پتہ نہیں بھائی اچانک گاڑی میں بیٹھتے ہی بیہوش ہوگئی ۔۔۔لیزا نے پریشانی سے کہا۔۔۔۔

فلک بھی  پریشانی سے انابیہ کے پاس بیٹھی تھی جبکہ ڈاکٹر اُسکا معائنہ کر رہے تھے۔۔۔۔

مسٹر کامل میں نے پہلے ہی کہا تھا انکو کوئی بھی ٹینشن دی گئی تو اُنکی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔ابھی بھی انہوں نے کوئی ٹینشن لی ہے یہ کوئی بات اپنے سر پر سوار کی ہے تبھی انکے دماغ نے انکا ساتھ چھوڑ دیا اور یہ اپنے حواص کھو بیٹھی۔۔۔ڈاکٹر نے انابیہ کا چیک اپ کرتے کامل سے کہا جو ڈاکٹر کی بات پر اپنے لب بھینچ گیا تھا۔۔۔۔

خیر میں نے دوائیاں جو پہلے دی تھی اُنہیں ہی جاری رکھے اور کوشش کرے کہ اُنکے ذہن  میں کسی بات کو حاوی نہ ہونے دے ابھی کچھ دیربعد یہ ہوش میں آجائے گی۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے اپنا سوٹ کیس اٹھاتے ہوئے کامل سے کہا۔۔۔

بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب میں دیہان رکھو گا۔۔کامل نہ ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر رسانیت سے کہا۔۔۔۔۔

اور ملازم کو ڈاکٹر کو باہر لے جانے کا اِشارہ کیا۔۔۔۔

ڈاکٹر کے جاتے ہی فلک نے کامل کی طرف دیکھا جہاں وہ اپنے ماتھے کو سہلاتا پریشان سا تھا۔۔۔

لیزا گڑیا آپکو ڈرائیور گھر چھوڑ دے گا انابیہ کی فکر نہیں کرے جیسے ہی اسے ہوش آئے گا  میں آپکو بلوا لونگی۔۔۔فلک نے لیزا کے فکرمند چہرے کو دیکھتے نرمی سے کہا۔۔۔

لیزا نے اثبات میں سر ہلاتے ایک آخری نظر انابیہ پر ڈالی اور کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

میں نے آپکو پہلے ہی بولا تھا ہمیں اس کی  شادی کر دینی چاہئے اُسکی زندگی میں کوئی اور آئے گا تو ہی وہ زیادہ خوش رہ کر ماضی سے نکل پائے گی۔۔۔فلک نے انابیہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے نرمی سے کہا۔۔۔

آپکو لگتا ہے میں جاکر آرام سے اُس لیپرڈ کے آگے طلاق کے کاغذ رکھ کر یہ کہو گا کہ طلاق دو اور وہ آسانی سے دے دیں گا ۔۔۔نہیں ایسے اُسے پتہ چل جائے گا کہ انابیہ زندہ ہے۔۔۔کامل نے صوفے پر بیٹھتے فلک کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔

فلک کامل کی بات پر خاموش ہوئی ۔۔۔کامل کی بات ٹھیک ہی تھی لیپرڈ اتنی آسانی سے انابیہ کو طلاق تو دیتا نہیں اور اگر اُسے پتہ چل جاتا کہ انابیہ زندہ تھی تو نہ جانے وہ کیا کرتا ۔۔۔۔

طویل خاموشی کے بعد انابیہ نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔۔

بھابھی ۔۔۔پاس بیٹھی فلک کو دیکھتے اُس نے دھیمی آواز میں اُسے پُکارا ۔۔۔

اللہ شُکر تمہیں ہوش آیا۔۔۔فلک نے انابیہ کے گال پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

اُن دونوں کی آواز پر کامل جو اپنا سر صوفے کی پشت پر ٹکائے آنکھیں موندیں بیٹھا تھا فوراً اُن دونوں کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔

اب اچھا فیل کر رہی ہو۔۔۔انابیہ کو اٹھنے میں مدد دیتے فلک نے انابیہ سے پوچھا۔۔۔

جی بھابھی ۔۔۔انابیہ نے بیٹھتے ہوئے کامل کی طرف دیکھتے جواب دیا۔۔۔

آپ لوگ پریشان ہوگئے میری وجہ سے۔۔۔انابیہ نے کامل سے کہا۔۔۔

ہاں پریشان تو ہوئے لیکن تمھاری وجہ سے نہیں تمھاری بگڑتی طبیعت کی وجہ سے ۔۔۔کامل نے نرم لہجے میں انابیہ سے کہا۔۔۔۔

میں سوپ لے کر اتی ہوں تمہارے لیے بہتر فیل ہوگا کچھ کھاؤ گی تو۔۔۔فلک نے کہتے اٹھنا چاہا جب انابیہ نے اُسے روکا۔۔

نہیں بھابھی ابھی کچھ نہیں کھانا میں نے۔۔۔انابیہ کے کہنے پر فلک واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی ۔۔۔

بیہ ایسا کیا ہوا تھا جس کی تم نے اتنی ٹینشن لی اور یہ سب ہوا۔۔۔کامل نے اپنے ہاتھ باہم ملا کر گھٹنوں پر رکھتے بیہ سے پوچھا۔۔۔

کامل ابھی اُسکی طبیعت نہیں ٹھیک بعد میں پوچھ لی جئے گا۔۔۔فلک نے دانت پیستے ہوئے کامل  کی طرف دیکھتے کہا۔۔

نہیں بھابھی میں ٹھیک ہو پتہ نہیں بھائی اج عجیب ہوا میرے ساتھ۔۔۔۔ایک لڑکا۔۔۔انابیہ نے فقط اتنا کہا جب حسام کی وہی سیاہ اذیت بھری آنکھیں اُسکے ذہین کے پردوں پر لہرائیں۔۔۔۔

کامل اور فلک اُسکی بات پر چونکے اور پوری طرح اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔

جانے کیا تھا بھائی مجھے سمجھ نہیں ایا وہ مجھے کہہ رہا تھا میں اُسکی بیہ ہوں ۔۔۔وہ مجھے جانتا ہے ۔۔۔اُسکی کالی آنکھوں میں ایک اذیت رقم تھی وہ میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے نہ جانے کتنی مصحافتوں کے بعد ایک بتھکتے مسافر کو منزل مل گئی ہو ۔۔اُسکے ہر لفظ میں ایک تڑپ تھی۔۔اُسکا ہر گرتا آنسو اُسکے دل و دماغ میں بھری اذیت کو واضح کر رہا تھا۔۔۔۔۔

کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا اُسکی آنکھوں کے سامنے وہی بلکتا روتا تڑپتا حسام کا وجود تھا ۔۔۔۔وہ اپنی پلکیں بنا جھپکائے یہ لفظ ادا کر رہی تھی جیسے وہ پلکیں جھپکائے گی اور حسام کا وجود اوجھل ہوجائے گا۔۔۔

اِدھر فلک نے حیرت سے کامل کی طرف دیکھا ۔۔۔کامل کا تو چین و سکون جیسے انابیہ کی بات نہ چھین لیا تھا۔۔۔

یہ تو اچھا تھا انابیہ اُسے ہر بات بتا دیتی تھی۔۔۔ورنہ یہ بات تو اُسے پتہ ہی نہ چلتی۔۔۔۔۔

تم آرام کرو میں اتا ہوں مجھے کچھ ضروری کام ہے۔۔فلک دیہان رکھنا اور ان سب باتوں کو دماغ پر حاوی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔یہ کوئی خاص بات نہیں ہے اُس انسان کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔۔۔۔۔کامل نے تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھتے کہا اور باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

فلک نے کامل کی پشت کوتکتے اپنی نظریں انابیہ کی طرف کی۔۔۔

تمہیں کیا لگتا ہے وہ انسان کیوں ایسا بول رہا تھا۔۔۔فلک نے دھڑکتے دل سے انابیہ سے پوچھا۔۔۔

یہ تو میں نہیں جانتی بھابھی ہوسکتا ہے اسکا عزیز کوئی اُس سے بچھڑ گیا ہو جو مجھ سے ملتا ہو۔۔۔۔انابیہ نے فلک کی طرف دیکھتے جواب دیا۔۔۔

اور وہ عزیز کون ہوسکتا ہے اُسکا۔۔۔۔فلک نے جانچتی نگاہوں سے انابیہ کے چہرے کو دیکھا۔۔۔

عشق ۔۔ شاید ۔۔۔۔انابیہ نے یکدم کہا ۔۔۔۔

اور پھر فلک کی طرف دیکھا۔۔۔

اُسکی آنکھوں میں تڑپ لہجے میں ٹپکتی اذیت اُسکے انگ آنگ سے یہ واضع ہو رہا تھا وہ عشق میں فنا ہوا ایک عاشق ہے بھابھی۔۔۔۔انابیہ نے وضاحت دی۔۔۔۔

تم ریسٹ کرو میں تمہارے لیے کچھ بنا کر لائی ۔۔۔فلک کو اب گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔انابیہ کی باتوں سے لگ رہا تھا جیسے وہ اُس لڑکے کی طرف کھینچی جا رہی ہے۔۔۔اور نے جانے کیوں فلک کا دل یہ کہہ رہا تھا انابیہ جس کے بارے میں بات کر رہی ہے وہ حسام ہی ہے۔۔۔۔۔

فلک کے جاتے ہی انابیہ نے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔اج جو کچھ ہوا وہ سب اُسکے ذہن سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔۔۔

وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کچھ بھی لیکن پھر بھی حسام کو اپنی سوچوں سے جھٹک نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔

جس طرح اج حسام نے اس سے وہ سب کہا تھا وہ صاف واضع کر رہا تھا کہ وہ بیہ کو جو بھی سمجھ رہا ہے وہ اُس سے عشق کرتا ہے۔۔۔اور بیہ کو یہی بات چین نہیں لینے دے رہی تھی کہ اتنے لوگوں کی بھیڑ میں وہ اُس سے ہی کیوں مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔

💓💓💓

کامل بےچینی سے فون کان سے لگائے خضر کے کال اٹھانے کا منتضر تھا۔۔۔۔

لیپرڈ کہاں ہے خضر۔۔۔خضر کے فون اٹھاتے ہی کامل۔نے سنجیدہ آواز میں پوچھا۔۔۔

خضر جو آفس میں اپنی کرسی پر بیٹھا تھا کامل کی بات پر اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔

وہی جہاں اُسے ہونا چائیے۔۔۔خضر نے سامنے رکھی فائل پر ایک نظر ڈالتے جواب دیا۔۔۔۔

وہ یہاں آسٹریلیا میں ہے خضر وہ جیل سے باہر کیسے اسکتا ہے اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔کامل کی آواز ابکی بار اونچی تھی۔۔۔

وہ آسٹریلیا میں اپنے کام کے سلسلے میں ایا ہے ۔۔یا ہوسکتا ہے خدا کو اُسکی عبادت اچھی لگی ہو تبھی اُسے وہاں پہنچا دیا جہاں اُسکی محبت ہے۔۔۔خضر نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔۔

وہ انابیہ سے پیار نہیں کرتا خضر ۔۔۔۔کامل نے دانت پیستے ہوئے خضر سے کہا۔۔۔

یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ بیہ سے پیار نہیں کرتا۔۔۔خضر نے بھی تیوری چڑھا کر پوچھا۔۔۔

کیونکہ اُس نے اپنے ہاتھوں سے اُسکا خوں کیا تھا۔۔۔کامل کو لگا تھا اج وہ اپنے غصّہ پر ضبط نہیں کر پائے گا۔۔۔

اپنے ہاتھوں سے اُسے مارنے کے بعد وہ خود مرا ہے ۔۔۔اُسکی آنکھوں میں آنسو تھے جیتنے دِن اُس نے جیل میں بتائے وہ سب بیہ کی یادوں میں گم رہتے بتائے کیا بیہ کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھتے اُسکی آنکھوں میں چاھتی ویرانی تم نہیں دیکھ پائے تھے کیا تمہیں یاد نہیں اُسکی سانسیں اکھڑنے لگی تھی جب ہم اُسے ہاسپٹل لے کر جا رہے تھے۔۔۔خضر بھی ابکی بار اونچی آواز میں مخاطب ہوا۔۔۔

جو بھی ہو میں اُسے کبھی بیہ تک نہیں پہنچنے دونگا۔۔۔۔کامل نے ایک عزم سے کہا۔۔

کیوں دو پیار کرنے والوں کو الگ کرنے کہا سبب بن رہے ہو یہ انکا معاملہ ہے وہ خود دیکھ لے گے کیوں دو میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کر رہے ہو ایسا نہ ہو خدا کو تمہارا یہ عمل بُرا لگ جائے اور بدلے میں وہ تم سے تمہاری محبت دور کردے۔۔۔خضر نے اُسے ایک حقیقت بتائی جسے سنتے وہ تلملا گیا ۔۔۔۔

میں کبھی فلک کو خود سے دور نہیں جانے دونگا میں فلک سے محبت کرتا ہوں اُنہیں اپنے ہاتھوں سے موت کے منہ میں نہیں ڈال سکتا میں جس طرح لیپرڈ نے کیا ہے۔۔۔کامل نے سرد آواز میں کہتے فون بند کیا۔۔۔۔

خضر نے کامل کے فون رکھتے ہی ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا۔۔۔

کچھ سمجھتا نہیں ہے یہ دونوں کی روحیں آپس میں ملی ہوئی ہے دونوں ایک دوسرے تک پہنچ ہی جائے گے ۔۔۔خضر زیرِ لب بڑبڑایا ۔۔اور دوبارہ فائل کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔

💓💓💓💓

پولیس اسٹیشن میں سر جھکائے اپنی خالی ہاتھوں کو تکتے وہ سن بیٹھا تھا۔۔۔۔

اُسے یقین نہیں آرہا تھا ابھی کچھ دیر پہلے اُسکی انابیہ اُسکے سامنے تھی اُس نے اسے چھوا تھا اُسے محسوس کیا تھا۔۔۔۔

اُسکی سیاہ آنکھیں اس وقت سرخ تھی جیسے نہ جانے کتنی تکلیف وہ برداشت کر رہا تھا ۔۔۔۔

اُسے اتنا پتہ تھا اُسکی انابیہ زندہ ہے لیکن وہ اُسے پہچان کیوں نہیں رہی تھی اُسکی انابیہ اُسے اجنبیت سے کیوں دیکھ رہی تھی ۔۔۔

سوالوں کا بھمبھار تھا جو اُسکے دماغ میں گردش کر رہا تھا۔۔۔۔

تمھاری بیل ہوئی  ہے۔۔۔پولیس والے کی آواز پر اُس نے اپنا سر جھکایا ۔۔۔

اُسکی انابیہ زندہ تھی بیشک وہ اُسے پہچان نہیں رہی تھی لیکن وہ اُسے ڈھونڈ لیں گا چاہے اُسے اس شہر کی گلی گلی کیوں نہ پھرنا پڑے ۔۔…

اتنی جلدی اپنی بیل ہونے پر اُسے حیرت ہوئی پھر اپنی کمپنی کے بارے میں سوچتے وہ باہر نکلا ۔۔۔لیکن سامنے موجود انسان کو دیکھتے اُس نے اپنے لب بھینچے۔ ۔۔

تم یہاں کیوں آئے ہو جون ۔۔۔حسام نے جوں کے پاس اتے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔

لیپرڈ خطرے میں ہو اور جون نہ اے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ۔۔جون نے مسکراتے ہوئے حسام کے چہرے کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔

حسام نے اپنے جبڑے بھینچے جون کی بات پر۔۔۔۔

لیپرڈ نہیں ہے۔۔کہیں اُسکا وجود اُسی دن ختم ہوگیا تھا جب اُس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کا خون کیا تھا میں حسام ہو ۔۔۔صرف اور صرف حسام۔۔۔۔حسام غصے سے کہتا تیز قدموں سے باہر نکلا ۔۔۔

بھابھی سے مل تو گئے ہونگے آپ۔۔۔جوں کی بات پر وہ جو تیز قدم بڑھاتا سڑک کے کونے پر چل رہا تھا تھما۔۔۔۔

پلٹ کر جوں کو قہر بھری نظروں سے دیکھا اور ایک جست میں اُس تک اتے اُسکے چہرے پر زور دار مکہ رسید کیا۔۔۔

تم جانتے تھے نہ جانتے تھے وہ زندہ ہے پھر کیوں مجھ سے یہ بات چھپائی۔۔۔حسام۔جوں کا گریبان دونوں ہاتھوں سے تھامے غرایا ۔۔۔۔۔

حسام کے لبوں پر مسکراہٹ آن ٹھہری۔۔۔۔

میں کیسے جان سکتا تھا میں تو خود جس دن آپکو رہائی ملی اُسی دن جیل سے رہا ہوا ہُوں ۔۔۔آپکو ڈھونڈنے کے بعد پر چلا آپ  آسٹریلیا میں ہے۔۔۔میں تبھی یہاں ایا اور پھر جب آپ نے بھابھی کو دیکھا تب ہی میں نے اُنہیں دیکھا۔۔۔جون ہر وقت آپکے ساتھ تھا۔۔۔جوں کے کہنے پر حسام نے اُسکے گریبان پر سے اپنے ہاتھ ہتائے۔۔۔

کروڑوں روپے کا مالک ایک معمولی سا ٹور گائیڈ ہے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی سر۔۔۔جوں نے اپنا کولر صحیح کرتے حسام کے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھتے طنزیہ کہا۔۔

وہ کروڑوں روپے حرام کمائی کے تھے جو مجھے اب نہیں چائیے۔۔۔حسام نے اپنے قدم آگے بڑھاتے جواب دیا۔۔۔

غلط میں اُن پیسوں کی بات کر رہا ہو جو آپکے بابا کی حق حلال کی کمائی کے ہے۔۔۔جوں نے اُسکے ہم قدم ہوتے اُسکی تصحیح کی۔۔۔۔۔

کیا فائدہ اتنی دولت کا جو اصل دولت ہے میری وہ تو مجھے بھولے بیٹھی ہے۔۔۔حسام نے قرب زدہ مسکراہٹ کے ساتھ جون کی طرف دیکھتے کہا۔۔

جاننا نہیں چاہے گے کہاں ہے وہ۔۔۔جون کی بات پر حسام کی آنکھوں میں ایک اُمید کی روشنی چمکی۔۔۔۔

لیکن جہاں وہ ہے وہاں سے اُنہیں صرف لیپرڈ ہی واپس لا سکتا ہے حسام کی بس کی بات نہیں ہے۔۔۔جون کی اگلی بات پر حسام کا چہرہ مزید سرد و سنجیدہ ہوا۔۔۔

حسام اب لیپرڈ کبھی نہیں بنے گا۔۔۔حسام نے پختگی سے کہا۔۔۔

ٹھیک ہے پھر کامل خان آپکی بیوی کو اپنی سگی بہن کی طرح اپنے پاس رکھا ہوا ہے بھابھی کی جان بچ گئی تھی پر میموری لوس ہوگئی تھی اُنہیں ماضی کا کچھ بھی نہیں یاد۔۔اور اگر وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتی بھی ہے تو اُنکی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔جوں نے تفصیل بتائی ۔۔۔۔۔

اور کامل خان کے پاس انابیہ کا سنتے حسام کو اپنے تن بدن میں بےچینی سی سرائیت کرتی محسوس ہوئی۔۔۔۔

جون کی بات  سنتے حسام کو سمجھ نہیں آیا وہ جون کی بات پر خوش ہو یا انابیہ کی  بیماری کا سن کر پریشان ہو۔۔۔۔

جو بھی ہے میں کوشش کرونگا۔۔۔حسام بن کر ہی میں کبھی اُسکے سامنے لیپرڈ کو انے نہیں دونگا۔۔۔اُسے یہ یاد ہی نہیں ہوگا کہ اُسکی زندگی میں لیپرڈ تھا بھی اُسے صرف حسام یاد ہوگا صرف اور صرف حسام ۔۔۔حسام نے جوں کی طرف دیکھتے آنکھوں میں ایک عزم سے کہا۔۔۔

کوشش کر کے دیکھ لے چلے ابھی چلتے ہے۔۔۔جون نے کہتے سائڈ پر کھڑی گاڑی کی طرف اپنے قدم بڑھائے ۔۔۔

حسام بھی تیز قدموں سے اُسکی تقلید میں بڑھا ۔۔۔

جو بھی تھا وہ کامل کے سامنے صرف حسام بن کر جانا چاہتا تھا لیپرڈ کا وجود تو وہ کب کا ختم کرچکا تھا۔۔۔۔

💓💓💓💓

کامل لاؤنچ میں بیٹھا ہوا تھا فلک انابیہ کے کمرے سے نکل رہی تھی۔۔۔

سو گئی ہے وہ۔۔۔کامل نے فلک کو لاؤنچ میں اتے دیکھ پوچھا۔۔

ہاں سو گئی ہے دوائی کا اثر ہے۔۔۔فلک نے اُسکے پاس بیٹھتے جواب دیا۔۔۔

کامل آپکو نہیں لگتا ہم غلط کر رہے ہیں۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے پر اپنا سر رکھتے اُسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔

کیا غلط کر رہے ہیں۔۔۔کامل نے فلک کی بالوں کی  مہک کو محسوس کرتے ایک گہرا سانس بھرا۔۔۔

انابیہ اور لیپرڈ  ۔۔۔فلک نے کہنا چاہا جب کامل نے اُسکی بات بیچ میں کاٹی ۔۔۔۔

میں لیپرڈ کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا فلک بہتر یہی ہے ہم اُس ٹاپک پر بات نہ کرے عروہ سو گئی ہے۔۔۔۔کامل نے فلک کا چہرہ اپنے کندھے سے اٹھاتے اپنے سامنے کرتے سنجیدہ نرم لہجے میں اُسے کہا ۔۔

فلک اپنے لب بھینچ گئی وہ کیوں لیپرڈ کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا یہ بات فلک کی سمجھ سے باہر تھی۔۔۔۔۔۔

سو گئی ہے عروہ۔۔۔فلک نے کامل کی داڑھی کو ہاتھ سے سہلاتے جواب دیا ۔۔

اچھی بات ہے اب ہم دونوں کچھ اسپیشل ٹائم ساتھ گزار سکتے ہیں ۔۔۔کامل نے فلک کی قمر پر اپنی گرفت کرتے اُسے مزید خود کے نزدیک کیا۔۔۔۔

اور اگر ا کوئی آگیا تو۔۔ فلک نے اپنی ناک کامل کی ناک سے مس کرتے کہا۔۔۔

کوئی نہیں آئے گا۔۔کامل نے کہتے ساتھ فلک کے لبوں کو نرمی سے اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔

نرمی سے فلک کی سانسیں پیتے وہ اپنے ساتھ ساتھ فلک کو بھی مدہوش کر گیا ۔۔۔

اپنی سانسیں درست کرنے کے لیے وہ کچھ دیر بعد فلک سے دور ہوا۔۔۔۔

نظر فلک کے گلابی بھیگے ہونٹوں پر آ ٹھہری۔۔۔

واللہ ان لبوں پر میری شدت سے اتا یہ رنگ دنیا کا سب سے حسین رنگ ہے۔۔۔۔کامل نے اُسکے لبوں کو اپنے انگھوٹے سے سہلاتے دل فریبی سے کہا۔۔۔

کامل کی بات پر فلک کے ہونٹوں پر شرمیگی مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنائی۔۔۔۔۔

اور اس پر قیامت دھاتی یہ مسکراہٹ اور یہ گڑھا جو ہر جب جب ظاہر ہوتا ہے میرے دل کی دنیا کو الٹ پلٹ کردیتا ہیں ۔۔کامل نے فلک کے مسکرانے پر ظاہر ہوتا اسکے دمیپل پر اپنے لب شدت سے رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔

اور فلک کھلکھلا  کر ہنس پڑی اُسکی بات پر۔۔۔۔

فلرٹ کر رہے ہیں میرے ساتھ۔۔۔فلک نے کامل کی سبز چمکتی آنکھوں کو دیکھتے ایک ادا سے کہا۔۔۔

ہاں جی بلکل ۔۔تبھی تو اس دنیا میں ہمارا ایک پیس ایا ہے۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلاتے لبوں پر ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔

اور چاہتا ہو ہمارا اس دنیا میں ایک اور پیس آجائے تمھاری طرح بھوری انکھوں والا۔۔۔۔اور اسکے لیے مجھے آپکے تعاون کی ضرورت ہے جو اجکل آپ نہیں کر رہی ہے۔۔۔کامل کی بات پر فلک کو اپنے کان کی لو جلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

بہت بیشرم ہوگئے ہے آپ کامل۔۔۔۔فلک نے اپنی پلکیں جھکائے کامل کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔

صرف آپ کے لیے بیشرم بنا ہو۔۔۔کامل نے کہتے فلک کی گردن پر اپنے لب رکھے جب باہر دوڑ بیل بجی۔۔۔

کامل کوئی ایا ہے۔۔فلک نے کامل کو کندھوں سے پکڑ کر پیچھے کرنا چاہا جو اُسکی گردن پر اپنے بوسوں کی بوچھاڑ کرتے اُسکی دل کی دھڑکنوں میں تلاطم مچا چکا تھا۔۔۔۔

خود ہی چلا جائے گا آپ تنگ نہیں کرے ۔۔۔کامل نے خمار سے بھری سبز آنکھوں سے فلک کو دیکھا اور کہتے ساتھ دوبارہ اُسکی گردن میں جھک ایا۔۔۔

فلک کی گردن کو اپنے لبوں سے چھوتے وہ اپنی محبت کے داغ اُسکی گردن پر چھوڑتا جا رہا تھا۔۔۔

جبکہ دروازے کے باہر موجود انسان کافی ڈھیٹ ثابت ہوا تھا جو اب کی بار بنا رکے دوڑ بیل بجاتا جا رہا تھا۔۔

چھوڑونگا نہیں میں اُسے ۔۔۔۔آواز کے شور سے تنگ اتے کامل غصے سے کہتا فلک سے دور ہوا۔۔

فلک نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی ۔۔۔۔جب کامل کی نظر اُسکے چہرے پر پڑی۔۔۔

آپکو بڑی ہنسی آرہی ہے نپٹنے دے پہلے باہر والے سے پھر یہی سے کنٹینو کرونگا میں ۔۔۔کامل نے بےباکی سے فلک کے وجود کو گہری نظروں سے دیکھتے کہا اور دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔

کامل کے لفظ سنتے فلک کے وجود میں برق رفتاری سی دور گئی تھی تین سال ہوگئے تھے اس شخص کی قربت محسوس کرتے لیکن آج بھی وہ اُسکے شدت بھرے انداز سے گھبرا جاتی تھی۔۔۔۔

💓💓💓💓

حسام جون  کے ساتھ کامل کے گھر ایا تھا پورے راستے اُسکی دل کی دھڑکنیں عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔۔۔

آج تک کبھی بھی گھبراہٹ سے اُسکے ہاتھ میں پسینہ نہیں بھرا تھا ۔۔

لیکن کامل کے گھر کے باہر گاڑی رکتےہی اُسکی کشادہ پیشانی پر پسینہ چمکا ۔۔اُسکی ہتیلیوں میں پسینہ بھر چکا تھا ۔۔

کیا وہ اندر ہوگی کیا وہ اُسے دیکھ کرخوش ہوگی یہ اُسے پہچاننے کی کوشش کرے گی۔۔ کامل نے کیوں اُس سے سچائی چھپائی اُس سے اُسکی بیوی کو دور کیوں کیا۔۔۔۔اُسکے دماغ میں ڈھیروں سوال تھے جو گردش کر رہے تھے جس۔کا جواب اُسے کامل ہی دے سکتا تھا۔۔۔۔

گاڑی سے باہر نکلتے ہی وہ کامل کے بنگلہ کے بیرونی دروازے پر آئے تھے۔۔۔

چھوٹا سا یہ بنگلہ انتہائی خوبصورت تھا۔۔۔جیسے جیسے حسام کے قدم دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے اُسکی دھڑکنیں لمحہ لمحہ بڑھتی اُس کی پسلیوں سے ٹکڑا رہی تھی۔۔۔۔۔

جبکہ اُسکی سانسیں ایسے تیز ہو رہی تھی جیسے نہ جانے کتنی مسافت کر کے وہ یہاں ایا ہو۔۔۔

یہاں سے گزرتی ہر ہوا میں اُسے اپنے محبوب اپنی بیا کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔

دوڑ بیل پر ہاتھ رکھتے اُسکے ہاتھوں میں واضح کپکپاہت تھی۔۔جو جوں محسوس کر چکا تھا۔۔۔۔

دوڑ بیل بجا کر حسام نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔انتظار مشکل لگ رہا تھا وہ چاہتا تھا بس اب انابیہ اُسکے سامنے آجائے اُسکے پاس اور وہ اُسے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جائے۔۔۔۔

وہ بیصبری سے اپنی پیروں کو تکتا دروازہ کھلنے کا  انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔

جب جون نے آگے بڑھتے بیل پر ہاتھ رکھا اور اٹھانا ہی بھول گیا ۔۔۔

وہ وفادار تھا اپنے لیپرڈ کا جو اپنے سر کے چہرے پر ذرا سی پریشانی نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔اسی لیے تو جیل سے نکلتے ہی حسام کی کھوج میں بھاگا تھا۔۔۔۔اب بھی آسٹریلیا اتے ساتھ وہ انابیہ کی ساری جانکاری معلوم کر گیا تھا۔۔۔ایک پل کے لیے بھی اُس نے حسام کو اکیلا نہیں چھوڑا تھا اور نہ چھوڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔

حسام نے جون کی طرف دیکھا ۔۔اور پھر نفی میں سر ہلاتے اپنا چہرہ جھکا گیا۔۔۔

اگر وہ یہاں سے حسام بن کر بیہ کو لے جاتا ہے تو اُسے کبھی زندگی میں لیپرڈ بننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔۔۔

کامل نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا ۔۔اور سامنے کھڑے وجود کو دیکھتے وہ کچھ پل ساکت ہوا۔۔۔

پھر اُسکے چہرہ حد درجہ سرد ہوا سبز انکھوں میں گہرے غصے کی رمق جھلکی۔۔۔۔

جون جو بیل پر ابھی تک اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا۔۔۔سامنے سبز انکھوں والے اس خطرناک  آفیسر کو دیکھتے ڈھیٹوں کی طرح مسکرا پڑا۔۔

ہاتھ ہٹاؤ گے تم ۔۔۔کامل نے مستقل بجتی بیل کی آواز پر جون کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔۔

جون نے مسکرانے کی سعی کرتے اپنا ہاتھ بیل سے ہٹایا۔۔۔۔۔

جبکہ حسام صرف سنجیدہ نگاہوں سے کامل کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔

فلک نے دوپٹہ سینے پر پھیلاتے ذرا سا دائیں طرف مرتے دروازے کی طرف دیکھنے چاہا۔۔۔۔

اور وہاں کھڑے حسام کی ذرا سی جھلک دیکھتے وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھی آنکھوں میں حیرت سمائی۔۔۔حسام یہاں کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔

وہ تیز قدموں سے کامل کی طرف ائی۔۔۔۔

مجھے بیہ سے ملنا ہے۔۔۔حسام کو سمجھ نہ ایا تھا کامل سے کیا کہے اسی لیے یہ کہا۔۔۔

کیا کہاں کس سے ملنا ہے۔۔۔کون بیہ یہاں کوئی بیہ نہیں رہتی۔۔۔۔کامل نے سینے پر ہاتھ باندھتے کڑے تیوروں سے کہا۔۔۔

میری بیوی بیہ۔۔۔حسام نے اپنے دانت پیستے ہوئے کامل کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔

کون سی بیوی ایک منٹ اُس بیوی کی بات کر رہے ہو جسے تین سال پہلے تم اپنے آن ہاتھوں سے مار چکے ہو۔ ۔کامل کی بات میں گہرا طنز تھا۔۔۔۔

حسام نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔

دیکھو میں یہاں بات کو بڑھانے نہیں ایا ہو مجھے میری بیوی چایئے۔۔جسے تم نے مجھ سے چھپا کر رکھا ہے۔۔۔حسام نے ابکی بار بھی انتہائی سنجیدگی سے کامل سے کہا۔۔۔

کون سی بیوی کوئی بیوی نہیں ہے یہاں تمھاری نکلو یہاں سے آئندہ یہاں بھٹکتے ہوئے بھی نظر نہ انا مجھے ائی سمجھ۔۔۔کامل جو کب سے اپنے اوپر ضبط کر رہا تھا یکدم حسام کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ مارتے اُسے پیچھے کی طرف دھکا دیتے سخت لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔

حسام دو قدم پیچھے ہوا تھا فلک بھی جلدی سے دروازے سے باہر ائی۔۔۔پیچھے دروازہ بند کرنا نہ بھولی تھی ۔۔۔۔

کامل خان مجھے میری بیوی چایئے کس حق سے تم نے اُسے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔۔۔حسام کی آواز ابکی بار اونچی ہوئی تھی۔۔۔

فلک نے خوف سے تیز دھڑکتی دھڑکنوں کے ساتھ کامل کی طرف دیکھا جسکی سبز آنکھیں اس وقت لال ہوگئی تھی ۔۔۔ماتھے اور گردن کی رگیں پھول کر اُسکے اشتعال کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔

کس حق سے بہن ہے وہ میری بہن سمجھا۔۔۔تیرا کوئی حق نہیں ہے اُس پر ایک بار تو اُسکی جان تو لے چکا ہے ابکی بار میں اپنی بہن پر ایک خراش تک برداشت نہیں کرونگا۔۔۔کامل کو پتہ چل گیا کہ حسام جان گیا ہے انابیہ اُسکے پاس ہے ۔۔۔کامل حسام کے چہرے پر مکا مارتے پوری شدت سے چیخا تھا۔۔۔

حسام نے اپنے چہرے پر ہوتے درد کو اپنی آنکھیں بند کرتے برداشت کیا۔۔۔

جون ایک سائڈ پر کھڑا یہ دیکھ رہا تھا کب تک لیپرڈ حسام بن کر رہتا ہے ۔۔۔۔۔

میں اُسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا میں اُس سے عشق کرتا ہوں مانتا ہُوں مجھ سے غلطیاں ہوئی ہے میں اُنہیں صحیح کرونگا لیکن میں اُسکے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔حسام کا لہجہ اب بھیگا ہوا تھا۔۔۔

فلک نے غور سے سامنے کھڑے لیپرڈ کو دیکھا جس کے ہونٹ کے کنارے سے نکلتا خون اُسکے شوہر سے پڑنے والے مکے کی شدت واضح کر رہا تھا۔۔۔

سامنے کھڑا انسان تین سال پہلے والا لیپرڈ نہیں تھا۔۔۔اسکی آنکھوں میں اپنی بیوی کی جُدائی سے اُسکے ہجر کی وجہ سے ایک ویرانی بھری ہوئی تھی۔۔۔تین سال پہلے فلک نے لیپرڈ کے چہرے پر ایک تکبر غرور دیکھا تھا۔۔۔لیکن آج اُسکے چہرے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ہارا ہوا انسان جس کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔۔۔۔

اُسے بیساختہ حسام پر رحم ایا۔۔۔

کامل پلیز روک جائے ۔۔۔۔فلک نے کامل کے پاس اتے اُسے روکنا چاہا لیکن کامل ابھی اپنے اپے میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔

رہنا پڑے گا ۔۔۔وہ تمہیں اب کبھی نہیں ملے گی سمجھا ۔۔۔اسی لیے بہتر یہی ہے اُسے چھوڑ دے اکیلا اور دفعہ ہوں یہاں سے۔۔۔کامل انتہائی باتمیزی سے حسام سے گویا ہوا تھا ساتھ ساتھ وہ کافی بیدردی سے حسام کے چہرے پر وار کیا جا رہا تھا ۔۔۔جسے حسام بغیر افف کیے برداشت کر رہا تھا۔۔۔

کامل رک جائے۔۔۔فلک نے کامل کو روکنا چاہا لیکن وہ ہوش مجھ کب تھا۔۔۔

کامل خان رحم کھاؤ مجھ پر تم بھی محبت کی راہوں پر چلتے ایک مسافر تھے میری طرح بس فرق اتنا ہے تمہیں تمہاری منزل مل گئی ہے اور تم مجھ سے میری منزل چھین رہے ہو۔۔۔حسام کا لہجہ اب بھی سنجیدہ اور دھیما تھا۔۔اُسکے چہرے پر نیل کے نشان تھے جبکہ ہونٹ پھت گیا تھا جس سے نکلتا خون اُسکے چہرے پر پھیل رہا تھا۔۔   

تم اُس سے محبت نہیں کرتے۔۔۔بلکہ اچھا ہی ہے تم  اگئے اب دو میری بہن کو طلاق تاکہ میں اُسکی شادی ایسے انسان سے کروا سکوں جو اُسے سے محبت۔ کرسکے ۔۔۔۔کامل نے کہتے ساتھ دوبارہ اپنا ہاتھ حسام کی طرف بڑھایا جب حسام نے اُسکی بات پر اُسکا ہاتھ بیچ میں ہی اپنی سخت گرفت میں لیا ۔۔۔

اپنی کالی آنکھیں اٹھا کر اُس نے کامل کی طرف دیکھا۔۔۔اُسکی کالی آنکھوں میں کامل کی بات سے ایسی سرخی چھائی تھی کہ جیسے اُسکی آنکھوں میں۔کسی نہ خون ڈال دیا ہو۔۔۔۔

کامل کی بات پر اُسکے پورے وجود میں اشتعال خون سے بھی تیز رفتار میں ڈورا تھا۔۔۔۔۔

ایسا لگا جیسے کسی نے اُسے زندہ ایک دہکتی آگ میں پھینک دیا ہوگا۔۔۔

کامل خان اتنی دیر سے اگر لیپرڈ چپ تھا اور حسام بول رہا تھا وہ اُس لیے کیونکہ لیپرڈ کو حسام نے خود چپ کروایا تھا۔۔۔۔لیکن  تم نے یہ بات کرتے لیپرڈ کو پھر سے زندہ کر دیا ہے ۔۔۔۔حسام کا لہجہ برف کی ماند سرد تھا۔۔۔

بیہ کو حسام سے اُس رب کے علاوہ کوئی الگ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔اور کسی نے کرنے کی کوشش کی تو حسام لیپرڈ بن کر اُسے ایک پل میں اپنے راستے سے ہٹا دے گا۔۔لیپرڈ کے ہر لفظ میں وحشت تھی۔۔۔۔۔

بہت بن لیا یار۔۔۔۔بہت ہوگیا حسام کیوں جون ۔۔ایک جھٹکے سے کامل کا ہاتھ چھوڑتے وہ پیچھے ہوتا اپنے ہونٹ کے کنارے سے نکلتا خون اپنی انگلی سے صاف کرتا جون سے مخاطب ہوا جو لیپرڈ کی بات پر مسکرا دیا۔۔۔

ایک جھٹکے سے حسام نے اپنی آستینیں جو کلائیوں تک تھی اُنہیں کہنیوں تک کیا۔۔۔گریباں کے دو بٹن کھولتے آپنے گلے میں لٹکتی چین جو بچپن سے اُسکے گلے میں تھی ۔۔۔اپنی انگلی سے چین گھماتے اُس نے اپنی شرٹ سے باہر کی۔۔۔

فلک حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی جو پل میں وہی تین سال پہلے والا لیپرڈ بن گیا تھا۔۔۔

بس حسام صرف اپنی بیہ کے لیے ہے باقی سب کے لیے میں لیپرڈ ہوں وہی لیپرڈ ۔۔۔جسکی دہشت سے ہر کوئی کانپ جاتا تھا۔۔۔۔مجھے اپنی محبت واپس لینے کے لیے تم سے لیپرڈ بننا پڑا اور لیپرڈ۔۔۔۔حسام نے کہتے ساتھ آدھی بات چھوڑ کر جوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

اور لیپرڈ اپنی عزیز ترین چیزوں کو کبھی نہیں چھوڑتا وہ چیز وہ ہر حال ہر قیمت پر حاصل کر لیتا ہے۔۔۔۔جوں نے جملہ مکمل کیا۔۔۔۔

بس اب انتظار کرو جتنا دور کرسکتے ہو کرو۔۔۔جو کوششیں کرنی ہے کرو۔۔۔اب لیپرڈ اپنا گیم چلے گا۔۔۔تم سب کے لیے لیپرڈ خونی وحشت والا ۔۔اور اپنی بیہ کے لیے حسام۔۔۔۔

تمہیں پتہ ہے حسام اور لیپرڈ الگ الگ ہے ایک خونی درندہ ہے تو دوسرا تلوار کی تیز دھار ہے۔۔۔۔دونوں میں اب ایک چیز ایک جیسی ہے ایک اس خدا کا ڈر اور دوسری اپنی بیہ کے لیے محبت جنون اور عشق۔۔۔۔۔

حسام نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔۔

اور وہاں سے نکلتا چلا گیا پیچھے جون بھی اپنے لیپرڈ کی واپسی پر مسکراتا ہوا اُسکے پیچھے نکلا۔۔۔۔

کامل نے خونخوار نظروں سے حسام کی پشت کو تکتے فلک کی طرف دیکھا۔۔۔جو نفی میں سر ہلاتی اندر بھاگ گئی تھی۔۔۔۔

کامل۔نے ایک گہرا سانس لیا وہ سوچ چکا تھا اب اُس نے کیا کرنا ہے ۔۔۔اس لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے اپنے آفس کی طرف نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

اب کیا کرنا ہے سر۔۔۔۔۔جون نے گاڑی چلاتے حسام سے پوچھا جو سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے اپنی آنکھیں مونڈے بیٹھا تھا۔۔۔۔

پتہ کرو اپنی میم کے بارے میں کہاں سے علاج ہوا ہے کہاں جاتی ہے کیا کرتی سب کچھ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مجھے معلوم ہونی چایئے۔۔۔۔سنجیدہ آواز میں حسام نے حکم دیا۔۔۔

لیپرڈ کی واپسی مبارک ہو ۔۔۔جون نے مسکراہٹ کے ساتھ حسام کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔

لیپرڈ واپس صرف اُن لوگوں کے لیے ایا ہے جو اُس سے اُس کی محبت دور کر رہے ہیں تمھاری میم کے سامنے میں صرف حسام بن کر رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔صرف حسام میں نہیں چاہتا وہ کبھی لیپرڈ کو یاد کرے ۔۔۔۔حسام کی آواز اب دھیمی تھی۔۔۔

جون نے اپنے خوبرو سر کی طرف دیکھا جو آج بھی وجاہت کا شاہکار تھا ۔۔جسے دیکھتے ہر نظر اُس پر ٹھہر جائے اُسکی قمر محبت نے توڑ دی تھی۔۔۔محبوب کی جدائی نے اُسے جہاں کمزور بنایا تھا اب اُسی محبوب کو پانے کے لیے وہ مضبوط بنا تھا ۔۔۔

جون کے گاڑی روکنے پر حسام نے اپنی آنکھیں کھول کر سامنے بنی پُر تعیش عمارت کو دیکھا۔۔۔۔۔

یہاں پر اپارٹمنٹ لیا ہے آپکے لیے ۔۔۔۔جون نے حسام کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے اُسے بتایا۔۔۔۔۔

جون کے ہاتھ سے اپارٹمنٹ کی چابی تھامتے وہ چپ چاپ بلڈنگ کے اندر بڑھ گیا۔۔۔

فلوقت وہ اکیلا رہنا چاہتا تھا تنہائی میں اپنے رب سے گفتگو کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔

یہ سب جو کچھ ہوا یہ سب اعصاب شکن تھا اُسکے سر میں شدید درد تھا۔۔۔

کامل بیہ کو لے کر کیوں اتنا حساس ہو رہا تھا اُسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔

اگر بیہ کی یاداشت غائب ہوچکی تھی تو حسام کے لیے یہ ایک طرح سے اچھا تھا وہ نئی یادیں بیہ کے ساتھ بنانا چاہتا تھا ایک نئی شروعات وہ بیہ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

💗💗💗💗

کامل ضروری کام کرتے اب گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔رات دس بجے کا وقت تھا اُسے پتہ تھا فلک کے علاوہ سب سو چکے ہونگے۔۔۔

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اُسے سامنے ہی فلک نظر ائی ریڈ رنگ کی ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض میں ملبوس  بیڈ پر بیٹھی ہاتھ میں کتاب تھامے پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔جبکہ اُسکے بھورے بال کھلے ہوئے اُسکے سرخ رخساروں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔۔۔کامل نے زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ دروازہ بند کیا۔۔۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ جو مگن انداز میں اپنے ہاتھ میں تھامی کتاب پڑھ رہی تھی چونکی ۔۔۔

نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو کامل کو مسکراتے ہوئے اپنی طرف بڑھتا دیکھ وہ بھی مسکرا گئی۔۔۔۔

کھانا لاؤ آپکے لئے۔۔۔فلک نے بیڈ پر بیٹھتے کتاب سائڈ پر رکھتے کامل سے کہا جو اب اُسکے انتہائی نزدیک بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔

نہیں بھوک نہیں ہے ابھی۔۔۔کامل نے فلک کے بالوں کی لٹ جو اُسکے سرخ عارض سے ٹکڑا رہی تھی کان کے پیچھے کرتے نرم لہجے میں کہا۔۔

کامل مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔فلک نے کامل کا موڈ صحیح دیکھتے ہمت کرتے اُسکے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے کہا۔۔۔

بولے حیاتی۔۔۔کامل نے اُسکے سفید بے داغ ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے کہا۔۔۔

دیکھے میری بات تحمل سے سنے جلد بازی میں کوئی سخت ردِعمل مت دی جئے گا۔۔۔فلک نے اس بھری نگاہوں سے کامل کی سبز انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔

اُسے پتہ تھا جو وہ بولنے جا رہی تھی وہ سنتے کامل نے غصّہ کرنا ہے۔۔

بولے ۔۔کامل کو کچھ کچھ تو سمجھ آگیا تھا کہ اُسکی حیاتی کیا کہنا چاہ رہی ہے اس لیے اپنے لب بھینچ کر فلک کی نوز پن کو اپنی انگلی کی پوروں سے چھوتے ہوئے سنجیدہ آواز میں کہا۔۔۔

انابیہ کو لیپرڈ سے دور نہیں کرے۔۔۔دیکھے انابیہ نہیں جانتی اُسکے ساتھ ماضی میں کیا ہوا ۔۔۔بہتر یہ نہیں کہ وہ لیپرڈ کے ساتھ ایک نئی شروعات کرے۔۔۔۔فلک نے ایک ہی سانس میں کہتے کامل کی سبز آنکھوں میں دیکھا۔۔۔

کامل نے اپنے جبڑے بھینچے اپنی حیاتی کی بھوری انکھوں میں دیکھا جہاں اُسکے غصّہ کا خوف تھا۔۔۔

آپکو کیسے پتہ یہ انابیہ کے لیے بہتر ہے۔۔۔کامل نے فلک کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے سینے کا حصہ بنایا۔۔۔۔

لیپرڈ بدل گیا ہے میں نے دیکھا اج کس طرح وہ آپ سے اتنی مار کھا کر بھی انابیہ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔۔وہ بیہ سے سچ میں پیار کرتا ہے کامل ۔۔فلک نے کامل کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے اُسکی داڑھی پر اپنا انگھوٹا رب کرتے نرم آواز میں کہا ۔۔۔

دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر بکھر رہی تھی اتنی نزدیکی پر۔۔۔

اگر میں آپ پر کوئی اور عورت لے اؤ آپ پر کسی اور عورت کو فوقیت دوں تو آپ کیا کہے گی اسکو ۔۔۔کامل کی بات پر فلک کی بھوری آنکھوں میں یکدم گلابی پن چھلکا۔۔۔

کیا کہہ رہے ہیں کامل میں آپکی جان لے لونگی صرف ایسا بولنے پر بھی۔۔ یہ سراسر بیوفائی ہے۔۔۔۔کامل کے چہرے پر فلک کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہوئی تھی جو کامل کو تو محسوس نہیں ہوئی لیکن فلک کے ہاتھوں میں درد ضرور ہوا ۔۔۔۔

لیکن کامل کے لبوں سے ادا ہوتے یہ لفظ سنتے وہ تڑپ اُٹھی تھی۔۔۔دل میں جلن کا احساس ہر حد پار کر گیا تھا۔۔اُسے اپنے پورے بدن میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئی ۔۔۔

آپ صرف میرے ایسے بولنے پر اتنا تڑپ اُٹھی ہے اور اسے بیوفائی کہہ رہی ہی تو سوچے ذرا بیہ نے کیسے وہ سب برداشت کیا ہوگا جب اُسکے شوہر نے اُسے اپنی محبت کہنے کے بجائے شجیہ بھابھی کو اپنی محبت کہا تھا۔۔۔کیسے وہ اپنے شوہر کی بیوفائی برداشت کرتے کرتے اپنے شوہر کے ہاتھوں ہی سات گولیاں کھا کر اپنا بچا اپنی یاداشت سب کھو بیٹھی تھی۔۔۔کامل فلک کے گال کو نرمی سے سہلاتے اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے سنجیدگی اور نرمی سے لفظ ادا کر رہا تھا۔۔۔۔

فلک چپ چاپ سی کامل کو سنے گئی کیونکہ ہر ایک لفظ جو وہ کہہ رہا تھا وہ سچ تھا۔۔۔۔

ہر بار نہ جانے کتنی جگہ میں نے پڑھا ہے اور دیکھا ہے کہ عورت مرد کی بیوفائی معاف کردیتی ہے اُسے واپس اپنا لیتی ہے کیوں آخر ۔۔۔جو ایک بار آپکو دھوکا دے سکتا ہے وہ دوسری بار دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔۔۔۔اور آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ مرد دوبارہ بیوفائی نہیں کر سکتا ۔۔۔۔عورتوں کو مضبوط بننا چایئے ۔۔۔وہ ہر بار اگر اپنے مرد کو اُسکی بیوفائی پر معاف کر دے گی تو مرد کو تو فری ہینڈ مل جائے گا وہ بیوفائی کرتا رہے گا اور عورت اسکو معاف کرتی رہے گی۔۔۔۔۔

کامل کی بات میں دم تھا ۔۔۔فلک چپ ہوئی اور کامل کے سینے پر سر ٹکا گئی۔۔۔

پھر کیا ہوگا ہماری بیہ کا کامل اُسکا مستقبل اُسکے آگے اُسکی پوری زندگی پڑی ہے۔۔۔فلک نے انابیہ کے لیے فکرمند ہوتے کہا۔۔۔وہ اُسے اپنی بہنوں کی طرح عزیز تھی شجیہ اور انابیہ یہ دو ہی تو اُسکی جان سے پیاری دوست بن گئی تھی۔۔۔۔

اُسکے مستقبل کی آپ فکر نہیں کرے حیاتی۔۔۔۔میں اُسکے مستقبل کے بارے میں سوچ چکا ہوں ابھی فلحال آپکا شوہر بہت تھک گیا ہے اور اُسے آرام چایئے۔۔۔کامل نے فلک کو بیڈ پر دراز کرتے خمار سے بھری آواز میں کہا۔۔۔

اُسکی آنکھوں میں نظر اتے خمار کو دیکھتے فلک کی پلکیں اُسکے عارض پر سایہ فگن ہوئی ۔۔۔۔

تو سو جائے ۔ تھکن اُتر جائے گی۔۔۔۔۔فلک نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔

ہونہہ تھکن تو تب اترے گی جب میں آپکے وجود کے ہر حصے پر اپنی ہونٹوں کی مہر لگاونگا۔۔۔آپکے وجود میں پوری طرح سماتے آپکے پور پور کو اپنی شدت سے بھگوؤں گا تب جاکر یہ تھکن میرے بدن سے جدا ہوگی۔۔۔۔فلک کے چہرے کے ہر نقش پر اپنا بھیگا لمس چھوڑتے کامل جذبوں کی شدت سے دہکتی سانسیں فلک کے چہرے پر چھوڑتے گویا ہوا۔۔۔۔

اپنے چہرے پر پڑتی کامل کی دہکتی سانسیں اور اُسکا بھیگا لمس محسوس کرتے فلک نے اپنی باہوں کا حصار کامل کی قمر کے گرد باندھا۔۔۔۔۔

جبکہ اُسکے لفظوں سے اُسکے دل میں تلاطم برپا ہوا۔۔۔۔

کامل کی نظر اُسکے لرزتے گلابی لبوں پر پڑی اور پوری شدت کے ساتھ وہ اُس پر جھک ایا۔۔۔

قطرہ قطرہ فلک کی سانسیں خود میں آندیلتے وہ فلک اور اپنی جان ایک کر گیا تھا۔۔۔۔

کامل کی شدتوں پر اپنی بکھری  سانسیں بحال کرتی وہ کامل کے گرد اپنا حصار مزید سخت کر گئی ۔۔۔۔۔

💗💗💗💗

پنک رنگ کے سکرٹ اور سفید رنگ کی شرٹ میں کھلے سنہری بالوں کو پانی ٹیل میں باندھے وہ سدرہ کے ساتھ یونی میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔

ایک نظر یونی کی عمارت کو دیکھا۔۔۔۔

ہر طرف طلباء کو دیکھتے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دور گئی سدرہ بھی ستائش سے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

ہماری کلاس کہاں پر ہے۔۔۔یونی کے بیچ میں  کھڑے اُس نے سدرہ سے اشارہ کرتے پوچھا۔۔۔

پتہ نہیں اب یہ تو معلوم کرنا پڑے گا۔۔۔۔سدرہ نے کہتے ادھر اُدھر اپنی نظریں گھمائی ۔۔۔۔

تم جاؤ معلوم کر کے اؤ میں یہی تمہارا انتظار کرتی ہو۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے امنہ نے سدرہ سے کہا۔۔۔

ٹھیک میں اتی ہوں تم یہی پر رہنا اوکے۔۔۔سدرہ نے اثبات میں سر ہلایا اور کہتی ہوئی وہاں سے آگے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

اوہ کیا لڑکی ہے۔۔۔اپنے ساتھی کی آواز پر وہ جو اپنے گروپ کے ساتھ ایک طرف کھڑا اسموکنگ کر رہا تھا ۔۔اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔

کہاں ہے۔۔۔سنجیدگی سے سگریٹ کا آخری  کش لیتے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا۔۔۔اور سگریٹ ایک طرف کو پھینکی۔۔۔

وہ دیکھ سامنے سنہری پری ۔۔۔۔اُسکے ساتھی دوست نے سامنے کھڑی امنہ کو دیکھتے خباثت سے کہا۔۔۔

زرقان نے اپنے دوست کی بات پر سامنے دیکھا۔۔۔

وہ واقعی میں سنہری پری تھی سنہری بال جو اُسکی قمر پر ناگن کی طرح جھول رہے تھے ہلکی ہلکی دھوپ میں اسکی سفید رنگت دمک رہی تھی نازک سے نین نقش لبوں کو دانتوں تلے دباتی وہ اپنی ساحرانہ آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھتی ذرقان کو سٹیل کر گئی تھی۔۔۔

ہزاروں نگاہیں اُس پر آکر تھم جاتی تھی اور اج اُسی مغرور زرقاں خان کی نظریں اس سنہری پری پر ٹھہر گئی تھی۔۔۔۔

وہ اپنے کان میں پہنی بالی کو اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے ملستے بڑی گہری نظروں سے امنہ کو دیکھ رہا تھا……

بیساختہ اُسکے قدم امنہ کی طرف بڑھے اپنے پیچھے اپنے دوستوں کے قدموں کی آواز پر وہ تھما ۔۔۔

پلٹ کر سنجیدہ نظروں سے اُنکی طرف دیکھا۔۔۔

تم میں سے کوئی نہیں آئے گا وہاں۔۔۔سنجیدگی سے اپنے دوستوں کو کہتے وہ امنہ کی طرف بڑھا ۔۔۔

پاس سے گزرتے لڑکے کے ہاتھ میں تھامی بال اپنے ہاتھ میں تھامی ۔۔۔

خود سے کچھ قدم کی دوری سے اتی تیز مردانا پرفیوم کی خوشبو محسوس کرتے وہ جو اطراف کا جائزہ لے رہی تھی سامنے متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔

اور سامنے بھورے بال جس کو جیل کی مدد سے اچھے سے سیٹ کیا ہوا تھا ۔۔بھوری ہی داڑھی ۔۔اور چمکتی شہد رنگ آنکھیں۔۔۔۔۔

امنہ کو سامنے سے اتا نوجوان اچھا خاصا ہینڈسم لگا۔۔۔

لیکن جب نظر اُسکے حلیہ پر پڑی تو امنہ کو لگا اُس نے جیسے کوئی کڑوا بادام چبا لیا ہوا۔۔۔

پینٹ جو گھنٹوں سے پٹھی ہوئی تھی براؤن شرٹ جو اُسکے سینے سے چپکی ہوئی تھی ۔۔جبکہ شرٹ کے اوپری چار بٹن کھلے ہونے کے باعث اُسکا کشادہ سینا واضح ہو رہا تھا۔۔ہاتھوں میں ڈھیر سارے بینڈ تو انگلیوں میں ڈھیر ساری مختلف پتھروں کی انگوٹھیاں ۔۔۔گلے میں پہنی وہ چین جو اُسکے چلنے سے بار بار اُسکے سینے سے ٹکڑا رہی تھی۔۔۔۔۔

ہاتھ میں بال تھامے اپنی طرف اس حسین مگر عجیب نوجوان کو بڑھتے دیکھ اُسکے مُںہ کا زاویہ بگڑا۔۔۔۔

ذرقان جو اپنی شہد رنگ آنکھیں اس سنہری پری پر ہی ٹکائے اسکی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔۔۔امنہ کی ہیزل بلیو انکھوں میں اپنے لیے ستائش محسوس کرتے اس نے  اپنی مسکراہٹ ضبط کی 

وہ وجاہت کا شاہکار تھا اور اس بات کا اُسے غرور تھا ۔۔صنف مخالف ہو اور اُسے دیکھ کر فدا نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا بقول زرقان  کے۔۔۔۔

لیکن امنہ کی آنکھوں میں اُبھرتی ستائش دو پل کی تھی۔۔۔اور اگلے ہی پل اُسکے منہ کے بگڑتے زاویے اور آنکھوں میں اپنے لیے چھائی ناگواری دیکھتے اُس نے اپنے گلابی لب بھینچے اور ایک جھٹکے سے بال امنہ کی طرف پھینکی۔۔۔

امنہ جو منہ کے زاویہ بگاڑے زرقان  کو ہی دیکھنے میں مگن تھی اچانک اپنے سر پر انتہائی زور سے بال لگنے کی وجہ سے پشت کے بل زمین پر گری ۔۔۔

زمین پر گرنے سے قمر میں شدید درد اٹھا جبکہ ہاتھوں کی کہنیوں پر بھی رگڑ کا احساس ہوا۔۔

سسی۔۔درد سے اُسکے منہ سے سسکی اُبھری۔۔۔

ہاتھ میں تھامی کتاب بھی اُس سے دو قدم کی دوری پر گری ۔۔۔

قہقہوں کی آواز محسوس کرتے اُسکا رنگ شرمندگی سے سرخ ہوا ہیزل بلیو انکھوں میں درد اور اتنے لوگوں کے سامنے گرنے پر اہانت کے سبب نمی اُبھری۔۔۔۔

جب یکدم اپنے سامنے ایک سفید بینڈز سے بھرا مضبوط مردانا ہاتھ دیکھتے اس نے اپنے لب بری طرح دانتوں تلے چبائے ۔۔۔اور غصّہ سے لال بھبوکا چہرہ لیے ہاتھ بڑھانے والے کی طرف دیکھا ۔۔

جو اب اپنے اُن دو ڈمپل کی نمائش کرتے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

ائی ایم سو سوری ڈارلنگ ۔۔۔۔وہ تم مجھے نظر نہیں ائی ورنہ بال تمیں مارنے کا ارادہ نہیں تھا میرا۔۔۔بھاری مضبوط مردانا آواز میں وہ اپنا ہاتھ امنہ کی طرف بڑھائے گویا ہوا۔۔۔۔

اور امنہ کا دل کیا سامنے کھڑے انسان کا منہ توڑ دے۔۔۔جبکہ اپنے آنسوؤں پر بھی غصّہ ایا جو بہتے ہی جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔

زرقان کے ہاتھ اور بات کو نظرانداز کرتے وہ خود اُٹھی۔۔۔۔اطراف میں دیکھا تو نہ جانے کتنی ہی نظریں اُس پر مرکوز تھی ۔۔جن کی آنکھوں سے صاف واضح ہو ربا تھا کہ وہ اُس پر ہنس رہی ہے ۔۔۔جبکہ ظرفاں کے ڈارلنگ بولنے پر اُس کو اور بھی غصّہ ایا تھا ۔۔۔

آپ انتہائی گندے انسان ہے ایسے کیسے کسی کو بھی گہرا سکتے تمیز نام کی چیز ہے بھی یا نہیں آپ میں۔۔بتیمز انسان ۔۔۔۔آپکی وجہ سے سب مجھ پر ہنس رہے ہیں ۔۔۔

اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے وہ اپنا سارا غصّہ نکال رہی تھی ۔۔اور زرقان ہوںکوں کی طرح اُسکے ہاتھوں کو دیکھتا تو کبھی اُسکے چہرے کے تاثرات کو ۔۔۔

سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کیا بولنا چاہتی تھی ۔۔۔

جبکہ امنہ کے ہاتھ میں موجود وہ بریسلیٹ جسکی آواز اُسکے کانوں میں پڑتے اُسکا دماغ سن کر رہی تھی ۔۔۔۔

منہ سے بولوں یہ کیا اشارہ کر رہی ہو وہ جھنجھنا کر گویا ہوا۔۔۔

اور امنہ نے گہرا سانس بھرا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے اپنی عقل کو کوسا ۔۔سامنے کھڑا انسان کیسے اُسکے ہاتھ کے اشارے سمجھ سکتا تھا ۔۔۔

لیکن سامنے کھڑا انسان اتنا بیوقوف بھی نہیں تھا جو یہ نہ سمجھ پاتا کہ وہ بول نہیں سکتی ۔۔۔

اُسے یہی لگا کہ اب بھی زرقان اُسکا مذاق ارا رہا ہے اُسکی کمی کا ۔۔۔۔

ہیزل بلیو انکھوں میں آنسو روکنے سے سرخی بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔۔۔

جھکتے اپنی کتاب اٹھاتے اُس نے ذرقان کو دیکھتے اپنے ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو باہم ملایا اور پھر کھولا۔۔۔

جیسے پڑے مر میری جان چھوڑ ۔۔۔اور تیزی سے ایک طرف کو بڑھ گئی ۔۔۔۔

زرقان بت بنا سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اُسکے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔۔

یہ اتنی سی لڑکی جو اُسکے کندھے تک اتی تھی اُسے اُلجھا گئی تھی ۔۔۔۔۔

اب بھی اُسے اپنے کانوں میں اُسکے بریسلیٹ سے نکلتی وہ آواز گونجتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔

عجیب لڑکی تھی مجھے ہی اُلجھا گئی۔۔۔۔زرقان کہتا اپنی کان میں پہنی بالی کو گھماتے واپس اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

تنگ وہ اُسے کرنے ایا تھا لیکن اب ہو خود گیا تھا ۔۔آنکھوں کے سامنے وہی دو ہیزل بلیو نمی اور غصے کی آمیزش لی آنکھیں گردشِ کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔جبکہ جب وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے اُس سے بات کر رہی تھی وہ منظر اُسکی آنکھوں کے پردوں پر جم گیا تھا۔۔۔۔۔۔

ائی تھینک وہ بول نہیں سکتی۔۔۔۔زرقان کے ساتھی نے انگلش میں کہا۔۔۔۔

دوست کی بات پرزرقان  کے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔۔

اُسے وہی لمحہ یاد آیا جب وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی انکھوں میں غصّہ لیے کھڑی تھی۔۔۔۔تو اس کا مطلب وہ بول نہیں سکتی تھی ۔۔

اُسکی کمی کا سنتے دل انجانے احساس سے دھڑکا ۔۔۔ایک سحر سا تھا جو وہ اُس پر پھونک گئی تھی۔۔۔۔

اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُس نے اپنا سر جھٹکا۔۔۔۔جیسے امنہ کا خیال ذہن سے نکالنا چاہا ہو۔۔۔

💗💗💗

حسینہ تم یہاں بیٹھی ہو اور میں تمہیں ہر جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔۔یونی کے ایک کونے پر بنے ایک خوبصورت سے فاؤنٹین کی دیوار پر امنہ کو چہرہ جھکائے  بیٹھے دیکھتے سدرہ نے اُسکے پاس اتے ہوئے کہا۔۔۔

امنہ نے اپنی بھیگی آنکھیں اٹھا کر سدرہ کی طرف دیکھا۔۔۔

کیا ہوا ہے یہ مٹی کیوں لگی ہے۔۔۔سدرہ نے پریشانی سے اُسکے پاس بیٹھتے اُسکے کپڑوں پر لگی مٹی دیکھتے اور آنکھوں میں جمی نمی دیکھتے پوچھا۔۔۔

سدرہ کے پیار سے پوچھنے پر امنہ رو پڑی اور روتے روتے اُسے اشارتاً بتایا۔۔۔۔۔

افف اللہ چلو مجھے بتاؤ کون تھا وہ میں اُسے زندہ نہیں چھوڑوںگی ۔۔۔دیکھنا یونی کی چھت سے اسکو نیچے پھینک دونگی میں ۔۔۔سدرہ نے نہایت غصے میں امنہ کا ہاتھ پکڑ کر  اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔

نہیں رہنے دو پلیز سدو تمہیں میری قسم۔۔۔مجھے ابھی یہاں نہیں رہنا بابا کے پاس جانا ہے۔۔۔امنہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتے ہوئے کہا۔۔۔

اور سدرہ اپنے لب بھینچ گئی جانتی تھی وہ ان سب چیزوں سے بہت دور رہتی ہے۔۔۔۔۔۔

ایک شرط  پر تُم نے ان حسین آنکھوں کو اور اذیت نہیں دینی چپ ہو جائو۔۔۔سدرہ نے پیار سے اُسکے آنسو صاف کرتے شرط رکھی۔۔۔۔

اور اپنی جیب سے رومال نکالتے اُس سے امنہ کے کپڑوں پر لگی مٹی صاف کی ۔۔۔۔

جبکہ امنہ کے ہاتھوں پر رگڑ دیکھتے اُسکا غصّہ دوبارہ نمودار ہوا تھا ۔۔

لیکن ضبط کر گئی۔۔۔۔

اُسکا کوئی بہن بھائی نہیں تھا امنہ اُسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی اور امنہ پر کوئی تکلیف وہ کبھی برداشت نہیں کر پاتی تھی۔۔۔۔

امنہ کا ہاتھ تھامتے وہ یونی سے نکلتی چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔

💗💗💗💗

پولیس یونی فوم میں سر پر حجاب باندھے سادگی بھرا چہرہ لیے اسکول کے باہر کھڑی وہ عزیر کا انتظار کر رہی تھی جب سامنے سے ہی اُسے اپنا بیٹا اتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔۔ 

اُسکی کاربن کاپی ۔۔۔بھورے بال نیلی آنکھیں اور صحت مند وجود۔۔۔

ماما ۔۔عزیر نے شجیہ کے پاس اتے کہا۔۔

ماما کی جان کیسا گزرا آپکا دن۔۔۔۔شجیہ نے اُسکا بیگ اپنے ہاتھ میں لیتے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔

بہت اچھا گزرا۔۔۔عزیر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔

چلے گڈ ۔۔۔یہ لے ماما آپکے لئے فریش جوس لے کر ائی ہے۔۔۔شجیہ نے ڈرائیونگ سیٹ پڑ بیٹھتے عزیز کی طرف جوس بڑھایا۔۔۔۔

شکریہ ماما۔۔۔عزیر نے ماں کا شکریہ ادا کیا۔۔۔

اور شجیہ مسکرا دی اُسکی بات پر۔۔۔۔اور گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔۔

ابھی وہ راستے میں ہی تھی جب کوئی وجود اُسکی گاڑی سے ٹکرایا ۔۔۔شجیہ نے فوراً سے گاڑی روکی۔۔۔

عزیر آپ باہر نہیں نکلے گے چاہے کچھ بھی ہوجائے گاڑی کو لاک کریں ۔۔۔شجیہ نے دیش بورڈ سے اپنی گن نکال کر عزیر کو ہدایت دی اور گاڑی لوک کرتے باہر نکلی ۔۔۔۔

عزیر ماں کی بات مانتے گاڑی کے اندر ہی بیٹھا رہا ۔۔۔

شجیہ جیسے ہی گاڑی سے دو قدم دور ہی سامنے ہی بارہ تیرا سال کی ایک معصوم بچی کو جو  بہتی نگاہوں سے اپنی کہنی سے  بہتے خون کو دیکھ رہی تھی  چونکی۔۔۔۔۔شجیہ کی نظر تو اُسکے وجود پر زیب تن کپڑوں کو دیکھتے ہی جم گئی تھی۔۔۔۔۔

وہ فوراً سے اُس بچی کے پاس ائی جس کا بکھرا حلیہ اُسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔ 

بیٹا آپ ٹھیک ہے۔۔۔ایک نرم آواز پر اُس بچی نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔۔۔

معصومیت کے ساتھ ساتھ حسن۔۔۔۔وہ بچی انتہاء کی پیاری تھی۔۔۔

غزالی کالی آنکھیں جو گھنی پلکوں سے مزین تھی کھڑی ناک اور پتلے کٹائو دار ہونٹ۔۔۔۔

میں ٹھیک نہیں ہُوں پلیز مجھے بچا لے ورنہ وہ لوگ مجھے لے جائے گے ۔۔۔۔ایک مہربان چہرہ اور آواز سنتے اُس بچی نے بلکتی آواز میں کہا ۔۔۔۔

شجیہ نے پیچھے کی طرف دیکھا جہاں ایک روڈ تھا جو دوسری طرف جا رہا تھا۔۔۔

اس نے ایک نظر بچی کو دیکھا جو آنکھوں میں اُمید لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

یہ کوئی جال بھی ہوسکتا تھا اُسے سمجھ نہ ایا وہ کیا کرے۔۔۔خضر اور اُسکے لاکھ دشمن تھے جو اُسکی اس فیلڈ میں انے کے بعد مزید بڑھ گئے تھے۔۔۔۔۔

لیکن اُس بچی کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے اُس نے ایک منٹ میں اپنا فیصلہ لیا۔۔۔

چلو بیٹا اٹھو ۔۔۔شجیہ نے نہایت نرمی سے اُس بچی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اٹھایا جو اُسکے ساتھ اٹھتی شجیہ کی گاڑی تک ائی تھی۔۔۔۔

شجیہ نے اُسے پچھلی سیٹ پر بیٹھایا۔۔۔اور جلدی سے اپنا رومال اُسکی کوہنی پر رکھا۔۔۔اور خود جاکر ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوئی۔۔۔۔۔

ماما کون ہے یہ۔۔۔۔عزیز نے پیچھے بیٹھی بچی کو دیکھتے اپنی ماں سے پوچھا۔۔

یہ آپکی دوست ہے اور انکو ہماری وجہ سے چوٹ لگ گئی ہے اسی لیے ہم انہیں اپنے گھر لے کر جا رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے موبائل پر خضر کو میسج ٹائپ کرتے عزیر کو بتایا اور بیک مرر سے اُس بچی کو دیکھا جو عزیر کے ہاتھ میں پکڑے جوس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

آپ یہ پی لیں آپی اچھا فیل کرے گی ماما نے فریش بنایا ہے۔۔۔اور یہ چاکلیٹ بھی۔۔۔عزیر بھی شاید اُس بچی کی نظر اپنے جوس پر دیکھ چکا تھا اسی لیے اُسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا اور اپنی جیب میں رکھی چاکلیٹ بھی اُسے دی۔۔۔۔

بچی نے فوراً سے عزیر کے ہاتھ سے جوس تھاما اور پینے لگی۔۔۔۔

اُسے ایسے دیکھتے شجیہ سمجھ گئی تھی وہ نہ جانے کب سے بھوکی پیاسی تھی۔۔۔

گھر لے جاکر آرام سے وہ اس بچی سے سب جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔

اُسکی چھٹی حس اُسے کچھ غلط ہونے کی نشاندھی کر رہی تھی بچی کا لباس دیکھتے ہی اُسے احساس ہوا تھا جیسے کچھ گڑبڑ ہے اُسکے کپڑے جگہ جگہ سے پٹھے ہوئے  بہت کچھ غلط ہونے کی نشاندھی کر رہے تھے۔۔۔شجیہ نے موڑ کاٹتے ہوئے دوبارہ اُس بچی کو دیکھا جو ایک طرف سکر کر لیتی اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی۔۔۔۔

کمرے میں اس وقت خاموشی تھی شجیہ نے ایک نظر سامنے بیٹھی  بچی کو دیکھا جس کے ہاتھ کی ڈاکٹر پٹی کر رہی تھی اور پھر گردن موڑ کر خضر کو جو دیوار سے ٹھیک لگائے سنجیدہ چہرے سے اُسی بچی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

یہ پٹی میں نے کردی ہے دیہان رکھے بچی کا۔۔۔ڈاکٹر شفقت بھری مسکراہٹ سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔

شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا وہ گھر اتے ہی اس بچی کے لیے نئے کپڑے منگوا کر اُسے پہنا چکی تھی۔۔۔اُس کا بکھرا حال بھی بہتر کیا تھا۔۔۔

بہت شکریہ ڈاکٹر۔۔۔خضر ہے ڈاکٹر کا شکریہ کہا اور ملازم کو اشارہ کیا جو ڈاکٹر کو لیتے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

بیٹا آپکو ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکل ریلیکس رہے  آپ محفوظ ہے اور مجھے بتائے آپکا نام کیا ہے  آپکے امی ابو کہاں ہے کیا ہوا تھا آپکے ساتھ۔۔۔خضر کے اشارہ کرنے پر شجیہ نے بچی کا ہاتھ پکڑ کر نرم آواز میں پوچھا۔۔۔۔

شجیہ کی بات پر سامنے بیٹھی بچی کی کالی آنکھوں میں پھر سے نمی چمکی۔۔۔

میں ،،،میرا نام خوشبو ہے،،،میرے امی ابو نہیں ہے،،،،میرے چاچا نے مجھ سے تنگ آکر،،،مجھے ایک دارلامان میں دال دیا تھا،،،امی ابو کی ایک حادثے میں موت ہوگئی تھی۔۔۔۔خُوشبو نم آواز میں کہتی رکی۔۔۔۔

شجیہ کی آنکھوں میں نمی چمکی سامنے بیٹھی بچی کے سر سے اُسکے ماں باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھا لیا گیا تھا اور کیسی دنیا تھی یہ کیسا دور آگیا تھا جو سگے رشتے بھی ہر حد سے گر جاتے ہیں۔

پھر! ،،،شجیہ نے خوشبو کے چہرے سے آنسو صاف کرتے پوچھا۔ خضر بھی سنجیدگی سے اُس بچی کی بات سن رہا تھا۔۔۔

وہ دارلامان والی باجی نے ایک دن سب بچیوں کو تیار کیا اور ایک بڑی سی کالی گاڑی میں ہم سب کو لے کر ایک بڑے سے بنگلے میں لے کر گئی ۔ خوشبو کے کہنے پر شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا۔۔۔

وہاں ڈھیر ساری عورتیں تھی آپی سب نئے کپڑے پہنے ہوئی تھی۔۔۔وہاں تیز آواز میں گانے بھی بج رہے تھے ہم سب کو ایک لائن میں کھڑا کرتے اُنہوں نے ہم سب کی ویڈیو بنائی اور کہا کہ یہ سب اتوار کی رات کو باہر کے ملک میں ایک آدمی کے پاس جائے گی۔۔۔۔خوشبو شجیہ کے چہرے پر اپنی نظریں ٹکائے ایک ایک لفظ ادا کر رہی تھی۔۔۔۔

مجھے نہیں سمجھ ایا تھا وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن وہاں جو آدمی تھے وہ بہت گندے تھے وہ ہم سب کو بہت گندے طرح سے ہاتھ لگا رہے تھے مجھے یہی رہنا تھا یہاں امی ابو ہے مجھے یہاں سے کہیں نہیں جانا تھا آپی میں بہت مشکلوں سے وہاں سے بھاگی اور پھر آپ مجھے مل گئی۔۔۔خوشبو کہتے رو پڑی شجیہ نے فوراً سے اُسے اپنے گلے لگایا۔۔۔

اُسکی نیلی حسین آنکھیں اس وقت ضبط سے لال ہو رہی تھی …

جبکہ خضر بھی اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بھینچے اپنا ضبط سے تنا چہرہ جھکا گیا تھا۔۔۔۔

چپ ہو جاؤ بیٹا اج سے آپ یہاں رہو گی میرے ساتھ ٹھیک ہے ۔۔۔آپ نے پریشان نہیں ہونا آپکی حفاظت اب میری ذمےداری ہے ٹھیک ہے۔۔۔شجیہ نے اُسے یقین دلایا۔۔۔

خوشبو نے اثبات میں سر ہلایا خضر ایک نظر اس بچی کو دیکھتے اُس کے پاس اتے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

میں آپکے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں پریشان نہیں ہونا آپ نے۔۔۔شجیہ نے خضر کو جاتے دیکھ خوشبو سے کہا اور کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

پیچھے خوشبو نے ایک نظر اس عالیشان کمرے کو دیکھا ۔۔۔اس کمرے کے جتنا تو انکا گھر تھا جس میں وہ اپنے امی ابو کے ساتھ خوشی خوشی رہتی تھی لیکن وہ بھی اُسکے چچا نے اُس سے چھین لیا تھا۔۔۔

اپنے امی ابو کی یاد پھر سے ستائی تو آنکھوں میں نمی اُبھری۔۔۔

اُسے اُسکی عمر کے حساب سے صرف اتنا ہی اندازہ ہوسکا تھا کہ اُسے غلط طریقہ سے ہاتھ لگایا جا رہا ہے جو گندہ ہے اور اُسے اُس ملک اس جگہ سے دور لے جائے گے وہ انتہا کی ڈر گئی تھی جانے کیسے وہ اُس زنداں سے باہر نکلی تھی اور شجیہ کے ہاتھ لگ گئی ۔۔۔۔۔

یہ اللہ اُسے ایک دوزخ بھری زندگی سے بچانا چاہتا تھا۔۔۔

💗💗💗💗

خضر ۔۔۔شجیہ نے کمرے میں اتے خضر سے کہا جو لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔۔۔

جو یہ بچی بتا رہی ہے میں اسی کیس پر کام کر رہا تھا لیکن کوئی کلو نہیں مل رہا تھا۔۔۔خضر نے اپنا ہاتھ شجیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔

شجیہ خضر کا ہاتھ تھامے اُس تک ائی جب خضر نے اُسے اپنے برابر میں بیٹھایا۔۔۔۔

مطلب پھر ہمارے ملک کی بچیاں خطرے میں ہے۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔

خضر نے اپنے ہاتھ کی مٹھی اپنے لبوں پر جمائے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔

لیکن پہلے تو لیپرڈ تھا نہ اب تو وہ نہیں ہے پھر کیسے ۔۔۔۔شجیہ نے الجھ کر پوچھا۔۔۔

انڈر ورلڈ میں صرف وہی نہیں ہے اور بھی لوگ ہے۔۔۔جو اب دوبارہ اپنا کالا دھندا شروع کرنے لگے ہے۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے شجیہ کی الجھن دور کی  ۔۔۔۔۔

میں بھی اس کیس میں کام کرونگی خضر۔۔۔شجیہ کی بات پر وہ جو دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا چونکا اور سنجیدگی بھری نظروں سے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔ 

آپ ایسا کوئی کیس نہیں ہینڈل کرے گی شجیہ  ۔۔۔خضر نے سخت لہجے میں شجیہ کا حسین چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

پر کیوں خضر یہ میرا فرض ہے ۔۔۔۔شجیہ نے منمناتی آواز میں کہا۔۔

آپکا ایک اور فرض بھی ہے آپ میری بیوی ہے میرے بچے کی ماں ۔۔۔ہم  آپکے بنا ادھورے ہے آکوئی اور نارمل کیس ہوتا تو میں آپکو نہیں روکتا ،اور نہ کبھی میں نے آپکو روکا ہے لیکن یہ کیس بہت پیچیدہ ہے اس سے بہت سی جانو کو خطرہ ہوسکتا ہے اور میں آپکو خطرے میں نہیں ڈال سکتا شجیہ ۔۔۔خضر نے شجیہ کے کہنے پر اُسکے گال پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھتے اپنے انگھوٹے سے اُسکا گال سہلاتے سنجیدگی سے کہا 

لیکن۔۔۔شجیہ نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔

لیکن ویکن کچھ نہیں میں آپکے شوہر کی حثیت سے آپکو اجازت نہیں دیتا اس کام کی اور اُمید کرتا ہوں آپ میری بات کی نافرمانی نہیں کرے گی۔۔۔خضر نے اُسکے ہلتے لبوں پر انگلی رکھتے اُسے چپ کروایا۔۔۔۔

اور شجیہ اُسکی بات پر صرف اثبات میں سر ہلا گئی کیونکہ بات کو وہ ختم کرچکا تھا اب کچھ بھی بولنا فضول تھا۔۔۔

شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔اور پھر مسکرا دی۔۔۔خضر نے پل میں جھکتے اُسکے لبوں سے وہ مسکراہٹ اپنے لبوں میں ضبط کی۔۔۔۔

نرمی سے شجیہ کے لبوں کو چومتے وہ پیچھے ہوا۔۔۔

نظر اُسکے لال گلابی چہرے پر گئی ۔۔۔۔

میں جا رہی ہوں کھانا دینا ہے نہ خوشبو کو ۔۔بوکھلاہٹ میں کہتی وہ اپنا سرخ چہرہ لیے کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

پیچھے خضر مسکرا کر لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔جبکہ خوشبو کی باتیں سوچتے اُسکی مسکراہٹ سمٹی ۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️

آسٹریلیا کا موسم اج ابر آلود تھا ایک دن کی چھٹی کے بعد وہ اج فریش سی لیزا کے ساتھ یونی ائی تھی۔۔۔

کالے رنگ کی فروک میں دوپٹے کو گردن سے لگائے کالے بال پشت پر کھلے چہرے میکپ سے پاک چہرہ لیے وہ سینے سے کتاب لگائے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ لیے لیزا کے ساتھ یونی میں داخل۔ہوئی ۔۔

قدرے سانولی رنگت کالے لباس میں نکھر رہی تھی تیکھے نین نقش وہ کالی غزالی آنکھیں تیکھی سی ناک اور گلابی لب وہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔

آج موسم کتنا اچھا ہے نہ۔۔۔بیہ نے مسکراتے ہوئے لیزا کی طرف دیکھا۔ ۔

اس موسم کو چھوڑو مجھے سی ار نے بتایا ہے کوئی نیو پروفیسر آرہے ہیں ہمارے۔۔لیزا کی بات پر انابیہ چونکی ۔۔۔

لیکن کیوں ۔۔۔بیہ نے پوچھا۔۔

یہ تو مجھے نہیں پتہ شاید انگلش ہسٹری کے سر کو کچھ پرسنل بیس پر چھوڑنا پر گیا تھا اسی لیے اب نیو آئے ہیں اور لاسٹ لیکچر ہی نیو پروفیسر کا ہے چلو اب چلے کلاس میں ۔۔۔لیزا نے اُسے بتایا جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتی کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔

ان دو دونوں میں وہ کافی حد تک اپنے ذہن کو فریش کر چکی تھی ایسا نہیں تھا کا حسام مکمل طور پر اُسکے ذہن سے نکل گیا تھا اُس کے ذہن میں اب بھی پوری شان سے وہ براجمان تھا 

لیکن وہ بس اب حسام یہ اُس واقعہ کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

وہ کوریڈور میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا جبکہ اطراف میں  نہایت چھوٹی ڈریس جو گھٹنوں سے بھی اوپر تھی پہنی اسٹائلش سی لڑکی اُسکے کندھے سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔

آمنہ جو سدرہ کے ساتھ یونی ائی تھی کوریڈور میں پھر اس عجیب پلس ہینڈسم لڑکے کو دیکھتے اپنی آنکھیں مینچ گئی۔۔۔۔۔

کچھ  پل بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو ان میں ذرقان کے لیے واضح ناگواری تھی۔۔۔

جبکہ ایک نظر زرقان اور اُسکے ساتھ بیٹھی لڑکی کو دیکھتے اُسکی رنگت سرخ ہوئی تھی کیونکہ زرقاں کے ساتھ موجود لڑکی اب ذرقاں کے ہونٹوں پر جھکنے لگی تھی۔۔۔۔

اپنی آنکھیں جھکاتے وہ سدرہ کا ہاتھ پکڑے  زرقان کو نذرانداز کرتے تیزی سے وہاں سے آگے بڑھی ۔۔۔

زرقان جو اپنی گرل فرینڈ کے انتہائی قریب تھا اُسکی نظر خود سے کچھ فاصلے پر تیزی سے اتی آمنہ پر پڑی تو ٹھہر گئی۔۔۔

اج وہ کل کی مناسبت زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔

وہ ایک جھٹکے سے اپنی گرل فرینڈ سے دور ہوا اور آمنہ کی طرف بڑھا۔۔۔

پیچھے اُسکے دوست معنی خیز انداز سے اُسکی اس حرکت پر مسکرا دئیے ۔۔۔۔

صوفیہ نے چھبتی نِگاہوں سے خود سے دور ہوتے زرقان کو دیکھا۔۔۔۔

وہ جو نیچی نِگاہوں اور تیز قدموں سے چلتی زرقاں کی نظروں سے بچ کر نکلنا چاہتی تھی یکدم اپنے قریب سفید جوگرز میں مقید پیروں کو دیکھتے تھمی۔۔۔

اُس کے رُکنے پر سدرہ بھی رکی اور اب تنی آبرو سے سامنے کھڑے اس اول جلول حلیے والے انسان کو دیکھنے لگی۔۔۔

ہیلو ڈارلنگ۔۔۔زرقا ن نے آمنہ کے جھکے سر کو دیکھتے اپنی ازلی آواز میں کہا۔۔۔

آمنہ کا رنگ ڈارلنگ لفظ پر سرخ ہوا اور اُسے غصّہ بھی آیا لیکن اپنی نگاہیں جھکائے ہی رکھی۔۔۔۔۔

جبکہ زرقا ن جو اُسکی ہیزل بلو آنکھیں دیکھنا چاہتا تھا اُسکے سر جھکائے رہنے پر جھنیجھلایا۔۔۔۔

کون ہو تم اور یہ کس طرح بات کر رہے ہو ۔۔۔سدرہ سامنے کھڑے زرقا ن کے لہجے کو محسوس کر چکی تھی جس سے صاف واضح تھا کہ زرقا ن کو اردو بھی آئی ہے کیونکہ اس کا لہجہ خالص انگریزی اسینٹ نہیں تھا اسی لیے اردو میں تیز آواز میں اُس سے پوچھا۔۔۔

اُسے لگا شاید وہ ان دونوں کی ریگنگ کرنے آیا ہے۔۔۔

میں آپ سے نہیں مخاطب اینگری ینگ ویمن ۔۔۔۔زرقان نے سدرہ کے تنے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے دانت پیستے ہوئے کہا اور واپس اپنی نظروں کا ارتکاز کیا۔۔۔۔

آمنہ نے سدرہ کی آواز پر اپنی جھکی نظریں اٹھائی ۔۔جبکہ اپنا چہرے پر پڑتی تپش بھری نظروں کو محسوس کرتے وہ اچھی خاصی نروس ہوئی۔۔۔

بیس سال کی عمر تک کبھی صنف مخالف کے روبرو وہ نہیں ائی تھی نہ کبھی کسی کی نظریں اس طرح خود کے چہرے پر پڑتی محسوس کی تھی دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز تھی اس وقت۔۔۔۔

مجھے تمہیں سوری بولنا تھا کیوٹی مجھے نہیں پتہ تھا تم بول نہیں سکتی اور وہ بال بھی میں نے جان بوجھ کر تمہیں ھٹ کی تھی۔۔۔زرقا ن نے آمنہ کے چہرے پر نظر ٹکائے ہی کہا جانے کیا تھا آمنہ کے چہرے پر جو وہ لاکھ چاہنے کے بعد بھی اپنی نظریں اُسکے حسین چہرے سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔۔۔

زرقا ن کے اس طرح معافی مانگنے پر آمنہ نے اس سارے وقت میں پہلی مرتبہ زرقا ن کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور یہ لمحہ جیسے رک گیا تھا ۔۔۔

ہیزل بلو آنکھیں شہد رنگ آنکھوں میں جیسے جم گئی تھی۔۔۔۔دونوں بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں محویت سے دیکھے جا رہے تھے۔۔۔۔

ہیزل بلو آنکھوں میں جہاں معصومیت ڈیرے جمائے ہوئی تھی وہی دوسری طرف شہد رنگ آنکھوں میں شوخی تھی ایک۔چمک تھی۔۔

اوہ تو تم تھے وہ گھٹیا انسان جس نے میری دوست کو پریشان کیا میں تو کل سے بھری بیٹھی تھی اور اچھا ہی ہوا جو تم مجھے مل گئ۔۔۔۔ےےےےے۔۔۔سدرہ ابھی غصّہ سے لال پیلی ہوتی ہوئی امنہ کے سامنے اتے زرقّان کی نظروں سے امنہ کو بچاتے ہوئے کہہ ہی رہی تھی جبکہ ذرقّان جو آمنہ کی آنکھوں میں ڈوبا ہوا تھا خلل پڑنے پر سدرہ کے گال پر ہاتھ رکھے اُسے بیچ میں سے ہٹا گیا۔۔۔

آمنہ نے حیرت سے منہ کھولے پہلے زرقا ن اور پھر سدرہ کی طرف دیکھتے گئی جو زرقا ن کی اس حرکت پر دائیں طرف سے اتے نوجوان کے سینے کا حصہ بنی تھی۔۔۔۔

  آمنہ حیرت سے گنگ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔۔۔جبکہ اسکے بریسلیٹ سے اتی وہ آواز پھر زرقا ن کے کانوں میں گونجی۔۔۔۔

وہ اج یونی میں فوٹ بال کوچ کی جوب پر آیا تھا اتے ساتھ ایک نرم و نازک وجود کو اپنے اتنے پاس محسوس کرتے تھما ۔۔۔۔

اس وجود سے اٹھتی خوشبو انتہائی مسحور کن تھی کہ وہ بے قابو ہوتا ایک گہرا سانس بھرتا رہ گیا۔۔۔

تیس سال کی عمر میں اج تک اُس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی نرم و نازک وجود کو اپنے اور انتہائی نزدیکی پر اُسکے دل کی دنیا اس طرح ترہم برہم ہوئی ہو۔۔۔۔

جانے کیسی بیخودی تھی کہ وہ اپنے سینے سے لگی اس لڑکے کے۔پیٹ کے گرد اپنے ہاتھوں کا حصار باندھ گیا۔۔۔۔

سدرہ جو زرقا ن کی حرکت کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھتی ہوئی دائیں طرف گرنے لگی تھی جب اُسکی پشت ایک مضبوط مردانا سینے سے ٹکرائی ۔۔۔۔

پل میں وہ ستل ہوئی اُسے مخالف کی گرم سانسیں اپنی گردن پر پڑتی محسوس ہوئی ایسا لگا جیسے مخالف نے ایک گہرا سانس بھرا ہو اُسکی سانسیں تیز ہوئی گھبراہٹ سے ماتھے پر پسینہ چمکہ جب مخالف کی اگلی حرکت پر اُسکی آنکھیں حد درجہ پھیلی ۔۔۔

اپنا سر جھکا کر اپنے پیٹ پر دیکھا جہاں دو مضبوط مردانا سفید بازوں کو باندھا گیا تھا۔۔۔سدرہ کو لگا اُسکا دل اُچھل کر اُسکے حلق تک میں آگیا ہو۔۔۔۔

چھوڑو مجھے انگریز کہی کے شرم بیچ کھائی ہے۔۔۔دانت پیستے اردو میں بولتے سدرہ نے مزاحمت کرتے خود کے گرد بندھا حصار توڑنا چاہا۔۔۔

اسکے الفاظوں پر مخالف کے لبوں پر تبسم بکھرا ۔۔۔۔

آواز سے تو پیاری تھی خوشبو بھی پیاری تھی پتہ نہیں چہرہ کیسا ہوگا۔۔۔مخالف نے دل میں سوچتے اُسے اپنے حصار سے آزاد کیا۔۔۔

سدرہ پل میں غصے سے پیچھے مڑی ۔۔۔کالے بال اُسکے چہرے پر بکھرے۔۔۔

سامنے کھڑے نوجوان کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھتے تو اُسکا بچا کچا خون بھی جل کر راکھ ہوا ۔۔۔۔

براؤن انکھوں والا کالے بال جسے جیل کی مدد سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔کھڑی مغرور ناک اور گلابی لب جو مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور دودھ جیسی رنگت مضبوط توانا سینا سدرہ کو وہ انگریز ہی لگا۔۔۔۔

جبکہ مخالف تو اس خوبصورت لڑکی کو دیکھتے تھم ہی گیا تھا اُسکے نین نقش اُسکے بال اُسکی خوشبو اُسکی آواز واللہ سب دل کو چھو لینے والے تھے ۔۔۔۔گول گول براؤن ہی آنکھیں جن میں غصّہ تھا چھوٹی سی ناک جو غصّہ کے سبب لال تھی   درمیانے لب اور نچلے لب کے نیچے موجود وہ تل ،،،،اب وہ فدا نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔۔

پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں سب کو اپنی ان گوریوں کی طرح سمجھا ہوا ہے جن کو ہاتھ بھی لگا لو تو اُنھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا گھدا کہیں گا انگریز لفنگر ۔۔۔۔سامنے کھڑے نوجوان کو دیکھتے دھیمی آواز میں وہ اپنے جلے دل کا سارا غبار نکال رہی تھی یہ سمجھ کر کے سامنے کھڑا انسان اردو سے نہ واقف ہے۔۔۔

نہیں میں نے آپکو گوریوں کی طرح نہیں سمجھا آپ تو دیسی ہے آپ سے اٹھتی مہک بھی دیسی ہے خیز آئندہ خیال رکھیے گا یوں کسی سے ٹکڑا نہ جائیے گا میری سوا کیونکہ یہ اب مجھے گوارا نہیں ہے کہ آپ میرے علاوہ کسی کے اتنے قریب جائے  اور کوئی آپکی یہ صندلی سی خوشبو محسوس کر پائے۔۔۔سدرہ کے پاس جھکتے گھمبیر مردانا خوبصورت آواز میں گویا ہوا۔۔۔سدرہ اُسکے قریب انے پر دو قدم پیچھے ہوئی جب وہ اُسکے اور قریب آیا۔۔۔

مخالف اردو بول سکتا تھا سدرہ کا رنگ خفت سے سرخ ہواا

جبکہ مخالف کے الفاظوں پر اُسکا دل تیز دھڑکنے لگا جیسے سینے سے ابھی باہر نکل ائے گا۔۔۔اُسکی دل کی تیز دھڑکن مخالف بخوہی سن سکتا تھا اُسکے لبوں پر مسکان اور گہری ہوئی ایک گہری نظر سدرہ پر ڈالتے وہ آگے بڑھا۔۔۔۔

سب کے سب عجیب ہے اس یونی میں۔۔۔سدرہ نے گہرا سانس بھرتے اپنے آپکو نورمل کرنا چاہا لیکن ایسا کہاں ممکن تھا گھمبیر آواز میں بولے گئے جملہ اب بھی اُسکے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔۔

اسکو چھوڑو اُدھر دیکھو اب سے یونی میں تمہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کی مدد چائیے ہو تم مجھ سے کہنا ٹھیک ہے ۔۔۔زرقا ن نے آمنہ کے فق چہرے کے آگے چٹکی بجائے اُسکا دھیان اپنی جانب مذبول کرواتے ہوئے کہا۔۔۔

لیکن کیوں۔۔۔آمنہ نے آنکھوں کو اٹھا کر  دھڑکتے دل سے پوچھا آخر وہ کیوں اتنا مہربان ہو رہا تھا اُس پر ۔۔۔

کیونکہ یہاں صرف میں ہی تمہاری مدد کر سکتا ہوں میرے علاوہ اور کوئی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔۔۔زرقا ن نے اپنے کولر کو صحیح کرتے امنہ کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔

چلو یہاں سے اور تم اب میری دوست کے اس پاس بھی نظر مت انا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھے ۔۔۔۔سدرہ تیزی سے امنہ کی طرف ائی اور اُسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لیتی غصے سے زرقا ن کو دیکھتے کہا اور آگے بڑھی۔۔۔۔

زرقان نے دور جاتی امنہ کی پشت کو تکا جب 

آمنہ نے گردن پیچھے موڑ کر زرقا ن کو دیکھا جو اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا امنہ کے دیکھنے پر مسکرا گیا۔۔۔

آمنہ نے جلدی سے اپنا رخ سیدھا کیا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے اپنے آپ کو کوسا۔۔۔۔

💗💗💗💗

کیا دل آگیا ہے تمہارا اُس پر۔۔۔۔زرقا ن ابھی اپنے دوستوں کے پاس واپس ایا تھا جب اُسکی گرل فرینڈ نے انگلش میں اُس سے پوچھا۔۔۔

زرقا ن کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا ۔۔۔

نہیں وہ میری ٹائپ کی نہیں۔۔۔زرقا ن نے اپنی گرل فرینڈ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کیا۔۔۔

مسکرا تو تم ایسے رہے تھے اسکو دیکھ کر اور تمھاری یہ نظریں بھی اُس پر جم گئی تھی۔۔۔صوفیہ نے زرقا ن کے گال پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

وہ میری عادت ہے بیچاری بول نہیں سکتی اور تمہیں تو پتہ ہے میرا دل کتنا نرم ہے بس اسی لیے ترس اگیا مجھے اُس پر اور ویسے بھی وہ خوبصورت ہے اور زرقا ن کی خوبصورت چیزوں سے نظر نہیں ہٹتی ۔۔۔زرقان کہتا اُسکے لبوں پر جھک ایا ۔۔۔۔۔۔

اسکے بقول وہ امنہ سے ترس کھا کر بات کر رہا تھا زرقا ن کو خود نہیں پتہ تھا وہ کیوں امنہ سے وہ سب کہہ ایا ہے ۔۔۔کیوں اُس نے امنہ سے معافی مانگی اور شاید اس انجان پن کی وجہ سے وہ اس فیلنگ کو ترس کا نام دے گیا تھا۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

لاسٹ لیکچر کا وقت ہوگیا تھا پانی کی بوتل کو منہ سے لگائے وہ پانی پینے میں مصروف تھی جب دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھتے اُسے پانی اپنے گلہ میں اٹکتا محسوس ہوا۔۔۔۔کالی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔

پوری کلاس میں ایک تیز مردانا پرفیوم کی خوشبو پھیل گئی تھی پوری کلاس دروازے کی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔لیکن انابیہ اُسے لگ رہا تھا اُس کا وہم ہے جس انسان کو وہ دو دن سے لگاتار سوچ رہی ہے وہ اُسکے سامنے کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔

لیکن یہ سچ تھا ۔۔۔سفید شرٹ جس کی آستینوں کو کہنیوں تک موڑا ہوا تھا کالی سنجیدہ آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے بلیک پینٹ میں ایک ہاتھ میں ٹیپ تھامے دوسرے ہاتھ کو پینٹ کی جیب میں پھنسانے اور ہاتھ میں پہنی گھڑی وہ سنجیدہ نظروں سے پوری کلاس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

سفید خوبرو چہرے پر ایسی سنجیدگی اور دبدبہ نظر آرہا تھا کہ کلاس میں موجود ہر طلباء چپ چاپ اُسکی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔

انابیہ نے اپنی آنکھیں جھپکتے یقین کرنا چاہا کہ آیا سامنے وہی شخص ہے یہ نہیں۔۔

یقین ہونے پر انابیہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی حسام کی سحر انگیز شخصیت اُسے اپنے دل و دماغ پر حاوی ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔

وہ جو ارجنٹ بیس پر اپنی سورس لگا کر اس یونی میں انگلش ہسٹری کا پروفیسر صرف و صرف اپنی متائے حیات کے لیے بن کر آیا تھا پوری کلاس میں نظر دوڑاتے اُسکی نظر دوسری بینچ پر بیٹھی انابیہ پر پڑی دل و دماغ میں سکون بھرتا چلا گیا محبوب کا دیدار بےچین دل و دماغ میں چین بھر دیتا ہے۔۔۔۔کالے لباس میں وہ دمکتی ہوئی سیدھا اُسکی آنکھوں کے ذریعہ دل میں اُتری تھی۔۔۔۔

انابیہ جو یک تک حسام کو دیکھ رہی تھی اچانک حسام کے خود کی طرف دیکھنے پر ہڑبڑائی ہاتھ میں تھمی بوتل جھٹکے سے نیچے گری اور وہ شرمندگی سے اپنی آنکھیں بند کر گئی کیونکہ پوری کلاس اُسکی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔۔۔

حسام اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبائے اپنی بیوی کی اس ادا پر مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا۔۔۔۔۔

سو کلاس ائی ایم یور نیو پروفیسر آف انگلش ہسٹری(کلاس میں آپکا انگلش ہسٹری کا نیوپروفیسر ہوں)۔۔۔حسام بھاری قدم اٹھاتا کلاس میں داخل ہوتے ڈائز کے پاس آتے  گویا ہوا ۔۔۔

اسکی مردانا مضبوط آواز پوری کلاس میں گونجی ۔۔۔۔

انابیہ نے بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور بوتل اٹھانے کے لیے نیچے جھکی۔۔اور حسام کے کہے گئے لفظوں پر اُسے حیرت ہوئی یہ نیو پروفیسر تھے ۔۔۔۔

انابیہ کو نیچے جھکتے دیکھ حسام کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔دوپٹہ گردن سے چپکا ہونے کے پاس فائٹنگ فروک میں اُسکے نشیب و فراز صاف ظاہر تھے اور جھکنے پر اُسکا وجود اور بجلیاں گرا رہا تھا۔۔۔

ایک نظر انابیہ کو دیکھتے اُس نے پوری کلاس میں نظر دوڑائیں جہاں لڑکیوں سے زیادہ لڑکے موجود تھے ۔۔۔۔

اسکے ماتھے کی رگ ظاہر ہوئی۔۔پورے وجود میں غصّہ بھرا ۔۔اُسکا بس نہ چلا ابھی انابیہ کو یہاں سے کہیں اور لے جائے ۔۔

خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے اُس نے اپنی نظریں انابیہ کے وجود سے ہٹائیں ۔۔۔

لیٹ می انٹریڈیوز مائے سیلف ۔۔۔حسام نے اپنی تنی آبرو سمیت کہا۔۔۔

اور انابیہ نہ جانے کیوں اپنی ساری توجہ اُس پر مرکوز کر گئی۔۔۔

میں اپنے بارے میں زیادہ کچھ تو نہیں بتاؤنگا سوائے میرے نام کے ۔۔۔اور میرا نام ہے حسام وارث ۔۔۔حسام کی سنجیدگی بھری آواز پھر گونجی 

حسام۔۔۔انابیہ نے زیرِ لب اُسکا نام دوہرایا ایسا لگا جیسے یہ نام وہ سالوں سے جانتی ہے  اور اُسکا دل یہ نام لیتے ہوئے تیز دھڑکا  انابیہ کو سمجھ نہ آیا اُسکا دل کیوں اس طرح تیز دھڑک رہا ہے جبکہ اُسکی آنکھیں جیسے ضد کر بیٹھی ہے کہ صرف سامنے کھڑے اس خوبرو نوجوان کو ہی دیکھتی جاؤ ۔۔۔۔وہ بنا پلکیں جھپکائے حسام کو دیکھ رہی تھی صرف وہی نہیں کلاس کی ہر لڑکی کی نظر اس حسین نوجوان پر جم گئی تھی۔۔۔

جسے صرف و صرف اپنی بیوی کی نظریں ہی خود پر بھلی لگ رہی تھی باقی لڑکیوں کی نظر خود پر پڑتی اُسے سخت زہر لگ رہی تھی۔۔۔۔

انابیہ نے حسام کی کالی آنکھوں میں اپنے لیے شناسائی کی کوئی رمک دیکھنی چاہی لیکن نہ کام رہی ۔۔۔۔

ناؤ کم ٹو دی پوائنٹ سو سٹارٹ فور دی لیکچر ۔۔۔حسام نے کہتے ساتھ اپنا رخ پلٹا تھا لیکن انابیہ کا دلکش وجود دیکھتے اُسے لگ رہا تھا وہ اپنا آپا کھو بیٹھے گا کیونکہ یہ دلکش وجود جو وہ لیے بھری کلاس میں بیٹھی تھی یہ دلکشی دیکھنے کا حق صرف و صرف اُسکا تھا ۔۔۔۔

وہ لیکچر سمجھاتے سمجھاتے انابیہ کی ڈیسک کی طرف بڑھا اور انابیہ کی دھڑکن اپنی طرف بڑھتے اُسکے قدموں کے ساتھ ساتھ تیز ہوئی۔۔۔

ایک تو وہ اپنی نظروں اور دل سے بری طرح خائف ہو رہی تھی جو اُسکے قابو میں نہیں تھے ۔۔۔

 نہایت قریب سے حسام کے وجود سے اٹھتی جان لیوا خوشبو محسوس کرتے اسے اپنے حواس کھوتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔وہ اپنی سانس تک روک گئی اتنے قریب سے اتی حسام کی سنجیدگی بھری اوازسنتے ۔۔۔۔

حسام جو اب مزید برداشت نہ کرتے انابیہ کی طرف بڑھا تھا اُسکے نہایت نزدیک اتے بہت محتاط انداز میں اپنے ہاتھ میں تھامے پین سے اُسکے کندھے سے پیچھے جاتے دوپٹے کو بغیر کسی کی بھی نظروں میں لئے بغیر آگے کو کھنچا جو ایک جھٹکے میں انابیہ کے سینے تک پھیل چکا تھا۔۔۔۔

انابیہ جو حسام کی نزدیکی پر اپنی سانس تک روک گئی تھی حیرت سے اپنے سینے پر پھیلے دوپٹے کو دیکھے گئی۔۔۔

وہ سمجھی شاید دوپٹہ ریشمی ہے اسی لیے پھسل کر اُسکے گلے سے سینے تک آگیا ہے۔۔۔۔

حسام اپنی کارروائی کے بعد وہاں رکا نہیں تھا واپسی قدموں سے پلٹتے وہ واپس ڈائز کی طرف ایا۔۔۔

آج کے لیے اتنا ہی باقی کل ملاقات ہوتی ہے ۔۔سنجیدہ آواز میں ایک گہری نظر انابیہ پر ڈالی جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی حسام کے دوبارہ اپنی طرف دیکھنے پر وہ اپنی آنکھیں پھیر گئی۔۔۔

اور حسام کلاس سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

کتاب کو بند کرتے اُسکا دماغ اس وقت الجھنوں میں اُلجھا ہوا تھا  ابھی دو دن پہلے تو اُسے اس شخص کا ذہنی توازن صحیح نہ لگا تھا اور اب اچانک سے وہ اُسکا پروفسیر بن کر اُس کے سامنے تھا۔۔۔

وہ جتنا اس انسان کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی اتنا ہی یہ انسان اُسکے ذہن پر قابض ہوچکا تھا اج بھی کتنی مشکلوں سے وہ اپنے دماغ کو فریش کرتی یونی ائی تھی اور اج پھر یہ شخص اُسے نظر آگیا تھا۔۔۔۔

انابیہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حسام نے اُسے پہنچانا کیوں نہیں اُسے لگ رہا تھا اُسکا سر پھٹ جائے گا۔۔۔۔

لیزا تم چلو میں ائی ۔۔۔۔انابیہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے لیزا سے کہا اور کلاس سے باہر نکلی۔ ۔

وہ اور اپنے دماغ پر بوجھ نہیں رکھ سکتی اُسے حسام سے بات کرنی تھی کہ آخر کیوں وہ اُس دن اُس سے وہ سب کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔

حسام سے بات کرنے کا سوچتے ہی اُسکی دل کی دھڑکن جو اپنے معمول پر آگئی تھی پھر بڑھی۔۔۔۔۔

اب تمہارا کیا مسئلہ ہے کیوں اُس انسان کے بارے میں سوچتے ہی بھاگنے لگ جاتی ہو۔۔۔۔کوریڈور میں چلتی وہ اپنے دل کی دھڑکنوں سے مخاطب تھی۔۔۔

اُسے زیادہ ڈھونڈا نہیں پڑا سامنے ہی وہ اُسے اپنی طرف پشت کیے نظر ایا۔۔۔

انابیہ نے اپنے لبوں پر زبان پھیرتے اپنے اندر ہمت پیدا کی۔۔۔۔اور قدم قدم چلتی حسام سے دو قدم کی دوری پر کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔

وہ جو کلاس سے نکلتے ہی جون کو میسج کرتے اُسے یہاں بلا رہا تھا اپنے پیچھے کسی کی قدموں کی آہٹ محسوس کرتے وہ مسکرایا۔۔۔۔

آہٹ سے وہ پہچان گیا تھا کہ اُسکی پشت پر کون ہے۔۔۔جب اُسے وہی مدھم آواز اپنی پشت سے سنائی دی اور حسام کے لبوں پر مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔۔۔

سر۔۔۔اپنے سینے سے لگی کتاب پر اپنی گرفت اور مضبوط کیے انابیہ نے حسام کی چوڑی پشت کو دیکھتے پُکارا۔۔۔۔

حسام نے فون فوراً سے اپنی جیب میں ڈالا اور پلٹا جہاں وہ اپنی کالی آنکھوں سے اُسی کی طرف دیکھ رہی تھی  ۔۔۔

حسام کو یہ دو قدم کی دوری بھی انتہاء کی چبھی دل نے شدت سے کہا اس دو قدم کی دوری کو مٹاتے سامنے کھڑے وجود کو اپنے سینے میں بھینچ لے ۔۔۔

جی۔۔۔حسام نے اپنی سوچوں پر قابو پاتے گھمبیر آواز میں انابیہ کے چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا جو مضطرب لگ رہا تھا۔۔۔۔

جیسے وہ کچھ پوچھنا چاہتی ہے لیکن پوچھ نہیں پا رہی ہے ۔۔۔

وہ مجھے آپ سے۔۔۔مجھے پوچھنا تھا پرسوں زو ۔۔۔انابیہ کو سمجھ نہ ایا کس طرح سے اپنی بات پوری کرے حسام کی سیاہ نظروں کی تپش اپنے چہرے پر پڑتی اُسے مزید کنفیوز کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

اور حسام اُسے اس وقت کنفیوز سی انتہاء کی پیاری لگی دل چاہا اُسکے ان گلابی لبوں کو ابھی اسی وقت اپنی شدت سے لال کرتے بھگو دے جو بے ربط جملے ادا کرتے اُسکا ضبط آزما رہے تھے۔۔۔۔

حسام نے ایک نظر کوریڈور میں دیکھا جہاں اس وقت زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔۔۔پھر واپس اپنی نظریں وہ انابیہ پر محدود کر گیا۔۔۔۔

آپ جو پوچھنا چاہتی ہے ریلیکس ہوکر پوچھے ۔۔۔حسام نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

انابیہ یک تک حسام کے لبوں پر ٹھہری مسکراہٹ کو دیکھے گئی جانے کیا سحر تھا اس مسکراہٹ میں ۔۔۔۔

حسام جانتا تھا اُسکی مسکراہٹ سامنے کھڑے وجود کو انتہا کی پسند تھی۔۔

وہ مجھے پوچھنا یہ تھا آپکو میں یاد ہوں۔۔۔۔انابیہ حسام کے لبوں پر جمی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے  بیوقوفانہ  جملہ بول اُٹھی۔۔۔۔

اور حسام اُسکے گم انداز میں کہیں گئی بات پر پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سر جھکائے ہنس دیا۔۔۔

انابیہ کی دل کی دھڑکن تھمی اور پھر تیزی سے دھڑک اُٹھی۔۔۔۔

یہ مسکراتے ہوئے کتنے پیارے لگتے ہیں۔۔۔یہ بات انابیہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی۔۔۔۔

جی بلکل آپ ہی تو اچھی طرح یاد ہے ۔۔۔حسام نے دوبارہ انابیہ کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔

جییییییی۔۔۔۔انابیہ حسام کی بات میں ہوش میں ائی جی کو لمبا کرتے حیرت سے  حسام کی طرف دیکھا۔۔۔۔

میرا کہنے کا مطلب تھا آپ وہی زو والی بات کے بارے میں بات کر رہی ہے شاید۔۔۔حسام نے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے سنجیدگی سے کہا ۔۔

جی میں اُسی کے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔۔انابیہ جو حسام کی پہلی بات پر حیرت زدہ ہوئی تھی ساتھ ہی اُسکے دل کی دنیا میں چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوتے اُسے محسوس ہو رہے تھے گویا ہوئی۔۔۔۔

میں اُسکے لیے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں دراصل آپکی شکل میرے بہت قریبی انسان سے ملتی ہے بہت قریبی انسان سے۔۔۔۔حسام نے ایک قدم کی دوری کو مٹاتے ہوئے اُسکے چہرے سے تھوڑے فاصلے پر اپنا چہرے رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔۔

اور اس انسان کو اپ نے مار دیا تھا۔۔۔۔انابیہ یکدم  حسام کی کالی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ربط سے بولی۔۔۔

انابیہ کی بات پر حسام کا دل خوف سے دھڑکا اُس نے انابیہ کی آنکھوں میں غور کرتے جانچنا چاہا کہ ایا وہ یہ بات پوچھ رہی تھی یہ بتا رہی تھی ۔۔۔۔۔

نہیں میں نے اُسے نہیں مارا ۔۔۔۔حسام کی زبان سے جھوٹ ادا ہوا وہ سچ بتا کر انابیہ کے دل میں اپنے لیے بدگمانی نہیں ڈالنا چاہتا یہ پھر وہ سچ کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

پھر آپ کہہ تو یہی رہے تھے یہ یہی کہنا چاہتے تھے ۔۔۔۔انابیہ کی آنکھیں اب ہر تاثر سے پاک تھی وہ بے تاثر نگاہوں سے حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

حسام کو انابیہ کا یہ انداز دیکھ کر شائبہ ہوا جیسے وہ کچھ بھی نہیں بھولی ہے اُسکی یاداشت نہیں گئی اور یہ سوچتے حسام کا خوف بڑھتا ہی جا  رہا تھا۔۔۔۔۔

میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا وہ کسی حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔۔۔ مجھے آپکی شکل میں اُسکی شکل نظر ائی جو مجھ سے بہت دور ہے شاید میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا تھا اسی لیے اُس دن وہ سب کر بیٹھا اور اسکے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہو۔۔۔۔حسام کو اتنی ہوا میں بھی گھٹن کا احساس ہو رہا تھا یہ سب بولتے ہوئے۔  ۔۔

انابیہ نے حسام کے کہنے پر اُس سے اپنی نظریں پھیری ۔۔۔۔

کون تھی وہ آپکی۔۔۔اپنی نظریں پھیرتے انابیہ نہ پوچھا۔۔۔

اب یہ  تھوڑا پرسنل سوال ہے جو میں اپنی اسٹوڈنٹ کو نہیں بتا سکتا۔۔۔۔حسام نے اپنی گردن رب کرتے ہوئے انابیہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔

جس نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔پھر شرمندگی سے اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔

وہ اب اُسکا پروفسیر تھا اور وہ اُسکی اسٹوڈنٹ ایسے میں وہ اُس سے اس طرح کے سوال تو نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔

ائی ایم سوری مجھے بس تھوڑی کنفیوژن تھی جو اب دور ہوگئی آپکو یقیناً غلط فہمی ہوئی ہوگی مجھے دیکھ کر ۔۔۔۔انابیہ نے مسکرانے کی سعی کرتے کہا۔۔۔۔

جی بلکل اور اٹس اوکے ۔۔۔حسام نے اُسکے حسین چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔

جب انابیہ نے اُس پر آخری نظر ڈالی اور آگے بڑھتی چلی گئی۔۔۔۔

حسام کی تپش زدہ نظروں نے دور تک اُسکی پشت کو تکا تھا اپنی منزل کی جانب اُس نے ایک قدم بڑھایا تھا ۔۔۔۔اور انہی راستوں پر چلتے وہ اپنی منزل اپنی بیہ تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔..

💗💗💗💗

سر۔۔۔جون نے حسام کے پاس اتے کہا جو اب تک اُسی راستے کو تک رہا تھا جہاں سے بیہ گئی ہے ۔۔۔

جون کی آواز پر حسام نے اُسکی طرف دیکھا جو اُسکے ساتھ یہاں پر فٹ بال کوچ بن کر ایا تھا۔۔۔

مجھے لگ رہا ہے جون بیہ کی یاداشت نہیں گئی ہے وہ سب جانتی ہے۔۔۔حسام نے جوں سے کہا۔۔۔

اُسکی آواز میں واضح خوف تھا اُسکی کالی آنکھوں میں بھی اب اضطراب سا تھا۔۔۔

آپکو ایسا کیوں لگا سر ۔۔۔جون نے اُس سے پوچھا ۔۔۔

ایک پل کے لیے نہ جانے کیوں ایک پل کے لیے اُسکا ہے تاثر چہرہ دیکھتے اور جس طرح اُس نے مجھ سے بات کی وہ محسوس کرتے مجھے لگا ۔۔حسام کو بیہ کی تمام باتیں یاد ائی ۔۔۔۔

تو کیا وہ ناٹک کر رہی ہے اُنکی یاداشت نہیں گئی ہے ۔۔۔۔جون کو يقیں نہ ایا۔۔۔۔

یہ میں نہیں جانتا جون اُسکی ساری میڈیکل رپورٹس میں دیکھ چکا ہوں اُسکے ڈاکٹر سے بھی میں بات کر چکا ہے جن کے مطابق اُسکی یاداشت واقعی میں کھو گئی ہے۔۔۔۔حسام نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے پریشانی سے کہا۔۔۔

پھر آپکا وہم ہوگا سر یہ۔۔۔جون نے حسام کے پریشان چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

دعا کرو جون میرا وہم ہی ہو میں نہیں چاہتا وہ پرانی تکلیف دہ باتوں کو یاد رکھے میں اُسکی اور اپنی نئی یادیں بنانا چاہتا ہوں جون۔۔۔۔حسام کے کہنے پر جون نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

جب اُسکی آنکھوں کے سامنے سدرہ کا غصے سے لال ہوتا چہرہ لہرایا اُسکے لبوں کو پر مسکراہٹ نے ڈیرہ جمایا ۔۔۔۔

خیریت ہے۔۔۔۔حسام نے جون کی طرف دیکھتے ایک آبرو اٹھاتے پوچھا۔۔۔۔

خیریت نہیں لگ رہی سر تیس سال کی عمر میں اب لگ رہا جیسے زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔۔۔سدرہ کے چہرے  کو تصور میں رکھتے جون نے کہا۔۔۔۔۔

چلو اچھا ہے تمہیں بھی تمہارا مقصد مل گیا۔۔۔حسام نے سنجیدگی سے کہا اور دونوں یونی سے نکلتے چلے گئے ۔۔۔۔۔

💗💗💗💗

وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیتی زرقان کے بارے میں سوچی جا رہی تھی اُسے اُسکے بارے میں سوچنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔

آنکھوں کے پردوں پر زرقان کی وہی شہد رنگ شوخ نظریں لہرا رہی تھی جو وہ اُس کے چہرے پر مقید کیے ہوئے تھا۔۔۔۔

زرقان کا اُس سے معافی مانگنا اُسے یہ کہنا کہ اُسے کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو اُسے بولے اُسکے دل میں عجیب سے احساسات پیدا کر گیا تھا۔۔۔ 

یہ سب زندگی میں پہلی دفعہ اُسکے ساتھ ہوربا تھا کسی کی گرم نظریں خود پر پڑتے محسوس کرتے اُسکے دل کی دھڑکنیں بڑھی تھی۔۔۔۔

صنف مخالف کی ذرا سی توجہ اُسکے دل کی کچی زمین پر ننھے نھنے پھول کی کلی کھلا چکی تھی جو ہلکے ہلکے پھول میں بدلنے والی تھی ۔۔۔۔

ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ زرقا ن کے بارے میں سوچتے اپنی آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔

یہ جانے بنا یہ احساسات جو وہ ابھی محسوس کر رہی جو اُسے حسین لگ رہے ہیں آگے جاکر کوئی انہیں بیدردی سے نوچ پھینکنے والا ہے۔۔۔۔

💗💗💗💗

میں بھی پاگل ہوں اتنا بڑا ملک ہے ہوجاتی ہے غلط فہمی ہر کسی کو ۔۔۔۔انابیہ ریلنگ کے ساتھ لگی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھتے خود سے مخاطب تھی۔۔۔۔

اور میں بھی نہ۔ اُنہیں پاگل سمجھ بیٹھی لو بھائی وہ تو پڑھے لکھے اتنے اچھے پروفسیر ہے ۔حد ہوتی ہے ایک چیز کی ۔۔۔اُس نے خود کو کوسا۔۔۔

ویسے وہ کہہ رہے تھے انکا کوئی عزیز ہے جسکی شکل مجھ سے ملتی ہے۔۔۔کوں ہوگی وہ کیا اُنکی بیوی ہوگی یہ گرلفرینڈ۔۔۔۔انابیہ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے سوچا اور نہ جانے کیوں آخری بات سوچتے اُسکے دل میں عجیب سا احساس ہوا۔۔۔

نہیں نہیں شادی شدہ تو نہیں لگتے وہ مجھے اتنی عمر بھی نہیں ہے۔۔ مجھے تو لگتا بہن ہوگی اُنکی۔۔۔۔۔خود کو جیسے دلاسہ دیا۔۔۔۔۔

لیکن تمہیں خود کو تو لگ رہا تھا کہ وہ جسکے بارے میں بات کر رہے تھے وہ انکا عشق ہے۔۔۔اُسکے اندر سے آواز ائی اور انابیہ کو اپنی ہی کہیں بات اس وقت انتہائی زہریلی لگی۔۔۔۔

مجھے کیا ۔۔۔جو کوئی بھی ہو مجھے کیوں اتنا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔بس تھوڑے بہت ہینڈسم ہی تو ہے ۔۔۔اس میں کیا ہے اور بھی تو بہت سے لڑکے ہینڈسم ہے ۔۔۔۔لیکن مجھے ایسا کیوں لگتا ہے جب جب میں اُنکی شکل  دیکھتی ہُوں ایسا لگتا ہے جیسے نہ جانے کب سے انکو جانتی ہو اور یہ دل ۔۔۔۔

تم نہ سدھر جاؤ ٹھرکی ہوگئے ہو یار جہاں اُس انسان کی شکل دیکھی وہی اپنی رفتار سے زیادہ تیز دھڑکنے لگے دل کا دورہ پرواؤ گے کیا۔۔۔۔۔وہ خود سے کہتی پھر اپنے دل سے مخاطب ہوئی جس نے اُسے پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔

ریلنگ پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے وہ چپ چاپ چاند کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

یہ بات اُسکی سمجھ سے باہر تھی اج کیوں حسام کو دیکھتے وہ اپنے دل اور آنکھوں پر قابو نہیں رکھ پائی تھی اپنے دل کے بدلتے احساسات اُسکی بھی سمجھ سے باہر تھے۔۔۔

دو دن سے تو وہ صرف حسام کو سوچے جا رہی تھی لیکن آج اُسے اپنے روبرو دیکھتے اُس سے بات کرتے اُسکے احساسات مزید عجیب ہوئے تھے جنکو وہ ٹھرک کا نام دے گئی تھی۔۔۔۔۔

وہ دونوں نکاح میں بندھے تھے یہ بات شاید وہ بھول گئی ہو لیکن اُسکی روح حسام سے جُڑی ہوئی تھی جسکی وجہ سے وہ جب جب حسام کا چہرہ دیکھ رہی تھی اُسے یو محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اُسے بہت پہلے سے جانتی ہے بہت اچھی طرح ۔۔۔۔

💗💗💗💗

وہ دونوں اپنی اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ناشتہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور کبھی کبھار چوڑ نظروں سے کامل کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

جو مہرون رنگ کی شرٹ اور بلیک جینز میں بلکل تیار بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔۔

بھائی  کیا آپ اور بھابھی کہیں باہر جا رہے ہیں اج۔۔۔انابیہ نے نوالہ منہ میں رکھتے کامل سے پوچھا۔۔۔

نہیں تو ۔۔۔کامل نے اچھنبے سے پہلے فلک اور پھر بیہ کو دیکھتے کہا۔۔۔

پھر کیا آپ جانتے ہیں اج کیا ہے۔۔۔۔انابیہ نے فلک کو دیکھتے کامل سے پوچھا جو اب خود بھی پوری طرح کامل کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔۔۔۔

آج بدھ ہے۔۔۔کامل نے سادگی سے جواب دیا۔۔۔۔

وہ تو ہے ہی اج اُسکے علاوہ ۔۔۔انابیہ نے اُسے آنکھوں سے اشارتاً  سمجھانا چاہا۔۔۔۔

آج بدھ کے علاوہ کیا ہے فلک ۔۔۔کامل نے فلک سے پوچھا۔۔۔۔

وہی جو آپ اج اکیلے باہر منانے جا رہے ہیں کامل لال کپڑوں میں لال رام بنتے۔۔۔۔فلک نے تنک کر جواب دیا۔۔۔۔۔

ہیں۔۔۔۔! کامل نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔

اُف اوہ بابا اج ویلنٹائن ہے تبھی تو آپ نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہے۔۔۔۔عروہ نے اپنے باپ کی عقل پر ماتم کرتے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔

پر مجھے تو پتہ نہیں تھا میں نے ایسے ہی پہن لی اور میں یہ ویلینٹائن نہیں مانتا یہ کون سی عجیب بلا ہے ۔۔۔۔کامل نے نیپکن سے ہاتھ پوچھتے ہوئے کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

یہ عجیب بلا نہیں ہے بابا دیکھئے گا باہر اج ہر جگہ آپکو لو برڈز نظر آئے گا اور ہوسکتا اج کوئی آپکی بیٹی کو بھی پرپوز کردے۔۔۔عروہ کے بے نیازی سے کہنے پر اُن تینوں کے منہ حیرت سے کھلے۔۔۔۔۔

دیکھ رہے ہیں آپ اسے کتنی تیز اور بیشرم ہوتی جا رہی ہے یہ اسکی عمر ہے یہ سب کہنے والی۔۔۔۔۔فلک کا غصّہ سے بُرا حال ہوا تھا عروہ کی بات پر۔۔۔۔

ماما میں پورے چھ سال کی ہوں۔۔۔عروہ تو اپنی عمر پر بات انے پر تلملا کر بولی تھی۔۔۔۔

پر باتیں تمھاری چھبیس سال کی لڑکی کی جتنی ہے۔۔۔فلک نے اپنی بیٹی کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔

کامل تو مسکراہٹ ضبط کیے اپنے پٹھاکے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

بس کرے نہ بھابھی بچی ہے۔۔۔بیہ نے فورا سے عروہ کی طرفداری کی۔۔۔

آپ دونوں کی وجہ سے ہی یہ بگڑ رہی ہے۔۔۔فلک نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔

آپ بابا کی شہزدای ہے جس انسان کو بھی آپکو پرپوز کرنا ہوگا وہ سیدھا پہلے آپکے بابا کے پاس آئے گا اور پھر آپکے بابا دیکھے گے کہ وہ انسان آپکا خیال مجھ سے زیادہ رکھ سکتا ہے یہ نہیں۔۔۔۔ایسے کسی کو بھی آپکے بابا آپکے قریب تک نہیں انے دے گے۔۔۔کامل نے عروہ کے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے پیار سے کہا۔۔۔۔

اپنا خیال رکھنا گڑیا۔۔۔۔انابیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے وہ فلک کی طرف بڑھا۔۔۔۔

جس نے اپنے سر پر دوپٹہ لیتے کچھ پڑھنا شروع کیا تھا۔۔۔۔

کامل کے قریب انے پر فلک نے اُسکے چہرے پر پھونک مار کر دم کیا۔۔۔۔

اپنا خیال رکھئے گا حیاتی اج تھوڑی دیر ہوجائے گئی مجھے تو آپ سو جائیے گا۔۔۔۔کامل نے فلک کی پیشانی پر محبت سے بوسا دیتے کہا ۔۔۔

کامل کی بات پر فلک کا دل بجھ سا گیا پھر بھی وہ اثبات میں سر ہلاتی اُسے باہر دروازے تک چھوڑنے ائی۔۔۔۔

جب کامل کچھ یاد انے پر پلٹا۔۔۔۔

آج پاکستان سے شاداب آرہا ہے دیکھ لی جئے گا آپ۔۔۔۔کامل کہتا الوداعی نظر فلک پر ڈالے اپنی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔۔۔۔

فلک بھی اندر کی طرف بڑھ گئی شاداب خان کامل کی چچا کا بیٹا تھا جو آج آرہا تھا ۔۔۔۔

💗💗💗💗

وہ لال رنگ کی گھٹنوں تک اتی فروک پہنے بالوں کو کھلا چھوڑے سفید رنگت ،تیکھے نین نقش اوپر سے ہونٹوں پر لال رنگ کی لپ اسٹک لگائے ہاتھ میں لال گُلابوں کا بکے تھامے اپنے دیہان میں پھولوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی کچھ گنگناتی بیہ کے گھر کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔

جب دروازے کے قریب پہنچتے وہ دوسری طرف سے تیزی سے انے والے انسان سے ٹکرائی پھولوں کا بکے دور زمین پر گرا ۔۔۔ہائی ہیل کی وجہ سے وہ ابھی اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے گرتی جب سہارا لینے کو اُس نے مقابل کی شرٹ پکڑے اُسے بھی اپنے ساتھ گرایا۔۔۔۔۔

وہ جو آج ہی ایئرپورٹ سے جلدی جلدی گھر تک ایا تھا دروازے پر اتے ہی ایک لڑکی کے ٹکرانے پر رکا اور پھر اُس لڑکی کے سہارا لینے پر وہ بھی اُسکے ساتھ زمین بوس ہوا۔۔

اب نظارہ کچھ یو تھا لیزا زمین پر گری ہوئی تھی اور وہ اُس کے اوپر۔۔۔گرنے کی وجہ سے شاداب کے لب لیزا کی گردن سے ٹکرائیے اور دونوں ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے اپنی اپنی جگہ جم گئے ۔۔۔۔

لیزا کی آنکھیں اپنی گردن پر کسی لڑکے کے لمس کو محسوس کرتے صدمے سے پٹھی ۔۔۔۔۔

شاداب تو جیسے اس نازک وجود سے اٹھتی مہک میں کھو گیا تھا اُس نے نہ اپنے لب لیزا کی گردن سے ہٹائے نہ اُس سے دور ہوا بس سٹل سا لیزا کے وجود سے اٹھتی مہک کو محسوس کرتا رہا۔۔۔۔

اٹھو میرے اوپر سے ۔۔۔۔لیزا ہوش میں اتے ہی چیخی۔۔۔۔

لیزا کی چیخ پر وہ جو اُسکی خوشبو میں کھویا ہوا تھا اُسکی گردن سے منہ نکالتے اُسکے چہرے کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔

چھوٹی چھوٹی  گول آنکھیں جنہیں میکپ کرتے برا کیا گیا۔۔۔۔۔چھوٹی ہی ناک اور یہ لال رنگ سے رنگے ہونٹ وہ لیزا کی طرف دیکھتا ہی گیا۔۔۔۔

لیزا نے غصّہ سے اس انسان کو دیکھا جو اب اُسکے چہرے کو ایکسرے کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

سرخ و سفید رنگت کامل کی طرح سبز آنکھیں پٹھانی نین نقش۔۔۔۔۔وہ بھی خوبرو ہی تھا۔۔۔۔

ہٹ بھائی میرے اوپر سے ۔۔۔لیزا چرتے ہوئے بولی اور اپنے ہاتھوں کا پورا زور لگا کر شاداب کو خود سے دور داخیلا ۔۔۔۔

شاداب نے دور ہوتے لیزا کو دیکھا جو اب زمین سے کھڑی ہوتی اپنے ڈریس کو دیکھ رہی تھی جس پر جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔جبکہ اُسکے بھائی کہنے پر اُسکا حلق تک کروا ہوا تھا۔۔

یہ اللہ میرا ڈریس ، میرے پھول ،میری چپل۔۔۔لیزا نے پہلے اپنے ڈریس کو پھر پھولوں کو جو زمین پر بکھر گئے تھے اور پھر اپنی ہیل کو جو ٹوٹ گئی تھی دیکھتے صدمے بھری آواز میں کہا۔۔۔

وہ کتنی محنت اور لگن سے اج کے دن کے لیے تیار ہوئی تھی یونی میں اج فنکشن تھا جہاں وہ زبردستی بیہ کو بھی لے جانا چاہتی تھی جو نہ جانے کا بول چکی تھی یہ پھول بھی اُس نے بیہ کو منانے کے لیے لئے تھے۔۔۔۔

تم ۔۔۔ تُم نے میرا پورا حال خراب کردیا مسٹر دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے تم ۔۔۔لیزا غصے سے پلٹتی اپنی شہادت کی انگلی شاداب کی طرف کرتے ہوئے چیخی۔۔۔

اور اگر میں بھی یہی کہو کہ تم ۔۔۔تم نے میرا بھی پورا حال خراب کردیا ہے مس دیکھ کر نہیں چل سکتی تم تو۔۔۔شاداب نے بھی لیزا کے انداز میں اپنی شہادت کی انگلی اُسکے چہرے پر کرتے کہا اور لیزا کا غصّہ سے دماغ گھوما۔۔۔۔

میں دیکھ کر نہیں چلی ۔۔۔میں ۔۔۔مسٹر میں دیکھ کر چل رہی تھی۔۔۔۔لیزا نے غصے سے گہرا سانس بھرتے اپنی طرف انگلی کرتے  کہا۔۔۔

جی تم ۔۔۔اور کیا دیکھ کر چل۔رہی تھی ان پھولوں کو ۔۔۔میڈم سڑک پر چلتے ہوئے نیچے یہ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا پڑتا ہے ناکہ ہاتھ میں تھامے بکے کو اپنے آپکو ہیروئن سمجھ کر آپ بکے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔شاداب کو کچھ پل پہلے وہ جتنی حسین لگی تھی ابھی اتنی ہی زہریلی لگی ۔۔۔۔۔یہ لڑکی اپنی غلطی نہیں ماں رہی تھی اُلٹا اُسی پر الزام لگا رہی تھی۔۔۔۔۔

آج کے دن یہ اللہ اج کے دن خاص طور پر آپ سے دعا مانگی تھی چار نفل ادا کرکے کہ ایک ہینڈسم چارمنگ لڑکے سے ٹکر کروانا جو مجھے دیکھتے ہی میرے پیار میں ڈوب جائے لیکن آپ نے اس کینگرو سے ٹکر کروا دی۔۔۔۔لیزا نے آسمان کی طرف دیکھتے بیچارگی بھری آواز میں کہا۔۔۔

شاداب جو اُسکی بات پر یکدم مسکرا پڑا تھا اُسکی آخر میں کی گئی بات پر اُسکی سبز انکھوں میں غصّہ لہرایا۔۔۔۔

اور تم تم خود کیا ہو بندریا ہو تُم لال لباس میں لال میکپ کی ہوئی بندریا۔۔۔۔۔شاداب نے فوراً سے اُسکے لال لباس پر چوٹ کی۔۔۔۔

اپنے آپکو بندریا کہہ جانے پر لیزا کا منہ حیرت سے کھلا۔۔۔۔۔

شاداب کو سمجھ نہ ایا وہ کیوں اس لڑکی سے بچوں کی طرح بحث کر رہا تھا۔۔۔۔

بیہ ۔۔۔۔۔لیزا کچھ بھی کہنے کے بجائے بیہ کا نام لیتی چیخی۔۔۔۔

فلک بھابی۔۔۔۔اپنے آپکو بندریا کہہ جانے پر اُسکی شربتِی  آنکھیں آنسو سے بھر ائی۔۔۔۔۔۔وہ فلک کا نام لیتی بھی چیخی ۔۔۔

اور شاداب حیرت سے اُسے یوں چیختے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

جو اُسکی طرف دیکھتے چیخی جا رہی تھی جبکہ اُسکی نم آنکھیں دیکھتے بھی اُسے بندریا بولنے پر شبہ ہوا کہ کہیں بندریا کے بجائے کوئی اور لفظ تو اُسکے مُںہ سے نہیں نکال گیا جو سامنے کھڑی لڑکی رونے لگ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔

فلک اور انابیہ کو ابھی ڈائننگ ٹیبل پر ہی بیٹھی آپس میں بات کر رہی تھی باہر سے اتی لیزا کی چیخ سنتے وہ جلدی سے باہر ائی۔۔۔۔

شاداب کو لیزا کے سامنے دیکھتے فلک کو سمجھ نہ ایا کہ کیا ہوا ہے جبکہ انابیہ حیرت سے شاداب کو دیکھ رہی تھی اُس نے پہلی بار شاداب کو یہاں دیکھا تھا ورنہ صرف کامل نے اُسے سب کی تصویریں ہی دکھائی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا لیزا۔۔۔انابیہ نے لیزا کے پاس اتے ہوئے پوچھا۔۔۔

کیا ہوا ہے شاداب یہ رو اور چیخ کیوں رہی ہے۔۔فلک نے بھی شاداب سے پوچھا۔۔۔۔

آپ اس سے مت پوچھے بھابھی میں بتاتی ہوں۔۔۔بیہ اس نے میرا مذاق اڑایا ہے ۔۔۔اور ساتھ ساتھ مجھے زمین پر گرایا بھی۔۔۔لیزا نے بھیگی انکھوں کے ساتھ انابیہ سے کہا۔۔۔

نہیں بھابھی میں نے صرف اسکو بندریا بولا  ۔۔۔۔۔۔اور وہ بھی تب بولا جب اس نے مجھے کینگرو کہا۔۔ اور گری یہ اپنی خود کی حرکت کی وجہ سے ہے۔۔۔۔شاداب نے فوراً سے صفائی دی اور تیز نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا جو اب معصوم بنی ہوئی تھی۔۔۔۔

دیکھا دیکھا اس نے مجھے بندریا بولا بھلا کوئی اتنی حسین لڑکی کو بندریا بول سکتا ہے ۔اور کوئی لڑکی کیا جان بوجھ کر اپنا اتنا پیارا ڈریس گر کر خراب کروائے گئی۔۔۔۔۔لیزا نے آنکھیں جھپک جھپک کر آنسو زبردستی نکالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔

انابیہ اور فلک نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اُنہیں یقین نہ ایا سامنے کھڑے نوجوان بچوں کی طرح آپس میں لر رہے تھے۔۔۔۔

بری بات شاداب ایسے نہیں بولتے ۔۔۔فلک نے شاداب کو ڈپٹا۔۔۔جو فلک کی بات پر غصّہ سے لیزا کو دیکھے گیا۔۔۔۔

اچھا چلو تُم چپ کرو ابھی تمہارا ڈریس ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔اور موڈ بھی ۔۔۔انابیہ نے لیزا سے کہا ۔۔۔

نہیں میرا موڈ ایسے ٹھیک نہیں ہوگا صرف ایک ہی طرح سے ٹھیک ہوگا۔۔۔لیزا نے انابیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

کیسے۔۔۔انابیہ نے پوچھا ۔۔۔

جب ہم دونوں یونی میں جائے گے فنکشن میں ۔۔۔۔پلیز دیکھو میرے ساتھ صبح صبح کتنا بُرا ہوا ہے۔۔۔لیزا نے انابیہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنا مدا بیان کیا۔۔۔۔

فلک اور انابیہ اور شاداب کو پل لگا تھا سمجھنے میں کہ وہ ایموشنل بلیک میل کرنے کے لیے اتنا سارا ڈراما کر رہی تھی شاداب کو ذریعہ بنا کر۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے ہم چلتے ہے تُم اس سے ملو یہ میرے کزن ہے شاداب۔۔۔۔انابیہ نے شاداب سے تعارف کروایا ۔۔۔

اور شاداب یہ لیزا ہے میری دوست۔۔۔انابیہ نے شاداب سے کہا۔۔۔۔

لیزا نے شاداب کی طرف دیکھا اور شاداب نے لیزا کی طرف اور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی اپنی آبرو ریز کرتے اپنا منہ پھیرا۔۔۔۔۔

چلو اب اندر۔۔۔فلک کے کہنے پر وہ سب اندر کی طرف بڑھے جب لیزا کچھ یاد انے پر رکی۔۔۔

صبر بھابھی میں اپنے پھول اٹھا لو ورنہ پھول پیروں میں آئے گے ۔۔۔لیزا نے کہتے پھول اٹھانا شروع کیے اور شاداب اس لڑکی کو دیکھے گیا جو ایک نمبر کی ڈرامے باز تھی لیکن تھی پیاری۔۔۔۔۔

لیزا کے انے پر وہ سب اندر کی طرف بڑھ گئے لیزا اور انابیہ تو اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی کیونکہ اُنہیں تیار ہونا ہے جبکہ شاداب اپنی گود میں عروہ کو لیے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔

شاداب گھر میں سب کیسے ہے اور خیریت اتنی ارجنٹ تم یہاں آئے۔۔۔فلک نے جوس دیتے ہوئے اُس سے پوچھا۔۔۔

 سب ٹھیک ہے بھابھی بس بھابھی یہاں کی یونی میں ایڈمیشن  لیا ہے اور کامل بھائی نے مجھے فورس کیا یہاں انے کو تو میں آگیا۔۔۔شاداب نے جوس کا گلاس پکڑتے ہوئے بتایا۔۔۔

صحیح پھر ایک کام کرو اگر تُم۔تھک نہیں گئے ہو تو ان دونوں کے ساتھ ہی یونی چلے جاؤ اج وہاں پر فنکشن بھی ہے یونی بھی دیکھ لینا اور تھوڑا انجواۓ بھی کر لینا۔۔۔۔فلک کے کہنے پر شاداب نے اثبات میں سر ہلایا۔۔اور عروہ کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگیا۔۔۔۔

لیزا بس بھی کرو یار وہ اب سے ہماری یونی میں ہی پڑھے گا اچھا ہے نہ اج وہ یونی دیکھ بھی لے گا۔۔۔انابیہ نے کار کی پچھلی سیٹ پر اپنے ساتھ بیٹھی لیزا سے کہا جو غصے سے منہ پھلائے پسینجر سیٹ پر برجمان شاداب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے نہ میں کچھ نہیں بول رہی بس اسکو بولوں اپنی یہ سریلی آواز بند کردے میرے کان سے اب خون نکل آئے گا۔۔۔۔لیزا نے چڑتے ہوئے کہا کیونکہ وہ دونوں جب سے گاڑی میں بیٹھے تھے تب سے شاداب مسلسل کچھ نہ کچھ گنگنائے جا رہا تھا۔۔۔

جس کو میری آواز نہیں پسند وہ اپنے کان بند کرلے۔۔۔۔شاداب کی آواز سنتے لیزا کا دل کیا اُسکی گردن پیچھے سے ہی اپنی گرفت میں لیتے دبا دے۔۔لیکن انابیہ کے ہاتھ پکڑنے کی وجہ سے وہ ضبط کرتی رہ گئی ۔۔۔۔

گاڑی اُنکی یونی کے باہر رکی تھی یونی کے اندر سے اتے تیز گانوں کی آواز پر وہ سمجھ گئے تھے فنکشن شروع ہوچکا ہے۔۔۔

یہاں موجود سب لڑکیاں لال رنگ کا ڈریس پہنے ہوئی تھی جبکہ لڑکوں نے بلیک پینٹ کورٹ کے ساتھ لال شرٹ پہنی ہوئی تھی۔۔۔یہ اج کا ڈریس کوڈ تھا جو وہ شاداب کو بھی بتا چکے تھے تو وہ بھی اسی مطابق ڈریسنگ کرکے آیا تھا۔۔۔۔

وہ دونوں خود بھی لال رنگ کی پیروں کو چھوٹے گاؤن پہنے ہوئی تھی لیزا کی آستینیں آدھی تھی لیکن انابیہ کی فل تھی۔۔۔۔بالوں کو کھلا چھوڑے لبوں پر ہلکی سرخ لیپ سٹک لگائے آنکھوں میں کاجل اور نازک سے بندے پہنے انابیہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔

جبکہ لیزا نے لبوں پر سرخ تیز رنگ لگایا تھا آنکھوں پر بھی ہلکا ہلکا میکپ کیا ہوا تھا لیکن وہ بھی لگ پیاری ہی رہی تھی۔۔۔۔

اُن تینوں نے ساتھ یونی کہ گراؤنڈ کی طرف اپنے قدم بڑھائے جہاں پر فنکشن رکھا گیا تھا۔۔۔۔

فنکشن کی جگہ پر پہنچتے ہی بیہ کو اپنے اوپر کسی کی تپش زدہ نظریں محسوس ہوئی ایسے جیسے کوئی جھلستی آگ برساتی نِگاہوں سے اُسے دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔اُسے اپنا وجود جلتا سا محسوس ہوا۔۔۔۔

بیہ نے پورے گراؤنڈ پر نظریں گھمائیں جہاں ہر طرف لڑکے لڑکیاں ساتھ کھڑی کچھ باتوں میں۔مصروف تھے تو کچھ ڈانس کر رہے تھے۔۔۔۔۔

جب اُسکی نظر سامنے کھڑے حسام پر پڑی جو مسکراتا ہوا کسی دوسرے پروفسیر سے باتوں میں مشغول تھا۔۔۔۔

بلیک تھری پیس پہنے بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے ہاتھ میں مشروب کا گلاس تھامے دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیب میں پھنسائے وہ اج دیشنگ لگ رہا تھا۔۔۔۔۔

انابیہ کی نظریں اُسی پر ٹکی تھی اب اُسے اپنے اوپر وہ تپش بھری نظریں بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔۔

حسام جو اج یونی اتے ہی بصبری سے انابیہ کا انتظار کر رہا تھا اُسکی نظر سامنے انٹرنس پر اٹھی اور پھر وہی جم گئی۔۔۔۔

لال گاؤن میں بالوں کی دو لٹوں کو دونوں اطراف سے پیچھے پن کیے بالوں کو کرل کیے جس کی دو لٹیں اُسکے چہرے پر گری ہوئی تھی کالی آنکھوں میں کاجل لگائے ہونٹوں پر ہلکی سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگائے وہ حسام کو بت بنا گئی تھی۔۔۔

وہ تک تک اُسے دیکھا گیا گاؤن میں نمایاں ہوتا اُسکا حسین سراپا اور حسین چہرہ حسام کے سارے جذبات ابھار گیا تھا۔۔۔۔اُسکے دل کی دھڑکن سامنے کھڑی لال لباس میں سجی اپنی بیوی کو دیکھتے رک گئی تھی۔۔۔۔

یکدم اُسے ایک چیز کا احساس ہوا اُسکا یہ حسین سراپا صرف وہی نہیں یہاں موجود ہر مرد دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔یہ احساس ہوتے ہی اُسکی سیاہ آنکھیں جو محبت سے بیہ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی لال ہوئی بیہ کا حسین سراپا اس گاؤن میں نمایاں تھا وہ انتہا کی حسین لگ رہی تھی ۔۔۔تو کیسے ممکن تھا کہ کسی کی نظر اُس پر پڑتی اور وہ نظرانداز کرجاتا ۔۔۔وہ سب کو مہبوت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔۔۔۔

یہاں موجود نہ جانے کتنے مردوں کی نظر انابیہ پر پڑتی حسام یہ سوچ سوچ کر اپنے وجود میں خون کی جگہ لاوا سرایت کرتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔

جب انابیہ کے اپنی طرف دیکھنے پر وہ اپنی آنکھیں پھیر گیا۔۔۔اپنی نظریں ہٹانے کے بعد وہ اپنے اوپر انابیہ کی نظر محسوس کر سکتا تھا یہ احساس اچھا تھا لیکن اُسکے۔دل و دماغ میں لگی جلن کو کم کرنے کے لیے نہ کافی۔۔۔۔

حسام نہ انابیہ کے دیکھنے پر اُسکی طرف دیکھا اور اُسے دیکھتے دھیما سا مسکرایا۔۔۔۔

انابیہ حسام کے یو اچانک اپنی طرف متوجہ ہونے پر گھبرائی جب حسام کو اپنی طرف دیکھتے مسکراتے پاتے اُسکی دل کی دھڑکن تیز ہوئی وہ جلدی سے اپنی نگاہیں جھکا گئی۔۔۔۔۔

حسام کی نظر اب اُسکے ساتھ آئے لڑکے پر پڑی تھی اور اُسکا رہا سہا ضبط بھی اُسے کھوتا ہوا محسوس ہوا اُس نے اپنی آنکھوں سے جون کو اشارہ کیا جو اُسکے قریب ہی کھڑا تھا۔۔۔

یہ لڑکا کون ہے جو بیہ کے ساتھ ہے۔۔۔۔حسام نے جون کے پاس انے پر سخت لہجے میں اُس سے پوچھا۔۔۔جبکہ اب سیاہ لال آنکھیں اُس پر ہی جمی تھی جو بیہ لیزا کے ساتھ ایک طرف کو کھڑا تھا۔۔۔۔۔

کامل خان کا کزن ہے اج ہی آیا ہے یہاں۔۔۔جون نے اُسے بتایا جسے سنتے حسام کی چھٹی حس نے اُسے کچھ غلط ہونے کی نشاندھی کی۔۔۔۔۔

وہ اپنے جبڑے بھینچے نہایت ضبط کے ساتھ بیہ کو شاداب کے ساتھ کھڑا دیکھ رہا تھا لیکن شاداب کی نظر بیہ کے بجائے لیزا پر دیکھتے اُسے تھوڑا سکون ملا تھا۔۔۔پر سینے کی جلن تھی جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی تھی وہ اتنا تیار ہوئی سجی ہوئی بھری محفل میں کھڑی تھی جہاں ہر مرد کی نظر اُس پر پڑ رہی تھی حسام کو یہ بات چین نہیں لینے دے رہی تھی۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

وہ اج خود بھی ریڈ رنگ کی شرٹ جس کے نیچے سفید رنگ کا سکرٹ تھا گولڈن بالوں کو ڈھیلے بلوں میں باندھے کندھے سے آگے کیے ہونٹوں کو گلابی رنگ سے رنگے ٹاپس پہنے   سدرہ کے ساتھ یونی ائی تھی ۔۔۔۔۔

اج یونی اتے ہوئے اُسکا دل تیز دھڑک رہا تھا ۔۔۔سدرہ لال رنگ کی بغیر آستینوں کی گھنٹوں تک اتی فروک اور سفید پینٹ میں بالوں کو کھلا چھوڑے سادہ چہرے لیے اُسکے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔

آمنہ کی نظریں ہر جگہ صرف ایک انسان کو ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔وہ اور سدرہ ایک ساتھ کھڑے یونی میں اانجان نظروں سے سب کی طرف دیکھ رہے تھے جب انابیہ کی نظر اُن دو لڑکیوں پر پڑی جو اُسے نئی لگی۔۔۔۔

وہ فوراً سے امنہ اور سدرہ تک ائی اُن دونوں سے بات کرتے اُسے پتہ چلا امنہ بول نہیں سکتی ۔۔۔انابیہ کو دکھ ہوا گڑیا جیسی لڑکی کی اس کمی پر وہ اُن دونوں کو ساتھ لیے لیزا اور شاداب کی طرف ائی ۔۔۔

جلد ہی امنہ اور سدرہ بھی اُن سب کے ساتھ فری ہوتے باتوں میں مشغول ہوگئی لیکن امنہ کی نظر تو بس زرقان کی تلاشی تھی ۔۔۔

جب اُسکی نظر انٹرنس پر اور وہاں سے اتے زرقا ن پر جو اج بلیک ٹو پیس میں ڈریس کوڈ کو فولو کیے ہوئے تھے اُسکے بھورے بال اج بھی بھکرے ہوئے اُسکے ماتھے پر گرے ہوئے تھے ہاتھ میں گھڑی کے بجائے وہی مختلف قسم کے بینڈ تھے جبکہ شہد رنگ آنکھوں میں وہی شوخی تھی۔۔۔۔

آمنہ کی نظر زرقا ن کے وجہیح چہرے سے ہوتے ہوئے اُسکے ہاتھ پر گئی جہاں وہ ایک لڑکی کا ہاتھ بری مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا وہ لڑکی بھی اُسکے نہایت نزدیک شورٹ ریڈ کپڑوں میں ملبوس تھی۔۔۔

جانے کیوں یہ منظر دیکھتے امنہ کو برا لگا اُس نے فوراً سے اپنی نگاہیں پھیری ۔۔۔۔۔

لو آگیا میرا کرش کتنا پیارا ہے۔۔۔۔لیزا کی بات پر سب اُسکی طرف متوجہ ہوئے جبکہ بیہ نے نفی میں اپنا سر ہلایا۔۔۔۔

شاداب نے غور سے سامنے کھڑے زرقا ن کو دیکھا جو تھا تو ہینڈسم لیکن وہ اُسکا حلیہ دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا وہ ایک پلے بوائے ہے۔۔۔۔اُسے لیزا کی پسند پر افسوس ہوا۔۔۔

بس کرو تم کوئی پیارا نہیں ہے آئے دن کوئی نہ کوئی نئی لڑکی ہوتی ہے اسکے ساتھ مجھے سخت زہریلا لگتا ہے۔۔۔انابیہ نے تلخئ سے کہا۔۔

مجھے بھی۔۔۔سدرہ نے بھی فوراً سے کہا۔۔۔

تمہیں کیوں لگتا ہے ۔۔۔لیزا نے سدرہ سے پوچھا جس نہ اُسے امنہ کے ساتھ ہوئے واقعہ کا بتایا۔۔۔۔

دیکھا یہ ہے ہی ایسا اپنی مستی مذاق میں چاہے دوسرا کتنی ہی تکلیف نہ محسوس کر رہا ہو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔انابیہ کے کہنے پر امنہ نے جلدی سے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا۔۔۔

نہیں انہوں نے بعد میں مجھ سے معافی بھی مانگی اور کہا کہ کوئی مدد چاہئے ہو تو مانگ لینا۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی وہ ان سب کو انتہا کی معصوم لگی ۔۔۔۔سدرہ نے جلدی سے اُن لوگوں کو بتایا۔۔۔

کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں اس سے مدد مانگنے کی اب ہم ہے نہ کوئی بھی مسئلہ ہو تم ہمارے پاس انا ۔۔۔انابیہ نے امنہ کا گال کھینچتے ہوئے کہا۔۔۔

انابیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

بس کردو تم لوگ اب میرے کرش کی بہت بعزتی کر چکے ہو۔۔۔لیزا نے منہ لٹکا کر کہا۔۔۔

جس طرح کا آپکا کرش ہے نہ وہ بعزتی ہی کے لائق ہے۔۔۔شاداب جو کب سے چپ تھا بولے بنا نہ رہ سکا جانے کیوں لیزا کے منہ سے نکلی زرقان کی تعریف اُسے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔۔

سچ بولو نہ تم اُسکی وجاہت سے جل چکے ہو۔۔۔سدرہ نے تیز نظروں سے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

میری جوتی بھی کسی سے نہیں جلتی مس لیزا ۔۔۔۔اور رہی بات وجاہت کی تو ہم پٹھانوں پر خوبصورتی آکر تمام ہوتی ہے۔۔۔۔شاداب نے فخر سے بتایا۔۔۔۔

جب ڈانسنگ فلور پر ڈانس کی اناومسنٹ ہوئی۔۔۔

تم دونوں لڑنا بند کرو ۔۔انابیہ نے دونوں کو چپ کروایا۔۔۔۔

آئے پیاری سی لڑکی ڈانس کرتے ہیں۔۔شاداب نے امنہ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جو اپنی اُداس آنکھوں سے سامنے زرقان کو دیکھ رہی تھی جو اپنی گرلفرینڈ کی کبھی لٹوں سے کھیل رہا تھا تو کبھی اُسکی گردن پر ہاتھ پھیر رہا۔ تھا۔۔۔۔۔

آمنہ نے شاداب کے کہنے پر مسکراتے ہوئے اُسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا۔۔لیزا نے منہ بناتے شاداب کی طرف دیکھا جو اُسے اگنور کیے امنہ کو لیے ڈانسنگ فلور کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔

میں ائی کال ائی ہے۔۔۔۔سدرہ نے اپنے بجتے فون کو دیکھتے انابیہ سے کہا اور وہاں سے دور نکلی ۔۔۔۔

لیزا ہاتھ میں کولڈ ڈرنک تھامے امنہ اور شاداب کو دیکھنے لگی۔۔۔۔جبکہ انابیہ خود کی آنکھوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی جو اُسے اکسا رہی تھی ایک دفعہ بس ایک دفعہ نظر اٹھا کر حسام کو دیکھ لے ۔۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

زرقان ایک طرف اپنی گرل فرینڈ صوفیہ کے ساتھ کھڑا تھا جب اُسکی نظر سامنے ڈانسنگ فلور پر اٹھی ۔۔۔۔

جہاں امنہ کو کسی لڑکے کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھ اُسکا ہاتھ جو صوفیہ کی کمر پر تھا وہ ہٹا ۔۔۔

اپنے کان میں پہنی بالی کو گھماتے اُسکی شہد رنگ آنکھیں امنہ کے ہنستے چہرے پر ٹکی تھی۔۔۔

اُسکے پورے وجود میں جلن کے بھانپر جل اٹھے تھے امنہ کی کمر پر رکھے شاداب کے ہاتھ کو دیکھتے اُسے بلکل اچھا نہیں لگا تھا اُسے امنہ شاداب کے ساتھ ڈانس کرتے ہوئے ایک آنکھ نہیں بھائی ۔۔۔۔۔

صوفیہ نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا جو اُسے چھوڑ کر اب سامنے امنہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔

مجھے لگتا ہے بوائے فرینڈ ہے اُسکا ۔۔۔۔صوفیہ نے زرقان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔

تمہیں کیسے پتہ۔۔۔زرقان نے ایک لمحہ کے لیے بھی امنہ کی طرف سے اپنی نظر نہیں ہٹائیں تھی۔۔۔۔

جس طرح ڈانس کر رہی ہے اُسکے ساتھ اور یہ خوشی دیکھ رہے ہو اُسکے چہرے پر اُس سے پتہ چل رہا ہے۔۔۔۔صوفیہ نے اُسکے کندھے سے مزید چپکتے ہوئے کہا۔۔۔

چلو۔۔۔زرقان نے صوفیہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اسے ڈانسنگ فلور کی طرف کھینچا۔۔۔۔

امنہ جو اپنا دیہان بلکل ہی زرقان پر سے ہٹا چکی تھی شاداب کی باتوں پر ہنستے ہوئے اُسکے ساتھ ڈانس کر رہی تھی جب اُسکی نظر اپنے پاس اتے زرقان پر پڑی جو اب صوفیاء کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا۔۔دل میں ہلکی سی چبھن سی محسوس ہوئی اُسے لیکن نظرانداز کرتے ہوئے اپنی نگاہیں پھیر گئی۔۔۔۔اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس وہ کر چکی تھی ۔۔۔

ڈانس وہ صوفیہ کے ساتھ کر رہا تھا لیکن نظریں اُسکی امنہ کی طرف تھی جو شاداب کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔

پانٹر بدلنے پر زرقان نے ایک لمحہ ضائع نہ  کرتے امنہ کو اپنی گرفت میں لیا امنہ نے حیرت سے زرقان کے چہرے کو دیکھا جس نے اُسکے دیکھنے پر اپنی ایک آنکھ ونک کی ۔۔۔۔۔

ہائی ڈارلنگ۔۔۔۔زرقان نے اُسکی قمر پر رکھے اپنے ہاتھ کی گرفت سخت کرتے اُسکی ہیزل بلو آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔

زرقان کے لمس سے امنہ کے پورے بدن میں سنسنی سی دور گئی وہ اپنی ہیزل بلو آنکھوں کو پھیلائے زرقان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

وہ لڑکا جس کے ساتھ تم ڈانس کر رہی تھی وہ کیا تمہارا بوائے فرینڈ ہے۔۔۔امنہ کی قمر میں ہاتھ ڈالے اُسے گھماتے دوبارہ اپنے سینے سے لگاتے پوچھا۔۔۔

آمنہ کے دل میں اُسکے اس سوال سے عجیب سا احساس اُبھرا اُسے لگا زرقان کو جلن ہو رہی ہے۔۔۔۔اوپر سے اس قدر نزدیکی اُسکا دل پسلیوں سے سر ٹکڑا رہا تھا ۔۔۔۔

اس نے زرقان کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

یہ تو اچھی بات ہے ورنہ میرا دل تھوڑا سا ٹوٹ جاتا۔    ۔۔زرقان نے اُسکے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

اُسے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا اُسے چھونا اچھا لگ رہا تھا ابھی کچھ پل پہلے جب شاداب اُسکی قمر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اُسے وہ سب زہر لگا تھا لیکن ابھی خود اس نازک وجود کو محسوس کرتے اُسکے وجود میں سرور سا دور گیا تھا۔۔۔۔

اامنہ  نے اُسکے دمپل دیکھتے اپنی دھڑکنوں کو بڑھتا ہوا محسوس کیا ۔۔۔۔

آمنہ نے ایک فسو میں اپنے ہاتھ اٹھا کر زرقان کے گال پر اُسکے دمپل کے مقام پر رکھا زرقان کی آنکھوں میں چمک اُبھری وہ امنہ کے گلابی لبوں کو دیکھتے اُس پر جھکنے لگا ۔۔۔دونوں ایک دوسرے کے انتہاء کے قریب تھے دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے پر پرتی اُنہیں ایک فسوں میں باندھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔

اور امنہ وہ اپنے ہاتھوں پر زرقان کی داڑھی کی چھبن سے فوراً سے ہوش میں ائی زرقان کو اپنے لبوں پر جھکتے دیکھ وہ ایک جھٹکے سے اُس سے دور ہوئی۔۔۔۔

 زرقان نے اسے خود سے دور ہوتا دیکھ اپنی آبرو ریز کی سارا فسوں پل بھر میں ٹوٹا ۔۔۔امنہ اپنی سرخ رنگت اور جھکی نظروں سے  وہاں سے ایک بھی نظر زرقان کو دیکھے بنا وہاں سے بھاگی۔۔۔۔۔

زرقان نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے خود سے دور جاتی امنہ کو دیکھا اُسکا لال سرخ چہرہ اُسکے ذہن کے پردوں پر جم گیا تھا۔۔اور لبوں پر مسکراہٹ نے اپنا ڈیرہ جمایا۔۔۔۔

صوفیہ نے نفرت بھری نظروں سے امنہ کی پشت کو دیکھتے زرقان کے چہرے پر جمی اس مسکراہٹ کو دیکھا۔۔۔۔

زرقان اپنے دل کے حالات کو کچھ نام نہ دے پایا امنہ کو اُس لڑکے کے ساتھ دیکھتے جانے کیوں اُسکے دل میں جلن سی اُبھری تھی  جو اُسے اپنے نزدیک کرتے ختم ہوئی تھی۔۔۔

ہیلو ۔۔۔۔سدرہ ابھی اپنے فون پر اپنے بھائی سے بات کرتے پیچھے مری تھی جب سامنے کھڑے جون کو دیکھتے وہ رکی۔۔۔۔۔

جون کو نظرانداز کرتے اُس نے آگے بڑھنا چاہا جب جون نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔سدرہ اُسکے سینے سے ٹکرائی۔۔۔۔

میں نے ہیلو کہا ہے ۔۔۔جوں نے اُسکے خوبصورت چہرے کو دیکھتے گھمبیر آواز میں کہا ۔۔۔۔ 

اور میں نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔سدرہ نے اپنی کمر پر جمے اُسکے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے  ہوئے کہا۔۔۔۔

کیوں۔۔۔جون نے اپنی گرفت اور مضبوط کی۔۔۔۔

اپنا ہاتھ ہتاؤ مجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔سدرہ نہ غصّہ سے لال ہوتی آنکھوں سے جون کی بھوری انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔

تمیز سے بات کرو لڑکی کیا تمیز بھول۔گئی ہو۔۔۔۔جون نے اپنا ایک ہاتھ اُسکی پچھلی گردن پر رکھتے اُسکا چہرہ اپنے نزدیک کیا۔۔۔

نہیں ہے تمیز مجھ میں چھوڑو مجھے کس حق سے چھو رہے ہو مجھے تم ۔۔۔سدرہ جھٹپٹائی۔۔۔۔

حق کی بات مت کرو جانتی ہو اچھی طرح کیا حق ہے تم پر اور کتنا حق ہے ۔۔۔۔ویسے کل کیسے تم مجھ سے انجان بن گئی تھی۔ جانے کیا کیا بول گئی تھی مجھے سب کے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔جون نے اُسکی گردن پر اپنی ناک ٹریس کرتے کہا۔۔۔۔

سدرہ نے اپنی بکھری سانس سنبھالی ۔۔۔۔

جنید ہت جاؤ پیچھے چھوڑ دو مجھے۔۔ اور انجان بنے ہی رہنا ہی اچھا ہے میں تمہیں نہیں جانتی  کل جو بولا وہ کم تھا ۔۔۔۔۔اپنی گردن پر جون کی گرم و نرم لمس محسوس کرتے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔۔

ان لبوں سے یہ نام سننے کے لئے کتنا ترسا ہوں میں ۔۔۔۔جون نے اُس کے لبوں پر انگلی رکھتے خمار سے بڑھی آواز میں اُسکے ہونٹوں کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

ہت جاؤ پلیز چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔مجھے نہیں عادت تمہاری اس نزدیکی تھی جس طرح سالوں پہلے مجھے چھوڑ گئے تھے اُسی طرح اج بھی چھوڑ دو۔۔۔جس طرح انجان تھے ہم اسی طرح انجان ہی رہو ۔۔۔۔سدرہ نے اُسکی خمار بھری انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔

اب اور انجان بن کر نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔نہ تمہیں اب خود سے دور کر سکتا ہوں۔۔۔غلطی تھی میری جو سالوں پہلے تمہیں چھوڑ گیا تھا اب واپس آیا ہوں تو مجھے تم میرے پاس چائیے ہو۔۔۔جون نے سدرہ کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔

سالوں پہلے بھی تم خود غرض تھے اب بھی خود غرض ہو تم ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو۔۔۔صرف اپنے بارے میں ۔۔۔۔سالوں پہلے جس شہرت کے لیے مجھے چھوڑ گئے تھے کیا ختم ہوگئی ہے  وہ شہرت جو تم پلٹ ائے ہو اس دوزخ بھری زندگی میں ۔۔۔۔سدرہ اپے سے باہر ہوتی چیخی۔۔۔۔۔

سدرہ میری بات سنو۔۔۔جون نے اُسکے گال پر اپنے ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا۔۔۔

خبردار جو میرا نام اپنے ہونٹوں سے ادا کیا خبردار میں تمہیں نہیں جانتی تم مجھے نہیں جانتے کوئی حق نہیں ہے تمہارا مجھ پر سمجھ ائی بات۔۔۔۔سدرہ جون کے سینے پر ہاتھ مارتی ہوئی چیخی۔۔۔۔

جب جون نے جھکتے اُسکی سانسوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔۔

سدرہ تھمی اور جون سالوں بعد اُسی مدہوش کرتے لمس میں کھویا اُسکا لمس محسوس کرنے لگا ۔۔۔۔۔

اپنے ہونٹوں پر نہ جانے کتنے عرصے بعد اس لمس کو محسوس کرتے وہ بلکل ساکت ہوئی تھی۔۔۔نہ جانے کتنے آنسو اُسکی آنکھوں سے بہہ نکلے ۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد وہ دور ہوا۔۔۔سدرہ روتے ہوئے اپنا سر اُسکے سینے پر رکھ گئی۔۔۔۔

کیوں آئے ہو اب ۔۔۔نہیں انا چائیے تھا تمہیں واپس ۔۔۔میں معاف نہیں کرونگی تمہیں۔۔۔بلکل بھی نہیں کرونگی معاف۔۔۔سدرہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔

نہیں کرنا معاف بس میرے ساتھ رہنا۔۔۔جون نے اُسکی قمر سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔

سدرہ جون کی بات پر ہوش میں ائی ایک جھٹکے سے جون سے دور ہوتے اُس نے روتی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔

نہیں رہو گی تمھارے ساتھ کبھی نہیں رہو گی سناتم نے ہر بار وہ نہیں ہوگا جو تم چاہو گے۔۔۔۔۔۔۔بھرائی آواز میں کہتی وہ وہاں سے بھاگتی چلی گئی اور جون بےبسی سے اُسکی پشت کو تکتا رہ گیا۔۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

انابیہ اور لیزا ایک ساتھ کھڑی تھی جب بیہ کے کپڑوں پر جوس گرا ۔۔۔

بیہ نے ایک نظر لیزا کو دیکھا جو ڈانس دیکھنے میں مگن تھی پھر چپ چاپ واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

بیہ کو باہر جاتا دیکھ کر حسام بھی اُسکے پیچھے ایا۔۔۔

بیہ ابھی گراؤنڈ کو پار کرتے اندر واشروم کی طرف بڑھ رہی تھی جب پشت سے اُبھرتی آواز پر رکی۔۔۔۔

انابیہ۔۔۔انابیہ آواز پر پیچھے پلٹی۔۔۔جہاں وہی لڑکا کھڑا تھا جو اُسے ہمیشہ دیکھا کرتا تھا۔۔۔

اس لڑکے کے چہرے پر جمی مسکراہٹ دیکھتے انابیہ کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔۔۔

حسام جو انابیہ کے پیچھے ہی آرہا تھا کسی پروفسیر کے روکنے پر رک کر اُن سے بات کرنے لگا۔۔۔۔

جی۔۔۔انابیہ نے جوابا کہا ۔۔۔

آئی لو یو۔۔۔وہ لڑکا زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ایک ہی منٹ میں گلاب کا پھول بیہ کی طرف بڑھائے اپنے دل کی بات کہہ گیا۔۔۔۔

بیہ کو گھبراہٹ ہوئی یہ سب دیکھتے اور سنتے۔۔۔۔یہاں کوئی بھی نہیں تھا سب فنکشن کی جگہ پر تھے ۔۔۔اُسے اب ڈر لگنے لگا تھا۔۔۔

ائی ایم سوری میں آپکا پروپوزل نہیں قبول کرسکتی۔۔۔۔بیہ نے نرمی سے انگلش میں کہا۔۔۔

پر کیوں نہ جانے کتنے مہینوں سے میں تمہیں دیکھ رہا ہوں تم سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تم مجھے نظرانداز کرتی ہو میں پیار کرتا ہو تم سے۔۔۔۔وہ لڑکا یکدم کھڑے ہوتے بیہ کے بازو اپنی گرفت میں لیتے چیخا ۔۔

اور بیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔کیا پاگل پن ہے یہ میں نہیں کرتی تم سے پیار زبردستی ہے کیا کوئی۔۔۔بیہ نے اپنے کندھے پر رکھے اُسکے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔

کرنا تو پڑے گا مجھ سے پیار جب تم اور میں ایک ہوجائے گے تب تو کرونگی ہی مجھ سے پیار میں پوری تیاری کے ساتھ ایا ہو۔۔۔۔اُس لڑکے نے اپنی جیب سے کلوروفوم سے بھیگا رومال نکالا اور بیہ کی خوف سے زبان بند ہوئی وہ نفی میں سر ہلاتے خوف سے پھیلی آنکھوں سے اُس لڑکے کو۔دیکھ رہی تھی۔۔۔دل میں شدت سے اپنی حفاظت کی دعا کی ۔۔۔۔۔

جب اُس لڑکے نے تیزی سے اُسکے منہ پر رومال رکھا کچھ سیکنڈ کی  مزاحمت تھی اور بیہ ہوش سے بیگانہ ہوتی اُس لڑکے کی باہوں میں تھی۔۔۔

اپنی فتح یابی پر مسکراتے اُس لڑکے نے بیہ کی گردن پر جھکتے اپنا غلیظ لمس چھوڑنا چاہا جب کسی چٹانی گرفت میں اُسے اپنا کندھا محسوس ہوا۔۔۔۔

حسام جلدی سے پروفیسر سے  بات کرتے انابیہ کے پیچھے ایا تھا لیکن یہاں پر نظر آتا منظر دیکھتے اُسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا سانسوں میں تنگی سی محسوس ہوئی۔۔۔

وہ تیز قدم بڑھاتا ایک جھٹکے میں اُس لڑکے تک اتے اُسکا کندھا اپنی فولادی گرفت میں لیے ایک جھٹکے سے بیہ سے دور کر گیا تھا ۔۔۔لڑکے کو زمین پر دھکا دیتے اُس نے نرمی سے بیہ کو اپنی باہوں میں تھاما اُسے اپنے سینے میں بھینچے اُس نے اُسکے ماتھے پر بوسا دیا اور زمین پر نرمی پر لٹایا۔۔۔۔

اور جب وہ پلٹا تو اُسکی سیاہ آنکھیں خون میں ڈوبی ہوئی تھی اُس نے ایک جھٹکے میں زمین پر پڑے اُس لڑکے کو کولر سے پکڑا ۔۔۔

تیری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی۔۔۔کہتے ساتھ اُس نے اپنے مضبوط ہاتھوں کا مکا اُسکے مُںہ پر رسید کیا۔۔۔۔

بیوی ہے میری ۔۔۔لیپرڈ کی بیوی ہے جسے تو نے ہاتھ لگایا جس کے قریب جانے کی تو نے کوشش کی۔۔۔اور اپنی موت کو بلاوا دیا۔۔۔میں اسکو چھونے والی ہواؤں کا بھی دشمن ہو تو سوچ پھر تیرا کیا حشر کرونگا۔۔۔۔حسام بغیر رکے اُسکے مُںہ پر ڈر پر ڈر مکا مارتے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ لڑکا پورا خونم خون تھا حسام کے طاقتور وار کو وہ برداشت نہیں کر پایا تھا ہوش و خرد سے بے گانہ ہوا وہ۔۔۔۔

لیکن حسام۔کا جنوں تھا جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہا تھا ۔۔۔آخری مکا اُسکے منہ پر مارتے وہ بیہ کی طرف بڑھا۔۔۔۔

بیہ کے قریب جاتے اُسے اپنے مضبوط بازوں میں بھرا اور قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔۔

اپنے سینے پر رکھے بیہ کے چہرے کو دیکھتے اُسکے پورے وجود میں سکون دور گیا۔۔۔

پارکنگ میں اپنی گاڑی میں لاتے احتیاط سے بیہ کو پچھلی سیٹ پر لٹایا۔۔جبکہ بیک مرر سے نظریں پیچھے لیتی اپنی متائے جان پر ہی تھی۔۔۔۔

قدر دور سنسان سڑک پر اُس نے اپنی گاڑی روکی ۔۔گہرے سانس بھرتے اپنے غصے پر قابو کرنا چاہا ۔۔گاڑی کا دروازہ کھولتے وہ پچھلی سیٹ پر انابیہ کے پاس ایا اُسے ایک جھٹکے میں اپنے سینے کا حصہ بنایا۔۔۔۔

انابیہ کے لمس کو محسوس کرتے اُسکے پورے وجود میں سرور سا دور گیا جتنی تڑپ جتنی اذیت اُسکے وجود میں بھری ہوئی تھی وہ سب اُسے ختم ہوتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔

انابیہ کی گردن میں منہ چھپائے اُس نے گہرا سانس بھرتے اُسکی خوشبو اپنی نس نس میں بسائی۔۔۔

سیاہ آنکھیں وارفتگی سے بیہ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی پلکیں تک نہ جھپک رہا تھا۔۔۔

کانپتے ہاتھوں کی انگلیوں سے بیہ کی بند پلکوں کو چھوا تو جیسے  اُسکے مردہ جسم میں زندگی پھونک دی ہو ۔۔۔

اس نے اُسکے گالوں پر نرمی سے اپنی اُنگلیاں پھیری۔۔۔

تم تو جانتی بھی نہیں  ہوگی جانم تمہارے اُس حسین چہرے کو اپنے نزدیک دیکھنے اسے چھونے کے لئے میں کتنا تڑپا ہو۔۔۔۔ہر پل صرف تمہیں سوچا ہے ۔۔۔انابیہ کے لبوں پر اپنی انگلی نرمی سے پھیرتے حسام نے گھمبیر آواز میں یہ لفظ ادا کیے۔۔۔۔

جانتی ہو ان کالی آنکھوں میں اپنے لیے انجان پن دیکھتے کتنی تکلیف ہوئی تھی مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے جان لے لی ہو میری۔۔۔تین سال تمہارے بنا رہا تم سے الگ ہر ایک دن مجھے بوجھ لگا ہر ایک دن ۔۔۔ایسی تکلیف اپنے وجود میں اُترتی محسوس کرتا تھا جس کو لفظوں میں ادا نہیں کرسکتا میں۔۔۔۔۔حسام کی سیاہ آنکھیں نم تھی۔۔۔

لیکن پھر مجھے تمھاری تکلیف یاد ائی ۔۔۔کس طرح ۔۔۔کس طرح تمہارے سامنے میں نے کسی دوسری عورت کو اپنی محبت کہا۔۔۔کس طرح تمہارے سامنے میں دوسری عورت کو لے ایا۔۔۔اور پھر۔۔۔حسام نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔اُسے لگ رہا تھا جیسے یہ لفظ ادا کرتے اُسکے گلے شدید درد اٹھ رہا ہو۔۔۔۔

پھر انہی ہاتھوں سے تمھاری۔۔۔تم۔۔ہاری جان لے لی میں نے ہمارے بچے کا قاتل بن گیا میں بیہ۔۔۔بیہ کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے وہ رو گیا اُسکے آنسو بیہ کے شفاف چہرے پر گرے ۔۔۔

میں کیسے اتنا خود غرض ہوگیا میں کیسے اتنا بےضمیر ہوگیا کہ اپنی بیوی کو ہی اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔۔اپنے رب سے روز معافی مانگتا ہوں اپنے بچے کو قتل کیا ہے میں نے اپنی بیوی کو مارا ہے گناہ ہوا ہے مجھ سے گناہ۔۔۔حسام کے آنسو اُسکی داڑھی سے ہوتے ہوئے بیہ کی گردن تک گر رہے تھے لیکن وہ بول رہا تھا نہ جانے کتنا غبار تھا جو دل میں بھرا ہوا تھا اُسکے۔۔۔۔۔۔

یہ تو رب کا کرم ہے مجھ پر اُسکا احسان ہے جو تمہیں واپس لوٹا دیا ۔۔۔اور ابکی بار میں تمہیں خود سے دور نہیں جانے دونگا میں بلکل بھی نہیں۔۔۔جانتی ہو ڈر گیا ہو میں اُن راتوں سے جب ۔۔۔جب مجھے لگتا تھا تم نہیں ہو زندہ تب ۔۔تب مجھے یہ رات وحشت ناک لگتی تھی تنہائی سے ڈر گیا ہو جو مجھے دستی تھی۔۔۔میں ۔۔۔میں سو نہیں پاتا تھا گناہوں کا بوجھ ہی اتنا زیادہ تھا۔۔۔اب واپس وہ سب محسوس نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔بیہ تمہارا حسام بہت ڈر گیا اُن راتوں سے جب وہ ساری ساری رات تکلیف دہ سوچے سوچتے اپنی آنکھ تک بند نہیں کر پاتا تھا۔۔۔حسام بیہ کے ماتھے پر اپنا سر رکھے سارا اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا۔۔۔۔۔

بس اب نہیں روۓ گے ۔۔۔اب ہم نئی یادیں بنائے گے تمھاری اور میری یادیں اپنا ایک گھر بنائے گے ایک فیملی میں تُم اور ہمارے بچے بس۔۔۔میں نہیں چاہتا تمہیں کچھ بھی یاد آئے اور پھر تم خود مجھ سے اور دور ہوجاؤ میں بلکل نہیں چاہتا۔۔۔حسام نے اُسکی بند انکھوں کو دیکھتے کہا جب اُسکی نظر بیہ کے گلابی لبوں پر گئی ۔۔۔

اُسے شدید پیاس کا احساس ہوا۔۔۔گلا خشک ہوتا محسوس ہوا۔۔۔وہ نرمی سے اُسکے لبوں پر جھک ایا ۔۔۔نرمی سے اُسکے لبوں کا لمس محسوس کرتے وہ کسی دوسری دنیا میں کھو گیا تھا۔۔۔۔

کافی دیر تک وہ انتہائی نرمی سے بیہ کے ہونٹوں کو محسوس کرتا رہا پھر دل کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ پیچھے ہتا۔۔۔۔

تشنگی تھی جو ختم نہیں ہوئی تھی اب بھی دل کیا تھا اُسکے ہونٹوں سے اپنی تشنگی مٹاتا رہے۔۔۔۔

بہت جلد تم پھر سے میرے پاس ہوگی جب میں تمہارے پور پور کو اپنی شدت سے بھگو دونگا اور تب ان آنکھوں میں اجنبیت نہیں ہوگی شناسائی ہوگی اور ان لبوں پر مجھ سے محبت کا اطراف۔۔۔دوبارہ جھکتے اُسکے لبوں کو ہلکا سا چھوتے وہ پیچھے ہوا۔۔۔

ایک نشانی دینا بنتا ہے جانا مقالات کی کوئی نشانی تو ہونی ہی چایئے اتنے لمبے ہجر کے بعد کچھ پل قربت کے ملے ہیں تھوڑا فائدہ تو اٹھایا جا ہی سکتا ہے۔۔حسام کہتا انابیہ کا گاؤن اُسکے کندھے سے نیچے کرتا اُسکے دل کے مقام پر جھک ایا پنے لب رکھتے شدت سے وہاں اپنا نشان چھوڑا اور بیہ سے دور ہوا ۔۔۔۔

بیہ کی فروک کندھے سے صحیح کرتے وہ دوبارہ اُسے اپنے سینے کا حصہ بنا چکا تھا دل تھا کہ ہمک ہمک کر باہوں میں موجود وجود میں گم ہونے کا اصرار کر رہا تھا لیکن وہ اپنے جزباتوں کو سلا گیا تھا۔۔۔

اُسکی محبت اُس وقت اُسکے پاس تھی اُسکے انتہائی نزدیک اُسکے علاوہ اُسے کچھ نہیں چائیے تھا وہ سالوں بعد اُسکی خوشبو محسوس کر پایا تھا اُسکے لمس کو محسوس کرتے وہ جی اٹھا تھا یہ چند قربت کے لمحے اُسکے لیے ایسے تھے جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہو ۔۔۔۔۔

کلوروفوم  کا اثر ختم ہونے والا تھا حسام جو آنکھیں موندے بیہ کے سر پر اپنی تھوڑی رکھے بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔بیہ کو خود سے دور کرتے صحیح طرح سے اُسے سیٹ پر لٹایا۔۔۔گہری نظر بیہ کے وجود پر ڈالتے وہ گاڑی سے باہر نکلا ۔۔۔۔

گاڑی کا دروازہ بند کرتے اُس نے اپنی پاکٹ سے سگریٹ نکال کر جلائی جبکہ نظریں شیشے کے پار لیتے وجود پر تھی جو اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔

بیہ جو ہوش میں آچکی تھی اپنی نظریں نہ کھول پائی سر میں ایک ٹیس سی اُبھرتی محسوس ہوئی اپنی تمام تر ہمت لگاتے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی تو نظر سیدھا گاڑی کی چھت سے ٹکرائیں ناک کے نتھنوں میں ایک تیز مردانا پرفیوم کی خوشبو ٹکرائیں جو پوری گاڑی میں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔

اپنے آپکو ایک گاڑی میں دیکھتے وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی سب کچھ ایک فلم کی طرح اُسکے ذہن میں چلنے لگا خوف سے اُسکا دل دھڑکا جب اُسکی نظر گاڑی کے باہر کھڑے حسام پر پڑی۔۔۔۔

حسام کو سامنے دیکھتے اُسکے دل میں موجود خوف کم ہوا ایک تحفظ کا احساس ہوا جانے کیوں۔۔۔

حسام جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا گاڑی کا دروازہ کھولتے اپنا ہاتھ اگے بڑھایا۔۔۔۔۔

انابیہ نے پہلے اُسے دیکھا اور پھر اُسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو کچھ پل کی دیری کے بعد اُس نے اپنا ہاتھ حسام کے ہاتھ میں دیا ۔۔۔اور باہر نکل ائی۔۔۔

اب دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے حسام کی نگاہیں بیہ کو تک رہی تھی اور بیہ کی نظریں حسام کے جوتوں پر۔۔۔۔

میں وہ لڑکا میرے ساتھ زبردستی کر رہا تھا میں یہاں کیسے ائی۔۔۔بیہ نے نم آواز میں حسام کے جوتوں کو تکتے ہوئے پوچھا۔۔۔

حسام اُسکی بھرائی آواز سنتے اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔۔

اس نے آپکے ساتھ کچھ نہیں کیا آپ  محفوظ ہے میں آپکو یہاں لے ایا تھا ایسی حالت میں آپکو آپکے گھر نہیں چھوڑ سکتا تھا اسی لیے آپکے ہوش میں انے کا انتظار کیا۔۔۔۔حسام نے دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالتے کہا۔۔۔۔

اور آپ نے میری حفاظت کیوں کی۔۔۔بیہ اچانک سے حسام کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھ بیٹھی ۔۔۔

میرے دل نے کہا ۔۔۔حسام نے پل میں جواب دیا۔۔۔۔

اگر میری جگہ کوئی اور ہوتی تب بھی آپ اُسکی مدد کرتے۔۔۔۔نہ جانے کیوں سامنے کھڑے انسان سے بات کرنا اُسے اچھا لگ رہا تھا اسی لیے سوال پر سوال کیا جبکہ ح حسام کے جواب پر دل تو دھڑکا تھا۔۔۔۔

آپکی جگہ کوئی اور ہوتی تب میں اُسکی حفاظت بھی کرتا لیکن دل تب شاید اتنا فکر مند نہیں ہوتا جتنا آپکی یہ حسین سیاہ آنکھیں بند دیکھتے ہوا تھا۔۔۔۔حسام نے گھمبیر لہجے میں بات کی اور بیہ کو لگا اُسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا ہو حسام کی بات پر۔۔۔۔

اور آپکا دل اتنا فکرمند کیوں تھا۔۔۔نہ جانے وہ کیا جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔

اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں آپکو مل جائے تو مجھے بھی بتا دی جئے گا کیونکہ میں بھی اس جواب کا بےصبری سے انتظار کر رہا ہو۔۔۔حسام نے اُسکے بالوں پر لگی گھاس کو اپنے ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے کہا اور بیہ کو لگا اُسے اج دل کا دورہ ضرور پر جائے گا جتنی تیز وہ دھڑک رہا تھا چہرے پر بھی سرخی چھائی۔۔۔

اور حسام اُسکے چہرے پر اتنی سی بات پر سرخی دیکھتے یہ سوچ کر اپنے لب دانت تلے ڈبا گیا اگر اس لڑکی کو پتہ چل جائے کہ حسام نے اُسکی بیہوشی میں کیا کیا ہے تو نہ جانے اس چہرے پر کیا رنگ کھلے گے ۔۔۔

اب چلے اگر اعتبار ہے تو آپکو آپکے گھر چھوڑ دو ۔۔۔حسام نے اُسکے سرخ چہرے کو دلچسپ نگاہوں سے دیکھتے کہا۔۔۔

بیہ نے حسام کی بات پر کچھ پل اُسے دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

مطلب وہ اُس پر اعتبار کر چکی تھی حسام کو اپنے وجود میں اج سکون ہی سکون بھرتا محسوس ہوا ۔۔۔۔

حسام نے بیہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا جب بیہ گاڑی میں بیٹھی۔۔۔اُسکا گاؤن جو تھوڑا سا باہر تھا حسام نے جھکتے اُسکا گاؤن گاڑی کے اندر کیا اور بیہ کو اب اپنے پیٹ میں تتلیاں ارتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔اعتبار اُسے حسام پر ہو ہی گیا تھا جس طرح وہ اُسے اُس لڑکے سے محفوظ کر گیا تھا اُسکی عزت بچا گیا تھا ۔۔۔۔

حسام مسرور سا اتے ڈرائیونگ سیٹ پڑ بیٹھا۔۔۔

پورا راستہ بیہ نے اپنی نظریں شیشے کے پار نظر اتے مناظر پر رکھی تو حسام وقفے وقفے سے اُسکی طرف دیکھتا رہا۔۔۔

کتنا سکون بخش احساس تھا اُسکی محبت اُسکے برابر والی سیٹ پر براجمان تھی۔۔۔۔

کامل کے گھر کے باہر گاڑی رکنے پر بیہ نے حسام کی طرف دیکھا ۔۔۔

بہت شکریہ آپ نے اج میری عزت بچائیں اور مجھے محفوظ میرے گھر تک چھوڑا میں آپکا احسان کبھی نہیں بھولو گی۔۔۔دھیمی آواز میں کہتی وہ حسام کے دل کا چین و سکون چھین گئی ۔۔۔۔

اچھی بات ہے آپ میرا احسان مت بھولئے گا ہوسکتا ہے آپکو جلد اس احسان کے بدلے ایک احسان مجھ پر کرنا ہو ۔۔۔حسام نے زو معنی بات کی جو بیہ کے سر سے گزر گئی۔۔۔۔

اب میں جاؤ۔۔۔۔بیہ کے اس طرح پوچھنے پر حسام کے لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری ۔۔۔۔

جی بلکل اب آپ جائے کل یونی میں آپ سے ملاقات ہوتی ہے۔۔۔حسام نے مسکراہٹ لیے کہا اور بیہ نے مسکرانے کی سعی کی ۔۔۔

تیز دھڑکتے دل کو سمنبھالتے وہ جلدی سے گاڑی سے باہر نکلی اُسے یقین تھا جتنا تیز اُسکا دل دھڑک رہا تھا حسام نے ضرور اُسکی دھڑکنیں سن لی ہونگی۔۔۔۔۔

گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلی وہ پلٹی اور حسام کو دیکھا جو اب بھی گاڑی میں بیٹھا اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔فوراً سے اپنا رخ موڑا اب لبوں پر دھیمی سے مسکان تھی وہ گھر کے اندر داخل ہوئی ۔۔

بیہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی جب اُسکی نظر سامنے سے اتے کامل پر پڑی جو اپنی گاڑی روکتے خونخوار نظروں سے اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔

حسام دل جلانے والی مسکان لیے اُسے دیکھتے فلائنگ کس پاس کرتے فل رفتار میں گاڑی آگے بھاگا  لے گیا ۔۔۔کامل نے غصّہ سے اسٹیئرنگ پر اپنا ہاتھ مارا۔۔۔

اپنی سیٹ سے پھولوں کا بکے اور گفٹ تھامے وہ اندر بڑھا اُس نے صرف حسام کو یہاں دیکھا تھا بیہ کو اُسکی گاڑی سے نکلتا نہیں دیکھا تھا اسی لیے حسام کی بچت ہوگئی تھی اگر وہ بیہ کو حسام کی گاڑی سے نکلتے دیکھ لیتا تو ضرور کچھ نہ کچھ بُرا تو ضرور ہوتا۔۔اب بھی وہ گھر کی سیکورٹی بڑھانے کا سوچ چکا تھا۔۔۔۔۔

💗💗💗💗

کامل کمرے میں داخل ہوا تو نظر اپنی بیوی کے بھیگے سراپے پر پڑی جو شائد ابھی شاور لے کر نکلی تھی نیلے رنگ کی سادہ ویلویٹ فروک پہنے جو اُسکی گوری رنگت پر حد سے زیادہ جج رہا تھا۔۔۔۔

کامل نے لایا ہوا سامان اپنی پشت پر چھپایا ۔۔۔

کامل آپ ۔۔۔فلک جو اپنے دھیان میں کھڑی اپنے بال سکھا رہی تھی کامل کو دیکھتے کہا۔۔

جی میں ۔۔۔کامل نے اُسکے کھلتے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔

آپ نے اج لیٹ نہیں انا تھا۔۔۔فلک نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔

کیا کرے آپ سے دوری برداشت جو نہیں ہوتی حیاتی اسی لیے جلدی چلے ائے۔۔۔کامل نے اُسکے قریب اتے کہا۔۔۔

اچھا اور یہ کیا چھپا رہے ہیں آپ دکھائے مجھے۔۔۔فلک نے اُسکی پشت پر چھپی چیزیں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔

کامل نے زرا سی بھی دیر کیے بنا اپنی حیاتی کے سامنے سرخ گُلابوں کا بکے کیا۔۔۔

یہ آپ میرے لیے لائے ہے ۔۔۔فلک خوشی سے  چیخی ۔۔۔

جی بلکل آپ کے لیے ۔۔۔۔کامل نے اُسکی پشت کو تھامتے اپنے نزدیک کرتے کہا۔۔۔

یہ بہت خوبصورت ہے کامل۔۔۔فلک نے پھولوں کی مہک کو محسوس کرتے کہا۔۔۔

آپ سے کم ہے حیاتی۔۔۔کامل نے اپنے پھول کو دیکھتے کہا جو اس وقت خوشی سے لال کھلا ہوا گلاب ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔

آپ اور کچھ بھی لائے ہے نہ میرے لیے وہ بھی دکھائے ۔۔۔فلک نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔

وہ ہم آپکو دکھائے گے نہیں پہنائے گے ۔۔۔کامل نے اپنی ناک فلک کی ناک سے رب کرتے ہوئے بوجھل لہجے میں کہا۔۔۔۔

فلک کی آنکھوں میں چمک اُبھری کامل کی بات پر جب کامل نے اُسکی پشت کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے اپنے ہاتھ میں تھامے باکس سے دو خوبصورت ڈائمنڈ کے ٹوپس نکالے اور فلک کے کان میں نرمی سے پہنائے ۔۔

فلک محبت بھری نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھے گئی جس کا پیار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا تھا۔۔۔۔

یہ دیکھے۔۔۔کامل نے اُسکا رخ شیشے کی طرف کرتے اُسے اُسکا عکس دکھایا۔۔۔۔

یہ خوبصورت ہے۔۔فلک نے اپنے کان میں پہنے ٹوپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔

لیکن۔۔۔پھر شیشے میں نظر آتے کامل کے عکس کو دیکھا۔۔۔

لیکن ۔۔۔کامل نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔

یہ زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔۔فلک نے شیشے میں نظر آتے ان دونوں کے عکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ایک ساتھ انتہائی پیارے لگ رہے تھے۔۔۔۔

یہ تو واقعی میں خوبصورت ہے چلے لائے اب میرا گفٹ دے۔۔۔۔کامل نے فلک کے کندھے پر تھوڑی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

کون سا گفٹ ۔۔۔فلک نے آبرو اچکا کر پوچھا۔۔

آج ویلنٹائن ڈے ہے نہ تو اس حساب سے میرا گفٹ بھی بنتا ہے۔۔۔کامل نے اُسکی کان کی لو پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔

کوئی نہیں ہم نہیں مانتے یہ ویلینٹائن دے اس حساب سے نو گفٹ۔۔۔فلک نے لبوں پر مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔

آپکے ماننے یہ نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے بیگم گفت تو ہم اپنا لے کر رہے گے ۔۔۔کامل نے دانت پیستے کہا اور ایک جھٹکے میں فلک کو اپنی باہوں میں بھرا۔۔۔فلک نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے کامل کی آنکھوں میں دیکھا جہاں نظر اتے شوخ جذبوں کی لہر دیکھتے وہ سمجھ گئی اج پھر وہ اُسے اپنی محبت کی بارش میں بھگوئے گا اج پھر ایک اور رات اُنکے ملن کی گواہ بنے گی ۔۔۔۔

💗💗💗💗

امنہ اپنی بکھری سانسیں بحال کرتی باہر ائی تھی جب اُسے سامنے سے سدرہ اتی دکھائی دی۔۔۔

حسینہ گھر چلتے ہے مجھے یہاں کچھ اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔سدرہ نے امنہ سے کہا۔۔۔

ٹھیک ہے گھر چلتے ہے تمھاری طبیعت ٹھیک ہے آنکھیں لال ہو رہی ہے۔۔۔۔امنہ نے اشارہ کرتے اُس سے پوچھا ۔۔۔

نہیں مجھے نہیں لگ رہا میری طبیعت ٹھیک ہے گھر چلتے ہے۔۔۔سدرہ اُسے کیا بتاتی یہ آنکھیں اُس ہرجائی کو سالوں بعد سامنے دیکھتے لال ہوئی ہے اسی لیے یہی بہانہ کہا۔۔۔

چلو چلے ۔۔۔امنہ خود بھی یہاں سے جانا چاہتی تھی اج اگر وہ ہوش میں نہیں اتی تو جو ہوجاتا اُسکے بعد وہ کس طرح سب کا سامنا کرتی یہی سوچ نے اُسکے ہاتھ پاؤں پھولا دیے تھے۔۔۔لیکن وہ زرقان سے اج کے بارے میں سوال ضرور کرے گی کہ وہ اُسکے قریب کیوں ایا تھا۔۔۔۔

💗💗💗💗

بیہ کہاں گئی۔۔۔۔شاداب جو ابھی اپنا ڈانس ختم کرتے واپس ایا تھا لیزا سے مخاطب ہوا۔۔

وہ گھر چلے گئی ہے اُسکا میسج ایا تھا میرے پاس ۔۔لیزا نے منہ بناتے جواب دیا۔۔۔

چلو پھر ہم بھی چلتے ہے۔۔۔شاداب نے لیزا کا حسین چہرہ دیکھتے کہا۔۔

لیزا بھی کافی تھک گئی تھی اسی لیے بنا بحث کوئی اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔۔

ابھی وہ دونوں چل رھے تھے جب شاداب کو ایک جگہ جمع دیکھے لیزا نے پیچھے مڑ کر اُسکی طرف دیکھا۔۔

کیا ہوا کیوں ایک جگہ جم گئے ہو۔۔۔لیزا نے چیخ کر کہا ۔۔۔۔

چیخو مت تم دو پیار کرنے والوں کو تنگ کردو گی۔۔۔شاداب نے دانت پیستے کہا ۔۔۔۔

کیا بول رہے ہو۔۔لیزا حیرت سے اُس کے پاس ائی جب اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے اُسکا چہرہ سرخ ہوا۔۔۔۔۔

شرم نہیں آتی تمہیں یہ سب دیکھتے ہوئے۔۔۔۔لیزا نے فوراً سے اپنی نظریں سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا جھاں ایک کپل ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے کس کر رہے تھے۔۔۔۔۔

انکو شرم نہیں آرہی ایسے کھلم کھلا یہ سب کرتے ہوئے۔۔۔شاداب نے بےشرموں  کی طرح ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔

ویسے یہ اچھا ہے تم لوگوں کے ملک کا بیڈ روم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی جہاں مرضی وہاں شروع ہوجاؤ۔۔۔شاداب نے اپنے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔

لیزا نے اُسکی بات پر اپنی نظریں گھمائیں۔۔۔۔اُسے اب شرم سی محسوس ہو رہی تھی شاداب سے ۔۔۔۔

اب ایسا بھی نہیں ہے۔۔ لیزا نے اپنی نظریں جھکائے کہا۔۔۔۔

تو پھر کیسا ہے۔۔۔شاداب نے اُسکی جھکی نظروں کو دیکھتے کہا۔۔۔

مطلب ویسا جیسا تم بول رہے ہو۔۔۔لیزا نے جھنجھلا کر جگہ۔۔۔۔۔

اور میں کیا بول رہا ہوں ۔۔۔شاداب سمجھ گیا وہ شرما رہی ہے اسی لیے تنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

وہی کس وغیرہ وہ سب ۔۔۔لیزا نے سرخ چہرے سے کہا۔۔۔

مجھے نہیں پتہ تھا یہاں کی لڑکیاں شرماتی بھی ہے ۔۔۔شاداب نے گہری نظروں سے لیزا کے سرخ چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔۔

کیوں یہاں کی لڑکیاں کیا دوسری مخلوقات ہوتی ہے۔۔۔لیزا نہ اپنی آبرو اُچکاتے ہوئے کہا۔۔۔

باقی لڑکیوں کا نہیں پتا لیکن ایک لڑکی یہاں کی بہت پیاری ہے۔۔۔۔شاداب نے لیزا کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ کیے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔

لیزا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔

بلکل ایک بندریا کی طرح۔۔۔شاداب نے اپنا جملہ مکمل کیا اور لیزا کی مسکراہٹ سمٹی۔۔۔۔

اب وہ کھا جانے والی نظروں سے شاداب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔جسے دیکھتے شاداب آگے بھاگا

تم ۔۔۔تم کینگرو ہو۔۔۔رک جاؤ میں اج تمہیں چھوڑو گی نہیں ۔۔لیزا شاداب کو بھاگتے دیکھ چیخی اور اُس کے پیچھے بھاگی۔۔۔۔۔

تم کہاں جا رہے ہو جنید ۔۔۔۔۔سدرہ نے اُسکے کمرے میں اتے ہوئے اُسے اپنی پیکنگ کرتے دیکھتے پوچھا۔۔۔

کہیں بھی لیکن یہاں نہیں رہو گا ایسی دوزخ بھری زندگی نہیں گزار سکتا میں۔۔۔۔جنید نے اپنے کپڑے بیگ میں رکھتے کہا۔۔۔

لیکن کیوں جنید اور یہ دوزخ بھری زندگی تو نہیں ہے کیا میرا ساتھ تمہیں دوزخ بھرا لگتا ہے۔۔۔۔سدرہ نے جنید کے قریب اتے اُسکا کاندھا پکڑتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے کہا۔۔۔۔

تمہارا ساتھ دوزخ بھرا نہیں ہے جان ۔۔۔لیکن یہ زندگی جس میں نہ ہی میں اپنی کوئی خواہش پوری کر سکتا ہو نہ ہی یہاں کوئی آسائش ہے ۔۔۔جنید نے اُسکے گال پر اپنا ہاتھ رکھا جو نم آنکھیں لیے اُسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

لیکن یہی تو زندگی ہے جنید تم ایسے کیسے مجھے چھوڑ کر جاسکتے ہو تایا ابو کو چھوڑ کر جا سکتے ہو ہم اسی زندگی میں خوش رہ تو رہے ہے۔۔۔سدرہ کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔

نہیں اس غربت کی زندگی میں صرف تم لوگ خوش ہو میں نہیں ۔۔۔میں اپنی زندگی کو بدلنا چاہتا ہوں ایسی زندگی جہاں ہر چیز ہو ہر آسائش ہو مجھے کسی چیز کے لیے ترسنا نہ پڑے ۔۔۔۔جنید کی آنکھوں میں اب بس نئی زندگی کے خواب تھے سدرہ کے آنسو اُسکی تڑپ وہ نہیں دیکھ پا رہا تھا۔۔۔

تو تم مجھے چھوڑ جاونگے جسے اپنی محبت کہتے جو جو تمھارے نکاح میں بندھی ہے ۔۔۔۔سدرہ چیخی تھی۔۔۔۔

میں اونگا واپس ۔۔۔بہت جلد پھر ہم دونوں ساتھ ہونگے۔۔۔جنید نے سدرہ کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا کر اپنا بیگ اٹھایا اور تیز قدم بڑھاتے باہر نکلا۔۔۔

جنید رک جاؤ خدا کا واسطہ تمہیں روک جاؤ۔۔۔سدرہ اُسکے پیچھے لپکی۔۔۔۔

جب دروازے پر تایا نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔

تایا ابو روک لے اُسے میں نہیں رہ سکتی۔۔۔۔اُس ظالم کی پشت کو تکتی وہ بھیگی آواز میں روتے ہوئے بولی جو باہری دروازے کی طرف بڑھتا رک گیا تھا۔۔۔۔

جانے دو بیٹا اُسے اس وقت اُسکی آنکھوں پر دولت کا نشا چڑھا ہوا ہے جو اتنی آسانی سے نہیں ہٹے گا۔۔۔۔تایا ابو نے اپنے بیٹے کی خود غرضی پر زخمی لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔۔

سدرہ نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

جنید پلیز ایک بار میری بات سن لو تمہیں میری قسم رک جاؤ میں نہیں رہ سکتی تمھارے بنا بھائی آپ کچھ بولے نہ روکے نہ اُسے۔۔۔۔سدرہ کی روتی آواز پر اُسکے بھائی بھابھی نے اپنی آنکھیں مینچی۔۔۔۔

جا تو رہے ہو اس گھر سے یہ مت سمجھنا واپسی کے دروازے تمھارے لیے بند ہونگے لیکن شاید جب تم واپس اؤ تب ہم میں سے کوئی بھی پہلے جیسا نہ رہے۔۔۔۔اپنے والد صاحب اور سدرہ کی ہچکیاں سنتے جنید کا دل ایک پل کو ترپا لیکن پھر سب کی باتوں کو انسنا کرتے سدرہ کی چیخوں کو ان سنا کرتے وہ دہلیز پار کر گیا۔۔۔۔

جنید کے دہلیز پار کرتے ہی سدرہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتے زمین پر گری ۔۔۔۔تایا ابو نے بھی تڑپ کر اس بنا ماں باپ کی بچی کو دیکھا جس کا سہارا انہوں نے اپنے بیٹے کو بنایا تھا جو اج خود اُس بچی کو بیسہارا کر گیا تھا۔۔۔۔

جب سدرہ کو ہوش آیا وہ تب سے ایک جیگتی جاگتی لاش بن گئی تھی تب اُسے سنبھالا امنہ نے تھا امنہ صرف یہ بات جانتی تھی کہ سدرہ کا نکاح اُس کے کزن سے ہوا لیکن وہ کزن جون ہے یہ بات اُسے نہیں معلوم تھی نہ ہی اُس نے کبھی سدرہ کے شوہر کو دیکھنے کا تجسس کیا تھا اسی لیے سدرہ یونی میں جون سے پہلی ملاقات میں انجان بن گئی تھی۔۔۔

وہ اپنے۔دل کے سارے جذباتوں کو سلا گئی تھی ۔۔۔اپنے دل کو سخت کر گئی تھی لیکن تھی تو ایک لڑکی نازک سی اب بھی وہ سب یاد کرتے اُسکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جنید کے جانے کے بعد بہت مشکلوں سے انکا گھر سنبھلا تھا تایا کی طبیعت اب بھی خراب رہتی تھی۔۔۔۔

اج پانچ سال بعد دوبارہ جنید کا لمس محسوس کرتے اُسکے دل میں سوئے ہوئے جذبات پھر سے جاگنے لگے تھے۔۔۔اُسے اچھی طرح یاد تھا کس طرح پورے گھر والوں کے سامنے جنید نے ضد میں آکر اس سے نکاح کیا تھا۔۔۔وہ اُسے اپنی محبت کہتا تھا تو کیا اتنا اسان ہوتا ہے اپنی محبت کو چھوڑ دینا۔۔۔

بیڈ پر لیتی وہ پرانی باتوں کو یاد کر رہی تھی آنسو آنکھوں سے نکلتے تکیہ میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔۔آنکھیں بند کرتے ہی اج کا واقعہ پوری آب و تاب سے اُسکی آنکھوں کے چھلمن پر اُبھرا جسے جھٹکتے اُس نے سونے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

وہ اتنی جلدی جنید کو معاف نہیں کر سکتی تھی بلکل بھی نہیں۔۔

💗💗💗💗

اپنے کمرے کی بالکنی میں کالی سینڈو اور بلیک ٹراؤزر پہنے سگریٹ کے گہرے کش لگاتا وہ اپنی سوچوں میں اُلجھا ہوا تھا۔۔۔۔

پانچ سال پہلے اُس نے لیپرڈ کو دیکھا تھا یہی آسٹریلیا کی سر زمین پر مہنگی  گاڑی برانڈڈ سوٹ پہنے اور اُسے دیکھتے ہی اُس کے دل میں بھی ایسی زندگی جینے کی خواہش جاگی ۔۔۔اُسے اپنی سادہ محبت بھری زندگی جس میں گزر بسر ہو ہی رہا تھا وہ بری لگنے لگی۔۔۔

اس نے بہت مشکلوں سے لیپرڈ سے ملاقات کی جہاں لیپرڈ نے اُسکا ٹیسٹ لیا ایک فائٹ کے ذریعے اور اُسے اپنے ساتھ ہونے کی پیشکش کی۔۔۔۔جنید کو اور کیا چائیے تھا۔۔۔۔

پھر وہ اپنی اُس محبت بھری زندگی کو چھوڑ آیا جس میں اُسکے والد تھے اُسکی چھوٹی سی معصوم سی محبت اُسکی بیوی تھی اج بھی سدرہ کی چیخے اُسکے ذہن میں گونجتی اُسے اذیت دیتی ہے۔۔۔۔۔

اُسے وہ پل یاد کرتے اذیت ہوتی ہے جب وہ اس آسائش بھری زندگی کے لیے سدرہ کو چھوڑ آیا تھا۔۔۔جنید سے اُسکا نام جون رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔یہاں سب اُسے جون کے نام سے جانتے تھے۔۔۔وہ خوش تھا اپنی اس زندگی میں لیکن رات ہوتے ہی اُسے تنہائی بری طرح دستي تھی۔۔۔

اج اُسکے پاس سب کچھ تھا سب کچھ ۔۔۔لیکن پھر بھی کمی تھی محبت کی کمی جیل سے نکلتے ہی جب اُسے پتہ چلا حسام آسٹریلیا میں ہے وہ ایک  پل کی دیر کیے بنا یہاں چلا آیا تھا دل میں امید تھی شاید وہ اپنی بیوی سے مل پائے گا۔۔۔۔

اور پھر اُسکی سدرہ سے پہلی ملاقات ہوئی جب سدرہ کی آنکھوں میں اپنے لیے بیگانگی دیکھتے اُسکا دل جلا اور اج اُسکا لمس محسوس کرتے جیسے اُسکے زخمی دل کو سکون ملا تھا۔۔۔

اب بھی سدرہ کی آنکھوں میں نظر اتی اپنے لیے نفرت اور اُسکے لبوں سے ادا ہوئے لفظ اُس سے بھول نہیں پا رہے تھے وہ اپنے والد صاحب سے بھی ملنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں تھی۔۔۔۔

سگریٹ کا آخری کش لیتے اُس نے دھواں ہوا میں چھوڑا اور اندر کی طرف بڑھا اب وہ یہاں تھا بہت جلد وہ سدرہ کو بھی منہ لے گا اُسے یقین تھا۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

بیہ شاداب کو اج کہیں گھمانے لے جاؤ یہاں آیا ہے تو اچھا ہے یہاں کی جگہوں کے بارے میں جان لے گا۔۔۔۔کامل نے بیہ کی طرف دیکھتے کہا جو عروہ کے ساتھ بیٹھی ہنستے ہوئے ناشتہ کر رہی تھی۔۔۔۔

جی بھائی میں اج یونی کے بعد لے جاتی ہوں ۔۔۔بیہ نے اثبات میں سر ہلا کر کہا۔۔۔

یونی جانے کی کیا ضرورت اج جاؤ باہر انجوائے کرو دونوں ساتھ میں ایک دوسرے سے باتیں کرو تو ایک دوسرے کو مزید جان پاؤں گے۔۔۔کامل کی بات پر فلک نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔

شاداب اور بیہ نے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔۔کامل کی آخری بات اُن دونوں کو عجیب لگی۔۔۔۔

جی بھائی ۔۔۔بیہ کے کہنے پر کامل نے اپنا سر ہلایا۔۔۔

پھو میں بھی چلو گی آپ دونوں کے ساتھ۔۔۔عروہ نے فوراً سے کہا۔۔۔

اُسکی بات پر سب مسکرا دئیے۔۔۔۔

جی پھو کی جان آپ بھی چلے گی ہمارے ساتھ ۔۔۔بیہ نے عروہ کے گال کھینچ کر کہا ۔۔۔

ناشتہ کرتی فلک اپنے شوہر کو دیکھتے کچھ کچھ تو سمجھ گئی تھی کامل نے شاداب کو یہاں کیوں ہلایا ہے لیکن وہ ابھی کامل سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی جب تک اُسے یقین نہ ہوجائے۔۔۔۔۔

💗💗💗💗

شجیہ نے خضر کے سینے سے سر اٹھاتے اُسے دیکھا جو گہری نیند میں تھا۔۔۔پورے کمرے میں گلابوں کی مہک پھوٹ رہی تھی کل خضر نے اُسے سرپرائز  دیا تھا اور پھر ساری رات وہ خضر کی سُلگتی قربت میں تھی۔۔۔۔

اج جو وہ کرنے جا رہی تھی اُسکے بعد یقیناً خضر اُس سے بہت غصّہ ہوتا یہ اُس سے شدید ناراض لیکن اُسے یہ کرنا تھا ۔۔۔۔اور اس بیچ نہ جانے کتنے دنوں کا ہجر وہ اپنے اور خضر کے درمیان لے انے والی تھی۔۔۔۔۔

بیساختہ  اوپر کو ہوتے اُس نے خضر کی کھڑی مغرور ناک پر اپنے لب رکھے پھر خضر کی بھوری چمک دار آنکھوں پر جو اس وقت بند تھی ۔۔۔۔نظر  اُسکے عنابی لبوں پر گئی تو اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دباتے وہ دھیرے سے اُس پر جھک ائی نرمی سے اپنا لمس چھوڑتے وہ خضر سے پیچھے ہونے لگی جب خضر نے ایک جھٹکے میں اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے کروٹ بدلتے اُس پر حاوی ہوتے اُسکی سانسیں بند کی۔۔۔۔

اس اچانک افتاد پر شجیہ کی نیلی آنکھیں حیرت سے پھیلی جبکہ لبوں پر بڑھتی خضر کی شدت کو محسوس کرتے اُسکی دل کی دھڑکنوں میں تلاطم مچا۔۔۔۔۔

اپنی سانسیں رکنے پر اُس نے خضر کو کندھے سے پکڑ کر پیچھے کرنا چاہا جب خضر ایک پل کے لیے اُس سے دور ہوا ۔۔۔۔

شجیہ نے خضر کی بھوری شوخ خمار بھری نظروں میں دیکھتے لمبا سانس بھرا۔۔۔۔

آپ ۔۔آپ جاگ رہے تھے۔۔۔۔شجیہ نے خفا نظروں سے خضر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔

اتنی حسین بیوی پہلو میں ہے جو اپنے ان میٹھے لبوں کا لمس میرے چہرے کے ہر نقش پر ثبت کر رہی ہے تو کیسے اُسکا شوہر سو سکتا ہے۔۔۔تمہارے ان لبوں کی نرمی نے میرے تمام جذباتوں کو پھر سے اجاگر کردیا ہے جانم جنہیں اب سولانا مشکل ہے۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی ناک سے اپنی ناک مس کرتے بھاری گھمبیر خمار بھری آواز میں کہا۔۔۔

شجیہ نے خضر کے کہنے پر اپنے لب دانتوں تلے کچلے۔۔۔۔

ہونہہ نہیں کرو یہ ظلم میں اپنی چیز پر برداشت نہیں کرونگا۔۔۔خضر نے شجیہ کے لب اُسکی دانتوں کی گرفت سے آزاد کروائے۔۔۔۔

خضر صبح ہوگئی ہے باہر جانا ہے۔۔۔۔خضر کو اپنی گردن میں جھکتے دیکھ شجیہ نے اُسے روکنا چاہا۔۔۔۔

تین دن کے لیے آؤٹ آف سٹی جا رہا ہو ۔۔مطلب تم سے تین دن کی دوری ۔۔۔جو میرے لیے سوہان روح ہے اسی لیے ابھی ایک ایک پل میں صرف و صرف تمھاری قربت میں گزارنا چاہتا ہوں تاکہ ان پلوں کو یاد کرتے تین دن آسانی سے کاٹ سکو ۔۔۔خضر نے اپنا بیتاب لمس شجیہ کی گردن پر چھوڑتے کہا۔۔۔

شجیہ نے خضر کی بات پر اپنی آنکھیں بند کی جو کام وہ کرنے جا رہی تھی اُس کے لئے اچھا ہی تھا خضر یہاں موجود نہ ہوتا۔۔۔اپنے ہاتھ اپنی گردن پر جھکے خضر کے گھنے سلكي بالوں میں پھیرتے وہ اپنی آنکھیں بند کئے تیز ہوتے تنفس کے ساتھ اُسکا لمس برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔

اپنے بالوں میں چلتی شجیہ کی انگلیوں کو محسوس کرتے خضر شجیہ کی شرٹ کندھے سے کھسکا گیا تھا وہاں شدت سے اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے وہ شجیہ کا تنفس بری طرح بکھیر گیا تھا۔۔۔۔

میں پھر۔۔۔حویلی چلی جاؤنگی خضر بچوں کے ساتھ۔۔۔شجیہ نے گہری سانس لیتے خضر سے کہا۔۔۔۔

جو تم چاہو بس ابھی مجھے تنگ مت کرو اور میری شدتوں میں میرا ساتھ دو۔۔۔۔خضر کہتا دوبارہ شجیہ کے لبوں کو اپنی گرفت میں لے گیا۔۔۔شجیہ بھی اپنی آنکھیں بند کئے خضر کے لمس کو برداشت کر رہی تھی جس میں شدت تھی ۔۔۔اور شاید یہ اُنکے وصل کی آخری رات تھی اُسکے بعد نہ جانے کتنے دنوں کا ہجر اُن دونوں کے درمیان آجانا تھا۔۔۔

خوشبو شجیہ، عزیر اور خضر سے بہت زیادہ اٹیچ ہوگئی تھی اب پہلے کی طرح ڈرتی نہیں تھی ۔۔۔خضر اور شجیہ کو بھی ایک بیٹی مل گئی تھی اور عزیر کو ایک بڑی بہن ۔۔۔۔

💗💗💗💗

ایڈیلیڈ شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت حسین جھرنا ہے جسے واٹر فال گلی کہتے ہے۔۔۔۔

انابیہ شاداب لیزا اور عروہ اس وقت یہاں موجود اس حسین نظارے کو دیکھتے انجواۓ کر رہے تھے شام کا وقت تھا سیاحوں کی ریل پیل یہاں بھی تھی۔۔۔۔

پلیز بیہ میری تصویریں لو نہ۔۔۔۔لیزا نے بیہ سے کہا جس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے نفی میں سر ہلایا۔۔۔

جی نہیں تمہیں تصویریں بلکل بھی پسند نہیں آتی سارا وقت تم اسی میں برباد کرونگی۔۔۔۔بیہ نے منع کیا جب لیزا نے اپنے ہونٹ کے اوپر ہونٹ کرتے اُسے معصوم شکل سے دیکھا۔۔۔۔

لیزا کی معصوم سی شکل دیکھ کر بیہ کو تو کچھ نہ ہوا لیکن شاداب کا دل ضرور اُسکے بھرے بھرے ہونٹوں کو دیکھتے اپنی سپیڈ سے تیز دھڑکا تھا۔۔۔

میں لیتا ہوں تمھاری تصویریں بندریاں۔۔۔شاداب نہ اپنے گلے میں ٹانگے کیمرے کو صحیح کرتے لیزا سے کہا ۔۔۔

ہائے سچی تم کتنے اچھے ہو۔۔۔لیزا خوشی سے چیخی۔۔۔۔جبکہ وہ اُسکا بندریا کہنے نوٹس نہیں کرسکی تھی۔۔۔

کل تک تو میں کینگرو عجیب اور نہ جانے کیا کیا تھا۔۔۔شاداب نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے لیزا کے حسین چہرے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔

جو پیلے رنگ کی لونگ فروک اور بلیو جینز میں کھلے بالوں اور سادہ چہرے کے ساتھ حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔

نہیں تو میں نے تو وہ سب کچھ نہیں کہا تم نے غلط سنا ہوگا۔۔۔لیزا نے اپنی گول چھوٹی چھوٹی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے معصومیت سے جھوٹ بولا۔۔۔

بیہ اپنی دوست کی چالاکی پر نفی میں سر ہلا گئی۔۔۔

شاداب سے لیزا کی شکل دیکھتے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوا۔۔۔

تم دونوں لو تصویریں میں اور عروہ یہی پاس بیٹھے ہیں۔۔۔لیزا نے عروہ کے بال صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔

اور لیزا اور شاداب سے تھوڑی دور بیٹھے اس خوبصورت جھرنے کو دیکھنے لگی جو قدرت کا شاہکار تھا اس جھرنے کو دیکھتے لگتا تھا جیسے آنکھوں میں ایک ٹھنڈک سی اُتر رہی ہو یہاں چلتی سرد ہوائیں اُسے بھلی لگ رہی تھی۔۔۔۔

لیزا مختلف قسم کے پوس بنا رہی تھی اور شاداب اُسکی ڈھیر ساری تصویریں اپنے پاس محفوظ کیا جا رہا تھا کبھی کبھی وہ اُسکی بچوں جیسی حرکتوں پر ہنس دیتا۔۔۔۔اُسے لیزا کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔وہ جب جب پوس بنا کر اُسکی طرف دیکھ کر ہنستی شاداب کو اپنا دل سینے سے باہر نکلتا محسوس ہوتا۔۔۔۔

جب ایک لڑکا لیزا کے پاس ایا۔۔۔شاداب کی مسکراہٹ پل میں سمٹی ۔۔۔

یس ۔۔۔لیزا نے اپنے پاس کھڑے اس ہینڈسم سے لڑکے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔

آپ بہت پیاری ہے میں کب سے آپکو دیکھ رہا تھا کیا نام ہے آپکا۔۔۔۔وہ لڑکا انگریز تھا خالص انگریزی میں لیزا سے مخاطب ہوا۔۔۔

لیزا اپنی تعریف پر فوراً سے لال گلاب ہوئی۔۔۔شاداب کی نظروں کو یہ منظر انتہا کا چبھا اُس لڑکے کے بولے گئے لفظ بھی اُس نے با آسانی سنے تھے۔۔۔جلتی پر تیل کا کام لیزا کی مسکراہٹ اور چہرے کی سرخی نے کیا۔۔۔

شاداب کی تیوری چڑھی کیمرے نیچے کیے وہ اپنی جبڑے بھینچے لیزا تک ایا۔۔۔

چلو یہاں سے۔۔۔لیزا کا ہاتھ اپنی سخت گرفت میں لیے اُس نے لیزا سے کہا جو حیرت سے اُسکا ہاتھ میں مقید اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

شاداب نے اپنی لال ہوتی سبز انکھوں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا جو اس لمبے چوڑے نوجوان کی لال آنکھوں دیکھتے ہی واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔

لیکن کیوں اور مجھے اسکو میرا نام تو بتانے دیتے۔۔۔کتنا ہینڈسم تھا وہ ۔۔۔مجھے تو لگتا اُسے مجھ سے پیار۔۔۔۔لیزا آنکھوں میں چمک لئے بولی جا رہی تھی یہ جانے بنا کہ یہ لفظ شاداب کے دل پر تیزاب کا کام کر رہے ہیں۔۔۔

چپ کرو بندریا کہیں کی کوئی پیار ویار نہیں ہوا ہے اتنی جلدی کوں سا پیار ہوجاتا ہے۔۔۔  اور کہاں وہ اتنا ہینڈسم تھا۔۔۔شاداب نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔

تم بیوقوف ہونے کے ساتھ ساتھ اندھے بھی ہو ۔۔پیار تو پل میں ہوجاتا ہے ۔۔پھر دھیرے دھیرے وہ سفر طے کرتا ہے پہلے محبت میں بدلتا ہے پھر عشق میں اور آخر میں جنون بن جاتا ہے۔۔۔لیزا نے شاداب کے ماتھے پر اپنی دو اُنگلیاں مارتے ہوئے کہا۔۔۔

اور پتہ کیسے چلتا ہے کہ ہم کون سا سفر طے کر رہے ہیں۔۔۔شاداب نے اُسکی شربتی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا ۔۔۔

یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ بیہ کو پتہ ہے اُس سے پوچھتے ہیں اور تم اگر نہ بھگاتے اُسے تو شاید وہ اظہار بھی کے دیتا۔۔۔لیزا نے کندھے اچکا کر افسوس سے کہا۔۔۔

شاداب اُسکی بات پر اپنے جبڑے بھینچ گیا ایک نظر اُس لڑکے پر ڈالی جو اب بھی لیزا کو دیکھ رہا تھا اور لیزا کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیے وہ اُسے اپنے سائے میں چھپاتے بیہ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔

نہ محسوس انداز میں وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے جسکا اُن دونوں کو ہی اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔

💗💗💗💗

وہ لاسٹ پیریڈ میں کلاس میں داخل ہوا تھا۔۔۔یونی اتے ہی وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی یہ سوچ کر وہ کلاس میں ایا کہ بیہ شاید کلاس میں ہوگی لیکن اُسے یہاں بھی نہ پاتے حسام نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔

کلاس میں موجود اسٹوڈنٹ کی فکر کیے بنا وہ تیز قدموں سے کلاس سے باہر نکلا۔۔۔۔

جون بیہ کہاں ہے۔۔۔جون کو فون لگاتے اُس نے سیدھا سوال کیا۔۔۔

سر میں آپکو یہی بتانا چاہتا تھا لیکن مجھے وقت نہیں ملا۔۔۔جون کی دھیمی آواز فون میں گونجی۔۔۔

سر میڈم کامل خان کے کزن کے ساتھ شہر سے دور ایک واٹر فال پر گئی ہے۔۔۔جون کی بات سنتے حسام نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی اپنے جبڑے وہ اتنی طاقت سے بھینچے ہوئے تھا کہ اُسکے ماتھے کی رگیں واضح ہورہی تھی ۔۔۔۔

وہ وہاں ایک غیر مرد کے ساتھ گھوم رہی تھی حسام کے وجود میں اشتعال بھرتا چلا گیا۔۔۔اُسکا شدت سے دل کیا کامل خان کا گلا دبانے کا وہ سمجھ گیا تھا کامل خان نے کیوں شاداب خان کو بلایا ہے۔۔۔اور یہی سوچ اُسکے وجود میں بیچینی بھر گئی تھی۔۔۔اس وقت اُسے اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔

تیز قدموں سے وہ یونی سے باہر نکلا۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے وہ جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا چلا رہا تھا۔۔۔

تقریباً ایک گھنٹے کا سفر اُس نے پندرہ منٹ میں طے کیا تھا واٹر فال کے مقام پر اتے ہی ٹھندی ہواؤں نے اُسکا استقبال کیا ۔۔۔

نظریں بیقراری سے بیہ کو ڈھونڈ رہی تھی جبکہ چہرے پر صاف اضطراب واضح تھا۔۔۔۔

جب وہ اُسے دکھائی دی سبز شیفون کی گھیر دار فروک میں جھرنے سے قدرے دور بیٹھی مسکراتے ہوئے کالے کھلے بال جو ہوا کے باعث اُسکے چہرے سے اٹھکھیلیاں کر رہے تھے۔۔۔سانولی رنگت ہرے لباس میں دمک رہی تھی تیکھے نین نقش وہ کسی بات پر ہنس رہی تھی اور یو معلوم ہو رہی تھی جیسے وہ بھی اس حسین چھڑنے کی طرح قدرت کا شاہکار ہو۔۔۔

اُسے نظروں کے سامنے دیکھتے حسام کے تڑپتے دل کو چین ملا۔۔۔جب اُسکے ساتھ بیٹھے شاداب پر اُسکی نظر پری اور اُسے اپنے ضبط کا دامن چھوٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔لمبے دھک بھرتا وہ اُن تک ایا ۔۔۔۔

اہمممم۔۔۔بیہ کے قریب جاتے حسام نے اپنے سخت تاثرات پر قابو پاتے گلا کھنکھارا وہ تینوں جو عروہ کی بات پر ہنس رہے تھے آواز پر سامنے کی طرف متوجہ ہوئے جہاں کھڑے حسام کو دیکھتے بیہ کو حیرت ہوئی ۔۔۔

سفید شرٹ اور بلیو پینٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح شاندار لگ رہا تھا۔۔۔

حسام کی نظروں کا ارتکاز صرف بیہ تھی تو بیہ بھی اُسکی کالی آنکھوں میں دیکھے گئی تھی۔۔۔

ارے سر آپ۔۔۔لیزا نے جلدی سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔بیہ نے لیزا کی آواز پر ہوش میں اتے فوراً سے اپنی نظروں کو پھیرا ۔۔۔

جی میں وہ دراصل میں یہاں اج وزٹ کرنے ایا تھا تو اتفاق سے آپ دونوں پر نظر پر گئی ۔۔۔۔حسام نے بیہ سے اپنی نظریں ہٹاتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

جی سر ہم بھی یہاں وزٹ کرنے آئے تھے۔۔۔آئے نہ سر جوائن کرے آپ ہمیں۔۔۔۔لیزا نے حسام کو پیشکش کی۔۔۔بیہ نے لیزا کی بات پر گڑبڑا کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔

حسام کو سامنے دیکھتے پھر اُسکے دل نے دغا دے دی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی ریس میں بھاگ رہا ہو۔۔۔۔

جی ضرور ۔۔۔حسام نے بغیر کسی تکلف کے کہا اور بیہ اور شاداب کے بیچ میں بچے چھوٹے سے فاصلے پر یو بیٹھا کہ بیہ کا کندھا اُسکے کندھے سے مس ہوا۔۔۔بیہ کرنٹ کھاتے اچھلی اور اپنے اور حسام کے بیچ تھوڑا سا فاصلہ بنا گئی جو حسام کو انتہائی چبھا لیکن کر بھی کیا سکتا تھا اسی لیے خاموشی سے بیٹھ گیا۔۔۔

اس نے ایک نظر شاداب کو دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔شاداب کو دیکھتے ہی حسام کا دل تو کیا ابھی اسکو اسی جھرنے کے پانی میں پھینک دے جو اُسکی بیوی کے ساتھ یہاں گھومنے ایا ہوا تھا۔۔لیکن پھر بہت مشکلوں سے لیپرڈ والے خیالات کو سلاتے اُس نے زبردستی شاداب کو دیکھتے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔۔

شاداب بھی حسام کی طرف دیکھتے مسکرا گیا۔۔۔

آپ بھائی ہے ان کے۔۔۔حسام نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔

نہیں یہ میرے کزن ہے ۔پاکستان سے آئے ہیں۔۔۔اس سارے وقت میں وہ اب بولی تھی دل تھا جو ایک سو تیس کی رفتار سے دھڑکے جا رہا تھا اور پیٹ میں الگ سے تلتلیان ارتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اُسے حسام کو اپنے نزدیک بیٹھا دیکھ کر ۔۔۔اوپر  سے حسام کے وجود سے اٹھتی مردانا پرفیوم کی خوشبو اُسکے حواسوں پر چھا رہی تھی۔۔۔۔

اچھا۔۔کیا بات ہو رہی تھی۔۔۔حسام نے بات اگے بڑھانی چاہی اور یہ سب کرتے اور بولتے وقت اُسے کتنی شرمندگی ہو رہی تھی یہ وہی جانتا تھا۔۔۔کیسے اپنے اسٹوڈنٹ کے بیچ میں وہ آکر بڑے مزے سے بیٹھ گیا تھا بیشک اُس میں سے ایک اُسکی بیوی تھی لیکن پھر بھی باقی دو تو اُسکے اسٹوڈنٹ ہی تھے۔۔۔۔

بیہ ہمیں پیار کے سفر کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔لیزا نے بیہ کے آنکھیں دکھانے کے باوجود حسام کو بتایا۔۔۔

دلچسپ پھر تو میں بھی سننا چاہو گا۔۔۔حسام نے گہری نظروں سے بیہ کو دیکھتے کہا جو اچانک یو حسام کے دیکھنے پر اپنی سیاہ آنکھیں جھکا گئی ۔۔۔

چلو بیہ بتاؤ پہلی منزل سے۔۔۔شاداب نے پُر جوش ہوتے پوچھا۔۔۔اور حسام نے اُسکی زبان سے ادا ہوئے نام پر اپنی آنکھیں بند کی کیوں یہ انسان چاہ رہا تھا اُسکے اندر کا لیپرڈ نکل کر باہر آجائے جسے وہ بہت مشکلوں سے سُلایا ہوا ہے بیہ کا نام شاداب کی زبان سے سنتے اُسے لگا جیسے اُسکے جسم پر کسی نے پیٹرول ڈال کر آگ لگا دی ہو۔۔۔۔

پہلی منزل پسند ہوتی ہے ہم کسی کو دیکھتے ہے اور وہ ہمیں پسند آجاتا ہے۔۔۔۔لیکن یہ پسند کچھ دنوں بعد بدل جاتی ہے جسے آجکل کے ٹرینڈ کے مطابق ہم کرش کا نام دیتے ہیں۔۔۔بیہ نے اپنا سارا دھیان عروہ پر لگایا جو اپنی سبز انکھوں سے حسام۔کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

حسام کا روم روم سماعت بنا انابیہ کو سن رہا تھا یہ آواز کانوں میں رس گھولنے جیسی تھی جسے وہ ساری زندگی سن سکتا تھا۔۔۔

بیہ کی بات پر شاداب اور لیزا نے فوراً سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنی اپنی آنکھیں پھیر لی۔۔۔۔

دوسری منزل پیار ہوتی ہے ۔۔۔جہاں سب اچھا لگتا ہے نیا نیا احساس ہوتا ہے لیکن پیار میں اگر وہ ہم سے چھین جائے یا دور چلے جائیے ہمیں زیادہ  تکلیف نہیں ہوتی ہم بھول جاتے ہیں۔ پیار میں ہم پابند نہیں ہوتے اپنے محبوب کے ۔۔۔۔تیسری منزل محبت ہے جس میں محبوب سے پیارا کوئی نہیں ہوتا محبوب ہوتا ہے تو سارا دن حسین ہوتا ہے محبوب نہیں تو سارا دن ساری رات اُداس ۔۔۔محبت میں ہمیں اپنا بھی خیال ہوتا ہے اور محبوب کا بھی ہم اپنی پسند کو بھی اول ترجیح دیتے ہیں اور محبوب کی بھی۔۔۔بیہ نے عروہ کے بال صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔لیزا تھوڑی تلے ہاتھ رکھے اُسے انتہائی غور سے سن رہی تھی۔۔۔

چوتھی منزل۔۔۔اور وہ ہے عشق ۔۔۔جو بھلائے نہ بھولے جسے بھولنے کی لاکھ کوشش کرلو وہ نہیں بھول پاؤں گے آپ کبھی نہیں ساری زندگی نہیں ۔۔۔۔جس میں کبھی اپنی ذات کا خیال اتا ہی نہیں ہے محبوب کے منہ سے نکلی ہر بات پتھر کی لکیر بن جاتی ہے محبوب آپ پر ہزاروں ستم بھی کر لے وہ آپکا عشق ہی رہتا ہے ۔۔محبوب کی پسند آپکی پسند ۔۔۔اُسے جو نہیں پسند آپ  اُس سے قطع کنارا کر لیتے ہو ۔۔عشق وہ ہے جس میں محبوب کے بغیر ایک پل بھی رہنا مرنے کے مترادف ہوتا ہے عشق وہ ہے جس میں محبوب کی ایک جھلک ہی آپکے لیے کافی ہوتی ہے عشق وہ ہے جس میں آپ محبوب کا نام جپتے رہو عشق وہ ہے  جس میں آپ محبوب کے ایک حکم پر اپنا سر تک قلم کرنے کو تیار ہو جاؤ۔۔۔مختصر لفظوں میں عشق موت ہے۔۔۔جس میں آپکو آپکا محبوب مل جائے تو عید ورنہ عمر بھر کا غم آپکا نصیب ۔۔۔۔بیہ نے ایک ضبط کے عالم میں کہا۔۔

اور حسام وہ یک تک بیہ کے چہرے کو دیکھے گیا ایک فسوں تھا جو وہ باندھ گئی تھی۔۔۔اُسکی نظریں بیہ کے حسین چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی۔۔۔۔

لیزا اور شاداب بھی سن ہوگئے تھے ۔۔۔

اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس کرتے بیہ نے اپنا رخ موڑ کر حسام کی آنکھوں میں دیکھا جہاں سے لپکتے جذبات دیکھتے اُسکی سانسیں بے ربط ہوئی وہ یک تک حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھے گئی جہاں ہلکی ہلکی نمی کے ساتھ ایک محبت کا جہاں آباد تھا۔۔۔۔

حسام بیہ کی آنکھوں میں دیکھتا جیسے اُسے پیغام دینا چاہتا تھا کہ اُسکے دل میں چھپے جذبوں کو پہنچان لو ۔۔۔

اور جنوں بیہ تم نے جنون تو بتایا نہیں۔۔۔۔لیزا فوراً سے ہوش میں اتی بولی۔۔۔

لیزا کی آواز پر اُن دونوں کا فسوں ٹوٹا۔۔بیہ نے جلدی سے سرخ چہرے کے ساتھ اپنا رخ مورا جب حسام کی سنجیدہ خوبصورت آواز اُسکے کان کے پردوں سے ٹکرائیں۔۔۔۔

جنون پانچویں منزل ہے۔۔۔جس میں محبوب کو ہر حال میں پانا ہوتا ہے آپکو محبوب ہر لمحہ اپنے پاس چایئے ہوتا ہے جس میں محبوب کی ذرا سی دوری پر آپ پاگل ہوجاتے ہو ۔۔۔اُسکی ذ را سی نظراندازی آپکی جان سولی پر لے اتی ہے جہاں اُسکی ذرا سی تکلیف بھی آپکو اپنی لگتی ہے جہاں اُسکے آنسو آپکو اذیت دیتے ہیں ۔جہاں محبوب پر صرف آپکی نظریں ہی آپ برداشت کر پاؤں جہاں اُسکی ایک جھلک اُسکے ایک بال پر بھی آپ کسی کی نظر نہ پڑنے دو۔۔۔جہاں آپ اُسکی ذات پر مکمل طور پر اپنا حق حاصل کر سکو۔۔۔۔۔۔حسام نے زمین پر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے شدت بھرے لہجے میں  کہا ۔۔۔بیہ نے ایک جھٹکے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔

میرے خیال سے اب چلنا چایئے رات ہونے والی ہے۔۔۔شاداب نے لیزا کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیہ اور حسام کی باتوں کو سن کر وہ سمجھ گیا تھا ابھی وہ پہلی منزل ہے جہاں لیزا اُسکی پسند ہے اب یہ پسند کب تک رہنے والی ہے یہ وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔

ہاں چلو۔۔۔لیزا نے بھی جلدی سے کہا۔۔۔حسام بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو۔۔۔اور جھکتے عروہ کو اپنی گود میں اٹھایا۔۔۔

بیہ نے اٹھتے عروہ کو حسام کی گود میں دیکھتے عروہ کے بال حسام کے بٹن سے ہتائے ایسا کرتے حسام کے سینے سے اُسکی اُنگلیاں ٹچ ہوئی ۔۔۔بیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔۔اس لمس سے اسکے وجود میں سنسنی سی دور گئی۔۔۔اپنے سینے پر بیہ کی انگلیوں کے لمس سے حسام کو وجود میں ایک سکون سا دوڑتا محسوس ہوا بیہ کے جلدی سے اپنا ہاتھ ہٹانے پر وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا۔۔۔۔

شاداب نے عروہ کو حسام کی گود سے لیا لیزا نے الوادعی کلمات حسام سے کیے بیہ اس سارے وقت میں خاموش تھی وہ اپنے منہ سے ایک لفظ نہ بولی کہتی بھی کیسے اس انسان کے آس پاس ہونے سے منہ پر جیسے قفل پر جاتا تھا۔۔۔

حسام نے دور جاتی بیہ کی پشت کو گہری نظروں سے تکا جس طرح وہ اُسکی آنکھوں میں دیکھتے سب بھول جاتی تھی حسام کو لگ رہا تھا وہ بہت جلد اپنی منزل تک پہنچ جائے گا۔۔۔لیزا کو۔یہاں دیکھتے اسکو تھوڑا سا سکون ملا تھا شاداب کی آنکھوں میں وہ لیزا کے لیے پسندیدگی محسوس کر چکا تھا 

ہاتھ تھوڑی تلے رکھے وہ سامنے محویت سے فوٹ بال کھیلتی سدرہ کو دیکھ رہی تھی....سدرہ کو کھیل میں مگن دیکھتے وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اج اُس نے لال گھنٹوں تک کی ریشمی فروک سفید چوڑی دار پاجامہ اور لال ہی دوپٹہ گردن سے لپٹا ہوا تھا ملبوس تھی یہ سوٹ اُسکی والدہ نے اُسکی سالگرہ پر اُسے گفٹ دیا تھا۔۔۔

 سرخ و سفید رنگت چاندنی کی طرح دمک رہی تھی گولڈن بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے وہ لال لباس میں لال گلاب لگ رہی تھی ۔۔۔۔

اُسے ذرقان سے مل کر اپنے سوالوں کے جواب چایئے تھے زرقان سے ملنے کا ارادہ کیے وہ اسٹیڈیم سے باہر نکلی۔۔۔

کالی ٹی شرٹ اور پینٹ میں بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ پسینے سے تر ہوئی فٹ بال کھیلنے میں مگن تھی۔۔۔۔سفید رنگت اس وقت لال ہو رہی تھی ۔۔۔

وہ پوری یونی میں اُسے ڈھونڈتا آخر میں اسٹیڈیم میں ایا تھا ۔۔۔اسٹیڈیم میں پہلا قدم رکھتے ہی اُسکی نظر سامنے اُٹھی جہاں وہ اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت پسینے سے بھیگی ہوئی فٹ بال کھیل رہی تھی ۔۔۔اُسکے بال جو اونچی پونی ٹیل میں بندھے بار بار اُسکی پشت سے ٹکڑا کر اِدھر سے اُدھر بل کھا رہے تھے۔۔۔۔

جنید (جون) کی نظر اُس پر ٹھہر سی گئی نظر اُسکے سفید سرخ چہرے سے ہوتے ہوئے اُسکی گردن تک ائی جہاں چپکی لٹوں اور صراحی دار گردن پر موجود پسینے کو دیکھتے اُس کے حلق میں گلٹی اُبھری۔۔۔نظریں وہاں سے اُسکے نشیب و فراز میں جا الجھی جو تیز سانسیں بھرنے کی وجہ سے مزید اجاگر ہو گئے تھے۔۔۔

جنید کو اپنی سانسیں تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی سدرہ کو دیکھتے ہی اُسکے پُر جوش جذبات اجاگر ہوئے۔۔۔یکدم اُسکے ہاتھ کی مٹھی بندھی ۔۔۔

براؤن آنکھوں میں غضب کی لال چھائی۔۔۔جبڑے بھینچے اب وہ قہر برساتی نگاہوں سے سدرہ کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ایک ٹیم ممبر کے ہاتھ پر تالی مارتی ہوئی دوبارہ گیم کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔

جون نے پورے اسٹیڈیم میں دیکھا جہاں صرف سدرہ کے علاوہ تین ہی لڑکیاں تھی باقی سارے لڑکے تھے جب اُسکا یہ حلیہ جون پر بجلی کی طرح گرا تھا تو کیسے نہ باقی سب اُسکی طرف متوجہ ہوتے۔۔۔۔۔

یہاں موجود لڑکوں کی نظر سدرہ پر محسوس کرتے اُسکے وجود میں جیسے اشتعال کے بھانپر جلتے ہوئے محسوس ہوئے اب وہ جلتی نگاہوں سے سدرہ کے وجود کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ضبط کی ایک حد تھی جو ختم ہو گئی تھی وہ اُسکی بیوی تھی اُسکا ایسا حلیہ وہ صرف اپنے سامنے برداشت کر سکتا تھا ۔۔لیکن اس وقت اُسکی بیوی اتنے مردوں کی موجودگی میں اپنی ظاہر ہوتی خوبصورتی اور رعنائیوں سمیت بہت سکون سے کھڑی اُسکا سکون چھین گئی تھی۔۔۔

ایوری ون لیو دی اسٹیڈیم رائیٹ ناؤ۔۔۔۔۔تیز سخت آواز پر فٹ بال کھیلتی سدرہ تھمی ۔۔۔۔

جون نے سخت و سرد آواز میں کہتے اُسکی طرف دیکھا جو اب رکتے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔

جون کی بات پر سب اسٹوڈنٹ اپنے اپنے سامان کی طرف بڑھے۔۔۔

سدرہ نے ایک نظر جنید کو دیکھا اور پھر خود بھی نظریں پھیر گئی۔۔۔۔جون کی شرٹ پر لگے کوچ کے بیچ کو وہ سمجھ گئی کہ جون فٹ بال کوچ ہے۔۔۔

اس نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی فٹ بال کھیلنا اُسکا جنون تھا وہ اس انسان کی وجہ سے اپنے جنون سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی۔۔۔سب کو اپنے اپنے سامان پیک کرتے دیکھتے وہ بھی اپنے سامان کی طرف بڑھی جنید کو بلکل ایسے نظرانداز کیا جیسے وہ یہاں تھا ہی نہیں۔۔۔

جنید جو اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے لال ہوتی آنکھوں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا اپنی نظراندازی پر اپنے جبڑے اور سختی سے بھینچ گیا۔۔۔

سب کو اسٹیڈیم سے باہر نکلتے دیکھ اُس نے اسٹیڈیم کا دروازہ بند کیا اور اپنے قدم سدرہ کی طرف بڑھائے۔۔۔

سدرہ جو اپنے آپکو کنٹرول کیے اپنا سامان پیک کر رہی تھی اسٹیڈیم کے خالی ہونے پر  جلدی جلدی اپنا بیگ پیک کر رہی تھی دروازہ بند ہونے کی آواز پر اُسکے ہاتھ رکے۔۔۔دل کی دھڑکن بڑھی۔۔۔

لیکن نظر انداز کرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا۔۔سانس ابھی تک پھولا ہوا تھا۔۔۔

سدرہ نے جون کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ اپنے تاثرات کو سخت کرتے اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔

اس شخص کو نظرانداز کرنا انتہائی مشکل تھا لیکن اُسے کرنا تھا۔۔۔

جنید نے اپنے انتہائی پاس سے گزرتی سدرہ کا بازو پکڑتے اُسے پل میں  اپنے انتہائی قریب کیا۔۔۔

سدرہ نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھا جو اس وقت لال ہو رہی تھی دونوں کا چہرہ ایک دوسرے سے ایک انچ کی دوری پر تھا دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑتی دونوں کے چہرے جھلسا رہی تھی۔۔۔

دونوں کی براؤن آنکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ایک کی آنکھوں میں غصّہ جنون محبت تھی تو دوسرے کی آنکھوں میں صرف و صرف سرد پن۔۔۔۔

کس طرح کا لباس پہنا ہے تم نے۔۔۔سدرہ کے بازؤں پر اپنی گرفت سخت کرتے بیچ میں موجود ایک انچ کے فاصلے کو بھی مٹاتے جون نے اُسے اپنے مزید نزدیک کرتے ہوئے سرد آواز میں کہا۔۔۔

سدرہ نے جنید کے سینے پر ہاتھ رکھتے فاصلہ بنانا چاہا لیکن جون نے  اُسکی قمر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے اُسکی یہ کوشش بری طرح ناکام کی۔۔۔۔

یہ شرٹ ہے اور پینٹ ہے جو میں نے پہنی ہے اور یہ ایک ویسٹرن لباس ہے۔۔۔سدرہ نے دانت پیستے ہوئے جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے دوبدو جواب دیا جبکہ مقابل کے قمر پر رکھے ہاتھوں کے لمس سے دل کی دھڑکن بڑھی۔۔۔

سدرہ کے جواب پر جون نے اپنی آنکھیں ضبط سے بند کی۔۔۔

آئندہ اُس طرح کا لباس مجھے تمھارے وجود پر نظر نہ آئے جس وجود کو تم یہاں نمائش کا سامان بنائے پُر سکون کھڑی تھی وہ وجود میری ملکیت ہے ۔۔۔اور میں اپنی ملکیت پر کسی کی بھی نظر برداشت نہیں کرونگا مجھے بلکل گوارا نہیں تمہیں کوئی دیکھے بھی۔۔۔سرد آواز میں سدرہ کے ہونٹوں کو فوکس میں رکھتے جون شدت سے گویا ہوا۔۔۔

ہوش میں آجائے کوچ صاحب یہ وجود میرا ہے اور میری مرضی میں جو بھی پہنو ۔۔۔۔جس وجود کو آپ اپنی ملکیت بول رہے ہیں اسی وجود کو بہت بیدردی سے آپ پانچ سال پہلے نام نہاد دولت حاصل کرنے کے لیے چھوڑ گئے تھے۔۔۔سدرہ نے تلخ لہجہ میں جوابی کاروائی کی۔۔۔

اب چھوڑے مجھے۔۔۔سدرہ نے اپنی قمر پر رکھے جون کے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔

چھوڑنے کے لیے پکڑا نہیں ہے۔۔۔جب تمہارا یہ پسینے سے بھیگا وجود مجھ پر بجلی بن کر گرا ہے تو کیسے یہاں موجود اُن مردوں کی نظر تم پر نہ گئی ہوگی ۔۔۔جون نے سدرہ کی قمر پر گرفت سخت کرتے اُسکی گردن پر انگلی سختی سے پھیرتے ہوئے سرد آواز میں کہا۔۔۔اب بھی یہاں موجود اُن لڑکوں کی نظریں اُس کے ذہن میں گردشِ کر رہی تھی۔۔۔

سدرہ نے اپنی گردن پر اٹھتے درد کو برداشت کرتے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔جبکہ جون کے منہ سے نکلتے لفظوں کو سنتے اُسکا غصّہ عود ایا۔۔۔

تمہیں کوئی فرق نہیں پڑنا چایئے۔۔۔پانچ سال سے تھے یہاں نہیں نہ اور اس عرصے میں نہ جانے کتنے مردوں نے مجھے دیکھا اور چھوا ۔۔۔۔سدرہ کے الفاظ ابھی حلق میں ہی تھے جب جون نے اُسکی بات پر اشتعال میں اتے اُسکے لبوں کو اپنی سخت گرفت میں لیا ۔۔۔

وہ جو شدید غصے میں زہریلے لفظ اپنی زبان سے ادا کر رہی تھی یکدم اپنے لبوں پر جلتے سلگتے لمس کو محسوس کرتے جی جان سے تڑپی۔۔۔جنید کی اپنے لبوں پر شدت محسوس کرتے اُسکے وجود میں برقی رو سی دور گئی۔۔۔۔

اپنی سانسیں بند ہونے پر اُس نے جنید کے کندھوں پر اپنے نازک ہاتھ کے مکے برسائے۔۔۔۔۔

سدرہ کی بند ہوتی سانسوں کو محسوس کرتے اُس نے سدرہ کے نچلے ہونٹ کو اپنے دانتوں تلے دبایا ۔۔۔۔

سدرہ نے تڑپ سے سسکی بھری۔۔۔۔جنید نے سدرہ سے دور ہوتے اُسکے لال چہرے کو دیکھا سدرہ کے ہونٹ پر لگی خون کی بوند کو اپنی انگلی کی پوروں سے چنا ۔۔۔

سدرہ نے گہرے سانس بھرتے بھیگی نِگاہوں سے اس ظالم کو دیکھا جو اب آنکھوں میں شوخی لیے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔اُسکی نظر جنید کی انگلی کی پور پر لگی خون کی بوند پر گئی۔۔۔۔

یکدم جنید کا کولر پکڑتے اُسے اپنے نزدیک کرتے اُس نے شدت سے اپنے دانت جنید کی گردن پر گاڑھے۔۔۔۔جنید نے سدرہ کے اس جارحانہ حملے پر درد سے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔

جون کی گردن پر اپنے دانتوں کا نشان چھوڑتے وہ پیچھے ہوئی۔۔۔۔

اب اگر زخم دو گے تو سود سمیت واپس بھی پاؤ گے۔۔۔۔سدرہ نے اُس سے دور ہوتے ایک جھٹکے میں اپنے گرد بندھی اُسکی گرفت توڑتے سخت لہجے میں جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔

اگر زخم اس صورت واپس ملنے ہے تو ہر بار ،بار بار تیار ہو میں ایسے زخم کھانے کو۔۔۔۔جنید نے اپنی ایک آنکھ ونک کرتے بیباکی سے کہا۔۔۔

سدرہ کی رنگت سرخ ہوئی جنید کی بات پر ۔۔اُسکے وجود میں غصّہ بڑھتا چلا گیا یہ انسان پانچ سال بعد آکر اُس سے ایسے مخاطب تھا جیسے ان دونوں کے بیچ سب صحیح ہو۔۔۔

آخر پانچ سال بعد تمہیں میرا خیال کیوں ایا ہے کیا تمہیں ذرا سی بھی شرمندگی نہیں جو تم کر چکے ہو اُس پر ،تم نے لالچ میں آکر مجھے چھوڑا تو چھوڑا تم نے تایا ابو کو بھی تنہا کر دیا۔۔۔کبھی سوچا ہے وہ کیسے اپنی ایک لوتی اولاد کے بغیر رہتے ہونگے۔۔۔کبھی ان پانچ سالوں میں تمہیں میرا خیال ایا ہے کہ وہ لڑکی جو جب تک تمھاری شکل نہ دیکھ لے جب تک تمھاری خوشبو میں سانس نہ لے لیں جب تک تمہارا چہرہ نہ دیکھ لے تب تک بے سکوں رہتی ہے۔۔۔جانتے تھے نہ تم اچھی طرح جانتے تھے تمھاری آواز تمھاری مسکراہٹ میری کمزوری ہے میں ترس جاؤنگی مر جاؤنگی اگر ایک دن بھی تمھاری آواز میری سماعت کا حصہ نہ بنے ۔۔۔لیکن پھر بھی چھوڑ گئے۔۔۔بولوں نہ اب جواب دو۔۔۔۔۔۔

سدرہ جنید کا گریبان اپنی دونوں مٹھیوں میں جکڑے ہذیانی انداز میں چیخی۔۔۔۔

دو حساب میری اُن راتوں کا جب نیند میری انکھوں سے کوسوں دور تھی جب پرانی یادیں یاد کرتے میرا دماغ پٹھنے لگتا تھا حساب دو میرے اُس وقت کا جو میں نے تمھاری یاد میں برباد کيا دو نہ حساب اب اُن آنسوؤں کا جو تمھاری وجہ سے میری انکھوں سے بہہ نکلے۔۔۔صرف میرا ہی حساب نہیں تایا ابو کا حساب بھی دو جو آج تک دروازہ تکتے تمہارا انتظار کرتے ہیں جن کی آنکھیں اپنے اولاد کو دیکھنے کے لیے ترس گئی ہے میرے بھائی کا حساب بھی دو جو روز اپنی بہن کو مرتے دیکھتے خود مرتا تھا۔۔۔۔جنید کے سینے پر ہاتھ مارتی اُسے پیچھے کی طرف دھکا دیتی وہ پھولی سانسوں کے درمیان کہتی جنید کو اذیت سے روشناس کروا گئی تھی۔۔۔۔

میں سب کا خمیازہ بھگتنے کو تیار ہو سدرہ جو سزا دو گی قبول ہوگئی مجھے۔۔۔یکدم سدرہ کے ہاتھ پکڑے جنید نے نرم آواز میں کہا۔۔۔

صحیح خمیازہ بھگتنا ہے نہ ۔۔۔تیار ہو سزا کے لیے۔۔۔سدرہ نے اپنے ہاتھ جنید کی گرفت سے نکالتے زور سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ۔

طلاق دو مجھے ۔۔۔آزاد کرو اس رشتے سے اور قبول کرو اپنی یہ سزا۔۔۔سخت و سرد آواز میں کی گئی سدرہ کی بات پر جنید کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔وہ سدرہ کی طرف سے ایسے جملے کی توقع نہیں کرتا تھا۔۔۔

سدرہ یہ لفظ تم زبان سے ادا بھی کیسے کر سکتی ہو ۔۔جنید اپنی پوری قوت سے چیخا تھا۔۔۔اُسکی دل کی دھڑکن رک سی گئی تھی سدرہ کی زبان سے طلاق کا لفظ سنتے۔۔۔۔

کیوں سزا چایئے تھی نہ تمہیں تو بھگتو اب۔۔۔سدرہ نے اسپاٹ چہرے سے جنید کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔۔۔۔

مجھ سے آزادی تمہیں کبھی نہیں ملے گی کبھی نہیں ۔۔یہ بات اپنے اُس دماغ میں بٹھا لو۔۔۔۔اور آئندہ یہ لفظ تمھاری زبان پر بلکل نہیں انا چایئے بلکہ تیار ہو جاؤ جلد ہی میری پناہوں میں انے والی ہو میرے قریب رہ کر جو سزا دو گی منظور ہوگی لیکن دوری نہیں ۔۔۔۔۔جنید نے یکدم سدرہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کرتے سخت لہجے میں کہا۔۔۔

سدرہ کچھ بھی نہیں بولی بس سخت نگاہوں سے جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھے گئی۔۔۔۔۔

اور آئندہ ایسا لباس مجھے تمھارے اُس حسین وجود پر نظر نہ آئے جس میں تم دعوت نظارہ بنی ہوئی ہو ۔۔۔ورنہ با خدا اج میرے قہر سے بچ گئی ہو ہر بار ایسا نہیں ہوگا۔۔بہت جلد ملاقات ہوگی ۔۔۔اور وہ بھی کافی طویل ۔۔۔۔جنید نے اپنا کورٹ اُتار کر سدرہ کو زبردستی پہناتے ہوئے سرد آواز میں کہا ۔۔۔۔

سدرہ بلکل بت بنی اُسکی حرکات دیکھ رہی تھی جو اب اپنے رومال سے اُسکی گردن پر جمع پسینہ صاف کر رہا تھا۔۔۔۔

اُسکی آنکھیں آنسو سے بھرنے لگی تھی اتنے دن جس کی یاد کو دل میں سلا کر رکھا وہ اج سامنے تھا۔۔۔دل کے سارے جذبات دوبارہ جاگ اٹھے تھے۔۔۔

میں تمہارے پاس کبھی نہیں اونگی کبھی نہیں۔۔۔جنید کو خود سے دور دھکا دیتے وہ اپنے بیگ کو اٹھائے وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔۔۔

تم میرے پاس ہی اؤںگی کیونکہ میں ہی تمھاری منزل ہو۔۔۔دھیمی آواز میں بڑبڑاتے جنید نے اپنا رومال واپس اپنی جیب میں رکھتے اپنی ٹی شرٹ صحیح کی۔۔۔۔۔اور خود بھی باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

💗💗💗💗

وہ زرقان کی تلاش میں نظر ڈورا رہی تھی جب وہ اُسے اپنی مخصوص جگہ پر نظر ایا صوفیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا۔۔۔۔

امنہ کو سوال کا جواب چایئے تھا کہ وہ کیوں اُس دن اتنا بے اختیار ہوا تھا ۔۔۔کیا وہ اُسے پسند کرتا ہے یہ پیار کرتا ہے اس کے جواب اُسے زرقان سے چایئے تھے۔۔۔

وہ دھیمے قدم بڑھاتے زرقان سے ابھی پانچ قدم کی دوری پر تھی جب ایک لمبے بالوں والے لڑکے نے اُسکے راستے میں اپنا پاؤ اتکایا ۔۔۔۔۔

صوفیہ کی نظر بھی امنہ پر پڑ گئی تھی ۔۔

امنہ ایک چیخ کے ساتھ نیچے گرنے لگی تھی جب اُسی لڑکے نے اُسکے پیٹ کے گرد اپنا ہاتھ رکھتے اُسے گرنے سے بچایا۔۔۔

امنہ جو گرنے کے ڈر سے اپنی آنکھیں بند کرتی تقریبا زمین پر سیدھے منہ آدھی جھکی ہوئی تھی اپنے پیٹ پر کسی کا لمس محسوس کرتے تڑپ اُٹھی۔۔۔۔۔

زرقان جو چیخ کی آواز پر اُسکی طرف متوجہ ہوا تھا سامنے امنہ کو آدھا جھکا دیکھتے اُسکے پیٹ پر رکھے لڑکے کے ہاتھ کو دیکھتے اُسکی آبرو تن گئی ۔۔۔لمحے میں وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔۔

نہ جانے کیسی اذیت تکلیف اور غصّہ اُسے اپنے وجود میں سرائیت کرتا محسوس ہوا امنہ کے پیٹ پر رکھے اُس لڑکے کے ہاتھ کو دیکھتے اُسے اپنی شریانیں پٹھتھی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ایسا لگا جیسے اُسکا روا روا جل اٹھا ہو ۔۔۔۔

ایک ہی جست میں وہ امنہ تک پہنچا تھا۔۔۔امنہ جو حیرت سے واپس کھڑی ہوتی اپنے پیٹ سے اُس لڑکے کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی جو جان بوجھ کر اپنا ہاتھ نہیں ہٹا رہا تھا رو پری آس پاس کھڑے اسٹوڈنٹ اُسکی طرف دیکھتے ہنس رہے تھے جب کوئی تیزی سے امنہ کی طرف ایا اور ایک جھٹکے میں اُسے اس لڑکے سے دور کر گیا۔۔۔

زرقان کا ضبط ٹوٹا تھا اُس نے امنہ کے پاس اتے اُسے اپنے پیچھے کرتے اُس لڑکے کے منہ پر پوری قوت سے مکا رسید کیا۔۔۔۔دل کیا تھا اس لڑکے کا وہ ہاتھ جڑ سے اُکھار پھینکے جس ہاتھ سے اُس نے امنہ کو چھوا تھا۔۔۔

ہاؤ دئیر یو تو ٹچ ہر۔ ۔۔(تمھاری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی) وہ حلق کے بل اُس لڑکے پر وار کرتا ڈھاڑا ۔۔۔

امنہ اپنا رونا بھولتے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے حیرت سے زرقان کو دیکھ رہی تھی جو ڈر پر ڈر اُس لڑکے پر وّار کر رہا تھا۔۔۔۔

زرقان کے دوستوں نے آکر بہت مشکل سے اُسے اُس لڑکے سے دور کیا جس کی حالت وہ حد سے زیادہ خراب کر چکا تھا۔۔۔۔

ستے اوۓ فروم ہر ۔۔۔۔اپنی انگلی اٹھاتے اُس نے وہاں موجود ہر لڑکے کو سرد آواز میں کہا۔۔

امنہ کی طرف پلٹتے سن ہوئی امنہ کا ہاتھ پکڑے وہ پھولتی سانسوں کے ساتھ وہاں سے نکلا۔۔۔۔

صوفیہ نے غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے زرقان کا جنوں دیکھا۔۔۔وہاں موجود لڑکوں نے جلدی سے اُس لڑکے کو اٹھایا جو پورا خون خون ہوا تھا۔۔۔

💗💗💗💗

آمنہ بت بنی زرقان کے ساتھ کھینچی جا رہی تھی اُسکی کتابیں وہی پر گر گئی تھی اُسکا دماغ ماؤف تھا کوئی اتنا جنونی کیسے ہوسکتا تھا۔  ۔

زرقان نے ایک جھٹکے سے اُسے کھینچ کر دیوار سے لگایا۔۔۔

اندھی تھی تم دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی آنکھیں کہاں تھی رونے کے بجائے اُسے تھپڑ مار کر اُسکا وہ ہاتھ توڑ پھینکتی جس ہاتھ سے اُس نے تمہیں چھوا۔۔۔۔۔

دیوار پر شدت سے اپنا ہاتھ مارے زرقان چیخا تھا۔۔۔امنہ نے ڈر سے اپنی آنکھیں بند کی آنسو نکلتے اُسکے سرخ عارض کو بھگوتے چلے گئے تھے ۔۔۔۔

بولو جواب دو۔۔۔زرقان اُسکے آنسو دیکھتے اور غصّہ ہوا ۔۔۔اُسکی سفید رنگت اشتعال سے سرخ تھی۔۔۔۔

جب امنہ نے ہچکی بھرتے اپنی بھیگی ہیزل بلیو آنکھوں سے زرقان کی طرف دیکھا ۔۔۔ 

ہچکی بھرتے اپنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کرتے نفی میں سر ہلایا اور زرقان چپ چاپ اُسے دیکھتا گیا۔۔۔

 لب بھنچے امنہ کی ہیزل بلیو انکھوں اور ہچکیاں بھرتے وجود کو دیکھتے وہ سمجھ گیا تھا وہ بری طرح خوفزدہ ہے ۔۔۔۔

اس نے نرمی سے امنہ کی قمر میں ہاتھ ڈالے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔امنہ کے سر پر اپنی تھوڑی رکھے وہ اپنی آنکھیں بند کر گیا تھوڑی دیر پہلے جو بدن میں غم وغصہ کا طوفان اٹھا وہ جیسے تھم سا گیا تھا رگ و پے پر سکون سا دوڑتا محسوس ہوا۔۔۔۔امنہ کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی مہک اُسکے روم روم میں سرور سا بھر گئی۔۔۔۔اپنے سینے سے لگے اس نازک وجود کے لمس میں وہ کھو سا گیا تھا۔۔۔

امنہ دھک سی رہ گئی زرقان کی اس حرکت پر اُسکے سینے پر دل کے مقام پر اپنا سر رکھے اُسکی دھڑکنیں سنتے وہ بلکل ساکن سی تھی ۔۔۔بس ہیزل بلیو انکھوں سے آنسو نکلتے زرقان کی شرٹ کو بگھو رہے تھے۔۔۔

دونوں کے لیے جیسے یہ لمحہ تھم سا گیا تھا نہ جانے کیسا سکون تھا جو دونوں کو محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ہواؤں کا رخ بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

اب کچھ کہنے کچھ پوچھنے کو باقی تھا ہی نہیں زرقان کی آنکھوں میں نظر اتی اپنے لیے جنونیت دیکھتے امنہ کو سب جواب مل گئے تھے۔۔۔۔اور زرقان وہ کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتا تھا اس وقت وہ صرف ان لمحوں کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

امنہ۔۔۔سدرہ کی آواز پر امنہ جو سن سی زرقان کی دل کی دھڑکن سن رہی تھی ایک جھٹکے سے ہوش میں اتے زرقان سے دور ہوئی۔۔۔۔

چہرہ لال گلابی ہوتے بھانپ چھوڑنے لگا۔۔۔زرقان بھی ہوش میں ایا اچانک سے ایک نازک سے وجود کے دور ہونے پر اُسکا سارا فسوں ٹوٹا تھا۔۔۔۔

امنہ نے ایک نظر زرقان کو دیکھا لیکن اُس کی نظر اپنے اوپر ہی دیکھتے وہ اپنی نظریں جھکاتی جلدی سے سدرہ کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔

سدرہ کا ہاتھ تھامے وہ بغیر زرقان کو کچھ بولے تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھا گئی لیکن اس بیچ وہ سدرہ کی روئ روئ آنکھیں دیکھ چکی تھی۔۔۔۔۔

زرقان نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے امنہ کی پشت کو تکا۔۔۔۔جب اسی وقت امنہ پلٹی۔۔۔

زرقان کے لبوں پر مسکراہٹ ائی امنہ نے گڑبڑا کر اپنا رخ موڑا اپنے لبوں کو کاٹتی وہ سدرہ کی تفتیش کرتی نگاہوں سے بچتی اُسکا ہاتھ پکڑے آگے بڑھتی گئی۔۔۔۔

زرقان کے لبوں پر اب بھی مسکراہٹ تھی جو کچھ یاد اتے ہی سمٹی جلدی سے فون نکالتے اُس نے ایک نمبر پر کال کی اب چہرے پر صرف و صرف سنجیدگی تھی۔۔۔۔

آپ نے مجھے اچھے کام پر لگا دیا ہے۔۔۔مقابل کی بات پر کامل نے اپنی ایک آبرو ریز کرتے اُسکی طرف دیکھا جو براؤن تھری پیس میں بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے بڑے آرام دہ انداز سے اُسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔

خیریت ہے اج کل۔تمہارے اُس چہرے پر مسکراہٹ جمی رہتی ہے۔۔۔کامل نے اپنے ہاتھوں کو باہم ملاتے ٹیبل کی سطح پر رکھتے پوچھا۔۔۔

بس کیا کرے کوئی ہے جسے سوچتے ہی لبوں پر مسکراہٹ دور جاتی ہے ۔۔مقابل نے اپنے ہاتھ کی دو اُنگلیاں اپنے لبوں پر رکھتے دل نشین انداز میں کہا۔۔۔ذہن میں لال لباس میں ملبوس ایک حسینہ کا عکس لہرایا۔۔۔۔

کس بیچاری کی شامت ائی ہے کیا ارادہ ہے پھر آگے کا۔۔۔۔۔۔کامل کی بات پر مقابل نے تیز نظروں سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔

ارادہ تو بہت کچھ ہے لیکن پہلے اس کام سے تو فرصت مل جائے جو آپ نے میرے سر پر تھوپا ہوا ہے۔۔۔۔مقابل نے چرتے ہوئے کہا۔۔۔۔

یہ کام جو تمہیں دیا گیا ہے یہ بہت ضروری ہے اور اتنا چڑ کیوں رہے ہو۔۔۔کامل نے فائل کھولتے ہوئے سوال کیا۔۔۔

تو اور کیا کرو ہر وقت اُسکے ساتھ چپکے رہنا پڑتا ہے جہاں جاؤ وہاں وہ ہوتی ہے مجھے سخت چڑ ہے اُس سے۔۔۔مقابل نے غصّہ سے کہا۔۔۔

کچھ دن برداشت کرو جب تک کوئی کلو نہیں مل جاتا ۔۔۔کامل نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔

انشاءاللہ بہت جلد کوئی نہ کوئی کلو مل ہی جائے گا اب میں چلتا ہو۔۔۔۔مقابل کہتا اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔

کہاں ۔۔۔کامل نے پوچھا۔۔۔

دیدار کر اؤ تھوڑا سا۔۔مقابل نے شریر سا ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔

کامل نے نفی میں سر ہلایا اور واپس اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

اتنا سب کچھ ہوگیا اور تم مجھے اب بتا رہی ہو مطلب تمہارا کزن واپس اگیا ہے۔۔۔امنہ نے سدرہ سے  اشارتاً پوچھا۔۔

جس نے اپنی آنکھیں صاف کرتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔

اب کیا ہوگا۔۔۔امنہ نے سدرہ کے مرجھائے چہرے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔

پتہ نہیں لیکن میں اتنی جلدی اُسے معاف نہیں کرونگی حسینہ اُس نے میرا دل توڑا ہے اور دل توڑنے والے کو معاف اتنی آسانی سے نہیں کیا جاتا۔۔۔سدرہ نے ایک عزم سے کہا۔۔۔۔

اور ذرا میری بات چھوڑو تم مجھے بتاؤ کیا ہو رہا تھا وہاں تم کیوں اُس عجیب سے لڑکے کے گلے لگی ہوئی تھی۔۔۔۔سدرہ نے اچانک یاد انے پر اپنی آبرو ریز کرتے پوچھا۔۔۔۔

امنہ کا رنگ سرخ ہوا سدرہ کی بات پر ۔۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی وہ سدرہ کو اج ہوا تمام واقعہ بتا گئی۔۔۔۔

تم اُسے پسند کرتی ہو۔۔۔سدرہ نے اُسکی بات سنتے سوال کیا ۔۔

امنہ نے سدرہ کی بات پر ایک نظر اُسے دیکھتے اپنا چہرہ جھکایا اور جھکے چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔۔

سدرہ نے امنہ کے اس طرح کہنے پر اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔۔

ویسے اُس میں کچھ ایسا ہے نہیں جو اُسے پسند کیا جائے پر کیا کہہ سکتے ہیں پیار اندھا ہوتا ہے۔۔۔سدرہ نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے کہا۔۔

امنہ نے اُسکی بات پر زور سے اُسکے ہاتھ پر تھپڑ مارا۔۔۔

واہ واہ پیار کیا ہوا دوست گئی بھاڑ میں ۔۔۔۔سدرہ نے اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔

امنہ اُسکی بات پر مسکرا دی ۔۔۔سدرہ نے اُسے مسکراتے دیکھتے اسے صدا مسکرانے کی دعا دی۔۔۔جو آج امنہ نے بتایا جس طرح زرقان اُسکے لیے جنونی ہوا تھا اُس سے اُسے بھی یہی لگا کہ زرقان امنہ سے پیار کرتا ہے۔۔۔

آمنہ وہی اسپیشل آرڈر ایا ہے بیٹا جلدی سے بنا دو ۔۔۔۔وہ دونوں بیکری پر موجود تھی جب وہاں موجود ورکر نے اتے اُسے بتایا ۔۔۔۔

ایک تو پتہ نہیں یہ کون ہے جس کو ہر روز تمہارے ہی ہاتھ کے بنے ہوئے کیک کھانے ہوتے ہیں اور وہ بھی ہر روز تین ۔۔۔سدرہ کی بات پر امنہ نفی میں سر ہلاتی اپنی جگہ سے اُٹھی۔۔۔۔

وہ کبھی کبھار یہاں آکر کیک بنا لیا کرتی تھی لیکن کچھ مہینوں سے پتہ نہیں کون تھا جس کو ہر روز صرف امنہ کے ہاتھ کے بنے ہوئے کیک ہی کھانے ہوتے تھے ۔۔۔امنہ ہر روز یہ تو گھر سے یہ کیک بنا کر بابا کے ہاتھ بیکری بھیج دیا کرتی تھی یہ پھر خود آکر بنا دیا کرتی تھی۔۔۔

اب بھی وہ جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گئی تھی کتنا تجسس تھا اُسے یہ دیکھنے کا کہ یہ آرڈر کون منگواتا ہے کیونکہ ہر دفعہ یہ آرڈر ایک ڈرائیور لینے اتا ہے اور کچھ بھی کہہ بنا آرڈر لے کر چلا جاتا ہے۔۔۔۔

سدرہ نے امنہ کے جاتے ہی اپنا موبائل کھولا اور اس میں مصروف ہوگئی۔۔۔۔اُسے اب تک اپنی سانسوں میں جون کی سانسیں اور اپنے لبوں پر اُسکا لمس محسوس ہو رہا تھا۔۔۔

💗💗💗💗💗

جلدی چلو کلاس کے لیے لیٹ ہو جائے گے ورنہ۔۔۔بیہ کہتی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی جبکہ اُسکے ہم قدم شاداب تھا۔۔۔۔

لیزا اُن کے پیچھے پیچھے آرہی تھی ہائی ہیل پہننے کی وجہ سے وہ دھیما چل رہی تھی۔۔۔۔

میں گر جاؤنگی یار مجھے یہ ہیلز پہن کر انی ہی نہیں چایئے تھی۔۔۔لیزا نے رکتے اپنی ہیلز کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔

رکو میرا ہاتھ پکڑو اور پھر چلو۔۔۔شاداب نے لیزا کی بات پر اُس تک اتے کہا۔۔۔۔

اور تمہارا ہاتھ پکڑنے سے میں گرو گی نہیں کیا۔۔۔لیزا نے شاداب کی بات پر اُسکی طرف دیکھتے کہا جو لال رنگ کی شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس تھا۔۔۔

میں گرنے نہیں دونگا ایک بار تھام کر تو دیکھو۔۔۔۔۔۔شاداب نے لیزا کی شربتی آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا۔۔۔

شاداب کی بات پر لیزا چپ ہوئی دل کی دھڑکن بڑھی مخالف کے لفظوں پر۔۔۔

اور اگر گرا دیا تُو ۔۔۔لیزا نے اُسکی سبز انکھوں میں دیکھتے سوال کیا۔۔۔

ایک بار بھروسہ کرکے تھاموں تو صحیح ایک پٹھان کا وعدہ ہے کبھی نہیں گرنے دے گا اور پٹھان اپنے وعدوں پر پورا اترتے ہیں۔۔۔۔شاداب کی آنکھیں پل کے لیے بھی لیزا کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی۔۔۔

لو کر لیا بھروسہ اب دیکھتے ہیں کتنا وعدہ کا پاس رکھتے ہو تم۔۔۔سدرہ نے دھیمے سے اپنا ہاتھ شاداب کے ہاتھ میں رکھا اپنی اُنگلیاں شاداب کی انگلیوں میں پھسائے وہ گرفت مضبوط کر گئی جبکہ شربتی آنکھیں شاداب کی سبز انکھوں میں جمی ہوئی تھی۔۔۔۔

اپنے ہاتھ پر ایک نرم و نازک لمس محسوس کرتے شاداب کا دل دھڑکا دل نے جیسے لیزا کو دیکھتے ہی یہ اشارہ دیا یہی ہے وہ جو اس دل پر اپنی حکمرانی کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔

شاداب کے چہرے پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا سدرہ کے ہاتھ پر اپنی گرفت سخت کیے اُس نے قدم اگے کی طرف بڑھائے۔۔۔

سدرہ نے مسکراتی نظروں سے پہلے اپنے اور شاداب کے ہاتھ کو دیکھا اور پھر شاداب کی پشت کو ۔۔ ہوا کی رُت بدلی دل کی دنیا بھی تہہ و بالا ہوئی۔۔۔

کینگرو میرا کینگرو۔۔۔۔زیرِ لب کہتی وہ اپنا سر دھیمے سے نفی میں ہلاتی مسکرا پڑی۔۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

وہ لیزا اور شاداب کو کہتے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی گراؤنڈ کو پار کرتے اُسے اپنی کلاس تک پہنچنا تھا اج دیر سے آنکھ کھولنے کی وجہ سے وہ بغیر ناشتہ اور اپنی دوائی لیے بغیر ہی یونی آگئی تھی کامل اور فلک نے بھی اج دھیان نہیں دیا تھا کہ اُس نے اپنی روزمرہ کی دوائی لی ہے یہ نہیں۔۔۔۔

ایڈیلیڈ میں اج شدت کی گرمی تھی ہر طرف گھٹن کا احساس تھا۔۔جو تیز بارش ہونے کا پیش خیمہ تھا۔۔۔

گراؤنڈ میں چلتے اچانک سے بیہ کو سورج کی تیز تپش اپنے وجود پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی پل میں اُسکا وجود پیسنے سے بھرا۔۔۔۔گھٹن کا شدت سے احساس ہوا۔۔۔۔۔

اپنی آنکھیں جھپکتے اُس نے اس پاس کے مناظر کو صاف دیکھنے کی کوشش کی جو دھندلے نظر آرہے تھے۔۔۔۔کانوں میں ایک تیز چبھتی ہوئی آواز سنائی دی۔۔۔۔اس پاس کی ساری آوازیں بند ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔

یکدم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا دماغ سن ہوا اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ زمین پر گرتی چلی گئی۔۔۔۔

گراؤنڈ کے بیچ و بیچ گرتے اُسکا سر نیچے پڑے ایک پتھر سے ٹکرایا اور ماتھے کے کنارے سے تیزی سے خون بہہ نکلا۔۔۔۔

حسام جو خود بھی کلاس کی طرف بڑھ رہا تھا بیہ کو بیچ گراؤنڈ میں گرتے دیکھ تیزی سے اُس تک ایا۔۔۔بیہ کو گرتے دیکھ اُسکی اپنی سانسیں تھم سی گئی تھی۔۔۔۔

بیہ۔۔۔حسام نے اُسے سیدھا کرتے تڑپ کر اُسکے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔۔

آنکھیں کھولو بیہ۔۔۔بیہ کی کالی حسین آنکھوں کو بند دیکھتے وہ تڑپ تو اٹھا تھا اپنے ہاتھ سے اُس نے بیہ کے ماتھے سے نکلتے خون کو روکنے کی کوشش کی۔۔۔بیہ کی حالت دیکھتے اُسے اپنے ہاتھ پاؤں پھولتے ہوئے محسوس ہورہے تھے

دل و دماغ سن ہوتے ہوئے محسوس ہوئے پانچ سال پہلے بھی تو کچھ اسی طرح کا منظر تھا وہ ایسے ہی تو آنکھیں بند کئے خون میں لدی ہوئی اُسکے بازوں میں تھی۔۔۔

حسام کی سیاہ آنکھوں میں تڑپ اُبھری  ماتھے پر گھبراہٹ سے پیسنہ اُبھرا ۔۔۔بیہ کی دھیمی سانسوں کو محسوس کرتے اُس نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے بازوں میں اٹھایا۔۔۔۔۔

بیہ ۔۔۔لیزا اور شاداب نے بھی حسام کے قریب اتے ہوئے اُسکے بازوں میں بیہوش ہوئی بیہ کو دیکھتے فکر مندی سے بولے۔۔۔۔۔

حسام سب کو نظرانداز کرتا تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھا گیا۔۔۔بیہ کی بند آنکھیں دیکھتے اُسکا دل بند ہونے کے قریب تھا روم روم اُسکی فکر میں ڈوب گیا تھا ۔۔۔بیہ کی مدھم سانسوں کو محسوس کرتے وہ سمجھ گیا تھا وہ بےہوش ہوئی ہے لیکن جیسی بیہ کی حالت تھی یہ سب اُسکے لیے صحیح نہیں تھا۔۔۔۔

گاڑی کی پچھلی سیٹ پر احتیاط سے بیہ کو لیتاٹے وہ تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور تیز رفتاری سے گاڑی آگے دوڑا دی ۔۔۔

شاداب نے بھی حسام کے پیچھے اپنی گاڑی چلائیں کامل کو فون کرنا وہ نہیں بھولا تھا۔۔۔۔

لیزا شاداب کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی مسلسل بیہ کی خیریت کی دعا کر رہی تھی۔۔۔۔

💗💗💗💗

اپنی گاڑی میں بیٹھا وہ بار بار پچھلی سیٹ پر بیہوش لیتی اپنی زندگی کو دیکھ رہا تھا جس کی بند آنکھیں اُسکا چین و سکون چھین گئی تھی زیرِ لب دعا پڑھتا وہ اپنی کالی سیاہ انکھوں میں ہلکی سی نمی کی آمیزش لیے تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔۔

بیہ کی مدھم سانسیں محسوس کرتے وہ سمجھ گیا تھا وہ بےہوش ہے لیکن اُسکی بند آنکھیں اور ماتھے سے نکلتا خون اُسے تکلیف دے رہے تھے۔۔۔

اس لڑکی کی چھوٹی سی تکلیف بھی اُسے اپنی تکلیف لگ رہی تھی۔۔۔اور لگتی بھی کیوں نہ یہ لڑکی اب اُسکی زندگی تھی اُسکی سانسوں کی ظمانت ۔۔

ہسپتال کے باہر گاڑی روکتے وہ تیزی سے اپنی طرف سے گاڑی کا دروازہ کھولتے پچھلی سیٹ کی طرف ایا۔۔۔

تیزی سے اپنی بیہ کو اپنے بازؤں میں بھرے وہ ہاسپٹل کے اندر داخل ہوا۔۔۔ 

ڈاکٹر پلیز چیک مائے وائف۔۔۔۔ہاسپٹل میں داخل ہوتے ہی وہ سامنے کھڑے ڈاکٹر سے مخاطب ہوا ۔۔۔اُسکی آواز پورے ہاسپیٹل میں گونجی تھی۔۔۔

اسٹریچر کے انے پر حسام نے جلدی سے بیہ کو اُس پر لٹایا  وہاں موجود ڈاکٹر حرکت میں آئے اور بیہ کو ایمرجنسی میں لے گئے۔۔۔۔

حسام نے بیہ کے جاتے ہی اپنی آنکھیں ضبط سے بند کی ۔۔۔۔اُسکی شرٹ پر خون کا دھبہ تھا جو یقینًا بیہ کا تھا۔۔۔۔

اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ بےچینی سے ادھر سے ادھر چکر لگاتا ڈاکٹرز کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔

دل کی دھڑکن اس وقت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا بیہ کو کھو دینے کا خوف اُسکے پورے وجود کو اذیت کی بھتی میں جھونک گیا تھا۔۔۔۔۔۔

سیاہ آنکھیں اس وقت لال تھی بھینچے جبڑے اُسکے ضبط کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔۔

سر بیہ کہاں ہے ۔۔۔شاداب نے ہاسپٹل میں اتے ہی حسام سے پوچھا۔۔

جس نے شاداب کی بات پر رکتے اپنی سنجیدہ سیاہ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔کوئی اور وقت ہوتا تو شاید وہ شاداب کے منہ سے بیہ کہنے پر شاداب کی زبان کاٹ دیتا لیکن اس وقت وہ ضبط کر گیا۔۔۔

ایمرجنسی میں لے کر گئے ہے۔۔۔حسام نے سنجیدگی سے جواب دیا اور واپس چکر لگنے لگا۔۔۔

شاداب نے حسام کی بات پر ایک نظر لیزا کو دیکھا جو اُسکے ساتھ ہی کھڑی تھی چہرے پر حد درجہ فکر کے آثار تھے۔۔۔۔

تقریباً دس منٹ ہو گئے تھے اور شاداب اور لیزا کی نظریں صرف حسام پر ٹکی تھی جو ایک پل کے لیے بھی بیٹھا نہیں تھا ساتھ ساتھ اُسکے لب بھی مسلسل حرکت کر رہے تھے۔۔۔

حسام کے چہرے سے صاف انابیہ کے لیے فکر ظاہر ہو رہی تھی جو اُن دونوں کو ہی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔۔

پلیز اللہ اس بار نہیں اب اگر اُسے کچھ بھی ہوا تو میں برداشت نہیں کر پاؤں گا رحم کر مجھ پر میرے رب میری بیوی کو کچھ نہ ہو۔۔۔حسام نے شدت سے دعا کی۔۔۔

ڈاکٹر کے باہر انے پر حسام اُن دونوں سے پہلے ڈاکٹر کی طرف بڑھا۔۔۔۔

کیسی ہے وہ۔۔۔حسام نے بیقراری سے پوچھا۔۔۔

وہ ٹھیک ہے بلڈ پریشر لو ہونے کی وجہ سے شاید اُنہیں چکر اگئے تھے اور چھوٹی سی چوٹ لگی ہے باقی وہ ٹھیک ہے آپ لوگ مل سکتے ہیں اُن سے اُنہیں کمرے میں شفٹ کر دیا ہے۔۔۔ ۔۔۔ڈاکٹر نے خالص انگریزی میں حسام سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔

حسام نے ڈاکٹر کی بات پر ایک گہرا سانس بھرا انابیہ کے ٹھیک ہونے کی خبر سنتے اُسکے وجود میں سکون ڈورا تھا وہ اج حد درجہ ڈر گیا تھا بیہ کے ڈاکٹر سے وہ خود بھی ملا تھا جنہوں نے اُسے بھی صاف لفظوں میں یہ بتایا تھا کہ اب کوئی بھی شدید چوٹ یہ پریشانی بیہ کی صحت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتی ہے اسی وجہ سے اب تک اُسکی سانس سینے میں اٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔

حسام نے بغیر اُن دونوں کو کچھ کہے اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔

شاداب اور لیزا نے حسام کی اس حرکت پر پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔

مجھے کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔۔۔شاداب نے گم انداز میں اُسی راستے کو دیکھتے کہا جہاں سے حسام بیہ کے روم کی طرف بڑھا تھا۔۔۔

کچھ نہیں سب ہی گڑبڑ ہے ڈال میں کچھ کالا نہیں پوری ڈال کالی ہے۔۔۔لیزا نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔

کیا تم بھی وہی سوچ رہی ہو جو میں سوچ رہا ہوں۔۔۔شاداب نے لیزا کی بات پر اُس سے پوچھا۔۔۔

بلکل میں وہی سوچ رہی ہو ہائے مجھے کب ملے گا کوئی ایسا جو میری فکر میں اتنا ہلکان ہو۔۔۔لیزا نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔

کس کا ہے یہ تم کو انتظار میں ہو نہ۔۔۔

دیکھ لو ادھر تو ایک بار میں ہوں نہ۔۔۔

شاداب نے اپنے نہ نظر انے والے کولر کھڑے کرتے ہوئے گانا گنگنایا۔۔۔۔

لیزا نے شاداب کے اس طرح گانے پر اپنی نظریں گھوما کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔جیسے پوچھا ہو بھائی کوئی ڈورا پڑا ہے۔۔۔۔

گانا اچھا ہے نہ اور فلم بھی کیا تمہیں پسند ہے۔۔۔شاداب نے جلدی سے بات بنائی ۔۔۔

ابھی یہاں میری جان سے عزیز دوست اور تمھاری پیاری کزن ایڈمٹ ہیں اور تمہیں فلم کی پڑی ہوئی ہے چلو ۔۔۔۔لیزا نے سخت آواز میں انگلی سے چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔

شاداب لیزا کی بات پر منہ بناتا ہوا اگے بڑھ گیا۔۔۔

پیچھے لیزا  نے اپنے کندھے اُچکاتے اپنا نچلا لب دانت تلے دبائے اپنی ہنسی ضبط کرتے شاداب کی پشت کو تکا اور خود بھی آگے بڑھ گئی۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اُسکی نظر سامنے بیڈ پر لیتی بیہ پر گئی جس کا ایک ہاتھ اسکے پیٹ پر جبکہ دوسرا ہاتھ بیڈ پر تھا جس پر کینولا لگا ہوا تھا۔۔۔

بیہ کو سامنے دیکھتے ہی حسام کی بیچین نظروں کو چین ملا۔۔۔

ہلکے سے دروازہ بند کرتے وہ وہی دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا بیہ کو دیکھتا گیا کمرے میں پھیلی ہلکی روشنی میں بیہ کا چہرہ صاف واضح تھا کالے بال بکھرے ہوئے اُسکے دونوں شانو پر گرے ہوئے تھے ۔۔۔

سانولی کھلی رنگت اس وقت مرجھائی ہوئی تھی۔۔۔۔سیاہ آنکھیں اب بھی بند تھی ۔۔۔۔

وہ جو اپنی آنکھیں بند کئے لیتی ہوئی تھی کمرے میں پھیلتی مردانا کلون کی حواسوں پر طاری ہونے والی خوشبو محسوس کرتے اپنی آنکھیں کھول گئی۔۔۔۔

آنکھیں کھولتے اُس نے بائیں طرف دیکھا جہاں کھڑے انسان کو دیکھتے بیہ کی سیاہ آنکھیں حیرت سے پھیلی ۔۔۔۔

وہ جو اپنی متائے حیات کا چہرہ دیکھتے اپنے تڑپتے دل کو سکون پہنچا رہا تھا بیہ کی سیاہ آنکھیں کھلنے پر مسکرا گیا۔۔۔

کوئی اگر اُس سے پوچھتا کہ زندگی کیا ہے تو وہ بنا ایک لمحہ ضائع کیے بنا کہہ دیتا۔۔۔۔

اُسکی محبت اُسکی بیوی کی یہ سیاہ آنکھیں جو اُسے ایک سحر میں جکڑ دیتی ہے انہیں دیکھنا ان آنکھوں میں کھو جانا۔۔۔۔

دونوں یک تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے گئے ۔۔۔اپنے لیے حسام کی آنکھوں میں نظر اتے جذبات کو دیکھتے اج بیہ نے اپنی آنکھیں نہیں جھکائی تھی بلکہ وہ حسام کی ان مقناطیسی سیاہ انکھوں میں دیکھے گئی جو اُسے اپنی طرف ہر دفعہ متوجہ کرتی تھی۔۔۔۔۔

آپ۔۔۔بیہ نے حسام کو  دیکھتے کہا۔۔۔

جی میں۔۔کیسی ہے اب آپ۔۔۔حسام بیہ کی آواز پر ہوش میں اتے اُسکی طرف بڑھتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔

اپنی طرف بڑھتے حسام کے قدموں کو دیکھتے بیہ کی دل کی دھڑکن بڑھی۔۔۔۔

میں۔۔میں ٹھیک ہو آپ لائے ہے مجھے یہاں۔۔۔بیہ نے خود سے ایک قدم کی دوری پر کھڑے حسام کے خوبرو چہرے کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔

جی آپ گراؤنڈ میں بیہوش ہوگئی تھی ۔۔حسام نے بیہ کے قریب اتے اُسکے چہرے کو اپنی نرم و گرم نظروں میں رکھتے کہا۔۔۔۔

شکریہ آپ۔کا۔۔۔بیہ نے اپنے چہرے پر پڑتی حسام کی نظروں کی تپش محسوس کرتے اپنی نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔۔۔

شکریہ کی بات نہیں ہے یہ فرض تھا میرا۔۔۔۔حسام بیہ کے یوں نظریں جھکانے پر مسکرا گیا۔۔۔۔

آپکو کیسے پتہ چل جاتا ہے میں مشکل میں ہو یا جب بھی مجھ پر کوئی مشکل اتی ہے تب آپ عین اُسی وقت آکر میری حفاظت کر جاتے ہیں۔۔۔بیہ نے اپنے کینولا لگے ہاتھ کو تکتے اپنے دل میں پنپتا سوال پوچھا۔۔۔

شاید خدا نے ہم دونوں کے بیچ کوئی کنیکشن جوڑ دیا ہے اسی لیے جب بھی آپ مصبیت میں ہوتی ہے میں خود بہ خود آپکی حفاظت کو پہنچ جاتا ہو۔۔۔حسام نے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔۔

بیہ نہیں جانتی تھی سامنے کھڑے شخص کی آواز میں کیا جادو ہے جو اُسکا دل اس انسان کی آواز سننے کے لیے اسرار کرتا ہے۔۔۔کیوں وہ اس انسان سے اتنی باتیں کر جاتی ہے حسام کی بات اُسے سچ لگی کوئی نہ کوئی کنیکشن تو تھا اُن دونوں کے بیچ جبھی تو وہ اُسکی طرف کھینچی چلی جاتی تھی ۔۔۔

بیہ  اٹھ کر بیٹھنے لگی جب وہ ذرا سا ڈس بیلنس ہوئی حسام نے جلدی سے اُسے کندھے سے تھاما۔۔۔

بیہ نے چونک کر اپنے انتہائی نزدیک حسام کے چہرے کو دیکھا جو اس سے ایک انچ کو دوری پر تھا۔۔۔حسام کی گرم جھلسا دینے والی سانسیں اُسکے چہرے پر پڑتی اُسکے چہرے کو سرخ کر گئی تھی۔۔۔۔

حسام نے گہری نظروں سے اُسکے چہرے پر حیا کی یہ لالی دیکھی۔۔۔۔دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے کسی دوسرے جہاں کی سیر کو نکلے ہوئے تھے۔۔۔۔دونوں کے لب خاموش تھے لیکن آنکھیں دونوں کی بول رہی تھی۔۔۔۔

سیاہ آنکھیں سیاہ ہی آنکھوں سے ٹکرائی تھی ایک کی آنکھوں میں محبت کا جہاں آباد تھا تو دوسرا اُس میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھتے بت بن گیا تھا۔۔۔

دروازہ کھلنے پر اُن دونوں کے گرد بندھنا  فسوں ٹوٹا ۔۔بیہ نے جلدی سے اپنی آنکھیں پھیری۔۔۔۔ بیہ کی قمر کے پیچھے تکیہ لگاتے اُس نے بیہ کو سہارا دے کر بیٹھایا اور فوراً سے اُس سے دور ہوا۔۔۔

اپنے کندھے پر رکھے حسام کے ہاتھ کے لمس سے بیہ کو اپنے وجود میں سنسنی سی دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔دروازے کے ساتھ کھڑے شاداب اور لیزا کو دیکھتے اُس کی رنگت شرم سے سرخ پڑی ۔۔۔

میں ایا ایک ضروری فون کال ہے۔۔۔حسام نے لیزا اور شاداب کو دیکھتے کہا اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔

کیسی ہو تم بیہ تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا وہ تو اچھا ہوا سر تمہیں فوراً سے ہسپتال لے آئے۔۔۔لیزا بیہ کے پاس اتے بغیر رکے بولی گئی۔۔۔۔

شاداب نے لیزا کی جلد بازی پر نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

میں ٹھیک ہو لیزا ۔۔بیہ نے لیزا کو دیکھتے کہا۔۔۔

کیا گھر میں بتایا ہے تم نے۔۔۔بیہ نے شاداب سے پوچھا۔۔۔

ہاں کامل بھائی کو بتایا ہے اتے ہی ھونگے ۔۔۔شاداب نے جواب دیا۔۔۔۔

ویسے بیہ سچ میں اج تم سر کو دیکھتی وہ کتنے فکرمند تھے تمہیں لے کر یونی میں بھی انہوں نے تیزی سے تمہیں اپنے بازوں میں اٹھایا اور بغیر کسی کی سنے گاڑی کی طرف بھاگے۔۔۔۔لیزا نے بیہ کے پاس بیٹھتے اُسے بتایا۔۔۔۔

لیزا کی بات سنتے اُسکی سرخ رنگت مزید سرخ ہوئی۔۔۔

انہوں نے مجھے اپنے بازوں میں اٹھایا تھا ۔۔۔بیہ نے تصدیق چاہی۔۔۔

ہاں نہ بلکل ایک ہیرو کی طرح مجھے تو لگتا ہے وہ تمہیں پسند کرتے ہے۔۔۔لیزا نے بیہ کے پاس جھکتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔۔

لیزا کی بات پر بیہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔۔۔ہاتھوں پر پسینہ بھر ایا۔۔۔

اور تمہیں کیوں لگتا ہے ایسا۔۔۔اپنے ہاتھوں کو دیکھتے بیہ نے پوچھا۔۔۔

صرف مجھے ہی نہیں اس کینگرو کو بھی لگتا ہے جب تُم ہوش میں نہیں تھی تمھاری کوئی خیر خبر بھی جب تک نہیں ملی وہ ایک جگہ بیٹھے نہیں تھے ۔۔۔اُنکے چہرے سے صاف تمہارے لیے فکر ظاہر تھی۔۔۔لیزا نے مدھم آواز میں  کہا ۔۔۔

اور بیہ کو لگا اب تو وہ بچ گئی تھی لیکن یہ سب سننے کے بعد جس طرح اُسکی دل کی دھڑکن نے رفتار پکڑی تھی اُس نے مر جانا تھا۔۔۔۔

یہ سب سنتے پیٹ میں تتلیاں سی ارتی ہوئی محسوس ہوئی ایک انجانی سی خوشی پورے وجود میں سرائیت کرتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔

اس نے چوڑ نظروں سے شاداب کی طرف دیکھا کہ کہیں وہ اُنکی باتیں تو نہیں سن رہا لیکن وہ صوفے پر بیٹھا اپنے فون مجھ میں مصروف تھا۔۔

💗💗💗💗💗

وہ کافی عجلت میں ہاسپٹل ایا تھا لیکن سامنے ہی حسام کو دیکھتے اُسکی رنگت سرخ ہوئی سبز انکھوں میں غضب کا غصّہ لہرایا۔۔۔۔۔

اُسکی نظر حسام کی شرٹ پر لگے اُس خون کے دھبے پر گئی اور کامل خان کا اشتعال مزید بڑھا۔۔۔۔ایک جھٹکے میں حسام تک پہنچتے اُس نے اُسکا گریبان تھاما اور پوری قوت سے اپنا مکا اُسکے چہرے پر رسید کیا۔۔۔۔

تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کو نقصان پہنچانے کی۔۔۔۔کامل اُسکا گریبان پکڑ کر غرایا  تھا۔۔۔

حسام جو روم سے باہر نکلتے جون کو فون لگا رہا تھا اس طرح اچانک حملے کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔۔۔

میں اُسے نقصان نہیں پہنچا سکتا کامل خان۔۔۔بیہ کو نقصان پہنچانے کی بات پر حسام اپنے چہرے پر ہوتے درد کو ضبط کرتا ہوا سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔۔

مجھے تمھاری بات پر بھروسہ نہیں ۔۔۔تم نہیں تھے یہاں تو وہ ٹھیک تھی جب سے تم اُسکی زندگی میں واپس آئے ہو اُسکے ساتھ آئے دن کوئی حادثہ ہو رہا ہے اُسے سکون سے جینے کیوں نہیں دیتے اخر تم ۔۔۔۔کامل اُسکا گریبان پکڑے چیخ اٹھا تھا۔۔۔۔

تم سکون سے نہیں رہنے دے رہے ہو ہمیں بول چکا ہو پیار کرتا ہوئے اُس سے جنون ہے وہ میرا اُس پر ایک انچ برداشت نہیں کر سکتا میں پھر کیوں تُم اُسے میرے حوالے نہیں کر دیتے ۔۔۔۔حسام اب بھی سکون سے گویا ہوا۔۔۔

تم اُسکے قابل نہیں ہو جو اُسکی محبت کا صلا اُسے نہیں دے پایا وہ اُس سے کیا محبت کرے گا۔۔۔میں نہیں مانتا ۔۔۔بلکہ طلاق دو گے تم اُسے اُسکی شادی کرواونگا میں ۔۔۔۔کامل اُسکا گریبان چھوڑتے غصے سے گویا ہوا تھا۔۔۔۔

کامل خان لگام دو اپنی زبان پر تمھاری ہر بکواس ہر وار میں صرف اسی لیے برداشت کر جاتا ہو کیونکہ تم نے ان پانچ سالوں میں میری بیوی کی حفاظت کی۔۔۔۔وہ میری ہے صرف میری اور میری ہی رہے گی ۔۔۔نہ میں اُسے خود سے دور کرونگا اور نہ ہی طلاق دونگا۔۔۔وہ میری ہے اور مجھ تک ہی آئے گی اج نہیں تو کل اُسے انا میرے پاس ہی ہے۔۔۔حسام کامل کی بات پر اپے سے باہر ہوا تھا شیر جیسی ڈھاڑ سے کہتے وہ کچھ پل کو کامل کو بھی سن کر گیا تھا۔۔۔

تم طلاق نہیں دو گے تو کیا ہوا میں کورٹ جاؤنگا چاہے مجھے اس کے لیے بیہ کو سب کچھ یاد کیوں نہ کروانا پڑے۔۔۔۔کامل کی بات پر حسام نے اپنی آنکھیں بند کرتے خود پر ضبط کیا۔۔۔

تم ایسا نہیں کرونگے کامل خان وہ سب یاد کرتے اُسکی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔حسام نے اذیت سے کہا  کتنا مجبور تھا وہ نہ اپنی بیوی کی جان پر کوئی خطرہ انے دے سکتا تھا اور نہ ہی اپنی بیوی کو خود سے دور کر سکتا تھا کامل خان نے صحیح داؤ کھیلا تھا 

میں۔ایسا ہی کرو گا ۔۔بہتر یہی ہے اُسے آزاد کردو تاکہ وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ پائے وہ ایک ایسے انسان کی حقدار ہے جو اُس سے محبت کرے جس کے لیے صرف بیہ کی محبت کافی ہو نہ کہ تمہارے جیسے شخص کی جس نے اُسکی محبت کو دھتکارا ہو اُسکا بچا مارا ہو۔۔۔کامل خان کے لبوں سے نکلے لفظ کس طرح حسام کے وجود کو زخمی کر رہے تھے یہ صرف حسام ہی جانتا تھا۔۔۔۔۔۔

حسام  سن سا ہوا تھا کامل خان کی بات پر۔۔۔وہ مضبوط تھا انتہائی مضبوط مرد لیکن اب بات اُسکی اولاد پر آگئی تھی اُس اولاد پر جس کا قاتل وہ خود تھا۔۔۔سیاہ آنکھوں میں نمی چھلکی تھی کامل خان نے سچ تو کہا تھا ۔۔۔ایک کڑوا سچ جو حسام کی روح تک کو جھنجوڑ گیا تھا۔۔۔

ایک بھی لفظ کہیں بنا ۔۔۔ایک بھی نظر کامل کو دیکھے بنا وہ شکست خوردہ قدموں سے وہاں سے نکلتا۔چلا گیا۔۔۔

کامل خان نے ایک گہرا سانس بھرا اُس نے اایک  داؤ کھیلا تھا اور اس داؤ کے کھیلنے پر حسام۔کو کمزور پڑتا دیکھتے وہ سمجھ گیا تھا حسام کو مجبور کیسے کرنا ہے ۔۔۔

وہ اپنا سر جھٹکتے کمرے میں داخل ہوا جہاں سامنے ہی بیہ لیزا کے ساتھ تھی۔۔۔

بھائی۔۔۔بیہ نے کامل کو دیکھتے کہا۔۔۔جبکہ نظروں نے کسی اور کی تلاش میں بھی دروازے کی طرف دیکھا تھا جسے کامل خان محسوس کر چکا تھا۔۔۔۔

کیا ہوا تھا گڑیا اچانک سے آپکی طبیعت کیوں خراب ہوئی۔۔۔کامل نے بیہ کے ماتھے پر لگی پٹی کو دیکھتے پوچھا بیہ کو سامنے صحیح دیکھتے اُسکی فکر کم ہوئی تھی ۔۔

وہ بھائی میں صبح اپنی دوائی کھائے بغیر یونی چلے گئی تھی اسی لیے چکر آگئے اور میں گر گئی۔۔۔بیہ نے سر جھکاتے ہوئے بتایا۔۔۔۔

ڈرا دیا آپ نے گڑیا کتنی بار کہا ہے کہ بغیر دوائی لیے نہیں جانا کہیں۔۔۔کامل نے بیہ کو سنجیدگی سے کہا ۔۔۔وہ سمجھ گیا تھا حسام نے بیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔۔۔۔

سوری بھائی آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔بیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

کامل۔نے اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

بھائی آپ میرے سر سے ملے وہی مجھے یہاں لائے تھے حسام نام۔ہے انکا باہر ہونگے میں آپکو ملواتی ہوں ۔۔۔بیہ نے حسام کو یاد کرتے اپنی سیاہ انکھوں میں چمک لیے کامل سے کہا۔۔۔

اور کامل خان بیہ کی آنکھوں میں۔حسام کے نام سے اتی چمک کو دیکھتے اپنے جبڑے بھینچ گیا ۔۔۔۔

پانچ سال بیہ کا اپنی سگی بہنوں سے بڑھ کر خیال رکھا تھا کیسے نہ اپنی بہن کی آنکھوں میں پسندیدگی یہ محبت کا جذبہ دیکھ پاتا ۔۔۔۔

ہاں میں مل چکا ہو شکریہ بھی کہہ دیا ہے انکا ۔۔کوئی کام۔تھا شاید انکو اسی لیے چلا گیا ہے۔۔۔کامل خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔

حسام کے چلے جانے پر بیہ کی آنکھوں اور چہرے پر اُداسی چاہی جسے دیکھتے کامل نے سوچ لیا جو فیصلہ وہ دیر سے کرنے والا تھا اُسے اب جلد ہی کرنا تھا۔۔۔

شاداب جاؤ ڈسچارج کے پیپر بنوا لاؤ۔۔۔کامل نے شاداب سے کہا جو صوفے پر بیٹھا موبائل میں سب کی نظروں سے چھپتے لیزا کی تصویر لینے میں مصروف تھا۔۔۔

کامل کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اپنی جگہ سے اٹھا اور اثبات میں سر ہلاتے باہر نکلا۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

رات کا وقت تھا باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی  بیہ کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا فلک بیہ کو کھانا کھلا کر اب اپنے کمرے میں بیٹھی عروہ کو کھانا کھلا رہی تھی جب کامل کی گھمبیر آواز کمرے میں گونجی جو الماری سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔۔

پرسوں منگنی کی رسم ہے فلک۔۔۔کامل نے عروہ کو کھانا کھلاتی فلک سے کہا۔۔

جس کا ہاتھ کامل کی بات پر تھما تھا اس نے حیرت سے کامل کی طرف دیکھا۔۔۔

کس کی منگنی کی رسم ہے کامل۔۔۔فلک نے پوچھا جبکہ دماغ اُسے مسلسل اشارے دے رہا تھا۔۔۔۔

بیہ اور شاداب کی ۔۔۔کامل نے اپنی شرٹ اُتارتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔

کیا۔۔۔فلک چیخی تھی۔۔۔

اس میں چیخنے والی کوں سی بات ہے فلک۔۔۔کامل نے فلک کے چیخنے پر آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔

مگر یہ کیسے ممکن ہے کامل۔۔اور آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہے۔۔۔فلک نے عروہ کی طرف سے دھیان ہٹاتے کامل سے پوچھا۔۔۔

یہ ممکن کیوں نہیں ہے فلک اور میں ایسا کیوں نہیں سوچ سکتا۔۔۔بتائے گی آپ۔۔۔کامل نے دوسری شرٹ پہنتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔

بیہ شادی شدہ ہے کامل ۔۔۔فلک نے حیرانگی سے کہا۔۔۔

ابھی صرف میں منگنی کر رہا ہو اُن۔دونوں کے نکاح تک میں اُس لیپرڈ سے طلاق دلوا ہی لونگا بیہ کی۔۔۔کامل نے مضبوطی سے کہا۔۔۔

اور فلک جتنی بے یقین ہوسکتی تھی ہوئی۔۔۔

آپ ایک شادی شدہ لڑکی کی منگنی کروا رہے ہے اور وہ بھی اُسکی مرضی کے بغیر کیوں ایک گناہ خود سر انجام دے رہے ہیں کامل۔۔۔۔فلک نے اُسے سمجھانا چاہا۔۔۔

تو آپ کیا چاہتی ہے کہ جا کر اُس لیپرڈ کے حوالے کردو اپنی بہن کو ۔۔۔۔حسام کی آواز اب سخت تھی۔۔۔۔

میں نے یہ نہیں کہا میں نہیں خلاف منگنی کے لیکن پہلے شاداب اور بیہ سے اُنکی مرضی تو پوچھ لے بیہ کے بارے میں شاداب کچھ نہیں جانتا کامل ۔۔۔اور پہلے طلاق ہونی چائیے اُسکے بعد ہی یہ سب کچھ۔۔۔فلک کو سمجھ نہ ایا کیسے اپنی بات وہ کامل کو سمجھائے۔۔۔۔

شاداب اور بیہ کی فکر آپ چھوڑ دے ۔۔۔میں اور انتظار نہیں کرسکتا وہ لیپرڈ اپنی جانب بیہ کو راغب کر رہا ہے وہ بیہ کو پھر سے اپنے جال میں پھنسا رہا ہے اور میں ایسا نہیں ہونے دونگا ۔۔۔شاداب کے ساتھ بیہ کی منگنی ہوگی تو وہ شاداب کی طرف متوجہ ہوگی اور حسام کو مکمل طور پر بھول جائے گی۔۔۔اب اس کے آگے میں آپکو اور کوئی وضاحت نہیں دونگا۔۔۔پرسوں منگنی ہے سادگی سے جو تیاری کرنی ہے کر لی جئے گا۔۔۔کامل کہتا کمرے سے باہر جانے لگا جب فلک کی آواز پر اُسکے قدم رکے۔۔۔

آپ غلط کر رہے ہیں کامل ایک بار لیپرڈ پر بھروسہ کر کے دیکھے آپ بلکل بھی صحیح نہیں کر رہے ہیں۔۔ بیہ اُسکے نکاح میں  ہے اور جو آپ کر ہے وہ ایک گناہ کے مترادف ہے۔۔۔۔۔فلک کی آواز میں بھرپور ناراضگی تھی ۔۔۔

کامل اُسکی بات ان سنی کرتا کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔اور فلک اپنا سر تھامتی بیڈ پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔

اُسے اب صرف ایک ہی راستہ نظر ایا تھا اور وہ تھا خضر اور شجیہ سے بات کرنا صبح سب سے پہلے اُن دونوں سے بات کرنے کا سوچتی وہ عروہ کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

میں محبت کرتی ہو اُن سے۔۔۔میں محبت کرتی ہو اُن سے۔۔۔زیرِ لب بڑبڑاتی وہ چہرے پر مسکان لیے خود سے مخاطب تھی۔۔۔

مجھے حسام سے محبت ہے۔۔بیہ کو حسام سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔بیہ بیڈ پر لیتی وہ حسام کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔

کتنا عجیب احساس ہے ہر چیز خوبصورت ہے واللہ وہ کتنے خوبصورت ہے اب سمجھ ایا مجھے تُم کیوں انکو دیکھتے ہی دوڑنے لگ جاتی تھی کیونکہ تم مجھے بتانا چاہتی تھی کہ اس دل میں وہ ایک اونچا مقام حاصل کر چکے ہیں۔۔۔بیہ اپنے دل کی دھڑکنوں سے مخاطب تھی۔۔۔۔

آج کا سار واقعہ اُسکے ذہن کے پردوں پر جم گیا تھا حسام کی نظریں اُسکا لمس اُسکے الفاظ اُسکی آنکھوں میں نظر اتے جذبات وہ سب ایک فلم کی طرح اُسکے ذہن میں گردشِ کر رہے تھے۔۔۔

ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ کل کی فکر کیے بنا ۔۔

ایڈیلیڈ کی سر زمین پر اس وقت موسلا دھار بارش ہو رہی تھی سڑکیں سنسان تھی سب اپنے اپنے گھروں میں اپنوں کے ساتھ اس موسم سے لطف اندوز ہورہے تھے رات کا سماں اور برستا آسمان ایسے میں شکست خوردہ قدموں سے وہ سنسان سڑک پر چلتا ایک تنہا مسافر معلوم ہو رہا تھا۔۔۔

تیز برستی بارش کی وجہ سے اُسکا وجود مکمل طور پر بھیگ گیا تھا بارش کی بوندوں کے ساتھ چلتی ٹھٹھرا دینے والی سردی جو رگو میں دوڑتے خوں کو جما دے  اُسکے وجود کے آر پار ہو رہی تھی۔۔۔

لیکن وہ بے حس بنا نہ جانے کیا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں ڈھونڈھتے چلا جا رہا تھا۔۔۔سیاہ آنکھوں میں ایک اذیت رقم تھی بھیگی داڑھی بھیگے بال جن سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھی۔۔۔۔۔

 " میں نے اپنے بچے کو مارا ہے۔ " ۔۔سردی کی شدت سے نیلے پڑتے لبوں سے سرسراتی آواز میں ادا ہوا یہ جملہ۔۔۔

" میں نے اپنے بچے کو مارا ہے انہی ہاتھوں سے میں قاتل ہوں اپنے ہی بچے کا۔۔ " ۔حسام خود سے گویا تھا لہجے میں دل چیڑ دینے والی اذیت شامل تھی۔۔۔

وہ چلتے چلتے تمم گیا نہ جانے کتنی دیر سے وہ اس طرح تنہا ان سڑکوں پر چل رہا تھا۔۔۔۔

 " یہ اللہ یہ تكيلف بہت زیادہ ہے میرا مولا ۔۔۔میں مر جاؤنگا یہ سوچ سوچ کر میں اپنے بچے کا قاتل ہوں میں کیسے اپنے بچہ کی جان لے سکتا ہوں میرے غرور وتکبر کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی اپنے بچے کو کھو دیا میرے اللہ !  ۔۔۔میں مر جاؤنگا " ۔۔۔حسام شدت سے بھیگی آواز میں کہتا گھٹنوں کے بال زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔

اُسکا وجود لرز رہا تھا سیاہ انکھوں سے شاید آنسو بھی رواں تھے۔۔۔

شاید نہیں یقیناً وہ جوان جہاں مرد رو رہا تھا ہچکیوں سے۔۔۔۔

 " مجھے معاف کردے یہ اللہ مجھے معاف کردے میں نہیں رہ سکتا اُس کے بنا یہ اللہ تیری آزمائش پر پورا اترنا چاہتا ہوں جانتا ہوں مجھ پر آزمائش کا وقت ہے لیکن مجھ میں ہمت نہیں بچی وہ میری بیوی ہے جس کی جدائی مجھے دیمک کی طرح کھا رہی ہے میرے پاس اُسے چھونے کا  حق ہے لیکن میں اُسکے ایک ذرا سے لمس کے لیے بھی ترس گیا ہوں یا اللہ " ۔۔۔۔۔

حسام کی ہچکیاں بندھی ہوئی تھی اُسکی آواز میں صاف  اذیت واضح تھی ایسی اذیت جو صرف وہ ہی محسوس کر سکتا تھا جسے وہ لفظوں میں بیان ہی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔

 " مجھے معاف کردے مجھ سے انجانے میں غلطی ہوئی میں بیہ کو مارنا نہیں چاہتا تھا میں اپنے بچے کو مارنا نہیں چاہتا تھا "  ۔۔۔۔حسام کی آنکھیں جھکی ہوئی تھی دونوں ہاتھ اپنے گھنٹوں پر رکھے وہ خوبرو نوجوان کسی معصوم بچے کی طرح اللہ سے فریاد کر رہا تھا۔۔۔۔

 " یہ تکلیف روح کھینچنے والی ہے میرے مالک مجھ میں صبر نہیں میں تو ایک عام سا بندہ ہوں جو اتنی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا  مجھے بیہ چائیے تو تو ہر چیز پر قادر ہے تو نہ ممکن کو بھی ممکن کر دیتا ہے کچھ کر اللہ اپنے بندے کا اتنا صبر مت آزما "  ۔۔۔حسام نے اپنی بند آنکھیں کھولتے ہوئے شدت سے دعا مانگی۔۔۔۔۔

سنسان سڑک پر بہتِی  بارش میں وہ اللہ سے فریاد کر رہا تھا اج کامل کے لبوں سے نکلے لفظ اُسکا ضبط ختم کر گئے تھے۔۔۔۔۔اُسے اپنے وجود کے ہر حصے پر زخم محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔

اُسے اپنی رگوں میں بہتا خون جمتا محسوس ہو رہا تھا سردی کی شدت سے اُسکے لب نیلے پر چکے تھے اب تو اپنا وجود بھی ایک جگہ پر ساکت ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

اس سے پہلے وہ اپنے ہوش گواتا ایک گاڑی اُسکے نزدیک آکر رکی۔۔۔جون جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔۔

حسام کو بیچ سڑک پر گھٹنوں کے بل بیٹھا دیکھ کر اُسے ایسا لگا جیسے  اُسکا دل کسی نے بیدردی سے مسل دیا ہو۔۔۔

 " سر " ۔۔۔جون نے جلدی سے اُسکے گرتے وجود کو تھاما ۔۔۔

 " میں نے اپنے بچے کو مارا مجھے معاف۔۔بیہ۔۔ بیہ چائیے  " ۔۔۔حسام نے بند ہوتی آنکھوں سے ٹوٹے لفظ ادا کیے اور ہوش و خرد سے بے گانہ ہوگیا۔۔۔

اپنے سر کی یہ حالت دیکھتے جون کی آنکھوں میں آنسو بھر اے یہی نوجوان تھا جس کی سیاہ سرد آنکھوں میں دیکھتے ہی دشمن اپنی ہار قبول کر لیتا تھا اور اج وہ کمزور ہوگیا تھا صرف ایک لڑکی کی وجہ سے۔۔۔۔

حسام کو ہمت کرتے اُس نے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور گاڑی فلیٹ کے راستے پر گامزن کی۔۔۔۔اپنی آستین سے اپنی آنکھیں رگڑ کر اُس نے اپنے آنسو صاف کیے جو پچھلی سیٹ پر بے سدھ لیتے اپنے سر کو دیکھتے بھیگ رہی تھی۔۔۔۔

💗💗💗💗💗

گہرے سانس لیتی وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی پورا وجود پسینہ سے تر تھا۔۔۔بیہ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے اپنی بکھری سانسوں کو بحال کرنا چاہا۔۔۔۔

سینے میں گھٹن کا احساس ہوا۔۔۔سائڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس وہ ایک جھٹکے سے تھامتے گٹاگٹ پی گئی۔۔۔

" یہ اللہ یہ کیسا خواب تھا کون تھا وہ جو اتنی تیز بارش میں سڑک کے بیچ و بیچ بیہوش لیتا ہوا تھا " ۔۔۔بیہ نے اپنا خواب یاد کرتے کہا۔۔۔۔

 " یہ دل کیوں گھبرا رہا ہے اتنا۔ " ۔۔" جیسے کچھ بُرا ہوا ہے  " ۔۔۔۔بیہ نے اپنے بال سمیٹتے کہا۔۔گھڑی پر نظر دوڑائی تو رات کا ایک بج رہا تھا۔۔۔

گہرا سانس بھرتی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھوڑی دیر بعد ہی وہ وضو کرتے نماز کا دوپٹہ باندھے ڈریسنگ روم سے باہر ائی کھڑکی  کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھا تو ابھی تک تیز بارش ہو رہی تھی۔۔۔۔۔

واپس پلٹتے اُس نے  نفل ادا کی۔۔۔

 " یہ اللہ پتہ نہیں کیوں دل اتنا گھبرا رہا ہے جیسے کوئی اپنا تکلیف میں ہے بھائی بھابھی  عروہ سب ٹھیک ہے کہیں حسام تو کسی مشکل میں نہیں "  ۔۔۔۔بیہ کو اچانک سے حسام یاد آیا اُسکی دانست سے اُسے اب حسام سے محبت تھی تو وہ بھی اب اُسکے اپنوں میں اتا تھا۔۔

 " یہ اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھ کسی پر بھی کوئی پریشانی نہ آئے "  ۔۔۔بیہ امین کہتے دعا ختم کی۔۔۔۔

نیند تو جیسے اب اُسکی آنکھوں سے اُتر گئی تھی کھڑکی  کا پردہ ہٹاتے وہ باہر برستی بارش کو دیکھنے میں مگن ہوئی۔۔دل کی گھبراہٹ اب بھی ختم نہیں ہوئی تھی ہاں پر اب ذہن سکون میں تھا۔۔۔۔

حسام تکلیف میں تھا تو کیسے نہ بیہ کو الہام ہوتا وہ تو اُسکی محبت میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی  ۔۔محبت میں الہام نہ ہو تو خاک محبت ہوئی یہاں محبوب کو ذرا سی تکلیف ہو اور کوسوں دور بیٹھے بھی آپکا دل گھبرا اٹھے۔۔۔۔

💗💗💗💗

پاکستان کراچی  میں سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ہر طرف چہل پہل شروع ہوگئی تھی گاڑیاں سڑکوں پر روا دواں تھی ہر کوئی اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا تھا۔۔۔

ایسے میں نیلی چادر سے اپنے وجود کو پوری طرح ڈھانپے صرف اُسکی نیلی آنکھیں واضح تھی دارلامان کے آفس میں بیٹھی وہ چیل کی طرح ہر ایک چیز پر نظر رکھی ہوئی تھی۔۔۔

جب ایک موٹی سی عورت افس میں ائی نیلی آنکھوں نے غور سے اُس عورت کو دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی مکرو مسکراہٹ جسے صرف وہی پہچان سکتی تھی۔۔

" آپ کہاں سے ائی ہے " ؟ "کیا نام ہے آپکا؟۔۔۔اُس عورت نے سامنے بیٹھتے ہوئے میٹھے لہجے میں کہا۔۔۔

"میرا نام شجیہ ہے میڈم اما ابا کا انتقال ہوگیا ہے بھائی نے گھر سے نکال دیا ایسے میں مجھے کوئی راستہ نظر نہ ایا تو میں یہاں آگئی میں نے سنا ہے یہاں سب عورتوں کو محفوظ رکھتے ہیں "۔ شجیہ نے اپنے لہجے میں بےبسی شامل کرتے کہا ساتھ ہی نیلی انکھوں میں نمی چمکی ۔۔۔

سامنے بیٹھی عورت تو اُسکی نیلی آنکھیں دیکھتے ہی چونک گئی تھی اوپر سے اُس میں ائی نمی نے اُن میں مزید چمک پیدا کر دی تھی۔۔۔

"جب آنکھیں اتنی حسین ہے تو چہرہ کتنا حسین ہوگا بڑی موٹی رقم ملے گی مجھے بائی سے"۔ مکرو عزائم سوچتی وہ عورت خباثت سے مسکرا پڑی۔

 "بلکل صحیح سنا ہے آپ نے بیٹا آپ یہاں محفوظ رہے گی میں بلاتی ہو لڑکی کو وہ آپکو اپنے ساتھ لے جائے گی آرام سے رہے یہاں پر ۔" عورت نے انتہائی میٹھے لہجے میں کہا۔۔۔

" آپکا بہت بہت شکریہ"۔ شجیہ نے تشکُر آمیز آواز میں کہا۔۔

اس عورت نے اثبات میں سر ہلایا اور فون کر کے ایک لڑکی کو اپنے افس میں بلایا جو چند ہی سیکنڈ بعد آفس میں آگئی تھی۔۔۔

' آنکو لے کر جاؤ ماہی یہ نئی ہے یہاں " ۔۔اُس عورت کے کہنے پر ماہی نے شجیہ کو اپنے ساتھ انے کا اِشارہ کیا ۔اپنی چادر کو سنبھالتے شجیہ اُس لڑکی کے پیچھے بڑھ گئی جب اُسکے کانوں میں پیچھے بیٹھی عورت کی آواز ٹکرائی جو کسی سے اب فون پر بات کررہی تھی ۔ شجیہ مسکرا دی وہ اپنے اس مشن کا ایک ٹاسک پورا کر چکی تھی۔

" ہیلو بائی کو بولنا ایک مست مال ایا ہے تھوڑے دن تک اُن تک لاتی ہو میری رقم بس تیار رکھے ۔" فون پر کہتے اُس نے دوسری طرف کا جواب سنتے فون رکھا اور مسکرا دی۔

اپنے انجام سے انجان کے شاید اس دنیا میں تو وہ بچ جائے لیکن روزِ محشر اللہ کے سامنے اپنے ان غلیظ کاموں کی وضاحت کیسے کرے گی اپنے ضمیر کو بیچ کر ایک عورت ہوکر دوسری عورت کی عزت کا سودا کرنے کے فعل کی سزا کیسے برداشت کرے گی۔۔۔

ماہی شجیہ کو ایک کمرے میں لائی تھی جہاں پہلے سے ہی دو لڑکیاں رہ رہی تھی چھوٹا سا یہ کمرہ جہاں زمین پر تین بستر پڑے ہوئے تھے ایک طرف شیشہ لگا ہوا تھا اور سائڈ پر ایک واشروم بنا ہوا تھا۔۔۔

 "یہ تمہارا کمرہ ہے اب سے انہی کے ساتھ رہنا ہے تم نے " ۔ ماہی کے کہنے پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا اپنے ساتھ لایا ایک چھوٹا سا بیگ اُس نے ایک سائڈ زمین پر رکھا ۔

اور ایک خالی بستر پر بیٹھ گئی چادر اب چہرے سے سرک گئی تھی شجیہ نے اُن دو لڑکیوں کی طرف دیکھا جو اُسی کو غور سے دیکھ رہی تھی۔

" کیا ہوا " ؟ شجیہ نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔

 " تمھاری آنکھیں اصلی ہے ؟" ایک لڑکی نے اشتیاق سے پوچھا۔

شجیہ مسکرا دی ۔

 "جی میری انکھوں کا رنگ نیلا ہے لینس نہیں ہے یہ "۔ شجیہ نے جواب دیا۔

" تم تو بہت خوبصورت ہو "۔ دوسری لڑکی کے کہنے پر شجیہ ہلکا سا ہنس دی ۔

اُن دونوں لڑکیوں کے چہرے پر حد درجہ معصومیت تھی ۔

" آپ دونوں کب سے ہے یہاں " ؟  شجیہ نے پوچھا

 " ہمیں تین دن ہوئے ہے یہاں آئے ہوئے " ۔ اُن دونوں لڑکیوں نے ساتھ جواب دیا۔

" بہنیں ہے آپ دونوں  " ؟ شجیہ نے اگلا سوال کیا ۔

" ہاں بس اب یہ مت پوچھنا یہاں کیوں آئے ہے کیسے آئے ہیں "۔ ایک لڑکی کے کہنے پر شجیہ نے خاموش ہوتے اثبات میں سر ہلایا شاید وہ دونوں نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ دونوں یہاں کیسے ائی ہے ۔

شجیہ نے چادر اپنے وجود سے ہٹائی آنکھیں موندی تو ذہن میں عزیز کا عکس اُبھرا اچانک سے دل میں چبھن ہوئی ممتا کی ٹرپ اُٹھی پھر خضر یاد ایا تو شجیہ کا دل خوف سے دھڑکا وہ اُسے بنا بتائے اُسکے حکم کی نفی کرتے یہاں ائی تھی نہ جانے جب اُسے پتہ چلے گا وہ کیا کرے گا کیا قہر ڈھائے گا ۔اپنے وجود میں کچھ تبدیلی بھی محسوس ہوئی تھی  جس کی وجہ سے اُسکا خوف مزید بڑھ گیا تھا لیکن وہ اب اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی ۔

خضر اور عزیر کی یاد نے جیسے اُسکے پورے وجود میں تکلیف بھر دی تھی۔کہاں وہ اُن دونوں کے بغیر رہ سکتی تھی۔

❤️❤️❤️❤️

ایڈیلیڈ کی سر زمین پر صبح کا سورج اُگ آیا تھا ہر طرف چہل پہل شروع ہوگئی  تھی پرندے اللہ کی حمد و ثنا کرنے میں مشغول تھے بارش کے بعد موسم کافی سہانا تھا مرجھائے ہوئے پھول پودوں میں جیسے زندگی سی بھر گئی تھی بھیگی سڑکیں اُن سے اُٹھی بھینی بھینی مہک جو روح میں اُتر کر پورے وجود میں سرور سا ڈورا دے۔۔۔۔۔

سفید رنگ کی شیفون کی فروک پہنے کالے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے وہ ڈائننگ ٹیبل پر عروہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی سامنے ہی شاداب تھا جو اپنے موبائل میں مصروف تھا۔۔۔

بیہ نے ایک نظر فلک کو دیکھا جو اسپاٹ چہرے کے ساتھ ناشتہ تیار کر رہی تھی ۔۔

 " اسلام علیکم " ۔ کامل کی آواز پر سب اُسکی طرف متوجہ ہوئے جو آج ڈارک بلیو تھری پیس میں ملبوس کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔

 " وعلیکم السلام " ۔ تینوں نے یک زبان جواب دیا جبکہ فلک نے دل میں جواب دیتے کامل خان پر سے اپنی نظریں پھیری تھی جو کامل محسوس کرتا اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔

 " مجھے تم دونوں سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔"  کامل نے بیہ اور شاداب کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا فلک نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا وہ جانتی تھی کامل کیا کہنے والا ہے۔

 " جی بھائی " ۔ شاداب نے کہا۔

 " کل تم دونوں کی منگنی کی رسم ہے جو میرا فیصلہ ہے اور میں امید کرتا ہوں تم دونوں کو میرے اس فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں ہوگا پاکستان سے گھر والوں کی رضامندی میں لے چکا ہوں " ۔ کامل کی بات تھی یہ کوئی دھماکہ شاداب اور بیہ دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیلی دونوں کو اپنی سماعت پر یقین نہ ایا۔

 "کیا بھائی "  ؟ شاداب نے دوبارہ پوچھا ۔

" کل منگنی کی رسم ہے تم دونوں کی " ۔ کامل خان نے اپنی بات دہرائیں ۔

بیہ کے دل جیسے سو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا کامل کی بات سنتے اُسے اپنے وجود سے روح نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ایسا لگا جیسے کسی نے بہت بیدردی سے اُسکے دل کی سر زمین پر لگا وہ محبت کا پھول کھینچ نکالا ہو۔۔۔

ابھی ابھی تو اس بات کا ادراک ہوا کہ اُسے حسام سے محبت ہے اور اب یہ ۔۔

اس نے کامل کی طرف دیکھا جو مان بھری نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا ایک طرف بھائی تھا جس نے اُسے ایک باپ کی طرح پیار دیا ٹو دوسری طرف محبت جو دل میں پنجے گاڑے بیٹھی تھی۔۔

حسام کا چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا ابھی کل کی ہی تو بات تھی جب وہ اپنے اور حسام کو لے کر حسین خواب بنتے سوئی تھی ۔ دل نے چیخ چیخ کر کہا نہیں اپنی محبت سے پیچھے نہیں ہٹو ، مر جاؤ گی اُسکے بنا ، وفا کرو ، منع کردو اپنے بھائی کو  کہہ دو محبت کرتی ہو حسام سے کہہ دو اُسکے بنا نہیں رہ سکتی ۔جبکہ دماغ ، دماغ کہہ رہا تھا کس منہ سے اپنے بھائی کے خلاف بولوں گی اُس بھائی کے خلاف جس نے تمھاری ہر خواہش پوری کی تمہیں ایک باپ کی طرح پیار کیا۔۔

" تم دونوں میں سے کسی کو کوئی اعتراض "؟ کامل نے دونوں کے چہرے دیکھتے کہا جو بلکل اسپاٹ تھے فلک نے آس بھری نظروں سے کامل کی طرف دیکھا شاید وہ اس فیصلہ سے پیچھے ہت جائے لیکن کامل نظر انداز کر گیا ۔

" نہیں بھائی مجھے کوئی ،،کوئی اعتراض نہیں "۔ بیہ کو یہ کہتے ہوئے آنسوؤں کا گولا اپنے حلق میں پھنستا ہوا محسوس ہوا یہ لفظ ادا کرتے اُسے ایسا لگا جیسے وہ بیوفائی کر گئی ہے وہ بیوفا بن گئی ہے وہ شراکت داری کر چکی ہے اُسکے وجود میں ایک اندیکھی سی تکلیف و اذیت سرائیت کر گئی۔۔لیکن لبوں پر مسکان تھی ۔

شاداب نے حیرت سے بیہ کی طرف دیکھا ۔

" مجھے بھی " ۔ شاداب کے لبوں سے یہ لفظ ادا ہوئے اور فلک نم آنکھوں سے بیہ اور شاداب کو دیکھے گئی جن کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ دونوں اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہے ۔

 " ٹھیک ہے پھر کل منگنی کی رسم ہے تیاریاں دیکھ لینا " ۔ کامل کہتا اپنی جگہ سے اٹھا ۔

 " کس کی منگنی ہے بھائی مجھے بھی بتائے " ۔ لیزا جو ہاتھ میں کیک تھامے اندر آرہی تھی کامل کی بات سنتے بولی۔

شاداب نے لیزا کی آواز پر اپنی آنکھیں مینچی۔ 

 " شاداب اور فلک کی " ۔ کامل کے کہنے کی دیر تھی لیزا کے ہاتھ سے کیک زمین پر گرا آنکھوں میں حیرت اُبھری کامل نے سنجیدگی سے اُسکی طرف دیکھا ۔

بیہ اپنی دوست کی آنکھوں میں اترتی بیقینِی دیکھتے اپنی مٹھی بھینچ گئی۔۔۔

لیزا کی آنکھوں میں نمی اُبھری ۔ لیکن کامل کو خود کی طرف دیکھتے پا کر وہ سمنبھلی ۔

 " اوہ سوری غلطی سے میرے ہاتھ سے گر گیا مبارک ہو بہت بہت آپ سب کو " ۔ لیزا نے جلدی سے خود پر قابو پاتے کہا لیکن وہاں موجود چاروں لوگ سمجھ گئے تھے کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے اُسکی آنکھوں میں صاف شاداب کا عکس تھا۔

کامل اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔ اور فلک کا دل کیا اس پتھر دل کو روکے اُس سے سوال کرے کہ کیا تمہیں ان تینوں کے چہرے پر وہ اذیت و تکلیف نظر نہیں آرہی جو اپنی محبت کو کھونے کا سن کر اتی ہے ۔

 " میں چلتی ہوں ،،بیہ کیک ،،کیک بنا کر لائی تھی وہ شاداب ،،شاداب نے بتایا تھا نہ اُسے پسند ہے تو اسی لیے میں نے سوچا اُس کیکنگرو جیسے شکل والے کے لیے بنا لاؤ  " ۔ لیزا نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا جبکہ گلے میں آنسو اٹکے ہوئے تھے اور کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔

بیہ نے نم انکھوں سے فلک کی طرف دیکھا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔

شاداب جو اپنی آنکھیں مینچیں اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر لیزا کی بات سن رہا تھا ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور لیزا کے پیچھے بھاگا۔۔۔

پیچھے فلک اپنا سر تھامے کرسی پر بیٹھ گئی اُس نے شجیہ اور خضر کو فون کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دونوں کے ہی فون بند جا رہے تھے اب صرف اللہ سے دعا کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

 " کہاں جا رہی ہو " ۔ شاداب نے تیز قدموں سے جاتی لیزا کا بازو پکڑتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے پوچھا۔

لیزا جو بھیگی انکھوں سے تیز قدموں سے چل رہی تھی یوں اچانک شاداب کے کھنچنے پر اپنا سر جھکا کر اپنی بھیگی آنکھیں چھپانے کی کوشش کی۔

 " گھر جا رہی ہو " ۔ بھیگی آواز میں سر جھکائے کہتی وہ شاداب کا دل دھڑکا گئی۔

 " یہ نظریں کیوں جھکائی ہوئی ہے کیا فائدہ ان آنسو کو چھپانے کا جو میں دیکھ چکا ہوں " ۔ شاداب کے کہنے پر لیزا نے حیرت سے سر اٹھایا۔

 " میں نہیں رو رہی یہ تو ایسے ہی " ۔لیزا نے اپنی آنکھیں رگڑ کر کہا۔۔۔

شاداب نے یکدم اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے خود سے نزدیک کیا ۔

لیزا اپنے چہرے پر پڑتی شاداب کی لو دیتی سانسوں کی تپش محسوس کرتے اپنی سانس روک گئی۔

 " اپنے چہرے کے تاثرات تو تُم چھپا سکتی ہو لیکن ان شربتی آنکھوں میں نظر اتی میری محبت کو نہیں جو اب آنسو بن کر بہہ رہی ہے " ۔ شاداب کے کہنے پر لیزا کا دل تیز دھڑک اٹھا ۔ اُسکے دل کا راز شاداب جان گیا تھا۔

 "مجھے نہیں ہے تم سے محبت " ۔ لیزا نے نفی میں سر ہلاتے کہا ۔

 " اچھا تو پھر ان آنکھوں میں میری منگنی کا سنتے یہ آنسو کیوں بہہ نکلے اس کے بارے میں کیا کہوں گی تم " ۔ شاداب نے اُسکے گال پر ٹھہرا آنسو اپنی انگلی کی پور سے چنتے پوچھا۔

 " مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تم سے تمھاری منگنی سے بلکہ میں اپنی دوست کے لیے بہت خوش ہوں اب چھوڑو مجھے " ۔ لیزا کہتے جھٹپٹائی شاداب کی گرفت میں ۔

 " تمہیں سچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا "  ! شاداب نے اپنے جبڑے بھینچے لیزا کو دیکھتے سخت آواز میں پوچھا کیا تھا جو یہ لڑکی اعتراف کر دیتی کہ ہاں مجھے محبت ہے ۔

 " نہیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا " ۔ لیزا نے اپنی قمر پر سخت ہوتی شاداب کی گرفت سے سسکتی آواز میں کہا۔

 " ٹھیک ہے پھر تمہیں مجھ سے محبت نہیں تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر مجھے بھی نہیں پڑتا  میں بھی نہیں کرتا پھر محبت تم سے" ۔ شاداب نے ایک جھٹکے میں لیزا کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے سخت آواز میں اُسکے سرخ چہرے کو دیکھتے کہا۔

 " بہت اچھی بات ہے ویسے بھی میں تُم سے محبت نہیں کرتی اور تم بھی نہیں کرتے نہ مجھ سے محبت میں تو اپنے ایک کزن سے کرتی ہُوں محبت " ۔ لیزا کے کہنے پر وہ جو انتہائی ضبط سے کھڑا اُسکی طرف دیکھ رہا تھا اشتعال سے آگے بڑھتے لیزا کا جبڑا اپنی آہنی گرفت میں دبوچ گیا۔

 " خبردار لیزا خبردار جو اپنے ان لبوں سے کسی دوسرے انسان سے محبت کا اطراف کیا جان لے لونگا میں تمھاری  " ۔ شدت بھرے لہجے میں لیزا کے منہ پر شاداب غرایا۔

لیزا کی آنکھیں حیرت سے پھیلی شاداب کی اس حرکت پر ۔

 " تمہیں کیوں اتنا فرق پر رہا ہے تم تو نہیں کرتے مجھ سے محبت اور یہ جنگلی پن برداشت نہیں کرونگی میں " ۔ ایک جھٹکے سے اپنی تمام تر طاقت لگا کر وہ شاداب کو پیچھے کرتی چیخی ۔

 " تم اندھی ہو کیا جو میری آنکھوں میں اپنے لیے محبت نہیں نظر آرہی کرتا ہوں تم سے محبت بندریا کرتا ہوں محبت ڈیم اٹ" ۔ شاداب نے لیزا کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔۔

 " تو کیوں کامل بھائی کو منع نہیں کیا کیوں اس منگنی کی رسم پر راضی ہو گئے ؟ "  لیزا نے سرخ آنکھوں سے سوال پوچھا۔ آخر شکوہ لبوں پر آ ہی گیا تھا 

 " ایک بار کہہ دو کہ کرتی ہو محبت اپنے ان لبوں سے با خدا ابھی اسی وقت منع کردو گا اُس منگنی سے " ۔ شاداب نے لیزا کے لبوں پر فوکس کرتے ہوئے کہا ۔

لیزا سن ہوئی شاداب کی بات پر ۔کامل اور بیہ کا چہرہ یاد آیا ہاں کہتے وہ بیہ اور کامل کی خوشی نہیں چھین سکتی تھی۔

" نہیں کرتی میں تم سے محبت سمجھے نہیں کرتی جو ہورہاہے اُسے ہونے دو شاداب " ۔ بھرائی آواز میں کہتے وہ ایک بھی نظر شاداب پر ڈالے بنا وہاں سے بھاگی ۔

 " کرتی تو ہو محبت۔  جانتا ہو کیوں نفی کر رہی ہو  کامل بھائی اور بیہ کی وجہ سے تم میری محبت کو نظر انداز کر رہی ہو . " 

جبڑے بھینچ کر کہتا وہ سرخ نظروں سے اُس راستے کو دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ گئی تھی ۔

اپنے کمرے میں اتے اُس نے دروازہ بند کیا اور وہی دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھتی چلی گئی ۔ سیاہ آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہتے اُسکے سرخ عارض کو بھگوتے چلے گئے ۔ آنکھوں کے پردوں پر اُس وقت صرف حسام کا وجود تھا ۔ اس کے پورے بدن میں ایک اذیت سرائیت کر گئی تھی۔

" ابھی ابھی تو محبت کا ادراک ہوا تھا یہ رب اتنی جلدی آزمائش بھیج دی " ۔ بھیگی آواز میں روتے ہوئے کہتی وہ اللہ سے شکوہ کر رہی تھی ۔ 

" ایسا لگ رہا ہے جیسے میں بیوفائی کر چکی ہوں میں بیوفا بن گئی ہو دھوکا دے رہی ہوں کیوں میرے اللہ میں حسام کو نہیں بھول پا رہی ہوں انکا عکس ذہن سے نہیں ہٹا پا رہی مجھے ایک اچھی بہن کی طرح اپنا فرض نبھانا ہے بھائی کی خوشی جس میں ہے وہی کرنا ہے لیکن کیوں میں اتنی بیچین ہوں کیوں مجھے اتنی تکلیف محسوس ہو رہی ہے کیوں مجھے یہ لگ ربا ہے جیسے یہ سب غلط ہے بہت غلط میں اس گھٹن سے مر جاؤنگی " ۔ بھیگی آواز میں  سینے پر ہاتھ رکھے کہتی اپنے تمام سوالوں کے جواب چاہتی تھی جو اُسے نہیں مل رہے تھے کامل کو ہاں بولنے کے بعد اُسے تھوڑا سکون میں ہونا چاہئے تھا کہ کم سے کم وہ اپنا فرض نبھا گئی ہے لیکن اُسے ایک پل چین نہیں مل رہا تھا دل تھا جیسے سینے میں ساکت ہوگیا تھا۔ وہ اپنے ذہن پر ٹینشن سوار کر گئی تھی 

سر میں شدید قسم کا درد اٹھا کہ بیہ اپنی آنکھیں مینچ گئی ۔ جتنا وہ سوچ رہی تھی وہ سب اُسکی صحت کے لیے بلکل صحیح نہیں تھا۔۔

اپنی آنکھیں موندیں گہرے سانس بھرتی وہ سر سے اٹھتے درد کو برداشت کر رہی تھی۔

یکدم آنکھوں میں کسی کا عکس اُبھرا دھندلا سا  ایک میدان جہاں وہ تھی  اور وہ دھندلا سا عکس جو ہنس رہا تھا ، پھر ایک گھر ، پھر وہی دھندلا سا چہرہ ، پھر خون کے دھبے  

یہ سب کیا تھا اُسے سمجھ نہ ایا درد اتنا شدید تھا کہ اُسے لگا ابھی اُسکے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی ۔

 جب درد حد سے سوا ہوا تو بیہ یکدم اپنی آنکھیں کھول گئی یہ سب دیکھتے اُسکا سر اور شدت سے درد کرنے لگا تھا۔۔اُسے لگا اُسکا سر پھٹ جائے گا اپنی جگہ سے اٹھتے وہ اپنی سائڈ ٹیبل تک گئی کانپتے ہاتھوں سے جلدی سے دوائی نکال کر کھائی پورے بدن میں کپکپاہت ہوئی تھی دوائی کھاتے ہی وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔

دل کی تڑپ کم اذیت دے رہی تھی جو اب سر کا درد بھی اُسے تکلیف سے روشناس کروا رہا تھا۔۔ اُسے نہیں پتہ تھا یہ دھندلا سا سایہ کس کا ہے اور اُسے کیوں نظر ایا ۔۔

" کون تھا یہ ،،،کیا میرا وہم تھا ۔ " ۔۔۔کانپتی آواز میں وہ خود سے مخاطب ہوئی جلد ہی اُسے اپنا دماغ سن ہوتا ہوا محسوس ہوا بیڈ پر لیٹتے وہ اپنی آنکھیں بند کر گئی دوائی نے اپنا اثر دکھایا تھا اُسکی آنکھیں کچھ پل بعد ہی بند ہوئی ۔۔

❤️❤️❤️❤️

انتہائی ضبط کے ساتھ وہ بیڈ پر بےسدھ لیتے حسام کو دیکھ رہا تھا جس کے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی اُسے انتہائی تیز بخار تھا جون جب اُسے گھر لایا تھا اُسکا پورا وجود سن پڑا ہوا تھا اب بھی پورا دن گزر گیا تھا رات نے اپنے پر پھیلا لیے تھے لیکن اب بھی حسام اپنی آنکھیں بند کئے لیتا تھا ڈاکٹر نے اُسے نیند کا انجکشن لگایا تھا تاکہ اُسے آرام آئے ۔۔سرخ و سفید رنگت پیلاہٹ کا شکار ہوئی ایک ہی دن میں وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا ۔۔۔

وہ سوچ چکا تھا اُس نے کیا کرنا ہے پانچ سال وہ حسام کے ساتھ رہا تھا اُس نے کبھی اُسے اتنا کمزور نہیں دیکھا تھا جتنا وہ ان دنوں میں دیکھ رہا تھا  ان پانچ سالوں میں وہ ہر وقت ہر قدم پر حسام کے ساتھ رہا تھا حسام کی تکلیف اُسے اپنی لگتی تھی بیشک حسام اُسکا بوس تھا لیکن نہ کبھی حسام نے اُسے بھائی کی کمی محسوس ہونے دی تھی اور نہ کبھی اُس نے حسام کو کبھی اکیلا چھوڑا تھا اُسے کل ہاسپٹل میں ہوئے معاملات کے بارے میں بھی پتہ چل چکا تھا ۔ اپنے لب بھینچے وہ وہی صوفے پر ٹیک لگا کر اپنی آنکھیں موند گیا۔ آنکھیں بند کرتے ہی سدرہ کا چہرے اُسکی چھلمن پر لہرایا لبوں پر مسکراہٹ دور گئی حسام سے فارغ ہوکر اُسے بہت ضروری کام کرنا تھا۔۔۔لیکن ابھی سب سے ضروری اُسکے لیے حسام تھا ۔

❤️❤️❤️❤️

نیا دن چڑھ ایا تھا فلک عروہ کو لیے اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی جبکہ کامل باہر لون میں تیاریاں دیکھ رہا تھا فلک کا چہرہ اسپاٹ تھا کل رات کو بھی جب کامل گھر ایا تھا تب بھی اُس نے کامل سے بات تک نہ کی تھی ۔

" سب تیاریاں ہوگئی ہے آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئی فلک" ۔ کامل نے کمرے میں اتے اپنی شرٹ کا کولر ٹھیک کرتے ہوئے فلک کو گھر کے کپڑوں میں دیکھتے پوچھا۔

" میرا تیار ہونا اتنا ضروری نہیں ہے " ۔ فلک نے ہے تاثر لہجے میں عروہ کے بال ٹھیک کرتے جواب دیا ۔

کامل فلک کے لہجے پر اپنا جبڑا بھینچ گیا ۔

" اگر آپ تیار نہیں ہو رہی تو عروہ کو ہی تیار کر دے " ۔ کامل نے اُسے خاموش دیکھتے ہوئے بات بڑھائی فلک کی خاموشی اُسے چبھ رہی تھی ان دو دنوں میں جس طرح فلک اُسے نظرانداز کر رہی تھی کامل انتہائی ضبط سے یہ سب برداشت کر رہا تھا۔

" کامل خان مجھے لگتا ہے اپکی عقل کے ساتھ ساتھ آپکی ان سبز حسین آنکھوں پر بھی پردہ لگ گیا ہے عروہ بلکل تیار ہے  " ۔ فلک نے طنزیہ لہجے میں تیز نظروں سے کامل کی طرف دیکھتے جواب دیا ۔

کامل نے فلک کی بات پر عروہ کو دیکھا جو لائٹ پنک رنگ کی فروک میں بالوں کو باندھے لیپ ٹاپ میں شاید کوئی کارٹون دیکھتی بلکل تیار تھی ۔

کامل نے اپنی نظریں آب اپنی روٹھی ہوئی بیوی پر کی جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آرام سے بیٹھی ہوئی تھی ۔

" میرے کپڑے ہی نکال دے کم سے کم  "۔ کامل نے ابکی بار سنجیدگی سے فلک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

فلک گہرا سانس بھرتے اپنی جگہ سے اُٹھی الماری سے کامل کے کیا سفید رنگ کی شلوار قمیض نکال کر بیڈ پر رکھ کر پلٹنے لگی جب کامل نے اُسکا ہاتھ پکڑا۔

" کب تک ناراض رہنا ہے آپ نے فلک  " ۔ آخر وہ پوچھ ہی بیٹھا۔ 

" جب تک آپ اپنا فیصلہ نہیں بدل لیتے کامل " ۔ فلک نے ایک لمحے کی دیر کیے بنا جواب دیا ۔

" اور آپ جانتی ہے میں فیصلہ نہیں بدلو گا  " ۔ کامل نے سنجیدگی سے کہا ۔

فلک اُسکی بات پر پلٹی ۔ 

آ" پ ایک گناہ کر رہے ہیں کسی کی محبت اُس سے چھین رہے ہیں ایک شادی شدہ عورت کی منگنی کر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو اللہ آپ سے ناراض ہوکر آپکی محبت آپ سے چھین لے کامل " ۔ فلک کہتی اپنا ہاتھ کامل کی گرفت سے نکالتی باہر کی طرف بڑھ گئی ۔

کامل نے اپنی آنکھیں مینچتے اپنے اوپر ضبط کیا فلک کی یہ بات اُسکا۔دل دھڑکا گئی تھی اور اُسے طیش بھی آیا تھا ۔

♥️♥️♥️

خالی خالی نِگاہوں سے وہ بیڈ پر پڑی اس خوبصورت سی لائٹ پنک رنگ کی فروک کو دیکھ رہی تھی جو ابھی ابھی میڈ اُسکے لیے رکھ کر گئی تھی ۔ اپنے آپکو وہ کافی حد تک سنبھال چکی تھی کہ شاید جو ہو رہا ہے وہی قسمت میں لکھا تھا ۔ لیکن یہ دلاسہ اُسکے بےچین دل کو چین پہنچانے کے لئے نہ کافی تھا۔

" تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی " ۔ کمرے میں اتی لیزا کی آواز پر بیہ نے اپنی نظریں اس ڈریس سے ہٹا کر اُسکی طرف دیکھا جس نے وائٹ رنگ کی فروک پہنی ہوئی تھی جو اُسکے گھٹنوں سے تھوڑی نیچے تھی پنک رنگ کے چوری دار پاجامہ اور گلے میں پنک ہی رنگ کا دوپٹہ لیے بالوں کو کھلا چھوڑے لائٹ میکپ اور لبوں پر ہلکی سی پنک لیپ سٹک لگائے وہ پیاری لگ رہی تھی۔

بیہ نے اُسکے لبوں پر جمی مسکراہٹ کو دیکھا اور پھر اُسکی شربتی آنکھوں میں جہاں اُداسی صاف دیکھی جا سکتی تھی جبکہ آنکھوں میں موجود لالی کو کم کرنے کے لیے اُس میں کاجل کی لکیر کھینچی گئی تھی ۔

" کتنا پیارا ڈریس ہے اٹھو بیہ جلدی سے تیار ہوجاؤ" ۔ بیہ کی جانچتی نظروں کو خود پر محسوس کرتے اُس نے ڈریس کو اٹھاتے ہوئے کہا ۔

 " کیا ہوا ہے بیہ اٹھو نہ کیوں ساکت ہوکر مجھے دیکھ رہی ہو " ۔ لیزا نے بیہ کو يوں اپنی طرف دیکھتے پوچھا ۔

 " خوش ہو تم میری منگنی سے "  ؟  بیہ نے سوال پوچھا لہجہ سنجیدگی بھرا تھا ۔

لیزا ٹھٹھکی  بیہ کے سوال پر ۔

" ہاں میں خوش ہوں آخر تمہاری بھی منگنی ہو رہی ہے تمہیں بھی مل گیا ہے تمہارے سپنوں کا راجہ " ۔ لیزا نے اپنے اوپر قابو پاتے اپنے ازلی لہجے میں کہا  لیکن یہ آنسو دغا دینے کی خاطر اُسکی پلکوں پر آن ٹھہرے ۔ 

 " اور اگر میں یہ کہوں میں خوش نہیں ہوں " ۔ بیہ کے کہنے پر لیزا نے ڈریس واپس بیڈ پر رکھا اور اُسکے دونوں ہاتھوں کو تھاما بیہ کا انداز اج عجیب تھا ۔

" کیا ہوا ہے بیہ کیوں نہیں ہو تم خوش کیا کوئی بات ہے " ۔ لیزا نے اپنی جان سے پیاری دوست کی سیاہ آنکھوں میں نمودار ہوتی نمی کو دیکھتے پوچھا ۔

 " میں خوش نہیں ہو لیزا میں نہیں چاہتی یہ منگنی ہو میں حسام ،،،،حسام سے پیار کرتی ہو اُنکی ہونا چاہتی ہو اپنی زندگی کے سارے حق اُنھیں دینا چاہتی ہو میں کیا کروں مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے ایسا لگ ہے میرا دل سو ٹکڑوں میں ٹوٹ گیا ہو ایسا لگ رہا ہے جیسے جو ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیزا " ۔ دوست کا سہارا ملا تھا اور وہ اپنے دل کا حال اُسکے سامنے بیان کر گئی ۔

لیزا کی آنکھوں میں نمی چمکی بیہ کو روتے دیکھتے ۔کہیں نہ کہیں وہ بھی تو یہی چاہتی تھی کہ یہ منگنی نہ ہو اُسکا پیار اُسکا شاداب صرف اُسکا ہی رہے ۔ 

" میری جان پھر تمہیں منع کر دینا چاہیئے تھا بھائی کو ابھی بھی وقت ہے تم حسام سے پیار کرتی ہو منع کردو کامل بھائی کو خود کے ساتھ ایسا ظلم مت کرو کیسے ایک انچاہے رشتے کو نبھاؤ گی جب تمہاری محبت ہی کوئی اور ہے " ۔ لیزا نے اُسکے گال سے آنسو صاف کرتے ہوئے اُسے سمجھایا ۔

" کس منہ سے اُنھیں جاکر منع کرو کیا کہوں کہ کچھ دنوں کی محبت کی خاطر میں آپکا مان توڑنا چاہتی ہو آپکے سارے وہ احسان آپکا سارا پیار بھول کر میں خود غرض بن گئی ہو نہیں کرسکتی میں لیزو اتنی ہمت نہیں ہے مجھ میں  " ۔ بیہ نے کہتے اپنا سر تھاما جہاں درد دوبارہ شروع ہوچکا تھا ۔

 " ٹھیک ہو تم بیہ دوائی لی ہے تم نے " ۔ لیزا نے اُسے سر پکڑے دیکھتے فکرمندی سے پوچھا ۔

" میں ٹھیک ہو لیزا "۔ بیہ نے اپنی آنکھیں بند کرتے کھولی جب دروازے پر دستک ہوئی ۔

" کیا ہم اندر آسکتے ہیں " ؟ سدرہ کی آواز سنتے لیزا اور بیہ دونوں نے اپنے آنسو صاف کیے ۔

" ارے اؤ نہ " ۔ لیزا کے کہنے پر امنہ اور سدرہ اندر ائی جنہیں لیزا نے ہی بلایا تھا ۔

امنہ اور سدرہ دونوں نے ہی ایک جیسی ڈریسنگ کی ہوئی تھی دونوں ہی سفید شرٹ اور پنک سکرٹ جو اُنکے ٹخنوں تک تھا میں ملبوس بالوں کی پونی ٹیل بنائے لبوں پر ہلکی سی لپ اسٹک لگائے پیاری لگ رہی تھی ۔

" تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی " ۔ امنہ نے اشارتاً بیہ سے پوچھا ۔

" ہم تم دونوں کا انتظار کر رہے تھے نہ چلو بیہ جاؤ یہ ڈریس پہن کر اؤ پھر ہم تینوں مل کر تمہیں تیار کرے گے" ۔ لیزا کے کہنے پر آمنہ اور سدرہ مسکرا گئی جبکہ بیہ خاموشی سے ڈریس اٹھاتے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔ 

♥️♥️♥️♥️

اُس نے دھیرے سے اپنی سیاہ آنکھیں کھولی جب کمرے میں جلتی لائٹس اُسکی آنکھوں میں چبھی  بیساختہ  اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھیں مسلنی چاہئ جب ہاتھ میں چبھن کا احساس ہوا ۔

حسام نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جہاں ڈرپ لگی ہوئی تھی ایک نظر پورے کمرے میں دوڑائی اُسے اچھی طرح یاد تھا وہ رات کو کامل کے سخت الفاظوں کو سنتے اُس سنسان سڑک پر بارش میں بھیگتے اپنے اللہ سے معافی کا طلبگار تھا پھر وہ یہاں کیسے آیا ۔

اس کا جواب بھی وہ جانتا تھا سوائے جون کے کون تھا اُسکا وفادار جو اُسے کبھی اکیلا ہی نہیں چھوڑتا تھا ۔

حسام نے اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی ۔ پورے وجود میں درد سا محسوس ہوا۔ 

دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے سفید ٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں ملبوس جون داخل ہوا تھا ۔

" شکر ہے آپکو ہوش آیا سر " ۔ جون نے حسام کو اٹھتے دیکھ خوشی سے کہا ۔

" میں کب سے بیہوش تھا " ؟ حسام نے سنجیدگی سے پوچھا ۔

" آپ پورے ایک دن بعد ہوش میں آئے ہیں سر آپ نے اپنے آپکو مارنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی " ۔ جون نے ابکی بار سنجیدگی سے کہا ۔

" میرے مرنے یہ جینے سے کون سا  کسی کو  فرق پڑتا ہے " ۔ طنزیہ ہنسی ہنستے اُس نے اپنا مذاق اڑایا ۔

جون نے اپنے لب بھینچے حسام کی بات پر ۔

" اگر آپ بھول گئے ہے تو یاد دلا دو آپکی ایک عدد بیوی ہے جو آپکے مرنے کے بعد بیوہ ہوجائے گئی شاید " ۔ جون کی بات پر حسام کی ذہن میں بیہ کا سراپا لہرایا ۔

" وہ بیوی جو مجھے بھول گئی ہے جون تصحیح کرو " ۔ حسام نے بےبسی سے کہا ۔

" آپ ہی تھے جس نے کہا تھا اچھا ہے وہ پرانی باتیں بھول گئی ہے اب آپ اُنکے ساتھ نئی یادیں بنائے گے لیکن آپ تو اپنے آپکو ہی مارنے میں لگے ہوئے ہیں " ۔ جون کا لہجہ طنزیہ تھا ۔

" اب لگتا ہے ہمت ہار گیا ہو کامل خان صحیح کہتا ہے میں اُسکے قابل ہی نہیں میں نے اُسکی محبت کو دھتکارا ہے میں ،،،،میں نے اپنے بچے کو مارا ہے  " ۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے اذیت بھرے لہجے میں کہتے آخر میں اُس نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا۔

" کامل خان کون ہوتا ہے یہ کہنے والا  یہ آپکا اور میڈم کا معاملہ ہے " ۔ جون کی آواز اب سخت تھی ۔ اُسے بلکل اچھا نہیں لگا حسام کو یو اپنے آنسو پیتے دیکھتے ۔

" وہ صحیح تو کہتا ہے میں گنہگار ہو شاید خدا نے بھی مجھے معاف نہیں کیا " ۔ حسام نے کہتے اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ نکالی ۔

" آپکو کیسے پتہ اللہ نے آپکو معاف نہیں کیا اگر اللہ آپ سے ناراض ہوتا تو جو پانچ وقت آپ اُسکے سامنے جھکتے ہیں اُسکے سامنے اپنے دل کا حال بیان کرتے ہیں اُسکی توفیق بھی آپ سے چھین لیتا ۔ " یہ آپکا اور میڈم کا معاملہ ہے کسی اور کو کوئی حق نہیں ہے آپ دونوں کے درمیان کچھ بھی بولنے کا آپ میڈم سے معافی مانگے انکو وضاحت دے ہر کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے وہ آپکی بیوی ہے اور اُنھیں آپکے پاس ہی ہونا چاہیے " ۔ جون نے حسام کو آئنیہ دکھایا ۔

حسام نے جون کی بات پر اُسکی طرف دیکھا ۔

" میں کیا کرو اب مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے " ۔ حسام نے بےبسی سے کہا ۔

" جائے میڈم کا ہاتھ پکڑے اور پورے حق کے ساتھ اپنے پاس لائے اُنھیں اپنے قریب رکھ کر وضاحت دے اور پھر دیکھے وہ کیسے نہ آپکو معاف کرتی ہے وہ آپ سے محبت کرتی ہے آپکو ضرور معاف کردے گی آپ اُنھیں نہیں مارنا چاہتے تھے وہ خود ائی تھی سامنے ہوئی ہے آپ سے غلطی جسکی سزا آپ نے کاٹ لی ہے " ۔ جون نے حسام کے سامنے اتے درشتگی سے کہا اس وقت وہ بھول گیا تھا حسام اُسکا بوس ہے اس وقت اُسے صرف حسام کا خیال تھا ۔

" اُسے سب یاد آجائے گا پھر سے اُسے موت کے منہ میں نہیں دخیل سکتا " ۔ حسام نے اپنا سر پکڑے جواب دیا۔

" لیکن اپنی بیوی کو بغیرتوں کی طرح کسی سے منگنی کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں گناہ ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں  اپنے رب پر بھروسہ رکھے موت اور زندگی اُسکے ہاتھ میں ہے " ۔ جون چیخ اٹھا تھا حسام کی بات پر ۔

حسام نے منگنی کی بات پر حیرت سے جون کی طرف دیکھا ایک جھٹکے سے اُس نے اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ کھینچ نکالی اور جون نے پہلا کلمہ پڑھ لیا بغیرت جو بول چکا تھا حسام کو تو اب مرنا تو تھا ۔

" کیا بکواس ہے یہ کامل خان اتنا کیسے گر سکتا ہے " ۔ حسام نے شاید جون کی بات غور سے سنی نہیں تھی وہ تو صرف منگنی پر ہی اٹک گیا تھا اسی لیے سخت آواز میں بولا ۔

جون نے اپنی جان خلاسی ہونے پر شکر ادا کیا ۔

" وہی تو کامل خان کیسے اتنا گر سکتا ہے سر یہی بات تو میں آپکو سمجھانا چاہ رہا ہو کامل خان آسانی سے تو آپکو میڈم تک جانے دے گا نہیں الٹا وہ گناہ کر رہا ہے میڈم آپکی بیوی ہے ایسے کیسے وہ اُنکی منگنی کروا سکتا ہے" ۔جون کے کہنے پر حسام ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا ۔

اُسکے پورے وجود میں منگنی کا سن کر اشتعال بڑپا ہوا تھا اب اُسے انجام کی فکر نہیں تھی اگر بیہ کو کچھ یاد آ بھی جاتا وہ اُسے وضاحت دے دیتا اُسے یاد ہے کہ بیہ کتنی شدت سے اُس سے محبت کرتی تھی اُسے ضرور معاف کردیتی وہ اس طرح اپنی بیوی کو جو اسکے نکاح میں ہے کسی دوسرے سے منسوب ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔

اپنی طبیعت کی فکر کیے بنا وہ تیزی سے فلیٹ سے نکلا تھا جون بھی حسام کے پیچھے ہی نکلا ۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھے جون نے حسام کو خطرناک حد تک تیز ڈرائیونگ کرتے دیکھتے اپنے زندہ صحیح سلامت وہاں پہنچ جانے کی دعا مانگی ۔  ایک طرح سے وہ یہی چاہتا تھا حسام اپنے لئے اسٹینڈ لے یو کامل کی باتوں پر اپنے آپکو اذیت نہ پہنچائے 

لون میں کھلے آسمان کے نیچے ایک طرف ایک صوفہ رکھا گیا تھا  اور باقی پورے لون میں ٹیبل اور کرسیاں لگائی گئی تھی ہلکی ہلکی سجاوٹ بھی کی گئی تھی کامل نے اپنے کچھ جاننے والوں کو بھی بلایا تھا  جن میں وہ بھی تھا اپنی سحر انگیز شخصیت کے ساتھ آف وائٹ شرٹ اور براؤن پینٹ میں بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے ایک ٹیبل پر بیٹھا اپنے فون میں مصروف۔گھر کے باہر سخت سیکورٹی تھی کامل خان اج کے دن کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔

وہ جو اپنے موبائل میں مصروف تھا اُسکی نظر سامنے اٹھی اور پھر پلٹنا بھول گئی وائٹ شرٹ اور پنک سکرٹ میں گولڈن بالوں کو پونی ٹیل میں باندھے لبوں کو گلابی رنگ میں رنگے ہنستی ہوئی وہ سدرہ بیہ اور لیزا کے ساتھ آرہی تھی اُسکی نظریں اُسکے حسین سراپے پر جم سی گئی تھی وہ اپنی پلک تک نہ جھپک پا رہا تھا ۔

کچھ ایسا ہی حال صوفے پر بیٹھے شاداب کا تھا جو یک تک لیزا کے مسکراتے چہرے کو دیکھ رہا تھا وہ اج ان کپڑوں میں زیادہ حسین لگ رہی تھی شاداب کا دل تیزی سے دھڑکا جب لیزا نے اُسکی طرف دیکھا اور پل میں اپنی نظروں کا زاویہ بدلا اس بے مہر سے اپنی نظریں  ملا کر وہ اپنا ضبط کھو دیتی ۔

شاداب نے اپنے جبڑے بھنیچے لیزا کے یوں نظریں پھیر لینے پر وہ اس ایک پل میں اُسکی نظروں میں چھائی اُداسی دیکھ چکا تھا کیا تھا اگر یہ لڑکی اُسکی محبت کو قبول کرتے اپنی محبت کا اطراف بھی کر لیتی ۔

پنک رنگ کی فروک میں بالوں کو جوڑے میں باندھے لائٹ سے میکپ میں گالوں پر پنک رنگ سے بلش لگائے پنک گلوز سے لبوں کو رنگے وہ لائٹس سی جویلری میں حد سے زیادہ پیاری لگی رہی اُسکی فروک زیادہ کام دار نہیں تھی جبکہ سر پر جالی دار دوپٹہ ٹکایا ہوا تھا ۔۔۔سیاہ آنکھیں ساکت تھی اپنے پیروں کو تکتی وہ کسی گڑیا کی ماند چلتی شاداب کے ساتھ آکر بیٹھی ۔ دل کی دھڑکن حد سے سوا تھا ہاتھوں میں پسینہ آیا ہوا تھا گھبراہٹ کی وجہ سے۔ اوپر سے سر کا درد جو اتنی ٹینشن سر پر حاوی کرنے کی وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔

اُس نے ایک نظر اٹھا کر کامل کی طرف دیکھا جو لبوں پر دھیمی مسکراہٹ لیے اُن دِونوں کو ہی دیکھ رہا تھا بیہ نے کامل کی طرف دیکھتے ہلکا سا مسکرانا چاہا۔۔۔۔فلک کے پاس کھڑی عروہ بھاگتی ہوئی اپنی پھو کے پاس گئی ۔

لیزا بیہ کو بیٹھا کر فوراً سے دور ہوئی بیہ اور شاداب کو ایک ساتھ دیکھتے اُسکی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہوا تھا جسے سب کی نظروں میں لائے بغیر وہ صاف کر گئی ۔

اُدھر امنہ کو اپنے اوپر کسی کی تپش بھری نظریں محسوس ہو رہی تھی وہ بار بار اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی ان نظروں کو ڈھونڈنے کی  کوشش کی جو اُسے دیکھ رہی تھی ۔

دور بیٹھا وہ وجود امنہ کے اس جلوے بکھیرتے روپ کو دیکھتے اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا نہ جانے یہاں ائے ہوئے کتنے مردوں کی نظریں اُس نے اپنی اس مومی گڑیا پر پڑتی محسوس کی تھی جو اُسکا ضبط آزما کر رہ گئی تھی ۔

" چلو رسم شروع کرتے ہیں " ۔ کامل کے کہنے پر شاداب نے ایک بار لیزا کی طرف دیکھا جس نے اُسی وقت اُسکی طرف دیکھا تھا شاداب کی آنکھوں میں صاف تحریر رقم تھی کہ اب بھی وقت ہے کہہ دو میں منگنی توڑ دونگا لیکن لیزا اُسکی آنکھوں میں نظر آتی  تحریر کو نظرانداز کر گئی کیسے کہہ دیتی کہ ہاں توڑ دو یہ منگنی میں نہیں دیکھ سکتی تمہیں کسی کے ساتھ منسوب ہوتا  جب آخری وقت تھا آخری مرحلہ تھا سب مہمان یہاں موجود تھے ۔ وہ اپنی نظریں پھر شاداب کی نظروں سے ہٹا گئی ۔

شاداب نے لب بھینچ کر کامل کی طرف دیکھا جس نے اُسکے آگے رنگ کی تھی بیہ کی سانسیں تیز ہوئی دل کی دھڑکن حد سے بڑھی۔ جب شاداب نے اپنا ہاتھ آگے کرتے اُس سے اُسکا ہاتھ مانگا ۔

فلک نے اپنی آنکھیں بند کرتے کھولی اُسکا شوہر ایک گناہ کا مرتب ہوا تھا اور وہ  اُسے روک نہیں پا رہی تھی۔ 

بیہ اپنا کپکپاتا ہاتھ ابھی شاداب کے ہاتھ میں دیتی کہ ایک تیز رفتار گاڑی اندر داخل ہوئی جس نے خوبصورتی سے سجی انٹرنس کا نقشِہ پل میں بیگارا۔۔۔۔۔

سب نے اُس گاڑی کی طرف دیکھا جہاں سے نکلتے حسام کو دیکھتے کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی بیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ، سدرہ بھی حیرت سے گاڑی سے نکلتے جون کو دیکھ رہی تھی جبکہ لیزا اور شاداب کا حال بھی کچھ یہی تھا اگر کسی کے دل میں سکون اُترا تھا تو وہ فلک تھی جو اب ایسے پُر جوش ہوئی تھی جیسے کسی فلم کا ایکشن سین شروع ہونے والا ہو ۔۔۔

اپنے سامنے حسام کو دیکھتے بیہ کی دل کی دھڑکن مزید تیز ہوئی وہ پٹھی انکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی آنکھوں کو جیسے یقین نہ تھا کہ وہ یہاں ہوسکتا ہے۔ حسام کی سیاہ سرخ آنکھوں کو دیکھتے بیہ کے پورے وجود میں جانے کیوں خوف سے سنسنی سی دور گئی ۔۔۔۔

حسام جو تیز ڈرائیونگ کرتا کامل خان کے گھر تک آیا تھا انٹرنس میں کھڑی سیکورٹی کو دیکھتے انتہائی غصے میں اُس نے اپنی گاڑی تیز رفتار میں چلاتے اندر داخل کی ۔۔۔

لون میں نظر آتا منظر اُسے کسی تپتی بھٹی میں جھونک گیا تھا اُسکے وجود کا پور پور دہک اٹھا تھا جہاں سامنے ہی بیہ سجی ہوئی بیٹھی تھی وہ بھی کسی غیر کے لیے حسام کا بس نہ چلا کہ وہ بیہ کے وجود کو کہیں غائب کر دے یہی وجود تھا جس پر وہ کسی کی ایک آنکھ تک برداشت نہیں کرتا تھا وہ اُسے اپنی چار دیواری میں محفوظ رکھتا تھا اور اج وہ سب کے سامنے سجی بیٹھی تھی حسام کا خون ابل پڑا بیہ کے نزدیک بیٹھے شاداب کو دیکھتے ۔

وہ تیز قدموں سے شاداب تک پہنچتا جب کامل نے اُسکے راستے میں اتے اُسکا گریبان تھاما ۔ بیہ شاداب دونوں اپنی جگہ سے اٹھے  جبکہ کونے کی ایک ٹیبل پر بیٹھا وہ مزے سے جوس پیتا یہ سب دیکھ رہا تھا ۔

" بولا تھا مت کرے یہ سب کسی کی بیوی ہے بھائی کوئی مرد کیسے برداشت کرے گا " ۔  اپنے کندھے اچکا کہتا وہ جوس کا سپ پی گیا ۔ جب اُسکی نظر اپنی نازک سی جان پر پڑی جو سدرہ کا بازو تھامے سہمی نِگاہوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔

کیا چاہتے ہو حسام ابھی کہ ابھی یہاں سے جاؤ " ۔ کامل سخت آواز میں اُسکا گریبان پکڑے گویا ہوا ۔

" کامل خان اج نہیں اج تم ہر حد سے گزر گئے ہو میری غیرت پر وار کر گئے ہو اج نہیں " ۔ اپنے جبڑے بھینچے حسام نے سخت آواز میں کہتے اُسکے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکے ۔

" کون سی حد اب تم حد سے گزر رہے ہو چلے جاؤ یہاں سے  " ۔  کامل نے حسام کے چہرے پر زبردست قسم کا وار کرتے ہوئے کہا ۔

بیہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ گئی وہاں موجود سب لوگ حیرت سے کامل اور حسام کو دیکھ رہے ہیں ۔ جون نے سخت نظروں سے کامل کو دیکھا اور سدرہ اُسکی نظریں صرف جون پر ہی جمی تھی اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا یہاں ہو کیا رہا ہے۔ 

" نہیں جاؤنگا میں یہاں سے بیہ کو لے کر ہی جاؤنگا  تم اُسکی منگنی نہیں کر سکتے وہ میری ہے صرف میری " ۔  حسام نے واپس کامل پر وار کرتے ہوئے شدت بھرے لہجے میں کہا۔

بیہ کی سسکی اُبھری اُسکی اس بات پر ۔

"حس،،،حسام " ۔ بیہ نے کچھ کہنا چاہا جب اگلے لفظوں پر اُسکا پورا وجود تھما ۔ دل کی دھڑکن تک رکتی محسوس ہوئی ۔

" وہ تمہاری نہیں ہے کس حق سے بول رہے ہو یہ بلکہ ابھی کہ ابھی طلاق دو " ۔ کامل ڈھاڑا اور حسام پر وار کیا ۔۔

" بیوی ہے وہ میری بیوی کبھی نہیں دو گا طلاق میں مر جاؤنگا بےشک کہ وہ بیوہ ہوجائے لیکن کبھی طلاق نہیں دونگا " ۔ حسام نے کامل کے وار کا جواب دیتے ہوئے کہا ۔بیہ کا پورا وجود ساکت ہوا حسام کی بات پر اُسے لگا ساتوں آسمان اُسکے سر پر ڈھر ڈھر کرتے گرے ہو ۔

فلک نے بیہ کی طرف دیکھا جو بلکل ساکت کھڑی تھی ۔ یہ کیسا انکشاف ہوا تھا اُن سب پر وہ سب حیران و پریشان اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے جو سب کچھ بھلائے آپس میں لڑ رہے تھے۔ 

" بیوی ،،بیوی حسام کی بیوی " ۔ بیہ نہ زیرِ لب دہرایا ۔

" یہ بیوی تمہیں تب نہیں یاد تھی جب تم اُسکے سر پر دوسری عورت کو اپنی محبت کہتے لانے والے تھے یہ بیوی تمہیں تب یاد نہیں تھی جب تم نے اُسکا وجود گولیوں سے چھلنی کیا تھا جب اپنے بچے کی ہی جان لی تھی " ۔ کامل کے لفظ تھے یہ پگھلا ہوا سیسہ جو بیہ کے کانوں میں انڈیل دیا گیا تھا ۔

" میں اسکا جواب  صرف اپنی بیوی کو دونگا تم کوئی نہیں ہوتے ان سب کے بیچ میں بولنے والے " ۔ حسام نے کہتے اپنے لب کے کونے پر لگا خون صاف کیا وہ دونوں ہی بیہ کو نظرانداز کر گئے تھے جس کے لیے وہ لڑ رہے تھے ۔

بیہ کے سر میں ایک ٹیس اُبھری اپنی آنکھیں بند کئے اُس نے اپنے سر سے اٹھتے درد کو برداشت کرنے کی کوشش کی دھندلے ہوئے مناظر صاف ہونے لگے ۔

 یکدم سب آوازیں انا بند ہوئی اب وہ تھی اور اُسکے دماغ میں چلتے وہ مناظر ۔۔

حسام کا یونی میں انا ، بیہ کا حسام سے دوستی کرنا ، حسام کا بیہ سے محبت کا اظہار کرنا، بیہ اور حسام کی شادی ، شادی کی رات حسام کا یہ کہنا کہ وہ بیہ سے محبت نہیں کرتا ، اپنے والد جنہوں نے بیہ کے والد کی وجہ سے خودکشی کی تھی ایک بزنس کے لوس ہونے کی وجہ سے اُسکا بدلہ لینا، بیہ کا رونا ، حسام کا بیہ کے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑنا، بیہ کی ہر چیز کا خیال رکھنا لیکن پھر بھی یہی کہنا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا ، بیہ کی والدہ سے بیہ کو نہ ملنے دینا ، بیہ کو گھر کی چار دیواری میں رکھنا ، حسام کی شدت پسندی ، پھر شجیہ کا انا ، حسام کا شجیہ  کو اپنی محبت کہنا ، بیہ کا تڑپنا ، اور پھر اپنے بچے کا سنتے حسام کا سن ہوجانا، خضر کو گولی مارنا اور بیہ کا بیچ میں انا ، ہر طرف خون اور آخر میں بیہ کا  حسام کو دیکھتے اپنی آنکھیں بند کرنا ، 

سب ایک تصویر کی طرح بیہ کے دماغ میں گردش کرنے لگا اُسے لگا اُسکا سر پھٹ جائے گا وہ اس درد سے مار جائے گی وہ لڑکھڑائی جب پاس کھڑی سدرہ نے اُسے سہارا دیا فلک بھی تیزی سے اُس تک ائی ۔۔بیہ سدرہ کے سہارے کھڑی تھی ورنہ اُسے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔

" کامل رک جائے " ۔ فلک نے کامل کو روکنا چاہا اُسے بیہ کی حالت صحیح نہیں لگ رہی تھی لیکن کامل سنتا تو نہ وہ اور حسام تو آپس میں اپنی ہی دنیا میں مگن ریسلنگ کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔۔

" رک جاؤ ،،,,, پلیز رک جاؤ ". بیہ نے دھیمی آواز میں دہرایا ۔

" کامل رک جائے ،،،بھائی پلیز رک جاؤ بیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی " ۔ پہلے فلک اور پھر لیزا چیخی ۔

بیہ نے اپنی سیاہ آنکھیں کھولی جو لال ہو رہی تھی اُس نے کامل اور حسام کی طرف دیکھا اسکا پورا چہرے آنسوؤں سے تر تھا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔

" حسام رک جاؤ  خدا کا واسطہ رک جاؤ " ۔ بیہ اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے چیخی ۔۔۔

وہ جو اپنا سارا غصّہ غبار کامل پر اتار رہا تھا اور بدلے میں کامل سے بھی زخم کھا رہا تھا بیہ کی چیخ پر تھما کامل نے بھی رکتے بیہ کو دیکھا۔۔۔

حسام کو یہ آواز پہلے جیسی لگی ۔۔۔

" رک جاؤ پلیز" ۔ بیہ کہتی گھٹنوں کے بل گرتی چلی گئی اُسکی سیاہ سرخ آنکھیں بند ہونے لگی تھی 

" بیہ "!!!!!! بیہ کو گرتے دیکھتے حسام تیزی سے اُس تک آیا اُس نے بیہ کو سنبھالنا چاہا جب بیہ نہ اپنے کندھے پر رکھے اُسکے ہاتھ کو جھڑکا ۔۔۔۔حسام نے بیہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا جو وہ اُسکے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ حسام کے سینے پر ہاتھ مارتی اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کرتے وہ اپنی آنکھیں بند کرتی سدرہ کی گود میں سر رکھتی ہوش و خرد سے بیگانہ ہوئی ۔۔۔۔

کامل نے تیزی  سے اُس تک اتے اُسے اپنے بازوں میں اٹھایا بیہ کی ایسی حالت دیکھتے لیزا اور فلک رو پڑی تھی سدرہ اور امنہ کی سمجھ سے سب کچھ باہر تھا ۔ شاداب بھی حیرت سے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔

کامل بیہ کو لیے جلدی سے وہاں سے بھاگا لیزا نے غصے سے ساکت کھڑے  شاداب کو دیکھا۔

" چلو گے تم ختم ہوگئی ہے تمہاری منگنی " ۔ لیزا غصے سے چیخی شاداب جلدی سے کامل سے پیچھے بھاگا ، لیزا بھی جلدی سے اُن کے پیچھے بھاگی ۔

جون سدرہ کو نظرانداز کرتا حسام تک آیا جو سن بیٹھا اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جو بیہ چھڑوا رہی تھی وہ اُسے خود سے دور جھڑک  رہی تھی یہ تکلیف دہ تھا بہت تکلیف دہ ۔۔۔

" مجھے اُسکے پاس جانا ہے " ۔ حسام کہتا تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا  ۔ جون بھی تیزی سے حسام کے پیچھے نکلا ۔

سدرہ نے  نم انکھوں سے جون کی پشت کو تکا اور امنہ کا ہاتھ پکڑتی وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔۔

کونے کی ٹیبل پر بیٹھا وہ مغرور شہزادہ گہرا سانس بھرتے اپنی جگہ سے اٹھا اور تیز قدموں سے وہ بھی باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔

سدرہ نم آنکھوں کے ساتھ آمنہ کا ہاتھ پکڑے سنسان سڑک پر چلتی جا رہی تھی اور آمنہ چپ چاپ اُسکے ساتھ چل رہی تھی ۔

" کیا ہوا ہے سدرہ " ۔ آمنہ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتے ہوئے اشارتاً پوچھا ۔

وہ جو اپنے دھیان میں جنید کے بارے میں سوچتی کھوئی کھوئی سی چلتی جا رہی تھی آمنہ کے روکنے پر ہوش میں ائی ۔

" کچھ نہیں ہوا حسینہ چلو ٹیکسی لیتے ہیں ہاسپٹل جانا ہے بیہ کے پاس "۔  سدرہ نے سڑک پر نظریں گھماتے ہوئے کہا۔ جو اس وقت سنسان تھی ۔

آمنہ نے سدرہ کی بات پر اثبات میں سر ہلایا جب دو انتہاہی تیز رفتاری سے اتی سپورٹ بائک اُنکے سامنے رکی ۔ آمنہ نے فوراً سے لیزا کا بازو تھاما ۔

بائک سے اُترتے دو لڑکوں کو دیکھتے سدرہ کے ہاتھوں میں بھی پسینہ بھرا تھا لیکن وہ اپنے چہرے پر کسی خوف کا تاثر نہیں لائ۔

" کیا کوئی مدد چایئے آپ دونوں کو " ۔ اُن میں سے ایک لڑکے نے اپنی غلیظ نظریں آمنہ کے حسین چہرے پر گاڑتے اپنی گردن کو رب کرتے ہوئے پوچھا ۔

آمنہ اور سدرہ اُن دِنوں لڑکوں کی غلیظ نظریں اور خباثت ٹپکاتے چہرے کو دیکھتے سمجھ گئی تھی یہاں رکنا محفوظ نہیں ہے ۔

" نہیں شکریہ آپکا " ۔ سدرہ نے سنجیدہ آواز میں کہا اور آمنہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے آگے بڑھی جب اُس لڑکے نے آمنہ کا ہاتھ پکڑا ۔

آمنہ کی چیخ بیساختہ نکلی ۔

" ارے ایسے کیسے چلو نہ شرمانا کیسا " ۔ اُس لڑکے نے آمنہ کی کلائی کو مرورتے ہوئے خباثت سے کہا آمنہ کی ہیزل بلیو انکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔

" چھوڑو اُسے جو تم سمجھ رہے ہو وہ ہم نہیں ہے میں نے کہا چھوڑو اُسے " ۔ سدرہ آمنہ کا ہاتھ اُس لڑکے کی گرفت سے نکالتے چیخی وہ سمجھ گئی تھی یہ لڑکے اُن دونوں کو کیا سمجھ رہے ہیں ۔

" تم اُدھر اؤ اُسے اُسکے ساتھ انجواۓ کرنے دو تم میرے پاس اؤ " ۔ دوسرے لڑکے نے سدرہ کو آمنہ سے  دور کرتے اپنے پاس کھینچا ۔

آمنہ نے بےبس نگاہوں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا جو اب اپنے گندے ہاتھوں سے اُسکی گردن کو چھو رہا تھا دل خوف سے شدت سے دھڑکا اُس نے اپنے ہاتھوں سے مزاحمت کرنی چاہئ لیکن نازک سی جان تھی آخر کتنی مزاحمت کر سکتی تھی ۔

" چھوڑو مجھے جنگلی انسان میں تمہارا خون پی جاؤنگی کتے کمینے کہیں کے " سدرہ نے اپنے ہاتھوں کو چھرواتے ہوئے غصے بھری آواز میں کہا۔

" کوئی ہے پلیز مدد کرو " ۔ اپنی گردن پر جھکتے اُس لڑکے کو دیکھتے سدرہ خوف سے روتی ہوئی چیخی ۔

آمنہ نے اُس لڑکے کی طرف دیکھا جو اب اُسکی گردن پر جھکنے لگا تھا وہ اپنی۔ہیزل بلیو انکھوں کو بند کرگئی دل نے شدت سے اپنی اور سدرہ کی عزت کی حفاظت کی دعا کی تھی۔ جب اپنے انہتائی قریب ایک بھوکے شیر کی غراہٹ نما آواز سنائی دی ۔

" لیو ڈیم " ۔ وہ جو  اپنے چہرے پر ماسک لگائے اُن دونوں کے پیچھے ہی آرہا تھا ایک ضروری فون کال کی وجہ سے اُسے رکنا پڑا تب تک سدرہ اور آمنہ اُسکی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی تھوڑا سا آگے چلنے پر اُسے وہ دونوں نظر ائی جہاں سامنے کا منظر دیکھتے اُسکا انگ آنگ جل اٹھا وہ لڑکا آمنہ کا ہاتھ پکڑے اُسکی گردن پر جھکنے والا تھا ۔

اور یہ منظر دیکھتے اُس مغرور شہزادے کا ضبط جواب دے گیا وہ اس لڑکی کو چھوتی ہواؤں کو بھی اب برداشت نہیں کر سکتا تھا حتیٰ کہ اُسکے نزدیک اُسے چھونے کی کوشش کرتے اس لڑکے کو دیکھتے وہ کیسے برداشت کر جاتا وہ شیر جیسی غراہٹ لیے غرایا ۔

ایک ہی جست میں آمنہ تک اتے اُس نے ایک جھٹکے میں آمنہ کو اُس لڑکے سے دور کرتے اُس لڑکے پر وار کیا ۔

آمنہ یکدم جھٹکا لگنے سے لڑکھڑاتی ہوئی نیچے گری دوسرا لڑکا اپنے ساتھی کو زمین پر پڑے دیکھتے فوراً سے سدرہ سے دور ہوا جو اپنی گردن پر اُسکا وحشی حوس بھرا لمس محسوس کر چکی تھی اور یہ سب محسوس کرتے وہ مرنے والی ہو رہی تھی ۔۔

سدرہ اپنی فکر چھوڑے جلدی سے آمنہ کی طرف بڑھی جو زمین پر گری اپنی آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ اپنے سینے میں باندھے  لرز رہی تھی۔ سدرہ نے جلدی سے اُسے اپنے گلے سے لگایا۔ 

"ہاؤ دئیر یو ٹو ٹچ ہر " ۔ سخت و سرد آواز میں کہتے اُس نے وار کیا اُسکی شہد رنگ آنکھیں اس وقت لال ہو رہی تھی شہد رنگ آنکھوں میں ایسی وحشت چھائی ہوئی تھی کہ زمین پر پڑے اُس لڑکے کی آنکھوں میں خوف جھلکا ۔۔۔اُسے اپنی موت ان آنکھوں میں نظر ائی ۔ جبکہ اُسکے وار سے اُس کے چودہ طبق روشن ہوئے ۔ 

وہ مغرور شہزادہ در پر در زمین پر پڑے اس لڑکے پر وار کرتا رہا جس نے اُسکی زندگی کو چھونے کی غلطی کی تھی اور یہ سب دیکھتے اُسکا دوسرا ساتھی اپنی بائک سٹارٹ کرکے جانے  لگا جب اُس مغرور شہزادے نے پاس پڑا پتھر اٹھا کر سیدھا اُسکے سر پر دے مارا کہ اُس لڑکے کا سر پل میں خونم خون ہوا اور وہ درد سے کرراتا ہوا زمین پر بیٹھتا چلا گیا ۔ 

اُسکی آنکھوں سے وہ پل وہ منظر نہیں ہت رہے تھے جب وہ لڑکا آمنہ کی گردن پر جھکنے لگا تھا ۔

آمنہ نے سدرہ کے گلے لگائے ہی اپنی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا جہاں کا منظر دیکھ کر اُسکا خوف سے سکڑا دل مزید سکڑ گیا اُس نے سدرہ کا بازو تھامتے اُسے یہ سب روکنے کا اشارہ کیا ۔

سدرہ جو حیرت سے اس لڑکے کا جنوں دیکھ رہی تھی آمنہ کے متوجہ کرنے پر ہوش میں ائی ۔

" Brother please stop this " . 

(بھائی پلیز رک جائے )۔ 

سدرہ کے کہنے پر وہ مغرور شہزادہ رکا اُس نے ایک جھٹکے سے اُس لڑکے کو زمین سے تھوڑا سا اوپر اٹھاتے واپس نیچے پھنیکا اور پلٹا۔  آمنہ کی نظر اُسکی شہد رنگ سرخ آنکھوں پر گئی اور مقابل تو بس سامنے بیٹھی اپنی زندگی کی ہیزل بلیو آنکھوں میں  نمی دیکھتے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ گیا ان آنکھوں میں وہ آنسو برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔

سدرہ نے خود اٹھ کر پھر آمنہ کو اٹھایا جس کا وجود اب بھی لرز رہا تھا اور اُسکا خوف سے لرزتا وجود مقابل کے سینے میں آگ سی دھکا گیا تھا ۔ وہ خوف سے کانپ رہی تھی۔

" Thank you so much for saving us" ۔ 

(بہت بہت شکریہ آپکا ہمیں بچانے کے لیے ) ۔

سدرہ نے شکریہ ادا کیا مخالف نے اثبات میں سر ہلایا اُسکی نظریں تو صرف آمنہ پر ہی ٹکی ہوئی تھی جو اپنی نظریں جھکائے  آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ اپنے لبوں کو دانتوں سے بیدردی سے کچل رہی تھی اور مخالف اپنا ضبط کھوتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔کچھ پل پہلے اُسکی آنکھوں میں وحشت تھی لیکن اب صرف سنجیدگی تھی ۔

" آئندہ احتیاط کریں سنسان سڑکوں پر ایسے اکیلا نہ گھومے ضروری نہیں ہر بار آپکو کوئی نہ کوئی آکر بچا لے ہر کوئی محافظ نہیں ہوتا کچھ عزت کے لٹیرے بھی ہوتے ہے " ۔ مخالف کی بات پر سدرہ اور آمنہ دونوں نے اُسکے ماسک میں چھپے چہرے کی طرف دیکھا جس میں صرف اُسکی شہد رنگ آنکھیں واضح تھی جو سنجیدگی سے بھری ہوئی تھی ۔

ایسی شہد رنگ آنکھیں تو کسی اور کی بھی تھی لیکن صرف آنکھوں کا رنگ ایک جیسا تھا آنکھوں کے تاثر الگ الگ تھے ایسی شہد رنگ آنکھوں والا جسے وہ دونوں جانتی تھی اُسکی آنکھوں میں شوخی رہتی تھی لیکن یہ آنکھیں سنجیدگی میں ڈوبی ہوئی تھی یہ آواز بھی اُس کی آواز سے الگ تھی یہ آواز سرد تھی  ۔

اپنے چہرے پر ٹکی مخالف کی نظروں کو محسوس کرتے آمنہ  نے سرعت سے اپنی بھیگی نظریں جھکائی ۔

اور جو محافظ ہے وہ میری ذات کو مکمل طور پر فراموش کر چکا ہے " ۔ سدرہ نے اذیت سے سوچا جون کی نظراندازی  بہت بری طرح چبھی تھی ۔

" چلے میں آپکو ٹیکسی تک چھوڑ دیتا ہوں آئندہ دھیان رکھئے گا " ۔ مخالف کے کہنے پر سدرہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔

سدرہ اور آمنہ کے پیچھے چلتا وہ اپنی شہد رنگ آنکھوں کو صرف و صرف آمنہ کی پشت پر گاڑھے  ہوا تھا اور آمنہ کو اپنی پشت جھلستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔

ٹیکسی کے رکنے پر سدرہ اور آمنہ تیزی سے ٹیکسی میں بیٹھے اس وقت اُن دونوں کے ہی ذہن بہت اُلجھے ہوئے تھے۔

سدرہ نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اُسکا دوبارہ شکریہ کیا جس پر اُس سے سنجیدگی سے اس بار بھی اثبات میں سر ہلایا ۔

ٹیکسی کے چلتے ہی آمنہ نے ونڈو سے باہر ذرا سا سر نکالتے اس ماسک والے لڑکے کو دیکھنا چاہا جس نے اُسکی عزت بچائی تھی ۔

اور اُسے وہی اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے کھڑے دیکھ وہ واپس سر اندر کر گئی ۔

اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اُس مغرور شہزادے نے دور تک اُس گاڑی کو تکا جو تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی گاڑی کے اوجھل ہونے پر وہ سر جھتکتا واپس اُس طرف ایا جہاں وہ لڑکے زمین پر خونم خون ہوئے پڑے تھے۔

اپنی جیب سے موبائل نکالتے اُس نے ایک مخصوص نمبر پر کال کی اور ایڑیوں کے بل زمین پر بیٹھا ۔

" یہ بہت کم سزا ہے بچت ہوگئی تمھاری کیونکہ اس وقت وہ میرے سامنے تھی جس کے سامنے میں کبھی اپنا دوسرا روپ نہیں لانا چاہتا اصلی سزا تمہیں اب ملے گی میری زندگی کو غلیظ نظروں سے دیکھنے کی اُسے اپنے ان غلیظ ہاتھوں سے چھونے کی سو بی ریڈی فور ڈا نیو تھرل " ۔ سرد آواز میں شہد رنگ آنکھوں میں وحشت لیے وہ اُس لڑکے کے چہرے کو خونخوار نظروں سے دیکھتے پھنکارا۔ 

 " کون ہو تم " ؟ دوسرے لڑکے نے اپنے سر سے اٹھتے درد کو برداشت کرتے سوال کیا ۔ 

" ایک گمنام انسان " خیر  تمہیں بھی اُس شخص کے پاس بھیج دے گے جس کی بیوی کو تم اپنے ان غلیظ ہاتھوں سے چھو رہے تھے اور ائی ایم ڈیم شیور وہ بھی تمھاری میزبانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑے کا بیفکر ہوجاؤ "۔ سرد آواز میں  اپنی بھوری داڑھی کو رب کرتے کہتے وہ اٹھا اور  ان دونوں لڑکوں کی جان حلق میں  اٹکا گیا ۔

کچھ ہی پل میں وہاں ایک بلیک کی رنگ کی کار آکر رکی تھی جس میں سے کالے رنگ میں ملبوس ہٹے کٹے نوجوان باہر آئے ۔

 " you know what to do " 

(آپ جانتے ہیں کیا کرنا ہے ) سنجیدگی سے کہتا وہ اپنے قدم واپسی کی طرف بڑھا گیا تھا ۔

اُن سب نے اپنے بوس کی پشت کو تکا جو اب اپنے چہرے پر لگا ماسک اُتار کر اُسے اپنے ہاتھ کی انگلی میں اٹکاتے گھماتا ہوا اُن کی نظروں سے دور ہوتا جا رہا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️

فلک ، لیزا بہتی آنکھوں کے ساتھ رب کے حضور دعا کرتی اس وقت ایمرجنسی کے باہر رکھی گئی کرسیوں پر بیٹھی ہوئی تھی ۔

شاداب اور کامل اپنے سینے پر ہاتھ باندھے بیہ کی فکر میں ایک طرف کھڑے تھے ۔

جب اُنکی نظر کوریڈور کے آخر میں پڑی جہاں سے حسام بھاگتا ہوا آرہا تھا ۔

کامل  غصے سے اُس تک پہنچا ۔

" بیہ کیسی ہے "؟ حسام کی آنکھیں اس وقت لال ہو رہی تھی بکھرے بال بکھرا ہوا حلیہ وہ قابل رحم حالت میں تھا اس وقت ۔ کامل کے پاس انے پر اُس نے کامل سے پوچھا۔ 

" موت کے منہ میں ڈال کر پوچھ رہے ہو کیسی ہے وہ چلے جاؤ ورنہ میں تمہیں یہی ختم کردونگا اج " ۔ کامل ڈھاڑا  ۔

فلک اپنے لب بھینچے طیش میں اپنی جگہ سے اُٹھی ۔لیزا اور شاداب بھی اپنے لب بھینچے اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے 

" مار ڈالے کامل اج ختم کر ڈالے مارے نہ ! بس کرے یار بس کرے " ۔ فلک کامل اور حسام کے بیچ میں اتے کامل کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے اُسے ڈھکا دیتے ہوئے چیخی ۔ اُسکی برداشت کی حد ختم ہوگئی تھی بلکل ختم ۔

" آخر آپ دونوں کو اُسکی حالت پر رحم کیوں نہیں اتا کیوں نہیں اتا اندر وہ  دوبارہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے اور آپ دونوں یہاں اپنی اپنی انا کی ۔ کوئی فکر نہیں ہے آپ دونوں کو اُسکی کوئی محبت نہیں ہے آپ دونوں کو اُس سے اگر ہوتی تو اج یہ تماشا نہیں ہوتا "  دونوں کی طرف باری باری دیکھتے وہ چیخ رہی تھی اور وہ دونوں خاموشی سے اُسے سن رہے تھے۔

" آپ میری بات سنے اور کان کھول کر سنے مانا آپ نے پانچ سال بیہ کو اپنی سگی بہنوں کو طرح رکھا اُس سے باپ جیسی محبت کی لیکن آپ اُسکی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ خود نہیں لے سکتے وہ بیوی ہے کسی کی جسکی آپ منگنی کر رہے تھے ایک شادی شدہ عورت کے لیے یہ ایک گناہ ہے اپنے شوہر کے علاوہ وہ کسی کی طرف دیکھنا بھی اپنا گناہ سمجھتی ہے اور آپ اُسے کسی اور سے منسوب کر رہے تھے کیسے اُسکا سامنا کرے گے کیسے "  فلک کی بات پر کامل نے اپنے لب بھینچے شاداب بھی اپنی نظریں جھکا گیا۔

" ارے رحم کھائے  اس پر جو آپ سے اپنی محبت کے لیے بھیگ مانگ رہا ہے اُسکی حالت دیکھ رہے ہیں آپ یہ اُسکا اور اُسکی بیوی کا معاملہ ہے آپ ہوتے کون  ہے اُن دونوں کو الگ کرنے والے جبکہ جانتے ہے دو میاں بیوی کو الگ کرنا اللہ کے حضور کتنا بُرا عمل ہے میں آپکی بیہ سے محبت پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہی کامل لیکن آپ اپنا وقت بھی تو یاد کرے جب آپ بھی مجھے اپنے نام کے ساتھ منسوب کرتے چھوڑ گئے تھے اپنی کوک میں ہمارے بچے کو پالتی میں پل پل آپکی جدائی میں تڑپی تھی اور تب خضر آپکے ساتھ یہی کرتا جس طرح آپ اج حسام کے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں سوچے تب کیا ہوتا کیا ہم اج ایک ساتھ ہوتے نہیں ، ہم ساتھ نہیں ہوتے ہم دونوں کی محبت ادھوری رہ جاتی ۔ آپکی غلطی تھی آپکو معافی ملی آپکو ایک موقعہ ملا تو اسکو کیوں نہیں " ۔  فلک اتنی تیز آواز میں کہہ رہی تھی کہ اُسکے گلے کی نسیں واضح ہونے لگی تھی کامل خان کی سبز انکھوں میں سرخی چھائی فلک کی باتوں پر ۔

" میں اپنے فرض کی وجہ سے آپ سے دور گیا تھا فلک اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتی ہے " ۔ اور یہ اُسے دھوکا دے رہا تھا اس نے اُسکے بچے کی جان لی  ہے بیوفائی کی ہے اسکی کوئی معافی نہیں ہے ۔ " کامل کی آواز سرد تھی فلک نے کامل کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اُسے شکوے کی رمک نظر ائی اور وہ اپنے لب بھینچ گئی ۔ 

" اسکا فیصلہ بیہ خود کرے گی وہ خود دیکھے گی اُس نے کیا کرنا ہے کیا نہیں آپ نہیں کامل " ۔ فلک کی بات پر کامل ایک بھی لمحے کے لیے وہاں رکا نہیں ایک آخری شکوے بھری نظر فلک پر ڈال کر وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔

فلک نے گہرا سانس بھرا جانتی تھی اپنے لفظوں سے اپنے شوہر کو زخمی کر گئی ہے ۔ 

فلک نے حسام کی طرف دیکھا جو اپنی سرخ سیاہ آنکھوں سے ایمرجنسی کی جلتی لائٹ کو دیکھ رہا تھا ۔

" اور تم بیوفائی کرتے وقت سوچ لیتے ایک بار اپنے دل میں جھانک لیتے کہ یہاں کس کے لیے محبت ہے کس کے لیے عشق ہے تو اج اپنی بیوی کے گنہگار نہیں ہوتے اج اس مقام پر کھڑے نہیں ہوتے کاش تُم سوچ لیتے کاش کیا کہو تمہیں میں تُم تو پہلے ہی زخموں سے چوڑ ہو مانگو معافی دعا کرو کردے وہ معاف عورت کا دل بہت موم ہوتا ہے خاص کر اپنے پسندیدہ مرد کے لیے اپنے محرم کے لیے وہ تو تم مردوں کی بیوفائی بھی معاف کردیتی ہے شاید کردے تمہیں معاف  دعا کرو اپنے رب سے مانگو معافی اپنے رب سے بھی اور اپنی بیوی سے  بھی جس کا تم نے دل دکھایا ہے " ۔ 

فلک نے ترحم بھری نظروں سے اس ٹوٹے بکھرے شخص کو دیکھا جو صدیوں کا بیمار لگ رہا تھا ۔۔۔

 " تمھاری وجہ سے میرا شوہر مجھ سے ناراض ہوگیا پر اتنا تو چلتا ہے میں صرف بیہ کو خوش دیکھنا چاہتی ہو ایک عورت ہوں جانتی ہو اُسکی خوشی تمہارے ساتھ ہی ہے اللہ تمہاری آزمائش جلدی ختم کرے " ۔  فلک کہتی واپس لیزا کی طرف بڑھ گئی کرسی پر بیٹھے وہ کامل کی وہی نظر یاد کر رہی تھی جس میں شکوہ تھا وہ جانتی تھی وہ اُسے خود سے ناراض کر گئی ہے ۔۔۔لیکن ابھی بیہ زیادہ ضروری تھی ۔

حسام اپنی آنکھیں جھکاتا وہی ایک طرف دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہوا بخار پھر سے چڑھ گیا تھا کمزوری کے باعث اُسکے بدن میں کھڑے رہنے کی سکت تک نہیں تھی لیکن وہ پھر بھی ہمت کیے کھڑا تھا اُسکی سیاہ آنکھیں اس وقت لال ہو رہی تھی اپنی بیہ کی فکر میں اسکا روم روم تڑپ رہا تھا وہ اپنے آنسو ضبط کر رہا تھا جو اُسکی آنکھوں سے چھلکنے کو بیتاب تھے اپنے یہ آنسو تو وہ صرف اپنے رب کے حضور ہی بہایا کرتا تھا یہاں کیسے وہ انہیں بہنے دیتا ۔ 

جون کچھ ہی دور کھڑا اپنے سر کو دیکھ رہا تھا جب اُسکا موبائل بجا جسے وہ نظرانداز کرتا حسام کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

تقریباً آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا سب ہی ٹینشن میں تھے ۔  فلک کو تو کامل کی بھی فکر تھی جو اب تک نہیں ایا تھا ۔

جون نے ایک نظر حسام کو دیکھا جو ویسے ہی بت بنا ایک جگہ کھڑا ہوا تھا اور پھر سب کے لیے پانی لینے کے لیے کینٹین کی طرف بڑھ گیا ۔

کچھ ہی دیر میں وہ پانی کی بوتل لیتے اُن تک ایا تھا  اُس نے پانی کی بوتل پہلے فلک کی طرف بڑھائیں جس نے بغیر کچھ بولے بوتل تھام لی اُسکا گلا یہاں چلتی اے سی کی وجہ سے خشک ہوگیا تھا ۔۔

جون نے لیزا کی طرف بوتل کی جس نے مسکراتے ہوئے جون کے ہاتھ سے بوتل تھامی اُسکی اُنگلیاں جون کی انگلیوں سے ذرا سی مس ہوئی جو جون اور لیزا کو تو محسوس نہیں ہوئی لیکن شاداب کو لیزا کے چہرے پر جمی مسکراہٹ اور یہ لیزا کی اُنگلیاں جون کی انگلیوں سے ٹچ ہونا آگ لگا گیا تھا پر وہ اپنے جبڑے بھینچ کر ضبط کر گیا موقع کی نزاکت کی وجہ سے ابھی وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔

لیزا ابھی پانی کی بوتل کھول کر پہلا سپ لینے ہی لگی تھی جب شاداب نے بہت جارحانہ طریقے سے اُس کے ہاتھ سے پانی کی بوتل چھین کر اُسے سرد سبز انکھوں سے دیکھتے ایک ہی سانس میں ساری پانی کی بوتل پیتے خالی کی ۔۔

لیزا نے ہونکوں کی طرح اُسے دیکھا لیکن پھر نظرانداز کرتی اپنے لب بھینچے  بیٹھ گئی ابھی وہ اس انسان کے منہ بلکل بھی نہیں لگنا چاہتی تھی ۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر باہر آئے اور حسام سب کو نظرانداز کرتا ڈاکٹر تک گیا سماعتیں صرف و صرف بیہ کی خیریت سننا چاہتی تھی روم روم بیچین تھا ۔

" کیسی ہے میری مسز "؟  حسام نے بیقراری سے پوچھا۔ 

" یہ کیس بہت کمپلیکیٹڈ تھا اگر آپ بروقت انکو یہاں نہیں لاتے تو شاید ہم اُنہیں دوبارہ کوما میں جانے سے نہ بچا پاتا ۔ اُنکے دماغ پر بہت گہرا اثر پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی یاداشت کھو چکی تھی اس بارے میں کامل خان کو میں بتا چکا تھا کہ کوئی بھی ایک جھٹکا یہ تو اُنہیں موت کے منہ میں ڈال دے گا یہ تو اُنہیں سب یاد آجائے گا لیکن زیادہ تر چانسز یہی تھے کہ کسی بھی ٹینشن کو سر پر حاوی کرنے سے وہ اپنی زندگی کھو بیٹھتی " ۔ ڈاکٹر تفصیل سے بتا رہے تھے اور حسام کا خود پر سے ضبط ختم ہو رہا تھا ۔

" مجھے یہ بتاؤ ابھی وہ ٹھیک ہے یہ نہیں " ۔ حسام نے چیختے ہوئے کہا اُسکی سانس سینے میں اٹکی ہوئی تھی ۔

" وہ ابھی ٹھیک ہے اللہ کا شکر ادا کرے اُنہیں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ابھی دوائی کے اثر سے وہ بیہوش ہے انکو روم میں شفٹ کر رہے ہیں آپ مل سکتے ہیں " ۔ ڈاکٹر نے حسام کی یو چیخنے پر جلدی سے کہا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا حسام کی کالی سرخ آنکھیں دیکھتے ویسے ہی اُس ڈاکٹر کو خوف محسوس ہوا تھا ۔

حسام نے سکون کا سانس بھرا کسی کی بھی فکر کیے بنا وہ جوان جہاں مرد وہی جھکتے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوا ۔ اُس نے اپنی بیوی کی صحت یابی کی خبر سنتے  بیچ کوریڈور میں اللہ کے حضور شکرانے کا سجدہ ادا کیا ۔ 

لیزا اور فلک اُسے سجدے میں جھکے دیکھتے نم آنکھوں سے مسکرا دی شاداب کو بھی رشک ایا ایسی محبت پر اُسے اب تجسس ہو رہا تھا جاننے کا کہ آخر ایسا ہوا کیا تھا جو کامل بیہ اور حسام کو ملنے نہیں دے رہا تھا ۔جون بھی نم انکھوں سے مسکرا دیا۔۔

سجدے میں جھکے اُسکی آنکھوں سے تشکر کے آنسو بہہ نکلے ایک طویل سجدہ کرتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اپنے بازو سے اپنے آنکھیں صاف کرتے اُس نے بیقرار نظروں سے ایمرجنسی کے دروازے کو دیکھا جہاں سے بیہ کو اسٹریچر پر باہر لایا گیا تھا جون نے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں رکنے کا اشارہ کیا ۔

حسام ہے بیقرار نظروں سے بیہ کے چہرے کو دیکھا جہاں کالی آنکھیں گہری پلکوں کی جھالر تلے بند تھی سانولی رنگت تھوڑی سی زرد تھی ۔ وہ اُسکا چین و سکون چھین کر خود سکون سے اپنی آنکھیں موندے ہوئی تھی۔۔۔

حسام کے لبوں پر اُسے ٹھیک صحیح سلامت دیکھتے مسکراہٹ نمودار ہوئی وہ آہستہ سے اُس تک ایا ۔ بیہ کا ہاتھ پکڑے اُس نے اپنے لبوں سے لگایا اور وہی جم گیا سیاہ انکھوں سے آنسو نکل کر بیہ کے ہاتھ پر گرے۔۔۔ حسام کی نظر اُس کے چہرے پر جمی ہوئی تھی وہ اپنی پلکیں بھی نہیں جھپک رہا تھا ۔

بیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے وہ بیہ کے چہرے پر جھکا شدت سے اپنے دہکتے لب اُسکے ماتھے پر رکھے اور وہ سرور سے اپنی آنکھیں بند کر گیا اس لمس میں اُسکی زندگی اُسکا سکون سب کچھ تھا ۔۔۔

جسم سے ساری کمزوری ختم ہوتی محسوس ہوئی بخار کی حدت اس ایک لمس سے کم ہوئی اُسکی بھیگی پلکوں پر ٹھہرے آنسو بیہ کے ماتھے پر گرے ۔ ساری تڑپ ساری اذیت ختم ہوتی محسوس ہوئی ۔۔۔

بیہوشی میں بھی شاید وہ اُسکا لمس پہنچاتی تھی اسی لیے حسام کے ہاتھ میں موجود اُسکے ہاتھ میں حرکت ہوئی ۔۔۔

حسام مسکرا گیا بیہ کی اس حرکت پر ۔ وہ اُسکا لمس اُسکی خوشبو بیہوشی میں بھی پیچان گئی تھی محسوس کر گئی تھی ۔

" جانتا ہو بہت خفا ہو مجھ سے کام ہی ایسا کیا ہے خفا ہونا بنتا بھی ہے تمھارا تمھاری قسم جو بھی سزا دوگی قبول ہوگی بس میری جھولی میں ہجر مت ڈالنا پہلے ہی پانچ سال تمہارے ہجر میں تڑپا ہو  اور ہجر دیا تو شاید مر جائے تمہارا حسام تم تو عشق کرتی ہو نہ مجھ سے مجھے مرتا نہیں دیکھ پاؤں گی جانتا ہو بیہ کو اچھی طرح کہ بیہ حسام سے عشق کرتی ہے اُسکی مسکراہٹ سے عشق کرتی ہے اُسکی سیاہ انکھوں سے عشق کرتی ہے بہت تڑپا ہو میں یار تمہارے حسام کو بہت رلایا ہے تمھاری جُدائی نے اب جلدی سے ٹھیک ہو کر میرے پاس آجاؤ میرے پاس رہ کر مجھے سزا دینا جو چاہے میں افف نہیں کہونگا بس میرے پاس رہنا " بھرائی آواز میں کہتے وہ وہاں سب کے دل کو تڑپا گیا تھا اُسکی لہجے کی تڑپ اُسکا بیہ کو احتیاط اور نرمی سے چھونا فلک ، لیزا ، شاداب، اور جون تک کی آنکھوں سے آنسو جاری کر گیا تھا ۔۔۔

لیزا نے روتے روتے شاداب کا بازو اپنی گرفت میں لیا اور اپنی گرفت بھی مضبوط کر گئی ۔شاداب نے بھی اپنے بازو کے گرد لپٹے اُسکے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھا ۔ جون کے دماغ میں بھی سدرہ کا عکس اُبھرا ۔ 

ایک آخری بار بیہ کے ماتھے پر دوبارہ شدت سے  لب رکھتے وہ بیہ سے دور ہوا  ۔

اور تیزی سے وہاں سے نکلا وہ اب اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکتا تھا اپنے اللہ کے حضور جھکتے اُس نے شکرانے کی نفل ادا کرنی تھی ۔ 

بیہ کو روم میں شفٹ کرتے فلک شاداب اور لیزا کو اُس کے پاس چھوڑ کر کامل کی تلاش میں باہر نکلی ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

فلک ہاسپٹل سے باہر ائی تو اُسے سامنے ہی کامل نظر ایا جو ایک بینچ پر بیٹھا اپنے ہاتھوں کو تک رہا تھا ۔

فلک خاموشی سے اُسکے پاس آکر بیٹھ گئی فلک کو اپنے پاس بیٹھتا محسوس کرتے کامل نے اپنے ہاتھوں کو باہم ملایا۔

" آپ صحیح کہہ رہی تھی میں بلا وجہ اُن دونوں کے بیچ آرہا ہو ۔ لیکن میں بیہ کا بُرا نہیں چاہتا بچپن سے اکیلا رہا ہو کزن تو تھے لیکن کوئی اپنا بھائی یہ بہن نہیں تھا اور یہی کمی تھی جو مجھے چبھتی تھی لیکن اللہ سے کبھی شکوہ نہیں کیا ۔ جب بیہ ملی تو مجھے لگا اللہ نے مجھے ایک بہن دے دی ہے جسکی حفاظت اب میری ذمےداری ہے میری کمی کو پورا کر دیا ہے شاید اس لیے میں کچھ زیادہ ہی  پوزیسو ہوگیا تھا ۔ " کامل کہتا مسکرا گیا ۔ فلک اپنے لب باہم ملائے کامل کو سن رہی تھی ۔

شاید آفسیر ہو اسی لیے کسی پر اتنی جلدی بھروسہ نہیں کر پاتا حسام بدل گیا ہوگا وہ محبت بھی کرتا ہے بیہ سے لیکن بیہ کے ساتھ جو کچھ ماضی میں ہوا اُسکی وجہ سے میں خوف زدہ ہوگیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو میری بہن مجھ سے چھین جائے ایک بھائی ہونے کا احساس مجھ سے پھر چھین جائے ۔ ایک یہی خوف تھا کہ سب کچھ یاد آجانے پر بیہ کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو  ۔ لیکن اب سنبھل گیا ہو جو بیہ کا فیصلہ ہو گا وہی میرا فیصلہ ہوگا اُسکی خوشی میں ہی میری خوشی ہے اگر اُسکی خوشی حسام میں ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر وہ اُسکے ساتھ نہیں رہنا چاہیے گی تو میں اُسے مجبور نہیں کرونگا " ۔ کامل کہتا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔

" اور ایک اور بات آپکو چھوڑ کر جانا میری مجبوری تھی میرا فرض تھا جسے چھوڑ نہیں سکتا تھا لیکن یہ بات آپ خود بھی جانتی ہے فلک کے آپ سے دور رہ کر بھی میں نے ہر پل آپ پر نظر رکھی ہے میں نہیں جانتا تھا کہ آپ کبھی مجھے یہ بات سب کے سامنے یاد دلا کر اذیت دے گی " ۔ کامل نے پلٹتے شکوہ کنہ نظروں سے فلک کو دیکھتے کہا ۔ فلک کی آنکھوں میں نمی چمکی ۔

" میرا وہ مطلب نہیں تھا کامل " ۔ فلک نے کچھ کہنا چاہا جب کامل نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا ۔

فلک نم آنکھیں لیے خاموش ہوئی جانتی تھی اب وہ کچھ بھی نہیں سنے گا وہ اُس سے سخت قسم کا ناراض ہو چکا ہے ۔

" بیہ کو  روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے وہ ٹھیک ہے " ۔ فلک نے اُسے بیہ کے متعلق بتایا ۔

" یہ اللہ تیرا شُکر" ۔ کامل نے آسمان کو دیکھتے ہوئے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور اپنے قدم ہاسپٹل کے اندر بڑھائے فلک بھی کامل کی تقیلد میں آگے بڑھی ۔

ہاسپٹل میں داخل ہونے سے پہلے کامل رکا اُس نے گراؤنڈ کے ایک کونے  طرف دیکھا جہاں حسام ایک سنسان کونے میں کھڑا نماز ادا کر ربا تھا ۔ فلک بھی کامل کے رکنے پر اُسکی نظروں کے ارتکاز میں دیکھے گئی ۔

کامل کچھ پل رکا اور پھر اندر کی طرف بڑھ گیا ۔ فلک بھی کامل کے پیچھے اندر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔

سدرہ امنہ کو لیے اس وقت گھر آگئی تھی اُنھیں ہسپتال جانا تھا بیہ کے پاس لیکن آمنہ اس وقت بہت ڈری ہوئی تھی اسی لیے سدرہ  اُسے گھر لے ائی تھی  ۔ سدرہ نے آمنہ کو دیکھا جسے دوائی دے کر اُس نے سلا دیا تھا ۔

آئینے کے سامنے اتے اُس نے اپنی گردن سے بال ہٹانے اپنی گردن پر اب بھی اُسے وہ حوس بھرا  لمس   محسوس ہو رہا تھا وہ   اذیت سے اپنی آنکھیں مينچ گئی آنسو لڑکھ کر اُسکے رخساروں کی زینت بنا ۔

آج اُسکی عزت خطرے میں تھی اور جو اُسکی عزت کا رکھوالا تھا جو اُسکا محافظ تھا وہ اُسکے پاس نہیں تھا وہ تو سدرہ کے وجود کو یکسر نظرنداز کرگیا تھا۔ اج اُسکی عزت ایک غیر انسان نے بچائی تھی وہ جتنا یہ سوچ رہی تھی اُسے اتنی ہی تکلیف اپنے وجود میں سرائیت کرتی محسوس ہو رہی تھی ۔

اپنے آنسوؤں کو بیدردی سے صاف کرتے اُس نے اپنے بالوں کو ہاتھوں کی مدد سے سلجھا کر دوبارہ پونی ٹیل میں قید کیا اور آرام سے آمنہ کے کمرے سے باہر نکلی ۔اُسکا ارادہ اب بیہ کے پاس ہسپتال جانے کا تھا بیشک اُنکی دوستی کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا لیکن اُسے فکر تھی بیہ کی ۔

سدرہ جب کمرے سے باہر نکلی تو نجمہ بیگم اُسے اتی ہوئی دکھائی دی اُس نے نجمہ بیگم کو یہ بتایا تھا کہ اچانک سے آمنہ کے سر میں درد ہوگیا تھا جسکی وجہ سے وہ لوگ جلدی گھر آگئے ہیں اگر اُنہیں وہ اج کے ہوئے واقعہ کے بارے میں بتا دیتی تو وہ پریشان ہوجاتی ۔

" آنٹی آمنہ سو رہی ہے میں چلتی ہوں مجھے ایک دوست سے ملنے بھی جانا ہے واپسی پر چکر لگاؤ گی " ۔ سدرہ نے نجمہ بیگم سے کہا ۔

" چلو صحیح بیٹا دھیان سے جانا " ۔ نجمہ بیگم نے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے کہا ۔ سدرہ نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے باہر کی طرف بڑھی ۔ 

نجمہ بیگم کھانے کی تیاری کے لیے کچن کی طرف بڑھ گئی ۔ 

❤️❤️❤️❤️

کامل ، فلک ،لیزا ،شاداب سب اس وقت اندر بیہ کے روم میں موجود تھے جسے اب تک ہوش نہیں ایا تھا ۔ جون کافی دیر تک حسام کا انتظار کرتا رہا جو اب تک نہیں ایا ۔

جب اچانک اُسے یاد آیا اُسکے موبائل پر کسی کی کال آرہی تھی جون نے ہسپتال کے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اپنی جیب سے موبائل نکال کر کھولا۔

ایک انجان نمبر سے کال ائی ہوئی تھی جو وہ اٹھا نہیں سکا تھا ۔ اُس نے اپنا واٹس ایپ اوپن کیا جہاں اسی نمبر سے ایک میسج تھا ۔

میسج دیکھتے جون کے قدم تھمے اُس نے اپنی آبرو سکوڑے اُس میسج کو دیکھا جہاں ایک لڑکے کی تصویر تھی جو زخمی تھا لیکن اُسکی نظر تو اس تصویر کے نیچے لکھی گئی تحریر پر ہی جم گئی تھی ۔

" تمھاری عزت کو گندی نظروں سے دیکھنے اور چھونے کی کوشش کی ہے  تمہارے فلیٹ میں پہنچا دیا ہے اُمید کرتا ہو اچھی مہمان نوازی کرو گے جانتا ہوں شکریہ کہنا چاہ رہے ہونگے آفٹر آل تمھاری بیوی کو بچایا تو ہے شکریہ کا میسج اسی نمبر پر کر سکتے ہو ۔ " 

میسج پڑھتے جون کے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا آخر کون تھا یہ اور اس طرح کا میسج اُسے کیوں سینڈ کیا تھا ۔

لیکن یہ میسج پڑھتے اُسکی دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی اُسے سدرہ کا خیال ایا تھا۔۔اگر یہ میسج سچ تھا تو وہ تصویر میں نظر آتے اُس لڑکے کی جان اپنے ہاتھوں سے لے گا ۔۔۔اپنے جبڑے بھینچے اُس نے اپنے موبائل کی کنٹیکٹ لسٹ میں سے سدرہ کا نمبر ڈھونڈنا چاہا اُسے اب اُسکی فکر ہو رہی تھی کچھ تو ہوا تھا اُسکی بیخبری میں ایسا نہیں تھا اُس نے سدرہ کو دیکھا نہیں تھا اج لیکن اُس وقت وہ حسام کے ساتھ موجود ہونا زیادہ ضروری سمجھتا تھا ۔۔

اچانک سے اُسے یاد آیا اُسکے موبائل میں تو سدرہ کا نمبر تھا ہی نہیں ۔ اپنے ہاتھ پر اپنا فون مارتے وہ تیز قدموں سے آگے بڑھا۔ 

سدرہ ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ لیے ہسپتال کے کوریڈور میں چل رہی تھی جب سامنے سے اتے جون کو دیکھتے اُسکے قدم تھمے ۔ جون جو تنے چہرے کے ساتھ موبائل کی طرف متوجہ تھا اُس نے اپنی نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا اور سامنے سدرہ کو لال بھیگی انکھوں کے ساتھ کھڑا دیکھتے کچھ پل کو وہ بھی اپنی جگہ جم گیا۔

سدرہ کے نم چہرے سے صاف واضح تھا کہ کچھ ہوا ہے مطلب موبائل پر انے والا میسج سچ تھا ۔

سدرہ نے جون کے اپنی طرف دیکھنے پر اپنی آنکھیں پھیری اور تیزی سے مرتے واپس جانے لگی فلحال وہ اس ہرجائی کو نہیں دیکھ سکتی تھی اور نہ ہی اُسکا ابھی اس وقت جون سے بات کرنے کا کوئی ارادہ تھا ۔

سدرہ کے یوں اس طرح پلٹ کر جانے پر جون کا پہلے سے تنا چہرہ مزید سختی اختیار کر گیا وہ ایک ہی جست میں سدرہ تک پہنچتے  سدرہ کا بازو اپنی سخت گرفت میں  لیتے سدرہ کی مزاحمت کو نظرانداز کرتے وہ اُسے لیے کونے پر بنے واشروم میں داخل ہوا ۔

سدرہ يو اچانک اپنے بازو کو جون کی سخت گرفت میں محسوس کرتے تڑپ اٹھی اُس نے مزاحمت کرنی چاہی لیکن ناکام رہی ۔

جون نے واشروم میں داخل ہوتے ہی ایک جھٹکے میں واشروم کا دروازہ بند کرتے سدرہ کی پشت کو دروازے سے لگایا اور دونوں بازوں سدرہ کے تھامتے اُسے اپنی گرفت میں قید کر گیا ۔

سدرہ کا یو نظرانداز کر کے چلے جانا اُسکے  اشتعال کو ہوا دے گیا تھا ۔

" کہاں جا رہی تھی  " ؟ مجھے دیکھتے اپنی نظریں اور رخ کیوں پھیرا  " ؟ جون نے سخت لہجے میں سدرہ کی براؤن سرخ آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑتے ہوئے سوال داغا۔

" جہاں مرضی جاؤ تمہیں جواب دہ نہیں ہو اور تمہیں دیکھ کر رخ بدلنا ہی بہتر لگتا ہے مجھے " ۔ سدرہ نے جون کی گرفت میں جھٹپٹاتے ہوئے تنک کر جواب دیا ۔

جون نے اپنے جبڑے بھینچ کر سدرہ کو دیکھا جو مزاحمت کرتی اُسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

جون نے ایک بازو آزاد کرتے سدرہ کی کمر کو اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسے خود سے مزید قریب کیا ۔

سدرہ کی ناک جون کی ناک سے ٹکرائی لبوں کے درمیاں صرف چند انچ کا فاصلہ بچا ۔ جون کی تپش زدہ سانسیں اُسے اپنے چہرے پر پڑتی محسوس ہوئی ۔ سدرہ کا سانس سینے میں اُلجھا ۔ 

اُس نے اپنی براؤن بھیگی نِگاہوں سے جون کی آنکھوں میں جھانکا جہاں صاف صاف اُسکے لیے محبت نظر آرہی تھی ۔

" کیا ہوا تھا تمھارے ساتھ سدرہ ابھی یہاں انے سے پہلے " ؟ جون نے سدرہ کے ہونٹوں کو فوکس میں رکھتے سوال کیا ۔

' کچھ نہیں ہوا تھا " ۔ سدرہ کی آنکھوں میں تیزی سے نمی لہرائی جون کے پوچھنے پر اُسے سب کچھ یاد آتا گیا ۔

" مجھے صرف و صرف سچ سننا ہے بتاؤ مجھے یہاں انے سے پہلے کیا ہوا تھا " ؟ جون کی آواز اب سخت تھی ۔

سدرہ نے جون کی آنکھوں میں دیکھا جہاں غصے کی رمک صاف واضح تھی ۔

سدرہ نے اپنا نچلا لب دانتوں میں ڈباتے اپنے آپ پر ضبط کرنا چاہا ۔ ورنہ اُسکا دل کیا تھا سب کچھ جون کو بتا دے اُس سے سوال کرے کہ وہ کیوں نہیں تھا وہاں اُسکی حفاظت کے لیے ۔ جب اُسکی عزت کو خطرہ تھا تو اُسکی عزت کا محافظ کیوں نہیں تھا اُسکے پاس ۔

سدرہ نے ہچکی بھری اور جون کا ضبط جواب دے گیا وہ جو اتنی دیر سے ضبط کر رہا تھا اب ضبط کا دامن اُسکے ہاتھوں سے چھوٹ گیا تھا۔۔۔۔

" ڈیم اٹ سدرہ میں کچھ پوچھ رہا ہو ہوا کیا تھا یہاں انے سے پہلے مجھے جواب دو " ۔ جون سدرہ کے چہرے پر جھکے غرا اٹھا ۔

سدرہ نے جون کی سرخ آنکھوں میں دیکھا جہاں غصے کی شدت سے بھرتی لالی دیکھتے اُسے اپنا سانس خشک ہوتا محسوس ہوا ۔ اوپر سے جون کی دہکتی سانسیں اُسکا چہرہ جھلسا رہی تھی۔

" دو ۔۔۔دو لڑکے تھے ۔۔۔بتا ۔۔بتمیزی ۔۔۔کر رہے تھے ۔ " سدرہ نے ہچکی لیتے جون کی سرخ بھوری انکھوں میں دیکھتے اُسے بتایا ۔

جون کے چہرے پر سختی بڑھی ۔

" انہوں نے تمہیں ہاتھ لگایا ۔۔۔۔میں کچھ پوچھ رہا ہوں سدرہ کیا اُنہوں نے تمہیں ہاتھ لگایا جواب دو ڈیم اٹ ورنہ میں اپنا ضبط کھو دونگا ۔ " جون نے پہلے نرمی سے سدرہ سے پوچھا لیکن اُسکے یونہی خاموشی سے اپنی طرف دیکھتا پا کر جون کو لگا وہ کچھ کر بیٹھے گا ۔ وہ تیز آواز میں چیخ اٹھا ۔

" ہاں لگایا ہاتھ اُس نے لگایا ہاتھ یہاں دیکھو یہاں اُس نے اپنا غلیظ لمس یہاں پر سن رہے ہو تم دیکھو نہ ادھر دیکھو یہاں چھوا ہے اُس نے مجھے ۔۔۔۔۔یہاں  ۔ " جون کے  چیخنے پر سدرہ  نے اپنی گردن پر ہاتھ لگاتے ہوئے اذیت بھرے لہجے میں کہا جون نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی ۔ جب سدرہ نے اُسکی بند انکھوں پر چوٹ کی ۔

جون نے سدرہ کی قمر پر اپنی گرفت سخت کرتے اُسے اپنے سینے کا حصہ بنایا سدرہ کا لرزتا وجود وہ باآسانی محسوس کرسکتا تھا وہ اُسکے سینے سے لگی ہچکیوں سے رو رہی تھی اُسکا پورا بدن لرز رہا تھا۔

سدرہ کے سر پر اپنی تھوڑی ٹکائے وہ لال ہوتی آنکھوں کے ساتھ نہایت تحمل سے اپنے وجود میں اٹھتے اشتعال کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا جو سدرہ کی بات پر ایسے عود آیا تھا کہ ابھی اسی وقت وہ اُس انسان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے جس نے اُسکی بیوی کو چھوا تھا اور وہ یہ کرنے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا لیکن ابھی اُسے صرف اپنی بیوی کو سنبھالنا تھا جو اُسکے سینے سے لگی ٹوٹ بکھر رہی تھی اُسے اج انتہائی بےبسی محسوس ہو رہی تھی اُسکی بیوی کی عزت خطرے میں تھی اور وہ اُسکی حفاظت کے لیے وہاں نہیں تھا۔

" ائی ایم سوری میری جان مجھے معاف کردو میں وہاں نہیں تھا ۔ تمہیں میری ضرورت تھی اور میں تمہارے پاس نہیں تھا مجھے معاف کردو  " ۔ سدرہ کے بالوں پر شدت سے اپنے لب رکھتے جون نے معافی مانگی ۔ اُسے اپنے اوپر انتہاء کا غصّہ آرہا تھا اس وقت ۔ 

نہ جانے کب اُسکے لب سدرہ کے بالوں سے ہوتے ہوئے اُسکی گردن پر آئے جہاں سدرہ نے اشارہ کرتے اُسے بتایا تھا اُس نے وہاں شدت سے اپنے لب رگڑتے اُس نے جیسے سدرہ کے وجود سے وہ لمس ہٹایا تھا اُسکی آنکھیں اس وقت لال تھی رگوں میں شرارے سے دوڑ اٹھے تھے جو سدرہ کے قریب ہونے پر تھوڑے ٹھنڈے ہوئے تھے۔

وہ جو اُسکے سینے سے لگی شدت سے رو دی تھی یکدم اپنی گردن پر جون کے لمس سے ہوش میں ائی وہ اتنی جلدی اُسکے سامنے اپنا آپ ہار نہیں سکتی تھی ۔

سدرہ ایک جھٹکے سے جون سے دور ہوئی ۔ وہ جو اُسکی گردن پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے خود کو پُر سکون کر رہا تھا اچانک سے سدرہ کے دور دھکیلنے پر دو قدم پیچھے ہوا ۔ جون نے سدرہ کو دیکھا جو اب آنکھوں میں نفرت اور غصے لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔

" صحیح کہاں تم نے تم نہیں تھے ۔ تم کہیں نہیں تھے ۔ نہ اج ۔۔۔۔نہ گزرے وقتوں میں ۔۔۔۔تم نہیں تھے پاس اج بھی مجھے تھا کہ شاید تم آجاؤ گے لیکن نہیں اج بھی تم یہاں اپنے اس بوس کے پاس تھے جس نے تمہیں دولت اور شہرت تھی ۔ میرے پاس تو تھے ہی نہیں تم " ۔ اپنے آنسو بیدردی سے صاف کرتے کہا ۔

جون نے آگے بڑھنا چاہا جب سدرہ کے اگلے لفظوں پر وہ وہی اپنی جگہ تھم گیا ۔

" ایک قدم ۔۔۔ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھانا تم جیسے پہلے مجھے میرے حال پر چھوڑ گئے تھے ویسے ہی رہنے دو سب ۔۔۔مجھے عادت ہے سب کچھ خود کرنے کی خود کو سنبھالنے کی اب مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت نہیں ہے جنید کیونکہ جب تھی تب تم باہری دنیا میں گُم تھے  " ۔ سدرہ نے اپنے ہاتھ سے جون کو وہی پر رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا جہاں بےبسی تھی جہاں سدرہ کے لیے محبت تھی ۔ وہ لب بھینچے سدرہ کو دیکھ رہا تھا اُسکی باتیں سن رہا تھا ۔

" تمہیں تایا ابو نے میرا محافظ بنایا تھا ۔ لیکن تم تو مجھے آدھے راستے میں ہی چھوڑ گئے ۔ کیا حفاظت کرو گے تم میری ۔ اس سے اچھا میں اپنے لیے کوئی اور محافظ ڈھونڈ لو ۔ جو مجھ سے محبت بھی کرے جو میری حفاظت بھی کرے مجھے طلا۔۔۔۔سدرہ کی بات ابھی پوری ہوئی ہی نہیں تھی جب جون نے ایک ہی جست میں اُس تک اتے اُسکا جبڑا اپنی سخت گرفت میں دبوچا۔ 

وہ کب سے سدرہ کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ وہ حق پر تھی ۔ لیکن سدرہ کی آخری بات اُسکے خون میں اُبال پیدا کر گئی تھی اُسے اپنے وجود میں چنگاریاں سی بھڑکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ پہلے سے سرخ آنکھیں مزید سرخ ہوئی ۔

سدرہ کے وجود میں سنسنی سی دور گئی مقابل کی سرخ آنکھیں اور چہرے پر بڑھتی سخت گرفت محسوس کرتے ۔

" سب کچھ چپ چاپ سن رہا ہو اُسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم کچھ بھی بولوں گی اور میں سن لونگا ۔۔ میں تمھاری زبان کاٹ کر پھینک دونگا اگر کبھی کسی غیر کا خیال یہ ذکر بھی تم اپنی زبان پر لائ ۔ کیا کہہ رہی تھی کسی اور کو محافظ بناونگی جو تم سے محبت ۔ جانتی ہو تمہارے یہ الفاظ میرے دل پر چابک کی طرح لگے ہیں میرے نکاح میں ہوتے ہوئے تم کسی غیر کی بات کر رہی ہو سدرہ جبکہ اچھی طرح جانتی ہو تمہارے لیے میں کتنا شدت پسند ہو " ۔ جون کا لہجہ انتہاء کا سرد تھا سدرہ کی آنکھوں میں چہرے پر اٹھتے درد سے نمی جمی جبکہ مخالف کے الفاظ اُسکے دل کی دھڑکن کو بڑھا گئے ۔ 

" بلکہ آئندہ تم کسی غیر کا نام لے ہی نہیں سکو گی تمھاری زبان ۔۔دل پر صرف میں ہی حاوی ہونگا ۔۔۔بہت ہوگیا اب ہم اپنے گھر جائے گے اپنی شادی شدہ زندگی شروع کرنے ۔ ٹھیک ہے ڈارلنگ ۔۔۔۔اب ہر ایک پل میں صرف اور صرف تمہارے ساتھ ہونگا  " ۔ جون نے اپنی ایک آنکھ ونک کرتے ہوئے کہا اور سدرہ کے ہوش اڑائے  ۔ سدرہ نے حیرت سے پھیلی آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا ۔

" تم یہ نہیں کرو گے ہیں نہ !!!! " سدرہ نے حیرت سے پوچھا ۔

جون کے چہرے پر مسکراہٹ آ سمائی سدرہ کی بات پر ۔

" میں یہی کرونگا ڈارلنگ چلو اب وقت ضایع نہیں کرو رات ہوگئی گھر جاکر ایک دوسرے میں بھی تو گُم ہونا ہے ایک دوسرے میں سمانا بھی تو ہے میں اب اور انتظار نہیں کرسکتا اج تمہارے پور پور پر اپنا لمس چھوڑتے تمہیں یہ باور کروانا ہے کہ تم میری ہو میری بیوی اور تمہیں مجھ سے رہائی نہیں ملے گی کبھی بھی  ۔ " سدرہ کے چہرے پر جھکتے گھمبیر لہجے میں بے باکی سے کہا ۔ سدرہ کی رنگت جون کی بات پر سرخ ہوئی اُسکے لبوں نے ہلکی سی جنبش کرتے کچھ کہنا چاہا لیکن جون کی ایکسرے کرتی نظریں اپنے وجود پر محسوس کرتے وہ کچھ بول ہی نہ پائی ۔

جون نے سدرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُسے ایک جھٹکے میں اپنے بازؤں میں اٹھایا ۔ سدرہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی ۔

" کیا کر رہے ہو جنید چھوڑو مجھے میں تمھارا خون پی جاؤنگی " ۔ سدرہ اُسکے بازؤں اور گردن پر اپنے ناخن مارتی ہوئی چلائی ۔

" ٹھیک ہے ڈارلنگ تم میرا خون پی لینا میں تمہارے ان رسیلے ہونٹوں کا رس ٹھیک ہے " ۔ جون کی بات پر سدرہ کو اپنے چہرے سے بھاپ ارتی ہوئی محسوس ہوئی جون کی بیباکی پر اُسکے لبوں پر قفل لگ چکا تھا کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی۔لیکن مزاحمت کرنا وہ نہیں بھولی تھی ۔

جون نے ایک نظر اپنے بازوں میں موجود نازک سے وجود کو دیکھا جو اُسکی زندگی تھی اُسکے لب مسکراہٹ میں ڈھلے بہت رہ لیا تھا دور اب وہ اور دور نہیں رہ سکتا تھا سدرہ سے۔ وہ اُسے پاس رکھتے اُسکے ہر شکوہ اور شکایت کو دور رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔

سدرہ کو مضبوطی سے تھامے وہ ہسپتال کے باہر اپنی گاڑی تک ایا گاڑی میں سدرہ کو بٹھاتے اُس نے اُسے قابو کرتے سیٹ بیلٹ باندھی اور تیزی سے اپنی جگہ پر بیٹھتے اُس نے گاڑی لوک کی ۔

سدرہ نے غصے سے جون کو دیکھا اسکے بازوں پر وہ اب بھی اپنے ناخن سے زخم کرنے میں لگی تھی ساتھ ساتھ اُسکی زبان بھی تیزی سے چل رہی تھی لیکن جون سب کچھ نظرانداز کرتے گاڑی چلانے میں مصروف تھا ۔

شاداب اور لیزا اس وقت بیہ کے پاس تھے ۔ اُسکے سرہانے فلک بیٹھی ہوئی تھی جبکہ کامل سامنے رکھے گئے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا چاروں ہی بیہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔

اور کوئی اور بھی تھا جو باہر کھڑا بے صبری سے بیہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ 

بیہ نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولی تو نظر سیدھی ہاسپٹل کی سفید ریلنگ پر گئی ۔

اپنے ہاتھ پر کسی کا ہاتھ محسوس کرتے بیہ نے گردن موڑ کر پاس بیٹھی فلک کو دیکھا جو اُسے ہوش میں اتے دیکھ مسکرا اُٹھی تھی ۔وہاں سے نظر سامنے گئی جہاں لیزا اور شاداب دونوں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے مسکراہٹ کے ساتھ اُسے ہی دیکھ رہے تھے ۔

بیہ نے سامنے صوفہ پر دیکھا جہاں کامل بھی اُسے دیکھ رہا تھا نظروں نے ایک وجود کو ڈھونڈا چاہا جو اُسے کہیں نظر نہیں ایا دل میں چبھن سی اُٹھی ۔

" بیہ " ۔ فلک نے بیہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پُکارا ۔

بیہ نے فلک کی طرف دیکھا ۔

" کیسی طبیعت ہے اب کیسا فیل کر رہی ہو" ۔ فلک نے فکرمندی سے پوچھا۔

" ٹھیک ۔۔ہو بھابھی اب بہت۔۔بہت بہتر محسوس کر رہی ہو " ۔ بیہ نہ آرام سے جواب دیا ۔

کامل اپنی جگہ سے اٹھا اور بیہ تک ایا ۔

" بھائی " ۔ بیہ نے کامل کو اپنے پاس کھڑے دیکھ پُکارا ۔

" بولو گڑیا  " ۔ کامل نے محبت سے پوچھا ۔

" شکریہ آپکا " ۔ بیہ کی آواز نم تھی اُس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیزا جلدی سے اُس تک ائی فلک اور لیزا دونوں نے اُسے بیٹھنے میں مدد دی ۔

" شکریہ کس بات کا " ۔ کامل نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا ۔

" مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے میری حفاظت کرنے کے لیے میرا اتنا خیال رکھنے کے لیے " ۔ بیہ کی کالی سیاہ انکھوں میں نمی چمکی ۔

وہ ابھی ابھی ہوش میں ائی تھی اور ایسی باتیں کر رہی تھی اُسکی صحت کے لیے یہ صحیح نہیں تھا لیکن کسی نے اُسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔

" ایک طرف بھائی بھی بول رہی ہو اور ایک طرف شکریہ ادا کر رہی ہو بھائی کا فرض ہوتا ہے اپنی بہن کی حفاظت کرنا اُسکا خیال رکھنا اور میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے اور کرتا رہو گا" ۔ کامل نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔

بیہ نے کامل کی بات پر اپنا سر جھکایا بیساختہ اُسکا ہاتھ اپنے پیٹ پر گیا اور جھکی آنکھوں سے آنسو نکل کر اُسکے گال پر گرتا گیا۔

سب ہی اُسکی اس حرکت پر سمجھ گئے تھے کہ وہ کیا سوچ رہی ہے شاداب اور لیزا کو فلک سب کچھ بتا چکی تھی ۔ سب اپنے لب بھینچ گئے ۔

" میرا بچہ"  !!!!! ۔  فلک نے ہچکی بھرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا ۔

فلک نے جلدی سے اُسے اپنے سینے سے لگایا کامل نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی وہ فلک کے سینے سے لگی ہچکیوں میں رو رہی تھی لیزا کی آنکھیں بھی اپنی دوست کی حالت پر نم ہوئی۔

" بس کرو میری جان بس کرو جو ہونا تھا ہوگیا شاید رب نے اس میں بہتری رکھی ھو " ۔ فلک نے بیہ کی قمر کو سہلاتے ہوئے تسلی دی۔ وہ بھی تو ایک ماں تھی ذرا سی عروہ کو تکلیف  ہوتی ہے تو وہ تڑپ اٹھتی ہے بیہ نے تو اپنی اولاد کو کھویا تھا ۔

ابھی وہ کچھ کہتی جب روم کا دروازہ کُھلا ۔ شاداب لیزا فلک اور کامل سب نے دروازے کی طرف دیکھا لیکن بیہ اپنا چہرہ مزید فلک کی گردن میں چھپا گئی ۔

کمرے میں پھیلتی خوشبو سے ہی وہ پہچان گئی تھی کہ وہ ستمگر ہی یہاں ایا ہے اُسکی خوشبو تو اُسکے روم روم میں بسی تھی ۔

بکھرے حلیہ میں لال آنکھوں سے وہ اپنی متائے جان کو دیکھ رہا تھا جو اُس سے بلکل ہی چھپی ہوئی تھی صرف اُسکے سیاہ بال ہی وہ دیکھ پا رہا تھا۔

کامل کا چہرہ سخت ہوا ۔ فلک نے کامل کی طرف دیکھا اور پھر لیزا اور شاداب کو باہر جانے کا اشارہ کیا جو فوراً سے باہر نکل گئے تھے فلک نے آرام سے بیہ کے ساکت وجود کو پیچھے کیا بیہ نے فلک سے دور ہوتے ہی اپنی آنکھیں جھکا لی اُس میں ہمت نہیں تھی سامنے کھڑے ستمگر کو دیکھنے کی ۔

فلک کامل کی طرف اتے ہی اُسکا ہاتھ تھامے اُسے لیے باہر نکلتی چلی گئی تھی اور کامل خاموش تھا ۔ فلک چاہتی تھی بیہ اور حسام کچھ دیر آپس میں بات کرے ۔

سب کے کمرے سے چلے جانے پر بیہ کا دل تیزی سے دھڑکا آنسو تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔حسام نے دروازہ بند کیا ۔بیہ کا دل سکڑ سا گیا۔ 

حسام نے وارفتگی سے اپنی زندگی کو دیکھا جو اپنا چہرہ جھکائے رو رہی تھی اُسکی سیاہ آنکھیں جس میں اُسکی جان بسی تھی وہ جھکی ہوئی تھی۔

اُسے ہوش میں صحیح سلامت اپنے سامنے دیکھتے حسام کے دل کو جو سکون ملا تھا وہ نا قابل بیان تھا ۔ 

" بیہ " ۔ حسام نے نرم آواز میں دو قدم کی دوری پر رکتے بیہ کو پُکارا۔ 

جو اُسکے پکارنے پر اپنی نظریں اٹھا کر اُسکی طرف دیکھنے لگی ۔

سامنے کھڑے اپنے ہرجائی کو دیکھتے بیہ کا روم روم تڑپ اٹھا ایسا تو نہ تھا وہ ۔۔۔وہ تو ایک شاندار مرد تھا جو اپنی ہر ایک چیز کا خیال رکھتا تھا ایسے سوگوار حلیہ میں تو اُس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اُسے ۔

' بیہ " ۔ حسام نے پھر سے بیہ کو پُکارا اور بیہ اپنا رخ موڑ گئی ۔۔

حسام کے چہرے پر بیہ کے منہ موڑنے پر ایک تلخ مسکراہٹ اُبھری یہ تکلیف دہ تھا ہاں محبوب کا منہ موڑ لینا تکلیف دہ ہوتا ہے بہت تکلیف دہ۔

" کیسی ہو ؟ " حسام کے گلے میں گلٹی اُبھری آنسوؤں کا گولا نگلتے اُس نے بیہ سے پوچھا ۔

بیہ نے اپنا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے اپنی ہچکی روکی حسام کے یوں پوچھنے پر اُسکا دل کیا اُسکے سینے میں سما جائے اور بولے نہیں ہو میں ٹھیک ۔

" چلے جائے حسام یہاں سے آپ پلیز " ۔ بیہ نے اپنی ہچکی روکتے ہوئے رخ موڑے ہی کہا ۔

حسام کا وجود چھلنی چھلنی ہوا بیہ کے اس طرح کہنے پر ۔

" نہیں جا سکتا مجبور ہو تم سے دور نہیں جا سکتا ۔ تم سے دور جانے کے لیے نہ دل راضی ۔۔نہ دماغ راضی ۔۔۔ نہ قدم راضی ہے بیہ " ۔ حسام نے شدت سے کہا اور بیہ کا دل تڑپ اٹھا ستمگر کے ان لفظوں پر ۔

" پہلے بھی تو گئے تھے چھوڑ گئے تھے نہ مجھے کسی اور کو اپنی۔۔۔اپنی۔۔مہ۔۔محبت سمجھتے " ۔ بیہ کی زبان سے یہ لفظ ادا ہونے سے انکاری ہوئے تھے جیسے یہ کہتے ہوئے اُسکی روح تک زخمی ہوئی ہو ۔ 

حسام نے تکلیف سے اپنی آنکھیں بند کی ۔

" جسے محبت سمجھا وہ ایک دھوکا تھا جو عشق تھا اُسے اپنے قریب رکھتے ہوئے بھی تکلیف دی معلوم تو تب ہوا جب تم مجھ سے دور ہوئی تب جاکر معلوم ہوا یارا میرا پیار ۔۔۔میری محبت ۔۔۔میرا عشق۔۔۔میری دیوانگی ۔۔۔میرا جنون۔۔۔میری شدت ۔۔۔میری کمزوری ۔۔۔میری طاقت ۔۔۔سب تم ہی تو ہو جسے میں تکلیف دیتا رہا  جس کی محبت کو میں جھٹلاتا رہا " ۔ حسام کی آواز بھیگی ہوئی تھی ۔ بیہ کی سیاہ آنکھوں سے بھل بھل آنسو نکلتے گئے ۔

یہ الفاظ نہیں تھے یہ آب حیات تھا اُسکے لیے اس شخص کے منہ سے محبت کا اطراف اُسکے پورے وجود میں زندگی بھرنے کے لیے کافی تھا لیکن اسی وجود نے جو اُسے تکلیف دی تھی وہ بھولنے کے قابل نہیں تھی۔

" میری محبت کو اپ جھٹلاتے رہے میں نے افف نہیں کیا ۔۔۔مجھے اذیت دی میں نے افف نہیں کہا ۔۔۔۔آپکی بے اعتنائی  پر میں نے افف نہیں کہا ۔۔۔لیکن آپ اچھی طرح جانتے تھے حسام ۔۔اچھی طرح آپکی بیہ اندر ہی اندر مر رہی ہے ۔۔۔آپ نے کہا آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے لیکن میں پاگل سمجھ بیٹھی کہ آپ جھوٹے ہے خود سے جھوٹ کہہ رہے ہیں آپکی انکھوں میں میرے لیے محبت ہے آپکے دل میں میرا نام چھپا ہے آپکی محبت میں ہو ۔۔۔بیہ نے رخ موڑے ہی اذیت سے کہا حسام بت بنا اُسکی باتیں سنتا گیا۔

" لیکن ۔۔۔میرا یہ بھرم تو تب ٹوٹا ۔۔جب ۔۔آپ اُسے لے آئے اُس نیلی انکھوں والی لڑکی کو ۔۔۔آپ نے میرے سامنے اُسے اپنی محبت کہا اُس سے پیار سے بات کی ۔۔۔اور یہ سب دیکھتے سنتے جو بیہ میں تھوڑی بہت زندگی بچی تھی وہ بھی ختم ہوئی حسام وہ بھی ختم ۔۔۔میں نے پھر بھی آپکو روکنے کی کوشش کی لیکن آپ نہیں رکی ۔۔۔پھر مجھے پتہ چلا میری کوک میں آپکی نشانی ہے ہمارا بچا حسام ۔" بیہ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا اور حسام کو لگا اُسکے پیروں سے جان نکل رہی ہو ایک یہی بات تو اُسکی ساری ہمت ختم کر دیتی تھی۔۔

" ہمارا بچا ۔۔۔آپکا اور میرا ۔۔جب میں نے آپکو اس کے بارے میں بتایا آپ تھم گئے رک گئے تھے اُس وقت مجھے راحت ملی مجھے بھروسہ تھا میرا حسام چاہے کتنا بھی ظالم کیوں نہ بن جائے اپنے بچے پر ایک انچ نہیں انے دے گا ۔۔اور وہی کیا آپ نے پہلی بار جس چیز کے لیے میں نے  آپ پر بھروسہ کیا آپ نے وہ بھروسہ نہیں توڑا ۔۔۔لیکن پھر آپکی انا آپکا غصّہ آپکا تکبر اس نے سب ختم کر دیا ۔۔۔" بیہ نے کہتے حسام کی طرف دیکھا جس کا چہرہ جھکا ہوا تھا ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہ اپنے اوپر ضبط کر رہا تھا اُسکی گردن کی نیلی رگیں صاف واضح تھی ہاتھوں اور ماتھے کی رگیں بھی پھولی ہوئی اُسکے ضبط کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔

" ہماری کہانی تو ختم تھی نہ بقول آپ کے آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے تھے ۔۔لیکن میں شجیہ کی کہانی نہیں ختم ہونے دے سکتی تھی آپکے سر ایک اور گناہ نہیں ڈالنا چاہتی تھی نہیں چاہتی تھی آپ دو پیار کرنے والوں کو الگ کرنے کا سبب بنے اسی لیے میں نے اپنی جان اور اپنے بچے کی جان خطرے میں ڈالی ۔۔آپکو تھمتے دیکھ جو راحت مجھے ملی تھی وہ راحت صرف چند پل کی تھی حسام صرف چند پل کی آپکو شجیہ کے شوہر پر گن تانتے دیکھ ختم ہو گئی تھی ۔ میں نے اپنا بچا کھو دیا حسام ہمارا بچا کھو دیا آپکے منہ سے وہ لفظ میں نے سنے تھے ۔۔۔حسام جب آپ نے مجھ سے اپنی محبت کا اطراف کیا تھا لیکن کیا فائدہ ایسی محبت کا حسام جو میرے دور جانے کے بعد آپکو یاد ائی۔۔بیہ نے حسام سے سوال کیا۔

 " میں جانتا ہوں میری معافی تمہارے کسی زخم کو مندمل نہیں کر سکتی بیہ لیکن پلیز مجھے معاف کردو میں گنہگار ہو تمہارا سزا دینی ہے دے دو لیکن خود سے دور نہیں کرو ۔ میں معافی مانگتا ہو تم سے " ۔ حسام نے سر جھکائے ہی بیہ سے کہا اُسکی آواز میں ایسی بےبسی شامل تھی جو کسی کا بھی دل چیڑ دیتی ۔۔

" میری محبت کی تذلیل پر میں نے آپکو معاف کیا ۔۔مجھے اذیت دینے پر میں نے آپکو معاف کیا ۔۔۔آپکی بیوفائی کے لیے میں نے آپکو معاف کیا حسام ۔۔۔میرے بچے کے خون کو معاف کیا میں نے حسام میں نے آپکو معاف کیا۔ " بیہ نے روتی آواز میں کہا اُسکی آواز اونچی تھی جو باہر کھڑے کامل اور فلک تک باآسانی پہنچ رہی تھی۔

حسام نے بيقينی سے بیہ کی طرف دیکھا ۔ اُسکی  بات پر اُسے یقین نہ ایا وہ اتنی جلدی اُسے معاف کردے گی ۔۔۔لیکن بیہ کی اگلی بات پر اُسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ۔

" لیکن میں آپکے ساتھ نہیں رہو گی حسام آپکو معاف کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے آپکو اپنی محبت سے بھی آزاد کیا بیہ کی محبت حسام کے لیے ختم ۔۔۔بیہ اور حسام کی کہانی اب ختم " ۔ بیہ کے کہنے پر حسام کو اپنے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے ۔اسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گا اُسکی دل کی دھڑکن یکدم تھمی ۔ 

" نہیں تم ایسا نہیں کہہ سکتی ۔۔ایسے کیسے تم مجھے اپنی محبت سے آزاد کر سکتی ہو آسان ہے کیا ایسا کرنا ایسا ہو ہی نہیں سکتا بیہ اور حسام کی کہانی ایسے ختم ہو ہی نہیں سکتی ۔۔مجھے ڈرا رہی ہو نہ تمہیں اچھا لگ رہا ہے نہ میں رو رہا ہوں ۔۔ایسا کیسے یارا ۔۔کیسے نہیں ۔۔ایسا۔۔۔نہیں ہے ۔۔۔ایسے کیسے نہیں ۔۔" بیہ کو حسام اپنے حواسوں میں نہیں لگا وہ حیرت اور برستی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی جو نفی میں سر ہلاتا بے ربط جملہ ادا کر ربا تھا ۔ 

" ظالم بن گئی ہو یارا تُم بہت ظالم " ۔ حسام نے اذیت سے ہنستے ہوئے بیہ کی لال سیاہ انکھوں میں دیکھتے کہا۔

" ایک وقت تھا جب آپ سنگ دل بن گئے تھے آپ ظالم تھے اج میں سنگ دل ہو میں ظالم ہو حسام " ۔ بیہ نے مضبوطی سے کہا ۔ 

" چلے جائے یہاں سے آپکا کیا بھروسہ اج مجھے اپنی محبت کہہ رہے ہیں کل کوئی اور حسین لڑکی دیکھے گے تو اُسے اپنا عشق کہہ گے " ۔ بیہ نے تلخئ سے کہا۔حسام نے بھیگی لال آنکھوں سے بیہ کی طرف دیکھا۔

" کیا تمہیں میری آنکھوں میں اپنے لیے محبت تڑپ نظر نہیں آرہی دیکھو مجھے غور سے دیکھو کیا سے کیا ہوگیا ہو میں یارا تم ہی تھی نہ جو میرے چہرے پر ذرا سی پریشانی دیکھتے پریشان ہوجایا کرتی تھی تم ہی تھی نہ جو مجھے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی " ۔ حسام نے کرب زدہ آواز میں بیہ سے پوچھا۔

بیہ نے اپنے اوپر ضبط کیا حسام کی باتیں اُسکا دل چیڑ رہی تھی لیکن اُسے مضبوط بننا تھا ۔

" پہلے والی بیہ میں اور ابکی بیہ میں فرق ہے حسام بہت فرق ۔۔اور نہیں بھروسہ مجھے آپکی انکھوں میں نظر آتی اپنی محبت پر نہیں ہے بھروسہ حسام نہ جانے کب یہ محبت بدل جائے اج میرے لیے آپکی انکھوں میں اُبھری ہے کل کو کسی اور کے لیے نہ اُبھر جائے " ۔ بیہ نے تکلیف دہ آواز میں کہا۔

" یارا ایسے میری محبت کا مذاق نہیں بناؤ ۔۔میری محبت میرا عشق سب کچھ اب تُم ہو تمہارے علاوہ نہ یہ آنکھیں اب کسی کو دیکھنے کی خواہش مند ہے اور نہ یہ دل کسی اور کے لیے دھڑکنے کی ہمت رکھتا ہے " ۔حسام نے کہتے اپنے قدم بیہ کی طرف بڑھائے۔ 

بیہ اپنی سانس روکے حسام کے قدموں کو دیکھ رہی تھی ۔حسام بیہ کے قریب ایا ۔بیہ کے قریب اتے اسکے چہرے پر جھکتے اُس نے شدت سے اپنے لب بیہ کے ماتھے پر رکھے بیہ اس لمس پر اپنی آنکھیں بند کر گئی یہ لمس اُسکے لیے سکون کا باعث تھا وہ حسام کو روک ہی نہ پائی  بیہ کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا ۔۔حسام نے اپنے تڑپتے دل کی آواز سنتے بیہ کے گالوں پر اپنے لب رکھے اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ 

بیہ بےبسی سے رو دی وہ اس انسان کو اپنے قریب انے سے نہیں روک سکتی تھی مجبور تھی اسک دل ہمک ہمک کر حسام کی قربت چاہتا تھا ۔

" غلط کہہ رہی ہو جانا کہ بیہ بدل گئی ہے بیہ اج بھی وہ انابیہ ہے جو حسام سے محبت کرتی ہے اُسکے لمس سے محبت کرتی ہے ۔۔ٹھیک ہے مت کرو بھروسہ میں ہمت نہیں ہارونگا تمہیں اپنی محبت پر یقین دلا کر ہی رہو گا " ۔ حسام نے بیہ کے چہرے پر جھکے  اُسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور   دور ہوتے ایک بھرپور نظر بیہ کے وجود پر ڈالتے وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ 

حسام کے جاتے ہی بیہ نے بیدردی سے اپنے آنسو صاف کیے صحیح تو کہہ گیا تھا وہ انسان بیہ کی کمزوری تھا۔

" نہیں اتنی جلدی نہیں تھوڑی سزا آپکو بھی ملنی چایئے اتنی جلدی موم نہیں ہونگی میں " ۔ بیہ نے خود سے کہا ۔

حسام۔جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا سامنے ہی اُسے فلک کامل نظر آئے جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہے تھے سب کو نظرانداز کرتا وہ ہاسپٹل سے باہر نکلتا چلا گیا اب اُسے بیہ کو اپنی محبت پر یقین دلانا تھا اور اسکے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔

کامل جلدی سے بیہ کے کمرے میں داخل ہوا پیچھے فلک بھی جلدی سے ائی ۔لیزا نے ایک نظر شاداب کو دیکھا اور اُسے تیز نظروں سے دیکھتی وہ بھی اندر داخل ہوئی ۔

" بھائی گھر چلے " ۔ کامل کو اندر اتے دیکھ بیہ نے کامل سے کہا ۔

کامل نے اثبات میں سر ہلایا اور شاداب کو لیے بیہ کے ڈسچارج پیپر بنوانے کے لیے نکل گیا۔

فلک نے بیہ کا چہرہ دیکھا جو بھیگا ہوا تھا ابھی بیہ سے وہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھ رہی تھی ابھی ابھی تو اُسکی طبیعت ٹھیک ہوئی تھی ۔۔۔

******* ******* ******* ******** ******* ******** *****

اندھیرے کمرے میں ریولوونگ چیئر پر بیٹھا وہ انسان سامنے دیوار پر لگی تصاویر کو دیکھ رہا تھا چہرے پر ایک کالا ماسک تھا جس سے اُسکا پورا منہ کور تھا کالے ڈریس میں صرف اُسکے سانولے ہاتھ واضح تھے۔۔۔

یکدم وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور اُس دیوار کی طرف گیا ۔

" کہانی تم سے شروع ہوئی ہے لیکن ختم ان سب کی موت سے ہوگی سب ہی عزیز ہے تمہیں  " ۔ خاموش کمرے میں اُس شخص کی آواز گونجی  ۔

دیوار پر لگی کامل خان کی تصویر کو اُس نے حقارت سے دیکھا۔

" ویسے ماننا پڑے گا تم سب کی بیویاں بڑی پیاری ہے ایک نیلی آنکھوں والی واللہ ۔۔۔ایک سیاہ انکھوں والی جادوگرنی ۔۔۔ایک بھورے بالوں والی گڑیا ہے تو ایک بھوری انکھوں والی ۔ " باری باری شجیہ ، انابیہ ، فلک ، اور سدرہ کی تصویر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُس انسان نے خباثت سے کہا تصویر پر ہاتھ رکھنے سے اُسکے سیدھے ہاتھ پر موجود وہ جلنے کا نشان واضح ہوا ۔

اس دیوار پر کامل ، خضر ، حسام ، جون ، فلک ، شجیہ ، عروہ ، عزیر ، انابیہ اور سدرہ کی تصویریں چیسپا تھی جس میں سے اُس نے اب عروہ کی تصویر پر لال مارکر سے کروس کا نشان لگایا تھا ۔

شجیہ کو اج یہاں پر دوسرا دن تھا اور اج وہ یہاں پر ہو رہے اقدام کو دیکھتے سمجھ گئی تھی کہ اج کے دن ہی یہاں سے لڑکیاں کوٹھے پر جانی ہے ۔

کالے رنگ کے لباس میں بالوں کی ڈھیلی سی چھٹیاں باندھے وہ کمرے میں ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی جب کمرے میں ماہی ائی ۔

" چلو اٹھو تیار ہو جائے میڈم نے کہا دوسری برانچ میں شفٹ ہونا ہے جلدی سے آجاؤ گاڑی تیار ہے "۔ ماہی کہتی باہر نکلی ۔

شجیہ سمجھ گئی تھی وقت اگیا ہے جانے کیوں اُسے پھر خضر کا خیال آیا ۔ خضر کیا ردعمل دے گا جب اُسے پتہ چلے گا شجیہ گاؤں میں نہیں یہاں ہے ۔ خضر کے ردِعمل کو سوچتے اسکا دل تیز دھڑکنا شروع کر دیتا تھا۔

شجیہ نے دوپٹہ سر پر اوڑھتے اپنی چادر اپنے وجود پر اوڑھی اور کمرے سے باہر نکلی ۔شجیہ کمرے سے باہر نکلتے نیچے ائی تو وہاں ایک وین تیار تھی جہاں پہلے سے ہی تقریباً چھ لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھی ۔ شجیہ بھی اپنے بیگ کے ساتھ وین میں سوار ہوگئی ۔ شجیہ نے ونڈو  سے باہر اُس عورت کو دیکھا جو اُسکی طرف دیکھتے مکرو سا مسکرا گئی تھی ۔ اُس عورت نے ان کے عوض اچھی خاصی رقم لی تھی اور یہ سوچتے شجیہ نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچی  ۔

وین راستوں سے ہوتے ہوئے ایک علاقے میں داخل ہوئی جہاں بنے گھر دیکھتے کوئی بھی اس جگہ کو شریفوں کے رہنے والی جگہ سمجھتا یہ جانے بغیر یہاں ایک جنہم ہے جہاں ہر روز نہ جانے کتنے گناہ ہوتے ہے ہر روز نہ جانے کتنی  عزتیں نیلام ہوتی تھی۔

یکدم گاڑی ایک عالیشان گھر کے باہر رکی جہاں باہر لا تعداد گاڑیاں کھڑی تھی ۔ جو یہاں شرافت کا چولا پہن کر انے والوں کی سواریاں تھی ۔ شجیہ اپنی گردن میں پہنے اس لاکٹ کے اندر چھپے منی کیمرے سے سب کچھ ریکارڈ کر رہی تھی اُسکی ٹیم بھی بلکل تیار تھی اُسکے ایک اشارے پر یہاں پولیس فورس نے اجانا تھا۔

تمام لڑکیوں کو گھر کے اندر لایا گیا تھا شجیہ چاروں طرف اپنی نظریں گھمائے ہر چیز کا جائزہ لے رہی تھی جب اُسکی نظر سامنے اٹھی جہاں ایک لال ساڑھی پہنے بالوں کا اونچا جوڑا بنائے بیوی میکپ میں لدی عورت ایکسرے کرتی نِگاہوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔

شجیہ کو اس عورت کی نظروں سے گھن سی ائی جو اب اُسکی طرف بڑھ گئی ہے ۔ اس گھر کے اندر کے مناظر انتہائی واحیات تھے تیز خوشبو اور اونچے گانوں کی آواز جو پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔ جگہ جگہ گھنگھرو کی آوازیں اور ڈھول بجتے اُن سب کے وجود میں خوف بھر گئے تھے ۔ 

" اس بار تو بڑا اچھا مال بھیجا ہے نازیہ نے بوس تو خوش ہوجائے گا اس نیلی انکھوں والی حسینہ کو سامنے دیکھتے " ۔ شجیہ کے قریب اتے اُس نے شجیہ کے چہرے کو چھوتے ہوئے خباثت سے کہا ۔

شجیہ نے جان بوجھ کر حیرت اور ڈرنے کے تاثرات اپنے چہرے پر سجائے اُس نے ایک نظر اپنے ساتھ ائی لڑکیوں کو دیکھا جن کے چہرے خوف سے سفید پر چکے تھے اور پڑتے بھی کیوں نہ وہ تو یہ سمجھی تھی کہ اُنھیں ایک محفوظ مقام سے دوسرے محفوظ مقام تک لایا گیا ہے لیکن یہاں تو اُنکی عزت کو ہی خطرہ تھا ۔

" یہ کیا بول رہی ہے آپ ہم تو فاؤنڈیشن سے یہاں آئے ہیں " ۔  شجیہ نے بائی کا ہاتھ اپنے چہرے سے جھٹکتے ہوئے پوچھا۔

" سیدھی سی بات ہے اب تک تو تمہارے سمجھ اجانی چائیے تھی لڑکی کوئی فاؤنڈیشن نہیں ہے بیچ چکے تم سب کو اب یہاں سے کینیڈا کی تیاری کرو جہاں بوس تمھارے ساتھ کیا کرنا ہے اسکا فیصلہ کرے گا " ۔ بائی نے اپنی ساڑھی کا پلو صحیح کرتے ہوئے کہا۔

سب لڑکیاں رو پڑی اس بات پر آس پاس نہ جانے کتنے مرد تھے اور کتنی نازیبا لباس میں عورتیں تھی جو اُن سب کو اوپر سے نیچے تک غلیظ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ شجیہ اپنی مٹھیاں بھینچے خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی اُسکا دل تو کیا تھا ابھی اس عورت کی شکل کا نقشہ بدل دے جو اب تک لاکھوں زندگیاں برباد کر چکی تھی۔

" ہم کہیں نہیں جائے گے ہمیں واپس جانا ہے چھوڑو ہمیں " ۔ اُن میں موجود ایک لڑکی چیخی ۔

جب بائی نے اتے اُسے بالوں سے پکڑ کر تھپڑ اُسکے مُںہ پر دے مارا ۔ شجیہ نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی ۔

" یہ زبان صرف مردوں کولجھانے کے لیے استعمال ہونی چائیے اج کے بعد سے ۔ اگر کچھ ایسا بولا جو میرے دھندے پر گراں گزرا تو تیری چمری اُدھیڑ دونگی ائی سمجھ " ۔ حقارت سے کہتے بائی نے اُس لڑکی کو چھوڑا جو زمین پر گرتے گرتے بچی ۔ اُس لڑکی کی حالت دیکھتے باقی سب لڑکیاں بےبسی سے رو دی۔

" یہ تو اچھی بات نہیں بائی تم اُس بوس کی وجہ سے اپنے ریگولر کسٹمر کو نظرانداز نہیں کر سکتی یہ حسین نيلی انکھوں والی حسینہ کو۔اج میرے لیے چھوڑ دو اور منہ مانگی قیمت لے لو " ۔ وہاں کھڑے ایک ادمی نے شجیہ کے وجود کو گندی نظروں سے دیکھتے بائی سے کہا ۔ شجیہ کے پورے وجود میں ایک آگ سی دہک اٹھی یہ سب سنتے ۔ اُسے اپنا پورا وجود زمین میں دھستا ہوا محسوس ہوا۔  جب بائی کے اگلے لفظوں پر اُسے حیرت ہوئی ۔

" نہیں اس پر نظر مت ڈالنا یہ صرف لیپرڈ کی ہے اور اسے اُسکے پاس ہی جانا ہے اس نیلی انکھوں والی لڑکی کو بنا دیکھے ہی وہ یہ حکم دے چکا ہے کہ یہ اُسکی ہے اسے کوئی اور ہاتھ نہ لگائے " ۔ بائی کے لفظ تھے اور شجیہ کا ان لفظوں پر سن ہوتا وجود ۔  

لیپرڈ تو ختم تھا یہ کون تھا بائی کیا بول رہی تھی اُسے سمجھ نہ آیا لیکن  ہاں ان  لفظوں پر اُسکا دل خوف سے ضرور دھڑکا تھا ۔

" ایسا بھی کیا ہے اُس لیپرڈ میں جو تم اُسکا ہر حکم مان جاتی ہو " ۔ وہ ادمی شاید نشے میں تھا اس لیے غصے سے چیختے ہوئے بولا ۔ شجیہ پر اُسکی نیت خراب ہوگئی تھی ۔

" وہ لیپرڈ ہے اُسکی بدولت میں اتنے پیسے کما رہی ہو وہ کچھ ہی پل میں مجھ سمیت یہاں موجود ہر چیزوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر اُسکی حکم عدولی ہوئی۔  اُسے صرف یہ بتایا کہ نیلی انکھوں والی ایک لڑکی ہے اور اس نے یہ حکم۔دے دیا اگر اُسکے حکم کے خلاف گئی تو میری موت کے ساتھ ساتھ اس کو ہاتھ لگانے والے کی بھی موت پکی ہے " ۔ بائی نے کہتے ایک لڑکی کو اشارہ کیا جو اُن سب کو زبرستی ایک طرف لے گئی لڑکیاں روتی گرگراتی رہی لیکن وہاں انکی آہو بقا سننے والا کوئی تھا ہی نہیں ۔ اور شجیہ اُسکا پورا وجود سن ہوگیا تھا ۔

" جا شبانا اس کو آرام دہ کمرے میں لے جا " ۔ بائی کے حکم پر ایک لڑکی شجیہ کا بازو تھامے اُسے ایک کمرے کی طرف لے گئی ۔ 

*************  *************  ***************  **************  ************  ******

شجیہ کمرے میں بیٹھی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے سوچوں میں اُلجھی ہوئی تھی ۔

" لیپرڈ حسام تھا اور حسام تو جیل میں جانے کے بعد بدل گیا اُس نے سب چھوڑ دیا اب یہ سب کیا ہے ۔ یہ اللہ میرے کچھ سمجھ نہیں آرہا یہ سب کیا ہے ۔ کہیں میں نے یہاں آکر غلطی تو نہیں کردی خضر ۔۔۔۔خضر کیا کرے گے جب اُنھیں پتہ چلے گا " ۔  شجیہ بڑبڑائی اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا یہ سب ہو کیا رہا ہے اُس نے تو سوچا تھا یہاں اتے ہی اپنی ٹیم کو یہاں بلوا لے گی  لیکن یہاں اتے لیپرڈ کا  نام سنتے اب وہ پریشان ہوگئی تھی ۔

کچھ تو گڑبڑ تھی ایک پورا سسٹم چل رہا تھا ۔  یہ سب لیپرڈ کروا رہا تھا پاکستان سے لڑکیاں پھر سے اسمگل ہو رہی تھی اور پھر سے لیپرڈ کا نام لیا جا رہا تھا وہ اپنے گھنٹوں میں منہ چھپائے ایک طرف کونے میں سکڑ کر بیٹھ گئی ۔ شدت سے خضر کی یاد ائی ۔ چاہے جتنی بھی بہادر وہ تھی لیکن اب اُسے اپنی عزت کو کھونے کا خوف سکون نہیں لینے دے رہا تھا ۔ 

شجیہ نے اپنے لاکٹ میں لگے کیمرے کا رخ اپنی طرف کرتے یہاں فوراً سے فورس کو بھیجنے کا حکم دیا جو کچھ بھی تھا وہ پہلے یہاں سے سب لڑکیوں کو با حِفاظت نکالنا چاہتی تھی اُسکے بعد ہی آگے کا کوئی کلو اُنکے ہاتھ آسکتا تھا ابھی صرف اسے یہ پتہ تھا یہاں سے لڑکیاں کینیڈا جانی ہے  یہ بہت زیادہ اُلجھی ہوئی گٹھی تھی جسے سلجھانا بہت ضروری تھا۔

************  *************  ************  ***********  ************  ************

خضر ابھی اپنے آفس سے نکالتے پولیس ٹیشن آیا تھا ۔ اُسے پتہ تھا اج سٹرنگ آپریشن رکھا گیا ہے جس میں پولیس کی مدد سے ایک لڑکی اُس دارلامان میں بھیجی گئی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا وہ لڑکی شجیہ ہی ہے وہ پُر سکون تھا کہ شجیہ حویلی میں ہے وہ جانتا تھا شجیہ کبھی اُسکی کوئی بات نہیں ٹالے گی ۔

وہ ابھی پولیس سیشن میں بنے ایک کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں تین سے چار آفسیر لیپ ٹاپ پر کچھ دیکھنے میں مصروف تھے ۔ خضر کے انے پر سب نے اُسے کھڑے ہوتے سلیوٹ کیا ۔

خضر نے اثبات میں سر ہلایا اور اُن تک آیا لیکن لیپ ٹاپ پر نظر آتا شجیہ کا چہرے دیکھتے اُسکا سکون غرق ہوا ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔ پورے وجود میں تعیش اُبھرا اپنی آنکھیں بند کرتے اُس نے نفی میں سر ہلاتے اپنے آپ پر ضبط کرنا چاہا ۔ وہ اُسکی بات ٹال گئی تھی اُسکے منع کرنے کے باوجود وہ اس آپریشن میں شامل  ہوئی تھی ۔اور وہ بھی کتنا بیوقوف تھا جو اس کی بات پر یقین کرتے کہ وہ حویلی میں ہے اُس نے ایک بار بھی تصدیق نہیں کی ۔ مقابل نے اسکے اندھے اعتبار کا فائدہ اٹھایا تھا ۔ 

خضر کی بھوری آنکھیں پل میں لال ہوئی تھی اُس نے لیپ ٹاپ پر اپنی نظریں مرکوز کی ۔ جہاں شجیہ فورس کو وہاں انے کا آرڈر دے رہی تھی ۔

" پچھلی ریکارڈنگ دکھاؤ " ۔ خضر کی سرد آواز سنتے جلدی سے آفیسر نے پچھلی ریکارڈنگ آن کی ۔ اور وہ سب سنتے خضر کا دل کیا سب کچھ تحس نحس کردے اُس ادمی کے غلیظ لفظ اُسکے کانوں میں ہتھوڑوں کی طرح لگے تھے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے اُس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی ہوئی ۔ اُسکی بیوی غلیظ مردوں کی غلیظ نظروں کے بیچ کھڑی تھی یہ بات خضر شجاعت چوہدری کا تن من دہکتے لاوے میں جھونک گئی تھی ۔ 

بائی کی آخری لیپرڈ والی بات پر خضر کو بھی انتہا کی حیرت ہوئی ۔ لیپرڈ کا نام سنتے اُسے یقین نہ آیا لیکن ابھی ان سب چیزوں کا وقت نہیں تھا اُسے شجیہ کے پاس جانا تھا اپنی بیوی کو اُس پلیٹ جگہ سے نکالنا تھا اُسے اپنے پاس لانا تھا اُسکے پورے وجود میں غصے کے بھانپر جل رہے تھے وہ شجیہ کی اس حرکت پر اُسے معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔ 

" فورس تیار کرو صرف دو سیکنڈ ہے ہمیں وہاں جلدی پہنچنا ہے " ۔ اپنے ایک ہاتھ سے گن لوڈ کرتے خضر نے سرد آواز میں کہا اور تیز قدموں سے باہر کی طرف بڑھا پیچھے پولیس بھی اُسکی تقلید میں تیزی سے نکلی ۔ 

***********  *********  ************  ************  *************  **********  ****

فلک نے بھیگی نِگاہوں سے کامل کی پشت کو دیکھا جو بیہ کو اُسکے کمرے میں چھوڑتے فلک کو نظرانداز کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

فلک نے ایک نظر بیہ کو دیکھا جو اپنی آنکھیں موندے لیتی ہوئی تھی لیزا تو اتے ساتھ ہی عروہ کے پاس چلی گئی تھی کیونکہ وہ اکیلی تھی ۔ شاداب بھی باہر ہی تھا ۔

وہ چاہتی تو کامل کے پاس جا سکتی تھی لیکن ابھی بیہ کو اُسکی ضرورت تھی ابھی وہ دوائی اور کمزوری کی وجہ سے غنودگی میں تھی اور اُسکا غنودگی میں رہنا ہی بہتر تھا ۔ 

فلک نے بیہ کے ماتھے پر آئے بالوں کو پیچھے کرتے اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے ۔ صرف کامل کے لیے ہی نہیں فلک کے لیے بھی بیہ بہنوں جیسی تھی اُسے بیہ عزیز تھی ۔ بیہ کے پاس بیڈ پر ہی وہ ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔ بیہ کو بہت مشکلوں سے ہاسپٹل سے ڈسچارج کیا گیا تھا ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ آپ اپنی ذمےداری پر اُنہیں گھر لے جا رہے ہیں اسی لیے فلک کو اب بیہ کی اور فکر ہوگئی تھی ۔ 

***********  ***********  *************  *************

شاداب اپنے کوٹ کو اپنے ہاتھ میں تھامے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا اج کا دِن بہت تھکا دینے والا تھا اُنہیں گھر ائے ہوئے ابھی ایک گھنٹہ ہوگیا تھا اور وہ پچھلے ایک گھنٹے سے لون میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا  اُسکی یہی ایک گندی عادت تھی جو کامل سے چھپی ہوئی تھی وہ جب بھی تھکا ہوا ہوتا یہ پریشان ہوتا تو سگریٹ لازمی پیتا تھا  ۔ اپنی گردن رب کرتے وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب عروہ کے کمرے سے اتی آواز پر اُسکے قدم تھمے ۔

" جونی جونی  " ۔ کمرے سے اتی لیزا کی آواز پر شاداب نے اپنی آبرو اچکائی ۔

" ہاں جی " ۔ اب کی بار عروہ کی آواز کمرے میں گونجی ۔

" تو نے پی ہے  " ۔ لیزا کے اگلے لفظوں پر شاداب نے بے یقین ہوتے دروازہ دھیرے سے کھول کر اندر جھانکا۔  

" نہ جی " ۔ عروہ کی آواز گونجی اور شاداب کے ماتھے پر بلو کا جال بچھا یہ کوئی پوئم تو نہیں تھی جو وہ دونوں آرام سے بیڈ پر بیٹھے گا رہی تھی ۔ 

" منہ کو کھولو " ۔ لیزا نے اب تیز نظروں سے عروہ کو دیکھتے اپنی انگلی سے اُسکی طرف اشارہ کرتے پوچھا۔

" ہواں جی " ۔ عروہ نے اپنی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ 

" جھوٹ  بولیاں " !!!!!۔ لیزا نے تیز نظروں سے اُسکی طرف دیکھتے کہا ۔ 

" ناں جی " ۔ عروہ کہتی کھلکھلا کر ہنس دی لیزا بھی اُسکے ساتھ ہنس گئی اور دونوں نے پاس پڑے گلاس اٹھا کر منہ سے لگائے ۔۔۔

یہ سب دیکھتے شاداب کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ ایا کیا وہ دونوں شراب پی رہی تھی۔ وہ حیرت میں ڈوبے اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا اور یہ پوئم سن رہا تھا جو اُسکے لحاظ سے پوئم ہی تھی لیکن اس پوئم میں پینا پلانا کہاں سے ایا تھا وہ نہیں جانتا تھا اس سے پہلے وہ دونوں اُس گلاس میں موجود ڈرنک کا گھوٹ لیتی شاداب چیخ اٹھا۔

" رک جاؤ دونوں خبردار جو یہ پیا پھینکو اسے ابھی کے ابھی " ۔ شاداب جلدی سے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے چیخا۔

شاداب کے یوں اچانک کہنے پر وہ دونوں گلاس کو اپنے منہ سے لگائے ہی اُسکی طرف دیکھنے لگی ۔

اور شاداب کو دیکھتے ہی دیکھتے اُن دونوں نے ایک گھونٹ بھرا اور پھر بغیر سانس روکے وہ دونوں پورا گلاس خالی کر گئی جس میں مشکل سے چار گھونٹ ہی تھے ۔

شاداب کو ڈھر ڈھر آسمان اپنے اوپر گرتے ہوئے محسوس ہوئے وہ ہونکوں کی طرح اُن دونوں کو دیکھتے گیا جو اب دھیٹوں کی طرح گلاس نیچے رکھتے اپنے لب پر زبان پھیر رہی تھی۔۔۔

" اوہ خدایا!!!! یہ کیا کر لیا تم نے خود تو پی ہی پی ساتھ میں اس بچی کو بھی پلا دی۔ " شاداب لیزا کو غصے سے دیکھتے گویا ہوا ۔ 

" اب میں اکیلے پیتی اور وہ بچی میرا منہ دیکھتی کیا اچھا لگتا  " ۔ لیزا نے شاداب کے اس طرح کہنے پر ناک چڑھا کر جواب دیا۔ 

" اٹھو دونوں ابھی کے ابھی جاؤ کُلی کرو جلدی اللہ سے توبہ کرو اٹھو دونوں ۔ لیزا تم تو سمجھدار ہو تُم ایسے کیسے یہ حرام مشروب پی سکتی ہو خود تو گنہگار بنی اُس بچی کو بھی بنا دیا ۔ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی ۔ باہر ملکوں میں سب لوگ اتنے آگے نکل جائیں گے کہ حرام حلال کا فرق بھول جائے گے مجھے نہیں پتہ تھا ۔ اور رکو ذرا بتاتا ہُوں میں کامل بھائی کو یہ سب " ۔ شاداب کی چلتی زبان کو بریک لیزا کی آواز نے لگائی ۔

" اوہ تیز لگام ۔۔۔۔صبر کرو یار کیا بولے جا رہے ہو لگتا ہے منگنی ٹوٹنے کا کچھ زیادہ ہی غم لگ گیا ہے تمہیں " ۔ وہ جو عروہ کے ساتھ بیٹھی نہ سمجھی سے شاداب کی بات سن رہی تھی سب سمجھ انے پر تیزی سے بولی۔ 

" میں کیا بولے جا رہا ہو ۔  لیزا تم نے شراب پی ہے!!!!! " ۔ شاداب نے بیڈ کے پاس اتے لیزا کی شربتی آنکھوں میں دیکھتے اُسے احساس کروایا ۔

عروہ نے حیرت سے اپنے چاچو کو دیکھا ۔

" لو بھائی عروہ تمہارے چاچو کا لگتا ہے ذہنی توازن خراب ہوگیا ہے یہ شراب نہیں ہے بدھو انسان ایپل جوس ہے ایپل جوس ۔ مانا باہر کے ملک میں رہی ہو مانا روز پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھ پاتی لیکن حرام اور حلال چیزوں کے بارے میں جانتی ہو میں " ۔ لیزا نے شاداب کی عقل پر ماتم کیا ۔

شاداب نے لیزا کی بات پر اُسکے پاس رکھا گلاس اٹھایا اور سونگھ کر دیکھا جو واقعی میں اپیل جوس تھا ۔ شاداب کا رنگ اپنی اس بیوقوفی پر لال ہوا ۔

" تو پھر وہ کیا بول رہی تھی تم کہ تم نے پی ہے میں نے پی ہے فلانا دھمکانا " ۔ شاداب نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا ۔

" وہ ہم گانا گا رہے تھے دراصل عروہ نے ضد کی تھی اُسے بیہ سے ملنا ہے اور بیہ اس وقت آرام کر رہی تھی تو میں عروہ کے ساتھ کھیل رہی تھی " ۔ لیزا نے تفصیل بتائی ۔ اور شاداب کا دل کیا اپنا سر کسی دیوار پر مار لے ۔ وہ کیا سمجھا تھا اور یہ لوگ کیا کر رہے تھے ۔ 

" یہ کوئی کھیل ہے چلو عروہ سو جاؤ بچے صبح اٹھ کر پھر بیہ سے ملے گے ٹھیک ہے " ۔ شاداب نے عروہ کو پیار سے پچکارا جو اب اچھے بچوں کی طرح اپنی جگہ پر لیٹ گئی تھی۔ لیزا نے حیرت سے اس چھوٹی سی آفت کو دیکھا جو ابھی رو کر ضد کر رہی تھی کہ اُس نے سونا نہیں ہے اور اب سو رہی تھی ۔ 

" کہاں چلی " ؟  شاداب نے لیزا کو اٹھتے دیکھ پوچھا ۔

" گھر" ۔لیزا نے روکھا سا جواب دیا ۔

" میرا دماغ نہیں شاید۔۔۔ نہیں نہیں یقیناً تمہارا دماغ خراب ہے رات کے ایک بج رہے ہیں اور محترمہ منہ اٹھا کر چلی ہے چلو لیٹ جاؤ ادھر ہی " ۔ شاداب کا لہجہ حکمرانہ تھا ۔

" میرا گھر اسی ایریا میں ہے میں چلی جاؤنگی گھر تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے " ۔ لیزا کہتے آگے بڑھنے لگی جب شاداب نے اپنے ہاتھ کو اُسکے اگے کرتے اُسکا راستہ روکا ۔

" رات کے اس ٹائم تمہارا باہر نکلنا سیو نہیں ہے اور بھائی تمہارے گھر پر بتا چکے ہیں اسی لیے بہتر یہی ہے کہ تم جاؤ اور جاکر سو جائو " ۔ شاداب کا لہجہ اب سرد تھا ۔ لیزا نے شاداب کی آنکھوں میں دیکھا جہاں صاف اُسکے لیے فکر تھی محبت تھی ایک حق سا تھا جیسے وہ اُسکی بات کو رد نہیں کرے گی ۔

" ٹھیک ہے سو رہی ہو میں لیکن تمہارے بولنے پر نہیں میں خود بہت تھک گئی ہو اسی لیے " ۔ لیزا نے احسان کرنے والے لہجے میں کہا اور عروہ کے پاس جاتے اُسکے برابر میں لیٹ گئی ۔

شاداب نے نفی میں سر ہلا کر اُسکی طرف دیکھا جو تکیہ پر سیدھی لیتی اُسکی طرف دیکھ رہی تھی لحاف صرف ٹانگوں تک ہی لیا ہوا تھا ۔۔شاداب نے بیڈ پر رکھے گلاس اٹھا کر سائڈ ٹیبل پر رکھا پہلے عروہ پر لحاف صحیح کرتے اُسکے ماتھے پر بوسا دیا جو نیند سے بند ہوتی آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی اور پھر لیزا کی طرف بڑھا اپنی طرف بڑھتے شاداب کو دیکھتے لیزا کا دل دھڑکا اور اُسکے اگلے اقدام پر تو اُسکی سانس تک سینے میں اٹک گیا ۔

شاداب نے اُسکی طرف اتے لحاف اُسکی گردن تک کرتے اسکے بال جو اُسکے ماتھے پر آئے ہوئے تھے پیچھے کیے اور لیزا کی شربتی آنکھوں میں دیکھتے ایک دلنشیں مسکراہٹ پاس کی ۔لیزا کے ماتھے پر پسینہ چمکا کیا وہ عروہ کی طرح اُسکا ماتھا چومے گا ۔

" فکر نہیں کرو تمہارے ماتھے پر عقیدت اور محبت کا بوسا میں نکاح کے بعد ثبت کرونگا اب سوجاؤ " ۔ دلنشین لہجے میں کہتے وہ۔لائیٹس آف کرتا کمرے سے نکلا جاتے جاتے بھی وہ لیزا پر ایک گہری نظر ڈال گیا تھا ۔

شاداب کے کمرے سے جاتے ہی لیزا نے اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا دل میں عجیب سے گُدگُدی ہوئی شاداب کے لفظوں سے۔ کروٹ لیتے عروہ کو اپنی گرفت میں لیتے وہ ایک حسین مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔۔

" پاپا پلیز مجھے بچا لے پاپا پلیز "۔  اندھیرے کمرے میں بیڈ پر لیتے اس وجود کے کانوں میں آواز گونجی اُسکا پورا وجود پسینہ سے بھیگا ہوا تھا ۔ ماتھے پر بلوں کا جال تھا ۔ 

" پلیز ہمیں بچا لے "۔  اب ایک عورت کی آواز اُسکے کانوں میں گونجی ۔ ہر طرف آگ ہی آگ تھی وہ کیسے بچاتا اُن دونوں کو ہر چیز جل گئی تھی ہر چیز ۔ کچھ بھی تو نہیں بچا تھا اور دیکھتے وہ دونوں اُسکی آنکھوں کے سامنے آگ کے نظر ہوگئی اور وہ کچھ نہیں کر پایا وہ مجبور تھا اُسکی آنکھوں کے سامنے اُسکی دنیا جل چکی تھی اور وہ کچھ نہیں کر پایا  تھا ۔

" ہالہ میری بچی " !!!! چیخ کر کہتا وہ یکدم اٹھ بیٹھا تھا ۔ اپنے آپکو اپنے کمرے میں پاتے اُس نے گہرا سانس بھرا ۔ آنکھیں سرخ تھی اُسکی ۔ اور آنکھوں میں سب کچھ ختم کرنے کا جذبہ تھا اُس نے سامنے دیوار پر چسپا تصاویر کو دیکھا ۔ 

" تم نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا میں تم سے تمہارا سب کچھ چھین لونگا کامل خان یاد رکھنا   ۔ بہت جلد تمہارا بُرا وقت شروع ہونے  والا ہے تم میں سے کسی کو نہیں چھوڑونگا کسی کو نہیں " ۔ وحشت بھرے لہجے میں کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اب نیند انا نہ ممکن تھا ۔ 

**********  *************  *************  *************  *************  ***********

شجیہ اپنا سر اپنے گھٹنوں میں چھپائے بیٹھی ہوئی تھی جب اُسے باہر سے تیز آوازوں کے ساتھ ساتھ گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی ۔ شجیہ نے یکدم اپنا سر اٹھایا ایک جھٹکے میں اپنی جگہ سے اٹھتے وہ باہر نکلی ۔ 

خضر اپنی ٹیم کے ساتھ اس شاندار عمارت کے تک پہنچ گیا تھا ۔ تمام پولیس آفسیر اندر داخل ہو گئے تھے ۔ بھینچے لب ۔۔۔بھوری سرخ آنکھیں جن میں اس وقت سرد تاثرات تھے خضر اپنی گن تھامے اندر بڑھا تھا اُسے صرف یہاں سے شجیہ کو نکالنا تھا ۔ اگر ابھی اُسے شجیہ اپنے سامنے نظر نہ ائی تو وہ نہیں جانتا تھا وہ کیا کر گزرے گا ۔ 

بائی جو سکون سے بیٹھی وہاں آئے مردوں کی خوش آمد کرنے میں لگی تھی یکدم پولیس کو دیکھتے گھبرا اٹھی اُسکے چہرے پر پسینہ چمکا ۔ 

" آئے کیسے آسکتے ہو تم لوگ گھر میں میرے " ۔ بائی چیخ اٹھی جب خضر  نے اپنے ساتھ ائی لیڈی آفسیر کو اشارہ کیا جس نے زور دار تھپڑ بائی کے منہ پر رسید کیا تو اُسکی زبان تالو سے چپکی ۔ 

خضر کی نظروں نے بیتابی سے شجیہ کو ڈھونڈنا چاہا ۔ جب خضر کی نظر اُس آدمی پر پڑی جس نے شجیہ کو گندی نظروں سے دیکھتے اُسکے بارے میں خباثت کہیں تھی ۔ ایک ہی جست میں اُس تک جاتے خضر نے اُسکا بازو پکڑتے اور انتہائی بیدردی سے مڑورا  کہ ہڈی ٹوٹنے کی آواز پورے گھر میں گونجی ۔ اُسکا غصّہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اُس ادمی کو کولڑ سے پکڑتے زمین پر گراتے وہ اُسکے منہ پر در پر در وار کرتا گیا۔  پولیس وہاں موجود لڑکیوں کو بازیاب کروا چکی تھی ۔ بائی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اور اب اُسکی ٹیم خضر کو دیکھ رہے تھے جو جنونی ہوتا اُس آدمی کو خونم خون کر چکا تھا ۔ 

شجیہ تیزی سے باہر ائی تھی لیکن باہر کا منظر دیکھتے اُسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا ۔ 

سامنے خضر اُس آدمی پر جھکا اُسے حد سے زیادہ زخمی کر چکا تھا ۔ شجیہ کی آنکھیں خضر کو یہاں دیکھتے حیرت سے پھیلی ۔ وہ حیرت سے گنگ اپنے حال سے بے پرواہ سٹل کھڑی خضر کو دیکھ رہی تھی ۔ ڈھیلی چوٹیاں سے بال نکل کر اُسکے چہرے پر آرہے تھے دوپٹہ سینے پر پھیلا ہوا تھا اور وہ ساکت کھڑی خضر کو دیکھ رہی تھی ۔ 

" خضر " ۔ شجیہ کے لبوں نے ہلکی سی جنبش کی ۔  

اپنے قریب اُس دشمن جاں کی خوشبو محسوس کرتے خضر کا ہاتھ تھما  اُس نے نظریں اٹھا کر شجیہ کی طرف دیکھا اور خضر کی حد سے زیادہ سرخ بھوری آنکھیں دیکھتے شجیہ کا بدن کپکپا اٹھا ۔  اُسکے ماتھے پر پسینہ چمکا۔ 

خضر نے اُس ادمی کے مردہ ہوئے وجود کو چھوڑتے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے جو یوں  بغیر دوپٹہ سب کے سامنے کھڑی اُسکا ضبط آزما رہی تھی خضر  کا ضبط شجیہ کو اس حال میں دیکھتے ختم ہوا تھا ۔ 

وہ تیز قدموں سے شجیہ کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اور اُسکے بڑھتے قدموں کے ساتھ شجیہ کا دل ڈوب کر اُبھر رہا تھا ۔ 

شجیہ کے انتہائی قریب اتے خضر نے سرد نظروں سے اُسکے سن اور حیرت زدہ چہرے کو دیکھا اور پھر اُسکے کندھے سے دوپٹہ کھینچتے اُسکے سر پر ڈالا ۔ 

" خضر " ۔ خضر کی بھوری سرد و سرخ آنکھیں اور سرد تنے ہوئے چہرے کو دیکھتے شجیہ نے تھوک نگلتے اُسے پُکارا ۔ نیلی آنکھوں میں خضر کی سرخ آنکھیں دیکھتے خوف کا عنصر نمایاں ہوا تھا ۔ 

" شش ۔۔۔ایک لفظ نہیں شجیہ خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔ایک لفظ نہیں سنو تمھارے اس زبان سے ورنہ اپنے اوپر کیا گیا ضبط کھو دونگا " ۔ خضر نے شجیہ کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے سرد لہجے میں سرگوشی کی ۔ اور شجیہ کے وجود میں اُسکے سرد لہجے کو سنتے سنسنی سی دور گئی ۔ 

خضر نے شجیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور باہر کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔ شجیہ خضر کے پیچھے خاموشی سے چلتی گئی ۔ اپنے ہاتھ پر خضر کی مضبوط گرفت اور اُسکا سرد لہجہ اور چہرہ دیکھتے وہ سمجھ گئی تھی اب اُسکی خیر نہیں ۔ اسی لیے اس نے خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی ۔ 

***********  **************  ***********  **************  **************  ********

" سدرہ اُترو گاڑی سے " ۔ جون نے ڈھیٹوں کی طرح بیٹھی سدرہ کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔ 

" میں نہیں اُترو گی گاڑی سے مجھے واپس گھر چھوڑ کر اؤ" ۔ سدرہ نے جون کو تیز نظروں سے دیکھتے تیز لہجے میں کہا ۔ 

جون نے ضبط سے اپنے لب بھینچے وہ پچھلے دس منٹ سے اُسکی طرف کا دروازہ  کھولے اُسے باہر نکلنے کا کہہ رہا تھا لیکن وہ تھی آرام سے اندر بیٹھی اُسکا ضبط آزما رہی تھی ۔ 

" سدرہ اب میں آخری بار تم سے پوچھ رہا ہوں تم آرہی ہو باہر یا  نہیں " ۔ جون نے ابکی بار نہایت ضبط سے اُس سے کہا۔ 

" میں بھی تمہیں آخری بار کہہ رہی ہو میں نہیں آرہی جو کرنا ہے کرلو " ۔ سدرہ نے ایک ادا سے اپنے بالوں کو جھٹکتے کہا اور یہاں جون کا ضبط ختم ہوا وہ ایک ہی جست میں سدرہ کی طرف جھکتے اُسے اپنے بازوں میں اٹھا گیا تھا ۔ 

سدرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی اُس نے گرنے کے ڈر سے جنید کا بازو تھاما ۔

" یہ کیا کر رہے ہو تم چھوڑو مجھے ہاتھ کیسے لگایا تم نے مجھے کس حق سے چھو رہے ہو مجھے نیچے اُتارو " ۔۔۔۔ابھی سدرہ کے لفظ زبان پر ہی تھے کہ کب سے ضبط کرتے جون کا ضبط جواب دے گیا سدرہ کی بات پر اُسکی آبرو ریز ہوئی اور وہ ایک جھٹکے میں سدرہ کے ہلتے لبوں کو اپنی گرفت میں لے گیا۔

سدرہ کی آنکھیں حد سے زیادہ پھیلی اپنے ہونٹوں پر بڑھتی جون کی گرفت محسوس کرتے سدرہ کے ہاتھوں نے مضبوطی سے جون کے کندھوں کو تھاما ۔ اُسے جون سے اس حرکت کی امید نہیں تھی ۔ 

جون اُس کے لبوں کو اپنی گرفت میں لیے ہی لفٹ میں سوار ہوا اور سدرہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی اُسے لگا اگر اب اُسے آزادی نہیں ملی تو وہ مر جائے گی ۔ سدرہ نے اپنی آنکھیں بند کرتے اپنے ہاتھوں سے جون کی شرٹ کو تھامتے اُسکی سانسیں انہیل کی اگر وہ یہ نہیں کرتی تو سانسوں کے بند ہونے پر مر جاتی ۔ جون کی گرفت سدرہ کے لبوں پر مزید سخت ہوئی ۔  

 ۔ لفٹ مطلوبہ فلور پر رکی تو جون نے سدرہ کے لبوں کو آزادی  دی ۔ سدرہ نے ایک گہرا سانس بھرتے نم انکھوں سے جون کو دیکھتے نڈھال سا ہوتے اپنا سر جون کے سینے پر رکھتے گہرا سانس بھرتے اپنی سانسیں بحال کی ۔ اور جون اُسکے پورے وجود میں سرور سا دور گیا ۔ سدرہ کے بھیگے اُسکی شدت سے لال ہوتے ہونٹوں کو دیکھتے پل میں اسکے وجود میں جذبوں کا طوفان اٹھا تھا ۔ جسے با مشکل برداشت کرتے وہ سدرہ کو لیے لفٹ سے باہر نکلا اور چند قدم کی دوری پر موجود اپنے پرسنل اپارٹمنٹ تک آیا ایک ہاتھ سے دروازہ کھولتے اندر قدم رکھتے اُس نے سدرہ کو نیچے اُتارا اور پلٹ کر دروازہ بند کیا ۔ 

سدرہ نے نم بکھری سانسوں کے ساتھ جون کو دیکھا جو اب اُسکے نزدیک کھڑا اُسکے چہرے کو خمار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ 

" کس حق سے چھوا تم نے مجھے کیوں آئے میرے قریب " ۔ جون کا گریبان اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے سدرہ آپے سے باہر ہوتے چیخی تھی ۔ 

" بیوی ہو میری ایک شوہر کے حق سے چھوا ہے میں نے تمہیں اور تمہارے قریب انے کے لیے مجھے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہے " ۔ جون نے سدرہ کی قمر میں ہاتھ رکھتے اُسے اپنے  نزدیک کرتے سرگوشی بھرے لہجے میں کہا ۔اور اسکی اس بات پر سدرہ کے تن بدن میں آگ لگی ۔ 

" وہ واؤ امیزنگ !!! تو آپکو اتنے سالوں بعد یاد  آ ہی گیا کہ آپکی  بیوی بھی ہے جسے آپ بے آسرا چھوڑ گئے تھے " ۔  سدرہ نے استحزایہ لہجے میں طنزیہ ہنستے ہوئے جون کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔

" بے آسرا نہیں چھوڑ کر گیا تھا بابا تھے حمزہ بھی تھا تمھارے پاس " ۔ جون نے سدرہ کی بات پر لب بھینچے سنجیدگی سے کہا ۔

سدرہ نے بے یقینی سے جون کو دیکھا ۔ 

" کس کے پاس چھوڑ کر گئے تھے تایا ابو کے پاس میرے بھائی کے پاس ۔۔۔ شادی شدہ عورت کے لیے اُسکا آسرا اللہ کے بعد اسکا شوہر ہوتا ہے ۔ جو اصل معنوں میں اُسکا گھر ہوتا ہے اُسکا محفوظ حصار ۔۔۔ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر ہونے کے بعد بھی اس طرح اکیلی رہے تو بے  آسرا ہی ہوتی ہے سمجھ ائی تمہیں " ۔ جون کے سینے پر ہاتھ مارتے سدرہ چیخ اٹھی تھی ۔

" جو ہوا اُسے بھول جاتے ہیں سدرہ نئئ زندگی شروع کرتے ہیں " ۔ جون نے امید بھری نظروں سے سدرہ کو دیکھتے کہا ۔

" جو ہوا وہ بھولنا اسان نہیں تم کل بھی خود غرض تھے تم اج بھی خود غرض ہو جنید اج بھی ۔۔۔۔۔اپنے کیے کی معافی مانگنے کے بجائے تم مجھے سب کچھ بھولنے کا کہہ رہے ہو ۔۔۔کیسے بھول جاؤ ہر اُس دن ہر اُس رات کی اذیت جو تم نے مجھے دی کیسے بھول جاؤ میں اپنا بلک بلک کر صرف تمھارے لیے رونا۔۔۔سدرہ نے ایک جھٹکے سے جون کی گرفت توڑی اور اس سے دور ہوتے ہوئے گویا ہوئی ۔ 

جون نے اپنی لال ہوتی آنکھوں سے سدرہ کی طرف دیکھا حق پر تو تھی وہ اس نے اُس سے معافی کب مانگی تھی ۔۔۔

چلو صحیح میں اپنی تکلیف بھول جاتی ہو بھول جاتی ہو کہ میں نے ہر دن تمھارے بنا کیسے اور کس اذیت سے جیا ۔۔۔۔لیکن میں تایا ابو کی تکلیف نہیں بھول سکتی بلکل نہیں ۔۔۔۔وہ جس آس سے گھر کے دروازے کو دیکھتے ہیں میں وہ نظریں نہیں بھول سکتی ۔۔۔مجھے دیکھتے ہی اُنکی آنکھوں میں جو شرمندگی اجاتی ہے میں وہ نہیں بھول سکتی ۔۔۔رات کے پہر چھپ کر اپنے کمرے میں جب وہ اپنی ایک لوتی اولاد کی تصویر کو دیکھتے رو پڑتے ہیں میں وہ نہیں بھول سکتی ۔۔۔نہیں بھول سکتی ۔" سدرہ نے کہتے پاس رکھا شیشے کا واس پوری طاقت سے زمین پر دے مارا جس کی کرچیاں اُسکے خود کے پیروں میں چبھ گئی ۔ 

کرچیاں تو جون کے دل کی بھی ہوئی تھی اُسکی براؤن آنکھیں لال ہوئی اُس میں نمی چمکی ۔ وہ بھی تو اتنا ہی تڑپا تھا اپنے باپ کے لیے ۔۔۔اُنکے پیار کو اُنکی فکر کو اُنکی دانٹ کو اُس نے کتنا یاد کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔  

"اس زندگی کے لیے تم نے ہمیں چھوڑا تھا نہ اس زندگی کے لیے جس میں عیش و عشرت سب کچھ ہے ۔۔۔لیکن ایک بات بتاؤ ایسی زندگی کسی کام کی نہیں ہے جب اس میں تمھارے رشتے نہ ہو  اُنکی محبت نہ ہو آاااااں ۔۔۔۔۔۔سدرہ کہتے آگے بڑھ رہی تھی جب ٹوٹے واس کا ٹکڑا اُسکے پاؤں کو زخمی کر گیا وہ درد سے چیخ اٹھی ۔ 

جون تیزی سے اُس تک آیا جب وہ اُسے اپارٹمنٹ میں لایا تھا شاید تب ہی اُسکی چپل گر گئی تھی ۔ جون نے جلدی سے اُسے باہوں میں اٹھایا ۔ اور پاس پڑے صوفے پر بٹھایا ۔

سدرہ کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے یہ تکلیف کی وجہ سے تھے یہ مخالف کی وجہ سے وہ نہیں جانتی تھی ۔

" حد ہوتی ہے یار جو بولنا  ہے بولوں مارنا ہے مار لو لیکن خود کو تو نقصان نہیں پہنچاؤ ۔۔۔کتنا خون نکل رہا ہے " ۔ جون نے سدرہ کے پاؤں کو اپنے گھٹنے پر رکھتے ہوئے فکرمندی سے  کہا ۔ پاؤں میں کانچ کا ٹکڑا چبھا  ہوا تھا جبکہ خون بھی تیزی سے پھیل رہا تھا ۔ 

سدرہ کے پاؤں میں  درد کی ٹیس اُبھری وہ جنید کا بازو تھام گئی ۔ 

" یہ جھوٹی فکر مت دکھاؤ جنید ایسے زخم پہلے بھی کھا چکی ہو عادت ہے درد سہنے کی " ۔ سدرہ نے تلخئ سے کہتے جون کا ہاتھ اپنے پاؤں سے ہٹانا چاہا جب جون نے اُسکے پاؤں پر اپنی گرفت سخت کی اور سرد نظروں سے سدرہ کی طرف دیکھا جو اُسکی سرد آنکھیں دیکھتے مزاحمت روک گئی تھی ۔ 

" اب اگر تمھاری آواز ائی مجھے تو یقین کرو تمہارے الفاظوں اور لبوں پر ایسا قفل لگاؤنگا کہ تم سانس لینے کے لیے بھی تڑپو گی " ۔ سنجیدگی سے زو معنی بات کہتا وہ سدرہ کو لال کر گیا تھا سدرہ نے سرخ چہرے کے ساتھ جون کی طلسماتی براؤن آنکھوں میں دیکھا اور دیکھتی گئی ۔ جہاں اُسکے لیے فکر تھی محبت تھی ۔

" اہ ہ!!!!!۔ ۔۔۔۔جون نے ایک جھٹکے سے اُسکے پاؤں میں چبھا کانچ کا ٹکڑا نکالا تھا اور اس سے اٹھتے درد سے سدرہ چیخ پڑی ۔ 

" تم بہت ظالم ہو " ۔ بھیگی آواز میں اُس نے جون کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے کہا جو اب اپنا رومال اُسکے پاؤں پر باندھ رہا تھا ۔ 

" صحیح کہا ظالم تو میں ہو ۔۔۔صرف تمہارے لیے نہیں اپنے لیے بھی خود پر بھی ظلم کیا ہے " ۔ جون نے آرام سے سدرہ کا پاؤں صوفے پر رکھا اور کہتا اٹھ کھڑا ہوا ۔ 

سامنے اوپن کچن میں جاتے اُس نے وہاں موجود کیبنٹ سے میڈیکل باکس نکالا اور واپس سدرہ تک ایا اور سدرہ کی نظریں اُس پر ہی جم گئی ۔ جنید اُس تک اتا واپس زمین پر بیٹھا اور اسکا پاؤں احتیاط اور نرمی سے واپس اپنے گھٹنے پر رکھا ۔ 

" جانتا ہو تمہیں چھوڑ کر گیا۔۔۔بابا ۔۔بابا کو چھوڑ کر گیا غلطی تو میری ہی تھی جس کا اندازہ مجھے کچھ دنوں بعد ہی ہوگیا تھا لیکن کیا کرتا واپسی کے دروازے بند کر ایا تھا " ۔۔۔جون نے رومال کھولتے روئی سے سدرہ کے پاؤں سے نکلتا خون صاف کرتے کہا اُسکا پورا دھیان سدرہ کے پاؤں پر تھا اور سدرہ کا اُس پر ۔۔۔

" ایسی دنیا میں پھنس گیا تھا جہاں سے باہر نہیں نکل سکتا تھا اگر نکل جاتا تو اپنے ساتھ ساتھ اپنوں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ۔۔ تم سے دور رہنا تو گوارا تھا لیکن تمہیں خطرے میں ڈالنا نہیں " ۔ جون کا لہجہ سنجیدہ تھا اُس نے ایک نظر سدرہ کو دیکھا اور پھر اپنی نظریں اُسکے پاؤں پر مرکوز کر گیا ۔ 

سدرہ دم سادھے اُسکی بات سن رہی تھی ۔ جبکہ اُسکی آخری بات پر اُسکا دل دھڑکا ۔۔۔

" کتنی بار کوشش کی تم سے ملو بابا سے ملو لیکن ہر بار کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا کہ میں نا کام رہ جاتا " ۔ جون کو وہ وقت یاد آیا جب وہ سدرہ کے پاس واپس انے کا سوچ چکا تھا لیکن تب شجیہ نے اُسکا وجود کو  گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا ۔ اُس کے گلے میں گلٹی اُبھری ۔ کتنے پاس سے وہ اپنی موت کو دیکھ کر ایا تھا تب اُسکے پاس کوئی نہیں تھا ۔  وہ اکیلا تھا اور وہ تنہائی اُسکی خود کی چنی ہوئی تھی۔  

" ان سالوں میں تم سے بابا سے دور ضرور رہا ہو لیکن تم سب کی یادوں سے نہیں ۔۔۔تم کہتی ہو میں نے معافی نہیں مانگی ۔۔ہاہاہاہا۔۔۔ جانتی ہو بچپن کی عادت ہے معافی مانگنے مجھے کتنا بُرا لگتا ہے ۔۔۔" جون نے بےبسی سے ہنستے ہوئے کہا۔

" لیکن تمہارے لئے میں وہ سب کرنے کو تیار ہو جو مجھے بُرا لگتا ہے میں معافی بھی مانگنے کو تیار ہو جاناں معاف کردو اپنے جنید کو ۔۔۔اتنے سال رہ لیا تمہارے بنا اور نہیں رہ پاؤں گا ۔۔۔تم جانتی ہو میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ۔۔۔نہیں رہ سکتا اب اور تمہارے بنا " ۔ جون نے کہتے سدرہ کے پٹی بندھے پاؤں پر اپنے لب رکھے ۔ اور سدرہ کا وجود زلزلوں کی ضد میں ایا ۔ 

" ہوسکے تو ایک رات میری جھولی میں ایسی ڈال دو جس میں سکون سے سوجاؤ میں ۔۔۔تمہارے وجود کو اپنے بہت پاس محسوس کرتے تمھاری خوشبو میں سانس بھرتے وعدہ کرتا ہو کل واپس چھوڑ اؤنگا  تمہیں اور تمھاری مرضی کے بنا کچھ نہیں ہونگا کوشش کرتا رہو گا کہ تم مجھے معاف کردو ایک نہ ایک دن تو کر ہی دو گی ایک نہ ایک دن تو موم ہوجائے گا یہ دل میرے لیے یہ پھر میری سانسیں بند ہوجائے گی  " ۔ اذیت بھرے لہجے میں کہتے جون اٹھا تھا سدرہ کو اپنی باہوں میں اٹھائے وہ وہاں بنے کمرے کی طرف بڑھا تھا اور سدرہ ۔۔۔وہ جون کی آخری بات پر تڑپ اُٹھی ۔ مقابل کیسے یہ لفظ اپنے لیے استعمال کرسکتا تھا جو اُسکی روح تک کو چھلنی کر گئے تھے ۔ 

وہ نہیں جانتی تھی وہ خاموش کیوں ہے کیوں اُسکا وجود سن ہے اُسے تو بس جنید کی آنکھوں میں نظر اتی بےبسی اور نمی کو دکھ رہی تھی وہ اضطراب سے بھرا اُسکا چہرہ دیکھ رہی تھی اُسکی آواز اُسکے لہجے میں چھپی اذیت محسوس کر پا رہی تھی۔ 

وہ کہہ رہا تھا کبھی کبھی تو اُسکا دل موم ہوگا اُسکے لیے اب سدرہ کیسے بتاتی کہ اُسکا دل تو اُسکی آنکھوں میں نظر اتی نمی کو دیکھتے موم بن کر پگھل سا گیا تھا ۔ شاید ہر محبت کرنے والوں بیوی ایسے ہی ھوتی ہے اپنے محبوب شوہر کو ذرا سا بے بس دیکھتے اُسکی آنکھوں میں ذرا سی نمی دیکھتے پگھل جاتی ہے ۔ 

جنید نے کمرے میں اتے سدرہ کو بیڈ کے بیچ و بیچ لٹایا سدرہ کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے اُس نے سیدھے ہوتے اپنی شرٹ اتار کر سائڈ صوفے پر پھینکی اور سدرہ کی نظریں اُسکے سینے پر نظر آتے گولیوں کے نشان پر جم گئی ۔ سدرہ نے اُسکے سینے پر نظر آتے نشان کو دیکھتے اپنا نچلا لب دانتوں میں دباتے اپنی سسکی روکی ۔ اسکو گولیاں لگی تھی وہ درد میں تھا سدرہ کی خاموش آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ 

جون نے سدرہ کے چہرے پر جھکتے اپنے لبوں سے اُسکے آنسو صاف کیے اور سدرہ اپنی آنکھیں بند کر گئی اُسکے لب خاموش تھے اور آنکھیں برس رہی تھی ۔ جون سدرہ کے گالوں پر لب رکھتے اُسکے ہونٹوں تک ایا اور سدرہ کی سانسیں درہم برہم ہوئی اپنا نرم سا لمس سدرہ کے ہونٹوں پر چھوڑتے وہ سدرہ کی گردن میں جھک ایا اپنا نرم لمس سدرہ کی گردن پر رکھتے وہ نیچے کو جھکتے اُس کے پیٹ تک ایا سدرہ کے پیٹ پر اپنے لب شدت سے رکھتے  اُس نے اپنا سر سدرہ کے پیٹ پر رکھا ایک ہاتھ سے سدرہ کا ہاتھ تھامے جبکہ دوسرا ہاتھ سدرہ کے پیٹ پر اپنے سر کے پاس رکھے وہ اپنی آنکھیں بند کر گیا ۔ 

اور سدرہ کی حالت خراب ہوئی سدرہ نے گہرا سانس بھرتے اپنی بے ہنگم ہوئی دھڑکنوں کو قابو کیا  اُس نے اپنی گردن نیچے کرتے جون کو دیکھا ۔ جانے کیوں دل اتنا بے بس تھا کہ اس انسان کی قریبی پر تیز دھڑک کر اسکے لمس کو مچل جاتا تھا ۔ ابھی بھی وہ  اُسے خود سے دور جھٹک نہیں پائی تھی ۔ بیساختہ اُسکا ہاتھ جون کے بالوں پر ایا تھا  ۔۔۔اور جنید زندگی سے بھرپور مسکراہٹ لیے گہری سکون بھری نیند میں ڈوب چکا تھا۔۔۔

**************  ****************  *************  ******

" آمنہ بیٹا اٹھ جائے آپکے بابا کا فون ایا ہے " ۔ نجمہ بیگم نے آمنہ کے کمرے میں اتے ہوئے اُسے پُکارا شام کا وقت تھا اور وہ ابھی تک نہیں اُٹھی تھی ۔ 

اپنی والدہ کی آواز پر وہ جو اب تک اپنی آنکھیں موندیں لیتی ہوئی تھی اٹھ بیٹھی ۔ 

بکھرے بالوں کو ہاتھ کی مدد سے سیٹ کرتے اُس نے جوڑے میں مقید کیا ۔ 

" کیا ہوا ہے امی " ۔ اُس نے اشارہ کرتے نجمہ بیگم سے پوچھا آنکھیں اس وقت نیند کی لالی میں ڈوبی ہوئی غضب ڈھا رہی تھی اُس نے بہت مشکلوں سے اپنے اوپر قابو رکھا ہوا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی نجمہ بیگم پریشان ہو اگر وہ اُنہیں اج ہوئے واقعے کے بارے میں بتا دیتی تو پھر وہ اُسکا یونی جانا ہی بند کر دیتی ۔۔

" پتہ نہیں تمہارے بابا نے ایمرجنسی میں بلایا ہے تمہیں کپڑے میں نے نکال دئیے ہیں  جلدی سے جاؤ " ۔ نجمہ بیگم نے اُسکے کپڑے بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔ اور باہر جانے کا سنتے آمنہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ۔ اج ہوئے واقعے کے بعد تو وہ اکیلے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔ 

" امی سدرہ کہاں ہے میں اکیلے کیسے جاؤنگی " ۔ امنہ نے اشارہ کرتے چہرے پر فکرمندی کے تاثرات لاتے کہا ۔

" فکر نہیں کرو سدرہ کہیں گئی ہوئی ہے میں نے حمزہ کو بلوا لیا ہے اُسے بھی وہی جانا تھا تمہیں بھی چھوڑ دے گا " ۔ نجمہ بیگم نے سدرہ کے بھائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تو آمنہ نے سکون کا سانس خارج کیا ورنہ اکیلے جانے کا سوچ کر اُسکا دم نکل گیا تھا ۔

" سدرہ کہاں گئی ہے " ؟ آمنہ نے بیڈ سے اٹھتے سدرہ کے بارے میں پوچھا ۔

 " وہ کہہ رہی تھی اُسکی کسی دوست کی عیادت کے لیے جانا ہے " ۔ نجمہ بیگم کے کہنے پر وہ سمجھ گئی سدرہ ضرور انابیہ کے پاس گئی ہوگی ۔ 

کچھ ہی دیر میں وہ براؤن ہائی نیک پر وائٹ پینٹ بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے اپنے گھر سے باہر ائی تھی۔ باہر ہی اُسے حمزہ دکھائی دیا جو اپنی گاڑی میں بیٹھا اُسکا انتظار کر رہا تھا ۔ 

حمزہ کو دیکھتے آمنہ مسکرا اُٹھی ۔ 

" کیسے ہیں آپ بھائی " ؟  آمنہ نے گاڑی میں بیٹھتے اشارے سے حمزہ سے پوچھا جو زیادہ کچھ تو نہیں لیکن کچھ کچھ اُسکے اشارے سمجھ جاتا تھا ۔

" میں ٹھیک ہو گڑیا آپ کیسی ہے " ۔ حمزہ نے خلوص سے پوچھا سدرہ کی طرح اُسے آمنہ بھی بہنوں کی طرح عزیز تھی ۔ 

آمنہ نے اثبات میں سر ہلاتے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے اُسے ٹھیک ہونے کا بتایا۔۔۔ 

کچھ ہی دیر بعد گاڑی آمنہ کی بیکری کے سامنے رکی ۔ اور کسی بیچین وجود کو راحت ملی جو صرف کچھ پل کی تھی ۔

وہ جو اپنی بلیک مرسڈیز میں بیٹھا چہرے پر ماسک لگائے شدت سے آمنہ کا انتظار کر رہا تھا آمنہ کو کسی لڑکے کے ساتھ گاڑی میں اتے دیکھ اُسکے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا ۔۔۔وجود میں جلن سی اُٹھی اور رہی سہی کسر آمنہ کی اُس مسکراہٹ نے پوری کردی ۔۔اُسکے وجود میں شعلے سے بھڑک اٹھے آمنہ کی مسکان کو دیکھتے ۔ اُس نے ضبط سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے قہر بھری نظروں سے آمنہ کو دیکھا جو اب بیکری کے اندر کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔شہد رنگ آنکھیں پل میں لال ہوئی ۔ آمنہ کے لباس کو دیکھتے اُسکا دل کیا تھا ابھی اس لڑکی کو جاکر ایک تھپڑ رکھ دے۔ اس لباس میں اُسکا وجود حسین لگ رہا تھا جو کسی کو بھی اُس پر فدا کر دے بہکا دے ۔ ابھی صبح ہی وہ اتنے بڑے خطرے سے بچی تھی اور اب وہ اس طرح کا لباس پہنے دعوت نظارہ بنی ہوئی تھی ۔ اس ملک میں ایسے کپڑے نرمل مانے جاتے تھے بلکہ یہ کپڑے اُن بیہودہ کپڑوں سے لاکھ درجے بہتر تھا جو یہاں کی لڑکیاں پہنتی تھی لیکن پھر بھی اس لباس میں اسکا حسن واضح تھا وہ حسین لگ رہی تھی اور اُسے دیکھنے کا حق صرف اُسکا تھا اُسے کوئی اور دیکھے کوئی اور اُسکے حسن سے متاثر ہو اُسے یہ بلکل برداشت نہیں تھا ۔ 

اپنی گردن کو رب کرتے وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا  اُس نے پوری قوت سے اپنی گاڑی کا دروازہ بند کیا  شہد رنگ آنکھیں اب بھی سرخ تھی اور تیز قدموں کا رخ بیکری کی طرف تھا ۔۔۔

" کیا ہوا ہے بابا آپ نے ارجنٹ بلایا ہے مجھے " ۔ آمنہ نے اپنے والد صاحب کے پاس اتے ہوئے اشارتاً پوچھا جو کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ 

" آگیا میرا بچا ۔۔۔دراصل بیٹا وہ جو آرڈر جاتا ہے نہ تمھارے ہاتھوں سے بنے کیک کا وہ اج جانا تھا تم بیکری نہیں ائی تو میں نے کسی اور سے بنوا لیا لیکن۔ سارے کیک واپس آگئے ہیں اب تم آگئی ہو جلدی سے کیک بنا دو ایسے اچھا نہیں لگتا کسٹمر اتنے پیار سے آرڈر کرتا ہے اور پھر اُسے وہ چیز نہیں ملتی تو۔ " ۔ والد صاحب کی بات پر آمنہ نے ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں رکھے گئے کیک کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی تینوں کیک وہی رکھے ہوئے تھے جس میں سے ایک کیک میں سے کچھ حصہ غائب تھا ۔

شام کا ٹائم تھا اور بیکری بند ہونے والی تھی سارے ورکرز گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے ۔ 

" ٹھیک ہے بابا میں بنا دیتی ہو " ۔ اپرن پہنتے امنہ نے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گئی یہ جانے بنا کہ کوئی وہاں شدت سے اُسکا انتظار کر رہا ہے۔ 

امنہ اپنے دھیان میں بالوں کو جوڑے میں مقید کرتی کچن میں داخل ہوئی تھی جب اندر پہلا قدم رکھتے ہی کسی سخت گرفت نے اُسکا بازو دبوچتے اُسے دیوار سے پن کرتے دروازہ بند کیا۔  

امنہ کی آنکھیں ڈر و خوف سے  پھیلی  پھولی سانسوں کے ساتھ ماسک والے اس چہرے کو دیکھا جو اُسکے چہرے سے دو انچ کی ڈوری پر تھا ۔۔۔آمنہ کا وجود پسینے سے بھیگا خوف سے اُسکا دل بند ہونے کے قریب تھا۔ 

وہ جو کب سے بیکری کے پچھلے دروازے سے کچن میں گھستے امنہ کا انتظار کر رہا تھا امنہ کو اندر اتا دیکھ ایک ہی جست میں اُسکا بازو پکڑے اُسے دیوار سے لگائے اُسکے اطراف میں دونوں ہاتھ رکھے اُسے اپنی گرفت میں قید کر گیا ۔  

اُسکی شہد رنگ سرخ  و سرد آنکھیں امنہ کی ہیزل بلیو خوف زدہ آنکھوں میں گڑھی ہوئی تھی ۔ 

امنہ سانس روکے اپنے انتہائی قریب اس ماسک والے انسان کو دیکھ رہی تھی ابھی صبح ہی تو اُسکے ساتھ ایک حادثہ ہوا تھا ۔ اور اب یہ مخالف کی شہد رنگ آنکھیں دیکھتے وہ پہچان گئی تھی وہ وہی صبح والا اجنبی ہے جس نے اُسے بچایا تھا لیکن اب وہ یہاں کیوں تھا ۔۔

خالی کچن میں وہ ایک غیر مرد کے ساتھ تھی جو اُسکے انتہائی قریب کھڑا تھا ۔ امنہ نے چیخ کر بابا کو آواز لگانی چاہی لیکن پھر اپنے لب بھینچ کر بےبسی سے رو دی ۔ اپنی محرومی کا شدت سے احساس ہوا ۔ 

امنہ کی آنکھوں سے نکلتے آنسو دیکھتے اُس نے اپنا ایک ہاتھ دیوار سے ہٹاتے امنہ کے سرخ رخسار پر رکھتے آنسو صاف کیا اور امنہ کے رونے میں اور شدت ائی ۔ 

" چپ ہوجاؤ بلکل ایک آنسو نہیں نکلنا چاہیے آب تمھاری آنکھوں سے " ۔ امنہ کے چہرے پر جھکتے وہ سرد  آواز میں گویا ہوا ۔ اور امنہ وہ نہ صرف آنسو بلکہ اپنی سانس تک روک گئی مخالف کی سرد  آواز پر ۔ آواز سنتے وہ پہچان گئی تھی یہ وہی انسان ہے ۔ 

" کون تھا وہ جس کے ساتھ تم یہاں ائی ہو " ؟  مقابل کا لہجہ  سرد تھا وہ سرد و سرخ نظروں سے امنہ کو دیکھ رہا تھا اور امنہ کا سانس سینے میں اٹک رہا تھا ۔  

امنہ کی زبان تو تالو سے چپکی ہوئی تھی وہ کیا جواب دیتی اُسکی سمجھ سے سب باہر تھا کہ یہ اجنبی یہاں کیوں تھا اُس سے یہ سوال پوچھ ہی کیوں رہا تھا وہ ہیزل بلیو بھیگی انکھوں اور سرخ رخساروں کے ساتھ یک تک مخالف کو دیکھتے اُسکا ضبط آزما رہی تھی امنہ کے یوں دیکھنے سے اُسے اپنا غصّہ زائل ہوتا محسوس ہو رہا تھا جو وہ ہونے دینا چاہتا نہیں تھا ۔ اتنے قریب سے یہ تیکھے حسین نقوش دیکھتے اُس مغرور شہزادے کا دل تیز دھڑکا تھا ۔ 

" میں کچھ پوچھ رہا ہو جواب دو مجھے "۔  ابکی بار اُسکی آواز اونچی  تھی ۔ وہ اپنے جبڑے سختی سے بھینچے ہوا تھا ۔ امنہ اُسکی آواز پر اچھل پڑی ۔ 

اپنے کانپتے  ہاتھ کو اپنے لبوں تک لے جاتے اُس نے نفی کا اشارہ کرتے کہنا چاہا کہ وہ بول نہیں سکتی ۔ اور ماسک کے پیچھے وہ وجود اپنے لب بھینچ گیا ۔ 

" میں جانتا ہوں تم بول نہیں سکتی اب مجھے جواب دو کون تھا وہ لڑکا جس کے ساتھ تم ائی تھی۔ " ۔ مقابل کے لہجے میں آگ سی تپش تھی۔  

آمنہ نے خوف زدہ نظروں سے اُسکی طرف دیکھتے تھوک نگلا مخالف جانتا تھا وہ بول نہیں سکتی تھی یہ بات حیرانی والی تھی۔  اُسکا پورا وجود سن تھا وہ مزاحمت تک نہیں کر پا رہی تھی ۔ 

" میری دوست کا بھائی تھا " ۔ امنہ نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے کہا اُسکے ہاتھوں میں واضح لرزش تھی خوف سے اُسکی جان جا رہی تھی ۔ 

امنہ کی بات پر اُس نے اپنی آنکھیں بند کی ۔ اُسکا پورا وجود اس وقت جھلس رہا تھا ۔

وہ تمھاری دوست کا بھائی تھا تمہارا نہیں آئندہ کسی غیر مرد کے ساتھ مجھے تُم نظر نہ اؤ ائی بات سمجھ میرے میوٹ اسپیکر " ۔ امنہ کے گال کو تھپکتے تپش زدہ لہجے  میں جملہ ادا کیا اور امنہ کو لگا اب وہ چکر کھا  کر گر جائے گی ۔ ایک تو اُسکی سرخ آنکھیں ویسے ہی اُسکی جان نکال رہی تھی ۔ اوپر سے مخالف کا سلگتا لہجہ ۔۔۔ امنہ نے جھت سے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

" اور ایک اور بات یہ اس طرح کے کپڑے آئندہ کے بعد تمہارے وجود پر نظر آئے تو اُسی وقت تمہیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤگا اور پھر سات پردوں میں چھپا کر رکھ دونگا " ۔ مخالف کی اگلی بات پر آمنہ کے پورے وجود میں سنسنی سی دور گئی اُس کی ہیزل بلیو انکھوں میں مزید خوف آسمٹا ۔۔۔

" سمجھ ائی بات " ۔ امنہ کو اپنی طرف یک تک دیکھتا پا کر اُس نے تصدیق چاہی ۔ 

امنہ نے اثبات میں سر ہلایا اس وقت صرف وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی تبھی مخالف کی ہر بات پر اثبات میں سر ہلا رہی تھی اُسکا دل خوف سے بند ہونے والا تھا۔  اور مخالف امنہ کی اس فرمانبرداری پر قربان ہوا تھا وہ جانتا تھا وہ اُسکے خوف کی وجہ سے اُسکی ہر بات پر اثبات میں سر ہلا رہی ہے لیکن مخالف کے دل کی دنیا وہ اس فرمانبرداری سے ترہم برہم ضرور کر گئی تھی ۔ 

" آپ وہی ہے نہ جو صبح ہمیں بچانے ائے تھے۔ ۔۔۔آپ تو اچھے آدمی تھے اب آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں مجھ سے ایسے کیوں بات کر رہے ہیں مجھے جانے دے " ۔ امنہ نے اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اشارہ کرتے کہا۔  

اور مقابل کی نظر اسکے ہاتھ میں پہنے اُس بریسلیٹ پر اٹک گئی اس بریسلیٹ سے اٹھتی مدھم مدھم سی آواز اُسے سرور سا بخش رہی تھی ۔ 

تو اب میں اچھا ادمی نہیں رہا۔۔۔۔۔تمہاری  نظر میں۔ ۔۔۔ہمم ۔۔۔۔اور یہ سب میں کیوں بول رہا ہو یہ تو سمجھ آجانا چائیے تھا تمہیں میرے میوٹ اسپیکر ۔۔۔۔خیر کوئی بات نہیں چلو اب اچھے بچوں کی طرح کیک بنا دو یار صبح سے کچھ نہیں کھایا ہوا " ۔ جہاں مقابل کے میرے میوٹ اسپیکر کہنے پر امنہ کا دل تیز دھڑکا تھا وہ اُسے ب وہی اُسکے کیک والی بات پر اُسے حیرت ہوئی ۔۔۔ مقابل یہ سب کیوں بول رہا تھا اُسے کچھ کچھ سمجھ تو آرہی تھی لیکن وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی ۔ 

" آپ منگواتے ہے وہ کیک " ۔ اپنے ڈر و خوف کو دور کرتے امنہ نے حیرت سے اشارہ کرتے پوچھا ۔ 

" ہاں میں ہی منگواتا ہو تمھارے ہاتھ سے بنے کیک چلو اب وقت برباد مت کرو سائلینٹ موبائل جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ " ۔ امنہ سے کہتے وہ وہاں رکھی کرسی کو اپنی طرف کرتے اپنے ہاتھ اپنی پچھلی گردن پر رکھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے آرام سے بیٹھا اب امنہ کو دیکھ رہا تھا ۔ جس نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا تھا ۔

کوئی نہیں انے والا تمھارے بابا برابر والی شاپ میں گئے ہوئے ہے اتنی جلدی واپس نہیں آئے گے " ۔ مخالف کے کہنے پر آمنہ کی شکل رونے والی ہوئی انکھوں سے آنسو بہہ نکلے اُس نے اپنے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کیے اور وہاں بنے کاؤنٹر کی طرف بڑھی ۔۔۔

اُسے یقین نہیں آرہا تھا وہ ایک اجنبی انسان کے ساتھ ایک کچن میں ہے جس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے اچھا خاصا ڈرایا اپنی سرد آواز اور نظروں سے اور اب وہ آرام سے بیٹھا اُسکے ہاتھ کے بنے کیک کا انتظار کر رہا تھا ۔ ایک تو وہ چلا نہیں سکتی تھی ورنہ کب کا  چیخ کر وہ یہاں سب کو بلا لیتی اوپر سے مخالف کی سرد شہد رنگ آنکھوں کو دیکھتے وہ خوف سے اپنی جگہ سے  ہل بھی نہیں سکتی تھی کجا کے بھاگ جانا۔  

امنہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتے کلیک بنانے لگی اور وہ اُسکے سامنے بیٹھا اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے گیا ۔ وہ انتہا کی حسین لگ رہی تھی بھورے بال جوڑے میں مقید تھے جسکی لٹوں نے اُسکے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا مگن انداز میں  اُسکے لیے کیک بناتی ہوئی وہ مخالف کو مزید اپنا گرویدہ بنا گئی تھی اُسکا غصّہ اُسی وقت ختم ہوگیا تھا جب اس لڑکی کے آنسو اسکی حسین آنکھوں سے بہہ نکلے تھے وہ تو اُسکی آنکھوں میں اُداسی نہیں برداشت کر سکتا تھا کجا کے آنسو ۔۔۔۔ اُسے پتہ تھا وہ بہت معصوم ہے سرد لہجے سے ڈر جاتی ہے لیکن سرد لہجے میں بات کرنا ضروری تھا تاکہ آئندہ وہ کسی غیر مرد  کے ساتھ کہیں نہ جائیے ۔ ۔۔۔وہ بہت معصوم تھی اور کوئی بھی اُسکی معصومیت کا فائدہ اٹھا سکتا تھا شیطان حاوی ہونے میں ذرا دیر نہیں لگتی ۔۔۔ 

امنہ اپنے اوپر تپش بھری نظریں محسوس کر سکتی تھی لیکن اس نے نظر اٹھا کر دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی اگر دیکھ لیتی تو کیک نہیں بنا پاتی ۔۔۔

امنہ نے کیک بنا کر ایک گہرا سانس بھرا  اور کانپتے ہاتھوں سے کیک تھامتے مقابل کے پاس ائی۔  

شکریہ اس کیک کا اب میں چلتا ہو بہت دیر ہو گئی ہے بہت سُست ہو تم ویسے بہت ٹائم نہیں لگایا ہے تم نے " ۔ انگڑائی لیتے کہتے اُس نے کیک تھاما اور امنہ نے حیرت سے اس نمونے انسان کو دیکھا جو بلیک شرٹ بلیک پینٹ میں لیڈر کی بلیک جیکٹ پہنے آرام سے یہ بات بول گیا تھا جبکہ امنہ نے تیزی اور جلدی سے کیک بنایا تھا ۔

وہ جو آخری نظر امنہ کے حیران چہرے کو دیکھتے  اگے کھڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا کچھ یاد انے پر پلٹا ۔ امنہ جس نے اس ماسک والے انسان کو جاتا دیکھ سکوں کا سانس بھرا تھا اُسکی سانس اُسے رکتے پلٹتے دیکھ بیچ میں ہی رکی ۔ 

" اُمید کرتا ہوں یاد رکھو گی کسی غیر ادمی سے سو گز کی دوری اور ایسے کپڑوں سے اجتناب ۔۔۔۔ورنہ میوٹ اسپیکر میری دھمکی کو صرف دھمکی مت سمجھنا میں سچ میں سات پردوں میں ڈھانپ کر اپنے پاس رکھ لونگا تمہیں " ۔ پلٹتے کہتے وہ اپنی ایک آنکھ ونک کیے کھڑکی سے کود چکا تھا اور امنہ اُس نے اُسکی آخری حرکت پر گرنے سے بچنے کے لیے کرسی تھامی ۔۔ 

سن ہوتے سر کے ساتھ وہ کرسی پر بیٹھی اُسے یقین ہی نہیں آرہا تھا یہ ہوا کیا ہے ۔ اس انسان کی باتیں ۔۔۔تھوڑی دیر پہلے تک جو انسان اُسے اچھا لگا تھا اب وہ انتہائی بُرا لگا اُسے جو اُسے بری طرح ڈرا گیا تھا ۔۔جس طرح کی وہ باتیں کر گیا تھا وہ امنہ کے دل میں دس وہم ڈال گئے تھے آخر وہ کیوں اُسے غیر مردوں سے دور رہنے کا کہہ کر گیا تھا ۔ اس کا دل جو کہہ رہا تھا وہ ماننا نہیں چاہ رہی تھی اُسے یہ بات سدرہ کو بتانی تھی اور جلدی بتانی تھی ۔ وہی اس بات کا کوئی حل نکالتی ۔۔۔

امنہ نے ایک نظر کھڑکی کو دیکھا اور کہیں وہ واپس نہ آجائے اس ڈر سے فوراً سے باہر نکلی جہاں سب سنسان تھا سارے ورکر شاید چلے گئے تھے امنہ کی نظر اپنے بابا پر گئی جو دو آدمیوں کے ساتھ کھڑے کچھ بات کر رہے تھے اور وہ بیکری سے باہر کھڑے تھے۔ 

" بابا گھر چلے " ۔ امنہ نے آکر اپنے والد صاحب سے کہا ۔

" ہاں بیٹا وہ کیک بنا دیۓ آپ نے " ۔ والد صاحب کے پوچھنے پر امنہ کی نظروں کے سامنے وہ منظر ایا جب وہ کیک بنا رہی تھی اور اُس ماسک والے کی نظریں اُسکے وجود پر ہی ٹکی ہوئی تھی ۔ وہ سب یاد کرتے امنہ کا دل تیز دھڑکا اُسکے ماتھے پر یکلخت پسینہ چمکا ۔

جی ۔۔۔۔بابا بنا لیا اور بھیج بھی دیا اب چلے گھر چلتے ہیں " ۔ امنہ نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ جبکہ جھوٹ بولتے ہوئے اُسکے چہرے کی رنگت سرعت سے سرخ ہوئی تھی وہ جھوٹ نہیں بولتی تھی خاص کر اپنے والدین سے لیکن آج اُس نے بولا تھا ۔ 

دور بیٹھا گاڑی میں کیک سے لطف اندوز ہوتا وہ مغرور شہزادہ آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے اپنی زندگی کو دیکھ رہا تھا جو اب اپنے ہاتھوں کو آپس میں مسلتی اپنے بابا کو بیکری بند کرتا دیکھ رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں وہ اپنے بابا کا بازو تھامے اِدھر اُدھر محتاط انداز میں دیکھتی آگے بڑھ گئی تھی۔  

" میری معصوم سی محبت ۔۔۔اج کچھ زیادہ ہی ڈر گئی " ۔ افف اب میں سکون سے سو سکو گا  " ۔ کیک کا آخری نوالہ لیتے اُس نے امنہ کا چہرہ تصور میں لاتے کہا اور ایک نظر خالی ڈبے کو دیکھا وہ یہ کیک کھائے بنا ایک دن بھی نہیں رہ سکتا تھا اسی لیے تو صبح ہوئے واقع کے بعد اُس نے فوراً سے اپنے ڈرائیور کو بھیج دیا تھا لیکن کیک انے پر پہلا نوالہ لیتے ہی وہ سمجھ گیا تھا یہ امنہ نے نہیں بنایا اسی لیے وہ خود ایا تھا ۔ جانتا تھا وہ ڈر کر گھر سے نہیں نکلے گی لیکن پھر بھی اُسے کیک کھانا تھا وہ اگر ایک دن یہ کیک نہ کھائے تو اُسے نیند نہیں آتی تھی اور بقول اُسکے اُسے اپنی نیند بہت پیاری تھی ۔ 

نیا دن چڑھ ایا تھا فلک فجر کی نماز پڑھتے بیہ کے کمرے سے نکل گئی تھی اور ابھی کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی ۔ عروہ بھی اج جلدی اٹھ گئی تھی اور لاؤنچ میں بیٹھی با ل کے ساتھ کھیل۔رہی تھی ۔ کامل کل رات سے گھر نہیں ایا تھا اور فلک کو یہی بات بیچین کر گئی تھی ۔ سدرہ اور بیہ دونوں اب تک سو رہی تھی ۔ 

صبح کی پہلی کرن جیسے  ہی کھڑکی کے پردوں سے چھن کر اُسکے چہرے پر پڑی وہ اپنی آنکھیں کھول گئی ۔ آنکھیں کھولتے ہی اُسے آنکھوں میں چبھن کا احساس ہوا ۔ آنکھیں مینچ کر اُس نے پھر اپنی سیاہ آنکھیں کھولی ۔ کچھ پل لگے اُسے سنبھلنے میں اور پھر سب یاد اتا گیا ۔ یکدم آنکھوں کے سامنے اُس بے مہر کا چہرہ لہرایا تھکا ہوا چہرہ جیسے کئی مسافت طے کر ایا ہو ۔۔اور نم سیاہ آنکھیں ۔۔۔چہرے پر بےبسی تو آنکھوں میں کرب ۔ 

بیہ نے حسام کو یاد کرتے ہی اپنے لب بھینچے ۔ دل نے شدت سے اُسے دیکھنے کی تمنا کی ۔ اُس سے لاکھ ناراضگی صحیح اُس سے لاکھ شکوہ صحیح لیکن اُسکا دیدار بیہ کے بہت ضروری تھا ورنہ وہ زندہ کیسے ره پاتی ۔ 

کل جس طرح وہ بیہ سے معافی مانگ رہا تھا بیہ کا دل ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا ۔ لیکن حسام کو اتنی جلدی وہ معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی تھوڑی سزا اُسکی بھی بنتی تھی بیہ پر کسی دوسری عورت کو فوقیت دینے کی سزا اُسکی محبت کو جھٹلانے کی سزا ۔۔اپنے غرور اور تكبر کی سزا ۔۔۔ جس کی وجہ سے بیہ نے اپنا بچا کھویا تھا ۔ اب بیہ کی باری تھی اُسے ترپانے کی ۔ 

کسملندی سے اٹھتے اُس نے کھڑکی کی طرف بڑھنا چاہا ۔ ابھی اُسے تازہ ہوا کی ضرورت تھی سر کا درد تو اب نہیں تھا لیکن دل کا درد اُسے چین نہیں لینے دے رہا تھا ۔ 

بیہ نے کھڑکی کے پاس اتے ہی کھڑکی کا ادھ کھلا پردہ پورا ہٹا کر کھڑکی کھولی اور باہر نظر اتا منظر دیکھتے وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی ۔ 

سفید شرٹ اور بلیو جینز وہ کل والے کپڑوں میں ہی ملبوس بکھرے بالوں کے ساتھ اُنکے گھر کے سامنے رکھی گئی بینچ پر بیٹھا اپنی نظریں اُسکی کھڑکی پر ہی ٹکایا ہوا تھا۔  

حسام کل رات سے اپنے دل کی بےچینی کی وجہ سے کامل خان کے گھر کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ کہیں ایک اور جھلک شاید وہ اپنی زندگی کی دیکھ لے پتہ نہیں کیوں اُسکا دل اتنا گھبرا رہا تھا کہ اُس نے پوری رات ایک پل کے لیے بھی بیہ کے کمرے کی کھڑکی سے نظر نہیں ہٹائی تھی ۔ پوری رات وہ جاگا اس بینچ پر بیٹھا اپنی نظریں بیہ کی کھڑکی پر ٹکائے ہوا تھا ۔ اپنے حال سے بے حال اُسے صرف بیہ کی فکر تھی ۔ 

اب سورج کی پہلی کرن کے ساتھ اپنی زندگی کا دیدار کرتے اسکا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا تھا بیہ کو کھڑکی پر جامد کھڑے دیکھ وہ زندگی سے بھرپور مسکان چہرے پر سجا گیا ۔ سیاہ آنکھوں میں چمک اُبھری ۔ 

صبح کا سماں ہو اور دیدار یار ہو واللہ پورا دن سکوں سے گزر سکتا ہے۔ 

اپنی کمرے کی کھڑکی پر کھڑی وہ حسام کے چہرے پر سجی مسکان کو واضح دیکھ سکتی تھی بیہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی سانس سینے میں اُلجھتا ہوا محسوس ہوا ۔ یہ مسکان یہ مسکان تو اُسکی جان تھی اس مسکان کے وہ نہ جانے کتنی بار صدقے دیا کرتی تھی ۔ 

وہ بکھرے حلیہ میں پوری رات نیچے ٹھندی ہواؤں میں بیٹھا رہا تھا ۔ بیہ کے دل میں درد کی ٹیس اُبھری ۔ وہ حسام کو ایسے اُلجھا بکھرا نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ بیہ ایک جھٹکے سے کھڑکی سے پیچھے ہوتے دیوار سے لگی ۔ 

حسام جو۔ گہری محبت بھری نظروں سے اُسکے سانولے من موہنے چہرے کو دیکھ کر دید کی پیاس بھجا رہا تھا یکدم بیہ کے ہٹنے پر اُسکے چہرے کی مسکان سمٹی آنکھوں میں ائی چمک یکدم ماند پڑی ۔ اپنے سر کو جھٹکتے وہ سر جھکائے نفی میں سر ہلا گیا ۔ 

وہ خود ہی تو کہہ چکی تھی وہ ظالم ہوگئی ہے ورنہ ایسا ہو سکتا تھا کہ حسام مسکرا رہا ہوں اور اُسکی بیہ اُسکے چہرے سے اپنی نظریں پھیر جائے ۔ لیکن وقت بدل گیا تھا اب بیہ نظریں پھیر بھی رہی تھی اور رخ موڑ بھی رہی تھی ۔ 

بیہ نے دیوار سے لگے گہرے سانس لیے وہ اس انسان کو تکلیف دینا چاہتی تھی جسے تکلیف میں دیکھ بھی نہیں سکتی تھی ۔ اُس کے دل نے اٹھتے ساتھ تمنا کی تھی حسام کا دیدار کرنے کی اور اُسے حسام کا دیدار نصیب ہو بھی گیا تھا ۔ 

حسام کی سیاہ سرخ  انکھوں سے وہ سمجھ گئی تھی وہ پوری رات جاگا ہے ۔ بیہ کی سیاہ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ اپنے آنسو صاف کرتی وہ کمرے سے باہر نکلی ۔ ارادہ نیچے جاکر حسام کو یہاں سے بھیجنے کا تھا ۔ 

فلک اپنے دھیان سے ناشتہ بنا رہی تھی جب اُسکی نظر بیہ پر پڑی جو بھیگی انکھوں کے ساتھ تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی ۔ فلک نے حیرت سے اُسے دیکھا جو نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹہ کو سینے پر پھیلائے بکھرے بالوں میں اپنی صحت کی فکر کیے بنا تیزی سے نیچے ائی تھی ۔ 

" کیا ہوا ہے بیہ کہاں جا رہی ہو " ؟ فلک نے اُسکا رخ باہر کی طرف دیکھتے سوال کیا ۔ 

وہ جو سب کچھ نظرانداز کیے تیزی سے باہر کی طرف بڑھ رہی تھی فلک کی آواز پر رکی ۔ دونوں ہاتھوں نے دوپٹے کو تھاما ۔ اُس نے پلٹ کر فلک کی طرف دیکھا جو حیرت سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔ 

" بھا ۔۔۔بھابھی وہ ۔۔حسا۔۔" ۔ ابھی اُسکے لفظ پورے بھی نہیں ہوئے تھے جب باہر سے کسی گاڑی کی آواز ائی جیسے کسی گاڑی ٹائر تیز آواز میں چڑچڑائے ہو ۔ فلک بیہ دونوں نے باہر دیکھا ۔ دونوں کے دل دہل اٹھے ۔ فلک نے لاؤنچ میں عروہ کو دیکھنا چاہا لیکن وہ وہاں ہوتی تو ملتی نہ ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور تیز قدموں سے باہر کی طرف بھاگی۔  

عروہ اپنی بال کے ساتھ کھیلتے کھیلتے باہر نکل ائی تھی ۔ لون سے اُسکی بال باہر نکلی تو عروہ لون بھی پار کرتے گھر سے باہر نکل ائی ۔

عروہ کو دیکھتے ہی ایک تیز رفتار کار جو شاید اسی کی تاک میں تھی فوراً سے عروہ کی طرف بڑھی ۔ حسام جو گھر سے قدرے دور بینچ پر بیٹھا بیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا ایک تیز رفتار گاڑی کو عروہ کے پاس اتا دیکھ ایک ہی جست میں اپنی جگہ سے اٹھتے عروہ کو لیے سڑک کے پار گرا ۔ گاڑی عروہ کے قریب تھی اگر حسام وقت پر نہ اتا تو عروہ حادثے کا شکار ہو جاتی ۔ 

فلک اور بیہ جو تیزی سے باہر آئے تھے باہر کا منظر دیکھتے فلک تیزی سے حسام کی طرف بڑھی جبکہ بیہ کے قدم وہی جم گئے سامنے وہ عروہ کو اپنے سینے سے لگائے سڑک کی دوسری طرف گرا ہوا تھا ۔ 

کامل جو ابھی ابھی ایا تھا یہ سب دیکھتے تیزی سے حسام کی طرف بڑھا ۔ حسام نے اُس گاڑی کو دیکھا جو کچھ پل کے لیے رکی اور پھر تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔ 

فلک ابھی عروہ کو حسام کی گود سے لیتی جب کامل نے تیزی سے حسام کی گود سے عروہ کو چھینا ۔ 

حسام نے زمین سے اٹھنے کی کوشش کی کل سے کچھ کھایا نہیں تھا پوری رات وہ جاگا تھا بخار تو پہلے ہی اُسے تھا اوپر سے سڑک پر گرنے سے اُسکے بازو پر شدید قسم کی رگڑ لگ گئی تھی جس سے خون نکلتا اُسکی شرٹ کو داغدار کر گیا تھا ۔ 

کامل نے روتی ہوئی عروہ کو پیار کیا اُسکا دل دہل اٹھا تھا عروہ کے قریب جاتی اُس گاڑی کو دیکھتے ۔ وہ گاڑی میں تھا جب تک اُس نے گاڑی گھر کے پاس روکی تب تک حسام عروہ کو بچا چکا تھا ۔ 

فلک نے کامل کی گود سے عروہ کو لیے چوم ڈالا وہ سمجھ گئی تھی کہ اگر حسام نہ ہوتا تو آج اُسکی بچی کسی بڑے حادثے کا شکار ہو جاتی ۔ 

بیہ جو ابھی تک وہی  کھڑی تھی اُسکی نظر حسام پر اُٹھی جو سب کو نظرانداز کیے  صرف اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ بیہ کی دل کی دھڑکن  بے ہنگم ہوئی اُس نے پل میں اپنی نظریں حسام کے چہرے سے پھیری جب اُسکی نظر اُسکے بازو پر پڑی جہاں سے شرٹ داغدار تھی بیہ کے وجود میں تکلیف سی اُبھری حسام کے وجود پر زخم دیکھتے ۔ دل میں بےچینی سی پھیلی ۔حسام کی تکلیف اُسے اپنی لگی ۔ 

" تم کہاں تھی جو تمہیں عروہ کا خیال نہیں رہا ابھی اگر اُسے کچھ ہو جاتا تو " ۔ کامل خان فلک کو دیکھتے ڈھاڑا تھا ۔ 

فلک کامل کی آواز پر اپنی جگہ سے اچھلی اُس نے حیرت سے کامل کو دیکھا جس نے پہلی مرتبہ اُسے تم کہہ کر مخاطب کیا تھا ۔ 

" میں ناشتہ بنا رہی تھی کامل مجھے نہیں پتہ چلا کب عروہ باہر آگئی " ۔ فلک نے دھیمی روہانسی آواز میں کہا۔ 

" حد ہوتی ہے فلک لا پرواہی کی حد ہوتی ہے تمھاری ذرا سی لا پرواہی کی وجہ سے اج میری بچی کسی حادثے کا شکار ہوجاتی " ۔ کامل نے فلک کو دیکھتے سرد لہجے میں کہا اور فلک کی بھوری انکھوں میں نمکین پانی جمع ہوا ۔ بیہ نے بھی حیرت سے اپنے بھائی کو دیکھا ۔ 

" ہو جاتا ہے کبھی کبھار اس میں اتنا چیخنے کی بات نہیں ہے اللہ کا شکر ادا کرو کہ بچی ٹھیک ہے " ۔ حسام کو کامل کا اس طرح سے فلک کو مخاطب کرنا انتہائی نہ گوار گزرا اسی لیے وہ  بول اٹھا ۔ 

بیہ نے حسام کی بات پر اُسکی طرف دیکھا جو شائد درد برداشت کرنے کے لئے اپنے جبڑے اور لب آپس میں بھینچ چکا تھا ۔ بیہ کی سیاہ آنکھیں حسام کو تکلیف میں دیکھتے نم ہوئی ۔ بیہ اُن تینوں سے کچھ قدم کی دوری پر ہی کھڑی تھی اور اُنکی آوازیں با آسانی سن سکتی تھی ۔ 

" تمہیں ہمارے آپسی معاملے میں بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے شکریہ تم نے بچایا میری بچی کو اب تم یہاں سے جا سکتے ہو" ۔ کامل نے حسام کے کہنے پر اُسکی طرف دیکھتے ضبط سے کہا ۔ 

" مجھے پتہ ہے تمہارے آپسی معاملے میں مجھے نہیں بولنا چایئے لیکن ایسے سڑک پر اپنی بیوی پر چیخ پڑنا مردانگی نہیں ہے نہ ہی کوئی عزت کا کام ہے جو معاملہ ہے وہ گھر کے اندر جاکر سلجھاؤ ۔ " حسام سرد لہجے میں کہتا اپنے بازو پر ہاتھ رکھ گیا جہاں سے اٹھتا درد وہ اب برداشت نہیں کر پا رہا تھا ۔

فلک نے شکوہ بھری بھیگی نظروں سے کامل کو دیکھا اور اندر کی طرف بڑھ گئی ۔ بیہ جو دھڑکتے دل سے نم آنکھیں لیے حسام کو دیکھ رہی تھی فلک کو واپس آتا دیکھ وہ بھی تیزی سے اندر کی طرف بڑھی ۔ 

" کامل خان محتاط رہو یہ حادثہ نہیں تھا سوچی سمجھی سازش تھی " ۔ حسام نے ایک نظر بیہ کی پشت کو تکا اُسکی بھیگی آنکھیں وہ دیکھ چکا تھا اپنے چہرے پر اُبھرتے درد بھرے تاثرات پر بیہ کے چہرے تکلیف وہ محسوس کر چکا تھا اُسکا بار بار اُسکے زخمی بازو کو دیکھنا بھی وہ محسوس کر چکا تھا۔ محبت تو اب بھی تھی فکر تو اب بھی تھی لیکن اُسے وہ اپنے دل کے خانے میں چھپا گئی تھی ۔ لیکن بیہ کا پھر بھی یوں نظرانداز کرتے اندر چلے جانا اُسکے دل میں چبھن پیدا کر گیا تھا ۔

کامل  نے حسام  کی بات پر کچھ بھی جواب نہیں دیا اور گھر کی طرف بڑھا ۔ حسام درد برداشت کرتے اُس بینچ تک ایا بینچ پر بیٹھتے اس نے فون نکال کر جون کو فون کیا جو بند جا رہا تھا ۔ ایک لمبا سانس بھرتے اُس نے اپنے بازو سے آستین اوپر کی جہاں اچھی خاصی رگڑ لگ گئی تھی اور خون رس رہا تھا ۔ 

بیہ نے کچن میں اتے جلدی سے کیبنٹ سے میڈیکل باکس نکالا اُس نے فلک کی طرف دیکھا جو نم آنکھیں لیے عروہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔ اپنے لب دانتوں تلے چبائے اُس نے بےچینی سے فلک کی طرف دیکھا جو کامل کو گھر میں اتا دیکھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی کامل بھی فلک کے پیچھے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ 

اور وہ اپنے دل کے آگے مجبور ہوتے دبے قدموں سے میڈیکل باکس تھامے باہر ائی ۔ 

بیہ دھڑکتے دل سے گھر سے باہر نکلی جہاں سامنے اُسے اپنے خون سے بھیگے بازو کو دیکھتے اُس نے اپنے لب تکلیف سے  بھینچے ۔ 

وہ جو اپنے بازو کو دیکھ رہا تھا اپنے انتہائی قریب اپنی متائے جان کی خوشبو محسوس کرتے چونکا نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ بلکل اُسکا پاس اسکے نزدیک بیٹھی ہوئی تھی ۔ حسام کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ ایا ۔ 

یقین تو تب ہوا جب بیہ نے کچھ بھی بولے بنا اُسکا زخمی بازو اپنے کانپتے ہاتھوں سے تھاما ۔ حسام کو لگا اُسے زندگی مل گئی ہے ۔۔۔زندگی ہی تو مل گئی تھی اُسکی زندگی اُس کے پاس بیٹھی تھی وہ اُسکے نقوش کو پاس سے دیکھ سکتا تھا اسکی خوشبو محسوس کر پا رہا تھا ۔ اُسکا لمس اپنے ہاتھوں پر محسوس کر رہا تھا ۔

بیہ نے سپاٹ نظروں سے حسام کی طرف دیکھا جو بنا پلکیں جھپکائے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا حسام کے یوں دیکھنے پر بیہ کے دل نے رفتار پکڑی لیکن وہ اپنے تاثرات پر قابو پا گئی ۔ 

حسام نے بیہ کا سرد چہرہ اور آنکھیں دیکھی تو زخمی سا ہنس دیا۔ 

بیہ نے  روئی سے حسام کے بازو پر لگا خون صاف کیا اور حسام کو لگا اُسکے ہر زخم کی مسیحائی ہو گئی ہو جیسے ۔۔۔۔

زندگی " ۔ حسام نے بیہ کی طرف دیکھتے ہوئے جذب سے کہا ۔ بیہ نے سیاہ بے تاثر نگاہوں سے اُسکی طرف دیکھا ۔ 

" نفرت ہے تو زخم کی مسیحائی کیوں " ؟ حسام نے سوال داغا ۔ 

" انسانیت کے لیے " ۔ بیہ نے جھٹ سے جواب دیا ۔ 

حسام نے نفی میں سر ہلایا ۔ 

" ایسی بات ہے تو میں روز ایسے زخم کھانے کو تیار ہو لیکن شرط یہ ہے میرے زخم کی مسیحائی تم کرو انسانیت کے ناطے ہی صحیح کم سے کم اُن کچھ پلوں میں زندگی تو جی سکونگا میں " ۔ حسام نے گھمبیر لہجے میں بیہ کی تیکھی ناک کو دیکھتے کہا اور بیہ کے دل کی دنیا میں تباہی مچی ۔ اُسکے ہاتھوں میں لرزش ہوئی حسام کی بات پر ۔ 

" ایسی باتوں سے اجتناب کرے آپ کے لیے بہتر ہوگا میں یہاں صرف اُس احسان کا بدلہ دینے ائی ہو جو آپ نے ہم پر کیا ابھی عروہ کو بچا کر اُسکے علاوہ اور کچھ نہیں " ۔ بیہ نے حسام کے زخم پر ائینٹمنٹ لگاتے ہوئے کہا ۔ حسام کے ہاتھ کو چھوتے ہی اُسکے وجود میں برق رفتاری دوری تھی اور حسام ان نرم انگلیوں کے لمس میں اپنی آنکھیں بند کر گیا۔اُسکے پورے وجود میں سرور سا دور گیا۔  

ایسی بات ہے تو مجھے تکلیف میں دیکھتے ان سیاہ انکھوں میں نمی کیوں چمکی تھی ۔ اس چہرے پر درد کا تاثر کیوں اُبھرا تھا یارا بات صرف اتنی سی ہے تم مجھے تڑپانا چاہتی ہوں محبت تو اب بھی تم  مجھ سے اُتنی ہی کرتی ہو بس مان نہیں رہی ہو تڑپا لو ابھی تمہارا وقت ہے " ۔ حسام نے بیہ کے بال کی لٹ کو پیچھے کرنا چاہا جب بیہ نے اُسکا ہاتھ جھٹکا ۔ 

" مذاق بنا رہے ہیں میرے جذبات کا آپ پانچ سال پہلے بھی یہی کرتے تھے اور آپ اج بھی یہی کر رہے ہیں حسام " ۔ بیہ نے غصے سے کہا ۔ 

" مذاق تو میرا بن گیا ہے پانچ سال پہلے والے حسام میں اور اب کے حسام میں بہت فرق ہے " ۔ حسام نے اذیت سے ہنستے ہوئے کہا ۔ 

" ہوگئی ہے پٹی آپکی بہتر یہی ہے آپ یہاں سے چلے جائے سمجھ ائی آپکو آپ کیا سمجھتے ہیں یہاں بیٹھے رہے گے تو میں آپکو معاف کرکے گلے سے لگا لونگی  اور کہو گی کہ صحیح ہے میں سب بھول گئی ہو نہیں بلکل نہیں " ۔ بیہ نے حسام کی بات پر اپنی جگہ سے اٹھتے اُسے غصے سے دیکھتے کہا حسام شاید  نہیں محسوس کر پا رہا تھا کہ حسام کی یہ بکھری حالت بیہ کی برداشت سے باہر ہے ۔ اب اُسکا ضبط ختم ہو رہا تھا ۔ 

حسام نے بیہ کے کہنے پر اُسے شریر نظروں سے دیکھا وہ غصے میں کیا بول گئی تھی اُسے خود کو اندازہ نہیں تھا ۔ 

" ہاں میں یہی سمجھتا ہوں کہ میں یہاں بیٹھا رہونگا اور تم بھاگ کر اونگی مجھے گلے سے لگاؤنگی بلکل صحیح کہا تم نے " ۔ حسام نے لبوں پر شریر مسکراہٹ جمائے بیہ کی سیاہ غصے بھری آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔

" آپکا دماغ خراب ہے حسام " ۔ بیہ نے سرخ رنگت سے جھنجھنلاتے ہوئے کہا ابھی کچھ دیر پہلے یہ شخص دیو داس بنا ہوا تھا اور اب آنکھوں میں شریر پن آسمایا تھا ۔ 

" بنا تیرے ہر لمحہ عذاب سا رہتا ہے 

دل ذرا اُداس سا اور دماغ خراب سا رہتا ہے " ۔ 

حسام نے کندھے اچکا کر شعر سنایا اور بیہ نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی ۔ اور بغیر ایک لفظ کہیں گھر کی طرف بڑھ رہی گئی ۔ 

حسام نے بیہ کے جاتے ہی تیز نظروں سے اطراف میں دیکھا اج جو حادثہ ہوا تھا وہ ایک حادثہ نہیں تھا وہ گاڑی عروہ کو مارنے کے لیے ہی اُسکی طرف بڑھ رہی تھی۔  اور یہ بات حسام کے دماغ میں بیٹھ گئی تھی اُس نے ایک نظر پٹی بندھے اپنے بازو کو دیکھا اور پھر اُس پر اپنے لب رکھے ۔ اپنی جگہ سے اٹھتے وہ آخری نظر کامل خان کے گھر پر ڈال کر آگے بڑھ گیا ۔ فلحال اُسے پتہ لگانا تھا اُس گاڑی کے بارے میں ۔۔۔

بیہ کی فکر مندی نے اُسکے وجود میں جان ڈال دی تھی اُس نے سوچ لیا تھا بیہ جتنا اُسے تڑپائے گی وہ ہنس کر برداشت کر لے گا ایک نہ ایک دن تو وہ اُسے معاف کر ہی دے گی اور اُسکے پاس آجائے گی ۔۔۔

نیند سے بند ہوتی آنکھوں سے سدرہ نے جنید کو دیکھا جو رات والی ہی پوزیشن میں لیتا گہری نیند میں محو تھا لیکن سدرہ پوری رات نہیں سو سکی تھی ۔ اُسکی دل کی حالت عجیب تھی . گزرے سالوں میں اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جنید کو کبھی معاف نہیں کرے گی لیکن اب جنید کو سامنے دیکھتے اُسکی دل کی حالت بدل گئی تھی۔  وہ اُسے اپنے پاس انے سے روک نہیں پائی تھی۔  جنید جس طرح گہری نیند میں غرق تھا اس سے صاف ظاہر تھا وہ اج کئی راتوں بعد سکون کی نیند سویا ہے  ۔ 

جنید کے بالوں میں  ہاتھ پھیرتے وہ اپنے گزرے دنوں کو یاد کر رہی تھی جب اپنے پیٹ پر جنید کا لمس محسوس کرتے اُس نے اُسکی طرف دیکھا۔  

جنید نے سدرہ کے پیٹ پر اپنے لب رکھتے اُسکی براؤن آنکھوں میں جھانکا جو لال ہو رہی تھی ۔ جنید کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آسمائی جبکہ سدرہ کی آنکھیں بے تاثر تھی وہ خاموشی سے یک تک جون کی براؤن آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جن میں چمک تھی خوشی تھی ۔ 

سدرہ کے چہرے کے مقابل اتے اُسکے لبوں سے دو انچ کی دوری پر رکتے جنید نے اُسکے تیکھے نقوش کو محبت بھری نظروں سے دیکھا اُسکی نگاہیں سدرہ کی براؤن آنکھوں سے ہوتی ہوئی اُسکے نچلے لب کے نیچے شان سے براجمان اُس تل پر اٹکی ۔ اور جون کا دل اس تل کو دیکھتے ہی بیقابو ہوا ۔ 

" پوری رات جاگتی رہی ہو " ؟ جنید نے سدرہ کے لبوں کے نیچے آب و تاب سے چمکتے تل کو گہری نظروں سے دیکھتے بوجھل لہجے میں کہا ۔ 

" جب اپنا ہاتھی جتنا وزن مجھ پر ڈالے سوئے رہو گے تو مجھے کیسے نیند آجانی تھی " ۔ جنید کی نگاہیں اور بوجھل لہجہ محسوس کرتے سدرہ نے لال چہرے کے ساتھ تنک کر جواب دیا ۔ 

" تمہیں پتہ ہے میں کتنی سکون دہ نیند سویا ہو ایک عرصے بعد ۔ ایسی سکون دہ نیند جو مجھے ہر پریشانی ہر تکلیف سے دور ایک سکون دہ وادی میں لے گئی تھی جہاں چلتی ٹھندی ہوائیں تمہارے ہجر سے لگی میرے بدن کی آگ کو ٹھنڈا کر گئی ۔ جہاں ایک مہکتی خوشبو میری نس نس میں سماتے مجھے مہکا گئی " ۔

 اپنی ناک سدرہ کی ناک سے مس کرتے جنید نے شدت و جذب سے کہا اور سدرہ کی سانسیں بکھری ۔ جنید کے سینے پر ہاتھ رکھتے اُس نے اُسے خود سے دور کرنا چاہا ۔ 

" یہ صبح بہت حسین ہے بہت ۔۔۔جب آنکھیں کھولتے ہی تمہارا حسین چہرہ میری انکھوں کے سامنے ہو جب تمھاری مہک مجھے انتہائی قریب سے محسوس ہوئی ہے ۔۔۔پتہ ہے تمہیں دیکھتے میرے دل نے شدت سے اللہ سے کیا دعا کی " ۔ جون نے اپنے سینے پر  دھڑا سدرہ کا  ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھامتے اپنے لبوں سے لگاتے کہا ۔ 

" کیا " ؟ سدرہ نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی جبکہ جون کی اتنی نزدیکی پر اُسکی دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز ہو رہی تھی ۔ جون نے اُسکے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی اُنگلیاں پھنسائی ۔ سدرہ نے جون کے چہرے سے نظر ہٹاتے اپنے اور اُسکے ہاتھ کو دیکھا ۔ 

" یہی کہ یا اللہ میری زندگی کی ہر صبح اتنی حسین لکھ دے جب میں اٹھتے ہی اپنی بیوی کے چہرے کا دیدار کرو اور کھل کر سانس لے پاؤ " ۔ جون نے سدرہ کے چہرے پر جھکتے سدرہ کے ماتھے پر شدت سے اپنے لب رکھے ۔ سدرہ کی آنکھوں میں پل میں نمی چمکی ۔ آنسوؤں کا گولا گلے میں اٹکتا ہوا محسوس ہوا ۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کی ۔ 

" میری محبت ہو تُم ۔۔۔تم نہیں جانتی تمہارے بغیر ایک ایک پل کس طرح گزارہ ہے میں نے دن تو کاموں میں گزر جاتا تھا لیکن فرصت کے لمحات میں اور خاص کر رات کو تمھاری یاد مجھے کانٹوں پر گھسیٹ لیتی تھی میری جان یہ ایک رات عنایت کی تُم نے تمہارا شکریہ ۔۔۔۔ورنہ شاید میں اتنی گہری اور سکون دہ نیند سے محروم رہ جاتا " ۔ جون کے لب اُسکے ماتھے سے ٹریس ہوتے ہوئے اُسکی کان کی لو تک آئے سدرہ کے کان میں اُسکی بوجھل سرگوشی گونجی ۔ سدرہ نے اپنے لب بھینچے اُسکی بھوری بند آنکھوں سے آنسو نکلتے اُسکے سرخ رخسار کو بھگو گئے ۔ جبکہ جون کی گردن پر پڑتی سلگتی سانسوں سے اُسے اپنی گردن جلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ 

" پر مجھے تُم سے محبت نہیں ہے " ۔ بھیگے لہجے میں کہتے وہ جون کو ٹھٹھک کر تھمنے پر مجبور کر گئی ۔ وہ جو اُسکی گردن میں منہ چھپائے اُسکی خوشبو اپنی سانسوں میں بسا رہا تھا سدرہ کی بات پر اپنی جگہ جیسے جم سا گیا ۔ لبوں پر تکلیف دہ مسکراہٹ ائی اُس نے سدرہ کی گردن سے منہ نکالتے اُسکے چہرے کی طرف دیکھا جو اُسکی نزدیکی پر سرخ تھا ۔ اور اُسکے رخسار بھیگے ہوئے اور براؤن آنکھیں بند تھی جبکہ لب کپکپا رہے تھے ۔ 

" کچھ پل کے لیے بے وجہ میرے ساتھ چلو نہ 

محبت نہیں ہے ۔۔۔۔نہ سہی ۔۔🥀

کوشش تو کرو نہ ....🥺 " 

جون کے شعر پڑھنے پر سدرہ نے یکلخت آنکھیں کھولتے اُسکی براؤن آنکھوں میں جھانکا  جہاں التجا تھی ۔ فریاد تھی ۔ 

سدرہ جون کی آنکھوں میں نظر آتی التجا فریاد کو دیکھتے اپنا چہرہ پھیر گئی اور جون اپنے لب بھینچ گیا ۔ سدرہ کے منہ پھیر لینے پر تکلیف کا ایک طوفان تھا جو اُسے اپنے سینے میں اٹھتا محسوس ہوا تھا ۔ سدرہ سے دور ہوتے وہ بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ 

جنید کے دور ہونے پر سدرہ نے اُسے نم نگاہوں سے دیکھا ۔۔۔مخالف کی قربت بھی نہیں چایئے تھی اور دوری بھی برداشت نہیں ہوئی تھی ۔ 

" چلو تمہیں گھر چھوڑ اؤں " ۔ جنید نے اپنا ہاتھ سدرہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ جون کا ہاتھ نظرانداز کرتی وہ خود اٹھ بیٹھی اور جون جبڑے بھینچے اپنا ہاتھ پیچھے کر گیا ۔ معافی چایئے تھی تو سب برداشت کرنا تھا ۔ کیونکہ غلطی اُسکی تھی ۔ ورنہ سدرہ کا خود سے منہ پھیرنا اُسکی نظراندازی کب برداشت تھی ۔ 

سدرہ چپ چاپ اپنے آنسو صاف کرتی کمرے سے نکل گئی اور جون ایک گہرا سانس بھرتے پھر سے اس خالی ہوتے کمرے کو افسوس سے دیکھتے  جہاں سدرہ کی موجودگی میں سکون تھا اُسکے پیچھے نکل گیا ۔ 

********************  ******************

پاکستان کی سر زمین پر بھی نیا دن چڑھ ایا تھا ایسے میں ہیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے گھٹنوں میں منہ چھپائے وہ سرخ مترنم آنکھیں لیے بیٹھی ہوئی تھی ۔ خضر کل رات کو اُسے حویلی لے ایا تھا لیکن اب تک وہ گھر نہیں ایا تھا اور شجیہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا وہ جانتی تھی وہ انتہاء کا غصے میں ہے اسی لیے اُسکے سامنے نہیں آرہا کہ کہیں وہ غصّہ میں شجیہ کو کچھ سخت نہ بول دے ۔ اُس نے کل سے کچھ نہیں کھایا تھا جو اُسکی اور بچے کی دونوں کی صحت کے لیے صحیح نہیں تھا ۔ 

دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس نے دروازے کی طرف دیکھا اور وہاں سے براؤن شرٹ اور بلیک پینٹ میں بکھرے بھورے بالوں اور لال بھوری انکھوں کے ساتھ خضر کو اندر اتا دیکھ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اُٹھی ۔ 

خضر  " ۔ خضر سے دو قدم کی دوری پر رکتے اُس نے خضر کی سرد آنکھوں میں دیکھتے پُکارا ۔ اور خضر نے لب بھینچے سرد نظروں سے شجیہ کو دیکھا جو کل والے حلیہ میں بکھرے بالوں اور بھیگی نیلی انکھوں کے ساتھ اُسکے سامنے کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی ۔ 

" خضر آپ مجھ سے ناراض تو نہ ہو میری اتنی غلطی بھی نہیں تھی " ۔ خضر پلٹ کر ڈریسنگ روم کی طرف جانے لگا جب شجیہ نے اُسکا بازو پکڑے بھرائی آواز میں کہا ۔ اور خضر نے پلٹ کر اُسکے دونوں بازو کو تھامتے اپنے انتہائی قریب کیا ۔ 

" غلطی نہیں تھی ۔۔۔شجیہ تم نے میرے اعتماد کا غلط فائدہ اٹھایا تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ۔۔۔۔تم نے اپنی  زندگی کو  خطرے میں ڈالا ۔۔ تم نے ایک بار بھی عزیر کا نہیں سوچا ۔۔اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو اگر میں وقت پر نہ پہنچ پاتا اور ڈی ایس پی شجیہ خضر شجاعت چوہدری اگر خود کو نہیں بچا پاتی تو ۔۔۔جواب دو ڈیم اٹ اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تُو کیا ہوتا میرا ۔۔۔" ۔ شجیہ کے چہرے پر جھکتے وہ غرایا جب شجیہ ہچکیوں سے روتے ہوئے اسکے سینے سے لگی ۔ اور خضر شجاعت چوہدری کا تمام غصّہ پل میں ڈھیر ہوا ۔ 

" ائی ایم سوری نہ خضر ہو گئی مجھ سے غلطی کل ۔۔۔گاڑی میں بھی کتنی دفعہ آپکو سوری بولا پر آپ نے میری طرف دیکھا تک نہیں ۔۔۔اتنا بھی کوئی غصّہ کرتا ہے آپ جانتے ہیں ۔۔۔آپکی شجیہ آپکے معاملے میں بہت حساس ہے مجھ سے نہیں ہوتا برداشت آپکی انکھوں میں اپنے لیے غصّہ ۔۔۔ناراضگی  " ۔ ہچکیوں سے روتی ہوئی اب وہ خضر کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی ۔ 

" شجیہ چپ ہو جاؤ ادھر دیکھو میری طرف " ۔ خضر نے اُسے اپنے سینے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن وہ مزید اُسکے سینے میں سما گئی ۔

" نہیں پہلے آپ بولے آپ نے مجھے معاف کیا ۔۔۔آپ مجھ سے غصّہ اور ناراض نہیں ہے " ۔ شجیہ نے روتے ہوئے کہا ۔ اور یہی تو وہ پگھل جاتا تھا اپنی بیوی کی آنکھوں میں آنسو کب برداشت تھے ۔ 

" اچھا ٹھیک ہے نہیں ہوں میں غصّہ تم چپ ہو یہاں بیٹھو یار " ۔ خضر نے نرم لہجے میں کہتے اُسے خود سے دور کرتے بیڈ پر بٹھایا اور اُسکے آنسو صاف کئے ۔ 

" یہ اچھا ہے پہلے ایسی حرکتیں کرو کہ مجھے غصّہ آجائے اور پھر ان نیلی انکھوں میں موٹے موٹے آنسو لے اؤ اب بندہ ناراض اور غصّہ بھی نہیں ہوسکتا اس ڈر سے کہ محترمہ رونے لگ جائے گی " ۔ خضر نے شجیہ کے بکھرے بال ہاتھ سے سلجھاتے ہوئے کہا ۔ لہجے میں بیچارگی تھی ۔ شجیہ ہنس دی اُسکی بات پر ۔ 

" ہنس لو ہنس لو ۔۔۔جانتی جو ہو تمہارے آنسو میری کمزوری ہے میں ان نیلی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا اسی لیے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہو میری اس کمزوری کا " ۔ خضر نے اُسکی بھیگی پلکوں پر ٹھہری نمی کو اپنی پوروں پر چنتے ہوئے شکایت زدہ لہجے میں کہا ۔ 

" آپکا غصّہ اور ناراضگی برداشت نہیں ہوتی نہ اسی لیے اٹھانا پڑا آپکی کمزوری کا فائدہ  " ۔ خضر کے گلے میں اپنی باہیں ڈالتے شجیہ نے لاڈ سے کہا ۔ 

" جو بھی ہے شجیہ تم نے میرا بھروسہ توڑا میں سمجھا میری بیوی محفوظ ہے ۔۔لیکن میری ٹارزن بیوی خطرے میں تھی ۔۔۔میری جان نکل گئی تھی تمہیں وہاں دیکھتے ۔۔۔آئندہ اگر تم نے ایسی کوئی غلطی کی تو میں تمہارے ان آنسوؤں سے بھی نہیں پھگلوں گا ۔۔یہ بہت خطرناک تھا ۔۔" ۔ شجیہ کی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھتے خضر گویا ہوا ۔ 

" آئندہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا خضر میں وعدہ کرتی ہو میں نے آپکا بھروسہ توڑا اُسکے لیے مجھے معاف کردے نہ پھر نہیں ہوگا ایسا اب جلدی سے مجھے معاف کرے پھر میں آپکو ایک خوشخبری سناتی ہو " ۔ شجیہ نے اپنے کان پکڑتے ہوئے معصومیت سے کہا اور خضر جانتا تھا اُس نے وعدہ کیا ہے تو اب وہ ایسی غلطی کبھی نہیں کرے گی " ۔ 

" معاف کردیا ہے میں نے  اب بتاؤ کیا خوشخبری ہے " ۔ خضر نے شجیہ کا ہاتھ تھامے پوچھا ۔

شجیہ نے کچھ بھی کہہ بنا خضر کا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھا اور لب دبائے نیلی چمکتی آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا ۔ 

خضر نے حیرت سے پہلے اپنا ہاتھ شجیہ کے پیٹ پر رکھا  دیکھا اور پھر شجیہ کو دیکھا ۔۔۔ شجیہ نے خضر کی بھوری حیرت زدہ آنکھوں میں دیکھتے مسکراہٹ لیے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔اور خضر شجاعت چوہدری مسرور سا ہوا ۔ 

" میری جان میں بابا بننے والا ہو تم ماما بننے والی ہو عزیر کی بہن انے والی ہے "۔ شجیہ کو ایک جھٹکے سے اپنے بازؤں میں اٹھائے خضر گول گول گھماتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں بولا اور شجیہ کی کھلکھلاہٹ پورے کمرے میں گونجی ۔ 

" بس بس خضر اب نیچے اُتارے مجھے " ۔ شجیہ نے خضر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُس سے کہا ۔ 

" نہیں بلکل نہیں اب تو ایک پل کے لیے بھی تم اپنے قدم نیچے زمین پر نہیں رکھو گی سمجھ ائی سب کام گئے تیل لینے " ۔ خضر نے شجیہ کو بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا ۔ اور شجیہ خضر کے اس پاگل پن پر فقط مسکرا دی ۔ 

" آپ تو ایسے خوش ہو رہے ہیں جیسے ہماری پہلی اولاد ہے " ۔ شجیہ نے خضر کی خوشی سے پُر مسرت بھوری آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔ 

" اولاد چاہے پہلی ہو یہ دوسری ہو والدین ایسے ہی خوش ہوتے ہیں ۔۔۔میری جان بہت بہت شکریہ مجھے پھر سے یہ خوشخبری دینے کے لیے " ۔ شجیہ کے سر پر خضر نے عقیدت بھرا لمس چھوڑا ۔ 

" تم بیڈ سے اٹھنا نہیں میں ابھی ایا داجی اور فاطمہ اماں کو خوشخبری دیتے اور تمہارے لیے کچھ کھانے کو لایا " ۔ خضر کہتا کمرے سے نکلا پیچھے شجیہ سر نفی میں ہلاتے مسکرا دی ۔ 

ابھی وہ اپنی خوشی میں لیپرڈ نام کی اس بلا کو بھول گئے تھے جو اُنکی زندگی میں دوبارہ آگئی تھی ۔ 

***************  ****************  **************

کامل کمرے میں داخل ہوا تھا فلک آنسو بہاتے عروہ کو پیار کر رہی تھی ۔ کامل اپنے لب بھینچ گیا ۔ 

دھیمے قدموں سے چلتے وہ فلک کے پاس آ بیٹھا ۔ لیکن فلک نے اُسکی طرف نہیں دیکھا اُسکا سارا دھیان اس وقت عروہ پر تھا ۔ 

" آپکو پتہ ہے شادی کو اتنے سال ہوگئے کہ ہماری اب دو سال کی بچی بھی ہے لیکن کبھی آپ نے کامل مجھ سے تم کیا اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی " ۔ وہ کامل کا پاس آکر بیٹھنا محسوس کر چکی تھی اسی لیے عروہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے بھرائی آواز میں گویا ہوئی ۔ اور کامل خان اپنے جبڑے بھینچ گیا ۔ 

" آپ بدل گئے ہے کامل بہت زیادہ پہلے آپ مجھ سے اتنا دور نہیں رہتے تھے جتنا اب رہتے ہے ہر وقت آپکی انکھوں میں غصّہ ہوتا ہے یہاں تک کہ جب میں آپکے پاس ہوتی ہو تب بھی آپکی انکھوں میں وہ نرم تاثر وہ محبت مجھے نظر نہیں اتی جو پہلے اتی تھی ۔ ایسا کیوں ہے کامل کیا آپکا دل ۔۔۔دل بھر گیا ہے مجھ سے " ۔ آخری بات کہتے ہوئے اُسے اپنے گلے میں کانٹے سے چبھتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ اور کامل خان اُسکی آخری بات پر تڑپ کر رہ گیا ۔ 

" یہ کیسی بات کہہ رہی ہے آپ فلک ۔۔۔۔آپ محبت ہے میری ۔۔بیوی ہے کیسے آپ سے میرا دل بھر سکتا ہے " ۔ فلک کو بازو سے تھامتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے کامل نے تڑپ کر کہا ۔ 

" تو پھر کیا وجہ ہے جو آپ بدل گئے ہے کامل بتائے مجھے ۔۔۔یا تو مجھے پہلا والے کامل دے دیں جو سب سے محبت کرتے تھے جو مجھ سے محبت کرتے تھے " ۔ فلک کی بھوری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے ۔ کامل نے فلک کو اپنے سینے میں بھینچا ۔ 

" ابھی تھوڑی دیر پہلے جس طرح میں نے آپ سے بات کی میں اُسکے لیے آپ سے معافی مانگتا ہوں فلک میں ڈر گیا تھا عروہ میں میری جان بستی  ہے کیونکہ وہ آپکے اور میرے وجود کا حصہ ہے فلک ۔۔۔میں کیسے بتاؤں آپکو میں کس قدر ڈر گیا ہو اُن لیٹر کی وجہ سے " ۔ کامل خان نے اپنی آنکھیں بند کی آخر وہ ۔۔۔وہ بات کہہ گیا تھا جو نہیں كہنی چایئے تھی ۔ 

فلک جو ہے آواز اُسکے سینے سے لگی آنسو بہا رہی تھی اُس سے دور ہوئی ۔ 

" کیسے خط کامل بتائے مجھے کوئی بات ہے نہ جس کی وجہ سے آپ پریشان ہے " ۔ فلک نے سوال کیا کامل کی آدھی بات اُسے الجھن میں ڈال گئی تھی اُسے شک تو پہلے ہی تھا کہ کوئی بات تو ضرور ہے جسکی وجہ سے کامل اتنا پریشان اور چڑچڑا رہنے لگا ہے ۔ 

" مجھے پچھلے ایک ہفتے سے خط موصول ہو رہے ہیں جس میں کبھی آپکو مارنے کی دھمکی دی جاتی تو کبھی بیہ کبھی عروہ ۔ پہلے تو میں نے اتنا دھیان نہیں دیا لیکن اب لگ رہا ہے بات ہاتھ سے نکل چکی ہے ۔۔۔کوئی ہے جو میری فیملی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور وہ کون ہے یہ میں نہیں جانتا ۔۔زندگی میں پہلی بار میں ڈر گیا ہو فلک صرف اپنی فیملی کے لیے ۔۔یہ میرا ملک نہیں ہے ہم اپنے ملک سے دور ہے اور اج عروہ کو خطرے میں دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ میں واقعی آپ لوگوں کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہوں " ۔۔فلک کے دونوں ہاتھ تھامتے آخر کار کامل خان نے اپنے دل میں چھپی ہر بات اُسے بتا دی تھی ۔۔۔جسکی وجہ سے وہ پریشان تھا جسکی وجہ سے وہ چڑچڑا ہوا تھا ۔

" کون ہے کامل اور ہم سے اُسکی کیا دشمنی ہے کامل میری بچی ۔۔آپ پلیز کچھ کرے نہ " ۔ فلک کے چہرے پر ڈر و خوف کا تاثر پھیلا ۔ 

" میں نے آپکو اسی لئے نہیں بتایا کہ آپ ڈر جائے مجھ پر یقین رکھے میں آپ سب کو کچھ نہیں ہونے دونگا جلد ہی میں آپ سب کی حفاظت کے لئے باڈی گارڈ کا انتظام کرونگا جو میرے یہاں نہ ہونے پر آپ سب کی حفاظت کر پائے لیکن یہ بات نہ شاداب کو اور نہ ہی بیہ کو پتہ چلنی چایئے فلک " ۔ کامل نے سنجیدگی سے کہا ۔ فلک نے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

" اتنے دنوں سے آپ اس بات پر پریشان تھے اور مجھے بتایا ہی نہیں کامل " ۔ فلک نے کامل کے سینے پر سر رکھتے شکوہ کیا ۔ 

" آپ ڈر جاتی اور فکر میں اپنی جان ہلکان کر لیتی اسی لیے نہیں بتایا تھا اور اب بتا دیا ہے اسکا مطلب یہ نہیں ہے آپ کچھ بھی فضول سوچے مجھ پر یقین رکھے " ۔ کامل نے اُسکے گرد اپنی گرفت مضبوط کرتے کہا اور فلک سکون سے اپنی آنکھیں مونڈ گئی ۔ کامل کو بھی اب تھوڑا سکون ملا تھا ۔

*************  *****************  ***************

جنید کی گاڑی سدرہ کے گھر کے باہر رکی تھی ۔ پورے راستے دونوں کے مابین ایک گہری خاموشی چھائی رہی نہ جون نے کچھ بولا تھا اور نہ ہی سدرہ نے تکلف کیا تھا ۔ 

سدرہ نے ایک نظر جون کو دیکھا اور گاڑی سے باہر نکلی ۔۔سدرہ کو دیکھتے جون بھی اپنی تمام تر ہمت جمع کرتا گاڑی سے باہر ایا اور ایک نظر اپنے اس گھر کو دیکھا ۔ جو ایک۔چھوٹی سی آبادی میں تھا لیکن خوشیوں بھرا تھا جہاں کی ہوا میں گھٹن نہیں تھی ۔ اُسکی براؤن آنکھوں میں نہ جانے کتنے مناظر اس گھر کے گھومے اور بیساختہ آنکھوں میں نمی اسمائی ۔ 

سدرہ نے جون کی طرف دیکھا جو محویت سے اس گھر کو دیکھ رہا تھا اور پھر وہ تلخي سے ہنس دی ۔ سدرہ نے جون کو نظرانداز کرتے گھر کے اندر جانے کے لیے ایک قدم بڑھایا جب گھر سے نکلتے تایا ابو کو دیکھتے اُسکے قدم تھمے ۔ 

اجمیر صاحب جو ساری رات سدرہ کے گھر واپس نہ انے پر پریشان تھے گاڑی رکنے کی آواز پر باہر آئے لیکن سامنے اپنے بیٹے کو دیکھتے وہ اپنی جگہ جم سے گئے ۔ بوڑھے وجود میں کپکپاہٹ پیدا ہوئی ۔ اور جون وہ پتھر کا ہوا ۔ اُسکی براؤن آنکھیں جو نم تھی اتنے عرصے بعد اپنے والد کو سامنے دیکھتے اُس میں سے آنسو بہہ نکلے اُس نے فوراً سے اپنا رخ بدلا سدرہ ایک طرف کھڑی دونوں کو دیکھ رہی تھی ایک نہ ایک دن تو یہ وقت انا ہی تھا تو اج ہی کیوں نہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کے سامنے آجاتے ۔۔

جون کے رخ پھیرنے پر اجمیر صاحب تڑپ اٹھے صحیح طرح سے ابھی دیکھا کہاں تھا اپنی اولاد کو آنکھوں کی پیاس تو بجھی ہی نہیں تھی ۔ 

" اوہ جنید !!!!! اب تو آجا گھر کیا میرے مرنے پر آئے گا " ۔ پنجابی لہجے میں کہتے وہ جنید کے پورے وجود میں اذیت بھر گئے تھے ۔ جنید جو رخ موڑے بازو سے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا اجمیر صاحب کے منہ سے نکلے یہ لفظ سنتے تڑپ کر مڑا ۔ 

" ایسا نہ کہیں بابا " !!!!!  ۔۔ آہ کتنے دنوں بعد یہ لفظ اپنی زبان سے ادا کیا تھا اُس نے اُسکے ساتھ ساتھ بابا لفظ پر اجمیر صاحب کا دل بھی تڑپ اٹھا ۔ اُنکی آنکھوں میں بھی نمکین پانی جمع ہوا ۔ سدرہ نے بھی نم نِگاہوں سے جنید کی طرف دیکھا جسکا ہر گرتا آنسو اُسے اپنے دل پر گرتا محسوس ہو رہا تھا ۔ 

" میں نے غلطی کی ہے بہت بڑی آپکو چھوڑ کر گیا اور اب ہمت نہیں واپس آنے کی ۔۔۔شاید یہی سزا ہے میری " ۔ جنید نے اذیت سے کہا ۔ 

" تو کون ہوتا ہے خود کو سزا دینے والا بیٹا آجا اب تیرے باپ سے تیری جدائی برداشت نہیں ہوگی اولاد چاہے کتنی بھی غلطیاں کر لے ماں باپ اُسے معاف کر ہی دیتے ہے اب آجا اب کیا مجھ بوڑھے سے منتیں کروائے گا " ۔ اجمیر صاحب نے اپنی بازو واں کرتے ہوئے کہا اور سدرہ نے اپنی ہچکی روکی ۔ 

جنید نے حیرت بھری نظروں سے اپنے بابا کو دیکھا جو اپنے بازو پھیلائے اُسکی طرف بھیگی نِگاہوں سے دیکھا ۔ ایک لڑکے کے لئے بہت بڑی بات ہوتی ہے جب اُسکے والد اُسے اپنے گلے سے لگاتے ہے ۔ وہ بھی اپنے والد کے سینے سے لگ کر اپنا حال دل بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی روعب جو ہوتا ہے باپ کا ۔ جون ایک بھی پل کی دیر کیے بنا بھاگتا ہوا اجمیر صاحب کے سینے میں سمایا تھا اُنکی گردن میں منہ چھپائے وہ اپنے آنسو سب لوگوں سے چھپاتے بہا رہا تھا سدرہ نے بھیگی آنکھوں سے ہنستے ہوئے یہ منظر دیکھا ۔ حمزہ اور اُسکی بیوی صائمہ بھی بھیگی نگاہوں سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے جہاں باپ بیٹا ایک دوسرے کے گلے لگے سالوں کا غبار نکال رہے تھے۔ 

" میرا بیٹا تو مزید گبرو ہوگیا ہے "۔  اجمیر صاحب نے جنید کے دور ہونے پر اپنی نظریں اونچی کرتے اُسے دیکھا جو قد کاٹھ میں اُن سے بڑا تھا ۔ 

" بابا معاف کردے اپنی نالائق اولاد کو " ۔ اجمیر صاحب کے کمزور ہاتھوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے معافی مانگی ۔ 

" معافی تو تُجھے مل ہی گئی ہے لیکن ایک بات تو نے صحیح بولی کہ تو  نالائق ہے ۔۔چل کھوتے اب اندر چل پورا گھر تیرے بنا سونا پڑا ہے " ۔ اجمیر صاحب کے کہنے پر اس  سدرہ کی طرف دیکھا جو اُسکے دیکھنے پر بغیر کچھ بھی کہیں اندر کی طرف بڑھ گئی تھی ۔ 

" ناراض ہے پر مان جائے گی " ۔ اجمیر صاحب کے کہنے پر اُس نے اثبات میں سر ہلاتے حمزہ کی طرف دیکھا ۔۔اُسے شرمندگی کا احساس ہوا ۔ لیکن حمزہ نے مسکراتے آگے بڑھتے اُسے اپنے گلے سے لگایا ۔ 

" غلطی ہر انسان سے ہوجاتی ہے اُسے وقت پر سدھار لینا چاہیئے میری بہن ہر دن تمہارا انتظار کرتی رہی ہے اور اب اسکا انتظار ختم ہوا ہے ناراض ہے پر مان جائے گی کیوں تایا ابو " ۔ حمزہ نے کہتے اجمیر صاحب سے تصدیق چاہی جنہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

" آپ مجھ پر غصّہ نہیں ہے " ؟ جنید نے حمزہ سے پوچھا اُسے حیرت ہوئی تھی حمزہ کے اس عمل پر اُسکے مطابق حمزہ تو اُسے دیکھتے ہی مار دیتا ۔ 

" سچ کہو غصّہ تو تھا تم پر لیکن ہوں تو ایک بھائی بہن کا گھر بسے دیکھنا چاہتا ہوں چاہتا تو اُسے تم سے الگ کر دیتا لیکن اپنی بہن کو بھی اچھی طرح جانتا ہو اُسکی خوشی تم میں ہے وہ تمہارے ساتھ ہی خوشحال رہ سکتی ہے تو پھر غصّہ کس بات کا اب چلو اندر یہ گھر تمہارا انتظار کر رہا ہے " ۔ حمزہ کے کہنے پر اُن سب نے گھر کے اندر قدم بڑھائے اور جون سمجھ گیا دنیا میں اج بھی ایسے لوگ رہتے ہیں جن کے دل بہت بڑے ہوتے ہیں جو سب کی غلطیوں کو آسانی سے معاف بھی کر دیتے ہیں ۔۔۔جیسے حمزہ جیسے اجمیر صاحب ۔۔۔

شاید ماں باپ کا دل ایسا ہی ہوتا ہے اولاد کی بڑی سے بڑی غلطی کو وہ پل میں معاف کر دیتے ہیں اولاد کی جُدائی اُنہیں کمزور بنا دیتی ہے اور اس بات کا اندازہ اُسے اجمیر صاحب کو دیکھتے ہوا تھا جو پہلے سے کمزور ہوگئے تھے ۔ 

اور حمزہ وہ ایک بھائی تھا جسے پتہ تھا اُسکی بہن کی خوشی کس میں ہے اور اپنی بہن کی خوشی کے لیے اسکی انا اور غصّہ بہت پیچھے رہ گیا تھا ۔

پرندوں کی چہچہاہٹ نئے دن کی روداد سنا رہی تھی ایڈیلیڈ کی سر زمین پر اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے ز ندگی روزمرہ کے کاموں میں الجھ گئی تھی ۔ آسمان پر کالے بادلوں نے اپنا ڈیرہ جمایا ہوا تھا ۔ ایسے میں بیہ لیزا عروہ کے ساتھ لون میں بیٹھی کھیل رہی تھی ۔ شاداب اج کامل کی جگہ آفس گیا تھا  ۔ اور لیزا کل اٹھتے ساتھ ہی اپنے گھر چلی گئی تھی اج صبح وہ بیہ کے پاس ائی تھی جب بیہ نے اُسے کل ہوا تمام واقعہ بتایا اور لیزا بھی اُس کی بات سنتے پریشان ہوئی ۔ بیہ نے اُسے حسام کے پٹی کرنے والی بات کے علاوہ باقی ساری بات بتائی تھی ۔ 

" اوہو عروہ آپ نے پھر بال باہر پھینک دی اب رکے میں لاتی ہو " ۔ عروہ کی بال باہر جاتے دیکھ بیہ عروہ کو بولتی ہوئی گیٹ سے باہر نکلی بال گیٹ سے کچھ ہی دور پڑی ہوئی تھی ۔ 

بیہ ابھی جھک کر بال اٹھا ہی رہی تھی جب اُسکی نظر کالے چمچماتے جوتوں پر پڑی جو اُسکے سامنے اچانک اگئے تھے بیہ نے اپنی نظریں اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا تو اُسکی سیاہ آنکھیں حد درجہ پھیل گئی ۔ 

کالے یونیفارم میں پہلو میں گن لگائے سیاہ بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے سیاہ آنکھوں میں غضب کی چمک اور عنابی لبوں پر دلکش مسکراہٹ سجائے وہ اپنے فدا کرنے والے تیکھے نقوش کے ساتھ اُسے دیکھ رہا تھا۔ ۔

جو پیلے رنگ کی فروک میں بالوں کو فرینچ چوٹیاں میں باندھے ایک سائڈ پر ڈالے اپنی سرمے لگی کالی آنکھوں میں حیرت سموئے گلابی لبوں کو ہلکا سا واں کئے اُسکی طرف دیکھتے حسام کا چین و سکون سب لوٹ گئی تھی ۔ 

" آپ " ۔ بیہ نے کھڑے ہوتے بال اپنی قمر پر ٹکائے حسام کو دیکھتے کہا ۔ اور حسام کی نظر اُسکے اس انداز پر اُسکی بل کھاتی قمر پر ٹک گئی ۔ بیہ نے حسام کی نظروں کے ارتکاز کو اپنی قمر پر دیکھا تو اُسکا چہرہ سرخ ہوا اُسکے گالوں نے بھانپ چھوڑی ۔ اس انسان کی بے باک نگاہوں کی گستاخی پر ۔ 

" ادھر دیکھے حسام یہاں کیا کر رہے ہیں آپ ؟ " بیہ نے بال کو اپنی قمر پر سے ہٹاتے خود کو سنبھالتے حسام کے چہرے کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے پوچھا ۔ 

حسام جو گہری نظروں سے بیہ کی بل کھاتی کمر کو اپنی بےباک آنکھوں سے دیکھ رہا تھا بیہ کے بلانے پر اُسکی طرف متوجہ ہوا ۔ 

" میم میں آپکا پرسنل باڈی گارڈ ہو اور یہاں آپکی حفاظت کے لئے ایا ہو " ۔ حسام نے بیہ کا لال بھبوکا چہرہ دیکھا تو اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے شریر نظروں سے اُسکے حسین چہرے کو تکتے کہا ۔ لیزا عروہ کے ساتھ کھڑی چہرے پر مسکراہٹ لیے اُن دونوں کو دیکھنے لگی جو ایک ساتھ انتہا کے پیارے لگ رہے تھے۔  حسام تو اُسے ویسے ہی پسند تھا اور اُسکی آنکھوں میں نظر آتی بیہ کی محبت کو دیکھتے وہ تو اُسکی اور فین ہوگئی تھی ۔ 

" اب یہ کیا ناٹک ہے حسام ۔۔۔کس نے رکھا آپکو باڈی گارڈ " ۔ بیہ نے تیز نظروں سے حسام کو گھورتے کہا اور حسام کو اس وقت وہ پٹر پٹر کرتی اتنی پیاری لگی کہ اُسکا دل کیا اُسکے لبوں کو چوم لے لیکن فلحال وہ یہ حرکت کرتے بیہ کو اور غصّہ نہیں دلا سکتا تھا ویسے بھی اج کل وہ بہت ظالم بنی ہوئی تھی کیا پتہ تھا اسکا خون ہی کر ڈالتی ۔ 

" ناٹک نہیں ہے آپ اپنے اُس کھڑوس ہری آنکھیں والے جلاد بھائی کو بلا کر پوچھ سکتی ہے " ۔ حسام نے دانت پیستے ہوئے کامل کے بارے میں کہا اور بیہ نے اُسے غصے بھری نظروں سے گھورا ۔ 

" لیزا بھائی کو بلا کر لاؤ" ۔ حسام کو تیز نظروں سے دیکھتے اُس نے اونچی آواز میں لیزا سے کہا جو عروہ کو لیتے اندر بڑھی تھی ۔ 

" سچ بتائے یہ آپکی نئی چال ہے نہ میرے قریب رہنے کی " ۔ اپنی ایڑیاں اٹھاتے حسام کی سیاہ آنکھوں کے مد مقابل اپنی سیاہ آنکھیں لاتے بیہ نے اسپاٹ لہجے میں پوچھا ۔ 

" ہاں کہو تو " ۔ حسام کے دل پر بیہ کے یہ انداز کیا قيامت ڈھا رہے تھے اُسکا اندازہ بیہ کو نہیں تھا ۔ اُسکے یہ انداز دیکھتے حسام کو اُس پر ٹوٹ کر پیار آرہا تھا اور اگر بیہ کو پتہ چل جاتا کہ حسام کے دماغ میں اسکو اس طرح دیکھ کر کیا چل رہا ہے تو وہ خود کو ایک کمرے میں بند کر لیتی لیکن اس انسان کے سامنے نہیں آتی ۔ 

" کوئی فائدہ نہیں ہے میں اب آپکے پاس نہیں اؤنگی کبھی نہیں " ۔ بیہ نے سخت لہجے میں کہا لیکن کیا کرتی جتنا بھی سختی سے بات کرلے چہرے پر سختی کا عنصر لا ہی نہیں سکتی تھی ۔ اپنے چہرے پر جان بوجھ کر غصے لانے کی کوشش کرتی وہ حسام کو ہنسنے پر مجبور کر رہی تھی ۔ اور وہ بہت ضبط سے اپنی ہنسی روک رہا تھا۔  

" انا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے یارا یہ بات دل میں دماغ میں بیٹھا لو اور تمہارے قریب رہنے کا میں ایک بھی موقع ضائع نہیں کرسکتا تھا ۔ تمہیں دیکھے سنے بنا اب گزارا ہے نہیں نہ اس غریب بندے کا " ۔ حسام نے اُسکے چہرے پر جھکتے گھمبیر لہجے میں کہا اور بیہ اُسے اپنے چہرے پر جھکتا دیکھ جھٹپٹا کر پیچھے ہوئی ۔ 

" کیا کر رہے ہیں یہ " ۔ بیہ کی پلکیں لرز اٹھی گالوں پر لالی چھائی ۔  اور حسام اُسکی لرزتی پلکوں کے اس رقص پر مسرور ہوا ۔ 

" وہ آپکو اتنی محنت مشقت کرتے اونچا ہوکر مجھ سے بات کرنی پر رہی تھی نہ میم اسی لیے میں آپکی آسانی کے لیے جھک ایا ۔۔۔اب آپ کچھ اور سمجھ رہی ہے اس میں میری کیا غلطی ہے " ۔ اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے حسام نے شوخی سے کہا اور  بیہ کی چھوٹی سی ناک پر غصّہ آ بیٹھا ۔ 

" آپکے انداز بدل نہیں گئے ہے " ۔ اور میں کچھ ایسا ویسا نہیں سمجھ رہی تھی " ۔ بیہ نے اپنے آپکو قابو کرتے اپنی انگلی حسام کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔ 

" انداز تو آپکے بھی بدل گئے ہے اور سیدھا یہاں پر لگ رہے ہیں مت پوچھے کس طرح خود پر ضبط کر رہا ہوں ورنہ ارادے مّیرے جان لیوا ہے " ۔ حسام نے بیہ کی انگلی اپنی انگلی سے لوک کرتے اپنے دل کے مقام پر رکھتے زو معنی لہجہ میں کہا ۔ اور بیہ اُسکی بات سمجھتے سلگ اٹھی وہ اُس انسان کو تکلیف دینا چاہتی تھی لیکن یہ تو ہشاش بشاش سا تھا اور انداز بھی ایسے بدلے تھے کہ اُسے لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہی مغرور حسام ہے جس کے چہرے پر ہر وقت تکبر ہوتا تھا لیکن جو بھی تھا حسام کا یہ انداز اُسکے دل کی دھڑکنیں منتشر ضرور کر گیا تھا ۔ 

" بدتمیز " ۔ بیہ نے اپنی انگلی اُسکی گرفت سے نکالتے ہوئے جلے دل سے کہا ۔۔

" Thanks for the compliment " ۔ 

(تعریف کے لیے شکریہ ) ۔ 

اپنا کولر صحیح کرتے ہوئے حسام نے لبوں پر مسکراہٹ سجائے ایسے کہا جیسے نہ جانے کون سا بڑا اعزاز قبول کیا ہوا ۔جبکہ بیہ کلس کر رہ گئی اُسکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھتے اس انسان کو بخوبی پتہ تھا کہ اسکے چہرے پر جمی یہ مسکان اُسکی جان ہے  حسام کی اس حرکت پر ابھی وہ کچھ کہتی جب کامل اور فلک لیزا کے ساتھ باہر ائی ۔ 

سامنے حسام کو بلیک یونیفارم میں دیکھتے کامل نے اپنی آبرو اچکائی جبکہ فلک بھی حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔ 

" تم یہاں " ؟ کامل نے حسام کے پاس اتے پوچھا ۔ 

" آپ نے اپنی فیملی کے لیے پرسنل گارڈ بلوایا تھا میں وہی ہو " ۔ حسام کا چہرہ اب سنجیدہ تھا ۔ 

" کیا بکواس ہے یہ " ۔ کامل نے کہتے ساتھ اپنے فون میں نمبر ڈائل کیا وہ کل رات کو ہی اپنی دوست کی مدد سے ایک سیکورٹی کمپنی سے باڈی گارڈ ہائر کر چکا تھا لیکن اُسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا وہ حسام ہوگا ۔ حسام نے کامل کو فون پر کال ملاتے دیکھا تو مسکرا پڑا ۔ اُسکی نظر کامل خان پر ہی تھی جب اُسے پتہ چلا کہ وہ باڈی گارڈ ہائر کر رہا ہے تو حسام نے اپنی سورسز سے اُس سیکورٹی کمپنی میں ملازمت لی اور اج وہ کامل خان کے سامنے کھڑا تھا ۔۔  اُسے بیہ کے قریب رہنا تھا اور اُس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا ۔ بیہ حسام کے چہرے پر چمکتی مسکراہٹ دیکھتے سمجھ گئی تھی اُس نے ضرور کچھ اُلٹا کام کیا ہے ۔ 

کامل خان کال کرتے کچھ دور گیا تھا اور جب وہ واپس ایا تو اُسکے چہرے پر سخت تاثرات تھے ۔ 

" ضرورت نہیں ہے ہمیں کسی باڈی گارڈ کی تم جا سکتے ہو " ۔۔ کامل نے سنجیدگی سے کہا ۔ 

"  میں کہیں نہیں جا سکتا سر آپ کنٹرکٹ پیپر پر سائن کر چکے ہیں جس میں صاف صاف لکھا تھا آپ نے مجھے  دو سال کے لیے اپنا پرسنل گارڈ ہائر کیا ہے اور دو سال میں تو میرا کام ہو ہی جائے گا ۔۔۔میرا مطلب آپکا جو بھی مسئلہ ہے جسکی وجہ سے آپ نے مجھے ہائر کیا ہے وہ حل ہو ہی جائے گا " ۔ لبوں پر اب شیطانی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا اُسکا کیا کام تھا یہ وہ سب جانتے تھے فلک اور لیزا نے اپنی مسکراہٹ دبائی تو بیہ اور حسام نے اُسے تیز نظروں سے گھور کر دیکھا جس نے اُنکی خونخوار نظروں کو دیکھتے بات بدل دی تھی ۔ 

کامل نے سرد نظروں سے حسام کو دیکھا اور اندر کی طرف بڑھ گیا اب وہ کر ہی کیا سکتا تھا خود ہی اپنے ہاتھوں سے یہ کام سر انجام دیا تھا ۔۔لیکن جاتے جاتے وہ نفی میں سر ہلانا نہیں بھولا تھا حسام کی حرکتیں دیکھتے اب اُسکا دل بھی حسام کے لیے صاف ہونے لگا تھا دوسرا حسام نے جس طرح کل عروہ کو بچایا تھا وہ بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں تھا ۔ 

بیہ نے آنکھیں چھوٹی کرتے حسام کو دیکھا وہ سوچ چکی تھی اب حسام کو قریب رکھتے ہی تڑپائے گی اور اندر کی طرف بڑھ گئی اُسے یونی بھی جانا تھا ۔ 

" بیسٹ آف لک ہم آپ کے ساتھ ہے " ۔ لیزا نے حسام کو انگوٹھا دکھاتے مسکرا کر کہا ۔ 

حسام مسکرا گیا اُسکی بات پر ۔ 

" کوشش کرتے رہو کوشش کرنے والوں کی ہار نہیں ہوتی میں کاٹیج صاف کروا دیتی ہو تمہارے لیے " ۔ فلک نے مسکراہٹ لبوں پر سجائے حسام سے کہا جس نے اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

" چل بھائی حسام ہو جا شروع بیوی مناؤ سفر میں جس میں سب سے بڑا دشمن یہ ہری آنکھوں والا جلاد ہے " ۔ فلک اور لیزا کے جاتے ہی حسام نے خود سے کہا اور لون میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گیا ۔  جب تک کاٹیج کی صفائی نہیں ہوئی وہ وہی بیٹھا رہا اور اس وقت میں اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ ذرا سا سرکائے بیہ حسام کو دیکھتی رہی ۔ جیسکا نیا انداز اُسکے دل کی دنیا تہہ بالا کر گیا تھا لیکن اتنی جلدی وہ نہیں ماننے والی تھی ابھی تو حسام کو تڑپانا تھا ۔ 

*******************  ****************** **************

اپنے کمرے میں بیٹھا وہ ہر ایک چیز کو ہاتھ لگا کر دیکھ رہا تھا جو ویسے کی ویسے ہی تھی ۔ کوئی بھی چیز نہیں بدلی تھی ۔ ہر چیز بلکل صاف ستھری اور اپنی جگہ پر تھی ۔یکدم اُسکی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر اُٹھی اور وہاں موجود اپنی اور سدرہ کی تصویر کو دیکھتے جون کے چہرے پر مسکراہٹ ائی ۔ 

اس نے فوراً سے اگے بڑھتے وہ تصویر اٹھائی یہ اُنکے نکاح کی تصویر تھی جس میں لال جوڑے میں سجی سوری وہ شرم و حیا کے بوجھ سے بوجھل پلکیں جھکائے کھڑی تھی اور وہ سفید شیروانی میں اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھا ہوا تھا ۔ جون نے تصویر میں نظر اتے سدرہ کے حسین چہرے پر اپنی انگلی ٹریس کی ۔ کتنی  دیر وہ اجمیر صاحب کے ساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا تھا ۔ لیکن وہ اپنے کمرے میں ایسی چھپی تھی کہ باہر ہی نہیں ائی ۔ 

اُسے فریش ہوکر یونی جانا تھا اور پھر حسام کے پاس بھی ۔ جنید نے آگے بڑھتے الماری کھولی تو اُس میں ترتیب سے رکھے گئے کپڑوں کو دیکھتے وہ مسکرا گیا نیلے رنگ کی شرٹ اور پینٹ لیتے وہ واشروم کی طرف بڑھا ۔ 

آمنہ صبح ہوتے ہی سدرہ کے گھر ائی تھی گھر میں داخل ہوتے ہی اُسے اجمیر صاحب کے ہنسنے کی آواز سنائی دی اُنہیں ہنستا دیکھ وہ خود بھی ہنس دی ۔ اجمیر صاحب کی نظر جب اُس پر پڑی تو وہ اُسے دیکھتے مسکرا پڑے سدرہ کی اس دوست میں اُنکی اپنی جان بھی بستی تھی ۔۔۔وہ تھی ہی اتنی پیاری اور معصوم کے کوئی بھی دیکھتا تو اُسے آمنہ پر پیار ضرور آجاتا تھا ۔ 

" سدرہ کہاں ہے " ؟ اشارتاً پوچھتی وہ سب کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیتی تھی ۔ وہ بول نہیں سکتی تھی لیکن اُسکے ہاتھ میں پہنا وہ بریسلیٹ اور اُسکی ہیزل بلیو بڑی بڑی آنکھیں اُسکی زبان بن جاتے تھے ۔ 

" تمھاری دوست اپنے کمرے میں بند ہے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی جاؤ ذرا سمجھاؤ اُسے " ۔ اجمیر صاحب کے کہنے پر آمنہ نہ سمجھی سے اُنہیں دیکھتے سدرہ کے کمرے کی طرف بڑھی ۔ 

آمنہ نے دروازہ کھولا تو اُسکی نظر سدرہ پر پڑی جو بیڈ پر بیٹھی اپنے آنسو صاف کر رہی تھی امنہ نے سدرہ کو روتے دیکھا تو جلدی سے دروازہ بند کرتے اس تک ائی ۔ 

" کیا ہوا ہے سدرہ تم رو کیوں رہی ہو "  ؟ امنہ نے اشارہ کرتے پوچھا ۔ 

امنہ کے پوچھنے پر سدرہ کی آنکھوں میں پھر آنسو جمع ہوئے اور وہ اُسے سب بتاتی چلی گئی " ۔ 

" تو تم نے اُنہیں معاف کردیا" ؟ امنہ نے سدرہ کی ساری باتیں سنتے اُس سے سوال کیا ۔ 

" نہیں اتنی جلدی نہیں بیشک وُہ اس گھر میں آگیا ہے لیکن میں اُسے اتنی جلدی معاف نہیں کرنے والی اُس نے بہت تڑپایا ہے مجھے " ۔ سدرہ نے جنید کا چہرہ تصور میں لاتے کہا ۔ 

" مجھے بھی تمہیں کچھ بتانا ہے لیکن تم پہلے ہی اتنی ٹینشن میں ہو " ۔ امنہ کے اشارہ کر کے کہنے پر سدرہ کے ماتھے پر بل آئے ۔ 

" ارے میری ٹینشن کو مارو گولی تم بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے " ۔ سدرہ نے منہ بناتے کہا اور امنہ اُسکے اس طرح کہنے پر ہنس دی اور پھر اُسے سب بتاتی چلی گئی ۔۔امنہ جیسے جیسے اشارہ کر رہی تھی ویسے ویسے سدرہ کے ماتھے پر بل بڑھتے جا رہے تھے ۔ 

" یہ کیا جسے ہم ہیرو سمجھ رہے تھے وہ تو ایک نمبر کا زیرو نکلا " ۔ سدرہ نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔ 

" وہی تو " ۔ امنہ نے اپنے ہاتھوں سے اشارتاً کہا ۔ 

" پر حسینہ جس طرح کی تم باتیں بتا رہی ہو جو وہ کہہ رہا تھا اُس سے تو یہ لگ رہا ہے جیسے وہ تمہیں پسند کرتا ہے " ۔ سدرہ نے شوخ نظروں سے امنہ کی طرف دیکھتے کہا ۔ اور امنہ کا چہرہ پل میں لال ہوا ۔ یہ سنتے اُسے وہی سرد آنکھیں اور سرد لہجہ یاد آیا اور امنہ کی ریڑھ کی ہڈی سنسنا اُٹھی ۔ دونوں ہاتھوں سے کروس بناتے اُس نے نفی میں سر ہلایا ۔

 " پر میں اُسے پسند نہیں کرتی تم ایسا کچھ بھی مت بولوں میں صرف زرقان کو پسند کرتی ہو اور اُسکی ہوں  " ۔ لال ہوتے چہرے کے ساتھ امنہ نے سدرہ کو دیکھتے اشارتاً کہا تھا اور سدرہ اسکے چہرے پر لالی دیکھتے ہنس دی ۔ 

" اوہو میری معصوم حسینہ صرف زرقان کی ہے اور اُسے پسند کرتی ہے کیا بات ہے بھائی کیا بات ہے چلو پھر چلتے ہے یونی دیکھ کر اتے ہے تمھارے زرقان کو "۔  سدرہ نے اُسے چھیڑا اور امنہ نے لال ہوتے اُسکے کندھے پر دھموکہ رسید کیا ۔ 

آمنہ اور سدرہ ہنستی ہوئی کمرے سے باہر نکلی تھی لیکن سامنے ہی جنید کو کمرے سے نکلتے دیکھ سدرہ کی مسکراہٹ سمٹی جسے جون نے شدت سے محسوس کیا  ۔ 

" چلو میں یونی ہی جا رہا ہوں ساتھ چلتے ہیں  " ۔ جون کے کہنے پر سدرہ نے غصے بھری نظروں سے اُسکی طرف دیکھا ۔ لاؤنچ میں اس وقت اجمیر صاحب حمزہ اور صائمہ بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ 

" چلے جاؤ سدرہ جنید کے ساتھ اب سے وہی تمہیں لے کر جایا کرے گا " ۔ حمزہ نے سدرہ کے بے تاثر چہرے کو دیکھتے کہا اور سدرہ اپنے لب بھینچ گئی  ۔  وہ منع کرنے والی تھی لیکن اب حمزہ کے کہنے پر اُس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی تھی ۔ آمنہ کا ہاتھ تھامے وہ سب کو اللہ حافظ کہتی باہر نکلی جنید نے بھی اُسکے پیچھے اپنے قدم بڑھائے ۔ 

****************  *************************

" چلو گاڑی میں بیٹھو " ۔ جون نے اپنی گاڑی کے پاس اتے ہوئے کہا لیکن سدرہ اور امنہ ویسے ہی اپنی جگہ کھڑی رہی ۔ 

" کیا ہوا ہے " ؟ جنید نے اُنھیں اپنی جگہ سے نہ ہلتے دیکھ پوچھا ۔ 

" ہم لوکل بس میں سفر کرتے ہیں مسٹر جنید ان بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنا ہم  افورڈ نہیں کر سکتے اگر آپ نے ساتھ چلنا ہے تو بس میں چلے ورنہ آپ جا سکتے ہیں اپنی اس گاڑی میں " ۔ سدرہ نے اپنے سینے پر ہاتھوں کو باندھتے طنزیہ لہجے میں کہا ۔ 

" ٹھیک ہے کوئی بات نہیں چلو بس میں چلتے ہیں " ۔ جنید نے سدرہ کی بات پر کندھے اچکا کر کہا اور سدرہ نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا اُسے لگا تھا وہ منع کردے گا اور پھر وہ دونوں اکیلی چلی جائے گی لیکن وہ تو تیار ہوگیا تھا ۔ 

سدرہ نے غصے سے اپنی ناک چڑھائی اور امنہ اپنی دوست کا غصے سے بھرا چہرہ دیکھتے مسکرا دی  ۔ اُن سے کچھ دور اپنی گاڑی میں بلیک ٹی شرٹ جو اُسکے سینے سے چپکی ہوئی تھی بلیک پینٹ میں اپنی آنکھوں کو چھوتی کرتے وہ بڑے غور سے امنہ کو دیکھ رہا تھا ۔ جس کے لباس کو دیکھتے وہ اج مطمئن تھا وہ اج بلیک رنگ کی گول  اسٹائلش کرتی جو اُسکے گھٹنوں تک تھی نیچے جینز پہنے سکارف کو گلے میں ڈالے  اج اُسے بہتر لگی ۔ وہ جو بھی لباس پہنتی تھی اُس میں حسین لگتی تھی ۔ اور یہی بات مخالف کا چین و قرار لوٹ لیتی تھی ۔ بھورے بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیا ہوا تھا اور چہرے پر ماسک لگایا ہوا تھا  ۔ اُسکی نظریں  اپنے میوٹ اسپیکر پر تھی جو اُسکی بات کو بھلائے بڑے آرام سے کھڑی مسکرا رہی تھی ۔ 

سدرہ نے تیز چبھتی نظروں سے جنید کو دیکھا اور اپنے قدم آگے بڑھائے پیچھے جون بھی اُسکے ہم قدم ہوا اور وہ جو گاڑی میں بیٹھے چبھتی نظروں سے یہ دیکھ رہا تھے فوراً سے گاڑی سے باہر نکلا لیکن باہر انے سے پہلے اپنے بال اور ماسک کو صحیح کرنا نہیں بھولا تھا ۔ 

آمنہ سدرہ جون بس سٹاپ تک آئے تھے اور اُنکے اتے ساتھ ہی وہاں لوکل بس آگئی تھی ۔ سب سے پہلے آمنہ بس میں سوار ہوئی پھر سدرہ  اور پھر جنید اُن کے اندر داخل ہونے سے بس پوری بھر گئی تھی ۔ ماسک کے پیچھے اُس نے نروس ہوتے اپنے لبوں پر زبان پھیری اج تک اتنا نروس کسی کام میں نہیں ہوا تھا جتنا اس بس میں سوار ہونے سے ہو رہا تھا ۔ 

بس کے اندر سوار ہوتے وہ لوگوں کے درمیان پستے پساتے آن تینوں سے کچھ دور کھڑا ہوگیا تھا بس پوری بھری ہوئی تھی کوئی بھی سیٹ خالی نہیں تھی اسی لیے وہ سب کھڑے ہوئے تھے ۔ 

رش کی وجہ سے جنید بلکل سدرہ کے برار میں کھڑا ہوا تھا ۔ ایسے کہ اُسکے سارے وجود نے سدرہ کو کور کیا ہوا تھا ۔ جون نے سہارا لینے کے لیے اپنا بازو اوپر کرتے اسٹینڈ کو پکڑا اور اپنے  انتہائی قریب کھڑی اپنی ناراض بیوی کو دیکھا جو اپنے لب بھینچے بے تاثر چہرے کے ساتھ کھڑی اُسے نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ 

اپنے بہت پاس سے اٹھتی مردانا کلون کی دلفریب خوشبو محسوس کرتے سدرہ نے اپنے لب بھینچے تھے جنید اُس کے انتہائی نزدیک تھا کہ سدرہ کی پشت اُسکے سینے سے مس ہو رہی تھی اور سدرہ کے وجود میں سنسنی سی دور رہی تھی ۔ اُسکا دل انتہا کا تیز دھڑک رہا تھا ۔ لیکن اُس نے اپنے چہرے پر کوئی تاثر نہیں انے دیا تھا ۔ 

جنید نے کلس کر اُسکے اسپاٹ تاثرات دیکھے وہ اُسکے انتہائی نزدیک تھی لیکن نہ اُسکی طرف دیکھ رہی تھی اور نہ اُسکی نزدیکی پر اُسکے چہرے کی رنگت بدل رہی تھی ۔ 

یکدم بریک لگنے پر سدرہ آگے کو ہوتی گرتی جب جون نے اپنا ایک بازو اُسکے پیٹ کے گرد رکھ کر اُسکی پشت اپنے سینے سے لگائی اور سدرہ کے وجود میں کرنٹ سا دور اٹھا ۔ دل پسلیوں سے سر ٹکرانے لگا ۔ اب چہرے کی رنگت بھی متغیر ہوئی اُس نے پہلے امنہ کی طرف دیکھا جس کا رخ دوسری طرف تھا اور پھر نظریں گھما کر اپنے انتہائی نزدیک جنید کو جو اپنی براؤن آنکھوں میں شوخی لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ 

" ہاتھ ہتاؤ اپنا " ۔ سدرہ نے مدھم آواز میں دانت پیستے انتہائی نزدیک کھڑے جون کو کہا جس کا خوبرو چہرہ اُس وقت سدرہ کو انتہائی زہریلا لگ رہا تھا ۔ 

" نہ ہٹاؤ تو " ۔ جنید نے کہتے سدرہ کے پہلو پر ہاتھ کا دباؤ بڑھایا اور سدرہ کی جان لبوں پر ائی ۔ اُسکے پورے وجود میں سنسنی پھیل گئی ۔ 

" نہیں ہٹاؤ گے ہاتھ تم " ۔ سدرہ نے وارن کرتی نظروں سے جنید سے پوچھا ۔ 

" بلکل نہیں کبھی نہیں " ۔ جنید نے سدرہ کے کان میں جھکتے اُسکی کان کی لو کو لبوں سے چومتے کہا اور سدرہ کو اپنے گالوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا۔  

" ہٹانا تو پڑے گا تمہیں " سدرہ نے خود کو قابو کرتے کہا ورنہ جنید کے لمس سے اُسکے وجود میں بےچینی سے بھر جاتی تھی جس طرح ابھی اس کے لمس پر اُسکا دل بےچین ہوگیا تھا۔  

سدرہ نے اپنے ناخن کو دیکھا اور پھر جنید کو جو اُس سے دور ہوتے اُسے دیکھ رہا تھا ۔ سدرہ کے اپنے ناخن آگے کرنے پر جون کے چہرے پر جمی مسکراہٹ سمٹی ۔ جون نے نفی میں سر ہلایا ۔ سدرہ نے اب اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اثبات میں سر ہلایا اور اپنے ناخن پوری طاقت کے ساتھ جنید کے ہاتھ پر گاڑھے ۔ 

جنید نے تکلیف ضبط کرنے کے لیے اپنے لب کو دانتوں کے بیچ دبایا لیکن اپنا ہاتھ سدرہ کے پیٹ پر سے نہیں ہٹایا ۔ سدرہ نے  بھوری انکھوں کو چھوٹا کرتے اُسکی طرف دیکھا جس کا سفید چہرہ لال ہوا تھا جو یہ واضح کر رہا تھا کہ اُسے درد ہو رہا ہے لیکن وہ اپنا ہاتھ اُسکے پیٹ پڑ سے نہیں ہٹا رہا تھا ۔ سدرہ اُسکی   براؤن محبت سے بھری آنکھوں میں دیکھی گئی ۔ پورے دس منٹ بعد اُس نے تھکتے اپنے ناخن جنید کے ہاتھ سے بتائے تھے سدرہ نے اپنے پیٹ پر دھرا جنید کا ہاتھ دیکھا جس پر اُسکے ناخنوں کے نشان گھب چکے تھے جبکہ خون کی بوندیں بھی نکل ائی تھی ۔ اپنے اس ظلم پر اُسکی خود کی آنکھیں نم ہوئی ۔ 

تھک ہار کر اپنا ہاتھ وہ اپنے پیٹ پر دھڑے جنید کے ہاتھ پر رکھ گئی تھی لیکن اب اُسکی طرف دیکھنے سے اجتناب برتا تھا ۔ اور جنید وہ مسکرا گیا ۔ اپنے ہاتھ پر جمے سدرہ کے ہاتھ کو دیکھتے ایسا لگا جیسے سدرہ نے اُسکے زخم پر مرہم رکھ دیا ہو ۔ 

********************  **************  ****************

وہ جو جب سے بس میں چڑھا تھا اُسکی نظروں کا مرکز صرف وہی تھی ۔ اور وہ امنہ کے بارے میں ایک بات تو اچھی طرح جان گیا تھا کہ اُسکا میوٹ اسپیکر مسکراتا بہت زیادہ ہے وہ بس کے گلاس سے باہر نظر انے والی ہر چھوٹی سی چھوٹی چیز کو دیکھتے اپنے لبوں پر مسکراہٹ سجا لیتی ۔ 

آمنہ اپنے دھیان میں بس میں کھڑی تھی جب اُسکی نظر اطراف میں گھومی اور ایک جگہ جم گئی ہیزل بلو آنکھوں میں خوف چھلکا اُس نے اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں کو مسل کر دیکھنا چاہا آیا وہ واقعی بس میں اُس سے کچھ دوری پر کھڑا تھا یا اُسکا وہم تھا لیکن وہ حقیقت تھا امنہ کے پورے وجود میں خوف سے سرد لہریں دور اٹھی ۔ ماتھے پر پسینہ چمکا ۔ کچھ دور ہی وہ ماسک سے جھانکتی بھوری  سرد آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا ۔ 

آمنہ نے اُسے دیکھتے اپنے پاس دیکھا جہاں اُسکے دائیں طرف بھی ایک عورت تھی اور بائیں طرف بھی ایک عورت تھی لیکن اُسکے قریب سیٹ پڑ ایک لڑکا بیٹھا تھا ۔ آمنہ پل کی دیر کیے بنا اُس جگہ سے ہٹتی اُس لڑکے سے دور ہوئی ۔ اور ماسک کے پیچھے اُسکے لب مسکرا اٹھے ۔ 

آمنہ نے اُسکی طرف دیکھا جس نے امنہ کے دیکھنے پر اپنی ایک آنکھ ونک کرتے امنہ کو فلائنگ کس کی اور بس کے رُکنے پر اترتا چلا گیا تھا ۔ 

" بدتمیز لوفر انسان " ۔ آمنہ اسکی حرکت پر کان کی لوؤں تک لال ہوئی تھی دل میں اُسے لقب سے نوازتی وہ اپنی بکھرتی دھڑکنوں کو استعال پر لانے لگی جو کچھ خوف سے تو کچھ اُس ماسک والے برے انسان کے آخری عمل پر بکھر گئی تھی ۔ 

آفف میں تو بھول ہی گئی شاداب کا میسج آیا تھا اُس نے” لنچ منگوایا تھا ۔ ایک کام۔کرو لیزا تم شاداب کو دے اؤں لنچ کامل بھی چلے گئے ورنہ میں اُن کو بول دیتی " ۔۔ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی فلک نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے کہا ۔ 

فلک کی بات پر لیزا کا نوالہ گلے میں اٹکا ۔ لیکن اب وہ فلک کو منع بھی نہیں کر سکتی تھی اسی لیے فقط اثبات میں سر ہلا گئی ۔ 

لو بھائی اسے بھی ابھی رونا تھا ۔ اب ایک کام کرو تُم بیہ”  یہ حسام کو دے اؤں صبح سے ایا ہوا ہے اب دوپہر ہوگئی ہے اچھا نہیں لگتا ہم کھائے اور وہ بھوکا رہے اور تم لیزا یہ شاداب کو دے اؤں " ۔ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھتے فلک نے ایک طرف شاداب کا کھانا پیک کیا تو دوسری طرف حسام کے لیے پلیٹ سجا کر کہتی وہ دونوں کا جواب سنے بنا عروہ کے کمرے کی طرف بھاگی جسے وہ سلا چکی تھی ۔ کامل کی اج شہر سے باہر میٹنگ تھی اسی لیے وہ وہاں چلا گیا تھا ۔

بیہ کا منہ کو جاتا ہاتھ وہی پر تھم گیا ۔ حسام کا سامنا نہ ہو اسی لیے تو وہ اج یونی نہیں گئی تھی ۔ لیکن اب فلک کی بات سن کر اسکے ہوش ارے تھے ۔ ویسے ہی حسام کا بدلہ انداز اُسکی جان پر بن ایا تھا۔  

بیہ نے لیزا کی طرف دیکھا جسکی خود کی حالت اُس سے ملتی جلتی تھی ۔ شاداب سے ہوئی آخری ملاقات اُسکے ذہن میں لہرائئ تھی جب وہ اُسکے انتہائی نزدیک وہ جان لیوا سرگوشی کر گیا تھا ۔ 

" میں جاتی ہُوں پھر " ۔ 

لیزا نے اپنی جگہ سے اٹھتے لنچ باکس تھاما اور ببیہ سے کہتی ہوئی باہر نکل گئی ۔ 

بیہ نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔ پھر فلک کی بات یاد ائی صبح سے دوپہر ہوگئی تھی پتہ نہیں کچھ کھایا ہو گا بھی یا نہیں ۔ دل میں فکر سے اُٹھی ۔ اپنی جگہ سے اٹھتے اُس نے فوراً سے پلیٹ اپنے ہاتھ میں تھامی ۔ اور کاٹیج کی طرف بڑھی ۔ 

💗💗💗💗

بیہ نے لون کے ایک طرف بنے اس کاٹیج کو دیکھا جو ایک کمرے پر مشتمل تھا ۔ اور دھڑکتے دل کے ساتھ قدم اندر کی طرف بڑھائے ۔ کاٹیج کا دروازہ کُھلا دیکھتے اُسے اچھنبا ہوا ۔ اندر داخل ہوتے اُس نے اس چھوٹے سے کاٹیج کو دیکھا جس میں ایک طرف اوپن کچن تھا ایک طرف صوفہ سیٹ رکھا گیا تھا اور بلکل سامنے ہی کمرہ تھا جس کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا ۔ بیہ کے قدم کمرے کی طرف بڑھے ۔ 

" میرے خیال سے ابھی یہاں نہیں ہے وہ جلدی سے کھانا رکھ کر چلی جاتی ہو " ۔ بیہ نے خود سے کہتے کمرے میں موجود ٹیبل پر پلیٹ رکھی ۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ حسام یہاں نہیں ہے ۔ ابھی وہ پلٹ کر باہر کی طرف بڑھتی جب حسام واشروم سے باہر نکلا ۔ گیلے بالوں کو تولیے سے سکھاتے ہوئے شرٹ لیس ۔ 

بلیک پینٹ میں بھیگے بال جس سے پانی کی بوندیں ٹپکتے اُسکے تیکھے نقوش پر گر رہی تھی چوڑا کشادہ سینا جس پر ٹھہری پانی کی بوندیں دیکھتے بیہ کی نظریں اُس پر اٹک گئی وہ اپنی سیاہ انکھوں کو پھیلائے حسام کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ 

جبکہ حسام کو بیہ کی کمرے میں موجودگی خوشگوار کر گئی ۔ بیہ کو یک تک خود کی طرف دیکھتا پا کر وہ جاندار مسکراہٹ لبوں پر سجا گیا ۔ 

" اچھا لگ رہا ہوں نہ " ۔ حسام نے تولیے کو اپنی گردن میں ڈالتے مسکراہٹ لیے کہا اور اپنے قدم دھیرے سے اپنی حسین بیوی کی طرف بڑھائے جو اُسکی طرف یک تک دیکھتے اُسکے سارے جذبات  بیدار کر گئی تھی ۔ 

" ہاں بہت " ۔ بیہ نے کھوئے کھوئے لہجے میں اُسکے سکس پیک کو دیکھتے کہا ۔ جب حسام اُس سے ایک قدم کی دوری پر رک گیا۔

" واقعی " ۔ حسام نے اپنی گم سم ہوئی بیوی کو گہری نظروں سے دیکھتے تصدیق چاہی ۔ اپنے قریب سے اتی آواز پر بیہ کرنٹ کھا کر اچھلی خود سے ایک قدم کی دوری پر حسام کو خود کی طرف گہری نظروں سے دیکھتے پا کر وہ سرخ ہوتے اپنا رخ بدل گئی ۔ اور دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی ۔ 

رخ بدلے اُسے اپنے الفاظ یاد آئے کہ وہ تھوڑی دیر پہلے کیا کہہ چکی ہے بیہ نے اپنی آنکھیں مینچی  وہ کیوں اس آدمی کے سامنے انے پر پگھل جاتی تھی ۔ حسام بیہ کے رخ بدلنے پر سر جھکاتے ذرا سا ہنس دیا ۔ 

" یارا پورا پرمٹ ہے تمہارے پاس جی بھر کر دیکھ سکتی ہوں رخ پلٹ کر خود کو کوسنے کی ضرورت نہیں ۔ تم کہو تو پورا دن میں ایسے بغیر شرٹ کے رہ سکتا ہوں " ۔ ایک قدم کی بھی دوری مٹاتے بیہ کے کان کے پاس جھکتے گھمبیر سرگوشی کرتا وہ بیہ کی دل کی دھڑکنیں منتشر کر گیا ۔ 

" میرا آپ پر کوئی حق نہیں ہے " ۔ اپنی دھڑکنوں کو قابو کرتے وہ اپنی آواز کو مضبوط کرتے گویا ہوئی ۔ 

" ہونہہ ۔۔۔میرے دل کی ہر دھڑکن پر ۔۔۔میری اتی جاتی ہر سانس پر ۔۔۔میرے اٹھتے ٹھہرتے ہر قدم پر ۔۔۔میرے لبوں سے ادا ہوئے ہر محبت بھرے لفظ پر ۔ صرف تمہارا حق تو ہے یارا صرف اور صرف تمہارا " ۔ حسام نے بوجھل لہجے میں کہتے اپنی ناک بیہ کی پچھلی گردن پر ٹریس کرتے اُسکے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی مہک کو اپنی سانسوں میں اُتارا ۔ اور بیہ کے وجود پر سنسنی سی دور گئی اُسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی ۔ جبکہ ان شدت بھرے لفظوں پر اُسکا دل اُسکے قابو میں نہ رہا ۔ 

" سب جھوٹی باتیں ہے یقین نہیں مجھے ان پر " ۔ ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ لفظ ادا ہوئے ۔ 

" ایک بار کر کے تو دیکھو " ۔ حسام کے ہاتھ اُسکے پیٹ کے گرد بندھے ۔ 

" ڈر لگتا ہے " ۔ بیہ نے اپنے پیٹ پر رکھے اُسکے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرتے اپنی آنکھیں بند کی ۔ پورے وجود میں سکون کے ساتھ ساتھ برق رفتاری سی دور گئی۔ 

" مجھ سے " ۔ حسام نے بیہ کے بالوں کو آگے کرتے اپنے دہکتے لب بیہ کی پچھلی گردن پر رکھتے پوچھا ۔ 

" نہیں آپکے دھوکے سے اپنے یقین کے ٹوٹ جانے سے " ۔ بیہ اپنی آنکھیں بند کئے اُسکا دہکتا لمس اپنی گردن پر محسوس کر رہی تھی ۔ 

" اس بار تمہارا بھروسہ نہیں ٹوٹے گا حسام اب مر تو سکتا ہے لیکن تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا یارا ۔"  حسام کے کہنے کی دیر تھی بیہ کو سب یاد اتا چلا گیا ۔ حسام کا اُس پر شجیہ کو ترجیح دینا ۔ اُسے اپنی محبت کہنا ۔ یہ سب یاد اتے ہی اُسکے سینے میں گھٹن سی ہوئی ۔ حسام کی گرفت توڑتے اُس نے ایک جھٹکے سے حسام کو خود سے دور کیا ۔ حسام جو اُسکے لمس میں کھوتا اپنے وجود میں سکون بھر رہا تھا ۔ بیہ کے یوں دور ہونے پر خمار سے سرخ ہوئی انکھوں سے اُسکی طرف دیکھے گیا جو اب اُس سے دور ہوتی سیاہ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔ 

" یارا " ۔ حسام نے بیہ کو پُکارا ۔ 

" بس کر جائے حسام بس کر جائے مجھے نہیں آتا آپ پر یقین اب ڈر لگتا ہے جب میں آپ کی ان باتوں کا یقین کر لونگی آپ اُس کے بعد کچھ پلوں میں ہی میرا یقین توڑ دے گے " ۔ اسپاٹ آواز میں کہتے وہ حسام کو بیچین کر گئی ۔ 

" آپ کہہ رہے ہے آپ پر میرا حق ہے آپکی چلتی سانسوں پر میرا حق ہے ۔ تو تین سال پہلے بھی تو میرا ہی حق تھا آپ میرے تھے میرے شوہر تھے ۔ پھر آپ کیسے ہم دونوں کے بیچ کسی تیسرے کو لا سکتے تھے  ۔ " بیہ کی سیاہ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ وہ سب باتیں بھول جاتی سب باتیں لیکن یہ بات اُس سے بھلائے نہیں بھول رہی تھی کہ وہ اُن دونوں کے مابین کسی تیسرے کو لایا تھا ۔ 

" یارا میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے ۔" ۔۔حسام نے کہنا چاہا جب بیہ نے اُسکی بات کاٹی ۔ 

" غلطی ۔۔نہیں ۔غلطی نہیں ہوئی تھی۔۔محبت اور عبادت میں شراکت کرنا گناہ ہوتا ہے ۔ آپ نے شراکت کی ہے آپ نے بیوفائی کی ہے ۔ آپ نے میری جگہ کسی اور کو دینے کی کوشش کی ہے ۔ آپ نے میرے علاوہ کسی اور کو اپنی محبت کہا ہے اور یہ میں بھول نہیں پا رہی ہو بلکل نہیں بھول پا رہی ہو ۔۔میرے دماغ سے وہ منظر نہیں نکلتا جب آپ دوسری عورت کو میرے سامنے لائے تھے اسے اپنی محبت کہا تھا ۔ " بیہ اتنی زور سے بول رہی تھی کہ اُسکے گلے کی نسیں تک واضح ہو رہی تھی ۔  وہ اپنی بات پر حسام کے چہرے پر پھیلتا کرب دیکھ چکی تھی۔  

" کر دیا ہے میں  نے آپکو معاف ۔۔پر اب میں آپ سے محبت نہیں کرتی ۔۔۔نہ اب آپ کے پاس اؤں گی " ۔ بیہ نے آخری وار کیا تھا اور اُسکی توقع کے مطابق حسام بلبلا اٹھا تھا ۔اُسکا پورا وجود جل اٹھا تھا ۔ ضبط سے مٹھیاں بھینچے وہ بیہ کو دیکھ رہا تھا ماتھے اور ہاتھ کی نسیں تک واضح ہوتی اُسکے اشتعال کا پتہ دے رہی تھی ۔ 

" نہیں کرتی تم مجھ سے محبت " ۔ حسام نے بیہ کو دیکھتے سرد برفیلے لہجے میں سوال کیا ۔ وہ آنکھیں جن میں کچھ دیر پہلے خمار کی سرخی چھائی تھی اب وہاں غصے اشتعال بےبسی کی سرخی چھا گئی تھی۔  ۔

بیہ نے حسام کی سرخ آنکھیں اور بھینچی مٹھیاں دیکھتے تھوک نگلا ۔ 

" ہاں نہیں کرتی " ۔ حسام کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے اُس نے تمام تر ہمت جمع کرتے حواب دیا ۔ اُسے اج حسام میں لیپرڈ کی جھلک نظر ائی تھی ۔ 

" ایسی زندگی اور معافی مجھے نہیں چایئے جس میں تم نہ ہو اور نہ تمھاری محبت ہو " ۔ حسام نے کہتے وہاں موجود ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ دے مارا ۔ شیشہ ٹوٹ کر چکنا چوڑ ہوا ۔ بیہ چیخ اٹھی ۔ 

بیہ کی چیخ پر وہ رکا نہیں ڈر پر ڈر اپنا ہاتھ شیشے پر مارتا وہ اپنے پہلے سے زخمی ہاتھ کو مزید زخمی کر چکا تھا ۔ شیشے کے ٹکڑے اُسکے ہاتھ میں گھتے گئے 

" حسا۔۔۔حسام ۔۔۔کیا کرہے ہیں رک جائے حسام " ۔ بیہ نے  لرزتی آواز میں کہا ۔ لیکن وہ سن ہی کہاں رہا تھا اُسکے سماعتوں میں تو صرف وہی الفاظ گونج رہے تھے جو بیہ نے کچھ دیر پہلے کہیں کہ اُسے حسام سے محبت نہیں ہے ۔ 

حسام کے ہاتھ سے بہتا خون دیکھتے بیہ کی حالت غیر ہوئی ۔ وہ ایک ہی جست میں حسام تک ائی ۔ 

" رک جائے حسام میں کہہ رہی ہو رک جائے " ۔ بیہ نے تڑپ کر حسام کے زخمی ہاتھ کو دیکھا اور پھر اُسکی طرف دیکھتے چیخی ۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا تھا وجود ہچکیاں بھرنے لگا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا وہ بدل گیا ہے لیکن بیہ کو اب بھی اُس میں لیپرڈ کی جھلک نظر آرہی تھی وہی جنونی ضدی لیپرڈ جو صرف خود کی سنتا تھا ۔ 

" تمہیں مجھ سے محبت نہیں ۔۔۔تم نے کہا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ۔۔جواب دو بولوں ہے محبت یا نہیں ورنہ با خدا یہاں رکھی گن سے خود کو شوٹ کرنے میں ایک پل نہیں لگاؤ گا " ۔ بیہ کے یوں چیخنے پر حسام نے بیہ کا بازو اپنی آہنی  گرفت میں لیتے اُسے دیوار سے لگایا اور اُسکے چہرے پر جھکے غرایا ۔ بیہ نے ہچکیاں بھرتے اُسکے خونم خون ہوئے ہاتھ کو دیکھا تھا جس سے رستا خوں نیچے زمین پر گر رہا تھا ۔ ایک یہی چیز تو برداشت نہیں تھی اس انسان کی تکلیف  وہ کب برداشت کر سکتی تھی۔  

" ہیں محبت ۔۔ہے محبت مجھے آپ سے سن لیا آپ نے بیہ کو حسام سے محبت ہے اتنی کہ وہ مر تو سکتی ہے مگر آپکی محبت اپنے دل سے نکال نہیں سکتی سنا آپ نے " ۔ بیہ نے روتے ہوئے ایک نظر حسام کے زخمی ہاتھ کو دیکھا اور پھر اُسکے چہرے کو دیکھتے چیخ اُٹھی ۔ بیہ کی بات سنتے ہی حسام کے چہرے کا تناؤ کم ہوا ۔ اُسکی آنکھوں کی سرخی میں کمی ائی ۔۔۔اُسکے عنابی لبوں پر مسکراہٹ آسمائی۔ اور بیہ نے روتی آنکھوں سے اس ڈھیٹ انسان کو دیکھا  جو اُسکی جان لبوں پر لے ایا تھا اور اب مسکرا رہا تھا ۔ 

حسام نے بیہ کے دیکھنے پر یکدم اُسکے  بالوں میں اپنا ہاتھ الجھاتے اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔ بیہ نے تڑپ کر اُسے کندھوں سے تھاما۔  شدت سے بیہ کی سانسیں پیتا وہ اپنی سالوں کی تشنگی مٹا رہا تھا ۔ بیہ نے اپنی آنکھیں بند کرتے اُسکا لمس اپنے لبوں پر محسوس کیا ۔ محرم کے لمس میں سکون ہوتا ہے ۔ حسام کو اپنے وجود میں سکون کی لہریں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ بیہ کی بند ہوتی سانسوں کو محسوس کرتے وہ بیہ سے دور ہوا ۔ بیہ نے سانسوں کو آزادی ملنے پر حسام کی طرف سرخ بھیگی آنکھوں سے دیکھتے گہرا سانس بھرا ۔ 

حسام نے آنچ دیتی نظروں سے بیہ کی غیر ہوتی حالت دیکھی اُسکے گلابی لبوں کو اپنے شدت سے سرخ دیکھتے وہ محفوظ ہوا۔  

" آپ نہیں بدلے حسام آپ اج بھی ویسے ہے جنونی صرف اپنی سننے والے " ۔ بیہ نے شکوہ کن نظروں سے حسام کو دیکھتے کہا ۔

" تمہارے معاملے میں جنونی ہوگیا ہو نہیں برداشت مجھے تمہارے لبوں سے یہ سننا کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی " ۔ حسام نے اُسکے بھیگے لبوں پر انگوٹھا پھیرتے گھمبیر لہجے میں کہا ۔ ۔

" ابھی آپ نے بہت کچھ برداشت کرنا ہے جتنا میں نے برداشت کیا ہے اُس سے کئی زیادہ ابھی آپکو پتہ چلے گا جب آپ پر آپکا محبوب کسی اور کو فوقیت دیتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے " ۔ بیہ نے حسام کو دیکھتے ہوئے اُسے انے والے وقت سے آگاہ کیا ۔ حسام کی آبرو بیہ کی بات پر تنی اُس نے جبڑے بھینچے بیہ کو دیکھا۔  

" جو بھی کہو گی کرو گی چپ چاپ برداشت کرونگا افف تک نہیں کرونگا لیکن اگر کسی غیر کی طرف دیکھا یا سوچا بھی تو پھر حسام کو لیپرڈ بننے میں دیر نہیں لگے گی بیہ یہ بات یاد رکھنا " ۔ حسام کے لہجے میں تنبیہ تھی ۔ بیہ تلخئ سے مسکرا دی ۔ جب اُسکی نظر حسام کے ہاتھ پر پڑی جہاں سے اب بھی خون بہہ رہا تھا ۔ اپنے لب بھینچے اُس نے حسام کی طرف دیکھا جو اُسکے انتہائی قریب کھڑا تھا ۔ اپنے دوپٹہ کو اُتارتے اُس میں سے کچھ حصہ پھاڑتے اُس نے بھینچے لبوں کے ساتھ دوپٹہ اُسکے ہاتھ پر باندھا ۔۔ حسام نے جبڑے بھینچ کر اُسکی طرف دیکھا وہ کیا کرنے کا سوچ رہی تھی کیا وہ اُن کے مابین کسی تیسرے کو لانے والی تھی ۔ یہ سوچتے ہی حسام کی نسوں  میں اُبال پیدا ہوا ۔ 

" میری بات سنو بیہ تم ایسا کچھ نہیں کروگی میں بلکل برداشت نہیں کرونگا اگر تم نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی تم صرف میری ہو ۔۔صرف میری سن رہی ہو تم " ۔ حسام نے پٹی بندھنے کے بعد بیہ کے بازؤں کو اپنی گرفت میں لیتے سنجیدہ آواز میں کہا ۔ بیہ نے خاموشی سے اُسکی طرف دیکھا ۔ حسام کے چہرے پر اضطراب اُسکی آنکھوں میں تڑپ اُسکا لہجے کے پیچھے چھپی جلن اور اُسے کھو دینے کا خوف بیہ کی دل کی دنیا ادھر سے اُدھر کر گیا تھا لیکن وہ اپنے تاثرات پر قابو پائی رہی ۔ 

" کھانا کھائیں حسام " ۔ حسام کا ہاتھ تھامتے اُس نے وہاں رکھے صوفے پر حسام کو بٹھایا اور حسام اپنا پہلو بدل کر رہ گیا ۔ وہ یہ کیوں نہیں کہہ رہی تھی کہ وہ اُن کے درمیاں کسی تیسرے کو نہیں لائے گی وہ یہ کیوں نہیں کہہ رہی تھی کہ وہ کسی دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گناہ سمجھتی ہے ۔ 

بیہ نے نوالہ بنا کر حسام کے منہ کی طرف کیا ۔ دل تو اُسکا اپنے لیے حسام کی بےچینی دیکھتے سینے میں کلا بازیاں کھا رہا تھا لیکن ابھی اُسے ایسے ہی انسان کو سزا دینی تھی تاکہ آئندہ کبھی وہ ایسی غلطیاں نہیں کر پائے ۔ 

حسام نے بیہ کے چہرے کو بیتاب نظروں سے دیکھتے ہوئے بیہ کے ہاتھ سے نوالہ کھایا ۔ بیہ اُسے خاموشی سے کھلاتے گئی اور وہ اُسے بیتاب نِگاہوں سے دیکھتے کھاتا گیا ۔ بیہ کے خوبصورت نقوش کو اپنے انتہائی پاس سے دیکھتے اُس کے دل میں جتنا سکون بھر گیا تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا ۔ 

بیہ نے پانی کا گلاس حسام کے لبوں سے لگایا اور حسام بنا پلک جھپکائے بیہ کو دیکھتے گیا ۔ یہ عنایت تھی فکر تھی کیا تھا اُسے نہیں پتہ تھا لیکن ان کچھ پلوں میں وہ اپنی زندگی جی گیا تھا ۔۔جانتا تھا بیہ کے دماغ میں کچھ چل رہا ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ سنگ دل بنی ہوئی تھی اور اب وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہی تھی۔  ۔

بیہ نے خاموشی سے برتن اٹھائے اور اپنی جگہ سے اُٹھی ۔ حسام نے بیہ کی پشت کو تکا ۔ وہ تو اب اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پا رہا تھا اُسکی بیوی اُسے اپنے حصار میں قید کر گئی تھی ۔ 

" میں جانتا ہوں میری بیہ مر تو جائے گی لیکن کبھی کسی غیر کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لائے گی " ۔ پشت سے اُبھرتی حسام کی آواز پر بیہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔ حسام نے صوفے کی پشت سے اپنا سر ٹیکایا ۔ اُسے اتنا تو پتہ تھا اُسکی بیوی اُسکے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ نہیں سکتی ۔ لیکن نہ جانے کیوں اُسکی آخری بات اُسے پریشان کر گئی تھی ۔ بیہ کے لبوں کا لمس یاد آیا تو حسام کے لبوں پر پر مسکراہٹ پھیلی اپنے لبوں پر انگلی پھیرتے وہ گہرا مسکرایا ایک نظر اپنے ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھا اور پھر آخر میں بیہ کا کھانا کھلانا یاد آیا ۔ اج ایک ساتھ اُس پر کتنی عنایتیں کی گئی تھی ۔ حسام کھل کر مسکرا گیا ۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کی غرض سے وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔ 

****************  *****************

لیزا ہاتھ میں لنچ باکس تھامے آفس میں داخل ہوئی تھی ۔ پنک رنگ کی گھٹنوں تک اتی کرتی اور جینز میں بالوں کو کھلا چھوڑے چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اطراف کا جائزہ لیتے میکپ سے پاک چہرہ لیے وہ کامل کے افس کیبن کی طرف بڑھ رہی تھی وہ یہاں بیہ کے ساتھ اتی جاتی رہتی تھی اسی لیے سب اسکو جانتے تھے ۔ 

سدرہ نے ایک جھٹکے سے کامل کے افس کا دروازہ کھولا تھا لیکن اندر نظر آتا منظر دیکھتے لنچ باکس پر اُسکی گرفت سخت ہوئی شربتی آنکھوں میں جلن کے باعث سرخی چھائی ۔ 

چبھتی ہوئی آنکھوں سے اُس نے شاداب کو دیکھا جو اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔ لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا اور اُسکے نزدیک کھڑی لڑکی آدھی جھکی ہوئی تھی اور اُسے لیپ ٹاپ پر کچھ دیکھا رہی تھی اُس لڑکی کا کندھا شاداب کے کندھے سے مس ہو رہا تھا۔  سدرہ نے جلتی آنکھوں کے ساتھ اُس لڑکی کو دیکھا جس کے کپڑے نازیبا تھے ۔۔اُسکا وجود اُن کپڑوں میں صاف واضح ہو رہا تھا۔  

دروازہ کھلنے کی آواز پر شاداب نے سر اٹھا کر لیزا کی طرف دیکھا تھا لیکن لیزا کے چہرے پر چھائی حد سے زیادہ سنجیدگی اور اُسکی شربتی آنکھوں میں نظر آتی سرخی دیکھتے اُسے اچنبھا ہوا ۔ شاداب نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اُسے اپنی سیکیرٹی کو خونخوار نظروں سے دیکھتے پا کر وہ پل میں سب سمجھ گیا ۔ وہ جیلس ہو رہی تھی ۔ شاداب کے وجود میں خوشگوار احساس سرائیت کر گیا۔  

شاداب نے اپنی سیکیرٹی کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ اُسے مسکراہٹ پاس کرتی باہر نکلتی چلی گئی اور لیزا کی چبھتی نظروں سے اُس کا پیچھا تب تک کیا جب تک وہ باہر نہیں نکلی ۔ 

لیزا نے اُسکے جاتے ہی غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے شاداب کو دیکھا ٹیبل تک اتے ایک جھٹکے سے لنچ باکس ٹیبل پر زور سے رکھا ۔ جبکہ خونخوار نظریں اب شاداب پر ٹکی ہوئی تھی ۔ 

" کون تھی وُہ  " ۔ لنچ باکس میں سے کھانا نکالتے چبھتے ہوئے لہجے میں سوال کیا گیا۔  نیلے ٹو پیس میں ملبوس شاداب نے گہری نظروں سے سدرہ کے چہرے کو دیکھا جو غصے کے باعث لال ہو رہا تھا ۔  

" میری سیکیرٹی ہے " ۔ شاداب نے نارمل لہجے میں جواب دیا اور لیزا کی آبرو تنی ۔ 

" پرسنل " ؟  اگلا سوال داغا ۔ 

" ہاں پرسنل " ۔ شاداب نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔  اور لیزا کو اپنے وجود میں جلن کی لہریں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ 

" ہمم ہمم " ۔ کھانا نکالتے لیزا کے ہاتھ تھمے ۔ 

ہممم " ۔ شاداب نے پیپر ویٹ کو گھماتے ہوئے اُسکے چہرے کو دیکھا ۔ 

" میں چلتی ہو " ۔ لیزا نے بجھے دل سے کہا وہ اُس لڑکی سے انسکیور ہو گئی تھی وہ لڑکی کافی حسین تھی۔  

" کہاں کھانا تو نکال جاتی "۔  شاداب نے لیزا کی بات پر اپنی جگہ سے اٹھتے اُس کے پاس اتے کہا۔  

" تمہاری سیکیرٹی نکال دے گی مجھے جانا ہے "۔  چبھتے لہجے میں کہتی وہ اگے بڑھنے لگی جب شاداب نے اُسکا ہاتھ تھاما۔  

" تمہیں جلن ہو رہی ہے " ؟ شاداب کے سوال پر لیزا نے پلٹ کر اُسکی طرف دیکھا ۔ 

" جلن نہیں میں انسكيور ہوگئی ہو شاید "۔  کندھے اچکا کر وہ صاف گوئی سے گویا ہوئی ۔ 

" تمہیں انسکیور ہونے کی ضرورت نہیں ہے تم ان آنکھوں میں اس دل میں بس چکی ہو اب اگر تمہارے علاوہ کسی کی طرف محبت یہ رشک کی نظر سے دیکھو گا تو وہ ہماری بیٹی ہوگی " ۔ لیزا کے بال کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے شاداب نے گھمبیر لہجے میں کہا۔ لیزا کے لبوں پر مسکراہٹ ائی ۔ دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی۔  

" مجھے نہیں پتہ تھا کینگرو اتنی اچھی باتیں بھی کر لیتا ہے " ۔ لیزا نے مسکراتے ہوئے شاداب کا خوبرو چہرہ دیکھتے کہا ۔ 

" اور مجھے نہیں پتہ تھا کہ بندریا بھی اتنی حسین ہو سکتی ہے " ۔ شاداب نے لیزا کی چھوٹی سی ناک کو اپنی انگلیوں سے دباتے کہا ۔ 

لیزا شاداب کے اس طرح کرنے پر کھلکھکا کر ہنس دی۔ ا

" اب میں جا رہی ہو " ۔ لیزا کہتی آگے بڑھی شاداب نے اُسکی پشت کو تکا جب دروازے کے پاس جاتے وہ رکی ۔ 

" اور ہاں سیکیرٹی کو بدلنا مت بھولنا مُجھے تُم پر یقین ہے لیکن ان انگریزنوں پر نہیں ۔۔۔اچھا خاصا ہینڈسم بندہ ہے میرا لٹو ہوگئی تو " ۔ لیزا اپنی گول گول آنکھیں چھوٹی کرتے کہتے ہوئے شاداب کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر گئی ۔ شاداب کو ہنستا دیکھ لیزا بھی مسکراتی ہوئی باہر نکلی لیکن جاتے جاتے سیکیرٹی کو اپنی نظروں سے گھورنا نہیں بھولی۔  

یونی میں اتے ہی سدرہ نے جون کو یکسر نظرانداز کیا تھا ۔ جون بھی اُس پر ایک گہری نظر ڈال کر حسام کو ڈھونڈنے اسٹاف روم کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ سدرہ کی نظروں نے  جنید کی پشت کا پیچھا کیا ۔ غصے میں اُسے زخم تو دے چکی تھی ۔ لیکن دل میں کہیں اپنی اس حرکت کی وجہ سے خود کو کوس بھی رہی تھی ۔ 

آمنہ کا ہاتھ پکڑے وہ کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی انکا پہلا لیکچر فری تھا ۔ جب اُسے اپنی فٹ بال ٹیم کی ایک میمبر ملی جس کو سدرہ سے کچھ مدد چایئے تھی ۔ 

" حسینہ تم کینٹین میں جاؤ میں وہی پر اتی ہوں" ۔ 

سدرہ کے کہنے پر آمنہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اور  کینٹین کی راہ لی  یونی میں اتے ہی اُس  ماسک پوش کا خوف اُسکے دل سے نکل گیا تھا ۔ وہ تو بس اپنی ہیزل بلیو حسین آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتی اپنے دل میں دھڑکتے اُس شخص کی تلاش میں تھی جو کچھ ہی دنوں میں اُسکی نس نس میں سما گیا تھا ۔ 

آمنہ نے کینٹین میں قدم رکھا تو اُسکی چمکتی ہیزل بلیو انکھوں کی چمک مانند پڑی وہ سمجھی تھی کہ شاید زرقان کینٹین میں ہوگا لیکن وہ یہاں پر بھی نہیں تھا ۔ صرف صوفیہ اور اُسکا گروپ  بیٹھا ہوا تھا۔  

بجھے دل سے وہ اپنے بیگ پر گرفت مضبوط کرتی کونے پر موجود ٹیبل پر جاکر بیٹھ گئی ۔ نظریں کینٹین کے داخلی دروازے پر مرکوز تھی ۔ 

صوفیہ نے جلتے دل سے آمنہ کی آنکھوں میں ائی چمک کو دیکھا جو زرقان کو یہاں نہ پاتے بجھ چکی تھی اُسکے وجود میں نفرت کے بھانپر جلنے لگے ۔ آمنہ کا حسن اوپر سے معصومیت دیکھتے وہ مزید آمنہ سے جل گئی تھی ۔  کچھ سوچتے اُسکے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ چھائی ۔ 

اپنے ٹیبل پر رکھی گئی کیچپ کی بوتل ہاتھ میں تھامے آمنہ کی طرف بڑھی جو اپنی بیتاب نِگاہوں سے داخلی دروازے کو دیکھ رہی تھی ۔ 

آمنہ کے پاس اتے ہی اُس نے کچھ بھی کہیں بنا اُس کے سر پر کیچپ انڈیل دیا ۔ اچانک اپنے اوپر گرتے ایک گاڑھے مادے کو محسوس کرتے امنہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ۔ اپنے ہاتھ کو اپنے سر پر لے جاتے اُس نے حیرت سے اپنے ہاتھ پر لگا کیچپ دیکھا ۔

اس نے حیرت سے پھیلی آنکھوں کے ساتھ سر اٹھا کر صوفیہ کو دیکھا جی اسکی طرف دیکھتے تمسخرانہ مسکرا رہی تھی ۔ امنہ کی آنکھوں میں پل میں نمکین پانی جمع ہوا کیچپ بالوں سے ہوتا ہوا اُسکی گردن تک ایا ۔ 

" اوہ دیکھو بچاری !!!! ۔ 

 صوفیہ نے انگلش لب و لہجے میں اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے کہا  ۔ اُس کے ساتھی صوفیہ کی اس حرکت اور اس طرح کہنے پر ہنس پڑے ۔ 

" کیا ہوا ڈانٹا ہے مجھے بُرا بولنا ہے مجھے کچھ بولنا چاہتی ہوں " ۔ 

آمنہ کو اپنی طرف بھیگی ہیزل بلیو آنکھوں سے دیکھتے صوفیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔ 

" پر بول تو سکتی نہیں تم ۔۔۔ہا ہاہاہا ۔۔۔یہ بیچاری بول نہیں سکتی

گونگی جو ہے  " ۔

 تالیاں بجاتے کہتے وہ آمنہ کو ہچکیوں میں رُلا گئی اج تک کسی نے اسکی محرومی کا مذاق نہیں بنایا تھا جس طرح اج صوفیہ نے کیا تھا ۔ پوری کینٹین میں موجود اسٹوڈنٹ اُسکی طرف دیکھ رہے تھے ۔  کچھ کی نظروں میں ترس تھا تو کچھ اُسے دیکھتے ہنس رہے تھے ۔ آمنہ کا دل کیا وہ کہیں کسی کونے میں چھپ جائے ۔ 

قہقہوں کی آواز پر آمنہ ہچکیاں بھرتی اپنی جگہ سے اُٹھی ۔ وہ یہاں سے چلے جانا چاہتی تھی جب صوفیہ نے اُسکا ہاتھ زور سے پکڑ کر مروڑا امنہ درد سے اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ 

" آئندہ کے بعد تم مجھے زرقان کے آس پاس بھی نظر ائی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا اج تو صرف تمہارا مذاق اس کینٹین میں بنایا ہے اگلی بار پورے ایڈیلیڈ میں تمہارا مذاق بن جائے گا ۔ " 

دانت پیستے کہتے اُس نے آمنہ کی کلائی کو چھوڑا اور آمنہ برستی نظروں سے اُسے دیکھتے تیزی سے پلٹی ۔ اب ایک پل وہ یہاں نہیں رک سکتی تھی اُسے اپنا دم یہاں گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ 

کیا دنیا اتنی ظالم ہوتی ہے کہ کسی کا یو مذاق بنتے دیکھ اُسے روکنے کے بجائے ہنستی ہے یا صرف ترہم بھری نظروں سے دیکھتی ہے ۔ 

آمنہ تیز قدموں سے باہر کی طرف بڑھ رہی تھی جب وہ کسی کے کشادہ سینے سے ٹکرائی ۔ اپنے انتہائی قریب سے اٹھتی مردانا پرفیوم کی خوشبو محسوس کرتے امنہ نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھا کر مقابل کو دیکھا ۔ 

اپنے انتہائی قریب زرقان کو دیکھتے اُس کے آنسوؤں میں روانی ائی ۔  زرقان جو ابھی ابھی کینٹین میں دا خل ہوا تھا یکدم اپنے سینے سے ٹکراتے امنہ کے  وجود کو گرنے سے بچانے کے لیے اُسکے گرد اپنے بازو حمائل کر گیا ۔  امنہ کا ہچکیاں بھرتا وجود اُسکے بالوں اور گردن پر لگا کیچپ اور اُسکی برستی ہیزل بلو آنکھیں دیکھتے وہ سمجھ گیا کہ یہاں کچھ ہوا ہے ۔ شہد رنگ آنکھوں میں امنہ کی حالت دیکھتے سرخی آسمائی چہرے پر تناؤ ہوا ۔ اپنے جبڑے بھنیچے اُس نے پیچھے کھڑی صوفیہ کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے کھا جانے والی نظروں سے اُنکی طرف ہی دیکھ رہی تھی اور پھر ایک نظر پوری کینٹن میں دوڑائی ۔ 

یکدم اُسکی نظر امنہ کے ہاتھ پر پڑی جو لال ہو رہا تھا انگلیوں کے نشان اُسکے ہاتھ پر چھپے ہوئے تھے اور زرقان کا پورا وجود یہ دیکھتے جل اٹھا ۔ اُس نے امنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں دیکھا جہاں شکوہ بھی تھا اور درد بھی ۔ آمنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نرمی سے تھامتے اُس نے اُسکی کلائی پر اپنی انگلیوں کا نرم لمس چھوڑا اور امنہ اس لمس پر تڑپ اُٹھی ۔ اپنی آنکھیں بند کرتے اُس نے اس لمس کو اپنی روح میں اترتا محسوس کیا۔  

شہد رنگ آنکھوں میں سرخی سموئے سرد تاثرات لیے اُس نے ایک نظر صوفیہ پر ڈالی اور امنہ کا ہاتھ تھامے اُسے لیے باہر نکلتا چلا گیا ۔ صوفیہ نے اپنی مٹھیاں بھنچتے یہ سب دیکھا ۔ 

💗💗💗💗💗💗

سدرہ آمنہ کو ڈھونڈھتی ہوئی کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی جب اُسے راستے میں اُسکی کلاس کی لڑکی نے روکا ۔ جو ابھی ابھی کینٹین سے ہی آرہی تھی ۔ سدرہ کو روکتے وہ کینٹین میں ہوئے واقعے  کے بارے میں  اُسے آگاہ کر  گئی ۔ جسے سنتے سدرہ کے ماتھے پر بل پڑے ۔ جبکہ چہرہ غصے کی شدت سے لال ہوا ۔ 

" اس چوڑیل کو تو میں چھوڑونگی نہیں " ۔

 لال بھبھوکا چہرہ لیے غصے سے کہتی وہ کینٹین کی طرف بڑھی ۔ جون جو یونی میں حسام کو نہ پاتے اسی طرف ہی آرہا تھا اپنی بیوی کا لال چہرہ دیکھتے وہ تیزی سے اُس کے پیچھے ایا ۔ جو تیز قدموں کے ساتھ کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ 

سدرہ نے کینٹین میں اتے ہی سامنے دیکھا جہاں صوفیہ اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہنس رہی تھی ۔ سدرہ نے اپنی نظریں اطراف میں گھمائی پاس رکھی ٹیبل پر پڑی کیچپ کی بوتل کے ساتھ ساتھ وہاں رکھے کیک کا پیس بھی اٹھایا ۔ اور تیز قدموں سے صوفیہ کی طرف بڑھی ۔ 

ایک ہی جست میں صوفیہ کے قریب اتے اُس نے پوری قوت کے ساتھ کیک صوفیہ کے منہ پر دے مارا ۔ ابھی صوفیہ ایک وار سے نہیں سمنبھلی تھی جب اُس نے کیچپ کی پوری بوتل اس پر انڈیل دی ۔ 

" ہاؤ دئیر یو "۔  اپنی جگہ سے اٹھتے صوفیہ چیخی ۔ 

" ہاؤ دئیر یو کی بچی انگریزن کہیں کی ۔۔۔سمجھتی کیا ہو خود کو ہمت بھی کیسے کی میری دوست کو پریشان کرنے کی  " ۔ غصے سے کہتے وہ ابھی صوفیہ کا اور حشر بگاڑ دیتی جب کینٹین میں اتے جون نے سامنے کا منظر دیکھتے نفی میں سر ہلاتے سدرہ تک اتے اُسکا ہاتھ تھاما ۔ 

" سدرہ کیا کر رہی ہو چلو یہاں سے " ۔ جون نے سدرہ کا ہاتھ پکڑتے اُسے پیچھے کرنا چاہا ۔ لیکن سدرہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی وہاں  میں موجود اسٹوڈنٹ نے حیرت سے فٹ بال کوچ کو سدرہ کا ہاتھ تھامے دیکھا ۔ 

" یو بلڈی " ۔ اپنے منہ پر لگا کیک صاف کرتے صوفیہ نے سدرہ کو دیکھتے کہا  ۔ جس کا غصہ اس بات پر اور بڑھ گیا تھا ۔ 

" ارے چھوڑو مجھے تم ۔۔۔اسکو میں بتاتی ہو بلڈی کون  ہے " ۔ 

 جون کا ہاتھ ایک جھٹکے سے جھٹکتے وہ صوفیہ تک پہنچتے اُسکی کلائی پکڑتے اُسے مڑوڑ گئی تھی صوفیہ درد سے چلا اُٹھی ۔ 

" آئندہ اگر میری دوست کو پریشان کیا یا اُسکی طرف اپنی یہ گندی گول اُلّو کی جیسی آنکھوں سے دیکھا بھی تو یاد رکھنا تمہاری نانی دادی مامی سارے رشتے داروں کی یاد دلا دونگی تمہیں " ۔ سدرہ نے دانت پیستے  یہ بات انگلش میں کہی  ۔ جب جون نے اُسکے پاس اتے اُسکے پیٹ کے گرد اپنے بازو باندھتے اُسے اٹھا کر صوفیہ سے دور کیا۔  

" چھوڑو مجھے جنید اس نے میری حسینہ کو رلایا ہے " ۔ سدرہ جون کی گرفت میں ہاتھ پیر مارتی چلائی ۔ 

" بس کرو میری جان کیا جان لونگی بچاری کی " ۔ جون نے کہتے اپنی اس باگر بلی کو قابو کرنا چاہا جو اپنی دوست کے لیے جنونی سی ہوگئی تھی ۔ 

" بچاری!!!!!! سدرہ بچاری پر زور دیتی چیخی تھی ۔ صوفیہ اپنے ہاتھ کو پکڑے سدرہ کو خوف زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ جس نے کچھ ہی دیر میں اُسکا حلیہ ہی بگاڑ دیا تھا ۔

" چھوڑو مجھے ذرا میں بتاتی ہو اس بیچاری کو کس اینگل سے تمہیں وہ بچاری لگتی ہے ۔۔۔مجھے تو داین لگتی ہے داین چوڑیل کہیں کی "..سدرہ جون کی گرفت میں چیختی رہی لیکن جون اُسے اپنی گرفت میں لئے کینٹین سے باہر نکلا ۔ 

سدرہ کی  آمنہ سے دور رہنے والی بات کے علاوہ   صوفیہ باقی الفاظ جو اردو میں تھے ۔  سمجھ تو نہیں پائی تھی لیکن اُسے یہ اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ وہ اُسے اُردو زبان میں گالیاں دے کر گئی ہے ۔ جبکہ وہاں موجود ہندو اور مسلمان اسٹوڈنٹ اپنا چہرہ جھکائے ہنس دیے تھے ۔ جبکہ کچھ سدرہ اور جنید کو لیتے چہ میگوئیاں کرنے لگے ۔ 

صوفیہ نے غصے سے اپنے فون میں اپنے بھائی کا نمبر ڈائل کیا اور اپنا بیگ اٹھاتے وہاں سے باہر نکلی ۔ 

*********************  ***************************

" چھوڑو مجھے جنید ! ۔  تمہیں وہ بچاری لگ رہی تھی ۔ میں تمہارا خوں پی جاؤنگی " ۔ 

جنید اسی طرح سدرہ کو اٹھاتے کوریڈور سے گزرتے اُسے لیے ایک خالی کلاس میں داخل ہوا ۔ جبکہ سدرہ کی زبان مسلسل چل رہی تھی ۔ 

 دروازہ بند کرتے سدرہ کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے اُس نے ذرا بھی مہلت دیے بنا دیوار سے لگاتے اُسکے بالوں میں ہاتھ پھنسائے   اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔ سدرہ کی آنکھیں حد درجہ پھیلی ۔ دماغ سن ہوا۔  اپنے لبوں پر بڑھتی جون کی گرفت کو محسوس کرتے وہ ہوش میں ائی جون کے کولر کی اپنی مٹھی میں دبوچتے اُس نے اُسے خود سے دور کرنا چاہا ۔ لیکن جون اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے مزید خود کے قریب کر گیا ۔ 

سدرہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی مزاحمت کرتا اُسکا ہاتھ تھما اُسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ سدرہ کی سانسیں تھمتے دیکھ جنید نے اُسکے لبوں کو آزادی دی ۔ 

" بہت بولتی ہو یار تُم میری توبہ جو اب کسی لڑکی کو بچاری بولوں " ۔ سدرہ کے بالوں کی لٹ کو پیچھے کرتے جنید نے اُسکے گہرے سانس بھرتے وجود کو گہری نظروں سے دیکھتے کہا ۔ 

" آئندہ میرے قریب مت انا ۔۔بار بار تم مجھے اس طرح نہیں چھو سکتے " ۔ سدرہ نے جنید کے ہاتھ کو جھٹکتے تیز آواز میں کہا ۔ 

جون نے اپنی آبرو سکوڑے سدرہ کی طرف دیکھا جو براؤن آنکھوں میں غضب کا غصّہ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔ 

" اور کیوں نہیں چھو سکتا میں وجہ جان سکتا ہو " ۔ جون نے اسپاٹ آواز میں سدرہ کے چہرے کو تکتے پوچھا ۔ سدرہ کی یہ بات اُسکا تن من جلا گئی تھی ۔ 

" کیونکہ میں نے تمہیں معاف نہیں کیا ہے گھر آگئے ہو تایا ابو اور بھائی نے اگر تمہیں معاف کردیا ہے اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں بھی تمہیں معاف کردو گی " ۔ سدرہ نے جون کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے بے تاثر آواز میں کہا ۔ 

" کب تک معاف کرنے کا ارادہ ہے " ؟ جون نے اسپاٹ آواز میں سوال کیا ۔ 

" کبھی نہیں ساری زندگی نہیں "۔  سدرہ نے نم آواز میں کہتے اپنے چہرے کو موڑا اپنی آنکھوں میں جمع ہوتی نمی وہ سامنے والے پر آشکار نہیں کرنا چاہتی تھی پر اپنی آواز میں چھائی نمی کو وہ آشکار ہونے سے روک نہ پائی ۔ 

سدرہ کے یوں رخ پھیر لینے پر جون کو اپنے وجود میں سوئیاں سی چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ 

" ٹھیک ہے پھر رخصتی کی تیاری کرو " ۔ اپنے کولر کو صحیح کرتے جون نے اپنے آپ پر قابو کرتے کہا ۔ 

کس کی رخصتی " ۔ سدرہ نے سیکنڈ کی دیر کیے بنا اُسکی طرف دیکھا تھا ۔ لہجے میں حیرت تھی۔ 

" اپنی رخصتی کی ۔۔۔اب تم تو ساری زندگی مجھے نہ معاف کرنے کا ارادہ کی ہوئی ہو ۔۔۔لیکن میں اپنی زندگی  کے اہم سال ضائع نہیں ہونے دے سکتا مجھے ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے جو مجھے کھانا بنا کر دے میرا خیال رکھے مجھ سے رومانس کرے " ۔ سدرہ کی حیرت سے پھیلتی آنکھوں میں دیکھتے جون نے ایک آنکھ ونک کرتے بےباکی سے کہا اور سدرہ نے اُسکی بات پر دانت پیسے ۔ آخری بات پر دل کیا مقابل کا سر کہیں دے مارے ۔ 

" تمہارے خوابوں میں " ۔ جون کی طرف دیکھتے سدرہ نے طنزیہ مسکراہٹ لیے کہا ۔ 

" ہائے کیا یاد دلا دیا خوابوں میں تو کتنی بار میں اپنی اس حسین بیوی کے ساتھ رومانس کر چکا ہوں " ۔ جنید نے سدرہ کے چہرے پر جھکتے گھمبیر جان لیوا سرگوشی کی ۔ اور سدرہ کا دل کیا زمین پٹھے اور وہ اُس میں سماں جائے یہ شخص اتنا بےباک کیوں تھا اُسکی سفید رنگت سرخ ہوئی ۔ گالوں میں سے اُسے بھانپ نکلتی محسوس ہوئی پلکیں لرز اُٹھی۔  

" تمھاری یہ بیہودہ خواہشات کبھی نہیں پوری ہونے والی رخصتی تو نہیں ہوگی " ۔ جون کے سینے پر ہاتھ مارتے اُسے خود سے دور دھکا دیتے سدرہ تیزی سے کہتے ہوئے باہر بھاگی تھی اب یہاں رکنا محال تھا ۔ مخالف اُسے اچھا خاصا نروس کرگیا تھا۔  

" رخصتی تو ہو کر رہے گی وہ بھی بہت جلد اور میری ساری خواہشات پوری بھی تم کرو گی "۔  اپنے پشت سے اتی جنید کی آواز سنتے سدرہ نے زورو سے نفی میں سر ہلایا اور دروازہ کھولتی وہاں سے بھاگی ۔ 

جنید نے سدرہ کے جاتے اپنا فون جیب سے نکالتے حسام کو کال کی ۔ اُسکی دو دنوں سے حسام سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اب اُسے حسام کی فکر ہو رہی تھی ۔ اپنے اور سدرہ کے لیے جو وہ سوچ چکا تھا وہ اج ہی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ جو یقیناً سدرہ کے ہوش اُرا دینے والا تھا ۔ 

💗💗💗💗💗

برستی آنکھوں کے ساتھ وہ زرقان کے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی ۔ قدرے سنسان جگہ پر رکتے زرقان نے اُسے وہاں موجود بینچ پر بٹھایا اور آمنہ چپ چاپ وہاں بیٹھ گئی اُس کی نظریں صرف زرقان کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی جو اس وقت سنجیدہ تھا ۔ جبکہ شہد رنگ آنکھوں میں اب نرم تاثر تھا ۔ 

اپنی جیب سے رومال نکالتے اُس نے نرمی سے آمنہ کے بالوں سے کیچپ صاف کیا ۔ آمنہ کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی وہ یک تک زرقان کو دیکھے گئی جو گھٹنوں کے بل زمین پر اُسکے پاس بیٹھا اُسکے بالوں میں لگا کیچپ صاف کر رہا تھا ۔ بالوں سے اُس کا ہاتھ سرکتا آمنہ کی گردن پر ایا اور آمنہ کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی تنفس بری طرح بگڑا ۔ پورا وجود سنسنا اٹھا ۔۔ انکھوں سے آنسوؤں کی برسات تھم گئی ۔ 

زرقان نے کیچپ صاف کرتے رومال سائڈ پر رکھا اور آمنہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما ۔ 

" صوفیہ نے کیا یہ " ؟  اُسکے ہاتھ پر آئے انگلیوں کے نشان پر اپنی اُنگلیاں پھیرتے زرقان نے نرم لہجے میں پوچھا ۔ لہجہ بیشک نرم تھا لیکن آمنہ کے ہاتھوں پر ٹکی اُسکی نظروں میں سرد تاثر تھا۔  

زرقان کے اس عمل سے اور اس طرح پوچھنے پر آمنہ کی آنکھوں سے پھر برسات شروع ہوئی ۔ 

" ہونہہ رونا نہیں ہے اب ایک بھی آنسو تمہاری آنکھوں سے نہیں بہنا چاہیے مجھے بتاؤ صوفیہ نے کیا ہے یہ " ۔ زرقان نے ہچکی کی آواز پر اُسکے ہاتھوں سے اپنی نظریں ہٹاتے اُسکے آنسو صاف کرتے اُسے تنبیہ کی ۔ 

امنہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اور زرقان اپنے لب بھینچ گیا ۔ 

" اس نے کہا میں بول نہیں سکتی میں گونگی ہو ۔۔۔سب میرے اوپر ہنس رہے تھے " ۔ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے وہ زرقان کو کسی چھوٹی بچی کی طرح سب بتانے لگی ۔ اور زرقان جبڑے بھینچے اُسکی طرف دیکھتا گیا ۔ 

" کس نے کہا تُم بول نہیں سکتی ۔۔۔تم بولتی ہو ۔۔جب جب تم اشارہ کرتے کچھ کہنا چاہتی ہو تو یہ آنکھیں تمھاری آواز بن جاتی ہے ۔ ان آنکھوں کو تو کوئی بھی با آسانی پڑھ سکتا ہے ۔ ان میں رقم تحریر کوئی بھی پڑھ سکتا ہے " ۔ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے آمنہ کے چہرے کو تکتے زرقان نے اُسکی ہیزل بلو آنکھوں میں جھانکتے کہا ۔ اور آمنہ حیرت سے گنگ رہ گئی کیا اُسکی آنکھوں میں لکھی تحریر زرقان پڑھ گیا تھا ۔ وہ زرقان سے نظریں چرا گئی ۔ 

" اس نے کہا میں آپ سے دور رہو " ۔ اشارتاً کہتی وہ زرقان کو حد سے زیادہ معصوم لگی ۔ 

" پر تم تو میرے قریب ائی ہی نہیں " ۔ اپنے لب دبائے زرقان نے زو معنی بات کی ۔ 

امنہ کا رنگ زرقان کی زو معنی بات پر یکدم سرخ پڑا ۔ اب وہ اتنا تو سمجھتی تھی ۔ یکدم اُسکے دل و دماغ میں پچھلے مناظر گھومے جب زرقان نے اُسے گلے سے لگایا تھا ۔ دل کی دھڑکن تیز ہوئی ۔ اور زرقان امنہ کے یوں سرخ ہونے پر مسکرا گیا ۔ 

" پر آپ آئے تھے میرے قریب اس دِن پارٹی میں بھی اور اُسکے بعد بھی ۔۔۔کیوں " ؟ امنہ نے سرخ چہرے اور بڑھتی دھڑکنوں کے ساتھ سوال کیا ۔ 

" اسکا جواب شاید تمہیں میری آنکھیں دے دیں " ۔ زرقان کے کہنے کی دیر تھی امنہ نے جھت سے اُسکی آنکھوں میں جھانکا تھا جہاں صاف صاف اُسکے لیے محبت تھی ۔ امنہ کا دل بلیوں کی مانند اچھلنے لگا ۔ دنیا جہاں کو بھلائے وہ اس وقت زرقان کی آنکھوں میں نظر آتی اپنے لیے محبت دیکھ رہی تھی ۔ 

"  آپ محبت کرتے ہیں مجھ سے " ؟ کانپتے ہاتھوں سے اشارہ کرتی وہ پوچھ بیٹھی ۔ 

" حیرت کی بات ہے تم اب بھی یہ سوال مجھ سے کر رہی ہو ۔۔جبکہ میری انکھوں میں نظر آتی اپنی محبت دیکھ چکی ہو ۔۔تمہارے قریب کیوں ایا تھا اسکا جواب بھی مل گیا ہوگا "  ۔

 نرم لہجے میں کہتا وہ امنہ کی جھولی میں دنیا جہاں کی خوشیاں ڈال گیا ۔ آمنہ کی پلکیں لرز اٹھی اُسکے جواب پر ۔۔اُسکی آنکھوں میں نظر آتی محبت تو دیکھ ہی چکی تھی ۔ 

" پر صوفیہ وہ آپ سے پیار کرتی ہے " ۔ امنہ نے صوفیہ کو یاد کرتے جھکی پلکیں لئے سوال کیا ۔ 

" پر میں جس سے پیار کرتا ہوں وہ میرے سامنے ہے اور اسکے علاوہ مجھے کسی کی فکر نہیں ہے " ۔ زرقان نے آمنہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے محبت سے کہا ۔ آمنہ کی دل کی دھڑکن تھمتے پھر تیز ہوئی ۔  کہ دل کو یہ دھمک با آسانی زرقان سن پایا ۔ یہ لفظ سنتے اُسے لگا کسی نے اُس پر پھولوں کی بارش کر دی ہو ۔ یہ الفاظ نہیں تھے زندگی تھی اُسکے لیے وہ جس سے پیار کرتی تھی وہ بھی  اُس سے محبت کرتا تھا۔  یہ احساس ہی تقویت بخش تھا سکون بخش تھا ۔ اُس میں اتنی ہمت نہ بچی کہ وہ اپنی آنکھیں اٹھا کر ایک نظر زرقان کو دیکھ لے جو لبوں پر مسکراہٹ سجائے اُس کی گرتی اٹھتی پلکوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔  

" حسینہ " ۔ سدرہ کی آواز پر وہ جو آمنہ کا حسین چہرہ دیکھ رہا تھا اپنی آنکھیں مینچ گیا ۔ 

" کباب میں ہڈی " ۔ دھیمی آواز میں دانت پیستے کہتا وہ آمنہ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر گیا۔  

سدرہ کے پاس انے پر زرقان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ جبکہ آمنہ کا ہاتھ اب بھی اُسکے ہاتھ میں مقید تھا۔  

سدرہ جو آمنہ کو ڈھونڈھتی یہاں ائی تھی سامنے اپنی دوست کو لال چہرہ اور نظریں جھکائے کھڑے دیکھ اُسکی نظر زرقان پر گئی جو اُسکی طرف ہی ناگوار نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ اور پھر اُن دونوں کے ہاتھ پر گئی جو ایک دوسرے میں مقید تھے ۔ 

" کیا چل رہا ہے یہاں " ۔ اپنی قمر پر ہاتھ رکھے اُس نے تیکھے لہجے میں دونوں کی طرف دیکھتے پوچھا ۔ آمنہ نے سدرہ کے کہنے پر اپنا ہاتھ زرقان کی گرفت سے آزاد کروانا چاہا لیکن زرقان گرفت مضبوط کر گیا ۔ 

" چھوٹی بچی تو ہو نہیں تم جو تمہیں نہیں پتہ ہو کہ کیا چل رہا ہے یہاں " ۔ زرقان نے طنزیہ لہجے میں سدرہ سے کہا جس نے تیز نظروں سے اُسکی طرف دیکھا ۔ 

" پتہ ہے مجھے زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے  چلو آمنہ " ۔ سدرہ نے ایک جھٹکے سے امنہ کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے کہا۔ اور آمنہ کو لئے آگے بڑھی ۔آمنہ نے زرقان کو دیکھنے سے گریز کیا اگر دیکھ لیتی تو سینے سے سر پٹختی دھڑکنوں پر قابو نہ رکھ پاتی ۔ 

آمنہ کے جاتے ہی زرقان کی آنکھوں میں پھیلی نرمی سختی میں تبدیل ہوئی چہرے پر سخت تاثرات نے ڈیرہ جمایا ۔اپنی پینٹ کی جیب میں ہاتھ پھنسائے وہ یونی سے باہر نکلتا چلا گیا ۔  

صوفیہ تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے گھر جا رہی  تھی اُس نے گھر جانے کے لیے شورٹ کٹ لیا تھا جو قدر سنسان تھا ۔ سدرہ نے جو اُسکا حال کیا تھا وہ نہ قابل برداشت تھا کیک تو وہ اپنے منہ سے صاف کر چکی تھی لیکن کیچپ اُسکے کپڑوں تک پہنچ گیا تھا ۔ 

یکدم اُسکی گاڑی کے سامنے ایک بلیک سپورٹ بائک نے کٹ کیا اور اُسکی گاڑی سے کچھ دور رک گئی ۔ صوفیہ نے جلدی سے بریک لگائی اور حیرت سے سامنے کھڑے نوجوان کو دیکھا جو پورا کالے لباس میں ملبوس تھا ۔ کالی پینٹ  کالی ہوڈی  جسکا ہڈ اُس نے سر پر لیا ہوا تھا ماتھے تک ۔ منہ پر کالا ماسک لگائے وہ اپنی ہڈ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے شہد رنگ آنکھوں میں غضب کی لالی لیے سدرہ کو دیکھ رہا تھا۔  

ایک تو پہلے ہی سدرہ نے اُسکا دماغ خراب کر دیا تھا اور اب سامنے اس کالے لباس میں ملبوس شخص کو دیکھتے صوفیہ دانت پیستے ہوئے گاڑی سے باہر ائی۔ 

" کون ہو تم تمیز نہیں ہے ہٹاؤ اپنی گاڑی یہاں سے " ۔ تیز قدموں سے اُس تک اتے صوفیہ نے غصے سے کہا۔  

جب مقابل نے اپنے ہاتھ سے اُسکا بازو پکڑتے اُسے اپنی سخت گرفت میں لیتے سڑک کے کنارے پر موجود درخت سے لگایا۔ صوفیہ نے بوکھلا کر اُسکی طرف دیکھا ۔ ابھی وہ کچھ بولتی جب مقابل نے اُسکی گردن پر تیز دھار چّاکو رکھا۔  

صوفیہ نے خوف سے مقابل کی سرخ شہد رنگ آنکھوں میں دیکھا۔  

" کو۔۔۔کون ۔۔پلیز۔۔مجھ۔۔۔مجھے جانے دو " ۔ خوف سے لفظ ادا ہونے سے انکاری ہوئی ۔ 

" یہ زبان اس وقت تو بہت لڑکھڑا رہی ہے لیکن کسی کا مذاق بناتے ہوئے تو بہت تیز چلتی ہے " ۔ مخالف کی سرد آواز سنتے صوفیہ کو اپنا دم نکلتا محسوس ہوا ۔ 

" میں نے کسی کا مذاق نہیں اڑایا " ۔ صوفیہ نے تھوک نگلتے کہا۔  

" جھوٹ مت بولوں  مجھے جھوٹ نہیں پسند آئندہ کے بعد اگر تُم مجھے اُسکے آس پاس بھی نظر ائی تو یہ گردن اڑانے میں دیر نہیں کرونگا " ۔ چاقو کا دباؤ گردن پر بڑھاتے وہ سرد لہجے میں گویا ہوا۔  

" تم آمنہ کی بات کر رہے ہوں " ۔ صوفیہ نے حیرت سے پوچھا ۔ کیونکہ ابھی وہ اُسی کا مذاق تو اڑا کر ائی تھی ۔ جس کا بدلہ سدرہ اچھا خاصا لے چکی تھی اب یہ کون تھا ۔ 

" ہاں میں اُسی کی بات کر رہا ہو میری بات کو ہوا میں اڑانے کی کوشش بھی مت کرنا صوفیہ دانیال ۔۔ تم مجھے اُس سے سو قدم کی دوری پر چایئے ہوں"۔  صوفیہ کے پوچھنے پر مخالف نے سرد لہجے میں کہتے  اُسے ڈرایا۔   

اپنی گردن پر گیلا پن اور جلن محسوس کرتے صوفیہ سمجھ گئی اُسکی گردن سے خون نکل آیا ہے ۔ صوفیہ خوف سے رو پڑی۔  اس شخص کو اُسکا نام تک پتہ تھا ۔ 

" لگتی کون ہے وہ تمھاری جسے دیکھو آمنہ آمنہ آمنہ "۔  اپنے ڈر کو بھلائے صوفیہ نے چیختے ہوئے کہا لیکن یہ وہ بھول کر بیٹھی مخلاف نے اُسکے بالوں کو اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسکا رخ موڑتے اُسکا چہرے درخت کے تنے سے زور سے لگایا۔  

" وہ زندگی ہے میری جس پر ایک انچ میں برداشت نہیں کرسکتا اُسکی آنکھوں میں آنسو لانے والے کو میں زندہ درگور کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں شُکر مناؤ تم عورت ذات ہو ورنہ ابھی تک میں تمہارا حشر کر چکا ہوتا  " ۔ سخت و سرد لہجے میں جنونیت سے کہتا صوفیہ کے وجود میں خوف کا اضافہ کر گیا تھا ۔ 

'سمجھ ائی میری بات یہ نہیں " ۔ صوفیہ کے چہرے پر زور دیتے اُس نے سوال کیا ۔ 

صوفیہ نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

" شاباش یاد رکھنا میری نظر تم پر ہی ہے اُسے ذرا سی بھی تکلیف پہنچی تو تم ۔۔۔آگے خود ہی سمجھدار ہو " ۔ صوفیہ سے دور ہوتے اُس نے اپنی جیب میں چاقو واپس رکھا ۔ 

سدرہ نے خوفزدہ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا۔ گال ایک طرف سے لال ہو رہا تھا گردن پر سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا ۔ جبکہ کیچپ نے پہلے ہی اُسکا حال خراب کر رکھا تھا ۔ 

" اب جاؤ ورنہ خود پر سے ضبط کھوتے تمہیں یہی مار کر دفنا دونگا کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوگی ویسے بھی اس سڑک پر کوئی آتا جاتا ہے نہیں " ۔ اپنی بائک کے پاس اتے بیٹھتے اُس نے سدرہ کو مزید خوفزدہ کیا ۔ جو جلدی سے اثبات میں سر ہلاتی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی تھی اور تیزی سے گاڑی سٹارٹ کرتے وہ خوفزدہ نظروں سے اُسے دیکھتے گاڑی آگے بھگا لے گئی ۔ 

مخالف نے دور جاتی گاڑی کو چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھا جتنا وہ اُسے خوف زدہ کر گیا تھا اُسے اب یقین سا تھا کہ وہ اب آمنہ کے نزدیک تک نہیں آئے گی ۔ آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں سے بہتے آنسو یاد آئے تو وہ اپنے جبڑے بھینچ گیا ۔ اپنے میوٹ اسپیکر کی حسین آنکھوں میں آنسو یا اُداسی وہ بلکل برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ 

💗💗💗💗💗💗

سدرہ آمنہ کو چھوڑتی ہوئی گھر آگئی تھی آمنہ کو وہ راستے میں صوفیہ کی حالت کے بارے میں بتا چکی تھی جس پر پہلے تو آمنہ نے اُسے ڈانٹا لیکن پھر سدرہ کےہنسنے پر وہ خود بھی ہنس دی ۔ گھر اتے ہی وہ  شاور لیتے وہ سو گئی تھی ۔ شام کا وقت تھا جب اُسکی آنکھ کھلی ۔ کسملندی سے اٹھتے اپنے بالوں کا جوڑا بناتے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی ۔ 

لاؤنچ میں اتے ہی اُسے اچھنبا ہوا تایا ابو حمزہ صائمہ سب وہی بیٹھے ہوئے تھے اور سب کے چہرے سنجیدہ تھے ۔ سدرہ نے جمائی لیتے اُن تینوں کی طرف دیکھا پھر نظر صوفوں سے کچھ دور رکھے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر ٹیک لگائے  کھڑے جنید پر پڑی جو اپنی گہری نظریں اُس پر ہی جمائے ہوئے تھا ۔ جنید کو دیکھتے ہی سدرہ نے اپنے لب بھینچے ۔ جنید نے بھی گہری نظروں سے سدرہ کو دیکھا جو ڈھیلی سی پیچ رنگ کی شرٹ اور کھلے ٹراؤزر کے ساتھ بالوں کا میسی جوڑا بنائے آنکھوں میں نیند سے  اٹھنے کے  باعث لالی لیے اُسے اپنے لئے  بیتاب کر گئی تھی ۔ 

" سدرہ ادھر آؤ " ۔۔حمزہ کی نظر جیسے ہی سدرہ پر پڑی اُس نے اُسے اپنے پاس انے کا اشارہ کیا ۔ سدرہ اثبات میں سر ہلاتی اُس تک اتے اُسکے پاس بیٹھی ۔ ان سب کی خاموشی اور سنجیدہ چہرہ دیکھتے اُسکی چھٹی حس اُسے کچھ غلط ہونے کا اشارہ دے رہی تھی ۔ 

" سدرہ بیٹا میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اُمید ہے آپ مانے گی " ۔ تایا ابو کی بات پر سدرہ کا دل دھڑکا نادان تو تھی نہیں بات کے آغاز میں ہی سمجھ گئی تھی جو وہ کہنا چاہ رہے ہیں ۔۔ تھوک نگلتے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

" بیٹا ہم نے پرسوں جمعہ کے دن آپکی رخصتی کی تاریخ رکھ دی ہے ۔ "  اجمیر صاحب کا کہنا تھا اور سدرہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی وہی ہوا جسکا اسکو ڈر تھا اج ہی تو جنید سے اُسے کہا تھا رخصتی کا لیکن وہ اُسکی بات ہوا میں اڑا گئی تھی ۔ اُسکے دل نے رفتار پکڑی ۔ اُسکے چہرے پر چھائی حیرانگی دیکھتے حمزہ اور اجمیر صاحب پریشان ہوئے ۔ جبکہ جنید کو بھی اُسکے چہرے پر چھاہتی حیرانگی ناگوار لگی ۔ 

" بیٹا یہ مت سمجھنا میں نے صرف جنید کے والد ہونے کی حثیت سے یہ فیصلہ کیا ہے بیٹا تم بھی مجھے بیٹی کی طرح عزیز ہو میں تم دونوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں تم دونوں کو ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں مجھے امید ہے میری بیٹی میرا مان نہیں توڑے گی " ۔ اجمیر صاحب نے اپنی جگہ سے اٹھتے سدرہ تک اتے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے نرم لہجے میں کہا ۔ 

سدرہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اجمیر صاحب کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اُمید تھی اور پھر اپنے بھائی کی آنکھوں میں جو اُسے آس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ پھر اُس نے اپنے دل کی آواز سنی جو چاہتا یہی تھا کہ وہ اور جنید ایک ہو جائے لیکن دماغ وہ کہہ رہا تھا جو شخص تمہیں دولت و شہرت کے لئے چھوڑ گیا تھا کیا اتنا آسان تھا اس شخص کو معاف کرتے اُسکے کمرے میں اپنا وجود سجانا ۔ دماغ نے نفی کی تو دل نے حامی بھری ۔ ایک نظر جنید کو دیکھا جو اسکے جواب کا منتظر تھا۔  پل بھر میں اُس نے اپنا فیصلہ لیا تھا ۔ 

" تایا ابو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے " ۔ دھیمے لہجے میں کہتی وہ وہاں سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر گئی  ۔ اور اُسکے ان لفظوں نے جیسے جنید کے وجود میں نئی زندگی بھر دی  ۔ وہ اپنا چہرہ جھکاتے نفی میں سر ہلاتے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے دھیما سا ہنس پڑا ۔ 

" چلو بھائی سالوں بعد دوبارہ گھر میں خوشیاں آرہی ہے منہ تو میٹھا کرواؤ صائمہ " ۔ حمزہ کے کہنے پر صائمہ اُٹھتی کچن میں چلی گئی ۔ جنید نے نظریں اٹھا کر سدرہ کی طرف دیکھا جو اسپاٹ نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی ۔ جنید جانتا تھا کہ اُس نے اجمیر صاحب اور حمزہ کی وجہ سے ہاں کی ہے ۔ لیکن جو بھی تھا وہ اُسے اپنے پاس رکھتے منانا چاہتا تھا ۔ اسے یقین تھا وہ اُسکے قریب رہے گی تو وہ اُسے اپنے لمس اور محبت سے منا لے گا ۔

اجمیر صاحب اور حمزہ مٹھائی انے پر کھاتے اور جنید اور سدرہ کو کھلاتے  باہر نکلتے چلے گئے تھے جبکہ صائمہ دوبارہ کچن کی طرف بڑھ گئی تھی ۔  اس سارے عرصے میں سدرہ کی نظریں جنید پر ہی ٹکی تھی ۔ جنید نے سدرہ کو ٹکٹکی باندھے خود کو دیکھتے پا کر اپنے قدم اُس تک بڑھائے ۔ 

صوفے سے ایک قدم کی دوری پر سدرہ کے چہرے پر جھکتے اُس نے وہاں موجود سینٹر ٹیبل سے مٹھائی اٹھائی سدرہ یک تک جنید کی براؤن خوشی سے پُر مسرت آنکھوں میں دیکھے گئی ۔ جون نے بھی اُسکی براؤن حسین آنکھوں سے اپنی نظریں ہٹانا گوارا نہیں کی ۔   

مٹھائی اٹھاتے سدرہ کے لبوں تک لاتے اُس نے سدرہ کے منہ کھولنے کا انتظار کیا اور حیرت کی بات یہ تھی سدرہ اسے دیکھتے اپنا منہ کھول گئی ۔ مٹھائی سدرہ کو کھلاتے جون نے سدرہ کی جھوٹی مٹھائی اپنے منہ میں ڈالتے اُس کے ماتھے پر جھکتے شدت بھرا بوسا ثبت کیا ۔ سدرہ کی آنکھیں خود با خود بند ہوتی چلی گئی۔  

" تیار ہو جاؤ اب جاناں کیونکہ اب  میرے جذبوں کی آنچ میرے لمس سے تمہارے وجود میں منتقل ہوتے تمہارے وجود کو دہکا دے گی ۔  اب تمھاری سانسیں میری سانسوں میں اُلجھتے تمہیں بیقرار کر دے گی ۔ اب میرے سب سے قریب تم ہوگی اور تمہارے قریب میں ۔ اب وصل کی ان گنت راتیں ہوگی جب میں تمہارے پہلو پر پر اپنا سر رکھتے تمہارے وجود سے اُٹھتی پُر سوز مہک کو اپنے اندر اُتارتے سکون دہ نیند سویا کرو گا  اب میرے ہر دن کی شروعات تمہارے اس حسین چہرے کو دیکھتے ہوگی " ۔ سدرہ کی بند آنکھوں اور ہونٹوں کے نیچے چمکتے اس تل کو  بیقرار نظروں سے  دیکھتے جنید نے بھاری لہجے میں بوجھل جان لیوا سرگوشی کی ۔ 

سدرہ کی سانسیں اتھل پتھل ہوئی ۔ سینے میں موجود گوشت کا لوتھڑا اتنی تیزی سے دھڑکا کے اُسکی آواز باقاعدہ مخالف کو سنائی دی ۔ پورے وجود میں سنسنی سی دور اُٹھی۔ اپنے چہرے پر پڑتی جنید کی تپش زدہ سانسیں محسوس کرتے سدرہ نے اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے آنکھیں کھولی۔ پلکیں لرز رہی تھی لیکن وہ قابو پاتے سرخ ہوتی براؤن آنکھوں سے جنید کی آنکھوں میں دیکھے گئی جہاں شوریدہ جذبات کا ایک سمندر آباد تھا۔  

" خوش ہو تم " ؟ سدرہ نے اسپاٹ لہجے میں اپنے چہرے پر جھکے جنید کو دیکھتے پوچھا ۔

" بہت میری انکھوں میں دیکھو خوشی نظر ائی گی تمہیں " ۔ جنید نے مسکراہٹ لبوں پر سجائے جواب دیا ۔ 

" پر میں خوش نہیں ہو ۔۔۔تمہیں لگتا ہے کہ رخصتی کے بعد میں تمہیں معاف كردونگی تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے میں تمہارا جینا حرام کردونگی تم بس دیکھتے جاؤ " ۔ اپنے تاثرات پر قابو پاتے سدرہ نے اسپاٹ آواز میں کہا ۔ لہجہ بے لچک تھا۔  

" میرے قریب رہتے تم میری سانسیں تک مجھ پر تنگ کردو میں افف نہیں کرونگا اور ہاں مجھے ہے غلط فہمی اور یہ غلط فہمی بہت حسین ہے کہ رخصتی کے بعد تم یقیناً مجھے معاف کردو گی " ۔ جنید نے کہتے سدرہ کی چھوٹی سی ناک پر اپنے لب رکھے ۔ جنید کی بات پر سدرہ کو لگا اُسکا دل کا کوئی کونا جیسے پگھل رہا ہے ۔ وہ اپنی سانسیں تک روک گئی ۔ 

" کل شاپنگ پر جانا ہے اسی لیے یونی نہیں جانا میں چاہتا ہو رخصتی کے وقت تم مجھے پور پور میری پسند میں سجی ملو " ۔ سدرہ کے بالوں کو جوڑے سے آزاد کرتا گہری نظر اُس کے وجود پر ڈالتا باہر نکلتا چلا گیا تھا۔  جنید کے جاتے ہی سدرہ نے اپنی رکی سانسیں بحال کی ۔ 

" بد تمیز انسان پتہ نہیں کہاں سے یہ سب سیکھ کر ایا ہے پہلے تو ایسی گہری ۔۔نہیں رومانٹک باتیں نہیں کرتا تھا " ۔ اپنے بھانپ چھوڑتے گالوں کو اپنے ہاتھوں سے تھپتھپاتے اپنے آپکو قابو کرنا چاہا ۔ 

" اتنا تنگ کرو گی کہ خود ہی اپنے اس فیصلہ پر پچھتاؤ گے ۔ میں ناراض ہُوں اس سے بہت زیادہ اتنی جلدی نہیں ماننے والی آسان ہے کیا " ۔ خود سے کہتی وہ جیسے خود کو باور کروا رہی تھی . 

💗💗💗💗💗

فجر کا وقت ہوا تو بیہ کے موبائل میں الارم بج اٹھا ۔ اپنی آنکھیں مسلتے بیہ بیڈ سے اُٹھی کل کاٹیج سے انے کے بعد وہ گھر سے نہیں نکلی تھی اور نہ ہی اُسکا اور حسام کا پھر سامنا ہوا تھا ۔ بیڈ سے اٹھتے اُس نے واشروم کی راہ لی ۔ 

کچھ ہی دیر میں وضو کیے نماز سٹائل میں دوپٹہ باندھے ۔۔ اپنی الماری سے جائے نماز اٹھاتی اپنی بالکنی کی طرف بڑھی  اُسکی عادت تھی وہ بالکنی میں ہی فجر کی نماز ادا کرتی تھی ۔ 

بیہ نے  سلائڈنگ دوڑ سائڈ کرتے بالکنی میں قدم رکھا  اور پھر دروازے کو واپس بند کیا جب پلٹی تو اُسکی نظریں لون میں پڑی جہاں سامنے ہی حسام کو گھاس کے اوپر  جائے نماز بچھائے سجدہ ریز ہوتے دیکھ اُس کا پورا وجود ساکت ہوا ۔ بیہ کی آنکھیں تحیر سے پھیلی ۔ اندھیرے میں لون کی جلتی لائیٹس میں اُسے وہ نظر ایا جو اب سجدہ سے کھڑا ہوا تھا ۔ بیہ کی دل کی دھڑکن نے رفتار پکڑی وہ حیرت سے حسام کو دیکھ رہی تھی جو سفید رنگ کی شلوار قمیض میں رومال کو سر پر باندھے نماز پڑھنے میں مشغول تھا ۔ اُسے نہیں یاد تھا اُس نے حسام کو پہلے نماز پڑھتا کب دیکھا تھا ۔ جتنا عرصہ وہ اُسکے ساتھ رہی تھی تب تک تو حسام نے نماز نہیں پڑھی تھی ۔حسام کو یوں نماز ادا کرتے دیکھ اسکے لبوں پر کب مسکراہٹ آبسی اُسے پتہ ہی نہیں چلا ۔ 

نماز قضا ہونے کے ڈر سے اُس نے جلدی سے جائے نماز بچھاتے نماز کی نیت کی ۔ 

فجر کا حسین وقت ۔۔۔ٹھندی ہوائیں ایسے میں حسام لون میں گھاس پر بچھی جائے نماز پر  فجر کی نماز ادا کر رہا تھا تو اوپر اپنے کمرے کی بالکنی میں اُسکی بیہ اُسکی زندگی فجر کی نماز ادا کر رہی تھی ۔ کیسا سماں تھا ۔ 

پورے دل سے نماز پڑھتے اُس نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے سیاہ نظروں نے پھر سے لون میں دیکھا جہاں حسام کو ہتیلیاں پھیلائے اُسکے لبوں کو ہلتے محسوس کرتے بیہ کو حیرت ہوئی حسام نے اُس سے پہلے نماز شروع کی تھی تو کیا وہ اب تک وہ دعا مانگ رہا تھا اتنی بڑی دعا آخر کیا مانگ رہا تھا وہ ۔ حسام کا چہرہ زرد ہوا تھا ۔ ایسے جیسے نہ جانے کتنا بیچین ہو وہ ۔۔ماتھے پر بلوں کا جال تھا جبکہ آنکھیں اُسکے ہاتھ پر گڑھی ہوئی تھی ۔ اُسے دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ جو بھی مانگ رہا ہے بہت شدت سے مانگ رہا ہے ۔ 

پر وہ کیسے جان پاتی وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے بعد صرف ایک چیز تو اپنے رب سے شدت سے مانگتا ہے اور وہ ہے بیہ کا ساتھ ۔۔۔وہ رب سے دعا مانگتا ہے کہ اُسے اُسکی بیہ مل جائے وہ بیہ کے ساتھ ایک حسین خوشگوار  زندگی مانگتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے اُسکی بیہ تاقیامت اُسکے ساتھ رہے اور قیامت کے بعد بھی اُسے وہ چایئے ۔۔۔

نماز میں بیٹھا دعا مانگ رہا تھا ،،

وہ لڑکا نہ جانے کیا مانگ رہا تھا ،،

لال تھی آنکھیں چہرے پر زردی ،،

حسام تھا کوئی بیہ مانگ رہا تھا ،، 

بیہ نے حسام سے اپنی نظریں ہٹاتے دعا مانگنی چاہی۔  لیکن الفاظ زبان سے ادا ہو ہی نہیں پائے ۔ 

" یہ اللہ حسام جو بھی دعا مانگ رہے ہیں وہ قبول فرما دے ۔ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھ " ۔ 

لبوں سے الفاظ ادا ہوئے بھی تو کیا اُسی ہرجائی کے لئے اُسی کے حق میں اُسکے لبوں سے دعا نکلی ۔ بس وہ یہ جانتی تھی دل نے ان لفظوں کی صدا دی تو اُسکے لبوں نے ان لفظوں کو ادا کیا۔  

بیہ نے گہرا سانس بھرتے آمین کہا اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اُس نے پھر حسام کی طرف دیکھا جو جائے نماز پر بیٹھا اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ 

سیاہ آنکھیں سیاہ انکھوں سے ٹکرائی تو جیسے سماں رک سا گیا ۔ دونوں محویت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے گئے جیسے انکھیاں دید کی پیاس بجھا رہی ہو ۔ ایک کی آنکھوں میں ندامت شرمندگی محبت فکر جانے کیا کیا تھا تو دوسری طرف حسام کو بیہ کی ان سیاہ انکھوں میں اپنے لئے وہی محبت نظر آرہی تھی جو تین سال پہلے ایا کرتی تھی ۔ 

گاڑی کے ہورن کی آواز پر بیہ ہوش میں ائی اُس نے تیزی سے اپنی نظریں حسام کے چہرے سے پھیری اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔ بیہ کے یوں  نظریں پھیر لینے پر  وہ خود بھی اپنی جگہ سے اٹھا ۔ 

" یہ الٰہی صبح صبح ہی محبوب کا دیدار کروا کر آپ نے تو کمال ہی کر دیا " ۔ جائے نماز ہاتھ میں تھامتے اُس نے آسمان کی طرف دیکھتے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا ۔ 

اندر کمرے کی طرف بڑھتی بیہ نے پلٹ کر اُسے ایک نظر دیکھا اور اُسے یوں آسمان کی طرف منہ کئے کچھ بڑبڑاتے دیکھ بیہ کو لگا جیسے حسام کا ذہنی توازن خراب ہوگیا ہو ۔ اُس کے اندر بڑھتے قدم ٹہر گئے تھے ۔ 

حسام  نے بیہ کی طرف دیکھا اور اُسے اپنی طرف متوجہ پا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے اُسکی طرف فلائنگ کس اچھالی ۔ بیہ حسام کے یو کرنے پر لال بھبھوکا چہرہ لیے  ہڑبڑا کر اندر بڑھی جب بالکنی کی سلائڈنگ دور پر اُسکا سر لگا ۔ بیہ نے اپنی آنکھیں مینچ کر خود پر ضبط کیا ۔ اور حسام اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائے اپنے لبوں پر رکھتے اپنے بیساختہ نکلنے والے قہقہہ پر قابو پانے لگا جو بیہ کی اس حرکت کو دیکھتے برداشت کرنا مشکل تھا ۔ 

کچھ شرم سے لال اور کچھ غصے کے باعث سرخ چہرہ لیا بیہ نے پلٹ کر غصے بھری نظروں سے حسام کو دیکھا جو اُسکے یو غصّہ سے دیکھنے پر معصومیت سے مسکرا دیا ۔ بیہ نے غصے سے گہرا سانس بھرا اور ایک جھٹکے سے سلائڈنگ دور سائڈ پر کرتے اندر بڑھ گئی ۔ 

بیہ کے جاتے ہی حسام کا قہقہہ لون میں گونجا ۔ 

" میری معصوم سی بیوی کا غصّہ  " ۔ ہنستے ہوئے کہتا وہ کاٹیج کی طرف بڑھ گیا ۔ 

" بیشرم انسان یا اللہ کتنی زور سے لگی ہے مجھے " ۔ سلائڈنگ دوڑ سے ٹیک لگائے بیہ نے اپنے ماتھے کو مسلتے  دانت پیستے کہا ۔ اور پھر یونی کے لیے تیار ہونے کا سوچتی ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔ 

💗💗💗💗💗

جامنی رنگ کے شیفون کی فروک جو اُسکے پیروں کو چھو رہی تھی ۔ دوپٹے کو گردن سے لگائے ۔ سیاہ بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے ۔ سیاہ چمکتی انکھوں میں سرمے  کی لکیر کھینچے ۔ گالوں پر ہلکا سا بلش آن لگائے ۔ اپنے گلابی لبوں کو لال رنگ سے رنگے ۔ بیہ نے ایک آخری نظر خود پر ڈالی تھی ۔ یکدم کچھ یاد انے پر اُس نے دراز سے چوریاں نکال کر اپنی کلائی میں پہنی ۔ 

وہ اج حسین لگ رہی تھی بےتحاشا حسین ۔۔اور یہ روپ اُس نے ایک خاص مقصد کے لیے اپنایا تھا ۔ اج وہ حسام کو جلانا چاہتی تھی ۔ یا اُسکے چاروں کھانے چٹ کرنے کہ ارادہ کی ہوئی تھی ۔ 

کندھے پر بیگ ڈالے وہ اپنے کمرے سے باہر ائی تھی لاؤنچ میں اتے ہی اُس نے کامل فلک اور لیزا کو سلام کیا جو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ لیزا بھی گول گھٹنوں تک اتی کرتی اور کھلے بالوں میں  لبوں پر ہلکی سی پنک رنگ کی لپ اسٹک لگائے پیاری لگ رہی تھی ۔ 

بیہ کے سلام کا جواب دیتے تینوں نے یک زبان ماشاللہ کہا تھا وہ اج لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی ۔ 

کامل بیہ کے چہرے پر چھائی رونق دیکھتے مطمئن ہوا تھا ۔ فلک نے بھی مسکرا کر اُسکی طرف دیکھا ۔ کہیں نہ کہیں کامل حسام کو معاف کرچکا تھا اور یہی چاہتا تھا کہ بیہ اور حسام جلد ایک ہوجائے ۔ اور یہ فلک کے سمجھانے کا نتیجہ تھا۔  

بیہ نے فلک کے ساتھ والی سیٹ سنبھالی اور ناشتہ کرنے لگی ۔ جب  شاداب بھی اپنے کمرے سے ایا براؤن شرٹ اور بلیک پینٹ میں گیلے بالوں کے ساتھ شاید وہ شاور لے کر نکلا تھا ۔ شاداب کو۔دیکھتے ہی لیزا کی دل کی دھڑکن بڑھی ۔ لبوں پر خود با خود مدھم مسکراہٹ نے بسیرا کیا ۔ 

بیہ نے جلدی جلدی ناشتہ کرنا شروع کیا ۔ نہ جانے کیا ہوا تھا کہ دل بس حسام کے سامنے جانے کی تمنا کر رہا تھا ۔ بیہ کو یوں جلدی جلدی ناشتہ کرتے دیکھ کامل کے علاوہ سب مسکرا دئیے۔  

یکدم بیہ کو پھندا لگا ۔ فلک نے اٹھتے فوراً  اُسکے لبوں سے پانی لگایا اور اُسکی پیٹھ تھپتھپائی ۔ 

" کیا کرتی ہو بیہ آرام سے کھاؤ " ۔ شاداب نے بیہ کو دیکھتے اُسے ٹوکا ۔ 

" مجھے تو لگتا ہے حسام سر بھوکے ہے تبھی بیہ کو پھندا لگا ہے " ۔ مزے سے آملیٹ کا پیس منہ میں ڈالتے لیزا نے کہا ۔ 

سب نے لیزا کی طرف ماتھے پر بل لیے دیکھا ۔ 

" وہ میرا مطلب ہے ۔۔وہ ماما کہتی ہے ۔۔۔ہاں ماما کہتی ہے جب ہمیں کچھ کھاتے یا پیتے پھندا لگے تو اسکا مطلب ہمارا کوئی قریبی بھوکا ہے " ۔ سب کی نظریں خود پر محسوس کرتے لیزا نے گڑبڑا کر جواب دیا ۔ 

لیزا کی بات پر بیہ کا رنگ لال ہوا ۔ ساتھ ساتھ حسام کی فکر بھی ہوئی کیا اُس نے ناشتہ کیا تھا ۔ 

کامل نفی میں سر ہلاتا اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوا ۔جبکہ شاداب نے بھی لیزا کی بات پر نفی میں سر ہلایا تھا ۔

" نہیں وہ بھوکا نہیں ہے میں نے اُسے پہلے ہی بریک فاسٹ بھجوا دیا تھا اب تک تو وہ تم لوگوں کا گاڑی میں انتظار کر رہا ہو گا " ۔ فلک نے مسکراتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھتے کہا اور فلک کی بات سنتے بیہ کو سکون ملا ۔ 

کچھ ہی دیر میں ناشتہ کرتے کامل کے ساتھ ساتھ وہ تینوں بھی باہر کی طرف بڑھے تھے ۔ جیسے جیسے بیہ اپنے قدم باہر بڑھا رہی تھی ویسے ویسے اُسکی دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی ۔ 

کامل نے باہر اتے ایک سنجیدہ نظر بلیک یونی فورم میں تیار کھڑے حسام پر ڈالی ۔

" دھیان رکھنا " ۔ سنجیدگی سے کہتے وہ اپنی گاڑی میں سوار ہوتا گھر سے نکلتا چلا گیا ۔ 

حسام نے رخ موڑے کامل کی گاڑی کو جاتے دیکھا اور جیسے ہی وہ پلٹا وہ پتھر کی مورت ہوا ۔ اُسکا سینے میں دھڑکتا دل ساکت ہوا ۔ سامنے ہی وہ اپنے ہوش ربا سراپے کے ساتھ اُس سے چند قدم کی دوری پر کھڑی اسے مہبوت کر گئی ۔ 

بیہ کی سرمے لگی سیاہ انکھوں سے ہوتے حسام کی نظر اُسکے سرخ رنگے ہونٹوں پر اٹکی حسام کو اپنے گلے میں کانٹے سے چبھتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ اُسے لگا جیسے وہ برسوں کا پیاسا ہو  ۔ کل ہی تو ان لبوں کے لمس سے اپنی پیاس بھجائی تھی لیکن پیاس بھجنے کے بجائے مزید بڑھ گئی تھی  ۔ جامنی رنگ میں اُسکی سانولی رنگت کھل رہی تھی اور اُس پر اُسکے تیکھے نقوش وہ لرزتی پلکیں لیے کبھی اُسے دیکھتی اور کبھی اپنی نظریں جھکا لیتی ۔ لیکن حسام وہ حسام کو سٹل ضرور کر گئی تھی ۔ 

حسام کی اپنے وجود پر اُٹھتی تپش زدہ گہری نظریں محسوس کرتے بیہ کے ہاتھوں میں پسینہ چمکا ۔ دل نے رفتار پکڑی ۔ وہ تو اج کل ویسے ہی کچھ زیادہ دھڑکنے لگا تھا ۔ حسام کی گہری نظروں سے  اُسکے گال سرخ قندھاری ہوئی پلکیں رقص کرنے لگی ۔ 

تیز دھڑکتے دل کے ساتھ اُس نے اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے تھے ۔ جہاں وہ اپنے خوبرو نقوش لئے اُسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا جو بھی تھا اُسکے شوہر پر کالا رنگ ججتا بہت تھا ۔ حسام تک اتے وہ اپنے آپ پر قابو پا چکی تھی ۔ حسام نے خود سے دو قدم کی دوری پر اپنی حسین بیوی کو دیکھا جو اُسکے چاروں خانے چٹ کر گئی تھی ۔ اور اُسے اپنی نظروں کے حصار میں لئے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا جب بیہ کی اگلی بات پر اُسکے چہرے سے نرمی غائب ہوئی ۔ 

" شاداب کیا تُم گاڑی نہیں چلائو گے " ۔ لیزا کو شاداب کا ہاتھ تھامتے  گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے دیکھ بیہ نے اپنی سیاہ آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا ۔ 

اور حسام اُسکے منہ سے شاداب کا نام سنتے اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ گیا ۔ 

" نہیں بیہ شاداب میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھے گا ہم نے اسائنمنٹ کے بارے میں کچھ بات کرنی ہے " ۔ لیزا نے اپنی دوست کے چہرے کو تکتے بظاھر مسکراہٹ لیے کہا سمجھ گئی تھی وہ بیہ کیا کرنا چاہ رہی ہے ۔ 

" اوہ اچھا وہ شاداب بہت اچھی ڈرائیونگ کرتا ہے نہ اسی لیے میں سمجھی وہ ہی گاڑی چلائے گا " ۔ بیہ نے حسین مسکراہٹ لیے شاداب کی طرف دیکھتے کہا ۔ اور حسام نے اپنا چہرہ موڑے گہرے سانس بھرتے اپنے آپ پر قابو کرنا چاہا ۔ یہ سب اُسکی برداشت سے باہر تھا ۔ لیکن وہ جانتا نہیں تھا اُسکی بیوی نے ابھی اور اُسے ضبط کے مراحل سے گزارنا ہے ۔ 

" بیہ تم کب میرے ساتھ کہیں گئی " ؟ شاداب جو منہ کھولے حیرت سے بیہ کو دیکھ رہا تھا پوچھ بیٹھا کیونکہ وہ بیہ کے ساتھ کبھی گیا ہی نہیں واٹر فال بھی جب گئے تھے تب لیزا نے ڈرائیونگ کی تھی ۔ 

بیہ شاداب کے یوں سوال کرنے پر گڑبڑائی ۔ حسام کے چہرے پر پھیلتی سرخی اُسے مزا دے رہی تھی ۔ 

" تمہیں یاد نہیں ہے تمھاری یاداشت بہت کمزور ہوگئی ہے یاد کرو ہم گئے تھے سب ساتھ آئس کریم کھانے " ۔ بیہ نے دانت پیستے اُسے آنکھیں دکھاتے کہا اور یہاں حسام مزید نہ برداشت کرتے ایک جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھولتے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا تھا ۔ بیہ نے اُسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھتے با مشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی ۔ لیزا نے اُسے آنکھیں دکھائی جس پر وہ کندھے اچکا گئی ۔ لیزا اور شاداب دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھے ۔ جب انابیہ اپنے آپکو مضبوط کرتی پسنجر سیٹ پر براجمان ہوئی ۔ حسام نے انکے بیٹھتے ہی سنجیدہ چہرے لیے گاڑی چلائی ۔ 

گاڑی اپنے راستے پر روا دواں تھی جب بیہ نے ایک نظر حسام کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے اپنے بیگ سے اپنا موبائل نکالا ۔ 

" شاداب ذرا دیکھنا یہ میرا موبائل اون کیوں نہیں ہورہاہے " ۔ نرم لہجے میں کہتی وہ حسام کو اپنے لب بھنچنے پر مجبور کر گئی وہ جانتا تھا اُسکی بیوی محض اُسے جلانے کے لئے یہ کر رہی ہے وہ شاداب کو بھائی مانتی ہے اور شاداب بھی اُسے بہن لیکن پھر بھی اُسکے لبوں سے اتنی نرمی سے نکلا کسی مرد کا نام اُسے گوارا نہیں تھا ۔ 

شاداب جو لیزا کے ساتھ بیٹھا اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے باہر کے مناظر دیکھ رہا تھا بیہ کہ یوں بلانے پر چونکا ۔۔۔بیہ کو رحم طلب کرتی نظروں سے دیکھا۔حسام کے بارے میں وہ سب جان گیا تھا حسام کا کیا بھروسہ تھا کسی بھی وقت لیپرڈ بن کر اُسکی ہڈی پسلی ایک کردیتا اُسکی بیوی سے بات کرنے کے جُرم میں ۔ 

ویسے وہ پٹھان تھا ڈرتا نہیں تھا لیکن حسام کے چہرے پر جھلکتا روب اور اُسکا احترام تھا جس کی وجہ سے وہ ڈر گیا تھا۔  

اس سے پہلے کہ بیہ کے ہاتھ سے موبائل شاداب تھامتا ۔حسام نے تیزی سے موبائل بیہ کے ہاتھ سے جھپٹا ۔۔چہرہ سرخ اور جبڑے بھینچے ہوئے تھے ۔ ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے اُس نے بھینچے جبڑوں کے ساتھ بیہ کا موبائل اون کرنا چاہا لیکن موبائل اون  نہیں ہوا ۔ 

" کوئی بیٹری کا مسئلہ ہوگا میں صحیح کروا دونگا " ۔ سنجیدہ لہجے میں کسی روٹھے بچے کی مانند کہتے اُس نے بیہ کا موبائل اپنی فرنٹ پاکٹ میں ڈالا  بیہ کی طرف دیکھنے سے اجتناب برتا ۔   لیزا نے حسام کے انداز پر اپنی مسکراہٹ روکی۔ 

جبکہ بیہ بھی حسام کا یہ انداز دیکھتے اپنے لبوں کو دانتوں تلے چباتے اپنی مسکراہٹ روک گئی تھی جبکہ دل پر حسام کا یہ انداز بجلیاں گرا رہا تھا۔  

کچھ ٹائم گزرا تھا جب بیہ کی پھر سے آواز گونجی ۔ 

" شاداب " ۔ حسام نے اب کی بار اپنی آنکھیں مینچ کر خود پر ضبط کیا اُسکی بیوی اُسکا صحیح ضبط آزما رہی تھی ۔ 

" وہ یہ پانی کی بوتل نہیں کھل رہی ہے کیا تم مدد کر دو گے " ۔ نرم لہجے میں کہتی وہ حسام کو اب جلتے انگاروں پر گھسیٹ گئی تھی ۔ حسام نے اپنا  ہاتھ اپنے منہ پر پھیرا ۔ 

لیزا اور شاداب تو چپ چاپ اُن دونوں کو  دیکھ رہے تھے ۔ حسام نے بیہ کی طرف غصے بھری کالی آنکھوں سے دیکھتے بوتل تھامی ۔۔ 

اپنے دونوں ہاتھ اسٹیئرنگ سے ہٹاتے اُس نے بوتل کھولی ۔لیزا اور شاداب کی آنکھیں حیرت سے پھیلی بیہ نے بھی حیرت سے اُسے دیکھا جس نے اسٹیئرنگ پر سے دونوں ہاتھ ہٹا دیے تھے اور گاڑی بلکل سیدھی روڈ پر سفر کر رہی تھی ۔ 

" یہ دونوں اپنے چکر میں مجھے کنوارا ہی جنت رسید کروا دے گے " ۔ شاداب نے کہتے لیزا کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما ۔ لیزا کا خود کا سانس سینے میں اٹکا ہوا تھا لیزا اور شاداب دونوں نے آیت ال کرسی پڑھنی شروع کی ۔  کچھ ایسا ہی حال بیہ کا تھا ۔ 

حسام نے ہوٹل کا دھکن کھولتے غصے بھری سیاہ نظروں سے بیہ کو دیکھتے اُس تک بڑھائی جسے بیہ اُسکی سیاہ انکھوں میں دیکھتے تھام گئی ۔ 

حسام کو دوبارہ اسٹیئرنگ سنبھالتے دیکھ لیزا اور شاداب دونوں نے سکون کا سانسں لیا ۔ لیکن یہ سکون کچھ پل کا تھا حسام نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کردی تھی ۔ اور وہ دونوں ہی اپنے زندہ یونی پہنچ جانے کی دعا کر رہے تھے جو بیہ اور حسام کی اس جلن جلن کے کھیل میں پس گئے تھے ۔ 

یونی کے آگے گاڑی رکی تو شاداب نے لیزا کی طرف دیکھا لیکن لیزا کو۔دیکھتے ہی وہ اپنا قہقہہ برداشت نہ کر سکا ۔ لیزا نے غصے سے پھولی ناک کے ساتھ اُسے دیکھا ۔ اُسکی طرف کا شیشہ کھلا ہونے کے باعث تیز ہوا نے اُسکے بالوں کا حشر بگاڑ دیا تھا کچھ بال سر پر کھڑے کھڑے سے تھے تو کچھ چہرے پر تھے۔ جسے وہ بار بار سمیٹنے کی کوشش کرتی رہی تھی راستے میں لیکن تیز ہوا کی وجہ سے بال سمت ہی نہیں رہے تھے ۔

" چپ کرو تُم " ۔ شاداب کو ہنستے دیکھ لیزا نے غصے سے کہا جس نے فوراً سے اپنی ہنسی ضبط کی ۔  بیہ بھی ایک نظر لیزا کو دیکھتے اپنی ہنسی ضبط کر گئی تھی ۔ 

" براۓ مہربانی آپ دونوں اپنا یہ جیلسی گیم یہی وانڈآپ کر کے اندر آئیے گا کہیں ایسا نہ ہو آپ دونوں کے چکر میں یونی کے تمام اسٹوڈنٹ کا حال ہماری طرح ہو " ۔ بیہ اور حسام کی طرف جھکتے اُس نے باری باری دونوں کے چہرے کو تکتے دانت پیستے کہا اور گاڑی سے باہر نکلی ۔ لیکن شاداب کو غصّہ بھری نظروں سے دیکھنا نہیں بھولی ۔ 

💗💗💗💗

" میں بھی چلتی ہو کلاس ہے میری " ۔ سدرہ اور شاداب کے جاتے ہی بیہ نے حسام کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے تھوک نگلتے کہا ۔پنگا تو لے چکی تھی اب وہ ۔۔اب اُسکا انجام سوچ کر اُسے ڈر لگ رہا تھا ۔ ابھی بیہ نے اپنا ہاتھ ہینڈل پر رکھا ہی تھا جب حسام نے اُسکا بازو اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسے خود کے نزدیک کیا ۔

بیہ کی سانسیں سینے میں اٹکی اُس نے پھیلتی  سیاہ انکھوں سے حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا ۔ حسام کی گرم لو دیتی سانسیں اُسکے چہرے پر پڑتی اُسکے چہرے کو جھلسا گئی تھی  ۔ 

" یارا تمہیں نہیں لگتا تم غلط پنگا لے چکی ہو " ۔ حسام نے نزدیکی  سے بیہ کے حسین چہرے کو وارفتگی  بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں پوچھا ۔ 

" افف ایک تو یہ نیا لفظ یارا ۔۔۔بیہ نے اپنی آنکھیں بند کی ۔۔ اب وہ اُسے کیسے بتاتی کہ پہلے ہی جو دل اُسے دیکھتے ٹرین کی رفتار سے تیز دوڑتا ہے اُسکے یارا بولنے پر تو وہ اُسکے سینے سر ٹکرانے لگ جاتا ہے کہ بیہ کو لگتا ہے اب تو اُسے دل کا ڈورا پڑا ہی پڑا ۔ 

" جی نہیں مجھے نہیں لگتا میں نے غلط پنگا لیا ہے " ۔ بیہ نے اپنی سیاہ انکھوں کو کھولتے مضبوطی سے حسام کی آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔ 

" اوہ رئیلی ۔۔۔" حسام نے بیہ کے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو نگاہوں سے فوکس کرتے ہوئے کہا۔

" جی رئیلی " ۔ بیہ نے اُسکی نگاہوں کا فوکس اپنے لبوں کو دیکھا تو اُسکے چہرے سے اپنی نظریں چرا گئی ۔

بیہ کے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو دیکھتے یکدم حسام کے ذہن میں کچھ کھٹکا ۔ جبڑے مضبوطی سے بھینچے ۔ اُسکی آبرو تن اُٹھی ۔ ماتھے پر بلوں کا جال بچھا  ۔ بیہ نے حیرت سے اُسکے بدلتے تاثرات کو دیکھا جو کچھ پل پہلے سنجیدہ تھے لیکن اب سرد تھے ۔ 

" یارا شاداب کو تم بھائی سمجھتی ہو اور وہ تمہیں بہن جو اُسکی نظروں سے بھی واضح ہوتا ہے اسی لیے میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا  ۔ لیکن تمہارے منہ سے مجھے اُسکا نام تک برداشت نہیں ۔ میرے وجود میں خون کی جگہ اشتعال دوڑ رہا تھا جسے میں برداشت کر گیا ۔ لیکن یہ برداشت نہیں کرو گا ۔۔۔کہ تم اتنا تیار ہوکر یونی میں جاؤ جہاں ہزار غیر مردوں کی نظریں تُم پر اٹھے " ۔ بیہ کے لبوں پر اپنی انگلی نرمی سے پھیرتے وہ جنون خیز لہجے میں گویا ہوا۔ بیہ کی ریڑھ کی ہڈی حسام کی آنکھوں میں نظر اتی شدت اور لہجے میں چھائی جنونیت کو محسوس کرتے سننا اُٹھی ۔ 

حسام نے بیہ کے لبوں سے اپنی نظریں ہٹاتے اُسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھا ۔۔

" لپ اسٹک ہٹاؤ بیہ " ۔ سنجیدگی سے کہتے وہ بیہ سے دور ہوا ۔ حسام کے اس طرح کہنے پر بیہ کے وجود میں سنسنی ضرور پھیلی تھی لیکن جسے اج وہ ارادہ کر ائی تھی حسام کا ضبط آزمانے  کا۔  

" میں نہیں ہٹاؤ گی " ۔ ضدی و مضبوط لہجے میں کہتے وہ حسام کا فشار خون بڑھا گئی ۔ 

" بیہ میں بول رہا ہوں لیپ اسٹک ہٹاؤ ورنہ یہ کام میں خود بھی انجام دے سکتا ہو " ۔ حسام کے سرد لہجے میں وارننگ تھی جسے بیہ نظرانداز کر گئی ۔۔

" میں نہیں کرونگی صاف آپ ایسے مجھ پر حکم نہیں چلا سکتے جو کرنا ہے شوق سے کرے " ۔ تیکھے لہجے میں کہتی وہ حسام کو مجبور کر گئی ۔ حسام نے ایک نظر اُسکے چہرے کو دیکھا جہاں ضد تھی چلنیج تھا کہ جو کرنا ہے کرو میں نے صاف نہیں کرنی لپ اسٹک ۔ 

صرف پل کا کھیل تھا بیہ کو بازو سے پکڑتا اپنے نزدیک کرتے اُسکے بالوں میں آپنا ہاتھ پھنسائے وہ اُسکے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لے گیا ۔ بیہ اس گرفت پر تڑپ اُٹھی ۔ حسام کے کندھوں پر ہاتھ مارتے اُسے خود سے دور کرنا چاہا جب وہ اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں کو ہاتھوں کو اپنی گرفت میں قید کر گیا ۔ بیہ کو اپنے وجود سے سانسیں کھینچتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ 

وہ جس کی تشنگی اُسکے سرخی میں ڈوبے لبوں کو دیکھتے مزید بڑھ گئی تھی ۔ بیہ کے لبوں پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتے وہ دنیا بھولتا چلا گیا ۔ خود با خود گرفت میں نرمی ائی ۔ بیہ کی  سانسیں اچھی طرح بند کرتے اُس نے بیہ سے دوری بنائی ۔ سیاہ خمار بھری نظروں سے اُس نے بیہ کے گہرے سانس بھرتے وجود کو گہری نظروں سے دیکھا ۔ بیہ نے شکوہ کنہ نظروں سے اُسکی طرف دیکھا ۔ 

" کیا ۔۔تم نے ہی کہا تھا یارا جو کرنا ہے شوق سے کرو ۔۔۔۔اور ان لبوں کا لمس تو میں واقعی شوق سے محسوس کرتا ہوں ۔۔۔اب تمہیں لپ اسٹک ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے وہ میں ہٹا چکا ہوں ۔۔۔اس دوپٹے کو صحیح طرح سے پھیلا کر اپنے دو آتشہ روپ کو چھپاؤ کہیں ایسا نہ ہو حسام ملک لیپرڈ بن جائے جو میں نہیں بننا چاہتا تم پر کسی کی غیر کی نظر میں برداشت نہیں کر سکتا  " ۔  بیہ کی گردن سے چپکے دوپٹے کو صحیح طرح سے اُس کے وجود پر پھیلاتے حسام نے جنون خیز لہجے میں کہتے بیہ کے وجود میں برق رفتاری ڈورا دی ۔ پہلی ہی وہ اپنی بکھرتی سانسیں استعال پر لانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن حسام کے اس طرح کہنے پر اُسکی سانسوں کی آمدو رفت اُسے ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی ۔وہ اُسکے معاملے میں اور شدت پسند ہوگیا تھا ۔ 

" کتنی تکلیف ہو رہی ہے نہ آپکو یہی سوچتے ہوئے کہ مجھ پر کسی کی نظر نہ پڑے ۔۔۔سوچے ذرا مجھے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی یہ دیکھتے سوچتے ہوئے کہ اس دل پر جو مجھ سے وابستہ ہے ۔۔۔ان آنکھوں میں جو میری ہے جن میں میرا عکس ہونا چایئے ان لبوں پر جس سے محبت کا اطراف صرف میرے لیے ادا ہو ۔۔" ۔ نم آنکھیں لیے اُس نے اپنے انتہائی قریب حسام کو دیکھتے اُسکے دل آنکھوں اور لبوں پر انگلی رکھتے کہا۔  

" اس دل میں کوئی اور ہے ۔۔۔ان آنکھوں میں کسی اور کا عکس ہے ان لبوں سے کسی اور کے لیے محبت کا اطراف ہوا ہے ۔ میری جگہ خود کو رکھتے دیکھے حسام آپ جیتے جی مر جائے گے  اور آپکو مجھ پر کسی غیر کی نظر تک نہیں برداشت " ۔ آخر میں طنزیہ لہجہ اپناتے بیہ گاڑی کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھولتے یونی کے اندر بڑھتی چلی گئی اور پیچھے حسام کو پتھر کا کر گئی ۔ 

بیہ کی جگہ خود کو سوچتے  ہی اُسکے تن بدن کو ایک اندیکھی آگ نے جکڑ لیا ۔۔اگر حسام کی طرح بیہ کسی اور سے محبت کا دعویٰ کرے تو وہ واقعی میں مر ہی تو جائے گا ۔۔۔اُسکے وجود سے سانسیں ہی تو کھینچ لی جائے گی ۔۔حسام کو لگا جیسے اُسکی سانسیں یہ سوچتے ہی رک رہی ہو سینے میں گھٹن کا احساس ہوا آنکھوں کی خمار بھری لالی ضبط کی لالی میں تبدیل ہوئی ۔اپنے کولر کے بٹن کھولتے اُس نے گہرا سانس بھرتے اپنی پشت سیٹ سے ٹکائی ۔

💗💗💗💗💗

سدرہ نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جہاں صبح کے سات بج رہے تھے ۔ اور پھر ایک نظر خود کو دیکھا ۔ اج اُس نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ۔ پنک رنگ کی شلوار قمیض اُسکی سفید رنگت پر بےانتہا جج رہی تھی ۔ کانوں میں سلور رنگ کی جھمکیاں ڈالے وہ دوپٹے کو اچھی طرح اپنے سینے پر پھیلائے لبوں پر پنک رنگ کی گلوز لگائے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی  ۔ 

کچھ قدم پار کرتے اُس نے جنید کے کمرے کے باہر رکتے گہرا سانس بھرا ۔ دھیرے سے جنید کے کمرے کا دروازہ کھولتے اُس نے ذرا سا جھانکتے اندر دیکھنا چاہا ۔ 

جہاں جنید سیدھا لیتا اپنی براؤن آنکھیں بند کئے گہری نیند میں محو  تھا ۔ کمرے کی دھیمی دھیمی جلتی لائیٹس اُسکے تیکھے وجاہت سے بھرپور نقوش پر پڑتی سدرہ کے دل کو دھڑکا گئی تھی ۔ ہر وقت جیل سے سیٹ کیے گئے کالے بال اس وقت بکھرے ہوئے اُسکے ماتھے پڑ پڑے تھے سدرہ کا شدت سے دل چاہا جاکر اُسکے ماتھے پر پڑے ان بالوں کو پیچھے کرے ۔ عنابی لبوں کو آپس میں ملائے وہ سدرہ کو بیچین کر گیا ۔ 

اپنے دل کو سنبھالتے وہ جلدی سے پیچھے ہوتے دروازہ بند کر گئی ۔ 

" تم سوتے رہو میں تو چلی اب ۔۔۔بڑے آئے شاپنگ پر جانا ہے سب اپنی پسند کا دلانا ہے " ۔ اپنے آپکو قابو کرتے سدرہ نے آخر میں جون کی نقل اتارتے کہا ۔ 

" کسی کے ہاتھ نہ آئے گی یہ لڑکی " ۔ گنگناتے ہوئے اُس نے ایک ادا سے اپنا بیگ کندھے پر ڈالا اور بالوں کو جھٹکتی باہر نکلتی چلی گئی ۔

سدرہ امنہ کے گھر ائی تو وہ پہلے سے تیار ہاتھ میں ایک دبا لئے دروازے پر کھڑی اُسکا ہی  انتظار کر رہی تھی ۔ سدرہ کو اتا دیکھ امنہ مسکرا دی ۔ 

" اوہ ہو ماشاللہ ماشااللہ یہ دن میں چاند زمین پر کیسے اُتر گیا " ۔ آمنہ کو دیکھتے سدرہ نے سیٹی مارتے ہوئے شوخ لہجہ میں کہا ۔ اپنی اس تعریف پر امنہ سرخ ہوتے مسکرا دی ۔ 

مہندی رنگ کے گھٹنوں تک اتی گھیر دار فروک چوڑی دار پاجامہ کے ساتھ زیب تن کیے دوپٹے کو کندھے پر ڈالے براؤن بالوں کو ڈھیلی چٹیاں میں باندھے کندھے پر ڈالے وہ میکپ سے پاک چہرہ لئے کھڑی انتہائی حسین لگی ۔ قدرتی لال گال اور گلابی لب اوپر سے گھنی پلکوں سے سجی اُسکی ہیزل بلو غزالی آنکھیں ۔ وہ نازک سی ایک گڑیا لگی۔   

" پہلا پہلا پیار ہے ۔۔۔پہلی پہلی بار ہے " ۔ آمنہ کے کندھے سے اپنا کندھا مس کرتے وہ آمنہ کو مزید سرخ کر گئی ۔ 

" بس کرو نہ یار تنگ نہیں کرو  " ۔ آمنہ نے سرخ چہرے کے ساتھ  اشارہ کرتے سدرہ کو روکنا چاہا ۔ 

" اچھا چلو نہیں کرتی تنگ میں یہ بتاؤ کیا یہ کیک تم نے اُس اول جلول والے لڑکے کے لئے بنایا ہے " ۔ آمنہ کے ہاتھ میں تھامے کیک کی طرف اشارہ کرتے سدرہ نے منہ بناتے پوچھا۔ 

آمنہ نے سرخ چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا ۔ 

" بیوفا ۔۔۔میری دوست میری نہیں رہی پہلے تو تم صرف مجھے اپنے ہاتھوں سے بنا کیک کھلاتی تھی اب تم نے اُس کے لئے بھی بنانا شروع کردیا ہے " ۔ سدرہ نے نظر نہ آنے والے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ 

سدرہ کی بات پر آمنہ کو وہ ماسک پوش یاد آیا وہ بھی تو اُسکے ہاتھ کے بنے کیک کھاتا تھا ۔ اُس نے فوراً سے اپنے سر کو جھٹکا کل ہی تو وہ بس میں اُسے نظر ایا تھا لیکن اُسکے بعد نہیں نظر ایا ۔ اور وہ ابھی اُسے یاد کرتے اپنا اچھا موڈ نہیں خراب کر سکتی تھی ۔ 

" تم بیوفا نہیں ہو ۔۔۔تمھاری رخصتی ہو رہی ہے اور تم نے مجھے بتایا ہی نہیں " ۔ آمنہ نے جلدی سے یاد انے پر سدرہ سے تیکھے تاثرات لئے اشارتاً پوچھا ۔ 

سدرہ کے چہرے پر پل میں سنجیدگی چھائی ۔ 

" تمہیں کیسے پتہ " ؟ سدرہ نے پوچھا ۔

" کل رات کو انکل آکر دعوت دے کر گئے تھے ۔ کہ اپکی کل جمعہ کو رخصتی ہے " ۔ آمنہ نے فوراً سے بتایا ۔ 

" چلو چلتے ہے " ۔ سدرہ نے کہتے اپنے قدم آگے بڑھائے ۔ 

" تم راضی ہو میرا مطلب ہے خوش ہو تم "؟ آمنہ نے اُسکے ساتھ چلتے پوچھا ۔ 

سدرہ نے اپنے لب بھینچے اُسکی طرف دیکھا اور پھر اپنا چہرہ جھکا گئی ۔ 

" تم میری دوست ہو حسینہ اور میں تم سے جھوٹ نہیں بولونگی ۔ کہیں نہ کہیں دل میں خوشی کے دیپ جل اٹھے ہے رخصتی کا سوچتے ۔۔تایا ابو بھائی ان سب کے چہرے پر کل جو خوشی دیکھنے کو ملی وہ میں لفظوں میں نہیں بتا سکتی ..لیکن ایک طرف میری انا ہے میری عزت نفس  میرا دماغ جو مجھے یہ کہہ رہا ہے کہ جو شخص مجھے پہلے چھوڑ گیا کیا اتنا آسان ہے اُسے معاف کرتے اُسکے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار لینا " ۔ دھیمے لہجے میں کہتی وہ آمنہ کو اپنے دل کا حال بیان کر رہی تھی ۔ 

" سچ بات تو یہ ہے کہ اب بھی اُس انسان کی محبت میرے دل میں پنجے گاڑھے ہوئے ہی جسے میں لاکھ چاہو تو بھی اپنے دل سے نہیں نکال سکتی بےبس ہو شاید اُسکی محبت کو دل سے نکال نہیں پاتی۔۔" ۔ سدرہ نے کندھے اچکا کر کہا ۔ 

" کیا تمہیں جنید بھائی کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار نظر آتا ہے کیا انہوں نے تم سے معافی مانگی ہے " ؟ آمنہ نے سوال کیا ۔

سدرہ کے ذہن میں جون کے فلیٹ والا منظر گھوما جب اُسے جون کی آنکھوں میں اپنے لیے تڑپ محبت دیوانگی ندامت نظر ائی تھی اور پھر جون کا اُسکے پیروں پر اپنے لب رکھتے اُس سے معافی مانگنا ۔ 

" اُسکی آنکھوں میں شرمندگی ہے ندامت ہے میرے لئے محبت بھی ہے ۔۔اور معافی اُس نے معافی بھی مانگی ہے مجھ سے اور جس انداز میں مانگی وہ انداز میری دنیا ادھر سے اُدھر کر گیا تھا ۔ مجھے اُس پل ادراک ہوا کہ یہ شخص تو میرے روم روم میں بسا ہے " ۔ لبوں پر دھیمی مسکراہٹ لیے کہتی وہ بس اسٹاپ پر کھڑی ہوئی تھی ۔ 

" تم نے معاف کردیا کیا اُنہوں " ؟ آمنہ نے اشارتاً پوچھا ۔ 

" معاف ۔۔۔شاید ہاں کردیا ہے معاف اُسے اور شاید نہیں بھی اس کا جواب میں خود نہیں جانتی ۔۔۔اگر بولوں کہ ہاں کردیا ہے معاف تو دل جیت جائے گا اور  دماغ۔۔۔  میری انا ہار جائے گی میری اُن اذیتوں کا حساب پھر کون دیگا جو میں نے جھیلی ہے میری تڑپ کا حساب کون دیگا ۔۔۔اور اگر بولوں نہیں میں نے معاف نہیں کیا تو میرا دل ہار جائے گا جو ہر دھڑکن کے ساتھ اُس ہرجائی کا نام جپتا ہے ۔۔دل اور دماغ کی اس جنگ میں بری طرح پھنس چکی ہُوں میں " ۔ ایک ایک لفظ کو ٹھہرے لہجے میں ادا کرتی وہ  امنہ کو پریشان کر گئی ۔ 

" میں یہ نہیں بولوں گی کہ تم اُنہیں معاف کردو ۔۔کیونکہ میں جانتی ہو تم نے بہت اذیت جھیلی ہے دن رات تڑپی ہو تم ۔۔۔لیکن ہاں یہ ضرور بولوں گی کہ کبھی انا میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کرنا اتنی سمجھدار تو نہیں ہوں میں لیکن جانتی ہو دل کے رشتوں میں انا نہیں ہونی چاہئے محبت میں تو بلکل نہیں ۔۔تُم اُن سے بدلہ لو اُنہیں تڑپاؤ بیشک لیکن ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا جو تمھیں اور جنید بھائی کو ہمیشہ کے لئے دور کردے " ۔ آمنہ نے اُسے سمجھایا ۔ 

" تمہیں کیا لگتا ہے میری حسینہ رخصتی کے لیے میں کیوں مانی ہو اب اُسے بھی تو بتانا ہے اذیت اور بے سکونی کیا ہوتی ہے  ۔ اُسے احساس بھی کروانا ہے کہ جب نکاح جیسا پاک رشتہ جڑ جاتا ہے تو ایک دوسرے کو تنہا نہیں چھوڑا جاتا ہے برے اچھے وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بنا جاتا ہے " ۔ سدرہ نے ایک آنکھ ونک کرتے کہا ۔ جب بس ائی آمنہ مسکراہٹ لیے نفی میں سر ہلاتے اُسکے ساتھ بس میں سوار ہوئی۔ 

اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ نیند سے اٹھا تھا ۔ نظر سامنے لگی دیوار گیر گھڑی پر گئی تو صبح کے سارے اٹھ بج چکے تھے ۔ 

بیڈ سے اٹھتے اُس نے واشروم کی راہ لی ۔ تاکہ فریش ہوسکے اُسے یاد تھا اج اُسے سدرہ کو لے کر شاپنگ پر جانا تھا ۔ نہ جانے دل میں کیا سمائی کہ اُس کے واشروم کی طرف بڑھتے قدم کمرے سے باہر کی طرف بڑھے ۔ 

جنید اپنے کمرے سے باہر ایا تو نظر لاؤنچ کے سائڈ پر بنے اوپن کچن میں کام کرتی صائمہ پر پڑی ۔ اجمیر صاحب بھی لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھے نیوز دیکھنے میں مگن تھے ۔ جنید نے ایک نظر پیچھے مڑتے اپنے کمرے سے تھوڑے فاصلے پر موجود سدرہ کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا ۔۔ تیز آواز میں سلام کرتے  اُس نے قدم کچن کی طرف بڑھائے ۔ اجمیر صاحب اور صائمہ دونوں نے جواب دیا۔  

" بھابھی سدرہ سو رہی ہے کیا " ؟ کچن میں اتے اپنے لئے گلاس میں پانی ڈالتے جنید نے سرسری سا پوچھا ۔ 

" ارے نہیں وہ تو اج جلدی یونی چلی گئی ۔۔کہہ رہی تھی کوئی اہم لیکچر ہے " ۔ صائمہ نے مصروف سے لہجے میں جواب دیا ۔ 

صائمہ کی بات پر پانی پیتا ہاتھ تھما ۔ انکھوں میں غصے کی رمک اُبھری ۔ اُسے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس نے کل سدرہ سے کہا تھا کہ وہ اُسے شاپنگ پر لے کر جائے گا ۔۔یقیناً وہ اُسکے ساتھ شاپنگ پر نہ جانے کی وجہ سے جلدی یونی گئی تھی  ۔ اپنے بکھرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔ 

اجمیر صاحب کی بھی نظریں اپنے صاحب زادے پر تھی ۔ کچھ ہی دیر میں وہ ہاتھ میں گاڑی کی چابی تھامے اپنے کمرے سے باہر ایا تھا اُسی حلیہ میں جس میں وہ اٹھا تھا کالی ٹی شرٹ اور بلیک  ٹراؤزر میں رف تف حلیہ میں تھا ۔ 

" کہاں چلے برخردار "؟ اُسے باہر کی طرف جاتا دیکھ اجمیر صاحب پوچھ بیٹھے ۔۔جو ابھی نیند سے اٹھا تھا اور اب کہیں باہر جا رہا تھا ۔ 

" بابا مجھے دیر ہو جائے گی آپکو بہو کو لیتے شاپنگ کروانے جا رہا ہوں " ۔ سنجیدگی سے کہتے وہ باہر نکلتا چلا گیا ۔ 

اجمیر صاحب نے جنید کی بات پر اچھنبے سے صائمہ کی طرف دیکھا جو اُن کے دیکھنے پر اپنے کندھے لا علمی سے اچکا گئی ۔ اجمیر صاحب بھی نفی میں سر ہلاتے نیوز کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ 

💗💗💗💗💗

تیز رفتار گاڑی چلاتے وہ مشکل سے بیس منٹ میں یونی پہنچا تھا ۔ گاڑی یونی کی پارکنگ میں پارک کرتے وہ یونی کی طرف بڑھا ۔ 

اس رفِ تف حلیہ میں بھی وہ اتنا حسین لگ رہا تھا ۔ کہ وہاں موجود ہر ایک نظر اُسے سراہے بنا نہیں رہ سکتی تھی ۔ وہ ابھی سدرہ کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھتا جب اُسے وہ نظر ائی آمنہ کے ساتھ ہنستی ہوئی بات کرتے ہوئے وہ گراؤنڈ سے ہوتی ہوئی ادھر ہی آرہی تھی ۔ جون تیز قدموں سے اُس تک پہنچا ۔ 

سدرہ جو آمنہ کو لئے زرقان کی تلاش میں تھی یکدم جنید کے سامنے انے پر اسکے حسین چہرے پر جمی مسکان سمٹی آنکھوں میں حیرانی اُبھری ۔ 

" تم " ۔ سدرہ نے جون کو دیکھتے کہا ۔ وہ رات والے کپڑوں  میں بکھرا سا حلیہ لیے یونی میں اُسکے سامنے کھڑا تھا ۔ 

" جب کل کہا تھا میں نے آج شاپنگ پر جانا ہے تو کیوں ائی یونی تم " ۔ جنید نے سنجیدگی سے اُسکی براؤن آنکھوں میں دیکھتے پوچھا ۔ 

" میں یونی اسی لئے ائی کیونکہ مجھے تمہارے ساتھ شاپنگ پر نہیں جانا تھا " ۔ سدرہ نے کندھے اچکا کر جواب دیا ۔ 

" چلو میرے ساتھ " ۔ جون نے سدرہ کے جواب پر ضبط سے اپنے جبڑے بهینچتے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔ 

" میں نہیں جاؤنگی تمہارے ساتھ " ۔ سدرہ کا لہجہ ضدی تھا ۔ جون نے بهنیچے لبوں کے ساتھ سدرہ کے حسین چہرے کو دیکھا ۔ جو اج گلابی رنگ پہنے گلابی گڑیا ہی معلوم ہو رہی تھی ۔ 

" سدرہ چپ چاپ خاموشی سے میرے ساتھ چلو ورنہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے تمہیں بازؤں میں اٹھائے لے جانے سے البتہ تمہیں میرا یہ عمل ضرور ناگوار گزرے گا اسی لیے اگر نہیں چاہتی کہ میں تمہیں اپنی باہوں میں اٹھائے یہاں سے لے چلو تو خاموشی سے چلو میرے ساتھ " ۔ سدرہ کے کان پر جھکتے اُسکی کان کی لو پر اپنا دہکتا لمس چھوڑتے جون نے دھیمے لہجے میں کہا ۔ پوری یونی کے سامنے اس قدر قریبی اور جون کی سرگوشی سے سدرہ کے گال تپ کر لال ہوئے ۔ جون کے دور ہونے پر اُس نے تیزی سے آمنہ کی طرف دیکھا جو اُسکے دیکھنے پر رخ موڑے مسکرا دی ۔ 

سدرہ نے دانت پیستے جون کو دیکھا جو اب اُسکی طرف پُر سکون انداز میں دیکھ رہا تھا ۔ وہ جانتی تھی جنید نے جو بولا ہے وہ کرنے میں ایک پل نہیں لگائے گا ۔ 

" آمنہ اپنا خیال رکھنا کچھ بھی مسئلہ ہو مجھے میسج کر دینا ٹھیک ہے "۔ آمنہ کی طرف پلٹتے اُس نے امنہ کو ہدایت دی آمنہ کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ جون کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔ جون نے سدرہ کے اس اٹیٹیود پر اپنے لب مزید آپس میں بھنیچے اور اُسکے پیچھے چل پڑا ۔ 

آمنہ نے سدرہ کو جاتا دیکھا تو دھڑکتے دل سے اپنے قدم زرقان کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھائے ۔ کل کی رات اُسکی زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی جو نئے حسین خواب بنتے گزری تھی ۔ نہ جانے وہ زرقان اور خود کے لئے کیا کیا سوچ چکی تھی۔  صبح جلدی سے اٹھتے اُس نے زرقان کے لئے اپنے ہاتھوں سے کیک بنایا تھا۔  اور پھر اچھا سا تیار ہوئی تھی ۔ محبت نے اُسکے پورے وجود کو جکڑ لیا تھا ۔ اُسکی سوچ کے دھاگے صرف زرقان تک تھے ۔ اُسکی آنکھوں میں اُسکا عکس جم گیا تھا ۔ لبوں پر حسین مسکراہٹ اور ہیزل بلو آنکھوں میں غضب کی چمک لئے وہ مسرور سی ہوتے اپنے قدم بڑھا زرقان کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھا رہی تھی ۔ 

💗💗💗💗

کامل ابھی اپنے افس میں اتا اپنی کرسی پر بیٹھا تھا ۔ ابھی وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولتا کہ اُسکی نظر اُسکی ٹیبل پر پڑے ایک انویلپ پر گئی ۔ کامل نے سنجیدہ نظروں سے اُس لیٹر کو دیکھتے تھاما ۔ انويلپ  کو کھولتے اُس کے اندر سے نکلتی تصاویر  دیکھتے اُسکی آبرو تنی ۔۔۔فلک بیہ عروہ سدرہ شجیہ ان سب کی تصاویر ایک ایک کرتے اُسکی ٹیبل پر گرتی چلی گئی ۔ کامل کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ اشتعال در ایا ۔ 

کامل نے تصاویر سے نظریں ہٹاتے اس اینولپ سے نکلتے لیٹر کو دیکھا ۔ جہاں رکھی تحریر پڑھتے کامل کا دماغ پھٹنے کے قریب تھا ۔ 

" کہتے ہیں کہ اپنی کمزوریوں کو کبھی کسی پر واضح نہیں کرنا چایئے ۔۔۔لیکن افسوس تم سب کی کمزوریاں تو سب کے سامنے ہے جس طرح ایک جادوگر کی جان اُسکے طوطے میں بسی ہوئی ہوتی ہے اسی طرح تم سب کی جان تمھاری بیویوں اور بچوں میں بسی ہے ۔۔۔اب گیم شروع ہوا ہے بچا سکتے ہو تو بچا لو کیونکہ اب شہ بھی میری ہوگی اور مات بھی ۔۔۔۔بہت جلد تُم سے ربرو ملنا ہے ۔۔۔تمہارا سب سے بڑا دشمن ۔۔۔لیپرڈ " ۔ 

لیٹر پر لکھی تحریر پڑھتے کامل نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔۔تحریر میں لکھے لیپرڈ کے نام کو دیکھتے کامل کو اچنبھا ہوا۔  

" حسام ہے یہ نہیں۔۔۔حسام اگر ہوتا تو بیہ کی تصویر نہیں بھیجتا ۔۔۔اب تو بلکل نہیں ۔۔ کون ہے یہ جسے میں نہیں جانتا " ۔ اپنی داڑھی کو رب کرتے کامل خود سے مخاطب تھا ۔ وہ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ یہ جو کوئی بھی ہے حسام نہیں ہے ۔ حسام اُسکی نظروں کے سامنے تھا ۔ اور جتنا وہ بدل گیا تھا جیسا وہ بن گیا تھا اسکو دیکھتے کامل کو بھروسہ سا ہوگیا تھا کہ حسام نہیں ہے ۔ یہ کوئی اور ہے جو حسام کا نام استعمال کر رہا ہے۔  

کامل نے گہرا سانس بھرتے فون میں خضر کا نمبر ڈائل کیا ۔

" ہیلو " ۔ اپنے افس میں بیٹھے خضر نے فون اٹھاتے کہا ۔ 

" مجھے ضرورت ہے تیری یہاں پر بہت " ۔ کامل نے فقط اتنا کہا اور دوسری طرف موجود خضر سمجھ گیا کوئی بڑا مسئلہ ہوا ہے ۔ 

" خیریت " ؟ خضر نے پوچھا ۔ 

" یہاں اجا پھر بتاؤنگا اور ہاں بھابھی اور عزیر کو وہاں اکیلا مت چھوڑنا خطرہ ہے میں تیرا انتظار کر رہا ہوں" ۔ کامل کے کہنے پر خضر کے ماتھے پر بل پڑے ۔

" کل تک انشاءاللہ میں وہاں موجود ہونگا "۔  خضر کے کہنے پر کامل نے فون رکھا۔  

یہ جو بھی تھا اُسکا نشانہ اُن کی فیملی پر تھا اور کامل کی سمجھ سے باہر تھا کہ ایسا کون ہے جو اُن سب کا دشمن بنا بیٹھا ہے ۔ 

ٹیبل پر موجود تصویروں کو دیکھتے اُس نے سدرہ کی تصویر اٹھائی اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ یہ بیہ کی دوست ہے لیکن ان سب تصویروں میں اُسکی تصویر کیوں تھی ۔ کامل کو لگا اُسکا سر درد سے پھٹ جائے گا۔  فلک اُسکی کمزوری تھی شجیہ خضر کی اور انابیہ حسام کی ۔۔لیکن سدرہ کس کی کمزوری تھی ۔ ان سب تصاویر سے صاف ظاہر تھا وہ جو کوئی بھی ہے اُسکی حسام خضر کامل سے دشمنی ہے  ۔ تو یقیناً سدرہ حسام کے ساتھ موجود اُس کے گارڈ کی کمزوری تھی ۔  کامل کو جنید کے علاوہ کوئی اور سمجھ نہ ایا ۔ 

کچھ سوچتے اُس نے حسام کو کال کی ۔  

💗💗💗💗💗💗

بیہ یونی میں داخل ہوئی تو اُسکے قدم واشروم کی طرف بڑھے ۔۔آنکھوں میں جو نمی بس گئی تھی اُسے یقین تھا اُسکی آنکھوں میں لگا سُرمہ پھیل گیا ہوگا ۔ 

اگر حسام نہ بھی کہتا تو بھی وہ یونی میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لبوں پر لگی لیپ اسٹک صاف ضرور کرتی ۔ وہ تیز قدموں سے واشروم کی طرف بڑھ رہی تھی یہ جانے بنا کہ اُسکے پیچھے دو قدم اُسکی تقلید میں بڑھ رہے ہیں ۔ 

واشروم میں اتے ہی بیہ نے اپنے منہ پر پانی کی چھینتے ماری اُسکی توقع کے مطابق سُرمہ پھیل گیا تھا ۔ جبکہ لبوں پر مٹی مٹی سی لپ اسٹک لگی ہوئی تھی ۔ 

بیہ اپنی آنکھیں بند کئے اپنے منہ پر پانی مار رہی تھی جب دروازہ بند ہونے اور سیٹی کی آواز پر اُسکا ہاتھ تھما ۔ 

بیہ نے جلدی سے آنکھیں کھولتے سیٹی کی آواز کی سمت میں دیکھا لیکن وہاں بلیک رنگ کے لونگ کوٹ میں بلیک رنگ کے ماسک سے منہ کو چھپائے بلیک ہی رنگ کے کیپ کو سر پر لیے کھڑے انجان شخص کو دیکھ کر بیہ کا سانس سینے میں اٹکا ۔ 

جبکہ سامنے والی کی آنکھوں کو دیکھتے بیہ نے تھوک نگلا اُسکی ایک آنکھ پتھر کی سفید بلکل سفید  تھی ۔۔بیہ کے وجود میں خوف کی سرد لہریں دوڑتی چلی گئی۔  

" اہاں ۔۔۔اتنے حسین چہرے پر ڈر اور خوف اچھا نہیں لگتا ۔۔۔اور حسام عرف لیپرڈ کی بیوی پر تو بلکل نہیں " ۔ مخالف کی سرد خباثت بھری آواز سنتے بیہ کے وجود میں سنسنی دوڑ گئی۔ 

" کون ہو تم جانے دو مجھے "۔  بیہ نے کہتے اُسکی سائڈ سے باہر نکلنا چاہا جب مخالف نے بیدردی سے اُسکی چوڑیوں سے بھری کلائی تھامتے اُسے ایک جھٹکے سے پیچھے کو دکھیلا ۔ بیہ کا نازک وجود بری طرح پیچھے موجود دیوار پر لگا  ۔ بیہ درد سے اپنے لب بھینچ گئی۔  سیاہ انکھوں سے بھل بھل آنسو بہہ نکلے ۔ 

" نا نا جانتا ہو لیپرڈ کی بیوی ہو اُسکی طرح ہی بہادر لیکن میرے ساتھ یہ چالاکی نہیں چلے گی " ۔ بیہ کی طرف اپنے قدم بڑھاتے طنزیہ لہجے میں کہا ۔

" مجھے۔۔مجھے ہاتھ مت لگانا ورنہ وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا " ۔ اپنے چہرے کی طرف بڑھتے اُسکے ہاتھ کو دیکھتے بیہ نے اُسکا ہاتھ جھٹکتے پھنکارتی آواز میں کہا ۔ 

" کون زندہ نہیں چھوڑے گا وہ جو اب صرف نام کا لیپرڈ رہ گیا ہے وہ تو اب صرف ایک ناکام عاشق ہے جو اپنی بیوی سے معافی مانگنے کے لیے بیچارہ فقیر بنا ہوا ہے " ۔ بیہ کی  پچھلی گردن سے بال پکڑتے بیہ کا چہرے جھکاتے اُس نے بیہ کے چہرے کو تمسخر بھری نظروں سے دیکھتے استہزائیہ لہجے میں کہا ۔ 

" میں تمہاری جان لے لونگی اگر تُم نے میرے شوہر کے لیے ایسے لفظ استعمال کیے " ۔ انابیہ درد ضبط کرتی سیاہ بہتی نگاہوں سے نفرت سے اس کالے ماسک کے پیچھے چھپے چہرے کو دیکھتے چلائی تھی ۔ اُسکے چوری والے ہاتھ میں مخالف کی گرفت سے چوڑیاں ٹوٹتے چبھ چکی تھی قمر میں بھی شدت سے درد ہو رہا تھا اور اب اپنے بالوں پر بڑھتی گرفت سے اُسکے درد میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ 

" اوہ مطلب تڑپ دونوں طرف برابر ہے ۔۔اب تو مزا آئے گا ۔۔۔تڑپاؤ گا ایک کو تو تکلیف دوسرے کو محسوس ہوگی " ۔ بیہ کے بالوں کو جھٹکے سے چھوڑتے وہ شیطانی ہنستے ہوئے گویا ہوا۔  

" اگر حسام کو پتہ چل گیا تم نے مجھے ہاتھ لگایا ہے رلایا ہے تو خدا کی قسم وہ تمھاری بوٹی بوٹی کرتے چیل کوؤں کو کھلا دے گا ۔۔تم سمجھتے ہو وہ خاموش ہے تھما ہوا ہے تو وہ لیپرڈ نہیں بن سکتا ۔۔۔تم غلط ہو وہ ابھی ایک ایسے سمندر کی مانند ہے جس میں تیز تباہی والا طوفان انے والا ہے جس کی خاموش لہریں اس بات کی گواہی ہے کہ جو طوفان آئے گا وہ سب کچھ تباہ کر کے ہی تھمے گا  " ۔ بیہ نے اسکے دور ہونے پر مضبوط لہجے میں کہا ۔

" افف میں تو ڈر گیا ۔۔۔خیر اب سیدھا کام کی بات پر اتے ہے میرے پاس زیادہ وقت نہیں تمہاری بکواس سننے کا " ۔ اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے اُس نے اپنا سر جھٹکتے کہا ۔ اور بیہ وہ بس دل سے دُعا کر رہی تھی حسام آجائے اور اُسے بچا لے ۔ 

" پتہ ہے تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں مجھے نہ بہت مزا آتا ہے اپنے دشمن کو کمزور کرنے میں ۔۔۔اور میرا دشمن یعنی کے حسام عرف لیپرڈ تب ہی کمزور ہوگا جب تم یعنی کے اُسکی محبت اُس کے منہ پر اُس سے نفرت کا اظہار کرے گی اُسکے سامنے وہ اُس سے علیحدگی کا مطالبہ کرے گی اور اُسے کہیں گی کہ وہ اُس سے پیار نہیں کرتی بلکہ کسی اور سے پیار کرتی ہے ۔  اُسے ذلیل کرے گی اُسے تھپڑ مارے گی افف بہت مزا آئے گا جب وہ تڑپے گا  اور اُسکی تڑپ دیکھتے مجھے سکون ملے گا۔" ۔ جیسے جیسے وہ اپنے غلیظ منہ سے بولتا جا رہا تھا بیہ کا سر نفی میں ہلتا جا رہا تھا ۔ 

" نہ۔۔۔نہیں۔۔میں ۔۔میں نہیں کرونگی ایسا " ۔ بیہ کی زبان سے لفظ ٹوٹتے ہوئے ادا ہوئے ۔ وہ جانتی تھی اگر اُس نے اپنے لبوں سے نفرت کا دعویٰ کیا تو حسام واقعی کمزور ہوجائے گا ۔۔اُسکی آنکھوں میں انابیہ کے لیے عشق تھا جنونیت تھی وہ برداشت نہیں کر پائے گا ۔۔اُسکے حسام کو اُس پر بھروسہ تھا کہ اُسکی بیہ اُس سے ناراض تو ہو سکتی ہے لیکن کسی غیر مرد کی طرف کبھی نہیں متوجہ ہو سکتی ۔۔وہ تو حسام کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتی تھی تو کیوں اپنے ہاتھوں سے ہی اُسے تھپڑ مار دیتی کیسے کر سکتی ہے وہ ایسا۔  

" تم ایسا ہی کروگی ۔۔ورنہ اپنی بھتیجی کی موت کی زمیدار تم ہوگی تمھاری پیاری بھابھی جو اس وقت اپنے گھر میں تنہا ہے وہ گیس سلنڈر کے پٹھنے سے جھلس کر مر بھی سکتی ہے تمھارا بھائی جو کہنے کو تو ایک سیکریٹ اجنٹ ہے لیکن آفس سے واپسی پر کسی بڑے ٹریک کے نیچے آکر حادثے کا شکار بھی ہوسکتا ہے تمھاری دوست جو اس وقت کلاس میں بیٹھی ہے کوئی اُس پر ایسڈ اچھال کر جا بھی سکتا ہے اب فیصلہ تم کرو گی " ۔ کندھے اچکا کر کہتا وہ بیہ کی سانسیں اُسکے وجود سے کھینچ گیا ۔ 

" آخر کیا دشمنی ہے تمھاری مجھ سے کیوں ایسا کر رہے ہوں کامل بھائی اور حسام تمہیں چھوڑے گے نہیں " ۔ بیہ چیخ اٹھی تھی اُسکی برداشت سے سب باہر تھا۔ ۔ٹینشن لینے سے اُسکے سر میں درد ہونا شروع ہوگیا تھا ۔۔بکھرے بال لرزتا وجود ہاتھ میں چبھی چوڑیوں کی وجہ سے وہاں سے ہلکا ہلکا رستا خون وہ قابل رحم حالت میں تھی ۔ 

" ہونہہ تم سے نہیں ہے دشمنی کوئی اتنی نازک دوشیزہ سے دشمنی کر بھی کیسا سکتا ہے ۔۔تمہارے بھائی کامل تمہارے شوہر حسام سے ہے دشمنی انہیں تڑپتا دیکھنا چاہتا ہوں اور سب سے پہلی باری تمہارے حسام کی ہے ۔۔اب یہ مت پوچھنا کہ دشمنی کیوں ہے کیا وجہ ہے وہ میں بعد میں بتاؤنگا ابھی سارا کھیل خراب نہیں کرنا چاہتا " ۔ بیہ کے چیخنے پر وہ بیہ کے پاس اتا اُسکا ہاتھ موڑتے اُسکی پشت سے لگاتے غرایا ۔ 

" مت کرو پلیز ایسا چھوڑو مجھے چین سے جینے دو ہمیں " ۔ بیہ نے ابکی بار اپنے درد کو برداشت کرتے التجا کی ۔ 

" ہونہہ نہیں چین سے جینے دے سکتا نہ چلو ایک چیز دکھا دیتا ہوں اس سے آسانی سے تُم یہ سب کرنے کو تیار ہو  جاؤ گی " ۔ مخالف نے کہتے اپنے جیب سے موبائل نکالتے اُس میں ایک ویڈیو اُون کرتے بیہ کے سامنے کی ۔ جہاں پر عروہ اسکول یونیفارم میں اسکول کے گراؤنڈ میں کھیل رہی تھی ۔ اور اس پر ایک لال رنگ کی چھوٹی سی لائٹ پڑ رہی تھی ۔ 

" تمھاری بھتیجی میرے آدمی کے نشانہ پر ہے اب تمہارا جواب اگر نا ہوا تو تمھاری بھتیجی گئی ۔۔اور اگر ہاں تو مبارک ہو تم اپنی بھتیجی کو بچا لو گی " ۔ مخلاف درندہ تھا جو ایک پانچ سال کی بچی کو مارنے کی بات کر رہا تھا ۔ انابیہ بےبسی سے رو دی۔  

وہ کیا کرتی ۔۔ایک طرف اُسکی زندگی اُسکی محبت اُسکا عشق اُسکا حسام تھا تو دوسری طرف ایک ایسے انسان کی بچی جس نے اُسے تین سال بہنوں کی طرح رکھا اُس سے اپنی بہن کی طرح محبت کی ۔۔اُسکے سر پر بھائی کا سایہ دیا  ۔ 

" جلدی بولوں وقت نہیں ہے میرے پاس یا پھر مرتے دیکھو اُسے " ۔ انابیہ کے ہاتھ پر گرفت سخت کرتے وہ دانت پیستے گویا ہوا ۔ 

" پلیز۔۔۔پلیز اُسے کچھ مت کرنا میں تیار ہو۔۔۔تیار ہو۔۔۔پلیز اُسے کچھ مت کرنا " ۔ ہچکیوں سے روتے ہوئے کہتی وہ بےبسی سے اپنی آنکھیں بند کر گئی 

" گڈ مجھے تم سے یہی اُمید تھی ۔۔اس سب کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ چلنا چاہیے میری نظر ہر وقت تم پر ہے  یہ بات یاد رکھنا اگر تم نے کسی کو بھی کچھ بھی بتایا تو تیار رہنا  کسی اپنے کی لاش دیکھنے کے لیے " ۔ انابیہ کے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے چھوڑتے وہ اُسے دھمکاتے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔ 

بیہ بےبسی سے روتے ہوئے نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی پورا وجود لرز رہا تھا آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ سر میں اب شدید درد اٹھا تھا کہ برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا اُسکے لیے وہ کیسے کرے گی یہ سب کیسے ۔۔۔کیسے وہ حسام سے نفرت کا دعویٰ کرے گی کیسے وہ کسی اور کو اپنی محبت کہیں گی ۔۔ اگر وہ یہ سب نہیں کرے گی تو عروہ کو کھو دے گی ۔۔وہ عروہ کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی اُس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ویڈیو میں عروہ پر نشانہ باندھے ہوا تھا اُس کا آدمی ۔ بیہ کو شدید گٹھن کا احساس ہوا ۔ اپنی تمام تر ہمت جمع کرتی وہ اٹھی ۔ 

ایک نظر شیشے میں خود کو دیکھا ۔ پورا چہرہ لال تھا آنسوؤں سے بھیگا ہوا ۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے سیاہ انکھوں میں کسی نے لال رنگ ڈال دیا ہو بال بکھرے ہوئے تھے ہاتھوں پر ننھی ننھی خون کی بوندیں تھی ۔ 

ہمت کرتے اُس نے اپنے بکھرے بال صحیح کیے اگر اس حلیے میں وہ باہر جاتی ٹو حسام ایک پل میں اُسے دیکھتے سب سمجھ جاتا ۔۔۔وہ تو چاہتی تھی وہ حسام کے بازوں میں لگ کر اُسے سب بتائے لیکن ایسا کرتے وہ عروہ فلک لیزا اور کامل کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی ۔ 

بیہ نے اپنے ہاتھ میں پانی بھر کر اپنے منہ پر مارا  ایک۔بار دو بار تین بار وہ بار بار اپنے منہ پر پانی مارتی گئی ۔ انکھوں کی لالی کم ہوئی چہرے پر چھائی سرخی بھی کم ہوئی ۔ اپنے ہاتھ پر لگی خون کی بوندیں صاف کرتے اُس نے کانپتے ہاتھوں سے ادھ ٹوتی چوریاں اُتاری ۔ لیکن سر کا درد کم ہونے کے بجائے مزید شدت اختیار کرتا چلا گیا ۔ اپنی آنکھیں بند کرتے اُس نے کھولی اپنے آپ پر قابو کرنا چاہا جو نہ ممکن تھا ۔اور تمام تر ہمت جمع کرتے اُس نے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔ 

حسام اپنی گاڑی سے نکلتا یونی میں داخل ہوا ہی تھا کہ اُسکا فون بج اٹھا ۔ حسام نے سکرین پر چمکتا کامل کا نام دیکھا تو اُسے اچنبھا ہوا ۔ حسام نے فون یس کرتے کان سے لگایا جبکہ قدم اگے کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ 

" ہیلو " ۔ حسام نے فون اٹھاتے کہا۔ ۔

" انابیہ  کہاں ہے حسام " ؟  کامل نے فوراً سے بیہ کے متعلق پوچھا ۔ 

" بیہ یونی میں ہے کیوں پوچھ رہے ہو خیریت ہے سب " ۔ حسام نے اُسکے یوں بیہ کے بارے میں پوچھنے پر پوچھا ۔ 

" کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے تم انابیہ کے ساتھ رہو گے  ۔ اُسے ایک پل کے لئے نظروں سے دور نہیں ہونے دینا " ۔ کامل نے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے کہا ۔ 

" کیا ہوا ہے کامل خان تم پریشان لگ رہے ہو " ۔ حسام نے کامل کے لہجے میں پریشانی محسوس کرتے پوچھا ۔ یہ پہلی بار تھا جب وہ دونوں نورمل طرح سے بات کر رہے تھے ۔ 

" تم انابیہ کو لے کر جب واپس آؤ گے تو تمہیں سب پتہ چل جائے گا لیکن اُس سے پہلے تمہیں ہر پل انابیہ کے ساتھ رہنا ہے اُسکی حفاظت تمھاری ذمےداری ہے حسام میں پہلی بار تم پر اپنی بہن کو لے کر بھروسہ کر رہا ہوں اُمید ہے تم میرا بھروسہ نہیں توڑو گے  اور ہاں اتے وقت اپنے اُس گارڈ کو ساتھ لیتے انا جو تمہارے ساتھ ہوتا ہے " ۔ کامل نے سنیجدگی سے کہا ۔ 

" کامل خان وہ میری بیوی بھی ہے جس کی حفاظت میں کرنا جانتا ہوں باقی آکر بات ہوتی ہے " ۔ حسام نے سنجیدگی سے کہتے فون کٹ کیا اور بیہ کی کلاس کے اندر جھانکا جہاں وہ نہیں تھی ۔ حسام کی آبرو ریز ہوئی ۔ وہ کلاس میں نہیں تھی تو کہاں تھی ۔ 

ابھی وہ اپنے قدم آگے بڑھاتا جب وہ اُسے سامنے سے اتی دکھائی دی ۔۔دھیمے دھیمے قدم بڑھاتی ہوئی ۔ نہ جانے کیوں حسام کو اُسکے چہرے کو دیکھتے عجیب لگا اُسکا چہرہ بلکل اسپاٹ تھا ۔حسام نے اپنے قدم اُسکی طرف بڑھائے ۔ 

بیہ جو دھیمے قدم اٹھائے اسپاٹ چہرہ لیے کلاس کی طرف ہی بڑھ رہی تھی سامنے سے اتے حسام کو دیکھتے وہ اپنی جگہ جم گئی ۔ اُس نے حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا جہاں فکرمندی تھی وہ آنکھوں میں ڈھیروں فکر لیے اُسکی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اُسکی آنکھوں میں بیہ کے لئے محبت تھی عشق تھا ۔ بیہ کی سیاہ آنکھوں میں پانی پھر سے جمع ہوا ۔ سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگی ۔ 

حسام کا چہرہ دیکھتے اُسے اپنی ساری ہمت ختم ہوتی محسوس ہوئی وہ کیسے کر پائے گی ۔۔۔کیسے اس چہرے سے نفرت کا دعویٰ کر پائے گی جس چہرے کو دیکھتے ہی اُسکی آنکھوں میں محبت اُبھر جاتی ہے اُسکا دل اس چہرے کی محبت سے بھر جاتا ہے ۔ وہ کیسے اپنے مجازی خدا پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے وہ کیسے اُسے ذلیل کر سکتی ہے کیسے اُسے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اُس سے محبت نہیں کرتی ۔ بیہ کو اپنی آس پاس کی چیزیں دھندلی ہوتی دکھائی تھی صرف کچھ صاف دکھائی دیا تو وہ اپنے انتہائی قریب کھڑے حسام کا چہرہ ۔ بیہ نے اپنا کانپتا ہاتھ حسام کے چہرے پر رکھا ۔ اتنی شدت کا سر میں درد اٹھا تھا کہ اُسے لگا اب اُسکی دماغ کی نسیں پھٹ جائے گی آس پاس کی ساری آوازیں انا بند ہوئی پلکیں بھاری ہوئی پورا وجود پیسنے میں بھیگا ۔ 

حسام نے اپنے گال پر رکھے بیہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور دوسرا ہاتھ بیہ کے چہرے پر رکھتے بیہ کو پُکارا ۔ 

بیہ ۔۔۔بیہ " ۔ حسام نے اُسکی بند ہوتی پلکوں کو دیکھتے پریشانی سے اُسے پُکارا وہ اپنا وجود ڈھیلا چھوڑ رہی تھی ۔ 

آخری آواز اسے اپنے نام کی سنائی دی اور پھر وہ اپنا وجود ڈھیلا چھوڑے اپنی آنکھیں بند کرتے حسام کے سینے پر گرتی چلی گئی ۔ 

" بیہ کیا ہوا ہے یارا تمہیں " ۔ حسام نے بیہ کے ڈھیلے وجود کو ایک جھٹکے سے اپنے بازؤں میں اٹھاتے  گھبراتے ہوئے اُسکی بند پلکوں کو تکتے کہا۔  

وہ بےہوش اُسکی باہوں میں تھی حسام کا دل بند ہونے کے قریب تھا ۔۔اُسے لگ رہا تھا وہ سانس لینا جیسے بھول رہا ہو آخر اُسے ہوا کیا تھا ۔ چہرے پر حد درجہ فکرمندی جھلکی انابیہ کا نازک وجود اپنے بازؤں میں تھامے وہ تیزی سے باہر کی طرف بھاگا اُسکی سیاہ بند آنکھیں اُسکی جان نکال رہی تھی۔  اُسکے ہاتھ پاؤں اُسے بیہوش دیکھتے پھول سے گئے تھے ۔ 

آمنہ لبوں پر حسین مسکراہٹ سجائے زرقان کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ ڈیپارٹمنٹ کی طرف اتے ہی اُسکی نظر زرقان پر پڑی جو صوفیہ کے ساتھ کھڑا تھا ۔ وہ اج  گرے رنگ کی ٹی شرٹ اور بلیک پینٹ میں اپنے مخصوص حلیہ میں ملبوس تھا ۔ جبکہ صوفیہ اُسکے انتہائی نزدیک کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔  

یہ منظر دیکھتے آمنہ کو اپنی آنکھیں جلتی ہوئی محسوس ہوئی اُسے بلکل اچھا نہیں لگا تھا صوفیہ کا زرقان کے اس قدر قریب ہوتے کھڑا ہونا ۔ اُسکے قدموں کی رفتار میں آہستگی ائی ۔ 

ابھی وہ زرقان سے چند قدم کی دوری پر تھی جب اُسکے کانوں میں صوفیہ کی آواز گونجی  ۔ 

" زرقان تمھارا اور اُس آمنہ کا کیا چل رہا ہے  " ؟ صوفیہ نے زرقان کا ہاتھ پکڑے غصے سے کہا ۔ وہ ابھی ابھی ایا تھا اور صوفیہ جو کل سے جلتے انگاروں پر لوٹ رہی تھی کہ زرقان اُسکی آنکھوں کے سامنے کس قدر حق سے آمنہ کا ہاتھ تھامے گیا تھا ۔ زرقان کے اتے ساتھ اُس سے پوچھ بیٹھی ۔ آمنہ نے شدت سے زرقان کے جواب کا انتظار کیا ۔ 

" میرے اور اُسکے بیچ کچھ نہیں چل رہا " ۔ زرقان نے نا محسوس انداز میں اپنا ہاتھ صوفیہ کے ہاتھ سے نکالتے ہوئے کہا ۔  زرقان کے اس طرح کہنے پر آمنہ کی دل کی دھڑکن سُست ہوئی۔  

" مجھے جواب چائیے زرقان کیوں تم اُس لڑکی کی اتنی فکر کرتے ہو ۔۔جواب دو مجھے تمہاری آنکھوں میں کیوں اُس لڑکی کے لیے مجھے پیار نظر آتا ہے تم کل  اُسے جس طرح بڑے حق سے اُسکا ہاتھ تھامے اُسے لے کر گئے تھے ۔ تمہارا یہ عمل بہت کچھ کہہ رہا تھا زرقان " ۔ زرقان کا گریبان تھامے صوفیہ انگلش میں کہتے زرقان کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی ۔ 

زرقان نے نرمی سے صوفیہ کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتے اُس کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کیا پاس بیٹھا اُن کا گروپ اُن دونوں کو۔دیکھتے معنی خیزی سے ہنس دیا۔  اور آمنہ کی آنکھیں بیقينی سے پھیلی ۔ 

" تم غلط سوچ رہی ہو ڈارلنگ کہ میں اُس سے پیار کرتا ہوں " ۔ زرقان نے صوفیہ کے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔  اور کچھ دور کھڑی آمنہ کے پاؤں وہی منجمند ہوئے ۔ وہ تو زرقان کے لیے کیک لیتی اُس سے ملنے ائی تھی ۔ لیکن زرقان کے لفظوں کو سنتے اُسکے قدم جیسے زمین نے جکڑ لئے ہوئے پورا وجود پتھر کا ہوا ۔ 

" اوہ ریئلی میں غلط سوچ رہی ہو پھر کیوں ہے تمہیں اُسکی اتنی فکر جواب دو مجھے " ۔ صوفیہ نے زرقان کی گردن میں باہیں ڈالتے ہوئے ایک نظر پیچھے دیکھتے پوچھا وہ آمنہ کو۔دیکھ چکی تھی  ۔ 

" مجھے کوئی فکر نہیں ہے اُسکی بیچاری بول نہیں سکتی  تھی تو میں نے کہا چلو کچھ دنوں کے لیے ایک گونگی لڑکی سے پیار کر کے دیکھتا ہوں کیسا فيل ہوتا ہے اور ویسے بھی اُسکا بھی تو حق ہے نہ کہ اُس سے کوئی پیار کرے ۔۔" ۔ زرقان کا لہجہ حقیر تھا ۔ آمنہ کے ہاتھوں سے چھوٹ کر کیک زمین پر گرا ہیزل بلو آنکھیں بیقینی سے پھیلی دل کی دھڑکن مدھم ہوئی یہ کیا سن رہی تھی وہ کیا اُس نے صحیح سنا تھا۔  آمنہ کو لگا اُسکے پیروں سے جان نکل رہی ہو جیسے ۔ وہ جس سے محبت کرتی تھی وہ اُسکے لیے ایسے حقیر الفاظ استعمال کر رہا تھا ۔ 

" مطلب تم اُس سے پیار کا ناٹک کر رہے تھے انجوائمنٹ کے لیے " ۔ صوفیہ نہ آمنہ کی ابتر ہوئی حالت کو دیکھتے مزید اُسکا دل چھلنی کرنا چاہا ۔ 

" آف کورس ناٹک تھا انجوائمنت کے لیے تھا سب " ۔ زرقان نے کہتے ساتھ اپنے جبڑے بھینچے اُسکے لیے یہ کہنا مشکل تھا انتہائی مشکل ۔۔۔جتنے بھی لفظ اُس نے آمنہ کے لیے استعمال کئے تھے وہ اُسکی روح کو جھنجھوڑ گئے تھے ۔ آمنہ کی آنکھوں سے برسات شروع ہوئی ۔ اُسکی محبت کا مذاق بنایا گیا تھا ۔ اُسکے ساتھ محبت کا ناٹک کیا گیا ۔ اُسکی محرومی کا مذاق اڑایا گیا تھا ۔ زرقان کے لبوں سے نکلا ایک ایک لفظ اُسکے نازک سے دل کے کئی ٹکڑے کر گیا تھا  اُسکے الفاظ نہیں تھے تیر تھے جو اُسکے وجود میں داغے جا رہے تھے ۔ 

یدکم اُسکے سن وجود میں ہلچل ہوئی ۔ وہ کمزور نہیں تھی بلکل نہیں کہ کوئی اُسکی محرومی کا فائدہ اٹھاتا اور وہ خاموش رہ جاتی ۔ قدموں میں تیزی ائی ۔ آنسوؤں کو بیدردی سے صاف کرتے وہ زرقان تک ائی جس کی پشت اُسکی طرف تھی ۔ 

ایک جھٹکے سے زرقان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُسکا رخ اپنی طرف کیا ۔ اور اپنی تمام تر طاقت ہمت جمع کرتے اُس نے زرقان کے منہ پر تھپڑ رسید کیا ۔ 

وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ۔ اور زرقان اُسے لگا وہ آگلی سانس تک نہیں لے پائے گا ۔ کیا اُس نے سب سن لیا ہوگا ۔۔ہاں اُس نے سب سن لیا تھا اُسکی ہیزل بلو آنکھوں میں ٹھہرا نمکین پانی اُسکی آنکھوں میں شکوہ کے ساتھ ساتھ نفرت کا تاثر دیکھتے وہ سمجھ گیا اُس نے سب سن لیا ہے ۔ 

آمنہ نے زرقان کے خوبرو چہرے کو دیکھا جس پر وہ مر مٹی تھی ۔ پھر نفرت سے اُس سے منہ پھیرتے وہ تیز قدموں سے باہر کی طرف بھاگی ۔ 

" آمنہ " زرقان نے تڑپ کر اُسے پُکارا ۔ 

" زرقان رکو" ۔ زرقان کو آگے بڑھتا دیکھ صوفیہ نے اُسکا ہاتھ پکڑا جسے ایک جھٹکے سے اپنی گرفت سے نکالتے وہ تیز قدموں سے آمنہ کے پیچھے بھاگا تھا جو اب اُسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تھی ۔ اور زرقان کو لگ رہا تھا اُسکا سانس رک رہا ہے ۔ 

اُسے آمنہ کا آنچل نظر آیا جو یونی کے گیٹ سے باہر نکلتا اُسکی آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا ۔ زرقان کے قدموں میں تیزی ائی ۔ 

وہ تیز رفتاری سے روتے ہوئے یونی کے پچھلے روڈ تک آگئی تھی جہاں عموماً کوئی نہیں ہوتا تھا ۔ 

بھاگتے بھاگتے آخر اُسکی ہمت ختم ہوئی آنسو تیز رفتاری سے بہہ رہے تھے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے بہت بیدردی سے اُسکے دل پر وار کرتے اُسکے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہو جس سے اٹھتا درد اُس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ ہچکیاں بھرتا لرزتا وجود لیے وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتی چلی گئی ۔ 

آج اُسکے خوابوں کا خون ہوا تھا اُسکے ارمانوں کا اُسکی محبت کا  وہ ماتم کنہ سی زمین پر بیٹھی ہوئی تھی دوپٹہ نہ جانے بھاگتے وقت کہاں گر گیا تھا۔ کل کی رات جتنی حسین تھی اُسکی صبح اتنی ہی بھیانک تھی ۔ 

" کیوں اللہ کیوں آخر ۔۔۔کیوں میں بول نہیں سکتی کیوں مجھے ایسا بنایا کیوں ۔۔۔کیوں مجھ میں کمی رکھی ۔۔یہ اللہ کیوں میں بول نہیں سکتی میں کیوں نہیں بول سکتی مجھے بولنا ہے مجھے چیخنا ہے چیخنا ہے مجھے اپنے اندر پھیلتے اس درد کو چیختے اپنے جسم سے نکالنا ہے ۔۔آخر میں ہی کیوں ۔۔۔میں ہی کیوں  یہ اللہ " ۔ زمین پر اپنا نازک ہاتھ در پر در مارتی وہ اج زندگی میں پہلی دفعہ اپنے رب سے اپنی محرومی کا شکوہ کر بیٹھی ۔

نازک ہاتھوں میں تکلیف کا احساس اُبھرا لیکن یہ تکلیف اُس تکلیف سے کم تھی جو دل سے اُٹھ رہی تھی ۔ 

" میں بول نہیں سکتی تو میں ایک انجوائمنٹ ہوئی ۔۔میری ۔۔میری محرومی کا مذاق اڑایا اللہ ۔۔میں۔۔میں نے خود تو نہیں کیا نہ اپنے ساتھ ایسا ۔۔میری غلطی نہیں ہے نہ اس میں کہ میں بول نہیں سکتی ۔۔میں تو ویسے بھی خوش ہو ۔۔میں نے تو کبھی آپ سے شکوہ بھی نہیں کیا پھر کیوں یہ سب ہوا ۔۔بابا ٹھیک کہتے ہیں یہ دنیا میرے لیے نہیں ہے ۔۔میں کیوں یونیورسٹی ائی میں کیوں اُس سے ملی بچپن سے سب نے میرا مذاق اڑایا لیکن مجھے اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی آج ہوئی ہے یا اللہ " ۔ روتے روتے وہ اپنا سر زمین پر رکھ گئی ۔  دل بول رہا تھا لیکن لب خاموش تھے وہ یہ سارے الفاظ چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی وہ ۔ 

آمنہ ہچکیاں بھرتے زمین پر سر رکھے رو رہی تھی جب اپنے قریب اُسے قدموں کی آواز ائی ۔ آمنہ نے ایک جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا ۔ لیکن اپنے چاروں طرف تین لڑکوں کو کھڑے دیکھ اُسکے بہتے آنسو تھمے اُنکی لڑکوں کی غلاظت بھری نظروں کو اپنے وجود پر محسوس کرتے آمنہ کا وجود خوف سے بھرا ۔ 

خوفزدہ ہیزل بلو آنکھوں سے اُس نے اُن لڑکوں کی طرف دیکھا اور  آرام سے اپنی جگہ سے اُٹھی وہ لڑکے آنکھوں میں درندگی لیے اُسکے وجود کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔  آمنہ نے یکدم اپنے پیچھے کھڑے لڑکے کو دکھا دیتے بھاگنا چاہا جب اُس لڑکے نے اُسکا ہاتھ پکڑتے اُسے زمین پر دھکا دیا ۔ 

آمنہ کی پشت زور سے زمین پر لگی درد کے مارے وہ اپنی آنکھیں مینچ گئی ۔ پشت پر بری طرح رگڑ لگی تھی ۔ 

کیسی بےبسی تھی وہ اپنی مدد کے لیے کسی کو پُکار بھی نہیں سکتی تھی ۔۔کیا واقعی وہ اپنی مدد کے لیے کسی کو نہیں پُکارا سکتی تھی ۔ وہ اللہ کو پکار سکتی تھی۔ ایک وہی ذات تو ہے جو ہر مشکل قدم پر ہماری مدد کرتا ہے جو ہمارا آخری سہارا ہوتا ہے ۔ آمنہ نے شدت دل سے اپنے رب سے مدد مانگی یا تو وہ اُسے بچا لے ورنہ اُسے ان غلیظ لڑکوں کے چھونے سے پہلے ہی موت دے دیں۔  

" کہاں جا رہی ہو خوبصورت لڑکی تھوڑا وقت ہمارے ساتھ بھی گزار لو " ۔ ایک لڑکا خباثت سے کہتا آمنہ پر جھکا ۔ آمنہ نے پیچھے کی طرف کھسکنا چاہا جب وہ اُسکے دونوں ہاتھوں کو تھام گیا ۔ باقی کے دو لڑکے کھڑے ہنستے ہوئے یہ سب دیکھنے لگے ۔ آمنہ نے اُس لڑکے کے ہاتھ پکڑنے پر مزاحمت کرنی چاہی لبوں سے آواز نکالنے کی کوشش کری لیکن ناکام ہوئی آمنہ  اذیت و بےبسی سے اپنی آنکھیں بند کر گئی یہ منظر بہت اذیت ناک تھا اُسے لگ رہا تھا وہ مر جائے گی ۔ وہ لڑکا آمنہ کے ہاتھوں کو اپنی سخت گرفت میں تھامے ابھی آمنہ کے چہرے پر جھکتا جب گولی چلنے کی آواز پر وہ تھما اور آمنہ سے دور ہوا ۔ باقی کے دو لڑکوں نے بھی پیچھے پلٹ کر دیکھا ۔

آمنہ نے تیزی سے اپنی آنکھیں کھولتے سامنے کی طرف دیکھا لیکن وہاں موجود شخص کو دیکھتے وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی  آنسوؤں میں روانی ائی ۔ وہ بیقيني سے سامنے کھڑے زرقان کو دیکھے گئی جو سرخ لہو رنگ آنکھیں لیے اُن لڑکوں  کو بھوکے شیر کی مانند دیکھ رہا تھا ۔ آمنہ کی ہچکیوں میں اضافہ ہوا ۔ اُسکے ہاتھ میں اپنا دوپٹہ دیکھتے ۔ اپنے گھٹنوں کو موڑتے سینے سے لگاتے وہ لرز اُٹھی ہیزل بلو سرخ آنکھیں زرقان پر ٹکی ہوئی تھی ۔ 

وہ جو آمنہ کو پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا اسی طرف ہی آرہا تھا سڑک کے بیچ اُسکا دوپٹہ پڑے دیکھ کسی خوف کے خدشے سے اُسکا دل دھڑکا ۔ آمنہ کا دوپٹہ زمین سے اٹھاتے وہ تیز قدموں سے اس سڑک پر چل رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا یہ راستہ محفوظ بلکل نہیں ہے خاص کر ایک لڑکی کے لئے ۔ کہیں وہ کسی مصبیت میں نہ پھنس جائے ۔ زرقان تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا جب سامنے کا منظر دیکھتے زرقان کی شہد رنگ آنکھوں میں لہو چھلکا ہاتھ میں تھامے آمنہ کے دوپٹے پر گرفت سخت ہوئی ۔ اُسکے چہرے پر ایسا غضب چھلکا کے دیکھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجائے ۔ سامنے ہی وہ لڑکا اُسکی زندگی اُسکی عزت کو ہاتھ لگا رہا تھا اُسکی عزت خراب کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اپنی جیب سے گن نکالتے اُس نے لگاتار ہوا میں فائر کیا ۔ اُسکی لہو رنگ آنکھیں ان لڑکوں پر جمی ہوئی تھی ۔ اُن لڑکوں کے پلٹتے ہی زرقان نے لمحے کی بھی مہلت نہ لیے اُن تینوں کی ٹانگوں پر فائر کرتے اُنہیں زمین دوز کیا ۔ آمنہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ گئی ۔ اپنی آنکھیں مینچے کانوں پر ہاتھ رکھے لرزتا وجود لئے وہ زمین پر بیٹھی ہوئی تھی اُسکا دل بند ہونے کے قریب تھا ۔ 

زرقان لہو رنگ آنکھیں اور سرد چہرہ لیے اُس لڑکے تک ایا جس کو اُس نے آمنہ پر جھکے دیکھا تھا ۔ 

وہ تینوں لڑکے اپنی زخمی ٹانگ لیے سڑک پر درد سے کررا رہے تھے ۔ 

" تو نے جسے ہاتھ لگایا ہے وہ میری ہے میری عزت ہے صرف اور صرف میری " ۔ زرقان نے جنونیت سے کہتے اُسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ایسے مروڑا کے وہ لڑکا درد سے چیخ اٹھا ہڈی ٹوٹنے کی آواز سنسان سڑک پر گونجی ۔ چیخ کی آواز پر آمنہ نے اپنی آنکھیں کھولتے اُس لڑکے کی طرف دیکھا۔  زمین پر پڑے خون کو دیکھتے اُسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا ۔ 

" تم سب کا حساب بعد میں ہوگا " ۔ زرقان نے کہتے اپنے فون میں کسی کا نمبر ڈائل کیا  اور اپنے آدمیوں کو انے کا حکم دیا ۔۔ 

جس قدر اُسکا خون کھول رہا تھا وہ چاہتا تو ابھی ان تینوں لڑکوں کو زندہ درگور کر دیتا لیکن جانتا تھا اُسکی زندگی بہت نازک اور معصوم ہے وہ ڈر جائے گی ۔ 

زرقان نے اُن تینوں لڑکوں کو ٹھوکر مارتے پلٹ کر آمنہ کو دیکھا جو اپنی ہیزل بلو بھیگی سرخ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔ آمنہ کی سرخ آنکھیں دیکھتے وہ اپنے لب بھینچ گیا ۔ آمنہ کا لرزتا بدن زرقان کا ضبط آزما رہا تھا ۔ 

دھیمے قدم بڑھاتے وہ آمنہ کی طرف ایا ۔ اپنی طرف بڑھتے زرقان کو دیکھتے وہ نفرت سے اپنی آنکھیں موڑ گئی ۔ زرقان کے بڑھتے قدم تھمے ۔ ان آنکھوں میں اُسکے لیے نفرت اُبھری تھی ۔ اپنی مٹھیاں بھینچے اس نے آمنہ کو دیکھا ۔ ان حسین آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھتے اُسکا دل تڑپ اٹھا تھا روم روم سلگ اٹھا تھا۔  

آمنہ کے پاس اتے گھٹنوں کے بل بیٹھتے اُس نے آمنہ کی تھوڑی نرمی سے تھامتے اُسکا رخ اپنی طرف کیا ۔ آمنہ نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اُسکا ہاتھ جھٹکا ۔ البتہ اسے دیکھنے سے مکمل گریز برتا تھا ۔ زرقان نے اپنی آنکھیں مینچی ۔ 

" آمنہ " ۔ حد درجہ نرم لہجہ ۔ 

زرقان کے یوں پکارنے پر آمنہ کی ہچکیوں میں اضافہ ہوا ۔ زرقان یکدم اُسے اپنے سینے میں بھینچ گیا ۔۔آمنہ نے مزاحمت کی اُسے خود سے دور کرنا چاہا ۔ اپنے آپکو اُسکی گرفت سے نکالنا چاہا ۔ لیکن زرقان وہ اپنا حصار اور مضبوط کر گیا ۔ 

تھک ہار کر وہ اسی ستمگر کے بازؤں سے لگے رو دی جس نے کچھ پل پہلے اُسکی محبت کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا تھا ۔ جس نے اُسکے دل کا بے رحمی سے خون کیا تھا۔  

" معاف کردو اپنے زرقان کو ۔۔۔میری وجہ سے ہوا یہ " ۔ آمنہ کے ہچکیاں بھرتے وجود کو اپنے سینے میں مضبوطی سے بھینچے زرقان نے شدت سے معافی مانگی۔  

زرقان کے اس طرح کہنے پر آمنہ نے اُسکی شرٹ کو مٹھی میں بھینچا۔  ابھی اُس پر کیا گزر رہی تھی یہ اُسکے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا تھا ۔ کچھ پل پہلے اُسکی محبت کو انجوائیمنٹ کہا گیا ۔ کچھ پل پہلے اُسکی عزت خطرے میں تھی اور یہ سب جسکی وجہ سے ہوا تھا وہ اُسی کے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔ 

" میں صرف تم سے پیار کرتا بہت پیار کرتا ہوں میں جانتا ہوں میرے لفظوں نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے بہت تکلیف پہنچائی ہے لیکن کوئی مجھ سے پوچھے کہ اپنے ہی لبوں سے ادا ہوئے لفظوں پر خود کتنی تکلیف پہنچتی ہے ۔۔میں نہیں برداشت کرو گا تمھاری آنکھوں میں اپنے لیے نفرت ۔۔میں ڈر گیا اج تمہیں کھونے کے خوف سے میں ڈر گیا تھا ۔ " ۔ آمنہ کے بالوں پر اپنے لب رکھتے شدت سے کہا ۔ لیکن آمنہ کے وجود میں کوئی ہلچل ہوتے نہ دیکھتے زرقان کا ماتھا ٹھنکا ۔ اُس نے فوراً سے آمنہ کا چہرہ اپنے سینے سے نکالتے اپنے سامنے کیا لیکن اُسکی بند آنکھیں دیکھتے اُسکا دل تیزی سے دھڑکا ۔ 

" آمنہ ۔۔آمنہ اٹھو ۔۔اٹھو یار "۔  گھبراتے ہوئے اُسکا گال ٹھپکتے کہتا وہ حد درجہ پریشانی میں ڈوب چکا تھا ۔ زرقان نے فوراً سے آمنہ کی نبض چیک کی جو بہت ہلکی چل رہی تھی  ۔ اسکا مطلب وہ بیہوش ہوئی تھی ۔ اپنے پاس رکتی گاڑیوں کو دیکھتے اُس نے فوراً سے اپنے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر آمنہ کے بیہوش وجود پر ڈالا اور اُسے اپنے بازؤں میں اٹھایا۔  

اُسکے ادمی اُسکے حکم کے مطابق وہاں پُہنچ چکے تھے ۔ آمنہ کا چہرہ اپنے سینے میں چھپائے وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا جو اُس نے خود اپنے آدمیوں کو کہتے منگوائی تھی ۔ چہرے پر حد درجہ فکرمندی چھائی ہوئی تھی ۔ 

" مجھے یہ فارم ہاؤس کی بیسمنٹ میں چایئے جب تک میں فارم ہاؤس پہنچو تب تک فیمیل ڈاکٹر وہاں موجود ہونی چایئے " ۔ اپنے آدمی کو حکم دیتا وہ جلدی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آمنہ کا بیہوش وجود لیے سوار ہوا ۔ اور گاڑی تیزی سے آگے بڑھی ۔ 

" جلدی گاڑی چلاؤں " ۔ سرد آواز میں اپنے ڈرائیور کو حکم دیتے اُس نے اپنے تھائی پر رکھے آمنہ کے چہرے پر فکر مندی سے اپنا ہاتھ رکھا۔  

ڈرائیور اپنے ہنس مکھ صاحب کے چہرے پر پھیلتی فکر و پریشانی دیکھتے سمجھ گیا کہ پیچھے لیٹی لڑکی اُسکے مالک کے لئے کیا معنی رکھتی ہے ۔ 

زرقان نے آمنہ کا حسین چہرہ دیکھا جس پر آنسوؤں کے نشان تھے۔ نرمی سے اُس نے آمنہ کے چہرے کو صاف کیا ۔ اُسکی گھنی پلکیں جو اُسکے عارض پر سایہ فگن تھی اُن پر نرمی سے اپنی انگلی پھیرتے وہاں ٹھہری نمی صاف کی ۔ 

" میں برداشت نہیں کرونگا کہ تم مجھ سے نفرت کرو میرے میوٹ اسپیکر  ۔۔ میں بلکل برداشت نہیں کرونگا " ۔ آمنہ کے ہاتھ کو اپنے لبوں تک لے جاتے اسکے ہاتھ پر اپنے لب رکھتے زرقان نے شدت پسندی سے کہا ۔ 

💗💗💗💗

" نہیں مجھے نہیں پسند یہ " ۔ یہ کوئی بیسواں  سوٹ تھا جو سدرہ نے بنا ایک نظر دیکھے ریجیکٹ کردیا تھا ۔ جنید نے ضبط سے اپنے لب بھینچے اپنی ضدی بیوی کو دیکھا جو تقریباً آدھے گھنٹے سے یہاں بیٹھی اُسکے پسند کردہ ہر سوٹ کو بلا تغرت ریجیکٹ کی جا رہی تھی ۔ 

" سدرہ اب میری برداشت سے باہر ہو رہا ہے " ۔ جون نے سدرہ کے حسین چہرے کو دیکھتے دانت پیستے کہا۔  

" اوہ تو واشروم جاؤ نہ "۔  سدرہ نے آنکھیں پٹپٹاتے معصومیت سے کہا ۔ جنید هونکوں کی طرح منہ کھولے سدرہ کو دیکھے گیا ۔ کچھ پل تو اُسے سمجھ نہ ایا کہ سدرہ نے بولا کیا ہے لیکن جب سمجھ ایا اُسکا رنگ سرخ ہوا ۔ اُس نے غصے بھری کھا جانے والی نظروں سے سدرہ کو دیکھا جو اُسکے یوں دیکھنے پر مسکرا دی ۔ 

سیل گرل نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی وہ دونوں انڈین اور مسلم برائڈل ڈریسز کی شاپ پر تھے جہاں کے ورکر یا تو مسلم تھے یہ انڈین اسی لیے وہ اُن دونوں کی زبان سمجھ پا رہے تھے۔  

جنید نے اپنا غصّہ ضبط کرتے پوری شاپ میں نظریں گھمائی جب اُسکی نظر ایک طرف ڈمی میں سجے ڈریس پر گئی ۔ 

بلڈ ریڈ  رنگ کا ویلویٹ کا لہنگا جس کی کرتی بلکل سادہ تھی جبکہ لہنگے کے دامن پر گولڈن رنگ کا ہیوی کام ہوا تھا۔ لمبا دوپٹہ جس کے کناروں پر بھی گولڈن رنگ کا کام ہوا تھا ۔ جنید کو یہ لہنگا انتہاء کا پسند ایا۔  

" یہ ڈریس پیک کر دے " ۔ جون نے لہنگے کی طرف اشارہ کرتے سیل گرل سے کہا ۔ 

جون کے کہنے پر سدرہ کی نظر بھی اس ڈریس پر گئی جسے دیکھتے اُسکی آنکھوں میں بھی ستائش اُبھری ۔ 

" سر میڈیم کا سائز میجرمنٹ وغیرہ لینی ہوگی پھر کل تک آپکے پاس ڈریس آجائے گا " ۔ سیل گرل نے رسانیت سے کہا ۔ 

" اسکی ضرورت نہیں ہے وہ ڈریس میری بیوی کے بلکل فٹ آئیگا آپ پیک کر لے " ۔ جون نے سدرہ کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے سیل گرل سے کہا ۔ اور سدرہ کا رنگ خجالت و شرم کے احساس سے سرخ ہوا ۔ اُس نے سرخ چہرہ لیے کھا جانے والی نظروں سے جنید کو دیکھا دل کیا اس انسان کا خون پی جائے جو ضرورت سے زیادہ بیشرم ہوگیا تھا ۔ 

" اوکے سر آپ پیمنٹ کر دے " ۔ سیل گرل نے مسکرا کر کہا جون نے اثبات میں اشارہ کیا ۔ اور پیمنٹ کرنے کاؤنٹر پر چلا گیا ۔ 

سدرہ نے ایک نظر جنید کی پشت کو تکا اور پھر کچھ سوچتے اُسکی آنکھوں میں چمک اُبھری ۔ لبوں پر شریر سی مسکراہٹ سجائے وہ شاپ سے باہر نکلتی چلی گئی ۔ 

جنید پیمنٹ کرتے پلٹا تو سدرہ کو وہاں نہ پاکر اُسے حیرت ہوئی ۔ اُس نے پوری شاپ میں اپنی نظر گھمائی لیکن وہ اُسے نظر نہ ائی ۔ یکدم پورے بدن میں بےچینی سے دوری۔  

" بات سنے یہاں پر میری وائف تھی کہاں گئی ہے آپ نے دیکھا ہے " ۔ جنید نے اُس سیل گرل سے پوچھا جو اُسے کاؤنٹر پر چھوڑے واپس چلی گئی تھی ۔ 

" نہیں سر میں نے نہیں دیکھا " ۔ سیل گرل کے کہنے پر جون کو اور پریشانی نے گھیرا ۔ تیزی سے شاپنگ بیگ تھامتے وہ شاپ سے باہر نکلا ۔ رگ رگ میں بےچینی سی بھری ۔ نظریں بیتابی سے چاروں اطراف سدرہ کو تلاش کر رہی تھی ۔ 

فرسٹ فلور سیکنڈ فلور گراؤنڈ فلور کوئی ایسی دکان نہیں تھی جہاں اُس نے سدرہ کو نہ ڈھونڈنا ہو اُسکے فون میں سدرہ کا نمبر بھی نہیں تھا جو وہ اُسے کال کر لیتا ۔ سدرہ کو پورے مال میں نہ پاتے دیکھ جنید کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی سانس پوری طرح پھول رہا تھا ۔ 

کچھ یاد انے پر وہ گراؤنڈ فلور سے فرسٹ فلور پر آیا ۔ اور قدم تیزی سے فوٹ کارڈ کی طرف بڑھائے ایک یہی جگہ تھی جہاں اُس نے نہیں ڈھونڈا تھا ۔ 

فوڈ کارڈ کی طرف اتے ہی جنید کو اپنی سانس بحال ہوتی محسوس ہوئی ۔ اپنے گھنٹوں پر ہاتھ رکھتے اُس نے ذرا سا جھکتے اپنی پھولی سانسیں بحال کرنا چاہی نظریں سدرہ کے وجود پر تھی جو سامنے ہی ایک ٹیبل پر بیٹھی برگر سے انصاف کرنے میں مصروف تھی ۔ جنید کا چہرہ غصے سے لال ہوا ۔ اپنی اوپر کسی کی تپش بھری نظریں محسوس کرتے سدرہ نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو جون کو خود کی طرف غصے بھری نظروں اور پھولی سانسوں کے ساتھ دیکھتے اُس برگر کھاتا ہاتھ تھما ۔ جون سدرہ کے دیکھنے پر ایک ہی جست میں اُس تک اتا اُسے بازو سے پکڑتے اپنے روبرو کر گیا ۔ 

" کیا حرکت تھی یہ سدرہ جانتی ہو کتنا پریشان ہوا تھا میں ۔۔تمہیں اپنے سامنے نہ پاتے خوف سے میرا دل بند ہونے کے قریب تھا  ہر جگہ تمہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا " ۔ وہ وہاں موجود لوگوں کا خیال کئے اُسکے چہرے پر جھکے دبا دبا غرایا ۔ 

سدرہ نے جنید کے کہنے پر اُسکی آنکھوں میں دیکھا جہاں اُسکی بات کی سچائی جھلک رہی تھی ۔ اُسکی پھولی سانسیں اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ اُس نے واقعی اُسے ہر جگہ ڈھونڈا ہے  ۔ 

" میں تمہاری نظروں سے کچھ پل کے لیے اوجھل ہوئی تو تمھاری یہ حالت ہوئی ہے سوچوں میں نے کیسے یہ گزرے سال گزارے ہونگے " ۔ سدرہ کے کہنے پر جنید نے اُسکی براؤن آنکھوں میں جھانکا جہاں یہ کہتے ہلکی ہلکی نمی اُبھری تھی ۔ 

" بدلہ لے رہی ہو مجھ سے "  ؟ سدرہ کے چہرہ کو دیکھتے جنید نے آبرو اچکا کر پوچھا۔  

" ہونہہ بدلہ لیا نہیں ہے لینا ہے اور ایسا بدلہ لینا ہے کہ تم ایک پل بھی سکون کا سانس نہیں لے پاؤ گے" ۔ جنید کے سینے پر اپنی انگلی رکھتے سدرہ نے اسپاٹ لہجے میں کہا۔  

ابھی جنید کچھ جواب دیتا جب اُسکا فون بجا۔  جنید نے سدرہ کا بازو آزاد کرتے اُسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا ۔ 

سکرین پر چمکتے حسام کے میسج کو دیکھا  جس میں لکھا تھا کہ وہ جلد از جلد اُس سے ملے  اور ایڈریس بھی سینڈ کیا گیا تھا ۔ جو کامل کے گھر کا تھا ۔  جنید نے سدرہ کو لیے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔  چہرہ سنجیدہ ہوا ۔ ضرور حسام نے اُس سے کوئی ضروری بات کرنی ہوگی تبھی اُسے بلایا تھا ۔ 

شاپنگ نہیں کرنی تم نے " ؟ جنید کے چہرے پر چھائی سنجیدگی دیکھتے سدرہ نے پوچھا ۔ 

" نہیں سارا سامان تمہیں مل جائے گا " ۔ سنجیدگی سے کہتے وہ مال سے باہر اتے اپنی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔  سدرہ نے بیچین نظروں سے اُسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ میسج پڑھتے ہی سنیجدہ ہوا تھا ۔ سدرہ کو تجسس ہوا آخر کس کا میسج ایا تھا اُسکے پاس جو وہ اتنا سنیجدہ ہوگیا تھا ۔ اپنے لب آپس میں بھینچے وہ انہی سوچوں میں الجھی رہی  ۔ 

حسام اپنے لب بھینچے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا جو بیہ کا معائنہ کر رہی تھی ۔ وہ بےہوش سیاہ بند آنکھیں کئے بےسدھ لیتی ہوئی تھی ۔


" کیا ہوا ہے ڈاکٹر اسے " ؟ حسام نے ڈاکٹر سے پوچھا ۔


" زیادہ فکر کی بات نہیں ہے مسٹر آپکی وائف شاید ڈر یا ٹینشن کی وجہ سے بیہوش ہوگئی تھی ۔ ابھی کچھ دیر میں انہیں ہوش آجائے گا " ۔ ڈاکٹر نرم لہجہ میں کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔


ڈاکٹر کے جاتے ہی حسام نے اپنے قدم بیہ کی طرف بڑھائے ۔ بیہ کے پاس بیٹھتے اُس نے بیہ کی بند پلکوں پر انگلی پھیری ۔


نظر اُس کے ہاتھ پر گئی جہاں چھوٹے چھوٹے سے چوٹ کے نشان کو دیکھتے اُس نے اپنے جبڑے بھینچے ۔


آہستہ سے بیہ کا ہاتھ تھامے اُس نے اُسکے زخموں پر اپنے لب رکھے ۔ نہ جانے کیوں اُسکا دل گواہی دے رہا تھا جیسے بیہ کے ساتھ کچھ ہوا ہے ۔


" یارا ڈرا دیتی ہو تُم تو ۔۔اب تمہیں کن لفظوں میں سمجھاؤ کہ تمھاری ان سیاہ انکھوں میں میری جان بستی ہے انہیں اُس طرح بند میں نہیں دیکھ سکتا " ۔ بیہ کے چہرے پر جھکتے اُسکی سیاہ بند آنکھوں پر اپنے لب رکھتے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ اُسکی آنکھوں سے لب سفر کرتے اُسکی چھوٹی سی ناک پر ائے پھر اُسکے دونوں گالوں پر ۔ حسام نے لبوں کے پاس اپنے لب لاتے پہلے اُسکی بند انکھوں کو دیکھا ۔ پھر خمار بھری نظروں سے اُسکے گلابی لبوں کو جو آپس میں ملے اُسکا ضبط آزما رہے تھے ۔ اپنے آپ پر ضبط کھوتے اُسکے لبوں پر اپنا نرم گرم لمس چھوڑا ۔ لبوں سے لب سفر کرتے بیہ کی گردن میں آئے اور وہ اُسکی بدن سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو میں سانس لیتا اپنے وجود کو مہکاتا چلا گیا ۔


اپنی گردن پر دہکتی سانسیں محسوس کرتے بیہ نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولی ۔ اپنے اوپر وزن سا محسوس ہوا ۔ بیہ نے نظریں جھکاتے اپنی گردن میں منہ چھپائے حسام کو دیکھا ۔ تو وجود میں سنسنی سی دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ رفتا رفتا اُسے سب کچھ یاد اتا چلا گیا ۔ سیاہ آنکھوں کے گوشوں پر نمی جمع ہونے لگی تو بیہ نے اپنی آنکھیں بند کرتے اُس نمی پر قابو پایا۔


بیہ کے وجود میں ہلچل محسوس کرتے حسام نے اپنا چہرہ اُسکی گردن سے نکالتے اُسے دیکھا جو اپنی آنکھیں منیچے ہوئی تھی ۔


" بیہ " ۔ حسام نے محبت سے چوڑ لہجے میں اُسے پُکارا ۔ حسام کی ایک ہی پُکار پر بیہ نے اپنی آنکھیں کھولتے اُس کی طرف دیکھا جو سیاہ آنکھوں میں محبت کے دیپ جلائے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ چہرے پر فکرمندی کے تاثرات تھے ۔


" ٹھیک ہو تم یارا " ؟ حسام نے اُسکے ہاتھ کو تھامے فکرمندی سے پوچھا ۔ حسام کے اس طرح پوچھنے پر بیہ کا دل کیا اُسکے سینے سے لگ جائے اور کہیں کہ اُسے اپنے دل کے کسی ایسے کونے میں چھپا لو جہاں سے کوئی اُسے نہیں دیکھ پائے جہاں وہ خوش رہنے کے ساتھ ساتھ محفوظ بھی ہو ۔ لیکن اکثر باتیں صرف دل میں ہی رہ جاتی ہے لبوں سے بیان نہیں ہو پاتی ۔


بیہ نے فقط اثبات میں سر ہلایا جب حسام کے اگلے سوال پر اُسکا دل دھڑک اٹھا ۔


" کچھ ہوا تھا بیہ ۔۔۔تمھاری آنکھیں لال ہو رہی تھی اور یہ ہاتھ پر یہ نشان کیسے آئے " ۔ حسام نے اُسکے من موہنی سانولی صورت کو دیکھتے فکر مندی سے اُسکے ہاتھ پر آئے زخموں پر اپنی انگلی پھیرتے پوچھا ۔


بیہ کو سمجھ نہ ایا وہ کیا کرے ایک طرف دل نے کہا بتا دے تو دماغ نے نفی کی ۔۔۔وہ کیا کرتی کیسی مشکل میں پھنس گئی تھی ۔


" وہ ۔۔وہ میں واشروم میں گر گئی تھی وہاں۔۔وہاں پر کاکروچ تھا ۔۔۔تو چوڑیاں ٹوٹ کر ہاتھ میں چبھ گئی " ۔ بہت ضبط کے بعد بھی آخر میں اُسکی آواز نم ہوئی ۔ حسام نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے بیہ کو دیکھا جو نم آنکھیں لئے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔


" حد ہوتی ہے یارا اتنے سے کاکروچ سے ڈرتے تم نے میرا نقصان کروا لیا " ۔ حسام نے محبت سے اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ڈانٹا۔


حسام کے نرم لہجے نرم لمس سے بیہ کو لگا اُسکا دل پھٹ جائے گا یہ انسان تو اُسکے لیے سراپا محبت تھا جس سے اُسے نفرت کا دعویٰ کرنا تھا ۔


" مجھے گھر جانا ہے " ۔ بیہ نے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔


" چلو چلے" ۔ حسام نے اُسکے سنجیدگی بھرے چہرے کو دیکھتے اُسکے ہاتھ سے نرمی سے ڈرپ ہٹائی جو خالی ہو چکی تھی ۔


بیڈ سے اٹھتے اُس نے بیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے بیہ نے اُسکی طرف دیکھتے تھام لیا ۔ اپنے ہاتھ میں بیہ کا ہاتھ دیکھتے حسام کے وجود میں سکون سا بھرتا چلا گیا ۔


انابیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ ہسپتال کے کمرے سے باہر نکلا تھا ۔ بیہ تو سن سی تھی ۔ بس اپنے ہاتھ کو دیکھے جا رہی تھی جو حسام کے ہاتھ میں مقید تھا ۔


ہسپتال سے باہر اتے ہی بیہ نے تیز دھوپ چہرے پر پڑنے سے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا جب اُسکی نظر سامنے ہاسپٹل کے لون کے ایک کونے کی طرف پڑی جہاں وہی کالے لباس میں ملبوس اُسکی طرف اپنی سرد نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ بیہ نے جیسے ہی اُسکی طرف دیکھا اُسکے بڑھتے قدم تھمے رگوں میں خوف دوڑتا چلا گیا ۔


کالے لباس میں ملبوس اُس نے بیہ کے دیکھنے پر اپنی انگلیوں سے گن کا اشارہ کرتے بیہ اور حسام کے آپس میں ملے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا ۔ اور بیہ کا سانس سینے میں اٹکا ۔ اُس نے مخالف کا اشارہ سمجھتے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ حسام کے ہاتھ سے نکالا ۔


حسام نے بیہ کے یوں رک جانے پر اُسکی طرف مڑتے اُسکی طرف دیکھا جب بیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ سے نکالا ۔


" کیا ہوا ہے بیہ " ۔ حسام نے اُسکے پسینے پسینے ہوئے چہرے کو دیکھتے فکرمندی سے پوچھا ۔


حسام کے پوچھنے پر بیہ نے جلدی سے اپنی نظریں اُس کالے سائے سے ہٹاتے حسام کی طرف کی ۔


" کچھ۔۔کچھ نہیں ہوا ہے۔۔۔طبیعت صحیح نہیں لگ رہی مجھے جلدی گھر جانا ہے حسام " ۔ بیہ نے اپنے چہرے پر ایا پسینہ صاف کرتے ہوئے لرزتی آواز میں کہا وہ بس اب یہاں سے جانا چاہتی تھی۔ حسام کو دیکھتے بیہ نے اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے جو اُن سے کچھ دور کھڑی تھی ۔


حسام کو بیہ کے انداز عجیب لگے ۔۔لیکن یہ سمجھتے کہ اُسکی طبیعت خراب ہے اسی وجہ سے وہ ایسا برتاؤ کر رہی ہے حسام جاکر ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوا ایک نظر بیہ کو دیکھا جو شیشے سے باہر دیکھنے میں مگن تھی ۔ اور پھر گاڑی آگے بڑھا لی ۔ بیہ نے شیشے کے باہر اُس شخص کو دیکھا جو اب بھی وہی کھڑا تھا ۔ جبکہ اُسکی نظریں بھی بیہ پر جمی ہوئی تھی ۔ گاڑی چلاتے حسام کو یاد ایا کہ کامل نے اُسے اور جنید کو ملنے کے لئے بلایا تھا ۔ جلدی سے جنید کو کامل کے گھر کا ایڈریس سینڈ کرتے اُس نے فون رکھا ۔ بیہ اب سیٹ کی پشت پر اپنا سر ٹکائے اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی ۔ اور حسام کبھی اُسے دیکھتا تو کبھی سامنے ۔


💗💗💗💗💗


" تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کس سے کرنا ہے نکاح " ۔ کامل زرقان کی شکل دیکھ کر تیز آواز میں گویا ہوا ۔


" آپ میری بات نہیں سمجھ رہے اُسے غلط فہمی ہو گئی ہے وہ مجھ سے نفرت کرے گی اور میں یہ برداشت نہیں کرونگا " ۔ زرقان نے بےبسی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔


" ایسا کیا ہوا تھا جو اُسے غلط فہمی ہو گئی ہے " ۔ کامل نے تیکھے چٹونوں سے پوچھا ۔


" صوفیہ اُسکی وجہ سے ہوا ہے یہ سب " ۔ زرقان کہتا اُسے سب بتاتا چلا گیا۔


" تو مسٹر زرقان ائی ایس ائی کے آفیسر ۔۔۔خضر شجاعت چوہدری کے بہترین شاگرد۔ ۔۔ایک بہترین ہیکر اور بہادر آفسیر اپنے مشن میں غلطی کر بیٹھے ہیں "۔ کامل نے طنزیہ لہجے میں کہا۔


" بھائی آپ سمجھ نہیں رہے ہیں مشن بلکل صحیح جا رہا ہے یار ۔۔اُس نے سب باتیں سن لی ہے جو جھوٹ تھی ۔ وہ اُنھیں سچ مان بیٹھی ہے ۔۔آپ نہیں سمجھ رہے ہیں وہ مجھے نفرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔اور میں یہ بلکل برداشت نہیں کر پا رہا ہوں ۔ مجھے اُسے اپنے نکاح میں لینا ہے اُسے اپنا بنانا ہے تاکہ یہ جو خوف اج میرے دل میں بیٹھ گیا ہے اُسے کھونے کا وہ دور ہوسکے " ۔ زرقان نے کامل کے سامنے صوفے پر بیٹھتے اضطرابی لہجے میں کہا۔


" اور پھر مشن جانتے ہو نہ مشن میں اپنی پرسنل نہیں لاتے " ۔ کامل کا لہجہ اب سنجیدہ تھا۔


" آپ بس میرا نکاح اُس سے کروا دے باقی آپ کو مایوسی نہیں ہوگی میں مشن میں کوئی کوتاہی نہیں کرونگا " ۔ زرقان کا لہجہ التجائیہ تھا ۔


" ٹھیک ہے کروا دیتا ہوں نکاح لیکن ایک شرط پر تم اُس لڑکی کو اپنی اصلیت نہیں بتاؤنگے ۔ ویسے ہی معاملات بکھرے ہوئے ہے جب تک ہم صوفیہ کی مدد سے اُس انسان تک نہیں پہنچ جاتے تب تک تو بلکل نہیں " ۔ کامل کی بات پر زرقان نے اپنی آنکھیں مينچی ۔


" ٹھیک ہے میں نہیں بتاؤنگا اپنی اصلیت اُسے " ۔ کچھ پل کے بعد زرقان نے اپنی آنکھیں کھولتے سنجیدگی سے کہا ۔


" نفرت تو پھر بھی کرے گی وہ " ۔ کامل کہتا اپنی جگہ سے اٹھا۔


" کم سے کم اس پر حق تو میرا ہوگا میرے دل کو تسلی تو ہوگی کہ وہ میری ہے " ۔ زرقان نے آمنہ کو تصور میں لاتے کہا ۔


" ٹھیک ہے میں اُسکے والدین سے بات کرتے نکاح کا انتظام کرتا ہو " ۔ کامل کہتا اپنا ماتھا رگڑتے ہوئے باہر کی طرف بڑھا ۔ زرقان نے گہرا سانس بھرتے اپنے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے جہاں وہ ہوش و خرد سے بیگانہ بیڈ پر لیتی ہوئی تھی ۔


زرقان کمرے میں ایا تو نظر سیدھا اُسکے سرخ و سفید حسین چہرے پر گئی ۔ وہ ٹکٹکی باندھے اُسکی طرف دیکھتے بیڈ کے پاس پڑے کائوچ پر بیٹھ گیا۔


اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بنائے اپنے لبوں پر رکھے وہ آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے نثار کرنے والی نظروں سے آمنہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔


یہ چہرہ اُسکی چلتی پھرتی سانسوں کی ظمانت تھا ۔ آمنہ کا وجود اُسکی زندگی تھا ۔ وہ تو اُسے پہلی نظر میں دیکھتے ہی اُس پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا ۔ وہ اُسکے دل کو دھڑکاتی اُس میں اپنی جگہ بنا گئی تھی ۔


کالی شرٹ اور کالے ہی سکرٹ جو اسکے ٹخنوں تک تھا ۔ گولڈن بالوں کو کھلا چھوڑے ۔ چمکتی ہیزل بلو آنکھوں اور چہرہ پر حد درجہ معصومیت لئے ایپرن باندھے ہاتھ میں کیک تھامے وہ اپنے گلابی لبوں پر زندگی سے بھرپور مسکان لئے اپنے بابا کے پاس بیکری کے باہر رکھی گئی ٹیبل کے پاس کھڑی تھی ۔ اُن کو اپنے ہاتھ سے کیک کھلا رہی تھی ۔ انکھوں سے اشارہ کرتے اُس نے اپنے بابا سے پوچھا تھا شاید کیسا ہے اور اُسکے بابا نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے اُس کی تعریف کی جس پر وہ کھلکھلا کر ہنس دی ۔ اور بیکری کے آگے اپنی گاڑی خراب ہونے کے باعث دوسری گاڑی کا انتظار کرتے زرقان خان کی دل کی دنیا تباہ کر گئی ۔ زرقان بنا پلک جھپکائے اُسے دیکھے جا رہا تھا ۔


اُسکی آنکھیں اُس پر سے ہٹنے سے انکاری ہوئی دھڑکنیں رفتار پکڑ چکی تھی ۔ اور ہر ایک دھڑکن کی صدا یہی تھی کہ اس دل کی حکومت پر صرف یہی لڑکی حکمرانی کر سکتی ہے ۔


کسی کے بلانے پر آمنہ کیک وہی پر رکھتے اپنے بابا کے ہمراہ بیکری کے اندر بڑھ گئی تھی ۔ زرقان کے قدم اُس ٹیبل کی طرف اٹھے ۔ کیک کے پاس اتے اُس نے کیک کا پیس اٹھاتے کھایا ۔ اور میٹھا نہ پسند کرنے والے زرقان خان کو یہ کیک اتنا پسند ایا کہ وہ کچھ بھی سوچے بنا کیک اٹھا کر ایک نظر بیکری کے اندر ڈالے جہاں وہ اُسے نظر نہ ائی واپس اپنی گاڑی کی طرف ایا ۔ گھر آکر زرقان نے آمنہ کے بارے میں ساری انفارمیشن نکلوالی تھی ۔ اُسکی محرومی کا پڑھتے زرقان کچھ پل سن ضرور ہوا تھا لیکن یہ بات اُسکے لیے معنی نہیں رکھتی ہے ۔ آمنہ کو دیکھتے ہی اُسے ادراک ہو گیا تھا وہ اُس سے محبت کرتا ہے ۔ اور جب محبت ہوجاتی ہے تو محبوب کی کمی اُسکی خامی معنی نہیں رکھتی ۔


وہ آمنہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا لیکن اپنے مشن کی وجہ سے وہ ابھی نہیں کر پایا تھا لیکن اُس کی نظر آمنہ پر ہی تھی۔ اُسے صوفیہ سے پیار کا ناٹک کرنا تھا صوفیہ کا تعلق انڈر ورلڈ سے تھا ۔ یہ بات کامل جانتا تھا کامل کے کہنے پر ہی زرقان ایک بیڈ بوائے بنتا یونی میں ایا تھا اور پھر صوفیہ کے ساتھ پیار کا ناٹک کیا ۔ اس بیچ وہ آمنہ کے وجود کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا آمنہ کہاں جاتی ہے کس سے ملتی ہے اُسے سب معلوم ہوتا تھا ۔ پھر آمنہ یونی ائی ۔ اُسے یونی میں دیکھتے زرقان پریشان ہوا تھا ۔ جانتا تھا وہ سامنے ہوگی تو وہ خود پر ضبط نہیں کر پائے گا اُسکا دل اُسکے قدم اُسکے پاس جانے کے لئے ضد ضرور کرے گے ۔ اور وہی ہوا جس بات کا اسے ڈر تھا وہ خود کو آمنہ سے بات کرنے اُسکے پاس جانے سے روک نہیں پایا تھا اور صوفیہ کی نظروں میں آگیا تھا ۔ اسی لیے اُس نے اج صوفیہ سے وہ سب کہا ۔ تاکہ نہ اُسکا مشن خراب ہو اور نہ وہ آمنہ کو کوئی نقصان پہنچائے ۔ لیکن آمنہ کے سب سن لینے پر زرقان کا دل خوف سے دھڑکا تھا اُسے پہلی بار زندگی میں اتنا خوف محسوس ہوا تھا ۔ اُسے آمنہ کے نزدیک کسی کا وجود برداشت نہیں تھا وہ اُسے لے کر شدت پسند تھا ۔ اسی لئے تو ماسک مین بنتے اُس نے اپنے میوٹ اسپیکر کو اتنا ڈرا دیا تھا کہ وہ کسی غیر مرد کی طرف دیکھ تک نہیں رہی تھی ۔ آمنہ کی آنکھوں میں اپنے لئے پسندیدگی دیکھتے اُسے جو سکون ملا تھا وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا ۔


باہر سے آتی آوازوں پر زرقان ایک آخری نگاہ آمنہ پر ڈالتا باہر نکلا تھا ۔


💗💗💗💗💗


اپنے ماتھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کرتے آمنہ نے اپنی ہیزل بلو آنکھیں کھولی ۔ آنکھیں کھولتے ہی اپنے برابر میں اپنی والدہ نجمہ بیگم کو دیکھتے آمنہ نے اپنی نظریں پورے کمرے میں گھمائیں ۔ انجان کمرہ دیکھتے اُسکی آبرو آپس میں ملی ۔ اُس نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو اُسکے بابا شفقت بھری نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہے تھے ۔


آمنہ نے حیرت سے اس کمرے کو دیکھا جو عالیشان تھا نیوی بلو کلر سے مزین دیواریں گول بیڈ ۔۔بیڈ کے بلکل سامنے اندراج سائز ٹیوی ۔ دائیں طرف سفید اور نیلے رنگ کے صوفے بائیں طرف دو دروازے تھے جو یقیناً واشروم اور ڈریسنگ روم تھا ۔ وہ سن ہوتے پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی جب اُسے سب یاد اتا چلا گیا۔ آمنہ ایک جھٹکے سے اُٹھی ۔ یکدم اٹھنے سے اُسکی قمر میں درد اٹھا ۔ہیزل بلو آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہوا ۔


" آمنہ بچے آرام سے " ۔ نجمہ بیگم نے پیار سے اُسکا ہاتھ پکڑا ۔


نجمہ بیگم کی آواز سنتے آمنہ ابھی کچھ کہتی جب کامل خان اپنی روعب دار شخصیت کے ساتھ اندر داخل ہوا ۔


" نکاح کا انتظام ہوگیا ہے گڑیا کو لے کر باہر آجائے آپ " ۔ کامل نے پشت پر اپنے ہاتھ باندھے سنجیدگی سے کہا۔ آمنہ نے حیرت سے کامل کو دیکھا ۔ وہ پہچان گئی تھی یہ بیہ کے بھائی ہے لیکن یہ یہاں کیا کر رہے تھے اور کیا بول رہے تھے ۔


آمنہ کے والد نے اثبات میں سر ہلایا ۔ کامل کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔


" بابا ۔۔کیا ہو رہا ہے کس کا نکاح ۔۔۔میں یہاں ۔۔ آپ سب یہاں کیوں ہے بابا کیا ہو رہا ہے یہ سب " ۔ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی وہ اپنے والد سے سوال کر رہی تھی دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔


" بیٹا میری بات تحمل سے سنے ابھی آپکا نکاح ہے ۔۔زرقان بہت اچھا لڑکا ہے ۔ وہ آپ سے بہت محبت کرتا ہے ۔ آپکا دھیان رکھے گا ۔ یقین رکھے آپ اپنے بابا پر آپکے بابا کبھی آپکا بُرا نہیں چاہے گے میرا فیصلہ آپکی زندگی خوشیوں سے بھر دے گا " ۔ آمنہ کے والد نے آمنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے نرمی سے اُسے سمجھایا۔ آمنہ کو لگا ساتوں آسمان اُسکے سر پر گر رہے ہو اُسکے بابا یہ کیا کہہ رہے تھے ۔ زرقان سے نکاح ۔۔وہ اُسے سے محبت کرتا ہے ۔ وہ انسان تو اُسکے ساتھ محبت کا کھیل ۔۔۔کھیل رہا تھا ۔


آمنہ نے زور سے نفی میں سر ہلایا وہ اپنے بابا کو کیسے بتائے کہ نہیں ہے یہ سچ ۔


" میرا یقین رکھے بیٹا ۔۔وقت انے پر آپ خود میرا شکریہ ادا کرے گی ۔ وقت انے پر آپکی ساری غلط فہمیاں ختم ہو جائے گی ۔ نجمہ لے کر اؤ اسے باہر " ۔ آمنہ کی آنکھوں میں نظر اتے شکوہ کو نظرانداز کرتے وہ اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے باہر کی طرف بڑھنے لگے جب آمنہ کے اشارہ کرنے پر رکے ۔


" میں آپ دونوں سے نہیں ملو گی میں آپ دونوں سے ناراض ہو جاؤ گی یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے " ۔ بھیگی آنکھوں کے ساتھ تیزی سے اشارہ کرتے وہ اُنہیں دھمکا رہی تھی ۔ آمنہ کے والد بیٹی کے آنسوؤں کو دیکھتے ضبط کرتے باہر نکل گئے انکا فیصلہ آمنہ کے لیے بہترین تھا زرقان امنہ کے لیے بہترین تھا ۔ جس بات کا ادراک آمنہ کو کچھ وقت بعد ہوجانا تھا ۔


اپنے بابا کہ یوں باہر نظرانداز کرتے چلے جانے پر آمنہ سسک پڑی ۔ نجمہ بیگم نے اپنے ساتھ لائے شادی کے جوڑے کو دیکھا جو انہوں نے بہت ارمان سے خود آمنہ کے لیے تیار کرتے اپنے پاس سمنبھال کر رکھا ہوا تھا ۔آمنہ نے اپنی ماں کی طرف بے تاثر نِگاہوں سے دیکھا ۔ اپنے بہتے آنسو اُس نے بیدردی سے صاف کئے لیکن وہ پھر بہہ نکلے ۔ نجمہ بیگم نے نہایت پیار سے آمنہ کا ہاتھ تھامتے اُسے اُسکی جگہ سے اٹھایا اور آمنہ سن وجود لیے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

مولوی صاحب کے برابر میں بیٹھا وہ اضطرابی کیفیت میں اپنی ایک ٹانگ ہلاتا مسلسل کمرے کے بند دروازے کو دیکھ رہا تھا ۔اور کامل خان سخت نظروں سے اُسے ۔ یہ کامل ہی جانتا تھا اُس نے کس طرح آمنہ کے والدین کو راضی کیا ہے اُن دونوں کو راضی کرنے کے لیے اُسے اپنی اور زرقان کی تمام اصلیت بتانی پڑی تھی جسے سنتے آمنہ کے والدین خوش ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑے پریشان بھی ہوئے تھے ۔ اپنی بیٹی کی حفاظت کو لیتے لیکن کامل کے یقین دلانے پر وہ راضی بھی ہوگئے تھے اور پھر زرقان کو اپنے داماد کی صورت میں دیکھتے اُنہوں نے نہ جانے کتنی دفعہ اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا جو اتنا خوبرو محبت کرنے والا ہمسفر اللہ نے اُنکی بیٹی کے نصیب میں لکھ دیا تھا ۔


آخر کار اُس کا انتظار ختم ہوا ۔ دروازہ کھلتے ہی لال رنگ کی سادہ سی زمین کو چھوتی فروک جس کے دامن پر ہلکا ہلکا کام تھا ۔ سر پر لال دوپٹہ اوڑھے جو گولڈن رنگ کے کام سے مزین تھا اور کافی ہیوی لگ رہا تھا ۔ حسین چہرہ بلکل سادہ تھا ۔ صرف لبوں پر لال رنگ کی سرخی لگی ہوئی تھی اور ہیزل بلو آنکھوں میں کاجل کی گہری تہہ ۔ رونے کے باعث گال اور تیکھی ناک قدرتی طور پر لال ہو رہے تھے۔ سو سو کرتی وہ اپنے آپ کو رونے سے باز رکھی ہوئی تھی ۔ زرقان مہبوت سا ہوا ۔ اُسے لگا وہ اپنی جگہ جم گیا ہو ۔ اتنا مکمل حسن ۔۔وہ بنا پلک جھپکائے اُسکی طرف دیکھے جا رہا تھا جو دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی اُسکے نزدیک آرہی تھی اور اُسکے ہر بڑھتے قدم پر زرقان خان کا دل تیز دھڑکتا اُسکا سینے سے سر ٹکراتا باہر نکلتے امنہ کے پیروں میں بچھنے کی ضد کر رہا تھا ۔


اپنے والد صاحب کے برابر میں بیٹھتے آمنہ کی آنکھوں سے آنسو نکلتے اُسکے سرخ عارض تک آئے اور زرقان اُسکے آنسو دیکھتا اپنی مٹھیاں بھینچ گیا۔


" شروع کرے " ۔ کامل کے اشارہ کرنے پر قاضی صاحب نے نکاح کی کاروائی شروع کی ۔


" آمنہ بنت منصور احمد آپکا نکاح زرقان خان ولد فرقان خان سے سکہ راجلوقت مبلغ دو لاکھ حق مہر طے کیا جاتا ہے کیا آپکو قبول ہے " ؟ مولوی صاحب کے کہنے پر آمنہ نے منتشر ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ اپنی آنکھیں اٹھا کر زرقان کو دیکھا تھا جو آنکھوں میں آس اور بیقراری لیے اُسکے جواب کا منتظر تھا۔ آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں شکوہ کے ساتھ ساتھ نفرت کا تاثر جھلکا ۔ زرقان نے جبڑے بھینچتے اُسکی آنکھوں میں نظر اتے یہ تاثرات دیکھے ۔ اپنے ہاتھوں میں اپنے بابا کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے آمنہ نے اپنے لب آپس میں بھینچتے اثبات میں سر ہلایا ۔ آنسوؤں میں روانی ائی ۔ آمنہ کے اثبات میں سر ہلانے پر زرقان نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کی ۔


وہ کر بیٹھی اپنے آپ کو ایسے انسان کے حوالے جس نے اُسکی محبت کو انجوائمنٹ کہا ۔ جو اُس سے محبت نہیں کرتا ۔ جس نے اُسکی محبت کی تذلیل کی ۔ نجمہ بیگم نے نم انکھوں کے ساتھ اپنی بیٹی کے ماتھے پر بوسا دیا۔


قاضی نے زرقان سے پوچھا تو اُس نے سرشار ہوتے خوشی سے پُر مسرت دل کے ساتھ آمنہ کو قبول کیا ۔


نکاح ہوتے ہی کامل اور منصور صاحب نے آپس میں گلے لگتے مبارک باد دی ۔ اور زرقان نے لیپ ٹاپ پر نظر آتے اپنے ماں باپ کو دیکھا جو اُسکی طرف خونخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے جبکہ آمنہ پر نظر پڑتے ہی اُنکے چہروں پر نرمی آجاتی ۔ ایک گہری استحاق بھری نظر آمنہ کے وجود پر ڈالتے وہ لیپ ٹاپ اٹھاتا ایک طرف ایا ۔


" برخوردار جلد ہماری بہو کو لے کر پاکستان آؤ ورنہ پھر شکوہ نہیں کرنا کہ ہم اپنی بہو کو لینے خود وہاں پر آگئے " ۔ فرقان صاحب کے کہنے پر زرقان مسکرا گیا ۔ والدہ نے دل ہی دل میں اپنے خوبرو بیٹے کی نظر اُتاری ۔


" پہلے آپکی بہو کو منا لوں اسکے بعد آجاونگا آپکے پاس پاکستان بس دعا کرے تب تک اللہ پاک آپکو دادا دادی کے رتبے فائز کردے " ۔ ایک آنکھ ونک کرتے شوخ لہجہ میں کہتے وہ اپنے والدین کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گیا۔


" انشاءاللہ انشاءاللہ اب جاؤ بچی کے پاس دھیان رکھنا اُسکا اور اپنا " ۔ والد صاحب کے کہنے پر زرقان نے اثبات میں سر ہلاتے اپنے قدم اپنی نئی نویلی کی دلہن کی طرف بڑھائے جو بلکل سن سی ہوئی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔


" بیٹا میری بیٹی اب آپکی امانت ہے اپنی کل کنجی آپکو سونپ رہا ہوں اس یقین کے ساتھ کہ آپ اُسکا خیال رکھے گے " ۔ منصور صاحب نے زرقان کے پاس انے پر اسکے سر پر ہاتھ رکھے نم لہجہ میں کہا ۔


" یہ آپکی کل کنجی ہے تو میری پوری کائنات ہے انکا خیال میں اپنی جان سے زیادہ رکھو گا " ۔ زرقان نے آمنہ کو دیکھتے گھمبیر لہجے میں کہا اور آمنہ اُسکی بات سنتے سلگ اُٹھی ۔ اُسکا بس نہ چلتا وہ یہاں سے غائب ہوجاتی پتہ نہیں اس انسان نے اُسکے والدین کے ساتھ کیا کیا تھا جو وہ اُسکی حمایت کر رہے تھے۔


" اب رخصت ہونے کا وقت ہوا جاتا ہے بیٹا ۔۔۔ جو تربیت تمیز میں نے تمہیں سکھائی ہے اُن سے اپنے گھر کو سمنبهالنا اپنے شوہر سے محبت کرنا اس گھر کو اپنی محبت سے بھر دینا میری جان ۔۔۔میرا اللہ ہمیشہ ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہے میری بچی "۔ آمنہ کا ماتھا چومتے نجمہ بیگم بھرائی آواز میں گویا ہوئی ۔ آمنہ نے حیرت سے اُنہیں دیکھا کیا وہ اُسے رخصت کر رہی تھی ۔ نہیں وہ اب اور برداشت نہیں کر سکتی تھی صرف نکاح تک ٹھیک تھا وہ اس انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی ۔ آمنہ فوراً سے اپنی جگہ سے اُٹھی ۔


" ماما پلیز نہیں " ۔ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی وہ اُنہیں روک رہی تھی جب انہوں نے شدت سے اُسے اپنے گلے لگایا ۔ آمنہ نجمہ بیگم کے گلے لگے شدت سے رو دی اُسکا سر مسلسل نفی میں ہل رہا تھا ۔ زرقان نے اُسکے آنسوؤں دیکھتے با مشکل خود پر ضبط کیا۔


منصور صاحب کے گلے لگانے پر آمنہ نے ہچکیاں بھرنی شروع کی ۔ وہ مسلسل اپنے بابا کے سینے سے لگی نفی میں سر ہلا رہی تھی ۔ اپنی بیٹی کو اپنے سینے سے الگ کرتے اُس کے سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتے انہوں نے زرقان کے سر پر ہاتھ رکھا آمنہ کا ہاتھ زرقان کے ہاتھ میں دیتے وہ اپنی لاڈلی شہزادی کو اسکے شہزادے کے حوالے کرتے باہر کی طرف بڑھ گئے ۔ کامل بھی مولوی صاحب کو لئے باہر نکلتا چلا گیا ۔


آمنہ لرزتا وجود لئے اُس راستے کو تک رہی تھی جہاں سے اُسکے ماں باپ اُسے چھوڑتے چلے گئے تھے ۔ زرقان نے ضبط سے اُسکے لرزتے وجود کو دیکھا ۔ ابھی آمنہ اپنا لرزتا وجود لیے زمین پر گھٹنوں کے بل گرتی جب زرقان نے جلدی سے آگے بڑھاتے اُسے اپنے بازؤں میں اٹھایا ۔ آمنہ نے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے خود سے دور کرنا چاہا ۔ مکمل مزاحمت کرتی وہ روتے ہوئے زرقان کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن زرقان اُسے اپنی مضبوط گرفت میں تھامے اندر کمرے کی طرف ایا ۔


کمرے میں اتے ہی زرقان نے اپنے ایک ہاتھ سے دروازہ بند کرتے آمنہ کے مزاحمت کرتے وجود کو نہایت نرمی سے بیڈ پر رکھا۔


آمنہ نے سرخ ہیزل بلو بہتی انکھوں سے اُسکی طرف دیکھا اور اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی ۔ غصے اور رونے کی شدت سے اُسکا پورا بدن لرز رہا تھا ۔ آمنہ نے اُدھر اُدھر دیکھا اور جو چیز ہاتھ میں ائی وہ زمین پر پھینکتی چلی گئی ۔ زرقان مطمئن سا اُسے دیکھے گیا جو آپے سے باہر ہوتی اُسکے پرفیوم واس تکیے سب سامان زمین کی نظر کرتی گئی تھی ۔


یہ سب کرتے اچانک سے اُسکا دوپٹہ اُسکے سر سے اُترا اور زرقان کی نظر اُسکی پشت پر پڑی جو فروک کی ڈوریوں کی وجہ سے واضح تھی ۔ اُسکی پشت پر رگڑ کے نشان دیکھتے زرقان کی آنکھیں سرخ ہوئی ۔ وہ ایک ہی جست میں اُس تک ایا جو اُسکی طرف سے پشت موڑے ڈریسنگ ٹیبل سے اُسکے پرفیوم پھینک رہی تھی۔


آمنہ کے بازؤں کو نرمی سے تھامے اس نے اسکا رخ اپنی طرف کیا۔


" میری بات سنو آمنہ " ۔ زرقان نے اُسکی سرخ آنکھیں دیکھتے نرمی سے کہا ۔


" مجھے کچھ نہیں سننا آپ ایک دھوکے باز فریبی انسان ہے ۔۔سنا آپ نے ۔۔مجھے آپ سے نفرت ہے " ۔ زرقان کے ہاتھوں کو جھٹکتے آمنہ نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے لرزتے بدن کے ساتھ کہا ۔ زرقان نے اپنے جبڑے بھینچے آمنہ کی بات پر ۔


" ایک بار تحمل سے میری بات سن لو تمھاری قمر پر چوٹ ائی ہے مجھے وہ دیکھنے دو " ۔ زرقان نے خود پر ضبط کرتے انتہائی نرمی سے اُسکے پاس اتے کہا ۔


" میں نہیں سنو گی آپکی بات ۔۔سنا آپ نے میں کوئی کھلونا نہیں ہو جس سے کھیل کر آپ انجواۓ کرے ۔۔۔میں مر بھی جاؤں تو بھی آپکو کوئی فرق نہیں پڑنا چایئے سنا آپ نے " ۔ زرقان کے اپنی طرف بڑھتے قدموں کو دیکھتے آمنہ نے پیچھے ہوتے اشارہ کیا۔ ۔۔


" آمنہ میں بہت پیار سے بات کر رہا ہوں میرا ضبط مت آزماؤں ادھر اؤ میرے پاس " ۔ زرقان اُسکے لبوں سے ادا ہوئے لفظوں پر بھڑک اٹھا تھا ۔


" میں بول نہیں سکتی تو میں انجوائمنٹ ہوئی صحیح ہے کھیل لیا آپ نے میری محبت کے ساتھ میرے دل کے ساتھ تو اب یہ نکاح کیوں یہ بھی ایک کھیل انجوائمنٹ ہے تاکہ میرے وجود سے بھی کھیل سکے " ۔ آمنہ اشارتاً کہتی زرقان کا فشار خون بڑھا گئی تھی ۔زرقان کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ۔ آمنہ کی بات پر اُسے اپنا آپ جھلستا ہوا محسوس ہوا ۔ وہ ایک ہی جست میں آمنہ تک اتے اُسکے بازؤں کو اپنی سخت گرفت میں لے گیا تھا۔


" آمنہ زرقان خان اپنے لبوں کو لگام دو میں بہت مشکل سے تمہارے لبوں سے یہ لفظ برداشت کر رہا ہوں میری برداشت مت آزماؤں " ۔ سرخ شہد رنگ آنکھیں لئے وہ آمنہ کے چہرے پر جھکے غرایا ۔ اتنی نزدیکی پر آمنہ نے اپنی آنکھیں بند کی اپنے لب آپس میں بھینچے وہ اپنی آنکھیں مینچے زرقان کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر پڑتی محسوس کر رہی تھی ۔


" ہونہہ ناٹک ختم کرے سچ ہے یہ آپ اب میرے وجود سے کھیلنا چاہتے ہیں " ۔ ہمت جمع کرتے آمنہ نے زرقان کی گرفت سے اپنے بازو آزاد کرواتے مضبوط لہجے میں کہا۔


زرقان کی رگیں اشتعال کے مارے پھولی ۔ آمنہ کو کچھ بھی سمجھنے کا موقعہ دئیے بنا وہ آمنہ کے سرخ یاقوتی لبوں پر جھک ایا۔ آمنہ کی پشت پر اپنے ہاتھ رکھتے اُسے خود میں بھینچے وہ شدت سے اُسکی سانسیں پینے لگا۔ آمنہ کے قدم لڑکھڑائے اگر زرقان نے اُسکی پشت پر ہاتھ نہ رکھا ہوتا تو وہ زمین بوس ہو جاتی ۔ اپنی آنکھیں بند کئے وہ اپنے نازک ہاتھوں سے زرقان کے سینے پر مکے برساتی اُسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ لبوں پر لمحہ با لمحہ بڑھتی اُسکی شدت کو محسوس کرتے اُسے اپنے حواس گم ہوتے محسوس ہو رہے تھے ۔


سانسیں تو تب بند ہوتی محسوس ہوئی جب زرقان کی اُنگلیاں اُسے اپنی فروک کی ڈوریوں سے اُلجھتی محسوس ہوئی ۔ آمنہ کو لگا اب وہ اپنے حواس کھو دے گی ۔ اپنے وجود میں اُسے برقی رو سے دوڑتی محسوس ہوئی سارا وجود زرقان کے لمس سے کپکپا اٹھا ۔


آمنہ کی بند ہوتی سانسوں کو محسوس کرتے زرقان اُس سے دور ہوا ۔ لیکن۔ اُسے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا تھا ۔ آمنہ نے گہرے سانس بھرتے اپنی نظریں جھکائی اُس میں اتنی ہمت نہیں بچی کہ زرقان کے چہرے کو دیکھ لیتی ۔ اپنے گالوں سے بھانپ اڑتی محسوس ہوئی ایسا لگا جیسے اسکے گال تپ اٹھے ہو ۔ زرقان نے آمنہ کی سرخ رنگت کو دیکھتے اُسکا رخ یکدم بدلہ آمنہ کی پشت کو اپنے سینے سے لگائے اُس نے آمنہ کی پچھلی گردن سے بال ہٹاتے وہاں اپنے دہکتے لب رکھے ۔ آمنہ کے لمس کو محسوس کرتے وہ مدہوش ہو چکا تھا تمام جذبات انگڑائی لیتے بیدار ہوئے تھے ۔


اپنی گردن پر زرقان کے دہکتے لبوں کا لمس محسوس کرتے آمنہ نے اپنی آنکھیں مینچی اپنے پیٹ پر دھڑے زرقان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے اُس نے اپنی گرفت اُسکے ہاتھوں پر سخت کی ۔۔۔سانسیں تیز ہوئی ۔ وہ کیوں اُسے نہیں جھٹک رہی تھی اُسے اپنا وجود کیوں سن ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس شخص کا لمس اُسے کیوں سکون دے رہا تھا۔


زرقان کے لب اُسکی پچھلی گردن سے سفر کرتے اُسکی قمر تک آئے تھے قمر پر لگے رگڑ کے نشان کو دیکھتے زرقان نے اپنے لب نرمی سے اُسکے زخموں پر رکھے ۔ آمنہ اُسکے لبوں کا لمس اپنے زخموں پر محسوس کرتے سسک اُٹھی ۔ اُسکی برداشت سے باہر ہو رہا تھا اُسکی دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز ہو گئی تھی ۔ آمنہ کی خاموشی زرقان کو اور جسارتیں کرنے پر اکسا رہی تھی۔لیکن خود پر ضبط کرتا وہ آمنہ کو اپنی باہوں میں بھرتے بیڈ تک ایا۔ آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں ٹھہرے آنسو جو تھم گئے تھے دوبارہ بہہ نکلے ۔ زرقان نے خمار بھری نظروں سے اسکے لبوں کو دیکھا جہاں لگی سرخی اُسکی شدت سے پھیل گئی تھی ۔ اور پھر نظر آمنہ کے آنسوؤں پر گئی ۔ زرقان اپنے لب بھینچ گیا ۔ آمنہ کو نرمی سے بیڈ پر لٹاتے اُس نے اُسے کروٹ کے بل کیا ۔ آمنہ تکیہ کو اپنی مٹھی میں دبوچ گئی ۔


سائڈ ٹیبل سے دوائی نکالتے اپنی انگلیوں پر لگاتے زرقان نے نرمی سے آمنہ کی سفید قمر پر لگے زخموں پر لگائی ۔ آمنہ اپنا نچلا لب دانتوں میں دبا گئی ۔


" میں جانتا ہوں تم مجھ سے محبت کرتی ہو جو اج ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا میرے لفظوں نے تمہیں بہت تکلیف دی ہے ۔ لیکن اُن لفظوں کو ادا کرنے کے پیچھے ایک وجہ ہے جانم جو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ۔ وقت انے پر سب کچھ خود تمہارے سامنے آجائے گا " ۔ نرمی سے آمنہ کے زخموں پر مرہم لگاتے وہ گھمبیر لہجے میں کہتے آمنہ کو ہچکیاں بھرنے پر مجبور کر گیا۔


" تم میرا جنون ہو میں تم سے محبت نہیں عشق کرتا ہو ۔ تم میرے لئے کیا ہو اس بات کا اندازہ تمہیں نہیں ہے تمہارا وجود تو میرے لیے سکون کا باعث ہے ۔ تم کیسے وہ لفظ ادا کر سکتی ہو " ۔ زرقان کے لہجے میں شکوہ آسمایا ۔


" بس اتنا کہوں گا میرا عشق سچا ہے میں نے نہ تمھارے دل کے ساتھ کبھی کھیلا ہے نہ کبھی میں ایسا کر سکتا ہوں ۔ اس بات پر یقین رکھو مجھ سے محبت کرتی ہو تو ایک بار یقین رکھ لو اپنے زرقان پر سچائی سامنے آجائے گی بس کچھ وقت درکار ہے " ۔ آمنہ کو سیدھا کرتا اُسکے بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے کہتے اُس نے آمنہ کے ماتھے پر بوسا دیا ۔ آمنہ پر لحاف ڈالتے وہ اُس پر ایک گہری نظر ڈالتے باہر نکلتا چلا گیا ۔ آمنہ نے جو لفظ استعمال کیے تھے وہ بہت سخت تھے ۔ جو زرقان کے دل میں ایک چبھن سی پیدا کر گئے تھے ۔ اسی لیے وہ کچھ وقت اکیلا رہ کر سگریٹ سلگا کر اُن لفظوں سے ملنے والی تکلیف کو کم کرنا چاہتا تھا۔


" آخر ایسی کون سی وجہ تھی جو آپ نے وہ لفظ استمعال کئے ایسی کون سی وجہ تھی جو آپ نے کہا کہ آپ مجھ سے محبت کا ناٹک کرتے ہے ۔ چاہے جو بھی وجہ ہو آپ نے میرا دل توڑا ہے میں آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی " ۔ آمنہ سوچتی اپنی دکھتی آنکھیں بند کر گئی تھی صبح سے جو کچھ ہوا وہ اعصاب شکن تھا کچھ ہی دیر میں اُسکی آنکھوں میں نیند اُتر ائی ۔

" خیریت آپ نے بلایا ہے " ۔ جنید نے حسام کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اُس سے پوچھا ۔ وہ دونوں ابھی کاٹیج کے لاؤنچ میں پڑے صوفے پر بیٹھے تھے ۔ ابھی حسام جواب دیتا جب کامل داخلی دروازے سے اندر ایا ۔


جنید کے ماتھے پر کامل کو دیکھتے بل پڑے ۔ کامل سنجیدہ چہرہ لیے اُن دونوں کے سامنے رکھے گئے صوفے پر بیٹھا ۔ اپنے انگوٹھے سے اپنا ماتھا رب کرتے اُس نے اینویلپ ٹیبل پر رکھا۔ وہ ابھی ابھی زرقان کے نکاح سے فارغ ہوکر گھر ایا تھا سر درد سے پٹھنے کے قریب تھا ۔ حسام اور جنید سنجیدگی سے ماتھے پر بل ڈالے اُسے ہی دیکھ رہے تھے ۔


" میں نے تم دونوں کو ایک ضروری بات کرنے کے لیے بلایا ہے لیکن اُس سے پہلے مجھے یہ بتاؤ یہ کون ہے " ؟


کامل نے سنجیدگی سے کہتے ٹیبل پر سے ائنویلپ اٹھاتے اُس میں سے سدرہ کی تصویر نکالتے ٹیبل پر رکھی ۔ سدرہ کی تصویر دیکھتے جنید کی آبرو تن اُٹھی چہرے پر تناؤ ایا جبڑے بھینچے اُس نے سدرہ کی تصویر اٹھائی جس میں وہ کالے لباس میں کہیں باہر کھڑی ہنس رہی تھی ۔ جنید کی آنکھوں میں پل میں غضب چھلکا تھا ۔ اُس نے غصے کی شدت سے لال ہوتی آنکھوں سے کامل کو دیکھا ۔


" کامل خان یہ میری بیوی ہے ۔ اسکی تصویر یہاں کیا کر رہی ہے " ؟


جنید نے بھینچے جبڑوں کے ساتھ سخت آواز میں کامل سے پوچھا ۔ حسام کے ماتھے پر بھی بلوں کے جال میں اضافہ ہوا تھا ۔ کامل نے اپنی آنکھیں بند کی ۔ وہی ہوا جو اُس نے سوچا تھا یہ دشمن جو بھی تھا صرف اُسکا نہیں تھا یہاں موجود سب کی جانوں کو خطرہ تھا ۔


" کامل خان میں کچھ پوچھ رہا ہوں میری بیوی کی تصویر تمہارے پاس کیا کر رہی ہے " ؟


کامل کو خاموش آنکھیں بند کئے دیکھتے جنید اب غرا اٹھا تھا۔ کامل نے اپنی آنکھیں کھولتے اُسکے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھا ۔


" صرف تمھاری ہی بیوی کی نہیں انابیہ فلک شجیہ ان تینوں کی تصاویر بھی ہے اس اینویلیپ میں اور یہ اینولپ مجھے صبح ریسیو ہوا ہے ۔ اس سے پہلے بھی کئی دھمکی آمیز خط مجھے مل چکے ہیں جس میں میری فیملی کو مارنے کی دھمکیاں ہوتی تھی ۔ اور میری بیٹی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے " ۔


کامل نے سنجیدگی سے کہتے وہ اینویلپ زور سے ٹیبل پر پھینکا جس میں سے انابیہ کی تصویر اور وہ لیٹر باہر نکلا ۔


" کیا مطلب ہے تمھاری بات کا کامل خان کیا کہنا چاہ رہے ہو " ؟


جنید کو اُسکی بات سمجھ نہیں ائی جو بھی مسئلہ تھا اُس میں سدرہ کا کیا لینا دینا تھا اُسکی تصویر دیکھتے جنید کا خون کھول اٹھا تھا ۔ اور کچھ حال ایسا ہی حسام کا تھا جس نے ٹیبل پر سے انابیہ کی تصویر اٹھائی تھی ۔ اور ساتھ میں وہ لیٹر بھی ۔ اور جیسے جیسے حسام لیٹر پر لکھی اُسکے چہرہ تناؤ کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔


" صاف بات ہے کوئی ہے جو صرف میرا یا خضر کا نہیں تم دونوں کا بھی دشمن ہے ۔ اب یہ کون ہے یہ میں نہیں جانتا لیکن وہ خود کو لیپرڈ کہتا ہے ۔ اور ایسے نام ہم سب جانتے ہیں انڈر ورلڈ میں ہی رکھے جاتے ہے اور تُم دونوں کا تعلق بھی انڈر ورلڈ سے رہ چکا ہے اب تم دونوں ہی یہ بتا سکتے ہوں کہ یہ کون ہے " ۔


اپنے ہاتھ باہم ملاتے کہتے وہ اُن دونوں کو پریشان کر گیا تھا ۔ جنید نے حسام کے ہاتھ سے وہ لیٹر تھام کر پڑھا۔


" میں اُسے نہیں جانتا انڈر ورلڈ میں صرف ایک ہی لیپرڈ تھا جو میں ہوں میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا " ۔


حسام نے سنجیدہ آواز میں جواب دیا۔ کامل نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے اُسے دیکھا ۔


" کامل خان غلط بندے پر شک کر رہے ہو میں حسام ملک ہو عورتوں پر وار نہیں کرتا ۔۔۔نہ ہی دشمن کی کمزوریوں پر میری عادت ہے میں چھپ کر وار نہیں کرسکتا ۔۔دشمن کے سامنے آکر اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنا میری فطرت میں شامل ہے " ۔


کامل کو خود کی طرف دیکھتے پا کر حسام نے مضبوط لہجے میں اپنی بات کہی ۔


" یہ جو بھی اسکا نشانہ ہماری فیملی ہے ۔ ہمیں جلد از جلد اُسے ڈھونڈنا ہوگا " ۔ جنید کے کہنے پر حسام نے نفی میں سر ہلایا ۔


" اس کا مین نشانہ ہم ہے وہ ہمیں ہماری فیملی کے ذریعے کمزور کرنا چاہتا ہے " ۔ حسام نے صوفے سے پشت ٹکا کر کہا جبکہ ہاتھ میں بیہ کی تصویر تھامی ہوئی تھی ۔


" اب کیا کرنا ہے ہم اُسے جانتے نہیں ہے ۔ وہ کوئی نقصان نہ پہنچا دے " ۔ جنید فکر مند ہوا ۔


" کل خضر آرہا ہے اُسکے بعد دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے " ۔ کامل نے زرقان کو یاد کرتے کہا ۔


خضر کے انے کا سنتے حسام چونکا ان گزرے پانچ سالوں میں وہ خضر کا سامنہ نہیں کر پایا تھا ۔ ایک عجیب سی شرمندگی سے اُسے محسوس ہوتی ہے جو وہ اُسکی بیوی کو لے کر کرچکا تھا ۔ اُسکے بعد اُس میں ہمت نہیں تھی خضر کا سامنہ کرنے کی ۔


" کل رخصتی کی تقریب ہی میری اور سدرہ کی اُمید کرتا ہوں آپ سب اُس میں شرکت کرے گے " ۔ جنید کے کہنے پر حسام اور کامل نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ اور پھر اثبات میں سر ہلا گئے ۔


کامل اپنی جگہ سے کھڑے ہوتا باہر کی طرف بڑھ گیا اور جون نے اپنا رخ حسام کی طرف کیا ۔


" آپکو کیا لگتا ہے یہ کون ہوسکتا ہے جو آپکا نام استعمال کر رہا ہے " ۔ جنید نے حسام سے پوچھا ۔


" یہ جو کوئی بھی ہے زندہ نہیں بچے گا کیونکہ اس نے دو دو غلطیاں کی ہے ایک میرا نام چڑایا ہے دوسرا اس نے میری بیوی پر نظر رکھی ہے " ۔ اپنے کولر کے بٹن کھولتے حسام نے دانت پیستے کہا ۔


جنید نے حسام کے کہنے پر اثبات میں سر ہلایا اپنے ہاتھ میں تھامی سدرہ کی تصویر پر اُسکی نظر پڑی ۔ تو لب بھینچے تصویر کو اپنی جیب میں رکھ گیا ۔


💗💗💗💗💗💗


سورج کی پہلی کرن جیسے ہی زمین پر پڑی چرند پرند اپنے اپنے رزق کی تلاش میں نکل پڑے ۔ زندگی روزمرہ کی طرح اپنے معمول پر انے لگی ۔ ایسے میں اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں اپنے اوپر وزن محسوس کرتے نیند سے بوجھل آنکھیں کھولتے اُس نے دیکھنا چاہا ۔


جب اُسکی نظر اپنے پیٹ پر سر رکھے چہرے کا رخ اُسکی طرف کیے ترچھا بیڈ پر لیتے زرقان پر پڑی ۔ جو اپنی شہد رنگ آنکھوں کو بند کیے اپنے خوبرو نقوش کے ساتھ گہری نیند میں محو آمنہ کا دل دھڑکا گیا ۔ آمنہ کی نظر اُسکے شرٹ لیس وجود پر پڑی تو چہرے کی رنگت سرخ ہوئی ۔ زرقان کے تیکھے نقوش اپنے اتنے نزدیک دیکھتے آمنہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ ہاتھ خود با خود اُسکی چوڑی پیشانی پر پھیلے بالوں پر گئے ۔ نہایت نرمی سے اُسکے بال اُس نے ماتھے سے پیچھے کیے جو سلکی ہونے کی وجہ سے واپس اُسکے ماتھے پر آ ٹھہرے ۔ کسی فسوں میں ڈوبے آمنہ نے اپنا ہاتھ زرقان کی گھنی پلکوں پر رکھا اس وقت وہ یہ بات بھول چکی تھی کہ کتنی سفاکیت سے اس انسان نے اُسکا دل توڑا تھا اُسے یاد تھا تو فقط اتنا کہ اُسکے انتہائی قریب لیٹا انسان اُسکی محبت ہے جو سوتے ہوئے انتہائی معصوم لگتا ہے ۔


زرقان کی آنکھوں سے سفر کرتی اُسکی اُنگلیاں اُسکی کھڑی مغرور ناک پر ائی اور پھر وہاں سے سفر کرتی اُسکے عنابی لبوں پر ۔ یکدم آمنہ کو یاد ایا کل کس طرح زرقان نے اُسکی سانسیں اپنے قبضے میں لی تھی اُسے اپنے لبوں پر اسکا دہکتا لمس ہوا ۔ پورے وجود میں سرد لہریں دوڑ اُٹھی ۔ انہی لبوں سے تو اُس نے اُسکی پشت پر موجود زخموں پر مرہم لگایا تھا ۔


" بیوی اگر کچھ دیر اور تم نے میرے لبوں پر اپنی نرم اُنگلیاں رکھی تو ضبط کھو بیٹھو گا اور پھر صبح ہی صبح تمہیں اپنی سانسیں تنگ ہوتی محسوس ہونگی " ۔ بند آنکھیں لئے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں کہتا وہ آمنہ کو ڈرا گیا ۔ آمنہ نے یکدم اپنی مخروطی اُنگلیاں اُسکے لبوں سے ہٹائی رنگ سرخ قندہاری ہوا ۔ ایسا لگا جیسے وہ کوئی چوڑی کر رہی ہوں اور پکڑی گئی ہو ۔


آمنہ نے زرقان کے بالوں کو پکڑتے اُسے اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا کہ زرقان نے اُسکی پشت پر ہاتھ لے جاتے اُسکے چہرے کے مد مقابل اپنا چہرہ لاتے اُسکی ناک سے اپنی ناک مس کرتے کروٹ بدلی ۔ اب آمنہ اُسکے اُوپر تھی اور وہ بیڈ پر ۔


یہ عمل اس قدر اچانک تھا کہ آمنہ کو کچھ سمجھ نہ ایا اور جب سمجھ ایا تب وہ زرقان کی گرفت میں مقید تھی جو آنکھوں میں محبت لئے اسکے خوبصورت چہرے کو تک رہا تھا ۔


" گنائدن عشقم " ۔ ( گڈ مارننگ مائے لو )


ترکش میں کہتے زرقان نے آمنہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھے ۔ اور آمنہ نہ سمجھی سے اُسکی طرف دیکھے گئی جبکہ زرقان کے اس عمل پر اُسکی ڈھرکنیں ضرور زور پکڑ چکی تھی ۔


" اتنی اچھی نیند تم نے خراب کردی میری زندگی اب اسکی سزا تو ملے گی تمہیں "۔ شوخ نظروں سے آمنہ کے لال پڑتے چہرے کو دیکھتے زرقان نے گھمبیر آواز میں کہا ۔


زرقان کے اس طرح بات کرنے پر آمنہ کو غصّہ ایا وہ اُسے سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے ان کے درمیان کچھ ہوا ہی نہ ہو جیسے انکے درمیاں سب صحیح ہو ۔


غصے سے زرقان کو دیکھتے آمنہ نے مزاحمت کرتے اُسکی گرفت سے نکلنا چاہا ۔


" افف پہلے دن کی دلہن آنکھوں میں شرم لے کر شوہر کو دیکھتی ہے اور میری بیوی شادی کے پہلے ہی دن اُن خوبصورت جھیل جیسی آنکھوں میں غصّہ لئے مجھے دیکھ رہی ہے "۔ آمنہ کے مزاحمت کرتے وجود پر اپنی گرفت سخت کرتے زرقان نے اُسکی آنکھوں پر پھونک مارتے شوخ لہجہ میں کہا ۔ آمنہ نے اپنی آنکھیں مينچی ۔


" ویسے تمہیں پتہ ہے میں نے بچپن سے سوچ رکھا تھا شادی کرونگا تو کسی ایسی لڑکی سے جس کی آنکھیں جھیل جیسی ہوگی نیلی اور دیکھو میری بیوی کی آنکھیں ویسے ہی ہے "۔ زرقان نے کہتے اپنا ایک ہاتھ آمنہ کی پشت سے ہٹاتے اُسکے چہرے پر ائے بالوں کو پیچھے کرتے نرمی سے کہا ۔ آنکھوں میں چمک جبکہ لبوں پر مسکراہٹ تھی ۔


" آپکو پتہ ہے بچپن سے میں نے بھی سوچ رکھا تھا جس سے شادی کرونگی وہ مجھ سے محبت کرے گا لیکن دیکھے جس سے شادی کی وہ محبت نہیں محبت کا ناٹک کر رہا تھا " ۔ زرقان کی گرفت ڈھیلی محسوس کرتے وہ ایک جھٹکے سے اپنے آپکو آزاد کرواتی اُس سے دور ہوتے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی گویا ہوئی ۔ ہیزل بلو آنکھوں میں تلخئ کا تاثر اُبھرا تھا۔ زرقان نے ہیڈ پر لیتے اپنے لب بھینچے اور پھر خود بھی اٹھ بیٹھا ۔


" آمنہ " ۔ زرقان نے کچھ کہنا چاہا جب وہ اپنے ہاتھ سے اُسے رکنے کا اشارہ کرتی بیڈ سے آٹھ کھڑی ہوئی ۔


" آپ نے محبت کا ناٹک کرنا تھا کر لیا نکاح کرنا تھا کر لیا اب پلیز بس کرے اُس ناٹک کو میں اور برداشت نہیں کرونگی اب " ۔ اشارتاً کہتی وہ زرقان کو جبڑے بھینچنے پر مجبور کر گئی ۔


" کتنی بار بولوں ناٹک نہیں تھا وجہ ہے وہ سب بولنے کے پیچھے اگر ناٹک ہی کر رہا ہوتا تو ابھی تم میرے نکاح میں نہیں ہوتی ابھی تُم پورے حق کے ساتھ زرقان خان کے کمرے میں اُسکی ملکیت بن کر موجود نہ ہوتی " ۔ ایک ہی جست میں بیڈ سے اٹھتے وہ آمنہ کے نزدیک اتے اُس سے ایک قدم کی دوری پر رکتے سرد لہجہ میں گویا ہوا تھا ۔ آمنہ زرقان کی بات پر کچھ پل سن ہوئی پھر تلخئ سے مسکرا دی ۔


" وجہ جو بھی ہو آپ کے لبوں سے ادا ہوئے وہ لفظ میرے دل کو زخمی کر گئے ہے ۔ مجھے اب نہیں یقین آپکے ان لفظوں پر " ۔ نم لہجے میں کہتی وہ زرقان کے چہرے پر ایک بھی نظر ڈالے بنا واشروم کی طرف بڑھتے واشروم میں جا بند ہوئی تھی ۔


آمنہ کے جاتے ہی زرقان نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے خود پر ضبط کیا وہ مجبور تھا وہ آمنہ کو سچائی نہیں بتا سکتا تھا ۔ جب تک اُسکا مشن مکمل نہیں ہوجاتا اور وہ آمنہ کی آنکھوں میں نظر اتی بےاعتنائی اور شکوہ بھی برداشت نہیں کر پا رہا تھا ۔


بیڈ پر پڑی اپنی شرٹ اٹھاتے وہ کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا ۔


💗💗💗💗💗


رات والے ہی لباس میں ملبوس وہ اپنی روئی روئی آنکھوں پر پانی مارتی فریش ہوتی واشروم سے باہر ائی تھی لیکن کمرے میں زرقان کو نہ پاتے اُسے اچنبھا ہوا ۔ بیڈ کے کونے پر پڑا اپنا دوپٹہ اٹھاتے وہ اچھی طرح خود پر اوڑھتے ڈبے قدموں سے باہر نکلی تھی ۔


آمنہ کمرے سے باہر نکلی تو اُسکی آنکھیں ستائش سے پھیلی یہ گھر بہت خوبصورت تھا لاؤنچ میں رکھے گئے صوفے سے لے کر دیواریں تک نیلے اور سفید رنگ سے مزین تھی ۔ جگہ جگہ واس رکھے گئے تھے جن میں رکھے سفید گلابوں کی بھینی بھینی مہک پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی ۔ وسیع لاؤنچ جس کی چھت پر لگا انتہائی خوبصورت فانوس اُسکے کمرے کے بائیں طرف دو اور کمرے تھے ۔ جو بند تھے ۔ بائیں طرف سیڑھیاں تھی جو گولائی میں بنی ہوئی تھی اور اوپر کی طرف جا رہی تھی ۔


لاؤنچ کی طرف سے اتی آوازوں پر آمنہ نے اپنے قدم لاؤنچ کی طرف بڑھائے ۔ لاؤنچ میں اتے ہی اُسکی نظر سامنے اوپن کچن میں پڑی جہاں ایپرن باندھے تیز ہاتھ چلاتے کچھ بناتے زرقان کو دیکھتے آمنہ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹا ۔ اُس نے ایک نظر کچن کے باہر کھڑے ملازم پر ڈالی جو تقریباََ پانچ تھی اور وہ ہاتھ باندھے زرقان کو ہی دیکھ رہی تھی ۔ جو مصروف انداز میں کچھ بنانے کی کوشش کر رہا تھا ۔


آملیٹ بناتے زرقان کی نظر آمنہ پر پڑی تو اُسے خود کی طرف حیرت سے دیکھتا پا کر وہ مسکرا گیا ۔ زرقان کے مسکرانے پر وہ جو اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی ہوش میں ائی ۔ جلدی سے اپنی نظریں اُس نے زرقان سے پھیری ۔


آملیٹ بریڈ اور فریش جوس پلیٹ میں سجاتے وہ ملازمین کو نظرانداز کرتا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھتے ٹیبل پر پلیٹ رکھتے ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے آمنہ کی طرف بڑھا تھا جو نہ جانے زمین پر دیکھتی کیا تلاش کر رہی تھی ۔


" عشقم چلو ناشتہ کرے " ۔ محبت میں ڈوبے لہجہ میں کہتے زرقان نے پورے استحاق کے ساتھ آمنہ کا ہاتھ تھاما اور اُسے لیے ڈائننگ ٹیبل کی طرف ایا ۔وہاں موجود ملازمین کے چہروں پر آمنہ کو دیکھتے ہی پیار بھری مسکراہٹ ابھر ائی ۔ آمنہ چپ چاپ زرقان کے ساتھ چلتی ٹیبل تک ائی ۔


زرقان نے آمنہ کو کرسی پر بٹھایا اور خود دوسری کرسی پر بیٹھتے نوالہ بناتے آمنہ کی طرف بڑھایا ۔ زرقان کہ اتنے محبت بھرے انداز پر آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں نمی چمکی ۔ اُس نے اپنی بھیگی انکھوں سے زرقان کو دیکھا اور اپنا رخ پھیر گئی۔ زرقان نے آمنہ کی اس حرکت پر اپنے لب بھینچے ۔ آمنہ کی تھوڑی نرمی سے تھامتے اُس نے آمنہ کا رخ اپنی طرف کرتے اُسے کھلانا چاہا جب وہ پھر سے زرقان کا ہاتھ جھٹکتے اپنا رخ پھیر گئی زرقان نے جبڑے بھینچتے اپنی ناراض بیوی کو دیکھا ۔ اور پھر سے آمنہ کی تھوڑی تھامتے اُسکا رخ اپنی طرف کیا ۔ نوالہ اُسکے لبوں تک لایا جب وہ پھر سے اپنا رخ پھیر گئی ۔ زرقان نے اب کی بار اپنے جبڑے بھینچے خود پر ضبط کیا ۔ آمنہ کی تھوڑی پر گرفت سخت کرتے اُس نے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے سنجیدگی سے اُسکی آنکھوں میں دیکھا ۔


" عشقم اگر نہیں چاہتی کل رات والا سین دوبارہ دوہرایا جائے یہاں ۔۔تو سیدھی طرح ناشتہ کرو ورنہ مجھ سے شرافت کی اُمید مت رکھنا میں ذرا بےباک قسم کا انسان ہوں اور تمہارے معاملے میں تو ویسے بھی میں ضبط کھو دیتا ہوں " ۔ آمنہ کے چہرے پر جھکتے اُس بار گھمبیر سرگوشی کرتے اپنی دہکتی سانسیں اُسکے خوبصورت چہرے پر چھوڑتے کہا ۔ آمنہ ملازمین کے سامنے اتنی نزدیکی پر سرخ گلاب بنی ۔ زرقان کا کل والا عمل ذہن کے پردوں پر لہرایا تو ریڑھ کی ہڈی سنسنا اُٹھی ۔ آمنہ نے فوراً سے منہ کھولا ۔ زرقان اُسکی حرکت پر مسکراہٹ ضبط کر گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ آمنہ ایسے ہی اُسکی بات مانے گی ۔


محبت سے ڈوبی آنکھوں کے ساتھ وہ آمنہ کو ناشتہ کروا رہا تھا اور آمنہ کو زرقان کا یہ انداز تکلیف دے رہا تھا اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کس بات پر یقین کرے اُن لفظوں پر جو زرقان نے اُسکے لیے استعمال کیے تھے یا پھر زرقان کے ہر انداز سے چھلکتی اُسکی محبت پر ۔۔۔وہ کہہ رہا تھا کوئی وجہ تھی اُس کی وہ سب بولنے کی ۔ تو ایسی کیا وجہ تھی آمنہ کی سمجھ سے سب باہر تھا ۔ وہ پھولا ہوا منہ لئے نم آنکھوں سے زرقان کو دیکھ رہی تھی جب اُسے یاد آیا کہ اج سدرہ کی رخصتی ہے ۔ اُس نے زرقان کو دیکھا جو اب نوالہ بنا رہا تھا اپنے ہونٹ چباتے وہ سوچنے لگی کہ کس طرح سے زرقان سے یہ بات کہے کہ اُسے سدرہ کی رخصتی میں جانا ہے۔


" آج تمھاری دوست کی رخصتی ہے عشقم جلدی جلدی ناشتہ کرو مجھے کہیں کام سے جانا ہے تمہارا ڈریس اور ضرورت کی چیزیں میں بھجوا دونگا اچھی طرح تیار ہوجانا ہم دونوں ساتھ جائے گے " ۔ زرقان نے نوالہ بناتے آمنہ کی طرف دیکھا تو اُسے ہونٹ چباتے دیکھ نہایت نرمی سے اُسکے ہونٹ کو دانتوں سے آزاد کرواتے نرم لہجے میں کہتا آمنہ کو حیرت میں ڈال گیا۔


" ایسے مت دیکھو عشقم تم سے جڑی ہر چیز کے بارے میں تمہارا شوہر واقف ہے " ۔ آخری نوالہ اُسے کھلاتے زرقان نے رومال سے اُسکا منہ صاف کیا ۔ اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔


" میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا کچھ بھی چایئے ہو یہاں ملازمین ہے ورنہ یہ رہا فون ایک میسج کردینا مجھے میں حاضر ہوجائونگا فی امان اللہ " ۔


آمنہ کے ماتھے پر بوسا دیتے گھمبیر لہجے میں کہتا وہ اپنی جیب سے موبائل نکالتا اُسکے ہاتھ میں دیتے باہر کی طرف قدم بڑھا گیا تھا۔ آمنہ نے غائب دماغی سہ پہلے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا جہاں اب بھی اُسکا محبت بھرا لمس محسوس ہو رہا تھا اور پھر اپنے ہاتھ میں پکڑے اُس موبائل کو ۔۔ پھر آمنہ زرقان خان کی نظر زرقان خان کی طرف اُٹھی جو اُسی کی طرف دیکھتے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھا رہا تھا ۔ آمنہ کے یوں دیکھنے پر زرقان لبوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ سجائے اُسکی طرف فلائنگ کس اچھالتے رخ پلٹتا چلا گیا۔ آمنہ نے سرخ چہرے کے ساتھ سٹپٹا کر وہاں کھڑی ملازماؤں کو دیکھا جو اپنا چہرہ جھکائے کھڑی تھی ۔ آمنہ نے سکون کا سانس خارج کیا جبکہ گال زرقان کی اس حرکت پر تپ کر انار ضرور ہوگئے تھے۔

لاؤنچ سے اتی آوازوں پر وہ اور لیزا جو انابیہ کے کمرے میں بیٹھی تیار ہو رہی تھی یہ کہنا زیادہ بہتر تھا کہ لیزا انابیہ کو زبردستی تیار کر رہی تھی متوجہ ہوئی ۔ صبح ہی سدرہ کا فون ایا تھا جس نے اُن دونوں کو اپنی رخصتی کی دعوت دی تھی ۔ لیزا اور انابیہ اُس سے اس بات پر ناراض بھی ہوئی تھی کہ وہ خود کیوں نہیں ائی اور اُس نے اُن دونوں کو اپنا نکاح کا کیوں نہیں بتایا تھا ۔ لیکن سدرہ کے بتانے پر کہ یہ ارجنٹ بیس پر سب کچھ پلین ہوا ہے وہ دونوں مان گئی تھی ۔ انابیہ کا دل تو نہیں تھا تیار ہونے کا لیکن لیزا صبح ہی اتے اُسکے سر پر بیٹھی کبھی ڈریس نکالتی تو کبھی جیولری ۔


" کون ایا ہے اتنا شور کیوں ہو رہا ہے باہر " ۔ لیزا نے انابیہ کے حسین چہرے کو دیکھتے پوچھا ۔ انابیہ نے اپنے کندھے اچکا دیے ۔ جب سے وہ ماسک والے انسان سے اُسکا سامنا ہوا تھا وہ بہت چپ چپ سی رہنے لگی تھی ۔


" چلو دیکھتے ہے " ۔ لیزا کے کہنے پر انابیہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھی۔


وہ دونوں اپنے کمرے سے نکلتے ابھی سیڑھیوں کی طرف آئی ہی تھے ۔ کہ انابیہ کے قدم اپنی جگہ تھم گئے اُسکے دل کی دھڑکن خوف سے بند ہوئی۔ آنکھیں پل میں تحیر سے پھیلی ۔ لیزا نے بھی حیرت سے نیچے لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھے خضر اور شجیہ کو دیکھا اور اپنے قدم نیچے کی طرف بڑھائے ۔ لیزا کی اُن دونوں سے اچھی جان پہچان تھی وہ پہلے بھی کئی بار اُن دونوں سے مل چکی تھی۔


شجیہ کو دیکھتے ہی انابیہ کے گلے میں گلٹی اُبھری ہاتھوں پر پسینہ چھایا کیسا خوف تھا جو اُسے محسوس ہو رہا ہے ۔ شجیہ تو پہلے بھی یہاں اچکی ہے وہ شجیہ سے پہلے بھی تو مل چکی ہے ۔ لیکن پہلے میں اور اب میں فرق تھا پہلے اُسے کچھ یاد نہیں تھا پہلے حسام بھی تو نہیں تھا یہاں ۔۔۔۔اب تو حسام بھی ہے یہاں اور اُسے سب یاد بھی ہے ۔۔۔حسام پھر سے شجیہ کی طرف متوجہ ہوجائے گا ۔۔۔وہ پھر اُسے بھول جائے گا ۔۔۔وہ پھر اپنی محبت سے انکاری ہو جائے گا ۔۔۔یہ سب سوچتے اُسکی جھیل سی سیاہ آنکھوں کے گوشے نم ہوئے ۔ دل اس خوف سے بند ہونے کے قریب تھا ۔ یہ سوچ ذہن میں اتے ہی وہ تڑپ اُٹھی تھی ۔ پورے بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوا ۔ اپنی آنکھیں بند کئے اُس نے خود پر ضبط کرنا چاہا ۔ جب فلک کی آواز پر اُس نے خود کو کمپوز کرتے اپنی آنکھیں کھولی ۔


" انابیہ نیچے اجاؤ " ۔ فلک جو شجیہ کو جوس کا گلاس پکڑا رہی تھی اُسکی نظر جیسے ہی انابیہ پر پڑی وہ بول اُٹھی ۔ فلک کے کہنے پر سب کی نظر انابیہ پر پڑی ۔ شجیہ نے بھی لبوں پر مسکراہٹ لیے انابیہ کو دیکھا جو بیبی پنک رنگ کی گھٹنوں تک اتی کرتی جس کے دامن گلے اور آستینوں پر موتیوں کا کام ہوا تھا ۔ گرارہ پہنے بالوں کی بیچ سے مانگ نکالے دونوں طرف سے پیچھے کی طرف پن کئے لائٹ سے میکپ اور لبوں پر ہلکی پنک رنگ کی لپ اسٹک لگائے چھوٹی چھوٹی جھمکیاں کان میں پہنے انتہائی پیاری لگ رہی تھی جبکہ دوپٹہ ایک طرف کندھے پر رکھا ہوا تھا ۔ انابیہ سیڑھیاں اُترتے نیچے ائی ۔


" اسلام علیکم " ۔ لبوں پر مسکراہٹ لانے کی سعی کرتے اُس نے خضر اور شجیہ کو سلام کیا ۔


" وعلیکم السلام گڑیا " ۔ خضر نے شفقت بھرے لہجے میں جواب دیا ۔


" وعلیکم السلام کیسی ہو انابیہ " ۔ شجیہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے انابیہ کو گلے سے لگاتے محبت سے پوچھا ۔ اس لڑکی کی ہی بدولت اج خضر اور وہ ساتھ تھے اور انابیہ کا یہ احسان وہ کبھی نہیں بھولنے والی تھی ۔ کامل اُسے پہلے ہی بتا چکا تھا کہ انابیہ کی یاداشت واپس اچکی ہے جبکہ حسام کی یہاں موجودگی سے بھی وہ واقف تھی ۔ اور خضر تو پہلے ہی جانتا تھا کہ حسام کینڈا میں ہے ۔


" میں ٹھیک ہو آپ کیسی ہے شجیہ " ؟ انابیہ نے شجیہ کے اس قدر خلوص کو دیکھتے اس بار دل سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔


" میں بلکل ٹھیک بہت پیاری لگ رہی ہو کیا کہیں جا رہی ہے آپ دونوں " ۔ شجیہ نے اُسے اور لیزا کو دیکھتے پوچھا۔


" ہاں ایک رخصتی کی تقریب ہے وہاں جانا ہے " ۔ جواب کامل کی طرف سے ایا۔


" کیا بھائی آپکو بھی بلایا ہے "؟ لیزا نے کامل کی بات پر حیرت سے پوچھا ۔


" ہاں گڑیا آپکی دوست کی جس کے ساتھ رخصتی ہے وہ میرا بھی دوست ہے اسی لیے سب ساتھ چلے گے " ۔ کامل کے کہنے پر لیزا نہ نہ سمجھی سے اپنے کندھے اچکائے سدرہ کا شوہر کامل کا دوست تھا یہ بات اُسے سمجھ نہیں ائی تھی ۔ اُس نے بیہ کی طرف دیکھا لیکن بیہ کا دھیان داخلی دروازے کی طرف دیکھتے اُسے عجیب لگا ۔ وہ کندھے اچکا کر اپنے موبائل میں مصروف ہوگئی ۔


شجیہ کے برابر میں بیٹھتے ہی انابیہ نے اپنی نظروں کو حسام کی تلاش میں دوڑایا داخلی دروازہ کُھلا ہونے کے باعث باہر لون کا حصہ نظر آرہا تھا ۔ کیا حسام نے شجیہ کو دیکھ لیا ہوگا ۔ یہ خوف اُسے سکون کا سانس نہیں لینے دے رہا تھا۔


" جاؤ لیزا گڑیا شاداب کو لون میں سے بلا لاؤ وہ تم دونوں کو چھوڑ آئے گا خضر اور میں تھوڑے وقت بعد وہاں آئے گے " ۔ خضر سے بات کرتے کامل نے اچانک سے لیزا سے کہا جو موبائل پر کیمرا آن کیے اپنی بندیاں ٹھیک کر رہی تھی ۔ اثبات میں سر ہلاتے باہر کی طرف بڑھی ۔


💗💗💗💗

" عزیر یہ کون ہے تم کب سے انکے ساتھ کھیل رہے ہو مجھ سے بات ہی نہیں کر رہے "۔ پانچ سالہ عروہ نے عزیز کو لون کی گھاس پر خوشبو کے پاس بیٹھے دیکھ منہ پھولاتے کہا۔ وہ کب سے یہاں بیٹھی ہوئی تھی لیکن عزیر اُس سے بات ہی نہیں کر رہا تھا۔


" یہ میری بہن ہے اور مُجھے ان سے بات کرنا اچھا لگ رہا ہے ۔ تم بہت فضول باتیں کرتی ہو اسی لئے میں تم سے بات نہیں کر رہا " ۔ عزیر نے سنجیدگی سے عروہ کی طرف دیکھتے کہا ۔ خوشبو نے مسکراتے ہوئے اُن دونوں کو دیکھا ۔ وہ اب خضر اور شجیہ کی فیملی میں پوری طرح شامل ہو گئی تھی ۔


" میں فضول باتیں کرتی ہوں عزیر " ۔ عزیر کے اس طرح کہنے پر عروہ کی حسین آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ نکلے ۔


" ہاں تم فضول بات کرتی ہو " ۔ عزیر نے اُسکے آنسو دیکھتے منہ بناتے ہوئے کہا ۔


" ہونہہ عزیر ایسے نہیں کہتے بہن ہے وہ تمھاری " ۔ خوشبو نے عزیر کو دانتے ہوئے کہا اور عروہ کو اپنے پاس لیتے اسکے آنسو صاف کیے ۔


" نہیں یہ میری بہن نہیں ہے میری بہن صرف آپ ہے " ۔ عزیر نے خوشبو کی بات پر اپنی آبرو ریز کرتے تیزی سے کہا ۔


" آپی میں اسکی بہن نہیں ہوں مجھے نہیں بننا اس کی بہن " ۔ عروہ نے بھی سو سو کرتے کہا ۔


" کیا ہو رہا ہے بچا پارٹی یہ لو آپ لوگوں کی آئس کریم " ۔ شاداب جو بچوں کے ساتھ ہی تھا انکی فرمائش پر سوسائٹی میں موجود سٹور سے آئس کریم لیتے ایا تھا ۔


" چاچو عزیر گنڈا ہے یہ کہہ رہا ہے میں فضول بولتی ہو " ۔ اپنے چاچو کو دیکھتے عروہ کے رونے میں مزید اضافہ ہوا ۔


" ارے میرا بچا وہ تو عزیر آپکو تنگ کر رہا تھا اب چپ کرو لو یہ آئس کریم کھاؤ " ۔ شاداب نے نیچے گھاس پر بیٹھتے عروہ کی طرف ایس کریم بڑھائی جس نے عزیر کو منہ چڑھاتے آئس کریم تھامی تھی ۔ شاداب مسکرا گیا ۔


" یہ لو یہ آپکی اور یہ رہی آپکی " ۔ شاداب نے کہتے شاپر سے آئس کریم نکالتے خوشبو اور عزیر کی طرف بڑھائی جب اُسکے سامنے چوڑیوں سے بھرا ایک ہاتھ آیا ۔


" اور میری " ۔ کھنکتی آواز پر شاداب نے ان حسین چوڑیوں سے بھری کلائی کو دیکھتے اوپر دیکھا جہاں لیزا کو لبوں پر حسین مسکراہٹ لیے دیکھتے وہ سٹل ہوا ۔


سی گرین رنگ کی پیروں کو چھوتی فروک جس پر ہلکا ہلکا کام ہوا تھا ۔ انکھوں میں کاجل ، پلکوں کو مسکارے سے سجاتے لبوں کو پنک رنگ سے رنگے بالوں کی مانگ نکالتے سلور رنگ کی چھوٹی سی بندیاں ماتھے پر سیٹ کیے ہاتھوں میں بھر کر سی گرین رنگ کی کانچ کی چوڑیاں پہنے کانوں میں سلور رنگ کے جھمکے ڈالے وہ شاداب کو اپنی جگہ منجمند کر گئی ۔


شاداب کے یوں ٹکٹکی باندھے خود کو دیکھنے سے لیزا کے بلش لگے گال مزید گلابی ہوئے ۔ اپنے نچلے لب کو دانت تلے دباتے اُس نے اپنی آبرو اچکائی جیسے پوچھا ہو کیا ہوا ۔


" ماشاءاللہ " ۔ لیزا کے چہرے پر اپنی نظریں ٹکائے شاداب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور لیزا اُسکے اس طرح کہنے پر مسکرا دی ۔


" کیا دیکھ رہے ہوں " ؟ شاداب کے یوں دیکھنے پر ابکی بار وہ نروس ہوتے اپنے بال کان کے پیچھے کرتے نظریں جھکاتے گویا ہوئی تھی۔


" یہی کہ اب اپنی محبت کو اپنا محرم بنا لینا چاہیئے " ۔ شاداب نے اُسکی جھکی پلکوں کو دیکھتے گھمبیر لہجے میں کہا۔


شاداب کے اس طرح کہنے پر لیزا کی دل کی دھڑکن نے رفتار پکڑی ۔ اُسکی پلکیں لرز اُٹھی ۔


" بنا لو پھر " ۔ شرم سے جھکی پلکوں سمیت کہتی وہ شاداب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی ۔


" انشاءاللہ بہت جلد آپ میرے نام سے جانی جائے گی محترمہ " ۔ شاداب نے اُسکے حسین چہرے کو دیکھتے اُس کے کندھے پر رکھا دوپٹہ اٹھاتے اُسکے سر پر ڈالا ۔ لیزا نے اپنی شربتی آنکھیں اٹھا کر شاداب کو دیکھا ۔


" مجھے انتظار رہے گا کہ کب آپ آکر مجھے اپنے نام سے منسوب کرتے اپنے سنگ لے جائے گے "۔ دھیمے لہجے میں کہتی وہ شاداب کو سرشار کر گئی۔


" اب چلے ہمیں جانا ہے " ۔ لیزا کے کہنے پر شاداب اثبات میں سر ہلاتے گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ جبکہ لیزا اُن تینوں بچوں کو لیتی اندر چلی گئی ۔


💗💗💗💗💗💗


" مطلب تمھارے فوٹ بال کوچ ہی تمھارے شوہر ہے سدرہ ۔۔۔اور نکاح بہت پہلے ہی ہوچکا تھا اور وہ کامل بھائی کے دوست بھی ہوئے پھر " ۔ لیزا نے اُسکے سر پر بندیاں سیٹ کرتے حیرت سے پوچھا ۔


" ہم ہم "۔ سدرہ نے اپنے گلے میں پہنے بار کو صحیح کرتے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ انابیہ اور لیزا کو سب بتا چکی تھی ۔


" تم دونوں کی لو سٹوری میں کتنے ٹویٹس ہے یار بیہ ذرا دوپٹہ پکڑانا مجھے " ۔ لیزا نے بندیاں سیٹ کرتے بیہ کو مخاطب کیا ۔ جو بیڈ پر بیٹھی اپنے ہاتھوں میں جانے کیا تلاش کر رہی تھی ۔


" انابیہ " ۔ لیزا اور سدرہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر یک زبان میں اُسے پُکارا ۔


" ہاں ہاں کیا ہوا " ۔ بیہ یکدم ہوش میں اتے بولی ۔


" کیا ہوا ہے تم پریشان ہو " ۔ سدرہ نے مڑتے بیہ کے مرجھائے چہرے کو دیکھتے پوچھا ۔


" شجیہ ائی ہے حسام پھر سے اُنکی طرف تو متوجہ نہیں ہونگے " ۔ بیہ پریشانی سے کہتی اپنے دل کی بات اُن دونوں کے سامنے رکھ گئی ۔


سدرہ اور لیزا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا انابیہ کا ماضی سدرہ جان گئی تھی منگنی والے دن اُسکے سامنے تو انابیہ کو سب کچھ یاد آیا تھا اور پھر باقی بات اُس نے سدرہ سے پوچھ لی تھی جس نے آمنہ اور اُسے سب کچھ بتا دیا تھا ۔ وہ چاروں کم وقت میں ہی ایک دوسرے کی بہترین دوست بن گئی تھی ۔ اسی لیے اُنکے بیچ اب کوئی راز نہیں تھا ۔


" مجھے تو ایسا نہیں لگتا ۔۔۔جس طرح حسام سر تمہیں لے کر جنونی ہوگئے ہیں اُس سے صاف ظاہر ہے وہ صرف اور صرف تم سے محبت کرتے ہیں اور وہ بھی سچی ۔۔اور میں یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہو جب مرد کو کسی عورت سے سچی محبت ہوجاتی ہے اُسکے لیے دنیا میں باقی عورتوں کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا " ۔ اپنا لہنگا سنبھالتی سدرہ اپنی جگہ سے اٹھتی انابیہ کے پاس آکر بولی ۔ انابیہ نے سیاہ نم انکھوں سے سدرہ کی طرف دیکھا ۔


" سچ میں " ۔ معصومیت سے پوچھا گیا۔


" سچ میں کیا تمہیں نہیں یقین اُن پر ۔۔کیا تمہیں اُنکی نظروں میں نظر آتی اپنے لئے محبت پر شک ہے " ؟ سدرہ نے اُسکے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے پوچھا ۔ سدرہ کے بولنے پر بیہ کو حسام کا اپنے لیے جنونی پن یاد آیا ۔ اُسکی آنکھوں میں تڑپ ندامت سب یاد اتا گیا۔


" یقین تو ہے مجھے اُن پر لیکن دل میں ڈر سا بیٹھ گیا ہے "۔ بیہ نے اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا۔ وہ جب گھر سے آرہی تھی تب بھی اُسے حسام نظر نہیں آیا تھا ۔ اور یہ بات اُسے مزید بیچین کر گئی تھی ۔


" ڈر کو دل سے نکال دو اور سکون سے میری شادی انجواۓ کرو سمجھ ائی ایک تو یہ آمنہ بھی پتہ نہیں کہاں رہ گئی ہے " ۔ سدرہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور ایک نظر گھڑی کو دیکھا جہاں پانچ بج چکے تھے اور کچھ ہی دیر میں اُسے باہر جانا تھا ۔ لیکن آمنہ کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔


" لو بھائی دلہن تیار ہی نہیں ہوئی ابھی تک " ۔ صائمہ نے کمرے میں اتے ہوئے سدرہ کو دیکھتے کہا۔


" دلہن بلکل تیار ہے بس دوپٹہ رہ گیا ہے بھابھی " ۔ لیزا نے جلدی سے کہا۔


" جلدی سے سیٹ کرتے آجاؤ باہر تمہارے دولہے راجہ اگئے ہے اور بصبری سے انتظار کر رہے ہیں " ۔ صائمہ ایک نظر سدرہ کے دلہن راپے پر ڈالتی دل ہی دل میں اُسکی نظر اُتارتے کہتی چلی گئی ۔ صائمہ کی بات پر سدرہ کا دل دھڑکا ۔ بیڈ سے اٹھتی وہ آئینے کے سامنے ائی ۔ ایک نظر خود کو دیکھا۔ بھاری زیورات پہنے میکپ کیے لبوں کو سرخ رنگ سے رنگے ناک میں نتھنی پہنے وہ آسمان سے اُتری کوئی پری لگ رہی تھی ۔ میکپ نے اُسکے تیکھے نقوش کو مزید اجاگر کر دیا تھا ۔ لیزا نے دوپٹہ اٹھاتے اُسکے سر پر سیٹ کیا اور سدرہ اپنے آپکو دیکھتے اپنے دل پر ہاتھ رکھ گئی جو جنید کے سامنے اس روپ میں جانے کا سوچتے تیز دھڑک رہا تھا ۔


" چلو چلے دلہن تیار ہے " ۔ لیزا نے کہتے سدرہ کا ہاتھ تھاما انابیہ بھی اپنی جگہ سے اُٹھتی سدرہ تک ائی اور اسے لئے باہر نکلی ۔

" میم سر آگئے ہے آپکا انتظار کر رہے ہیں " ۔ آمنہ آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے آپکو دیکھ رہی تھی جب ملازمہ کے کہنے پر اُس نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اور اٹھتے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔


وہ جو گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا اپنے موبائل میں مصروف تھا۔ ایک تیز خوشبو بھرے ہوا کے جھونکے پر اُس نے اپنی نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا اور سامنے نیلی فروک میں اپنی طرف قدم بڑھاتی آمنہ کو دیکھتے زرقان کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی ۔ وہ اُسکی بھیجی گئی آسمانی رنگ کی فروک میں لائٹ سا میکپ اور لائٹ سی جیولری پہنے آرام ارام سے قدم بڑھاتی ہوئی اُس تک آرہی تھی ۔ اور زرقان مہبوت سا اُسے دیکھے جا رہا تھا۔


وہ جو نظریں جھکائے زرقان کی طرف بڑھ رہی تھی اپنے اوپر پڑتی اُسکی تپش زدہ لو دیتی نظریں محسوس کر سکتی تھی ۔ اُسکے ہاتھ پیسنے سے بھرے ۔ زرقان سے ایک قدم کی دوڑی پر رکتے اُس نے اپنی ہیزل بلو آنکھیں اٹھا کر زرقان کی طرف دیکھا۔


زرقان نے آمنہ کے حسین چہرے کو اپنے نزدیک دیکھتے اپنی جیب سے نوٹ نکالتے اُسکے سر پر سے واڑے ۔ زرقان کی اس حرکت پر آمنہ کی پلکیں لرز اٹھی ۔دل نے سینے میں شور مچایا۔


" عشقم اتنا تیار ہونے کی کیا ضرورت تھی کیسے برداشت کرونگا میں تم پر کسی کی بھی نظریں "۔ آمنہ کے حسین چہرے کو دیکھتے زرقان نے جھنجھلا کر کہا۔ آمنہ نے لرزتی پلکیں لئے اُسکی طرف دیکھا۔


زرقان امنہ کے چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے بیخود ہوتا ایک قدم کی بھی ڈوری مٹاتے اُسکے چہرے پر جھکا ہی تھا جب آمنہ نے اُسکے ارادے جانتے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھا ۔


" ہمیں دیر ہو رہی ہے " ۔ زرقان کے سینے پر ہاتھ رکھتے دور ہوتے اپنے تاثرات پر قابو پاتے امنہ نے اشارہ کرتے کہا۔


" اچھا چلتے ہے کیسا لگ رہا ہوں ویسے میں "۔ آمنہ کے دور ہونے پر اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے زرقان نے پوچھا ۔ امنہ نے زرقان کے پوچھنے پر اُسکی طرف دیکھا جو بلیک ٹو پیس میں ہر وقت بکھرے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ہاتھ میں بینڈز کے بجائے گہری پہنے پیارا لگ رہا تھا۔


" بلکل بھی اچھے نہیں لگ رہے ہے آپ جھوٹے اور فریبی لگ رہے ہیں " ۔ زرقان کو دیکھتے اپنے پاگل ہوتے دل کو سنبھالتے اُس نے تلخئ سے کہا اور زرقان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ پل میں سمٹی۔ چہرے پر سے نرم تاثر پل میں غائب ہوا ۔ اپنے جبڑے بھینچے اُس نے آمنہ کو دیکھا جو اُس سے دو قدم کی دوری پر تھی۔


" معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ ظالم بھی ہو پل میں دل کو توڑ دینے کا ہنر رکھتی ہو " ۔ سنجیدگی سے کہتے اُس نے گاڑی کا دروازہ کھولا زرقان کے اس طرح بولنے پر آمنہ نے اپنے لب بھینچے اور گاڑی کے نزدیک ائی ۔


" کم سے کم آپکی جتنی ظالم نہیں ہو جو دل توڑنے کے ساتھ ساتھ کسی کی محرومی کا مذاق بھی اڑاؤ " ۔ گاڑی کے دروازے پر رکتے اشارتاً کہتی وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ۔ زرقان نے اپنی مٹھی بھینچے خود پر ضبط کیا نیچے جھکتے آمنہ کہ دوپٹہ جو باہر کی طرف نکلا ہوا تھا اٹھاتے اُسکی گود میں رکھا ۔ اور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا۔


آمنہ نے ایک نظر زرقان کو دیکھا جو سنجیدگی سے سڑک پر دیکھتا گاڑی چلا رہا تھا۔ پھر اپنی نظرے اُس پر سے پھیرتے اُس نے باہر نظر اتے مناظر پر مرکوز کی ۔

💗💗💗💗


پورے لون کو برقی ققموں سے سجایا گیا تھا ۔ لون کے ایک طرف اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں پر ایک صوفہ رکھا گیا تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ٹیبل اور کرسیاں سیٹ کی گئی تھی ۔ ٹیبل کے سینٹر میں ایک لیمپ ٹائپ شو پیس رکھا گیا تھا ۔ ہلکے ہلکے سرو میں گانا بجتا وہاں ایک طلسماتی ماحول بنا گیا تھا۔ سورج بھی ڈوبنے والا تھا جس کی وجہ سے دھوپ میں کمی آگئی تھی اور شام کا سماں بندھ گیا تھا ۔


وہ حسام اور شاداب کے ساتھ اسٹیج پر کھڑا شدت سے سدرہ کا انتظار کر رہا تھا اجمیر صاحب اور حمزہ چہرے پر خوشی کی چمک لئے مہمانوں سے مل رہے تھے ۔ شاداب کے فرینکلی نیچر کی وجہ سے وہ تینوں آپس میں کافی گھل مل گئے تھے ۔


سفید کرتے پاجامہ پر بلیک واسکٹ پہنے بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے وہ براؤن آنکھوں میں دنیا جہاں کی خوشی لئے انٹرنس پر نظریں جمائے ہوئے تھا جہاں سے اُسکے دل کی ملکہ نے انا تھا ۔


بلیک رنگ کاٹن کی شلوار قمیض پہنے سیاہ بالوں کو سیٹ کیے ہاتھ میں گھڑی باندھے پیروں میں پشاوری چپل پہنے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے سیاہ انکھوں میں بیہ کے انتظار کے دیپ جلائے وہ تقریب میں ائی لڑکیوں کے دل کو دھڑکا گیا تھا وہاں موجود ہر نظر اس پُر کشش سیاہ انکھوں والے خوبرو شہزادے پر تھی لیکن اُسکی نظریں تو اپنی سیاہ انکھوں والی شہزادی کو تلاش کر رہی تھی ۔


آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی مدھم سروں کے سر بدلے اور سب کی نظریں انٹرنس پر گئی ۔ جنید نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے لبوں پر رکھتے گہرا سانس بھرا ۔


وہ لال جوڑے میں پور پور اُسکے لیے سجی اُسکی طرف اپنے قدم بڑھا رہی تھی اُسکے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی ۔ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی وہ جنید کی دھڑکنوں میں قہرام مچا چکی تھی ۔ اُسکے اپنی طرف بڑھتے ہر قدم پر جنید کو اپنا دل ایک الگ تال پر دھڑکتا محسوس ہوا ۔ دل تو اُسکی بندیاں اُسکی نتھنی اور اُسکے لبوں پر ٹھہری مسکراہٹ پر ہی اٹک گیا تھا ۔


سدرہ کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ اُس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جیسے شکریہ ادا کیا ہو اور پھر ایک حسین مسکراہٹ سجآئے اپنی زندگی کو ۔


کچھ ایسا ہی حال حسام کا تھا وہ یک تک سدرہ کا ہاتھ پکڑے اپنے غرارے کو سنبھالتی انابیہ کو دیکھے گیا اُسے سامنے دیکھ کر دل کو جو سکون ملتا تھا وہ کسی اور چیز میں نہیں تھا ۔ وہ سجی ہوئی سیدھا حسام کے دل میں اُترتی اُسکی دل کی دنیا تہہ بالا کر گئی تھی ۔ اور شاداب وہ تو بس نظر بھر کر اپنی محبت کو دیکھ رہا تھا جو چہکتی ہوئی چڑیا بنی ہوئی تھی ۔


اپنے غرارے کو صحیح کرتے بیہ نے اپنی نظریں اسٹیج کی طرف کی تھی اور وہاں اپنے حسام کو کھڑا دیکھ اُسکے دل میں سکون بھرتا چلا گیا ۔ جن سیاہ انکھوں میں تھوڑی دیر پہلے اضطراب پھیلا ہوا تھا اب اُن سیاہ انکھوں میں سکون ہچکولے لے رہا تھا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے جیسے ایک پل بھی پلک جھپکائی یا نظر پھیری تو یہ حسین منظر ختم ہوجائے گا گُم ہو جائے گا ۔ دونوں کی آنکھوں میں اس وقت ایک دوسرے کے لیے صرف اور صرف محبت تھی طلب تھی شدت تھی ۔


اسٹیج کے پاس اتے لیزا نے سدرہ کا ہاتھ جنید کی طرف بڑھایا تھا جس نے سرشار ہوتے سدرہ کا نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما تھا ۔ اپنے ہاتھ پر جنید کی مضبوط گرفت محسوس کرتے سدرہ کا ہاتھ اُسکی گرفت میں لرز اٹھا تھا ۔


سدرہ کے لہنگے کو پکڑتے جنید نے اُسے مدد دی اسٹیج پر چڑھنے میں ۔۔۔بیہ نے اسٹیج کے پاس اتے حسام پر سے اپنی نظریں پھیری تھی اور سدرہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔ جبکہ حسام دھیٹوں کی طرح اُسے ہی دیکھے جا رہا تھا ۔ بیہ کا دھیان اب جنید پر پڑا تھا اور اُسے سدرہ کے شوہر کے روپ میں دیکھتے اسے حیرت ہوئی تھی ۔


جنید نے سدرہ کا ہاتھ تھامے اُسے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا ۔۔۔لیزا بھی اُسکے پاس اتے کھڑی ہوئی ۔ جبکہ انابیہ صائمہ کے بلانے پر اُسکی طرف چلی گئی ۔ حسام کی نظروں نے بیہ کا پیچھا کیا اور اُسے اندر کی طرف جاتے دیکھ وہ پل میں اپنے قدم اُسکے پیچھے بڑھا گیا رہا تھا ۔


اجمیر صاحب اور حمزہ نے اسٹیج پر اتے اُن دونوں کی نظر اُتاری تھی ۔


" یہ مسکان کیوں تمہارے چہرے پر جم گئی ہے " ۔شاداب نے لیزا کے پاس اتے اُسے حسین مسکراہٹ لئے سدرہ اور جنید کی طرف دیکھتے پوچھا ۔


" تم بھی شادی کا جوڑا مجھے اپنی پسند کا دلانا اور ایسے ہی جب میں تمہارے نکاح میں بندھتے تمھاری طرف اپنے قدم بڑھاؤ گی نہ تو تم بھی جنید بھائی کی طرح آنکھوں میں خوشی کا جہاں لئے مجھے دیکھنا کینگرو " ۔ لیزا نے حسرت بھرے لہجے میں سدرہ اور جنید کی طرف دیکھتے شاداب سے کہا ۔ جو اُسکی بات پر نفی میں سر ہلاتے ہنس دیا ۔


" جب تم میری پسند کے جوڑے میں میری بنتے میری طرف قدم بڑھاؤ گی نہ تو قسم لے لو میں بھنگڑے ڈالوں گا " ۔ شاداب نے لیزا کے حسین چہرے کی طرف دیکھتے کہا ۔


" ہاہاہا ۔۔کیسا لگے گا ایک پٹھان اپنی دلہن کو اتے دیکھ بھنگڑے ڈالے گا سب بولے گے کہ میں نے تم پر کالا جادو کر دیا ہے " ۔ لیزا نے ہنستے ہوئے کہا ۔


" لو اب کیا پٹھان اپنی من پسند عورت کو اپنا محرم بنتے اپنی طرف بڑھتے دیکھ خوشی میں بھنگڑا نہیں ڈال سکتا تھا اور دنیا کو جو سوچنا بولنا ہے بولنے دو میرے لئے تم ضروری ہو " ۔ شاداب نے اُسکے کندھے سے اپنا کندھا مس کرتے کہا ۔


" اچھا اچھا بس صحیح اب اس بارے میں نہیں سوچنا صحیح ہے میں نے سنا ہے جو پہلے سے سوچ لو ویسا نہیں ہوتا کچھ بھی " ۔ لیزا نے جلدی سے کہا ۔


" یہ کیا بات ہوئی میں تو ہر روز تمہیں اپنی دلہن کے روپ میں سوچتا ہوں اور دیکھنا ایک دن انشاءاللہ ایسا ہوگا ضرور اور وہ دن جلد ہی ائے گا "۔ شاداب نے مضبوط لہجے میں کہا۔


" انشاءاللہ " ۔ لیزا نے زیرِ لب کہا ۔ اور اسٹیج سے اُترتی صائمہ کے پاس چلی گئی ۔


💗💗💗💗💗


بیہ کچن میں صائمہ کے کہنے پر مہمانوں کے لیے ریٹرن گفٹ کی ٹوکری لینے ائی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے باکس تھے ۔ وہ ٹوکری لیتے پلٹی ہی تھی کہ غرارے میں اُسکا پاؤں ایا ابھی وہ لڑکھڑا کر نیچے گرتی جب اُسکی طرف ہی اتے حسام نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچا ۔ ٹوکری زمین پر گری اور وہ حسام کے سینے کا حصہ بنی ۔ بیہ گہرے سانس لیتے آنکھیں مینجے حسام کے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔حسام کے پاس سے اُٹھتی مردانا کلون کی خوشبو اُسکے حواسوں پر حاوی ہوئی تھی بیہ نے ایک گہرا سانس بھرا اُسکی خوشبو میں ۔ حسام نے اُسے یوں اپنے سینے سے لگا دیکھا تو عنابی لبوں پر مسکراہٹ لیے اُسکی بل کھاتی قمر پر اپنا ہاتھ رکھا ۔


اپنی قمر پر حسام کے ہاتھ کو محسوس کرتے بیہ کے وجود میں سنسنی سی دوڑی اُس نے جھٹکے سے سر اٹھاتے حسام کو دیکھا جو اُسکی طرف ہی شوخ نظروں سے دیکھا ۔


" پرفیوم اچھا ہے نہ " ۔ حسام نے اُسکی سیاہ آنکھوں میں اپنی سیاہ انکھوں سے دیکھتے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا ۔


" ہمم " ۔ بیہ اُس ساحر کی ساحرانہ مسکراہٹ کو دیکھتے کھوئے کھوئے لہجے میں بولی ۔


" نہیں کرو یارا اس طرح دیکھو گی تو خود پر ضبط نہیں کر پاؤگا " ۔ بیہ کی نظریں خود پر محسوس کرتے حسام نے بوجھل لہجہ میں اُسکے چہرے پر جھکتے کہا ۔ حسام کی سرگوشی پر بیہ جلدی سے اُسکی گرفت سے نکلی ۔ اپنی بیخودی کا خیال آیا تو پلکیں لرز اٹھی ۔ حسام سے نظریں چُراتے اس نے نیچّے پڑے باکسز کو دیکھا تو اُنہیں اٹھانے کے لیے جھکی ۔ بیہ کو نیچے زمین سے چیزیں اٹھاتے دیکھتے حسام بھی نیچے جھکا۔


حسام کا اپنے پاس بیٹھنا وہ نوٹ کر چکی تھی پھر بھی نظرانداز کر گئی ۔ اور نیچے زمین پر پڑے باکس اٹھانے لگی ۔ حسام باکس کم اٹھا رہا بیہ کو دیکھ زیادہ رہا تھا ۔


تو بے مثالِ ہے تیری کیا مثال دو ،،،

آسمان سے ائی ہے یہی کہہ کے ٹال دو ،،،،

پھر بھی کوئی جو پوچھے کیا ہے تو کیسی ہے ،،،،،

ہاتھوں میں رنگ لے کر ہوا میں اچھال دو ،،،،،


حسام نے بیہ کے حسین چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے گانا گنگنایا ۔


بیہ نے حسام کے یوں گنگنائے پر اپنی پاگل ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالنا چاہا ۔ اپنے تاثرات پر قابو پاتے اُس نے آنکھوں میں غصّہ لیے حسام کی طرف دیکھا جس نے اُسکے دیکھنے پر لبوں پر مسکراہٹ لیے ایک آنکھ ونک کی ۔ بیہ کے ہاتھ سے ڈبہ نیچے گرا ۔ حیرت کے مارے اُسکا منہ کھلا ۔ چہرہ بھانپ چھوڑنے لگا ۔ بیہ نے سٹپٹا کر اپنی نظریں حسام سے پھیری یہ بندہ اُسے دل کا مریض بنا کر ہی چھوڑے گا ۔


آخری باکس بیہ کو اٹھاتے دیکھ حسام نے جلدی سے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔ بیہ کے ماتھے پر پسینہ چمکا ۔ اُس نے نظر اٹھا کر حسام کو دیکھا جو گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔ بیہ کے دیکھنے پر حسام نے اُسے پل میں کھینچتے اپنے قریب کیا ۔بیہ کے وجود میں برقی رو دوڑ اٹھی ۔ سانسوں کی امدو رفت ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی اُس نے حسام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُسکا سہارا لیا ۔ گالوں پر سرخی چھائی لال چہرہ لیے اُس نے زرقان کو دیکھا جو اُسے لو دیتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔


" حسام ملک بیہ حسام ملک سے کچھ پل مانگتا ہے کیا بیہ حسام ملک اُسکی جھولی میں کچھ پل ڈال دے گی جس میں صرف حسام ہو اور اُسکی بیہ ہو " ۔ بیہ کے گال پر اپنی ناک ٹریس کرتے حسام نے بوجھل گھمبیر لہجے میں کہا ۔ بیہ نے حسام کے لمس پر اپنی آنکھیں بند کی ۔ سانسیں بری طرح پھولی تھی ۔


" صرف کچھ پل جس میں دنیا کی فکر نہ ہو جس میں ماضی نہ یاد ہو جس میں مستقبل کی کوئی فکر نہ ہو جس میں صرف میں ہوں اور تم ہو ۔۔۔جن لمحوں میں تمہاری اور میرے دل کی دھڑکن ایک تال پر دھڑکے "۔ حسام نے گھمبیر سرگوشی کرتے اُسکے کان کی لو پر اپنے لب رکھے اور بیہ نے اُسکے کندھے پر اپنی گرفت سخت کی ۔ اُسکا دل پسلیوں سے سر ٹکڑا رہا تھا ۔


" کسی ایسی جگہ یہ پل بتائے جہاں کوئی اور نہ ہو جہاں جاتے تمھاری ناراضگی تمہارے شکوہ سب دور ہوجائے کیا کرونگی مجھ پر یہ احسان " ۔ بیہ کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکائے حسام نے اُسکی مہکتی سانسیں انہیل کرتے پوچھا ۔


بیہ کو سمجھ نہ ایا کیا کہہ کیا کرے وہ بس آنکھیں بند کیے اپنے انتہائی نزدیک اس جادوگر کی خوشبو اُسکی مخمور آواز اُسکا لمس محسوس کر رہی تھی ۔ اُسکی سانسیں ایسے چل رہی تھی جیسے نہ جانے کتنی دور سے بھاگ کر ائی ہو اور دھڑکنیں اُنکی تو بات ہی نہ کرو وہ تو ویسے ہی اس جادوگر کو دیکھتے ٹرین کی اسپیڈ سے دوڑنے لگ جاتی ہے ۔


" میں باہر بہت شدت سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں اُمید ہے بیہ حسام ملک حسام ملک پر یہ احسان ضرور کرے گی بہت آس سے تمہارے کچھ پل مانگ رہا ہوں " ۔ بیہ کے ہونٹوں کے پاس اپنے لب رکھتے وہ کہتا اٹھتا بیہ کے گہرے سانسیں بھرتے وجود پر گہری نظر ڈالتا باہر کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔


بیہ نے حسام کے جاتے ہی اپنے دل پر ہاتھ رکھا ۔ ایک گہرا سانس بھرتے اُس نے اپنی سانسوں کو استعال پر لانا چاہا۔ لبوں پر کب مسکراہٹ نے بیسرا کیا اُسے پتہ ہی نہیں چلا ۔ دل تو جیسے کہہ رہا تھا کہ اٹھو جاؤ اُسکے پیچھے ۔


نظر نیچے پڑی ٹوکری پر گئی تو ماتھے پر ہاتھ مارا ۔ جلدی سے آخری باکس ٹوکری میں ڈالتے وہ باہر بڑھی ۔


💗💗💗💗💗

زرقان نے گاڑی سدرہ کے گھر کے باہر روکی تو آمنہ نے اُس پر اپنی نظریں مرکوز کی ۔


زرقان نے اپنی طرف کا دروازہ کھولا ۔ آمنہ کی طرف اتے اُس نے آمنہ کی طرف کا دروازہ کھولا اور آمنہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۔ آمنہ نے ایک نظر زرقان کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ میں دیا ۔ وہ سمجھی زرقان جس قدر سنجیدہ دکھ رہا ہے وہ اُسکے ہاتھ پر اپنی گرفت سخت کرے گا لیکن زرقان نے اُسکا ہاتھ انتہائی نرمی سے تھام رکھا تھا ۔


آمنہ کے گاڑی سے نکلتے ہی زرقان نے گاڑی کا دروازہ بند کیا ابھی وہ اندر بڑھتے جب آمنہ کے والدین اُنکی طرف ائے جو شاید خود بھی ابھی ابھی آئے تھے ۔ زرقان نے اُن دونوں کو دیکھتے سلام کیا ۔ جبکہ آمنہ نے شکوہ بھری نظروں سے اپنے ماں باپ کو دیکھا ۔ اجمیر صاحب نے آگے بڑھ کر اسکے ماتھے پر شفقت بھرا بوسا دیا ۔ آمنہ کی آنکھوں میں نمی چلکھی ۔ نجمہ بیگم نے بھی آگے بڑھ کر آمنہ کو پیار کیا جو اُن کے گلے لگتے ہی اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکی ۔ نجمہ بیگم نے اُسے دور کرتے اُسکے آنسو صاف کئے ۔


" چلو اندر چلے " ۔ منصور صاحب کے کہنے پر زرقان نے آمنہ کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو دیکھتے اثبات میں سر ہلایا ۔ جب اُسکا فون بجا ۔


زرقان نے جیسے ہی فون پر ایا میسج کھولا اُسکے ماتھے پر بل پڑے ۔ آمنہ نے اُسکے سختی اختیار کرتے چہرے کو دیکھا ۔


" انکل مجھے کسی ضروری کام سے ارجنٹ جانا پڑے گا ۔ میں جلدی انے کی کوشش کرو گا آپ آمنہ کو اپنے ساتھ لے جائے میں آپکی طرف سے اُسے پک کرلونگا " ۔ زرقان نے آمنہ کے والد سے احتراماً بھرے لہجے میں کہا ۔ جنہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔


" دھیان رکھنا اپنا " ۔ آمنہ کے حسین چہرے کو دیکھتے زرقان نے نرم لہجے میں کہا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ آمنہ کی نظروں نے اُسکی پشت کا پیچھا کیا جب نجمہ بیگم کے بلانے پر اُس نے اپنے قدم گھر کے اندر بڑھائے ۔ دماغ میں زرقان کے پل میں سرد ہوتے چہرے کو سوچتے الجھن اُبھری تھی ۔ کس کا میسج تھا جو اُسکے تاثرات پل میں سنجیدہ سے سرد ہوئے تھے۔


💗💗💗💗💗💗

" اس دن کا میں نے شدت سے انتظار کیا ہے " ۔ سدرہ کی انگلی میں پہنی انگھوٹھی پر اپنا ہاتھ پھیرتے جنید نے گھمبیر لہجے میں کہا ۔


سدرہ نے جنید کی بات پر اُسکی طرف دیکھا جو آج شلوار قمیض میں ملبوس اُسے انتہائی پیارا لگ رہا تھا ۔


" کیا دیکھ رہی ہوں " ۔ جنید نے اُسکے یوں اپنی طرف دیکھنے پر پوچھا۔


" میں سوچ رہی ہوں اگر تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاتے تو یہ دِن بہت پہلے ہی اچکا ہوتا "۔ سدرہ نے اُسکے وجاہت سے بھرپور چہرے کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔


" سدرہ کیا ہم پرانی باتیں بھول نہیں سکتے " ۔ جون نے اُسکا ہاتھ تھامتے اُسکے ہاتھ پر اپنا انگوٹھا پھیرتے ہوئے کہا ۔


" تم کہتے ہو تو بھول جاتی ہوں " ۔ سدرہ نے چہرے پر مسکراہٹ لیے کہا ۔ جنید نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا۔ اتنی جلدی وہ سب کچھ بھولنے پر راضی ہوجائے گی جنید کو اندازہ نہیں تھا۔


" میں چاہتا ہوں ہم ایک نئی شروعات کرے خوشیوں بھری اُسکے لیے ماضی بھولنا بہت ضروری ہے " ۔ جنید نے اُسکے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں پر اپنی گہری نظر ڈالتے کہا ۔


" ہاں نئی شروعات کرنے کے لئے ماضی بھولنا پڑتا ہے " ۔ سدرہ نے اپنے چہرہ کا رخ موڑتے زمین پر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے کہا ۔ اُسکی بات پر جنید مسکرا گیا ۔ سدرہ سب کچھ بھول کر اُسکے ساتھ ایک نئی شروعات کر رہی تھی اُسے بیحد خوشی محسوس ہوئی ۔


آمنہ کے اسٹیج پر انے پر سدرہ نے تیز آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا۔


" اب بھی نہ اتی تُم " ۔ سدرہ نے آمنہ کے حسین چہرے کو دیکھتے تیز لہجے میں کہا۔


" سوری نہ مجھے جلدی انا تھا لیکن پھر دیر ہو گئی " ۔ آمنہ نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے سوری کہا ۔ جب اسٹیج پر لیزا ائی ۔ جنید اجمیر صاحب کے بلانے پر اُنکی طرف بڑھ گیا تھا ۔


" اچھا چلو معاف کیا " ۔ سدرہ نے احسان کرنے والے انداز میں کہا ۔ آمنہ مسکراتے ہوئے اُسکے پاس بیٹھی جبکہ لیزا بھی سدرہ کے دائیں طرف بیٹھ گئی تھی ۔ آمنہ نے ایک نظر اپنی پیاری سی دوستوں کو دیکھا دل میں ایا کہ سب بتا دے اُنہیں جو کچھ اُسکے ساتھ ہوا ہے لیکن پھر سدرہ کا اہم دن اُسکی وجہ سے خراب نہ ہو یہ سوچتے ہوئے وہ خاموش رہی ۔


" بیہ کہاں ہے " ؟ آمنہ نے انابیہ کو یہاں نہ پاکر پوچھا۔


" وہ صائمہ بھابھی کے کسی کام سے اندر گئی ہے ابھی اتی ہوگی" ۔ لیزا نے جواب دیا ۔ اور پھر وہ تینوں اپنی باتوں میں مشغول ہوگئی۔


شاداب کے پاس کامل کا فون ایا تو اُس نے کامل کے کہنے پر جنید کو فون پکڑایا جو اپنے والد صاحب کے ساتھ کھڑا تھا ۔ کامل نے جنید سے نہ انے کی معذرت کی کیونکہ شجیہ کی طبیعت سفر کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی ایسے میں خضر نے کہیں بھی جانے سے منع کردیا تھا اور فلک اور کامل کو بھی اچھا نہیں لگا تھا اُن دونوں کو گھر پر چھوڑتے کہیں جانے کا ۔

بیہ نے صائمہ کو سامان دیتے ایک نظر اسٹیج پر دیکھا جہاں وہ تینوں بیٹھی باتیں کر رہی تھی ۔ دھڑکتے دل سے اُس نے اپنے قدم باہری دروازے کی طرف بڑھائے تھے ۔ شاید اج وہ شجیہ کو لے کر انسکیور ہوگئی تھی اسی لئے اب وہ حسام اور اپنے بیچ سب صحیح کرنا چاہتی تھی ۔ اس وقت اُسکے ذہن و گماں میں بھی وہ ماسک والا انسان نہیں تھا ۔


بیہ دروازے کے باہر ائی تو اُسے دروازے کے دائیں طرف کچھ دوڑی پر حسام نظر ایا جو اپنی گاڑی کے پاس کھڑا اپنے ہاتھ سینے پر باندھے اُسی کا انتظار کر رہا تھا ۔ بیہ کو باہر اتا دیکھ حسام کے لبوں پر مسکان آ ٹھہری ۔ اپنی سیاہ آنکھیں حسام پر ٹکائے بیہ نے اپنے قدم اُسکی طرف بڑھائے ۔


حسام سے ایک قدم کی دوڑی پر کھڑے ہوتے بیہ نے اپنی سیاہ آنکھیں حسام کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھی ۔ حسام نے نہایت نرمی سے اُسکا ہاتھ تھاما حسام کے ہاتھ تھامتے ہی بیہ نے اپنی نظریں جھکائی ۔ حسام بیہ کے اس انداز پر فدا ہوا ۔ بیہ کے یوں اُسکی بات مانتے اُسکے پاس انے پر حسام سرشار سا ہوا تھا رگوں میں سرشاری سی بھرتی چلی گئی تھی ۔


حسام نے بیہ کا ہاتھ تھامے اُسے پسینجر سیٹ کی طرف لاتے دروازہ کھولتے اُسے گاڑی میں بٹھایا ۔ بیہ خاموشی سے اپنے دل کو سنبھالتے گاڑی میں سوار ہوئی ۔ بیہ کو گاڑی میں بٹھاتے وہ جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر ایا ۔ حسام نے گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں کی ۔


گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی اور بیہ حسام کی شوخ نظروں سے بچنے کے لیے اپنا رخ ونڈو کی طرف کیے باہر کے مناظر کو دیکھ رہی تھی جب اُنکی گاڑی سگنل پر رکی اور بیہ کی سائڈ پر ایک گاڑی اتے رکی ۔ شیشہ نیچے ہوتی ہی دوسری گاڑی میں بیٹھے شخص کو دیکھتے بیہ کی دل کی دھڑکن جو ابھی حسام کی وجہ سے الگ لہہ پر دھڑک رہی تھی اب خوف سے دھڑک اُٹھی اُسکی سیاہ آنکھوں میں خوف جھلکا ۔


وہی ماسک والا انسان اور اُسکی وحشت بھری آنکھیں بیہ کے وجود میں خوف سی لہر دور اُٹھی جب اُس نے اپنی دو انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے بیہ کی طرف اشارہ کیا۔ سگنل کھلتے ہی وہ گاڑی تیزی سے آگے بڑھی اور اسی تیزی سے بیہ کے موبائل پر میسج موصول ہوا ۔ بیہ نے خوف سے دھڑکتے دل سے اپنی گود میں پڑے موبائل کو دیکھا اور پھر حسام کی طرف جس کا سارا دھیان ڈرائیونگ کی طرف تھا ۔ کانپتے ہاتھوں سے اُس نے موبائل تھامتے میسج کھولا ۔


" مجھے لگا تم مجھے بھول گئی ہو تو یاد دلا دو ۔۔۔اب تو اچھی طرح یاد آگیا ہونگا میں تمہیں ۔۔۔۔پتہ ہے کل پوری رات تمہارا پیارا شوہر کہاں تھا ۔ وہ بیچارہ لیپرڈ تمہارے لئے سرپرائز پلین کر رہا تھا ۔۔۔سنا ہے ہر ایک چیز خود اپنے ہاتھوں سے سجائی ہے اپنی محبت کے لئے ۔۔۔پر کیا فائدہ ۔۔اتنا سب کچھ کرنے کا ۔۔۔اُسکی محبت تو اج اُسے ذلیل کرے گی اُسکی محبت کو اپنے پیروں تلے رونڈے گی " ۔ میسج پڑھتے ہی بیہ کی سیاہ آنکھوں میں نمی چمکی ۔ اُس کا سر بیساختہ نفی میں ہلا ۔


" یہ سب کرنے میں تمہیں آسانی ہو اس کے لئے ایک ویڈیو سینڈ کردیتا ہوں " ۔ اگلے میسج کے ساتھ ایک ویڈیو تھی جس میں عروہ کے ساتھ ساتھ عزیر اور خوشبو تینوں لون میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور تینوں کے وجودوں پر سرخ رنگ کا ایک چھوٹا سا نشان واضح تھا ۔ بیہ نے ویڈیو دیکھتے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔


وہ کیسے اس انسان کو بھول گئی وہ کیسے یہ سوچ رہی تھی کہ وہ اج حسام کے ساتھ مل کر ایک نئی شروعات کرے گی ۔ بیہ نے اپنی سیاہ انکھوں میں ائی نمی کو صاف کرتے حسام کو دیکھا ۔ اُس نے ساری رات جاگ کر اُسکے لئے اتنی محنت اور محبت سے سرپرائز پلین کیا تھا جو وہ برباد کرنے والی تھی ۔ اُسے یاد آیا جب وہ ابھی کچھ دیر پہلے اُسکی طرف اپنے قدم بڑھا رہی تھی تب حسام کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک تھی ۔ اور جو وہ ابھی اُسکے ساتھ کرنے جا رہی تھی اُسکے بعد اُسکی آنکھوں سے وہ چمک اور لبوں سے وہ مسکراہٹ ضرور چھین جانی تھی ۔


ایڈیلیڈ ہیلز پر اتے حسام نے اپنی گاڑی روکی تھی ۔ یہ جگہ ایڈیلیڈ کی خوبصورت ترین جگہوں میں شمار ہوتی تھی ایک سے ایک خوبصورت درخت یہاں موجود تھے جو صرف ہرے رنگ کے نہیں تھے رنگ برنگے درختِ یہاں انے والے سیاحوں کو حیران کر دیتے تھے ۔


حسام نے گاڑی روکتے بیہ کی طرف دیکھا ۔ حسام کے دیکھنے پر بیہ نے آنسوؤں کا گولا نگلا ۔


" ایک منٹ " ۔ حسام نے پُر مسرت لہجے میں کہتے ایک لال رنگ کی پٹی اپنی جیب سے نکالی ۔


" میں چاہتا ہوں تم آنکھیں تب کھولو جب وہ حسین منظر تمھاری آنکھوں کے سامنے ہو " ۔ حسام نے کہتے بیہ کی آنکھوں پر پٹی باندھی ۔ بیہ کا دل سسک اٹھا ۔ کس قدر خوش ہے حسام اور وہ اُسکی خوشی چھیننے والی ہے ۔


حسام نے بیہ کی آنکھوں پر پٹی باندھتے اپنی طرف کا دروازہ کھولتے اُس تک اتے اُسکی طرف کا دروازہ کھولا ۔ نہایت آرام سے بیہ کا ہاتھ تھامتے اُسے گاڑی سے باہر نکالا ۔ اور بیہ کو کچھ بھی سمجھنے کا موقعہ دئیے بنا اپنی باہوں میں بھرا ۔


اس اچانک افتاد پر بیہ نے گرنے کے ڈر سے حسام کے کندھے کو تھاما ۔


" حسام مجھے نیچے اُتارے " ۔ بیہ نے اُسکے کندھوں پر اپنی گرفت سخت کرتے اُس سے کہا ۔


" یارا یہاں ڈھلوان ہے تُم گر نہ جاؤ اسی لئے تمہارا میری باہوں میں ہونا ہی صحیح ہے " ۔ حسام نے نرم لہجے میں کہتے اپنے قدم آگے بڑھائے بیہ نے اُسکے سینے پر سر رکھا ۔


پھولی سانسوں کے ساتھ وہ بیہ کو اپنے بازوں میں اٹھائے اپنی سجائی گئی جگہ پر ایا تھا ۔ حسام نے بیہ کو آرام سے نیچے اُتارا اُسکے پیٹ کے گرد اپنے بازوں باندھتے اُس نے ایک گہرا سانس بھرا ۔


" تیار ہو یارا میرا سرپرائز دیکھنے کے لیے " ۔ بیہ کے کان میں جھکتے اُسکے کان کی لو پر اپنے لب رکھتے حسام نے نرم لہجہ میں پوچھا ۔ بیہ نے دھڑکتے دل سے اثبات میں سر ہلایا ۔


حسام نے اُسکے سر ہلانے پر پل میں اُسکی آنکھوں کو پردے سے آزاد کیا تھا ۔ بیہ نے اپنی آنکھیں جھپکتے منظر دیکھنا چاہا۔ اور سامنے نظر اتا منظر دیکھتے ۔ اُسے اپنے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ سیاہ آنکھوں میں پانی جمع ہوا ۔


اسکے آس پاس موجود درخت پر لائیٹس لگائی گئی تھی ۔ اُسکے پیروں کے نیچے تازہ گلاب کے پھول کی پنکھڑیاں بچھائی گئی تھی ۔ اور سامنے جعلی حروف میں بڑا سا سوری لکھا گیا تھا ۔ جس پر لگی لائیٹس سے وہ جگمگا رہا تھا۔ دائیں بائیں جانب دیئے رکھے گئے تھے جو جلتے وہاں ایک الگ سماں سا باندھ گئے تھے ۔


سوری کے لفظوں کے ساتھ ہی ایک ٹیبل تھا جس پر کیک رکھا گیا تھا ۔ اور دوسری طرف حسام اور اُسکی تصویر تھی جو شیشے پر پینٹ کی ہوئی تھی یہ الگ الگ تصویر تھی جنہیں اس انداز میں پینٹ کیا گیا تھا کہ ایسا لگ رہا تھا بیہ اگے کھڑی ہے اور حسام اُسکے پیچھے کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا ۔ ایک طرف ایک چھوٹا سا ٹینٹ لگایا گیا تھا جس میں چھوٹے سے تکیہ رکھتے ایک لیپ ٹاپ رکھا گیا تھا ۔ اور ساتھ میں کھانے کی مختلف چیزیں ۔۔۔۔


بیہ کی زبان گنگ ہوئی اُسکے ہاتھ پاؤں سن ہوئے یہ سب بہت خوبصورت تھا بہت زیادہ ۔۔۔ابھی وہ انہی سب چیزوں کو دیکھتے سن ہوئی تھی ۔ جب حسام نے اُسکی تھوڑی پکڑتے اُسکا رخ دوسرے طرف کیا جہاں بیچ میں ایک کھائی تھی اور اُسکے پار ایک پہار ۔۔۔اور اُس پہار پر جلتی لائیٹس سے ظاہر ہوتے لفظ ۔۔بیہ نے صدمے سے گنگ ہوتے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ ائی ایم سوری یارا یہ لفظ دوسرے پہار پر جگ مگ کر رہے تھے ۔ بیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔۔۔


کیسے وہ اس انسان کا اج دل توڑ سکتی تھی کیسے اُس میں ہمت نہیں تھی ۔۔۔اُسے لگ رہا تھا وہ مر جائے گی ۔۔۔وہ اُسے معاف تو پہلے ہی کر چکی تھی بس اُسے تھوڑا سا تڑپانا چاہتی تھی ۔ اسے تنگ کرنا چاہتی تھی ۔ لیکن اُس نے ایسا کچھ نہیں سوچا تھا جو ہونے جا رہا تھا ۔


" حسام " ۔ لرزتے لبوں سے لفظ ادا ہوئے لیکن اُسے اپنے قریب نہ محسوس کرتے بیہ پلٹی تو اُسے لگا اب وہ واقعی مر جائے گی ۔


اپنے گھٹنوں پر جھکا سیاہ انکھوں میں محبت کا جہاں لیے وہ بیہ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔


" جانتا ہوں جو غلطیاں کی ہے اُسکی معافی آسان نہیں ہے ۔۔پھر بھی یارا اپنے حسام کو معاف کردو ۔۔تمہارا حسام بہت تھک گیا ہے اب بس تمہاری باہوں میں سکون لینا چاہتا ہے ۔ زندگی کے بہت سے سال ضائع ہوگئے ہیں اور نہیں کرنا چاہتا جب کسی ہستے بستے گھر کو دیکھتا ہوں تو میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میرا بھی ایک گھر ہو میری بیوی ہو میری اولاد ہو ۔۔۔ہمارا الگ جہاں ہو ۔۔خوشیوں بھرا " ۔ حسام کی سیاہ آنکھوں میں ذرا سی نمی چلکھی ۔۔ذرا سا آگے ہوتے وہ بیہ کے پیٹ کے گرد اپنے ہاتھ باندھتے اُسکے پیٹ پڑ اپنا سر رکھ گیا ۔


" میں بہت تنہا ہوگیا ہو بہت تنہا ۔ میرے وجود میں ادھورا پن ہے بیہ جو تمہارے میرے پاس ہونے سے پورا ہوجائے گا ۔۔ایک دفعہ سب کچھ بھولتے مجھے معاف کردو وعدہ کرتا ہوں تمھاری سیاہ آنکھوں میں ایک آنسو نہیں انے دونگا اُس وجہ کو ہی میں ختم کردونگا جو تمہیں اُداس کرنے تمہیں رلانے کا سبب بنے ۔۔۔بس ایک دفعہ ایک موقعہ " ۔ بیہ کو محسوس ہوا جیسے حسام کی آواز نم ہوئی ہوں ۔


" اور اگر میں معاف نہ کرو تو " ۔ کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے بیہ گویا ہوئی ۔


" مر جائے گا حسام ملک " ۔ حسام نے کہتے بیہ پر اپنی گرفت سخت کی ۔ بیہ نے سکسی بھرتے حسام کو دیکھا ۔۔۔سیاھ آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات جاری تھی ۔


" اور اگر معاف کردو پھر "۔ بیہ نے اُسکے بالوں پر ہاتھ پھیرتے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا ۔


" پھر حسام ملک سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا پھر حسام ملک سے زیادہ خوشنصیب کوئی نہیں ہوگا ۔۔پھر حسام ملک سے زیادہ محبت کرنے والا شوہر کوئی نہیں ہوگا ۔۔تمہارے لیے سب کچھ فنا کرنے کو تیار ہوجاؤ گا "۔ حسام نے شدت سے کہتے بیہ کے پیٹ پر اپنے دہکتے لب رکھے ۔ بیہ نے حسام کے یوں کہنے پر نفی میں سر ہلایا جب اُسکی نظر سامنے اُٹھی سامنے لگے درختوں کی آڑ میں چھپا وہ وجود حسام کی طرف گن کا نشانہ لیا ہوا تھا ۔ بیہ کا سانس سینے میں اٹکا ۔ اُس نے زوروشور سے نفی میں سر ہلایا ۔ کیسے بےبسی تھی ۔ بیہ کا دل کیا کوئی اُسے آکر مار دے یا اللہ کی ایسا معجزہ کردے کہ اس محبت میں ڈوبے انسان کا دل توڑنے سے پہلے اُس کا دم نکل جائے ۔


" میں نے نہیں کیا معاف آپکو میں آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی حسام کبھی نہیں دور ہٹے مجھ سے " ۔ سسکتی آواز میں چلاتے ہوئے کہتے اُس نے حسام کو دھکا دیتے خود سے دور کیا ۔ حسام لڑکھڑا کر زمین پر گرا ۔ حسام نے بیقینںی سے بیہ کی طرف دیکھا ۔ بیہ نے درختوں کے پار اُس سائے کو دیکھا جو ابھی بھی اُس پر گن تانا ہوا تھا ۔


" سنا آپ نے سن رہے ہیں نہ آپ میں آپ جیسے بیوفا دھوکے باز فریبی انسان کو کبھی معاف نہیں کرونگی کبھی نہیں "۔ حسام کی بے یقینی سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے چیختے ہوئے کہا ۔


" بیہ " ۔ حسام نے بے یقینی سے اُسے پُکارا ۔ بیہ کے لفظوں پر اُسے اپنا وجود چھلنی ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔


بیہ نے اپنے آنسوؤں کو بیدردی سے رگڑا ۔ اندر سے وہ تڑپ اُٹھی تھی اپنے حسام کو اس طرح دیکھتے ۔۔۔لیکن ابھی اُس کے لئے حسام کی جان زیادہ ضروری تھی ۔


" آپ کیا سمجھتے ہیں میں آپکو معاف کردو گی آپ یہ پھول میری راہوں میں بچھائے گے "۔ بیہ نے کہتے اپنے پیروں سے زمین پر پھیلے پھولوں کو پھیلایا۔ ۔۔اور آگے کی طرف بڑھی ۔۔بیہ نے آگے بڑھتے اُس سائے کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھا جیسے بس کردو ۔۔۔لیکن اب بھی اُسے حسام کی طرف سے گن نہ ہٹاتے دیکھ وہ آگے بڑھی ۔


" یہ کیک رکھنے سے میں مان جاؤنگی ۔۔۔یہ تصویر " ۔ بیہ نے کہتے کیک ایک جھٹکے سے زمین پر پھینکا ۔ وہاں موجود پتھر اٹھاتے پوری شدت سے اپنی اور حسام کی اس خوبصورت شیشے پر بنی پینٹنگ کو چکنا چوڑ کیا ۔ حسام زمین پر بیٹھا سیاہ بے یقین آنکھوں سے بیہ کو دیکھ رہا تھا۔اُس پینٹنگ کی طرح اُسکے دل کے بھی سو ٹکڑے ہوئے تھے ۔ اُسکے پورے وجود میں ایک اذیت سی بھرتی چلی جا رہی تھی۔


" بیہ" ۔ حسام ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھتے بیہ کے پاس ایا تھا ۔ بیہ نے گہرے سانس بھرتے اپنے تڑپتے دل کو محسوس کرتے حسام کی طرف دیکھا ۔


" مجھے نہیں یقین آپکی جھوٹی محبت پر ۔۔جو ہر ایک کے لئے اُبھر اتی ہے آپ حسن پرست ہے ۔۔سنا آپ نے حسن پرست تبھی تو آپکو شجیہ پسند آگئی تھی ۔۔آپ فریبی ہے آپکی محبت ایک ڈھونگ ہے ۔۔۔اب آگئی نہ شجیہ اُسکے لیے بھی آپکی محبت جاگ گئی ہونگی " ۔ بیہ کہتے حسام کے دل کو کئی ٹکڑوں میں کاٹ گئی تھی ۔ اُسکے چہرے پر کرب پھیلا تھا۔


" بیہ یہ کیا بول رہی ہو تم ایسا نہیں ہے یارا میں نے تمہیں صفائی دی ہے میں نے تم سے معافی بھی مانگی ہے ۔۔۔یہ تم نہیں تم ایسا بول ہی نہیں سکتی ۔۔کچھ ہوا ہے بتاؤ مجھے کیوں ایسا بول رہی ہو تم " ۔ بیہ کے دونوں کندھوں کو جکڑے حسام نے اُس سے سوال کیا ۔ بیہ نے اپنی آنکھیں بند کی ۔


" یقین کرے مجھ پر یہ میں ہی بول رہی ہوں آپکی وجہ سے میں نے اپنا بچا کھویا ہے آپ ایک قاتل ہے ایک قاتل آپ نے اپنے ہی بچے کو مارا ہے مجھے نہیں ہے آپ سے محبت سنا آپ نے مجھے نہیں ہے آپ سے محبت ۔۔۔آپ قاتل ہے ایک قاتل ہے آپ ۔۔میرے بچے کے قاتل ہے آپ " ۔ حسام کے ہاتھوں کو جھٹکتے بیہ حلق کے بل چیخی تھی اور اس بات پر حسام کا ہاتھ سن ہوتے اُسکے پہلو میں گرا ۔۔۔وہ ساکت ہوا ۔ بیہ نے ایک نظر درخت کے پار اُس سائے کو دیکھا جو اب گن حسام کی طرف سے ہٹا گیا تھا ۔ اپنے ہاتھوں سے تالی بجاتے وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔ اُسکے جاتے ہی بیہ کو لگا کوئی بوجھ اُسکے سر سے اُتر گیا ہوں ۔۔۔اُس نے حسام کی طرف دیکھا جو بت بن گیا تھا ۔ وہ بنا پلک جھپکائے بیہ کو دیکھ رہا تھا ۔ اور پھر وہ خوبرو مرد اپنے گھٹنوں پر گرتا چلا گیا ۔ بیہ کا دل کررا اٹھا حسام کو یوں دیکھتے ۔


حسام کی سیاہ آنکھوں سے آنسو نکلتے اُسکی داڑھی میں جذب ہوا ۔ بیہ کا دل کیا خود میں بھینچ لے اُسے اُسکے پاؤں پر گرتے اُس سے اپنے بولے گئے لفظوں کی معافی مانگ لے ۔۔۔اُسکا دل کیا چیخ چیخ کر رو دے ۔


" حس۔۔۔حسام " ۔ بیہ نے لرزتی آواز میں کہتے اُسکے کندھے پر اپنا کانپتا ہاتھ رکھنا چاہا ۔


" چلی جاؤ بیہ " ۔ حسام نے بیہ کی آواز پر زمین پر نہ جانے کیا دیکھتے کہا ۔


" حسام میری بات " ۔۔۔بیہ نے کہنا چاہا جب وہ چیخ اٹھا ۔


" چلی جاؤ بیہ چلی جاؤ یہاں سے چلی جاؤ " ۔ حسام اتنی تیز آواز میں ڈھاڑا تھا کہ بیہ کا وجود لرز اٹھا ۔ اُس نے ایک نظر حسام کے سن ہوئے وجود کو دیکھا اُسکا لرزتا چہرہ اُسکے بھینچے لب اُسکی لال ہوتی سیاہ آنکھیں یہ بات واضح کر رہی تھی وہ انتہا کا ضبط کر رہا تھا ۔


" میں نے کہا جاؤ یہاں سے مجھے اکیلا چھوڑ دو " ۔ بیہ کو وہی کھڑا محسوس کرتے حسام پھر سے ڈھاڑا تھا بیہ اپنی ہچکیوں کو روکتے تیزی سے وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔۔


" آآآآآآآآآا .... بیہ کے جاتے ہی حسام پوری قوت سے چیخا تھا اُسکی آواز پہاڑوں سے ٹکراتی واپس ائی تھی ۔


" نہیں ہوں میں قاتل نہیں ہوں میں قاتل نہیں مارا میں نے اپنے بچے کو نہیں ہوں میں حسن پرست نہیں ہو میں حسن پرست فریبی نہیں ہوں میں " ۔ ٹوٹے کانچ کے ٹکڑوں پر اپنے ہاتھ مارتے وہ چیخ رہا تھا ۔ ہاتھوں سے خون بہہ نکلا تھا ۔


" یہ اللہ نہیں ہوں میں قاتل نہیں ہوں میں قاتل ایک محبت نے مجھے کمزور کردیا اللہ اتنا کمزور کر دیا ۔۔۔اتنا کمزور میں نہیں ہوں دھوکے باز نہیں ہوں "۔ در پر در اپنے ہاتھ مارتے وہ چیخ رہا تھا ۔۔اُسکی چیخوں کو سنتے کوئی بھی اُسکا درد پہچان سکتا تھا ۔ بیہ کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجتے اُسے ایک نئی اذیت سے روشناس کروا رہے تھے ۔ وہ اُسے قاتل کہہ گئی تھی اپنے ہی بچے کا قاتل یہ بات حسام کے لئے نا قابل برداشت تھی اُس نے کب چاہا تھا اُسکا بچا مر جائے کوئی باپ کیسے اپنے بچے کو مار سکتا تھا ۔


اُسکی نظر اُس ٹکڑے پر پڑی جن میں ذرا سا بیہ کا اور اسکا چہرہ نظر آرہا تھا ۔


" تم ظالم ہو بہت ظالم ۔۔۔بہت زیادہ ظالم جس میں تم رہتی ہو اُسی کو خونم خوں کردیا تم نے یارا میرے دل کے ٹکڑے کردیئے " ۔بیہ کے آدھے نظر آتے چہرے کو دیکھتے حسام نے کرب زدہ آواز میں کہا ۔


" واقعی میں اج میں تنہا ہوں بہت تنہا ہوں میرے ماں باپ ۔۔۔ہونہہ ماں باپ جو پہلے ہی مجھ سے چھین لئے گئے ۔۔۔سب جانتا ہوں میں سب سزا دے رہے ہو نہ اُن کاموں کی جو میں نے کیے ہے۔۔۔ہیں نہ ۔۔۔دو اور سزا دو ۔۔۔کام ہی غلط اتنے کئے ہے طاقت کے نشے میں چوڑ ہوتے " ۔ حسام آسمان کی طرف سر اٹھاتے اپنے رب سے گویا ہوا ۔


" پر میری محبت مجھے دے دو ۔۔۔اُسے مجھے دے دو وہ میری ہے میری ہے ۔۔۔میں قاتل نہیں ہوں۔۔۔میں فریبی نہیں ہوں دھوکے باز نہیں ہوں " ۔ اُسکی سیاہ انکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔۔اور وہ جوان جہاں مرد رو پڑا اپنی محبت کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے رب سے اُسے مانگ رہا تھا ۔۔۔افف یہ عشق بھی نہ انسان کو کتنا بےبس کر دیتا ہے ۔


حسام کے کہنے پر وہ بھاگتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی آنسوؤں کی برسات جاری تھی نہ جانے کتنی بار اُسکا پاؤں لڑکھڑایا ۔آنسوؤں کی وجہ سے بار بار اُسکی آنکھوں کے سامنے نظر اتا منظر دھندلا ہورہا تھا ۔ اچانک سے پتھر سے ٹکراتی وہ نیچے گرتی گئی ۔ بل کھاتے گرتی وہ ایک درخت کے تنے سے ٹکرائی زمین پر پڑے پتھر سے اسکا سر پھٹا اور خون بہنے لگا ۔ پورے بدن میں تکلیف کا احساس ہوا ۔ وہ زمین پر گرے ہی چیخ اُٹھی ۔ بیہ نے اٹھتے اپنے دوپٹے کو سنبھالا ۔۔اپنے گھٹنوں کو اپنے سینے سے لگائے وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ماتھے سے خون بہتا اُسکے گال تک آگیا تھا ۔

" میں نے توڑ دیا اج اُنہیں ۔۔۔میں نے انکا دل اج زخمی کر دیا ۔۔۔میرے سامنے وہ ٹوٹ گئے ۔۔۔میری وجہ سے ہوا یہ اللہ میں مر جاؤ ۔۔۔میں نے آج اپنے حسام کو توڑ دیا " ۔ روتے ہوئے لرزتی آواز میں وہ کہتے شدت سے رو پڑی تھی ۔

" اب وہ نفرت کرے گے ۔۔۔وہ نہیں ہے دھوکے باز وہ نہیں ہے فریبی ۔۔وہ نہیں ہے حسن پرست وہ تو سراپا محبت ہے وہ تو میری محبت ہے وہ تو بیہ کا عشق ہے " ۔ آس پاس کا ہوش بھلائے وہ دیوانی سے کہتی جا رہی تھی ۔

اپنے پاس سے اتی قدموں کی آواز پر بیہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اُس ماسک والے انسان کو دیکھتے وہ سرخ سیاہ آنکھوں میں غضب کا غصّہ لئے اپنی جگہ سے اُٹھی ۔

" ایک کام کیوں نہیں کرتے تم مجھے مار دو ۔۔۔کیوں کر رہے ہو یہ سب کیوں آخر تم ایک شیطان ہو ۔۔تُم ایک درندہ ہو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑونگی ۔تمھاری وجہ سے میے حسام اج ٹوٹ گئے ہے " ۔ بیہ نے کہتے زمین پر پڑا پتھر اٹھاتے اُسکے سر کی طرف مارا تھا جو مخالف کے ماتھے پر لگتے وہاں سے خون نکال گیا تھا ۔

" تمہیں پتہ ہے تمھاری اس حرکت پر میں تمہارے ساتھ کیا کر سکتا ہوں لیکن نہیں اج نہیں اج جو تم نے کیا ہے وہ مجھے بہت سکون دے گیا ہے اسی لیے اج تمھاری بچت ہوگئی ہے " ۔ اپنی گندی زبان سے کہتا وہ بیہ کو مزید رلا گیا ۔

" آج کتنا سکون ملا ہے مجھے اُس لیپرڈ کو زمین پر گھٹنوں کے بل سن پڑے دیکھ جس کے ڈبڈبے سے پورا انڈر ورلڈ ڈرتا تھا ۔ جو سب کو اپنے جوتوں کی نوک پر رکھتا تھا ۔۔ہائے اتنا سکون "۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے کہتے وہ ہنس پڑا ۔

" تم صحیح نہیں کر رہے خدا سے ڈرو کیا بگاڑا ہے حسام نے تمہارا " ۔ بیہ نے نفرت سے کہا ۔

" کیا بگاڑا ہے تمہارے حسام نے ۔۔اوہ واؤ کیا بگاڑا ہے تمہارے حسام نے تمھارے حسام کی وجہ سے میری دنیا اجر گئی ہے " ۔ سفاکیت سے کہتا وہ بیہ کو حیرت میں ڈال گیا ۔

" میں حسام کو جانتی ہو وہ کبھی غلط نہیں کرے گے ۔۔تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے " ۔ بیہ نے اپنے آنسوؤ صاف کرتے ہوئے ۔

" بکواس بند کرو " ۔ مخالف کے چلانے پر بیہ نے لرزتے ہوئے اُسے دیکھا ۔ آنسوؤں رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔

" ابھی سے اتنا مت رو ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے تم نے بہت کچھ کرنا ہے تم نے " ۔ وہ کہتا گنگناتا ہوا چلا گیا اور بیہ لرزتی روتی ہوئی وہی کھڑی رہی ۔۔سر پر چوٹ لگنے سے اُسے اپنے حواس گم ہوتے محسوس ہی ہورہے تھے اوپر سے چاروں طرف پھیلتے اندھیرے کو دیکھتے بیہ نے اپنے لرزتے قدم آگے بڑھائے ۔۔۔

رخصتی کی رسم خیر و عافیت سے ہو گئی تھی ابھی کچھ دیر پہلے ہی صائمہ اور لیزا اُسے جنید کے کمرے میں بیٹھا کر گئی تھی ۔


سدرہ نے بیڈ پر بیٹھے پورے کمرے پر نظر دوڑائی جو لال گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ اس کمرے میں اپنے وجود کو سجانا اُسکا خواب تھا ۔ وہ اسپاٹ چہرہ لئے اب اپنی نظریں اپنے ہاتھوں پر مرکوز کر گئی تھی گزر ماہ و سال کسی فلم کی مانند اُسکے ذہن میں گردش کر رہے تھے ۔ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر سدرہ نے مسکارے کے بوجھ سے بھاری ہوتی پلکیں اٹھا کر انے والے کو دیکھا ۔


اور جنید کو گہری نظروں سے خود کی طرف دیکھتے پاتے سدرہ کی پلکیں لرز اٹھی ۔


گہری نظروں سے سدرہ کے دو آتشہ روپ کو دیکھتے وہ اپنی واسکٹ اُتارتے اُس تک ایا تھا بیڈ پر اُسکے پاس بیٹھتے اُس نے سدرہ کا چوڑیوں سے بھرا ہاتھ تھاما ۔ سدرہ نے اُسکے لمس پر اُسکی طرف دیکھا ۔


" آج کے دن میں کتنا خوش ہوں میں بتا نہیں سکتا تمہارا وجود اس کمرے میں رونق بھر گیا ہے " ۔ جنید نے کہتے سدرہ کے ہاتھ پر اپنے لب رکھے ۔ سدرہ خاموش نگاہوں سے اُسکی طرف دیکھتے گئی ۔


" گزرے دنوں میں جتنی بھی تکلیف تم نے میری وجہ سے جھیلی ہے میں اُسکے لئے تُم سے معافی مانگتا ہوں میری جان ۔۔اور وعدہ کرتا ہوں آئندہ انے والا ہر دن خوشیوں بھرا ہوگا ۔ میں تمھاری آنکھوں میں ایک آنسو نہیں انے دونگا " ۔ جنید نے سدرہ کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے محبت سے چوڑ لہجے میں کہا ۔


" میں نہیں چاہتی جنید کے اج کے دن ہم پُرانی باتیں یاد کرے یہ رات ہمارے لیے بہت قیمتی ہے جس میں تُم میرے پاس ہو میرے قریب ہو میں چاہتی ہوں اس رات کا ایک ایک لمحہ یادگار بن جائے جو مجھے ساری زندگی یاد رہے " ۔ سدرہ نے اپنے گال پر رکھے جنید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے دھیمے لہجے میں کہا ۔ جنید اُسکی بات پر مسکرا گیا۔


" ضرور میری جان اس وصل کی رات کا ایک ایک لمحہ یاد گار ہوگا " ۔ جنید نے کہتے سدرہ کے ماتھے پر بوسا دیا ۔


سدرہ نے جنید کے لمس کو اپنی روح تک میں اُترتے محسوس کیا ۔


" تم جانتے ہو نہ میں تم سے بہت پیار کرتی ہو " ۔ جنید کے دور ہونے پر سدرہ نے اپنے ہاتھ کی اُنگلیاں اُسکے ہاتھ میں پھنساتے دھیمے لہجے میں کہا ۔


" میں اچھی طرح جانتا ہوں میری بیگم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے "۔ جنید نے کہتے سدرہ کے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو دیکھتے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کیا ۔


" اور تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو " ؟ سدرہ نے اپنے انتہائی قریب جنید کو دیکھتے پوچھا ۔ دونوں کو گرم دہکتی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑتی دونوں کے چہرے جھلسا رہی تھی۔


" کہو تو عملی بتا دو " ۔ جنید نے پاس سے اُسکے نقوش کو دیکھتے بہکتی آواز میں کہا ۔


" تم بہک رہے ہیں " ۔ سدرہ نے جنید کی خمار سے بھرتی انکھوں کو دیکھتے لب دباتے کہا ۔


" بہکنا بنتا بھی ہے"۔ جنید نے کہتے اسکی قمر پر گرفت مزید مضبوط کری ۔ سدرہ کے ہونٹوں کو فوکس میں لیتے ابھی وہ سدرہ پر جھکتا کہ سدرہ نے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے روکا۔


"اگر میں تُم سے دور چلی جاؤ کبھی پھر " ۔ سدرہ کے پوچھنے پر جنید نے سدرہ کو غصے بھری نظروں سے دیکھا تھا ۔


" اتنے قریب آکر دور جاؤنگی تو جنید مر نہیں جائے گا "۔ جنید نے کہتے اُسکی نتھنی کو نکالتے اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔ سدرہ اُسکے کرتے کو مٹھیوں میں بھینچ گئی ۔ اپنے لبوں پر بڑھتی جنید کی شدت محسوس کرتے بیہ نے اُسکے عمل میں اُسکا ساتھ دیا ۔ اپنے لبوں پر سدرہ کے لبوں کا لمس محسوس کرتے جنید سرشار سا ہوتے اُس پر جھکتے چلا گیا۔


سدرہ کو اپنی گرفت میں لئے وہ تکیہ پر گرا تھا سدرہ نے جنید کی گردن میں اپنی باہوں کا حصار باندھا جنید کی اپنے لبوں پر گرفت سے اُسکی سانسیں بند ہونے کے قریب تھی ۔۔لیکن وہ اُسے خود سے دور نہیں جھٹک رہی تھی بلکہ اُسکی سانسوں میں سانسیں لیتے اپنی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔


جنید نے سدرہ کے لبوں کے جام سے اچھی طرح سیراب ہوتے اُس سے دور ہوتے اُسکی براؤن آنکھوں میں جھانکا جس میں خمار کی سرخی بھر گئی تھی وہ لمبے لمبے سانس لیتے جنید کو دیکھ رہی تھی ۔ اور جنید وہ اُسکی اتنی نزدیکی پر بیخود ہوا تھا اُسکے تمام جذبات انگڑائی لیتے بیدار ہوئے تھے ۔ سدرہ کی طلب رگ رگ میں بھرتی چلی گئی تھی ۔


" تمہارا یہ تل ہر بار میری نظروں میں اٹک جاتا ہے میرا دل چاہتا ہے اسے اپنے لمس سے فنا کردو " ۔ سدرہ کے ہونٹوں کے پاس بڑی شان سے چمکتے تل پر اپنے لب رگڑتے جنید نے شدت سے کہا۔ اور سدرہ کو اپنی سانسیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئی ۔


اس نے انتہائی نرمی سے سدرہ کے کانوں سے بھاری جھمکے اُتارتے اُسکے کان کی لال ہوتی لو پر اپنے لب رکھے ۔ اُسکی ماتھے پر سے بندیاں ہٹاتے اُسکے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑا سدرہ اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ جب وہ اسکی گردن سے ہار نکالتا اُسکی گردن پر اپنا دہکتا لمس چھوڑنے لگا۔


سدرہ کی دل کی دھڑکن مدھم ہوئی پورے وجود میں سرد لہریں دوڑ اُٹھی تھی وہ جنید کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اپنی گردن پر اسکے دہکتے لبوں کا لمس محسوس کر رہی تھی اور جنید اُسکے وجود میں گم ہوتا چلا جا رہا تھا ۔ کمرہ میں پھیلی گلاب کے پھولوں کی خوشبو انتہائی قریب اُسکی محبت جو پور پور اُسکے لیے سجی تھی وہ کیسے خود پر ضبط کر پاتا ۔


" تم میری زندگی ہو تمہارے بغیر میں کچھ نہیں ہوں سدرہ ہے تو اب جنید ہے سدرہ کے بغیر جنید کا وجود ادھورا ہے ۔ شکریہ میری جان سب رنجشوں کو بھلاتے میرے ساتھ نئی زندگی شروع کرنے کے لئے ۔ " جنید نے سدرہ کی گردن سے منہ نکالتے اُسکے سرخ قندہاری چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے بوجھل لہجہ میں کہا اور کمرے میں جلتا واحد لیمپ بھی بند کرتے وہ سدرہ کے وجود میں گم ہوتا چلا گیا ۔ سدرہ پر اپنی شدتیں نچھاور کرتا وہ اُسے اپنے ساتھ کسی دوسرے جہاں میں لے گیا۔ کمرے میں معنی خیز سی خاموشی پھیلی دو وجود ایک دوسرے میں کھوتے چلے گئے ۔


ایک وجود اپنی محبت اپنا عشق اپنے سارے جذبات عملی توڑ پر بیان کر رہا تھا تو دوسرا وجود اُسکا لمس اپنی روح تک میں بسانا چاہتا تھا کہ اب نہ جانے یہ وصل کے لمحات کب نصیب ہو ۔ ۔


💗💗💗💗💗


زرقان اس وقت آمنہ کے گھر کے لاؤنچ میں منصور صاحب کے ساتھ بیٹھا آمنہ کا انتظار کر رہا تھا جو انے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔


" بیٹا وہ آمنہ تو سو گئی ہے ۔۔ایک کام کرو تم بھی اج کے دن یہی رک جاؤ ورنہ میں اٹھا دیتی ہوں اُسے " ۔ نجمہ بیگم نے آمنہ کے کمرے سے اتے ہوئے زرقان سے کہا وہ کمرے میں گئی تو آمنہ سو رہی تھی اُنکے تین سے چار دفعہ بلانے پر بھی نہیں اُٹھی تھی ۔


" نہیں آنٹی آپ اُسے نہیں اٹھائے میں رک جاتا ہو "۔ زرقان کہتا اپنے جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔


" صحیح بیٹا ایک کام کرو یہ کینڈل لے جاؤ ہمارے علاقے میں لائٹ بہت جاتی ہے تو روشنی کے لئے چایئے ہوگی "۔ نجمہ بیگم نے کہتے اُسے کینڈل پکڑائی زرقان لیتے شکریہ کہتے سامنے موجود کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں سے ابھی نجمہ بیگم ائی تھی۔


زرقان نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تو چھوٹا سا پنک امتزاج کا کمرہ دیکھتے اُس کے لبوں پر مسکراہٹ نے بسیرا کیا ۔ اسکی نظر بیڈ پر پڑی جہاں وہ اُسکی طرف سے کروٹ لئے اپنے براؤن بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے محو نیند تھی۔


زرقان نے کینڈل وہاں موجود ٹیبل پر رکھی اور دروازہ بند کرتے بیڈ کی طرف بڑھا آمنہ کی طرف اتے ہی وہ اُسکا حسین چہرہ دیکھتے مسکرا گیا۔ہیزل بلو آنکھیں اس وقت بند تھی جب کے بالوں کی کچھ لٹیں اُسکے گال اور لبوں پر گری ہوئی تھی جنہیں دیکھتے زرقان کا دل بے ایمان ہو رہا تھا ۔ زرقان نے آہستہ سے اُسکے بال اسکے چہرے سے ہٹانے چاہے جب آمنہ نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولی ۔ وہ جاگ رہی تھی نجمہ بیگم کے انے پر اور اُنکے یہ کہنے پر کہ زرقان اُسے لینے ایا ہے اُس نے سونے کا ناٹک کیا تھا ۔


لیکن زرقان کے کمرے میں اتے ہی پورے کمرے میں پھیلتی اُسکے کلون کی خوشبو محسوس کرتے وہ اپنی آنکھیں اور سختی سے بند کر گئی تھی دل کی دھڑکن بھی بڑھ گئی تھی لیکن پھر بھی وہ سوتی بنی رہی تھی لیکن اب اُسکا لمس اپنے گال پر محسوس کرتے وہ مزید اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی تھی ۔


" جاگ رہی تھی تم عشقم " ۔ زرقان اُسکے یوں پٹ سے آنکھیں کھول لینے پر لب دبائے مسکراہٹ ضبط کرتا گویا ہوا ۔ آمنہ ایک جھٹکے سے آٹھ بیٹھی ۔


زرقان نے اُسے گہری نظروں سے دیکھا اور اُسکے حلیہ کو دیکھتے اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں پل میں شوخی آ سمائی تھی اُس نے گہری نظروں سے آمنہ کے دلکشی بکھیرتے وجود کو دیکھا ۔ زرقان کی نظروں کا ارتکاز دیکھتے امنہ کی رنگت پل میں سرخ ہوئی اُس نے کمفرٹراپنے سینے تک لیا ۔ وہ اس وقت پنک رنگ کے سلیپنگ سوٹ میں موجود تھی جس کی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھلے ہونے کے باعث اُسکی دلکشی واضح ہو رہی تھی ۔


" ایسے نہیں دیکھے مجھے " ۔ زرقان کی نظروں سے تنگ اتے امنہ نے جھنجھلا کر بلینکٹ اپنے بازؤں میں دباتے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے کہا ۔


" پھر کیسے دیکھو " ۔ زرقان نے لبوں پر شریر مسکراہٹ لئے پوچھا ۔ آمنہ نے غصے سے اُسکی طرف دیکھا ۔۔


" آپ مجھے دیکھے ہی نہیں اُدھر منہ کرے " ۔ آمنہ نے غصے سے تیزی سے اشارہ کرتے کہا۔


" کیوں کیوں نہ دیکھو میں بھئی میری حق حلال کی بیوی ہے جس کو دیکھنے کا پرمٹ ہے میرے پاس میں تو دیکھو گا " ۔ زرقان نو ڈھیٹوں کی طرح بیڈ پر پائنتی باندھے بیٹھتے اپنا چہرہ اپنے ہاتھ پر ٹکایا ۔ آمنہ نے اُسکی حرکت پر دانت پیسے ۔


" آپ۔۔۔ آپ اٹھے یہاں سے اٹھے " ۔ آمنہ نے غصے سے ناک پھلاتے زرقان سے اشارتاً کہا ۔ زرقان نے دلچسپی سے اُسکی چھوٹی سی ناک پر ٹھہرا غصّہ دیکھا اُسے اچھا لگ رہا تھا آمنہ کا اس طرح سے اُس سے بات کرنا ۔


" جو حکم عشقم لو اٹھ گیا " ۔ زرقان کہتا بیڈ سے اٹھا ۔


آمنہ نے زرقان کے اٹھنے پر جلدی سے اپنا رخ پلٹتے اپنے بٹن بند کرتے اُسکی طرف مڑتے بیڈ پر پڑا تکیہ اٹھا کر اُسکی طرف پھینکا جسے زرقان نے پکڑا ۔


" جائے باہر آپ اج یہاں نہیں سوئے گے " ۔ اشارتاً کہتے اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھے آمنہ نے جیسے حکم دیا تھا اُسے ۔


زرقان نے بیچارگی والی شکل بناتے اُسکی طرف دیکھا ۔


" عشقم ایسے اچھا لگے گا میں باہر جاکر سوجاؤ جبکہ میری حسین بیوی اندر اکیلے سوئے چلو آج دونوں باہر چل کر سوتے ہے " ۔ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے زرقان نے ایسی سنجیدگی سے کہا کہ امنہ کا دل کیا زرقان کا حسین منہ توڑ دے ۔


" آپ جا رہے ہے یہ نہیں " ۔ آمنہ نے غصے سے لال ہوتا چہرہ لئے کہا ۔ اُسے اچھا لگ رہا تھا زرقان کو اپنی ہر بات مانتے دیکھ ۔


" اوکے اوکے جا رہا ہوں یار ہلکے بولوں سسُر جی کیا سوچے گے کہ شادی کے پہلے ہی دن ایسا کیا ہوگیا جو بیوی نے کمرے سے ہی نکال دیا عزت ہے میری " ۔ زرقان نے کہتے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔ زرقان کے انداز پر آمنہ کے لبوں پر مسکراہٹ ائی۔


" میوٹ اسپیکر تو تیز ہوتا جا رہا ہے ذرا اپنے دوسرے روپ کا دیدار کروا دینا چاہیئے " ۔ کمرے سے باہر نکلتے زرقان نے خود سے کہا کہ یکدم گھر کی لائٹس گئی ۔


" مجھے پتہ ہے آپ ہر وقت میرے ساتھ ہے اور میرا ساتھ دیتے ہے ائی لو یو اللہ جی " ۔ اللہ کا شکریہ کرتے اُس نے اپنی جیب میں ہر وقت رکھے ماسک کو لگا کر پہنا اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے اُس نے اپنے بال بکھیرے ۔ اور اپنا تکیہ وہی سائڈ پر رکھا اپنے قدم باہر دروازے کی طرف بڑھائے آمنہ کے کمرے کی کھڑکی گھر کے باہر بنے لون میں کھلتی تھی جو وہ دیکھ چکا تھا اسی لیے وہی سے جانے کا سوچا ۔ جاتے جاتے وہ نجمہ بیگم نے جہاں سے موم بتی نکال کر دی تھی وہاں سے موم بتی اور لائٹر لینا نہیں بھولا تھا ۔


آمنہ جو لائٹ جانے کے بیڈ سے اُٹھی تھی کہ ڈریسنگ ٹیبل سے اپنے موبائل کو اٹھاتے ٹارچ اُن کرے ۔ کھڑکی سے اتی دھم کی آواز پر وہ اپنی جگہ تھمی ۔ اُس نے رخ کھڑکی کی طرف کیا لیکن اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ جب زرقان نے موم بتی جلائی اور اپنے چہرے کے پاس کی کہ صرف اسکا چہرہ واضح ہوا ۔


موم بتی کے جلتے سامنے ماسک والے انسان کو دیکھتے امنہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ۔ سانس سینے میں اٹکا ۔ اُسے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھ امنہ پیچھے دیوار سے لگی۔


" کیسی ہو میوٹ اسپیکر پتہ لگا ہے تم نے شادی کر لی " ۔ آمنہ کی طرف قدم بڑھاتے وہ اپنی آواز بدلتا بھاری لہجے میں بولا ۔


آمنہ نے خوف کے زیرِ اثر دیوار سے لگے پہلے نفی میں سر ہلایا اور پھر جلدی سے اثبات میں سر ہلایا ۔ جبکہ نظریں دروازے پر ٹکی ہوئی زرقان کے اندر انے کی دعا کر رہی تھی ۔


" سنا ہے تمہارا شوہر بہت گنڈا ہے بہت بدصورت ہے " ۔ زرقان نے اُس سے ایک قدم کی دوری پر رکتے سخت و سرد لہجے میں کہا ۔ وہ اپنی تعریف سننا چاہتا تھا شاید آمنہ کے منہ سے۔


" نہیں نہیں وہ بہت پیارا ہے " ۔ آمنہ نے جلدی سے اشارہ کیا ۔ زرقان کے لبوں پر مسکراہٹ ائی ۔آمنہ اپنے خوف سے باہر نکلتی تو محسوس کرتی کہ اس نقاب پوش سے اُٹھتی مسحور کن خوشبو زرقان کی خوشبو جیسے ہی تو تھی پر وہ خوف میں ڈوبی اپنے ہوش میں کہاں تھی ۔


" میں نے تم سے کہا تھا نہ کسی آدمی کے پاس مت جانا پھر تُم نے شادی کیوں کی " ۔ زرقان نے اپنی آنکھوں میں سرد پن لیتے کہا۔


" میں اُس سے پیار کرتی ہوں اسی لیے شادی کی اور تم مجھے ڈراؤ نہیں میرا شوہر یہی ہے وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا اسی لئے بہتر یہی ہے چلے جاؤ یہاں سے ورنہ میں اُسے سب بتا دونگی "۔ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی زرقان کو زرقان سے ہی ڈراتی وہ اس قدر پیاری لگی کہ اُسے ٹوٹ کر اُس پر پیار ایا ۔


" میں نہیں ڈرتا تمہارے شوہر سے تم میری ہو اور میری ہی رہو گی دیکھنا میں تمہارے شوہر کے ساتھ کیا کرونگا میں اُسے مار دونگا اگر تم نے اُسے کچھ بھی بتایا تو " ۔ زرقان کے کہنے پر آمنہ کی ہیزل بلو آنکھیں پل میں آنسوؤں سے بھری ۔ وہ کانپ اُٹھی تھی اس بات پر ۔۔اُسکا لرزتا بدن اور آنسوؤں سے بھری آنکھیں یہ بات واضح کر رہی تھی کہ اس بات نے اُسے کتنی تکلیف پہنچائی ہے ۔ وہ کچھ زیادہ ہی ڈر گئی تھی ۔ زرقان نے ایک نظر اُسکے لرزتے بدن پر ڈالی آمنہ کہ لرزتا وجود اور تاثرات یہ بات ظاہر کر رہے تھے کہ وہ اُسکی زندگی میں کیا معنی رکھتا ہے ۔ یکدم اسکے وجود میں سرشاری سی دوڑتی چلی گئی ۔ موم بتی یکدم بجھاتے وہ کھڑکی کی طرف اتے تیزی سے باہر کودتے گھر میں داخل ہوا تھا ۔


آمنہ نے ہچکیاں بھرتے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا ۔ بیشک زرقان نے اُسے تکلیف پہنچائی تھی لیکن اُسکی جان بستی تھی اپنے شوہر میں وہ اُسکی آخری بات پر تڑپ اُٹھی تھی اُسکی دل کی دھڑکن رک سی گئی تھی ۔ اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے وہ اندھیرے میں ہی باہر نکلی ابھی زرقان باہر تھا کہیں یہ ماسک والا اُسے نقصان پہنچا دے یہ سوچتے ہی اُسے اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔


آمنہ نے دروازہ کھولتے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ وہ کسی کے سینے کا حصہ بنی ۔ اُسکا وجود لمحے میں برف بنا۔


" کیا ہوا عشقم کہاں جا رہی ہو " ۔ زرقان نے اُسکے لرزتے وجود پر اپنا حصار کرتے اُس سے پوچھا ۔ زرقان کی آواز اُسکی خوشبو محسوس کرتے امنہ نے سکون کا سانس لیا ۔


آمنہ نے اپنی بھیگی آنکھیں اٹھا کر زرقان کو دیکھنا چاہا جب زرقان نے اپنے فون کی ٹارچ آن کی ۔ اپنے پاس زرقان کو دیکھتے امنہ نے اُسکے گرد اپنی گرفت سخت کرتے اُسکے سینے پر اپنا سر رکھا ۔ زرقان نے اپنی بیوی کی اس ادا پر مسکرا گیا ۔


" عشقم کسی نے دیکھ لیا تو اچھا نہیں لگے گا کمرے میں چل کر ہم یہی سے رومانس کنٹنیو کرے گے " ۔ زرقان نے اُسے ایسے ہی گلے لگائے ہی اپنے قدم کمرے کے اندر بڑھائے ۔


کمرے میں اتے ہی اُس نے اپنا موبائل ایک طرف رکھ کر اپنے سینے سے لگی آمنہ کو دیکھا جو اُس پر اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی تھی۔


" خیریت تو ہے اتنا پیار آرہا ہے مجھ پر "۔ آمنہ کے بالوں سے اٹھتی مہک کو اپنی سانسوں میں اُتارا ۔


آمنہ نے زرقان کی بات پر ہوش میں ائی وہ خوف کے زیرِ اثر ابھی تک اُسکے سینے سے لگی ہوئی تھی آمنہ کو اپنی پوزیشن کا خیال آیا تو چہرے کی رنگت پل میں سرخ ہوئی ۔ وہ ایک جھٹکے سے زرقان سے دور ہوئی ۔


اس نے چاروں طرف کمرے میں دیکھا لیکن اُس ماسک پوش کو یہاں نہ پاتے سکون کا سانس لیا ۔


" کوئی پیار نہیں آرہا میں تو بس ویسے ہی "۔ آمنہ نے زرقان کی بات یاد کرتے نظریں جھکائے اشارہ کرتے کہا۔


" ٹھیک ہے سمجھ گیا اب میں چلتا ہوں باہر میں تو ٹارچ دینے ایا تھا بہت نیند آرہی ہے مجھے " ۔ زرقان نے نقلی جمائی لیتے کہا اور باہر کی طرف بڑھنے لگا جب آمنہ نے اُسکی بات پر خوف سے پھیلتی آنکھوں کے ساتھ اُسکا ہاتھ پکڑا ۔ وہ باہر جا رہا تھا اگر پھر سے وہ ماسک پوش اندر آگیا یا پھر اُس نے زرقان کو کچھ نقصان پہنچا دیا ۔


" کیا ہوا اب عشقم " ۔ زرقان نے پلٹتے اپنی آنکھوں میں نیند بھرتے ہوئے پوچھا۔


" وہ آپ یہی میرے پاس مطلب ادھر ہی سوجائے "۔ آمنہ نے زرقان کے چہرے کو دیکھتے تھوک نگلتے اشارتاً کہا ۔


" پر تم نہیں چاہتی نہ کہ میں یہاں سوجاؤ تو کوئی بات نہیں میں چلا جاتا ہوں باہر تم آرام سے سوجاؤ "۔ زرقان نے اُسکے حسین چہرے پر اپنے لئے فکر اور خوف دیکھتے کہا۔


" آپ سمجھ کیوں نہیں رہے آپ باہر جائے گے تو بابا اور ماما پریشان ہوجائے گے اسی لیے یہی سوجائے "۔ آمنہ نے زرقان کے یوں ضد کرنے پر جھنجلا کر اشارہ کیا ۔


" اچھا ٹھیک ہے عشقم غصّہ کیوں کر رہی ہوں سو جاتا ہو " ۔ زرقان تو اسی موقعہ کی تلاش میں تھا جلدی سے کہتے بیڈ پر جاکر ایک طرف لیٹ گیا ۔


آمنہ نے ایک نظر زرقان کو دیکھا جو بیڈ پر ایک طرف لیٹ کر اپنی آنکھیں بند کر گیا تھا پھر اُس نے اپنی نظر پورے کمرے میں دوڑائی ۔ اور پھر جلدی سے ڈرتے ہوئے بیڈ پر جاکر دوسری طرف لیٹ گئی ۔ نظر اب کھلی کھڑکی پر تھی ۔ کہ یکدم کھڑکی کے باہر سے کچھ گرنے کی آواز سنتے وہ ایک جھٹکے سے زرقان کی طرف کھسکتے اُسکے سینے میں سر چھپا گئی ۔ اپنی آنکھیں مینچے وہ اپنا چہرہ بلکل زرقان کے سینے میں چھپا گئی تھی ۔ جبکہ زرقان کے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے وہ اُس میں مکمل توڑ پر چھپ گئی تھی۔ زرقان نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے آمنہ کے گرد اپنا حصار باندھا ۔ آمنہ کی اس قدر نزدیکی پر اُسکے جذبات اُبھر رہے تھے جنہیں وہ اپنے سینے میں دفن کرتے اُسکے بالوں میں اپنا چہرہ چھپائے نیند کی وادی میں اترتا چلا گیا تھا ۔


آمنہ نے اپنی آنکھیں مينچے اپنے گرد زرقان کا حصار محسوس کرتے اپنی دل کی دھڑکنوں کو منتشر ہوتا محسوس کیا تھا ۔ لیکن وہ اُس سے دور نہیں گئی تھی دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیا تھا ۔


💗💗💗💗💗💗


شاور سے بہتا پانی اُسکے وجود کو بھگو رہا تھا ۔ اور وہ سن سی بیٹھی نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی ۔ ماتھے پر لگی چوٹ سے خون رسنا بند ہوگیا تھا ۔


وہ نہیں جانتی تھی وہ کیسے گھر تک ائی تھی ۔ اُسکی سمجھ سے سب کچھ باہر تھا ۔ اُسکے ذہن میں صرف ایک ہی منظر گھوم رہا تھا ۔ جب حسام گھٹنوں کے بل جھکا تھا ۔ جب اُسکی مغرور سیاہ انکھوں سے آنسو بہتا اُسکی داڑھی میں جذب ہوا تھا ۔ اور اُسکی آنکھوں میں آنسو لانے والی وہ خود تھی ۔


بیہ روتے ہوئے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ گئی سب کچھ ختم ہوتا محسوس ہورہا تھا آخر وہ کیوں خوش نہیں رہ سکتی تھی ۔ کیوں اُسکی زندگی میں اتنی آزمائشیں تھی ۔ اُسے پورا یقین تھا اُس نے حسام کے دل کو اج زخمی کر دیا ہے اُسے پوری طرح توڑ دیا ہے ۔ اُسے بےبس زمین پر بیٹھا اُس نے خود تو دیکھا تھا۔ اور ایسا وہ کب چاہتی تھی وہ تو ہمیشہ اپنے شوہر کو سر اٹھا کر چلتے دیکھنا چاہتی تھی وہ اپنے شوہر کو مضبوط دیکھنا چاہتی تھی ۔


کتنی محبت اور محنت سے اُس نے وہ سب پلین کیا تھا اور وہ پینٹنگ ۔۔۔اُسے یاد تھا حسام پینٹنگ بناتا تھا اُس نے کتنی محبت سے وہ پینٹنگ بنائی ہوگی جو بیہ نے ایک جھٹکے میں توڑ دی تھی ۔


اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں میں چھپائے وہ شدت سے رو دی سر میں درد پھر سے اٹھنے لگا تھا ۔ ایک ہی حل تھا اپنے دل کے درد پر قابو پانے کا ۔۔اور وہ تھا اپنے رب سے فریاد کرنا ۔ بیہ کانپتا وجود لیے اپنی جگہ سے اُٹھی ۔ شاور بند کرتے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ڈریسنگ روم سے اپنا ڈریس لیتے فرش ہوتے نماز سٹائل میں دوپٹہ باندھے وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئی ۔ اور پھر وہ تھی اُسکے آنسو اور اُسکا مہربان رب ۔۔۔

اندھیرا ہلکے ہلکے ختم ہونے لگا تھا ۔۔۔ایسے میں براؤن آنکھوں میں نمی لیے اُس نے جنید کے سینے سے سر اٹھاتے اُس کے خوبرو چہرے کو دیکھا ۔ جبکہ ہاتھ اُسکے سینے پر موجود گولیوں کے نشان پر تھا ۔


رات بھر اُسکی محبت و شدت بھری سرگوشیاں ۔۔ اُسکا نرم و گرم لمس ۔۔۔اُسکی بیقراریاں وہ محسوس کرتی رہی تھی ۔ اُس نے اُسکے پور پور کو اپنے لمس سے مہکایا تھا ۔


" تمہارے لمس تمہاری خوشبو کو خود میں بسا لئا ہے میں نے اب وقت جُدائی اتا ہے ۔ تم سے دور جانے کا وقت اتا ہے " ۔ سدرہ نے اٹھتے جنید کے ماتھے پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے اُس کے خوبرو چہرے کو دیکھتے نم آواز میں کہا ۔


گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکا ۔ جسے بمشکل نگلتے اس نے اپنے قدم بیڈ سے نیچے رکھے ۔ براؤن آنکھوں میں رت جگے کی سرخی کے ساتھ ضبط کی سرخی بھی تیر رہی تھی ۔


بیڈ سے اٹھتے اُس نے بیڈ کے پاس پڑا اپنا دوپٹہ اٹھاتے خود پر اوڑھا ۔ نظریں جنید کے نقوش کو جیسے حفظ کرنا چاہتی تھی ۔


" بہت مشکل ہے میرے لئے تم سے دور جانا لیکن یہی سزا ہے تمھاری ۔۔۔تمہیں بھی تو محسوس ہو جُدائی کی تڑپ کیسی ہوتی ہے " ۔ دل میں کہتے اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ اپنے قدم ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھاتے اُس نے وہاں رکھے پین سے دائری میں کچھ لکھا اُسکی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے اُسکے چہرے کو بھگو رہے تھے ۔


ایک گہرا سانس بھرتے اُس نے آئینے میں خود کو دیکھا جنید کی قربت نے اُسکے چہرے پر ایک الگ رنگ بکھیر دیا تھا۔ نظر اپنی گردن پر پڑی تو وہاں جنید کی شدتوں کے نشان دیکھتے سدرہ نے اپنی بھیگی آنکھیں بند کی ۔ اور اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے ۔


اُسکا ہر اٹھتا قدم اُس سے التجا کر رہا تھا کہ یہی تھم جائے آگے نہیں بڑھے ۔۔۔اس شخص میں اُسکا سکون ہے اپنے سکون کو چھوڑ کر نہیں جائے ۔ اُسکا ہر گرتا آنسو جنید کے حق میں فریاد کر رہا تھا ۔


" اگر میں کبھی تُم سے دور چلی جاؤ " ۔ اپنے الفاظ کانوں میں گونجے ۔


" اتنے قریب آکر دور جاؤ گی تو مر نہ جائے گا جنید " ۔ جنید کے لفظ کانوں میں گونجتے اُسے تکلیف کی بھٹی میں جھونک گئے۔ دروازے کے پاس اتے اُس نے ایک دفعہ مڑ کر اُسے دیکھا تھا ۔ جس کے چہرے پر اطمینان تھا سکون سا تھا ۔ سدرہ کو لگا اُسکی سانسیں ختم ہو رہی ہوں ۔ لیکن اُسے یہ کرنا تھا ۔اُسے جنید کو سزا دینی تھی اُسے جنید کو بتانا تھا کیسی تڑپ کیسی تکلیف ہوتی ہے ۔ جب آپکی محبت آپ سے دور ہوتی ہے ۔ یہ فیصلہ اُسکی انا کا تھا ۔ اُسکے دل کا نہیں ۔۔۔۔کیونکہ اُسکا دل تو اُسکے پہلو میں تھا ہی نہیں اُسکا دل تو جنید کے سینے میں دھڑکتا تھا ۔ سدرہ نے برستی براؤن آنکھوں سے ایک آخری نظر جنید کے وجود پر ڈالی جو نیند کی وادی میں گم تھا اور پھر وہ اُسے تنہا کرتی چلی گئی ۔ اپنی انا کی خاطر ۔۔۔


💗💗💗💗💗💗


کروٹ بدلتے اُس نے سدرہ کے وجود کو اپنی باہوں میں بھرنا چاہا ۔۔لیکن پاس اُسے نہ پاتے اُس کی آنکھیں پل میں کھلی ۔ مندی مندی آنکھیں کھولتے اُس نے نظر پورے کمرے میں دوڑائی ۔۔لیکن سدرہ کو وہاں نہ پاتے وہ پل میں اپنی آنکھیں مکمل کھولتے اٹھ بیٹھا۔


" سدرہ " ۔ جنید نے نیند سے بوجھل ہوتی آواز میں سدرہ کو پُکارا ۔ لیکن جواب ندار ۔ جنید کے ماتھے پر بل پڑے ۔ وہ ایک ہی جست میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ قدم واشروم کی طرف بڑھائے ۔ بلا جھجھک دروازہ کھولا لیکن اُسے وہاں بھی نہ پاتے اُسکی آبرو مزید تن اُٹھی ۔ سدرہ کو پورے کمرے میں نہ پاتے اُسے اپنے وجود میں بےچینی سی بھرتی محسوس ہوئی ۔ اُس نے دیوار گیر گھڑی پر وقت دیکھا تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے ۔ ابھی اُس نے سدرہ کی تلاش میں اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ہی تھے جب اُسکی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے کاغذ پر پڑی ۔ کچھ سوچتے اُسکا ماتھا ٹھنکا ۔ سر بیساختہ نفی میں ہلا ۔ گردن اور بازوں کی رگیں واضع ہوئی ۔ جبڑے بھینچے اُس نے ایک ہی جست میں ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اتے کاغذ اٹھایا ۔


" جب تم اٹھو گے تب میں نہیں ہونگی تمہارے پاس ۔۔تم سے بہت دور جا چکی ہونگی ۔ اُسی طرح جس طرح تم مجھے چھوڑ گئے تھے ۔ ہاں لیکن تمھاری خوشبو اپنے وجود میں لے کر جا رہی ہوں ۔تمہارا لمس تمھاری شدتوں کے نشان ۔ ۔تم سے دور جانا آسان نہیں تھا ۔ لیکن تمہیں بھی تو اس بات کا ادراک کروانا تھا کہ جُدائی میں انسان کن کن چیزوں اور تکلیفوں سے گزرتا ہے ۔۔۔تم مجھے چھوڑ کر گئے ۔۔پانچ سال بعد واپس آئے مجھ سے معافی مانگی رخصتی کروائی ۔۔سب ٹھیک تھا لیکن مجھے تمہیں سزا دینی تھی اور یہی سزا میں نے تمھاری منتخب کی ہے ۔۔مجھے ڈھونڈنا مت میری جان جب مجھے لگے گا تمھاری سزا ختم تب میں لوٹ اونگی تمہارے پاس ۔۔اپنا دھیان رکھنا ۔۔۔تمھاری سدرہ " ۔


کاغذ پر لکھی کچھ لائنوں کی تحریر اتنی زیادہ اذیت دہ تھی کہ ایک جوان جہاں مرد زمین پر بیٹھتا چلا گیا ۔ اُسکی براؤن آنکھوں میں سرخی کی تہہ جم اُٹھی ۔ جبڑے بری طرح بھینچے وہ ضبط کر رہا تھا ۔ اُسکے پورے وجود میں ایک اذیت سی بھرتی چلی گئی تھی ۔ اُسے لگ رہا تھا جیسے کوئی تیز ڈھار والے آلے سے اُسکے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہوں ۔


جنید کی آنکھوں میں کل رات کے تمام حسین منظر لہرائے جب وہ اُسکی قربت میں تھی ۔ جب وہ اُسکے لمس اور شدتوں سے گھبراتے اُسکے سینے میں چھپ رہی تھی جب وہ اُسکی شدتوں میں اُسکا ساتھ دے رہی تھی ۔ تو کیا وہ سب اسی لئے تھا کہ صبح وہ اُسے چھوڑ کر جانے کا سوچ چکی تھی ۔ جنید نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی ۔


" اگر کبھی میں تمہیں چھوڑ گئی تو " ۔ اگر کبھی میں تمہیں چھوڑ گئی تو " ۔ جنید کے کانوں میں ان لفظوں کی بازگشت ہونے لگی۔ اُسکی براؤن آنکھوں میں سرخی کے ساتھ ساتھ نمی نے اپنی جگہ بنائی ۔ وہ کاغذ کو دیکھتے استہزائیہ ہنس دیا ۔


" سزا " ۔ جنید نے ایک لفظ کہتے اپنے لب آپس میں بھینچے نفی میں سر ہلایا جیسے اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوؤں کو روکنا چاہا ہوں ۔


" یہی سزا دينی تھی تو اتنے قریب نہیں آتی ۔ نہیں آتی اتنے قریب "۔ شدت سے کہتے وہ اپنا ہاتھ زور سے زمین پر مار گیا ۔


" سزا کی بات کرتی ہوں پچھلے پانچ سال سے ایک رات سکون سے سویا نہیں پچھلے پانچ سال سے تمہارے لمس تمہارے آواز تمہارے دیدار کے لئے تڑپتا رہا تنہا رہا کیا یہ سزا کافی نہیں تھی میرے لئے جو ایک رات وصل کی دیتے مجھے ہجر کی آگ میں جھونک گئی " ۔ بھرائی آواز میں وہ جیسے تصور میں سدرہ سے مخاطب تھا ۔


" ہونہہ پسندیدہ عورت ہی مرد کو رلا سکتی ہے " ۔ اپنی آنکھ سے نکلتے آنسو کو اپنی انگلی سے صاف کرتے جنید نے استہزائیہ لہجے میں کہا ۔


" چلو دو سزا جتنی دینی ہے دو جتنے وقت تک ہجر کی دیوار کو بلند رکھنا ہے رکھو ۔۔میں بھی دیکھتا ہوں کب تک تمہارا دل میرے لیے سخت رہتا ہے ۔ کب تک تم لوٹ کر اتی ہوں ۔۔" زخمی لہجے میں کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ چہرہ اب حد درجہ سپاٹ تھا جبکہ آنکھوں میں پل پل سرخی بڑھتی جا رہی تھی ۔


فون بجنے کی آواز پر وہ سائڈ ٹیبل پر رکھے اپنے فون کی طرف ایا تھا جہاں کسی انجان نمبر سے کال آرہی تھی ۔


" یس " ۔ جنید نے فون ریسیو کرتے کان سے لگایا ۔


" کامل خان بات کر رہا ہوں ایک ایڈریس سینڈ کیا ہے کچھ دیر تک وہاں آجاؤ " ۔ کامل خان کی سنجیدگی بھری آواز گونجی ۔


" اوکے " ۔ سنجیدگی سے کہتے اُس نے اپنا موبائل واپس رکھنا چاہا لیکن والپیپر پر لگی سدرہ کی تصویر کو دیکھتے اُس نے اپنے لب بھینچے ۔ اپنا انگوٹھا سدرہ کی تصویر پر پھیرتے وہ بیڈ پر بیٹھتا حسین لمحات کو یاد کرنے لگا جو کل اُن دونوں کے بیچ قید ہوئے تھے۔


" اچھا نہیں کیا تم نے جتنا تڑپاؤنگی میں اتنا حساب لونگا تم سے " ۔ سدرہ کی تصویر کو دیکھتے جنید نے کہتے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔ کچھ سوچتے اُس نے اپنے خاص بندے کو فون کرتے سدرہ کے بارے میں معلوم کرنے کا میسج کیا تھا ۔ انڈر ورلڈ وہ چھوڑ چکا تھا لیکن اُس کا اب اپنا ایک بزنس تھا ۔


بیشک وہ سدرہ کے پیچھے نہیں جانے والا تھا ۔ محبوب نے سزا دی تھی تو محبوب کی سزا بھی سر انکھوں پر تھی لیکن اُسکی فکر اپنی جگہ تھی ۔


💗💗💗💗

موبائل کی بجتی آواز پر آمنہ نے اپنی آنکھیں کھولی تھی ۔ آنکھیں کھولتے ہی اپنی گردن پر گرم تپش زدہ سانسیں محسوس کرتے امنہ نے اپنی نظریں جھکا کر زرقان کو دیکھا تھا ۔ جو اُسکی گردن میں منہ چھپائے محو نیند تھا ۔ آمنہ کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ نے بسیرا کیا ۔ وہ اُسکے گرد بازؤں حمائل کیے اُسکی گردن میں منہ چھپائے آمنہ کا دل تیز رفتار سے دھڑکا گیا تھا ۔


فون کی چینگھارٹی آواز پر آمنہ نے زرقان کی نیند نہ خراب ہونے کے ڈر سے جلدی سے فون اٹھایا لیکن سکرین پر نظر آتا نام دیکھتے اُسکے چہرہ پر جمی مسکراہٹ پل میں سمٹی ۔ صوفیہ کا نام دیکھتے ہی اُسے اپنا وجود جھلستا ہوا محسوس ہوا ۔ فون کال بند ہوتے ہی سکرین پر مسیج چمکا ۔


" کل میرے ساتھ رہنے کے لئے شکریہ زرقان تم نہ ہوتے تو کل میں سچ میں اپنے آپکو مار دیتی " ۔ میسج پڑھتے آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں نمی جمع ہوئی ۔ تو اسکا مطلب تھا وہ کل صوفیہ کے ساتھ تھا ۔ آمنہ کے دل میں چبھن کا احساس ہوا ۔ آنسو کب پلکوں کی بار توڑتے اُسکے گالوں تک آئے اُسے پتہ ہی نہیں چلا ۔


موبائل ایک بار پھر سے بج اٹھا تھا ۔ جبکہ آمنہ فون اپنے ہاتھ میں تھامی بس بھیگی نگاہوں سے فون سکرین کو دیکھی جا رہی تھی ۔ موبائل کی مسلسل بجتی بیل پر اب زرقان کی آنکھ کھلی تھی اُس نے آمنہ کی گردن سے منہ نکالا اور امنہ کے پیٹ کے گرد گرفت مزید کرتے اُسے خود میں بھینچنا چاہا جب اُسکی نظر موبائل پر پڑی اور موبائل پر نظر آتے نام کو دیکھتے اُس نے تیزی سے آمنہ کو دیکھا تھا جو بھیگی آنکھیں لئے سکرین کو ہی دیکھ رہی تھی ۔


زرقان نے اُسکی بھیگی آنکھیں دیکھتے اپنی آنکھیں مینچی ۔ آمنہ نے سکرین سے نظر ہٹاتے زرقان کو اپنی ہیزل بلو سرخ ہوتی آنکھوں سے دیکھتے ایک جھٹکے سے اپنے پیٹ پر رکھا اُس کا ہاتھ ہٹایا اور اُس سے دور ہوتی بیڈ سے آٹھ کھڑی ہوئی ۔ زرقان نے اپنی آنکھوں کو انگلیوں سے مسلتے کچھ کہنا چاہا جب آمنہ نے موبائل اُسکی طرف پھینکا جو سیدھا اُسکے سر پر لگا۔


" سی " ۔ زرقان نے سر پر ہاتھ رکھتے اپنی بیوی کو دیکھا جو آنکھوں میں غصّہ اور آنسو لیے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔


" آمنہ بات تو سنو میری یار " ۔ زرقان نے نرم لہجہ میں جیسے التجاء کی ۔ آمنہ نے اپنے آنسو صاف کرتے اُسکی طرف دیکھا ۔ لیکن اُسکے پھر سے بجتے موبائل کو دیکھتے وہ تیزی سے اپنے قدم ڈریسنگ روم کی طرف بڑھا گئی ۔ اُس سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا پہلے وہ اُسکی محبت تھا لیکن اب وہ اُسکا شوہر تھا اُسے اپنا پورا وجود جھلستا محسوس ہو رہا تھا ۔ چاہے جو بھی وجہ صحیح وہ زرقان کو صوفیہ کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی تھی ۔


" کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں یار میں " ۔ زرقان نے کہتے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا ۔ جب اُسکے فون پر کامل کا میسج ریسیو ہوا ۔ جہاں اُس نے اُسے ملنے کے لئے بلایا تھا۔ وہ کامل کو جواب دے ہی رہا تھا جب ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا اور آمنہ باہر ائی ۔ براؤن رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹہ کو گلے سے لگائے بالوں کا جوڑا باندھے وہ ایک بھی نظر زرقان پر ڈالے بنا کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔ زرقان نے اپنی نظراندازی پر دانت پیسے ۔


" اللہ کرے اس صوفیہ کو کوئی فوبیہ ہوجائے اور کسی طرح میری جان اس سے چھوٹ جائے میری حسین بیوی اسکی وجہ سے ناراض ہوگئی ۔ کتنی پیاری لگ رہی تھی ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پایا " ۔ اپنے آپ سے کہتے وہ خود بھی فریش ہونے چلا گیا ۔


اُسکے بعد ناشتے کی ٹیبل پر بھی آمنہ نے اُسے نظرانداز کیا ۔منصور صاحب اور نجمہ بیگم سے الوادعی کلمات کرتے وہ آمنہ کو لئے گھر کی طرف نکل گیا تھا گھر کے باہر گاڑی روکتے ہی آمنہ اُسکی طرف دیکھے بنا گھر کے اندر بڑھ گئی تھی اور زرقان کو اس کا یو نظرانداز کرنا جبڑے بھینچنے پر مجبور کر گیا تھا ۔ آمنہ کی وقفے وقفے سے نم ہوتی پلکیں اور سرخ ہوتی ناک وہ نوٹ کرچکا تھا وہ دل ہی دل میں رو رہی تھی ۔ زرقان نے گہرا سانس بھرتے گاڑی ریورس کی ابھی اُسے کامل سے ملنا تھا جو انتہائی ضروری تھا آمنہ کو وہ آکر منانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔


💗💗💗💗💗💗


ایڈیلیڈ کے شہر کی یہ جگہ گھنے جنگلات پر تھی اور اُس جنگلات کے بیچ میں بنا یہ چھوٹا سا گھر جہاں اس وقت حسام , کامل ، خضر زرقان اور جنید موجود تھے ۔


پورے کمرے میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی حسام اور جنید کے ضرورت سے زیادہ سنجیدہ چہرہ اور لال آنکھیں دیکھتے اُن تینوں کو اچنبھا ہوا تھا اور حسام کے زخمی ہاتھ دیکھتے وہ سب سمجھ گئے تھے کچھ تو ہوا تھا ۔


سرخ آنکھیں لیے اور ساکت وجود لئے حسام اُسی جگہ بیٹھا ہوا تھا جہاں اُسکی محبت اُسے قاتل ، فریبی ، حسن پرست انسان کہتے اُسکے دل کو ٹکڑوں میں توڑتے گئی تھی۔ اُسکی نظریں اپنے ہاتھ میں تھامی اُس پینٹنگ کے ذرا سے ٹکڑے پر تھی جس میں بیہ کا چہرہ پینٹ ہوا تھا ۔ جب اُسکے پاس کامل کا فون ایا ۔ جس نے اُسے ارجنٹ ملنے بلایا تھا۔ حسام اپنے ٹوٹے بکھرے وجود کو لئے وہاں سے اٹھا تھا ۔ اور کامل کے بتائے گئے ایڈریس کی طرف جانے کے لیے گاڑی میں سوار ہوا تھا ۔ ہاتھوں سے بہتا خون اب جم چکا تھا جبکہ اپنے ہاتھ میں چبھے کانچ کے ٹکڑوں کو وہ بہت سی بیدردی سے خود نکال چکا تھا۔


" تو ۔۔۔۔بات شروع کرتے ہیں " ۔ زرقان نے اُن چاروں کو دیکھتے گہرا سانس بھرتے بات شروع کی ۔


زرقان کی آواز پر اُن چاروں نے اُسکی طرف دیکھا جو بلیک ہوڈی اور بلیک پینٹ میں ماتھے پر پڑے سلکی بالوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔


" میں زرقان خان ہوں ۔۔آپ میں سے دو مجھے اچھی طرح جانتے ہیں لیکن دو نہیں جانتے پر میں اُن دونوں کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں " ۔ زرقان نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا ۔ حسام نے اپنی سنجیدہ کالی آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا۔


" زرقان ۔۔۔کام کی بات کرو جس کے لئے ہم یہاں جمع ہوئے ہے " ۔ خضر نے سنجیدگی سے اُسے دیکھتے کہا ۔ خضر کی آواز پر حسام نے اُسکی طرف دیکھا لیکن اپنی شرمندگی کی وجہ سے وہ نظریں اُس پر سے ہٹا گیا ۔ زرقان نے خضر کے کہنے پر اثبات میں سر ہلایا۔


" چھ سال پہلے اگر آپکو یاد ہو تو آپ دونوں کو ایک مشن دیا گیا تھا جس میں آپ دونوں کو اُن تمام لوگوں کو پکڑنا تھا جو پاکستان میں غیر قانونی کام کر رہے تھے " ۔ زرقان نے اپنی جگہ سے اٹھتے کرسی کی بیک پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے کامل اور خضر سے کہا ۔


" ہاں یاد ہے "۔ خضر اور کامل نے اثبات میں سر ہلایا ۔


" اس آپریشن کے دوران آپ دونوں نے ایک گھر کو ٹارگٹ کیا تھا جس میں آپکی معلومات کے مطابق غیر قانونی سامان کے ساتھ ڈرگز وغیرہ رکھی گئی تھی اور وہاں انڈر ورلڈ کے کچھ میمبر بھی تھے "۔ زرقان کی اگلی بات پر کامل اور خضر دونوں کے ماتھے پر بل پڑے حسام اور جنید بھی اب سیدھا ہوتے اُسکی طرف مکمل توڑ پر متوجہ ہوگئے تھے ۔


" زرقان مین بات بتاؤ ان سے کا کیا کوئی کنیکشن ہے " ۔ کامل نے پوچھا ۔


"جی بالکل کنکشن تو ہے لیکن ذرا پہلے آپ۔لوگ مجھے یہ بتائے چھ سال پہلے آپ بھی پاکستان میں غیر قانونی کاموں میں ملوث تھے۔ لیکن آپ کے بارے میں ہم نہیں جانتے تھے ۔ ہمیں صرف یہ پتہ تھا انڈر ورلڈ کے کچھ لوگ ہے۔ آپ چھ سال پہلے اپنے ہر اڈے پر پولیس کے آپریشن ہونے کی وجہ سے ایک گھر میں چھپے تھے ۔ جو شائد آپکے ہی گروپ کے کسی بندے کا گھر تھا " ۔ زرقان نے اپنی ہوڈی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے حسام اور جنید کی طرف دیکھتے پوچھا ۔ اُن دونوں کے ماتھے پر بھی بلوں کا جال بچھا ۔


" ہاں " ۔ حسام نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔


" زرقان ان سب کا آخر کیا کنکشن ہے تفصیل سے بتاؤ گے "۔ کامل جھنجھلایا ۔


" چھ سال پہلے حسام ملک اپنے ایک گروپ کے ممبر کے گھر رکا تھا ۔ جہاں پر اُس میمبر کی فیملی بھی تھی ۔ جب وہاں پر کامل اور خضر بھائی نے اٹیک کیا ۔ آپ دونوں کے اٹیک کا سنتے ہی حسام ملک اور جنید کو ان کے ممبر ہیلی کاپٹر کی مدد سے اُس گھر کے پچھلے دروازے سے محفوظ کرتے پولیس اور فورس سے بچا لے گئے تھے ۔ کیونکہ حسام ملک انڈر ورلڈ کا ایک مضبوط ستون تھا جو اگر پولیس کے ہاتھ لگ جاتا تو پاکستان میں موجود تمام انڈر ورلڈ کے ممبر کو با آسانی پکڑ لیا جاتا۔ ایک طرف سے حسام ملک اور جنید اُس گھر سے باہر نکلے تو دوسری طرف سے آپ نے اور کامل بھائی نے اُس گھر کو بم سے اڑانے کا آرڈر دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ اُس گھر میں اب کچھ بھی نہیں بچا سوائے ڈرگز اور دوسری چیزوں کے " ۔ زرقان جیسے جیسے بولتا جا رہا تھا اُن چاروں کو سب کچھ سمجھ اتا جا رہا تھا۔


" اس گھر میں فیملی بھی تھی یہ بات ہم نہیں جانتے تھے انفیکٹ میں نے وہاں موجود آفسیر سے پوچھا بھی تھا کہ اندر کوئی ہے اُسکے نفی میں جواب دینے پر ہی ہم نے وہ قدم اٹھایا تھا " ۔ خضر نے پریشانی سے کہا۔


" اس گھر میں فیملی تھی اُس میں ایک بچی تھی جعفر کی بچی میں نے ہیلی کاپٹر میں جانے سے پہلے اپنے بندوں کو بولا تھا اُن کو وہاں سے نکالنے کا "۔ حسام نے زرقان سے کہا چہرے پر اضطراب سا پھیلا تھا ۔


" آپ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ۔۔اُنہیں وہاں سے نکالنے کا ۔۔اور آپ دونوں اس بات سے ناواقف تھے کہ اُس گھر میں ایک بچی بھی ہے اُسکی ماں بھی ہے ۔ یہ بات میں جانتا ہوں لیکن نہ تو انڈر ورلڈ کے لوگ اتنے رحم دل ہوتے ہیں کہ وہ کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کو جھونکے میں ڈالے ۔۔نہ ہی کوئی جلتی دہکتی آگ میں کسی کو بچانے کے لئے جاتا ہے ۔ آپکے بندے آپکے حکم کے مطابق واپس گئے تھے اُن کو بچانے پر وہ وہاں ہوتی فائرنگ سے جاں سے ہوگئے تھے "۔ زرقان کے کہنے پر اُن چاروں کے چہرے پر بے سکونی سی چھائی تھی۔


" جعفر عرف لیپرڈ ۔۔۔جس کی بیوی اور بچی اُس بم اٹیک میں جھلستے اپنی جان گواہ بیٹھی وہ ہی اب انڈر ورلڈ کی مین کی ہے اور وہی آپ لوگوں کا دشمن ہے ۔ وہ یہی سمجھتا ہے کہ حسام ملک اور جنید نے اُسکی بیوی اور بچی کو نہیں بچایا اور کامل اور خضر نے اُسکے گھر پر بم اٹیک کیا " ۔ زرقان کی کہتے ہوئے آنکھیں نم ہوئی کچھ ایسا ہی حال اُن چاروں کا تھا۔ دو معصوم جانیں ضائع ہوئی تھی ۔ اور اس میں اُنکی غلطی بھی تھی ۔


" لیکن میں نے کوشش کی تھی میں نے کہا تھا اپنے بندوں کو میں خود جا رہا تھا اُس بچی کو بچانے میں تو پہلے جانتا بھی نہیں تھا کہ اُس گھر میں جعفر کی فیملی بھی ہے۔ اس بات کا علم مجھے تُم لوگوں کے اٹیک کرنے سے دس منٹ پہلے ہوا تھا جب وہ بچی میرے پاس لون میں ائی تھی یہ اللہ میں کیسے نہ اُسے بچا پایا "۔ حسام نے کہتے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپایا۔


" انکل میری بال دینا مجھے "۔ ننھی سی معصوم سی آواز پر وہ جو اپنے فون پر گفتگو میں مصروف تھا اُسکے سارے اڈوں پر پولیس اور آرمی کی ریت پر چکی تھی اور وہ خود جعفر کے گھر میں موجود تھا جو اُسکی گینگ کا ہی ممبر تھا پلٹا۔


سامنے دو پونیاں باندھے گلابی اور سفید رنگت کی حامل بچی جو تقریبا پانچ سال کی ہوگی اُسکے پاس کھڑی اُس سے بال مانگ رہی تھی جو حسام کے دائیں طرف پڑی ہوئی تھی ۔ حسام کو اچنبھا ہوا ۔


" آپ یہاں کیا کر رہی ہو بچے کہاں رہتی ہوں "۔ حسام نے نرم لہجے میں گھٹنوں کے بل بچی کے پاس بیٹھتے اُس سے پوچھا۔


" یہ میرا گھر ہے انکل میں اُدھر ہی رہتی ہوں آپ بابا کے مہمان ہے نہ ۔ وہ آپ کے لئے کچھ سامان لینے گئے ہے اور آپکو پتہ ہے وہ ماما کو بول کر گئے ہے اُنکے سر آئے ہیں اچھا سا کھانا بناؤ "۔ معصوم سی بچی تھی حسام کی بات پر اُسے سب بتاتی چلی گئی۔


حسام نے اپنے لب بھینچے اُس نے جعفر سے کہا بھی تھا کوئی ایسی جگہ بتانا جہاں اس پاس کوئی نہ ہو ۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کسی بھی وقت اس پر بھی آرمی اٹیک کرسکتی ہے ۔ یہاں تو جعفر کی فیملی تھی اگر یہاں اٹیک ہوجاتا تو اُن دونوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا ۔


" نام کیا ہے بیٹا آپکا " ؟ حسام نے چہرے پر مسکراہٹ لائے اُس بچی سے پوچھا ۔


" میرا نام یشفہ " ۔ یشفہ نے ابھی جواب دیا ہی تھا کہ باہر سے اتی گولیوں کی آواز پر وہ حسام کے پیچھے چھپی حسام نے اپنے جبڑے بھنچے ۔ جون جو گھر کی پچھلی طرف موجود تھا اور یہاں سے نکلنے کا انتظام کر رہا تھا گولیوں کی آواز سنتے اُس نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا تھا جہاں ہیلی کاپٹر اُترنے کے لیے تیار تھا ۔ وہ تیزی سے حسام کی طرف بڑھا تھا ۔


" سر چلے ہیلی کاپٹر آگیا ہے " ۔ جون نے آکر حسام سے کہا جب اُسکی نظر بچی پر پڑی ۔


" جعفر کہاں ہے یہاں اُسکی فیملی بھی ہے اُسکی وائف کو لے کر اؤ جون ان سب کو محفوظ یہاں سے نکالو " ۔ حسام نے يشفہ کو اپنے پاس کرتے جنید سے کہا ۔ جب ہیلی کاپٹر کے ذریعے آئے ہوئے اُسکے ساتھی حسام اور جنید کے گرد گھیرا بنائے اُنہیں لئے گھر کی پچھلی طرف بڑھے گولیوں کی آوازیں تیز ہو گئی تھی ۔


" اس بچی کو بچاؤ جاکر "۔ حسام اُنکے بیچ میں چلتا چیخا تھا ۔لیکن اُسکے گارڈز اُسے پروٹیکٹ کرتے اُسے لئے ہیلی تک آئے تھے ۔

اپنے دو گارڈز اُس نے خود واپس گھر کی طرف جاتے دیکھے تھے ۔ جبکہ جنید اُسکے ساتھ تھا ۔


حال ۔ ۔۔۔۔۔


" میں سمجھا تھا جو گارڈز واپس گئے ہے اُنہوں نے اُن دونوں کو بچا لیا ہوگا "۔ جنید نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔


" وہ گولیوں کا نشانہ بنتے ہلاک ہو گئے تھے جس پولیس آفیسر نے آپ دونوں کو یہ اطلاع دی تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہے انڈر ورلڈ کے لوگ بھاگ گئے ہے میرے خیال سے وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اندر واقعی میں ایک فیملی موجود ہے " ۔ زرقان کے کہنے پر وہ چاروں اپنے چہروں پر اپنے ہاتھ رکھ گئے تھے ۔


" یہ کیا ہوگیا ہم سے " کامل نے سرد سانس لیتے ہوئے کہا ۔


" جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے تب آپ لوگ کچھ نہیں کر پائے تھے لیکن اب کر سکتے ہیں ۔ پاکستان اور آسٹریلیا میں جو غیر قانونی سگلنگ ہو رہی ہے وہ سب جعفر کروا رہا ہے ۔ صوفیہ اُسکی گینگ کی ہی ایک میمبر ہے جو اُسکے سارے اڈوں کے بارے میں جانتی تھی ۔ اور اسی وجہ سے میں نے اُسے اپنے اعتماد میں لیا ہوا ہے " ۔ زرقان نے مزید بات بتائی ۔


" اب آجاتے ہے مین بات پر جو مجھے پتہ چلی ہے کامل بھائی کے کہنے پر میں آپ سب کے اور آپ سب کی فیملی کے فون ہیک کر چکا تھا ۔ جس سے مجھے ایک بات پتہ چلی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپکی بیوی جعفر سے بلیک میل ہو رہی ہے ۔ لیکن کل جو بھی آپکے ساتھ ہوا وہ سب جعفر کے کہنے پر ہوا ۔ آپکی بیوی کو عروہ اور بچوں کے ذریعے بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ وہ آپکو اپنے لفظوں سے کمزور کرے اور آپکو کمزور دیکھتے وہ آپ پر وار کرے تاکہ آپ میں اتنی ہمت نہ بچے کہ آپ اُس پر پلٹ کر وار کرسکے " ۔ زرقان نے حسام کی طرف دیکھتے اُسے اہم بات بتائی ۔ حسام کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا اپنے جبڑے بھینچے اُس نے بیہ کے لفظوں کو یاد کیا۔ اُسے پہلے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ بیہ وہ سب لفظ خود نہیں بول سکتی ۔ اب اُسے ساری بات سمجھ ائی تھی یونی میں اُسکا بےہوش ہوتے اُسکی باہوں میں گرنا اور پھر کل کا سارا واقعہ ۔۔۔لیکن کیا اُسکی بیوی کو اُس پر یقین نہیں تھا جو وہ اُسے یہ بات بتا دیتی ۔۔۔کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ حسام اُسے محفوظ کرنے کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگا سکتا ہے ۔


یہ سوال حسام کے دل میں گھپ گیا تھا اُسکی پہلے سے سرخ آنکھیں اس وقت اتنی سرخ ہو گئی تھی جیسے ابھی کسی بھی وقت اُن میں سے لہو چھلک پڑے گا۔


" اب آپ سب سوچ رہے ہونگے مجھے یہ سب کیسے پتہ تو ائی ایس ائی کا آفسیر ہوں اتنا تو میں کر ہی سکتا ہوں( باقی رائٹر کو بھی تو کسی طرح سے سچائی سامنے لانی تھی تو اُنہیں میں ہی نظر ایا ) " ۔


زرقان نے اُن چاروں کی نظریں خود پر مرکوز دیکھتے کندھے اچکا کر کہا ۔


" بہتر یہی ہے آپ اپنی اپنی فیملی کو اپنے پاس سیو رکھے اج مجھے صوفیہ سے رات کو ملنے جانا ہے اور جعفر کے مین اڈے کے بارے میں معلوم کرنا ہے تاکہ اُس تک پہنچ سکے "۔ زرقان کے کہنے پر کامل اور خضر نے اثبات میں سر ہلایا تھا لیکن جنید وہ پل میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ۔ اُن سب نے اچھنبے سے اُسے دیکھا ۔


" سدرہ ۔۔۔سدرہ گھر نہیں ہے " ۔ جنید نے اپنے لبوں پر زبان پھیرتے یہ لفظ کہے تھے ۔ اُن سب نے اپنی آنکھیں بند کی ۔


" جب تمہیں پتہ تھا وہ اُن پر وار کر سکتا ہے تو تم نے پھر اُسے جانے کیوں دیا جنید " ۔ حسام چیخ اٹھا تھا ۔اُسکی برداشت اب ختم ہو رہی تھی ۔ یہ سب دیکھتے اور سوچتے ۔


" مجھے جانا ہوگا مجھے پتہ ہے وہ کہاں ہے میں ملتا ہوں آپ سب سے "۔ جنید کہتا تیزی سے آگے بڑھا تھا ۔ دل کی دھڑکن رکنا کسے کہتے ہے یہ اج اُسے پتہ چل رہا تھا۔


" وہ سدرہ تک نہیں پہنچ گیا ہوں ۔۔۔نہیں وہ سدرہ تک نہیں پہنچ سکتا وہ تو ہوسٹل میں رہ رہی ہے " ۔ اپنے کولر کو ہاتھ سے صحیح کرتے وہ تیز رفتار میں چلتا اپنی گاڑی میں سوار ہوا تھا ۔ اُسکے خاص آدمی ولسن نے اُسے سدرہ کا معلوم کرتے بتا دیا تھا جو ایڈیلیڈ کے ایک چھوٹے سے علاقے کے ایک ہوسٹل میں رہ رہی تھی ۔ جنید کو اس وقت اپنی سانسیں ختم ہوتی محسوس ہو رہی تھی وہ بس کسی طرح سدرہ تک پہنچ جانا چاہتا تھا ۔


" حسام تم میرے ساتھ گھر چل رہے ہوں ۔۔۔اور زرقان جتنا جلدی ہو سکے صوفیہ کے ذریعہ پتہ لگواؤ جعفر کا " ۔ کامل کے کہنے پر زرقان نے اثبات میں سر ہلایا لیکن پہلے وہ آمنہ کے پاس جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ حسام کامل خضر اور زرقان وہ چاروں بھی وہاں سے نکلتے چلے گئے ۔

حسام اس وقت کامل خضر کے ساتھ لاؤنچ میں بیٹھا ہوا تھا فلک بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جبکہ شجیہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی ۔


" فلک انابیہ کو بلا لاؤ ضروری بات کرنی ہے "۔ کامل کی آواز نے وہاں پھیلی خاموشی کو توڑا ۔ انابیہ کا نام سنتے ہی حسام نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچی ۔ اُسکا دل تیز دھڑک اٹھا تھا اُسکے نام پر ۔ فلک اثبات میں سر ہلاتے انابیہ کو بلانے چلی گئی ۔ جبکہ حسام کے دماغ میں تو بس زرقان کے لفظ گونج رہے تھے کہ اُسکی بیوی نے اُسے وہ سب لفظ کسی کے دباؤ میں اتے کہیں تھے ۔ اُسکی بیوی کو اُس پر ذرا سا بھی اعتماد نہیں تھا ۔


وہ جو نماز ادا کرتی جائے نماز پر ہی سر رکھے سو گئی تھی دروازہ بجنے کی آواز پر اٹھ بیٹھی ۔


" جی " ۔ نیند کے باعث آواز بوجھل ہوئی ۔


" انابیہ بھائی بلا رہے ہے نیچے کوئی بات کرنی ہے آجاؤ گڑیا " ۔ فلک نے انابیہ کی آواز سنتے دروازہ کھولتے اُسے دیکھتے کہا۔ لیکن اُسکی سرخ سیاہ آنکھیں دیکھتے فلک کو اچنبھا ہوا۔


" ٹھیک ہے بھابھی میں اتی ہوں " ۔ انابیہ نے فلک کی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کرتے دیکھ اپنی نظریں چُراتے ہوئے کہا۔ فلک سنجیدگی سے اُسے دیکھتے اثبات میں سر ہلاتی واپس پلٹ گئی ۔


فلک کے جاتے ہی انابیہ نے جائے نماز اٹھائی اور جگہ پر رکھی ایک نظر آئینے میں دیکھا کالے لباس میں نماز سٹائل میں دوپٹے لئے سرخ سیاہ آنکھیں اور چہرے پر پھیلا ایک عجیب سا اضطراب ۔۔۔یکدم حسام یاد آیا تو پل میں آنکھیں آنسوؤں سے بھری ۔۔ اپنے آنسو صاف کرتے اُس نے قدم کمرے سے باہر بڑھائے ۔


وہ سیڑھیوں پر ائی ہی تھی جب اُسکی نظر لاؤنچ میں موجود صوفے پر اپنے سر کو جھکائے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے باہم ملائے حسام پر پڑی ۔ بیہ کے قدم اپنی جگہ جم گئے ۔ آنسوؤں کا گولا حلق میں اٹکا ۔۔۔حسام یہاں کیا کر رہا تھا ۔ وہ یہاں کیوں ایا تھا ۔ بہت سے سوال ذہن میں گردشِ کرنے لگے ۔۔۔کل جو اُس نے حسام کے ساتھ کیا اُسکے بعد تو اُسکے اندر حسام کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی ۔


" بیہ نیچے اؤ " ۔ بیہ کو اپنی جگہ جمے دیکھ کامل نے سنجیدگی سے کہا ۔ کامل کے کہنے پر حسام نے اپنے جبڑے بھنچے اُسے اپنی آنکھیں گرم ہوتی محسوس ہوئی ۔ روم روم تڑپ اٹھا بیہ کو دیکھنے کے لیے لیکن اُسکے لفظوں نے جو اُسکے دل اور وجود پر زخم لگائے تھے ۔ اُس سے اٹھتا درد حسام کو اُسکی طرف نہ دیکھنے پر مجبور کر گیا تھا ۔


بیہ نے کامل کی آواز پر اپنے قدم نیچے کی طرف بڑھائے ۔۔حسام کی لا تعلقی پر دل خون کے آنسو رو رہا تھا اُس نے ایک دفعہ بھی اُسے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا ۔ وہ تو اُسکی موجودگی کو اسکی خوشبو سے پہچان لے لیکن اب تو کامل کے کہنے پر بھی اُس نے اپنی اُن سیاہ محبت بھری آنکھوں سے اُسکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔ بیہ تڑپ اٹھی تھی ۔


" جی۔۔جی بھائی " ۔ بیہ کی آواز بھر ائی ۔صوفے کے پاس کھڑے اپنے ہاتھوں کو آپس میں مرورتی وہ گویا ہوئی ۔ حسام نے اُسکی آواز سنتے اپنی آنکھیں مينچی ۔


" انابیہ تم مجھے اپنی بہنوں کی طرح عزیز ہوں ۔۔میں چاہتا ہوں تم خوش رہو محفوظ رہو اسکے لئے میں نے ایک فیصلہ لیا ہے "۔ کامل کی بات سنتے بیہ کی آنکھوں میں حیرت اُبھری تھی کامل نے اُسکے لیے کیا فیصلہ لیا ہوگا ۔۔دل خوف سے دھڑک اٹھا تھا ۔ کیا حسام اُسے چھوڑنے ایا تھا کیا وہ اُسکے کل کیے گئے عمل پر اُسے خود سے دور کرنے جا رہا تھا ۔ یہ سوچتے بیہ کو لگ رہا تھا وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پائے گی ۔


تو دوسری طرف حسام کی تمام حسیات کامل کی طرف متوجہ تھی یکدم گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔


" میں نے آج اسی وقت آپکی رخصتی کردی ہے آپ ابھی حسام کے ساتھ اپنے گھر جا رہی ہے " ۔ کامل کی بات پر حسام نے حیرت سے سر اٹھا اُسکی طرف دیکھا تھا اُسے بلکل اندازہ نہیں تھا کامل یہ کہہ گا ۔فلک اپنے شوہر کو دیکھتے مسکرا گئی ۔ خضر کے چہرے پر بھی اطمینان پھیلا تھا۔


بیہ کی آنکھیں تحیر سے پھیلی دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا ۔ اُسے لگا شاید کامل نے کچھ اور کہا ہے ۔۔کیا وہ حسام کے ساتھ جائے گی ۔ یکدم خوشی کے احساس نے پورے وجود کو اپنے احاطے میں لیا ۔ جب اُسے وہ ماسک والا انسان یاد ایا ۔ اگر وہ حسام کے پاس چلی گئی تو وہ حسام کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے اور یہ سوچتے بیہ نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا۔


" بھائی ۔۔نہیں میں نے رخصتی نہیں کرنی " ۔ اٹکتی آواز میں کہتے وہ حسام کو پھر سے زخمی کر گئی ۔ حسام نے اپنی سیاہ سرخ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا ۔ کامل خضر اور فلک کے چہرے بھی سنجیدہ ہوئے کامل خضر اور حسام سمجھ گئے تھے وہ خوف کی وجہ سے کہہ رہی ہے ۔۔لیکن یہ بات حسام کو تکلیف سے دو چار کر گئی ۔


" بیہ یہ میرا آخری فیصلہ ہے فلک جاؤ بیہ کے کپڑے پیک کر کے لے اؤ "۔ کامل کی آواز سخت ہوئی وہ اُسے بہنوں کی طرح عزیز تھی اور وہ اُسے اب صرف خوش اور محفوظ دیکھنا چاہتا تھا ۔ اور وہ محفوظ صرف حسام کے ساتھ ہی رہ سکتی تھی ۔


" بھائی نہیں میں نے نہیں کرنی رخصتی میں نے نہیں جانا حسام کے ساتھ "۔ بیہ کی خوف سے جان جا رہی تھی اگر وہ حسام کے ساتھ چلی جاتی اور پیچھے عروہ یا کسی کو بھی وہ ماسک والا انسان نقصان پہنچا دیتا ۔ لیکن اس بیچ اگر وہ حسام کے چہرے کی طرف دیکھ لیتی تو اُسے احساس ہوتا کہ اُسکے یہ لفظ حسام کو تکلیف کی کسی گہری کھائی میں پھینک رہے تھے ۔


" بیہ یہ میرا آخری فیصلہ ہے میں نہ نہیں سننا چاہتا " ۔ کامل نے انابیہ کے چہرے کو دیکھتے ابکی بار سختی سے اپنی بات کہی ۔


حسام کی برداشت سے اب سب باہر ہو رہا تھا وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور اپنے قدم تیزی سے بیہ کی طرف بڑھاتے وہ بیہ کے ہاتھ کو اپنی سخت گرفت میں لے گیا۔


اپنے ہاتھ پر یکدم حسام کی سخت گرفت محسوس کرتے بیہ نے اُسکی طرف دیکھا تھا لیکن حسام کی ضرورت سے زیادہ سرخ ہوتی آنکھیں اُسکے بھینچے جبڑے ظاہر ہوتی نیلی رگیں دیکھتے اُسکے وجود میں خوف کی لہر دوڑ اُٹھی تھی ۔ ۔۔ہ


" حسام پلیز " ۔ بیہ نے روتے ہوئے حسام کی طرف دیکھتے التجائیہ لہجے میں کہا ۔اُسکی کالی آنکھوں میں خوف تھا اب حسام اُسے کیسے بتاتا کن لفظوں میں سمجھاتا کہ نہیں پسند اُسے خوف اُسکی آنکھوں میں ۔ حسام نے بیہ کو سپاٹ چہرے کے ساتھ دیکھتے اُسکے ہاتھ پر اپنی گرفت مزید سخت کرتے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔۔ کامل خضر فلک اور اپنے کمرے کی دہلیز پر کھڑی شجیہ نے یہ منظر دیکھا ۔ لیکن آج سب چپ رہے تھے۔


" حسام مجھے نہیں جانا آپکے ساتھ میں نہیں کرتی آپ سے پیار چھوڑے مجھے ورنہ میں آپکو ماروں گی حسام میں آپکو تھپڑ مار دونگی پلیز مجھے چھوڑے میں نہیں کرتی آپ سے محبت " ۔ حسام کے ساتھ گھسیٹتی ہوئی چلتی وہ چیخ اٹھی تھی ۔ اپنوں کو کھونے کا ڈر دل میں کنڈلی مارے بیٹھ گیا تھا۔ حسام نے اُسکے لفظوں پر اپنے دانت پیسے اُسے اپنی شریانیں کھولتی ہوئی محسوس ہوئی۔


" حسام کیا آپ سن رہے ہیں نہیں ہے مجھے محبت آپ سے میں آپ سے محبت نہیں کرتی میں کسی اور سے محبت ....." بیہ کے لفظ ابھی زبان سے ادا ہوئے ہی نہ تھے کہ حسام اُسکی پشت کو انتہائی زور سے گاڑی سے لگا گیا ۔


" ڈونٹ ۔۔۔ڈونٹ یو دئیر ٹو سے دس ورڈز ۔۔۔یہ لفظ زبان سے ادا نہیں ہونے چایئے ورنہ خدا کی قسم یہی اپنے آپ کو ختم کر لو گا ۔ لیکن اُس سے پہلے تمہیں مارو گا ۔۔بیوی ہو میری بغیرت مرد نہیں ہوں جو یہ لفظ تمہارے زبان سے نکلے گے تو برداشت کر لونگا ایک پل نہیں لگاؤں گا تمھاری زبان کھینچنے میں ۔" ۔ حسام نے اُسکے ساکت وجود کو قہر بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ایک ایک لفظ انتہائی غصے سے کہا ۔۔اُسکے لفظوں میں آگ سی تپش تھی ۔


اپنے انتہائی قریب حسام کو دیکھتے اُسکی گرم سانسیں محسوس کرتے وہ تو بت سی بن گئی تھی اوپر سے اُسکے کہیں گئے لفظوں سے بیہ کو اپنی ریڑھ کی ہڈی سنسناتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اُس نے یہ بات اسی لئے کہی تھی کہ حسام غصے میں اتے اُسے یہی چھوڑ دے گا اُسے ساتھ نہیں لے کر جائے گا جس سے حسام کے ساتھ ساتھ کامل فلک عروہ اور باقی سب بھی محفوظ رہے گے۔


" تھپڑ مارنا ہے ۔۔۔لو مارو ۔۔مارو کتنا مارو گی اپنے کہیں گئے لفظوں سے مار تو چکی ہوں حسام کو تم " ۔ حسام کی آواز اسپاٹ تھی اُس نے کہتے ایک جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھولتے بیہ کو گاڑی میں بیٹھایا ۔۔بیہ اُسکے آخری لفظوں پر سسک اُٹھی تھی ۔ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے وہ ہچکیوں سے رو دی ۔ حسام نے ڈرائیونگ سیٹ پڑ اتے گاڑی سٹارٹ کی ۔ بیہ کی ہچکیاں سنتے اُسے اپنا سر پٹھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جبکہ اسکے لفظ کسی دیمک کی طرح اُسے کھائے جا رہے تھے ۔وہ کہہ رہی تھی وہ اُس سے محبت نہیں کرتی کسی اور سے محبت کرتی ہے۔۔بیشک وہ خوف کی وجہ سے وہ لفظ بول گئی تھی پر وہ لفظ حسام کا ضبط ختم کر گئے تھے اُسے اپنا وجود ایک جلتی بھڑکتی آگ میں جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ ایسا لگا جیسے کسی نے دہکتے انگارے اُس پر انڈیل دئیے ہو ۔


" میری بیوی مجھ سے محبت نہیں کرتی کیا بات ہے حسام ملک کیا بات ہے " ۔ضبط برداشت نہ کرتے ہوئے وہ ڈھاڑتے ہوئے اپنا ہاتھ زیر سے اسٹیئرنگ پر مار گیا تھا پہلے سے زخمی ہاتھ مزید زخمی ہوا ۔ بیہ اُسکی ڈھاڑ پر لرز اُٹھی ۔ وہ خوف و ڈر سے بلکل دروازے کے ساتھ لگی ہوئی تھی ۔ ہچکیوں میں مزید اضافہ ہوا ۔ حسام انتہائی تیز رفتار میں گاڑی چلا رہا تھا ۔


کچھ ہی دیر میں اُسکی گاڑی اُسکے فلیٹ کے باہر تھی ۔ حسام نے اپنی طرف سے اُترتے بیہ کی طرف اتے ایک ہی جست میں دروازہ کھولتے اُسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے اُسے گاڑی سے اُتارا۔


" حسا۔۔حسام " ۔ بیہ نے اپنے ہاتھ پر بڑھتی اُسکی سخت گرفت محسوس کرتے سسکتے ہوئے کہا۔ لیکن وہ سن کہاں رہا تھا وہ تو اسپاٹ چہرہ لئے بس آگے بڑھ رہا تھا ۔ لفٹ میں داخل ہوتے بھی اُس نے بیہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا نہ اُسکی طرف دیکھا تھا ۔ اور بیہ کو اُسکی یہ نظراندازی تکلیف دے رہی تھی وہ اپنے لب باہم ملائے اپنی سسکیاں روک رہی تھی ۔


اپنے فلیٹ پر اتے وہ بیہ کو لئے اندر داخل ہوا تھا اور اتے ساتھ اُس نے بیہ کا ہاتھ چھوڑتے دروازہ بند کرتے اپنا کوٹ اتارتے ایک جھٹکے سے زمین پر پھینکا تھا ۔ بیہ اپنی آنکھیں اُسکی اس عمل پر مینیچ گئی ۔ حسام گہرے گہرے سانس بھرتے اپنے آپ پر ضبط کرنا چاہ رہا تھا لیکن وہ ضبط نہیں کر پا رہا تھا بیہ کے لفظوں نے اُسکے سینے میں ایسی آگ دہکا دی تھی جو بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔


اپنے بالوں میں اضطرابی انداز میں ہاتھ پھیرتے اُس نے ضبط کرنا چاہا لیکن نہ کام رہا ۔ برداشت کی حد اب ختم ہو چکی تھی ۔


" حسام میری ۔۔مّیری بات ۔۔۔۔" بیہ نے اُسے اس طرح دیکھا تو تڑپتے ہوئے اُسکی طرف بڑھنا چاہا جب حسام نے چیختے ہوئے اپنا ہاتھ زور سے دیوار پر دے مارا ۔


بیہ کی چیخ نکلی ۔ اُس نے پٹھی انکھوں سے حسام کے دونوں ہاتھوں کو دیکھا جس سے اب خون نکلنے لگا تھا ۔ بیہ کو اُسکی تکلیف اپنی تکلیف لگی ۔ حسام کی تکلیف پر اُسکے آنسوؤں میں روانی ائی ۔


بیہ کی آواز سنتے حسام رکا نہیں تھا وہ در پر در اپنا ہاتھ دیوار پر مارتا گیا تھا ۔


" حسام میری بات سنے خون نکل رہا ہے ۔۔پلیز رک جائے " ۔ حسام کو یوں دیکھتے بیہ نے جیسے التجا کی تھی ۔


" اور کیا کرو رک کر بتاؤ مجھے بیہ حسام ملک تمہارے لفظوں میں نے مجھے اذیت کی ایک بھٹی میں جھونک دیا ہے ۔۔اج تک میں صرف اپنے رب کے آگے جھکا ہوں اور اُس رب کے بعد اپنی پسندیدہ عورت اپنی محبت کے آگے جھکا ۔۔تم نے تو مجھے کمزور کر دیا بتاؤ مجھے کس طرح اس تکلیف کو ختم کرو جو مجھے اندر ہی اندر مار رہی ہے جواب دو " ۔ حسام بیہ کے کہنے پر اُسکے دونوں بازوؤں کو تھامتے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے گویا ہوا ۔ سرخ آنکھوں میں اذیت شکوہ نہ جانے کیا کیا تھا ۔


" مت رو ۔۔۔تمہارے یہ آنسو میری تکلیف پر نہیں بہنے چایئے تمہیں خوش ہونا چائیے کہ حسام ملک اذیت میں ہے جس نے تمہیں اذیت دی اج وہ خود اذیت میں ہے " ۔ اُسکے آنسوؤں کو دیکھتے حسام استہزائیہ لہجے میں بولتا اُسے چھوڑتے کچن کی طرف بڑھ گیا ۔ بیہ نے بیقینںی سے اُسکی طرف دیکھا حسام کو تکلیف میں دیکھتے وہ کیسے خوش ہو سکتی تھی ۔ وہ ایسے کیسے یہ لفظ بول سکتا تھا ۔


" میں ۔۔میں آپکو اذیت دیتے کیسے خوش ہو سکتی ہوں حسام " ۔ بیہ کے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے وہ پلٹتے بھرائی آواز میں حسام سے گویا ہوئی ۔


" یہ تو تم خود جانتی ہوگی نہ بیہ حسام ملک ۔۔کل تمہارے لفظوں نے ہی تو مجھے اذیت دی تھی تم نے مجھے حسن پرست کہا میں برداشت کر گیا۔۔۔۔تم نے مجھے دھوکے باز کہا ۔۔۔فریبی کہا ۔۔میں سب برداشت کر گیا۔ لیکن تم نے مجھے میرے بچے کا قاتل کہا ۔۔اور وہ میں برداشت نہیں کر پایا " ۔ حسام نے بیہ کی سرخ بھیگے چہرے کو دیکھتے سپاٹ لہجے میں کہتے وہاں موجود کبرڈ سے میڈیکل باکس نکالا ۔ وہ جانتا تھا بیہ نے وہ لفظ دباؤ میں اتے کہیں تھے لیکن حسام کے لیے یہ لفظ کتنے تکلیف دہ تھے یہ وہی جانتا تھا ۔ بیہ نے حسام کے کہنے پر ہچکی بھری ۔


" تمہیں تکلیف دینے کے بعد ایک پل ایسا نہیں تھا جب میں سکون سے رہا ہوں پانچ سال ایسی ایک رات نہیں ائی جب میں سکون دہ نیند سویا ہوں۔۔ہر وقت اپنے رب سے معافی مانگی ۔۔ہر وقت تم سے معافی مانگی ۔۔۔پانچ سال تڑپا حسام ملک حسام ملک نا رہا ۔۔پانچ سال بعد تمہارے زندہ ہونے کا سنتے مجھے لگا میرا رب مجھ پر مہربان ہوگیا ہے ۔۔اُس نے مجھے معاف کردیا ہے تمہیں واپس دے دیا میری زندگی میں ۔۔۔تم تک انے کے لیے وہ سب کچھ کیا ایک ٹیچر بن گیا ایک باڈی گارڈ بن گیا ۔ تمہیں سب کچھ یاد آیا تو تم سے معافی مانگی ۔۔۔تمہارے آگے رویا تک میں ۔۔میں نہیں چاہتا تھا میرا بچہ مر جائے میں کیا کون سا باپ ہوگا جو اس نعمت کو خود اپنے ہاتھوں سے ختم کرے گا ۔۔۔غلطی میری تھی میں جانتا ہوں لیکن اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم یوں اچانک میری گن کے سامنے آجاؤ گی تو میں کبھی وہ قدم نہ اٹھاتا یارا " ۔ بغیر بیہ کو دیکھے وہ اپنے ہاتھ پر پٹی باندھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن تکلیف و غم و غصّہ اتنا تھا کہ اُسکے ہاتھ لرز رہے تھے ۔ بیہ کی سسکیوں میں اضافہ ہوا ۔


" سن رکھا تھا جو محبت کرتے ہیں وہ بڑی سی بڑی غلطی بھی معاف کردیتے ہے سوچا تم بھی معاف کردو گی آخر عشق کرتی ہوں مجھ سے لیکن میں غلط تھا ۔تم واقعی سنگ دل ہو گئی ہو تبھی تو اج .......حسام بغیر بیہ کو دیکھے بولتا جا رہا تھا جب بیہ کی برداشت ختم ہوئی وہ ایک ہی جست میں اُس تک اتے حسام کا کولر اپنے ہاتھوں میں تھامتے اپنی ایڑیوں کو اونچا کرتے حسام کے لبوں کو اپنی گرفت میں لے گئی ۔۔حسام کا وجود پتھر کا ہوا ۔ اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔ وہ حیرت سے پھیلی آنکھوں سے اپنی بیوی کو دیکھے گیا جو اپنی آنکھیں بند کئے شدت سے اُسکے لبوں پر اپنا لمس چھوڑ رہی تھی ۔ اپنے لبوں پر اسکے نرم لبوں کا لمس محسوس کرتے حسام نے بیساختہ اُسکی قمر میں اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔


بیہ اپنی ساری تکلیف اپنا سارا غصّہ جو اُسے حسام کے لفظوں پر ایا تھا اپنے لمس سے حسام کے لمس میں اتارتی چلی گئی ۔ اپنی سانسوں کو بند ہوتے محسوس کرتے وہ حسام سے دور ہوئی ۔ اپنی بھیگی انکھوں سے اُس نے حسام کو دیکھا جو بت بنا اُسے ہی دیکھ رہا تھا بیہ نے حسام کو اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھتے گہرا سانس لیا ۔ جب اُسکی نظر حسام کے ہاتھوں پر پڑی ۔۔۔وہ اُسکے ہاتھوں کو دیکھتے سسکی بھرتے تیزی سے میڈیکل باکس سے پٹی اور روئی لیتے روتے ہوئے اُسکے ہاتھوں کی پٹی کرنے لگی اور حسام اپنی سیاہ سرخ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھے گیا جو اُسکے زخموں کو دیکھتے تڑپ رہی تھی اور وہ تڑپ اُسکے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی ۔


بیہ نے اُسکے ہاتھوں کی پٹی کرتے اُسکی طرف دیکھا جو بیہ کے دیکھنے پر اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ سے جھٹک کر صوفے پر جا بیٹھا ۔


" برا لگ رہا ہوگا ایک حسن پرست مرد کے پاس انے پر ۔ ویسے بھی رخصتی نہیں چاہتی تھی تم " ۔ حسام نے صوفہ پر بیٹھتے تلخئ سے کہا ۔ سب چیزیں ایک طرف تھی لیکن بیہ کا رخصتی سے انکار کرنا اور وہ سب لفظ جو اُس نے کامل کے گھر سے نکلتے وقت کہیں تھے وہ حسام کو چین نہیں لینے دے رہے تھے۔


" حسام پلیز بس کر جائے مت بولے ایسا " ۔ بیہ نے حسام کے پاس اتے ہوئے کہا ۔


" میرے بولنے سے تمہیں تکلیف ہو رہی ہے بیہ لیکن جب تم نے یہی لفظ اپنے لبوں سے ادا کئے تھے تب کیوں تمہیں تکلیف نہیں ہوئی تھی " ۔ حسام نے صوفے کے پاس کھڑی بیہ کو دیکھتے سرد لہجہ میں کہا ۔


" میں نہیں بولنا چاہتی تھی وہ الفاظ سنا آپ نہ میں اگر وہ لفظ نہ بولتی تو وہ آپکو مار دیتا وہ عروہ کو مار دیتا وہ کامل بھائی سب کو مار دیتا " ۔ بیہ چیخ اٹھی تھی دوپٹہ تو کب کا سر سے اترتا زمین پر گر گیا تھا ۔بکھرے بالوں کے ساتھ لرزتا بدن لئے وہ حسام کو دیکھتے چیخ اُٹھی تھی ۔ حسام نے بیہ کے کہنے پر اُسکا ہاتھ تھامتے اُسے ایک جھٹکے سے اپنے انتہائی قریب کیا۔


" کون مار دیتا بتاؤ مجھے " ۔ بیہ کے بالوں کو پیچھے کرتے حسام گویا ہوا تھا لیکن لہجہ ویسے ہی سرد تھا ۔


" حسام وہ آپکو مار دیتا ۔۔۔اُس نے مجھے کہا وہ آپکو کمزور کرنا چاہتا ہے ۔۔وہ اُس نے آپ پر گن کا نشانہ لیا ہوا تھا وہ عروہ کو مار دینے کی دھمکی دے رہا تھا " ۔ بیہ حسام کے گال پر ہاتھ رکھتی سسکتی آواز میں گویا ھوئی ۔ حسام نے اُسکی بات پر جبڑے بھینچے اُسکی آنکھوں میں خوف اُس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا حسام نے وہ سب بولا ہی اسی لیے تھا تاکہ بیہ کے منہ سے وہ سب سچ سن سکے حقیقت کے بارے میں تو وہ پہلے سے ہی جان گیا تھا ۔ لیکن وہ بیہ کے منہ سے سب سننا چاہتا تھا۔


" کسی نے تمہیں ڈرایا دھمکیاں دی تو تم نے اپنے حسام کو بتانے کے بجائے اپنے حسام کو ہی توڑ دیا کیا تمہیں مجھ پر یقین نہیں تھا یار ا اج جو تم نے لفظ کہیں کیا وُہ بھی اُسکے دباؤ میں اتے کہیں ۔۔تم نے کہا تُم مجھ سے محبت نہیں کرتی کسی اور سے " ۔ بیہ کے چہرے کو دیکھتے حسام سنجیدگی سے گویا ہوا تھا لیکن آخری جملہ وہ مکمل نہیں کر پایا تھا۔ اُسکی شکوہ کرتی نگاہیں بیہ پر ٹکی تھی ۔


" حسام میرا یقین کرے بیہ صرف آپ سے پیار کرتی ہے صرف اور صرف آپ سے پیار کرتی ہے ۔۔میں ڈر گئی تھی بہت ڈر گئی تھی وہ آپکو نقصان پہنچا دیتا حسام ۔۔میں بہت ڈر گئی تھی اسی لیے وہ سب کہا میں نے آپ نہیں ہے۔۔حسن پرست آپ نہیں ہے قاتِل آپ نہیں ہے فریبی ۔۔۔آپ میرے حسام ہے صرف میرے حسام مجھے یقین ہے آپکی محبت پر حسام پر مجھے اس طرح مت دیکھے میں برداشت نہیں کر پا رہی ہوں " ۔حسام کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے روتی آواز میں وہ اُسے سب کچھ بتاتی چلی گئی تھی اُس وقت اُسکے دل میں صرف ایک ہی ڈر تھا اور وہ تھا کہ اُسکا حسام اس ناراض تھا اُسے شکوہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور یہ وہ بلکل برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔


" صحیح محبت کرتی ہوں لیکن بھروسہ نہیں ۔۔اگر بھروسہ ہوتا تو مجھے سب بتا دیتی بیہ لیکن تم نے نہیں بتایا تمہارے لفظوں نے میرے سینے میں ایک آگ دہکا دی ہے جو بجھنے کا نام نہیں لے رہی یہ کیسے بجھے گی میں نہیں جانتا "۔ اپنے انتہائی نزدیک بیہ کے حسین چہرے کو دیکھتے حسام نے اُسکے لبوں کو فوکس میں لیتے کہا ۔ ان لبوں کا نرم لمس محسوس کرتے اُسکے وجود میں پیاس کا احساس بھی بڑھ گیا تھا ۔


" میں کرتی ہُوں نہ بھروسہ ۔۔تبھی تو بتا رہی ہوں پہلے نہیں بتایا اسکے لئے سوری " ۔ حسام کی شرٹ کے بٹن سے کھیلتی وہ اُسکے مزید قریب ہوتے سو سو کرتے گویا ہوئی ۔ اس وقت اُسکا شوہر اُس سے ناراض تھا جسے منانا اُسکی اولین ترجیح تھی ۔ بیہ کی اتنی نزدیکی پر حسام کے جذبات ابھرنے لگے ۔


" تمہارے سوری بولنے سے کچھ نہیں ہوگا یارا تُم مجھے تکلیف دے چکی ہوں اپنے ان لفظوں سے " ۔ حسام کے ہاتھ خود با خود بیہ کی قمر کے گرد لپٹے ۔ لہجہ مخمور سا ہوا ۔ بیہ نے بھیگی آنکھیں اٹھا کر حسام کی طرف دیکھا جہاں چھائی سرخی میں اب خمار کی سرخی بھی ظاہر ہو رہی تھی اُسکی سیاہ آنکھوں میں جذبوں کی آنچ تیر رہی تھی ۔ بیہ سمجھ گئی اُسکا شوہر اُس سے کیسے راضی ہوگا ۔ ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے کیا گیا اپنا عمل یاد ایا تو وہ کانوں کی لوؤں تک سرخ پڑی ۔۔اُسکی پلکیں لرز سی گئی ۔۔اُس نے اپنی تیز دھڑکنوں کو سنبھالتے حسام کو دیکھتے دھیرے سے اپنا چہرہ اُسکے چہرے کے قریب لاتے اُسکے لبوں پر اپنے لب رکھے اور اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ حسام نے بیہ کے لبوں کا لمس اپنے لبوں پر محسوس کیا تو سکون اُسکے پورے وجود میں بھرتا چلا گیا ایسا لگا جیسے سینے میں لگی آگ بجھنے لگی ہو ۔ بیہ کے بالوں میں ہاتھ پھنسائے وہ بیہ کے لبوں پر اپنی گرفت سخت کر گیا ۔ قطرہ قطرہ بیہ کی سانسیں اپنی سانسوں میں اندیلتے وہ اُسے ایک جھٹکے سے اپنے بازؤں میں اٹھا گیا تھا ۔۔ساری تکلیف سارا غصہ بیہ کے لمس سے ختم ہو رہا تھا دونوں ایک دوسرے میں گم ہوکر ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کر رہے تھے ۔


بیہ نے حسام کی گردن میں اپنا حصار قائم کیا ۔ بیہ کو لئے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا ۔ اپنے قدموں سے دروازہ بند کرتے وہ بیہ کے لبوں کو اپنی گرفت میں لیے ہی بیڈ کی طرف بڑھا ۔


بیہ کو بیڈ پر لٹاتے اُس نے بیہ کے لبوں کو اپنی گرفت سے آزاد کیا ۔ اور اُس سے دور ہوا ۔بیہ نے سرخ چہرے اور بکھرتی سانسوں کے ساتھ حسام کی طرف دیکھا لیکن اُسے اپنی شرٹ اُتارتے دیکھ بیہ کی پلکیں لرزنے لگی وہ اپنا رخ موڑ گئی شرم سے جان جاتی محسوس ہو رہی تھی ۔


حسام اپنی شرٹ اُتارتے بیہ پر جھک ایا بیہ کی گردن سے بال آگے کرتے اُس نے اپنے دہکتے لب بیہ کی گردن پر ثبت کیے اور اپنا لمس چھوڑنے لگا ۔۔بیہ اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کے ساتھ بیڈ شیٹ کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ گئی ۔ حسام کا سلگتا لمس اُسکی جان نکال رہا تھا ۔ شدت سے بیہ کی گردن پر اپنا لمس چھوڑتے وہ ایک جھٹکے سے بیہ کی شرٹ کی زپ کھولتے وہاں اپنے لمس کی بوچھاڑ کر گیا۔ بیہ نے حسام کی شدت سے گھبراتے ہوئے اپنا رخ سیدھا کیا تو اُسکی نظر حسام کے چہرے پر پڑی حسام کی آنکھوں میں اُسکی طلب صاف ظاہر تھی ۔ حسام نے بیہ کے سرخ لرزتے لبوں کو دیکھا تو پل میں اُن پر جھک ایا بیہ کے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لئے وہ شدت سے اُسکی سانسوں میں اپنی سانسیں انڈیل رہا تھا ۔ ایک ہاتھ سے کمرے میں جلتی لائیٹس کو بند کرتے وہ مکمل توڑ پر بیہ کو اپنی گرفت میں لیتے اُسے اپنی شدتوں سے واقف کرواتا گیا ۔ حسام اُس پر اپنی محبت کی بارش کرتا گیا اور وہ اُسکی محبت کی بارش میں بھیگتی چلی گئی ۔


پانچ سال کے بعد وصل کے لمحات ملے تھے جس میں وہ ایک دوسرے میں کھوئے اپنے ہر زخم کو شفا یاب کرتے جا رہے تھے ساری اذیت ساری تکلیف وہ ایک دوسرے کے لمس سے مٹاتے جا رہے تھے ۔ اس وقت دونوں کے لیے وہ دونوں معنی رکھتے تھے اُنہیں دنیا کا کوئی ہوش نہیں تھا صرف وہ تھے بس وہ ۔۔۔اور اُنکے قربت کے لمحات ۔۔۔۔۔


💗💗💗💗💗💗


" تو خضر شجاعت چوہدری بھی اب یہاں آگئے ہے چلو اچھی بات ہے اب ایک بندے کو مارنے کے لئے میں پاکستان جاتا ہے تو وقت برباد ہوجاتا " ۔ریولونگ چیئر پر بیٹھے سگریٹ کے گہرے کش لگاتے وہ اپنے آپ سے مخاطب تھا ۔


" کیا خبر ہے " ۔ اپنے آدمی کے انے پر اُس نے پوچھا۔


" سر جنید کی بیوی ایک ہوسٹل میں رہ رہی ہے اکیلی شاید اپنے شوہر کو چھوڑ کر ائی ہے " ۔ اپنے آدمی کی بات پر اُسکے لبوں پر مسکراہٹ ائی ۔


" چلو زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑے گی اٹھا لاؤ لڑکی کو اور ہاں ذرا تھوڑا انتظار کرنا کیا پتہ اپنی بیوی کو ڈھونڈتے ہوئے وہ بھی وہاں آئے ایک ہی بار سارا کام ہوجائے گا " ۔ سگریٹ مسلتے کہتے وہ ہنس دیا تھا اُسکے ادمی اُسکے کہنے پر کمرے سے نکلتے چلے گئے تھے ۔


" ایک کی کہانی تو سمجھوں ختم اب بچے تم تینوں " ۔ اپنی کُرسی سے اٹھتے دیوار پر اتے اُس نے سدرہ اور جنید کی تصویر کے کئی ٹکڑے کرتے پھینکے اور کامل خضر حسام کی تصویروں سے مخاطب ہوا ۔


اپنے ہر وار پر کامیابی سی محسوس کرتے وہ مسرور سا تھا یہ جانے بغیر کہ بہت جلد وہ خود بھی اپنے اختمام کو پہنچنے والا ہے ۔ وہ صرف کامل ، خضر ، حسام ، جنید کو جانتا تھا زرقان کے بارے میں اُسے نہیں معلوم تھا نہ ہی یہ معلوم تھا کہ زرقان ہی اس کیس کی ایک اہم کی ہے جو سب کچھ جان کر اُن سب کو بتا چکا ہے اور یہی جعفر غلطی کر بیٹھا تھا ۔

ہوسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی وہ ہاتھ میں تھامے موبائل پر نظر آتی جنید کی تصویر کو نم نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ وہ اُس سے دور تو ہو ائی تھی لیکن اب اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکی سانسیں آہستہ آہستہ اُسکا ساتھ چھوڑ رہی ہوں ۔ پورے وجود میں ایک تڑپ سی تھی ۔ دل میں درد کا احساس شدت پکڑ چکا تھا ۔ کہاں کی انا کہاں کی سزا اُسکا دل تو بس یہی صدا دے رہا تھا کہ وہ کسی طرح بس واپس اسکے پاس چلی جائے ۔


" تم سے دور ائی ہوں تو لگ رہا مر جاؤنگی ۔ جو سزا تمہارے لئے منتخب کی ہے ایسا لگ رہا وہ سزا میں نے اپنے لئے بھی منتخب کر لی ہے ۔ تم سے دور نہیں رہ سکتی میں مجھے تمہارے پاس انا ہے مجھے لے جاؤ آکر جنید " ۔ بھرائی آواز میں کہتے وہ موبائل کو اپنے سینے سے لگا گئی ۔ آنسو آنکھوں سے کسی آبشار کی مانند برس رہے تھے ۔ جب کمرے کے دروازے پر کھٹکا ہوا ۔ سدرہ نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے ۔ موبائل جلدی سے بیڈ پر رکھتی وہ دوپٹہ صحیح سے سینے پر پھیلائے دروازے کی جانب بڑھی ۔


سدرہ نے دروازہ کھولا لیکن سامنے تین چار آدمیوں کو دیکھتے سدرہ کی آنکھوں میں حیرت اُبھری ۔


" کیا کام ہے کون ہو تم لوگ " ۔ سدرہ نے اُن چاروں کو خوف سے دیکھتے ہوئے اپنی آواز کو سخت کرتے ہوئے پوچھا ۔ لیکن وہ کوئی جواب دیے بنا اندر داخل ہوتے سدرہ کا بازو اپنے ہاتھ میں تھام گئے ۔


" چھوڑو مجھے کیا باتمیزی ہے میں نے کہا چھوڑو مجھے " ۔ یو اپنے بازو پر کسی غیر کا لمس محسوس کرتے وہ تڑپ اُٹھی تھی دل خوف کے تحت شدت سے دھڑکا تھا ۔ دل نے شدت سے جنید کو یاد کیا ۔ اپنی عزت کے چھین جانے کا خوف رگوں میں دوڑتے خون کو جمع گیا تھا ۔


" میں نے کہا چھوڑو مجھے کوئی ہے پلیز میری مدد کرو چھوڑو مجھے " ۔ سدرہ مزاحمت کرتے چیخی اُٹھی ہوسٹل کے کمروں سے جھانکتے سب محض تماشا دیکھنے مصروف تھے ۔ جس آدمی نے سدرہ کا بازو تھاما تھا ۔ سدرہ کے مزاحمت کرنے پر اُسے ایک تھپڑ مار گیا ۔ سدرہ ابھی اس حملے سے سنبھلی نہ تھی کہ اُس نے کلوروفارم سے بھیگا رومال اُسکے چہرے پر رکھتے اُسے ہوش و خرد سے بیگانہ کیا ۔ تھپڑ اتنی شدت کا تھا کہ سدرہ کے ہونٹ کے کنارے سے خون نکل گیا ۔ سدرہ کے بیہوش وجود کو اٹھاتے وہ لوگ باہر نکلتے چلے گئے ۔


💗💗💗💗💗


وہ جتنی تیز ڈرائیونگ کر سکتا تھا کر رہا تھا ۔اُسے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں تھا ۔ ذہنوں گماں میں صرف سدرہ سوار تھی ۔ اور اُسکی فکر ۔ نہ جانے کتنی بار وہ رولز توڑ چکا تھا کتنی بار اُسکا ایکسڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا ۔ خوبرو چہرے پر اضطراب پھیلا ہوا تھا ۔


" ایک جھٹکے سے اُس نے چھوٹے سے اُس علاقے میں موجود ہوسٹل کے باہر گاڑی روکی ۔ تیزی سے باہر نکلتے وہ اندر کی طرف بھاگا تھا ۔


" میری بیوی سدرہ جنید یہاں رہنے ائی تھی مجھے روم نمبر بتائے سنا نہیں آپ نے مجھے روم نمبر بتائے " ۔ ریسیپشن پر موجود لڑکی کو دیکھتے جون نے سنجیدگی سے کہا لیکن وہ لڑکی صرف اُسے دیکھے گئی کیونکہ وہ جس لڑکی کے بارے میں پوچھ رہا تھا اُسے ابھی چند لوگ زبرستی یہاں سے لے کر گئے تھے جبکہ کچھ لوگ اب بھی یہاں موجود تھے جو جنید سے چھپ کر ایک طرف کو ہوگئے تھے جون اُسکی خاموشی پر چیخ اٹھا تھا ۔


" میں کچھ پوچھ رہا ہوں سنائی نہیں دے رہا تھا تمہیں مجھے روم نمبر بتاؤ سدرہ جنید کا " ۔ جنید اب کی بار ڈھاڑا تھا لڑکی پہلے ہی خوف زدہ تھی جنید کے ڈھاڑنے پر کانپتی ہوئی ایک طرف اشارہ کر گئی ۔ جنید لب بھینچے اُسکے اشارہ کئے ہوئے کمرے کی طرف بڑھا ۔ قدموں میں تیزی تھی ۔


بس وہ اُس کمرے میں جائے اور وہ اُسے نظر آئے ۔۔۔وہ کمرے میں ہی موجود ہوں ۔۔لیکن اگر وہ وہاں نہیں ہوئی ۔۔یہ سوچتے جنید کو اپنی سانس ختم ہوتی محسوس ہوئی ۔ اگر وہ کمرے میں نہ ہوئی تو نہ جانے جنید کیا کر گزرے گا ۔۔اُسے اندازہ نہیں تھا ۔


کمرے کا ادھ کھلا دروازہ دیکھتے جنید کا دل دھڑکا ۔ کانپتے ہاتھوں سے اُس نے کمرہ کا دروازہ کھولا ۔ اندر قدم بڑھایا تو خالی کمرے کو دیکھتے اُسے اپنے اعصاب تنتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ پیروں کے آگے کچھ انے پر اُس نے نیچے دیکھا تو دوپٹہ دیکھتے اُسکا دل ڈوب کر اُبھرا تیزی سے اُس نے دوپٹہ اٹھاتے اُسکی مہک کو محسوس کیا وہی مہک تو تھی جس مہک میں اُس نے کل ساری رات سانسیں بھری تھی ۔ جنید کی آنکھیں شدت سے لال ہوئی ۔ بیڈ پر پڑے موبائل پر نظر گئی وہاں اپنی تصویر دیکھتے وہ اپنی مٹھیاں بھینچ گیا ۔ اُسکی بیوی پورے کمرے میں نہیں تھی ۔ اُسکی بیوی کا موبائل اُسکی بیوی کا دوپٹہ یہاں پڑا تھا لیکن وہ یہاں نہیں تھی ۔ جنید نے گلٹی سی اُبھری دوپٹہ پر گرفت سخت ہوئی ۔ سانسیں ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ براؤن آنکھیں شدت سے لال ہوئی ۔


" سدرہ " ۔ دوپٹہ کو ہاتھ میں تھامے وہ ڈھاڑا تھا اُسکے انے سے پہلے وہ لوگ اُس تک پہنچ گئے تھے اُسکی بیوی اُس جعفر کی قید میں تھی ۔ جنید کو اپنے وجود میں آتش فشاں پٹھتا ہوا محسوس ہوا ۔


ابھی وہ پلٹتا جب اپنے سر پر ہوتے وار سے اُسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا ۔ ایک شدت بھری ٹیس اُبھری ۔ جنید نے اپنا ہاتھ آہستہ سے اپنے سر پر رکھا کچھ گیلا محسوس کرتے اُس نے اپنا ہاتھ اپنے سامنے دیکھا تو اپنے ہاتھ کو خون سے بھرا دیکھتے اُسکی آبرو آپس میں ملی ۔ جسم کی ساری طاقت ختم ہوتی محسوس ہوئی اور وہ جھٹکے سے زمین پر گرتا چلا گیا ۔ پیچھے کھڑے جعفر کے آدمیوں نے جون کے بیہوش وجود کو دیکھا تو اپنی جیت پر ہنس پڑے ۔ جون کے توانا صحت مند وجود کو اٹھانا اُن چاروں کے بس کی بات نہیں تھی لیکن کیسے بھی کرتے وہ اُسے اٹھاتے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال چکے تھے ۔ جہاں پہلے سے سدرہ کا بیہوش وجود تھا ۔ جون کا سر لڑکھڑا کر سدرہ کے کندھے پر گرا تھا۔ اُسکے سر سے بہتا خون سدرہ کے کپڑوں کو بھی داغدار کر گیا ۔ دونوں دنیا جہاں سے بے گانہ ایک دوسرے کے انتہائی قریب تھے ۔ دونوں کی آنکھیں بند تھی ۔ لیکن دل کی دھڑکن ایک ہی تال پر دھڑک اٹھی تھی جیسے وہ بند حواسوں میں بھی ایک دوسرے کو اپنے قریب محسوس کر چکے ہوں ۔


ھوسٹل میں موجود سب نے شکر کا سانس لیا اُن سب کو گن کے زور پر چپ کروایا گیا تھا ۔ ہیڈ نے اُن گاڑیوں کے جاتے ہی پولیس کو کال کی ۔


💗💗💗💗💗


وہ یک تک بیہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو اسکی قربت میں نہائی ایک الگ ہی سنہرے روپ میں اُسکے پاس لیتی نیند میں گم تھی ۔ وہ تو اُسکی شدتوں سے آزادی ملتے ہی سو گئی تھی لیکن وہ نہیں سویا تھا ۔ اُسکی نظریں تو اپنی حسین بیوی پر جمی ہوئی تھی جسکے لمس سے اُسکے وجود میں سکون سا بھر گیا تھا ۔ جسکا لمس جسکی قربت اُسکی ساری تکلیفوں کا مرہم ثابت ہوئی تھی ۔ رات کا سماں ہوگیا تھا اندھیرے نے چاروں طرف اپنے پر پھیلا لیے تھے ۔


بیہ کے حسین چہرے کو دیکھتے اُسکے جذبات دوبارہ سے بھڑک اٹھے تھے ۔ بیہ کے پاس ہوتے اُس نے بیہ کہ کھڑی ناک کو اپنے لبوں سے چومہ ۔۔۔۔اور اُسکی گردن میں منہ دیئے اُسکے بدن سے اٹھتی اپنی اور اُسکی ملی جلی مہک میں سانس بھرنے لگا ۔ جبکہ داڑھی اُسکی گردن پر رب کرنا نہیں بھولا ۔


اپنی گردن پر داڑھی کی چبھن محسوس کرتے بیہ کسمائی ۔ اُس نے اپنے ہاتھ حسام کے برہنہ بازو پر رکھتے اُسے خود سے دور کرنا چاہا ۔


" حسام پلیز سونے دے مجھے " ۔ بیہ نے حسام کو مزید خود سے دور کرتے نیند سے بھاری ہوتی اواز میں کہا ۔ لیکن حسام اُس سے دور ہونے کے بجائے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالے اُسکے وجود کو خود پر منتقل کر گیا ۔ اس اچانک افتاد پر بیہ نے اپنی آنکھیں کھولتے اُسکی طرف دیکھا جو اُسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


حسام نے بیہ کی نیند سے لال ہوتی آنکھوں کو دیکھتے اُسکی آنکھوں پر باری باری لب رکھے۔


" میری یہاں نیند اڑ گئی ہے يارا اور تم سو رہی ہوں " ۔ حسام نے بیہ کی گردن پر ہاتھ رکھتے اسکا چہرہ اپنے چہرے کے مزید قریب کرتے خمار بھری آواز میں کہا ۔ دونوں کی گرم دہکتی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑتی دونوں کے چہرے جھلسا رہی تھی ۔


" آپ نہیں جانتے حسام جب سے میری یاداشت واپس ائی ہے میں سکون سے نہیں سو پائی ہوں اج آپکی قربت میں آپکی مہک کو محسوس کرتے میرا دل چاہ رہا ہے اپنا سر آپکے بازو پر رکھے سوتی رہو " ۔ بیہ نے دونوں ہاتھوں سے حسام کا چہرہ تھامتے نرم دھیمی آواز میں کہا ۔


" اس بات سے ظاہر ہوتا ہے میری بیوی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے " ۔ حسام نے بیہ کی ناک کی ٹپ پر اپنے لب رکھتے ہوئے مغرور لہجے میں کہا ۔


" آپکو کوئی شکّ ہے " ۔ بیہ نے حسام کی سیاہ آنکھوں میں اپنی سیاہ آنکھیں ڈالے آبرو اچکا کر پوچھا ۔


" بلکل نہیں تمہاری محبت کا عملی نمونہ دیکھنے کے بعد تو بلکل بھی نہیں " ۔ حسام نے مسکراہٹ دبائے اُسکی تھوڑی دیر پہلے کچن اور لاؤنچ میں کی جانے والی حرکت پر چوٹ کی ۔ بیہ کا رنگ اُسکی بات پر سرعت سے لال ہوا ۔ وہ اپنا چہرہ اُسکے سینے میں چھپا گئی ۔


" وہ میں نے آپکو منانے کے لئے کیا تھا " ۔ حسام کے سینے میں ہی منہ چھپائے بیہ نے آہستہ آواز میں کہا ۔


" اگر اُس طرح منائو گی یارا تو پھر میں آئے دن ناراض ہوتا رہو گا " ۔ حسام نے بیہ کے کالے سلکی بال اپنے چہرے پر پھیلاتے ہوئے مخمور لہجے میں کہا۔


" خبردار ۔۔خبردار جو آپ اب کبھی مجھ سے ناراض ہوئے آپکی ناراضگی آپکی بیہ کی جان نکال دیتی ہے " ۔ بیہ حسام کی بات پر ایک جھٹکے سے اُس کی طرف دیکھتے گویا ہوئی ۔


" اور تمہاری ناراضگی وہ تو حسام ملک کو پکا دیوداس بنا دیتی ہے " ۔ حسام نے بیہ کے گلابی لبوں پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے کہا ۔


" وہ میرا حق ہے ۔۔میں آپکی بیوی ہوں میرا فرض ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر منہ پھلا لینا ناراض ہوجانا اور آپکا فرض ہے مجھے منانا ". گردن اکرائے ایسے اعتبار ایسے غرور سے وہ گویا ہوئی تھی جیسے حسام واقعی میں ایسا ہی کرے گا ۔۔۔اور حقیقت میں حسام ملک اپنی بیہ کو منانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا ۔


" جی جی آپکو منانا تو ہم پر غرض ہے ہم ٹھہرے آپکو زلفوں اور ان کالی آنکھوں کے اسیر آپکے غلام " ۔ حسام نے بیہ کے چہرے کو دیکھتے مسکراہٹ لیے کہا وہ اُسکے پاس تھی اُس سے باتیں کر رہی تھی اور انہی پلوں کے لیے تو وہ جی رہا تھا ۔


" ہونہہ آپ میرے غلام نہیں ہے آپ میرے سر کے تاج ہے میری دنیا ہے ۔۔میرا سب کچھ آپ ہے سب کچھ ۔۔سب کچھ آپ سے شروع ہے آپ سے ختم ہے میری خوشی دکھ سب صرف ایک انسان سے جڑے ہے جو آپ ہے ۔۔اور آپ پر یہ کہنا فرض ہے کہ آپ بیہ حسام ملک کی دل کی سلطنت کے ایک لوتے سلطان ہے ۔۔جو اُسکی دل کی سر زمین پر راج کرتے ہے ۔۔۔بیہ حسام ملک کی ایک ایک سانس آپکے نام ہے " ۔ حسام کے ماتھے پر بوسا دیتے وہ انتہائی محبت سے گویا ہوئی تھی اور اُسکے لفظوں نے حسام کو سرشار کر دیا تھا وہ واقعی حسام کی محبت میں پاگل تھی اُسکی دیوانی تھی ۔


" اتنی اچھی بات پر ایک انعام تو ملنا چائیے نہ یارا تمہیں " ۔ حسام نے کہتے کروٹ بدلتے اُسکے لبوں کو اپنی لو دیتی نظروں سے دیکھتے دھیمی خمار سے بھری آواز میں کہا ۔


" میرا انعام تو آپ ہے اور آپ مجھے مل چکے ہیں اب مجھے کسی اور انعام کی ضرورت نہیں ہے " ۔ حسام کی آنکھوں کا مرکز دیکھتے وہ اُسکے ارادے جان گئی تھی اسی لئے بات بدلتی بولی ۔


ہونہہ پر مجھے اس انعام کی اشد ضرورت ہے " ۔ حسام نے کہتے بیہ پر جھکنا چاہا ۔


" نہیں حسام " ۔ بیہ نے کہتے حسام کے سینے پر ہاتھ رکھا۔


" ہاں بیہ " ۔ حسام نے کہتے اُسکے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا۔ بیہ اپنی آنکھیں مینچ گئی ۔ حسام اُسکے لبوں پر ابھی جھکتا جب اُسکا فون بج اٹھا ۔


" تمھارا بھائی کبھی نہیں سدھرے کا غلط وقت پر فون کر دیا " ۔ سائڈ ٹیبل پر پڑے فون میں کامل کا نام جگمگاتا دیکھ حسام نے دانت پیستے کہا۔


بیہ مسکرا دی جب حسام نے جھکتے جلدی سے اُسکے لبوں سے مسکراہٹ چڑارتے فون کان سے لگایا جبکہ ایک ہاتھ بیہ کے بالوں میں گردش کر رہا تھا بیہ بھی حسام کی داڑھی پر اپنی انگلیاں پھیرنے میں مصروف تھی ۔


" جنید سدرہ دونوں غائب ہے ۔ آخری جگہ ھوسٹل تھی جہاں سے اُن دونوں کو جعفر کے ادمی لے گئے ہے ھوسٹل کی انتظامیہ نے پولیس کو فون کیا تھا اور وہاں سے خبر مجھ تک ائی ۔ جلدی سے یہاں پہنچو " ۔ حسام کے ہیلو بولتے ہی کامل نے اُسے تفصیل سے آگاہ کیا جسے سنتے حسام کا بیہ کے بالوں میں سرائیت کرتا ہاتھ تھما چہرے پر غضب کی سنجیدگی پھیلی بیہ نے اُسکے چہرے پر پھیلتی سنجیدگی دیکھتے آبرو آپس میں ملائی۔


" میں اتا ہوں "۔ سنجیدگی سے کہتے حسام نے فون بند کرتے بیہ کی طرف دیکھا جس نے آبرو اچکا کر اُس سے پوچھا جیسے کیا ہوا ۔


" بیہ ہمیں جلدی جانا ہوگا اٹھو جلدی سے شاور لے کر فریش ہوجاؤ " ۔ حسام نے اُسے اپنی شرٹ میں ملبوس دیکھتے سنجیدگی سے کہا اور اُس سے دور ہوتے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔


" سب ٹھیک ہے حسام " ۔ بیہ نے پریشانی سے پوچھا ۔


ہاں سب ٹھیک ہے یارا بس چلو جلدی جانا ہے" ۔ حسام کے کہنے پر بیہ نے اثبات میں سر ہلایا ار جلدی سے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔ حسام کے چہرے سے وہ سمجھ گئی تھی کوئی پریشانی ضرور ہے لیکن اس کے نہ بتانے پر وہ خاموش ہوگئی تھی ۔ بیہ کے جاتے ہی حسام نے پریشانی سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا جون اُسے ایک بھائی کی طرح عزیز تھا اور اُسے اب اُسکی فکر ہو رہی تھی ۔


💗💗💗💗

زرقان نے گھر میں اتے ہی چاروں طرف اپنی نظریں پھیری ۔ تمام ملازمین اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے ۔


سر میڈم نے کھانا نہیں کھایا میں گئی تھی انہوں نے منع” کردیا " ۔ ملازمہ نے اتے زرقان سے کہا ۔ جسکے ماتھے پر بل پڑے اُس نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ڈالی جہاں چھ بج چکے تھے ۔ وہ صبح اُسے یہاں چھوڑ کر گیا تھا ۔ تقریباََ سات سے آٹھ گھنٹے ہونے والے تھے اور وہ اب تک بھوکی تھی ۔


" کھانا لا کے دے مجھے میں لے جاؤ گا " ۔ زرقان نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔ ملازمہ نے اثبات میں سر ہلایا اور کچھ ہی دیر میں اُس نے کھانے کی ٹرے لاتے زرقان کو تھمائی ۔


زرقان نے اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھائے ۔ دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا تو نظر بیڈ پر اپنے چہرے کو گھٹنوں میں چھپائے آمنہ پر گئی ۔ اُسکے ہچکیاں بھرتے وجود کو دیکھتے وہ سمجھ گیا وہ رو رہی ہے زرقان نے اپنے لب بھینچے اور قدم بیڈ کی طرف بڑھائے آمنہ کے پاس اتے اُس نے ٹرے بیچ میں رکھی ۔


زرقان کی موجودگی محسوس کرتے اُسکا ہچکیاں بھرتا وجود تھما تھا لیکن اُس نے سر اٹھا کر اُسکی طرف نہیں دیکھا ۔


" عشقم " ۔ زرقان نے نرم لہجے میں اُسے پُکارا ۔ زرقان کی آواز سنتے امنہ نے ہچکی بھری لیکن اُسکی طرف نہیں دیکھا ۔


" عشقم میری طرف دیکھو "۔ زرقان نے ابکی بار نہایت آرام سے اُسکے گھٹنوں کے گرد بندھے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔


آمنہ نے اپنا سر اٹھاتے اُسکی طرف دیکھا۔ آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں آنسو اور سرخی دیکھتے وہ سمجھ گیا وہ کافی دیر سے روتی رہی تھی ۔ زرقان نے اپنے جبڑے بھینچے ۔


" کیا کرتی هوں عشقم میری چیزوں پر اتنا ظلم " ۔ ٹرے اپنے درمیان سے ہٹاتے وہ آمنہ کے قریب ہوتے اُسکی پلکوں پر ٹھہری نمی کو اپنے انگوٹھے کی پوروں سے صاف کرتے گھمبیر آواز میں گویا ہوا ۔


" چلو کھانا کھاو " ۔ زرقان نے اُسکے چہرے پر بکھری نمی کو نرمی سے اپنے ہاتھ سے صاف کرتے کھانا کی ٹرے میں سے نوالہ توڑتے اُس تک کیا۔ آمنہ خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی جس کے ہر انداز سے یہ بات واضح تھی کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے ۔اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں اُسکے لئے محبت کا جہاں آباد تھا ۔ اُسکے چہرے پر چھائی نرمی اور نرم لہجہ اس بات کا ثبوت تھا وہ اُس سے محبت کرتا ہے پھر ایسی کیا وجہ تھی جو وہ صوفیہ کے ساتھ تھا ۔


" مجھے وہ وجہ جاننی ہے جسکی وجہ سے آپ نے وہ سب بولا " ۔ آمنہ نے نوالہ جھٹکتے اُس سے اشارے سے پوچھا آنسو ایک بار پھر سے چھلک پڑے تھے ۔ زرقان نے جبڑے بھنچے خود پر ضبط کیا ۔ جبکہ نوالہ دوبارہ اُسکی طرف بڑھایا ۔


" وہ وجہ میں ابھی تمہیں نہیں بتا سکتا عشقم لیکن جیسے ہی میرا کام مکمل ہوجائے گا میں تمہیں سب بتا دونگا بس اتنا سمجھ لو کہ کسی زندگی اور عزت بچانے کے لئے میں نے وہ سب کہا ہے " ۔ زرقان نے نرم لہجے میں کہتے نوالہ اُسکے لبوں سے لگایا ۔ جسے ااس بار بھی وہ جھٹک گئی ۔ زرقان کی بات پر اُسے اچنبھا ہوا آخر وہ کس کی عزت اور زندگی بچانا چاہتا تھا ۔


" کس کی عزت بچانی تھی زرقان جو میرے لیے ایسے حقیر لفظ کہے بتائے مجھے کون سی ایسی وجہ تھی جو آپ کل بھی صوفیہ کے ساتھ رہے۔ ۔۔اگر آپکی جگہ میں ہوتی اور ایسے کسی غیر مرد کے ساتھ ۔۔۔۔" ۔ غصے سے اُسکا ہاتھ جھٹکتے وہ اپنی جگہ سے اٹھتے تیزی سے اشارتاً کہتی زرقان کی رگوں میں خون کی جگہ اشتعال ڈورا گئی وہ ایک ہی جست میں اپنی جگہ سے اٹھتا اُسکے دونوں بازوؤں کو اپنی گرفت میں لے گیا۔ آمنہ کے لفظوں نے اُسکے تن بدن میں ایک آگ سی لگا دی تھی ۔


" ہوش میں آؤ عشقم ۔۔۔اور اپنی زبان کا درست استعمال کرو ۔۔ایسے لفظ اس زبان سے ادا نہ ہو جس کا خمیازہ تم اپنے اس نازک وجود پر برداشت نہ کر پاؤ " ۔ آمنہ کے بازو اپنی گرفت میں لیتے وہ دھیمی مگر سرد آواز میں گویا ہوا تھا ۔ آمنہ کے آنسوؤں میں روانی ائی ۔ وہ ہچکیاں بھرتے بہتی ہیزل بلو آنکھوں سے زرقان کی طرف چپ چاپ دیکھی گئی اور زرقان اُسکے آنسو اور ہچکیاں بھرتا وجود دیکھتے گہرا سانس بھرتا چلا گیا ۔ وہ سمجھ گیا تھا اگر اب آمنہ کو سچ نہیں بتایا تو وہ ایسے ہی روتے اپنی حالت خراب کر لے گی اور مزید غلط فہمیاں انکے بیچ ایک دیوار بنا دے گی جسے وہ کبھی نہیں گرا پائے گا۔


" عشقم بیٹھو یہاں اور اب میری بات غور سے سنو میں جو تمہیں بتانے جا رہا ہوں وہ صرف ہم دونوں کے بیچ ہی رہنا چاہیئے " ۔ زرقان نے گہرا سانس بھرتے آمنہ کے بازؤں پر اپنی گرفت نرم کی ۔ جبکہ لہجہ بھی اب نرم ہوگیا تھا ۔ وہ اس لڑکی سے سختی سے بات کر ہی نہیں سکتا تھا ۔


آمنہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ جبکہ اب اُس نے زرقان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا تھا وہ ابھی کتنے سرد لہجے میں اُس سے مخاطب ہوا تھا کہ پل میں آمنہ کا دل خوف سے دھڑکا تھا ۔


آمنہ کے دونوں ہاتھوں کو تھامے وہ نرمی سے اُسے اپنے بارے میں ساری سچائی بتاتا چلا گیا وہ اصل میں کیا ہے ۔ صوفیہ سے اُس نے وہ سب کیوں کہا سب کچھ ۔۔۔۔اور جیسے جیسے آمنہ سب سن رہی تھی اُسکی آنکھوں میں حیرت و بے یقینی کے ساتھ ساتھ نمی بھی چمکنے لگی تھی ۔


" ہوووو ۔۔۔تو یہ تھی عشقم ساری اصلیت تم نے تو ظلم ہی ڈھا دیا میری ان ہیزل بلو حسین آنکھوں پر " ۔ زرقان نے کہتے اُسکی آنکھوں پر باری باری اپنے لب رکھے ۔ آمنہ نے ہچکی بھرت اپنی آنکھیں بند کی ۔ زرقان کیا تھا اور وہ اُسے کیا سمجھتی تھی اُس نے زرقان کو کتنا بُرا بھلا بولا تھا ۔ آمنہ کو اب اپنی غلطی نظر آنے لگی وہ اپنا چہرہ جھکا گئی ۔


" عشقم یہ حسین چہرہ میرے سامنے مت جھکایا کرو مجھے یہ حسین چہرہ ہمیشہ اپنے روبرو چایئے یہ ہیزل بلو آنکھیں اپنی شہد رنگ آنکھوں میں گڑھی ہوئی چایئے " ۔ زرقان نے اُسکی تھوڑی نرمی سے تھامتے اُسکا چہرہ اٹھاتے نرمی سے کہا ۔


" میں نے آپکو اتنا بُرا بھلا بولا زرقان ۔۔ائی ایم سوری " ۔ آمنہ زرقان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اشارتاً بولی ۔


" ہونہہ معافی نہیں مانگو عشقم تم کچھ نہیں جانتی تھی انجان تھی تو تمھاری رد عمل یہی ہونا تھا ". زرقان نے کہتے کھانے کی ٹرے اُنکے بیچ میں واپس رکھی اور نوالہ بناتے آمنہ کی طرف بڑھایا جسے وہ خاموشی سے کھانے لگی ۔


" بس میری بات پر ہمیشہ یقین رکھنا میری محبت پر یقین رکھنا زرقان خان صرف امنہ زرقان خان سے محبت کرتا ہے اور میری محبت کی حقدار تا قیامت تک ایک ہی عورت رہے گی اور وہ ہے آمنہ زرقان خان اگر اُسکے بعد کوئی اور لڑکی ہوگی جس سے میں بے انتہا پیار کرونگا تو وہ ہماری بیٹی ہوگی عشقم " ۔ زرقان نے نرمی سے اُسے کھانا کھلاتے کہا اُسکے لفظوں کی سچائی اُسکی آنکھیں بیان کر رہی تھی ۔ آمنہ کی آنکھوں سے بہتے آنسو تھمے ۔ چہرہ لال ٹماٹر ہوا۔ وہ یک تک اپنے شوہر کے خوبرو چہرے کو دیکھے جا رہی تھی جو چہرے پر محبت کے رنگ سجائے اُسے کھانا کھلا رہا تھا ۔


" اب ایسے ہی دیکھتے رہو گی یہ مجھے بھی کچھ کھلا دوگی بہت بھوک لگی ہے یار " ۔ زرقان نے اُسکے چہرے پر اتے جاتے رنگوں کو دیکھتے کہا ۔


آمنہ نے کچھ بھی کہیں بنا نظریں جھکائے نوالہ بنایا لیکن اس میں ہری مرچ شامل کرنا نہیں بھولی ۔ اور بڑے پیار سے نیلی ہیزل بلیو انکھوں میں چمک لئے لبوں پر مسکان سجائے اُس نے نوالہ زرقان کی طرف بڑھایا ۔ زرقان خان تو بیوی کی اس ادا اس مسکراہٹ پر فدا ہوتے جاندار مسکراہٹ لئے نوالہ کھا گئے ۔


" جانم تمھارے ہاتھوں سے یہ تیکھی چکن کڑاہی بھی مجھے میٹھی ۔۔۔نہیں نہیں بہت تیکھی ہے یار مرچیں کھا گیا میں " ۔ زرقان آمنہ کو شوخ نظروں سے دیکھتے گھمبیر آواز میں نوالہ چباتے ہوئے بول رہا تھا جب اچانک سے مرچوں کا ذائقہ محسوس کرتے اُسکا جملہ بدلہ ۔ امنہ زرقان کے اس طرح کہنے پر کھلکھلا کر ہنس دی ۔ مرچیں کافی تیز تھی زرقان کی سفید رنگت پل میں لال ہوئی تھی ۔ وہ اپنی آنکھیں مينچے برداشت کر رہا تھا . آمنہ کے کھلکھلانے پر اپنی آنکھیں کھولتے محبت سے اُسے دیکھے گیا وہ پہلی بار اُسکے سامنے دل سے ہنسی تھی ۔ اور اُسکی یہ ہنسی زرقان خان کو دنیا کی سب سے حسین چیز لگی ۔ جس کے آگے دنیا کے تمام منظر پھیکے تھے ۔ جبکہ چہرہ حد درجہ لال ہوگیا تھا ۔ شہد رنگ آنکھوں میں مرچوں کے باعث نمی ظاہر ہونے لگی تھی ۔ زرقان کے یوں خود کی طرف محبت و محویت سے دیکھنے پر اُسکی ہنسی رکی ۔ زرقان کی آنکھوں میں پانی دیکھتے اُس نے اپنے لب آپس میں ملائے پانی کا گلاس اُٹھاتے جھجھکتے ہوئے اُسکی طرف بڑھایا۔


" ہونہہ پانی سے مرچوں کا اثر کم نہیں ہوگا ایسے ہوگا " ۔ زرقان نے کہتے ایک ہی جست میں آمنہ کی قمر کے گرد بازو حمائل کرتے اُسے اپنے انتہائی نزدیک کرتے امنہ کو کچھ بھی سمجھنے کا موقعہ دئیے بنا ۔ اُسکے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لے گیا ۔ اس اچانک افتاد پر امنہ سوکھے پتے کی مانند لرز اٹھی ۔ زرقان کے کندھے کو اپنی ہاتھ سے دوبوچے وہ اپنی ہیزل بلو آنکھیں حیرت سے پھیلائے اپنے لبوں پر اُسکی نرم گرفت محسوس کر رہی تھی ۔ پورا وجود سنسنا اٹھا تھا ۔ زرقان مدہوشی کے عالم میں اُسکے لبوں کا جام پینے میں مصروف تھا ۔


تشنگی تھی جو بڑھتی جا رہی تھی ۔ آمنہ نے اپنی سانسیں بند ہوتے محسوس کرتے زرقان کے کندھوں کو جھنجھوڑا ۔ اُسے لگ رہا تھا اگر اب زرقان نے اُسکے لبوں کو آزاد نہیں کیا تو وہ مر جائے گی ۔ آمنہ کے جھنجھوڑنے اور اُسکی بند ہوتی سانسیں محسوس کرتے زرقان نے اُسکے لبوں کو آزادی دی ۔ زرقان کے دور ہوتے ہی امنہ نہ گہرا سانس بھرا اور نڈھال سی اُسکے سینے پر سر رکھ گئی ۔ زرقان نے آمنہ کی پشت کو سہلایا ۔


" عشقم تم تو شہد سے زیادہ میٹھی ہوں "۔ آمنہ کے کان میں جھکتے شوخ لہجے میں سرگوشی کرتے وہ آمنہ کو کان کی لوؤں تک لال کر گیا ۔ آمنہ نے مزید اُسکے سینے میں منہ چھپایا جبکہ اُسکے سینے پر اپنے نازک ہاتھوں کا مکہ رسید کرنا نہیں بھولی تھی ۔ زرقان اُسکی حرکت پر قہقہہ لگا کر ہنس دیا ۔


" اچھا ویسے یہ مرچیں جان بوجھ کر کھلائی گئی ہے نہ " ۔ زرقان نے اُسکے بالوں سے اٹھتی بھینی بھینی مہک کو اپنی سانسوں میں اُتارتے پوچھا ۔ آمنہ نے زرقان کی بات پر اُسکے سینے سے سر اٹھاتے اُسکی طرف دیکھا۔


" جی بلکل اور یہ سزا تھی مجھے چھوڑ کر اُس صوفیہ کے پاس جانے کی " ۔ آمنہ نے اشارتاً کہا لیکن ااُسکے چہرے کے تاثرات جو صوفیہ کا نام لیتے پل میں بدلے تھے دیکھتے زرقان قہقہہ لگا گیا ۔


فون کی چنگھاڑتی آواز پر اُس نے آمنہ کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے کامل کا نام سکرین پر دیکھتے فون لگایا تھا۔


کامل نے اُسکے فون اٹھاتے ہی اُسے جنید کے بارے میں اطلاع دی اور جلد سے جلد صوفیہ کے پاس جاتے جعفر کے اڈوں کے بارے میں جاننے کا کہا ۔


" ٹھیک ہے بھائی میں ابھی نکلتا ہوں صوفیہ کے پاس جانے کے لیے " ۔ زرقان نے سنجیدگی سے کہتے فون کٹ کرکے آمنہ کی طرف دیکھا جسکے ماتھے پر صوفیہ کا نام سنتے بل پڑے تھے ۔


" عشقم مجھے جانا ہوگا بہت ضروری کام ہے ابھی جلد اجاؤںگا دعا کرنا سب صحیح ہو لیکن اس بیچ تم گھر سے نہیں نکلو گی نہ ہی کسی کا کوئی فون اٹھاؤ گی میرے علاوہ " ۔ آمنہ کے ماتھے پر بوسا دیتے زرقان نے نرمی سے کہا ۔ آمنہ نے زرقان کے کہنے پر اثبات میں سر ہلایا ۔


" زرقان آپ اُس صوفیہ کو اپنے آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دے گے اُسے اپنے قریب مت انے دی جئے گا پلیز باقی اللہ آپکو کامیاب کرے جلدی سے جائے اور جلدی سے میرے پاس واپس ائے " ۔ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے اُس نے اونچا ہوکر زرقان کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے ۔ زرقان اُسکے کہنے پر مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گیا اُسکی بیوی اُسے لے کر شدت پسند تھی ۔ یہ بات زرقان کو اچھی طرح اج معلوم ہوگئی تھی ۔


زرقان نے ایک نظر امنہ پر ڈالی اور باہر نکلتا چلا گیا زرقان کے جاتے ہی آمنہ نے دوپٹہ سر پر اوڑھا اور قرآنی آیات کا ورد کرنے لگی …

💗💗💗💗💗


" بوس جنید اور اُسکی بیوی کو یہاں لے آیا گیا ہے آپکو ایک اور بات بتانی تھی حسام اور انابیہ ساتھ ہے اس وقت اور میرے خیال سے وہ اپنے شوہر کو سب کچھ بتا چکی ہے " ۔ اپنے خاص ملازم کی بات پر سگریٹ پیتا اُسکا ہاتھ تھما ۔


" لڑکی کا فون ٹریس کرو " ۔ حکم صادر کیا گیا ۔


" کیا ہے بوس کرنٹ لوکیشن کامل کے گھر کی ہے ۔۔اور اُسے حسام کے ساتھ نکلتے ہمارے آدمیوں نے خود دیکھا ہے " ۔ ملازم کے بتانے پر اسکی انکھوں میں پل میں وحشت اُبھری ۔


" نظر رکھو لڑکی پر جہاں دیکھے مار دو ۔۔کیونکہ میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے اُس نے ۔۔اور ویسے بھی انابیہ مر گئی تو سمجھو حسام مر گیا ۔۔صرف ایک لاش ہوگی جس کے وجود میں گولیاں داغتے اُسے دفن کردینا ہوگا " ۔ اپنا حکم سناتے وہ کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا رخ اب اُس کمرے کی طرف تھا جہاں جنید اور سدرہ کو لیا گیا تھا ۔ جبکہ پیچھے اُسکا خاص ملازم اُسکے حکم کی تعمیل کرنے چل پڑا ۔۔

گاڑی میں اس وقت خاموشی تھی انابیہ بار بار حسام کو دیکھ رہی تھی جو بلکل خاموش سنجیدگی سے گاڑی چلا رہا تھا ۔ حسام کے پاس کامل کی کال انا اُسکا سنجیدہ ہوجانا اور پھر واپس جانا بیہ کو کسی خطرے کی نشاندھی کر رہا تھا۔


حسام کا چہرہ دیکھتے وہ تھوڑا سا اُسکی طرف ہوتے اُسکے بازو پر اپنے لب رکھتے اپنا سر ٹکا گئی ۔ حسام جو جنید کے بارے میں سوچ رہا تھا اپنے بازو پر ایک نرم لمس محسوس کرتے بیہ کی طرف متوجہ ہوا ۔ جو اُسکے بازو سے سر ٹکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔ حسام نے جھکتے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھے ۔ اور پھر ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہوگیا ۔


کچھ ہی دیر میں اُنکی گاڑی کامل کے گھر کے باہر رکی تھی ۔ اُنکی گاڑی کو رکتے دیکھ کامل کے گھر کے سامنے موجود بلڈنگ کی چھت پر بیٹھا نشانے باز اُن پر نشانہ باندھ گیا تھا۔


گاڑی رکتے ہی حسام اور بیہ دونوں گاڑی سے باہر نکلے اور نشانے باز نے گن کا رخ بیہ کی طرف کیا۔


گھر کے باہر ہی کامل اور خضر کھڑے پریشانی سے اُنکے انے کا انتظار کر رہے تھے ۔حسام کو اتا دیکھ وہ دونوں جلدی سے اُس تک آئے بیہ بھی پریشانی سے اب خضر کامل کے پریشان چہرے دیکھ رہی تھی ۔ جب اُسکی نظر لون میں کھیلتی عروہ پر پڑی تو وہ اُسکی طرف بڑھ گئی ۔


" کب سے غائب ہے جنید " ۔ حسام نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اپنا رخ بدلتے ہوئے کہا ۔ بیہ اُسکے سامنے کچھ قدم کی دوری پر عروہ کے ساتھ باتیں کر رہی تھی ۔


" یہ تو ہمیں نہیں پتہ بس پولیس کے ذریعے یہی پتہ چلا ہے کہ اُن دونوں کو ہوسٹل سے اٹھا لیا گیا ہے زرقان صوفیہ کے پاس جانے کے لیے نکلا ہے وہ جعفر کا مین ادا بتائے گی اور پھر ہم نے وہی جانا ہے " ۔ کامل نے سنجیدگی سے کہا ۔ حسام نے اثبات میں سر ہلایا لیکن بیہ کے کپڑوں پر پڑتے ایک لال رنگ کے ڈاٹ کو دیکھتے اُسکی آبرو آپس میں ملی ۔ لمحہ کے ہزارویں حصے میں وہ پہچان گیا بیہ کسی کے نشانے پر ہے ۔ حسام نے تیزی سے اپنے نظریں چاروں طرف گھمائیں جب اُسے سامنے بلڈنگ پر وہ انسان نظر ایا جو بیہ پر نشانہ تانا ہوا تھا ۔


حسام کا دل خوف سے دھڑک اٹھا اسکے پورے وجود اُسکی سیاہ انکھوں میں خوف پھیلا ۔ نہیں اس بار نہیں ۔۔۔اس بار وہ اپنی بیہ کو کچھ نہیں ہونے دے گا ۔۔۔


" بیہ" !!!!! ۔ چیختے ہوئے وہ تیزی سے بیہ کی طرف ایا اور پل میں اُسے دھکا دیتے وہ اُس نشانہ باز کی لگاتار تین گولیوں کا نشانہ بنا ۔


بیہ نے گولیوں کی آواز پر حیرت سے پھیلتی آنکھوں کے ساتھ حسام کی طرف دیکھا ۔ جس کے وجود سے خون بہتا زمین پر گر رہا تھا ۔ پل کا کھیل تھا ابھی تو وہ عروہ کے ساتھ تھی لیکن اب وہ زمین پر تھی اور اُسکا حسام خون میں نہایا ہوا اُسکے سامنے ۔


خضر تیزی سے اپنی گن لوڈ کرتا اُس نشانہ باز کی طرف بڑھا جو اب وہاں سے فرار ہو رہا تھا جبکہ گھر سے دور گاڑی میں بیٹھے جعفر کے آدمی ان سب پر نظر رکھے ہر ایک چیز جعفر کے خاص ملازم کو بتا رہے تھے ۔


حسام نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے اپنے سامنے کیا اور پھر تکیلف سے نم ہوتی آنکھوں سے بیہ کو دیکھا جو بیقينی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ حسام نے تکلیف کی شدت سے اپنی آنکھیں بند کی ۔ اور گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا ۔


حسام کو گھٹنوں کے بل گرتے دیکھ بیہ کے سن وجود میں حرکت ہوئی ۔ پانچ سال پہلے کی طرح ہی منظر تھا ۔ ایک وجود خونم خون تھا تو دوسرا وجود بیقین ۔۔۔ لیکن اب جو وجود خونم خون تھا وہ حسام کا تھا اور جو بیقیں تھی وہ بیہ تھی ۔


" حسام " ۔ بیہ چیختی ہوئی حسام کی طرف بڑھی ۔


" حسا۔۔۔حسام ۔۔یہ۔۔۔یہ کیا ہوا حسام آنکھیں مت بند کریں دیکھے مجھے دیکھے ۔۔۔یہ اللہ خون بھائی پلیز حسام کو بچا لے ۔۔۔حسام ۔۔۔میرے حسام دیکھے اپنی آنکھیں مت بند کریں میں مر جاؤنگی حسام میری طرف دیکھے نہ ۔۔۔بھائی جلدی بلائے ایمبولینس کو حسام " ۔ کبھی حسام کے چہرے پر ہاتھ رکھتے کبھی اُسکے بہتے خون کو روکتے وہ حسام کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھتے ہزیانی انداز میں چیخ رہی تھی ۔ حسام نے بیہ کو دیکھا اور اپنا ہاتھ آرام سے اٹھاتے اُس نے اپنی بیہ کے چہرے پر رکھتے اُسکی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیے آنسو تو صاف ہوگئے تھے لیکن اُسکے ہاتھ پر لگا خون بیہ کے گال پر لگ گیا تھا بیہ نے حسام کی اس حرکت پر سسکی بھری اور پھر وہ اپنی آنکھیں بند کر گیا ۔ حسام کی بند آنکھیں دیکھتے بیہ کا وجود تھما ۔ اُس نے زورو سے نفی میں سر ہلایا۔


" حسام ۔۔نہیں نہیں ۔۔اٹھے ۔۔ایسے کیسے آنکھیں بند کر سکتے ہیں میں نے کہا اٹھے مجھ سے بات کرے بھائی پلیز مّیری بات سنے ۔۔۔میری بات کوئی سن کیوں نہیں رہا ہے ۔۔لے کر چلے حسام کو پلیز " ۔ بیہ نے چیختے ہوئے کامل سے کہا جو عروہ کو اندر بھیجے اب سن کھڑا حسام کو ہی دیکھ رہا تھا بیہ کے بولنے پر کامل کے وجود میں حرکت ہوئی ۔ خضر تو پہلے ہی اُس نشانے باز کو پکڑنے کے لئے اُسکے پیچھے نکل گیا تھا ۔


ایمبولینس کی آواز سنتے کامل نے شکر ادا کیا ضرور خضر نے ایمبولینس کو کال کر دی تھی ۔ بیہ حسام کے بالوں کو کبھی پیچھے کرتے اُسکے ماتھے پر بوسا دیتی تو کبھی اُسکے وجود سے بہتے خون کو کانپتے ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کرتی ۔ حسام میں اُسکی زندگی تھی ۔ اور ابھی اس وقت اُسکی زندگی بند آنکھیں اور خونم خون وجود لیے اُسکی باہوں میں تھی ۔ ایمبولنس کو دیکھتے کامل نے جلدی سے حسام کے وجود کو زمین سے اٹھایا ۔۔بیہ نے نفی میں سر ہلاتے حسام کو دیکھا جس کا بےجان وجود کامل لیے ایمبولنس کی طرف بڑھا تھا ۔ بیہ جلدی سے اُس کے پیچھے ائی ۔ اور حسام کے ساتھ ایمبولنس میں سوار ہوئی ۔ چپل وہی کہیں پیروں سے الگ ہوتی گر چکی تھی ۔


ایمبولنس میں لاتے ہی حسام کو آکسیجن لگائی گئی اور نہ جانے کیا کیا ایمرجنسی طبعی امداد جو آسٹریلیا کی ہر ایمبولنس میں موجود ہوتی ہے وہ حسام کو دی گئی ۔ اور اپنے حسام کو اس طرح بےجان دیکھتے بیہ تڑپ اٹھی ۔


حسام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے اپنے لبوں سے لگائے وہ اپنی سیاہ سرخ آنکھیں جن سے آنسو کسی آبشار کی مانند بہہ رہے تھے ۔ حسام کو دیکھ رہی تھی چہرے پر کپڑوں پر حسام کا خون لگا ہوا تھا ۔ دوپٹہ کہاں تھا اُسے ہوش نہیں تھا حتیٰ کے پیروں میں چپل تک موجود نہیں تھی ۔ اُاجڑا حلیہ اور کیسے نہ ہوتا ۔۔۔اُسکی تو یہاں دنیا ہی اُجر گئی تھی ۔


اُسکی دنیا اُسکا حسام اُسکی زندگی اُسکی دھڑکن اُسکی آتی جاتی سانسیں جس کے دم سے تھی وہ بےجان اُسکے سامنے پڑا تھا ۔ جس کی ذرا سی تکلیف پر وہ تڑپ اٹھتی تھی اُس کے وجود میں اتری ہوئی گولیاں دیکھتے تو وہ مرنے والی ہوگئی تھی ۔


" آپ مجھے نہیں چھوڑ کر جائے گے نہ ۔۔۔آپ ایسا کچھ نہیں کرے گے میں آپکو کہیں نہیں جانے دونگی ۔۔آپکو آپکی بیہ کے پاس واپس انا ہے ۔۔میں جانتی ہوں آپ سن رہے ہیں مجھے ۔۔۔آپکو میرے پاس واپس انا ہے ۔۔سنا آپ نے ۔۔۔ورنہ میں مر جاؤنگی ۔۔میں مر جاؤنگی حسام " ۔ حسام کے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوتے وہ بھرائی آواز میں حسام کو اپنے پاس واپس بلا رہی تھی ۔


💗💗💗💗💗💗


ہاسپٹل کے آگے ایمبولنس کے رکتے ہی حسام کو اُتارا گیا تھا ۔ بیہ نے حسام کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا وہ اُسکے ساتھ ساتھ ہی نیچے اتری تھی ۔زمین پر پاؤ رکھتے ہی وہاں موجود پتھر اُس دیوانی کے پاؤ میں لگتے اُسکے پاؤں کو زخمی کر گئے تھے ۔ لیکن ابھی اُسے اپنی تکلیف محسوس ہی کب ہو رہی تھی ابھی تو اُسکا روم روم صرف اُسکے حسام کے لیے تڑپ رہا تھا ۔


اسٹریچر پر لیتے حسام کا ہاتھ تھامے وہ اُسکے ساتھ ہاسپٹل کی طرف بڑھ رہی تھی کامل بھی اُسکے پیچھے ہی ایا تھا ۔ بیہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے ۔


" میم آپ یہی پر رکے " ۔ ائی سی یو کے باہر نرس نے انابیہ کا ہاتھ حسام کے ہاتھ سے نکالتے کہا ۔


" نہیں میں نہیں رکو گی میں حسام کے ساتھ جاؤنگی " ۔ انابیہ نے نفی میں سر ہلاتے اندر بڑھنا چاہا اپنے ہاتھ سے حسام کا ہاتھ چھوٹتا دیکھ وہ تڑپ اُٹھی تھی ۔ نرس فوراً سے اُسکے سامنے ائی ۔


" حسام !!!! ۔ حسام بیہ کی نظروں سے اوجھل ہوا ائی سی یو کا دروازہ بند ہوا ۔ اور بیہ نے اُس نرس کا حصار توڑتے آگے بڑھنا چاہا جب نرس سختی سے اُسے تھام گئی ۔ بیہ کے سر میں شدید ٹیسیں سی اُبھر رہی تھی ۔


" سر سنبھالے انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہے " ۔ نرس نے بیہ کے مزاحمت کرتے وجود کو با مشکل سنبھالتے کامل سے کہا۔ جس نے اثبات میں سر ہلایا ۔


" بیہ بچے سنبھالو خود کو حسام ٹھیک ہوجائے گا " ۔ کامل نے اگے بڑھتے بیہ کو تھامتے پیار سے کہا۔ بیہ کامل کی بات سنتے سسکتے ہوئے زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔


" کیسے سنبھالو بھائی کیسے ۔۔۔وہ جو خون میں نہایا ہوا اندر بےجان پڑا ہوا ہے نہ وہ میرا شوہر ہے ۔۔میری زندگی ۔۔جسکی بند آنکھیں میرا چین و سکون چھین کر لے گئی ہے اُنہیں ٹھیک ہونا پڑے گا ۔۔اُنہیں واپس میرے پاس انا پڑے گا ۔۔۔میں مر جاؤنگی اُنکے بنا " ۔ہچکیوں سے روتے ہوئے کہتی وہ کامل کی آنکھیں بھی نم کر گئی یکلخت کامل کی نظر اُسکے پاؤں پر گئی جہاں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا ۔


" بیہ اٹھو بچے پاؤں میں چوٹ لگ گئی ہے پٹی کروا لو " ۔ کامل نے اُسکا بازو تھامتے اُسے اٹھانا چاہا لیکن بیہ نفی میں سر ہلاتی رہی۔


" بھائی نہیں میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگی مجھے نہیں کروانی پٹی بس میرے حسام صحیح ہو جائے بیہ خود با خود ٹھیک ہوجائے گی ۔۔۔میں یہاں سے نہیں جاؤنگی " ۔ روتے ہوئے کہتے وہ کامل کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی کامل نے اُسکا ڈھیلا ہوتا وجود وہاں رکھی کرسی پر بٹھایا اور بیہ بس بہتی انکھوں اور جنبش کرتے لبوں سے ائی سی یو کے دروازے کو تک رہی تھی ۔


لبوں پر حسام کی حفاظت کی دعا رقصاں تھی تو آنکھوں میں آنسو ۔۔۔اُسکی ساری حسیات ائی سی یو کے دروازہ کی طرف تھی ۔ نہ جانے کتنی دیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہی اُسے اپنی کوئی فکر نہیں تھی اُسکے آنسو خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ پیروں سے اب خون بہتا ہسپتال کے سفید فرش کو داغ دار کر گیا تھا ۔ کامل ایک سائڈ پر کھڑا پریشانی کے عالم میں خضر کو فون کر رہا تھا جو اُسکا فون اٹھانے کی زحمت نہیں کر رہا تھا۔ گھر میں شجیہ فلک اور بچے اکیلے تھے کامل کو اُنکی بھی فکر ہو رہی تھی لیکن جیسی حالت بیہ کی تھی وہ اُسے نہیں چھوڑ کر جاسکتا تھا۔


ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی بیہ تیزی سے اُس تک ائی ۔


" کیسے ۔۔کیسے ہے حسام ٹھیک ہے نہ وہ مجھے بلا رہے ہونگے میں مل لیتی ہوں " ۔ ہذیانی انداز میں وہ ڈاکٹر کی سنے بنا خود سے کہتی جیسے خود کو تسلی دے رہی تھی ۔ کامل تیزی سے اُس تک ایا اور اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا ۔ کوریڈور میں کھڑے حلیہ بدلے جعفر کے آدمی سب چیزوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔


" تین گولیاں ایک ساتھ اُنکے سینے میں لگی ہے ۔ گولیوں کو تو ہم نکال چکے ہیں لیکن اُنکی دل کی دھڑکن نورمل نہیں ہے نہ ہی وہ کوئی رسپانس دے رہے ہیں ہم اُنہیں دوسرے روم میں شفٹ کر رہے ہیں ۔ اگر اُنکی دل کی دھڑکن نورمل ہوجاتی ہے اور وہ رسپانس دیتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ زیاد تر چانس یہی ہے کہ اُنکی بچی کچی دھڑکنیں بھی انکا ساتھ چھوڑ دے آپ اللہ سے دعا کرے "۔ ڈاکٹر سنجیدگی سے کہتا بیہ کی سانسیں اُسکے وجود سے چھین گیا ۔


" ایک ۔۔ایک منٹ کیسے اتنی آسانی سے کہہ سکتے ہو کہ اُنکی دل کی دھڑکن انکا ساتھ۔۔۔۔وہ ٹھیک ہے اُنہیں ٹھیک ہونا ہے سنا تم نے میرے حسام ٹھیک ہے بھائی دیکھ رہے ہے آپ یہ کیا بول رہے ہیں " ۔ بیہ کی چیخ پورے کوریڈور میں گونج رہی تھی اتے جاتے لوگ اسکو رحم دیدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔


ڈاکٹر کو بیہ نے جو کچھ کہا وہ سمجھ تو نہیں ایا البتہ کامل ضرور پریشانی سے اُسے تھام گیا تھا جس کا پورا وجود لرز رہا تھا ۔


" سوری ڈاکٹر آپ اُسے روم میں شفٹ کردے "۔ کامل نے انگلش میں ڈاکٹر سے معذرت کرتے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلے گئے ۔ اور اُنکے پیچھے ہی حسام کو اسٹریچر پر لایا گیا ۔ بیہ جلدی سے حسام کی طرف بڑھی حسام کے بال ماتھے سے پیچھے کرتے اُس نے شدت سے اپنے لب اسکے ماتھے پر ثبت کیے اسٹریچر آگے بڑھتا جا رہا تھا اور اُسکے قدموں میں بھی تیزی آرہی تھی ۔


" آپ ٹھیک ہے۔۔آپ نے ٹھیک ہونا میرے لیے جانتے ہے نہ بیہ آپکے بغیر کچھ نہیں ہے ۔ جلدی سے ٹھیک ہوجائے مجھے پتہ ہے ڈاکٹر جھوٹ بول رہا ہے آپکا دل تو میرے سینے میں دھڑکتا ہے تو کیسے آپکے دل کی دھڑکنیں اپنا ساتھ چھوڑ سکتی ہے " ۔ نم لہجے میں وہ حسام کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھتے مخاطب تھی جب حسام کو دوسرے کمرے کے اندر لایا گیا بیہ اندر جاتی اس سے پہلے ہی نرس نے دروازہ بند کیا ۔۔بیہ تڑپتے ہوئے اُس کمرے کی گلاس وال کی طرف بڑھی ۔ جہاں سے اندر کا منظر صاف نظر آرہا تھا ۔


اُسکی نظروں کے سامنے ہی حسام کے وجود کو نہ جانے کون کون سی مشینوں سے جکڑا جا رہا تھا ۔ بیہ یہ سب دیکھتے تڑپ اُٹھی تھی اُسکے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ہرٹ ریٹ مشین پر اُسکی دل کی دھڑکن کم ہوتی دیکھتے بیہ زورو سے نفی میں سر ہلا گئی ۔


" حسام اٹھ جائے نہ پلیز حسام اٹھ جائے میں مر جاؤنگی نہیں کرے ایسا اپنی بیہ کے ساتھ پلیز حسام " ۔ گلاس وال سے سر ٹکائے وہ روتے ہوئے حسام کو دیکھتے کہہ رہی تھی ۔ پیروں سے نکلتا خون ہاسپٹل کے فرش پر اپنے نشان چھوڑ رہا تھا ۔


" بھائی مجھے حسام سے ملنا ہے میں اُن سے ملو گی نہ دیکھئے گا وہ ٹھیک ہوجائے گے وہ اپنی آنکھیں بھی کھول لے گے ۔۔اور آپکو پتہ ہے میرے اُنکے پاس ہونے پر نہ اُنکی دل کی دھڑکن بھی تیز دھڑکنے لگے گی آپ میرے بھائی ہے نہ مجھے اپنی بہن کہتے ہے مجھے ملنے دے حسام سے ۔۔میں آپ کی ساری زندگی احسان مند رہو گی مجھے میرے حسام کے پاس جانے دے " ۔ یکدم وہ پلٹتے تڑپتے ہوئے کامل کے دونوں بازو جھنجھوڑتے ہوئے گویا ہوئی ۔ اپنی بہن کی ایسی حالت اُسکا دل چیر رہی تھی ۔ کامل نے اپنے جبڑے بھینچے اثبات میں سر ہلایا ۔ کامل کے اثبات میں سر ہلانے سے بیہ نے جلدی سے اپنے آنسو اپنے بازو سے صاف کیے ۔


کامل جلدی سے ڈاکٹر کی طرف بڑھا اُنہیں کسی طرح راضی کرتے وہ بیہ کی طرف ایا تھا ۔


" جاؤ گڑیا مل لو اپنے حسام سے " ۔۔کامل کے کہنے پر وہ ایک پل کی دیر کیے بنا تیزی سے کمرے میں۔داخل ہوئی تھی ۔


دروازہ کھولتے ہی اُسکے آنسو پھر سے بہہ نکلے آنکھوں میں محبت تڑپ اذیت لیے وہ اپنے حسام۔کو دیکھے گئی جس کی آنکھیں بند تھی وجود سن تھا ۔


" حسام ۔۔۔میرے حسام " ۔ حسام کے پاس اتے اُسکے گال پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھتے بیہ نے نم آواز میں کہا۔


" مجھے پتہ ہے آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں ۔۔۔اسی لیے کر رہے ہے نہ کہ میں نے آپکا سرپرائز خراب کیا تھا ۔ میں نے وہ ۔۔وہ پینٹنگ جو آپ نے اتنے پیار سے بنائی تھی وہ توڑ دی تھی ۔ آپ مجھے سزا دے رہے ہے ۔۔جانتی ہوں میں ۔۔آپ کہتے ہیں آپ بدل گئے ہے ۔۔آپ نہیں بدلے ہے آپ ویسے ہی ہے وہی لیپرڈ وہی حسام جو صرف بیہ کو تڑپاتا ہے ۔۔اٹھ جائے نہ میری جان دیکھے آپکی بیہ کا کیا حال ہوا ہے ۔۔دیکھے اٹھ کر میرے پاؤں میں چوٹ لگ گئی ہے بہت درد ہو رہا ہے آپ اٹھے مجھے دانٹے پھر میرے پاؤں کی پٹی کرے " ۔ حسام کے ہاتھ کو تھامتے وہ نم آواز میں گویا ہوئی تھی پاس کھڑی نرس اُسکی زبان تو سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔ لیکن ان لفظوں کی تڑپ وہ محسوس کر سکتی تھی اس لڑکی کے گرتے آنسو دیکھتے وہ سمجھ گئی تھی دونوں کے درمیاں بہت گہرا اور محبت بھرا رشتا ہے ۔


" آپ میری جان ہے میری زندگی ۔۔دیکھے آپ ہوجائے ناراض جتنا ہونا ہے میں آپکو منا لونگی ناراض ہو بیشک لیکن اس طرح نہیں ایسے نہیں ہو ناراض کہ آپ یہ مغرور آنکھیں ہی بند کر لے اپنے لبوں سے میرے لیے کچھ لفظ ہی ادا نا کرے ایسے کرے گے تو میں مناؤ گی کیسے حسام جلدی سے اپنی آنکھیں کھولے اور مجھے یہاں سے دور لے جائے کسی ایسی جگہ جہاں صرف آپ ہو میں ہو ہماری چھوٹی سی دنیا ہو پلیز حسام تھک جاؤنگی میں آپکی بیہ میں اتنی ہمت نہیں ہے " ۔ بیہ نے کہتے حسام کی بند آنکھوں پر اپنے لب رکھے ۔ اُسکے آنسو حسام کی پلکوں کو بھگو گئے ۔


ہرٹ ریٹ مشین پر حسام۔کی دھڑکن میں یکدم تیزی ہوئی حسام نے گہرے سانس بھرے نرس نے آواز دیتے دوسری نرس اور ڈاکٹر کو بلایا ۔


" میم آپ پلیز باہر جائے " ۔ نرس نے انابیہ سے کہا جس نے نفی میں سر ہلایا ۔ وہ سختی سے حسام کا ہاتھ تھام گئی ۔


" میم آپ پلیز چلے باہر " ۔ باہر سے اتی نرس نے بیہ کا بازو پکڑتے ہوئے اُسے حسام سے پیچھے کرنا چاہا ۔


" نہیں حسام اٹھ جائے حسام ایسا نہیں کرے بیہ کے ساتھ ۔۔میں مر جاؤ گی ایسا نہیں کرے حسام سن رہے ہیں میری بات میں مر جاؤنگی حسام " ۔ نرس بیہ کو پیچھے کو کھینچ رہی تھی اور بیہ حسام کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے نکلتے اور ہرٹ ریٹ مشین پر اُسکی مدھم ہوتی دھڑکنوں کو دیکھتے چیخ رہی تھی ۔ بیہ کا وجود اُس نرس سے قابو نہیں کیا جا رہا تھا ڈاکٹر حسام کا چیکپ کرنے لگے تھے ۔


دوسری نرس نے اتے بیہ کا دوسرا بازو تھاما ۔


" حسام پلیز اٹھ جائے نہیں کرے اپنی بیہ کے ساتھ ایسا میں واقعی مر جاؤنگی میں مر جاؤنگی " ۔ بیہ چیختی رہ گئی تھی اور نرس اُسے باہر نکالتے دروازہ بند کر گئی تھی بیہ تیزی سے گلاس وال کی طرف بڑھی ۔


آنسو شدت سے بہہ رہے تھے پورا وجود لرز رہا تھا ۔


" آپکو اٹھنا ہے آپکو صحیح ہونا ہے سن رہے ہیں آپ ایسے مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے ۔۔۔آپ کو صحیح ہونا ہے میں مر جاؤنگی حسام آپکی بیہ مر جائے گی " ۔ گلاس وال پر ہاتھ مارتے وہ چیخ رہی تھی اور کامل اُسے اس طرح دیکھتے اپنے جبڑے بھینچے خود پر ضبط کر رہا تھا ۔


بیہ کی نظر ہرٹ ریٹ پر پڑی اور وہاں حسام کی دل کی دھڑکن ختم ہوتے محسوس کرتے بیہ کا سانس سینے میں اٹکا اُسے اگلا سانس نہیں ایا آنسو اور تیزی سے بہہ نکلے ۔۔سر میں شدید ٹیسیں اُبھری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ۔ اور وہ اپنے آپکو نہ سنبھالتی اپنے ہوش گواتی بےجان ہوتی زمین پر گرتی چلی گئی ۔ کامل تیزی سے اُس تک پہنچا ۔


" نرس پلیز چیک کریں اسے " ۔ بیہ کو جلدی بازوں میں اٹھاتے وہ چیخ اٹھا تھا ۔ بیہ کے سن وجود کو جلدی سے ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا ۔ بیہ کا چیک اپ کرتے ڈاکٹرز کو دیکھتے کامل وہاں رکھی کرسی پر ڈھ گیا ۔


چند پلوں میں کیا ہوگیا تھا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ وہ سب سوچ ہی نہیں سکے تھے کہ جعفر ایسے حملے کر وا سکتا تھا ۔ وہ سب تو یہی سوچے ہوئے تھے کہ صوفیہ کے ذریعہ وہ جلد سے جلد جعفر تک پہنچ جائے گے لیکن سب ہاتھ سے نکلتا چلا گیا تھا ۔


💗💗💗💗💗


اپنے چہرے پر یخ ٹھنڈے پانی کو محسوس کرتے جنید نے اپنی آنکھیں کھولی ۔ آنکھیں واں کرتے ہی درد کا احساس شدت سے محسوس ہوا ۔ کہ چند پل کے لیے وہ اپنی آنکھیں دوبارہ بند کر گیا۔


" ذہ نصیب ۔۔اج کون ایا ہے جعفر کے اس غریب خانے پر یا زبردستی لایا گیا " ۔ جنید کو آنکھیں کھولتے اور پھر بند کرتے دیکھ جعفر کرسی پر بیٹھے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے گویا ہوا ۔


جعفر کی آواز سنتے ہی جنید کو سب کچھ یاد اتا چلا گیا ۔ اُس نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھولی ۔ تو نظر سامنے بڑے کروفر سے بیٹھے جعفر پر گئی ۔ جنید کے چہرہ پر پل میں سختی پھیلی براؤن آنکھوں میں غصّہ اور نفرت چھلکی ۔


" اتنا غصّہ ۔۔۔ہمم ویسے انا بھی چایئے جو کچھ ہوا ہے تمھارے ساتھ ۔۔۔۔اچھا مجھے پہچان تو گئے ہوگے نہ پرانا یارانہ ہے یار تمہارے ساتھ " ۔ جنید کے چہرے پر پھیلتی سختی اور آنکھوں میں غصے دیکھتے جعفر نے کہا۔


" میری بیوی کہاں ہے جعفر " ۔ جنید نے سختی سے سدرہ کے بارے میں پوچھا ۔


" دیکھو یار یہاں میں تمہارا دوست بیٹھا ہوا ہوں اور تمہیں بیوی کی پڑی ہوئی ہے ۔۔ویسے تم اور لیپرڈ پکے زن مرید بن گئے ہو " ۔ جعفر کے کہنے پر جنید کے چہرہ پر مزید سختی چھائی ۔


" جعفر میری بیوی کہاں ہے " ؟ جنید ابکی بار چیخا تھا ۔


" ہونہہ مارو یار " ۔ جعفر نے کان میں انگلی ڈالتے اپنے ادمی کو کہا جس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا کھینچ کر جنید کی قمر پر مارا تھا اپنے ہاتھ پاؤں بندھے ہونے کے باعث جنید اپنا بچاؤ نہ کر سکا ۔ اپنے لب بھینچے اُس نے اپنی قمر سے اٹھتا درد برداشت کیا ۔


" چلو دیکھا دیتا ہوں تمہیں تمھاری بیوی " ۔ جعفر کے کہتے اندھیرے کمرے کے ایک کونے میں لائٹ جّلی۔


بکھرے بالوں میں ہاتھ پاؤں کو کرسی سے باندھے منہ پر ٹیپ لگائے براؤن آنکھوں میں نمی لیے بغیر دوپٹہ کے وہ جنید کو دیکھ رہی تھی سدرہ کو یوں دیکھتے جنید کو اپنی رگیں پٹھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ جبڑے بری طرح بھینچے ۔


" تمھاری بیوی بھی بہت بیتاب ہے تم سے بات کرنے کے لیے ذرا اُسکی بھی سن لیتے ہیں " ۔ جعفر کے کہتے ہی سدرہ کے پاس کھڑے اُسکے آدمی نے سدرہ کے لبوں سے ٹیپ ہٹایا ۔


سدرہ درد سسک اُٹھی ۔


" جنید " ۔ ٹیپ ہٹتے ہی اُس نے جنید کو صدا دی ۔ اُسکے ہونٹوں کے پاس سے بہتے خوں کو دیکھتے جنید کو اپنے وجود میں لاوا گردش کرتا محسوس ہوا ۔ اُس نے ایک نظر پورے کمرے میں دوڑائی جہاں ہر طرف جعفر کے آدمی تھے اور اُنکی غلیظ نظریں اُسکی بیوی پر ۔ جنید کی آنکھیں پل میں لال ہوئی بےبسی وجود میں اُترتی محسوس ہوئی ۔ اگر اج وہ اُسکے پاس ہوتی اُسکے گھر میں اُسکے کمرے میں تو اج یہ نوبت نہ آتی اج جنید کو یہ بے بسی محسوس نہیں ہوتی یہ اذیت محسوس نہیں ہوتی جو اج اپنی بیوی کو بغیر دوپٹہ اتنے مردوں کے سامنے دیکھتے محسوس ہو رہی تھی ۔ جنید نے لال شکوہ کرتی نگاہوں سے سدرہ کو دیکھا جو اُسکی آنکھوں میں نظر اتا شکوہ دیکھتے ہچکیوں سے رو دی ۔


" جعفر تم یہ صحیح نہیں کر رہے ۔۔تم کیا سمجھتے ہو مجھے اس طرح باندھ کر تم مجھے کمزور کردو گے تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے " ۔ جنید جعفر کو دیکھتے ڈھاڑا تھا جو اُسکی حالت دیکھتے ہنس رہا تھا۔


" میں تمہیں کمزور کرنا نہیں چاہتا میں تمہیں کمزور کر چکا ہوں ۔۔اور اُسکا ثبوت میرے سامنے ہے تم ایسے ہی کرسی پر بندھے صرف چیخ سکتے ہو جو تم کر رہے ہو اب سیدھی شرافت سے جو ہو رہا ہے وہ ہونے دو کچھ ہوشیاری کی تو تمھاری بیوی میرے آدمیوں کے نشانے پر ہے " ۔ جعفر نے اپنے بندے کو اشارہ کرتے ہوئے تمسخر سے جنید سے کہا ۔


جعفر کے بندے نے جنید کے پاؤں آزاد کرتے اُس کا کولر پکڑتے اُسے کرسی سے اٹھایا جنید نے سدرہ کی طرف دیکھا جس کے سر پر بندوق تانی ہوئی تھی وہ مجبور تھا اب بہت مجبور ۔۔۔


جنید کے دونوں ہاتھوں کو کھولتے دونوں ہاتھوں کو دائیں بائیں رکھے پلر سے جڑی زنجیر سے باندھے وہ جنید کو گھٹنوں کے بل زمین پر بٹھا گئے تھے ۔ جنید سمجھ گیا تھا کیا ہونے والا ہے ۔ سدرہ برستی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی ۔


جب جعفر کے آدمی نے اپنے ہاتھ میں تھامے ڈنڈے پر تیل لگاتے اپنی پوری قوت سے جنید کی پشت پر دے مارا ۔ درد کی شدت سے جنید کی چیخ اس اندھیرے کمرے میں گونجی ۔ اُسکی چیخ کے ساتھ ساتھ سدرہ کی چیخ بھی شامل تھی ۔


" تمھاری آنکھیں بند نہیں ہونی چاہیئے جب تک تُم یہ وار سہتے رہو گے تب تک تمھاری بیوی صحیح سلامت رہے گی " ۔ جعفر کے کہنے پر سدرہ نے نفی میں سر ہلایا ۔ اُسکی ایک غلطی کی وجہ سے کیا ہوگیا تھا۔ا

" نہیں ۔۔اُسے کچھ مت کرو پلیز اُسے چھوڑ دو مت کرو ایسا " ۔ سدرہ روتے ہوئے چیخی تھی جب جعفر کے آدمی نے اُسکے اشارے پر سدرہ کے منہ پر واپس ٹیپ لگایا ۔ سدرہ نفی میں سر ہلاتی رہ گئی لیکن یہاں اُسکی سننے والا کون تھا ۔

جنید کی پشت پر جعفر کا ادمی ہر پانچ منٹ بعد شدت سے وار کر رہا تھا ۔ اور جنید اپنے جبڑے بھینچے لال ہوتی آنکھوں کے ساتھ یہ سب برداشت کر رہا تھا۔ برداشت کرتے اُسکی رنگت سرخ ہو گئی تھی پشت سے شرٹ بھی تقریباً پھٹ گئی تھی ۔ پورا وجود پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ اُسکی نظریں صرف سدرہ پر جمی تھی جو شدت سے روتی ہوئی اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔

" سر " ۔ اپنے خاص آدمی کی آواز پر اُس نے ہاتھ کہ اشارے سے جنید کو مارتے ہوئے آدمی کو روکا ۔

" گولیاں حسام کی بیوی کو لگنے کے بجائے حسام کو لگ گئی ہمارا آدمی ہاسپٹل میں تھا ڈاکٹر نے بہت کم چانسز بتائے ہے کامل خان بھی ہستپال میں ہے جبکہ خضر پولیس فورس کے ساتھ ہمارے آدمی کو ڈھونڈ رہا ہے جس نے گولی چلائی تھی " ۔ جعفر کے خاص آدمی نے ایک ہی سانس میں سب کچھ اُسکے گوش گزار گیا ۔ حسام کا سنتے ہی جون نے بیقینی سے نفی میں سر ہلایا ۔

" ویسے تو میں اُسے اپنے ہاتھوں سے مارنا چاہتا ہے لیکن خیر ہے یہ بھی ٹھیک ہے ۔۔۔نظر رکھو آن پر خضر کامل کی بیویاں مجھے یہاں چایئے ۔۔اور خاص طور پر اُس حسام کی بیوی بھی اُسے میں خود اپنے ہاتھوں سے مارو گا حسام کو نہیں مار پایا تو کیا ہوا اُسکی بیوی کی جان میں اپنے ہاتھ سے لونگا " ۔ خباثت سے کہتا وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔

" اوہ اب کیا کرو گے تم ۔۔تمہارا پیارا حسام پیارا لیپرڈ تو موت کے منہ میں ہے ۔۔ ویسے بچے گا تو نہیں لیکن اگر بچ بھی گیا تو اُسے بھی مار دے گے آخر اپنی بیوی کے بغیر وہ دنیا میں کرے گا بھی کیا ۔۔۔ اج کے لیے اتنی مار کافی ہے باقی بعد میں جاری کرے گے" ۔جعفر کہتا باہر نکلتا چلا گیا ۔ پیچھے اُسکے آدمی بھی باہر نکلتے گئے صرف دو آدمی اُس کمرے کے باہر رکے ۔

جنید نے گہرا سانس بھرتے اپنی پیٹھ سے اٹھتے درد کو برداشت کیا ۔ حسام کا سنتے وہ مزید ٹوٹ گیا تھا ۔ اُسے اپنا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہو رہا تھا اُس نے ایک نظر سدرہ کو دیکھا جو مزاحمت کرتی اپنے آپکو رسیوں سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اور پھر وہ اپنا وجود سے اٹھتے درد کو برداشت نہ کرتا ہوا ہوش و حواس کھوتے اپنی آنکھیں بند کر گیا ۔

سدرہ جنید کو بےہوش ہوتے دیکھ شدت سے رو دی اُسکی ایک غلطی کی وجہ سے اُسکا جنید اج اس حال میں تھا وہ اس حال میں تھی ۔ اُسکی انا نے سب خراب کر دیا تھا سب خراب ۔

پولیس کے ساتھ مل کر وہ اُس نشانے باز کو ہر جگہ ڈھونڈ چکا تھا لیکن وہ پھر بھی اُسے پکڑنے میں نا کام رہا تھا ۔ ایمبولنس کو وہ کال کرچکا تھا پہلے ہی تاکہ وہ حسام کو ہاسپٹل لے جا سکے۔۔۔اُسکے قدم اب تیزی سے گھر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ گھر جاتے ہی وہ شجیہ فلک اور بچوں کو محفوظ کرنا چاہتا تھا ۔ اور اُسکے بعد کامل کے پاس ہسپتال جانے کا ارادہ تھا ۔


خضر تیزی سے گھر میں داخل ہوا تھا لیکن قدموں میں پڑے واس اور گھر کے لاؤنچ کو بکھرا دیکھ اُسکی چھٹی حس نے اُسے اشارہ کیا ۔


" شجیہ فلک " ۔ خضر نفی میں سر ہلاتے کہتے کمرے کی طرف بڑھا ۔کمرے کا دروازہ کھلا تھا جبکہ وہاں کی ہر چیز بھی بکھری پڑی تھی ۔


" شٹ شٹ میں کیسے ان سب کو اکیلا چھوڑ سکتا تھا ۔ اگر میری بیوی کو کچھ ہوا میں چھوڑونگا نہیں جعفر تمہیں " ۔ پاؤں کے پاس پڑا واس اپنے پاؤں سے دور پھینکتے وہ چیختا ہوا اپنی جیب سے موبائل نکال گیا ۔


کامل کی لا تعداد کالز دیکھتے خضر اپنے لب بھینچ گیا موبائل سائلینٹ پر ہونے کی وجہ سے اُسے پتہ ہی نہیں چلا تھا ۔ ایک نظر خالی گھر کو دیکھتے اپنے جبڑے بھینچے وہ کامل کو فون ملاتے گھر سے باہر نکلا تھا ۔ اُسے شجیہ کی فکر ہورہی تھی ۔ اُسکی حالت ایسی نہیں تھی وہ ایک نازک مرحلہ سے گزر رہی تھی ۔ اُسکا بچا خوشبو عروہ فلک خضر کو لگ رہا تھا اب اُسکا ضبط ختم ہوجائے گا ۔


" ہیلو " ۔ دوسری طرف سے جھٹ سے کال اٹھا لی گئی تھی۔


" کامل بچے شجیہ فلک سب گھر سے غائب ہے جعفر اُن تک پُہنچ گیا ہے " ۔ خضر کے کہنے پر کامل کے ماتھے پر بل پڑے وہ حسام کے روم کے باہر کھڑا تھا بیہ کو دوسرے کوریڈور میں موجود روم میں رکھا گیا تھا ۔ ڈاکٹرز نے کمرے میں جانے سے بلکل منع کردیا تھا ۔ جبکہ گلاس وال پر کرٹن ڈال دیے گئے تھے وہ نہیں جانتا تھا اندر حسام کی حالت ٹھیک ہوئی بھی ہے یہ نہیں ۔


" افف خضر افف سب کچھ خراب ہوتا جا ربا ہے سب کچھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے یہاں بیہ حسام کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہاں میری بیوی میری بچی ۔۔جعفر اب اپنی موت کا زمیدار خود ہے " ۔کامل سرد لہجے میں غرایا ۔


" بس تم اب بیہ اور حسام کا خیال رکھنا میں زرقان کے پاس جا ربا ہوں صوفیہ کی طرف انشاءاللہ جعفر کے بارے میں معلوم ہوجائے گا " ۔ خضر کے کہنے پر کامل نے اپنی آبرو مسلی ۔


" ٹھیک ہے انشاءاللہ ضرور کچھ نہ کچھ معلوم ہو جائے گا " ۔ کامل نے کہتے اندر کی طرف قدم بڑھائے ۔ خضر نے الوادعی کلمات کہتے فون رکھا ۔ کامل کے قدم تیزی سے بیہ کے روم کی طرف بڑھ رہے تھے ایک طرف حسام کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ سانسیں نہیں لے پا رہا تھا اُسکی سانسیں انتہائی کم چل رہی تھی ڈاکٹرز نے اُسے دیکھنے تک کے لیے منع کردیا تھا تو دوسری طرف بیہ ہوش و خرد سے بیگناہ تھا ۔


کامل نے بیہ کے روم کا دروازہ کھولا تو اندر خالی بیڈ دیکھتے اُسکی آبرو آپس میں ملی ۔


" شٹ شٹ مین " ۔کامل نے غصے کی شدت سے دیوار پر اپنا ہاتھ مارا ۔


جعفر بیہ تک بھی پہنچ گیا تھا وہ اپنے ہر وار میں کامیاب ہو رہا تھا ۔ کامل نے پریشانی سے خضر کو فون ملایا لیکن اُسکا فون مصروف جا رہا تھا کامل نے جلدی سے اُسے میسج کرتے اپنے قدم حسام کے روم کی طرف بڑھائے ۔


💗💗💗💗


" ہیلو کہاں ہو تم " ۔ گاڑی میں بیٹھتے اُس نے زرقان سے پوچھا ۔


" صوفیہ سے ملنے جا رہا ہوں " ۔ زرقان نے گاڑی چلاتے جواب دیا ۔


" مجھے ایڈریس بھیجو اب بات ہاتھ سے نکل گئی ہے شجیہ فلک اور بچوں کو وہ اٹھا چکا ہے ۔۔حسام کو گولیاں لگی ہے " ۔ خضر نے سنجیدگی سے کہا۔


" افف بھائی ۔۔۔مجھے یہ اُمید نہیں تھی جعفر سے میں آپکو میسج کرتا ہوں اب بات واقعی حد سے بڑھ گئی ہے " ۔ سب سنتے زرقان کے ماتھے پر بھی بل پڑے تھے اُس نے خضر کو کہتے جلدی سے فون رکھتے اُسے صوفیہ کا موجودہ پتہ سینڈ کیا جس کا وہ خود صوفیہ سے کچھ دیر پہلے پوچھ چکا تھا ۔


خضر نے میسج دیکھتے گاڑی روڈ پر ڈالی جبکہ کامل کا میسج بھی وہ پڑھ چکا تھا جس میں بیہ کے گمشدہ ہونے کو اطلاع دی گئی تھی ۔ اُس نے شکر ادا کیا کہ شاداب یہاں نہیں تھا ۔ وہ آفس کے کام کے سلسلے سے شہر سے باہر تھا ورنہ وہ بھی ان سب چیزوں کا شکار ہوجاتا ۔


💗💗💗💗💗


زرقان کے انے کا سنتے ہی صوفیہ جلدی سے تیار ہوئی تھی ۔ کل اُس نے غصے میں اتے اپنا ہاتھ کاٹ لیا تھا ۔ اور پھر اپنے ہاتھ کی تصویر زرقان کو بھیجتے وہ اُسے اپنے پاس بلانے میں کامیاب ہوگئی تھی ۔ ابھی کچھ دیر پہلے زرقان نے اُسے انے کا میسج کیا تھا اور اب وہ لال رنگ کا ٹاپ جو اُسکے گھٹنوں تک تھا اور بلکل چست جس کے باعث اُسکا وجود پوری طرح نمایاں ہو رہا تھا ۔ ٹیبل پر وائن رکھتے بیصبری سے زرقان کا انتظار کر رہی تھی ۔


فلهال اُس نے جعفر سے ملنا کم کردیا تھا ۔ اُسکے لیے صرف زرقان ہی تھا جس سے وہ محبت کی دعوے دار ہوگئی تھی ۔ جب سے زرقان اُسکی زندگی میں ایا تھا وہ بہت کم انڈرولڈ کا کام کر رہی تھی لیکن جعفر کے بارے میں وہ سب جانتی تھی ۔ کیونکہ جعفر کے سب سے زیادہ نزدیک وہی رہی تھی ۔


صوفیہ کے گھر کے باہر ایک ساتھ دو گاڑیاں رکی تھی ۔ زرقان کے ساتھ ساتھ دوسری گاڑی سے خضر بھی نکلا تھا ۔ دونوں کے چہرے حد سے زیادہ سنجیدہ تھے ۔


" چلو اندر " ۔ خضر نے زرقان کو دیکھتے سنجیدگی سے کہا دونوں نے قدم گھر کے دروازے کی طرف بڑھائے۔


بیل کی آواز سنتے ہی صوفیہ مسکراتے ہوئے اپنے آپ پر ایک آخری نظر ڈالتے دروازے کی طرف بڑھی ۔


" میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی زر۔۔۔زرقان یہ کون ہے " ۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتے وہ زرقان کو دیکھتے کہہ رہی تھی جب اُسکی نظر خضر کی طرف بڑھی ۔


صوفیہ کا بیہودہ لباس دیکھتے خضر نے خشمگیں نگاہوں سے زرقان کی طرف دیکھا تھا جو خود صوفیہ کے ادھ برہنہ وجود سے اپنی نظریں ہٹا گیا تھا ۔


خضر نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔دماغ میں حسام کو گولیاں لگتی ہوئی ۔۔۔شجیہ فلک بچوں کا غائب ہونا یاد آیا تو برداشت نہ کرتا ہوا وہ اپنے الٹے ہاتھ کا تھپڑ صوفیہ کے چہرے پر رسید کر گیا۔


صوفیہ تھپڑ کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین پر گری تھی ۔ زرقان بھی خاموشی سے خضر کو دیکھ رہا تھا جس کے قدم اب صوفیہ کے نزدیک اٹھے تھے ۔


گھر کے اندر داخل ہوتے صوفیہ کے حیران و ساکت وجود کو نظرانداز کرتے خضر نے ڈائننگ ٹیبل پر بچھا کور ایک جھٹکے سے کھینچا جس کی وجہ سے کانچ کی پلیٹ اور وائن کے گلاس زمین پر چھناک کی آواز سے گرے ۔۔۔صوفیہ کے وجود پر ڈالی ۔


" عورت ذات ہو ۔۔اور عورت کا وجود ایک مہنگے نایاب آبگینے کی طرح ہوتے ہے جسے سب غیر مردوں سے چھپا کر رکھتے ہے " ۔ صوفیہ کے وجود پر چادر پھینکتے خضر حقارت بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا ۔ خضر کی بات پر صوفیہ ایک جھٹکے سے ہوش میں ائی اُس نے زرقان کو دیکھا جو اب اندر آتا دروازہ بند کرتے اُس سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔ جبکہ خضر اُس سے دو قدم کی دوری پر تھا ۔


" کون ہو تم ہو کیا رہا ہے زرقان ۔۔۔کون ہے یہ " ۔ صوفیہ چادر زمین پر ہی چھوڑے چیخی تھی ۔


" سیدھی سیدھی بات پوچھو گا جعفر کہاں ہے " ۔ خضر نے سیدھی بات کی ۔


" جعفر زرقان تم لوگ کون ہو ۔۔جعفر کو کیسے جانتے ہو " ۔ صوفیہ کو ابکی بار حیرت ہوئی تھی وہ کیوں جعفر کے بارے میں پوچھ رہے تھے ۔


" ائی ایس ائی آفسیر اب سیدھی طرح جواب دو جعفر کہاں ہے ۔ کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں ہے تمہارے پاس بھاگ تم سکتی نہیں ۔۔۔تمہارے سارے کرتوت اور انڈر ورلڈ سے تعلق کو جانتے ہیں تو اب سیدھا مدے کی بات کرتے ہے وقت نہیں ہے میرے پاس جعفر کہاں ہے " ۔ خضر نے اپنی گن نکالتے لوڈ کرتے صوفیہ کا نشانہ لیتے سخت لہجے میں صوفیہ سے پوچھا۔ خضر کی بات میں پل میں صوفیہ کا وجود پسینے سے بھرا وہ بیقينی سے اُن دونوں کو باری باری دیکھے گئی ۔


" زرقان تم بھی ۔۔تم تو مجھ سے پیار کرتے ہوں مطلب وہ سب ناٹک تھا سب کچھ تم سب مجھے پھنسا رہے تھے " ۔ صوفیہ کی زبان لڑکھڑائی ۔


" اوہ شٹ اپ لیڈی ۔۔۔فضول بکواس سے پرہیز کرو ۔۔جو پوچھا ہے وہ بتاؤ " ۔ زرقان ڈھاڑا صوفیہ اسکی ڈھاڑ پر اچھلی ۔ اُسے سمجھ آگیا تھا اب سچ بتانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔


" اگر میں سب کچھ بتا دونگی تو مجھے جانے دوگے تم لوگ " ۔صوفیہ نے تھوک نگلتے پوچھا۔


" وہ بعد کی بات ہے پہلے سچ بتاؤ جعفر اس وقت کہاں ہوگا کہاں اُس نے ہماری فیملیز کو رکھا ہے سب کچھ " ۔ زرقان نے کندھے اچکا کر کہا۔


" فیملی!!!!! ۔۔۔۔مجھے اس بارے میں نہیں پتہ لیکن جعفر جہاں اپنے سب دشمنوں کو لاتا ہے وہ جگہ میں جانتی ہوں جہاں وہ ہر وقت پایا جاتا ہے اسکے علاوہ مجھے کچھ نہیں پتہ " ۔ صوفیہ کے کہنے پر زرقان اور خضر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔


" بتاؤ " ۔ خضر کے کہنے پر صوفیہ نے جلدی سے اسے اُس جگہ کا بتایا جیسے ہی صوفیہ نے اُن دونوں کو بتایا خضر اور زرقان کے ماتھے پر بل پڑے ۔


" ایک ۔۔۔۔ایک منٹ تم نے کہاں تھا تم مجھے چھوڑ دوگے تو پھر یہ پولیس کیوں ائی ہے یہاں " ۔ پولیس کے ہورن کی آواز سنتے صوفیہ نے چیختے ہوئے کہا۔


" ایک ۔۔۔۔ایک منٹ میں نے کب کہا تمہیں چھوڑ دے گے نہ جانے کتنی زندگیاں برباد کر چکی ہوں انڈر ورلڈ کے ساتھ مل کر "۔ زرقان نے حقارت سے کہتے دروازہ کھولا تھا جب پولیس اندر ائی اور لیڈی پولیس بیدردی سے صوفیہ کا ہاتھ تھام گئی۔


" نہیں دیکھو میں نے تم لوگوں کو سچ بتا دیا ہے اب مجھے جانے دو " ۔ صوفیہ چیختی رہ گئی لیکن پولیس اُسے وہاں سے لیتی چلی گئی جو کام وہ کرتی تھی وہ کسی کے حق میں بھی بہتر نہیں تھے ۔۔اور اُسکا انجام یہی تھا کہ وہ ساری زندگی جیل کی چار دیواری میں رہتی ۔


" کامل کو فون کرو اُسے کہو ہمیں پتہ لگ گیا ہے بس جلدی سے وہاں پہنچنا ہے " ۔ خضر نے زرقان سے کہا اور اپنی گن واپس اپنی جیب میں رکھی ۔


💗💗💗💗💗


کامل اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں حسام کے کمرے کے باہر بیٹھا شدت سے ڈاکٹرز کا انتظار کر رہا تھا ۔ بیہ فلک شجیہ عروہ اُن سب کا غائب ہونا اُسے ذہنی ٹینشن میں ڈال گیا تھا ۔ ہاسپٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں وہ دیکھ چکا تھا بیہ کو لے کر جاتے ہوئے جعفر کے آدمیوں کو ۔ وہ یہ بات بھی جانتا تھا کہ جعفر کے آدمی یہی پر ہے جو اُس پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔


ڈاکٹر کے باہر اتے ہی کامل اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اس سے پہلے ڈاکٹر کوئی جواب دیتا کامل اُسے ٹوک گیا ۔


" کیا ہم آپکے روم میں جاکر بات کر سکتے ہیں " ۔ کامل کے کہنے پر ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلایا ۔ اور اُسے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھا کمرے میں اتے ہی کامل نے دروازہ بند کرتے ڈاکٹر کی طرف دیکھا ۔


" حسام کیسا ہے ڈاکٹر " ؟ کامل نے پوچھا ۔


" حسام اب ٹھیک ہے اُنکی سانسیں بہت کم آرہی تھی لیکن اب نورمل ہے اُنکی ہرٹ بیٹ بھی نورمل ہے لیکن ابھی وہ ہوش میں نہیں آئے ہے ۔۔۔آپ کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چایئے جو حسام کو تین گولیاں ایک ساتھ لگنے کے بعد بھی اُس نے زندگی دی ۔۔ایسا لگا تھا جیسے اُنہیں کسی چیز نے زندگی کی طرف کھینچا ہے ۔۔ورنہ کچھ دیر پہلے تو ہمیں ایسا ہی لگا تھا جیسے ہم اُنہیں نہیں بچا پائے گے " ۔ ڈاکٹر کے کہنے پر کامل نے بیساختہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اپنے رب کا شکر ادا کیا ۔ حسام میں اُسکی بہن کی جان تھی اور اُسکے رب نے اُسکی بہن کی جان بچائی تھی۔


" کب تک ہوش آجائے گا اُسے " ۔ کامل نے ڈاکٹر سے پوچھا ۔


" کچھ دیر میں اُنہیں ہوش آجائے گا ہم اُنہیں دوسرے روم میں شفٹ کر رہے ہیں آپ پھر اُن سے مل سکتے ہیں " ۔ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا ۔


" ڈاکٹر آپ میری ایک مدد کر سکتے ہیں " ۔ کامل نے کچھ سوچتے ڈاکٹر سے کہا جنہوں نے اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا ۔


💗💗💗💗


جعفر کا آدمی سر توڑ کوشش کر رہا تھا یہ جاننے کی کہ حسام زندہ ہے یہ نہیں ابھی بھی وہ ڈاکٹر کے کمرے کے باہر کے نہ جانے کتنے چکر لگا گیا تھا ۔


جب اچانک سے کامل لال آنکھیں لیے ڈاکٹر کے کمرے سے نکلا ۔ کامل کو دیکھتے جعفر کا ادمی اُدھر اُدھر دیکھنے لگا جبکہ اُسکی ساری حسیات کامل کی طرف ہی تھی ۔ کامل نے ایک نظر پورے کوریڈور میں ڈالی جب خود سے پانچ سے چھ قدم کی دوری پر فورمل کپڑوں میں کھڑے اس آدمی پر کامل کی نظر پڑی جو اِدھر اُدھر دیکھتے خود کو انجان دیکھانا چاہ رہا تھا ۔ کامل کی تیز نظروں نے اوپر سے نیچے تک اس آدمی کو دیکھا تھا جسے دیکھتے وہ پل میں سمجھ گیا تھا کہ یہی جعفر کا ادمی ہے ۔


اپنی جیب سے فون نکالتے اُس نے اپنے کان سے لگایا۔ اور اُسکے پاس سے گزرتے اُس نے قدم اگے بڑھائے ۔ کامل کو دور جاتا دیکھ وہ آدمی جھٹ سے اُس ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوا تھا ۔


کوریڈور کے آخر میں لگے شیشے سے یہ دیکھتے کامل طنزیہ مسکرایا ۔ اور اپنے قدم واپس ڈاکٹر کے روم کی طرف بڑھائے۔


" ابھی تم نے جس کا علاج کیا ہے وہ زندہ ہے یا مر گیا " ۔ ڈاکٹر جنہیں کامل سب سمجھا چکا تھا اپنی سیٹ پر بیٹھے خاموشی سے جعفر کے آدمی کی طرف دیکھ رہے تھے۔


" جواب دو ڈاکٹر " ۔ ڈاکٹر کو خاموش دیکھتے جعفر کے آدمی نے دوبارہ دانت پیستے کہا ۔


" جواب وہ نہیں میں دونگا " ۔ کامل کی آواز سنتے وہ ایک جھٹکے میں پلٹا اور کامل کے دھماکے دار مکے کا نشانہ بنا ۔


" تھینک یو ڈاکٹر اب آپ جائے کیونکہ اب جو یہاں ہوگا وہ شاید آپ ڈاکٹرز کے معصوم جان بچانے والے دل کو پسند نہ آئے "۔ کامل کے کہنے پر ڈاکٹر باہر نکلتے چلے گئے۔


" ہاں بھائی کیسا لگا مکا یا پھر اور چایئے جعفر کے کتے " ۔ کامل نے اُسے کولر سے پکڑتے اُسکا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا جو کامل کے مکے سے سوجھ چکا تھا ۔ جعفر کے آدمی نے نفی میں سر ہلایا۔


" اتنی دیر سے جعفر کو خبریں دے رہے تھے لگتا ہے بہت پسند ہے تمہیں مخبری کرنا ۔۔۔کوئی بات نہیں کرواتے ہے چلو شاباش جعفر کے خبری ایک خبر ذرا اُسے میری طرف سے دو کہ حسام مر گیا ہے ۔۔تمہارے بوس کو تھوڑا سا اور خوش ہونے دو ۔۔۔کیونکہ موت سے پہلے خوش ہونا تھوڑا بنتا بھی ہے اُسکا " ۔ گدی سے پکڑتے اُسے کرسی پر بٹھاتے کامل نے کہتے اُسکی گدی پر زور دار تھپڑ رسید کیا تھا جعفر کا ادمی کامل کے سامنے میں کمزور سا ایک لاغر وجود لگ رہا تھا جو خود جانتا تھا کہ وہ کامل کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔


کہاں وہ سبز انکھوں والا صحت مند تگڑا پٹھان اور کہاں وہ چپرا سا انگریز ۔۔


" چلو ملاؤ فون " ۔ کامل نے اُسے ایسے ہی بیٹھا دیکھ تیز آواز میں کہا ۔ اُس نے فوراً سے فون ملایا جب کامل نے اپنی شرٹ اوپر کرتے بیلٹ میں اٹکی گن نکالتے اُس پر پھونک ماری ۔ جعفر کے آدمی کا سانس اور رکا ۔


" ہیلو حسام ملک مر گیا ہے جعفر کو اطلاع کر دینا میں نے خود اُسکی ڈیڈ باڈی دیکھی ہے جبکہ ڈاکٹر سے بھی پوچھا ہے " ۔ جعفر کے خاص آدمی جو کہ ان سب کا ہیڈ تھا اُسے فون کرتے اُس لڑکے نے گن کو دیکھتے جھوٹ کہا ۔ کامل اُسکی کامل اداکاری پر مسکرا گیا ۔


" اداکار تو کمال کے ہو ۔۔۔اداکاری ہی کر لیتے حرام خور ایسے کام کرنے کی کیا ضرورت تھی چلو اب تمہارے جانے کا وقت آگیا ہے چلو چلے جیل میں چکی پیستے آڈیشن کی تیاری کرنا اگر کم جُرم کئے ہونگے تو جلدی باہر آجاؤ گے ورنہ ساری زندگی ایک ہی کام بچے گا چکی پیسنے کا " ۔ کامل نے دانت پیستے کہا اور اُسے لیے باہر کی طرف بڑھا جبکہ وہ لڑکا کامل کی باتوں کو سنتے رونے والا ہوگیا تھا ۔


کامل ابھی باہر نکلا ہی تھا جب اُسے سامنے ہی خضر اور زرقان نظر آئے جو تیزی سے اسی طرف ہی آرہے تھی ۔


" حسام کیسا ہے اور یہ خیریت " ۔ خضر نے اُس لڑکے کی طرف دیکھتے پوچھا۔


" جعفر کا ادمی ہے۔ ۔۔حسام ٹھیک ہے ذرا زرقان اسے پولیس کے حوالے کر اؤ پھر بات کرتے ہیں " ۔ کامل نے زرقان سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے اُس لڑکے کو لیتے اپنے ساتھ آئے پولیس کے حوالے کر گیا تھا۔


" کیا بنا کچھ معلوم ہوا " ۔ زرقان کے واپس آنے پر کامل نے پوچھا۔


" جعفر کے بارے میں پتہ چل گیا ہے بس اب وہاں جانا ہے " ۔ خضر نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔ ابھی وہ کچھ جواب دیتے جب نرس اُنکی طرف بھاگتی ہوئی ائی ۔


" آپکے پیشنٹ پینک کر رہے ہیں اُنہیں ابھی ابھی ہوش ایا ہے لیکن وہ سن ہی نہیں رہے ہیں " ۔ نرس کے کہنے پر کامل خضر زرقان جلدی سے حسام کے کمرے کی طرف بڑھے ۔


اُسے ابھی ابھی ہوش ایا تھا ۔ آنکھیں کھولتے ہی اُسکی نظر اپنے یارا اپنی بیہ کی تلاش میں پورے کمرے میں گھومی تھی ۔ اُسے سب یاد تھا اُسے گولیاں لگی تھی وہ بیہ کے پاس تھا بیہ کے آنسو اُس نے صاف کیے تھے وہ رو رہی تھی ہچکیوں میں ۔۔اور پھر ۔۔پھر اُسکی آنکھ اب کھلی تھی ۔


بیہ کو پورے کمرے میں نہ پاتے اُسکے سارے حواس بیدار ہوگئے تھے وہ جانتا تھا جعفر نے اُس پر حملہ کیا تھا۔ بیہ کہاں ہے وہ یہاں کیوں نہیں تھی ۔ کہیں جعفر نے اُسے کچھ کیا تو نہیں تھا۔


" میری بیوی کہاں ہے " ؟ اپنے نزدیک کھڑی نرس کو دیکھتے حسام نے پوچھا ۔ جبکہ خود وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔


" سر آپ پلیز لیتے رہے آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے " ۔ نرس نے رسانیت سے کہا لیکن وہ سن کہاں رہا تھا وہ تو بس بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔


" بیہ ۔۔۔مجھے بیہ کے پاس جانا ہے " ۔ اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ کو کھینچے کہتے وہ اپنی جگہ سے اٹھنا چاہتا تھا لیکن کمزوری کے باعث وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا محسوس ہو رہا تھا۔ نرس پریشان سی اُسے دیکھ رہی تھی جسے ہوش اگیا تھا لیکن وہ صرف بیہ بیہ کہیں جا رہا تھا ۔ جبکہ دوسری نرس باہر سے کامل کو بلانے گئی تھی ۔


" سر پلیز آپ چپ ہو کر بیٹھ جائے آپکی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے " ۔ نرس نے انگلش میں کہتے حسام کا ڈرپ لگا ہاتھ پکڑنا چاہا جب حسام نے اپنا ہاتھ اُس سے دور کیا ۔


" ہاتھ نہیں لگاؤ مجھے میری بیوی سے ملنا ہے انابیہ کہاں ہے " ۔ حسام نے لال ہوتی آنکھوں سے اس نرس کو دیکھتے اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔


" اوکے اوکے آپکی وائف آرہی ہے ریلیکس رہے آپ گئی ہے نرس بلانے " ۔ نرس نے نرم لہجے میں کہتے حسام کو تسلی دی ۔


" حسام یہ کیا کر رہے ہو طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمھاری لیٹ جاؤ " ۔ کامل خضر زرقان تینوں ایک ساتھ نرس کے کہنے پر اندر آئے تھے حسام کو اپنے ہاتھ سے ڈرپ نکالتے اور بیٹھ پر بیٹھے دیکھ کامل نے فکرمندی سے کہا تھا ۔


" کامل خان میں ٹھیک ہو بیہ کہاں ہے وہ یہاں کیوں نہیں ہے میں نے جب آنکھیں کھولی میری بیوی یہاں نہیں تھی اؤر جہاں تک میں جانتا ہوں میری بیوی مجھے اس حالت میں ایک پل کے لیے بھی اکیلے نہیں چھوڑے گی " ۔ حسام نے کامل کو دیکھتے سخت لہجے میں پوچھا تھا جب سے اُس نے آنکھیں کھولی تھی اُسے بیہ نظر نہیں ائی تھی ۔ اُسکی بیہ اُسکی یارا اُسکے پاس نہیں تھی حسام کو اُسکی فکر ہو رہی تھی۔ اسے اب بھی صرف اُسکی فکر تھی خود کے وجود میں تین گولیاں لگی تھی کمزوری حد سے زیادہ تھی لیکن اُسے پھر بھی بیہ کی فکر تھی وہ اُسکے سامنے کیوں نہیں تھی ۔


حسام کی بات پر کامل زرقان اور خضر تینوں کے چہرے پل میں اسپاٹ ہوئے تھے اُنکے جبڑے بھینچے ہوئے تھے ۔ حسام کو شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔


" میں کچھ پوچھ رہا ہوں میری بیوی کہاں ہے " ؟ حسام اب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا پوری شدت سے غرایا ۔


" حسام سکون سے بیٹھ جاؤ ابھی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم کمزور ہو ابھی " ۔ خضر نے پریشانی سے اپنی آبرو رب کرتے ہوئے حسام سے کہا ۔



" سکون سے بیٹھ جاؤ میں ۔۔۔مجھے میری بیوی لادو میں سکون سے بیٹھ جاؤنگا ۔۔۔لیکن کہاں سے لاؤ گے وہ یہاں ہوگی تو لاؤ گے نہ جعفر کے پاس ہے نہ بیہ جواب دو مجھے میری بیوی کہاں ہے "۔حسام نے پوری قوت سے چیختے ہوئے کہا ۔


" یار بات کو سمجھو ہمیں پتہ چل گیا ہے وہ سب کہاں ہے ہم وہی جا رہے ہیں تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم یہی رہو ہم انشاءاللہ جعفر کا قصہ تمام کرتے اُن سب کو بحفاظت لے کر آئے گے" ۔ زرقان نے آگے بڑھتے حسام کے پاس اتے نرمی سے اُسے کہا۔


" مطلب واقعی میں میری بیوی اُس جعفر کے پاس ہے ۔۔۔تم لوگ میری بیوی کی حفاظت تک نہ کر پائے میں خود جاؤنگا اُسے لینے " ۔ حسام نے جبڑے بھینچے کہا اور ابھی ایک قدم آگے بڑھایا تھا ہی کہ یکدم اُسکے آگے اندھیرا چھایا زرقان نے فوراً سے اُسے تھاما۔


" صرف تمھاری بیوی تویں ہماری بیویاں بھی جعفر کی قید ہے سکون سے یہاں بیٹھ جاؤ ابھی تم میں اتنی طاقت نہیں کہ جعفر کا مقابلہ کرسکو " ۔ خضر نے جبڑے بھینچے سخت لہجے میں کہا ۔ اور نرس کو اشارہ کرتے وہ باہر نکلتے چلے گئے۔ حسام نے اُن تینوں کی پشت کو تکا پھر ایک نظر اپنے آپ کو دیکھا واقعی میں وجود میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ کھڑے ہو پاتا اُس نے نرس کو دیکھا جو اُسکی طرف بڑھ رہی تھی ۔


نفی میں سر ہلاتے وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھا ۔ شرٹ لیس بلیک پینٹ میں سینے پر بندھی پٹی ۔۔ہاتھ پر ڈرپ کا نشان بکھرے بال لال سیاہ آنکھیں لیے وہ اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے ہسپتال کے کمرے سے باہر نکلا تھا ۔ پیچھے نرس چیختی رہ گئی لیکن وہ انسنا کرتا اگے بڑھتا گیا لوگ حیرت سے اُسے دیکھ رہے تھے جو سنجیدہ چہرہ لیے اگے بڑھ رہا تھا ۔


اُسکی بیہ خطرے میں تھی اور وہ سکون سے بیٹھ جاتا ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔

" افف ساری حسینائیں ایک ساتھ کیا قسمت پائی ہے میں نے " ۔ کمرے میں کرسیوں پر بندھی فلک شجیہ انابیہ اور سدرہ کو دیکھتے جعفر نے خباثت سے کہا۔


" بہت ہی غلیظ قسمت پائی ہے تم نے کیونکہ کچھ دیر بعد کتے کی موت مرنے والے ہو تم "۔ شجیہ جعفر کی شکل دیکھتے غرائی ۔


" غصہ ۔۔۔غصّہ جّجتا بھی ہے تم پر نیلی انکھوں والی حسینہ لیکن تم غلط سوچتی ہوں کتے والی موت میں نہیں مرو گا ۔۔کتے والی موت تو شاید حسام مر بھی چکا ہے اور اب تم تینوں کے شوہر مرے گے ۔ "


" میرے شوہر کے بارے میں ایسا سوچنا بھی مت جان لے لونگی تمھاری " ۔ وہ چاروں بیک وقت ایک ساتھ چیخی تھی ۔ وہ چاروں ہی اپنے اپنے شوہر سے بےانتہا محبت کرتی تھی جعفر کی اس بات پر غصے کی شدید لہر تھی جو اُنکے وجود میں اُٹھی تھی ۔ شاید تبھی اُن چاروں کے لبوں سے ایک جیسے لفظ ادا ہوئے تھے ۔۔


" واہ واہ ایسی محبت کافی عشق لگتا ہے تم سب کے درمیان " ۔ جعفر نے تمسخرانا لہجے میں کہا ۔


" ہاتھ کھولو تو بتاؤ تمہیں میں کتوں کی طرح باندھ کر بھونک کیوں رہے ہو ہمت ہے تو کھولو خدا کی قسم جتنی گولیاں میرے حسام کو لگی ہے اُس سے تین گنا زیادہ تمہارے وجود میں اتارو گی " ۔ بیہ جعفر کا چہرہ دیکھتے غرائی ۔


" خاموش حسینہ کی بھی زبان نکل ائی ہے اچھی بات ہے پر وہ کیا ہے نہ رکو رکو میں خود نہیں بولوں گا بلکہ تمہیں کچھ سنا دیتا ہوں اُسکے بعد شاید تم خود ہی کچھ بولنے کے قابل نہ رہو " جعفر نے کہتے موبائل میں ریکارڈ اپنے ادمی کی وہ کال ریکارڈنگ سنائی جو اُسکے ادمی نے اُسے کی تھی۔


" ہیلو حسام ملک مر گیا ہے جعفر کو اطلاع کر دینا میں نے خود اُسکی ڈیڈ باڈی دیکھی ہے جبکہ ڈاکٹر سے بھی پوچھا ہے " ۔


موبائل سے گونجتے لفظوں پر بیہ نے نفی میں سر ہلایا فلک شجیہ اور سدرہ نے نم آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا جس کی پہلے سے سفید رنگت مزید سفید ہوگئی تھی۔


" نہیں ۔۔جھوٹ ۔۔جھوٹ ہے یہ حسام زندہ ہے ۔۔۔بھابھی حسام زندہ ہے ۔۔میری چلتی سانسیں اس بات کی ضمانت ہے کہ حسام زندہ ہے اگر حسام کی سانسیں بند ہوتی تو میری سانسیں بند ہوجاتی لیکن میں زندہ ہو ۔۔۔اسکا مطلب وہ بھی زندہ ہے وہ زندہ ہے " ۔ بیہ ہذیانی انداز میں چیخی تھی ۔


" انسان کتا پال لے بلی پال لے لیکن غلط فہمی نہ پالے جیسے تُم نے پالی ہوئی ہے کہ تمہارا حسام زندہ ہے خیر اب کیا کرسکتے ہے " ۔ جعفر نے کندھے اچکاتے غرور سے کہا۔


سدرہ کی نم آنکھیں سن پڑے جنید پر تھی جس کی کھلی آنکھیں دیکھتے اُسے تسلی ہو رہی تھی کہ وہ ہوش میں ہے ورنہ اُسکا وجود ڈھیلا سا تھا ۔اور اُسے اس حال میں دیکھتے وہ نہ جانے کتنی بار خود کو کوس چکی تھی ۔ جنید کی یہ حالت اُسے تڑپا رہی تھی ۔


فلک کی نظروں کا مرکز اُسکی بچی اُسکی عروہ تھی جو عزیر اور خوشبو کے ساتھ ایک کمرے میں ڈری سہمی بیٹھی ہوئی تھی ۔ شجیہ کی بھی نظریں اُس سکرین پر تھی جہاں اُسکے بچے ڈرے سہمے بیٹھے ہوئے تھے اور اُس کمرے کا منظر سکرین پر نظر آرہا تھا ۔


" چلو اب شروع کرتے ہیں وہ کام جس کی وجہ سے تمہیں یہاں لایا گیا تھا ۔ تو سب سے پہلے کس سے شروع کرے ہاں پہلے اس سے شروع کرتے ہیں حسام کا چمچہ اسے بھی اب اُسکے پاس چلے جانا چاہئے نہ " ۔ جعفر نے کہتے اپنی گن سے جنید کا نشانہ لیا۔


" نہیں پلیز نہیں خدا کے لیے چھوڑ دو مت کرو ایسا پلیز "۔ جنید کی طرف اُس کی گن دیکھتے سدرہ کی سانسیں رکی تھی وہ چیخ اٹھی ۔


" مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب کوئی میرے سامنے گڑگڑاتا ہے " ۔ جعفر کے لہجہ میں فرعونیت تھی ۔


" پلیز نہیں کرو چھوڑ دو میرے جنید کو چھوڑ دو خدا سے ڈرو اُسکی طاقت سے ڈرو ۔۔۔میرے شوہر کو چھوڑ دو " ۔ سدرہ باقاعدہ اب اُسکے آگے گڑگڑا رہی تھی اُسے اپنا شوہر بہت پیارا تھا وہ اُسے نہیں کھونا چاہتی تھی ۔ جنید بس ساکت نگاہوں سے جعفر کی طرف دیکھ رہا تھا جبکہ سدرہ کی سسکیاں اُسکی گڑگڑاتی آواز سنتے اُس نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لی تھی ۔


" چلا گولی مار ۔۔۔۔" ۔ جنید کے کہنے پر سدرہ نے زورو سے نفی میں سر ہلایا ۔


" نہیں پلیز نہیں " ۔ سدرہ بلک پڑی وہ تینوں بھی نم نگاہوں سے سدرہ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔


" میں نے کہا اگر مرد کا بچا ہے تو چلا گولی ورنہ اگر میں زندہ بچ گیا تو پھر تُجھے چھوڑونگا نہیں میں " ۔ جنید نے ایک ڈھاڑ سے کہا تھا ۔ جعفر نے ٹریگر پر اپنی انگلی رکھی اور سدرہ اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ لب مسلسل ہلتے اپنے رب سے دعا گو تھے سانسیں بند ہونے کے ڈر پر تھی ۔ دل کی دھڑکن رک سی گئی تھی۔


جب گولی کی آواز سنتے اُسکے حواس جھنجھا اٹھے آنسو لڑیوں کی مانند بہہ نکلے سانسیں تھم۔گئی دل رک گیا پورا سماں اسکے لیے رک گیا ۔ آنکھیں کھولنے کی ہمت نہ ہوئی ۔


نہیں ایسے کیسے ہوسکتا ہے اُسکا جنید اُسے چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے کیسے ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔اسکی انا نے اُسکا گھر برباد کر دیا اُسکی زندگی اُجار دی ۔


" اب تو تیار ہوجا مرنے کے لیے کیونک آگئی موت تیری چوکھٹ پر " ۔ جنید کی آواز سنتے سدرہ نے بيقینی سے اپنی آنکھیں کھولی وہ صحیح تھا اسکے سامنے تھا ۔


" یا رب تیرا شکر " ۔ جنید کو صحیح سلامت دیکھتے سدرہ کے لبوں سے لفظ ادا ہوئے۔


جعفر کی رنگت اُری ہوئی تھی چاروں طرف سے تیز گولیوں کی آواز آرہی تھی ۔ جعفر کے سارے آدمی اپنے ہتھیار لیتے کمرے سے باہر نکل رہے تھے جب انکو گولیوں سے مارتے ہوئے وہ تینوں اُس کمرے میں داخل ہوئے ۔


زرقان خضر کامل کو ہاتھ میں گن اٹھائے اپنے آدمیوں کا نشانہ لیتے دیکھ جعفر بے یقین ہوا تھا ۔ وہ یہاں کیسے آسکتے تھے ایڈیلیڈ کے اس خستہ حال علاقے میں زمین کے نیچے بنے اس خفیہ مقام تک وہ کیسے آسکتے تھے ۔


پل میں وہ آدمی جو گن تانے اطراف میں کھڑے تھے وہ اب زمین پر مردہ پڑے تھے جعفر اکیلا رہ گیا تھا بلکل اکیلا ۔۔۔


شجیہ فلک کامل اور خضر کو دیکھتے مسکرا اُٹھی تھی ۔ جنید کے لبوں پر بھی مسکان آ ٹھہری جبکہ بیہ کا دل شدت سے اپنے حسام کا انتظار کر رہی تھی اُسکی سماعتیں یہ سننے کے لیے تڑپ رہی تھی کہ اُسکا حسام زندہ ہے دل کو تو جیسے یقین سا تھا کہ ہاں اسکہ حسام زندہ ہے ۔۔


کامل نے جنید کے ہاتھوں میں بندھی زنجیر کو گولی مارتے آزاد کیا جنید نے اپنے ہاتھوں کو آزاد ہوتے دیکھ پل میں اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے شجٹ فلک کو آزاد کرتے وہ سدرہ کے پاس ایا جو اُسے ہی بھیگی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ اپنے ہاتھ آزاد ہوتے ہی وہ اٹھتے جنید کے سینے سے لگی تھی اُسکے گرد اپنا حصار مضبوطی سے باندھے وہ اپنا چہرہ اُسکے سینے میں چھپا گئی تھی ۔ البتہ اپنے گرد جنید کا حصار محسوس نہ کرتے وہ لرز گئی تھی ہچکیاں بھرتے وہ مزید اپنا چہرہ اُسکے سینے میں چھپا گئی ۔ وہ واقعی میں اُس سے ناراض ہوگیا تھا ۔


جعفر نے یہ سب دیکھتے تیزی سے بیہ کی طرف اتے اُسکے ہاتھ پل میں آزاد کرتے اُسے اپنی گرفت میں لیتے اُسکے ماتھے پر گن رکھی ۔خضر کامل اور زرقان جو اُسکے آدمیوں کو مارتے اُس تک آرہے تھے یہ منظر دیکھتے وہ اپنی جگہ رک گئے ۔ یہ منظر سب کا دل مٹھی میں بھینچ گیا تھا بیہ میں تو سب کی جان بستی تھی ۔


" خبر دار جو کوئی مجھ تک ایا تمہیں کس نے بتایا یہاں کا " ۔ جعفر پسینہ سے بھیگا وجود لیے چیخا ۔ بیہ کی دل کی دھڑکن حد سے زیادہ سست ہوئی ڈر کی وجہ سے وہ بھیگی انکھوں سے کامل کی طرف دیکھے گئی ۔


" بس کرو جعفر ۔۔۔تمھاری ہوا ویسے ہی ٹائیٹ ہوگئی ہے مزید بہادر بننے کا ناٹک مت کرو کردو اپنے آپ کو ہمارے حوالے " ۔ زرقان نے اُسکے پسینے ہوئے چہرے کو دیکھتے طنزیہ کہا ۔


" میں نہیں ڈرا کسی سے تم لوگ اج بھی پہلے کی طرح خود غرض ہو لیکن میں اس بار اپنی بچی اپنی بیوی کا بدلا ضرور لونگا " ۔ جعفر نے کہتے ٹریگر پر انگلی رکھی ۔


" جعفر ہم تمھاری فیملی کے موت کے زمیدار نہیں ہے جیتنے تم ہو بیہ کو چھوڑو " ۔ کامل اپنی جان سے عزیز بہن کو بندوق کی نوک پر دیکھتے ڈھاڑا ۔ فلک اور شجیہ تو پہلے ہی اپنے بچوں کو لینے باہر نکل گئی تھی ۔ پولیس کے کچھ آفسیر اُنکے ساتھ گئے تھے جبکہ کچھ اُن تینوں کے ساتھ تھے اور باقی باہر سے اس جگہ کو گھیرے ہوئے تھے ۔


" نہیں اج میں اسکو مار دونگا شاید تھوڑا سکون مجھے مل جائے یہ مرے گی میرے ہاتھوں سے " ۔ جعفر نے کہتے ٹریگر پر دباؤ بڑھایا بیہ نے اپنی بھیگی آنکھیں بند کرتے کھولی ۔۔بھیگی سیاہ آنکھوں میں اچانک سے خوف کا پردہ ہٹا اور ایک عجیب سی چمک اُبھری جو اُسکے حسام کو دیکھتے اُسکی آنکھوں میں اُبھرتی تھی ۔ وہ مسکرا رہی تھی اور سب یہ منظر حیرت سے دیکھ رہے تھے جب گولی کی آواز چلی ۔


" نہیں " ۔ سب کی چیخ ایک ساتھ نکلی تھی لیکن یہ کیا ہوا تھا جعفر کا وجود ڈھیلا ہوتا پیچھے کو گرا تھا وہ اپنا ہاتھ جس سے اُس نے بیہ کے سر پر گن تانی تھی وہ پکڑے چیخ رہا تھا ۔


بیہ روتے روتے زور سے ہنسی آنسو آنکھوں سے بہہ رہے تھے تو لبوں پر مسکراہٹ تھی وہ سامنے دیکھ رہی تھی کامل اور خضر کے درمیان میں جو تھوڑی سی جگہ تھی اُس میں حسام کا عکس تھا اُسکا حسام تھا جو اپنے ہاتھ میں بندوق تھامے کھڑا تھا ۔


تیز قدموں سے بھاگتی وہ کامل اور خضر کے سن وجود کو دھکا دیتی دونوں کے بیچ سے گزرتی اپنے حسام تک اتی اُس سے ایک قدم کی دوری رکی ۔ اپنے لب دبائے وہ ہچکیاں بھی بھر رہی تھی اور مسکرا بھی رہی ۔


" میرے حسام میری جان " ۔ بھرائی آواز میں کہتے وہ حسام کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام گئی ۔


حسام کو دیکھتے اُن تینوں نے نفی میں سر ہلایا جبکہ جنید ابکی بار کھل کر مسکرایا ۔۔۔زرقان نے آگے بڑھتے جعفر کو گھٹنوں کے بل بٹھایا اور اُسکے سر پر گن تانی ۔


" آپ ٹھیک ہے نہ " ۔ بیہ نے حسام کے گال کو اپنے انگھوٹے سے سہلاتے ہوئے پوچھا ۔


" میں ٹھیک ہوں یارا تم ٹھیک ہو نہ"۔ اپنے ہاتھ سے بیہ کی قمر کو تھامتے اپنی بیہ کو خود سے قریب کرتے حسام نے فکر مندی سے پوچھا ۔


" آپکو ٹھیک دیکھ لیا ٹھیک ہوگئی میں حسام " ۔ بیہ نے نم لہجے میں کہتے اُسکے سینے پر اپنا سر رکھا ۔ جب حسام نے اُسے کس کے گلے لگاتے اپنے ایک طرف کیا یوں کہ وہ اُسکے مضبوط بازوں کے پیچھے چھپ گئی ۔


" یقین نہیں ایا کہ میں زندہ کیسے ہو " ۔ جعفر کو خود کی طرف دیکھتے پا کر حسام نے طنزیہ پوچھا ۔


" وہ کیا ہے نہ زندگی اور موت میرے اُس رب کے ہاتھ میں ہے " ۔ حسام نے گن سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔


" تو تم ہو لیپرڈ اہان۔ ۔نقلی لیپرڈ ۔۔۔کیونکہ لیپرڈ کبھی بھی اپنے سامنے اپنے دشمن کو دیکھتے پسینے سے نہیں بھیگا کبھی نہیں نہ ہی ایسے گٹھنوں پر گرا ہے وہ صرف تین جگہ جھکتا تھا اور جھکتا ہے ۔


ایک اُسکا رب کریم ۔۔۔دوسرے اُس کے ماں باپ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور تیسرا اپنی محبت اپنی بیوی کے اگے " ۔ حسام نے گن سے اپنی داڑھی رب کرتے سخت لہجے میں کہا ۔


" کیا کہاں تھا ہاں ۔ ۔۔۔ انسان کتا پال لے بلی پال لے لیکن غلط فہمی نہ پالے جیسے تُم پالے ہوئے تھے کہ تم مرو گے نہیں وہ بھی کتے کی موت " ۔ حسام کے بازو کو پکڑے نڈر انداز میں جعفر کو دیکھتے بیہ نے اُسکا جملہ اُسے ہی واپس کیا تھا ۔


" تم لوگوں کی وجہ سے میری بیوی میری بچی مری ہے میری آنکھوں کے سامنے میں نے اُنہیں آگ کی نظر ہوتے دیکھا ہے تم لوگ کیسے اتنے بے حس ہوسکتے ہو کیسے "۔ جعفر وہ سب کچھ یاد کرتا بھرائی آواز میں گویا ہوا تھا ۔


" جعفر غلطی اگر ہماری تھی تو غلطی تمھاری بھی تھی تم نے نہیں بتایا تھا تمھاری بیٹی ہے وہاں پر بیوی ہے جبکہ میں نے تم سے پوچھا بھی تھا ۔۔۔جو ہوا وہ سب نہیں ہونا چاہیے دو لوگ بے موت مارے گئے ہے اور اُس میں ہماری غلطی بھی تھی کہیں نے کہیں لیکن وہ لوگ اس انڈرولڈ اس غلیظ انڈر ورلڈ کی دنیا کی وجہ سے ہی مرے ہے لیکن تم نے انڈر ورلڈ سے تعلق توڑنے کے بجائے اسی کو اپنے لیے چن لیا ۔۔۔نہ جانے کتنی جانیں تم لے چکے ہو کتنے لوگوں کو تم مار چکے ہو کتنی زندگیاں تم تباہ کر چکے ہوں " ۔ حسام بیہ کو حصار میں لیے سینجدگی سے کہہ رہا تھا ۔ لیکن جعفر پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا تھا ۔


فلک اور شجیہ عروہ عزیر اور بچوں کو لیتے اِدھر ائی تھی جب سب کا دھیان اُنکی طرف گیا اور اِسی بات کا فائدہ اٹھاتے جعفر نے پاس گرے اپنے ادمی کے پاس پڑی گن اٹھاتے زرقان کے ہاتھ پر اُسکی بیک مارتے زرقان کی گرفت سے خود کو آزاد کرتے حسام کا نشانہ لینا چاہا جب اُسکی گن سے نکلتے گولی حسام کو لگنے کے بجائے اُس کمرے کی بلٹ پروف دیوار سے ٹکراتے واپس اُس تک ائی اور اُسکے ماتھے کے بیچ و بیچ لگتی پل میں اُسکی سانسیں ختم کر گئی گولی کی آواز پر سب نے دہل کر اس طرف دیکھا تھا زرقان بھی اچانک حملے سے سنبھل گیا تھا ۔ جعفر کی ایسی موت دیکھتے سدرہ کی چیخ نکلی اور وہ مزید جنید میں سماں گئی فلک اور شجیہ نے جلدی سے بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا لیکن بچے گولی کی آواز سنتے ڈر کی وجہ سے رونے لگے تھے ۔


جبکہ بیہ نے اپنی آنکھیں بند نہیں کی تھی جعفر واقعی دردناک موت مرا تھا ۔ اور بیہ کو اُسکی موت کا ذرا برابر دکھ نہیں تھا ۔ اُسکے حسام کو اس انسان نے موت کے منہ تک پہنچایا تھا ۔ اُس کے رب نے اُسکے شوہر کی حفاظت کی تھی ۔۔اسی لیے وہ جعفر کو ترحم بھری نظروں سے نہیں دیکھ رہی تھی ۔


" خس کم جہاں پاک " ۔ کامل نے کہتے فلک کو اپنے حصار میں لیتے عروہ کو اپنی گود میں لیا ۔ خضر نے بھی شجیہ کو اور اپنے بچوں کو اپنے حصار میں لیا ۔


بیہ نے حسام کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اب تکلیف کے تاثرات اُبھر رہے تھے اپنے حسام کو محبت اور فکر کی نظروں سے دیکھتے اُس نے حسام کا بازو اپنے کندھے پر رکھا ۔ حسام اپنی بیوی کو جان نثار کرتی نگاہوں سے دیکھتے اُسکے ماتھے پر بوسا دے گیا ۔


" چلو گھر چلے " ۔ حسام نے کہتے بیہ کے کندھے سے اپنا بازو ہٹاتے اُسکا ہاتھ اپنی گرفت میں تھامتے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔


سدرہ نے سب کے جاتے ہی جنید کو دیکھا جس کے چہرے پر بھی درد کے آثار واضح تھے ۔ سدرہ کے دور ہوتے ہی جنید نے اپنے قدم آگے بڑھائے لیکن درد کی وجہ سے اُس سے صحیح سے چلا نہ جا سکا ۔


" میں پکڑ لیتی ہوں " ۔ سدرہ نے آگے بڑھتے اُسکا بازو پکڑتے اُسے سہارا دیا جب جون نے اُسکا ہاتھ جھٹک دیا ۔ سدرہ تکلیف سے اپنے آنسو ضبط کرتی رہ گئی جنید کا ہاتھ جھٹکنے نے کسی چھڑی کی طرح اُسکے دل میں ضرب لگائی تھی وہ اپنے آنسو پیتے اُسکے پیچھے چل پڑی ۔۔

وہ سب اُس وقت حسام کے فلیٹ میں اُسکے روم میں موجود تھے جہاں ڈاکٹر حسام کو ڈرپ لگا رہے تھے بیہ اُسکے برابر میں بیٹھی ہوئی تھی شجیہ فلک صوفے پر جبکہ خضر اور کامل ایک طرف کھڑے تھے۔ حسام ہوش میں اتے ہی کامل اور خضر کے پیچھے چلا گیا تھا اسی وجہ سے اُسے اب حد سے زیادہ کمزوری ہوگئی تھی ۔ وہ گھر اتے وقت گاڑی میں ہی بیہوش ہوگیا تھا اور بیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے ۔


اب بھی وہ نم نگاہیں لیے حسام کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔


" میں نے ڈرپ لگا دی ہے ۔ کچھ دیر میں انہیں ہوش آجائے گا انکا دھیان رکھے میڈیسن ٹائم پر دی جئے گا اور کھانا پرہیزی ہونا چاہیئے " ۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر انابیہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔


کامل ڈاکٹر کو لیے باہر چلا گیا ۔ زرقان پہلے ہی اپنے گھر کی طرف نکل گیا تھا کیونکہ آمنہ گھر میں اکیلی تھی اور جنید اور سدرہ کو بھی کامل نے اُنکے گھر بھیج دیا تھا جنید کی طبیعت دیکھتے ہوئے ۔


" ہم بھی چلتے ہے انابیہ اپنا اور حسام کا خیال رکھنا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو کال کردینا سیکورٹی باہر کھڑی ہے فکر کی کوئی بات نہیں ہے " ۔ خضر نے کامل کے اندر انے پر انابیہ سے کہا ۔


" جی بھائی " ۔ انابیہ نے اثبات میں سر ہلاتے جواب دیا شجیہ فلک نے انابیہ کو گلے لگاتے اپنا خیال رکھنے کی تلقین کی ۔ کامل اور خضر نے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے باہر کی راہ لی ۔ سب کے جاتے ہی بیہ نے گھر کا دروازہ اچھی طرح بند کرتے اپنے قدم واپس کمرے کی طرف بڑھائے ۔


بیڈ کے قریب حسام کے پاس اتے بیہ نے جھکتے حسام کے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور خود فریش ہونے کے لیے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔


بیہ نے الماری کھولی تو اُس میں صرف حسام کے کپڑے ہی تھے حسام کی ایک وائٹ ٹی شرٹ اور ٹراؤزر نکالتے اُس نے واشروم کی راہ لی ۔ اب اُسکے کپڑے تو تھے نہیں تو حسام کے کپڑے ہی صحیح ۔


جلدی سے شاور لیتے وہ حسام کی شرٹ کا گلا جو بہت بڑا تھا اور اُسکے کندھوں سے سرک رہا تھا سنبھالتے ہوئے باہر ائی۔ ٹراؤزر بھی فولڈ کرتے اپنے ناپ کا کیا ہوا تھا گیلے بال پشت پر بکھرے پڑے تھے ۔


واشروم سے باہر نکلتے ہی اُسکی نظر حسام پر پڑی جس کا سر تکیہ سے ڈھلک گیا تھا ۔ بیہ تیزی سے اُس طرف بڑھی ۔ حسام کے پاس اتے اُس پر جھکتے اُس نے آرام سے حسام کا سر اٹھایا ۔ اُسکے بالوں سے ٹپکتا پانی حسام کے چہرے پر گر رہا تھا اپنے چہرے پر کچھ ٹھنڈا سا محسوس کرتے حسام نے اپنی آنکھیں آہستہ کھولی ۔ آنکھیں کھولتے ہی بیہ گیلے بالوں پر نظر پڑی جو اُسکے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے انکی مہکتی خوشبو اُسکی سانسوں میں شامل ہو رہی تھی ۔


بیہ نے آرام سے حسام کا سر تکیہ پر رکھا لیکن اُسکی سیاہ آنکھوں پر نظر پڑتے ہی وہ خوشی سے مسرور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اُسکی آنکھوں پر جھکتے اپنے لب رکھ گئی۔


حسام نے اپنی بیوی کی اس خوبصورت ادا پر اپنی آنکھیں بند کی اُسکے لبوں پر بھی مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔


" اٹھ گئے آپ " ۔ حسام سے دور ہوتے اُسکے پاس بیٹھتے اُسکا ڈرپ لگا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نرمی سے تھامتے بیہ نے اُسکی کالی سحر زدہ آنکھوں میں دیکھتے محبت سے پوچھا ۔


" ہمم " ۔ حسام نے کہتے اپنا سر تکیہ سے ہٹاتے بیہ کی گود میں رکھا ۔ بیہ نے مسکراتے ہوئے اُسکے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ جبکہ اب حسام کے ہاتھ سے ہاتھ ہٹاتے اُسکے گال پر آ ٹھہرا تھا۔ اُسکے گال کو اپنے ہاتھ سے سہلاتے وہ اُسکے بالوں میں ہاتھ رکھے محبت سے بھری سیاہ آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی ۔


کمرے میں دبیز خاموشی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے کھوئے ہوئے تھے ۔


" خدا کی نعمت ہے یہ " ۔ بیہ کی آنکھوں میں دیکھتے حسام نے اپنا دوسرا ہاتھ اٹھاتے اُسکے بھیگے بال کی لٹ کو پکڑتے کہا جو اسکی گال سے چپک گئی تھی ۔


" کیا " ؟ بیہ نے آبرو اچکا پوچھا نظریں دونوں کی ایک دوسرے میں گڑھی ہوئی تھی ۔


" محبوب ہمسفر کا ساتھ " ۔ حسام کے کہنے پر بیہ کے چہرے پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی ۔


" واقعی " ۔ بیہ نے تصدیق کرتے اُسکے ماتھے پر جھکتے اپنے لب رکھے ۔ حسام نے اُسکے لمس سے اپنے وجود میں سکون سا دوڑتا محسوس کیا ۔


" میری بیوی کو مجھ پر پیار آرہا ہے " ۔ حسام نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے شوخ نظروں سے بیہ کو دیکھتے کہا۔


" آپکی بیوی کو ہر وقت آپ پر پیار اتا ہے ۔۔۔اللہ نے اتنا پیارا شوہر دیا ہے کہ نظریں ہٹتی ہی نہیں اپ کے چہرے سے جب جب آپکو دیکھتی ہُوں دل مچل سا جاتا ہے آپکے پاس انے کے لیے آپکے قریب رہنے کے لیے آپکی یہ۔۔۔یہ جو داڑھی ہے نہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھونے کے لیے ۔۔۔۔آپکے ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہاتھ سے سنوارنے کے لیے " ۔ بیہ اُسکی داڑھی اُسکے بالوں پر ہاتھ رکھتے کہہ رہی تھی اور وہ اُسکی بات چہرے پر مسکان لئے سن رہا تھا ۔


" تو تم محبت کا اظہار کر رہی ہو ایک طرح سے " ۔ حسام نے اُسکی لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹتے ہوئے پوچھا۔


" یہی سمجھ لے آپ ۔۔ ویسے بھی آپ بخوبی جانتے ہیں آپکی بیہ آپ سے کتنا پیار کرتی ہے " ۔ بیہ نے اُسکے لبوں پر ٹھہری مسکان کو دیکھتے دل میں ماشاللہ کہا ۔


" عموماً تو شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کرے لیکن یہاں تو میری بیوی مجھ سے ہر پل محبت کا اظہار کرتی ہے" ۔ حسام نے بیہ کی گردن میں ہاتھ ڈالتے اُسکا چہرہ مزید نزدیک کیا ۔


" میں ہر پل آپ سے محبت کا اظہار اس لیے کرتی ہوں حسام ملک تاکہ آپکو یاد رہے کہ آپکی بیوی آپ سے بہت محبت کرتی ہے اُسے کی سانسیں آپکے ہونے سے چلتی ہے ۔۔اور ضروری نہیں ہے کہ صرف شوہر ہی محبت کا اظہار کرے بیوی کو بھی چایئے اپنے شوہر سے اپنی محبت کا لفظی اظہار بھی کرے جس طرح ہم عورتیں اپنے شوہروں کے محبت کے اظہار پر جی اٹھتی ہے کھلنے لگتی ہے اسی طرح مرد بھی اپنی بیوی کے محبت کے اظہار پر خوش ہوتا ہے مسرور ہوتا ہے " ۔ بیہ نے حسام کی داڑھی کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے کہتے اُسکی ناک سے اپنی ناک مس کرتے ہوئے کہا۔


" یارا یار تمھاری باتیں تو سیدھی دل پر لگتی ہے ۔ واقعی تمھارے محبت کے اظہار سے میں جی اٹھتا ہُوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب جب تم مجھ سے محبت کا اظہار کرتی ہوں میرے وجود میں ایک طاقت سی بھر جاتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے سکون سا مل گیا ہو " ۔ حسام نے بیہ کی حرکت پر اپنی دھڑکنوں کی رفتار کو بڑھتا محسوس کیا ۔ بیہ کی نزدیکی اُسکے جذبات ابھار رہی تھی ۔ وہ تڑپ اٹھا تھا بیہ کو محسوس کرنے کے لئے ۔


" یارا میرا کچھ میٹھا کھانے کا دل کر رہا ہے " ۔ بیہ کے لبوں کو فوکس میں لیتے حسام کی آواز پل بھر میں بوجھل ہوئی ۔


بیہ نے حسام کی بدلتی آواز پر پہلے اُسے غور سے دیکھا اور پھر اُسکی خمار کے تاثرات سے بھرتی انکھوں کو جو اُسکے لبوں پر گڑھی ہوئی تھی ۔ حسام کی نظروں کا فوکس دیکھتے اُسکا رنگ سرعت سے لال ہوا ۔ اُسکی پلکیں لرزتی ہوئی اُسکے رخساروں پر سایہ فگن ہوئی ۔


" فلحال تو ڈاکٹر نے آپکو پیکھا کھانا کھانے کی ہدایت کی ہے " ۔ حسام کی سیاہ آنکھوں سے اپنے آنکھیں چُراتے بیہ نے لب دبائے یہ بات کہی ۔ بیہ کی بات پر حسام کے چہرے پر ناگواری چھائی ۔


گولی مارو یارا ڈاکٹر کو میرا جو چیز کھانے کا من کرے گا میں وہی کھاؤ گا اور ابھی میرا یہ میٹھا کھانے کا دل کر رہا ہے " ۔ حسام نے بیہ کے لبوں پر انگوٹھا پھیرتے آخر میں بوجھل لہجے میں کہا ۔


" نہ ۔۔نہیں حسام " ۔ بیہ نے حسام کو روکنا چاہا لیکن وہ ایک ہی جست میں اُسکی گردن میں ہاتھ ڈالتے اُسے خود پر جھکاتے اُسکے لبوں کو اپنی نرم گرم گرفت میں لے گیا ۔ بیہ نے حسام کے کندھے کو پکڑا ۔ وہ انتہائی نرمی سے اُسکے لبوں کو اپنے لمس سے روشناس کروا رہا تھا اور بیہ اُسکے نرم لمس سے پگھل رہی تھی ۔ اُسکا ہاتھ خود با خود حسام کے کندھے سے ہٹتے اُسکے بالوں کو سہلانے لگا تھا۔ اور اُسکے عمل میں اُسکا ساتھ دیتی وہ حسام کو سرشار سا کر گئی ۔


ایک دوسرے کی سانسیں اچھی طرح محسوس کرتے وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ بیہ کے اندر تو حسام کو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی البتہ حسام بڑی فرصت سے اُسکے لال گال اور اپنی شدت سے بھیگے لب دیکھ رہا تھا ۔ ۔۔


" افف یارا شرماتی ہوئی تو تم مزید ہوٹ لگتی ہوں نہیں کرو یار میں ورنہ ضبط کھوتے تم میں گم ہوجاؤ گا " ۔ حسام کی بات پر بیہ کان کی لو تک لال ہوئی ۔


" حسام " !!!!! ۔ پلکیں جھکائے التجائیہ لہجے میں بیہ نے کہا ۔


" اچھا اچھا چلو سو جائے بہت نیند آرہی ہے " ۔ حسام نے اُسکے سرخ چہرے اور التجائیہ لہجے کو دیکھتے ہنستے ہوئے کہا اور تکیہ پر لیٹتے اپنا بازو بیہ کے لیے واہ کیا جس میں پل کی دیر کیے بنا وہ سمائی تھی ۔ کمزوری کی وجہ سے اُسے نیند انے لگی تھی ۔ کچھ ڈرپ کا اثر بھی تھا ۔ کہ اُسے شدت کی نیند آرہی تھی ۔


حسام کے سینے پر اپنا چہرہ رکھے اُسکے پٹی لگے سینے پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھے وہ اپنی آنکھیں سکون سے موند گئی تھی ۔ حسام نے بیہ کے وجود کو اپنے پاس محسوس کرتے اپنے بازو سے اُسے مزید قریب کرتے اُسکے بالوں سے اٹھتی مہک میں گہری سانس بھرتے سکون سے اپنی آنکھیں موندی اور وہ دونوں ایک دوسرے کے سنگ ایک گہری نیند کی وادی میں چلے گئے۔۔بند آنکھوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ایک حسین وادی کی سیر کرتے خواب نے اپنی جگہ بنائی ۔


💗💗💗💗💗

سدرہ اور جنید گھر اگئے تھے گھر اتے ہی اجمیر صاحب تو جنید کو اس طرح دیکھتے رونے لگے تھے اُنکی جوان جہاں اولاد تھا ۔ جو اس حال میں تھا ۔ اُنہیں سچائی بتانے کے بعد وہ آرام کرنے کی غرض سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔ اس سارے وقت میں اُس نے سدرہ کی طرف دیکھا تک نہیں تھا ۔


" جاؤ بیٹا تم بھی جاؤ اُسکے پاس ڈاکٹر کے پاس تو جا نہیں رہا وہ " ۔ اجمیر صاحب نے سدرہ کو دیکھتے پیار سے کہا جو صائمہ کے ساتھ بیٹھی تھی ۔ سدرہ جو نم آنکھیں لیے چہرہ جھکائے بیٹھی تھی فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھتے کچن کی طرف بڑھی ۔ تاکہ وہاں سر میڈیسن باکس لے سکے ۔


اپنی شرٹ اُتارے وہ بیڈ پر تکیہ میں منہ دیئے اُلٹا لیتا ہوا تھا ۔ زخموں کی وجہ سے اُسکی پشت میں شدید درد اٹھ رہا تھا جسے وہ لب بھینچے برداشت کر رہا تھا ۔


ہاتھ میں میڈیسن باکس تھامے سو سو کرتی لال چہرہ لال ناک اور آنکھیں لیے وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔ کمرے میں اتے ہی اُسکی نظر جنید پر پڑی تھی جس کی پشت پر نظر آتے زخموں کو دیکھتے وہ ہچکی بھر گئی تھی آنسو پھر سے روانی سے بہہ نکلے تھے ۔


سب سے زیادہ تو اُسکی بیگانگی تکلیف دے رہی ۔۔جنید نے اُس سے بات تک نہیں کی تھی حتیٰ کہ اُس نے نظر بھر کر اُسکی طرف دیکھا تک نہیں تھا ۔ حمزہ اور اجمیر صاحب نے اُسے ہاسپٹل جانے کا کہا تھا لیکن وہ ضد میں اتے کمرے میں آگیا تھا ۔


سدرہ نے دروازہ بند کرتے اپنے قدم دھیرے سے جنید کی طرف بڑھائی ۔


وہ جو آنکھیں موندے لیتا ہوا تھا کمرے میں پھیلتی اپنی بیوی کی خوشبو محسوس کرتے اپنے جبڑے بھینچ گیا۔ اور اپنا سر مزید تکیہ میں گھسایا فلحال وہ سدرہ سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا وہ اپنا ضبط کھو دے ۔


اپنے اندر ہمت پیدا کرتے آنسوؤں کا گولا نگلتے سدرہ جنید کے پاس بیڈ پر بیٹھی تھی وہ جانتی تھی جنید کو پتہ ہے وہ کمرے میں ائی ہے لیکن پھر بھی اُس نے اُسکی طرف دیکھا نہیں تھا اور یہ سدرہ کو اذیت دے رہا تھا۔


جھلمل ہوتی آنکھوں سے اُس نے جنید کی سفید پشت کو تکا جہاں آئے زخموں کے لال اور نیلے نشان دیکھتے سدرہ نے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دباتے اپنی ہچکیاں روکی اُسکے زخموں کو دیکھتے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس وقت جنید کو کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی۔

ا

کانپتے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پر دوائی لگاتے اُس نے جنید کی پشت پر لگائی آنسو متواتر آنکھوں سے بہتے جا رہے تھے ۔


پہلے اپنی ظالم بیوی کی خوشبو اُسکا اپنے نزدیک بیٹھنا اور اب اُسکی نازک انگلیوں کا اپنی پشت پر لمس محسوس کرتے جنید کا ضبط جواب دے گیا ۔ ایک ہی جست میں سیدھا ہوتے وہ سدرہ کے دونوں بازوں کو اپنی گرفت میں لیے اُسے بیڈ پر لٹا گیا تھا ۔ میڈیسن باکس ایک آواز کے ساتھ زمین پر گرا۔


" کیا چاہتی ہوں تم سدرہ کیوں مجھے سکون کا سانس نہیں لینے دے رہی ہوں " ۔ سدرہ کے حواس باختہ چہرے کو دیکھتے وہ اُسکے چہرے کے نزدیک اپنا چہرہ لائے سخت و سرد آواز میں غرایا تھا۔


وہ جو جنید کی اس حرکت پر حواس باختہ ہوئی تھی جنید کی سرد آواز سنتے اُسکے وجود میں سنسناہٹ سی ہوئی ۔


" وہ۔۔۔وہ تمہارے زخم میں دوائی لگا رہی تھی لگانے دو مجھے " ۔ اپنے بہتے آنسوؤں پر بندھ باندھنے کی ناکام سی کوشش کرتے ہوئے سدرہ جنید کی براؤن آنکھوں میں اپنی براؤن آنکھیں ڈالے گویا ہوئی تھی ۔ جنید کی براؤن آنکھوں میں اسپاٹ پن اور اپنے لیے سختی دیکھتے اُسکا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔


" زخموں پر مرہم لگانہ ہے کون سے زخموں پر چلو میرے وجود پر ظاہر ہوتے زخموں پر تو مرہم لگا دو گی جو روح پر زخم لگے ہے اُنہیں کیسے مندمل کروگی " ۔ جنید اُسکے بہتے آنسوؤں کو دیکھتے غصے سے پنکھارا تھا ۔ اس لڑکی کے آنسو بھی اُس سے برداشت نہیں ہو رہے تھے ۔ وہ سدرہ کے اتنے قریب تھا کہ اُسکے لب بولتے وقت سدرہ کے لبوں کو چھو رہے تھے۔


" میری غلطی نہیں ہے جنید " ۔ سدرہ جنید کے کہنے پر سسکتی آواز میں گویا ہوئی ۔ جبکہ جنید کے لبوں کا لمس محسوس کرتے اُسکی دھڑکنیں رفتار پکڑ چکی تھی ۔


" تمھاری غلطی نہیں ہے سدرہ !!!! میرے وجود میں آگ سی لگی ہوئی ہے وہ منظر یاد کرتے جب میری بیوی بغیر دوپٹہ اتنے مردوں کے سامنے تھی ۔ اور میں بےبس تھا مجبور تھا ۔ تم نے مجھے سزا دینی تھی نہ تکلیف پہنچانی تھی نہ مبارک ہو تم کامیاب ٹھہری "۔ سلگتے لہجے میں کہتے وہ سدرہ کو دیکھتے بولتے اُسکے آنسو صاف کر گیا تھا جو اُسکا ضبط آزما رہے تھے۔ جبکہ اتنے نزدیک سدرہ کے چہرے کو دیکھتے اُسکے جذبات انگڑائی لیتے بیدار ہو رہے تھے۔ سدرہ کے وجود سے اٹھتی صندل سی مہک اُسکے جذبات ابھار گئی تھی ۔ سدرہ کے لبوں کو دیکھتے اُسے شدید پیاس کا احساس ہو رہا تھا تبھی وہ بار بار سدرہ کے چہرے کے نزدیک جھکتے بول رہا تھا ۔ سدرہ کے لبوں سے ٹچ ہوتے اپنے لبوں کو محسوس کرتے وجود میں سرور سا دوڑ رہا تھا۔


" میں بس تمہیں احساس کروانا چاہتی تھی تمھاری غلطی کا مجھے نہیں پتہ تھا وہ کون لوگ ہے مجھے اگر پتہ ہوتا میرے اس قدم سے وہ سب کچھ ہوجائے گا تو میں کبھی نہیں کرتی ایسا "۔ جنید کے کندھوں کو تھامے روتے ہوئے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ بولی ۔


" جس غلطی کا احساس تم مجھے کروانا چاہ رہی تھی وہ مجھے پہلے ہی ہوگیا تھا تبھی تم سے معافی مانگی تبھی تمہیں اپنے پاس کیا تم نے مجھے تکلیف دینی تھی تو مل گئی مجھے تکلیف اور احساس بھی ہوگیا ۔ " جنید اپنے جزباتوں پر بندھ باندھتے سرد لہجے میں کہتے سدرہ سے دور ہوا تھا ۔


سدرہ کی آنکھیں تحیر سے پھیلی وہ اُسکے قریب تھا لیکن اُس نے اُسے چھوا نہیں اُسکے لہجے میں اُسکی آنکھوں میں اُسے دیکھتے بیقراری کیوں نہیں ائی وہ تو مچل سا جاتا تھا سدرہ کو قریب کرتے اُسکے وجود میں گم ہونے کے لیے جس کا اندازه اُسے اپنی رخصتی کی رات کو ہی اچھی طرح ہوگیا تھا ۔


" مسٹر جنید اجمیر تم مجھے اس طرح نظرانداز نہیں کرسکتے " ۔ جنید کو کندھے سے پکڑے اپنی طرف کھینچتے وہ اُسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لئے تیز لہجے میں بولی جنید کی نظراندازی اُسکی ناراضگی اُسکی جان پر بن ائی تھی ۔ جنید جو اپنے وجود کو ڈھیلا کیے بیٹھا تھا سدرہ کے یوں کرنے پر اُسکے اوپر جھک ایا تھا ۔ پہلے ہی ضبط کی طنابیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور سدرہ کی اس حرکت نے بچی کچی کمی بھی ختم کر دی تھی ۔


" تم اتنا سب کچھ کرجاؤ اور میں تمہیں نظرانداز اور تم سے ناراض بھی نہیں ہوسکتا کیا انصاف ہے سدرہ جنید اجمیر" ۔ سدرہ کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے جو اُسکی آنکھوں میں بڑی دیدہ دلیری سے گڑھی ہوئی تھی گویا ہوا لہجہ اب سرد نہ تھا سنجیدہ تھا ۔


" ہاں نہیں ہوسکتے تم ناراض مجھ سے "۔ سدرہ کے کہنے پر جنید نے اُسکی قمر میں اپنے بازؤں حمائل کرتے اُسے خود کے نزدیک کیا اتنا نزدیک کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑ رہی تھی دونوں ایک دوسرے سے صرف ایک انگلی کے فاصلے سے تھے ۔


" اور وجہ جان سکتا ہوں " ۔ گہری نظروں سے اُسکے نقوش کو دیکھتے جنید نے پوچھا تھا جبکہ ہاتھ بےباکی سے سدرہ کی قمر پر سفر کر رہے تھے ۔


" مجھے منانا نہیں آتا اسی لیے تم مجھ سے ایسے بات نہیں کرو نہ ناراض ہو میری غلطی تھی پر میں سوری نہیں بولوں گی "۔ جنید کے چہرے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے سدرہ نے بھرائی آواز میں کہا جبکہ جنید کا چہرے پر اُسکے ہاتھوں کے دباؤ سے جنید کے ہونٹ گول شکل اختیار کر گئے تھے ۔ سدرہ جنید کی شکل اور ہونٹ دیکھتے بے اختیار ہنس گئی ۔


جنید نے آنکھیں چھوٹی کرتے اُسکی یہ ہنسی دیکھی ۔


" اوہ تم کتنے کیوٹ لگ رہے ہو بلکل ایک چھوٹے بچے کی طرح میرا بیبی " ۔ سدرہ کو جنید پر بےتحاشا پیار ایا اُسکے گال کھینچتے وہ ہنستے ہوئے بولی اور جنید کا ضبط بس یہی تک تھا اب وہ اور خود پر ضبط نہیں کر سکتا تھا ۔ سدرہ کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے وہ اُسکی ہنسی کو اپنے لبوں میں قید کر گیا تھا ۔ سدرہ جنید کے شدت بھرے لمس کو ہونٹوں پر بیڈ پر گرتی چلی گئی ۔


جنید شدت سے اُسکے لبوں کے لمس کو محسوس کرتے اپنے جلتے تڑپتے دل کو سکون پہنچا رہا تھا ۔ جبکہ سدرہ کی سانسیں بند ہونے کے در پر تھی ۔ لیکن وہ جنید کو خود سے دور جھٹک نہیں رہی تھی ۔ سدرہ کی بند ہوتی سانسیں محسوس کرتے جنید نے اُسکے لبوں کو آزاد کرتے اُسکی ناک سے اپنی ناک جوڑتے گہرے سانس بھرے ۔ سدرہ نے بھی لمبے سانس لیتے اپنی سانسیں استعال پر لانے کی کوشش کی ۔ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے میں گھل رہی تھی ۔


" تم سے میری ناراضگی میری نظراندازی برداشت نہیں ہو رہی تمھاری آنکھیں صاف اس بات کو ظاہر کر رہی ہے اور تم چلی تھی ہمارے درمیان ہجر لانے " ۔ جنید کی بات پر سدرہ نے اُسکی گردن میں اپنی باہیں ڈالی ذرا سا اوپر کو ہوتے اپنا گال جنید کے گال سے سہلایا۔


" تم سے دور جاتے ہی پتہ چل گیا تھا میں تو رہ ہی نہیں سکتی تمھارے بنا تمہارے پاس واپس آنے لگی تھی لیکن پھر وہ سب ہوگیا " ۔ سدرہ کی حرکت پر جنید کی دھڑکنیں منتشر ہوئی ۔


" میں بہت ڈر گئی تھی جنید جب وہ تمہیں مار رہا تھا ۔ میں بہت ڈر گئی تھی جب تم نے میرا ہاتھ جھٹکا تھا۔ تمھاری ناراضگی اور نظراندازی نہیں برداشت تمہارا سخت اور سرد لہجہ نہیں برداشت مجھے میں اب تمھارے اس مضبوط حصار سے باہر نہیں جانا چاہتی میں اس دنیا سے ڈر گئی ہوں میرا محفوظ مقام صرف یہ ہے یہاں اور میں یہاں ہمیشہ رہنا چاہتی ہوں " ۔ جنید کے دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے کہتے وہ اپنے سر اسکے سینے سے لگا گئی تھی جنید کی تیز دھڑکتی دھڑکنوں کا شور وہ باآسانی سن سکتی تھی ۔ جنید اُسکی بات پر مسکرا دیا۔ اُسکے گرد اپنا حصار مزید تنگ کیا ۔


" رشتوں میں انا نہیں آنی چاہیئے یہ بات اب مجھے اچھی طرح سمجھ آگئی ہے ۔۔۔انا کی وجہ سے بہت سے رشتے خراب ہوجاتے ہے جنید اور میں اب ہمارا رِشتہ خراب نہیں کرنا چاہتی میں نہیں چاہتی کہ اب ہم دور ہو بس بہت ہوگئی ناراضگی بہت ہوگئے گلے شکوے اب بس مجھے خوش رہنا ہے تمہارے ساتھ " ۔ سدرہ نے کہتے اسکے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے۔ جنید کا وجود سرشاری سے بھرتا چلا گیا سدرہ کی بات پر ۔


" بلکل میری جان انا کسی رشتے میں نہیں آنی چاہیئے اب ہم نئی زندگی شروع کرے گے ۔۔لیکن میری جان ذرا اپنے لبوں کو گستاخی کرنے سے روکو کیونکہ یہ میرے جذبوں میں طوفان لانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ تمہیں پور پور ایک بار پھر اپنی محبت کی بارش میں بگھو دوں " ۔ جنید نے سدرہ کے کان پر جھکتے گھمبیر خمار بھری سرگوشی کرتے اُسکی کان کی لو کو اپنے لبوں سے چھوٹے تھوڑی دیر پہلے اُسکے دل پر لب رکھنے والی حرکت پر چوٹ کی۔ سدرہ کا رنگ سرعت سے لال ہوا جنید کی بات پر۔ وہ اپنے جذباتوں میں بہکی یہ بھی نہیں دیکھ پائی کہ جنید شرٹ کے بغیر تھا ۔ سدرہ جلدی سے اُس سے دور ہوئی چہرہ بھانپ چھوڑنے لگا۔ جنید اُسکا لال چہرہ دیکھتے قہقہہ لگا گیا ۔


" قمر پوری زخموں سے بھری ہے اور جناب کو رومانس سوجھ رہا ہے چلو ڈاکٹر کے پاس " ۔ سدرہ نے آنکھیں گھماتے خود پر قابو پاتے کہا۔


" تو کیا ہوا اتنی ہمت تو اب بھی ہے کہ تمہیں اپنی قربت میں لیتے اپنے لمس سے روشناس کروا سکو کہتی ہوں تو ابھی کر کے دکھا دیتا ہوں " ۔ ایک آنکھ ونک کرتے بیباکی سے کہتے وہ سدرہ کو پیروں تک لال کر گیا تھا سدرہ کی پلکیں لرز اٹھی جنید کی اس بےباک بات پر ۔


" چپ کرو تم ڈاکٹر کے پاس جانا ہے " ۔ جنید کو کہتے جلدی سے وہ دوسری طرف سے اُٹھی الماری سے شرٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے وہ جنید کی گہری اور بےباک نظروں سے بچتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی ۔


جنید نے ہنستے ہوئے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا واقعی میں قمر میں درد ہو رہا تھا ۔۔وہ بھی انسان تھا اتنے ڈنڈے کھانے کے بعد وہ زندہ تھا یہی بہت بڑی بات تھی ۔ اپنی شرٹ پہنتے اُس کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ تھی وہ چاہتا تو ایک لمبے وقت کے لیے سدرہ سے ناراض ہو سکتا تھا ۔ لیکن وہ اس ناراضگی کے چکر میں اپنے قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک ایک پل یادگار گزارنا چاہتا تھا یہ وقت قیمتی تھا بہت قیمتی اور وقت ہوتا ہی قیمتی ہے اسی لیے اُسے ناراضگی غصے حسد بغض سے ضائع نہیں کرنا چاہئے اپنوں کے ساتھ گزارنا چایئے نئی یادیں بنانا چاہیے اپنے لیے کچھ کرنا چاہئے وقت کو برباد نہیں کرتے۔

آمنہ نے کیک پر ایک آخری نگاہ ڈالتے گہرا سانس ہوا میں خارج کیا ۔ جب سے زرقان گیا تھا تب سے وہ کچن میں کھڑی زرقان کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا رہی تھی جبکہ آخر میں اُس نے کیک بناتے سکون کا سانس لیا تھا ۔ آمنہ نے ایک نظر گھڑی پر دیکھا جہاں رات کے آٹھ بج گئے تھے ۔ باہر گہرا اندھیرا چھا گیا تھا ۔


" کام ہوگیا اب میں بھی جا کر فریش ہوجاتی ہوں " ۔ آمنہ نے خود سے کہتے کیک اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔ تاکہ اچھا سا تیار ہو سکے ۔ اور زرقان کو سرپرائز دے سکے ۔


کمرے میں اتے اُس نے ٹیبل کے بیچ میں کیک رکھتے اپنے ساتھ لائے پھول جو وہ باہر رکھے واس سے نکال چکی تھی اُسکی پنکھڑیاں توڑتے وہاں رکھی ۔ اور الماری کی طرف بڑھی صبح ہی ملازموں نے اُسکے کپڑے الماری میں سیٹ کیے تھے ۔ زرقان پہلے ہی اُسکے لئے سب چیزیں منگوا چکا تھا ۔


الماری کھولتے آمنہ نے کپڑوں کے ڈھیر کو ہاتھ سے ادھر اُدھر کئے جب اُسکی نظر یکدم مہرون رنگ کی ساڑھی پر ٹھہری ۔ زرقان کا سوچتے امنہ نے لبوں پر مسکراہٹ لیے وہ ساڑھی الماری سے نکالی ۔


وہ آج زرقان کے ساتھ نئی شروعات کرنا چاہتی تھی زرقان نے اُسے اپنی تمام سچائی بتا دی تھی تو اب وہ کیوں اپنے شوہر کو خود سے دور رکھتی ۔


آمنہ نے ایک نظر ساڑھی کو دیکھا اور الماری کے پٹ ایسے ہی واں کیے چھوڑے وہ فریش ہونے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔


کچھ منٹ بعد وہ مہرون ساڑھی میں دمکتا وجود لئے اپنے بھیگے بالوں کو تولیے سے رگڑتے ہوئے باہر ائی ۔


ایک نظر آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے وہ اپنے آپ کو دیکھتے ہی سرخ انگار ہوئی ۔


بلاؤزر کافی چست اور چھوٹا تھا جس کے باعث اُسکا پیٹ واضح ہو رہا تھا ۔


گولڈن بال بھیگے پشت پر پھیلے ہوئے تھے ۔ ہیزل بلو آنکھوں میں ایک انوکھی چمک تھی ۔


آمنہ نے مہرون رنگ کی سرخی سے اپنے گلابی لبوں کو رنگتے ..اُس نے اپنی ہیزل بلو آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر کھینچتے اپنے بالوں کو سکھاتے اپنی پشت پر ڈالا تھا ۔


اتنی سی ہی تیاری میں وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اُسے دیکھتے اپسرا کا گمان ہو رہا تھا۔


" کیا جیولری پہنو " ؟ ۔۔۔پہن ہی لیتی ہوں " ۔ اپنے بجلیاں گراتے وجود کو دیکھتے آمنہ نے خود سے کہتے اپنے قدم الماری کی طرف بڑھائے اُسے اچھی طرح یاد تھا ملازمہ نے ساری جیولری الماری کی دراز میں رکھی تھی ۔


امنہ نے دراز کھولتے اُس میں سے جیولری نکالنی چاہی جب اُسکی نظر وہاں رکھے ماسک پر ٹھہری ۔ آمنہ کے ماتھے پر بل پڑے ۔ اُس نے ایک جھٹکے سے وہ ماسک اٹھاتے اپنے ہاتھ میں تھاما ۔


صرف ایک ماسک نہیں تھا اُس دراز میں نہ جانے کتنے اور ماسک بھی رکھے ہوئے تھے ۔ ماسک کو دیکھتے آمنہ کے ذہن میں یکدم وہ ماسک پوش لہرایا ۔


" ماسک سے زرقان کا کیا تعلق ۔۔۔یہ ماسک الماری میں کیا کر رہے ہیں " ۔ ماسک کو ہاتھ میں تھامے وہ سوچ رہی تھی جب اُسکے ذہن میں جھماکا ہوا ۔


اُس نقاب پوش کی آنکھیں اُسکی آنکھیں بھی تو زرقان کی طرح شہد رنگ تھی ۔ بس تاثر تو الگ تھے آنکھوں میں زرقان کی آنکھوں میں نرمی ہوتی تھی اور اس نقاب پوش کی آنکھوں میں سخت پن ۔۔۔اور بال اُسکے بال بھی تو زرقان کی طرح تھی ۔


آمنہ نے جلدی سے اپنے قدم سائڈ ٹیبل کی طرف بڑھائے دل و دماغ میں جنگ سی چلنے لگی تھی ۔ سائڈ ٹیبل کی طرف اتے اُس نے زرقان کی تصویر اٹھاتے ماسک اُسکے چہرے پر رکھا یوں کہ صرف زرقان کی آنکھیں اور بال واضح ہونے لگے ۔


وہ وہی تو تھا ویسا ہی تو تھا زرقان اور اس نقاب پوش میں کوئی فرق نہیں تھا آمنہ کی سانسیں تیز ہوئی ۔ اُس کی آنکھوں میں بيقینی اُبھری ۔


اُس نے نفی میں سر ہلایا دل جیسے ابھی بھی بيقیں تھا اسکا زرقان اُس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا تھا ۔ کتنا ڈر گئی تھی وہ کتنا روئی تھی ۔


بیڈ پر بیٹھے وہ شدت سے زرقان کا انتظار کر رہی تھی اُسے سامنے دیکھتے وہ اُس سے پوچھنا چاہتی تھی اور کس طرح وہ زرقان کے لبوں سے سچائی اگلوانے والی تھی وہ سوچ چکی تھی ۔ آنسو ہیزل بلو آنکھوں سے باہر انے کو بیتاب تھے لیکن وہ خود پر ضبط کرتے بیٹھی زرقان کا انتظار کر رہی تھی ۔


گاڑی رکنے کی اواز سنتے آمنہ نے اپنے اوپر قابو کرتے اپنے چہرہ پر سخت تاثرات قائم کیے اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی کمرے کی لائٹس بند کرتے اُس نے کمرے میں موجود ڈیم لائٹس آن کی اور آئینے کے پاس اتے کھڑی ہوئی ۔


اپنی گاڑی کی چابی کو انگلی سے گھماتے وہ سیٹی کی دھن بجاتے بڑے خوبصورت اور شوخ انداز میں اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھا رہا تھا ۔


اج سب کا قصہ تمام ہوگیا تھا ۔ اور اب وہ سکون سے اپنی بیوی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتا تھا جبکہ اج وہ اُسے اپنے رنگ میں رنگتے اُسے اپنی شدتوں سے واقف کروانا چاہتا تھا ۔


کمرے کا دروازہ کھولتے اُس نے اپنے قدم کمرے کے اندر رکھے لیکن سامنے کا منظر دیکھتے اُسکے اوسان خطا ہوئے ۔ قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے اُس کا منہ خود با خود کھلا جبکہ آنکھیں بھی ستائش سے پھیلی ۔


کمرے کا فسوں خیز ماحول ہلکی ہلکی روشنی ۔۔۔پھولوں کی مہک اور سامنے اُسکی متاع حیات اُسکی زندگی اُسکا میوٹ اسپیکر تمام ہتھیاروں سے لیس اپنے بال کندھے سے آگے کیے آئینے کے سامنے کھڑی تھی سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں پر قاتلانہ مسکراہٹ تھی ۔ جبکہ آنکھوں میں مخصوص چمک ۔ بلاؤز بیک لیس تھا اور بال اگے ہونے کی وجہ سے اُسکی سفید بے داغ پشت زرقان خان کے چودہ طبق روشن کر گئی تھی ۔ آمنہ کا قیامت خیز روپ دیکھتے زرقان نے تھوک نگلا ۔ چابی گھماتا ہاتھ وہی تھم گیا تھا ۔


اُسکے وجود میں امنہ کو اس طرح دیکھتے سرور سا دور اٹھا تھا جذبوں میں طوفان مچا تھا ۔ آمنہ کے پلٹنے پر وہ ہوش میں آیا وہ اُسکی طرف ہی بڑھ رہی تھی اور زرقان کی دھڑکن آؤٹ آف کنٹرول ہو رہی تھی ۔


آمنہ زرقان سے ایک قدم کی دوری پر رکی اور زرقان کی سانسوں کی روانی تیز ہوئی ۔


" عشقم " ۔ زرقان نے آمنہ کو دیکھتے گلا کھنکھارتے ہوئے کہنا چاہا جب آمنہ نے اُسکے مزید نزدیک کرتے اُسکے لبوں پر انگلی رکھی ۔


زرقان تو اپنی بیوی کی دلفریبی پر اپنا آپ تک ہارنے کو تیار تھا۔ اج اُسکی بیوی کا ہر انداز اُسکے دل پر بجلیاں گرا رہا تھا ۔


" مجھے آپکو کچھ بتانا ہے اِدھر بیٹھے " ۔ آمنہ نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے زرقان سے کہا اور اُسے لیے بیڈ پر ائی زرقان کو بیڈ پر بٹھاتے وہ اُسکے سامنے بیٹھی۔


زرقان کی نِگاہیں تو اپنی بیوی سے ہٹنے سے انکاری تھی دل اچھل اچھل کر اُسکے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو اپنے قبضے میں لیے اُسے اپنی شدت سے بگھانے کا چاہ رہا تھا ۔


" بولوں عشقم " ۔ زرقان نے آمنہ کی ہیزل بلو آنکھوں میں دیکھتے اپنے بھڑکتے جذبوں پر قابو پاتے کہا۔


" وہ ۔۔دراصل میں نے آپکو یہ بتانا تھا کہ کوئی ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے بہت زیادہ قریب ۔۔اور اُسکے لئے ہی میں نے یہ سب تیاری کی ہے " ۔ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتی وہ زرقان کو آنکھیں سکوڑنے پر مجبور کر گئی۔


" اور میں اج اُس سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتی ہوں " ۔ آمنہ کی اگلی بات پر زرقان کے دل میں گُدگُدی ہوئی ۔ آمنہ کے دل کے قریب تو وہ ہے ۔۔اور یہ سب تیاری اُسکی بیوی نے اُسکے لیے تو کی ہوگی اور اج وہ یقیناً اپنی محبت کا اظہار کرنے والی تھی زرقان سے ۔


" اوہ اچھا کون ہے وہ " ۔ زرقان نے لبوں پر مسکراہٹ لیے پوچھا ۔


" یہی پر ہے وہ میں آپکو ملاتی ہوں رکے ذرا " ۔ آمنہ نے اشارتاً کہتے زرقان کو بیڈ سے اٹھایا اور اُسے لیے آئینے کے سامنے ائی ۔ زرقان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی ۔


" عشقم سیدھی طرح کہو نہ کہ مجھ سے اپنی محبت ۔۔۔۔" ۔ زرقان کہہ ہی رہا تھا جب آمنہ نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور اپنی دوسری مٹھی میں موجود ماسک اٹھاتے زرقان کے پیچھے اتے اُسکے چہرے پر وہ ماسک لگایا ۔


زرقان کی مسکراہٹ سمٹی ۔ انکھوں میں حیرانی پھیلی ۔ اُس نے پلٹ کر آمنہ کی طرف دیکھا جو دانت پیسے ہوئے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔


" میں جس انسان سے محبت کرتی ہوں اُسکی دوہری شخصیت ہے ایک یہ والی اور دوسری یہ والی " ۔ آمنہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے کہتے زرقان کا ماسک اُتارا ۔


" کیا ملتا تھا آپکو مجھے ڈرا کر ہاں جواب دے پتہ ہے کتنا ڈر گئی تھی میں " ۔ زرقان کو نم نِگاہوں سے دیکھتے آمنہ نے اشارتاً کہا ۔ زرقان نے لب بھینچے اُسکی طرف دیکھا ۔


" عشقم یار سوری نہ وہ تو میں بس ایسے ہی معاف کردو نہ عشقم اب اتنا بھی نہیں ڈرایا تھا وہ تو تم اُس دن مصیبت میں پر گئی تھی تو تمہیں اُن حرام خوروں سے بچانے کے لیے اور دوسری دفعہ تم سدرہ کے بھائی کے ساتھ ائی تھی تو میرا وجود جل اٹھا تھا اسی لیے کیا تھا اور تمھارے ہاتھ کے کیک بھی تو کھانے تھے ۔۔۔اگر زرقان بن کر اتا تو سب کچھ چوپٹ ہوجاتا نہ اسی لیے بس " ۔ آمنہ کو دیکھتے زرقان نے لہجے میں بیچارگی شامل کرتے کہا۔


آمنہ نے تیز نظروں سے اُسے دیکھا ۔


" اچھا صحیح اور تیسری بار کس لیے ڈرایا تھا آپ جناب نے وہ بھی بتا دے " ۔ آمنہ نے دانت پیستے اشارہ کرتے کہا ۔


" وہ ۔۔۔وہ کیا ہے نہ عشقم مجھے نہ تمھارے پاس رہنا تھا اور ذرا تمھارے لبوں سے اپنی تعریف اور محبت کا اظہار سننا چاہتا تھا اسی لئے اُس دن ڈرایا تاکہ تم ڈر کر میری باہوں میں سما جاؤ جیسے اُس دن سما گئی تھی " ۔ زرقان نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے جواب دیا ۔ اپنی بیوی کے بگڑنے تیور بھی اُسکا دل تیز دھڑکا رہے تھے ۔ اُسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اُسکے وجود کو اپنی باہوں میں بھر کر اُسکے ناراضگی بھرے چہرے پر اپنے لمس کے بھول کھلائے ۔ آمنہ کا رنگ زرقان کی بات پر سرخ ہوا ۔ جھٹ سے وہ لمحہ یاد آیا جب وہ اُسکے سینے میں چہرہ چھپائے سو گئی تھی ۔


" آپکی غلطی کسی توڑ معافی کے قابل نہیں آپکو سزا ملے گی " ۔ اتراتے لہجے میں اشارتاً کہتے وہ اپنے بال ایک ادا سے جھٹکتے ہوئے بیڈ پر جا بیٹھی۔


" اور میری سزا کیا ہے میری پیاری حسین عشقم " ۔ اپنی ناراض بیوی کو دیکھتے زرقان نے اپنی داڑھی رب کرتے پوچھا ۔ اج تو وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ جو بھی سزا دیتی وہ اُسے دل و جان سے قبول ہوتی ۔


آمنہ جو ایک ادا سے اپنے ساڑھی کے پلو کو صحیح کر رہی تھی زرقان کی طرف دیکھتے اپنے لب بھینچ گئی ۔ معاف تو وہ اُسے کر چکی تھی لیکن ذرا اپنے شوہر کو سزا دینا بنتا بھی تھا کتنا ڈرایا تھا اُس نے اُسے ۔


" آپکی سزا یہ ہے کہ آپ اب میرے ہاتھوں سے بنا ہوا یہ کیک نہیں کھائے گے” آمنہ کے کہنے پر زرقان کی نظر اب کیک پر گئی تھی اور کیک دیکھتے ہی اُسکے منہ میں پانی ایا ۔ تھوڑی دیر پہلے جو اُسے آمنہ کی دی ہوئی ہر سزا قبول تھی اس سزا کو سنتے تو وہ بھنا اٹھا تھا۔


" یار عشقم کوئی اور سزا دے دو یہ ظلم نہیں کرو یار دیکھو تم نے اتنے پیار سے میرے لیے بنایا ہے نہ یہ اب میں یہ کیک نہیں کھاؤ گا تو تمہیں کتنا بُرا لگے گا نہ " ۔ زرقان نے آمنہ کی طرف بڑھتے معصومیت سے کہا۔ آمنہ کے ہاتھ کا بنا ہوا کیک تو اُسکی جان تھا جو وہ ایک دن میں تین تین کھا سکتا تھا ۔


آمنہ نے زرقان کے چہرے کو دیکھتے اپنی مسکراہٹ ضبط کی ۔ اُسکا چہرے دیکھتے آمنہ کو وہ ایک معصوم بچہ لگا جو اپنی پسندیدہ چیز کھانے کے لیے مچل رہا ہوتا ہے ۔


" مجھے بلکل بُرا نہیں لگے گا ۔۔بلکہ اب یہ کیک آپ بلکل نہیں کھائے گے " ۔ اُس سے پہلے زرقان آمنہ کے پاس اتا آمنہ اشارتاً کہتی جلدی سے بیڈ سے اٹھتے کیک ہاتھ میں تھام گئی ۔


" ظالم بیوی میرا جرم اتنا بڑا بھی نہیں تھا عشقم چلو دو کیک مجھے ویسے ہی بہت بھوک لگی ہے " ۔ زرقان کے کہنے پر آمنہ نفی میں سر ہلاتی اُسکی پہنچ سے دور ہوتے دوسری طرف بڑھی ۔ زرقان فوراً سے اُسکے پیچھے لپکا ۔ جبکہ آمنہ اُسکی گرفت میں انے کے بچائے پورے کمرے میں بھاگ رہی تھی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے فقط ایک کیک کے لیے۔


وہ اپنی بیوی کے ہاتھوں سے بنے کیک کا دیوانہ تھا ۔ اور یہ کہنے میں اُسے کوئی عار نہیں تھی۔


" آمنہ دیکھو یار گر جائے گا کیک دے دو مجھے " ۔ زرقان نے بیڈ کے پاس کھڑی آمنہ کو دیکھتے دہلتے ہوئے کہا ۔ کیونکہ کیک پلیٹ سے ذرا سا کھسک گیا تھا ۔ آمنہ نے زور سے نفی میں سر ہلاتے اگے بڑھنا چاہا جب کیک ایک جھٹکے سے زمین پر گرا۔


آمنہ نے زمین پر گرے کیک کو دیکھتے اپنی آنکھیں مینچتے اپنے لب کو دانتوں میں دبایا۔


امنہ نے اپنی ایک آنکھ کھولتے زرقان کی طرف پلٹتے اُسے دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا ۔


" سوری " ۔ زرقان کی شکل دیکھتے آمنہ کے ہونٹوں نے ذرا سی جنبش کی ۔


" سوری گئی تیل لینے عشقم تم نے میرا کیک گرایا ہے اب سزا ملے گی تمہیں " ۔ دانت پیستے کہتے وہ ایک ہی جست میں آمنہ کو اپنی گرفت میں لیتے بیڈ پر گرا ۔ آمنہ اس اچانک افتاد پر بھونچکا کر رہ گئی


" بھولے مت زرقان میں آپ سے ناراض ہوں " ۔ آمنہ نے اپنے انتہائی قریب زرقان کے خوبرو چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ با مشکل اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے گویا ہوئی ۔ زرقان اُسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں تھامتے بیڈ سے لگا گیا۔


" تمہاری ناراضگی ہی دور کر رہا ہو عشقم اور اپنا نقصان بھی پورا کر رہا ہوں جو تم میرا کیک گرا کر کرچکی ہوں اُسکا خمیازہ بھی بھگتو اب ۔۔۔ایک تو پہلے ہی اتنی حسین لگ رہی ہوں اوپر سے تمہاری یہ ادائیں " ۔ زرقان نے اُسکے لبوں کو فوکس میں لیتے خمار زدہ آواز میں کہا ۔


آمنہ نے زرقان کا چہرہ دیکھتے نفی میں سر ہلایا ۔


" ہاں " ۔ زرقان نے اُسکے نفی میں ہلتے سر کو دیکھتے اثبات میں سر ہلایا اور پل کی دیر کیے بنا اُسکے لبوں پر جھک آیا ۔ آمنہ کا وجود سن ہوا اُسکے لمس پر وہ پوری شدت سے اُسکے لبوں کو محسوس کر رہا تھا ۔ آمنہ کے وجود میں سنسنی سی دور اٹھی ۔


وہ اُسکے لبوں سے اچھی طرح سراب ہوتے وہ اُسے سانسیں درست کرنے کی مہلت دئیے بنا اُسکا پلو اُسکے وجود سے سرکاتے اُسکی گردن پر جھک آیا ۔۔جذبوں کا طوفان اٹھا تھا جو رکنے والا نہیں تھا ۔


زرقان کے اس عمل سے آمنہ کا سانس سینے میں کہیں اٹکا ۔ اُس نے اپنے ہاتھ زرقان کی گرفت سے آزاد کروانے چاہے لیکن وہ اپنے ایک ہاتھ سے اُسکے دونوں ہاتھ پکڑے بیڈ سے لگائے اُسکے ہاتھوں پر گرفت مزید سخت کر گیا تھا ۔


زرقان کے لبوں کا لمس اپنی گردن سے سرکتے محسوس کرتے آمنہ شرم سے لال ہوتی اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی زرقان کا ایک ہاتھ اُسکے وجود پر بے باکی سے سفر کر رہے تھے جبکہ لبوں کی گستاخیاں عروج پر تھی ۔ آمنہ کو سانس لینے میں دقت محسوس ہوئی اپنے لبوں کو واہ کیے وہ سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی جب زرقان نے اُسکی گردن سے منہ نکالتے اُسکے سرخ ٹمٹماتے چہرے کو دیکھتے پل میں کمرے میں چلتی اُن مدھم لائٹس کو بھی بند کرتے چاروں طرف اندھیرا کیا ۔ آمنہ اپنے پاگل ہوتے دل کو سنبھالتی رہ گئی جانتی تھی اج وہ نہیں رکے گا اور اج وہ خود اُسے نہیں روکنا چاہتی تھی وہ اُسکا شوہر تھا ۔ اور وہ اُسے اُسکا حق دینا چاہتی تھی وہ اُسکے ساتھ نئی زندگی جینا چاہتی تھی ۔


زرقان لائٹس بند کرتے پھر اُس پر جھک آیا اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیتے وہ اپنے اور اُسکے درمیان حائل تمام پردوں کو ہٹاتے اُسے اپنے وجود میں گم کرتا چلا گیا ۔ دونوں ایک دوسرے کی ذات میں گم وصل کی گہری ہوتی رات میں ڈوبتے چلے گئے ۔


💗💗💗💗💗


سدرہ تیکھی نظروں سے سینے پر ہاتھ باندھے جنید کو دیکھ رہی تھی جو اپنے لبوں پر چمکتی مسکراہٹ کو دبائے اپنی بیوی کا لال بھبوکا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔


سدرہ نے خونخوار نظروں سے اس نرس کو گھوڑا جو جنید کی پشت پر کھڑی اُسکے زخموں پر دوائی لگا رہی تھی ۔ اور سدرہ سے یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔


اُسے اپنے اوپر غصّہ آرہا تھا کہ کیوں وہ جنید کو لیتے سوسائٹی کے اس چھوٹے سے کلینیک پر ائی جہاں کوئی میل وارڈ بوائے نہیں تھا ۔


نرس کی آنکھوں میں جنید کو دیکھتے ابھرتی ستائش سدرہ کے تن بدن میں آگ لگا گئی تھی ۔ اور جنید کو اپنی بیوی کا یہ جلا بھنا انداز بےحد اچھا لگ رہا تھا ۔


نرس نے جنید کو ستائش بھری نظروں سے دیکھتے اپنا ہاتھ اُسکے کندھے پر رکھا اور اب سدرہ کا ضبط ختم ہوا۔


" سٹے اوے فروم مائے ہسبنڈ " ۔ سدرہ اتنی زور سے چیخی تھی کہ نرس اچھل کر جنید سے دو قدم دور ہوئی ۔ جنید کا ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوا۔


" بٹ میم ۔۔۔" ۔ نرس نے کچھ کہنا چاہا جب سدرہ نے اُسے ایسی نظروں سے دیکھا کہ اُسکی بولتی بند ہوئی ۔


" بڑا مسکرایا جا رہا ہے دل میں تو تتلیاں اُڑ رہی ہوگی نہ اس انگریزن کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے " ۔ جنید کے آگے اتے اُس نے جنید کی شرٹ اٹھاتے اُسے پہناتے ہوئے دانت پیستے ہوئے کہا ۔ جنید کا وجود وہ نرس کی نظروں سے مکمل توڑ پر چھپا گئی تھی ۔


" دل میں تتلیاں تو اُڑ رہی تھی لیکن اپنی بیوی کی یہ جلن دیکھتے ہوئے " ۔ جنید نے لبوں پر مسکراہٹ لیے سدرہ کو دیکھا جو اب اُسکے شرٹ کے بٹن بند کر رہی تھی۔


" بس کرے مسٹر جنید دکھ رہا تھا مجھے سب ۔۔۔آپ صرف میرے ہے میرے سمجھ ائی آپکو ۔۔اگر دوبارہ مجھے جلانے کی کوشش کی تو میں بھی پھر پیچھے نہیں ہٹو گی ۔۔اور آپ ذرا سی بھی جلن برداشت نہیں کر پائے گے " ۔ جنید کے کولر کو صحیح کرتے وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوئی تھی ۔


" مجھے جلانے کے بعد تم اپنے ساتھ ساتھ اُس انسان کا بھی نقصان کرواؤ گی جس کے ساتھ ملتے تم مجھے جلا رہی ہوگی اتنا تو تم اپنے شوہر کو جانتی ہوں میں جان لینے سے بھی گریز نہیں کرونگا سدرہ جنید اجمیر " ۔ جنید نے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے سرد و سخت لہجے میں کہا سدرہ کی بات اسے ناگوار گزری تھی ۔


" یہی بات آپکے لیے بھی ہے اگر نہیں چاہتے کہ میں اس نرس کا حشر کردو چلے اب یہاں سے " ۔سدرہ نے اُسکی آنکھوں میں مضبوطی سے دیکھتے اُسکا ہاتھ تھاما ۔ جنید سدرہ کی بات پر مسکراتا اُسکے ساتھ آگے بڑھا۔


" سر آپکا ٹریٹمنٹ پورا نہیں ہوا ابھی آپ ایسے نہیں جا سکتے "۔ نرس کو شاید اج واقعی سدرہ کے ہاتھوں ضائع ہونا تھا تبھی بول اُٹھی ۔


" یہ واقعی چاہتی ہے میں اسے یہی مار کر دفن کردو " ۔ سدرہ دانت پیستے پلٹی ہی تھی جب جنید اُسکا ہاتھ پکڑے اُسے اپنے بازوں میں قید کر گیا ۔


بس بس میری جنگلی خونخوار شیرنی ۔۔۔یار تم تو پورے سیریل کلر والے خیالات رکھتی ہو " ۔ جنید کہتا آخر میں ہنس گیا دونوں ایک دوسرے کے سنگ باہر کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔

سدرہ اُسکی بات اور ہنسنے پر خود بھی ہنس پڑی ۔


" تمھارے آس پاس اگر کوئی چوڑیل بھٹکی تو یہی حال کرونگی میں اُسکا " ۔ سدرہ نے کندھے اچکا کر اُسکے حصار میں آگے بڑھتے ہوئے کہا ۔ جنید مسکراتا ہوا اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھ گیا ۔


💗💗💗💗💗


وہ پورے دو دن بعد ایڈیلیڈ ایا تھا اس وقت صبح کے گیارہ بج رہے تھے اور وہ رش ڈرائیونگ کر رہا تھا تھکن حد سے سوا تھی پورے دو دن وہ کام میں مصروف رہا تھا اس بیچ اُس نے لیزا کو کال کرتے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن لیزا نے نہ اُسکا فون اٹھایا تھا اور نہ ہی اُسکے کسی مسیج کا جواب دیا تھا ۔


شاداب بغیر ناشتہ کیے نکلا تھا اسی لیے اُسے اب انتہائی تیز بھوک لگ رہی تھی ریسٹورانٹ میں ناشتہ کرنے کے کا سوچتے وہ ایک ریسٹورانٹ کی طرف گاڑی موڑ گیا ۔


شاداب نے پارکنگ میں گاڑی روکی اور گاڑی سے نیچے اترا لیکن سامنے کا منظر دیکھتے اُسکی سبز انکھوں میں خون اُترا ماتھے پر بلو کا جال بچھا اُس نے مٹھیاں بھینچے سامنے نظر اتے منظر کو قہر بھری نظروں سے دیکھا ۔


جہاں اُسکی محبت اُسکا عشق اپنا ہاتھ ایک غیر مرد کے ہاتھ میں دیۓ بیٹھی تھی ۔ شاداب کو اپنے پورے وجود میں چیونٹیاں رینگتے ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔ اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولتے وہ تیزی سے لیزا کی طرف بڑھا ۔

وہ آنکھوں میں غضب لئے تیز قدم بڑھاتا ریسٹورانٹ کی طرف بڑھا تھا ۔ پورے وجود میں بھانپر سے جل اٹھے تھے بس نہ چلا تھا لیزا کا ہاتھ اُس لڑکے کے ہاتھ سے نکالتے اُس لڑکے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے ۔ سبز آنکھوں میں غضب کا قہر چھلکا تھا ۔ آنکھیں پل میں لال ہوئی۔


اندر اتے وہ تیز قدموں سے لیزا کی طرف بڑھتے ایک ہی جھٹکے میں لیزا کا ہاتھ اُس لڑکے کے ہاتھ سے نکالتے لیزا کو اپنے سامنے کر گیا تھا ۔


وہ جو پہلے ہی اپنے ہاتھ کو اُس لڑکے کے ہاتھ میں دیکھتے گھبرا اُٹھی تھی اپنے انتہائی نزدیک شاداب کو دیکھتے اور اُسکی لہو رنگ آنکھوں کو اپنے چہرے پر گڑھے دیکھتے خوف سے تھوک نگلتی رہ گئی۔


" اوۓ چھوڑو اُسے " ۔ وہ لڑکا اپنی جگہ سے اٹھتے شاداب کا چہرہ دیکھتے زور سے بولا ۔


شاداب نے قہر بھری سبز سرخ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا جبڑے بری طرح بھینچے ہوئے تھے ۔ ایک پل کو شاداب کا سرد چہرہ دیکھتے اُس لڑکے نے تھوک نگلا ۔


" میں نے کہا چھوڑو اُسے ۔۔۔۔اں ں ں " ۔ وہ لڑکا ابھی لیزا کا بازو پکڑتا جب شاداب نے لیزا کو پل میں اپنے پیچھے کرتے اُس لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر مروڑا اور اُسکا جبڑا اپنی سخت گرفت میں لیا۔


" ڈونٹ یو دیئر ٹو ٹچ ہر "۔ شاداب اُسکا جبڑا پکڑے غرایا ۔ لیزا کی آنکھیں خوف سے پھیلی دل بیساختہ دھڑک اٹھا ۔


" کیوں ٹچ نہ کرو میری ہونے والی بیوی ہے وہ " ۔ وہ لڑکا ابھی بھی باز نہیں ایا تھا اسی لیے اپنے جبڑے کو شاداب کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرتے کہا ۔


شاداب نے اُسکی بات پر اُس کے جبڑے پر گرفت مزید سخت کی ۔ جبکہ لیزا نے نفی میں سر ہلاتے اپنی آنکھیں مینچی ۔


" اپنی زبان سے ایسے لفظ مت نکال جس کے عوض میں تیری زبان نکال کر تیرے ہاتھ میں رکھ دو " ۔ شاداب اُسکے چہرے پر جھکتے پھنکارتے ہوئے بولتے اُسے پیچھے کو دھکا دیتے لیزا کا ہاتھ پکڑے باہر کی طرف بڑھا۔


لیزا خاموشی سے اُسکے ساتھ کھینچی چلی جا رہی تھی ۔ اپنے ہاتھ پر شاداب کی سخت گرفت محسوس کرتے وہ سمجھ گئی تھی وہ اُس وقت حد سے زیادہ غصّہ میں ہے ۔


لیزا کو اپنی گاڑی تک لاتے اُس نے زور سے اُسکی پشت اپنی گاڑی کے بونٹ سے لگاتے اُسکے اطراف میں اپنے بازو رکھتے اُسکی شربتی آنکھوں میں جھانکا۔


" کیا بکواس کر رہا تھا وہ " ؟ لیزا کی آنکھوں میں دیکھتے وہ سرد و سخت لہجے میں کہا ۔


لیزا اُسکا سرد و سخت چہرے اور لہجے کو سنتے گھبرا اُٹھی ۔ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی ۔


" بابا۔۔نہ ۔۔بابا نے رشت۔۔۔رِشتہ طے کر دیا ہے اسی لیے ملنے ائی تھی " ۔ اٹکتی آواز میں کہتے وہ شاداب کا فشار خون بڑھا گئی تھی ۔


" اوہ واؤ لیزا ۔۔۔تمہارے بابا نے تمہارا رشتا طے کیا اور تم اُنہیں ہاں کرتی منہ اٹھاتے یہاں اُس لڑکے سے ملنے چلی ائی " ۔ گاڑی کے بونٹ پر ہاتھ مارتے وہ چیخا تھا لیزا نے اُسکے چیخنے پر اپنی آنکھیں مينچی ۔ آنسو آنکھوں میں پل جمع ہوئے تھے ۔


" کیا تمہاری نظر میں میری محبت کی حثیت یہی تھی کہ تم یہاں کسی لڑکے سے ملنے چلی ائی " ۔ لیزا کے بازو اپنے ہاتھ میں تھامے جھجھنورتے ہوئے شاداب گویا ہوا تھا ۔ لیزا نے نم انکھوں سے اُسکی طرف دیکھا۔


" پلیز شاداب مجھے درد ہو رہا ہے " ۔ لیزا نے اُسکی سخت گرفت اپنے بازوں پر محسوس کرتے نم آواز میں کہا ۔


" اور میری تکلیف کا کیا ۔۔۔میری تکلیف کا کیا لیزا ۔۔۔کیا تم ہاں کر چکی ہوں اپنے بابا کو جواب دو " ۔ لیزا اُسکی بھیگی شربتی آنکھوں کو دیکھتے سخت لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔


شاداب کے سوال پر لیزا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ اُس نے شاداب کا چہرہ دیکھا جہاں اضطرب پھیلا ہوا تھا ۔ سفید رنگت لال ہو رہی تھی۔


" ہاں " ۔ لیزا کے لبوں سے ادا ہوتے لفظ کو سنتے شاداب کی لیزا کے بازو پر گرفت ہلکی ہوئی ۔ وہ ایک قدم پیچھے ہوا اور بیقیني سے اُسکی طرف دیکھا ۔


" شاداب شاید یہی ہماری قسمت میں لکھا تھا ۔ ہماری محبت نے شاید ادھورا ہی رہنا تھا میں اپنے بابا کے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتی " ۔ شاداب کی بیقين انکھوں میں دیکھتے ہوئے لیزا نے اپنے بند ہوتے دل کو نظرانداز کرتے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔


" تم اپنے بابا کے فیصلے کے خلاف نہیں جا سکتی ۔۔لیکن ہماری محبت کو ناکام کر سکتی ہوں ۔۔۔ایک منٹ پتہ ہے کیا ہماری محبت نے ادھورا نہیں رہنا تھا ہماری محبت ۔۔۔نہیں نہیں میری محبت سچی تو تھی ۔۔لیکن محبت میں ایک خود غرض اور بزدل عورت سے کر بیٹھا ۔ جو اپنی محبت کے لیے اسٹینڈ نہیں لے سکتی " ۔ شاداب کے لفظوں نے لیزا کے دل کو لہو لوہان کیا۔


" اپنی محبت کا اسٹینڈ لیتے ایک نافرمان بیٹی بن جاتی " ۔ لیزا کے کہنے پر شاداب نے نفی میں سر ہلایا ۔


" تم اج دوسری بار میری محبت کو کسی تھپڑ کی طرح میرے منہ پر مار چکی ہو اج دوسری بار " ۔ شاداب نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے چہرہ جھکاتے کہا ۔ لیزا سسک اٹھی شاداب کی بات پر پہلے بھی انابیہ سے منگنی پر وہ اُسکے پاس آیا تھا اپنی محبت کا اظہار بھی کیا تھا لیکن تب بھی وہ اپنی محبت سے مُکر گئی تھی ۔


" پر اس بار نہیں میری بھی عزت نفس ہے جسے بار بار مجروح نہیں ہونے دے سکتا " ۔ شاداب نے سخت لہجے میں کہتے لیزا کی طرف دیکھا جو روتے ہوئے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔


" محبت میں عزت نفس نہیں ہوتے مسٹر شاداب ۔۔محبوب کے قدموں میں گرنا بھی پڑتا ہے محبوب کے آگے جھکنا بھی پڑتا ہے ۔۔۔میں بزدل ہی صحیح ۔۔۔میری محبت جھوٹی نہیں ہے بس یہ بات یاد رکھئے گا " ۔ لیزا سنجیدگی سے کہتے وہاں سے بھاگی روڈ پر اتی ٹیکسی میں بیٹھتی شاداب کی نظروں سے دور ہوئی ۔


ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اُسکے آنسو شدت سے بہہ نکلے سائڈ مرر سے نظر آتے شاداب کو دیکھتے وہ اپنا چہرہ اپنے گھٹنوں میں چھپائے رو پڑی ۔


" میں بزدل نہیں ہوں میں نے سچی محبت کی ہے ۔۔سچی شاداب میں نے ہماری محبت کے لیے اسٹینڈ بھی لیا تھا لیکن کچھ نہیں کر پائی اپنے بابا کے سامنے کچھ نہیں کر پائی " ۔ شدت سے روتے ہوئے وہ شاداب سے مخاطب تھی ۔


سدرہ کے جاتے ہی شاداب نے اپنی نم ہوتی پلکوں کو بیدردی سے رگڑا چہرے پر حد درجہ سرد تاثر چھایا تھا ۔


" تم جھوٹی ہوں تمہاری محبت بھی جھوٹی ہے افسوس میں نے اپنے سچے جذبات ایک بزدل عورت پر لوٹائے " ۔ سرد لہجے میں کہتے وہ اپنی گاڑی میں سوار ہوا ۔ وہ سوچ چکا اب یہاں نہیں رکے گا ۔۔وہ جلد ہی پاکستان چلا جائے گا ۔۔۔


💗💗💗💗


تین مہینے بعد :


" حسام روکے نہ گاڑی پلیز مجھے بارش میں نہانا ہے " ۔ بیہ نے گاڑی کے شیشے سے برستی بارش کو دیکھتے حسام کا بازو ہلاتے ہوئے کہا جو ڈرائیو کر رہا تھا ۔


" نہیں یارا طبیعت خراب ہوجائے گی تمہاری اور میں کوئی رسک نہیں لے سکتا ۔۔۔تمہیں نہانا ہے ہم گھر واپس چلتے ہے دونوں ایک ساتھ نہائے گے وہ بھی گرم پانی سے " ۔ حسام کی بات پر بیہ کا رنگ لال ہوا حسام کی اس بےباک بات پر اُسکے کانوں سے دھواں نکلنے لگا ۔


" آپ روک رہے ہیں گاڑی یا نہیں مجھے بارش میں نہانا ہے اور آپ میری اتنی سی خوائش پوری نہیں کرسکتے " ۔ بیہ نے چہرے پر معصومیت سجائے حسام سے کہا ۔ جو اُسکی سیاہ حسین آنکھوں میں چمکتی خوشی کو دیکھتے گاڑی اس سنسان سڑک کے کنارے روک گیا تھا ۔


" آپ بہت اچھے ہے چلے جلدی سے آجائے باہر " ۔ بیہ نے خوشی سے حسام کے گال کو چومتے ہوئے کہا اور جھٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولے وہ باہر نکلی ۔ حسام اُسکی جلد بازی اور حرکت پر مسکرا کر رہ گیا ۔


ان تین مہینوں میں اُسکی زندگی حد سے زیادہ حسین ہو گئی تھی اُسکی محبت کے ساتھ ہر گزرا پل یادگار تھا ۔ وہ ہر پل کھل کر جی رہا تھا ۔ نہ جانے کتنی بار وہ بیہ کا صدقہ دے دیا کرتا تھا ۔ ہر نماز میں وہ اللہ کا شکر ادا کرتا تھا ۔ اور اپنے اس خوشحال گھر کو ہر بری نظر سے بچانے کی دعا کرتا تھا ۔ بیہ کی قربت آب حیات کی طرح تھی اُسکے لیے دونوں ایک دوسرے کے سنگ خوش تھے ۔ حسام بیہ کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے گاڑی سے باہر نکلا جو گلابی لباس میں پور پور بھیگی اپنی باہیں پھیلائے گول گول گھوم رہی تھی ۔


" پرنسز کیا آپ اس معمولی سے لڑکے کے ساتھ ڈانس کرنا پسند کرے گی جو آپ سے شدید محبت کرتا ہے " ۔ بیہ کے قریب اتے اپنے گھٹنے پر جھکتے حسام نے اُسکا حسین چہرہ دیکھتے محبت سے پوچھا ۔ پل میں ہی تیز بوچھاڑ اُسے بھگا گئی تھی ۔


حسام کی بات پر بیہ کی جلترنگ سی ہنسی روڈ پر گونجی ۔ حسام نے نہال ہوتے اُسے دیکھا ۔


" جی بلکل پرنسز آپکو اجازت دیتی ہے " ۔ ایک ادا سے کہتے بیہ نے اپنا ہاتھ حسام کے ہاتھ میں دیا جسے حسام مضبوطی سے تھام گیا ۔


یہ روڈ کافی سنسان تھا گاڑیوں کا گزر یہاں سے نہیں تھا اور کامل کے گھر کی طرف جانے کا شورٹ کٹ تھا ۔


" پر میوزک تو نہیں ہے یہاں پر " ۔ حسام کے کھڑے ہونے پر بیہ نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا ۔


" میں ہوں نہ میں گاؤ گا گانا " ۔ حسام نے بیہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے خود سے نزدیک کرتے ہوئے کہا ۔ بیہ کے لبوں پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔


" محبت برسا دینا تو ساون آیا آیا ہے " ,,


حسام نے خوبصورت آواز میں گاتے مہارت سے اسٹیپ لیے بیہ کے وجود میں خوشی کی ایک لہر دوڑ اٹھی دھڑکنیں تیز ہونے لگی ۔ حسام کے پیروں کے ساتھ اپنے پیر ہلاتے وہ اُسکی سیاہ آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی حسام نے بھی تو اُسکی آنکھوں سے اپنی نظریں نہیں بتائی تھی ۔ وہ تو ایک پل بھی اپنی پلكوں کو جھپکنے نہیں دینا چاہتا تھا ۔


" تیرے اور میرے ملنے کا موسم آیا آیا ہے" ،،،

حسام کی خوبصورت آواز پر بیہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی تھی ۔ جبکہ لبوں سے جیسے مسکراہٹ ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔


" محبت برسا دینا تو ساون آیا آیا ہے ،،

تیرے اور میرے ملنے کا موسم آیا آیا ہے " ،،،


حسام نے خوبصورتی سے گاتے بیہ کی ناک سے اپنی ناک مس کرتے اُسے ایک ہاتھ سے خود سے دور کیا ۔


" سب سے چھپا کر تُجھے سینے سے لگانا ہے ،،

پیار میں تیرے حد سے گزر جانا ہے ،،،

اتنا پیار کسی پر پہلی بار آیا ہے ،،


حسام نے بیہ کو خود سے دور کرتے گھماتے اُسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا اور اُسکی گردن پر اپنی داڑھی رب کرتے گنگنایا ۔۔


بیہ کی دھڑکنیں حد سے تجاوز کر گئی اپنی آنکھیں بند کئے اُس نے حسام کی داڑھی کی چبھن اپنی گردن پر محسوس کی ۔


" کیوں ایک پل کی بھی جدائی سہی جائے نہ ،،،

کیوں ہر صبح تو میری سانسوں میں سمائے نہ " ۔


بیہ کا رخ اپنی طرف کرتے اُسکے ماتھے سے اپنے ماتھا ٹکراتے حسام نے جیسے اُس سے پوچھا تھا ۔ بیہ نے کھلکھلاتے ہوئے بارش کا پانی اُسکے منہ پر پھینکتے اُس سے دور ہونا چاہا جب حسام اُسکا ہاتھ تھام گیا ۔ بیہ نے پلٹتے اُسے دیکھا ۔


اجا نہ تو میرے پاس دونگا اتنا پیار میں " ۔


کتنی راتیں گزاری ہے تیرے انتظار میں " ۔


بیہ کو اپنی طرف کھینچتے اُسکی قمر میں اپنا ہاتھ ڈالتے حسام نے اپنے پیروں کو حرکت دی ۔ حسام کے پیروں کو حرکت دینے پر بیہ نے بھی اسٹیپ لیا جبکہ حسام کے لفظ جیسے اُسکے تین مہینے پہلے کہ گزرتے دنوں کی عکاسی کر رہے تھے ۔


" کیسے بتاؤں جذبات یہ میرے " ،،،،

میں نے خود سے بھی زیادہ تُجھے چاہا ہے " ،،


حسام نے بیہ کی قمر پر گرفت مزید سخت کرتے اُسے خود کے نزدیک کیا اب نظروں کا رخ بیہ کے بھیگتے گلابی لب تھے ۔


بیہ نے حسام کی نظروں کا رخ دیکھا تو پل میں گال سرخ ہوئے آنکھوں میں ایک چمک سی اُبھری وہ اپنے لب کو جلدی سے آپس میں دباتے نفی میں سر ہلاتے اگے بڑھی جب حسام نے اُسکی پشت سے ہاتھ گزارتے اُسکے پیٹ پر باندھتے اُسے اٹھایا اور گول گول گھمایا۔


" حسام ۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔۔" ۔ بیہ کہتی کھلکھلا کر ہنس دی ۔ اُسکی ہنسی سنتے حسام بھی ہنس گیا ۔ سُنسان سڑک پر اُن دونوں کی ہنسی گونج رہی تھی ۔ آسمان سے برستے بادلوں کو بھی جیسے یہ منظر بھا گیا تھا تبھی تو مسلسل برس رہے تھے ۔


سنسان سڑک پر ایک بہت محبت کرنے والا سیاہ آنکھوں والا شہزاده اپنی سیاہ آنکھوں والی شہزدای کے ساتھ بارش میں بھیگ رہا تھا ۔ اُس شہزدای کے ساتھ جسے پانے کے لیے اُس نے اپنے رب سے رو رو کر دعائیں مانگی تھی ۔ وہ شہزادی اُسکی وہ منزل تھی جسے پانے کے لیے اُسے ایک دشوار راستے سے گزرنا پڑا تھا ۔ جہاں قدم قدم پر اُسکے لیے رکاوٹ تھی لیکن وہ اُس راستے کو پار کرتے اپنی سیاہ آنکھوں والی شہزادی کو جیت چکا تھا ۔


" مختصر یہ کہ حسام ملک اپنی بیہ کو جیت چکا تھا " ۔


💗💗💗💗💗


" جنید اب کی بار تم نہیں اٹھے تو پھر میں تمہارا منہ نوچ لونگی " ۔ سدرہ نے جنید کی چوڑی برہنہ پشت کو دیکھتے دانت کچا کر کہا ۔ پورا ادھا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا لیکن وہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا کامل نے اُن سب کو فون کرتے گھر بلایا تھا ۔ لیکن یہ جناب اٹھتے تو ہی وہ جاتے نہ اوپر سے باہر تیز بارش بھی ہو رہی تھی ۔


" یار جانو میری سونے دو نہ مجھے تم بھی آجاؤ پوری رات تم نے ہی تو جگائے رکھا تھا مجھے " ۔ تکیہ میں منہ دیے وہ نیند میں بڑبڑایا ۔ جبکہ اُسکی بات پر سدرہ کا منہ حیرت سے کھلا پوری رات وہ اُسے نہیں سونے دیتا تھا کبھی اپنی قربت میں گم کرتے اُسے جگائے رکھتا تو کبھی جناب کو ہولی ووڈ فائٹنگ مووی دیکھنی ہوتی تھی جو وہ اکیلے نہیں دیکھتے تھے اور مجبوراً سدرہ کو اُسکے ساتھ بیٹھ کر دیکھنی پڑتی ۔


اور پھر وہ اُس فلم میں موجود ہیروئن کی تعریف کرتے سدرہ کا پارا ہائی کردیتا تھا ۔


" ایک منٹ ایک منٹ میں تمہیں جگاتی ہوں میں ۔۔۔اب دیکھو تم ذرا نہیں سوؤگی اب میں اس کمرے میں ۔۔سونا اس کمرے میں اکیلے تم ۔۔پھر دیکھتی ہوں کہ کیسے تمہاری نیندیں پوری نہیں ہوتی ۔۔۔اور اگر اب تم نہیں اٹھے نہ تو میں تایا ابو کو بول دونگی بتا رہی ہوں میں " ۔ اپنی قمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے دانت پیستے ہوئے کہا ۔


سدرہ کی بات پر جنید کی آنکھ پٹ سے کھلی اٹھتے وہ جلدی سے سدرہ کو تھامتے اپنے قریب کرتے بیڈ پر لٹا گیا ۔ سدرہ نے اس حرکت پر لال ہوتے چہرے سے غصے سے اُسکی طرف دیکھا۔


" وہ میں تو مذاق کر رہا تھا جانو دیکھو اٹھ گیا میں ۔۔تم تھوڑی نہ جگاتی ہوں یار میں ہی ہوں ساری فساد کی جڑ ہیں نہ پر کیا کرو تمھاری قربت میں گم ہوتے میں نیند بھول جاتا ہوں " ۔ جنید نے کہتے سدرہ کے گال پر لب رکھے سدرہ کے لب جنید کی بات پر مسکراہٹ میں ڈھلے۔


" دیکھو اب یو مسکرا کر تم نے خود مجھے دعوت دی ہے کہ میں ان لبوں کا لمس محسوس کرو " ۔ جنید نے اُسکی مسکراہٹ کو دیکھتے زو معنی بات کی سدرہ نے فوراً سے نفی میں سر ہلایا ۔


" نہیں تم نے برش نہیں کیا گندے" ۔ سدرہ کی بات پر جنید نے اپنی آبرو آپس میں ملائی ۔


" میں گندا ہوں اب بتاتا ہوں تمہیں میں ۔۔۔۔ برش نہیں کیا تو کیا ہوا تم نے تو کیا ہے نہ یہی کافی ہے " ۔ جنید کہتا سدرہ کے لبوں کو اپنی گرفت میں لیتا وہ سدرہ کی سانسیں بند کرنے کے در پر تھا سدرہ نے گھبرا کر اُسکے کندھے تھامے ۔


سدرہ کی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کرتا وہ اُس سے پیچھے ہوئے تھا ۔ سدرہ نے گہرے سانس بھرتے اُسے دیکھا جو لبوں پر مسکراہٹ سجائے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔


" بہت بیشرم ہوتے جا رہے ہو تم کامل بھائی کہ گھر جانا ہے " ۔ سدرہ نے اپنے لبوں پر ہوتی جلن کو برداشت کرتے جنید کے برہنہ کندھے پر مکا مارتے ہوئے کہا ۔ جبکہ نظریں جھک گئی تھی ۔


" جب اتنی حسین بیوی ہو پاس اوپر سے برسات کا موسم تو کوئی گھدا ہوگا جو یہ حسین موقعہ چھوڑتے کہیں جائے گا "۔ سدرہ کو قمر سے اٹھاتے اپنے مزید نزدیک کرتے جنید کہہ رہا تھا ۔ جب دروازے پر اجمیر صاحب کی آواز گونجی ۔


" جنید " ۔ اجمیر صاحب کی آواز پر سدرہ نے اپنی ہنسی ضبط کی اور جنید کے چہرے کی ہوائیاں اُڑی ۔


" جلدی باہر آؤ کامل کے گھر جانا ہے دیر ہو رہی ہے " ۔ اجمیر صاحب سنجیدگی سے کہتے چلے گئے تھے اُنہیں مجبوراً جنید کو آواز دینی پڑی تھی کیونکہ کامل کی بار بار کال آرہی تھی ۔


" چلے اب " ۔ سدرہ کے کہنے پر جنید اُس سے دور ہوا ۔


یار یہ نہ انصافی ہے مجھے نہیں جانا کہیں باہر " ۔ سدرہ کو اٹھتے الماری کی طرف جاتے دیکھ جنید نے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا ۔


" جانا تو پڑے گا ورنہ تایا ابو نے اچھی والی کر دینی ہے تمھاری " ۔ سدرہ نے جنید کے کپڑے نکالتے بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا ۔


" کیا " ؟ جنید نے آبرو اچکا کر پوچھا۔


" تمھاری بے عزتی " ۔ سدرہ کہتی لبوں پر مسکراہٹ لیے باہر نکلتی چلی گئی ۔ جنید نے لب بھینچے اپنے کپڑے اٹھاتے واشروم کی راہ لی ۔ اتنا اچھا موسم تھا وہ سدرہ کے ساتھ حسین وقت گزارنا چاہتا تھا لیکن یہ ظالم زمانہ بقول اُسکے اُسکا دشمن تھا جو اُسے اُسکی بیوی کے ساتھ وقت گزارنے نہیں دیتا تھا


💗💗💗💗💗


" زرقان یہ لے آپکا کیک اور اب ہم کیا جا سکتے ہے " ۔ ٹیبل پر کیک رکھتے وہ چوڑیوں سے بھری کلائی کو حرکت دیتے اشارہ میں زرقان سے مخاطب ہوئی تھی ۔ جو کرسی اور پر ارام سے بیٹھا ہوا تھا ۔


صبح صبح ہی اٹھتے اُس نے اُسے کیک بنانے کا حکم دے دیا تھا ۔ جبکہ ساتھ ساتھ تیار ہونے کا بھی کہ اج سب نے کامل ہاؤس میں ملنا تھا ۔ اور آمنہ لال لباس میں تیار ہوئی اُسکے لیے کیک بنا رہی تھی ۔ جبکہ ان چوڑیوں نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔ لیکن وہ انہیں اُتار نہیں سکتی تھی ۔ زرقان نہ جانے کہاں سے اُسکے لیے ہر رنگ کی اٹھا لے ایا تھا اور اُسے ہر وقت ہر لباس کے ساتھ میچنگ چوڑیاں لازمی خود پہناتا تھا ۔


زرقان نے گہری نظروں سے اپنی بیوی کا جائزہ لیا جو لال لباس میں گلاب کا پھول لگ رہی تھی ۔ اُسکی قربت کے رنگ اُسکے چہرے سے جھلک رہے تھے وہ دن با دن حسین ہوتی جا رہی تھی ۔


" چلو عشقم چلتے ہیں " ۔ زرقان نے کہتے ٹیبل پر سے کیک اور چمچ اٹھایا اور آمنہ کا چوڑیوں سے بھرا ہاتھ پکڑا۔ ۔


" ویسے شکریہ میری جان میرے لیے اتنی محنت کرنے کے لئے " ۔ آمنہ کا ہاتھ اپنے لبوں تک لے جاتے چومتے ہوئے زرقان نے محبت سے کہا ۔ آمنہ اُسکی بات پر مسکرا دی جبکہ اُسکے ہاتھ میں پکڑے کیک کو وہ الجھن بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔


" چلو اب یہ کیک تم مجھے کھلاتی جاؤ میں گاڑی چلاتا جاؤنگا اس سے وقت کی بچت بھی ہوجائے گی اور میرا پیٹ بھی بھر جائے گا " ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی زرقان نے اُسکے ہاتھ میں کیک تھمایا اور خود گاڑی سٹارٹ کی ۔ جبکہ بارش کی وجہ سے وہ دونوں ہی ہلکے ہلکے سے بھیگ گئے تھے ۔


ان تین مہینوں میں وہ یہ بات تو سمجھ گئی تھی کہ اُسکے شوہر کی جان اسکے بعد اُسکے ہاتھ کے بنے کیک میں بستی ہے ۔


وہ زرقان خان تھا جو اپنی بیوی کے بعد اپنی بیوی کے ہاتھ کے بنے کیک کا دیوانہ تھا۔


آمنہ نے ہوںکوں کی طرح اُسے دیکھا ۔ جو نیلے ٹو پیس میں حد سے زیادہ پیارا لگ رہا تھا ۔ کہ آمنہ کا دل تیز دھڑک اٹھا تھا اُسے دیکھتے ہوئے ۔


" کیا دیکھ رہی ہو عشقم چلو کھلاؤ " ۔ زرقان نے اُسے یوں خود کی طرف دیکھتے پا کر کہا۔ آمنہ نے نفی میں سر ہلاتے رخ اُسکی طرف کیا اور کیک چمچ میں لیتے اُسکی طرف بڑھایا جو زرقان نے خاموشی سے کھا لیا جبکہ دوسرا نوالہ اُس نے آمنہ کی طرف کرتے اُسے آنکھوں سے کھانے کا اشارہ کیا تھا جو آمنہ چپ چاپ کھا گئی تھی ۔


باہر بارش برس رہی تھی اور آمنہ اپنے ہمسفر کو دیکھ رہی تھی جس کی محبت بھی تو بارش بنتے اُس پر برس رہی تھی ۔ ان تین مہینوں میں اُس نے اپنے لیے زرقان کی دیوانگی اُسکی محبت اچھی طرح دیکھ لی تھی ۔ زرقان اُسکی ہر چھوٹی سی چھوٹی چیز تک کا خیال رکھتا تھا۔ اور یہ سب دیکھتے اُسکے دل میں زرقان کی محبت اور عزت دونوں بڑھ گئی تھی وہ مزید اس شخص کی اسیر ہو گئی تھی ۔ جو اُسے دیوانوں کی طرح چاہتا تھا ۔

اپنے کمرے میں موبائل پر نظر آتی اُسکی تصویر کو دیکھتی وہ اپنے آنسو پی رہی تھی ۔ شربتی آنکھیں نم تھی لبوں کو آپس میں بھینچا ہوا تھا۔


اج تین مہینے ہوگئے تھے ۔ اُسے شاداب کو دیکھے ہوئے آخری ملاقات میں اُسکا دل جو توڑ چکی تھی وہ اُسکے بعد سے کہاں اس نے لیزا کو اپنی شکل دکھائی تھی ۔


وہ پاکستان چلا گیا تھا ۔ اُس نے اُن تین مہینوں میں ایک بار بھی لیزا سے بات نہیں کی تھی ۔ اور کیوں کرتا وہ اُس سے بات جس نے اُسکے دل کو بری طرح توڑ دیا تھا۔


" لیزا تم نے پیکنگ کر لی ہے بیٹا " ۔ اپنی والدہ کی آواز پر لیزا نے جلدی سے موبائل بند کرتے اپنی آنکھوں میں جمع ہوتی نمی کو صاف کیا ۔


" جی کر لی ہے " ۔ لیزا نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا ۔


" کب تک ناراض رہنا ہے اپنے بابا سے لیزا " ۔ لیزا کی والدہ نے اُسکے افسردہ چہرے کو دیکھتے پوچھا۔


" میں کسی سے ناراض نہیں ہوں موم " ۔ لیزا نے الماری میں منہ دیئے اپنے آپکو مصروف ظاہر کرتے ہوئے جواب دیا۔


" تو پھر تمھارے چہرے پر خوشی کیوں نہیں ہے بیٹا کل سے تمھاری شادی شروع ہے اج ہم پاکستان جا رہے ہے اور تم خوش نہیں ہو " ۔ لیزا کی والدہ نے پوچھا ۔


" خوش ۔۔۔آپ مجھے خوش دیکھنا چاہتی ہے ۔۔مان تو لیا ہے بابا کا فیصلہ کر تو رہی ہوں اُنکی پسند سے شادی ۔۔۔میری شادی سے اُنکا سارا قرضہ اُتر جائے گا بزنس میں انکو فائدہ ہو جائے گا اب اور کیا چاہتے ہیں آپ " ۔ لیزا الماری بند کرتے اُنکی طرف دیکھتے سرد لہجے میں گویا ہوئی ۔


" بیٹا میں کچھ نہیں کہہ سکتی بس تمہارے بہتر نصیب کی دعا کرسکتی ہوں مجھے پورا یقین ہے تم بہت خوش رہو گی " ۔ لیزا کی والدہ اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھتی کمرے سے نکلتی چلی گئی ۔


اُنکے جاتے ہی لیزا کے آنسو شدت سے بہہ نکلے بیڈ پر بیٹھے وہ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام گئی تھی ۔ اُسے کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی کسی چیز میں بھی نہیں ۔۔اُسکے باپ نے اُسکی شادی اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ طے کردی تھی تاکہ شادی کے بعد وہ اپنے تمام قرضے اُتار سکے ۔۔اور لیزا مجبور تھی ۔۔اپنے باپ کی بات ماننے کے لیے اُس نے اپنی محبت کے لیے اسٹینڈ لیا تھا لیکن۔ بدلے میں اپنے باپ کے ماتھے پر گن دیکھتے وہ ہار کر اپنے باپ کے فیصلے کے آگے سر جھکا گئی تھی۔


اُسکی دیسٹینیشن ویڈنگ پلین ہوئی تھی پاکستان میں ۔۔اور اُسکا دل یہ سنتے ہی بند ہونے کے قریب تھا وہ پاکستان گئی اور اُسکا سامنا شاداب سے ہوگیا تو وہ کیا کرے گی کس طرح سے خود کو سمنبھالے گی ۔ ان تین مہینوں میں وہ اپنے کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی نہ کسی سے ملنا نہ کسی سے بات کرنا ۔۔۔ایک زندہ لاش کے مانند ۔


💗💗💗💗


" اچھ۔۔۔اچھییییی " ۔ وہ دونوں ابھی کامل کے گھر میں داخل ہوئے تھے جب اُن دونوں کو ایک ساتھ چّھینک ائی ۔


" الحمدللہ " ۔ دونوں کی زبان سے ایک ہی لفظ ادا ہوئے ۔ حسام مضبوطی سے بیہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا ۔ دونوں کافی دیر تک بارش میں رہے تھے جسکی وجہ سے اب دونوں کی ناک نزلے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی ۔


حسام اور بیہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے پھر سامنے دیکھا جہاں لاؤنچ میں ہی سب موجود تھے ۔ اور سب کی نظروں کا مرکز وہی دونوں تھے ۔


خضر شجیہ فلک کامل سدرہ جنید زرقان آمنہ حمزہ صائمہ سب ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ اجمیر صاحب آمنہ کے والدین منصور صاحب اور نجمہ بیگم بھی ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔


" لگتا ہے اس برسات کے موسم کا کسی نے بہت اچھے سے فائدہ اٹھایا ہے " ۔ زرقان کی زبان میں خارج ہوئی تو فوراً سے بول اٹھا ۔ اُسکی بات پر سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ نے جگہ بنائی ۔


بیہ کا رنگ خجالت اور شرم سے سرخ ہوا بیہ اُس نے اپنی نظریں شرم سے جھکاتے خود کو حسام کے کندھے کے پیچھے چھپایا ۔ حسام نے تیز نظروں سے زرقان کو دیکھا۔


" ہماری گاڑی خراب ہوگئی تھی اسی لیے بھیگ گئے " ۔ حسام نے زرقان کو تیز نظروں سے گھورتے ہوئے دانت پیستے ہوئے کہا ۔


" ہاں ہاں بھائی سمجھ گئے ہم آپکی واقعی میں گاڑی خراب ہوئی ہوگی اب آپ اتنے بھی رومانٹک نہیں کہ اپنی بیوی کو لیے سڑک کے بیچ میں رومانٹک ڈانس کرے گے ہیں نہ صحیح بول رہا ہوں نہ میں " ۔ زرقان کے کندھے اچکا کر کہنے پر حسام کو پھندا سا لگا ۔ جبکہ انابیہ کا دل کر رہا تھا کہ بس وہ یہاں سے بھاگ جائے ۔


آمنہ نے انابیہ کا خفت سے لال پڑتا چہرہ دیکھتے زرقان کے ہاتھ پر چٹکی بجاتے اُسے وارن کرتی نظروں سے گھورا ۔ وہ دونوں بھی کامل کے گھر انے کے لیے شورٹ کٹ لے رہے تھے لیکن وہاں سڑک کے بیچ و بیچ انابیہ اور حسام کو دیکھتے دونوں نے ہی اُنہیں تنگ نہ کرنے کا سوچتے گاڑی واپس موڑ لی تھی ۔ انابیہ حسام ایک دوسرے کے سنگ اتنے خوش تھے کہ وہ یہ دیکھ ہی نہ پائے۔


" میرے ہاتھ میں نہ بہت خارش ہو رہی ہے اور یہ تب ہی ختم ہوگی جب یہ کسی کے گال پر پڑے گا ذرا انا زرقان میرے ساتھ لون میں ضروری بات کرتے ہیں " ۔ حسام کے کہنے کی دیر تھی زرقان فوراً سے سیدھا ہوا۔


" ارے میرے بھائی میں تو مذاق کر رہا تھا آئے نہ بیٹھے کامل بھائی نے بہت ضروری بات کرنی ہے " ۔ آنکھیں پٹپٹا کر معصومیت سے زرقان نے کہا ۔


حسام انابیہ کا ہاتھ پکڑے وہاں رکھے صوفے پر بیٹھا جبکہ فلک کے اشارے پر ملازمہ نے حسام کو لا کر ایک شول دی جسے اُس نے بیہ کے کندھوں پر اچھی طرح ڈالتے اُسکے بال پیچھے کیے ۔ سب کے سامنے اس حرکت پر بیہ سرخ گلاب بنی ۔۔جبکہ باقی سب نے اُن دونوں کو دیکھتے دل ہی دل میں ماشاللہ کہا۔


" پاکستان کے ٹکٹ اگئے ہے کل صبح کی فلائٹ ہے یہاں سے پاکستان اور پھر سوات حویلی میں " ۔ کامل کے کہنے پر سب نے اثبات میں سر ہلایا۔


" بھائی ویسے یہ آپکا فیصلہ بہت اچھا ہے ہم سب کی پھر سے شادی ویسے بھی اُس جعفر کی وجہ سے کسی کی بھی شادی دھوم دھام سے نہیں ہوئی " ۔ جنید کے کہنے پر سب نے تائید میں سر ہلایا ۔


" اسی لیے تو تم سب کی شادی شاداب کی شادی کے ساتھ طے کی ہے تاکہ تم سب بھی اپنی شادی اچھی طرح انجواۓ کر سکو " ۔ اجمیر صاحب کے کہنے پر وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے مسکرا دئیے ۔


" چلو لڑکیوں آجاؤ کھانے کا انتظام دیکھتے ہے " ۔ شجیہ کے کہنے پر وہ سب اثبات میں سر ہلاتی اپنی جگہ سے اُٹھی ۔ اُن سب لڑکوں کی محبت بھری نظروں نے اپنی اپنی بیویوں کی پشت کا تعاقب کیا ۔


اجمیر اور منصور صاحب اپنی اپنی باتوں میں مشغول تھے جبکہ نجمہ بیگم بھی لڑکیوں کے ساتھ کچن کی طرف چلی گئی تھی۔


" ویسے حسام بھائی ایک بات پوچھو " ۔ زرقان نے حسام کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔


" کوئی فضول بات ہے تو مت پوچھو " ۔ حسام نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔ کامل خضر جنید اُسکی بات پر ہنس پڑے جبکہ زرقان نے منہ پھولا کر اُسکی طرف دیکھا۔


" فضول بات تو نہیں ہے بھائی وہ میں یہ پوچھ رہا تھا آپ اس انڈر ورلڈ کی دنیا میں آئے کیسے مطلب ہم سب جانتے ہیں کہ آپکے والد کا ایک اتنا بڑا بزنس ہے جو میرے خیال سے پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے پھر ایسی کیا وجہ بنی " ۔ زرقان کے پوچھنے پر جنید نے حسام کی طرف دیکھا ۔ خضر اور کامل کی بھی نظریں اُسکی طرف ہی تھی ۔ حسام نے ایک گہرا سانس بھرا ۔


اپنا ماضی وہ یاد تو نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن پھر بھی وہ اس سوال کا جواب دینا چاہتا تھا۔


" میرے بابا کا اپنا بزنس تھا ۔۔انہوں نے پارٹنر شپ کی بیہ کے والد سے " ۔ حسام نے کہتے اپنے بھیگے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔ اور یہ کرتے وہ اس وقت اتنا حسین لگا کہ اُسے دیکھتے اُن چاروں کی آنکھوں میں بھی ستائش اُبھری واقعی وہ وجاہت کا شاہکار تھا۔


" سب کچھ صحیح چل رہا تھا میں لندن میں اپنی پڑھائی مکمل کر رہا تھا ۔ پھر بابا کو بہت بڑا لوس ہوا ۔ جسکی وجہ سے ہمارا گھر ہماری تمام جائیداد ہم سے چھین لی گئی۔ جب مجھے یہ پتہ چلا تو میں اپنے دوست کی مدد لے کر پاکستان ایا ۔ لیکن جب میں یہاں ایا تو بہت دیر ہو چکی تھی بابا اپنی برسوں کی محنت کو يوں ختم ہوتے دیکھ موت کو گلے لگا بیٹھے تھے "۔ حسام نے کہتے اپنی بھرائی آواز پر قابو پایا۔


" اپنی والدہ کو لے کر میں ایک کرائے کے مکان میں شفٹ ہوا ۔ اپنے گھر اور بابا کا بزنس دوبارہ صحیح کرنے کے لیے جوب ڈھونڈی کہ لندن کی ڈگری دیکھتے کہیں نہ کہیں تو کام مل ہی جائے گا لیکن نہیں ملا۔ لون مانگنے گیا تو بینک والوں نے دھکا دیتے بینک سے نکال دیا۔ شکست خوردہ وجود لیے واپس گھر ایا تو اپنے بابا کے غم میں اپنی آنکھیں بند کی اپنی ماں کو دیکھا۔ جسکی سانسیں انکا ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔ بابا ماما دونوں کو کھو دیا تھا بچا کچھ بھی نہیں ۔ "


" تب حسام ملک سمجھ گیا یہ دنیا شریفوں کی نہیں ہے یہ ایک عام سے بندے کو جینے نہیں دے گی "۔ یہ سب کہتے حسام کی آنکھوں میں اضطراب پھیل رہا تھا اُسکی ایک ٹانگ مسلسل ہل رہی تھی جیسے وہ خود پر ضبط کر رہا تھا ۔ پورے لون میں خاموشی چھائی ہوئی تھی اتنی کہ بارش کی بوندوں کی آوازیں باہر سے اتی محسوس ہو رہی تھی کچن کے گیٹ پر کھڑی بیہ نم نگاہوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی جسکا سرخ چہرہ دیکھتے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ ضبط کے کون سے مراحل پر ہے۔ ۔اور یہ سب ہوا بھی تو اُسکے بابا کی وجہ سے تھا ۔ اُسکی امی بیہ کو اپنی والدہ کی شدت سے یاد ائی ۔ اُسکے بابا کی لالچ کی وجہ سے اُسکے شوہر نے اتنا کچھ سہا تھا ۔ اُسکی والدہ اُس سے دور تھی ۔


" موت کو گلے لگانے جا رہا تھا جب مجھے ایک آدمی ملا جس نے مجھے مرنے سے بچایا تو صحیح لیکن ایک ایسی دنیا کا راستہ دکھایا جو انسان کو انسان نہیں درندہ بنا دیتی ہے ۔ وہ ایک معمولی سا بندہ تھا انڈر ورلڈ میں جو شائد پولیس کے بارے میں خبر دیتا تھا اُسکے کہنے پر میں انڈر ورلڈ میں ایا اور پھر یہاں اتے میں نے خود لیپرڈ کا لقب اپنے نام کیا ۔ ہر وہ چیز کی جو وہ چاہتے تھے ۔ اتنا بُرا انسان بن گیا کہ ۔۔۔کہ چھوٹی معصوم بچیوں کی عزت کو خطرے میں ڈالنے تک کا فیصلہ کر گیا "۔ حسام کو یہ سب کہتے جتنی تکلیف ہو رہی تھی یہ وہ خود جانتا تھا ۔ بیہ نے جلدی سے اُس تک اتے اُسکا کانپتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما ۔ حسام کے ہاتھ کانپ رہے تھے اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے ۔ حسام نے بیہ کو دیکھا جو خود اُسے نم نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ بیہ کو پاس دیکھتے اُسکی ہمت بنی یہ لڑکی اُس کی ہمت ہی تو تھی۔


" پھر میں گیا اُس بینک میں جہاں سے مجھے دھکے دے کر نکالا گیا ۔ میرے پاس تب اتنا پیسہ تھا کہ میں ہر وہ چیز خرید سکتا تھا لیکن وہ سب حرام کا پیسہ تھا ۔ میں اپنے بابا کے پیسوں میں حرام نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔ اسی لیے لون لیا جو اُس نے مجھے یعنی لیپرڈ کو دیکھتے دے بھی دیا ۔۔۔اُس لون سے بابا کا بزنس پھر شروع کیا ۔۔۔اور جو منافع ہوا اُس سے لون واپس کیا میرے بابا کی حلال کی کمائی میں ۔۔۔میں نے حرام شامل نہیں ہونے نہیں دیا ۔۔پھر مجھے پتہ تھا چلا کہ بیہ کے بابا۔۔۔بیہ کے بابا کی وجہ سے میرے بابا کو اتنا لوس ہوا ۔۔۔دل میں بدلے کی آگ جگی لیکن کس سے بدلہ لیتا بیہ کے بابا خود وفات پا چکے تھے ۔۔۔بدلے کی آگ میں اندھا ہوتے میں نے بیہ سے بدلہ لیا لیکن ۔۔۔اس بدلے میں اپنا دل ہار بیٹھا بیہ سے محبت کر بیٹھا ۔۔۔اور پھر باقی سب تو آپ سب کے سامنے ہی تھا " ۔ حسام نے کہتے بیہ کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی ۔


" ہاں ایک اور بات جب آپ دونوں نے میرے گھر پر ریٹ کی تھی اور اُن بچیوں کو بازیاب کروایا تھا ۔ وہ پہلی دفعہ تھا مطلب پہلی دفعہ میں نے لڑکیوں کی سمگلنگ کے لیے حامی بھری تھی لیکن وہ اللہ کے کرم سے ناکام ہوئی اور اس بات کا شکر میں ہر نماز میں ادا کرتا ہوں کہ میری وجہ سے کسی لڑکی کی عزت خراب نہیں ہوئی " ۔ حسام نے یاد انے پر کامل اور خضر کی طرف دیکھتے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا ۔


" میرا ماضی بہت تکلیف و اذیت والا ہے ایسا جیسے جنہم ہو ۔۔لیکن میرا اج اور کل بہت حسین ہے ۔۔بہت حسین " ۔ حسام نے بیہ کے ہاتھ پر اپنے انگوٹھے سے لائنز بناتے ہوئے کہا ۔


" چلے بھئی کھانا لگ گیا ہے آجائے کھانے " ۔ سدرہ کی بات پر سب اپنی جگہ سے اٹھے ۔


کامل نے اگے بڑھتے حسام کو گلے لگایا ۔ کامل کے بعد خضر پھر زرقان اور پھر جنید ۔


حسام اُنکی اس حرکت پر دل سے مسکرا گیا۔


" بندے اچھے ہو یار تم بہت اچھے ماضی کو یاد نہ کرو حال اور مستقبل پر دھیان دو تم اپنے اج کی وجہ سے پہچانے جاؤ گے نہ کہ ماضی کی وجہ سے " ۔ خضر نے حسام کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا حسام نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔


" شکریہ یارا میری ہمت بننے کے لیے " ۔ سب کے ڈائننگ ٹیبل کی طرف جاتے ہی بیہ آگے بڑھنے لگی جب حسام نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتے محبت سے کہا۔


" ایمم ہممم " ۔ بیہ نے نفی میں سر ہلاتے دونوں کے بیچ موجود ایک قدم کی دوری کو مٹایا۔ ۔


" یارا کی جان شکریہ آپکا ۔۔۔میری زندگی حسین بنانے کے مجھ سے اتنی محبت کرنے کے لئے مجھے دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی فیل کروانے کے لیے جسکے پاس اُسکا حسام ہے ". حسام کی مغرور ناک کو ہولے سے اپنی انگلی سے چھوتے بیہ نے محبت سے کہا۔


" اب چلے بریانی بنی ہے آپکی پسند کی بہت بھوک لگی ہے مجھے " ۔ حسام کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے وہ ناک سکورتے ہوئے کہتی اگے بڑھی۔


حسام نے محبت سے اپنے ہاتھ کو بیہ کے ہاتھ میں دیکھا ۔۔۔وہ تھی تو وہ تھا ۔۔وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔


" اُسکی ہمت اُسکا عشق اُسکی محبت اُسکا جنون اُسکی زندگی ۔۔۔صرف اور صرف اُسکی یارا تھی اُسکی بیہ تھی اُسکی انابیہ تھی " ۔


💗💗💗💗

صبح کا سورج اُگ ایا تھا ۔ ایسے میں سب ایئرپورٹ پر اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب لیزا اپنے والدین کے ساتھ وہاں ائی ۔ اُن سب کو وہاں بیٹھے دیکھ لیزا کو حیرت ہوئی ۔


" لیزا کیسی ہو تم " ؟ بیہ جلدی سے اٹھتے اُسکے گلے لگی سدرہ اور آمنہ بھی تیزی سے اُس تک ائی ۔


" میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو بیہ اور تم دونوں کیسی ہو " ؟ لیزا نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔


" ہم ٹھیک ہے پر تم کہاں غائب تھی اور کہاں جا رہی ہوں " ؟ سدرہ نے اُس سے غصّہ سے پوچھا اتنے دنوں سے وہ غائب تھی نہ اُن سے فون پر بات کرتی تھی ۔


" وہ میں ۔۔میری شادی ہے ۔۔پاکستان میں اسی لیے وہی جا رہی ہوں " ۔ لیزا نے اٹکتی آواز میں کہا ۔ انکھوں میں یہ کہتے ہی نمی چمکنے لگی تھی جسے وہ ضبط کر رہی تھی ۔ اُسکی بات پر وہ دونوں چپ ہوئی ۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اُن تینوں نے پیچھے اپنے اپنے شوہروں کو دیکھا اور پھر کامل اور خضر کی طرف جو فلک اور شجیہ کے ساتھ بیٹھے تھے عروہ اور عزیر اُنکی گود میں تھے جبکہ خوشبو شجیہ کے برابر میں بیٹھی ہوئی تھی ۔


" بہت اچھا صلا دیا ہے نہ دوستی کا کہ ہمیں بتایا تک نہیں " ۔ انابیہ نے شکوہ کیا وہ تینوں ہی اُسے شکوہ کرتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔


" ایسا نہیں ہے ۔۔سب کچھ اتنی جلدی ہوا پتہ ہی نہیں چلا پلیز تم لوگ مجھ سے ناراض مت ہو پلیز "۔ اُسکی آواز میں نمی شامل ہوئی تو وہ تینوں فوراً سے اُس کے گلے لگی اُنکے گلے لگتے ہی آنسو اُسکی آنکھوں سے بہہ نکلے کتنا ضبط کرتی وہ خود پر تھی تو ایک موم سا دل رکھنے والی لڑکی ۔۔


" اچھا اچھا رو مت ہم بھی پاکستان ہی جا رہے ہیں " ۔ آمنہ نے فوراً سے اُسکے آنسو صاف کرتے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔


" پاکستان تم لوگ کیوں " ؟ لیزا نے حیرت سے پوچھا۔


" شاداب کی شادی ہے نہ اسی لیے اچھا ہوا تمھاری بھی شادی وہی ہے ہم کم سے کم آ تو سکے گے تمھاری شادی میں " ۔ انابیہ کے کہنے پر لیزا کی آنکھوں میں نمی ختم ہونے کے بجائے بڑھی ۔۔پورا بدن لرز اٹھا ۔ دل کی دھڑکن ایک لمحہ کو رکتی تیز ہوئی ۔


" شا ۔۔شاداب کی شادی ہے " ۔ لیزا نے با مشکل مسکراتے ہوئے کہا۔ ۔


" ہاں "۔ اُن تینوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ لیزا مسکرا گئی تلخ مسکراہٹ وہ اُسے بھول چکا تھا ۔۔اپنی زندگی میں آگے بڑھ رہا تھا ۔ اپنی زندگی میں کسی کو شامل کرنے جا رہا تھا لیزا کو لگ رہا تھا کہ اُسکا دل پھٹ جائے گا۔


" بھائی ایسا نہیں ہوسکتا کہ لیزا کی شادی بھی ہمارے ساتھ ہو مطلب ہم سب کی بھی تو دوبارہ شادی ہو رہی ہے نہ سب کی ساتھ ہوجائے کتنا مزا آئے گا " ۔ انابیہ نے کامل سے پُر جوش لہجے میں کہا ۔


" نہیں نہیں رہنے دو " ۔ لیزا نے جلدی سے انکار کیا۔


" ہاں بہت اچھا آئیڈیا ہے انکل پلیز مان جائے ہم سب ساتھ ہونگے تو ایک دوسرے کی شادی بھی انجواۓ کر پائے گے " ۔ سدرہ نے کہتے جلدی سے کامل کے برابر میں بیٹھے سدرہ کے والد سے کہا۔ سدرہ نے دل سے دعا کی کہ اُسکے بابا منع کردے وہ شاداب کا سامنا نہیں کر پائے گی وہ کیسے اُسکے پہلو میں کسی اور کو لال جوڑے میں اُسکی بیوی کہ روپ میں دیکھ پائے گی ۔


" ٹھیک ہے بیٹا یہ تو اچھی بات ہے سب کی شادی ایک جگہ ہوجائے " ۔ لیزا کے والد کے کہنے پر وہ سب خوشی سے مسکرا دی ۔ لیزا اُن سب کے خوشی سے ٹمٹماتے چہرے دیکھتے مسکرا اُٹھی ۔ جبکہ دل تو اندر سے تڑپ رہا تھا ۔


کامل لیزا کے والد سے بات کرنے میں مشغول تھا جبکہ وہ چاروں شجیہ اور فلک کے ساتھ ملکر شادی کی پلاننگ کر رہی تھی جس میں لیزا تو خاموش تھی لیکن باقی سب کی باتوں پر مسکرا ضرور رہی تھی ۔


💗💗💗💗💗

سوات کی اس شاندار حویلی میں اس وقت سب لوگ جاگے ہوئے تھے ۔ ویسے تو اس حویلی میں صرف شاداب اور اُسکے والدین رہتے تھے لیکن شاداب کی شادی کی وجہ سے کامل کے والدین اور تمام دوسرے رشتے دار بھی موجود تھے۔


سوات میں خان کا ایک اونچا مقام تھا یہاں پر اُنہیں بہت عزت دی جاتی تھی کامل تو اپنی شادی کے بعد اپنے والدین کے ساتھ کراچی میں ہی شفٹ ہوگیا تھا لیکن جب اُسے آسٹریلیا جانا پڑا تو وہ اُنہیں واپس سوات بھیج چکا تھا لیکن یہاں انے کے بعد بھی وہ لوگ اپنی چھوٹی حویلی میں رہ رہے تھے ۔


پورے گھر میں جیسے افرا تفری مچی ہوئی تھی ایک تو کامل کے ساتھ باقی مہمان بھی حویلی آرہے تھے ۔ خضر کے داجی اور فاطمہ اماں بھی یہاں اچکی تھی کیونکہ خضر اور کامل کے کہنے پر ہی سب کی شادی کے فنکشن سوات میں ہونے تھے کیونکہ یہ جگہ خوبصورت بہت تھی چاروں طرف ہریالی اور اوپر سے یہاں پڑتی برف اسے اور حسین بنا دیتی تھی۔


گھر میں جسکی شادی کی تیاری چل رہی تھی وہ اپنے کمرے میں بنے چھوٹے سے جم میں شرٹ اُتارے پنچنگ بیگ پر اپنا غصّہ اتارنے میں مصروف تھے۔


سبز آنکھیں سرخ ہو رہی تھی جبڑے بھینچے ہوئے تھے۔ جبکہ مسلسل پپنچنگ بیگ پر پنچ مارنے کی وجہ سے پسینے سے اُسکا پورا وجود بھیگ چکا تھا ۔۔سلکی بال ماتھے پر چپکے ہوئے تھے۔


تین مہینے ہوگئے تھے اُسے اس شہر سے دور آئے جہاں اُسکی محبت نے اُسکا دل توڑا تھا لمحہ لمحہ اُسکی جُدائی اُسکی بیوفائی سہتے سہتے وہ سنگ دل بن گیا تھا ۔ اسی لیے تو پاکستان اتے ہی اگلے ایک مہینے میں انے والے اپنے رشتے کے لیے وہ ہاں کر چکا تھا بغیر اُس لڑکی کو دیکھے جانے۔


وہ تو لمحہ لمحہ اس آگ میں جھلس رہا تھا کہ اُسکی محبت کو کوئی اور ہاتھ لگائے گا کوئی اور ہوگا اُسکے جسم و جان کا مالک لیزا نے نہ صحیح اُس نے تو کی تھی اُس سے محبت ۔۔۔


وہ اپنے دل کو سخت کرنا چاہتا تھا اُسکے لیے لیکن نہیں کر پایا تھا وہ نفرت کرنا چاہتا تھا اُس سے لیکن نہیں کر پایا تھا ۔


اتنا آسان نہیں ہوتا اس شخص سے نفرت کرنا جس سے بےانتہا محبت کی ہو ۔۔۔ہم صرف خود کو تسلی دے رہے ہوتے ہے خود کو مصروف کرتے ہوئے خود پر سختی کا کھول چڑھاتے ہوئے کہ ہم بھول گئے ہے اُس انسان کو جس سے ہم نے کبھی محبت کی تھی لیکن حقیقت میں کہیں نہ کہیں ہم یہ بات با خوبی جانتے ہے کہ وہ شخص اج بھی ہمارے دل کے کسی کونے میں زندہ ہے اُسکے نشان باقی ہے اسکی یادیں باقی ہے ۔

گاڑیوں کے رکنے کی آواز پر اور شور کی آواز پر وہ سمجھ گیا کامل لوگ اگئے ہے ۔ پپنچنگ بیگ پر اُسکے ہاتھوں کی حرکت تھمی ۔ پاس رکھے تولیے سے اپنے پسینہ کو صاف کرتے وہ اپنی بلیک ٹی شرٹ پہنتے اپنے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا ۔ یہ جانے بغیر کہ وہ جس کے لیے اپنے دل کو سخت کرنا چاہ رہا ہے اُس سے اُسکا سامنا ہونے والا ہے ۔

تمام مرد حضرات دیرے پر سے شام کے وقت واپس ائے تھے ۔ اور اتے ساتھ ترو تازہ چہرے لیے اپنی بیگمات کو دیکھتے اُن سب کی تھکن جیسے پل میں اُتر گئی تھی ۔ جبکہ شاداب سامنے لیزا کو نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں سوگوار حسن لیے بیٹھے دیکھ اپنے جبڑے بھینچ گیا تھا ۔ وہ جب جب اُسے دیکھ رہا تھا اُسکے سینے میں الاؤ سا دہک رہا تھا یہ سوچتے کہ وہ یہاں اُسکے سامنے اپنی شادی کرنے ائی ہے ۔


" کیا بات ہو رہی ہے بھئی " ۔ زرقان نے آمنہ کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔ وہ سب اپنی اپنی بیگمات کے پاس موجود جگہ پر بیٹھ گئے تھے۔


" ہم سب برائیڈل شاور کے بارے میں بات کر رہے ہیں " ۔ سدرہ نے پُر جوش لہجے میں بتایا۔


" یہ کیا بلا ہے کون سا شاور " ؟ جنید نے اپنی بیوی کے خوشی سے ٹمٹماتے چہرے کو دیکھتے نہ سمجھی سے پوچھا ۔


" یہ لڑکیوں کا فنکشن ہوتا ہے جو اج رات کو ہم کرنے والے ہے "۔ سدرہ نے تفصیل سے بتایا۔


حسام جو بیہ کے برابر میں بیٹھا ہوا بیہ کے بالوں کو کبھی اپنی انگلی میں لپیٹ لیتا تو کبھی چھوڑ دیتا اُس نے بھی اس بات پر بیہ کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں خوشی کے تاثرات تھے ۔


سب بڑے اس وقت اپنے کمروں میں تھے صرف نوجوان پارٹی ہی لاؤنچ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ لیزا کب سے اپنے اوپر پارٹی شاداب کی نظروں کو محسوس کر رہی تھی سلگتی ہوئی نظریں جو اُسکا وجود جلا رہی تھی ۔ وہ بار بار اپنا پہلو بدل رہی تھی ۔ جبکہ اُس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر شاداب کو نہیں دیکھا تھا ۔ صبح اُسکی طرف دیکھنے کی غلطی کر گئی تھی لیکن اب وہ اُسکی لہو رنگ ہوئی آنکھیں برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔


" یہ کیا بات ہوئی رات کو کون سا فنکشن ہوتا ہے اور اس میں لڑکیاں ہی کیوں شادی ہماری بھی ہے ہم بھی فنکشن میں آئے گے " ۔ زرقان نے اعتراض کیا ۔ جبکہ اُسکی بات پر سب لڑکوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔


کامل خضر عروہ اور عزیر کو ساتھ لیے بیٹھے اپنی اپنی بیگمات کی طرف دیکھتے مسکرا اٹھے تھے۔ وہ لوگ اپنا وقت جی چکے تھے اب ان لوگوں کی باری تھی ۔


" لیکن یہ لڑکیوں کا فنکشن ہوتا ہے بھئی ۔۔اس میں آپ لوگوں کا کیا کام " ۔ انابیہ نے جھٹ سے حسام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ لیکن حسام کی سیاہ آنکھوں میں نظر آتی وارننگ کو دیکھتے وہ چپ ہوئی ۔


رات کا فنکشن تھا مطلب وہ رات بھر اُس سے دور رہتی اور حسام ملک یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔


" نہیں بس اگر کوئی فنکشن کرنا ہے تو ساتھ ہی ہوگا ورنہ نہیں یہ کیا بات ہوئی بھلا کہ پوری رات تم لوگ الگ انجواۓ کرتے پھرو اور ہم بیچارے اکیلے رہے " ۔ زرقان کے تو اندر جیسے آگ ہی لگ گئی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ آمنہ اُس سے الگ رہے گی کچھ یہی حال جنید کا تھا البتہ شاداب تو ویسے ہی جلتے توے پر بیٹھا ہوا تھا لیزا کو یہاں دیکھتے ۔ آمنہ نے زرقان کی بات پر اپنی چھوٹی سی ناک کو غصے سے پُھلاتے اُسکی طرف دیکھا زرقان اپنے میوٹ اسپیکر کو غصے میں دیکھتے اُسکی ناک کو اپنی دو انگلیوں سے دبا گیا۔


" ہاں یہ فنکشن ہوگا اور آپ لوگوں کو کون منع کررہا ہے اکیلے رہے آپ لوگ بھی ساتھ میں بیچلر پارٹی منا لے نہ " ۔ سدرہ نے فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھتے قمر پر ہاتھ ٹکائے تیزی سے کہا ۔


اُسکے کہنے پر آمنہ اور انابیہ نے بھی اثبات میں سر ہلایا زوروشور سے ۔


" جب فنکشن کرنا ہی ہے تو ساتھ کرتے ہے بات ختم " ۔ حسام کی اب برداشت سے باہر ہوا تھا اُس نے سنجیدگی سے کہتے بیہ کا چہرہ دیکھا جو یکدم مرجھا گیا تھا۔


" بھائی پلیز " ۔ سدرہ نے حسام کی بات سنتے کامل اور خضر کی طرف دیکھا۔


" بچیاں جو چاہتی ہے وہ وہی کرے گی اُنہیں برائڈل شاور کرنا ہے تو وہ کرے گی اور تم لوگوں کے پاس بھی آپشن ہے اگر کرنی ہے پارٹی تو بتا دو شاداب دیرے پر انتظام کروا لے گا اگر نہیں تو حویلی کی چھت پر اکیلے بیٹھ کر مچھر مارنا ٹھیک ہے " ۔ خضر کے سنجیدگی سے کہنے پر لڑکیوں کا چہرہ کھل اٹھا جبکہ سب لڑکوں نے منہ بنایا۔


" ٹھیک ہے پھر ہم کیوں پیچھے رہے ہم بھی کرے گے بیچلر پارٹی ۔۔۔" ۔ جنید نے کہتے پارٹی لفظ پر زور دیا ۔ سدرہ نے اُسے دیکھتے اپنی آنکھیں گھمائیں۔


حسام کا چہرہ بھی سنجیدہ ہوا پر وہ کامل اور خضر کے آگے نہیں بول سکتا تھا بیہ کے ساتھ ساتھ اب وہ خود بھی کامل اور خضر کو بڑے بھائی کا مقام دے چکا تھا ۔


" چل شاداب اٹھ جا تیاری کروا دیرے پر ہماری پارٹی کی " ۔ انکھوں میں چمک لیے زرقان نے آمنہ کے چہرے کو دیکھتے اپنی آنکھوں سے حسام اور جنید کی طرف ایک آنکھ ونک کی ۔


اور اسکی اس حرکت پر اُن سب لڑکیوں کی آنکھیں چھوٹی ہوئی ۔


" چلو لڑکیوں جاؤ تُم لوگ بھی تیاری کرو ہم بھی بچوں کو سلا کر اتے ہے " ۔ شجیہ نے اپنے بھرے بھرے وجود کو سمنبهالتے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔

بیہ نے ایک نظر حسام کو دیکھا جو اب اُسکی طرف نہیں کے دیکھ تھا تھا موبائل میں مصروف ہوگیا تھا۔ اتنی دیر سے وہ بیہ کے بالوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اب یوں ۔۔بیہ سمجھ گئی وہ اُس سے ناراض ہوگیا ہے ۔لیکن اُسے بعد میں منانے کا سوچتے ہوئے وہ لڑکیوں کی طرف بڑھ گئی ۔


شاداب لیزا کے جگہ سے اٹھنے پر خود بھی اپنی جگہ سے اٹھا ۔اور لیزا کے راستے میں اپنا پاؤں اٹکایا۔۔۔لیزا جو اپنے ہاتھوں پر نظریں ٹکائے تیزی سے آگے بڑھنا چاہ رہی تھی جان خلاصی جو ہوگئی تھی شجیہ کے کہنے پر ۔۔۔وہ بس جلدی سے شاداب کی نظروں سے غائب ہونا چاہتی تھی یکدم وہ لڑکھڑا کر گرتی جب شاداب نے اپنا مضبوط ہاتھ اُسکے پہلو سے گزار کر پیٹ پر رکھتے اُسے سنبھالا اور یکدم اُسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا ۔


لیزا اپنی سانس تک روک گئی پہلو پر محسوس ہوتے شاداب کے لمس کی وجہ سے ۔۔۔شاداب کی گہری تپش زدہ سانسیں اُسکے کان کی لو پر پڑ رہی تھی دل کی رفتار حد سے زیادہ تیز ہوئی۔


" انسان کو اپنی خوشیوں میں اتنا اندھا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ لڑکھڑاتا پھرے ۔۔۔لیکن تمھاری غلطی بھی نہیں ہے جو انسان کسی کے دل کو اُسکی خوشیوں کو بیدردی سے قتل کر کے دفنا دے اور پھر اُسکی قبر پر اپنا محل تیار کرتا ہے وہ ایسے ہی لڑکھڑاتا پھرتا ہے " ۔


زہر میں ڈوبے لفظوں کی سرگوشی سنتے لیزا کی آنکھیں پل میں نمکین پانی سے بھری ۔۔۔اُس نے ایک جھٹکے سے اپنا چہرہ موڑتے شاداب کی سبز لال آنکھوں میں دیکھا ۔


شاداب نے لیزا کی شربتی بھیگی آنکھوں میں دیکھا تو ان آنکھوں میں واضح نظر آتی تکلیف اور شکوہ پر وہ اپنے لب بھینچ گیا۔ لیزا نے شاداب کا ہاتھ اپنے پہلو سے ہٹاتے اپنے بہتے آنسو کو بیدردی سے رگڑ کر صاف کیا اور اُس سے اپنی نظریں پھیرتے آگے بڑھتی چلی گئی ۔


شاداب نے اُسکے اس طرح نظریں پھیر لینے اور اُن نظروں میں نظر آتی تکلیف دیکھتے وہ اپنی مٹھیاں بھینچ گیا ۔ دل لیزا نے اُسکا توڑا تھا تو پھر وہ کیوں اُسے شکوہ کن نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔


اپنی مٹھیاں بھینچے اُس نے باہر کی راہ لی .


💗💗💗💗


حویلی کے پچھلے لون میں چاروں طرف بڑے پردے لگائے گئے تھے جبکہ اندر کا ماحول انتہائی دلکش تھا ۔ اتنے کم وقت میں بھی کامل اور خضر نے لڑکیوں کے لئے بہترین برائڈل شاور کا انتظام کر دیا تھا ہر طرف دھیمی لائیٹس جل رہی تھی گولڈن رنگ کی ہلکی ہلکی لائیٹس ٹینٹ کی چھت سے لگی ستاروں کی مانند لگ رہی تھی سامنے کی طرف ایک چھوٹا سا اسٹیج بنایا گیا تھا جسے پھولوں اور لائیٹس سے سجایا گیا تھا ۔ اسٹیج سے نیچے کچھ فاصلے پر کرسیاں رکھی گئی تھی ۔ ایک طرف بڑا ٹیبل رکھا گیا تھا جہاں مختلف قسم کی کھانے کی چیزیں رکھی ہوئی تھی ۔ ایک طرف ساؤنڈ سسٹم رکھا گیا تھا جہاں ایک لڑکی ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔


شجیہ فلک کے ساتھ ساتھ حویلی میں موجود تمام لڑکیاں یہاں موجود تھی اور انکے بیچ لیزا بھی تھی جو اورنج رنگ کی ریشمی ساڑھی میں بالوں کی سائڈ چوٹیاں باندھے۔ بالوں کی کچھ لٹیں چہرے پر پھیلائے اپنے بڑے سے پلو کو صحیح کرتی وہاں موجود انتظام دیکھ رہی تھی ۔ اپنے آپ کو وہ حد درجہ سنبھال چکی تھی اُسکی دوستوں کی خوشی کی خاطر اپنی شادی سے تو وہ خوش نہیں تھی لیکن اپنی دوستوں کے لیے وہ بیحد خوش تھی ۔ اسی لیے اپنے غم کو ایک سائڈ پر رکھتی وہ سب سے ہنستے ہوئے مل رہی تھی ۔


" لیزا کہاں ہے وہ سب جنکے لیے یہ سب کروایا گیا ہے " ؟ فلک نے انابیہ آمنہ سدرہ کو یہاں نہ پاتے ہوئے اُنکے بارے میں پوچھا ۔


" بس آپی وہ لوگ انے والی ہے " ۔ لیزا نے سلک کی گولڈن رنگ کی ساڑھی میں تیار بیٹھی فلک کو دیکھتے رسانيت سے جواب دیا۔ شجیہ بھی اپنے بھرے بھرے وجود پر آسمانی رنگ کی ساڑھی پہنے تیار بیٹھی ہوئی تھی ۔


جبکہ کچھ لوگ تھے جنکی نظریں حویلی کی چھت سے نظر آتے اس ٹینٹ کے اندر جمی ہوئی تھی جس میں سے ایک تو جیسے اورنج رنگ کی ساڑھی میں تیار لیزا کو دیکھتے اپنی جگہ جم گیا تھا جبکہ باقی تینوں اپنی آنکھیں چھوٹی کیے اپنی اپنی والیوں کو ڈھونڈنے میں مصروف تھے ۔ حویلی کی چھت سے وہ با آسانی ٹینٹ کے اندر دیکھ پا رہے تھے ۔


" کہاں ہے میری بیوی " ؟ جنید نے بیتابی سے اپنی نظریں سدرہ کی تلاش میں گھماتے ہوئے ہلکی آواز میں کہا ۔


" اپنی بیوی کو چھوڑو پہلے دیکھ اؤ ایک بار کہ چھت کا دروازہ بند کیا ہے ایسا نہ ہو کامل بھائی آجائے " ۔ زرقان نے کامل کو یاد کرتے ہوئے کہا کیونکہ اس نے ان سب کو منع کردیا تھا گھر کے اندر انے سے بھی ۔۔۔بقول کامل اور خضر کے اُنکی بہنیں اپنی شادی کھل کر انجواۓ کرنا چاہتی ہے جو ان لڑکوں کی وجہ سے وہ کر نہیں پائے گی .


" اوئے شاداب جا یار دیکھ کر آ " ۔ حسام نے شاداب کے سٹل وجود کو دیکھتے کہا۔


شاداب کو اپنی جگہ سے نہ ہلتے دیکھ اُن تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اُسکی نظروں کے تعاقب میں لیزا کو دیکھتے وہ تینوں ہی اپنی آبرو اچکا گئے۔


" شاداب " !!!! ۔ اُن تینوں نے ایک ساتھ اُسکے کان کے پاس ہوتے کہا ۔


" کیا ہے یار " ۔ شاداب اپنے کانوں میں پڑتی تیز آواز سنتے جھنجھلاتے ہوئے چیخا دیدار می خلل جو پڑ گیا تھا لیکن اُن تینوں کے سنجیدہ چہرے اور اُٹھی ہوئی آبرو دیکھتے وہ فوراً سے سیدھا ہوا۔


" بند ہے دروازہ میرے بھائیوں بند ہے " ۔ اپنا کولر ٹھیک کرتے شاداب نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا۔ جب لیزا کی مائک سے گونجی آواز پر وہ سب اُسکی طرف متوجہ ہوئے ۔ ۔


" سو لیڈیز اینڈ جنٹلمین ۔۔۔اوہ سوری سوری صرف لیڈیز ۔۔۔تو جیسا کہ آپ سب جانتی ہے کہ یہ برائڈل شاور ہماری پیاری پیاری دلہنوں کے لیے رکھا گیا۔۔۔۔آف کورس میں بھی اُن دلہنوں میں شامل ہوں ۔۔۔لیکن لیکن۔۔۔آپ سب مجھ سے مل چکے ہو ۔۔تو اب آپکو ملواتے ہے باقی تین پیاری اور حسین دلہنوں سے ۔۔سو اپنے دل تھام لے "۔ لیزا نے مائک ہاتھ میں لیتے بڑے شوخی بھرے لہجے میں کہا ۔


" آواز کتنی پیاری ہے نہ " ۔ شاداب تو اُسکا یہ شوخی بھرا انداز دیکھتے اپنے دل پر ہاتھ رکھ گیا تھا اس وقت اُسکا حسین چہرہ دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گیا تھا ۔ شاداب کی بات پر اُن تینوں نے پھر اُسے تیز نظروں سے گھورا چاروں حویلی کی چھت کی ریلنگ کے پاس کھڑے تھے۔


" بھابھی ۔۔بھابھی آرہی ہے " ۔ شاداب نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے اُن کی طرف دیکھتے کہا ۔ سب سے زیادہ جان تو اُسکی حسام کی کالی سنجیدہ آنکھوں کو دیکھ کر جاتی تھی ۔


" تو سب سے پہلے آپکو ملواتے ہے سمندر جیسی آنکھوں والی اس نازک سی دلہن سے ۔۔۔جو ایک گڑیا کے مانند ہے ۔۔جو وہ کہنا چاہتی ہے وہ اُسکی آنکھیں اُسکے بولنے سے پہلے کہہ دیتی ہے ۔۔ایسی شفاف آنکھوں والی لڑکی ۔۔۔اپنے شوہر کی میوٹ اسپیکر اور ایک خاص بات بتاؤ ۔۔انکے شوہر انکے ہاتھ کے بنے کیک کے دیوانے ہے " ۔ لیزا نے چہرے پر جاندار مسکراہٹ سجائے کہتے تالیاں بجائی ۔ شجیہ فلک عزیر عروہ خوشبو کے ساتھ ساتھ وہاں موجود تمام لڑکیاں تالی بجانے لگی ۔


جبکہ اسکے اس تعارف پر زرقان کے لبوں پر مسکراہٹ جم ائی ۔۔وہ حیران بھی ہوا کہ لیزا کو کیسے پتہ کہ وہ اُسے میوٹ اسپیکر بلاتا ہے ۔۔۔یقیناَ امنہ نے ہی اُسے بتایا ہوگا۔ اُسکی نظریں بھی اب بیتابی سے اپنی بیوی کو ڈھونڈنے لگی


جب لیزا کے پیچھے ایک اسپاٹ لائٹ آن ہوئی اور لائٹ پنک رنگ کی ساڑھی جسکا پلو کندھے سے ہوتے ہوئے زمین پر گرا ہوا تھا گولڈن بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے اور بالوں کے بیچ میں دونوں اطراف سے لٹو کو لیتے پیچھے پن کیا ہوا تھا۔ پنک رنگ کے پھولوں کے گجرے کو لگائے وہ نمودار ہوئی ۔


وہ پشت کیے کھڑی تھی لیکن زرقان اُسے بنا دیکھے ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ کس قدر حسین لگ رہی ہوگی ۔۔اُسکی آنکھوں میں چمک بڑھی تھی ۔۔آس پاس کی ساری آوازیں انا ختم ہوئی سارا فوکس اُسکی اپنی بیوی تھی ۔ فظا میں ہلکے ہلکے میوزک کی آواز گونجنے لگی ۔ اور ایک جادوئی سا ماحول بنا ۔۔


" کسی شام کی طرح تیرا رنگ ہے کھلا ۔۔

میں رات ایک تنہا تو چاند سا ملا " ۔۔


وہ پلٹی اور زرقان جہاں تھا وہی رہ گیا ۔۔اس قدر حسین ۔۔افف وہ لفظوں میں اُسکی کیا تعریف کرتا اُسکی تعریف کے لئے لفظ کم تھے ۔۔


گلابی ریشمی ساڑھی میں اُسکا نازک سراپا جو قیامت ڈھا رہا تھا ۔۔اُسکے لب جنہیں مزید گلابی لب سے رنگ لیا گیا تھا ۔ اور پھر چھوٹی سی ناک جس میں پہنی وہ چھوٹی سی نگ والی نوز پن جو دور سے ہی چمکتی ہوئی دکھ رہی تھی ۔۔جیسے آسمان سے ایک تارا توڑ کر کسی نے اُسکی ناک پر سجا دیا ہوا ۔۔اور پھر اُسکی قاتلانہ آنکھیں ۔۔سمندر جیسی ۔۔جن میں کاجل کی لکیر کھینچتے اُنہیں مزید حسین کردیا گیا تھا ۔ ہاتھوں میں بھر کر گلابی چوڑیاں پہنی ہوئی تھی ۔۔۔لبوں پر جمی مسکان ۔۔وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی ۔ ہیزل بلو آنکھوں میں الگ سی چمک تھی ۔ سب ہی آنکھوں میں محبت اور ستائش لیے اس گولڈن بالوں والی گڑیا کو دیکھ رہی تھی جو حد سے زیادہ حسین تھی۔


" ہاں تُجھے دیکھتا رہا کسی خواب کی طرح ۔۔

جو اب سامنے ہے تو کیسے یقین بھلا ۔۔۔


گانے کے بول اُسکے دل کی حالت کو بیان کر رہے تھے وہ اُسے ایسے ہی تو دیکھ رہا تھا جیسے خواب ہو ایک حسین خواب ۔


" ٹوٹا جو کبھی تارا سجنا وے تُجھے رب سے مانگا ۔۔رب سے جو مانگا ملیہ وے تو ملیہ تو جانے نہ دونگا میں "


واقعی وہ اُسے کہیں نہیں جانے دینے والا تھا وہ آمنہ کو اپنے سینے میں چھپاتے اپنے قریب ہی رکھے گا ہمیشہ یہ زرقان نے خود سے وعدہ کیا وہ قدم قدم آگے بڑھاتی شجیہ اور فلک تک اتے اُن سے ملتے اُنکے برابر میں بیٹھ گئی تھی ۔ اور زرقان کی نظریں بس اُسی پر ٹک گئی تھی ۔

" تو اب باری ہے ہماری دوسری دلہن کی ۔۔یہ تھوڑی نہیں نہیں بہت نٹ کھٹ ہے ۔۔براؤن آنکھوں والی شرارتی گڑیا ۔۔تیکھی مرچ بھی آپ انہیں کہہ سکتے ہیں ۔۔اور انکے شوہر انہیں پیار سے جانو بلاتے ہیں ۔۔۔کیوٹ ہے نہ " ۔ لیزا کے کہنے پر جنید کی دل کی دھڑکن بڑھی جبکہ چہرہ بھی لال ہوا اُس نے گڑبڑا کر اُن تینوں کی طرف دیکھا جو اپنے چہرے جھکائے مسکراہٹ ضبط کر رہے تھے۔ جنید نے دانت پیسے وہ ان تین مہینوں میں اُسے پیار سے جانو بلاتا تھا اُسے بلکل اندازہ نہیں تھا سدرہ یہ بات بھی بتا دے گی ۔۔


پر وہ یہ کیسے بھول گیا تھا جو کام جنید سوچتا تھا سدرہ نہیں کرے گی وہی کام سدرہ نے کرنا ہوتا تھا ۔


اسپاٹ لائٹ ایک بار پھر سے جلی اور وہ نظر ائی ۔۔براؤن ریشمی ساڑھی میں آمنہ کی طرح پلو کندھے سے لیے زمین پر گرائے اپنے براؤن بالوں کو ایک کندھے پر ڈالے ۔۔ جنید کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی ۔ اُسکی نظریں اُسکی پشت پر جم گئی ۔ جب وہ پلٹی ۔


" ہاں میں نے سنی ہے پریوں کی کہانی

ویسا ہی نور تیرا چہرہ ہے تیرا روحانی "


براؤن بالوں کو کندھے سے آگے کیے ہلکی براؤن رنگ کی لپ اسٹک لبوں پر لگائے ۔۔جو اُسکی گوری رنگت میں جج رہی تھی ۔ ہلکا ہلکا مکیپ اُسکے نقوش کو ابھار گیا ۔ کانوں میں ڈائمنڈ ٹاپس پہنے اور اُسکے ساتھ کا گردن میں پینڈینٹ پہنے وہ براؤن آنکھوں میں خوشی کی چمک لئے ایک ادا سے پلٹی تھی کہ اُسکے بال ایک ادا سے گھومتے اُسکی پشت پر آئے تھے ۔ جنید کی دل کی دھڑکن اتھل پتھل ہوئی تھی بس نہ چلا اُسکے نازک سجے ہوئے روپ کو اپنے پاس لے آئے انتہائی پاس ۔۔۔


گانے کے بول غلط تھے اُسکی بیوی پریوں سے زیادہ حسین تھی بہت حسین ۔


" آ تُجھ کو میں اپنی ۔۔اجا میری باہوں میں چھپا لو

اپنی اس زمین کو کردو میں آسمانی " ۔۔


گانے کے بول ادا ہوئے اور وہ ایک ادا سے اپنا ہاتھ کسی شہزادی کی طرح ہلاتے آگے بڑھی ۔۔گانے کے بول جنید کے دل کی ترجمانی کر رہے تھے اُسکا دل بھی تو یہی چاہ رہا تھا اُسے اپنی باہوں میں چھپا لے ۔ جبکہ سدرہ کے یوں ہاتھ ہلانے پر وہ نفی میں سر ہلاتے ہنس دیا ۔۔اُسکی بیوی ایک ڈراما تھی ۔۔


سدرہ بھی اتے آمنہ کے ساتھ بیٹھی تھی ۔


💗💗💗💗💗


" اہم اہم۔۔۔تو دو دلہنوں سے تو آپ مل لیے ہے جو بہت حسین لگ رہی ہے ۔۔تو اب آپکو ملواتے ہے تیسری دلہن سے جو ہم سے کے دل کے بہت قریب ہے " ۔ لیزا نے سب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ حسام کی تمام حسیات کا محور اب وہ جگہ تھی جہاں اسپاٹ لائٹ جلنی تھی اب یقیناً اُسکی بیہ نے انا تھا دل بیقراری سے اُسکے دیدار کے لیے تڑپ رہا تھا۔


" تو اب ذرا دلوں کو تھامے۔۔کیونکہ یہ جو دلہن ہے نہ یہ بہت خاص ہے سب کے دلوں کے قریب ۔۔سیاہ کالی گھٹا جیسی غزالی آنکھوں والی لڑکی ۔۔من موہنی سی نازک سی ۔۔۔۔محبت میں دیوانی لڑکی ۔۔۔جو سر سے پیر تک سراپا محبت ہے ۔۔۔۔اپنے حسام کی یارا ۔۔اُنکی بیہ ۔۔اُنکی زندگی ۔۔انکا سب کچھ " ۔ لیزا کے بولنے پر سب نہ زورو سے تالیاں بجائی ۔۔جبکہ حسام مسکرا گیا اُسکے اس تعارف پر ۔۔


اسپاٹ لائٹ جلی کالے گھنے بال پشت پر پھیلے نظر آئے جو قمر تک تھے ۔۔اُن پر لگے چھوٹے چھوٹے سے موتیے کے پھول ۔۔اُسکے اتنے ہی دیدار پر حسام ملک کی دل کی دنیا اُلٹ پلٹ گئی تھی آگے تو وہ شاید سانس لینا بھول جاتا ۔


" چہرہ اک پھول کی طرح شاداب ہے

چہرہ اسکا ہے یا کوئی مہتاب ہے

چہرہ جیسے غزل چہرہ جانِ غزل

چہرہ جیسے کلی چہرہ جیسے کنول

چہرہ جیسے تصور بھی تصویر بھی

چہرہ اک خواب بھی چہرہ تعبیر بھی

چہرہ کوئی الف لیلوی داستاں

چہرہ اک پل یقیں چہرہ اک پل گماں

چہرہ جیسا کہ چہرہ کہیں بھی نہیں

ماہ رو ماہ رو، مہ جبیں مہ جبیں"


گانے کے یہ مخصوص بول جیسے ہی گونجے ویسے ہی وہ پلٹی جس نے بھی گانا لگایا تھا بلکل صحیح لگایا تھا ۔ کیسری رنگ کی ساڑھی پہنے ۔۔اپنی سیاہ آنکھوں کو پلکوں کے نیچے چھپائے گالوں پر قدرتی توڑ پر لالی چھائی ہوئی تھی گلابی لبوں پر گہری سرخ رنگ کی تہہ لگائی گئی تھی ۔۔کانوں میں جھمکے ڈالے بالوں کی مانگ نکالے اُنہیں دونوں سائڈ سے تھوڑا سا پیچھے کو پن کیا ہوا تھا ۔ ہاتھوں میں سٹیل کی بھر بھر کر چوڑیاں پہنے ۔ وہ اپنے ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھی ۔ اُسکا حسین چہرہ واقعی ایک پھول مہتاب غزل خواب تعبیر سب کچھ تھا ۔ وہ حسام ملک کی دل کی سلطانہ تھی ۔اور ہمشہ وہی رہنے والی تھی ۔ حسام کے دل کی دھڑکن حدوں سے تجاوز کر گئی تھی ۔


پھر ایک ایسا لمحہ ایا جب حسام ملک کو لگا واقعی وہ خود پر ضبط نہیں کر پائے گا اُسکا دل اُسکے سینے سے نکل جائے گا ۔۔۔بیہ نے اپنی پلکیں اٹھائی ۔۔سیاہ گھٹور جیسی آنکھوں سے پلکوں کا چھل من ہٹا تو وہ سُرمہ سے بھری آنکھیں اور اچانک سے سرخ لبوں سے رنگے ہونٹوں پر اتی مسکراہٹ کو دیکھتے حسام ملک بیساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ گیا ۔


" حسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں

حسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں

آفریں آفریں

آفریں آفریں

تو بھی دیکھے اگر تو کہے ہمنشیں

آفریں آفریں

آفریں آفریں

حسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں "


بیہ کی تعریف واقعی ممکن نہیں تھی وہ سب کو دیکھتے ہوئے کبھی اپنی پلکیں جھکا لیتی تو کبھی اٹھاتے اُن سب کو دیکھتی آگے بڑھ رہی تھی ۔ لبوں پر شرمگیں مسکراہٹ نے اُسے اور حسین بنا دیا تھا ۔ سانولی رنگت کی حامل یہ گڑیا اپسراؤں کو بھی شکست دے سکتی تھی ۔ قدم با قدم چلتی وہ آمنہ کے پاس اتے بیٹھ گئی تھی۔


لیزا اور کچھ بھی بول رہی تھی لیکن وہ سب سن کہاں رہے تھے اُنکی نظروں نے تو اپنی اپنی بیویوں پر سے ہٹنے سے انکار کر گیا تھا جبکہ شاداب کی نظریں لیزا پر ٹکی تھی ۔


کب چھت کا دروازہ کھلا کب خضر اور کامل اُن چاروں کی پشت پر آکر رکے اُنہیں پتہ ہی نہیں چلا۔ ۔


" پیاری لگ رہی ہے نہ " ؟ کامل نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے پوچھا ۔


" ہاں بہت " ۔ چاروں نے یک زبان کہا ۔


" ماشاءاللہ بول لو پھر کہیں تم سب کی نظر نہ لگ جائے " ۔ خضر کے طنزیہ کہنے پر اُن سب نے ہڑبڑا کر اپنی نظریں نیچے لون سے ہٹاتے ایک دوسرے کی طرف کی ۔


" بول دے کہ تو سچ میں دروازہ بند کرکے ایا تھا اور کامل اور خضر بھائی یہاں نہیں ہے " ۔ زرقان نے بنا پلٹے ہی شاداب سے پوچھا ۔


جس نے اُسکی بات پر ایک نظر پیچھے کامل اور خضر کے سخت تاثرات لیے چہرے کو دیکھا اور پھر تھوک نگلتے اُن تینوں کو جو کھا جانے والی نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہے تھے ۔


" وہ میں نے بند کی تھی شاید خودی کھل گئی " ۔ شاداب کے کہنے پر اُن تینوں کے چہرے مزید سخت ہوئے ۔ ۔


ہاں دروازے کی کنڈی کے دو ہاتھ تھے اُس نے دیکھا کہ جناب شاداب خان اُسے بند کر گئے ہے تو خود کو کھول کر بیٹھ گئی ہے نہ " ۔ حسام دانت پیستے ہوئے شاداب کی شکل دیکھتے ہوئے کہا۔


" بس کرو تم سب " ۔ کامل کی بات پر وہ تینوں شاداب کو چھوڑتے پلٹتے اُن دونوں کی طرف متوجہ ہوئے ۔


" کیا کر رہے ہو تم سب یہاں دیرے پر نہیں ہونا چاہئے تھا تم سب کو " ۔ خضر نے آبرو اچکا کر سنجیدگی سے پوچھا ۔


" ہم دیرے پر ہی جا رہے تھے بھائی ۔۔یہ شاداب زبردستی ہمیں یہاں لایا تھا چلو چلتے ہے دیرے پر دیر ہو رہی ہے " ۔ زرقان نے ساری بات شاداب کی طرف ڈالی اور آگے بڑھا ۔ شاداب نے گڑبڑا کر اُسکی طرف دیکھا ۔۔کیونکہ وہی تھا جس نے چھت سے دیکھنے کا آئیڈیا دیا تھا ۔


جنید اور حسام بھی سنجیدگی سے زرقان کے پیچھے بڑھ گئے ۔۔شاداب نے ایک نظر کامل اور خضر کو دیکھا پھر کھسیانی ہنسی ہنس دیا ۔


" میں بھی جاتا ہوں " ۔ جلدی سے کہتے وہ اُنکے پیچھے بھاگا ۔


" اللہ انکی خوشیاں ایسے قائم رکھے " ۔ اُن چاروں کے جاتے ہی کامل نے صدق دل سے دعا کی ۔


" آمین " ۔ خضر نے بھی امین کہا ۔ اور ایک نظر چھت سے اپنی اپنی بیویوں کو دیکھا جو سب کے بیچ بیٹھی ہنس رہی تھی ۔ بیشک زندگی بہت حسین تھی ۔۔


💗💗💗💗💗


" یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے اگر تو دروازہ بند کر دیتا تو ہم یہاں دیرے پر نہیں بیٹھے ہوتے " ۔ جنید نے جلے بھنے انداز میں کھا جانے والی نظروں سے شاداب کو دیکھتے کہا ۔


" ہاں اب یہاں بیٹھ کر کیا کرے " ؟ زرقان نے بھی اُسے تیز نظروں سے گھور کر دیکھا البتہ حسام خاموش تھا ۔ اُن تینوں کی ہی نظروں کے پردوں پر اپنی اپنی بیویوں کا حسین سراپا چھپ گیا تھا ۔ دل سب چیزوں سے اچاٹ ہوگیا تھا۔


" ارے یار میرے پیارے سے بھائیوں میں ابھی آپ سب کا مسئلہ ختم کر دیتا ہُوں " ۔ شاداب نے کہتے دیرے کے اس کمرے میں موجود دیوار پر لگی ایل ای ڈی اون کرتے اُس میں ایما اسٹون کی مووی لگا دی۔ جبکہ ایک ملازم نے اندر اتے سارے کھانے کا سامان اُنکے آگے سجایا ۔ جسکا انتظام شاداب پہلے سے کروا چکا تھا ۔ زیادہ اہتمام اُن لوگوں نے نہیں کیا تھا کیونکہ اُن سب کا یہاں انے کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ تو بس چھت سے اپنی اپنی زوجہ کو تکنے کا ارادہ کر بیٹھے تھے۔۔۔لیکن پکڑے جانے کی وجہ سے اب اُنہیں یہاں انا پڑا تھا۔


مووی لگنے کی دیر تھی حسام زرقان اور جنید یکدم سیدھے ہوتے بیٹھے۔


" اُن کو کرنے دے وہاں انجواۓ ہم یہاں کرتے ہے " ۔ شاداب مووی لگاتے واپس اپنی جگہ پر بیٹھا اور وہ تینوں محویت سے ایل ای ڈی کی جانب متوجہ ہوئے ۔


" حسام بھائی آپ بڑا غور سے دیکھ رہے ہیں ہیروئن کو خیریت تو ہے نہ " ۔ حسام کی نظریں صرف ہیروئن پر جمی دیکھ شاداب نے اپنے موبائل کو جیب سے نکالتے اُن تینوں پر فوکس کرتے ہوئے پوچھا ۔


" میری کرش ہے یہ ۔۔اسکی ایک بھی مووی میں نے نہیں چھوڑی سب دیکھی ہے " ۔ حسام نے لبوں پر مسکراہٹ جمائے اشتیاق سے ایل ای ڈی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔


" اوہ مطلب آپکو بہت پسند ہے یہ " ؟ شاداب نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اگلا سوال پوچھا۔


" ہاں بہت ۔۔۔لیکن میری بیوی سے زیادہ نہیں " ۔ بیہ کے ذکر پر اسکی سیاہ آنکھوں میں چمک بڑھی ۔


" ویسے ہے بھی بہت پیاری بلکل ایک گڑیا کی طرح ہیں نہ " ۔ جنید نے کہتے زرقان سے تصدیق چاہی ۔


" واقعی پیاری تو ہے آنکھیں زیادہ پیاری ہے " ۔ زرقان خان بھی کیوں پیچھے رہتے وہ بھی تعریف کر بیٹھے ۔ شاداب نے موبائل میں ریکارڈ ہوئی ویڈیو کو دیکھا اور جلدی سے وہ حصہ کٹ کیا جس میں حسام نے بیہ کی تعریف کی تھی اور یہ ویڈیو بیہ سدرہ اور آمنہ کے نمبر پر سینڈ کرتے سکون سے ایک گہرا سانس بھرتے بیٹھ گیا۔


💗💗💗💗


رات کے بارہ بج رہے تھے برائڈل شاور کب کا ختم ہوگیا تھا اُنہوں نے بہت انجوائے کیا تھا اب وہ اپنے اپنے کمرے میں بیٹھی شدت سے اپنے اپنے شوہروں کا انتظار کر رہی تھی تاکہ انہیں اپنا یہ سجا سورہ دلکش روپ دکھا سکے ۔


بیہ نے اپنے بالوں کو آئینے میں دیکھتے صحیح کیا ۔۔حسام کی ناراضگی کا خیال اتے ہی اُس نے ڈریسنگ ٹیبل سے لپ اسٹک اٹھاتے اپنے لبوں پر لگاتے سرخ رنگ کو مزید گہرا کیا ۔


" مجھے پتہ ہیں آپ مجھے اس روپ میں دیکھے گے تو یقیناً آپکی ناراضگی ختم ہوجائے گی " ۔ آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھتے بیہ نے تصور میں حسام کو سوچتے کہا ۔ اور اُسکی بےباک نظروں کا سوچتے وہ لال گلاب ہوئی ۔


" اتنی دیر ہوگئی ابھی تک آئے کیوں نہیں فون کرتی ہوں " ۔ بیہ نے دیوار گیر گھڑی پر نظر ڈالتے بیڈ پر پڑے اپنے موبائل تک اتے موبائل اٹھایا ۔ اُس نے پورے فنکشن میں موبائل نہیں ہاتھ میں لیا تھا سب کے ہی فون اُنکے کمرے میں تھے ۔


سکرین پر شاداب کی طرف سے موصول ہوئی ویڈیو کا نوٹیفکیشن دیکھتے بیہ نے اچھنبے سے وہ ویڈیو کھولی اور اُس میں نظر آتے حسام کے چہرے کو دیکھتے وہ مسکرا اُٹھی جب حسام کے لبوں سے ادا ہوئے لفظوں کو سنتے اُسکی مسکراہٹ سمٹی چہرے پر سختی چھائی ۔۔غصے سے چہرہ آگ بگولا ہوا ۔


اس نے دانت پیستے وہ ویڈیو پھر سے دیکھی ۔ اور غصے میں موبائل ایک طرف رکھتے وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ حسام کے ساتھ کیا کرنا ہے وہ سوچ چکی تھی ۔ ایک جلن سی تھی جو کسی اور عورت کی تعریف حسام کے لبوں سے سنتے اُسکے وجود میں سرائیت کرتی چلی گئی تھی ۔


💗💗💗💗


سدرہ بیڈ پر بیٹھی اپنی تھوڑی تلے ہاتھ رکھے گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں سوئیاں بارہ کا ہندسہ عبور کر گئی تھی ۔ اج وہ جتنی شدت سے جنید کا انتظار کر رہی تھی یہ وہی جانتی تھی وہ چاہتی تھی وہ اُسے اس روپ میں دیکھے اُسکی تعریف کرے ۔۔لیکن وہ جناب ابھی تک آئے ہی نہیں تھے۔


" ایک کام کرتی ہوں اپنی تصویر بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہو کیسے تم نہیں اتے جلدی " ۔ دانت پیستے کہتے اس نے اپنا فون پاس سے اٹھایا تاکہ تصویر لے سکے لیکن شاداب کی طرف سے انے والی ویڈیو کو دیکھتے اُسکی آبرو آپس میں ملی ۔۔غصے کے تحت چھوٹی سی ناک سرخ ہوئی ۔


" گڑیا ۔۔۔بتاتی ہوں میں تمہیں " ۔ گڑیا لفظ پر زور دیتے کہتے اُس نے زور سے موبائل بیڈ پر پھینکا ۔


اپنی ساری تیاری اُسے ضائع ہوتی محسوس ہوئی تھی ۔ وہ تو ویسے ہی ہولی وڈ فلم کا دیوانہ تھا ۔ پہلے کم تھی اُسکی پسندیدہ ہیروئن جو اب اُس لسٹ میں ایک اور شامل ہو گئی تھی ۔


وہ الگ بات تھی کہ وہ اُن ہیروئن کی تعریف کرنے کے بعد سدرہ کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیتا تھا ۔ کبھی اپنے عملی اظہار سے تو کبھی لفظی اظہار سے اور سدرہ اپنی جلن کو بھول جاتی تھی لیکن اُسے اپنے شوہر کے منہ سے نہیں برداشت تھی کسی دوسری عورت کی تعریف ۔۔


غصے کی حدت سے سرخ چہرہ لیے وہ اب اور شدت سے جنید کا انتظار کر رہی تھی ۔


💗💗💗💗💗


" زرقان کہاں ہے آ بھی جائے " ۔ آمنہ نے ٹائم کو دیکھتے دل میں کہا ۔۔اُسکی آنکھیں اب نیند سے بند ہو رہی تھی لیکن وہ جانتی تھی جب تک زرقان کے مضبوط بازؤں کا گھیرا اُسکے گرد نہیں بندھے گا وہ سکون سے سو نہیں پائے گی ایک تو اس ساڑھی سے وہ بے سکون میں تھی پہلی بار ساڑھی پہنی تھی وہ با مشکل سمنبهال رہی تھی ۔


" گیم کھیل لیتی ہوں جب تک وہ نہیں اتے " ۔ امنہ نے دل میں کہتے اپنے پاؤں بھی صوفے پر رکھتے صوفے کی پشت سے اپنی پشت ملائی اور پاس پڑا اپنا موبائل اٹھایا ۔


شاداب کا میسج اُسکے پاس بھی ایا تھا جو شائد اُسکا موبائل سائلینٹ پر ہونے کی وجہ سے اُسے پتہ نہیں چلا ۔ آمنہ نے جیسے ہی ویڈیو اوپن کی زرقان کے لبوں سے ادا ہوتے لفظوں کو دیکھتے اُسکی ہیزل بلو آنکھوں میں نمی چمکی ۔ نازک سا دل تھا اتنی اتنی باتوں پر ہی دکھ جاتا تھا ۔


" آپکو اُسکی آنکھیں اچھی لگتی ہے میری آنکھیں نہیں جبکہ اج سب نے میری انکھوں کی تعریف کی تھی " ۔ ویڈیو میں نظر آتے زرقان کے چہرے کو دیکھتے وہ نم نِگاہوں کو صاف کرتے دل میں بولی ۔


یکدم اُسکے پورے وجود میں غصّہ بھرا ابھی اگر وہ زرقان کی جگہ ہوتی اور کسی ہیرو کی تعریف کر دیتی تو زرقان نے جلتے توے پر بیٹھ جانا تھا ۔


" آئے ذرا آپ پھر بتاتی ہوں میں آپکو ۔۔اتنا تیار ہوئی آپکے لیے آئے ذرا آپ " ۔ زرقان کے چہرے کو اب غصے بھری نظروں سے دیکھتے خود سے کہتی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی کمرے میں ادھر سے اُدھر چلتے وہ زرقان کا انتظار کرنے لگی ۔۔نیند جو آ بھی رہی تھی اب وہ بھی ہوا ہوئی ۔


💗💗💗💗💗


وہ تینوں تیز تیز قدموں سے حویلی آئے تھے ۔۔انا تو جلدی چاہتے تھے لیکن شاداب نے دوسری مووی لگا دی تھی اسی وجہ سے اُنہیں دیر ہوگئی ۔


دل جیسے اب بیقراری سے اُنکے دیدار کو ترس رہا تھا ۔ اج جس طرح وہ تیار ہوئی حسین لگ رہی تھی وہ اُن تینوں کے جذبات کو ابھار گئی تھی ۔ جو بس اب اُنہیں باہوں میں لیے کے بعد ہی بجھنے تھے۔


تینوں کے کمرے ایک ہی راہداری میں تھے ۔ اُن تینوں کی عجلت دیکھتے شاداب گہر مسکرایا تھا۔


وہ تینوں اپنے اپنے کمرے کے باہر رکے ۔ کمرے کے اندر جانا چاہا لیکن شاید دروازہ لوک تھا ۔۔اُن تینوں کو اچنبھا ہوا۔


" بیہ "۔ حسام نے محبت سے کہتے دروازہ بجایا ۔ جب دروازہ کھلا اور تکیہ اُسکے مُںہ پر ایا اور ڈھرام سے دروازہ بند ہوا ۔ حسام نے حق دق ہوتے اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے پر لگتے تکیہ کو سنبھالتے دروازے کی طرف دیکھا جو پھر سے بند تھا۔ حسام کو اس طرح دیکھتے زرقان اور جنید نے اپنی ہنسی روکنے کے لیے اپنے منہ دوسری طرف کیے۔


" سدرہ " ۔ جنید نے اپنی ہنسی ضبط کرتے دروازہ بجاتے سدرہ کو آواز دی لیکن سیم وہی سین اپنے ساتھ ہوتے دیکھ اُسکی آنکھیں بھی حیرت سے پھیلی ۔

زرقان ابکی بار اپنی ہنسی پر قابو نہ پا سکا ۔


" لگتا ہے بھابھیاں ناراض ہے آپ دونوں سے " ۔ زرقان نے اُن دونوں کی طرف دیکھتے ہنستے ہوئے کہا ۔


" شٹ اپ" ۔ جنید اور حسام دونوں ایک ساتھ گرجے۔


" اوکے اوکے میں تو چلا اللہ حافظ " ۔ زرقان نے کہتے دروازہ بجایا ۔


" آمن …" ابھی اُسکے الفاظ بھی پورے نہیں ہوئے تھے جب اُسکے ساتھ بھی وہی ہوا جو جنید اور حسام کے ساتھ ہوا تھا ۔ اُسکی آنکھیں بھی بیقینںی پھیلی۔


تیز قہقہے کی آواز پر اُن تینوں نے پیچھے دیکھا جہاں شاداب کھڑا زور سے ہنس رہا تھا وہ سمجھ گئے اسی نے کچھ کیا ہے ۔


" کیا ۔۔۔۔کیا ہے تو نے " ؟ جنید نے اُسکے ہنستے وجود کو غصے سے دیکھتے پوچھا ۔


کچھ خاص نہیں بس آپکی ایما اسٹون کی تعریف والی ویڈیو اپنی بہنوں کو سینڈ کردی خیر آپ لوگ پریشان نہیں ہو میں نے آپکے لیے چھت پر سونے کا انتظام کروا دیا جانتا تھا ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے " ۔ شاداب نے ہنستے ہوئے کہا ۔ بنا اُن تینوں کی قہر بھری نظروں کو نوٹ کیے ۔


" اہمممم ۔۔۔اب میں چلتا ہوں سونے ۔۔کل بہت کام ہے " ۔ اُسکی نظر جیسے ہی اُن تینوں کی غصے بھری نظروں پر پڑی تو فوراً سے اپنی ہنسی کو ضبط کرتے کہتے وہ اگے بڑھنے لگا ۔


" ایسے کیسے آپ بھی اب ہمارے ساتھ چھت پر سوئے گے " ۔ حسام نے تیزی سے اُس تک اتے اُسکی گردن کو اپنے بازو میں جکڑے دانت پیستے ہوئے کہا۔


" یار بھائی چھوڑے سانس نہیں آرہی " ۔ شاداب نے اُسکی سخت گرفت محسوس کرتے با مشکل سانس لیتے کہا ۔


" لعنتی انسان تیرا وقت بھی آئے گا تبھی میں کہو ہمیں جلدی گھر کیوں نہیں انے دے رہا تھا " ۔ زرقان نے دانت پیستے کہا جبکہ اب اُن چاروں کے قدم چھت کی طرف تھے ۔


سارے ارمانوں پر تو پانی پھر گیا تھا ۔۔لیکن وہ دل ہی دل میں اپنی بیویوں سے بدلہ لینے کا سوچ چکے تھے ۔

سوات کی ان خوبصورت وادیوں میں شام کا وقت ہونے لگا تھا دھوپ کی شدت میں بھی کمی آگئی تھی ایسے میں حویلی کے وسیع لون میں چاروں طرف پردے لگاتے اُن پر چھت ڈالتے ٹینٹ کی شکل دی گئی تھی ۔ ٹینٹ کے اندر مایوں کی تقریب کے لحاظ سے گینڈے اور موتیے کے پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی ۔ بیٹھنے کا انتظام زمین پر کیا گیا تھا ۔ زمین پر آرام ده قالین بچھاتے اُس پر سفید چادر بچھاتے رنگ برنگے کشن وہاں رکھے گئے تھے۔ سامنے کی طرف دو بڑے جھولے رکھے گئے تھے جہاں ایک پر انابیہ اور لیزا اور دوسرے پر سدرہ اور آمنہ میکپ سے پاک چہرے لیے پیلے رنگ کی آدھی آستینوں والی کرتی کے نیچے کھلے پاجامے پہنے دوپٹے کو سر سے ٹکائے پیچھے کو پھیلائے کھلے بالوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں ۔ اور اس سادگی میں بھی وہ چاروں حد سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔


اُنکے سامنے ایک میز رکھی گئی تھی جس پر اُبٹن اور مہندی پڑی تھی جبکہ اُنکے بازؤں ہاتھوں اور چہرے پر بھی اُبٹن لگی ہوئی تھی ۔ وہ چاروں لبوں پر حسین مسکراہٹ سجائے سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔۔نہ جانے کون کون سی خواتین اُن تک اتے اُنہیں اُبٹن لگاتے پیار اور دعائیں دیتی جا رہی تھی اور وہ تینوں اُن کی ہر دعا پر آمین کہتی جا رہی تھی ۔ جبکہ لیزا کا دل جیسے مردہ ہوگیا تھا ۔ اُسکا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا لیکن پھر بھی وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے بیٹھی تھی۔


کل سے اُنہوں نے اپنے شوہروں کو دیکھا نہیں تھا دل میں بےچینی بھی تھی لیکن اس وقت اُنہیں اُنکی ایما اسٹون کی گئی تعریف پر حد سے زیادہ غصّہ بھی تھا ۔


آمنہ تو اپنی نظریں بار بار شرم سے جھکائے جا رہی تھی اج صبح ہی زرقان کے والدین بھی سوات حویلی اگئے تھے اور اتے ساتھ وہ جیسی اپنائیت اور محبت سے آمنہ سے ملے تھے ۔ آمنہ کو اتنی ہی خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔


" آمنہ ضد نہیں کرو يہ پی لو بیٹا ابھی بہت دیر ہے تقریب کے ختم ہونے میں " ۔ نجمہ بیگم کی آواز پر انابیہ نے آنکھوں میں حسرت لیے اُنکی طرف دیکھا جو بہت محبت سے آمنہ کا خیال رکھ رہی تھی ۔ شدت سے اپنی امی کی یاد ائی ۔


وہ کتنی خود غرض بیٹی تھی کہ اُسے اپنی ماں کے بارے میں خبر ہی نہیں تھی کہ اُسکی ماں کہاں ہے کہاں نہیں ۔۔زندہ بھی ہے یا نہیں ۔۔۔بیہ کی سیاہ آنکھوں میں نمی بڑھنے لگی ۔


" انابیہ حسام کی طرف سے ایک تحفہ ایا ہے گڑیا " ۔ فلک اور شجیہ نے اُسکے پاس اتے اُسکی نم آنکھوں کو دیکھتے اُس سے کہا ۔ وہ سب ہی دیکھ چکی تھی نجمہ بیگم اور آمنہ کو دیکھتے اُسکی آنکھوں میں اُبھرتی حسرت کو ۔


" کیا بھابھی " !!!! ۔ انابیہ نے اپنے آنسوؤں کا گولا نگلتے پوچھا ۔


" مل جائے گا لیکن پہلے یہ باندھ لو تمہارے شوہر نے کہا ہے اُسکی بیوی کی آنکھیں تب تک بند ہونی چائیے جب تک اُسکا تحفہ اُسکے سامنے نہیں اجاتا " ۔ فلک نے کہتے اگے بڑھتے انابیہ کی آنکھوں پر بلائنڈ فولڈ باندھا ۔ لیزا سدرہ اور آمنہ بھی تجسس بھری نظروں سے پورے لون میں دیکھ رہی تھی ۔


جب شجیہ ہلکے قدم بڑھاتی ٹینٹ کے داخلی دروازے پر گئی ۔ اور وہاں سے ایک ضعیف وجود کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے اندر ائی ۔


دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی وہ انابیہ کے پاس اتے اُسکے جھولے سے ایک قدم کی دوری پر رکی ۔


فضا میں پھیلتی ایک ممتا بھری خوشبو محسوس کرتے انابیہ کا وجود سن ہوا ۔ برف کی ماند منجمند ۔۔


کمزور ضعیف وجود نے اگے بڑھتے نہایت پیار سے اُسکے کالے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور بیہ کے آنسو لڑیوں کی مانند اُسکی آنکھوں سے بہہ نکلے وہ سب بھی نم آنکھیں لیے یہ منظر خاموشی سے دیکھنے لگی ۔


" لاڈو " ۔ ممتا بھری آواز ممتا بھرا لمس بیہ زورو سے نفی میں سر ہلاتے ہچکیاں بھرنے لگی ۔ ایسا لگا جیسے سب ایک خواب ہے ابھی اگر وہ آنکھوں سے پردہ ہٹائے گی تو یہ اُسکی ماں کی خوشبو اُسکی ماں کا لمس اُسکی ماں کی آواز سب غائب ہوجائے گا ۔


" مما " ۔ ہچکیاں بھرتے لرزتے لہجہ میں بیہ نے یہ لفظ ادا کیا ۔


" لاڈو اپنی مما کو دیکھے گی نہیں کیا لاڈو ناراض ہے اپنی مما سے " ۔ نم آواز میں بیہ کی طرح ہی سیاہ کالی آنکھوں میں آنسو لیے اُنہوں نے اُسکے چہرے کو محبت سے چھوتے پوچھا ۔


" آپکی لاڈو آپ سے نہیں ناراض مما ۔۔۔آپکی لاڈو کو ڈر لگ رہا ہے کہیں میں اپنی آنکھوں سے پردہ ہٹاتے آپکو دیکھو اور آپ غائب ہوگئی تو " ۔ بیہ نے روتے ہوئے انکا ہاتھ جو اپنے چہرہ پر محسوس ہو رہا تھا پکڑتے اپنے لبوں سے لگاتے اُسے شدت سے چوما۔


بیہ کی والدہ نے نفی میں سر ہلاتے اُسکی آنکھوں سے بلائنڈ فولڈ ہٹایا ۔


اتنے عرصہ بعد یہ مہربان چہرہ اپنی ماں کا چہرہ دیکھتے بیہ یکدم اُن سے لپٹ گئی ۔ اور ایسا روئی کہ وہاں موجود سب کی آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بنی ۔


" مجھے معاف کردے مما اپنی لاڈو کو معاف کردے ۔۔۔میں بہت بری ہوں مما میں بہت بری ہوں میں ۔۔میں نے آپکو بہت یاد کیا بہت زیادہ مما بہت زیادہ " ۔ اُنکے گلے لگی وہ اُنکے وجود سے اُٹھتی ممتا بھری خوشبو کو محسوس کرتی سسکتی ہوئی گویا ہوئی ۔ بیہ کی والدہ کے بھی آنسو آنکھوں سے نکل پڑے دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے سے لپٹی رو رہی تھی ۔ سالوں کا غبار تھا جو اج نکلا تھا ۔


" بس میرا بچا چپ ہوجاؤ اتنے اچھے موقع پر ایسے روتے نہیں ہے چلو شاباش میرا بچہ مما اگئی ہے نہ اپنی لاڈو کے پاس " ۔ بیہ کو اپنے سینے سے ہٹاتے اُسکے چہرہ کو اپنے کمزور ہاتھوں سے تھامتے اُنہوں نے پیار سے کہا ۔


" مما میں واقعی بہت بری ہوں میں نے آپکے بارے میں نہیں پوچھا میں اپنی خوشیوں میں مگن ہوگئی مما لیکن ۔لیکن مجھے آپکی یاد بہت آرہی تھی مما بہت زیادہ وہ مجھے حسام ۔۔حسام ۔۔۔" ۔ بیہ اُنہیں دیکھتے روتے ہوئے کہہ رہی تھی جب حسام کا نام لیتے وہ خاموش ہوئی ۔ اُسکی والدہ سمجھ گئی تھی۔ وہ حسام کا نام لیتے کیوں خاموش ہوئی تھی ۔


" تم کہاں تھی کہاں نہیں تھی تمھاری شادی کے بعد تک تمہارے ساتھ ہوئے سارے واقعات کے بارے میں جانتی ہوں میں بیٹا ۔۔۔حسام جس دن تمہیں اپنے نکاح میں لیتے گیا تھا نہ اُسکے بعد اُس نے تمہارے باپ سے لاکھ نفرت صحیح لیکن میرا خیال بہت رکھا ہے بلکل ایک بیٹے کی طرح ۔۔۔تم سے ملواتا نہیں تھا بیشک لیکن تمھاری خیریت کے بارے میں بتا ضرور دیتا تھا ۔۔۔اور پھر جب تم اُسے یہاں سے چھوڑ گئی تھی ۔۔جیل سے باہر انے کے بعد وہ میرے پیروں پر گر کر مجھ سے معافی کا طلبگار تھا بیٹا ۔ میں نے اُسے معاف کردیا پہلے ہی اُس نے بہت کچھ سہا تھا تمھاری جدائی میں ٹوٹ گیا تھا اگر میں معاف نہ کرتی تو شاید مزید بکھر جاتا " ۔ بیہ کو اپنے سینے سے لگاتے اُنہوں نے اُسے ساری بات بتائی بیہ نے اُنکے لفظوں پر اپنی آنکھیں بند کی ۔۔آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔


وہ جانتی تھی اُسکا حسام اتنا سخت دل نہیں تھا جتنا وہ دکھاتا تھا ۔


" اب بھی وہ مجھ سے رابطہ میں تھا تمہارے لیے یہ سرپرائز اُسی نے سوچا تھا " ۔ بیہ کے بالوں پر اپنے لب رکھتی وہ محبت سے بولی ۔


بیہ اُنکی بات پر حسام کا وجود تصور میں لاتے مسکرا اُٹھی ۔۔۔حسام اُس سے واقعی میں بہت محبت کرتا تھا بہت ۔


" ارے یار بس کرو اور کتنا خود رونا ہے اور انٹی کو بھی رُلانا ہے ہم سے ملنے تو دو انٹی کو " ۔ لیزا نے ماحول کی کشیدگی کو کم کرتے بیہ کا بازو پکڑے اُسے دور ہٹایا۔


" اسلام علیکم انٹی ہم بیہ کے دوست میں لیزا یہ سدرہ اور یہ آمنہ اور آپ بہت خوبصورت ہے اب پتہ چلا بیہ اتنی حسین کیوں ہے وہ آپ پر گئی ہے اسی لیے آپکی آنکھوں سے لے کر ہونٹوں تک سب کچھ سیم سیم ہے " ۔ ایک ہی سانس میں سب کہتی وہ سب کو مسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔شفق بیگم بیہ کی والدہ بھی اُسکی بات پر ہنس پڑی۔ ۔


" چلے آجائے ہمارے ساتھ بیٹھے بہت ساری باتیں کرنی ہے آپ سے " ۔ سدرہ اُن سے کہتی انکا ہاتھ آرام سے پکڑے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا گئی تھی بیہ بھی فوراً سے اتے اُنکے بازو کے ساتھ لگی ۔۔لیزا اور آمنہ بھی سدرہ کے ساتھ ساتھ ایک ہی جھولے میں فیکس ہونے کی کوشش کرنے لگی جو وہ ہو بھی گئی تھی اب بیچ میں شفق بیگم تھی اُنکے دائیں بائیں امنہ انابیہ لیزا اور سدرہ ۔


شجیہ اور فلک انتظام دیکھنے کے لیے باہر کی طرف بڑھ گئی ۔


بیہ نے ایک نظر اپنی والدہ کو دیکھا جو سدرہ کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی ۔ اور پھر حسام کے بارے میں سوچا ۔۔شاید ہی اس سے اچھا کوئی گفٹ وہ اُسے دے سکتا ۔۔۔بیہ کا سارا غصّہ ساری ناراضگی جھاگ کی مانند بیٹھ گئی تھی ۔ اُسے شدت سے حسام پر پیار ایا تھا جو اُسکی خوشی کے خاطر سب کچھ کرنے کو تیار تھا۔


💗💗💗💗


وہ اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی پر پھونک مارتی حویلی کے اندر آرہی تھی مایوں کی رسم ہوگئی تھی اور اُن سب کے مہندی لگ رہی تھی لیزا کے مہندی لگ گئی تھی اسی لیے وہ اندر جا رہی تھی ۔ تھکن حد سے زیادہ ہو گئی تھی ۔۔۔جسمانی تھکن سے زیادہ دماغی تکھن تھی ۔ ارادہ ملازمہ سے کافی بنوانے کا تھا ۔


ابھی وہ اندر ائی ہی تھی کہ اُسکی نظر سامنے سے اتے شاداب سے ٹکرائی وہ جو خود بھی باہر جا ربا لیکن سامنے سے پیلے لباس میں اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتی لیزا کو دیکھتے وہ اپنی جگہ ٹھہر گیا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ جمے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔


شاداب کی نظر اُسکے اُبٹن لگے دمکتے چہرے سے ہوتے اُسکے ہاتھوں پر ائی اور پھر اُسکے پیروں پر جہاں لگی مہندی دیکھتے وہ اپنے جبڑے بھینچ گیا۔ اُسکے ہاتھ اور پاؤں پر لگی مہندی کسی اور کے نام کی تھی اُسکے چہرے پر لگی اُبٹن کسی اور کے نام کی تھی ۔ شاداب نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی ۔۔۔چہرے پر پل میں سختی چھائی آنکھیں پل میں لال انگارہ ہوئی ۔


لیزا جو سفید کرتے پاجامے میں ملبوس پیلی رنگ کی چُنری گلے میں ڈالے شاداب کو دیکھ رہی تھی اُسکے چہرے پر چھاتی سختی دیکھ اپنی نظریں پھیرتی کچن کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔


شاداب کے وجود میں تو پہلے ہی ایک آگ دہک رہی تھی لیزا کے نظریں پھیر لینے پر وہ مزید بھڑک اٹھی۔ وہ ایک ہی جست میں لیزا تک اتے اُسکے دونوں بازو اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسے بائیں طرف موجود راہداری میں لاتے دیوار سے لگا گیا۔ ۔


" شاداب میری مہندی …"۔ لیزا کو کچھ سمجھ نہیں آیا اُسکے ساتھ کیا ہوا ہے ۔۔وہ دیوار سے لگی شربتی آنکھوں سے اپنے چہرے کے نزدیک شاداب کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جبکہ اُسکے ہاتھوں کو شاداب اپنے ہاتھوں میں لے گیا تھا ۔ شاداب کی گرم سانسیں لیزا کا چہرہ جھلسا رہی تھی۔


" خواہش تھی ان ہاتھوں پر میرے نام کی مہندی لگے تمھارے وجود کو اگر کسی اُبٹن سے مہکایا جائے تو وہ اُبٹن میرے نام کی ہو " ۔ لیزا کے ہاتھوں پر بنے خوبصورت نقش و نگار کو دیکھتے وہ مدھم دھیمے لہجے میں گویا ہوا ۔ سدرہ کی آنکھیں نم ہوئی ۔


" کیوں کیا لیزا ایسا ۔۔میری محبت کو روندھ ڈالا ۔۔بہت مشکل سے برداشت کر رہا تھا تم نے سامنے اتے میرا ضبط ختم کر دیا ۔۔۔بیوفائی کرنے سے پہلے ایک بار میری بے لوس محبت کا سوچ لیتی…" شاداب نے اُسکے ہاتھوں پر لگی مہندی کو اپنی انگلیوں سے مسلتے خراب کرتے ہوئے ۔۔۔


" میں نے بیوفائی نہیں کی شاداب ۔۔۔میں بیوفا نہیں ہوں ". لیزا کے آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے ۔۔


" بیوفا نہیں ہو تو کیوں ہے ان ہاتھوں پر کسی اور کے نام کی مہندی ان گالوں پر کسی اور کے نام کی اُبٹن کیوں تم کسی اور کے لیے خود کو سجا رہی ہو ۔۔۔تم تو میری تھی نہ یہ وجود میرا تھا ۔۔۔تم پر میرا حق تھا ۔۔جواب دو "۔ شاداب نے لیزا کی بات پر اُسکے بازو اپنی گرفت میں لیتے اُسکا چہرہ اپنے مزید قریب کرتے سرخ سبز آنکھیں اُسکی بھیگی شربتی آنکھوں میں دیکھتے سرد لہجے میں کہا۔


" صحیح میں بیوفا ہوئی تم تو باوفا تھے نہ تم تو محبت کرتے تھے نہ تو کیوں مان گئے شادی کے لیے کیوں کر رہے ہو شادی اگر مجھ پر تمھارا حق تھا تو تم پر بھی میرا حق تھا نہ " ۔ لیزا نے بھیگی آواز میں شاداب کی آنکھوں میں دیکھتے سوال کیا ۔


" تو کیا کرتا ساری عمر تمھاری بیوفائی سہتا ۔۔۔پاگل بن جاتا تمھارے پیار میں جس کو میرے پیار کی قدر نہیں ہے اُس کے لئے پوری زندگی برباد کر جاتا ۔۔اور ویسے بھی میری ہونے والی بیوی بہت حسین ہے اور میں اُسکے ساتھ بہت خوش ہوں " ۔ شاداب نے کہتے آخر میں آگ میں پیٹرول چرکھنے کا کام کیا ۔


" کہاں ہے پھر تمہاری یہ حسین ہونے والی بیوی ۔۔۔مجھے تو کہیں نظر نہیں ائی اور اگر اتنی ہی حسین ہے تو یہاں کیا کر رہے ہو جاؤ وہی اُسے کے پاس " ۔ شاداب کے سینے پر ہاتھ مارتی وہ شدید غصے میں گویا ہوئی تھی گیلی مہندی شاداب کے کرتے کو داغ دار کر گئی تھی ۔


" تمہارا بھی تو ہونے والا شوہر نظر نہیں آرہا کہاں ہے وہ ویسے " ۔ شاداب نے اُسکے سرخ چہرے کو دیکھتے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔


" وہ جہاں کہیں بھی ہوں تمہارا اُس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے سمجھ ائی " ۔ لیزا نے انگلی اٹھاتے غصے سے کہا اور تیز قدموں سے باہر کی طرف بڑھ گئی ۔


" میری محبت کو مجھ سے چھینا ہے اور کہہ رہی ہے کہ لینا دینا نہیں ہے ائے تو صحیح سامنے گولیوں سے بھون کر اُسے تمہیں اپنے نام کرونگا " ۔ دانت پیستے کہتے وہ اپنے کرتے پر ایک نظر ڈال کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔


💗💗💗💗💗


سب مرد حضرات حویلی کے پچھلے لون میں تھے وہ تینوں بھی سفید کرتا شلوار پہنے سب کے درمیان بیٹھے خوبرو لگ رہے تھے ۔ بڑوں کے کہنے پر اج انکا لڑکیوں سے پردہ کروایا گیا تھا اب وہ کل کی تقریب میں ہی اپنی بیویوں کو دیکھ سکتے تھے ۔ وہ تو پہلے ہی جلتے توے پر بیٹھے ہوئے تھے کل کی وجہ سے اور اج یہ لیکن اُنہوں نے بڑوں کی بات مانی۔


خواتین اُنہیں آتے اُبٹن لگا کر رسم ادا کر چکی تھی اور اب سب ساتھ بیٹھے باتوں میں مشغول تھے ۔ حسام کا دل اب سکون میں تھا جانتا تھا اُسکا گفٹ بیہ تک پہنچ گیا ہوگا اور وہ خوش ہوگی ۔۔اور حسام کے لیے اُسکی خوشی ہی تو معنی رکھتی تھی ۔


💗💗💗💗💗


سوات میں اس وقت شام کا وقت ہونے چلا تھا ایسے میں حویلی کے وسیع لون میں مہمانوں کی آمد ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ گولڈن اور لال رنگ کے پھولوں سے بہت خوبصورتی سے سجاوٹ کی گئی تھی ایک طرف بوفے لگا ہوا تھا جہاں انواع قسم کے کھانے لگائے گئے تھے ٹیبل اور کرسیاں لگاتے مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا ۔


ایک طرف سٹیج بنایا گیا تھا جہاں چار صوفے رکھے گئے تھے جبکہ ایک طرف نکاح کا خوبصورت انتظام کیا گیا تھا بیچ میں پھولوں کا پردہ لگائے دونوں طرف صوفے رکھے گئے تھے ۔


کالے کرتے شلوار میں اوپن شیروانی جس پر کام ہوا تھا پہنے بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کیے ہاتھ میں گھڑی پہنے اپنی سیاہ آنکھوں میں خوشی کی چمک لیے وہ ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اُسکے ساتھ ہی جنید نیلے رنگ کی اوپن شیروانی پہنے بلکل تیار بیٹھا تھا۔ جبکہ زرقان گرے رنگ کی اوپن شیروانی میں۔ملبوس تھا اور شاداب گولڈن وہ چاروں ہی حد سے زیادہ خوبرو لگ رہے تھے ۔


" بہت ہوگیا میں شادی نہیں کرونگا " ۔ شاداب جو کب سے صوفے کے پاس کھڑا بےچینی سے اپنے بالوں کو بار بار صحیح کر رہا تھا بول پڑا ۔ اُسکی برداشت ختم ہوگئی تھی وہ کسی کو نہ اپنی زندگی میں انے دے سکتا تھا لیزا کے علاوہ اور نہ ہی لیزا کو کسی کا ہونا دے سکتا تھا ۔ پوری رات اُس نے جاگ کر گزاری تھی پورا وجود جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ اوپر سے اُسکی ماں نہ شادی کا جوڑا بھی لڑکی کا اُس سے پسند کروایا تھا ۔


" دماغ ٹھیک ہے کیوں نہیں کرنی شادی برات والے دن یہ بات سوچ رہے ہو تم " ۔ حسام نے اُسکی بات پر غصے سے کہا ۔


" یار بھائی میں لیزا سے پیار کرتا ہوں اُسکے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرونگا نہ ہی اُسکی ہونے دونگا وہ میری ہے پٹھان ہوں میں اپنی محبت کو کسی اور کے لیے نہیں چھوڑ سکتا " ۔ شاداب نے سنجیدگی سے کہا ۔ اُسکی بات اسٹیج پر اتے کالی شلوار قمیض میں ملبوس کامل اور خضر نے بھی سنی ۔


" یہ بات تب کیوں نہیں یاد ائی جب اُسے چھوڑ کر پاکستان چلے آئے تھے بیٹا جی اب تو وقت نہیں ان سب چیزوں کا چپ چاپ کرو شادی " ۔ خضر کی آواز پر اُس نے سرخ آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا ۔


" بھائی پلیز میں نہیں کرونگا شادی چاہے کچھ بھی ہوجائے میں یہاں سے لیزا کو لیتے بھاگ جاؤنگا یہ پھر لیزا کو مار کر خود بھی مر جاؤنگا " ۔ شاداب کے لہجے میں ایک ضد تھی ۔ جیسے وہ یہ سب کر جائے گا ۔۔


" زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا غلط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے شاداب تمھاری شادی لیزا سے ہی ہو رہی ہے " ۔ خضر نے اُسکی آنکھوں میں نظر آتی ضد کو دیکھتے اُسے سچائی بتائی ۔۔اگر اب بھی وہ اُسے کچھ نہیں بتاتے تو وہ کوئی غلط قدم ضرور اٹھا لیتا ۔


" کیا سچ میں مگر کیسے " ؟ شاداب کو خضر کی بات پر یقین نہیں ایا ۔ حسام زرقان اور جنید کے لبوں پر مسکراہٹ ائی ۔


" لیزا کے والد کے اوپر لون تھا جو اُنہیں ادا کرنا تھا اور ایسے میں اُنہوں نے اپنے دوست سے مدد مانگی جس نے شرط رکھی کہ پہلے اُسکے بیٹے سے لیزا کی شادی ہوگی اور پھر وہ مدد کرے گے ۔۔ تمہارے پاکستان ایسے ارجنٹ چلے انے پر ہم سب کو عجیب لگا اور اس عرصے میں لیزا بھی کہیں نہیں دکھائی دی تو ہم سمجھ گئے کہ کچھ ہوا ہے لیزا کے والد کے پاس گئے تو ساری حقیقیت پتہ چلی یہ بھی پتہ چلا کہ لیزا نے تمھارے لیے اسٹینڈ لیا تھا لیکن اپنے والد کی وجہ سے وہ بچاری بچی راضی ہوگئی ۔ لیزا کے والد بھی بیٹی کی خوشی چاہتے تھے لیکن لون بھی ادا کرنا تھا تو ہم نے اُنکی مدد کی اور تمہارا اور لیزا کا رشتا طے کردیا " ۔ کامل نے اُسے ساری حقیقیت بتائی جسے سننے کے بعد وہ خاموش ہوا ۔ لیزا پہلے سے اتنی تکلیف میں تھی اور اس نے اپنے لفظوں سے اُسے اور تکلیف دے دی تھی ۔


" شکریہ بھائی آپکا ۔۔بہت بہت شکریہ " ۔ شاداب کہتے کامل اور خضر کے گلے ملا ۔


" یار بھائی ابھی کیوں بتا دیا آپ نے تھوڑا اور تڑپنے دیتے " ۔ زرقان کے کہنے پر شاداب نے اُسے تیز نظروں سے دیکھا ۔


" اگر اب مجھے سچائی نہیں پتہ چلتی نہ تو یہاں اچھا خاصا تماشا ہوجانا تھا بھاگ جاتا میں لڑکی کو لیتے " ۔ شاداب کے کہنے پر وہ سب ہنس دئیے ۔ جب نکاح خواں کے انے کا سنتے وہ سب شاداب کو پھولوں کے پردے کے ایک طرف بٹھاتے خود اُسکے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ پھولوں کے پردے کے پار سے انٹرنس نظر آرہی تھی جہاں سے لیزا نے انا تھا ۔ شاداب کا دل جھوم اٹھا تھا اسکا دل کیا تھا بھنگڑے ڈالے اور وہ یہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔


جب انٹرنس پر سے وہ اتی دکھائی دی جسکا چہرہ بڑے سے گھونگھٹ سے ڈھکا ہوا تھا مہرون رنگ کے بھرے ہوئے لہنگے میں سہج سہج کر وہ اپنے قدم بڑھا رہی تھی شاداب اُسکا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا لیکن وہ اپنی طرف بڑھتے اُسکی دل کی دھڑکن روک گئی تھی ۔ وہ یک تک اُسکی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔ اُسکی نظر پل کے لیے بھی لیزا سے نہیں ہٹی تھی اور پھر وہ اُسکے سامنے اتے بیٹھی ۔ شاداب کا دل دھڑکا۔ وہ اُسے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن گھونگھٹ اور بیچ میں پھولوں کے اس پردے کے باعث وہ اُسے دیکھ نہیں پا رہا تھا ۔


وہ جتنا خوش تھا اتنی وہ زخمی اور اذیت میں تھی ۔ یہی سوچتے کہ وہ کسی اور کی ہونے جا رہی ہے ۔۔اُسکے نام کے آگے شاداب کے نام کے بجائے کسی اور کا نام لگے گا ۔۔اُسکی آنکھیں نم تھی اور نظریں جھکی ہوئی اُس میں نہیں تھی ہمت اپنے سامنے بیٹھے انسان کو دیکھنے کی ۔۔وہ اُس جگہ شاداب کو دیکھنا چاہتی تھی کسی اور کو نہیں ۔


" شروع کرے مولوی صاحب " ۔ کامل کی آواز گونجی تو لیزا کو اپنا آپ مرتا ہوا محسوس ہوا ۔ وہ بلکل سن ہوئی اب نہ کچھ سنائی دے رہا تھا اور نہ کچھ سمجھ آرہا تھا ۔


مولوی صاحب نے شاداب سے اُسکی رضا مندی پوچھی جس نے خوشی خوشی لیزا کو اپنے نکاح میں قبول کیا ۔


مولوی صاحب نے اب لیزا سے اُسکی رضامندی پوچھی وہ کیا جواب دیتی اُسے تو کچھ سمجھ یا سنائی ہی نہیں دے رہا تھا ۔ اپنے کندھے پر اتے اپنی ماں کے ہاتھ کو محسوس کرتے اُس نے کپکپاتے لہجے میں قبول ہے کہا ۔


وہ جو اُسکی خاموشی پر بیچین تھا اُسکے قبول ہے بولنے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ لبوں پر سجا گیا ۔ اب وہ اُسکی محرم تھی اُسکی بیوی ۔۔۔بس اب اُسے اُسکا چہرہ دیکھنا تھا ۔ وہ پل کی دیر کیے بنا پھولوں کا پردہ ہٹاتے اُس تک ایا ۔ اور نہایت آرام سے لیزا کا گھونگھٹ اٹھایا ۔۔لیزا اپنی آنکھیں بند کر گئی سانس رک رک کر انے لگا ۔ جبکہ شاداب مہبوت ہوا ۔۔۔ہیوی میکپ کیے زیورات سے سجی وہ روائتی دلہن لگ رہی تھی ۔ شاداب اُسکے حسن میں جیسے کھو سا گیا تھا ۔ وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی ۔ شاداب نے ایک فسوں میں کھوتے اپنے لب شدت سے لیزا کے ماتھے پر ثبت کیے وہاں موجود نوجوان پارٹی نے ہوٹینگ کی ۔


شاداب کے لمس کو محسوس کرتے لیزا نے اپنی آنکھیں کھولی اور اپنے پاس شاداب کو دیکھتے اُسکی آنکھیں بے یقینی سے پھیلی ۔۔شاداب اُسکی پھیلتی آنکھوں کو دیکھتے مسکرا گیا ۔


" نکاح مبارک زوجہ شاداب " ۔ نرم لہجے میں محبت سموئے کہتے وہ لیزا کو بے یقینی کے سمندر میں غوطہ زن کر گیا ۔ اُسے یقین نہیں ایا ۔


شاداب نے کہتے اُس سے دور ہوتے سب سے مبارک باد وصول کی اور لیزا کی طرف بڑھتے پورے حق سے اُسکا ہاتھ تھامتے اُسے اُسکی جگہ سے کھڑا کیا ۔ اور ایک ہاتھ سے اُسکا لہنگا سنبھالتے اُسے لیے صوفے تک ایا ۔ لیزا بت بنی اُسکے ساتھ چلتی گئی ۔ شاداب نے نہایت نرمی سے اُسے صوفے پر بٹھاتے اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھاما وہ جانتا تھا وہ صدمے میں چلی گئی ہے اسی لیے ایسے سٹل ہوگئی ہے ۔۔اسی لئے کچھ بھی نہیں بولا ۔


شاداب کا نکاح ہوتے ہی اُن تینوں کو اپنی پڑ گئی تھی وہ بس اب اپنی اپنی والیوں کو دیکھنا چاہتے تھے۔ جب انکا انتظار بھی ختم ہوا ۔ گانے کی دھن بدلی اور سب کی نگاہ انٹرنس پر پھر سے گئی ۔


جہاں سے اتی آمنہ کو لال دلہن کے بھرے ہوئے جوڑے میں سجے دیکھتے زرقان کی دل کی دنیا تہہ بالا ہوئی وہ یک تک اُسے دیکھے گیا جو اپنی آنکھیں جھکائے اپنے ماں باپ کا ہاتھ تھامے اُسکی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔لال جوڑے میں پور پور اُسکے لیے سجی ہوئی بھاری زیورات پہنے وہ اُسکا دل دھڑکا گئی تھی ۔ زرقان نے شدت سے اُسکی وہ ہیزل بلو آنکھیں دیکھنے کی تمنا کی جو اُسکا چین و قرار لوٹ لیتی تھی اور شاید آمنہ کو بھی پتہ چل گیا تھا وہ کیا چاہتا ہے اسی لیے اپنی کاجل سے بھری آنکھیں اٹھاتے اُس نے زرقان کی طرف دیکھا جو اُس کے دیکھنے پر مسکرا گیا ۔ آمنہ نے زرقان کے مسکرانے پر اپنی نظروں کو جلدی سے جھکایا ۔ زرقان کو شیروانی میں دیکھتے اُسکا دل بھی تیز دھڑکا ۔ جبکہ اپنی ناراضگی بھی یاد ائی ۔


آمنہ کے والد نے اسٹیج تک اتے آمنہ کا ہاتھ زرقان کے ہاتھ میں دیا جو مضبوطی سے تھامتے آمنہ کو اپنے انتہائی قریب کر گیا ۔اور وہ سرشار سا ہوتے اُسکا ہاتھ تھامے صوفے پر بیٹھ گیا تھا ۔

ابھی لوگ دو حسین دلہنوں کو دیکھتے سحر میں کھو گئے تھے جب تیسری نے قدم رکھا ۔ اور جنید کا دل اُسکے سینے سے نکلتے سدرہ کے پیروں میں آ گرا ۔اجمیر صاحب اور حمزہ کے ساتھ اتی اپنی بیوی کو دیکھتے جو نیلے رنگ کے لہنگے میں ملبوس تھی ۔ جنید کو لگا اُسکے دل میں چھوٹے چھوٹے دھماکے سے ہو رہے ہو جبکہ اُسکی تیکھی نظریں جنید دور سے ہی خود پر محسوس کر گیا تھا ۔ تیکھے نقوش کو میکپ سے مزید ابھارتے وہ سفید رنگ کی ڈائمنڈ کی جیولری پہنے ہوئی تھی جو اُسکی والدہ کی تھی ۔ اور اب حمزہ نے اُسکے حوالے کیا تھا ۔


حمزہ نے جنید تک اتے اُسے سدرہ کا ہاتھ دیا جسے وہ مضبوطی سے تھام گیا ۔ سدرہ نے جنید کو تیز نظروں سے دیکھتے اُسکے ہاتھ پر اپنے لمبے ناخن گاڑھے ۔۔اور اپنی آنکھیں پٹپٹا کر اُسکی طرف دیکھا جنید نے اُسکی حرکت پر درد کو برداشت کرتے با مشکل مسکراتے ہوئے اُسکی طرف دیکھا اور اُسے لیے صوفے تک چلا آیا سمجھ گیا تھا اُسکی بیوی اُس سے ناراض ہے ۔شاداب نے جو آگ لگائی تھی اُسکی وجہ سے ۔


اب بیہ نے انا تھا ۔ سب لوگ اُسکا انتظار کر رہے تھے جب کامل نے اسٹیج کی طرف دیکھا جہاں سے حسام غائب تھا ۔


" حسام کہاں ہے " ؟ کامل نے جنید زرقان اور شاداب سے اشارتاً۔ پوچھا جنہوں نے کندھے اچکا کر لا علمی کا اظہار کیا ۔


جب لائیٹس بند ہوئی اور ایک اسپاٹ لائٹ انٹرنس پر جلی سب نے وہاں دیکھا جہاں حسام ملک اپنی انابیہ کا ہاتھ تھامے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ لیے کھڑا تھا ۔ کالی شیروانی میں وہ سیاہ آنکھوں والا شہزادہ انتہائی خوبرو لگ رہا تھا اور اُسکے برابر میں بلڈ ریڈ رنگ کا غرارہ پہنے بھاری زیورات لبوں پر بلڈ ریڈ رنگ کی لپ اسٹک لگائے سجی سوری نازک سی لڑکی جو کبھی اپنی گھنی پلکیں اٹھا رہی تھی تو کبھی اُسکی پلکیں اُسکے سرخ رخساروں پر سایہ فگن ہو رہی تھی ۔ دونوں کی جوڑی چاند سورج کی طرح لگ رہی تھی جس نے بھی دیکھا وہ ماشاءاللہ بولے بنا نہیں رہ سکا اُن دونوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہے ۔۔دونوں کا حسن تب ہے جب وہ ایک ساتھ ہے اُن دونوں میں سے کوئی ایک بھی الگ ہوا تو دونوں کے چہرے کی یہ چمک غائب ہوجائے گی ۔


اتنے لوگوں کو دیکھتے بیہ نروس ہوئی تو اُسکا ہاتھ حسام کی گرفت میں کپکپا اٹھا ۔


" ریلیکس یارا " ۔ حسام نے اُسکا کانپتا ہاتھ مزید اپنے ہاتھ میں بھنیچا اور اُسے لیے آگے بڑھا ۔


اسٹیج پر اتے اُس نے بیہ کو صوفے پر بٹھایا اور اُسکے چہرے پر ایا پسینہ اپنے رومال سے صاف کیا کیمرا مین نے جلدی سے اس منظر کو ایک تصویر میں قید کیا ۔ بیہ نے محبت سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا ابھی کچھ دیر پہلے اُسے شدید قسم کا چکر ایا تھا جسکی وجہ سے شفق بیگم نے پریشان ہوتے حسام کو فون کیا تھا جس نے پل میں اتے اُسکے لیے پہلے جوس منگوا کر اسے پلایا اور جب تک تسلی نہیں کی کہ وہ ٹھیک ہے تب تک اُسکے پاس سے ہلا تک نہیں ۔ اور اب بھی اُسکی طرف فکر مندی سے دیکھ رہا تھا ۔


" ٹھیک ہو نہ تم اگر نہیں ٹھیک تو اندر چلتے ہے یارا میں ڈاکٹر کو بلا لیتا ہوں " ۔ حسام نے اُسکے حسین چہرے کو دیکھتے محبت سے کہا اُسکا حسین چہرہ اُسکے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کر گیا تھا ۔


" نہیں حسام میں ٹھیک ہو آپ فکر نہیں کرے " ۔ بیہ نے دھیمے لہجے میں اُسکی طرف دیکھتے کہا ۔ حسام اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلا گیا ۔


سب کے ماں باپ ایک ٹیبل پر بیٹھے مسکراتے ہوئے اپنے بچوں کو دیکھ رہے تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تھے ۔۔سب نے صدق دل سے اُن کی خوشیوں کی دعا کی تھی ۔


نہ سدرہ نے جنید سے کوئی بات کی تھی اور نہ ہی آمنہ نے زرقان کی طرف دیکھا یہ الگ بات تھی کہ اُنکے پہلو میں بیٹھتے ہی اُن دونوں کے دل تیز دھڑکنے لگے تھے ۔ اور ہاتھ پیسنے سے بھر گئے تھے ۔ جنید اور زرقان بھی سمجھ گئے تھے اُنکی بیگمات ناراض ہے اُن سے اور وہ اُنہیں کمرے میں جاتے منانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ جبکہ لیزا کو ابھی تک یقین نہیں ایا تھا وہ اپنی نظریں جھکائے بیٹھی ہوئی تھی ۔ اور اُسکا ایسا رد عمل بنتا بھی تھا ۔ وہ ابھی تک شوک میں تھی اور شاداب اُسکا گم سن انداز دیکھتے خاموش تھا ۔


کامل اور خضر کے اشارہ کرنے پر سب لڑکے اسٹیج سے اُترتے اُنکی طرف بڑھ گئے تھے جو اُنہیں مہمانوں سے ملوا رہے تھے ۔


💗💗💗💗💗


رخصتی کی رسم کے بعد سب لڑکیوں کو اپنے اپنے کمرے میں بیٹھا دیا گیا تھا ۔ رخصت ہوکر اُن سب نے حویلی ہی انا تھا اور پھر یہاں پاکستان میں کچھ وقت گزارنے کے بعد آسٹریلیا جانا تھا ۔ بس لیزا نے ادھر ہی پاکستان میں رہنا تھا ۔


اپنے ہاتھوں پر اتے پسینے کو وہ بار بار صاف کر رہی تھی ۔ دل کی دھڑکن دھیمی دھڑک رہی تھی ۔ دلہن کے سراپے میں اپنے آپ کو حسام کے لیے سجائی وہ اس بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ قربت کے لمحات تو پہلے بھی اُن کے بیچ آئے تھے لیکن ایسی حالت پہلے نہیں ہوئی ۔ کمرے کو سرخ گلابوں سے سجایا گیا تھا ۔ دھیمی لائیٹس اور گلابوں کی مہکتی خوشبو وصل کی رات کو اور حسین کر رہی تھی ۔


دروازہ بند ہونے کی آواز پر بیہ نے اپنی جھکی آنکھیں اٹھاتے حسام کی طرف دیکھا جو دروازہ بند کرتا اپنی شیروانی اُتارے وہی صوفے پر رکھتے اُسکی طرف آرہا تھا ۔ بیہ اُسکی اپنے اوپر گہری نظریں محسوس کرتے اپنی آنکھیں جھکا گئی تھی ۔ حسام مسکراتے اُس تک اتے اُسکے انتہائی نزدیک بیٹھ گیا ۔


" گفٹ کیسا لگا تمہیں " ۔ بیہ کے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں اور ناک میں پہنی نتھنی کو گہری نظروں سے دیکھتے حسام نے شفق بیگم سے مایوں میں ملاقات والی بات کا پوچھا ۔


" بہت بہت اچھا میری زندگی کا سب سے بہترین گفٹ تھا حسام شکریہ آپکا " ۔ بیہ نے حسام کی بات پر اُسکی طرف دیکھتے مسکراتے ہوئے کہا ۔


" مجھے پتہ تھا میری بیوی کو یہ گفٹ سب سے زیادہ پسند آئے گا " ۔ حسام نے بیہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے نرم لہجے میں کہا ۔ بیہ نے فقط مسکرا کر اُسکی طرف دیکھا۔


" یارا ایک بات پوچھو" ؟ حسام نے اُسکے مہندی لگے ہاتھ پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے اُسکے ہاتھ پر نظریں گاڑھے پوچھا ۔


" سو باتیں پوچھے " ۔ بیہ نے اُسکے سنجیدہ لہجے کو محسوس کرتے محبت سے کہا ۔


" جو ۔۔جو سب کچھ میں نے تمہارے ساتھ کیا میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اُسے لے کر تمہارے دل میں کوئی خلش تو نہیں ہے ۔ میں نہیں چاہتا ہماری انے والی زندگی میں کبھی ہم میں ماضی کو لے کر کوئی بات ہو۔۔۔ہمارا ماضی ہمارے حال اور مستقبل میں اتے ہماری زندگی خراب کرے " ۔ حسام اُسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا بیہ کے ہاتھ کو دیکھتا وہ انتہائی سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔


بیہ جو دم سادھے اُسے سن رہی تھی اُسکے چپ ہونے پر آگے بڑھتی اُسکے سینے پر دل کے مقام پر اپنے لب رکھتی اپنا سر اُسکے دل کے مقام پر رکھ گئی۔


" حسام جو کچھ ہوا وہ ہونا تھا ۔۔اللہ نے ہم دونوں کو آزمائش میں ڈالنا تھا ۔ آپ کو بدلنا تھا ۔۔میرے دل میں کوئی خلش نہیں ہے یہاں تک کہ مجھے ان گزرے تین مہینوں کے علاوہ پچھلے گزرے تمام سال یاد تک نہیں نہ میں یاد کرنا چاہتی ہوں ۔۔مجھے صرف آپ سے غرض تھا ہے اور رہے گا ۔۔آپ میرے پاس ہے یہی کافی ہے ۔ماضی گزرا ہوا وقت ہے اور جو گزر گیا وہ گزر گیا " ۔ اُسکے سینے پر سر رکھتے دھیمے لہجے میں کہتی وہ حسام کے لبوں پر مسکراہٹ لانے کا باعث بنی ۔


اپنے سینے سے لگے بیہ کے نازک وجود کو محسوس کرتے حسام کا دل بے ایمان ہوا ۔ اُس نے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے مزید خود میں سمیٹا بیہ مزید اُسکے سینے میں سمائی ۔ حسام کے جذباتوں میں طوفان برپا ہوا تھا۔ بیہ کا سانس سینے میں اٹکا جب حسام کا ہاتھ اپنے سر پر لگے دوپٹہ پر محسوس کیا ۔


حسام نے کچھ ہی پل میں اُسکا دوپٹہ اُسکے سر سے ہٹاتے اُسکی ادھ برہنہ پشت پر بندھی ڈوری پر اپنا ہاتھ ٹکایا ۔


" میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں یارا میرا عشق میرا جنون میری زندگی سب تم ہو " ۔ بیہ کے کان میں جھکتے گھمبیر سرگوشی کرتے وہ بیہ کی کان کی لو کو اپنے لبوں میں دبا گیا ۔ بیہ نے گہرا سانس لیتے اپنی آنکھیں بند کی ۔ حسام کے ہاتھ اپنی ڈوری سے اُلجھتے اُسکی جان پر بن ائی تھی ۔


" حسام " ۔ یکدم اپنی ڈوری کھلنے پر بیہ نے تڑپ کر اُسے پُکارا لیکن وہ اُسکی سنے بنا اُسکے ڈھیلی ہوتی کرتی کو کندھے سے سرکاتے وہاں اپنے لبوں کا لمس چھوڑنے لگا ۔ بیہ کی جان پر بن ائی حسام کا سلگتا لمس اپنے کندھے اور گردن پر محسوس کرتے وہ اُسکے کرتے کو مٹھیوں میں بھینچ گئی ۔


" حسام آپ نے اُس عورت کی تعریف کی تھی " ۔ ٹوٹتی سانسوں سے با مشکل بیہ نے کہا ۔ مقصد حسام کا دھیان بھٹکانا تھا۔


" کس عورت کی تعریف " ؟ اُسکی گردن پر شدت سے لب رکھتے حسام نے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔


" وہ لڑکی ۔۔ہیروئن ۔۔آپ نے کہا وہ آپکی کرش ہے ۔۔اور بہت پسند ہے آپکو " ۔ بیہ نے اُسکا لمس برداشت کرتے ہوئے اٹکتی آواز میں کہا ۔


" میری جان اُس شاداب نے آگے کی ویڈیو تمہیں نہیں دکھائی ۔۔میں نے آگے کہا تھا کہ میری بیوی سے زیادہ کوئی اچھا نہیں میرے لیے سب سے حسین سب سے پیاری صرف میری بیوی ہے " ۔ حسام نے اُسکی گردن سے منہ نکالتے اُسکی چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے کہا وہ اپنی پلکیں جھکائے گہرے سانس بھر رہی تھی ۔ حسام کے کہنے پر وہ سمجھ گئی تھی حسام سچ کہہ رہا ہے کیونکہ وہ جانتی تھی حسام ملک جھوٹ نہیں بولتا اُس نے جو کیا ہوتا ہے وہ صاف اُسکا اقرار کرتا ہے ۔ مکرتا نہیں تھا ۔


" حسام " ۔ بیہ نے اُسے دوبارہ اپنی گردن پر جھکتے دیکھ پُکارا لیکن وہ اُسکے لبوں پر انگلی رکھتے اُسے خاموش کروا گیا اُسکی گردن پر شدت سے اپنا لمس چھوڑتے اُسے لیے بیڈ پر گرا ۔


بیہ نے اپنے چہرے کے حد درجہ قریب حسام کے چہرے کو دیکھا جو اُسے مدہوشی بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


" یارا ان لبوں سے اس وقت صرف محبت کا اظہار سننا ہے " ۔ بیہ کے لبوں پر اپنا انگوٹھا پھیرتے حسام نے خمار سے بھاری ہوتی اواز میں کہا ۔


بیہ کی دل کی دھڑکنیں رکنے لگی تھی اُس نے حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے اپنی سانسیں استعال پر لانے کی کوشش کی ۔


" میں ۔۔میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں حسام بہت " ۔ اپنی بکھرتی سانسوں میں محبت کا اظہار کرتے حسام کے وجود میں سرشاری سی بھر گئی جب جب وہ حسام سے اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی تب تب حسام ملک اپنے وجود میں ایک نئی زندگی محسوس کرتا تھا .


حسام بیہ کے کہتے ہی اُسکے لبوں پر شدت سے جھک ایا ۔ بیہ کے سرخ لبوں پر شدت سے اپنا لمس چھوڑنے لگا ۔ بیہ نے حسام کے کندھوں پر گرفت سخت کی اج اُسکے لمس میں ایک الگ سی شدت اور جنوں محسوس ہو رہا تھا۔ جو بیہ کی جان پر بن ایا تھا۔


وہ شدت سے بیہ کی سانسیں چرا رہا تھا اور بیہ کا حال بیحال ہو رہا تھا ۔ حسام کے ہاتھ اُسکے وجود پر سفر کر رہے تھے ۔ بیہ کے لبوں کو اپنی گرفت میں لیے ہی وہ بیہ کے کانوں سے جھمکے اُتار گیا تھا۔


بیہ کی سانسیں بند ہوتی محسوس کرتے حسام نے اُسکے لبوں کو آزادی دی سرخ رنگ اُسکے لبوں سے پھیل گیا تھا اُسکی ذرا سی شدت نے ہی بیہ کا حال بُرا کر دیا تھا۔


" حسا۔۔م " ۔ بیہ نے دوبارہ اُسے اپنے اوپر جھکتے دیکھ پُکارا لیکن وہ اس بار اپنے ہاتھ سے کمرے میں جلتی مدھم لائیٹس کو بھی بند کرتے اُسکے وجود میں گم ہوگیا ۔ شدت سے اپنا لمس بیہ کے وجود پر چھوڑتے وہ اُسکی قربت میں بہکتا چلا گیا تھا ۔ اور ساتھ بیہ کو بھی بہکا گیا تھا ۔ دو وجود پھر سے ایک بار ایک دوسرے کی روح میں اُترتے ایک دوسرے میں شامل ہوگئے تھے ۔


💗💗💗💗


وہ کمرے میں ابھی داخل ہوا تھا جب اڑتا ہوا تکیہ اُسکے مُنہ پر آکر لگا ۔ وہ ابھی سنبھلتا جب دوسرا تکیہ آکر اُسکے منہ پر لگا ۔۔


" سدرہ یار پاگل ہوگئی ہو کیا " ۔ جنید نے سدرہ کی طرف دیکھتے دانت پیستے ہوئے کہا ۔ اُسے پتہ تھا سدرہ غصے میں ہوگی لیکن ایسا اپنا ویلکم اُس نے نہیں سوچا تھا۔


" میں تو پاگل ہی لگو گی نہ اب ۔۔۔پیاری تو تمہیں وہ ایما اسٹون لگتی ہے گڑیا جیسی ہے نہ " ۔ سرخ لباس میں جوالا مکھی بنی وہ غصے سے لال ہوتی اُسکی طرف ایک اور تکیہ پھینک گئی تھی ۔


" یار کس نے کہہ دیا یہ بات تو سنو میری سکون سے" ۔ جنید نے سدرہ کے قریب اتے اُسے کہنا چاہا جب وہ دور ہوتی اپنا لہنگا سنبھالتی واس اپنے ہاتھ میں لے گئی۔


" سدرہ میری جانو یہ بہت زور سے لگے گا ویڈنگ نائٹ ہاسپٹل میں بتانی پڑے گی پھر " ۔ اُسکے ہاتھ میں واس دیکھتے جنید اپنی جگہ رکتے محبت سے نرم لہجے میں بولا ۔


" مجھے منظور ہے تمہارا سر پھاڑتے تمہیں ہسپتال میں دیکھنا لیکن اگر کوئی چیز منظور نہیں ہے تو تمہارے لبوں سے کی گئی کسی غیر عورت کی تعریف " ۔ سدرہ کی آواز ہلکی سی نم ہوئی ۔ اُس نے اپنے لہنگے کو سنبھالتے دور جانا چاہا جب جنید نے ایک ہی جست میں اُس تک اتے اُسے اپنی گرفت میں لیتے اُسکے ہاتھ سے واس نیچے پھنیکتے اُسے لیے بیڈ پر گرا ۔


سدرہ اس اچانک افتاد پر چلا اُٹھی ۔


" کیا۔۔۔کیا کر رہے ہو " ۔ اپنے اوپر جھکے جنید کو دیکھتے سدرہ نے اٹکتی آواز میں پوچھا ۔


' اج کی رات کیا کرتے ہیں " ؟ جنید نے سوال کے بدلے سوال کیا ۔


" سوتے ہیں رات کو اور کیا کرتے ہے " ۔ سدرہ نے اپنی نظریں جھکاتے ہوئے جواب دیا ۔


" جی نہیں اج ہماری ویڈنگ نائٹ ہے تو اج ہم پیار کرے گے "۔ جنید نے اُسکے خوبصورت نقوش کو دیکھتے ہوئے لب دبائے کہا سدرہ نے سٹپٹا کر اُسکی طرف دیکھا۔


" ہماری شادی کب کی ہو گئی تھی اور شاید یہ ہمارا ولیمہ تھا کیونکہ ہماری رخصتی پہلے ہی دھوم دھام سے ہو چکی تھی " ۔ سدرہ نے اُسکی بےباک بات پر تپتے گالوں کے ساتھ جواب دیا ۔


" تو کیا ولیمہ کی رات کو ہم پیار نہیں کر سکتے " ۔ جنید کے کہنے پر سدرہ نے تیز نظروں سے اُسے دیکھا۔


" تم بات کو بدلو مت جنید ۔۔۔میں تم سے ناراض ہو تم نے اُس عورت کی تعریف کی اُسے کہا کہ وہ گڑیا جیسی لگتی ہے ۔۔تمہیں پتہ ہے مجھے کتنا بُرا لگ رہا تھا ۔۔ابھی تک مجھے بُرا لگ رہا ہے مجھے میرا وجود جلتا محسوس ہو رہا ہے " ۔ سدرہ نے نم آواز میں جنید سے کہا جسے بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا لیکن شاداب پر بھی غصّہ ایا تھا۔


" سوری جان میں نے بس ایسے ہی اُسکی تعریف کردی ۔۔پر یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہوں تمہارے آگے دنیا کی کوئی بھی عورت مجھے حسین نہیں لگتی " ۔ جنید نے کہتے اُسکی نم آنکھوں پر اپنے لب رکھے۔


" ایسے نہیں معاف کرونگی پہلے کہو تم اج کے بعد ہولی وڈ فلم نہیں دیکھو گے ۔۔کبھی نہیں " ۔ سدرہ نے اُسکی شیروانی کے کولر پر انگلی پھیرتے سو سو کرتے کہا ۔ یہی صحیح موقع تھا جنید کی یہ عادت چھڑوانے کا ۔


" ٹھیک ہے وعدہ میں نہیں دیکھو گا اب ۔۔لیکن پلیز اب رونا بند کرو تم روتے ہوئے تمھاری ناک بہتی ہے یار " ۔ جنید نے شرارت سے کہا ۔


سدرہ نے اُسکی بات پر ناک پھلاتے اُسکے کرتے سے اپنی ناک صاف کی ۔


" جھوٹے اانسان تمھاری وجہ سے روئی ہوں میں " ۔ سدرہ نے براؤن آنکھوں سے اُسے دیکھتے ناک سکوڑ کر کہا۔


" اب میری وجہ سے شرماؤ گی بھی تم "۔ جنید نے کہتے اُسے کچھ سمجھنے کا موقع دیے بنا اُسکی سانسیں بند کی ۔ سدرہ اُسکے لمس کو محسوس کرتی اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ اچھی طرح سدرہ کی سانسیں پیتا وہ سدرہ سے دور ہوا اپنی شیروانی اُتارتے اُس نے ایک طرف پھینکی ۔۔سدرہ اپنا لال چہرہ رخ موڑتے تکیہ میں چھپا گئی ۔ جب کمرے کی لائٹس بند ہوئی اور اپنے انتہائی نزدیک جنید کی گرم سانسیں محسوس کرتے سدرہ اپنا دل تھام کر رہ گئی۔


جنید نے سدرہ کے قریب اتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے اُسکے لبوں کو نرمی سے اپنی گرفت میں لیتے اُسکی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کی ۔ سدرہ کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ پھنسائے وہ سدرہ کی گردن پر جھکتے حدود پار کرتا چلا گیا ۔


اُسکے لمس سے کبھی سدرہ کی سانسیں تیز ہوجاتی تو کبھی اُسے اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوتی ۔ گلابوں کی بھینی بھینی خوشبو ایسے میں محبوب ساتھی کی قربت ۔۔۔اج بہکنے کی رات تھی اور وہ بہک رہے تھے۔


💗💗💗💗💗


وہ بیڈ پر اپنے گھٹنوں میں منہ چھپائے شدت سے رو رہی تھی ۔ اُسے ابھی تک یقین نہیں ایا تھا اُسکی شادی شاداب سے ہو گئی تھی ۔ کتنی تکلیف اور اذیت میں تھی وہ ۔ کمرے کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز ائی اور پھر قدموں کی دھمک ۔۔اور انتہائی نزدیک مردانا کلون کی حواسوں پر طاری ہونے والی خوشبو ۔


" مجھ سے شادی ہو گئی اسی لیے رو رہی ہوں " ۔ تیر کی طرح یہ لفظ مخالف کے اُسکے وجود میں اترے تھے ۔ اب برداشت ختم ہوگئی تھی اُس نے ایک جھٹکے سے اپنا چہرہ اٹھاتے اُسکی طرف دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھ ائی ۔


سینٹر ٹیبل پر رکھی چھڑی اٹھاتے اُس نے اپنے ہاتھ پر رکھی ۔ شاداب جو اُسے روتے دیکھ اپنے جبڑے بھینچے بول اٹھا تھا لیزا کو اس طرح دیکھتے بھونچکا کر رہ گیا۔ وہ تو صرف اُسے چڑا رہا تھا لیکن یہاں تو سب کچھ خراب ہوگیا تھا ۔


" کیا کر رہی ہو لیزا ۔۔چھوڑو اسے دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا کیا خبردار جو تم نے خود کو نقصان پہنچایا " ۔ سخت لہجے میں کہتے آخر میں وہ چلا اٹھا ۔ دل خوف سے دھڑکا۔


" ہاں دماغ خراب ہوگیا ہے میرا ۔۔پاگل ہو گئی ہوں میں ۔۔۔تم سب اپنی اپنی بات بولے جا رہے ہو میرا کسی کو خیال نہیں ۔۔۔میری پسند نہ پسند میرے ماں باپ کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔۔اُنہوں نے اپنے مفاد کے لیے میرا رشتا کسی اور سے کروا دیا ۔ اور تم ۔۔۔تم کہتے ہو میں بیوفا ہوں میں نے اپنے محبت کے لیے اسٹینڈ نہیں لیا ۔۔۔ ۔۔تم سے شادی کرنے پر میں پچھتا رہی ہوں " ۔ لیزا بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی اور شاداب اسے خاموشی سے دیکھ اور سن رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ بہت تکلیف میں تھی ۔ اُسے اب شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کمرے میں اتے ہی اُسے یہ نہیں بولنا چایئے تھا۔


" کیسے سمجھاؤ میں لیا تھا اسٹینڈ بدلے میں میرے باپ نے اپنے آپ کو مارنے کی دھمکی دی بیٹی تھی نہ ہار گئی اُن کے سامنے ۔۔جانتے ہو اگر آج تمہارا نام میرے نام کے آگے نہیں جڑتا میں کسی اور کی اگر ہو جاتی تو با خدا اُس انسان کو خود کو چھونے سے پہلے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیتی ۔۔ تھک گئی میں تھک گئی تمہارے زہریلے لفظوں کو سنتے شاداب کرتی ہوں محبت تم سے بہت محبت ۔۔اج میں جتنی کامل اور خضر بھائی کی شُکر گزار ہوں میں ہی جانتی ہوں ۔۔وہ نہ ہوتے تو شاید میں مر جاتی ۔۔میرا تم سے نکاح نہیں ہوتا تو میں مر جاتی " ۔ لیزا روتے ہوئے کہتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔ جبکہ ہاتھ میں ابھی تک چھڑی پکڑی ہوئی تھی ۔


" ایک ہی بار ختم کردو تم مجھے اب کیونکہ تمہیں یقین نہیں مجھ پر ۔۔میں تمہیں اور کیسے یقین دلاؤ اپنی محبت کا مجھے نہیں پتہ پر میں تمہارے سخت لفظ نہیں برداشت کر سکتی " ۔ شاداب کی طرف دیکھتے روتے ہوئے کہتی وہ اس وقت انتہائی تھکی ہوئی لگی ۔ شاداب نے آگے بڑھتے اُسکے روتے وجود کو اپنے حصار میں لیتے چھڑی اُسکے ہاتھ سے کھینچی۔


بس کرو میری بندریاں یار تم روتی ہوئی بلکل اچھی نہیں لگتی۔۔۔تم تو ابھی میرا دل بند کردینے والی تھی "۔ شاداب نے اُسکے لرزتے وجود پر اپنا حصار مزید مضبوط کرتے اُسکے سر پر اپنے لب رکھے۔


" شاداب میں واقعی تم سے بہت محبت کرتی ہوں حد سے زیادہ ۔۔پلیز میری بات پر یقین کرو" ۔ شاداب کے سینے سے لگی لیزا نے روتے ہوئے کہا ۔


" یقین ہے مجھے تمہارے پیار پر ائی ایم سوری میری بندری میں نے تمہیں تکلیف دی پر اب پیار دونگا "۔ شاداب نے کہتے اُسے اپنے مضبوط بازؤں میں اٹھایا۔


" نہیں مجھے پیار نہیں چایئے مجھے میرا گفٹ چایئے " ۔ لیزا نے اُسکی بات پر جلدی سے کہا۔


" اتنا لمبا چوڑا خوبصورت سبز انکھوں والا پٹھان تمہیں مل گیا ہے اور تم گفٹ کی بات کر رہی ہوں " ۔ شاداب نے بیڈ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔


" پر مجھے پھر بھی گفٹ چایئے شاداب ۔۔اور مجھے بہت تیز نیند بھی آرہی ہے سو جاتے ہیں نہ " ۔ شاداب کے بیڈ پر لٹاتے ہی لیزا نے گھبرا کر جلدی سے کہا ۔


" سوجائے گے لیکن ذرا رومانس کرنے کے بعد " ۔ شاداب نے کہتے اپنی شیروانی اور کرتا اُتارتے لائیٹس بند کی ۔۔لیزا نے حلق تر کرتے اُسے دیکھا ۔


اور پھر اپنی آنکھیں بند کر گئی ۔ شاداب نے جھکتے اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔ اور وہ خود سپردگی کے عالم میں اُسکی گردن میں اپنا حصار قائم کر گئی ۔ شاداب اُسکی سپردگی محسوس کرتے اُسے اپنی محبت کی بارش میں بگھوتا چلا گیا ۔


وہ دونوں ہی کامل اور خضر کے شکرگزار تھے جنکی وجہ سے وہ اج ایک دوسرے کے ساتھ تھے محرم بنتے ۔


💗💗💗💗💗


کم سے کم دیر گھنٹہ ہونے کو ایا تھا اور وہ ایسے ہی اُسکے برابر میں بیٹھے اُسکے خوبصورت نقوش کو دیکھے جا رہا تھا ۔ وہ نیند میں سوتی ہوئی زیادہ حسین لگتی تھی اب بھی وہ سجی ہوئی زیورات سے لدی دلہن بنی نیند کی وادی میں گم تھی ۔


زرقان نے آہستہ سے آگے ہوتے اُسکے کانوں ناک اور گلے سے بھاری زیورات کو اُتارا اور پھر سے کہنی کے بل لیٹتے اُس پر اپنی نظریں جمائی اُسے کبھی نہیں لگا تھا کہ وہ کسی کی محبت میں اتنا پاگل ہوسکتا ہے ۔۔لیکن آمنہ اُسکے لیے سانسوں کی طرح ثابت ہوئی تھی جو اُسے نہ ملتی تو وہ زندہ نہ رہتا ۔۔


آمنہ نے نیند میں کروٹ بدلنی چاہی جب اُس نے مندی مندی آنکھوں سے زرقان کو دیکھا جو اُسکے پاس لیتا اُسے دیکھ رہا تھا۔ زرقان کو دیکھتے ہی اُسے اپنی ناراضگی یاد ائی ۔ اُس نے باہر تقریب میں بھی اُس سے بات نہیں کی تھی ۔


آمنہ نے اپنا رخ پھیرنا چاہا جب زرقان اُسکی کوشش کو ناکام کرتے سیدھا ہوتے اسے اپنے کندھے پر منتقل کر گیا۔


" ناراض ہو عشقم " ؟ زرقان نے اُسکے دوپٹے پر لگی پن کو نکالتے ہوئے محبت سے پوچھا ۔ آمنہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔


" وجہ کیا ہے " ؟ زرقان نے پنز نکالتے اُسکا بھاری دوپٹہ اُسکے سر سے ہٹایا۔


" آپ نے اُس لڑکی کی آنکھوں کی تعریف کی زرقان " ۔ آمنہ نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے اپنی ناراضگی کی وجہ بتائی ۔


" میں جانتا ہوں عشقم تمہیں اچھا نہیں لگا میں نے کسی کی تعریف کی اور اسکے لیے میں سوری بھی بول رہا ہوں ائی ایم سوری میری جان آئندہ کے بعد زرقان خان کسی کی تعریف نہیں کرے گا " ۔ زرقان کے کہنے پر آمنہ اسکے مزید نزدیک ہوتے اُسکے سینے پر سر رکھ گئی۔


" تھک گئی ہو " ۔ زرقان نے آمنہ کی چھوٹی چھوٹی سانسیں اپنے سینے پر محسوس کرتے پوچھا ۔ آمنہ نے آنکھیں بند کئے ہی اثبات میں سر ہلایا ۔


" سو جاؤ پھر عشقم " ۔ زرقان نے کہتے اُسکے گرد بازو حائل کرتے اسکے سر پر اپنی تھوڑی ٹکائی وہ جانتا تھا وہ نازک سی جان ہے تھک گئی ہوگی ۔۔۔اسی لیے اپنے جذبات پر بندھ باندھتے اُسے آرام کرنے دیا اور خود بھی اُسکے بالوں کی مہک کو محسوس کرتے اپنی آنکھیں بند کر گیا ۔

" چھ سال بعد " ۔


آدھی رات کا سماں تھا تمام زی روح اس وقت نیند کے آغوش میں گم تھی ۔ ایسے میں ڈیفنس کے علاقے میں موجود حسبِیہ ہاؤس کے ایک کمرے کی لائٹس جلی ہوئی تھی۔ اس گھر کی بات کرے تو وسیع جالی دار خوبصورت دروازے کے پار دائیں بائیں طرف لون تھا جس میں ہر طرح کے پھول اور پودے لگے ہوئے تھے ۔ بیچ میں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے راستہ بنایا گیا تھا ۔ سفید اور براؤن رنگ کا یہ چھوٹا سا حسین بنگلہ دیکھنے والے کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ بنگلہ جتنا باہر سے حسین تھا اتنا ہی اندر سے ۔۔بیہ کی پسند کے مطابق حسام نے اس بنگلہ کی ہر چیز براؤن اور سفید رنگ کی بنائی تھی ۔


اب ذرا اُس کمرے کے منظر کی طرف چلتے ہیں جہاں لائٹس جلی ہوئی تھی ۔ اس شاندار کمرے میں راؤنڈ بیڈ کمرے کے وسط میں تھا ۔ اور بیڈ سے کچھ دور گلاس وال کے پاس تین جائے نماز بچھی ہوئی تھی ۔ اور تین وجود عبادت میں مشغول تھے ۔


سلام پھیرتے دعا مانگتے اُس نے برابر میں بیٹھی اپنی متائے حیات کو دیکھا جو خود بھی مسکراتے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی گلابی رنگ کی نماز چادر میں ملبوس ۔۔بیہ نے بھی اپنی سیاہ انکھوں میں محبت سموئے اپنے شوہر کو دیکھا جو سفید شلوار قمیض میں اپنے سر پر ٹوپی پہنے چہرے پر نور لیے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔


حسام نے اُسکی طرف ہوتے آیت ال کرسی پڑھتے اُس پر پھونک ماری اور اُسکے ماتھے پر شدت سے بوسا دیا ۔ بیہ سکون سے آنکھیں بند کر گئی ۔


" بابا میں بھی ہوں " ۔ ننھی سی آواز سنتے وہ دونوں ہنس دئیے ۔ اور اپنے اس چھوٹی سی شہزادی کی طرف دیکھا جو اُن کے پاس ہی چھوٹی سی جائے نماز پر بیہ کی طرح ہی گلابی نماز چادر میں پھولے پھولے گالوں کو مزید پھلائے اُن دونوں کی طرف اپنی سیاہ آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ سیاہ انکھوں میں ناراضگی تھی ۔


سرخ و سفید رنگت ۔۔حسام کی طرح کھڑی ناک ۔۔بیہ کی طرح گلابی لب اور اپنے ماں باپ سے چرائی حسین سیاہ آنکھیں ۔۔جس میں کوئی بھی ڈوب جائے ۔۔صحت مند چھوٹی سی گڑیا پھولے گال ۔۔۔وہ اپنے باپ ماں کا مکسچر تھی ۔۔حسام اور بیہ کی ننھی سی پانچ سالہ شہزادی ۔۔اُنکی فلذہ اُنکے جگر کا ٹکڑا ۔


" جی جی پتہ ہے آپ بھی ہے آخر بابا اپنی فلذہ کو کیسے بھول سکتے ہیں " ۔ حسام نے پیار سے کہتے اپنے بازو واہ کیے ۔۔فلذہ اپنی جگہ سے اٹھتی اپنی نماز چادر سے اُلجھتی حسام تک اتے اُسکے بازووں میں سمائی ۔ حسام نے دوبارہ آیت ال کرسی پڑھتے اُس پر پھونکتے اُسکے بھرے بھرے گالوں پر بوسا دیا ۔ بیہ نے محبت سے یہ منظر دیکھا ۔


" بابا جانی اپ قرآن نہیں پڑھے گے اج " ؟ فلزا کے سوال پر حسام کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی وہ پانچ سال کی تھی لیکن وہ اُن کے ساتھ لازمی تہجد کے وقت اٹھ کر نماز ادا کرتی تھی صرف تہجد کی نہیں باقی کے پانچوں وقت کی نماز بھی وہ اُنکے ساتھ پڑھتی تھی ۔ وہ جانتے تھے اُنکی بیٹی اتنی بڑی نہیں تھی کہ نماز کو صحیح طرح ادا کر پائے لیکن اُسکی ٹوٹی پھوٹی عبادت بھی اللہ قبول کرتا ہے ۔


" ایسا ہو سکتا ہے آپکے بابا تہجد کی نماز کے بعد تلاوت کرنا بھول جائے " ۔ اپنی گود میں اُسے بٹھاتے حسام نے سائڈ پر موجود ٹیبل سے قرآن پاک اٹھایا ۔


بیہ نے محبت سے اُسے دیکھا جس نے سورۃ رحمان کی تلاوت شروع کی تھی ۔ اور وہ کسی سحر میں بندھی حسام کی خوبصورت آواز میں کی گئی تلاوت کو پورے دل سے سن رہی تھی ۔


" فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ "


(پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا جھٹلاؤ گے؟)


اس آیت کو سنتے ہی وہ مسکرا گئی ۔ واقعی میں وہ اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائے گی ۔۔۔حسام کا وجود اُسکے لیے نعمت ہی تو تھا ۔۔حسام کی گود میں موجود اُن دونوں کی بیٹی یہ نعمت ہی تو تھی اُس رب کی ۔۔۔وہ اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتی اتنا کم تھا ۔ جس نے اتنی تلخیوں کے بعد اُسکی زندگی میں خوشیاں لکھ دی تھی اُسکے نصیب میں حسام کو لکھ دیا تھا ۔۔حسام کو نیک راہ دکھائی تھی ۔۔پچھلے چھ سالوں سے اُسکی عادت بن گئی تھی ۔ تہجد کے وقت حسام کے ساتھ اٹھتے نماز ادا کرنے کے بعد حسام کی خوبصورت آواز میں کی گئی تلاوت سننا ۔


بیہ کی نظر حسام کے چہرے سے ہٹتے اپنی بیٹی پر گئی جو روزآنہ کی طرح اج بھی اپنے بابا کی خوبصورت آواز سنتے نیند کی وادی میں کھو گئی تھی ۔ بیہ دھیما سا ہنس دی.


حسام نے تلاوت ختم کرتے بیہ کی طرف دیکھا ۔ جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی دونوں کی سیاہ آنکھیں اس وقت ایک الوہی چمک سے بھری ہوئی تھی ۔


بیہ نے حسام کے دیکھنے پر فلذہ کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا ۔ حسام نے اپنے سینے پر سر رکھے سوئی اپنی بیٹی کو دیکھا ۔ پھر قرآن کو چومتے سائڈ ٹیبل پر رکھا۔۔ اور احتیاط سے فلذہ کو اپنی گود میں اٹھایا ۔ بیہ نے اُسکے اٹھتے ہی جائے نماز سمیٹی اور کمرے سے باہر نکلتی چلی گئی ۔


" میری جان بابا کی چھوٹی سی شہزادی بابا لو یو سو مچ " ۔ فلذہ کو آرام سے بیڈ پر لیٹاتے حسام نے اُسکے ماتھے پر شفقت بھرا بوسا دیتے محبت سے چور لہجے میں کہا اور پھر اپنی ٹوپی وہی سائڈ ٹیبل پر رکھتے گلاس وال کا دروازہ کھولتے بالکنی میں چلا گیا ۔


صبح ہونے میں کم ہی وقت تھا چار بج چکے تھے ۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب اُسکے سامنے کافی کا مگ آیا حسام نے مسکراتے ہوئے کافی کا مگ تھامتے اپنی بیوی کو دیکھا جو اب اُسکے کندھے پر سر ٹکائے آسمان کو دیکھنے لگی تھی ۔


" سب کس قدر حسین ہوگیا ہے نہ حسام " ۔ بیہ ٹھندی ہواؤں کو اپنے وجود کے آر پار ہوتے محسوس کرتے حسام سے پوچھا ۔


" ہاں واقعی تم ساتھ ہو تو سب حسین ہے " ۔ حسام نے اپنے ایک ہاتھ کو اُسکی قمر پر رکھتے کافی کا سپ لیا ۔


" اور اگر میں ساتھ نہ ہوتی تب " ۔ بیہ نے اُسکی طرف چہرہ موڑتے پوچھا ۔


" تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے " ۔


حسام نے بیہ کی بات پر اُسکے چہرے پر جھکتے اُسکی آنکھوں پر بوسا دیتے ہوئے کہا ۔


" ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔۔مجھے میرے رب پر یقین تھا کہ وہ تمہیں مجھے دے ہی دیں گا ۔۔۔تم میری تھی ازل سے اور میری ہی رہو گی ابد تک تمہیں میرے پاس ہی انا تھا " ۔ مضبوط لہجے میں کہتے وہ بیہ کو مسکرانے پر مجبور کر گیا ۔


" پانچ سال گزر گئے یارا ۔۔۔ہم خوش ہے ساتھ ہے اور میں اپنے رب سے صرف یہی مانگتا ہوں کہ میرا گھر ایسے ہی خوش آباد رہے ۔۔میں میری بیوی میری اولاد ہم خوش رھے ایک ساتھ رہے ۔۔۔کبھی کبھار سوچتا ہوں تو لرز اٹھتا ہوں کیا ہوتا اگر تمہیں گولیاں لگنے کے بعد تم مجھے واپس نہیں ملتی ۔۔۔میں تمہیں اگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیتا ۔۔پر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر تم نہ ہوتی تو میری زندگی اتنی حسین نہ ہوتی ۔۔۔میں تو شاید کب کا موت کو گلے لگا چکا …" حسام کہہ ہی رہا تھا جب بیہ نے اُسکی آنکھوں میں اپنی نم آنکھیں گاڑتے اُسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھا ۔


" جو ہوا وہ گزر گیا حسام اب مت یاد کرے ہم نے سوچا تھا نہ ہم اپنے اج اور کل کے بارے میں سوچے گے ٹھیک ہے ایسی فضول بات نہیں بولا کرے آپ میری زندگی ہے آپ ہے تو میں ہوں ۔۔آپکے بغیر میں کچھ نہیں " ۔ بیہ نے کہتے حسام کے ہاتھ کو پکڑتے اُسے چومتے اپنی آنکھوں سے لگایا ۔ حسام اپنی بیوی کی اس ادا پر مسکرا گیا ۔


حسام نے کافی کا مگ ریلنگ پر رکھتے بیہ کو اپنے حصار میں لیا ۔۔اور اُسکے سر پر اپنی تھوڑی ٹکائی بیہ بھی اپنا مگ ریلنگ پر رکھ گئی تھی ۔


" میری مہندی اُتر گئی ہے حسام " ۔ بیہ نے اپنا نازک سا ہاتھ اگے کرتے حسام سے کہا ۔


" آفس سے واپسی پر لیتے اؤنگا اور آکر لگا دوں " ۔ حسام نے اُسکے ہاتھ کو پکڑتے اُسے اپنے لبوں سے لگایا ۔


" بھولیے گا مت !!!!۔ بیہ نے اُسکے سینے پر تھوڑی رکھتے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔


" تمھاری کوئی چیز ہوں اور میں بھول جاؤ نہ ممکن حسام اپنا آپ بھول سکتا ہے لیکن اپنی یارا سے جڑی کوئی چیز نہیں " ۔ حسام نے اُسکی تیکھی ناک کو دو انگلیوں میں دباتے ہوئے محبت سے کہا ۔


" بابا ماما " ۔ اندر سے اتی فلذہ کی اواز پر حسام نے بیہ کو اپنے حصار سے الگ کیا ۔


" چلے ورنہ اُس نے سونا نہیں ہے جب تک ہم اُسکے پاس نہ ہو " ۔ بیہ نے حسام کا ہاتھ پکڑتے کہا حسام اثبات میں سر ہلاتا اُسکے ساتھ اندر بڑھا۔


فلذہ کے دائیں طرف حسام اور بائیں طرف بیہ نے لیٹتے اُسے دیکھا جو دونوں کو اپنے پاس دیکھتے اپنی نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں بند کر گئی تھی ۔ بیہ نے اُسکے پیٹ پر ہاتھ رکھا تو حسام نے بھی اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ پر رکھا ۔ بیہ سکون سے اپنی آنکھیں مونڈ گئی ۔


" الحمدللہ " ۔ زیرِ لب کہتے اُس نے اپنی زندگیوں کو دیکھا ۔۔بیہ کے بعد اگر کوئی تھا جس میں اُسکی زندگی بستی تھی تو اُسکی پیاری سی بیٹی تھی وہ اللہ کا جیتا شکر ادا کرتا اتنا کم تھا ۔ اُسکی شخصیت میں جو ادھورا پن تھا وہ اُسکی بیہ اُسکی بیٹی نے پورا کر دیا تھا ۔ وہ اب صرف حسام ملک تھا ایک بزنس مین ایک محبت کرنا والا شوہر اور باپ ۔ا


" لیکن اب بھی اگر اُسکی بیوی اُسکی بچی یا اُس سے جڑے اُسکے دوستوں پر کوئی آنچ ائی یا کسی نے اُنھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔۔تو پھر حسام ملک کو لیپرڈ بننے میں دیر نہیں لگے گی " ۔ حسام نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کی ۔۔۔


💗💗💗💗


آمنہ نے نیند میں ہی کروٹ بدلتے اپنے برابر میں ہاتھ پھیرا لیکن وہاں زرقان اور محمل کو نہ پاتے اُسکی آنکھیں پٹ سے کھلی ۔ اُس نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو جھپکتے گھڑی میں دیکھا جہاں صبح کے تین بج رہے تھے ۔ہیزل بلو آنکھوں میں نیند ٹوٹنے کے باعث لال دوروں نے اپنی جگہ بنائی تھی ۔


بیڈ سے اٹھتے اُس نے اپنے گولڈن بالوں کا سمیٹا سفید پاؤں میں چپل پہنتے اُس نے دانت پیستے نفی میں سر ہلایا جانتی تھی اچھی طرح اس وقت دونوں باپ بیٹی کہاں ہوگے ۔


اپنے دوپٹہ کو اٹھاتے اوڑھتے اُسکے قدم اب باہر کی طرف تھے۔ لاؤنچ میں اتے اُسکے قدم اندھیرے میں ڈوبے کچن کی طرف بڑھے۔


آمنہ نے لائٹس جلاتے فریج کے بائیں طرف سے نکلتی ٹانگوں کو دیکھتے اپنے لب آپس میں بھینچے اور اُس تک ائی سامنے کا منظر دیکھتے اُسکا غصے ہمیشہ کی طرح ساتویں آسمان پر پہنچا ۔ ۔


سامنے ہی زرقان ہاتھ میں کیک تھامے بیٹھا ہوا تھا اور برابر میں محمل اپنی شہد رنگ آنکھوں سے اُسے دیکھ رہی تھی ۔


اپنے سامنے آمنہ کو سینے پر ہاتھ باندھے خود کی طرف تیز نظروں سے دیکھتے پا کر زرقان اور پانچ سالہ محمل دونوں کھسیانی سی ہنسی ہنس دئیے ۔ آمنہ غصّہ سے ناک پھلائے اُن دونوں کو دیکھے گئی ۔ جبکہ دونوں کی شکلیں دیکھتے اُسے حد سے زیادہ ہنسی آرہی تھی ۔ کیک دونوں نے کھایا کم تھا اور چہرے پر لگایا زیادہ تھا۔


" شوگر ہوجائے گی آپکو اتنا کیک کھائے گے تو " ۔ زرقان کی شہد رنگ آنکھوں میں اپنی غصے بھری نظریں ڈالتے آمنہ نے کہا۔


" کچھ نہیں ہوتا یار آجاؤ تم بھی عشقم ساتھ مل کر کھاتے ہیں " ۔ زرقان نے کہتے آمنہ کا ہاتھ پکڑتے اُسے اپنے پاس بٹھایا اور کیک انگلی پر لیتے اُسکے گال پر لگایا ۔ محمل کھلکھلا کر ہنس دی اپنے باپ کی حرکت پر ۔


اُسکی معصوم سی ہنسی پر آمنہ بھی اپنا غصّہ برقرار نہیں رکھ پائی اور ہنس پڑی ۔۔اور نفی میں سر ہلاتے اُس نے اپنے دوپٹے سے محمل کا منہ صاف کرتے زرقان کا چہرہ صاف کیا جو اُسے ہی محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔


" حد ہوتی ہے زرقان وقت دیکھے اپنے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی آپ نے کیک کھانے کی لت لگا دی ہے " ۔ زرقان کا چہرہ صاف کرتے اُس نے اشارتاً اُس سے کہا۔


" اب اس میں میری کیا غلطی ہے تمھاری غلطی ہے عشقم نہیں بنایا کرو اتنا اچھا میں اور میری بیٹی نہیں کھایا کرے گے پھر " ۔ زرقان نے کیک کی خالی پلیٹ زمین پر رکھتے محمل کو اپنی گود میں بیٹھایا۔


" مما اور کھانا ہے " ۔ محمل کی بات پر آمنہ نے بنا ایک لمحے کی دیر کیے نفی میں سر ہلایا ۔


" پلیز عشقم " ۔

" پلیز مما " ۔ زرقان اور محمل دونوں ایک ساتھ بولے آمنہ نے دونوں کے چہرے دیکھے جو اُسے اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ پھر نفی میں سر ہلاتے اپنی جگہ سے اٹھتے فریج سے کیک نکالتے اُن کے سامنے رکھا ۔ اور چمچ کی مدد سے سب سے پہلا نوالہ محمل کو کھلایا ۔


زرقان نے محبت سے اپنے میوٹ اسپیکر کی طرف دیکھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید حسین ہوتی جا رہی تھی اور زرقان کی اُس سے محبت بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ اُسے یکدم آمنہ پر پیار ایا۔


" محمل وہ دیکھو وہ کیا ہے " ۔ زرقان نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے محمل سے کہا محمل کے ساتھ ساتھ آمنہ نے بھی اُسکے اشارہ کی طرف دیکھا لیکن زرقان جلدی سے آگے ہوتے آمنہ کے گال پر لگے کیک کو اپنے لبوں سے صاف کر گیا۔ آمنہ محمل کے سامنے اس کی اس حرکت پر لال ہوئی ۔ اُس نے گڑبڑا کر محمل کی طرف دیکھا جسکا دھیان اُنکی طرف نہیں تھا ۔ اور پھر زرقان کی طرف جس نے اُسکے دیکھنے پر بیباکی سے ایک آنکھ ونک کی تھی۔


" کیا بابا وہاں کچھ نہیں ہے " ۔ محمل نے اُسکی طرف رخ کرتے زرقان سے پوچھا ۔


" وہاں کیٹ تھی لیکن آپ کے دیکھنے سے پہلے ہی وہ چلی گئی " ۔ زرقان نے کندھے اچکا کر جواب دیا اور ایک گہری نظر اپنی بیوی کے سرخ چہرے پر ڈالی ۔


" مما کیک " ۔ محمل نے چہرہ جھکائے بیٹھی آمنہ سے کہا جس نے اُسکے کہنے پر اُسکی طرف کیک بڑھایا تھا۔ جبکہ دوسری بار اُس نے زرقان کی طرف جو اُسے شوخی و محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔


رات کے اس پہر وہ دونوں اپنی پانچ سالہ بیٹی جو ہو بہو زرقان کی طرح تھی اُسکے ساتھ کچن کے فرش پر بیٹھے آمنہ کے ہاتھ سے بنے کیک سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ اُنکی ہنسی اُنکی آوازیں پورے لاؤنچ میں گونج رہی تھی۔


زرقان کے والد صاحب جو باہر سے اتی آوازوں پر کمرے کا دروازہ کھولتے باہر ائے تھے لیکن سامنے کچن میں نظر آتے خوبصورت منظر کو دیکھتے مسکرا کر اپنی بیگم جو اُنکے پیچھے ہی ائی تھی اُنہیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ماشاءاللہ کہتے واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔


زرقان نے ایک نظر ہنستی ہوئی آمنہ کو دیکھا اور پھر اپنی بیٹی کی طرف اُسکی زندگی مکمل ہو گئی تھی ۔۔اُسکے پاس اُسکی میوٹ اسپیکر تھی اُسکی چھوٹی سی گڑیا تھا ۔۔اُسکے والدین تھے اُسے اور کچھ نہیں چایئے تھا سوائے ان سب کی خوشی کے ۔


اپنے اوپر پڑتی نظر محسوس کرتے اُس نے زرقان کی طرف دیکھا آمنہ کی ہنسی تھمی اُس نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے زرقان کو تھینک یو کہا ۔۔اتنا پیار اتنی عزت دینے کے لیے اپنے دل میں اتنا اعلیٰ مقام دینے کے لیے اُسکی خامی کو نظرانداز کرتے اُس سے اتنی محبت کرنے کے لیے ۔۔امنہ کی آنکھیں نم ہوئی ۔ زرقان نے اُسکی نم آنکھیں دیکھتے اُسے اپنے حصار میں لیا محمل بھی اپنے باپ کے قریب ہوتی اُسکے سینے میں سمائی ۔


💗💗💗💗💗


" بس كرجا یار اور کتنی بار ایک ہی فلم دیکھے گا " ۔ جنید نے جمائی لیتے اپنے چھوٹے سے افلاطون کو دیکھا جس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ۔


حذیفہ جنید اجمیر جو ابھی تقریبا چار سال کے تھے ۔۔جنید جیسے سیاہ بال براؤن آنکھیں معصوم نقوش لیکن تیکھا دماغ بلکل اپنی ماں جیسا ۔۔۔صحت مند وجود کا حامل ۔۔۔جنید کے بقول اگر وہ اُسے بیس منٹ تک پکڑتا ہے تو اُسکا ہاتھ سن ہوجاتا ہے اور اسی بات پر وہ سدرہ کی خونخوار نظروں کا نشانہ بنتا تھا۔ چار سال کے تھے جانب لیکن کام ایسے کہ پوچھو مت ۔۔


ایک ہی مووی وہ شوق سے دیکھتا تھا پیٹر پین اور اتنی شوق سے دیکھتا تھا کہ ہر روز جنید کو جاگ کر اُسکے ساتھ دیکھنا ہوتا تھا ۔


" یار سدرہ اسکو سلا اؤ یار صبح آفس جانا ہے " ۔ جنید نے بیڈ پر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لیتی سدرہ سے کہا۔


" میرے بچے کو ابھی نیند نہیں آرہی ۔۔اور کرو ہولی وڈ مووی دیکھنی ہے ۔۔۔میرا بچہ سب بدلے لے رہا ہے اسی طرح رات کو جگاتے تھے نہ تم مجھے " ۔ سدرہ نے جمائی لیتے تیکھے لہجہ میں کہا ۔


" چھوڑ تو دی تھی یار پانچ سال سے دیکھی ہے کوئی فلم تو کیسا بدلہ " ۔ جنید نے اُسکی طرف ہونکوں کی طرح دیکھتے کہا ۔۔پانچ سال سے وہ فلم دیکھنا چھوڑ چکا تھا ۔اُسکے جیلس ہونے پر اور وہ یہ کہہ رہی تھی۔


" جگایا تو تھا نہ اُس سے پہلے بس اُسی بات کا بدلہ ہے " ۔ سدرہ نے بے نیازی سے کہتے کندھے اچکائے ۔


" جگایا تو تمہیں کسی اور وجہ سے بھی تھا جسکی وجہ سے تمہارا یہ موٹا کدو ایا ہے دنیا میں اُسکا کچھ نہیں کہو گی " ۔ جنید کی بات پر وہ جو آرام سے لیتی ہوئی تھی تلملا کر اٹھ بیٹھی ۔ جبکہ چہرے کی رنگت بھی پل میں سرخ ہوئی۔


" میرے بیٹے کو تم نے موٹا کیسے کہا ۔۔موٹے ہو تم تمہاری وہ ساری پسندیدہ ہیروئن وہ ایما اسٹون سمجھ ائی اجا میرا بچا مما سلائے اپنے بیبی کو " ۔ تیز لہجے میں خونخوار نظروں سے جنید کو دیکھتے اُس نے کہا اور آخر میں اپنی باہیں پھیلائی ۔ حذیفہ چپ چاپ سے اپنی ماں کی طرف بڑھتے اُسکے سینے سے لگ گیا ۔


" میسنا کہیں کا ابھی نیند نہیں آرہی تھی اب چھپکلی کی طرح چپک گیا ہے میری بیوی سے " ۔ جنید نے آنکھیں چھوٹی کیے اُن دونوں ماں بیٹے کو دیکھا جو اب بیڈ پر لیٹ گئے تھے سدرہ نے اپنے دائیں بازو پر حذیفہ کو لٹایا ہوا تھا۔


جنید جمائی لیتے اپنی جگہ سے اٹھا ٹیوی بند کرتے کمرے کی لائٹس بند کرتے وہ بیڈ کی طرف بڑھا ۔ ایک نظر اپنے بیٹے کو دیکھا جو اپنی معصوم آنکھیں بند کرتے نیند کی۔ وادی میں قدم رکھ چکا تھا اور پھر اپنی بیوی کو جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔


" میرے لیے تو میری ایمااسٹون میری موٹی میری حسینہ میری محبوبہ میرے بچے کی ماں سب کچھ تم ہی ہو " ۔ محبت سے کہتے سدرہ کے لبوں کو اپنے لبوں سے نرمی سے چھوتے اُس نے بلنکٹ کھولتے خود پر ، سدرہ اور حذیفہ پر ڈالا حذیفہ کی طرف اتے اُسکا پھولے گال پر پیار کرتے وہ سدرہ کے دل کے مقام پر سر رکھتے اپنی آنکھیں بند کر گیا ۔ سدرہ نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کی جبکہ ایک ہاتھ جنید کے بالوں پر آ ٹھہرا تھا ۔


💗💗💗💗💗


وہ دونوں گہری نیند میں گم تھے جب کسی کے رونے کی آواز پر وہ دونوں گڑبڑا کر آٹھ بیٹھے ۔


" کون رو رہا ہے کس کا بچا رو ربا ہے " ۔ نیند سے اٹھتے لیزا نے غائب دماغی سے پوچھا ۔


" یار کس کا بچا رو ربا ہے یہ رات کو بھی سکون نہیں " ۔ شاداب نے بھی اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے کہا ۔ نیند دماغ پر حاوی تھی اس وقت اُن دونوں کے جو اپنے بچے کو ہی بھول گئے تھے۔


" ہمارا بچا " ۔ لیزا کی نیند بھک سے اری ۔


" ہاں ہمارا بچا کیا ہوا اُسے " ؟ شاداب نے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔


" کینگرو ہمارا بچا رو رہا ہے کہاں ہے وہ " ؟ لیزا اپنے بیڈ پر فارس کو نہ پاتے چیخی ۔


" کہاں ہے مجھے کیا پتہ لو یہ دیکھو وہ بیڈ سے نیچے سو رہا ہیں اتنا بڑا بیڈ پڑا ہے لیکن اُسے نیچے سونا ہے " ۔ شاداب نے ادھر اُدھر دیکھتے یکدم بیڈ سے نیچے دیکھا تو نیچے دو سالہ فارس کو الٹے پڑے دیکھ وہ ہنستے ہوئے بولا ۔


" پاگل پٹھان وہ سو نہیں رہا میرا بچا گر گیا ہے ظالم ادمی اُسے اٹھانے کے بجائے تم ہنس رہے ہو " ۔ شاداب کے کندھے پر زور سے مارتی وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اُترتی دوسری طرف اتے فارس کو اپنی گود میں لے گئی ۔ شاداب نے کمرہ میں جلتی مدھم لائیٹس کو بند کرتے مین لائیٹس جلائی۔


" بس بس میرا بچا چپ ہوجاؤ " ۔ لیزا نے اُسکے چہرے کو ٹٹولتے ہوئے پیار سے کہا ۔ لیکن شاداب کے زور زور سے ہنسنے کی آواز پر اُس نے بیقیني سے اُسکی طرف دیکھا۔


" کینگرو میرا بچا گر گیا ہے رو رہا ہے اور تم ہنس رہے ہو "۔ لیزا نے صدمے بھری آواز میں شاداب سے پوچھا جو بیڈ پر بیٹھا اب قہقہہ لگاتے اُسکی تصویر موبائل میں قید کر رہا تھا ۔


" میری جان میں اس بات پر نہیں ہنس ربا میں تمہارے بالوں پر ہنس ربا ہوں ذرا اُدھر شیشے میں دیکھو تو صحیح " ۔ شاداب کے کہنے پر لیزا نے سامنے شیشے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا بال سونے کی وجہ سے بکھرے ہوئے تھے لال رنگ کی ڈھیلی سی کرتی اور کھلے پاجامہ میں بکھرے بالوں میں وہ اپنے آپ کو ہی مونجولکا لگی ۔ لیزا کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہوا ۔


" یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے میرے بال بھی تمھاری وجہ سے خراب ہوئے ہے ۔تم نے میرے بچے کو میرے پاس سے ہٹاتے اپنے پاس لٹایا اور اپنے گینڈے جیسے وجود کو پھیلا کر لیٹ گئے جسکی وجہ سے میرا بچہ زمین پر گرا " ۔ لیزا نے غصے بھری آواز میں لیزا سے کہا ۔


" تو اور کیا کرتا بھئی بیوی کے ساتھ وقت بتانا ہوتا ہے لیکن تمہارا یہ دو سالہ چلغوزہ تمھاری جان چھوڑے تو نہ " ۔ شاداب کی بات پر لیزا نے دانت پیسے اور ایک نظر اپنے کندھے پر ڈالی جہاں وہ ہچکیاں بھر رہا تھا لیکن سویا نہیں تھا ۔ وہ تو شکر تھا شاداب نے پہلے ہی اُسکے کرولنگ کرنے کی وجہ سے پورے کمرے میں آرام دہ قالین بچھا دیا تھا تو اُسے زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی ۔


" شاداب دیکھو یہ ہچکیاں بھر ربا ہے رو نہیں رہا اب ۔۔اور نہ ہی سو رہا ہے کہیں کوئی اندرونی چوٹ تو نہیں آگئی اسے " ۔ لیزا کی ممتا ایک دم جاگی دل دھڑک اٹھا اپنے بچے کی فکر میں جو ہچکیاں تیزی سے بھر رہا تھا۔


" لاؤ دو پریشان کیوں ہو رہی ہوں یار پٹھان کا بچا ہے اتنی اتنی سی بات پر اب روتا تھوڑی رہے گا تم جاؤ دودھ لے آؤ اسکا " ۔ شاداب پل میں سنجیدہ ہوا تھا۔ اس نے لیزا کی گود سے جلدی سے فارس کو لیا لیزا اُسکا فیڈر لینے کے لیے کمرے سے نکل گئی۔

شاداب نے لیزا کے کمرے سے جاتے ہیں جلدی سے فارس کے ہاتھ اور پاؤں کو چیک کیا ۔۔فارس کی شرٹ اٹھا کر اُسکے پیٹ پر ہاتھ جیسے ہی رکھا ویسے ہی وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔ شاداب نے اُسکے ہنسنے پر سکون کا سانس لیا باپ تھا فکر اُسے بھی ہوئی تھی اپنے بچے کی ۔

" بہت تیز ہو تم ڈرا دیا اپنی ماں کو بھی ۔۔۔اور اپنے باپ کو بھی " ۔ فارس کو کہتے اُس نے فارس کے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے گدگدی کی اور وہ کھلکھلا کر ہنس دیا ۔

لیزا جب کمرے میں ائی تو دونوں باپ بیٹے کو ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے دیکھ وہ بھی مسکرا دی ۔۔اُن دونوں کی ہنسنے کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔ اُس نے فارس کو ہنستا دیکھ خدا کا شکر ادا کیا تھا ۔

جہاں کچھ دیر پہلے صرف شاداب اور فارس کی ہنسنے کی آواز گونج رہی تھی اب وہی پر لیزا کی ہنسنے کی آواز بھی شامل ہو چکی تھی ۔

💗💗💗💗💗

سب کے سب پاکستان میں شفٹ ہوگئے تھے ۔ کامل خضر اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے اللہ نے خضر کو پھر سے بیٹے کی نعمت سے نوازا تھا ۔ کامل کو بھی اللہ نے ایک پیارا سا بیٹا عطا کیا تھا ۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے سکون سے تھے ۔۔اور یہ خوشی کے لمحات اُنہیں بہت سی تکلیفیں سہنے کے بعد میسر ہوئے تھے ۔۔سب کی اپنی اپنی مصرفیت تھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ سب ایک دوسرے کو بھول گئے ہو ۔۔ہفتے یا مہینے میں سب ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہوتے تھے اپنوں کے ساتھ اپنوں کے بیچ قیمتی لمحات بتاتے تھے ۔

غلطیاں سب سے ہوتی ہے جیسے حسام اور جنید سے ہوئی تھی ۔۔لیکن انہوں نے وقت پر اپنی غلطی کو سدھارا معافی مانگی ۔ حسام نے غرور اور تکبر کی وجہ سے جو کچھ کھویا اللہ نے اُسکی معافی کے بعد اُسے وہ سب کچھ واپس دیا وقت نے جنید کا ساتھ دیا تو اُسے بھی اُسکی خوشیاں اُسکی فیملی واپس مل گئی ۔ پر ضروری نہیں وقت ہمیشہ آپکا ساتھ دے ۔ اسی لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے ۔ بیہ نے حسام کو معاف نہ کرتے خود سے دور کرتے ایک دوسرے کو تڑپنے کی اذیت سے بچایا اور اُسے معاف کرتے اُسکے ساتھ نئی زندگی شروع کی ۔۔سدرہ نے اپنی انا میں اتے ایک غلط قدم اٹھایا لیکن اُس سے سبق حاصل کرتے وہ سمجھ گئی کہ جو رشتیں بہت خاص ہوتے ہے اُن میں انا نہیں ہونی چائیے خاص کر میاں بیوی کے رشتے میں انا سے رشتے خراب ہوجاتے ہے۔ زرقان نے یہ بات سچ کرتے دکھائی کے محبت میں محبوب کی کمی یہ خامی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔۔۔صرف محبوب سے غرض ہوتی ہے ۔۔اُسکے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ امنہ بول سکتی ہے یہ نہیں۔ ۔وہ آمنہ کی آواز بن جانے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ لیزا اور شاداب کو کامل اور خضر نے ملوا دیا تھا ۔ اگر کامل خضر نہیں ہوتے تو شاید لیزا اور شاداب کسی انچاہے بندھن میں بندھتے مجبوری میں رشتا نبھا رہے ہوتے ۔۔کبھی کبھار ماں باپ کے فیصلے بھی اولاد کہ لیے غلط ثابت ہوسکتے ہیں ۔۔اُنہیں بھی اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ اُنکی زندگی کے بڑے فیصلے کرتے وقت اُنکی پسند نہ پسند کے بارے میں پوچھ لینا چاہیئے ۔۔اگر جو اُنکی پسند ہے اُنکے حق میں بہتر نہیں تو آرام سے اپنی اولاد کو محبت سے سمجھائے اُسکے آگے ساری حقیقت رکھتے اور اگر اُنکی پسند اُنکے حق کے لیے بہتر ہے تو خوشی خوشی اُنہیں ایک ساتھ ایک مضبوط رشتے میں باندھ دے ۔۔

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Misal E Ishq Season 2 Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Misal E Ishq Season 2 written by AK . Misal E Ishq Season 2 by AK  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages