Shiddat E lams By Faiza sheikh Romantic Complete Novel Story - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 15 June 2024

Shiddat E lams By Faiza sheikh Romantic Complete Novel Story

Shiddat E lams By Faiza sheikh  Romantic Complete Novel Story 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Shhidat E lams By Faiza sheikh Complete Romantic story

Novel Name: Shhidat E Lams 

Writer Name:  Faiza sheikh 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔



"بابا ___بابا جانی کہاں ہیں آپ مجھے لیٹ ہو رہا ہے کالج  سے ___ہنیزہ پچھلے دس منٹ سے میکال صاحب کا انتظار کر رہی تھی میکال صاحب جو کوئی فائل سٹڈی کر رہے تھے ہنیزہ کی آواز پر مسکراتے ہوئے کوٹ پہننے لگے 

ہنیزہ اس وقت بلیک شارٹ فراک اور نیوی بلیو نیرو پینٹ بالوں کی پونی ٹیل کیے نیلی آنکھوں میں کچھ کرنے کا جنون لیے سیڑھیوں پر نظریں ٹکائے کھڑی تھی ۔۔۔ ہنیزہ کی معصومیت اس کی  خوبصورتی کو مزید نکھار دیتی اس کے باریک پتلے ہونٹوں پر  گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند گلال چھایا رہتا ۔۔۔ چوخ و چنچل طبیعت کی مالک" ہنیزہ میکال " صرف اپنے باپ سے ہی قریب تھی اس کی پہلی محبت تھے اس کے بابا جن کی سنگت میں وہ کسی پھول کی طرح کھلتی تھی 

ہنیزہ نے گہرا سانس بھر کے باہر گیراج کی جانب قدم بڑھائے ۔۔۔۔ ہنیزہ اپنی ہی دھن میں چلتی بکس میں سر دیے چل رہی تھی جب اپنے سامنے سے آتے شخص کے چوڑے سینے سے جالگی ۔۔۔ اس کی بکس نیچے جاگریں اس سے پہلے کے ہنیزہ گرتی عابس سلطان نے اپنے گلو وز میں مقید ہاتھ سے اس کی نازک کلائی تھامتے اسے گرنے سے بچایا ۔۔۔

ہنیزہ نے جیسے ہی نظریں اٹھاکر سامنے دیکھا تو ہیزل گرین آنکھوں سے ٹکرائیں جن میں تیرتے سرخ ڈورے اسے پل میں خوفزدہ کر گئے ، سرخ و سپید رنگت ،تیکھی ناک ،عنابی ہونٹ اس  وقت بلیک ہڈی بلیک ہی پینٹ میں ملبوس وہ واقعی قدرت کا شاہکار تھا وہ "عابس سلطان "تھا جس کی ایک دنیا دیوانی تھی عابس سلطان کے حصار میں کھڑی بولڈ سی ہنیزہ تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔

عابس کی سرخ نظریں اس کے سراپے پر ٹکیں تھیں ایک تیکھی نظر اس کے چہرے پر ڈالتے کسی اچھوت کی طرح اسے خود سے دور دھکیلا ۔۔۔ ہنیزہ گرتے گرتے بچی اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں کہ کاش یہ خواب ہو ۔۔۔ کاش عابس سلطان کا سامنا اس سے نا ہوا ہو ۔۔۔۔ اس کی حالت  تڑپتی مچھلی جیسی ہوگئی تھی جس کے آس پاس صرف ایک دیو تھا جس کی قید اسے ذندان کی یاد دلاتی تھی ۔۔۔

ہنیزہ نے ہچکی بھرتے دونوں آنکھوں سے آنسو رگڑے جو اس کے سرخ گلابی گالوں کو بھگوتے ہونٹوں پر سرک رہے تھے 

ہنیزہ نے چپکے سے انگلیوں کے درمیاں سے دیکھا کہ دیو ہے یا چلا گیا ۔۔۔۔ اس کی بچکانہ حرکت پر عابس نے مزید سختی سے اپنے گلووز میں مقید ہاتھ کو بھینچا جیسے اس ہاتھ کے درمیاں "ہنیزہ میکال "ہو 

وہ اپنا ایک گھٹنا فولڈ کیے اس کے قریب بیٹھا جو اب بھی چہر ہ چھپائے سسک رہی تھی 

"تمہیں پتا ہے ایچ_اے کہ تم بہت خوبصورت ہو ۔۔۔ بلکل کسی پری کی طرح ہے نا"

۔۔۔ اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی پر ہنیزہ اس کے شیطانی روپ سے بے خبر بس اللہ سے دعائیں مانگنے میں مصروف تھی کہ کاش اس کے بابا آجائیں 

عابس نے اپنی شہادت کی انگلی اس کی تھوڑی کے نیچے رکھتے چہرہ اونچا کیا ۔۔۔۔ ہنیزہ کے رونے میں مزید روانی آئی وہ کبھی مضبوط نہی بن سکتی تھی عابس سلطان کے سامنے وہ تو پھڑ پھڑاتی چڑیا تھی جس کے پنکھ عابس سلطان کے پاس قید تھے 

عابس نے اس کے  آنسووں سے تر چہرے پر پھونک ماری ہنیزہ اس کی اگ کی مانند دہکتی سانسیں اپنی آنکھوں پر پاتے سانس تک روک گئی 

🌹ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ  ﺩﮬﺎﺭ  ﭘﺮ  ﺭﮐﮭﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ،ﺍﻭﺭ میرا یہ دُﮐﮫ

🌹ﺁﻧﮑﮫ  ﺳﮯ  ﺑﮩﺘﺎ  ﮨﻮﺍ  ﺧﺎﻣﻮﺵ  ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭمیرا یہ  دُﮐﮫ

🌹ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ اُﺳﯽ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺳﮯ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮئے ،

🌹ﭘﮭﻮﻝﺧﻂ، ﻭﻋﺪﮮ، ﺩﻻﺳﮯ، ﺍﮎ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ میرا یہ دُﮐﮫ

🌹اِﮎ  ﺩﻭﺟﮯ  ﺳﮯ  ﺑﭽﮭﮍ ﮐﺮ ﻋﻤﺮ  ﺑﮭﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﺭﮨﮯ

🌹ﺭﺍﺕ،  ﺻﺤﺮﺍ،  ﺧﺸﮏ ﭘﺘﮯ، ﺍیک ﺭﺍﻧﯽ، ﺍﻭﺭ میرا یہ دُﮐﮫ

🌹ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮﻟﻔﻈﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ پہلی ﺳﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ

🌹ﮈﺍﻝ ﺍﺏ ﺟﮭﻮﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ میرا یہ دُﮐﮫ

🌹ﺭﺍﺕ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ، ﺑﺎﻧﺴﺮﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﮎ ﭘﺮ

🌹ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮟ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﭘﺮﺍﻧﯽ، ﺍﻭﺭمیرا یہ دُﮐﮫ

وہ چیخنا چاہتی تھی ۔۔۔ پر آواز جیسے حلق میں دب گئی تھی ۔۔۔ اگر کوئی آج ہنیزہ میکال سے کہتا کہ عابس سلطان اور موت میں سے کسی ایک کو چنو تو بلاشبہ وہ موت کو چنتی ۔۔۔

اس سے پہلے کہ وہ بیہوش ہوتی عابس ایک گہری نظر اس کے لرزتے سراپے پر ڈالتا وہاں سے اندر کی جانب بڑھ گیا 

میکال صاحب باہر آئے تو ہنیزہ کی حالت دیکھ تڑپ کر اس کی جانب بڑھے جو رک رک کے سانس لیتی ان کو دنیا دہلا گئی میکال صاحب نے فورا اسے باہوں میں بھرا اور گاڑی کی طرف بھاگے اپنے روم کی کھڑی سے کسی نے یہ منظر انتہائی تنفر سے دیکھا تھا 

_________،

میکال سید زادہ  اور افرال سید زادے  دونوں بھائی تھے میکال صاحب کی بیگم منشاء منیزہ کی پیدائش کے وقت انتقال کر چکی تھیں ان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی منیزہ ۔۔۔ جبکہ افرال صاحب کی دو اولادیں تھیں عابس سلطان سید اور عاشر سلطان سید دونوں بھائی ایک دوسرے کے بلکل الٹ تھے  ایک آگ تھا تو دوسرا پانی دونوں نے خوبصورتی بے مثال پائی تھی ۔۔۔۔۔ ان کی والدہ عفت بیگم بہت نیک خاتون تھیں ہنیزہ کی والدہ کے انتقال کے بعد انہوں نے  ہنیزہ کو ماں بن کر پالا ہنیزہ بہت ریزورڈ نیچر کی مالک تھی وہ صرف اپنے بابا اور چچی جان سے ہی بات کرتی ورنہ اپنے کمرے میں بند رہتی 

عاشر سلطان باپ کے ساتھ بزنس سنبھال رہا تھا اس کی نیچر بہت جولی ٹائپ تھی ہنیزہ کو تو وہ سب اپنی زندگی مانتے تھے وہ لاڈلی تھی عاشر اور میکال صاحب کی اس کے برعکس عابس کو ہنیزہ سے سخت نفرت تھی وہ انیس سال کی لڑکی جس کی صورت سےبھی عابس کو نفرت تھی پر وہ معصوم بچپن سے اب تک اس بات سے انجان تھی کہ آج تک عابس کا رویہ اس کے ساتھ ایسا ہے کیوں ۔۔۔۔

_______

میکال صاحب اسے اپنے دوست کے کلینک لے آئے تھے انہوں نے فورا ہنیزہ کا چیک اپ کیا اور اسے انجیکشن دیا ۔۔۔ میکال صاحب جو کب سے بیچینی سے باہر ٹہل رہے تھے ڈاکٹر عاقب کے باہر آتے ہی ان سے مخاطب ہوئے 

عاقب یار کیا ہوا ہے میری بچی کو بتاو پلیز ۔۔۔۔ان کے لہجے میں بے چینی کا عنصر نمایا تھا ڈاکٹر عاقب نے انہیں ریلیکس کیا اور بتایا کہ ہنیزہ صرف سٹریس کی وجہ سے بیہوش ہوئی ہے باقی سب ٹھیک ہے 

میکال صاحب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور عاشر کو فون لگایا ۔۔۔ عاشر جو ابھی آفس کے لیے نکل رہاتھا ۔۔۔۔ تایا جان کی کال دیکھ کر فورا پک کی جب دوسری طرف ان کی پریشانی سے بھر پور آواز سنائی دی 

بیٹا ہنی کی طبیعت خراب ہے میری میٹنگ ہے تم اسے گھر لیجاو عاشر ان کی بات سنتا فورا سارے کام چھوڑ کلینک پہنچا جہاں  میکال صاحب اسی کا انتظار کر رہے تھے 

میکال صاحب میٹنگ کے لیے نکلے تو عاشر بیتابی سے اپنی گڑیا سی دوست کو دیکھنے روم میں آیا جہاں اب وہ آنکھیں مسلتی اٹھ چکی تھِی عاشر کو دیکھ ۔۔۔ ہنیزہ کو ایک دم سے پھر خوف نے آن گھیرا اسے عاشر میں بھی ۔۔۔ عابس.  دکھائی دینے لگا ہنیزہ کو یوں کانپتا دیکھ عاشر پریشانی سے آگے بڑھتے اسے خود سے لگا گیا ۔۔۔ کسی قیمتی متاع کی طرح اس کے بالوں کو سہلاتاپر سکون کرنے لگا 

ہنیزہ کچھ ہی دیر میں پر شفقت لمس محسوس کرتی آنکھیں موند گئی عاشر اسے بازوں میں بھرتا گاڑی میں لٹاتا گاڑی گھر کے راستے پر ڈال گیا یہ جانے بغیر کہ گھر پر کونسی قیامت اس کا انتظار کر رہی تھی 

__________

نور العین آخر کب تمہیں ہو ش آئے گا لڑکی کب سے اٹھا رہی ہوں ۔۔۔۔ تمہارے بابا کب سے ویٹ کر رہے ہیں 

مونا بیگم نور العین کو کتنی دیر سے جگا رہی تھیں پر وہ تھی کہ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی 

مونا بیگم کا ضبط آخر جواب دے گیا انہوں نے اس کے کمرے میں قدم رکھا جہاں پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا مونا بیگم نے ہاتھ مار کر لائٹ آن کی تو پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا ۔۔۔۔ مونا بیگم کی نظر جہازی سائز بیڈ پر پڑی جہاں وہ بے ڈھنگے سے انداز میں سو تی بلکل بچی سی لگ رہی تھی 

نور العین کے بکھرے کمرے پر نظر ڈالتیں وہ گہرا سانس بھر گئیں نور العین کا کمرہ خصوصی اس کی پسند کے مطابق وائٹ اور گرے کامبینشن کے پینٹ گرے ہی کرٹنز ۔۔۔۔ خوبصورت سی المیرہ گلاس وال جس سے باہر کی خوبصورتی مزید نکھر جاتی ۔۔۔ نیز کمرہ  جدید چیزوں سے آراستہ تھا 

نور العین شفاعت لاشاری کی اکلوتی بیٹی تھیں ان کے کوئی اولاد نہ تھی نور العین ان کے بھائی کی بیٹی تھی جس میں دونوں میاں بیوی کی جان بستی تھی زندگی کی ہر آسائش اسے مہیا کی گئی تھی ۔۔۔۔ 

نورالعین نے مسلسل آتی آوازوں پر جیسے ہی کمفرٹر چہرے سے ہٹایا مونا بیگم نے گھور کر اسے دیکھا 

جو شہد رنگ آنکھوں سے ماں کو دیکھتی  ،گولڈن بروانش بالوں کو جوڑے میں قید کرتی جمائیاں روکنے لگی 

نور میں ایک لفظ نہ سنوں تمہارے منہ سے جلدی فریش ہو کر آو 

مونا بیگم نے ڈپٹنے کے انداز میں کہا 

نورالعین منہ بناتی واش روم میں گھس گئی 

پانچ منٹ میں وہ بلکل ریڈی تھی وہ نیچے آئی تو شفاعت صاحب کے منہ سے بے ساختہ ماشاء اللہ نکلا وہ سادگی میں بھی بے حد حسین لگ رہی تھی نازک سی ۔۔۔۔ شہد رنگ آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی سر خ وسفید رنگت میں سرخی نمایاں تھیں لبوں پر قائم شائستہ سی مسکراہٹ اس کا وقار مزید بڑھا رہی تھی وہ اس وقت ریڈ لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ہم رنگ سکارف لیے کسی کو بھی تسخیر کر سکتی تھی ۔۔۔۔

شفاعت صاحب نے اس کے لیے بازو وا کیے تو وہ جھٹ سے دوڑتی ان کے  محبت سے بھر پور حصار میں آسمائی دنیا جہاں کا سکون جیسے رگوں میں سرائیت کر گیا تھا۔۔۔۔ وہ جنون کی حد تک اپنے والدین سے محبت کرتی تھی ۔۔۔ 

میں واقف ہوں پہلی محبت کی چاہت سے 

ارے میں پہلی بیٹی ہوں اپنے بابا کی 🌟

بابا سوری فار لیٹ "وہ کان پکڑے بولی تو شفاعت صاحب مسکرا دیے 

"میرا بچہ بابا کی جان ۔۔۔ بابا قربان میری زندگی یہ وقت کیا چیز ہے ان کی محبت پر وہ ان کی پیشانی چومتی انہیں معتبر کر گئی  دونوں باپ بیٹی کا پیار دیکھ مونا بیگم آنکھوں میں آئی نمی سمیٹنے لگیں ۔۔۔ 

بس کریں وہ کالج کے لیے لیٹ یو رہی ہے 

ان کی بات پر دونوں محبت سے انہیں دیکھتے یک آواز میں بولے "مونا بیگم جلتی ہیں آپ ہم سے "

دونوں باپ بیٹی ان کو جھینپتے دیکھ قہقہ لگا اٹھے یہ چھوٹا سا گھرانہ خوشیوں سے بھر پور تھا ۔۔۔۔

پر کس کو پتا کب خوشیوں کو نظر لگ جائے ۔۔۔۔

__________

عابس کی نظر جیسے ہی گیٹ سے اندر آتے عاشر کی باہوں میں موجود "ہنیزہ پر پڑی اس کی آنکھیں پل بھر میں سلگنے لگیں سختی سے ہاتھ میں تھامے اس تصویر کو دبوچ گیا ایک الگ سا جنون اس کے دماغ پر سوار تھا 

جیسے کسی نے تپتی بھٹی میں جھونک دیا ہو 

"ثابت ہوا ہنیزہ میکال تم عابس سلطان کی نفرت کے بھی لائق نہیں نفرت کے ۔۔۔۔. عابس جس آگ میں اس وقت جھلس رہا تھا نا واقف تھا کہ یہ آگ سب سے پہلے عابس سلطان کے وجود کو خاکستر کرے گی 

وہ جان کنی کا روگ لگائے گی جس سے عابس سلطان  " کی روح تڑپ جائے گی 

"ہنیزہ میکال اس قدر درد دونگا کہ موت کی بھیک مانگو گی پر موت نہی ملے گی ۔۔۔ تمہاری رگ رگ میں ااپنی نفرت یی ایسی چھاپ چھوڑوں گا کوسو گی اس دن کو ۔۔۔۔ جب میرے درد کی وجہ بنی ۔۔۔۔ میں تمہارے وجود سے ختم کرونگا اپنے وجود کی بے چینیاں ہنیزہ میکال یہ وعدہ رہا عابس سلطان  کا "

عابس نے ایک ہاتھ میں پکڑی سگریٹ کو سلگایا اور فضا میں دھواں اڑاتا اس میں ہنیزہ میکال کا عکس دیکھتے قہقہہ لگا اٹھا جہاں اس کا پور ہور زخمی تھا اور وہ بے بس تھی عابس سلطان کے سامنے ۔۔۔۔ 

‏اس نے اک خاص تناسب سے محبت بانٹی

میرے حصے میں ہمیشہ ہی دلاسے آئے.                

عابس کے روم روم میں اپنا من پسند عکس بنتے دیکھ سکون کی لہر سرائیت کر گئی کسی وحشی کی طرح جیسے اسے اپنے سامنے اپنی من پسند غذا دکھ جائے اور وہ کسی بھی لمحے اسے دبوچ لے ۔۔۔ عابس سلطان ۔۔۔۔ اپنی ذات کا وہ سلطان تھا جس کے آگے افرال صاحب بھی ہار مان گئے تھے ۔۔۔۔ وہ جب ضد پر آتا تھا تو ان کی جان کو مٹھی میں دبوچ لیتا پر اپنا جنون پورا کرکے رہتا اور ہنیزہ میکال تو اس کی شدت سے ابھی نا واقف تھی اسے تو احساس نہیں تھا کہ ابھی اس نے کس درد و قرب سے گزرنا ہے .جن کا اس کے معصوم ذہن میں دور دور تک کوئی خیال نہیں ۔۔۔ وہ تو باپ کی شہزادی تھی

عاشر جیسے ہی ہنیزہ کو لیکر "سلطان پیلس"میں داخل ہوا تو سامنے ہی اپنی مام کو تسبیح کرتے ہوئے پایا عاشر کے بازوں میں ہنیزہ کا بے سدھ وجود دیکھتیں وہ پریشانی سے ان کی جانب بڑھیں ۔۔۔۔

"عاشر یہ میری ہنی کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ عاشر بتاو مجھے وہ ہنیزہ کی زرد صورت دیکھتیں اس سے استفسار کرنے لگیں

عاشر نے ان کو ریلیکس کیا ۔۔۔

ماماکچھ نہیں ہوا بس ہنی نے پڑھائی کا سٹریس لیا ہے اور کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔

عاشر ان کو سمجھاتا ۔۔۔ ہنیزہ کو تھامے اس کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا

عاشر نے اس کے کمرے میں قدم رکھا۔۔۔۔ تو بے ساختہ اس کی پسند کو سراہا ۔۔۔. وہ ہنیزہ کے کمرے میں بہت کم آتا تھا اس کا کمرہ پورا کسی ڈزنی لینڈ کی طرج ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ۔۔۔۔ ایک ایک چیز انتہائی مہنگی اور اپنی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔۔۔۔

ہنیزہ کو بیڈ پر لٹاتےاس نے کفرٹر اوڑھایا اور لائٹ آف کرتا باہر چلا آیا جہاں عفت بیگم بے چینی سے میکال صاحب کا نمبر ملا رہی تھیں

عاشر گہرا سانس بھرتا ان کو تھامے اپنے ساتھ لگا گیا اس کی اپنی کیفیت کچھ مختلف نہیں تھی ہنیزہ میکال تو گھر کی معصوم سی گڑیا تھی جس کے چہچانے سے سلطان پیلس خوشیوں سے بھر جاتا تھا


ماما آپ پریشان نہ ہوں آپ جانتی تو ہیں اپنی ہنی کو کتنا چڑیا سا دل ہے اس کا ۔۔۔ بس کر لیا پڑھائی کو سر پر سوار ۔۔۔۔ آپ بس ہنی کے پاس رہیں اس کا خیال رکھیں میری میٹنگ ہے میں آتا ہوں ۔۔۔۔

عفت بیگم نے بھی اس کی پیشانی محبت سے چومی اور شکرانے کے نفل ادا کرنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔۔۔

ان کے جانے کے بعد اب عاشر کا رخ "عابس سلطان "کے کمرے کی جانب تھا

عاشر جتنا کم گو تھا رشتوں کے معاملے میں اتنا ہی حسا س پھر ہنیزہ میکال میں تو ا س کی جان بستی تھی کیسے اسے ااس حالت میں دیکھ لیتا

عاشر کو کہِیں نہ کہیں اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ یہ سب عابس سلطان کی کرم نوازی کی وجہ سے ہے وہ جانتا تھا کہ عابس کے دل میں بچپن سے ہی ہنیزہ کے لیے پنپتا جذبہ بہت عجیب تھا عاشر ناجانے کتنی باراسے سمجھا چکا تھا کہ وہ ہنیزہ کے ساتھ اپنا رویہ بدلے مگر وہ "عابس سلطان "ہی کیا جو مان جائے الٹا جب ۔۔۔۔ بھی عاشر ا سکے پاس ہنیزہ کی بابت بات کرنے جاتا ۔۔۔۔ وہ بھڑک جاتا اس کی حالت کسی وحشی درندے جیسی ہو جاتی جس سے کوئی اس کا شکار چھیننے کی تگ ودد میں لگا ہو ۔۔۔ اور اپنی عادت سے مجبور عابس اپنا سارا غصہ اپنے دل میں ہنیزہ میکال کے لیے بڑھتی نفرت کی صورت نکالتا ۔۔۔۔

عاشر مجبورا اسے اس کے حال پر چھوڑ چکا تھا اس کی عادت تھی جہاں لفظوں کو کام میں نا لایا جا سکے خاموشی کی مار ماری جائے

مگر آج تو ہر حد پار ہو چکی تھی ہنیزہ کی اس قدر سیریس حالت پرا س کا ازلی غصہ عود آیا تھا ۔۔۔ وہ غصہ بہت کم کرتا تھا ۔۔۔۔ پورا خاندان اس کی صاف گوئی اور نرم طبیعت سے واقف تھا ۔۔۔

پر ہنیزہ میکال میں۔ان سب کی سانسیں بستی تھیں بچپن سے ہی اس نے ہنیزہ کی دیکھ بھال ایک محافظ کی طرح کی تھی ہر سرد و گرم سے بچاتا آیا تھا مگر عابس سلطان اس کے بس کے باہر کی شے تھا جس پر کسی بات کا اثر ہونا سرے سے ناممکن تھا


__________

عاشر روم ناک کرکے اندر آیا تو اس نے ناگواری سے عابس سلطان کی جانب دیکھا جو بڑی محویت سے اپنے ہاتھ میں پھڑ پھڑاتے بچھو کو دبوچے اپنی سرخ گرین آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اپنے کام میں مشغول تھا

وہ بڑے عجیب انداز میں مسکراتا ۔۔۔۔۔ اک دم سے اس بچھو کو اپنے کندھے پر چھوڑ گیا ۔۔۔۔ وہ بچھو بھی شاید اپنی تکلیف کا بدلہ لیتا اس کے کندھے کا زخمی کر چکاتھا پر۔۔۔۔ دوسری جانب پرواہ کسے تھی ۔۔۔

عابس یہ کیا بچپنا ہے کب تک یہ جنگلی پن قائم کروگے ہاں ۔۔۔۔ آخر کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔ کیوں اس قدر شدت پسندی آگئی ہے تمہارے اندر تم ایسے تو نہیں تھے عابس ۔۔۔ تم۔تو بھاٙئی کی جان تھے ۔۔۔۔

یہ جنونی پن ۔۔۔۔ سن کچھ تباہ کرنے کی چاہ ۔۔۔۔ آنکھون میں اندیکھی آگ لیے کس کو خاکستر کرنے کے در پر ہو ۔۔۔

عاشر غصے سے اس کے سرخ کندھے کو دیکھتے ہوئے بولا جس کے انداز میں وحشت ہی وحشت تھی ۔۔۔۔وہ بچھو اپنا کام کرتا اس کے کندھے کو بری طرح نوچ چکا تھا

عاشر نے جھٹکے سے بچھو کو اس کے کندھے سے گرایا اور افسوس سے اسے دیکھنے لگا جو اب بھی ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہا تھا جیسے کوئی مزاحیہ بات کی جارہی ہو ۔۔۔

عاشر خوفزدہ سا تھا اس کے اطوار و انداز کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔تھے

"جی بھیا بتائیں کس لیے آپ نے میرے روم میں آنے کی زحمت کی ہے ۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے ۔۔۔ اوہ آئی سی . . شاید آپ کی ہنی نے شکایت لگائی ہو گی ۔۔۔. ویسے ہے کہاں دکھائی نہیں دی ۔۔۔"

عابس اپنے سرد لہجے میں عاشر سے مخاطب ہوتا اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔

"عابس تمہیں ترس نہیں آتا اس معصوم پر ۔۔۔ آخر اس کی غلطی کیا ہے ۔۔۔۔ تم کیوں اسے خوفزدہ کرتے ہو ۔۔۔ تم جانتے بھی ہو آج تمہاری وجہ سے وہ موت کے منہ سے بمشکل بچی ہے کسی انسان کو اتنا بے بس مت کرو عابس سلطان کے اس کی معصوم آہیں تمہیں در در بھٹکنے پر مجبور کردیں "

عاشر اسے سمجھانے کے سے انداز میں بولا ۔۔

پر اس کی بات پوری ہوتے ہی "عابس سلطان "قہقہہ لگا اٹھا

پر اسرار سا کچھ ان دیکھا سا تھا ۔۔۔۔ عاشر کو آج ہنیزہ کے لیے عابس سے ڈر لگا وہ کیا کرنا چاہتا تھا کیا کر رہا تھا ۔۔۔۔ کچھ تو تھا جو وہ ۔۔۔ اپنے اندر قید کیے بیٹھا تھا

"ہوگیا بگ بی ۔۔۔ مائی سویٹ برادر ۔۔۔ اب میری بات دھیان سے سنیے ۔۔۔ اپنی اس چوزی کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں اس کی قید "عابس سلطان "کے ہاتھوں لکھ دی گئی ہے ۔۔۔۔ مجھے مجبور مت کیجیے گا کہ میں اس ہر حد کو پار کردوں جسے آپ کے والد محترم کی وجہ سے سنبھالا ہوا ہے ۔۔۔ میرا زہر آپ کی ہنی اپنے اندر محسوس نہ کرے تو مجھے سکون نہیں آتا ۔۔۔ اور آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ہر انسان اپنے سکون کے خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے ۔۔۔ کچھ بھی تو سوچیں میں کوئی عام انسان نہیں "بلکہ عابس سلطان ہو ں میرا لیول ہے "

وہ سرگوشیوں کے سے انداز میں اپنے ارادوں سے عاشر کو آگاہ کرنے لگا

عاشر اس کی اس قدر دیدہ دلیری پر اپنے آپ کو روک نا سکا اور ایک تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کر دیا ۔۔۔۔ کس قدر نفرت انگیز لہجہ تھا ۔۔۔۔ اس کا جیسے وہ 'ہنیزہ میکال 'کو ذندہ درگور کر سکتا ہے ۔۔۔

شٹ اپ عابس سلطان ___جسٹ شٹ اپ بند کرو اپنی بکواس جو تم کررہے ہو نا ایسا نہ ہو کہ اس کے انجام پر تڑپتے رہ جاو ۔۔۔۔ جس قدر تمہارے اندر نفرت ہے اس سے زیادہ اس معصوم کے سر پر محبتوں کے تاج ہیں تم جب بھی کوشش کرو گے اس سے نفرت کے اظہار کی اس کی محبت اس کی معصومیت تمہیں ۔۔۔ ایک بار ضرور دغا دے گی ۔۔۔۔

چچچچچچ ۔۔۔ پیارے بھیا ۔۔ اب اگر آپ کی بات ختم ہو گئی ہو تو میں جاوں ۔۔۔۔ وہ بولتے باہر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔

عاشرنے متفکر ہوتے ماتھا مسلا اب وہ اپنے ارادے مضبوط کر چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے وہ کل ہی ہنیزہ کو جرمنی بھیجنے کا سوچ چکا تھا میں ماما بابا کو بھی منا لونگا پر اسے عابس کے خطر ناک ارادوں کی نظر نہیں ہونے دونگا

____________

عاشر ریش ڈرائیونگ کرتا آفس جا رہاتھا اس کے دماغ میں صرف عابس کی باتیں چل رہیں تھیں کیسے اس حد تک وہ ہنیزہ سے نفرت کر سکتا ہے یہی بات اسے پریشان کر رہی تھی وہ جانتا تھا عابس کی نیچر کو وہ اپنے لیے جتنا سفاک تھا اس سے زیادہ اسے ان لوگوں پر جنون واضح کرنا پسندتھا جو اس سے جڑے ہوں

عاشر اپنی ہی سوچوں میں ڈوبا تھا جن سامنے سے آتی کار کو نا دیکھ سکا اور دونوں کاروں کا زبردست تصادم ہوا ۔۔۔۔ عاشر اسٹئیرنگ کنٹرول کرتا اس سے پہلے ہی کار درخت سے ٹکرا گئی ۔۔۔۔

سیٹ بیلٹ کی وجہ سے عاشر کو زیادہ چوٹیں نہیں آئیں تھیں پر عاشر ایک دم دوسری گاڑی میں موجود افراد کا سوچتے کار سے اترا تھا ۔۔۔۔

سب لوگ وہاں جمع ہو چکے تھے

عاشر ان کو پیچھے ہٹاتا آگے بڑھا جہاں کو ئی لڑکی نقاب میں بیہوش پڑی تھی ۔۔۔۔ عاشر نے جلدی سے اس کے ڈرائیور کو ساتھ لیے ہاسپیٹل کا رخ کیا ۔۔۔۔ آج کا دن ہی اس کے لیے منہوس تھا صبح سے کوئی نا کوئی انہونی ہورہی تھی ۔۔۔۔

عاشر کی نظریں اپنی گود میں سر رکھے بیہوش لڑکی پر تھیں جو گلابی عبائے میں ملبوس گھنیری مڑی پلکیں خوبصورتی سے کیے حجاب میں عاشر کو خو شگوار حیرت میں مبتلا کر گئی ایک عجیب سی کشش اسے محسوس ہوئی اس لڑکی میں ۔۔۔۔ اگلے پانچ منٹ میں وہ ہاسپیٹل تھا ۔۔۔ ڈاکٹرز اس کا ٹریٹمنٹ کر رہے تھے وہ ہریشانی کے عالم میں باہر چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔ جب سامنےسے ہی ایک انتہائی پر وقار شخص ڈرائیور کے ساتھ چلتا اس کے قریب آن کھڑا ہوا اور بے چینی سے اس سے ہوچھنے لگا

"بیٹا کیاہوا ہے ؟۔۔۔۔ کیسی ہے میری نور ۔۔۔۔ بتاو مجھے کیسے ہوا یہ سب ان کی بات سن کر عاشر مزید شرمندہ ہوا یقینا وہ اس حجابی لڑکی کے والد تھے

عاشر نے ان سے معذرت کی اور انہیں ساری بات بتائی شفاعت صاحب نےا س کے کندھے پر ہاتھ رکھا

بیٹا شکریہ آپ میری بیٹی کو یہاں لائے اور آپ سے درخواست ہے بیٹا کہ جب دماغ پرسکون نا ہو تو اس طرح ڈرائیونگ نہیں۔کرتے میری بیٹی اللہ کے حفظ و امان میں ہے مگر آگے سے احتیاط کرنا

عاشر ان کے پر شفقت لہجے سے متاثر ہوِئے بنا نہ رہ سکا اور تشکر سے ان سے ملا

سر ان شاء اللہ میں خیال رکھونگا

کیا نام بتایا آپ نے بیٹا ۔۔۔۔

سر میرا نام عاشر سلطان ہے شفاعت صاحب نام سنتے ہی پہنچان گئے بزنس کی دنیا میں وہ جانا مانا نام تھا

ابھی وہ ٹہل ہی رہے تھے جب ڈاکٹر باہر آئیں اور نور کے ہوش میں۔آنے کا بتایا شفاعت صاحب نے اپنے رب کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ اور جلدی سے روم کی جانب بڑھ گئے ۔۔۔۔

عاشر نے بھی باہر کی راہ لی

_____________

رات دو بجے کا وقت تھا جب کوئی انتہائی دھیمے قدموں سے چلتا ہنیزہ میکال کے کمرے میں۔داخل ہوا ۔۔۔۔

اور دروازہ جھٹ سے لاک کیا ہنیزہ نیند میں بھی اس جانی پہنچانی خوشبو کو محسوس کرتی بے چین سی ہوئی ۔۔۔ پر دواوں کا اثر تھا جو وہ بے سد ھ سوئی رہی

وہ بنا آواز کیے اس کے قریب سرہانے پر آبیٹھا ۔۔۔ اور بغور چاند کی چمکتی روشنی میں اس کا دمکتا چہرہ دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جس پر چھائی معصومیت کسی کو بھی اپنا دیوانہ کر سکتی تھی

عابس نے نہایت نرمی سے اس کے چہرے پرآئے بالوں کو پیچھے کیا

انداز میں اس قدر نرمی تھی جیسے وہ کوئی کانچ کی گڑیا تھی ۔۔۔۔۔۔

اس کے لمس پر وہ کسمسائی تھی عابس نے اس کے قریب ہوتے غیر محسوس انداز میں اس کی ناک سے ناک جوڑتے سانسیں اپنے اندر اتاریں تھیں ایک سرور سا اس کے دل و دماغ پر چھایا تھا ۔۔۔۔ کتنا سکون تھا وہ ناجانے کب تک اس کی سانسوں کو خود میں اتارے اپنی تنی رگوں کو سکون دینے لگا ۔۔۔۔

عابس کو اچانک سے کچھ یاد آیا اس نے بڑی احتیاط سےاس کے نرم و نازک ہاتھ کو تھامے اپنے کندھے پر موجود زخم پر رکھا اور دباو بڑھانے لگا . ۔۔۔۔ شاید یہ بھی سکون کا نیا انداز تھا ۔۔۔۔ اس کے لیے

ہنیزہ کا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھے وہ پھر سے اس کے دوپٹے کو چہرے پر پھیلائے مسحورکن خوشبو ڈرگز کی طرح خود میں اتارنے لگا ۔۔۔۔۔

طلب کو یاد رکھونگا زمانہ بھول جاوں گا

مہک کو یاد رکھونگا لہو کو بھول جاوں گا

رگ رگ میں اتروں گا زہر بن کے ترے

میں وحشت یاد رکھونگا محبت بھول جاوں گا

وہ ایک دہکتا جنونی لمس اس کی پیشانی پر چھوڑتا جیسے آیا تھا ویسے ہی وہاں سے نکلتا چلا گیا 

ہنیزہ کی آنکھ صبح دس بجے کے قریب کھلی اس نے جیسے ہی نظریں چاروں طرف گھمائیں تو اپنے سرہانے عفت بیگم کو بیٹھے پایا جو شاید اس کے پاس بیٹھی کچھ پڑھ کر پھونک رہیں تھیں ان کو اپنے پاس پاتے ہی ہینزہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ بے ساختہ ان سے لپٹ کر آنسو بہانے لگی اپنی بے بسی پر آخر کیوں تھی وہ اس قدر کمزور ۔۔۔ کہ عابس سلطان اس کی روح تک کو زک پہنچانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاتا تھا کیا وہ واقعی اس قدر آسان حدف تھی ۔۔۔۔ وہ معصوم تو خود سے انجان تھی

عفت بیگم نے آیات الکرسی پڑھتے اسے خود سے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا ان کی محبت پر وہ ایک بار پھر سے بکھری ۔۔۔۔

"میری جان ____میری گڑیا کیا ہوا ہے آپ نے کیوں پڑھائی کو اس قدر سوار کر لیا ہے خود پر میں ہوں نا خود اپنی بیٹی کو بیسٹ تیاری کرواونگی اور تمہیں پتا ہے ۔۔۔۔ تمہارے عابس بھیا ۔۔۔ بھی ٹاپر رہ چکے ہیں.۔۔۔ وہ تمہاری مدد کریگا میری زندگی ۔۔۔ پر خود کو اور ہمیں یوں تکلیف نہ دو میری بچی ۔۔۔. "

ہنیزہ جو ان کے ہمیشہ کی طرح نرم لہجے پر مسکرائی تھی وہیں عابس کے نام پر ایک خوف کا سایہ سا اس کے چہرے پر لہرایا تھا اک پل کو پورا وجود کپکپا اٹھا تھا وہ فورا سے عفت بیگم سے دور ہوتی واش روم میں بند ہوگئی

عفت بیگم اس کے اچانک ردعمل پر بوکھلا گئیں اور فورا سے آوازیں دینے لگیں

ہنی گڑیا ۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو ؟۔۔۔۔۔

جب ہنیزہ کی لرزتی آواز نے کچھ پر سکون کیا ۔۔۔

"جی ماما میں ٹھ. ٹھیکککک ہوں ____آواز میں حد درجہ نمی گھلی ہوئی تھی جو عفت بیگم واش بیسن میں چلتے ٹیپ کی وجہ سے نا سن سکیں اور اس کے لیے جلدی سے ناشتہ بنانے چلی گئیں

ہنیزہ میکال ۔۔۔ واش بیسن پر جھکی اپنا کملایا سا روپ دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔

لمبے گھنے بال اس وقت اجڑی حالت میں تھے ،نیلی آنکھوں میں خوف کا جہاں آباد تھا سرخ لب ایسے تھے جیسے کسی بھی وقت خون چھلک جائے گا

ہنیزہ اپنے مومی نازک ہاتھ کی انگلیوں سے چہرہ چھوتی اپنا عکس دیکھ رہی تھی

کیوں کرتا تھا عابس سلطان اس قدر نفرت اس نفرت کا سد باب کیا تھا

کیا اس کا چہرہ ۔۔۔۔ وہ اتنی بد صورت تھی ۔۔۔۔

"ممممیں آااپ کووو کککبھییی معاففف نی کککرونگی ۔۔۔ عابی بھییییا۔۔۔ برررے ہیںن آااپ ہرٹ کرتےےےےے ہیں ہنییی کو ووو ۔۔۔۔ "

ہنیزہ آئینے میں۔خود کو دیکھتی روتے ہوئے بولی تھی عابس نے اس نرم دل لڑکی کو اس قدر توڑا تھا کہ اب وہ خود سے بھی کتراتی تھی

ہنیزہ نے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تبھی اسے خود پر کسی کی سلگتی نظروں کی تپش کا احساس ہوا ۔۔۔. ہنیزہ گھبرا کر پیچھے مڑی ۔۔۔ پر وہاں کوئی نا تھا

ہنیزہ نے جلدی سے اپنا وائٹ اینڈ پنک کنٹراس ہنیگ کیا ڈریس لیا اور چینجنگ روم کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔

________

عاشر آفس پہنچا تب تک میٹنگ اسٹارٹ ہو چکی تھی ۔۔۔۔ عاشر جلدی سے کانفرینس روم کی طرف بڑھا اور سب سے معذرت کی میکال صاحب کی نظریں عاشر کے خوبرو چہرے پر جمی تھیں تو بڑے ماہرانہ انداز میں اپنا پروجیکٹ پیش کر رہا تھا سب پارٹنرز اس سے متاثر نظر آرہے تھے اور یہ پراجیکٹ بھی عاشر سلطان اپنے نام کر چکا تھا

افرال صاحب اور میکال صاحب نے گلے لگا کر اسے مبارک باد دی پر وہ ٹھیک سے مسکرا بھی نہ سکا اس کے دماغ میں وہ حجاب میں لپٹی آنکھِیں گھوم رہی تھیں عجب حالت تھی دل کی جب ۔۔۔ جب سوچ رہا تھا ۔۔۔ دل الگ انداز میں دھڑک رہاتھا ۔۔۔۔۔

"حجاب کی خوبصورتی عورت کو ہر مرد کی نظر میں وہ مقام دلاتی ہے جس کی وہ اصل حقدار ہوتی ہے وہی خوبصورتی مرد کو صرف تعلق بنانے پر نہیں حلال تعلق بنانے پر اکساتی ہے "

____________

شفاعت صاحب جب روم۔میں آئے تو نور ان۔کو دیکھ مسکرائی

شفاعت صاحب نے آنکھون میں آئی نمی کو پرے دھکیلتے اس کے پاس بیٹھے اور اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا ۔۔۔۔

"نور العین آپ کو پتا ہے آپ بابا کا غرور ہیں وہ دھڑکن ہیں جن کے دھڑکنے سے آپ کے بابا زندہ ہیں میری۔زندگی اپنا خیال نہیں رکھا آپ نے ۔۔۔۔۔"

وہ تھوڑے خفا لہجے میں نور سے بولے تو وہ ان کی محبت پر سر شار سی مسکرائی ۔۔۔۔

بابا جانی ۔۔۔۔۔ میرے ہیرو ایسے سیڈ نا ہوں یونو نا کہ آپ کی ہیروئین آج میرا قتل کر دینگی ۔۔۔ مجھے بچانے کے بجائے آپ مجھ سے خفا ہو رہے ہیں

نور ان کا موڈ بحال کرنے کے لیے بولی تو وہ سر نفی میں ہلا گئے . .

وہی تو تھی جو مشکل۔سے مشکل حالات میں بھی اپنے باپ کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی ۔۔۔۔۔

میں لاڈلی ہوں اپنے بابا کی

یعنیب وہ عشق ہیں میرا

میں جان ہوں۔اپنے بابا کی

یعنی وہ۔زندگی ہیں میری

میں عکس ہوں اپنے بابا کا

یعنی وہ روشنی ہیں۔میری

کچھ دیر بعد نور کو ڈسچارج کر دیا گیا تھاشکر تھا کہ زیادہ چوٹیں نہیں آئیں تھیں وہ شفاعت صاحب کے ساتھ بیٹھی آج اپنے رب کی شکر گزار تھی جس نے اتنے چاہنے والے والدین عطا کیے ۔۔۔۔جن کی چھاوں اسے کسی گھنے درخت کی مانند خود پر محسو س ہوتی تھی ۔۔۔۔

_________

ہنیزہ فریش ہو کر باہر نکلی اور اپنے گیلے بال تولیے سے آزاد کیے پنک فراک وائٹ چوڑی دار پاجامے میں اس وقت وہ مہکتا گلاب لگ رہی تھی اس کے وجود کی دلفریب مہک ،نم بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں ایک الگ ہی سما باندھ رہیں تھیں

ہنیزہ نے کوفت سے برش ہاتھ میں پکڑے اپنے بالوں کو دیکھا جو اس سے سلجھتے ہی نہیں تھے اسے رونا آنے لگا

"گنننندےےےے ہو ۔۔۔ ککککیوں نیییی ٹھیکک ہوتے ۔۔۔۔ میںنن عاشو ووو ککو بووولنگی ۔۔۔۔ وہ کٹ کرینگے تمممہیں "

وہ بڑے مصروف انداز میں بالوں کو سلجھاتی رازدارانہ گفتگو کر رہی تھی ۔۔۔۔ جہاں اس کی گفتگو پر کسی کے پتھریلے تعصرات ۔۔۔۔ میں نرمی آئی تھی ۔۔۔ وہیں عاشو کا نام سن کر ماتھے پر لاتعداد بلو ں کا اضافہ ہواتھا اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی نے کھولتا ہوا پانی اس کے وجود پر ڈال دیاہو وہ سرخ نظروں۔سے بلیک روم میں بیٹھا اسکرین کو گھور رہا تھا

اور پھر ایک ہی جھٹکے سے اس نے لیپ ٹاپ دیوار پر دے مارا

"ہنیزہ میکال ایک بار پھر اس کی انا پر کاری وار کر چکی تھی جسکا اسے اندازہ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔

ہنیزہ کی جدو جہد بالوں سے جاری تھی جب اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے وہ پیچھے مڑی

اور اپنے بلکل سامنے کھڑے ''عابس سلطان"کو دیکھ اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب تھیں ۔۔۔۔ جسم کھڑے کھڑے کانپنے لگا تھا

وہ پلکیں بار بار جھپکتی اپنی اوشن نیلی آنکھوں سے اس کی سرد ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھ رہی تھی پر ایک لمحےسے زیادہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔۔ اس تعصر کو جس نے اس کا معصوم سا وجود لرزا دیا تھا ۔۔۔

عابس قدم قدم بڑھتا اس کے قریب آنے لگا ۔۔۔۔. جبکہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ ہنیزہ کا سانس اوپر کا اوپر ہی رہ گیا وہ ہونٹوں پر اپنی مخروطی انگلیاں جمائے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔

عابس نے اسے دور جاتا دیکھ تمسخرانہ انداز میں لبوں کو مسکراہٹ میں۔ڈھالا

"کیاہوا 'ہنیزہ میکال 'میرے بھائی کی باہوں میں بڑے آرام سے نیند کے مزے لوٹ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور مجھ سے اس قدر دوری ۔۔۔ یہ تو نا انصافی ہے نا ۔۔۔۔ بابا کی ہنییییییی "

عابس کا لہجہ مکمل بہکا ہوا تھا ۔۔۔۔ ایک جنون بے معنی سا تھا جس کی رو میں بہکتا وہ سب فراموش کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اس کی نفرت اس کا پاگل۔پن سب کچھ صرف ہنیزہ میکال۔سے منسوب تھا ۔۔۔۔

اس کے جواب نا دینے پر عابس نے آنکھیں سکیڑیں ۔۔۔.

اور ایک ہی جست میں اسے خود کے قریب کرتا بیڈ پر بٹھا گیا یہ سب ایک پل میں ہوا تھا ہنیزہ پلک جھپکتے بیڈ پر تھی

اسے محسوس ہوا کہ ہوا کا کوئی جھونکا اسے چھو کر گزرا ہے عابس سلطان نے اسے ایسے چھوا تھا کہ وہ محسو س تک نہ کر سکی ۔۔۔۔۔

بس آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرتی اپنی موت کی دعاِئیں مانگنے لگی

"آنکھیں کھولو ۔۔۔ وہ ہیبت طاری کرتا لہجہ ہنیزہ کے چھکے چھڑا گیا ۔۔۔۔. ہنیزہ میکال ۔۔۔۔ آواز میں۔تنبیہ تھی کہ اگر ۔۔۔۔۔ میری بات نہ۔مانی تو انجام کی۔ذمہ دار خود ہوگی "

ہنیزہ نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔وہ مسکرایا تھا اتنی۔فرمابرداری پر ۔۔۔۔ لیکن یہ مسکراہٹ زہر خند تھی ۔۔۔

ہنیزہ ابھی کچھ سمجھتی کہ اسے اپنےبالوں میں کچھ رینگتاہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔

ہنیزہ نے ڈرتے اس نے نظریں بچاتے ہوئے اپنے بالوں کی جانب دیکھا جہاں دیکھ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیراچھانے لگا ۔. ۔۔۔ جسم خوف سے تھرا اٹھا اس سے پہلے کہ وہ چیختی عابس سلطان کا گلووز میں مقید ہاتھ اس کی آواز کو حلق میں۔قید کر گیا ۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے ہاتھ پاوں مارنے لگی خود کو چھڑانے لگی ۔۔۔۔ عابس مسکراتا ہوا آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔ سکون تھا اب ۔۔۔۔ یہ ان لفظوں کا خامیازہ تھا جو ہنیزہ میکال نے کسی کے لیے اپنے لبوں سے آزاد کیے تھے

عابس اس کے بالوں سے وہ سانپ نکالا جو دیکھنے میں کافی خطرناک لگ رہا تھا ۔۔۔۔ یہ سزا مختص کی تھی عابس سلطان۔نے ہنیزہ میکال کے چند غلط الفاظوں۔کی ۔۔۔ اس کے منہ۔سے نکلنے والے ایک ایک۔لفظ پر عابس سلطان۔اسے سزا دے چکا تھا ۔۔۔۔۔۔

عابس نے سانپ کو اس سے دور کیے بوکس میں ڈالا اور ہنیزہ کی جانب نگاہ۔اٹھا کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جو بکھرتی سانسوں ۔۔۔۔ ٹوٹتے بکھرتے وجود سے ہچکیاں بھرتی بیڈ پر گرتی چلی گِئی ۔۔۔۔۔ دل میں درد اٹھا تھا شدید درد . . جس کو برداشت کرنا ہنیزہ میکال کے بس سے باہر تھا

عابس نے ایک مخصوص رگ دباتے ہنیزہ کو بیہوش کیا اور اٹھ کر دروازہ لاک کرتا خود کو کوٹ سے آزاد کرتا اس کے بہت قریب بیڈ پر نیم دراز ہوتا اس کے پھول سے وجود کو اپنے سینے. میں بھینچ گیا ۔۔۔۔ اور اپنے سسکتے دل کو راحت پہچانے لگا ۔۔۔۔ اک سحر تھا جو وہ جکڑ سا جاتا تھا پر ہنیزہ میکال۔سے بے خبری وہ کسی طور پر نہیں برت سکتا تھا

عابس نے اس کے بھیگے آنسووں سے تر چہرے کو دیکھتے اک دم سے پاس پڑے جگ کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹیبل سے اس کے ٹکڑے کر دیے ۔۔۔۔

وہ دوبارہ اپنے ڈیول روپ میں آچکا تھا جس سے کوئی واقف نہیں۔تھا

عابس نے کانچ کا ایک ٹکڑا اٹھآتے اس کے ہاتھ میں تھمایا اور اپنے سینے سے شرٹ کھسکا کر وہاں اس کے ہاتھ میں تھامے کانچ سے اے لکھنے لگا ۔۔۔۔۔ جنونی انداز تھا ۔۔۔۔ درندگی کی انتہا تھی کہ اسے کوئی درد محسوس نہیں ہورہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی پوری شرٹ خون سے تر تھی پروہ بے خبر سا اپنا کام کرتا مطمئن تھا

ہنیزہ کی مومی۔انگلیوں کو اپنے ہاتھ میں۔ پھنسائے وہ باری باری ان انگلیوں۔پر اپنے سلگتے لبوں کا لمس چھوڑتا بیہوشی کے عالم میں بھی "ہنیزہ میکال"کو تڑپنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔۔ عابس دل سے مسکرایا تھا اس کی بے چینی۔پر یہی تو وہ چاہتا تھا کہ ہنیزہ تڑپے اس کے لمس پر درد سے سسکتی رہ. جائے اور وہ دنیا سے بےحس ہوتا اسے خود میں قید کر جائے

سکون کیا ہے؟تمھارا میرے ساتھ ہونا ___قرار کیا ہے۔۔تمھارا مجھ سے بات کرنا۔۔تسکین کیا ہے۔۔۔تمھارا مجھے جاناں کہنا !!۔۔۔اطمینان کیا ہے؟تمھارا ہمیشہ میرا رہنا! ہنیزہ کے کان میں سرگوشیاں کرتا عابس سلطان اب بدل چکا تھا جو ہنیزہ میکال کے جادو میں بہک جانا چاہتا تھا پر اس میں کوئی محبت نہیں تھیں کوئی ۔۔۔۔ چاہت نہیں تھی کچھ تھا ۔۔۔ تو طلب تھی ۔۔۔۔ جنون تھا ۔۔۔۔ وحشتیں تھیں ۔۔۔۔۔

“This will happen.

You’ll feel me everywhere.

It’s undeniable.

We would be magic in the air.

Let them all watch or

or look away or stare…

But just know,

my eyes don’t lie,

and I save my best smiles

for you

وہ بہکتی رومیں اس کی خوشبو خود میں اتارتا مدہوش تھا اس کا وحشی پن ختم ہوگیا تھا کچھ تو تھا جو اسے ہنیزہ میکال کی جانب کھینچتا تھا اس کے چہرے پر چھائی معصومیت اسے دلربائی کرنے پر مجبور کرتی تھی ۔۔۔  

نور العین جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی اسے سامنے دیکھ حلق تک کڑوا ہوگیا نور العین کوشدید نفرت تھی اس شخص سے جو اس وقت اس کی ماں کے پاس بیٹھا مسکراتے ہوئے ناجانے کونسے راز ونیاز میں مصروف تھا

"نور ۔۔۔۔۔ ارے تم وہاں کیوں کھڑی ہوآو نا ارشمان اسے وہیں کھڑا دیکھ آگے بڑھا پر سر پرپٹی دیکھتا وہ ایک دم غرا اٹھا

ہییےے نور ۔۔۔ یہ کیا ہوا ہے سر پر __ہاں تم ٹھیک تو ہونہ "

وہ اپنے لہجے کو ہتی المقدور نرم کرتے بولا جو اس وقت نا ممکنات میں سے تھا

ارشمان شفاعت صاحب کے کزن کا بیٹا تھا جو اپنے باپ کا بزنس سنبھالتاایک بھر پور نوجوان تھا۔۔۔۔ ارشمان کو پتا ہی نہ چلا کب وہ چھوٹی سی نور العین اس کے دل میں جگہ بنا گئی ۔۔۔ وہ اسے پسند کرنے لگا مگر اب بات صرف پسند تک محدود نہیں رہی تھیں بلکہ اس سے بہت آگے نکل چکی تھی

ارشمان اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچ چکا تھا شفاعت صاحب اس کا نور العین کی طرف جھکاو سے باخوبی واقف تھے کیونکہ حشمت درانی باتوں ۔۔۔۔ باتوں میں کئی بار نور کا ہاتھ ارشمان کے لیے مانگ چکے تھے ہر شفاعت صاحب ہر بار یہ کہہ کر انکار کر دیتے کہ نور ابھی پڑھنا چاہتی ہے ۔۔۔

ارشمان نے جب یہ بات سنی تو وہ سر شار ہوا کہ چلو کم از کم انکار تو نہیں ہوا۔۔۔۔ نور العین اسی کی ہے۔۔۔

نور العین کی سادگی ارشمان درانی کی ۔۔۔۔ کمزوری بن گئی تھی جس کے آگے اسے اب ہر چیز ہیچ نظر آتی تھی ارشمان درانی لڑکیوں سے کھیلنے والا مرد تھا مگر نور سے ملنے کے بعد اس کے خیالات بدل گئے تھے ۔۔۔۔ وہ جیسے نور العین سے بندھ گیا تھا۔۔۔۔

لیکن شاید وہ نور کے اپنے بارے میں نادر خیالات سے بلکل واقف نہیں تھا

نور کو ارشمان کا اپنی طرف متوجہ ہونا زہر لگتا تھا حالانکہ آج تک اس نے کوئی پیش قدمی نہیں کی تھی لیکن جب بھی وہ نور کے سامنے آتا تھا نور کے ہاتھ پاوں پھولنے لگتے وہ عجیب سے احساس سے گھر جاتی ایک غیر محفوظ حصار۔۔۔۔ جو ارشمان درانی کی براون آنکھیں اس پر کیے رکھتی تھیں ۔۔۔

بھائی آپ میرے بارے میں فکر نہ کریں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ نورالعین انتہائی روکھے انداز میں کہتی وہاں سے نکل گئی ۔۔۔۔

"نور کے لحاظ سے عورت کو اس قدر سخت لہجہ رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی مرد اس سے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچے ۔۔۔۔ البتہ تو کسی مرد سے براہ راست مخاطب ہونا نور شفاعت کو زہر لگتا تھا ۔۔۔ اس کی کچھ حدود تھیں جن میں رہ کروہ کسی ۔۔۔۔ غیر محرم سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔کیونکہ کسی بھی عورت کا لہجہ مرد کو اپنی طرف سے بیزار کرنے میں اور راغب کر نے میں اہم کردار ادا کرتا ہے "

__________

"زہر سے زیادہ زہریلی شے ہوتی ہے محبت اس قدر ۔۔۔۔ کہ جس کی کاٹ موت کے سوا کوئی نہیں کر پاتا "

ہنیزہ کو ہوش آیا تو خود کو ایک خوبصورت اپارٹمنٹ میں پایا اپنے ارد گرد انجان جگہ دیکھتے اس کی آنکھیں مارے حیرت کے پوری کھل گئیں ڈر اور خوف سے ویسے ہی برا حال تھا ۔۔۔۔ جانے اب کیا آزمائش آنے والی تھی ۔۔

وہ اپنی ہچکیا ں دباتی جلدی سے گداز بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی دوپٹے سے ندراد اس کا وجود ۔۔۔۔ کسی کو بھی بہکا سکتا تھا پر "ہنیزہ میکال کو اس بات کا ہوش ہی کہاں رہاتھا کہ وہ عابس سلطان کے حق میں ایک اور سزا کی قصوروار ہوئی ہے ۔۔۔۔

ہنیزہ سوچ رہی تھی کہ وہ کہاں ہے جب اچانک دروازہ کھلا اور گہری کالی آنکھوں والا وہ شخص چہرے پر ماسک سیٹ کرتا ہنیزہ کی طرف قدم بڑھانے لگا ۔۔۔۔

اس کے بھاری بوٹ میں مقید پاوں سیدھا ہنیزہ کے دل پر پڑ رہے تھے ۔۔۔ کالی سرد آنکھیں ۔۔۔۔ ہنیزہ کو اپنے جسم کے آر ہوتی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔

"پپپپپلیززز ۔۔۔ ممممجھے ۔۔۔ جججانے ددددیں ۔۔۔ عاببببی بھیییا ۔۔۔۔ عاششششو بھیا ۔۔۔۔ ممما کککوئی ہح ۔۔. مجججء۔۔۔ بچچچاو ممما ۔۔۔۔ "

ہنیزہ ماسک پہنے شخص کے سامنے ہاتھ جوڑتی اپنے مامابابا کو یاد کرنے لگی ۔۔۔۔ یہ بات اس کے دھیان میں ہی نہ تھی کہ پریشانی میں جو نام اس نے سب سے پہلے یاد کیا ۔۔۔ وہ کس' ستمگر 'کا تھا

دور کھڑی قسمت مسکرائی تھی عابس سلطان پر ۔۔۔۔ جس کا سب کچھ لٹنے والا تھا ۔۔۔۔

"دیکھو لڑکی میں تمہیں۔کچھ نہیں کہونگا بس تمہیں ابھی کہ ابھی مجھ سے نکاح کرنا ہوگا ۔۔۔۔"

سرد آواز جب ہنیزہ کے کانوں میں پڑی اس کا رواں رواں کپکپا اٹھا

"ننننکاححححح ۔۔۔۔ وہہہ تو ہمممم اسسس سسے کککرتے ہہہیں نا ۔۔۔ جججس سے پپپیار کرررتے ہیں ۔۔۔ پلیززز مجححے جانے دیں ۔۔۔ میں عععاشششو بببھیا سےے پپیار ککرتی ہوں۔انننن سے نننکاح کررونگگگی "

ہنیزہ نے اپنی سمجھ کے مطابق جواب دیتے سامنے کھڑے وجود کے انگ انگ میں شرارے دوڑا دی ۔۔۔۔۔۔ اس کی گہری کالی آنکھون میں ان ناموں نے ایک درندگی بھر دی تھی ۔۔۔۔۔

سرخ و سفید چہرہ۔۔۔۔ سرخ کپکپاتے لب سوجھی آنکھوں سے بہتے آنسو ۔۔۔۔ بکھرے حلیے میں وہ سامنے موجود شخص کو کوئی پاگل ہی لگی ۔۔۔۔ پر اصل پاگل کون تھا یہ تو ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا

"اب اگر تمہارے ان خوبصورت لبوں سے کسی غیر مرد کا نام نکلا ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔ تمہارے ان لبوں سے اس طرح جان کھینچوں گا کہ موت کی طلب باقی رہ جائے گی تم صرف میری ہو ۔۔۔۔ صرف ۔۔۔ میری ۔۔۔۔ ہو ۔نن ننا بوببولو ہونا میری ۔۔۔ "

ہنیزہ کے چہرے پر اپنا چاقو پھیرتے اس کے لبوں پر رکھتا ہنیزہ کی جان آدھی کر گیا ۔۔۔۔ ہنیزہ کے جواب نہ دینے پر اس نے چاقو کا دباو لبوں پر بڑھایا تو ہنیزہ کے لبوں سے مدھم سی چیخ نکلی ۔۔۔۔ اس کے دونوں ہونٹ وہ شخص زخمی کر چکا تھا ۔۔۔۔

ہنیزہ نے اس پاگل شخص سے بچنے کے لیے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔

" یییسسس ۔۔۔ مممیں آااپپ کی ہوںنننن "نننکاج بببحی کرونننگی آااپ سسسے "

ہنیزہ نے اپنی جان بچانے کے خاطر جو لفظ لبون سے ادا کیے ان پر سامنے والا دل وجان سے اس پر نثا ہوا ۔۔۔۔ اور انگوٹھے سے اس کے لبوں سے بہتے خون کے قطروں کو چنتا خود میں جذب کرگیا

ماسک پہنے شخص نے ہنیزہ کو ایک لال چنری اوڑھائی اور ہاتھ تھام کر باہر لے آیا ۔۔۔۔۔

جہآں کچھ مرد پہلے سےہی موجود تھے ہنیزہ ان سے ڈرتی ا س کاہاتھ دبوچ گئی جیسے یقین ہو یہ سائبان ہر درد سے بچا لیگا ۔۔۔

ہنیزہ کا ہاتھ تھامتے اس نے اپنے پاس صوفے پر بٹھایا اور مولوی صاحب کو نکاح پڑھانے کا کہا ۔۔۔

ہنیزہ کا پورا وجود ہچکولے کھا رہا تھا ۔۔۔۔ ذہن ماووف تھا اسے کیا معلوم تھا کہ کوئی رات کے اندھیرے میں اسے اس طرح لے آئے گا اس کی زندگی میں اندھیرا کرنے کے لیے ۔۔۔۔

مولوی صاحب نکاح پڑھا چکے تھے وہ ماسک پہنے ہی سب سے مبارکباد وصولتا ان کو چھوڑنے گیٹ تک پہنچا خود کو اکیلا پاتے ہی ہینزہ صوفے پر لیٹی پھوٹ پھوٹ کر اپنی قسمت پر ماتم کرنے لگی ۔۔۔۔ یہ سب کیا کو گیا تھا اس نے کہاں ایسا سوچا تھا ۔۔۔۔۔۔

یوں ظلم نا کر میرے ساتھ سائیں

ہے جوڑی تجھ سنگ ذات سائیں

میری ہستی تو بے مول صحیح

کچھ عشق کا کر احساس سائیں

تو نے روندا ہے تو روند سائیں

مجھ مٹی کو تو رول سائیں

میں دشمن اپنے آپ کی ہوں

تو توڑ مجھے اور جوڑ سائیں

تیرے ہاتھ میں میری چابی ہے

اب سب میری بر بادی ہے

تو جیسے مجھ کو چلا سائیں

میرا دل تو ۔۔ یوں نہ جلا سائیں

در در کی میں۔تو ماری ہوں

اک باپ کی لاج دلاری ہوں

تیرے دل میں۔ہے کوئی اور سائیں

تو مجھ کو یوں۔نہ توڑ سائیں

جب تک وہ سب کو چھوڑ کر آیا اسے صوفے پر ہی موجود دیکھ ماتھے پر لاتعداد بلوں کا اضافہ ہوا جیسے اسے ہنیزہ کی یہ حرکت قطعی پسند نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ایک جھٹکے سے اس کا بازو مڑوڑتا ۔۔۔ ہنیزہ کو درد سے چیخنے پر مجبور کرگیا

آہہہہہہ ۔۔۔۔ پلللیز مجھےےےے دددردد ۔۔۔۔ ہورہا ہے چھوڑیں ۔۔۔۔ہنیزہ جو ابھی ایک جھٹکے سے نہیں سنبھلی تھی ۔۔۔۔۔ اس اجنبی کا اس قدر بھیانک روپ دیکھتی درد سے چلانے لگی ۔۔۔۔۔

اس شخص کی نظر جونہی ہنیزہ کے گداز زخمی لبوں خر پڑِی اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکان نے احاطہ کیا۔۔۔۔۔۔

اس نے ہولے سے ہنیزہ کا بازو آازاد کیے اپنے ہاتھ میں تھاما اور آستین اوپر کرتا کلائی پر بنے اپنے ہاتھ کے سرخ نشان پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہنیزہ کو سسکنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہنیزہ ایک لفظ منہ سے نکالتی بہت اچانک وہ ۔۔. اس کی سسکی کو اپنے لبوں میں قید کر گیا۔۔۔۔۔ سرد لمس ۔۔۔۔۔تھا اس کا جس سے ہنیزہ میکال بلکل ساکت تھی ۔۔۔۔ اس میں۔اتنی بھی ہمت نہیں بچی تھی کہ وہ ۔۔۔۔ اسے خود سے دور کرتی ۔۔۔۔۔ اور وہ شخص تو جیسے وحشی تھا۔۔۔۔۔ کسی پیاسے کی طرح وہ ہنیزہ کو اپنے حصار میں قید کیے بڑی خوبصورتی سے اس کی سانسوں سے کھیل رہا تھا ۔۔۔۔ ہنیزہ کی سانسیں بند ہونے پر وہ اسے پل بھر سانس لینے کی مہلت دیتا اور اگلے ہی پل دگنی شدت سے اس کی سانسوں سے کھیل جاتا کہ ہنیزہ اس کی تکلیف دیتی شدت برداشت نہ کرتی اس کے بازوں میں جھول گئی ۔۔۔۔۔۔

شدت عشق تیری خیر ہو جا

کیسے عالم میں لاکر چھوڑ دیا

وہ پرسکون تھااب۔۔۔۔ بڑی نرمی سے اس کی سانسوں کو آزادی دیے اس کے بالوں میں چہرہ چھپاتا گہری سانسیں بھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔

_________

صبح کے چھ بجے جب عابس اپنے کمرے سے نکلا تو میکال صاحب کو پریشانی سے ٹہلتے پایا ۔۔۔۔۔۔

"کیا ہوا ۔۔۔۔چاچو آپ پریشان لگ رہے ہیں ۔۔۔۔ "

اس سے پہلے کہ عابس ان سے کچھ پوچھتا عاشر نے ان کو مخاطب کیا

میکال صاحب نے انہیں۔جو بتایا اس نے ان سلطانز کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی ۔۔۔ن سب سے زیادہ شاک تو عابس سلطان کو تھا ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں سے خون چھلکنے کو بے تاب تھا ۔۔۔۔ جنونی درندہ جسے وہ چھپا کر رکھتا تھا پل بھر میں بیدار ہوئی ۔۔۔۔

وہ میکال صاحب کی پوری بات سنے بغیر لمبے ڈگ بھرتا باہر نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔ یہ خاموشی کسی گہرے طوفان کی آمد تھی جو طوفان عابس سلطان کی زندگی بکھیرنے والا تھا ۔۔۔۔۔ 

نور العین سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی اس کا سانس بری طرح پھول چکا تھا ۔۔۔۔۔ اسے ارشمان کا حق جتانا سخت نا پسند تھا ۔۔۔۔

ابھی وہ انہیں سوچوں میں گھری تھی کہ اپنے سیل کی رنگ ٹون پر ہوش کی دنیا میں آئی

نور العین نے ہنیزہ کا نمبر دیکھ جھٹ سے کال پک کی ۔۔۔۔ ہنیزہ اور نور العین دونوں کج فرینڈز تھیں۔۔۔۔ ہنیزہ تو کبھی کسی سے دوستی نا کرتی پر نور العین ہی اس کی معصومیت پر اس کی طرف قدم بڑھانے پر مجبور ہوئی

نور العین اسے بڑی بہن کی طرح رکھتی تھی ۔۔۔۔ اور ساری باتیں سمجھاتی ۔۔۔۔

نور نے جیسے ہی کال پک کی دوسری طرف اسے عفت بیگم کی پریشان کن آواز سنائی دی ۔۔۔۔

جو روتے ہوِئے اس سے ہنیزہ کے متعلق سوال کر رہی تھیں ۔۔۔

"نور بیٹا کیا ہنیزہ تمہاری طرف آئی ہے۔۔۔۔ پلیز بتاو اگر یہ کوئی شرارت ہے اس کی تو ۔۔۔میں اسے معاف نہی کرونگی ۔۔۔۔ "

ان کی بات سن کر نور خود سکتے کی کیفیت میں تھی بھلا ہنیزہ کہاں جاسکتی تھی اسے تو راستے بھی معلوم نہیں تھے

"آنٹی کیییا ہوا ہنیزہ کہاں ہے۔۔۔۔ وہ یہاں نہی آئی آنٹی ۔۔۔ "

نور کی حالت مزید خراب ہوئی تھی ہینزہ کے اس طر غائب ہونے پر

"بیٹا رات کو وہ اپنے کمرے میں ہی تھی ۔۔۔ میں اس کے لیے کچھ کھانے کو بنانے گئی پر واپسی پر ہنیزہ روم میں نہی تھی ۔۔۔ ناجانے کہاں ہوگی میری بچی کس حال میں ہوگی۔۔نن"

عفت بیگم کی تو جان بستی تھی نور نے انہیں تسلی دی

"آنٹی آپ فکر نہ کریں ہنی کو کچھ بھی نہیں ہوگا ۔۔ آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں ۔۔۔ میں آتی ہوں بابا کے ساتھ "

ااس کی بات سنتے عفت بیگم نے کال کٹ کی میکال صاحب سر تھامے صوفے پر بیٹھے تھے رپورٹ کردی گئی تھی

________،،،

عاشر نے ہر جگہ چھان مارا تھا پر ہینزہ کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا تھا صبح سے رات ہونے کو آئی تھی لیکن ہنیزہ کی کوئی خبر نہیں تھی ۔۔۔۔

پولیس پورے شہر پر ناکا بندی کرتی عاشر کو پل پل کی خبر دے رہی تھی ۔۔۔۔

سلطان پیلس میں جیسے بھونچال آگیا تھا ہنیزہ کی غیر موجودگی نے ہلا کر رکھ دیا تھا

عاشر تھکا ہارا گھر آیا تو ۔۔۔۔۔۔افرال صاحب اس کی جانب لپکے ۔۔۔

"عاشر ۔ پتا چلا کچھ ۔۔۔ ملی ہنیزہ "

عاشر نے گردن جھکائے نفی میں سر ہلایا۔۔۔. .

عفت بیگم بس تسبیحات کرتیں اپنی لاڈلی کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھیں ۔۔۔۔ پر ان کو کیا معلوم تھاکہ وہ دعائیں ان کے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ کسی اور کے حق میں قبول ہو چکی ہیں۔۔۔

عابس کی حالت بپھرے ہوئے شیر کی مانند تھی ۔۔۔ جس کی کچھار میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت کوئی کر گیا تھا اب اس کا حال زخمی شیر سا تھا ۔۔۔ جو اس کا شکار دور کرنے والے کو چیر پھاڑ نے والا تھا ۔۔۔۔

عابس سلطان کے قانون میں۔معافی لفظ سرے سے ناپید تھا وہ تو خود کو نہ معاف کرے تو ہنیزہ میکال کو اس سے چرانے والے کی موت کو کیسے جانے دیتا ۔۔۔

__________

ہنیزہ کو غائب ہوئے تین دن ہوگئے تھے افرال صاحب،میکال پولیس کے ساتھ مل کر لگاتار ہنیزہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے

پر ساری کوششیں بیکار جارہی تھیں

عابس اپنے طریقے سے ہر بات کی جانچ کر رہا تھا کہ کسی بھی طرح ہنیزہ تک پہنچ سکے پھر وہ کبھی اسے خود سے دور نہیں جانے دیگا

عفت بیگم جائے نماز بچھائے بیٹھی تھیں جب باہر سے. انہیں نورا لعین کی آواز سنائی دی

"آنٹی . . کہاں ہیں آپ "

نور العین انہیں پکارتی اندر داخل ہوئی وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی چاروں اور دیکھ رہی تھی جب ایک زبردست تصادم سے وہ کسی کے سخت چٹانی سینے سے جالگی ۔۔۔۔

نورالعین کا پورا وجود سہم سا گیا اس نے سیکنڈ سے پہلے بنا نظریں اٹھائے اپنے وجود پر کسی نامحرم کا لمس پاتے اسے دور کیا اور دیوار سے جالگی سنہری حجاب کے ہالے میں اس کی بھیگتی پلکیں سامنے کھڑے عاشر سلطان کو الگ سرور سے دوچار کر گئیں ۔۔۔۔۔

اسے اپنی قسمت پر بلکل یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔ اس نے کب ایسا سوچا تھا کہ جس لڑکی کی آنکھوں نے اسے بے چین کر رکھا تھاجس کے حجاب کا وہ اسیر ہوا تھا ۔۔۔ وہ یوں اس ۔۔۔ اسی کے گھر میں ملے گی ۔۔۔

تیری آنکھیں سوال کرتی ہیں

میری ہمت جواب دیتی ہے

تو جو پلکیں گرائے رہتی ہے

جانے کتنے حساب رکھتی ہے

تیری آنکھوں میں بسے چشم ترنم کی قسم

تو جو نظریں جو اٹھائے عذاب کرتی ہے

نور کا وجود آج بھی عبائے میں تھا پر وہی مخصوص دل موہ لینے والی خوشبو سے وہ ایک سیکنڈ میں اسے پہنچان گیا تھا۔۔۔۔ کتنا خوبصورت لمحہ تھا جب وہ نازک گداز وجود اس کے حصار میں قید تھا

عاشر کی دل سے صدا نکلی کہ کاش آج یہ لڑکی محض ایک بار اسے پلکیں اٹھا کر دیکھے شاید یہی گھڑی قبولیت کی تھی

جب نورالعین نے ایک نظر اپنی سہمی نظروں سے عاشر سلطان کو دیکھا۔۔۔ اور معذرت کی ۔۔۔

محض ایک نظر ۔۔۔ فقط اک نظر میں عاشر سلطان اسیر ہوا تھا دل پل بھر میں دھڑکنا بھول گیاتھا سانسوں کا ردھم مسحورکن لگا تھا ۔۔۔

جھیل سی آنکھوں میں چھپی حیاء کی سرخی ۔۔۔۔ گہرے گلابی ڈورے جیسے ساری رات نا سوئی ہو عاشر سلطان کو وہ حجاب میں بھی چاروں خانے چت کر گئی تھی

"سورییییی ۔۔۔ سررر میں نور العین ہنیزہ کی فرینڈ آنٹی سے ملنے آئی تھی ۔۔۔ سوری "

وہ دھیمے سروں میں کہتی اک دم سے وہاں سے نکلتی چلی گئی

پیچھے عاشر نا جانے کتنے لمحے اس کی آواز کے سحر میں رہا۔۔۔.

"""""نور العین عاشر سلطان """عاشر زیر لب بڑبڑاتا سر شار سا ہوا

کتنی مدھر کن آواز تھی ۔۔۔۔۔

"جادوگرنی "نور کو بھاگتا دیکھ عاشر نے مسکراتے ہوئے کہا تھا

______________

ہنیزہ تین دن سے یہاں تھی ہوش میں آنے کے بعد سے ہی وہ بلکل خاموش ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ جو کہتا ہنیزہ خاموشی سے مان جاتی ۔۔۔۔ اس کی اس قدر خاموشی سامنے والے کو ڈرا رہی تھی ۔۔۔۔ ہنیزہ اس کی کسی بھی بات سے انکار نہی کر رہی تھی یہی بات سامنے بیٹھے شخص کو کھٹک رہی تھی

ان تین دنوں میں اس نے ایک بھی بار ۔۔۔۔ واپس جانے کی ضد نہیں کی تھی ۔۔۔۔. وہ بس ایک غیر مرعی نقطے کو گھنٹوں گھورتی رہتی

ہنیزہ بیڈ پہ بیٹھی اسی کے ٹراوز شرٹ میں ملبوس تھی جو اس نے خود اسے دیے دوپٹے سے بے نیاز اس کا من موہنہ سوگوار حسن ۔۔۔۔۔ اے _ایس کے حواسوں پر سوار ہو رہا تھا لیکن وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا اتنی جلدی اس حسن کی دیوی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنا چاہتا تھا۔۔۔۔

وہ ریڈ روم سے نکلتاسیدھا ہنیزہ کے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ پر وہ اب بھی یونہی بے حس و حرکت بیٹھی تھی ۔۔۔ اس نے آئبرو اچکاتے اس کے اگنور کرنے پر داد دی

اور چلتا ہوا بیڈ پر بلکل اس کے سامنے آبیٹھا ۔۔۔۔

میری خاموشی تیری جڑکو ہلا جائے گی

میں جو مانگوگی تو یہ موت کہاں آئے گی

تو جو سر شار ہے حاصل مجھے کرکے پاگل

میں جو نا ہوں تو یہ درد کہاں گاو گے

میں نے پھولوں کو بڑے پیار سے رکھا جاناں

تو جو کانٹوں کو سموئے گا تو ڈر جائے گی

میں جو کھیلی ہوں بڑے لاڈ بڑے پیار کے ساتھ

تو جو کھیلے گا میری جان تو بکھر جاونگی


ہنیزہ عجب بہکے سے انداز میں اس کی طرف دیکھتی مسکرائی لیکن اس کی مسکراہٹ وہ معصوم مسکراہٹ نہیں تھی بڑی ازیت تھی ۔۔۔ اک درد رقم تھا اس کی آنکھوں مین ۔۔۔۔۔

"مممممیں ۔۔۔ عععاشوووو ببببھیا کککو پپپیار کررتی ہوںننن پپپتا ہےےے ککککیوں ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ ممما ککککی ططرح پپپیار کرتتتے ہیین ۔۔۔ عععابیییی ممممجھے ڈددراتے ہہہیں پرررر ۔۔۔ پپیار بببھی کککرتے ہیں۔۔۔ تتتم نننے جوووو کککیا ۔۔۔ رررونگ کیا۔۔۔ پپپیار ایسےے نننی کرتے ۔۔۔ مممابببا کییی طرح ککرتے ہیں ۔۔آپپپ ممممجھء ہرٹ کککرتے ہو ۔۔۔ ممممجھے پپپین ہوتتا ہےےےے۔۔۔ پر ٹیرز نننی آتے ۔۔۔۔۔۔ ایییسا کیوںننن ۔۔۔ مممطلب مممیں پپپاگل ہوگئءءءی ۔۔۔ہاہہاہاہاہ ۔۔۔ ہنی پاگل ہوگئیی ۔۔۔ ہاہہا "

اس کی پرسوز ازیت بھری باتیں پل بھر کو لرزا کہ رکھ گئیں دماغ کی شریانیں جیسے پھٹنے کو تھیں ۔۔۔ تو کیا وہ اس لڑکی کو اس قدر ازیت دے چکا تھا ۔۔۔۔ اس کا خود کو پاگل کہنا ۔۔۔ ہنسنا ۔۔۔ اسے خوفزدہ سا کر گیا ۔۔۔ ہاں زندگی میں پہلی بار وہ خوفزدہ ہوا تھا ۔۔۔۔ بے حد خوف زدہ ۔۔۔

اس نے ایک جھٹکے سے ہنیزہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے خود سے بے حد قریب کیا ۔۔۔۔۔۔ اور اپنی دہکتی سانسوں سے اس کا چہرہ جھلسانے لگا ۔۔۔۔ سرخ آنکھیں اس کے اندرونی توڑ پھوڑ کا بخوبی پتا دے رہی تھیں


""تممممم سمجھتی کیا ہو خود کو. . ڈرانا چاہتی ہومجھے ۔۔۔ خبردار جو اپنے لیے کوئی الفاظ منہ سے نکالا تمہاری زبان کاٹنے میں ایک لمحہ نہیں لگاونگا ۔۔۔ بہت زیادہ بولتی ہو ڈارلنگ ۔۔۔ پر یاد رکھنا ڈیول کو نفرت ہے زیادہ بولنے والی لڑکیوں سے ۔۔۔ اور تم تو میری ضرورت ہو ۔۔۔۔ تو میرے مطابق چلنا سیکھو ۔۔۔"

ہنیزہ کے کان کی لو پر بے رحمی سے اپنے دانت گاڑھتا وہ اسے سسکنے پر مجبور کر گیا ۔۔۔ پر ہنیزہ بنا پلکیں جھپکائے ۔۔۔ اسے ایسے ہی اپنی اوشن بلیو آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جیسے اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔۔ اس کی باتوں پر ۔۔۔۔

ڈیول آنکھیں چھوٹی کیے اس نازک سی جان کو گھورنے لگا جو مضبوط بنی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ ڈیول کو شاید اس کا انداز پسند آیا تھا

تبھی وہ بنا کچھ بولے اس کی نیلی آنکھون پر جھکتا اس کی بھیگی پلکوں کو لبوں میں دبا گیا ۔۔۔ ہنیزہ نے اس کی حرکت پر سسکی بھری ۔۔۔۔ ڈیول اب بڑی دل جمعی سے اس کی پلکوں کی نمی اپنے ہونٹوں سے سمیٹ رہا تھا ۔۔۔۔ یہ بھی اس کا انداز تھا ۔۔۔ ازیت دینے کا ۔۔۔ یا درد سے نکالنے کا پر دونوں ہی صورتوں میں ہنیزہ میکال کے لیے جان لیوا ثابت ہورہا تھا ۔۔۔ ڈیول کی نزدیکی اسے درد میں مبتلا کرتی تھی ۔۔۔ وہ انیس ۔۔بیس سال کی لگ بھگ لڑکی ان انجانے جذبوں سے انجان باپ کی چھاوں سے واقف تھی ۔۔۔ ماں کی ممتا سے واقف تھی ۔۔۔۔ اسے تو ان جذبو ں کی خبر تک نا تھی ۔۔۔۔۔ جو ڈیول بڑی شدت سے دن بدن اس پر لٹا رہا تھا اسے دیوانا کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکنوں کو قابو کر رہا تھا

ہنیزہ نے سختی سے آنکھیں میچتے اس کی گردن کو مٹھی میں دبوچا ۔۔۔۔۔ اس کی حالت زخمی خرگوش جیسی تھی جسے وہ درندہ نوچنے کے در پر تھا ۔۔۔۔

ڈیول ہنیزہ کی آنکھیں چومتا اس کی تیزی سے بھیگتے گالوں پر لب ثبت کر گیا۔۔۔۔ ہنیزہ چاہتے ہوئ بھی ڈیول کو خود سے دور نہیں کر پارہی تھی ڈیول اس کے دونوں گالوں پر باری باری لب رکھتا اپنے جنون کی سرخی اس کے گالوں پر بکھیر گیا ۔۔۔۔

ہنیزہ اپنی سانسوں کو بھاری ہوتا محسوس کررہی تھی ۔۔۔۔ اس نے اپنی جان لگاتے ڈیول کو خود سے دور کیا ۔۔۔ اور اپنے تنفس کو بحال کرنے لگی ۔۔نن

"ننننیی ۔۔۔پللیز نہیں ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ تتکلیف ہوتیی ہے ۔۔۔ پاس مت آئیں پپپلیز ۔۔۔۔ "

ہنیزہ نہیں رونا چاہتی تھی اس بے رحم۔سفاک شخص کے سامنے جو اسے لمحہ با لمحہ خود سے نفرت کرنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔۔۔ دلوں و دماغ کو ایک جنگ کا میدان بنا چکا تھا جہاں وہ خود سے لڑتے لڑتے ۔۔ تکلیف زدہ سی تھی ۔۔۔

ڈیول نے ایک نظر اس کے لرزتے وجود پر ڈالی جو اس کی بلیک گھٹنوں تک آتی شرٹ اور بلیو پینٹ میں ملبوس ۔۔۔ کافی دلکش لگ رہی تھی ۔۔۔۔

ڈیول اس کے لرزنے پر مسکراتا ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ تھامتا اسے خود پر گرا گیا

اب صورت حال یہ تھی کہ ڈیول سیدھا لیٹا ہوا تھا اور ہنیزہ کا وجود اس پر ۔۔۔ تھا ۔۔۔ ہنیزہ کے لمبے بال ڈیول کے چہرے پر بکھرے اسے ایک نئی مہک سے ایک نئے نشے سے روشناس کرا گئے ۔۔۔۔

دل کی دھڑکنیں کانوں میں بجنے لگیں تھیں ڈیول نے ایک ہاتھ اس کی کمر کے گرد ہائل کرتے نرمی سے دوسرا ہاتھ اس کے ریشمی بالوں میں الجھایا۔۔۔۔۔ ایک سکون کی لہر اس کے پورے وجود میں اٹھتی اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔

ہنیزہ اس کے سخت ہاتھوں کا لمس اپنے بالوں پر محسوس کرتی اٹھنے لگی پر شاید اب یہ ناممکن تھا ڈیول جیسے مضبوط اعصاب کا مالک اس کے بالوں کی مہک کا دیوانہ ہوگیا تھا۔۔۔۔ وہ ہر چیز سے بیگانہ اس کی گردن میں چہرہ چھپائے گہری سانسیں بھرنے لگا ۔۔۔۔۔ہنیزہ نے دھڑکتے دل سے سر اس کے سینے پر ٹکا دیا۔۔۔۔ جانتی تھی وہ کبھی اسے خود سے دور نہی کر سکتی

ڈیول نے اسے ہارتا دیکھ جنونی انداز میں اس کے بالوں پر بوسہ دیتے اسے سہمنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت ۔۔۔ ہنیزہ کی کمر پر سخت ہوتی جارہی تھی


ہنیزہ گلاس وال سے سر ٹکائے کھڑی کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی ۔۔۔۔ دل و دماغ میں طوفان بر پا تھا کیسے وہ اس شخص کو سمجھائے کہ اس کی دنیا ۔۔۔۔ کی نہیں ہے وہ ۔۔۔۔ وہ تو شہزادی ہے اپنے بابا کی ۔۔۔ ہنیزہ اپنی سوچوں میں منہمک تھی ۔۔۔ کہ پیچھے سے ڈیول نے اسے اپنے حصار میں لیتے اس کے کندھے پر تھوڑی ٹکائی ۔۔۔ ہنیزہ اچانک حملے پر گھبراتی رخ اس کی جانب کر گئی ۔۔۔۔

ڈیول محبت سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔ ایک چمک تھی اس کی آنکھوں میں محبت کے دیپ تھے کچھ پانے کا سرور رگ رگ میں سوار تھا

ڈیول نے محبت سے اس کی پیشانی پر لب رکھے ۔۔۔۔ہنیزہ سختی سے آنکھیں میچتی اس کے بلیک شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی ۔۔۔۔ حال کسی زخمی ہرن ساتھا جس کے پور پور کو زخمی کرتا شیر اپنی تشنگی مٹانا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔

ہنیزہ نے اپنے ہاتھوں سے اس کے کندھے پر دباودیتے پیچھے کرنا چاہا پر وہ ۔۔۔۔سخت چٹان سا اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلا الٹا ہنیزہ اسے چھیڑ کے برا پچھتائی تھی ۔۔۔


"کیا بات ہت جانم ۔۔۔۔ کس کے بارے میں سوچ رہی تھیں ۔۔۔۔ تمہیں صرف میرے بارے میں سوچنا چاہیے ہےےے نا ۔۔۔ صرف میرے بارے میں ۔۔۔۔ تمہارے پور پور سے لیکر ہر ایک سوچ پر صرف میرا جنون ہونا چاہیے ۔۔۔ سمجھ رہی ہو نا ۔۔۔۔"


ہنیزہ ایک نظر اس سنکی انسان کو دیکھتی آنسووں سے تر نگاہیں جھکاتی سر ہاں میں ہلا گئی ۔۔۔


میری جاناں بہت سمجھدار ہے ۔۔۔ بہت سمجھتی ہے مجھے ۔۔۔۔

ڈیول اس کی بھیگی پلکیں چومتا سینے سے لگا گیا ۔۔۔۔


____________


نور جیسے ہی عفت بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ تو انہیں جانماز پر روتے ہوئے پایا ۔۔۔ نور بھی افسردہ سی ان کے قریب چلی آئی اور کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔


"آنٹی ۔۔۔۔ "


نور کی پکار پر عفت بیگم۔نے اسے دیکھا اور اسے سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں ۔۔۔۔


"نورالعین میری شہزادی ۔۔۔۔ نجانے کہاں چلی گئی اپنی ماں سے ناراض ہوکر ۔۔۔ وہ میری بات نہیں سن رہی نور نہی آتی میرے پاس ۔۔۔۔۔ عفت بیگم قرب سے بولیں ۔۔۔"


بھی سینےسے لگتی اپنی جان عزیز دوست کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی


ہر کوئی اہنی جگہ ہنیزہ کے جانے پر غمزدہ تھا ۔۔۔۔۔ میکال صاحب تو جیسے چپ سادھ گئے تھے ۔۔۔۔ افرال صاحب ہر طرف تلاش جاری رکھے ہوئے تھے کہ کہیں سے کوئی سراغ مل جائے ۔۔۔۔


___________


عاشر اپنے روم میں تھا جب اسے کال آئی کے ہنیزہ کے بارے میں کچھ پتا چلا ہے ۔۔۔۔ عاشر نے فورا سے باہر کی راہ لی اور میکال صاحب کو انفارم کیا ساری باتوں کے بارے میں ۔۔۔۔

عاشر پولیس اسٹیشن پہنچا تو آفیسر پہلے سے ہی اس کے انتظار میں تھا ۔۔۔۔


"جی آفیسر بتائیں کیا پتا چلا ہے آپ کو میری بہن کے بارے میں "

عاشر بے چینی سے آفیسر کو دیکھتے ہوِئے بولا تو اس نے کچھ تصوریں عاشر کے سامنے ٹیبل پر رکھیں ۔۔۔۔ جن میں ایک ہڈی پہنے شخص کے بازوں میں ہنیزہ کا بے جان وجود تھا ۔۔۔۔۔ عاشر کے ماتھے کی رگیں غصے سے پھولنے لگیں ۔۔۔۔۔

آخر یہ۔شخص تھا کون ۔۔۔۔ ؟؟؟؟کسی بھی تصویر میں اس کا چہری نمایاں نہیں تھا کیونکہ وہ ماسک اور ہڈی سے چھپا ہوا تھا ۔۔۔۔

عاشر نے وہ ساری تصاویر کسی کو سینڈ کی ۔۔۔۔۔ اور آفیسر کو پتا لگانے کا. کہتے اجلت میں باہر نکلا ۔۔۔۔ ایک اہم بات جو اس کے سامنے آئی تھی وہ اس پر یقین کرنے سے قاصر تھا ۔۔۔ وہ نہیں سوچنا چاہتا تھا ایسا کچھ بھی ۔۔۔۔


___________

ڈیول۔اسے اپنے ساتھ گارڈن میں لایا تھا کہ ۔۔۔۔ پر ہنیزہ اس کے مقصد سے انجان تھی ۔۔۔۔


ڈیول نے اپنا رخ ہنیزہ کی جانب کیا جو بڑی محویت سے ایک خوبصورت گلاب کے پھول کو دیکھ رہی تھی

ڈیول اس کی نظریں اپنے ہوتے ہوئے گلاب کے پھول پر محسوس کرتا ۔۔۔۔۔ سرخ آنکھون سے اسے دیکھنے لگا جو ارد گرد بھلائے چہرے پر ہلکی سی مسکان سجائے ۔۔۔۔ پھول کو ہی تکے جارہی تھی ۔۔۔۔

پر اگلے ہی لمحے ہنیزہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب انتہائی وحشیانہ انداز میں ۔۔۔۔۔

ڈیول اس پھول کو جڑ سے اکھاڑتا اپنے ہاتھ میں دبوچ گیا ۔۔۔۔ اور بڑی بے رحمی سے اسے مسل ڈالا ۔۔۔۔ ہنیزہ کو لگا ۔۔۔۔۔ جیسے اس نے پھول کو نہیں اسے نوچا ہو ۔۔۔۔۔۔


درد کی حد ہے تو میرا بھی یہی وعدہ ہے

تجھے سنگسار کرونگی یہی ارادہ ہے

میں جو اک پھول میں مرنے والی

تجھے جینا بھی سکھاتی یہ میرا وعدہ ہے

روز اک زخم میری روح کا بڑھا دیتا ہے

کیا میرا دل تیرے دردوں سے بہت زیادہ ہے

اپنی آغوش میں لے لے مجھے جگنو کی طرح

میں جو ڈوبی تو ڈھونڈے گا یہی وعدہ ہے


ہنیزہ کی آنکھوں سے زار و زار . ۔۔۔ آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔

دل۔۔۔۔۔ سے ڈیول کا خوف کہیں دور جا سویا تھا یاد تھا تو صرف اس پھول پر۔۔۔ ستم۔۔۔۔ اس کی اپنی ذات ۔۔۔ اسی پھول سے مماثلت رکھتی تھی اپنوں کے دل میں ۔کھلنے والا۔پھول۔جسے ایک درندہ پے در پے نوچ رہا تھا ۔۔۔


ہنیزہ کے سامنے ہتھیلی کیے ڈیول ۔۔۔۔ اسے دیکھنے لگا۔۔۔


"جانتی ہو۔۔ میں نے اس پھو ل کو بہت شوق سے لگایا تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن جب تم نے اپنی توجہ اسے دی تو مجھے نفرت ہوئی اس سے ۔۔۔۔ میرے ہوتے ہوئے کیسے کسی اور کو دیکھ سکتی ہو تم۔۔۔۔"


سرد آواز میں غراتا وہ ہنیزہ کی سانسیں خشک کر گیا ۔۔۔۔۔۔اس کے انداز میں وحشت تھی سختی تھی ۔۔۔۔۔


"ممممیں جاوونگی۔۔۔ ییہاں سسے ببا کے پاس دیکھنا چلی جاونگی۔۔نن بببھاگ جاونگی "


اس کے سخت انداز پر ہنیزہ بنا ڈرے بولی۔۔


کییییا کہا بولو دوبارہ ۔۔۔۔ ہنیزہ کو بازوں سے جکڑتا ڈیول اونچی آواز میں بولا۔۔۔

ہاں ہاں۔. . . ۔۔۔ جاونگی ۔۔۔ ببھاگ جاونگی ۔۔۔ نی نی رہنا آااپ کے ساتھ. ۔۔۔۔ اس کی ایک ہی رٹ پر ڈیول شام کا سایہ دیکھتا مسکرایا ۔۔۔۔ اور بنا کسی بات کی پرواہ کیے ۔۔۔۔


اسے لان میں۔بنے پول کے پاس کھڑا کر دیا ۔۔۔


"اگر تم ایک سیکنڈ کے لیے بھی بیٹھی ۔۔۔۔ تو آج اپنے اور تمہارے درمیان موجود ہر دوری ختم کردونگا ۔۔۔۔۔۔ "

جب تک میں نا کہوں ۔۔۔۔ یہان سے ہلو گی نہیں ۔۔۔۔۔

ڈیول بولتا اندر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔


ہنیزہ بھی منہ بنائے وہیں کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر گزری تھی ہنیزہ کے پیروں میں درد شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔ وہ بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی ہنیزہ روتے ہوئے اہنے بابا کو یاد کرنے لگی ۔۔۔۔۔

اسے وہاں کھڑے دو گھنٹے ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔


تبھی ڈیول اسے آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔

ہنیزہ ڈیول کو دیکھ مزید رونے لگی ۔۔۔۔


ڈیول چلتا اس کے قریب آیا ۔۔۔۔چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔


ششششش۔۔۔۔۔ درد ہورہا ہے "ہنیزہ کے ہوبٹوں پر سختی سے ہاتھ جمائے ڈیول اس کی سسکیوں کا گلا گھونٹ گیا ۔۔۔۔۔

درد سے ہنیزہ کی جان نکل رہی تھی وہ پچھلے دو گھنٹے سے لان میں ننگے پاوں۔کھڑی تھی ۔۔۔ اس کی حالت بے حد خراب تھی ۔۔۔ رونے کے باعث حلق سے آواز نکلنا بند ہوچکی تھی ۔۔۔۔

ڈیول نے اسے سزا دی تھی ۔۔۔۔ جو اس کےطابق کچھ نہیں تھی پر دو ہی گھنٹوں میں اس کے پاوں شل ہورہے تھے

پپپلیز مممعاف کرر دیں ۔۔۔۔ اب نننی بولونگی آپ سے دددور ججانے کا۔۔۔

ہنیزہ نے روتے ہوئے التجا کی پر وہ بے حس بنا اس کی سسکیاں نظر انداز کرتا ۔۔۔۔۔ اسے باہوں میں بھر گیا ۔۔۔۔

ڈیول کو اب بھی اس کا وجود لرزتا محسوس ہورہا تھا


مجھے تو رد کرکے جو نبھا رہا ہے

جو غم مجھ کو دے کر خود کو جتا رہا ہے

جہاں میں باقی نا ہو نام میرا

تجھے رلانا ہو کام میرا

میں تجھ کو یاد کرادوں سب کچھ

دیے زخم اور تڑپتی آہیں

کیا جی سکو گے مجھے رلا کے

کیا رہ سکو گے مجھے گنوا کے


ڈِیول نے اسے بیڈ پر لٹا یا اور انتہائی نرمی سے اس کے پاوں پر ہاتھ پھیرا درد کی شدت سے ہنیزہ اپنے لب بھینچ گئی ۔۔۔۔ سرخ لب ضبط سے کپکپا رہے تھے ۔۔۔۔ ڈیول نے اک لمحے کو اپنی گہری سیاہ آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ جو سرخ چہرہ لیے اپنے لبوں کو دانتوں میں دبائے بیٹھی درد کی انتہا پر تھی ۔۔۔۔

ڈیول نے نرمی سے اپنی سرد انگلیاں اس کے پاوں پر پھیریں اور جھک کر اس کے گلابی نازک سے پاوں پر اپنے لب رکھ گیا ۔۔۔۔

ہنیزہ کا پورا وجود جل کر خاکستر ہونے لگا اس نے جھٹکے سے اپنا پاوں ڈیول کی گرفت سے آازاد کرایا اور بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی

ڈیول اس کی شرم و جھجھک سمجھتا مسکراتا ہوا اس کے قریب جڑ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔

ہنیزہ کو ڈیول کی سانسیں اپنی گردن کو جھلساتی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔

اور وہ ضبط کھوتا اس کی بے داغ گردن پر ہونٹ رکھتا خود کو سیراب کرنے لگا ۔۔۔۔۔

اس کی گرفت ہنیزہ کی کمر کے گرد بے حد سخت تھی ۔۔۔۔شاید آج وہ بے بس تھا اپنے جذبات کے طلاتم خیز سمندر کے آگے ۔۔۔۔ وہ سوچ چکا تھا آج ہنیزہ کی روح تک پر وہ قابض ہوتا ۔۔۔۔ اس کے دور جانے کےسارے راستے مسدود کردینا چاہتا تھا See less

عاشر جونہی پیلس میں داخل ہوا اس کی نظر سیدھا عابس کے روم کی طرف اٹھیں۔۔۔۔ عاشر تیز تیز قدم اٹھاتے عابس کے روم کا دروازہ دھاڑ سے کھولتا اندر داخل ہوا جہاں عابس بڑے آرام سے لیپ ٹاپ پر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔ عابس کی پیشانی پر اسے دیکھ لاتعداد بلوں کا اضافہ ہوا ۔۔۔. اس نے فورا لیپ ٹاپ شٹ ڈاون کیا اور چلتا ہوا اس کے قریب جا کھڑا ہوا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ عابس کچھ بولتا۔۔۔۔

عاشر نے اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی ۔۔۔۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ عابس ایسا کچھ کر سکتا ہے ۔۔۔ عاشر کی رگیں غصے سے پھول چکی تھیں ۔۔۔۔۔


"میں تمہیں ایک آخری موقعہ دیتا ہوں عابس سلطان مجھے بتاو ہنیزہ کہاں ہے ؟۔۔۔ کیا کیا ہے تم نے اس معصوم کے ساتھ ورنہ میں بابا کو بتانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاونگا"


عاشر کی بات خاموشی سے سن رہے عابس نے ایک جھٹکے سے سر اوپر اٹھایا ۔۔۔۔ عابس کے ہونٹ کا کنارہ پھٹ چکا تھا جہاں سے خوب بہتا اس کی سفید شرٹ میں جذب ہو رہا تھا ۔۔۔۔ وہ بس شاکڈ کیفیت سے اپنے بھائی کو دیکھ رہا تھا

"سوچ رہے ہو عابس سلطان کے مجھے کیسے پتا چلا۔۔۔ یییہ ۔۔۔ تمہارا یہ کی چین جس پر ایگل بنا ہے ۔۔ ہنیزہ کو لیجاتے ہوئے کیمرے میں کیپچر ہوا ۔۔۔۔ اور یہ کی چین صرف ہم دونوں سلطانز کے پاس ہے ۔۔۔


اور بس یہیں عابس سلطان کا ضبط ٹوٹا ایک جھٹکے سے عابس نے عاشر کے ہاتھ جھٹکے ۔۔۔۔ اور آرام دہ انداز میں بیڈ پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھ گیا۔۔۔۔


عاشر کو اس کی ہٹ دھرمی پر جی بھر کے تاو آیا ۔۔۔


"بڑے بھیا آپ بہت بھولے ہیں ۔۔۔چلو شکر ہے آپ کو پتا تو چلا ۔۔۔ بٹ ایک بات۔۔۔ عابس سلطان چاہتا تھا کہ آپ کو پتا چلے اس لیے آپ کو پتا چلا ۔۔۔۔ اور جتنا آپ کو پتا چل چکا ہے کافی ہے ۔۔۔ ناو اٹس اپ ٹو یو کیسے اپنے ۔۔۔ گھر والوں کو ہنیڈل کرتے ہیں "


عابس کا انداز سخت جتلاتا ہوا تھا۔۔۔

"عابس بخش دو اس معصوم کو وہ تو جانتی بھی نہیں اس حادثے کے بارے میں جو ہوا انجانے میں ہوا ۔۔۔ عابس ہنیزہ ۔۔۔۔"


عاشر اسے سمجھانے کے انداز میں بولا۔۔.

بسسسسسس ۔۔۔آئی سیڈ سٹاپ ۔۔۔ مت نام لیں اس حادثے کا میں نے بہت مشکل سے اپنے اندر کے شیطان کو قید کیاہے ۔۔۔ میرا جنون نا آزمائیں ۔۔۔ورنہ "سلطان پیلس"کی درو دیوار ہلا سکتا ہوں ۔۔۔۔

عابس سرخ پڑتی آنکھوں کو عاشر کی آنکھوں میں گاڑھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔

عاشر لب بھینچتا اس کی آنکھوں میں چھپی ازیت دیکھتا ۔۔۔ نظریں چرا گیا۔۔۔۔۔.


عاشر کے نظریں چرانےپر عابس مسکراتا ہوا ایک الگ انداز میں اس سے مخاطب ہوا


"عابس سلطان کی عادت ہے اپنے جنون کو پالینے کی اور وہ لڑکی میرا جنوں ہے ایسا جنون جس کی طلب میری سانسوں کو دگنا کردیتی ہے مگر جانتے ہیں میرے اندر کوئی جذبہ بیدار نہیں ہوتا۔۔۔۔ صرف ایک خالی وجود ہوں میں جس کے روم روم میں اس قدر شدت پسندی ہے اس لڑکی کے لیے کہ میں آگ سے کھیل جاوں ۔۔۔ اس ہر شخص کی زبان ٹکڑوں میں کاٹ دوں جو اس کا نام پکارے ۔۔۔۔ اس کی سانسوں پر بھی صرف ''عابس سلطان'' کا حق ہے ""


"عابسس یار وہ بچی ہے ۔۔۔۔۔"عاشر منت کرتے ہوئے بولا. ۔۔


"بگ برو ٹیک اٹ ایزی کل کی صبح ہونے سے پہلے آپ کو آپ کی بہن اور بھابھی میرے کمرے میں ملے گی "


عابس اسے سکتے کی حالت میں چھوڑتا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔

عاشر وہیں بیڈ پر بیٹھا سر ہاتھوں میں تھام گیا ۔۔۔۔یہ کیا کر دیا تھا عابس نے ۔۔۔ اپنی انا میں وہ ہنیزہ کی زندگی سے کھیل گیا تھا ۔۔۔۔۔


____،،،،،،،________،،،،،،______،


نور اپنے بابا سے اجازت لیکر آج عفت بیگم کے پاس ہی رک گئی تھی نور ان کے سر ہانے بیٹھی ان کی طبیعت خرابی کے باعث قرآنی آیات پڑھ کر پھونک رہی تھی ۔۔۔ ہنیزہ کی چند دن کی دوری نے اس پیلس کے مکینوں کو بیمار کر دیا تھا

نور اپنے خیالوں میں تھی جب عفت بیگم کی آواز کانوں میں پڑی جو پانی مانگ رہی تھیں ۔۔۔ نور نے سائیڈ ٹیبل پر دیکھا جہاں جگ خالی تھا۔۔۔۔

وہ چپل پاوں میں اڑستی جگ اٹھائے باہر آئی سیڑھیاں اتر کے بائیں جانب ہی کچن تھا

نور نے گھڑی میں ٹائم دیکھا جو رات کا ایک بجا رہی تھی

وہ جلدی سے فریج سے بوتل نکالتی جگ بھرنے لگی تبھی اپنے پیچھے آہٹ محسوس کرکے گھبراتے اپنے دوپٹے کو مزید آگے کھسکا لیا ۔۔۔۔۔

پیچھے مڑنے کی غلطی اس نے نہیں کی تھی

عاشر جو صبح سے بھوکا تھا کچھ بنانے کا سوچتے کچن میں آیا تھا پر اپنے سامنے اس طرح نور کو دیکھ ایک اطمینان سا اسے محسوس ہوا ۔۔۔۔

پر نور کا لرزتا وجود وہ اچھے سے محسوس کر رہا تھا گلا کھنکھارتا وہ اسے تحافظ فراہم کرنے لگا کہ کہیں نور ڈر نہ جائے

عاشر نے اسے ایزی کرنے کے لیے اپنا رخ فریزرکی جانب کیا اور انڈے نکال کر آملیٹ کے لیے تیار کرنے لگا۔۔۔۔نور نے لرزتی پلکیں اٹھا کر عاشر کی جانب دیکھا جو بہت عحیب ڈھنگ سے انڈہ توڑتا اسے ضائع کر چکا تھا نور نے اپنی مسکراہٹ دبائے عاشر کو دیکھا جو پوری شرٹ انڈے سے خراب کر چکا تھا

نور کو ہنستا دیکھ وہ خفگی سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ نور اسے خود کو تکتا پاکر جلدی سے وہاں سے جانے لگی ۔۔۔۔

جب پیچھے سے عاشر کی آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے

"مما کو اٹھانا بھی اچھا نہی چلو باہر سے کچھ آرڈر کرتا ہوں "

عاشر خود سے بڑبڑا رہا تھا جب نور واپس کچن میں آئی ۔۔۔۔اس کا چہرہ اب بھی ڈھکا ہوا تھا عاشر کو صرف اس کی آنکھیں نظر آرہی تھیں

نور اسے سائیڈ ہونے کا کہتی ۔۔خود ماہرانہ انداز میں آملیٹ بناتی اس کے ساتھ چکن سینڈوچ تیار کر گئی ۔۔۔ عاشر تو اس کی پھرتی پر حیران تھا عاشر ۔۔۔ گہرا سانس بھرتا جونہی پانی پینے مڑا . . عین اسی وقت نور ٹرے اٹھانے آگے بڑھی ۔۔۔

اگلے ہی پل نور کے لب عاشر کے گال سے مس ہوئے ۔۔۔ دونوں کی دھڑکنیں اس اچانک افتاد پر دھڑک اٹھی تھیں یہ سب ایک لمحے میں ہوا تھا

عاشرنو ر کی طرف دیکھتا الگ دنیا میں تھا

"میرے اختیار میں اگر ہو توتمھیں گلے لگا کے چاروں طرف محبت کی اک لکیر کھینچ دوں کہ کوئی دُکھ تم تک پہنچ نہ سکے کوئی غم تمھیں کبھی نہ ستائے

سارے خواب حقیقتوں میں بدل سکوں ۔ تمھارے دن رات صبح شام .محبتوں سے سجا سکوں"

عاشر کے دل کی آواز شاید نور تک پہنچی تھی تبھی

۔۔۔۔نور کرنٹ کھا کر عاشر سے دور ہوتی اوپر بھاگ گئی ۔۔۔۔۔

عاشر کے ساکت وجود میں حرکت ہوئی اس کا ہاتھ جت ساختہ اپنے گال پر گیا ۔۔۔۔جہاں اسے ابھی بھی نرم و ملائم لبوں کا لمس محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔ عاشر کے چہرے پر شریر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔۔

عاشر سینڈوچ ٹرے میں رکھتا مزے سے کھانے کا لطف لینے لگا۔۔۔. اسے سینڈوچ واقعی بہت پسند آئے تھے ۔۔۔۔

_____________

ایک رات پہلے ۔۔۔۔۔۔

ڈیول کے لب ہنیزہ کی گردن پر لب رکھتے جابجا اپنے جنون کی مہر ثبت کرتا مدہوش ہونے لگا ۔۔۔ ہنیزہ کے مزاحمت کرتے ہاتھوں کو وہ پہلے ہی اپنے سخت ہاتھوں کی قید میں لیے انہیں بیڈ سے لگا چکا تھا ہنیزہ کی سانسیں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں ۔۔۔۔ پورا چہرہ سرخ انگارہ بن گیا تھا ۔۔۔ عابس سلطان کی مونچھوں کی چبھن اپنے پور پور پر محسوس کرتی وہ کانپ اٹھی تھی ۔۔۔۔

عابس تو جذبات کی رو میں بہکتا سب بھلا چکا تھا ۔۔۔ کسی وحشی کی طرح وہ ہنیزہ پر چھایا ۔۔۔ اس کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو کو خود میں اتارتا ۔۔۔ ہنیزہ کے وجود میں برقی لہر دوڑا گیا۔۔۔۔۔ وہ اس کی شدتوں پر سہمتی سانسیں کھو دینے کے در پر تھی. ۔۔۔۔ عابس اپنے چہرے پر گیلا پن محسوس کرکے جونہی سر اٹھائے اوپر دیکھا ۔۔۔ تو نظریں سیدھا ہنیزہ پر گئیں جو سانسوں کے لیے تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔ ہنیزہ کو لگ رہا تھا کہ عابس سلطان نے اس کے ارد گرد کی ساری ہوا کھینچ لی ہو ۔۔ جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔۔ عجب پاگل پن تھا عابس کے انداز میں ۔۔۔۔ کبھی وہ اپنی داڑھی اس کے چہرے پر پر مس کرتا ہنیزہ کو بے چین کرتا تو کبھی دانت گاڑھ کر اسے سسکنے پر مجبور کر دیتا ۔۔۔ عابس اس کی صورت دیکھنے لگا جو لال اناری ہوچکی تھی ۔۔۔۔۔ عابس کی نظریں بھٹک بھٹک کر اس کے سرخ ہونٹوں پر جارہی تھیں جنہیں ہنیزہ شدت سے اپنے دانتوں میں دبائے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔

عابس نے نرمی سے اس کے ہونٹ کو دانتوں کی گرفت سے آزاد کرایا اور پل بھر میں فاصلہ سمیٹتا ہنیزہ کے وجود کو سختی سے خود میں بھینچتا ۔۔۔ اس کے لبوں پر اپنی گرفت سخت کر گیا ۔۔۔۔

عابس کی انگلیاں ہنیزہ کو اپنی پشت میں گڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔۔ ہنیزہ نے آنکھیں بند کیے اپنے آنسووں کو بہنے سے روکا ۔۔۔۔ جتنا ہنیزہ اسے دور کرتی وہ اتنی ہی شدت و جنونیت سے اسے خود میں بھینچتا اس کی سانسوں کو خود میں قید کر لیتا ۔۔۔۔ جنون کی پہلی سیڑھی تھی یہ تو عابس سلطان کے اور ہنیزہ میکال بے بس اس کے سامنے پڑی اپنی سانسیں بحال کرنے کی مہلت مانگ رہی تھی ۔۔۔۔۔

عابس تو اس پیاسے دریا جیسا تھا جسے سمندر کی پیاس تھی ۔۔۔۔ جسے ساحلوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔۔۔ سمندر میں آتی طغیانی جیسا اس کا جنون تھا جو ہنیزہ میکال کی روح تک کو سیراب کرتا خود مدہوش ہو چکا تھا 

عابس سلطان کی زندگی تلخ حادثے نے اس سے چھین لی تھی جسے وہ پچھلے پچیس سالوں سے جیتا آرہا تھا اس کی راتیں بے آرامی اور دن بے سکونی کا گہرا سایہ تھیں وہ خود سے خوفزدہ تھا ۔۔۔ ہنیزہ کے لیے اس کی بڑھتی شدت اسے دن بدن وحشی بنا رہی تھی ۔۔۔ اسی بے سکونی کو وہ ہنیزہ کے وجود کو تار تار کرکے اتار دینا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ مات دینا چاہتا تھا اپنے اس خوف کو جس نے اس کی زندگی میں کانٹوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔۔ اس کا وجود ایک دہکتا لاوا تھا ۔۔۔ جو صرف اپنی تپش سے راستے میں آنے والے ہر انسان کو خاکستر کردیتی کی ٹھان چکا تھا۔۔۔.

"ہنیزہ میکال"اس کی زندگی کا وہ باب تھی جس سے وہ چاہ کر بھی پیچھا نہیں چھڑا پاتا تھا ۔۔۔ اس کانازک سراپا عابس سلطان کی وحشتوں کو بڑھاوا دیتا اسے نئی دلدل میں دھکیل گیا ۔۔۔

عابس ہنیز ہ کو ہر اس تکلیف سے روشناس کرانا چاہتا تھا جو وہ کر رہا تھا ۔۔ اسے اس پر ازیت لمس سے آشنا کرانا چاہتا تھا جس کے نشان آج تک عابس سلطان کے وجود پر موجود تھے ۔۔۔

وہ اپنے ہر درد کو ہنیزہ میکال کے سپرد کرتا اس تشنگی کو محسوس کرنا چاہتا تھا جس نے اس سے سب کا سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔۔

ہنیزہ میکال ۔۔۔ اس کا عشق نا تھی نا کوئی محبت ۔۔ وہ تو صرف اس کی ایک داسی تھی جسے عابس سلطان بہت جلد اپنے سینے میں قید کیے اس کا دل نوچنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ اس کی روح پر کاری وار کرتا وہ اسے ۔۔ لہولہان کرنا چاہتا تھا ۔۔۔

اور وہ کر رہا تھا ۔۔۔ وہ عابس سلطان تھا اسے بادشاہی کرنی تھی اس ننھے سے دل کی مالک لڑکی پر ۔۔۔ اسے محبت کے زہر کو پلانا تھا ۔۔۔۔ تاکہ اس زہر کا اثر تا عمر ہنیزہ میکال کو نوچ نوچ کر بکھیرتا رہے۔۔۔۔اتنی نفرت تھی عابس سلطان کے دل میں ۔۔۔ پر وہ بے بس تھا اپنی نفرت کے لیے ۔۔. لوگ محبت کے لیے جیتے ہیں ۔۔۔ پر عابس سلطان ۔۔۔۔ نفرت کے لیے اپنے وجود کو اب تک ایک پرت میں چھپاتا آیا تھا

___________

اس سے پہلے کہ عابس ہر حد پار کرتا ہنیزہ کے وجود پر اپنا تسلط جماتا ۔۔۔۔ جھماکے سے ایک ازیت کے ناگ نے اس.کے ذہن پر اپنی پرچھائی دکھائی جسے سوچتے عابس ہنیزہ کے لبوں کے بلکل قریب جاتا سختی سے آنکھیں میچ گیا۔۔۔ نیلی آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگی تھیں

عابس نے بنا ایک لمحہ ضائع کیے ہنیزہ کے وجود کو بے دردی سے بیڈ سے نیچے پھینکا ۔۔۔ ہنیزہ جس کی طبیعت پہلے ہی خراب تھی اس بے رحمانہ سلوک پر اپنے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھتی محسوس کرنے لگی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ ہنیزہ سنبھلتی اگلے ہی لمحے اس کی گردن عابس کے ہاتھ میں تھی عابس نے جھٹکے سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے ہنیزہ کو خود کے نزدیک کیا ۔۔۔ عابس کی آگ کی مانند سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی ہنیزہ تڑپ گئی ۔۔۔۔ہنیزہ کا سانس اس کی آنکھون میں چھائی وحشت دیکھ رک سا گیا جب عابس کی دھاڑ کمرے میں گونج اٹھی ۔۔۔

"سانس لو ہنیزہ میکال ۔۔۔ ڈیم اٹ ۔۔۔ "تیز لہجے میں شیر کی سی غراہٹ تھی

ہنیزہ کی سسکی بندھ گئیں تھِیں وہ منہ کھولے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔۔

آج تو ہنیزہ کو لگ رہا تھا کہ ڈیول اس کی جان لیکر رہیگا ۔۔۔ دماغ میں اٹھتے درد نے جیسے اور جان کنی کی تھی


میں جو روئی تو تیرا ساتھ میسر ہوگا

تو جو کھوئے تو تجھے ہاتھ میسر ہوگا

میرے ہر درد پہ دل کانپ تیرا جاتا ہے

میں جو سوئی تو کفن ساتھ میسر ہوگا

تو جو ہر روز نئے درد جگا دیتا ہے

ہے یہ احساس کہ انسان کہاں رہتا ہے

میں نے اشکوں میں کئی بار التجائیں کیں

منتیں مانی ہاتھ جوڑیں اور دعائیں کیں

تو نے برباد کیا اور میرا کیا جاناں

تو جو برباد ہوا یار میسر ہوگا

شدت لمس میری جان جلا دیتا ہے

میری روح میں اک داغ بنا دیتا ہے

تو جو چھوئے تو زخم میرے ہرے ہوتے ہیں

کیا میرے یار تیرے پاس کھڑے ہوتے ہیں

میں تو مر جاوں گی ہنس کے کہ میرا کیا ہے جاناں

تجھ سے بچھڑی تو تیری دنیا اجڑ جائے گی

میرے جانے میں محظ وقت ہے اب تھوڑا سا

تو جو بولے تو قحط عمر کا میسر ہے


ہنیزہ اپنی سرخ سوجی آنکھوں سے اسے التجا کر رہی تھی درد سے اس کی نسیں پھٹنے والی ہو گئِیں تھیں پر وہ بے حس بنا اپنی بھڑاس نکالتا اس کی تکلیف نظر انداز کر گیا ۔۔۔۔۔

""پپپلیز مجھے درد ہورہہہا ہے چچھوڑ دیں ۔۔۔ ہنیزہ ازیت کی حدوں کو چھوتی اس بے رحم سفاک شخص کے سامنے التجاکر گِئی جسے تو اس کی موت تک سے کوئی مطلب نا تھا

ہنیزہ کے رونے پر ۔۔۔۔ عابس مسکراتااسے دروازے سے پن کرگیا ۔۔۔ سر جو پہلے ہی درد سے بھاری ہو رہا تھا ۔۔ اب تو جیسے پھوڑے کی مانند دکھنے لگا تھا ۔۔۔۔

عابس کو احساس ہوا وہ اگر دشمن نا ہوتی قاتل نہ ہوتی تو ۔۔۔ ہنیزہ میکال سے محبت دیوانگی کی حد تک واجب تھی پر اگلے ہی لمحے وہ سخت ہاتھوں سے ہنیزہ کی کمر کو جکڑتا اسے اپنے سینے سے لگاتا اس کے لبوں پر جھک گیا ۔۔۔۔۔۔ انداز بے حد سخت تھا۔۔۔ اک شدت تھی اس کے لمس میں ۔۔ آج وہ ہنیزہ کی سانسوں سے بہکتا مخمور تھا ۔۔۔ پر یہ پاگلپن ہنیزہ کی رہی سہی جان بھی نکال گِیا جب ڈیول کا ہاتھ اپنی شرٹ پر محسوس ہوا ہنیزہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ دبوچی ۔۔۔۔ خود کو جی بھر کے سیراب کرتا ہنیزہ کے لبوں پر زخم دیتا وہ دور ہوا دونوں کی سانسوں کا تسلسل بری طرح بکھر چکا تھا ۔۔۔۔ہنیزہ اس سے زیادہ اپنے حواس بحال نا رکھ سکی اور عابس کی باہوں سے ریت کی طرح پھسلتی چلی گئی ۔۔۔ اس کے بیہوش ہونے پر شاید عابس کو خود ہوش آیا ۔۔۔

وہ جلدی اسے باہون میں بھرے بیڈ پر لٹاتے ہنیزہ کا چہرہ تھپتھپا نے لگا ۔۔۔۔


ہہیےےے۔۔۔ ہنی ویک اپ ۔۔۔ یو سلی گرل تم جانتی ہو۔۔۔ کہ تمہارے یہ بہانے یہ نازک مزاجی مجھے تمہارے قریب آنے سے نہیں روک سکتی ۔۔۔ ڈارلنگ ویک اپ۔۔۔۔


عابس کا انداز انتہائی محبت جتلاتے شوہر کی طرح تھا جسے اپنی بیوی سے بے پناہ محبت تھی لگاو تھا ۔۔۔۔ اب وہ بلکل نارمل تھا . . ہنیزہ میکال کو رسوا کرکے ۔

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات اچھی ہے میرے ہر جائی کی

عابس اس کے کان میں۔سرگوشی کرتا دھیمے سے گنگنایا

______

ہنیزہ کو لیے عابس واپس پیلس کے لیے نکل چکا تھا اس کا پلین تیار تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔۔ ہنیزہ کو خود سے دور تو وہ کسی قیمت پر نہیں کر سکتا تھا پر اس کے ساتھ جو کرنے والا تھا اس سے سلطان پیلس مسمار ہونے میں چند سیکنڈ لگتے ۔۔۔۔

دو گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد عابس کی شاندار بی ایم ڈبلیو سلطان پیلس کے سامنے آرکی اس نے اتر کے جلدی سے دروازہ کھولتے ہنیزہ کو باہوں میں بھرا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔

عابس جیسے ہی پیلس میں قدم رکھا تو سب کو لاونچ میں ہی بیٹھے پایا سوائے میکال صاحب کے جو آج بھی اپنی پری کی تلاش میں مارے مارے نجانے کہاں پھر رہے تھے


عابس پر جب عفت بیگم کی نظر پڑی تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں


عابس کی باہوں میں ہنیزہ کا وجود انہیں کسی انہونی کا پتا دے رہا تھا عفت بیگم کا صوفے سے اٹھتا دیکھ سب کی نظر بے ساختہ پیچھے کی جانب اٹھیں جہاں عابس اسی حالت میں ہنیزہ کو لیے کھڑا تھا ۔۔۔۔

عفت بیگم خود کو سنبھالتیں جلدی آگے بڑھیں۔۔۔ ہنیزہ کا بے سدھ وجود زخمی ہونٹ چہرے پر انگلیوں کے نشان ۔۔۔۔ ان کا دل انجانے خدشے سے تڑپ اٹھا دل نے بے ساختہ سوچ کی نفی کی کہ نہیں ۔۔۔۔۔ ہنیزہ کی اس حالت کا ذمہ دار عابس نا ہو۔۔۔


عفت بیگم کے آنسو ہنیزہ کی حالت دیکھ سوکھ گئے تھے وہ بس ساکت آنکھوں سے ہنیزہ کو دیکھ رہی تھیں جس کی سبز مائل جھیل سی آنکھیں ظلم سہتے بند ہو گئیں تھیں

عفت بیگم لڑ کھڑا کر گرتیں جب افرال صاحب نے انہیں سنبھالا ۔۔۔ نور تو ہنیزہ کی طرف دیکھتی چیخ کر رونے لگی تھی

عاشر جلدی سے آگے بڑھتا ہنیزہ کو عابس سے لینے لگا۔۔۔ پر اس سے پہلے ہی عابس سب کو اگنور کیے سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ پیچھے سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔۔۔۔۔ عابس سے بات کرنے کا سوچتے افرال صاحب جانے ہی لگے تھے جب وہ سیڑھیوں سے اترتا دکھائی دیا


عابس اطمینان سے صوفے پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے نیم دراز ہوا

افرال صاحب غصے سے اس کی طرف بڑھتے اک سیکنڈ میں اس کا گریبان دبوچ گئے


"جاہل انسان کہاں سےلائے ہو میری بچی کو اس کی اتنی بری حالت کیسے ہوئی بتاو عابس سلطان ورنہ تمہاری بوٹیاں کتوں کو کھلا دونگا"


افرال صاحب دھاڑے تھے . . غصے کی وجہ سے ان کا جسم کپکپا اٹھا تھا۔۔۔۔ آنکھوں میں اب بھی معصوم سی ہنیزہ کا چہرہ گھوم رہا تھا۔۔۔۔


عابس ان کی بات پر مسکرایا جیسے کسی بچے کی بات پر مسکراتے ہیں اور کچھ جتاتے لہجے میں وہاں کھڑے ہر شخص سے مخاطب ہوا


"ننننو ۔۔۔۔ نو ڈیڈ اپنے الفاظ کی تصحیح کرلیں وہ آپ کی بچی نہیں بلکہ میری بیوی بن چکی ہے ۔۔۔ ہنیزہ میکال سے ہنیزہ عابس سلطان بن چکی ہے اگر کسی نے میرے اور میری بیوی کے درمیاں آنے کی کوشش کی تو میں ہر رشتہ بھلا دونگا ۔۔۔۔ "

عابس کا لہجہ اٹل تھا جس سے وہاں سب ہی چونک گئے تھے افرال صاحب اسے مارتے زمین پر گرا چکے تھے پر عابس کے لب پر صرف ایک اقرار تھا کہ ہنیزہ میکال عابس سلطان کی ہے صرف اسی کی ہے


عاشر اسے مسلسل مار کھاتا دیکھ باپ کو روکتے انہیں سنبھالنے لگا جن پر خون سوار تھا


عابس اپنے کپڑے جھاڑتا ڈھیٹوں کی طرح مسکرانے لگا۔۔۔۔


عفت بیگم بے یقینی سے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں کہ کیا واقعی خدا اس طرح بھی انصاف کرتا ہے مکافات عمل اس شکل میں بھی سامنے آتا ہے ۔۔۔۔۔


_________

عابس اپنے روم میں آیا تو ہنیزہ کو جاگتے پایا وہ کل ہی اس کا ٹریٹمینٹ کرا چکا تھا ڈاکٹر نے اسے سختی سے بیڈ ریسٹ ک بتایا تھا


عابس کو سامنے دیکھتی ہنیزہ خوفزدہ ہونے لگی ۔۔۔۔ دل چاہا بھاگ جائے


عابس مسکراتا ہوا بیڈ کے پاس آبیٹھااور لہجے میں دنیا جہاں کی نرمی سموئے ہنیزہ کو پکارہ ۔۔۔۔۔


"جاناں___"


ہنیزہ شاک کی کیفیت میں اپنی نیلی آنکھیں اس کی سرخ نظروں میں گاڑھٹی دیکھنے لگی ۔۔۔۔ اتنا میٹھا لہجہ ۔۔۔ عابس اس کی سوچ شاید پڑھ چکا تھا تبھی نرمی سے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتا اسے خود میں سمٹنے پر مجبور کر گیا


جججانناں کییا ہووتا ہےےے عاببی بھحب۔۔۔۔۔ ابھی ہنیزہ اپنے لفظ پورے کرتی کہ عابس نرمی سے اس کے نچلے لب کو قید کیے اسے آنکھیں میچتے بہکنے پر مجبور کر گیا ہنیزہ کے لیے یہ لمس انجان نہ تھا وہ عجیب سی کیفیت میں گھری عابس کے ہاتھوں پر گرفت سخت کر گئی ۔۔۔۔ عابس کا انداز بے حد نرمی سموئے ہوئے تھا ہنیزہ سب بھول گئی تھی اسے کچھ پتا نہیں تھا ارد گرد کیا ہورہا ہے دماغ کچھ غلط ہونے کا سگنل دے رہا تھا تو دل اس کے قرب کی طلب کر رہا تھا۔۔۔۔

ہنیزہ کو لگ رہا تھا وہ ہواوں میں ہے ۔۔۔۔۔

عابس نرمی سے اس سے دور ہوتا دوسرے ہاتھ سے ہنیزہ کے بکھرے بال سمیٹنے لگا


"ہنی میری کوئی دوست نہیں ۔۔۔ جاناں تم بنو گی میری دوست۔۔۔ پرامس کبھی ہرٹ نہی کرونگا اپنی جاناں کو ہمیشہ خیال رکھونگا۔۔۔دیکھو وہ جو غنڈہ تھا نہ بیڈ بوائے میں اس سے بھی تمہیں چھین لایا ہوں ۔۔۔ پٹائی بھی کی بہت اس کی ،میری جاناں کو ہرٹ کیا اس نے ۔۔۔ میں سوری ہوں ہنی لیٹ ہوگیا"

ہنیزہ کو عابس کی بات سنتے ہی ڈیول کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ یاد آنے لگا ۔۔۔ اس کی رنگت پیلی پڑتی گئی ۔۔۔ عابس اس کی حالت پر مسکرایا یہی تو وہ چاہتا تھا اس کی آنکھوں میں خوف ۔۔۔۔

ہنیزہ نیلی آنکھوں میں نمی لیے عابس کی گردن میں دونوں بازو ہائل کرتی اس کے سینے سے جالگی ۔۔۔۔


عابی وہہہہ اچغا نہیں تھا عابی مجھے ہرٹ کیا ا س نے ہرٙ کیا میں نے ۔۔۔ میں نے بلایا تھا عابی سب کو بابا کو عاشو کو ککوئی نہی ِآیا عابی ہنی ناراض ہے سب سے تم اچھے ہو عابی تم نے اس ڈددددیول سے بچایا ہنی کو لو یو عابی۔۔۔۔۔ ہنیزہ کے لبوں سے نکلتا ایک ایک لفظ عابس سلطان کو فاتح بنا گیا تھا

وہ جو چاہتا تھا کر گزرہ تھا ہنیزہ کے ننھے سے ذہن میں اپنے لیے اچھائی فٹ کرنا ا سکا مقصد تھا جسے وہ بغیر کسی محنت کے انجام دے گیا تھا ہنیزہ اس کے سینے سے لگی سب کی برائیاں کر رہی تھی ۔۔وہ معصوم تھی نہیں جانتی تھی جس حیوان کے سینے میں منہ چھپا ئے رورہی ہے وہ اک دن دل نوچنے میں دیر نہیں لگائے گا See less

عابس کب سے اسے ڈھونڈ رہا تھا جو صبح سے ہی اس سے چھپنے کی معصوم سی کوشش کر رہی تھی مگر شاید وہ عابس سلطان کے جنون سے نا واقف تھی۔۔تبھی وہ ہر بار اپنی معصوم حرکتوں سے عابس کا غصہ بڑھا دیتی تھی۔ ہنیزہ میکال کا اسکے قریب رہنا جیسے ہر آتی جاتی سانس کے مترداف تھا۔۔


وہ ہوا میں موجود آکسیجن کی مانند اسکی سانسوں کو کھینچ لینا چاہتا تھا مگر اپنے طریقے سے اسے پور پور اذیت دیتے وہ اپنے نشے کو پورا کرنا چاہتا تھا عابس آنکھوں میں سرد تاثرات لیے کمرے سے باہر آیا تھا۔


وہ ہر اس جگہ دیکھ چکا تھا جہاں ہنیزہ کا پایا جانا ممکن تھا مگر وہ خود بھی حیران تھاکہ وہ اسے کہیں نہیں ڈھونڈ سکا تھا مگر اسکی خوشبو وہ محسوس کر پا رہا تھا کہ وہ اسکے آس پاس ہے بہت قریب ، عابس نیچے آیا اور ماما سے پوچھنے کا سوچ وہ چلتا کچن میں گیا ، مگر اسکی آنکھوں میں عجیب سی سرخی پھیلنے لگی , قدم زمین پر ساکت ہو گئے۔۔


سامنے ہی ہنیزہ میکال اطمینان سے کچھ بنانے کی کوشش میں پوری طرح سے کھوئی جتن کر رہی تھی۔"


عابس سلطان کی گہری نظریں اسکی بھیگی کمر سے ہوتے اسکے بالوں میں اٹکی ، ہنیزہ میکال کے بھیگے بالوں سے ٹپ ٹپ کرتے پانی کے گرتے قطرے دیکھ عابس سلطان کے اندر ایک الگ سا طوفان برپا ہونے لگا، وہ پھولی رگوں سے گردن کو آگے پیچھے حرکت دیے خود پر ضبط کرنے لگا۔ مگر ہینزہ میکال ہر بار نا چاہتے ہوئے بھی اسکے حواسوں پر طاری ہوتے اسے بری طرح سے اپنی جانب مائل کر دیتی تھی۔""


عابس اپنے بھاری قدم اٹھائے ہنیزہ میکال کے قریب تر ہوا ، شاید اسکی نظروں کی تپش تھی یا پھر عابس سلطان کی حواسوں پر طاری ہوئی خوشبو کہ ہنیزہ میکال کے ہاتھ تھم سے گئے نیلی کانچ سی گہری آنکھوں میں سایہ سا لہرایا ۔ ہنیزہ نے اپنے سرخ ہونٹوں پر زبان پھیرتے انہیں تر کیا اور پھر اپنے نازک کپکپاتے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو پانے کی سعی کرتے وہ پھر سے اپنے کام میں مشغول ہوئی۔"


عابس اسکا سانس روکنا محسوس کر چکا تھا مگر اب اسے خود کو اگنور کرتے دیکھ اسکے اندر کا ڈیول انگڑائی لئے بیدار ہونے لگا مگر عابس نے مٹھیاں بھینجتے اپنے آپ پر ضبط کیا ،


" کیا بنا رہی ہو ہنی___؟"۔


عابس نے جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کی تو ہنیزہ نے بمشکل سے اپنے لرزتے وجود کو سنھبالا وہ ظالم ہنیزہ کی پشت کو اپنے سینے سے لگائے اب ہونٹ اسکے بھیگے کندھے پر رکھ چکا تھا ۔ ہنیزہ کا روم روم عابس سلطان کے دہکتے لمس پر مچل اٹھا۔۔"


"ببببھوک لللگی تتتھی تتتو کککچچھ کککھانے کککو ۔۔۔۔ " عابس سلطان کے بے باک ہاتھ اب بڑی دیدہ دلیری سے ہنیزہ کی گردن پر چپکے بالوں کو سمیٹنے میں مصروف تھا ۔


اچھا میری بھوک کا ذرا احساس نہیں تمہیں ۔۔۔ اور اپنی بھوک مٹانے کی پڑی ہے ۔۔" ججج جی عابی اپپپ کک کو بھی بھوک للگی ہے ۔۔۔ "وہ معصوم عابس سلطان کے بے باک گہرے لہجے کو سمجھنے سے قاصر اپنی سوچ کے مطابق بولی ، ہممممم مجھے کچھ خاص کھانا ہے ،جو صرف تمہی دے سکتی ہو_" ہنیزہ نے نا سمجھی سے اپنی نیلی آنکھوں کو پھیلائے مڑتے عابس سلطان کو دیکھا،


مم میں کیسے مٹا سکتی ہوں عابی " ہنیزہ کی آنکھوں میں حیرت تھی، تمہی دے سکتی ہو سب کچھ ہنی تمہارے پاس وہ سب کچھ ہے جو عابس سلطان کو چاہیے۔۔۔" عابس سلطان کے خوبصورت ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری، اچھا چھوڑو یہ سب میں کچھ لایا ہوں تمہارے لئے۔۔۔۔۔"اپنے مضبوط ہاتھ میں ہنیزہ کا نازک ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ مسکراتا بولا ۔۔ مممگر عابببی ییی مممیرا__"


اششش__"کچھ نہیں ماما کر لیں گی تم چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔"اسکی بات کاٹتا عابس اسے لئے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا ہنیزہ میکال کا نازک وجود اسکے ساتھ کھینچتا چلا جا رہا تھا۔ عابس سلطان گہری مسکراہٹ سے مسکراتا اسے کمرے میں لایا اور مڑتے دروازہ لاک کیا۔ہنیزہ کی نیلی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات نمایاں ہوئے۔


گھبرا کیوں رہی ہو، ہنی میں تو تمہارا دوست ہوں ناں۔۔"ہنیزہ کی گھبراہٹ کو دیکھتا وہ معصومیت سے پوچھتا اسکے قریب ہوا۔۔ ہاں عاببببی اپپ میرے دوسسست ہیں ممیں نہیںں ڈرتی اببب۔۔۔۔"عابس سلطان کی آنکھوں میں دیکھتے وہ بمشکل سے مگر بول چکی تھی عابس کے اندر سرور کی لہریں برپا ہونے لگیں وہ جھولتا مسرور سا ایک دم سے اسے خود میں بھینج گیا۔


ہنیزہ کی دھڑکنیں ساکت سی تھیں وہ عابس سلطان کے مضبوط تنگ حصار میں اسکے سینے سے لگی اسکی قربت میں اپنے اندر ایک الگ سی خوشی محسوس کر رہی تھی۔ دل جیسے عابس سلطان کی قربت اسکی طلب کو بےچین تھا۔ عابس نے بہت نرمی سے ہنیزہ کے چہرے کو دیکھا جہاں صرف سکون آباد تھا۔


عابس نے بے حد نرمی سے اپنے ہونٹ ہنیزہ کی تھوڑی سے ذرا اوپر اسکے ہونٹوں کے بلکل قریب رکھے،اسکے لمس میں نرمی تھی مگر آنکھوں میں جنون برپا تھا، ہنیزہ کا نازک وجود عابس سلطان کے ہر نئے لمس پر مسرور سا ہو رہا تھا اور عابس سلطان اسے ہر بار ایسے چھوتا تھا جیسے وہ بے حد انمول ہو کوئی کانچ کی گڑیا جسے اپنی بانہوں کے تنگ حصار میں قید کرتے تڑپانا صرف اور صرف عابس سلطان کے ہاتھ میں تھا۔


عابس سلطان کی مونچھوں کی جبھن پر وہ معصوم کسمسا سی گئی مگر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور یہی عابس سلطان کی جیت تھی، عابس سلطان نے استحقاق سے اپنا بھاری ہاتھ اس نازک وجود کے گرد لپیٹتے اسے خود سے قریب تر کیا اور اپنے تشنہ ہونٹ ہنیزہ میکال کی نازک پنکھڑیوں پر رکھتے وہ نرمی سے انکی نرماہٹ محسوس کرتے اپنے لمس سے ہنیزہ میکال کو اپنی سحر میں جکڑنے لگا۔۔


ہنیزہ میکال کی سانسوں کو خود میں اتارتے وہ بے حد نرمی سے پیچھے ہٹا تھا، اسکے دور جانے پر بھی ہنیزہ آنکھیں موندے عابس سلطان کو محسوس کر رہی تھی۔ عابس کے ہونٹ اس معصوم کو دیکھ مسکرائے۔۔


ہنیزہ عابس کو خود سے دور محسوس کیے آنکھیں کھولتے اسے دیکھنے لگی اور پھر عابس کی گہری نظریں کو خود پر ٹکا پاتے ہنیزہ نے جلدی سے رخ موڑا اسکی یہ حرکت عابس سلطان کو ناچاہتے ہوئے بھی بھای تھی،


چاکلیٹس لایا تھا تمہارے لئے_"" اپنی پاکٹ سے چاکلیٹس نکالتے عابس سلطان نے اس معصوم کے سامنے کیں جس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی جیسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔۔


ایسی ہی تو تھی ہنیزہ میکال___چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں ڈھونڈنے والی۔۔۔ کسی بے جان کو بھی تکلیف نہیں دیتی تھی کبھی اور اسکے برعکس عابس سلطان تھا ایک ان دیکھا حیوان___ جو اس معصوم کی روح کو فنا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔


چاکلیٹس عابی اپپپ مممیرے لئے لائے ہیں۔"" ہنیزہ نے اپنی اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ان چاکلیٹس کو تھاما تو اسکے نازک ہاتھ کے لمس پر عابس نے بغور ہنیزہ میکال کی مخروطی نرم و نازک انگلیوں کو دیکھا۔


عابببی عاشو بببھائی کو ببببھی دے دوں ایکک___" ہنیزہ میکال جو اس وقت سر تا پاؤں اپنے بھیگے وجود سے اسکے سامنے کھڑی عابس سلطان کے ضبط کا کڑا امتحان لے رہی تھی اور اب اسکی بات سنتے عابس سلطان کے ماتھے پر تیزی سے بل نمایاں ہوئے۔۔


عابس سلطان کی نظریں ہنیزہ کے چاکلیٹ سے بھرے ہونٹوں پر تھیں وہ سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اسکے نزدیک ہونے لگا، ہنیزہ اسکے تاثرات سے سہمی ہوئی پیچھے ہونے لگی مگر وہ معصوم انجان تھی کہ عابس سلطان اسے زمین سے بھی کھود کے نکال کر واپس اپنے سامنے لا سکتا تھا۔۔


اور اس وقت وہ جیتی جاگتی اسکے سامنے کھڑی تھی۔ "تمہارے ان لبوں سے میرے سوا کسی اور کا ذکر سننا سخت نا پسند ہے عابس سلطان کو۔۔۔۔" جو چیز تمہیں میں دوں اسے اپنے پاس رکھو تو ٹھیک اگر کسی دوسرے کو دینے یا نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی تو اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔"


اپنی غصے سے لبریز سرخ آنکھوں کو ہنیزہ میکال کی نیلی سمندر جیسی گہری آنکھوں میں گھاڑتے وہ سخت ٹھٹرا دینے والے لہجے میں بولا۔ ہنیزہ نے جلدی سے سر ہاں میں ہلایا وہ عابی کو۔کسی صورت ناراض نہیں کر سکتی تھی۔ابھی تو ان دونوں کی دوستی ہوئی تھی۔


کچھ سمجھ آئی۔" عابس سلطان ہنیزہ میکال کے پیچھے ہوتے دیوار سے لگنے پر اپنے ہاتھ اسکے دائیں بائیں جمائے گہرے لہجے میں استفسار کرتا اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ہنیزہ کے نچلے ہونٹ پر لگی چاکلیٹ کو رگڑتے صاف کرنے لگا۔


ہنیزہ عابس سلطان کے کھردرے سخت انگوٹھے کے لمس کو اپنے ہونٹوں پر پاتے ڈرتے آنکھیں میچیں تیز تیز سانس لیتی اپنا تنفس بحال رکھنے کی سعی کرنے لگی۔ ہنی میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔۔۔" ہنیزہ میکال کا مسلسل خاموش رہنا عابس سلطان کو زرا بھی نہیں بھایا تھا۔


تو آپ اپنا انگوٹھا اٹھائیں گے تو ہی میں بولوں گی۔۔ " ہنیزہ میکال نے آنکھیں پھیلائے اسے اپنے ہونٹ کی جانب اشارہ کرتے کہا تو عابس کے ہونٹ اسکی معصومیت پر مسکرائے۔۔


اگر آپ کو چاکلیٹ کککھانی ہے تو مممجھ سے لے لیں ۔۔۔" ہنیزہ کو لگا شاید وہ چاکلیٹ کھانا چاہتا تھا جبھی ہنیزہ کے ہونٹوں پر لگی چاکلیٹ کو اتار رہا تھا۔۔ہنیزہ نے چاکلیٹ اسکے سامنے کرتے کہا تو عابس نے ایبرو اچکائے ہنیزہ میکال کے۔معصوم چہرے کو دیکھا۔۔۔ نہیں ہنی تم کھاؤ میں کھا لوں گا۔"


عابس نے انگوٹھا منہ میں رکھتے کہا تو ہنیزہ نے آنکھیں پھیلائے عابس سلطان کو دیکھا۔۔ " عاببببی مجھے بھی کھانا ہے۔۔ ہنیزہ نے چمکتی آنکھوں سے عابس سلطان کے انگھوٹھے کو دیکھا جسے وہ منہ میں دیے ہوئے تھے۔۔۔۔نہیں تم جیسے کھا رہی ہو ویسے ہی کھاؤ۔۔۔۔" میں اپنے طریقے سے کھاؤں گا۔۔


عابس سلطان نے استحقاق سے ہنیزہ میکال کو اپنی گرفت میں لیا تو ہنیزہ نے بغور عباس سلطان کے حسین چہرے کو دیکھا۔عابس نے ہنیزہ کے ہاتھ سے چاکلیٹ لیے ہنیزہ میکال کے گالوں اور پھر اسکی ناک پر لگائی۔۔۔ ہنیزہ کی آنکھوں میں دیکھتا وہ مسکرایا۔۔۔ اور پھر شدت سے جھکتے اسے گالوں پر لگی چاکلیٹ کو اپنے ہونٹوں سے چنتے وہ ہنیزہ میکال کو لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔


ہنیزہ آنکھیں موندے اپنے چہرے پر عابس سلطان کے جادوئی لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔عابس سلطان نے نرمی سے ہنیزہ کی ناک سے ہوتے اسکے ہونٹوں کو اپنی دہکتی گرفت میں لیا ہنیزہ میکال اپنی سانسوں میں الجھی عابس سلطان کی دہکتی سانسوں کو محسوس کرتی مدہوش سی ہونے لگی تھی۔۔


عابس سلطان کا نرم لمس اسے الگ ہی دنیا میں لے گیا تھا۔۔۔۔جبکہ عابس سلطان اپنی محبت کا سحر پھونکتا نرمی سے پیچھے ہوا تو ہنیزہ میکال لنگے لمبے سانس بھرتے اپنا تنفس بحال کرنے لگی۔ عابس سلطان کی نگاہیں ہنیزہ میکال کے چہرے پر اپنی شدتوں کے نشانات پر تھیں۔


عابببی ممم مممممجھے ببببھی ککک۔کھانی ہے۔۔۔ " ہنیزہ میکال نے آنکھیں جھکائے ایک نئی فرمائش کی تھی مگر وہ بھول چکی تھی کہ وہ خود ہی اسں ڈیول کو اپنی معصوم حرکتوں سے جگا رہی تھی جس کے شدتیں ہنیزہ میکال کی سانس روک دیا کرتی تھی۔۔


تو کھا لو۔۔۔۔۔" عابس سلطان نے اپنی مخمور نگاہوں سے ہنیزہ میکال کے حسین چہرے کو دیکھ اجازت دی۔۔ تو ہنیزہ مسکراتے چاکلیٹ اسکے گالوں پر لگا گئی۔۔۔عابس کی آنکھوں میں سرخی اترنے۔لگی۔۔۔جس سے انجان وہ معصوم اب پاؤں اونچے کیے عابس سلطان کے انداز میں اسکے گالوں پر لگی چاکلیٹ کو اپنے ہونٹوں سے صاف کرنے لگی۔۔


ہنیزہ میکال کے نرم و ملائم نازک ہونٹوں کے لمس کو اپنے گالوں پر محسوس کرتا عابس سلطان آنکھیں موندے سکون خود میں اتارنے لگا۔ ہنیزہ میکال کھلکھلاتی اپنی حرکت پر خود ہی مسکراتی پیچھے ہوئی تھی۔۔مگر وہ معصوم انجان تھی کہ وہ کس طرح سے اس ڈیول کی قید میں خود کو خصد ہی الجھا رہی تھی۔


_______


کیا آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟" عاشر کی متفکر سی آواز پر نورلعین نے جھٹ سے گردن موڑے عاشر سلطان کو دیکھا ۔۔ جس کی آنکھوں میں جھلکتی پریشانی نورلعین کو عجیب سی کشمکش مبتلا کر رہی تھی،


"نننن نہیں ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔"عاشر اسے گھر چھوڑنے جا رہا تھا مگر نورلعین کو اپنے اوپر ٹکی عاشر سلطان کی نظریں عجیب سی بے چینی میں مبتلا کر رہی تھی۔ نورلعین کی بے چینی گھبراہٹ عاشر سلطان سے مخفی نہیں تھی، مگر وہ چاہتا تھا کہ نورلعین اس سے کھل کر باتیں کریں، جو کشش اسے اس لڑکی میں محسوس ہوئی تھی وہ آج تک اپنے اندر ایسے جذبات کو محسوس نہیں کر پایا تھا۔


آپ کے گھر میں کون کون رہتا ہے۔۔۔؟" گاڑی ریورس کرتے عاشر نے بات بڑھانے کو سوال داغا۔جبکہ نور نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پھیلائے اسے حیرت سے دیکھا۔ عاشر تو اسکی نگاہوں سے ہی گھائل بمشکل سے اپنی نظریں چرا پایا تھا۔۔ وگرنہ اسے لگا تھا کہ آج یہ لڑکی اسے اپنی نگاہوں سے ہی قتل کر دے گی۔


بابا ماما اور میں ہم تین انسان رہتے ہیں۔۔!" نورلعین نے کھڑکی سے باہر دیکھتے جواب دیا۔ جبکہ عاشر سلطان تو اس نازک وجود کی بھینی بھینی سی خوشبو کو اپنے حواسوں پر طاری ہوتا محسوس کرتے سر جھٹک گیا۔۔


آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے آپ کا ۔۔۔۔مطلب آگے پڑھنا چاہتی ہیں آپ یا پھر نہیں۔۔۔۔؟" نورلعین کو لگا کہ آج وہ کسی پولیس انویٹیگیٹر کے ہاتھ لگی ہو جو بار بار سوال کرتا جانے کیا جاننا چاہتا تھا۔


ابھی سوچا نہیں۔۔۔" نورلعین نے دانت پیستے کہا جبکہ اسکی آنکھوں کی سرخی دیکھ عاشر سلطان سمجھ گیا میڈم غصہ ہو رہی ہیں۔۔ اچھا تو کیا اپ کا رشتہ ہوا ہے مطلب ۔۔۔۔۔۔ " عاشر کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر وہ بات کہاں سے شروع کرے۔۔


مسٹر سلطان آپ مجھے بتا دیں اپنے سوال میں گھر سے سب کے جواب لکھ کر لے آؤں گی۔۔۔" نورلعین نے میٹھا سا طنز کیا تو عاشر نے لب دانتوں تلے دبایا معا وہ کچھ کہتا گاڑی ایک زور دار جھٹکے سے بیلنس خراب ہونے پر رکی ۔۔


نورلعین اس اچانک جھٹکے پر جگہ سے اچھلتی عاشر سلطان۔کے چوڑے کندھے سے ٹکرائی۔۔اپنے کندھے پر اس نرم و نازک وجود کو محسوس کرتے عاشر سلطان کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھی دل تیزی سے دھڑکتا جیسے باہر آنے کو تھا۔۔


نورلعین نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تو خود کو یوں عاشر سلطان کے اس قدر قریب دیکھ وہ فورا سے پیچھے ہوئی تھی۔عاشر جو بے اختیار اسے دیکھ رہا تھا فورا سے اپنی نگاہوں کا زاویہ بدلا۔۔


گگگ گاڑی کک کو کیا ہو گگگ گیا۔۔؟" نورلعین نے ڈرتے گاڑی کے رکنے کی وجہ پوچھی تو اسکے ڈر پر عاشر کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔ شاید خراب ہو گئی ہے میں دیکھتا ہوں۔۔عاشر نے جلدی سے کہا اور پھر باہر نکلتا وہ گاڑی چیک کرنے لگا۔۔ نورلعین کا چہرہ خوف سے لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا ۔۔ وہ انگلیاں چٹخاتے اپنے ڈر پر قابو پانے لگی۔۔


ککک۔کیا ہوا ہے پپ پلیز ممم مجھے گھر جانا ہے۔۔۔!" عاشر کے اندر آنے پر نورلعین نے بے قراری سے پوچھا عاشر نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے نورلعین کی خوفزدہ پانی سے بھری نگاہوں میں دیکھا۔


ری لیکس ڈونٹ وری کچھ نہیں ہوا نور گاڑی خراب ہو گئی ہے میں نے دوسری گاڑی منگوائی ہے۔۔۔۔!"عاشر نے اسے پرسکون کرنا چاہا تھا جو لٹھے کی مانند سفید پڑی آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لیے ایسے تھی جیسے آخری سانس لے رہی ہو ۔


" بب بابا کے پاس جانا ہے ممم مجھے ۔۔۔۔۔ نورلعین ڈرتے عاشر کو دیکھتے رونے جیسی ہوئئ تھی عاشر کے لئے اس کے آنسوں دیکھتے خود پر ضبط کرنا مشکل تھا۔۔ جبھی عاشر سلطان نے ایک دم اچانک سے نورلعین کی کمر کو تھامے جھٹکے سے اسے خود سے قریب تر کیا۔۔


نورلعین عاشر سلطان کو خود سے بے انتہا قریب دیکھ اپنی کمر پر اسکے دہکتی گرفت محسوس کرتی سانس روکے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھے گئی جس کی آنکھوں میں سخت تاثرات تھے۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میرا ضبط ٹوٹے اور میں کچھ غلط کروں اپنے آنسوں صاف کرو نور۔۔۔۔۔" نورلعین کے چہرے پر اپنی سلگتی سانسیں چھوڑتے وہ ضبط کرتے بولا مگر لہجہ سخت تھا۔


نورلعین نے فورا سے اسے خود سے دور کیا عاشر نے دانت پیستے اپنے آپ پر قابو کیا وگرنہ دل کا حال برا ہوا پڑا تھا۔ نورلعین نے ڈرتے جلدی سے آنسوں صاف کیے مگر اسکے وجود کی کپکپاہٹ عاشر سلطان بخوبی محسوس کر پا رہا تھا۔۔ گاڑی کے خاموش ماحول میں ان دونوں کی تیز تیز دھڑکتئ دھڑکنیں بکھر رہی تھی۔


اترو۔۔۔۔۔ " سامنے سے آتی گاڑی کو دیکھ عاشر نے جلدی سے کہا مگر اب کی بار اسے دیکھا نہیں تھا۔نورلعین۔سنتے جلدی سے گاڑی سے اتری۔۔۔ عاشر سلطان اسے ساتھ لئے دوسری گاڑی کی جانب بڑھا۔۔ اور چابیاں ڈرائیور کو دیے وہ خود ڈرائیو کرتا اسے گھر ڈراپ کرنے نکلا۔۔

ہنیزہ کی کھلکھلاہٹ کمرے میں گونج رہی تھی عابس اس کے جذباتوں سے کھیلتا اسے مکمل خود میں گم کر رہا تھا کسی زہر کی طرح جو رفتہ رفتہ انسان کی رگوں میں پھیلتااسے قریب المرگ کر دیتا ہے وہی زہر تھا عابس سلطان ہنیزہ کے لیے ۔۔۔ پر وہ شاید انجان تھا کہ جس زہر کو وہ ہنیزہ کے وجود میں پرو رہا ہے وہ زہر اس کی جڑیں کاٹ دے گا اسے جھکنے پر مجبور کردیگا محبت نامی بلا سے اس کا پالا نہیں پڑا تھا یا شاید عابس سلطان اسے محسوس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا


عابس نے ہنیزہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے کسی گڑیا کی طرح اپنے پاوں پر کھڑا کر لیا ۔۔۔۔

ہنیزہ خود کو ہوا میں محسوس کرتی سختی سے عابس کے کندھے تھام گئی ۔۔۔ عابس اسے باہوں میں بھرے گول گول گھمانے لگا ۔۔۔ ہنیزہ اس کی گردن کے گرد اپنی باہیں ہائل کیے مسرور سی قہقہے لگانے لگی۔۔۔


عابی مجھے نیچے اتاریں ۔۔۔ہاہاہا میں گر جاونگی عابی ۔۔ ہنیزہ چکراتے سر کو تھامتی اسے رکنے کا بول رہی تھی جب عابس نے اک زور دار چکر ہنیزہ کو دیا جس کے ساتھ ہی ا س کا نازک سا وجود زمین بوس ہوا ۔۔۔

ہنیزہ کو کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئِیں ۔۔۔ آنکھوں سے بے ساختہ تکلیف سے آنسو بہنے لگے


"اوہ ساری ہنی مجھے معاف کردو میری جاناں ۔۔۔۔پتا نہیں کیسے میرا ہاتھ "عابس چہرے پر ہمدردی سجائے ہنیزہ سے بولا اور فورا اسے باہوں میں بھرتا سینے میں بھینچ گیا۔۔۔۔


ہنیزہ کو کافی زور سے کمر پر لگی تھی ۔۔۔

جاناں ۔۔۔ اسے مسلسل روتے دیکھ عابس نے اپنی سرخ نظروں سے از کے سسکتے وجود کو دیکھا ۔۔۔

عابس اسے لیے بیڈ پر بیٹھا


"کہاں لگی ہے ہنیی۔۔۔ بتاو میری جان ۔۔۔ "

عابی مجھے کمر پر لگی ہے زور کی ۔۔۔ تم گندے ہو عابی ۔۔۔ تم نے ہنی کو گرا دیا ہنی کٹی ہے تم سے ۔۔۔ چاکلیٹ بھی نہیں دے گی ۔۔۔ ہنیزہ سوں سوں کرتی ۔۔۔اپنے پلان بتانے لگی


عابس کو سخت افسوس نے آن گھیرا ۔۔۔۔۔


اچھا ہنی مت دینا یار سوری بول تو رہا ہوں میری جان ۔۔۔عابس چہرے پر شرمندگی کے تاثرات سجائے بولا

عابس نے ہنیزہ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اسے لٹائے اسے مرہم پکڑاتا باہر کی طرف جانے لگا ۔۔۔

پر وہ ناراض تھی ۔۔۔ تبھی بنا دیکھے آواز دیے عابس کے قدم جکڑ گئی


"مجھے نہیں لگتی یہ عابی مما کو بھیج دیں پلیز "ہنیزہ روتے ہوئے بولی ۔۔۔

عابس نے گردن ٹیڑھی کیے ہنیزہ کو دیکھا اور چلتا ہوا اس کے قریب آبیٹھا نہایت نرمی سے اس کے مرہم لگا کر وہ ہنیزہ میکال کے وجود میں برقی لہر دوڑا گیا ۔۔۔ ہنیزہ فورا سے اٹھ کر سیدھی بیٹھی ۔۔۔ عابس سے نظریں چرانے لگی ۔۔۔

عابس نے بنا کچھ کہے اسے سینے سے لگالیا


پورے کمرے میں فسوں خیز خاموشی چھائی ہوئی تھی"...

"نیم اندھیرے کمرے میں ڈوبا وہ کمرا اور اس کمرے میں موجود اپنے جنون کی داستان رقم کرنے والے لوگ تھے جن میں سے ایک جی جاں سے محبت کرنے لگی تھی تو دوسرا اسی شدت سے خاموش نفرت نبھا رہا تھالیکن اظہار کرنا دونوں کے لئے ہی دوبھر تھا"...


"سب کی اپنی منزلیں تھیں سب کے اپنے راستے

ایک آوارہ پھرے ہم دربدر سب سے الگ"


"خیال کیوں نہیں رکھتی اپنا"..؟؟؟

"خاموشی کو چیرتی عابس کی آواز ہنیزہ کے کان کے پرودوں سے ٹکرائی تھی"....


"وہ خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا"...

"اسی خاموشی میں وہ اپنا سر عابس کے کندھے پر پورے استحاق سے ٹکائے بیٹھی تھی "...


"اسکی خاموشی میں کی گئی اس حرکت پر عابس کے لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمایاں ہوئی تھی"...

"بے ساختہ طور عابس نے اس دشمنِ جاں کا نرم و نازک ہاتھ تھام اپنے ہاتھوں میں لیا تھا"...

"کہ وہ جانان خود میں سمٹی تھی"....


"جبکہ وہ حیران ہوا تھا اپنی اس دلربہ کی حرکت پر جو پہلی بات خود سے اس کے اس قدر قریب آئی تھی اک نظر میں اسے دیوانہ بنا گئی تھی"...

"مطلب محبت کا خاموش اظہار بھی کرنا ہے اور ہے اور شرما کر سمٹنا بھی اسی میں ہے"..


"بولو خیال کیوں نہیں رکھتی اپنا"...؟؟؟؟

"اسکو خاموش دیکھ دوبارہ سوال داغا گیا"..

"جیسے اس بار جواب کی پوری امید ہو".....


"آ۔۔۔آپ ہیں نا میرا خیال رکھنے کیلئے"....

"ہنیزہ کی میٹھی آواز جب گونجی تھی ساتھ بیٹھے عابس کے کانوں میں رس گھول گئی تھی"....


"اگر یہ خیال رکھنے والا ہی نہ رہا تھا پھر کیا کروں گی"...

"وہ ٹرانس کی کیفیت میں بولا تھا"....


ہنیزہ جو عابس سے کوئی اور بات سننے کی توقع کر رہی تھی اس کی یوں بے تکی بات پر کرنٹ کھا کر اپنا ہاتھ کھینچا جس سے عابس بھی ایک دم چونکا تھا شاید ہنیزہ کو عابس کی بات پسند نہیں آئی تھی "...


"کیا ہوا"..؟؟؟

"اسکو یوں پیچھے ہوتے دیکھ وہ حیرانی سے بولا تھا"...

"آ۔۔آپ۔۔آپ کی ہمت کیسے ہوئی اپنے بارے مین ایسے الفاظ استعمال کرنے کی"....

"وہ جنوبی انداز میں عابس کا کالر تھامے چلائی تھی"...

"جبکہ آنسوں تواتر اسکا چہرا بھگو رہے تھے"...


"ہئے"...

"جانم"....

"میں مزاق کر رہا تھا"...

"تم رونے کیوں لگ گئی"....

"اسکے ہاتھوں پر دوبارا اپنا ہاتھ رکھا تھا جنہیں وہ غصے سے جھٹک گئی تھی"....


"مزاق"...؟؟؟؟

"یہ باتیں مزاق میں کرنے والی ہیں"..؟؟؟؟

"کیوں خود کی موت کو بلا کر ہنی کو مارنا چاہتے ہیں آپ"..؟؟؟؟

"آپ نہیں رہیں گے تو میں بھی نہیں رہوں گی"...


"وہ روتے ہوئے بولی تھی کہ بے اختیار عابس نے اسکو کھینچ اپنے چوڑے سینے سے لگایا تھا"....


"آئیم سوری وائفی"..

"اسکی کانچ سی انکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا "..

"ویسے یہ آنسوں ، میری موت کیلے ہیں یا پھر میرے مرنے کے بعد تمہاری اپنی موت کے"..؟؟؟

"دانتوں تلے لب دبائے اپنی ہنسی ضبط کیے بولا تھا"....


"جبکہ اسکی بات سن ہنیزہ نے خون خوار نظروں سے اسے گھورا تھا اور ہاتھ چھڑا کر جانے لگی تھی"...

"کہ عابس نے اس کو واپس اپنی عور کھینچا تھا ".....


. .


__________


میکال صاحب کو جب ہنیزہ کی خبر ملی وہ دوڑے چلے آئے عاشر نے انہیں فلحال عابس کی بابت کچھ نہیں بتایا تھا وہ چاہتا تھا کہ میکال صاحب کو خود پتا چلے۔۔۔ وہ کیسے جان سے پیارے چچا کو اس حال میں دیکھتا ۔۔۔

میکال صاحب پیلس میں داخل ہوتے ہنیزہ کو آوازیں دینے لگے عفت بیگم اور افرال صاحب سب ان سے نظریں چرا رہے تھے ۔۔۔ وہ خود ہی ہنیزہ کے کمرے کی جانب قدم بڑھا گئے۔۔۔ پر یہ کیا ۔۔۔ ہنیزہ تو وہاں موجود نہ تھی ۔۔۔

میکال صاحب حیرت سے اسے ہر کمرے میں ڈھونڈتے عابس کے کمرے میں داخل ہوئے جہاں ہنیزہ عابس کے کندھے پر سر رکھے تھی ۔۔۔

میکال صاحب حیرانی سے یہ منظر دیکھتے اپنے غصے پر قابو پانے لگے ۔۔۔

عابس ہنیزہ کو اپنے کمرے میں جانا ہے ۔۔۔۔

اپنے بابا کی آواز سن کر ہنیزہ کو نئی زندگی سی ملی تھی وہ دومنٹ پہلے آئی ساری ناراضگی بھلائے عابس سے دور ہوتی ۔۔۔۔ ان کے سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

یہ دن و رات ہنیزہ نے کیسے گزارے تھے یہ صرف وہی جانتی تھی ۔۔۔ ازیت کی جس انتہا پر اس نے درد برداشت کیے ۔۔۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو کب ک مر جاتی میکال صاحب اسے ساتھ لگائے کمرے میں لے آئے ۔۔۔


وہ ہنیزہ کو آرام کا کہتے خود نیچے چلے آئے ۔۔افرال صاحب سر ہاتھوں میں تھامے بیٹھے تھے .


افرال یہ سب کیا ہورہا ہے اس گھر میں ہنیزہ کو عابس کے کمرے میں رکھنے کی جرات کس نے کی ۔۔۔ کس حق سے عابس نے ہنیزہ کو اپنے روم میں رکھا ۔۔۔ مجھے جواب چاہیے


میکال صاحب گرجدار آواز میں بولے

افرال صاحب بنا ایک لفظ منہ سے نکالے ان کے سامنے ہاتھ جوڑ گئے

عفت بیگم نے روتے ہوئے میکال صاحب کو سارے معاملے سے آگاہ کیا اور معافی مانگی ۔۔۔۔میکال صاحب کی آنکھوں میں خون اتر آیا ان کو کہاں اس سب کی امید تھی اپنے ہی خون سے ۔۔۔۔۔۔ عابس کا رویہ وہ ہنیزہ کے ساتھ کس طرح کا رہا ہے اس سے وہ بخوبی واقف تھے کیسے جان بوجھ کر اپنی بیٹی کو ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیتے ۔۔۔ جو وحشی تھا ۔۔۔ جس کی آنکھون میں چھپی وحشت وہ دیکھ پاتے تھے


"نہیں افرال بہت غلط ۔۔۔ بہہہت غلط کیا ہے عابس نے میری ہنی کے ساتھ اسے ابھی کے ابھی ہنی کو طلاق دینی ہوگی یہی میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔ "


میکال صاحب کے لہجے میں صاف گوئی کے ساتھ انتہائی سختی تھی جسے محسوس کرتے وہاں موجود ہر شخص لب سیے رہ گیا ۔۔۔ن


"میں ہنیزہ کو طلاق کسی صورت نہیں دونگا چاہے آپ کچھ بھی کرلیں ۔۔۔۔ اور اگر آپ نے ایسی کوئی کوشش کی یا ہنیزہ کو مجھ سے دور کرنے کا سوچا ۔۔۔ بھی تو یہ عابس سلطان کا وعدہ ہے ۔۔۔ کہ آپ میں سے کوئی ہنیزہ کا دوبارہ نہیں دیکھ پائے گا "


سیڑھیوں سے اترتے عابس کے کانوں میں میکال صاحب کے لفظوں نے جیسے آگ لگا دی تھی تبھی وہ بنا لگی لپٹی انہیں اپنے ارادے سے آشنا کر گیا ۔۔۔۔


میکال صاحب اپنا آپا کھوتے عابس کی طرف لپکے اور ایک ہی جست میں اس کا گریبان دبوچ لیا ۔۔۔۔


"تم ۔۔۔۔۔ تمہاری اتنی ہمت میرے سامنے زبان لڑاو گے تم ۔۔۔ میری بیٹی کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا ہے تم نے . . کبھی معاف نہیں کرونگا تمہیں عابس ۔۔۔ اعتبار توڑا ہے تم میرا ۔۔۔ مان توڑا ہے"


میکال صاحب آخر میں شکست زدہ لہجے میں بولے


عابس بلکل خاموش تھا بنا کچھ کہے ۔۔۔۔ اپنی من مانی تو وہ کر ہی چکا تھا ۔۔۔۔ اس کا مقصد ہنیزہ میکال کو حاصل کرنا تھا وہ کر چکاتھا ۔۔۔

___________________


عاشر واپس آیا تو میکال صاحب کو دیکھ اسے معاملے کی نوعیت کا اندازہ ہوا یعنی ان کو ساری بات کا پتا لگ چکا تھا

کاوچ پر عفت بیگم نڈھال سے بیٹھی اپنا غم غلط کر رہی تھیں تو دوسری طرف میکال صاحب اور عابس آمنے سامنے تھے

عاشر کو آتے دیکھ ۔۔۔ میکال صاحب اس کی جانب بڑھے ۔۔۔

"عاشر تم نے ذمہ لیا تھا نا میری بیٹی کی حفاظت کا تو کیسے چوق گئے تم عاشر کیسے میری پھول سے بچی کے ساتھ یہ ظلم تم نے ہونے دیا آخر قصور کیا ہے اس کا ۔۔۔"


میکال صاحب اس وقت ایک ہارے ہوئے باپ لگ رہے تھے عاشر شرم سے نظریں جھکا گیا ۔۔۔ حال ایسا تھا کہ عابس. کو گولی سے اڑا دے ۔۔۔ آج صرف اس کی وجہ سے اس گھر کا شیرازہ بکھرا تھا سب لوگ ایک دوسرے سے نظریں چرانے پر مجبور ہو گئے تھے ۔۔۔

عابس اپنی شاہانہ چال چلتے میکال صاحب کے سامنے آکھڑا ہوا پر اس بار اس کے لہجے نے وہاں کھڑے ہر شخص کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا کسی کو بھی عابس سے اس قدر نرمی اور سمجھداری کی گفتگو کی امید نہیں تھی


"بڑے پاپا مجھے پتا ہے آپ کو تکلیف دی ہے جس کی معافی شاید مجھے کبھی بھی نہ مل سکے پر ایک وعدہ ضرور کرتا ہوں ۔۔۔ کبھی ہنیزہ کو ایک خراش تک نہیں آنے دونگا اپنی جان سے بڑھ کر اس کی حفاظت کرونگا"


ایک ٹہھراو تھا اس کے لہجے میں ۔۔۔ میکال صاحب نے سخت نگاہ اس پر ڈالی ۔۔۔میکال صاحب برس پڑے


"اور کیوں مانوں میں تمہاری تمہاری بات ۔۔۔ ہاں جو لڑکا میری بیٹی سے زبردستی بنا اس معصوم کی عمر کا لحاظ کیے اسے اس قدر تکلیف دے سکتا ہے ۔۔۔۔ ایسے لڑکے کو اپنی بیٹی سونپنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ "


"بڑے پاپا ایک ریکوئیسٹ ہے آپ بس مجھے تین مہینے کا وقت دیں ان تین مہینوں میں ہنیزہ کو آپ کی نظروں کے سامنے پھول کی طرح رکھونگا اس کی ہر تکلیف خود پر لونگا اور اگر ان تین مہینوں بعد ہنیزہ میرے ساتھ رہنا نا چاہے تو میرا وعدہ ہے کبھی ہنیزہ کے راستے میں نہیں آونگا "

عابس نے ایک اور داو پھینکا جانتا تھا اب بازی صرف عاطس سلطان کی ہوگی ۔۔۔ کیونکہ ہارنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا

ٹھیک ہے دیتا ہوں تمہیں تین ماہ اگر اس کے بعد بھی تم مجھے میری بیٹی کے قابل نہ لگے یا میری بیٹی کو زرا سی تکلیف دینے کا سوچا بھی تو موت سے بدتر حالت کردونگا ۔۔۔ مجھے کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔۔


_________


کیا چاہتی ہو مجھ سے ؟۔۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس قدر گری ہوِئی حرکت کرنے کی

وہ بری طرح اپنے سامنے کھڑی بلیک سلیولیس فراک میں ملبوس اس بے باک لڑکی سے مخاطب تھا جو اس کے لیے وبال جان بن چکی تھی ۔۔۔ ہاں وہ پلے بوائے تھا لیکن اس کے لنکس صرف مصنوعی چیٹ اور میسجز تک محدود تھے اس نے کبھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا تھا وہ ۔۔۔کبھی کسی لڑکی کی طرف مائل نہ ہوتا لڑکیاں اس کی خوبصورتی سٹیٹس دیکھ اپنا آپ نچھاور کرنے کو تیار رہتیں تھیں


وہ ارشمان تھا ۔۔۔۔ جو نور کے عشق میں ڈوبا سب کچھ بھلا چکا تھا نشاء اس کی کالج فرینڈ تھی اور دونوں ایک دوسرے کے کافی قریب تھے نشا ء بہت بولڈ لڑکی تھی اسے اپنی حدود کا کوئی پاس نہ تھا آئے دن وہ کسی نا کسی پارٹی کی زینت بنی ہوتی اس کی بے باکی اسے لوگوں میں کافی فیم دلا چکی تھی ۔۔۔ خصوصا لڑکوں میں۔۔۔

ارشمان سب کچھ چھوڑ چکا تھا پر نشا سے اس کا تعلق اب بھی باقی تھا ۔۔۔۔ نشا ہر جگہ اس کے پیچھے لگی رہتی اور جان بوجھ کر اس کے قریب رہنے کی کوشش کرتی ۔۔۔


"ارشمان میں محبت کرتی ہوں تم سے نہیں رہ سکتی تم سے دور سنا تم نے میں مار دونگی اس نور کووہی ہے نہ جس کی وجہ سے تم مجھے ریجیکٹ کر رہے ہو کمی کیا ہے مجھ میں جو تمہیں اد حجابن سے اس قدر لگاو ہے "


نشا اپنی سرخ نشیلی آنکھوں میں آگ سی تپش لیے ارشمان کو للکار رہی تھی ۔۔۔۔ ارشمان اس کی بکواس نور کے بارے میں سنتا انگاروں پر لوٹنے لگا ۔۔۔۔بنا سوچے سمجھے ارشمان نے نشا کے بالوں سے پکڑ کر اسے خود سے قریب کیا اور سانپ کی طرح پھنکارا


خبردار جو نور کا نام اپنی اس قینچی جیسی زبان سے لیا ۔۔۔ تمہارے اس قدر ٹکڑے کرونگا کہ گھر والے میت ڈھونڈتے رہ جائیں گے ۔۔۔ تم ہوتی کون ہو اپنا موازنہ نور سے کرنے والی ۔۔۔ ارے تم تو اس کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں ۔۔۔۔


سنا تم نے ۔۔۔۔ارشمان اسے دور دھکیلتا باہر نکلتا چلا گیا 

شام کے وقت ہنیزہ بالکونی میں کرسی رکھ کر ٹھنڈی ہوا کو آنکھیں بند کر کے محسوس کر رہی تھی اس وقت آسمان کو نارنجی رنگ کے بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا ہنیزہ نے اورنج کیپری کے ساتھ رویل بلیو کلر کا شارٹ کرتا زیب تن کر رکھا تھا اس کا ڈوبٹہ بے فکری سے کاندھے پر ہواؤں کے دوش پر اڑ رہا تھا اس کے گھنے بال پشت پر بکھرے ہوے تھے وہ اس وقت ان سب کا حصہ لگ رہی تھی اسے پچپن سے ہی قدرتی چیزیں اپنی طرف متوجہ کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عابس جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا اس کی نگاہیں ہنیزہ کو ڈھونڈھ رہی تھی جب اسے کمرے میں ہنیزہ نظر نہ آئی تو اسکی خوبصورت پیشانی پر بل پڑنے لگے وہ ہنیزہ کے معاملے میں ایسا ہی تھا اچانک اسکی نظر بالکونی کے کھلے ہوئے دروازے پر پڑی کسی خیال کے تحت وہ فورا آگے بڑھا


وہاں پر ہنیزہ بڑے مگن انداز میں کچھ سوچنے میں مصروف تھی ایک پل کو اسے دیکھ کروہ مسمرائز ہوا جو اس وقت مکمل اس ماحول کا حصہ لگ رہی تھی مگر وہ جلد ہی خود پر قابو پا چکا تھا کیونکہ وہ عابس سلطان تھا جب بھی وہ ہنیزہ کے لیے اپنے دل میں جذبات محسوس کرتا تھا


اسکا دماغ اسے ماضی کی دردناک اذیتوں سے روشناس کروا دیتا جہاں اس کے درد کی ذمہ دار صرف ہنیزہ میکال تھی


ماضی


ہنیزہ اس وقت ساتویں جماعت کی سٹوڈینٹ تھی جب ایک دن اس نے عابس کو کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھے دیکھا جو اسے سگریٹ تھما رہا تھا ہنیزہ کو اس وقت کسی بات کی عقل نا تھی گھر آتے ہی اس نے سب کو یہ بات بتائی کہ عابی بھیا نے ان بیڈ بوائے سے بابا والی اسٹک لی جو بابا پیتے ہیں یہ بات کسی کے لیے بھی جھٹکے سے کم نہیں تھی ہنیزہ نے اسے سکول میں سگریٹ پیتا ہوا دیکھا تھا سب نے اسکی ایک بھی بات نہیں سنی تھی وہ چیخ کر سب کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ سب غلط فہمی ہے پر سب کچھ رائگاں گیا۔۔ اسکے جان سے پیارے ڈیڈ نےاسکے منہ پر طمانچے دے مارے وہ بھی اس غلطی کے جو اس نے کی ہی نہیں تھی اصل میں یہ طمانچے اسکے منہ کی بجائے اس کے دل پڑ پڑے اس کے دل میں ہنیزہ کے لیے نفرت مزید بڑھ گئ اور اس نے باپ سے غائبانہ ایک فاصلہ قائم کر لیا عابس کے بیسٹ فرینڈ جیسے بھائی نے بھی اس کا یقین نا کیا اور ماں نے بھی اس سے منہ موڑ لیا۔۔اس رات کا ایک ایک لمحہ اسے زہریلے سانپوں کی طرح ڈسنے لگا عابس کے چہرے پر اذیتیں نظر آ رہی تھی مگر وہ اپنے جذبات کو کنڑول کرنا جانتا تھا۔۔۔۔۔۔ساری سوچوں کو دماغ سے جھٹکا اور ہنیزہ کی طرف متوجہ ہوا اس کے چہرے پر اذیتوں کی بجائے ایک شیطانی مسکراہٹ آ گئ تھی اس نے ہنیزہ کو دیکھا جو کرسی چھوڑ کر ریلنگ سے ہاتھ ٹکاے کسی سوچ میں گم تھی عابس احتیاط سے قدم اٹھاتا ہوا اس کے پاس گیا اور پیچھے سے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اسکی نازک کمر کو اپنے احصار میں جکڑ لیا اسکی گرفت سخت تھی ۔۔ ۔ہنیزہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئ اس کی سانسیں تیز چلنے لگی مگر اپنے پیچھے عابس کو محسوس کر کے پرسکون ہوئ عابس نے اسکے بالوں میں اپنا منہ چھپا لیا ہنیزہ نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے تبھی عابس نے تیزی سے اپنی جانب گھوما کر اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ لیا


سرگوشی نما آواز میں کہا




کہ آج عابی دیکھے گا کہ اس کی ہنی اس سے کتنا پیار کرتی ہے۔۔۔۔ ہنی مجھ سے محبت ہے تو یہاں ریلنگ پر چل کر دکھاو ہنیزہ یہ سن کر حیران رہ گئ مگر وہ اپنے عابی کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے اگر اسے اپنی محبت یہ کر کے ثابت کریں تھی تو وہ عابی کی بات ضرور مانے گئ اس نے عابس کو اسےریلنگ پر کھڑا کرنے کے لیے کہا عابس نے ہنیزہ ریلنگ پر کھڑا کیا اور خود سائیڈ پر کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔۔۔۔پہلے پہل تو ہنیزہ کو ڈر لگا یہ دیکھ کر عابس سلطان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئ مگر اس نے کمال مہارت سے چھپا لی اور چہرے پر ہمدردی کے تاثرات سجائے ریلنگ کے پاس جا کر ہنیزہ کا ہاتھ تھام گیا عابس نے ہنیزہ سے پوچھا ہنی تم ٹھیک ہو۔۔۔تب تک ہنیزہ نے اپنے خوف پر قابو پا لیا تھا اور عابس کو اثبات میں جواب دیا جلد ہی اس اسے چلنے میں مزہ آنے لگا وہ عابس کا ہاتھ چھوڑ کر ہوا میں لہرانے لگی عابس نے یہ دیکھ کر اپنا غصہ ضبط کیا کہ تبھی ہنیزہ لڑکھڑا ئی مگر عابس نے اسے آگے بڑھ کر تھام لیا اور ہنیزہ کو کمرے میں لے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔


👉 💞💟💞👈


دوسری طرف نور کالج جیسے ہی کالج پہنچی اور کلاس میں داخل ہوئی اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئ تو زیان بھی اس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا زیان اس کا کلاس فیلو تھا زیان کی اس حرکت پر اپنا غصہ ضبط کر گئ ورنہ دل تو اس کا چاہ رہا تھا کہ اس کا منہ توڑ دے جو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا تھا تبھی کلاس میں خاموشی چھا گئ اور پروفیسر کمرے میں داخل ہوئے انہوں نے آج کا لیکچر دیا لیکچر کے دوران زیان کی نظریں مسلسل نور پر تھیں زیان کی بار بار پڑتی نگاہوں سے سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گی اور اسے شعلہ باز نگاہوں سے گھورا مگر وہ بجائے شرمندہ ہونے کے مسکرا دیا سب لیکچرز سے فری ہو کر وہ ایک ویران گوشے میں بیٹھ گئ اسے ہنیزہ کی یاد آنے لگی اس کے سواے اسکی کوئی دوست نہ تھی ہنیزہ کی یاد میں ڈوبی اس کے لبوؑ پر عاشر سلطان کے نام کی مسکراہٹ چھا گئی ا اور ذہن کے پردوں پر اس کا کیچن میں کام کرنا یاد آیا نقاب کے باوجود اسکی ہنسی کا عکس اسکی آنکھوں میں نظر آ رہا تھا اچانک کسی کے ساتھ بیٹھنے پر نور چونکی


وہاں پر زیان بیٹھا ہوا تھا اسنے نور کو دیکھا اسکی آنکھوں میں چمک واضح نظر آ رہی تھی جیسے کسی شکاری کو اپنا شکار دیکھ کے آتی ہے وہ نور کے قریب ہوا مگر نور جلدی سے پیچھے ہو گئ زیان کی مسکراہٹ گہری ہوئ نور کو اپنا وہاں بیٹھنا محال لگا نہیں وہ جلدی سے اپنے بیگ کو سنبھال کر اٹھ کھڑی ہوئی اس سے پہلے نور وہاں سے جاتی زیان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا نور نے شدت سے طمانچہ اس کے منہ پر مارا زیان کو نور سے اس کی امید نہیں تھی زیاں ہینڈسم، چارمنگ لڑکاتھا سارے کالج کی لڑکیاں اس پر مرتی تھیں وہ ایک بگڑا رئیس ذادہ تھا اسے اپنے سٹیٹس اور خوبصورتی پر بہت غرور تھا اسکا خیال تھا کے وہ جس لڑکی کو ایک اشارہ کرے گا وہ اس کے پاس آجائے گئ نور میں اسے شروع سے کشش محسوس ہوتی تھی وہ باقیوں کی طرح اس کے قریب آنے کے بہانے نہیں ڈھوندتی تھی یہی چیز اسے اٹریکٹ کرتی تھی وہ نور کو ہر حال میں پانا چاھتا تھا اس نے پہلے بھی شادی کے لیے نور کو پرپوز کیا مگر نور نے اسے پورے کالج کے سامنے بےعزت کر دیا اور ایک بار پھر نور نے اسے ٹھپر مار کر اپنی بربادی کو دعوت دی تھی زیان کی انا کو کہاں گوارا تھا تبھی اس نے غصے میں آ کر نور کو تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا مگر وہ تھپڑ نور کو لگنے سے پہلے عاشر نے پکڑا اور جھٹکے سے مروڑ دیا زیان تکلیف سے دوھرا ہو رہا تھا نور جو کے زیان کو تھپڑ مارتے دیکھ آنکھیں بند کر چکئ تھی زیان کی چیخیں سنی تو آنکھیں کھولی مگر سامنے کا منظر دیکھ کے وہ حواس باختہ ہوئی زیان زمین پر پڑے کراہ رہا تھا اور عاشر اسے اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا نور کو معاملہ سمجھنے میں دیر نہ لگی عاشر نے زیان کو پاوں سے ٹھوکر ماری اس نے غصے سے زیان کو کھڑا کیا اس کی آواز میں شیر کی سی غراہٹ تھی


" اگر تو کبھی نور کے اس پاس دکھا تو جان سے مار دوں گا نکل یہاں سے ۔۔۔۔۔زیان لنگڑاتا ہوا چلا گیا عاشر نے نور کی طرف دیکھا جس کی شہد رنگ کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئ تھیں اس کا دل چاہا کے نور کو اپنے سینے سے لگا کر تسلی دے مگر ابھی اس کو ہی حق حاصل نہں تھا اسے نور کو دیکھ کر ایک بار پھر زیان پر غصہ آیا وہ اگر یہاں نہ آتا تو اس کے اگے وہ سوچنا نہیں چاھتا تھا وہ یہاں ڈونیشن دینے آیا تھا اور اس کی نظر روتی ہوئی نور پر پڑی عاشر نور کو دیکھ کر اسکی طرف بڑھا مگر سامنے کا منظر دیکھ اسکا دماغ گھوم گیاجہاں زیان نور کو تھامے کھڑا تھا اس نے نور کو تسلی دی اور اپنی گاڑی میں نور کو گھر چھوڑ نے گیا دونوں اپنی اپنی سوچوں میں مگن تھے نور کو عاشر کے ہوتے ہوے اپنا آپ محفوظ سا لگا۔


____________

عابس ہنیزہ کو کمرے میں لے آیاتھا ہنیزہ اس کے سینے سے لگی عابس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھی جو کے غصے میں مزید پرکشش لگ رہےتھے پر ہنیزہ کو اسکی لہو چھلکاتی آنکھوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا جو جبڑے بھنچے ہنیزہ کو شعلہ باز نگاہوں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"ہنی اج تو گئ تو کام سے عابی تجھے نہیں چھوڑیں گے "

عابس کے غصے کی وجہ سے ہنیزہ بری طرح لرز رہی تھی عابس کی ناراضگی اسکی جان آدھی کر دیتی تھی تبھی وہ خوف کے زیر اثر دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔۔


عابس نے اپنے غصے کو دبانے کی خاطر سگریٹ سلگائی تھی وہ گہرے کش لیتا اپنے اندر کے اشتعال کو دبانے کی کوشش کرنے لگا مگر سگریٹ بھی اس کا غصہ کسی طور کم نہ کر سکی اس نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلا ۔۔۔۔۔


اسکا جنونی انداز دیکھ کر ہنیزہ کی جان ہوا ہوئی ہنیزہ نے کچھ بولنے کے لیے لب وا کیے ہی تھے مگر عابس کے غصے کے ڈر سے خاموش ہو گئ۔۔۔۔


" تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو وہ تو بروقت میں نے سنبھال لیا ورنہ"

اس کے آگے عابس کچھ بولنا نہیں چاہتا تھا بار بار وہی منظر اسکی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا اس کے اندر جذبات کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا وہ ہنیزہ سے رخ موڑ کر کھڑا رہا۔۔۔۔۔


"عابی آپ ہنی سے غصہ نہ ہو ہنی اپ کے غصےکو برداشت نہیں کر سکتی آپ جو کہیں گے ہنی وہی کرے گی پلیز ہمی سوری ہے معاف کر دیں آگے سے دھیان رکھو گئ" ہنیزہ نے دونوں ہاتھ اگے بڑھا کر عابس کو پیچھے سے گلے لگا لیا اور اس کے ساتھ لگ کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔



"عابی آپ ہنی سے غصہ نہ ہو ہنی اپ کے غصےکو برداشت نہیں کر سکتی آپ جو کہیں گے ہنی وہی کرے گی پلیز مواد کر دیں آگے سے دھیان رکھو گئ" ہنیزہ نے دونوں ہاتھ اگے بڑھا کر عابس کو پیچھے سے گلے لگا لیا اور اس کے ساتھ لگ کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔


ہنیزہ کی نیلی شفاف آنکھوں سے متواتر آنسو بہتے عابس کی شرٹ میں جذب ہورہے تھے جنہیں ضبط کرنے کے چکر میں اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیرتے نیلی آنکھوں کو مزید پر کشش بنا گئے رونے کی وجہ سے اسکی سفید رنگت میں سرخی گھل گئ تھی اور چھوٹی سی ناک لال ہوئی الگ ہی منظر پیش کر رہی تھی وہ عابس کے سامنے صرف ایک کھلونا تھی یا چابی والی گڑیا جس کو عابس اپنے بدلے کے لیے چن چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔


عابس کو یقین ہوچلا تھا کہ ہنیزہ کی معصومیت اسے محبت کے جذبے سے روشناس کرا چکی ہے وہی ہتھیار اب عابس سلطان ہنیزہ میکال کو تڑپانے کے لیے استعمال کرنے والا تھا یہی سب سوچ کے اسکے لبوں پر پراسرار سی مسکان نے احاطہ کیا مگر وہ جلد ہی خود کو کمپوز کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"ہنی میری جان رونا نہیں جاناں میں اپنی جاناں کو کبھی کچھ نہیں ہونے دونگا ۔۔۔ میں نے تمہیں معاف کیا آگے سے دھیان رکھنا عابی اپنی ہنی کے بغیر نہیں رہ سکتا ہنی عابی کی سانسوں میں بستی ھے"

عابس نے ہنیزہ کی طرف رخ کیا اور اسے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا بڑے پیار سے ہنیزہ کو بیڈ پر لیٹاتا وہ مخمور لہجے میں بولااور ہنیزہ کے ساتھ ہی بیڈ پر نیم دراز ہوگیا

ہنیزہ کا نازک سراپا پوری طرح عابس سلطان کی قید میؑ تھا آور وہ ہنیزہ کو اپنی باہوں

میں قید کیے اس کے نقش نقش کو اپنی پیاسی نگاہوں سے ازبر کر رہا تھا ۔۔۔عابس بڑی محبت سے اس کے نازک لب جو کے رونے کی شدت سے کپکپا رہے تھے ان کو اپنے لبوں میں لیے اپنی شدت اس نازک جاں پر لوٹانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔


ابھی عابس ہنیزہ اپنے جنوں کی بوچھاڑ کرتا کہ عین اسی وقت اس کا فون بج اٹھا اور ۔۔ہنیزہ نے سکھ کا سانس لیا۔۔


"اف! اب کس کو مصیبت پڑ گئ" عابس سخت جھنجھلاتا ہوا اٹھا اور میز سے فون اٹھایا ۔۔۔۔


"اوکے میں آتا ہوں " کہہ کر فون کاٹ دیا عابس کو اس کے دوست کا فون آیا تھا جو اسے بہت اہم کام کے سلسلےمیں اپنے فلیٹ پر بلا رہا تھا ۔۔۔


"ہنی شام کو تیار رہنا ڈنر پر چلیں گئے" عابس اسے کہے کر روم سے نکلتا واپس مڑا ا اپنے اوپر پرفیوم کا سپرے کرکے ہنیزہ کے قریب چلا آیا اور ہنیزہ کے ماتھے پر لب رکھے اپنی روح تک میں سرشاری اترتی محسوس کی وہ جلدی سے گاڑی کی چابی اور موبائل اٹھاتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہنیزہ کو سکون کا احساس ہوا اور وہ آنکھیں موندھ گئ عابس نے ہنیزہ کے دل پر مضبوطی سے قبضہ جما لیاتھا عابس کے دور جانے کا سوچ کر اسکی سانسیں رکنے لگ جاتی۔۔۔


"اوہ ہنی! چلو تیار بھی ہونا ہے عابی کی پسند کا ڈریس پہنتی ہو" اس نے خود سے کہا اور تیار ہونے چلی گئ۔۔۔۔۔۔۔۔..... ... . ... ........ ♥♥♥. ........ .... .. .. .

میکال صاحب اپنے شاندار آفس میں بیٹھے اپنے ماضی کے بارے میں سوچ رہے تھے انہوں نے ہنیزہ کو پچپن سے بہت پیار کیا ہنیزہ کی ماں تو ہنیزہ کے پیدا ہی خالق حقیقی سے جا ملی تھیں ۔۔اور افرال صاحب کی بیگم نے ہنیزہ کو پالا تھا انہوں نے ہنیزہ کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی ۔۔۔۔


عفت بیگم نے عاشر اور عابس سے زیادہ ہنیزہ کو محبت دی ۔۔۔۔ عاشر بہت سمجھ دار تھا انہیں ہمیشہ سے ہنیزہ کے لیے عاشر جیسے سلجھے ہوئے لڑکے کی تلاش تھی انہیں عابس بچپن سے پسند نہیں تھا اسکی وجہ وہ واقعہ تھا جو ہمیشہ میکال صاحب کو تیش دلا دیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔


ان کے ذہن کے پردوں پر اس تاریک رات کا کالا عکس نظر آیا جب وہ انہونی ہوئی اسکا ذمہ دار عابس سلطان تھا اس واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ ماضی کی تاریک راتوں کی اذیت ناک یادوں میں کھو گئے ۔۔۔۔۔۔


انہیں ایک شادی میں شرکت کے لیے جانا تھا جو کے ان کے قریبی دوست کی بیٹی کی تھی اس وقت ہنیزہ دس سال کی تھی اور وہ اسے گھر چھوڑ کے نہیں جانا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔


" بھائ صاحب آپ پریشان نہ ہوں بچے ہنیزہ کے پاس ہونگے اور ویسے بھی ہنیزہ کے سالانہ پیپرز ہیں اگر اس نے پیپر نہ دیے تو اسکا پورا سال ضائع ہو جاے گا عاشر اور عابس اب ماشاللہ کافی سمجھدار ہو گے ہیں دونوں ہنیزہ کا خیال رکھیں گئے "۔۔۔۔۔۔


"افرال ٹھیک کہہ رہا ہے مجھے ہنی گڑیا کو ساتھ نہیں لے جانا چاہیے ورنہ اس کی سال بھر کی محنت بیکار ہو جاے گئ"۔۔۔۔۔


انہوں نے افرال صاحب کی باتون کو بہت سوچا اگر انہیں پہلے پتا ہوتا کہ ان کے اس فیصلے سے انہیں کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا تو میکال صاحب یہ فیصلہ نہ کرتے مگر یہ سب ہنیزہ کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا اور ہونی کو اللہ کے سواے کون ٹال سکتا ہے-


شام کے وقت افرال صاحب اور انکی بیگم اور میکال صاحب اپنا سامان پیک کیے روانہ ہونے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔


"بھابھی ہنی نظر نہیں ا رہی کہاں ہے ؟؟؟"

میکال صاحب نے عفت بیگم سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

انہوں نے میکال صاحب کو پیچھے کی طرف اشارہ کیا جہاں پر بلیک شارٹ فراق پہنے دو چٹیا کیے ہنیزہ میکال اپنی معصومیت کے ساتھ اپنے سرخ و سفید گال پھلائے کوئی مومی گڑیا لگ رہی تھی میکال صاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہنیزہ کی نظر اتاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"ہنی ادھر او میری جان۔۔۔کیا ہوا میری ہنی کو "

انہوں نے ہنیزہ کو بلا کر اپنے ساتھ بٹھایا ۔۔۔۔


"بابا ہنی کو اپنے ساتھ نہیں لے کر جا رہے" ہنیزہ نے پھولے ہوئے گالوں کے ساتھ شکوہ کیا۔۔۔۔


"ہنی کو ایگزیم دے کر 6 کلاس میں بھی تو جانا ہے یا پھر ہنی ایک ہی کلاس میں رہنا چاہتی ہے؟؟؟"

انہوں نے ہنیزہ کے پھولے ہوئے گالوں پر پیار کر کے کہا ۔۔۔ ۔۔


"بابا ہنی کو اگلی کلاس میں جانا ہے ہنی ہمیشہ کی طرح فرسٹ آئے گئ آپ کے ساتھ نہیں جانا اب ۔۔۔آپ میرے لیے ڈھیر ساری چاکلیٹ لے آنا"۔۔۔۔۔

ہنیزہ نے کہا۔۔۔۔۔


سب باپ بیٹی کے پیار کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے سب کی ہنیزہ میں جان بستی تھی سوائے عابس سلطان کے اسے ہمیشہ ہنیزہ کی وجہ سے ڈانٹ پڑتی تھی۔۔۔۔۔


افرال صاحب اور انکی بیگم اور میکال صاحب سب سے مل کر روانہ ہو گئے اور عاشر اور عابس کو ہنیزہ کا دھیان رکھنے کو کہا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔


۔۔۔۔۔⏪◀▶⏩۔۔۔۔۔۔

" اوکے! میں ابھی آتا ہوں " میکال صاحب نے جیسے ہی کال بند کی افرال صاحب کو اپنا منتظر پایا۔۔ ۔


"آفس سے کال تھی مسٹر مارک آج آ رہے ہیں اگر یہ ڈیل ہو گئ تو ہمیں لاکھوں کا منافع ہو گا آپ دونوں چلے جائیں میری طرف سے معذرت کر لیجیئے گا اور ڈرائیور مجھے آفس کے راستے میں اتار دینا "۔۔۔۔

میکال صاحب نے افرال کو ساری ڈیٹیل دی اور آخر میں ڈرائیور سے مخاطب ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔


ڈرائیور نے انہیں اتار دیا اور میکال صاحب آفس میں داخل ہوئے ۔۔۔۔۔انکی میٹنگ بہت اچھے سے ہوئ اور گھر جانے کے لیے تیار ہوئے۔۔۔مگر میکال صاحب نہیں جانتے تھے کہ گھر پر ایک قیامت انکی منتظر ہے ۔۔۔۔۔


"آج گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے ؟،، ہنی بیٹا کہاں ہو؟ ؟؟" میکال صاحب پریشانی سےہنیزہ کے کمرے کیطرف بڑھے انکا ارادہ ہنیزہ کو سرپرائز دینے کا تھا مگر یہاں آکر تو وہ خود سر پرائز ہو گے انکی آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے کے بعد شعلے نکلنے لگے انہوں نے آگے بڑھ کر عابس کو کھنچا۔۔۔۔


عابس جو کے ہنیزہ کے اوپر پوری طرح جھکا ہوا تھا اچانک اس افتاد پر بوکھلا گیا مگر سامنے اپنے چاچو کو دیکھ کر چونک گیا انکی آنکھوں میں بےیقینی، کرب،دکھ،غصہ کیا کچھ نہ تھا۔۔۔۔


"چاچو آپ!!چاچو ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں میں تو" عابس نے میکال صاحب کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر میکال صاحب کی تھپڑ نے عابس کے حواس گم کر دیے۔۔۔۔۔


"نکل جاو عابس سلطان اس سے پہلے میں اپنے آپے سے باہر ہو جاو " میکال صاحب نے غصے سے عابس کو دیکھ کر کہا اور ہینزہ کی طرف متوجہ ہوے ۔۔۔

"بابا عابی بھیا نے بیڈ والا ٹچ کیا" یہ کہے کر ہنی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میکال صاحب نے اپنا غصہ ضبط کیا ۔۔۔۔۔


"ہنی اٹھو آنکھیں کھولو" ہنیزہ کو بےہوش ہوتے دیکھ کر میکال صاحب چلائے ۔۔۔۔


میکال صاحب ہنیزہ کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔۔۔ ۔


اگلے دن ساری بات میکال صاحب نے افرال اور انکی بیگم کے گوشوگوار کی جسے سن کر دونوں شرمندہ ہو گے۔۔۔۔۔۔


"بھائی صاحب! ہمیں معاف کر دیں " افرال صاحب اور انکی بیگم نے میکال صاحب کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔۔۔۔


نہیں اس میں اپ دونوں کی کوئ غلطی نہیں ہے" میکال صاحب نے کہا وہ کب اپنے بڑے بھائ کو اپنے آگے ہاتھ جوڑے دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔۔


عابس کل سے کمرے سے باہر نہیں نکلا تھا سب کو اس نے اپنا یقین کرنے کو کہا مگر سب اس سے منہ موڑ گے ہنیزہ نے سب کے سامنے اسکا نام لیا اسکے دل میں ہنزہ کے لیے نفرت بڑھ گئ ۔۔۔۔


"یہ تربیت کی ہے ہم نے تمہاری کہ تم گھر کی بچی پر گندی نظر رکھو" افرال صاحب نے اس کا چہرہ تھپڑوں سے لال کر دیا آج ان کی گردن اپنے چھوٹے بھائ کے سامنے اپنے بیٹے کے کرتوت سے جھک گئ ۔۔۔۔۔


"افرال آپ ٹھیک تو ہیں عاشر جلدی سے گاڑی نکالو عابس وہی رک جاو تمہارے بابا کی حالت کے ذمہ دار تم ہو" افرال صاحب سینے پر ہاتھ رکھے صوفے پر ڈھے گئے عفت بیگم نے عاشر کو گاڑی نکالنے کا کہا اور عابس جو باپ کی حالت کے پیش نظر ان کے پاس ا رہا تھا عفت بیگم نے اسے روک دیا میکال صاحب سے بھای کئ حالت دیکھی نہیں گئ اور سب ہسپتال کے لیے روانہ ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔


'انہوں نے ٹینشن لی ہے افرال صاحب کو ہارٹ اٹیک آیا تھا مگر اب وہ خطرے سے باہر ہیں" ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے ان کے پوچھنے پر بتایا سب نے شکر ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دروازے کے نوک ہونے کئ آواز سن کر میکال صاحب حال میں لوٹے ۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔

شام کے وقت شفاعت صاحب، مونا بیگم اور نور لان میں بیٹھے پکوڑوں کے ساتھ موسم انجوئے کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔


نور جو کے ابھی پکوڑے رکھ کر گئ تھی اب چائے لے کر آ رہی تھی۔۔۔۔۔


آج موسم بہت پیارا ہو رہا تھا سرمئ بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں موسم کو خوشگوار بنا رہی تھیں ۔۔۔یہ موسم نور کا پسندیدہ تھا اس وجہ سے نور نے یہ اہتمام کیا تھا۔۔۔۔


"بابا میں اندر ا جاوں ۔۔ "نور نے شفاعت صاحب سے اندر آنے کی اجازت مانگی جو سٹڈی روم میں بیٹھے آفس کا کام کر رہے تھے۔۔۔۔


:ہاں اجاو نور۔۔۔اپکو اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔" شفاعت صاحب نے نور کو دیکھ کر پیار سے کہا۔۔۔۔۔


"بابا آپ آج میرے ساتھ وقت گزاریں گے۔۔۔"نور نے اپنے بازوں شفاعت صاحب کے گلے میں ڈال کر لاڈ سے کہا۔۔۔۔۔۔


نور کو شفاعت صاحب سے کوئی بھی بات منوانے ہوتی تو وہ ان کو اسی طرح مناتی تھی ۔۔


اوکے۔۔۔آج ہم اپنی بیٹی کے ساتھ وقت گزاریں گے۔۔۔"شفاعت صاحب نے نور کو کہا شفاعت صاحب نور لان کی طرف چل دیے جہاں پہلے ہی نور نے سارا انتظام کر رکھا تھا۔۔۔۔۔

"بابا۔۔۔۔پکوڑے کیسے بنے ہیں آج میں نے بنائیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔"نور نے شفاعت صاحب کو دیکھ کر کہا جو کہ پکوڑوں کے ساتھ بھرپور انصاف کرنے میں مگن تھے۔۔۔۔۔۔۔

"میری بیٹی کوئی چیز بنائے اور اچھی نہ ہو یہ ہو سکتا ہے کیا۔۔۔۔مونا بیگم کے ہاتھ کے پکوڑوں سے تو بہتر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔" شفاعت صاحب نے پہلے نور کی تعریف کی اور پھر شرارت سے مونا بیگم کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔

"جی بلکل شفاعت صاحب۔۔۔۔میرے ہاتھوں میں اب ذائقہ نہیں رہا اسی لیے کل سے کچن سے میری چٹھی اور آپ دونوں بنا لیجیئے گا ذائقہ دار کھانا۔۔۔۔۔۔" مونا بیگم نے دونوں کو دیکھ کر کہا اور شفاعت صاحب پر گہرا تنز کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ارے نہیں!مونا بیگم آپکے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔۔۔" شفاعت صاحب نے جلدی سے بات کو گھومایا کہیں واقعی میں انہیں کام نہ کرنا پڑ جائے۔۔۔۔

نور اور مونا بیگم شفاعت صاحب کی بات سن کر ہنس دیے یہ ہنسی کچھ پل کے لیے تھی وقت نے ان کے لیے طوفان تیار کر رکھا تھا جس نے اپنے ساتھ ساتھ سب کو بہا لے جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی انکی باتیں جاری تھی کے گارڈ نے ارشمان کے آنے کی خبر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اسے اندر بھیجو"۔۔۔۔شفاعت صاحب نے گارڈ کو کہا۔۔۔۔۔۔

"اسلام علیکم انکل آنٹی !! کیسے ہیں آپ دونوں؟؟؟اور نور اپ کیسی ہیں۔۔۔۔؟؟؟

ارشمان نے دونوں پر سلامتی بھیجی اور ان کا حال دریافت کیا۔۔۔۔۔آخر میں نور کا حال پوچھا۔۔۔

"وعلیکم سلام ہم ٹھیک ہیں بیٹا آپ سنائیں ۔۔۔؟؟؟؟" شفاعت صاحب اور مونا بیگم نے مشترکہ جواب دیا اور ارشمان سے اسکی خیریت پوچھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں بھی ٹھیک ہوں ارشمان بھائیییییییییی!!!" نور نے بھائی کو کافی کھینچ کر ارشمان کو جواب دیا۔۔۔۔۔

"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔ " بظاہر اس نے مسکرا کر جواب دیا جب کے اندر ہی اندر نور کے بھائی کہنے پڑ کڑھ رہا تھا لیکن شفاعت صاحب اور مونا بیگم کے سامنے خاموش رہا ۔۔۔۔۔

نور بچی ہرگز نہ تھی وہ اپنے اوپر پڑنے والی نظروں کو بخوبی جانتی تھی۔۔۔۔۔اسی لیے ہمیشہ ارشمان کو بھائی کہتی تھی تاکہ وہ اس کے حوالے سے کچھ برا نہ سوچے۔۔۔۔

ارشمان نے کن اکھیو ں سے نور کی طرف دیکھا جس سے محبت کرتا تھا نور نے اس کے آنے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور فون میں مگن ہو گئ ۔۔۔۔۔تو یقیننا یہ یک طرفہ محبت کا معاملا تھا اس نے افسوس سے سوچا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔" اتنے میں شفاعت صاحب کا موبائیل رنگ ہوا۔۔۔۔۔

"میں کال سن کر آتا ہوں آپ لوگ باتیں کریں ۔۔۔۔" شفاعت صاحب کال سننے کے لیے آٹھ کر لان کے دوسرے حصے میں جا کر کھڑے ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔

"بیٹا آپ بیٹھو میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں ۔۔۔۔"یہ کہہ کر مونا بیگم کچن کی طرف بڑھ گئ۔۔۔۔

لان میں صرف نور اور ارشمان بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔۔

نور نے ارشمان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور اپنے موبائیل میں مگن چائے پیتی رہی۔۔۔۔۔

ارشمان نے نور کو دیکھا جس نے ریڈ قمیض کے ساتھ بلیک پٹیالہ شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور بلیک ڈوپٹے سے سر کے بالوں کو اچھے طریقے سے ڈھانپ رکھا تھا جس نے نور کو مزید پر کشش بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔نور بنا میک اپ کے سادگی میں ہی ارشمان کا دل دھڑکا رہی تھی۔۔۔۔۔

نور کو ارشمان کی آنکھیں اپنا ایکسرے کرتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔

"گھور کیسے رہا ہے مجھے دل کر رہا ہے آنکھیں نکال کر کنچے کھیلوں ۔۔۔۔۔" پہلے نور نے کلس کر سوچا ارشمان کی نگاہیں اسے اپنے اندر تک سرائیت کرتی لگیں ۔۔۔پھر اپنی سوچ پر کھلکھلا دی۔۔۔۔۔۔۔

نور کو ارشمان کے دیکھنے سے کوفت محسوس ہوئی۔۔۔ اسے ارشمان کے سامنے اپنا آپ غیر محفوظ لگتا تھا۔۔۔

اس کے ذہن کے پردوں پر یکہ یک عاشر کا عکس ابھرا۔۔۔۔۔جس نے کبھی اسکی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔ ۔

نور نے اپنی سوچ پر دو حرف بھیجے۔۔۔۔۔

"ارشمان ایک ہاتھ میں میرے موبائیل ہے۔۔۔۔۔ دوسرے میں چائے کیا آپ میرے چہرے سے ایک چیز اٹھانے میں میری مدد کریں گے۔۔۔۔"

نور نے دانت بھینچ کر ارشمان کو کہا ۔۔۔۔۔جو مسلسل نور کو تکے جا رہا تھا۔۔۔۔۔

"جی نور آپ بتائیں ۔۔۔۔ "۔نور کی بات سن کر ارشمان کی بانچھیں پھیل گی وہ دل ہی دل میں خیالی پلاو پکا چکا تھا اسے نور سے اس بات کی توقع نہیں تھی اس نے خود کو کمپوز کر کے کہا اسکی خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی

جو کے ابھی غائب ہونے والی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور اسکے خیالی پلاو نے بھی جل جانا تھا۔۔۔۔

"تو کیا آپ اپنی نظریں ہٹانا پسند کریں گے۔۔۔۔" نور نے کلس کر تیز لہجے میں ارشمان کو کہا ۔۔۔۔

ارشمان نور کی بات سن کر جی بھر کر شرمندہ ہوا اسے اپنی بے اختیاری پر غصہ آنے لگا۔۔۔۔۔۔

"نور بیٹا آپ کہاں جا رہی ہیں۔۔۔؟؟؟؟ "مونا بیگم نے نور کو دیکھ کر کہا جو کے کرسی سے اٹھ کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔

"مما کافی ٹائم ہو گیا ہے کل کالج میں پیپر ہے اسکی پریپریشن کرنی ہیں ۔۔۔۔۔ اور کب سے ہنیزہ سے بات بھی نہیں ہوئی اسے کال کرنی ہے "نور کہے کر اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔۔

"آنٹی میں بھی چلتا ہوں بابا انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔۔" ارشمان نے مونا بیگم سے جانے کی اجازت لی۔۔۔نور کے جانے کے بعد اسے سب خالی خالی سا محسوس ہو رہا تھا اس نے جلدی سے چائے ختم کی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔

_______________________________________

عابس ہنیزہ کا ہاتھ تھام کر ہوٹل میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔

اکثر لوگوں نے اس کپل کو دیکھا جو کہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل نظر ا رہے تھے کسی کی نظر می ستائش تھی تو کسی کی نظر میں حسد اور جلن کا عکس نمایاں تھا۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ دونوں لوگوں پر دھیان دیے بغیر شان سے چلتے جا رہےتھے۔۔۔

ہوٹل پورا گلاب کے پھولوں سے سجا ہوا تھا ہر جگہ گلاب ہی گلاب تھے اور لال رنگ کے خوبصورت بلونز سے بڑا سا ہیپی برتھ دے ہنیزہ لکھا ہوا تھا۔۔۔۔

"عابی ....you are the world's best husband this is so nice ۔۔۔مجھے تو میرا برتھ دے یاد بھی نہیں تھا ۔۔۔"ہنیزہ نے فرط جذبات میں آکر عابس کے سینے لگ کر کہا ۔۔۔۔

ہنیزہ کی اس حرکت سے عابس نے خود کے ابھرتے جذبات کوکنڑول کیا۔۔۔۔۔ہنیزہ اسکی حالت سے بے خبر اردگردکا معائنہ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ کو گلاب کے پھول بہت پسند تھے ۔۔۔۔عابس نے آج سب کچھ ہنیزہ کی پسند سے کیا تھا۔۔۔عابس نے ہنیزہ کی بڑتھ دے کو نہایت خوبصورتی سے پلان کیا۔۔۔۔۔

وہ دونوں گلاب کی پتیوں سے بنی راہ داری سے گزرتے ہوئے ہوٹل کے بیچ پہنچے جہاں پر پیارا سا کیک رکھا ہوا تھا اور اس کے اوپر چاکلیٹ سے ہیپی برتھ دے ہنی لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

"عابی یہ سب بہت پیارا ہے آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔" ہنیزہ نے عابس کی گال پر لب رکھ ک کہا۔۔۔۔۔

"اب ہنی کیک کاٹو۔۔۔"عابس نے پاس پری چھری ہنیزہ کو دے کر کہا۔۔۔۔

"ہاں عابی۔۔۔یہ تو میرا فیورٹ کیک ہے۔۔۔" ہنیزہ نے عابس کو کہا۔۔۔۔

"ہاں میری جان۔۔۔ تم کیک کاٹوں اور کھاو میں تمہیں کھاو گا۔۔۔۔۔۔۔" عابس نے ہنیزہ کی طرف معنی خیزی سے کہا۔۔۔۔

ہنیزہ عابس کی معنی خیز باتیں نا سمجھ سکی ۔۔۔پر کیک کو دیکھ ایک خوبصورت مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ کو یہ سب ایک حسین خواب لگ رہا تھا اور اسے ڈر تھا کے وہ جیسے نیند سے جا گے گی سب ختم ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ کو کہاں پتا تھا کہ ایک دن قسمت پلٹے گی اور اس کے بد ترین خوف کی تصدیق کر دے گی۔۔۔۔

"ہنی کہاں کھو گئ آو کیک کاٹیں ۔۔۔۔" عباس ہنیزہ کا ہاتھ تھام کر ٹیبل کے پاس آیا اور کیک کاٹنے کو کہا۔۔۔۔۔۔

"اوہ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔"ہنیزہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلی اور عابس کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔

"یا اللہ۔۔۔۔میں اور عابی لائف ٹائم ایسے رہیں ۔۔۔۔" ہنیزہ نے کیک کاٹنے سے پہلے وش مانگی۔۔۔۔

اس وش کی قبولیت کو وقت لگنا تھا یا نہیں یہ تو آنے والی گھڑیوں نے بتانا تھا۔۔۔۔

کیک کاٹنے کے بعد عابس نے کیک کا ایک پیس ہنیزہ کے لبوں کی طرف بڑھایا۔۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ نے منہ کھول کر کیک کی ایک چھوٹی سی بائٹ لی اور کھانے لگی۔۔۔۔عابس نے بقیہ کیک اس کے گالوں پر لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔

"عابی یہ کیا کر دیا۔۔۔" ہنیزہ نے خفگی سے عابس کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ نے ایک کیک کا پیس اٹھا کر عابس کو کھلایا اور باقی اسکے گالوں پر لگا دیا ۔۔۔۔

"ہنی۔۔۔کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔۔۔۔" ہنیزہ نے عابس کو کہا اور کھلکھلا اٹھی۔۔۔

"ہنی مجھے ایسے کیک نہیں کھانا مجھے یہاں سے

کھانا ہے۔۔۔۔۔"

عابس نے اسکی گالوں کی طرف اشارہ کر کے کہا جہاں کیک لگا ہوا تھا اور اسکی گالوں پر جھک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

عابس نے ہنیزہ کے گالوں سے کیک بڑے خوبصورت انداز میں چنا ۔۔۔۔۔ اور پیچھے ہوا۔۔۔

"عابی اب میری ٹرن۔۔۔۔" ہنیزہ نے عابس کو دیکھ کر کہا ہنیزہ نے بھی اپنے پاوں اوپر کو اٹھا کر عابس کی گالوں پر لگا کیک کھانے لگی۔۔۔۔

دونوں نے مل کر ڈنر کیا۔۔۔۔۔

وہ دونوں آپس میں مگن ہو گئے ہوٹل میں اب ان دونوں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔۔۔۔۔کیونکہ عباس نے پورا ہوٹل بک کرا رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

"عابی۔۔میرا گفٹ۔۔۔" ہنیزہ نے آئی برو اچکا کر عابس سے پوچھا ۔۔۔۔۔

عابس نے پینٹ کی پوکٹ سے ایک پیارا سا باکس نکالا۔۔۔۔

"ہنی یہ رہا تمہارا گفٹ ۔۔۔" عابس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ہنیزہ کی گوری کلائ تھام کر ڈائمنڈ کا بریسلٹ پہنایا۔۔۔

واو۔۔۔۔عابی یہ بہت پیارا ہے thank you...." ہنیزہ نے چمچماتے بریسلٹ کو اشتیاق سے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔

"پیارا تو ہے مگر میری ہنی سے کم۔۔۔"عابس نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔

عابس نے ہنیزہ کو گود مین لیا اور سیڑھیاں چڑھتا ہوا کمرے میں داخل ہوا جو اس نے پہلے تیار کروا رکھا تھا۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ کوکمرے کے وسط میں اتارا۔۔۔ہنیزہ چلتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئ اور کمرے کو دیکھنے لگی جو کے ریڈ اور وائٹ کلر کے پھولوں کے ساتھ سجا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔جگہ جگہ کینڈل جلی ہوئی تھی جو کے کمرے کے ماحول کو خوابناک بنا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

عابس نے ادھر رکھے ہوئے میوزک پلئیر سے گانا چلایا ۔۔۔۔۔

Tu safar mera Hai

tu hi meri manzil

Tere bina guzara

Ae dil hai mushkil

کمرے کا فسوں خیز ماحول، ہنیزہ کا بہکاتا سراپا اور گانا عابس کے جذبات بڑھانے کا موجب بن رہے تھے۔۔۔۔۔

Tu mera Khuda

Tu hi duaa mein shaamil

Tere bina guzara

Ae dil hai mushkil

ہنیزہ کا دل اتنی شدت سے ڈھرک رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل آئے گا۔۔۔۔ہنیزہ اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔۔۔

Mujhe aazmaati hai teri kami

Meri har kami ko hai tu laazmi

Junoon hai mera Banoon main tere qaabil

Tere bina guzaara Ae Dil Hai Mushkil

گانے کے بولوں نے دونوں کے دلوں میں ہل چل مچادی۔۔۔۔۔۔ایک پل کو ہنیزہ کئ آنکھیں عابس کی آنکھوں سے ٹکرائیں ۔۔۔۔عابس کی جذبات چھلکاتی ' آنکھوں میں دیکھنے کی سکت نہ تھی ہنیزہ میں وہ جلدی سے اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

Yeh rooh bhi meri

Yeh jism bhi mera

Utna mera nahi

Jitna hua tera

Tune diya hai jo

Woh dard hi sahi

Tujhse mila hai toh

Inaam hai mera

عابس آہستہ آہستہ چلتا ہوا ہنیزہ کے پاس آیا اور اسکے لبوں پر اپنی شدت نچھاور کرنے لگا۔۔۔

Mera aasmaan dhoondhe teri zameen Meri har kami ko hai tu laazmi

Zameen pe na sahi Toh aasmaan

mein aa mil

عابس کو سب بھول گیا تھا کہ اس نے ہنیزہ سے شادی بدلہ لینے کے لیے کی۔۔۔۔اسے یاد تھا تو فقط اتنا کہ اس کے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی اسکی بیوی ہے اور وہ اس پہ جائز حق رکھتا ہے۔۔۔۔

Tere bina guzara Ae dil hai mushkil Maana ki teri maujoodgi se

Ye zindagani mehroom hai

Jeene ka koi dooja tareeka

Na mere dil ko maaloom hai

کمرے میں معنی خیز خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔ ۔

دونوں ایک دوسرے میں گم تھے ہنیزہ نے اپنی باہیں عابس کے گرد حائل کر کے اپنی خود سپردگی کا اعلان کر دیا ۔۔۔۔۔۔

Tujhko main kitni Shiddat se chaahun Chaahe toh rehna tu be-khabar

Mohtaaj manzil ka toh nahi hai

عابی اپنی ہنی کو کبھی مت چھوڑیے گا ورنہ آپکی ہنی مر جائے گی ۔۔۔"" ہنیزہ نے عابس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔۔

Ye ek tarfa mera safar,

safar Khoobsurat hai manzil se bhi

رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔۔۔۔

Meri har kami ko hai tu laazmi

Adhura hoke bhi Hai ishq mera kaamil Tere bina guzara Ae dil hai mushkil......

وہ دونوں ایک دوسرے میں گم ساری دنیا سے غافل ہو چکے تھے۔۔۔۔۔

________________

عاشر آفس سے جیسے ہی گھر آیا میکال اور افرال صاحب اپس میں باتیں کر تے ہوئے شاید اسی کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔

"عاشر بیٹا ادھر آو۔۔۔۔ہم نے کچھ سوچا ہے ۔۔۔۔" میکال صاحب نے عاشر کو آتے ہوئے دیکھا تو اپنے پاس بلا کر کہا۔۔۔۔۔۔

"جی چاچو۔۔۔کس بارے میں۔۔۔۔۔" عاشر نے میکال صاحب سے پوچھا۔۔۔

"ہم سوچ رہے ہیں ہنیزہ اور عابس کا ریسپشن رکھ لیں تا کہ پوری فیملی کو پتہ لگ جاے۔۔۔۔" اس بار میکال صاحب کی بجائے افرال صاحب نے جواب دیا۔۔۔۔

"جی پاپا۔۔۔۔۔آپ ٹھیک کہے رہے ہیں۔۔۔تو کب کرنا ہے تاکے ارینجمنٹ شروع کروائیں ۔۔۔۔ " عاشر نے اپنے باپ کو جواب دیا۔۔۔۔

"کل رکھ لیتے ہیں۔۔۔۔" عفت بیگم نے کہا جو ابھی کچن سے آئی تھی۔۔۔۔

سب انکی بات پر متفق ہو گئے۔۔۔۔

عاشر اٹھ کر کل کا بندوبست کرنے چلا گیا۔۔۔۔

"اب عاشر کی شادی کا بھی سوچ لینا چاہیے ۔۔۔" ۔عفت بیگم نے پرسوچ نگاہوں سے عاشر کو جاتا دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔

"آپ پوچھ لیں اگر کوئی پسند ہے تو ٹھیک نہیں تو خود تلاش کرنا شروع کریں۔۔۔۔" افرال صاحب نے کہا۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے کل بات کرتی ہوں۔۔۔۔"عفت بیگم خوشی سے جواب دیا۔۔ 


نور اج صبح جلدی اٹھی کیونکہ نور کو آج کالج کے لیے جانا تھا۔۔۔۔۔۔

"السلام علیکم!!!مما پاپا۔۔۔۔"نور نے دونوں کو سلام کیا اور جلدی سے چئیر گھسیٹ کر ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گئ۔۔۔

"نور ٹھیک سے ناشتہ کرو ٹرین بھاگی نہیں جا رہی۔۔۔۔"مونا بیگم نے نور کو پیار سے کہا اور اور آخر میں اسکے جلدی کھانا کم ٹھوسنے پر طنز کرنے لگیں۔۔۔۔۔

نور اس وقت مکمل تیارتھی یونی فارم پہنے بالوں کو حجاب سے کور کیے وہ کافی پرکشش لگ رہی تھی۔۔۔۔مسسز شفاعت نے بے اختیاری طور پر اپنی شہد آنکھوں والی گڑیا کی نظر اتاری۔۔۔۔۔۔

"اوکے بابا۔۔۔۔چلیں۔۔۔۔"نور نے جلدی سے ناشتہ فنش کیا اور شفاعت صاحب سے پوچھا جو ٹشو سے اپنے ہاتھ پونچھ رہے تھے۔۔۔۔

"ہاں چلو بیٹا۔۔۔"انہوں نے پیار سے نور کو جواب دیا۔۔۔۔۔

مونا بیگم اور شفاعت صاحب دونوں کی نور میں جان بستی تھی۔۔۔۔۔۔

نور نے مونا بیگم سے پیار لیا جو کہ اس کے کھانآ ٹھیک سے نہ کھانے پر ناراض تھی۔۔۔

/میری پیاری مما ناراض تو نہ ہوں۔۔۔کینٹین سے کچھ لے کر کھا لوں گئ۔۔۔۔۔نور نے مونا بیگم کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔"مونا بیگم بھی کب تک نور سے ناراض رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔فورا مان گئ۔۔۔۔

شفاعت صاحب ماں بیٹی کا پیار دیکھ کر مسکرا دیے۔۔۔۔۔

__________________________

"عاشر ۔۔۔۔"عفت بیگم نے عاشر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آنے کی اجازت چاہی۔۔۔۔

"کم آن مام ۔۔۔۔کم از کم آپکو میرے کمرے میں آنے کے کے لیے نوک کرنے کی ضرورت نہیں"۔ ۔۔۔۔۔عاشر نے عفت بیگم کو دروازے سے اندر لاتے ہوئے کہا۔۔۔۔

"ہاں مجھے پتا ہے عاشر ۔۔۔۔مگر تمہاری پرائویسی کی غرض سے دروازہ کھٹکھٹاتی ہوں۔۔۔"عفت بیگم نے عاشر کے سر میں انگلیاں چلاتے ہوے شرارت سے کہا۔۔۔۔۔۔

"مما۔۔۔۔آپ بھی کمال کرتی ہیں۔۔۔۔میں کوئی ایسا پرائویسی پوزیسو نہیں ہوں۔۔۔۔" عاشر نے عفت بیگم کے ہاتھوں پر لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔

"ہاں مجھے پتا ہے۔۔۔۔"عفت بیگم نے اس کے ماتھے پر پیار بھرا لمس چھوڑا۔۔۔۔۔۔

عاشر ہمیشہ سے سمجھ دار اور معاملہ فہم تھا۔۔۔۔جبکے عابس عاشر کے الٹ ضدی اور حساس طبعیت کا مالک تھا۔۔۔

"عاشر مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔۔"عفت بیگم نے بات کرنے سے پہلے تہمید باندھی۔۔۔۔

"جی مما!!! آپ بات کریں میں سن رہا ہوں۔۔۔۔۔۔"

عاشر نےعفت بیگم کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔۔

"عاشر بیٹا۔۔۔ہم چاھتے ہیں کے اب تمہاری بھی شادی کر دیں اور تمہارے بچوں کو میں اپنی گود میں کھلاوں اور تمہیں کوئی پہلے سے پسند ہے تو بتا دو ورنہ میری نظر میں بھی ایک اچھی لڑکی ہے۔۔۔" ۔عفت بیگم نے عاشر کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

عفت بیگم کی بات سن کر عاشر کے سامنے چھن سے نور کا سراپا لہرایا ۔۔۔۔۔مگر جس مان سے عفت بیگم نے اس کے لیے اپنی پسند کی ہوئی لڑکی کا ذکر کیا اسے عفت بیگم کو منع کرنا اچھا نہیں لگا۔۔۔۔

"نہیں مما مجھےکوئی پسند نہیں۔۔۔۔"عاشر نے عفت بیگم کو جواب دیا۔۔۔

عاشر نے اپنی قسمت کا فیصلہ خدا پر چھوڑدیا تھا وہ جانتا تھا کہ نور بھی اسے نا پسند کرتی ہے عاشر کو کہاں منظور تھا کہ وہ نور کو تکلیف دے ۔۔۔۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔۔تو میں مسسز شفاعت سے بات کرتی ہوں۔۔۔۔۔"عفت بیگم نے خوشی سے جواب دیا۔۔۔۔

"مسسز شفاعت کون مما ۔۔۔۔۔؟؟؟"""عاشر نے الجھے لہجے میں عفت بیگم سے استفار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ارے بھئ۔۔۔۔عین کی مما۔۔۔۔"عفت بیگم نے جواب دیا۔۔۔۔۔

اوہ۔۔۔۔تو شاید اس لڑکی کا نام عین ہے۔۔۔۔لگتا ہے نور "تم میری قسمت میں نہیں ہو۔۔۔۔۔"عاشر نے افسوس سے سوچا۔۔۔۔

"ارے عاشر کہاں کھو گئے؟ ؟؟"عفت بیگم نے عاشر سے پوچھا جو کہ نور خیالوں میں گم اپنی آنے والی زندگی کا سوچ رہا تھا ۔۔۔

"ن۔۔نہ۔۔۔نہیں مما کچھ نہیں۔۔۔۔"عاشر نے چونک کرسر ہلاتے ہوے عفت بیگم کو جواب دیا۔۔۔۔

ایک پل کو تو عاشر کا دل عفت بیگم کو نور کے بارے میں بتا دے۔۔۔۔مگر عفت بیگم کے چہرے پر موجود خوشی کو دیکھ کر رک گیا۔۔۔عاشر ان کے چہرے سے خوشی نہیں چھین سکتا تھا۔۔۔۔

کون کہتا ہے مرد بے وفا ہوتا ہے انہیں بھی اکثر رشتوں کی بیڑیوں نے جکڑ رکھا ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات اور جذبات کا گلا اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کی خوشی کے لیے گھونٹ دیتے ہیں ۔۔۔۔

€____________________

ہنیزہ کی آنکھ اپنے چہرے پر پڑنے والی روشنی سے کھلی۔۔۔اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو خود کو ایک انجان جگہ پایا ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ کو اپنے بے حد قریب عابس کروٹ لیے سویا ہوا نظر آیا عابس کے چوڑے سینے پر ہنیزہ کے ناخنون کے نشانات بیتی رات کی کہانی سنا رہے تھے۔۔۔۔

ہنیزہ کو ڈھیروں شرم نے آن گھیرا وہ جلدی سے اٹھ کر واشروم میں لاک ہوئی تاکہ عابس کے اٹھنے سے پہلے ریڈی ہوسکے ۔۔۔۔ہنیزہ فریش ہو کر باہر آئی تو عابس کو سوتا ہوا پایا وہ ہمت جمع کر کے عابس کو اٹھانے کے لیے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھی ۔۔۔۔

"عابی! !! اٹھیے 10 بج گئے ہیں۔۔۔۔"عابس کی سماعتوں سے ہنیزہ کی آواز ٹکرائی۔۔۔۔۔

عباس نے مندی مندی آنکھیں کھولیں مگر ہنیزہ کا ہوش ربا سراپا اس کی آنکھوں میں موجود خمار کو سرخی بخش گیا ہنیزہ اس وقت عابس کی دلائی مہرون فراک میں ملبوس اسے چاروں شانے چت کر گئی تھی عابس نے اسے دیکھ فٹ سے پوری آنکھیں کھولی۔۔۔۔۔

ہنیزہ کے باتھ لینے کی وجہ سے اسکے سنہری بال چہرے پر بکھر ے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔

عابس نے ہنیزہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔

کوئی سہارا نہ ہونے کی وجہ سے ہنیزہ بھی کچی دور کی مانند عابس کی طرف کھینچی چلی گئ ......

ہنیزہ کے گیلے بال عابس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔۔ عابس نے اپنا منہ ہنیزہ کے بالوں میں چھپا یا اور گہری سانسیں بھرتا ہنیزہ کے نازک وجود کی خوشبو خود میں اتارنے لگا ۔

"عا۔۔۔۔عاب۔۔۔۔عابی یہ آپ۔۔۔۔" ابھی ہنیزہ کی بات مکمل ہو نہیں پائ تھی کہ عابس نے اسکے لبوں کو بنا کچھ بولنے کا موقع دیے اپنی گرفت میں لے لیا۔۔۔۔

عابس نے جیسے ہی ہنیزہ کے لبوں کو چھوڑا ہنیزہ جلدی سے عابس کی گرفت سے نکل کر گہرے سانس لینے لگی۔۔۔۔

"عابی بڑے پاپا نے جلدی گھر آنے کا کہا ہے انہوں نے آج ہماری ریسپشن پارٹی رکھی ہے۔۔۔۔۔" ہنیزہ نے عابس کا موڈ بدلتے دیکھ جلدی سے کہا۔۔۔۔۔

"ہنی بہانا اچھا ہے۔۔۔۔رات کو اسکا گفٹ ملے گا۔۔۔" عابس کہے کر واشروم میں چلا گیا۔۔۔۔۔

ہنیزہ کے لیےعابس کی شدتیں برداشت کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا مگر وہ عابس کو روک کر خود سے دور نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔ان چند مہینوں میں عابس ہنیزہ کی روح میں بس گیا تھا اگر عابس ہنیزہ سے دور ہوتا تو شاید ہنیزہ کے جینے کا مقصد ختم ہو جاتا۔۔۔۔۔۔


عباس اور ہنیزہ دونوں سلطان پیلس کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔۔۔

______^______^^__^^^^^^^^______________

نور کو کالج جاتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا تھا اس دوران زیان نے اسے تنگ نہیں کیا تھا اگر زیان کہیں پر موجود ہوتا تو نور وہاں سے اٹھ کر چلی جاتی ۔۔

نور کو بھی زیان کے بدلہ نہ لینے سے تسلی ہو گئی تھی وہ زیان کو لیکر اہنے دل میں پنپنے والے خدشات کو مٹاچکی تھی

نور بریک کے وقت کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھی کہ تبھی اسے اپنی طرف زیان آتا ہوا نظر آیا ایک پل کو تو نور سہم سی گئی

'نور کین آئ ٹیک یور فائف منٹ۔۔۔۔؟ "زیان نے نور کو کہا۔۔۔

"کیا بات کرنی ہے ۔۔۔۔؟؟؟؟"نور نے کڑے تیوروں سے پوچھا۔۔۔۔۔

"مجھے تم سے اپنی حرکت پر ایکسکیوز کرنا تھا آئی ایم رئیلئ سوری نور فور ہرٹنگ یو ۔۔۔۔ "زیان نے سب کے سامنے نور سے معافی مانگی۔۔۔۔۔۔

"نور پلیز زیان کو معاف کر دو۔۔۔" سب کے لیے یہ حیرت کا مقام تھا دا گریٹ زیان ملک نور جیسی لڑکی سے معافی مانگ رہا۔۔۔جس نے اسے تھپڑ مارا تھا۔۔۔۔۔

سب کے دباؤ دینے پر نور نے زیان کو معاف کر دیاتھا

"کین یو فرینڈشپ ود می ؟؟"زیان نے متانت سے پوچھا۔۔۔

نو۔۔۔زیان آئ دونٹ نیڈ اینی فرینڈ۔۔۔۔" نور نے زیان کو کرارا جواب دیا۔۔۔۔

"اٹس اوکے۔۔۔سی یو۔۔۔" زیان نے چہرے پر نقلی مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔۔۔۔۔

"اڑ لے چڑیا۔۔۔گنتی کے چند دن ہیں تیرے پاس ۔۔۔تیرے پر نہ کاٹے تو میرا نام بھی زیان نہیں۔۔۔۔"زیان نے شیطانی مسکراہٹ چہرے ہر سجائے اپنے پلان کو سوچا اور خباثت سے مسکرا دیا۔۔۔۔۔

اسے لگا شاید زیان سدھر گیا ہے اور نور نے زیان کی معافی پر یقین کر لیاتھا مگر وقت اسے اپنے کیے پر پچھتانے کا موقع ضرور دے گا اسے جلد احساس ہو گا کہ زیان کو معاف کر کے اس نے کتنی بڑی مصیبت اپنے سر لی ہے۔۔۔۔ 

❤❤❤

عابس اور ہنیزہ گھر آچکے تھے عفت بیگم تو اپنی پھول سی بہو کو دیکھتی نہال ہو گئی تھیں جس کے چہرے پر سجے رنگ پیا ملن کی انوکھی داستان سنا رہے تھے ہنیزہ مہرون فراک میں اس وقت نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی میکال صاحب کے دل سے بھی کثافت جیسے مٹنے لگی تھی وہ خوش تھے کہ ان کی نازک سی گڑیا دوبارہ چہکنے لگی ہے پر رب جانے یہ مسکراہٹ کب تک قائم رہنی تھی ہنیزہ اور عابس کو عفت بیگم نے روم میں ریڈی ہونے بھیج دیا تھا

ریسپشن کا انتظام شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں کیا گیا تھا

عابس ہنیزہ کے پیچھے روم میں داخل ہوا پورا روم بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ہنیزہ مسمرائز سی ہو کر سارا منظر دیکھتی بیڈ پر بچھے تازہ سرخ گلابوں کو چھونے لگی

عابس کی نظریں ہنیزہ پر ہی جمی ہوئی تھیں جو بڑی دلجمعی سے پھو ل کی خوشبو محسوس کر رہی تھی عابس نے ہنیزہ کو اپنے حصار میں لیا اور اس کے ہاتھ میں موجود گلاب کو مٹھی میں قید کرلیا ہنیزہ اس کی اچانک گرفت پر سٹپٹا گئی

عابس ہنیزہ کو اسی طرح اپنے حصار میں لے شیشے کے سامنے چلا آیا اور تھوڑی سی ہنیزہ کا چہرہ اونچا کیے اس کی آنکھوں میں اپنی سرد آنکھیں گاڑھتا ہنیزہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گیا

ہنیزہ نے فورا سے پلکیں جھپکی اور زبردستی مسکرانے کی کوشش کرنے لگی حال اس قدر خراب تھا کہ رواں رواں اس کی تپش زدہ نگاہوں سے لرز اٹھا تھا عابس نے اپنے ہاتھ میں قید گلاب کو ہنیزہ کی نظروں کے سامنے کیا اور خود الماری سے ایک بوکس نکال لایا

بوکس دیکھتے ہی ہنیزہ کی آنکھیں پھٹ گئیں یہ بوکس وہ کیسے بھول سکتی تھی تو کیا آج پھر عابس اسے سزا دینے والا تھا

عابس نے بوکس میں موجود کیڑے کو نکالا اور گلاب اس کے سامنے کردیا دیکھتے ہی دیکھتے وہ کیڑا پورا گلاب نگل گیا کسی وحشی کی طرح ۔۔۔ ہنیزہ کی آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے گال بھگو رہے تھے پر نظریں ساکت سی عابس کے ہاتھ میں موجود گلاب پر تھیں جسے وہ کیڑا اپنی غذا بنا چکا تھا

ہنیزہ کی روتے روتے ہچکیاں بندھنے لگیں اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے سانسیں بند کردیں ہوں وہ تو گلاب میں اپنا آپ تصور کر رہی تھی جو عابس سلطان کی شدتوں سے اس کی محبت کی جنون خیزیوں سے مہک اٹھا تھا

پر اس گلاب کا حشر دیکھ ہنیزہ تڑپ گئی تھی

عابی یہ آپ نے کیا کیا ؟؟؟؟

ہنیزہ اپنی ٹوٹی حالت پر قابو پاتی ہوئی بولی پر اس کے چند لفظ عابس سلطان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئے عابس نے محبت سے اس کے وجود کو نہارا ہنیزہ کو اس کے ہاتھوں کی گرفت اپنی کمر پر محسوس ہوئی وہ مزاحمت کرتی اپنا آپ اس سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی اس کی مزاحمت دیکھتا عابس اسے سینے سے لگا گیا۔۔۔۔ ہنیزہ کاو جود اس کی سخت گرفت میں تھا وہ عابس کو ایک انچ بھی خوف سے دور نا کرسکی

اور تھک ہار کر عابس کے کندھے سے سر ٹکا گئی ۔۔۔۔ عابس اس کے ہارنے پر مسرور ساہوا جیسے جانتا تھا کہ اس نازک چڑیا کو قابو کس طرح کرناہے

ششششش ہنی جانم کچھ نہیں ہوا جان ۔۔۔ سب ٹھیک ہے اس پھول کو تم نے مجھ سے زیادہ اہمیت دی ۔۔۔ یہ بات مجھے اچھی نہیں لگی جاناں ۔۔۔ میرے اندر کے وحشی کو جگانے کے لیے تمہاری زرا سی لاپرواہی کافی ہے ۔۔۔۔ تو کوشش کرنا میرے اندر سوئے جانور کو نا جگاو ورنہ نقصان تمہارا ہوگا

ہنیزہ ساکت سی اس کے حصار میں کھڑی اس کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی یہ کیسی محبت تھی عابس سلطان کی جس میں آگ جیسی لپک تھی تو وحشی جیسا جنون ۔۔۔ عابس نے ہنیزہ کو ہولے سے خود سے الگ کیا اور اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو اپنے لبوں سے چننے لگا ۔۔۔ہنیزہ اس کے سرد لمس پر کپکپا اٹھی تھی ۔۔۔۔ ہنیزہ اپنی پوری طاقت سے اسے پرے دھکیلتی چینجنگ روم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔۔

پیچھے کھڑا عابس ریلیکس انداز میں بیڈ پر لیٹا اپنی کامیابی پر مسرور ہوا وہ ہنیزہ میکال کو پاچکا تھا اس کے وجود کو تسخیر کر چکا تھا اسے اپنے لمس سے روشناس کرا کر اس کی روح تک پر قابض تھا ہنیزہ میکال چاہ کر بھی اس کی خوشبو خود سے نہیں مٹا سکتی تھی ۔۔۔ یہ بات عابس سلطان کے لیے سکون کا باعث تھی کیونکہ آج ولیمے میں جو وہ کرنے جارہا تھا اس کے بعد ہنیزہ میکال کی زندگی مکمل بدلنے والی تھی وہ معصوم عابس سلطان کے سلگتے جذبات کی بھینٹ چڑھنے والی تھی ۔۔۔ وہ ناآشنا تھی کہ عابس سلطان اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہے ۔۔۔۔

میری وحشتوں کے سائے تجھے ڈھونڈتے ہیں ہائے

میری دشمنی سے ہاری میری وفا کی ماری

تجھے چوٹ ایسی آئے تو بھی چیخے اور چلائے

میرے زخم بھی ہیں بگڑے تیرے داغ بھی نا جائے

عابس نہیں جانتا تھا آج جو وہ کرنے جارہا تھا وہ اس کی زندگی کو کس قدر ازیت سے دو چار کردیگا ہنیزہ سے بدلا لینے کے لیے وہ اپنے آپ کو جس آگ میں دھکیل چکا تھا وہاں تو کوئی مرہم میسر ہی نہیں تھا سوائے موت کے کیونکہ جسے عشق کا روگ لگ جائے وہ جیے نا جیے مر ضرور جاتا ہے

__________

ہنیزہ تیار ہو چکی تھی آج اس نے ٹی پنک کلر کی میکسی زیب تن کی تھی جس پر بے حد خوبصورتی سے وائٹ سلور سٹونز کا کام کیا گیا تھا ہنیزہ کے معصوم چہرے پر بیوٹیشن کے ماہر ہاتھوں نے بھی اپنا کمال دکھایا تھا آج اس. پر کھل کر روپ آیا تھا ۔۔۔۔ ہنیزہ کے نقوش کو گولڈن آئی شیڈو اور ریڈ بلڈ لپسٹک نے عجب جلا بخشی تھی وہ سر سے پیر تک کوئی حور ہی معلوم ہورہی تھی

عفت بیگم اور نورا سے لینے آئے تو بے ساختہ دونوں کے منہ سے ماشاء اللہ نکلا وہ بے حد پر کشش لگ رہی تھی نور العین نے دل سے اس کی تعریف کی

ہنیزہ آج تم بہت پیاری لگ رہی ہو زندگی عابس بھائی تو گئے کام سے ۔۔۔ اس کی دوستیں شرارت سے بولیں

ہنیزہ ان کی باتوں پر جھینپ سی گئی پر اسے کچھ دیر پہلے والا واقعہ پوری جازبیت سے یاد تھا عابس کا سرد انداز ہنیزہ کو اندر ہی اندر پریشان کر گیا تھا وہ چاہنے کے باوجود خود کو ریلیکس نہیں کر پارہی تھی دل میں عجیب سی بے چینی تھی کہ جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے

عفت بیگم نے ہنیزہ کو سینے سے لگایا اورا س کی پیشانی پر بوسہ دیا

دونوں اسے ساتھ لیتیں نیچے کی جانب چلیں جہاں سب مہمان انتظار کر رہے تھے

ہنیزہ سہج سہج کر سیڑھیوں پر قدم رکھتی کسی شہزادی کی سی شان سے چلتی نیچے آئی عفت بیگم نے نور کو اسے سٹیج لر بٹھانے کا کہا نور اس کی میکسی سنبھالے اسے سٹیج پر بٹھانے لگی ۔۔۔ جب ان دونوں کے کانوں میں وہاں کھڑے لوگوں کی سر گوشیاں گونجنے لگیں

اوہ ماشاء اللہ دلہن کتنی خوبصورت ہے پر دولہا کہاں ہے ۔۔۔ وہ نظر نہیں آرہا

سب کی زبانوں پر یہی جملے تھے

نور العین ہنیزہ کے پاس بیٹھی اسے ریلیکس کرنے لگی ۔۔۔۔ وہ عفت بیگم کے ارجنٹ بلانے پر یہاں آئی تھی نیوی بلیو اور گرے کامبینیشن کے فراک میں خوبصورتی سے حجاب کیے نور بہت پیاری سی لگ رہی تھی میک اپ کے نام پر صرف پنک لپسٹک لگائی گئی تھی اس کے چہرے پر چھایا وقار اسے بہت منفرد بنا رہا تھا

ہنیزہ کو آئے دو گھنٹے ہونے کو آئے تھے پر عابس کا کوئی اتاپتا نہیں تھا میکال صاحب تو اپنا سر تھامے بیٹھے تھے عاشر عابس کو ہر جگہ تلاش کر چکا تھا پر وہ ہوتا تو ملتا سب یہی سوچ رہے تھے کہ آخر عابس جا کہاں سکتا ہے مہمانوں کی الٹی سیدھی باتیں ہنیزہ کی معصومیت پر کوڑھے برسا رہی تھیں اسے پتا نہ چلا کب اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں . . دل کو جیسے کسی نے۔مٹھی میں دبوچ لیا تھا ہنیزہ اپنی میکسی سنبھالے چلتی ہوئی اپنے بابا کےپاس آئی اور ان کا چہر ہ دونون ہاتھوں میں تھاما ۔۔۔۔

بابا آپ ٹینس نہیں ہوں عابی مجھے تنگ کر رہے ہیں ۔۔۔ دیکھنا وہ ابھی آکر سب کو سر پرائز کردینگے بابا ڈونٹ وری ہنیزہ مسکراتی ہوئی ان کو دلاسہ دیتی ان کا دل دہلا گئی میکال صاحب کے دل میں شدید درد اٹھا بیٹی کی حالت دیکھ کر کیسے اس معصوم کو سمجھاتے کہ جس شخص کو مسیحا سمجھ بیٹھی ہے وہ اسے نیلام کر کے جا چکا ہے بھری محفل میں ۔۔۔ آہستہ آہستہ سارے مہمان جانے لگے

نور العین ہنیزہ کو زبردستی اٹھا کر کمرے میں لے آئی ۔۔۔ہنیزہ بنا ایک لفظ کہے سیدھا الماری کی جانب بڑھی اور عابس کی تصویر نکال کر سینے سے لگائے بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔۔۔ نور العین اس کی حالت دیکھ اپنی سسکیاں دبانے لگی

محبت کو بھرے بازار میں رسوا کیا تو نے

اے سوداگر میرے دل کے یہ کیا سودا کیا تونے

__________

عابس وہاں سے نکل تو آیاتھا مگر دل میں ایک درد سرائیت کرتا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی قیمتی شے ہاتھ سے پھسلتی چلی گئی ہو

عابس نے اپنے ذہن میں آتے خیالوں کو جھٹکا اور اپنی منزل کی طرف گامزن ہوا جہاں اسے ہر حال میں جانا تھا کسی بھی صورت ۔۔۔۔۔ عابس ابھی ائیر پورٹ پر ہی تھا اس کا دل نے حد مضطرب سا اسے کسی اپنے کی تکلیف ہونے کا احساس دلا رہا تھا ۔۔۔۔ وہ بے چینی سے ہاتھ میں تھاما موبائل دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کہ کال کرے یا نا کرے ہنیزہ کی اپنے لیے محبت سے وہ بخوبی واقف تھا پر اسے چھوڑنے کا فیصلہ تو وہ بہت پہلے ہی کر چکا تھا اس کی زندگی میں کانٹے بچھانے کے لیے شاید وہ اپنے پاوں بھی زخمی کر چکا تھا پر زمیر کی ملامت پر کان دھرے بغیر وہ آگے بڑھتا چلا گیا ۔۔۔

اناوسمینٹ ہوئی تو عابس اپنی سیٹ پر بیٹھا سختہ سے آنکھیں میچ گیا۔۔۔۔۔۔

بند آنکھوں کے سامنے جو چہرہ لہرایا اسے دیکھ عابس سلطان کا وجود ہل کر رہ گیا ۔۔۔ ہنیزہ کا نازک سراپا ۔ بھیگی غزالی آنکھیں اس کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئیں تھیں وہ چاہ کر بھی ہنیزہ کی یادوں سے پیچھا نہیں چھڑا پارہا تھا ۔۔۔ ابھی تو صرف دو گھنٹے گزرے تھے ۔۔۔۔ ناجانے آگے کیا ہونے والا تھا

_________،،،،،،________،،،،،،

ہنیزہ کے پاس نور بیٹھی تھی ۔۔۔۔ جب ہنیزہ چونک کر عابس کا نام۔لیتی اٹھ بیٹھی۔۔۔۔۔

نور پریشان سی اسے سنبھالنے لگی جو اس کے بازوں سےنکلتی باہر جارہی تھی ۔۔۔۔

عابی ۔۔۔۔ عابی کہاں ہیں آپ ۔۔۔ دیکھیں ہنی کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا عابی ۔۔۔۔ پلیز آجائیں ہنی نے لپسٹک بھی لگائی ہے ریڈ ڈریس بھی پہناہے آپ کو اچھا لگتا ہے نا پلیزعابی آجائیں میں آپ کی ہر بات مانوں گی عابی ۔۔۔۔"

پیلس کے ہر کمرے میں وہ پاگلوں کی طرح عابس سلطان کو تلا ش رہی تِھی بکھرے حلیے میں ا سوقت وہ اپنے باپ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم کر گئی ۔۔۔۔

ہنیزہ باپ کو سامنے دیکھ ان کی جانب بڑھی ۔۔۔۔

"باباآپ ۔۔۔ آپ تو ہنی سے بہت پیار کرتے ہیں نا ۔۔۔۔ پلیز بابا مجھے عابی کے پاس لیجائیں ۔۔۔ وہ ناراض ہیں مجھ سے بابا میں کبھی بھی ان کو ناراض نہیں کروں گی بابا پرومس پلیز ۔۔۔ مجھے عابی لادیں ۔۔۔۔

ہنیزہ روتے ہوئے میکال صاحب سے فریاد کر رہی تھی ۔۔۔ حالت کسی سوالی کی طرح تھی جو سب کچھ لٹ جانے پرتہی دامن ہی رہ گئی تھی میکال صاحب بیٹی کا درد برداشت کرتے اسے سینے میں بھینچ گئے ۔۔۔۔

عفت بیگم تو خود سے بھی نظرِیں نہیں ملا پا رہیں تھی

جو عابس ہنیزہ کےساتھ کر چکا تھا ا سکے بعد ان کا کوئی لفظ تسلی اس بچی کے دکھ کو کم نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ سب اپنی اپنی۔جگہ شر مندہ سے تھے

میکال صاحب اسے سینے سے لگائے کھڑے تھے اچانک ہی ہنیزہ بے جان سی ہوتی ان کے بازوں میں جھول گئی ۔۔۔۔


میکال صاحب پریشانی سے اس کا چہرہ تھپتھپانے لگے سب سے پہلے عاشر ہوش میں آیا وہ جلدی سے آگے بڑھتا ہنیزہ کو بازوں میں اٹھائے باہر کی جانب بھاگا

میکال صاحب کی تو جیسے دنیا ہی الٹ گئی تھی ۔۔۔ وہ عاشر کے ساتھ ہاسپیٹل پہنچے جہاں ہنیزہ کی حالت کے پیش نظر ڈاکٹرز نے اسے فورا ایمر جنسی میں لیجانے کا کہا ۔۔۔۔

ایک گھنٹہ ہو چکا تھا ہنیزہ کو آئی سی یو میں گئے پر اب تک کوئی خیر کی خبر نہیں آئی تھی

سب بگڑ چکا تھا عاشر تو جیسے اپنے حواس ہی کھو چکا تھا اس نے کب سوچا تھا اس طرح سے یہ سب ہوگا ۔۔۔۔

ڈاکٹر باہر. آئے تو فورا میکال صاحب اور عاشر ان کی جانب بڑھے بے چینی سے ہنیزہ کے بارے میں ہوچھنے لگے

ڈاکٹر۔۔۔۔ پلیز بتائیں ہنیزہ۔کیسی ہے ؟ ۔۔۔۔۔میکال صاحب نے پوچھا تو ڈاکٹر نے ان۔کے کندھے پر ہاتھ رکھے تسلی دی

"

"سر آپ پیشنس رکھیں ۔۔۔۔ اللہ سے دعا کریں سب بہتر ہوگا ۔۔۔ آپ کی بیٹی کا نروس بریک ڈاون ہوا ہے . . اگر دو گھنٹے میں ان کو ہوش نہیں آیا تو کومہ میں بھی جاسکتی ہیں

ڈاکٹر کی بات پر میکال۔صاحب ساکت سے اسے دیکھنے لگے عاشر کا چہرہ تاریک تھا ۔۔۔۔ ان کی ننھی سی شہزادی اس قدر ازیت میں تھی ۔۔۔۔

میکال صاحب ڈھے سے گئے تھے ۔۔۔

عاشر نے ہمت کرکے انہیں سنبھالا جن کا کل سرمایہ ان کی بیٹی تھی ہنیزہ کی تڑپ ان سب کی برداشت سے باہر تھی ۔۔۔ عاشر نے گھر کال کرکے سب کو بتایا ہنیزہ کی حالت کا ۔۔۔۔ عفت بیگم پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا ۔۔۔۔

________

عابس اس وقت لندن میں موجود تھا اس کا دوست اسے لینے آچکا تھا عابس اور آہل دونوں نے مصافحہ کیا

"یار عابس تو تو ۔۔۔ بڑا ہینڈسم ہو گیا یے ۔۔۔۔ کیا کہیں چکر وکر تو نہیں ناچہرے پر یہ جو نور ہے کہیں میری بھابھی کی محبت کا اثر تو نہیں نا یہ حسسسین چہرہ ۔۔۔۔"

بسسس کر اپنی فضول باتوں زیچ مت کر مجھے اپنا کام سٹارٹ کرنا ہے جلدی چل ۔۔۔ عابس اپنا چہرہ ماسک میں چھپائے لندن ائیر پورٹ سے نکلا سامنے ہی آہل کی گاڑی تھی دونوں گاڑی میں بیٹھے اور فلیٹ کی جانب روانہ ہو گئے ۔۔۔

لندن کی خوبصورت سڑکوں پر گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی عابس آنکھیں موندے ااپنے دل کے مچلنے پر اگنور کر رہا تھا جو سینے کی دیواروں میں سر پٹخ کر کسی دشمن جان کی یاد میں جل رہا تھا

زندگی نے آج رکھ کر عابس سلطان کے منہ پر تھپیڑے ماری تھیں جس بات کا دل بار نار اقرار کر رہا تھا دماغ اسی بات سے نفی کر رہا تھا اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہنیزہ میکال اس کی جان کا عذاب بن کر رہ جائے گی وہ تو اس کی زندگی مشکل کرنا چاہتا تھا پر خود مکمل ہنیزہ میکال میں گم ہو کر رہ گیا تھا

_______

چار گھنٹے بعد ۔۔۔

نور بے حد مضطرب سی جائے نماز پر بیٹھی رو رو کر ہنیزہ کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی اتنی سی عمر میں اس نے جو کچھ برداشت کیا تھا ۔۔۔۔ اس کا کوئی بھی خسارہ پورا نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ عابس کی محبت میں ہنیزہ اپنا وجود بھول چکی تھی وہ مکمل طور ہر عابس سلطان کے رنگ میں رنگ چکی تھی جس سے نکلنا اس معصوم کے بس سے باہر تھا ۔۔۔ نور نے رو ۔۔۔۔رو کر اللہ پاک سے ہنیزہ کی زندگی کے لیے فریاد کی ۔۔۔۔ اللہ پاک نے بھی شاید اس کے دل سے نکلی سچی پکار سن لی تھی

عفت بیگم نے نور کو عاشر کے فون کا بتایا

"نور بیٹا عاشر کی کال آئی تھی ہنی اب ٹھیک ہے چندہ آپ بھی ریسٹ کریں "

ان کی بات سن کر نور نے رب کا شکر ادا کیا جس نے اس کی دعاوں کو ضائع نہیں ہونے دیا تھا

جی آنٹی آپ چلیں میں بس شکرانے کے نفل ادا کرکے آتی ہوں ۔۔۔۔۔نور نے ان سے کہہ کر نیت باندھی ۔۔عفت بیگم پر سکون سی سانس خارج کرتی باہر کی جانب بڑھیں

اللہ نے بڑا کرم کیا تھا ان کی بچی پر ورنہ آج نجانے کیا انہونی ہو جاتی عابس کا اٹھایا گیا ایک غلط قدم سلطان پیلس کی درودیورا ہلا گیا تھا

________

عابس اس وقت کھڑکی میں کھڑا کافی کا مگ ہاتھ میں تھامے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا


آہل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ ہوش میں آتا اسے اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھنے لگا ۔۔۔

آہل کو وہ کچھ عجیب سا لگا بے حد بے سکون ۔۔۔۔ آہل اس کا بچپن کا دوست تھا دونوں نے ساتھ ہی پڑھائی کی تھی اور اب بھی کسی خاص کام سے یہاں آیا تھا

"یار عابس کوئی ہریشانی ہے ۔۔۔۔ تو بتا یہ تیری بے سکونی کچھ ہضم نہیں ہورہی ۔۔۔"

آہل کی بات پر عابس نے مضطرب انداز میں اپنی پیشانی مسلی ۔۔۔ دل کا درد جب حد سے سوا ہوا تو ۔۔۔۔۔ آہل کے سینے سے لگا اسے اپنے دل کی ساری بات بتاگیا جو کچھ بھی وہ ہنیزہ کے ساتھ کر آیا تھا ۔۔۔۔ سب کچھ ۔۔۔۔۔

عابس کی بات سن کر آہل نے جھٹکے سے اسے خود سے الگ کیا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا

عابس بنا ایک لفظ کہے کھڑا رہا۔۔۔

"تجھے احساس ہے عابس کے تو کیا کر چکا یے تو ایک نازک سی لڑکی کے دل کو تار تار چکا ہے اس کا وقار نوچ آیا ہے ۔۔۔ تیری روح نہیں کپکپا ئی ایک معصوم کو اس قدر ازیت سے دو چار کرتے ہوئے ۔۔۔ ڈر نہیں لگا ۔۔۔ ہاں. ۔۔ وہ لڑکی جس نے کبھی محبت کے لفظ سے شناسائی حاصل نہیں کی تھی تم اسے محبت سے روشناس کرا کے اس کے وجود کو روند آئے ۔۔۔ ڈرو عابس سلطان اس وقت سے جب تمہیں یہ محبت کا ناگ ڈسے گا ۔۔۔ تمہاری رگوں میں زہر بن کر اترے گی محبت اور قہر بن کر ٹوٹے گی اس معصوم کی تڑپ "

آہل کی بات پر عابس کا دل جیسے کسی نے ٹکڑے کیا تھا اسے آہل کی ایک ایک بات سچ ہوتی محسوس ہورہی تھی

آہل اسے دھکا دیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا عابس سے واقعی اسے یہ امید ہر گز نہیں تھی

عابس وہیں بیٹھتا چلا گیا

تو میری جان میرے جسم کو نا سمجھ کھلونا

دل میرا دکھا تو جان تیری جائے گی. ۔۔۔۔۔

میں جو روٹھی تو تجھے خبر تک نہ ہوگی

____________

ہنیزہ کو ہوش آچکا تھا مگر سب سے ملنے کے بعد بھی وہ بلکل خاموش تھی جیسے وہ اس دنیا میں ہو ہی نہ اس نے کسی سے بات نہ کی تھی عابس کے بارے میں کوئی بات کرنے کی کوشش بھی کرتا تو ہنیزہ نیند کا بہانا کرتے عابس کی تصویر کو سینے سے لگائے گھنٹوں بیٹھی رہتی ۔۔۔میکال صاحب تو ہار سے گئے تھے اس کے سامنے ان کی لاڈلی کا جو حال تھا ان کی ایک ہی دعا تھی خدا کسی دشمن کو بھی یہ دکھ نہ دکھائے ہنیزہ کی خاموشی دن بدن بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔ عاشر اور نور کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کر چکے تھے ۔۔۔۔ پر کچھ حاصل نہیں ہو پارہ تھا الٹا ہنیزہ کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی تھی خوبصورت چہرہ ہر وقت کملایا سا رہتا آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے اس کے حال گواہ تھے کہ اس نے کس ازیت میں وقت گزارا ہے ۔۔۔۔۔


عابس کی بے چینی حد سے سوا تھی دو دن سے بخار تھا آہل اگلی صبح ملنے آیا تو اسے کنفرٹر میں گھسا دیکھ اس کو پریشانی سی لاحق ہوئی وہ فورا اس کی جانب لپکا آہل نے کمفرٹر اس کے چہرے سے ہٹایا تو اس کا سرخ چہرہ دیکھ پیشانی پر ہاتھ رکھے دیکھنے لگا

پر عابس کا ماتھا چھوتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے کسی جلتے انگارے کو چھو لیا ہو اس کے جسم کی تپش سے آہل پریشان ہوتا اٹھا اور ڈاکٹر کو کال کی

عابس غنودگی میں مسلسل کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے عابس کا چیک اپ کیا اور بتایا کہ شدید ڈپریشن کی وجہ سے یہ ہوا ہے میں نے دواِئیاں دی ہیں جلد ہی یہ ہوش میں آجائینگے

آہل نے ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑااور ملازم سے جلدی سے عابس کے لیے سوپ بنوایا جو کچھ بھی تھا وہ اپنے جگری یار کو اس طرح تو نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔۔۔ جانتا تھا جس عذاب سے وہ لڑ کے یہاں آیا ہے آسان نہیں تھا ۔۔۔ اپنی کمزوری کا بدلہ جس معصوم سے لے آیا تھا وہ تو خود اس کی کمزوری بن گئی تھی

کبھی کبھی لگتا ہے کہ سکون حاصل کرنے کے لیے ہم فرار ہو سکتے ہیں مگر ناممکن ہے کیونکہ فرار صرف مشکلیں بڑھا سکتی ہے مگر سکون میسر نہیں کر سکتی

________


ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ خود سے بیزار سی کھڑکی کے پاس بِیٹھی پرندوں کو دیکھ رہی تھی اسے انسیت سی ہو گئی تھی ہنیزہ نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی وہ سنبھل گئی تھی جس چہرے پر ہمہ وقت مسکراہٹ چھائی رہتی تھی اب اسی پر ہر وقت ایک سرد سا تاثر ٹھہرا رہتا جس سے وہ اپنے قریب موجود ہر رشتے سے بے نیاز ہو گئی تھی اس نے اپنے آپ کو اس قدر محسوس کیا تھا کہ اس کے پاس اب کسی کے احساسات نہیں تھے میکال صاحب کی محبت بھی اسے نہیں سنبھال پائی تھی ہنیزہ نے ان دنوں میں نور کے سوا کسی سے بات نہیں کی تھی آج بھی وہ پرندوں کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہو رہی تھی جب نور کی آواز سنائی دی

"کیا یار جب دیکھو تم کھڑکی سے چپٹ کے بیٹھ جاتی ہو باہر نکلو انجوائے کرو ۔۔۔"

نور کی بات سن کر ہنیزہ کے لب ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے پر اس مسکراہٹ میں کتنی ازیت تھی وہ نور بخوبی محسوس کر چکی تھی

"میں ٹھیک ہوں اور مجھے یہاں سکون ملتا ہے نور یہ بہت اچھے ہیں میری ساری باتیں سنتے ہیں اور چھوڑ کر بھی نہیں جاتے ۔۔۔۔ جانتی ہو میں روز ان کا انتظار کرتی ہوں یہ کہیں بھی ہوں انہیں بھی میری یاد ستاتی ہے اور یہ میرے پاس آجاتے ہیں "

ہنیزہ کی باتیں آج بہت الگ تھیں وہ پہلے والی ہنیزہ تو جیسے کہیں کھو گئی تھی اس کے بس میں ہوتا تو نور اس کی سوچیں ہی بدل دیتی پر کیا کرتی قدرت کے فیصلے پر خاموش تھی

مگر نور نے سوچ لیا تھا کہ ہنیزہ کو واپس زندگی کی طرف لائے گی کسی کمظرف کی وجہ سے وہ اپنی پیاری سی دوست کو تباہ ہونے نہیں دے گی

"اچھا بابا مان لیا تمہارے ان دوستوں کو تھوڑی نظر کرم مجھ غریب پر بھی کردو کیوں نا کہیں باہر چلیں دیکھو کتنا اچھاموسم ہے یار۔۔۔۔ "

نور اسے پر جوش سی بتاتے ہوئے بولی

ہنیزہ نے انکار کرنا چاہا پر نور نے اپنی قسم دیکر اس کے لبوں پر جیسے قفل لگا دیا ہنیزہ بے دلی سے گہری سانس بھرتی ڈریسنگ روم میں بند ہو گئی ۔۔۔ نور نے دل میں شکر ادا کیا کہ چلو ہنیزہ مانی تو صحیح اب اسے زندگی کی طرف لانا تھا وہ معصوم جس روگ سے لڑ رہی تھی اس سے رہائی اتنی آسانی سے کہاں ممکن تھی پر وہ اس کی خیر خواہ تھی سمجھتی تھی کہ اسے زندگی کی طرف کس طرح واپس لانا ہے

ہنیزہ چینج کرکے آئی تو ۔۔۔ نور اسے دیکھ کھل اٹھی جو اس وقت خود گلابی شارٹ فراک میں کھلا ہوا گلاب لگ رہی تھی نور اس کا ہاتھ تھامتی ڈریسنگ مرر کے سامنے لے آئی اور ہولے سے اس کے بالوں میں برش کرنے لگی

ہنیزہ اس کی اتنی محبت پر اتنے دنوں بعد ہلکا سا مسکرائی یہی تو تھی وہ جس نے اسے سنبھال لیا تھا ۔۔۔ ہنیزہ کے بال باندھتے اب نور اس کے سر پہ سکارف پہنانے لگی

ہنیزہ مکمل تیار تھی ۔۔۔ دل اب بھی اندر سے بے حد عجیب تھا اگر نور نے قسم نہ دی ہوتی تو وہ کب کا انکار کر چکی ہوتی

نور ہنیزہ کاہاتھ تھامتی باہر آئی تو میکال صاحب کی ان دونوں پر نظر پڑی ۔۔۔۔ ہنیزہ کو فریش سا دیکھ ان کے دل کو ڈھارس ملی ۔۔۔ ان کی معصوم سی گڑیا کا مرجھایا سا روپ کہاں دیکھ پارہے تھے ۔۔۔ زندگی نے بڑے گہرے زخم دیے تھے دونوں باپ بیٹی کو جس کی پاداش میں دونوں ہی ختم ہو رہے تھے ۔۔۔

نور نے میکال صاحب کو سلام کیا ۔۔۔ انہوں نے باری باری دونوں کی پیشانی پر بوسہ دیا

میری بیٹیاں تو بہت پیاری لگ رہی ہیں کہاں جانے کی تیاری ہے ۔۔۔؟

میکال صاحب ان سے شرارتا پوچھنےلگے

بس بابا یہ نور ۔۔۔۔ ابھی ہنیزہ کچھ بولتی جب نور اس کی بات بیچ میں اچک گئی

"انکل یہ بوڑھی ہو گئی ہے کیا جو ہر وقت گھر میں رہے ہم آج آوٹنگ پر جارہے ہیں بس ۔۔۔ اب آپ نا شروع ہو جایے گا "

ہنیزہ اس کی باتوں پر سر نفی میں ہلانے لگی کہ اس کا کچھ نہی ہوسکتا میکال صاحب نے بھی سیز فائیر کیا اور دونوں کے ساتھ ڈرائیور اور گارڈز کو لیجانے کا سختی سے کہا جس پر نور با خوشی سر ہلا گئی . نور نے ہنیزہ کے لیے دروازہ کھولا اور خود دوسری سائیڈ بیٹھ گئی پورے راستے ہنیزہ اس کی باتوں سے تنگ سی آگئی تھی نور جان بوجھ کر اس کا موڈ بحال کرنے کے خاطر اوٹ پٹانگ باتیں کرتی اسے بھی مسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔۔ ہنیزہ میکال کے زخم شاید کبھی نہ بھرتے اگر اتنے چاہنے والے ساتھ نا ہوتے زندگی کے ہر موڑ پر سچے رشتوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے

________

نور ہنیزہ کو جس ہوٹل لائی تھی وہ وہی تھا جہاں عابس اور ہنیزہ پارٹی میں آئے تھے ہنیزہ کے زخموں سے پھر سے خون رسنے لگا تھا وہ زارو قطار روتی باہر کی جانب بھاگی کیا کیا نا یاد آیا تھا اس دشمن جان کی پر حدت سانسیں گہرائی تک سرائیت کرتا لمس۔۔۔۔ پور پور راکھ سا ہونے لگا تھا نظروں میں آج بھی ہر منظر دلکشی کے ساتھ سمایا ہوا تھا

ہنیزہ گاڑی سے لگتی بیٹھتی چلی گِئی کانوں میں آج پھر سے انہی سرگوشیوں نے ڈیرا جمایاتھا جن سے نکلنے کی کوشش میں اس کی معصوم سی جان ہلکان ہو چکی تھی ہنیزہ نے اپنے گرد بازوں لپیٹے آنکھیں موند لیں دور کہیں سے اسے عابس کی آواز سنائی دی

ایک مسرور کردینے والی کیفیت کے زیر اثر وہ مسکرا رہی تھی وہ عابس سلطان کی تھی اس کی روح تک رسائی حاصل کرنے والا وہ شخص اسے اس طرح اپنے حصار میں مقید کر گیا تھا کہ ہنیزہ چاہ کر بھی خود کو اس حصار سے آزاد نہیں کروا پارہی تھی

پارٹی کی رات۔۔۔

عابی مجھے ڈر لگتا ہے ___ہنیزہ عابس کے سینے پر سر رکھے اسے اپنے دل کی بات بتانے لگی

ہنی کس بات کا ڈر میرے ہوتے ہوئے ۔۔۔میری جند جان کو

"عابی مجھے نا روز۔۔۔۔ایک خواب آتا ہے مجھے ڈر لگتا ہے عابی میں ننگے پاوں آپ کے پیچھے بھاگتی ہوں پر آپ مجھ پر ہنستے ہیں اور دور چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔عابی ۔۔۔ ہنیزہ اسے اپنے خوف سے آگاہ کرتی بری طرح اس کی شرٹ تھامے رونے لگی

عابس کا وجود بے جان سا ہوا ایک لمحے کو دل کے کسی گوشے میں ہنیزہ میکال کی محبت پر ایمان لانے کا دل چاہا پر وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا وہ تو اس دنیا کا باسی نہیں تھا ۔۔۔۔۔

عابس نے ہنیزہ کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے خود سے قریب کیا اور اس کے چہرے پر بکھرے بال سمیٹتے اس کی بھیگی آنکھوں پر لب رکھتا اسے مبہوت کر گیا

عابس جابجا اس کے چہرے پر شدت بھرے لمس چھوڑتا اسے سمٹنے پر مجبور کردیا ۔۔۔

عععابییی ۔۔۔۔ ہنیزہ اپنے الفاظ مکمل کرتی اس سے پہلے ہی عابس اس کے سارے لفظ اپنے لبوں پر چن چکا تھا ہنیزہ عجب بے خودی میں ڈوبی اپنی آنکھیں موند گئی عابس کے لمس میں جس قدر شدت تھی ہنیزہ تڑپ سی گئی تھی پر عابس کو روکنے کی کوشش اس نے نہیں کی

ہاتھ سے ایسے ہاتھ ملاؤ کہ لیکریں ایک ہو جائیں

کبھی تو اتنے پاس آؤ کہ سانسیں ایک ہو جائیں

وہ نازک مزاج لڑکی اس کی شدت و جنون کو خود پر سوار کر چکی تھی جس سے رہائی ناممکن تھی

_________

نور اسے ڈھونڈتی باہر آئی تو پاگلوں کی طرح آنکھیں موندے مسکراتا دیکھ اس کے پاس جاتی اسے کندھوں سے جنجھوڑنے لگی

ہنیزہ ہنی ۔۔۔ آنکھیں کھولو ۔۔۔۔ نور کے ہلانے پر وہ جیسے گہری نیند سے جاگی تھی اور روتے ہوئے نور العین سے لپٹ گئی

"سب دھوکہ تھا عین ۔۔۔ سب فریب تھا ۔۔۔۔ میں نے تو سب سونپ دیا تھا ۔۔۔ میں نے بہت محبت کی ہے عین میں نہیں رہ پارہی عین۔۔۔ اس کی یادیں اس کا لمس مجھے پاگل کردے گا مجھے اس کی خوشبو اپنے اندر تک محسوس ہوتی ہے اس کالمس میرے وجود پر کسی ناگن کی طرح مجھے ڈس رہا ہے میں مر جاوں گی عینن۔۔۔ مجھے بچا لو ۔۔۔ میں دور جانا چاہتی ہوں یہاں سے جہاں کوئی نا ہو جہان بچھرے نا کوئی ۔۔۔ جہاں مجھے سکون مل جائے میرا دم گھٹ جائے گا عینننننن۔۔۔"

نور العین اسے سختی سے خود میں بھینچے اس کی پشت سہلانے لگی وہ چاہتی تھی کہ ہنیزہ سارا غبار نکال دے اسی لیے اسے یہاں لائی تھی ۔۔ پر کیا معلوم تھا کہ وہ جس عشق کی اسیری کر رہی ہے اسے ملاقات کی نہیں تاثیر کی ضرورت ہے مسیحائی کی ضرورت ہے

ہنیزہ جب سے وہاں سے آئی تھی خاموش تھی نور العین اسے سمجھا کر جاچکی تھی

" ہنیزہ "دروازے پر کھڑے میکال صاحب نے ناک کرتے پیار سے کہا ۔

ہنیزہ جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی ان کی آواز پر چونکی ۔ دروازے کی طرف دیکھا تو اپنے بابا کو کھڑے پایا ۔

" آپ ایسے کیوں کھڑے ہیں بابا ۔۔اندر آئیں نا " وہ اپنے ٹانگیں سمیٹتی نرم لہجے میں بولی ۔

میکال صاحب اندر آیے اور اس کے پاس بیٹھ گئے

ان کی نظر ہنیزہ کے چہرے پر ٹک سی گئی تھیں جو مرجھایا ہوا تھا ۔ جیسے کسی پھول کو اس کی اصل سے جدا کر دیا جائے تو وہ اپنا اصل رنگ کھو دیتا ہے اسی طرح ان کی بیٹی مسکرانا بھول گئ تھی ۔


" کیا دیکھ رہے ہیں بابا " ان کو ایسے مسلسل دیکھنے پر وہ نروس ہوتے بولی جیسے ڈر ہو کہ اس کی آنکھوں کی ویرانی کی وجہ نا جان گئے ہو ۔

" بیٹا ۔۔۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے " انہوں نے پیار سے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا

" جی " اسی نرم لہجے میں جواب دیا ۔

میں چاہتا ہوں تم کچھ دن یہاں سے دور رہو آرام سے ویکیشنز انجوائے کرو

" تمہاری ٹکٹس میں نے کروا دی ہیں لندن کی ۔۔۔ تمہارے خالو ہیں وہاں وہ بہت محبت کرتے ہیں تم سے کل ہی ان سے بات ہوئی تب انہوں نے تمہیں بلانے کا کہا ۔۔۔ تم جاؤ ۔۔۔ اپنا موڈ فریش کرو ۔۔ میں تمہیں ایسے بے رونق مرجھائے ہوے نہیں دیکھ سکتا " اس کے ہاتھوں پر دباؤ دیتے وہ نم لہجے میں بولے ۔

" بابا ۔۔۔ میرا کوئی ارادہ "

" پلیز ۔۔۔ مجھے منع نا کرو ۔۔۔ پلیز " اس کی بات پورا ہونے سے پہلے ہی وہ نم آلود آواز سے بولے ۔

ہنیزہ نے ان کی آنکھوں میں نمی دیکھی تو بے اختیار اسے شرمندگی نے آ گیرا. اس کی محبت نے خود کو تو تباہ کیا ہی تھا لیکن اس سے جڑے رشتے بھی تکلیف میں آ گئے تھے ۔

وہ ان کی خواہش پر سر جھکا گئ۔ اسے علم تھا کہ وہ کیوں بھیج رہے ہیں لندن ۔ اور اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ بتا سکے کہ وہ کسی اور کی امانت ہے ۔ جو اس کا ہرجائی ہے نجانے کہاں چلا گیا ہے اس سے چهپ کر ۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" ویلکم بیٹا " احمد صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے کہا ۔ اس وقت وہ ائیرپورٹ پر تھے ۔

ہنیزہ نے فقط مسکرانا مناسب سمجھا ۔ اس لندن کی سرد ہوا بھی اسے متاثر نا کر سکی جو کسی زمانے میں اسے بہت پسند ہوا کرتی تھی ۔

" اسلام علیکم کیسی ہیں آپ ہنیزہ ؟" تبھی احمد صاحب کا بیٹا جو ان کے ساتھ کھڑا تھا مسکرا کر بولا ۔ اسے ہنیزہ خوبصورت لگی تھی ۔ اور اس کے تیکھے نین نقش جیسے پہلی نظر میں دل میں پیوسط ہو گئے تھے ۔

" وسلام ۔۔۔ ٹھیک " سنجیدہ آواز میں جواب دیا ۔

" آئیے بیٹا چلیں " احمد صاحب نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ سر ہلاتی گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔

" کیسی لگی ساحر؟" احمدر صاحب نے دوستانہ لہجے میں اس کے کندھے ہمسے کندھا مارا تو وہ ان کی حرکت پر نیچے منہ کر کے ہنس دیا ۔

" یو آر رائٹ ڈیڈ ۔۔۔ ایشین گرلز کافی حسین ہوتی ہیں" گاڑی میں بیٹھتی ہنیزہ کو دیکھ کر وہ مسرور سا بولا ۔

" مان گئے نا اپنے ڈیڈ کو " انہوں اس کی گردن کے گرد بازو کرتے پوچھا ۔

" جی جی " وہ قہقہ لگا گیا ۔

دونوں پھر گاڑی میں بیٹھے تا کہ گھر جا سکیں ۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

" آج ہم جا رہے ہیں تمہارا رشتہ دیکھنے عفت بیگم نے عاشر کو مصروف سے انداز میں کہا ۔

وہ جو ٹی وی دیکھ رہا تھا ان کی آواز پر کرنٹ کھا کر ہلٹا اور اپنی ماں کو دیکھا جو کچن میں شامی کباب کو شیپ دینے میں مصروف تھیں ۔

" کون کس سے ؟؟ اور رشتہ کرنے جا رہی ہی مام پلیز ابھی عابی بھی نہیں ہنیزہ بھی نہیں !" وہ حیرانی سے بولا کیسے بتائے اپنی ماں کو کہ اسے نورالعین پسند ہے ۔ ایک تو محبت ایسے عزاب بھی ڈالتی ہے کہ دل کی بات زبان سے بیان نہیں ہوتی ۔

" بلکل میں تھک گئ ہوں تمہاری نا نا سن کر۔۔۔ مجھے لڑکی پسند ہے بس ۔۔۔ تم کرو نا کرو ۔۔۔۔ اور ہم آج منگنی بھی کر آئیں گے " وہ اس کی طرف دیکھتی سنجیدگی سے بولیں ۔

عاشر کا حیرت سے منہ کھل گیا ۔ اس کی ماں تو سارے پلین بنائے بیٹھی تھی ۔

" ماما مجھے ٹائم دیں پلیز " وہ سرد لہجے میں بولا ۔

" چپ رہو عاشر یہ میرا آخری فیصلہ ہے اور اگر تم نے انکار کیا تو ساری زندگی میرى شکل دیکھنے کو ترس جاؤ گے " کباب کی ٹرے فریزر میں رکھتے وہ کڑے تیوروں سے بولی اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

پیچھے عاشر پریشان حالت میں سر کو تھام گیا ۔ وہ کیا کرے گا اب جبکہ اس کا دل تو نور کیلیے دھڑکتا تھا ۔

اے عشق اتنا بتائی جا ۔۔۔ میری عقل ٹھکانے لگا دے۔۔

تجھے انجام دیں ہم! ۔۔۔ یا اپنے رشتے نبھا لیں!

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


" آپ یہ دیکھیے میں زرا کال سن آؤں " ساحر نے مسکرا کر اس کو کپڑوں کی طرف دھیان دلایا اور فون سننے کیلیے شاپ سے باہر چلا گیا ۔

وہ اس وقت مال آئے تھے ۔ احمد صاحب کے اصرار پر وہ شوپنگ کیلیے مال آئی تھی اسس کا دل نہیں تھا لیکن سب کے اصرار پر آنا پڑا ۔

وہ بے دلی سے سب شوخ رنگوں کے مختلف قسن کے کپڑے دیکھ رہی تھی ۔

" میم یہ ٹرائے کریں " وہاں کی لڑکی نے اسے ایسے بے تاثر نگاہوں سے دیکھتے ایک پنک کلر کا فراک سامنے کرتے کہا ۔ یہ ڈریسز خاص ایشین گرلز کیلیے تھے ۔ تبھی وہ اس کی ڈریسنگ دیکھ کر سمجھ گئ تھی کہ یہ لڑکی ایشین ہے ۔ پاکستان یا انڈیا کی ۔

" نہیں " ہنیزہ نے انکار کیا ۔

" میم ٹرائے تو کریں نا اچھا لگا تو آپ نا خریدنا " اس لڑکی نے تحمل انداز سے کہا ۔

ہنیزہ نے اسے دیکھا پیچھے گردن موڑ کر ساحر کو دیکھنا چاہا لیکن جیسے ہی اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا تو اسے شیشے کے اس پار عابس نظر آیا جو اسے ہی ہونک بنے دیکھ رہا تھا جیسے اس کی بھی بے ارادی نظر پڑی تھی جیسے اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ جسکے ہجر میں تڑپ رہا ہے وہ اس کے سامنے یہاں لندن میں اس کی آنکھوں کے سامنے ۔

ہنیزہ کی جیسے سانس ساکت ہو گئ تھی اس ہرجائی کو ایسے سامنے کھڑا پا کر ۔ اس کا جسم ایک دم لرزنے لگ گیا تھا.

اس سے پہلے عابس اندر آتا یا کچھ کرتا ساحر فون کال بند کرتا جلدی سے اندر آیا ۔

" سو سوری ہنیزہ ہمیں نکلنا ہو گا میرے دوست کی مدر ٹھیک نہیں ہیں مجھے اس کے پاس جانا ہو گا " وہ اس کے پاس آتا پریشانی سے بولا بنا اس طرف دھیان دیے کہ وہ خود سے ساکت آنکھیں شیشے سے لگائے کھڑی تھی ۔

ہنیزہ نے ساحر کو دیکھا ۔ اور اس کی پیروی میں تقریبا بھاگتے ہوئے چلنے لگی ۔ ساحر بھی کچھ تیز ہی چل رہا تھا اسے خوشی ہو رہی تھی کہ وہ جس سے شادی کرنے جا رہا ہے وہ اس کے ہمقدم رہے گی یہ جانے بنا کہ وہ کس حالت میں ہے۔

" ہ۔۔ ہنی ۔۔ نہیں ۔۔ " وہ ہوش میں آتا تیزی سے ان کے پیچھے بھاگا ۔ آہل جو پاس شاپ سے کچھ جوس آرڈر کر رہا تھا ایسے عابس کو بھاگتے دیکھ کر وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا نجانے کیا دیکھ لیا تھا اس نے ۔

" ہنی رکو ۔۔ ہنی ۔۔ رکو ۔۔ ہنی " وہ بخار کی حدت میں لڑکھڑاتا اپنی ہوری جان سے بھاگا تھا لوگوں کے ہجوم سے نکلتا اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔

وہ اس تک پہنچ جاتا اگر سیڑھیاں اترتے وقت اس کا سر نا چکراتا ۔ اور وہ لڑکھراتا نا. اس سے پہلے کہ وہ سیڑھیوں سے گرتا پیچھے آتے آہل نے اسے بہت مشکل سے سنبھالا تھا ۔ ورنہ وہ منہ کے بل گرتا اور اس مال کی یہ سیڑھیاں تھی بھی بہت لمبی ۔

" ہنی. ہنیزہ. " وہ اسے مال سے باہر جاتا دیکھا کر چیخا مگر وہ نکل گئ۔

" کیا ہو گیا عابس !" اہل نے اسے جھنجھوڑا ۔

" اہل چل گاڑی نکال مجھے اس کے پیچھے جانا یے " وہ اس سے اپنا آہ چھڑواتا سرخ آنکھوں سے نیچے اترتا بھاگتا باہر کو بڑھا. نا چار آہل کو بھی جانا پڑا

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

اس وقت عاشر منہ پھلائے سنجیدہ چہرے سے بیٹھا ہوا تھا. وہ رشتہ دیکھنے نہیں منگنی کرنے آیے تھے ۔ اس کا دل کر رہا تھا دھاڑے مار کر روئے ۔

" اسکام علیکم" تبھی نفیس سی آواز کمرے میں گونجی سب اس کی گرف متوجہ ہو گئے ۔

عاشر کا بلکل دل نہیں کیا کہ اس کی طرف دیکھے وہ اس کی منزل نہیں تھی اس کی منزل اس کی محبت تو نور تھی۔

عاشر کی ماں نے جب اصرار کیا اور آنکھوں ہی آنکھوں سے دھمکی دی تو اس نے چار و نچار اس لڑکی کی طرف دیکھا جو اس کے سیدھ میں اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی ۔ اسے یقین نا آیا کہ وہ جو دیکھ رہا ہے سچ یے کہ نہیں ۔

" ماں !" وہ بے یقینی سے اپنی مام کو دیکھتے بولا ۔

" نور. نورالعین ۔۔۔ نہیں اچھی لگی کیا ؛" انہوں نے اس کی طرف جھک کر تنگ کیا تو وہ فوراً سے بوکھلا گیا ۔

" کس نے کہا بیت پسند ہے " وہ بوکھلاہٹ میں اونچی آواز میں کہہ گیا ہہ کمرے میں دبی دبی ہنسی گونجی ۔ نور نے شرم سے سر جھکا لیا ۔

اسے خود بھی اپنی حرکت پر شرمندگی ہوئی۔

لیکن اس کا دل جو برا ہوا تھا اب سامنے نور کو دیکھ کر پورے چار سو چالیس ووکٹ کے سات جگمگ کر رہا تھا ۔ اس کی محبت تھی آخر۔

سب کی رضامندی سے ان کی منگنی سادگی سے کر دی گئ۔

جہاں نور کے چہر پر جھلملاتی مسکان تھی وہیں عاشر کے چہرے پر سکون ۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥

وہ دوپہر میں عابس کی موجودگی پر ابهى تک ڈسٹرب تھی ۔ اس وقت لان میں ٹہل رہی تھی ۔ رات کا وقت تھا اور سوچوں کا مرکز عابس ۔

اچانک لائٹ اوف ہو گئی ۔ ہر سو اندھیرا ہو گیا ۔

وہ اندر جاتی اس سے پہلے ہی اس کی ناک پر کوئی بھاری ہاتھ آیا جس پر شاید رومال تھا ہنیزہ مزاحمت کرتی کہ اس میں سے آتی بو نے اس کے حواس سلب کر لیے اور وہ اپنے پیچھے کھڑے شخص کی باہوں میں جھول گئ۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

اسے ہوش آیا تو سر میں درد سا محسوس ہوا ۔

مکمل ہوش آنے پر خود کو انجان کمرے میں دیکھا ۔

وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھی کہ بچی کچی سانس بھی سامنے بیٹھے وجود کو دیکھ کر رک گئی۔

" ع۔۔ ا ۔۔ بس !" اس کے لب پھڑپھڑائے ۔

وہ خوف سے بیڈ سے اتر کر کھڑی ہو گئی۔

" ہنی " وہ کرسی سے اٹھتا اس کی طرف بڑھا ۔

" د۔۔۔ د۔ور رہو۔۔۔۔۔۔دور ۔۔۔رہو ۔۔۔ میرے پاس مت آنا ۔۔۔ نفرت ہے تم سے " وہ اس کے قدم اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر پیچھے قدم لیتی بولی ۔

مگر عابس میں اتنی ہمت نہیں تھی اس سے دور رہتا وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور کھینچ کر اپنے سینے سے لگا گیا ۔

اس کی گرفت اور دھڑکتے دہ نے ایک پل کو ہنیزہ کو ساکت کر دیا لیکن اس کا دھوکہ یاد کر کے وہ اس کی گرفت میں مچلی ۔

" مجھے ۔۔معاف کر دو۔۔ میں غلط تھا ۔۔۔ میں نے دھوکہ دیا محبت سے تمہیں دھوک دیا ۔۔۔ لیکن میں تم سے سچی محبت کرتا ہوں ہنی ۔۔ تم میری ہو میں تمہارا ہوں ۔۔پلیز مجھے معاف کر دو " وہ اس کو خود میں بھینچے بول رہا تھا اور وہ اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

" مجھے نفرت ہے آپ سے پاس کیسے آنے کی ہمت کی ؛" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی غرا کر بولی ۔

" پاس اس لیے آیا کہ یہ حق میرا ہے ۔۔ تمہاری قربت کا حق میرا یے " اس کی گردن میں چہرہ چھپاتے خماری سے کہا ۔ وہ اس کی حرکت ہر سکات ہو گئی ۔ دل پسلیوں سے باہر نکلنے کو تھا ۔

" ہنیزہ۔۔۔ آئی لو یو ۔۔کانٹ لو ودآؤٹ یو " اس کی گردن پر جا بجا ہونٹ رکھتے وہ کوئی مجنوں لگ رہا تھا ۔

" عا" وہ اسے روکنے والی تھی کہ وہ اسے اپنے لمس سے خاموش کروا گیا ۔ اتنے دیر بعد اسی کمس کو خود پر پا کر وہ جیسے نڈھاہ سی ہو گئی

آج بھی اس کی قربت پاگل کر دینے والی تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس کی قربت کا نشہ سنبھالتی۔ وہ اس کی بڑھتی شدت پر اپنے حواس کھو بیٹھی۔

" تم میری ہو ہنی میں تمہارا " اس باہوں میں بھرے وہ پیار سے بولا ۔

_____

عابس بے چینی کے عالم میں ہنیزہ کی طرف بڑھا اور اسے باہوں میں اٹھائے باہر کی جانب بھاگا اس کی حالت کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند تھی جس سے اس کا کل سرمایہ لٹنے جا رہا ہو عابس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہنیزہ اس سے اس قدر نفرت کرنے لگی ہے

وہ اپنی غلطی پر نادم تھا پر شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی ہنیزہ عابس سلطان جس کا ہر جذبہ صرف اور صرف عابس سلطان کے لیے تھا آج وہ عابس سے روٹھ گئی تھی

عابس نے جلدی سے ہنیزہ کو گاڑی میں لٹایا اور ہوسپیٹل کی جانب گاڑی کو بھگایا اس کی نظر بار بار ہنیزہ کے خون سے لت پت وجود پر جا رہی تھیں دل اور دماغ جیسے کام کرنا بند کر چکے تھے وہ گرتا پڑتا بمشکل اسے ہوسپیٹل لے کر پہنچا

ڈاکٹر نے ہنیزہ کی حالت کو دیکھتے فورا اسے اٹینڈ کیا عابس و ہیں دیوار کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا

اسے ابھی یہ سب ایک بھیانک خواب لگ رہا تھا جس نے اس کے سامنے اس کی معصوم سی زندگی اس سے چھین لی تھی ہنیزہ کے ساتھ بتایا ایک ایک خوشنما لمحہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا

وہ اجڑی بکھری حالت میں یونہی سر تھامے بیٹھا تھا اس کی اپنی حالت قابل ترس تھی

یہ وہی عابس سلطان تھا جس نے اپنے دل میں پنپتے زہر سے ہنیزہ میکال کے وجود کو اپنے پاوں تلے اس طرح روندا تھا کہ وہ زندگی ہارنے کے در پر تھی عابس سلطان کا سارا غرور و تنتنہ خاک میں مل گیا تھا۔ ۔۔ وہ جو کبھی محبت کا مزاق بنا کر ایک معصوم کو تباہ کر چکا تھا آج وہی محبت اسے زندگی کی حقیقت سے روشناس کرا رہی تھی

محبت کے ساتھ کھیلنے والے ہمیشہ تنہا رہ جاتے ہیں دھوکہ کھانت والا شخص کمزور و بے بس نہیں ہوتا پر محبت اسے خود سے بے پرواہ بنا دیتی ہے اس ہر احساس کو ختم ۔ کر دیتی ہے جو آپ کو محبوب سے دور لے جائے

ہنیزہ نے بہت سہا تھا پر اس کی ازیتوں کا ازالہ عابس سلطان چاہ کر بھی نہیں کر سکتا تھا محبت پر بڑی گہری چھاپ تھی ہنیزہ میکال کی جس نے عابس سلطان کو بتایا کہ صرف روندے جانے میں ہی مزہ نہیں چھوڑ کر جانے کی ازیت بھی بے مثال ہوتی ہے

عابس اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد باندھے آئی سی یو کے دروازے کو گھور رہا تھا جہان اس کی زندگی ۔۔۔ہار رہی تھی اس نے ہنیزہ میکال کو جو تڑپ دی آج اس تڑپ نے عابس سلطان کے روم روم کو جھلسا دیا تھا

عابس کو ہنیزہ کی بکھرتی سسکیاں اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھیں کس طرح گڑگڑائی تھی وہ اس بے مہر کے سامنے اپنی محبت کی بھیک مانگی تھی پر اس وقت عابس سلطان پتھر ہو چکا تھا جس کے دل میں ہنیزہ میکال اپنے عشق کو مکمل کرنے میں ناکام رہی تھی ہار گئی تھی

عابس اپنے برے خیالوں کو جھٹکتا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔ اور آئی سی یو کی گلاس وال سے ہنیزہ کے بے جان وجود کو دیکھنے لگا جہاں ڈاکٹرز اسے ٹریٹ کر رہے تھے ہر وقت مسکرانے والے لب خاموش تھے عابس سلطان کی الفت پر شرمانے والے گال زرد تھے ۔۔ عابس سلطان کے عکس کو مکمل کرتی آنکھیں اس لمحے بند تھیں ہنیزہ کا زرد پڑتا وجود عابس کو نئے سرے سے تکلیف سے دوچار کر رہا تھا

عابس گلاس وال سے سر ٹکا کر روپڑا ۔۔و ہ مضبوط توانا مرد رو رہا تھا ہنیزہ میکال کے لیے ا سکی محبت پانے کے لیے ۔۔۔اسے محسوس کرنے کے لیے ۔۔۔ عابس جھٹکے سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا اسے کسی بھی طرح ہنیزہ سے بات کرنی تھی وہ جانتا تھا اگر اس نے اب ہنیزہ سے کچھ نا کہا تو اس کی سانسیں ساتھ چھوڑ دینگی ۔۔۔

ڈاکٹرز اور نرس اسے اندر آتا دیکھ فورا باہر جانے کا کہا

پلیییز میری بیوی کو ٹھیک کردیں ۔۔۔ پلیز میں آپ کےہاتھ جوڑتا ہوں عابس مسللسل روتے ہوئے ڈاکٹر کی منت کر رہاتھا ۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے آج واقعی کوئی دیوانہ لگ رہاتھا اپنی ہنی کا دیوانہ ۔۔۔ اس کی خوشبو کا دیوانہ ۔۔۔۔

عابس کا بس نہیں چل رہا تھا ہنیزہ کو جھنجھوڑ دے جس نے اسے جیتے جی اس آگ میں دھکیل دیا تھا کی عابس سلطان کا وجود لمحہ بالمحہ جھلستا جارہا تھا ہنیزہ کی آہیں سسکیاں عابس سلطان کے کانوں کو چیر رہی تھیں

ڈاکٹر نے عابس کی حالت کے پیش نظر اسے اپنے ساتھ لیے قریب بینچ پر بٹھایا اور کندھے ہر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا

دیکھیے سر آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں ۔۔آپ کی وائف جلد ٹھیک ہو جائیں گی پر ۔۔۔ معذرت کے ساتھ زہر بہت طاقتور تھا ہم آپ کے بچے کو نہیں بچا پائے ۔۔۔۔۔آپ کو حوصلہ رکھنا ہوگا اس طرح ڈاکٹرز کو ڈسٹرب کرنا ٹھیک نہیں آپ ہمیں ہمارا کام کرنے دیں ۔۔۔۔

ڈاکٹر عابس کو تسلی دے کر جاچکا تھا پر عابس کے وجود میں توسکت ہی باقی نہ تھی اس کی دھڑکنیں سست روی سے چلنے لگیں تھی دل میں جیسے کسی نے چیر ہھاڑ مچا دی تھی تو ثابت ہوا عابس سلطان تم بد بخت ٹھرے تمہارے نصیب کی خوشیاں تمہارا انتقام کھاگیا ۔۔۔۔ اسے اب بھی اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا کیا واقعی ہنیزہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی ۔۔۔ ایک بار پھر محبت نے عابس سلطان کو دھول چٹائی تھی ۔۔ اپنی دی گئی ازیتوں کو وہ مزید بڑھا گیا تھا ہنیزہ میکال کے لیے عابس کی آنکھون سے ٹوٹ کر آنسو گرنے لگے اس بات سے بے خبر کہ یہ آنسو تو ہنیزہ میکال کی اولاد کے قتل کے ہیں ۔۔۔ ا سکے وجود میں اترتی ویرانی کے ہیں ۔۔۔۔درد سے عابس کا دل پھٹنے کو تھا اس نےکبھی دھیان ہی نا دیا تھا کہ ہنیزہ کس حال میں ہے ٹھیک ہے یا نہیں اسے تو پچھتاوں کے ناگ نے ڈس رکھا تھا کہ وہ بےحس بنا سب کچھ بھول بیٹھا تھا یہ کیسا قیامت خیز انکشاف ہوا تھا ۔۔۔ عابس کی سوچ سوچ کر جان جارہی تھی کہ ہنیزہ میکال اسے کسی طور اپنے اتنے بڑے نقصان کے لیے معاف نہیں کرے گی ۔۔۔۔

عابس سےوہاں اٹھتا باہر چلا آیا ۔۔۔۔ اور گہرے سانس بھرنے لگا ایک ناکردہ گناہ کی سزا ہنیزہ کے لیے اس نے منتخب کی اور ایک انتقام۔ کی سزا اللہ پاک نے عابس سلطان کو دی ۔۔۔۔

عابس نے خود کو سنبھالتے وارڈ بوائے سے مسجد کا پوچھا اور فورا اپنے رب کی طرف دوڑا ۔۔۔ اب صرف اللہ ہی اس کی مدد کر سکتا تھا ۔۔۔و ہ رب جو ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہو اپنے بندوں کو آزمائش میں اکیلا نہیں چھوڑتا اس کے ہاں انصاف کا راج ہے

عابس نے جب وضو کے لیے ہاتھ بڑھائے تو آنکھون سے زاروقطار آنسو بہنے لگے نا جانے کتنے عرصے بعد اپنے رب کے سامنے حاضری دینےجارہا تھا

عابس نے جب سجدے میں سر جھکایا تو ا سکا دل زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگا اپنی ہر زیادتی ہر گناہ خود کی نظرون میں شرمسار کرنے لگا ۔۔۔ کیا کر چکاتھا وہ اتنا گر گیا کہ بھول گیا رب کی زات ہر چیز پر قادر ہے کیسے ایک بے بس لڑکی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھایا کیسے اس کے وجود کو روندا عابس ناجانے کتنی۔ ہی۔ دیر سجدے میں سر جھکائے اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا ۔۔۔ ہنیزہ ہی تو ا سکی زندگی کی وجی تھی وہ کیسے اس کے بغیر رہے گا یہ خیال بھی عابس سلطان کو پاگل کر رہا تھا عابس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو رب سے ہنیزہ میکال کی زندگی کی فریاد کی ۔۔۔۔ اس کی آنکھون سے گرنے والا ہر آنسو عابس کی محبت کی گواہی دے رہاتھا اہنی نادانی میں وہ جو کچھ بھی کھو چکا تھا اپنے رب سے اس کے عوض ہنیزہ میکال کو مانگ لیا تھا ۔۔۔۔ ۔

عابس نے دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرے تو ایک سکون سا روح میں سرائیت کر گیااس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں ۔۔آنکھون میں چھائی لالی ہنیزہ میکال کے لیے تھی وہ جو عابس سلطان کے لیے مرتی تھی آج اسے اپنے لیے تڑپتا دیکھتی تو خود کو بھی وار دیتی آئی سی یو کی جانب بڑھتے عابس کے قدم من من بھر کے ہورہے تھے دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ باہر آجائے گا کسی انہونی کے خوف نے عابس کی جان ہلکان کر رکھی تھی وہ کیسے برداشت کرتا ہنیزہ کی دورہ اس کا وجود باقاعدہ کانپ رہا تھا عابس آئی سی یو کے باہر کھڑا ہنیزہ کی سلامتی کی دعائیں کر رہا تھا جب ڈاکٹر نے اسے زندگی کی نوید سنائی

"مسٹر عابس یور وائف از آوٹ آف ڈینجر ناو ۔۔۔ہم نے ان کا زہر تو نکال دیا ہے فلحال وہ بیہوش ہیں کچھ دیر تک ہوش آجائے گا آپ کو اب ان کا زیادہ خیال رکھنا ہوگا

ڈاکٹر اپنی شائستہ انگریزی میں عابس کو سارے احوال سے آگاہ کرتا جا چکا تھا عابس نے دل میں رب کا شکر ادا کیا اور شکرانے کے نفل ادا کرنے مسجد کی طرف چلا گیا

وہ چاہتا تھا پہلے اپنے رب کا شکریہ ادا کرے جس نے اسے اس کی زندگی لوٹا دی تھی محبتیں بھی بڑی پیاری ہوتی ہیں اللہ سے جوڑ دیتی ہیں اگر محبت سچی ہو تو انسان اپنے رب کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے ۔۔۔۔ اور ہھر رب تعالی اس ۔ کی آزمائشیں لیتا ہے ۔۔۔ پر آخر میں محبت کو ہر چیز سے بڑھ کر عطا کرتا ہے ۔۔۔ دنیا کی ہر چیز فناء ہے پر محبت میں انسان کی بقاء ہے محبت میں محرم کا ساتھ بڑا خوبصورت لگتا ہے زندگی کے تمام رنگ کھلنے لگتے ہیں پر اگر محبت روٹھ جائے تو مانو سانسیں تھم سی جاتی ہیں

عابس نفل ادا کر کے روم میں آیا ہنیزہ اب بھی دوائیوں کے زیر اثر بیہوش تھی

عابس دھیمے قدموں سے چلتا اس کے قریب آبیٹھا ہنیزہ کا زرد کملایا سا چہر ہ عابس کو بے بس کر رہا تھا دل چاہا کہ ایک ہی پل میں اس کی ساری تکلیفیں خود پر لے لے جو کچھ وہ اب تک برداشت کر تی آئی تھی کیا وہ کم تھا ۔۔۔

عابس نے بیڈ پر ہی ا سکے پاس جگہ بنائی اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگا دو آنسو عابس کی آنکھ سے ٹوٹ کر بے مول ہوئے اپنی نادانی میں وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کر چکا تھا اب اسے احساس ہوا ۔۔۔۔

عابس نے ہولے سے ہنیزہ کے ماتھے پر بکھرے بال سمیٹتے شدت سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا

توجیت گئی میں ہار گیا

میں جیون۔ تجھ پر وار گیا

میری جان بچا مجھے خود مل جا

میں سارا تن من خاک کیا

میری پریت نبھا مجھے پورا کر

میرے کام بنا مجھے تومل جا

میں یر جائی تو پرچھائی

میں ہوں جھلا تو شیدائی

تیری آنکھیں میرا دیس بنیں

میں جب بھی ہنسو تیرا عکس بنے

میری رانی سن مجھے پیار جتا

میں ہارا ہوں مجھے تو مل جا

عابس کے لمس میں تڑپ تھی ازالہ تھا تکلیف تھی وہ چاہ کر بھی خود کو مضبوط نہیں کر پارہا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے سب کھو دیا تھا اپنی بیوی بچہ اپنی محبت ۔۔۔ ہنیزہ کا وجود اس کی قربت سب وہ اپنے ہاتھوں سے گنوا چکا تھا کس قدر شدت ہوتی تھی اس معصوم کی باتوں میں۔ ۔۔۔ کتنا مان ہوتا تھا اس کے لفظ ۔۔۔ عابی میں ۔۔۔۔۔ اس کے عابی نے ہی اسے ہر جگہ نے آبرو کر چھوڑا اس کے دامن کو میلا کیا ۔۔۔۔وہ ہنیزہ تو کیا خود سے بھی نظریں ملا نہیں پارہا تھا ۔۔ عابس جانتا تھا کہ ہنیزہ کو جب ہوش آئے گا تو وہ کبھی اسے اس طرح قریب نہیں آنے دیگی وہ ہاراہوا سا شخص اب ٹکڑوں میں بٹ رہا تھا عابس ایک آخری بار ہنیزہ کی خوشبو خود میں بسا لینا چاہتا تھا درد کی دوا ہنیزہ کا لمس جو ٹھہرا تھا

عابس نے اپنی پلکوں سے بہتے آنسو بے دردی سے صاف کیے اور ہنیزہ کی سوجی آنکھوں پر لب رکھتے انہیں معتبر کیا

ہنیزہ کو نیند میں بھی عابس سلطان۔ کی زرا سی قربت نے بے چین سا کر دیا تھا

عابس اس کی بے چینی دیکھتا دل سے مسکرایا ۔۔۔۔ یہ لڑکی واقعی دیوانی تھی ۔۔۔۔۔ وہ عشق کی معراجوں کو چھو رہی تھی عابس سلطان وہ ہر جائی تھا جو اس کی روح کو گھائل کر چکا تھا پر ہنیزہ میکال آج باھی کے لمس کی شدت پر اپنا آپ وار سکتی تھی عابس نے انگوٹھے کی مدد سے اس کے ہونٹوں کو جدا کیا اور بے حد نرمی سے ہنیزہ کے سرخ ہونٹوں پر اپنے عنابی لب رکھ دیے انداز اس قدر دلفریب تھا کہ ہنیزہ کے وجود میں جنبش ہونے لگی اپنی قربت پر ہنیزہ کی تیز ہوتی دھڑکنوں محسوس کرتے عابس اس کی خوشبو میں بہکنے لگا نرمی کی جگہ اب لمس میں شدت تھی جنون تھا ناجانے کس بات کا ۔۔۔ شاید ہنیزہ کے دور جانے کا خوف عابس سلطان کے حواس سلب کر چکا تھا وہ مکمل ہنیزہ کو اپنی دسترس میں لیے اسے نرمی سے اپنی سانسوں سے آازادی بخش گیا ۔۔۔۔۔

عابس ہنیزہ کے بالوں میں دھیرے سے انگلیاں چلاتا اسے محسوس کر رہا تھا جب ہنیزہ نے ہلکی سی آنکھیں وا کیں تو خود کو ہاسپیٹل میں پایا دماغ میں کچھ دیر پہلے ہوا واقعہ پوری جازبیت کے ساتھ تازہ ہوا جب وہ عابس سلطان سے آزادی حاصل کر رہی تھی ہنیزہ نے اپنی گردن پر گرم سانسیں محسوس کرکے اپنا چہرہ موڑا تو اپنے اتنے قریب عابس سلطان کو محسوس کرکے ہنیزہ کی آنکھوں میں وحشت سی ناچنے لگی۔۔۔۔ آنکھوں سے بےتہاشا آنسو بہنے لگے جو اس کی تکلیف کے گواہ تھے ہنیزہ کی بگڑتی حالت دیکھ عابس اس سے الگ ہوتا دور کھڑا ہوا

ہنیزہ اس کے دور ہونے پر سر تکیے پر گرائے اپنی سانسیں بحال کرنے لگی اس شخص کی زرا سی قربت اب ہنیزہ میکال کے لیے وبال جان بن چکی تھی ا س کی سلگتی تڑپتی آہوں پر عابس سلطان پتھر ہو گیا تھا اور آج ہنیزہ میکال نے اس سے دور جاکر بتا دیا تھا کہ جدائی موت سے زیادہ سخت ہوتی ہے

ہنیزہ کی آنکھوں سے آنسو بے مول ہو رہے تھے عابس نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہنیزہ کے آنسو صاف کرنا چاہے پر ہنیزہ نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا

"خبردار عابس سلطان مجھے ہاتھ لگایا تو ۔۔۔ میں جو تھی تم پر مرنے والی وہ تمہارے جانے کے بعد ہی مر گئی تھی اب میرا خالی وجود ہے ۔۔۔ جسے تم نوچنا چاہو گے تو بھی نہیں نوچ سکتے ۔۔۔ جانتے ہو کیوں ۔۔۔؟کیونکہ ہنیزہ عابس سلطان تمہارہ یادوں کا مزار بنا چکی ہے اپنی چاہت کو دفن کر چکی ہے ۔۔۔۔"

ہنیییی. . پلیز ایک بار میری بات تو سن لو ۔۔۔۔ جاناں میں۔بہت ۔۔۔۔ شرمندہ ہوں پلیز مجھے معاف کردو ۔۔۔

عابس کے لہجے میں بے بسی تھی اس کی بات پر ہنیزہ تمسخر انہ ہنسی ہنستی چلی گئی ۔۔۔۔۔ اس کی ہنسی میں۔چھپا قرب عابس کا دل ڈوبا رہا تھا

"کس بات کی معافی عابس سلطان کیا سمجھتے ہو مجھے ہاں کس بات کے زعم میں میری ذات کو روندا مجھ سے میرا وقار چھینا ۔۔۔ مِیں نے تو کبھی خواب نہیں دیکھے تھے عابس ۔۔۔ صرف اپنے بابا کے لیے جینے لگی تھی تمہاری بچپن سے بے جا نفرت نے میری ہر خوشی مجھ سے چھین لی ۔۔۔ جانتے ہو عابس مجھے تم سے نفرت نہیں ہو رہی ۔۔۔ بلکہ ترس آتا ہے تم جیسے شخص پر جو اپنا سب کچھ کھو کر میرے سامنے کھڑا ہے آج تم جیت گئے عابس سلطان جیت تمہاری ہوئی توڑ دیا تم نے ہنیزہ میکال۔کو اس کے وجود کو کر دیا اپنی جھوٹی محبت کا اسیر "

ہنیزہ روتے ہوئےاسے اپنے دل میں چھپا درد بتا رہی تھی ۔۔۔

عابس بے بسی کی تصویر بنا ہنیزہ کی نظروں میں چھلکتی بغاوت دیکھ رہا تھا وہ جان گیا تھا ہنیزہ میکال نے محبت نہیں عشق کیا تھا اور وہ چھوٹی سی لڑکی عابس سلطان کی نفرت کو ہرا گئی تھی

پلیز ہنی بس ایک بار ۔۔۔ مجھے معاف کردو تمہارا عابی کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑے گا ہرموڑ پر تمہارا رہے گا زندگی کی تمام خوشیاں تمہیں۔دے گا پلیززززز ہنی ۔۔۔ اپنے عابی کو تنہا مت کرو ۔۔۔ میں تمہاری دوری سے نہیں تمہاری بے اعتنائی سے مر جاوں گا ۔۔۔۔ ان دو گھنٹوں میں ناجانے کتنی بار مرا ہوں میں میری جان ۔۔۔ پلیز رحم کرو مجھ پر ۔۔۔۔

عابس کی بات سن کر ہنیزہ کی آنکھیں نم ہوئیں پر یہ آنسو عابس سلطان کے لیے نہیں تھے ہنیزہ میکال کی بربادی کے تھے وہ بھی تو کتنا تڑپی تھی کتنا پکارا تھا اسے۔۔۔۔۔ پر وہ سنگدل تھا نہیں آیا ۔۔۔ آج ملا بھی تو کس مقام پر جب وہ زندگی سے ہار گئی تھی جب وہ جینا ہی نہیں چاہتی تھی

کچھ گھنٹے پہلے۔۔۔۔

ہنیزہ جب سے مال میں عابس سے ملی تھی یہی سوچ رہی تھی کہ عابس اب ا سکا پیچھا نہیں چھوڑے گا وہ تو ابھی خود کو سمیٹ بھی نہیں پائی تھی جو وہ پھر سے بکھیرنے آگیا تھا ۔۔۔

ہنیزہ کے دل میں بس ایک ہی خوف پنپ رہا تھا کہ۔وہ عابس سلطان کے آگے ہار جائے گی وہ اسے خود میں گم کر لے گا پر اس بار وہ خود سے ہارنا نہیں۔چاہتی تھی اسی لیے ہنیزہ نے عابس سلطان سے ہمیشہ کے لیے دور جانے کا راستہ سوچا اور اس پر عمل کرتے اپنے پاس ایک چھوٹی سی شیشی رکھنے لگی جس میں موجود مواد اس کی زندگی چند منٹوں میں ختم کر سکتا تھا اور عابس سلطان سے بچنے کے لیے ہنیزہ اس ہربے کو بھی آزما چکی تھی وہ زندگی ہارنا منظور کر سکتی تھی پر عابس سلطان کی بھیک میں ملی محبت نہیں ۔۔۔۔

حال

ہنیزہ نے انتہائی تیش کے عالم میں اپنے ہاتھ میں لگی ڈرپ کی سوئی ہٹائی جو ا سکا ہاتھ زخمی کر گئی خون بھل بھل بہتا اس کا ہاتھ رنگین کر گیا ۔۔۔۔

عابس تڑپ کر ہنیزہ کی جانب بڑھا اس سے پہلے کہ عابس اسے ہاتھ لگاتا ہنیزہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب آنے سے روکا

اور خود بیڈ سے اترنے لگی ابھی ہنیزہ نے پہلا قدم ہی رکھا تھا جب لڑ کھڑا کر گرنے لگی ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہنیزہ گرتی اگلے ہی لمحے اس کا نازک پھولوں سا وجود عابس سلطان۔کے حصار میں تھا شدید ڈپریشن کی وجہ سے ہنیزہ اپنے حواس بحال نہ کر پائی اور عابس کے بازوں میں جھول گئی

میری ذات ذرّہ بے نشان

میں وہ کس طرح سے کروں بیان

جو کے گئے ہیں ستم یہاں

سنے کون میری یہ داستان

کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان

جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں

نہیں کھولی مگر میں نے زبان

یہ اکیلا پن یہ اداسیاں

میری زندگی کی ہیں ترجمان

میری ذات ذرّہ بے نشان

کبھی سونی صبح میں ڈھونڈنا

کبھی اجڑی شام کو دیکھنا

کبھی بھیگی پلکوں سے جاگنا

کبھی بیتے لمحوں کو سوچنا

مگر ایک پل ہے امید کا

ہے مجھے خدا کا جو آسرا

نہیں میں نے کوئی گلا کیا

نہ ہی میں نے دی ہیں دوہایاں

میری ذات ذرّہ بے نشان

میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے

مجھے صبر ہی کا صلہ ملے

کسی یاد ہی کی ردا ملے

کسی درد ہی کا صلہ ملے

کسی غم کی دل میں جگہ ملے

جو میرا ہے وہ مجھے آ ملے

رہے شاد یونہی میرا جہاں

کہ یقین میں بدلے میرا گمان

میری ذات ذرّہ بے نشان

عابس نے ہنیزہ کو واپس لٹایا اور جلدی سے پاس پڑے فرسٹ ایڈ باکس سے کاٹن نکال کر ہنیزہ کا زخم صاف کرنے لگا ۔۔۔۔۔ نیند میں بھی شدید تکلیف سے ہنیزہ کے منہ سے سسکیاں۔نکل رہی۔تھیں جنہیں عابس سلطان اپنے لبوں پر چن لیا ۔۔۔ اس کی معصوم سی زندگی اس کے سامنے تھی اس قدر قربناک حالت میں ۔۔۔ عابس اپنا جنون ہنیزہ پر اتارنابے سود سمجھ رہاتھا وہ لڑکی جو کل۔اس کے لمس کے لیے پاگل ہوتی تھی آج اس کی دوری بر قرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی یہی بات عابس کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی وہ بھی تو بکھرا تھا۔۔۔ اس نے بھی تو بھی تو زندگی کا سب سے بڑا نقصان اٹھایا تھا 

________________________

منگنی کے بعد عا شر بے حد مطمئن تھا ا سکے چہرے سے چھلکتی خوشی اس کے اندرونی جذبات کا پتا دے رہی تھی آج اسے رب نے سب کچھ عطا کردیا تھا ۔۔۔ نور العین کے خود کے ساتھ منسوب ہونے پر عاشر کی زندگی میں بہار آگئی تھی کچھ دیر پہلے وہ جس قدر پریشان تھا اب اتنا ہی پرسکون نظر آرہا تھا اس کی نظریں بھٹک بھٹک کر نورالعین کے نازک سراپے پر اٹک رہی تھیں جو اس وقت گولڈن فراک جس پر سلور کڑھائی کی گئی تھی مہرون دوپٹہ اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی اس نے زیادی سنگھار نہ کیا تھا نورالعین کو جب پتا چلا تھا کہ اس کے رشتے کی بات عاشر سلطان سے چل رہی ہے پہلے وہ کافی ڈپریس تھء پر عاشر کا محفوظ حصار اس کی اپنوں کے لیے فکر نے نورالعین کا فیصلہ اس کے حق میں کرایا ۔۔۔۔

وہ دونوں اس نئے رشتے پر خوش تھے نور العین خود پر جمی عاشر کی نظروں کی تپش سے بے حد گھبرا رہی تھی وہ تو اسے کافی شریف لگتا تھا پر یہاں تو ایسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا جیسے اور کوئی کام ہی نا ہو ۔۔۔۔

نور العین اس کی نظروں سے جھنجھلاتی عاشر کو گھورنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی جو نورالعین کو اپنی طرف متوجہ پاکر آنکھ ونک کرکے اسے شاکڈ کر گیا ۔۔۔۔.

نور العین جہاں اس کی حرکت پر شاکڈ تھی وہیں اس کے ہ اگلے اشارے پر چہرہ تپ کر بھانپ چھوڑنے لگا اس نے اپنی ماما سے گھبراہٹ کا بہانا کیا اور بھاگ کر روم میں چلی آئی ۔۔۔۔۔

عاشر اس کے اس طرح بھاگنے پر بامشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگا اس کی تو جیسے دل کی مراد بر آئی تھی اپنی محبت کو پالینے کا احساس اسے سر شار کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا وہ خوش تھا آج دل سے اور اپنی ماں کے فیصلے پر مطمئن بھی جو اس کے بنا کہے اس کے دل تک رسائی حاصل کر گئیں تھیں شاید وہ بھی عاشر کی نظروں میں نورالعین کے لیے پسندیدگی بھانپ چکی تھیں ۔۔۔۔۔ آخر ماں تھیں کیسے بیٹے کی محبت سے انجان رہتیں ۔۔۔۔

_______،،،_______،،،،،

میکال صاحب دو دن سے ہنیزہ کا فون ٹرائی کر رہے تھے پر نہیں لگ رہا تھا آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہنیزہ ان کی کال نہ پک کرے یہی بات میکال صاحب کو پریشانی میں مبتلا کر رہی تھیں وہ ساحر کو بھی کافی مرتبہ کال کر چکے تھے اس کا نمبر بھی بند آرہاتھا میکال صاحب بیچینی کے عالم میں ہال میں ٹہلتے ہنیزہ کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے جن انہیں اپنے فون کی بپ بجتی سنائی دی

میکال صاحب نے نمبر دیکھا تو ہنیزہ کی کال تھی انہوں نے نہال ہوتے فورا کال پک کی پر دوسری طرف جو خبر انہیں ملی ان کو لگا جیسے اب جسم ساتھ چھوڑ دیگا دوسری طرف عابس کی آواز فون کے سپیکر سے گونجی جو میکال صاحب کو ہنیزہ کی خیریت بتا رہا تھا ہنیزہ کی بابت جان کر جہاں وہ پرسکون لوئے تھے وہیں عابس کی ہنیزہ کے پاس موجودگی کسی طوفان کی علامت تھی ا س بات سے ہی وہ ڈرتے تھے کہ ان کی معصوم سی گڑیا عابس سلطان کے ہاتھ نہ آئے جو زخم وہ دے چکا ہے کیا کم تھے

میکال صاحب نے اس کی بات ان سنی کی اور کال کٹ کر کت فوراا اپنے تعلقات والوں سے رابطہ کیا وہ کسی بھی طرح ہنیزہ تک ہہنچ کر عابس کو ہمیشہ کے لیے اس سے دور کرنا چاہتے تھے کچھ ہی دیر میں ان کی ٹکٹ بک ہو چکی تھی

ان کی حالت بپھرے ہوئے شیر کی مانند تھی جس سے اس کی بیٹی کو ایک بار پھر عابس سلطان نے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تھی پہلے بھی بس وہ ہنیزہ کی چاہت کی وجہ سے خاموش تھے پر اب یہ نا ممکن تھا وہ کسی صورت ہنیزہ کو مزید عابس کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتے تھے ایک باپ تھے اپنی بیٹی کو کب تک برباد ہوتا دیکھ سکتے تھے انہوں نے اپنی زندگی بڑی صاف ستھری گزاری تھی اب جو کچھ ہورہا تھا بہت ازیت ناک تھا ان کے لیے وہ تو خود غموں کے مارے تھے اور اب بیٹی کو بھی دگنی ازیت سے نہیں بچا پائے تھے چاہ کر بھی وہ کچھ نہیں کر پائے تھے ان کی نظروں کے سامنے عابس سلطان ان کی ہستی بستی چھوٹی سی دنیا کو تباہ کر گیا تھا ان کی عزت اپنے پیروں تلے روند چکا تھا ۔۔۔ اور اب بھی وہ امید کر رہا تھا کل ہنیزہ اسے معاف کردے اس کے ساتھ رہے اب کسی بھی قیمت پر یہ نہیں ممکن تھا ۔۔۔

جس حالت میں وہ ہنیزہ کو دیکھ چکے تھے باقابل برداشت تھی ایک باپ کے لیے ہنیزہ تو موت کے منہ سے واپس آئی تھی ان کی زندگی کا نور تھی ہنیزہ میکال پر اس کی اپنی زندگی میں عابس سلطان سیاہی پھیلا چکا تھا اپنا انتقام پورا کرکے وہ ہنیزہ میکال کو ہمیشہ کے لیے خود سے دور کر گیا تھا اپنے ہاتھوں سے خود کو برباد کر گیا تھا

میکال صاحب کچھ دیر پہلے ہی ہاسپیٹل پہنچ چکے تھے وہ ہنیزہ کے روم میں آئے اس وقت عابس روم میں موجود نہیں تھا وہ اپنی بچی کی اس قدر زرد پڑتی رنگت پر دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے بے مول ہوئے ان کی شہزادی جو ہر وقت اپنے باپ کی آنکھ کا تارا بنی رہتی تھی آج کس حال میں جاپہنچی تھی وہ بھی ایک ایسے شخص کی محبت میں جس میں خسارہ صرف "ہنیزہ میکال " کو ہوا تھا

میکال صاحب پہلے ہی سارا انتظام کر کے آئے تھےانہوں نے سائیڈ ٹیبل پر ایک پیغام عابس کے لیے چھوڑا اور اس کے آنے سے پہلے ہی میکال صاحب ہنیزہ کے بیہوش وجود کو باہوں میں بھرے وہاں سے جا چکے تھے عابس سلطان کو نئے پچھتاوں میں گھرا چھوڑ کر ۔۔۔۔۔

محبتوں سے کھیلنے والوں کا بسیرا دل کی زمین کبھی نہیں ہوتی وہ اپنے لیے ایسے بنجر راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ہجر کے کانٹے ہر لمحہ ان کا وجود لہولہان کرتے ہیں

عابس دوائیاں لیکر واپس آیا تو ہنیزہ کو بیڈ پر نا کر وحشت زدہ سا ہر جگہ اسے تلاش کرنے لگا ۔۔۔۔ عابس پورا روم دیکھ چکا تھا پر ہنیزہ اسے کہیں نہ دکھی

تبھی اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے ۔۔۔پیپر پر پڑی عابس نے جھپٹ کر وہ پیپر اٹھایا جوں جوں عابس اس لیٹر میں لکھے الفاظ پڑھ رہا تھا عابس کے ماتھے کی رگیں پھولنے لگیں تھیں

"عابس سلطان میری بیٹی میرے پاس ہے اس کا وارث میں ہوں میری محبت نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا ہے اب میری بیٹی کو آزادی دو تاکہ وہ کھل کے سانس لے سکے میں اپنی بیٹی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں تو اب اگر مجھے تم سے دور رکھنے کے لیے ساری دنیا کی طاقت بھی استعمال کرنی پڑی تو میں گریز نہیں کروں گا ہنیزہ کو ڈھونڈنے کی کوشش مت کرنا کچھ دنوں تک طلاق کے کاغذات مل جائینگےتمہیں دعا کرتاہوں تم کبھی اپنی شکل نا دکھاو"

میکال صاحب کے لفظ ۔۔۔ لفظ میں اس قدر مضبوطی تھی کہ ایک پل کو عابس کا دل بھی کانپ گیا تھا تو کیا اب وہ اپنی ہنی کو کبھی نہیں دیکھ سکے گا پر ان کی طلاق والی بات پر بے حد تیش تھا وہ کیسے اتنی آسانی سے ہنیزہ کو اس سے دور کر سکتے تھے ہمیشہ کے لیے

عابس سلطان کو بڑی بری طرح شکست ہوئی تھی وہ بھی اپنی انا کے ہاتھوں ۔۔۔ میں اتنا بدقسمت ہوں کہ آہ

ہر وہ چیز چھین گئی جس سے میں نے محبت کی تھی

میں اپنی انا کا شہزادہ

وہ پر اخلاق سی شہزادی

میری محبت پہ جان واری

میرے عشق پہ ہے سوالی

میں جیت جاوں

وہ مات کھائے

لٹے دل کا سوگ منائے

عابس بے بس سا اپنے بالوں کو ہاتھوں میں جکڑے کھڑا تھا دل و دماغ میں جھکڑ سے چل رہے تھے وہ ہنیزہ کو ایک بار پھر سے کھو چکا تھا اس کی زندگی پھر سے ادھوری ہو گئی تھی ۔۔۔ ابھی کچھ لمحوں پہلے وہ اس کی خوشبو سے خود کو معطر کر رہا تھا اور اب اس کی حالت قابل رحم لگ رہی تھی عابس سلطان کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کی سزا شروع ہو چکی ہے

___,,,,_______

گھر والے عاشر اور نور کی شادی طے کر چکے تھے شادی نور کے پیپرز کے بعد رکھی گئی آج نور کا آخری پیپر تھا عاشر نور کو پک کرنے آیا تو نور کو سامنے ہی ڈرائیور کے انتظار میں کھڑے پایا ۔۔۔۔۔ نور اس وقت عبائے میں ملبوس خوبصورتی سے حجاب کیے ہوئے تھی عاشر اسے دیکھتے ہی اس کی جانب بڑھا ۔۔۔۔. اور سلام کیا

السلام علیکم ! ہونے والی زوجہ محترمہ مزاج تو بخیر ہیں نا آپ کے عاشر اس کی طرف ہلکا سا جھکتے شرارتی انداز میں بولا

نور تو اس کی اچانک آمد پر حیران تھی ۔۔۔۔ اور اوپر سے اس کا معنی خیز انداز نور کو سہمنے پر مجبور کردیتا

نور اس کی بے باکی پر جلتی کڑھتی جلدی سی گاڑی میں آبیٹھی اتنے مہینوں میں وہ عاشر. کی فطرت سے بخوبی واقف ہو گئی تھی عاشر ایک مکمل شخص تھا جس کی سنگت نور کو فخر محسوس کرانے لگی تھی اس کا دل شیشے کی طرح شفاف تھا جہاں نورالعین کو صرف اپنا عکس دکھائی دیتا تھا وہ خوش تھی اور رب کی شکر گزار بھی جس نے اسے بہتر فیصلہ لینے میں مدد کی ۔۔۔۔۔

دوسری طرف عاشر تو اپنی طبیعت کے بر خلاف نور کو سٹپٹا کر رکھ دیتا اس کے معنی خیز جملوں پر نور کے چہرے پر چھائے چاہت کے رنگ اسے دیوانہ کرتے تھے

اسی لیے وہ جان بوجھ کر اب نور کو شادی سے پہلے ہی اپنی محبتوں کے قصے سناتا مسرور ہوتا تھا

نور العین کے کار میان بیٹھنے پر عاشر خود بھی دوسری طرف آبیٹھا ۔۔۔۔

نورالعین خفگی جتانے کو اس سے منہ موڑ گئی ۔۔۔۔۔ عاشر اس کی معصومانہ حرکت پر کھل کے مسکرایا

نور نے چور نظروں سے اس کا ہنسنا محسوس کیا اور غصے سے گھورنے لگی

"کیا یار تم تو ایسے شرماتی ہو کہ میں تمہیں ۔۔۔ کھا جاوں گا ۔۔۔ تم سے شرارتیں کرنا حق ہے میرا اب کیا کسی پڑوسن سے جاکر کروں کہ بہن جی مجھے آپ سے محبت ہے میری شادی جس سے ہونے لگی ہے وہ ۔۔۔ مجھے بھائی بنانا چاہتی ہے ۔۔۔ یہی چاہتی ہیں نا آپ محترمہ "

عاشر آج فل موڈ میں نور العین کو ستانے کا پلین کرکے آیا تھا اس کا ارادہ نورالعین کو تپانے کا تھا اور وہ کام کر گیا تھا

نور جو کب سے خفگی جتا رہی تھی عاشر کی پڑوسن والی بات پر چیخ اٹھی

"خبردار عاشر سلطان جو میرے علاوہ کسی دوسری لڑکی کو دیکھا آنکھوں سے اندھا کردوں گی آپ کو سنا آپ نے اور اس عورت کو بھی جو آپ کو دیکھے بلکہ اس کے بال نوچ لونگی پھر گنجی ہو جائے گی نا کرنا اس سے محبت "

عاشر کی باتوں پر نور العین اپنا کنٹرول کھوتی پاگلوں کی طرح اسے بکس مارتی اپنی مسقتبل کی پلاننگ بتانے لگی

جسے پہلے تو عاشر آنکھیں پھاڑے حیرانی سے سنتا رہا اور ہھر اس کی جیلیس سمجھ آنے پر اس کا چھت پھاڑ قہقہ گاڑی میں گونج اٹھا

اس کی گوہر افشانیوں پر عاشر کو اپنی ہنسی روکنا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا

نورالعین کو بھی اس کے ہنسنے پر اپنی بے اختیاری کا احساس ہوا اس نے جی بھر کے خود کو کوسا آخر کیا ضرورت تھی اس بے باک شخص کے سامنے اپنا آپ یوں ظاہر کرنے کی اسے رونا آنے لگا

عاشر اسے رونے کے لیے تیار دیکھ اپنے لب دانتوں میں دبائے خود پر کنٹرول کرتا گاڑی آگے بڑھا گیا پورے راستے نور العین کی سوں سوں جاری رہی ۔۔۔۔ آخر عاشر تنگ آکر بول پڑا

یار میری ماں یہ دیکھو۔۔۔ میرے جڑے ہاتھ کسی نے ایسے روتے ہوئے دیکھا نا تمہیں تو بڑی کٹ پڑے گی مجھے ۔۔۔۔۔ بس کرو یہ ٹینکر رخصتی کے لیے سنبھال لو

عاشر نے باقاعدہ ہاتھ جوڑتے اس کی منت کی نورالعین بنا کچھ بولے کھڑکی کی جانب رخ موڑ گئی ۔۔۔۔۔

_______________،

عابس اپنے فلیٹ میں بیٹھا ہنیزہ کے خیالوں میں گم تھا آج ہنیزہ کو اس سے دور ہوئے چار ماہ ہونے کو آئے تھے ان چار ماہ میں عابس سلطان کا جسم ڈھانچہ یو چکا تھا پاوں پر فریکچر کی وجہ سے پلاسٹر چڑھا ہوا تھا وہ بے بس تھا اللہ پاک نے اسے ایسی آزمائش میں ڈال دیا تھا جہاں سے عابس سلطان چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا

شرم و حیا سے جھکے چہرے کو اس کے آخری جملے سے جھٹکا لگا تھا پہلی ہی رات اس شخص کے پاس اتنی روکھی پھیکی باتیں اس نے نگاہ اٹھا کر سامنے بیٹھے سرد مہر سے شخص کو دیکھا اس کی بے تاثر آنکھیں بھی سرد تھی اس نے نگاہ اٹھا کر اسے دوبارہ دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی اس نے جتنا اس رات کے بارے میں سنا تھا وہ سب کچھ جھوٹ تھا بکواس تھا

پوری رات اس نے اس سردمہر شخص کی قربت میں انگاروں پر لوٹتا ہوئے گزاری

اس نے رنگوں کی برسات کا سنا تھا پر کوئی رنگ اس کی آنکھوں میں نہ اتر سکا نہ ہی چاندنی وہ خوشبو کا کوئی جھونکا گزرا اس نے خود کو ہی ملامت کی آخر اس نے خوابوں کو سجایا ہی کیوں تھا آج کی رات میں کچھ بھی ایسا نہ تھا جس کے تصور میں اس کے نازک سے وجود کو گدگدایا ہو اپنے سامنے بیٹھے اپنے محرم کی سردمہری اسے اپنے اندر تک اترتی ہوئی محسوس ہوئی وہ سرد نہیں تھا وہ ایک چٹان تھا اسے توڑنا جس پر خراش ڈالنا نازک سی لڑکی کے بس سے باہر تھا

نورالعین اور عاشر ٹوسیٹر صوفے پر براجمان تھے جب ملازم وہاں ایک خوبصورت سا باؤل لائے جس میں دودھ کے ساتھ ہی گلاب کی پنکھڑیاں بھی موجود تھیں ۔۔۔عاشر کی دور کی کزن نے انگھوٹی باؤل میں ڈالی اور انہیں ڈھونڈنے کا کہا۔۔۔ عاشر نے نور کی طرف دیکھا جو شرم کے مارے اسے دیکھ ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔

"نور"

عاشر نے سرگوشی بھری آواز میں نور کا نام لیا جس پر نور نے عاشر کی طرف دیکھا جو اسے ایک آنکھ ونک کر رہا تھا ۔۔۔ جس پر نور نے ہڑبڑا کر سب کی طرف دیکھا جو ان کی جانب متوجہ نہیں تھے ۔۔۔

چلیں دیکھتے ہیں آپ میں سے کون جیتتا ہے ۔۔۔۔

ایک کزن نے پرجوش لہجے میں کہا ۔۔۔

دونوں نے باؤل میں ہاتھ ڈالا اور انگھوٹی ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے ۔۔۔اچانک ہی نور کو محسوس ہوا کہ عاشر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہے ۔۔۔ جس پر نور نے ہلکی سی مزہمت کی جو بے کار ثابت ہوئی ۔۔۔

نور نے اس کی چالاکی سمجھتے عاشر کے ہاتھ پر باریکی سے چٹکی کاٹی جس پر عاشر کو کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔ نور آنکھوں سے ہی اسے التجا کرنے لگی پر جب کوئی فائدہ نا ہوا تو آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے ۔۔۔۔۔آخر کار عاشر نے نور کو تنگ کرنا بند کیا کیوں کہ نور کی شکل رونے والی ہو چکی تھی۔۔۔

کیا ہوا بھابھی ابھی تک ملا نہیں کیا۔۔

عابس رات کے اندھیرے میں فلیٹ کا دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا یہاں آنے سے ہہلے ہی وہ آج میکال صاحب کی ساری روٹین کے بارے میں پتا کر چکا تھا ۔۔۔ ہنیزہ میکال صاحب کے لیے ہمیشہ کیز ڈور کے نیچے ہی رکھتی تھی جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا ۔۔۔عابس دروازہ لاک دیکھ کھڑکی سے فلیٹ میں کود گیاجسے لاک لگانا بھول جاتی ہے کھڑکی کے کھلنے کی آوا پر ہنیزہ اور ڈر کر لاونج میں پڑے صوفے پہ سکڑ کر بیٹھ جاتی ہے ساتھ ساتھ رونے کا شغل بھی جاری تھا ہنیزہ نے اپنے ارس گرد جانی پہنچانی کلون کی خوشبو محسوس کی تو سانس جیسے سینے میں اٹکنے لگی تھی ہنیزہ فلیٹ میں کسی موجودگی محسوس کر چکی تھی جو بڑی فرصت سے اسے دیوانوں کی طرح دیکھ رہا ہے

عابس کے اندر آتے ہی اسے سسکیوں کی آواز سنائی دیتی ہے وہ جانتا تھا ہنیزہ اندھیرے سے کس قدر خوفزدہ ہوتی ہے وہ ا صوفے کے پاس آتا اسے جیسے کسی احساس سے روشناس کرانا چاہتا تھا جو کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے بیٹھی ہوتی ہے کہ ابھی روشنی ہو جائے گی عابس کا روم روم اپنی محبت کو دیکھتا رب کا شکر گزار تھا اس میں اپنی ہنی کو دیکھنے سے ایک نئی طاقت سی سرائیت کر گئی تھی اسے دیکھتا وہ پورے ایک سال کی تشنگی مٹانا چاہتا تھا

اپنے پاس کسی وجود کی موجودگی محسوس کرتے وہ چینخنے لگتی ہے کہ عابس اس کے چیخنے پہ ہڑبڑاتا ہوا اس کو کھینچ کر کھڑا کرتا اپنے ساتھ لگا تا اس کی آواز حلق میں ہی دبا دیتا ہے لیکن ہنیزہ ہنوز چیخنے میں مصروف تھی اسے لگا کہ کوئی اسے مارنے آیا ہے جیسے اس کے ساتھ اپارٹمنٹ میں رہتے ایک لڑکی کا قتل ہوا ویسے ہی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔

عابس نے جونہی اپنا رخ دروازے کی جانب کیا تو نظریں سامنے نظر آتے منظر پر ساکت سی ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔جہاں ہنیزہ پور پور سجی اس کے دل کا قرار لوٹ گئی تھی

ہنیزہ مہرون ساڑھی بلیک بلاوز جس کے فل سلیوز بازو ۔۔۔۔۔کمر پر بندھا کمر بند ۔۔۔۔ سموکی آئیز ریڈ بلڈ لپسٹک سے سجے نازک سے ہونٹ ہنیزہ اس وقت کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی

عابس بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔روم کے معنی خیز ماحول میں صرف عابس اور ہنیزہ کی سانسیں گونج رہی تھیں تبھی میوزک سسٹم سے گانا پلے ہوا اور ہنیزہ دھیمے قدم اٹھاتی عابس کی جانب چلی آئی ۔۔۔

لگ جا گلے کہ پھر یہ ہنسی رات ہو نا ہو

شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نا ہو

لگ جا گلے۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنیزہ عابس کے گلے میں بازو ڈالے دھیمے سے گنگنانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔عابس نے بے ساختہ ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپٹائے۔۔۔

ہم کو ملی ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے

جی بھر کے دیکھ لیجیے ہم کو قریب سے

پھر آپ کے نصیب میں یہ رات ہو ناہو۔۔۔

شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نا ہو۔۔

ہنیزہ کی آنکھوں میں آنسو تھے عابس نے اس کی آنکھوں پر بوسہ دیتے جیسے اپنے دیے درد کا ازالہ کرنا چاہا تھا۔۔۔ عابس کے لب بڑی بے چینی سے ہنیزہ کی آنکھوں میں آتے آنسو جزب جر رہے تھے ۔۔۔۔ہنیزہ کی سانس سینے میں ہی اٹکی تھی جب عابس ہاتھ اپنی پشت پر محسوس ہوا ۔۔۔۔۔عابس کے ہر لمس میں شدت تھی اس کے ہر لمس کی شدت سے ااس کی تڑپ کا اندازہ ہو رہاتھا۔۔۔۔


ختم شد

🎈🎈🎈🎈🎈

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Shhidat E Lams Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Shhidat E Lams   written by Faiza Sheikh . Shiddat E Lams by Faiza Sheikh  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages