Tera Mera Rishta Purana By Faryal Khan Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Tera Mera Rishta Purana By Faryal Khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Tera Mera Rishta Purana
Writer Name: Faryal Khan
Category: Complete Novel
آدھی رات کے وقت جہاں باہر آسمان سے زور و شور سے پانی برس رہا تھا وہیں ہسپتال کے اندر، لیبر روم کے باہر ایک وجیہہ مرد اضطرابی عالم میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا جہاں رات کا وقت ہونے کے باعث ہسپتال میں چہل پہل نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس کے سنجیدہ چہرے پر چھائے خوف کے بادل ان بادلوں سے بھی زیادہ گہرے تھے جو باہر زور و شور سے برس رہے تھے۔
وہ بھلا کیسے پریشان نہ ہوتا؟ کیونکہ اندر اس کی عزیز جان بیوی اس کی اولاد کو دنیا میں لانے کیلئے درد جو جھیل رہی تھی۔ وہ اس کیلئے بس دل سے دعا ہی کر سکتا تھا اور مسلسل کر رہا تھا۔
اسے لیبر روم میں لے کر گئے کافی دیر گزر گئی تھی۔ اس بیچ صرف ایک بار نرس باہر آئی تھی اور یہ کہہ کر اس کی پریشانی بڑھا گئی تھی کہ کیس بہت سیریس ہے، آپ دعا کریں۔ تب سے اب تک دوبارہ کوئی باہر نہیں آیا تھا جس سے اس کی فکر میں اضافہ ہونے لگا۔
تھوڑی دیر اور گزرنے کے بعد بلآخر درمیانی عمر کی ایک لیڈی ڈاکٹر خود ہی باہر آئیں جنہیں دیکھ کر وہ فوراً ان کی جانب لپکا۔
”کیا ہوا ڈاکٹر؟ میری وائف ٹھیک ہے نا!“ اس نے بےتابی سے جاننا چاہا۔
”بیٹا ہوا ہے۔“ انہوں نے اس کے سوال کے برعکس سنجیدہ جواب دیا جس میں کوئی خوشی نہیں تھی۔
”مگر وہ مردہ پیدا ہوا ہے۔“ انہوں نے اسی انداز میں مزید بتاتے ہوئے بات مکمل کی تو اسے لگا کہ بادل باہر نہیں اس کے سر پر گرجا ہے۔ جس ننھی جان کو گود میں لینے کیلئے وہ لوگ کب سے بےتاب تھے وہ دنیا میں آنے سے قبل ہی رخصت ہوچکی تھی۔
”اور۔۔۔اور میری وائف کیسی ہے؟“ اس نے ہمت کرکے بمشکل پوچھا۔
”وہ ٹھیک ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔“ وہ بتاتے ہوئے لمحے بھر کو رکیں۔
”لیکن اب وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔“ ان کی بات مکمل ہوتے ہی باہر بہت زور سے بجلی چمکی، بالکل ویسی ہی بجلی جو اس کے دل پر گری تھی اور وہ ساکت رہ گیا تھا۔
*****************************************
مشرقی پہاڑوں کے عقب سے چمکتا ہوا پیلا سورج نکل آیا تھا جس کی روشنی میں پرندے پر پھیلائے رزق کی تلاش میں نکلنے لگے تھے۔
متوازن قد کاٹھ کی نوجوان ازلفہ (Azlfa) اس وقت اپنے کمرے کی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی غالباً کہیں جانے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔ اس نے بلیک عبایا پہن کر بلیک رنگ کا اسکارف ہی سر پر باندھا اور اپنی دائیں کلائی پر گھڑی پہننے لگی۔
اس نے بیڈ پر رکھا اپنا براؤن ہینڈ بیگ اٹھا کر دائیں کندھے پر لیا اور بیگ کے ساتھ ہی رکھا رجسٹر بھی اٹھا کر دائیں ہاتھ سے پکڑ کر سینے پر لگائے وہ کمرے سے باہر آگئی۔
یہ دو سو گز کا ایک درمیانہ سا گھر تھا جو سنگل اسٹوری بنا ہوا تھا اور اوپر بڑی کھلی چھت تھی۔ گھر میں ضرورت کا سارا سامان بڑے سلیقے سے موجود تھا جو یہ بتا رہا تھا کہ یہاں کے مکینوں کا تعلق اس کلاس سے ہے جن کے پاس نہ پیسے کی بہت فروانی ہوتی ہے اور نہ بہت تنگی، بلکہ یہ لوگ ایک متوازن طرز پر زندگی گزارتے ہیں، جسے عرف عام میں مڈل کلاس کہتے ہیں۔
بڑا سا لاؤنج عبور کرتے ہوئے وہ ایک کمرے میں آگئی جہاں ایک میز کے گرد لگی چھے کرسیاں بتا رہی تھیں کہ یہ ڈائینگ روم ہے۔ سنگل کرسی پر پچاس سالہ صحت مند رضوان صاحب اور ان کے برابر والی کرسی پر ان ہی کی ہم عمر ان کی زوجہ نعیمہ پہلے ہی موجود تھیں۔
جیسے ہی ازلفہ ٹیبل کے قریب آئی تو لگ بھگ اس کی ہم عمر بہن ازکیٰ بھی پیچھے سے روم میں آگئی۔
”یہ لیجئے پراٹھے تیار ہیں۔“ ازکیٰ نے ہاٹ پاٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے گویا اعلان کیا اور خود بھی ازلفہ کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی جو پہلے ہی براجمان ہوچکی تھی۔
”ارے واہ! آج ناشتہ ازکیٰ نے بنایا ہے!“ رضوان نے اخبار تہہ کرتے ہوئے خوشگوار حیرت ظاہر کی۔
”جی نہیں، اس نے صرف پراٹھے سینکے ہیں، باقی سارا کام ازلفہ کرکے اسے دے کر عبایا پہننے گئی تھی۔“ ازکیٰ کے کچھ کہنے سے قبل ہی نعیمہ بول پڑیں جو کیتلی سے کپوں میں چائے نکال رہی تھیں۔
”ٹھیک ہے آپی نے سب کرکے دیا مگر سینکنے میں بھی محنت لگتی ہے امی!“ اس نے نروٹھے پن سے جتانا چاہا۔
”ہاں ہاں ٹھیک ہے ساری محنت تم نے ہی کی ہے، اب ذرا ہاٹ پاٹ ادھر دے دو، پہلے ہی مجھے دیر ہو رہی ہے اسکول کیلئے۔“ ازلفہ نے بات بحث بننے سے قبل ہی مداخلت کی تو اس نے ہاٹ پاٹ پکڑا دیا۔
”آرام سے ناشتہ کرلو بیٹا، میں آفس جاتے ہوئے تمھیں بھی گاڑی میں اسکول چھوڑ دوں گا۔“ رضوان نے ناشتے کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے اطمینان دلایا۔
”نہیں ابو! یہ سامنے والے سیکٹر میں ہی تو جانا ہے، میں چلی جاؤں گی جیسے روز جاتی ہوں۔“ اس نے سہولت سے انکار کیا۔
”ہاں تو آج میں چھوڑ دوں گا۔“ انہوں نے نرمی سے اصرار کیا تو اس نے بات مان لی۔
”تم یونیورسٹی جاؤ گی آج ازکیٰ؟“ نعیمہ نے اس کا ارادہ پوچھا جو انہیں ”نہ“ ہی لگ رہا تھا۔
”نہیں امی، آج موڈ نہیں ہے، میری دوست بھی نہیں آرہی، اس کے بنا میں بور ہوجاتی ہوں۔“ اس نے ناشتہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، تو پھر ایسا کرنا کہ ناشتے کے بعد فریج سے گوشت نکال کر بھیگو دو اور آج تم اچار گوشت بنا لو۔“ انہوں نے ناشتہ کرتے ہوئے کام ذمہ لگایا تو وہ چونک گئی۔
”ویسے میں سوچ رہی تھی کہ اگر دوست نہیں آرہی تو کیا ہوا؟ میں اپنی پڑھائی کا حرج کیوں کروں؟ اسی لئے مجھے یونیورسٹی چلے جانا چاہئے۔“ اس نے کام سے جان چھڑانے کیلئے اگلے ہی پل کمال مہارت بیان بدلا تو نعیمہ اسے گھور کر رہ گئیں جب کہ ازلفہ اور رضوان ناشتے میں مگن محض مسکرادیے۔
یہ چار نفوس ہی اس گھر کے کل مکین تھے۔ رضوان، نعیمہ اور ان کی دونوں بیٹیاں۔ بڑی ازلفہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وقت گزاری کیلئے اپنے علاقے میں ہی ٹیچنگ کر رہی تھی اور اس سے دو سال چھوٹی ازکی بھی یونیورسٹی کے آخر سال میں تھی۔ یوں یہ چھوٹی سی فیملی ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہی تھی۔
*****************************************
صبح کی اجلی روشنی میں کراچی کے مشہور و معروف علاقے صدر میں، امپریس مارکیٹ کے نزدیک بنی بلند و بالا عمارت فنِ تعمیرات کا ایسا منہ بولتا ثبوت تھی کہ دیکھنے والا پل بھر کو مبہوت ہوجاتا تھا اور یہ عمارت تھی
Saint Patrick's Cathedral Church
جو کہ کرسچن برادری کی عبادت گاہ تھی اور تقسیم سے قبل ہی اس کی بنیاد رکھی گئی تھی جب کراچی ممبئی کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
گرے جینز پر سفید شرٹ پہنے ایک خوبرو نوجوان چرچ کی خوبصورت سفید سنگ مرمر کی سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا اور اسی متوازن رفتار سے چلتا وہ چرچ کے اندر داخل ہوگیا جو اس وقت خالی ہی تھا بس فادر وہاں موجود اپنی پرے میں مصروف تھے۔
یہ ایک نہایت وسیع و عریض ہال تھا جس کے دونوں طرف لائن سے کئی لکڑی کی بینچز لگی ہوئی تھیں اور ان کے درمیان بنا لمبا سا راستہ سیدھا سامنے آرہا تھا جہاں بقول مسیح برادری عیسیٰ علیہ سلام کا مجسمہ موجود تھا۔
وہ تھوڑا آگے آکر اس کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس نے پل بھر کو آنکھیں بند کرکے کھولیں اور پھر دایاں ہاتھ پہلے ماتھے پر لے جا کر سینے پر لایا اور پھر دائیں و بائیں کندھے چھو کر ہاتھ واپس نیچے کرلیا جو کہ کرسچنز کا پرے کے بعد کراس بنانے کا مخصوص طریقہ تھا۔
اس نے ہمیشہ کی طرح کوئی خاص پرے نہیں کی تھی۔ بس یہاں آکر چند لمحے یوں ہی کھڑے ہوکے وہ واپس ہو لیا کرتا تھا جیسے ابھی اس نے واپس باہر کی جانب قدم بڑھا دیے تھے۔ مگر اسے کئی بار دیکھ چکے فادر کے ذہن میں پھر سے وہ ہی سوال اٹھا کہ اگر اسے پرے میں دلچسپی نہیں تھی تو وہ یہاں آتا ہی کیوں تھا؟
*****************************************
ازلفہ اس وقت اسکول میں، اپنی کلاس میں موجود ٹیبل کے گرد کرسی پر بیٹھی رجسٹر میں بچوں کی حاضری لگا رہی تھی کہ تب ہی اسے بلاوا آگیا۔
”مس ازلفہ! آپ کو میڈیم اپنے آفس میں بلا رہی ہیں۔“ پیون نے مہذب انداز میں اطلاع دی۔
”ابھی آئی!“ اس نے مثبت جواب دیا تو وہ واپس چلا گیا۔
”کلاس! میں میڈم کے آفس سے آرہی ہوں تب تک آپ سب اپنے ہوم ورکس میری ٹیبل پر جمع کروا دیں، میں آکر چیک کرتی ہوں۔“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے ہدایت جاری کی جس کا سب نے یک زبان ”یس مس“ کہہ کر جواب دیا تو وہ کلاس سے باہر چلی گئی۔
”مے آئی کم ان میم؟“ اس نے دروازے پر رک کر اجازت چاہی۔
”یس یس کم ان!“ اجازت ملنے پر وہ اندر آگئی۔
میڈیم کے سامنے کرسی پر ایک درمیانی عمر کی عورت موجود تھی اور اس کے ساتھ ایک نوں دس سال کا بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ازلفہ میڈیم کی ٹیبل کے قریب آگئی۔
”مس ازلفہ! یہ مسز شہلا انصاری ہیں اور یہ ان کا بیٹا ہے آيان انصاری، یہ لوگ ریسینٹلی اس ایریا میں شفٹ ہوئے ہیں۔“ انہوں نے تعارف کرایا تو ازلفہ نے انہیں سلام کیا۔
”یہ اپنے بیٹے کا ایڈمیشن ہمارے اسکول میں ہی کلاس ون یعنی آپ کی کلاس میں کروانا چاہتی ہیں، تو آپ بچے کو لے جائیں کلاس میں اور ایڈمیشن ٹیسٹ لے لیں۔“ انہوں نے پیشہ وارانہ انداز میں ہدایت دی۔
”لیکن میڈم ایڈمیشن تو کلوز ہوگئے ہیں اور اب تو میں نے سب بچوں کا کورس بھی اسٹارٹ کردیا ہے۔“ اس نے مہذب انداز میں نقطہ اٹھایا۔
”آپ فکر نہ کریں، میرا بیٹا بہت سمجھدار ہے، یہ کوور کرلے گا۔“ اب کی بار خاتون متوازن انداز میں خود ہی بول پڑیں تو ازلفہ نے بےساختہ ان کے پہلو میں بیٹھے معصوم سے بچے کو دیکھا جو بالکل نارمل بیٹھا تھا۔
”ٹھیک ہے، آؤ بیٹا میرے ساتھ۔“ ازلفہ کے کہنے پر بچے نے اپنی ماں کی جانب دیکھا۔ ماں نے اسے اشارہ کیا کہ جاؤ تو وہ کرسی سے کھڑا ہوگیا جس کا ہاتھ تھام کر ازلفہ اسے کلاس میں لے گئی۔
*****************************************
صدر کی امپریس مارکیٹ میں حسب معمول دن چڑھے کاروباری سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں۔
گرے جینز پر وائٹ شرٹ پہنے جیکب نے جیسے ہی اپنی موبائل شاپ کا شٹر اٹھایا تو آس پاس کے دکاندار بھی پل بھر کو اس کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر دوبارہ اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
وہ دکان کھول کر اندر آیا اور معمول کے مطابق سامان ترتیب دینے لگا۔
یہ ایک موبائل شاپ تھی جہاں موبائل کی خرید و فروخت کے ساتھ مرمت کا کام بھی ہوتا تھا جو کہ جیکب کرتا تھا کیونکہ وہ کاریگر تھا مگر دکان کا مالک نہیں۔ یہ دکان اس کی نہیں تھی بلکہ وہ کئی سالوں سے یہاں ایک قابل اعتماد کاریگر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔
”کیا حال ہے جیکب؟ آج دیر سے آئے۔“ تب ہی پڑوسی دکان والا لڑکا اس کے پاس حال چال پوچھنے آگیا۔
”ہاں یار! آج چرچ سے ہوتا ہوا آیا ہوں۔“ اس نے چیزیں شیلف پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا فائدہ؟ دعا مانگنے پر تو تم یقین نہیں رکھتے ہو، اور نہ ہی اپنے مذہب کو اتنا فالو کرتے ہو تو پھر چرچ کیا کرنے جاتے ہو؟“ اس نے شوکیس پر کہنی ٹکاتے ہوئے دوستانہ انداز میں پوچھا کیونکہ جیکب کی لاپرواہ طبیعت سے اس کے واقف کار بخوب واقف تھے۔
”اٹینڈس لگانے جاتا ہوں۔“ اس نے اسی مصروف انداز میں جواب دیا۔
”اٹینڈس! مگر کیسے؟“ وہ کچھ سمجھا نہیں۔
”مام کہتی تھیں کہ بھلے ہی پرے کا دل ہو یا نہ ہو مگر گاڈ کے سامنے حاضری لگانی چاہیے تا کہ کنیکشن ٹوٹے نہیں۔“ اس نے کام سے ہاتھ روک کر مبہم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ وہ بہت کم کم مسکراتا تھا مگر جب بھی مسکراتا تھا بہت دلکش لگتا تھا۔
”تمہاری باتیں نہ کبھی کبھی بالکل سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں، جیسے ابھی گزر گئی۔“ اس نے کوفت سے کندھے اچکادیے۔ جب کہ جیکب مسکرا کر دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔
*****************************************
”مامی! مجھے آپ سے اجازت چاہیے۔“ افروز ڈرتے ڈرتے گویا ہوئی تو حسب توقع صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی شمع نے تیز نظر اسے دیکھا۔
”کس بات کی اجازت؟“ انہوں نے سامنے کھڑی افروز کی جانب دیکھ کر تیکھے انداز میں پوچھا۔
”وہ میری دوست ہے نا ثمینہ اس کے بڑے بھائی کی شادی ہے، تو مجھے ڈھولکی سے لے کر ولیمے تک میں جانے کی اجازت چاہیے۔“ اس نے انگلیاں مروڑتے ہوئے دھیرے سے بتایا۔
”میں جانے کی اجازت دے دوں گی تو پھر تم کہو گی کہ میرے پاس شادی میں پہننے کیلئے کپڑے تو ہیں ہی نہیں، مامی ایسا کریں کہ مجھے شاپنگ کیلئے پیسے بھی دے دیں، ہے نا!“ انہوں نے چبھتے ہوئے طنزیہ انداز میں مزید بات جوڑی۔
”نہیں نہیں مامی، کچھ پرانے کپڑے ہیں میرے پاس اور تھوڑے ثمینہ سے ہی لے لوں گی، مجھے پیسے نہیں صرف اجازت چاہیے۔“ اس نے جلدی سے نفی کرتے ہوئے بتایا تو بجائے کوئی جواب دینے کے وہ اسے گھورنے لگیں جس سے وہ مزید نروس ہوگئی۔
”ٹھیک ہے، پر مغرب کے بعد سارا کام کرکے جانا سمجھی!“ انہوں نے اجازت دیتے ہوئے سختی سے تاكید بھی کی۔
”جی مامی آپ بے فکر رہیں میں سارے کام کرکے ہی جایا کروں گی، بہت شکریہ!“ اس نے خوشی خوشی کہا اور لاؤنج سے چلی گئی جب کہ اسے دیکھنے کے بعد انہوں نے بھی نظریں واپس ٹی۔وی پر مرکوز کرلیں۔
****************************************
”اماں جان! مجھے آپ سے اجازت چاہیے؟“ حامد نے ادب سے نور جہاں کے سامنے کھڑے ہوکر گزارش کی جو آرام دہ کرسی پر بیٹھی کسی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں۔
”کس بات کی؟“ انہوں نے کتاب نیچے کرتے ہوئے تیکھے تیوروں سے پوچھا۔
”وہ جو میرا یونیورسٹی کا دوست ہے تھا نا سہیل، اس کی شادی ہے، تو اسی میں جانے کیلئے۔“ اس نے یاد دلاتے ہوئے بتایا۔
”وہ مڈل کلاس لڑکا! تمہیں ہزار بار منع کیا ہے حامد کہ ایسا لوگوں سے دوستیاں مت رکھا کرو، اپنے اسٹیٹس کے لوگوں سے دوستی کیا کرو، پر تم سنتے ہی نہیں ہو، ابھی بھی کچھ مالی مدد کیلئے ہی بلایا ہوگا اس نے تمہیں دیکھنا۔“ اس کا ذکر سنتے ہی وہ برہم ہوگئی تھیں کیونکہ نہ جانے کیوں انہیں خود سے نچلے طبقے کے لوگوں سے عجیب سی خار تھی۔
”نہیں اماں جان، اس نے کوئی پیسوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس نے تو ہماری پوری فمیلی کو دعوت دی ہے، پر آپ لوگ جائیں گے نہیں اس لئے بس میں جارہا ہوں۔“ اس نے جلدی سے نفی کرکے وضاحت کی۔
”بالکل! ہمیں کوئی شوق نہیں ہے ایسے لوگوں سے میل جول رکھنے کا، تمھیں ہی مبارک ہو یہ دوستیاں۔“ انہوں نے حسب توقع روکھا سا جواب دیا۔
”تو پھر میں جاؤں نا اماں جان؟“ اس نے تائید چاہی۔
انہوں نے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے تیز نگاہ سے اسے دیکھا جو چہرے پر ڈھیٹ مسکراہٹ سجائے ایسے کھڑا تھا کہ اجازت لے کر ہی جائے گا۔
”ہاں جاؤ، پر لُٹ کر مت آجانا وہاں سے۔“ انہوں نے بےنیازی سے اجازت دیتے ہوئے تاكید کی۔
”شکریہ اماں جان!“ اس نے خوشی خوشی شکریہ ادا کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ گہری سانس لے کر نور جہاں نے دوبارہ کتاب نظروں کے سامنے کرلی۔
*****************************************
دن آہستہ آہستہ ڈھلتے ہوئے شام میں تبدیل ہوا تھا جس کے بعد سڑکوں پر افراتفری کم ہونے کے بجائے شاید اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔
جیکب نے ایک گھر کے آگے بائیک روکی اور بائیک کی ہینڈل پر لٹکے سودا سلف کے شاپر نکالتے ہوئے سامنے بنے گھر کی جانب بڑھا۔ اس نے ڈور بیل بجا کر اپنے آنے کی اطلاع دی اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
یہ ایک درمیانے درجے کا علاقہ تھا جہاں ایک ترتیب سے اَسی اور ایک سو بیس گز کے گھر قطار در قطار بنے ہوئے تھے۔ اس چوڑی گلی میں دونوں اطراف میں بنے گھر اور ان گھروں کے ساتھ بنیں ہری بھری کیاریاں بہت ہی خوبصورت تاثر پیدا کر رہی تھیں۔
وہ دوبارہ بیل بجانے کیلئے ہاتھ بڑھانے ہی لگا تھا کہ سفید پینٹ ہوئے لوہے کے دروازے کی دوسری جانب کھٹ پٹ ہوئی اور دروازہ کھل گیا۔
”السلام علیکم بھابھی!“ جیکب نے سلام کیا۔
”وعلیکم! سامان لے آئے۔“ شہلا نے سرسری جواب دے کر سوال کیا گویا صرف سامان ہی ضروری ہو۔
”جی، جو جو آپ نے فون پر بتایا تھا وہ سب لے آیا، اب آپ دیکھ لیں کہ کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا؟“ اس نے کہتے ہوئے شاپر شہلا کی طرف بڑھائے۔
”ٹھیک ہے، تم یہیں رکو میں سامان چیک کرکے تمھیں پیسے لا کر دیتی ہوں۔“ وہ شاپر لے کر اندر جانے لگی۔
”بھابھی!“ اس کی بات پر وہ رک کر پلٹی۔
”آیان کا ایڈمیشن کروا دیا آپ نے اسکول میں؟“ اس نے مہذب انداز میں پوچھا۔
”ہاں، آج صبح گئی تھی، یہیں سامنے والے سیکٹر میں جو اسکول ہے وہاں، کل سے جائے گا۔“ اس نے خلاف توقع تھوڑا تفصیلی جواب دے دیا کیونکہ جیکب سے بس وہ کام کی بات ہی کیا کرتی تھی وہ بھی بہت مختصر۔
”اچھا! ابھی کہاں ہے آیان؟ میں مل لوں اس سے؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے اجازت چاہی۔ کیونکہ بس یہ ہی تو ایک وجہ تھی جو جیکب کو یہاں تک لے آتی تھی۔
”مل لو۔“ وہ گویا احسان کرتے ہوئے کہہ کر اندر چلی گئی تو جیکب بھی دروازہ بند کرتا اندر آیا اور سیدھا لاؤنج میں آگیا جہاں آیان صوفے پر بیٹھا کارٹون دیکھ رہا تھا۔
”کیسا ہے میرا پرنس؟“ جیکب محبت سے پوچھتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھا۔
”ٹھیک ہوں چاچو!“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔ وہ معمول کے برعکس آج کچھ سست ہو رہا تھا۔
”اسکول میں ایڈمیشن ہوگیا؟“
”جی، کل سے جاؤں گا۔“
”ہممم! اور نیا گھر کیسا لگا؟“
”اچھا ہے، مگر میرے سب دوست پرانے گھر میں رہ گئے، یہاں تو کوئی دوست نہیں ہے، میں اکیلے بور ہوجاؤں گا۔“ اس نے اداسی سے جواب دیا تو جیکب کو اب اس کی بےزاری کی وجہ سمجھ میں آئی۔
”بس اتنی سی بات! تو یہاں پر بھی دوست بنا لینا آپ، بلکہ کل اسکول جاؤ گے نا تو وہاں خود ہی آپ کی سب سے دوستی ہوجائے گی اور پھر آپ بور نہیں ہوگے۔“ اس نے آرام سے حل بتا کر آیان کا گال کھینچا۔
”جیکب!“ شہلا کہتی ہوئی لاؤنج میں آئی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”یہ لو سودے کے پیسے۔“ شہلا نے پیسے بڑھائے۔
”یہاں کوئی مسلہ تو نہیں ہے بھابھی؟“ اس نے پیسے لیتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، بس کل کسی پلمبر کو لے آنا، کچن کے نل میں تھوڑا مسلہ ہے وہ ٹھیک کروانا ہے۔“ اس نے سرسری جواب دیا جس کے بعد وہاں خاموشی چھا گئی۔
”اب تم جاؤ۔“ شہلا نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
”جی جا رہا ہوں، کوئی کام ہو تو مجھے فون کر دیجئے گا۔“ اس نے کہتے ہوئے پیار سے آیان کا گال کھینچا اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔ جب کہ شہلا بھی دروازہ بند کرنے پیچھے گئی۔
*****************************************
”میں آگئی ثمینہ!“ افروز خوشی خوشی کہتی ثمینہ کے کمرے میں داخل ہوئی جو شادی کے جھمیلوں میں بکھرا پڑا تھا۔
”ہیں! تمہاری اس نک چڑی مامی نے اجازت دے دی تمہیں!“ سنگھار میز کے سامنے کھڑی چوڑیاں پہنتی ثمینہ نے حیرت سے گردن موڑ کر افروز کو دیکھا۔ جو سبز فراک پر چوٹی بنائے اور کانوں میں جھمکے پہنے سادگی سے تیار تھی۔
”ہاں، سارا کام کرکے آئی ہوں نا گھر کا، اس لئے کچھ نہیں کہا۔“ اس نے بیڈ کے پیرہانے پر بیٹھتے ہوئے بتایا اور بیڈ پر بکھرے سامان کا جائزہ لینی لگی۔
”ویسے تم مانوں نا مانوں مگر تمہاری صورت مفت کی ملازمہ ہاتھ آئی ہوئی ہے تمہاری مامی کے، بہت غلط کرتے ہیں وہ لوگ تمہارے ساتھ افروز!“ ثمینہ نے تلخی سے تجزیہ کرتے ہوئے پیلے سوٹ کے ساتھ ہرا دوپٹہ کندھے پر اوڑھا اور اس پر پن لگانے لگی۔
”کچھ غلط نہیں کرتے، امی ابو کے بعد انہوں نے مجھے اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے، دو وقت کی روٹی اور تن ڈھکنے کیلئے کپڑے دیتے ہیں تو اب بدلے میں اتنا کام تو لے ہی سکتے ہیں نا مجھ سے۔“ اس نے بیڈ پر پڑی چمکیلی ٹوکری سے کھیلتے ہوئے سادہ سا جواب دیا۔
”یہ ہی تو، ایک ملازمہ کو بھی تو کام کے بدلے پیسے دیے جاتے ہیں نا! اور وہ لوگ تمھیں کھانا اور کپڑے دے دیتے ہیں بس! دونوں میں فرق کیا ہوا؟“ وہ کہتی ہوئی اس کی جانب پلٹی۔
”بہت فرق ہے، ملازمہ کو غیروں کے گھر میں اپنی عزت بچا بچا کر کام کرنا پڑتا ہے، مگر میں اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی گھر کا کام کرتی ہوں جہاں میری عزت محفوظ ہے، الحمدللہ!“ اس کے انداز میں اب بھی اطمینان تھا جس سے زچ ہوکر ثمینہ نے یوں ایک گہری سانس لی گویا اسے کچھ کہنا فضول لگ رہا ہو۔
”اچھا اب چھوڑو یہ باتیں، چلو اٹھو، سب لوگ شاید بس میں بیٹھ گئے ہیں، ہم بھی چلتے ہیں۔“ ثمینہ نے کہتے ہوئے بیڈ پر رکھا ایک چمکیلا ٹوکرا اٹھایا۔
”مہندی لے کر لڑکی کے گھر جارہے ہو یا ہال میں رکھی ہے رسم؟“ افروز بھی دوسرا ٹوکرا اٹھاتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔
”ہال میں کمبائن رسم رکھی ہے، دولہا دلہن کی رسم ایک ساتھ ہی کردیں گے، وقت اور خرچہ دونوں بچے گا۔“ ثمینہ نے اس کے ہمراہ باہر نکلتے ہوئے جواب دیا۔
*****************************************
سفید کرتے پاجامے میں سلیقے سے تیار حامد جیسے ہی ہال میں داخل ہوا تو آس پاس موجود چند لوگوں کی نظریں بےساختہ اس جاذب نظر جوان کی جانب اٹھیں جو سارے لڑکوں میں بہت سوبر اور نفیس لگ رہا تھا۔
وہ متلاشی نظروں سے سہیل کو ڈھونڈتا آگے بڑھ رہا تھا تب ہی کوئی اندھا دھند بھاگتا ہوا انسان اس سے بری طرح ٹکرا گیا۔
”ہائے امی! دیکھ کر نہیں چل سکتے!“ غلطی افروز کی تھی اور سر سہلاتے ہوئے برہم وہ اس پر ہونے لگی۔
”کیا میں!“ وہ اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے دنگ رہ گیا۔
”اور نہیں تو کیا! اتنی زور سے ٹکرا گئے۔“ وہ اسے کوستی ہوئی دوبارہ ایک طرف بھاگتے ہوئے آگے بڑھی جسے حامد ہکابكا سا دیکھ کر رہ گیا۔
افروز کا تعاقب کرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ وہ اندھا دھند بھاگتی دوڑتی اس لڑکی کی جانب جا رہی تھی جو سب لڑکیوں کو گجرے بانٹ رہی تھیں اور لڑکیاں شہد کی مكھیوں کی مانند اس سے چمٹی ہوئی تھیں۔
”حامد!“ اچانک کسی خوشگوار پکار پر حامد کا ارتکاز ٹوٹا اور وہ چونک کر پلٹا تو دیکھا کہ پیچھے مہندی رنگ کے کرتے پاجامے میں سہیل کھڑا تھا۔
”شادی بہت بہت مبارک ہو میرے دوست!“ حامد مسکراتے ہوئے اس سے گلے ملا۔
”بہت شکریہ یار! مجھے لگا تھا کہ تم نہیں آؤ گے۔“ سہیل نے الگ ہوتے ہوئے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔
”ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اپنے دوست کی شادی پر نہیں آؤں!“ اس نے دوستانہ انداز میں الٹا سوال کیا۔
”اچھا اکیلے آئے ہو؟“ سہیل نے بات بدلی۔
”نہیں، میرے بیوی بچے بھی آئے ہیں ساتھ، ملواؤں ان سے؟“ حامد نے مذاقاً طنز کیا۔
”ہاں ضرور ملواؤ، میں بھی تو دیکھوں کون ہے وہ اندھی۔۔۔میرا مطلب بھابھی جس نے تم سے شادی کی۔“ سہیل نے بھی حساب برابر کرتے ہوئے اسے تنگ کیا۔
”اندھی نہیں خوش قسمت ہوگی وہ!“ حامد نے مصنوعی اکڑ کے ساتھ تصحیح کی۔
”ہاں یہ تو ہے، جب تمہاری صورت دنیا میں آزمائش بھگت کر وہ جنت میں جائے گی تو خوش قسمت تو ہوگی!“ سہیل اب بھی باز نہ آیا۔
”یہ زیادہ ہوگئی ہے۔“ حامد نے آنکھیں سکیڑ کر شکوہ کیا۔
”اچھا نا مذاق کر رہا تھا، چل اسٹیج پر چلتے ہیں رسم شروع ہونے والی ہے۔“ سہیل نے کہتے ہوئے اس کے گرد بازو حمائل کیا۔
”میں کیا کروں گا اسٹیج پر آکے، تیری رسم ہے تو جا!“ حامد نے غیر آرام ده ہوتے ہوئے انکار کیا۔
”شادی مبارک ہو سہیل۔“ تب ہی ایک اور دوست کہتا ہوا اس کی جانب آیا تو سہیل اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”سہیل بھائی آجائیں آپ کو رسم کیلئے اسٹیج پر بلارہے ہیں۔“ تب ہی ثمینہ بھی پکارتی ہوئی نزدیک آنے لگی مگر بیچ راستے میں ہی اسے افروز نے روک لیا اور سہیل نے بھی اس پر توجہ نہیں دی تھی مگر حامد کا دھیان اسی طرف تھا۔
”یار ثمینہ مجھے تو گجرے ملے ہی نہیں۔“ افروز نے دکھ سے بتایا جس پر حامد کی نظریں تھیں۔
”ارے حنا دے تو رہی تھی سب لڑکیوں کو گجرے!“
”ہاں مگر میرے پہنچنے تک ختم ہوگئے تھے۔“
”اچھا میں نے سمیر (چھوٹے بھائی) کو فون کرکے کہا ہے گجرے لانے کا، ابھی بھائی کی رسم شروع ہونے والی، ابھی چلو اسٹیج پر۔“ ثمینہ نے تسلی کرائی۔
”چلیں بھائی اب آ بھی جائیں نا!“ ثمینہ نے دوبارہ چڑ کر پکارا۔
”ہاں ہاں آیا!“
*****************************************
اسٹیج پر دولہا دلہن کی فمیلی میں سے باری باری لوگ آکر رسم کر رہے تھے۔ افروز کی اسٹیج پر کوئی خاص ضرورت نہیں تھی اسی لئے وہ ثمینہ کو ڈسٹرب کئے بنا ایک کونے میں آکر کھڑی ہوئی اور ان لوگوں کو دیکھنے لگی۔
اسے پیلے جوڑے میں شرمائی بیٹھی دلہن کو دیکھ کر رشک آرہا تھا اور ہر لڑکی کی طرح اس کے دل میں بھی اسی طرح دلہن بننے کی خواہش مچلنے لگی۔ مگر نہ جانے اس کی یہ خواہش کب پوری ہونی تھی؟ اور ہونی بھی تھی یا نہیں؟
”سنیں!“ کسی کی پکارا پر اس نے پلٹ کر دیکھا تو حامد کو پاس کھڑا پایا۔
”یہ لیجئے آپ کو چاہیے تھے نا اور میری وجہ سے مل نہیں سکے تھے!“ حامد نے دو موتیا کے کنگن مہذب انداز میں اس کی جانب بڑھائے جنہیں تھامنے کے بجائے افروز اسے تعجب سے دیکھتی رہی۔
”لے لیجئے، اسی کیلئے تو آپ اس وقت اندھا دھند بھاگ رہی تھیں نا!“ اس نے دوبارہ اصرار کیا۔
”بہت ہی کوئی چھچھورے انسان ہیں آپ!“ وہ اسے گھورتے ہوئے کہہ کر تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ وہ گجرے لئے جوں کا توں کھڑا رہ گیا۔
”گجرے دینے میں کیا چھچھورپن ہوتا ہے؟“ اس نے ناسمجھی کے عالم میں خود کلامی کی۔
*****************************************
افروز ثمینہ کے ساتھ مہمانوں کو کھانا پہنچانے کے بعد اب خود بھی ایک پلیٹ میں کباب اور پراٹھا لیے ایک ٹیبل کے گرد کرسی پر اکیلی بیٹھ گئی تھی کیونکہ ثمینہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی۔
”باجی!“ ایک بچی نے قریب آکر پکارا۔
”جی بیٹا!“ وہ متوجہ ہوئی۔
”یہ گجرے آپ کیلئے ثمینہ باجی نے دیے ہیں۔“ بچی نے موتیا کے دو کنگن اس کی جانب بڑھائے۔
”اوہ! ان سے کہنا شکریہ!“ اس نے خوشی خوشی گجرے لیتے ہوئے کہا تو بچی مسکرا کر وہاں سے چلی گئی جب کہ افروز مسکرا کر گجرے پہننے لگی۔
*****************************************
قریب بارہ بجے تک تقریب اختتام پذیر ہوئی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہونے لگے۔ افروز بھی بس کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھی ثمینہ کا انتظار کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
”ارے یار! بہت تھک گئی قسم سے۔“ ثمینہ نے اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے دہائی دی تو افروز نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”کیوں ایسے کون سے پہاڑ توڑے ہیں آپ نے؟“ افروز شرارتاً طنز مارا۔
”یار کام کے چکر میں اِدھر اُدھر بھاگ بھاگ کر تھک گئی ہوں، ہر تھوڑی دیر میں کسی نا کسی کو، کوئی نا کوئی کام یاد آرہا تھا، سر میں بھی درد ہوگیا۔“ اس نے تھک کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکایا۔
”اوہ! بیچاری میری دوست، لاؤ میں تمہارا سر دبا دوں۔“ اس نے کہتے ہوئے ثمینہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
”ارے! تمہیں یہ گجرے کہاں سے ملے؟“ ثمینہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر حیرانی سے پوچھا۔
”تم ہی نے تو بھجوائے تھے۔“ اس نے یاد دلایا۔
”کیا ہوگیا! مجھے تو خود نہیں ملے، سمیر کو میں نے فون پر کہا کہ گجرے لے آنا وہ پاگل گاجریں اٹھا کر لے آیا، اتنا غصہ آرہا ہے ناں اس پر تو!“ ثمینہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے اپنی ہی دھن میں کہتی گئی جب کہ افروز کے ذہن میں اچانک ہی حامد کا چہرہ ابھرا اور وہ بےساختہ گجروں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
****************************************
ایک نیا دن پھر سے طلوع ہوکر اپنی روشنی بکھیرنے لگا تھا اور بلند آواز سے ایک قطار میں کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھنے کے بعد اب یونیفارم پہنے بچے کلاس میں آچکے تھے۔
”گڈ مارننگ ٹیچر! ہاؤ آر یو ٹیچر!“ ازلفہ کے کلاس میں داخل ہونے پر سب بچوں نے یک زبان کھڑے ہوکر کہا۔
”آئی ایم فائن! سِٹ ڈاؤن!“ اس نے حسب معمول مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”تھینک یو ٹیچر!“ سب بچے یک زبان جواب دیتے ہوئے واپس بیٹھ گئے۔
ازلفہ کی نظر سب بچوں کے بیچ اسی بچے پر پڑی جو کل ٹیسٹ دے کر گیا تھا۔
”آیان! یہاں آئیں بیٹا!“ ازلفہ نے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ اٹھ کر آہستہ سے چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔
”بچوں! یہ ہیں آیان انصاری! یہ آج سے آپ کے نئے کلاس فیلو ہیں، آپ کو ان سے بھی دوستی کرنی ہے اور اگر انہیں کبھی ہیلپ کی ضرورت پڑی تو آپ کو ان کی ہیلپ بھی کرنی ہے، ٹھیک ہے!“ اس نے کہتے ہوئے آخر میں سب بچوں سے تائید چاہی۔
”یس مس!“ سب بچوں نے یک زبان جواب دیا۔
”آیان! آپ کو کوئی بھی مسلہ ہو آپ بنا ڈرے مجھ سے کہہ سکتے ہیں، ٹھیک ہے!“ ازلفہ نے پیار سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اب آپ جاکر اپنی جگہ پر بیٹھ سکتے ہیں۔“ اس نے اجازت دی تو وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب کہ ازلفہ نے پڑھائی شروع کردی۔
*****************************************
جیکب حسب معمول اپنی موبائل شاپ پر موجود نظر کا چشمہ لگائے بڑے انہماک سے کسی موبائل کی مرمت میں مصروف تھا۔ تب ہی عبائے میں دو خواتین اس کی دکان میں داخل ہوئیں جو غالباً ماں بیٹی تھیں۔
”السلام علیکم!“ عورت کے سلام پر اس نے سر اٹھایا۔
”وعلیکم السلام! جی بولیں!“ وہ موبائل رکھ کر ان کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”بیٹا ہمیں موبائل بیچنا ہے اور اس میں تھوڑے پیسے ملا کر نیا موبائل خریدنا ہے۔“ انہوں نے اپنا مقصد بتایا۔
”جی بالکل مل جائے گا، لائیں موبائل دکھائیں۔“ اس نے کہتے ہوئے چشمہ اتار کر شوکیس پر رکھا۔ جب کہ لڑکی پرس سے موبائل نکالنے لگی۔
”یہ دیکھو بیٹا! یہ میری بیٹی کا موبائل ہے اور اسی کے بدلے نیا موبائل لینا ہے۔“ خاتون نے لڑکی سے موبائل لے کر اسے دیا جس کا وہ جائزہ لینے لگا۔
”کتنے کا بک جائے گا یہ بیٹا؟“ خاتون نے پوچھا۔
”موبائل تو صحیح ہے مگر باہر سے ذرا حالت خراب ہے اس کی تو اسے ٹھیک بھی کرنا ہوگا۔“ اس نے موبائل کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
”میں دس ہزار دے سکتا ہوں آپ کو اس کے۔“ اس نے بنا کسی لگی لپٹی کے مناسب قیمت بتائی۔
”دس ہزار! یہ تو بہت کم ہیں بیٹا! ہم نے ایک سال پہلے پندرہ ہزار کا لیا تھا۔“ انہیں پیشکش پسند نہ آئی۔
”آنٹی پہلی بات کہ یہ بات ایک سال پرانی ہے، دوسری بات جب آپ نے لیا تھا تب یہ برینڈ نیو تھا، چارجر، ہینڈ فری اور ڈبے کے ساتھ، ابھی یہ استعمال ہوچکا ہے تو قیمت میں تو فرق آئے گا نا!“ اس نے مہذب انداز میں دلیل کے ساتھ سمجھایا۔
”اور میں نے آپ کو بہت مناسب قیمت بتائی ہے، اگر آپ کو میری آفر ٹھیک نہیں لگی تو آپ کسی اور دکان پر پتا کرسکتی ہیں۔“ اس نے اسی طرح مزید کہتے ہوئے موبائل شوکیس پر رکھا تو دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں گویا نظروں سے مشورہ کر رہی ہوں۔
”ٹھیک ہے بھائی، لیکن ہمیں اس کے بدلے دوسرا موبائل بھی لینا ہے۔“ بلآخر لڑکی ہی بول پڑی۔
”جی ضرور! آپ کی رینج کیا ہے؟“ اس نے جاننا چاہا۔
”دس ہزار آپ اس موبائل کے کہہ رہے ہیں، باقی پانچ ہزار ہم اور دیں گے، تو پندرہ ہزار میں کوئی اچھا سا موبائل دکھا دیں آپ جس کا کیمرہ بھی اچھا ہو۔“ لڑکی نے اپنی رینج بتائی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر شوکیس میں سے کچھ موبائل نکالنے لگا۔
”یہ دیکھیں! فی الحال میرے پاس یہ تین موبائل ہیں آپ کی رینج کے۔“ اس نے تین ڈبے شوکیس کے اوپر رکھے۔
”یہ تیرہ ہزار کا ہے، یہ چودہ اور یہ پندرہ!“ اس نے تینوں کی قیمت بتائی۔
”تینوں میں سے كیمرہ سب سے زیادہ کس کا اچھا ہے؟“ لڑکی نے جاننا چاہا۔
”تینوں کا ہی اچھا ہے۔“ اس نے کہتے ہوئے تینوں موبائل ایک ایک کرکے ڈبے سے باہر نکالے۔
”آپ دیکھ لیں انہیں، اور ڈیٹیلز باکس پر لکھی ہیں۔“ اس نے موبائل لڑکی کی جانب کھسکا دیے جنہیں وہ بغور دیکھنے لگی۔
”یہ موبائل کنفرم سیل کر رہے ہیں آپ لوگ؟ ری سیٹ کردوں اسے؟“ جیکب نے لڑکی کے پرانے موبائل کے بارے میں پوچھا۔
”جی سیل کر رہے ہیں اور ری سیٹ میں کرکے لائی ہوں، اس میں کچھ نہیں ہے یہ خالی ہے۔“ لڑکی نے علم میں اضافہ کیا تو بجائے اسے کوئی جواب دینے کے وہ ہلکے سے ایسے مسکرایا جیسے کوئی بڑا کسی بچے کی نادانی پر مسکراتا ہے۔
”آپ موبائل دیکھیں۔“ وہ اسے موبائل دیکھنے کا کہہ کر اس کا پرانا موبائل ایک لیڈ کے ذریعے کمپوٹر میں کنیکٹ کرنے لگا۔ جب کہ لڑکی ناسمجھی سے کندھے اچکا کر موبائل دیکھنے لگی۔
تھوڑی دیر سوچ بچار اور ماں سے مشورہ کرنے کے بعد بلآخر اس لڑکی نے پندرہ ہزار والا موبائل منتخب کرلیا۔ جب کہ اتنی دیر میں جیکب اس کا پرانا موبائل کمپوٹر سے کنیکٹ کیے کچھ کرتا رہا۔
”بھائی یہ ڈن ہے۔“ لڑکی نے ایک موبائل کی جانب اشارہ کیا۔
جیکب نے پہلے لڑکی کو موبائل چارجر وغیرہ لگا کر اچھی طرح چیک کروایا پھر اس کا بل بنا کر اس سے پیسے لے لئے۔
”موبائل میں کوئی مسلہ ہو تو تین دن کے اندر اندر آپ لوگ میرے پاس آسکتے ہیں۔“ ساری کاروائی مکمل کرنے کے بعد جیکب نے پیشہ وارانہ پیشکش کی۔
”ٹھیک ہے، بہت شکریہ بیٹا۔“ خاتون نے کہا اور اپنی بیٹی کے ساتھ دکان سے نکلنے لگیں۔
”ایک منٹ بات سنیں!“ ان کی پکار پر دونوں رک کر پلٹیں۔
”آپ نے پکا اپنا موبائل ری سیٹ کرکے خالی کردیا ہے؟“ اس نے اطمینان سے پوچھا تو دونوں متعجب ہوئیں۔
”جی!“ اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”ادھر آئیں۔“ اس نے دونوں کو شوکیس کے قریب کمپوٹر اسکرین کے سامنے بلايا تو وہ ناسمجھی سے آگے آئیں۔
”یہ دیکھیں، یہ آپ کی ہی پکچرز ہیں نا!“ اس نے کمپوٹر اسکرین پر آئیں کچھ تصاویر دکھائیں تو دونوں ماں بیٹی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ روز مرہ کی کچھ گھر میں کھینچی گئی تصاویر تھیں۔
”یہ آپ کے پاس کیسے آئیں؟“ لڑکی نے حیرت کو الفاظ دیے تو وہ رسان سے گویا ہوا۔
”میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں مگر دس میں سے چھے موبائل والے یہ کام کرتے ہیں کہ جب بھی وہ کوئی استعمال شدہ موبائل خریدتے ہیں تو کمپوٹر میں موجود کچھ سوفٹ ویئر کی مدد سے موبائل سے ڈیلیٹ کیا گیا سارا ڈیٹا ریکور کر لیتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ریکور ہوئے ڈیٹا میں اگر انہیں کسی لڑکی کی کوئی غیر اخلاقی تصویر مل جاتی ہے تو اسے وہ غیر اخلاقی ویب سائٹس کو مہنگے داموں میں بیچتے ہیں۔“ اس کی زبانی ہوا انکشاف سن کر دونوں ماں بیٹی ششدر رہ گئیں۔
”اور میں نے تو بس ایک عام سے سوفٹ ویئر سے صرف ابھی کی چند پکچرز ریکور کی ہیں مگر جن لوگوں کا کام ہی یہ ہوتا ہے وہ مہنگے پیڈ سوفٹ ویئرز کے ذریعے تھوڑا ٹائم لگا کر ویڈیو وغیرہ بھی ریکور کر لیتے ہیں کیونکہ چانس ہوتا ہے کہ اکثر لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز یا منگیتر کو اپنی نامناسب پکچرز اور ویڈیوز سینڈ کرتی ہیں جو اگر موبائل والے کا ہاتھ لگ جائے تو اس خبیث کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔“ اس نے سنجیدگی سے بہت ہی بھیانک حقیقت بتائی جسے سن کر دونوں ہکابكا رہ گئیں۔
”بیٹا! تمھیں خدا کا واسطہ میری بچی کی تصویروں کے ساتھ کچھ غلط مت کرنا۔“ خاتون نے گھبرا کر ہاتھ جوڑ لیے۔
”ارے آپ غلط سمجھ رہی ہیں آنٹی، میرا مقصد کچھ غلط کرنا نہیں ہے، میں بس آپ لوگوں کو بتا رہا تھا کہ ان معاملات میں کتنی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔“ اس نے جلدی سے وضاحت۔
”یہ پکچرز تو میں نے بس آپ لوگوں کو یقین دلانے کیلئے ایک معمولی سے سوفٹ ویئر سے ریکور کی ہیں جو ہم اپنا لوسٹ ڈیٹا ریکور کرنے کیلئے یوز کرتے ہیں، اور دیکھیں یہ میں آپ کے سامنے ڈیلیٹ کر رہا ہوں۔“ اس نے کہتے ہوئے ساتھ ہی کمپوٹر پر سے ساری تصاویر ”آل ڈیلیٹ“ پر لگا دیں۔
”بس میری کچھ باتوں کو یاد رکھیے گا، سب سے پہلی بات کہ موبائل میں کوئی ایسی تصویر رکھیں ہی نہ جس سے بات عزت پر آئے، کیونکہ عورت کیلئے اس کی عزت سے زیادہ ضروری کچھ بھی نہیں ہے، محبت بھی نہیں، خاص طور پر ایسی محبت جس میں قسمے وعدے دے کر بےلباس کیا جائے۔“ وہ دوبارہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”دوسری بات کہ جب بھی آپ اپنا موبائل کسی کو بیچیں یا بننے دیں تو اسے ری سیٹ کرنے کے بعد اس میں پھر سے کافی ساری غیر ضروری چیزیں ڈاؤن لوڈ کرلیں جیسے گوگل سے جانوروں یا بچوں کی پکچرز یا سانگ وغیرہ، ویڈیو موڈ آن کرکے لمبی لمبی بلینک ویڈیوز بنا لیں، پھر موبائل ری سیٹ کریں اور پھر دوبارہ موبائل میں ایسی ہی غیر ضروری چیزیں بھریں، دو تین بار ایسے کرنے کے بعد آپ اپنا موبائل ری سیٹ کرکے پھر دیں جس کو دینا ہے تا کہ جب وہ آپ کا موبائل ریکوری پر لگائے تو یہ ہی ساری فالتو چیزیں ریکور ہوں اور اسے کچھ نہ ملے، سمجھ گئیں نا!“ اس نے تحمل سے بہت ہی کام کی بات سمجھائی جسے دونوں نے دھیان سے سنا۔
”ٹھیک ہے، لیکن آپ تو میری تصویروں کے ساتھ کچھ غلط نہیں کریں گے نا بھیا!“ لڑکی بہت بری طرح گھبرا گئی تھی۔
”اگر مجھے کچھ کرنا ہی ہوتا تو میں آپ لوگوں کو اتنا سب سمجھاتا کیوں؟“ اس نے مسکراتے ہوئے الٹا سوال کیا۔
”جس مارکیٹ میں، میں بیٹھا ہوں نا یہ سب میں نے یہیں کے لوگوں سے سیکھا ہے، اور چاہے یہ مارکیٹ ہو یا پوری دنیا، یہاں نہ سب بہت اچھے ہیں نہ سب بہت برے، بس آپ کو اپنا کردار ایسا رکھنا ہے کہ کوئی برا آپ پر حاوی نہ ہوسکے۔“ اس نے رسان سے مزید کہا۔
”آپ لوگ بےفکر رہیں میں کچھ نہیں کروں گا بلکہ میں نے تو سب ڈیلیٹ کردیا ہے، میرا مقصد صرف آپ لوگوں کو آگاہ کرنا تھا۔“ اس نے پھر تسلی کرائی۔
”تمہارا بہت بہت شکریہ بیٹا۔“ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”اللّه تمہارا بھلا کرے اور تمھیں خوشیاں دکھائے۔“ انہوں نے دل سے اسے دعا دی۔
”اللّه میرا بھلا کیسے کرے گا؟ وہ تو آپ مسلمانوں کا ہے، اور میں کرسچن ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے پھیکےپن سے مسکرایا۔
”اللّه اِس کا اُس کا نہیں، اللّه سب کا ہے، بس ہم ہی اس کے نہیں ہوتے ہیں۔“ انہوں نے تصحیح کی تو وہ کچھ نہ بولا۔
”ہم اللّه کے پاس سے آئیں ہیں اور ہمیں اللّه کے پاس ہی جانا ہے، بس بیچ کے عرصے میں ہم بھٹک جاتے ہیں، جیسے شاید تم بھٹک گئے ہو، میری دعا ہے کہ اللّه تمھیں ہدایت کی وہ راہ دکھائے جو تمھیں اس تک لے جائے اور تمھیں یقین آسکے کہ اس کا تم سے بھی وہ ہی رشتہ ہے۔“ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے اسے دنیا کی سب سے پیاری دعا دی تھی۔ ہدایت پانے کی دعا! جس پر وہ لاجواب ہوگیا۔
*****************************************
”یار تو نے بارات میں چار دن کا وقفہ کیوں رکھ لیا؟ مہندی کے اگلے دن بارات نہیں رکھ سکتا تھا۔“ حامد شام کے وقت اپنے گھر کے لان میں ٹہلتے ہوئے سہیل سے موبائل پر محو گفتگو تھا۔
”دماغ ٹھیک ہے، مہندی کے کچھ دنوں بعد ہی بارات ہوتی ہے نا! اور تجھے کس بات کی بےتابی ہو رہی ہے؟ دولہا میں ہوں مگر بارات کیلئے اتاؤلا تو ہوا جا رہا ہے، سب خیر تو ہے نا!“ دوسری جانب سے سہیل نے خبر لی۔
”ہاں ہاں خیر ہے، بس دل چاہ رہا ہے کہ جلدی سے تیری بارات میں شریک ہوسکوں۔“ اس نے گول مول جواب دیا۔
”اچھا! ویسے تو ساری زندگی تو مجھ سے ملنے کیلئے اتنا بےتاب نہیں ہوا! اور تجھے میری بارات میں شریک ہونا ہے یا افروز سے ملنا ہے؟“ وہ طنز مارتے ہوئے اصل بات تک پہنچ گیا تھا۔
”کون افروز؟“ وہ انجان بنا۔
”وہ ہی جس کو آپ نے گجرے پیش کیے تھے۔“ اس نے یاد دلایا۔
”اچھا! اس کا نام افروز ہے!“ اسے نام جان کر خوشی ہوئی۔
”ویسے تو نے کب دیکھ لیا مجھے گجرے دیتے ہوئے؟ تو تُو اسٹیج پر دولہا بنا بیٹھا تھا نا!“ اس نے بات گھمانی چاہی۔
”ہاں تو دولہا بننے کے بعد کیا بینائی چلی جاتی ہے جو میں تجھے دیکھ نہ پاتا!“ اس نے بھی الٹا سوال کرکے لاجواب کردیا۔
”اور ویسے بھی بیٹا وہ تیرے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے، چھوڑ دے وہاں ٹرائی کرنا۔“ سہیل نے پہلے ہی علم میں اضافہ کیا۔
”کیا مطلب میرے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے؟“ اس نے مزید کریدا۔
”مطلب وہ تیری کلاس کی لڑکیوں جیسی سو کالڈ فری مائنڈ اور بولڈ نہیں ہے جو لڑکوں سے دوستی رکھنا فخر سمجھتی ہیں، وہ سیدھی سادی گھریلو لڑکی ہے، جس کی لے دے کر بس ایک ہی سہیلی ہے یعنی میری بہن ثمینہ، بیچاری کے والدین کا بہت پہلے انتقال ہوچکا ہے اور اب وہ اپنے مامی ماموں کے رحم و کرم پر رہ رہی ہے، جو اپنی مرضی سے ہی اس کی کہیں شادی کروا دیں گے اور وہ چپ چاپ کرلے گی، اسی لئے تو جو اس سے دوستیاں گانٹھنے کی کوششیں کر رہا ہے نا مت کر، خواہ مخواہ ٹائم اور اینرجی ویسٹ ہوگی۔“ اس نے تفصیل بتاتے ہوئے باز رہنے کی تلقین کی تو اس کی بات پر حامد سوچ میں پڑ گیا۔
*****************************************
سورج اپنے عروج سے نیچے آگیا تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے دوش پر گونجتی اذانِ عصر کی صداؤں نے ماحول پر دلفریب سا کیف طاری کردیا تھا۔
”مما! اتنا سارا کام ہے، میں تھک گیا ہوں، تھوڑا سا آپ کردیں۔“ آیان نے تھک کر پنسل رکھتے ہوئے التجا کی جو اس وقت لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا ہوم ورک کر رہا تھا جب کہ شہلا بھی وہیں صوفے پر بیٹھی سبزی کاٹنے میں مصروف تھی۔
”پورے سال کا کام کیا آج ہی دے دیا ہے تمہاری مس نے! کب سے کر رہے ہو ابھی بھی ختم نہیں ہوا!“ اس نے سبزی کاٹتے ہوئے کہا۔
”میرا ایڈمیشن لیٹ ہوا ہے نا اسی لئے جو کام پہلے ہوچکا ہے وہ سب مجھے جلدی جلدی کرنا ہے تا کہ میں بھی باقی سب کے ساتھ کورس پڑھ سکوں۔“ اس نے تھکن زدہ انداز میں جواب دیا۔
”اب اتنا سارا مجھ سے اکیلے نہیں ہو رہا، تھوڑا سا آپ کردیں نا مما پلیز!“ اس نے دوبارہ منت کی۔
”میں نہیں کر رہی، مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں، میں کھانا بناؤں یا تمہارا کام کروں!“ اس نے مصروف انداز میں صاف انکار کیا تو وہ مزید اداس ہوگیا۔
”ٹینگ ٹونگ!“ تب ہی ڈور بیل بجی۔
”دیکھو جیکب آیا ہوگا شاید پلمبر کو لے کر، دروازہ کھولو۔“ شہلا نے حکم جاری کیا تو وہ منہ بناتا ہوا دروازہ کھولنے آیا جہاں حسب توقع جیکب ہی پلمبر کے ہمراہ موجود تھا۔
”مما کو بلاؤ آیان!“ جیکب نے اس کا گال کھینچتے ہوئے کہا تو وہ بےزار شکل لے کر واپس اندر چلا گیا اور پھر شہلا باہر آئی۔
”بھابھی آپ کو کچن کا نل ٹھیک کروانا تھا نا! تو اسے بتا دیں جو بھی مسلہ ہے، یہ ٹھیک کردے گا۔“ جیکب نے دونوں کا سامنا کرایا اور پھر تینوں کچن میں آگئے جہاں شہلا پلمبر کا سر کھانے لگی کہ ایسے کرو، ویسے کرو جب کہ جیکب تھوڑی دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد لاؤنج میں آیان کے پاس آگیا۔
”کیا ہوا پرنس! موڈ کیوں آف ہے؟“ جیکب نے اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا جو بےدلی سے ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا۔
”اگر آپ کو اتنا سارا ہوم ورک کرنا پڑتا نا تو پتا چلتا کہ موڈ کیوں آف ہوتا ہے۔“ آیان نے نروٹھے پن سے جواب دیا تو اسے بےساختہ اس کے انداز پر ہنسی آگئی۔
”اچھا تو یہ بات ہے۔“ وہ نتیجے پر پہنچا۔
”اور نہیں تو کیا! ایک تو مس نے اتنا سارا کام دے دیا اور مما بھی میری ہیلپ نہیں کر رہی ہیں۔“ اس نے اسی طرح شکوہ کیا۔
”بس اتنی سی بات، لاؤ میں ہیلپ کردیتا ہوں اپنے پرنس کی۔“ اس نے سہولت سے پیشکش کی تو یکدم آیان کے چہرہ کھل اٹھا۔
”سچی چاچو! آپ کردیں گے میرا ہوم ورک!“ اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”ہاں، لیکن اگر تمہاری مس نے میری رائٹنگ پہچان کر اندازہ لگا لیا کہ کام تم نے نہیں کیا ہے تو!“ اس نے تائید کرتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”ارے کچھ نہیں ہوگا، مس نے کہا تھا کہ گھر میں کسی سے ہیلپ لے لینا، آپ بس یہ کام کردیں، میں تھک گیا ہوں۔“ اس نے مسلہ حل کرتے ہوئے کاپی پنسل جیکب کی جانب بڑھائی اور خود صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
”ہائے! بہت تھک گیا میں۔“ آیان نے بڑی عورتوں کی طرح کمر سیدھی کرتے ہوئے دہائی دی تو اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے جیکب پنسل اٹھا کر کام کی جانب متوجہ ہوگیا اس بات سے بےخبر کہ اس کی لکھائی کہانی میں نیا موڑ لکھنے والی تھی۔
*****************************************
فجر کی نماز کے بعد حسب معمول اذکیٰ کھلی فضا کی تازگی محسوس کرنے کیلئے چھت پر آگئی تھی۔
مشرقی سمت سے پھوٹتی روشنی نے رات کی سیاہی کو شکست دے دی تھی۔ آسمان ہلکا نیلا ہونے لگا تھا جس کے سینے پر ننھے پرندے اڑتے ہوئے رزق کی تلاش میں رواں دواں تھے۔
وہ چھت کی تین فٹ کی باؤنڈری کے پاس آکر کھڑی ہوئی جہاں سے باہر دیکھنے پر ان کی صاف ستھری چوڑی گلی نظر آتی تھی جس کے دونوں اطراف ان ہی کے گھر جیسے گھر ایک ترتیب سے بنے ہوئے تھے۔
”فجر کے بعد ابھرتی ہوئی صبح میں جو سکون ہوتا ہے نا وہ ناقابل بیان ہے۔“ اذکیٰ نے گہری سانس اندر کھینچتے ہوئے پرفسوں انداز میں ازلفہ سے کہا جو پہلے سے ہی چھت پر باؤنڈری کے پاس موجود تھی۔
”ہممم! اور سوچو جب دنیا کی صبح ایسی ہوتی ہے تو جنت میں سکون کا عالم کیا ہوگا؟“ سینے پر بازو لپٹے کھڑی ازلفہ نے تائیدی انداز میں مزید بات جوڑی۔
”جنت تو واقعی بہت خوبصورت ہوگی، نہ وہاں کوئی دکھ ہوگا، نہ پریشانی، نہ امتحان، بس سکون اور خوشیاں۔“ اس کے انداز میں رشک تھا۔ گویا وہ تصور کی آنکھ سے جنت کے حسین منظر میں کھو گئی ہو!
”ہاں کیونکہ جنت دنیا کی طرح کوئی امتحان گاہ نہیں ہوگی بلکہ وہ اس دنیاوی امتحان کو اچھے سے پاس کرنے کا انعام ہوگی، اور انعام تو ہوتے ہی خوبصورت ہیں۔“ ازلفہ نے وضاحتی انداز میں کہا۔
”کتنا خوبصورت لگے گا نا کہ جنت میں ہم سب کے اپنے اپنے شاندار محل ہوں گے، باغات ہوں گے اور بھی وہ سب کچھ نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔“ اذکیٰ ابھی تک اسی خوابناک عالم میں گم تھی۔
”ہم جنت میں کیسے جا سکتے ہیں آپی؟“ وہ اچانک خیالوں سے باہر آتے ہوئے گویا ہوئی۔ جس پر ازلفہ ایسے ہی مسکرائی جیسے کوئی بڑا بچے کی نادانی پر مسکراتا ہے۔
”دو قدم چل کر!“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”مطلب حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے، پہلا قدم نفس پر، دوسرا قدم جنت میں۔“ اس نے بات واضح کی۔
”نفس پر قابو کرنا کسے کہتے ہیں؟“ آج وہ ناسمجھی سے بچوں کی مانند سوال کر رہی تھی۔
”ہر وہ کام جسے کرنے سے اللّه نے منع کیا ہے لیکن پھر بھی وہ کرنے کا آپ کا دل چاہے اور آپ اللّه کے حکم کے آگے اپنا دل مار لو اسے نفس پر قابو کرنا کہتے ہیں، اور جس نے نفس پر قابو کرلیا اس کیلئے جنت دو قدم کے فاصلے پر تیار کھڑی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے تحمل سے جواب دے کر اسے لاجواب کردیا۔
*****************************************
اسکول میں اسمبلی کے بعد سب بچوں نے کلاس میں آکر اپنا اپنا ہوم ورک ازلفہ کی ٹیبل پر جمع کروا دیا تھا جسے اب وہ چیک کرنے میں مصروف تھی۔
ایک کاپی پر آکے اسے کچھ غلطیاں نظر آنا شروع ہوئیں۔
ایک۔۔۔۔دو۔۔۔۔تین۔۔۔۔۔چار اور اسی طرح ازلفہ نے سرخ بال پین سے کام میں یک کے بعد دیگر کئی غلطیاں نکالیں۔
اس نے کاپی بند کرکے کوور پر نام پڑھا۔ آیان انصاری!
”آیان! یہاں آئیں۔“ اس کے بلانے پر آیان ٹیبل کے پاس آگیا۔
”بیٹا یہ کس طرح کام کیا ہے آپ نے؟ زیادہ تر لفظ غلط لکھیں ہیں، ٹیسٹ تو آپ نے بہت اچھا دیا تھا۔“ اس نے نرمی سے استفسار کیا۔
”یہ دیکھیں، یہ ع ایسے بناتے ہیں؟ یہ ط یہ ض یہ ڑ یہ ف کتنے غلط لکھیں ہیں آپ نے یہ سارے لفظ!“ اس نے پین کی نوک سے غلطیوں کی نشان دہی کی۔
”یہ کام میں نے نہیں کیا مس، میرے چاچو نے کیا ہے، آپ نے ہی تو کہا تھا کہ پچھلا کام زیادہ ہے اسی لئے گھر میں کسی سے ہیلپ لے لینا۔“ اس نے آہستہ سے بتایا تو ازلفہ اپنی زبان بے اختیار دانتوں تلے لے آئی گویا کچھ غلط کہہ گئی ہو!
”ارے تو پہلے بتاتے، میں نے اتنی ساری غلطیاں نکال دیں۔“ اس نے سرخ نشانات سے بھری کاپی کی جانب اشارہ کیا تو وہ چپ ہی رہا۔
”اچھا! چلیں خیر! پر اب آئندہ کوشش کیجئے گا کہ آپ اپنا کام خود کریں، ٹھیک ہے نا!“ ازلفہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
”یہ لیں آپ کی کاپی، اب آپ جا کر بیٹھ جائیں۔“ اس نے کاپی واپس کرتے ہوئے اجازت دی تو وہ واپس چلا گیا جب کہ ازلفہ دوسری کاپی چیک کرنے لگی۔
*****************************************
حسب معمول دن بھر کی مصروفیت اپنی جگہ رواں دواں تھی۔ دن ڈھل کر شام میں تبدیل ہوگیا تھا اور یہ شام حسب معمول جیکب کو آیان کے پاس لے آئی تھی۔
”یہ دیکھیں چاچو! کتنی ساری غلطیاں تھیں آپ کی۔“ معمول کے مطابق لاؤنج میں بیٹھے ہوم ورک کرتے آیان نے کاپی اپنے برابر بیٹھے جیکب کے آگے کی۔
”کیا مطلب! سب ٹھیک تو کیا تھا۔“ وہ حیران ہوتے ہوئے کاپی لے کر دیکھنے لگا۔ کاپی کا پورا صفحہ سرخ بال پین کے نشانات سے بھرا ہوا تھا۔
”تمہاری مس پاگل واگل تو نہیں ہیں! ٹھیک تو تھا سب، بس ذرا سے لفظ لائن سے اوپر نیچے ہوگئے تھے۔“ جیکب کو خاصی تپ چڑھ گئی اپنی رائٹنگ کی غلطیاں دیکھ کر۔
”ہممم! پر مس نے کٹ کردیا۔“ آیان نے سادگی سے کندھے اچکائے۔
”اچھا چھوڑیں اسے، یہ انگلش کا کام کردیں۔“ اس نے وہ کاپی لیتے ہوئے دوسری کاپی جیکب کی جانب بڑھائی۔
”نہیں بھئی نہیں، میں نہیں کر رہا ورنہ کل پھر تمہاری مس میری غلطیاں نکل کر بھیج دیں گی۔“ اس نے صاف انکار کیا۔
”میں مس کو بتاؤں گا ہی نہیں کہ کام آپ نے کیا ہے۔“ اس نے حل نکالا۔
”نہیں! میں نہیں کروں گا۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
”پلیز چاچو!“ اس نے سارے جہاں کی معصومیت اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے دونوں بازو اس کی گردن میں ڈال دیے۔
جیکب اور آیان کو جوڑنے والی جو کڑی تھی وہ جیکب کیلئے بہت اہم تھی۔ اور وہ ہی کڑی اسے آیان تک کھینچ کر لاتی تھی۔ اب ایسے میں جب آیان اتنی معصومیت سے گزارش کر رہا تھا تو وہ کیسے انکار کر سکتا تھا؟
”اچھا ٹھیک ہے۔“ اس نے گویا ہار مانی۔
”تھینک یو چاچو، آپ بہت اچھے ہیں۔“ اس نے خوش ہوکر بےساختہ جیکب کا گال چوم لیا۔
*****************************************
اگلی صبح پھر ازلفہ اپنی کرسی پر موجود اسٹوڈنٹس کا ہوم ورک چیک کر رہی تھی اور آج پھر وہ آیان کی کاپی دیکھ کر ٹھٹکی۔ اتفاق سے اس وقت آیان اس کے نزدیک ہی کھڑا تھا۔
”یہ آپ نے لکھا ہے آیان؟“ ازلفہ نے کاپی چیک کرتے ہوئے پوچھا۔
”یس مس!“ اس نے حسب منصوبہ جھوٹ کہا۔
”نہیں، یہ رائٹنگ آپ کی تو نہیں ہے، آپ کی رائٹنگ تو میں نے دیکھی ہے انگلش کی۔“ اس نے نفی کی۔ مطلب چوری پکڑی گئی تھی۔
”وہ مس۔۔۔میرے چاچو نے کیا ہے۔“ اس نے دھیرے سے اعتراف کیا۔
”جنہوں کل آپ کا اردو کا کام کیا تھا؟“ ازلفہ نے تائید چاہی تو اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”انگلش کی رائٹنگ تو بہت اچھی ہے آپ کے چاچو کی۔“ اس نے تعریف کرتے ہوئے کاپی پر صحیح کا نشان لگایا۔
”لیکن بیٹا اپنا کام آپ خود کیا کریں، اس میں آپ کے لئے ہی فائدہ ہے، ٹھیک ہے۔“ اس نے پیار سے سمجھایا۔
”یس مس!“ آیان نے فرمابرداری دکھائی۔
”یہ نوٹ اپنے چاچو کو پڑھوادیجئے گا، اب آپ جا سکتے ہیں۔“ ازلفہ نے اس کی ڈائری میں ایک نوٹ لکھ کر اسے دیا تو وہ ڈائری اور کاپی لیتے ہوئے سرہلا کر واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
*****************************************
”آج کون سے کیڑے نکالے تمہاری مس نے میرے کام میں؟“ جیکب نے طنزیہ انداز میں جاننا چاہا۔ دونوں حسب معمول لاؤنج میں موجود تھے۔
”آج کوئی غلطی نہیں نکالی، بلکہ آج تو مس آپ کی رائٹنگ کی تعریف کر رہی تھیں۔“ آیان نے پرجوشی سے بتاتے ہوئے اسےکاپی دکھائی جس پر سب جگہ صحیح کا نشان لگا ہوا تھا۔
”اور چاچو مس نے یہ نوٹ بھی لکھا ہے آپ کیلئے۔“ اس نے ڈائری آگے کرتے ہوئے مزید کہا تو جیکب نے کاپی رکھ کر ڈائری لے لی۔ ڈائری میں سرخ بال پین سے ایک نوٹ لکھا ہوا تھا۔
”محترم آیان کے چاچو!“
”کل آپ کی غلطیاں نکالنے کیلئے معذرت! باقی آپ کی انگلش کی لکھائی بہت اچھی ہے، آپ آیان کا کام کرنے کے بجائے اسے اپنا کام خود کرنے کا کہا کریں، اس میں اس کا ہی فائدہ ہے، اور معذرت کے ساتھ اپنی اردو کی لکھائی پر بھی توجہ دیں، شکریہ!“
آیان کی کلاس ٹیچر!
نوٹ پڑھ کر وہ بل بھر کو سوچ میں پڑ گیا۔ لیکن پھر اگلے ہی پل اسے ایک خیال آیا۔
”پین یا پنسل دو آیان!“ اس کے کہنے پر آیان نے اپنے بیگ سے پنسل نکال کر اسے دے دی۔
جیکب ڈائری کے اسی صفحے کے پیچھے کچھ لکھنے لگا، اور تحریر لکھ کر ڈائری اس کی جانب بڑھا دی۔
”یہ کل اپنی مس کو پڑھوا دینا میری طرف سے۔“ اس نے بےنیازی سے حکم دیا۔
”کیا لکھا تھا مس نے؟ اور آپ نے کیا لکھا ہے؟“ اس نے ڈائری لیتے ہوئے پوچھا۔ کیونکہ ابھی اس کی اردو بہت زیادہ پختہ نہیں ہوئی تھی اسی لئے وہ باآسانی سمجھ نہیں سکا۔
”کچھ نہیں، بس تمہاری مس نے کہا ہے کہ تم اپنا کام خود کیا کرو۔“ جیکب نے سرسری انداز میں ٹال دیا۔ مگر یہ بات اتنی جلدی ٹلنے والی نہیں تھی۔
*****************************************
آج سہیل کی بارات تھی۔ جس کے باعث اس کے برقی قمقموں سے سجے گھر میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ بہت دیر کی تیاری کے بعد بلآخر سب لوگ بارات لے کر ہنستے مسکراتے ہال پہنچ چکے تھے جہاں لڑکی والوں نے ان کا پرجوشی سے استقبال کیا اور پھر نکاح کے بعد دولہا دلہن کو اسٹیج پر بٹھا دیا گیا۔
سرخ فراک میں ہلکا پھلکا تیار ہوئی افروز ایک بڑا سا تھال ہاتھ میں لئے اس پر رکھی چھوٹی چھوٹی چھواروں کی پوٹلیاں سب کو خوشی خوشی بانٹتی پھر رہی تھی۔
تب ہی اس کی نظر بلیک کرتا پاجامہ پہنے حامد پر پڑی جو دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
وہ اسے نظر انداز کرتی ہوئی اس کے کنارے سے گزری ہی تھی کہ وہ پکار اٹھا۔
”سنیں!“ اس کی پکار پر وہ رکی۔
”بولیں؟“ وہ پلٹی۔
”آپ نے مجھے چھوارے کیوں نہیں دیے۔“ حامد نے سوال کیا۔
”کیونکہ میں جھوٹے لوگوں سے بات نہیں کرتی۔“ اس نے لیا دیا سا جواب دیا۔
”میں نے آپ سے کب جھوٹ کہا؟“ وہ حیران ہوا۔
”اس دن مہندی میں جو آپ نے بچی سے گجرے بھجوائے تھے، وہ جھوٹ ہی تو تھا نا!“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں تو جب سچ بول کر خود دے رہا تھا تو آپ نے لئے ہی نہیں، اسی لئے ایسے دینے پڑے۔“ اس نے بنا کسی حجت کے کندھے اچکا کر اطمینان سے اعتراف کیا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
”ضرورت ہی کیا تھی آخر اس کی؟“ وہ ہنوز ناراض تھی۔
”میری وجہ سے آپ کا نقصان ہوا تھا نا تو بس اسی کی بھرپائی کر رہا تھا!“ اس نے اسی اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو وہ ضبط کرتے ہوئے گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
”بہت ہی چھچھورے انسان ہیں آپ!“ وہ دانت پیس کر اسے کہتے ہوئے تیزی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ دوسری بار یہ ”اعزاز“ ملنے پر وہ محظوظ ہوکر بےساختہ مسکرا دیا۔
*****************************************
تھوڑی دیر بعد لڑکی والوں کی جانب سے مہمانوں کیلئے کھانے کا آغاز کردیا گیا تھا۔ مہمان سارے کھانا کھانے میں مصروف تھے جب کہ دولہا اپنی فمیلی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس لئے حامد نے اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ایک پلیٹ میں تھوڑی سی بریانی لے کر ایک خالی ٹیبل پر آ بیٹھا۔
چمچے سے کھانا کھاتے ہوئے وہ آس پاس کا جائزہ بھی لے رہا تھا جہاں سب اپنی اپنی ٹیبلز پر کھانوں کا پہاڑ بنائے ایسے کھانا کھانے میں مصروف تھے گویا یہ آخری موقع ہے اور آج کے بعد کبھی کھانا نہیں ملے گا۔ جسے دیکھ کر در حقیقت لوگوں کی سوچ پر اسے افسوس ہوا جو زیادہ کی ہوس میں کھانا لے کر میزبان کے پیسے تو برباد کرتے ہی تھے مگر رزق کی بھی بہت بےادبی کر جاتے تھے۔
یوں ہی کھانا کھاتے ہوئے اسے اچانک بہت زور سے پھندا لگا۔ اتفاق سے اس کی ٹیبل پر پانی موجود نہیں تھا۔ وہ کھانستے ہوئے اٹھ کر اس طرف گلاس ڈھونڈنے آیا جہاں کھانے کا بوفے لگا ہوا تھا، لیکن وہاں وہ ہی ہوا جو عموماً اس طرح کی شادیوں میں ہوتا ہے کہ پانی کے گلاس غائب ہوجاتے ہیں۔ وہ ہنوز بری طرح کھانس رہا تھا اور کھانستے ہوئے وہیں ٹیبل سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔
”یہ لیجئے!“ کسی نے پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھایا۔ حامد نے اس فرشتے کی جانب دیکھا تو وہ اور کوئی نہیں افروز تھی۔
”پی لیں جلدی!“ اس نے دوبارہ دھیان دلایا تو حامد نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر لبوں سے لگا لیا۔
”بہت شکریہ! میری تو جان ہی لگ رہا تھا حلق میں آگئی ہے۔“ وہ پانی پی کر شکر گزار ہوا۔ جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولی۔
”ویسے آپ کو کیسے پتا چلا کہ مجھے پانی چاہیے؟“ اس نے نہایت بےتکا سوال کیا۔
”گلاس کا خط آیا تھا میرے پاس کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے لہٰذا اسے آپ تک پہنچا دوں۔“ اس نے تنک کر الٹا جواب دیا اور تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ وہ اسے جاتا دیکھ کر مسکرا کے رہ گیا۔
*****************************************
”مس! یہ نوٹ میرے چاچو نے دیا ہے آپ کیلئے۔“ آیان کی بات پر کاپی چیک کرتی ازلفہ نے سر اٹھایا۔
”میرے لئے!“ اس نے ڈائری لیتے ہوئے تعجب سے دہرایا اور اس پر لکھی تحریر پڑھنے لگی۔
”محترمہ آيان کی ٹیچر!“
”لکھائی کی تعریف کرنے کا بہت شکریہ، باقی آپ آیان کی ٹیچر ہیں میری نہیں، اسی لئے اس پر دھیان دیں، میری غلطیاں مت نکالیں، اور آیان کے پاس کام کی زیادتی کی وجہ سے میں نے اس کی مدد کی تھی ورنہ وہ اپنا کام خود کرتا ہے، باقی میری لکھائی، میری مرضی، میں اسے کیسا بھی رکھوں آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، شکریہ!
آیان کا چاچو
نوٹ پڑھ کر ازلفہ کا خون کھول گیا اور جو پہلا لفظ اس کے ذہن میں اس شخص کیلئے ابھرا وہ تھا ”بدتمیز“
پہلے اس نے سوچا کہ آیان کے ذریعے سختی سے اس بدتمیز انسان کو جواب دے۔ مگر پھر اس کی ننھی عمر کو دیکھتے ہوئے خود ہی یہ ارادہ ملتوی کردیا۔
مگر جواب تو اسے دینا ہی تھا اسی لئے اس نے دوبارہ اگلے صفحے پر ایک نوٹ لکھ کر ڈائری آیان کی جانب بڑھائی۔
”آیان! یہ نوٹ اپنے چاچو کو پڑھوا دیجئے گا لازمی۔“ اس نے ضبط کرتے ہوئے سنجیدگی سے تاكید کی تو وہ سر ہلا کر واپس چلا گیا۔
*****************************************
”ہاں بھئی پرنس! دے دیا تھا اپنی مس کو میرا نوٹ؟“ جیکب نے نیچے کارپٹ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا جہاں آیان اپنی کتابیں بکھیر کر بیٹھا پڑھ رہا تھا۔
”جی، اور انہوں نے بھی آپ کیلئے ایک نوٹ دیا ہے۔“ اس نے سر اٹھا کر بتایا۔
”اچھا! لاؤ دکھاؤ۔“ اسے دلچسپی ہوئی تو آیان نے ڈائری اس کی جانب بڑھا دی جسے لے کر وہ لپڑھنے لگا۔
”محترم آیان کے چاچو!“
”میں بھلے ہی ٹیچر آیان کی ہوں لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی مادری زبان اردو کو بھول رہے ہیں، اور اس کی جگہ دوسروں کی زبان انگلش میں ماہر ہوتے جارہے ہیں جو کہ ہمارے لئے فائدے مند نہیں ہے۔ جب بڑے ہی غلطی پر ہوں گے اور نہایت بدتمیزی کے ساتھ اس پر اڑے رہیں گے تو بچے کیسے اچھی بات سیکھیں گے؟ لہٰذا آپ خود پر بھی توجہ دیں اور آیان پر بھی، آپ جب جب غلطی کریں گے، میں تب تب اسے نکالوں گی اور آپ کی اصلاح کرنے کی کوشش کروں گی، چاہے آپ کو اچھا لگے یا نہیں، شکریہ!“
آیان کی ٹیچر
”انٹرسٹنگ!“ معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے اس کے منہ سے پہلا لفظ یہ ہی نکلا۔
آج نوٹ پڑھ کر وہ پہلے کی طرح برہم نہیں ہوا تھا بلکہ اسے عجیب سا لطف آیا تھا۔ جیسا لطف سامنے والے کو زچ کرکے مزہ لینے میں آتا ہے۔ اور وہ یہ مزہ دوبارہ لینا چاہتا تھا اسی لئے اس نے پینسل اٹھا کر دوبارہ ایک نوٹ لکھا۔ یعنی دوبارہ بات بڑھائی۔
*****************************************
آج رات کو سہیل کا ولیمہ تھا۔اور آج شاید حامد کی افروز سے آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد تو ملنے کا اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا نہیں مگر وہ ہر صورت کوئی راہ چاہتا تھا۔ اور اسی کی تلاش میں اس وقت وہ سہیل کے گھر کے ڈرائینگ روم میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔
”حامد تم اچانک یہاں! سب خریت تو ہے نا؟“ سہیل نے ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں یار، کچھ خریت نہیں ہے۔“ اس نے بےبسی سے جواب دیا۔
”کیوں بھئی کیا ہوگیا؟ کیا آنٹی نے گھر سے نکال دیا تمہیں؟“ سہیل نے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھے ہوئے اندازہ لگایا۔
”ارے نہیں یار، بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔“ اس نے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑ دی۔
”یار وہ جو تمہاری بہن ثمینہ کی دوست ہے نا افروز! مجھے وہ اچھی لگنے لگی ہے۔“ اس نے آہستہ سے بتایا۔
”جب اچھی ہے تو اچھی ہی لگے گی نا!“ سہیل نے سرسری انداز میں کہا۔ در حقیقت وہ حامد کا مطلب سمجھ گیا تھا مگر اسے تنگ کر رہا تھا۔
”یار وہ والی اچھی نہیں، دوسری والی اچھی لگتی ہے۔“ اس نے تصحیح کرنی چاہی۔
”دوسری والی مطلب؟ ثمینہ کی کوئی اور دوست بھی؟“ وہ انجان بنتے ہوئے حامد کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
”یار مطلب اچھے لگنے سے تھوڑا زیادہ اچھی لگتی ہے۔“ اس نے دبے دبے لفظوں میں سمجھانا چاہا تو سہیل بےساختہ ہنس پڑا۔
”یار تم میرے سامنے اقرارِ محبت کرنے میں اتنا جھجھک رہے ہو، تو اس کے سامنے تو تمہاری آواز بھی نہیں نکلے گی۔“ اس نے ہنستے ہوئے مذاق اڑایا۔
”یار تجھے مذاق سوجھ رہا ہے اور یہاں مجھے ٹینشن ہو رہی ہے کہ آج تیرے ولیمے کے بعد میں دوبارہ اس سے کیسے ملوں گا!“ اس نے فکرمندی سے اصل بات بتائی۔
”لو! بس اتنی سی بات پر پریشان ہو رہے ہو! تم فکر نہیں کرو، تم دونوں کو ملوانے کیلئے میں دوبارہ شادی کرلوں گا، بس اب خوش!“ وہ ہنوز مذاق کے موڈ میں تھا۔
”یار میں سیریس ہوں!“ وہ خفا ہوا۔
”ہاں تو بول دو اسے، پھر جیسے ہی یہ بات تم دونوں کے گھر والوں کو معلوم ہوگی نا تو وہاں تمہاری اماں جان تمہیں جائیداد سے عاق کرکے گھر سے نکال دیں گی، اور یہاں افروز کی سڑیل مامی اسے گھر سے نکال باہر کریں گی، پھر تم دونوں بے گھر مل کر شہر سے دور جاکر عامر خان اور مادھوری ڈکشت کی طرح جنگل میں گانا گاتے ہوئے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بسا لینا، ٹھیک ہے نا!“ اس نے طنزیہ انداز میں مستقبل کی منظر کشی کی تو حامد اسے گھور کر رہ گیا۔
”تو سیریس ہوکر میری مدد کرے گا یا نہیں؟“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں تو کیا اس معاملے میں کوئی بھی تیری مدد نہیں کرسکتا، کیونکہ آپ کی اماں جان کبھی نہیں مانیں گی ایک مڈل کلاس لڑکی کو اپنی بہو بنانے کیلئے۔“ اس نے حقیقت کا آئینہ دکھایا جسے وہ نظر انداز کر رہا تھا۔
”تو ٹھیک کہہ رہا لیکن یار چانس لینے میں کیا حرج ہے؟ ہوسکتا ہے اماں جان مان جائیں!“ اس نے تائید کرتے ہوئے آخر میں ایک امید ظاہر کی۔
”ٹھیک ہے، لیکن پہلے اپنی مادھوری ڈکشت سے تو اس کی مرضی معلوم کرلو۔“ سہیل نے دھیان دلایا۔
”وہ بھی پوچھ لوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ مان جائے گی۔“ اس نے پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ اس بات سے بےخبر کہ اس کی امید اور یقین میں سے کوئی ایک چکنا چور ہونے والا تھا۔
*****************************************
برقی قمقموں سے سجے ہال میں ولیمے کی تقریب جاری تھی جہاں سب مہمان باری باری اسٹیج پر آکر دولہا دلہن کے ہمراہ تصاویر بنوانے میں مصروف تھے۔
گہرے نیلے رنگ کے سوٹ میں اپنے مخصوص سادہ سے انداز میں تیار ہوئی افروز ایک کونے میں کھڑی دلچسپی سے اسٹیج پر چلتی خوشگوار افراتفری دیکھنے میں مصروف تھی۔
”سنیں!“ تب ہی مردانہ آواز پر وہ چونک کر پلٹی۔ سیاہ ٹو پس میں پیچھے کھڑا حامد بلاشبہ آج کافی جاذب نظر لگ رہا تھا۔
”مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی۔“ اس نے تہمید باندھی۔
”جی بولیں!“ افروز کا انداز حسب معمول لیا دیا ہی تھا۔ جس کے پیش نظر وہ بات شروع کرنے کیلئے لفظ اکٹھے کرنے لگا۔
”آج سہیل کا ولیمہ ہے، یعنی آخری تقریب ہے، پھر یہ سب ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد شاید ہم دوبارہ مل نا سکیں۔“ اس نے بات شروع کی۔
”تو پھر؟“ اندازہ اب بھی سرسری تھا۔
”تو آپ کو اندازہ تو ہوگیا ہوگا نا کہ میں آپ سے کیا کہنا چاہ رہا ہوں!“ اس نے سیدھا اظہار کرنے کے بجائے دبے دبے لفظوں میں ٹٹولا۔
”نہیں، آپ واضح طور پر بتا دیں تو بہتر ہوگا، میں اندازوں کی بنیاد پر غلط فہمی نہیں پالتی۔“ اس نے روکھی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا تو حامد نے بےساختہ ایک گہری سانس لی۔
”پہلے میں اپنے بارے میں تھوڑا بتا دیتا ہوں آپ کو، میں حامد شیرازی ہوں، میں ایک ویل سیٹیلڈ فیملی سے بلانگ کرتا ہوں، میرے ابو کا کافی پہلے انتقال ہوچکا ہے اسی لئے ہمارے گھر کی سربراہ ہماری اماں جان ہیں، ہم تین بھائی بہن ہیں، سب سے بڑے عماد بھائی ہیں، پھر میں ہوں اور مجھ سے چھوٹی بہن رابعہ ہے، ہمارے گھر میں صرف عماد بھائی شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا ہے، لیکن اب اماں جان چاہتی ہیں کہ میں بھی شادی کرلوں۔“ اس نے اپنا مکمل تعارف دیتے ہوئے بلاوجہ کی تفصیل بتائی۔
”تو آپ اپنا شجر نسب مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟“ اس نے بےزاری سے سوال کیا۔
”بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔۔۔میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ بلآخر اس نے ہمت جٹا کر بول ہی دیا۔
جب کہ ابھی تک بےزار کھڑی افروز یہ سن کر ہکابکا رہ گئی۔ اور اس حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ وہ حامد کو کوئی چھچھورا دل پھینک لڑکا سمجھتے ہوئے یہ ہی سوچ رہی تھی کہ شاید وہ اسے دوستی کی آفر کرے گا یا اظہار محبت، مگر اس نے تو سیدھا ہی شادی کی بات کردی تھی۔
”کیا کہا آپ نے؟“ اسے اپنی سماعت پر شک گزرا۔
”یہ ہی کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ اس نے مہذب انداز میں اپنی بات دہرائی۔
”لیکن کیوں؟“ وہ الجھی۔
”کیونکہ میں آپ کو پسند کرنے لگا ہوں۔“ اس نے آرام سے وجہ بتائی۔
”ہم اب تک صرف تین بار ملے ہیں وہ بھی سرسری طور پر، اور اتنی سی ملاقات کی بنا پر آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ مجھے پسند کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں!“ وہ شدید حیران تھی۔
”ہاں، آپ نے سنا نہیں ہے کہ لو ایٹ فرسٹ سائیڈ، پہلی نظر کی محبت! شاید وہ ہی ہوگئی ہے مجھے آپ سے۔“ اب وہ برملا اظہار کر رہا تھا۔
”میں نہیں مانتی ان سب فضول اور چھچھوری باتوں کو، پہلی نظر میں کوئی محبت وحبت نہیں ہوتی ہے، یہ سب بس وقتی کشش ہوتی ہے، محبت آہستہ آہستہ پروان چڑھنے والا جذبہ جسے آپ جیسے لوگوں نے لو ایٹ فرسٹ سائیڈ جیسے فضول فلسفوں سے بدنام کر رکھا ہے۔“ وہ خاصی برہم ہوگئی تھی۔ جب کہ اس کی بات پر چند لمحوں کیلئے وہ بھی لاجواب ہوگیا۔
”اچھا چلیں آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ مجھے محبت نہیں ہوئی ہے بس وقتی پسند ہے، لیکن شادی کے بعد ساتھ رہ کر آہستہ آہستہ تو محبت ہوسکتی ہے نا!“ وہ اسی کی بات سے ایک نیا پہلو ڈھونڈ لایا تھا جس پر وہ زچ ہوگئی۔
”اگر آپ نے تھوڑی دیر اور اپنا یہ چھچھورپن جاری رکھا نا تو میں تماشا کھڑا کردوں گی سب کے سامنے۔“ اس نے ضبط کرتے ہوئے تنبیہہ کی۔
”آپ سمجھ نہیں رہی ہیں، میں سچ میں سنجیدہ ہوں اور اپنے گھر والوں کو رشتے کی بات کرنے کیلئے آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں، بس اپنے گھر والوں سے بات کرنے سے پہلے سوچا کہ ایک بار آپ سے آپ کی مرضی جان لوں، کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے پھر ایک آس سے پوچھا۔
”بالکل بھی نہیں!“ اس نے جھٹ سے جواب دیا تو اس کے دل پر گھونسا پڑا۔
”میرا اور آپ کا کوئی جوڑ نہیں ہے، میں جانتی ہوں آپ سہیل بھائی کے امیر دوست ہیں جن کیلئے دوستیاں اور محبت ٹائم پاس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا، اور جب بات شادی کی آتی ہے تو آپ لوگ اپنے کلاس کے گھرانوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں، آپ کیلئے ہم جیسے غریب لوگ صرف ٹائم پاس ہوسکتے ہیں بس، اور یہ ہی آپ میرے ساتھ کرنا چاہ رہے ہیں۔“ اس نے تلخی سے کہا۔
”نہیں افروز! آپ غلط سمجھ رہی ہیں، میں کوئی ٹائم پاس نہیں کر رہا بلکہ سچ میں آپ کے ساتھ پوری زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔“ اس نے پھر پوری شدت سے اپنی بات کا یقین دلانا چاہا۔
”ٹھیک ہے، اگر آپ سچ میں اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو بھیج دیجئے گا اپنے گھر والوں کو میرے گھر۔۔۔۔اگر وہ راضی ہوجائیں تو!“ بلآخر اس نے بھی چیلنج کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں بات ختم کی اور تیز تیز قدم اٹھا کر وہاں سے جانے لگی۔
”اگر میں نے آپ کے گھر والوں سے شادی کی بات کرلی تو کیا آپ مجھ سے شادی کرلیں گی؟“ حامد کے سوال پر اس کے اٹھتے ہوئے قدم رکے اور وہ واپس پلٹی۔
”میری ”ہاں“ بہت دور کی بات ہے، پہلے لفظ ”اگر“ قابل غور ہے آپ کی بات میں۔“ اس نے سنجیدگی سے گول مول جواب دیا اور پھر وہاں نہیں رکی۔ جسے وہ وہیں کھڑا دور جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
*****************************************
آج کیونکہ اتوار تھا اسی لئے آج ازلفہ آرام سے اپنی نیند پوری کرکے اٹھی تھی۔ مگر کمرے سے باہر آنے پر لاؤنج میں ہوتی ہلچل دیکھ کر حیران رہ گئی۔
”یہ کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے بھئی؟“ ازلفہ نے لاؤنچ میں بکھرے ہوئے سوٹ کیسوں کو دیکھ کر اذکیٰ سے پوچھا جو نعیمہ کے ساتھ مل سوٹ کیس صاف کر رہی تھی۔
”لاہور جانے کی۔“ اذکیٰ نے جواب دیا۔
”اچانک کیوں؟ سب خریت تو ہے نا امی؟“ وہ پوچھتے ہوئے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔
”ہاں خریت ہی ہے، دراصل تمہاری نجمہ خالہ کا فون آیا تھا، کہہ رہی تھی نمرہ کیلئے ایک رشتہ آیا ہوا ہے، تو وہ چاہ رہی ہیں میں اور تمہارے ابو جاکر لڑکے والوں سے مل لیں، اور اگر لڑکا ٹھیک لگا تو ہاتھ کے ہاتھ منگنی بھی کردیں گے، بس اسی لئے میں اور تمہارے ابو چار بجے کی ٹرین سے لاہور جا رہے ہیں۔“ نعیمہ نے ہنوز کام کرتے ہوئے مختصر تفصیل بتائی۔
”تو آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ لوگوں کا ایسا کوئی پلان ہے؟“ اب اس نے نیا سوال کیا۔
”اذکیٰ کو معلوم تو تھا، اور تمھیں اپنے اسکول کے جھمیلوں سے فرصت ملے تو پتا چلے نا کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے۔“ انہوں نے جواباً اس کی کلاس لی۔
”اچھا کب تک واپس آئیں گے آپ لوگ؟“ اس نے موضوع بدلا۔
”ارادہ تو ایک ہفتے کا ہے، باقی وہاں جا کر پتا چلے گا۔“ انہوں نے بات کے اختتام پر کندھے اچکائے۔
”میرا بھی اتنا دل چاہ رہا جانے کا، پر کمبخت یہ پیپرز بھی ہے نا!“ اذکیٰ نے اپنا دکھڑا رویا۔
”ابھی تو صرف بات طے ہو رہی ہے، باقی شادی پر تو سب ہی جائیں گے۔“ نعیمہ نے دھیان دلایا۔
”جاؤ ازلفہ پہلے تم ناشتہ کرلو، پھر ناشتے کے بعد ذرا تم بھی مدد کراؤ پیکنگ میں۔“ انہوں نے اس کے ذمہ بھی کام لگایا۔
”ہاں ان سے بھی کچھ کام کروائیں، کب سے بس میں ہی لگی ہوئی ہوں۔“ ان کی بات پر اذکیٰ بھی جھٹ سے بولی۔
”بس کرو، کوئی پہاڑ نہیں تڑوالیے میں نے تم سے، ایک ذرا سا سوٹ کیس ہی تو صاف کروائے ہیں۔“ نعیمہ نے بھی فوراً کہا تو ازلفہ وہاں سے اٹھ کر کچن میں چلی گئی کیونکہ اسے پتا تھا کہ اب ان دونوں بہنوں کی اگلی پچھلی ساری کام چوریاں گنوانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
*****************************************
افروز کے بعد اب حامد کو نور جہاں سے بات کرنی تھی۔ اور یہ سوچ سوچ کر ہی حامد کی حالت بری ہو رہی تھی کہ اس کا مڈل کلاس لوگوں سے دوستی کرنا ہی نور جہاں کو اتنا ناگوار گزرتا تھا تو یہ جان کر کہ حامد ایک مڈل کلاس لڑکی سے شادی کرکے اسے نور جہاں کی بہو بنانا چاہتا ہے، وہ کہیں اس کو گولی سے ہی نا اُڑا دیں!
لیکن بات کرنا بھی ضروری تھا۔اس لئے ان سے بات کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس نے ان کے کمرے کا رخ کیا۔
”ٹک ٹک ٹک!“ اس نے دروازے پر دستک دی۔
”آجاؤ!“ اجازت ملنے پر وہ دروازہ دھکیلتا ہوا اندر آگیا جہاں حسب توقع وہ اپنی ایزی چیئر پر بیٹھیں کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔
”اماں جان! مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“ اس نے آداب سے کھڑے ہوکر اجازت چاہی۔
”ہممم! بیٹھو اور بولو!“ انہوں نے صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اجازت دی تو وہ ان کے مقابل والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”بولو کیا بات کرنی ہے؟ اور بنا لمبی چوڑی تہمید کے بولنا، مجھے گھما پھرا کر بات کرنا اور سننا پسند نہیں ہے۔“ وہ کتاب بند کرتے ہوئے پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوئیں تو وہ اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولنے کیلئے الفاظ جمع کرنے لگا۔
”وہ اماں جان۔۔۔۔دراصل بات یہ ہے کہ جب میں پچھلے دنوں سہیل کی شادی میں گیا ہوا تھا نا! تو وہاں مجھے۔۔۔۔۔مجھے ایک لڑکی اچھی لگی۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔۔“
”اس سے شادی کرنا چاہتے ہو، ہے نا!“ وہ رک رک کر بتا رہا تھا کہ تب ہی نور جہاں نے بات مکمل کی۔
اس نے ہلکے سے اثبات میں سرہلایا۔
”تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے! تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں ایک مڈل کلاس لڑکی کو اپنی بہو بنانے کیلئے مان جاؤں گی۔“ حسب توقع وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھیں۔
”ان مڈل کلاس لوگوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ بس امیر لڑکے کو پھانس کر اس سے شادی کرکے عیش کریں۔“ ان کے انداز میں حقارت تھی۔
”نہیں اماں جان، وہ ایسی لڑکی نہیں ہے، بلکہ میں نے خود اس کی جانب پہل کی تھی۔“ اس نے وضاحت کرنی چاہی۔
”بس! مجھے آگے اور کچھ نہیں سننا، اس کمرے سے نکلنے کے ساتھ ساتھ تم اپنے دل و دماغ سے بھی یہ خیال نکال دینا، آئی سمجھ!“ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے ٹوکا۔
”لیکن اماں جان ایک بار میری بات۔۔۔۔“
”بس! اب تم جاسکتے ہو۔“ انہوں نے سپاٹ انداز میں بات کاٹتے ہوئے اسے باہر کا راستہ دکھایا تو وہ لب بھینچ کر چپ ہوگیا۔ انہوں نے اس کی بات مکمل سنے بنا ہی اپنا دوٹوک فیصلہ صادر کردیا تھا جس کے باعث اس کا دل پسیچ گیا۔
وہ دوبارہ کتاب کھول چکی تھیں، مطلب اب مزید اس حوالے سے وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
حامد کا یہاں رکنا بےمقصد تھا اسی لئے وہ بھی سنجیدگی سے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔ مگر جو خیال لے کر وہ اس کمرے میں آیا تھا وہ دل سے نکلنے کے بجائے مزید جڑ پکڑ گیا۔
*****************************************
آہٹ سی کوئی آئے، تو لگتا ہے تم ہو
سائے کوئی لہرائے، تو لگتا ہے تم ہو
دوپہر کی چلچلاتی دھوپ کو فراموش کیے پسینے میں تربتر افروز اس وقت چھت پر دھلے ہوئے کپڑے سکھا رہی تھی۔ تب ہی گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی جسے سن کر وہ سب کام چھوڑ برق رفتاری سے بھاگتی ہوئی دروازہ کھولنے آئی مگر دوسری جانب ثمینہ کو دیکھ کر اس کی موہم سی امید بجھ گئی۔
”بھائی کی شادی کی ویڈیو اور تصویریں بن کر آگئی ہیں افروز، جلدی گھر آجا مل کر دیکھتے ہیں۔“ اس نے خوشی خوشی اپنی آمد کا مقصد بتایا۔
”ابھی تو میں کام کر رہی ہوں یار، تھوڑی دیر تک آتی ہوں فارغ ہوکر۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”چل ٹھیک ہے، لیکن آجانا ہاں!“ اس نے بات ختم کرتے ہوئے تاكید کی اور پھر واپس چلی گئی۔
وہ بھی بجھے دل کے ساتھ دروازہ بند کرتے ہوئے پلٹی تو پیچھے کھڑی شمع کو دیکھ کر چونک گئی جو گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”کیا بات ہے؟ پچھلے دو دن سے میں دیکھ رہی ہوں کہ جب بھی دروازہ بجتا ہے تم سب کام چھوڑ چھاڑ کر بڑی بھاگی بھاگی آتی ہو دروازہ کھلنے اور دروازہ بند کرتے ہوئے تمہارا منہ لٹک جاتا ہے، کوئی آنے والا ہے کیا؟ کس کا انتظار کر رہی ہو؟“ انہوں نے تیکھے انداز میں پوچھ گچھ کی۔
”میں بھلا کس کا انتظار کروں گی؟ میرا کون ہے جو آئے گا؟“ وہ گڑبڑا بنائے پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے بولی اور ساتھ ہی وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ وہ وہیں کھڑی اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
*****************************************
ہمت نہ ہارتے ہوئے اگلے دن حامد نے ناشتے کے دوران دوبارہ سب کی موجودگی میں نور جہاں سے وہ ہی بات چھیڑ دی جسے سن کر حسب سابق ان کا پارہ ہائی ہوگیا تھا۔ جب کہ باقی سب بھی حیران تھے۔
”میں نے ایک مرتبہ کہہ دیا نا کہ اس لڑکی کا خیال اپنے دل سے نکال دو، تو سمجھ میں نہیں آیا تمہاری!“ وہ سختی سے گویا تھیں۔
”اماں جان شادی کے بعد وہ میرے نام سے پہچانی جائے گی نہ کہ میں اس کے نام سے تو پھر کیا مسلہ ہے!“ اس نے پھر سمجھانا چاہا۔
حامد کی اس جرت پر سب حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے کہ جو کام وہ کر رہا تھا اسے کرنے کی آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی، اور وہ تھا نور جہاں سے ضد بحث!
”اور لوگ جب پوچھیں گے کہ بہو کا اسٹیٹس کیا ہے! تو کیا جواب دوں گی میں؟“ انہوں نے سوال اٹھایا۔
”کہہ دیجئے گا کہ ہم نے لڑکی کو دیکھ کر شادی کی ہے اس کے اسٹیٹس کو دیکھ کر نہیں۔“ اس نے ترکی بہ ترکی حل پیش کیا تو وہ مزید سلگ گئیں۔
”یہ سب کیا ہے حامد؟ تمھیں کیا ہوگیا ہے اچانک؟“ عماد نے بھی تحمل سے مداخلت کی۔
”کچھ نہیں ہوا ہے بھیا، بس اماں بیکار کی ضد لے کر بیٹھی ہوئی ہیں، صرف اپنی مرضی سے شادی کرنے کی ہی تو بات کی ہے میں نے۔“ اس نے صفائی دی۔
”واہ بھائی! ابھی تم صرف اس لڑکی سے ملے ہی ہو اور تم اماں جان سے بدتمیزی کرنے لگے ہو، اگر اس سے شادی بھی کرلی تو تم تو سارا لحاظ مروت ہی بھول جاؤ گے!“ نزہت نے بھی اپنی عادت سے مجبور جلتی پر مزید تیل ڈالا۔ جب کہ چھوٹے ہونے کے باعث رابعہ نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔
”میں کسی سے بدتمیزی نہیں کر رہا بھابھی، بس اپنی خواہش کا اظہار کر رہا ہوں، آخر اس میں غلط ہی کیا ہے؟“ اس نے پھر اپنا دفاع کیا۔
”اس لڑکی کا اسٹیٹس جو ہم سے کسی صورت میل نہیں کھاتا۔“ اب نور جہاں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اور اگر تم نے یہ ضد نہیں چھوڑی تو میں تمہیں اس گھر اور بزنس سے بے دخل کردوں گی، اسی لئے اسے بھول جاؤ، یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔“ انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے بات ختم کی۔
”اس گھر اور بزنس پر قانونی طور پر میرا بھی حق ہے، اور جس بزنس کی آپ بات کر رہی ہیں اسے یہاں تک پہنچانے میں ابو اور بھیا کے بعد میرا بھی ہاتھ ہے، اس لئے آپ مجھے اس سے اتنی آسانی سے بے دخل نہیں کرسکتی، اور اگر کر بھی دیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا، میں ہر حال میں اس سے شادی کروں گا اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔“ اس نے بھی بےخوف و خطر اپنا فیصلہ سنایا اور اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ نور جہاں سمیت سب ہی حیران تھے کہ یہ حامد کو کیا ہوگیا ہے؟
*****************************************
اسکول کی چھٹی ہوتے ہی یکساں یونیفارم میں بےتحاشا بچوں کا ہجوم ایسے بھاگتے ہوئے باہر نکلا تھا گویا انہیں کسی قید سے آزادی مل گئی ہو۔
ان ہی سب بچوں کے ساتھ ٹیچرز بھی باہر آگئی تھیں جن میں سیاہ عبایا اور اسکارف پہنے ازلفہ بھی تھی۔
دوپہر کا وقت ہونے کے باعث دھوپ کافی تیز تھی جس میں پوری طرح آنکھیں کھلی رکھ پانا تھوڑا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ ایک کندھے پر بیگ لئے، رجسٹر سینے سے لگائے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔
تب ہی ایک گلی سے جیکب برق رفتاری سے بھاگتا ہوا آیا اور اس سے بری طرح ٹکرایا جس سے وہ سٹپٹا گئی مگر وہ اتنی تیزی سے بھاگتا ہوا آرہا تھا کہ معذرت کرنے کو بھی نہیں رکا اور اسی تیزی سے آگے بھاگ گیا۔
”بدتمیز انسان!“ ازلفہ اپنا کندھا سہلاتے ہوئے ناگواری سے بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
”چور چور! ارے کوئی پکڑو اسے۔“ اسی گلی سے ایک بوڑھی خاتون چلاتی ہوئی اس طرف آئیں جہاں سے ابھی جیکب بھاگتا ہوا آیا تھا۔
”کیا ہوا آنٹی؟“ وہ متعجب سی ان کے قریب آئی۔
”وہ۔۔وہ لڑکا میرا۔۔۔میرا پرس لے کر بھاگا ہے۔“ انہوں نے ہانپتے ہوئے بمشکل بتایا تو لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ سمجھ گئی کہ اس سے ٹکرانے والا یقیناً وہ ہی چور تھا۔
”آنٹی آپ یہاں رکیں میں دیکھتی ہوں۔“ وہ ان کی عمر کے پیش نظر انہیں ایک جگہ رکنے کا کہہ کر خود اس سمت بھاگی جہاں جیکب گیا تھا۔
تھوڑا دور جانے کے بعد اسے روڈ کی دوسری جانب جیکب کھڑا نظر آگیا جس کے ہاتھ میں لیڈیز بیگ تھا اور شاید وہ رک کر اس میں سامان چیک کر رہا تھا۔
”چور! پکڑو اسے!“ اسے دیکھتے ہی ازلفہ چلائی تو آس پاس موجود لوگ متوجہ ہوئے جب کہ جیکب بھی اسے ہی دیکھنے لگا۔
”بھیا اسے پکڑیں یہ چور ہے اور ایک آنٹی کا پرس لے کر بھاگا ہے۔“ اس نے آس پاس موجود لوگوں سے کہا تو سب نے اگلے ہی پل جیکب پر دهاوا بول دیا۔
”دیکھیں رک جائیں۔۔۔۔۔۔پلیز میری بات سنیں۔۔۔۔میں چور نہیں ہوں۔“ اس نے بمشکل خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے دہائی دینی چاہی مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔
ایک بندے نے پرس لے کر ازلفہ کو دیا جسے لے کر وہ واپس اسی خاتون کی جانب آئی جو اسے آدھے راستے میں ہی مل گئیں۔
”آنٹی یہ لیں آپ کا پرس! لوگوں نے اس چور کو پکڑ لیا ہے۔“ اس نے خوشی خوشی بتایا۔
”اللّه کا شکر ہے!“ انہوں نے پرس تھامتے ہوئے شکر کی سانس لی۔
”چلو ذرا! میں بھی تو دیکھوں اس بدبخت کا انجام۔“ وہ بولتے ہوئے اسی کے ہمراہ وہاں آئیں جہاں پبلک نے مار مار کر جیکب کی حالت بری کردی تھی۔ مگر جیکب پر نظر پڑتے ہی وہ خاتون دنگ رہ گئیں۔
”ارے ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ اسے کیوں مار رہے ہو؟“ ان کے یوں کہنے پر سب لوگ رک گئے۔
”آنٹی یہ وہ چور ہے نا جو آپ کا پرس لے کر بھاگا تھا!“ ازلفہ نے یاد دلایا۔
”نہیں، وہ تو کوئی اور تھا، یہ بیچارہ تو تمہاری طرح اس چور کو پکڑنے کیلئے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔“ انہوں نے نفی کرتے ہوئے اصل بات بتائی تو نا صرف ازلفہ ہکابکا رہ گئی بلکہ باقی سب بھی ساکت ہوگئے۔
جب کہ زخموں سے چور جیکب گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا بمشکل سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں اس چور کو پکڑنے ہی بھاگا تھا۔۔۔۔۔وہ تو میرے ہاتھ سے نکل گیا مگر۔۔۔۔میں پرس اس سے لینے میں کامیاب ہوگیا، اور اس سے پہلے کہ میں۔۔۔۔۔۔آنٹی کو پرس واپس لا کر دیتا آپ سب نے مجھے مارنا شروع کردیا۔“ جیکب نے بھی پھولتی سانسوں کے درمیان اپنی صفائی دی تو سب شرمندہ ہوگئے۔ کیونکہ بنا اصل بات جانے اگلے پر چڑھ دوڑنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ جو ٹھہرا۔
”تم لوگوں نے خواہ مخواہ بیچارے کو اتنا مارا، یہ تو میری مدد کر رہا تھا۔“ خاتون نے سب کو ان کی غلطی کا احساس دلایا۔
”اماں ہمیں تو اس لڑکی نے کہا تھا کہ یہ لڑکا چور ہے۔“ ایک آدمی نے ازلفہ کی جانب اشارہ کیا تو جیکب سمیت سب نے اس کی طرف دیکھا جو بےحد گھبرائی ہوئی اور شرمندہ تھی۔
”کیا میڈم! بلاوجہ غریب کو پٹوا دیا آپ نے، کنفرم تو کر لیتی پہلے۔“ ایک اور آدمی نے اسے کوسا اور پھر یوں ہی سب اسے لعن طعن کرتے ہوئے رش کم کرتے کرتے وہاں سے چلے گئے۔ جب کہ اکا دکا لوگوں نے جیکب کو ایک چوکھٹ پر بٹھا کر پانی وغیرہ پلایا اور پھر وہ بھی چلے گئے۔
اب بس جیکب وہاں بیٹھا خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا اور ناک سے بھی خون نکل رہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ازلفہ بےحد شرمندہ تھی۔
”آ۔۔آئی ایم سوری!“ وہ اس کے پاس آکر دھیرے سے بولی۔
اس کی بات پر جیکب نے جبڑے بھینچ کر ایک خفا سی نظر اٹھا کر اسے دیکھا گویا ضبط کر رہا ہو۔ اور پھر بنا اس سے کوئی بات کیے وہاں سے اٹھ کر چل دیا۔
”سنیں پلیز! مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کردیں۔“ وہ بھی فوراً اس کے پیچھے لپکی مگر بجائے رک کر جواب دینے کہ جیکب نے سامنے سے آتی بس کو ہاتھ دے کر روکا اور اس پر سوار ہوکر چلا گیا جب کہ ازلفہ وہیں کھڑی اسے دیکھ کر رہ گئی جس کے ساتھ وہ انجانے میں بہت بڑی زیادتی کر گئی تھی۔
*****************************************
”یار معاملہ تو واقعی بہت سنجیدہ ہوگیا ہے، اب کیا کرو گے تم؟“ ساری بات سن کر سہیل بھی متفکر ہوا۔
حامد گھر سے نکل کر آفس جانے کے بجائے سہیل کے گھر آگیا تھا اور اب اس کے ڈرائینگ روم میں موجود نور جہاں سے ہونے والی ضد بحث کی بابت اسے بتا چکا تھا۔
”میں سیدھا افروز کے گھر والوں سے ہی بات کرتا ہوں اس بارے میں۔“ حامد نے خیال ظاہر کیا۔
”پاگل ہوگئے ہو! افروز کی مامی بھی تمہاری اماں جان کا پارٹ ٹو ہیں، وبال کھڑا کر دیں گی وہ بھی۔“ سہیل نے فوراً ٹوک کر اسے باز رکھنا چاہا۔
”تو یار پھر کیا کروں میں؟“ اس نے الجھ کر بےبسی سے سوال کیا۔ تو اس کی حالت کے پیش نظر سہیل بھی سوچ میں پڑ گیا کیونکہ اسے اتنا تو یقین تھا کہ حامد افروز کیلئے بےحد سنجیدہ ہے۔
”ویسے افروز کی مامی تھوڑی لالچی ٹائپ کی عورت ہے، اگر تم افروز سے شادی کے بدلے میں انہیں کچھ آفر کرو تو شاید وہ مان جائیں۔“ سہیل نے پر سوچ انداز میں خیال ظاہر کیا۔ تو حامد کو خاصا قابل غور لگا۔
”ٹھیک ہے، پھر چلو ابھی میرے ساتھ ان کے گھر۔“ وہ ابھی جانے کو تیار تھا۔
”پاگل ہوگئے ہو کیا! ہم لوگ بھلا اچھے لگیں گے رشتے کی بات کرتے ہوئے، تم ایسا کرو میری امی کو ساتھ لے جاؤ۔“ اس نے ٹوکتے ہوئے مشورہ دیا۔
”تو جلدی بلاؤ آنٹی کو، ان سے بات کرتے ہیں۔“ وہ بےتاب ہوا۔
”یار تم تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں لگے ہوئے ہو، ذرا تحمل سے کام لو، صبر رکھو، اتنی بے صبری تو مجھے بھی نہیں تھی اپنی شادی کی جتنے اتاؤلے تم ہوئے جا رہے ہو۔“ سہیل نے اس کی بےتابی کو لگام ڈالنی چاہی۔
”اگر لیکچر دے چکے تو جا کر اپنی امی کو لے آؤ!“ حامد نے چڑ کر دھیان دلایا۔
”اچھا بھئی جارہا ہوں!“ بلآخر وہ ہار مانتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد سہیل اپنی امی کے ساتھ دوبارہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔
”کیا ہوگیا بیٹا! سب خریت تو ہے؟“ فوزیہ نے حامد کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تو اس نے انھیں شروع سے ساری بات بتائی جسے انہوں نے بغور سنا۔
”بیٹا تمہاری بات ٹھیک ہے، پر اس طرح سے والدین کی مرضی کے خلاف جانا ٹھیک نہیں ہے۔“ ساری بات سن کر وہ رسان سے گویا ہوئیں۔
”آنٹی اماں جان ایک مرتبہ جس بات سے انکار کردیں، دوبارہ وہی بات کرنے کی کسی کی بھی ہمت نہیں ہوتی، پر میں نے اس معاملے پر دوبارہ ان سے بات کی کہ شاید وہ مان جائیں، کیونکہ میں بھی یہ سب ان کی مرضی کے خلاف جاکر یا ان کی دل آزاری کرکے نہیں کرنا چاہتا، مگر انھوں نے پھر انکار کردیا، اور میں نے ایسا بھی کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کیا ہے، میں بس اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہ کوئی جرم یا گناہ نہیں ہے، شریعت اور قانون دونوں ہی اس بات کی اجازت دیتے ہیں، مگر اماں جان نہیں سمجھ رہی ہیں۔“ اس نے بےبسی سے وضاحت کی تو وہ خاموش ہوگئیں۔
”اور میں جانتا ہوں کہ اماں جان بس ابھی ناراضگی دکھا رہی ہیں، جب افروز ان کی بہو کے روپ میں ان کے سامنے جائے گی نا تو تھوڑا غصہ کرنے کے بعد وہ اسے ضرور قبول کرلیں گی، بس فی الحال مجھے آپ لوگوں کی مدد چاہیے۔“ اس نے آس و امید سے کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
****************************************
”یااللّه! یہ کیا کردیا آپی آپ نے؟“ ساری بات سن کر صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی اذکیٰ نے بےساختہ سر پیٹا۔ جو کچھ دیر قبل تک مزے سے چپس کھاتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
”خواہ مخواہ اس بیچارے پر بہتان لگا کر اسے پٹوا دیا۔“ اس نے مزید ملامت کی۔
”ایک تو ویسے ہی میری جان پر بنی ہے اوپر سے تم بجائے مجھے تسلی دینے کے اور کوس رہی ہو۔“ بےچینی سے انگلیاں مڑوڑتی، یہاں سے وہاں ٹہلتی ازلفہ کی پریشانی اس سے بانٹنے کے بعد مزید بڑھ گئی۔
”ہاں تو آپ نے کارنامہ بھی تو اتنا عظیم انجام دیا ہے، کیا ضرورت تھی بنا تحقیق کے شور مچانے کی؟ پتا تو ہے کہ اسلام بنا تحقیق کے بات آگے بڑھانے کے سخت خلاف ہے اور آپ نے وہ ہی کام کردیا۔“ وہ اب بھی اسے ہی لتاڑ رہی تھی۔
”یار جس طرح وہ عجلت میں بھاگتے ہوئے مجھ سے ٹکرایا تھا اور پھر پیچھے آنٹی چور چور کہتی ہوئی آئی تھیں تو مجھے لگا کہ وہ ہی چور ہوگا، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا، میں نے تو اسے سوری بولنے کی کوشش بھی کی تھی مگر اس نے مجھے اتنے خطرناک تیوروں کے ساتھ گھورا تھا اذکیٰ کہ میں بتا نہیں سکتی، اس کے ہونٹ اور ناک سے خون نکل رہا تھا، جبڑے بھینچے ہوئے تھے اور آنکھیں بھی غصے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں، صاف واضح تھا کہ وہ مجھ سے بےحد ناراض تھا اور مجھے معاف نہیں کرے گا۔“ جیکب کا چہرہ یاد آتے ہی وہ پھر سہم گئی۔
”ایک بات تو بتاؤ، وہ لڑکا دکھنے میں کیسا تھا؟ ہینڈسم تھا؟“ اب اذکیٰ نے ذرا آگے ہوکر معنی خیزی سے جاننا چاہا۔
”یہاں ٹینشن سے میرے پسینے چھوٹ رہے ہیں اور تمھیں چھچھورپن سوجھ رہا ہے۔“ وہ ایک جگہ رک کر اس پر برہم ہوئی۔
”یہ سوچ سوچ کر میرا دل گھبرا رہا ہے کہ میں نے ایک بےقصور پر سرِعام بہتان لگا دیا، میری وجہ سے اسے تکلیف پہنچی ہے، کتنا بڑا گناہ ہوگیا ہے مجھ سے، اگر اس نے مجھے معاف نہیں کیا تو کیا ہوگا؟“ اس کے سوالیہ انداز میں خوف تھا۔
”کیا ہونا ہے، ہائے لگے گی آپ کو اس بےقصور کی۔“ اذکیٰ لاپرواہی سے کہہ کر دوبارہ چپس کھانے لگی جب کہ اس کی بات پر ازلفہ نے جھلاتے ہوئے کشن اٹھا کر اسے مارا جو اسے مزید ڈرائے جا رہی تھی۔
****************************************
حامد اور فوزیہ اس وقت افروز کے گھر کے ڈرائینگ روم میں اس کی مامی کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جہاں فوزیہ نے شمع کو ساری بات بتادی تھی۔ حامد بالکل وقت برباد نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے فوزیہ کو اسی وقت ہی یہاں لے آیا تھا۔
”تب ہی میں کہوں کہ آج کل کچھ دنوں سے اس لڑکی کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے کیوں ہیں؟ اسی لئے ہر دستک پر بھاگ بھاگ کر دروازہ کھولنے جاتی تھی وہ اس امید پر کہ یہ مہاشے آئے ہوں گے اور بعد میں مایوس ہوکر دروازہ بند کر دیتی تھی۔“ ساری بات سن کر شمع دونوں ہاتھ ملا کر تالی مارتے ہوئے نتیجے پر پہنچیں۔
”اور بہن یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے رشتہ کرنے کا، جب تک خود لڑکے کی والدہ آکر بات نہیں کرتیں میں بات آگے نہیں بڑھاؤں گی۔“ انہوں نے مزید کہتے ہوئے منہ بنا کر صاف انکار کیا۔
”ابھی میں نے سب بتایا تو ہے آپ کو کہ وہ اس رشتے پر راضی نہیں ہیں، مگر ماشاءالله حامد اتنا قابل ہے کہ وہ آپ کی بھانجی کو الگ سے ایک گھر میں رکھ سکتا ہے، آپ کی بچی خوش رہے گی، بس اور کیا چاہیے آپ کو؟“ فوزیہ نے بات بنانی چاہی۔
”اور جو لوگ دس سوال کریں گے کہ ایسے کیسے بھانجی کی شادی کردی اس کا کیا؟ وہ تو یہ ہی سمجھیں گے نا کہ ہم پر یتیم بھانجی بوجھ تھی اسی لئے اتار پھینکا، اب انہیں کون سمجھائے گا کہ یہاں عشق عاشقی کا معاملہ چل رہا تھا!“ انہوں نے چبھتے ہوئے انداز میں طنز کیا تو فوزیہ خاموش ہوگئیں۔
”دیکھیں آنٹی، لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا، آج بات کریں گے کل بھول جائیں گے، زندگی تو ہمیں گزارنی ہے نا!“ اب حامد خود تحمل سے گویا ہوا۔
”مجھے یقین ہے کہ جب نکاح کے کچھ عرصے بعد میں افروز کو اماں جان سے ملواؤں گا تو وہ مان جائیں گی اور افروز بہت خوش رہے گی میرے ساتھ، یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔“ اس کے عاجزانہ انداز میں بلا کا یقین تھا۔
”شادی کی اجازت کے بدلے میں آپ مجھ سے جو کہیں گی میں کرنے کو تیار ہوں، جو مانگیں گی وہ دینے کیلئے تیار ہوں، بس آپ مجھے افروز سے نکاح کرکے اسے لے جانے کی اجازت دے دیں۔“ اس نے سہیل کی بات مد نظر رکھتے ہوئے انہیں پیشکش کی تو حسب توقع وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
”سوچ لو لڑکے، کچھ بھی مانگ سکتی ہوں میں۔“ انہوں نے معنی خیزی سے اسے باور کرانا چاہا۔
”میں نے کہا نا کہ آپ جو مانگیں گی میں وہ دوں گا۔“ وہ اب بھی اپنی بات پر ایسے ہی قائم تھا۔
اس کی بات سن کر شمع کی آنکھوں میں ایک لالچی سے چمک آگئی۔ ان کے ذہن میں پہلا خیال اپنی بیٹی کا آیا جسے وہ ہر معاملے میں افروز سے آگے رکھنا چاہتی تھیں۔ اور حامد کی پیشکش نے انہیں ایک بہت ہی سنہرا موقع فراہم کردیا تھا۔
****************************************
اگلے دو دن ازلفہ کے شدید اضطراب کی حالت میں گزرے۔ اسے اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے بس یہ ہی فکر ستائے جا رہی تھی کہ اس نے ایک بےقصور پر تہمت لگا کر بہت بڑا گناہ کردیا ہے۔ دوسرا جب بھی اسے جیکب کا شکوہ کرتا سپاٹ انداز یاد آتا تھا تو وہ بری طرح ڈر جاتی تھی۔
حسب معمول اس نے کلاس لی اور سب بچوں کی ڈائریز چیک کیں۔ کچھ دنوں سے آیان کے چاچو کی جانب سے الٹے سیدھے نوٹس ملنے کا سلسلہ بھی تھم گیا تھا جس پر ازلفہ نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
چھٹی کے بعد وہ اپنے مخصوص انداز میں اسکول سے نکل کر آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی تھوڑا آگے آئی تو اس نے دیکھا کہ یونیفارم پہنے، اسکول بیگ کندھوں پر لئے آیان بھی آگے آگے چل رہا تھا۔
”آیان!“ اس کی پکار پر وہ رک کر پلٹا۔
”یس مس؟“
”آپ اکیلے گھر جاتے ہو؟“ وہ پوچھتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
”یس مس! میرا گھر تھوڑا ہی دور ہے تو میں خود چلا جاتا ہوں۔“ اس نے فرمابرداری سے جواب دیا۔
”لیکن اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور آپ بہت چھوٹے ہو، آپ کو ایسے اکیلے نہیں جانا چاہئے، آپ کے مما پاپا آپ کو لینے نہیں آتے؟“ وہ متفکر ہوئی۔
”میرے پاپا یہاں نہیں رہتے اور مما کبھی کبھی لینے آجاتی ہیں۔“ اس نے اسی معصومیت سے جواب دیا تو ازلفہ کو بیک وقت اس پر ترس اور اس کی ماں کی لاپرواہی پر غصہ آیا۔
”اچھا چلو میں آپ کو گھر چھوڑ دیتی ہوں۔“ اس نے پیشکش کی۔
”نہیں مس، میں چلا جاؤں گا۔“ اس نے جلدی سے منع کیا۔
”ارے میں بھی اسی طرف جا رہی ہوں، چلو دونوں ساتھ چلتے ہیں۔“ اس نے نرمی سے اصرار کیا تو وہ کوئی چارہ نہ ہوتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑا۔
دونوں پڑھائی کے متعلق ہلکی پھلکی بات چیت کرتے ہوئے اس سیکٹر سے نکل کر اگلے سیکٹر میں داخل ہوگئے۔ فاصلہ کافی لمبا ہوگیا تھا مگر ابھی تک آیان کا گھر نہیں آیا تھا۔
”آیان! بیٹا آپ کا گھر تو اسکول سے کافی دور ہے۔“ وہ خاصی متعجب ہوئی۔
”اسی لئے تو میں کہہ رہا تھا مس کہ میں خود چلا جاؤں گا۔“ وہ سادگی سے بولا۔
”ارے میرا مطلب آپ روز اتنی دور دوپہر کے سناٹے میں اکیلے گھر آتے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے بیٹا آپ کیلئے۔“ اس نے فکر مندی سے وضاحت کی۔
”میرا گھر آگیا مس!“ تب ہی اس نے ایک چھوٹے سے پرانے گھر کی جانب اشارہ کیا۔
”اب میں چلا جاؤں گا مس، آپ جائیں، تھینک یو!“ آیان نے اسے چلتا کرنا چاہا۔ دونوں گھر کے سامنے رک گئے تھے۔
”ہاں جا رہی ہوں، پہلے آپ اندر تو چلے جاؤ۔“ ازلفہ نے کہتے ہوئے خود ہی ڈور بیل بجا دی کیونکہ وہ آیان کی مما سے اس کی واپسی کے متعلق بات کرنا چاہتی تھی کہ اسے اکیلا نہ چھوڑا کریں۔
دروازے کی دوسری جانب کچھ کھٹ پٹ ہوئی اور پھر دروازہ کھل گیا۔ مگر دوسری جانب موجود شخص کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی۔ اور یہ ہی کیفیت مقابل کی بھی تھی۔
”آپ یہاں!“ وہ بمشکل بولی۔
”یہ سوال تو مجھے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ آپ یہاں کیسے؟ پھر کوئی نیا الزام لگانے آئی ہیں!“ جیکب طنزیہ انداز میں بولا جس کے ماتھے پر بائیں طرف سنی پلاسٹ لگا ہوا تھا اور اس کا ملگجہ حلیہ بتا رہا تھا کہ غالباً وہ بیمار ہے۔
”چاچو یہ میرے ساتھ آئی ہیں۔“ آیان کی آواز پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”یہ میری مس ہیں جن کو آپ نوٹ پڑھانے کا کہتے تھے اور مس یہ میرے چاچو ہیں جن کی رائٹنگ میں آپ نے مسٹیکس نکالی تھیں۔“ اس نے خود ہی دونوں کا تعارف کرایا۔
”تم یہاں کیوں آئے آیان؟“ اب وہ اس سے پوچھنے لگا۔
”آپ کی یاد آرہی تھی چاچو اس لئے آپ سے ملنے آیا ہوں، آپ دو دن سے گھر کیوں نہیں آئے؟“ وہ بتاتے ہوئے اس کے پیروں سے لپٹ گیا۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی بیٹا۔“ اس نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے جواب دیا۔
”اور آپ کو یہ چوٹ کیسے لگی؟“ اس نے الگ ہوتے ہوئے ماتھے کی جانب اشارہ کرکے پوچھا تو بجائے کوئی جواب دینے کے اس نے ایک طنزیہ نگاہ ازلفہ پر ڈالی جس کے باعث وہ بےساختہ نظریں چرا گئی۔
”ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا میرا۔“ اس نے بات گول کی۔
اسے ازلفہ پر غصہ تو بہت تھا مگر آیان کی موجودگی کا خیال کرتے ہوئے اس نے خود کو باز رکھا۔ ازلفہ بھی جیکب سے اس حادثے کیلئے معافی مانگنا چاہ رہی تھی مگر آیان کے سامنے کچھ بول نہیں پائی۔
”آپ آیان کی مما کو بلا دیں گے پلیز! مجھے ان سے کچھ بات کرنی ہے۔“ اس نے بات بدلتے ہوئے مہذب انداز میں گزارش کی۔ وہ شہلا سے آیان کے اکیلے واپس آنے کے حوالے سے بات کرنا چاہتی تھی۔
”آیان اور اس کی مما یہاں نہیں رہتے، یہ میرا گھر ہے جہاں میں اکیلا رہتا ہوں۔“ اس نے سرسری سا جواب دیا۔
”لیکن آپ آیان کے چاچو ہیں نا! تو پھر۔۔۔۔“ وہ متعجب ہوئی۔
”ہاں ہوں اس کا چاچو تو کیا میں الگ نہیں رہ سکتا؟“ وہ کاٹ دار انداز میں یکدم بولا تو وہ چونک گئی اور فوری طور پر سمجھ نہ پائی کہ کیا جواب دے؟
”اور آیان تم بھی گھر جاؤ، بھابھی کو پتا چلا کہ تم یہاں آئے ہو تو تمھیں بہت ڈانٹیں گی۔“ ساتھ ہی وہ آیان کی جانب متوجہ ہوا۔
”چلا جاؤں گا مگر پہلے آپ پرامس کریں کہ مجھ سے ملنے آئیں گے۔“ اس نے اپنا ننھا ہاتھ آگے کرتے ہوئے عہد لینا چاہا۔
”ٹھیک ہے، آجاؤں گا، اب جاؤ۔“ اس نے بات مانتے ہوئے ہاتھ ملايا تو آیان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
”آپ اسے گھر چھوڑ دیں گی یا میں چھوڑ آؤں؟“ اس نے لئے دیے انداز میں ازلفہ سے پوچھا۔
”میں چھوڑ دوں گی، آپ بےفکر رہیں۔“ اس نے جلدی سے جواب دیا۔
فی الحال سوال تو اس کے ذہن میں بہت سے تھے مگر یہ موقع ایسا نہیں تھا کہ کچھ بھی کہہ پاتی اسی لئے آیان کو لے کر وہاں سے چل پڑی جب کہ ان دونوں کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد جیکب نے بھی اندر جاکر دروازہ بند کرلیا۔
”آپ کے چاچو الگ کیوں رہتے ہیں آیان؟“ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ پوچھ بیٹھی۔ دونوں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے چل رہے تھے۔
”پتا نہیں، پر مما کہتی ہیں وہ ہمارے جیسے نہیں ہیں، کرسچن ہیں۔“ اس نے کندھے اچکا کر لاعلمی ظاہر کی تو وہ دنگ رہ گئی۔
”آپ کے چاچو کرسچن ہیں؟ مطلب آپ لوگ مسلم نہیں ہو آیان؟“ وہ شدید حیران تھی۔
”نہیں مما کہتی ہیں صرف چاچو کرسچن ہیں، ہم مسلم ہیں۔“ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے تصحیح کی جس نے ازلفہ کو اور الجھا دیا۔
”اور مما تو کہتی ہیں کہ وہ میرے چاچو بھی نہیں ہیں مگر میں تو کہتا ہوں کہ وہ میرے چاچو ہیں۔“ وہ اپنی دھن میں مزید کہتا اسے یک کے بعد دیگر دھچکے دیے جا رہا تھا۔
جیکب کرسچن۔۔۔۔۔آیان مسلم۔۔۔۔آیان کا اسے چاچو کہنا۔۔۔۔۔شہلا کا اسے غیر ماننا۔۔۔۔۔یہ سارا ماجرا آخر تھا کیا؟ ان سب سوالوں کے بیچ وہ بری طرح الجھے جا رہی تھی۔
”یہ کرسچن کیا ہوتا ہے مس؟“ اس نے یکدم معصومیت سے سوال کیا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”میں نے مما سے بھی پوچھا پر وہ بتاتی ہی نہیں ہیں، کہتی ہیں تم نہیں سمجھو گے۔“ اس نے منہ بسور کر مزید کہا۔
”آپ کو سورہ اخلاص آتی ہے؟“ بجائے جواب دینے کے اس نے نرمی سے پوچھا۔
”یس مس!“
”اور اس کا اردو ترجمہ؟“
”یس مس وہ بھی آتا ہے۔“
”گڈ! ذرا ترجمہ سناؤ!“
”تم فرماؤ وہ اللّه ایک ہے، اللّه بےنیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی۔“ اس نے آہستہ آہستہ ترجمہ سنایا۔
”شاباش! دیکھو جو ابھی ترجمہ آپ نے پڑھا کہ نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اس یقین کا فرق ہے ہمارے اور کرسچن کے بیچ۔“ وہ رسان سے گویا ہوئی۔
”ہم کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ سلام اللّه کے نبی ہیں اور کرسچن کہتے ہیں کہ وہ اللّه کے بیٹے ہیں، حلانکہ ایسا نہیں ہے، خود اللّه پاک نے قرآن میں صاف فرمایا ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں، مگر کرسچن یہ نہیں مانتے اسی لئے وہ ہم سے الگ ہوتے ہیں، اگر وہ مان لیں کہ اللّه ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللّه کے رسول ہیں تو وہ بھی ہماری طرح مسلمان ہوجائیں گے۔“ اس نے آسان لفظوں میں وضاحت کی جسے آیان نے بغور سنا۔
”اوہ! تو مطلب چاچو بھی نہیں مانتے کہ اللّه ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللّه کے رسول ہیں!“ وہ حیران ہوا۔
”ہاں، نہیں مانتے تب ہی تو وہ کرسچن ہیں۔“ اس نے تائیدی جواب دیا۔
”تو انہیں کسی نے بتایا کیوں نہیں؟“ وه فکرمند ہوا۔
”بتایا ہوگا بیٹا، اللّه ضرور اپنے بندوں تک اپنا پیغام پہنچاتا ہے، مگر ہم سمجھ نہیں پاتے اور غلطی کرتے جاتے ہیں۔“ اس نے رسان سے جواب دیا۔
”اللّه چاہے تو ایک پل میں ہمیں ہماری غلطی کی سزا دے کر ہمیں اسی وقت فنا کردے، مگر وہ ہم انسانوں کو صحیح اور غلط سب بتا کر ہمیں آزاد چھوڑ دیتا ہے، یہ آزادی آزمائش ہوتی ہے، وہ ہمیں ایک مدت تک آزماتا ہے اور مدت پوری ہونے کے بعد سب کو سب کے کیے کے مطابق جزا یا سزا مل جاتی ہے جو ہم خود کماتے ہیں۔“ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بےساختہ کچھ ایسی گہری باتیں کہہ گئی جو ننھے آیان کے سر پر سے گزر گئیں مگر وہ باتیں کسی بھی باشعور انسان کا دل چھونے کی طاقت رکھتی تھیں۔۔۔۔اگر دل زندہ ہو تو!
****************************************
دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے دھکیلتے ہوئے ہچکچاتی افروز آہستہ سے کمرے میں داخل ہوئی۔
قیمتی سامان سے مزئین یہ ایک خوبصورت کشاده بیڈ روم تھا جہاں ڈھلتی دوپہر کی دھوپ نے کھلی کھڑکی سے اندر آتے ہوئے کمرے کو خاصا روشن کر رکھا تھا۔ ایسا کمرہ آج سے قبل اس نے بس ٹی وی ڈراموں میں ہی دیکھا تھا، جس کے حوالے سے کبھی اسے گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ بھلا وہ بھی ایسے ہی کسی کمرے کی مکین بن سکے گی؟
یہ ایک فرنشڈ فلیٹ تھا جس کی ہر چیز دیکھ کر وہ مبہوت رہ گئی تھی۔ جب کہ خود افروز کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ تھوڑی دیر قبل اس کا نکاح ہوا ہے اور وہ رخصت ہوکر یہاں آئی ہے۔
اس نے سادہ سے گلابی رنگ کے شلوار قمیض پہ سر پر دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا اور ساتھ ہی کتھئی چادر اپنے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ لیکن جب شادی روایتی انداز میں نہیں ہوئی تھی تو وہ بھلا کیسے ایک روایتی دلہن لگتی۔ وہ تو بس حیران تھی۔
دو دن کے اندر بہت تیزی سے سارے معاملات طے پائے تھے اور افروز تو اس وقت حیران رہ گئی تھی جب شمع نے اسے حاکمانہ انداز میں اطلاع دی تھی کہ اس کا حامد سے نکاح ہو رہا ہے۔ اس کے ذہن میں بہت سارے کیا؟ کیوں؟ اور کیسے جیسے سوالات تھے جن کا اسے کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملا تھا۔ بس ثمینہ کی مہربانی سے اتنا معلوم ہوسکا تھا کہ حامد اپنے گھر والوں کی مرضی کے بنا، انہیں بغیر بتائے نکاح کر رہا ہے جس کے بعد وہ اسے علیحدہ فلیٹ میں رکھے گا۔ اور اس سے کئی گنا زیادہ حیران کن بات تھی کہ شمع ان سب کیلئے آسانی سے مان گئی تھیں، مگر کیسے؟
”گھر اچھا نہیں لگا کیا؟“ اپنے کان کے بےحد قریب ہوئی اس سرگوشی پر افروز کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور وہ کرنٹ کھا کر پلٹی۔ وہ اس قدر سوچوں میں غلطاں تھی کہ اسے پتا ہی نہیں چلا حامد کب کمرے میں آکر اس کے عقب میں کھڑا ہوگیا ہے۔
”تم ٹھیک تو ہو!“ اس نے نرمی سے پوچھا۔
”جی۔۔جی!“ وہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے چند قدم دور ہوئی۔ مگر اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا کہ وہ تھوڑی گھبرائی ہوئی ہے جسے اس نے باآسانی پڑھ لیا۔
”آؤ یہاں بیٹھ جاؤ آرام سے۔“ حامد نے سادگی سے صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پیشکش کی تو وہ چپ چاپ اسے حکم سمجھ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
اس کا یہ گھبرایا ہوا روپ دیکھ کر وہ تھوڑا حیران بھی تھا اور محظوظ بھی ہو رہا تھا۔ کیونکہ آج سے قبل شادی کی تقریب میں وہ جب بھی افروز سے ملا تھا تو اس کا انداز بہت لیا دیا اور کاٹ دار سا رہا تھا۔ مگر آج جب وہ ہی لڑکی اس کی بیوی بن گئی تھی تو اسی لڑکی کو اپنے آگے گھبراتا دیکھ کر اسے اندر ہی اندر شریر سا لطف آرہا تھا۔ مگر وہ اس بات کا برملا اعتراف کرنے سے باز رہا اور خود بھی اس سے ذرا فاصلہ رکھ کر صوفے پر بیٹھا تو وہ خود میں مزید سمٹ گئی۔
”میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم اس وقت کافی نروس ہو۔“ وہ رسان سے گویا ہوا۔
”دراصل یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے جب ہر لڑکی گھبرا جاتی ہے، کیونکہ ظاہر ہے جس گھر میں پل بڑھ کر ہم بڑے ہوئے ہوتے ہیں اسے ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر کسی نئی جگہ پر ایڈجسٹ ہونے میں ٹائم لگتا ہے۔“ وہ سادگی سے کہتے ہوئے اس کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرنے لگا جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی آیا۔
”نہیں، میں اس وجہ سے پریشان نہیں ہوں۔“ بلآخر وہ بھی دھیرے سے گویا ہوئی۔
”تو پھر کیا پریشانی ہے؟“ اس نے جاننا چاہا۔
”ثمینہ نے مجھے بتایا کہ آپ کے گھر والے اس شادی کیلئے راضی نہیں تھے، ابھی بھی انہیں بتائے بغیر آپ نے یہ نکاح کیا ہے اور اب مجھے اس فلیٹ میں الگ رکھیں گے۔“ اس نے ثمینہ کی زبانی سنی گئی بات دہرائی۔
”ہاں ایسا ہی ہے، مگر اس میں پریشانی والی بات کیا ہے؟“ اس نے سہولت سے تائید کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ہی کہ آپ کے گھر والے آپ کی خوشی میں شامل نہیں ہیں، کل کو جب انہیں اس بارے میں پتا چلے گا تو کیا ہوگا؟“ اس نے فکر ظاہر کی۔
”کچھ نہیں ہوگا، بس تھوڑا سا غصہ کریں گے پھر مان جائیں گے۔“ اس نے نہایت اطمینان سے جواب دیا تو وہ حیران ہوگئی۔
”اور گھر والوں کی بات ایک طرف رکھ کر تم بس اپنا بتاؤ، کیا تم خوش ہو اس شادی سے؟“ اس نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جاننا چاہا تو وہ فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے نظریں جھکالیں۔ اسے دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے اسے خود اپنی کیفیت کا ہی علم نہیں ہے۔
”ویسے جہاں تک مجھے پتا چلا ہے کہ جب سے میں نے کہا تھا میں اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر بھیجوں گا تب سے تم میرے انتظار میں تھی اور جب بھی دروازہ بجتا تھا تم ایک امید سے بھاگتی ہوئی آکر دروازہ کھولتی تھی اور دوسری جانب مجھے نہ پا کر تمہارا دل بجھ جاتا تھا، ہے نا!“ اس نے شرارت بھری سادگی سے کہتے ہوئے آخر میں تائید چاہی تو افروز نے بےساختہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”آپ کو کیسے پتا؟“ وہ حیران ہوئی۔
”بس کچھ باوثوق ذرائع ہیں جن کی بدولت پتا چل گیا، اب جواب مطلوب ہے۔“ اس کی حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے حامد نے گول مول جواب دیا۔
دراصل اس روز جب شمع نے اپنی دھن میں افروز پر تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا تھا تو یہ جان کر اسے اچھا لگا تھا کہ کہیں نا کہیں وہ بھی اس کی منتظر تھی۔ تب ہی تو اس نے یہ اتنا بڑا قدم اتنے یقین سے اٹھایا تھا۔
”نہیں تو۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔“ اس نے گڑبڑا کر نفی کی۔
”اچھا! تو پھر کیسا ہے؟“ اس نے دلچسپی سے ٹٹولا تو وہ نظریں جھکا کر انگلیاں مڑوڑتی ہوئی مزید مضطرب ہوگئی۔
”ایسے گھبرانے سے کچھ نہیں ہوگا، جو دل میں ہے بتا دو، مجھ سے بات کرو میں تمھیں سننا چاہتا ہوں افروز!“ اس نے قریب ہوکر گھمبیر انداز میں کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
پہلی بار کوئی مرد اس انداز میں اس کے اتنے قریب آیا تھا۔۔۔اسے چھوا تھا جس کے باعث اس کے پورے وجود میں سرسراہٹ دوڑ گئی اور وہ بےساختہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ حامد اس رد عمل پر حیران رہ گیا۔
”تم مجھ سے بھاگ رہی ہو افروز؟“ اس کے پیچھے وہ بھی متعجب سا اٹھ کھڑا ہوا۔
”نہیں۔۔۔مجھے بس۔۔۔۔بس تھوڑا وقت چاہیے۔“ وہ بنا پلٹے ہی متفکر انداز میں بولی جس کا وہ فوری طور پر کوئی جواب نہ دے سکا۔
وہ افروز کی جانب سے جس گرم جوشی کی توقع کیے بیٹھا تھا وہ نہ ملنے پر وہ تھوڑا حیران ہوا تھا۔ مگر لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے خود کو سمجھا لیا۔
ایک تو وہ بن ماں باپ کی بچی تھی جس نے اب تک طنز و ترس ہی دیکھا تھا۔ دوسرا ان کی شادی بھی کوئی نارمل شادی نہیں تھی اسی لئے افروز کو واقعی یہ سب سمجھ کر قبول کرنے کیلئے تھوڑے وقت کی ضرورت تھی۔
بجائے کوئی شدید رد عمل دینے کے وہ آہستہ سے چل کر اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔
”دیکھو! اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ تم سے شادی میں نے صرف اس وجہ سے کی ہے تا کہ تمہارے جسم تک رسائی حاصل کرکے تمھیں چھو سکوں تو۔۔۔۔۔ہاں! تم ٹھیک سوچ رہی ہو۔“ وہ رسان سے گویا ہوا تو وہ حیرانی سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”مگر تمہاری سوچ مکمل ٹھیک نہیں ہے۔“ اس نے مزید بات جاری کی۔
”ہاں شادی کا ایک مقصد جسمانی ضروریات کو پورا کرنا بھی ہے، اسی لئے اللّه نے جوانی میں جلد از جلد نکاح کا حکم دیا ہے تا کہ ہم گناہ سے بچ سکیں اور میں بالکل چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان بھی وہ ہی تعلق ہو جو ہر میاں بیوی کے بیچ ہوتا ہے، لیکن۔۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکا۔
”لیکن وہ تعلق یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ محبت و مرضی کا ہو۔“ اس نے اپنی بات مکمل کی۔
”اور بات صرف جسم کی نہیں دل کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تمہارا دل میری طرف آمادہ ہو، اس میں میرے لئے محبت ہو، ہمارے ذہنوں میں ہم آہنگی ہوں، میں چاہوں تو ”حقوق“ کے نام پر تم سے زور زبردستی کر سکتا ہوں، لیکن میں زبردستی نہیں مرضی چاہتا ہوں۔۔۔۔تمہاری مرضی!“ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھمبیرتا سا بولے جا رہا تھا اور وہ سحر زدہ سی اسے سنتی جا رہی تھی۔
”صرف زبان سے ”قبول ہے“ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا میں چاہتا ہوں تم مجھے دل سے قبول کرو، جیسے میں نے تمھیں کیا ہے، اور جب تک تم دل سے قبول نہیں کرو گی میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا، یہ ایک مرد کا وعدہ ہے تم سے۔“ نہایت اطمینان سے پریقین لہجے میں کہتا وہ اسے مبہوت کر گیا تھا۔ اس کی ساری الجھن اور گھبراہٹ کہیں ہوا ہوگئی تھی اب چہرے اور آنکھوں میں بس حیرانی اور حیرانی ہی تھی۔
”فی الحال مجھے ایک کام سے جانا ہے تو میں چلتا ہوں، مغرب تک آجاؤں گا، تم اب یہاں آرام سے رہو، یہاں تم پر کوئی روک ٹوک لگانے والا نہیں ہے، ٹھیک ہے نا!“ اس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ مزید کہا اور پھر متوازن قدم اٹھاتا کمرے سے چلا گیا۔ جب کہ وہ یوں ہی کھڑی سوچتی رہی کہ کیا واقعی مرد ایسے بھی ہوتے ہیں!
اور وہ سوال وہیں کا وہیں رہ گیا کہ آخر شمع اس شادی کیلئے کیسے راضی ہوگئیں؟
****************************************
”مطلب آپ نے جس لڑکے کو پٹوایا وہ آپ کے اسٹوڈنٹ کا وہ ہی چاچو تھا جسے آپ نوٹ لکھتی تھی۔“
”ہاں!“
”لیکن وہ اپنے گھر والوں سے الگ رہتا ہے۔“
”ہاں!“
”کیونکہ وہ کرسچن ہے۔“
”ہاں!“
”مگر آیان کہتا ہے کہ وہ اس کے چاچو ہیں۔“
”ہاں!“
”اور آیان نے ہی بتایا کہ وہ کرسچن ہے۔“
”ہاں!“
”تو پھر وہ بندہ آخر ہے کون؟ کرسچن یا چاچو؟“ پر سوچ انداز میں ساری کڑیاں جوڑتے ہوئے اذکیٰ نے آخر میں سوال اٹھایا جو ٹیبل کے گرد بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی۔
”آیان کے چاچو ہی کرسچن ہیں بےوقوف۔“ اوپن کچن میں کام کرتی ازلفہ نے زچ ہوکر دھیان دلایا۔ جو اسے ساری بات بتانے کے بعد اب اس بارے میں اس سے مذاکرات کر رہی تھی۔
”لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ آیان مسلم ہے!“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں وہ مسلم ہی ہے، اس کا برتھ سرٹیفیکیٹ دیکھا تھا میں نے ایڈمیشن کے وقت!“ اس نے تیل میں پیاز ڈالتے ہوئے تصدیق کی۔
”تو پھر اس کے چاچو کرسچن کیسے ہوگئے؟“ اس نے الجھ کر چھری ٹیبل پر پٹخی۔
”یہ ہی تو میری سمجھ میں بھی نہیں آرہا۔“ اس نے کڑاہی میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔
”تو ڈائریکٹ پوچھ لو نا اس سے۔“
”کس سے؟“
”آیان کے چاچو سے؟“
”کیا پوچھوں؟“
”یہ ہی کہ کیا آپ واقعی کرسچن ہیں؟“ اس کے اس نادر مشورے پر ازلفہ ضبط کرتے ہوئے اسے گھور کر رہ گئی۔
”ٹماٹر کاٹ کر دو جلدی!“ اس سے بات کرنے کو فضول جانتے ہوئے ازلفہ نے موضوع ہی بدل دیا۔ مگر اس کا ذہن ہنوز ان ہی سوچوں میں اٹکا رہا۔
***********************
وعدے کے مطابق حامد مغرب کے بعد واپس آگیا تھا اور اس بار وہ افروز کیلئے تھوڑی شاپنگ بھی کرتا ہوا آیا تھا جیسے کہ کپڑے، کھسے اور جھمکے وغیرہ!
ان ہی میں سے حامد نے اسے ایک سرخ رنگ کا نفیس سا سوٹ پہن کر تیار ہونے کا کہا اور اب وہ اسے لئے ڈنر کے ارادے سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں موجود تھا۔
”اپنے بارے میں تو تمھیں سب بتا چکا ہوں میں، اب تم بھی کچھ بتاؤ اپنے بارے میں۔“ حامد نے دوستانہ انداز میں کہا۔ دونوں ایک پرسکون گوشے میں رکھی ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
”کیا بتاؤں؟ بنا میرے بارے میں جانے مجھ سے شادی تو کر ہی چکے ہیں آپ، اب میرا گزرا ہوا کل جان کر کیا کریں گے؟“ افروز نے جواباً مسکراتے ہوئے شریر سا طنز مارا تو وہ بھی ہنس دیا۔ صبح کی نسبت اب وہ کافی نارمل ہوکر پراعتماد انداز میں لوٹ آئی تھی۔
”اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو کوئی بات نہیں، لیکن یہ مت سمجھنا کہ تمہارے گزرے ہوئے کل کی کسی بھی بات کو لے کر میں آج یا مستقبل میں کوئی اعتراض یا ناراضگی ظاہر کروں گا، کیونکہ سمجھدار لوگ گزری ہوئی باتوں کو پکڑ کر نہیں بیٹھتے پھر چاہے بات ان کی زندگی کی ہو یا کسی اور کی۔“ اس نے اپنائیت بھرے انداز میں اسے یقین دہانی کرائی۔ جس پر وہ دلچسپی سے اسے دیکھے گئی۔
”سمجھدار لوگ پکڑ کر نہیں بیٹھتے نا! مگر آپ کا کیا بھروسہ!“ افروز نے بظاہر سنجیدہ رہتے ہوئے درحقیقت شرارتاً کہا جو پہلے اس کی سمجھ میں نہ آیا مگر اگلے ہی پل وہ اس کا مفہوم سمجھ گیا۔
”تو تمہارا مطلب میں سمجھدار نہیں ہوں!“ اس نے بھی مصنوعی خفگی دکھاتے ہوئے آنکھیں سکیڑیں۔
”سمجھدار لوگ ایسی حرکتیں نہیں کرتے جیسی آپ مسلسل کیے جا رہے ہیں۔“ وہ نوالہ چباتے ہوئے اسی انداز میں بولی۔
”کیسی حرکتیں؟“ اس کی دلچسپی مزید بڑھی۔
”یہ ہی کہ پہلے ایک انجان لڑکی کو اچانک پسند کیا، تیسری ملاقات میں اسے شادی کی پیشکش کی اور پھر گھر والوں کی مرضی کے بنا اس سے شادی بھی کرلی۔“ اس نے سب کچھ گنوایا۔
”آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بھی عقلمند انسان ایسی حرکتیں کرسکتا ہے؟“ اب افروز نے دلچسپی سے سوال اٹھایا۔
”بند کرتا ہے عقل کی آنکھیں“
”عشق جب واردات کرتا ہے“
اس نے ذرا سا آگے جھک کر گھمبیر شوخ لہجے میں شاعرانہ جواب دیا تو وہ لاجواب ہوگئی۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے دونوں کے مابین شوخی بھرے طنز کا کوئی مقابلہ چل رہا ہے جس میں باری باری دونوں ایک دوسرے پر سبقت لئے جا رہے تھے۔
”اگر تمہاری نظر میں یہ شادی بےوقوفی ہے تو میری نظر میں یہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت بےوقوفی ہے۔“ وہ اسی پرفسوں انداز میں مزید بولا۔
”آپ واقعی بہت چھچھورے انسان ہیں۔“ اس نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ نظریں جھکاتے ہوئے کہا اور کھانے کی جانب متوجہ ہوئی۔
”اب تو میں تمہارا شوہر ہوں، اب بھی تم مجھے چھچھورا کہو گی!“ اس نے حیرت سے آنکھیں بڑی کیں۔
”جب ہیں تو کہوں گی۔“ اس نے کندھے اچکا کر گول مول جواب دیا۔
”کچھ بھی کہو، اب تو یہ چھچھورا انسان تمہارا شوہر بن چکا ہے۔“ اس نے مصنوعی بےنیازی دکھاتے ہوئے جواب دیا جس کے جواب میں افروز نے یوں نفی میں سر ہلایا گویا کہہ رہی ہو کہ
”اس انسان کا کچھ نہیں ہوسکتا!“
****************************************
کچن کے کام سے فارغ ہوکر ازلفہ کمرے میں آئی تو اذکیٰ اسے اپنے بستر پر موبائل لئے لیٹی ملی جو حسب معمول کانوں میں ہینڈ فری لگائے کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔
ازلفہ نے صبح اسکول جانے کیلئے اپنا بیگ وغیرہ سیٹ کرکے رکھا اور پھر اپنے لمبے بالوں کی نہایت ڈھیلی چوٹی باندھ کر لائٹ بند کرنے کے بعد وہ بھی اپنے بستر پر لیٹ گئی۔
اس نے ایک نظر اپنے دائیں پہلو میں لیٹی اذکیٰ کو دیکھا جو پوری طرح ڈرامے میں محو تھی، اور پھر خود بھی اس نے پیٹھ اذکیٰ کی جانب کرکے کروٹ لیتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔
آنکھیں بند ہوتی ہی اندھیرا چھایا اور ذہن تھوڑی دیر کیلئے کورا ہوا۔
مگر اگلے ہی پل اس اندھیرے میں جیکب کی شکوہ کرتی آنکھیں ابھر آئیں۔ اس کی ناک اور ہونٹ سے رستا خون۔۔۔۔ماتھے پر لگا سنی پلاسٹ۔۔۔۔۔ملگجہ حلیہ۔۔۔۔۔اور وہ ہی خفا خفا سی نظریں۔۔۔۔۔یہ سب پھر سے اس کی آنکھوں کے گھوم گیا۔ اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
”یااللّه! یہ ملامت کا احساس پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہا ہے میرا!“ اس نے گھبرا کر دل میں کہا۔
”اذکیٰ!“ اس نے کروٹ بدل کر پکارا مگر اسے آواز نہ پہنچی۔
”اذکیٰ بات سنو!“ اب کی بار اس نے ایک کان سے ہینڈ فری کھینچ دیا۔
”کیا ہے بھئی!“ وہ بری طرح چڑ گئی۔
”مجھے نیند نہیں آرہی، بےچینی ہو رہی ہے۔“ ازلفہ نے بےبسی سے اپنا مسلہ بتایا۔
”تو میں کیا لوری سناؤں آپ کو!“ وہ ہنوز تلملائی ہوئی تھی۔
”تھوڑی دیر کچھ بات کرلو نا مجھ سے، میرا دھیان بھٹک جائے گا۔“ اس نے عاجزی سے منت کی۔
”اگر آپ میری بڑی بہن نہ ہوتی تو اس حرکت پر بہت زور سے تھپڑ مارتی میں آپ کو قسم سے۔“ وہ بمشکل ضبط کر رہی تھی۔
”یار آنکھیں بند کرتے ہی اس بندے کا خیال آجاتا ہے اور مزید شرمندگی ہونے لگتی ہے ایک تو ویسے ہی اسے لے کر ذہن میں اتنے سوال ہیں اوپر سے وہ مجھے معاف بھی نہیں کر رہا ہے۔“ اس کے انداز میں اپنے لئے ملامت تھی۔
”ہاں تو جا کر پیر پکڑ لو اس کے لیکن خدا کیلئے اب مجھے ڈسٹرب نہ کرنا۔“ اس نے زچ ہوکر بات ختم کی۔
”اچھا خاصا ڈرامہ چل رہا تھا میرا۔“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے ہینڈ فری دوبارہ کان میں لگا لیا۔
اس کی جانب سے کوئی مثبت رد عمل نہ ملنے پر ازلفہ نے بھی اسے گھور کر دوبارہ اس طرف کروٹ لے لی۔
نیند آ نہیں رہا تھی اور اس کا خیال جا نہیں رہا تھا۔ اس کے خیال سے کیسا پیچھا چھڑائے؟ اسی کشمش میں اب پوری رات گزرنے والی تھی۔
تنہائیاں تھیں۔۔۔رات تھی۔۔۔تیرا خیال تھا
ایسا شور تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔آنکھ لگانا محال تھا
انتخاب
****************************************
”میں دس سال کی تھی جب میرے ابو کا انتقال ہوا اور امی مجھے لے کر اپنے میکے آگئیں جو بس ایک بھائی بھابھی پر مشتمل تھا، ماموں کی تو کبھی مامی کے آگے چلی نہیں اور مامی نے کبھی ہمیں اپنا سمجھا نہیں، لیکن ایک بیوہ عورت اور اس کی یتیم بچی کو رہنے کیلئے چھت اور دو وقت کی روٹی مل گئی تھی یہ بھی غنیمت تھا۔
امی چپ چاپ مامی کے سارے کام کردیا کرتی تھیں اور مجھ سے بھی جتنا ہوسکتا تھا امی کا ہاتھ بٹاتی رہتی تھی۔ امی نے ماموں سے کہہ کر میرا داخلہ بھی اسی سرکاری اسکول میں کروا دیا جہاں ان کی بیٹی سکینہ جاتی تھی۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا اور جس سال میں نے میٹرک کے امتحان دیے اسی سال بیماری کی وجہ سے امی بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔ اب میں پوری طرح مامی ماموں کے رحم و کرم پر آگئی تھی۔ امی کے جانے کے بعد میرا مزید پڑھنے کا دل نہیں چاہا تو خود کو بس گھر تک ہی محدود کرلیا۔ سہیلی کے نام پر بس ہمارے محلے کی ثمینہ ہی تھی جس سے میں بات چیت کرکے دل ہلکا کرلیا کرتی تھی۔ مجھے مامی ماموں سے کبھی کوئی شکایات یا بیر نہیں رہا کیونکہ امی کہتی تھیں کہ سامنے والا جو کرتا ہے اسے کرنے دو، تم بس اپنا عمل ٹھیک رکھو کیونکہ تمھیں اپنے عمل کا جواب دینا ہے اور جس کا عمل اچھا ہوتا ہے اللّه پاک اسے دنیا و آخرت دونوں میں اس کا اچھا صلہ دیتا ہے، یہ دنیا والے نہ تو ہمیں کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہمارے نصیب کا ہم سے چھین سکتے ہیں۔
بس اسی بات کو گرہ سے باندھ کر چل رہی تھی میں کہ دو سال پہلے ماموں کا بھی ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ ماموں کی اپنی کپڑوں کی دکان تھی جسے مامی نے کرائے پر لگا دیا اور اسی کی آمدنی سے ہمارا گزر بسر ہونے لگا۔
سب کچھ یوں ہی چل رہا تھا کہ پھر سہیل بھائی کی شادی شروع ہوگئی اور اچانک میری زندگی میں آپ کا اضافہ ہوگیا۔“
ہلکے ہلکے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چوتھی منزل پر آنے تک افروز اپنی پوری آپ بیتی حامد کو سنا چکی تھی۔ اور اب دونوں فلیٹ کے دروازے کے باہر کھڑے تھے۔
”تو یہ اضافہ کیسا ثابت ہوا تمہارے لئے؟“ حامد نے چابی سے لاک کھولتے ہوئے جاننا چاہا۔ اب دونوں اندر آچکے تھے۔
”اس بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن سب سے زیادہ تعجب مجھے اس بات پر ہے کہ مامی نے کیسے اتنی آسانی سے میری زندگی میں یہ اضافہ ہونے دیا!“ وہ کہتے ہوئے لاؤنج کے وسط میں رک کر اس کی جانب پلٹی۔ جو خود بھی دروازہ بند کرتے ہوئے اس طرف آگیا تھا۔
”آپ نے اب تک میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ مامی اس شادی کیلئے کیسے مان گئیں؟“ اس نے پھر وہ ہی سوال دہرایا تو وہ چند لمحے اسے دیکھے گیا۔
”تمہاری امی کہتی تھیں نا کہ اچھے عمل کا صلہ دنیا و آخرت دونوں میں ملتا ہے، تو بس سمجھو کہ میں تمہارا وہ ہی صلہ ہوں جسے تمہارا نصیب بننے سے کوئی نہیں روک سکا۔“ اس نے عین مقابل کھڑے ہوکر براہ راست آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
وہ پھر بڑی دلکش مہارت سے بات گھما گیا تھا اور وہ سر اٹھائے بس اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔
”اور اپنے نصیب کی خوشیوں سے سوال جواب نہیں کرتے بلکہ انہیں فوراً سینے سے لگا لیتے ہیں، مگر تم ہو کہ اپنے نصیب سے تفتیش کیے جا رہی ہو۔“ اس نے شرارتاً مزید کہتے ہوئے دونوں بازو دوستانہ انداز میں اس کے کندھوں پر رکھے۔
”نصیب سے ہی تو ڈر لگتا ہے کہ پتا نہیں یہ کب، کہاں لے جائے؟“ وہ اس کے ہاتھ ہٹائے بنا تاسف سے بولی۔ اس کے انداز میں ایک عجیب سا نادیدہ خوف تھا۔ کچھ کھو دینے کا خوف!
”نصیب سے ڈرنے کے بجائے اگر نصیب لکھنے والے سے دوستی کرلی جائے نا تو پھر نصیب، دنیا، وقت و حالات یہ سب بھلے سے کتنا ہی لغزش کھا لیں ہم گرتے نہیں ہیں، اور اگر گر بھی جائیں تو امید کی رسی تھام کر پھر سے کھڑے ہوسکتے ہیں، اسی لئے نصیب سے ڈرنا چھوڑو اور نصیب لکھنے والے پر یقین رکھو، وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔“ وہ یوں ہی ہاتھ رکھے پراطمینان انداز میں بولا۔
اس کے لہجے میں بلا کا سکون تھا جسے محسوس کرتے ہوئے افروز کو لگا جیسے گھٹن زدہ زندگی میں اچانک سے کہیں کوئی کھڑکی کھلی ہے اور وہاں سے تازہ پرکیف ہوا کا جھونکا اندر آکے اسے چھو کر سرشار کر گیا ہے۔
”خیر! بطور دوست پہلا دن بہت اچھا رہا تمہارے ساتھ۔“ وہ ہاتھ ہٹاتے ہوئے پیچھے ہوا۔
”اب میں چلتا ہوں، صبح آؤں گا، تم آرام سے گھر لاک کرکے سوجاؤ اور صبح جب دل چاہے تب اٹھ جانا، ٹھیک ہے۔“ اس نے سہولت سے مزید کہا۔
”آپ جا رہے ہیں!“ وہ متعجب ہوئی۔
”ہاں، اور یہاں صرف تب رکوں گا جب تم چاہو گی۔“ اس نے معنی خیزی سے جواب دیا جس کا مفہوم وہ بخوبی سمجھ گئی۔
”واقعی رات کافی ہوگئی ہے، آپ کی اماں جان انتظار کر رہی ہوں گی آپ کا۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے گول مول بات کی تو وہ ہنس پڑا۔
”مطلب تم بھی یہ ہی چاہتی ہو کہ میں فی الحال چلا جاؤں!“ وہ دلچسپی سے نتیجے پر پہنچا جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولی۔
”کوئی بات نہیں، فی الحال میں جا رہا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ جلد ایسی رات بھی آئے گی جب تم خود میرا ہاتھ پکڑ کر کہو گی کہ ”آج جانے کی ضد نہ کرو۔“ اس نے مسکراتے ہوئے معنی خیز یقین کے ساتھ کہا تو وہ بےساختہ نظریں جھکا گئی۔
”اللّه حافظ!“ وہ کہہ کر چلا گیا تھا مگر فضا میں اس کے پرفیوم کی خوشبو ابھی بھی باقی تھی جسے اس نے بےاختیار ایک گہری سانس لے کر اپنے اندر اتار لیا۔
****************************************
نیا دن پھر سے نکل آیا تھا اور دن کی مصروفیات بھی۔
ازلفہ اس وقت اسکول میں موجود اپنی ٹیبل کے گرد بیٹھی سب بچوں کی ڈائری چک کر رہی تھی۔ تب ہی آیان کی ڈائری کا نمبر آیا۔
آیان کے کام کے حوالے سے اس نے والدہ کیلئے جو نوٹ لکھے تھے وہ والدہ کی جانب سے چیک نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی کوئی جواب آیا تھا۔
”آیان! بیٹا یہاں آئیں۔“ اس کے پکارنے پر وہ اٹھ کر چلا آیا۔
”میں پچھلے دو دن سے آپ کو کہہ رہی ہوں کہ اپنی مما کو ڈائری چیک کروا کر نوٹ پڑھوا دیجئے گا، مگر آپ نے شاید انہیں بتایا نہیں۔“ اس نے نرم مگر سنجیدہ انداز میں کہا۔
”نو مس! میں نے مما کو کہا تھا کہ آپ نے نوٹ لکھا ہے مگر انہوں نے کہا کہ وہ بعد میں پڑھیں گی، پھر وہ ٹی وی پر ڈرامہ دیکھنے لگ گئیں اور بھول گئیں۔“ اس نے سادگی سے وضاحت کی تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
اس بات کا تو ازلفہ کو بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ شہلا ایک بہت ہی لاپرواہ ماں تھی جسے لگتا تھا کہ بچے کو بس کھلا پلا کر اسکول بھیج دینا ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس سے بہتر تو جیکب تھا جو کم از کم آیان کی سرگرمیوں پر نظر تو رکھتا تھا۔
جیکب کا خیال آتے ہی اس کے ذہن میں یکدم ایک کوندا لپکا۔ اسے اچانک ہی ایک راستہ نظر آیا تھا۔
اپنے خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ازلفہ نے فٹافٹ سرخ بال پین سے ڈائری پر کچھ لکھا اور پھر اسے آیان کی جانب بڑھا دیا۔
”یہ لیں بیٹا، یہ نوٹ یاد سے اپنے چاچو کو پڑھوا دیجئے گا۔“ اس نے پھر سے سابقہ سلسلہ جاری کیا تو وہ ڈائری لے کر چلتا بنا۔ اس بار ازلفہ نے دانستہ طور پر جیکب کیلئے نوٹ لکھا تھا اور اب دیکھنا یہ تھا کہ اس کا رد عمل آتا ہے یا نہیں؟
****************************************
صبح ہوتے ہی حسب معمول سب لوگ ناشتے کی نیت سے ڈائینگ ٹیبل کے گرد جمع ہوگئے تھے مگر وہاں کی گہری خاموشی میں صرف پلیٹ اور چمچوں کی آواز ہی سنائی دے رہی تھی۔ اور یہ تناؤ بھرا ماحول آج کل اس گھر کا معمول تھا۔
حامد بھی ڈائینگ روم میں آنے کے بعد چپ چاپ اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”السلام علیکم!“ اس نے معمول کے مطابق سادگی سے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام!“ نور جہاں کے سوا سب نے جواب دیا۔
”کل پورا دن کہاں غائب تھے؟ اور رات کو بھی اتنی دیر سے گھر آئے۔“ نزہت نے پوچھ گچھ کی۔
”ایک دوست کے ساتھ حیدرآباد چلا گیا تھا۔“ اس نے ناشتہ کرتے ہوئے جھوٹ کہا۔
”کیا ضرورت تھی بھائی بنا بتائے اتنی دور جانے کی!“ اب رابعہ بھی گویا ہوئی۔
”بس ایسے ہی ، یہاں گھر میں ماحول ہی ایسا ہو رہا تھا کہ مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی، اس لئے تھوڑی دیر گھر سے باہر چلا گیا تھا۔“ اس نے سنجیدگی سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”ہاں تو تمہاری وجہ سے ہی ایسا ہوا ہے گھر کا ماحول، نہ تم شادی کی وہ فضول ضد لے کر بیٹھتے اور نہ اماں جان کو برا لگتا۔“ نزہت نے بھی بنا لحاظ کیے طنز مارا۔ جب کہ نور جہاں ہنوز خاموش رہیں۔
”اچھا بس! چھوڑو یہ باتیں اور ناشتے پر توجہ دو سب۔“ تب ہی عماد نے مداخلت کرتے ہوئے بات ختم کردی ورنہ دوسری صورت یہاں پھر کوئی طویل بحث چھڑ سکتی تھی۔
****************************************
اس نئے گھر میں آئے افروز کو کچھ دن بیت گئے تھے۔ وعدے کے مطابق حامد نے ابھی تک اسے سہولت دے رکھی تھی۔ اور اس کے دوستانہ رویے کا ہی نتیجہ تھا کہ اب افروز بھی اس کے ساتھ تھوڑی بےتکلف ہوگئی تھی جس کے چلتے حامد کو امید ملی تھی۔
حامد اب تک رات میں اس کے ساتھ یہاں نہیں رکا تھا۔ وہ صبح آفس جانے سے قبل یہاں آتا تھا اور پھر آفس سے واپسی پر یہاں تھوڑا وقت گزار کر گھر چلا جاتا تھا۔
آج صبح فریش ہوکر ناشتہ کرنے کے بعد افروز کچن اپنے مطابق سیٹ کرنے لگی جہاں ضرورت کا سارا سامان تھا، مگر بےترتیب تھا۔
کچھ دیر کی محنت کے بعد بلآخر اس نے سب کچھ اپنے مطابق سیٹ کرلیا اور اب وہ اسٹول پر چڑھی ایک خالی باکس کیبنٹ کے اوپر رکھ رہی تھی تب ہی اس کا توازن بگڑا اور وہ پیٹھ کے بل زمین کی جانب آئی۔
”پکڑ لیا!“ پیچھے سے حامد نے اسے تھام لیا جو ابھی ابھی وہاں پہنچا تھا۔ بر وقت پکڑ لینے سے وہ زمین بوس ہونے سے تو بچ گئی تھی مگر ابھی تک اس کی بانہوں کے حصار میں تھی۔
”جب پاس ہوتا ہوں تو دور بھاگتی ہو اور اب خود پاس آنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہو!“ وہ شرارتاً گویا ہوا۔
”جی نہیں، میں نے کب ایسا کیا!“ وہ کہتی ہوئی الگ ہوکر اس کی جانب پلٹی۔
”ابھی ابھی، جیسے ہی تمھیں پتا چلا کہ میں آگیا ہوں تم فوراً بھاگ کر آکے اسٹول پر چڑھ گئی تا کہ تم گرنے کی ایکٹنگ کرو اور میں تمھیں پکڑ لوں، سب سمجھتا ہوں میں چالاک!“ اس نے اسی معنی خیز انداز میں من گھڑت کہانی بنائی جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور یہ وہ خود بھی جانتا تھا۔
”میں نے آج تک آپ سے زیادہ خوش فہم انسان نہیں دیکھا۔“ وہ نفی میں سر ہلا کر کہتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی۔
”اور ان شاءاللّه دیکھو گی بھی نہیں۔“ وہ بھی مزے سے کہتے ہوئے اس کے پیچھے لپکا۔
****************************************
سورج نرم پڑ گیا تھا، شام ہوچکی تھی جو اپنے ساتھ جیکب کو بھی آیان تک لے آئی تھی اور دونوں حسب معمول اس وقت لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھے تھے جہاں آیان ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا جب کہ شہلا کچن میں تھی۔
”کل تم کس خوشی میں اپنی ٹیچر کو میرے گھر لائے تھے؟“ موقع ملنے پر جیکب نے اس سے پوچھ گچھ کی۔
”میں نہیں لایا تھا چاچو، وہ خود آگئیں تھیں میرے ساتھ، میں تو اکیلے ہی آرہا تھا آپ سے ملنے۔“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔
”اور تم کس خوشی میں اکیلے اتنی دور آرہے تھے؟“ اب اس نے دوسرا سوال اٹھایا۔
”آپ دو دن سے مجھ سے ملنے نہیں آئے تھے نا اور مجھے آپ کی یاد آرہی تھی اسی لئے۔“ اس نے معصومیت سے جواب دیا تو جیکب اسے بےاختیار دیکھے گیا۔ وہ چاہ کر بھی اس پر غصہ نہیں کر پاتا تھا۔ کیونکہ اس کے چہرے پر جیکب کو اپنے محسن کی جھلک جو نظر آتی تھی۔
”ٹیچر سے یاد آیا، انہوں نے آج پھر آپ کیلئے نوٹ دیا ہے۔“ خیال آنے پر آیان یکدم بولا تو وہ چونکا۔ جب کہ آیان اسکول بیگ سے ڈائری نکالنے لگا۔
”یہ رہا!“ اس نے ڈائری کھول کر اسے تھمائی جسے لے کر وہ بغور پڑھنے لگا۔
”محترم آیان کے چاچو!“
مجھے کل پتا چلا کہ آیان اسکول سے اکیلے گھر جاتا ہے جو کہ اس کیلئے بالکل ٹھیک نہیں ہے، اسی لئے براہ مہربانی یا تو اس کیلئے وین لگوادیں یا پھر چھٹی کے بعد اسے لینے آجایا کریں، شکریہ!“
آیان کی کلاس ٹیچر، ازلفہ!
یہ مختصر سا نوٹ پڑھ کر جیکب کے ذہن میں بےساختہ سیاہ عبائے و اسکارف میں ملبوس ازلفہ کا شرمندہ سا سراپا ابھر آیا۔
اس نے محسوس کیا تھا کہ ازلفہ اس حادثے کے بعد سے اس سے بہت شرمندہ ہے مگر وہ اس سے بھی زیادہ خفا تھا۔ کیونکہ انجانے میں ازلفہ نے اس پر تہمت لگا کر جو پرانا زخم تازہ کیا تھا اس کے درد سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان نہیں تھا اس کیلئے۔ اور وہ غیر محسوس انداز میں کسی اور کے کیے کا بدلہ ازلفہ کی معافی رد کرکے اس سے لینا چاہ رہا تھا۔
لیکن ایک سوال اسے سوچنے پر مجبور کر رہا تھا کہ آیان کو پک اپ کرنے کیلئے اس نے جیکب سے کیوں کہا؟ وہ اس کی مما یعنی شہلا سے بھی تو کہہ سکتی تھی نا! تو پھر خاص طور پر اسے کیوں کہا؟
****************************************
سورج غروب ہونے کے بعد روڈ پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں نے شہر کی افراتفری مانوں مزید بڑھا دی تھی۔ اور اسی افراتفری کا حصہ یہ دونوں بھی بنے ہوئے تھے جو ایک گاڑی میں سوار کسی اجنبی منزل کی جانب گامزن تھے۔
”بہت کھا لیا ان بڑے بڑے ہوٹلز میں کھانا، اب دل نہیں ہے۔“ کسی بات کے جواب میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی افروز نے منہ بسور کر انکار کیا۔
”تو پھر کیا کھانا ہے؟“ ڈرائیو کرتے حامد نے پوچھا۔
”گول گپے اور چاٹ کھائے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں، شادی سے پہلے میں اور ثمینہ جب بھی بازار جاتے تھے تو گول گپے اور چاٹ ضرور کھاتے تھے۔“ اس نے بتاتے ہوئے پرانے دن یاد کیے۔
”بس اتنی سی بات! چلو ابھی تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر لیتے ہیں۔“ اس نے سہولت سے کہتے ہوئے گاڑی ایک طرف موڑی تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
افروز کو کبھی کبھی یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی اس کی زندگی میں بھی اب ایک ایسا شخص موجود ہے جو اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں اتنی خندہ پیشانی سے پوری کر دیتا تھا۔ اب اسے سچ میں اپنی ماں کی باتوں پر یقین آنے لگا تھا کہ اچھے عمل کا صلہ خدا دنیا بھی دیتا ہے اگر اس سے اچھی امید رکھی جائے تو!
”اب اگر تم مجھے ایسے ہی دیکھتی رہی تو پھر تمھیں بتانے کا میرا دل نہیں چاہے گا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔“ حامد نے گاڑی پارک کرتے ہوئے بےنیاز مگر شریر انداز میں کہا تو وہ یکدم چونک کر جھینپ گئی جو بےاختیاری میں یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔
”چلو اترو!“ اس کی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے حامد نے کہا اور پھر دونوں گاڑی سے باہر آگئے۔
یہ ایک بہت بڑی اور پر رونق فوڈ اسٹریٹ تھی جہاں لائن سے کافی سارے گول گپے، چاٹ، برگر، گولا گنڈا، اور آئس کریم والے موجود تھے اور ان کے ٹھیلوں کے ساتھ لگیں میز کرسیوں پر کافی لوگ بیٹھے ان چیزوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
وہ دونوں بھی ایک خالی ٹیبل کے گرد موجود کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھ گئے اور ساتھ ہی آرڈر بھی دے دیا۔
حامد کا تعلق جس طبقے سے تھا وہاں کے لوگوں کا پالا بس فائیو اسٹار ہوٹلز سے ہی رہا ہوتا ہے اسی لئے اس کیلئے یوں ایک اوپن فوڈ اسٹریٹ میں بیٹھ کر کھانا پینا کافی نیا تجربہ تھا۔ مگر افروز کے چہرے پر دمکتی معصومانہ خوشی کے خاطر اس نے یہ تجربہ بھی بخوشی کرلیا۔ لیکن اگر غلطی سے نور جہاں حامد کو یوں اس فوڈ اسٹریٹ پر بیٹھ کر کھاتا پیتا دیکھ لیتیں تو یا ان کا بی پی شوٹ کر جاتا یا وہ حامد کو ہی شوٹ کر دیتیں۔
ان کی ٹیبل پر ان کا آرڈر آگیا تھا جو کہ گول گپے، چاٹ اور کولڈ ڈرنک پر مشتمل تھا۔ افروز نے تو فٹافٹ ایک کے بعد دوسرا گول گپا مزے سے منہ میں رکھ لیا تھا مگر اسے دیکھتا حامد ابھی تک یہ اسٹنٹ کرنے کی ہمت نہیں جٹا پایا تھا۔
”دیکھ کیا رہے ہیں! کھائیں نا!“ تیسرا گول گپا منہ کے قریب روک کر افروز نے اسے دھیان دلایا۔
”یار یہ بنا توڑے پورا منہ میں کیسے رکھ رہی ہو تم!“ اس نے متعجب انداز میں ایک گول گپا اٹھا کر دیکھا۔
”ایسے!“ افروز نے کہتے ہوئے دوبارہ ایک گول گپا منہ میں رکھا۔
”مگر مجھ سے یہ نہیں کھایا جائے گا۔“ اس نے پہلے ہی اندازہ لگایا۔
”ارے کچھ نہیں ہوتا، چلیں اب آپ کوشش کریں۔“ اس نے نوالہ چباتے ہوئے اصرار کیا تو مشکل میں گرفتار حامد نے گھبراتے ہوئے گول گپا منہ میں رکھا جس کے بعد وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ آدھا گول گپا اس کے منہ میں گیا اور باقی ٹوٹ کر نیچے گرتے ہوئے اس کا منہ اور میز خراب کر گیا۔ جب کہ حلق میں اترے کھٹے پانی نے مزید اس کے چودہ طبق روشن کردیے۔
”ارے ارے سنبھل کر!“ افروز نے ہنستے ہوئے اسے ٹوکا۔
”میں نے کہا تھا نا کہ مجھ سے نہیں کھایا جائے گا!“ اس نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ جھاڑا اور اسی سے منہ صاف کرنے لگا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے افروز نے ہنستے ہوئے پہلے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دوپٹے سے صاف کیا اور پھر اسی دوپٹے کی مدد سے آہستہ سے اس کا منہ بھی صاف کردیا۔ جب کہ اس کی جانب سے اتنا غیرمتوقع اپنائیت بھرا رد عمل ملنے پر وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوگیا۔
”چھوڑیں آپ یہ چاٹ کھالیں۔“ افروز نے آرام سے چاٹ کی پلیٹ اس کی جانب کھسکائی۔
”تم نے اپنا دوپٹہ کیوں گندا کرلیا۔“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”کوئی بات نہیں، دھل کر صاف ہوجائے گا۔“ وہ سہولت سے بولی۔
”ہاں مگر تم نے یہ زحمت کیوں کی!“ وہ اسے مزید کرید رہا تھا۔
”شوہر کا کام کرنے میں بھلا کیسی زحمت!“ اس نے مسکراتے ہوئے اتنی اپنائیت سے جواب دیا تھا کہ بےساختہ حامد کا دل زور سے دھڑکا۔ مطلب وہ اسے قبول کرچکی تھی! یعنی اس کی محبت کو قبولیت کا شرف ملنے لگا تھا!
”افروز!“ اچانک ہی ایک چہکتی ہوئی نسوانی آواز نے دونوں کا ارتکاز توڑا۔ تب تک ثمینہ نزدیک آچکی تھی جسے دیکھ کر افروز کو بھی خوشگوار حیرت ہوئی۔
”ثمینہ! کیسی ہو؟“ وہ بھی اٹھ کر اس سے گلے ملی۔
”میں بالکل ٹھیک، تم کیسی ہو؟“ وہ کہتے ہوئے الگ ہوئی۔
”بلکہ تم تو شادی کے بعد بہت اچھی ہوگئی ہو ماشاءالله!“ اگلے ہی پل اس نے خود کہتے ہوئے افروز کا گال کھینچا تو وہ جھینپ کر مسکرادی۔
”اور آپ کیسے ہیں حامد بھائی؟“ اب وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”میں بھی شادی کے بعد بہت زیادہ اچھا ہوگیا ہوں۔“ اس نے شرارتاً جواب دیا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
”تم اکیلی آئی ہوئی ہو یہاں؟“ افروز نے پوچھا۔
”نہیں، بھائی بھابھی آرہے تھے یہاں چاٹ کھانے تو میں بھی ان کے ساتھ آگئی۔“ اس نے فخر سے بتایا۔
”بدتمیز! کیا ضرورت تھی میاں بیوی کے بیچ کباب میں ہڈی بن کر آنے کی!“ افروز نے اسے چپت لگاتے ہوئے ٹوکا۔
”بھائی نے خود پوچھا تھا مجھے چلنے کیلئے۔“ اس نے وضاحت کی۔
”انہوں نے اخلاقاً پوچھا ہوگا اور تم سچ مچ ان کے پلو سے چپک کر چلی آئی، تمہاری خود کی عقل نہیں تھی کہ انکار کرکے چاٹ گھر پر منگوالو!“ افروز نے اس کی عقل پر ماتم کیا تو ثمینہ کو بھی اپنی بےوقوفی کا احساس ہوا۔
”اب تو آگئی یار، چل آئندہ خیال رکھوں گی کہ بھائی بھابھی اکیلے کہیں جا رہے ہوں تو انہیں تنگ نہ کروں۔“ اس نے سادگی سے اعتراف کیا۔ تب ہی سہیل بھی اپنی بیوی کے ہمراہ اسی طرف آگیا۔
”ارے! تم اور یہاں؟“ سہیل نے حامد کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا جو کرسی سے اٹھ کر اس کے گلے لگا۔
”محبت کی مہربانی ہے دوست!“ حامد نے گلے لگ کر معنی خیزی سے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
”آپ کیسی ہیں بھابھی؟“ افروز کوثر سے مخاطب ہوئی۔
”بالکل ٹھیک۔“ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
”آپ لوگ بھی یہاں ہی بیٹھ جائیں نا!“ حامد نے پیشکش کی تو مزید کرسیاں لگوا کر سب وہیں بیٹھ گئے۔
”مجھے تو لگ رہا تھا کہ اب شاید میں دوبارہ تم سے مل ہی نہیں پاؤں گی افروز!“ ثمینہ دوبارہ گویا ہوئی۔
”کیوں نہیں مل پاؤ گی؟ جب دل چاہے گھر آجایا کرو، سہیل کو ایڈریس پتا تو ہے۔“ اس کے بجائے حامد نے کہا۔
”لے ہی نہ آئیں یہ نواب صاحب مجھے آپ کے گھر۔“ ثمینہ نے اپنے بھائی پر طنز کیا۔
”کتنا اچھا ہوتا نہ اگر تم بھی شادی کے بعد سکینہ کی طرح ہی اپنے محلے کی پچھلی گلی میں رہتی۔“ ثمینہ نے حسرت سے آہ بھری۔
”سکینہ کا رشتہ سالوں سے وہاں طے تھا۔“ افروز نے یاد دلایا۔
”ارے سکینہ سے یاد آیا، تمہاری مامی نے کیا غضب کا جہیز دیا ہے اس کو!“ اس کے انداز میں اچانک اشتیاق امڈ آیا۔
”سکینہ کی شادی ہوگئی؟“ وہ حیران ہوئی۔
”نہیں مگر تیاری شروع ہوگئی ہے، تمھیں نہیں پتا۔“
”نہیں!“
”تمھیں اپنا سمجھتی تو بتاتی نا! انہوں نے تو تمہاری شادی کرکے بوجھ اتارا ہے اپنے سر سے۔“ اس نے جل کر تجزیہ کیا۔
”جانے دو، مجھے کوئی شکایات نہیں ہے، میں اپنے گھر میں خوش ہوں۔“ اس نے بات در گزر کرتے ہوئے آرام سے کہا مگر اس کی یہ بات حامد کا سیروں خون بڑھا گئی تھی۔ اسے یقین ہوچلا تھا کہ اس کے صبر کا صلہ ملنے لگا ہے اسے۔
”وہ تو اچھی بات ہے کہ تم اپنے گھر میں خوش ہو لیکن اگر تم بھی ان کی تیاریاں دیکھتی تو دنگ رہ جاتی، ابھی کل ہی سلیم کے گھر جہیز اترا ہے سکینہ کا اور وہ جہیز ایسا تھا کہ پورا محلہ اس کے بارے میں بات کر رہا ہے، ہے نا بھابھی!“ ثمینہ نے کوثر کو بھی گفتگو میں شامل کیا۔
”ہاں، جہیز کا ایک ایک سامان بہت قیمتی تھا، پورے محلے میں اب تک کسی کا ایسا جہیز نہیں بنا۔“ اس نے بھی بھرپور تائید کی۔
”ہاں مامی نے کافی عرصے سے کمیٹی ڈال رکھی تھی اس کے جہیز کیلئے، اچھا ہوا کہ اس کی بھی شادی ہوگئی اور مامی اس فرض سے سبکدوش ہوئیں۔“ افروز نے سادگی سے جواب دیا۔
”نہیں افروز! کمیٹی کتنے کی ہوگی زیادہ سے زیادہ؟ تین چار لاکھ کی! مگر وہ جہیز اس سے بھی کہیں زیادہ کا تھا، پھر کپڑے اور زیور الگ اور ایک سے بڑھ کر ایک، تم خود ہی بتاؤ یہ سب بھلا تین چار لاکھ میں ممکن ہے؟“ وہ ابھی بھی اپنی بات پر زور دے رہی تھی جس کے باعث اب افروز بھی کھٹکی۔
”اور ابو بتا رہے تھے کہ مارکیٹ میں تم لوگوں کی جو کپڑے کی دکان تھی تمہاری مامی نے اس کے برابر والی دکان بھی خرید لی ہے اور اسے بھی کرائے پر لگا دیا ہے، اب تم ہی بتاؤ کہ شادی کا اتنا کھلا خرچہ اور پھر یہ دکان خریدنا کوئی چھوٹی بات ہے کیا؟ سب کہہ رہے ہیں لگتا ہے ان کے ہاتھ کوئی الہ دین کا چراغ لگ گیا ہے۔“ اس نے سب گنواتے ہوئے آخر میں ہنس کر طنز کیا۔
”بس بھی کردو ثمینہ! کیوں دوسروں کی زندگی میں اتنی تانکا جھانکی کر رہی ہو؟ انہیں کرنے دو جو وہ کرتے ہیں۔“ بلآخر سہیل نے ہی اسے ٹوک دیا۔
مگر ان ساری باتوں پر اب افروز کی چھٹی حس کھٹکی تھی جس نے اسے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ کسی خیال کے تحت اس نے نظر اٹھا کر حامد کو دیکھا جو نگاہیں ملنے پر فوراً نظریں چرا گیا تھا اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہیں افروز کو ساری کہانی سمجھ آگئی تھی۔ اسے اس سوال کا جواب مل گیا تھا جو وہ اب تک ڈھونڈتی آئی تھی۔ مگر دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کاش یہ جواب نہ ملا ہوتا۔
****************************************
فلیٹ کا دروازہ کھلتے ہی افروز آندھی طوفان کی مانند اندر آئی تھی اور اس کے پیچھے اسے پکارتا ہوا متفکر سا حامد بھی تھا۔
”افروز پلیز میری بات تو سنو!“
”کیا سنو؟“ وہ لاؤنج کے وسط میں رک کر کاٹ دار انداز میں پلٹی۔
”یہ ہی کہ آپ نے میری مامی سے میرا سودا کیا ہے!“
”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔“
”ایسی ہی بات ہے، تب ہی تو مامی اتنی آسانی سے مان گئی تھیں کیونکہ آپ نے میرے بدلے اچھی خاصی رقم جو دی تھی انہیں۔“ افروز نے اس کی بات کاٹ کر اپنی بات پر زور دیا۔
”پلیز تحمل سے دو منٹ سن تو لو۔“ حامد نے نرمی سے کہتے ہوئے اسے دونوں بازؤں سے تھاما۔
”کیا سنوں؟ آپ کی سودے بازی کے قصے کہ کس مہارت سے آپ نے میرا سودا کیا؟“ اس نے تڑخ کر حامد کے ہاتھ جھٹکے تو وہ پل بھر کو کچھ نہ کہہ پایا۔
”دو پل میں آپ نے میری حیثیت ایک جیتے جاگتے انسان سے ایک بےجان شو پیس سی کردی ہے جسے جب دل چاہا قیمت ادا کرکے خرید لیا۔“ تلخی سے مزید کہتے ہوئے ایک آنسوں اس کی آنکھ سے پھسلا جسے رگڑتے ہوئے وہ کمرے میں جا کر بند ہوگئی۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے کی تو بات تھی کہ سب کتنا اچھا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ زندگی ایک حسین ڈگر پر چل پڑی ہے جہاں بس خوشیاں اور مسکراہٹیں استقبال کیلئے موجود ہوں گی۔ اپنائیت کے احساس کے زیر اثر دونوں بےتکلف ہوکر کتنے قریب آنے لگے تھے ایک دوسرے کے، اور اب پلک جھپکتے ہی پھر سے دونوں کے درمیان طویل فاصلہ آگیا تھا۔ سمجھ سے باہر تھا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے یہ غلط ہوا ہے یا غلط وقت پر ہوا ہے؟
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا دروازے کے پاس آیا۔ اس پر ہلکے سے دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔
”مجھے تمہاری کیفیت کا بہت اچھے سے اندازہ ہے افروز! اسی لئے تمہارے لاکھ پوچھنے پر میں نے تمھیں یہ بات نہیں بتائی تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ تم ہرٹ ہوگی اور میں تمھیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔“ وہ بند دروازے پر سر ٹکائے ہوئے ہی گویا ہوا مگر دوسری جانب سے کوئی رد عمل نہ ملا۔
”ٹھیک ہے میں نے تمہاری مامی سے سودے بازی کی، مگر اس سودے بازی کی وجہ بھی تو دیکھو نا تم! میں بس تمھیں ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔“ وہ اسی طرح مزید بولا۔ اور تب ہی جھٹکے سے دروازہ کھلا۔
”میں کوئی چیز ہوں جس کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے آپ نے اسے خرید لیا!“ افروز نے غم و غصے کی حالت میں کہا۔ اس کی سرخ ہوتی ناک اس کے رونے کی چغلی کھا رہی تھی جب کہ گلابی آنکھوں میں بھی بےپناہ شکوہ تھا جسے دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔
”افروز پلیز!“ وہ اسے بازؤں سے تھام کر بیڈ روم کے وسط میں لے آیا۔
”پلیز میری محبت کو سودے کا نام مت دو۔“ اس نے تڑپ کر التجا کی۔
”اگر تم میری لئے وقتی کشش والی کوئی چیز ہوتی تو کیا نکاح کے اتنے دنوں بعد بھی جب ہم تنہا رہ رہے ہیں میں تم سے اتنا دور رہتا؟“ اب اس کا انداز سوالیہ تھا۔
”اگر مجھے تمہارا جسم ہی حاصل کرنا ہوتا تو نکاح کی پہلی ہی رات کیا میں اپنے سارے حقوق استعمال نہیں کرلیتا؟“ اس کے سوال افروز کو لاجواب کر گئے تھے۔
”جب میں نے تمہاری مامی سے کہا کہ تم سے شادی کے بدلے وہ جو بولیں گی میں وہ کروں گا تو انہوں نے شرط رکھ دی کہ وہ جب جیسے کہیں گی مجھے ویسے ان کی بیٹی کی شادی کا خرچہ اٹھانا ہوگا، میں صاحب اسطاعت تھا اسی لئے یہ سوچ کر مان گیا کہ کسی لڑکی کی شادی کا خرچ اٹھانا ویسے بھی ثواب کا کام ہے تو اس سے مجھے تم بھی مل جاؤ گی اور اجر بھی، اسی لئے میں نے ان کی بات مان لی، اب تم ہی بتاؤ میں نے کیا غلط کیا؟“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے عاجزی سے سوال کیا تو افروز نے بےساختہ لب بھینچ لئے۔
وہ ایسا ہی کرتا تھا۔ ہر بار اس کی خفگی کے آگے وہ اتنی عاجزی سے دلائل پیش کرتا تھا کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی لاجواب ہوجاتی تھی۔ مگر سوالات پھر بھی ذہن میں کہیں نا کہیں رقصاں رہتے تھے۔
”کیوں کیا آپ نے اتنا سب کچھ؟“ اس نے بےبس تاسف سے سوال کیا گویا کہہ رہی ہو کہ نہیں کرتے نا خود پر اتنا ظلم، نہیں اٹھاتے نا یہ بلاوجہ کا بوجھ!
”تمہارے لئے!“ اس دو لفظی جواب نے اسے پھر لاجواب کردیا۔ لفظوں سے زیادہ اس کی آنکھیں بول رہی تھیں جن میں بےپناہ محبت تھی۔
”اگر تمھیں یہ برا لگا تو اب تم ہی بتا دو کہ اس غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے میں کیا کروں؟“ اس نے گویا تلوار افروز کو تھماتے ہوئے سر جھکا دیا تھا کہ لو اب تم ہی فیصلہ کرلو۔ جب کہ وہ بس سر اٹھائے اسے دیکھتی رہی۔
”میں نے نہ پہلے تم پر زبردستی کی تھی اور نہ اب کروں گا، بلکہ تمہارا جو بھی فیصلہ ہوگا مجھے قبول ہوگا۔“ وہ خود پر جبر کرتے ہوئے رسان سے بولا مانوں اسے کھونا نہ چاہتا ہو لیکن اگر دور ہونا ہی اس کی رضا تھی تو وہ اس میں بھی راضی ہوگا۔۔۔۔ناچاہتے ہوئے بھی!
”اب میں چلتا ہوں، تم رات بھر آرام سے سوچو، میں صبح آؤں گا اپنی سزا سننے۔“ وہ کہتے ہوئے چند الٹے قدم پیچھے ہوا اور جانے کیلئے پلٹا۔ مگر تب ہی افروز نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ چونک کر واپس پلٹا۔
”صبح آنے کی ضرورت نہیں ہے، ابھی سزا سن لیں۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔ یعنی وہ جو اتنی دیر سے چپ چاپ اسے سن رہی تھی اس دوران کوئی فیصلہ کرچکی تھی۔ اب بس اعلان باقی تھا۔
”اب آپ کی سزا ہے کہ آپ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جا سکتے، اور اگر گئے تو۔۔۔۔۔!“ وہ کہتے ہوئے رکی۔
”تو کیا؟“ اس نے جاننا چاہا۔
”تو میں یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاؤں گی۔“ وہ کہتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔ جواباً اس نے بھی دونوں بازو اس کے گرد حمائل کر لئے۔
وہ ناراض نہیں تھی۔ بس وقتی طور پر خفا ہوئی تھی کہ کیوں یہ شخص اس کیلئے اتنی زحمت گوارا کیے جا رہا ہے! کیا کوئی اتنا بھی پاگل ہوسکتا ہے!
”مجھے آپ پر غصہ نہیں ہے بس اچھا نہیں لگتا کہ آپ میری لئے خواہ مخواہ وہ بوجھ اٹھائیں جو آپ کی ذمہ داری نہیں ہیں۔“ وہ فکرمند انداز سے اصلی بات زبان پر لائی۔
”یہ کوئی بوجھ نہیں ہے بلکہ یہ تو میرا فرض ہے کہ اگر اللّه نے مجھے عطا کیا ہے تو میں اس کے دیے ہوئے میں سے اس کے بندوں پر خرچ کروں، ہماری فیملی ہر سال کسی نا کسی لڑکی کی شادی کا خرچہ اٹھاتی ہے تو اس سال تمہاری کزن سہی، نیکی بھی ہوگئی اور مجھے اس کا صلہ بھی مل گیا تمہاری صورت!“ وہ اس کا سر سہلاتے ہوئے رسان سے کہتا آخر میں مسکرایا۔ افروز کی جانب سے کوئی شدید رد عمل نہ ملنے پر اسے اطمینان ہوا تھا۔
”کسی غریب لڑکی کی شادی کروانے میں اور مدد کے نام پر لٹنے میں فرق ہوتا ہے حامد!“ وہ کہتے ہوئے اس سے الگ ہوئی۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ بےاختیار پہلی بار اس کا نام پکار بیٹھی تھی جو اسے بےحد خوبصورت لگا۔
”مامی آپ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں اور آپ لٹ رہے ہیں۔“ اس نے دھیان دلانا چاہا۔
”لٹ تو اسی دن گیا تھا جب تمھیں پہلی بار دیکھا تھا اب تو بس فارمیلیٹیس پوری ہو رہی ہیں۔“ اس نے شوخی سے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
”آپ کو یوں پانی کی طرح پیسہ خرچ کرنا مذاق لگ رہا ہے!“ اس نے بنا اثر لئے سنجیدگی سے گھورا۔
”مذاق نہیں محبت ہے یہ، جس کے آگے چند پیسوں کی کوئی اہمیت نہیں، اگر کچھ پیسوں کے عوض دنیا ہمیں چین سے رہنے دے رہی ہے تو اس میں مسلہ کیا ہے؟ وہ پیسے اپنی قبر میں تو لے کر نہیں جاؤں گا نا میں!“ اب اس نے بھی تھوڑی نرم سنجیدگی سے کہا تو وہ فوری طور پر کچھ نہ بولی۔
”اگر اتنا سب کرنے کے بعد بھی کچھ عرصے بعد آپ کا مجھ سے دل بھر گیا تو!“ اس نے اچانک ایک چبھتا ہوا غیرمتوقع سوال کیا۔
”تمھیں لگتا ہے کہ تمہاری مامی کی شرائط اور اماں جان کی ناراضگی میں نے اس لئے مول لی ہے کہ ایک دن میں دل بھر جانے کے بعد تمھیں چھوڑ دوں گا؟“ اس نے بنا برا مانے اطمینان بھرے انداز میں دلچسپی سے الٹا سوال کیا تو وہ کچھ نہ بولی۔ اس کا یہ بےپناہ یقین اس کے سارے سوال چھین لیتا تھا۔ وہ اسے لاجواب نہیں کرنا چاہتا تھا بس یقین دلانا چاہتا تھا کہ اس کے خدشے بےبنیاد تھے۔ وہ اپنی اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہوگیا تھا اور یہ بات وہ خود بھی جانتا تھا۔
”ویسے اماں جان کے ذکر پر یاد آیا کہ وہ میرا انتظار کر رہی ہوں گی، اب مجھے چلے جانا چاہئے نا!“ اس نے مصنوعی خیال ظاہر کرتے ہوئے اسے جان بوجھ کر تنگ کیا تا کہ وہ اسے خود روکے۔
”تو اب میں جاؤں؟“ وہ پوچھتے ہوئے الٹے قدم پیچھے ہوا۔
”ہاں جائیں۔“ اس نے توقع کے برعکس اطمینان سے جواب دیا کیونکہ اس کی شرارت جو سمجھ گئی تھی۔
”میں جا رہا ہوں۔“ وہ اور پیچھے ہوا جسے افروز نے نہیں روکا۔
”میں بس چلا گیا۔“ وہ دروازے پر آکے رکا مگر کوئی رد عمل نہ ملا۔
”اب تو میں گیا سمجھو۔“ اس نے دوبارہ جتایا مگر وہ کچھ کہنے کے بجائے اطمینان سے اسے دیکھتی رہی۔
”جھوٹے منہ ہی روک لو یار!“ وہ شکوہ کرتا ہوا واپس اس کی جانب آیا۔
”میں جھوٹ نہیں بولتی۔“ اس نے مصنوعی بےنیازی ظاہر کی۔
”اچھا تو پھر سچ ہی کہہ دو کہ میں کیا کروں؟“ اس نے گویا ہار مانی۔
بجائے اسے کوئی جواب دینے کے افروز نے آگے ہوکر دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے اور پیر کی انگلیاں کے بل اچک کر اس کے کان کے قریب آئی۔
”آج جانے کی ضد نہ کرو۔“ کان کے قریب ہوئی یہ سرگوشی اسے روح تک سرشار کر گئی۔ افروز نے اس کی خواہش پوری کردی تھی۔ اس کے یقین کو حقیقت بنا دیا تھا۔ اسے روک لیا تھا۔
”جو حکم سرکار!“ اس نے بھی اسے بانہوں میں لیتے ہوئے اس پر گرفت تنگ کی اور ماتھے پر محبت کی پہلی نشانی چھوڑتے ہوئے اپنی شدتوں کا حال بتانے کا آغاز کردیا جس میں مقابل کی خودسپردگی اس کی رضا مندی کی علامت تھی۔۔۔۔اسے قبول کر لینے کی دلیل تھی۔
مہ کش لبوں پر آنے لگی ہیں پیاسی قربتیں
حیرت زدہ ٹھکانے لگی ہیں ساری فرقتیں
انتخاب
****************************************
صبح ہوئی، سارے معاملات پھر سے رواں دواں ہوئے اور چلتے چلتے دوپہر سے جا ملے۔
اسکول ٹائم ختم ہونے کے بعد ازلفہ جیسے ہی باہر آئی تو اسے باہر جیکب کھڑا نظر آگیا جو غالباً آیان کو لینے آیا تھا۔
وہ سیدھا اس کی جانب آگئی جو پہلے ہی اسے دیکھ چکا تھا۔
”آیان کو لینے آئے ہیں آپ؟“ اس نے نزدیک رک کر تائید چاہی۔
”نہیں، اس پیڑ کے پتے گننے کیلئے کھڑا ہوں یہاں۔“ اس نے حسب عادت ٹکا سا جواب دیتے ہوئے اس پیڑ کی جانب اشارہ کیا جس کی چھاؤں میں یہ دونوں کھڑے تھے۔
”جب آپ نے خود فرمان جاری کیا تھا تو ظاہر ہے میں اسے ہی لینے آیا ہوں گا!“ اس نے طنزیہ انداز میں یاد دلایا۔
”جی میں نے ہی کہا تھا مگر اتفاق سے آج بریک ٹائم پر اس کی مما اسے لینے آگئی تھیں، انہیں ارجنٹ اپنے کسی ریلیٹیو کے گھر جانا تھا تو وہ ہاف ڈے لیو دے کر اسے لے گئیں۔“ اس نے نظریں جھکا کر دھیرے سے یوں بتایا گویا اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہو جس کے جواب میں اب وہ پھر ہتھے سے اکھڑ جائے گا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے وہ پہلے چند لمحے سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا پھر بنا کچھ بولے وہاں سے چل پڑا۔
”ارے! کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ وہ بھی حیران ہوتی ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔
”میں آیان کو لینے آیا تھا، اب جب وہ پہلے ہی جا چکا ہے تو میں یہاں رک کر کیا کروں؟“ اس نے چلتے ہوئے سنجیدگی سے کہا جس کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے وہ بھی چپ چاپ اس کے ساتھ چلتی رہی۔
دونوں تھوڑا فاصلہ رکھ کر درمیانی رفتار سے فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ازلفہ کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔
”آئی ایم سو سوری!“ بلآخر ہمت جمع کرکے وہ گویا ہوئی۔
”کس لئے؟“ بنا دیکھے سوال آیا۔
”وہ اس دن میری غلط فہمی کی وجہ سے آپ کو چوٹ پہنچی اس لئے۔“ وہ بےحد شرمندہ تھی۔
”پہلے بنا سوچے سمجھے تہمت لگا دی اور اب معافی کیلئے بےچین ہو رہی ہیں، آپ بھی کمال ہیں۔“ اس نے چلتے ہوئے اس کی جانب گردن موڑ کر طنز مارا۔
”دیکھیں جو ہوا وہ غلطی سے ہوا، ورنہ مجھے کیا ضرورت پڑی تھی آپ پر جھوٹی تہمت لگانے کی؟“ اس نے سوالیہ انداز میں وضاحت کی۔
”میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کسی پر جھوٹی تہمت لگانے والے کو اللّه بالکل پسند نہیں کرتا، یہ بہت بڑا گناہ ہے، اسی لئے تو میں آپ سے معافی چاہ رہی ہوں کیونکہ جب تک اللّه کا بندہ معاف نہیں کرتا تب تک اللّه بھی معاف نہیں کرتا، اسی لئے پلیز مجھے معاف کرکے میری طرف سے دل صاف کرلیں۔“ اس نے موقع غنیمت جان کر اپنی صفائی دیتے ہوئے عرضی پیش کی۔
”میری معافی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ میں آپ کے اللّه کا بندہ نہیں ہوں، میں کرسچن ہوں۔“ اس نے ازلفہ کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”کرسچن، مسلم، ہندو سب اللّه کے بندے ہیں کیونکہ سب کو اللّه نے بنایا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ مسلم اس بات کو دل اور زبان سے بھی تسلیم کرتے ہیں اور آپ لوگ نہیں کرتے، مگر آپ کے نا ماننے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی، ہم سب اللّه کے بندے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ ازلفہ نے بھی اسی انداز میں تصحیح کی جس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شاید ضد بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔
”پلیز مجھے معاف کردیں میں نے انجانے میں آپ کے ساتھ زیادتی کردی۔“ اس کے انداز میں بےپناہ عاجزی و ندامت تھی جس کے پیش نظر جیکب ایک جگہ رک کر اسے دیکھنے لگا تو وہ بھی رک گئی۔
”پلیز میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا۔“ جیکب کے ذہن میں اس کی خود کی فریاد گونجی جو کئی سالوں پہلے اس نے کچھ سنگ دل لوگوں کے سامنے کی تھی مگر اسے بےدردی سے رد کردیا گیا تھا۔
وہ دلخراش لمحات یاد آتے ہی اس نے جبڑے بھینچ لئے، کن پٹی کی رگ تن گئی اور آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ جب کہ اس کے یہ خطرناک تاثرات دیکھ کر ازلفہ کو بھی کسی انہونی کا خدشہ لاحق ہوا۔
”مجھے معاف کردیجئے۔“ اس نے دوبارہ دھیرے سے کہا۔
”نہیں!“ جیکب نے سپاٹ انداز میں جواب دیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا اس سے دور ہوتا گیا۔ جب کہ وہ وہیں کھڑی فکرمندی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
نہ جواب دے نہ سوال کر
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر
تجھے کیا ملے گا تو ہی بتا
مجھے یوں الجھنوں میں ڈال کر
انتخاب
****************************************
”ایک تو آپ کل پوری رات یہاں تھے اوپر سے نہ صبح آفس گئے، نہ گھر، آپ کے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے آپ کیلئے۔“ افروز نے فکر مندی سے دھیان دلایا۔
دونوں اس وقت کشادہ بالکونی میں رکھے ایک لکڑی کے صوفے پر بیٹھے شام کے حسین موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے جہاں حامد صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے اطمینان سے بیٹھا افروز کے بالوں میں آہستہ آہستہ انگلیاں چلا رہا تھا جو اس کے سینے سے لگ کر پرسکون انداز میں بیٹھی تھی۔
”گھر میں ہمیشہ سے رہا ہوں اور آفس بھی روز جاتا ہوں، مگر ایسا دن زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا اسی لئے میں اسے ضائع نہیں کرنا چاہتا۔“ وہ اسی اطمینان کے ساتھ بولا۔
”کیسا دن؟“ اس نے دلچسپی سے جاننا چاہا۔
”ایسا جس میں تم میرے اتنے قریب ہو۔“ اس نے رومانوی انداز میں جواب دیا تو وہ بےساختہ دلکشی سے مسکرائی۔
”ایسا دن تو میری زندگی میں بھی پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پہلے نہ آپ تھے اور نہ آپ سے پہلے کوئی اور ہاں لیکن اب ہماری زندگیوں میں ہر دن آج جیسا ہی ہوگا، یا شاید اس سے بھی زیادہ خوبصورت۔“ افروز نے بھی اس کی شرٹ کے بٹن کو چھیڑتے ہوئے پرمسرت انداز میں جواب دیا۔ وہ اپنے نصیب کی خوشیوں کو خوشی خوشی قبول کرچکی تھی۔
”ان شاءاللّه!“ اس نے پریقین انداز میں کہتے ہوئے اسے مزید خود میں بھینچ لیا۔
دونوں اس وقت اپنی نئی نویلی محبت کے خمار میں پور پور ڈوبے ہوئے تھے اور تا عمر ایسے ہی ڈوبے رہنا چاہتے تھے۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ وقت و حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے بس ایسا ہی کچھ ہونے والا تھا جس سے دونوں بےخبر تھے۔
****************************************
”میں ابھی گھر گیا تھا مگر وہاں تالا تھا، سب خیر تو ہے نا بھابھی؟ ایسے بنا بتائے آپ کہاں چلی گئی ہیں آیان کو لے کر؟“ جیکب نے موبائل ایک کان سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے پوچھا جو اس وقت کچن میں موجود اپنے لئے کھانا بنا رہا تھا۔
”تم میرے ابا ہو جو ہر کام کرنے سے پہلے میں تمھیں بتاؤں؟“ دوسری جانب سے حسب عادت شہلا کا جلا کٹا رد عمل آیا۔
”میرا وہ مطلب نہیں تھا بھابھی، بس پہلے کبھی آپ اس طرح کہیں گئی نہیں نا اسی لئے تھوڑی فکر ہو رہی تھی۔“ اس نے ایک ہاتھ سے کڑاہی میں چمچ چلاتے ہوئے وضاحت کی۔ کیونکہ شہلا کا یہ انداز اس کیلئے نیا نہیں تھا۔
”تمھیں کوئی ضرورت نہیں ہے زیادہ ہماری فکر کرنے کی، میری خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسی لئے ان کی طرف آئی تھی مگر اب کچھ دن یہیں رکوں گی، اب دوبارہ مجھے فون کرکے بلاوجہ کی تفتیش نہ کرنا۔“ اس نے سرسری بتاتے ہوئے آخر میں سختی سے تاكید کی۔
”جی ٹھیک ہے بھابھی۔“ اس نے سادگی سے کہا اور تب ہی دوسری جانب سے لائن ڈسکنیکٹ ہوگئی۔
جیکب نے موبائل کچن میں رکھے چھوٹے سے فریج کے اوپر رکھا اور کڑاہی میں چکن ڈال کر اسے بھوننے لگا۔
”پلیز مجھے معاف کرکے میری طرف سے دل صاف کرلیں۔“ کام کرتے ہوئے اس کے ذہن میں پھر ازلفہ کے دوپہر کو کہے گئے عاجزانہ الفاظ گونجے اور اس کا منت کرتا سراپا آنکھوں میں گھوم گیا۔
شہلا کچھ روز کیلئے گھر پر نہیں تھی اس کا مطلب آیان بھی اسکول نہیں جانے والا تھا۔ اور جب آیان اسکول نہیں جائے گا تو آیان کی ٹیچر سے کوئی رابطہ بھی نہیں رہے گا۔
بےخیالی میں یہ ہی سب کڑیاں ملاتے ہوئے اس نے ڈھکن لگا کر چکن گلنے کیلئے چھوڑا اور سنک پر پڑے برتنوں کی جانب متوجہ ہوگیا جب کہ ذہن ہنوز ان ہی سوچوں میں الجھا رہا۔
****************************************
”اور یہ سوٹ ازلفہ کیلئے لیا ہے میں نے۔“ نعیمہ نے ایک گہرے نیلے رنگ کا سوٹ بیگ سے نکال کر بیڈ پر پھیلایا جو کہ آج ہی لاہور سے واپس لوٹی تھیں۔
”واہ! یہ بھی زبردست ہے، ہے نا آپی!“ اذکی نے ستائشی انداز میں ازلفہ سے تائید چاہی جو بظاہر بیڈ پر رجسٹر کھولے بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی مگر اس کی سوچیں جیکب کے گرد طوائف کر رہی تھیں۔
”آپی! آپ سے بات کر رہے ہیں ہم!“ اذکی نے اسے تکیہ کھینچ کر مارتے ہوئے متوجہ کیا۔
”ہاں کیا ہوا؟“ وہ چونکی۔
”امی ہمارے لئے اتنی اچھی شاپنگ کرکے لائی ہیں لاہور سے اور آپ کا دھیان ہی نہیں ہے۔“ اس نے دھیان دلایا۔
”ہاں بس وہ اسکول کا تھوڑا کام تھا۔“ اس نے سادگی سے بات بنائی۔
”آپ کے تو کام ہی ختم نہیں ہوتے، انہیں چھوڑیں امی، مجھے بتائیں اور کیا کیا لائی ہیں آپ میرے لئے؟“ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر اذکی دوبارہ نعیمہ کے ساتھ مصروف ہوگئی جو اسے مزید خریداری دکھانے لگیں۔ جب کہ ازلفہ کا ان سب پر کوئی دھیان نہیں تھا۔ اس کی سوچیں اور سوال تو بس جیکب کے گرد اٹک کر رہ گئے تھے جو دن بہ دن اسے مزید الجھائے جا رہا تھا۔
****************************************
نیا دن اور پرانا معمول پھر سے رواں دواں تھا، البتہ آج موسم کے تیور صبح سے ہی کچھ بدلے بدلے سے لگ رہے تھے اور دوپہر ہونے تک پورا آسمان سرمئی بادلوں سے چھپ گیا تھا اور حبس نے الگ کوفت میں مبتلا کیا ہوا تھا۔
ازلفہ جیسے ہی چھٹی ہونے کے بعد اسکول سے باہر آئی تو آج پھر جیکب اسی پیڑ کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ وہ بھی بےاختیار اس طرف چلی آئی۔
”آیان آج بھی اسکول نہیں آیا ہے۔“ اس سے کوئی سوال کرنے کے بجائے ازلفہ نے سرسری انداز میں خود اطلاع دینا بہتر سمجھا۔
”آیان اسکول نہیں آیا!“ اس نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس قدر خالص تعجب کا اظہار کیا کہ اگر یہ کسی فلم کا سین ہوتا تو اس لاعلمی کی اداکاری پر اسے ضرور ایوارڈ ملتا جو وہ ازلفہ کے سامنے کر رہا تھا۔
”جی، اس کی مما نے فون کرکے کچھ دنوں کی لیو لی ہے، وہ لوگ گھر پر نہیں ہیں فی الحال۔“ اس نے سادگی سے وہ ہی بات بتائی جو کل شہلا اسے بتا چکی تھی لیکن وہ پھر بھی یہاں چلا آیا تھا، کیوں۔۔۔۔۔؟
”آپ تو آیان کے چاچو ہیں نا! تو آپ کو نہیں پتا تھا کہ آیان گھر پر نہیں ہے؟“ ازلفہ نے اس کی غصیلی طبیعت کے پیش نظر سنبھل کر ٹٹولا۔
”آپ کو بھی تو پتا ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہیں رہتا تو پھر یہ بےتکا سوال کیوں؟“ اس نے حسب عادت سوالیہ انداز میں الٹا جواب دیا اور وہاں سے جانے کیلئے قدم اٹھائے۔ کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ وہ پھر اس کے پیچھے آئے گی، اور وہ ہی ہوا۔
”سنیں! آپ نے کیا سوچا پھر؟“ وہ بھی فاصلہ رکھ کر اس کے ساتھ چلنے لگی۔ جیکب کو لاشعوری طور پر ازلفہ کو یوں معافی کیلئے بےچین ہوتا دیکھ کر عجیب سا لطف آنے لگا تھا۔
”کس بارے میں؟“ بنا دیکھے سوال آیا۔ تب ہی سرمئی بادلوں سے موٹی موٹی بوندے گرنا شروع ہوگئیں۔
”مجھے معاف کرنے کے بارے میں، کیا آپ نے مجھے معاف کردیا؟“ اس نے یاد دلاتے ہوئے ایک آس سے پوچھا۔
”نہیں!“ سپاٹ جواب آیا۔ ساتھ ہی بوندا باندی کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔
”لیکن کیوں؟“ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔
”کیونکہ سالوں پہلے مجھے بھی معاف نہیں کیا گیا تھا۔“ اس نے بنا دیکھے سیدھے چلتے ہوئے کربناک سنجیدگی سے جواب دیا جسے سن کر وہ حیران رہ گئی۔ تب ہی بادل بہت زور سے گرجے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔
طویل سیدھی سڑک پر اگر دونوں چلتے جاتے تو سرتاپا بری طرح بھیگ جاتے اسی دقت سے بچنے کیلئے دونوں فی الحال ایک بند دکان کے شلٹر کے نیچے کھڑے ہوکر اس موسلا دھار بارش کے کم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
اسکول سے ازلفہ کے گھر کو جانے والا یہ راستہ زیادہ تر سنسان ہی رہتا تھا جیسا کہ ابھی ہو رہا تھا۔ اس طویل سڑک پر آگے جا کر دو موڑ آتے تھے جن میں سے دائیں طرف والا موڑ ازلفہ کے سیکٹر کی جانب جاتا تھا اور بائیں طرف والا اس سیکٹر میں جہاں آیان اور جیکب رہتے تھے۔
دونوں کافی فاصلے سے چپ چاپ کھڑے بظاہر زور وشور سے برستی اس بارش کو دیکھ رہے تھے مگر اندر ہی اندر ایک دوسرے کو لے کر ان کے ذہنوں میں بےشمار سوالات تھے۔ خاص طور پر ازلفہ کے ذہن میں۔
”آیان کی اسکول ڈائری ہمیشہ آپ ہی چیک کرتے ہیں؟“ بلآخر ازلفہ نے ہمت کرکے پہل کی۔
”نہیں!“ ایک لفظی جواب ملا۔
”تو پھر آپ نے میرے نوٹس کا جواب کیسے دیا؟“ وہ متعجب ہوئی۔
”میرے خیال سے شاید آپ نے خود ہی یہ سلسلہ شروع کیا تھا آیان کے ذریعے مجھے بطور خاص نوٹ بھیج کر جس میں آپ نے میری رائٹنگ میں کیڑے نکالے تھے!“ اس نے طنزیہ انداز میں یاد دلایا تو اس کے انداز پر وہ ضبط کرکے رہ گئی۔
”اور ایک بات مجھے بھی آپ سے کہنی تھی کہ اردو ہماری مادری نہیں بلکہ قومی زبان ہے۔“ اس نے اسی انداز میں مزید کہا۔
”آپ کی اطلاع کیلئے عرض کرتی چلوں کہ میں ایک اردو اسپیکنگ مہاجر ہوں جس کے اباؤ اجداد اپنی ثقافت میں یہ زبان لے کر آئے تھے، اردو ہم مہاجرین کی میراث ہے، جسے پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دیا گیا، اسی لئے اردو سے ہمارے دو رشتے ہیں، پہلا مادری زبان ہونے کا فخر اور دوسرا قومی زبان ہونے کا اعزاز!“ اس نے جذباتی مگر نہایت پراعتماد انداز کے ساتھ جواب دیا تو وہ فوری طور پر کچھ نہ بولا مگر پھر سر جھٹک کر پھیکےپن سے ہنسا جس کی وجہ وہ سمجھ نہ پائی۔
”اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟“ اس نے تعجب سے پوچھا۔ اس نے آج پہلی بار دیکھا تھا کہ ہنسنے کے باعث اس کے نقوش کیسے دکھتے ہیں؟
”اپنی لاعلمی پر ہنس رہا ہوں۔“ جیکب کا جواب اس کے سر پہ سے گزر گیا۔
”ایک آپ ہیں جسے اپنے اباؤ اجداد کی تاریخ تک پتا ہے، اور ایک میں ہوں جسے اپنے اباؤ اجداد کا ہی نہیں پتا کہ اب وہ کہاں اور کس حال میں ہیں!“ وہ پھر خود پر ہنسا جس کے باعث ازلفہ کی حیرت مزید بڑھی۔
ہر انسان کی زندگی میں کبھی نا کبھی ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب وہ لاشعوری طور پر کسی کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھنے کو تیار ہوتا ہے۔ جیکب کی زندگی کا یہ وہ ہی لمحہ تھا جسے ازلفہ بھانپ گئی تھی اور موقع غنیمت جان کر اس نے گرم لوہے پر چوٹ ماری۔
”کیا آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے کہ الگ مذہب ہونے کے باوجود بھی آپ کا آیان سے اتنا قریبی رشتہ کیسے ہے؟“ اس نے سنبھل کر کریدا۔
اس کے سوال کا فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے پل بھر کو اسے دیکھا گویا لفظوں کو زبان پر اکٹھا کر رہا ہو، اور پھر گردن موڑ کر سامنے برستی بارش کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
”میں ایک کرسچن فیملی میں پیدا ہوا، میرے ڈیڈ کا نام ایڈم اور مام کا نام سوفی تھا، ان کے علاوہ میری فیملی میں میرے چاچو چاچی بھی تھے اور مجھ سے پانچ سال چھوٹا ان کا بیٹا جانی تھا، ہم مڈل کلاس لوگ تھے، ہماری کل جائیداد ہمارا دو منزلہ گھر اور ایک دکان تھی جہاں ڈیڈ اور چاچو مل کر لکڑی کا فرنیچر بنانے کا کام کرتے تھے، میری مام مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، میں روز ان کے ساتھ چرچ جاتا تھا جہاں وہ مجھے پرے کرنا سکھاتی تھیں، وہ کہتی تھیں کہ جو بھی چاہیے ہو گاڈ سے مانگا کرو تا کہ مانگنے کے بہانے سے ہی سہی ہمارا گاڈ سے کنیکشن بنا رہے، اور کچھ نہیں مانگنا ہوا کرے تو چپ چاپ گاڈ کے سامنے بیٹھ جایا کرو مگر گاڈ سے کنیکشن بنا کر رکھو، پھر جب میں سولہ سال کا تھا تب دل کی کسی بیماری کی وجہ سے ان کی ڈیتھ ہوگئی، ان کے جانے کے بعد ڈیڈ بھی بہت اداس رہنے لگے اور انہوں نے دکان پر بھی جانا چھوڑ دیا، بس چاچو ہی دکان سنبھال رہے تھے اور تھوڑا بہت کام سیکھنے کیلئے میں اور جانی بھی ان کے ساتھ چلے جایا کرتے تھے، ڈیڈ آہستہ آہستہ سب سے بےخبر ہوگئے اور چچی نے مجھے طعنے دینے شروع کردیے کہ میں ان کے ہسبنڈ کے ٹکڑوں پر پل رہا ہوں کیونکہ میرا باپ تو اب کچھ کام ہی نہیں کرتا، مجھ سے ان کے طعنے برداشت نہیں ہوتے تھے اسی لئے میں نے مزید دل لگا کر کام سیکھنا شروع کردیا کہ جلد خود محنت کرکے کماؤں گا مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی، ایک رات ایسے ہی زوروں کی بارش ہو رہی تھی جب چچی نے میرے کمرے میں آکر مجھے کہا کہ میں اسٹور کا روشن دان بند کردوں کیونکہ وہاں سے پانی اندر آرہا ہے، میں جیسے ہی اسٹور میں آکر روشن دان بند کرنے کیلئے اسٹول پر چڑھا تو پیچھے سے چچی نے بھی اندر آکے اسٹور کا دروازہ لاک کردیا اور اپنے کپڑے پھاڑ کر ہیلپ ہیلپ چلانے لگیں، میں گھبرا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگا مگر انہوں نے مجھے دروازہ نہیں کھولنے دیا، ان کی آواز سن کر ڈیڈ، چاچو اور جانی بھی اسٹور کے باہر آگئے، تب ہی چچی خود روتی ہوئی باہر آئیں اور مجھ پر تہمت لگا دی کہ میں ان کا ریپ کرنا چاہ رہا تھا، یہ بات سن کر ڈیڈ غم و غصے سے پاگل ہوگئے اور مجھے بری طرح مارنے لگے، چاچو بھی ان کے ساتھ شامل تھے جب کہ گیارہ سالہ جانی حیران پریشان سا کھڑا سب دیکھے جا رہا تھا، میں روتا رہا، چلاتا رہا کہ میں نے کچھ نہیں کیا ہے میرا یقین کریں، مگر کسی نے میری نہ سنی اور مجھے گھر سے نکال دیا، مجھے اپنا کچھ ہوش نہیں تھا، پتا نہیں کیسے روتے روتے میں گھر کے پاس بنے ریل وے اسٹیشن پر پہنچ گیا اور وہاں پٹری دیکھ کر مجھے بس خودکشی کا ہی خیال آیا۔ ٹرین کے پلیٹ فارم پر آتے ہی میں اس کے سامنے کودنے لگا تھا کہ کسی نے مجھے پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا۔ وہ عبدالله صاحب تھے، میرے محسن!
انہوں نے مجھ سے خودکشی کی وجہ پوچھی تو میں نے انہیں سب بتا دیا جسے سننے کے بعد انہوں نے بہت پیار سے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی تو میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے آئے جہاں بس وہ اور ان کا بیٹا شرجیل رہتے تھے۔ ان کی ایک موبائل ریپئیرنگ کی شاپ تھی، وہ خود کاریگر تھے مگر ان کا بیٹا ان کے ساتھ یہ کام کرنا پسند نہیں کرتا تھا، وہ فی الحال پڑھ رہا تھا تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ شاپ پر رکھ لیا اور کام سکھانے لگے جو میں جلد ہی سیکھ گیا۔ پھر کچھ سالوں بعد جب شرجیل بھائی کی شادی شہلا بھابھی سے ہوئی تو انہیں میری موجودگی خاص پسند نہ آئی، اور میں بھی کیونکہ ایک الزام بھگت کر آیا تھا اور دوسری کوئی تہمت نہیں چاہتا تھا اسی لئے اس چھوٹے سے کرائے کے گھر میں آگیا جہاں میں ابھی رہتا ہوں، مگر دکان اور عبدالله صاحب سے میرا تعلق ویسا ہی رہا، کچھ عرصے بعد ان کے گھر آیان کی پیدائش ہوئی، اکلوتا پوتا ہونے کی وجہ سے عبدالله صاحب کی جان تھی اس میں، ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ زبان پر آنے سے پہلے اس کی خواہش پوری کردیں اور جو میرے محسن کی جان تھا وہ مجھے بھلا کیسے عزیز نہ ہوتا؟ جب آیان نے بولنا شروع کیا تو عبدالله صاحب نے اس کی زبان سے مجھے چاچو کا لقب دلوایا کیونکہ وہ مجھے اپنا بیٹا ہی مانتے تھے۔
وقت گزرتا رہا، شرجیل بھائی کی دبئی میں جاب لگ گئی، آیان نے اسکول جانا شروع کردیا، دکان پوری میرے ذمہ تھی اور عبدالله صاحب بیماری کی وجہ سے بستر پر آگئے۔ مام کے جانے کے بعد میں نے چرچ جانا بہت کم کردیا تھا مگر عبدالله صاحب کی صحت کی دعا مانگنے میں پابندی سے چرچ جانے لگا۔ لیکن گاڈ نے میری نہ سنی اور عبدالله صاحب کی بھی ڈیتھ ہوگئی، مجھے لگا میں پھر سے اکیلا ہوگیا ہوں، اب کوئی نہیں رہا جسے میں اپنا کہہ سکوں، تب ہی آیان کی صورت مجھے اپنائیت کا سہارا مل گیا، مگر شہلا بھابھی کو میرا زیادہ آنا جانا پسند نہیں تھا۔ شرجیل بھائی واپس دبئی چلے گئے تھے جس کے بعد بھابھی اور آیان پیچھے اکیلے رہ گئے، شرجیل بھائی مجھے فون کرکے آرڈر دیتے رہتے تھے کہ کس طرح ان لوگوں کا خیال رکھنا ہے؟ میں بھی ہر مہینے اپنا پرافٹ نکال کر دکان سے ہونے والی ساری کمائی بھابھی کو پہنچا دیا کرتا تھا۔
سب یوں ہی چل رہا تھا کہ بھابھی وہ گھر رینٹ پر لگا کر اس ایریا میں شفٹ ہوگئیں کیونکہ انہیں وہ پرانا علاقہ پسند نہیں تھا وہ بس عبدالله صاحب کی وجہ سے وہاں رہ رہی تھیں۔ شرجیل بھائی کے کہنے پر میں نے شفٹنگ میں ان کی مدد کروائی اور ہر وقت ان لوگوں کیلئے حاضر رہتا ہوں اور رہوں گا کیونکہ وہ اس شخص کے عزیز ہیں جس نے مجھ بےسہارا کو سہارا دیا، جس کا احسان میں مرتے دم تک نہیں اتار پاؤں گا۔“
بنا رکے کسی کہانی کی مانند وہ دھیرے دھیرے اپنی آپ بیتی سناتا گیا اور وہ کھوئے ہوئے انداز میں سنتی چلی گئی جسے بہت سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے۔
آج پہلی بار اس نے اپنے بارے میں کسی کو اس طرح بتایا تھا اور اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ خود وہ بھی نہیں سمجھ پایا!
بارش کا زور اب ٹوٹ چکا تھا بس ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔ تھوڑی دیر قبل ماحول پر جو گھٹن طاری تھی اب وہ بھی غائب ہوگئی تھی جس کی جگہ ٹھنڈی ہوائیں نے لے لی تھی۔
”آپ پھر کبھی دوبارہ اپنی فیملی کے پاس نہیں گئے؟“ ازلفہ نے خاموشی کو توڑا۔
”نہیں، اس رات کے بعد سے میں کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہیں گیا۔“ اس نے جواب دیتے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کیں جن میں ماضی کو یاد کرکے نمی اتر آئی تھی۔
”آپ کو جانا چاہئے تھا، اپنا سچ ثابت کرنا چاہئے تھا، آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟“ اس نے دوسرے پہلوؤں کی جانب دھیان دلانا چاہا۔
”کیونکہ جب اپنوں کے آگے اپنی سچائی ثابت کرنی پڑ جائے تو پھر وہ اپنے نہیں رہتے، اور جو اپنے نہ ہوں ان کے پاس جا کر کیا کرنا؟“ اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسے ایک بار پھر لاجواب کردیا۔
”بارش ہلکی ہوگئی ہے، اب آپ بھی اپنے گھر جا سکتی ہیں۔“ اس نے اسی انداز میں دھیان دلایا اور مزید کچھ کہے سنے بنا وہاں سے چل دیا۔
وہ وہیں کھڑی اس شخص کو دور جاتا دیکھتی رہی جو اوپر سے پتھر جیسا تھا اور اندر سے ٹوٹے کانچ کی مانند بکھرا ہوا، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔! خود دار تھا!
وہ راستے ترک کرتا ہوں وہ منزل چھوڑ دیتا ہوں
جہاں عزت نہیں ملتی وہ محفل چھوڑ دیتا ہوں
کناروں سے اگر میری خودی کو ٹھیس پہنچے تو
بھنور میں ڈوب جاتا ہوں وہ ساحل چھوڑ دیتا ہوں
مجھے مانگے ہوئے سائے ہمیشہ دھوپ لگتے ہیں
میں سورج کے گلے پڑتا ہوں بادل چھوڑ دیتا ہوں
تعلق یوں نہیں رکھتا، کبھی رکھا، کبھی چھوڑا
جسے میں چھوڑتا ہوں پھر مسلسل چھوڑ دیتا ہوں
انتخاب
****************************************
”کہاں گم ہو آج کل نواب صاحب؟“ حامد نے جیسے ہی اوپر جانے کیلئے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھا نور جہاں کی طنزیہ آواز نے اس کے قدم روک لئے۔
وہ آہستہ سے ان کی جانب پلٹا جو ذرا فاصلے پر کھڑی سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
”نہ گھر سے جانے کی خبر ہے نا گھر واپس آنے کا ہوش، جب دل چاہتا ہے چلے جاتے ہو جب دل چاہتا ہے آکر کمرے میں گھس جاتے ہو، کوئی خیال ہے کہ ماں کی کوئی خیر خبر لے لو۔“ وہ اسی انداز میں کہتی چند قدم آگے آئیں۔
”ماں کو بھی تو میرا خیال نہیں ہے، اگر ہوتا تو میری خواہش یوں رد نہ کرتیں۔“ وہ ناچاہتے ہوئے بھی سادگی سے شکوہ کر گیا۔ ان کے تاثر مزید تن گئے۔
”اچھا! تو اب تم ماں سے مقابلے بازی کرو گے!“ انہوں نے بمشکل اپنا اشتعال ضبط کیا۔
”مقابلہ نہیں منت کر رہا تھا میں آپ کی، لیکن جب آپ نے میری سنی نہیں تو میں اور کیا کرتا؟ اسی لئے خاموش ہوگیا، یہ سوچ کر کہ شاید آپ کو میرے کسی دکھ سکھ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ اس کا انداز اب بھی سادہ تھا مگر اس میں شکوے کی بو واضح آرہی تھی۔ جب کہ وہ جو اپنے آگے بس جھکے سر اور خاموش لب دیکھنے کی عادی تھیں اس حد درجہ جرت پر طیش کے مارے دنگ رہ گئیں۔
”اس دو کوڑی کی لڑکی کیلئے تم اپنی بات سے زبان درازی کر رہے ہو!“ ان کے انداز میں شدید برہمی تھی۔ جب کہ افروز کیلئے ایسے الفاظ سن کر اس کا صبر بھی جواب دے گیا۔
”وہ کوئی دو کوڑی کی لڑکی نہیں میری۔۔۔۔۔۔۔۔“
”اماں جان!“ اچانک نزہت پکارتی ہوئی اس طرف آئی اور حامد جو جوش میں آکر کہنے ہی لگا تھا اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
”اماں جان، خجستہ خالہ کا ٹیلی فون آیا ہے، آکے بات کرلیں۔“ نزہت کے پیغام پہنچانے پر نور جہاں نے ایک قہر آلودہ نظر حامد پر ڈالی اور بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئیں۔ نزہت کو بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ یقیناً دونوں ماں بیٹے کے مابین کوئی تلخ کلامی ہوئی ہوگی جسے کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے نزہت بھی ان کے پیچھے ہولی۔
حامد نے ایک گہری سانس لے کر اپنا تنفس اعتدال پر لانا چاہا جو یکدم غصے میں آنے کی وجہ سے تھوڑا بےترتیب ہوا تھا اور اسی غصے کے چلتے ابھی وہ نور جہاں کے سامنے اپنی شادی کا اعتراف کرلیتا اگر اتفاقی طور پر نزہت مداخلت نہ کرتی۔
فی الحال تو بات ادھوری رہ گئی تھی مگر کبھی نا کبھی تو اس بات کو کھل کر سب کے سامنے آنا ہی تھا۔
****************************************
”کتنا برا ہوا یار بیچارے کے ساتھ!“ ازلفہ کی زبانی جیکب کی کہانی سن کر اذکی نے اظہار افسوس کیا۔ دونوں اس وقت کچن میں موجود رات کے کھانے کیلئے روٹیاں بنا رہی تھیں۔ اذکی روٹی بیل کر دے رہی تھی اور ازلفہ انہیں سینک کر ہاٹ پاٹ میں رکھ رہی تھی۔
”تب ہی تو وہ آپ پر اتنا غصہ ہے، آپ نے خواہ مخواہ اس بیچارے پر الزام لگا کر اس کے زخم تازہ کردیے، اور دیکھا جائے تو اس کا غصہ جائز بھی ہے، غلطی آپ کی ہی ہے، آپ کو ضرورت کیا تھی ایسا کرنے کی؟“ اذکی نے روٹی بیلتے ہوئے اپنا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا۔
”میں جب بھی اس کا ذکر کرتی ہوں تم گھما پھرا کر ساری توپوں کا رخ میری طرف کیوں کر دیتی ہوں کہ آپ کی غلطی ہے، آپ کی غلطی ہے۔“ وہ روٹی ہاٹ پاٹ میں رکھ کر تیکھے انداز میں اس کی جانب پلٹی۔
”کیونکہ واقعی غلطی آپ کی ہے۔“ اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے آخری روٹی توے پر ڈالی تو ازلفہ اسے گھور کر رہ گئی۔
”ویسے آپ نے کیا سوچا ہے اب؟“ اذکی کا کام مکمل ہوگیا تھا اسی لئے وہ کاؤنٹر سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی۔
”کس بارے میں؟“ ازلفہ بھی توے پر موجود آخری روٹی کی جانب متوجہ ہوچکی تھی۔
”جیکب کے بارے میں، وہ کرسچن ہے، شرک کرتا ہے، تو اسے کیسے سمجھاؤ گی کہ شرک کرنا گناہ ہے اور وہ ایک اللّه پر ایمان لائے۔“ اس نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
”میں کیوں تبلیغ کروں اسے؟ وہ جو اتنے سالوں میں ایمان نہیں لایا اب میرے کہنے پر کیسے لے آئے گا؟“ اس نے روٹی پلٹتے ہوئے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
”ہوسکتا ہے اب تک کسی نے اسے ایسا کہا ہی نہ ہو!“ اذکی نے خیال ظاہر کیا۔ اس کی بات پر ازلفہ کا تیزی سے چلتا ہاتھ پل بھر کو ٹھہرا اور وہ سوچ میں پڑ گئی۔ کیا واقعی اس طویل عرصے میں اب تک کسی نے اسے نہیں بتایا ہوگا کہ وہ جو کر رہا ہے غلط ہے؟
”ایسا کیسے ممکن ہے، عبدالله صاحب بھی تو مسلم تھے، اور وہ ان کی بہت رسپیکٹ کرتا تھا، کیا انہوں نے کبھی اسے اسلام کی دعوت نہیں دی ہوگی؟“ ازلفہ نے پرسوچ انداز میں سوال اٹھائے۔
”دی ہوگی، مگر ہوسکتا ہے کہ تب اس کے دل پر اثر نہ ہوا ہو!“ اس نے کندھے اچکائے۔
”اچھا! تو میرے کہنے سے ہوجائے گا اس کے دل پر اثر!“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”کیا پتا ہوجائے! کیونکہ جب وہ آپ کے کہنے پر فرمابرداروں کی طرح آیان کو اسکول سے لینے آسکتا ہے تو ممکن ہے کہ آپ کے کہنے پر اسلام کی طرف بھی آجائے!“ اس نے شرارت سے مسکراتے ہوئے قیاس کیا۔
”کون کہاں آرہا ہے؟“ تب ہی نعیمہ کہتی ہوئی کچن میں آئیں جو اذکی کی بات کے آخری الفاظ سن چکی تھیں۔
”کوئی نہیں امی، بس ایک ڈرامے کی اگلی قسط ڈسکس کر رہے تھے ہم لوگ۔“ ازلفہ نے جلدی سے بات بنائی۔
”ہاں امی بہت اچھا ڈرامہ ہے، پتا ہے ہیرو کرسچن ہے اور ہیروئن مسلمان اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہیروئن کے کہنے پر وہ اسلام قبول کرلے گا؟“ ازلفہ کی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اذکی نے ڈرامے کا نام دے کر موجودہ صورتحال انہیں بتائی تو ازلفہ نے اسے سختی سے گھورا۔
”یہ کسی کے کہنے کی بات نہیں ہوتی بیٹا ہدایت کے معاملات ہوتے ہیں، اللّه جسے چاہے، جب چاہے ہدایت دے دے۔“ انہوں نے سادگی سے کہتے ہوئے فریج سے سلاد کا باؤل نکالا۔
”ہاں لیکن ہدایت بھی تو کسی کے ذریعے پہنچتی ہے نا!“ وہ اپنی بات پر قائم تھی۔
”اتنی توجہ کبھی پڑھائی پر دی ہے جتنی ان ڈراموں پر دیتی ہو!“ اب وہ کیبنٹ سے پلیٹیں نکالنے لگیں۔
”صحیح کہہ رہی ہیں آپ امی، آج کل کچھ زیادہ ہی ڈرامے باز ہوگئی ہے یہ ڈرامے دیکھ دیکھ کر!“ ازلفہ نے بھی موضوع بدلنے کیلئے ان کا ساتھ دیا تو اذکی محظوظ ہوکر اس کی بات کا اثر لئے بنا ڈش میں سالن نکالنے لگی۔
****************************************
جیکب گرنے کے سے انداز میں بستر پر لیٹا اور خود کو پرسکون کرنے کیلئے آنکھیں بند کرلیں۔ دن بھر کے کاموں سے تھک کر کھانا کھانے کے بعد اب وہ کمرے کی لائٹ بند کرکے سونے کیلئے اپنے سنگل بیڈ پر لیٹا تھا۔ مگر آنکھیں بند کرتے ہی پھر اس کی نظروں میں چھم سے ازلفہ کا سراپا ابھر آیا تھا۔
آج نہ جانے کیسے وہ ازلفہ سے اپنے بارے میں سب کہہ گیا جس کے بعد اب خود بھی اسے اپنا دل ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے کوئی بوجھ سرک گیا ہو!
اپنی ماں کے گزرنے کے بعد اس نے جو رویے بےتحاشا جھیلے ان میں ڈانٹ پھٹکار، جھڑپ، اور تلخیاں سرِ فہرست تھیں۔ پھر عبدالله حسین اور آیان کی صورت اس کی زندگی میں گویا ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا مگر ازلفہ! اس کا رویہ ان سب سے الگ تھا۔ نہ اس کے انداز میں کوئی تلخی تھی اور نہ نرمی، اس کے انداز میں بےچینی تھی، منت تھی، گزارش تھی جو اس سے آج تک کسی نے نہیں کی تھی کیونکہ وہ کسی کیلئے اتنا اہم تھا ہی نہیں کہ کوئی اس کی ناراضگی کے ڈر سے اتنا بےچین ہوجائے جتنی ازلفہ تھی اور بار بار اس سے معافی طلب کر رہی تھی۔ یہ منتیں، التجائیں بہت نئی تھیں اس کیلئے، بہت انوکھا احساس تھا جو اسے ازلفہ کی بےچینی دیکھ کر ہوتا تھا؟
تو کیا اب وہ بھی کسی کیلئے اتنی اہمیت کا حامل ہوگیا تھا کہ اس کی ناراضگی سے اسے فرق پڑ رہا تھا؟
یہ سب سوچتے ہوئے بےساختہ ایک مسکراہٹ اس کے لبوں پر در آئی۔
در حقیقت ازلفہ کی نیت محض تلافی کی تھی مگر اب تک ان جذبوں سے ناآشنا جیکب انہیں انجانے میں کوئی اور ہی رنگ دینے لگا تھا۔
ازلفہ کی غلطی بہت بڑی نہیں تھی اور نہ جیکب کو اب اس پر کوئی خاص غصہ تھا، لیکن۔۔۔۔! اگر وہ اسے معاف کردیتا تو یہ خوبصورت سلسلہ یہیں ختم ہوجاتا جس نے زندگی میں پہلی بار اسے اہم ہونے کے احساس سے روشناس کروایا تھا۔ وہ ازلفہ کو خواہ مخواہ تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر۔۔۔۔۔۔۔!
وہ اس خوبصورت احساس سے جلد باہر بھی نہیں آنا چاہتا تھا جس نے طویل عرصے بعد اسے دل سے مسکرانے پر مجبور کیا تھا۔
تشخیص بجا ہے، مجھے عشق ہوا ہے
نسخے میں لکھو ان سے ملاقات مسلسل
انتخاب
****************************************
”آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں؟“ افروز نے کروٹ لے کر حامد کو دیکھا۔ رات آہستہ آہستہ سرکنا شروع ہوگئی تھی مگر بستر پر چت لیٹے حامد کو نہ جانے کیوں نیند نہیں آرہی تھی۔
”ہاں نیند نہیں آرہی۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”کوئی پریشانی ہے کیا؟“ اس نے فکرمندی سے پوچھا تو حامد نے گردن موڑ کر نائٹ بلب کی روشنی میں اپنے پہلو میں لیٹی افروز کو دیکھا۔
”ایک بات پوچھوں؟“ حامد نے بھی جواب دینے کے بجائے اس کی طرف کروٹ لی۔
”پوچھیں!“
”اگر اماں جان نے میری لاکھ منت کے بعد بھی تمھیں بہو کی صورت قبول نہیں کیا تو؟“ اس نے افروز کی لٹ پیچھے کرتے ہوئے نرمی سے استفسار کیا۔ یہ ہی وہ سوچ تھی جو اسے سونے نہیں دے رہی تھی۔ کیونکہ محبت کا حاصل کرنے کا جنون تھمنے پر اسے اب معاملات کی سنگینی کا احساس ہونے لگا تھا۔
”تو کوئی بات نہیں، آپ نے تو قبول کرلیا ہے نا مجھے دل سے قبول!“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جس کے باعث وہ اسے مزید پیاری لگی۔
”اور جب آپ میرے ساتھ ہیں تو مجھے کسی کی کوئی فکر نہیں۔“ اس نے اطمینان بھرے انداز میں مزید کہتے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھ لیا۔
”میں تو ہمیشہ تمہارے ساتھ ہی رہوں گا، اور شاید اسی ساتھ کی وجہ سے تمھیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے!“ وہ بھی ہلکے ہلکے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔
در حقیقت نور جہاں کے ہنوز قائم غصے کو دیکھتے ہوئے اسے تھوڑی فکر ہونے لگی تھی کہ جب ان کا رشتہ سب کے سامنے آئے گا تو نازک سی افروز کیسے نورجہاں کا غصہ جھیلے گی؟
”کوئی بات نہیں، اگر دشواریاں آتی ہیں تو آتی رہیں، بقول شاعر کہ
کانٹے تو راہ میں آئیں گے ہی ہماری
کیونکہ یار جو ہم نے گلاب چنا ہے۔“
اس نے اسی اطمینان کے ساتھ بالکل ویسے شاعرانہ انداز میں جواب دیا جیسے اکثر حامد اسے دیتا تھا۔ اس کی دلکش حاضر جوابی پر وہ بھی بےساختہ مسکرایا۔
”کیا بات ہے؟ بڑا دماغ چلنے لگا ہے آج کل!“ اس نے محظوظ ہوتے ہوئے تعریف کی۔
”ہاں بس ایک چھچھورے انسان کی صحبت کا اثر ہے۔“ اس کے انداز میں بھی شرارت تھی جس سے بھر پور لطف اندوز ہوتے ہوئے اس نے اسے مزید خود میں بھینچ لیا۔
میرے بالوں پہ تیرے ہاتھ کی دھیمی حرکت
جس طرح چاند اندھیروں میں کرتا ہے سفر
****************************************
دو سے تین روز تک تو ان دونوں کی دوبارہ کوئی ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ ملاقات کیلئے کوئی ٹھوس بہانہ ہی نہیں تھا، مگر تین روز بعد انہیں بہانہ مل گیا۔۔۔آیان! جو کہ اب واپس آچکا تھا۔
چھٹی کے بعد جیسے ہی بچے اسکول سے باہر نکلے تو ان ہی میں سے ایک آیان بھی تھا جو جیکب کو پیڑ کے نیچے کھڑا پا کر خوشگوار حیرت کا شکار ہوگیا۔
”چاچو آپ یہاں!“ وہ کہتا ہوا اس کی جانب آیا جس کے ساتھ ازلفہ بھی تھی۔
”جی، آپ کو لینے آیا ہوں، لاؤ بیگ دو اپنا۔“ اس نے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔
”مما نے بھیجا ہے آپ کو؟“ اس نے کندھے پر سے بیگ اتار کر دیتے ہوئے اندازہ لگایا۔
”نہیں، میں خود آیا ہوں۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے بیگ اپنے دائیں کندھے پر لٹکایا اور پھر تینوں فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
”پتا ہے اگر ابھی آپ نہیں آتے نا تو مس مجھے گھر تک چھوڑنے آتیں، ہے نا مس؟“ دونوں کے بیچ میں چلتے آیان نے خاموشی کو توڑا۔ ازلفہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ہاں، آپ کی مس کو آپ کا کچھ زیادہ ہی خیال ہے۔“ اس کے سادہ سے انداز میں تنگ کرنے والا طنز تھا۔
”ویسے کیا آپ کی مس باقی بچوں کو بھی یہ پک اینڈ ڈراپ سروس دیتی ہیں؟“ جیکب نے بظاہر آیان سے پوچھتے ازلفہ کو نشانہ بنایا۔
”آیان! آپ کا گھر یہاں سے تھوڑا ہی دور ہے اور اس راستے پر ہم دونوں ساتھ ہی جاتے ہیں اسی لئے میں نے آپ کو یہ آفر کی تھی، اور اگر اسی راستے پر آپ کے ساتھ ساتھ کوئی اور اسٹوڈنٹ بھی جاتا تو میں اسے بھی یہ ہی کہتی کیونکہ یہ سڑک سنسان رہتی ہے۔“ ازلفہ نے بھی آیان پر رکھ کر جیکب کو جواب دیا۔
”اچھا مجھے لگا تھا کہ تم اپنی مس کیلئے اسپیشل ہو شاید اسی لئے وہ تمھیں اتنا پروٹوکول دے رہی ہیں آیان، مگر یہ تو بس ایک عام سی آفر تھی۔“ وہ اسے جان بوجھ کر تنگ کرنے لگا۔
”ایک ٹیچر کیلئے اس کے سارے اسٹوڈنٹ ہی اسپیشل ہوتے ہیں آیان! آپ کسی کی باتوں میں نہ آئیں!“ اس کے جتاتے ہوئے نروٹھے سے جواب پر جیکب نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کرکے خود کو نارمل رکھا تھا۔
”آپ دونوں تو خود ہی بول رہے ہیں مجھے تو بولنے دیں۔“ بلآخر آیان نے ہی زچ ہوکر مداخلت کی۔
وہ دونوں بچے کے ذریعے آپس میں باتیں کر رہے تھے اور بچہ ناسمجھی سے کبھی ایک کو دیکھتا تو کبھی دوسرے کو جسے اب تک کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا تھا۔
”بولو کیا بولنا ہے آپ کو؟“ جیکب نے موقع دیا۔
”اب کیا بولوں؟ سب تو آپ لوگوں نے بول دیا۔“ اس نے نروٹھا سا جواب دیا۔
”آیان! آپ کو پہلے کلمے کا ترجمہ یاد ہوا بیٹا؟“ ازلفہ نے اچانک موقع غنیمت جان کر داؤ چلا۔
”یس مس، پورا یاد ہے۔“
”گڈ، سناؤ تو ذرا!“
”اللّه کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللّه کے رسول ہیں۔“ اس نے فرمابرداری سے ترجمہ سنایا جو در حقیقت ازلفہ جیکب کو سنوانا چاہ رہی تھی۔
”شاباش! اور سورہ اخلاص کا ترجمہ سناؤ!“
”تم فرماؤ وہ اللّه ایک ہے، اللّه بےنیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی۔“
اس نے اسی طرح مزید سنایا۔ جیکب اچھی طرح سمجھ رہا تھا کہ ازلفہ نے اچانک یہ فرمائش کیوں کی تھی؟
”چاچو آپ کو پتا ہے ہم سب کو اللّه نے پیدا کیا ہے۔“ آیان اچانک اس سے مخاطب ہوا اور یہ ہی ازلفہ چاہ رہی تھی۔
”اور ہمیں اللّه کی عبادت کرنی چاہئے، جو لوگ اللّه کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں نا تو ان کو گناہ ملتا ہے، آپ بھی اللّه کی عبادت نہیں کرتے نا!“ اس کے سوال پر وہ فوری طور پر کچھ نہ کہہ سکا۔
”آپ کیوں اللّه کو نہیں مانتے؟ آپ کو کسی نے بتایا نہیں کہ ہم سب کو صرف اللّه کی عبادت کرنی چاہئے؟“ اس نے معصومیت سے دوسرے سوال اٹھائے جس کا جواب ازلفہ بھی اس سے چاہتی تھی مگر وہ خاموش تھا۔
”ہمیں اللّه کی عبادت کیوں کرنی چاہئے آیان؟“ اچانک جیکب نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا تو وہ لاجواب ہوکر چپ ہوگیا اور اس نے گردن موڑ کر ازلفہ کو دیکھا گویا اس سے مدد چاہتا ہو۔
”کیونکہ اللّه اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔“ ازلفہ نے رسان سے جواب دیا۔ مگر جیکب کے تاثر بتا رہے تھے کہ وہ اس جواب سے مطمئن نہیں ہے۔ جس کے باعث وہ مزید گویا ہوئی۔
”فرض کرو کہ آپ کو بہت تیز بھوک لگ رہی ہے، اور کوئی بندا آپ کو آکر کھانا دے دیتا ہے تو آپ اس کا شکریہ ادا کرو گے نا! جب صرف ایک وقت کا کھانا دینے پر ہم کسی بندے کے شکر گزار ہوسکتے ہیں، اس کا احسان مان سکتے ہیں تو وہ اللّه جس نے ہمیں پیدا کیا، جسم میں جان ڈالی، چلنے کو پاؤں دیے، کام کرنے کو ہاتھ دیے، دیکھنے کو آنکھ، سننے کو کان، بولنے کو زبان دی، رہنے کو گھر دیا، کھانے کو رزق دیا اور ایسی ہزاروں نعمتیں دیں جو ہم گن بھی نہیں سکتے، پیدائش سے لے کر موت تک جس نے ہماری ہر ضرورت ہم تک پہنچائی، ہر دن رزق دیا، ہر لمحہ ہزاروں نعمتوں میں گھیرے رکھا اس اللّه کا احسان ماننے کیلئے، شکر ادا کرنے کیلئے، عبادت کرنے کیلئے ہمیں وجہ چاہیے؟ واہ رے انسان واہ!“ وہ جذبات میں آکر بنا رکے بولتی چلی گئی تھی جسے دونوں نے چپ چاپ سنا۔ وہ غیر ارادی طور پر تھوڑی جذباتی ہوگئی تھی۔
”چلو مان لیتے ہیں کہ اللّه عبادت کے لائق ہے اسی لئے اس کی عبادت کرنی چاہئے، مگر اس عبادت کے بدلے ہمیں ملے گا کیا؟ اس میں ہمارا کیا فائدہ؟“ اس نے پھر سوال اٹھایا۔ آج شاید وہ بھی سب سوالوں کا جواب چاہتا تھا۔
”پتا ہے جیسے پانی پینے والوں کا محتاج نہیں ہوتا، ویسے ہی اللّه کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے، اس کی عبادت کیلئے اتنے فرشتے ہیں کہ ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، اگر کسی صاف شفاف میٹھی چشمے سے نکلتا پانی کوئی پیتا ہے تو اس میں پانی کا نہیں اسے پینے والے کا فائدہ ہوتا ہے، اس کی پیاس بجھتی ہے، وہ ترو تازہ ہوتا ہے، ایسے ہی جب ہم اللّه کی عبادت کرتے ہیں تو ہمیں ذہنی، جسمانی، دینی و دنیاوی فائدہ ہوتا ہے۔“ وہ جواب دینے لگی۔
”جب ہم نماز کیلئے روزانہ پانچ وقت وضو کرتے ہیں تو ہمارے ہاتھ پاؤں اور چہرہ دھل جاتا ہے، اس پر سے گرد و غبار نہیں جمتا، جب ہم وضو کے دوران گیلا ہاتھ اپنی گردن پر لگاتے ہیں تو دماغ سے جسم تک جو ہمارے نروس سسٹم کی نسیں جا رہی ہیں انہیں سکون ملتا ہے، جب ہم سارا دھیان ایک جگہ رکھ کر نماز کی نیت کرتے ہیں تو ذہن بلاوجہ کی سوچوں سے تھوڑی دیر کیلئے خالی ہوجاتا ہے، جب ہم رکوع کرتے ہیں تو ہمارے پٹھے کھنچتے ہیں، اور سجدے میں جاتے ہیں تو دماغ تک خون پہنچتا ہے، ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا جسم اور ذہن اچھے طریقے سے کام کر پاتا ہے، اور یہ باتیں میں نہیں کہہ رہی بلکہ دنیا بھر کے کئی ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وضو اور نماز میں بےشمار جسمانی و ذہنی فائدے ہیں، اس کے برعکس دوسرے کسی بھی مذہب میں عبادت کے طریقوں میں اتنے سائنسی فائدے نہیں ملتے۔“ وہ سانس لینے کو رکی۔
”یہ تو صرف وضو اور نماز کے سرسری فائدے تھے اس کے علاوہ اسلام نے سب سے زیادہ حکم حقوق العباد کا دیا ہے، یعنی دوسرے انسانوں کے حقوق پورے کرنا پھر چاہے وہ ہمارے رشتے دار ہوں، دوست ہوں یا غیر مسلم، اسلام نے مسلمان کے ساتھ نہیں ہر انسان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، حسن سلوک، حقوق کیا ہوتے ہیں؟ کسی کی مالی یا جسمانی مدد کرنا، کسی کی سننا، دکھ سکھ بانٹنا، راستہ دکھانا، محبت سے پیش آنا اور درگزر کرنے جیسے کئی چیزیں، اگر کسی معاشرے میں سب اس طرح رہتے ہوں تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ معاشرہ کس قدر خوشحال ہوسکتا، علم شہریت (Civics) کے فلاسفر بھی اچھے معاشرے کی تشکیل کیلئے کچھ ایسے ہی اصول بتاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر مسلم نہیں ہیں مگر ان کے عقل و شعور نے انہیں وہ بات سمجھائی جو مسلمانوں میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے، ہر وہ کام عبادت ہے جسے کرنے سے اللّه کی خوشنودی حاصل ہو اور اللّه تب اپنے بندوں سے سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے جب وہ سچے دل سے ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، اب بتاؤ کہ ہمارے عبادت کرنے سے کس کو فائدہ ہوگا؟ اللّه پاک کو یا خود ہم انسانوں کو؟“ براہ راست ساری بات کہہ کر اب اس نے آخر میں سوال اٹھایا تو وہ جو اسے بغور سن رہا تھا کچھ نہ کہہ پایا۔
”اور یہ تو صرف وہ چند معمولی باتیں تھیں جو ہم عبادت کے بارے میں جانتے ہیں در حقیقت ان عبادات کے بدلے اللّه ہمیں ایسا صلہ دیتا ہے کہ ہماری سوچ بھی وہاں تک نہیں جا سکتی پھر چاہے وہ صلہ دنیا کا ہو یا دنیا کے بعد کی زندگی آخرت کا۔“ اسے خاموش پا کر وہ مزید بولی۔
ان ساری باتوں کے دوران ان لوگوں کو پتا ہی نہیں چلا کہ یہ لوگ کب چلتے چلتے اس طویل سڑک کے اس کنارے پر آگئے ہیں جہاں سے دائیں، بائیں دو موڑ مڑ رہے تھے۔ تینوں وہاں آکر رک گئے۔
”اگر اللّه چاہے تو ایک پل میں اس پوری دنیا سے ان تمام لوگوں کو ہلاک کردے جو اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کرتا، کیونکہ وہ اپنے بندوں کو پرکھتا ہے بالکل ویسے جیسے ایگزیمنیشن ہال میں بیٹھے سب ہی اسٹوڈنٹ کو ٹیچر پرکھ رہا ہوتا ہے، ٹیچر وہیں موجود ہوتا ہے، اس کی نظر ہر بچے کے پیپر پر ہوتی ہے، اسے نظر آرہا ہوتا ہے کہ کون صحیح جواب لکھ رہا ہے اور کون غلط؟ مگر وہ اختیار ہونے کے باوجود کسی اسٹوڈنٹ کو نہیں ٹوکتا، کیوں؟ کیونکہ اس نے پہلے ہی سب بچوں کو اس سبجیکٹ کے حوالے سے لکھی کورس کی کتاب دے دی ہوتی ہے جسے پڑھ کر وہ بچے امتحان کی تیاری کرسکیں، امتحان دے سکیں اور امتحان میں پاس ہوسکیں، ایسے ہی اللّه نے حق بات بتانے کیلئے اپنے پیغمبر اور ان کے ذریعے کتابیں بھیجیں تا کہ قیامت کے روز کوئی شکوہ نہ کرسکے کہ ہمیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں اللّه ایک ہے اور اسی کی عبادت کرنی ہے، آپ بھی ابھی دنیا کی امتحان گاہ میں ہیں جہاں فرق اتنا ہے کہ ٹیچر تو خاموشی سے آپ کو دیکھ رہا ہے مگر آپ کو غلط راہ پر جاتا دیکھ وہ وقفے وقفے سے صحیح جواب والا پیغام آپ کے پاس بھیج رہا ہے کبھی عبدالله صاحب کی صورت، کبھی آیان کے روپ میں، کبھی میرے ذریعے اور کبھی آپ کی خود کی سوچ، یہ سب آپ کو اشارے ہیں کہ آپ کا رب چاہتا ہے آپ حق کے راستے پر آجائیں، اپنے پیپیر میں صحیح جواب لکھیں، اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کو صحیح جواب لکھنا ہے یا غلط؟“ اس نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ آج وہ فیصلہ کرکے اس پر عمل کرچکی تھی کہ اسے اپنے حصے کی کوشش کرنی ہے جو اس نے کرلی تھی۔
”اب میں چلتی ہوں، لیکن اب ایک بار ان باتوں پر ضرور غور کیجئے گا، الله حافظ!“ اس نے کہتے ہوئے ہاتھ سے آیان کے گال پر پیار کیا اور دائیں طرف مڑ کر اپنی راہ پر چلی گئی۔ جب کہ وہ چپ چپ کھڑا یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا واقعی وہ غلط راستے پر جا رہا ہے؟
تو، تو خود سے ہی نہیں آشنا
تیری ذات تجھ پہ ہی راز ہے
تیرے قلب میں ہے چھپا ہوا
تیری روح کو جس کی تلاش ہے
انتخاب
****************************************
”پھر پھر اس نے کیا کہا؟“ بیڈ پر بیٹھی اذکی کو مزید جاننے کا اشتیاق ہوا جس نے تکیہ گود میں رکھ کر ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائی ہوئی تھی۔
”پھر کیا، کچھ نہیں کہا اس نے، بس چپ چاپ دیکھتا رہا۔“ ابھی ابھی نہا کر آئی ازلفہ نے تولیے سے اپنے گیلے بال سکھاتے ہوئے جواب دیا۔
”اور جتنا اکڑو اور ہٹ دھرم وہ ہے نا! مجھے نہیں لگتا کہ اس پر کوئی اثر ہوگا میری بات کا۔“ اس نے اسی انداز میں پیشن گوئی کی۔
”آپ ہی تو کہتی ہو کہ قطرہ قطرہ اگر مسلسل گرے تو پتھر میں بھی سوراخ ہوجاتا ہے، وہ تو پھر بھی انسان ہے جو پتھر نہیں بلکہ مٹی سے بنا ہے۔“ اذکی نے اسے اس کی بات یاد دلاتے ہوئے بیڈ پر پڑا ریموٹ اٹھا کر ٹی وی کا چینل بدلا۔
اس کی بات پر وہ خود بھی بال سکھاتے ہوئے سوچ میں پڑ گئی کہ جیکب کی اس تلخ مزاجی کی وجہ اس کا ماضی ہی تھا ورنہ کوئی بھی ماں کے پیٹ سے پتھر نہیں پیدا ہوتا۔
”ایک بات تو بتاؤ آپی؟“ اس نے ٹی وی دیکھتے ہوئے کہا۔
”پوچھو!“
”یہ جیکب دکھنے میں کیسا ہے؟ ایسا؟“ اس نے پوچھتے ہوئے ٹی وی میں چلتے ایک ایڈ کی جانب اشارہ کیا جس میں ایک خوش شکل جوان پرفیوم کی تشہیر کر رہا تھا۔
”نہیں، جیکب اس سے زیادہ ہینڈسم ہے۔“ وہ اپنی دھن میں بےساختہ کہہ گئی۔
”اوہ ہو! تو اتنے غور سے دیکھا ہے آپ نے اسے!“ اس نے شوخی سے چھیڑا۔
”ظاہر ہے، اندھی تھوڑی ہوں جو اسے دیکھ نہ سکوں۔“ اس نے بنا نظریں ملائے گول مول جواب دیا۔ اور تولیہ اسٹینڈ پر سکھانے لگی۔
”ہاں لیکن میں نے سنا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟“ وہ اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔
”محبت کا پتا نہیں لیکن گریڈز دینے والے ٹیچرز اندھے نہیں ہوتے اسی لئے تھوڑی پڑھائی پر توجہ دے لو، لاسٹ سیمیسٹر چل رہا ہے تمہارا۔“ وہ موضوع بدلتے ہوئے کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
”آئے ہائے! شرما گئی میری بہن!“ اذکی نے شرارتی انداز میں پیچھے سے آواز لگائی۔
****************************************
رات کے دس بج رہے تھے۔ حسب معمول دکان بند کرنے کے بعد جیکب گھر واپس آگیا تھا اور اب بس سے اتر کر وہ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے گھر کی طرف جا رہا تھا۔
آج پورا دن اس کا ذہن ازلفہ کی دوپہر والی باتوں پر الجھا رہا کہ کیا واقعی وہ صحیح کہہ رہی تھی؟ کیا وہ غلط سمت جا رہا تھا؟ یوں تو وہ کوئی کٹر کرسچن بھی نہیں تھا کہ پابندی سے چرچ جا کر عبادت کرتا ہو۔ پہلے اپنی ماں اور پھر عبدالله صاحب کو کھونے کے بعد اس کا یقین دعاؤں پر سے تقریباً اٹھ سا گیا تھا مگر وہ تھا تو کرسچن ہی نا!
ان ہی سوچوں میں غلطاں جب وہ مسجد کے قریب سے گزرنے لگا تو بےاختیار اس کی رفتار سست ہوئی اور وہ وہیں ٹھہر گیا۔
مسجد کا دروازہ کھلا ہوا تھا، سامنے ہی سفید سنگِ مرمر کا وسیع صحن تھا۔ یہ کیونکہ کسی فرض نماز کا وقت نہیں تھا اسی لئے مسجد خالی تھی بس اکا دکا لوگ بیٹھے غالباً نوافل یا قرآن پڑھ رہے تھے۔ جب کہ مسجد کی دیواروں پر بھی جابجا بےحد خوبصورت اور نفیس انداز میں قرآنی آیات کی کلیگرافی دل موہ لینے میں کامیاب تھی۔
”صاحب!“ وہ ان سب میں کہیں کھو سا گیا تھا کہ اچانک کسی پکار پر بری طرح چونکا۔ وہ ایک میلا کچیلا سا بھیکاری تھا۔
”صاحب اللّه کے نام پر کچھ دے دو صاحب!“ اس نے مخصوص انداز میں منت کی تو جیکب نے بےساختہ اپنی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ہاتھ میں آنا والا پہلا سو کا نوٹ بنا دیکھے ہی اسے دے دیا۔ ایک ایسے انسان نے اللّه کے نام پر دے دیا تھا جو اللّه کو مانتا ہی نہیں تھا۔
”بہت شکریہ صاحب! اللّه تمہارے من کی مراد پوری کرے۔“ نوٹ لے کر خوشی خوشی اسے دعا دیتے ہوئے وہ چلا گیا۔ جب کہ وہ جوں کا توں کھڑا ابھی تک اس کی دعا میں ہی گم تھا۔
”بدبخت لوگ!“ تب ہی نزدیک ہوئی بڑبڑاہٹ پر وہ چونک کر پلٹا تو پیچھے سفید شلوار قمیض میں ایک بزرگ کو کھڑا پایا جو غالباً اسی مسجد کے مولوی صاحب تھے۔
”آپ نے مجھے کچھ کہا؟“ جیکب نے اپنی طرف اشارہ کیا۔
”نہیں بیٹا، اس بھیکاری کو کہہ رہا ہوں جو اللّه کے در کے سامنے، اللّه کے نام پر اللّه کے سوا سب سے مانگتا پھرتا ہے۔“ انہوں نے نرمی سے جواب دیا تو وہ کچھ نہ بولا۔
”خیر! تم نوافل یا قرآن پڑھنے آئے تھے! آجاؤ اندر!“ انہوں نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر دوسرے سے مسجد کی جانب بلایا تو وہ پل بھر کو گڑبڑا گیا۔
”نہیں۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔۔“ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ فوری طور کیا جواب دے۔
”کیا ہوا بیٹا؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟“ انہوں نے نرمی سے استفسار کیا۔
”میں۔۔۔میں مسلمان نہیں ہوں۔“ اس نے دھیرے سے جواب دیا تو ان کے چہرے پر پل بھر کو تعجب کا ہلکا سا رنگ آکر گزرا۔ جیکب کو لگ رہا تھا کہ شاید ابھی وہ اس پر غصہ ہوکر اسے عذاب و جہنم کی وعید سنانے لگیں گے، اسے خوب لعن طعن کریں گے جس سے وہ اندر ہی اندر شرمندہ ہونے لگا۔
”اللّه تمھیں ہدایت دے بیٹا، تمہارے لئے اس کا در ہمیشہ کھلا رہے گا۔“ اس کی توقع کے برعکس انہوں نے بہت نرمی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو اس کا دل زور سے دھڑکا۔ اسے لگا وہ ابھی رو پڑے گا۔
”اللّه تمھیں ہدایت دے!“ وہ اس کا کندھا تھپک کر مسجد کے اندر چلے گئے جب کہ وہ وہیں کھڑا رہ گیا۔
****************************************
زندگی کی کتاب میں وقت کے پننے ایک ایک کرکے پلٹتے جا رہے تھے۔ سب کچھ اپنے معمول پر رواں دواں تھا۔ پھر چاہے وہ حامد اور افروز کی پوشیدہ شادی ہو، نور جہاں کی برہمی، اذکی کی چھیڑ خانی، جیکب کا آیان کو اسکول سے لینے آنا اور ازلفہ کا وقتاً فوقتاً جیکب کے دل پر لفظوں کی ضرب مارنا۔
جیکب نے ابھی تک براہ راست اس کی باتوں سے اتفاق نہیں کیا تھا، مگر ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کی باتوں پر سوچنے ضرور لگا تھا جو وہ پہلے نہیں کرتا تھا۔
کہتے ہیں نا کہ زندگی کی سڑک ہمیشہ ہی ہموار نہیں رہتی اس میں اونچ نیچ آتے ہیں۔ دھیرے دھیرے بہتے دریا میں اچانک ہی طغیانی آجاتی ہے ایسی ہی کوئی اونچ نیچ، ایسا ہی کوئی طوفان ان کی زندگی میں بھی جلد قدم رکھنے والا تھا جو ان سب کو بکھیرے گا یا ان کی بکھری کڑیاں جوڑے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
****************************************
شام کے وقت موسم معمول جیسا سہانا ہو رہا تھا۔ مگر ہسپتال کے کوریڈور میں لائن سے لگی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھی افروز کی پریشانی یہ سہانا موسم بھی دور نہیں کر پایا تھا۔ وہ یہاں اکیلی بیٹھی تھی جب کہ اکا دکا لوگ وقفے وقفے سے وہاں سے گزر رہے تھے۔ اس نے دھیان بھٹکانے کو آس پاس نظر دوڑائی تو ایک دیوار پر لگی نومولود بچے کی پیاری سی تصویر نے اس کا دل موہ لیا۔
”گڈ! ایسے ہی پیارے پیارے بچوں کی تصویریں دیکھتی رہو، اس سے ہمارا بچہ بھی ایسا ہی ہوگا۔“ تب ہی حامد کی آواز پر اس نے چونک کر گردن موڑی جو خاموشی سے آکر اس کے برابر میں بیٹھ چکا تھا۔
”ابھی کنفرم ہوا نہیں ہے، ڈاکٹر ٹیسٹ رپورٹ دیکھ کر بتائیں گی۔“ اس نے گویا یاد دلایا۔
”ہوسکتا ہے مجھے غلط فہمی ہوگئی ہو۔“ وہ نظریں جھکا کر دھیرے سے مزید بولی۔
”نہیں، یہ کوئی غلط فہمی ہے، مجھے یقین ہے۔“ وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھا۔
”اور آپ کو اتنا یقین کیوں ہے؟“ اس نے نظریں اٹھا کر جاننا چاہا۔
”کیونکہ کل رات ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں بہت سارے چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے ہیں اور تم انہیں سنبھالنے میں ہلکان ہو رہی ہے، مجھے لگتا ہے ہمارے ٹوئنز یا ٹرپلز ہوں گے!“ اس نے اپنی بےتکی منطق پیش کی تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔
”آپ اور آپ کی خوش فہمیاں!“ افروز نے گہرا سانس لے کر نفی میں سرہلایا۔
”ایکسکیوزمی! مسٹر اینڈ مسز حامد شیرازی؟“ تب ہی نرس نے آکر سوالیہ انداز میں تائید چاہی۔
”جی ہم ہی ہیں۔“ وہ بتاتے ہوئے کھڑا ہوا۔ افروز بھی جگہ پر سے اٹھ گئی۔
”آجائیں آپ کا نمبر آگیا ہے۔“ اس نے گرین سگنل دیا تو دونوں سرہلا کر ڈاکٹر کے روم میں چلے گئے۔ جہاں سے انہیں کوئی منفی یا مثبت خبر ملنے والی تھی۔
****************************************
”یار قریب ایک ہفتہ ہونے والا ہے جیکب آیان کو لینے نہیں آرہا اسکول سے۔“ چھت پر رکھے پودوں کو پانی دیتی ازلفہ فکرمندی سے گویا ہوئی۔
”آپ نے آیان سے پوچھا اس کے چاچو کہاں ہیں؟“ آسمان پر اڑتے پرندوں کی تصویر اپنے موبائل میں قید کرتی اذکی نے سوال کیا۔
”ہاں پوچھا تھا، اس نے بتایا کہ چاچو کچھ دنوں سے گھر بھی نہیں آئے ہیں مما نے فون کیا تھا تو بس اتنا کہا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ اس نے آیان کی زبانی ملنے والی قلیل معلومات فراہم کی۔
”جس طرح وہ اسکول سے واپسی پر چپ چاپ میرے لیکچر سنتے ہوئے چلتا تھا نا اس سے لگنے لگا تھا کہ شاید اس کا دل بدل جائے گا، مگر اب اس کا یوں اچانک غائب ہونا کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا! کہیں وہ میری باتوں سے بےزار ہوکر پیچھے تو نہیں ہٹ گیا!“ ازلفہ نے مزید تجزیہ کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔
”ہوسکتا ہے کہ واقعی بیچارے کی طبیعت خراب ہو اور آپ خواہ مخواہ الٹا سیدھا سوچ رہی ہیں۔“ اس نے اپنے کام میں مصروف رہتے ہوئے سرسری رائے دی۔
”ہاں، اللّه کرے وہ ٹھیک ہی ہو۔“ وہ متفکر انداز میں دعا گو تھی۔
”آپی ایک بات بولوں!“ اذکی نے موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں بولو!“ وہ بھی پودوں کو پانی دے چکی تھی۔
”اسے نہ دیکھو تو چین تجھے آتا نہیں ہے“
”دل ہو کے جدا اس سے رہ پاتا نہیں ہے“
”کہیں تجھے پیار ہوا تو نہیں ہے“
”کہیں تجھے پیار ہوا تو نہیں ہے“
اذکی گیت کی شاعری میں رد و بدل کرکے گنگناتے ہوئے اسے چھیڑ کر جلدی سے نیچے بھاگ گئی۔
”میرا نہیں پتا لیکن تم کروا کر ہی چھوڑو گی مجھے۔“ وہ بھی کہتی ہوئی اس کے پیچھے بھاگی۔
****************************************
فلیٹ کا دروازہ کھول کر پہلے افروز اندر آئی اور اس کے پیچھے حامد تھا جس کے دونوں ہاتھوں میں بچوں کے کافی سارے کھلونے تھے جو اس نے وہیں صوفے پر رکھ دیے۔
”انہیں کہاں رکھیں افروز کہ یہ نوں مہینے تک خراب نہ ہوں!“ اس نے غور و فکر کرتے ہوئے مشورہ مانگا۔
”یہ ڈھیر لیتے ہوئے میری بات سنی تھی آپ نے جو اب مشورہ مانگ رہے ہیں!“ وہ کہتی ہوئی ایک ڈبل صوفے پر بیٹھ گئی۔
”جیسے اپنی من مانی کرکے لے آئیں ہیں ویسے ہی کہیں رکھ بھی دیں۔“ اس نے نروٹھےپن سے مزید کہا۔
”یار بیچارا سگنل پر کھڑا کتنی معصومیت سے بیچ رہا تھا یہ سب، میں نے یہ سوچ کر لے لیا کہ اس کا بھی بھلا ہوجائے گا اور ہمارا کام بھی، ہمیں اپنے بچے کیلئے بھی تو کھولنے لینے تھے نا!“ وہ بھی وضاحت کرتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ جب سے اسے یہ خوشخبری ملی تھی وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سارے جہاں کے کپڑے اور کھلونے لا کر افروز کے قدموں میں ڈھیر لگا دے۔
”ہمارا بچہ کل دنیا میں نہیں آرہا ہے، اور دنیا میں آتے ہی وہ کھلونے سے کھیلنے کے قابل نہیں ہوگا۔“ افروز نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے دھیان دلایا۔
”ہاں تو جب قابل ہوگا تب کھیل لے گا، اب تم اپنا موڈ ٹھیک کرو، اتنی بڑی خوشخبری ملی ہے ہمیں اور تم خوش نہیں ہو، کیوں!“ وہ موضوع بدل کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”کیونکہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“
”بچے سے؟“
”نہیں، بچے کی دادی سے کہ پتا نہیں وہ اسے قبول کریں گی بھی یا نہیں؟“ وہ دل کا خدشہ زبان پر لائی۔
”کیوں نہیں کریں گی؟ دادی کی تو جان ہوتی ہے اپنے پوتے پوتیوں میں۔“ اس نے سہولت سے کہا۔
”ہاں لیکن تب جب بہو بھی ان کی پسند کی ہو!“ اس نے تصحیح کی۔
”چلو ساس کی پسند نہ بھی سہی مگر ان کے بیٹے کو تو پسند ہو نا تم!“ اس نے شوخی سے کہتے ہوئے اس کے گرد بازو حمائل کیا۔ کچھ کہنے کے بجائے افروز نے بھی اس کے سینے پر سر رکھ لیا۔
”اور ایک بار تم نے ہی کہا تھا نا کہ جب میں تمہارے ساتھ ہوں تو پھر تمھیں کسی کی فکر نہیں! جب یہ گلاب تمہارے ساتھ ہے تو پھر کانٹوں کی فکر کیوں کر رہی ہو؟“ اس نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے یاد دلایا۔
”کیونکہ اب بات میری نہیں میرے بچے کی ہے، اگر یہ کانٹے میرے بچے کو چبھ گئے تو!“ اس کے انداز میں خوف واضح تھا۔
”اور تمھیں لگتا ہے کہ میں ایسا ہونے دوں گا؟“ اس نے نرمی سے الٹا سوال کیا تو وہ کچھ نہ بولی۔ وہ جانتی تھی کہ حامد بےحد خوش ہے اور اپنے جی جان لگا دے گا ان کا خیال رکھنے میں، مگر یہ ظالم دنیا اسے ڈرا رہی تھی جس نے آج تک اسے بہت سی محرومیاں ہی دی تھیں۔
”ہم کل گھر جا رہے ہیں۔“ حامد اچانک گویا ہوا۔
”کس کے گھر؟“
”اپنے گھر، تمہارے سسرال!“ اس کی بات پر وہ یکدم کرنٹ کھا کر الگ ہوئی۔
”ہم کل ہی گھر جا کر سب کو بتا دیں گے اپنے رشتے کے بارے میں، اب اور چھپانا ٹھیک نہیں ہے۔“ اس کی حیرت دیکھتے ہوئے وہ مزید بولا۔
”اور اس کے بعد پھر وہ لوگ کیا کریں گے ہمارے ساتھ!“ اس نے جاننا چاہا۔
”جو بھی کریں لیکن ہمیں ڈرنا نہیں کیونکہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا، نکاح کیا ہے، اور ہمارے بچے کا پورا حق ہے اس کے دودھیالی رشتوں پر۔“ اس کے سادہ سے انداز میں عزم تھا۔ مگر افروز کی حیرانی اب پریشانی میں بدل گئی تھی۔ اسے حامد پر پورا یقین تھا مگر وہ حالات اور باقی لوگوں سے ڈر رہی تھی۔ اس کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے حامد نے اسے دوبارہ سینے سے لگا لیا۔
”بےفکر رہو، میں ہوں نا تم دونوں کے ساتھ!“ اس نے محبت پاش انداز میں اطمینان دلایا۔
کچھ کہنے کے بجائے افروز نے نرمی سے اس کی شرٹ دبوچتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں گویا اس کی پناہوں میں چھپ کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہ رہی ہو۔ بالکل ویسے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرکے خیال کرتا ہے وہ بلی کی نظر سے اوجھل ہوگیا ہے۔ مگر یہ اس کی خیام خیالی ہوتی ہے۔
****************************************
اگلے دن کا سورج نکل آیا تھا، سب کچھ حسب معمول تھا۔ ازلفہ کلاس میں موجود وائٹ بورڈ پر بلیک مارکر سے لکھتے ہوئے بچون کو پڑھا رہی تھی تب بھی اسے ایک پیغام ملا۔
”مس!“ پیون نے دروازے پر رک کر پکارا۔
”جی بولیں؟“ وہ رک کر متوجہ ہوئی۔
”آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔“
”مجھ سے! کون؟“
”پتا نہیں، بس کہہ رہے ہیں آپ سے ضروری بات کرنی ہے، باہر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“ اس نے لاعلمی سے کندھے اچکائے تو وہ خاصی متعجب ہوئی۔
”اچھا ٹھیک ہے، آپ جائیں میں آتی ہوں۔“ مثبت جواب ملنے پر وہ سر ہلاکر چلا گیا۔
”بچوں! آپ لوگ یہ آنسر کاپی کرکے نیکسٹ کوئسچن لکھیں، میں بس ابھی آئی۔“ اس نے کہتے ہوئے مارکر ٹیبل پر رکھا۔
”یس مس!“ یک زبان جواب ملا۔
جس کے بعد وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب ڈھونڈنے کلاس سے باہر چلی گئی۔
اسکول کے باہر اور باؤنڈری کے اندر ایک چھوٹا سا پلے گراؤنڈ تھا جہاں ایک پیڑ کے نیچے کھڑے جیکب کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ جیکب بھی اپنے ہمیشہ والے مخصوص سیاہ عبائے و اسکارف میں ازلفہ کو اپنی جانب آتا دیکھ چکا تھا۔
”آپ یہاں؟“ وہ متعجب انداز میں اس کے مقابل آکر رکی۔
”جی، آپ سے ملنے آیا ہوں۔“ سادہ سا جواب ملا۔
”مجھ سے، لیکن کیوں؟ آیان کے بارے میں کوئی بات کرنی ہے؟“ اس نے خود ہی اندازہ لگایا۔
”نہیں، اپنے بارے میں بات کرنی ہے۔“ جیکب نے نفی کی تو وہ مزید الجھ گئی کہ وہ بھلا کیوں اور کیا بات کرنے آیا ہے؟
”دراصل دین اسلام کے بارے میں کہی آپ کی باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔“ وہ تحمل سے گویا ہوا۔
”میں نے بہت سوچا اس بارے میں جس کی وجہ سے میں کافی الجھ بھی گیا تھا اور اسی لئے کچھ دن آیان کو اسکول سے لینے بھی نہیں آیا، مگر اب میں فیصلہ کرچکا ہوں۔“ وہ پل بھر کو رکا جب کہ ازلفہ کی تشویش عروج پر تھی۔
”میں۔۔۔۔میں اسلام قبول کرکے مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔“ اس نے نظریں جھکا کر دھیرے سے کہا تو وہ دنگ رہ گئی۔
”کیا واقعی؟“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
”جی، اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں۔۔۔۔میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ اس نے تائید کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی تو ازلفہ کی خوشگوار مسکراہٹ پل میں غائب ہوئی جس کی جگہ حیرانی نے لے لی۔
”کیا؟“ وہ حیرت کے مارے بس اتنا ہی بول پائی۔
”سچ کہوں تو جب سے آپ کو جانا ہے تب سے آپ مجھے اچھی لگنے لگی ہیں، میں بہت امیر کبیر آدمی نہیں ہوں مگر رہنے کیلئے ڈھنگ کا گھر اور باعزت روزگار ہے میرے پاس، مجھے یقین ہے کہ ہم ایک ساتھ خوش رہیں گے۔“ اس نے سادگی سے مزید وضاحت کی جب کہ وہ تو ابھی تک ہکابکا تھی۔
”یہ۔۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ!“ ازلفہ کا الجھا ہوا انداز دیکھ کر جیکب بھی تھوڑا کھٹکا۔
”ہماری شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ اور ہم ایک دوسرے کو جانتے ہی کہاں ہیں تو ایسے کیسے۔۔۔؟“ وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔
”جانتے تو ہیں، آپ آیان کی ٹیچر ہیں اور میں اس کا چاچو، اور میں اسلام قبول کرکے شادی کروں گا۔“ اس نے گویا یاد دلایا۔
”صرف یہ کافی نہیں ہوتا، شادی کوئی بچوں کا کھیل تھوڑی ہے، اور آپ کو کیوں لگا کہ میں آپ سے شادی کروں گی؟“ اس نے نہایت سنجیدگی سے بات کاٹتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”جس طرح ایک چھوٹی سی غلطی پر آپ مجھ معافی چاہ رہی تھیں اور پھر مجھے اسلام کی باتیں بتاتی رہی اس سے مجھے لگا کہ آپ چاہتی ہیں میں بھی مسلمان ہوجاؤں اور اس کے بعد مجھے کسی سے تو شادی کرنی ہی تھا نا تو مجھے آپ سے بہتر کوئی نہیں لگا، اور میرے خیال سے شاید آپ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی ہیں۔“ اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ وضاحت کی۔
”اپنی غلطی پر معافی مانگنا اور کسی کو حق بات بتا کر صحیح راہ دکھانا محبت کی علامت ہے آپ کی نظر میں؟“ اس کا انداز اب بھی ویسا ہی سخت تھا جس سے جیکب کے دل کو ٹھیس لگی۔
”اب تک میں نے جو بھی باتیں آپ سے کیں وہ انسانی ہمدردی کے تحت کیں، پلیز ان باتوں کا غلط مطلب نہ نکالیں، آپ نے کہا کہ آپ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے، آپ کسی مولوی سے مل لیں وہ آپ کی رہنمائی کردیں گے مگر یہ شادی و محبت کا خیال اپنے دل سے نکال دیں پلیز، میں آپ سے کوئی محبت وحبت نہیں کرتی اور نہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔“ اس نے دھیمے مگر سنجیدہ انداز میں دوٹوک جواب دیا جسے وہ دیکھتا رہا۔
”آپ کے اسلام نے آپ کو یہ نہیں سکھایا کہ جھوٹ بولنا بری بات ہوتی ہے!“ اس نے غیر متوقع سوال کیا۔
”میں نے کب جھوٹ کہا؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”ابھی ابھی کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے، اگر سچ میں ایسا ہی تھا تو پچھلے ایک ہفتے سے آپ روز آیان سے میرے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھیں کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں۔“ اب اس نے بھی چبھتا ہوا سوال کیا تو وہ بےساختہ گڑبڑا کر نظریں چرا گئی کیونکہ وہ درست کہہ رہا تھا۔
”کیا یہ بھی صرف انسانی ہمدردی کے تحت پوچھا آپ نے!“ اس نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جاننا چاہا۔
”دیکھیں، آپ خواہ مخواہ بات کو بڑھا کر غلط رنگ دے رہے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔“ اس نے پھر نفی کرنی چاہی۔
”نہیں، کچھ نا کچھ تو ضرور ہے تب ہی آپ کے الفاظ آپ کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔“ اس کی بات مکمل ہوتے ہی اس نے پریقین انداز میں احساس دلایا تو ازلفہ نے بےساختہ اسے دیکھا۔
”میرا رشتہ طے ہوچکا ہے۔“ ازلفہ کے انکشاف پر وہ دنگ رہ گیا۔
”رشتہ ختم بھی ہوسکتا ہے۔“ اگلے ہی پل وہ سنبھل گیا تھا۔
”دماغ ٹھیک ہے آپ کا!“ وہ اس پر برہم ہوئی۔
”جی، لیکن لگتا ہے آپ کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے، فی الحال میں چلتا ہوں، مگر جلد دوبارہ آؤں گا، ہوسکتا ہے تب تک آپ کی وہ الجھن دور ہوجائے جو ابھی آپ کو اقرار کرنے سے روک رہی ہے۔“ وہ تحمل سے مزید بولا۔
”مجھے کوئی الجھن نہیں ہے، میرا جواب اٹل ہے۔“ ازلفہ نے اپنی بات پر زور دیا۔
مگر کوئی جواب دینے کے بجائے جیکب نے کچھ کہتی ہوئی ایک بھرپور گہری نظر سے اسے دیکھا اور پھر بنا کوئی بات چیت کیے وہاں سے چلا گیا جسے وہ وہیں کھڑی جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
****************************************
کار درمیانی رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھی جس میں بیٹھے دونوں نفوس بالکل خاموش تھے۔ حامد سنجیدگی سے ڈرائیو کر رہا تھا جب کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی افروز بھی خود کو ذہنی طور پر ہر طرح کی صورت حال کیلئے تیار کرنے میں مصروف تھی۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک بڑے سے بنگلے کے سامنے رکی جس پر ”شیرازی ہاؤس“ کی تختی لگی تھی۔ گاڑی رکتے ہی افروز کی دھڑکنیں بڑھ گئیں۔
”آگیا تمہارا سسرال!“ حامد نے خاموشی کو توڑا تو افروز نے اس کی جانب دیکھا۔
”آؤ اندر چلیں۔“ وہ کہتے ہوئے گاڑی سے اترا اور گھوم کر آکے افروز کی طرف کا دروازہ کھول کر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ باہر آئی اور دونوں ایسے ہی ہاتھ تھامے اندر کی جانب بڑھ گئے گویا ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہوں۔
دوپہر کا وقت تھا اسی لئے عماد آفس گیا ہوا تھا جب کہ خواتین کے کمروں میں ہونے کے باعث ہال میں سناٹا ہو رہا تھا۔
یہ گھر بلاشبہ بہت خوبصورت اور شاندار تھا مگر اس وقت اس کی خوبصورتی بھی افروز کی گھبراہٹ کم نہ کر پائی۔
تب ہی ہال سے گزرتی رابعہ اپنے بھائی کے ساتھ ایک انجان لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
”یہ کون ہیں بھیا؟“ وہ پوچھتی ہوئی ان کی جانب آئی۔
”افروز! یہ میری چھوٹی بہن ہے رابعہ! اور رابعہ یہ افروز ہے، میری بیوی، تمہاری بھابھی!“ اس نے دونوں کا تعارف کرایا۔ رابعہ دنگ رہ گئی اور اس نے دوبارہ افروز کی جانب دیکھا جو ہلکے گلابی سوٹ پر سرخ شال اوڑھے تھوڑی نروس تھی۔ رابعہ اتنی حیران تھی کہ اسے سلام دعا کا بھی خیال نہیں رہا۔
”اماں جان کہاں ہیں؟“ حامد نے سوال کیا۔
”اپنے۔۔۔اپنے کمرے میں۔“ اس نے اسی حیران انداز میں جواب دیا۔
”آؤ افروز! اماں جان کے پاس چلیں۔“ حامد نے نرمی سے ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر آگے بڑھ گیا۔ جب کہ رابعہ یوں ہی ہکابکا کھڑی رہ گئی۔
”ٹک ٹک ٹک!“ حامد نے دروازے پر دستک دی۔
”آجاؤ!“ اجازت ملنے پر وہ دروازہ دھکیلتا ہوا اندر آیا۔
نور جہاں بیڈ پر نیم دراز آنکھیں بند کیے تسبیح گھما رہی تھیں۔
”السلام علیکم اماں جان!“ اس نے ادب سے سلام کیا تو اس کی آواز سن کر ان کا تسبیح پھرتا ہاتھ رکا۔
”اتنے دن گھر سے غائب رہنے کے بعد بلآخر خیال آگیا گھر آنے کا!“ انہوں نے بنا آنکھیں کھولے جواب دینے کے بجائے طنز مارا۔ ان دونوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر حامد نے ہمت جمع کی۔
”اماں جان میں کسی کو آپ سے ملوانے لایا ہوں۔“ اس کی بات پر انہوں نے یکدم آنکھیں کھولیں اور اس کے پہلو میں کھڑی اجنبی لڑکی کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
”یہ کون ہے؟“ وہ سیدھی ہوکر بیٹھیں۔
”آپ کی بہو، میری بیوی، افروز حامد شیرازی!“ اس کے انکشاف پر ان کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور انہوں نے دوبارہ سرتاپا افروز کو دیکھا جو ان سے نظریں ملانے کی تاب نہ لا پا رہی تھی۔
”یہ۔۔۔یہ وہ ہی۔۔۔۔۔۔“
”جی یہ وہ ہی لڑکی ہے جس سے میں شادی کرنا چاہتا تھا اور آپ راضی نہیں تھیں۔“ حیرت کے مارے ان کے ٹوٹے ہوئے لفظ اچک کر حامد نے خود ہی تصدیق کی۔
”اور تم نے میری مرضی کے خلاف اس سے شادی کرلی!“ وہ بیڈ سے اٹھ کر اس کی جانب آئیں۔
”جی، کیونکہ میرے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔ انہیں اب سمجھ میں آیا کہ حامد اتنے اتنے دن کیوں اور کہاں غائب رہتا تھا؟
”اس کا دنیا میں ایک مامی کے سوا کوئی نہیں تھا اور ان سے بھی اب کوئی رابطہ نہیں ہے، ہم نے ڈیڑھ مہینے پہلے نکاح کیا تھا اور اب تک ہم ہمارے ڈی ایچ اے والے فلیٹ میں رہ رہے تھے مگر اب میں اسے وہاں مزید اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔“ اس نے خود ہی مزید وضاحت کی جس سے ان کے جسم میں شعلے بھڑکنا شروع ہوگئے۔
”میں کسی صورت اس لڑکی کو اپنی بہو قبول نہیں کروں گی۔“ انہوں نے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے دوٹوک فیصلہ سنایا۔
”آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔“ حامد نے اپنی بات پر زور دیا۔
”کیوں کرنا پڑے گا؟“ وہ بھی دوبدو ہوئیں۔
”کیونکہ یہ میرے بچے کی ماں بننے والی ہے جس کا اس گھر اور گھر والوں پر پورا حق ہے۔“ اس نے بنا رکے ایک نیا بم گرایا جس نے ان کی حیرت کا پیمانہ ہی توڑ دیا۔جب کہ افروز خود میں مزید سمٹ گئی۔
”اما۔۔۔۔۔۔“
”چٹاخ!“ وہ پھر کچھ بولنے لگا تھا کہ اس سے قبل نورجہاں نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر رسید کیا تو اس کی بات ادھوری رہ گئی جب کہ افروز نے گھبرا کر بےساختہ دونوں ہاتھ لبوں پر رکھے۔
”جاؤ یہاں سے۔“ انہوں نے سختی سے حکم دیا۔
”مگر اما۔۔۔۔۔۔۔۔“
”میں نے کہا دفع ہوجاؤ اسے لے کر یہاں سے۔“ وہ حلق کے بل چلائیں تو افروز سہم گئی۔ حامد بھی فوری طور پر کچھ نہ کہہ پایا۔ وہ غصے میں سرتاپا بری طرح کانپ رہی تھیں۔
تب ہی نزہت اور رابعہ بھی حیران پریشان سی کمرے میں آگئیں۔
”اماں جان، سب ٹھیک تو ہے نا!“ نزہت پوچھتی ہوئی ان کے پاس آئی۔
”اس سے کہو نزہت کے دفع ہوجائے میری نظروں کے سامنے سے ورنہ میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔“ انہوں نے رخ پھیر کر حکم دیا تو نزہت نے بےساختہ حامد اور افروز کی جانب دیکھا۔
”بھیا پلیز ابھی جائیں یہاں سے۔“ رابعہ نے بھی معاملے کی نزاکت کے پیش نظر آہستہ سے منت کی تو حامد افروز کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔
”اماں جان، آپ یہاں بیٹھیں آرام سے، رابعہ جلدی پانی لے کر آؤ۔“ نزہت نے غصے سے کانپتی نور جہاں کو بستر پر بٹھاتے ہوئے رابعہ کو حکم دیا جس کی تعمیل کرنے کیلئے وہ فوراً سرہلا کر باہر بھاگی۔
****************************************
اسکول سے گھر آنے کے بعد ازلفہ سیدھی اپنے کمرے میں آئی۔ بیگ اور رجسٹر بیڈ پر پھینکا، باتھ روم میں بند ہوئی اور دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے یوں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی گویا کب سے کیا ہوا ضبط اب ٹوٹ گیا ہو۔ اور یہ بات درست بھی تھی۔
”آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے، اگر سچ میں ایسا ہی تھا تو پچھلے ایک ہفتے سے آپ روز آیان سے میرے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھیں کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں؟ کیا یہ بھی صرف انسانی ہمدردی کے تحت پوچھا آپ نے!“ جیکب کی گہری نظریں اسے ابھی تک اپنے وجود میں پیوست ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
”ایسا کچھ نہیں ہے۔“
”نہیں، کچھ نا کچھ تو ضرور ہے تب ہی آپ کے الفاظ آپ کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔“ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے ان کی اندرونی حالت بھانپ جائے گا۔
وہ یہ تو جان گیا تھا کہ ازلفہ کا انکار سچا نہیں تھا۔ مگر اس انکار کے پیچھے کی وجہ وہ اسے نہ بتا سکی۔ بتاتی بھی تو کیسے؟ کیونکہ ابھی تک وہ خود اسے پوری طرح قبول نہیں کر پائی تھی۔
****************************************
فلیش بیک
”آپی ایک بات بولوں!“ اذکی نے موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں بولو!“ وہ بھی پودوں کو پانی دے چکی تھی۔
”اسے نہ دیکھو تو چین تجھے آتا نہیں ہے“
”دل ہو کے جدا اس سے رہ پاتا نہیں ہے“
”کہیں تجھے پیار ہوا تو نہیں ہے“
”کہیں تجھے پیار ہوا تو نہیں ہے“
اذکی گیت کی شاعری میں رد و بدل کرکے گنگناتے ہوئے اسے چھیڑ کر جلدی سے نیچے بھاگ گئی۔
”میرا نہیں پتا لیکن تم کروا کر ہی چھوڑو گی مجھے۔“ وہ بھی کہتی ہوئی اس کے پیچھے بھاگی۔
”ارے رے! کہاں بھاگتی دوڑتی ہوئی آرہی ہو دونوں۔“ انہیں اس طرح سیڑھیاں اترتا دیکھ لاؤنج میں بیٹھ کر سبزی کاٹتی نعیمہ نے ٹوکا۔
”امی ایک بات بتاؤں آپ کو!“ اذکی کہتے ہوئے دھپ سے سنگل صوفے پر بیٹھی جو در حقیقت ازلفہ کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔ جب کہ ازلفہ بھی نعیمہ کے برابر میں بیٹھ چکی تھی۔
”وہ جو میں نے ڈرامے کے بارے میں بتایا تھا نا جس میں لڑکا کرسچن ہوتا ہے، اس میں نا ہیروئن کو ہیرو سے محبت ہونے لگی ہے، اب بس ہیرو کے اظہارِ محبت کا انتظار ہے۔“ اس نے ازلفہ کو دیکھتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تو ازلفہ نے اسے آنکھیں نکال کر گھورا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے امی اس کی فضول باتوں پر دھیان دینے کی، پتا نہیں کیا الٹا سیدھی سوچتی اور بولتی رہتی ہے۔“ ازلفہ موضوع بدلتے ہوئے ان کے ساتھ مل کر پالک کے پتے توڑنے لگی۔ جس سے اذکی کافی محظوظ ہوئی۔
”بات تو مجھے بھی تم سے کرنی ہے، وہ بھی بہت ضروری۔“ ان دونوں کی باتوں پر دھیان دینے کے بجائے وہ سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
”مجھ سے، مگر کیا؟“ ازلفہ الجھی۔ جب کہ اذکی بھی سیریس ہوکر بیٹھ گئی۔
”ہاں تم سے، وہ جو تمہارے ابو کے آفس کے دوست تھے نا! حیات انکل!“ انہوں نے یاد دلایا۔
”ہاں کیا ہوا انہیں؟ اب حیات نہیں رہے کیا؟“ اذکی نے اندازہ لگایا۔
”استغفرالله! کیسی بات کر رہی ہو!“ انہوں نے فوراً ٹوکا۔
”آپ نے ہی تو کہا کہ ابو کے دوست ”تھے“ تو مجھے لگا اب نہیں رہے ہوں گے!“ اس نے منہ بسور کر وضاحت کی۔
”اپنے یہ بےتکے اندازے نا اپنے پاس ہی سنبھال کر رکھا کرو۔“ انہوں نے سختی سے لتاڑا۔
”اسے چھوڑیں امی، آپ بتائیں کیا کہہ رہی تھیں؟“ ازلفہ واپس موضوع پر آئی۔
”کچھ عرصہ پہلے انہوں نے تمہارے ابو سے ذکر کیا تھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے عاطف کیلئے لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں کوئی اچھا رشتہ ہو تو ہم بتائیں، ان کا بیٹا اچھا پڑھا لکھا برسرِروزگار ہے تو ہمیں تمہارا خیال آیا، تمہارے ابو نے تمہاری تصویر دی تھی انہیں اور ماشاءالله سے تم ان کے پورے گھر والوں کو بہت پسند آئی ہو۔“ وہ سبزی کاٹتے ہوئے اپنی دھن میں بتاتی گئیں، اس بات سے بےخبر کہ ان کی بات سن کر اس کا پالک بناتا ہاتھ ساکت ہوا تھا اور چہرہ پتھرا گیا تھا۔ ایسی ہی حیران کن کیفیت اذکی کی بھی تھی۔
”اس جمعے کو آرہے ہیں وہ لوگ تمہیں انگوٹھی پہنا کر تاریخ طے کرنے، تمہارے ابو نے ساری چھان پھٹک کرلی ہے ان لوگوں کے بارے میں، معلومات اچھی ملی ہے۔“ انہوں نے اسی اطمینان سے مزید بم گرایا۔ یہ دونوں ہکابکا رہ گئی تھیں۔
”ایسے کیسے آپ لوگوں نے اتنا بڑا فیصلہ کرلیا امی!“ بلآخر اذکی نے لب کھولے کیونکہ ازلفہ تو ابھی تک حیرت سے باہر ہی نہیں آسکی تھی۔
”کیا مطلب! ماں باپ ہیں ہم، ہم نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا تم لوگوں کی زندگی کا فیصلہ؟“ انہوں نے گویا یاد دلا کر پوچھا۔
”ہماری اپنی مرضی کہاں گئی امی؟ جس کی زندگی کا فیصلہ کیا ہے اس سے ایک بار پوچھ تو لیا ہوتا!“ اذکی کو حیرانی کے ساتھ اب غصہ بھی آنے لگا تھا۔ نعیمہ نے ہاتھ روک کر پہلے اذکی کو گھورا اور پھر ازلفہ کی جانب متوجہ ہوئیں۔
”تمھیں ہمارے فیصلے سے کوئی اعتراض ہے ازلفہ؟ کیا اس کی طرح تمھیں بھی یہ ہی لگتا ہے کہ ہم تمہارا برا چاہتے ہیں!“ ان کے سوالیہ انداز میں مرضی جاننے کا کم اور فیصلہ جتانے کا عنصر زیادہ تھا۔
”وہ بات نہیں ہے امی۔“ بلآخر وہ بھی دھیرے سے گویا ہوئی۔
”تو پھر کیا بات ہے؟“
”ابھی اتنی جلدی شادی کی کیا ضرورت ہے؟“ اس نے بات گول مول کرنی چاہی۔
”جلدی! ماشاءالله سے اس سال پچیس کی پوری ہوجاؤ گی تم، میری شادی تو بیس سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور جب میں تمہاری عمر کی تھی تب تم میری گود میں آچکی تھی اور اذکی آنے والی تھی۔“ انہوں نے اپنا موازنہ کیا۔
”آپ خوش نصیب تھیں کہ آپ کو کم عمری میں اچھا رشتہ مل گیا تھا لیکن اگر آپ کی شادی کم عمری میں ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی اولاد کو بھی اسی عمر میں پکڑ کر کسی کے ساتھ بھی رخصت کردیا جائے! اچھا رشتہ اور لڑکی کی اپنی رضا مندی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی، ضروری نہیں جس عمر میں جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا وہ ہی سیم ٹو سیم دوسرے کے ساتھ بھی ہو یا جان بوجھ کر کیا جائے!“ اذکی چپ رہنے والوں میں سے نہیں تھی اسی لئے اپنی عادت سے مجبور بولتی چلی گئی۔
”بہت زبان چلنے لگی ہے تمہاری، لگتا ہے تمہارا بھی کوئی بندوبست کرنا پڑے گا۔“ انہوں نے دانت پیس کر اسے گھورا۔
”بات عمر کی نہیں ہے امی۔“ ازلفہ دھیرے سے بولی۔
”تو پھر کیا بات ہے؟“ انہوں نے جاننا چاہا تو وہ فوری طور پر کچھ نہ بولی اور تب ہی ان کی چھٹی حس کھٹکی۔
”ازلفہ! کہیں کسی لڑکے کا تو کوئی چکر نہیں ہے؟“ انہوں نے آنکھیں سکیڑ کر تفتیش کی۔
”نہیں امی، ایسا کچھ نہیں ہے۔“ اس نے نظریں چرا کر انکار کیا۔
”تو پھر کیا مسلہ ہے اس رشتے میں؟“
”کوئی مسلہ نہیں ہے، اور نہ ہی مجھے کوئی اعتراض ہے، میں راضی ہوں۔“ اس نے بلآخر سر تسلیم خم کردیا تو نعیمہ کو اطمینان ہوا۔
”شاباش میری بچی!“ انہوں نے محبت سے اس کا گال تھپتھپایا۔
”آپی!“ اذکی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”بس چپ! کوئی ضرورت نہیں ہے بکواس کرکے اس کے دماغ میں خرافات بھرنے کی۔“ نعیمہ نے سختی سے اذکی کو ٹوکا۔
”خود کا تو پہلے ہی دماغ خراب ہے اب اپنی بہن کا بھی کرے گی۔“ وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھیں اور سبزی کا ٹوکرا لے کر کچن میں چلی گئیں۔ ازلفہ بھی کمرے کا رخ کرچکی تھی جس کے پیچھے وہ بھی آئی۔
”یہ کیا کِیا آپ نے آپی؟“ اذکی دروازہ بند کرتی ہوئی اس کی جانب آئی جو کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔
”وہ جو کرنا چاہئے تھا۔“ اس نے بنا دیکھے جواب دیا۔
”مگر کیوں؟ آپ تو جیکب کو پسند کرتی ہو نا!“ وہ یاد دلاتے ہوئے اس کے پاس آئی۔
”کس نے کہا یہ تم سے؟“ اس نے گردن موڑ کر سوال کیا۔
”کیا میں نے کبھی اپنے منہ سے اقرار کیا؟ یا جیکب نے ایسا کچھ کہا؟ وہ تو مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتا تھا۔“
”ٹھیک ہے آپ نے یا اس نے نہیں کہا مگر حقیقت تو یہ ہی ہے نا! آپ خود ہی بتاؤ کیا آپ کو اس سے ملنا اس سے باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا؟“ اس نے دوسرے پہلو اجاگر کیے۔
”اچھا لگنے میں اور اچھا ہونا میں فرق ہوتا ہے اذکی! ضروری نہیں جو کام کرنا ہمیں اچھا لگتا ہے وہ ہمارے لئے اچھا بھی ہو!“ آج اس کی باتیں کچھ عجیب ہی تھیں۔
”کیا بولے جا رہی ہو آپی! ہوش میں تو ہو!“
”ہوش میں تو اب آئی ہوں میں ورنہ اس سے پہلے بہکنے لگی تھی۔“ اس نے خود کا ہی احتساب کیا۔
”تم ہی بتاؤ اذکی مجھے کیا ضرورت تھی کہ میں ایک آدمی کو یوں اسلام کی تبلیغ کروں؟“ اس نے عجیب سا سوال کیا۔
”اسلام کی تبلیغ کرنا غلط ہے؟“
”نہیں، لیکن اسلام کے نام پر یوں باتیں کرنا غلط ہے۔“
”تو آپ نے کون سا راتوں کو جاگ جاگ کر فون پر یا گھنٹوں پارکوں میں مل کر اس سے باتیں، ملاقاتیں کی ہیں، ایک سڑک پر بس تھوڑی دیر ساتھ چلتے ہوئے ہی تو ذرا سی بات چیت ہوجاتی تھی، اور اس دوران اگر کسی کو کوئی اچھی بات بتا دی تو اس میں کیا برائی ہے؟“ اس نے دوسرا نقطہ اٹھایا۔
”برائی یہ ہے کہ ان باتوں کی وجہ سے وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا!“
”کیا نہیں ہونا چاہئے تھا!“
”قبضہ! میرے ذہنوں دل پر ایک اجنبی مرد کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے تھا، مجھے اس کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے تھا مگر ایسا ہوا اور جو بات ان سب کی بنیاد بنی اسے سوچ سوچ کر مجھے شرمندگی ہو رہی ہے، اسلام میں تو اتنی اجازت بھی نہیں ہے کہ ایک نامحرم مرد و عورت ایک دوسرے کو قرآن سکھائیں حتیٰ کہ وہ کتنے ہی متقی کیوں نا ہوں، تو پھر میں کیسے اسے اسلام کی تبلیغ کرنے کھڑی ہوگئی تھی۔“ وہ کہتے ہوئے تھک کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسے خود پر سخت غصہ آرہا تھا اور اتنی ہی شرمندگی تھی۔ اذکی بھی اس کے برابر میں آکر بیٹھی۔
”جس وقت امی نے مجھ سے بات کی شاید وہ آگاہی کا لمحہ تھا جس نے آکر مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ یہ تم کیا کرتی آئی تھی اب تک؟ اگر آج امی اس رشتے کا ذکر نہ کرتیں تو مجھے یاد ہی نہیں آتا کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی اپنے والدین کی فرمابردار بیٹی تھی جو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد شادی ہونے تک کے وقفے کے بیچ ٹیچرنگ کر رہی تھی اور اچھا رشتہ ملنے پر مجھے شادی کرنی تھی، اپنے محرم کے گھر جانا تھا اس سے محبت کرنی تھی اسے دل میں بسانا تھا، مگر میں بہک کر غلط راہ پر چل پڑی۔“ اس نے خود کو سخت ملامت کی۔
”اگر جیکب کو میں نے اپنی زندگی میں نہ آنے دیا ہوتا تو ابھی تھوڑی دیر قبل جو بات امی نے کی اسے سن کر میرا چہرہ حیرت سے پتھراتا نہیں بلکہ خوشی سے گلنار ہوجاتا، مگر میں نے اپنے ہاتھوں اپنی خوشیاں پھیکی کرلیں۔“ اس نے کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے سرتھاما۔ جب کہ اذکی جو تھوڑی دیر قبل تک غصے میں تھی اب وہ بھی خاموش ہوگئی تھی۔ کیونکہ در حقیقت اسی نے ازلفہ کو سب سے پہلے اس بات پر اکسایا تھا کہ وہ جیکب کو سمجھائے۔
کہیں نا کہیں ازلفہ کی باتیں صحیح تھیں۔ وہ تیسرا شیطان ویسے نہ سہی تو ایسے اس پر وار کر گیا تھا جو ہمیشہ ایک مرد و عورت کے بیچ ہوتا ہے۔ جس نے اس کی آنکھوں پر یہ لباده اوڑھا دیا تھا کہ وہ کوئی غلط کام تھوڑی کر رہی ہے۔ وہ تو اسلام کی دعوت دے رہی ہے اور اگر اس کی وجہ سے کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اسے بھی ثواب ہی ملے گا مگر اس سوال کے لالچ میں وہ گناہ کر بیٹھی تھی۔ اسے در حقیقت اسلام کی تبلیغ کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اسے اچھا لگ رہا تھا کسی سے باتیں کرنا، ملنا، اسے سوچنا اور یہ ہی حملہ جیکب پر بھی ہوا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ دیر آئے درست آئے، تو دیر سے ہی سہی ازلفہ کو خیال آگیا تھا۔
”ابھی آپ نے خود ہی تو کہا نا آپی کہ آپ دونوں کے بیچ کوئی عشق و محبت کا معاملہ نہیں تھا تو پھر کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو؟ چھوڑو بھول جاؤ اسے اور اب دوبارہ بات چیت مت کرنا۔“ اذکی نے جلدی سے اس مسلے کا حل تلاشا۔
”مجھے ڈر ہے کہ ہلکا ہلکا ہی سہی مگر جیسا میں اس کیلئے محسوس کرنے لگی تھی وہ بھی میرے لئے نا کرنے لگا ہو! اگر ایسا ہوگیا تو وہ کیا سوچے گا کہ پہلے میں نے اسلام کے نام پر اس کے دل پر دستک دی اور اب اسی اسلام کا سہارا لے کر خود اس پر دروازے بند کر رہی ہوں۔“ وہ دل کا خدشہ زبان پر لائی تو اذکی بھی سوچ میں پڑ گئی۔
”ایسا کچھ نہیں ہوگا، آپ نے کہا نا کہ وہ آپ سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں کرتا تھا تو محبت کیسے کرنے لگا ہوگا، وہ تو بس میں آپ کو تنگ کرنے کیلئے ایسے ہی اس کا نام لے کر چھیڑتی تھی اسی لئے آپ اس کے بارے میں ایسا سوچنے لگی، لیکن اب میں بھی بار بار اس کا ذکر نہیں کروں گی آپ سے۔“ اس نے اپنی بہن کا ملامت کا بوجھ کم کرنا چاہا۔ کیونکہ کہیں نا کہیں وہ بھی تھوڑی بہت ذمہ دار تھی اپنی بہن کو اس مقام تک لانے میں۔
”آپ فکر مت کرو، آپ نے اپنی طرف سے اسے اسلام کے بارے میں بتا کر اپنا فرض پورا کردیا اب وہ جانے اور اس کا کام، اگر وہ مسلم ہوتا ہے تو بہت اچھی بات ورنہ وہ جانے اور خدا جانے، آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اذکی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی تو اس نے ہلکے سے اثبات میں سرہلادیا۔
****************************************
کل ہی تو اس پر آگاہی کا عذاب گزرا تھا اور اس نے بہت مشکل سے دل پر پتھر رکھ کر خود پر باندھ باندھے تھے مگر آج وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ جیکب کو بھی اس تیر کا زخم لگ چکا تھا جو زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔ مگر وہ اسے اپنے انکار کا یقین نہیں دلا پائی۔ کیسے دلاتی؟ وہ خود ابھی پوری طرح اس مرحلے سے گزر کر تکمیل تک جو نہیں پہنچی تھی۔
کچھ دیر یوں ہی رو کر اپنا دل ہلکا کرنے کے بعد اس نے باتھ روم میں ہی اپنا عبایا اتارا اور اچھی طرح منہ ہاتھ دھو کر باہر آگئی۔
بیڈ پر بیٹھی اذکی کی نظر جیسے ہی ازلفہ کی سرخ ناک اور آنکھوں پر پڑی تو وہ سارا ماجرا سمجھ گئی۔ ازلفہ اس سے کوئی بات کیے بنا اپنا عبایا رکھنے الماری کے پاس آئی۔
”وہ پھر ملا تھا؟“ اذکی کی بات پر عبایا رکھتا اس کا ہاتھ پل بھر کو ساکت ہوا اور پھر نارمل ہوگیا۔ وہ الماری بند کرتے ہوئے پلٹی اور پھر اس کے مقابل بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا آپی؟“ اس نے جاننا چاہا۔
”وہ ہی جس کا ڈر تھا۔“ اس نے نظریں جھکا کر جواب دیا۔
”وہ اسلام قبول کرکے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔“ اس نے اسی طرح مزید بتایا تو وہ دنگ رہ گئی۔
”تو پھر آپ نے کیا کہا؟“
”انکار کرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی، وہ نہیں مانا اور کہہ رہا تھا کہ پھر آئے گا۔“ اس کے جواب نے اذکی کو بھی فکر میں ڈال دیا۔
”اب میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں؟“ وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔
”امی سے بات کرلو۔“ اذکی اچانک بولی۔
”کیا؟“
”ہاں، اس نے کہا نا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے اور تھوڑا تھوڑا ہی سہی مگر آپ بھی اسے پسند کرتی ہو، کسی نا کسی سے تو شادی کرنی ہی تھی نا تو اسی سے کرلو جسے پسند کرتی ہو!“ اس نے نیا راستہ دکھایا۔
”ایک تو تمہاری ان ہی الٹی سیدھی باتوں کی وجہ سے میرا پہلے ہی دماغ خراب ہے اوپر سے تم اور فضول مشورے دے رہی ہو۔“ وہ برہمی سے چڑ گئی۔
”فضول مشورہ نہیں ہے، میں کون سا بنا کسی رشتے کے اس سے عشق لڑانے کا بول رہی ہوں! بلکہ یہ کہہ رہی ہوں کہ اب جب غلطی کر ہی چکی ہو تو اس کا مداوا بھی کرلو، پسند کر ہی لیا ہے تو اس رشتے کو ایک جائز نام دے دو، پسند کی شادی کی اجازت تو اسلام بھی دیتا ہے تو اچھا ہے نا آپ کی شادی بھی ہوجائے گی اور وہ مسلمان بھی۔“ اس نے مثبت پہلو دکھانے چاہے۔
”اچھا! اور تمھیں لگتا ہے کہ امی ابو مان جائیں گے؟ وہ بھی تب جب وہ پہلے ہی کسی کو زبان دے چکے ہیں، اور جیکب کرسچن ہے یہ جاننے کے بعد تو امی ہتھے سے ہی اکھڑ جائیں گی۔“ اس نے حقیقت کا آئینہ دکھایا۔
”ایک بار بات کرنے میں حرج کیا ہے؟ کم از کم ساری زندگی یہ ملال تو نہیں رہے گا کہ کاش ایک مرتبہ بات کرلی ہوتی!“ اس نے اپنی بات پر زور دیا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ سوچ میں پڑ گئی۔
****************************************
”کیسا لگا تمھیں ہمارا کمرہ؟“ حامد نے بیڈ پر افروز کے مقابل بیٹھتے ہوئے خوشدلی سے پوچھا تو افروز نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو!
”آپ کے گھر میں وبال آیا ہوا ہے، ابھی ابھی آپ اپنی اماں سے تھپڑ کھا کر آرہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کمرہ کیسا لگا؟ آپ ہوش میں تو ہیں!“ اس نے بےیقینی سے دھیان دلایا۔
”ہاں تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ مائیں تو اکثر اپنے بچوں کو ڈانٹتی مارتی ہیں، اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟“ وہ مسکراتے ہوئے اطمینان سے بولا۔ افروز نے اس سے زیادہ ڈھیٹ انسان آج تک نہیں دیکھا تھا جسے مہذب لفظوں میں ”ثابت قدم“ بھی کہتے ہیں۔
”پریشانی کی بات ہے حامد! اگر انہوں نے ہمارا رشتہ قبول نہیں کیا تو!“ وہ ہنوز فکرمند تھی۔
”تو ہمارا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہے کہ کسی کے قبول نہ کرنے سے ٹوٹ جائے!“ وہ مسکراتے ہوئے اسے لاجواب کرگیا تھا۔ افروز کو لگا کہ اس کے دل میں ڈھیروں اطمینان اتر گیا ہے۔
”تم فکر مت کرو، اماں جان ابھی کچھ دیر غصے میں رہیں گی مگر پھر جلد عماد بھائی اور نزہت بھابھی انہیں سمجھا لیں گے، وہ مان جائیں گی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔“ اس نے دونوں ہاتھوں سے افروز کا چہرہ پکڑ کر یقین دلایا۔
”سچی؟“
”مچی!“ اس نے کہتے ہوئے محبت سے اس کا ماتھا چوم لیا تو وہ مزید پرسکون ہوگئی کیونکہ اس کا سب سے قیمتی اثاثہ، اس کا واحد سہارا جو اس کے ساتھ تھا۔
مگر کیا واقعی سب ہنسی خوشی رہنے والے تھے؟
****************************************
”ابو! ایک بات پوچھوں!“ حسب معمول چاروں لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تب ہی ازلفہ گویا ہوئی۔
”بولو بیٹا!“ رضوان نے اجازت دی۔
”جب اولاد والدین کے سامنے اپنی کسی بھی خواہش کا اظہار کرتی ہے تب والدین کو کیسا لگتا ہے؟“ اس کا سادہ انداز کچھ کھوجنا چاہ رہا تھا رضوان کے چہرے پر، جو بالکل نارمل تھے۔
”یہ کیسا سوال ہے؟“ نعیمہ نے تعجب سے کہتے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا۔ جب کہ گود میں رکھی پلیٹ سے نمکو اٹھا کر کھاتی اذکی سمجھ گئی تھی کہ ازلفہ کیوں یہ تہمید بندہ رہی ہے۔
”بس ایسے ہی آگیا ذہن میں، جواب دیں نا!“ اس نے ٹال کر اصرار کیا۔
”بیٹا جیسے ہر تالے کی چابی الگ ہوتی ہے ویسے ہی ہر انسان کی سوچ الگ ہوتی ہے اور انسان کسی بھی بات پر اپنی سوچ کے مطابق رد عمل دیتا ہے، باقی والدین کا مجھے پتا نہیں لیکن مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب میری اولاد میرے سامنے اپنی کسی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی رائے دی۔
”چاہے خواہش کسی بھی نوعیت کی ہو؟“ اس نے بےساختہ پوچھا۔
”ہاں، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ میرے اور میری اولاد کے درمیان کسی ڈر یا جھجھک کی کوئی دیوار نہیں ہے، جن گھروں میں والدین اور اولاد کے بیچ ڈر کی کوئی دیوار نہیں ہوتی نا ان گھرانوں کی اولادیں دوستوں کی تلاش میں بھٹکتی نہیں ہیں، اور شاید میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا گھر بھی ان ہی میں سے ایک ہے، ہے نا!“ انہوں نے مزید کہتے ہوئے آخر میں اسے دیکھ کر تائید چاہی۔
”بالکل!“ اس نے محبت سے بوجھل ہوتے دل کے ساتھ مسکرا کر سرہلایا۔ اسے اپنے شفیق باپ سے ایسی ہی امید تھی۔
”باقی رہی بات خواہش کی نوعیت کی تو اول ہر والدین ہی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش پوری کرسکیں، لیکن اگر اولاد اپنی نادانی میں چمکتے کانچ کے ٹکڑے کو ہیرا سمجھ کر پکڑنے کی ضد کرے تو والدین وہ اسے پکڑا نہیں دیتے بلکہ اس سے دور رکھتے ہیں اسی لئے نہیں کہ وہ اپنی اولاد کی خوشی میں خوش نہیں ہیں بلکہ اسی لئے تا کہ وہ اسے نقصان سے بچا سکیں کیونکہ اولاد کو صرف یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے کیا اچھا لگ رہا ہے اور والدین جانتے ہیں کہ اس کیلئے کیا اچھا ہے اور کیا نہیں!“ انہوں نے مزید کہتے ہوئے دوسرے جواب کی وضاحت کی۔ جو در پردہ اس پر بہت کچھ واضح کر گیا تھا۔
”چلو اب آپ میرے ایک سوال کا جواب دو۔“ رضوان نے دوستانہ انداز میں کہا۔
”جی پوچھیں!“
”کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے والدین آپ کے لئے کبھی کوئی غلط فیصلہ کریں گے یا آپ کا برا چاہیں گے؟“ ان کا انداز سادہ تھا۔
”بالکل بھی نہیں، میں شاید ایک بار کو اپنا نقصان کر بیٹھوں مگر آپ لوگ کبھی میرے لئے کوئی غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔“ اس نے ایک پل بھی ضائع کیے بنا پورے دل سے جواب دیا۔ جس پر وہ ہلکا سا مسکرائے۔ جب کہ اذکی اور نعیمہ خاموشی سے چائے پیتے ہوئے بس ان دونوں باپ بیٹی کی گفتگو سن رہی تھیں۔
”کیوں نہیں کریں گے؟ بھئی ہم بھی انسان ہیں ہم سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں، اگر ہمارا کوئی فیصلہ تمہارے لئے غلط ثابت ہوگیا تو؟“ انہوں نے دلچسپی سے پوچھا۔
”تو اس وقت بھی صرف فیصلہ غلط ہوگا آپ لوگوں کی نیت نہیں، اور جب نیت اچھی ہوتی ہے نا تو فیصلوں کا نتیجہ بھی اچھا ہی آتا ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے ترکی بہ ترکی اطمینان سے جواب دیا تو انہیں اپنی بیٹی پر بےساختہ پیار آیا۔
”تو مطلب آپ کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے جو ہم نے طے کیا ہے؟“ انہوں نے جاننا چاہا۔
”جی میں امی کو بتا چکی ہوں۔“ اس نے نظریں جھکائیں۔
”ہاں لیکن میں آپ سے سننا چاہتا ہوں، آپ بتاؤ اور بلاجھجھک بتانا۔“ انہوں نے نرمی سے اصرار کیا۔ اذکی نے پر امید نظروں سے اپنی بہن کو دیکھا کہ شاید اب وہ اپنے دل کی اصل بات بتا دے گی۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ابو، میں آپ لوگوں کے فیصلے پر دل سے راضی ہوں۔“ اس نے جھکی نظروں کے ساتھ ہی اپنا فیصلہ سنایا جو ان دونوں کیلئے اطمینان جب کہ اذکی کیلئے تشویش کا باعث ثابت ہوا۔
بجائے کوئی جواب دینے کے رضوان سنگل صوفے پر سے اٹھ کر اس کے برابر میں آکر بیٹھے اور اسے سینے سے لگا لیا۔
”اللّه بھی میری بیٹی سے ہمیشہ راضی رہے اور اس کا نصیب اچھا کرے۔“ انہوں نے اس کا سر تھپکتے ہوئے دل سے دعا دی تو بےساختہ اس کا دل بھر آیا۔ آنکھیں نم ہونے لگیں تو اس نے بھی ان کے سینے میں چہرہ چھپا لیا۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے؟
****************************************
کمرے میں اس وقت پانچ لوگ موجود تھے مگر سناٹا ایسا تھا کہ گویا کہیں کوئی ذی روح موجود ہی نہ ہو۔
ایک ڈبل صوفے پر حامد اور افروز مدعی کی مانند بیٹھے تھے اور ان کے مقابلے والے صوفے پر عماد اور نزہت شاید ان کی وکالت کیلئے موجود تھے جب کہ درمیان والے سنگل صوفے پر نور جہاں ایک مغرور ملکہ کی مانند ایسے براجمان تھیں جیسے اپنے تخت پر بیٹھیں ابھی کسی کو سزائے موت سنانے والی ہوں۔ مگر در حقیقت یہاں کچھ دیر قبل ہی کافی ضد بحث ہوئی تھی جس کا کوئی حتمیٰ فیصلہ ابھی تک نہیں نکلا تھا۔
”میرے منع کرنے کے باوجود بھی بلآخر اب جب تم اپنے من کی کرچکے ہو تو میرا آخری فیصلہ بھی سن لو۔“ نورجہاں کی سپاٹ آواز نے خاموشی کو توڑا۔
”تم اس لڑکی کو خود اس گھر میں لائے ہو اپنی بیوی بنا کر اسی لئے مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا، کیونکہ یہ صرف تمہاری بیوی ہے، میری بہو نہیں۔“ انہوں نے فیصلہ سنانا شروع کیا تو افروز نے بےساختہ سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ تب ہی حامد نے صوفے پر رکھے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جیسے تسلی دے رہا ہو کہ گھبراؤ نہیں۔
”جب لوگ اس کے اور اس کے خاندان کے بارے میں مجھ سے دس طرح کے سوال کریں گے تو میں صاف جواب دے دوں گی کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، میری بہو صرف نزہت ہے، اس کے بارے میں جو پوچھنا ہے تم سے پوچھیں، شادی تم نے کی ہے تو جوابدہ بھی تم ہی ہوگے۔“ انہوں نے دوسرا نقطہ واضح کیا تو افروز کا دل پسیچنے لگا۔
”اور آخری بات، اسے سمجھا دینا کہ جس حد تک ممکن ہو میری نظروں سے دور رہے، اب تم لوگ جا سکتے ہو۔“ انہوں نے اپنا فیصلہ سنا کر بات ختم کی۔ عماد نے بھی حامد کو نظروں سے اشارہ کیا کہ اب جاؤ یہاں سے۔ جب کہ افروز تو اس ڈر سے پلکیں بھی نہ اٹھا سکی کہ کہیں آنکھوں میں جمع ہوئے آنسوں چھلک کر اس کی مزید توہین نہ کر جائیں!
****************************************
”آپی یہ کیا کِیا آپ نے؟ ابو سے بات کیوں نہیں کی؟“ اذکی پُرشکوہ انداز میں بیڈ پر ازلفہ کے مقابل بیٹھی جو رجسٹر کھولے اس پر کچھ کام کر رہی تھی۔
”کیونکہ بےبنیاد باتیں کرنے سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے اور دلوں میں خلش آتی ہے۔“ اس نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
”یہ کوئی بےبنیاد بات نہیں تھی، آپ کی زندگی، آپ کی خوشی کا سوال تھا جو آپ نے دل میں دبا کر چپ چاپ امی ابو کی مرضی کے آگے سرجھکا دیا۔“ وہ جرح کرنے لگی۔
”ہاں، کیونکہ جو بڑوں کے آگے سرجھکا لیتے ہیں انہیں دنیا کی ٹھوکروں پر سر نہیں ٹکانا پڑتا۔“ اس نے سر اٹھا کر جواب دیا۔
”واہ! پھر چاہے اس چکر میں آپ کی خواہش ہی کیوں نا قربان ہوجائے!“ اس نے طنز مارا۔
”اگر اس قربانی سے میرے والدین کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے، ان کا مان بڑھتا ہے تو ہاں، ان پر ایسی لاکھوں خواہشیں قربان!“ اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اٹل جواب دیا۔ اذکی بجائے کچھ کہنے کے محض اسے دیکھ کر رہ گئی۔
”اور سچ کہوں تو مجھے کوئی اتنی شدید خواہش تھی بھی نہیں، بلکہ جب سے میں نے امی ابو کا فیصلہ مانا ہے دل میں ایک عجیب اطمینان سا اتر گیا ہے جو پہلے نہیں تھا، جیسے کوئی اندر سے کہہ رہا ہو کہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے، ہاں کچھ دیر کیلئے دل فطرت سے مجبور ہوکر بہکا تھا مگر پھر سنبھل گیا، اور مجھے پتا ہے کہ جیکب کو بھی بس وقتی انسیت ہو رہی ہے اسی لئے وہ اتنی بڑی بات کہہ گیا، جلد اسے بھی احساس ہوجائے گا کہ جو وہ سمجھنے لگا تھا وہ غلط ہے۔“ اس نے اپنی کیفیت بتاتے ہوئے آخر میں پیشن گوئی کی۔
”اب تم پلیز مجھے سکون سے کام کرنے دو۔“ وہ موضوع بدلتے ہوئے دوبارہ رجسٹر کی جانب متوجہ ہوئی۔
”اور اگر ان سب کے بعد جیکب اسلام قبول کرنے سے پیچھے ہٹ گیا تو!“ اذکی کے سوال پر اس کا رجسٹر پر پین چلاتا ہاتھ رکا اور اس نے سر اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھا۔
****************************************
”تم نے ابھی تک اپنا سامان بیگ سے نکال کر سیٹ نہیں کیا!“ حامد نے صوفے کے پاس رکھے سوٹ کیس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تعجب سے پوچھا جو ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا۔
”نہیں!“ بیڈ پر بیٹھ کر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتی افروز نے ایک لفظی جواب دیا۔
”لیکن کیوں؟“ وہ پوچھتا ہوا اس کی جانب آیا۔
”کیونکہ پتا نہیں کب یہاں سے جانا پڑجائے!“ اس کے جواب سے حامد کے دل پر بےساختہ گھونسا پڑا۔ وہ بھی آکر اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
”اب ہم یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے، یہ ہمارا گھر ہے۔“ اس نے نرمی سے کہا۔
”ہمارا نہیں آپ کا، آپ کی اماں جان کا، آپ کے بہن بھائی اور بھابھی کا گھر ہے یہ، میرا کوئی حصہ یا حق نہیں ہے یہاں۔“ اس نے تلخی سے تصحیح کی۔
”اور مجھے بھول گئی تم جس کے ذہن و دل پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے۔“ اس نے محبت بھرا شکوہ کیا۔
”یہ ہی تو میں کہہ رہی ہوں حامد کہ آپ کے سوا یہاں کسی نے مجھے دل سے قبول نہیں کیا ہے تو پھر میں کیسے رہوں گی اس گھر میں؟ آپ نے دیکھا نا کہ تھوڑی دیر پہلے کس قدر نفرت سے اماں جان نے میرے لئے فیصلہ سنایا کہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ اس نے تڑپ کر یاد دلایا۔
”ان کے کہنے سے تعلق ختم ہوجائے گا کیا؟ نہیں! وہ لاکھ چاہیں مگر اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتیں کہ تم اس گھر کی بہو ہو، اور تمھیں یہ ثابت کرنا ہے، یوں مایوس ہوکر نہیں بلکہ خود کو منوا کر۔“ حامد نے اس کی ہمت باندھی۔
”تم گھر تک آکر آدھی جنگ جیت گئی ہو باقی کی آدھی جنگ تم تب جیتو گی جب اماں جان کے دل میں جگہ بنا لو گی، اور ایسا کرنے کیلئے صبر، برداشت اور معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا، میں پہلے بھی تمہارے ساتھ تھا، ہوں اور ہمیشہ رہوں گا، اور تمھیں بھی میرا ساتھ دینا ہے باقی کی آدھی جنگ جیتنے میں، ہمارے لئے، ہمارے بچے کیلئے۔“ اس نے مضبوط انداز میں کہتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما تو اسے بھی تھوڑا حوصلہ ہونے لگا۔
”میں نہ پہلے پیچھے ہٹی تھی اور نہ اب ہٹ رہی ہوں مگر اماں جان ک غصہ دیکھتے ہوئے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیسے ان کے دل میں جگہ بنا پاؤں گی؟“ افروز نے دھیرے سے اپنی الجھن بتائی۔
”جیسے ان کے بیٹے کے دل میں جگہ بنالی تھی نا ایسے ہی ان کے دل میں بھی بنا لو گی، ڈونٹ وری!“ اس نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے شوخی سے کہتے ہوئے اس کے گرد بازو حمائل کیا تو وہ بھی نظریں جھکا کر اس کے سینے سے لگ گئی گویا آنے والے وقت کیلئے خود کو تیار کر رہی ہو۔
****************************************
رات کی سیاہی بڑھ کر اب چھٹنے لگی تھی۔ سورج نمودار ہونے لگا تھا۔ اور اس نرم سی روشنی میں کئی نمازی اب مسجد سے نکل کر واپس جا رہے تھے جنہوں نے تھوڑی دیر قبل فجر کی نماز ادا کی تھی۔
جیکب بھی حسب معمول دکان جانے کیلئے اس راستے پر سے گزر رہا تھا کہ مسجد کے باہر ان ہی مولوی صاحب کو دیکھ کر رک گیا جو کچھ عرصہ پہلے رات کو اسے یہاں ملے تھے۔ اس وقت وہ کسی سے باتوں میں مصروف تھے۔
”السلام علیکم!“ اس نے قریب آکر مہذب انداز میں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام!“ انہوں نے خوشدلی سے جواب دیا۔
”اچھا اب میں چلتا ہوں ابوبکر صاحب، ان شاءاللّه ظہر میں ملاقات ہوگی۔“ اس آدمی نے بھی رخصت چاہی۔
”ضرور، الله حافظ!“ انہوں نے اس سے ہاتھ ملايا اور اس کے جانے کے بعد وہ جیکب کی جانب متوجہ ہوئے۔
”آپ نے پہچانا مجھے؟“ جیکب نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ تو کوئی جواب دینے کے بجائے وہ ذہن پر زور دینے لگے۔
”میں وہ ہی ہوں جو کچھ روز پہلے ہی آپ سے یہاں ملا تھا اور بتایا تھا کہ میں مسلم نہیں ہوں۔“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں ہاں یاد آگیا۔“ ان کے چہرے پر بھی شناسائی کی رمق ابھری۔
”کیسے ہو بیٹا؟ کیا مسجد آئے ہو!“ انہوں نے شفقت سے پوچھا۔
”ٹھیک ہوں اور اپنے کام پر جا رہا ہوں فی الحال۔“ اس نے بھی سادگی سے جواب دیا۔
”بس آپ سے ایک گزارش کرنے رک گیا۔“
”ہاں بولو بیٹا!“
”آج کا دن میرے لئے بہت اہم ہے اور اگر آج مجھے میری من چاہی مراد مل گئی نا تو میں جلد آپ کا مذہب قبول کرکے آپ کے ساتھ اسی مسجد میں آپ کے اللّه کی عبادت کرنے آؤں گا۔“ اس نے امید سے چمکتی آنکھوں کے سنگ مسکراتے ہوئے کہا تو بجائے کچھ کہنے کہ وہ بےساختہ یوں ہنسے جیسے کوئی بڑا کسی بچے کی نادانی پر ہنستا ہے۔
”آپ پلیز اپنے اللّه سے دعا کیجئے گا کہ میری مراد پوری کرے۔“ اس نے عاجزی سے گزارش کی تو انہوں نے اثبات میں سرہلایا۔
”شکریہ، اب میں چلتا ہوں، خدا حافظ!“ وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
”یااللّه! اس کے حق میں جو اچھا ہو اس کیلئے وہ کرنا۔“ انہوں نے اسے دور جاتا دیکھ زیر لب دعا کی۔ انہوں نے وہ دعا نہیں کی تھی جو وہ کہہ کر گیا تھا بلکہ انہوں نے اس کا فیصلہ اس رب پر چھوڑ دیا تھا جو ہمارا اچھا ہم سے زیادہ اچھے سے جاننا والا ہے۔
****************************************
بریک ٹائم پر چائے پینے کے بعد اب ازلفہ دوبارہ اپنی ٹیبل کے گرد بیٹھی بچوں کی کاپیز چیک کر رہی تھی جب کہ بچے بریک ٹائم ہونے کی وجہ سے باہر کھیلنے اور کھانے پینے میں مصروف تھے۔
”مس!“ پکار پر اس نے سر اٹھایا تو آیان نزدیک کھڑا ملا۔
”جی؟“
”مس یہ چاچو نے دیا تھا آپ کیلئے۔“ اس نے ایک خاکی رنگ کا لفافہ اس کی جانب بڑھایا تو وہ تھوڑی کھٹکی۔
”ٹھیک ہے، آپ جاؤ۔“ اس نے لفافہ لے کر کہا تو وہ دوبارہ کلاس سے باہر چلا گیا۔
تشویش کے ہاتھوں مجبور ازلفہ نے لفافہ اوپر سے چاک کیا جسے گلو لگا کر بند کیا گیا تھا جس کے بعد اندر سے ایک سفید کاغذ برآمد ہوا۔
”آج شام پانچ بجے سیکٹر ایلاون والے پارک میں تمہارا انتظار کروں گا میں۔“
کاغذ پر سیاہ قلم سے لکھا یہ ایک جملہ پڑھ کر وہ حیران رہ گئی۔
****************************************
افروز کو ڈھیروں تسلیاں اور ہمت دینے کے بعد حامد اب عماد کے ہمراہ آفس جا چکا تھا اور افروز نے بھی ناشتے کے بعد سے کمرے میں بند رہنے میں ہی عافیت جانی۔
فی الحال کوئی بھی کوشش کرنے سے قبل وہ کچھ دن یہاں ایڈجسٹ ہونا چاہتی تھی اسی لئے حامد نے بھی اس پر کوئی زور زبردستی نہیں کی اور اپنی طرف سے اسے پوری سہولت دی کہ وہ جیسے چاہے رہے۔
کوئی کام نہ ہونے کے باعث افروز نے سوچا کہ سوٹ کیس سے سامان نکال کر الماری میں رکھ لے مگر اس حالت میں یہ بھاری سوٹ کیس کھینچ کر کھولنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
”ٹک ٹک ٹک!“ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
”آجائیں!“ اس نے متعجب ہوکر اجازت دی تو رابعہ دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر آئی۔
”آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا بھابھی؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ یہ پہلی لڑکی تھی اس گھر میں جس نے اسے ”بھابھی“ کہہ کر قبول کیا تھا جو کہ افروز کو بہت اچھا لگا۔
”ارے بالکل بھی نہیں، آؤ آؤ!“ اس نے خوشدلی سے جواب دیا تو رابعہ کی بھی ہمت بندھی۔
”شکریہ!“ وہ کہتی ہوئی اس کے پاس آگئی۔
”کیا کر رہی تھیں آپ؟“ اس نے یوں ہی پوچھا۔
”ویسے تو الماری سیٹ کرنی تھی مجھے مگر کر نہیں سکی کیونکہ یہ سوٹ کیس بہت بھاری ہے جسے میں کھینچ کر کھول نہیں سکتی۔“ اس نے بھی سادگی سے جواب دیا۔
”بس! اتنی سی بات! میں ابھی یہ کام کر دیتی ہوں۔“ وہ سہولت سے کہتی سوٹ کیس کے پاس آئی۔
”ارے نہیں یہ بہت بھاری ہے تم نہیں اٹھا پاؤ گی۔“ افروز نے جلدی سے ٹوکا جسے ان سنا کرتے ہوئے اس نے سوٹ کیس کھینچ کر اٹھایا اور اسے بیڈ پر رکھ دیا۔
”یہ لیں ہوگیا آپ کا کام آسان۔“ اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے فخر سے بتایا۔
”پاگل لڑکی! کیا ضرورت تھی اتنا بھاری سوٹ کیس اٹھانے کی!“ وہ فکرمندی سے بولی۔
”ارے کوئی بات نہیں، اور ویسے بھی بھیا مجھے کہتے ہوئے گئے تھے کہ آپ کا خیال رکھوں اور آپ کو کوئی کام ہو تو آپ کی مدد کردوں۔“ اس نے سہولت سے ٹالا۔
”اچھا! تو مطلب صرف بھیا کے کہنے پر تم میرے پاس آئی ہو ورنہ نہیں آتی۔“ افروز نے مصنوعی خفگی دکھاتے ہوئے سوٹ کیس کھولا۔
”نہیں، میرا تو کل سے دل چاہ رہا تھا آپ سے ملنے کا مگر موقع ہی نہیں ملا اسی لئے میں نے آج کالج سے چھٹی کرلی۔“ وہ بتاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”کون سی کلاس میں ہو تم؟“ افروز سوٹ ایک ایک کرکے الماری میں سیٹ کرنے لگی۔
”ایف ایس سی پارٹ ٹو میں ہوں۔“ اس نے سوٹ کیس سے سوٹ نکال کر افروز کو پکڑایا۔
”ماشاءالله! اچھی بات ہے۔“
”اور آپ نے کتنا پڑھا ہے؟“
”میں بس میٹرک تک ہی پڑھ سکی، اس کے بعد امی کا انتقال ہوگیا اور پھر آگے پڑھنے کا دل نہیں کیا۔“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”اوہ!“
”ویسے تم مزید پڑھو گی رابعہ یا بس ایف ایس سی تک کا ارادہ ہے؟“ اب افروز نے سوال کیا۔
”آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہے!“ وہ حیران ہوئی۔
”تمہارے بھیا نے بتایا ہے، بلکہ صرف تم ہی نہیں گھر کے ہر فرد کے بارے میں سب کچھ بتایا ہے انہوں نے مجھے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا! کیا بتایا ہے مجھے بھی بتائیں!“ اسے جاننے کا اشتیاق ہوا۔
”تمہارے گھر کی سربراہ اماں جان ہیں، تم لوگ تین بہن بھائی ہو، سب سے بڑے عماد بھائی، ان سے چھوٹے حامد، پھر تم، عماد بھائی کی بیوی نزہت بھابھی ہیں جو عماد بھائی کی خالہ زاد ہیں اور ان کا ایک پانچ سالہ بیٹا ہے علی، عماد بھائی اور حامد کاروبار سنبھالتے ہیں جب کہ تم ابھی پڑھ رہی ہو۔“ اس نے کپڑے رکھتے ہوئے ساری تفصیل بتائی۔
”واہ! آپ کو تو سب پتا ہے ہمارے بارے میں۔“ وہ کافی متاثر ہوئی۔
”صرف اتنا ہی نہیں مجھے تو یہ بھی پتا ہے کہ تمہاری بات بچپن سے تمہارے چاچا زاد عدیل سے طے ہے، صحیح کہا نا!“ اس نے مزید کہتے ہوئے تائید چاہی تو وہ بےساختہ شرم سے گلنار ہوگئی۔
”توبہ ہے! بھیا بھی حد کرتے ہیں۔“ اس نے جھینپ مٹانے کو نظریں جھکا کے کہا تو افروز کو یہ شرمائی ہوئی چھوٹی سی لڑکی بہت پیاری لگی جس کے باعث افروز نے مسکراتے ہوئے اس کا گال کھینچا۔
****************************************
دوپہر ڈھل کر شام سے آ ملی تھی جس کے باعث موسم اب بہت سہانا ہوگیا تھا۔ نیلے آسمان پر ٹھنڈی ہوا کے دوش پر پرندے خوب اٹھکلیاں کھا رہے تھے۔ جب کہ اس چھوٹے سے پارک میں پھیلی ہوئی سبز گھانس بھی آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی جہاں جیکب دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے ایک بینچ کے نزدیک ٹہلتا اس کا منتظر تھا۔
یہ اس سیکٹر کا سب سے زیادہ سنسان رہنے والا پارک تھا کیونکہ یہاں تفریح کا کوئی سامان جیسے جھولے وغیرہ موجود نہیں تھے۔ لوگ بس اکثر یہاں چہل قدمی یا جاگنگ کیلئے آجایا کرتے تھے۔ ابھی بھی یہاں بس چند اکا دکا لوگ دور دور چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آرہے تھے اسی لئے یہ جگہ اسے بالکل مناسب لگی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد اس کا انتظار ختم ہوا اور وہ اسے اپنی جانب آتی ہوئی نظر آئی۔
حسب معمول وہ سیاہ عبائے پر سیاہ اسکارف باندھے، دائیں کندھے پر کتھئی پرس لئے متوازن انداز میں اس کی جانب آرہی تھی۔
”مجھے پتا تھا تم ضرور آؤ گی۔“ اس کے مقابل آکر رکنے پر وہ فخریہ انداز میں گویا ہوا۔
”کیوں بلایا ہے مجھے یہاں؟“ اس کے برعکس ازلفہ کا انداز سنجیدہ تھا۔
”بیٹھ کر بات کریں!“ اس نے لکڑی کی بینچ کی جانب اشارہ کیا تو کچھ سوچتے ہوئے وہ چپ چاپ ایک کنارے پر بیٹھ گئی اور دوسرے کنارے پر وہ آ بیٹھا۔
”تو کیا سوچا ہے پھر تم نے؟“ جیکب نے بات شروع کی۔
”کس بارے میں؟“
”مجھ سے شادی کے بارے میں۔“
”میں تمھیں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ میرا رشتہ طے ہوچکا ہے، میں تم سے شادی نہیں کرسکتی۔“
”محبت بھی نہیں کرتی مجھ سے؟“ اس نے گہری نظروں سے دیکھا۔
”نہیں!“ صاف جواب آیا۔
”اچھا! تو پھر وہ سب کیا تھا کہ پہلے معافی کیلئے میری منتیں کرنا اور پھر مجھے دین اسلام پر لیکچر دینا!“ اس نے تحمل سے یاد دلایا۔
”تم سے معافی مانگنا میری ضرورت تھی کیونکہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی اور بطور مسلمان تمھیں دین کے بارے میں بتانا میرا فرض تھا، معافی تم نے مجھے دی نہیں اور اپنا فرض میں نے پورا کردیا بس بات ختم، اب تم خواہ مخواہ بات کو غلط رنگ دے کر بڑھاؤ مت۔“ اس نے بھی اپنی آواز دھیمی رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
”میں غلط رنگ دے رہا ہوں بات کو؟ میں؟“ اس نے حیرت سے اپنی طرف اشارہ کیا تو وہ کچھ نہیں بولی۔
”تم شاید بھول رہی ہو کہ میں نہیں آیا تھا تمہارے پاس، تم آئی تھی میرے پیچھے۔“ اس نے یاد دلانا چاہا۔
”ہاں آئی تھی، مگر محبت کا دعویٰ لے کر نہیں بلکہ اپنی غلطی کی معافی مانگنے کیونکہ جب تک انسان معاف نہ کرے تب تک اللّه بھی معاف نہیں کرتا لیکن اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم اس بات کو غلط رنگ دے دو گے تو میں کبھی بھی اپنی غلطی کی معافی مانگ کر وہ دوسری غلطی نہیں کرتی جس سے تم غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔“ اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اور تم جو مجھ سے محبت کا دعویٰ کر رہے ہو، ذرا بتاؤ گے کہ تمھیں یہ محبت ہوئی کب؟ صرف ڈیڑھ مہینہ یعنی پینتالیس دن ہوئے ہیں ہماری واقفیت کو، اور ان دنوں میں ایک سیدھی سڑک پر دس منٹ ساتھ چلتے ہوئے بہت مختصر بات چیت ہوئی ہے ہماری جس میں کہیں ایک بار بھی میں نے تم سے کچھ ایسا نہیں کہا جسے محبت کی علامت سمجھا جائے، تو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمھیں مجھ سے محبت ہے؟“ اس نے مزید کہتے ہوئے گزرے ہوئے حالت کا بہت تفصیلی جائزہ لیا۔
”محبت ایک لمحے میں ہوسکتی ہے۔“ اس نے قائل کرنا چاہا۔
”نہیں، محبت کوئی سمندر میں اٹھنے والی لہر نہیں ہے کہ ایک لمحے میں اٹھے اور اچانک ختم، بلکہ محبت تو پھل و پھولوں سے بھرا ایک خوبصورت درخت ہے جس کی ننھی سی کونپل پہلے دل کی زمین پر پھوٹتی ہے اور پھر احساس کے پانی میں یہ پودا آہستہ آہستہ پروان چڑھ کر درخت بنتا ہے۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے اپنا فلسفہ پیش کیا تو وہ چند لمحے کچھ نہ بولا۔
”چلو ٹھیک ہے، مان لیتا ہوں کہ میرے دل میں ابھی وہ درخت نہیں لگا جسے محبت کہتے ہیں مگر اس درخت کی کونپل تو پھوٹ سکتی ہے اس مختصر عرصے میں!“ اس کی بات رکھتے ہوئے اس نے اسی میں سے نیا پہلو نکالا تو وہ پل بھر کو لاجواب ہوگئی۔
اس کی بات میں وزن تھا مگر اس کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے وہ اپنی بات کو ہلکا نہیں کرسکتی تھی ورنہ اسے سمجھانا مزید دشوار ہوجاتا۔
”ٹھیک ہے، مان لیتی ہوں لیکن ذرا تم پوری ایمانداری سے بتاؤ کہ اگر کسی ایسی جگہ پر کوئی ایسا درخت اگنے لگے جہاں اسے نہیں اگنا چاہیے تو کیا اسے بڑھ کر تناور درخت بننے دینا چاہئے یا وقت رہتے ہی اس کی کونپل کو کھرچ کر پھینک دینا عقل مندی ہے کہ کل کو وہ درخت مصیبت نہ بنے! کیونکہ کونپل کو کھرچ کر پھینک دینا جڑ پکڑ چکے تناور درخت کو کاٹنے سے زیادہ آسان اور عقل مندی کا ثبوت ہے۔“ اس نے رسان سے یہ ہی بات دوسرے انداز میں سمجھائی۔
جیکب کے تاثر بتا رہے تھے کہ لاجواب ہونے کے باوجود بھی وہ اس کی بات سے متفق نہیں تھا۔ اور شاید ہونا بھی نہیں چاہتا تھا۔
”جب اس معصوم کونپل کو کھرچ کر پھینکنا ہی تھا تو اپنی باتوں سے میرے دل کی زمین پر اسے کھلایا کیوں تم نے؟“ اس نے دکھ سے پوچھا۔
”میں نے کچھ نہیں کیا ہے جیکب! جو ہوا ہے تمہاری غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے، تم خود بتاؤ کہ پچھلے پورے عرصے میں ایک بار، صرف ایک بار بھی کبھی میں نے تم سے ایسا کچھ کہا جس سے لگے کہ مجھے محبت ہے؟“ اس نے نفی کرتے ہوئے پھر وہ ہی سوال اٹھایا جس کا جواب مل کے بھی نہیں ملا تھا۔
”چلو ٹھیک ہے مان لیتا ہوں کہ تمھیں مجھ سے محبت نہیں ہے، مگر کیا تم میری محبت کو بھی قبول نہیں کرسکتی؟“ اب اس نے ایک امید کے تحت بات بدلی تو ازلفہ کو پھر اپنا آپ پھنستا ہوا محسوس ہوا۔
”سوری ٹو سے، مگر میں ایسا نہیں کرسکتے۔“ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
”کیوں؟ میرے کرسچن ہونے کی وجہ سے؟ یا میری غریبی کے ڈر سے؟“ اس نے کھوجتی ہوئی نظروں سے سوال کیا۔
”بات کرسچینٹی یا امیری غریبی کی نہیں ہے جیکب، تم اسلام قبول کرکے مسلمان ہوسکتے ہو اور پیسے کما کر امیر بھی ہوسکتے ہو۔“ اس نے تحمل سے نفی کی۔
”تو پھر کیوں قبول نہیں کر رہی ہو تم میری محبت؟“ اس نے جاننا چاہا۔
”کیونکہ اس محبت پر میرے والدین کی محبت حاوی ہے جنہیں مجھ پر بہت مان ہے۔“ اس نے نظریں جھکا کر آہستہ سے جواب دیا تو فوری طور پر وہ کچھ نہ بولا۔
”جانتے ہو جیکب جب تم مجھ سے اظہارِ محبت کرکے گئے تھے نا تب ایک پل کو میرے دل میں آیا کہ امی ابو سے بات کرکے دیکھتی ہوں مگر میں ایسا کر نہیں سکی، پتا ہے کیوں؟ کیونکہ جب میں نے دل کے ایک پلڑے پر تمہاری اور دوسرے پر اپنے والدین کی محبت رکھ کر دیکھی تو تمہارا پلڑا ہوا میں رہ گیا اور ان کا پلڑا محبت کے وزن سے زمین پر جا لگا، اب تم ہی بتاؤ کہ اس نئی نویلی محبت کیلئے میں وہ برسوں پرانی محبت کیسے قربان کروں جو تناور درخت بن کر میرے رگ و پے تک جڑے پھیلا چکی ہے!“ اس نے مزید بتاتے ہوئے آخر میں جیسے تھک کر سوال کیا تو وہ بےساختہ اسے دیکھے گیا۔
”اگر تمہارے والدین تم سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ تمہاری یہ خواہش بھی مان لیں! تم ان سے بات کرکے تو دیکھو!“ اس نے ایک امید کے تحت پھر اصرار کیا۔
”ہاں، شاید مان جائیں، مگر اس سے پہلے ان کا وہ مان ٹوٹ جائے گا جو انہیں مجھ پر ہے، جس مان سے انہوں نے میرے لئے اپنے تئیں ایک بہترین شخص منتخب کیا ہے، میں اس مان کو توڑ کر، انہیں شرمندہ کرکے اپنی خواہش پوری کرنا نہیں چاہتی۔“ اس نے تائید کرتے ہوئے اپنا جواب بھی دے دیا تھا۔ جو اس کے دل پر گھونسے کی مانند پڑا۔
”اگر ابھی تم میری زندگی میں نہیں آئے ہوتے تو صورت حال تب بھی یہ ہی ہوتی، مجھے اسی شخص سے شادی کرنی ہوتی جسے میرے والدین میرے لئے منتخب کرتے، تب میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہوتا ان کی مرضی کے آگے سر جھکانے کے سوا لیکن ابھی تمہاری وجہ سے میرے پاس انکار کا آپشن ہے جسے میں ہرگز استعمال نہیں کروں گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ آپشن درحقیقت میری فرمابرداری کا امتحان ہو! اور اسے استعمال کرکے شاید میں اتنی خوش نہ رہ پاؤں جتنی اس کے بنا رہ سکتی ہوں۔“ اس نے مزید اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ خاموش رہا۔
”جب تم نے کہا تھا نا کہ تم اسلام قبول کرنا چاہتے ہو تم مجھے سچ میں بےحد خوشی ہوئی تھی اور میں اب بھی چاہتی ہوں کہ تم اسلام قبول کرو، اسے پڑھو، سمجھو، اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ تمہارے آگے ابھی تمہاری پوری زندگی ہے اسے سنوارو، کسی قابل بنو اور ایک اچھی سی لڑکی سے شادی کرکے اپنی زندگی میں خوش رہو، مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں ایسا وقت ضرور آئے گا جب تم ماضی کو یاد کرکے کہو گے کہ اچھا ہی ہوا اس روز میں نے تمھیں انکار کردیا تھا۔“ ازلفہ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے مثبت رخ دکھائے۔ جس کے بعد وہ خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر گویا ہوا۔
”جانتی ہو میں نے زندگی میں تین بار اس ہستی کو پورے دل سے پکارا ہے جسے خدا کہتے ہیں، سب سے پہلے تب جب میری ماں میری آنکھوں کے سامنے دن بہ دن موت کے منہ میں جا رہی تھی، میں روز چرچ جا کر کینڈل جلاتا تھا اور جیزز کے آگے رو رو کر پرے کرتا تھا کہ میری ماں کو بچا لے، دوسری بار تب جب میرے محسن عبدالله صاحب بیمار ہوکر موت کے دہانے پر جا کھڑے ہوئے، میں نے پھر جیزز سے گڑگڑا کر فریاد کی کہ میرے آخری سہارے کو بچا لے، اور تیسری بار آج صبح تمہارے اللّه کو پکارا کہ مجھے میری من چاہی مراد دے دے، یہ سوچ کر کہ شاید پچھلی دو مرتبہ میں غلط جگہ مانگ رہا تھا، مگر میں تینوں مرتبہ رد کردیا گیا۔“ کہتے ساتھ ہی ایک آنسوں اس کی بائیں آنکھ سے ٹوٹ کر گال پر پھسلا۔ اس کے ٹوٹے ہوئے انداز میں صدیوں کی تھکن اور گہرا درد تھا جسے سن کر وہ بھی ہل گئی۔
”اور اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ایسا کوئی نہیں ہے جو دعا سن کر پوری کرتا ہو۔“ اس نے کہتے ہوئے بےدردی سے اپنا آنسوں رگڑ کر صاف کیا۔
”ایسا نہیں ہے جیک۔۔۔۔۔۔“
”بس! بہت ہوگیا۔“ وہ جلدی سے نفی کرکے اسے سمجھانے ہی لگی تھی کہ وہ ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بھی حیران پریشان سی اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔
”اب مجھے تمہاری ایسی اور کوئی ہمدردی نہیں چاہیے جسے میں پھر محبت سمجھنے لگوں۔“ وہ سختی سے گویا ہوا۔
”محبت اور مذہب پر جو میرا تھوڑا بہت یقین تھا نا آج سے وہ بھی ہمیشہ کیلئے پوری طرح ختم!“ اس نے درشتی سے اپنا فیصلہ سنایا تو وہ دہل گئی۔
”جیکب میری با۔۔۔۔۔۔۔“
”اب سے تم اپنے راستے اور میں اپنے راستے۔“ اس نے پھر بات کاٹ کر دوڈوک انداز میں قصہ ختم کیا اور تیز تیز قدم اٹھتا اس کے برابر سے گزر کر چلا گیا جسے وہ بےبسی سے وہیں کھڑی دور جاتا دیکھتی رہی۔
وہ واقعی آج یہاں یہ بات ختم کرنے آئی تھی مگر یہ قصہ یوں ختم ہوگا یہ اس کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا۔
تیرا حکم ہے تو تعمیل کیے دیتے ہیں
زندگی ہجر میں تحلیل کیے دیتے ہیں
ہم جو ہنستے ہوئے اچھے نہیں لگتے تجھ کو
حکم کر۔۔۔۔۔۔آنکھ ابھی جھیل کیے دیتے ہیں
آج سب آشکوں کو آنکھ کے کنارے پر بلاؤ
آج اس ہجر کی تکمیل كیے دیتے ہیں
تو میری وصل کی خواہش پر بگڑتا کیوں ہے؟
راستہ ہی تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تبدیل کیے دیتے ہوئے
انتخاب
****************************************
”اچھا اب یہ بتاؤ تمھیں گھر میں سب سے اچھا کون لگا، میرے علاوہ!“ حامد نے کسی بات کے جواب میں دلچسپی سے پوچھا۔ دونوں اس وقت ڈنر کرنے باہر آئے ہوئے تھے بلکہ حامد جان بوجھ کر اسے باہر لایا تھا تا کہ اس کا ذہن تھوڑا ترو تازہ ہوسکے۔
”سب ہی بہت اچھے ہیں مگر سب سے اچھی رابعہ لگی، بہت کیوٹ ہے وہ، مجھے ایسی ہی ایک چھوٹی بہن کی بڑی خواہش رہی تھی!“ افروز نے کھانا کھاتے ہوئے خوشی سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”اور اماں جان کیسی لگیں؟“ اس نے جانتے بوجھتے معنی خیزی سے پوچھا۔
”ان کا تو مقام ہی الگ ہے، ہاں وہ مجھ سے ناراض ہیں اور مجھے پسند نہیں کرتی ہیں لیکن ان سب سے پہلے وہ مجھ سے بےحد محبت کرنے والے میرے شوہر کی ماں ہیں، اسی لئے وہ میرے لئے ہمیشہ معتبر رہیں گی، چاہے وہ مجھے پسند کریں یا نہیں۔“ اس نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ بہت ہی دلکش سا مخلص جواب دیا جس کے باعث حامد کو بےساختہ اپنے انتخاب پر رشک ہوا۔
”ہائے! تم روز ہی ایسی باتیں کیا کرو نا!“ اس نے بچوں کی مانند سر ٹیڑھا کرکے اسے محبت سے دیکھتے ہوئے فرمائش کی تو وہ بےساختہ جھینپ کر مسکرادی۔
****************************************
رات آہستہ آہستہ کافی گہری ہوگئی تھی۔ سب لوگ اس وقت اپنے اپنے بستروں میں موجود گہری نیند کی آغوش میں تھے۔ مگر ان سب کے برعکس ازلفہ کمرے میں جلتے نائٹ بلب کی روشنی میں قبلہ رو جائے نماز بچھائے بیٹھی دونوں ہاتھوں میں سر دیے روئے جا رہی تھی۔ اور اس رونے کی اصل وجہ کیا تھی؟ اس کا نادانستہ طور پر ایک اجنبی سے بات بڑھانا، اس کیلئے دل میں جذبات محسوس کرنا، ضمیر کے جھنجھوڑنے پر ہوش میں آنا، والدین کی مرضی سے خوش نہ ہونا، دل پر پتھر رکھ کر جیکب کو انکار کرنا؟ جیکب کا منت کرنا؟ اس کے انکار کے باعث جیکب کا محبت اور مذہب پر سے اعتبار اٹھنا، کیا تھی اصل وجہ؟ یہ خود اسے بھی نہیں معلوم تھا۔
اس کے پاس الفاظ نہیں تھے اپنی حالت بیان کرنے کیلئے اسی لئے اس نے آنسوؤں کی زبان کا سہارا لے رکھا تھا جو وہ رب بہت اچھے سے سمجھتا تھا۔ وہ بس بوجھل دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی اسی لئے سب سے چھپ کر رات کے اندھیرے میں اس کے آگے رو رہی تھی جو دکھی دلوں کا تماشا نہیں بناتا بلکہ انہیں سکون دیتا ہے۔ وہ بھی سکون چاہتی تھی اپنے اندر چلتی اس جنگ سے۔
وه جیکب کیلئے برا نہیں چاہتی تھی مگر اس کے ساتھ اچھائی کرنے کے چکر میں وہ اپنے والدین سے بغاوت بھی نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے اسے خوشی تھی کہ اس کی وجہ سے کوئی اسلام کی جانب آرہا ہے اور اب فکر لاحق ہوگئی تھی کہ اسی کی وجہ سے کوئی مذہب و محبت سے بدظن ہوگیا تھا۔ پتا نہیں کیوں قدرت نے اسے اس دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا؟
جب کافی دیر رونے کے بعد وہ تھک گئی تو ایک گہری سانس لے کر اس نے دوپٹے سے اپنے آنسوں پونچھے اور کھڑی ہوکر جائے نماز تہہ کرنے لگی۔
جائے نماز اپنی جگہ پر رکھ کر اس نے دوپٹہ اتارا اور خود بھی اپنے بستر پر آکے لیٹ گئی جہاں پہلے سے اذکی سو رہی تھی۔
اس نے اذکی کی جانب پیٹھ کرکے دوسری طرف کروٹ لے لی۔
”رو رہی تھی نا!“ تب ہی اذکی نے اس کے اوپر بازو رکھتے ہوئے تائید چاہی۔ مطلب وہ جاگ رہی تھی اور اس کی حالت سے باخبر بھی تھی۔
”تم سوئی نہیں ابھی تک!“ رونے کے باعث بوجھل ہوئی آواز میں کہتے ہوئے ازلفہ نے اس کی طرف کروٹ لی تو نائٹ بلب کی روشنی میں اذکی نے دیکھا کہ اس کی ناک اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
”نہ پوری طرح خوش ہو نہ مکمل طور پر اداس ہو، نہ کھل کر ہنستی ہو نہ جی بھر کر روتی ہو، آخر چاہتی کیا ہو آپ؟“ اذکی نے اسے اس کی حالت کا احساس دلاتے ہوئے سوال کیا۔
”میں بس وہ چاہتی ہوں جو میرے حق میں اچھا ہے، پھر چاہے وہ مجھے اچھا لگتا ہو یا نہیں۔“ اس نے بنا الجھے مضبوط انداز میں جواب دیا تو اذکی اسے دیکھ کر رہ گئی۔
زندگی ہاتھ مل رہی ہے کیا
اپنا چہرہ بدل رہی ہے کیا
ہجر کے سب عذاب جاگ اٹھے
شبِ مہتاب ڈھل رہی ہے کیا
نور احساس کے طلاطم میں
کوئی حسرت نکل رہی ہے کیا
انتخاب
****************************************
وہ دل نواز ہے مگر نظر شناس نہیں ہے
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں ہے
تڑپ رہے ہیں زبان پر کئی سوال مگر
میرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں ہے
تیرے جلوے میں بھی کانپ کانپ اٹھتا ہے
میرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں ہے
کبھی کبھی جو تیرے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں ہے
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں ہے
مجھے یہ ڈر ہے کہ تیری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت میری اداس نہیں ہے
انتخاب
پتا نہیں زندگی کی یہ بات اچھی ہے یا بری کہ حالات چاہے کیسے بھی گزر جائیں یہ اپنی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔ شاید یہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ دیکھو کچھ بھی ہوجائے ایک جگہ ٹھہرنا نہیں کیونکہ ٹھہرا ہوا پانی دلدل بن جاتا ہے جب کہ بہتا ہوا دریا بلآخر ایک روز سمندر سے جا ملتا ہے۔ تمھیں بھی اگر اپنی چاہت کے سمندر سے ملنا ہے تو دریا کی طرح دھیرے دھیرے بہتے رہو۔
بظاہر ہنستے مسکراتے ہوئے ازلفہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنے لگی تھی۔ حسب منصوبہ کچھ ہی دنوں میں عاطف اور اس کے گھر والے آکر ازلفہ کو اس کے نام سے منسوب کر گئے تھے۔ عاطف اپنی جگہ ایک اچھا لڑکا تھا جو اس کے گھر والوں سے عزت سے ملا۔ ازلفہ بھی ان لوگوں کے ساتھ بہت خلوص سے پیش آئی۔ جب کہ رضوان اور نعیمہ تو عاطف اور اس کے گھر والوں پر نہال ہوئے جا رہے تھے۔ اور انہیں خوش دیکھ کر ازلفہ بھی خوش تھی۔
دوسری جانب افروز کی ”شیرازی ہاؤس“ میں رابعہ سے اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ عماد کا بھی جب اس سے سامنے ہوتا تھا تو اچھے سے پیش آتا تھا۔ نزہت بھی ضرور کے تحت بات کرلیا کرتی تھی مگر نور جہاں کے رویے میں ابھی تک اس کیلئے کوئی خاص لچک نہیں آئی تھی۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ وه مایوس نہیں تھی کیونکہ سب سے بڑی امید، اس کا مضبوط سہارا، اس کا محبت کرنے والا شوہر جو ہمہ وقت اس کی دلجوئی کرتا رہتا تھا۔ اور پھر کچھ ماں بننے کی خوشی نے فی الحال اس کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کر رکھی تھی۔
غرض متوازن رفتار کے ساتھ سب کی زندگیوں کی گاڑیاں اپنی ڈگر پر تب تک رواں دواں تھی جب تک اس راستے میں کوئی نیا موڑ نہیں آنے والا تھا۔
****************************************
ازلفہ اسکول میں موجود حسب معمول سب بچوں کی کاپیز چیک کر رہی تھی۔ تب ہی اسے دھیان آیا کہ چند روز سے آیان بھی اسکول نہیں آرہا ہے۔ پارک والی ملاقات کے بعد جیکب سے رابطہ ختم ہوئے لگ بھگ ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا۔ اس دوران نہ جیکب آیان کو اسکول سے لینے آیا، نہ اس نے کوئی نوٹ لکھا اور نہ ہی ازلفہ نے آیان سے اس کے بارے میں کچھ بھی پوچھنے کی غلطی کی۔
تھوڑی دیر بعد بریک ٹائم ہوگیا۔ سب بچے کھیلنے کود اور کھانے پینے کیلئے گراؤنڈ میں جمع ہوگئے جب کہ ازلفہ بھی کچھ کام کی بات کرنے کے غرض سے پرنسپل کے آفس آگئی۔
آفس میں داخل ہوتے ہی وہ حیرت سے چونک گئی کیونکہ وہاں پہلے سے ہی شہلا اور آیان موجود تھے۔ آیان یونیفارم کے بجائے سویل ڈریس میں تھا۔
”اچھا ہوا مس ازلفہ آپ خود ہی یہاں آگئیں۔“ اس پر نظر پڑتے ہی پرنسپل میڈم بولیں تو آیان نے بھی گردن موڑ کر اسے دیکھا جو ٹیبل کے قریب آچکی تھی۔
”دراصل آیان اور ان کی مما کچھ دنوں تک دبئی روانہ ہو رہے ہیں، اب یہ لوگ وہیں رہیں گے اسی لئے یہ آیان کے حوالے سے کچھ فارمیلیٹیز پوری کرنے آئی ہیں۔“ اس کے سوالیہ تاثر بھانپتے ہوئے میڈم نے خود ہی بتایا تو وہ دنگ رہ گئی۔
”کیا دبئی؟ ایسے اچانک؟ اور آیان کی پڑھائی؟ ابھی نیکسٹ منتھ سے پیپر ہونے والے ہیں۔“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”اچانک نہیں ہوا ہے یہ فیصلہ کچھ دنوں سے بات چل رہی تھی میری میڈم سے، آج بس فائنل فارملیٹیز پوری کرنے آئی ہوں۔“ شہلا نے جواب دیا۔
”لیکن کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ لوگ دبئی کیوں شفٹ ہو رہے ہیں؟“ اس نے سنبھل کر سوال کیا۔
”میرے ہسبنڈ تو پہلے ہی وہیں تھے، ہم دونوں کو اکیلے یہاں بہت مسلہ ہونے لگا تھا اسی لئے انہوں نے ہمیں بھی وہیں بلانے کا انتظام کرلیا۔“ شہلا نے مختصر وضاحت کی۔ سوال تو اب بھی اس کے ذہن میں بہت تھے مگر انہیں زبان تک لانا مناسب نہیں تھا سو وہ خاموش رہی۔
پھر بطور کلاس ٹیچر میڈم کے ساتھ مل کر اس نے آیان کے سارے ڈاکومنٹس فائنل کیے جو میڈم نے پہلے سے ریڈی کروا رکھے تھے۔ جب کہ ذہن میں ہنوز کئی سوال گردش کرتے رہے۔
”آیان! بیٹا جانے سے پہلے لاسٹ ٹائم اپنے فرینڈز سے تو مل لیں آپ!“ کسی خیال کے تحت ازلفہ نے اسے پیشکش کی تو وہ شہلا کی جانب دیکھنے لگا۔
”جاؤ مل آؤ!“ اس نے اجازت دی تو وہ کرسی پر سے کھڑا ہوگیا جسے ازلفہ ہاتھ تھام کر آفس سے باہر لے آئی۔
”آیان! آپ لوگ اچانک یہاں سے کیوں جا رہے ہو؟“ اس نے کوریڈور سے گزرتے ہوئے آیان کو کریدا۔
”پتا نہیں مس! مگر مما کہتی ہیں کہ اب وہ اکیلے سب نہیں سنبھال سکتیں۔“ اس نے ادھورا سا جواب دیا۔
”اکیلے کیسے؟ آپ کے جیکب چاچو ہیں تو یہاں جو آپ لوگوں کا سب کام کرتے ہیں!“ اس نے ٹٹولنے والے انداز میں یاد دلایا۔
”اب نہیں ہیں نا! پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں وہ!“ اس نے دکھ سے کہا۔
”کیا مطلب؟“ وہ کھٹکی۔
”مطلب بہت دن پہلے آکر وہ مما کو دکان کی چابی دے کر چلے گئے، بول رہے تھے کہ میں یہاں سے ہمیشہ کیلئے جا رہا ہوں۔“ اس نے اسی تاسف سے بتایا تو اس کے دل کو کچھ ہوا۔
”کہاں گئے ہیں وہ؟“
”پتا نہیں، کچھ بتا کر نہیں گئے اور دوبارہ آئے بھی نہیں!“ اس نے اداسی سے کندھے اچکائے۔ تب تک وہ لوگ کلاس میں پہنچ گئے تھے۔
آیان باری باری اپنے سب دوستوں سے ملنے لگا جب کہ ازلفہ ایک جگہ کھڑی اپنے ذہن میں ساری کڑیاں جوڑ رہی تھی۔
یقیناً اس روز کے بعد جیکب یہ علاقہ چھوڑ کر چلا گیا تھا اور دکان سے بری الذمہ ہوکر اس نے ان لوگوں سے بھی سارے تعلق ختم کردیے تھے۔ تب ہی جیکب سے خار کھانے والی شہلا کو اندازہ ہوا کہ در حقیقت جیکب ان کیلئے کتنا ضروری تھا؟ مگر اب تو وہ سب سے دور جاچکا تھا اسی لئے روز روز کے مسائل سے تنگ آکر بلآخر شرجیل نے اپنی بیوی اور بیٹے کو اپنے پاس بلانے کا ہی فیصلہ کرلیا۔
اپنے سب دوستوں سے ملنے کے بعد وہ ازلفہ کے پاس آیا تو وہ بھی بےساختہ پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
”مس میں آپ کو بھی بہت مس کروں گا۔“ وہ اداسی سے بولا تو ازلفہ نے اسے گلے لگا لیا۔
”میں بھی آپ کو بہت مس کروں گی۔“ اس نے پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے محبت سے کہا۔ جیکب سے جڑی آخری کڑی بھی آج ٹوٹ گئی تھی۔
****************************************
”نوراں! پانی لا دو!“ کمرے کے باہر سے گزرتی افروز کے قدم نور جہاں کی آواز پر رکے۔
کمرے میں موجود نورجہاں نے ملازمہ کو پانی کیلئے صدا دی تھی مگر دوپہر کا وقت ہونے کے باعث ملازمہ سرونٹ کواٹر میں اور باقی سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔
ان دونوں کیونکہ افروز کو اکثر وقت بےوقت بھوک ستانے آجاتی تھی تو فی الحال وہ اسی کے سدباب کیلئے کچن کی جانب جا رہی تھی کہ ان کی آواز پر رک گئی۔
پہلے چند لمحے تو وہ یوں ہی شش و پنج کے عالم میں وہاں کھڑی رہی پھر گویا کوئی فیصلہ کرکے کچن کی جانب بڑھ گئی۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی سے بھرا ایک اسٹیل کا کٹورا تھا۔ یہ نورجہاں کا مخصوص کٹورا تھا جس کے سوا وہ کسی اور چیز میں پانی پینا پسند نہیں کرتی تھیں اور یہ بات اتنے دنوں میں افروز بھی سمجھ چکی تھی۔
وہ ایک ہاتھ سے ادھ کھلا دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر آئی جہاں نور جہاں قبلہ رو جائے نماز بچھائے، ہاتھ میں تسبیح لئے کچھ اس طرح بیٹھیں تھیں کہ ان کی پشت افروز کی طرف تھی۔
”پانی!“ اس نے قریب آکر دھیرے سے کہتے ہوئے کٹورا آگے بڑھایا۔
اس کی آواز پر انہوں نے چونک کر گردن موڑی۔ وہ ہمت کرکے ان کے سامنے آ تو گئی تھی لیکن اب بری طرح ڈر رہی تھی کہ پتا نہیں وہ کیا رد عمل دیں گی؟
ان کی آنکھیں متعجب اور چہرہ سپاٹ تھا جس کے باعث کوئی بھی اندازہ لگا پانا مشکل تھا۔
”وہ۔۔۔وہ نوراں۔۔۔۔کواٹر میں تھی اسی لئے میں لے آئی!“ اس نے خود ہی منمناتے ہوئے وضاحت کی جب کہ کٹورا لئے آگے بڑھا اس کا ہاتھ بھی دھیرے دھیرے کانپنے لگا تھا۔
اس کی بات کا کوئی جواب دینے کہ بجائے انہوں نے چپ چاپ ہاتھ بڑھا کر کٹورا تھاما اور اسے لبوں سے لگا لیا۔
افروز کے گھبراتے ہوئے وجود میں یکدم خوشگوار حیرت ڈور گئی۔ حلانکہ ان کا رویہ اب بھی سرد ہی تھا مگر یہ خاموش رضا مندی بھی اس کیلئے غنیمت تھی۔
”اب جاؤ!“ انہوں نے خالی کٹورا اپنے پاس زمین پر رکھتے ہوئے ہی سنجیدگی سے اسے چلتا کرنا چاہا۔
پہلے افروز کے دل میں آیا کہ خالی کٹورا واپس کچن میں لے جائے! مگر ان کے غصے کے پیش نظر ان کے حکم کی تعمیل کرنے میں ہی عافیت جانتے ہوئے وہ کمرے سے نکل آئی۔
اس کا دل خوشی کے مارے زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کتنا بڑا معرکہ سر کر آئی ہے۔
یہ خوشی وہ کسی کے ساتھ بانٹنا چاہتی تھی اسی لئے کمرے میں آتے ہی بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے سرخ پی ٹی سی ایل کا ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا اور خوشی سے کانپتی انگلیوں سے نمبر ڈائل کرنے لگی۔ دوسری جانب بیل جا رہی تھی۔
”ہیلو!“ آفس میں موجود حامد نے کسی فائل کا مطالعہ کرتے ہوئے مصروف انداز سے فون کا ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔
”ہیلو حامد!“
”کہو افروز! سب خیریت تو ہے؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟“ وہ فائل چھوڑ کر پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”جی میں ٹھیک ہوں، مگر آپ کو ایک ضروری بات بتانی ہے۔“ اس نے تسلی دیتے ہوئے تجسس پھیلا۔
”کیا ہوا؟ کیا اماں جان نے کچھ کہا ہے؟“ اسے تشویش ہوئی۔
”نہیں، انہوں نے کچھ نہیں کہا۔“
”تو پھر کیا بتانا؟“
”یہ ہی تو بتانا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا۔“
”جب انہوں نے کچھ کہا نہیں تو پھر بتانا کیا ہے؟“
”یہ ہی کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا۔“
”کیا کہنا چاہ رہی ہو تم؟“ وہ تھوڑا الجھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے بھوک لگ رہی تھی تو میں کچھ کھانے کیلئے کچن کی طرف جا رہی تھی تب ہی میں نے اماں جان کی آواز سنی، وہ نوراں کو پانی پلانے کا کہہ رہی تھیں، نوراں اپنے کواٹر میں تھی اور باقی سب بھی اپنے اپنے کمروں میں تھے تو میں ان کیلئے پانی لے گئی، پھر پتا ہے انہوں نے کیا کِیا؟“ اس نے جلدی جلدی سب بتاتے ہوئے پھر سسپنس بڑھایا۔
”انہوں نے پانی پھینک دیا!“ اس نے متفکر ہوکر اندازہ لگایا۔
”نہیں، انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور چپ چاپ میرے ہاتھ سے کٹورا لے کر پانی پی لیا، مجھے اتنی خوشی ہوئی نا کہ میں بتا نہیں سکتی۔“ اس نے بچوں کی مانند خوش ہوتے ہوئے بات مکمل کی تو دوسری جانب پریشان ہوتا حامد بھی شکر کی سانس لیتے ہوئے اس کی پرخلوص معصومیت پر ہنس پڑا۔
****************************************
”اور کچھ نہیں تو بندا کم از کم چند دنوں میں ایک بار کوئی کال یا میسج تو کر ہی دیتا ہے اپنی منگیتر کو خیر خیریت کیلئے، مگر عاطف بھائی نے تو یہ مروت بھی نہیں نبھائی پچھلے ایک مہینے سے۔“ اذکی نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تجزیہ کیا۔
دونوں بہنیں اس وقت کچھ شاپنگ بیگز لئے عبائے و نقاب میں ایک مارکیٹ کے باہر کھڑی کیب کا انتظار کر رہی تھیں جس کی انہوں نے تھوڑی دیر قبل ہی بکنگ کی تھی۔
”اچھا ہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں کیا، مجھے نہیں پسند شادی سے پہلے منگیتر سے یوں فون پر لمبی لمبی باتیں کرنا۔“ اذلفہ نے سادہ سا جواب دیا۔
”لمبی لمبی باتیں کرنے کو کون کہہ رہا ہے؟ میں تو گھر کے نمبر پر ایک جنرل کال کی بات کر رہی تھی کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم فون کرکے امی ابو کا حال چال ہی پوچھ لیں۔“ اس نے تصحیح کرتے ہوئے اپنی بات مزید واضح کی۔
”جب تمہاری منگنی یا نکاح ہوگا نا تب تم کروا لینا اپنے منگیتر سے ایسی کالز، ٹھیک ہے؟“ اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا تو اذکی خفگی سے اسے گھور کر رہ گئی۔
دونوں بات چیت کر رہی تھیں کہ تب ہی ان کے عین سامنے ایک بائیک آکر رکی جس پر دو نقاب پوش جوان سوار تھے۔ یہ دونوں انہیں دیکھ کر گھبرا گئیں۔
”موبائل اور پرس دے جلدی!“ پیچھے بیٹھا شخص اتر کر ان کے پاس آیا اور ان پر گن تان لی۔
یہ دیکھ کر آس پاس کے چند لوگ بھی متوجہ ہوئے مگر گن کے آگے کسی کی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ آگے آکر ان لڑکیوں کی مدد کرسکے۔
اس لڑکے کے چہرے پر نقاب تھا لیکن اذلفہ کو لگا کہ اس نے اس شخص کو کہیں دیکھا ہے!
”چل جلدی اپنا پرس دے!“ وہ اذکی کی جانب بڑھا جس نے پرس دینے کے بجائے نفی میں سرہلاتے ہوئے اسے مضبوطی سے تھام لیا تھا۔ جب کہ اذلفہ اسے دیکھ کر حیرت سے گویا سن ہوگئی تھی۔ تب ہی دور سے پولیس موبائل اس سڑک پر آتی نظر آئی۔
”دیتی ہے یا ماروں گولی؟“ اس نے سختی سے کہتے ہوئے گن تانی۔
”جیکی چھوڑ اسے، پولیس ادھر ہی آرہی ہے، نکل!“ تب ہی بائیک پر سوار اس کے ساتھی نے توجہ دلائی تو وہ اذکی کو قہر آلود نظروں سے گھور کر بائیک پر سوار ہوا جس کے بعد بائیک برق رفتاری دکھاتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہوگئی۔
کافی لوگ ان کے آس پاس جمع ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔۔
ان کا حال پوچھ رہے تھے۔۔۔۔
پولیس موبائل بھی شاید ان کے تعاقب میں گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اذکی سب کو جواب دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ اذلفہ سے بھی کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔مگر اذلفہ!
وہ تو اپنی جگہ پر سن ہوگئی تھی اور بس ایک ہی لفظ اس کے ذہن میں گونج رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔جیکی!
****************************************
”اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔“
”اور پھر تم نے اماں جان کو پانی لا کر دیا جسے انہوں نے چپ چاپ پی لیا جس سے تمھیں بےحد خوشی ہوئی!“ افروز پرجوشی سے بول ہی رہی تھی کہ حامد نے اس کی بات اچک کر مکمل کی۔
”اور کتنی بار یہ بات دہراؤگی میرے ہونے والے بچے کی ماں!“ اس نے نرمی سے ٹوکا۔
حامد تھوڑی دیر قبل ہی گھر لوٹا تھا اور اب فریش ہونے کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا جب کہ اس کے عقب میں بیڈ پر بیٹھی افروز پرجوش انداز میں اسے پھر وہ ہی روادار سنا رہی تھی۔
”کیوں؟ آپ کو خوشی نہیں ہوئی یہ جان کر کہ اماں جان نے میرے ہاتھ سے پانی پی لیا!“ اس نے تاسف سے سوال کیا۔
”خوشی ہوئی، بالکل ہوئی۔“ وہ کہتے ہوئے آکر اس کے سامنے بیٹھا۔
”مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں میری جان!“ اس نے دونوں ہاتھوں سے افروز کا چہرہ تھاما۔
”مطلب؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”مطلب انہیں پیاس لگی تھی سو انہوں نے تمہارے ہاتھ سے پانی لے کر پی لیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اسے ان کی رضا مندی سمجھ کر مزید کوشش کرنا چھوڑ دو، وہ میری ماں ہیں اسی لئے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ انہیں قائل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔“ اس نے ہاتھ ہٹاتے ہوئے تحمل سے کہا۔
”ہاں ہاں میں کوشش کروں گا نا! بلکہ میں نے تو نزہت بھابھی سے ان کے پسندیدہ کھانوں کے بارے میں بھی پوچھا ہے، بھابھی نے سب بتایا مجھے، اب تو بھابھی بھی مجھ سے اچھے سے بات کرتی ہیں، بلکہ سب ہی ٹھیک ہیں، بس اماں جان بھی جلد مان جائیں گی، دیکھیے گا کل میں خود ان کی پسند کا کھانا بناؤں گی اور وہ بھلے تعریف نہیں کریں گی مگر کھالیں گی، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا!“ اس نے پرجوشی سے سب بتاتے ہوئے آخر میں معصوم بچے کی مانند تائید چاہی۔
اس لمحے اس کی پُرخلوص سادگی پر حامد کو ٹوٹ کر پیار آیا جس کے باعث اس نے بےساختہ اسے سینے سے لگالیا۔
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔“ اس نے بھرپور تائید کرتے ہوئے آخر میں اس کا ماتھا چوما تو وہ بھی پرسکون ہوگئی۔
****************************************
”اللّه کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم کسی بھی طرح کے نقصان سے بچ گئے۔“ اذکی نے شکر کی سانس لیتے ہوئے عبایا الماری میں رکھا۔ جب کہ بیڈ پر گم صم بیٹھی اذلفہ کچھ نہ بولی۔
”اور میں تو کہتی ہوں کہ ہم امی ابو کو بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتائیں گے، وہ لوگ پہلے ہی کل سے شاید کسی بات کو لے کر پریشان ہیں، خواہ مخواہ اور فکرمند ہوجائیں گے۔“ وہ پلٹ کر مزید کہتی ہوئی بیڈ کی جانب آئی مگر اذلفہ نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔
”آپ سے بات کر رہی ہوں آپی، کن سوچوں میں گم ہو کب سے؟راستے بھر بھی کوئی بات نہیں کی۔“ اذکی اس کے مقابل بیٹھ گئی۔
”اذکی! مجھے لگتا ہے جس لڑکے نے ہم پر گن تانی تھی نا، وہ جیکب تھا۔“ اذلفہ اپنا خدشہ زبان پر لائی تو وہ دنگ رہ گئی۔
”کیا! جیکب؟“ اس نے حیرت سے دہرایا۔
”ہاں، میرے خیال سے وہ جیکب ہی تھا کیونکہ اس کے ساتھی نے اسے جیکی کہہ کر پکارا تھا!“ اس نے وضاحت کی۔
”ارے تو ہوسکتا ہے کہ اس کا نام بھی جیکب ہو! اور اگر وہ جیکب ہوتا تو آپ کا پرس چھیننے کیوں آتا؟“ اس نے خیال ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”کیونکہ میرے چہرے پر نقاب تھا تو ہوسکتا ہے وہ مجھے نہیں پہچانا ہو!“
”نقاب تو اس کے چہرے پر بھی تھا تو آپ نے کیسے پہچان لیا کہ وہ جیکب ہے؟“ اس نے ترکی بہ ترکی سوال کیا۔
”مجھے اس کی آنکھیں جانے پہچانی لگیں۔“ اس نے الجھا سا جواب دیا۔
”آپ کو کوئی مغالطہ ہوا ہے آپی، وہ جیکب کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے ہی تو بتایا تھا کہ وہ یہاں سے سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں چلا گیا ہے!“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں لیکن کہاں گیا ہے یہ تو نہیں پتا نا! اور جس طرح سب سے بدظن ہوکر وہ گیا ہے تو اس میں کوئی بعید نہیں کہ مسلمان ہونا تو دور اب وہ ایک اچھا انسان بھی نہیں رہا۔“ اس نے کڑیاں جوڑتے ہوئے دکھ سے نتیجہ نکالا۔
”ہوتا ہے تو ہونے دو، ہمیں کیا!“ اذکی یکدم چڑ گئی۔
اس سے قبل کہ اذلفہ کچھ کہتی کمرے کے کھلے دروازے سے نعیمہ اندر آئیں۔ دونوں کی بات بیچ میں رہ گئی۔
”اذلفہ! بیٹا تم سے کچھ بات کرنی ہے۔“ وہ کہتی ہوئیں قریب آئیں۔
”جی امی بولیں!“ دونوں ہی ان کی جانب متوجہ تھیں کیونکہ ان کا انداز کافی سنجیدہ تھا۔
فوری طور پر کچھ کہنے کے بجائے وہ بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گئیں گویا بات کرنے کیلئے لفظ ترتیب دے رہی ہوں۔ جب کہ انہیں دیکھ کر دونوں کا تعجب مزید بڑھنے لگا۔
”کیا بات ہے امی، بولیں نا!“ اذکی نے الجھ کر کہا تو انہوں نے نظریں جھکا کر ڈھیرے سے لب وا کیے۔
”اذلفہ! بیٹا تم سے کچھ بات کرنی ہے۔“ وہ کہتی ہوئیں قریب آئیں۔
”جی امی بولیں!“ دونوں ہی ان کی جانب متوجہ تھیں کیونکہ ان کا انداز کافی سنجیدہ تھا۔
فوری طور پر کچھ کہنے کے بجائے وہ بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گئیں گویا بات کرنے کیلئے لفظ ترتیب دے رہی ہوں۔ جب کہ انہیں دیکھ کر دونوں کا تعجب مزید بڑھنے لگا۔
”کیا بات ہے امی، بولیں نا!“ اذکی نے الجھ کر کہا تو انہوں نے نظریں جھکا کر ڈھیرے سے لب وا کیے۔
”بیٹا کل جب تم اسکول اور اذکی یونیورسٹی گئی ہوئی تھی تب حیات بھائی صاحب اور بھابھی آئے تھے۔“ انہوں نے آہستہ سے بات شروع کی۔
”خریت؟“ دونوں کو تشویش ہوئی۔
”ہم سے معذرت کرنے۔“
”معذرت! لیکن کیوں؟“
”کیونکہ عاطف اپنی کسی کولیگ سے شادی کر آیا ہے اور اس نے تم سے رشتہ ختم کردیا ہے۔“ انہوں نے آہستہ سے انکشاف کیا تو دونوں دنگ رہ گئیں۔
”کیا؟“ وہ بس اتنا ہی بولی۔
”ایسے کیسے شادی کرکے رشتہ ختم کردیا؟ اگر کسی اور کو پسند کرتا تھا تو یہاں منگنی کیوں کی؟“ اذکی نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”اپنے والدین کے کہنے پر کرلی تھی مگر اب اس کا کہنا ہے کہ وہ اذلفہ کے ساتھ خوش نہیں رہ پائے گا۔“
”دماغ ٹھیک ہے اس الو کے پٹھے کا؟ رشتوں کو مذاق سمجھا ہوا ہے اس نے!“ اذکی کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔
”اذکی پلیز چپ رہو!“ اذلفہ نے اسے ٹوکا۔
”ابو کا کیا کہنا تھا امی؟“ وہ تحمل سے گویا ہوئی۔
”کیا کہتے بیٹا؟ ان پر غصہ ہوئے، ناراض ہوئے مگر پھر چپ کر گئے کیونکہ وہاں وہ لوگ مجبور تھے اور یہاں ہم بےبس!“ وہ ایسے بات کر رہی تھیں جیسے اپنی بیٹی کے آگے شرمندہ ہوں۔
”واہ یہ صحیح ہے کہ پہلے کسی کی جذبات سے کھیلو اور پھر مجبوری کا بہانہ بنا کر، سوری بول کر نکل لو، میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ جب اولاد پہلے سے ہی کسی سے شادی کی خواہش مند ہوتی ہے تو والدین اس پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہی کیوں ہیں؟“ اذکی کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
”امی! آپ فکر نہ کریں اور ابو سے بھی کہیے گا کہ پریشان نہ ہوں، جو ہوا اس میں ہمارے لئے کوئی بہتری ہوگی۔“ اس کے برعکس اذلفہ نے انہیں تحمل سے تسلی دی۔
”ارے! کیسے پریشان نہ ہوں؟ انہوں نے رشتہ توڑا ہے، اس میں بھلا کیا بہتری ہے!“ اذکی کو اس کی منطق سمجھ نہ آئی۔
”یہ ہی کہ شاید وہ میرے لئے بہتر نہیں ہوگا۔“ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اور ویسے بھی ابھی صرف ہم گھر والوں میں ہی رشتہ طے پایا تھا نا! خاندان میں باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا تو اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اچھا ہوا کہ باقاعدہ رسم سے پہلے ہی ہوگیا جو ہونا تھا۔“ اس نے حسب عادت مثبت پہلو ڈھونڈا جس پر اذکی ضبط کرتے ہوئے اسے گھور کر رہ گئی جب کہ نعیمہ کو اپنی بیٹی کی معاملہ فہمی پر بہت پیار آیا۔ بس وہ رضوان کی طرح برملا اظہار نہیں کر پاتی تھیں، مگر پیار ضرور کرتی تھیں۔
****************************************
حامد رات کا کھانا کھانے کے بعد کسی کام سے باہر چلا گیا تھا اور اب جب وہ گھر واپس آیا تو بیڈ روم میں افروز کے ساتھ اسے رابعہ بھی بیڈ پر بیٹھی ملی۔ دونوں بڑی دلچسپی سے بیڈ پر رکھی کوئی کتاب دیکھنے میں مصروف تھیں۔
”کیا ہو رہا ہے؟“ وہ بھی پوچھتا ہوا ان لوگوں کی طرف آیا۔
”بھیا میں بھابھی کو آپ کے بچپن کی تصویروں کا ایلبم دکھا رہی ہوں۔“ رابعہ نے فخر سے بتایا۔
”ہاں اور ان میں سے ایک تصویر تو میں نے فریم کروانے کیلئے الگ بھی کرلی ہے۔“ افروز بھی چہکتے ہوئے گویا ہوئی۔
”کون سی تصویر؟“ اس کی چھٹی حس کھٹکی۔
”یہ والی!“ افروز نے کہتے ہوئے تصویر اٹھا کر اسے دکھائی تو وہ دنگ رہ گیا۔
تصویر میں چار سالہ حامد چھوٹے سے سفید تولیے کی مدد سے بمشکل اپنا برہنہ جسم ڈھانپے ہوئے بری طرح رو رہا تھا اور نورجہاں اسے زبردستی گھسیٹ کر کہیں لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”اماں جان بتاتی ہیں کہ بچپن میں بھیا نہانے سے بہت دور بھاگتے تھے اور یہ تصویر بھی ایسے ہی کسی پل کی ہے، ہے نا بھیا!“ رابعہ نے بتاتے ہوئے آخر میں اسے تنگ کرنے کیلئے اس سے تائید چاہی۔ کیونکہ حامد کو اپنی یہ تصویر سخت زہر لگتی تھی اور یہ بات رابعہ افروز کو بھی بتا چکی تھی۔
”رابعہ کی بچی!“ وہ دانت پیس کر کہتے ہوئے تصویر جھپٹنے کیلئے آگے آیا مگر دونوں برق رفتاری دکھاتے ہوئے بیڈ پر سے ہٹ گئیں۔ تصویر افروز کے ہاتھ میں تھی جسے لینے وہ اس کی جانب آیا۔
”رابعہ پکڑو!“ افروز نے تصویر اس کی طرف پھینکی۔
حامد تصویر پکڑنے کیلئے آگے آنے ہی لگا تھا کہ افروز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔
”جلدی بھاگو رابعہ!“ افروز نے حامد کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہی اسے حکم دیا جس کی تعمیل کرتے ہوئے وہ فوراً تصویر لے کر کمرے سے باہر بھاگ گئی۔
”وہ تو گئی، مگر اب تم نہیں بچ سکتی۔“ تب ہی حامد اسے چھوڑ کر معنی خیزی سے افروز کی جانب متوجہ ہوا جس کے ارادے بھانپتے ہوئے افروز نے بھی ہنستے ہوئے وہاں سے بھاگنا چاہا مگر حامد نے اسے گرفت میں لیتے ہوئے اس کی کوشش ناکام بنادی۔
****************************************
”ابو چائے!“ کھانے کے بعد حسب معمول اذلفہ رضوان کو چائے دینے آئی تھی جو بیڈ پر لیپ ٹاپ لئے بیٹھے تھے۔
”شکریہ بیٹا!“ انہوں نے کپ لے کر سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ وہ جانے کیلئے پلٹ گئی۔
”اذلفہ!“ ان کی پکارا پر وہ رک گئی۔
”یہاں بیٹھو بیٹا۔“ انہوں نے لیپ ٹاپ بند کرکے ایک کنارے کرتے ہوئے اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا کہا۔ وہ چپ چاپ وہاں آکر بیٹھ گئی۔
”آپ کی امی نے بتا دیا ہوگا آپ کو عاطف کے بارے میں!“ انہوں نے رسان سے بات شروع کی تو اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”جب حیات نے ہمیں یہ سب بتایا تو میں نے بہت غصہ۔۔۔۔۔“
”کیا فائدہ ابو غصہ کرنے کا؟ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا نا!“ وہ ان کی بات اچک کر دھیرے سے بولی۔
”ہاں مگر یہ غلط ہوا نا بیٹا، ہم تو تمہارا اچھی ہی چاہتے تھے، تمھیں ہم پر بھروسہ تھا کہ ہمارا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا لیکن ہم غلط ثابت ہوگئے۔“ ان کے انداز میں شرمندگی تھی۔
”ابھی بھی صرف فیصلہ غلط ہوا ہے آپ لوگوں کی نیت غلط نہیں تھی، اور یہ آپ لوگوں کی اچھی و سچی نیت کا ہی نتیجہ ہے کہ وقت رہتے ساری بات سامنے آگئی ورنہ اگر کل کو وہ شادی کے بعد اس وجہ سے مجھے طلاق دے دیتا تو ہمارا زیادہ نقصان ہوتا، ابھی تو کچھ بھی نہیں بگڑا ہے۔“ اس نے تحمل سے مثبت پہلو اجاگر کرتے ہوئے اپنے باپ کی شرمندگی زائل کرنی چاہی۔
”تمہاری بات اگر ہم درست مان بھی لیں تو بیٹا یہ کیا کم ہے کہ کسی اور لڑکی کیلئے اس نے میری بیٹی کو رد کردیا!“ وہ عاطف سے سخت خفا تھے۔
”وہ کون ہوتا ہے مجھے رد کرنے والا؟ در حقیقت رب نے اسے میرے لئے بنایا ہی نہیں تھا اسی لئے اس رجیکشن کو ذریعہ بنا کر رب نے اسے مجھ سے دور کردیا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو وہ پل بھر کو لاجواب ہوگئے۔
انہیں آج احساس ہوا تھا کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اسکول جانے والی ان کی چھوٹی سی بیٹی اتنی بڑی ہوچکی ہے۔
”آپ کو کسی پر بھی غصہ کرنے کی یا پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ابو، جس اللّه نے ہم انسانوں کے جوڑ بنائے ہیں نا وہ صحیح وقت آنے پر خود ان جوڑوں کو جوڑ دے گا، یقین رکھیں اس کی ذات پر، کیونکہ اسے پسند ہے کہ اس کے بندے اس پر کامل یقین رکھیں۔“ اس نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں نرمی سے مزید تسلی دی جو یک ٹک اسے دیکھے جا رہے تھے۔
”میری بیٹی اتنی سیانی ہوگئی اور مجھے پتا ہی نہیں چلا!“ وہ خوشگوار حیرت سے گویا ہوئے۔
”کوئی بات نہیں، دیر آئے درست آئے۔“ ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے وہ بھی شرارتی انداز میں بولی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
”اللّه میری بیٹی سے راضی رہے اور اس کا نصیب بہت اچھا کرے۔“ انہوں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے دعا دی۔ تو اس نے بھی پرسکون ہوکر آنکھیں بند کرلیں۔
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
ملال ہے، مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
مزہ تو جب ہے کہ، ہار کے بھی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا، کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی، ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب، زوال تھوڑی ہے
انتخاب
****************************************
زندگی کے ساحل پر وقت کی لہرے وقفے وقفے سے اٹھ کر ٹوٹ رہی تھیں۔ باتیں تو بہت تھیں مگر کہیں کوئی قابلِ ذکر بات نہیں تھی۔
ننھے مہمان کے گود میں آنے کے دن قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے جس کے باعث بظاہر ”شیرازی ہاؤس“ میں سب ہی خوش تھے۔ نور جہاں کو افروز سے لاکھ نفرت سہی مگر وہ ان کے بیٹے کی اولاد کو جنم دینے والی تھی جو ان ہی کے خاندان کا خون تھا اسی لئے کہیں نا کہیں، اندر ہی اندر اس ننھے مہمان کی منتظر تو وہ بھی تھیں بس یہ بات الگ تھی کہ وہ اظہار نہیں کرتی تھیں۔
اذلفہ کو کسی سے کوئی شکایات نہیں تھی، وہ اپنی زندگی میں، اپنے معمول پر خوش تھی۔ ہاں مگر جیکب نامی ایک ہوک سی اس کے دل میں کہیں اٹک کر رہ گئی تھی۔ وہ اس ڈکیتی والے حادثے کے بعد دوبارہ کہیں نظر نہیں آیا تھا مگر جب بھی دل میں اس کے نام کی ہوک اٹھتی تھی تو وہ بےساختہ دعا کرنے لگتی تھی کہ اللّه اسے ہدایت دے۔
ابھی بھی وہ حسب معمول چھٹی ہونے پر اسکول سے واپس گھر جا رہی تھی۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے جہاں سے یہ سارا قصہ شروع ہوا تھا۔ مگر اب وہ اس راستے پر اکیلی رہ گئی تھی۔ جیکب نامی وہ قصہ اور آیان نامی اس قصے کی کڑی یہ دونوں شاید ہمیشہ کیلئے کھو چکے تھے جنہیں آج بھی وہ بھلا نہیں پائی تھی اور جب بھی وہ اس سنسان لمبی سڑک پر سے گزرتی تھی تو اس سڑک پر بنی ساری یادیں پھر سے تازہ ہوجاتی تھیں جنہیں وہ پھیکےپن سے مسکرا کر جھٹک دیا کرتی تھی۔
چلتے تھے جن پہ ہم تم
راستے وہ سارے ہیں گم
اب ڈھونڈوں کیسے منزلیں
راتیں ہیں جیسے ماتم
آتے ہیں دن بھی گم صم
روٹھی ہیں ساری محفلیں
اتنا ستاؤ نہ، یوں یاد آؤ نہ
بن جائیں آنسوں ہی دعا
****************************************
”یہ دیکھیں، یہ اماں جان نے نزہت بھابھی کے ہاتھ سے بھجوائے ہیں مجھے، یہ آپ کے بچپن کے کپڑے ہیں اور اماں جان چاہتی ہیں ہمارا بچہ سب سے پہلے یہ ہی پہنے۔“ بیڈ پر بیٹھی افروز نے بےانتہا خوشی کے ساتھ نومولود بچے کے کچھ کپڑے اسے دکھائیں۔
”اماں جان نے یہ سب ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے!“ وہ بھی خوشگوار حیرت سے کہتا اس کے مقابل آکر بیٹھا اور کپڑے اٹھا کر دیکھنے لگا۔
”ہاں اور اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات ہے کہ انہوں نے یہ ہمارے بچے کیلئے بھیجا ہے۔“ اس نے خوشی سے دھیان دلایا۔
”ہاں، اماں جان بھلے ہی اظہار نہیں کرتیں مگر اندر ہی اندر انہیں بھی بہت انتظار ہے اپنے پوتے یا پوتی کا۔“ حامد نے بھی تائید کی۔
”مائیں ایسی ہوتی ہیں، اولاد سے زیادہ اولاد کی خوشی میں خوش ہونے والی، بس کچھ اظہار کردیتی ہیں اور کچھ نہیں کرتیں۔“ اس نے کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
اس کی ڈلیوری کے دن قریب تھے اسی لئے احتیاطی طور پر وہ بچے کیلئے ضروری سامان پر مشتمل ایک بیگ تیار کرکے رکھ رہی تھی جو ہسپتال جاتے ہوئے ساتھ لے جایا جائے۔
”دیکھیے گا میں بھی اپنے بچے کی ایک ایک چیز ایسے ہی سنبھال کر رکھوں گی جیسے اماں جان نے سنبھال کر رکھی ہے۔“ اس نے بیگ کی زپ لگاتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کی۔
”اس کے باپ کو بھی سنبھال کر رکھو گی نا!“ اس نے شریر معنی خیزی سے پوچھا تو اس نے مسکرا کر سر ہلادیا۔
****************************************
”بیٹا ذرا نیوز لگانا، نوں بجے کی ہیڈ لائنز آنے والی ہوں گی۔“ رضوان صاحب نے لاؤنج میں آتے ہوئے اذکی سے کہا جو صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ اس نے سر ہلا کر نیوز لگا دی۔
”سنیں! باہر جا رہے ہیں آپ؟“ اوپن کچن میں کام کرتی نعیمہ نے پوچھا۔
”ہاں، کوئی کام تھا؟“
”جی، واپسی پر دودھ اور انڈے لیتے ہوئے آئیے میں، موسم خراب ہو رہا ہے، اگر رات بھر بارش ہوئی تو صبح دودھ والا نہیں آئے گا۔“ انہوں نے وضاحت کے ساتھ جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، لے آؤں گا، اذلفہ! بیٹا ایک گلاس پانی پلانا۔“ جواب دیتے ہوئے انہوں نے کچن میں موجود اذلفہ سے پانی مانگا۔
”ابو ہیڈ لائنز تو آ ہی نہیں رہیں، بس ایڈز آئے جا رہے ہیں، میرا ڈرامہ نکل جائے گا۔“ اذکی کو فکر لاحق ہوئی۔
”ایک اہم خبر سے ہم آپ کو آگاہ کر رہے ہیں۔“ اچانک ٹی وی پر بریکنگ نیوز کی پٹی چلی۔
”کراچی کے علاقے جوہر میں ڈکیتی کی واردات کے دوران پولیس مقابلے میں دو ڈاکو مارے گئے۔“ اینکر نے سنسنی خیز انداز میں خبر سنائی۔
”لو! ہیڈ لائن کو چھوڑ کر اب یہ بریکنگ نیوز لے کر بیٹھ گئے یہ لوگ!“ اذکی کو کوفت ہوئی۔
”ہلاک ہونے والے مجرموں کی شناخت سلیم عرف سپاری اور جیکب عرف جیکی کے نام سے ہوگئی ہے۔“ اینکر نے مزید تفصیل بتائی تو یکدم چھن سے کچھ ٹوٹا۔
ان لوگوں نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو پتا چلا کہ پانی لے کر آئی اذلفہ کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر گرا تھا۔
”دھیان سے بیٹا۔“ رضوان نے ٹوکا۔
”کارپٹ سے پیر پھنس گیا ہوگا۔“ اذکی نے بات بنائی۔
اذکی لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کی کیفیت سمجھ گئی تھی اسی لئے فورا اٹھ کر اس کے پاس آئی۔ اور خوش قسمتی سے اسی وقت رضوان کا موبائل بج اٹھا جسے سنتے ہوئے وہ ان دونوں پر توجہ دینے کے بجائے باہر چلے گئے۔
”میں یہ صاف کرتی ہوں آپی آپ جاؤ۔“ اذکی نے کہا تو وہ جو سکتے کے عالم میں تھی فوراً اپنے کمرے کی جانب دوڑ گئی۔
اذکی نے فٹافٹ کانچ سمیٹ کر ڈسٹبن میں ڈالا اور خود بھی اس کے پاس کمرے میں آئی۔
اذلفہ دونوں ہاتھوں میں سر دیے بیٹھی تھی اور اس کا جسم لرز رہا تھا۔ وہ دروازہ بند کرکے اس کے پاس آئی۔
”آپی کیا ہوا؟“ وہ اس کے مقابل بیٹھی تو اذلفہ نے سر اٹھایا۔ وہ بری طرح رو رہی تھی جس کے باعث چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
”ج۔۔۔جی۔۔۔۔جیکب۔۔۔۔۔!“ روتے ہوئے وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تو اذکی نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اس کے رونے میں مزید شدت آگئی۔
”یہ کیا ہوگیا اذکی۔۔۔۔۔اسے ایسے نہیں جانا چاہئے تھا۔“ وہ روئے جا رہی تھی۔
”جس راستے پر وہ چل پڑا تھا اس کے بعد ایسی ہی موت مقدار بننی تھی اس کا۔“ اذکی نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے تلخی سے کہا۔
”یہ غلط ہوا ہے اذکی، اس کا انجام غلط ہوا ہے، وہ جرم کے دلدل میں دھنس شرک کے ساتھ چلا گیا، صرف اور صرف میری وجہ سے۔“ وہ اس سے الگ ہوکر بولی۔
”آپ کی وجہ سے کیسے؟“
”وہ مجھ سے شادی کرکے اسلام قبول کرنے کیلئے تیار تھا مگر میرے انکار نے اسے توڑ دیا، وہ مذہب، محبت، انسانیت سب سے دور ہوگیا، صرف میری وجہ سے۔“ وہ خود کو ملامت کرنے لگی۔
”پاگل ہوگئی ہو، آپ کی وجہ سے کچھ نہیں ہوا ہے، کھوٹ اس کی اپنی نیت میں تھا، اگر وہ اتنا ہی اچھا انسان ہوتا تو آپ کے انکار کے بعد بھی وہ اسلام قبول کرتا، اسے پڑھتا، وہ بس آپ کی لالچ میں ایسا کر رہا تھا اور کوئی بعید نہیں کہ آپ سے شادی کے بعد وہ پھر منکر ہوجاتا، شاید اسی لئے اللّه پاک نے عاطف نامی رکاوٹ بیچ میں ڈال کر آپ کو پہلے جیکب سے بچایا اور پھر عاطف کو بھی خود ہی راستے سے ہٹا دیا، کیونکہ شاید یہ دونوں ہی آپ کا نصیب نہیں امتحان تھے، آپ کا نصیب کوئی اور ہی ہے۔“ اذکی نے اس کے آنسوں صاف کرتے ہوئے اسے وہ پہلو دکھائے جن کی طرف اس کا دھیان نہیں تھا۔
وہ جواباً کچھ نہیں بولی تھی کیونکہ اگر یہ بات ٹھیک بھی تھی تو اسے قبول کرنے کیلئے، اس ملامت سے نکلنے کیلئے اسے تھوڑا وقت چاہیے تھا۔
وہ جب جب زرہ زرہ کرکے خود کو جوڑ کر پھر سے بناتی تھی تب تب پھر کسی نئی ٹھوکر کے باعث وہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ بکھر جاتی تھی۔ اور اب وہ اس بننے، بكھرنے کے عمل سے تھکنے لگی تھی، مگر۔۔۔۔۔۔۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔
****************************************
آدھی رات کے وقت جہاں باہر آسمان سے زور و شور سے پانی برس رہا تھا وہیں ہسپتال کے اندر، لیبر روم کے باہر حامد اضطرابی حالت میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا جہاں رات کا وقت ہونے کے باعث ہسپتال میں چہل پہل نہ ہونے کے برابر تھی۔
افروز کو اچانک ہی لیبر پین شروع ہوگیا تھا جس کے باعث وہ نزہت اور عماد کے ہمراہ اسے ہسپتال لے آیا تھا۔ وہ دونوں باہر سٹنگ ایریا میں تھے جب کہ حامد لیبر روم کے باہر ہی ٹہل رہا تھا۔
اس کے سنجیدہ چہرے پر چھائے خوف کے بادل ان بادلوں سے بھی زیادہ گہرے تھے جو باہر زور و شور سے برس رہے تھے۔
وہ بھلا کیسے پریشان نہ ہوتا؟ کیونکہ اندر اس کی عزیز جان بیوی اس کی اولاد کو دنیا میں لانے کیلئے درد جو جھیل رہی تھی جس میں وہ اس کیلئے بس دل سے دعا ہی کر سکتا تھا اور مسلسل کر رہا تھا۔
اسے لیبر روم میں لے کر گئے کافی دیر گزر گئی تھی۔ اس بیچ صرف ایک بار نرس باہر آئی تھی اور یہ کہہ کر اس کی پریشانی بڑھا گئی تھی کہ کیس بہت سیریس ہے، آپ دعا کریں۔ تب سے اب تک دوبارہ کوئی باہر نہیں آیا تھا جس سے اس کی فکر میں اضافہ ہونے لگا۔
تھوڑی دیر اور گزرنے کے بعد بلآخر درمیانی عمر کی ایک لیڈی ڈاکٹر خود ہی باہر آئیں جنہیں دیکھ کر وہ فوراً ان کی جانب لپکا۔
”کیا ہوا ڈاکٹر؟ میری وائف ٹھیک ہے نا!“ اس نے بےتابی سے جاننا چاہا۔
”بیٹا ہوا ہے۔“ انہوں نے اس کے سوال کے برعکس سنجیدہ جواب دیا جس میں کوئی خوشی نہیں تھی۔
”مگر وہ مردہ پیدا ہوا ہے۔“ انہوں نے اسی انداز میں مزید بتاتے ہوئے بات مکمل کی تو اسے لگا کہ بادل باہر نہیں اس کے سر پر گرجا ہے۔ جس ننھی جان کو گود میں لینے کیلئے وہ لوگ کب سے بےتاب تھے وہ دنیا میں آنے سے قبل ہی رخصت ہوچکی تھی۔
”اور۔۔۔اور میری وائف کیسی ہے؟“ اس نے ہمت کرکے بمشکل پوچھا۔
”وہ ٹھیک ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔“ وہ بتاتے ہوئے لمحے بھر کو رکیں۔
”لیکن اب وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔“ ان کی بات مکمل ہوتے ہی باہر بہت زور سے بجلی چمکی، بالکل ویسی ہی بجلی جو اس کے دل پر گری تھی اور وہ ساکت رہ گیا تھا۔
****************************************
اذلفہ دائیں کروٹ پر کمبل اوڑھے لیٹی تھی جب کہ اذکی گہری نیند میں جا چکی تھی۔ باہر زور و شور سے بارش ہو رہی تھی۔ وقفے وقفے سے کڑکتی بجلی کی چمک کانچ کی کھڑکی سے کمرے میں اپنا جلوہ دکھا رہی جہاں زیرو پاؤر کا نائٹ بلب جل رہا تھا۔
اس ساری گرج چمک سے بےنیاز اذلفہ یک ٹک کسی غیر مرئی نقطے کو تکے جا رہی تھی۔ بظاہر ساکت نظر آتے اس کے وجود کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔
”محبت اور مذہب پر جو میرا تھوڑا بہت یقین تھا نا آج سے وہ بھی ہمیشہ کیلئے پوری طرح ختم!“ اسے جیکب کی آخری بات یاد آئی۔
”ہلاک ہونے والے مجرموں کی شناخت جیکب عرف جیکی کے نام سے ہوگئی ہے۔“ وہ دلسوز اطلاع اس کے ذہن میں گونجی۔
اس کا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ جیکب کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے مگر زبان ہلنے سے قاصر تھی۔
اور وہ کہتی بھی تو کیا اور کس سے کہتی؟
”شاید یہ دونوں ہی آپ کا نصیب نہیں امتحان تھے، آپ کا نصیب کوئی اور ہی ہے۔“ اسے اذکی کی بات یاد آئی۔
آخر اور کتنے امتحان باقی تھے اس کے؟ یہ بننے بكھرنے کا تماشا اور کب تک چلنے والا تھا؟ آخر کون تھا اس کا نصیب جس تک پہنچنے میں اس کے پیر زخمی ہونے لگی تھے، کون؟
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟
****************************************
”موحد آگیا!“ بیل کی آواز سنتے ہی دونوں ماں بیٹی کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی۔
”جا جلدی سے جا کر دروازہ کھول!“ تخت پر تسبیح لئے بیٹھی ہاجرہ نے بیٹی کو حکم دیا تو وہ بھی فوراً دوپٹہ سر پر لیتی ہوئی باہر بھاگی۔
انہوں نے بےساختہ شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے۔ کیونکہ تیز بارش میں اتنی رات تک اس کے نہ لوٹنے پر وہ بےحد فکرمند ہوگئی تھیں۔ اور اب بیل بجتے ہی ان کے دل نے گواہی دی تھی کہ وہ آگیا ہے۔
”السلام علیکم اماں!“ سرتاپا بری طرح بھیگا موحد لاؤنج کے دروازے پر ہی رک گیا۔ وہ ستائیس، اٹھائیس سالہ متناسب قد کاٹھ کے ساتھ ایک خوبرو جوان تھا۔
”وعلیکم السلام! کہاں رہ گئے تھے بیٹا؟ ہم اتنے پریشان ہوگئے تھے اور فون کیوں بند تھا!“ انہوں نے فکرمندی ظاہر کی۔
”بائیک خراب ہوگئی تھی اماں بارش میں اسی لئے دیر ہوگئی اور فون بھی چارج نہیں تھا۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”اللّه کا شکر ہے وہ تجھے خیریت سے گھر لے آیا، جا، جا کر کپڑے بدل کر آجا تب تک بہن کھانا گرم کرتی ہے۔“ انہوں نے محبت سے کہا تو وہ سر ہلا کر لاؤنج کے دروازے سے ہی پلٹ گیا۔
یہ ایک پرانے طرز پر بنا ایک سو بیس گز کا گھر تھا جس کے نیچے پانچ کشادہ کمرے اور ایک بڑا سا صحن تھا۔ صحن کے بائیں طرف ایک سیڑھی اوپر چھت پر جا رہی تھی۔ موحد صحن عبور کرکے اس سیڑھی کی طرف آیا اور اس پر چڑھ کر اوپر چھت پر آگیا جہاں اس کا کمرہ بنا تھا اور باقی ساری چھت کھلی تھی جہاں شام کو بیٹھنے کیلئے تخت اور خوبصورتی کیلئے پودے رکھے ہوئے تھے۔
موحد اپنے کشادہ کمرے میں آکر سیدھا باتھ روم چلا گیا۔ یہ کشادہ نفیس بیڈ روم ہر طرح کے سامان سے آراستہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ گرے جینز پر سفید شرٹ پہنے تولیے سے بال رگڑتا باہر آیا اور پھر تولیہ اسٹینڈ پر سکھا کر بال بنانے کے بعد وہ چھتری لے کر نیچے آگیا کیونکہ کھلے آسمان تلے اس مختصر سے سفر کے دوران بھی وہ خاصا بھیگ سکتا تھا۔
ہاجرہ لاؤنج میں رکھے اپنے تخت پر بیٹھی تھیں جب کہ بشریٰ وہاں موجود ٹیبل پر اس کیلئے کھانا لگا رہی تھی۔
”آپ لوگوں نے کھانا کھا لیا؟“ وہ پوچھتے ہوئے تخت کے مقابل رکھے سنگل صوفے پر بیٹھا۔
”ہاں، ہم نے تو کب کھانا کھا لیا تھا بس تمہارے انتظار میں جاگ رہے تھے بیٹا۔“ انہوں نے سادگی سے جواب دیا۔ بشریٰ کھانا لگا کر جاچکی تھی جس کے بعد وہ بھی اپنے سامنے موجود میز پر رکھے کھانے کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”ابو سے بات ہوئی؟ کب واپس آرہے ہیں وہ اجتماع سے؟“ اس نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں ہوئی تھی، پرسوں چالیس دن پورے ہوں گے نا تب قافلہ واپسی کیلئے نکل جائے گا۔“ انہوں نے حساب کتاب کرتے ہوئے بتایا تو اس نے سرہلایا۔
”اگر میرا آفس کا یہ ضروری کام آڑے نہ آتا نہ تو میں بھی ضرور جاتا ان کے ساتھ۔“ وہ کھانے کھاتے ہوئے بولا۔
”ہر بار ہی تو جاتے ہو بیٹا، بس اس دفعہ ہی نہیں جا سکے۔“ انہوں نے تسلی کرائی۔
وہ کھانا کھانے میں مصروف تھا جب کہ ہاجرہ غالباً کوئی بات کرنے کیلئے لفظ ترتیب دینے لگیں۔
”موحد! بیٹا ایک بات کہوں!“ وہ گویا ہوئیں۔
”جی حکم کریں۔“
”بیٹا دراصل بات یہ ہے کہ بشریٰ کی نند ہے نا حنا اس کی ایک سہیلی کی بہن سے کچھ دن پہلے ملی تھی بشریٰ، اسے بہت پسند آئی وہ لڑکی۔“ انہوں نے سنبھل کر بات شروع کی تو منہ کو جاتا اس کا ہاتھ بےساختہ رک گیا۔
”آپ لوگوں نے پھر کوئی لڑکی پسند کرلی میرے لئے!“ وہ نوالہ واپس رکھتے ہوئے نتیجے پر پہنچا۔
”ہاں تو، شادی نہیں کرنی ہے کیا؟“ وہ بھی اب گھبراہٹ چھوڑ کر دوبدو ہوئیں۔
”کرنی ہے لیکن ایک شرط پر کہ میں اس لڑکی سے اپنا ماضی نہیں چھپاؤں گا۔“ اس نے پھر وہ ہی بات دہرائی۔
”اور ماضی جاننے کے بعد کوئی لڑکی تم سے شادی کرنے کیلئے راضی نہیں ہوگی۔“ انہوں نے ترکی بہ ترکی یاد دلایا۔
”نہ ہو بےشک! مگر میں جھوٹ پر اس رشتے کی بنیاد نہیں رکھ سکتا امی!“ وہ بھی اپنی بات پر قائم تھا۔
”بیٹا تم سمجھ نہیں رہے ہو، تمہاری اسی ضد کی وجہ سے پہلے دو رشتے جڑنے سے پہلے ہی ختم ہوچکے ہیں، بشریٰ خیر سے اپنے گھر کی ہوگئی ہے، تمہاری دادی بار بار مجھے اور تمہارے ابو کو گاؤں بلا رہی ہیں، تم کام کی وجہ سے شہر چھوڑ کر جا نہیں سکتے اور اگر ہم دونوں چلے گئے تو تم اکیلے ہوجاؤ گے، ہمارا ارادہ تھا کہ تمہاری شادی کرکے پھر ہم آبائی گاؤں چلے جائیں گے، تم رہنا آرام سے یہاں اپنی بیوی کے ساتھ مگر تم ہو کہ ہماری سن ہی نہیں رہے ہو!“ وہ خاصے تفصیلی انداز میں اس پر خفا ہوئیں۔
”تو چلے جائیں نا آپ لوگ، کیوں رکے ہیں میری وجہ سے، میں کوئی چھوٹا بچہ تھوڑی ہوں جو اپنا خیال نہ رکھ سکوں۔“ وہ سادہ انداز میں کہہ کر دوبارہ کھانا کھانے لگا۔
”بات بدلو نہیں اور میری بات غور سے سنو، میں اور بشریٰ کچھ دنوں میں جائیں گے ان کے گھر بات چلانے، تمھیں کوئی ضرورت نہیں ہے انہیں اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بھی بتانے کی۔“ انہوں نے سختی سے تاکید کی۔ تو وہ کھانے کھاتے ہوئے انہیں دیکھ کر رہ گیا۔
”امی آپ جانتی ہیں کہ آج تک میں نے آپ کی کسی بات سے انکار نہیں کیا ہے، لیکن اب آپ جو آپ مطالبہ کر رہی ہیں وہ غلط ہے، اللّه نے تو عام حالت میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے اور یہ تو پھر زندگی بھر ساتھ رہنے والے رشتے کا معاملہ ہے جس کی شروعات میں جھوٹ کی لعنت سے نہیں کرسکتا۔“ وہ رسان سے گویا ہوا۔
”اگر وہ لڑکی مجھے میرے ماضی سمیت قبول کرتی ہے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت بھی اللّه نے میرے لئے کچھ اچھا ہی لکھا ہوگا، آپ پریشان نہ ہوں۔“ اس نے اسی طرح بات مکمل کی تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئیں جو ہمیشہ اسی ضد پر لاکر بات اٹکا دیتا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پاتی تھیں۔
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
****************************************
بارش رکنے کے بعد صبح ہی بچے کی تدفین کردی گئی تھی مگر افروز کی حالت ابھی بہتر نہیں تھی اسی لئے وہ ہنوز ہسپتال میں ایڈمٹ دواؤں کے زیر اثر تھی۔
جس اولاد کو وہ کب سے بانہوں میں لینے کیلئے بےقرار تھا آج اسے بلآخر اس نے بانہوں میں تو لیا تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔قبر میں اتارنے کیلئے۔ وہ کتنا دلسوز لمحہ تھا یہ چاہ کر بھی بیان نہیں کیا جاسکا تھا۔
بہت مشکل سے خود کو سنبھالتے ہوئے وہ پرائیویٹ روم کا دروازہ دھکیلتا اندر داخل ہوا جہاں مریضوں کے مخصوص نیلے لباس میں افروز پیٹ تک سفید چادر اوڑھے لیٹی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی اور دونوں آنکھیں بند تھیں۔
وہ آکر اسٹول پر اس کے نزدیک بیٹھا اور اس کا ڈرپ لگا ہاتھ پکڑ لیا۔
اس کا لمس محسوس کرکے اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ نظریں ملنے پر پہلے افروز کے سپاٹ تاثرات میں شناسائی ابھری، پھر سب کچھ یاد آنے پر چہرے پہ کرب پھیلا اور آنکھوں میں آنسوں جمع ہونے لگے۔
”م۔۔۔میرا۔۔۔۔بچہ!“ وہ لرزتے لبوں کے ساتھ بمشکل اتنا کہہ کر رو پڑی۔
وہ اسٹول سے اٹھ کر اس کے برابر بیڈ پر بیٹھا اور اسے ذرا سا اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔
وہ اس کی شرٹ دبوچے بلک بلک کر روئے جا رہی تھی اور وہ چپ چاپ اسے سینے سے لگائے اس کا سر سہلا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ افروز کا درد اس سے زیادہ ہے۔ اس نے نوں مہینے جس جان کو اپنے اندر پالا تھا وہ اسے ایک بار بھی اپنے سینے سے لگا کر اپنی ممتا کو قرار نہیں دے پائی تھی۔ اس کا خسارہ زیادہ بڑا تھا۔ اور اتنا ہی دلسوز بھی۔
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
****************************************
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
افتخار عارف
****************************************
”امی! آج سلمان مجھے لینے آرہے ہیں، اب شاید اگلے مہینے ہی آنا ہو میرا، آپ نے موحد بھائی سے بات کی؟ اگر ان کی طرف سے ہاں ہے تو پھر میں واپس جا کر بات آگے بڑھاؤں!“ بشریٰ نے کپڑے تہہ کرکے بیگ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہممم! بات کی تو تھی مگر وہ ہی مرغی کی ایک ٹانگ، وہ ہی ضد کہ لڑکی والوں سے اپنا ماضی نہیں چھپائے گا۔“ بیڈ پر بیٹھی سیب کاٹتی ہاجرہ نے جواب دیا۔
”لیکن امی اسی وجہ سے بھائی کے پہلے دو رشتے ختم ہوچکے ہیں۔“ اس نے حیرت سے یاد دلایا۔
”وہ ہی تو سمجھا رہی تھی اس کو، مگر وہ سنے تب نا!“
”ایسا کب تک چلے گا امی؟ بھائی کب تک یوں اکیلے رہیں گے؟ میں اپنے گھر جا رہی ہوں، آپ کو اور ابو کو بھی جلد از جلد گاؤں واپس جانا ہے۔“ اس نے فکرمندی سے سوال کیا۔
”اب ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔“ وہ پرسوچ انداز میں کہتے ہوئے گویا کسی نتیجے پر پہنچ چکی تھیں۔
****************************************
افروز کو ہسپتال سے گھر آئے ہوئے دو روز ہوگئے تھے۔ اس کی آنکھیں رو رو کر خشک ہوچکی تھیں اور ہونٹ کو چپ نے سل دیا تھا۔ وہ بس اپنے نومولود بچے کے کپڑے اور کھلونے بیڈ پر بکھرائے اور باقی سینے سے لگائے بیٹھی رہتی تھی۔ حامد انہیں اٹھا کر رکھنے کی کوشش کرتا تو وہ چیخنا چلانا شروع کردیتی تھی جس کے باعث حامد نے فی الحال اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
ابھی بھی جب وہ کمرے میں آیا تو حسب توقع افروز بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی گود میں کھلونے دھرے تھے اور ایک ننھا سا سوٹ اس نے ایسے سینے سے لگایا ہوا تھا جیسے یہ اس کا بچہ ہو۔
وہ آگے آکر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے خود بھی اس کے برابر میں بیٹھا اور ایک بازو اس کے گرد حمائل کرلیا۔
”افروز!“ اس نے دھیرے سے پکارا۔
”دو دن ہوگئے، تم نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔“ اس نے نرمی سے شکوہ کیا۔
”میرا بچہ بھی مجھ سے بات نہیں کر رہا ہے، یہ دیکھیں۔“ اس نے دکھ سے کہتے ہوئے سینے سے لگے سوٹ کو اس کے سامنے کیا۔ اسے ایسے دیکھ کر حامد کا دل کٹ کر رہ جاتا تھا۔
”ہمارا بچہ جا چکا ہے، وہ جس رب نے ہمیں دیا تھا اسی نے واپس لے لیا افروز، اس بات کو سمجھو۔“ اس نے پیار سے سمجھایا۔
”کیوں لے لیا حامد؟ ابھی تو میں نے اسے جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا، پیار بھی نہیں کیا تھا، گود میں بھی نہیں لیا تھا۔“ اس نے روہانسی ہوکر کہا۔ وہ اس کی تڑپ سمجھ سکتا تھا مگر اسے یوں تڑپتا ہوا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اسے سمجھانا، اس ٹرامہ سے باہر لانا ضروری تھا۔
”پتا ہے صحیح بخاری میں کوڈ ہوئی حدیث (6434) کا مفہوم ہے، حضور ﷺ نے فرمایا جب اللّه پاک اپنے مومن بندے سے اس کی کوئی من پسند شے لے لیتا ہے اور بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللّه بدلے میں اسے جنت عطا کرتا ہے۔“ وہ دھیرے سے گویا ہوا۔
”مجھے جنت، دنیا، دولت، انعام کچھ نہیں چاہیے، مجھے بس میرا بچہ چاہیے۔“ تڑپ کر کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے پھر آنسوں رواں ہوگئے۔ وہ اس وقت سب کچھ فراموش کر کے ایک ماں رہ گئی تھی، ایک تڑپتی ہوئی ادھوری ماں!
”تم اپنے بچے کیلئے کیوں تڑپ رہی ہو؟ کیونکہ تمھیں اس سے محبت ہے، کیا تم اپنے بچے کو نقصان پہنچا کر اس کے ساتھ کچھ برا کرسکتی ہو؟“ سیدھا جواب دینے کے بجائے کسی تحت اس نے الٹا سوال کیا۔
”نہیں، میں تو اپنے بچے کو سینے سے لگا کر رکھتی اس پر ایک آنچ تک نہ آنے دیتی، میں نے تو یہ تک سوچا تھا کہ اس کی چیزیں بھی سنبھال سنبھال کر رکھوں گی اور اب بس اس کی چیزیں ہی رہ گئیں میرے پاس، اپنے بچے کو نہیں سنبھال سکی میں، بہت بری ماں ہوں میں، بہت بری!“ وہ جذباتی انداز میں کہتے ہوئے خود کو ملامت کرنے لگی۔
”ہمارا بچہ ابھی بھی محفوظ ہے، اسے کچھ نہیں ہوا ہے، وہ اللّه کے پاس ہے جو سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور پتا ہے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب کسی کا بچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے نا تو قیامت کے دن وہ اللّه کے حضور اپنے والدین کی سفارش کرتا ہے جسے اللّه قبول فرماتا ہے، تمھیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہمارا بچہ اللّه کی حفاظت میں ہے اور قیامت کے دن ہم اس سے ملنے والے ہیں۔“ اس نے نرمی سے سمجھایا تو جواباً وہ کچھ نہ بولی۔
”تم ہی نے بتایا تھا نا کہ تمہاری امی کہتی ہیں جو ہمارا نصیب ہوتا ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا!“ اس نے تائید چاہتے ہوئے یاد دلایا تو افروز نے اثبات میں سرہلایا۔
”تو بس پھر اس بات پر یقین بھی رکھو، جیسی محبت تمہارے دل میں تمہارے بچے کیلئے ہے اس سے کئی گنا زیادہ محبت اللّه تم سے کرتا ہے تو وہ تمہارے سا کچھ غلط کیسے کر سکتا ہے؟ اور ابھی جو تکلیف تمھیں ہو رہی ہے اس کا بس ایک ہی حل ہے کہ اللّه پر یقین کرکے صبر کرلو، تمھیں سکون مل جائے گا۔“ اس نے نرم مگر حتمیٰ انداز میں اسے راستہ دکھایا۔ اس کی آنکھیں ہنوز نم تھیں مگر اب وہ بری طرح رو نہیں رہی تھی۔ شاید صبر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”اب میں کبھی آپ کو اولاد کی خوشی نہیں دے سکوں گی، اس وجہ سے آپ مجھے چھوڑ تو نہیں دیں گے نا!“ اس نے اچانک ہی سر اٹھا کر نم آنکھوں کے ساتھ سوال کیا۔
”پہلی بات تو یہ کہ اولاد پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے، اور اگر ہوتا بھی تو میں تمھیں کبھی نہ چھوڑتا کیونکہ اگر بدقسمتی سے درخت کی کسی شاخ پر پھول نہ کھل سکے تو اس وجہ سے پورے درخت کو نہیں کاٹا کرتے، اور یہ درخت تو میں نے خود بہت چاؤ سے لگایا ہے اپنے دل کے آنگن میں، تو اسے اپنے ہاتھوں بھلا کیسے اکھاڑ سکتا ہوں؟“ اس نے اپنے بازو کی گرفت تنگ کرکے مسکراتے ہوئے کہا تو افروز کو لگا اس کے جلتے دل پر گویا ٹھنڈی پھوار پڑ گئی ہے جس کے باعث وہ بےحد سکون ہوگئی۔
****************************************
کچن کے کام سے فارغ ہوکر نعیمہ کمرے میں آئیں تو رضوان بیڈ پر نیم دراز ٹی وی دیکھتے ہوئے ملے۔ وہ بھی آکر بیڈ کی دوسری جانب بیٹھ گئیں۔
”سنیں! ایک بات کرنی ہے آپ سے۔“ انہوں نے اپنے سونے کی ٹاپس اتارتے ہوئے تہمید باندھی۔
”بولیں، سن رہا ہوں۔“ ان کی نظریں ٹی وی پر ہی تھیں۔
”ہماری اذلفہ کیلئے رشتہ آیا ہے، اچھے اونچے گھرانے کے صاحبِ حیثیت لوگ ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔“ وہ بتاتے ہوئے رکیں۔
”مگر کیا؟“ انہوں نے اس طرف دیکھتے ہوئے مزید جاننا چاہا۔
”مگر لڑکے کی یہ دوسری شادی ہوگی اولاد کیلئے، اس کی پہلی بیوی موجود ہے لیکن وہ ماں نہیں بن سکتی ہے۔“ انہوں نے دھیرے سے بات مکمل کی تو حیرت کے مارے رضوان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”آپ ہوش میں تو ہیں بیگم! آپ اپنی بیٹی کو کسی کی سوتن بنانے کی بات کر رہی ہیں!“ وہ حیرت زدہ سے سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔
”اب ایسی بھی کوئی انہونی بات نہیں کردی ہے میں نے، اچھے کھاتے پیتے لوگ ہیں، اور ایسی صورت حال میں تو اسلام بھی دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے، ہماری بیٹی راج ہی کرے گی وہاں۔“ انہوں نے اپنے تئیں مثبت پہلو دکھائے۔
”راج خواہشیں کرتی ہیں مجبوریوں کو ہمیشہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، دوسری شادی اس لڑکے کی مجبوری ہوگی جو پہلے ہی اپنی بیوی پر ساری الفت و محبت نچھاور کرچکا ہوگا تو ہماری بیٹی کیلئے پھر کیا بچا ہوگا اس کے پاس؟“ انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اور بےشک اسلام نے ایسی صورت میں دوسری شادی کی اجازت دی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ اپنے لئے کوئی جوان کنواری لڑکی ہی ڈھونڈو، بلکہ دوسری تیسری شادی کیلئے اسلام نے ایسی عورتوں کو ترجیح دی ہے جو خدانخوستہ بیوہ یا طلاق یافتہ ہوتی ہیں، جنہیں ایک مرد کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اس طرح اُس مرد اِس عورت دونوں کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں، مگر لوگ اسلام کو بنا سمجھے آڑ بنا کر اپنے کام سیدھے کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جس پر آپ جیسے لوگ سونے پر سہاگہ کر دیتے ہیں۔“ انہوں نے مزید بات جاری رکھتے ہوئے آخر میں توپ ان کی طرف کی۔
”میں نے بھلا کیا کردیا! آپ بھول رہے ہیں کہ ہماری بیٹی کا رشتہ ٹوٹا ہے، لوگ ایسی لڑکی سے رشتہ جوڑتے ہوئے ہزار سوال کرتے ہیں۔“ انہوں نے بھی اس الزام پر تپ کر فوراً یاد دلایا۔
”تو جواب دیں ان سوالوں کہ بھئی غلط جگہ رشتہ جوڑ دیا تھا ہم نے اپنی بیٹی کا مگر الحمدللہ وقت رہتے ہی سب سامنے آگیا اور ہم نے بات ختم کردی، یہ کیا تُک ہوئی کہ لڑکی کا رشتہ ختم ہوگیا ہے تو لوگوں کے سوالوں کے ڈر سے کسی سے بھی شادی کردو! صرف ایک رشتہ ٹوٹنے سے ہماری بیٹی کوئی داغدار نہیں ہوئی ہے کہ اسے اب رشتے ہی نہیں ملیں گے۔“ وہ بھی خاصے تیز انداز میں کہتے گئے۔
”چھے سات مہینے ہوگئے ہیں اس کا عاطف سے رشتہ ختم ہوئے مگر اب تک دوبارہ کوئی اچھا رشتہ نہیں ملا، ایک یہ رشتہ مجھے مناسب لگا تھا مگر اس میں بھی آپ کو خامیاں نظر آرہی ہیں، اب آپ ہی بتا دیں کہ اچھا رشتہ کہاں اور کیسے ملے گا؟“ انہوں نے بھی بدمزہ انداز میں کہتے ہوئے آخر میں سوال اٹھایا۔
”جس اللّه نے پہلے ایک بےجوڑ رشتے سے بچا لیا نا وہ ہی اللّه صحیح جوڑ سے ملوا بھی دے گا، آپ بس اس کی ذات پر یقین رکھیں اور یہ بےتُکی خرافات سوچنا چھوڑ دیں کیونکہ اللّه انہیں ہی نوازتا ہے جو اس سے اچھی امید رکھتے ہیں۔“ انہوں نے بات ختم کرنے والے انداز میں حتمیٰ جواب دیا اور دوبارہ ٹی وی پر چلتے خبرنامے کی جانب متوجہ ہوگئے۔ جب کہ وہ بھی بڑبڑاتے ہوئے کمبل اوڑھ کر لیٹ گئیں۔
****************************************
”ٹک ٹک ٹک!“ حامد نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔
”آجاؤ!“ اجازت ملنے پر وہ دروازہ دھکیلتا ہوا اندر آگیا جہاں نور جہاں اپنی ایزی چیئر پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔
”آپ نے بلایا اماں جان!“ وہ ادب سے ان کے سامنے کھڑا تھا۔
”ہممم! بیٹھو۔“ انہوں نے خود سے ذرا فاصلے پر موجود سنگل صوفے کی جانب اشارہ کیا۔ وہ فرمابرداری سے آکر اس پہ بیٹھ گیا۔
”اب آگے کیا سوچا ہے؟“ انہوں نے بات شروع کی۔
”کس بارے میں؟“ وہ سمجھا نہیں۔
”تمہاری بیوی تو اب تمھیں اولاد کی خوشی دے نہیں سکتی تو کب اسے چلتا کرکے میری پسند کی بہو لا رہے ہو؟“ انہوں نے سادہ انداز میں کہتے ہوئے سفاکیت کی انتہا کردی۔
”اس میں افروز کی کوئی غلطی تھوڑی ہے اماں جان، وہ بیچاری تو مجھ سے زیادہ درد میں ہے اور بنا کسی غلطی کے شرمندہ بھی ہے۔“ اس نے فوراً دفاع کیا۔
”بےشک تمہارے نام کا مطلب ہے تعریف کرنے والا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے حامد کہ تم ہر مرتبہ میری ہر بات کے جواب میں آگے سے اپنی بیوی کی تعریفیں کرنا شروع کردو، میں نے اس لئے تمھیں یہاں نہیں بلايا ہے۔“ وہ اس کی حمایت سن سن کر سلگ گئی تھیں۔
”تو پھر کس لیے بلایا ہے؟“ لحاظ کا دامن تھامے ہوئے اس نے بجائے الٹا جواب دینے کے سیدھا سوال کیا۔
”تمھیں یہ بتانے کیلئے کہ بہت ہوگئی تمہاری مرضی، اب وہ ہی ہوگا جو میں کہوں گی، اس لڑکی کو جلد از جلد طلاق دے کر یہاں سے چلتا کرو اور اس سے شادی کرو جسے میں نے تمہارے لیے پسند کیا ہے۔“ ان کا انداز حاکمانہ تھا۔
”اور اگر میں ایسا نہ کروں تو؟“
”تو میں تمھیں اس گھر و جائیداد سے ہمیشہ کیلئے عاق کردوں گی۔“
”یہ زیادتی ہے اماں جان، ان سب پر میرا بھی حق ہے، صرف ایک پسند کی شادی کرلینے کی وجہ سے آپ مجھے اتنی بڑی سزا نہیں دے سکتیں۔“ اس نے احتجاج کیا۔
”دے سکتی ہوں اور دوں گی اگر تم نے میری بات نہ مانی، پہلے میں نے اس لڑکی کو یہ سوچ کر قبول کرلیا تھا کہ وہ ہمارے خاندان کو وارث دینے والی تھی مگر اب وہ امید بھی نہیں رہی اس سے۔“ انہوں نے سختی سے باور کراتے ہوئے آخر میں نفرت سے سر جھٹکا۔
”ہم اب بھی لاوارث تو نہیں ہیں، عماد بھائی کا بیٹا ہے تو۔“
”اور تمہارا کیا؟ تم ساری زندگی ایسے ہی رہو گے؟“
”نہیں، میں کسی یتیم بچے کو گود لے کر اپنا نام دے دوں گا جس سے اسے والدین اور ہمیں اولاد مل جائے گی۔“ اس نے سہولت سے حل پیش کیا تو وہ دنگ رہ گئیں۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے حامد؟ تم کسی اور کے خون کو اپنا نام دو گے؟“ ان کی حیرت عروج پر تھی۔
”نہیں، مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں نا تو وہ بھی میرے کسی بھائی کی اولاد ہی ہوا، اور ویسے بھی شخصیت کا تعلق تربیت سے ہوتا ہے۔“ اس نے منطق پیش کرتے ہوئے جس طرح بات کی تھی اس سے ممکن تھا کہ اب نورجہاں کا بی پی شوٹ کر جائے گا۔
”حامد! میں آخری بار کہہ رہی ہوں کہ اس لڑکی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرلو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔“ وہ بہت مشکل سے ضبط کی ہوئی تھیں جس کا اندازہ ان کی تنی ہوئی رگوں اور بھینچے ہوئے جبڑوں سے بخوبی ہو رہا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کی ماں بات کی کتنی پکی ہے!
”ٹھیک ہے، میں ایک ہفتے تک پیپیرز تیار کرواتا ہوں۔“ بلآخر اس نے ان کے آگے سر تسلیم خم کردیا جس کے باعث ان کے تنے ہوئے تاثر یکدم ڈھیلے پڑے۔
****************************************
”ابوبکر صاحب!“ پکار پر وہ چونک کر پلٹے۔
”السلام علیکم! کیسے ہیں آپ؟“ رضوان نے قریب آکر مصحافہ کیا۔ دونوں اس وقت مسجد کے احاطے میں کھڑے تھے۔
”وعلیکم السلام! شکرالحمدللہ! آپ سنائیں کیسے مزاج ہیں؟“ انہوں نے بھی خوشدلی سے جواب دیا۔
”میں بھی ٹھیک بلکہ آپ کو اتنے مہینوں بعد یہاں دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت ہوئی، کیا دوبارہ یہاں واپس آگئے ہیں۔“ رضوان نے کیفیت کو الفاظ دیے۔
”ارے نہیں نہیں، آپ کو پتا تو ہے کہ مہینوں پہلے بھی مولانا فاروق صاحب کی ناساز طبیعت کی وجہ سے کچھ عرصے کیلئے مجھے یہاں بلايا تھا ورنہ میں تو یہاں کا ہوں ہی نہیں، آج بھی بس ادھر سے گزر ہوا تو سوچا ظہر کی نماز یہیں ادا کرلیتے ہیں اسی بہانے پرانے احباب سے ملاقات بھی ہوجائے گی، اور دیکھیں آپ مل گئے۔“ انہوں نے خوش اخلاقی سے تفصیل بتائی۔
”آپ کی کشش ایسی ہے کہ آپ کو دیکھتی ہی آپ تک کھینچ لائی، سچ کہوں تو جب آپ اس مسجد میں موجود تھے اور جس طرح ہر جمعے کو نماز کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے وہ ایسا دل پر اثر کرتا تھا کہ آج تک یاد ہے۔“ رضوان نے پرستائش انداز میں صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”اس میں میرا کوئی کمال نہیں، تمام تعریفیں اس رب کیلئے جس نے میرے لفظوں میں یہ تاثیر رکھی۔“ انہوں نے عاجزی سے جواب دیا۔
”بےشک! اللّه کچھ خاص لوگوں کو ہی یہ نعمت عطا کرتا ہے۔“ انہوں نے تائید کی۔
”بس آپ اپنی اس پُرتاثیر زبان سے میری بیٹی کیلئے بھی دعا کیجئے گا کہ اللّه جلد اس کا نصیب اس کے صحیح جوڑ سے جوڑ دے۔“ انہوں نے سادگی سے گزارش کی۔
”ضرور! اللّه پاک آپ کی صاحبزادی سمیت سب بیٹیوں کا نصیب بہت اچھا کرے۔“ وہ دعا گو ہوئے۔
”امین!“ انہوں نے بےساختہ کہا۔
****************************************
ایک ہفتے تک افروز کی حالت کافی سنبھل چکی تھی۔ مگر اب بھی وہ بس کمرے اور بالکونی کی حد تک ہی محدود تھی کیونکہ نورجہاں کی نظروں کی تاب لانا اس کے بس میں نہیں تھا۔
ابھی بھی وہ شام کے وقت کافی دیر سے بالکونی میں کھڑی یوں ہی آس پاس نظریں دوڑا رہی تھی کہ کمرے میں سے کچھ کھٹ پٹ کی آواز سن کر وہ اندر چلی آئی۔ بیڈ پر سوٹ کیس کھلا رکھا تھا جس میں حامد الماری سے کپڑے نکال کر رکھنے میں مصروف تھا۔
”یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟“ وہ متعجب ہوئی۔
”سامان پیک کر رہا ہوں۔“ مصروف انداز میں جواب ملا۔
”لیکن کیوں؟“ وہ کچھ سمجھی نہیں۔
”صاحب سب بیگز رکھ دیے ہیں ٹیکسی میں۔“ تب ہی ملازم کہتا کمرے میں آیا۔
”ٹھیک ہے، یہ آخری سوٹ کیس بھی رکھ آؤ۔“ حامد نے کہتے ہوئے اسے بند کیا تو وہ فرمابرداری سے اسے لے گیا۔
”یہ سب ہو کیا رہا ہے حامد؟ کچھ تو بتائیں۔“ وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔
”آؤ میرے ساتھ، بتاتا ہوں۔“ وہ اسے لے کر کمرے سے باہر آگیا۔
باہر پہلے سے ہی سب لوگ متعجب ہوکر ہال میں موجود تھے۔
”یہ کس کا سامان جا رہا ہے حامد؟“ عماد نے سب کے سوال کی ترجمانی کی۔
”اماں جان نے مجھے کہا تھا کہ میں افروز کو طلاق دے کر واپس بھیج دوں اور اس سے شادی کرلوں جس سے وہ کہیں گی، اگر میں نے ایسا نہ کیا تو وہ مجھے اس گھر جائیداد سے عاق کردیں گی، تو یہ ان ہی کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں میں۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا جسے سن کر عماد، رابعہ اور نزہت حیران ہوئے، نورجہاں کے چہرے پر مغرور سا اطمینان آگیا۔ اور افروز ہکابکا رہ گئی۔
”میں نے یہ پیپیرز تیار کروا کر ان پر سائن بھی کردیے ہیں۔“ اس نے مزید کہتے ہوئے جیکٹ کی اندرونی جیب سے ایک ساتھ تہہ شدہ کچھ کاغذ نکال کر نورجہاں کی جانب بڑھائے۔
افروز کی اب سمجھ میں آیا کہ یہ سامان اس کا جا رہا تھا۔ اسے لگا تھا کہ وہ یکدم عرش سے فرش پر آکے گری ہے۔
بس یہیں تک تھا ان کا سفر۔۔۔۔۔
بس یہ ہی تھے اس کے سب وعدے۔۔۔۔
وہ محبت۔۔۔وہ شدت۔۔۔۔۔وہ عہد و پیماں۔۔۔۔سب محض باتیں ثابت ہوئی تھیں۔ ذلت کے احساس کے باعث اس کی آنکھوں میں آنسوں جمع ہونے لگے۔
”ان کاغذات میں لکھا ہے کہ مجھے اس گھر و جائیداد میں کوئی حصہ نہیں چاہیے میں اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنا حصہ اپنے بہن بھائی کے نام کرتے ہوئے یہ گھر جائیداد چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جا رہا ہوں۔“ خاموش فضا میں ایک بار پھر حامد کی آواز گونجی جسے سن کر باقی سب تو حیران ہوئے ہی مگر نور جہاں کا اطمینان بھی حیرت میں بدل گیا۔ اور افروز کا دل زور سے دھڑکا۔
حامد نے پھر اس کا خدشہ غلط ثابت کرکے اسے پھر فرش سے عرش پر پہنچا دیا تھا۔
نہ سفر ختم ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
نہ وعدہے ٹوٹے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ محبت۔۔۔وہ شدت۔۔۔۔۔وہ عہد و پیماں۔۔۔۔سب کچھ اس نے سچ باتیں کر دکھایا تھا۔ ذلت کے مارے جو آنسوں آنکھوں میں جمع ہونا شروع ہوئے تھے تشکر کے مارے وہ گالوں پر بہہ گئے۔
”تمہارا دماغ خراب ہے حامد؟ تم اس بنا پھل کے پیڑ کیلئے یہ عیش و عشرت ٹھکرا کر جا رہے ہو!“ نورجہاں کاغذات زمین پر پھینکتے ہوئے غصے سے چلائیں۔
”جی، کیونکہ مجھے اس عیش و عشرت سے زیادہ اس پیڑ کی چھاؤں سے عشق ہے، اتنا عشق کہ مجھے اس کے پھل سے بھی کوئی سروکار نہیں۔“ اس نے پر اطمینان انداز میں ترکی بہ ترکی جواب دیا تو وہ مزید سلگ گئیں۔
”اگر آپ نے کبھی مجھے یاد کیا تو میں فوراً حاضر ہوجاؤں گا مگر خود سے آکر کبھی آپ لوگوں کو تنگ نہیں کروں گا، میری کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کردیجئے گا، الله حافظ!“ اس نے اسی تحمل سے مزید کہا اور افروز کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
عماد اور نزہت حیران تھے، اپنے پیارے بھائی اور بھابھی کے اس طرح جانے پر رابعہ آب دیدہ تھی اور نورجہاں۔۔۔۔ان کی حالت غصے میں بھپرے ہوئے اس کھلاڑی جیسی تھی جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہار گیا تھا۔
****************************************
”جب میں نے اچھے خاصے رشتے کا بتایا تھا تب تو آپ کو اس میں بڑی خامیاں نظر آرہی تھیں اور اب ایک ایسے لڑکے سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کیلئے راضی ہوگئے ہیں جو۔۔۔۔۔۔۔“
”ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے بیگم!“ نعیمہ تیز انداز میں بول ہی رہی تھیں کہ رضوان بیچ میں بول پڑے۔ دونوں اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھے ۔
”اچھا کیا فرق ہے؟ ذرا مجھے بھی سمجھائیں۔“ وہ دوبدو ہوئیں۔
”سب سے بڑا اور اہم فرق یہ ہے کہ یہ رشتہ کوئی ایرا غیرا نہیں لایا بلکہ بہت ہی معتبر توسط سے جڑ رہا ہے، ابوبکر صاحب بہت نیک آدمی ہیں اور آج مسجد میں جب میں نے ان سے اذلفہ کے رشتے کا ذکر کیا تو انہوں نے خود مجھے یہ پیشکش کی، دوسری بات کہ یہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ نہیں ہے بلکہ اپنے لئے واقعی ایک شریک حیات چاہتا ہے جو گزری باتیں در گزر کرکے اس کا گھر اور زندگی سنوار سکے، اور مجھے یقین ہے کہ ہماری بیٹی یہ نیک کام بخوبی کرلے گی۔“ کہتے ہوئے آخر میں ان کے لہجے میں مان چھلکا۔
”اچھا تو ہماری بیٹی بس اس نیکی کیلئے رہ گئی ہے اب!“ وہ اس رشتے میں نقص ڈھونڈ کر گویا پچھلا حساب کتاب برابر کرنا چاہ رہی تھیں۔
”اس بات کا فیصلہ اگر ہماری بیٹی ہی کرلے تو بہتر ہے، آپ اسے ساری تفصیل بتا کر اس کی مرضی پوچھ لیں، اگر وہ ہاں کرتی ہے تو مجھے بتا دیں تا کہ میں ان لوگوں کو فون کرکے بلا لوں۔“
”اور اگر اس نے انکار کردیا تو؟“
”تو بھی مجھے بتا دیجئے گا۔“ انہوں نے ضبط کرتے ہوئے بات ختم کی۔
****************************************
”گھر تھوڑا چھوٹا ہے مگر ہم دونوں کیلئے کافی ہے، اور صاف صفائی کرنے کے بعد یہ اور پیارا ہوجائے گا، خیر! لو فی الحال تم اس پر بیٹھ جاؤ، میں تب تک بیڈ ٹھیک کر دیتا ہوں پھر تم آرام کرلینا۔“ حامد نے کہتے ہوئے ایک سوٹ کیس لٹا کر افروز کے پاس کیا تا کہ فی الحال اس سے کرسی کا کام لے سکے۔
”آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔“ بجائے بیٹھنے کے وہ اس کی جانب آئی۔
”کیونکہ ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ بنا بیڈ کے ہم سوئیں گے کیسے؟“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”آپ میرے لئے اتنی مشکل پیدا کیوں کر رہے ہیں؟ مجھ سے اتنی محبت کیوں کر رہے ہیں کہ میں ساری زندگی اس کا قرض نہ اتار پاؤں!“ اس کے جواب کو نظر انداز کیے وہ روہانسی انداز میں بولی۔
”محبت کوئی قرض تھوڑی ہے جو اتارا جائے، محبت تو بس محبت ہے جو جتنی کی جائے اتنی کم ہے۔“ اس نے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
دونوں اس وقت ایک چھوٹے سے گھر میں موجود تھے جہاں سوٹ کیس سمیت کچھ اور سامان بھی بےترتیب سا موجود تھا۔
”آپ کو میری وجہ سے اپنے گھر والوں کو چھوڑنا پڑا!“ وہ شرمندہ ہوئی۔
”میں نے انہیں نہیں چھوڑا، میرے دل اور گھر کے دروازے ان کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں اور رہیں گے، لیکن جب ساتھ رہنے سے دلوں میں غبار آنے کا خدشہ ہو تو پھر سلیقے سے الگ ہوجانا ہی بہتر ہوتا ہے۔“ اس نے رسان سے جواب دیتے ہوئے اس کی لٹ پیچھے کی۔
”اور تم شاید یہ بھی سوچ رہی ہوگی کہ ہم ڈی ایچ اے والے فلیٹ میں کیوں نہیں گئے تو بتاتا چلوں کہ وہ اماں جان کی جائیداد کا حصہ تھا اسی لئے وہاں جانے کے بجائے اپنی تھوڑی بہت جمع پونجی کی مدد سے میں نے ایک ہفتے کے اندر یہ گھر رینٹ پر لے کر اس میں تھوڑا بہت سامان ڈالا ہے، ہاں یہ گھر تھوڑا چھوٹا ہے لیکن اب ہمیں مل کر اسے ایک ایسا گھر بنانا ہے جس میں عیش و عشرت نہیں بلکہ سکون و محبت ہو، اس کام میں میرا ساتھ دو گی نا تم!“ اس نے مزید بتاتے ہوئے آخر میں لاڈ سے تائید چاہی تو افروز نے بھی محبت پاش انداز سے پہلے اثبات میں سرہلایا اور پھر اس کے سینے سے لگ گئی جو اس کی سب سے محفوظ پناہ گاہ تھی۔
****************************************
”آپ مجھ سے جھوٹ تو نہیں بول رہی ہیں نا؟“ موحد نے تفتیشی انداز میں آنکھیں سکیڑیں۔
”ماں سے یہ سوال کرتے ہوئے تمھیں شرم آنی چاہئے، ماں کو جھوٹا کہہ رہے ہو!“ جواباً انہوں نے بھی تیکھے انداز میں طنز مارا۔
”ماں کے کام ہی اتنے مشکوک ہوتے ہیں۔“ اس نے مزید تپایا۔
موحد لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا صبح کیلئے اپنے جوتے پالیش کر رہا تھا جب کہ ہاجرہ سامنے تخت پر بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں۔
”ٹھیک ہے، اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو اپنے ابو سے پوچھ لینا، اور اگر ان کی بات پر بھی یقین نہ آئے تو کل ہم جا رہے ہیں نا ان کے گھر خود ہی پوچھ لینا ان لوگوں سے کہ کیا ہم نے انہیں تمہارے ماضی کے بارے میں سب بتایا ہے یا نہیں؟ اور کیا انہیں واقعی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے!“ انہوں نے نروٹھے انداز میں کہا تو وہ ان کی اس روٹھی ادا پر ہنس دیا۔
****************************************
”آپی! کیا آپ بھی وہ ہی سوچ رہی ہو جو میں سوچ رہی ہوں؟“ اذکی نے سوال کیا۔ سب کاموں سے فارغ ہوکر دونوں بہنیں اس وقت اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔
”تم کیا سوچ رہی ہو؟“ اذلفہ نے الٹا سوال کیا۔
”اسی کے بارے میں جو کل اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمارے گھر آرہا ہے، جو کچھ امی نے شام کو اس کے بارے میں بتایا ہے کیا اسے جان کر آپ کو بھی وہ ہی لگ رہا ہے جو مجھے لگ رہا ہے؟“ اس نے سوال تھوڑا واضح کیا۔
”میں کچھ بھی نہیں سوچ سمجھ رہی، تم بھی بلاوجہ اپنی اینرجی نہ برباد کرو۔“ اس کا سادہ سا انداز بات ختم کرنے والا تھا۔
”تو کیا آپ نے بنا سوچیں سمجھے اس رشتے کیلئے ہاں کردی امی کو؟“ اذکی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”نہیں، میں نے بس یہ سوچ کر ہاں کی ہے کہ اگر یہ رشتہ میرے حق میں اچھا ہوا تو ہوجائے گا، باقی مجھے کچھ نہیں سوچنا، اب تم بھی سوجاؤ۔“ اس نے بات ختم کرکے کروٹ لیتے ہوئے کمبل اوڑھ لیا جب کہ اذکی بھی چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد دوسری طرف کروٹ لے کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔
****************************************
پرندوں کی چہچاہٹ سے سجی صبح زمین پر اتر آئی تھی۔
افروز نے کروٹ بدل کر موندی موندی آنکھیں کھول کر حامد کو دیکھنا چاہا تو اسے غیر حاضر پا کر یکدم اس کی ساری نیند ہوا ہوئی اور وہ اٹھ بیٹھی۔
باتھ روم کا دروازہ ادھ کھلا تھا اور دوسری جانب چھایا سناٹا بھی بتا رہا تھا کہ وہ باتھ روم میں نہیں ہے۔
وہ کھلے بالوں اور دوپٹے سے عاری حلیے میں ہی فوراً کمرے سے باہر آئی۔ بیڈروم کے بعد چھوٹا سا لاؤنج تھا جس کے ایک کونے میں چھوٹا سا اوپن کچن اور دوسرے کونے میں ایک مزید کمرہ تھا۔ لاؤنج سے باہر آتے ہی ایک چھوٹا سا کھلا صحن تھا جس کے دائیں طرف بنی سمنٹ کی سیڑھیاں اوپر چھت پر جا رہی تھیں اور سامنے ہی لوہے کا داخلی دروازہ تھا۔
”حامد!“ اس چھوٹے سے بنا ساز و سامان والے پھیلے ہوئے گھر میں حامد کو نا پا کر وہ خاصی پریشان ہوگئی تھی۔
تب ہی بیرونی دروازے پر کھٹکا ہوا تو وہ فوراً صحن میں آئی۔ حامد دروازہ بند کرتے ہوئے اندر کی طرف ہی آرہا تھا۔
”کہاں چلے گئے تھے آپ؟“ وہ بےتابی سے اس کے پاس آئی۔ اسے پل بھر کیلئے بھی موجود نہ پا کر وہ گھبرا جاتی تھی۔
”ناشتہ لینے گیا تھا۔“ اس نے سادگی سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں موجود حلوہ پوری کا شاپر اس کے سامنے لہرایا۔
”تو آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟“ اس نے شکایاتی انداز میں سوال کیا۔
”تمہاری نیند خراب ہوجاتی نا! سوچا آکر جگا دوں گا۔“ حامد نے کندھے اچکائے۔
”تو آپ باہر کیوں گئے؟ میں گھر میں ناشتہ بنالیتی نا!“ اسے یہ منطق ہی سمجھ نہ آئی۔
”کچن میں نہ گیس کا کنیکشن آن ہے اور نہ ہی سودا سلف موجود ہے، تو کیسے ناشتہ بناتی؟“ اس نے یاد دلاتے ہوئے سوال کیا تو وہ لاجواب ہوگئی۔ اسے اب یاد آیا کہ کل رات بھی اسی وجہ سے حامد کھانا باہر سے لایا تھا۔
”چلو اب تم جاگ ہی گئی ہو تو جلدی سے فریش ہوکر آجاؤ ورنہ ناشتہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔“ وہ کہتے ہوئے اسے لے کر اندر بڑھ گیا۔
****************************************
”امی! وہ لوگ آج صرف رشتے کی بات کرنے آرہے ہیں اور آپ نے کھانے میں ولیمے کا مینو ترتیب دے ڈالا ہے۔“ نعیمہ کی زبانی آج رات کا مینو سن کر اذکی حیران رہ گئی تھی۔
”تمہارے ابو کا حکم ہے کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہئے۔“ انہوں نے فریج سے گوشت نکالتے ہوئے اس کے علم میں اضافہ کیا۔
”میں کیا کرواؤں امی؟“ اذلفہ بھی پوچھتی ہوئی کچن میں آگئی۔
”کچن میں تو کچھ نہیں کروانا ہے البتہ تم دونوں بہنیں مل کر ذرا گھر کی صاف صفائی دیکھ لو، کشن کوور اور پردے بدل لو اور ڈائینگ ٹیبل کا کوور بھی چینج کردو۔“ انہوں نے گوشت پانی میں بھیگوتے ہوئے ان دونوں کے ذمہ کام لگایا۔
”اس سے تو اچھا تھا کہ میں یونی ہی چلی جاتی۔“ اذکی منہ بسور کر کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی جسے یہ دونوں دیکھ کر رہ گئیں۔
****************************************
دیکھتے ہی دیکھتے دن گزرا اور شام چلی آئی جو اپنے ساتھ ان خاص مہمانوں کو بھی لے آئی تھی جن کے استقبال کیلئے گھر کے میزبان صبح سے مصروف تھے۔
”یہ میری زوجہ محترمہ ہیں ہاجرہ، یہ میری اکلوتی بیٹی بشریٰ ہے جو ماشاءالله سے شادی شدہ ہے۔“ ابوبکر صاحب نے تعارف کرایا۔ سب لوگ اس وقت ڈرائینگ روم میں موجود تھے۔
”ماشاءالله ماشاءالله!“ رضوان و نعیمہ خوش اخلاقی سے بولے۔
”اور یہ ہے مُوحِد جس کی وجہ سے ہم یہاں موجود ہیں۔“ انہوں نے سب سے آخر میں سنگل صوفے پر بیٹھے موحد کی جانب اشارہ کیا۔ بلیک جینز پر کیمل کلر کی شرٹ پہنے، نفاست سے تراشی ہوئی شیو اور اور سلیقے سے بنے بالوں میں وہ بہت سوبر لگ رہا تھا۔
”شاید آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ ابھی تو صرف رشتے کی بات ہونی ہے تو ہم موحد کو ساتھ کیوں لے آئے؟ دراصل ہم چاہ رہے تھے کہ جن کی زندگی کا فیصلہ ہے وہ اگر خود مل کر بات چیت کرلیں تو یہ زیادہ بہتر رہے گا کیونکہ اس بات کی اجازت تو شریعت بھی دیتی ہے۔“ ابوبکر صاحب نے خود ہی وضاحت کی۔
”بالکل بالکل! بلکہ ہمیں بہت اچھا لگا کہ آپ سب لوگ ساتھ ہی آگئے، یہ ہی بہتر تھا۔“ رضوان نے بھرپور تائید کی۔
”اب آپ اپنی بیٹیوں سے ملوا کر ان سے تو تعارف کروادیں۔“ ہاجرہ نے خوش اخلاقی سے دھیان دلایا۔
”جی ضرور! چلیں ڈائینگ روم میں چلتے ہیں، وہیں تعارف بھی کرادیتے ہیں اور کھانا بھی کھا لیتے ہیں کیونکہ آپ لوگوں کا ہی انتظار کر رہے تھے ہم!“ رضوان صاحب کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے جن کی باقی سب نے بھی تقلید کی۔
یہ لوگ اٹھے ہی تھے تب ہی موحد کا موبائل بج اٹھا جس کے باعث وہ ان لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے باہر صحن میں چلا گیا اور وہ لوگ ڈائینگ روم میں۔
بات کرنے کے بعد جب وہ دوبارہ وسیع لاؤنج میں آیا تو اپنی جگہ پر ساکت رہ گیا۔ اور بالکل یہ ہی حالت اس سے تھوڑے فاصلے پر جامنی سوٹ پہنے، ہم رنگ دوپٹہ سر پر اوڑھے پانی کا جگ ہاتھ میں لئے کھڑی اذلفہ کی بھی تھی۔
ایسا لگ رہا تھا کہ وقت یکدم بہت تیزی سے پیچھے جا کر ایک جگہ رک گیا ہے۔ اسی جگہ پر جہاں وہ دونوں پہلی بار ایک دوسرے سے آشنا ہوئے تھے۔ اس ٹھہرے ہوئے وقت نے تھوڑی حرکت کی اور یہ چلتا ہوا آکر پھر اس جگہ رکا جہاں وہ دونوں آخر بار ملے تھے کبھی نہ ملنے کیلئے۔ اور وقت گھوم کر واپس حال کے اسی مقام پر آگیا تھا جہاں دونوں پھر ایک بار آمنے سامنے موجود تھے۔
”جیکب!“ اس کے لرزتے لبوں سے بےساختہ ایک سرگوشی ابھری۔ چہرے پر حیرت تھی، آنکھوں میں سوال تھے اور دھڑکن تو محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی۔
اور یہ ہی کیفیت اس کے مقابل کھڑے موحد عرف جیکب کی بھی تھی۔
”اذلفہ! بیٹا کہاں رہ گئی؟“ تب ہی رضوان کی پکار نے دونوں کا سکتا توڑا تو دونوں چونک کر ہوش میں آئے۔
اذلفہ کچھ کہے بغیر تیزی سے ڈائینگ روم کی جانب بڑھ گئی اور چند لمحوں میں خود کو نارمل کرنے کے بعد وہ بھی وہیں چلا آیا جہاں سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے خوشگوار ماحول میں کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ وہ بھی ابوبکر صاحب کے برابر والی کرسی پر آ بیٹھا۔
”اذلفہ بیٹی! یہ ہے موحد!“ رضوان نے تعارف کرایا تو وہ کچھ نہ بولی۔ حتیٰ کہ دونوں نے اب تک دوبارہ نظریں بھی نہیں ملائیں جسے فطری حیا سمجھتے ہوئے کسی نے خاص توجہ نہیں دی۔
”ویسے تو میں پہلے ہی آپ کو موحد کے بارے میں بتا چکا ہوں لیکن اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ آپ لوگ واقعی سب جاننے کے باوجود بھی اس رشتے کیلئے راضی ہیں اسی لئے اس کی یقین دہانی کیلئے میں دوبارہ سب بتانا چاہتا ہوں۔“ ابوبکر صاحب مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔
”قریب ساتھ، آٹھ مہینے پہلے یہ مجھے اسی علاقے کی مسجد کے باہر ملا تھا، تب اس کا نام جیکب تھا، جیکب کے خاندان میں کوئی نہیں تھا، یہ تھا تو کرسچن لیکن اسے عیسائیت سمیت کسی مذہب پر یقین نہیں رہا تھا، بلکہ یہ حالت کی کچھ تلخیوں کی وجہ سے خودکشی کرنے جا رہا تھا، اسی لئے میں نے اسے پیشکش کی جب تم نے زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اپنی زندگی کی چند ماہ مجھے دے دو، اگر اس کے بعد بھی کوئی بہتری نہ آئے تو شوق سے خودکشی کر لینا میں تمھیں نہیں رکوں گا تو یہ راضی ہوگیا۔“ وہ بتا رہے تھے اور سب کھانا کھاتے ہوئے غور سے انہیں سن رہے تھے۔
”ہم لوگ گاؤں کے رہنے والے ہیں مگر ہماری بیٹی کا رشتہ کیونکہ شہر میں طے ہوا تھا اسی لئے اس کی شادی کیلئے ہمیں کچھ عرصہ یہاں شفٹ ہونا پڑا، اس وقت بشری کی نئی نئی شادی ہوئی تھی جس کے بعد جلد از جلد ہمیں گاؤں واپس جانا تھا، فی الحال گھر پر بس میں اور میری زوجہ ہی ہوا کرتی تھیں تو میں فی الحال گاؤں واپس جانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے اسے اپنے گھر لے آیا اور وہاں سے کیا ہوا یہ بشری اور ان کی والدہ بتائیں گی۔“ انہوں نے اپنے حصے کا قصہ سنا کر گویا مائک ان کی جانب کردیا۔
”جب بشری کے ابو اسے گھر لے کر آئے تو میں حیران رہ گئی کیونکہ جب ہم اس شہر میں نئے نئے آئے تھے تب بشری کو ایک موبائل کی ضرورت تھی تو بجائے انہیں زحمت دینے کے میں خود ہی اسے لے کر بازار چلی گئی جہاں ہم اس نیک لڑکے سے ملے تھے، یہ موبائل کی دکان پر کام کرتا تھا اور اس نے بہت ایمانداری سے ہمیں ہماری مطلوبہ چیز دے کر بہت خلوص نیت کے ساتھ ایک خطرناک کھیل سے آگاہ کیا تھا۔“ ہاجرہ نے اپنے حصے کا قصہ سنایا۔
”کیسا کھیل؟“ اذکی تجسس کے مارے پوچھ بیٹھی۔
”بھیا نے بتایا کہ جب بھی ہم پرانا موبائل بیچتے ہیں تو ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی اس کا ڈیٹا واپس لایا جا سکتا ہے اسی لئے ہمیں اور خاص طور پر لڑکیوں کو موبائل خالی کرنے کے بعد اس میں فضول چیزیں بھر دینی چاہئے تا کہ اصل ڈیٹا تک پہنچنا مشکل ہو۔“ بشری نے بھی کافی گرم جوشی سے گفتگو میں حصہ لیا۔ جسے سن کر سب موحد کی ایمانداری سے متاثر ہوئے۔
”جب ہماری بیٹی اور ان کی والدہ کی اس سے پرانی واقفیت نکل آئی تو زوجہ بھی اسے بخوشی ساتھ رکھنے کیلئے راضی ہوگئیں، پھر میں نے آہستہ آہستہ اسے اسلام کے بارے میں سمجھانا شروع کیا، اس پر کوئی زور زبردستی نہیں کی، ادھر گاؤں سے ہماری والدہ بار بار ہمیں واپس بلا رہی تھیں مگر ہم نے بھی عہد کرلیا تھا کہ اب جب کہ ایک بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو اسے پار لگا کر دم لیں گے، ہماری کوشش رنگ لائی اور ایک روز اس نے خود مجھ سے کہا کہ یہ اسلام کرنا چاہتا ہے، اللّه نے ہمیں یہ شرف بخشا کہ میں نے خود اسے کلمہ پڑھا کر موحد کا نام دیا، موحد! یعنی اللّه کی واحدانیت پر یقین رکھنے والا!“ وہ بےحد پرمسرت انداز میں سب بتاتے گئے جسے سب مبہوت ہوکر سنتے رہے۔ اور ساتھ ہی کسی کو اس کے آدھے سوالوں کا جواب بھی مل گیا تھا۔
”ہماری خواہش تھی کہ ہم اس کا گھر بسا کر پھر اپنے گھر لوٹیں اور موحد کی خواہش تھی کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے گا جو اس کا ماضی جان کر اس سمیت اسے قبول کرے کیونکہ یہ کسی سے کوئی غلط بیانی نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر جب بھی ہم کسی کو یہ سب بتاتے تو وہ لوگ انکار کردیتے تھے اور شاید اس میں کوئی عجیب بات بھی نہیں تھی کیونکہ اپنی بیٹی کے معاملے میں تو سب والدین ہی بہت حساس ہوتے ہیں، اسی لئے جب آپ نے رشتے کا ذکر کیا تو ایک امید کے تحت میں نے آپ سے یہ بات چھیڑ دی اور دیکھیں اب ہم سب ماشاءالله اسی وجہ سے ساتھ موجود ہیں۔“ انہوں نے اسی شائستہ انداز میں مزید کہا۔
”آپ نے درست کہا کہ شادی جیسے نازک معاملے میں والدین فکرمند ہوتے ہیں لیکن جب آپ کے توسط سے رشتہ جڑ رہا ہے تو پھر ہمیں کوئی فکر نہیں، اور رہی بات موحد کی تو اس سے بھی ہمیں کوئی مسلہ نہیں ہے کہ یہ اپنی مرضی سے عیسائی گھرانے میں پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ اللّه نے اس کا امتحان لینے کیلئے اسے وہاں پیدا کیا جہاں کوئی اس کی واحدانیت کو نہیں مانتا تھا اور پھر اپنی نشانیاں دکھا کر اسے اپنے پاس بلایا، اس نے حق کو پہچان کر قبول کرلیا بس بہت ہے۔“ رضوان بھی جواباً نرم انداز میں گویا ہوئے جن کی بات سن کر اذلفہ کا دل زور سے دھڑکا۔ جب کہ اذکی بھی ہنوز اس کا چہرہ کھوجتے ہوئے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ آیا یہ وہ ہی جیکب ہے یا کوئی اور؟ مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
”اچھا اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا انہیں کچھ دیر بات کرنے کی سہولت دے دیں، ان کے جو بھی سوال ہوں گے ایک دوسرے سے پوچھ لیں گے۔“ ابوبکر صاحب نے رضوان سے گزارش کی۔
”جی جی ضرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”اس کی ضرورت نہیں ہے، مجھے ان سے کوئی بات نہیں کرنی۔“ رضوان بخوشی اجازت دینے ہی لگے تھے کہ تب ہی اس پورے عرصے میں موحد نے پہلی بار مداخلت کی۔ سب نے بےساختہ اس کی جانب دیکھا جس کی نظریں پلیٹ پر مرکوز تھیں اور چہرہ سنجیدہ تھا۔
”میرا مطلب ہے کہ مجھے کوئی سوال جواب نہیں کرنے میں اس رشتے پر راضی ہوں، آپ بس ان کی مرضی پوچھ لیں۔“ سب کی سوالیہ نظریں بھانپ کر اس نے رضوان کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے وضاحت کی۔
اس کی بات پر سب نے اذلفہ کی جانب دیکھا جو نظریں جھکائے بالکل خاموش تھی۔ اس کے چہرے سے اس کی کیفیت کا اندازہ لگا پانا مشکل تھا۔
”مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ اس نے یوں ہی دھیرے سے جواب دیا۔ دونوں نہ آپس میں نظریں ملا رہے تھے اور نہ کوئی بات کرنا چاہ رہے تھے مگر شادی کیلئے راضی تھے۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہوگئی، اب جب رشتہ پکا ہو ہی گیا ہے تو کیوں نہ منہ میٹھا کرلیا جائے!“ ہاجرہ نے بخوشی تجویز پیش کی۔
اذلفہ نے چپکے سے نظر اٹھا کر موحد کی جانب دیکھا تو معلوم ہوا وہ سنجیدہ کٹیلی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے تاثر بہت عجیب تھے جیسے کچھ جتانا چاہ رہے ہوں۔ جیسے کوئی پرانا حساب مانگ رہے ہوں جس سے گھبرا کر اذلفہ نے فوراً نظریں پھیر لیں۔
****************************************
”دو مہینے بہت کم نہیں ہیں شادی کی تیاروں کیلئے؟“ نعیمہ کو تھوڑی فکرلاحق ہوئی۔ مہمان جا چکے تھے اور اب دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں آج کے دن پر مذاکرات کر رہے تھے۔
”نہیں، ابوبکر صاحب اور ان کی بیگم نے کہا تو ہے کہ انہیں کوئی جہیز وغیرہ نہیں چاہیے بس سادگی سے شادی کرنی ہے تو اس حساب سے بہت ہیں دو مہینے۔“ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا تو وہ بھی اثبات میں سرہلا کر خاموش ہوگئیں۔
”ویسے آپ بھی بڑی دوغلی ہیں بیگم! کل تک تو آپ کو اس لڑکے سے بڑی خار تھی اور آج کیسے بچھ بچھ جا رہی تھیں اس کے سامنے کہ بیٹا یہ کھاؤ نا، وہ لو نا، اب برا نہیں لگا وہ آپ کو؟“ رضوان نے شرارتی خیال کے تحت جان بوجھ کر انہیں چھیڑا۔
”برا نہیں لگا تھا بس فکر ہو رہی تھی مجھے کہ پتا نہیں کون ہے؟ کیسے ہے؟ مگر اچھا لگا لڑکا، شریف ہے، نہ بلاوجہ کوئی بات کی اور نہ خواہ مخواہ اذلفہ پر نظریں گاڑے بیٹھا رہا، بلکہ سارا وقت اس کی نظریں جھکی ہوئی ہی تھیں۔“ انہوں نے صاف گوئی سے اپنی رائے دی جو اب بدل چکی تھی۔ جس کے باعث وہ ہلکے سے ہنسے۔
”بس اللّه کرے کہ وہ خوش رکھے ہماری بیٹی کو۔“ انہوں نے دل سے دعا کی۔
”امین!“ وہ بھی بےساختہ بولے۔
****************************************
”مطلب یہ وہ ہی جیکب ہے!“ اذکی خوشگوار حیرت میں مبتلا تھی۔
”اور اس کے باوجود آپ ایسی اتری ہوئی شکل لے کر بیٹھی ہو! آپ کو تو خوش ہونا چاہئے آپی!“ اس نے حیرت سے دھیان دلایا۔
”اس کی آنکھیں مجھے خوش ہونے نہیں دے رہی ہیں اذکی۔“ وہ بےچینی سے کہتے ہوئے بیڈ پر سے اٹھ گئی۔
”کیا مطلب؟“ وہ وہیں بیٹھی رہی۔
”اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چبھن تھی جیسے بہت کچھ جتانا چاہ رہی ہوں، کوئی پرانا حساب برابر کرنا چاہ رہی ہوں، اس نے مجھ سے بات تک کرنے سے انکار کردیا مگر وہ شادی کیلئے راضی ہے، مجھے لگ رہا ہے وہ شادی کے بعد مجھ سے پرانے حساب کتاب برابر کرکے بدلہ لے گا۔“ اس کے انداز میں عجیب سا خوف تھا۔
”پاگل ہوگئی ہو! وہ بھلا کیوں اور کس بات کا بدلہ لے گا؟“ اذکی کو یہ منطق سمجھ نہ آئی۔
”اپنے رد کیے جانے کا بدلہ لے گا۔“ وہ کہتی ہوئی اس کی جانب پلٹی۔
”اففو! ایک تو قدرت نے کتنے پیارے انداز میں آپ دونوں کو دوبارہ ملا دیا اور آپ ہو کہ بجائے خوش ہونے کے الٹے سیدھے وہم لے کر بیٹھی ہو، چھوڑو یہ سب اور خوش ہو۔“ اذکی بھی اٹھ کر اس کے پاس آگئی اور اسے بازوؤں سے تھاما۔
”میں فریج میں سے مٹھائی لے کر آتی ہوں، اب صحیح معنوں میں منہ میٹھا کروں گی۔“ وہ خوشی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی جب کہ اذلفہ وہیں کھڑی رہی۔
وہ چاہ کر بھی اذکی کو چبھن نہیں سمجھا سکی تھی جو اس نے موحد کی سرد نگاہوں میں محسوس کی تھی۔
وہ ہم کو دل میں رکھے گا یا دل سے اب نکالے گا
اٹھے گا جب تلک پردہ تجسس مار ڈالے گا
اتباف ابرک
****************************************
کچھ ہی دنوں میں حامد اور افروز نے اس چھوٹے سے گھر کو اپنے مطابق سیٹ کرلیا تھا۔ افروز کی طبیعت بھی اب بہت بہتر ہوچکی تھی۔ حامد نے اس بیچ ایک دو بار نور جہاں سے بات کرکے انہیں منانے کی کوشش کی تھی مگر ان کی جوں کی توں قائم خفگی کو دیکھ کر وہ چپ چاپ واپس پلٹ آیا۔
”اماں جان نے تو مجھ سے ملنے تک سے انکار کردیا تھا، اسی لئے بس رابعہ اور نزہت بھابھی سے مل کر آگیا میں کیونکہ عماد بھائی تو آفس گئے ہوئے تھے۔“ حامد اس وقت لاؤنج میں رکھے لکڑی کے صوفے پر ٹی وی دیکھتے ہوئے ساتھ ساتھ کچن میں کام کرتی افروز سے باتیں بھی کر رہا تھا۔
”انہوں نے انکار کردیا تھا تو آپ خود چلے جاتے نا ان کے کمرے میں۔“ متفکر سی افروز نے راستہ دکھایا۔ کیونکہ نورجہاں کی ناراضگی سے وہ گھبرائی ہوئی رہتی تھی اور چاہتی تھی کہ کسی طرح یہ ختم ہوجائے۔
”ہاں، تا کہ یا تو ان کا بی پی شوٹ کرجاتا یا وہ مجھے شوٹ کردیتیں۔“ اس نے طنزیہ انداز میں بات مکمل کی۔
”اللّه نہ کرے، میں تو بس یہ کہہ رہی تھی کہ انہیں منانے کی کوشش کبھی ترک مت کیجئے گا، ان شاءاللّه ایک نا ایک دن وہ ضرور مان جائیں گی۔“ اس نے تصحیح کی۔ اس کے انداز میں ایک امید تھی جو حامد کو بہت اچھی لگتی تھی۔
”ٹک ٹک ٹک!“ تب ہی لوہے کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی تو دونوں متعجب ہوگئے کہ ان کے گھر کون آگیا؟
”میں دیکھتا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے صوفے پر سے اٹھ کر باہر آیا۔
اس نے آکر دروازہ کھولا تو دوسری جانب جامنی فراک اور شلوار کے ساتھ بچوں کا چھوٹا سا سیاہ اسکارف پہنے ایک پیاری سی سات سالہ بچی کھڑی تھی جس نے دونوں ہاتھوں سے ایک پیالہ تھام رکھا تھا۔ وہ اس بچی کو جانتا تھا یہ ان کے پڑوسی کی بیٹی تھی۔
”جی بیٹا؟“ وہ اس کی جانب جھکا۔
”یہ امی نے بھیجی ہے۔“ اس نے معصومیت سے بتاتے ہوئے پیالہ آگے بڑھایا۔
حامد کو اس پر اتنا پیار آیا کہ وہ پیالہ تھامنے کے بجائے اسے گود میں اٹھا کر اندر لے آیا۔
”یہ دیکھو افروز کون آیا ہے؟“ وہ اسے لئے کچن میں آگیا۔
”ارے حرا آئی ہے۔“ افروز بھی اسے دیکھ کر خوش ہوئی۔
”یہ امی نے بھیجی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے پیالہ افروز کو دیا۔
”کیا بھیجا ہے؟“ اس نے پیالہ لے کر کھولا۔
”ارے واہ! کھیر بھیجی ہے۔“ وہ کہہ کر پیالہ خالی کرنے لگی۔ جب کہ حامد اس سے باتیں کرتا رہا۔
”یہ لو، کل جو میں حلوہ بھیجا تھا وہ کھایا تھا آپ نے؟“ افروز نے اسے خالی پیالہ واپس دیتے ہوئے پوچھا۔ اس نے پیالہ تھامتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔
”کیسا لگا تھا آپ کو؟“
”بہت اچھا!“ اس نے معصوم سا جواب دیا تو حامد نے بےساختہ اس کا گال چوم لیا۔
”چلو میں آپ کو واپس ڈراپ کرکے آتا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے اسے لے کر باہر چلا گیا۔
افروز بھی کچن کے کام سے فارغ ہوچکی تھی اسی لئے لاؤنج کے صوفے پر آ بیٹھی۔ اور حامد بھی واپس آکر اسی صوفے پر اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
”کتنی پیاری ہے نا حرا!“ حامد نے تائید چاہی۔
”ہممم! بچے تو ماشاءالله سارے ہی پیارے ہوتے ہیں۔“ اس نے اضافی تائید کی۔
”پتا ہے میرا اتنا دل کرتا ہے کہ یہ پورا دن ہمارے گھر میں آکر کھیلے مگر پانچ منٹ سے زیادہ رکتی ہی نہیں ہے یہاں۔“ حامد نے اپنی دھن میں کہا۔ جب کہ اس کے بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں چلاتی افروز کچھ سوچنے لگی تھی جسے وہ اگلے ہی پل زبان تک لے آئی۔
”اگر میں ٹھیک ہوتی تو ایسے ہی پیارے پیارے پھول ہمارے گھر میں بھی کھلتے۔“ اس نے تاسف سے خود کو قصور وار ٹھہرایا۔
”تم اب بھی ٹھیک ہو، کچھ نہیں ہوا ہے تمھیں۔“ اس نے ہمیشہ کی طرح ٹوکا۔
”جھٹلانے سے حقیقت بدل نہیں جاتی، اور حقیقت یہ ہی ہے کہ صرف میری وجہ سے آپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے محروم رہ گئے ہیں۔“ اس نے پھر خود کو ملامت کی۔
”اب یہ تمھیں اماں جان والا دورا کیوں پڑ گیا ہے؟“ اس نے طنزیہ سوال کیا۔
”کیونکہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اماں جان ٹھیک کہتی ہیں کہ آپ کو دوسری شادی کرلینی چاہئے۔“ اس کی بات پر وہ یکدم اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”کیا کہا؟“ اس نے دوبارہ سننا چاہا۔
”یہ ہی کہ آپ کو دوسری شادی کرلینی چاہئے، یہ حق ہے آپ کا، اسلام نے ایسی صورت حال کیلئے ہی یہ اجازت دی ہے۔“ اس نے نظریں ملا بنائے اضافی جواب دیا۔
”اور پھر تمہارا کیا؟“ اس نے مزید ٹٹولا۔
”کچھ نہیں، میں یہیں ہوں اپنی جگہ پر آپ کی پہلی بیوی کی حیثیت سے، اماں جان بھی تو یہ ہی چاہتی ہیں نا کہ آپ دوسری شادی کرکے اولاد کا سکھ دیکھیں تو اس سے ان کی ناراضگی بھی ختم ہوجائے گی اور ہمارا مسلہ بھی۔“ اس نے جواب دیتے ہوئے جیسے حل تلاشا۔
”آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اماں جان چاہتی ہیں میں تمھیں چھوڑ کر، تم سے ہر رشتہ ختم کرکے پھر دوسری شادی کروں۔“ اس نے استہزائیہ انداز میں انکشاف کیا تو افروز نے بےساختہ نظریں اٹھائیں۔
”تو آپ ان سے بات کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں نا کہ مجھے چھوڑے بنا بھی آپ دوسری شادی کرسکتے ہیں۔“ اس نے بیچ کا راستہ ڈھونڈنا چاہا۔
”تمھیں کیا لگتا ہے کہ میں نے ان سے بات نہیں کی ہوگی؟ اور یہ الگ ہونے کا اتنا بڑا فیصلہ میں نے ایسے ہی ہوا میں لیا ہے!“ اس نے الٹا سوال کیا تو وہ لاجواب ہوگئی۔
”بات کی تھی میں نے ان سے، بلکہ بات کیا بحث تھی، میں ایک پل کو دوسری شادی کیلئے تیار تھا مگر ان کی ضد تھی کہ میں پہلے تمھیں چھوڑوں، اب تم ہی بتاؤ کیا یہ ممکن تھا؟ کیا یہ صحیح تھا؟“ اس نے بتاتے ہوئے آخر میں اس سے سوال کیا تو وہ کچھ نہ بولی۔ جس پر وہ بھی اسے دیکھتا گیا۔
”آپ دوسری شادی کرکے جب اسے اماں جان کے سامنے لے کر جائیں گے نا تو وہ ماں جائیں گی جیسے میری باری میں آہستہ آہستہ راضی ہونے لگی تھیں مگر پھر یہ سب ہوگیا۔“ وہ دھیرے سے بولی۔
”اور تم؟ تم برداشت کرلو گی یہ شراکت داری؟“ اس نے دلچسپی سے ٹٹولا۔
”جب آپ میرے لئے اتنا کچھ کر گزرے ہیں تو میں بھی آپ کی خوشی کیلئے کم از کم اتنا تو برداشت کر لوں گی۔“ اس نے نظریں جھکا کر اپنی افسردگی چھپاتے ہوئے کچھ اس طرح کہا کہ حامد کو بےساختہ اس پر پیار آیا۔ اور اس نے اسے سینے سے لگا لیا۔
”مجھے ایسی خوشی نہیں چاہیے جو تمھیں مجھ سے دور کرے، میری خوشی صرف تمہارے ساتھ ہے۔“ اس نے کہتے ہوئے اس کے بالوں پر بوسہ دیا تو محبت کی یہ حدت پا کر بےساختہ افروز کی آنکھیں بھر آئیں جنہیں بند کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کی آغوش میں چھپا لیا۔
صحرا کی دھول تھی
تو نے قبول کی
میں آسمانی ہوگئی
جاگوں نہ عمر بھر
جو میرے ہمسفر
بانہوں میں تیری سوگئی
پہلے تھی بےوجہ
پھر آکے تو ملا
خوابوں کو زندہ کردیا
اپنے وجود کا
حصہ بنا لیا
قطرے کو دریا کردیا
عرافات محمود
****************************************
دیکھتے ہی دیکھتے دو مہینے جیسے پر لگا کر اڑ گئے تھے اور شادی کا مقررہ دن آ پہنچا تھا۔ گو کہ شادی بہت زیادہ دھوم دھام سے نہیں تھی لیکن تمام رشتے داروں کو مدعو کرکے ہال میں منقعد یہ باقاعدہ ایک اچھی خاصی تقریب تھی۔ البتہ مہندی مائیوں کا کوئی جھنجھٹ نہیں کیا گیا تھا بلکہ جمعہ مبارک کو سادگی سے نکاح پڑھا کر اذلفہ کو گھر میں چند روز کیلئے مائیوں بٹھا دیا گیا تھا اور اب تمام رشتے داروں کی موجودگی میں باقاعدہ اس کی رخصتی تھی۔
بلآخر ڈھیروں دعاؤں اور آنسوں میں اسے رخصت کردیا گیا تھا۔ ایک تو اپنا گھر چھوڑنے کا دکھ دوسرا نئے گھر میں منتظر کچھ غیرمتوقع رویے، ان دونوں کے باعث وہ کافی پریشان تھی۔ مگر اس نے کسی سے کچھ کہا نہیں۔
ہاجرہ اور بشری کچھ دیر قبل ہی اس پر صدقے واری ہوتے ہوئے اسے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں اور اب وہ پھولوں سے سجی سیج کے وسط میں، دونوں پیر موڑے اپنا ریشم کا میرون لہنگا پھیلائے بیٹھی تھی۔ اس کے چوڑیوں سے بھرے حنائی ہاتھ گود میں دھرے تھے جنہیں وہ گھبراہٹ کم کرنے کیلئے آپس میں مڑوڑ رہی تھی۔
ہاں ایک وقت تھا جب اس کے دل میں اس شخص کی سنگت کی خواہش جاگی تھی مگر پھر جس طرح دونوں الگ ہوئے تھے اس کے بعد اس نے یہ خواہش تھپک کر دل کے ایک کونے میں سلا دی تھی اور خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا لیکن آج یہ ہی حالات اسے بہاتے ہوئے پھر اس شخص کے پاس لے آئے تھے جو بیک وقت اس کی خواہش بھی تھا اور خوف بھی۔
وہ خوفزدہ تھی، یہ سوچ کر کہ نہ جانے اب وہ گزری باتیں بھول چکا ہے یا اپنے رد کیے جانے کا بدلہ لینے کیلئے اس نے وہ سب اب بھی سلگتی چنگاری کی طرح دل میں کہیں دبا رکھا ہے؟ اور اگر واقعی اس کے دل میں بدلے کی چنگاری موجود ہوئی تو وہ کیسے سامنا کرے گی اس کی جلن کا؟
ابھی وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا جس کے باعث اس کا دل مزید تیزی سے دھڑکنے لگا۔
سیاہ شیروانی میں نفاست سے تیار وہ دروازہ بند کرتے ہوئے اس کی جانب آیا۔ نزدیک آتی قدموں کی چاپ کے ساتھ ساتھ اس کی گھبراہٹ بھی بڑھتی گئی۔
وہ نزدیک رک کر بنا کچھ بولے چپ چاپ اسے دیکھنے لگا جو سرتاپا سجے سنورے روپ میں نہایت دلکش لگ رہی تھی جس پر اس کی جھکی پلکیں اور لرزتے لب مزید غضب ڈھا رہے تھے۔
”تمھیں کیا لگا تھا کہ تم یوں سج سنور کر میرے سامنے آؤ گی اور میں سب کچھ آسانی سے بھول جاؤں گا؟“ وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوا۔ اس کا تیزی سے دھڑکتا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
”یاد ہے نا آج سے مہینوں پہلے جب میں تمہارے سامنے اپنی محبت کیلئے گڑگڑایا تھا تو تم نے کیا کِیا تھا میرے ساتھ؟“ وہ یاد دلاتے ہوئے اس کے مقابل بیٹھا۔
”پلیز میری بات سنو!“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”نہیں، اس دن تم نے کہا تھا اور میں سنا تھا، آج میں کہوں گا اور تم سنو گی!“ وہ نفی کرتے ہوئے زور سے چلایا تو اذلفہ بری طرح سہم گئی۔
”کیا ہوجاتا اگر اس دن تم میرا بھرم رکھ لیتی؟ یہ دنیا ناراض ہوتی نا! لیکن پھر مان جاتی، مگر تم نے مجھ سے زیادہ دنیا والوں کو فوقیت دی، یعنی میری اہمیت اتنی کم ہے تمہاری نظروں میں!“ وہ اسے دونوں بازؤں سے پکڑے غم و غصے میں بول رہا تھا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے، پلیز میری بات تو سنو!“ وہ کہتے ہوئے رو پڑی تھی۔
”میں نے کہا نا کہ تمہاری سننے کا وقت گیا، اب سے تم میری سنو گی۔“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غرایا تو اس کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ کیونکہ یہ یقین جو ہو چلا تھا کہ جو پھول اسے اپنی راہ میں بچھے نظر آرہے تھے در حقیقت ان کے نیچے انگارے دبے ہوئے تھے جن پر چل کر اب اسے باقی کا سفر طے کرنا تھا۔
”تمھیں کیا لگا تھا کہ تم یوں سج سنور کر میرے سامنے آؤ گی اور میں سب کچھ آسانی سے بھول جاؤں گا؟“ وہ طنزیہ انداز میں گویا ہوا۔ اس کا تیزی سے دھڑکتا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
”یاد ہے نا آج سے مہینوں پہلے جب میں تمہارے سامنے اپنی محبت کیلئے گڑگڑایا تھا تو تم نے کیا کِیا تھا میرے ساتھ؟“ وہ یاد دلاتے ہوئے اس کے مقابل بیٹھا۔
”پلیز میری بات سنو!“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”نہیں، اس دن تم نے کہا تھا اور میں سنا تھا، آج میں کہوں گا اور تم سنو گی!“ وہ نفی کرتے ہوئے زور سے چلایا تو اذلفہ بری طرح سہم گئی۔
”کیا ہوجاتا اگر اس دن تم میرا بھرم رکھ لیتی؟ یہ دنیا ناراض ہوتی نا! لیکن پھر مان جاتی، مگر تم نے مجھ سے زیادہ دنیا والوں کو فوقیت دی، یعنی میری اہمیت اتنی کم ہے تمہاری نظروں میں!“ وہ اسے دونوں بازؤں سے پکڑے غم و غصے میں بول رہا تھا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے، پلیز میری بات تو سنو!“ وہ کہتے ہوئے رو پڑی تھی۔
”میں نے کہا نا کہ تمہاری سننے کا وقت گیا، اب سے تم میری سنو گی۔“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے غرایا تو اس کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ کیونکہ یہ یقین جو ہو چلا تھا کہ جو پھول اسے اپنی راہ میں بچھے نظر آرہے تھے در حقیقت ان کے نیچے انگارے دبے ہوئے تھے جن پر چل کر اب اسے باقی کا سفر طے کرنا تھا۔
”م۔۔۔موحد۔۔۔پلیز میری بات سنو۔۔۔۔میں مجبور تھی۔“ وہ روتے ہوئے اپنی صفائی دینے لگی۔
”واہ! یہ صحیح بہانہ ملا ہوا ہے لوگوں کو کہ جب نبھانے کی ہمت نہیں رہتی تو یہ کہہ کر ہاتھ چھڑا لیتے ہیں کہ میں مجبور ہوں۔“ وہ نفرت سے سر جھٹکتے ہوئے اٹھا اور پشت اس کی جانب کر کے کھڑا ہوگیا۔ وہ بھی بےچینی کے عالم میں لہنگا سنبھالتی بیڈ سے اٹھی۔
”میں نے نبھانے کیلئے ہی تو ہاتھ چھڑایا تھا، اپنے والدین کی فرمابرداری! یہ ہی تو نبھائی تھی میں نے، اور اس حد تک نبھائی کہ محبت کی مجبوری کو بھی بہانہ نہیں بننے دیا۔“ وہ برستی آنکھوں سے اس کی چوڑی پشت کو تکتے ہوئے بولی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”ہاں تمہاری بات رکھتے ہوئے میں مانتی ہوں کہ ماں باپ کیلئے محبت کو چھوڑ کر میں محبوب کی نظر میں بےوفا ٹھہری، اور چبھنے کے باوجود مجھے یہ لقب منظور ہے، کیونکہ بےوفا کی صرف دنیا برباد ہوتی ہے مگر نافرمان کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہیں۔“ وہ اسی طرح مزید کہنے لگی۔
”میں نے یہ سوچ کر صبر کرلیا تھا کہ اگر دنیا میں محبت نہیں مل سکی تو کیا ہوا؟ قیامت کے بعد جنت میں اللّه سے مانگ لوں گی کیونکہ وہاں نہ خواہشیں رد ہوں گی، نہ دل توڑے جائیں گے، اور نہ ملنے کے بعد کوئی بچھڑے گا، لیکن اگر میں محبوب کیلئے ماں باپ کی نافرمان ہوجاتی نا تو۔۔۔۔۔۔۔“ وہ پل بھر کو رکی۔
”تو میں جنت میں جا ہی نہیں پاتی۔“ اس نے بات مکمل کی۔
”اس ایک پل کی دنیا کی وجہ سے میری ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت خراب ہوجاتی اور جو محبت دنیا و آخرت تباہ کرکے نقصان کی جانب لے کر جائے وہ محبت نہیں امتحان ہوتا ہے جس میں پورے اتر گئے تو ہمیشہ کی کامیابی اور ناکام رہے تو ہمیشہ کا نقصان۔“ وہ بول رہی تھی اور وہ رخ پھیرے کھڑا سن رہا تھا۔
”ہاں میں نے یہ سوچ کر صبر کرلیا تھا کہ دنیا میں جو خواہشیں پوری نہیں ہوسکیں وہ جنت میں اللّه سے مانگ لوں گی، مگر اب تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں واقعی اس دنیا میں بس امتحان دینے اور خود کو ثابت کرنے آئی ہوں، دنیاوی خوشیاں میرے حصے میں لکھی ہی نہیں گئیں شاید، پہلے تمھیں ثابت کرنا چاہا کہ میں جان بوجھ کر تمھیں محبت کے راستے پر نہیں لائی تھی، پھر والدین سے فرمابرداری ثابت کرنے کیلئے وہ ہی محبت چھوڑنی پڑی، اور اب ساری زندگی تمہارے سامنے یہ ثابت کرنے میں گزر جائے گی کہ میں واقعی مجبور تھی بےوفا نہیں۔“ کرب سے ٹوٹے انداز میں کہتے ہوئے اس کے رونے میں شدت آنے لگی۔
”اب تو بس ایک ہی خواہش رہ گئی ہے کہ اللّه جلد از جلد یہ امتحان ختم کرکے مجھے اپنے پاس واپس بلا لے، بہت۔۔۔۔بہت تھک گئی ہوں میں۔۔۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔۔!“ کہتے ہوئے اس کی ہچکیاں بندہ گئیں اور وہ گرنے کے سے انداز سے زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔
”اذلفہ!“ اس کی حالت دیکھ کر وہ بھی فوراً گھبرا کر اس کے پاس آکر بیٹھا۔
”اذلفہ! پلیز ایسے رو نہیں میں مذاق کر رہا تھا۔“ موحد نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے اصل بات بتائی۔ مگر وہ ہنوز روئے جا رہی تھی۔ شاید ایک مدت سے دبا غبار آج امڈ آیا تھا۔
”تمھیں میرے سامنے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے تم پر پورا یقین ہے۔“ اس نے کہتے ہوئے اس کے سر پر بوسہ دیا۔
”جب یقین تھا تو پھر اتنا تماشا کیوں کیا؟“ اذلفہ نے غصے میں اسے خود سے دور دھکیلا۔ روتے ہوئے غصہ کرتی اس دلہن پر اس وقت ایک انوکھا ہی روپ چڑھا ہوا تھا۔
”اٹھو اور یہاں بیٹھو، میں سب سمجھاتا ہوں۔“ موحد نے براہ راست جواب دینے کے بجائے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی مقابل بیٹھا۔
”پتا ہے اس آخری ملاقات کے بعد میں تم سے بہت خفا تھا، اتنا زیادہ کہ عہد کرلیا تھا اب کبھی تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا۔“ وہ اس کے آنسوں صاف کرتے ہوئے تحمل سے گویا ہوا۔
”مگر پھر میری زندگی میں کچھ غیرمتوقع باتیں ہوئیں، وہ باتیں کیا تھیں یہ تو تم جان گئی ہو مگر وہ کیسے ہوئیں یہ کبھی تفصیل سے بتاؤں گا، ان باتوں کے نتیجے میں وہ موحد بیدار ہوا جو جیکب کے اندر کہیں سویا ہوا تھا، اسے وہ ساری باتیں سمجھ آگئیں جو جیکب کبھی سمجھ نہیں پایا تھا، موحد نے اپنا نیا سفر شروع کیا، اور وہ چاہتا تھا کہ اس کی جو بھی ہمسفر ہو وہ اسے جیکب کے ساتھ قبول کرے کیونکہ جیکب تاریکی ہی سہی مگر موحد کا ایک حصہ تھا، مگر کوئی جیکب کو قبول کرنے کیلئے راضی نہ ہوا، اور کرتا بھی کیسے؟ کیونکہ جیکب کو تو بس اذلفہ سمجھتی تھی نا!“ وہ بتاتے ہوئے اذلفہ کے مہندی والے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر مسکرایا۔
”جب امی نے بتایا نا کہ اذلفہ نامی لڑکی سے میرا رشتہ ہونے لگا ہے تو مجھے سب سے پہلے تم ہی یاد آئی تھی، اور ساتھ ہی یہ یاد آیا کہ اب تک تو تمہاری شادی بھی ہوچکی ہوگی، دنیا میں اذلفہ نام صرف کسی ایک کا تھوڑی ہے، پھر مجھے خیال آیا کہ شاید تم نا سہی قدرت تمہارا ہم نام مجھے دینے لگی ہے مگر جب تمہارے گھر پر تمھیں دیکھا تو قدرت کہ اس عجیب کھیل پر میں دنگ رہ گیا۔“ وہ خوابناک انداز میں اپنی کیفیت بتاتا گیا۔
”تمھیں دیکھ کر دل کے کونے میں دبی محبت، پرانی تلخ یادیں، ملنا، بچھڑنا سب ایک وقت میں کچھ ایسے یاد آیا کہ میں خود اپنے آپ میں الجھ گیا اسی لئے یہ سوچ کر تم سے ڈائریکٹ کوئی بات نہیں کی، کہ جب پورے حق کے ساتھ تمھیں اپنے گھر لاؤں گا نا تو تب دل کھول کر تم سے ساری باتیں کروں گا۔“ اس نے اپنے ارادے بتائے۔
”تو یہ سوچا ہوا تھا تم نے؟ کہ شادی کی پہلی رات ایسے سخت برتاؤ کرو گے میرے ساتھ!“ اس نے خفگی سے شکوہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھ واپس کھینچے۔
”نہیں، یہ سب تو تمہاری بہن کی وجہ سے ہوا۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے اصل بات بتائی تو وہ حیران رہ گئی۔
”کیا! اذکی نے کہا تھا ایسے کرنے کو؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”نہیں، لیکن تقریب کے دوران ہی باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ بطور جیکب بھی غائبانہ طور پر مجھے جانتی ہے اور یہ بھی بتایا کہ رشتہ طے ہونے کے بعد سے تم میرے رویے کو لے کر کافی فکر مند ہو بس اسی بات پر میں نے سوچا کہ تمھیں تھوڑا سا تنگ کرلوں، سوری!“ اس نے اصل بات بتاتے ہوئے معذرت کی تو وہ خفگی سے اسے گھورنے لگی۔ اب اس کی باری تھی ناراض ہونے کی
”اب سوری بول تو رہا ہوں یار! پلیز جانے دو اس بات کو۔“ اس نے دوبارہ نرمی سے اصرار کیا مگر وہ کچھ نہ بولی۔
تھوڑی دیر قبل تک جو ڈر اس کے رگ و پے میں پھیلا ہوا تھا وہ یکدم کہیں غائب ہوگیا اب اس کی جگہ سکون تھا۔ اسے وہ فرمان سچ ہوتا محسوس ہو رہا تھا کہ خدا کسی جان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا کیونکہ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی اس کی برداشت ختم ہوئی تھی اور اسی پل اس کا امتحان بھی ختم ہوگیا تھا۔ وہ بھی اس کے سینے سے لگ کر اسے بتانا چاہتی تھی کہ اس نے کیسا کرب جھیلا ہے اور اب وہ کتنی خوش ہے۔ لیکن دماغ کہہ رہا تھا کہ اب تھوڑی ناراضگی تمہارا بھی حق ہے۔
”اچھا چھوڑو یہ باتیں چلو چلتے ہیں۔“ اذلفہ کو خاموش دیکھ کر اس نے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوئے اچانک موضوع ہی بدل دیا۔
”کہاں؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”اس کا شکریہ ادا کرنے جس نے ہمیں ہماری سوچ سے بڑھ کر کچھ ایسے بہترین انداز میں ملايا جس سے دنیا کو پتا ہی نہیں چل سکا کہ میرا اور تمہارا رشتہ تو پرانا ہے، تم غیر نہیں تھی میرے لئے اور اب تو اپنوں سے بھی بڑھ کر اپنی ہوگئی ہو۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جس کے باعث اب وہ بھی مزید اپنی مصنوعی ناراضگی قائم نہ رکھ پائی اور مسکراکر اپنا حنائی ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ میں دے دیا جسے اس بار قدرت نے اس کیلئے خود منتخب کیا تھا۔
کیا کہوں دنیا نے کیا
مجھ سے کیسا بیر
حکم تھا میں جیوں
لیکن تیرے بغیر
ناداں ہیں وہ
کہتے ہیں جو
میرے لئے تم ہو غیر
جاوید اختر
****************************************
چڑیاؤں کی چہچاہٹ کے جھرمت میں ایک دلفریب صبح نے پھر زمین پر بڑی نزاکت سے قدم رکھ دیا تھا جس کی کرنیں زمین پر جابجا پھیل چکی تھیں اور کھلی کھڑکی سے کمرے میں آکر یہاں کے مکینوں کو بھی ”صبح بخیر“ کہہ رہی تھیں۔
پھولوں سے سجے بیڈ پر اے سی کی ٹھنڈک کے باعث اذلفہ ابھی تک کمبل اوڑھے سو رہی تھی البتہ اس کے پہلو میں موحد موجود نہیں تھا۔ غالباً وہ پہلے بیدار ہوچکا تھا۔
نہ جانے اور کتنی دیر وہ ایسے ہی سوتی رہتی اگر کمرے کے دروازے پر دستک نہ ہوتی۔
دستک پر وہ نیند سے جاگی اور صوفے پر پڑا اپنے لہنگے کا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی دروازہ کھولنے آئی۔ دوسری جانب ہاجرہ موجود تھیں۔
”السلام علیکم!“ اس نے ادب سے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! سو رہی تھی؟“ انہوں نے خوش اخلاقی سے جواب دیتے ہوئے اس کا ملگجہ حلیہ دیکھ کر اندازہ لگایا۔
”جی۔۔۔وہ آنکھ ہی نہیں کھلی۔“ وہ شرمندہ ہوکر منمنائی۔
”ارے کوئی بات نہیں، میں تو ابھی بھی نہ جگاتی مگر موحد اور بشری کے ابو واپس آنے والے ہوں گے اس کے بعد سب مل کر ناشتہ کریں گے اسی لئے سوچا تمھیں بھی آکر جگا دوں، تیار ہوکر آجاؤ نیچے، ہاں!“ انہوں نے اس کی شرمندگی زائل کرنے کیلئے سہولت سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر واپس جانے لگی۔
”اور ہاں بیٹا سنو!“ انہیں اچانک کچھ یاد آیا تو ان کی پکار پر وہ واپس پلٹی۔
”یہ موحد دے کر گیا تھا تمہارے لئے، دیکھ لینا۔“ انہوں نے ایک خاکی رنگ کا لفافہ اسے دیا۔
”میرے لئے!“ وہ لفافہ لیتے ہوئے خاصی حیران ہوئی۔
ہاجرہ واپس چلی گئی تھیں جب کہ وہ لفافہ چاک کرتے ہوئے کمرے کے وسط میں آئی۔ اندر سے ایک سفید کاغذ برآمد ہوا جس پر کچھ یوں درج تھا۔
”محترمہ آیان کی ٹیچر، نہیں! میری بیگم صاحبہ!“
”میرے دل کی تو خیر آپ پرانی مکین ہیں لیکن میرے گھر میں پہلی صبح مبارک ہو، امید ہے کہ اب آپ اس دل و گھر سے پھر کہیں نہیں جائیں گی اور اگر جانا چاہیں گی بھی تو میں جانے نہیں دوں گا۔“
”آیان کا چاچو، نہیں! فقط آپ کا شوہر!“
اپنے دونوں حنائی ہاتھوں سے پکڑا یہ مختصر سا خط پڑھ کر وہ بےساختہ مسکرائی۔ اسے وہ دن یاد آگئے جب اتفاقی طور پر ان کے مابین ان خطوط کا عجیب سا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ تب دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سلسلہ اس طرح اختتام کو پہنچے گا، مگر ہاں۔۔۔۔۔یہ اختتام بہت خوبصورت تھا۔
****************************************
چادر اوڑھے افروز بہت تھکن زدہ انداز میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ اس کی گری گری سی طبیعت کی واضح عکاسی کر رہا تھا۔
”کیا ہوا؟ طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے؟“ اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھے حامد نے اس کے گرد بازو حمائل کیا۔
”مجھے لگ رہا ہے کہ میں نہیں بچوں گی حامد۔“ اس نے نقاہت آمیز انداز میں اس کے کندھے پر سر رکھا۔
”اے! کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔“ اس نے فوراً ٹوکا۔
”ابھی تھوڑی دیر میں ہمارا نمبر آنے والا ہے پھر ڈاکٹر تمھیں چیک کرکے دوائی دے دیں گی اور تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گی۔“ اس نے مزید کہتے ہوئے تسلی دی مگر وہ جواباً کچھ نہ بول پائی۔
”مسڑ اینڈ مسز حامد شیرازی؟“ تب ہی نرس نے آکر پوچھا۔
”جی ہم ہی ہیں۔“ حامد اس کے ہمراہ کھڑا ہوگیا۔
”جائیے آپ کا نمبر آگیا ہے۔“ نرس نے اجازت دی تو دونوں ڈاکٹر کے روم میں آکر ان کے مقابل والی دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
ڈاکٹر نے اس کے کچھ ٹیسٹ کروائے تھے جن کی رپورٹس پہلے ہی ان کے پاس آچکی تھیں اور اب وہ بغور ان کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھیں جنہیں یہ دونوں دیکھ رہے تھے۔
”مسز افروز حامد؟“ ڈاکٹر نے رپورٹ نیچے رکھتے ہوئے تائید چاہی۔
”جی، کیا آیا ہے رپورٹ میں ڈاکٹر صاحبہ؟“ اس نے فکرمندی سے جاننا چاہا۔
”مبارک ہو! آپ پریگنینٹ ہیں۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے خوشخبری سنائی تو دونوں دنگ رہ گئے۔ یہ غیرمتوقع خبر سن کر یکایک افروز کی ساری نقاہت ہوا ہوگئی تھی۔
”کیا؟“ وہ یک زبان بولے۔
”آپ لوگوں کو خوشی نہیں ہوئی؟“ ڈاکٹر نے ان کی حیرت دیکھتے ہوئے تعجب سے پوچھا۔
”نہیں ڈاکٹر وہ بات نہیں ہے، دراصل کچھ عرصہ پہلے میری وائف کی پہلی ڈیلیوری ہوئی تھی جس میں ہمارا بیٹا مردہ پیدا ہوا تھا اور ڈاکٹر نے بتایا کہ کچھ ایسی پیچیدگیاں ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے اب افروز دوبارہ کبھی ماں نہیں بن پائے گی، تو پھر ایسا کیسا ہوگیا؟“ حامد نے رسان سے اپنی حیرت کی وضاحت کرتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”ان کی رپورٹس بالکل ٹھیک ہیں اور یہ پریگنینٹ ہیں، آپ خود دیکھ لیں۔“ انہوں نے کہتے ہوئے رپورٹ حامد کے اگے رکھی۔ اس پر واضح طور پر ”پازٹیو“ لکھا ہوا تھا۔
”آپ لوگوں نے کہاں سے ٹیسٹ کروائے تھے؟“ ڈاکٹر نے جاننا چاہا۔
”ہم نے کوئی ٹیسٹ نہیں کروایا تھا، بس ڈاکٹر نے خود ہمیں بتایا تھا کہ اب یہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی۔“ حامد نے تصحیح کی۔
”بنا کسی ٹیسٹ یا چیک اپ کے آپ لوگوں نے کیسے یقین کرلیا؟ آپ کی ڈاکٹر کو یقیناً کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہوگی!“ اب ڈاکٹر کو ان پر حیرت ہوئی اور ان دونوں کی سوچ کی سمت وہاں مڑی جہاں پہلے ان کا خیال نہیں گیا تھا۔
کچھ مزید ضروری بات چیت کے بعد وہ دونوں ڈاکٹر کے روم سے باہر آگئے تھے اور اب کوریڈور سے گزر رہے تھے۔
”دیکھا! میں کہتا تھا نا افروز کہ تم بالکل ٹھیک ہو، اب تو یقین آگیا نا!“ حامد کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا مگر افروز خوش ہونے سے زیادہ حیرت زدہ تھی۔
”ہاں لیکن اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو ڈاکٹر نے ایسا کیوں کہا تھا؟“ وہ ابھی تک الجھن کا شکار تھی۔
”ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو! اور پھر گھر میں چل رہے جھمیلوں کی وجہ سے ہمیں بھی خیال نہیں رہا کہ تمہارا کہیں سے چیک اپ کروالیں۔“ وہ سہولت سے نتیجے پر پہنچا جو افروز کو مطمئن نہیں کر پایا تھا۔
”خیر اب چھوڑو گزری باتیں، فی الحال خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ہمیں بھی ممی پاپا کہنے والا اس میں آنے والا ہے۔“ وہ اس وقت سارے سوال و فکر بالائے طاق رکھ کر بس خوشی سے سرشار تھا۔ افروز بھی خوش تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اسے کچھ سوالوں کے جواب بھی چاہیے تھے۔
”اور دیکھنا جب اماں جان کو یہ پتا چلے گا نا تو ان کی بھی ساری ناراضگی ہوا ہوجائے گی۔“ وہ مستقبل کے حوالے سے خوش آئند قیاس کرنے لگا۔
”بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ ابھی گھر چل کر سب کو یہ خوش خبری سناتے ہیں۔“ اس نے اگلے ہی پل فیصلہ کر ڈالا۔ وہ اپنی دھن میں کہتا خوشی خوشی چل رہا تھا کہ یکدم افروز نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے رکا۔
”ایسا کرنا ضروری ہے کیا؟“ اس کے سادہ انداز میں عجیب سی بےچینی تھی۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ شاید وہ اس کے فیصلے پر راضی نہیں ہے۔ اور وہ جو بنا کہے ہی اس کی ہر بات سمجھ جایا کرتا تھا یہ کیفیت بھی باآسانی بھانپ گیا۔
”میرا مطلب ہم کل چلے جائیں گے اماں جان کے پاس، ابھی گھر چلتے ہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ وہ کچھ پریشان تھی۔
”اچھا چلو ٹھیک ہے، ابھی گھر چلتے ہیں۔“ حامد نے بنا کسی حجت کے اس کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے نرمی سے کہا تو وہ کافی حد تک پرسکون ہوکر اس کے ہمراہ آگے بڑھ گئی۔
****************************************
ولیمے کی چھوٹی سی پرسکون تقریب بخیر و عافیت اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی جہاں بلیک ٹو پیس اور گولڈن میکسی میں نفاست سے تیار اذلفہ اور موحد ایک دوسرے کے ہمراہ بہت خوش اور مکمل لگ رہے تھے اور انہیں دیکھ کر ان کے گھر والے بھی خوش تھے۔
تقریب کے بعد سب واپس گھر آگئے تھے۔
موحد کمرے میں آیا تو اذلفہ کہیں نظر نہیں آئی۔ کمرے کی بڑی لائٹ بند تھی اس کے بجائے دو مدھم لائٹس آن تھیں۔ اور مزید روشنی بیڈ کے سامنے بنی کھڑکی سے اندر آتی چاندنی نے کردی تھی جس پر لگے سفید رنگ کے ہلکے پردے ہوا کے دوش پر لہرا رہے تھے۔
میکسی کے ساتھ پہنا گیا اس کا گولڈن نیٹ کا دوپٹہ صوفے پر پڑا تھا اور جیولری بھی سلیقے سے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی۔
وہ اپنا بلیک کوٹ اتار کر صوفے پر اس کے دوپٹے کے ساتھ رکھتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا۔ جہاں ایک تہہ شدہ کاغذ رکھا تھا۔ اس نے کاغذ اٹھا کر کھولا اور اسے پڑھنے لگا۔
یہ وہ ہی نوٹ تھا جو وہ صبح اذلفہ کیلئے دے کر گیا تھا مگر اب اس کے بہت سے لفظوں پر سرخ بال پین سے مارک کیا گیا تھا۔ یعنی اذلفہ نے پھر اس کی رائٹنگ میں غلطیاں نکالی تھیں۔ یہ دیکھ کر وہ بےساختہ مسکرایا۔
”اتنا عرصہ ہوگیا مگر تم نے ابھی تک اپنی اردو کی رائٹنگ ٹھیک نہیں کی۔“ تب ہی اذلفہ کی آواز پر وہ چونک کر پلٹا۔
وہ ہنوز زمین کو چھوتی گولڈن میکسی زیب تن کیے ہوئے تھی جس کی فل آستینیں اس کی مہندی لگی کلائیوں پر آکے ختم ہو رہی تھیں۔ سیدھے سیاہ بال پشت پر کھلے ہوئے تھے، وہ جیولری سے آزاد تھی البتہ چہرے پر میک اپ ہنوز موجود تھا جس سے اس کے نین نقش مزید دلکش لگ رہے تھے جو دونوں بازو سینے پر باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”ہاں، کوئی ملا ہی نہیں جو میری غلطیاں ٹھیک کروا دیتا۔“ وہ بھی محظوظ ہوکر کہتا ہوا اس کی جانب آیا۔
”عقل مند لوگ خود کو بہتر بنانے کیلئے بیٹھ کر دوسروں کا انتظار نہیں کیا کرتے کہ کوئی آئے گا اور انہیں سکھائے گا، بلکہ وہ خود اپنے ناقد بن کر اپنی خامیاں دور کرتے ہیں۔“ اس کا انداز ہمیشہ کی طرح ٹھہرا ہوا تھا۔
”ہاں لیکن جب سامنے سکھانے والا اتنا دلکش ہو تو پھر دل کرتا ہے کہ غلطی کرتے ہی جائیں، کرتے ہی چلے جائیں۔“ اس نے بھی شوخی سے قریب جھکتے ہوئے اس کے بال پیچھے کیے۔
”اتنے تسلسل سے غلطیاں کرنے پر سزا بھی مل سکتی۔“ اس نے بھی مسکراتی آنکھوں کے سنگ باور کراتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
”میں دل و جان سے تمام عمر یہ سزا کاٹنے کو تیار ہوں۔“ اس نے بھی گھمبیرتا سے کہتے ہوئے اسے خود سے بےحد قریب کیا تو جواباً وہ بھی مسکراتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔
دونوں کے مختلف پرفیومز کی خوشبو اب آپس میں مل کر کوئی نئی مہک پیدا کرچکی تھیں۔ بالکل ویسے جیسے یہ دونوں دنیا سے بےخبر ہوکر پوری طرح ایک دوسرے میں ضم ہوگئے تھے، پھر کبھی نہ الگ ہونے کیلئے۔
****************************************
کچن سے کسی اسٹیل کے برتن کے گرنے کی آواز پر بیڈ پر بیٹھی افروز یکدم چونک گئی اور اٹھ کر کچن میں آئی۔
”کیا ہوا؟ کیا گرا؟“ اس نے فکرمندی سے کچن میں جھانک کر دیکھا۔
”ارے کچھ نہیں، بس یہ پیالہ پھسل گیا تھا ہاتھ سے۔“ حامد نے وہ پیالہ کیبنٹ میں رکھتے ہوئے سہولت سے جواب دیا۔
”میں نے کہا بھی تھا کہ صبح میں دھو لوں گی برتن مگر آپ نے تو مجھے ایسے بستر سے لگا دیا ہے جیسے کتنی بڑی بیماری ہوگئی ہو!“ اس نے پھر سے وہ ہی بات دہرائی۔
”اللّه نہ کرے تمھیں کبھی ایسی کوئی بیماری ہو، وہ تو بس ایسے ہی خوشی میں کام کرلیا میں نے۔“ وہ کہتا ہوا کچن سے باہر آیا۔
”چلو کمرے میں چلتے ہیں۔“ وہ اسے لے کر واپس بیڈ روم میں آگیا۔ دونوں سونے کے ارادے سے بستر پر لیٹ گئے تھے مگر خوشی کے مارے حامد کی تو نیند ہی اڑ گئی تھی۔
”تم دیکھنا جتنے احتیاط ڈاکٹر نے بتائے ہیں نا اس سے بھی زیادہ احتیاط کریں گے ہم، اس بار کچھ غلط نہیں ہوگا۔“ وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے لگا جسے دیکھ کر وہ ہلکے سے مسکرائی۔ دونوں ایک دوسری کی جانب کروٹ لے کر لیٹے ہوئے تھے۔
”اور جب کل اماں جان کو جا کر یہ خوشخبری سنائیں گے نا تو وہ بھی ساری ناراضگی بھول بھال جائیں گی۔“ اس نے خوشی خوشی مزید کہا تو افروز کی مسکراہٹ بےساختہ سمٹ کر غائب ہوئی۔ وہ پھر اسی سوچ میں پڑ گئی جس کا ذکر اسے حامد سے کرنا تھا۔
فوری طور پر کچھ کہنے سے قبل افروز نے حامد کا ہاتھ سیدھا کرتے ہوئے اس کے بازو پر سر رکھا تو جواباً حامد نے بھی اسے خود سے لگا لیا۔
”ایک بات کہوں! مانیں گے؟“ اس نے تہمید باندھی۔
”پہلے تم اپنی وہ بات بتاؤ جو میں نے کبھی نہیں مانی ہو!“ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اس نے اپنائیت بھرے انداز میں کہا اور یہ بات واقعی درست تھی۔ بھلا آج تک اس نے اس کی کسی بات سے انکار کیا ہی کب تھا؟
”ہم ابھی گھر والوں کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاتے ہیں۔“ بلآخر وہ دل کی بات زبان پر لے آئی۔
”کیوں؟“ وہ متعجب ہوا۔
”بس ایسے ہی، پچھلی مرتبہ جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد آپ نے ہی تو کہا نا کہ اس بار ہم بہت زیادہ احتیاط کریں گے۔“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں لیکن احتیاط کا گھر والوں کو بتانے سے کیا تعلق ہے؟ بلکہ وہ تو خوش ہوں گے اور اماں جان کی ناراضگی بھی ختم ہوجائے گی۔“ وہ اب بھی اس کی بات نہیں سمجھ پایا تھا۔
”یہ ہی تو نا! پچھلی مرتبہ بھی سب خوش تھے اور اماں جان کی ناراضگی زائل ہونے ہی لگی تھی کہ وہ سب ہوگیا، خدانخواستہ اس بار بھی ایسا کچھ ہوگیا تو!“ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
”پاگل ہوگئی ہو! حادثے ہر بار نہیں ہوتے۔“
”مگر سازشیں بار بار ہوسکتی ہیں۔“ وہ ترکی بہ ترکی کہہ گئی۔
”تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟“ وہ مزید الجھا۔
”جب تک میرا بچہ اس دنیا میں، میری گود میں نہیں آجاتا تب تک میں اسے سب سے چھپا کر رکھنا چاہتی ہوں، کسی کو اس کے بارے میں بھنک بھی نہیں پڑنے دینا چاہتی۔“ وہ بےتابی سے کہتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔ وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔
افروز کے دل میں جو خدشے تھے وہ چاہ کر بھی حامد کے سامنے نہیں بیان کر سکتی تھی کیونکہ اسے پتا تھا کہ حامد کا ان پر یقین کر پانا مشکل ہوگا لیکن اس بار کسی بھی طرح اسے اپنے بچے کو بچانا تھا اسی لئے دبی دبی گزارشیں کر رہی تھی۔
”لیکن افروز میں صبح سے شام تک اپنے کام پر ہوتا ہوں تو ایسی حالت میں تم اکیلی کیسے رہو گی؟“ اس نے فکرمندی سے سوال اٹھایا۔
”اکیلی نہیں ہوں میں، اللّه ہے نا ہر وقت میرے ساتھ، جس نے مجھے آپ کا ساتھ دیا ہے اور اب صحیح معنوں میں مجھے آپ کا ساتھ چاہیے حامد اپنے بچے کو دنیا کی نظر سے بچانے کیلئے، پلیز!“ اس نے عاجزی سے کہتے ہوئے آخر میں اس کے آگے ہاتھ جوڑ لئے۔ اس کے انداز میں ایک عجیب سی بےچینی اور خوف تھا۔۔۔کچھ بھی قیمتی کھو دینے کا خوف! جس نے مزید کسی ضد بحث کی گنجائش ختم کردی۔
”میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“ حامد نے محبت سے کہتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔
بچے کی سلامتی کیلئے فی الحال افروز کا سکون میں ہونا بہت ضروری تھا اور اگر اس طرح وہ پرسکون تھی تو حامد کے پاس انکار کا کوئی جواز نہیں بچتا تھا۔ اس کا رضا مند ساتھ ملنے پر وہ کافی پر اطمینان ہوگئی تھی جس نے اس بار اپنے بچے کو بچانے کیلئے خود سے اٹل عہد کیا تھا۔
****************************************
نرم بستر پر میٹھی نیند میں سوئی اذلفہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے چہرے پر نرمی سے کچھ رینگ رہا ہے۔ اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں تو نائٹ بلب کی روشنی میں اسے موحد نظر آیا جو اس کے بےحد نزدیک ہتھیلی کے سہارے پہ سر ٹکائے لیٹا تھا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی گلاب کی پنکھڑی اس کے چہرے پر پھیر رہا تھا۔
”یہ کون سا وقت ہے مسخرہ پن کرنے کا؟“ اس نے غنودگی کے عالم میں پوچھا۔
”میری بیوی، میری مرضی میں کبھی بھی کچھ بھی کروں۔“ اس نے اپنی کاروائی جاری رکھتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، تو پھر جب یہ ہی بیوی کوئی جوابی وار کرے تو شکوہ مت کرنا۔“ اس نے بھی نیند سے بوجھل آنکھوں کے سنگ باور کرایا۔
”نیند میں بھی فل دماغ چل رہا ہوتا ہے تمہارا۔“ وہ خاصا محظوظ ہوا۔ جس کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”چلو اٹھ کر فریش ہوجاؤ، تھوڑی دیر بعد فجر کی اذان ہونے والی ہے، آج ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔“ اب اس نے نیند سے بیدار کرنے کی اصل وجہ بتائی۔
”پہلے تم ہوکر آؤ، پھر میں جاتی ہوں۔“ اس نے بچوں کی طرح کہتے ہوئے کمبل مزید اوپر کرلیا۔
”آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں ابھی وہیں سے آرہا ہوں، اب آپ کی باری ہے۔“ اس کی بات پر اذلفہ نے آنکھیں کھول کر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ واقعی اس کے بال گیلے ہو رہے تھے۔
”چلو اب اٹھ جاؤ شاباش!“ موحد نے کہتے ہوئے اس کے اوپر سے کمبل ہٹایا تو اسے اٹھنا پڑا۔
جب تک وہ فریش ہوکر آئی تب تک فجر کی اذان شروع ہوچکی تھی۔ موحد نے کمرے کی لائٹ آن کردی تھی اور اب قبلہ رو جائے نماز بچھا رہا تھا۔ جب کہ اذلفہ بھی اپنے گیلے بالوں کے اوپر شیفون کے جامنی سوٹ کا ہمرنگ دوپٹہ باندھ کر وہاں آئی اور مہندی والے پاؤں آہستہ سے گداز جائے نماز پر رکھ کر کھڑی ہوگئی۔ موحد آگے والی جائے نماز پر کھڑا تھا اور اس کے پیچھے اذلفہ تھی۔ دونوں نے پوری نماز ایک ساتھ ادا کی، ایک ساتھ شروعات۔۔۔۔۔۔۔ایک ساتھ رکوع۔۔۔۔۔۔اور ایک ہی ساتھ سجدہ!
نماز مکمل کرکے جب دونوں نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو اذلفہ کو بےساختہ وہ رات یاد آگئی جب جیکب کو انکار کرنے کے بعد وہ سب سے چھپ کر اللّه کے حضور بیٹھ کر ایسے ہی ہاتھ اٹھائے بہت دیر تک روئی تھی۔ اسے یاد تھا کہ اس رات اس نے جیکب کو نہیں مانگا تھا وہ بس مسلسل رو رو کر اپنے لئے وہ مانگ رہی تھی جو اس کے حق میں اچھا تھا مگر اللّه نے اسے اچھا نہیں دیا۔۔۔۔۔بہتر نہیں دیا۔۔۔۔۔۔بلکہ بہترین سے نوازا تھا۔ نم آنکھوں سے موحد کی جوڑی پشت دیکھ کر اس کا رواں رواں تشکر میں ڈوب گیا تھا جو اس وقت دعا مانگنے میں مشغول تھا۔ اس نے گہری سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے سر دونوں ہاتھوں میں جھکا لیا۔
اذلفہ کی وہ خاموش دعا سن لی گئی تھی جو اس نے کبھی کھل کر مانگی بھی نہیں تھی۔ اس نے کبھی یہ دعا نہیں کی تھی کہ مجھے یہ چاہیے یا وہ چاہیے، وہ تو بس رب کے حضور چپ چاپ بیٹھ کر روتی رہتی تھی اور سننے والے نے اس کے آنسوؤں کی ایسی لاج رکھی تھی کہ آج پھر آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔۔۔۔۔تشکر کے آنسوؤں سے!
پتا نہیں وہ اور کتنی دیر یوں ہو شکر کے آنسوں بہاتی رہتی اگر ایک نرم سا لمس یہ آنسوں صاف نہ کرتا!
آنکھیں کھولنے پر پتا چلا کہ موحد اس کے قریب بیٹھا ہے۔
”اب ایسا کیا ملنا رہ گیا ہے جسے رو رو کر مانگ رہی ہو؟“ اس نے آہستہ سے سوال کیا۔
”اتنا کچھ مل گیا ہے کہ شکر ادا کرنے کیلئے لفظ کم پڑگئے تھے اسی لئے آنسوؤں سے مدد لینی پڑی۔“ نم آنکھوں کے سنگ مسکراتے ہوئے جواب دیتی وہ کافی دلکش لگی۔
”اچھا! لیکن میں نے تو مانگا ہے، بتاؤں کیا مانگا؟“ اس نے کہتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
”بتاؤ!“ اسے بھی دلچسپی ہوئی۔
”تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو نا کہ میں نے دعا کی اللّه پاک مجھے تمہارے جیسی دو تین اور دے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اپنی خواہش بتائی تو اذلفہ کی مسکراہٹ تعجب میں تبدیل ہوگئی۔
”ارے تمہارے جیسی بیٹیاں!“ اس نے اگلے ہی پل تصحیح کی۔
”تمھیں کیا لگا میں بیویوں کی بات کر رہا ہوں!“ اس کے تعجب سے محظوظ ہوتے ہوئے موحد نے اس کے گرد دونوں بازوؤں کا گھیرا بنایا جس سے نکلنے کے بجائے وہ مسکراتے ہوئے اس میں قید ہوتی چلی گئی۔ کیونکہ ایک عرصہ ترسی تھی وہ خوبصورت قید کیلئے۔
ہوئی ہیں کچھ اس طرح آج ہم پر اُس کی عنایتیں
کہیں کونے میں تھی جو دبی ہوئی مٹ گئیں وہ شکایاتیں
****************************************
ابوبکر صاحب اور ہاجرہ نے اپنے ذمہ جو بیڑا اٹھا تھا اسے بخیر و عافیت پار لگا چکے تھے یعنی موحد کا گھر بس گیا تھا، اب وہ اکیلا نہیں رہا تھا اسی لئے دونوں نے بےفکر ہوکے اب واپسی کی تیاری شروع کردی تھی۔
اس وقت اذلفہ اور موحد اسٹیشن پر موجود ان دونوں کو رخصت کرنے آئے تھے جو واپس گاؤں جا رہے تھے۔ موحد ابوبکر صاحب کے ساتھ ٹرین کے باہر پلیٹ فارم پر کھڑا تھا جب کہ اذلفہ ہاجرہ کے ساتھ اندر فی الحال سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”وہ ہمارا سگا بیٹا نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنوں سے زیادہ اپنائیت نبھائی ہے ہم سے، اور اب تم تو بیوی ہو اس کی، دیکھنا وہ تمھیں بھی بہت خوش رکھے گا۔“ ہاجرہ محبت پاش انداز میں بول رہی تھیں اور وہ مسکراتے ہوئے سنے جا رہی تھی۔
”بس تم بھی اس کا بہت خیال رکھنا، بہت محرومیاں دیکھی ہیں بیچارے نے اپنی زندگی میں اب تم اس کی زندگی میں کوئی غم نہ آنے دینا، بس یوں سمجھ لو کہ اسے تمہارے حوالے کرکے جا رہے ہیں ہم۔“ انہوں نے ایک ماں کی طرح ہی اسے تاکید کی۔
”آپ بےفکر رہیں امی! وہ میرے لئے بھی کسی قیمتی اثاثے سے کم نہیں ہیں، ان کا میرے نصیب میں ہونا رب کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا میں خود سے بھی بڑھ کر خیال رکھوں گی۔“ اس نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے یقین دہانی کرائی۔
”آپ کو پتا ہے کہ اگر میں ہر سانس کے ساتھ بھی سجدہ شکر کرتا رہوں نا تب بھی رب کا شکر ادا نہیں کر پاؤں گا کہ اس نے صحیح وقت پر آپ کو میری زندگی میں بھیج کر میری زندگی صحیح سمت موڑ دی۔“ موحد کے تشکر آمیز انداز میں محبت تھی۔
”رب کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اور ان کا خیال رکھنا بھی شکر کی ایک قسم ہے، تم بھی بس اب گزری باتیں بھول جاؤ اور جو نعمتیں ملی ہیں ان کی قدر کرو، یہ ہی شکر ہوگا۔“ انہوں نے شفقت سے کہتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ بےساختہ ان کے گلے لگ گیا۔ تب ہی ٹرین نے آخری ہارن دیا۔
”بشری کے ابو! آجائیں گاڑی چلنے والی ہے۔“ ہاجرہ نے کھڑکی سے آواز لگائی۔ اذلفہ بھی ٹرین سے اترنے کیلئے کھڑی ہوگئی۔
”جی جی آرہا ہوں۔“ انہوں نے تسلی کرائی۔ تب تک اذلفہ بھی ٹرین سے اتر چکی تھی۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دی اور پھر ٹرین میں سوار ہوگئے۔
اب وہ دونوں ٹرین کے اندر تھے اور یہ دونوں ٹرین کے باہر کھڑکی کے پاس کھڑے تھے۔
”اب واپس جا کر بھول مت جائیے گا ہمیں، وقفے وقفے سے آتے رہیے گا۔“ موحد نے تاکید کی۔
”اب ہم تب ہی آئیں گے جب تم لوگ دو سے تین ہوگے، اس سے پہلے کوئی امید نہ رکھنا۔“ ہاجرہ نے بھی اپنائیت بھرے انداز میں باور کرایا تو اذلفہ بےساختہ جھینپ گئی۔
تب ہی ٹرین نے حرکت شروع کی تو دونوں مزید پیچھے ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین رفتار پکڑ کر انہیں دور لے گئی جنہیں دونوں نظروں سے اوجھل ہونے تک ہاتھ ہلاتے ریے۔
”اب گھر چلیں!“ ٹرین جانے کے بعد اذلفہ نے پوچھا۔
”نہیں، ابھی ہمیں کہیں اور جانا ہے۔“
“کہاں؟“
”تمھیں یاد ہے صبح میں نے کہا تھا کہ مجھے تمھیں کچھ بتانا ہے؟“ بجائے جواب دینے کے اس نے الٹا سوال کیا تو اذلفہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
”بس وہ ہی بتانے لے کر جا رہا ہوں۔“
”مگر کہاں لے کر جا رہے ہو اور کیا بتانا ہے؟“ وہ الجھی۔
”چلو میرے ساتھ، سب پتا چل جائے گا۔“ موحد نے اس کے گرد بازو حمائل کیا تو وہ ناسمجھی کے عالم میں اس کے ساتھ چل پڑی۔
****************************************
سورج کچھ دیر قبل ہی غروب ہوا تھا جس کے بعد آسمان کا مغربی حصہ نارنجی ہو رہا تھا مگر باقی آسمان سیاہ پڑنے لگا تھا۔ اس نام نہاد پارک میں کہیں کہیں لگے پولز پر پیلی لائٹ روشن ہوگئی تھیں جہاں شام کو تو اکثر بچے کرکٹ کھیلنے اور بوڑھے واک کرنے آجاتے تھے مگر اب تو یہاں ان دونوں کے سوا کوئی تیسرا نہیں تھا جو ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ایک ٹریک پر چل رہے تھے۔
”اب کچھ بتاؤ گے بھی کہ ہم گھر جانے کے بجائے یہاں کیوں آئے ہیں؟“ موحد کے بازو پر ہاتھ لپیٹ کر چلتی اذلفہ نے پھر وہ ہی سوال کیا جس کا جواب اب تک نہیں ملا تھا۔
”کیونکہ میں تمھیں وہ سب کچھ من و عن بتانا چاہتا ہوں جو گزرے کچھ عرصے میں میرے ساتھ ہوا۔“ اس نے چلتے ہوئے جواب دیا۔
”بتاؤ، میں سن رہی ہوں۔“ دونوں باتیں کرتے ہوئے ایک بینچ کے قریب آگئے تھے۔
”تمھیں یہ پارک اور یہ بینچ یاد ہے اذلفہ؟“ اس نے رک کر پوچھا۔
”ہاں، بہت اچھے سے یاد ہے، اسی بینچ پر جیکب سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”چلو تھوڑی دیر یہاں بیٹھتے ہیں۔“ وہ کہتے ہوئے اس کے ہمراہ بینچ پر بیٹھ گیا۔
کچھ عرصہ قبل اسی پارک کی، اسی بینچ پر جب یہ دونوں ملے تھے تب ان کے درمیان کوئی رشتہ نہیں بس پرتکلف فاصلہ تھا مگر آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہ ہی پارک تھا، وہ ہی بینچ تھی اور درمیان ایک ایسا حلال رشتہ تھا جس نے سارے فاصلے ختم کردیے تھے اور وہ اس کے بازو سے لپٹ کر کندھے پر سر ٹکائے اطمینان سے بیٹھی تھی۔ بینچ کے بالکل برابر میں لگے پول پر جلتی پیلی بھی شاید محبت پاش انداز سے ان پر اپنی روشنی بکھیر رہی تھی۔
”پتا ہے اس روز تم سے ملنے کے بعد جب میں یہاں سے گیا تھا تو کیا ہوا تھا؟“ وہ کھوئے ہوئے انداز میں گویا ہوا۔
”کیا ہوا تھا؟“ وہ بھی جاننے کیلئے ہمہ تن گوش تھی۔
****************************************
چند ماہ قبل
آنکھوں میں آئی نمی کو بےدردی سے رگڑتے ہوئے جیکب پارک سے باہر نکل آیا تھا اور اب تیز تیز قدم بڑھاتا روڈ کے کنارے پر چلا جا رہا ہے۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، جبڑے بھنچے ہوئے تھے، کن پٹی کی رگ تنی ہوئی تھی اور ضبط کے باعث آنکھیں اور چہرہ بری طرح لال ہو رہا تھا۔ اس کے تاثر اتنے خطرناک حد تک سنجیدہ تھے کہ آس پاس سے گزرتے اکا دکا لوگوں نے تو اس کو تعجب سے پلٹ کر بھی دیکھا تھا۔
بچپن سے لے کر اب تک جھیلی گئیں ساری محرومیاں، سارے دکھ درد پھر اس کے ذہن میں تازہ ہوگئے تھے۔ اسے یقین ہوچلا تھا کہ دنیا والے جس شے کو خوشی کہتے ہیں وہ اس کے نصیب میں تھی ہی نہیں۔ پہلے ماں کا سایہ اٹھا، پھر اپنوں نے در بدر کر دیا، پناہ دینے والا محسن بھی ساتھ نہ رہا اور زندگی میں پہلی بار دل نے جسے اپنا کہا تھا اس نے بھی اس کی محبت کو رد کرکے دوسری محبتوں اور فرائض کو اس پر ترجیح دی تھی۔ اور سب سے اہم۔۔۔۔۔! جسے دنیا والے خدا کہہ کر پوجتے تھے، اپنے دکھ درد بتا کر ان کا حل مانگتے تھے اس کی باری میں کہا تھا وہ خدا؟ کیوں نہیں سن رہا تھا اس کی؟ تب ہی ذہن میں خیال گزرا کہ آیا وہ ہے بھی یا نہیں؟ اور اگلے ہی پل دماغ نے اس کی گزشتہ زندگی کا عکس اسے دکھاتے ہوئے اس بات پر مہر لگا دی کہ ایسا کوئی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اس کی سنتا، اس کی مدد کرتا۔ اس کے پاس اب جینے کی نہ کوئی وجہ بچی تھی اور نہ ہی وہ جینا چاہتا تھا۔
وہ یوں ہی سوچوں میں غلطاں برہمی کے عالم میں چلتے چلتے نہ جانے کہاں سے کہاں آگیا تھا؟ یہ ایک چوڑی سڑک تھی جہاں وقفے وقفے سے گاڑیاں گزر رہی تھیں۔
وہ رک کر ابھی یہ سب دیکھ رہا تھا کہ دور سے ایک بڑی گاڑی ہارن دیتی ہوئی اس طرف آنے لگی۔ اس نے ایک لمحے میں فیصلہ کیا اور دوسرے لمحے میں اس پر عمل کرتے ہوئے وہ گاڑی کے آگے کود گیا تھا جس کے باعث یکدم فضا میں ٹائرز چرچرانے کی بہت تیز آواز گونجی اور پھر سناٹا چھا گیا۔
****************************************
”کوئی تو ہے جو“
”نظامِ ہستی“
”چلا رہا ہے“
”وہ ہی خدا ہے“
”دکھائی بھی جو نہ دے“
”نظر بھی جو آرہا ہے“
”وہ ہی خدا ہے“
اسے کہیں دور اندھیروں سے ایک چھوٹے بچے کی باریک آواز
آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے آس پاس بالکل گھپ اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں اندیکھی کرن تھی وہ اجنبی آواز!
”تلاش اس کو“
”نہ کر بتوں میں“
”وہ ہے بدلتی“
”ہوئی رُتوں میں“
”جو دن کو رات“
”اور رات کو دن“
”بنا رہا ہے“
”وہ ہی خدا ہے“
اسی جذب کے عالم میں مزید بول اس کی سماعت سے ٹکرائے اور محبت کی شیرنی میں ڈوبی یہ معصوم آواز دیکھنے کیلئے اس نے پوری ہمت جمع کرکے اپنی آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلے چھت پر گھومتا پنکھا نظر آیا۔ وہ آواز آنا بند ہوگئی تھی۔
جیکب ایک چھوٹے سے کمرے میں تخت پر لیٹا ہوا تھا جس کے سر پر سفید پٹی بندھی تھی اور چہرے پر کچھ معمولی خراشیں بھی کسی حادثے کی کہانی سنا رہی تھیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھا تو اس کے جسم میں درد کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔
”وہ ہی خدا ہے!“ ایک بار پھر وہ ہی آواز۔۔۔۔۔۔وہ ہی بول ایک طویل سُر میں اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ یہ آواز دروازے پر لٹکتے اس پردے کے پار سے آرہی تھی جس نے اسے غنودگی سے بیدار کیا تھا۔
”سبحان اللّه!“ تب ہی اسی سمت سے بہت سارے بچوں کی یک زبان آواز آئی۔
وہ متعجب ہوکر دروازے کے پاس آیا اور وہاں لٹکتا پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے پر اسے شلوار قمیض پہن کر سر پہ ٹوپی لگائے کچھ بچے سنگِ مرمر کے صحن میں بیٹھے نظر آئے۔ جن میں سے ایک بچہ سامنے کھڑا کچھ دیر قبل یہ حمد پڑھ رہا تھا جس کی آواز پر جیکب کی نیند ٹوٹی تھی۔
اسے یہ تو سمجھ آگیا تھا کہ وہ مسجد کے حجرے میں ہے، مگر سوال یہ تھا کہ اسے یہاں کون اور کیوں لایا؟
”جاگ گئے بیٹا؟“ تب ہی ایک نرم آواز پر وہ چونک کر پلٹا۔
سفید شلوار قمیض زیب تن کیے ابوبکر صاحب ابھی ابھی دوسرے دروازے سے اندر آئے تھے اور اسے بیدار دیکھ کر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔
”میں یہاں کیسے آیا؟“ جیکب نے ان کی جانب آتے ہوئے سوال کیا۔
”کل تمہارا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا، اتفاق سے اس وقت میں وہیں سے گزر رہا تھا تو تمھیں ہسپتال لے گیا، کچھ معمولی چوٹیں آئی تھیں جن کی پٹی کروا کر میں تمھیں اپنے ساتھ یہاں لے آیا کیونکہ تمہارے پاس کوئی ایسا نام، نمبر یا پتہ نہیں تھا جس پر ہم اطلاع دے پاتے۔“ انہوں نے رسان سے تفصیلی جواب دیا۔
”میرا ایکسیڈینٹ نہیں ہوا تھا میں خودکشی کرنے کیلئے جان بوجھ کر اس گاڑی کے آگے آیا تھا، آپ نے کیوں بچایا مجھے؟“ توقع کے برعکس وہ تصحیح کرتے ہوئے ان پر خفا ہوا تو وہ تھوڑے متعجب ہوئے۔
”میں نے تمھیں نہیں بچایا، زندگی دینے اور لینے والی ذات اللّه کی ہے اور اسی نے تمھیں بچایا ہے بیٹا، میں تو بس ذریعہ تھا۔“ انہوں نے برا مانے بغیر نرمی سے جواب دیا۔
”جھوٹ! ایسا کچھ نہیں ہوتا، یہ سب من گھڑت باتیں ہوتی ہیں۔“ وہ نفی کرتے ہوئے اضطرابی کیفیت میں تخت پر بیٹھ گیا۔
ابوبکر صاحب جانتے تھے کہ وہ مسلمان نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مل چکے تھے۔ مگر اس کی یہ بےچین الجھی ہوئی کیفیت دیکھ کر انہیں اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ ضرور کوئی پریشانی ہے۔
”کیا میں خودکشی کرنے کی وجہ جان سکتا ہوں؟“ وہ بھی پوچھتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھے۔
”کیونکہ میرے پاس جینے کی کوئی وجہ نہیں بچی تھی۔“ اس نے نظریں ملائے بنا سنجیدہ جواب دیا۔
”تمہاری عمر کیا ہے؟“ انہوں نے اچانک ایک غیرمتوقع سوال کیا۔ اس نے تعجب سے ان کی جانب دیکھا۔
”اٹھائیس سال!“ تعجب خیز سے ہی سہی مگر اس نے جواب دیا۔
”آج سے پہلے ایسی کون سی وجہ تھی جس کیلئے تم اٹھائیس سال جی لئے؟“ انہوں نے دلچسپی سے پوچھا تو چند لمحوں کیلئے وہ لاجواب ہوگیا۔ سوال میں واقعی وزن تھا کہ وہ اب سے پہلے کس کیلئے زندہ تھا؟ یا اب ایسا کیا ہوا تھا جس نے اس سے جینے کی آرزو ہی چھین لی تھی!
”اب تک جی نہیں رہا تھا بس زندہ تھا میں، اس آسرے پر کہ شاید کبھی تو وہ مجھے بھی خوشیوں کی شکل دکھائے گا جسے سب خدا کہتے ہیں، مگر یہ آسرا سراسر میری غلط فہمی ثابت ہوا۔“ وہ سامنے دیکھتے ہوئے تلخی سے گویا ہوا۔ ابوبکر صاحب کی نظریں ہنوز اس کے چہرے پر تھیں۔
”کل صبح جب تم مجھے ملے تھے تو تم نے کہا تھا کہ اگر تمہاری مراد پوری ہوگئی تو تم اسی مسجد میں عبادت کرنے آؤ گے، میں تمہارا انتظار کر رہا تھا مگر تم آئے نہیں، کیوں؟“ انہوں نے یاد دلاتے ہوئے نرمی سے دوسرا سوال کیا۔
”آپ نے شاید میری بات ٹھیک سے سنی نہیں تھی، میں نے کہا تھا اگر میری مراد پوری ہوگئی تو میں یہاں آؤں گا، لیکن میری مراد پوری نہیں ہوئی کیونکہ اسے سننے والا کوئی ہوتا تو پوری کرتا نا!“ اس کے انداز میں عجیب سی بےزاریت و مایوسی تھی۔
”تم نے کہا تھا کہ تمہاری مراد پوری ہوئی تو تم یہاں آؤ گے مگر وہ سننے والا تمہاری مراد رد کرکے خود تمہیں یہاں تک لے آیا، شاید وہ کسی منفرد راستے سے تمھیں اپنے پاس بلانا چاہ رہا ہے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کڑیاں جوڑیں تو جیکب نے یکایک چونک کر انہیں دیکھا۔
”مجھے یہاں آپ لے کر آئے ہیں۔“ اس نے اپنی بات پر یوں زور دیا جیسے ان کی نفی کر رہا ہو۔
”ہاں، کیونکہ یہ اُس کا ہی حکم تھا، ورنہ تم وہیں سڑک پر پڑے پڑے مرسکتے تھے۔“ انہوں نے ترکی بہ ترکی تحمل سے جواب دیتے ہوئے اسے پھر لاجواب کر دیا۔ وہ نفی میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کیا کہے یہ سمجھ نہ آیا!
”آپ خواہ مخواہ مجھے الجھا رہے ہیں۔“ کوئی راہ نہ ملنے پر وہ اضطرابی کیفیت میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
”ہوسکتا ہے کہ خدا نے اسی الجھن کو سلجھانے کیلئے تمھیں زندہ رکھا!“ وہ بھی اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
”مجھے نہیں رہنا زندہ! میں جا رہا ہوں مرنے اور دوبارہ مجھ پر زندہ رہنے کا عذاب مسلط نہ کیجئے گا۔“ وہ ان کی باتوں سے فرار ہوتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھا۔
”ایک بات سنتے جاؤ!“ ان کی بات پر اس کے قدم رکے مگر وہ پلٹا نہیں۔
”کل صبح تم نے مجھ سے کہا تھا نا کہ میں تمہارے لئے دعا کروں تمہاری مراد پوری ہوجائے!“ انہوں نے یاد دلایا۔
”ہاں میں نے دعا کی تھی، مگر یہ نہیں کہ تمہاری مراد پوری ہو، بلکہ یہ کہ جو تمہارے حق میں اچھا ہے تمہارے ساتھ وہ ہو۔“ ان کی بات مکمل ہونے پر وہ چونک کر پلٹا۔
”ایسا کیوں کیا آپ نے؟“ وہ حیرت کو زبان دیتا ان کی طرف آیا۔
”کیونکہ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لئے کیا اچھا ہے اور کیا نہیں۔“ انہوں نے ٹھہرے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
”زندگی میں پہلی بار میں نے جس سے محبت کی وہ مجھے ٹھکرا کر چلی گئی اس میں بھلا کیا اچھا ہوا؟“ وہ غم و غصے سے پاگل ہونے لگا۔
”تم واقعی اس سوال کا جواب چاہتے ہو؟“ اس کے برعکس وہ بہت پرسکون تھے۔
”ہاں بالکل!“ اس کا انداز اٹل تھا۔
”تو ٹھیک ہے، ایک شرط پر میں تمھیں اس کا جواب دوں گا۔“
”کیسی شرط؟“
”تمھیں اپنی زندگی کے اگلے چھے مہینے مجھے دینے ہوں گے۔“ انہوں نے اپنی عجیب سی شرط سامنے رکھی۔
”کس لئے؟ تا کہ آپ بھی مجھے دین اسلام پر وہ ہی لیکچر دیں کہ ایک اللّه پر یقین کرو نہیں تو جہنم میں جلائے جاؤ گے! جیسے اس نے پہلے اسلام کے نام پر میرے دل پر دستک دی اور پھر مجبوریوں کا بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئی! آپ بھی یہ ہی لیکچر دیں گے جو مجھے نہیں چاہیے، پلیز!“ وہ اس وقت بدظنی کی جیتی جاگتی تصویر بنا ہوا تھا۔
”نہیں میں تمھیں کوئی لیکچر نہیں صرف تمہارے سوالوں کا جواب دوں گا، یہ میرا وعدہ ہے، بس تم اپنے اگلے چھے مہینے مجھے دے دو، تمہاری رہائش اور کھانا پینا سب میری ذمہ داری ہوگا۔“ ان کے اس قدر اٹل مگر نرم انداز کے باعث اس کے تنے ہوئے تاثر ڈھیلے پڑے اور وہ متعجب ہوکر سوچ میں پڑ گیا۔
****************************************
ابوبکر صاحب کے ہمراہ جیکب ان کے گھر آگیا تھا جہاں خوشگوار طور پر ہاجرہ بھی اسے پہچان چکی تھیں کہ یہ وہ ہی لڑکا ہے جس نے انہیں اور بشری کو ایک بہت بڑے اسکیم سے آگاہ کیا تھا۔ انہیں بھی اپنے شوہر کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہ ہوا کیونکہ فی الحال وہ دونوں میاں بیوی اکیلے ہی تو رہ رہے تھے۔ جیکب کو اوپر والا کمرہ دے دیا گیا تھا جس میں ضرورت کا ہر سامان موجود تھا۔
”کمرہ اچھا لگا؟“ ابوبکر صاحب نے جیکب سے پوچھا جو وسط میں کھڑا سرسری سا کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔
”میں کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ویکیشن گزارنے نہیں آیا ہوں جو پسند ناپسند کا بتاؤں، رہنے کیلئے ”زبردستی“ ایک جگہ مل گئی ہے، بس بہت ہے۔“ اس نے اکھڑے ہوئے انداز میں لفظ ”زبردستی“ پر زور دیتے ہوئے جواب دیا۔ کیونکہ بقول اس کے وہ تو جینا ہی نہیں چاہتا تھا، ابوبکر صاحب نے اصرار کرکے اس سے چھے مہینے مانگے تھے۔ اس کے اس نروٹھے انداز پر وہ ہلکے سے مسکرائے۔
”چلو اب تم آرام کرو، کل جا کر اپنے پرانے گھر سے ضرورت کا سارا سامان لے آنا تا کہ چھے مہینے بعد جب تم پھر خودکشی کرنے جاؤ گے تو میں تمہارا وہ سامان یعنی کپڑے وغیرہ کسی ضرورت مند کو دے دوں گا، اس کا بھلا ہوجائے گا۔“ انہوں نے اس کا کندھا تھپک کر نہایت اطمینان سے کہا۔ انہوں نے جیکب کو اسی کے انداز میں ٹریٹ کرنے کا ارادہ بنالیا تھا جس کے چلتے وہ آگے کئی مقامات پر اسی طرح حیران ہونے والا تھا جیسے ابھی ہوگیا تھا۔
اس نے کسی مولوی کو کبھی اتنے دوستانہ انداز میں ایک غیر مسلم سے باتیں کرتے نہیں دیکھا، سنا تھا۔ اس نے تو بس ان لوگوں کو ہمیشہ جذباتی انداز میں تقریر کرتے ہوئے جنت و جہنم، عذاب و ثواب کے بارے میں بتاتے ہوئے پایا تھا۔ وہ باقی سب سے بہت الگ تھے۔ ان کا انداز منفرد تھا۔ اور یہ ہی وجہ تھی کہ جیکب جیسا ہٹ دھرم انسان ان کی بات ماننے کو تیار ہوگیا تھا۔
****************************************
جیکب کو یہاں آئے ہوئے چند دن ہوگئے تھے۔ اس کے سرد رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی جب کہ ابوبکر صاحب کی شفقت بھی ہنوز جاری و ساری تھی۔
”آپ سے دو سوال پوچھوں؟“ جیکب نے سوال کیا جو اس وقت ابوبکر صاحب اور ہاجرہ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔
”ضرور پوچھو۔“ انہوں نے حسب عادت جواب دیا۔
”پہلا یہ کہ آپ لوگ ہمیشہ یہ ہی کیوں کہتے ہیں کہ جو قرآن میں لکھا ہے بس وہ ہی صحیح ہے؟ حلانکہ اس سے پہلے بھی کتنی کتابیں موجود ہیں، جیسے ہماری بائبل! وہ بھی تو آسمانی کتاب ہے نا! تو اس کا لکھا کیوں نہیں مانتے آپ لوگ؟“ اس نے سوال اٹھایا۔
”اور دوسرا یہ کہ آپ کیسے مولوی ہیں کہ جو انسان آپ کے اللّه کو ہی نہیں مانتا آپ اسے اٹھا کر اپنے گھر لے آئے ہیں اور سونے پر سہاگہ اس کی خاطر تواضع بھی کیے جا رہے ہیں۔“ اس نے کافی چبھتے ہوئے انداز میں دونوں سوال کیے تھے۔ اس کی بات پر جہاں ہاجرہ تھوڑی حیران ہوئیں وہیں ابوبکر صاحب کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔
”تمہاری عمر اٹھائیس سال ہے نا!“ انہوں نے بجائے جواب دینے کے تائید چاہی۔
”ہممم!“ رسمی جواب ملا۔
”کیا تم صرف اندازاً بھی بتا سکتے ہو کہ پچھلے اٹھائیس سالوں سے لے کر اب تک تم نے کتنی دیر سانس لی؟ کتنی بار تمہارا دل دھڑکا؟ کتنی بار تم نے کھانا کھایا؟ کتنی بار پانی پیا؟“ انہوں نے کچھ غیرمتوقع سوال کیے تو وہ حیران ہوتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا۔
”تم نہیں اندازہ لگاسکتے کیونکہ یہ ناممکن حد تک مشکل ہے۔“ انہوں نے خود ہی جواب دیا۔
”اب تم ہی بتاؤ کہ جس رب کے تم منکر ہو جب وہ خود تمھیں پچھلے اٹھائیس سال سے کھلا پلا کر پال رہا ہے تو میں کون ہوتا ہوں تمہارا دانہ پانی بند کرکے تم پر پابندی لگانے والا؟“ انہوں نے مسکراتا ہوئے سوال کیا تو بےساختہ اس کا دل اتنی زور سے دھڑکا کہ نوالہ پکڑا ہاتھ لرز گیا۔
”اور پتا ہے رب تم جیسوں کا دانہ پانی بند کرکے تمھیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ کیونکہ بھٹکے ہوئے کو راستہ سمجھایا جاتا ہے اس پر دروازے بند نہیں کیے جاتے، رب کا در بھی تم جیسے بھٹکے ہوئے لوگوں کیلئے ہمیشہ کھلا رہتا ہے کہ کب کوئی بھولا بھٹکا میرے جیسے کسی گائیڈ کے ذریعے واپس اپنی اصل منزل تک آجائے!“ انہوں نے مزید کہا تو اس کے رہے سہے سوال بھی اپنی موت آپ مر گئے۔ اور آنکھوں میں عجیب چبھن سی ہونے لگی۔
”کھانا کھاؤ بیٹا، ٹھنڈا ہو رہا ہے، دوسرے سوال کا جواب پھر کبھی دوں گا۔“ انہوں نے اس کا ہوا میں ساکت ہاتھ اس کے منہ کے قریب کرتے ہوئے دھیان دلایا تو بجائے کوئی حجت کرنے کے جیکب نے بےساختہ منہ کھول کر نوالہ منہ میں لے لیا۔ کیونکہ جسے رب پال رہا ہو اس سے حساب کتاب کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟
****************************************
کچھ روز مزید ایسے ہی گزر گئے مگر اب جیکب کا ہٹ دھرم انداز خاموش سنجیدگی میں بدلنے لگا تھا۔ اب وہ آگے سے الٹا جواب دینے کے بجائے سیدھی بات کا سیدھا جواب دینے لگا تھا جو کہ ایک اچھا اشارہ تھا۔
”آپ نے بلايا مجھے؟“ جیکب نے لاؤنج میں آتے ہوئے پوچھا جہاں ابوبکر صاحب ڈبل صوفے پر ایک بچے کے ہمراہ بیٹھے تھے اور بچہ گود میں کاپی رکھے غالباً اسکول کا کام کر رہا تھا۔
”ہاں، چائے بن رہی ہے شام کی، ساتھ بیٹھ کر پی لو، اس بہانے تھوڑی گپ شپ بھی ہوجائے گی۔“ انہوں نے سنگل صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا تو وہ چپ چاپ وہاں بیٹھ گیا۔
جیکب اس بچے کو پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا۔ یہ یہاں پڑوس میں ہی رہتا تھا۔ مگر اسے یہاں اس طرح پڑھتے ہوئے آج پہلی بار دیکھ رہا تھا جو کہ اسے عجیب تو لگا مگر وہ خاموش ہی رہا۔ ابوبکر صاحب بول بول کر بچے کو ٹو کا ٹیبل لکھوا رہے تھے جو کہ اب مکمل ہوگیا تھا۔
”چلو اب تھری کا ٹیبل لکھو۔“ ان کے کہنے پر بچے نے کاپی کا صفحہ پلٹا۔
”ون تھری از تھری۔۔۔۔۔۔ٹو تھریز آر سکس۔۔۔۔تھری تھریز آر ٹین۔۔۔۔۔فور تھریز آر۔۔۔۔۔!“
”ارے! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟“ جیکب کے اچانک ٹوکنے پر وہ رکے۔
”کیا ہوا؟“ وہ سمجھے نہیں۔
”تھری تھریز آر نائن ہوتے ہیں ٹین نہیں۔“ اس نے تصحیح کی۔
”نہیں تین کو جب تین جگہ جمع کرو تو دس ہی ہوتے ہیں۔“ ان کے انکار پر جیکب کو حیرت ہوئی۔
”اتنے سمجھدار ہوتے ہوئے آپ اتنی بڑی غلطی کیسے کرسکتے ہیں؟“ اس کی حیرت عروج پر تھی۔
”میں کوئی غلطی نہیں کر رہا، دیکھو یہاں بھی یہ ہی لکھا ہے۔“ انہوں نے کہتے ہوئے اپنے برابر میں رکھی ایک کاپی اٹھا کر اسے دی جس میں واقعی بال پن سے ایسا لکھا تھا۔
”یہ غلط لکھا ہے، اصل ایسا نہیں ہے، یہ یقیناً کسی نے رد و بدل کیا ہے، آپ خود بھی غلط پڑھ رہے ہیں اور بچے کو بھی غلط سکھا رہے ہیں۔“ اس نے کاپی دیکھتے ہوئے نفی کی۔
”اچھا! ابھی جب میں نے اسے ٹو کا ٹیبل لکھوایا تب تو تم نے کچھ نہیں کہا اور اب تم ٹوک رہے ہو!“ ان کا انداز بھی خلاف معمول حجت کرتا ہوا تھا۔
”ہاں کیونکہ وہ آپ نے بالکل ٹھیک پڑھایا اس میں کوئی غلطی نہیں تھی لیکن اب جو آپ پڑھا رہے ہیں یہ غلط ہے، اس سے بچہ گمراہ ہوکر امتحان میں فیل ہوسکتا ہے۔“ اس نے مضبوط انداز میں دلیل دی۔
فوری طور پر اسے کوئی جواب دینے کے بجائے وہ چند لمحے اسے دیکھتے رہے اور پھر اچانک ان کے تنے ہوئے تاثر ڈھیلے پڑ گئے۔
”اب تم جا سکتے ہو بیٹا۔“ انہوں نے اب تک خاموش تماشائی بنے بچے سے کہا تو وہ فرمابرداری سے اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑا جسے جیکب حیران سا دیکھتا رہ گیا۔
”تو کیا کہہ رہے تھے تم کہ تم نے اسی لئے ٹوک کر میری تصحیح کی کیونکہ میں غلط سبق پڑھ رہا تھا؟“ انہوں نے دلچسپی سے دوبارہ تائید چاہی۔ ان کا پرانا اطمینان پھر لوٹ آیا تھا۔
”جی!“ وہ الجھا ہوا تھا۔
”تو یہ ہی تمہارے اس سوال کا جواب ہے کہ ہم لوگ بس قرآن کے لکھے ہوئے کو ہی کیوں صحیح مانتے ہیں؟ کیونکہ صرف اسی میں سچ لکھا ہے باقی کتابوں میں رد و بدل کردی گئی ہے، اس طرح!“ انہوں نے بتاتے ہوئے پھر وہ ہی کاپی دکھائی جس پر انہوں نے غلط ٹیبل لکھا ہوا تھا۔ ان کی بات پر وہ دنگ رہ گیا۔ انہوں نے بالکل انوکھے انداز میں اس کے سوال کا جواب دیا تھا۔
”تم بتا سکتے ہو کہ بائبل کب اور کس پر نازل ہوئی؟“
”عیسیٰ (علیہ سلام) پر اتری ہے یہ کتاب۔“
”اور اس سے بھی پہلے کون کون سی کتابیں نازل ہوئیں؟“ اس سوال پر وہ سوچ میں پڑ گیا۔
”مشہور صرف دو اور ہیں توریت اور زبور لیکن در حقیقت ان سے بھی پہلے مختلف قوموں کیلئے کئی رسالت اور کتابیں آئیں، مگر ان سب پر من و عن عمل کرنے کے بجائے لوگوں نے ان میں رد و بدل کردیے، اس کا اصل کھو دیا، آدم زاد کا ازلی دشمن شیطان مردود انسانوں کے ذریعے ان میں رد و بدل کروانے میں کامیاب رہا اور یوں سب گمراہ ہونے لگے، اسی لئے اللّه نے اپنے آخری رسول حضور ﷺ پر اپنی آخری اور مکمل کتاب قرآن مجید نازل کی جو کسی ایک قوم کیلئے نہیں تا قیامت آنے والے ہر انسان کیلئے مختص کردی گئی، اور اللّه نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا، کیا تم نے سنا ہے کہ پچھلی کتابوں میں کہیں قرآن کا تصدیقی یا تنقیدی ذکر آیا ہو؟ نہیں سنا ہوگا مگر قرآن میں پچھلی ساری کتابوں کا ذکر ہے جیسے کہ سورہ فاطر میں لکھا ہے قرآن پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ہاں اس سے قبل بھی اللّه نے کتابیں نازل کیں مگر وہ سب اپنی اصلی حالت میں موجود نہ رہ سکیں، اس کے علاوہ کیا تم نے قرآن کے بعد کوئی دوسری ایسی کتاب دیکھی ہے جسے آسمانی کتاب کہا گیا ہو؟ جس میں یہ لکھا ہو کہ قرآنی تعلیمات غلط ہیں؟“ انہوں نے بتاتے ہوئے سوال کیا تو اس نے بےساختہ نفی میں سرہلایا۔
”کیونکہ قرآن میں کچھ ادھورا یا غلط ہے ہی نہیں اسی لئے قرآن کو کسی تصحیح کی ضرورت نہیں ہے۔“ انہوں نے خود ہی جواب دیا۔
”بلکہ قرآن تو صاف صاف یہ چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمھیں شک ہے یہ اللّه کی کتاب نہیں ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورہ ہی بنا لاؤ، جو کہ ناممکن ہے۔“ وہ لمحے بھر کو رکے۔
”ابھی جب میں نے اس بچے کو ٹو کا ٹیبل پڑھایا تو تم نے مجھے نہیں ٹوکا کیونکہ میں صحیح پڑھا رہا تھا، ایسے ہی قرآن میں جو لکھا ہے صحیح، سچ اور مکمل لکھا ہے اسی لئے اللّه نے اس کے بعد پھر کوئی اور کتاب نازل نہیں کی، لیکن جب تم نے دیکھا کہ میں بچے کو تھری کا ٹیبل غلط پڑھا رہا ہوں تو تم نے فوری مجھے ٹوکا کیونکہ اس سے بچہ گمراہ ہوکر فیل ہوسکتا تھا، ایسے ہی جب انسان شیطانی سازشوں کے باعث پچھلی کتابوں میں رد و بدل کرکے گمراہ ہونے لگے تو اللّه نے فوری انہیں روکنے ٹوکنے کیلئے نئی کتابیں نازل کیں، وہ بتایا جو صحیح تھا اور پھر اپنی اس آخری کتاب کا ذمہ بھی خود لے لیا۔“ وہ اپنے طور پر کافی تفصیل سے بتا کر اب خاموش ہوئے۔ جب کہ وہ حیرانی و ناسمجھی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بس انہیں سنے جا رہا تھا۔
”آپ کی سب باتیں میری سمجھ میں آنے لگی ہیں سوائے ایک بات کے!“ بلآخر وہ گویا ہوا۔
”کون سی بات؟“
”آپ نے کہا کہ اللّه نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا تو اللّه اس سے پہلے بھی باقی کتابوں کا ذمہ لے سکتا تھا، بلکہ اگر وہ سب سے پہلے صرف قرآن مجید نازل کرکے اس کا ذمہ لے لیتا تو پھر کوئی بھی گمراہ نہیں ہوتا۔“ وہ ذہن کا سوال زبان پر لایا۔ اس کی بات پر وہ یوں مسکرائے جیسے کوئی بڑا کسی بچے کی نادانی پر مسکراتا ہے۔
”پتا ہے انسانوں سے پہلے صرف فرشتے اور جن ہوا کرتے تھے، پھر جب اللّه پاک نے آدم علیہ سلام کا پتلا بنا کر اس میں روح ڈالی اور اسے سجدے کا حکم دیا تو سب سے زیادہ عبادت گزار جن ابلیس نے یہ حکم نہ مانا اور اپنی برتری کرنے لگا کہ میں آگ سے بنا اس مٹی کو سجدہ نہیں کروں گا، اللّه نے اسے اپنی رحمت سے محروم کرکے وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تو جاتے جاتے اس نے رب سے مہلت مانگی، اختیار مانگا کہ وہ آدم زاد کو گمراہ کرکے اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گا تو اللّه نے اسے مہلت و اختیار دیا کہ جا ٹھیک ہے تجھے آدم زاد کو وسوسے دلانے کا اختیار ہوگا اور یہ مہلت قیامت تک کی ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔جو اللّه کے نیک بندے ہوں گے ان پر اس کا بس نہیں چلے گا، وہ صرف وسوسہ ڈال سکے گا ہاتھ پکڑ کر ان سے گناہ نہیں کروا سکے گا، یہ ہی وہ اختیار تھے جو استعمال کرکے شیطان نے انسانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا، لوگ گمراہ ہوئے اور کتابوں کی رد و بدل کر بیٹھے، اللّه چاہتا تو پہلی بار میں یہ سلسلہ روک سکتا تھا مگر اس نے مہلت دی، پھر نبی بھیجا، کتاب نازل کی، پھر لوگوں تک حق کا پیغام پہنچایا اور سوائے کچھ لوگوں کے اکثریت نے پھر حق و باطل کو ملا دیا، پتا ہے انسان اور باقی مخلوقات میں یہ ہی فرق ہے۔۔۔۔۔۔اختیار کا، انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے اللّه نے صحیح و غلط بتا کر خود اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، اللّه نے انسانوں کیلئے جنت و جہنم دونوں کے راستے کھلے چھوڑے ہوئے ہیں، اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صحیح راستے پر چل کر جنت کی طرف آئے یا غلط راستے سے جہنم کی طرف۔۔۔۔۔یہ ہی وہ اختیار تھے جسے استعمال کرتے ہوئے انسان نے آسمانی کتابوں میں بھی رد و بدل کردیا، لیکن۔۔۔۔۔۔۔!“ وہ پل بھر کو رکے۔
”قرآن کے معاملے میں اللّه نے اس کے زیر، زبر، پیش کو بھی یہاں سے وہاں کرنے کا اختیار انسانوں سے لے لیا اور فرمایا کہ اس کتاب کی حفاظت وہ خود کرے گا اور کر رہا ہے۔“ انہوں نے بات مکمل کی۔
”آج تم کسی بھی چوراہے پر جا کر کھڑے ہوجاؤ اور کہو کہ تمھیں قرآن سننا ہے، وہاں قرآن کتابی شکل میں موجود نہیں ہوگا مگر کوئی نا کوئی شخص ایسا ضرور آگے آئے گا جو تمھیں منہ زبانی بالکل درست قرآن سنا دے گا کیونکہ وہ حافظِ قرآن ہوگا، یہ بھی قرآن کا اپنا ایک معجزہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اور آسانی سے حفظ کی جانے والی کتاب ہے، اللّه نے قرآن کی حفاظت فرمائی ہے، انسانوں سے کسی بھی قسم کے رد و بدل کا اختیار لے کر اسے دلوں میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا ہے۔“ انہوں نے ایک اور جواب دے کر اسے لاجواب کردیا۔
”اور رہی بات کہ اللّه نے سب سے پہلے ہی قرآن پاک نازل کیوں نہیں کردیا تو اس کے راز وہ ہی جانے لیکن ذرا تم اپنی عقل سے مجھے جواب دو کہ کیا کلاس ون کا بچہ میٹرک کی بک پڑھ سکتا ہے؟“ انہوں نے سوال کیا تو بےساختہ اس کا سر نفی میں ہلا۔
”ایسے ہی انسان کو آہستہ آہستہ سکھایا گیا ہے اور پچھلی کتابوں کے ذریعے قرآن پاک کیلئے تیار کیا گیا ہے، پچھلی کتابوں کی بنیاد بھی توحید تھی یعنی بس ایک اللّه کی عبادت اور قرآن کی بنیاد بھی یہ ہی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ قرآن پاک میں اللّه تعالی نے دین، دنیا، سائنس، میڈیکل، قدرت ان سب کو اکھٹا کرکے تا قیامت آنے والے ہر انسان کیلئے بھیجا ہے، چلو آسانی کیلئے ایک مثال دیتا ہوں، فرض کرو کہ ایک جگہ تمھیں ایک کتاب کی مختلف جلدیں یعنی پارٹس الگ الگ مل رہے ہیں اور ایک طرف ایک ایسی کتاب مل رہی ہے جس میں سارے پارٹس ایک ترتیب سے مرج ہیں، اب تمہارے لئے کون سی کتاب پڑھنا آسان ہوگا؟ یا تم کون سی کتاب پڑھنا پسند کرو گے؟“ انہوں نے بتاتے ہوئے سوال کیا۔
”وہ ایک کتاب جو مکمل ہے۔“ فوری جواب آیا۔
”ایسے ہی قرآن بھی مکمل ہے۔“ انہوں نے بات مکمل کی۔
”تم کرسچن ہو، یہ جانتے ہوگے کہ بائبل یعنی انجیل کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہیں ایک حصہ عہد نامہ قدیم (Old Testament) اور دوسرا حصہ عہد نامہ جدید (New Testament) کے نام سے ہے، عہد نامہ قدیم یہودیوں کی مقدس کتاب ہے اور اس میں موسی علیہ سلام سے پہلے تمام انبیا کے حالات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے، جب کہ عہد نامہ جدید عیسی علیہ سلام کے احوال پر مشتمل ہے، مسیحی یعنی کرسچن قدیم اور جدید دونوں عہد ناموں کو مانتے ہیں جبکہ یہودی صرف عہد نامہِ قدیم کو مانتے ہیں، یعنی یہ کتاب دو حصے میں، دو فرقوں میں، دو مذاہب میں بٹ گئی ہے، مگر۔۔۔۔۔۔قرآن پاک شروع سے آخر تک ہر مذہب، مسلک اور انسان کیلئے ایک ہی ہے، جو بھی اس پر ایمان لاتا ہے مکمل لاتا ہے۔۔۔۔۔اب کوئی سوال؟“ انہوں نے اطمینان سے ہر چیز بتاتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔ وہ تو جیسے اپنی جگہ پر مبہوت ہی ہوگیا تھا۔
”فی الحال نہیں!“ اس نے کھوئے ہوئے انداز سے نفی میں سرہلایا۔
****************************************
جیکب اس وقت چھت پر باؤنڈری کے پاس کھڑا خلاؤں میں کچھ تلاش رہا تھا۔ سر پر تنی آسمان کی سیاہ چادر رات گہری ہونے کی اطلاع دے رہی تھی مگر اسے تو وقت سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔
”تم سوئے نہیں ابھی تک؟“ ابوبکر صاحب پوچھتے ہوئے اس کے نزدیک آئے۔
”نیند نہیں آرہی۔“ اس نے چونکے بنا جواب دیا۔ انہوں نے کھوجتی ہوئی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھا جس پر سوچ کے سائے واضح تھے۔
”اچھا تم مجھ سے سوال پوچھتے ہو نا ایک سوال میں تم سے کروں؟“ وہ دوستانہ انداز میں گویا ہوئے۔
”جی کریں!“ اس نے بنا دیکھے اجازت دی۔
”کیا تم مجھے آسمان کے سرے ڈھونڈ کر دکھا سکتے ہو جو زمین سے بندھے ہوئے ہیں، جو آسمان کو یہاں سے وہاں سرکنے نہیں دیتے، یا وہ پلر دکھا سکتے ہو جن پر یہ آسمان ٹکا ہوا ہے اور کبھی بھی زمین پر آکے نہیں گرتا۔“ ان کی بات پر جیکب نے چونک کر انہیں دیکھا جو ہمیشہ کی طرح پرسکون تھے۔
”یہ کیسا سوال ہے؟ آسمان بھلا کسی پلر پر تھوڑی کھڑا ہے۔“ اسے ان کے سوال پر تعجب ہوا۔
”اچھا! تو پھر کس پر کھڑا ہے؟ گھر کی چھت تو بنا پلر کے نہیں کھڑی رہ سکتی تو پھر یہ اتنا بڑا آسمان کیسے بنا سہارے کھڑا ہے؟“ ان کے انداز میں مصنوعی تعجب تھا جو اسے سوچنے پر اکسا رہا تھا۔
”چلو وہ چھوڑو یہ بتاؤ کہ سورج رات کے وقت کہاں چلا جاتا ہے؟“ انہوں نے دوسرا سوال کیا۔
”سورج کہیں نہیں جاتا بلکہ اسی پر تو سارا نظامِ شمسی چلتا ہے، دنیا اور باقی سارے سیارے اپنے مدار پر گھومتے ہوئے اس کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں، گھومتے ہوئے دنیا کا جتنا حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے وہاں سورج نظر آتا ہے یعنی وہاں دن ہوتا ہے اور جہاں سورج کی روشنی نہیں جا رہی ہوتی وہاں رات ہو رہی ہوتی ہے جیسے ابھی یہاں رات ہو رہی ہے۔“ اس نے اسکول کی کتابوں میں پڑھا نظامِ شمسی سمجھایا۔
”اچھا! تو اتنی بڑی اور وزنی دنیا بنا گرے کیسے سورج کے گرد گھوم رہی ہے؟ اور ہمیں اس کے گھومنے کا پتا کیوں نہیں چلتا؟ اگر تم ایک پانی سے بھرے گلاس کو لے کر چند قدم چلو تو اس میں موجود پانی ہلے گا تو دنیا کے مسلسل گھومنے کے باوجود بھی زمین کا ستر فیصد پانی کیوں یہاں سے وہاں نہیں ہوتا؟“ آج وہ جواب سے نہیں سوال سے اسے سمجھانا چاہ رہے تھے۔ اور وہ انہیں نہیں اپنے آپ کو جواب دیتے ہوئے اب لاجواب ہوگیا تھا۔
”پتا ہے تم گیتا کھولو تو وہ کہے گی بھگوان کی پوجا کرو، بائبل کھولو تو وہ جیزز کا بتائے گی، قرآن پڑھو تو وہ اللّه کا ذکر سنائے گا اس کی عبادت کی تاکید کرے گا، یعنی تم جس مذہب کی بھی کتاب کھولو گے، جس مذہب کے نمائندے کے پاس جاؤ گے وہ تمھیں اس خدا کی طرف بلائیں گے جس کی وہ خود عبادت کرتے ہیں تو ایسے میں تم کیسے پہچان پاؤ گے کہ صحیح خدا کون ہے؟“ انہوں نے خود وہ سوال اٹھا لیا جو بہت سی الجھنوں کی جڑ تھا۔
”یہ ہی تو۔۔۔۔۔۔۔یہ ہی تو میں کہہ رہا تھا کہ اتنے خداؤں میں سے صحیح کون سا ہے؟“ وہ یکدم بچوں کی مانند بےتاب ہوکر اپنی الجھن بتانے لگا۔
”میری ماں نے ہمیشہ مجھے بتایا کہ جیزز سے پرے کرنی چاہئے تو میں نے ایسا ہی کیا، پھر عبدالله صاحب نے مجھے بتایا کہ اللّه کی عبادت کرنی چاہئے پھر اذ۔۔۔۔۔۔!“ وہ بتاتے ہوئے اس کے نام پر آکے رکا۔ ذہن میں پھر وہ ہی تلخ یادیں تازہ ہوگئی تھیں۔
”پھر اذلفہ نے بھی مجھے کہا کہ اللّه کی عبادت کرنی چاہیے، میں الجھ گیا تھا، میں نے سوچا کہ شاید جس خدا سے اب تک میں مانگتا آیا تھا وہ اصل نہیں ہے اسی لئے پھر میں نے آپ کے اللّه سے دعا کی اور آپ سے بھی دعا کا کہا مگر اس نے بھی میری نہیں سنی، تو کیا وہ بھی نہیں ہے؟“ اس نے تاسف سے بات مکمل کرتے ہوئے سوال اٹھایا۔ اس کے چہرے پر چھائی رنجیدگی و الجھن دیکھ کر انہیں اس پر ترس آیا۔
”جب ہم کسی کے گھر جا کر دروازے پر دستک دیتے ہیں اور پہلی ہی دستک پر دروازہ نہ کھلے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مالک سرے سے موجود ہی نہیں ہے، بلکہ ہمیں مزید شدت سے بار بار دستک دینے پڑتی ہے تو بلآخر دروازہ کھل جاتا ہے۔“ وہ تحمل سے گویا ہوئے۔
”رہا سوال کہ اتنے خداؤں کے بیچ اصل معبود کو کیسے پہچانا جائے تو ذرا تم خود اپنی عقل لگا کر سوچو کہ کسی جگہ پر ایک سے زائد افراد کسی گھر کے مالک ہونے کا دعویٰ کر رہے ہوں، سب ایک دوسرے کو جھوٹا کہہ رہے ہوں تو بتاؤ تم ان میں سے اصل مالک کو کیسے پہچانو گے؟“ انہوں نے مثال میں سوال کیا۔ وہ چند لمحے سوچنے لگا۔
”جو اصل مالک ہوگا اس کے پاس گھر کے کاغذات ہوں گے، اسی نے گھر بنایا ہے تو وہ گھر کا کونا کونا جانتا ہوگا، اسی لئے اسے کسی کا ڈر نہیں ہوگا اور وہ ڈنکے کی چوٹ پر سب کو للکارے گا کہ آؤ مجھ سے مقابلہ کرو اور ثابت کرکے دکھاؤ کہ اصل مالک تم ہو، جو جھوٹے ہوں گے وہ ثابت نہیں کر پائیں گے اور وہیں اصل سامنے آجائے گا۔“ اس نے ایک مناسب اور منطقی حل پیش کیا جو کوئی بھی باشعور انسان سوچ سکتا تھا۔
”بالکل! ایسے ہی اللّه پاک جو اس سارے جہاں کا کریٹر ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سی چیز کہاں ہے اور کیسے بنی ہے؟ کیسے چلتی ہے؟ جیسے یہ دنیا کیسے بنی؟ تو آج کے سائنسدان یہ جواب دیتے ہیں کہ کائنات پہلے مرج یعنی جڑی ہوئی تھی پھر ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں سب کچھ ترتیب میں آیا، اس دھمکے کو سائنسی زبان میں بیگ بینگ (Big Bang) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا، پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں، کائنات کی ابتدا اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اسے اتفاق نہیں کہا جاسکتا، اور اسی بات کو اللّه پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ :
”اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔“ (الانبیاء : 30)
اس قرآنی آیت اور’’بگ بینگ‘‘ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں! اور جس بیگ بینگ کو جدید ٹیکنالوجی کے بعد سائنسدانوں نے آج جانا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی اپنے اندر ایسی غیر معمولی سائنسی حقیقت لیے ہوئے ہو!“ انہوں نے تفصیل سے بتایا جسے وہ بغور سنتا رہا۔
”پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ زمین ایک جگہ رکی ہوئی ہے، چاند اور سورج اس کے گرد گھومتے ہیں، لیکن پھر سن 1512ء میں نکولس کو پرنیکس نامی شخص نے ایک نیا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق سورج نظام شمسی کا مرکز ہے جو ساکن ہے اور تمام سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں، پھر 1609ء میں ایک جرمن سائنس دان یوہانس کیپلر نے ایک کتاب شائع کروائی، اس کتاب میں کیپلر نے صرف یہ ہی ثابت نہیں کیا کہ نظام شمسی کے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں، بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ سیارے اپنے محوروں پر غیر مستقل نوعیت کی رفتاروں سے گردش بھی کرتے ہیں، جس سے رات و دن آتے جاتے ہیں، اور جب زمین سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرلیتی ہے تو سال بدلتا ہے، ابھی ہم سن دو ہزار بائیس میں ہیں، سائسدانون نے سن پندرہ سو بارہ کے قریب یہ دریافت کیا یعنی تقریباً پانچ سے چھے سو سال پہلے، مگر اللّه پاک نے چودہ سو سال پہلے ہی اس نظام کا ذکر قرآن میں کچھ یوں کردیا تھا کہ :
”اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب (فلکی اجسام) اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔“ (الانبیاء : 33)
اب دیکھو یہاں مالک خود بتا رہا ہے کہ اس نے سب کچھ کیسے بنایا؟ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ اپنی کتاب میں دوسرے سب ہی دعویداروں کو اوپن چیلنج کر رہا ہے کہ
”اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو۔“ (البقرہ : 23)
”ابھی تم ہی نے کہا تھا نا کہ جو سچا مالک ہوگا وہ ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج کرے گا! تو دیکھو اللّه پاک اوپن چیلنج دے رہا ہے کہ پوری کتاب تو دور تم بس قرآن جیسی اک سورت لے آؤ جس میں نظامِ قدرت، معاملاتِ زندگی، میڈیکل، سائنس اور غیب کی وہ خبریں ہوں جو قرآن بتاتا ہے، مگر نہ ایسا کوئی کر سکا اور نہ کرسکے گا کیونکہ وہ سچے نہیں ہیں، سچ بس ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے اللّه!“ انہوں نے شہادت کی انگلی اٹھا کر مضبوط انداز میں کہا۔
جیکب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بظاہر سیدھے سادے ان مولوی صاحب کے پاس قرآن و سائنس کی اتنی معلومات ہوگی کہ وہ اسے ہکابکا کر دیں گے۔
”اگر تم اصل خدا کو ڈھونڈنا چاہتے ہو، دیکھنا چاہتے ہو تو بےشک قرآن کا لکھا نہ مانو کیونکہ بقول تمہارے وہ تو مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے تو اس میں اللّه کا ہی ذکر ہوگا نا! اسی لئے ایک لمحے کیلئے تم اسے ایک طرف کرکے نظامِ قدرت کو غور سے دیکھو جو مسلمانوں کا نہیں پورے جہن کا ایک جیسا ہے، اسے غور سے دیکھو اور سوچو کیونکہ اللّه نے اپنی نشانیاں اسی میں رکھی ہیں جو صرف عقل والے دیکھ پاتے ہیں کہ :
”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“ (آل عمران : 190)
”کون ہے جس نے دنیا بنائی۔۔۔۔۔کون ہے جس نے انسانوں کو پیدا کیا۔۔۔۔۔انسان کے سینے میں دل دھڑکایا۔۔۔۔۔۔سوچنے کو اتنا ذہین دماغ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہے جو آسمان کو زمین پر گرنے نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہے جو زمین کو پھاڑ کر اس میں سے درخت اور اناج پیدا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔کون ہے جو دن اور رات کا چکر چلا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کوئی تو ہے نا۔۔۔۔۔کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے!“ وہ سوال پر سوال کیے جا رہے تھے۔
”وہ ہی خدا ہے!“ ان کی بات مکمل ہوتے ہی بےساختہ جیکب کے ذہن میں بچے کی سریلی آواز گونجی۔
”میں ذرا تہجد پڑھ کر آتا ہوں تم تب تک سوچو کہ یہ آسمان کیسے بنا سہارے کے ٹکا ہوا ہے؟“ وہ اس کا کندھا تھپک کر وہاں سے چلے گئے اور وہ گم صم سا وہیں کھڑا رہا۔
اس نے سر اٹھا کر آسمان کی وسیع و عریض چھت کو دیکھا جو اس کی حد نگاہ سے بھی کہیں دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور تھوڑی دیر بعد سورج کے طلوع ہونے پر یہ سیاہ آسمان نیلا ہوجانا تھا۔ یہ چڑھتا، ڈھلتا دن روز چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ کوئی ہے اس نظام کو اتنے سہل انداز میں چلانے والا۔۔۔۔۔کوئی تو ہے!
کوئی تو ہے جو
نظامِ ہستی چلا رہا ہے
وہ ہی خدا ہے
جو دن کو رات اور
رات کو دن بنا رہا ہے
وہ ہی خدا ہے
****************************************
شام کے وقت موسم کافی سہانا ہو رہا تھا جس سے فائدہ اٹھا کر پرندے آسمان میں اٹھکلیاں کھا رہے تھے اور بچے چوڑی سڑک پر کرکٹ کھیلنے میں مشغول تھے۔
”پہلے مجھے لگتا تھا کہ شاید خدا ہے ہی نہیں مگر آپ کی باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ ہاں کوئی ہے جس کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔“ جیکب ایک ہاتھ میں سبزی کا شاپر پکڑے باتیں کرتے ہوئے ابوبکر صاحب کے ہمراہ فٹ پاتھ کے کنارے چل رہا تھا۔
”لیکن میرا ایک سوال اب بھی جوں کا توں ہے کہ اگر واقعی وہ ہے تو پھر میری دعا کیوں نہیں سنتا؟“ اس نے سادگی سے سوال کیا تو بجائے جواب دینے کے وہ دھیمے سے مسکرائے۔
”تمہاری شکایات غلط ہے، وہ سب کی سنتا ہے، مگر تم یہ پوچھو کہ وہ میری دعا قبول کیوں نہیں کرتا؟“ انہوں نے سوال کا رخ تبدیل کیا۔
”ہاں جب وہ دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے تو وہ میری دعا کیوں قبول نہیں کرتا؟“ اس نے بھی بچوں کی مانند سوال دہرایا۔ اس کی بےچینی سے وہ اکثر کافی محظوظ ہوتے تھے۔
”جواب دیں!“ اس نے اصرار کیا۔
”ابھی میرا موڈ نہیں ہے۔“ وہ صاف انکار کرتے ہوئے اپنی رفتار بڑھا کر اس سے تھوڑا آگے آگئے جنہیں وہ حیرت سے دیکھ کر رہ گیا۔ ان کا یہ رد عمل بہت نیا اور غیرمتوقع تھا اس کیلئے۔
باقی پورا سفر چپ چاپ طے کرنے کے بعد جب دونوں گھر پہنچے تو لاؤنج میں انہیں ایک چھوٹی سی بچی گلابی واکر میں یہاں وہاں بھاگتی نظر آئی۔
”ارے! ماشاءالله یہ چاند کیسے اتر آیا آج ہمارے آنگن میں!“ انہوں نے بچی کو پیار کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھی ہاجرہ سے پوچھا۔ یہ ان کے پڑوسی کی بیٹی تھی۔
”کوثر مارکیٹ گئی ہے کچھ ضروری سامان لینے اسی لئے تھوڑی دیر اسے یہاں چھوڑ کر گئی ہے ورنہ یہ تنگ کرتی ہے اور وہ خریداری نہیں کر پاتی۔“ ہاجرہ نے صوفے پر سے اٹھتے ہوئے جواب دیا اور جیکب کے ہمراہ سودا سلف لے کر کچن میں چلی گئیں۔
جب سامان کچن میں پہنچا کر جیکب واپس لاؤنج میں آیا تو ابوبکر صاحب صوفے پر کوئی کتاب لے کر بیٹھ چکے تھے اور وہ بچی۔۔۔۔۔۔۔!
بچی آنکھوں میں انوکھی سی چمک لئے اپنے ننھے پیر زمین پر مارتی واکر سمیت ٹیبل کی جانب آرہی تھی جس پر ایک مٹی کے چھوٹے چھوٹے سوراخ والے برتن میں اٹکی کچھ اگربتیاں جل رہی تھی جو کہ یقیناً ہاجرہ نے ہی رکھی تھیں۔ بچی کو اگربتی کا سرخ انگارا کوئی چمکتی ہوئی خوبصورت شے لگی جس کے باعث وہ نزدیک پہنچ گئی اور ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑنے لگی۔
”نہیں!“ جیکب چلاتا ہوا قریب آیا اور یکدم اگربتی اٹھا کر اس کی پہنچ سے دور کردی۔ بچی سہم گئی اور ابوبکر صاحب بھی متوجہ ہوئے۔
”آپ کے سامنے یہ بچی اگربتی پکڑنے آرہی تھی اور آپ نے اسے روکا نہیں؟“ اب وہ اگربتی ایک اونچے شیلف پر رکھ چکا تھا۔
”نہیں، اسے اچھی لگ رہی تھی اسی لئے اس نے پکڑنا چاہا، میں اسے اس کی من پسند چیز سے دور کرکے اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔“ انہوں نے اطمینان سے جواب دے کر کتاب کا صفحہ پلٹا۔ جب کہ بچی نے اگربتی کی جانب ہاتھ بڑھا کر رونا شروع کردیا تھا گویا وہ ہاتھ میں مانگ رہی ہو۔
”آپ کا دماغ ٹھیک ہے؟ یہ آج آپ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں؟“ وہ ان پر خاصا برہم تھا۔
”ایسی بھی کیا انہونی بات کہہ دی میں نے؟“ وہ انجان بنے۔
”یہ بچی تو ناسمجھ ہے اسے نہیں پتا یہ کیا مانگ رہی تھی مگر آپ تو سمجھدار ہیں نا! آپ کو نظر آرہا تھا کہ جس چمکتی چیز کو یہ پکڑنے جا رہی ہے وہ آگ ہے، اسے نقصان پہنچا سکتی ہے تو آپ نے اسے کیوں نہیں روکا؟“ جبکب نے بلکتی ہوئی بچی کو گود میں اٹھا کر باز پرس کی۔
”تم بھی تو اس کی فریاد سن رہے ہو، اس کا بلکنا دیکھ رہے ہو، اس کی من پسند چیز اسے دینے کا اختیار رکھتے ہو تو پھر کیوں اس کی فریاد رد کر رہے ہو؟ کیوں نہیں دے دیتے اسے وہ جو یہ مانگ رہی ہے؟“ انہوں نے دوبدو سوال کیے۔
”کیونکہ میں اس کی بھلائی اس سے زیادہ بہتر جانتا ہوں اور جانتے بوجھتے اسے وہ نہیں دے سکتا جسے اس کو نقصان ہو۔“ اس نے بھی جھٹ سے جواب دیا۔
”کیوں نہیں دے سکتے؟ کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے؟ تم تو اسے جانتے تک نہیں ہو!“ انہوں نے گویا یاد دلایا۔
”انسانیت کا رشتہ تو ہے نا! اسی کے چلتے اس معصوم کو نقصان سے بچانا چاہتا ہوں۔“ اس نے جواب دے کر اس روتی ہوئی بچی کو پیار سے دیکھا۔
”صرف انسانیت کا رشتہ ہونے پر تمھیں اس کی اتنی فکر ہے تو ذرا سوچو وہ رب جس سے تمہارا رشتہ اتنا پرانا اور گہرا ہے، جس نے خود تمھیں بنایا ہے وہ کیسے تمھیں تمہاری من پسند مگر نقصان دہ شے عطا کر کے تمھیں تکلیف پہنچنے دیتا؟“ وہ لفظوں کے آئینے میں حقیقت دکھاتے ہوئے اپنی جگہ پر سے اٹھے تو وہ لاجواب ہوگیا۔
”ہاں اللّه کو نظر آرہا تھا کہ اس کا بندا اس سے رو رو کر کچھ مانگ رہا ہے مگر اسے ساتھ وہ بھی نظر آرہا تھا جو اس بندے نے نہیں دیکھا۔“ وہ کہتے ہوئے اس کے پاس آئے۔
”ہم انسان بالکل اس بچی کی مانند ہوتے ہیں جو بس ہر اچھی لگنے والی شے کی جانب دوڑ پڑتے ہیں مگر جیسے تم نے اس بچی کو بچا لیا ویسے ہی اللّه بھی ہمیں بچا لیتا ہے، وہ چیز ہمیں نہیں دیتا اور ہم بنا اس کی مصلحت سمجھے اس بچی کی طرح بلک بلک کر رونے لگتے ہیں اور اللّه سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری دعا کیوں نہیں سن رہا؟“ انہوں نے اسے کہتے ہوئے پیار سے بچی کے گال پر ہاتھ پھیرا۔ وہ بہت سادہ انداز میں نہایت گہری بات سمجھا گئے تھے اسے۔
”ارے ارے کیا ہوگیا؟“ ہاجرہ بھی پریشان سی ان لوگوں کی طرف آئیں۔
”کچھ نہیں بس یہ اگربتی پکڑنا چاہ رہی تھی اسی کیلئے رو رہی ہے۔“ انہوں نے وضاحت کی۔
”چپ ہوجا میرا بچہ، یہ لو یہ کھاؤ میٹھا میٹھا۔“ انہوں نے جیکب کی گود میں موجود بچی کو پچکارتے ہوئے جلیبی کا ٹکرا اس کے منہ کے قریب کیا۔
پہلے تو وہ روتے ہوئے ہنوز انکاری ہوکر یہاں وہاں چہرہ پھیرنے لگی مگر جب ہاجرہ نے زبردستی جلیبی اس کے لبوں پر لگائی تو اس کی مٹھاس محسوس کرکے پہلے اس کے رونے میں کمی آئی اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ سارا رونا دھونا بھول کر اپنے ننھے ہاتھ میں وہ ٹکڑا پکڑ کر مزے سے چوسنے لگی۔
تھوڑی دیر قبل اگربتی کو حاصل کرنے کی جو تڑپ تھی وہ اب زائل ہوچکی تھی کیونکہ اس سے بہتر جو مل گیا تھا۔
جس سوال کے جواب کیلئے جیکب کب سے پریشان تھا اس کا جواب بلآخر اس چھوٹی سی بچی نے اسے دے دیا تھا کہ اللّه کیوں ہماری دعا سن کر بھی قبول نہیں کرتا؟
****************************************
کروٹ بدلتے بدلتے ایک بھاری اور بےچین رات آخر گزر چکی تھی، نیا دن پرانی مصروفیت کے ساتھ نکل آیا تھا۔
ابوبکر صاحب اپنے کمرے میں شیشے کے آگے کھڑے مسجد جانے کیلئے تیار ہو رہے تھے تب ہی کھلے دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں جیکب کھڑا تھا۔
”آؤ آؤ! ابھی تمہارے پاس ہی آنے والا تھا میں۔“ وہ خوشدلی سے گویا ہوئے۔ وہ آگے آیا۔
”جیسا کہ میں نے تم سے تمہاری زندگی کے چھے مہینے مانگے تھے اور تم نے وہ مجھے دیے بھی جو آج پورے ہوگئے ہیں، لہٰذا حسب وعدہ اب تم خودکشی کرنے جا سکتے ہو۔“ وہ اس کے مقابل کھڑے ہوکر بولے۔
”بہت اچھا وقت گزرا تمہارے ساتھ!“ انہوں نے اس کا کندھا تھپکا۔
”ویسے کیا سوچا ہے؟ کیسے خودکشی کرو گے؟“ انہوں نے عام سے انداز میں جاننا چاہا جس کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
”میرا مشورہ مانوں تو کسی بہت اونچی بلڈنگ پر چڑھ کر کود جاؤ مگر کودنے سے پہلے ایک بار ذرا تاحد نگاہ نظر آتے گھر ضرور دیکھنا اور سوچنا کہ ہر گھر کے ہر مکین کے ساتھ بھی تو کتنے دکھ، کتنے مسلے ہوں گے نا! تو پھر یہ کیسے بےوقوف لوگ ہیں جو خودکشی کرنے کے بجائے ان مسلوں کو ہمت سے فیس کر رہے ہیں، امید پر جی رہے ہیں، اور پھر کود جانا جس کے بعد تم جانوں اور وہ فرشتے جو قیامت تک تمھیں ایسی ہی بلندی سے گرا کر مارتے رہیں گے کیونکہ جو شخص جیسے خودکشی کرتا ہے اسے ویسے ہی عذاب دیا جاتا ہے، کبھی ختم نہ ہونے والا عذاب، مگر تمھیں تو عذاب کی فکر نہیں ہے نا! تم تو خود دنیا کی وقتی پریشانی اور دکھ سے بھاگ کر ہمیشہ کے عذاب کو گلے لگا رہے ہو نا کیونکہ تم میں باقی بےوقوفوں کی طرح اسے فیس کرنے کی ہمت نہیں ہے، تو ٹھیک ہے جاؤ، میں تمہارا مزید وقت نہیں لوں گا۔“ وہ اسی کے انداز میں کچھ نہ کہتے ہوئے بہت کچھ جتا گئے تھے اسے۔ بہت کچھ سمجھا گئے تھے جس کے جواب میں وہ آگے سے ایک لفظ نہ بولا۔
”میں۔۔۔۔!“ بلآخر اس کے لب ہلے۔
”میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔“ رندھی ہوئی آواز میں نظر جھکا کر وہ کہہ گیا۔ ابوبکر صاحب ایسے مسکرائے گویا کوئی بازی جیت گئے ہوں۔
یہ ہی جملہ چھے مہینے پہلے اس نے اذلفہ سے کہا تھا مگر تب اس کی کیفیت یہ نہیں تھی۔ تب اس نے دیگر عام باتوں کی طرح یہ بات بھی کہہ دی تھی۔ مگر آج یہ بات عام نہیں تھی۔ کیونکہ آج زبان نے نہیں دل نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔دل سے کہا تھا۔
****************************************
وہ دونوں اس وقت مسجد کے ہال میں۔۔۔۔۔۔سنگ مرمر کے فرش پر۔۔۔۔۔۔خانہ کعبہ کی قد آدم تصویر کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
جیکب نے غسل کرکے ایک نہایت صاف ستھرا سفید کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا، اس کے دونوں ہاتھ ابوبکر صاحب کے ہاتھوں میں تھے، اور اس کی کیفیت۔۔۔۔۔۔۔ناقابلِ بیان تھی۔
”میرے ساتھ ساتھ دہراؤ بیٹا۔“ وہ نرمی سے گویا ہوئے۔
”اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰه۔۔۔۔۔۔۔اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰه ۔۔۔۔۔۔۔اِلَّا اﷲُ۔۔۔۔۔۔اِلَّا اﷲُ ۔۔۔۔۔وَاَشْهَدُ اَنَّ۔۔۔۔۔۔وَاَشْهَدُ اَنَّ۔۔۔۔۔۔۔مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُهُ۔۔۔۔۔۔۔۔مُحَمَّدًا عَبْدُه وَ رَسُوْلُهُ!“
اس کا جسم لرز رہا تھا، دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے تھے۔ اس نے مزید مضبوطی سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا جیسے کوئی بچہ گرنے کے ڈر سے بڑے کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔
”میں گواہی دیتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں گواہی دیتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ کلمہ مکمل کرتے ہی اس کی ہچکی بندھی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ انہوں نے آگے ہوکر اسے سینے سے لگا لیا۔
”واپسی مبارک ہو موحد!“ انہوں نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے مبارک باد دی۔ اور وہ بس روتا گیا۔۔۔۔روتا چلا گیا۔۔۔بالکل ویسے جیسے ایک گناہوں سے پاک معصوم بچہ روتے ہوئے دنیا میں آتا ہے۔
تو، تو خود سے بھی نہ تھا آشنا
تیری ذات تجھ پر ہی راز تھی
تیرے قلب میں تھا چھپا ہوا
تیری روح کو جس کی تلاش تھی
انتخاب
****************************************
حال
”جانتی ہو اسلام قبول کرنے سے ایک رات پہلے میں بہت بےچین تھا، بہت الجھا ہوا تھا، میں پوری رات سویا نہیں اور یہ ہی سوچتا رہا کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں؟ میں نے اپنی گزری زندگی کا جائزہ لینے پر ایک عجیب بات محسوس کی کہ مجھے کئی بار اسلام کی دعوت ملی تھی، جیسے عبدالله صاحب۔۔۔۔۔۔آیان۔۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔وہ پھر ابوبکر صاحب!
مجھے لگ رہا تھا کہ میں یہ دین قبول کرنے نہیں جا رہا بلکہ یہ دین بار بار مجھے اپنی طرف بلا رہا ہے، اسی لئے میں نے ایک آخری فیصلہ کیا، اسے قبول کرکے دیکھنے کا فیصلہ!“
وہ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بینچ پر بیٹھی اذلفہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ چکا تھا۔ آس پاس بالکل سناٹا تھا اور بینچ کے قریب جلتے پول کی ہی روشنی تھی بس۔
باتیں کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے کئی آنسوں نکل کر کنپٹی سے پھسلتے ہوئے اذلفہ کی گود میں گر کر گم ہوچکے تھے۔ جن میں سے کچھ اذلفہ اپنے پوروں سے چن چکی تھی۔
”تمھیں یاد ہے آخری ملاقات پر تم نے کہا تھا کہ یہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور مستقبل میں ضرور میں اس وقت کو یاد کرکے کہوں گا کہ اچھا ہی ہوا اس وقت ہم نہیں ملے تھے، تم صحیح تھی، یہ ہی وہ وقت ہے جب مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس وقت جو بھی ہوا اچھا نہیں بہت اچھا ہوا، پھر بھلے سے وہ میری دعا کا رد ہوجانا ہی کیوں نا ہو!“ اس نے برملا اعتراف کیا تو وہ بھی مسکرائی۔
”اس وقت میں حق کی چاہ میں نہیں تمہاری لالچ میں اسلام قبول کر رہا تھا، اس وقت اگر تم اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف مجھ سے شادی کر لیتی تو ناصرف تمھیں ان کی ناراضگی برداشت کرنی پڑتی بلکہ میں بھی شاید وقتی پسند کا خمار اترنے پر بدل جاتا، مگر آج جو زندگی ہم نے سب کی رضا مندی اور دعاؤں کے سائے میں شروع کی ہے وہ شاید ہمارے پچھلے صبر کا خوبصورت انعام ہے، آج میں اس لئے اللّه کی واحدانیت کا قائل نہیں ہوں کیونکہ تم بھی یہ مانتی ہو اور مجھے تمہارے ساتھ رہنا ہے، بلکہ اسی لئے قائل ہوں اور عبادت کرتا ہوں کہ وہ واحد ذات واقعی عبادت کے لائق ہے۔“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برملا کہا تو اذلفہ کا دل تشکر کے مارے بھر آیا۔
رب کے جلوے۔۔۔۔۔اس کی نشانیاں ایسے بھی دیکھنے کو ملیں گی۔۔۔۔۔۔۔صبر کا اس حد تک خوبصورت صلہ ملے گا۔۔۔۔۔۔یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اور بےشک رب صبر کرنے والوں کو ان کے گمان سر بڑھ کر ایسے ہی انعام عطا کرتا ہے۔
”کب سے میں ہی بولے جا رہا ہوں تم بھی کچھ کہہ دو۔“ موحد نے ماحول بدلنے کیلئے دھیان دلایا۔
”جسے سننے کیلئے ایک عرصہ سماعت ترسی ہو اور پھر جب اسے سننے کا موقع مل جائے تو بولنا دور کی بات دل کرتا ہے پوری دنیا خاموش ہوجائے اور ہم سرتاپا سماعت بن کر بس اسے سنتے جائیں، بس سنتے چلے جائیں۔“ اذلفہ نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے محبت پاش انداز سے جواب دیا۔
”جب تم ایسی باتیں کرتی ہو نا تو مجھے اس پر مزید پیار آتا ہے۔“ جواباً اس نے بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے محبت سے اس کی لٹ چھیڑی۔
”اس پر کس پر؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”اس پر جس نے مجھے تمہاری صورت اتنا خوبصورت انعام دیا۔“ اس نے کہتے ہوئے اذلفہ کے گرد بازو حمائل کیا۔
”اور اب میں چاہتا ہوں کہ وہ تمہارے جیسی دو تین اور دے۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹیاں!“ اس نے مزید کہتے ہوئے آخر میں شرارت سے تصحیح کی تو وہ مسکراتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔
موحد نے اس پر گرفت کس کر سر پر بوسہ دیتے ہوئے دل میں اس کا ڈھیر سارا شکر ادا کیا تھا جس نے صحیح وقت پر اسے صحیح سمت دکھا کر اپنی طرف بلا لیا تھا اور وہ سب ہار کر پھر سے جیت گیا تھا۔
زندگی اک خواب ہے سندر کوئی
ٹوٹے احساس کا ہے مندر کوئی
جب کبھی تجھ کو پکارا اے خدا
بول اٹھتا ہے میرے اندر کوئی
انتخاب
****************************************
افروز نے سفید کمبل میں لپٹے ایک نومولود بچے کو کس کر سینے سے لگایا ہوا تھا اور پسینے میں شرابور وہ نہایت خوفزدہ سی اندھا دھند بھاگے جا رہی تھی۔
یہ ایک خاردار گھنا جنگل تھا جہاں وہ ننگے پیر ان لوگوں سے بچ کر بھگ رہی تھی جو اس کے پیچھے آرہے تھے۔
بھاگتے بھاگتے اچانک اس کا پیر پھنسا اور وہ زمین پر پیٹھ کے بل ہوتے ہوئے گری تا کہ بچے کو چوٹ نہ آئے۔
اس کے گرتے ہی سیاہ چولا پہنے وہ عجیب سے لوگ اس کے نزدیک پہنچ گئے اور ایک دائرے کی شکل میں اسے گھیر لیا۔
انہیں خوف زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے افروز نے اپنے بچے پر گرفت مزید تنگ کی مگر ان لوگوں نے زبردستی اس سے بچہ چھینا اور اسے روتا بلکتا چھوڑ کر چلے گئے۔
”میرا بچہ!“ وہ حلق کے بل کرب سے چلاتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔ اس کی آواز پر برابر میں سویا حامد بھی ہڑبڑا کر جاگا۔
”کیا ہوا افروز؟“ وہ کمرے کی لائٹ جلا کر اس کی جانب متوجہ ہوا جو پسینے میں ایسے شرابور ہو رہی تھی جیسے کئی میل دوڑ کر آرہی ہو۔ اس کی سانس بھی تیز تیز چل رہی تھی اور چہرے پر خوف تھا۔
”حامد! میرا بچہ۔۔۔۔۔۔میرا بچہ لے گئے وہ لوگ!“ اس نے گھبرا کر بتایا۔
”افروز یہاں کوئی نہیں ہے اور تمہارا بچہ تمہارے پاس ہے، یہ دیکھو۔“ حامد نے اسے تسلی دلاتے ہوئے اس کے چھے مہینے کے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ افروز نے بھی جلدی سے اپنا پیٹ دیکھا۔
”تم نے پھر کوئی برا خواب دیکھا ہے۔“ اس نے سائیڈ ٹیبل پر سے رومال اٹھا کر اس کا پسینہ صاف کیا۔ اس کی بات پر افروز نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ وہ تو اپنے بیڈ روم میں ہی ہے۔
”بہت برا خواب تھا، میں نے دیکھا کہ کوئی میرے بچے کو مجھ سے۔۔۔۔۔۔“
”ہمارے بچے کو کوئی کہیں نہیں لے کر جانے والا، یقین رکھو۔“ افروز خوف زدہ انداز میں بتانے لگی تھی کہ اس نے اطمینان سے بات اچک کر مکمل کی۔
”اب تم بلاوجہ پریشان مت ہو، ڈاکٹر نے منع کیا ہے نا! ورنہ اس سے تم دونوں پر اثر پڑے گا۔“ حامد نے اسے سینے سے چپکاتے ہوئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگالی۔
جب سے وہ دوبارہ پریگنینٹ ہوئی تھی تب سے ایک عجیب سا خوف اسے ناگ بن کر ڈس رہا تھا کہ اس بار بھی وہ اپنا بچہ کھو دے گی۔ حامد نے جب ڈاکٹر کو اس بارے میں بتایا تو ان کا کہنا تھا یہ ڈر فطری ہے اور افروز کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے اسی لئے وہ جب تک اپنے بچے کو زندہ سلامت گود میں نہیں لے لیتی اسے یہ ڈر کے دورے پڑتے رہیں گے جس میں اسے بہت پیار سے سنبھالنا ہوگا۔ اور یہ پیار ہی تو تھا جو اتنے امتحانوں کے بعد بھی اب تک ان دونوں کو سنبھالے ہوئے تھا۔
****************************************
اذلفہ گہری میٹھی نیند میں تھی جب منہ پر پانی کے چھینٹے پڑنے کے باعث اس کی نیند ٹوٹی اور اس نے موندی موندی آنکھیں کھولیں۔
”فجر کا وقت ہوگیا ہے جانِ من، اٹھ جاؤ!“ موحد نے اس کے کان کے بےحد قریب سرگوشی کی جو بالکل نزدیک بیٹھا ہوا تھا۔
”تم ہمیشہ مجھ سے پہلے کیسے جاگ جاتے ہو؟“ اس نے خمار آلود انداز میں کہتے ہوئے موحد کو شرٹ سے پکڑ کر اپنے نزدیک کھینچا۔
”اس بات کا جواب میں پھر کبھی ”تفصیل“ سے دوں گا، فی الحال ایک شریف انسان کو بہکانے کے بجائے بہتر ہوگا کہ آپ بھی شرافت سے اٹھ جائیں کیونکہ جب شریف لوگ شرارت کرنے پر آتے ہیں تو اکثر اوقات وہ کافی بھاری پڑجاتی ہے۔“ اپنی شرٹ پر آیا اذلفہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھاتے ہوئے موحد نے معنی خیزی سے جواب دیا۔
”ہائے تمہاری شرافت!“ وہ اس کا گال کھینچ کر اس پر بوسہ دیتے ہوئے بستر سے باہر آگئی۔
فجر کی نماز دونوں زیادہ تر ایک ساتھ ہی ادا کرتے تھے جس کے بعد کچھ دیر قرآن کی تلاوت اور پھر ناشتہ کرکے موحد آفس چلا جاتا تھا اور اذلفہ اپنی چھوٹی سی جنت کے چھوٹے موٹے کاموں میں خود کو مصروف کرلیتی تھی۔
ابھی بھی نماز اور قرآن کے بعد اذلفہ ناشتہ بنانے کیلئے اوپن کچن میں موجود تھی جب کہ موحد سامنے ہی لاؤنج میں ٹی وی آن کرکے نیوز دیکھ رہا تھا۔
”کل رات نارتھ ناظم آباد کے قریب دو ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگئے۔“ ٹی وی پر چلتی نیوز سن کر اذلفہ کا کام کرتا ہاتھ ساکت ہوا اور بےساختہ اسے ایک پرانی بات یاد آگئی۔
کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک ڈکیت کو وہ جیکب سمجھ کر کتنا پریشان ہوئی تھی۔ اب وہ یاد آتے ہی اسے خود پر ہنسی آئی۔
”ایک مزے کی بات بتاؤں موحد؟“ وہ کچن میں کام کرتے ہوئے وہیں سے گویا ہوئی۔
”بتاؤ!“ وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے اسے بھی سن رہا تھا۔
”جب تم اچانک چلے گئے تھے نا تو اس کے کچھ عرصے بعد میرا سامنا ایک نقاب پوش ڈکیت سے ہوا جس کا نام جیکب عرف جیکی تھا اور میں سمجھی کہ وہ تم ہو!“ وہ ہنستے ہوئے اپنی بےوقوفی بتانے لگی۔
”پہلی ملاقات میں تم نے مجھے چور سمجھ کر پٹوا دیا، بعد میں ایک ڈکیت کو دیکھ کر تمھیں میرا مغالطہ ہوگیا، تمھیں چور ڈاکو زیادہ پسند ہیں یا میری شکل واقعی کسی چور ڈکیت جیسی ہے!“ اس نے صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے مصنوعی انداز میں جاننا چاہا۔
”یار میں سمجھی کہ شاید تم میری وجہ سے اتنے بدظن ہوئے ہو کہ غلط کاموں میں لگ گئے۔“ وہ آملیٹ کیلئے پیاز کاٹتے ہوئے بتانے لگی۔
”اور حد تو تب ہوئی جب ٹی وی پر خبر چلی کہ وہ ڈاکو مارا گیا ہے، اس دن بہت ڈر گئی تھی میں، مجھے لگا میری وجہ سے تمہاری دنیا و آخرت تباہ ہوگئی اور میں نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تمھیں کھو دیا ہے۔“ کہتے ہوئے اس کے کام کرتے ہاتھ پھر رک گئے اور لہجے میں نادیدہ خوف اتر آیا۔
”اگر واقعی ایسا ہوا ہوتا تو!“ موحد نے پوچھتے ہوئے پیچھے سے اس کے گرد بازو حمائل کیے جو خاموشی سے اس کے عقب آ کھڑا ہوا تھا۔
”تو شاید میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاتی۔“ وہ حصار میں رہتے ہوئے ہی اس کی جانب پلٹی۔ اس کے چہرے پر ابھی بھی ایسا خوف تھا جیسے کہیں وہ اسے کھو نہ دے!
”اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں تھی، تم نے تو اپنے طور پر میرا اچھا ہی چاہا تھا نا! اپنے نام کے معنوں کی طرح مجھے سیدھی راہ دکھانی چاہی تھی مگر میں تمہاری بات سمجھ نہ سکا، کیونکہ کچھ لوگوں کو الفاظ نہیں حادثے سمجھاتے ہیں، اور میں ان ہی لوگوں میں سے ایک تھا، تمہارے الفاظ جو مجھے نہ سکھا سکے وہ سب تم سے بچھڑنے کا حادثہ مجھے سمجھا گیا۔“ اس نے نرمی سے کہتے ہوئے اس کی لٹ پیچھے کی۔
”تمھیں میرے نام کے معنی پتا ہیں؟“ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔
”ہاں، جب ہمارا رشتہ طے ہو رہا تھا تب ابوبکر صاحب نے کہا تھا کہ اذلفہ کا مطلب ہوتا ہے رہنمائی کرنے والی، راستہ دکھانے والی تو ہوسکتا ہے اب آگے کا صحیح راستہ یہ ہی لڑکی تمھیں دکھائے، مگر انہیں کیا پتا تھا تم راستہ نہیں منزل ہو میری۔“ اس نے مسکرا کر بتاتے ہوئے اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے جوڑا تو وہ بھی مسکرائی۔
”ویسے تمہارے نام کے معنی کے علاوہ مجھے ایک چیز اور بھی پتا ہے۔“ وہ اسی طرح مزید بولا۔
”وہ کیا؟“ اس نے خمار آلود انداز میں جاننا چاہا۔
”جو توا تم نے آملیٹ بنانے کیلئے چولہے پر رکھا تھا وہ بہت زیادہ گرم ہوچکا ہے۔“ موحد نے سادگی سے بتایا تو اس کی قربت کے خمار میں بند ہوتی اذلفہ کی آنکھیں یکدم پوری کھل گئیں اور وہ جلدی سے چولہے کی جانب لپکی جس پر رکھے توے کے گرم ہوجانے کی بو کچن میں پھیلنے لگی تھی۔
****************************************
خیر سے نوں مہینے پورے ہوتے ہی افروز کو اب درد شروع ہوگیا تھا جس کے باعث حامد اسے ہسپتال لے آیا تھا۔ اسے لیبر روم میں لے جایا جا چکا تھا جب کہ حامد ہسپتال کی فارملیٹیز پوری کرکے اب خود بھی متفکر سا لیبر سیکشن کی طرف جا رہا تھا جب کسی سے ٹکرا گیا۔
”حامد تم یہاں؟“ ٹکرانے والا عماد تھا۔
”افروز کو لے آیا ہوں بھیا، وہ لیبر روم میں ہے۔“ اس نے جلدی سے بتایا۔
”کیا! مگر ڈاکٹر نے تو کہا تھا کہ۔۔۔۔۔“ اس نے حیرت زدہ انداز میں بات ادھوری چھوڑی۔
”ڈاکٹر کو کوئی غلط فہمی ہوگئی تھی بھیا، افروز بالکل ٹھیک تھی۔“
”تو تم نے اتنی بڑی بات ہمیں بتائی کیوں نہیں اتنا عرصہ؟“ اس کی حیرت عروج پر تھی۔
”بس ہم تھوڑے فکرمند تھے بھیا اسی لئے سوچا تھا جب سب کچھ خیر خیریت سے ہوجائے گا تب آپ لوگوں کو بتائیں گے، خیر! یہ بتائیں آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟“ اس نے بتاتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”اماں جان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، انہیں ہی لے کر آئے ہیں۔“ اس کی بات نے حامد پر بجلی گرا دی۔
”کیا؟ اماں جان کی حالت اتنی خراب ہے اور آپ نے مجھے اطلاع تک نہیں دی!“ اب حیران ہونے کی باری اس کی تھی۔
”موقع ہی نہیں ملا حامد، میں آفس میں تھا جب نزہت کا فون آیا اور میں فوراً وہاں سے گھر آکر انہیں بس ابھی یہاں لایا ہوں۔“ اس نے جلدی جلدی تفصیل بتائی۔
”ابھی کہاں اور کیسی ہیں اماں جان؟“ اسے فکر ہوئی۔
”آئی سی یو میں ہیں۔“
****************************************
بہت مشکل سے نور جہاں کی حالت تھوڑی سنبھلی تھی جس کے بعد حامد ڈاکٹر سے اجازت لے کر ان سے ملنے آیا تھا جن کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔
وہ آکر ان کے پیروں کے پاس بیٹھا اور دونوں ہاتھوں سے ان کے پیر پکڑ لئے۔ اس کی گرفت محسوس کرکے انہوں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔
”حامد!“ انہوں نے دھیرے سے پکارا۔
”جی اماں جان!“ وہ فوراً لپک کر ان کے قریب آیا تو کچھ کہنے کے بجائے انہوں نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا جسے اس نے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔
”ابھی تک ناراض ہیں آپ مجھ سے؟ معاف کردیں نا!“ اس نے ان کا ہاتھ لبوں سے لگا کر التجا کی۔
”ہمیں معاف کردیں اور جلدی سے ٹھیک ہوکر گھر چلیں کیونکہ ابھی تو آپ کو اپنے چھوٹے سے پوتے کے لاڈ بھی اٹھانے ہیں نا!“ وہ اسی طرح مزید بولا۔ وہ بھی کچھ کہنا چاہ رہی تھیں مگر کہہ نہیں پا رہی تھیں۔
”افروز۔۔۔۔!“ ان کے لبوں سے سرگوشی نکلی۔
”جی وہ بھی یہیں ہے، اور آپ کو ایک خوشخبری سناؤں! اس کی گود میں آپ کا ننھا سا پوتا آگیا ہے۔“ اس نے خوشی سے کانپتے ہوئے لہجے میں بتایا۔ ان دونوں کی دلی مراد بر آئی تھی، خدا نے انہیں صحت مند اولاد سے نوازا تھا۔
”ملیں گی آپ اس سے؟ میں ابھی اسے لے کر آتا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے ان کا ہاتھ نیچے رکھ کر کمرے سے باہر نکلا اور وہ کچھ کہنے کی کوشش میں ناکام رہ گئیں۔
تھوڑی دیر بعد حامد وہیل چیئر پر افروز کو یہاں لے کر آیا جس کی گود میں اس کی ننھی سی جان بھی تھی۔ وہ افروز کو بھی نورجہاں کی حالت کا بتا چکا تھا جسے سنتے ہی وہ بھی فوراً ان سے ملنے پر رضا مند ہوگئی تھی کیونکہ اپنے بچے کو صحیح سلامت گود میں لینے کے بعد غیر محسوس انداز میں اس کا وہ سارا ڈر خوف ختم ہوچکا تھا کہ کوئی اس کے بچے کو چھین لے گا یا نقصان پہنچائے گا۔ دونوں کو یقین تھا کہ اب نورجہاں کی ناراضگی کو زائل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جس کے بعد سب پھر سے ہنسی خوشی وہ زندگی گزار سکیں گے جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔
”افروز۔۔۔۔!“ اسے دیکھ کر انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔
”میں جانتی ہوں اماں جان کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں مگر اپنے پوتے سے تو کوئی ناراضگی نہیں ہے نا آپ کی! دیکھیں یہ آپ سے ملنے آیا ہے۔“ اس نے کہتے ہوئے اپنی گود میں موجود نومولود کو ان کے بازو میں لٹا دیا۔
وہ جو کچھ کہنا چاہ رہی تھیں اس ننھے وجود کو اپنی آغوش میں پا کر بےساختہ ان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
”اب تو ہمیں معاف کرکے گزری باتیں بھول جائیں اماں جان۔“ افروز نے منت کی تو انہوں نے پھر ان دونوں کو دیکھا۔ آج ان کی نظروں میں ان کیلئے کوئی غصہ یا ناراضگی نہیں تھی بلکہ وہ تو شاید بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھیں۔
”آپ نے ہمیں معاف کردیا نا اماں جان!“ حامد نے ایک امید سے پوچھا۔ انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا اثبات میں سرہلایا جس سے دونوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
”بس اسی خوشی میں اب آپ جلدی سے ٹھیک ہوکر گھر چلیں، کیونکہ ابھی آپ کو اپنے پوتے کے لاڈ اٹھانے ہیں، اس کی مالش کرنی ہے، اسے نہلانا ہے، کیونکہ افروز کو تو کوئی تجربہ ہی نہیں ہے، ہے نا افروز!“ وہ خوشی خوشی بول رہا تھا۔
”ہاں بالکل! آپ ہی تو سب سکھائیں گی مجھے۔“ اس نے بھی بھرپور تائید کی۔
دونوں کو لگ رہا تھا کہ شاید اب ان کے کڑے دن ختم۔ ان کی سونی گود بھی بھر گئی تھی، ماں نے بھی معاف کردیا تھا اب تو بس خوشیوں کے استقبال کی تیاری کرنی تھی۔
”افروز۔۔۔۔۔حامد۔۔۔۔۔!“ انہوں نے پھر آکسیجن ماسک کے نیچے سے کچھ کہنا چاہا۔
”جی اماں جان بولیں!“ وہ دونوں ہمہ تن گوش تھے۔
”م۔۔۔۔مجھ۔۔مجھے۔۔۔۔۔م۔۔۔۔“ بولنے کی ناکام کوشش کے دوران ان کی سانس اکھڑنے لگی جسے دیکھ کر دونوں گھبرا گئے۔
جلدی سے ڈاکٹر کو بلا کر وہ دونوں کمرے سے باہر آگئے تھے۔ اندر ڈاکٹر ان کی حالت قابو میں لانے کی کوشش کر رہے تھے اور باہر عماد، نزہت، حامد، افروز اور رابعہ ان کیلئے فکرمندی سے دعا گو تھے۔ مگر انہیں جلد ہی اس فکر سے آزادی مل گئی جب ڈاکٹر روم سے باہر آئے۔
”سوری! ہم انہیں بچا نہیں سکے۔“ ڈاکٹر نے تاسف سے اطلاع دی جسے سن کر سب اپنی جگہ پر ساکت رہ گئے۔ خوشیاں ایک بار پھر ان کی دہلیز کو چھو کر پلٹ گئی تھیں۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوتے پھر سے بکھر گیا تھا۔
****************************************
پورا ”شیرازی ہاؤس“ اس وقت گہرے سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ رشتے دار خواتین گھر میں قرآن پاک پڑھ رہی تھیں جب کہ مرد حضرات کچھ دیر قبل ہی تدفین کے بعد قبرستان سے واپس آئے تھے۔
کل سے اب تک حامد نے کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ لوگ آرہے تھے، اس سے تعزیت کر رہے تھے مگر اس کے لبوں پر تو گہری چپ لگ گئی تھی۔ جب کہ ڈیلوری کی وجہ سے افروز کی حالت بھی بہت نازک تھی اور فی الحال وہ ”شیرازی ہاؤس“ میں ہی اپنے سابقہ بیڈ روم میں اپنے بچے کے ساتھ بیڈ ریسٹ پر تھی۔
حامد کمرے میں آیا تو افروز بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ملی۔ وہ بھی آکر اس کے نزدیک بیٹھ گیا جو ایک دن میں صدیوں کا تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر افروز کے پہلو میں سوئے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
”طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ کچھ چاہیے؟“ اس نے سادگی سے پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں، آپ بھی تھوڑی دیر آرام کرلیں۔“ افروز نے نرمی سے کہا۔
”میں بھی ٹھیک ہوں۔“ وہ نظریں چرا کر کہتے ہوئے اٹھنے لگا تو افروز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔
”اب مجھ سے بھی ایسی رسمی باتیں کرکے اپنی پریشانی چھپائیں گے!“ اس کی بات پر وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
”مجھ سے کہہ دیں۔۔۔۔۔تھوڑا رو لیں۔۔۔۔دل ہلکا ہوجائے گا۔“ اس کی اندرونی حالت بھانپتے ہوئے افروز نے محبت سے کہتے ہوئے اپنی دونوں بانہیں کھولیں گویا اسے اپنی آغوش میں آکر چھپنے کی پیشکش کر رہی ہو۔
اور وہ جو کل سے رنجیدگی کا لبادہ اوڑھے اندر ہی اندر اپنے درد سے لڑ رہا تھا ہمدردی کی یہ حدت پا کر اس کا ضبط چھوٹا اور وہ بےساختہ آگے آکر اس کے سینے سے لگتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
”میں نے اماں جان کو ناراض کیا تھا افروز، انہیں بہت تنگ کیا، وہ مجھ سے ناراض ہوکر چلی گئیں۔“ وہ بچوں کی مانند بلک رہا تھا۔
”نہیں وہ ہم سے ناراض ہوکر نہیں گئی ہیں انہوں نے ہمیں معاف کردیا تھا حامد!“ افروز نے اس کا سر سہلاتے ہوئے اسے یاد دلایا مگر وہ تو کچھ سن ہی نہیں رہا تھا۔
”میں ایک اچھا بیٹا نہیں بن سکا!“ وہ اسی طرح روتے ہوئے خود کو ملامت کرنے لگا۔
”نہیں، آپ بہت اچھے بیٹے ہیں، بلکہ صرف بیٹے ہی نہیں آپ بہت اچھے شوہر، بھائی اور باپ ہیں، آپ نے ہمیشہ سب کا خیال رکھا ہے، سب کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے، آپ بہت اچھے ہیں حامد، اور اللہ اچھے لوگوں کو ہی آزماتا ہے۔“ افروز نے اسے خود میں بھینچتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے تصحیح کی۔
اپنی آغوش میں بلکتا یہ شخص افروز کو دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ جو ہمیشہ ہر موقعے پر اس کی ڈھال بنا تھا، اس کا سہارا بنا تھا۔ جس نے صرف محبت کے دعوے نہیں کیے تھے بلکہ قدم قدم پر اپنی محبت ثابت کرکے دکھائی تھی مگر آج وہ خود ٹوٹ گیا تھا۔ جسے سمیٹ کر سنبھالنے کی باری اب افروز کی تھی اور وہ جی جان سے یہ ذمہ داری اٹھانے کو تیار تھی۔ کیونکہ دونوں نے بنا بولے وعدہ کیا تھا ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کو سنبھالنے کا۔
****************************************
تعزیت کیلئے آئے سارے مہمان بھی کچھ دنوں تک آہستہ آہستہ جاچکے تھے جس کے بعد گھر میں اور زیادہ سناٹا ہوگیا تھا۔ ابھی بھی کمرے میں چار لوگ موجود تھے لیکن خاموشی ایسی تھی کہ سوئی بھی پھینکو تو آواز سنائی دے۔
”اماں جان کے دم سے ہی میرے لئے یہ گھر، گھر تھا، اور اب جب وہ ہی نہیں رہیں تو میں بھی یہاں نہیں رہ پاؤں گا بھیا، اسی لئے ہمیں اجازت دیں اب واپس جانے کی۔“ حامد نے سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا۔ اس کی بات پر عماد اور نزہت نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ جب کہ افروز خاموش ہی رہی۔
”مجھے پتا تھا کہ تم یہی کہو گے، اسی لئے میں نے پہلے سے تمہارے پیپرز ریڈی کروا دیے تھے۔“ عماد نے میز پر رکھی ایک فائل اس کی جانب کھسکائی۔
”کیسے پیپرز؟“ وہ سمجھا نہیں۔
”تمہارے حصے کے، تم بےشک یہاں نہ رہو مگر اس گھر اور کاروبار میں تمہارا حصہ رہے گا، اس کاروبار میں تمہاری بھی محنت ہے، تم چاہو تو اپنا سرمایا الگ سے کسی کاروبار میں لگا لو جو آگے چل کر تمہارے بچے کے کام آئے۔“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے مشورہ دیا جس کے باعث وہ سوچ میں پڑ کے خاموش ہوگیا۔
****************************************
زندگی کے ساحل پر وقت کی ہلکی ہلکی لہریں بن کر مٹ رہی تھیں۔۔۔۔۔وقت گزر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔زندگی اور اس کے معاملات جاری و ساری تھے۔
”بس کچھ دنوں کی بات ہے، یوں سمجھ لیں کہ آنے والے دنوں میں کسی بھی وقت آپ کو ہاسپٹل بھاگنا پڑسکتا ہے۔“ ڈاکٹر نے واپس اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بتایا۔ اذلفہ بھی موحد کے برابر والی کرسی پر بیٹھ چکی تھی جس کا نواں مہینہ چل رہا تھا۔
”سب کچھ ٹھیک تو ہے نا ڈاکٹر؟ صبح فجر کے بعد ان کی طبیعت تھوڑی عجیب ہو رہی تھی یہ کوئی مسلے کی بات تو نہیں ہے نا!“ موحد نے متفکر انداز میں جاننا چاہا۔
”جی ماشاءالله سب کچھ بالکل نارمل ہے، کوئی ٹینشن والی بات نہیں ہے، لیکن پھر بھی جو ڈائٹ اور ایکسر سائز بتائی ہیں انہیں پراپر فالو کریں تو ان شاءاللّه ڈیلیوری بھی نارمل ہوگی۔“ انہوں نے تسلی کرائی۔
مزید چند ضروری باتوں کے بعد دونوں روم سے باہر آئے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اب اپنی چھوٹی سی کار میں آ بیٹھے جو موحد نے پچھلے ماہ ہی لی تھی۔
”تھوڑی تیز ڈرائیو کرلو موحد تم ویسے ہی آفس سے لیٹ ہو رہے ہو۔“ سفر شروع ہونے کے بعد اذلفہ نے دھیان دلایا۔
”نہیں، تیز ڈرائیو سے جھٹکے لگتے ہیں جو تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہیں۔“ اس کی ساری توجہ ڈرائیونگ پر تھی۔
”ہاں لیکن ابھی تو روڈ بالکل سموتھ ہے کوئی جمپ یا گڑھے نہیں ہیں، ابھی تو تیز چلا لو۔“ اس نے دوسری راہ نکالی۔
”مجھے پتا ہے کیسے ڈرائیو کرنی ہے تم بس چپ چاپ بیٹھی رہو، ایسی حالت میں زیادہ بولتے بھی نہیں ہیں۔“ اس نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے بات ختم کی تو اذلفہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
جب سے انہیں یہ خوشخبری ملی تھی تب سے موحد کچھ زیادہ ہی حساس ہوگیا تھا اس کے معاملے میں۔ اور اسی حساسیت سے کبھی کبھی اذلفہ بری طرح چڑ بھی جاتی تھی مگر وہ اپنی خوشیوں کو سنبھالے رکھنے کیلئے اس قدر فکرمند تھا کہ اسے کسی کی کوئی فکر نہیں تھی۔
کچھ ماہ قبل ہاجرہ اور ابوبکر صاحب بھی آئے تھے ان لوگوں سے ملنے جب کہ ایک ہی شہر میں ہونے کے باعث بشریٰ بھی اکثر آتی جاتی رہتی تھی۔ سب لوگ ہی ان کی خوشی میں بہت خوش تھے اور کیوں نا ہوتے؟ اتنے ہجر جھیلنے کے بعد جو خوشی ملتی ہے اس کا احساس ہی الگ ہوتا ہے۔
”ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ اپنی امی کے گھر کے باہر گاڑی رکنے پر اذلفہ حیران ہوئی۔
”کیونکہ جب تک میں آفس سے واپس نہیں آتا تم یہیں رہو گی، شام کو واپسی پر میں تمھیں پک اپ کرلوں گا۔“ اس نے بتاتے ہوئے سیٹ بیلٹ کھولی۔
”مگر میں ٹھیک ہوں، مجھے یہاں چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ابھی پرسوں ہی تو رک کر گئی ہوں۔“ اس نے حیرانی سے یاد دلایا۔ وہ گاڑی سے اتر کر اس کی جانب آیا۔
”ڈاکٹر نے کہا ہے نا کہ ہمیں کسی بھی وقت ہاسپٹل بھاگنا پڑ سکتا ہے! تو اگر میری غیر موجودگی میں تمہاری طبیعت خراب ہوگئی تب تم اکیلے کیا کرو گی؟“ موحد نے دروازہ کھول کر اسے باہر آنے میں مدد دی۔
”ڈاکٹر نے کہا ہے آنے والے دنوں میں، یہ نہیں کہا کہ آج ہی ہاسپٹل جانا پڑے گا۔“ اس نے تصحیح کی۔
”کچھ بھی ہو لیکن میں ایک فیصد بھی رسک نہیں لے سکتا، چلو۔“ وہ اٹل انداز میں اسے لے کر آگے بڑھا۔
”تم اوور سینسیٹیو ہو رہے ہو موحد!“ اذلفہ نے دبا دبا احتجاج کیا۔
”جس انسان کو قطرہ قطرہ ترسنے کے بعد خوشی نصیب ہوئی ہو وہ اپنی خوشیوں کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اور یہ حق ہوتا ہے اس کا۔“ اس نے گھمبیر سنجیدگی سے جواب دیا تو وہ لاجواب ہوگئی۔
دونوں دروازے کے باہر آگئے تھے۔ موحد نے ڈور بیل بجانے کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر رک گیا۔
”کیا ہوا؟ بجاؤ بیل۔“ اذلفہ نے دھیان دلایا۔ مگر اسے کوئی جواب دینے کے بجائے موحد نے اس کا ماتھا چوم لیا۔
”ساس کے سامنے ”گڈ بائے کس“ کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا نا!“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے ڈور بیل بجائی تو اذلفہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ ہنسے یا خفا ہو اس کے پاگل پن پر!
تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور نعیمہ غیر متوقع طور پر ان دونوں کو دیکھ کر حیران ہوئیں۔
”السلام علیکم امی!“ دونوں نے یک زبان سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! تم دونوں اس وقت! خیر اندر آؤ۔“ وہ کہتے ہوئے کنارے پر ہوئیں۔
”نہیں امی میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں ابھی بس اذلفہ کو یہاں چھوڑنے آیا تھا، شام کو واپسی پر پک اپ کرلوں گا، باقی تفصیل تم بتا دینا امی کو، ٹھیک ہے!“ اس نے جلدی جلدی مختصر وضاحت کی۔
”اب میں چلتا ہوں، کوئی بات ہو تو مجھے فون کردینا، الله حافظ!“
”الله حافظ!“ وہ کہہ کر واپس چلا گیا جب کہ یہ دونوں بھی اندر آگئیں۔
”سب خیریت تو ہے نا بیٹا؟“ انہوں نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
”جی امی سب خیریت ہے، بس صبح فجر کے بعد تھوڑی بےچینی ہو رہی تھی مجھے جس کا ذکر میں نے موحد سے کیا اور یہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے، ڈاکٹر نے کہا کہ سب نارمل ہے مگر آنے والے دنوں میں کسی بھی وقت لیبر پین ہوسکتا ہے، بس اسی وجہ سے یہ فکر مند ہوگئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجھے گھر پر اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔“ اس نے لاؤنج میں آنے تک مختصر تفصیل بتائی۔
”اچھا کیا اس نے، میں بھی تو اس دن یہ ہی کہہ رہی تھی تمھیں کہ اب یہیں رک جاؤ وہاں گھر پر اکیلی ہوتی تو مجھے بھی فکر لگی رہتی ہے، اور ویسے بھی اذکی کہہ رہی تھی کہ اسے آج تم سے ملنا ہے۔“ انہوں نے موحد کے اقدام کی بھرپور تائید کی۔
”خیریہ؟ کوئی کام تھا کیا اسے؟“
”تم سے ملنے کیلئے یا تمہارے گھر آنے کیلئے بھلا کسی وجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسے؟“ انہوں نے الٹا سوال کیا تو وہ ہنس دی۔
پھر نعیمہ کچن میں چلی گئیں جب کہ اذلفہ کمرے میں اذکی کے پاس آگئی جہاں وہ بیڈ پر اوندھی لیٹی موبائل میں مصروف تھی۔
”اچھا ہوا آپ آگئی آپی!“ وہ اسے دیکھ کر خوشی سے اٹھ بیٹھی۔
”خوش تو ایسے ہو رہی ہو جو جیسے کتنے سالوں بعد دیکھا ہے مجھے!“ اذلفہ نے اپنی چادر اتارتے ہوئے طنز مارا۔
”ارے بات ہی ایسی ہے کہ آپ سے فیس ٹو فیس شیئر کرنے کیلئے بےتاب تھی میں، یہاں بیٹھو۔“ اذکی نے اپنے مقابل اشارہ کیا۔
”ایسی بھی کیا بات ہے؟“ وہ بھی بیڈ پر آکے بیٹھ گئی۔
”میں نے بتایا تھا نا کہ یونی میں ایک لڑکا اکثر بہانے بہانے سے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا! وہ ہی نمرہ کے بھائی کا دوست! اور ایک دن اس نے پسندیدگی بھی ظاہر کی تھی تو میں نے اسے جھڑک دیا تھا!“ اس نے جلدی جلدی یاد دلایا۔
”ہاں تو پھر؟“
”تو کل نمرہ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ اپنے پیرنٹس کو ہمارے گھر بھیجنے والا ہے رشتے کی بات کرنے، بلکہ اس نے نمرہ کے ذریعے مجھے یہ پیغام بھیجا ہے تا کہ میں اپنے گھر والوں کو ان کی آمد سے آگاہ کردوں۔“ اس نے کافی جذباتی انداز میں بتایا۔ جسے اذلفہ بغور دیکھ رہی تھی۔
”تو اس میں اتنا خوش ہونے والی بات کون سی ہے؟ تم نے اسے منع کردیا تھا اور وہ پھر بھی اپنے گھر والوں کو بھیج رہا ہے تو یہ ڈھیٹ پن ہوا نا!“ اسے یہ منطق سمجھ نہ آئی۔
”نہیں! میں نے منع نہیں کیا تھا بس یہ کہا تھا کہ اگر وہ اتنا ہی سیریس ہے تو اپنے گھر والوں کو عزت سے رشتہ لینے بھیج دے، اور وہ ایسا ہی کرنے لگا ہے تو اس کا مطلب وہ واقعی سیریس ہے نا!“ اس نے کڑیاں جوڑ کر سمجھایا۔
”اس سے زیادہ تو تم سیریس لگ رہی ہو مجھے اس کیلئے، تم بھی پسند کرتی ہو کیا اسے؟“ اذلفہ نے آنکھیں سکیڑ کر کریدا۔
”نہیں پسند نہیں۔۔۔۔وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔۔۔!“ وہ نظریں چرا کر آئیں بائیں شائیں کرنے لگی جس سے اذلفہ کو سارا ماجرا سمجھ آگیا۔
”امی کو بتایا ان لوگوں کی آمد کے بارے میں؟“ اس نے دوسرا سوال کیا۔
”نہیں، آپ بتا دو نا پلیز!“ اس نے لجاجت سے منت کی۔
اذلفہ پہلے تو چند لمحے سنجیدگی سے اسے دیکھتی رہی پھر ہنستے ہوئے اس کے سر پر چپت لگا دی۔
****************************************
وہ کچن میں موجود درمیانے اسٹول پر چڑھی ایک خالی باکس کیبنٹ کے اوپر رکھ رہی تھی مگر اچانک اس کا توازن بگڑا اور وہ پیٹھ کے بل زمین کی جانب آئی۔
”پکڑ لیا!“ تب ہی پیچھے سے حامد نے اسے تھام لیا جو ابھی ابھی وہاں پہنچا تھا۔ بر وقت پکڑ لینے سے وہ زمین بوس ہونے سے تو بچ گئی تھی مگر ابھی تک اس کی بانہوں کے حصار میں تھی۔
”اتنے سال ہوگئے شادی کو مگر آج بھی بہانے بہانے سے بانہوں میں گرنے والی تمہاری عادت گئی نہیں نا!“ وہ شرارتاً گویا ہوا۔
”ہاں بالکل ویسے ہی جیسے اتنے سالوں میں آپ کی خودساختہ خوش فہمیاں پالنے کی عادت بھی جوں کی توں ہے۔“ وہ کہتی ہوئی الگ ہوکر اس کی جانب پلٹی۔
”بس دیکھ لو، اتنے سالوں بعد بھی میں بدلا نہیں، بلکہ ویسا ہی ہوں جیسا سہیل کی شادی پر تھا۔“ اس نے شوخی سے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
تیزی سے گزرتے وقت نے کچھ سفید بالوں کی صورت ان پر اپنا اثر چھوڑنا چاہا تھا مگر ہیئر ڈائی کا سہارا لے کر انہوں نے وقت کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا جو نہ ان کی صحت متاثر کر سکا اور نہ محبت! ہاں تھوڑا بہت بدلاؤ آیا تھا دونوں میں جیسے نظر کا چشمہ لگ گیا تھا، چہرے حالات کے سرد و گرم جھیل کر پختہ ہوگئے تھے مگر ان سب میں کچھ بھی منفی نہیں تھا۔
حامد آج بھی جب جینز کے ساتھ شرٹ پہن کر آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے اپنے بیٹے کے ہمراہ کہیں جاتا تھا تو لوگ اسے اس کا بڑا بھائی سمجھتے تھے۔ افروز کا بھی وزن پہلے کے مقابلے تھوڑا سا بڑھا تھا مگر جسم پھیلا نہیں تھا، سیدھی سادی سی افروز اب ایک سمجھدار عورت بن چکی تھی۔
”اہم اہم!“ تب ہی کسی نے گلا کھنکھار کر دونوں کو متوجہ کیا جو کہ کچن کے داخلی حصے پر کھڑا احمد تھا۔
”یہ سودا لے آیا ہوں میں ممی! دیکھ لیجئے گا۔“ اس نے نظریں ملائے بنا ایک شاپر کچن کاؤنٹر پر رکھا۔
”تم بھی دیکھ سکتے ہو، ہم وہ نہیں کر رہے تھے جو تم سمجھ رہے ہو!“ حامد نے اپنے ہاتھ ہٹا کر احمد کی شرمندگی سے محظوظ ہوتے ہوئے اسے چھیڑا۔ تو افروز نے فوری طور پر حامد کو کہنی مار کر ٹوکا کہ بھلا بیٹے سے ایسی بات کرتے ہیں!
”اگر وہ کر بھی رہے ہوتے تو کوئی مسلہ نہیں تھا، بیوی ہیں یہ آپ کی، جو چاہیں کرسکتے ہیں آپ!“ اس نے بھی شرارت سے جواب دیا۔ آخر کو اسی کا بیٹا تھا۔
”چھچھورپن تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے دونوں میں۔“ ان دونوں کی حرکات سے زچ ہوکر افروز بڑبڑاتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی جس سے دونوں ہی کافی محظوظ ہوئے۔
حامد بھی کچن سے نکل کر جانے لگا تھا کہ احمد نے اسے روک لیا۔
”آپ نے ممی سے دوبارہ بات کی پاپا؟ انہیں پکا کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا!“ احمد نے آہستہ سے ٹٹولا۔
”اگر اعتراض ہوتا تو راضی کیوں ہوتیں!“ اس نے مسکراتے ہوئے الٹا سوال کیا۔ اس سے قبل کہ احمد کچھ کہتا پینٹ کی جیب میں رکھا حامد کا موبائل بج اٹھا۔
”جی بھیا؟“ عماد کی کال تھی۔
”کیا۔۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔ہم بس ابھی آتے ہیں۔“ اس نے شاکڈ ہوتے ہوئے مختصر بات کی۔
”کیا ہوا پاپا؟ کیا کہہ رہے تھے تایا؟“ وہ بھی فکرمند ہوا۔
”علی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے، ہاسپٹل جانا ہے، تم گاڑی اسٹارٹ کرو میں افروز کو بلاتا ہوں۔“ اس نے موبائل رکھتے ہوئے عجلت میں بتایا جسے سن کر وہ احمد باہر کی جانب لپکا اور حامد افروز کے پاس آیا۔
****************************************
”ایکسیڈینٹ بہت خطرناک تھا حامد اور ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اس کے بچنے کی امید بہت کم ہے۔“ عماد نے دکھ سے چور انداز میں بتایا۔ اس پر صحیح معنوں میں بڑھاپا آیا تھا اور اب جوان اولاد کا غم مزید نڈھال کر رہا تھا۔
”کچھ نہیں ہوگا بھیا اسے، وہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔“ حامد نے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے گلے لگا لیا کیونکہ اولاد کا درد وہ بہت اچھے سے سمجھ سکتا تھا۔
سب لوگ اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں موجود تھے جہاں حامد اور احمد عماد کے ہمراہ کھڑے تھے جب کہ افروز کرسی پر بیٹھی نزہت کو تسلی دے رہی تھی جو بری طرح روئے جا رہی تھی۔
”حوصلہ کریں بھابھی، ان شاءاللّه سب ٹھیک ہوجائے گا۔“ افروز نے اپنے کندھے پر سر رکھ کر روتی نزہت کو دلاسا دیا۔
”کچھ ٹھیک نہیں ہوگا افروز۔۔۔۔۔۔یہ سب میں نے ہی اپنے ہاتھوں بگاڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔میرے کیے کی سزا میرے بچے کے سامنے آرہی ہے۔“ نزہت نے روتے ہوئے کہا تو اس کی بات پر نزدیک کھڑے وہ تینوں بھی اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”آپ نے کچھ نہیں کیا ہے بھابھی، الٹا سیدھا مت سوچیں۔“ اس نے پھر سمجھانا چاہا۔
”تم نہیں جانتی افروز میں نے تمہارے ساتھ کیا کچھ کیا ہے اور یہ اسی کی سزا ہے۔“ نزہت اس کے کندھے پر سے سر اٹھاتے ہوئے سیدھی ہوکر بیٹھی۔
”کیا کِیا ہے آپ نے؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”تمہارا پہلا بچہ مردہ نہیں تھا افروز وہ زندہ سلامت بالکل صحیح پیدا ہوا تھا مگر میں نے ڈاکٹر نے کو پہلے ہی پیسے دے کر تیار کر رکھا تھا کہ وہ تمہارے بچے کو ایک مردہ بچے سے بدل دیں اور یہ جھوٹ بولیں کہ تم کبھی ماں نہیں بن سکتی۔“ نزہت کے منہ سے یہ انکشاف سن کر جہاں افروز پر بجلی گری تھی وہیں باقی تینوں بھی دنگ رہ گئے۔ ایسا لگ تھا کہ خاموش سمندر میں یکایک بھونچال آگیا ہے۔
”کیا۔۔۔۔۔۔مگر کیوں؟“ افروز بمشکل کہہ پائی۔
”کیونکہ میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ میری بہن نگہت کی شادی حامد سے ہوجائے تا کہ پورے گھر پر ہم دونوں بہنوں کا راج ہو جس کیلئے میں اماں جان کو آہستہ آہستہ راضی بھی کر رہی تھی مگر حامد اچانک تم سے شادی کر آیا جس سے اماں جان ناراض تو ہوئی تھیں مگر مزید میں انہیں تم دونوں کے خلاف بھڑکاتی رہی، وہ تم سے خاصی بدظن ہوگئی تھیں مگر جیسے جیسے تمہاری ڈیلیوری کے دن قریب آرہے تھے ان کے مزاج میں تمہارے لئے لچک آتی جا رہی تھی جس سے مجھے خدشہ ہوا کہ تمہاری اولاد ہونے کے بعد وہ یقیناً پوری طرح تمھیں قبول کرلیں گی اور میری بہن کا راستہ بند ہوجائے گا اسی لئے میں نے تمہارے بچے کو راستے سے ہٹا کر جھوٹ بولا تا کہ حامد تمھیں طلاق دے دے اور پھر میں اپنی بہن کو اس گھر میں لاسکوں لیکن سب کچھ میری سوچ کے برعکس ہوگیا۔“ وہ بولتی جا رہی تھیں اور یہ لوگ دم سادھے سن رہے تھے۔
الفاظ تھے یا زہر میں ڈوبے تیر! جو بہت بری طرح چھلنی کرتے ہوئے گزرے تھے۔ حامد کو بےساختہ اپنا اور افروز کا وہ درد یاد آگیا جب ڈیلوری کے بعد کئی دنوں تک وہ اپنے بچے کیلئے تڑپے تھے اور ابھی تک یہ خلش ان کے دل میں باقی تھی۔
”اور تو اور اماں جان نے مجھے نگہت سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بھی سن لیا تھا، انہیں ساری بات بتا چل گئی تھی کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے جس کے باعث وہ مجھ پر اتنا غصہ ہوئیں کہ انہیں ہارٹ اٹیک آگیا، وہ آخری وقت میں تم لوگوں کو شاید یہ ہی بتانا چاہ رہی تھیں مگر قدرت نے انہیں مہلت نہیں دی، لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔اب لگتا ہے قدرت انصاف کرنے پر تُلی ہوئی ہے، جیسے میں نے تمہارے بچے کو تم سے دور کیا تھا ویسے ہی اب میرا اکلوتا بچہ بھی مجھ سے دور جا رہا ہے اسے بچا لو۔۔۔۔۔۔مجھے معاف کردو!“ نزہت نے کہتے ہوئے آخر میں اس کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ لئے جو پتھرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔
”میرے بچے کے ساتھ کیا کِیا آپ نے؟“ افروز کی صدمے میں ڈوبی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
”ڈاکٹر نے اسے یتیم خانے بھجوا دیا تھا اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا مجھے کچھ نہیں معلوم، میں اپنے مفاد میں اندھی ہوگئی تھی مجھے معاف کردو!“ اس نے جواب دیتے ہوئے پھر سے منت کی۔
مگر سب لوگ اس قدر حیرت زدہ تھے کہ فوری طور پر کوئی رد عمل بھی نہ دے پائے۔ ان میں سے کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ کبھی ایسا بھی کوئی انکشاف ہوگا، اور احمد! اس کیلئے تو یہ ساری بات ہی نئی تھی کہ اس سے قبل بھی اس کا کوئی بھائی تھا!
”مسٹر عماد شیرازی!“ ڈاکٹر کی آمد پر سب کا سکتہ ٹوٹا۔
”مبارک ہو! آپ کا بیٹا اب خطرے سے باہر ہے۔“ ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں خوشخبری سنائی۔
صرف چند لمحوں میں کیا سے کیا ہوگیا تھا؟ یوں لگ رہا تھا کہ گویا یہ سارا واقعہ محض نزہت کے اعترافِ جرم کیلئے رونما ہوا تھا۔۔۔۔۔یہاں اس نے اپنا جرم قبول کیا۔۔۔۔۔۔اور وہاں موت اس کے بیٹے کو واپس زندگی کی چوکھٹ پر پٹخ کر چلی گئی تھی۔ جیسے اسے لینے نہ آئی ہو بس ڈرانا چاہ رہی۔۔۔۔۔بتانا چاہ رہی ہو کہ دیکھو! دیکھو اولاد کی تکلیف کیسی ازیت ناک ہوتی ہے!
مزید چند باتیں بتا کر ڈاکٹر وہاں سے چلے گئے تھے مگر جو طوفان ابھی ابھی ان لوگوں پر سے آکر گزرا تھا اس کے آثار ہنوز سب کے چہروں پر باقی تھے۔
”م۔۔۔میرا۔۔۔بچہ زندہ تھا۔“ اپنی جگہ پر سے کھڑے ہوتے ہوئے افروز کے لب پھڑپھڑائے۔
نزہت بھی اپنی جگہ پر سے اٹھ گئی جو اعترافِ جرم کرنے کے بعد اب شرمندہ تھی جس پر کسی کو ترس محسوس نہ ہوا۔
”میں نے آپ کو بھابھی نہیں بڑی بہن سمجھا تھا ہمیشہ اور آپ نے یہ کیا میرے ساتھ!“ حامد نے بھی آگے آتے ہوئے دکھ سے شکوہ کیا۔ جب کہ غم و غصے کے مارے عماد نے مٹھیاں بھینچ لی تھیں گویا خود پر ضبط کر رہا ہو۔
”مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کردو۔“ وہ پھر منمنائی۔
”غلطی نہیں تم نے گناہ کیا ہے نزہت! ایک ماں سے اس کا بچہ چھینتے ہوئے، بچے کو دربدر کرتے ہوئے ایک بار بھی تمہارا دل نہیں کانپا؟“ عماد بھی غصے سے پھٹ پڑا۔ جس کے آگے وہ نظریں جھکاتے ہوئے مزید شرمندہ ہوئی۔
”پلیز مجھ۔۔۔۔۔۔“
”ممی!“ وہ پھر منت کرنے لگی تھی کہ احمد کی اچانک پکار پر سب چونک کر پلٹے تو دیکھا افروز بےہوش ہوکر گرنے لگی تھی جسے احمد نے پکڑ لیا تھا۔
میرے منہ میں زبان تھی ہی نہیں
جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بیان تھا ہی نہیں
دوستا! تیر اس طرف سے آیا ہے
جس طرف تیرا دھیان تھا ہی نہیں
وصی شاہ
****************************************
اسے اپنے پیٹ میں کسی کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔وہ اس کی دھڑکن سن سکتی تھی۔۔۔۔۔۔وہ اپنے ننھے ہاتھ پیر اس کی پیٹ کی دیواروں پر مار کر اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا اور باہر سے وہ بھی اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر اس سے باتیں کیا کرتی تھی۔ وہ دونوں دن گن گن کر گزار رہے تھے کہ کب یہ دیوار ان کے بیچ سے ہٹے گی اور وہ اپنی ماں کی گود کی گرمی محسوس کرے گا؟ ادھر وہ بھی بےچین تھی کہ کب وہ اپنی ننھی جان کو اپنی آغوش میں بھر کر بےتحاشا پیار کر پائے گی؟
مگر دونوں کا انتظار انتظار ہی رہ گیا، اس کی کوکھ سے کسی نے اس ننھی جان کو کھینچ کر باہر نکالا جس سے وہ سہم گیا اور پھر کچھ اجنبی لوگ اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کی ماں سے دور لے گئے۔ وہ بری طرح رونے لگا، اپنے ننھے ہاتھ پیر چلا کر اپنی اس ماں کے پاس جانے کیلئے مچلنے لگا جسے اس نے نوں ماہ محسوس کیا تھا مگر جب ملاقات کا وقت آیا تو یہ ظالم دنیا ان دونوں کے بیچ آگئی۔۔۔۔اِدھر وہ اپنے بچے کیلئے تڑپ رہی تھی۔۔۔۔۔۔اُدھر وہ نومولود اپنی ماں کیلئے بلک رہا تھا مگر کسی کو ان پر ترس نہ آیا۔
اس بچے کے رونے میں شدت آتی جا رہی تھی۔۔۔۔وہ تیزی سے اپنے ہاتھ چلا چلا کر اپنی ماں کو پکار رہا تھا۔۔۔۔۔وہ رو رہا تھا۔۔۔۔تڑپ رہا تھا۔۔۔۔۔بلک رہا تھا۔۔۔۔۔پکار رہا تھا۔۔۔۔۔ماں۔۔۔۔!
”میرا بچہ!“ افروز چلاتے ہوئے ہسپتال کے بیڈ پر اٹھ بیٹھی جس کے بائیں طرف اسٹول پر حامد بیٹھا تھا اور دائیں طرف احمد۔
”حامد وہ لوگ میرا بچہ لے کر جا رہے ہیں انہیں روکیں۔۔۔وہ رو رہا ہے۔“ اس نے دیوانہ وار التجا کی۔
”افروز! سنبھالو خود کو۔۔۔۔۔ہمارا بیٹا یہ رہا!“ حامد نے کہتے ہوئے احمد کی جانب اشارہ کیا جو اپنی ماں کو ایسی حالت میں دیکھ کر پریشان تھا۔
افروز نے چند لمحے ساکت ہوکر حیرت زدہ انداز میں پہلے احمد کو دیکھا گویا پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو! پھر یکدم افروز نے اسے اپنے پاس کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔
”میں اسے چھپا رہی ہوں حامد! آپ جلدی جا کر میرے دوسرے بچے کو بھی بچائیں۔۔۔۔وہ لوگ اسے لے جائیں گے۔“ افروز نے احمد کو اپنی آغوش میں چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے انداز میں عجیب سا خوف تھا۔ حامد وہاں سے اٹھ کر احمد کی طرف آیا۔
”افروز! سنبھالو خود کو، ہوش میں آؤ۔“ حامد نے اسے احمد سے الگ کرکے جھنجھوڑا۔
”تمہارا بچہ سالوں پہلے کھو چکا ہے اب وہ واپس نہیں آئے گا، اب ہمارا بیٹا صرف احمد ہے جو کہ یہ رہا۔“ حامد نے بلند آواز سے باور کرایا کیونکہ یہ ہی ایک طریقہ تھا اس کے حواس بحال کرنے کا۔ اس کی بات پر افروز سکتے میں آکر دونوں کو دیکھنے لگی۔
جتنی دیر افروز بےہوش تھی اس عرصے میں حامد نے شروع سے لے کر اب تک ساری روداد احمد کو سنا دی تھی کہ کیسے دونوں نے پسند کی شادی کی۔۔۔۔۔گھر سے الگ ہوئے۔۔۔۔اپنا بچہ کھویا۔۔۔۔افروز کس ذہنی اذیت سے گزری۔۔۔۔۔اور پھر کتنے انتظار کے بعد وہ ان کی گود میں آیا!
یہ ساری باتیں احمد کیلئے جتنی نئی تھیں اتنی عجیب بھی تھیں۔ اس کی اب سمجھ میں آیا کہ افروز کیوں اس کے معاملے میں حد سے زیادہ حساس تھی؟ کیوں اس کی چھوٹی موٹی بیماریوں پر وہ اتنی پریشان ہوجاتی تھی؟ کیوں وہ ایک پل کیلئے بھی اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی؟ کیونکہ وہ انہیں بہت مشکلوں کے بعد نصیب ہوا تھا۔
احمد نے تو تین لوگوں پر مشتمل اپنی فیملی کو ہمیشہ خوش باش ہی دیکھا تھا۔ اس کا گھر ”ہوم سویٹ ہوم“ تھا مگر ان خوشحال دنوں کے پیچھے اتنا درد ناک ماضی بھی ہوگا! یہ کبھی اس کے گمان میں بھی نہیں گزرا تھا۔
”ممی! سنبھالیں خود کو، آپ کو ایسے دیکھ کر مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“ احمد نے ساکت سی افروز کا ہاتھ پکڑ کر جان بوجھ کر معصوم بچے کی مانند اپنا خوف ظاہر کیا تو وہ جیسے آہستہ آہستہ ہوش میں آئی۔
اسے یاد آیا کہ وہ اس وقت لیبر روم میں نہیں ہے بلکہ اس درد سے گزر کر کئی سال آگے آچکی ہے جہاں اس کے پاس ایک محبت کرنے والا شوہر اور ایک عزیز جان بیٹا اب بھی موجود ہے۔ جو کھو گیا اسے اب وہ نہیں ڈھونڈ سکتی تھی مگر جو پاس تھا اسے سنبھال ضرور سکتی تھی۔
اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں پگھل کر برسنا شروع ہوئیں اور اب کی بار اس نے احمد کو محبت سے گلے لگا لیا۔ اسے نارمل ہوتا دیکھ کر حامد کو بھی تھوڑی تسلی ہوئی اور اس نے بھی دونوں کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے کھو جانے والے پر ملال کرنے کے بجائے حاصل پر شکر کی سانس لی۔
****************************************
صوفے پر بیٹھی اذکی بظاہر ٹی وی دیکھ رہی تھی جہاں اس کا من پسند شو آرہا تھا مگر اس کی صرف نظریں ٹی وی پر تھیں، سوچ کے پرندے تو کہیں اور ہی پرواز کر رہے تھے۔
”جب دھیان کہیں اور ہی رکھنا ہے تو ٹی وی بند کردو، خواہ مخواہ بجلی کے یونٹ کیوں گرا رہی ہو؟“ اذلفہ کہتے ہوئے اس کے برابر میں آکر بیٹھی تو وہ واپس حال میں آگئی۔
”کن سوچوں میں گم ہو؟“ اذلفہ نے ٹٹولا۔
”کچھ خاص نہیں۔“ اس نے ٹالتے ہوئے ریموٹ سے چینل تبدیل کیا۔
”ایک ہفتہ ہوگیا ہے اذکی! مگر وہ لڑکا اور اس کے گھر والے اب تک نہیں آئے!“ اس نے متوازن انداز میں یاد دلایا تو بجائے کچھ کہنے کے اذکی اسے دیکھ کر رہ گئی؟ کیا کہتی؟ وہ تو خود اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہی تھی۔
”میں نے امی کو بھی بتا دیا تھا اور انہوں نے ابو کو، وہ مجھ سے پوچھ رہی ہے تھیں اس بارے میں، اب میں انہیں کیا جواب دوں؟“ اس نے سادگی سے سوال کیا۔
”کہہ دیں کہ اس کی باتیں محض باتیں ہی تھیں۔“ وہ تلخی سے کہتی ہوئی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی جسے اذلفہ وہیں بیٹھی دیکھتی رہی۔
****************************************
آف وائٹ کاٹن کا سوٹ زیب تن کیے افروز ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی، آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے اپنے کتھئی ڈائی بال پشت پر کھلے چھوڑے وہ کھوئے ہوئے انداز سے کانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹاپس پہن رہی تھی۔
ایک ہفتہ قبل جو انکشاف کی آندھی آکر گزری تھی اس سے وہ دھیرے دھیرے سنبھل گئی تھی لیکن اب بھی جب بھولے بھٹکے سوچ کے دهاگے وہاں جاتے تھے تو الجھ کر رہ جاتے تھے جیسے ابھی وہ ایک غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے غیر محسوس انداز میں ساکت ہوگئی تھی۔
بلیک ڈریس پینٹ پر سفید شرٹ پہن کر اسے اِن کیے ہوئے حامد اپنا نظر کا چشمہ درست کرتا افروز کے عقب میں آکر کھڑا ہوا اور ڈریسنگ ٹیبل پر سے برش اٹھا کر اس کے بال سنوارنے لگا۔
”پتا ہے برے وقت کی ایک اچھی بات کیا ہوتی ہے افروز!“ وہ دھیرے سے گویا ہوا۔
”کیا ہوتی ہے؟“ وہ شیشے میں نظر آتا اس کا عکس دیکھنے لگی۔
”کہ بلآخر وہ گزر ہی جاتا ہے۔“ اب وہ اس کے بالوں کی چوٹی بنانے لگا۔
”ہمارے حصے کا جو بھی برا وقت تھا گزر گیا، لہٰذا اس گزرے ہوئے وقت کو یاد کرنا چھوڑو اور آنے والے وقت کا سوچو جو بہت خوبصورت ہونے والا ہے، بالکل ہماری طرح!“ وہ چوٹی مکمل کرنے کے بعد افروز کے بائیں کندھے پر آگے کرتے ہوئے مسکرایا۔ شیشے میں نظر آتا دونوں کا عکس بہت مکمل لگ رہا تھا۔ جن کا رشتہ گزرتے وقت کے ساتھ پرانا نہیں بلکہ پائیدار ہوگیا تھا۔
”اگر ان برے وقتوں میں آپ میرے ساتھ نہ ہوتے نا تو شاید میں بھی اس وقت کے ساتھ گزر چکی ہوتی۔“ وہ کہتی ہوئی اس کی جانب پلٹی۔
”جب قدرت ہم پر کڑا وقت لاتی ہے نا تو ساتھ ہی اس سے نمٹنے کا سامان بھی کر مہیا کر دیتی ہے اب یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم حالات کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتے رہیں یا اپنے آس پاس نظر دوڑا کر ان حالات سے لڑنے کیلئے کوئی ہتھیار ڈھونڈیں!“
”اور ہمارا ہتھیار ہمارا ساتھ، ہماری ثابت قدمی تھی، تب ہی تو آج ماشاءالله سے ہم اس مقام پر پہنچے ہیں کہ اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھنے والے ہیں۔“ حامد نے اس کی آزاد رہ جانے والی ایک لٹ آہستہ سے کان کے پیچھے کرتے ہوئے اطمینان سے کہا۔ اسی اطمینان سے جو ہمیشہ سے اس کی شخصیت کا خاصا رہا تھا اور اسی کی بدولت وہ ہر طرح کے حالات سے لڑنے میں کامیاب رہا تھا۔
”پاپا!“ احمد کی پکار پر دونوں نے گردن موڑی۔ گرے جینز کے ساتھ کتھئی شرٹ پہنے وہ دروازے پر کھڑا تھا۔
”تایا آئے ہیں آپ سے ملنے۔“ اس نے سادگی سے اطلاع دی جس پر دونوں تھوڑے متعجب ہوئے۔
”میں دیکھتا ہوں، تم بھی ریڈی ہوکر اس کے ساتھ باہر ہی آجانا۔“ وہ انہیں کہتا، صوفے پر سے اپنا کوٹ اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا جب کہ متعجب سی افروز بیڈ پر پڑا سوٹ کا دوپٹہ اوڑھنے لگی۔
ایک ہفتہ قبل علی کا جو ایکسیڈینٹ ہوا تھا اس سے وہ بہت جلدی ریکوری کی جانب آگیا تھا اسی لئے ڈاکٹرز نے دو روز بعد اسے ڈسچارج کردیا تھا۔ وہ گھر آگیا تھا۔۔۔۔اسی گھر میں جو اب نام کا گھر رہ گیا تھا۔ کیونکہ نزہت کے انکشاف کے بعد سب ہی اس پر حیران و خفا تھے۔ اس کی معافی تلافی بھی کسی کام نہیں آئی تھی کیونکہ جو غلطی اس نے کی تھی وہ بہت بڑی تھی۔ عماد تو غصے میں آکر اسے طلاق دینے لگا تھا مگر حامد نے روک لیا۔ کیونکہ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا۔ ان کا کھویا ہوا بچہ اب واپس نہیں آسکتا تھا لیکن اس عمر میں والدین کی طلاق کا اثر علی کی زندگی خراب کرسکتا تھا جس کی شادی جلد متوقع تھی۔ لہٰذا سب کچھ اپنے معمول پر ہوکے بھی اب پہلے جیسے نہیں رہا تھا۔ حامد اور افروز اپنا معاملہ اللّه کے حوالے چھوڑ چکے تھے اور نزہت کی سزا یہ ہی تھی کہ اسے باقیہ عمر اپنے شوہر و بیٹے کے سامنے نادم ہوکر جینا تھا۔
”السلام علیکم بھیا!“ حامد کوٹ پہنتا ہوا قریب آیا۔
”وعلیکم السلام!“ عماد نے جواب دیا جو کار پورچ میں ہی کھڑا تھا۔
سالوں پہلے اپنے حصے سے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے کے بعد حامد نے یہ چھوٹا سا بنگلو خریدا تھا۔
”آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں بھیا، اندر گھر میں چلیں نا!“ اس نے اصرار کیا۔
”کس منہ سے اس گھر میں قدم رکھوں جس گھر کا چراغ میری بیوی نے بجھایا ہے!“ وہ شرمندگی کے مارے نظر جھکا کر بولا۔
”جب دل امید سے منور ہوں نا تو باہر کسی چراغ کے جلنے بجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس دل میں اللّه کی امید کا چراغ روشن رہنا چاہئے کہ اس کے ہر کام میں کوئی نا کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے عماد کو کندھوں سے تھاما۔ اپنے بھائی کی اس حد درجہ فراخ دلی پر وہ اندر ہی اندر مزید نادم ہوگیا۔
”خیر یہ بتائیں سب خیریت ہے نا؟ علی کی طبیعت ٹھیک ہے؟“ حامد نے خود ہی موضوع بدلا۔
”ہاں سب ٹھیک ہے، بس تمھیں کچھ دینے آیا تھا۔“ اب وہ بھی اصل بات پر آیا۔
”کیا؟“ وہ متعجب ہوا۔
”یہ!“ عماد نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک ساتھ فولڈ ہوئے کچھ کاغذ نکال کر اس کی جانب بڑھائے۔
”یہ کیا ہے بھیا؟“ اس نے ناسمجھی سے وہ کاغذ تھامے۔
”میں پچھلے کچھ دنوں سے کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح تمہارے گمشدہ بچے کا پتا لگالوں اور اب فائنلی ہسپتال سے یتیم خانے تک پہنچنے کے بعد، میں نے یہ پتا لگوا لیا ہے کہ سالوں پہلے ہسپتال سے جو بچہ یتیم خانے منتقل ہوا تھا اسے کس نے گود لیا تھا؟ یہ ان ہی لوگوں کے ڈاکومنٹس ہیں جن میں ان کی ساری تفصیلات لکھی ہیں۔“ اس نے تفصیل سے وضاحت کی تو پیپرز پڑھتا حامد حیران رہ گیا۔
”اتنے سالوں پرانا ریکارڈ آپ نے کیسے نکلوا لیا بھیا؟“ اس نے اپنی حیرت کو الفاظ دیے۔
”پیسے سے سب ہوجاتا ہے۔“ وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔
”ہاں لیکن اب اس کی کیا ضرورت تھی؟“
”اپنی اولاد کو بھلا کوئی کیوں ڈھونڈتا ہے پاگل؟“ عماد نے الٹا سوال کیا۔
”وہ ٹھیک ہے لیکن اب تو اس ساری بات کو ایک عرصہ بیت گیا ہے، اب اگر ہم اپنے بچے کو ڈھونڈ بھی لیتے ہیں تو وہ ہمارا نہیں ہوگا بلکہ اپنے کاغذی والدین کے ساتھ خوش ہوگا اور اللّه کرے کہ وہ خوش رہے۔“ اس نے اپنی بات واضح کی۔
”اور افروز! اس کی تڑپ بھول گئے تم؟“ اس نے سوالیہ انداز میں یاد دلایا۔
”بہت اچھی طرح یاد ہے اسی لئے تو کہہ رہا ہوں، ابھی تو وہ حاصل نہیں ہے اسی لئے افروز رو دھو کر صبر کر چکی ہے لیکن اگر ملنے کے بعد اس نے ہمارے پاس آنے سے یا ہمیں اپنے والدین ماننے سے ہی انکار کردیا تو! اگر اس نے اپنے موجودہ والدین کی محبت میں افروز کے سامنے اس کی ممتا کو جھٹلا دیا تو پھر میں کیسے سنبھالوں گا افروز کو؟“ اس نے بہت دور اندیشی طور پر کچھ سوال اٹھائے جن میں اتنا وزن تھا کہ عماد بھی لاجواب ہوگیا۔
”میں نے تو یہ سوچ کر سب کیا تھا کہ شاید اس سے اپنی بیوی کی غلطی کا تھوڑا بہت ازالہ کرسکوں! لیکن خیر! تمہاری بات بھی ٹھیک ہے۔“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ آپس میں رگڑے۔
”آپ نے ہمارے لئے اتنا سوچا! اتنی محنت کی یہ آپ کی محبت ہے اور آپ کے خلوص پر مجھے کوئی شک نہیں، مگر جو ہوگیا سو ہوگیا، اب خواہ مخواہ ماضی کو حال میں گھسیٹ کر مستقبل نہ خراب کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔“ حامد نے محبت سے اپنے بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ جس کے جواب میں عماد بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔
”السلام علیکم عماد بھائی!“ تب ہی افروز بھی کہتی ہوئی احمد کے ہمراہ ان کی جانب آگئی۔
”وعلیکم السلام! کہیں جا رہے ہو تم لوگ؟“ اس نے خوشدلی سے جواب دیتے ہوئے سوال کیا۔
”جی، ایک نیک کام سے جا رہے ہیں، اگر کامیاب ہوکر لوٹے تو جلد خوشخبری سنائیں گے آپ کو۔“ حامد نے وہ کاغذات اپنے کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔ کیونکہ وہ احمد اور افروز کو اس متعلق کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا۔
”اللّه پاک کامیاب کرے تم لوگوں کو، ہمیشہ خوش رہو۔“ اس نے دل سے دعا دی۔
****************************************
”طبیعت زیادہ خراب لگ رہی ہے تو چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں، تمہارے ابو آگئے ہیں آفس سے۔“ نعیمہ نے کمرے میں آتے ہوئے اذلفہ سے کہا جو بیڈ پر نڈھال سی لیٹی تھی۔
”ارے نہیں امی، اتنا زیادہ درد نہیں ہے، اور ویسے بھی موحد بس آنے والے ہوں گے کسی بھی وقت آفس سے، ان کے ساتھ چلی جاؤں گی آپ فکر نہ کریں۔“ اس نے انہیں تسلی دے کر ٹال مٹول سے کام لیا۔
”ٹینگ ٹونگ!“ تب ہی ڈور بیل بجی۔
”آگیا شاید موحد! اذکی جا کر دروازہ کھولو۔“ انہوں نے اندازہ لگاتے ہوئے صوفے پر بیٹھی کتاب پڑھتی اذکی کو حکم دیا تو وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
باہر آکر جب اپنی دھن میں اذکی نے دروازہ کھولا تو دوسری جانب موجود لوگوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
”ممی! یہ اذکی ہے، اذکی! یہ میرے ممی پاپا ہیں۔“ اسے سکتے میں دیکھ کر احمد نے خود تعارف کرایا۔
”السلام علیکم! آپ لوگ اچانک!“ وہ جیسے ہوش میں آئی۔
”وعلیکم السلام! جی اچانک آنے کیلئے معذرت بیٹا، اب کیا ہم اندر آسکتے ہیں؟“ حامد نے خوش اخلاقی سے اجازت چاہی۔
”جی جی ضرور!“ وہ کہتی ہوئی ایک کنارے پر ہوئی جس کے بعد یہ لوگ اندر آگئے۔
”میں تو کہتی ہوں آج گھر نہ جاؤ بلکہ تم چیک اپ کروا کر واپس یہیں آجاؤ اذلفہ! مجھے تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی، خدانخواستہ آدھی رات کو طبیعت خراب ہوگئی تو اکیلے کیسے مینیج کرو گے تم لوگ؟“ نعیمہ ہنوز فکر مند تھیں۔
”ارے امی میں ٹھیک ہوں، آپ پریشان نہ ہوں۔“ اذلفہ نے اٹھ کر پیر بیڈ سے نیچے لٹکاتے ہوئے جواب دیا کیونکہ اسے لگا تھا کہ موحد آگیا ہے۔
”امی! وہ لوگ آئے ہیں۔“ تب ہی اذکی عجلت میں کمرے میں آئی۔
”کون لوگ؟“
”وہ ہی احمد اور اس کے ممی پاپا۔“ اس کی بات پر یہ دونوں بھی حیران رہ گئیں۔
****************************************
”دراصل آنا تو ہمیں ایک ہفتے پہلے ہی تھا مگر اچانک کچھ ایسی ٹریجڈی ہوئی کہ سب درہم برہم ہوگیا، لیکن پھر جیسے ہی صورت حال کنٹرول میں آئی تو ہم یہاں چلے آئے اور بنا بتائے آنے کیلئے ایک بار پھر بہت معذرت! اصل میں ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ لوگ کسی تکلف میں پڑیں اسی لئے اطلاع نہیں کی، امید ہے کہ آپ لوگوں نے اس بات کا برا نہیں مانا ہوگا۔“ حامد کافی مہذب انداز میں بات کر رہا تھا۔
”ارے نہیں نہیں معذرت کی کوئی بات نہیں، ہر انسان کے اپنے سو مسلے ہوتے ہیں، ہم سمجھ سکتے ہیں۔“ رضوان نے بھی سہولت سے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔
سب لوگ اس وقت ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے جہاں سب کا ایک دوسرے سے تعارف بھی ہوچکا تھا اور آمد کا مقصد تو سب پہلے سے ہی جانتے تھے۔
”آپ لوگ شاید سوچ رہے ہوں کہ احمد ہمارے ساتھ کیوں آگیا؟ کیونکہ ایسے موقعوں پر عموماً لڑکا لڑکی سامنے نہیں آتے لیکن میری سوچ تھوڑی الگ ہے کہ بھئی جن کی زندگی کا فیصلہ ہو رہا ہے انہیں ہی آگے رکھنا چاہئے نا!“ حامد نے ایک خیال کے تحت ہلکے پھلکے انداز میں خود ہی وضاحت کی۔
”ارے نہیں ہم ایسا بالکل نہیں سوچ رہے اور آپ نے بالکل ٹھیک کیا، بلکہ جب ہماری بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہو رہا تھا تب بھی ہم نے انہیں اتنا اسپیس دیا تھا۔“ رضوان نے تائیدی انداز میں بتایا تو ان لوگوں کو اطمینان ہوا کہ چلو دونوں گھرانوں کی سوچ تو ایک جیسی ہے۔
”ٹینگ ٹونگ!“ تب ہی ڈور بیل بجی۔
”موحد بھی آگیا شاید! اذکی بیٹا جا کر دروازہ کھولو۔“ نعیمہ نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا تو وہ سرہلا کر باہر کی جانب چلی گئی۔
”میرے چہرے پر کچھ لگا ہوا ہے کیا افروز؟“ حامد نے سب سے نظر بچا کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔
”نہیں تو، کیوں؟“ اس نے بھی ایسے ہی جواب دیا۔
”تو یہ سب لوگ مجھے اتنے تعجب سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟“ اس نے اپنی الجھن بیان کی۔
اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتی اذکی واپس ڈرائینگ روم میں آئی جس کے پیچھے موحد بھی تھا۔
”السلام علیکم!“ وہ سب کو سلام کرتا آگے آیا جسے دیکھ کر حامد، افروز اور احمد ششدر رہ گئے۔
جب کہ وہ خود بھی انہیں دیکھ کر حیران تھا۔ حامد حیرت زدہ سا اپنی جگہ پر سے اٹھا تو اس کی تقلید میں باقی سب بھی بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے۔
حامد اور موحد کے چہروں میں صرف نظر کے چشمے اور شیو کا فرق تھا۔ موحد کے چہرے پر ہلکی ہلکی شیو تھی، نظر کا چشمہ نہیں تھا۔ جب کہ حامد کے کلین شیو چہرے پر نظر کا چشمہ لگا ہوا تھا۔ اگر ان دونوں فرقوں کو مٹا دیا جاتا تو لگتا کہ دونوں آمنے سامنے نہیں بلکہ آئینے کے سامنے کھڑے ہیں۔ حامد کو اب سمجھ آیا کہ کیوں وہ لوگ اسے اتنی تعجب خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے؟
”یہ میرا داماد ہے موحد! اور موحد بیٹا یہ وہ ہی لوگ ہیں جو رشتے کے سلسلے میں پچھلے ہفتے آنے والے تھے۔“ رضوان نے دونوں کا تعارف کرایا مگر سب لوگ ابھی تک حیرت زدہ تھے کہ بھلا دو اجنبی لوگوں کی صورت ہوبہو کیسے اتنی مل سکتی ہے؟
”تمہارے پیرنٹس کہاں ہیں بیٹا؟ انہیں بھی بلا لو۔“ حامد نے اچانک ہی موحد سے ایک غیرمتوقع بات کہی۔
”یہ کہانی بہت لمبی ہے، پھر کبھی سہی، ابھی آپ لوگ بیٹھے نا پلیز!“ اس نے مسکراتے ہوئے ٹالنا چاہا۔
”تمہارے فادر کا نام ایڈم اور مدر کا نام سوفی تھا کیا؟“ حامد نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے سوال اٹھایا تو موحد سمیت سب نے اسے تعجب سے دیکھا۔ حتیٰ کہ افروز اور احمد نے بھی۔
”آپ کو کیسے پتا؟“ اب موحد بھی کھٹکا۔
بجائے کوئی جواب دینے کے حامد نے اپنے کوٹ کی جیب سے وہ ہی فولڈ ہوئے کاغذات نکال کر اس کی جانب بڑھائے جسے وہ ناسمجھی سے تھام کر دیکھنے لگا۔ یہ ہی کیفیت باقی سب کی بھی تھی۔
ان کاغذات پر صاف لکھا تھا کہ ایڈم اور سوفی ایک بچہ گود لے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہاں ایڈم اور سوفی کی پاسپورٹ سائز فوٹو بھی لگی تھی جو موحد پل بھر میں پہچان گیا۔
ماضی اور حال میں جھولتا قصہ بلآخر کنارے لگ گیا تھا جس کے سب ہی کردار اب آمنے سامنے کھڑے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
موحد پر آج یہ انکشاف ہوا تھا کہ جنہیں وہ آج تک اپنے ماں باپ سمجھتا آیا تھا در حقیقت وہ اس کے والدین نہیں تھے بلکہ وہ ان کی لے پالک اولاد تھا! اب اس کی سمجھ میں آیا کہ سوفی کے جانے کے بعد اس سے امتیازی سلوک کیوں کیا گیا؟ کیوں اس کی چچی نے اس پر اتنا گھٹیا الزام لگا کر اسے گھر اور دکان سے بےدخل کیا؟ کیونکہ وہ ان کا سگا تھا ہی نہیں؟
”حامد یہ کس چیز کے پیپرز ہیں؟“ افروز نے سب کی ترجمانی کی۔
”میں نے آپ کو بتایا تھا نا رضوان صاحب کے حال ہی میں ہمارے ساتھ ایک ٹریجڈی ہوئی تھی! وہ یہ ہی تھی، اٹھائیس سال پہلے جب ہمارا پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا تو میری بھابھی نے ایک سازش کے تحت اسے مردہ بچے سے بدل دیا تھا اور ہمارے حقیقی بچے کو ایک یتیم خانے منتقل کروا دیا تھا، در حقیقت ہمارا بیٹا زندہ ہے یہ بات ہمیں اب پتا چلی اور آج ہی میرے بڑے بھائی مجھے یہ آڈاپشن ریکارڈر دے کر گئے جس میں ان لوگوں کی تفصیلات لکھی ہیں جنہوں نے اٹھائیس سال پہلے ہمارا بچہ گود لیا تھا۔“ حامد نے مختصر لفظوں میں ساری روداد سنائی جس کا آخری حصہ سن کر افروز بھی دنگ رہ گئی۔
”ابھی ایڈم اور سوفی کہاں ہیں بیٹا؟ ہمیں ان سے ملنا ہے۔“ حامد دوبارہ موحد کی جانب متوجہ ہوا۔
”اب وہ دونوں اس دنیا سے جا چکے ہیں۔“ اس نے اسی منجمند انداز میں جواب دیا۔
سوفی تو کئی سال پہلے ہی چل بسی تھی مگر کچھ عرصہ قبل وہاں جا کر معلومات لینے پر موحد کو پتا چلا تھا کہ ایڈم کی بھی ڈیتھ ہوچکی ہے۔
”موحد!“ تب ہی وہاں کی حیرت زدہ خاموش فضا میں اذلفہ کی دہائی ابھری جس کی برداشت اب جواب دے گئی تھی اور وہ پیٹ پکڑے درد سے كراه رہی تھی۔
فی الحال ساری باتیں چھوڑ کر سب لوگ جلدی سے اس کی جانب لپکے۔
****************************************
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Tera Mera Rishta Purana Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tera Mera Rishta Purana written by Faryal Khan .Tera Mera Rishta Purana by Faryal Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment