Mere Mehboob Mere Sanam By Faryal Khan Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Tuesday, 29 April 2025

demo-image

Mere Mehboob Mere Sanam By Faryal Khan Complete Romantic Novel

Mere Mehboob Mere Sanam By Faryal Khan Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

488263700_1219397976853389_4284254563032991727_n
 Mere Mehboob Mere Sanam By Faryal Khan Complete Romantic Novel 


Novel Name: Mere Mehboob Mere Sanam 

Writer Name: Faryal Khan 

Category: Complete Novel

”احتشام کہاں ہے؟“ ولید نے ہاٹ پاٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے زین سے پوچھا۔ 

”باتھ روم میں ہے۔“ زین نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا جسے شدید بھوک لگ رہی تھی۔

”ابھی تک باتھ روم میں ہے؟ میں اتنی لمبی لائن میں لگ کر روٹیاں لے آیا اور یہ ابھی تک باتھ روم سے ہی نہیں آیا؟“ ولید حیرت کے مارے وہیں رک گیا۔

”ارے تو جانتا تو ہے اس کی عادت کہ موبائل لے کر باتھ روم میں گھستا ہے اور گھنٹوں بعد باہر نکلتا ہے، وہ آجائے گا، چل ہم کھانا شروع کرتے ہیں۔“ پیچھے سے سالن کی کڑاہی لے کر آئے حسن نے جواب دیا اور خود بھی زین کے برابر میں بیٹھ گیا۔

”پھر بھی یار اتنی دیر تو کبھی نہیں ہوئی۔“ ولید کو اطمینان نہیں ہوا جو خود ہی لاؤنج سے بیڈ روم کی جانب بڑھا۔ 

ادھر زین کا بھوک سے اتنا برا حال تھا کہ روٹی توڑ کر کڑاہی میں سے ہی کھانا شروع ہوگیا۔

”رک جا ندیدے پلیٹ میں نکالنے دے۔“ حسن نے اس کے ہاتھ پر چمچ مار کر ٹوکا۔

ادھر ولید احتشام کے کمرے میں داخل ہوا جو خالی تھا اور باتھ روم کا دروازہ بند تھا۔ اس کمرے کے باتھ روم میں باتھ ٹب بھی تھا اسی لیے احتشام نے خاص طور پر یہ کمرہ منتخب کیا تھا اور سب کو ماننا پڑا کیونکہ باقی تینوں کے مقابلے معاشی طور پر مستحکم خاندان سے ہونے کے باعث ماہانہ کرائے میں سب سے زیادہ حصہ وہ ہی ملاتا تھا۔

”شامی۔۔۔۔“ ولید نے باتھ روم کا دروازہ بجایا۔

”احتشام باہر آ یار کب سے اندر ہے، ہم نے کھانا لگا لیا ہے۔“ اس نے دوبارہ پکارا لیکن نتیجہ صفر! 

اب اسے تشویش ہوئی جس کی چھٹی حس پہلے ہی کافی دیر سے کھٹک رہی تھی۔ 

اس نے ہینڈل گھمایا تو لاک نہ ہونے کی وجہ سے دروازہ کھل گیا۔ اور سامنے کا منظر دیکھ دل دھک سے رہ گیا۔

پانی سے بھرے ٹب میں احتشام ڈوبا ہوا تھا اور سارا پانی خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ اسی خون سے جو اس کی کٹی ہوئی کلائی سے نکل رہا تھا۔ 

”احتشام۔۔۔“ وہ حلق کے بل چلاتے ہوئے پاس آیا۔ 

اس کی آواز سن کر حسن اور زین بھی گھبرا کر وہاں آئے اور یہ منظر دیکھ دنگ رہ گئے۔ 

اگلے کچھ لمحوں بعد سائرن بجاتی ایمولینس بلڈنگ میں داخل ہوئی جس میں یہ لوگ فوری اسے ہسپتال لے کر بھاگے۔ جب کہ فلیٹ کے لوگوں میں بھی تشویش پھیل گئی اور سب ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے۔

”کیا ہوا ہے راشد بھائی؟“ ایک صاحب نے یونین انچارج سے پوچھا۔

”وہ پانچویں منزل پر جو چار دوست رہتے تھے ناں، ان میں سے ایک نے اپنی نس کاٹ کر خود کشی کر لی ہے۔“ انہوں نے مدعہ بتایا۔

”ارے! وہ چاروں تو بڑے زندہ دل بچے تھے، پھر ایسا کیوں؟“ حیرت کے ساتھ پھر وہ ہی سوال تھا جس کا جواب فی الحال کسی کو نہیں معلوم تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہسپتال پہنچتے ہی احتشام کو ایمرجنسی میں لے جایا جا چکا تھا اور باقی تینوں متفکر سے کوریڈور میں موجود تھے۔ 

احتشام کو ٹب سے نکالنے کے دوران تینوں کے کپڑوں پر اس خون آلودہ پانی کے چھینٹے آئے تھے لیکن سب سے زیادہ ولید کے کپڑے متاثر ہوئے کیونکہ وہ پاگل اس کا ہاتھ خود میں بھینچ کر خون روکنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ ہاں وہ اپنے دوست کو ایسے دیکھ خوف سے پاگل ہی ہوگیا تھا۔

احتشام کو فوری خون کی ضرورت تھی۔ تینوں نے اپنا خون دے دیا تھا اور اب ڈاکٹر کی جانب سے کسی تسلی بخش خبر کے منتظر تھے۔

”اس کے گھر پر اطلاع کر دیں کیا؟“ زین نے حسن سے پوچھا۔ 

کوئی جواب دینے کے بجائے حسن نے اپنے بائیں طرف بیٹھے ولید کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ گویا پوچھ رہا ہو کہ بتاؤ ولید اطلاع کر دیں کیا؟ 

”نہیں، ابھی نہیں، پہلے اسے ہوش آجانے دو۔“ ولید نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔

”لیکن یار اگر اسے کچھ ہو۔۔۔۔“ 

”کچھ نہیں ہوگا اسے۔۔۔“ زین کا خدشہ ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ولید نے سختی سے ٹوکا۔ 

حسن نے زین کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ کیونکہ دونوں جانتے تھے کہ ولید کو احتشام کتنا عزیز ہے۔ 

”وہ بچپن سے میرے ساتھ ہے، اور اس نے کہا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا، وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جائے گا۔“ مزید کہتے ہوئے لہجے کی سختی زائل ہوئی اور آواز کانپ گئی۔ دونوں کو اس کی حالت کا احساس تھا۔

حسن تو پہلے ہی دائیں طرف بیٹھا تھا۔ زین بھی اٹھ کر اس کے بائیں طرف آگیا۔ دونوں اسے حوصلہ دینے لگے۔

”تو ٹھیک کہہ رہا ہے، احتشام کو کچھ نہیں ہوگا۔“ حسن نے تصدیق کی۔ 

”ہاں ابھی دیکھنا تھوڑی دیر تک اِس شامی کباب کو ہوش آجائے گا، اور یہ پھر سے کلاس بنک کرنے کا کوئی پلان سوچے بیٹھا ہوگا۔“ زین نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں احتشام کی چڑ یاد دلاتے ہوئے تائید کی۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”اچھا چل آج موقع ہے، آج تو تفصیل سے بتا کہ تم دونوں کی دوستی ہوئی کیسے تھی؟“ حسن نے اس کا دھیان بھٹکانا چاہا۔

”ہاں، ہم یہ تو جانتے ہیں کہ تم دونوں بچپن کے دوست ہو، لیکن اس دوستی کی شروعات کب اور کہاں ہوئی تھی؟“ زین نے بھی دلچسپی لیتے ہوئے اسے بولنے پر اکسایا۔

ان کا پینترا کام کر گیا۔ اور ایک گہری سانس کھینچ کر ولید گویا ہوا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نئے بوائز اسکول کے سیکنڈری سیشن میں میرا پہلا دن تھا۔ میں بہت نروس تھا۔ اتنے سال پرانے پرائمری اسکول میں پڑھنے کے باوجود میرا وہاں بھی کوئی دوست نہیں تھا۔ میں ہمیشہ سب سے الگ تھلگ ہی رہتا تھا۔ لیکن وہاں کے چہرے میرے لیے شناسا تھے۔ 

لیکن یہاں نیا اسکول، نئی کلاس، نیا سیکشن اور سارے نئے چہرے، جن کے بیچ مجھے اپنا آپ بہت اجنبی سا لگا۔

ٹیچر نے ”نیو ایڈمیشن“ کے طور پر پوری کلاس سے میرا تعارف کرایا۔ اور جا کر بیٹھنے کو کہا۔ 

میں نروس سا دھیرے دھیرے آگے بڑھتا اپنے لیے بیٹھنے کی کوئی جگہ تلاش کر رہا تھا۔ لیکن مجھے ہر ڈیکس پر پہلے سے دو، دو لوگ بیٹھے ملے۔ 

بلآخر میں سب سے پیچھے ایک خالی ڈیکس پر بیٹھ گیا۔ میں پچھلے اسکول میں بھی ہمیشہ پیچھے ہی بیٹھتا تھا تا کہ لوگوں کی نظروں میں کم سے کم آؤں۔ 

ٹیچر نے پڑھانا شروع کیا تو میں نے دیکھا آس پاس سب پین نکال رہے ہیں۔ مگر میرے پاس تو پینسل تھی۔ 

”پتا ہے سکس کلاس میں آنے کے لیے میں اسی لیے اکسائیٹیڈ تھا کہ اب ہم بھی پین سے لکھ سکیں گے۔“ میری آگے والی ڈیکس پر بیٹھے لڑکے نے پر جوش انداز میں اپنے دوست سے کہا۔

اس کی بات سن کر مجھے بھی خیال آیا کہ میں نے اپنے پرانے کلاس فیلوز کو کئی بار باتیں کرتے ہوئے سنا تھا کہ بڑی کلاس میں تو سب پین سے لکھتے ہیں۔ لیکن میں تو پین لایا ہی نہیں۔ میں اپنے ہاتھ میں پکڑی پینسل دیکھ کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟

”یہ لو۔۔۔“ تب ہی میرے برابر والی قطار سے کسی کی آواز آئی۔

میں نے چونک کر دیکھا۔ وہ میرا ہی ہم عمر لڑکا تھا جس نے ایک پین میری طرف بڑھایا ہوا تھا اور چہرے پر بہت ہی جاندار مسکراہٹ تھی۔ غالباً وہ دیکھ چکا تھا کہ میرے پاس پینسل ہے۔

”پھر تم کیسے لکھو گے؟“ میں نے پین تھامے بنا سوال اٹھایا۔

”میں پین سے لکھنے کے لیے اتنا اکسائیٹیڈ تھا کہ بہت سارے پین لے کر آیا ہوں، تم یہ لے لو۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اصرار کیا تو میں نے پین لے لیا۔

میں باقی سب کے ساتھ کام کرنے لگا۔ لیکن وہ لڑکا، جس نے پین دیا تھا، وہ کافی شرارتی طبیعت کا معلوم ہوا، جو کبھی ٹیچر سے فضول سوال کرتا، تو کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ مستی کرنے پر ٹیچر سے ڈانٹ کھاتا، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ 

میں ”بیک بینچر“ تھا تا کہ لوگوں کی نظروں میں کم سے کم آؤں۔ 

اور وہ ”بیک بینچر“ تھا تا کہ زیادہ سے زیادہ شرارت کر سکے۔

اگلے دن میں اپنا پین لے کر آیا تھا۔ میں نے کلاس میں جاتے ہی اسے ڈھونڈا تا کہ پین واپس کر دوں۔ لیکن وہ بیگ رکھ کر کہیں چلا گیا تھا۔ 

میں اسے ڈھونڈتے ہوئے باہر آیا۔ وہ کوریڈور سے گزرتا نظر آگیا۔ میں اس کے پاس گیا۔

”احتشام۔۔۔“ میری پکار پر وہ رک کر پلٹا۔

”یہ تمہارا پین، آج میں اپنا پین لے آیا ہوں۔“ میں نے اس کی امانت بڑھائی۔

”تمھیں میرا نام کیسے پتا چلا؟“ وہ تھوڑا متعجب ہوا۔

”کل جب ٹیچر نے تمھیں ڈانٹ کر کہا تھا کہ۔۔۔۔احتشام پلیز کیپ کوائٹ۔۔۔تب پتا چلا۔“ میں نے سادگی سے بتایا۔ 

”اچھا۔۔۔“ اس کے چہرے پہ پھر وہ ہی جاندار سی مسکراہٹ آگئی۔

”ویسے تمھیں یہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، تم اسے رکھ سکتے ہو ولید۔۔۔“ وہ آرام سے گویا ہوا۔

”تمھیں میرا نام کیسے پتا چلا؟“ اب متعجب ہونے کی باری میری تھی۔

”کل جب ٹیچر نے تمہارا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ۔۔۔۔ہی از ولید رحمٰن یور نیو کلاس میٹ۔۔۔۔۔تب پتا چلا۔۔۔“ اس کے جواب پر میں ہنس دیا۔

”ویسے اچانک اسکول بدلنے کی کوئی خاص وجہ؟“ وہ میرے بارے میں مزید کریدنے لگا۔

”میرے امی ابو کا روڈ ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیا ہے، تو اب چاچو چچی مجھے اپنے گھر لے آئے ہیں، انہوں نے ہی یہاں میرا ایڈمیشن کرایا ہے۔“ میں نے سادگی سے بتایا تو یہ سن کر اس کے چہرے پر یکدم افسوس کا تاثر آیا۔

”اوہ۔۔۔تو تمہارا کوئی بھائی بہن نہیں ہے یہاں؟ یا چاچو کے بچے؟“ اس نے آہستگی سے پوچھا۔

”میرے بھائی بہن نہیں ہیں، اور چاچو کا بیٹا بہت چھوٹا ہے، پرائمری سیکشن میں پڑھتا ہے۔“ میں نے بھی ایسے ہی جواب دیا۔

”چلو آج سے تم ہمارے دوست ہو۔“ اس نے اگلے ہی پل پر جوشی سے ہاتھ بڑھایا۔

”تھینکس۔۔۔۔لیکن میں دوست نہیں بناتا۔“ میں نے ہاتھ نہ تھاما۔

”لیکن میں تو بناتا ہوں، اور میرا پین لے کر اب تم بھی میرے دوست بن چکے ہو۔“ اس کے جوش میں کمی نہ آئی۔

”ہاں تو میں پین واپس کرنے ہی تو آیا ہوں۔“ میں نے دوبارہ پین بڑھایا۔

”نہ۔۔۔اب یہ واپس نہیں ہوگا۔۔۔۔اب تو تم میرے دوست بن گئے۔“ اس نے پین کے بجائے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

”یہاں کیا کر رہے ہو احتشام؟“ تب ہی اس کے باقی دوست بھی وہاں آگئے۔

”اچھا ہوا تم لوگ بھی آگئے، یہ ہے ولید، آج سے یہ بھی ہمارا دوست ہے۔“ احتشام نے اعلان کیا۔ 

اس کے دوستوں نے پہلے سرتاپا مجھے دیکھا، پھر ایک دوسرے سے نظروں کا تبادلہ کیا۔ جیسے انہیں یہ نیا اضافہ کچھ خاص پسند نہ آیا ہو۔ 

میں بھی ان لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن احتشام کی ضد کے آگے میں بھی ان لوگوں کی طرح کچھ نہ کہہ پایا۔

دن گزرنے لگے۔ میں حسب عادت الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتا تھا لیکن احتشام مجھے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ لیتا تھا۔

ایک بار وہ پڑھائی کے لیے مجھے اپنے گھر لے گیا۔ ہمارے گھر ایک ہی علاقے میں تھے لیکن احتشام کا گھر خاصے ماڈرن طرز پر بنا ہوا تھا جو ان کی مستحکم معاشی حالت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

وہاں اس نے اپنی امی سے ملايا، وہ بھی بہت پیار سے ملیں، اور اس کے دونوں بڑے بھائی بھی اچھے تھے۔ بعد میں اس کے ابو سے بھی ملاقات ہوئی اور وہ بھی اچھے سے ملے۔

وہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر والوں کا لاڈلا تھا۔ تب ہی وہ اپنے کسی نا کسی دوست کو گھر لے آتا تھا اور کوئی برا نہیں مانتا تھا۔

لیکن اس کے اسکول کے دوستوں کو میری آمد مسلسل ناگوار گزر رہی تھی۔ ان کے چہرے پر بے زاری صاف نظر آتی تھی۔ یہ بات میری سیلف رسپیکٹ ہرٹ کر رہی تھی کہ میں ان لوگوں پر زبردستی مسلط ہوں۔ تب ہی ایک دن میں نے ہمت کر کے احتشام سے کہہ دیا۔ 

”تم مجھے اپنے ساتھ مت رکھا کرو احتشام، یہ تمہارے دوستوں کو اچھا نہیں لگتا۔“ 

”لیکن مجھے تو اچھا لگتا ہے۔“ جھٹ جواب ملا۔

”ہاں لیکن میری وجہ سے ان سے تمہاری دوستی خراب ہو سکتی ہے۔“ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔

”امی کہتی ہیں کہ ایک دوست اپنے دوست کے دوست سے کبھی جیلس نہیں ہوتا، اور جو ہوتا ہے وہ ہمارا دوست نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔اگر وہ لوگ میرے سچے دوست ہوں گے تو تمھیں بھی ایکسیپٹ کر لیں گے، تم ان کی فکر مت کرو۔“ وہ بہت آرام سے کہہ گیا، اور میں اسے دیکھتا رہ گیا۔

”اور تم میرے واحد دوست ہو جس کی امی نے بھی تعریف کی ہے، ورنہ انہیں میرے دوست خاص پسند نہیں آتے، اسی لیے اب اگر میں نے تمھیں چھوڑا تو امی مجھے نہیں چھوڑیں گی۔“ اس نے ہنستے ہوئے بات ہوا میں اڑا دی۔

اور واقعی وہ سچ کہہ رہا تھا۔ اس کی امی کا رویہ میری چچی سے زیادہ شفیق تھا کہ مجھے اپنی ماں کی یاد آجاتی تھیں۔ اور وہ کسی پر زیادہ دھیان نہیں دیتا تھا بس اپنی دھن میں رہتا تھا۔ جب میری وجہ سے اس کے دوست کٹنے لگے اس نے انہیں نہیں روکا، لیکن نہ جانے کیوں مجھے کبھی جانے نہیں دیا؟ 

یوں ہی وقت گزرتا گیا۔ 

ہم دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ بلکہ اب تو میں بھی اس کے ساتھ شرارتیں کرنے لگا تھا۔ اگر میں کہوں کہ مجھے ہنس کر جینا سکھانے والا، خود اعتمادی دینے والا احتشام تھا، تو یہ غلط نہ ہوگا۔ 

اب ہم بوائز کالج میں آچکے تھے۔ اپنی چلبلی فطرت کے چلتے احتشام نے بہت جلد یہاں بھی ڈھیر سارے نئے دوست بنائے لیکن وہ زیادہ عرصہ ہمارے ساتھ جڑے نہ رہ سکے۔ مجھے احتشام کی دوستیوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ وہ خود ہی دوست بناتا تھا، اور خود ہی چھوڑ دیتا تھا۔ میرے لئے بس اس کا ساتھ کافی تھا۔ 

کالج کے بعد وقت آیا یونیورسٹی جانے کا۔ میں ہمیشہ سے کراچی کی ایک نامور یونیورسیٹی میں پڑھنا چاہتا تھا لیکن وہ مہنگی تھی۔ چاچو نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اتنا خرچہ نہیں اٹھائیں گے۔ اسی لیے میں نے وہاں اسکالرشپ اپلائی کی۔ 

احتشام نے بھی اس دوران کہیں اور ایڈمیشن نہ لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر میری اسکالرشپ منظور ہوگئی تو وہ بھی میرے ساتھ وہیں ایڈمیشن لے گا۔ 

خوش قسمتی سے مجھے اسکالرشپ مل گئی اور پھر اس طرح ہم دونوں چار سالہ ڈگری کے لیے کراچی آگئے۔ جہاں پہلے سال میں ہی ہمیں تم دونوں بھی مل گئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

احتشام اور ولید داخلے کی ضروری کارروائی مکمل کرنے کے لیے یونیورسٹی آئے ہوئے تھے۔ اور اب کام نمٹا کر واپسی جا رہے تھے۔

”یونیورسٹی اچھی لگ رہی ہے ناں؟“ ولید نے ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے تجزیہ کیا جو احتشام کے ساتھ چل رہا تھا۔

”مجھے یہاں کی سب سے اچھی بات یہاں کی لائبریری لگی۔“ ولید نے مزید کہا۔

”اور مجھے یہاں کی سب سے اچھی بات لگی کہ یہاں لڑکیاں بھی ہیں، ورنہ پہلے بوائز اسکول اور پھر بوائز کالج میں لڑکے ہی لڑکے دیکھ کر اپنی شکل سے بھی دل اوب ہوگیا تھا۔“ احتشام نے بھی اپنی رائے دی۔ ولید اسے گھورنے لگا۔

”ہم یہاں پڑھ کر ڈگری لینے آئے ہیں۔“ ولید نے یاد دلایا۔

”ڈگری تو سب ہی لے کر نکلتے ہیں، میں ڈگری اور دلہن دونوں لے کر جاؤں گا۔“ اس نے باز نہ آتے ہوئے دائیں آنکھ دبائی۔ ولید بے بسی سے سر ہلا کر رہ گیا۔

دونوں باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک کوئی لڑکا آندھی طوفان کی مانند بھاگتا ہوا برابر سے گزرا جس کا بیگ ولید کے کندھے سے ٹکراتا ہوا گیا۔

”ابے اوہ۔۔۔اندھا ہے کیا؟“ احتشام بلند آواز چلایا۔

”ہاں ہوں، تو آنکھیں کھول کر چل لے۔“ اس نے بھی پلٹ کر ڈھیٹائی سے جواب دیا اور چلتا بنا۔

”اس کی تو۔۔۔۔“

”شامی چھوڑ یار۔۔۔“ ولید نے فوری اسے روک لیا جو لڑنے کے لیے اس کے پیچھے جا رہا تھا۔

یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد دونوں اپنی رہائش گاہ کی تلاش میں نکل گئے جو ایک بوائز ہاسٹل تھا۔

بنیادی طور پر یہ ایک تین منزلہ گھر تھا جسے ہاسٹل کی شکل دے دی گئی تھی۔ احتشام کے بڑے بھائی کے کسی جاننے والے کے توسط سے دونوں یہاں آئے تھے۔

”یہ دیکھیں۔۔۔۔یہ ہے آپ لوگوں کا کمرہ۔۔۔“ آدمی نے دروازہ کھول کر اندر جانے کا اشارہ کیا۔ 

احتشام اور ولید اندر آ کر کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ یہ ایک درمیانہ کمرہ تھا جس میں چار سنگل بیڈ موجود تھے۔ دو بیڈ دائیں طرف تھے اور دو بیڈ بائیں طرف۔۔۔۔

”یہاں ایک لڑکا اور رہ رہا ہے، دو دن پہلے ہی شفٹ ہوا ہے، یہ اس کا بیڈ ہے۔“ آدمی نے ایک بیڈ کی جانب اشارہ کیا جس کے ساتھ کچھ سفری بیگ وغیرہ بھی رکھے ہوئے تھے۔

”مطلب یہاں تین بیڈ بکڈ ہیں، بس وہ ایک بیڈ خالی ہے؟“ ولید نے نتیجہ نکال کر تائید چاہی۔

”نہیں، وہ بیڈ بھی بک ہوگیا ہے، وہ لڑکا بھی شاید آج آجائے گا۔“ آدمی نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بتایا۔

پھر آدمی وہاں سے چلا گیا۔ احتشام سستانے کے لیے بیڈ پر گر گیا اور ولید اپنے بیگ سے سامان نکالنے لگا۔ تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا۔ ان کی نظر آنے والے پر گئی اور آنے والا بھی انہیں دیکھ پل بھر کو چونک گیا۔ 

”اوہ ہو۔۔۔۔تو یہ اندھا ہمارا روم میٹ ہے؟“ احتشام دلچسپی سے کہتا اٹھ بیٹھا۔

وہ لڑکا خود کو کمپوز کرتا اندر آیا۔ یہ وہ ہی تھا جو یونیورسٹی میں ان سے ٹکرایا تھا۔ 

”ولی۔۔۔ذرا اس اندھے کو ہاتھ پکڑ کر اس کے بیڈ تک تو پہنچا دے۔“ احتشام اسے زچ کرنے سے باز نہ آیا۔ 

وہ لڑکا چپ چاپ آ کر اپنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے بیگ سے کتاب نکال کر بیگ کنارے رکھا اور پیچھے ٹیک لگا کر پڑھنے لگا۔

”ارے واہ۔۔۔کیا جدید دور آگیا ہے شامی، اب اندھے لوگ بھی کتاب پڑھنے لگے ہیں۔“ ولید کو بھی مستی سوجھی۔ 

اس وقت تو کسی بڑے جھگڑے کے پیش نظر اس نے احتشام کو روک لیا تھا لیکن اب اس نے بھی موقع نہ گنوایا۔ اور احتشام کے ساتھ اسے تنگ کرنے لگا۔ لیکن وہ لڑکا بھی ڈھیٹائی سے ایسے نظر انداز کرتا رہا جیسے بہرہ ہو۔ 

تب ہی دوبارہ کمرے کا دروازہ کھلا۔ تینوں کی گردن بیک وقت اس طرف گھوم کر آنے والے کو نروس کر گئی۔

”السلام علیکم۔۔۔“ لڑکا مسکراتے ہوئے سلام کرتا اندر آیا۔

”وعلیکم السلام۔۔“ تینوں نے جواب دے دیا۔

”میں آپ لوگوں کا نیا روم میٹ ہوں۔۔۔۔زین۔۔۔۔۔زین شمسی۔۔۔“ اس نے خود ہی اپنا تعارف کرایا۔ 

”میں ولید رحمٰن اور یہ میرا دوست احتشام علی۔۔۔۔“ اس نے بھی تعارف دیا۔

”اور یہ صاحب اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔“ احتشام نے اس لڑکے کی جانب اشارہ کیا۔

”سچ میں؟“ زین نے حیرت سے اسے دیکھا۔

”گونگا ہونا فضول گوئی سے تو بہتر ہی ہے۔“ بلآخر اس نے طنزیہ انداز میں لب کشائی کی۔

”ارے۔۔۔۔گونگا بولا۔۔۔۔۔“ احتشام نے مصنوعی خوشگوار حیرت سے ولید کو دیکھا۔ مطلب اس نے ٹانگ کھینچنے کا یہ موقع بھی نہ چھوڑا۔

”لگتا ہے آپ تینوں ہی دوست ہیں؟“ زین نے ان کی نوک جھونک دیکھ مسکراتے ہوئے اندازہ لگایا۔

”فی الحال تو صرف ہم دونوں دوست ہیں۔“ احتشام نے اپنے اور ولید کی جانب اشارہ کیا۔ زین سمجھ گیا کہ وہ لڑکا ان کا دوست نہیں ہے۔

”اوہ۔۔۔۔تو کیا میں بھی آپ لوگوں کا دوست بن سکتا ہوں؟“ اس نے بلاجھجھک پوچھ لیا۔

”کیوں نہیں؟“ احتشام نے فوری ہاتھ بڑھایا جسے زین نے گرم جوشی سے تھام لیا۔ پھر اس نے ولید سے بھی ہاتھ ملايا۔

جب کہ اس لڑکے کا سرد رویہ دیکھ اس کی طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ 

دھیرے دھیرے رات گزری اور اگلی صبح نمودار ہوگئی۔

وہ لڑکا جب بیدار ہوا تو یہ تینوں کمرے میں نہ ملے۔ وہ فریش ہو کر ناشتے کے لیے ڈائننگ ایریا میں آگیا جہاں دیگر کمروں کے رہائشی لڑکے بھی اکٹھا ہونے لگے تھے۔ 

اس نے جوں ہی ڈائننگ ٹیبل کے گرد رکھی کرسی کھینچنی چاہی، اسی پل کرسی پر دوسرا ہاتھ آگیا۔ وہ کوئی اجنبی لڑکا تھا۔

”یہاں میں بیٹھنے لگا تھا۔“ اجنبی نے جتایا۔

”لیکن اب میں بیٹھ رہا ہوں، تم کہیں اور بیٹھ جاؤ۔“ لڑکے نے گڑبڑائے بنا کہا۔

”میں کہیں اور کیوں بیٹھوں؟ تو جا۔۔۔“ اجنبی ہتھے سے اکھڑا۔

”زبان سنبھال کر۔۔۔“ اس کے انداز پر لڑکے نے تنبیہہ کی۔

”نہیں سنبھالتا زبان، کیا کر لے گا تو؟“ وہ مزید بدتمیزی پر اتر آیا۔

”تیرا منہ توڑ دوں گا۔“ یہ جواب لڑکے کے بجائے احتشام نے دیا تھا جو دائیں طرف برابر آ کھڑا ہوا تھا۔ لڑکا بھی حیران ہوا۔

”تو کون ہے اور کیوں بیچ میں پڑ رہا ہے؟“ اس نے ناگواری سے پوچھا۔

”ہم اس کے دوست ہیں۔“ اب کی بار جواب دینے والا بائیں طرف آیا ولید تھا۔

”اور ہمارے دوست سے پنگا مطلب ہم سے پنگا۔“ ولید کے برابر میں آ چکے زین نے ٹکڑا لگایا۔

اب وہ اکیلا نہیں تھا، یہ تینوں اس کے ساتھ کھڑے تھے جنہیں دیکھ نا صرف وہ حیران تھا بلکہ اس اجنبی کے بھی کس بل نکلے اور وہ غصے میں سر جھٹکتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا۔

اس کے جاتے ہی یہ تینوں بھی وہاں سے جانے لگے جو غالباً صرف اس کی مدد کیلئے آئے تھے۔ لڑکے نے پکارا۔ وہ لوگ رک گئے۔

”اس مدد کی وجہ؟“ 

”میں تو ولید کے دیکھا دیکھی آیا۔“ زین نے بتایا۔ لڑکے نے ولید کو دیکھا۔

”میں احتشام کو دیکھ کر آیا۔“ ولید نے بتایا۔ اب نظر احتشام پر گئی۔

”اور میں مدد کو اسی لیے آیا کیونکہ میں خود سے جڑے شخص کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔۔پھر چاہے وہ میرا دوست ہو یا روم میٹ۔۔۔۔“ احتشام نے اطمینان سے جواب دیا۔ وہ لڑکا اسے دیکھے گیا، گویا یقین کر رہا ہو کہ کیا اب بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں؟ 

”کیا میں بھی تمہارا دوست بن سکتا ہوں؟“ لڑکے نے بھی انا چھوڑ کر ہاتھ بڑھا لیا۔

”نہیں، میں اندھے لوگوں سے دوستی نہیں کرتا۔“ احتشام نے مصنوعی انکار کیا۔ وہ ہنس پڑا۔ اور پھر دونوں نے ہاتھ ملا لیا۔

”اب تو اپنا نام بتا دو۔“ ولید نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

”میرا نام حسن ایوب ہے، تم تینوں کی طرح میں بھی پڑھنے آیا ہوں، سیم ایئر، سیم یونیورسٹی، سیم سبجیکٹ۔۔۔“ اس نے اپنے بارے میں بتا دیا۔

”فائنلی سب کی دوستی ہوگئی، اب مزہ آئے گا۔“ زین نے ہاتھ ملاتے ہوئے پر جوشی سے کہا۔ اور واقعی اس کی بات سچ ثابت ہوئی۔

یوں ہی سرسری طور پر ہوئی یہ دوستی دن بہ دن گہری ہوتی چلی گئی۔ احتشام اور ولید تو بچپن کے دوست تھے لیکن حسن اور زین کو دیکھ کر بھی کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ یہ ساتھ ابھی بنا ہے۔

کبھی یہ لوگ ایک دوسرے کی کھنچائی کرتے تو کبھی ساتھ مل کر اپنی شرارت سے کسی دوسرے اسٹوڈنٹ یا ٹیچر کی ناک میں دم کر دیتے۔ اور پھر سزا بھی انجوئے کرتے۔

کبھی ہاسٹل میں رات کو دوسرے لڑکوں کا دروازہ بجا کر چاروں بھاگ آتے تو کبھی کسی ایک کو پھنسا کر اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے۔

اور غلطی سے اگر کوئی ان میں سے کسی ایک سے بھی الجھ پڑتا تو باقی تینوں فوراً آستین چڑھا کر، سینہ تان کر لڑنے آجاتے۔ 

یونیورسٹی کا پہلا سال مکمل کرتے ہی چاروں نے مشترکہ فیصلے سے یہ ہاسٹل چھوڑا اور ایک اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوگئے۔ کیونکہ یہاں کے لگے بندھے معمول اور آئے دن کسی نا کسی سے جھگڑے سے یہ لوگ اوب گئے تھے۔ انہیں اپنے لیے آزاد اور پرسکون ماحول چاہیے تھا۔ لہٰذا احتشام کے بڑے بھائی کے توسط سے ان بیچلر لڑکوں کو آسانی سے فلیٹ مل گیا۔

یہاں کا کرایہ بھی ملا کر دینا طے پایا تھا۔ کھانا بنانے کی سب کی باری تھی۔ غرض کہ یہاں یہ لوگ قدرے سکون میں اپنی مرضی کے آپ مالک تھے۔

پڑھائی کا سلسلہ بھی جاری تھا، اور کامیابی سے مزید دو سال گزر گئے تھے۔ یعنی اب بس آخری سال رہ گیا تھا۔ یہ بھی سکون سے گزر رہا تھا کہ اچانک احتشام نے وہ انتہائی قدم اٹھا لیا جس کی وجہ فی الحال کسی کو نہیں معلوم تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تینوں ہنوز ہسپتال کے کوریڈور میں بیٹھے ماضی میں کھوئے ہوئے احتشام کو ہی سوچ رہے تھے جو ان تینوں کے لیے کڑی جیسا تھا۔ اسی نے حسب عادت سب سے دوستی میں پہل کی تھی اور خوش قسمتی سے ان کی دوستی بہت پائیدار ثابت ہوئی۔ لیکن احتشام کو کیا ہوگیا تھا؟ 

”ایکسکیوزمی۔۔۔“ ڈاکٹر کی آواز پر تینوں واپس حال میں آئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

”کیا ہوا ڈاکٹر؟ ہمارا دوست ٹھیک تو ہے ناں؟“ ولید نے بے تابی سے پوچھا۔ یہ ہی حال باقی دونوں کا بھی تھا۔ 

تینوں ہنوز ہسپتال کے کوریڈور میں بیٹھے ماضی میں کھوئے ہوئے احتشام کو ہی سوچ رہے تھے جو ان تینوں کے لیے کڑی جیسا تھا۔ اسی نے حسب عادت سب سے دوستی میں پہل کی تھی اور خوش قسمتی سے ان کی دوستی بہت پائیدار ثابت ہوئی۔ لیکن احتشام کو کیا ہوگیا تھا؟ 

”ایکسکیوزمی۔۔۔“ ڈاکٹر کی آواز پر تینوں واپس حال میں آئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

”کیا ہوا ڈاکٹر؟ ہمارا دوست ٹھیک تو ہے ناں؟“ ولید نے بے تابی سے پوچھا۔ یہ ہی حال باقی دونوں کا بھی تھا۔ 

”جی، بر وقت ٹریٹمنٹ شروع ہونے کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی ہے۔“ ڈاکٹر کی بات سنتے ہی تینوں نے بے ساختہ شکر کا کلمہ پڑھا۔

”لیکن بلڈ لاس کی وجہ سے کافی کمزوری ہے، انہیں چوبیس گھنٹے یہاں ایڈمٹ رکھنا ہوگا۔“ انہوں نے مزید بتایا۔

”ابھی وہ کیسا ہے؟ کیا ہم اس سے مل سکتے ہیں؟“ ولید نے پوچھا۔ یہ ہی خواہش باقی دونوں کی بھی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

احتشام بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا تھا جس کا گیلا لباس تبدیل کرکے مریضوں کا مخصوص لباس پہنا دیا گیا تھا۔ دائیں کلائی پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور پاس لٹکی ڈرپ قطرہ قطرہ جسم میں جا رہی تھی۔ 

اسے ہوش آگیا تھا لیکن وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلنے کی آہٹ پر آنکھیں کھولیں تو تینوں اندر داخل ہوتے نظر آئے۔ 

”تو کیسا ہے احتشام؟“ ولید بے تابی سے پاس آیا۔

”تجھے کیا ہوگیا تھا یار؟ اتنا بڑا قدم کیوں اٹھا لیا پاگل؟“ حسن اور زین بھی پاس آئے۔ لیکن وہ ہونٹ سیے بس انہیں دیکھتا رہا۔

”احتشام کوئی مسلہ ہے تو ہمیں بتا، ہم مل کر حل نکالتے ہیں ناں۔۔۔“ ولید نے اس کا ہاتھ تھاما۔

”احتشام ہم تجھ سے بات کر رہے ہیں کچھ تو بول۔۔۔۔۔اور کسی پر نہیں تو اس پر ہی ترس کھا لے جو تیری یہ حالت دیکھ کر کتنا پریشان ہوگیا ہے۔“ حسن نے تھوڑی سختی سے ولید کی جانب توجہ دلائی۔ جس کی آنکھیں رونے کے باعث گلابی ہو رہی تھیں۔

”ہاں ہم سب تیرے لیے پریشان ہیں، بتا تو سہی آخر کیا ہوا ہے؟“ زین نے بھی کہا۔

”وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔“ بلآخر اس کے لب کھلے۔

”کون؟“ یک زبان سوال آیا۔

”ثانیہ۔۔۔۔“ یک لفظی جواب ملا۔

”وہ یونی والی ثانیہ۔۔۔۔جس کے ساتھ ایک سال سے تیرا نین مٹکا چل رہا تھا؟“ حسن نتیجے پر پہنچا۔

”نین مٹکا نہیں چل رہا تھا میں پیار کرتا تھا اس سے، مگر اس نے اپنے کزن کے رشتے کو ہاں کہہ دی اور مجھ سے یہ کہہ کر رابطہ ختم کر دیا کہ ہم خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔“ احتشام نے کسی دکھی بچے کی مانند بتایا۔

تینوں نے بیک وقت ایسے اپنا سر پیٹا جیسے کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا والی کہاوت سچ ہوئی ہو۔

”اس بے وفا چھمک چھلو کے پیچھے تو اپنی جان دے رہا تھا۔“ زین نے حیرت سے کہا۔

”زبان سنبھال کر۔۔۔“ اس نے ٹوکا۔

”ٹھیک کہہ رہا ہے زین، تجھے کتنی بار سمجھایا تھا کہ اس لڑکی کے ساتھ سیریس مت ہو، وہ صرف تجھے لوٹ رہی ہے، مگر تو الٹا ہم سے لڑنے لگتا تھا، اب دکھا گئی ناں ہری جھنڈی؟“ حسن نے زین کی حمایت کرتے ہوئے لتاڑا۔

”اب مجھے خود پر غصہ آرہا ہے کہ تجھے کیوں بچایا؟ دل کر رہا ہے اب خود تیرا گلا دبا دوں۔“ ولید نے اسے کوستے ہوئے گلا پکڑا۔

”ہاں دبا دے، مار دے، مجھے زندہ نہیں رہنا۔“ احتشام نے بھی اس کے ہاتھ پکڑ کر گلا دبانے کو اکسایا۔

”پاگل ہوگیا ہے؟“ ولید نے غصے میں اپنے ہاتھ کھینچے۔ 

”ہاں ہوگیا ہوں میں پاگل، میں نے اتنا عرصہ جس پر اپنے جذبات، اپنی محبت نچھاور کی وہ مجھے یہ صلہ دے کر گئی ہے۔“ اس کے جذباتی ہونے پر ان تینوں کا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔

”میں نے پہلی بار کسی سے پیار کیا اور بدلے میں مجھے دھوکہ ملا۔“ وہ کہتے ہوئے رو پڑا۔ حسن نے آگے بڑھ کر اس کا سر سینے سے لگا لیا۔ زین بھی تسلی دینے لگا۔ جب کہ ولید کو اس پر ترس سے زیادہ غصہ آرہا تھا۔

”میرا پہلا پیار ادھورا رہ گیا رفعت بی، میرا پہلا پیار ادھورا رہ گیا۔“ حسن کے سینے سے لگ کر روتے احتشام نے کہا۔ غم میں بھی اسے فلمی ڈائلوگ برابر یاد تھے۔

”تو نے کبھی بتایا نہیں حسن کہ تیرے نام رفعت بی ہے۔“ زین نے متعجب نظروں سے حسن کو دیکھا جو خود ہکابکا تھا۔

اس سارے تماشے پر ولید اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

احتشام کی حالت ابھی ایسی تھی کہ فی الحال زیادہ ضد بحث مناسب نہیں تھی۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ دوا کے زیر اثر نیند میں چلا گیا تو یہ تینوں بھی روم سے باہر آگئے۔ جو ہاسپٹل فارمیلیٹیز پوری کرنے کے بعد اب کاریڈور میں ایک کنارے کھڑے مذاکرات میں مصروف تھے۔

”میرے خیال سے احتشام اس بات کو اسی لیے اتنا سیریس لے گیا ہے کیونکہ بقول ولید بچپن سے وہ لاڈلا رہا ہے، جو چاہا وہ پا لیا، کبھی کوئی دکھ یا پریشانی نہیں دیکھی، لڑکیوں نے بھی ہمیشہ اسے مثبت رد عمل دیا، اس لیے یہ معمولی سی بات بھی اس کے لیے اتنا بڑا صدمہ ثابت ہوئی جو وہ برداشت ہی نہ کر سکا کہ کوئی اسے چھوڑ گیا۔“ حسن نے ساری صورت حال کا جائزہ لے کر اپنی رائے دی۔

”ہممم۔۔۔۔تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔۔جن لوگوں نے زندگی میں ہمیشہ خوشیاں اور کامیابیاں ہی دیکھی ہوں اکثر وہ کسی چھوٹے سے دکھ یا ناکامی کو بھی برداشت نہیں کر پاتے۔۔۔احتشام کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا ہے۔“ ولید اس سے متفق تھا۔

”ہاں لیکن اب اس کا حل کیا ہے؟“ زین نے سوال اٹھایا۔ اور پھر تینوں سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ 

”شاید وقت؟“ حسن اندازاً گویا ہوا۔

”مطلب؟“ زین سمجھا نہیں۔

”مطلب شاید وقت کے ساتھ وہ اس چیز کو قبول کرلے اور اس سے نکل آئے؟ ہم زبردستی یا ڈانٹ ڈپٹ کریں گے تو وہ ہی رد عمل ملے گا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے روم میں دیکھا۔“ وضاحت کرتے حسن کا اشارہ احتشام کے جذباتی رد عمل کی جانب تھا جو ولید کے غصے کی صورت ظاہر ہوا تھا۔

”ہممم۔۔۔۔اسے تھوڑا وقت دیتے ہیں۔“ ولید نے دھیرے سے سر ہلایا۔

”لیکن یار بلڈنگ والوں کو کیا جواب دیں گے؟ اور اس کے گھر والے؟ ان کو یہ سب کیسے بتائیں گے؟“ یکدم حسن کو خیال آیا تو ولید کو بھی فکر لاحق ہوئی۔

”ارے اس کے گھر والوں کی فکر مت کرو۔“ زین نے مداخلت کی۔

”کیوں؟“ دونوں نے اسے دیکھا۔

”کیونکہ جب تم دونوں ہاسپٹل فارمیلیٹی پوری کرنے گئے تھے تب احتشام کی امی کا فون آیا تھا میرے پاس، وہ یونین انچارج راشد بھائی نے اس کے گھر فون کھڑکا کر کہہ دیا تھا کہ احتشام کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہے تو وہ مجھ سے تصدیق کر رہی تھیں کیونکہ حسن کا فون سائلنٹ پر ہوتا ہے، ولید اور احتشام کا فون فلیٹ پر رہ گیا، تو بچا میں۔۔۔“ وہ بتانے لگا۔

”تو پھر تو نے آنٹی سے کیا کہا؟“ ولید نے پوچھا۔ کسی بے وقوفی کے خدشے سے دونوں کھٹکے کیونکہ زین کی طرف سے عقل مندی کسی سرپرائز کے جیسی ہی ہوتی تھی۔

”میں نے آنٹی کو بتا دیا کہ احتشام کے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا ہے۔“ اس کی بات سن کر دونوں نے شکر کی سانس کھینچی۔

”بلکہ اس نے اپنی نس کاٹ کر خود کشی کی ہے۔“ لیکن اگلی بات سنتے ہی خارج ہوتی سانس راستے میں اٹک گئی۔ 

”میں نے ہاسپٹل کا ایڈریس بھی دے دیا ہے، وہ صبح تک آجائیں گی، انہیں سب پتا ہے تم لوگ کچھ بھی بتانے کی ٹینشن مت لو۔“ اس نے آرام سے یوں بتایا جیسے اس کام پر داد بنتی ہو۔

”الو کے پٹھے۔۔۔۔“ ولید اسے مکا جڑنے کیلئے بڑھا جسے حسن نے فوری پکڑ لیا۔

”کیا ہوا یار؟“ داد کا منتظر زین دانت ٹوٹنے کی نوبت آنے پر حیران ہوا۔

”آنٹی کو یہ سب بتانے کی کیا ضرورت تھی؟“ ولید خود کو چھڑاتے ہوئے چلایا۔

”جب میں نے پوچھا تھا کہ اس کے گھر والوں کو بتانا ہے یا نہیں تب تو نے ہی تو کہا تھا کہ پہلے اسے ہوش آجانے دو، تو اسے ہوش آگیا ناں؟“ زین نے صفائی دیتے ہوئے یاد دلایا۔

”میرا مطلب تھا کہ اسے ہوش آجائے پھر سوچیں گے کہ گھر والوں کو کیا اور کیسے بتانا ہے؟“ ولید نے دانت پیس کر بات واضح کی۔

”تو یہ بات اس وقت مکمل کرنی چاہئے تھی ناں؟“ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے لگا۔

”ہاں، غلطی میری ہے، مجھے یاد رکھنا چاہئے تھا کہ اشارہ عقل مند کو کافی ہوتا ہے بے وقوف کو پوری بات بتانی پڑتی ہے۔“ ولید نے بھی برہمی سے طنز کیا تو زین اسے خفگی سے گھور کر رہ گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مریض کے ساتھ صرف ایک شخص کو رکنے کی اجازت تھی۔ ولید نے حسن اور زین کو سب سمجھا کر گھر بھیج دیا تھا کہ سب کو کیا کہنا ہے؟ اور خود رات بھر کے لیے یہیں رکا تھا۔

احتشام دوا کے زیر اثر سو رہا تھا اور ولید نزدیکی اسٹول پر بیٹھا، دونوں بازو سینے پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔

اس کا یہ ہنستا کھلکھلاتا دوست محض ایک بے وفا لڑکی کے پیچھے زندگی سے بے زار ہوگیا تھا؟ محض ایک لڑکی کے پیچھے؟ 

یہ بات جتنی معمولی تھی اتنی حیرت انگیز بھی تھی کہ بھلا یہ بھی کوئی وجہ تھی اتنا بڑا قدم اٹھانے کی؟ 

لیکن وہ بات بھی سچ تھی کہ جو ہمیشہ چھاؤں میں رہے ہوں وہ سورج کی تپش برداشت نہیں کر پاتے۔ جنہوں نے ہمیشہ سکھ دیکھا ہو وہ چھوٹا سا دکھ بھی نہیں سہہ پاتے۔ جنہوں نے ہمیشہ پایا ہو وہ ایک معمولی شے کے کھونے جانے سے بھی پاگل ہوجاتے ہیں۔

ولید کا دل چاہ رہا تھا اس کا گریبان پکڑ کر خوب لڑے کہ کیا ہم دوست تیرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے؟ تیرے گھر والے؟ تیرے ماں باپ، بھائی بھابھی، بھتیجا بھتیجی، کوئی ایک بھی اتنا اہم نہیں تھا کہ محض اس کا سوچ کر ہی تو رک جاتا؟ 

لیکن وہ بے بسی س كلس کر رہ گیا کیونکہ مقابل پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔

ولید کو بچپن سے جوانی تک کا ہر وہ لمحہ یاد آرہا تھا جب احتشام اس کے ساتھ تھا۔ کبھی وہ اسے اعتماد دے رہا ہوتا تھا اور کبھی زبردستی اپنے ساتھ کسی شرارت میں گھسیٹ لیتا تھا۔ ولید کا شدت سے اپنے اس شرارتی دوست کو واپس دیکھنے کا جی چاہا جو نہ جانے کہاں کھو گیا تھا؟ 

ولید نے اس کا ڈرپ لگا ہاتھ پکڑا اور بیڈ پر سر ٹکا لیا۔ احتشام نے کبھی ولید کو ہاتھ چھڑا کر جانے نہیں دیا تھا۔

اور اب ولید بھی احتشام کو جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسن اور زین واپس پہنچے تو دیر رات ہونے کی وجہ سے رش چھٹ چکا تھا البتہ یونین کے کچھ لوگ بشمول انچارج راشد نیچے مل گئے جن کے پاس ڈھیر سارے سوالات تھے۔ 

ولید نے جیسے کہا تھا حسن نے ویسے ہی وضاحت دے کر ان کو مطمئن کر دیا اور اب دونوں فلیٹ میں آ چکے تھے۔

جس وقت یہ سب ہوا، یہ لوگ کھانا کھانے جا رہے تھے۔ لیکن پھر سب یوں ہی چھوڑ چھاڑ اناً فاناً ہسپتال بھاگنا پڑا۔

ابھی بھی لاؤنج کی ٹیبل پر روٹی کا ہاٹ پاٹ، سالن کی کڑاہی، چند پلیٹیں اور پانی کی بوتل ویسے ہی رکھی ہوئی تھی۔ البتہ ٹھنڈا پانی گرم ہو چکا تھا اور گرم سالن روٹی ٹھنڈا۔۔۔۔

”یار یہ سونگھ کر بتا کہ اتنی سی دیر میں خراب تو نہیں ہوا ہوگا ناں؟“ زین نے کڑاہی اٹھا کر حسن کی ناک کے آگے کی۔

”نہیں لیکن زیادہ دیر باہر چھوڑا تو ہوجائے گا، فریج میں رکھ دے۔“ حسن نے صوفے پر گرنے کی مانند بیٹھتے ہوئے کہا۔

”کھا کر فریج میں رکھ دوں گا، کھانا دیکھ کر پھر سے وہ بھوک جاگ گئی جو شامی کو مرتا دیکھ مر گئی تھی۔“ زین بھی اپنی دھن میں کہتا حسن کے برابر میں بیٹھا اور کڑاہی رکھ کر اس میں سے سالن نکالنے لگا۔

”تجھے ابھی بھی بھوک لگ رہی ہے؟“ حسن نے تعجب سے بھنوئیں چڑھائیں۔

”ہاں، اور خون دینے کے بعد تو کمزوری بھی ہوگئی ہے۔“ اس نے ہاٹ پاٹ میں سے روٹی اٹھائی۔

”تجھے بھوک نہیں لگ رہی کیا؟ تو نے بھی تو خون دیا ہے۔“ اس نے نوالہ بناتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں یار۔۔۔۔۔جو کچھ بھی آج ہوا اس کے بعد تو ساری بھوک پیاس ہی اڑ گئی۔“ اس نے تھکن زدہ انداز میں پیچھے ٹیک لگائی۔ 

”وقتی طور پر تو میں بھی ہل گیا تھا، لیکن شکر ہے اب سب ٹھیک ہے، احتشام خطرے سے باہر ہے۔“ اس نے کہہ کر نوالہ منہ میں لیا۔

”ہاں لیکن تو نے اس کا رویہ دیکھا تھا ناں؟ کیسے سائیکو کی طرح بیہیو کر رہا تھا، کہیں اس نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت کر دی تو؟“ حسن کے خدشے پر زین کے تیزی سے نوالہ چباتے منہ کی رفتار بھی دھیمی پڑی۔

”میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی اتنی بڑی بات ہے کہ وہ اپنی جان لینے کیلئے اس قدر پاگل ہوجائے؟“ زین نے نوالہ نگل کر رائے دی۔

”ہاں اچانک جذباتی جھٹکا لگنے پر اس نے بنا سوچے سمجھے یہ قدم اٹھا لیا، لیکن جب آہستہ آہستہ اسے ہم سب کی فکر نظر آئے گی، خاص طور پر اپنے والدین کی تو شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے؟“ زین نے مزید اندازہ لگایا۔

”ارے والدین پر یاد آیا، ولید نے کہا تھا واپسی جا کر فلیٹ کی صفائی کر دینا۔“ حسن اچانک سیدھا ہوا۔

”کس خوشی میں؟“ وہ دوسرا نوالہ بنانے لگا۔

”آپ نے اس کے گھر پہ بم پھوڑنے والا جو عظیم کارنامہ کیا ہے اس خوشی میں، کیونکہ وہ سننے کے بعد آنٹی گھر سے روانہ ہوچکی ہوں گی اور صبح تک یہاں پہنچ جائیں گی، جو بقول ولید کچھ دن یہاں رک کر ہی جائیں گی۔“ اس نے طنزیہ یاد دلایا۔

”ہاں تو وہ اپنے بیمار بیٹے کی تیمارداری کیلئے رکیں گی، ایسے میں ان کا دھیان فلیٹ کے کونے کھانچے میں چھپے کچرے پر تھوڑی جائے گا۔“ زین نے نوالہ لے کر بات ہوا میں اڑائی۔

”اور اگر چلا گیا تو؟“ آگے ممکنہ خدشہ تھا۔

”نہیں جائے گا، تو بس باتھ روم صاف کر دے وہاں احتشام کی واردات کے نشانات باقی ہیں جو دیکھ آنٹی مزید گھبرا سکتی ہیں۔“ زین نے اسی لاپرواہی سے مشورہ دیا۔ وہ اسے گھور کر رہ گیا۔

وہ تو کھانا کھانے میں مصروف تھا جب کہ حسن کو بھوک نہیں تھی لہٰذا وہ خود ہی کمر کس کر کھڑا ہوگیا۔

باتھ روم میں آیا تو سفید ٹائیلز پر اسی سرخ پانی کے بے تحاشا چھینٹے ملے جس سے سفید ٹب بھرا ہوا تھا۔ اور چند گھنٹوں قبل ان تینوں نے احتشام کو ادھ مری حالت میں اس سے باہر نکالا تھا۔

”یہ کیا پاگل پن کر بیٹھا ہے تو یار۔۔۔“ وہ سب یاد آنے پر حسن نے بے بسی سے خودکلامی کی۔ اور دل کڑا کرکے یہ سارا خون صاف کرنے آگے بڑھا۔

کاش خود کشی کرنے والے یہ سمجھ پاتے کہ جس کی وجہ سے وہ جان دینے جا رہے ہیں اس کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ ان پر جان چھڑکنے والے اپنوں کی جان سولی پر آجائے گی جو انہیں کھونا نہیں چاہتے۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دھیرے دھیرے نیا دن طلوع ہوگیا تھا۔ 

ولید فریش ہو کر آیا تو احتشام بھی بیدار ہو کر چھت کو تکتا ملا۔ 

”گڈ مارننگ۔۔۔“ ولید ہشاش بشاش سا کہتا قریب آیا۔ لیکن دوسری طرف خاموشی کی برف جمی رہی۔

”چل اٹھ جلدی۔۔۔۔نرس ناشتہ لے کر آرہی ہے۔“ اس نے حکم جاری کیا۔

اس کی بات مکمل ہوتے ہی پیچھے نرس کمرے میں داخل ہوئی اور ناشتے کی ٹرے رکھ کر چلی گئی جس کا ولید نے بطور خاص انتظام کرایا تھا۔

”چل بھئی اٹھ۔۔۔“ نرس کے جانے کے بعد ولید نے پھر کہا۔

”مجھے بھوک نہیں ہے۔“ سپاٹ جواب آیا۔ 

”میں پوچھ نہیں رہا، آرڈر دے رہا ہوں کہ اٹھ جا۔۔۔“ ولید نے اس کے سر کے نیچے ہاتھ لے جا کر اسے اٹھایا۔ 

”زبردستی مت کر ولی۔۔۔“ وہ بے زاری سے بولا۔

”ابھی تک میں نے زبردستی شروع ہی کہاں کی ہے؟“ اس نے دھمکی دی۔ احتشام اسے گھورنے لگا۔

”گڈ مارننگ۔۔۔“ اسی پل حسن اور زین پر جوشی سے کہتے اندر آئے۔ 

”کیسا ہے جانی؟“ زین نے احتشام کے کندھے پر ہاتھ مارا اور ٹرے میں سے بوائل ایگ کا سلائس اٹھا کر منہ میں رکھا۔

”کیسی طبیعت ہے اب احتشام؟“ حسن نے نرمی سے پوچھا۔ لیکن وہ کچھ نہ بولا۔

”فلیٹ میں کیا حال ہے حسن؟ کوئی مسلہ تو نہیں ہوا؟“ ولید نے پوچھا۔

”نہیں، یونین کے کچھ لوگ رات کو مل گئے تھے، ان سب کی وجہ پوچھ رہے تھے، میں نے وہ ہی جواب دیا جو تو نے بتایا تھا۔“ حسن کی بات پر احتشام کے کان کھڑے ہوئے۔

”کیا وجہ بتائی تو نے؟“ احتشام کے سوال پر تینوں نے اسے دیکھا۔

”احتشام۔۔۔میرا بچہ۔۔۔۔“ اسی پل ایک خاتون تڑپ کر کہتی اندر آئیں جن کے پیچھے ان کے شوہر اور جوان بیٹا بھی تھا۔ یہ احتشام کے والدین اور بڑے بھائی تھے۔

”یہ سب کیا کر ڈالا میرے بچے؟“ انہوں نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔

”اب کیسی طبیعت ہے اس کی ولید؟“ اس کے والد اعجاز صاحب نے دریافت کیا۔

”جی اب یہ ٹھیک ہے انکل خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، آج شام تک اسے گھر لے جا سکتے ہیں۔“ ولید نے تسلی بخش جواب دیا۔ جب کہ والدہ ریحانہ تو بیٹے کو خود میں بھینچے ڈانٹنے اور لاڈ کرنے میں مصروف تھیں۔

”یہ سب ہوا کیوں؟“ بڑے بھائی احسان نے سوال اٹھایا۔

”ہاں، تو نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا بھلا؟“ ماں نے بھی اسے الگ کرتے ہوئے باز پرس کی۔

”بس پڑھائی کا زیادہ اسٹریس لے لیا تھا۔“ ولید نے وہ ہی تیار شدہ وجہ بتائی جو فیلٹ والوں کو بھی بتائی تھی۔

”پڑھائی کا اسٹریس؟ لیکن تم نے اپنی مرضی سے یہ ڈگری چنی تھی ناں؟“ احسان نے یاد دلایا۔

”جی ہم سب نے یہ ڈگری اپنی مرضی سے ہی چنی تھی لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ آگے یہ ہی ہمیں چن چن کر خون کے آنسو رلائے گی۔“ زین سے مداخلت کیے بنا رہا نہیں گیا۔ سب نے اس کی جانب دیکھا۔

”تم کون؟“ اعجاز صاحب نے بغور جائزہ لیا۔

”انکل یہ زین ہے اور یہ حسن، ہمارے کلاس فیلو، ہم ان ہی کے ساتھ رہتے ہیں، احتشام نے ویڈیو کال پر کئی بار آنٹی کی ان سے بات بھی کرائی ہے۔“ ولید نے جلدی سے تعارف کرایا تو دونوں نے فرمابرداری سے سلام ٹھوکا۔

”ہاں ہاں، میں جانتی ہوں۔“ ریحانہ نے بھی تائید کی تو دونوں کی وہ سانس بحال ہوئی جو اعجاز صاحب کی مشکوک گھوری سے بنیان میں ہی اٹک گئی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کافی دیر احتشام کے گھر والوں کا اسے ڈانٹنے کے ساتھ لاڈ کرنے کا سیشن چلتا رہا۔ جو وہ چپ چاپ مجرم کی مانند سر جھکائے سنتا رہا۔ جب کہ حسن اور زین نے بھی دوبارہ منہ کھولنے کی غلطی نہیں کی کہ کہیں یہ جرم ان کے سر ہی نہ آجائے کہ انہوں نے احتشام کو بھٹکایا ہوگا۔ بس ولید ہی اس دوران سب کچھ سنبھالے ہوئے تھا۔

شام کو احتشام ڈسچارج ہوا تو گھر والے بھی اس کے ساتھ آئے۔ وہ لوگ اسے ساتھ لے جانے پر بضد تھے لیکن احتشام نہ مانا اور پھر ولید نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کا پورا خیال رکھے گا۔ تو طے یہ پایا کہ اعجاز صاحب اور احسان واپس روانہ ہوئے جب کہ ریحانہ نے کچھ دن یہیں رکنے کا فیصلہ کیا جس کی ولید پہلے ہی پیشن گوئی کر چکا تھا۔ جو درست ہونے پر حسن اور زین حیرت انگیز طور پر متاثر ہوئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

”امی بس۔۔۔۔اور نہیں پینا مجھے۔۔۔“ بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھے احتشام نے بے دلی سے مزید یخنی پینے سے انکار کیا۔

”اچھا چلو ٹھیک ہے نہیں پلا رہی، لیکن آج رات تم کھانا ضرور کھاؤ گے، آج میں پالک گوشت بنانے لگی ہوں، میرے بیٹے کو پسند ہے ناں؟“ انہوں نے پیالہ پیچھے کرتے ہوئے محبت سے کہا۔ 

نزدیکی صوفے پر بیٹھا ولید ان ماں بیٹے کی محبت دیکھ رشک کر رہا تھا کہ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ، جن کے پاس لاڈ اٹھانے والی ماں ہوتی ہے۔

اور اس سے بھی بڑھ کر بد نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس ماں کی قدر نہ کرتے ہوئے اس پر کسی اور کو فوقیت دیتے ہوئے ماں کو بھول جاتے ہیں۔ جیسے احتشام بھول گیا تھا۔

”اور ساتھ میں آلو کے کباب بھی بنا رہی ہوں جو ولید کو پسند ہیں۔“ ریحانہ نے مزید کہتے ہوئے ولید کو دیکھا۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ہمیشہ اسے بھی یاد رکھتی تھیں۔ جواباً ولید بھی مسکرایا۔

پھر وہ یخنی کا پیالہ ٹرے میں رکھ کر کمرے سے چلی گئیں۔ اب وہاں بس یہ دونوں تھے اور ان کے بیچ خاموشی۔ ولید بھی صوفے پر سے اٹھا۔

”اس محبت کرنے والی ماں کو بھول کر تو چار دن کی محبت میں مرنے چلا تھا۔۔۔۔۔لعنت ہے تجھ پر۔۔۔۔۔“ 

ولید نے حسب سابق اسے بھرپور ملامت کی اور کمرے سے باہر چلا گیا کیونکہ محبت اور نصیحت کا تو اس پر اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

لاؤنج کے ڈبل صوفے پر بیٹھے حسن اور زین پالک بنانے میں مصروف تھے اور یہ ڈیوٹی ریحانہ لگا کر گئی تھیں۔ زین صاف صاف پالک کے پتے چن کر حسن کو دے رہا تھا اور حسن انہیں کاٹ رہا تھا۔

”ہم کتنی پالک بنا چکے ہیں زین؟“ 

”اندازاً آدھا کلو۔۔۔“

”اور کتنی باقی رہ گئی ہے؟“

”یقیناً ڈیڑھ کلو۔“ 

حسن نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ٹیبل پر بکھری پالک کا ڈھیر دیکھ اسے رونا آنے لگا۔ 

”اتنی پالک بنانے کی کیا ضرورت تھی آنٹی کو؟ سالے کو ڈائریکٹ پالک کے کھیت میں چھوڑ دیتی جتنی چاہتا وہیں سے پالک چر لیتا۔۔۔۔۔اس سے تو بہتر تھا کہ کمینہ مر ہی جاتا، کم از کم جنازے پر بریانی ملتی وہ بھی بنی بنائی۔“ حسن نے احتشام کو کوستے ہوئے تیزی سے ایسے پالک کاٹ رہا تھا جیسے وہ اس کی گردن ہو۔

”ہممم! اور یہ یونیورسٹی کی چھٹیاں بھی ابھی پڑنی تھیں، اس سے تو بہتر تھا کہ ہم سر کا بورنگ لیکچر سن رہے ہوتے۔“ زین نے بھی بے بسی سے آہ بھری۔

”جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ لڑکوں۔۔۔“ اسی پل ریحانہ کہتی وہاں آئیں تو دونوں فوری شکل درست کرکے ایسے اچھے بچے بن گئے گویا پالک بنانے سے زیادہ اہم کچھ تھا ہی نہیں۔

ریحانہ انہیں حکم دیتی کچن میں چلی گئیں۔ ان کے پیچھے ولید بھی کمرے سے باہر آیا اور ان دونوں کو دیکھ کر مسکراہٹ کے ساتھ مزید جلاتے ہوئے باہر چلا گیا۔ اور دونوں اسے خونخوار نظروں سے گھور کر رہ گئے۔

”یہ لو۔۔۔۔جلدی سے یہ آلو بھی چھیل کر کاٹ دو۔“ انہوں نے تقریباً ایک کلو آلو سے بھری تھیلی لا کر میز پر رکھی۔ دونوں نے تڑپ کر ایک دوسرے کو دیکھا۔

”آنٹی ابھی تو پالک ہی نہیں بنی۔“ زین نے ہمت کرکے زبان کھولی۔

”ہاں تو بناؤ جلدی جلدی۔۔۔۔اور یہ کوئی دو لوگوں کے کرنے کا کام تھوڑی ہے۔۔۔۔۔اسے پالک بنانے دو اور تم آلو چھیلو۔۔۔۔چلو شاباش۔۔۔۔“ انہوں اطمینان سے آلو کی ذمہ داری زین کو سونپی اور حسن کا کام بڑھا دیا۔ دونوں اندر ہی اندر نومولود بچوں کی مانند رونے لگے۔

ریحانہ جانے لگی تھیں کہ اچانک ان کے صوفے کے نیچے کچھ دیکھ رک گئیں۔

”یہ صوفے کے نیچے کیا ہے؟“ 

”کچھ بھی نہیں آنٹی۔۔۔“ دونوں نے جلدی سے پیر مزید آگے کر لیے۔

”نہیں کچھ ہے۔۔۔۔ہٹو ذرا۔۔۔۔“ انہوں نے دونوں کو سرکا کر وہ چیز نکال لی جو دونوں چھپانا چاہ رہے تھے۔ وہ لارج پیزا کا باکس تھا وہ بھی ایک ہفتہ پرانا۔

”یہ کوئی جگہ ہے کچرا جمع کرنے کی؟ گھر کی صاف صفائی نہیں کرتے تم لوگ؟“ انہوں نے کلاس لی۔

حسن نے ملامتی نظروں سے زین کو دیکھ کر جتایا کہ میں بول رہا تھا ناں صفائی کرلے؟ 

”اب جلدی سے تم دونوں یہ کام مکمل کرو اور پھر پورے گھر کی صفائی شروع کرو، مجھے ایک ایک کونا بالکل صاف چاہیے۔“ وہ حکم جاری کرتی چلی گئیں جو انہیں موت کے فرمان جیسا لگا۔

”مجھے اپنے گھر جانا ہے۔“ زین نے دہائی دیتے ہوئے حسن کے کندھے سے سر ٹکایا۔

”مجھے بھی۔۔۔۔“ حسن بھی رونے کے قریب تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رات نے آنکھیں بند کیں تو چند دن دبے پاؤں گزر گئے۔

احتشام کی والدہ نے بلآخر واپس جانے کا ارادہ کر لیا تھا جسے سن کر حسن اور زین کا شدت سے دل چاہا کہ سجدہ شکر میں گر جائیں۔

جانے سے قبل وہ کھانے پینے کی کافی چیزیں فریز کر چکی تھیں اور ان سب چیزوں کو بنانے کیلئے جتنی بھی سبزی کٹی، مصالحہ پیسا گیا، ان سب کیلئے حسن اور زین کی شامت آئی۔ 

آج انہیں واپس لے جانے کیلئے احسان بھائی آئے تھے۔ وہ بھی کافی دیر احتشام کے پاس بیٹھے اور اسے سمجھا کر ڈھیر ساری نصیحتیں کرتے رہے۔ 

اب وہ لوگ جانے کیلئے بلڈنگ کے باہر کھڑے تھے۔ احسان بھائی کیب میں بیٹھ چکے تھے۔ ریحانہ باہر کھڑی ابھی بھی ولید کو ہدایات دے رہی تھیں۔ حسن اور زین ذرا فاصلے پر ساتھ کھڑے تھے۔ جب کہ احتشام اوپر فلیٹ میں ہی تھا۔

”اور یہ لو بیٹا۔۔۔۔۔یہ کچھ پیسے بھی رکھو۔۔۔“ ریحانہ نے آخر میں پرس سے کچھ پیسے نکالے۔

”ارے نہیں آنٹی، ہمارے پاس پیسے ہیں، اور ابھی تو انکل نے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کیے ہیں۔“ ولید نے انہیں روکنا چاہا۔

”ہاں تو یہ بھی رکھ لو، دوا دارو میں کام ہی آئیں گے۔“ انہوں نے بھی زبردستی پیسے شرٹ کی جیب میں ڈال دیے۔

”یار آنٹی تو بڑی ایڈوانس ہیں، خود دارو کے پیسے دے رہی ہیں۔“ زین نے حیرت سے حسن کے کان میں سرگوشی کی۔

”ابے فارسی میں دارو کا مطلب دوا ہی ہوتا ہے۔“ حسن نے تصحیح کی۔ 

”تو جب اردو میں دوا کہہ دیا تھا تو فارسی کہہ کر کنفیوژ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“ زین کو تسلی نہ ہوئی۔

”چپ کر یار۔۔“ حسن نے سوال سے زچ ہو کر کہنی ماری۔

ریحانہ کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد گاڑی روانہ ہوگئی۔ حسن اور زین بھی قدم بڑھا کر ولید کے پاس آئے۔ 

”آگے کا کیا سوچا ہے مالک؟“ زین نے ولید سے پوچھا۔ ولید نے اسے دیکھا۔

”میرے پاس ایک آئیڈیا ہے، کیوں ناں شامی کو کہیں باہر لے چلیں؟“ حسن نے تجویز دی۔

”یار باہر جانے میں ٹکٹ ویزا کا بہت خرچہ ہوگا۔“ زین کو فکر ہوئی۔

”ارے باہر مطلب کسی پارٹی وغیرہ میں آؤٹنگ کیلئے۔“ اس نے تصحیح کی۔

”پارٹی رکھنے میں بھی خرچہ آئے گا۔“ زین نے دھیان دلایا۔

”ہم پارٹی نہیں رکھ رہے بلکہ جس پارٹی کی دعوت ہے اس میں لے کر چلتے ہیں۔“

”کس پارٹی کی دعوت ہے؟“ 

”ولید بیٹا، اب احتشام کی طبیعت کیسی ہے؟“ اسی پل فلیٹ کے ایک رہائشی انہیں دیکھ رک گئے۔

”جی شکر الحمدللہ اب وہ ٹھیک ہے کامران بھائی۔۔“ اس نے شائستگی سے جواب دیا۔

”اچھی بات ہے، کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتا دینا۔“ انہوں نے اخلاقیات نبھائی۔ ولید نے عاجزی سے سر ہلایا۔ پھر وہ اپنے راستے چلے گئے۔ ان دنوں ہر آنے جانے والا ان سے احتشام کی بابت ضرور پوچھتا تھا۔

”ہاں کیا کہہ رہا تھا تو؟ کس پارٹی کی دعوت ہے؟“ زین نے دوبارہ سوال اٹھا کر سلسلہ کلام جاری کیا۔

”وہ ہے ناں سہیل عرف سنی، اس نے اپنے برتھ ڈے ٹریٹ میں آج رات ایک پارٹی رکھی ہے اور سب کو بلایا ہے، واٹس ایپ گروپ میں میسج بھی آیا تھا۔“ حسن نے ایک کلاس فیلو کا ذکر کیا۔

”ارے وہ پھینکو۔۔۔یار وہ بہت شو آف ہے، ابھی اس نے پارٹی بھی اسی لیے رکھی ہے تا کہ اپنی باپ کی کمائی کا شو آف کر سکے۔“ زین کو یہ خیال پسند نہ آیا۔

”ہاں تو کیا ہوا؟ ہم بھی ڈھیٹ بن کر چلتے ہیں اور کھا پی کر واپس آجائیں گے، گاڑی کی ٹینشن نہیں وہ میں آصف سے لے لوں گا، ولید کو ڈرائیونگ آتی ہے، ویسے بھی احتشام کو یہ پارٹی وارٹی، شور ہنگامہ پسند ہے تو کیا پتا اس کا تھوڑا دھیان بھٹک جائے؟ کیا کہتا ہے ولی؟“ حسن نے آخر میں رائے مانگی۔ 

”ہممم۔۔۔آئیڈیا برا نہیں ہے۔“ ولید نے بھی رضا مندی ظاہر کی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

احتشام اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا تھا جہاں شام کی سہانی ہوائیں اسے چھو کر گزر رہی تھیں۔ لیکن اس کی نگاہوں میں عجیب سا خالی پن تھا۔

”شکر آپ نے خود بیڈ روم سے قدم تو نکالے۔“ ولید کہتے ہوئے برابر آ کر کھڑا ہوا۔ حسن اور زین بھی وہاں آگئے۔ 

اب چاروں ایک قطار میں ریلنگ کے پاس کھڑے تھے۔ ولید، پھر احتشام، پھر حسن، پھر زین! 

”موسم اچھا ہو رہا ہے ناں؟“ حسن نے تائید چاہی۔

”تم لوگوں کو وہ سامنے تار پر بیٹھے کبوتر اور کبوتری نظر آرہے ہیں؟“ احتشام نے سامنے دیکھتے ہوئے غیر متوقع سوال کیا۔ تینوں نے تعاقب میں دیکھا۔

”ہاں آرہے ہیں، تو؟“ ولید نے کہا۔

”دیکھو پرندے بھی ریلیشن شپ میں ہیں، بس ایک میں ہی تنہا سنگل رہ گیا۔“ احتشام کو احساسِ کمتری محسوس ہوئی۔ ولید نے اس ”کمپیریزن“ پر اپنا سر پیٹا۔

”تجھے کیسے پتا کہ وہ کبوتر اور کبوتری ہی ہیں؟ ہو سکتا ہے وہ دونوں ہی کبوتر ہوں اور فرینڈ شپ میں ہوں؟“ حسن نے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا۔

احتشام نے پہلے زین کو دیکھا، پھر دوبارہ سامنے ان کبوتروں کو۔

”دو دوست اتنا قریب ہو کر غٹر غوں نہیں کر سکتے، میں نے تین بار انہیں چونچ لڑاتے بھی دیکھا ہے، یہ پکا کبوتر اور کبوتری ہیں اور ریلیشن شپ میں ہیں۔“ احتشام نے بہت گہرائی سے تجزیہ کیا۔ تینوں کو اس کی ذہنی حالت کی فکر ہونے لگی۔

ولید نے بالکونی میں سجے پودوں میں سے ایک رنگین پتھر اٹھا کر سامنے تار پر مارا تو تار ہلنے سے دونوں کبوتر اڑ گئے۔

”یہ کیا کِیا؟ دو پیار کرنے والوں کو جدا کر دیا؟“ احتشام نے تڑپ کر اسے دیکھا۔

”چل تو اندر۔۔۔۔زین۔۔۔۔بالکونی کا دروازہ بند کر۔۔۔“ ولید اسے کھینچ کر اندر لے گیا ورنہ یہاں تو یہ آدھا پاگل پرندوں اور جانوروں کے ریلیشن شپ اسٹیٹس سے خود کا موازنہ کرتے کرتے ہی پورا پاگل ہوجاتا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسب منصوبہ چاروں رات میں تیار ہو کر برتھ ڈے پارٹی کیلئے نکل گئے تھے۔ احتشام تو نہیں جانا چاہتا تھا لیکن تینوں نے زبردستی، پیار سے، ڈانٹ سے اسے ساتھ گھسیٹ لیا۔ 

پارٹی ایک پوش علاقے کے ماڈرن بینکوئیٹ میں تھی جہاں نیم تاریکی میں رنگین ڈسکو لائٹس آن کرکے انگلش میوزک کے ساتھ اس جگہ کو کلب کا تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ 

چاروں جاتے ہی میزبان سے ملے اور اسے گفٹ تھما کر ایک کونا پکڑنے کے بعد وہاں بیٹھ گئے۔ یہاں بیٹھنے کیلئے ایک طرف صوفے تھے جن کے ساتھ ٹیبلز رکھی ہوئی تھیں۔ 

”میں نے کہا تھا ناں یہ بہت شو آف ہے، دیکھ بینکوئٹ کو زبردستی کلب بنایا ہوا ہے، لُنڈا کا جسٹن بیبر۔۔۔“ زین نے تجزیہ کیا۔

”چھوڑ ناں، تو بھی کھا پی کر بس انجوئے کر۔“ حسن نے لاپرواہی سے مشورہ دیا۔ اور پاس آئے ویٹر کی ٹرے سے جوس کا گلاس اٹھایا۔ زین نے بھی تقلید کی۔ ولید نے بھی دو گلاس اٹھا کر ایک گلاس احتشام کو پکڑا دیا۔

”ویسے سچی سچی ایک بات بتا احتشام۔۔“ حسن گویا ہوا۔

”تجھے یہاں آ کر اچھا لگا ناں؟“ اس سوال پر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

”ہاں یہاں قدم قدم پر لاکھوں حسینائیں ہیں۔“ زین نے بھی گیت کے بول کہتے ہوئے معنی خیزی سے ارد گرد نظر آتی لڑکیوں کی جانب اشارہ کیا۔

”ہم مگر یہ دل کا تحفہ دے کے اُسے آئے ہیں۔“ احتشام کو پھر وہ ہی یاد آگئی۔

”وہ لڑکی جو فساد کی جڑ ہے۔“ ولید نے جل کر ٹکرا لگایا۔

تینوں نے صورت حال کے حساب سے اچھے خاصے گیت کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا۔ 

تب ہی کیک کٹنے کا شور اٹھا۔ سہیل کے سب قریبی مہمان ٹیبل کے پاس جمع ہونے لگے۔ یہ لوگ یہیں بیٹھے رہے۔ کیونکہ انہیں پتا تھا کہ کیک کٹتے ہی فن کے نام پر یہاں طوفانِ بدتمیزی مچے گا اور یہ ہی ہوا۔ سب لوگ ایک دوسرے کے منہ پر کیک ملنے لگے۔ 

”چچ چچ۔۔۔۔کتنا کیک ضائع ہو رہا ہے۔“ حسن نے افسوس کیا۔

”ہاں، اس سے تو بہتر تھا کہ ہمیں ہی کھانے کیلئے دے دیتے۔“ زین نے لقمہ دیا۔

”تجھے کھانے کے علاوہ اور کچھ سوجھتا بھی ہے؟“ حسن نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

”ہاں، پینا۔۔۔“ زین نے اطمینان سے ہاتھ میں پکڑا گلاس دکھا کر گھونٹ لیا۔

کیک کٹنے کے بعد انگلش میوزک کی آواز بلند کردی گئی اور کافی لڑکے ڈانس فلور پر آکر بےتكا ڈانس کرنے لگے۔ جب کہ یہ لوگ ہنوز احتشام کو کچھ نا کچھ کھانے پینے کی پیشکش کرکے اس کا موڈ بہتر کرنے میں کوشاں تھے۔ 

”کیا منہ بنا کر بیٹھا ہے یار، اللہ تعالیٰ کی زمین بہت بڑی ہے، تجھے کوئی اور اچھی لڑکی مل جائے گی، تو جیسے پہلے سب کے ساتھ ہلہ گلہ کرتا تھا ابھی ویسے ہی انجوئے کر۔۔۔“ حسن نے احتشام کو اکسایا۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”چھوڑو اس کو، ہم چلتے ہیں۔“ اچانک زین کسی خیال کے تحت صوفے سے اٹھا۔ 

”کہاں چلتے ہیں؟“ حسن سمجھا نہیں۔

”انجوئے کرنے۔۔۔“ اس نے حسن اور ولید کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بھی اٹھایا اور وہاں سے لے گیا۔ احتشام وہیں بیٹھا رہا۔

”پاگل ہوگیا ہے، اسے اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟“ ذرا دور آنے کے بعد ولید نے پوچھا۔

”میرے پاس اس کا موڈ ٹھیک کرنے کیلئے ایک آئیڈیا ہے۔“ زین نے رازداری سے کہا۔

”کیسا آئیڈیا؟“ یک زبان سوال آیا۔

ڈی جے کی ذمہ داری انجام دیتا لڑکا ہنوز انگلش میوزک چلانے میں مصروف تھا۔ تب ہی یہ تینوں اس کے پاس آئے۔ زین نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ جسے سمجھ کر اس نے سر ہلا دیا۔

احتشام ڈھیٹائی سے وہیں صوفے پر تنہا بیٹھا ہوا تھا جس کی سپاٹ نظریں سامنے ڈانس فلور پر تھیں جہاں کچھ لڑکے بےڈھنگ ڈانس کر رہے تھے۔ 

اچانک میوزک بند ہوگیا۔ سب ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ڈانس فلور پر موجود لڑکے بھی وہاں سے ہٹ کر ڈی جے کی طرف بڑھے۔ 

تب ہی دوبارہ بلند آواز سے دوبارہ میوزک جاری ہوا لیکن اب گیت الگ تھا۔ اور پھر اگلے ہی پل ڈانس فلور پر وہ تینوں جلوہ گر ہوئے۔ 

ولید درمیان میں تھا۔ دائیں، بائیں زین اور حسن تھے۔ اور تینوں ہی اپنے ڈانس مووز سے اُدھم مچانے کیلئے تیار تھے۔ 

عِشّق میرے یارا 

تو کرلے دوبارہ 

بس اک بار میں ہی 

بھرے نہ دل بیچارہ 

سنگ رہنے کے شام سویرے 

کیا کرنے ہیں وعدے بکھرے 

ہے زندگانی اگر چار دن کی 

تو لینے ہی کیوں سات پھیرے 

تو نے جوانی میں سیکھا 

نہ جانے کہاں کا سلیقہ

جو پہلے ہی بریک اپ میں 

دل نے تیرے گیو اپ کر دیا 

اک بار ہی کیا تو یاروں پیار کیا کِیا

اک بار ہی کیا تو یاروں پیار کیا کِیا 

پیار ہوتا ہوتا ہوتا کئی بار ہے 

صرف ایک پہ کیا تو دل نثار کیا کِیا 

صرف ایک پہ کیا تو دل نثار کیا کِیا 

پیار ہوتا ہوتا ہوتا کئی بار ہے 

پیار ہوتا ہوتا ہوتا کئی بار ہے 

تینوں نے گیت اور دھن پر مہارت سے ڈانس کرتے ہوئے سب کو مبہوت کر دیا۔ اور یہ ساری مہارت اس پریکٹس کا نتیجہ تھی جو یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں حصہ لینے کیلئے ان لوگوں نے کی تھی۔ لیکن اتنے نروس تھے کہ نام لکھوائے بنا ہی واپس آگئے تھے۔ 

مگر آج وہ سب کچھ اپنے دوست کا موڈ ٹھیک کرنے کیلئے کام آگیا جو بظاہر سپاٹ نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر ان کی اس فکر پر، اس کوشش پر، اچھا محسوس کرنے لگا۔

تینوں اب ڈانس کرتے ہوئے گیت کے حساب سے اس کے پاس آگئے اور اسے بھی اپنے ساتھ ڈانس فلور پر گھسیٹ لیا۔ وہ تو سپاٹ کھڑا رہا لیکن یہ تینوں ہنوز اس کے ارد گرد رقص میں مصروف رہے۔ اور اب باقی لوگ بھی ان کے ساتھ خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔

پہلی محبت میں تو لگتا یہ ہی ڈارلنگ 

مر جاؤں گا جو مجھ کو یہ نہ ملی 

اگلی دفعہ محبت ہوتی ہے تو لگتا ہے 

یہ والی مجھ کو پہلے کیوں نہ ملی؟

وہ دل کیا بھلا، جو ٹوٹا نہ کبھی

پہلی دفعہ چوٹ کھا کے 

کیوں دل کو لگانا ہی چھوڑیں 

سب کچھ محبت میں چلتا ہے 

تو کیوں نا دو چار دل ہم بھی توڑیں

تو نے جوانی میں سیکھا 

نہ جانے کہاں کا سلیقہ

جو پہلے ہی بریک اپ میں 

دل نے تیرے گیو اپ کر دیا 

اک بار ہی کیا تو یاروں پیار کیا کِیا 

پیار ہوتا ہوتا ہوتا کئی بار ہے 

صرف ایک پہ کیا تو دل نثار کیا کِیا 

پیار ہوتا ہوتا ہوتا کئی بار ہے 

پیار ہوتا ہوتا ہوتا کئی بار ہے 

تینوں پورے جوش سے رقص و گیت کے ذریعے اسے وہ سمجھانے میں مصروف تھے جو ڈانٹ اور پیار سے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے۔ 

ان کی محنت رنگ لائی اور بلآخر احتشام مسکرا دیا۔ اسے اتنے دن بعد مسکراتا دیکھ تینوں خوشی سے پاگل ہوتے ہوئے اس کے گلے لگے اور اسے کس کر بھینچ لیا۔

اس لمحے احتشام کو بھی قائل ہونا پڑا کہ اس کے پاس اب بھی کچھ بہت قیمتی موجود ہے، جسے دنیا ”دوست“ کہتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پارٹی ختم ہونے کے بعد اب دیر رات یہ لوگ واپسی کی راہ پر گامزن تھے۔ حسب منصوبہ حسن نے اپنے دوست کی کار لے لی تھی جو اس وقت ولید ڈرائیو کر رہا تھا۔ احتشام فرنٹ سیٹ پر تھا۔ اس کے پیچھے زین اور ولید کے پیچھے حسن بیٹھا ہوا تھا۔

گو کہ احتشام اب بھی پہلے کی طرح بالکل نارمل نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب کم از کم چپ کا روزہ ٹوٹا تھا اور وہ بات کرنے لگا تھا۔ فی الحال یہ ہی بات ان کیلئے غنیمت تھی۔

”اور میں نے ایک لڑکے کو ہمارے ڈانس کی ویڈیو بناتے ہوئے دیکھا تھا، وہ شاید ہماری کلاس کا ہی تھا، میں اس سے ویڈیو مانگوں گا پھر دوبارہ دیکھیں گے، مزہ آئے گا۔“ کسی بات کے اختتام پر حسن نے کہا۔

”ہاں ضرور مانگنا، آخر میرے عظیم آئیڈیا کی نشانی بھی تو ہونی چاہئے ناں۔۔۔“ زین نے پورا سہرا اپنے سر سجایا۔

”تیرا آئیڈیا؟“ حسن نے آئبرو چڑھائیں۔

”ہاں تو، یہ ڈانس والا آئیڈیا میرا تھا ناں ولی؟“ اس نے گواہ کو بیچ میں گھسیٹا۔

”ہاں ہاں مان لیا کہ ایسے الٹے آئیڈیاز تیرے ہی ہو سکتے ہیں۔“ احتشام نے چپس کھاتے ہوئے سہولت سے کہا۔ زین نے جتاتے ہوئے فخر سے حسن کو دیکھا۔

”اتفاق سے بس ایک آئیڈیا کام کر گیا تو اتنا پھیل رہا ہے۔“ حسن باز نہ آیا۔

”اچھا۔۔۔اس سے پہلے کون سا آئیڈیا فیل ہوا ہے میرا؟“ وہ دو بدو ہوا۔

”بتاؤں؟“

”نہیں، مجھے نہیں سننی تیری بکواس، ولی بلوٹوتھ آن کردے یار، اس کی بکواس سننے سے بہتر ہے کہ میں اپنی پلے لسٹ سن لوں۔“ زین نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے ولید کو حکم دیا۔

”کیوں؟ سچ سننے سے ڈر گیا؟“ حسن نے طنز کیا جسے زین نے ناک چڑھا کر نظر انداز کیا اور پینٹ کی جیب سے موبائل نکال کر بلوٹوتھ کنیکٹ کر لیا۔

رات ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر زیادہ ٹریفک نہیں تھا تو انہوں نے جلدی راستہ عبور کر لیا اور اب یہ لوگ گھر کے قریب تھے۔ زین نے کوئی گیت پلے کر دیا تھا جس کی دھن اسپیکرز سے بر آمد ہوئی۔ 

میرا دل جس دل پہ فدا ہے

میرا دل جس دل پہ فدا ہے 

اک بے وفا ہے اک بے وفا ہے 

ہاں محبت کی یہ سزا ہے 

وہ بے وفا ہے اک بے وفا ہے 

گیت کے بول سماعت سے ٹکراتے ہی حسن و ولید نے سٹپٹا کر زین کو دیکھا اور حسن نے فوری ”چینج“ کا اشارہ کیا۔ زین نے نیکسٹ پر کلک کر دیا۔

سچ کہہ رہا ہے دیوانہ 

دل، دل نہ کسی سے لگانا 

جھوٹے ہیں پیار کے وعدے سارے 

جھوٹی ہیں پیار کی قسمیں 

میں نے ہر لمحہ 

جسے چاہا 

جسے سوچا 

اسی نے یاروں میرا دل توڑا توڑا 

تنہا تنہا چھوڑا 

گیت کے بول احتشام کے زخم تازہ کر گئے جس کا ثبوت اس کا ساکت ہو چکا ہاتھ تھا جس سے وہ چپس کھا رہا تھا۔ ولید نے گردن موڑ کر زین کو گھورا۔ اس نے غلطی کا احساس ہونے پر پھر نیکسٹ دبايا۔

کبھی بندھن جڑا لیا 

کبھی دامن چھڑا لیا 

او ساتھی رے 

سب کچھ بھلا دیا 

یہ وفا کا کیسا صلہ دیا 

اب کی بار حسن نے اسے مکا جڑ کے چینج کرنے کا حکم دیا۔ جس کی اس نے تعمیل کی۔

پیار جھوٹا تھا جتایا ہی کیوں 

ایسے جانا تو تھا آیا ہی کیوں 

اے ستمگر تو ذرا اور ستمگر کردے آ

آجا بے وجہ سا یہ رشتہ ختم کردے آ 

او بے دردیا یار بے دردیا 

یکدم ولید نے ٹیپ ہی آف کر دیا اور پیچھے حسن نے زین سے موبائل چھینا۔ اسی پل گاڑی بلڈنگ میں داخل ہو کر رک گئی۔

احتشام فوری گاڑی سے اترا اور تیزی سے لفٹ میں سوار ہو کر ان لوگوں کا انتظار کیے بنا دروازہ بند کر لیا۔ 

یہ تینوں بھی اسے پکارتے ہوئے سرعت سے باہر آچکے تھے لیکن تب تک احتشام چلا گیا۔ 

”اتنی مشکل سے ٹھمکے لگا کر اس کا موڈ ٹھیک کیا تھا، لیکن تیری اس ڈبلیو گیارہ والی پلے لسٹ نے ہماری ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔“ حسن نے زین کا گلا دبوچا۔

”کیا ہوگیا یار اتنی اچھی کلیکشن تو ہے، مجھے تو یہ سن کر ہمیشہ وائب آتی ہے، مجھے کیا پتا تھا کہ وہ دل پر لے جائے گا۔“ زین نے بیچارگی سے صفائی دی۔

”تیرے لیے نارمل چینی شوگر پیشنٹ کیلئے زہر ہو سکتی ہے یہ کامن سینس کی بات ہے، لیکن تیرے پاس تو سینس ہی نہیں ہے۔“ ولید نے بھی اسے لتاڑتے ہوئے اس پر دهاوا بول دیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تینوں فٹافٹ سیڑھیوں کے ذریعے پانچویں منزل پر پہنچے اور ڈوپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھول کر اندر آئے۔ احتشام کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ 

”احتشام دروازہ کھول۔۔“ ولید نے دستک دیتے ہوئے پکارا۔ وہ دونوں بھی متفکر تھے۔

”احتشام کیا کر رہا ہے تو؟“ ولید کا دل پھر ڈرنے لگا۔

اسی پل لاک گھومنے کی آواز آئی اور دروازہ کھل گیا۔ سامنے وہ سپاٹ کھڑا تھا۔ اسے صحیح سلامت دیکھ تینوں نے شکر کی سانس لی۔

”میں ٹھیک ہوں، بس مجھے سونا ہے، گڈ نائٹ۔۔۔“ اس نے اتنی بات کرکے دوبارہ دروازہ بند کردیا۔ 

تینوں نے پہلے بند دروازے کو دیکھا اور پھر بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔ جیسے فتح کے قریب آ کر کچھ ہارے ہوئے شکستہ کھلاڑی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ ٹو بیڈ لاؤنج کا فرنشڈ فلیٹ تھا۔ ایک بیڈ روم میں حسن اور زین سوتے تھے، دوسرے میں احتشام اور ولید!

لیکن آج جب احتشام نے خود کو کمرے میں بند کیا تو ولید کو لاؤنج کے صوفے پر ہی سونا پڑا۔ زین اور حسن نے اپنے کمرے میں سونے کی پیشکش کی لیکن وہ ٹال گیا۔

رات دھیرے دھیرے گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ فلیٹ کی ساری لائٹس بند تھیں صرف اوپن کچن کی لائٹ آن تھی اور اسی سے سب جگہ مدھم روشنی تھی۔

حسن اور زین بھی کمرے میں جا کر سو چکے تھے۔ احتشام نے اب تک دروازہ نہیں کھولا تھا۔ ولید لاؤنج کے ڈبل صوفے پر لیٹا تھا جسے دوست کی فکر میں نیند نہیں آرہی تھی۔

جانے سے قبل ریحانہ اسے اپنی قسم دے کر گئی تھیں کہ اب وہ خود کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ولید کو پتا تھا کہ احتشام قسم کا پاس رکھ کر خود کو کوئی جسمانی اذیت نہیں دے گا لیکن جو ذہنی اذیت اس نے خود پر طاری کر رکھی ہے اس سے کیسے نجات دلائے؟ 

آج اسے مسکراتا دیکھ امید کی ایک ہلکی سی کرن جاگی تھی لیکن دوبارہ آئے مایوسی کے بادلوں نے اسے پھر چھپا دیا۔

یہ ہی سب سوچتے ہوئے وہ بھی بلآخر نیند کی وادی میں اتر گیا۔ اور رات سرکتی گئی۔

اچانک کچھ گرنے کی آواز پر ولید کی آنکھ کھلی اور آواز کے تعاقب میں وہ فٹافٹ سامنے کچن کی جانب بھاگا۔

کچن کاؤنٹر کے پیچھے سے احتشام اٹھتا نظر آیا جس کے ہاتھ میں چھری تھی۔ ولید کا دل دھک سے رہ گیا۔

”چائے بنانے کیلئے دودھ کا پیکٹ کھول رہا تھا یار۔۔۔“ احتشام نے اس کی ہوائیاں اڑی دیکھ ہنستے ہوئے وضاحت کی۔ اور کاؤنٹر کی طرف اشارہ کیا۔ ولید نے دیکھا وہاں واقعی دودھ کا پیکٹ رکھا تھا۔

”یہ زین برتن دھو کر اتنے بے ڈھنگے پن سے ریک پر رکھتا ہے کہ ایک چیز نکلنے کی کوشش میں چار چیزیں لازمی گرتی ہیں، جیسے ابھی نیچے دبی چھری نکالنے پر پیالہ گرا۔۔“ احتشام نے اسی طرح مزید کہتے ہوئے چھری سے دودھ کا پیکٹ کھولا۔

”تجھے چائے پینی تھی تو مجھے جگا دیتا، میں بنا دیتا۔“ ولید بھی نارمل ہوتا آگے آیا۔

”صرف مجھے نہیں پینی تھی، میں تم سب کیلئے بھی ناشتہ بنا رہا تھا۔“ اس نے دودھ پتیلی میں ڈالتے ہوئے بتایا۔

ناشتے والی بات پر ولید کو محسوس ہوا کہ در حقیقت صبح ہوچکی ہے اور اب پورا اپارٹمنٹ روشن ہو رہا ہے۔ 

”کل تم لوگوں نے میرے لئے اتنا اچھا ڈانس کیا تو بدلے میں اتنا تو کر ہی سکتا ہوں۔“ وہ معنی خیزی سے کہہ کر کیبنٹ کی جانب بڑھا۔ 

”اور ویسے بھی بہت دنوں سے میری کچن کی باری گول ہو رہی ہے میں جانتا ہوں۔“ اس نے کیبنٹ میں سے چینی اور پتی کے جار نکالے اور چولہے کی جانب آیا۔

ولید بس متعجب سا اسے دیکھے جا رہا تھا۔ کل اتنے دنوں بعد اس کا مسکرانا، بات کرنا، پھر اچانک سنجیدہ ہو کر خود کو کمرے میں بند کر لینا، اور اب خود کو ہشاش بشاش دکھاتے ہوئے سب کیلئے ناشتہ بنانا؟ ولید سب سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

”تم ہاف فرائی انڈا کھاؤ گے یا آملیٹ؟“ اس نے فریج کی جانب جاتے ہوئے پوچھا۔

”جو تم کھلانا پسند کرو۔“ ٹھہرا ہوا جواب آیا۔

”کچا کھلا دوں؟“ ذرا سا جھک کر فریج میں جھانکتے ہوئے وہ شرارتاً بولا۔

”اتنے دن بعد تمہارے نارمل ہونے کی خوشی میں وہ بھی کھا لوں گا۔“ ولید نے اپنی کیفیت کا اظہار کیا۔ وہ فریج میں سے انڈے لے کر واپس اس طرف آیا۔

”مجھے بہت اچھا لگا تمھیں ایسے دیکھ کر، خوشی ہوئی تم سمجھ گئے ہو کہ کسی کے چلے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی۔“ ولید نے اس کے قدم کو سراہا۔

”ہاں، کسی کے چلے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی۔“ احتشام نے نظریں جھکا کر دھیرے سے تائید کی۔

”بس بدل جاتی ہے۔“ اگلی بات کے ساتھ مسکراتے ہوئے جب نظریں اٹھیں تو آنکھیں ویران تھیں اور مسکراہٹ میں عجیب سا خالی پن! 

ولید جو ابھی اپنے دوست کو واپس زندگی کی طرف لوٹتا دیکھ خوش ہو رہا تھا اس کی ویران آنکھیں دیکھ ٹھہر گیا۔

”خیر۔۔۔۔تو دیکھنا دودھ ابل کر گرے نہیں۔۔۔میں ان دونوں کو بھی جگا کر آتا ہوں۔“ احتشام اسے کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا اور وہ یوں ہی کھڑا رہ گیا۔

مطلب اس کا دوست اب بھی جی نہیں رہا تھا، بس جینے کی اداکاری کرنے لگا تھا! 

٭٭٭٭٭٭٭٭

احتشام کے رویے کی بظاہر تبدیلی سے سب خوش تھے کہ شکر وہ واپس زندگی کی طرف تو آیا۔ لیکن صرف ولید جانتا تھا کہ احتشام نے اب تک پرانی یادوں کو چھوڑا نہیں ہے، بلکہ ان کا نادیدہ بوجھ کسی لاش کی مانند اپنے کندھوں پر لیے سب کے ساتھ چلنے کی کوشش میں در حقیقت خود کو گھسیٹ رہا ہے۔ اور وہ اپنے دوست کو اس بوجھ سے آزاد دیکھنا چاہتا تھا۔ پر کیسے؟ 

”آج کھانا میں بنا لیتا ہوں ولی۔۔۔“ لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے احتشام نے اسے کچن میں جاتا دیکھ کہا۔ احتشام کے ساتھ زین بھی بیٹھا تھا اور دونوں ایل ای ڈی پر کوئی شو دیکھ رہے تھے۔

”نہیں میں فری ہوں، بنا لوں گا، تو بس یہ بتا کیا کھائے گا؟ چکن کڑاہی یا چکن قورمہ؟“ اس نے فریزر کھول کر کچن سے ہی پوچھا۔

”چکن قورمہ بول دے یار، کڑاہی کھا کھا کر اوب گیا ہوں۔“ زین نے کان میں سرگوشی کی۔

”چکن کڑاہی بنا لے ولی۔۔۔“ احتشام نے اطمینان سے جان بوجھ کر یہ جواب دیا۔ اس حرکت پر زین اسے خونخوار نگاہوں سے گھور کر رہ گیا۔

”یار کوكنگ آئل کی تو پوری بوتل خالی پڑی ہے۔“ ولید نے کیبنٹ سے بوتل نکالتے ہوئے کہا۔

”ہاں میں بتانا بھول گیا تھا کہ تیل ختم ہوگیا ہے، اور ساتھ کچن کی کچھ مزید چیزیں بھی اینڈ ہو رہی ہیں، لانی ہیں۔“ زین نے جواب دیا۔

”تو کب لائے گا؟ اینڈ ہونے کے بعد؟“ ولید کچن سے نکل کر وہاں آیا۔

”اچھا تو مطلب یہ سب لانا میری ذمہ داری ہے؟ میں اکیلا سارا راشن کھاتا ہوں؟“ زین نے تیور چڑھائے۔

”چھوڑو یار، ایسا کرتے ہیں سب مارٹ چلتے ہیں، جو سامان ختم ہو رہا ہے وہ لے آتے ہیں اور آج کھانا باہر سے منگوا لیں گے۔“ احتشام نے مداخلت کرکے بیچ کی راہ نکالی۔

”ہاں یہ آئیڈیا اچھا ہے، میں ابھی حسن کو بتاتا ہوں۔“ زین بھرپور حمایت کرتے ہوئے اٹھا اور کمرے کی طرف چلا گیا۔

”باہر کے کھانے کیلئے اور باہر جانے کیلئے یہ ہمیشہ تیار رہتا ہے۔“ ولید بڑبڑایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

چاروں سپر مارکیٹ آنے کے بعد ایک ٹرالی لے کر مطلوبہ چیزوں کی تلاش میں نکل پڑے تھے اور ہر سیکشن سے گزرتے ہوئے اس میں چیزیں جمع کرتے جا رہے تھے۔ 

ولید کچن کا ضروری سامان اٹھا رہا تھا۔ حسن اور احتشام بھی ضرورت کی دیگر چیزیں لے رہے تھے۔ جب کہ زین چپس، کولڈ ڈرنکس، نوڈلز، بسکٹ ایسے اکٹھا کر رہا تھا جیسے مالِ غنیمت! 

”میں دوسرے سیکشن سے کوكنگ آئل لے کر آتا ہوں۔“ ولید ان کو کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ 

وہ ہر سیکشن کو بغور دیکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اور بلآخر ایک جگہ کوكنگ آئل کا شیلف نظر آگیا۔ اس نے پاس آ کر شیلف میں اوپر رکھی ایک بوتل اٹھائی ہی تھی کہ پیچھے سے اچانک کوئی ٹرالی آ کر اس کی کمر پر لگی۔ وہ تلملا کر پلٹا۔

”سوری سوری اس کا ٹائر جام ہوگیا تھا میں زور لگا رہی تھی کہ یہ اچانک چل پڑی ویری سوری۔“ لڑکی نے فوری معذرت کی۔  اور لڑکی کو دیکھتے ہی اچانک ولید کا برہم تاثر تعجب میں بدلا۔

”سویرا؟“ ولید نے تائید چاہی۔ اب لڑکی کو تعجب ہوا۔

”آپ کو میرا نام کیسے معلوم؟“ 

”ارے میں ولید ہوں۔“ اس نے تعارف کرایا تو سویرا کے ماتھے پر پڑے بل غائب ہوئے اور آنکھوں میں شناسائی ابھری۔

”ولید۔۔۔۔رحمٰن ماموں کے بیٹے؟“ اس نے تصدیق چاہی۔ اس نے سر ہلایا۔

”اوہ۔۔۔لاسٹ ٹائم شاید پانچ سال پہلے تمھیں آمنہ باجی کی شادی پر دیکھا تھا، اب کافی چینج ہوگئے ہو، اور تم یہاں کراچی میں کیسے؟“ اب وہ خوشگوار حیرت کی کیفیت میں تھی۔

”پڑھائی کیلئے آیا ہوا ہوں، تین سال ہوگئے ہیں، یہ آخری سال چل رہا ہے۔“ 

”تم تین سال سے یہاں ہو اور ایک بار بھی ہمارے گھر نہیں آئے۔“ اسے حیرانی ہوئی۔

”بس ایسے ہی، ٹائم نہیں ملتا۔“ گول مول جواب آیا۔

”ہاں تم بڑے گورنر لگے ہوئے ہو ناں جو تمہارے پاس پھوپھو کے گھر آنے کا بھی ٹائم نہیں ہے۔“ اس نے طنز کیا۔ وہ ہنس دیا۔

”تم سناؤ گھر میں سب کیسے ہیں؟ پھوپھا پھوپھو؟ راحیل بھائی اور ان کی فیملی؟ اور تم آج کل کیا کر رہی ہو؟“ ولید نے بات اس کی جانب موڑ دی۔

”ہاں گھر پر سب ٹھیک ہیں، اور میں ان دنوں سائیکالوجی پڑھ رہی ہوں۔“ 

”اوہ زبردست۔۔۔“ وہ متاثر ہوا۔

”چلو اب جب ملاقات ہو ہی گئی ہے تو گھر چلو، امی پاپا سے بھی مل لینا۔“ سویرا نے پیشکش کی۔

”ابھی نہیں، پھر کبھی فرصت سے آؤں گا۔“ اس نے ٹالا۔

”اچھا تم مجھے اپنا نمبر تو دو، تمہارا پرانا والا نمبر تو اب لگتا ہی نہیں ہے۔“ سویرا نے کندھے پر لٹکے پرس سے موبائل نکالا۔

دوسری جانب جب ولید کو گئے کافی دیر ہوگئی تو حسن اسے ڈھونڈنے آیا جس کے پیچھے پیچھے زین بھی چل پڑا۔ اور اب دور سے دونوں اسے ایک لڑکی سے بات کرتا دیکھ چکے تھے۔

”یہ لڑکی کون ہے؟“ حسن کو تعجب ہوا۔

اس طرف نمبرز کا تبادلہ کرنے کے بعد سویرا اپنی ٹرالی لے کر وہاں سے چلی گئی تو یہ دونوں وہاں پہنچے۔

”یہ لڑکی کون تھی ولید؟“ حسن نے پوچھا۔

”میری پھوپھو زاد کزن تھی۔“ 

”اچھا۔۔۔مطلب تمہاری بہن تھی؟“ زین نے جان بوجھ کر چھیڑا۔ ولید اسے سپاٹ نظروں سے گھور کر رہ گیا جس کی شکل پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سپر مارکیٹ سے واپس لوٹتے ہی ان لوگوں نے کھانا آرڈر کر دیا تھا۔ اور کھانا کھانے کے تھوڑی دیر بعد اب سب اپنے اپنے بستروں میں نیم دراز ہوچکے تھے۔

ولید بیڈ پر لیٹا، موبائل میں سوشل میڈیا کا جائزہ لے رہا تھا کہ واٹس ایپ پر سویرا کا میسیج آیا۔ وہ اس سے بات کرنے لگا۔

”میں نے امی کو بتایا تمہارے بارے میں، وہ خوش بھی تھیں اور ناراض بھی تھیں کہ تم کب سے شہر میں ہو لیکن گھر نہیں آئے۔“ سویرا کا میسیج آیا۔

”سوری، لیکن کچھ دنوں تک پھوپھو سے ملنے ضرور آؤں گا۔“ ولید نے جواب لکھا۔

”کل تم فری ہو کیا؟“ 

”کل گھر نہیں آ سکتا لیکن فرائیڈے کو ضرور آؤں گا پرامس۔۔“

”گھر آنے کیلئے نہیں کہہ رہی، مجھے تم سے باہر کہیں ملنا، مل سکتے ہو؟“ یہ میسیج پڑھ کر وہ کھٹکا۔

”خیریت؟“ یک لفظی سوال گیا۔

ولید کا سوالیہ میسیج سویرا کو پہنچ چکا تھا اور نیلا نشان بتا رہا تھا کہ میسیج پڑھ بھی لیا گیا ہے۔ لیکن فوری جواب نہیں آیا۔ غالباً وہ لفظ ترتیب دے رہی تھی۔ تب ہی typing کی ہیڈنگ نظر آئی، مطلب وہ جواب لکھنے لگی تھی جو جاننے کا اسے بھی تجسس تھا۔

”تم سے ایک کام ہے، یوں سمجھ لو تمہاری ہیلپ چاہیے، اور یہ پوری بات میں تمھیں کل مل کر ہی سمجھا سکتی ہوں، کیا تم آ سکتے ہو؟“ اس میسیج نے تشویش اور بڑھا دی۔ اب وہ میسیج لکھنے لگا۔

”ٹھیک ہے، کب اور کہاں آنا ہے؟“ بلآخر تجسس نے اسے رضا مند کر لیا۔

جواباً سویرا نے اسے ایک کیفے کی لوکیشن اور کل شام چار بجے کا وقت دیا۔ اس نے رضا مندی دے دی جو جاننا چاہتا تھا کہ آخر سویرا کو اس سے کیا مدد چاہیے؟ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلے روز ولید طے شدہ ملاقات کیلئے تیار ہو رہا تھا۔ اس نے جینز کے ساتھ آسمانی شرٹ پہنی تھی اور اب اپنی اور احتشام کی مشترکہ الماری میں اپنی نئی گھڑی ڈھونڈ رہا تھا۔ تب ہی احتشام کے کپڑوں کے نیچے ایک سرخ مخملی باکس ملا۔ اس نے باکس کھولا تو اندر ایک انگوٹھی تھی۔ یہ غالباً اس نے ثانیہ کیلئے لی تھی اور اب تک سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔ ولید نے بے ساختہ لب بھینچ لیے۔ اس کا شک صحیح نکلا کہ احتشام اب بھی اسے نہیں بھولا ہے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

دونوں طے شدہ مقام پر پہنچ چکے تھے اور اب ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ سویرا نے سفید پلازو کے ساتھ گلابی رنگ کی لمبی کرتی پہنی ہوئی تھی۔ گلے کے گرد سفید اسکارف تھا۔ بڑا سا بیگ برابر والی کرسی پر رکھا تھا اور وہ میز پر رکھے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں مروڑتے ہوئے مدعہ بیان کرنے کیلئے لفظ ترتیب دے رہی تھی۔

”کیا تم میرے لیے نقلی ڈپریشن کے مریض بن سکتے ہو؟“ بلآخر وہ پوچھ بیٹھی۔

”کیا؟“ ولید بھونچکا رہ گیا۔ وہ وضاحت کیلئے گویا ہوئی۔

”میں نے بتایا تھا ناں کہ میں سائیکالوجی پڑھ رہی ہوں، اسی میں مجھے آسائنمنٹ ملا ہے کہ اب مجھے باقاعدہ ایک ایسے شخص کی کاؤنسلنگ کرنی ہے جو ڈپریشن میں ہو اور اسے واپس زندگی کی طرف لانا ہے۔“ 

”ہاں تو کرو کاؤنسلنگ، اتنی پڑھائی کیوں کر رہی ہو جب ڈھنگ سے کام کرنے کے بجائے یہ ٹیڑھی میڑھی جگاڑ لگانی ہے۔“ اس نے کلاس لی۔

”وہ سب میں تمھیں نہیں سمجھا سکتی، کسی اصلی پیشنٹ کو ڈھونڈنے میں اور پھر اسے ٹھیک کرنے میں مجھے بہت وقت لگ جائے گا، لیکن اگر تم میری مدد کر دو تو بہت آسانی ہوجائے گی، میں ان دنوں اسی وجہ سے بہت پریشان تھی کہ تم سے ملاقات ہوگئی، اس کام کیلئے تم سے زیادہ قابلِ بھروسہ شخص اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“ سویرا نے سوال ٹالتے ہوئے عاجزی سے کہا۔

”کیا پھوپھا پوپھو کو اس بارے میں پتا ہے؟“ ولید نے آنکھیں سکیڑیں۔ سویرا کا سر دھیرے سے نفی میں ہلا۔

”اور اگر میں نے انہیں یہ سب بتا دیا تو؟“ ولید نے آئبرو اچکائی۔

”مجھے یقین ہے تم نہیں بتاؤ گے۔“ سویرا کے ٹھہرے ہوئے جواب کا یقین اسے اپنی جگہ مبہوت کر گیا۔

”یور آرڈر۔۔۔“ اسی پل ویٹر نے کافی لا کر رکھی تو وہ چونک کر ہوش میں آیا۔ دونوں نے ٹرے میں سے اپنا اپنا کپ اٹھا لیا۔

”تو پھر تم میری مدد کیلئے راضی ہو ولید؟“ سویرا نے جاننا چاہا۔

”ہاں، لیکن۔۔۔۔“ 

”لیکن کیا؟“ 

”لیکن میں مریض بن کر تمہاری مدد نہیں کروں گا بلکہ تمھیں ایک اصلی مریض سے ملواؤں گا، تم اسے ڈپریشن سے نکالو۔“ ولید کی پر اطمینان بات سن کر وہ دنگ رہ گئی۔

”کیا؟“

”ہاں، میرا بہت اچھا دوست ہے احتشام جو بریک اپ کے بعد ڈپریشن میں چلا گیا ہے، تم اسے نارمل کرو، تمہارا کام بھی ہوجائے گا اور وہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔“ ولید نے کڑیاں جوڑیں۔

”اس میں بہت وقت اور محنت لگے گی ولید۔۔۔“ وہ بے بسی سے بولی۔

”ہاں تو لگاؤ، یہ ہی تو تمہارا کام ہے، فیوچر میں تمھیں اصلی مریضوں کے ساتھ کام کرنا ہے ناں، اگر تم یہ نہیں کر سکتی تو پھر اتنی پڑھائی کیوں کر رہی ہو؟“ ولید نے لا پرواہی سے کہا۔ وہ اسے دیکھے گئی۔

”مطلب تم نقلی مریض نہیں بنو گے؟“ اس نے آخری بار پوچھا۔

”نہیں، البتہ میں تمھیں اصلی مریض ضرور دے سکتا ہوں، اگر تم راضی ہو تو بتا دینا۔“ اس نے بھی اطمینان سے حتمیٰ فیصلہ سنا دیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج کھانا بنانے کی ذمہ داری حسن کی تھی۔ ولید گھر آیا تو وہ کھانا بنانے میں مصروف ملا۔ پھر تھوڑی دیر بعد سب نے ساتھ کھانا کھایا اور اب چاروں لاؤنج میں اکٹھا بیٹھے فلم دیکھ رہے تھے۔

تینوں کو ابھی تک اس ”ڈبلیو گیارہ“ والی پلے لسٹ کے سائیڈ ایفیکٹس یاد تھے۔ لہٰذا اس بار فلم کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا جس میں کوئی عشق عاشقی کی بات نہ ہو۔ بلکہ فلم کا موضوع دوستوں کے گرد گھومتا ہو۔ اسی لیے جو فلم منتخب کی گئی وہ تھی ساؤتھ انڈیا کی ملیالم فلم ”منجومل بوائز“ (Manjummel Boys) جسے یہ لوگ ہندی ترجمے میں دیکھ رہے تھے۔

”ابے یہ کون سی عجیب فلم لگا لی ہے یار؟“ فلم شروع ہوتے ہی پاپ کارن کھاتے زین نے ناک منہ بنایا۔

”شروع کا آدھا گھنٹہ نکلنے دے، اس کے بعد جو ہوگا ناں وہ دیکھنے لائق ہے۔“ حسن نے جواب دیا کیونکہ یہ اسی کا انتخاب تھا۔

”تھوڑی سی کہانی تو بتا۔۔“ ولید نے کہا۔

”کچھ دوست گھومنے کیلئے ایک پہاڑی علاقے میں جاتے ہیں جہاں ایک دوست بہت گہرے گڑھے میں گر جاتا ہے، جسے ”ڈیولز کچن“ کہتے ہیں، اس کے بعد سب کے ساتھ جو ہوتا ہے بس وہ دیکھنا تم لوگ، اور سب سے ضروری بات کہ یہ فلم رئیل انسیڈنٹ پر بیس ہے، یعنی یہ واقعی کچھ دوستوں کے ساتھ ہوا تھا۔“ حسن نے مزید سنسنی پھیلائی۔

”اگر کچھ بکواس ہوا ناں تو تیری خیر نہیں۔“ زین نے دھمکی دی۔

”بے فکر رہے تیری اس ڈبلیو گیارہ والی پلے لسٹ جتنا بکواس نہیں ہوگا۔“ حسن نے بھی حساب نہ رکھا۔ 

”اچھا بس اب چپ ہو کر دیکھنے تو دو تا کہ کچھ سمجھ آئے۔“ ولید نے ٹوکا تو دونوں چپ ہوگئے۔ احتشام تو پہلے ہی خاموش بیٹھا تھا۔

جیسا حسن نے کہا تھا کہ شروعات میں فلم کچھ خاص نہیں تھی۔ سب کرداروں کا تعارف ہو رہا تھا اور سب کہیں گھومنے جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ زین بار بار حسن کے انتخاب پر طنز کر رہا تھا۔

لیکن جب یہ سب وہاں پہنچے اور وہ دوست گڑھے میں گرا تو اس کے بعد سب کی بولتی بند ہوگئی اور نظریں اسکرین پر جم گئیں۔ ہر سنسنی خیز موڑ پر ان کی دھڑکن بھی بڑھ جاتی۔ یہ لوگ اس قدر فلم میں کھو گئے تھے کہ پاپ کارن کھانا بھی یاد نہیں رہا۔ حتیٰ کہ احتشام کی بھی پوری توجہ وہیں تھی۔ اور فلم مکمل ہونے کے بعد ہی سب جیسے کسی سحر سے آزاد ہوئے۔

”اچھی فلم تھی ناں؟“ اختتام کے بعد حسن نے فخر سے رائے مانگی۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھنے لگے۔ محفل برخاست ہونے لگی۔

”ہاں یار، جب وہ لوگ رسی کھینچ رہے تھے ناں تب تو گھبراہٹ کے مارے میری ہتھیلیوں میں بھی پسینے آگئے تھے۔“ زین نے جواب دیا۔ سب سے زیادہ اسے ہی فلم پسند آئی تھی۔

دونوں اسی پر مذاکرات کرتے ہوئے اپنا اپنا تکیہ لے کر کمرے میں چلے گئے۔ احتشام اور ولید بھی اپنے کمرے میں آ کر اپنے اپنے سنگل بیڈ پر لیٹ گئے۔

”مووی اچھی تھی ناں احتشام؟“ ولید نے پوچھا۔

”ہاں۔۔“ مختصر جواب ملا۔

”دیکھا ناں کہ جب ایک دوست پر مشکل وقت آجائے تو باقی سب اس کیلئے کتنے پریشان ہوتے ہیں؟ کیسے سب کی جان پر بن آتی ہے؟“ ولید نے جان بوجھ کر جتایا۔ اس نے محض ”ہمم“ کہا۔ گویا اس کا مفہوم سمجھ کر نا سمجھ بن گیا ہو۔

”اچھا آج میری آنٹی سے بات ہوئی، کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے تیرے لیے لڑکیاں دیکھنی شروع کر دی ہیں، یہ سال مکمل کرکے تو جیسے ہی واپس پہنچے گا وہ اپنی چھوٹی بہو کو گھر لانے کی تیاریاں شروع کردیں گی۔“ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں موضوع بدلا۔ وہ اس کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا۔

”میں امی کو کہہ چکا ہوں ولی کہ میرا شادی وادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔اب مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔گڈ نائٹ۔۔۔“ اس نے دوسری جانب کروٹ لی اور منہ تک کمبل اوڑھ لیا۔ مطلب وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ 

ولید بے بسی سے اس کی پشت دیکھ کر رہ گیا۔ 

اسی پل موبائل پر میسیج ٹون بجی۔ ولید نے چیک کیا۔ واٹس ایپ پر سویرا کا میسیج آیا تھا۔

”میں تمہارے دوست کی کاؤنسلنگ کیلئے تیار ہوں ولید۔“ 

یہ مختصر میسیج پڑھتے ہی ولید کے لبوں پہ پر مسرت فاتحانہ مسکراہٹ امڈ آئی۔ جو کہہ رہی تھی کہ اب وہ بھی اپنے دوست کو مایوسی کے گڑھے سے نکال لائے گا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نیا دن نکل آیا تھا۔ حسب معمول ولید اور احتشام جلدی بیدار ہوگئے تھے جب کہ حسن اور زین سوئے پڑے تھے۔ ولید نے اپنے اور احتشام کیلئے چائے بنا لی تھی۔ دونوں اکثر پہلے اٹھ کر چائے پی لیتے تھے اور ان دونوں کے جاگنے کے بعد ساتھ ناشتہ کرتے تھے۔ اور کبھی اگر زیادہ بھوک ہوتی تو یہ لوگ ناشتہ بھی کر لیتے تھے۔

احتشام بالکونی میں کھڑا تھا۔ ولید بھی دو چائے کے کپ لیے وہاں آگیا۔ اس نے احتشام کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ وہ سامنے منڈیر پر بیٹھے دو کبوتروں کو دیکھ رہا تھا۔ 

”چائے۔۔۔“ ولید کی آواز پر اس کا ارتکاز ٹوٹا اور اس نے اپنا کپ تھام لیا۔ ولید بھی برابر میں کھڑا ہو کر چائے پینے لگا۔

”تجھ سے ایک مدد چاہیے احتشام۔۔۔“ اس نے بات شروع کی۔

”ہاں بول۔۔۔“ وہ سن رہا تھا۔

”میں نے بتایا تھا ناں کہ میں اپنی کزن سویرا سے ملا تھا جو اسی شہر میں رہتی ہے اور سائیکالوجی ڈپلومہ کر رہی ہے؟“ اس نے یاد دلایا۔

”ہاں تو؟ اس کے گھر تیرا رشتہ لے کر جانا ہے؟ امی سے بات کروں؟“ احتشام نے سنجیدگی سے غیر سنجیدہ نتیجہ نکال لیا۔

”پہلی بات تو یہ کہ ایسا نہیں ہے، دوسری بات، ایسا ہوتا بھی تو میں تجھ سے پہلے شادی نہیں کرتا، پہلے تیری شادی ہوگی پھر میری۔۔“ ولید نے بھی خاصی تفصیلی تصحیح کر ڈالی۔

”اس کا مطلب تیری شادی کبھی نہیں ہوگی۔“ اس نے بڑبڑا کر گھونٹ لیا جس کا مفہوم تھا کہ میں شادی نہیں کرنے والا۔

”فی الحال بات میری شادی کی نہیں میری کزن کی ہو رہی تھی۔“ ولید واپس موضوع پر آیا۔

”ہاں تو کیا ہوا تمہاری کزن کو؟“ 

”اسے مدد چاہیے۔“ 

”کیسی مدد؟“ 

”اسے آسائنمنٹ ملا ہے کہ اسے ایک ڈپریشن کے مریض کی کاؤنسلنگ کرکے اسے واپس زندگی کی طرف لانا ہے، کیا تو اس کیلئے وہ مریض بن سکتا ہے؟“ ولید نے سوچ سمجھ کر اصل مسئلہ بتایا۔ 

”میں کیوں مریض بنوں؟ تیری کزن ہے، تو بن۔۔۔“ حسب توقع جواب آیا۔

”میں بن جاتا یار، لیکن پرابلم یہ ہے کہ کزن ہونے کی وجہ سے اس کی کچھ فرینڈز مجھے جانتی ہیں، میں جاؤں گا تو وہ پکڑی جائے گی، اسے کوئی قابلِ بھروسہ اجنبی چاہیے اور تجھ سے زیادہ قابلِ بھروسہ اور کون ہو سکتا ہے بھلا؟“ اس نے تیار شدہ جواب دیا۔

”تو حسن یا زین میں سے کسی کو لے جا۔“ اس کے پاس بھی حل تیار تھا۔

”اسے ڈپریشن کا مریض چاہیے، عقل سے بالکل فارغ پاگل نہیں چاہیے۔“ ولید نے طنزیہ جتایا۔

”اور ان سے پہلے تو میرا وہ دوست ہے جس نے ہمیشہ میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔“ اب وہ ایموشنل بلیک میلنگ کی طرف آیا۔ احتشام خاموشی سے چائے پینے لگا۔

”کل صبح پہلا کاؤنسلنگ سیشن ہے جو سینئرز کی نگرانی میں ہوگا، اسٹوڈنٹس اپنے اپنے پیشنٹس کا تعارف کرانے کے بعد کاؤنسلنگ جرنی شروع کریں گے، تو چلے گا ناں میرے ساتھ سویرا کیلئے؟“ اس نے تفصیلات بتاتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔ احتشام نے فوری جواب دینے کے بجائے اسے دیکھا۔

”یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟“ 

”یہ تو ڈرامہ شروع ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا۔“ ولید نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلے روز یعنی آج طے شدہ وقت پر ولید احتشام کے ساتھ مقررہ مقام پر پہنچ چکا تھا۔ باقی لوگ بھی آنے لگے تھے۔ لیکن سویرا ابھی تک نہیں آئی تھی۔ دونوں بلڈنگ کے باہر ایک کنارے پر کھڑے اس کے منتظر تھے۔ 

”تمہاری سائیکو میڈم وقت کی پابند نہیں ہیں۔“ دونوں بازو سینے پر لپیٹے کھڑے احتشام نے کوئی تیسری بار ولید پر طنز کیا۔

ولید جواب دینے ہی لگا تھا کہ احتشام کے عقب سے سویرا آتی ہوئی نظر آئی۔

”وہ آگئی۔“ اس کی بات پر احتشام بھی دھیرے سے پلٹا۔

سرخ پلازو کے ساتھ لمبی نارنجی کرتی پہنے، گلے کے گرد سرخ اسکارف لپیٹے، کندھے پر بیگ لٹکائے، ہوا سے آگے آئے بال کان کے پیچھے کرتی وہ یہیں آرہی تھی جسے صبح کی نرم دھوپ نے سرتاپا چمکایا ہوا تھا۔

”ہائے۔۔“ وہ پاس آ کر ولید سے مخاطب ہوئی۔

”ہائے، میٹ مائی فرینڈ، احتشام۔۔“ ولید نے تعارف کرایا۔

”تو آپ احتشام ہیں، ولید نے آپ کی بہت تعریف کی ہے۔“ سویرا نے سرتاپا خوبرو احتشام کو دیکھا۔

”اسے جھوٹ بولنے کی عادت ہے۔“ احتشام نے بے نیاز رد عمل دیا جو دونوں کیلئے غیر متوقع تھا۔

”تم نے جو کچھ کہا تھا میں نے وہ سب اسے سمجھا دیا ہے سویرا۔“ تب ہی ولید صورت حال سنبھالتے ہوئے گویا ہوا۔

”مزید کوئی بات ہے تو بتا دو۔“ 

ولید نے سویرا کو بتا دیا تھا کہ احتشام پر یہ ہی ظاہر کرنا ہے کہ وہ بس مریض بن کر اس کی مدد کر رہا ہے لیکن در حقیقت اس نے سویرا پر حقیقی علاج کا دباؤ بنایا ہوا تھا۔ یعنی سویرا کیلئے مریض کا انتظام ہوگیا تھا اور احتشام کیلئے معالج کا۔

”نہیں، تم نے سمجھا دیا ہے تو بس کافی ہے، چلو اب اندر چلتے ہیں۔“ سویرا نے اختتام تک احتشام کی جانب دیکھا۔

وہ بنا کوئی بات چیت کیے اندر کی جانب چل پڑا۔ سویرا اور ولید نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ولید نے ہاتھ جوڑ کر اشارہ کیا کہ پلیز سنبھال لینا۔ وہ بھی گہری سانس لیتی ہوئی پیچھے چل پڑی۔

”سنو۔۔۔“ ولید نے پکارا تو دونوں رک کر پلٹے۔

”بیسٹ آف لک۔۔“ ولید نے انگوٹھے سے اشارہ کیا۔

”تمہارا فرینڈ تمھیں بیسٹ آف لک کہہ رہا ہے، اسے تھینکس کہہ دو۔“ سویرا نے احتشام سے کہا۔

”وہ مجھے نہیں تمھیں کہہ رہا ہے۔“ پھر سے وہ ہی بے نیازی۔

سویرا نے سوالیہ نظروں سے ولید کو دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا کر تصدیق کی۔ وہ لا جواب ہو کر رہ گئی۔ 

وہ دونوں اندر آ کر ہال سے گزرتے ہوئے مطلوبہ کمرے کی طرف جانے لگے۔ جس دوران سویرا نے اس سے دوبارہ کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اس بار احتشام کے لب وا ہوئے۔

”ویسے تمہارے ٹیچرز نے بھی کیا انوکھا آسائنٹمنٹ دیا ہے، اور سچ میں دیا بھی ہے یا پھر یہ کوئی جھوٹ ہے؟ کیونکہ میں نے تو آج تک کسی کو ایسا کوئی آسائنمنٹ ملتے نہیں دیکھا۔“ اس نے ہڈی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چلتے ہوئے کہا۔ سویرا نے گردن موڑ کر دیکھا۔

”تم نے کبھی براہ راست دیوارِ چین دیکھی ہے؟“ سویرا نے پوچھا۔

”نہیں۔۔“ 

”تو اس کا مطلب پھر دیوارِ چین بھی جھوٹ ہے۔“ سویرا نے آرام سے نہلے پر دہلے مار کر حساب برابر کر دیا۔ وہ لا جواب ہوگیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک بڑے سے پر سکون کمرے کے وسط میں ٹیبل رکھی تھی اور اس کے گرد دو آرام دہ کرسیاں تھیں۔ جن پر سویرا اور احتشام مقابل بیٹھے ہوئے تھے۔ 

کمرے میں بظاہر ان کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ لیکن در حقیقت ایک کمرے کے بیچ حائل سیاہ شیشے کی دیوار نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک حصے میں یہ دونوں تھے اور دوسرے حصے میں تین ٹیچرز پر مشتمل ایک پینل ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ اور بات چیت سن رہا تھا۔ اس پینل میں دو فی میل سینئر ٹیچرز، مس شازیہ، مس سلمیٰ تھیں اور ایک فریش میل ٹیچر سر جنید تھے۔ 

”اپنے بارے میں کچھ بتاؤ احتشام؟“ سویرا نہایت شیریں لہجے میں گویا تھی۔

”کیوں بتاؤں؟ تم ڈی سی لگی ہو؟“ ٹکا سا سوال آیا۔ 

دوسری جانب مس شازیہ کی ہنسی بے ساختہ تھی جنہوں نے مس سلمیٰ کی گھوری پر فوری ”کنٹرول“ کیا اور سر جنید نے مس شازیہ سے عبرت پکڑ لی۔

”میں تمہاری دوست ہوں احتشام، اور دوستوں سے بات کرنے سے دل ہلکا ہوتا ہے۔“ سویرا نے اپنے کھولتے ہوئے خون کو قابو میں رکھ کر زبان سے شہد ٹپکایا۔

”خواہ خواہ دوست ہو؟ میں نے تو نہیں بنایا، یہ تو وہ بات ہوگئی کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔“ احتشام کی بے زاری میں فرق نہ آیا۔ البتہ سویرا کا پارہ ہائی ہونے لگا۔ اگر پینل کی موجودگی کا خیال نہ ہوتا تو ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اس کے سر پر مار دیتی۔ 

”کنٹرول سویرا کنٹرول۔“ وہ گہری سانس لے کر اندر ہی اندر خود سے بولی اور دوبارہ گویا ہوئی۔

”میں جانتی ہوں کہ ثانیہ کے الگ ہونے کے بعد سے تم بہت اپ سیٹ ہوگئے ہو، نئے تعلقات بنانے سے كترانے لگے ہو، اور یہ نیچرل بھی ہے۔“ وہ مزید کہنے لگی جسے ولید نے سارا پس منظر بتا دیا تھا اور یہ بات احتشام کے علم میں بھی تھی۔

”اور میں تمھیں بالکل بھی کسی بات کیلئے فورس نہیں کر رہی ہے میں۔۔۔۔“ 

”تم کر بھی نہیں سکتی، میں خود اپنی مرضی کا مالک ہوں۔“ ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ احتشام نے جتا دیا۔ سویرا اسے خونخوار نظروں سے گھور کر رہ گئی۔

دوسری جانب مس سلمیٰ سنجیدگی سے کاغذ پر کچھ لکھنے لگیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ولید بے چینی سے باہر اسی جگہ پر ٹہل رہا تھا جب دونوں ہاتھ ہڈی کی جیبوں میں ڈالے احتشام اطمینان سے آتا ہوا نظر آیا۔ 

”کیا ہوا؟ سب ٹھیک رہا؟“ ولید اس کی طرف لپکا۔

”مس سائیکو سے ہی پوچھ۔۔۔“ وہ لاپرواہی سے جواب دیتا آگے بڑھ گیا۔ ولید کچھ سمجھا نہیں۔

تب ہی جلی بھنی سویرا بھی آندھی طوفان کی مانند وہاں آئی۔

”کیا ہوا سویرا؟ میرا دوست بچ تو جائے گا ناں؟“ ولید نے یوں پوچھا گویا سویرا اس کا آپریشن کرکے نکلی ہے۔

”اس کی قسمت اچھی تھی جو پینل وہاں موجود تھا ورنہ یہ مجھ سے نہیں بچتا۔“ سویرا بھڑکی ہوئی تھی۔

”ارے لیکن ہوا کیا؟“ ولید کی الجھن بڑھنے لگی۔

”سب کچھ جانتے بوجھتے بھی یہ مجھے مسلسل الٹے جواب دیتا رہا۔“ اس نے غصے سے بتایا۔

”تو تمہارے سوال کون سا سیدھے تھے؟“ احتشام بھی واپس آ کر دوبدو ہوا۔

”تمہاری حرکتوں کی نسبت تو ذرا کم ہی ٹیڑھے تھے۔“ سویرا نے بھی لحاظ نہ رکھا۔

”اچھا! اور جو تم اپنے آسائنمنٹ میں یہ نقلی مریض والی چیٹنگ کر رہی ہو وہ کون سی سیدھی حرکت ہے؟“ احتشام بھی لڑنے کو آگے آیا۔

”کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو؟ ایسے لڑ کیوں رہے ہو؟“ ولید نے احتشام کو پکڑ کر دونوں کو روکنا چاہا۔

”تمھیں میرے معاملات کا نہیں پتا لہٰذا تم ان کے بارے میں میں بات نہ کرو۔“ سویرا نے ٹوکا۔

”ہاں تو تمھیں بھی میرے معاملات کے بارے میں نہیں پتا اسی لیے تم بھی ان سے دور رہو۔“ ترکی بہ ترکی جواب آیا۔

”ہاں تو مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہارے معاملات میں گھسنے کا، ایک بار میں ہی سمجھ آگیا ہے کہ تمہاری ان ہی بد لحاظ حرکتوں کی وجہ سے وہ لڑکی تمھیں چھوڑ گئی ہوگی۔“ سویرا بنا سوچے سمجھے کہتی احتشام کا زخم اُدھیڑ گئی۔ اس سے لڑنے کو لپکتا احتشام یکدم ساکت ہوگیا جو ولید کی گرفت میں تھا۔ ولید بھی یہ بات محسوس کر گیا۔ سویرا کو بھی اندازہ ہوا کہ وہ کچھ غلط کہہ گئی ہے۔ اچانک بہت بھاری سی خاموشی چھا گئی۔

احتشام نے یکدم ولید کے ہاتھ جھٹکے اور وہاں سے چلا گیا۔ ولید نے بے بسی سے سویرا کو دیکھا۔ جیسے کوئی خاموش شکوہ کر رہا ہو۔ وہ بے ساختہ نظریں چرا گئی۔ ولید بھی وہاں سے چلا گیا۔

سویرا اپنے کندھے پر لٹکا بیگ تھامے چند لمحے پر سوچ سی وہیں کھڑی۔ پھر سر جھٹک کر وہ بھی وہاں سے پلٹ گئی۔

مسیحائی کی ایک ناکام کوشش زخم کو پھر سے ہرا کر گئی تھی۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مصروف سا دن ڈھل گیا تھا۔ رات نکل آئی۔ حسب معمول چاروں کھانے کیلئے لاؤنج میں اکٹھا تھے۔

”صبح تم دونوں کہاں گئے تھے؟“ زین نے کھاتے ہوئے پوچھا۔

”ایک کام سے گئے تھے۔“ ولید نے مختصر جواب دیا۔ جب کہ احتشام تو واپسی کے بعد سے ہی خاموش تھا۔

ولید نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہمت نہیں ہوئی۔ وہ اندر ہی اندر شرمندہ تھا کہ احتشام اس کیلئے جانے کو راضی ہوا اور یہ سب ہوگیا۔ سویرا کی طرف سے بھی سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ولید نے بھی اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ 

کھانے کے بعد احتشام کہیں باہر چلا گیا۔ حسن اور زین ایل ای ڈی آن کرکے بیٹھ گئے۔ ولید کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھا، لیکن پھر اندر کے بوجھل پن کے باعث تھوڑی دیر بعد وہ بھی وہاں سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اب یہاں بس یہ دونوں رہ گئے۔

”لگتا ہے ان کے بیچ کچھ ہوا ہے، لیکن دونوں ہمیں بتا نہیں رہے۔“ زین نے اندازہ لگایا۔ حسن کی نسبت وہ زیادہ ٹوہ میں رہتا تھا۔ 

”جو بات ہمیں نہیں بتائی جاتی وہ ہمارے لیے نہیں ہوتی، اگر وہ خود سے ہمیں کچھ بتانے میں کمفرٹیبل نہیں ہیں تو ہمیں بھی زبردستی انہیں کریدنا نہیں چاہیے، انہیں اسپیس دینا چاہئے۔“ حسن نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔

”یہ کیا بات ہوئی کہ وہ ہمیں بتانے میں کمفرٹیبل نہیں ہیں؟ ہم ان کے دوست ہیں یار، انہیں ہم سے بھی ہر بات شیئر کرنی چاہئے۔“ زین کو یہ بات پسند نہ آئی۔

”دوستی کا مطلب ہر بات شیئر کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنے دوست کی ترجیحات کی ریسپیکٹ کرنا ہوتا ہے، دوستی صرف ان ہی پر فرض نہیں ہے، ہمیں بھی آعلیٰ ظرف دوست ہونے کا ثبوت دے کر اپنے دوست کے کمفرٹ کا خیال رکھنا چاہئے نہ کہ سر پر سوار ہوجانا چاہئے۔“ حسن نے خاصی وضاحت کر ڈالی جس کے بعد کوئی سوال نہ آیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بلڈنگ کے بڑے سے مرکزی دروازے کے دونوں طرف بڑی بڑی خوبصورت کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ احتشام باہر آنے کے بعد ایک کیاری کی باؤنڈری پر بیٹھ گیا تھا۔ کیونکہ رات ہونے کی وجہ سے لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ تھم گیا تھا اسی لیے یہاں تنہائی تھی۔

وہ یوں ہی بیٹھا آس پاس دیکھ رہا تھا جب ولید بھی آہستگی سے آ کر برابر میں بیٹھ گیا۔ دونوں کی نظریں پل بھر کو ملیں اور پھر یہاں وہاں بھٹکنے لگیں۔ اور درمیان میں بھاری خاموشی تھی۔ 

”آئی ایم سوری۔“ اتفاقاً دونوں نے یک زبان ایک ہی بات کہی اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

”تو سوری کیوں کہہ رہا ہے؟“ احتشام نے پوچھا۔

”کیونکہ میں ہی تجھے فورس کرکے اپنی کزن کے پاس لے کر گیا تھا اور پھر اس نے تجھے وہ سب کہہ دیا جو نہیں کہنا چاہیے تھا۔“ ولید نے دھیرے سے وجہ بتائی۔

”تیری غلطی نہیں ہے، اور تیری کزن نے بھی ٹھیک کہا کہ یقیناً وہ میری کسی خامی کی وجہ سے مجھے چھوڑ گئی، کمی مجھ میں ہی ہے، اور آج میں تیرے کام بھی نہ آ سکا۔“ احتشام نے سر جھکا کر خود کو ملامت کی۔

”نہیں، تجھ میں کوئی کمی نہیں ہے، کوئی تجھے چھوڑ گیا ہے تو بس اسی لیے کہ قدرت نے اسے تیرے لیے بنایا ہی نہیں تھا تب ہی بہانے سے راستے الگ کر دیے۔“ ولید نے فوری دوسرا مثبت رخ دکھایا۔

”سویرا نے غلط کہا تھا، تجھے اب مزید وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اسے تجھے سوری بھی کہنا ہوگا۔“ وہ مزید بولا۔

”مجھے اس کا سوری نہیں چاہیے، وہ میرے لیے ایک اجنبی سے زیادہ کچھ نہیں، مجھے بس تیرے لیے برا لگا کہ میرے شارٹ ٹیمپر کی وجہ سے تو اپنی کزن کے سامنے شرمند۔۔۔۔“ 

”مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے، بلکہ مجھے تیری دوست پر ہمیشہ سے فخر ہے اور رہے گا۔“ ولید نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کندھے کے گرد بازو حمائل کیا تو احتشام کی روح تک سرشاری اتر گئی۔ دونوں کا دل اب بوجھ سے آزاد ہو کر ہلکا ہوگیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نیا دن طلوع ہوگیا تھا۔ معمول کی طرح زندگی اپنی ڈگر پر دوڑنے لگی۔ 

ڈور بیل بجنے پر زین نے آ کر دروازہ کھولا تو سامنے سویرا کھڑی نظر آئی جس کے ہاتھ میں سفید گلابوں کا چھوٹا سا گلدستہ تھا۔ 

”جی کون؟“ زین اس اجنبی لڑکی کو دیکھ متعجب ہوا۔

”ولید رحمٰن یہیں رہتے ہیں ناں؟“ اس نے تصدیق چاہیے جو زین کی حیرت مزید بڑھا گئی۔

ولید، احتشام اور حسن لاؤنج میں لوڈو کھیل رہے تھے تب ہی بوکھلائے ہوئے زین نے آ کر اطلاع دی کہ 

”ولید سے کوئی لڑکی ملنے آئی ہے۔“

جسے سنتے ہی تینوں سرعت سے دروازے کی جانب دوڑے۔ اور اب چاروں کی متعجب نظریں خود پر پا کے سویرا تھوڑی نروس ہوگئی۔ 

”ہائے ولید۔۔۔“ سویرا خود کو کمپوز کرتے ہوئے گویا ہوئی تو چاروں کو ہوش آیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک سنگل صوفے پر سویرا براجمان تھی اور سامنے والے ڈبل صوفے پر احتشام و ولید بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کہ حسن اور زین انہیں ”پرائیوسی“ دیتے ہوئے اندر بیڈ روم میں چلے گئے تھے لیکن دونوں دروازے پر کان لگائے کھڑے تھے۔ 

ان تینوں کے بیچ ہنوز غیر آرام دہ خاموشی حائل تھی جسے ولید نے توڑا۔

”تم اچانک یہاں کیسے؟“ 

اسے یہاں کا ایڈریس باتوں کے دوران ولید نے ہی بتایا تھا اسی لیے پتہ معلوم ہونے پر کوئی اچھنبا نہیں تھا۔

”اپنے رویے کیلئے معذرت کرنے آئی ہوئی۔“ اس نے بھی صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔ 

”مجھے تم دونوں سے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا، انفیکٹ میرا پورا طریقہ ہی غلط تھا، کاؤنسلنگ اس طرح نہیں ہوتی لیکن میں نے اسے اور بھی برا کر دیا تھا۔“ اس نے بر ملا اعتراف کیا۔ 

”چلو کم از کم تمھیں اپنی خراب پرفارمنس کا آئیڈیا تو ہے۔“ احتشام نے اندر ہی اندر متاثر ہوتے ہوئے بظاہر طنز کیا۔

”ہاں، تب ہی تم لوگوں سے سوری اور تھینکس کہنے آئی ہوں، سوری اپنے برتاؤ کیلئے، اور تھینکس تم دونوں کے آنے کیلئے۔“ وہ کل کی نسبت واقعی آج کافی تحمل سے بات کر رہی تھی۔ 

”اگلا سیشن دو دن بعد۔۔۔۔“

”اب احتشام نہیں آئے گا۔“ سویرا بتانے لگی تھی کہ ولید بول پڑا۔

”میں اسے بلانے آئی بھی نہیں ہوں، میں بس بتا رہی ہوں کہ اگلا سیشن دو دن بعد ہے جس میں، میں ٹیچرز کو کلئیر بتا دوں گی کہ میں یہ آسائنمنٹ نہیں کر سکتی، اور تم دونوں کو مزید زحمت نہیں دوں گی، کیونکہ پرابلم میری ہی تو یہ فیس بھی مجھے ہی کرنی چاہئے، میں نے تم لوگوں کو بھی اس میں گھسیٹ کر ٹھیک نہیں کیا، اب تک جتنی زحمت دے چکی ہوں اس کیلئے سوری۔“ سویرا نے اطمینان سے بات مکمل کی جو خاصی غیر متوقع تھی۔

”اب میں چلتی ہوں۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ولید نے بھی تقلید کی، لیکن احتشام بیٹھا رہا۔

”ہو سکے تو کسی دن تھوڑی دیر کیلئے گھر آجانا ولید، امی تمھیں بہت یاد کرتی ہیں۔“ سویرا نے آہستگی سے کہا اور پھر ”اللہ حافظ“ کہتی وہاں سے چلی گئی۔ ولید اسے دیکھ کر رہ گیا۔ جب کہ احتشام کی نظریں ٹیبل پر رکھے سفید پھولوں پر تھیں۔

دوسری جانب دروازے پر کان لگائے کھڑے وہ دونوں بھی سب سن چکے تھے۔

”تو سمجھا؟“ حسن نے پوچھا۔

”ہاں، عورت کا چکر بابو بھیا عورت کا چکر۔۔۔“ زین نتیجے پر پہنچا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کبھی کبھی جب اپنا پورا زور لگانے کے باوجود بھی معاملات ہماری مرضی کے مطابق نہ ہوں تو پھر آخری حل یہ ہی ہوتا ہے کہ خود کو معاملات کے حوالے کر دیا جائے۔ سویرا نے بھی یہ ہی کیا۔

اس وقت وہ بلڈنگ کی حدود میں بنے لان کی بینچ پر بیٹھی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سب لوگ باری باری ٹیچرز کے سامنے حاضر ہو کر اپنے گزشتہ سیشن کا نتیجہ معلوم کرنے والے تھے اور جس کا نتیجہ اچھا نہیں تھا اس کی مس سلمیٰ سے ٹھیک ٹھاک کلاس بھی ہونی تھی۔ لیکن آج سویرا یہ سب سوچتے ہوئے خوف و ہراس کا شکار نہیں تھی۔ 

اتنے دنوں سے اسے جو آسائنمنٹ کی فکر تھی، مریض ڈھونڈنے کی بے چینی تھی، گھر والوں کی اور ٹیچرز کی ڈانٹ کا خوف تھا اس نے وہ سب چھوڑ دیا اور سچ کو چننے کا فیصلہ کیا۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ آج ٹیچرز کو اور پھر گھر والوں کو سب کچھ سچ سچ بتا دے گی کہ۔۔۔۔۔

”گڈ مارننگ مس سائیکو۔“ اچانک مانوس آواز کانوں میں پڑتے ہی سویرا کی سوچ کا دھاگہ ٹوٹا اور اس نے چونک کر گردن موڑی۔ 

دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے احتشام ذرا ہی دور کھڑا تھا۔

”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“ وہ بھی حیران ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

”تمھیں ہی ڈھونڈ رہے تھے۔“ یہ جواب سویرا کے عقب سے آیا۔ وہ پلٹی تو ولید قریب آتا ملا۔ غالباً دونوں مختلف جگہوں پر اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک آئے تھے۔

”تم دونوں یہاں کیا کرنے آئے ہو؟“ سویرا نے حیرت سے باری باری احتشام و ولید کو دیکھا جو اس کے دائیں، بائیں کھڑے تھے۔ 

”آج یہاں فٹ بال میچ ہونے والا ہے ناں، وہ ہی دیکھنے آئے ہیں۔“ احتشام نے طنزیہ جواب دیا۔

”یہ ہی مجھے زبردستی لے کر آیا ہے۔“ ولید کے کہنے پر سویرا نے پہلے اسے اور پھر احتشام کو دیکھا۔ آنکھوں میں تائید چاہتا حیرت انگیز سوال تھا کہ کیا یہ سچ ہے؟

”ہاں میں نے سوچا کہ جیسے مرنے کے بعد ایک مُردہ میڈیکل اسٹوڈنٹ کی پریکٹس کے کام آجاتا ہے تو میں بھی کسی کے کام آجاؤں۔“ اس کی نظریں بھانپ کر احتشام نے بظاہر بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ سویرا کو تو یقین ہی نہ آیا۔

”تم لوگ سچ میں میری ہیلپ کیلئے آئے ہو؟“ انداز کسی معصوم بچے جیسا تھا۔

”اگر ہیلپ نہیں چاہیے تو واپس چلے جائیں؟“ احتشام نے تصدیق کرنے کے بجائے پر تولے۔

”نہیں، ہیلپ نہیں چاہیے۔“ سویرا نے دھیرے سے کہا۔ دونوں تھوڑے متعجب ہوئے۔

”چل ولی۔۔۔“ احتشام کہہ کر پلٹنے لگا۔

”ارے میرا مطلب آج پیشنٹ کے ساتھ نہیں جانا۔“ سویرا نے جلدی سے وضاحت کی تو وہ رک گیا۔ 

”آج ٹیچرز اپنے اپنے ریمارکس دیں گے، کوئی غلطی نظر آئی ہوگی تو اسے پائنٹ آؤٹ کریں گے اور آگے کیلئے لیکچر دیں گے۔“ اس نے مزید بتایا۔

”ٹھیک ہے، ہم یہیں ہیں، تو جا کر آؤ، پھر نیکسٹ اسٹیپ ڈسکس کریں گے۔“ ولید نے سر ہلایا۔ 

سویرا نے تشکر آمیز نظروں سے دونوں کو دیکھا اور پھر کندھے پر لٹکا بیگ سنبھالتی آگے بڑھ گئی۔

”سنو۔۔۔“ ولید نے پکارا۔ وہ پلٹی۔

”بیسٹ آف لک۔“ دونوں نے انگوٹھے سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”تھینک یو۔“ وہ مسکرائی اور وہاں سے چلی گئی۔ جسے دونوں دور جاتا دیکھتے رہے۔

”سن۔۔۔تھینکس۔۔۔“ ولید نے احتشام سے کہا جو کسی اصرار کے بنا اپنی کزن کی مدد پر آمادہ ہوجانے کیلئے مشکور تھا۔

”چل یہاں سے۔۔۔۔“ احتشام نے بے نیازی سے بازو پر مکا مارا تو وہ ہنس دیا۔

جب اپنی زندگی بے معنی سی ہوجائے تو کسی اور کے مقصد میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ یوں ہمیں پھر سے جینے کی وجہ مل جاتی ہے اور کسی کو ہماری صورت ایک سہارا۔۔۔۔

ان تینوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ 

احتشام کو اپنی زندگی میں تو امید کی کوئی رمق محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ لہٰذا وہ اپنے دوست کا مان رکھنے کیلئے اس کی عزیزہ کی مدد کو تیار ہوگیا۔

ولید چاہتا تھا کہ اس مدد کے بہانے ہی دوست کی زندگی میں پھر سے وہ بہار لوٹ آئے جس سے وہ خود ناراض ہو کر بیٹھا تھا۔

اور سویرا کو جو دوسرا موقع ملا تھا اس میں وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے محسن کی بھی زندگی سنوارنے کیلئے اس بار دل سے تیار تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج ایک بار پھر احتشام اور سویرا ایک دوسرے کے مقابل تھے لیکن اس بار جگہ اور حالات مختلف تھے۔ آج ان پر کسی پینل کی نگرانی نہیں تھی بلکہ دونوں ایک پر سکون کیفے میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ 

”تم مجھے اپنی دوست نہ سمجھو، تھیراپسٹ بھی نہ سمجھو، تم مجھے اپنی سیکرٹ ڈائری سمجھ لو، جو تمہارے سارے سیکرٹ صرف اپنے تک رکھے گی، جو نہ تمھیں جج کرے گی اور نہ کسی کو کچھ بتائے گی، ٹھیک ہے۔“ سویرا نے بہت تحمل سے کہا۔ وہ اندر ہی اندر متاثر ہوا لیکن ظاہر نہیں کیا۔

”میں تمھیں کیا بتاؤں؟“ احتشام نے سادگی سے پوچھا۔

”تم ثانیہ سے پہلی بار کیسے ملے تھے؟“ سویرا نے سرا تھمایا۔ اس نے گہری کھینچی اور لب کھولتے ہوئے ماضی میں غوطہ لگا لیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میں ثانیہ سے یونیورسٹی میں ملا تھا، میں سیکنڈ ایئر میں تھا اور وہ فرسٹ ایئر نیو ایڈمیشن تھی۔ اس دن اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ اس کی کوئی کالج کی دوست ساتھ نہیں تھی، وہ اکیلی تھی اسی لیے زیادہ نروس تھی۔

جب پہلی بار میری اس پر نظر پڑی تو وہ نوٹس بورڈ کے پاس کھڑی اپنا دوپٹہ مروڑتے ہوئے قدرے پریشان تھی۔ اور اسی چیز نے مجھے اس کی طرف کھینچا۔ 

ایسا نہیں تھا کہ وہ لڑکی تھی تو ہی میں اس کی مدد کرنے پہنچ گیا۔ یہ میری بچپن کی عادت ہے کہ مجھے اسکول، کالج، یونیورسٹی کہیں بھی کوئی ایسا انسان نظر آتا ہے جو نئے ماحول میں پریشان ہو رہا ہوتا ہے تو میں اس کی ممکنہ مدد ضرور کرتا ہوں۔ یہ ہی میں نے اس وقت کیا۔

”ایکسکیوزمی! کوئی پرابلم ہے؟“ میں نے پاس جا کر شائستگی سے پوچھا۔ وہ چونک کر مجھے دیکھنے لگی۔

”آپ نیو ایڈمیشن ہیں؟“ اسے خاموش پا کر میں نے خود ہی اندازہ لگایا۔ 

وہ چند لمحے کشمکش کا شکار بری طرح دوپٹہ مروڑتی رہی پھر ”ہاں“ میں سر ہلا دیا۔

”تو کوئی مسلہ ہوگیا ہے؟ کلاس نہیں مل رہی؟“ میں خود ہی اگلے سوال پر آیا۔ کیونکہ اکثر نیو اسٹوڈنٹس کا کامن مسلہ یہ ہی ہوتا ہے۔ دوبارہ دھیرے سے سر ہلا۔

میں نے اس سے تفصیلات پوچھیں اور پھر خود ہی اسے کلاس تک چھوڑنے چل پڑا۔ وہ ہچکچاتے ہوئے پیچھے چل تو پڑی لیکن اتنا ہلکے چل رہی تھی کہ مجھے کئی بار رک کر پیچھے دیکھتے ہوئے اس کے آگے آنے کا انتظار کرنا پڑا۔ 

بلآخر ہم دونوں سیکنڈ فلور پر مطلوبہ کلاس تک پہنچ گئے۔ وہ کلاس کا جائزہ لے کر فوری اندر چلی گئی۔ مجھے اخلاقاً شکریہ تک نہ کہا۔ مجھے پل بھر کو تھوڑا تعجب ہوا، لیکن پھر میں بھی سر جھٹک کر وہاں سے چلا گیا کہ یہ میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔

اگلے دن تک تو میں اسے بھول بھی گیا تھا لیکن اچانک وہ مجھے پکارتی ہوئی آگئی۔ اس وقت ولید بھی میرے ساتھ تھا اور ہم دونوں لائبریری کی طرف جا رہے تھے۔

”سنیں۔۔۔“ آواز پر ہم دونوں رک کر پلٹے۔ 

شاید وہ مجھے دور سے دیکھنے کے بعد بھاگتی ہوئی آئی تھی تب ہی اس کا سانس پھول رہا تھا۔ 

”آپ نے ہمیں پکارا تھا؟“ ولید نے پوچھا۔

”نہیں، صرف ان کو، آپ جا سکتے ہیں۔“ اس کے غیر متوقع صاف جواب کے لیے ہم تیار نہیں تھے تب ہی بھونچکا رہ گئے۔

”یہ میرا دوست ہے، تو یہیں رک، آپ کہیں آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟“ میں نے ولید کو کہتے ہوئے لڑکی سے پوچھا۔

”مجھے آپ کو کل کے لیے تھینکس کہنا تھا، آپ نے مجھے ٹھیک کلاس تک پہنچا دیا تھا، ورنہ مجھے لگا کہ آپ بھی میرے ساتھ پرینک کر دیں گے۔“ کل کی نسبت آج وہ بہتر لگ رہی تھی۔

”اصل میں آپ سے پہلے میں نے دو لوگوں سے مدد مانگی تھی لیکن انہوں نے مجھے غلط راستہ بتا دیا اور میں گھوم پھر کر وہیں پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی، اسی لیے جب آپ نے آفر کی تو میں ڈر رہی تھی کہ کہیں آپ بھی ایسا ہی نہ کریں، لیکن شکر ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا، اس وقت میں اتنی نروس تھی کہ آپ کو تھینکس کہنے کا بھی خیال نہیں رہا، اسی لئے ابھی آپ کو دیکھا تو فوراً چلی آئی، تھینک یو میری ہیلپ کے لئے۔“ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ وہ خاصی باتونی لڑکی تھی۔ 

”اٹس اوکے، یہ چھوٹی موٹی ہیلپ کرنا تو اچھی بات ہوتی ہے۔“ میں نے شائستگی سے کہا۔

”ہاں اور یہ ہمیشہ سب کی ایسے ہی ہیلپ کرتا ہے۔“ ولید نے بھی ٹکڑا لگایا جو شاید اسے جتا رہا تھا کہ تمھیں کوئی اسپیشل ٹریٹمنٹ نہیں دیا گیا۔

”آپ کا نام کیا ہے؟“ اس نے جاننا چاہا۔

”احتشام، اور یہ میرا دوست ولید ہے۔“ میں نے تعارف کرایا۔

”میں ثانیہ ہوں۔“ اس نے بتایا اور پھر چند باتوں کے بعد ہم اپنے اپنے راستے چلے گئے۔

پھر اکثر یونیورسٹی میں ہی ہماری ملاقات ہونے لگی۔ ہمارے سبجیکٹس ایک ہی تھے تو وہ اکثر مجھ سے مدد لینے لگی جس دوران ہم نے موبائل نمبرز بھی ایکسچینج کر لیے۔ 

دھیرے دھیرے اس کی کئی لوگوں سے دوستی ہوگئی جس کی وجہ سے اب وہ پہلے کی نسبت خاصی کانفیڈینٹ ہوگئی۔ اس کے دوستوں میں کچھ میل کلاس میٹس بھی شامل تھے جن سے نہ مجھے کوئی اعتراض تھا اور نہ اعتراض کا حق! 

البتہ میری اور اس کی دوستی کچھ زیادہ ہی گہری ہو رہی تھی۔ 

روز صبح پہلا میسیج اسی کا ہوتا تھا اور اسی سے بات کرتے کرتے رات ہوجاتی تھی۔ کبھی اس کی طرف سے میسیج نہیں آتا تھا تو میں بے چین ہو کر میسیج کر دیتا تھا۔ 

میں پہلی بار کسی لڑکی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ میری اور فیمیل کلاس میٹس سے بھی بات چیت تھی۔ میرا پورا بچپن اور لڑکپن فیمیل کزنز کے ساتھ کھیلتے کودتے گزرا تھا۔ لیکن پتا نہیں کیوں ثانیہ کا رویہ سب سے الگ محسوس ہوتا تھا۔

جس طرح وہ میری چھوٹی چھوٹی باتیں یاد رکھتی تھی، میرے کھانے پینے، سونے اٹھنے، پڑھنے لکھنے کی روٹین کا خیال رکھتی تھی وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اور کبھی کبھی تو وہ میرے لئے ایسے ہی چھوٹا موٹا گفٹ بھی لے آتی تھی۔

”یہ تمہارے لیے احتشام۔۔“ ایک روز ایسے ہی اس نے ایک شاپنگ بیگ دیا۔ میں نے چیک کیا تو اس میں ایک پرنٹڈ شرٹ تھی۔

”اس کی کیا ضرورت تھی، ابھی تو کوئی اسپیشل اوکیجن بھی نہیں ہے۔“ میں نے ہمیشہ کی طرح کہا۔

”اپنے لیے کچھ سامان لینے گئی تھی، وہاں یہ شرٹ دیکھ کر تمہارا خیال آیا تو تمہارے لیے لے لی۔“ اس نے بھی ہمیشہ کی طرح سہولت سے جواب دیا۔

اس کی دی گئی ہر چیز میرے لئے بہت خاص ہوتی تھی۔ اور جب بھی وہ مجھے کوئی تحفہ دیتی تھی تو بدلے میں مجھے بھی کچھ دینے کی خواہش ہونے لگتی تھی۔ میں بھی اس کیلئے کچھ خرید لاتا تھا جسے دیکھ ولید اکثر خفا ہوتا تھا۔

اس دن بھی میں اپنے بیڈ پر بیٹھا گفٹ پیک کر رہا تھا جب کمرے میں آیا ولید یہ دیکھ کر بگڑا۔ زین اور حسن بھی وہیں صوفے پر تھے جو کورس کی کتاب کھولے بیٹھے میرے ساتھ ایک سوال ڈسکس کرنے آئے تھے لیکن وہ میرے معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔ یہ کیڑا صرف ولید میں تھا۔

”تو پھر اس کے لیے گفٹ لے آیا؟ ابھی پچھلے مہینے تو نے اسے ایک برینڈیڈ سوٹ دیا تھا ناں؟“ 

”ہاں وہ تو پچھلے مہینے دیا تھا ناں؟ ابھی اس نے مجھے پھر ایک شرٹ گفٹ کی ہے، تو میرا بھی کچھ دینے کا من کیا۔“ میں رسٹ واچ پیک کرنے میں مصروف رہا۔

”اچھا! تو وہ چھپری پرنٹ والی شرٹ اس نے دی ہے؟ وہ ہی میں کہوں کہ تیری پسند تو اتنی چھچھوری نہیں ہے۔“ وہ نتیجے پر پہنچا تو میں اسے خشم گیں نظروں سے گھورنے لگا۔

”پانچ سو کی شرٹ میں اور پندرہ سو کی گھڑی میں بہت فرق ہوتا ہے شامی، وہ تجھے شرٹ اور سن گلاسسز جیسے سستے آئٹم پکڑا دیتی ہے اور تو باؤلا ہو کر مہنگی مہنگی چیزیں لے آتا ہے۔“ ولید پر میری گھوری کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

”تحفے کی قیمت نہیں نیت دیکھی جاتی ہے، اور ویسے بھی لڑکیوں کی چیزیں مہنگی آتی ہیں، جب کہ لڑکوں کے استعمال کی چیزیں سستی ہوتی ہیں۔“ میں نے ہمیشہ کی طرح دلیل دی۔ 

”نہیں، لڑکوں کی چیزیں بھی مہنگی ہوتی ہیں، ابھی کل ہی میں نے فیسبک پر آٹھ ہزار کے شیونگ سیٹ کا ایڈ دیکھا تھا۔“ زین سے چپ نہ رہا گیا۔

”آٹھ ہزار کا شیونگ سیٹ؟ کیا اس کے ساتھ شیو بنانے کے لیے نائی بھی دے رہے تھے؟“ حسن کو حیرت ہوئی۔ 

”ثانیہ سے اگر یہ فرمائش کرکے بھی وہ شیونگ سیٹ مانگے ناں تو وہ دس روپے والا ریزر پکڑا کر کہے گی کہ کام تو یہ بھی وہ ہی کرے گا ناں، اور ویسے بھی تحفے کی نیت دیکھی جاتی ہے قیمت نہیں۔“ بیڈ پر بیٹھ کر جوتے اتارتا ولید طنز کرنے سے باز نہ آیا۔

ان لوگوں کی باتوں سے زچ ہو کر میں وہاں سے چلا گیا اور پھر میں نے ثانیہ کیلئے لیے گئے گفٹس گھر لانا ہی چھوڑ دیے بلکہ شاپ سے پیک کرا کے بیگ میں رکھ لیتا تھا کیونکہ گھر لاتا تو پھر ولید کے لیکچرز سننے کو ملتے۔

سب یوں ہی چل رہا تھا لیکن دھیرے دھیرے میری پسندیدگی بڑھنے لگی اور ایک روز میں نے اس سے اظہار کر دیا کہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔ وہ کچھ نہ بولی بس مسکرا کر بھاگ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہاں بھی حال ایسا ہی ہے۔

اس کے بعد ہمارے بیچ بے تکلُف بڑھ گئی۔ اب اسے کچھ بھی چاہیے ہوتا تو مجھ سے فرمائش کر دیتی اور میں اگلے دن وہ حاضر کرنا خود پر فرض کرتا گیا۔ لیکن یہ سب ابھی میں نے کسی کو نہیں بتایا تھا، ولید کو بھی نہیں! 

ایک روز ویڈیو کال پر بات کرتے ہوئے امی نے پوچھ لیا کہ کسی کو پسند کرتے ہو تو ابھی بتا دو ورنہ میں خود لڑکی ڈھونڈنا شروع کر رہی ہوں کیونکہ ڈگری پوری ہوتے ہی انہیں میری شادی کرنی ہے۔ ان کی بات پر فوری میرے ذہن میں ثانیہ کا خیال آیا۔ میں نے انہیں تو اس وقت ٹال دیا لیکن ثانیہ سے بات کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔

میں اور ثانیہ اس وقت یونیورسٹی لان کی ایک بینچ پر بیٹھے تھے جب میں نے اس سے براہ راست کہہ دیا۔

”امی میرے لئے لڑکی ڈھونڈنے میں سنجیدہ ہوگئی ہیں ثانیہ، لہٰذا میں انہیں تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔“ 

”میرے گھر کیوں؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”ہماری شادی کی بات کرنے کے لیے۔“

”شادی؟“ وہ حیران ہوئی۔

”ہاں، میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تم اتنا حیران کیوں ہو رہی ہو جیسے تمھیں کچھ پتا ہی نہیں۔“ میں نے بر ملا کہہ دیا۔

”ہمارے بیچ شادی کی تو کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔“ اس کی بات میرے لئے شاكنگ تھی۔

”کیا مطلب بات نہیں ہوئی؟ میں نے بتایا تو تھا کہ تم مجھ اچھی لگتی ہو، تو اس کا مطلب یہ ہی ہوا ناں کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ 

”ضروری تو نہیں جو اچھا لگتا ہے اس سے شادی بھی کی جائے۔“ 

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟“ میں صدمے میں تھا۔

”سچ کہہ رہی ہوں، میری دوست حنا بھی یہاں ایک لڑکے کو پسند کرتی تھی لیکن وہ یہ ہی کہہ کر شادی سے پیچھے ہٹ گیا۔“ اس نے اپنی یونیورسٹی فیلو کا حوالہ دیا۔

”جب تم نے بھی مجھے کہا کہ تم مجھے پسند کرتے ہو تو میں نے حنا کو بتایا اور اس نے مجھے یہ ہی کہا کہ تم بھی بعد میں ایسا ہی کرو گے لہٰذا میں سیریس نہ ہوں۔“ 

”لیکن دیکھو وہ غلط ثابت ہوگئی ناں، میں اس جیسا نہیں ہوں، میں سچ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ میں نے زور دیا۔

”لیکن میں نہیں کر سکتی۔“

”کیوں؟ کیا میں تمھیں پسند نہیں؟“ میں نے جاننا چاہا۔ وہ فوری طور پر جواب دینے کے بجائے لب بھینچ گئی۔

”جواب دو ثانیہ کیا تم۔۔۔۔“

”کیونکہ ہمارے یہاں خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔“ وہ اچانک بولی۔

”تم ایک بار ہاں تو کہو، تمہارے گھر والوں کو میں راضی کرلوں گا میرا وعدہ ہے۔“ میں نے یقین دلایا۔ کیونکہ میں اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔

”یہ ممکن نہیں ہے، میری بات بچپن سے میرے تایا زاد سے طے ہے اور ڈگری پوری ہوتے ہی میری شادی ہوجائے گی۔“ اس کا انکشاف مجھے ہلا گیا۔

”کیا؟ اور تم اس کے باوجود مجھ سے اتنا کلوز ہوگئی؟“ میں بے ساختہ کہہ گیا۔

”میں کب کلوز ہوئی؟“ وہ حیران ہوئی۔

”ہمیشہ۔۔۔۔روزانہ صبح کے پہلے میسیج سے لے کر رات کی آخری کل تمہاری ہوتی تھی، تم نے مجھ سے اپنی اتنی باتیں شیئر کیں، مجھ سے بے جھجھک اپنی فرمائشیں پوری کرائیں، مجھے یہ فیل کرایا کہ میں تمہارے لیے اسپیشل ہوں، یہ سب کلوز ہونا نہیں تو اور کیا ہے؟“ میں نے سب گنواتے ہوئے سوال اٹھایا۔

”میں بس تمھیں دوست سمجھ کر یہ سب کرتی تھی اور مجھے لگا کہ تم بھی میرے ساتھ بس وقت گزاری کر رہے ہو جیسا میں نے یہاں سب کو کرتے دیکھا ہے، مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنے سیریس ہوجاؤ گے۔“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”لیکن اب تو پتا چل گیا ہے ناں؟ تو اب کر لو مجھ سے شادی۔“ میں باقاعدہ منت پر اتر آیا۔

”میں نہیں کر سکتی احتشام، لہٰذا تم بھی یہ ضد چھوڑ دو۔“ اس نے صاف انکار کردیا۔ میں دکھ سے اسے دیکھے گیا۔

”مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم وہ ہی لڑکی کو جو پہلے دن مجھے گھبرائی ہوئی سی ملی تھی؟“ اب میں حیران تھا۔

”ہاں، کیونکہ ان دو سالوں میں یہاں کئی طرح کے لوگوں سے مل کر میں بہت کچھ سیکھ چکی ہوں۔“ اس نے بھی انکار نہ کیا۔

”کس سے مل کر کیا سیکھ چکی ہو؟ اپنی اُن بے مروت دوستوں سے مل کر جذبات سے کھیلنا جو خود آئے دن بوائے فرینڈز بدلتی رہتی ہیں؟ پھر تو سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ صحبت کا اثر ہوجاتا ہے۔“ میں تھوڑی برہمی سے کہہ گیا۔

”تمھیں جو سمجھنا ہے سمجھو لیکن آئندہ مجھے تنگ نہ کرنا۔“ وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگی۔ 

اچانک میرے غصے پہ پھر سے فکر غالب آگئی، اسے کھو دینے کی فکر، میں فوری اٹھ کر اس کے پیچھے گیا اور راستہ روک لیا۔

”ثانیہ پلیز۔۔۔۔ٹھیک ہے غصے میں وہ سب کہنے کیلئے میں سوری کرتا ہوں، بس تم پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، میں اپنے گھر والوں کے ساتھ آ کر خود تمہارے پورے خاندان کو راضی کروں گا میرا وعدہ ہے۔“ میں نے پھر منت کی۔

”خاندان تو بعد میں آئے گا پہلے میں ہی راضی نہیں ہوں۔“ اس نے دھیان دلایا۔

”تم کیوں راضی نہیں ہو؟ کیا تمہارا وہ کزن مجھ سے زیادہ بہتر ہے؟“ میں نے بے تابی سے موازنہ کیا۔

”ہاں، وہ تم سے لاکھ درجے بہتر ہے، اور میں اسی سے شادی کروں گی۔“ اس نے ذرا لحاظ نہ رکھا۔

”ایسا مت کہو ثانیہ، میں تمہارے بنا مر جاؤں گا۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

”تو مر جاؤ۔۔۔“ اس نے اپنا ہاتھ کھینچا اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔ میں بالکل سناٹے میں آگیا۔ 

اتنا عرصہ میں نے جس لڑکی کے ساتھ خوبصورت وقت گزارا، جس پر اپنے جذبات نچھاور کیے، جس کے ساتھ مستقبل کے خواب سجائے، حتیٰ کہ اپنے دوستوں سے بھی لڑا، بلآخر وہ لڑکی مجھے چھوڑ گئی۔

تو کیا میں اتنا گیا گزرا ہوں؟ اس قابل بھی نہیں ہوں کہ ایک لڑکی مجھے ہمسفر چن لے؟ 

یہ ہی سوال، ثانیہ کا رویہ، مسلسل میرے دل پر خنجر چلا رہے تھے۔ مجھے اپنے ماتھے پر بڑا بڑا LOSER لکھا ہوا نظر آنے لگا۔ 

اور ان سب سے تنگ آ کر بلآخر میں نے قصہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔قصہ ختم نہیں ہوا۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

احتشام خاموش ہوا تو سویرا کا قلم بھی رک گیا۔ اس نے سر اٹھا کر احتشام کو دیکھا جس کے چہرے پر رنجیدگی نظر آئی۔ سب بتاتے ہوئے وہ بیتا وقت شدت سے یاد آگیا تھا۔

”جانتے ہو قصہ ختم کیوں نہیں ہوا؟“ سویرا رسان سے گویا ہوئی۔

”کیوں نہیں ہوا؟“ 

”کیونکہ قصہ ابھی باقی ہے۔“ وہ مسکرائی۔

”شارخ خان کے اسٹائل میں کہیں تو پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔۔۔“ سویرا نے ماحول کا تناؤ کم کرنا چاہا۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”شارخ خان کا وہ ڈائلوگ صرف فلم کا ڈائلوگ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ فلموں کی طرح ہماری زندگی میں بھی اینڈ میں سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے، ہیپی اینڈنگ ضرور ہوتی ہے، اور اگر کچھ ٹھیک نہ ہو تو اینڈ نہیں، پکچر ابھی باقی ہے، لیکن ہم قسمت کے سیڈ انٹرویل کو سیڈ اینڈ سمجھ کر اپنی زندگی کا ٹی وی وقت سے پہلے ہی بند کر دیتے ہیں تو پھر ہیپی اینڈنگ کیسے دیکھ سکیں گے بھلا؟“ وہ بہت سادہ لفظوں میں ایسے بات کر رہی تھی جس سے وہ ریلیٹ کر پائے۔

”لیکن کچھ فلموں کا اینڈ بھی ہیپی نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو، تو؟“ اس نے سوال اٹھایا۔ مطلب سویرا کی کوشش کم از کم خالی نہیں جا رہی تھی۔

”ہاں لیکن اس کا فیصلہ بھی پوری فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوتا ہے ناں؟ تو تمھیں بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا، تب ہی فیصلہ ہوگا۔“ جواب تیار تھا۔ وہ لاجواب ہوگیا۔ سویرا آرام سے مزید گویا ہوئی۔

”تم کسی سے ملے، نارمل ہے، تمھیں وہ اچھا لگا، نارمل ہے، وہ تمہیں چھوڑ گیا، نارمل ہے، تمہارا دل ٹوٹا، نارمل ہے، تم نے زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔“

”یہ نارمل نہیں ہے۔“ احتشام خود ہی بول پڑا۔

”میں اُوور ریکٹ کر گیا؟ ہے ناں؟“ اس نے تائید چاہی۔

”نہیں، یہ بھی نارمل ہے۔“ سویرا کا جواب اس کیلئے غیر متوقع تھا۔

”ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے، اسی لیے ہر انسان کا رد عمل ایک ہی مسلے کو لے کر الگ ہوتا ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک ہی آگ پر ایک پیتل کا اور ایک پلاسٹک کا برتن رکھ دیا جائے، اور جب پلاسٹک پگھلنے لگے تو اسے کہا جائے کہ ارے صرف آگ ہی تو لگی ہے، تم اتنی سی بات پر اُوور ریکٹ کرکے پگھل کیوں رہے ہو؟“ سویرا نے مثال کے ذریعے نکتہ واضح کیا۔ 

احتشام اسے دیکھے گیا جسے لگا کہ پہلی بار کوئی اسے سمجھانے کے بجائے اسے سمجھ رہا ہے۔ 

”ہم سے کوئی یہ رائے قائم کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں شخص اُوور ایکٹ کر رہا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہی نہیں کہ اس شخص کے اندر کیا جنگ چل رہی ہے۔“ وہ مزید کہنے لگی۔

”ایسے ہی تم بھی سب سے پہلے لوگوں کی باتوں پر توجہ دینا چھوڑ دو کہ تم بزدل تھے، تم بے وقوف تھے، یہ تھے، وہ تھے، تم جو ہو اسے قبول کرو کہ ہاں میں یہ ہوں، ہاں میں ڈر گیا تھا، ہاں مجھے دکھ ہوا تھا، ہاں مجھے رونا آیا تھا، کیونکہ یہ سب بالکل نارمل ہے، ہمیں یہ سب فیل ہوتا ہے تب ہی تو ہم انسان ہیں ورنہ ہم پتھر ہوتے۔“ سویرا نے سوچنے کیلئے ایک بالکل الگ زاویہ دیا۔ 

”ہاں ولید کہتا ہے کہ تو کتنا بے وقوف نکلا کہ بے وفا لڑکی کے کیلئے دیوانہ ہوگیا اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بزدل ثابت ہوا کہ اسی کے پیچھے جان دینے چلا تھا۔“ احتشام نے دھیرے سے تائید کی۔

”وہ تمہارا دوست ہے ناں اسی لئے فکر میں ایسا کہہ جاتا ہے، لیکن اسے تمہارے ان ایکشنز کے پیچھے کی لاجک نہیں پتا ہے لہٰذا معاف کردو بیچارے کو۔“ اس نے مسکرا کر ماحول کا تناؤ کم کیا۔

”لیکن اب تم لاجک سمجھو، خود کو سمجھو، اور تمہاری لاجک بس اتنی سی ہے کہ تم بہت جلد لوگوں سے اٹیچ ہوجاتے ہو اور انہیں اپنا بیسٹ دیتے ہو۔“ 

”ہاں، اسی لئے اب میں دوبارہ کبھی کسی سے اٹیچ نہیں ہوں گا۔“ اس نے فیصلہ سنایا۔

”نہیں، ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تم لوگوں سے جلد گھل مل کر اٹیچ ہوجاتے ہو نو ایشو، انسان کو ایسا ہی ملنسار ہونا چاہئے، صرف ایک غلط تجربے کی وجہ سے تم اپنی شخصیت کی اتنی پیاری عادت مت بدلو بلکہ ایسے ہی انسان دوست رہو، ہاں بس ساتھ ایک عادت اور بھی بنا لو، کہ جب کوئی چلا جائے تو تم بھی اسے let go کر دو۔“ سویرا نے اس کی سوچ کو غلط سمت مڑنے سے روکا۔

”جیسے مزیدار سی کھیر کھاتے ہوئے اچانک منہ میں کڑوا بادام آنے پر ہم صرف بادام تھوکتے ہیں، پوری کھیر اٹھا کر نہیں پھینک دیتے، ایسے ہی تم بھی صرف برے تجربات کو چھوڑ کر آگے بڑھو، دوستی کرنا، رشتے بنانا، محبت کرنا مت چھوڑو، کیونکہ تم زندگی کی یہ ساری مٹھاس ڈیزرو کرتے ہو۔“ وہ بول رہی تھی اور وہ سن رہا تھا۔

”اور تمھیں ایک مزے کی بات بتاؤں؟ تم نے واقعی ابھی یہ سب نہیں چھوڑا ہے، تمہارے اندر اب بھی احساس باقی ہے، تمہارے جذبات مردہ نہیں ہوئے ہیں، اور اس کا ثبوت ہے کہ تم صرف اپنے دوست کیلئے آج یہاں میرے ساتھ بیٹھے ہو، ورنہ کون کسی کیلئے خود کو پیش کرتا ہے؟“ سویرا کی یہ بات اس کا دل چھو گئی۔

”تم سچ میں بہت اچھے انسان ہو احتشام، اور اپنی ان اچھائیوں کو کسی برے تجربے کی نذر مت ہونے دو۔“ اس نے بہت نرمی سے کہا۔ 

احتشام کا سر بے ساختہ ٹرانس کی کیفیت میں ہلا۔ مطلب سویرا کی باتیں سماعت سے ہو کر دل پر لگنے کے بعد دماغ پر اثر کرنا شروع کر چکی تھیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سویرا کی کوششوں نے رنگ لانا شروع کیا اور احتشام پر طاری اداسی کا کھول چٹخ کر جھڑنے لگا۔ 

اب وہ دھیرے دھیرے واپس پہلے والا احتشام بننے لگا تھا۔ اور اب سویرا کے ساتھ سیشنز کے لیے ولید کو یاد دہانی نہیں کرانی پڑتی تھی بلکہ مقرر دن پر احتشام خود ہی بخوشی تیار ہو کر طے شدہ جگہ پر پہنچ جاتا تھا۔ جسے دیکھ کر سب سے زیادہ ولید خوش تھا۔

اور اسی خوشی میں آج وہ سویرا کی فرمائش پوری کرنے گھر آگیا تھا جسے دیکھ کر سویرا کی والدہ رخشندہ یعنی ولید کی پھوپھو نہایت خوش ہوئیں اور اس کی خوب آؤ بھگت میں مصروف ہوگئیں۔ اتفاق سے سویرا کے والد سرفراز صاحب کسی کام کے سلسلے میں شہر سر باہر گئے ہوئے تھے تو ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ جب کہ سویرا کا بھائی راحیل اپنی بیگم اور ننھے بیٹے کے ساتھ ایک دعوت پر جا رہا تھا جو گرم جوشی سے مل کر روانہ ہوگیا۔ اب ڈائننگ ٹیبل پر بس رخشندہ، سویرا اور ولید موجود تھے۔

”بس پھوپھو میں کھا چکا ہوں۔“ ولید نے روکنا چاہا۔

”ہاں سب دیکھ رہی ہوں میں کہ تم کتنا کھا چکے ہو۔“ انہوں نے بھی ایک نہ سنتے ہوئے پلیٹ میں دوبارہ قیمہ نکال دیا جو برابر والی کرسی پر ہی بیٹھی تھیں۔ وہ بے بسی سویرا کو دیکھ کر رہ گیا جو مقابل بیٹھی ان سب سے محظوظ ہو رہی تھی۔

”میری تو کبھی اتنی خاطر نہیں کی آپ نے امی جتنی بھتیجے کی کر رہی ہیں؟“ سویرا نے مصنوعی طنز کیا۔

”جب شادی کے بعد گھر آؤ گی تب تمہاری بھی خاطر کر دیا کروں گی۔“ ان کے پاس بھی جواب تیار تھا۔ 

”اور میرا بھتیجہ آیا بھی تو اتنے سالوں بعد ہے، بتا کر آتا تو میں اس کی پسند کا کچھ بنا لیتی۔“ انہیں تھوڑا ملال ہوا۔

”یہ سب بھی بہت اچھا ہے پھوپھو۔“ ولید نے ان کا ملال کم کیا۔ 

”ہاں رحمٰن بھائی کو بھی میرے ہاتھ کا بنا قیمہ مٹر بہت پسند تھا۔“ وہ مرحوم بھائی کو یاد کرکے مسکرائیں۔

”کبھی کبھی ان کی بہت یاد آنے لگتی ہے، دل کرتا تھا تم سے مل لوں لیکن تم بھی رابطے میں نہیں تھے، بلکہ اگر سویرا کی اتفاق سے ملاقات نہ ہوتی تو ہمیں کبھی پتا چلتا ہی نہیں کہ تم اسی شہر میں ہو۔“ وہ مزید کہنے لگیں۔

”بھائی بھابھی کے انتقال کے بعد جب تمہاری کفالت کا مسلہ اٹھا تھا اور میں نے یہ ذمہ داری لینے سے انکار کردیا تھا کیا تم اس وجہ سے ہم سے اب تک ناراض ہو بیٹا؟“ انہوں نے خدشے کے تحت پوچھ لیا۔ 

”نہیں پھوپھو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ اس نے فوری متوجہ ہو کر نفی کی۔

”بیٹا میں خود بھی تمھیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی لیکن تمہارے پھوپھا کے آگے میری کبھی چلی نہیں، اور تب ہمارے معاشی حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے اسی لئے تمہارے پھوپھا بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے، اب تو خیر سے راحیل ڈاکٹر بن گیا ہے تو کچھ بہتری آگئی ہے، اور تمھیں سلمان بھائی کے پاس چھوڑنے کی وجہ یہ ہی تھی کہ ان کی حالت کافی مستحکم تھی جس سے تمھیں کوئی مسلہ نہیں ہوتا، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا بیٹا۔“ وہ خود ہی وضاحت دیتی آب دیدہ ہوگئیں۔

”ارے میری پھوپھو جان آپ کو اتنی صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے آپ کے خلوص پر کبھی شک نہیں ہوا، میں آپ کی حالت سمجھتا ہوں، آپ پریشان نہ ہوں، یہ سب تو بس میری لاپرواہی تھی جو مجھے کبھی آپ سے ملنے کا خیال نہیں آیا۔“ ولید نے فوری ان کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے تسلی دی۔ 

سویرا کو یہ اچھا لگا کیونکہ اس نے اکثر اپنی ماں کو اس خدشے کے ساتھ پریشان دیکھا تھا کہ شاید ولید مجھ سے ناراض ہوگیا ہے۔ لیکن آج ولید نے آ کر پیار سے نفی کر دی تھی۔

”اب میں ہر ہفتے آپ سے ملنے آیا کروں گا اور آنے سے پہلے بتا بھی دوں گا کہ مجھے کیا کھانا ہے پھر آپ وہ تیار رکھیے گا، ٹھیک ہے ناں؟“ اس نے ماحول بدلنے کیلئے ہلکے پھلکے انداز میں یقین دہانی کرائی۔ اب وہ بھی قدرے بہتر تھیں۔

”ہاں بالکل آنا، اور آج بھی میں تمھیں اتنی جلدی جانے نہیں دوں گی، میں نے کھیر پکنے رکھی ہے وہ کھا کر جانا۔“ انہوں نے حکم سنایا۔ 

پھر تھوڑی دیر بعد وہ کھیر دیکھنے کچن میں چلی گئیں لیکن سویرا کو خاص ہدایت دے کر گئیں کہ اس پر نظر رکھے کہ وہ کھانے سے ہاتھ نہ روکے۔

”تھینکس ولید۔۔“ سویرا گویا ہوئی۔

”کس لیے؟“ 

”گھر آنے کیلئے۔۔۔۔امی کا خدشہ دور کرنے کیلئے۔۔۔۔۔کیونکہ میں نے ایک عرصہ انہیں اس فکر کے ساتھ پریشان دیکھا ہے کہ ولید مجھ سے ناراض ہوگیا ہے اب میں محشر کے روز بھائی کو کیا منہ دکھاؤں گی؟“ سویرا کی بات سن کر اسے بھی تھوڑی افسردگی ہوئی۔

”آئی ایم ویری سوری، غلطی میری ہے کہ مجھے اس بارے میں سوچ کر رابطہ رکھنا چاہئے تھا۔“ ولید کو بھی شرمندگی ہوئی۔

”چلو اب تمہارے دوست کے بہانے سے بہت سارے مسلے حل ہوگئے۔“ سویرا نے مسکرا کر ماحول کا تناؤ کم کیا۔

”ہاں، اور سب سے بڑھ کر اس کا اپنا مسلہ حل ہوا، اب وہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا ہے اینڈ آل کریڈیٹ گوز ٹو یو، تھینکس سویرا۔۔۔“ وہ دل سے مشکور تھا۔

”میں نے کوئی کمال یا احسان نہیں کیا، بس ہم سب ہی شاید ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔“ وہ مسکرائی۔

”رہی بات احتشام کے بہتر ہونے کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بس اسے یہ محسوس کرایا ہے کہ کوئی ہے جو اسے سمجھ رہا ہے، جو اس کے غلط فیصلوں پر لعن طعن کرنے کے بجائے ان کے اثر سے نکل کر آگے بڑھنے کا راستہ دکھا رہا ہے جو چیز اسے گھر والوں اور دوستی کی طرف سے نہیں مل رہی تھی۔

تم لوگ اپنی فکر میں اسے ڈانٹ ڈپٹ رہے تھے، نصیحت کر رہے تھے، لیکن اس کے جوتے میں اتر کر اس کی حالت نہیں قبول کر رہے تھے کہ غلطیاں ہر انسان سے ہوجاتی ہیں پھر چاہے وہ غلط فیلڈ چننے کی غلطی ہو یا غلط انسان۔۔۔۔اور غلطی کے بعد ہی ہم اس سے سبق سیکھ کر میچیور ہوتے ہیں۔“ اس نے کافی رسان سے سب واضح کیا۔ وہ بغور سنتا رہا۔ 

”ہاں جیسے احتشام کے ساتھ ساتھ تم بھی میچور ہو رہی ہو، اور مجھے یقین ہے کہ اس آسائنمنٹ میں تم ہائی اسکور سے پاس ہوگی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے نشان دہی کرکے پیشن گوئی بھی کر ڈالی۔ 

وہ بس دھیرے سے مسکرائی اور کچھ بتانے کیلئے لب کھولنے لگی تھی کہ رخشندہ واپس آگئیں۔ اور بات لبوں تک نہ آ سکی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

”پھر مجھے دل بے قرار کرنے لگا ہے“

”پھر کسی کا انتظار کرنے لگا ہے“ 

”پھر سے چاہتا ہے ہاں پل وہ خوشی کے“ 

”پھر کسی سے یہ تو پیار کرنے لگا ہے“ 

احتشام شیشے کے سامنے کھڑا گنگناتے ہوئے کہیں جانے کیلئے تیار ہوتے ہوئے ساتھ ساتھ گنگنا بھی رہا تھا۔ تب ہی کمرے میں آیا زین اس کی حرکات دیکھتے ہوئے تھوڑا مشکوک ہوا۔

”خیریت تو ہے؟ کہاں جانے کی تیاری ہے؟“ زین پوچھتے ہوئے بیڈ پر گرا اور کہنی کے سہارے نیم دراز ہوگیا۔

”وہیں۔۔۔۔سویرا کا سیشن اٹینڈ کرنے۔“ مصروف جواب ملا۔

”تیاری تو ایسے کر رہا ہے جیسے سویرا کا سیشن نہیں ریسیپشن اٹینڈ کرنے جا رہا ہے۔“ زین نے معنی خیزی سے سرتاپا جائزہ لیا۔ وہ مسکرایا۔

”ہو سکتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے کہ تم سب سویرا کا ریسیپشن اٹینڈ کرو اور کارڈ میں ہی دوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے کلائی پر گھڑی باندھنے لگا۔

”کیا؟“ زین کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔ 

”مطلب تیرے اور سویرا کے بیچ کچھ۔۔۔۔؟“ اس نے دانستہ بات ادھوری چوڑی۔ 

”نہیں، ابھی کھل کر اظہار نہیں کیا ہے، لیکن ہاں، میں اس کیلئے کچھ کچھ فیل کرنے لگا ہوں۔“ اس نے اعتراف کر لیا۔ 

”خدا کو مان احتشام، اتنا اِنسٹینٹ تو اِنسٹینٹ نوڈلز بھی تیار نہیں ہوتے جتنا اِنسٹینٹ تو ہر لڑکی کیلئے کچھ کچھ فیل کرنا شروع کر دیتا ہے۔“ زین کی حیرت انتہا پر تھی۔ 

”خواہ مخواہ؟ اور بھلا میں نے کتنی لڑکیوں کیلئے کچھ کچھ فیل کر لیا ہے ذرا بتانا؟“ اس الزام پر وہ دو بدو ہوا۔

”پہلی وہ ثانیہ تھی اور دوسری اب یہ سویرا۔“ اس نے گنوایا۔

”بس دو ہی تو ہیں۔“ 

”دو ہیں لیکن پہلی سے دوسری تک جانے کی اپنی اسپیڈ بھی تو دیکھ، جیسے محبت نہ ہوئی گاڑی کا گیئر ہوگیا کہ پہلے سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا شفٹ کر ڈالا۔“ وہ اب بھی اپنے موقف پر قائم تھا۔

”یار سویرا سے مل کر مجھے لگا ہے کہ در حقیقت مجھے ثانیہ سے محبت تھی ہی نہیں، بس اٹیچمنٹ ہوگئی تھی۔“ احتشام کو جیسے اپنا مرض پتا چل گیا۔

”پھر ثُریا سے مل کر لگے گا کہ سویرا سے محبت نہیں تھی۔“ زین نے جھٹ ٹکڑا لگایا۔

”کون ثُریا؟“ اس نے ناسمجھی سے چہرے کے زاویے بگاڑے۔

”کل پرسوں میں آجائے گی وہ بھی کہیں نا کہیں سے، جیسے ثانیہ کے بعد سویرا آئی ہے تیری زندگی میں بہار بن کے۔“ اس نے طنزیہ پیشن گوئی کی۔ 

”میں تجھے اتنا دل پھینک لگتا ہوں؟“ احتشام نے خفگی سے گھورا۔

”جس اسپیڈ سے تو دل نکال کر لڑکیوں کے قدموں میں پھینک رہا ہے اس کے بعد لگنے لگا ہے۔“ زین نے بھی لحاظ نہ رکھا۔ احتشام اس سے مزید بحث کرنے کے بجائے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب پلٹ گیا۔

”ویسے کیا سویرا کو تیرے اس ”کچھ کچھ“ کے بارے میں کچھ پتا ہے؟“ اب اس نے تفتیش شروع کی۔

”ابھی نہیں، ابھی تو میں نے ولید کو بھی کچھ نہیں بتایا ہے، لیکن اگلے ہفتے سویرا کا برتھ ڈے ہے، تب دونوں کو بتا دوں گا۔“ اس نے بال درست کرتے ہوئے ارادہ بتایا۔ 

”اور اگر اس نے بھی انکار کردیا تو؟ کیا تو پھر۔۔۔؟“ زین نے دانستہ سوال ادھورا چھوڑا۔ احتشام کے بھی بال درست کرتے ہاتھ ساکت ہوگئے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

”کیا سچ میں؟“ حسن کسی بات پر حیران ہوا تھا۔

”ہاں۔۔۔“ ولید نے تائید کی۔ 

دونوں بجلی کا بل بھرنے آئے تھے لیکن کھڑکی پر پہلے سے چند لوگ تھے تو دونوں ایک کنارے ہو کر انتظار کرنے لگے تب باتوں باتوں میں ولید اپنے دل کی بات کہہ گیا۔

”لیکن ابھی یہ بات صرف مجھ تک ہے، میں نے سویرا کو بھی اپنی فیلنگز کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے کیونکہ ابھی میں پوری طرح اس کی فیلنگز نہیں جانتا۔“ ولید مزید کہنے لگا۔

”وہ تو تم تب ہی جان پاؤ گے جب اپنی فیلنگز کا اظہار کرو گے، اور ویسے بھی تم لوگ کزنز ہو تو فیملیز کا بھی مسلہ نہیں ہوگا۔“ حسن نے مثبت امید دلائی۔

”ہاں لیکن مجھے ایک بات کی فکر اور ہے۔“ ولید کچھ مضطرب لگا۔

”کون سی بات؟“ 

”احتشام نے ابھی ابھی اجڑنے کا دکھ سہہ ہے، ایسے میں اس کے سامنے میرا اپنی دنیا بسانا کہیں اس پاگل کو مزید دکھی نہ کردے جو کبوتر اور کبوتری تک کو ساتھ دیکھ لے تو کامپلکس میں چلا جاتا ہے۔“ یہ تھی ولید کی فکر! 

”ارے وہ پرانی بات تھی، اب تو احتشام بہت بہتر ہوگیا ہے، اور جب بات تیری خوشی کی ہو تو اس سے زیادہ خوش بھلا کون ہوگا؟“ حسن کی بات پر وہ بھی سوچ میں پڑ گیا۔ 

”تو کوئی مناسب موقع دیکھ کر سویرا کو اپنے دل کی بات بتا دے۔“ حسن نے اکسایا۔

”اگلے ہفتے اس کا برتھ ڈے، اسی دن بتا دوں گا۔“ ولید نے فیصلہ کر لیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حسب معمول چاروں نے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھایا اور تھوڑی دیر بعد سونے کے ارادے سے کمروں کا رخ کر لیا۔

”وہ جو ولید کی پھوپھو نے حلوہ بھیجا تھا وہ ختم ہوگیا حسن؟“ سنگل بیڈ پر لیٹے موبائل میں گیم کھیلتے زین نے پوچھا۔ 

”ہاں، سب سے آخر میں تو نے ہی تو پیالہ چاٹا تھا۔“ اپنے بیڈ پر نیم دراز حسن نے بھی موبائل اسکرین پر انگوٹھا چلاتے ہوئے یاد دلایا۔

”ارے یار۔۔۔۔پھر سے کچھ میٹھا کھانے کا دل چاہ رہا ہے۔“ زین نے منہ بسور کر بتایا۔

”تھوڑے دن صبر کر، اگر سویرا نے ہاں کر دی تو جلد مٹھائی کھانے کا موقع ملے گا۔“ حسن نے دبے دبے لفظوں میں اشارہ دیا۔

”یہ بات تجھے بھی پتا ہے؟“ زین نے چونک کر دیکھا۔

”تو مطلب تجھے بھی پتا ہے؟“ حسن نے بھی دیکھا۔

”ہاں، لیکن وہ کمینہ تو کہہ رہا تھا کہ اس نے ابھی کسی کو کچھ نہیں بتایا، پہلے برتھ ڈے پر سویرا کو بتائے گا پھر باقی سب کو۔“ زین اٹھ کر بیٹھ گیا۔

”اس کمینے نے مجھے بھی یہ ہی کہا تھا۔“ حسن کا رد عمل بھی مختلف نہ تھا۔ 

”اس کا مطلب ولید بھی یہ بات جانتا ہوگا۔“ زین نے نتیجہ نکالا۔

”ظاہر ہے وہ نہیں تو کیا احتشام جانے گا؟“ حسن نے طنز کیا۔

”ہاں نا احتشام کے دل کی بات بھلا اسے ہی نہیں پتا ہوگی؟“ زین نے بھی دھیان دلایا۔ 

”احتشام کے دل کی بات کہاں سے آگئی؟ میں تو ولید کی بات کر رہا ہوں۔“ حسن الجھا۔

”ابھی تو نے ہی تو کہا تھا کہ اگر سویرا نے ہاں کر دی۔“ زین نے یاد دلایا۔

”ہاں کیونکہ اس کے برتھ ڈے پر ولید اسے اپنے دل کی بات بتانے والا ہے۔“ حسن نے بتایا۔

”نہیں نا اپنے دل کی بات تو احتشام بتانے والا ہے۔“ زین نے تصحیح کی اور پھر دونوں ٹھٹکتے ہوئے سوچ میں پڑ گئے۔ لیکن پھر اگلے ہی پل بیک وقت دونوں کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

”اوہ تیری۔۔۔۔۔مطلب دونوں ایک ہی لڑکی کو ہماری بھابھی بنانے کا سوچے بیٹھے ہیں؟“ زین نتیجے پر پہنچا۔ حسن بھی دنگ تھا۔ 

”پہلی والی کے چکر میں ایک نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا تھا۔“ حسن کو یاد آیا۔

”اور اب اس والی کے چکر میں لگتا ہے دونوں ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے۔“ زین نے سنسنی خیز پیشن گوئی کر ڈالی جس کے بعد کمرے میں گہری خاموشی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سڑکوں پر، بازاروں میں، مصروف سی زندگی کے بھرپور آثار تھے۔ احتشام ایسے ہی ایک بازار میں فرصت سے گھوم رہا تھا۔ وہ سویرا کیلئے کوئی تحفہ لینے آیا تھا اور تسلی سے پوری مارکیٹ چھاننے کے بعد سب سے بہترین چیز منتخب کرنا چاہتا تھا جو پورا ہفتہ گزر جانے کے باوجود اسے اب تک نہیں ملی تھی۔ 

وہ ایک گفٹ شاپ میں داخل ہونے لگا تھا کہ وہاں سے باہر نکلتے شخص سے ٹکرا گیا۔ جو اور کوئی نہیں بلکہ ولید تھا۔

”تو یہاں؟“ دونوں حیران ہوئے۔

”ہاں وہ کل سویرا کا برتھ ڈے ہے ناں تو اس کیلئے گفٹ لینے آیا تھا۔“ ولید نے ہاتھ میں پکڑے بیگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سادگی سے بتایا کیونکہ کزن کو سالگرہ کا تحفہ دینا کوئی اچھببے کی بات نہیں تھی۔

”تو یہاں کیسے؟“ اب ولید نے جاننا چاہا۔

”میں بھی سویرا کیلئے ہی گفٹ لینے آیا ہوں۔“ احتشام نے چھپایا نہیں۔

”تجھے اس کا برتھ ڈے پتا ہے؟ اور تو اسے گفٹ بھی دے رہا ہے؟“ ولید تعجب سے ہنسا۔

”ہاں ایک بار باتوں باتوں میں اس نے تاریخ بتائی تھی، اور۔۔۔“ وہ سرسری بتاتے ہوئے آخر میں آ کر سوچ میں پڑ گیا کہ مزید بھی بتائے یا نہیں؟ 

”اور؟“ ولید نے دہرا کر اکسایا۔ اسی پل احتشام نے فیصلہ لیا۔

”یہاں آ۔۔۔“ احتشام نے اس کی کلائی پکڑی اور دکان کے داخلی حصے سے ہٹ کر دونوں باہر ایک کنارے پر کھڑے ہوگئے۔ 

”میں تجھے کچھ بتانا چاہتا ہوں۔“ احتشام نے تمہید باندھی جس کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی۔

”ہاں بتا۔۔۔“ ولید کو بھی اب تجسس نے گھیر لیا۔

”دیکھ تو فوراً ری ایکٹ مت کرنا، پہلے تحمل سے پوری بات سننا پھر کچھ کہنا۔“ ولید کی عادت کے پیش نظر اس نے پہلے ہی تنبیہہ کی۔

”ہاں ٹھیک ہے چل اب بتا۔“ ولید کو بھی جاننے کی جلدی تھی۔

”بات یہ ہے کہ۔۔۔۔“ وہ بتاتے ہوئے ہنس پڑا۔ جو اتنا پرجوش تھا کہ بات بھی مکمل نہیں کی جا رہی تھی۔

”تو سیدھی طرح بتا رہا ہے یا نہیں؟“ ولید کو بھی غصہ اور ہنسی بیک وقت آرہی تھی۔ 

”آئی ایم اِن لو ود سویرا۔۔۔“ احتشام نے مسکراتے ہوئے بتایا اور ولید کی مسکراہٹ ساکت ہوگئی۔ 

”سویرا سے ملنے کے بعد جیسے میری اندھیری زندگی میں صحیح معنوں میں سویرا ہوگیا ہے، سب کچھ بہت روشن اور خوبصورت لگنے لگا ہے، جب وہ میرے سامنے ہوتی ہے، مجھ سے باتیں کر رہی ہوتی ہے تو دل کرتا ہے بس اسے دیکھتا جاؤں، سنتا جاؤں، مجھے جس طرح وہ سمجھی ہے ایسے کبھی کوئی نہیں سمجھ پایا، ثانیہ بھی نہیں۔“ 

احتشام اپنی دھن میں خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہوئے ولید کو اپنا حالِ دل سنا رہا تھا جس کے دل کا حال اچانک بہت خراب ہوگیا تھا۔ سب کچھ بہت بوجھل سا لگنے لگا۔

”اور یہ بات میں کل اس کی سالگرہ کے موقع پر اسے بتا کر شادی کیلئے پرپوز کرنے والا ہوں، مجھے امید ہے وہ انکار نہیں کرے گی، نہیں کرے گی ناں؟“ اپنا ارادہ بتانے کے بعد اس نے معصوم بچے کی مانند تائید چاہی۔

ولید نے اپنے دل کا حال دل میں ہی چھپا لیا اور چہرے پر زبردستی کھینچ کر وہ مسکراہٹ لایا جو روٹھ کر دور جانے لگی تھی۔

”بالکل بھی نہیں، میرا دوست ہے ہی اتنا شاندار کہ وہ انکار نہیں کر سکتی۔“ ولید نے اس کے کندھے پر دباؤ ڈالا جس کے لہجے میں چھلکتا رشک سچا تھا۔

”اس سب کا کریڈیٹ تجھے جاتا ہے یار، تیری وجہ سے میں اس سے ملا اور دوبارہ جینا سیکھا جس میں تو نے بھی میری بہت مدد کی۔“ احتشام کہتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا۔ 

جواباً ولید نے بھی دوست کو کس کر خود میں بھینچ لیا وہ ہی دوست جو اسے ہر چیز سے بڑھ کر عزیز تھا، حتیٰ کہ سینے کے اندر ٹوٹتے ہوئے اپنے دل سے بھی زیادہ عزیز۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مارکیٹ سے واپس آتے ہوئے احتشام کسی کام سے چلا گیا تھا اور ولید سیدھا گھر آیا۔ لیکن گھر آتے ہی وہ بنا کوئی بات چیت کیے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا جسے لاؤنج میں موجود زین اور حسن نے بھی واضح محسوس کیا۔

”کیا یہ تجھے بھی نارمل نہیں لگا؟“ حسن نے زین سے تائید چاہی۔ 

دونوں پچھلے ہفتے سے انتظار میں تھے کہ شاید احتشام اور ولید خود ہی ایک دوسرے کے آگے دل کا حال کھول دیں کیونکہ وہ زیادہ عرصہ ایک دوسرے سے کچھ چھپا نہیں پاتے تھے۔ اور اب ولید کے اطوار بتا رہے تھے کہ کچھ تو ہوا ہے۔ اسی تجسس کے چلتے دونوں اس کے پیچھے آئے۔ 

ولید اپنے سنگل بیڈ پر دونوں ہاتھوں میں منہ دیے بیٹھا تھا اور گفٹ بیگ پاس ہی رکھا تھا۔

”ولید۔۔“ حسن نے پکارا۔

ولید نے سر اٹھایا۔ وہ رو نہیں رہا تھا لیکن اس کا چہرہ بے حد رنجیدہ تھا۔

”سب ٹھیک ہے ناں؟“ حسن کی فکر بڑھی۔

”ہاں، سب ٹھیک ہے۔“ مدھم سا جواب آیا۔

”کیا تیری اور احتشام کی کوئی بات چیت ہوئی ہے۔۔۔۔۔سویرا کے حوالے سے؟“ زین سے اب مزید صبر نہ ہوا اور اس نے براہ راست پوچھ لیا۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”کیا تو جانتا ہے کہ احتشام بھی کل۔۔۔۔۔“ 

”ہاں۔۔۔۔جانتا ہوں۔“ زین کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی اس نے تصدیق کر دی۔ مطلب دونوں کا شک صحیح تھا۔

”اور کیا احتشام جانتا ہے کہ تو۔۔۔۔“

”نہیں۔۔۔۔اور نہ وہ کبھی جانے گا۔“ اس بار کاٹ بہت اٹل تھی۔ دونوں چونک گئے۔ 

”کیا مطلب؟ تو نے احتشام کو اپنا ارادہ نہیں بتایا؟“ حسن نے اندازہ لگایا۔

”نہیں۔۔۔۔اور نہ تم دونوں کبھی اسے کچھ بتاؤ گے۔“ وہ گفٹ بیگ لے کر اٹھا اور الماری کی طرف بڑھنے کے بعد اسے الماری میں رکھ کر بند کردیا۔

”لیکن کیوں؟“ حسن اعتراضاً چیخا۔

”کیونکہ میں اسے یہ تکلیف نہیں دینا چاہتا جو مجھے ہو رہی ہے۔“ ولید نے یکدم پلٹتے ہوئے تڑپ کر کہا۔ دونوں بے بسی سے لاجواب ہوگئے جنہیں اس پر ترس آرہا تھا۔ 

”وہ پہلے ہی بہت مشکل سے ایک تکلیف سے ابھرا ہے اب میں دوبارہ اپنے ہی ہاتھوں اسے پھر اس گڑھے میں نہیں دھکیلنا چاہتا۔“ ولید کے انداز میں رنج سے زیادہ فکر تھی۔ 

”لیکن یار غلطی تیری بھی نہیں ہے، تو نے جان بوجھ کر ایسا تھوڑی کیا ہے۔“ حسن سمجھاتے ہوئے قریب آیا۔ 

”میری مان تو احتشام کو سب بتا دے، وہ ضرور تجھے سمجھے گا۔“ حسن نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”نہیں، فیصلہ ہو چکا ہے، نہ میں اسے کچھ بتاؤں گا اور نہ تم دونوں، میں ہماری دوستی کھونا نہیں چاہتا۔“ سر نفی میں ہلا۔

”یہ دوستی نہیں بےوقوفی ہے یار، ٹھیک ہے دوستی نبھانا اچھی بات ہے لیکن اس حد تک بھی مت جا کہ دوست کے آگے خود کو بھول رہا ہے۔“ حسن جھلا گیا۔ جب کہ زین فی الحال خاموش رہا۔ حسن خود کو قابو کرتے ہوئے پھر گویا ہوا۔

”دیکھ دوست ملتے ہیں، چھوٹ جاتے ہیں، پھر نئے دوست مل جاتے ہیں، لیکن محبت ہر بار نہیں ملتی، تو دوستی اور محبت میں سے اگر محبت کو چنتا ہے تو یہ کوئی خودغرضی نہیں تیرا حق ہے۔“ حسن نے صورت حال واضح کرکے دکھانے کی کوشش کی۔ ولید اسے دیکھے گیا۔ 

”تجھے یاد ہے میں نے بتایا تھا کہ کالج کے بعد جب میں نے اس شہر میں اپنی من پسند یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا چاہا تھا تو چاچو نے خرچہ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا؟ میں نے اسکالرشپ اپلائی کی تھی جو ملتے ہی احتشام بھی میرے ساتھ شہر چھوڑ کر اس یونیورسٹی میں پڑھنے آگیا؟“ ولید نے اچانک موضوع سے ہٹ کر بات یاد دلائی۔

”ہاں یاد ہے، تو؟“ وہ کچھ سمجھا نہیں۔

”تو یہ کہ میری اسکالرشپ ریجیکٹ ہوگئی تھی، آج تک میری پڑھائی کا سارا خرچہ احتشام کے اصرار پر اس کے ابو اٹھا رہے ہیں لیکن میری عزتِ نفس مجروح نہ ہو اسی لئے میرے سامنے اسکالرشپ کا بھرم قائم رکھا گیا ہے۔“ ولید کے انکشاف پر یہ دونوں حیران رہ گئے۔

”یہ بات مجھے شروعات میں ہی پتا چل گئی تھی اور میں احتشام کو ان سب سے روکنا چاہتا تھا پر نہیں روکا، جیسے خاموشی سے میری مدد کرکے اس نے میرا بھرم قائم رکھا تھا ایسے ہی میں نے خاموشی سے اس کی مدد قبول کرکے اس کا بھرم قائم رہنے دیا۔“ رنجیدہ لفظوں کی گہرائی میں حد درجہ قدر تھی۔

حسن اور زین کو آج اندازہ ہوا تھا کہ احتشام اور ولید کی دوستی سمندر سی ہے۔ جس کی سطح بظاہر خالی معلوم ہوتی ہے لیکن گہرائی میں محبت، قدر اور احساس کے ڈھیر سارے موتی چھپے ہوئے ہیں۔ 

”تو نے ٹھیک کہا کہ دوست ملتے ہیں، چھوٹ جاتے ہیں، پھر نئے دوست مل جاتے ہیں، لیکن احتشام جیسے دوست پھر نہیں ملتے، جسے میں ایک غیر یقین محبت کی وجہ سے کھونا نہیں چاہتا، اس جیسے دوست کیلئے تو جان بھی حاضر ہے تو پھر یہ حق کیا چیز ہے؟“ ولید کی بات کے جواب میں تو اب بھی کئی دلائل موجود تھے لیکن اس کے لہجے کی پختگی انہیں لاجواب کر گئی۔

”لیکن تیری خوشی کا کیا یار؟“ حسن نے دکھ سے پوچھا جو ولید کا موقف سمجھ گیا تھا لیکن اس کیلئے متفکر بھی تھا۔

”میری خوشی احتشام اور سویرا کی خوشی میں ہے، وہ دونوں ساتھ خوش رہیں، میرے لئے بس اتنا ہی کافی ہے۔“ مطمئن جواب حاضر تھا۔ جس نے سب ہی سوال ختم کر دیے۔

”اور پلیز تم دونوں بھی کبھی احتشام کو اس بارے میں کچھ نہ بتانا۔“ ولید نے آخر میں تاكید نہیں التجا کی۔

”کیوں؟ کیا احتشام تم لوگوں کا کچھ نہیں لگتا؟“ چوتھی آواز پر تینوں نے چونک کر دیکھا۔ 

احتشام دونوں بازو سینے پر باندھے دروازے پر کھڑا تھا۔ تینوں ششدر رہ گئے۔

”کیا دوستی نبھانے کا ٹھیکہ صرف تم لوگوں نے لے رکھا ہے؟“ وہ آگے آیا۔ تینوں حیران پریشان تھے کہ اب صورت حال کیسے سنبھالیں؟ زین نے کوشش کیلئے لب وا کیے۔

”کوئی جھوٹ نہیں بولنا، میں نے دیوار کی اوٹ میں سب سن لیا ہے۔“ زین کو منہ کھولتا دیکھ اس نے پہلے ہی اطلاع دے دی۔ مطلب بھانڈا پوری طرح پھوٹ چکا تھا۔ 

”اور تو کیا بول رہا تھا بے کہ مجھے کچھ مت بتانا؟ مطلب اب میں تیرے لیے اتنا غیر ہوگیا ہوں؟“ احتشام نے قریب آ کر ولید کے سینے پر دھکا مارا۔ اس غصے میں اپنائیت بھرا شکوہ تھا۔

”ایسا کچھ نہیں ہے، بس مجھے سویرا کے حوالے سے غلط فہمی ہوگئی تھی۔“ ولید نے اب بھی ٹالنا چاہا۔

”کیا غلط فہمی ہوگئی تھی؟“ وہ دو بدو ہوا۔

”کچھ نہیں۔۔۔جانے دے۔۔۔“

”نہیں یہ جانے دینے والی بات نہیں ہے، تو میری وجہ سے اپنی خوشی چھوڑ رہا ہے یہ میرے لئے جانے دینے والی بات نہیں ہے ولید۔۔۔“ احتشام نے بلند آواز اپنی بات پر زور دیا۔ 

”میں نے اپنی کوئی خوشی نہیں چھوڑی، میں تیرے اور سویرا کیلئے خوش ہوں۔“ اس نے تصحیح کی۔

”اور سویرا؟ اس کی خوشی کس کے ساتھ ہے؟ میرے یا تیرے ساتھ؟“ احتشام کا اگلا سوال اسے لاجواب کر گیا۔ حسن اور زین نے بھی ایک دوسرے کو دیکھا۔

”اگر اس کی خوشی میرے ساتھ ہوئی تو کیا تو اس کے ساتھ خوش رہ پائے گا؟ اور اگر اس کی خوشی تیرے ساتھ ہوئی تو کیا میں اس کے ساتھ خوش رہ پاؤں گا؟“ احتشام نے اب وہ نکتہ اٹھایا جو سب سے اہم تھا۔ ولید بھی سوچ میں پڑ گیا۔

”مجھے یقین ہے وہ تیرے ساتھ خوش رہے گی۔“ ولید اگلے پل واپس میدان میں آگیا۔

”یقین اکثر غلط فہمی بھی نکل آتے ہیں، مجھے بھی یقین تھا کہ ثانیہ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گی۔“ ترکی بہ ترکی دلیل آئی۔ وہ چپ ہوگیا۔

”تو تم دونوں جا کر سویرا سے دل کی بات کہہ دو ناں، وہ خود بتا دے گی کہ اس کے دل میں کیا ہے؟“ زین سے مزید چپ نہ رہا گیا۔ تینوں نے اسے دیکھا۔ حسن نے تو باقاعدہ کہنی ماری۔

”نہیں، سویرا کو اس بارے میں کچھ نہیں پتا چلنا چاہئے، ورنہ میں اس سے نظر نہیں ملا پاؤں گا۔“ ولید کو خوف آیا۔

”نہیں، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے جو ایک دوسرے سے نظریں چرانی پڑیں، جو بات ہے اسے کھل کر سامنے رکھتے ہوئے حل کرنا چاہئے۔“ احتشام کا موقف ولید سے جدا تھا۔

”ہم دونوں کل ایک ساتھ سویرا کے پاس جائیں گے اور ساری بات بتا کر فیصلہ اس پر چھوڑ دیں گے۔“ احتشام کی بات سن کر وہ دنگ رہ گیا۔

”یہ جذباتی فیصلہ ہے احتشام۔۔۔“ ولید نے ٹوکا۔

”نہیں، جذباتی فیصلہ یہ تھا۔“ احتشام نے اپنی کلائی دکھائی جس پر زخم کا نشان تھا۔ 

”اب میں پورے ہوش و حواس میں ہوں، کیونکہ میں سمجھ گیا ہوں کہ جو ہمارا نہیں اسے ہم مر کر بھی حاصل نہیں کر سکتے، اور جو ہمارا ہے اسے ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا، ہمیں بس یہ اتنی سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے، پھر سب آسان ہوجاتا ہے۔“ احتشام کے انداز میں کوئی غصہ، جنون یا دکھ نہیں بلکہ اطمینان تھا۔ ٹھہرے پرسکون سمندر جیسا اطمینان! 

ولید اسے دیکھے گیا۔ وہ ہمیشہ احتشام کیلئے یہ ہی سوچ کر فکرمند تھا کہ اس کا دل بہت نازک ہے۔ وہ دکھ برداشت نہیں کر پاتا۔ لیکن آج احتشام کے اس نئے متحمل روپ نے اسے مبہوت کر دیا۔ شاید وہ ایک صدمہ اسے مضبوط کر گیا تھا۔

”کل اگر اس نے مجھے چنا تو، تو میری شادی میں ناچنا۔“ احتشام نے اسے دونوں کندھوں سے تھاما۔

”اور اگر اس نے تجھے چنا تو میں تیری شادی پر ایسے شاندار طریقے سے ناچوں گا کہ سویرا کو بھی ایک پل کیلئے مجھ نہ چننے کا افسوس ہوگا۔“ اس نے شرارت سے کچھ ایسے بات مکمل کی کہ ولید بھی ہنس پڑا اور یکدم اس کے گلے لگ گیا۔ یکدم بوجھل فضا ہلکی ہوگئی۔ زین اور حسن نے بھی سکون کی سانس لی جو ان دونوں کیلئے پریشان تھے۔

”وہ کسی کو بھی چنے، اس سے ہماری دوستی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ ولید نے اس کے بال سہلاتے ہوئے عہد کیا۔

”بالکل، چاہے جتنی ثانیہ، سویرا، ثریا آجائیں، ہم دونوں کی دوستی کبھی نہیں ٹوٹے گی۔“ احتشام نے بھی تائید کی۔

”یہ ثریا کون ہے؟“ ولید تعجب سے الگ ہوا۔ جب کہ اس کا جواب صرف زین جانتا تھا۔ 

اس سے قبل کہ ان کے درمیان مزید کوئی بات ہوتی۔ ڈور بیل بجی۔ 

”میں دیکھتا ہوں۔“ 

زین کہتا ہوا باہر گیا۔ اور جوں ہی دروازہ کھولا تو سامنے سویرا کو دیکھ دنگ رہ گیا جو روئے ہوئے چہرے کے ساتھ کچھ پریشان لگ رہی تھی۔

”ولید گھر پر ہے؟“ بنا کسی تمہید کے سوال آیا۔

”ہاں ہے۔۔۔۔ولید۔۔۔۔“ اس نے بہ مشکل سوالات روک کر جواب دیتے ہوئے بلند آواز ولید کو پکارا اور اسے راستہ دیا۔

سویرا لاؤنج کے وسط میں پہنچی تو وہ تینوں بھی بیڈ روم سے نکل کر اس طرف آ چکے تھے اور اسے یوں دیکھ حیران تھے۔ 

”کیا ہوا سویرا؟ تم اچانک ایسے؟“ ولید نے حیرت کو الفاظ دیے۔

سویرا کی گلابی آنکھوں میں دوبارہ آنسو امڈے، چہرے پر کرب آیا اور وہ اس کے سینے سے لگ کر رو پڑی۔

”میں گھر چھوڑ آئی ہوں ولید۔۔۔“ اس نے روتے ہوئے سب پر بجلی گرائی۔ 

تینوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن۔۔۔۔۔احتشام کی نظریں صرف سویرا پر تھیں جو ولید کو ایک محفوظ سائبان تصور کیے اس کے سینے سے لگی رو رہی تھی۔

تو کل کا فیصلہ آج ہی ہوگیا، مطلب اب احتشام ولید کی شادی پر ناچے گا۔

”کیا ہوا سویرا؟ تم اچانک ایسے؟“ ولید نے حیرت کو الفاظ دیے۔

سویرا کی گلابی آنکھوں میں دوبارہ آنسو امڈے، چہرے پر کرب آیا اور وہ اس کے سینے سے لگ کر رو پڑی۔

”میں گھر چھوڑ آئی ہوں ولید۔۔۔“ اس نے روتے ہوئے سب پر بجلی گرائی۔ 

تینوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن۔۔۔۔۔احتشام کی نظریں صرف سویرا پر تھیں جو ولید کو ایک محفوظ سائبان تصور کیے اس کے سینے سے لگی رو رہی تھی۔

تو کل کا فیصلہ آج ہی ہوگیا، مطلب اب احتشام ولید کی شادی پر ناچے گا۔

”گھر چھوڑ آئی ہو؟ لیکن کیوں؟“ ولید نے حیرت کو الفاظ دیے لیکن وہ رونے میں مگن تھی۔ 

”آخر ہوا کیا ہے کچھ تو بتاؤ۔“ ولید نے اسے الگ کرتے ہوئے سنجیدگی سے جاننا چاہا۔ وہ مسلسل بہتے آنسو پونچھنے لگی۔

”زین پانی لاؤ۔“ احتشام کی بات پر وہ سر ہلا کر چلا گیا۔ 

”تم پہلے بیٹھ کر تھوڑا ریلیکس ہو سویرا۔“ احتشام نے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔ 

”ہاں، بیٹھ جاؤ سویرا۔“ ولید نے بھی تائید کی تو وہ ڈبل صوفے پر بیٹھ گئی۔

”سویرا بھابھی پانی۔“ زین نے گلاس بڑھایا تو یکدم سب نے اس کی جانب دیکھا۔ حسن نے تو باقاعدہ لعنت کا اشارہ کیا۔

”میں نے کہا سویرا باجی پانی۔“ غلطی کا احساس ہونے پر اس نے دہرایا لیکن رد و بدل کے ساتھ۔۔۔

صورت حال ایسی تھی کہ سویرا کا اس بات پر دھیان نہیں گیا جو ولید کے اصرار پر پانی پینے لگی تھی۔ اس نے دو گھونٹ پی کر گلاس واپس کر دیا۔

”اب پوری بات بتاؤ سویرا، کیا ہوا ہے؟“ ولید نے تحمل سے جاننا چاہا جو برابر میں ہی بیٹھ گیا تھا۔ باقی تینوں پاس کھڑے تھے۔ 

”آج ثابت ہوگیا کہ ابو کیلئے اولاد سے زیادہ دنیا والے اہم ہیں، ان سے مقابلے بازی اہم ہے۔“ وہ غم و غصے سے گویا ہوئی۔ ان کے پلے ابھی بھی کچھ نہ پڑا۔

”میں کبھی بھی سائیکالوجسٹ نہیں بننا چاہتی تھی، اور میری سمجھ میں آگیا تھا کہ ہر کوئی نفسیات کی ڈگری لے کر ماہر نفسیات نہیں بن سکتا، کیونکہ ماہر نفسیات بنتے نہیں ہیں، ماہر نفسیات ہوتے ہیں۔

لوگوں کی نفسیاتی الجھنوں کو سلجھانے کا ہنر قدرت بطور خاص کچھ لوگوں کو بخش کر بھیجتی ہے، دنیاوی تعلیم بس اس ہنر کو استعمال کرنے کے آداب سکھاتی ہے۔

اور میرے پاس جو ہنر ہے ہی نہیں میں خالی اس کے آداب سیکھ کر کیا کروں؟ لیکن یہ بات ابو نہیں سمجھے، مجھے الٹیمیٹم دے دیا کہ سائیکالوجسٹ بننا ہے تو بننا ہے، اور اس ڈپلومہ کو میرے اوپر مسلط کر دیا تا کہ دنیا والوں کو فخر سے بتا سکیں کہ میرا بیٹا سرجن ہے اور بیٹی سائیکالوجسٹ۔۔۔“ 

وہ اپنے آنسوؤں پر قابو پا کر بتاتی گئی جسے سب توجہ سے سن رہے تھے۔ کیونکہ آج پہلی بار ان سب کو سویرا کے طرف کی کہانی نظر آئی تھی۔ 

”میں نے بے دلی سے یہ ڈپلومہ جوائن کر لیا، نفسیات کو پڑھنے لگی پر مجھے اس میں دلچسپی نہ ہوئی، پہلے ہی سال سوچا ہمت جمع کرکے ابو کو بتا دوں کہ مجھ سے یہ نہیں ہو رہا، میں یہ فیلڈ چھوڑ رہی ہوں لیکن میں نہیں چھوڑ سکی۔“ اس نے شکست تسلیم کی۔

”کیوں نہیں چھوڑ سکی؟“ زین کا سوال بے ساختہ تھا۔ 

سویرا نے اسے دیکھا۔ اسی پل ڈور بیل بجی۔ حسب روایت زین دروازہ کھولنے گیا جس دوران ان سب کے بیچ خاموشی چھا گئی۔ زین نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک خوبرو لیکن اجنبی لڑکا ملا۔

”السلام علیکم! سویرا کے کزن ولید رحمٰن یہیں رہتے ہیں؟“ اس نے مہذب انداز میں تصدیق چاہی۔

”وعلیکم السلام جی، پر آپ کون؟“ وہ کھٹکا۔

”میں جنید شمسی، آپ مجھے سویرا کا سینئر کہہ سکتے ہیں، کیا سویرا یہاں آئی ہے؟“ اس کے اگلے سوال پر زین دنگ رہ گیا۔

لاؤنج میں خاموشی چھائی ہوئی تھی جب زین کی پیروی میں جنید وہاں آیا اور سب اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

”آپ کون؟“ احتشام نے پوچھا۔ 

”جنید آپ یہاں؟“ اسی پل سویرا حیرت سے کہتی کھڑی ہوئی۔ ولید نے بھی تقلید کی۔

”جب تم نے فون پر روتے ہوئے کہا تھا کہ تم گھر سے جا رہی ہو تو میں سمجھ گیا تھا کہ تم ولید کے گھر ہی آئی ہوگی۔“ وہ بتاتا ہوا آگے آیا۔

”آپ یہاں کیوں آگئے؟“ اسے فکر ہوئی۔

”تم یہاں کیوں آئی ہو؟“ اس نے مقابل رک کر الٹا سوال کیا۔ وہ چپ ہوگئی۔

”کیا ضرورت تھی اتنا بڑا قدم اٹھانے کی؟“ انداز میں مبہم سی ڈپٹ تھی۔

”تو اور میں کیا کرتی؟ میں نے آپ سے کہا تھا ناں کہ ابو کبھی میری بات نہیں سمجھیں گے لیکن آپ کا کہنا تھا کہ چھوڑ دو آسائنمنٹ پوری کرنے کی فکر اور ان سے بات کرکے بتا دو کہ مجھے نفسیات نہیں پڑھنی، آج جب میں نے بات کی تو وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ ایسی نافرمان اور نالائق اولاد سے بہتر تھا کہ خدا انہیں بے اولاد رکھتا۔“ وہ بتاتے ہوئے آخر میں پھر رو پڑی۔  

”اور وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے کہ میں کسی لائق نہیں ہوں، نہ ان کا نام روشن کر سکی اور نہ آپ سے کیا وعدہ پورا کر سکی، اب میری وجہ سے آپ کو بھی اپنی ماں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا۔“ اس نے خود کو ملامت کرتے ہوئے اس کے بازو سے سر ٹکا لیا۔ 

”نہیں مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے، تم پریشان مت ہو۔“ جنید نے آہستگی سے سر سہلایا۔ 

چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کی اس قدر قربت انہیں کچھ کچھ معاملہ سمجھانے لگی تھی۔

”انکل کو ابھی بس وقتی غصہ ہے، جب یہ غصہ اترے گا اور وہ تمھیں غیر حاضر پائیں گے تو سب سے زیادہ پریشان وہ ہی ہوں گے۔“ جنید نے مثبت رخ دکھایا۔

”لیکن آپ کی امی میڈم سلمیٰ؟ ان کا غصہ تو وقتی نہیں ہے، وہ بھی اول روز سے مجھے نالائق ہی کہتی آئی ہیں اور اب تک میری اتنی غلطیوں کے باوجود صرف آپ کے اصرار پر مجھے موقعے دیے ہیں، اب تو ان کی بات بھی درست ہوجائے گی اور۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے اچانک چپ کر گئی۔

”اور کیا؟“ زین کو مزید جاننے کا تجسس ہوا۔ 

”اور وہ ان کیلئے ان ہی کے جیسی ایک لائق اور قابل بیوی لائیں گی۔“ اس نے نظریں جھکا کر بات مکمل کی۔

”بیوی میری ہے تو مرضی بھی میری ہوگی، تم اس کی فکر مت کرو اور گھر چلو۔“ جنید کے پاس حل تیار تھا۔

”نہیں، میں گھر نہیں جاؤں گی۔“ 

”تم گھر نہیں جاؤ گی تو میں امی کو ہمارے رشتے کی بات کرنے کیا یہاں لاؤں گا؟“ جنید کا سوال ان چاروں کے شک پر تصدیق کی مہر لگا گیا۔ مطلب یہ صرف نفسیات کا نہیں، دل کا بھی معاملہ تھا۔ 

چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن اس وقت صورت حال ایسی تھی کہ نہ کچھ کہہ سکے اور نہ ایک دوسرے کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگا پائے۔ 

اسی پل ولید کا موبائل بجا تو سب کی توجہ اس کی جانب ہوگئی۔

”پھوپھو کی کال ہے۔“ ولید نے بتایا۔

”مت بتانا کہ میں یہاں ہوں۔“ سویرا نے تلخی سے منع کیا۔

”تم چپ رہو۔۔۔۔ولید آپ کال ریسیو کرکے آنٹی کو تسلی دے دیں کہ سویرا ٹھیک ہے اور آپ کے ساتھ گھر آرہی ہے۔“ جنید نے سورہ کے جذباتی پن کو لگام ڈالتے ہوئے ولید کو ہدایت دی۔ اس نے سر ہلا کر کال ریسیو کی۔

”السلام علیکم۔۔۔۔۔جی پھوپھو سویرا یہیں ہے۔۔۔۔۔۔جی وہ ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔جی میں اسے گھر لے کر آتا ہوں تھوڑی دیر تک۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔۔“ 

اس نے مختصر بات کرکے لائن کاٹی۔ 

”مجھے گھر نہیں جانا۔“ وہ تھک کر صوفے پر بیٹھ گئی۔

”فرار حل نہیں ہے، مسائل کا سامنا کرنے سے ہی یہ حل ہوتے ہیں۔“ جنید بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ 

”جنید کی بات درست ہے سویرا، تمھیں واپس جا کر تحمل سے بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہئے، ایسے بات کیے بنا فرار ہونے سے معاملہ اور بگاڑ جائے گا۔“ احتشام نے تائید کی۔ جنید نے تشکر سے اسے دیکھا۔

”جنید کی بات کبھی غلط ہوتی بھی نہیں ہے۔“ سویرا کے انداز میں رشک اتر آیا۔ جو چند لمحوں کیلئے اپنا دکھ بھول گئی۔

”میں نے کہا تھا ناں کہ ماہر نفسیات بنتے نہیں ہیں، ہوتے ہیں، کیونکہ قدرت بطور خاص کچھ لوگوں کو یہ ہنر بخش کر بھیجتی ہے، جنید ان ہی خاص لوگوں میں سے ہیں۔“ سویرا نے فخر سے ان لوگوں کو بتایا۔

”پتا ہے احتشام آج تک میں نے تم سے جتنی بھی پازیٹیو باتیں کیں، جو بھی حل بتائے وہ سب مجھے جنید بتاتے تھے۔“ اس نے ایک اور انکشاف کیا۔

”پینل کے سامنے جو ہمارا پہلا سیشن ہوا تھا تب جنید بھی اس پینل کا حصہ تھے، اور وہ جان گئے تھے کہ تمہارے ساتھ میرا رویہ غلط ہے، انہوں نے ہی مجھے سمجھا کر تم سے سوری کہنے کا کہا تھا، اس کے بعد بھی تمہارے سارے ہیلنگ پراسیس کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے، میں صرف ان کی باتوں پر عمل کر رہی تھی۔“ آج سویرا نے اس اصلی مسیحا کا تعارف کرایا جو اب تک پس پردہ تھا۔ 

”مجھے کوئی کریڈٹ نہیں جاتا، دراصل اپنی ہیلنگ ہر شخص کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، اور بلاشبہ احتشام نے خود کو بہت اچھے سے سنبھالا ہے۔“ جنید نے بھی رسان سے کہا۔

”میں خود کو سنبھال پایا کیونکہ میرے ارد گرد فیملی اور دوستوں کی صورت اتنے مخلص سہارے جو ہیں۔“ احتشام نے باری باری سب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

”کاش میرے پاس بھی ایسے سہارے ہوتے۔“ سویرا بے ساختہ حسرت سے کہہ گئی۔ 

”تمہارے پاس بھی یہ سہارے ہیں بس تم انہیں پہچان نہیں رہی ہو، اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو کیا تم گھر سے نکلنے کا اتنا بڑا قدم اٹھاتی؟“ جنید نے نتیجے پر پہنچتے ہوئے سوال اٹھایا۔ اس نے نظریں جھکا کر نفی میں سر ہلا دیا۔

”آپ لوگوں کو پتا نہیں ہے لیکن سویرا آپ لوگوں کے بارے میں بہت باتیں کرتی ہے، کہ احتشام کی صورت اسے ایک اچھا دوست مل گیا ہے، ولید بھی کزن نہیں بھائی جیسا ہے، حسن اور زین بھی بہت عزت کرتے ہیں، تب ہی میں سمجھ گیا تھا کہ سویرا نے اگر اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے تو اس سے زیادہ محفوظ جگہ اسے اور کوئی نہیں ملی ہوگی۔“ جنید نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔ 

ان چاروں نے بھی جواباً مسکراہٹ پیش کی لیکن معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ 

”لیکن پھر بھی میں سویرا کی اس حرکت کی مذمت کروں گا کہ اسے گھر نہیں چھوڑنا چاہئے تھا، یہ بہت بڑا رسک تھا۔“ جنید نے آخر میں اپنی نااتفاقی کا اظہار کر دیا۔ وہ کچھ نہ بولی۔

”خیر۔۔۔۔ولید اب آپ سویرا کو گھر ڈراپ کر آئیں، آنٹی پریشان ہو رہی ہوں گی۔“ جنید واپس اصل موضوع پر آیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ولید نے بلڈنگ میں ہی ایک جاننے والے سے گاڑی لی تھی اور اب سویرا کو واپس گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی جسے ولید نے ہی توڑا۔

”تم اور جنید ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو یہ بات پھوپھو پھوپھا جانتے ہیں؟“ اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں، یہ بات کوئی نہیں جانتا اور نہ ہم ابھی کسی کو بتانا چاہتے تھے۔“ وہ گویا ہوئی۔ 

”کیونکہ ایک طرح سے میرا اور جنید کا رشتہ ٹیچر اور اسٹوڈنٹ کا ہے، ہم ایتھکلی اور مورلی اس کی ریسپکٹ قائم رکھنا چاہتے تھے، ہمارا ارادہ تھا کہ جب میں اپنا ڈپلومہ کمپلیٹ کرکے پراپر پریکٹس میں آجاؤں گی، اور جنید کو آسٹریلیاء سے اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے گا، تب ہم گھر والوں سے بات کریں گے، کیونکہ جنید کی امی میڈم سلمیٰ ہماری سینئر ٹیچر ہیں جنہیں اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے بہو بھی اتنی ہی لائق چاہیے، کچھ اس لئے بھی میں اور دل مار کر اس ڈپلومہ کے بوجھ کو گھسیٹ رہی تھی۔۔۔۔

لیکن اپنے ہر پریکٹیکل کے بعد مجھے یہ سمجھ آتا گیا کہ اگر میں نے اس فیلڈ کو زبردستی جوائن کر بھی لیا تو اپنے ساتھ ساتھ اپنے پیشنٹس پر بھی ظلم کروں گی، جیسا پہلی ملاقات میں احتشام کے ساتھ کر گئی تھی، میں اپنی فرسٹیشن کہیں نا کہیں اپنے پیشنٹس پر نکال دوں گی جو کہ بالکل غلط ہے، بس یہ ہی سب سوچتے ہوئے میں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا، اب آگے پتا نہیں کیا ہوگا؟“ 

اس نے آخر میں تھک کر گہری سانس لی۔ ولید نے اس کی جانب دیکھا۔ وہ واقعی تھکن زدہ لگ رہی تھی۔ ان چاہا بوجھ اٹھائے پھرنے کی تھکن۔۔۔۔

”آگے بھی سب اچھا ہوگا۔“ ولید نے واپس سڑک پر دیکھتے ہوئے تسلی دی۔

”میں نے اچانک آ کر تم لوگوں کو بھی پریشان کر دیا، آئی ایم سوری۔“ وہ شرمندہ ہوئی۔ 

”سوری تو مجھے کہنا چاہیے تم سے، شرمندہ تو میں ہوں۔“ ولید کے انداز میں ملال تھا۔ اسی پل گاڑی گھر کے آگے رکی۔

”تم کیوں شرمندہ ہو؟“ سویرا نے متعجب نظروں سے دیکھا۔ ولید نے بھی نظر ملائی۔

”تمہارے ساتھ اندر ہی اندر اتنے مسائل چل رہے تھے اور مجھے پتا ہی نہیں تھا ورنہ کوئی مدد کر دیتا۔“ اس نے بات بدل دی۔ کیونکہ اصل بات بتا دیتا تو واقعی شرم کے مارے ساری زندگی نظر نہیں اٹھا پاتا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ولید بھی سویرا کے ساتھ گھر گیا تھا جہاں حسب توقع سب گھر والے پریشان ملے۔ پھر تھوڑی ڈانٹ ڈپٹ، ضد بحث، نصیحت، وضاحت کے بعد بلآخر کشتی کنارے لگ گئی۔ 

ولید وہاں سے واپس اپارٹمنٹ آیا تو تینوں لاؤنج میں ہی بیٹھے ملے۔ جب کہ جنید جا چکا تھا۔ حسن ایک سنگل صوفے پر براجمان تھے جس کے ہتھے پر زین بیٹھا ہوا تھا۔ احتشام ڈبل صوفے پر موجود تھا۔ ولید بھی آ کر چپ چاپ احتشام کے برابر میں بیٹھ گیا۔

ان چاروں کے ہوتے ہوئے بھی سب کے بیچ گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جیسے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسا رد عمل دیں؟ 

احتشام اور ولید نے آہستہ سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور۔۔۔۔دونوں کے لبوں پر مسکراہٹ امڈ آئی۔

اچانک دونوں ہنسے۔ حسن اور زین نے انہیں دیکھا۔ ان کی ہنسی بڑھنے لگی اور بلآخر فلک شگاف قہقہے میں تبدیل ہوگئی۔ دونوں ہنستے ہوئے صوفے سے اتر کر فرش پر آگئے تھے۔

”کیا ہوگیا تم دونوں کو؟“ حسن نے تعجب سے پوچھا۔

”لگتا ہے سویرا والا صدمہ ان کے دماغ پر لگ گیا ہے۔“ زین نے حسن کے کان میں سرگوشی کی۔ 

”سویرا کی باتوں سے بہت سویرا ہوگیا تھا ناں تیری زندگی میں؟ اب پتا چلا کہ وہ باتیں در حقیقت سورج کی تھیں، اب کیا جنید کو شادی کیلئے پرپوز کرے گا؟ کیونکہ سویرا تو تجھے فرینڈزون کر گئی ہے۔“ ولید نے ہنستے ہوئے مذاق اڑایا۔ اچانک ماحول کو تناؤ زائل ہوگیا۔ 

”ابے مجھے افسوس اس بات کا نہیں ہے کہ سویرا نے مجھے فرینڈ زون کیا، بلکہ اس بات کی خوشی ہے کہ وہ تجھے بھی بھائی زون کر گئی۔“ احتشام نے بھی لحاظ نہ رکھا جو بری طرح ہنس رہا تھا۔ وہ دونوں بھی ہنسنے لگے۔

”یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے کمینے، تیرے ساتھ رہ رہ کر میرا دھیان بھی بھٹک گیا ورنہ میں تو سادگی سے پڑھائی میں مصروف تھا۔“ ولید نے اسے چپت لگاتے ہوئے سارا الزام اسے دیا۔

”اچھا؟ میں نے تجھے کہا تھا کہ سویرا کیلئے گفٹ خرید اور برتھ ڈے پر پرپوز کر دے؟“ وہ ہنستے ہوئے ہی دو بدو ہوا۔

”تو نے نہیں کہا تھا، لیکن شکر ہے میں نے بھی کچھ نہیں کہا۔“ دھیرے دھیرے ولید کی ہنسی کو لگام لگی۔

”اگر صحیح وقت پر ساری بات نہ کھلتی اور کل میں سویرا سے وہ سب کہہ دیتا تو پھر ساری زندگی نظر نہیں ملا پاتا، وہ مجھے بھائی جیسا سمجھتی تھی اور میں اس کے بارے میں یہ سب سوچ بیٹھا۔“ ولید نے خود کو ملامت کی۔ احتشام بھی خاموش ہوگیا تھا۔

”میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا، میں بھی انجانے میں بہت بڑی غلطی کر بیٹھا تھا۔“ احتشام نے اعتراف کیا۔

”اگر دیکھا جائے تو غلطی تم دونوں کی نہیں ہے، لیکن غلطی تم تینوں کی بھی ہے۔“ حسن نے بھی نیچے بیٹھتے ہوئے حصہ لیا۔ دونوں نے اسے دیکھا۔

”تم دونوں کی غلطی اسی لئے نہیں ہے کہ یہ تو قانونِ فطرت ہے کہ مخالف جنس ایک دوسرے کی جانب کھنچتی ہی ہے، ان کی عام سی بات بھی بہت خاص لگتی ہے، جو تم لوگوں کو بھی لگ گئی۔۔۔۔۔لیکن تم تینوں کی غلطی یہ ہے کہ قانونِ فطرت سے واقف ہونے کے باوجود تم لوگوں نے اسے فار گرینٹیڈ لیا، اتنا نظر انداز کیا کہ شاید بھول ہی گئے، سویرا بھول گئی کہ بھلے ہی وہ تمھیں دوست یا بھائی سمجھتی ہے لیکن ہو تو تم دونوں ہی مرد اور وہ عورت، تم دونوں بھول گئے کہ سویرا کے ساتھ تو معاہدہ ہی ہیلنگ کا ہوا تھا، اور اس کے ہیل کرنے کی کوشش کو تم دونوں محبت کی علامت سمجھ بیٹھے۔“ 

حسن نے پوری تصویر واضح کی جو منظر کے باہر کھڑا بہ آسانی اس زاویے سے پورا نظارہ کر سکتا تھا، جس زاویے سے یہ لوگ منظر کا حصہ ہو کر منظر کو نہیں دیکھ پائے۔ لیکن اب سب سمجھ آگیا تھا۔

”تو ٹھیک کہہ رہا ہے یار، اب میں بھی یہ لڑکی وڑکی سے دوستی کے چکر میں نہیں پڑوں گا، اس چکر میں محبت اور اٹریکشن کے بیچ بڑی کنفیوژن ہے، مجھے بس پڑھائی پوری کرنی ہے پھر سیدھا امی کی پسند سے شادی کر لوں گا۔“ زین نے بھی حسن کے برابر بیٹھتے ہوئے فوراً عبرت پکڑی۔

”ٹھیک کہہ رہے ہو، غلطی محبت کی نہیں ہماری ہوتی ہے، ہم فطری کشش کو ہی محبت سمجھ بیٹھتے ہیں، اور پھر محبت کو کوستے ہوئے روتے ہیں۔“ احتشام نے تائید کی جو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔

”ہاں لیکن اس ساری گڑبڑ میں ایک بات اچھی ہوئی۔“ حسن کو اچانک خیال آیا۔

”کون سی بات؟“ 

”یہ ثابت ہوگیا کہ ہر بار ایک عورت کے پیچھے دو مرد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہوتے، کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کیلئے قربانی دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔“ حسن نے ان دونوں کی جانب اشارہ کیا جو اس انکشاف سے پہلے ایک دوسرے کی خوشی میں قربان ہونے کیلئے بخوشی راضی تھے۔

”جب دوست ایسا ہو تو اس کیلئے قربان ہونا بھی اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔“ ولید نے محبت سے احتشام کے گرد بازو حمائل کیا۔

”لیکن مجھے میرے دوست کی قربانی نہیں، ساتھ چاہیے، ہمیشہ۔۔۔“ یہ ہی عمل دہراتے ہوئے احتشام کے انداز میں بھی اتنی ہی محبت تھی۔

”صنم ملے نا ملے، محبوب دوستوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔“ احتشام نے دوسرا بازو ان دونوں کیلئے وا کیا۔ وہ دونوں بھی فوری ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ بھلے وہ ان کے بچپن کے دوست نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے بھی ہر قدم پر دوستی نبھائی تھی۔

”سب ہیپی ہیپی سا لگ رہا ہے، لگتا ہے پکچر ختم ہونے والی ہے۔“ زین نے اندازہ لگایا۔ 

”ابھی کہاں، ابھی تو رئیل ہیروئنز کی انٹری باقی ہے۔“ احتشام نے تصحیح کی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ سنک پر برتن دھو رہی تھی۔ احتشام بھی وہاں آیا اور اسے حصار میں لیتے ہوئے ٹھوڑی کندھے پر ٹکا لی۔

”مجھے پتا ہے کہ تمہارا دل چاہ بھی رہا ہوگا تب بھی تم میری وجہ سے نہیں جا رہی کہ پھر میرے کھانے پینے سے لے کر دیگر چھوٹے بڑے کام کون کرے گا؟“ وہ نتیجے پر پہنچ چکا تھا۔

اس نے نل بند کیا اور دھیرے سے اس کی جانب گھومی۔ اس نے حصار ڈھیلا کر دیا لیکن ہٹایا نہیں۔ 

”ہاں میں آپ کی وجہ سے نہیں جا رہی، اسی لئے نہیں کہ پھر آپ کے کام کون کرے گا؟ بلکہ اسی لئے کہ مجھے آپ کے ساتھ رہ کر آپ کے چھوٹے بڑے کام خود کرنا اچھا لگتا ہے، اور ابھی میں بس آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو۔“ اس نے رسان سے اتنا محبت پاش جواب دیا کہ پھر ہر بات کی گنجائش ختم ہوگئی۔

اس قدر وارفتگی اسے اکثر اتنا رشک دلاتی تھی کہ وہ اندر ہی اندر شرمندہ ہوجاتا تھا۔ کیونکہ ماضی میں جانے انجانے وہ اس پیاری لڑکی کی امانت میں خیانت کر بیٹھا تھا جو اس کے ماضی سے انجان اس سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔ 

”اب اگر آپ کی اجازت ہو تو میں کام کرلوں؟“ اسے یک ٹک خود کو تکتا پا کر اس نے شرارتاً اجازت چاہی۔ 

”مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔“ وہ اچانک گویا ہوا۔ جیسے یکایک کوئی فیصلہ لیا ہو۔

”کیجیے۔“ اس نے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھ لئے جو یہ ہی سمجھ رہی تھی کہ معمول کی طرح وہ کوئی رومانوی شرارت کرنے لگا ہے جس کا بھرپور ساتھ دینے کیلئے وہ تیار تھی۔

”میں۔۔۔۔۔“

ابھی جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mere Mehboob Mere Sanam Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mere Mehboob Mere Sanam  written by Faryal Khan .Mere Mehboob Mere Sanam by Faryal Khan  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *