Shah E Man Season 1 by Yaman Eva Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday, 25 April 2025

demo-image

Shah E Man Season 1 by Yaman Eva Complete Romantic Novel

Shah E Man Season 1 by Yaman Eva Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

bdc4b83d69251d5c8fb04e1ff6b0439b
Shah E Man Season 1 by Yaman Eva Complete Romantic Novel

Novel Name: Shah E Man Season 1

Writer Name: Yaman Eva

Category: Complete Novel

وہ ایک بار دوبارہ پولیس کال پر رو دینے والے ہو گئے۔۔ ”دیکھیں آپکا بیٹا ہماری عزت مٹی میں رول چکا اب تو بس میرے مرنے کو انتظام کر رہا ہے۔“ 

انہوں نے بے چارگی سے بیوی کو دیکھا۔۔

 ”اب بس کر جائیں آپ کو شکر گزار ہونا چاہئیے وہ ڈرنک نہیں کرتا، سموکنگ یا ڈرگ کی عادت نہیں، لڑکیوں کو نہیں چھیڑتا اور سب سے بڑھ کر کلبنگ نہیں کرتا۔۔ ابھی 19 سال کا ہے اور آپ چاہتے ہیں اپنے کمرے کے کارنر میں نفسیاتی مریض کی طرح سارا دن سر جھکائے بیٹھا رہے۔؟“

وہ بیٹے کے خلاف سن کر بھڑک گئیں اور وہ مسٹر احرام اقیان جو خاندانی رئیس ہونے اور سب سے چھوٹے بیٹے ہونے کی وجہ سے گھر بھر کے لاڈلے ہونے کے باوجود نا ضدی تھے نا ہی بگڑے ھوئے۔۔

  25 سال کی عمر میں بزنس میں نام کما چکے تھے اور سکون کی زندگی گزار رہے تھے جب تک انکا بیٹا سالک احرام اقیان 8 سال کا تھا۔۔ مگر اس کے بعد وہ سکون نامی چیز سے انھیں بہت دور کر چکا تھا...

  💜💜💜💜

“I am legally adult now so  I can do what I want.. its mean...."

(میں قانونی طور پر بالغ ہوں تو میں جو چاہے کر سکتا ہوں اس کا مطلب۔۔۔)

 اس نے زرا رک کر دوستوں کو دیکھا اسکی سیاہ 

رات جیسی آنکھوں میں ستاروں جیسی چمک تھی۔۔

 ”I can smoke , drink and Can do clubbing and Omg I can have girlfriend too"

(میں سموکنگ کر سکتا ہوں، ڈرنک کر سکتا ہوں، کلب جا سکتا ہوں اور اوہ مائی گاڈ۔۔ میں گرل فرینڈ بھی بنا سکتا ہوں۔۔) 

وہ ہنسا تو اسکی گلابی مائل رنگت میں جوش سے سرخی بھر آئی۔۔ اسکے دوستوں نے ہاں میں ہاں ملائی

۔۔

“Do remember.. do not forget us, we are crime partners anyway S...” 

(یاد رکھو۔۔ ہمیں مت بھولنا، ہم بہرحال کرائم پارٹنر ہیں ایس۔۔)

اسکا دوست تیزی سے بولا کیونکہ ایس ہی تو انکے تمام اخراجات اٹھاتا تھا اور اپنے باپ کے پیسوں سے کسی باپ کی طرح انکی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔۔

 “of course.. what are you afraid about I am with you after all I needed some loyal friends.."

(بالکل۔۔ تم کس لیے ڈر رہے ہو میں تمہارے ساتھ ہوں آخر مجھے کچھ وفادار دوست چاہئیے تھے۔۔)

وہ شرارت سے ہنسا تھا اور لوگوں نے مڑ مڑ کر اس لمبے شریر شہزادوں جیسے حسین لڑکے کو دیکھا جس کے سنہری مائل براؤن سلکی بال پیشانی پر بے ترتیبی سے بکھرے بہت بھلے لگ رہے تھے۔

💜💜💜💜

”بابا مجھے کالج جانا ہے آپ نے وعداہ کیا تھا A plus لیے تو آپ بھیجیں گے۔۔“ 

وہ گرے بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھرے ان کی منت کرنے لگی۔

” تم نے بھابھی بیگم کے سامنے کہا تم کالج پردہ کر کے نہیں جاؤ گی۔ اگر تم ایسی نیت رکھے بیٹھی ہو تو پھر بھول جاٶ۔۔“

 انہوں نے خفگی سے جتایا اور اس نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔

”مذاق کیا تھا۔۔“ اس نے معصومیت سے کہا وہ ہنس کر نفی میں سر ہلانے لگے 

” پردہ کرو گی؟“ سوال کیا تو اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا 

”سب گھر والوں کی بات مانو گی اور دل لگا کر پڑھائی کرو گی اور ۔۔ “

 اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے وہ تیزی سے بولی۔۔

”جو بھی کہیں گے بابا سب مانوں گی۔۔“ وہ مسکرائے۔

”ٹھیک ہے پھر تیار رہنا کل لے جاؤں گا۔۔۔“ وہ ان کی بات پر خوشی سے چیخی اور باہر کو بھاگی جب انہوں نے پکارا۔

 ”میرا مان کبھی مت توڑنا دیالہ پھر چاہے سب کو ناراض کر کے بھی پڑھانا پڑا پڑھاؤں گا۔“ 

ان کی التجا نے اسکو فریز کر دیا۔۔

”کبھی آپکا سر نہیں جھکے گا۔“ وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی۔

”آج کل تم کچھ زیادہ مصروف ہوگئے ہو۔۔ گھر لیٹ آتے ہو۔۔“  

باپ کے سوال پر فورک سے سلاد اٹھاتا سالک رکا اور ایک نظر خود کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ماں باپ کو دیکھا اور پھر ہنسا۔۔

”اب میں قانونی طور پر بالغ ہوں تو شوق بدل رہےہیں مصروفیت بڑھ رہی ہے۔۔“  اس کے چہرے پر ہر پل رہنے والی مخصوص شرارتی مسکراہٹ میں آج اس کے ماں باپ کو شیطانی رنگ بھی نظر آ رہا تھا احرام نے ایک جتاتی نظر بیوی پر ڈالی جیسے کہا ہو لو تمہارا معصوم بیٹا کیا فرمان جاری کر رہا ہے مگر پرواہ کسے تھی انہوں نے بے نیازی سے  کندھے اچکائے تو انہوں نے سر جھٹکا اور گلا کھنکار کر اس کی جانب متوجہ ہوئے جو کسی شہزادے کی طرح اکڑ کر بیٹھا تھا۔۔

”پوچھ سکتا ہوں کہ اب کیا شوق ہیں جناب کے۔۔؟“ ان کے سوال پر انکی بیوی نے  پہلو بدل کر انہیں آنکھیں دکھائیں جنہیں وہ بڑے مزے سے نظر انداز کر گئے۔ 

”کیوں آپ اس ایج میں کبھی نہیں آئے جو یوں سوال کر رہے ہیں؟ کم آن۔۔ آپ کو دیکھ کر نہیں لگتا آپ ایسے انوسنٹ ہیں۔۔“  وہ زور سے ہنسا اور انہوں نے بے بسی سے اسے دیکھا جو ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں سنتا تھا۔۔

 ”بی سیرئیس سالک فار گاڈ سیک۔۔ باپ سے یوں بات کر رہے ہو جیسے تمہارا کالج فرینڈ ہوں میں تو اب  تمہیں پاکستان بھیجنے سے بھی ڈرتا ہوں کیا باباجان سے بھی اسی طرح بات کرتے ہو؟“  انکا کھانا حرام ہو چکا تھا اور وہ مزے سے کھانا کھاتا انہیں دیکھ رہا تھا۔۔

”ٹرسٹ می وہ توبہت انجوائے کرتے ہیں میری کمپنی۔۔“ اس نے آنکھ مار کرکہا تو اس کے جواب پر وہ شاکڈ ہوگئے۔۔

” سالک تو کیا تم واقعی۔۔۔ یاخدا کس گناہ کی سزا کے طور پر سالک اقیان دیا ہے مجھے۔۔“  وہ اسکی بگڑتی شخصیت پر آسمان کی جانب دیکھ کر بولے ۔ 

” کیا آپ کو میں سزا لگتا ہوں۔۔ “ وہ اچانک ہی سنجیدہ ہو گیا وہ چونکے پھر ڈرامہ شروع ؟ 

اور ڈرامہ شروع ہو چکا تھا وہ کھانے کی پلیٹ اپنے آگے سے ہٹا چکا تھا اور انہیں گھور رہا تھا. انہوں نے گہری سانس بھری۔۔

 ” دیکھو میری جان میں بس۔۔۔” آئی نو۔۔“  انکی بات درمیان میں کاٹ کر بولا۔۔ 

” آپ کو لگتا ہے میں اب بالغ ہو گیا ہوں تو یہاں کی ہر برائی اپنا لوں گا۔۔“  وہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا اور وہ خجل سے ہو گئے۔۔ 

”اور یہ کہ ڈرنک کروں گا۔۔ ڈرگز لوں گا۔۔ لڑکیوں کے ساتھ تعلقات رکھوں گا۔۔؟ آپ مجھے اتنا گھٹیا سمجھتے ہیں..“ 

وہ جو کل تک یہی سب ارادے دوستوں کے سامنے بناتا رہا تھا آج بیٹھے بیٹھے مکر گیا۔

” سالک اتنا ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں یہ سب احرام نے مینشن ہی نہیں کیا۔۔“ ماریہ بیگم نے اسے مزید بولنے کی تیاری کرتا دیکھ کر ٹوکا۔ 

” مینشن نہیں کیا ناں دل میں تو یہی بات ہے۔ مام آپ پلیز مجھے کلئیر کرنے دیں آخر سمجھتے کیا ہیں مجھے paps“ اس نے ماں کوبولنے سے منع کردیا آج وہ اپنے باپ کو ہر حال میں گلٹی کرنا چاہتا تھا۔۔ 

” مجھے یہ پاپس جیسے فضول نام مت دیا کرو سالک اور میں باپ ہوں ڈرتا ہوں تم ابھی نائنٹین ہو۔۔ چھوٹے ہو۔۔“ 

وہ بڑی مشکل سے ضبط کر رہے تھے جانتے تھے وہ اتنا سیدھا نہیں جتنا بن رہا ہے۔۔ 

” میں سمجھ دار ہوں ایج سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔“ 

سالک کے بڑے بہن بھائی ( کزنز) سب سہی کہتے ہیں سالک ڈرامہ ہے پورا۔۔  ماریہ اب باپ بیٹے کی بحث پر سر جھٹک کر کھانا کھانے لگیں۔۔ نا اب احرام نے خاموش ہونا تھا نا ہی سالک انہیں چڑانے سے باز آنے والا تھا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜

”زایان میں تمہیں پسند کرتی ہوں اور تم مجھے اپنی منگنی ہونے کا بتا رہے ہو۔۔“ سبینہ کا منہ اس کی منگنی والی بات پر کھلا کا کھلا رہ گیا اور اسکے اچانک اظہار نے زایان کی آنکھیں کھول دیں۔

 ” او ہیلو یہ کچھ دن ہوئے ہیں جب تم کسی لیلٰی کی طرح بھاگتی آکر میرے سامنے گریں۔ میں نے مدد کر دی کہ بھری یونی میں منہ کے بل گری لڑکی جچتی نہیں اور اس کے بعد سے تم روشنی میں بننے والے ان چاہے سائے کی طرح ساتھ ساتھ ہر جگہ گھوم رہی ہو تب بھی میں نے سوچا چلو ایک یونی فیلو اور کلاس فیلو ہو تو خیر ہے اور اب دوست سمجھ کر منگنی کا بھی بتا دیا تو اچانک تمہاری پسندیدگی جاگ گئی (پہلے کیوں نہیں بکواس کی)“  آخری جملہ دل میں کہا اور بنا سانس لیے تقریر کر دی وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑھے اسکا لفظ لفظ جیسے حفظ کرنا چاہ رہی تھی۔۔ 

” میں بہت پہلے سے پسند کرتی ہوں تمہیں زایان تماری سوچ سے بھی بہت پہلے۔۔“ وہ بے چارگی سے بولی ۔ 

” میڈم جان چھوڑو یعنی وہ میرے سامنے آکر گرنے کا بھی ڈرامہ تھا؟“ اس نے  غم کی شدت سے آنکھیں بند کیں اتنا بڑا بے وقوف۔۔؟ لڑکی پاگل بنا گٸی اور وہ بن گیا؟۔ صدمہ ہی صدمہ تھا۔۔   

”نہیں وہ قسم سے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ “ وہ نفی میں سر ہلاتی اسکی بات کی پر زور نفی کرنے لگی ۔۔ 

” مگر میں پھر بھی یہی سمجھوں گا کہ ڈرامہ تھا “ وہ ڈھٹائی سے جتا کر بولا۔۔ 

” اور پلیز ڈسٹرب مت کرو مجھے،  میں پہلے ہی پریشان ہوں پتہ نہیں کونسی وہ منحوس گھڑی تھی جب ماما اور داجان سے کہہ دیا تھا کہ شادی ان کی مرضی سے کروں گا اور ایسی گمنام لڑکی ڈھونڈی ہے کہ نام ، پتہ اور شکل تک نہیں پتا مجھے نا وہ بتانے دکھانے کو تیار ہیں۔“ 

وہ سر پکڑ کر بولا۔ 

” تو تم سب کو میرا بتا دو مجھ سے شادی کر لو پلیز۔۔“ و

ہ پھر سے منتوں ترلوں پر اتر آئی زایان نے بےزاری سے اسے دیکھا۔

” میں انکار نہیں کر سکتا رشتے سے۔۔ میں نے اس ڈیل کے بدلے بڑی مہنگی گاڑی نکلوائی ہے اپنے داجان سے اور میرے داجان کوئی کچا کھیل نہیں کھیلتے پیپر پر لکھوایا تھا کہ بات سے نہیں پھروں گا۔۔“ وہ بس رویا نہیں باقی دکھ سے بری حالت تھی ۔ 

” ہونہہ وہ تمہارے داجان ویسے تو غریب سٹوڈنٹس کو سکالرشپ کے نام پر اتنا اتنا پیسہ دیتے ہیں اور اپنے پوتے کو ایک گاڑی دے کر بھی پیپر سائن کروایا۔ ہاؤ روڈ۔۔“ وہ منہ میں بڑبڑاٸی آواز اتنی کم رکھی کہ وہ بات سمجھ نہیں پایا اور نا وہ غور کر رہا تھا اس کے اپنے بہت رونے تھے۔

💜💜💜 Yaman Eva Writes💜💜💜

اس کا پاکستان کے بہترین کالج میں سکالرشپ پر داخلہ ہو چکا تھا اور آج پہلا دن تھا وہ آنکھیں پھیلائے اس اونچی عمارت کو عقیدت سے دیکھ رہی تھی۔ اچھے اداروں سے اعلٰی تعلیم حاصل کرنا بچپن کا خواب تھا جو بڑی محنتوں سے پورا ہو رہا تھا۔۔

”کہیں یہ بھی سکالرشپ سٹوڈنٹ تو نہیں۔۔“

 ”حلیہ بتا رہا ہے  اس کا۔۔“   

”لیکن کیوٹ لگ رہی آٸز بہت پیاری ہیں گرے افف۔۔“

”صرف آٸز ہی پیاری ہوں گی اس لیے تو چہرہ چھپا رکھا ہے۔۔۔“

”Attention seeker poor girl.. " 

یہ لوگ اسی طرح کی حرکتیں کر کے سب کی توجہ حاصل کرتے ہیں پتہ نہیں آنے کس نے دیا۔۔“  انسلٹنگ جملوں اور طنزیہ ہنسی پر اس کے بڑھتے قدم رکے۔ وہ مڑ کر ان کے پاس گئی۔

”تمہارے پاس دماغ ہو نا ہو پیسہ اور ہائی کلاس ہے جس نے یہاں پہنچا دیا اور میرے پاس زہانت ہے اپنی محنت سےآگئی۔۔“ وہ سینے پر بازو لپیٹے اعتماد سے بولی۔۔

ان میں سے ایک جو اسی کی زات کا بڑھ چڑھ کر مذاق بنا رہی تھی اسکا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔۔

 ”۔۔۔۔how dare you 

اس کی بات پوری ہونے سے پہلے وہ بول پڑی۔۔

”رشوت پر نہیں آئی کہ باتیں سنوں گی۔ اس کالج کا مالک تمہارا باپ ہوا تب بھی پرواہ نہیں میری محنت مجھے یہاں لائی ہے کسی سے کیوں ڈروں بھئی۔۔“

اس نے آرام سے آنکھیں پٹپٹا کر کہا۔. 

” اوہ زندگی میں پہلی بار Aplus  پر سکالرشپ لے لی تو ہواؤں میں اڑنے لگی۔۔“ 

اس لڑکی کی بات پر اس نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں۔

” پتہ نہیں نانا جان کو کیا شوق ہے اتنے بدتہذیب لوگوں کو سکالرشپ دے کر ہمارے سروں پر بٹھانے کا۔۔“  اس لڑکی نے نانا لفظ اسے سنانے کو بولا تاکہ سامنے کھڑی بدتمیز لڑکی اس سے زبان نا لڑائے۔۔ 

(دیا کوئی آپ کی زات کا مزاق اڑائے تو اپنے الفاظ اور وقت ان پر ضائع کرنے کی بجائے اپنے عمل سے انکی بات کی نفی کر دو کہ جیسا لوگ سمجھ رہے ہیں آپ وہ نہیں۔۔) 

وہ باپ کی بات زہن میں آنے کی وجہ سے اب بھی خاموش رہی تو لڑکی کو شہ ملی۔۔

” اور خیال کرنا یہ نا ہو اگلی بار فیل ہو کر کالج سے باہر کر دی جاؤ۔۔“   وہ اب اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر ہنس رہی تھی یہ لڑکی جس کا نام اسمارہ جھانگیر ہے اور ہر ادارے میں بہترین نمبروں سے کامیاب ہونے والے سٹوڈنٹس کو سکالرشپ دے کر ان کے لیے کامیابی کی راہ کھولنے والے عظیم انسان کی بد دماغ نواسی ہے۔۔

”اور ایسا نا ہو نیکسٹ ائیر ان ٹاپ ٹین سٹوڈنٹس میں میرا نام ہو جنہیں سکالرشپ پر ہائر ایجوکیشن کے لیے تمہارے نانا جان فارن بھیجتے ہیں۔۔“  وہ بڑے اعتماد سے مسکراتی ہوئی بولی اور ان کی مزید بات سنے بنا آگے چل پڑی۔۔

یہ ہے دیالہ خادم عرف دیا۔۔ زہین اور ہر ایک سے بحث کرنے والی لڑکی۔۔ 

 (بابا بھی ناں بس اگر جواب نا دو تو لوگ چپ نہیں ہوتے۔۔)

 اس نے کلاس میں اینٹر ہوتے ہوئے سوچا اور بہت غلط سوچا کبھی کبھی لڑکیوں کو ہر ایرے غیرے کو جواب دینے اور بحث کرنے پر نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔۔ 

💜💜💜yaman Eva Writes💜💜💜

" hey S would you like to have drink with me "

 اس نسوانی آواز پر وہ رکا اور پلٹ کر دیکھا وہ بلونڈ ہئیر لمبی قد کی لڑکی تھی۔۔ وہ مسکرایا۔۔

" how do you know me? "

  یہ سوال اس لیے کیا کہ جان سکے وہ کالج فین ہے کلب سے ہے یا اسکے باپ کی بھیجی ہوئی۔

 " you are prince of our college I am seniour student and have crush on you.." 

(تم ہمارے کالج کے پرنس ہو۔۔ میں سینئیر سٹوڈنٹ ہوں اور میرا تم پر کرش ہے۔۔)

وہ لڑکی ادا سے مسکرائی اور اس کے قریب آئی۔۔ وہ بغور اسکا جائزہ لے رہا تھا۔ پھر جیسے کچھ یاد آنے پر چونکا۔

 " do you know I dont like girls with blue eyes but you are amzingly beautiful.. "

(کیا تم جانتی ہو مجھے نیلی آنکھوں والی لڑکیاں نہیں پسند لیکن تم حیرت انگیز طور پر خوبصورت ہو۔۔)

  اس کے بالوں کی لٹ انگلی سے لپیٹی اور اس کی نیلی آنکھوں کو نا پسندیدگی سے دیکھا۔۔

" oh I feel like I should just change my eye balls or kill me why its blue.." 

(اوہ مجھے لگ رہا ہے مجھے آئی بالز بدل لینی چاہئیں یا خود کو مار دینا چاہئے۔۔ یہ بلو کیوں ہیں۔۔)

 وہ افسردگی ظاہر کر رہی تھی۔۔ وہ مسکرایا۔

 ( بہت خوب پاپس لڑکی بھیجی وہ بھی بلیو آئڈ مگر میرے کالج کی ہونے کے لیے اسکی ایج کچھ بڑی ہے مگر لڑکی کا فگر مجھے اچھا لگا۔۔)

 اسے اپنے ساتھ بائک پر بٹھا کر کلب جانے سے پہلے اس نے باپ کو میسج کر دیا جو ان کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا کیونکہ انہوں نے ہرگز نہیں بھیجی تھی لڑکی۔ بیٹے کو چیک کرنے کے لیے خود برائی کا راستہ دکھانے کی حماقت وہ نہیں کر سکتے تھے۔۔ مگر ایس یہاں تک ٹھیک تھا کہ وہ لڑکی کالج کی نہیں بلکہ کسی کی بھیجی ہوئی تھی۔۔

 بائک پر اسکے پیچھے بیٹھی لڑکی نے کسی کو ٹیکسٹ بھیجا اور اپنی لوکیشن آن کر لی۔۔ اور سالک کے کندھوں پر ہاتھ جما کر نفرت سے اسکی پشت کو گھورا تھا۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤

وہ کتنی دیر اس کا میسج دیکھتے رہے. 

” میں نے کسی لڑکی کو نہیں بھیجا اور سالک کو بھی غلط فہمی ہوئی،  یہ نہیں ہو سکتا۔۔  کیا وہ کسی مصیبت میں تو نہیں ؟ اگر۔۔ میں نے بھیجی بھی ہوتی تو سالک مجھے کیوں بتاتا اس لڑ کی کو ایوائڈ کرتا اور۔۔۔ “ 

وہ سوچتے سوچتے پریشانی سے کھڑے ہوئے اور پھر کسی خیال کے تحت انٹر کام سے اپنے سیکرٹری کو بلایا۔۔ 

” یہ لڑکا میرا ہارٹ فیل کروائے گا کبھی۔۔ کسی مشکل میں پھنسا ہے مگر سہی سے بتائے گا کبھی نہیں۔۔ میسج کر دیا اب اگر مجھے سمجھ نا آتی تو۔۔“

 ان کا دماغ جھنجھنا رہا تھا اور شدید بےبسی محسوس ہو رہی تھی وہ سدھر کر نہیں دے رہا تھا اور وہ دل پر جبر کر کے سختی کر بھی لیں یا اسکا خرچ روک کر سدھارنا بھی چاہیں تو ناممکن تھا وہ پورے دودھیال کا سب سے لاڈلا اور سب کی جان تھا اور نانا کا تو تھا ہی اکلوتا ان کی اکلوتی بیٹی کا اکلوتا بیٹا۔۔ اس کو خرچ دینے والے بہت لوگ تھے۔۔ وہ پریشانی میں اپنے سیکرٹری کی آمد پر بھی سوچوں میں گم تھے۔۔

"یس سر..“   وہ ماتھا مسلتے P.A کی آواز پر چونکے۔

”جانس میری گاڑی ریڈی کرواؤ اور اپنے کچھ تیز بندے ساتھ لو ہم ابھی نکل رہے ہیں۔“ وہ کوٹ اٹھائے بولے تو جانس سر ہلا کر بجلی کی رفتار سے باہر نکلا۔۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜

” ہالہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں بہت لمبا سفر کر رہی ہوں افف۔۔ میں کہاں جا رہی تھی پتہ نہیں۔“ 

وہ بال بکھرائے گلابی آنکھوں کو رگڑتی نیند کا خمار ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔  

” دیا اس طرح آنکھیں نہیں رگڑا کرو جاؤ اور منہ ہاتھ دھو کر آؤ۔۔ اور کتنی مرتبہ سمجھاؤں خواب کو بس خواب سمجھا کرو خوامخواہ خوش ہو رہی ہو۔۔“ 

ہالہ نے فوراً اسے ٹوکا کیونکہ جس طرح وہ اچھے خواب پر خوش ہو رہی تھی اسی طرح برے خوابوں پر بری طرح رونا دھونا مچاتی تھی۔۔ وہ خوابوں کو خود پر سوار کرنے والی لڑکی تھی جسکا آج تک ایک خواب بھی سہی سے پورا نہیں ہوا تھا مگر اسکا خوابوں پر یقین جوں کا توں تھا۔ 

"اگر خوابوں کا حقیقت سے لینا دینا ہی نہیں تو آتے کیوں ہیں؟"  اس نے ”سمجھداری “ کا مظاہرہ کیا۔۔ 

"پاگل لڑکی یہ بس ہمارے لا شعور میں کھڑے خیالات ہوتے ہیں جو خواب کی شکل اختیار کرتے ہیں۔۔ زیادہ تر برے خواب شیطان بھی دکھاتا ہے۔۔ ہاں کبھی کبھی کوئی خواب اللّٰہ کی طرف سے اشارہ ہوتے ہیں مگر۔۔۔ “  دیا کا اس بات پر جوش بڑھتا دیکھ کر اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔

” مگر بس کبھی کبھی اور کسی کسی کو ایسے خواب آتے ہیں جن میں تم ہرگز شامل نہیں ہو۔۔ “  ہالہ کی بات پر وہ سر جھٹک گٸی۔

 ”ہالہ تو ناسمجھ ہے مگر میرے خواب خوامخواہ نہیں ہوتے کوئی تو وجہ ہوتی ہے کہ۔۔"  وہ بال سمیٹتی ڈوپٹہ اٹھا کر منہ ہاتھ دھونے واش روم میں گھستی بڑبڑاتی رہی۔۔

” دیا کہاں ہے اسے بھیجو میرے پاس۔۔“   باپ کی آواز پر ہالہ جلدی سے اٹھی۔۔

"خدایا پھر کیا کر دیا دیا نے۔۔"  اسے پیغام دے کر خود بھی باہر نکلی۔۔ اگلے لمحے دیا بھی حاضر تھی۔

” جی بابا۔۔ “  وہ اسے گھورنے لگے۔۔ 

” تم نے آج پھر بھابھی بیگم سے بدتمیزی کی؟"  ان کے استفسار پر دیا کا منہ کڑوا ہو گیا تائی اور انکی شکایتیں۔۔

 ”بابا وہ خود ایسی باتیں کرتی ہیں کہ غصہ آ ہی جاتا ہے۔ کچھ غلط نہیں کہا انہیں۔۔“  وہ ڈھٹائی سے بولی۔۔ 

” دیا خبردار زبان سے کوئی گستاخ لفظ نکالا تو۔۔۔  کتنی مرتبہ سمجھاؤں وہ بڑی ہیں ماں کی طرح پالا ہے کیا اپنی ماں ہوتی تو اسی طرح جواب دیتیں؟"۔  ان کے غصے بھرے الفاظ پر وہ خفت زدہ ہو گٸی۔۔ 

” ہالہ نے کہا برتن دھوؤ اور میں نے منع کر دیا میں کالج سے تھکی ہوئی آئی تھی،  ہالہ نے کچھ نہیں کہا مگر تائی امی غصہ ہونے لگیں کہ پڑھائی میں سلیقہ اور گھر کے کام بھول رہی ہوں۔۔“  وہ منمناتے ہوئے ساری بات بتانے لگی مگر ان کے مزاج میں کوئی فرق نا آتا دیکھ کر روہانسی ہو گٸی۔۔ 

”میں نے کہہ دیا پڑھائی اور کچھ نہیں تو تمیز ضرور سکھا رہی ہے۔۔“  اس نے لب کاٹتے ہوئے بنا شرمندگی کے کہا۔۔

” اور یہ تمیز ہے۔۔؟ ان کو طنز کیا ہے تم نے کہ انہیں تمیز نہیں۔۔ کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کہ پلٹ کر جواب مت دیا کرو۔۔“  انہوں نے غصہ ضبط کرتے ہوئے سمجھانا چاہا ورنہ آج جی چاہ رہا تھا اس کو دو لگائیں۔ انہیں ہر وقت شرمندہ کرواتی تھی۔۔  

” بابا تعلیم غلط بات کرنے والوں کو سہی کرنا سکھاتی ہے میں خاموش رہی تو تائی کو شکایتیں رہیں گی ہر وقت ۔۔۔“ اسکی بے تکی بات بلکہ اپنی بدتمیزی پر پردہ ڈالنے پر انکا ضبط جواب دے گیا۔

” اگر یہ تعلیم تمہیں بڑوں کا ادب بھلا رہی ہے تو تم کل سے کالج نہیں  جاؤ گی۔“  وہ دھاڑے۔ دیا بری طرح پریشان ہوئی۔ 

” پر بابا۔۔ “  کچھ بولنا چاہا پر انہوں نے روک دیا۔

” اپنی تائی سے معافی مانگو جا کر ابھی اور اسی وقت۔۔“ انکے اگلے حکم پر بے بسی سے رو دینے والی ہو گئی۔۔

💜💜💜 Yaman Eva Writes 💜💜💜

 ” داجان یہ تو بتا دیں لڑکی ہے کون۔۔ کیسی دکھتی ہے اور نام کیا ہے۔۔ کوٸی سزا ہے کیا جو اتنا کھیل رہے ہیں میرے ساتھ۔۔“ زایان اپنے ازلی انداز میں ایک ہی سانس میں بولا۔۔ 

”بھئی لگتا ہے کوئی بہت ہی حسین چہرہ ہے، بڑا راز میں رکھا جا رہا ہے زایان کی منگیتر کو۔۔ “ راسم اسکا تایا زاد شرارت سے بولا۔۔ 

” اور ہو سکتا ہے اس لیے چھپائی جا رہی ہو کہ دکھانے کے لائق ہی نا ہو۔۔“  یہ کھلکھلاتی آواز راسم کی بیوی نمرہ اور ان دونوں کی چچا زاد کی تھی۔۔ 

” یہ نا ہو زایان منگنی کے دن نا نگلنے کے نا اگلنے کے والی کنڈیشن میں ہو۔۔“  ایک اور شرارتی آواز آئی۔ 

” دیکھ لو کہا بھی تھا کبھی کبھی مہنگی چیز کی قیمت ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہوتی ہے مگر نہیں مہنگی گاڑی کی سواری ضروری تھی تمہارے لیے۔۔“  سب کزنز کی دل کو جلاتی باتیں اور ان پر داجان کا ہنسنا زایان کو بری طرح چبھ رہا تھا اسکی غیر ہوتی حالت دی جان کی نظر میں تھی۔

” صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے میرے بچے۔۔ ان کی باتوں سے دل چھوٹا مت کرو۔۔“ دی جان نے نرمی سے سمجھایا۔۔ 

" مجھے میٹھا یا کڑوا پھل نہیں چاہئیے۔۔ لڑکی دکھا ئیں مجھے بلکہ ملوائیں۔ کیا پتہ گونگی ہو لڑکی یا پھر اندھی۔۔“ 

اپنی اس سوچ پر وہ خود بھی جھرجھری لے کر رہ گیا۔

” تو اندھی یا گونگی لڑکیاں انسان نہیں ہوتیں؟ خود کو اتنا اعلٰی سمجھنے کی ضرورت نہیں۔۔ “  داجان کی غصیلی آواز پر سب اس پر کھی کھی کر رہے تھے اور وہ تو بت بن گیا تھا ۔۔ (کہیں سچ میں ایسی لڑکی تو نہیں)  _____________

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

”دشمنی کی بھی کلاس ہوتی ہے مجھے مارنے کے لیے اتنا بڑا گینگ آ گیا ہے اور وجہ پتہ نہیں مجھے۔۔ مرنے والے کا اتنا تو رائٹ بنتا ہے۔۔“ اس نے ایک نظر اپنے گرد دائرے کی طرح کھڑے کچھ گورے اور کچھ کالوں کے بڑے گروپ کو دیکھا۔۔ اور پھر اس نیلی آنکھوں والی لڑکی سے بولا۔۔

” تم نے میری بہن چیلسی کا ریپ کر کے مرڈر کیا ہے۔۔ تم باسٹرڈ شکل سے ہی مکار لگتے ہو وہ بس ایک سکول گرل تھی۔۔ “  اس سے بات کرتے ہوئے اس لڑکی کی آنکھیں دکھ کی شدت سے سرخ ہو گئیں۔۔ وہ چونکا ۔

” چیلس۔۔ وہ سٹاکر؟ ( پیچھا کرنے والی)۔۔ “ اسکی بات پر لڑکی نے اسکے منہ پر زور دار پنچ مارا۔۔ اس نے کراہ کر منہ میں گھلنے والا خون زمین پر تھوکا۔۔ 

” تو یہ کام پولیس کا ہے وہ انٹیروگیٹ کرے اور سزا۔۔ “ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ایک اور پنچ سیدھا ناک پر مارا۔ وہ درد کی شدت سے دانت کچکچا کر رہ گیا۔ اس کے ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے بچاؤ بھی ممکن نہیں تھا۔ 

”میں خود اپنی بہن کے قتل کا بدلہ اپنے انداز سے لینا چاہوں گی تاکہ مجھے اور میری بہن کی روح کو سکون مل سکے۔“  وہ نفرت سے پھنکاری۔۔ 

”اور تمہیں لگتا ہے میں اتنا بڑا فائٹر ہوں جسے مارنے کے لیے اتنے لوگ بلائے۔۔“ اس نے ایک نظر دوبارہ ان منحوس شکلوں کو دیکھا۔۔ جو اس پر پل پڑنے کے لیے بس تیار تھے۔ 

” یہ تمہیں ازیت کی موت مارنے کے لیے۔۔ جتنے لوگ اتنا درد۔۔ یہ سب اپنی اپنی جگہ ٹارچر میں ماہر ہیں۔۔ “ 

وہ اطمینان سے بولتی پیچھے ہونے لگی۔۔ اور اس نے ترستی نگاہ سے دور کھڑی اپنی بائک کو دیکھا۔

♥️♥️♥️♥️

"she gave me rose on valentine day on the day of her death..."

(اس نے مجھے اپنی موت کے روز ویلنٹائن ڈے پر گلاب دیا۔) 

وہ اچانک بولا تو وہ لڑکی جو ان سب کو اشارہ کرنے والی تھی رک گئی اور اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔ 

"I rejected her love and told her she is is just a child for me and that she should stop stalk me its illegal and annoying.."

(میں نے اسکی محبت کو انکار کر دیا اور اسکو بتا دیا کہ وہ میرے لیے بچی کی طرح ہے اور یہ کہ میرا پیچھا کرنا چھوڑ دے یہ کام غیر قانونی اور تنگ کرنے والا ہے۔ ) 

اسکی اس بات پر وہ لال بھبھوکا چہرہ لیے مڑی اور ایک اور پنچ گال پر مارا۔۔

" and yet you used her __basterd, call that child on date ? ___  ohh you are insane .. you deserve a painfull death" 

(اور پھر بھی تم نے اسے استعمال کیا*گالی۔۔ اور اس " بچی" کو ڈیٹ پر بلایا ؟  اوہ تم عقل سے فارغ ہو ۔۔ تم ازیت ناک موت کے قابل ہو۔۔۔) 

وہ دیوانوں کی طرح چلا رہی تھی۔۔ دو تین لڑکوں نے سر جھکائے بیٹھے سالک کو کھڑا کیا اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔

" I'm sorry for your sister but I've done nothing to her.."

(مجھے تمہاری بہن کا افسوس ہے لیکن میں نے اسکے ساتھ کچھ نہیں کیا۔۔) 

وہ تاسف سے بولا اس معصوم لڑکی کا واقعی افسوس ہوا تھا اسے جو ابھی 10th کی سٹوڈنٹ تھی۔۔

"you're lier just tryin to save yourself .. beat him to death but dont let him die easily"

(تم جھوٹے ہو بس خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہو۔۔ اس کو اتنا مارو کہ مرنے پر آجائے مگر آسانی سے مرنے مت دینا ) 

اسکو گھور کر بولی اور ان سب لڑکوں کو مخاطب کیا ہی تھا کہ ہلچل سی مچی اور دو تین تیز رفتار گاڑیوں نے اس کھلے میدان میں آکر بریک لگائیں۔ ٹائروں کی چرچراہٹ نے اس سنسان جگہ پر اچھا خاصہ شور پیدا کیا۔ وہ سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے گاڑیوں سے چوڑے لمبے پانچ چھے بندے اور ایک سوٹڈ بوٹڈ مرد نکلا۔۔ 

" salik are you there ..." 

وہ باپ کی آواز سن کر وہ مدھم سا مسکرایا جو ان لڑکوں کے ہجوم کے پیچھے ہونے کی وجہ سے انہیں نظر نہیں آرہا تھا تبھی بے چینی سے پکارے۔۔

"when did you call your father ?" 

وہ پیچھے مڑ کر حیرت اور نفرت سے اس چالاک لڑکے کو دیکھنے لگی جو اپنا گیم کھیل چکا تھا اسے اب سمجھ آئی تھی وہ کیوں باتوں میں لگا رہا تھا اسے۔۔ سالک نے اسکے سوال پر انجان بننے کی ایکٹنگ کی اور اس کے باپ کے لائے بندے اور جانسن ان سب کو قابو کر چکے تھے۔۔ 

” اپنی حالت دیکھو سالک۔۔ مجھے کیوں مارنے پر تلے ہو۔۔ پھر کیا کر دیا کہ دشمنوں کا اتنا ہجوم مارنے کے لیے آیا۔۔ اور سیدھے سیدھے میسج کر دیتے تو ہم پہلے پہنچ جاتے یہ حالت نا ہوتی تمہاری۔۔ بلکہ کیا ہی کیوں میسج خود ڈیل کرتے ناں۔۔“ اسے سہارا دے کر گاڑی تک لانے اور پھر بیٹھانے تک وہ اسکی حالت پر غصے و تکلیف سے بولتے چلے گئے۔۔ 

" johns take us to the hospital first" 

انہوں نے جانسن کو حکم دیا اور سالک کے ساتھ بیٹھے اسکا پھٹا ہونٹ اور نیل و نیل چہرہ ان کو ازہت دے رہا تھا۔۔ 

” وہ لڑکی دکھی تھی اس نے اپنا غم مجھ پر ہلکا کیا ابھی تو ان لڑکوں کو مجھ پر ہاتھ اٹھانے کا موقع نہیں ملا اور اتنا کوئی فائٹر یا ہیرو تو ہوں نہیں کہ خود ڈیل کر لیتا مجھ سے تو لڑکی کے پنچز نہیں برداشت ہوئے ۔۔ آپ جانتے تو ہیں نائنٹین ہوں، چھوٹا ہوں۔“  اپنی بات کے آخر میں معصومیت سے انکا جملہ ان پر پلٹایا۔۔ 

وہ بس سے دیکھ کر رہ گئے۔۔ 

” تو گئے کیوں تھے لڑکی کے ساتھ۔۔ تم اچھے سے جانتے تھے میں نے نہیں بھیجی تھی۔۔“  ٹشو سے اسکے ہونٹ سے خون صاف کرتے پوچھا۔ دل چاہ رہا تھا اس نا لائقی پر کان کھینچیں مگر اسکی حالت پر ضبط کرنا پڑ رہا تھا۔۔ 

” یہ لوگ ایک ماہ سے مجھے فالو کر کے اری ٹیٹ کر رہے تھے۔۔ جاننا چاہتا تھا کیا چاہتے ہیں آخر۔۔ “  

سیٹ سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کیے بولا۔

” اور احمقوں کی طرح چل پڑے اکیلے۔۔ تمہارے ہر وقت ساتھ رہنے والے دوست کہاں تھے۔۔“  وہ تپ گئے اس کی بات پر جو مزے سے اتنا بڑا رسک لے چکا تھا ۔۔ 

” کم آن میں لڑکی کے ساتھ جا رہا تھا ہجوم ساتھ لے کر جاتا۔۔ میرا فیس خراب کر دیا۔۔ بلڈی بچ۔۔ “ اس کے جملے اور پھر گالی نے انکا دماغ سن کر دیا تھا۔۔ یہ نرمی اور اچھے انداز و الفاظ سے بات کرنے والے احرام اقیان کا بیٹا تھا ؟  سالک اقیان ، جس کا نا انداز نرم تھا نا الفاظ اور نا ہی لہجہ۔۔ 

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

”وہ لڑکی داجان کی دور پرے کی رشتہ دار ہے پتہ نہیں شاید کسی کزن کی نواسی ہے اور داجان ہم میں سے ہر شادی شدہ لڑکے کو ایک مرتبہ اسکا رشتہ پیش کر چکے اور سب نے دیکھے ملے بنا انکار کر دیا ان فیکٹ ہم سب نے اپنی پسند سے شادی کی۔۔“  زایان نے آخری امید کے سہارے سب سے بڑے صیام سے پوچھا تھا اور توقع کے عین مطابق وہ سب جانتے تھے اور بنا کسی بحث کے فوری بتا دیا۔  زایان کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔

” اور ایک تم ہی مرغے پھنسے وہ بھی گاڑی کی لالچ میں۔۔“ 

آخری بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور زایان نے ایک بار پھر خود کو اور اپنی لالچ کو کوسا۔۔ اور اب وہ ایڈریس لیکر گھر ڈھونڈ رہا تھا اسے ہر حال میں اب لڑکی سے ملنا تھا اور پسند نا آئی تو اسی کو انکار کر دے گا۔۔ 

” لعنت ہو زایان تم پر۔۔ ساری عمر لالچ کا انعام جھیلنا اب۔۔“ درمیانے طبقے کا علاقہ تھا اور ایڈریس مشکل ترین اور وہ اب خود کو لعنتیں دے رہا تھا۔۔ 

”سب انکار کر گئے مزے سے اور میں اپنی فیوچر وائف کو ڈھونڈتا دھکے کھاتا پھر رہا ہوں۔۔ ہونہہ۔۔“  گاڑی ایک سائڈ پر کھڑی کر کے پیدل چل پڑا۔ 

 جس گاڑی کی ڈیل میں یہ عذاب سر لیا وہ بڑی گاڑی ان راستوں پر آ ہی نہیں سکتی تھی۔۔ اسے اب بھی صیام کی وہ شوخ مسکان چبھ رہی تھی جب اس نے کہا تھا 

” اپنی گاڑی مت لے جانا۔۔ کسی سے چھوٹی گاڑی لے جانا بڑے روڈ سے کافی آگے اندر کی طرف گھر ہے۔۔“  اس کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا اور یہاں تو چھوٹی گاڑی کا بھی کام نہ تھا۔۔ گلیاں صاف اور پکی تھیں مگر زرا سی تنگ تھیں۔۔ 

” میں نے کہا دو مجھے شرافت سے آج یہ ہاتھ توڑ دوں گی تمہارا۔۔“  نسوانی آواز پر وہ اس طرف متوجہ ہوا، سبز رنگ کی بڑی سی چادر اچھے سے اپنے گرد پھیلائے وہ لڑکی کسی بچے کا بازو اس زور سے جھنجھوڑ رہی تھی کہ زایان کو لگا وہ بچہ آج بازو سے محروم ہو جائے گا اور وہ بچہ بری طرح چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔۔

” باجی خدا قسم آئندہ نہیں کروں گا مجھے چھوڑ دو۔۔“  

وہ رو کر التجا کر رہا تھا زایان جسے بچے حد سے زیادہ پسند تھے اس بچے کی حالت پر اسکی آنکھیں غصے سے سرخ ہوئیں۔۔ 

” آٸندہ کے بچے میں نے کہا ہاتھ کھولو ورنہ اسی وقت لے جا کر چھری سے کاٹ ڈالوں گی۔۔“ 

لڑکی کی سخت آواز پر وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔۔ وہ بھول گیا کس مقصد سے آیا تھا اور کہاں جانا تھا۔۔ اس نے اچانک لڑکی کے ہاتھ سے بچے کا بازو نکالا اور اس کا بازو، زور سے جھٹکا۔۔ 

” جاہل انسان۔۔ بچے کا بازو نکل جائے گا۔“  اس کی غصیلی آواز اور بات پر بچہ اور لڑکی رک کر ہونقوں کی طرح اس کا منہ دیکھنے لگے جو بن بلایا نجانے کہاں سے آن ٹپکا تھا۔ 

”تم باپ ہو اس کے۔۔“ لڑکی کی سرد آواز پر وہ جو بچے کا بازو چیک کر رہا تھا سیدھا ہوا جب کہ بچہ اس کے پیچھے چھپ گیا۔ 

” تم ماں ہو اس کی؟“ وہ بھی دوبدو لڑکی کی سرد آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بولا تو نقاب میں قید آنکھوں سے شعلے سے نکلنے لگے۔۔ وہ لب دانتوں میں دبا کر شرارت سے مسکرایا۔ 

” اور تم۔۔ بےغیرت یوں غیر بندے کے پیچھے چھپ کر سمجھ رہے ہو بچ جاؤ گے؟ ہاتھ تو لگو۔۔“  وہ زایان کے پیچھے چھپے بچے کو زرا ترچھی جھک کر دھمکی دے رہی تھی اور زایان اس کی دیدہ دلیری پر تلملا گیا۔۔ 

” جاؤ بیٹا گھر بھاگ جاؤ اور آئندہ اس طرح اکیلے مت نکلنا گلیوں میں چڑیلیں گھومتی ہیں جو بچوں کو کھا بھی جاتی ہیں۔۔“  زایان نے مڑکر بچے کو پیار سے سمجھایا صاف اس لڑکی کا حوالہ دیا جس پر وہ سوں سوں کرتا بچہ بھی سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر شرارت سے مسکایا اور ایک طرف دوڑ لگا دی۔ وہ مڑا تو وہ اسے شعلہ بار نگاہوں سے گھور رہی تھی اسکی شیشے جیسی آنکھوں میں چادر کا عکس جھلملا رہا تھا۔ 

” تمہارے جیسے باپوں کے بچے بڑے ہو کر ڈاکا ڈالتے ہیں اور پھر جیلوں کی ہوا کھاتے ہیں۔۔“ اس لڑکی کے سرد سنجیدہ جملے نے زایان کا پارہ ہائی کیا۔۔ 

” کیا بکواس ہے یہ؟ تم گلی میں کھڑی غنڈہ گردی کرو اور کوئی روکے تو بد دعا دے دو۔۔ اچھی دہشت گردی ہے بھئی۔۔ معصوم جان کا بازو ادھیڑنے والی تھیں تم ۔۔۔ کیا مقصد تھا ؟ اعضاء فروش ہو کیا۔۔ ویسے لگ بھی رہا ہے دیکھ کر۔۔“ 

وہ لڑاکا عورتوں کی طرح بھڑک بھڑک جا رہا تھا اور بنا اس کو موقع دئیے بولتا چلا گیا۔

 وہ اس کے الزامات پر دھک سے رہ گئی۔ 

” بے ہودہ انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئیی اتنے فضول الزام لگانے کی۔۔ وہ بچہ میرا سٹوڈنٹ ہے، چوریاں کرنے کی عادت ہے۔۔ منع کرنے کے باوجود آج دکان سے میرے سامنے چوری کی۔۔ اس کی ماں نے جب اجازت دی ہے ہر سلوک کی تمہیں کیوں ابال چڑھ رہے ہیں۔۔ اس علاقے کے بچوں کے ٹھیکیدار ہو یا یہ علاقہ تمہاری جاگیر ہے۔۔“  وہ لڑکی ضبط کھو کر بھگو بھگو کر مارتی چلی گئی اور وہ غلط فہمی دور ہونے پر بجائے شرمندہ ہونے کے ڈھٹائی سے بولا۔

” تو یہ بات پہلے بول دینی تھی بات بڑھا کر اب بحث کیے جا رہی ہو۔۔“ اس کی اس ڈھٹائی پر وہ دانت کچکچا کر رہ گٸی۔۔ 

” پتہ نہیں اس جاھل سے اتنی بات ہی کیوں کی دانت توڑ دیتی پہلے ہی۔۔“  وہ بڑبڑا کر بولی، دراصل اسے سنوایا اور پیر پٹختی سائڈ کی گلی میں گھس گٸی۔۔ 

” لڑکی تھی یا خدا کا عذاب۔۔ نقاب میں چھپے منہ میں ایسی نوکیلی زبان ؟ توبہ۔۔۔ پاگل لڑکی موڈ آف کر دیا میرا۔۔ افف اور یہ ایڈریس تو لگتا ہے محلے کے اندر کہیں خندق میں موجود ہے۔۔“  وہ پیروں کے بل چاروں طرف گھوما اور سر جھٹکا۔۔ 

”آگ لگے میری بلا سے۔۔ سارا دن برباد کیا اور آخر میں پچھل پیری کے منہ لگ کر اپنا رہا سہا سکون بھی برباد کروایا۔۔“  اس نے واپسی کی راہ لی۔۔ پھر کبھی سہی۔۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜

” تم کافی سے زیادہ محنت کر رہی ہو۔۔ اتنا پیشن کیوں۔۔“ 

مروہ نے پوچھا تو دیا نے چونک کر اسے دیکھا یہ اس کی واحد دوست تھی جو اسی کالج میں بنی تھی۔۔ 

” مجھے ان ٹاپ ٹین میں شامل ہونا ہے جو اس کالج سے فارن سٹڈی کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔۔“  وہ گہری سنجیدگی چہرے پر سجائے اس وقت بھی پڑھنے میں مصروف تھی مروہ ہنس دی۔۔ 

” تم اوٸیسلی شامل ہوگی یار ۔۔ 

"just look at you.. you are book warm"

مروہ کے اتنے کانفیڈینس پر اسکا چہرہ خوشی سے جگمگا گیا۔

” سب پروفیسرز اب تم سے انسپائرڈ ہیں تمہاری زہانت اور محنت سے تمہارا یہ خواب پورا ہو گا۔“  مروہ نے مزید کہا تو دیا کتاب بند کیے اسکی طرف متوجہ ہویی۔۔ 

” مروہ تم بھی زرا محنت کر لو پلیز ایک ساتھ جائیں گی دونوں دوستیں کتنا مزہ آئے گا۔۔“  وہ جزباتی ہونے لگی مروہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔ 

” مجھے ٹاپ ٹین میں آنے کی ضرورت نہیں اگر تم کہتی ہو تو میں بھی وہاں ایڈمیشن لے لوں گی جہاں تمہارا ہو گا۔۔ میرے فادر افورڈ کرتے ہیں۔۔“  اس کی بات نے دیا کا سیروں خون بڑھا دیا تھا اب اسے ہر حال میں کامیاب ہونا تھا۔

🖤🖤🖤🖤🖤

”یہ کیس ایسا آسان نہیں ہے۔۔ لڑکی کا ریپ ہوا اور بہت بری طرح اسے مار دیا گیا۔۔ اس کی فیملی نے جن افراد پر شک ظاہر کیا تھا ان سب سے انویسٹی گیشن جاری ہے مگر انویسٹی گیشن میں آپ کا بیٹا سسپیکٹ لسٹ میں آرہا ہے۔“  احرام صاحب نے پریشانی سے ماتھا مسلا وہ تو لڑکی کی رپورٹ درج کروا کر اب اصل معاملہ معلوم کرنے آئے تھے۔۔ سالک کچھ بول کر نہیں دے رہا تھا اور پولیس کی بات سن کر ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔ 

” کیا مطلب ہے آپ کا کس حساب میں وہ سسپیکٹ لسٹ میں آیا۔۔“  انہیں یقین تھا سالک ایسا کچھ نہیں کر سکتا مگر سالک کی خاموشی انہیں ڈرا رہی تھی۔۔ اور اب پولیس کی بات سن کر رہی سہی ہمت بھی جانے لگی۔۔ 

” دیکھیں انٹیروگیشن میں یہ آیا ہے کہ لڑکی زیادہ تر آپ کے بیٹے کے ارد گرد رہتی تھی۔۔ لاسٹ ڈے بھی اس نے سب کے درمیان آپ کے بیٹے کو پرپوز کیا اور اس نے نا انکار کیا نا ہی قبول کیا بلکہ اس نے کہا تھا اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہے۔۔ اس کے علاوہ کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا لڑکی کی فیملی نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا مگر اب اس کی بہن سے اس بات پر انویسٹی گیشن کی گئی تو اس نے بھی ڈائریکٹ آپ کے بیٹے کا نام لیا کہ اس کے ساتھ ڈیٹ پر گئی تھی اور پھر لاش ملی۔۔ لاش پر سے جو ڈی این اے ملے وہ دو لوگوں کے تھے ایک لڑکا پولیس کسٹڈی میں آچکا ہے دوسرا غائب ہے۔“  احرام کا سر چکرانے لگا۔۔ سالک نے ایسی کسی بات کا گھر زکر نہیں کیا تھا لڑکی کا یا ڈیٹ کا مگر وہ دو تین ماہ سے راتوں کو اکثر لیٹ آتا تھا یہ بات سچ تھی۔۔ 

” اسکی فیملی نے پہلے کیوں انکار کیا اگر میرا بیٹا مجرم تھا ؟ اب وہ اچانک میرے بیٹے کا نام کیسے لے سکتی ہے؟ “ احرام صاحب نے غصے سے کہا۔۔

” لڑکی نے اپنی ریزنز دے دیں کہ وہ خود بدلہ لینا چاہتی ہے۔۔ اس نے غلط کیا اس کی سزا قانون دے گا۔“ 

 ان کے برابر آکر بیٹھتے قدرے چھوٹی قد، بھری جسامت، سبزی مائل چھوٹی آنکھوں اورسفید زرد سی رنگت والے مرد نے جواب دیا۔۔ 

” یہ اس کیس پر کام کرنے والے ڈیٹیکٹو ہیں انکا نام مارک ہے اور یہ اپنے کام میں بہت ماہر ہیں۔۔“  انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس شخص کو دیکھا تو پولیس مین نے جلدی سے انٹرو دیا۔۔ وہ اب مسکرا کر سر خم کر رہا تھا۔

” اس نے اپنے موبائل میں مقتولہ کا ملنے والا لاسٹ میسج بھی دکھایا ہے جس میں اس کا کہنا تھا وہ ایس کے ساتھ ڈیٹ پر جا رہی ہے اور یہ کہ ایس نے اپنا فیصلہ بدل کر اسے قبول کر لیا ہے۔“  مارک نے اپنی فائل ٹیبل پر رکھ کر بتایا۔۔

” اور آپکے بیٹے کے حساب سے اس نے اسی دن اسی وقت ”اکیلے“ میں سمجھا کر انکار کر دیا تھا اس کے بعد بات نہیں ہوٸی۔“۔  اگلی بات نے احرام صاحب کو چونکایا۔

 ” میرا بیٹا؟ وہ آپ سے کب ملا؟“  ان کے سوال اور لاعلمی پر مارک ہولے سے ہنسا۔۔ 

” یقیناً آپ کا بیٹا میری سوچ سے زیادہ تیز ہے۔۔ کیس چلنے کے کچھ دن بعد ہی آپ کے بیٹے سے میں انویسٹی گیشن کر چکا ہوں وہ اپنے لائر کے ساتھ ہی میرے پاس آیا اور لائر کی موجودگی میں سوالوں کے جواب دئیے اور میں سچ کہنا چاہوں گا اس کے کچھ جواب ادھورے تھے مگر اسکا لائر کیونکہ اپنے کام میں ماہر اور تیز دماغ ہے اس نے مزید تنگ نہیں کرنے دیا۔۔ میں نے آپ کے بیٹے سے دو تین مرتبہ ملنے کی کوشش کی مگر وہ ہا تھ نہیں آرہا۔۔“ 

اس نے بات نہیں کی تھی دھماکہ کیا تھا کیا سالک اتنا کچھ کرتا پھر رہا ہے اور انہیں کچھ پتہ ہی نہیں تھا ؟

”میں چاہوں گا آپ انویسٹی گیشن میں مدد کریں کیونکہ آپ کا بیٹا ہٹ لسٹ میں آچکا ہے بس ابھی اس کے خلاف کوٸی ایسا ثبوت نہیں کہ اسے اریسٹ کیا جائے۔۔“ 

ڈیٹیکٹو مارک کے جملے ہتھوڑوں کی طرح ان کے دماغ پر برسے تھے اور وہ بمشکل اپنی جگہ سے اٹھے۔۔ 

سالک کیا کر رہے ہو؟ کیا ارادے ہیں ؟ کیا واقعی تم وہ بن چکے جو یہ لوگ بتا رہے ہیں ؟ تم نے اس دنیا کا رنگ اپنا لیا ہے؟ ان کے دماغ میں سوال تھے اور آنکھوں میں بیٹے کی معصومیت اتنی جلدی ختم ہونے کا خوف لہرا رہا تھا۔۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜

”دیا اب بس کر جاؤ تم ایک ہفتے سے مسلسل بس پاگلوں کی طرح پڑھے جا رہی ہو نا نیند پوری کر پا رہی نا کھا رہی ہو سہی سے۔۔“  ہالہ نے بظاہر نیوز دیکھتے باپ کو دیکھ کر اونچی آواز میں دیا سے کہا جو زرا فاصلے پر نیچے کشن پر بیٹھی نوٹس پر نظر ڈال رہی تھی۔۔  وہ باپ بیٹی کافی دن سے ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے تھے اور ہمیشہ ان دونوں کی ناراضگی ہالہ ہی کسی طریقے سے ختم کرواتی تھی جیسے اب دور دور بیٹھے دونوں چونکے۔۔

”پڑھائی کے علاوہ اور ہے کیا کرنے کو۔۔ ویسے بھی لوگوں کو لگتا ہے میں ناکارہ ، بدتمیز اور زبان دراز ہوں تو ٹھیک ہے آئندہ کسی سے بات ہی نہیں کرونگی۔۔“  دیا نے بھی ایک چور نظر باپ پر ڈال کر افسردہ شکل بنائی۔۔ خادم صاحب نے اپنی بیٹیوں کی چالاکی پر مسکراہٹ دبائی۔ 

” ڈرامے مت کرو اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کرو نیند اور خوراک کی کمی سے بیمار ہو گئیں تو جس پڑھائی کا سہارا ہے یہ بھی جاتا رہے گا۔“ انہوں نے اسکی ڈل رنگت اور لاپرواہ بکھری حالت دیکھی تو مزید ناراض نہیں رہ پائے۔۔  

”آپ تو خوش ہو جائیں گے آپ کو لگتا ہے پڑھائی مجھے بگاڑ رہی ہے اور چلو گھر کے کام بھی سیکھ جاؤں گی گھر بیٹھ کر۔۔“  وہ منہ پھلا کر بولی اسکے انداز پر ہالہ اور خادم صاحب ہنس پڑے۔ 

”اگر مجھے لگتا تعلیم بگاڑ رہی ہے تو کالج جانا بند کر دیتا۔۔ مجھے بس افسوس ہوتا ہے جب تم بحث کرتی ہو ۔۔ میں جانتا ہوں بھابھی کبھی کبھی سختی کر جاتی ہیں مگر کیا کبھی انکی باتیں سن کر تمہیں ٹوکا یا کبھی ڈانٹا؟ وہ کہتی ہیں تم کام نہیں کرتیں۔ سست ہو بات کا جواب نہیں دیتیں۔ تمہیں کالج نا بھیجوں اور ہالہ کی طرح پرائیویٹ پڑھاؤں۔ وغیرہ  کوئی بات نہی مانی انکی۔۔ میں تو ہالہ کو بھی ریگولر پڑھانا چاہتا ہوں مگر یہ اسکی اپنی چوائس ہے۔“ 

دیا سر جھکائے سن رہی تھی۔۔  ہالہ مسکرا کر چائے بنانے چلی گئی بس صلح ہو چکی تھی۔۔ انہوں نے دیا کو اپنے پاس بلایا تو وہ ان کے پاس جا بیٹھی۔۔ 

” میں ہر خواہش پوری کرتا ہوں تم لوگ کی بس بدلے میں چاہتا ہوں ویسی بن جاؤ جیسی میری خواہش ہے۔۔ نرم مزاج بڑوں کا ادب کرنے والی اور دھیمے لہجے والی۔۔ میں تمہاری جگہ ان کو غلط بات پر ٹوک دیتا ہوں تم بدتمیزی مت کیا کرو تو کیا میں غلط ہوں۔“ انہوں نے نرمی سے اس کا سر تھپتھپا کر پوچھا تو دیا نے شرمندگی سے سر نفی میں ہلایا۔۔

” اچھا آئندہ کوشش کروں گی ایسا کرنے کی۔۔ اگر غصہ بھی آیا تو چپ رہوں گی۔۔ آپ ہم سے بدتمیزی کرنے والوں کا منہ توڑ دینا اور۔۔ “ جوش سے بولتی دیا باپ کے گھورنے پر زبان دانتوں تلے دبا گٸی۔۔

” م۔۔میرا مطلب تھا اگر کوئی غلط بات کرے تو آپ سمجھا دیجئیے گا۔۔“   فوری اپنے جملے کی تصحیح کی۔۔ 

” اپنے الفاظ اور اپنے لہجے کو درست رکھو آپ کے لفظ اور لہجے، والدین کی تربیت کو ظاہر کرتے ہیں اور اچھی اولاد والدین کو اس طرح لوگوں میں بدنام نہیں کرتی دیا۔۔“ انہوں نے تاسف سے سمجھایا وہ سر جھکا گٸی۔ 

” افف اچھا انسان بننا کتنا مشکل ہے ناں بابا۔۔“ اسکی روہانسی آواز نے انہیں مسکرانے پر مجبور کر دیا۔۔ 

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

”ایک بیٹا دیا ہے اللٰہ نے تم لاپرواہ لوگوں کو اور وہ ایک بھی نہیں سنبھال سکتے تم لوگ۔۔“  سالک کے نانا بیٹی اور داماد سے ناراض ہو رہے تھے۔۔

” یہ ایک بیٹا، سو کے برابر ہے ہر آئے دن پولیس اسے لے کر گھر آتی ہے۔۔۔  شروع میں اس کا کارنامہ بتاتے تھے اب بس ایک نظر دیکھتے ہیں بلکہ کبھی تو کہہ دیتے ہیں 

"your son is too much Mr. ahram.. if you can't hold him properly why don't you just give him to us "

اور ان کی جتاتی نظروں کا سامنا نہیں کر سکتا ، کبھی جھگڑا کیے کھڑا ہوتا ہے کبھی ٹریفک رولز توڑ کر۔۔ ابھی لیگلی ایڈلٹ نہیں ہوا تھا کہ سموکنگ کی وجہ سے پولیس نے لا کر دیا اور وارننگ دی کہ یہ دوبارہ ایڈلٹ ہونے سے پہلے ایسی حرکت نا کرے۔

 اس سے پوچھا تو بولا بس ٹیسٹ ہی کر رہا تھا اتنا ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی پولیس کو۔۔ اور اب پورے گینگ کے درمیان لاوارثوں کی طرح ملا مجھے۔۔ اوپر سے پتہ چل رہا ہے کہ لائر ساتھ لگائے خود اپنے معاملات سلجھاتا ہے۔۔ کرائم لاز اس کو پتہ ہیں۔۔ کب اور کیسے کسی کیس سے نکلنا ہے اس کو سب سمجھ ہے۔۔ اس سے پوچھیں کیا چاہتا ہے ایک بار بتا دے۔۔ ہمارے پورے خاندان میں اس جیسا سر پھرا پیدا نہیں ہوا۔۔“  احرام صاحب پھٹ پڑے تھے ان کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اوپر سے سسر جو انکے چچا بھی تھے ان سے کہہ رہے تھے انہوں نے سالک کو سنبھالا نہیں اور انہیں یقین تھا ان کا باپ بھی انہی کو قصوروار ٹھہرائے گا، سالک کو کچھ کہنا ہی نہیں تھا سالک تو بچہ ہے۔۔

” یہ بچہ ہے کم عمر اور ناسمجھ ہے اسے نرمی سے سمجھاؤ۔ اس کا باپ اور نانا کوئی چھوٹے موٹے عام غریب بندے نہیں کہ وہ ڈر ڈر کر جیے۔۔“  ان کے لب و لہجے میں غرور تھا اور یہی چیز وہ سالک کو سکھاتے تھے کہ وہ بگڑ رہا تھا۔ 

”آپ لوگ بحث کرنے کی بجائے سولیوشن ڈھونڈیں۔۔ مجھے یقین ہے سالک ایسی حرکت نہیں کر سکتا وہ لاپرواہ یا بدتمیز ہوگا مگر بےحس یا ظالم نہیں۔۔ پولیس کو دوبارہ اس تک نا آنے دیجئیے گا آپ لوگ، وہ ڈپریس ہو جائے گا۔“ سالک کی ماں ماریہ بیگم،  باپ اور خاوند کے سامنے روتے ہوئے بول رہی تھیں۔۔ اسکے نانا نے بیٹی کو تسلی دے کر موباٸل پر کسی کا نمبر ملایا۔۔ احرام صاحب کمرے سے باہر نکلے اور جانس کو کال ملائی۔ 

” کل صبح ہر حال میں اچھے اور ماہر پرائیویٹ ڈیٹیکٹو سے میری میٹنگ ارینج کرواؤ۔۔ اور یہ کام کل ہی ہو لیٹ ہرگز مت کرنا۔۔“ وہ اب معاملہ خود حل کرنے والے تھے۔

🖤🖤🖤🖤🖤

”لوگوں نے اتنے بڑے بڑے دعوے کئیے اور ٹیسٹ میں مجھ سے کم نمبر لے کر خاموش ہو گٸے۔۔“  وہ مروہ کے ساتھ کینٹین میں بیٹھی تھی کہ آج اسمارہ پھر سے اس کے سر پر سوار ہوئی۔ 

” ویسے کیا کہا تھا اس لڑکی نے حرا؟ میں پیسہ دے کر آئی ہوں اور یہ اپنی زہانت سے ناں؟“ اس نے ساتھ کھڑی دوست کو مخاطب کیا تو وہ ہنس کر دیا کو دیکھنے لگی جو خاموشی سے بریانی کھا رہی تھی البتہ مروہ ہونقوں کی طرح کبھی انہیں اور کبھی دیا کو دیکھنے لگی۔۔ 

” تو کیا ہوا اس زہانت کا۔۔ دو دن کے جنون میں ٹھنڈ پڑ گٸی؟ “ وہ ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر جھکی اسے زچ کرنے لگی۔۔ دیا نے ایک ترچھی نظر اس پر ڈالی اور پھر ارد گرد دیکھا لڑکیاں گروپس میں بیٹھی کھا پی رہی تھیں اور باتیں کر رہی تھیں کوئی انکی طرف متوجہ نا تھی۔۔ 

” اب نظریں ملانا مشکل ہو رہا ہے ناں۔۔ اتنا بڑا چیلنج دے بیٹھی ہو۔۔“  دیا نے دل ہی دل میں تائی کو کوسا جنہیں کل ہی اسے کوکنگ سکھانے کا جوش چڑھ گیا تھا بابا گھر پر نا تھے اور ہالہ کی منت پر اس نے تائی جان سے بحث نہیں کی اور آج اسمارہ سے نمبر کم آ گئے تھے۔ وہ کھا چکی تھی پلیٹ کھسکا کر مروہ کو دیکھا۔۔

” مروہ یو نو میرے بابا کہتے ہیں اگر کوئی انسان مسلسل بول رہا ہو اور اسے جواب نہ ملے تو اسے خاموشی سے چلے جانا چاہئیے ورنہ وہ اس کتے کے برابر ہوتا ہے جو دیوار کے سامنے خوامخواہ  بھونک رہا ہو۔۔“  دیا نے ایک چور نظر اسمارہ پر ڈال کر کہا تو مروہ کا نوالہ حلق میں پھنس گیا۔۔ 

” شٹ اپ۔۔“ اسمارہ نے غصے سےمٹھیاں بھینچیں اور کینہ توز نظروں سے اسے دیکھا۔۔ 

” کیا؟ میں نے تمہیں تھوڑی کہا ہے۔۔“  دیا معصوم صورت بنا کر بولی۔ مروہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ 

” اسمارہ چلو یہاں سے۔۔“ اس سے پہلے کہ اسمارہ مزید بحث کرتی اسکی دوست نے خفت زدہ نظر دیا پر ڈال کر کہا۔۔

 (توبہ لڑکی نہیں چھری ہے) وہ بڑبڑاتی ہوئی اسمارہ کو کھینچ کر لے گٸی۔۔ 

” تمہارے بابا نے واقعی ایسا کہا۔۔“ مروہ اب اسے گھور رہی تھی۔ 

” انہیں کہنے کی کیا ضرورت ہے مجھے خود جو پتہ ہے۔۔“ دیا نے پٹ سے جواب دیا اور مروہ اس کی چالاکی پر ہنس کر رہ گٸی۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

" so what you want from me s.." 

سالک کے سامنے بیٹھا اس کے باپ کی عمر کا لمبا سفید اور قدرے خراب سی جلد والا آدمی اس سے بولا۔

 اس کی چیل جیسی آنکھیں ارد گرد گھوم رہی تھیں۔ اس نے سر پر سیاہ ہیٹ رکھا ہوا تھا۔۔ وہ لوگ اس وقت کافی شاپ میں شیشے کے پاس ٹیبل پر بیٹھے تھے اور دن کے بارہ بج رہے تھے یعنی ڈیوٹی آورز تھے اور شاپ میں رش کافی کم تھا۔۔

" you'll promote soon Mr. Marcellus.. I've proof to prove my innocense as well as culprit related to this case" 

(تمہاری جلد پرومشن ہو گی مسٹر مارسیلس ۔۔ میرے پاس میری بےگناہی کا ثبوت اور اس کیس سے جڑا مجرم بھی ہے۔) 

سالک بات کرتے ہوئے چونکا۔۔ کافی شاپ میں داخل ہونے والے شخص کا چہرہ ہڈی میں چھپا تھا۔ وہ محتاط قدم اٹھاتا ان سے کافی فاصلے پر کارنر کی ٹیبل پر جا بیٹھا تھا۔۔ سالک نے سامنے دیکھا جہاں اسکی بات پر مارسیلس بری طرح چونکا ہوا تھا سالک کے دیکھنے پر سیدھا ہوا اور ٹیبل پر ہاتھ رکھے آگے کو جھکا۔

" what are you talking about s.. its not like you are kidding me .. case in which you're center? what is the character of related culprit ? " 

(کس بارے میں بات کر رہے ہو ایس۔۔  ایسا نہیں کہ تم مذاق کر رے ہو، کیس جسکا مرکز تم ہو؟  اس سے جڑے مجرم کا کیا کردار ہے؟) 

مسٹر مارسیل نے سرگوشی جیسی آواز میں سوال کیا اور وضاحت طلب نظروں سے سالک کو دیکھا جو ( straw)سے کولڈ کافی کا سپ لیتا شیشے کے پار دیکھ رہا تھا۔۔ 

اس کی نظر روڈ کے پار کھڑے سگریٹ پیتے آدمی پر تھی جو سالک کی بائک کے پاس چہل قدمی کرتا اور کبھی رک جاتا تھا۔۔ 

باہر بھی اکا دکا لوگ تھے۔ ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی تھی اب۔۔ اس نے نظریں پھیر کر مارسیل کو دیکھا اور مسکرایا گہری سیاہ آنکھوں میں جیسے سب فتح کرلینے کی چمک تھی۔۔

" I wonder if its raining in california.." 

(سوچ رہا ہوں کیلیفورنیا میں بارش ہو رہی ہو گی۔۔)

اس نے ایک مرتبہ پھر باہر دیکھا وہ آدمی اب اور سگریٹ سلگا رہا تھا۔۔ اندر کارنر ٹیبل والا آدمی موباٸل پر لگا ہوا تھا۔۔ 

"and the boy I am talking about is in california now.."

(اور جس لڑکے کی بات کر رہا ہوں کیلیفورنیا میں ہے ۔)

وہ مسٹر مارسیل کی طرف متوجہ ہو کر یہ جملہ اتنی آہستہ آواز میں بولا کہ مارسیل بمشکل سن پایا تھا۔۔

سالک نے تیزی سے سامنے پڑے سینڈوچز کی پلیٹ اس کے سامنے کرتے ہوئے اشارہ دیا، مارسیل نے چونک کر پلیٹ کھسکائی تو اس کے نیچے پرچی تھی جس پر نمبر لکھا تھا۔۔ اس نے جلدی سے پرچی جیب میں ڈالی۔۔ 

"would you like to explain me... As I am working on your case and I told you I'll help you since I wasn't actually sure that you were the culprit or not".

(کیا تم وضاحت کرو گے ، جیسا کہ میں تمہارے کیس پر کام کر رہا ہوں اور تمہیں بتا چکا ہوں تمہاری مدد کروں گا جب مجھے یقینی طور پر اندازہ نہیں تھا کی تم مجرم ہو یا نہیں۔۔) 

مارسیل سمجھ گیا تھا وہ کوئی ٹپ دے رہا ہے تھوڑا جتا کر کہا۔۔ سالک نے کافی شاپ میں کارنر کی ٹیبل پر بیٹھے مرد کو پھر سے دیکھا اور نظر گھمائی۔۔ وہ شخص سالک کو دیکھ رہا تھا نظر ملنے پر رخ پھیر گیا۔۔

" I've to Mr marsal... as you told me you want promotion.."

سالک نے اس کی بات کا حوالہ دیا وہ احسان لینے سے زیادہ احسان کرنے کو ترجیح دیتا تھا۔۔ مارسیل ڈھیلا پڑ گیا۔

سالک نے ایک مرتبہ پھر شیشے کے پار سڑک پر نظر دوڑائی اور گہری سانس بھری۔ 

سالک پر نظر رکھی جا رہی تھی مگر اسے یقین تھا اندر بیٹھا آدمی اور باہر کھڑا سگریٹ پیتا وہ مرد۔۔ یہ دونوں الگ تھے اور ہو بھی سکتا تھا کوئی اور بھی موجود ہو ارد گرد مگر اسے اندازہ نہیں تھا۔۔ اس کے لیے مزید بیٹھنا سہی نہیں تھا۔۔ 

" I've been watched marcell... I'll talk you later if possible.. you have to just trace the number I gave you .. I'll give you further information on text..."

(مجھ پر نظر رکھی جا رہی ہے مسٹر مارسیل ممکن ہوا تو بعد میں بات کروں گا۔۔ تمہیں جو نمبر دیا ہے بس اسے ٹریس کرنا ہے۔۔ میں مزید معلومات تمہیں ٹیکسٹ کروں گا۔۔) 

اس نے کافی کا سپ لیتے ہوئے بات مکمل کی۔ مارسیل نے اثبات میں سر ہلایا اور بل ٹیبل پر رکھ کر کھڑا ہوا۔۔

" next time let's meet in my house.. I'll invite you for tea.. just text me when you're ready"

(اگلی بار میرے گھر ملتے ہیں میں تمہیں چائے کی دعوت دوں گا بس ٹیکسٹ کرنا جب تم تیار ہو۔) 

اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے مارسیل نے جھک کر کان میں سرگوشی کی۔۔ سالک نے اثبات میں سرہلایا۔۔ وہ وہیں بیٹھا کافی ختم کرنے لگا روڈ کے پار کھڑا آدمی اب سامنے اوپن شاپ کی ٹیبل پر بیٹھ چکا تھا۔۔ اندر موجود آدمی اب بھی موبائل پر مصروف تھا سالک نے مسکرا کر سر جھٹکا۔۔

"just catch me if you can"

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

زایان اپنی اسائنمنٹ سبمٹ کروا کر پلٹا تو سامنے سے آتی سبینہ کو دیکھ کر مسکرایا۔۔ 

”کبھی کبھی زندگی میں تمہارے جیسے لوگوں کا ہونا بھی بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔“  اس کے قریب جا کر مسکراتی آواز میں کہا سبینہ کا دل اس کی بات اور چہرے پر کھلتی مسکراہٹ پر زور سے دھڑکا۔۔ 

”اتنے دن سے کیوں غاٸب تھیں ؟ میری منگنی کی خوشی میں بیمار تو نہیں ہو گئی تھی۔۔“   وہ اس کی خاموشی کی پرواہ کیے بنا شوخی سے مسکراتا بول رہا تھا۔

اس کی بات پر سبینہ نے دانت کچکچائے۔ ( بے ہودہ انسان ) وہ یہ لقب سوچ سکتی تھی کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ لڑکی زات کا لحاظ رکھنے والا ہرگز نہیں تھا۔ جواباً یہیں شروع ہو جاتا۔ 

" تمہارا چہرہ کیوں گلاب ہوا جا رہا ہے منگیتر بہت پسند آگئی کیا۔۔؟“ اس نے جلتے دل سے پوچھا۔۔ زایان نے سامنے آتے دوست کو دیکھ کر اسے اشارہ کیا اور سبینہ کی جلتی بھنتی شکل دیکھی۔۔ 

”ارے وہی تو منگنی کینسل ہو گئی تمہاری نیتِ خیر کی وجہ سے۔۔ میرے متوقع سسرال کو اچانک یہ سب  ”خرافات“ لگنے لگا اور انہوں نے ڈائریکٹ شادی کا کہہ دیا۔۔“ 

زایان کا دوست بھی آچکا تھا۔۔ سبینہ نے زایان کے چہرے پر مزاق کا شائبہ ڈھونڈنا چاہا مگر وہ سنجیدہ سا اپنے دوست فارس سے بات کر رہا تھا۔۔ 

”ک۔۔کب ہے شادی ؟“  وہ امید کی آخری کرن بھی گم ہوتی محسوس کررہی تھی۔۔ اس کے سوال پر فارس نے شرارت سے زایان کو دیکھا۔۔

”میری ڈگری کمپلیٹ ہونے تک کا ٹائم ہے مطلب۔۔۔ بہت کم وقت ہے مگر فی الحال بلا ٹلی۔۔آؤ کچھ کھائیں پئیں یار۔۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔“  اس نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ دونوں بھی ساتھ ہو لئیے۔۔ 

” تم اس بات کو ایشو بنا کر انکار کر دو زایان۔۔ انہوں نے تیار منگنی پر اچانک یہ شوشا چھوڑ دیا ہے اس بات کو یوز کرو۔۔“  سبینہ نے نہایت فضول سا مشورہ دیا۔

” یار سنا تھا لمبی لڑکیوں کی عقل ٹخنوں میں ہوتی ہے آج تجربہ بھی ہو گیا۔“ ۔فارس نے قہقہہ لگا کر اس کی سروقد کو نشانہ بنایا، زایان نے سبینہ کا روہانسا چہرہ دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔۔

”یہ جو میرے داجان نے ان کی بات مانی ہے تو صرف اس لیے کہ وہ میرا آف موڈ دیکھ رہے تھے یعنی انہوں نے مجھے سپیس دیا ہے کہ مائنڈ میک اپ کر لوں۔۔ میں نے اس بات کو ایشو بنایا تو کل ہی گرینڈ فنگشن رکھ دینا ہے اتنی جرأت نہیں ہوگی ان لوگوں میں کہ انکار کریں۔۔“ وہ تفصیل سے بتاتے ہوئے موبائل پر ملنے والے میسج کو اوپن کرنے لگا۔ 

(کافی اندر کی خبر ملی ہے کہ تمہاری نا ہونے والی منگیتر کو کیونکہ تمہارا دیدار نصیب نہیں ہوا اس لیے وہ رشتہ پر راضی نہیں ہو رہی اور اس کے گھر والوں نے ”باقاعدہ تربیت“ کلاس لینے کے لیے منگنی ڈیلے کی ہے۔۔) 

اس کے چچا زاد کزن کا شرارت بھرا لمبا سا میسج تھا جسے پڑھ کر زایان کا دل پھول کی طرح ہلکا ہوا۔۔ 

"تم لوگ چلو میں آتا ہوں۔۔" ان دونوں کو بھیج کر میسج ٹائپ کرنے لگا۔۔ 

( کہاں سے ملی خبر۔۔ کسی نے افواہ تو نہیں اڑائی؟) 

وہ جانتا تھا وہ اس وقت آفس میں ہو گا تبھی کال کرنے کی بجائے میسج پر ہی سوال کیا۔۔ 

(اس کی کزن پلس فرینڈ میری یونی فیلو پلس فرینڈ تھی۔) جواب ملا۔ 

”اور زلیل بندہ اتنا انجان بنا پھر رہا تھا۔۔“  خوشی اپنی جگہ مگر اس غداری پر زایان کو تاؤ آیا تھا۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤

”سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ کے حساب سے قتل کے دوران سالک نامی لڑکا "ینگز نائٹ" نام کے کلب میں موجود تھا جہاں چیلسی نامی سکول گرل کا ریپ اور مرڈر ہوا مگر مزید کلب کے اندر کی ریکارڈنگ میں نہیں ڈھونڈ پائی۔۔“ 

مارتھا نے یو ایس بی جس میں وہ ریکارڈنگ تھی ڈیوڈ کے سامنے ٹیبل پر رکھی۔۔ 

”اور میں نے کچھ ریگولر کلب ممبرز سے اس مرڈر والی رات کی انویسٹی گیشن کی۔۔ اس رات سالک نامی لڑکے کا کچھ لڑکوں کے ساتھ ایک معمولی بات پر جھگڑا ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا ان لڑکوں نے اس پر شراب پھینکی تھی اور اس کے بعد وہ لوگ کلب کی ایک سائیڈ پر چلے گئے۔۔ اس سے زیادہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔۔“   اینڈریو نے ایک فائل ڈیوڈ کی طرف بڑھائی۔۔ 

یہ امریکہ نیویارک سٹی کے ایک پرائیویٹ آفس کا منظر ہے۔ شیشے کی بڑی بڑی والز پر سیاہ نیلے رنگ کے پردے تھے اور جدید ٹیکنالوجی کا سب سامان موجود تھا۔۔ ایک سائیڈ کی ٹیبل پر دو تین ایل ای ڈی پر تیزی سے نظر گھماتا مختلف کی بورڈز پر بجلی کی رفتار سے ہاتھ چلاتا پچیس سال کی عمر کے قریب لڑکا بیٹھا تھا آنکھوں پر موٹے گول شیشوں کا چشمہ لگائے شکل سے ہی ”dumb“ لگ رہا تھا۔ 

یہ ایک گمنام ہیکر تھا جسکا نام بِل تھا مارکیٹ میں اس کا نام نہیں تھا وہ بس سا ٹیم کے لئے کام کرتا تھا۔۔

 اور باقی تین امریکہ کے نامور ڈیٹیکٹو کی ٹیم تھے جو سالک کے نانا اور بابا نے ہائر کی تھی۔۔

”اس میں کچھ اہم پوائنٹس ہیں اور ان سب گواہوں کی معلومات جو اس جھگڑے کے دوران موجود تھے مگر۔۔“ اینڈریو بتاتے ہوئے رکا اور فاٸل کھول کر ایک لڑکے کی تصویر سامنے رکھی۔۔

”یہ لڑکا مسلسل سالک کی طرف داری کر رہا تھا اس کے بارے میں بتانے والوں کی تردید کر رہا تھا۔۔“   ڈیوڈ نے بغور تصویر کو دیکھا۔۔ 

” یہ نا سالک کا دوست ہے نا جاننے والوں میں سے ہے۔۔ سالک کس کس سے ملتا ہے اور اس کے سب دوستوں کی انفارمیشن موجود ہے میرے پاس۔۔“  ڈیوڈ پرسوچ لہجے میں کہا۔ نظریں اس لڑکے کے بائیو ڈیٹا پر گھوم رہی تھیں جو بالکل نیا کردار تھا۔۔ 

”عجیب بات تو یہ ہے کہ پولیس نے کچھ لڑکوں کو پکڑا ہے جو سالک کی بے گناہی کا ثبوت دے رہے تھے کیونکہ ان کی باتوں میں بہت اختلاف تھا تو پولیس نے غلط ٹیسٹی فائے کرنے کے جرم میں ان سے مزید انویسٹی گیشن کی جس سے نئی بات سامنے آئی۔۔“  مارتھا نے ایک اور فائل ڈیوڈ کو پکڑائی۔۔ جس کے حساب سے ان سب کو پیسہ دے کر یہ سب کہلوایا گیا تھا مگر عجیب بات یہ تھی اس سب میں سالک کا کوئی تعلق نہیں تھا اور انہیں کسی اور نے پیسہ دے کر یہ کہلوایا تھا مگر کون تھا جو سالک کو بچانا چاہتا تھا ؟

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

دیالہ کا مطالبہ سن کر خادم صاحب گنگ رہ گئے۔ 

”دیا یہ نا ممکن ہے میں تمہیں دوسرے ملک اور خاص طور پر امریکہ جیسے آزاد معاشرے میں نہیں بھیج سکتا۔۔ اکیلا تو ہرگز نہیں۔۔ تم سے تو ہالہ اچھی ہے کالج تک جانے کا شوق نہیں پالتی۔۔ تمہاری خواہشات بڑھتی جا رہی ہیں۔۔“ 

انہوں نے صاف انکار کیا اور اتنی سختی سے کہ اور ایک لفظ بھی بولنے نہیں دیا۔۔ وہ نم آنکھیں لیے انہیں دیکھنے لگی مگر آج وہ کسی بات سے نرم نہیں ہونے والے تھے۔۔ وہ پیر پٹختی ہالہ کے سر پر پہنچی جو بکس کھولے پڑھنے سے زیادہ اونگھ رہی تھی۔  دیا نے اس کے ہاتھ سے کتاب چھینی تو وہ گھبرا گئی۔ 

” ک۔۔کون ہے۔۔ کیا ہوا۔۔“ سبزی مائل گرے آنکھوں میں کچی نیند سے جاگنے کی سرخی تھی۔

” تم کس سیارے سے آئی ہو ؟ آخر کیوں اتنی گھنی ہو کبھی کچھ مانگ بھی لیا کرو بابا سے۔۔ اب تو میری ہر بات پر وہ تمہاری مثال دینے لگ گئے ہیں۔“  دیا کی باتوں کی اسے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی وہ ویسے بھی جاگنے کے بعد بھی کتنی دیر تک دماغ سے فارغ ہو جاتی تھی۔۔ 

اب بھی منہ اور آنکھیں دونوں پوری سے زیادہ کھولے بدھوؤں کی طرح تکے جا رہی تھی۔۔ 

” اگر تمہاری شکل مجھ سے نا ملتی ہوتی تو میں تمہیں سوتیلی سمجھ لیتی زرا جو میرے والے شوق ہوں۔۔ بس گھر بیٹھے نالائقوں کی طرح مرضی سے پڑھنا اور کچن میں سارا دن ملازمہ بنے رہنا۔۔ کیا تم واقعی میری بہن ہو۔۔“ 

دیا کو اس پر شدید غصہ آرہا تھا ہالہ کا بھی دماغ اب قدرے بیدار ہونے لگا تھا۔ 

”میں تمہاری سگی اور پورے ڈیڑھ سال بڑی بہن ہوں تو زرا تمیز سے بولو، باپ بھی ایک ہے ماں بھی ایک ہے۔۔ تمہاری اور میری بس شکلیں ہی ملتی ہیں باقی میں زرا معصوم سی ہوں اور تم شیطان ٹائپ۔۔ میں سگھڑ تم پھوہڑ۔۔ میں نرم مزاج تم بدتمیز۔۔“ 

وہ بولنے پہ آئی تو دیا کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ 

” تم گھنی، چالاک ، اندر سے کچھ اور۔۔ باہر سے کچھ اور ہو۔۔“ دیا نے جلتے لہجے میں کہا۔۔ 

”اوہو ابھی کہنے والی تھی ناں تم لائق میں نا لائق۔۔“ 

اس نے دیا کی ایک خاصیت بھی خامی کی طرح بیان کی وہ جل کر راکھ ہوئی۔۔  

” ڈرو اس وقت سے جب بابا کا ہر وقت کا کمپیریزن سن سن کر مجھے تم سے نفرت ہو جائے گی۔“  دیا نے احساس دلانا چاہا۔۔ 

”اور کہانیوں میں جب بہنیں نفرت کرتی ہیں وہ مسلسل تکلیف دیتے دیتے آخر میں نفرت میں پاگل ہو کر اس بہن کا منگیتر تک چھین لیتی ہیں کیا تمہارا بھی یہی ارادہ ہے۔۔؟“ 

ہالہ کی خوشی دیدنی تھی دیا نے ہاتھ کھول کر لعنت دی۔

”تمہارا منگیتر چھیننے سے اچھا ہے تمہیں مار دوں۔۔ کیونکہ اکرام بھائی کی ایک تو شکل بالکل تائی جان جیسی ہے اوپر سے ایکسپریشن سے بندہ کنفیوز ہوا رہتا ہے رونے والے ہیں سنجیدہ ہیں یا مسکرانا چاہ رہے ہیں اور بھئی مجھے نہیں یاد کبھی مسکرا کر مجھ سے تمہارا حال پوچھا ہو یا تمہارے نام پر چہرہ کھلا ہو میں سلام کروں تو جواب سیدھا منہ پر مارنے جیسا دیتے ہیں ایسا ٹھنڈا بندہ توبہ۔۔“ 

دیا نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگایا ہالہ نے دانت کچکچائے۔ 

”بابا نے کتنی مرتبہ سمجھایا ہے دوسروں کو جج مت کیا کرو۔۔ دفع ہو جاؤ۔۔“  وہ بری طرح ناراض ہو چکی تھی۔ 

”اچھا میرا ایک کام کر دو بابا کو مناؤ میرے فائنل ہونے والے ہیں اگر میرا نام آ گیا تو امریکہ جانے دیں۔۔ پلیز ہالہ منا لو ناں۔۔“  وہ فوری ا س کے سامنے بیٹھ کر منتیں کرنے لگی ہالہ اسے سوچتی نظروں سے دیکھتی اچانک مسکرائی۔  چہرے پر چالاکی کا رنگ دیکھ کر دیا کا دل ڈوبا وہ صرف بابا اور تائی لوگوں کے سامنے ”اچھی اور شریف“ تھی ورنہ شیطان سے قدم بہ قدم چلتی تھی۔۔ 

” غزالہ باجی کی طبیعت خراب ہے بہت۔۔ تائی امی نے مجھے کہا ہے ان کی جگہ ان کے سکول پڑھانے جاؤں مگر میرا دل نہیں اور انکار بھی نا ممکن تھا۔ تم اگر جاؤ تو اوکے امریکہ کی تیاری پکڑ لو۔۔“  اس کی شرط نے دیا کا دماغ گھما دیا میں کالج سے چھٹی نہیں کر سکتی مجھے وہاں جانے کے لیے اچھے مارکس بھی چاہئیں ہالہ پلیز۔۔“ 

وہ بمشکل لہجہ نرم رکھ پائی تھی۔۔

 ”میں شرط بتا چکی ہوں باقی تمہاری مرضی۔۔“  وہ کندھے اچکا کر بولی اور دیا کا جی چاہا بابا اور پورے خاندان کے سامنے اس کا مکار چہرہ لائے جو بے زبان گائے بنی پھر رہی تھی۔۔ 

( تائی جان ہالہ جیسی بہو ہی ڈیزرو کرتی ہیں۔۔ ) 

وہ شدید غصہ کے باوجود اس بات پر خوش تھی۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

” تمہیں یقین ہے ناں وہ اسی مارکیٹ میں آرہی ہے۔۔؟“ 

زایان نے ایک مرتبہ لوگوں کے رش کو دیکھ کر بے زاری سے اپنے کزن ریان سے پوچھا۔۔ 

” ہاں یار اس کی کزن نے مجھے ابھی کنفرم بتایا ہے میں نے شاپ کا نیم سینڈ کیا ہے ناں۔۔ بلیو ڈریس ہو گا اور گندمی رنگ ہے۔۔ دور سے دیکھنا اور آجانا تمہارا کام ہو جائے گا اور مجھ سے گلہ بھی ختم ہو جائے گا کہ پہلے نہیں بتایا۔۔“ 

ریان نے تفصیل سے بتا کر کال بند کر دی شاید جلدی میں تھا یا پھر جان چھڑوا رہا تھا۔۔ زایان نے گہری سانس بھری اور خود کو اس رش میں گھسنے کے لئیے تیار کیا۔

”کس دنیا کی لڑکی ہے گھر ڈھونڈنے نکلو تو گلیوں کی بھرمار اور ہائے قسمت، کسی ریسٹورنٹ، آئسکریم پارلر یا کافی شاپ کسی اچھی پر سکون جگہ پر ملتا صحیح سے دیکھ لیتا بات کر لیتا افف۔۔۔ ہاں بھئی دھکے کھاتا کسی شاپ کے باہر لوفروں کی طرح سب کو گھور کر اس محترمہ کو ڈھونڈوں۔۔ وہ اس معاملہ میں اب تو بری طرح زچ ہو گیا تھا پتہ نہیں کن گناہوں کی سزا دی تھی داجان نے۔۔"

 اس نے دھوپ سے بچنے کے لئیے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔ گرمی سے سفید رنگت میں سرخیاں چھلک رہی تھیں۔ سیاہ بال جو بڑی محنت سے جیل سے جمائے تھے۔ اب سب حدیں بھلائے ماتھے پر بکھرے تھے۔۔ وجیہہ خوبصورت چہرے پر بےزاری کے رنگ مزید دلکشی میں اضافہ کر رہے تھے۔۔

وہ لوگوں کے دھکوں اور گھورتی عجیب نظروں سے بچتا بچاتا دکان کے سامنے پہنچ چکا تھا۔۔  اور اب آتی جاتی لڑکیوں کے ڈریس کلر دیکھ رہا تھا۔۔ 

”مجھے اس دکان میں ہی نہیں جانا کتنا بے ہودہ لڑکا ہے اتنی دیدہ دلیری سے لڑکیوں کو تاڑ رہا ہے۔۔ افف گھٹیا انسان۔۔“  جانی پہچانی آواز پر زایان نے جل کر چہرہ موڑا تو وہ سبز چادر والی نقاب پوش لڑکی کسی دوسری لڑکی سے بحث کرتی مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ دوسری لڑکی پیر پٹختی اسے وہیں چھوڑ کر شاپ میں گھس گئی۔ 

”آج کل دن دیہاڑے کھلے عام چڑیلیں لوگوں میں گھومتی ہیں کیا؟“  وہ اس کے سر پر جا پہنچا اور دبے دبے لفظوں میں بولا تو ان جھکی آنکھوں میں آگ کے جیسے شعلے بھڑک اٹھے۔ اسے ایسے دیکھا جیسے ابھی جلا کر بھسم کر دے گی۔ 

”آج کل آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے تم جیسے لڑکے باقاعدہ بازاروں کو نکل پڑے ہیں تو چڑیلوں کا تو نام لینا ہی فضول ہے۔۔“  وہ بھی لوگوں کے متوجہ ہونے کے ڈر سے آہستگی سے بولتی سائیڈ سے ہو کر نکلنے لگی مگر زایان نے اسکا بازو پکڑا اور اس کے رکنے پر فوراً چھوڑ دیا۔ 

”م۔۔ مجھے ہاتھ لگانے کی ہمت کیسے کی۔۔ بازار میں کھڑے ہو ایک آواز لگائی ناں تو اچھے برے سب جمع ہو جائیں گے اور تمہارا یہ سستے ہیروؤں والا حلیہ بگاڑ دینا ہے۔۔“ 

وہ بس چند لمحوں کے لیے بازو پکڑنے پر جس طرح اسکے پاس آ کر آہستگی سے غرائی۔۔  نا چاہتے ہوئے بھی زایان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل  گئی۔۔ 

”سنو تمہارا کہیں رشتہ وشتہ ہوا ہے کیا۔۔“  اس کی آنکھوں میں شرارت اور لہجے میں دلچسپی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس کے سوال نے لڑکی کو بری طرح طیش دلایا اور اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے جاتی وہ اسکا ہاتھ پکڑے تیزی سے قریبی گلی میں گھس کر رش سے سائیڈ پر ہوا۔ 

” کیا بدتمیزی ہے۔۔“ وہ زایان کی اس حرکت سے بری طرح ڈر گئی تھی۔ 

” بس ایک بات بتا دو کیا تمہارا رشتہ ہو چکا ہے؟ مجھے خوف ہے کہیں تم وہی تو نہیں جس سے میرے داجان نے سزا کے طور پر نصیب پھوڑ دیا ہے۔۔“  یہ سوال کرتے ہوئے بھی اس کے لب و لہجے میں دلچسپی در آئی تھی اگر یہی لڑکی تھی تو وہ اسے زبان درازی کی سزا دینے کے لیے سہی، مگر اپنانے کو تیار تھا۔۔ 

”دیکھئیے میرا رشتہ طے ہو چکا ہے اب مجھے تنگ مت کرئیے۔۔“  اس کے الفاظ میں جس طرح زایان کے خوف نے احترام بھرا تھا، زایان کو از حد مزا آیا تھا۔

 اس نے کچھ یاد آنے پر زرا دور ہو کر اسے دیکھا وہ پوری چادر میں چھپی تھی بس سفید ٹراؤزر نظر آ رہا تھا وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر مزید ڈر گئی۔ 

” تمہاری شرٹ کا کلر کیا ہے۔۔ دیکھو مجھے غلط مت سمجھنا بس شرٹ کا کلر بتا دو۔۔“ اس کے سوال نے لڑکی کے اوسان خطا کر دئیے۔  وہ بنا ایک پل رکے بازار کی طرف بھاگ گئی۔۔  وہ ریان کی آتی کال اٹینڈ کر کے سننے لگا۔

”کہاں ہو یار وہ لوگ جانے والے ہیں تم ملے نہیں۔۔؟“  ریان چِڑ کر بولا۔۔ 

” ریان سب چھوڑو یہ بتاؤ کیا وہ چادر پہنتی ہے۔۔؟ نقاب کرتی ہے؟ آنکھوں کا رنگ کیا ہے؟“  زایان کے بے تابی سے پوچھنے پر وہ چونکا۔ 

” نا وہ نقاب کرتی ہے نا کوئی بڑی چادریں پہنتی ہے۔ اس کی آنکھوں کا رنگ براؤن ہے۔۔“  اس کے جوابوں نے زایان کو گم صم کر دیا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

"just tell me truth J I am not fool.."

سالک اپنے دوست جورڈن کا گریبان پکڑے کھڑا تھا۔۔ جورڈن اس سے مار کھا کھاکر نڈھال تھا۔

 " just believe me S.. it wasn't my idea.. I just follow what T (thoms) told me.. we were pranking.. it was sudden plan.. that bastard T wanted to do this... "

(میرا یقین کرو ایس۔۔ یہ میرا آئڈیا نہیں تھا۔۔ میں نے بس وہ کیا جو تھامس نے کہا۔۔ ہم مذاق کر رہے تھے۔۔ یہ پلان اچانک بنا تھا۔۔۔ وہ باسٹرڈ ،ٹی ایسا کرنا چاہتا تھا۔۔) 

جے نے اٹک ٹک کر بتایا اسے پہلے ہی اندازہ تھا ایس ان کا حشر بگاڑ دے گا مگر تھامس نے کہا تھا وہ سب سنبھال لے گا اور پھر تھامس کے ہی کہنے پراس نے اس لڑکی چیلسی کو میسج کیا تھا کہ وہ ”ینگز نائٹ“ کلب آ جائے سالک اسے انکار کرنے پر شرمندہ ہے اور اب کلب میں اسکا ویٹ کر رہا ہے۔۔ 

"And where is T now? where that rubbish is hiding... loser.... can't face me... goin handle me... mess"

(اور  اب کہاں ہے ٹی؟ وہ ربش کہاں چھپ رہا ہے ۔۔ لوزر۔۔ میرا سامنا نہیں کرسکتا۔۔۔ مجھے ہینڈل کرے گا۔۔۔ ) 

سالک نے ایک جھٹکے سے جے کا گریبان چھوڑا کہ وہ نیچے جا گرا۔۔ یہ ان کے کالج کی بیک سائیڈ تھی۔  یہاں نا ہونے کے برابر سٹوڈنٹس تھے وہ دونوں ایک دیوار کے پیچھے تھے اس لیے کسی کی نظر میں نہیں آرہے تھے۔ سالک کو کبھی مارنے یا لڑنے کے لیے چھپنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی مگر اب اسے احتیاط کرنی پڑتی تھی وہ جانتا تھا اس کا باپ اور ڈی ٹیکٹو اس پر نظر رکھوائے ہوئے ہیں۔۔

"he is gone ... he is in L.A... I dunno why is he hisding...by whom?" 

(وہ جا چکا ہے ۔۔ وہ لاس اینجلاس میں ہے۔۔ میں نہیں جانتا وہ کیوں چھپ رہا ہے۔۔۔ کس سے چھپ رہا ہے؟)  

جورڈن سالک کے پنچز سے سوجا چہرہ سہلا رہا تھا۔۔ سالک نے اپنے بال کھینچے۔۔ آخر پولیس نے جورڈن کو نوٹس کیوں نہیں کیا۔۔ چیلس کے موبائل سے جورڈن کا میسج کیوں نہیں ڈھونڈ پائے۔۔ اس کا یہ سوچ کر دماغ گھوم رہا تھا اس نے جب یہی سوال جورڈن سے کیا تو اس کے جواب نے سالک کو ٹھٹکایا۔۔ 

تھامس نے چیلس سے ان کے میسج یا کانٹیکٹ کی ہسٹری اسی وقت مٹوا دی تھی۔۔ یہ بات ہرگز عام نہیں تھی معمول کے حساب سے جب کسی سے کانٹیکٹ کیا جائے تو ہسٹری نہیں مٹوائی جاتی۔۔ 

"what was he up to back...? he called girl.. and make her remove his record... but if police found... there is only jorden is suspected.. thomas is clean and he disappeared that night before the accident of girl... he knew it... he knew all from the start...?"

(وہ کیا کرنے والا تھا۔۔ اس نے لڑکی کو بلایا اور اس سے اپنا ریکارڈ بھی مٹوایا اور اگر پولیس ڈھونڈ چکی ہے ریکارڈ.. تو صرف جورڈن مشکوک بنتا تھا تھامس کی طرف سب صاف ہے اور وہ اسی رات لڑکی کے حادثہ سے پہلے غائب ہو گیا وہ یہ سب جانتا تھا۔۔ وہ شروع سے سب جانتا تھا؟ ) 

سالک سب سمجھتا جا رہا تھا۔۔ جورڈن نے پولیس کو اپنے مذاق میں کیے میسج کا نا بتا کر خود کو بچا لیا تھا اور تھامس غائب تھا۔۔ اور یہ دو تھے سالک کے اب تک، ہر پل ساتھ رہنے والے بہترین دوست۔۔ جو اس کی گواہی دے سکتے تھے مگر وہی اسے پھنسا گئے تھے۔۔ 

سالک ہر طرف سے نا امید ہو رہا تھا۔۔ جھک کر جے کو زبان بند رکھنے کی دھمکی دی۔۔

"one word and I'll rip off your neck".

جورڈن نے منہ پر زپ کا اشارہ کیا وہ سالک کے باپ کے رائٹ ہینڈ جانسن کا بیٹا تھا اگر آج کی باتیں احرام کو پتہ چل جاتیں تو سالک کا لاس اینجلاس جانا مشکل ہو جاتا اور سالک کو اب ہر حال میں لاس اینجلاس جانا تھا۔۔ وہ جے کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔۔ 

اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح شور مچ چکا تھا اپنے بالوں کو سنوارتا وہ سب کے پاگل پن پر مسکرایا وہ اچھے سے جانتا تھا کالج کی (%80) لڑکیوں کا کرش تھا یہاں یہی تو ہوتا ہے جو لڑکا امیر ہو، حسین ہو اور لڑکیوں میں مقبول ہو وہ پرنس کہلواتا ہے۔۔ پرنس کی سیاہ آنکھوں میں بے چینی تھی کہ اچانک اس کے لیے راستہ بناتے لوگوں میں وہ سنہری آنکھوں اور بالوں والی لڑکی نظر آئی۔۔ وہ اس کی طرف بڑھا۔

" Ohh lisa I wonder if I can use your mobile for a while ... may I..? 

(اوہ لیزا میں سوچ رہا ہوں، تمہارا موبائل کچھ دیر کے لیے یوز کر سکتا ہوں؟ کیا میں کر لوں؟ ) 

اس کے اچانک مطالبہ پر لیزا گھبرا گئی۔ سالک نے اسے موبائل ان لاک کرنے کا کہا مگر وہ لب کچلتی کھڑی رہی۔۔ 

سب حیرت سے سالک کو اور لیزا کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ لڑکیوں نے سالک کو اپنے موبائل پیش کرنے چاہے مگر وہ لیزا کو گھور رہا تھا۔۔ 

” تم ہی ہو جو ویلنٹائن کے روز چیلسی کو کالج لائی تھیں۔۔ مجھے آرام سے اپنا موبائل دے دو ورنہ پولیس کے آنے پر بات بگڑ سکتی ہے۔۔“ اس کے قریب ہو کر سالک نے دھمکی دی اور اس کا رنگ اڑ گیا۔۔ سالک اسے گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا۔۔

اور وہاں آفس میں بیٹھے احرام کو جب اس کے بندے نے یہ سب بات بتائی تو وہ سر پکڑ بیٹھے۔

"what is he up to..."

اور اس کے نانا نے یہ سن کر مسکراتے ہوئے کہا۔

"Do not interfere in his business... let him do what he want.. your duty is to protect him..... that's it..."

(اس کے معاملات میں دخل مت دو۔۔ اسے کرنے دو جو وہ چاہتا ہے۔۔ تمہارا فرض اس کی حفاظت کرنا ہے۔۔ اور بس۔۔)

🖤🖤🖤🖤🖤

♥️♥️♥️

"Oh S.. here you are.. very warm welcome.."

مارسیل سالک کو اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر یوں خوش ہوا جیسے وہ پروموشن لیٹر دینے آیا ہو۔۔ بات کافی حد تک ملتی جلتی تھی۔۔

"thank you Mr marcell.. it was a bit urgent work so I have to come without giving you time .. my bad.."

(شکریہ مارسیل صاحب۔۔ یہ کام کچھ جلدی کا تھا تو مجھے وقت دئیے بغیر آنا پڑا۔۔ میری غلطی ہے۔۔) 

سالک کے انداز میں ہی عجلت نمایاں تھی۔۔ مارسیل نے اندر آنے کا راستہ دیا۔  ٹی وی لاؤنج میں چھوٹے سائز کا صوفہ سیٹ رکھا جس پر تین سنہری بالوں والے بچے بیٹھے تھے ہاتھوں میں (ramen) کے باؤل تھے اور نظریں ٹی وی پر چلتی مووی پر تھیں۔ دائیں سائیڈ اوپن کچن میں سنہری بالوں والی عورت کھڑی تھی اور سمیل سے سالک کو اندازہ ہوا وہ (pork) بنا رہی ہے۔ سالک کی تیز نظروں نے سارے منظر کا سیکنڈوں میں جائزہ لیا تھا۔۔

"Oh hi.. you must be S.. aren't you.. marcell told about you.. please come.. have a seat.." 

(ہائے تم ضرور ایس ہو گے۔۔ مارسیل نے تمہارے بارے میں بتا یا تھا۔۔ پلیز آؤ۔۔ بیٹھو۔۔) 

مسز مارسیل کی ستائشی نظروں نے اس کا بھر پور جائزہ لیا۔۔ سالک کو اس ماحول سے الجھن ہونے لگی۔۔ اسے جلد بات کر کے جانا تھا۔۔

" Ohh thanks Mrs.marcell.. I am good .. Mr marcell if you dont mind why dont we talk outside.. I dont like noise.."

( شکریہ مسز مارسیل میں ایسے اچھا ہوں۔۔ مسٹر مارسیل برا نا مانیں تو ہم باہر جا کر کیوں نا بات کریں... مجھےشور پسند نہیں۔۔) 

چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لا کر مسز مارسیل کو جواب دیتے ہوئے اس نے مارسیل کو دیکھا اور ٹی وی پر چلتی شور شرابہ والی مووی (the ninja turtles four) کی جانب اشارہ کیا۔۔ مارسیل معذرت کرتا ہوا اسے راہداری سے گزر کر باقی رومز سے کچھ فاصلے پر موجود کمرے میں لے گیا۔ یہ چھوٹا سا آفس تھا، فرنیچر پرانا مگر اچھی حالت میں تھا۔۔ سالک نے چاروں طرف نظر گھمائی اور ایک سائیڈ پر رکھی ایزی چئیر پر بیٹھا۔۔ مارسیل بھی ایک کرسی پر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔۔ 

"The location of number you gave me is 23 miles away from california city.. and there is no change in past two daya"

(تم نے جو نمبر دیا تھا وہ کیلیفورنیا شہر 23 کلومیٹر دور ہے اور پچھلے دو دن سے لوکیشن میں کوئی تبدیلی نہیں۔۔) 

مارسیل نے نمبر کی ڈیٹیل سالک کو دی۔ اور اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھا۔ جس پر آج کل بےزاری چھائی رہتی تھی۔

" This boy is surely connected to her death. He stalked her for almost 2 months. He was there when she propose me. He was always there whenever she talked to me.. Here is the pic of that night before club and here is the video of his leaving club after her death.."

(یہ لڑکا یقینی طور پر اس لڑکی کی موت سے جڑا ہے۔۔ اس کا تقریباً دو ماہ سے پیچھا کر رہا تھا۔ وہ وہیں تھا جب اس نے مجھے پرپوز کیا۔ وہ ہر اس جگہ تھا جب بھی لڑکی نے مجھ سے بات کی۔ یہ اس رات کلب کے سامنے کی تصویر ہے اور یہ قتل کے بعد کلب سے جانے کی ویڈیو ہے۔۔) 

سالک نے بتاتے ہوئے کچھ تصاویر اور ایک یو ایس بی اس کے سامنے رکھی۔۔ مارسیل نے جلدی سے تصاویر دیکھیں۔۔ سالک نے اسے سمجھا دیا تھا کہ وہ اس لڑکے کو انہی چیزوں کے بل بوتے پر جلد سے جلد اریسٹ کرے۔ مارسیل عیار بندہ تھا وہ ان چیزوں کا یوز اچھے سے جانتا تھا، ان چیزوں سے کیس میں آسانی ہونے والی تھی۔۔ سالک اس کے گھر سے نکل کر اس کافی شاپ کی طرف رونہ ہوا جہاں ڈی ٹیکٹو مارک نے ملنا تھا۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

زایان نے سامنے کھڑی ببلی نامی جوان عورت (جو ان کے گھر پچھلے پانچ سال سے ملازمہ تھی) کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا۔

” تمہیں یقین ہے تمہاری بہن ملک کرمداد کے ہی گھر کام کرتی ہے ناں..“  اس نے ایک بار پھر تصدیق چاہی۔۔ 

سانولی گندمی رنگت اور درمیانے قد کی عورت نے زور وnشور سے ہاں میں سر ہلایا۔۔ 

” خالدہ بیگم اور ان کی تین بیٹیاں کنزہ بی بی، عزہ بی بی اور فضا بی بی اور ان کا بھائی ملک زوار اور۔۔ “  وہ رٹو طوطے کی طرح سارے گھر کا بائیو ڈیٹا دینے لگی تو زایان نے ہاتھ اٹھا کر روکا۔۔ 

” بس تم اب کچھ عرصہ کے لیے اپنی بہن کو یہاں بھیج دینا اور خود اسکی جگہ جانا، دی جان سے کہہ دینا سسرال والوں نے تمہیں بلوایا ہے کچھ عرصہ کے لیے۔۔ اس لیے تمہاری جگہ بہن آئے گی۔۔ یہی بات تمہاری بہن وہاں کہے گی۔ سمجھ گئیں۔۔؟“  زایان نے سارا پلان ترتیب دے دیا اور اس کے ساتھ بیٹھا ریان داد دیے بنا نا رہ سکا۔ ایسے معاملات میں زایان کا ذہن بڑی تیزی سے کام کرتا تھا۔۔ 

”آپ فکر ہی نا کریں زایان صاب۔۔ جیسا چاہیں گے سب ویسا ہو گا میں آپ کو عزہ بی بی کی ایک ایک پل کی خبر دوں گی۔۔ “ وہ جذباتی آواز میں بولی۔ اب کہیں جا کر تو اس کے زایان صاب کو محبت ہوئی تھی وہ کیسے نا ساتھ دیتی۔۔ زایان کی آنکھیں چمکیں۔۔ 

”بس ہر پل کی نہیں تم نے اتنا کرنا ہے اس کی فون کالز سننی ہیں کس کس سے بات کرتی ہے۔۔ اور اس کی بری عادات پر نظر رکھنی ہے اور کوشش کرنا کوئی افئیر ہو تو فوری بتانا۔۔“ اس کے حکم پر ببلی کا منہ کھل گیا یہ کس دور کی محبت ہے۔؟

زایان اور ریان اس کے تاثرات کا مطلب سمجھ کر ہنسے۔۔ 

”او ببلی میرا کوئی(love)سین نہیں ہے اوکے تو تم سمجھداری دکھا کر سیٹنگ مت کروانے بیٹھ جانا۔۔ مجھے اس سے جان چھڑوانی ہے تو وہ کرو جو کہا ہے۔۔“  زایان نے اسے سمجھایا وہ مایوسی سے(اتنے زندہ دل لڑکے کی بدستور سنگل ہونے پر) سر ہلا کر اندر چل پڑی۔ وہ دونوں بیک یارڈ میں بیٹھے تھے زایان نے چئیر کی بیک سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندیں۔۔ م وسم اچھا ہو رہا تھا ٹھنڈی ہوا طبیعت کو خوشگوار کر رہی تھی۔۔ 

” جب مجھے لائلہ (اسکی بیوی) پسند آئی تھی ناں مجھے فرنٹ لان میں لگے پھولوں کے ساتھ ساتھ گھاس اور یہ سوئمنگ پول کا پانی یہ دیواروں پر پھیلی امربیل یہ سنگی بنچ۔۔“ ریان نے دائیں طرف وسیع پول کی طرف پھر سبز پتوں میں ڈھکی دیواروں کی طرف اور یہاں تک کہ اس بنچ پر ہاتھ رکھا جس پر بیٹھا تھا سب طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ زایان کو اسکا دماغی توازن دوسری مرتبہ خراب لگ رہا تھا۔۔ پہلی مرتبہ تب جب اسے اس کی بیوی پہلی مرتبہ ایک مال میں نظر آئی تھی۔۔ 

”یہ سب دھنک رنگوں میں ڈوبا لگتا تھا، کھلتے رنگ۔۔ بہار ہی بہار۔۔ تمہارا کیا سین ہے برو۔۔“ ریان کی شوخی اسے زہر لگی بھلا اتنا آسان تھا کسی عام سی لڑکی کے لئیے زایان خان کا دل دھڑکتا؟ ہرگز نہیں۔۔ وہ لڑکی بس دلچسپ لگی تھی مگر جب بھی ملی شیرنی کی طرح دھاڑتی چلی گئی۔ 

نا جھجک نا شرمیلا پن نا معصومیت نا ہی کوئی لہجے کی نرمی و نشیلا پن۔۔ لڑاکا۔۔ کرخت اور مرد مار لڑکی کا زایان کے ساتھ بھلا کیا جوڑ؟ 

وہ مسلسل اپنے خیالات اور احساسات کی نفی کر رہا تھا، اتنے جلدی گھٹنے ٹیک دینا آسان نہیں تھا۔۔ اسے سوچوں میں گم دیکھ کر ریان زور سے ہنسا تو وہ چونکا۔۔

” کوئی سین نہیں برو۔۔ تمہیں اس لیے نہیں بتا یا تھا کہ اس کے زکر سے مجھے چھیڑنے لگو جس کا نام تک نہیں جانتا میں... 

love is nothing but mess"

  اس کے چڑچڑے انداز پر ریان ہنسا۔۔ اسے سب نظر آرہا تھا جو زایان چھپا رہا تھا۔۔ ریان اٹھ کھڑا ہوا۔۔ 

”او۔ کے یار مان لیا اس لڑکی کا ملنا کچھ نہیں۔۔ بازار میں پاگلوں کی طرح اسکا حلیہ شوقیہ بیان کیا تھا اور دا جان کے رشتے پر جھکا سر انکار کی بغاوت میں اچانک اٹھنا بھی اتفاق ہے۔۔ میں چلتا ہوں تم بیٹھ کر خود سے لڑو۔۔“ ریان چلا گیا اور وہ اس کی باتوں پر تلملاکر رہ گیا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

سالک اس وقت کیفے میں لوگوں سے الگ تھلگ اکیلا بیٹھا ارد گرد چہل پہل اور آزادی سے گھومتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر سنجیدگی اور بےزاری تھی۔۔ وہ جانتا تھا اس وقت بھی اس پر نظر رکھی جا رہی ہے اسکا دل چاہا یہاں بیٹھے کسی بھی انسان کا گریبان پکڑے اور خوب لڑے کہ پورے کیفے میں ہنگامہ برپا کر دے اور چیخ چیخ کر سب سے کہے، میں برا انسان ہوں۔۔ او۔کے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔

”I can live without food but cant.. without freedom, yes I'm the bad guy.."

(میں کھانے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں لیکن آزادی کے بغیر نہیں۔۔ جی ہاں میں برا لڑکا ہوں۔۔)

اپنی اس انوکھی حسرت پر وہ سر جھکا کر مسکرایا۔۔  

سامنے سے آتے مارک کو دیکھتے سنجیدگی اوڑھ لی اور اس کے ہیلو کہنے پر بس سر خم کر کے جواب دیا۔۔ مارک ڈرنک بنوا آیا تھا اس کے سامنے کولڈ کافی کا گلاس رکھا۔۔

”سوری آنے میں دیر ہو گئی۔ یہ کیس تو سوچ سے زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔۔“ مارک نے مسکرا کہا تو سالک نے کندھے اچکائے۔۔ 

” اٹس او۔کے۔۔ میں آج کل فری ہوں اس لیے جلدی آ گیا۔۔“ 

سالک کے لہجے میں سنجیدگی کے ساتھ کچھ کچھ اداسی کا رنگ محسوس کر کے مارک کو بےساختہ اس چھوٹے لڑکے پر ترس آیا تھا۔۔ 

”شکریہ تم مجھ سے ملنے آئے۔ اس کیس کی اصل (key) تم ہو۔۔ تمہاری مدد کے بغیر الجھ رہا ہے۔۔ “  مارک نے نرمی سے کہا۔ سالک بنا جواب دیے سٹرا سے کافی پی رہا تھا۔۔

”مجھ پر شک کر رہے ہو اس لیے میری ہی مدد چاہئیے تو کبھی سہی جواب نہیں ملے گا۔۔ مجھ سے معلومات حاصل کرنی ہوں تو اپنا رویہ اور لہجہ درست رکھنا مسٹر مارک ورنہ میرے پاس کچھ نہیں بتانے کو۔۔“  کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور سنجیدگی سے وارننگ دی۔ اس کے انداز پر مارک نے ہار ماننے والے انداز میں ہاتھ کھڑے کیے۔۔ 

”میری جاب یہی ہے انویسٹی گیشن میں ڈاؤٹس تو ہوں گے۔ مگر آج پرسنلی آیا ہوں، تمہاری بتائی جگہ ہے اور تمہارے طریقے سے چلوں گا۔۔ صرف ادھورے جواب پورے کر دو۔۔“ مارک نے لہجہ میں نرمی کے ساتھ عاجزی اختیار کی۔ اس کی 8  سالہ جاب میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا مگر سالک جیسا ٹیڑھا بندہ اب ملا تھا جو جھکانا جانتا تھا بس۔۔ مگر مارک کی جاب ایسی تھی اسے ڈیل کرنا آتا تھا۔۔

”میں نے تم پر ساری ریسرچ کر لی ہے جس طرح لڑکیوں میں مقبول ہو تمہارے لیے مشکل نہیں ریلیشن رکھنا مگر تمہارا اس معاملہ میں ریکارڈ صاف ہے اور جھگڑے بھی معمولی تھے۔ تم قاتل ہرگز نہیں مگر ہو سکتا انوالو ہو اس معاملہ میں۔۔“   سالک مارک کی باتیں نا سننے جیسا سن رہا تھا۔ اس کی توجہ اپنی کافی پر تھی اور ارد گرد کے لوگوں پر۔۔ مارک نے رک کر اسے دیکھا اور پھر اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے ایک تصویر نکالی۔۔ 

”کیا تم اس لڑکے کو جانتے ہو؟“  سالک نے ترچھی نظر ٹیبل پر رکھی تصویر کو دیکھا اور اسی طرح سٹرا (straw)منہ میں لیے ہاں میں سر ہلایا۔۔ 

” اوہ۔۔“ مارک سیدھا ہوا۔۔ 

” اس لڑکے کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔۔ اس کی فیملی نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی ہے اور یہ اسی رات گم ہوا جس رات لڑکی کا مرڈر ہوا اور ۔۔“  مارک نے رک کر کچھ اور تصاویر نکال کر سالک کے سامنے رکھیں۔ 

” یہ لڑکا اس لڑکی کی اکثر سیلفیز میں پیچھے نظر آرہا ہے اور۔۔“  مارک بول رہا تھا جب سالک نے گلاس ٹیبل پر رکھا اور جھک کر تصاویر دیکھنے لگا۔۔ اچانک بولا۔

” یہ اس لڑکی کا سٹاکر ہے۔۔ “  مارک اس کی بات پر چونکا اور پھر مسکرایا۔۔ 

” بالکل میرا بھی یہی خیال ہے۔۔“ مارک نے اس کی زہانت بھری سیاہ آنکھوں کو دیکھا۔۔ 

”میں خیالات پر بات نہیں کرتا مسٹر مارک۔۔ میں جانتا ہوں، یہ ہے۔۔ اسکا نمبر ٹریس کرنا کونسا مشکل ہے۔۔“  سالک نے جیسے اس کی کم عقلی کو کوسا۔۔ 

”اس کا نمبر اس قتل سے ہفتہ پہلے بند ہو چکا ہے۔۔ اور اس کے علاوہ کوئی نمبر کسی کو نہیں معلوم۔۔“  مارک کی بات پر سالک نے گہرا سانس بھرا تو اس لیے اس نے نمبر آن رکھا ہوا تھا کیونکہ شاید سالک کے علاوہ کوئی یہ نمبر جانتا ہی نہیں تھا اور سالک کا شاید اسے خیال ہی نا رہا ہو۔۔ مارک کی نظریں سالک کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔ 

” اس کا نام انتھونی ہے۔۔ یہ اس لڑکی کا ایک سال سینئیر سکول فیلو تھا۔۔ یہ زیادہ سوشل نہیں اس لیے اسے کوئی نہیں جانتا۔۔ اس نے مجھے ویلنٹائن سے تین دن پہلے اپنا نمبر دیا تھا تا کہ میں اس لڑکی کو دے کر اس کی بات کروا سکوں اور ویلنٹائن کے روز میں نے چیلسی کو سائیڈ پر جا کر اس کا نمبر دیا بھی تھا جسے وہ بنا بات سنے پھینک کر چلی گئی تھی۔۔“  سالک نے بنا رکے سب بتا دیا اور مارک کی الجھن مزید بڑھا کر مزے سے اسے دیکھنے لگا۔۔ 

”مگر۔۔ اس نے ”تمہیں“ ہی کیوں نمبر دیا؟۔۔ اور یہ بات تم اب کیوں بتانے پر راضی ہو گئے؟۔۔ کیا اس کا نمبر مجھے دے سکتے ہو یا پھر ایڈریس وہ کہاں ہے اسوقت۔۔؟“  مارک کے بے چینی سے کیے سوالات پر سالک نے ٹیبل پر کہنیاں ٹکا کر اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر چہرہ ٹکایا۔ 

”مسٹر مارک وہ لڑکی مجھے پسند کرتی تھی سٹاک (پیچھا) کرتی تھی یہ بات تو پتہ چلی ہوگی آپ کو۔۔ وہ لڑکا بھی جانتا تھا اس لیے مجھ سے کہا۔۔ اور میں اب اس کیس کے جھنجھٹ سے چھٹکارا اور پہلے والی آزادی چاہتا ہوں کیونکہ آج پتہ چلا کہ پولیس نے میرا سٹی سے باہر جانا ممنوع کر دیا ہے۔۔ اور میں نہیں جانتا یہ لڑکا کہاں ہے اسکا نمبر دینے کا بھی فائدہ نہیں یہ کل تک آپ لوگوں کے سامنے ہوگا آفیسر مارسیلس کے ساتھ۔۔“  سالک نے بالترتیب سب جواب دئیے۔۔ اور مارک کے کچھ بھی بولنے سے پہلے سیدھا ہو کر مزید بولا۔۔ 

” اور یہ کہ یہ کیس صرف چیلس کے مرڈر پر ختم نہیں ہو گا ۔۔ زرا ینگز نائٹ کلب کی چھان بین کروائیں۔ وہاں (%100)الیگل کام ہو رہا ہے۔۔“  سالک نے انکشاف کیا مارک گہری سانس بھر کر چئیر کی بیک سے ٹیک لگا گیا۔۔  

” جانتا ہوں ۔۔ پولیس کی نظر ہے ان پر۔۔ بہت سی ٹپس مل چکی ہیں مگر ان کے سی سی ٹی وی ریکارڈ صاف ہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔۔ “ مارک کے بتانے پر سالک دھیرے سے ہنسا۔۔ 

” کوئی بھی سمجھدار سرعام یہ سب نہیں کرے گا مسٹر مارک۔۔ کلب میں(hidden) چھپا ہوا کمرہ ہوگا اور اصل ریکارڈ وہاں موجود ہے۔۔ چیلس کا مرڈر کلب میں ہوا ہے کیا اسکا مکمل ریکارڈ ہے؟ اگر نہیں تو جہاں اسکا ریپ اور مرڈر ہوا وہ جگہ اور وہاں کا ریکارڈ اس چھپے ہوئے کمرے سے ملے گا۔۔“  سالک کی انفارمیشن پر مارک بری طرح متاثر ہوا، جو آدھی باتیں وہ سمجھ گئے تھے اور الجھ رہے تھے سالک نے مکمل کر دی تھیں۔ 

”اور اس (hidden room) تک کون لے جا سکتا ہے۔۔؟“ مارک نے مشکل سے ہاتھ آئے اس انسان نما جن سے اگلوانا چاہا۔۔ 

”ایک ڈی ٹیکٹو مائنڈ اور ایک بیسٹ ہیکر۔۔“ سالک نے کافی کا آخری سپ لیا اور انگلیوں سے وی کا نشان بناتے دو کا اشارہ دیا تھا۔۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

” مارتھا تم کسی طرح سیکیورٹی گارڈز کا زہن بٹاؤ گی اور تب تک بِل سی سی ٹی وی ہیک کر کے پرانی ریکارڈنگ لگا دے گا۔۔ اس وقت میں اینڈریو اس بیسمنٹ کا لاک ڈس کنیکٹ کر کے اندر جائے گا۔۔"  ڈیوڈ نے پلان ترتیب دیا۔۔ پچھلے دو دن کی مسلسل محنت سے ڈیوڈ نے کلب ”ینگز نائٹ“ کے سٹور جہاں ڈرنکس اور دوسری ضروری چیزوں کو رکھا جاتا تھا وہاں زمین کے فرش پر غیر معمولی ڈیزائن نوٹس کیا تھا اور تھوڑی بہت محنت سے وہاں کچھ بلاکس ہٹانے پر ایک لاکڈ ڈور نظر آیا تھا اور یہ تھا ینگز نائٹ کلب کے بیسمنٹ کا راستہ جسے آج وہ کھولنے والے تھے۔۔ 

پلان تیار تھا مارتھا اور اینڈریو کانوں میں نہایت چھوٹے سائز کے مائکرو فون لگائے تیار تھے۔۔ اپنی سیٹ پر بیٹھے بل نے چارج سنبھالا اور کی بورڈ پر انگلیاں ٹکا دیں۔۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤

دیا کا نام ٹاپ ٹین میں آچکا تھا اور اتنی مشکل سے کہ دسواں نمبر ہی اس کا تھا۔۔ اب مرحلہ بابا کو منانے کا تھا اور ہزاروں کوششوں کے بعد بھی خادم صاحب دو دن  متذبذب کیفیت میں مبتلا رہے تھے. ہالہ کے لاتعداد دلائل اور پھر دیا کے پروفیسر کی محفوظ اور باعزت رہائش کے انتظام کی گارنٹی اور دیا کا ہفتے سے رو رو کر برا حال ان کے فیصلے میں دراڑ ڈال رہا تھا اور آخر کار آج صبح بہت ساری شرائط کے بعد وہ مان گئے تھے۔ 

دیا کا خوشی سے برا حال تھا اس نے پورا دن ہالہ کو ریسٹ دیا اور گھر کا سب کام کیا۔ شام کے وقت کچھ کزنز اور دیا کی دوستیں آگئیں۔ انہوں نے بہت سی گیمز کھیلیں جن میں سب سے آخر میں اب سب کی شرط پر بھوکے ندیدے بچوں کی طرح گول گپے ان کا از حد کھٹا پانی پینے کے بعد اب لیگ پیسز جن پر سپائسی مصالحہ یوز ہوا تھا، بنا رکے کھا رہی تھی سرخ آنکھوں سے بہتا پانی اور ناک بھی ازحد لال ہو رہی تھی مگر اسے لمیٹڈ ٹائم میں وہ سب ختم کرنا تھا۔۔ 

عام حالات میں وہ کبھی ایسی شرائط پر نہیں مانتی تھی نا اس سے سپائس برداشت ہوتا تھا مگر اب وہ بات نا تھی وہ ہائر سٹڈی کے لیے باہر جا رہی تھی اس کی بلا سے امریکہ ہو تا یا کوئی بھی ملک۔۔ بس اس کی ڈگری یہاں والوں سے الگ ہوگی، اسکی ویلیو زیادہ ہو گی۔ 

خاندان میں اس کی عزت ہوگی سب سے بڑھ کر اسے یہاں جلد اچھی سی جاب مل جائے گی کیونکہ اسکی ڈگری پر امریکہ کا ٹیگ لگ چکا ہوگا۔

 عجیب بات ہے مگر ہے تو سچ ہی۔۔ ہمارے ملک میں ہمارے ہی ملک کی ڈگری کی وہ ویلیو نہیں ہوتی جو دوسرے ممالک کی ہوتی ہے۔۔ ہمارے ہاں یہی تو ہوتا ہے سب۔۔ دیا بھی خوش تھی یہ جانے بغیر کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں اسی طرح امریکہ بھی کوئی ایسا ڈریم لینڈ نہیں جیسا ہم سمجھتے ہیں۔ 

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

 ”اس لیے کہتی ہوں جلدی کا کام شیطان کا۔۔ پر تم لڑکیوں کو نجانے کونسی ریل پکڑنا ہوتی ہے۔۔“ سامنے بستر پر پڑی عورت، فارس کی ماں تھیں جو کمزور آواز میں بول رہی تھیں ان کے ساتھ بستر پر ایک لڑکی سفید چادر لپیٹے بیٹھی تھی اور ایک لڑکی سیاہ چادر لیے کچھ ٹفن باکسز ہاتھ میں اٹھائے، سر جھکائے کھڑی تھی۔ 

” تم نے جب کچھ دال چاول بنا کر بھیجا اندر سے ضرور ایک دو کنکر نکلے اب دیکھ لو پتھری کروا دی نا مجھے۔۔“ 

فارس کی ماں ٹفن لیے سر جھکائے لڑکی سے مخاطب تھیں،

فارس کی مدر کا آپریشن ہوا تھا اور ان سے ملنے زایان آیا تھا مگر کمرے کے دروازے پر جھجھک کر رک گیا۔ 

” آجاٶ یار امی کے معدہ میں پتھر تھا جسکا آپریشن بھی ہو چکا ہے مگر ان کا غصہ اپنی جگہ موجود ہے۔۔“ فارس اسے دیکھ کر اونچی آواز میں بولا تو اس کی امی متوجہ ہوئیں۔ 

”السلام علیکم آنٹی۔۔ کیسی ہیں آپ؟"  زایان نے آگے بڑھ کر انہیں سلام کیا لڑکیاں سائیڈ پر ہو گئیں۔ 

”وعلیکم السلام ۔۔۔ آؤ بچے بیٹھو۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔“  ان کا لہجہ مٹھاس بھرا ہو گیا تھا اور لبوں پر نرم مسکراہٹ در آئی تھی۔۔ سیاہ چادر والی لڑکی بےزاری سے دروازے کی جانب پلٹی اور زایان کی نظر ان نقاب میں چھپی آنکھوں پر اٹک گئی۔۔ 

”ٹیکسی کر لینا۔۔ ہم تو ابھی رکیں گے۔۔“  اسے دروازے کی جانب جاتا دیکھ کر فارس اپنی جگہ قدم جمائے بولا۔ 

اور جانے کیوں زایان کو بہت برا لگا تھا۔ وہ لڑکی سر ہلا کر نکل گئی۔۔ 

”تم نے جانا ہے تو چلے جاؤ فارس۔۔ میں تو جلدی میں ہوں، شام ہو رہی ہے۔۔ راسم بھائی کو آفس سے ریسیو کرنا ہے انکی گاڑی خراب ہے۔“ زایان نے تیزی سے کہا۔۔

” نہیں مجھے تو کہیں نہیں جانا۔۔ اور تم ابھی تو آئے ہو۔“ فارس نے حیرت سے کہا، وہ بازو پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتا جلدی مچا رہا تھا جیسے واقعی دیر ہو گئی ہو۔۔ 

”میں پھر ملوں گا۔۔ اچھا آنٹی اللّٰہ حافظ “ وہ رکا نہیں تیزی سے نکلا تھا۔۔ اگر وہ آج بھی چلی گئی تو؟ 

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

زایان ہاسپٹل کی بلڈنگ سے جیسے ہی نکلا سامنے ہی وہ ٹفن باکسز زمین پر گرائے کھڑی کسی سے لڑ رہی تھی اور وہ انسان جو بد قسمتی سے اس سے ٹکرانے کا گناہ کر چکا تھا معذرت کر کر کے آدھا ہو رہا تھا۔  وہ اپنی تقریر پوری کر کے اب زمین پر بیٹھ گئی۔ زایان مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔۔ 

”تم ہر جگہ کیوں موجود ہوتی ہو۔۔“  اس کے ساتھ زمین پر بیٹھتے اس نے ایک باکس اٹھایا اور اس بار پہلی مرتبہ اس نے مسکرا کر بات کا آغاز کیا تھا۔۔ 

”خبردار۔۔ یہ میرے برتن ہیں، چرانے کا سوچنا بھی مت۔۔ “ اس کے ہاتھ سے باکس جھپٹ کروہ غرائی اور زایان کے خوشگوار موڈ کا بیڑہ غرق کرتی اٹھی۔۔ 

”سنو میں اپنی مدر کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔۔“ وہ اچانک ہی بے ساختہ کہہ گیا تھا اور وہ جاتے جاتے رکی۔۔ 

”ہاں کیوں نہیں پہلے ہی پورا خاندان میری ماں بنا رہتا ہے۔۔ تمہاری اماں جان کی کمی ہے انہیں بھی بھیج دو۔۔“ شاید کمرے میں ہوئی ”عزت“ پر وہ کچھ زیادہ غائب دماغ ہو گئی تھی اس لیے بات سمجھے بنا بول پڑی۔۔ 

” یعنی سیرئیسلی۔۔۔ تمہیں اتنا بھی نہیں پتہ ایک لڑکا جب لڑکی کے گھر فیملی کو بھیجنے کا کہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ یا تم مجھے اجازت دے رہی ہو؟“  زایان نے اپنی ہنسی کا بمشکل گلا گھونٹا اور اس کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگا۔۔ وہ اس وقت غصے میں بھری اس کی کسی بات کو نا سن پا رہی تھی نا سمجھ۔۔ 

” تم میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟“ وہ اچانک پھاڑ کھانے کو دوڑی۔ 

” مگر میں تو ساتھ چل رہا ہوں، پیچھا تھوڑی کر رہا ہوں۔“ وہ ڈھٹائی سے اپنی جگہ جما مسکرا رہا تھا۔۔ 

” گھٹیا پن دکھا لیا ہو تو شکل گم کرو۔۔ روڈ پر ٹھہر کر اپنی اصلیت دکھانا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔۔“  وہ تنفر سے بولتی اپنا سارا غصہ اس پر نکال چکی تھی۔۔

” انسانوں کی طرح بات کرنا آئی ہے کبھی زندگی میں ؟ “ زایان کی ساری نرمی بھاپ بن کر اُڑی ۔

”شام کے وقت جان سینا بنی ٹیکسی ڈھونڈ رہی ہو کچھ حالات کا پتہ ہے کیسے لوگ غلط راستوں پر لے جاتے ہیں؟“ اس نے زچ ہو کر کہا۔ دل چاہ رہا تھا اس سر پھری لڑکی کا سر پھاڑ دے۔۔ 

” ہاں جی سب پتہ ہے کہ کس طرح لڑکیوں کو شریف بن کر ورغلا کر لوگ اغوا کر لیتے ہیں۔“ وہ جتا کر بولتی اس کو اسی کا اشارہ دے رہی تھی۔ نظریں مسلسل آتی جاتی گاڑیوں میں ٹیکسی ڈھونڈ رہی تھیں۔۔ 

” شٹ اپ۔۔ ایسا لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے چڑیلوں کے ساتھ نہیں۔۔۔ تم فارس کی فیملی ہو تو مطلب میری فیملی ہو اب چلو میں چھوڑ دیتا ہوں۔“ وہ اس کی باتوں پر اچھا خاصہ تپ چکا تھا مگر اس وقت اکیلے جانے دینے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔۔ 

” تم اور تمہارا دوست ایک جیسے گھٹیا ہو۔۔ اور خبردار جو یہ بات فارس بھائی کو بتائی۔۔ میں مُکر جاؤں گی۔“ 

وہ جواب دے کر اس سے فاصلہ پر ہو کر چلنے لگی۔ زایان کو نا چاہتے ہوئے بھی ہنسی آگئی تھی۔۔

 وہ ٹیکسی روک رہی تھی۔ مزید بحث کرنے کی بجائے وہ جلدی سے اپنی گاڑی نکال کر ٹیکسی کا پیچھا کرنے لگا وہ اپنے گھر کے قریب روڈ پر ہی اتر کر پیسے ادا کرنے لگی زایان نے بھی گاڑی سائیڈ پر کھڑی کی۔۔ وہ چھپ کر سہی مگر اسے اس کے گھر چھوڑ کر ہی پلٹا تھا۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

"Martha enter my password in their system"

بل کی ہدایت پر مارتھا سر ہلا کر تیزی سے سیکیورٹی روم میں داخل ہوئی۔۔ وہاں دو لوگ تھے جو آپس میں باتیں کرتے کبھی کبھی سکرین پر نظر ڈال رہے تھے۔ مارتھا کے لیے انہیں ہینڈل کرنا آسان تھا وہ اس کام میں ماہر تھی۔ اگلے لمحے وہ انکا سسٹم بل کے سسٹم سے جوڑ چکی تھی۔۔ اور بل نے سی۔سی۔ٹی۔وی کی ریکارڈ ویڈیو پھر سے چلا دی۔۔ 

اینڈریو نے کسی طرح سب بلاکس ہٹا کر ڈور کا لاک اپنے پاس موجود ڈیوائس سے جوڑ کر ڈسکنیکٹ کیا۔۔ 

ok am goin down... 

اینڈریو نے مائکرو فون پر بتایا۔ نیچے کی سیڑھی پر پیر رکھا اور قدم بہ قدم نیچے جانے لگا۔ نیچے چھوٹا سا ہال نما کمرہ تھا جس کی سائیڈز پر دائرے میں تین سے چار کمرے تھے۔۔ اینڈریو نے ڈیوڈ کو ڈن کا میسج دیا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

"yess I killed her.. I loved her and she was ignoring me... it was too much.."

(ہاں میں نے مارا اسے۔۔ میں نے اس سے محبت کی اور وہ مجھے نظر انداز کر رہی تھی۔۔ یہ بہت زیادہ ہو گیا تھا۔۔) 

وہ کم عمر لڑکا انتھونی سر ڈالے بولا۔۔  جسے مارسیل نے پہلی فرصت میں اپنی ٹیم کے ساتھ جا کر پکڑا تھا۔۔ اس وقت انویسٹی گیشن روم میں انویسٹی گیٹر کے سامنے بیٹھا بول رہا تھا۔ 

ڈی ٹیکٹو مارک۔۔ مارسیل اور دوسرے پولیس آفیسرز شیشے کی دیوار کے پار بیٹھے لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔ 

"but before her murder she was rape victim.. did you ..."

(مگر قتل ہونے سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی کیا تم نے۔۔) آفیسر کے سوال کے درمیان ہی وہ چیختے ہوئے نفی میں سر ہلا نے لگا۔۔

"no... no.. I didn't do that.... I did not.."

آفیسر نے خاموشی سے اسے دیکھا۔ وہ روتا رہا۔ اور پھر اچانک وہ کیمرہ میں دیکھنے لگا. 

"S are you there? I am guilty I thought she was with you, I thought you both have made couple.. so I killed her.. and it wan't you"

(ایس کیا تم وہاں ہو؟ مجھے احساس جرم ہے میں نے سوچا وہ تمہارے ساتھ تھی, میں نے سوچا تم دونوں کپل بن گئے ہو۔ اس لیے میں نے اسے مار دیا اور وہ تم نہیں تھے۔۔)

"where did you found her..? when you killed her was she consious? did she told you anything..?  how can you say it wasn't S..?"

(وہ تمہیں کہاں ملی؟ جب تم نے اسے مارا کیا وہ ہوش میں تھی؟ کیا اس نے تمہیں کچھ بتایا۔۔ تم کیسے کہہ سکتے ہو وہ ایس نہیں تھا۔)  آفیسر سوال کر رہا تھا مارک نے اپنے موبائل پر ملنے والا میسج پڑھا اور مارسیل کو پکارا۔

" get ready for raid... youngs night club's hidden room is founded by someone...hurry up"

( چھاپہ مارنے کی تیاری کرو ینگز ناٸٹ کلب کا چھپا ہوا کمرہ کسی نے ڈھونڈا ہے۔۔ جلدی..) وہ لوگ تیزی میں وہاں سے نکلے۔

"they chased me so I had to ran.."

(انہوں نے میرا پیچھا کیا اسلیے مجھے بھاگنا پڑا)۔

انتھونی روتے ہوئے انویسٹی گیشن آفیسر کو بتا رہا تھا۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤

”تم گھر خیریت سے پہنچ گئی تھیں؟“  تائی جان نے پوچھا تو دیا کا خون کھولنے لگا۔ 

” جی جی شکر خدا کا۔۔ دنیا میں اب بھی غیرت مند لوگ موجود ہیں ٹیکسی والا پرایا تھا پر شریف تھا خیریت سے پہنچا دیا۔۔“ ہالہ آنکھیں دکھاتی رہ گئی، پر وہ نا رکی۔  اس کی بات پر غزالہ نے قہقہہ لگایا اور تائی نے اس بد زبان کی بات پر دانت کچکچائے۔

”زرا رک جاتیں فارس اور غزالہ کے ساتھ آجاتی۔ انہوں نے بھی آنا تھا گھر، رات کو میرے پاس تو اکرام رکا تھا۔۔“ 

تائی جان نے ہالہ کی طرف دیکھا وہ بس سر ہلا کر رہ گئی۔

”بابا نے ضروری کام پر جانا تھا وہ وہیں ہاسپٹل سے چلے گٸے۔ انہیں بھی یہی لگا فارس بھائی کے ساتھ آجائے گی مگر شام ہو رہی تھی اور میں بھی تو گھر اکیلی تھی یہ لوگ ہل کر نہیں دے رہے تھے بچاری کو اکیلے آنا پڑا۔۔ بابا سے بھی ڈانٹ کھائی۔“  جواب اس بار بھی دیا نے ہی دیا تھا۔ ہالہ اس کی بے لگام زبان کے آگے بے بس تھی اور بے بس تو تائی جان بھی تھیں تبھی صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئیں۔ غزالہ ہنسی روکنے میں ناکامی پر اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔۔ 

” تم نہیں آئی مجھے پوچھنے، کیا ضروری کام تھے گھر پر۔۔“ تائی نے بات کا رخ پھیر کر اسکی گردن پکڑنا چاہی۔۔ 

”مجھے اکیلے آنے جانے سے ڈر لگتا ہے بھئی۔۔“  وہ بات پھر وہیں لے آئی اور اس سے پہلے کہ تائی کا بی پی شوٹ کرتا ہالہ نے ان کی طبیعت پوچھ کر بات بدلی۔۔  وہ اپنا حال بتا رہی تھیں کہ فارس آگیا۔ 

” اب کیسی طبیعت ہے امی؟ اور تم کب آئیں۔۔؟“  وہ شاید یونی سے اب آرہا تھا ایک طرف صوفے پر نیم دراز ہو کر بولا۔ تائی جان اسکی بلائیں لینے لگیں۔

” بس ابھی۔۔“  ہالہ نے دو لفظی جواب دیا اور اسے گھور کر دیکھتی دیا کو اچانک ہالہ کی اس روز کی بتائی بات یاد آئی۔ وہ بہنیں ہر بات ایک دوسرے سے شئیر تو کرتی تھیں۔ 

” فارس بھائی آپ کے کوئی دوست اس روز ہاسپٹل آئے تھے ناں۔۔ ہالہ بتا رہی تھی ہاسپٹل کے باہر اسے ملا اور آپ کے بارے میں الٹا سیدھا بولنے لگا کہ فارس بڑا بے غیرت ہے گھر کی لڑکی کو اکیلا بھیج دیا، یونی میں بھی لڑکیوں سے دوستی کرنٕے کو تڑپتا پھرتا ہے اور یہ کہ۔۔“ ہالہ اسکا ہاتھ پکڑے دباتی رہی مگر وہ آنکھوں میں شیطانی چمک لیے بولتی چلی گئی۔ تاٸی جان نے اسے ٹوک کر روکا۔ 

” کیا بکے جا رہی ہو۔۔“ ان کے آنکھیں دکھانے پر وہ رکی، فارس ہکا بکا رہ گیا۔ 

”ان کے دوست نے کہا ہالہ کو بھی برا لگا اس نے بھی اسے غصے سے ڈانٹا۔۔ میں نے تو کہا غلط کیا تائی جان سمجھاتی ہیں ناں۔۔ کسی کو جواب نا دیا کرو۔۔“  دیا آنکھیں پٹپٹاتی سارے حساب برابر کر کے سکون سے چئیر کی ٹیک سے کمر ٹکا گئی۔۔ تائی جان کے طنز، فارس کی بے حسی اور اس کے لوفر دوست کا ہر جگہ ہالہ کو روکنا، وہ سب کا کام کر گئی۔۔ اور فارس کو یاد آیا جب اگلے روز یونی میں واقعی زایان نے کہا تھا۔ 

” بے غیرت انسان جو بھی رشتہ تھا گھر کی لڑکی کو شام کے وقت اکیلا بھیج کر مزے سے کھڑے تھے۔ حد کر دی گھٹیا پن کی۔۔“  تب تو فارس نے غلط ملط وضاحتیں دے کر اسے ٹھنڈا کیا مگر اب طیش آیا۔ 

(زلیل مجھ سے کہنا ہی تھا ہالہ سی کیوں بکواسیں کر گیا۔) 

وہ اس سے حساب لینے والا تھا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

مارسیل اس وقت سالک کے گھر کے ڈراٸنگ روم میں بیٹھا تھا اور گھر کیا تھا پورا شیشے کا محل تھا۔۔ ہر طرف سالک کی انلارج تصاویر لگی تھیں بچپن کی، سکول یونیفارم میں، ینگر ایج کی، عمر کے ہر حصہ کی۔۔ ہر ادا کی۔۔ 

سامنے صوفے پر بیٹھے سالک نے اسکی جائزہ لیتی گھومتی آنکھوں سے سخت الجھن محسوس کی۔۔ 

” پروموشن کی بہت مبارک ہو۔۔“ سالک نے بات کا آغاز کیا تو مارس سیدھا ہوا۔ 

”تمہارے بغیر ممکن نہیں تھا۔۔ کیس سالو آؤٹ ہو چکا ہے۔“ سالک نے لاپروائی سے سر جھٹکا۔ 

”بیسمنٹ میں باقاعدہ بزنس چلتا تھا لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر بیچی جاتی تھیں اور انہیں ڈرگز کا عادی کیا جاتا تھا زیادہ تر لڑکیاں وہیں کلب سے ہی چن لی جاتی تھیں۔ چیلس بھی تمہاری وجہ سے بہت بار کلب گٸی تھی۔“ مارسیل نے تفصیل بتائی۔۔

” وہ لیگلی ایڈلٹ نہیں تھی اسے کلب میں داخلہ کیسے ملتا رہا؟“  سالک ناگواری سے بولا اور ایک نظر کھانے کی اشیاء سے بھرپور انصاف کرتے مارسیل کو دیکھا۔۔ 

”اوہ اسے تمہارا فرینڈ تھامس اندر آنے میں مدد دیتا تھا تھامس اس ٹیم کا باقاعدہ پارٹ نہیں تھا پر اس مرتبہ چیلس کے بدلے اس نے ایک بڑی رقم حاصل کی۔۔ اور تم حیران رہ جاؤگے کہ تم نے جس لڑکی لیزا کو تمہاری پرمیشن کے بغیر پکچرز لینے پر رپورٹ کیا تھا وہ بھی اسی گینگ کا حصہ تھی۔۔“ مارسیل نے اسے سرپرائز کرنا چاہا۔سالک مسکرایا۔

”میں کالج کا پرنس ہوں وہاں سب لڑکیاں میری پکچرز مجھے بنا بتائے لے لیتی ہیں، میں نے ”لیزا“ کو اسی لیے رپورٹ کیا کیونکہ وہی چیلس کو کالج لائی تھی اور میس کری ایٹ کیا اور میں سمجھ گیا وہ اس سب میں شامل ہے۔“  سالک کے جواب نے مارسیل کو لاجواب کیا۔ نجانے اس لڑکے کی سوچ کی کوئی حد بھی تھی یا نہیں؟ 

”انہوں نے چیلس کو یوز کیا مگر انتھونی نے انکا کام بگاڑ دیا تو ان لوگوں کو تمہیں پولیس کے سامنے پیش کرنا پڑا۔۔یہ بہت آسان تھا۔۔ پھر انہوں نے کچھ لوگوں کو پیسہ دے کر تمہارے حق میں گواہی دلوائی تا کہ پولیس کا شک تم پر مضبوط ہو جائے۔۔“  سالک نے نفرت سے سر جھٹکا وہ لوگ سالک کو جانتے نہیں تھے ورنہ یہ سب نا کرتے۔۔

”تم فیوچر میں ہمارا ڈیپارٹمنٹ جوائن کرنا۔۔ ڈیٹیکٹو مارک کا بھی یہی خیال ہے۔۔“ مارس کی بات نے سالک کو ہنسنے پر مجبور کر دیا۔

 ”میں اپنا دماغ اپنے لیے یوز کرتا ہوں بس۔۔“  سالک اپنی کنپٹی پر انگلی رکھ کر سر ترچھا کیے مسکرایا تھا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

”مجھے یقین نہیں آتا اتنی جھوٹی لڑکی؟“ زایان کا حیرت و بے یقینی سے برا حال تھا۔۔ 

”ڈرامے باز۔۔ پوری کہانی لکھ کر سنا دی فارس کو اور ایک بات بھی سچ نہیں تھی۔۔“  جب سے فارس نے اسے گلہ دیا تھا وہ اتنا تپا بیٹھا تھا کہ حد نہیں۔۔ ریان نے حیرت سے اسے دیکھا جو سب کزنز اور بڑے بھائیوں کے درمیان بولتا بیٹھا تھا۔۔ 

”کون لڑکی۔۔ کس نے جھوٹ بول دیا؟“  راسم نے اشتیاق سے پوچھا۔۔

” ہے ایک جنگلی بلی۔۔“ وہ خفگی سے بولا، دل چاہ رہا تھا ابھی جا کر اس کا دماغ ٹھکانے لگائے۔۔ 

”تمہیں بچپن سے ہی بلیاں بہت پسند ہیں گرین جیسا شیڈ دیتی گرے آنکھوں والی۔۔“ ریان نے شرارت سے مسکراہٹ دبائی۔۔ 

”اب  بڑا ہو چکا ہوں اور آج کے بعد سے تو بالکل نہیں پسند۔۔“ وہ سختی سے بولا۔ وہ سب ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہنسنے لگے۔۔ 

”اچھی بات ہے کیونکہ اب ویسے بھی بڑے ہوگئے ہو۔ رشتہ ہو چکا ہے تمہارا اور شادی جلد ہونے والی ہے۔“ صیام بھائی کی سنجیدگی سے کہی بات میں جو اشارہ تھا وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا۔ 

”بس ٹھیک ہے شادی ہو جائے۔۔ بھاڑ میں گیا میرا اعتراض۔۔“ زایان ایک ہی دن میں جیسے پوری دنیا سے ناراض ہو گیا تھا۔ سب کو اس پر ترس آیا تھا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

"salik... what the hell is this???"

احرام صاحب نے اس کے سامنے تصاویر پھینک کر بمشکل ضبط کرتے پوچھا۔ وہ ابھی آفس سے واپس آرہے تھے اور سالک کو دیکھتے ہی آرام سکون بھول کر اس کی طرف بڑھے۔۔

 سامنے ہی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھے سالک نے ایک نظر انہیں پھر سامنے پڑی تصاویر کو دیکھا۔۔ 

”میری پکچرز۔۔ بائک ریس کے لیے گیا تھا آج۔۔“  سالک نے بڑے مزے سے جواب دیا۔۔ ماریہ بیگم شاکڈ سی تصاویر دیکھ رہی تھیں۔

” الیگل بائک ریس۔۔ دو دن۔۔ بس دو دن ہوئے ہیں سالک تمہیں مرڈر کیس سے آزادی ملی ہے اور تم نے آج یہ کارنامہ سر انجام دے دیا۔۔“  وہ تھک کر صوفہ پر گرنے جیسا بیٹھے۔۔ ماریہ بیگم کی بھی خاموش افسردہ نظریں اس پر ٹک گئیں۔ وہ سالک کو بالکل ڈانٹنا یا سوال جواب کرنے والا کام نہیں کرتی تھیں۔ وہ کرنے ہی کسے دیتا تھا باپ بھی بس خود کا ہی بی پی ہائے کرتا تھا۔ سو ماریہ بیگم خاموشی سے اس کا انداز دیکھتی تھیں۔

”مجھے گرین پا نے جانے سے پہلے کہا تھا اب میں آزاد ہوں۔۔ آپ کے بندے اب بھی مجھے فالو کر رہے ہیں۔۔؟ میں اب بڑا ہو چکا ہوں۔۔“ ۔وہ الٹا ان سے ناراض ہونے لگا مگر پھر رک کر ان دونوں کو دیکھا۔۔

"But by the way it was last time... because I lost the race so they snatched my bike..."

(لیکن بہرحال یہ آخری مرتبہ تھی۔۔ کیونکہ میں مقابلہ ہار گیا تو ان لوگوں نے میری بائک چھین لی۔۔)  اس کی بات پر احرام صاحب نے لب بھینچے۔ اس نے پچھلے سال ہی تو لیگلی ایڈلٹ ہوتے ہی بائک کی فرمائش کی تھی اور یہ بائک اسے بہت پیاری تھی مگر آج جس لا پروائی سے اس نے بتایا دونوں کو گڑبڑ محسوس ہوئی۔۔

"Buy me sports car..  I'll soon get the licence ... and if you refuse to buy۔۔۔ I'll call grand father, he owe me a birthday gift anyway.." 

(مجھے سپورٹس کار خرید دیں۔۔ میں جلد لائسنس حاصل کر لوں گا۔۔ اور اگر آپ نے خریدنے سے انکار کیا تو میں دادا جان کو کال کروں گا ان پر خیر میرا برتھ ڈے گفٹ ادھار ہے۔۔) 

اس نے فرمائش کرنے کے ساتھ ساتھ انکار کا حق بھی قید کیا اور کندھے اچکاتا اٹھ کر گنگناتا ہوا کمرے کی طرف چل پڑا۔۔ 

" what to do... I am dying to control him.." 

احرام نے بےبسی سے کہا ماریہ بیگم اس کی پشت دیکھتی بڑبڑائیں۔۔

"He is growing like a lord... He is not baby salik anymore.."

(کسی حاکم کی طرح بڑا ہو رہا ہے۔۔ وہ اب مزید چھوٹا سالک نہیں رہا..)

وہ ماں باپ کو ناکوں چنے چبوا رہا تھا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

” ہیلو نیو یارک آئم ہئیر ٹو بی آ سکسیس فل گرل۔۔ سو ویلکم می۔۔“ 

(ہیلو نیویارک۔۔ میں یہاں کامیاب لڑکی بننے کے لیے آئی ہوں۔۔ تو میرا استقبال کرو۔۔) 

دیا نے امیرکہ نیویارک ائرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی گہرا سانس بھر کر بازو پھیلائے۔۔ اور زور سے چلائی لوگوں نے مڑ کر عجیب لڑکی کو دیکھا۔ کچھ مسکرا دئیے کچھ نے سر جھٹک دیا۔۔ 

”نہایت فضول لگی ہو پاگلوں کی طرح چیخ کر۔۔“

مروہ نے اسے ہنس کر دیکھا۔۔ وہ دس سٹوڈنٹس جن میں سات لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں اور ایک مروہ جو خود آئی تھی، کالج کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ ان کا ڈورم بھی اسی بلڈنگ میں ہی تھا۔۔

اگلے روز سے کالج کا باقاعدہ آغاز تھا۔۔

” دیا نقاب مت کرو۔۔ یہاں کون کرتا ہے۔۔ سٹالر لپیٹ لو، یہ بھی بہت ہے،  عجوبہ بن کر مت جاؤ۔۔“ مروہ نے اسے پہلے روز منع کیا اور کچھ سوچ کر اس نے حامی بھر لی۔۔

اس نے اپنا پردہ اتار دیا، اس نے اپنی شناخت چھپالی اور اس نے اپنا اصل بھلا دیا۔۔

 اور ”یہ“ امریکہ پہنچنے کے بعد دیا کی ”پہلی“ غلطی تھی مگر آخری ہرگز نہیں تھی۔۔



سالک سیل کان سے لگائے کسی سے بات کرتا گزر رہا تھا۔۔ آج دھوپ نکلی ہوئی تھی اس لیے سب سٹوڈنٹس باہر بنچز اور گراسی پلاٹس پر بیٹھے تھے۔۔ وہ بیگ کندھے پر لٹکائے چل رہا تھا۔۔ 

" A pakistani migrated student???... ok but its not enough dear... at least tell me her name.. her style her features so I could recognize her easily.. "

(پاکستان سے آئی سٹوڈنٹ؟۔۔ ٹھیک ہے مگر یہ بہت نہیں پیاری۔۔ کم از کم مجھے اسکا نام بتاؤ اس کا انداز۔۔ اس کے نقوش۔۔ تاکہ میں اسے آسانی سے پہچان سکوں۔۔)

سالک نے ارد گرد نظر دوڑائی لڑکیوں کا پاگل پن عروج پر تھا۔۔ بلیک جینز پر وائٹ شرٹ اور بلیک جیکٹ پہنے وہ آج کافی سے زیادہ فریش لگ رہا تھا۔۔ اس کے گولڈن براؤن بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ آگے سے کچھ بتایا جا رہا تھا۔۔ وہ چونکا۔۔ 

"what kind of name is this... di.ya...la??? grey eyed??۔۔ veil.. rebozo.. who the heck is she ??? how queer..."

(یہ کس قسم کا نام ہے، دی۔۔ یا۔۔۔ لہ؟؟) سالک نے اٹک اٹک کر نام لیا۔۔ (گرے آنکھیں۔۔۔؟؟ نقاب۔۔ چادر۔۔۔ کون ہے وہ؟۔۔ کتنی عجیب ہے۔۔) 

سالک نے حیرت اور مایوسی سے کہا۔ اسے تو لگا تھا کمال لڑکی ہوگی مگر حلیہ ایسا عجیب بتایا گیا تھا کہ وہ سن کر ہی بری طرح اکتایا۔۔ 

ok I'll do whatever it takes..

اس نے کال کاٹ کر سر جھٹکا۔

”مروہ میں نے نقاب اتار کر غلط کیا۔۔ میرا سارا کانفیڈس لوز ہو گیا ہے، مجھے تو اب صرف لوگوں کے دیکھنے سے بھی ڈر لگ رہا ہے۔۔“  اردو میں کہا جملہ، پریشان سی نازک آواز پر سالک نے ارد گرد نظر دوڑائی اور کچھ ہی فاصلے پر دوسری لڑکیوں کے ساتھ دھوپ میں بیٹھی دو لڑکیوں پر نظر پڑی جو باقی سب سے الگ تھیں۔۔

” دیا پاگل مت بنو، مطلب ساری بہادری پردے میں تھی۔۔ یہ پاکستان نہیں ہے کہ بڑی سی چادر میں چہرہ چھپائے پھرتی تھیں، یہاں نمونہ بننے کی ضرورت نہیں، دیکھو سب کا کیا حلیہ ہے اور اپنی حالت دیکھو اتنا بڑا ڈوپٹہ جیسا سٹالر لپیٹے بیٹھی ہو اور کیا چاہئیے، اور تمہارے بابا نہیں ہیں یہاں۔۔ سو ایزی۔۔“  مروہ نے چڑ کر اسے کہا جو آج تیسرا دن تھا ہر تھوڑی دیر بعد اس طرح کی بات کر کے اسے بے زار کر رہی تھی۔ دیا کہنا چاہتی تھی، پردہ شرمندگی نہیں ہے۔۔ پردہ اللّٰہ کے لیے کیا جاتا ہے گھر والوں کے لیے نہیں اور یہ کہ پردہ صرف پاکستانی مردوں سے نہیں، دنیا کے ہر نا محرم سے کیا جاتا ہے مگر اسے ڈر تھا وہ ناراض ہو جائے گی۔۔ اسے اللّٰہ کے ناراض ہو جانے کا خوف بھول گیا اسے باپ کی ناراضگی بھی بھول گئی۔۔ شاید اس لیے والدین چاہتے ہیں دوست اچھے بنانے چاہئیں۔ وہ دوست جو برائی سے روکیں، برائی پر نا اکسائیں۔۔ اس نے بھی غلط دوست چن لی تھی۔۔ 

” ہاں خیر بہت لوگوں سے اچھی ہوں یہاں والوں سے تو اچھی ہی ہوں۔۔“  وہ خود کو تسلی دینے لگی، سالک تمسخر سے ہنستا انہیں سن رہا تھا۔ وہ دونوں تقریباً اٹھارہ سال کی عمر تک کی لڑکیاں تھیں۔۔ ایک نے اورنج شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی سیاہ بال براؤن آنکھیں اور گندمی رنگت پر اعتماد اور مسکراہٹ چہرے پر سجائے بیٹھی یہ مروہ تھی۔۔ براؤن کرتا جینز، سر پر اچھے سے لپٹا سٹالر اتنا بڑا تھا کہ اسکا آدھا جسم ڈھکا ہوا تھا، لباس مکمل تھا۔ گلابی سفید رنگ پر چھوٹی سی ناک اور بڑی بڑی گرے آنکھیں اور تھوڑی نروس سی یہاں وہاں دیکھتی، یہ تھی دیالہ۔۔ 

سالک سمجھ گیا یہی وہ پاکستانی سٹوڈنٹس ہیں اور گرے آنکھوں والی کو دیکھا۔۔۔ 

(شی مسٹ بی ڈیانہ؟ بٹ یہ ویسی نہیں جیسا بتایا گیا ہے) اس نے دل میں سوچتے خالص امیرکن انداز میں دیالہ کہا۔۔اور الجھا۔۔

"anyway..you are going to change your arrogant attitude soon.. I'll make it possible diana.."

(خیر۔۔ تم جلد اپنا مغرور رویہ بدلنے والی ہو۔۔ میں یہ ممکن بناؤں گا ڈیانہ۔۔) 

اس نے رخ پلٹتے سوچا تھا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

زایان اور فارس یونی سے گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ فارس نے اسے روکا۔۔ 

”زایان یار ویٹ، میں لائبریری میں اپنی کتاب بھول آیا ہوں۔۔“  وہ کہتے ہی اترا۔۔ 

” جلدی نا آئے تو چلا جاؤں گا۔“  زایان نے پیچھے سے ہانک لگا کر وارننگ دی۔ فارس کا موبائل بجنے لگا۔ 

”سیل فون تو پاس رکھتا نہیں کبھی۔۔“ وہ اگنور کیے بڑبڑایا مگر مسلسل بجتی بیل پر چڑ کر کال اٹینڈ کی۔۔ 

”فارس بھائی۔۔ میری رول نمبر سلپ آج یاد سے لیتے آئیے گا پلیز۔۔“  کال اٹینڈ ہوتے ہی بنا سلام دعا کے التجائیہ جملے سے سیکنڈ میں اسے پہچانا تھا کہ وہ وہی لڑکی ہے۔۔ 

”فارس یہاں نہیں ہے۔۔“  اس نے بہت سوچا تھا، ملنے پر اس جھوٹی لڑکی کو سہی سبق سکھائے گا اور سختی سے پیش آئے گا مگر اب بھی بلا ارادہ نرمی سے ہی جواب دیا۔۔ 

”آپ کون؟ فارس بھائی سے بات کروا دیں، ضروی بات ہے۔“ صاف لگ رہا تھا وہ دانت کچکچا کر بولی تھی، زایان مسکرایا۔۔ 

” وہ آرہا ہے کر لینا بات اور میں فارس کا وہی دوست ہوں جس پر آپ نے کہانیاں بنا کر فارس کو سنائیں۔۔“  وہ خاصہ جتا کر بولتا اسے شرمندہ کرنا چاہ رہا تھا۔۔  وہ خاموش ہو گئی۔ زایان کو دل میں خوشی ہوئی چلو کچھ شرم باقی ہے لڑکی میں۔۔ اور وہ مجبور بیٹھی ضبط کر رہی تھی پیپر سر پر تھے اور بابا، اکرام دونوں دفتر کی مصروفیات کی وجہ سے رولنمبر سلپ بھول جاتے تھے۔ فارس آخری امید تھا اور بڑی مشکلوں سے ہی کال اٹھاتا تھا۔۔ 

” یہ جھوٹ بولنا اور مکاری ورثہ میں ملی ہے یا کوئی باقاعدہ کلاسز لی ہیں۔۔“  زایان نے اچانک خاموشی توڑ کر ہالہ کی نظر میں نہایت بے ہودہ سوال کیا۔۔ 

”یہ لڑکیوں کو گلی سڑکوں پر روک کر تنگ کرنا وراثتی مرض ہے یا یونیورسٹی میں اس کے لیکچر لیے ہیں؟“  اس نے جواباً بھگو کر مارا۔۔ 

” نہیں لڑکی نے خود اکسایا تھا۔۔“ وہ بھی مزے سے بول گیا۔۔ وہ دانت پیستی دل میں ہزار لعنتوں سے نوازنے لگی۔۔ 

”دل میں گالیاں دینے سے اچھا ہے اونچی آواز میں دو مجھے بھی تمہاری زبان مبارک کے مزید جوہر دیکھنے کو ملیں۔۔“ وہ مزید بولتا اسکا پارہ ہائی کر گیا۔۔ 

” تربیت نہیں ہے میری گالم گلوچ کرنے کی۔۔“  وہ سپاٹ لہجے میں بولتی شریف بن گئی۔۔ 

”ویسے تو بڑا تربیت کا مان رکھا ہوا ہے۔ برابر کے جواب دیتی ہو اور الزام لگانا بھی خوب آتا ہے۔۔“ وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔۔ 

” تو آپ نے بھی کوئی ماں باپ کا سر اونچا نہیں کیا ہوا لڑکیاں چھیڑ کر۔۔ دوستوں کے گھر سے آئی کالز سن کر ان کی ماں بہنوں کو تنگ کرنا کہاں کی شرافت ہے مگر آپ کی بے ہودگی کا الگ ہی ریکارڈ ہے۔۔ نا شرم ہے نا لحاظ۔۔“  وہ ساری شرافت بھلائے تڑ تڑ چلتی گولیوں کی طرح شروع ہو گٸی۔۔ زایان صدمے میں آگیا۔۔  لڑکیاں چھیڑنا ؟ ماں بہنوں کو تنگ کرنا؟ اسے اپنا آپ سہی موالی لگا۔۔ 

”او کوئی لڑکی نہیں چھیڑی میری ماں۔۔ میری زندگی کی پہلی اور آخری لڑکی ہو تم جس سے یوں بات کی اور تم نے لڑکیوں کی معصومیت پر دھبہ بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تم فارس کی ماں ہو یا بہن؟ ماں سے میں مل چکا اور بھائی کو کبھی بہن گھٹیا نہیں بولتی جیسے تم نے کہا تھا وہ تو میری شرافت ہے اسے بتایا نہیں ورنہ اب جیسے شیریں لہجے میں ”فارس بھاٸی“ کو کام بتا رہی تھیں اس کی نوبت نا آنے دیتا فارس۔۔ اور تمہیں بھی کب چھیڑا ہے ؟“ وہ جذباتی ہوتا گاڑی سے نکل کر ٹہلنے لگا۔۔اسکی تقریر پر ہالہ کا خون کھولنے لگا۔ بد دماغ انسان ہر بات یاد رکھے پھر رہا ہے۔۔ 

” یہ بازار میں بازو پکڑنا اور روڈ، بازاروں میں راستے روکنا۔۔ چھیڑنا نہیں تو کیا اعزاز کی بات ہے۔۔ اب فارس بھائی سے بات کرواؤ ورنہ میں بدصورت بیوی ملنے کی بد دعا دوں گی اور میری بد دعاؤں میں بڑا اثر ہے۔۔“  اس کی انوکھی دھمکی پر زایان کا جی چاہا سب لحاظ بھلا کر اس کا دماغ ٹھکانے لگائے مگر وہ کر نہیں پایا۔۔ 

” غلطی سے بھی یہ بد دعا مت دینا کیونکہ میری نظر میں دنیا کی سب سے بدصورت لڑکی تم ہو۔۔“ اس کی بات پر ہالہ کو جھٹکا لگا۔۔ 

” اور یہ جو اتنی بدتمیزی کی ہے ناں فارس آجائے، آج اور ابھی اس کے ساتھ جا کر تمہاری رولنمبر سلپ لے کر اپنے ہاتھوں سے پھاڑوں گا۔۔ پھر دینا ایگزام ۔“ زایان نے بھی دھمکی دی ایسے تو ایسے سہی۔۔ 

”پھاڑ دینا، جان چھوٹ جائے گی مجھے کونسا پڑھ کر پرائم منسٹر بن جانا تھا۔۔“ وہ سکون سے بول کر کال کاٹ گئی اور زایان حیران رہ گیا۔۔ 

دوسری جانب ہالہ نے غصے سے ہاتھ کھول کر موبائل کو لعنت دی جیسے یہیں سے زایان تک پہنچ جائے گی۔۔ اور زایان نے کہے کے مطابق اسی وقت فارس کو لے جا کر اس کی رولنمبر سلپ اٹھائی مگر پھاڑ نہیں سکا۔۔ کر ہی نہیں سکتا تھا ایسا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

آج انہیں آئے پانچواں دن تھا اور مروہ کالج بنک کیے گھومنے نکل گئی تھی۔ دیا سے بھی کہا مگراس نے انکار کر دیا صرف اس لیے کیونکہ اس نے بہت برا خواب دیکھا تھا۔۔سیاہ رات اور سیاہ سانپوں میں گھری وہ اکیلی سب کو مدد کیلیے پکار رہی تھی اور ہمیشہ کی طرح یہ خواب اس کے اعصاب پر بری طرح سوار تھا۔ اس وقت بریک تھی وہ اپنے لاکر میں سامان رکھنے کے لیے جا رہی تھی۔ پریشان اور اپنے خیالوں میں گم کہ سامنے سے بھاگ کر آتے لڑکے سے ٹکرائی جس سے لڑکے کے ہاتھ سے اس کا ٹیبلٹ گرا اور اس کی سکرین ٹوٹ گئی۔۔۔ چھناکے کی آواز گونجی۔

"Hey you.. are you bline or what.. see what have you done... you bloody shit.. you fool.."

(اوتم۔۔ تم اندھی ہو کیا۔۔ دیکھو تم نے کیا کردیا۔۔*گالی۔۔ ) وہ اپنی غلطی نظر انداز کیے چلایا۔۔ وہ اس وقت ایک بہت بڑی اور کھلی راہداری میں ٹھہرے تھے۔ اس لڑکے کی آواز گونجی اور سب متوجہ ہوئے۔۔ کچھ چل دئیے کچھ رک کر دیکھنے لگے۔۔ دیا کو اس لڑکے پر شدید غصہ آیا۔۔

"See I am sorry but it wasn't my fault actually.. you ran to me blindly..."

(دیکھومجھے افسوس ہے، مگر یہ میری غلطی نہیں تھی۔۔ تم اندھوں کیطرح میری طرف بھاگتے ہوئے آئے۔۔) 

دیا نے سنجیدگی سے اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہا۔۔مگر لڑکے نے اس کے بولنے پر اسے دھکا دیا وہ لڑکھڑائی اور گرنے سے بمشکل بچی۔۔ حیرت سے اس جاہل انسان کو دیکھا۔

"So.. you are asking for fight??.... you bitch broke my tablet and you got nerve to stand before me.... you must be insane.. nah? "

(تو۔۔ تم لڑنا چاہتی ہو۔۔؟ تم *گالی نے میرا ٹیبلٹ توڑا اور میرے سامنے کھڑنے کا حوصلہ ہے۔۔  تم ضرور پاگل ہو۔۔۔ نہیں؟)

وہ اب دیا کو مسلسل دھکے دیتا جا رہا تھا، اس کے کے ہاتھ سے بکس ،نوٹس، ڈاٸری او پینز وغیرہ گر کر فرش پر بکھر گئے اور وہ اس سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹتی بری طرح گھبرا گئی، اتنا بد لحاظ لڑکا۔۔؟ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔۔

” دیا وہاں بے وقت بہادری مت دکھانا کوشش کرنا سنبھل کر رہنا۔۔ یہ انگریز قوم زیادہ تر بد لحاظ، خود کو اعلٰی سمجھنے والے اور مغرور ہوتے ہیں۔۔“ دیا کو بابا کی بات اب سمجھ آرہی تھی۔۔ ارد گرد سب سٹوڈنٹس جمع ہونے لگے مگر صرف شو دیکھنے کے لیے شاید یہ ان لوگوں کا مشغلہ ہے۔۔ وہ لڑکا بدتمیزی کیے جا رہا تھا وہ رو دینے والی ہو گئی۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا امریکہ کے کالج میں پڑھنا اتنا عذاب ہوگا کاش وہ اپنے باپ کی بات مان کر پاکستان سے ان انگریزوں میں نا آتی۔۔ اچانک ہجوم میں کھلبلی مچی۔۔

" Prince is coming.. hey S is coming.. S is coming... oh God he is so hot .. "

 ان عجیب چیخوں پر وہ جھک کر اپنا سامان سمیٹنے لگی کہ اچانک کسی نے اس کا بازو  تھام کر اسے کھڑا کیا گرفت   میں نرمی تھی وہ اونچا لمبا سفید برف جیسی رنگت والا لڑکا تھا جو اس کو اپنے سامنے کیے مسکرا رہا تھا اور وہ اپنا بازو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

"My my.. little cute princess why are you in hell ?" 

(پیاری چھوٹی شہزادی۔۔ تم اس عذاب میں کیوں ہو؟) 

وہ جھک کر اسکا چہرہ غور سے دیکھنے لگا تو وہ خوف سے کپکپاتی پیچھے کو سرکی۔۔ مگر اس نے دیا کا بازو پکڑے اسے اپنے پیچھے چھپالیا۔۔ اس کی لمبی قد کی وجہ سے وہ بالکل چھپ گئی تھی۔۔

"And you...

 وہ اب لڑکے کی جانب دیکھ رہا تھا جبکہ ہاتھ میں دیا کانپتا بازو بدستور قید تھا۔

“Dont you dare to touch her again۔۔ in fact۔۔۔۔ why dont you spread my words that this girl is mine and nobody can touch her.." 

(ہمت بھی مت کرنا اس لڑکی کو دوبارہ چھونے کی۔۔ دراصل۔۔۔ تم میرا پیغام کیوں نہیں پھیلا دیتے کہ یہ لڑکی میری ہے اور اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔۔)

اب وہ پیھے مڑ کر اسے دیکھتا مسکرا رہا تھا اور اس کی آنکھوں کی عجیب سی چمک پر وہ بے ہوش ہونے والی ہو گئی تھی۔ اچانک ہی رات والا خواب آنکھوں میں لہرایا۔۔ سیاہ رات۔۔ سیاہ سانپ اور اکیلی وہ۔۔

“ب۔۔بازو۔۔ چھوڑو گھٹیا انسان۔۔“ اس کی سرگوشی جیسی کپکپاتی آواز پر وہ چونکا اور مزید قریب جھک کر اس کا چہرہ دیکھا جہاں اس کے لیے نفرت تھی وہ مسکرایا اور کان کے قریب چہرہ لے گیا۔۔

"I want to hold you in my arms for whole life... so this is what people call love? Or love at first sight?"

(میں ساری عمر تمہیں اپنی بانہوں میں تھامے رکھنا چاہتا ہوں۔۔ تو اسی کو لوگ محبت کہتے ہیں یا پہلی نظر کی محبت؟)

 اس نے سوال کیا اور اس کے غم و غصے سے دہکتے گال کو لبوں سے چھوا۔  اس کی اس حرکت پر اس کی آنکھوں میں خوف سے آنسو بھر آئے۔۔ سالک نےکان کے قریب بولتے نا محسوس سا چھوا تھا مگر باقی دیکھنے والوں کو کچھ اور نظر آیا تھا۔۔ کیا واقعی ایس کی گرل فرینڈ ہے یہ؟ سرگوشیاں بلند ہوئیں۔۔ یہ امریکہ تھا وہ لوگ غیر مسلم تھے ان کے لیے یہ کچھ بھی نا تھا مگر وہ پاکستان سے تھی مسلم تھی زلت سے گڑھ گٸی۔۔

Now get lost .."

سالک پوری شدت سے چلایا۔ ہجوم چھٹنے لگا تھا۔ اللّٰہ نے پردہ اتارنےکی سزا دی ہے؟ وہ دکھ سے بڑبڑا رہی تھی۔۔ سالک نے کچھ سوچ کر اپنے کندھے سے لٹکتے بیگ سے ایک ماسک نکالا اور اسکو پہنا دیا۔۔ وہ شاکڈ سی اسے دیکھنے لگی۔

"Are you confident now??" 

نرمی سے پوچھا وہ بھیگی آنکھوں سے ہاں میں سر ہلا گئی۔۔ وہ آگے بڑھ گیا، دیا کھڑی رہ گئی۔۔

🖤🖤🖤🖤🖤

"It's S.... you must be stew.." 

سالک نے سٹیو نامی اس لمبے چوڑے سیاہ فام سے ہاتھ ملایا۔۔

 ”Oh my bad.. young boy.. you are S..?"

سیاہ فام نے حیرت سے سر ترچھا کر کے اس کم عمر لڑکے کا سر سے پیر تک جائزہ لیا۔ سالک نے ارد گرد نظر گھما کر اس گیراج کو دیکھا جہاں پرانی گاڑیاں اور بائکس بھری پڑی تھیں جگہ بہت پرانی اور گرد و غبار والی تھی۔۔ سالک نے ماسک لگا رکھا تھا۔ 

”تم اس جگہ کی وجہ سے ماسک لگائے ہوئے ہو یا پہچان چھپا رہے ہو۔۔ ہمیں دھوکہ دیا تو پچھتاؤ گے ایس۔۔ میں نے سنا ہے پولیس آفیسرز کے ساتھ دوستی ہے تمہاری۔۔“

 سٹیو نے زرا سائیڈ پر لے جا کر اسےچئیر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی ایک پرانی چئیر پر بیٹھ گیا یہ جگہ کچھ صاف تھی سالک نے ماسک اتارا۔۔ 

”مجھے میرا کام صحیح کرنے والے پسند ہیں پھر چاہے وہ پولیس ہو یا گینگسٹر۔۔ میں غداری پسند نہیں کرتا۔۔“ 

سٹیو نے اس لڑکے کی بلا کی پراعتماد اور سیاہ چمکتی آنکھوں کو دیکھا اور قہقہہ لگایا۔۔ 

” تم ضرور بہادر ہو۔۔ تم جوزف سے پنگا لے رہے ہو۔۔ میرا کچھ نہیں بگڑے گا میرا گینگ اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔۔ لیکن اسے تمہارا نام پتہ چلا تو وہ تمہیں معذور کر دے گا۔۔ کیا تمہارا گینگ ہے کوئی۔۔“ سٹیو نے اسے واضح سمجھایا۔۔ 

”وہ بعد میں دیکھیں گے۔۔ انہوں نے مجھے بے ایمانی سے ریس میں ہرایا میری بائک لینے کے لیے۔۔ کیونکہ وہ دنیا کی مہنگی ترین بائکس میں سے ایک ہے۔ انہوں نے غلط کیا، تم بس اس بائک کو اتنا توڑنا کہ جڑنے کے قابل نا رہے۔۔“ 

سالک کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی اسے بس بدلہ لینا تھا۔۔ 

” تمہارا کام ہو جائے گا، اور اگر تم چاہو تو میں یہ کام بنا پیسے کے کروں گا بدلے میں تم میری گینگ جوائن کرو۔۔ تم پولیس آفیسرز کے قریب ہو ہمیں فائدہ ہوگا۔۔“  

سٹیو نے فوری آفر دی۔۔

 ”میں اچھا فائٹر نہیں نا میں سارجنٹ مارسیل کا دوست ہوں۔۔ تم میرا کام کرو، رقم مل جائے گی۔۔“ سالک اٹھ کھڑا ہوا، سٹیو نے کندھے اچکائے۔۔

”اوہ ہاں سٹیو۔۔ “ سالک جاتے جاتے رک کر مڑا۔۔

 ”میں کبھی تم پر احسان کروں گا اور اس احسان کے بدلے تمہیں تمہاری گینگ کے ساتھ خرید سکتا ہوں، سنا ہے جرائم کی دنیا میں بھی اپنے محسن کی وفاداری مرتے دم تک نبھائی جاتی ہے۔۔“ سالک رخ موڑ کر مسکرایا تھا اور اس کی سیاہ چمکتی آنکھوں نے سٹیو کو حیران کیا، وہ ہرگز انیس سال کا لڑکا نہیں لگا تھا۔۔

"Oh you are dvil S..you are dangerous..." 

سٹیو اس دراز قد کم عمر لڑکے کی پراعتماد چال دیکھتا سوچ رہا تھا۔۔

💜💜💜💜

زایان نے ببلی(ملازمہ)کی کال اٹینڈ کی اور ٹیرس میں رکھی ایزی چئیر پر بیٹھا۔۔ 

”ہاں بولو کچھ خاص ملا؟“ اس نے بے تابی سے پوچھا۔۔ 

”جی صاب۔۔“ ببلی پرجوش سی بولی وہ متوجہ ہوا۔۔ 

”صاب عزہ بی بی(زایان کی منگیتر) کا تعلیمی ریکارڈ بہت شاندار ہے اب تک کی ہر کلاس میں پوزیشن لیتی رہیں۔۔ گھر کے کاموں میں ماہر ہیں جی۔۔ ہاتھ میں اتنا ذائقہ ہے کہ کھاتے جاؤ دل نا بھرے۔۔ سگھڑ اورصفائی پسند بھی بہت ہیں۔۔ پیاری اتنی ہیں جی کہ جو رنگ پہنیں جچتا ہے۔۔  اتنا دھیما اور میٹھا بولتی ہیں کہ سرور آجاتا ہے اور باتیں اتنی اچھی کرتی ہیں جی، بے حد نرم مزاج اور شرمیلی سی۔۔“

ببلی کی زور و شور تقریر نے زایان کا دماغ گھما دیا۔۔ 

”یہ اصلی لڑکی ہے ناں؟ یا کسی ڈرامے کی ہیروئین کی بات کر رہی ہو۔۔ بڑی پرفیکٹ ہے بھئی کہ ببلی میڈم اپنا مشن بھلائے تعریفوں کے پل باندھ رہی ہیں۔۔“  زایان نے لفظ چبا چبا کر کہا۔۔ اسے سچ میں دنیا گھومتی محسوس ہو رہی تھی اس کے پاس تو انکار کی وجہ ہی نہیں بچ رہی تھی۔ 

”زایان صاب جی خدا کا واسطہ منگنی نا توڑیں۔۔ بڑی ہیرا لڑکی ہے صاب۔۔“  ببلی کے التجائیہ لہجے پر وہ طیش میں آیا۔۔ 

” ہیرے کا میں نے اچار نہیں ڈالنا۔۔ میں زایان ہوں جیولر نہیں۔۔ کوئی خامی ہے تو بتاؤ۔۔ “ وہ دبا دبا سا چلایا۔ ببلی چپ ہو گئی۔۔ 

”صاب خامی نہیں مل رہی۔۔ کڑی محنت کر رہی ہوں، برائی نہیں مل رہی کوئی۔۔ وہ تو ملازموں سے بھی اچھے سے بات کرتی ہیں۔۔“  ببلی نے بے چارگی سے کہا۔۔ 

”تم ہو ہی ناکارہ بندہ۔۔ مجھے تمیزدار لڑکیاں نہیں پسند۔۔ مجھے بدتمیز، بد اخلاق، زبان دراز اور بالکل نا شرمانے والی لڑکی چاہئیے۔۔“ وہ بے اختیار سا ہالہ کی خوبیاں (جو اس کے سامنے آئی تھیں) بیان کرتا چلا گیا۔ ببلی کو یقین ہو گیا زایان صاب کے دماغ کا کوئی پرزہ ڈھیلا ہو چکا ہے جو یقیناً داجان سیٹ کر لیں گے۔۔ 

زایان کال بند کرتا اچانک جیسے ہوش میں آیا۔۔ یہ کیا کہہ گیا میں ؟ یہ کیسی لڑکی کہہ رہا ہوں ؟ اففف زایان پاگل ہو گیا ہے کیا؟ یہ کیا بکوس کی ببلی سے؟ وہ خو کو لعن طعن کرنے لگا۔۔  

💜💜💜

S forgive me please.. Do whatever you want to forgive me.. but please..."

(ایس مجھے معاف کر دو پلیز۔۔ مجھے معاف کرنے کے لیے جو چاہو کرو۔۔ لیکن پلیز۔۔) 

جورڈن شرمندگی سے سر جھکائے اس کے سامنے آیا اور سالک کو ان دوستوں کی وجہ سے اپنے وہ سب دن ضائع ہونے کا دکھ یاد آیا جب وہ پولیس اور اپنے باپ کی نگرانی میں ناکارہ سا ہو گیا تھا۔۔ سالک نے گراؤنڈ میں پھیلے سٹوڈنٹس کو دیکھا اور پھر جے کو۔۔ اور ایک زوردار پنچ اس کے منہ پر دے مارا جے بری طرح لڑکھڑایا۔۔ لڑکیوں کی چیخیں بلند ہوئیں اور سب جمع ہونے لگے۔۔ 

"You just want your forgivness?... dont you feel sorry towards me...? I trusted you both pieces of trashes and here I am... a loser who suffer a whole month for murder and rape case... "

(تمہیں بس اپنی معافی چاہئیے؟ تم میرے افسوس محسوس نہیں کرتے؟  میں نے تم دونوں *گالی پر اعتبار کیا اور یہ ہوں میں۔۔ ایک لوزر جس نے پورا مہینہ قتل اور زیادتی کے کیس کی وجہ سے تکلیف اٹھائی۔۔)

سالک سپاٹ لہجے میں بول رہا تھا اس کے الفاظ میں غصہ تھا انداز سرد تھا۔۔ جورڈن اب بھی سر جھکائے رہا اسے پتہ تھا سالک سے معافی ملنا آسان نہیں وہ اتنا رحمدل ہرگز نہیں تھا۔۔ ارد گرد دائرے میں کھڑے سٹوڈنٹس میں سرگوشیاں بلند ہونے لگیں۔۔ مروہ اور دیا نے حیرت سے اس گورے لڑکے کا نیا روپ دیکھا۔۔ سالک نے جھک کر اس کا گریبان پکڑا اور دوسرا پنچ دے مارا پھر کھڑے ہو کر بال سنوارتے بڑبڑایا۔۔

" آئی شُڈ کل یو بوتھ فار گڈ۔۔۔

“Ohh you ruined my day.."

( اوہ تم نے میرا دن خراب کر دیا ۔۔ ) 

وہ سر جھٹک کر زور سے چلایا اور پلٹا، نظر سامنے سب کے درمیان اسی کا دیا ہوا ماسک لگائے دیالہ پر جا ٹھہری، وہ اس کی طرف بڑھا۔

"Hey D... say hi when we see eachother... don't try to ignore me.."

(ڈی۔۔ جب ہم ایک دوسرے سے ملیں ہائے کہا کرو۔۔ مجھے نظرانداز کرنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔) 

اعتماد سے کھڑی دیا کو دیکھ کر بولا تو لڑکیاں حسدو جلن سے دیا کو گھورنے لگیں۔۔

"I don't wanna ruin my everyday.."

(میں اپنا ہر دن خراب نہیں کرنا چاہتی۔۔)

 وہ لاپروائی سے کندھے اچکا کر بولی اور ہجوم سے نکلتی چلی گئی۔۔ سالک حیران رہ گیا یہ وہی لڑکی ہے جو کچھ روز پہلے ڈری سہمی سب کے درمیان کھڑی تھی؟ وہ ہنسا اور نفی میں سر ہلایا۔۔ 

(you'll regret D.. am not good boy)

(تم پچھتاؤ گی ڈی۔۔ میں اچھا لڑکا نہیں ہوں۔۔ ) 

💜💜💜💜

”تم نے کس کی اجازت سے جاب شروع کی؟“ 

بابا نےخفگی و پریشانی سے دیا کو ڈپٹا۔۔

”یہ ضروری ہے بابا اپنے اخراجات پورے کروں گی۔۔“  دیا نے سنجیدگی سے کہا۔۔ وہ واقعی اپنے باپ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی۔۔ 

” دیا تم بس پڑھائی کرو اور واپس آؤ۔۔ تمہیں یہاں سے اسی شرط پر بھیجا تھا ناں؟ کالج اور پھر اپنے ڈورم میں۔۔ اور تم کہیں بھی نہیں جاؤ گی۔۔“   خادم صاحب نے بے چینی سے کہا انہیں اس کی نوکری کا سن کر فکر ہوئی۔ اب وہ باہر جایا کرے گی؟ 

"بابا پلیز.. سب جاب کرتے ہیں اور میں تو بس ایک فلاور شاپ پر کام کروں گی۔۔ وہاں کی عورت بہت اچھی ہے، ماحول اچھا ہے۔۔ کالج کے پاس ایک سٹاپ ہے وہاں سے بس پر بیٹھ کر دو سٹاپ کے بعد ہی اتر کر کچھ واکنگ ڈسٹنس پر میری شاپ ہے۔۔“  دیا نے پوری تفصیل سے بتایا اور انہیں ریلیکس کرنا چاہا۔ 

” دیا تم بہت ضدی ہو۔۔ مجھے فکر ستاتی رہے گی۔۔ اپنا بہت سارا خیال رکھنا اور کسی سے بدتمیزی مت کرنا۔۔۔“ وہ لاچاری سے بولتے اسے سمجھانے لگے۔۔ 

(ہالہ کی بچی نے بابا کو بتایا ہی کیوں۔۔) دیا بابا کی فکر پر دانت پیستی سوچ رہی تھی۔۔  

"آپ اللّٰہ پر اور اپنی بیٹی پر یقین رکھیں کچھ نہیں ہو گا، میں بہت سنبھل کر رہتی ہوں۔۔“ دیا نے انہیں یقین دلایا وہ فکر مند تھے مگر بے بس تھے، خاموش ہوگئے۔

💜💜💜 

وہ ایک ہاتھ جینز کی پاکٹ میں اور دوسرے میں موبائل کی سکرین پر نظر رکھے ارد گرد سے بے نیاز چلتا کلب کی بیک سٹریٹ میں آگیا تھا جب ایک ویڈیو ملی۔ وہ رکا ویڈیو اوپن کی اور پرشوق نظروں سے دیکھنے لگا۔۔

اسکا پیچھا کرتا بندہ رک کر اسکی پشت کو کینہ توز نظروں سے دیکھنے لگا۔۔ سالک نے آنکھیں بند کر کے گہرا سانس بھرا اور جوزف کی حالت تصور کر کے ہنسا۔۔

(his bike is not ordinary.. his speed is unbelievable.. he is unbeatable.. wtf.. 

اسکی بائک عام نہیں ہے۔۔ اسکی رفتار یقین سے باہر ہے۔۔ اسکو ہرانا مشکل ہے۔۔" جوزف کا بندہ بولا تھا۔

"Ask him to sell us his bike when race is done.. I'll give him blank check.. convince him.."

"جب ریس ختم ہو اسے کہو بائک ہمیں بیچ دے۔۔ میں اسے بلینک چیک دونگا، اسے قائل کرو۔۔“ جوزف نے شان بے نیازی سے کہا اور اس کے بندے نے نفی میں سر ہلایا۔۔ 

"This isn't easy.. he'd never gave his things to other .. he is very tough to convince.. he just do what he wants..

یہ آسان نہیں ہے۔۔ وہ کبھی اپنی چیز دوسروں کو نہیں دیتا۔۔ اسے کسی بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہے۔۔ وہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔۔) 

 جوزف کے بندے نے اس کی ساری معلومات لے رکھی تھی۔۔ "اور جوزف کو جو پسند آجائے وہ چھین بھی سکتا ہے۔۔" جوزف نے کہہ کر اپنے اس بندے کو کچھ سمجھایا وہ سر ہلا کر چل پڑا، آخری راؤنڈ تھا جوزف نے اپنے بندے کو اور اس بندے نے اپنے سکھائے ہوئے بائکر کو اشارہ دیا۔

اس بائکر نے آخری راؤنڈ میں روڈ کے درمیان پہنچ کر ایک شارٹ کٹ لے لیا اور سالک سے پانچ منٹ پہلے پہنچ گیا۔

Am not blind Mr.Joseph.. He did take the short cut.. Am sure he wasn't behind me nor forth۔۔"

(میں اندھا نہیں ہوں مسٹر جوزف۔۔ اس نے شارٹ کٹ لیا تھا۔۔ مجھے یقین ہے یہ نا میرے پیچھے تھا نا آگے۔۔)

 سالک چلایا رھا مگر وہ سب مکر گئے، سالک نے بے بسی سے سب کو دیکھا تھا۔۔ 

You may go now and leave your bike here.. loser have to lose his bike...hey dont worry.. I'll use this bike for good..

  )تم اب جا سکتے ہو اور اپنی بائک یہاں چھوڑ جانا۔۔ ہارنے والے کو بائک دینا پڑتی ہے۔۔ او پریشان مت ہو میں اس کا اچھا استعمال کروں گا۔۔)

جوزف نے قہقہہ لگا کر کہا تھا اور سالک بائک کی چابی پھینک کر نکل آیا تھا مگر بدلہ لنے کی قسم کھا کر آیا تھا 

اور پھر اس نے جوزف کے مخالف سٹیو کو کانٹیکٹ کیا تھا جس نے آج ہی صبح کی بنائی ویڈیو، سالک کے پیسے بھیجنے پر اسے ثبوت کے طور پر سینڈ کی تھی)

 سالک نے ایک نظر پھر سے پرزوں میں ٹوٹی بایک کی ویڈیو دیکھی اور اس بار زرا افسردگی سے مسکرایا۔ 

وہ اس کی فیورٹ بائک تھی، موبائل پاکٹ میں رکھا۔۔ واپس جانے کے لیے پلٹا کہ سامنے ایک سفید فارم جس کے کندھے پر ایگل کا ٹیٹو بنا تھا، کھڑا تھا۔ سالک رکا۔۔

"You dare to challenge joseph and he'll let you go? are you mad man.."

(تم نے جوزف کو چیلنج کرنے کی جرأت کی اور وہ تمہیں جانے دےگا۔۔؟ تم پاگل ہو۔۔۔)

وہ گورا آگے بڑھا۔ سالک نے یہاں وہاں دیکھا کوئی بھی نا تھا اور بیک سٹریٹ ہونے کی وجہ سے سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نہیں لگا تھا۔۔ 

"There is no one to interfere.. just you and me..

سالک کو یہاں وہاں دیکھتا پا کر وہ ہنس کر بولا اور سالک نے ایک نظر اسے اور ایک نظر ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھا۔ گورا اس کی طرف بڑھ کر ایک پنچ اسکے منہ پر مارنے لگا مگر اسکا پنچ سالک کے چہرے سے صرف دو انگلی دور ٹھہر گیا اس نے آنکھیں نیچی کر کے اپنی گرن پر دیکھا جہاں سالک نے بالکل سیدھی انگلیاں کر کے انکی پوریں اسکی گردن پر ٹکا رکھی تھیں۔۔ اس نے سالک کو دیکھا تو وہ مسکرایا اور ہاتھ پیچھے کر کے ایک جھٹکے سے اس کی گردن پر چوٹ ماری۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔۔ 

یہ سب چند لمحوں میں ہوا تھا وہ گورا ابھی تک بے یقین تھا اسے بتایا گیا تھا لڑکا بالکل فائٹ نہیں جانتا اور وہ اکیلا کافی ہوگا۔۔ سالک ایک بار پھر اسکے سنبھلنے سے پہلے تیزی سے آگے بڑھا اور ایک ٹانگ اسکی ناک پر ماری، اس نے دونوں ہاتھ خون اگلتی ناک پر رکھ کر درد برداشت کیا کہ سالک کی دوسری ٹانگ اسکی بغل پر زور کی ضرب لگا گئی۔ وہ درد سے نڈھال ہو کر زمین پر گرا۔۔ اور بجلی کی رفتار سے اسے زیر کیے سالک زرا آگے بڑھا اور اسکی بازو ایک ہاتھ سے سیدھی کر کے دوسری ہاتھ کو بالکل سیدھا کر کے اتنے زور سے مارا کہ اسکا بازو ٹوٹ گیا وہ درد سے چیخا۔۔ سالک نے زرا پیچھے ہٹ کر ہاتھ پر بندھی گھڑی ہینڈواچ پر ٹاٸم دیکھا 

I can beat a person in 2 minuets.. good job salik.. 

وہ خود کو داد دیتا سرہاں میں ہلانے لگا۔۔ اسکے نانا کی دی ٹریننگ کام آگئی تھی۔

”تمہیں بتایا گیا ہو گا میں فائٹ نہیں جانتا۔۔ یہ سچ ہے مگر میں کسی ایک انسان کو ہرانے کے بیسک سکِلز تو جانتا ہی ہوں۔۔ تمہاری ہر اس نازک جگہ پر وار کیا جس کے درد سے تم اب کچھ دیر ہلنے کے قابل نہیں رہو گے۔۔ دو منٹ اور تم زمین پر۔۔ اس ٹوٹی بازو کا علاج جوزف نا کروائے تو میرے پاس آجانا۔“  وہ اپنی بات مکمل کرتا مسکرا کر آگے چل پڑا۔ سلکی گولڈن براؤن بال ماتھے پر بکھر گئے تھے۔۔

وہ روڈ پر آکر ٹیکسی کی تلاش میں نظر گھماتا چہرے پر ”شرافت اور معصومیت“ سجائے نوعمر کالج بوائے لگ رہا تھا۔

💜💜💜💜

وہ پیپر دے کر فارغ ہوتی کالج میں آدھے گھنٹے سے بابا کا انتظار کرتی تھک گئی مگر وہ نا آئے۔ گرمی اور صبح سے خالی پیٹ ہونے کی وجہ سے اس کی طبیعت عجیب سی ہونے لگی۔۔ وہاں خادم صاحب دفتر میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے فارس کو کال کر کے ہالہ کو لانے کا بول چکے تھے جسے وہ ہمیشہ کی طرح ان کے سامنے ”جی،جی“ کر کے بعد میں بھول چکا تھا۔۔ 

وہ تھک کر کالج سے باہر نکلی آہستگی سے قدم اٹھاتی ٹیکسی یا آٹو کے لیے ساتھ ساتھ نظر گھما رہی تھی۔۔ 

سامنے سے ایک آٹو خالی نظر آبگیا وہ بھی ہالہ کے پاس آ کر رکا وہ ایڈریس سمجھا کر بیٹھ گئی۔ چکراتے سر کے ساتھ آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی جب کچھ ہوش آیا تو آنکھیں کھول کر سیدھی ہوئی۔ آٹو ڈرائیور کے سامنے لگے مرر پر نظر گئی تو اس کا پورا وجود سن ہوا۔ 

وہ آٹو والا عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ہالہ نے بے اختیار نظر گھما کر باہر دیکھا تو ٹھٹکی راستہ بھی انجان تھا وہ لب کچلتی پریشانی سے باہر دیکھتی تیزی سے کچھ سوچنے لگی۔۔ آٹو کے قریب چلتی گاڑی پر نظر پڑی تو اس نے اپنا ایک پین اس گاڑی کے سیاہ شیشے پر زور سے دے مارا آٹو والا چونکا گاڑی کے بھی ٹائر چرچرائے اور سپیڈ ہلکی ہوئی۔۔

” میرا بھائی آگیا ہے بس مجھے اتار دیں۔۔“  ہالہ نے اعتماد سے آٹو والے سے جھوٹ بولا اور وہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھتا مجبوراً رکا تھا۔۔ ہالہ تیزی سے اتری گاڑی روک کر غصے سے بھرا زایان باہر نکل کر سامنے آیا تو ہالہ کو دیکھ کر چونکا۔۔ 

” اب تم راستوں پر میری گاڑی کو پتھر مارنے کا مطلب بتا دو۔۔ میں خود سے کچھ کہوں گا تو تمہیں پھر سے چھیڑ چھاڑ لگے گی۔۔“ زایان اسے دیکھتے ہی شروع ہوا۔۔ 

ہالہ گہرے گہرے سانس بھرتی روڈ پر بیٹھ گئی۔ اگر وہ کچھ نا کر پاتی اور اگر آج کچھ ہو جاتا؟ اس سوچ سے ہی ٹانگیں بے جان ہونے لگی تھیں۔۔ پہلے ہی طبیعت خراب تھی، پھر یہ حادثہ جو ہوتے ہوتے رکا تھا۔۔ زایان پریشانی سے آگے بڑھا۔۔ 

” کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟ اور۔۔ آٹو سے کیوں اتریں؟ میری گاڑی کیوں رکوائی؟ کچھ ہوا ہے؟“  اس کی حالت پر زایان کا زہن بیدار ہوا اور گڑبڑ محسوس کرتا اس کے سامنے آیا۔۔ ہالہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تو آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں،۔ زایان کا دل رک گیا تھا جیسے۔۔ 

” کبھی زندگی میں کوئی نیکی کی ہے؟“  بھرائی آنکھوں اور نم لہجے میں کیا سوال۔۔ زایان نے اسے دیکھا جو اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔ 

” ن۔۔نہیں۔۔ ہ۔۔ہاں۔ پتہ نہیں۔۔ کیوں؟“ زایان اس سوال پر ہڑبڑایا اور الجھ کر اسے دیکھا۔۔ 

”آپکی شکل بتا رہی ہے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا۔۔ آج میری وجہ سے موقع مل رہا ہے پلیز مجھے گھر پہنچا دیں۔۔“ 

آنکھیں رگڑتی روہانسی آواز میں بولتی زایان کو زہر سے بھی ذیادہ بری لگی۔۔ 

”میری زندگی پر احسان کیا ہے تم نے۔۔ یقین مانو میں تو بس آج ہی اللّٰہ کو منہ دکھانے کے قابل ہو پاؤں گا۔۔ آؤ میری گاڑی کو خدمت کاموقع دو۔۔۔“  زایان لفظ چباتا طنزیہ لہجے میں بولتے ہوئے گاڑی کا ڈور کھول کر اسے گھورنے لگا۔۔ 

وہ ان سنا کرتی جھجھک کر اسکی گاڑی میں بیٹھی۔۔ زایان نے کچھ آگے سپر سٹور سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لیں۔۔ ایک بوتل جھپٹ کر لیتی ہالہ اگلے لمحے رکی وہ پردہ کے ساتھ پانی نہیں پی سکتی تھی۔۔ رونی صورت سے بوتل کو دیکھا پھر زایان کو جو مزے سے  بوتل منہ سے لگائے پانی پی رہا تھا۔۔ 

”میں جانتا ہوں کوئی تو ایشو ہوا ہے، تم نے آخر آٹو کیسے رکوایا۔۔؟“  زایان نے بوتل کا ڈھکن بند کرتے گاڑی سٹارٹ کی اور پانی کی بوتل کو تکتی ہالہ سے مسلسل زہن میں چبھتا سوال کیا۔۔ 

”میں نے کہا میرا بھائی آگیا ہے۔ اب مجھے اتار دے۔۔“

 ہالہ کے جواب پر اسے جھٹکا لگا۔۔ 

”بھائی۔۔“ دانت پیس کر بولا۔۔ 

” تو کیا باپ کہتی؟۔۔۔اچھا مجھے پانی پینا ہے، گاڑی روکو اور باہر جاؤ تھوڑی دیر کیلیے۔۔“ وہ اسے گھورتی اچانک نرم پڑی۔۔ 

”میں فارغ نہیں ہوں تمہارے نخرے اٹھاؤں۔۔ گھر جا کر پی لینا۔۔ اب ایک لفظ بھی مت بولنا۔۔“  وہ بھائی کا لفظ سنتے ہی رُوڈ ہوا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھائی۔۔ 

”کوئی بات نہیں ہالہ۔۔ کسی کسی بدنصیب کو اللّٰہ ایک دن میں دو نیکیوں کی توفیق نہیں دیتا۔۔“  وہ سر ہلاتی بڑبڑائی اور اس کی آواز اتنی ہلکی بھی نا تھی کہ زایان نا سن سکتا۔ وہ ضبط کر گیا۔۔ موڈ آف تھا بری طرح۔۔  اس کے گھر کے پاس والے روڈ پر گاڑی جھٹکے سے روکی۔۔ 

”تم نا اپنی بہادری یا اپنے گھر تک محدود رکھو یا مجھ پر جھاڑ کر ثواب کما لیا کرو مگر آئندہ اکیلے سفر مت کرنا۔۔“ اس کے اترنے سے پہلے زایان نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ خاموشی سے گاڑی سے اتر کر ” تھینکس۔۔“ بولی مگر وہ بنا کچھ کہے گاڑی ایک جھٹکے سے چلاتا سپیڈ بڑھا گیا۔ اور وہ گلی میں گھس گئی۔۔

” دیا ٹھیک کہتی ہے بابا سے چھپانا فضول ہے۔۔“  آج وہ بابا کو فارس کا کارنامہ ضرور بتانے والی تھی۔۔

💜💜💜💜💜

مروہ  کچھ دن سے اس کو اگنور کر رہی تھی کہ سالک اور اسکے درمیان جو بھی ہے دیا اس سے چھپا رہی ہے دیا کی لاکھ وضاحتوں پر بھی وہ منہ پھلائے پھر رہی تھی۔ اب بھی لاکر میں سامان رکھتے اس کی نظر مروہ کے لاکر پر پڑی اسے کنفرم تو نا تھا مگر یہیں مروہ کا لاکر تھا ایک لاکر پر وہ رک گئی۔۔ 

” یہی ہو گا۔۔“ اور (sticky notes) پر مروہ کو یک لفظی میسج لکھتی جا رہی تھی۔۔ 

" unreliable... disloyal... rude.. hate u " 

بہت سارے نوٹ لکھ کر اس نے مروہ کا لاکر دیکھا جس پر ”mary“ لکھا تھا اور وہاں چپکا دئیے کیونکہ مروہ یہاں آکر خود کو میری کہلواتی تھی۔ وہ شریر ہنسی دباتی مڑی۔ سامنے چار لڑکیاں کھڑی تھیں۔ جو اس کی سینئیر تھیں۔

"what did you write on my locker?"

ان میں ایک براؤن بالوں والی بولی۔ دیا نے چونک کر انہیں دیکھا۔

” مطلب یہ مروہ کا لاکر نہیں؟ اوہ شٹ۔۔“  پریشانی سے مڑی مگر اس سے پہلے کے نوٹ ہٹاتی انہوں نے ہاتھ پکڑ لیا۔

 ایک لڑکی وہ نوٹ پڑھ پڑھ کر اتارتی گئی اور براؤن بالوں والی میری کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔

"How dare you bitch.." 

وہ پوری قوت سے چلائی اور اس چلانے کی آدھی وجہ اس کا پرنس کی گرل فرینڈ ہونا تھا۔۔ 

" oh mary.. am sorry I just.. " 

دیا نے وضاحت دینا چاہی پر اس نے دھکا دے کر اسے لاکر سے لگایا۔ دیا نے خود کو بچانے کے لیے ذہن لڑانا شروع کر دیا تھا۔۔ میری نے اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا کہ دیا بول اٹھی۔

"S told me to do this.. I dunno why but he wanted your attention.. I mean its seems like he has crush on you.." 

(ایس نے مجھے ایسا کرنے کو کہا تھا۔۔ میں نہیں جانتی کیوں پر وہ تمہاری توجہ چاہتا تھا۔۔ میرا مطلب ایسا لگتا ہے اس کا تم پر کرش ہے..) 

دیا نے عادت کے مطابق الزام لگاتے کہانی بنائی اور ایس کا نام اس لیے لیا کیونکہ وہ واحد تھا جس کا اسے یقین تھا میری برا نہیں منائے گی۔ میری اور اس کی دوستوں کے علاوہ اردگرد تمام سٹوڈنٹس ٹھٹک گئے۔۔ 

دیا کا سانس بحال ہوا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔۔

“since when?"   (کب سے؟)

سالک سامنے آیا، ماتھے پر بال بکھرے تھے آنکھوں میں غصہ تھا۔۔ میری کی نظریں اس پر ٹکی تھیں۔۔ سب نے اس کے غصہ پر قدم پیچھے کر لیے۔۔ ڈی اب گئی۔۔

"Since when I gave you these kind of tasks.. since when I have crush on xyz and you are my massenger?"

(کب میں نے تمہیں اس قسم کے کام دئیے۔۔ کب سے میرا ایکس وائی زی پر کرش ہے اور تم میری پیغام رساں ہو۔۔؟) 

وہ پوری شدت سے چلایا۔۔ دیا کا جھوٹ اسے شدید غصہ دلا گیا تھا۔۔  سب حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ ایس اپنی ”گرل فرینڈ“ پر اتنا غصہ کر رہا ہے؟ 

" since you told everyone I am your girl.. you were very sure then why bother now...?"

(تم نے سب کو بتایا تھا میں تمہاری ہوں اس کے بعد سے۔۔ تم کافی پُر یقین تھے۔ اب کیا تنگی ہے۔) 

دیا نے ہمت کر کے جواب دیا بلکہ صاف جتایا تھا اسے۔۔ تپتی آنکھوں سے اسے گھورتا سالک آگے بڑھ کر عین اسکے سامنے آیا۔۔ اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اونچا کیا سب کو دکھانے کے لیے۔۔

"This girl... is no longer belongs to me"

(یہ لڑکی۔۔۔ اب میری نہیں ہے۔۔) 

سالک نے کہہ کر جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا۔۔

"And from now on you'll pay for your words.."

( اور اب سے تم اپنے الفاظ کی سزا جھیلو گی۔۔) 

وہ اس کے انداز پر زرا سا گھبراٸئی اور وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔ اب کوئی اسے ایس کی گرل فرینڈ کے طور پر ٹریٹ نہیں کرنے والا تھا۔۔

💜💜💜

" بابا آپ آئندہ بزی ہوں یا کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے ہی انفارم کیا کریں۔۔ فارس بھائی ہر بار اسی طرح کرتے ہیں۔۔ غیر ذمہ داری دکھاتے ہیں اور مجھے ذلیل ہونا پڑتا ہے۔۔ “ ہالہ کچن میں کھانا بناتی اونچی آواز میں بولے جا رہی تھی۔۔ اور باہر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے خادم صاحب پیشانی مسلتے تفکر سے اسے سن رہے تھے۔۔ 

”ہاسپٹل میں بھی اس روز میں ان کا ویٹ کرتی رہی وہ لیٹ کرتے کرتے شام کر گئے اور مجھے اکیلے آنا پڑا۔۔ کل پیپر سے واپسی پر بھی اسی طرح خود آنا پڑا اتنی گرمی تھی اور۔۔۔“  ڈوپٹہ کندھے پر رکھے پونی جھلاتی، گرمی سے گلابی پڑتے چہرے سے پسینہ صاف کرتی باہر نکلی تو سامنے ہی ٹی وی لاؤنج کے دروازے پر اکرام کو کھڑے پایا۔۔ 

”ا۔۔ السلام علیکم۔۔“  بری طرح ہڑبڑا کر اس نے ڈوپٹہ اچھے سے لیتے سلام کیا اور تیزی سے کچن میں دوبارہ گھس گئی۔۔ تائی نے ہر وقت اکرام کے حساب سے اسے اٹھنا بیٹھنا سکھایا تھا اب تو وہ اس کے سامنے آتے بھی گھبراتی تھی۔۔ ادھر اس کے سلام پر خادم صاحب چونکے اور مڑ کر دیکھا۔ 

”السلام علیکم چچا جان۔۔“  اکرام آگے بڑھ کر ان سے ملا۔۔ 

ہالہ چائے پانی کا انتظام کر رہی تھی اور ان کی باتوں کی آواز بھی سن رہی تھی جب اچانک اکرام بولا۔۔

” چچا جان آئندہ کوئی مسئلہ ہو مجھے بتائیے گا فارس کی بجائے۔۔۔ مجھے پتہ ہے آپ امی کی وجہ سے ایوائڈ کرتے ہیں مگر میں سنبھال لوں گا امی کو۔۔ فارس لاپرواہ ہے اور آج کل زمانہ اتنا خراب ہے لڑکی کا اکیلے آنا جانا بالکل سہی نہیں۔۔“  اکرام کی سنجیدہ فکر بھری آواز پر ہالہ کا دل دھڑکا۔ اسے ایسے ہی سنجیدہ اور خیال رکھنے والے مرد پسند تھے۔۔ 

”پتہ نہیں دیا کو اکرام کیوں نہیں پسند۔۔ خیر نا سہی وہ دیا کے نہیں میرے منگیتر ہیں تو مجھے پسند ہیں اتنا بہت ہے۔۔“ ٹرے سیٹ کرتی ہالہ نے سوچا اس کے چہرے پر اکرام کے نام کی دلکش سی مسکان آئی تھی۔۔

💜💜💜

وہ اکیلی بیٹھی بک پڑھ رہی تھی۔ شاپ اونر روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر پاس گئی تھی۔ اس نے بک بند کی اور واٹر سپرے کی بوتل اٹھا کر پھولوں پر پانی کا سپرے کرنے لگی جب دروازہ کھول کر کوئی داخل ہوا اس نے جلدی سے بوتل رکھی اور کاؤنٹر کیطرف بڑھی۔

"Yess any service sir.."

(جی کوئی خدمت جناب۔۔)

اس نے مسکرا کر پوچھتے سر اٹھایا تو ساکت ہوئی۔ سامنے اپنے گلاسز اتارتا ایس کھڑا تھا۔۔ وہ اطراف میں پھولوں کو دیکھ رہا تھا۔۔

"I would like to have a garland..."

( garland..  خاص موقع پر دیا جانے والا گلدستہ) 

وہ سنجیدگی سے بولتا اسے صاف سیلز گرل کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا. وہ بھی سنبھل کر مسکرائی۔

”شیور سر۔۔“ وہ مڑ کر پھول چنتی گلدستہ بنانے لگی۔۔

"Umm I think leave garland, a simple  bouquet will go,.. and please don't add white lily.."

(امم۔۔ میرے خیال سے یہ گلدستہ چھوڑو سادہ بوکے چلے گا۔۔ اور پلیز وائٹ للی مت ڈالنا۔۔) 

جب وہ اس کا کہا پہلا گلدستہ تقریباً تیار کر چکی تو وہ اچانک بولا۔ انداز اس بار بھی اجنبی اور سنجیدہ تھا اس نے گہری سانس بھری۔

” اوکے سر، وائے ناٹ۔۔“ ایک بار پھر مسکرا کر گلدستہ کھولنے لگی۔۔ ( ہونہہ کالج میں ایک ہفتہ میں سامنے نہیں آئی تو یہاں آگیا واہ۔۔)

بوکے تیار کرتی وہ اردو میں بڑبڑانے لگی اور مڑ کر اسے دیکھا جو موبائل پر مصروف کھڑا تھا۔ وہ سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔۔ بوکے تیار کر کے کاؤنٹر پر لائی تو وہ بوکے کو دیکھتا کچھ متذبذب سا لگا۔ دیا اچھےسے ریپر چڑھاتی چور نظروں اسے بھی دیکھ رہی تھی جب وہ پھر سے بول اٹھا۔۔

 "Ohh no its too much.. One rose is enough.."

(اوہ نہیں یہ بہت زیادہ ہو گیا۔۔ ایک گلاب بہت ہے) 

دیا اسکی بات پر جل بھن گئی، وہ اسے یہاں ایز کسٹمر ٹریٹ کرنے پر مجبور تھی سو ضبط کر گئی۔۔ 

(لڑکیاں پٹانی ہیں پر پیسہ لگاتے موت پڑ رہی ہے، انا آڑے آرہی ہے نواب کے۔۔ )  وہ بوکے کھولتی اسی طرح اردو میں اسے کوسنے لگی اور وہ سب بخوبی سن اور سمجھ رہا تھا مگر انجان بنا رہا۔۔ ایک گلاب کی کلی لا کر اس کے سامنے کاؤنٹر پر پٹخی۔۔ 

” اینی تھنگ ایلس سر۔۔ “ بمشکل مسکرا کر پوچھتے ہوئے اسے دیکھا جو تمام وقت موبائل پر مصروف رہا تھا۔ اس کے سوال پر چونکا اور کاؤنٹر کی طرف دیکھا۔۔

"Its nice..wrap it in crystel sheet properly and Do hurry..am gettin late"

(یہ اچھا ہے۔۔ اسے شیٹ میں اچھے سے کور کرو اور جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔)

 وہ بےزار نظر دیا پر ڈالتا سنجیدگی سے بولا تو وہ سر ہلا کر صبر کے گھونٹ بھرتی سفید شیٹ چڑھا کر ربن باندھنے لگی۔۔ 

” ہاؤ مچ۔۔“ سالک نے والٹ نکالتے پوچھا دیا نے ربن باندھتے قیمت بتائی۔۔

"I'll pay with card.." 

قیمت پوچھ کر وہ کارڈ نکال کر اسے پکڑا گیا. دیا کو سخت کوفت ہوئی اس کے اس طرح کرنے پر۔۔ کارڈ سے ہی پے کرنا تھا تو قیمت کیوں پوچھی۔۔

"Do you have cards..?"

وہ اچھا خاصہ جلدی میں لگ رہا تھا مگر تیاری تھی کہ پوری نہیں ہو رہی تھی گلاب پیک کروا کر اسے کارڈ چاہئیے تھا۔ دیا نےکچھ کارڈز اسکے سامنے رکھے جن میں سے ایک اس نے سلیکٹ کیا۔۔ اور اس کے کہنے سے پہلے ہی دیا نے ایک پین بھی اس کے سامنے رکھا وہ کاؤنٹر پر جھک کر کچھ لکھنے لگا۔۔ دیا پیچھے چئیر پر بیٹھ گئی۔۔ وہ اچانک کال آنے پر سیل کان سے لگاتا تیزی سے سیدھا ہوا۔۔ 

"So???..ok Am coming.."

وہ سب چھوڑتا باہر بھاگا۔ دیا حیرت سے اسے دیکھتی اٹھی۔۔ گلاب اور کارڈ اٹھا کر پیچھے بھاگی مگر وہ گاڑی میں بیٹھتا یہ جا وہ جا۔۔۔

دیا سلور ٹوسیٹر سپورٹس کار کو آندھی طوفان کی طرح غائب ہوتا دیکھ کر رہ گئی۔۔ ”شوخا۔۔“ 

آج ہی تو وہ کالج میں اپنی نیو سپورٹس کار میں آیا تھا اور اچھی خاصی دھوم مچا دی تھی جو دیا کی نظر میں شو آف سے بڑھ کر کچھ نا تھی۔۔ وہ آہ بھرتی شاپ میں گئی اس کا سامان کاؤنٹر پر رکھا اور پھر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کارڈ کھولا سامنے صاف نہایت خوبصورت رائٹنگ میں تحریر درج تھی۔۔

(I feel peace when I see you love) 

دیا نے کندھے اچکا کر پیکٹ میں دونوں چیزیں رکھیں اور کتاب کھول لی۔۔ 

💜💜💜💜

اس کے اداس اداس پھرنے پر داجان نے اس کی اور اس کی منگیتر (جسے وہ دیکھنے کے لیے پاگل ہوا پھرتا رہا تھا) کی ملاقات طے کروائی اور اس وقت وہ آئسکریم پارلر میں اپنی ” ہونے“ والی بیوی عزہ کے سامنے بیٹھا سپاٹ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ نروس سی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔

”آپ آج کے دن کوئی بات کرنا بھی چاہیں گی یا اسی طرح بیٹھے بیٹھے رات کرنی ہے۔۔“ وہ اچانک بولا تو وہ ہڑبڑا گئی۔۔

” آ۔۔آپ کچھ بولیں ناں۔۔، دادو نے کہا ہے آپ کو۔۔ کوئی بات کرنا ہے۔۔“  وہ جھجھک کر بولی تو زایان نے گہرا سانس بھرا۔۔

” اور مجھے میرے داجان نے کہا ہے تمہیں مجھ سے بات کرنی ہے اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے تم مجھ سے شادی پر راضی نہیں ہو۔۔“  زایان نے دوٹوک بات کرنے کی ٹھان لی۔ 

”ج۔۔جی۔۔ وہ تو۔۔آپ کے بارے میں بھی یہی سننے کو ملا ہے کہ آپ راضی نہیں۔۔“  وہ اپنے پر بات آنے پر زرا سا گھبرایی پھر سنبھل کر بات اس پر ڈالی۔۔ 

(گھنی، میسنی۔۔ ایسی کوئی ہلکی بھی نہیں لگ رہی۔۔) 

زایان اسے دیکھ کر تلملایا۔۔

” میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔۔“ وہ صفائی سے انکار کر گیا۔ 

”میں تو بس تمہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ ویسے جس طرح جھوٹے بہانوں سے تمہاری دادی اور میرے داجان نے ہمیں ملنے کے لیے بھیجا ہے ناں مجھے لگتا ہے ان کا کویی پرانا تجربہ ہے ایسا کرنے کا اور یہ بھی ہو سکتا ہے وہ لورز ہوں جنہیں ظالم سماج نے الگ کر دیا ہو اور اب اپنی نسلوں پر یہ محبت پھر سے بیدار ہوگئی ہو اور۔۔“  زایان عادت کے مطابق بنا رکے بولتا چلا گیا وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

”جی۔۔“  اسکی حیرت ذدہ لمبی جی پر رک کر اسے دیکھا (اور خدا کرے ہمارا بھی وہی انجام ہو تمہاری کہیں اور شادی ہو۔۔ میری کہیں اور۔۔) 

وہ دل میں دعا مانگتا مسکرایا۔۔ 

”جی؟ کیا آپ کو اردو زبان سمجھ نہیں آتی ؟ یا میرا ایکسینٹ خراب ہے؟ یا آپ کو برا لگا؟“  زایان نے اس کی حیرت بھری جی کا مطلب اخذ کرنا چاہا۔۔ 

”جی مجھے برا لگا۔۔ آپ اپنے بزرگوں کے بارے میں ایسی باتیں کیسے کر سکتے ہیں۔۔“  وہ اس بار سنجیدگی سے بولی تو زایان نے سامنے پڑی کب سے پگھلتی آئسکریم کا بڑا سا چمچ بھر کر منہ میں ڈالا اور اسے گھورنے لگا۔۔ 

”میں نے اپنے ”بزرگوں“ کےلیے ڈیٹ پلان نہیں کر دی جو اس طرح آپ کو صدمہ پہنچ رہا ہے۔۔"  اور وہ زایان کی اس بات پر مزید صدمہ میں چلی گئی۔۔ 

”کیا آپ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔۔“  وہ تاسف سے پوچھ رہی تھی زایان ٹیبل پر ہاتھ رکھے آگے کو جھکا۔۔ 

”نہیں میں اچھا خاصہ رومینٹک بندہ ہوں مگر میرے داجان نے مجھے سختی سے سمجھا کر بھیجا ہے کہ ”بچی“ کے ساتھ تمیز سے بات کرنا لوفروں والی حرکتیں مت کرنا۔۔“ اسکی بات پر عزہ شرمندگی اور خفت سے یہاں وہاں دیکھنے لگی۔۔ 

”اور تمیز سے بات کرنا مجھے آتا نہیں تو اب آپ ہی کر لیں کوئی بات کرنی ہے تو۔۔“  وہ پیچھے ہو کر ریلیکس سا چئیر سے ٹیک لگا کر اسے دیکھنے لگا۔۔ وہ متذبذب سی لب کچلنے لگی زایان خاموشی سے اسکا جاٸزہ لے رہا تھا اور جتنا دیکھتا جا رہا تھا اتنا بے زار ہوتا جا رہا تھا۔۔ 

”مجھے کچھ نہیں پوچھنا۔۔ بس میں اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کرنا چاہتی ہوں۔۔ کیا آپ مجھے شادی کے بعد پڑھنے دیں گے۔۔“  وہ آہستگی سے بولتی امید بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

” نہیں۔۔ معاف کرنا مگر میں ہرگز پڑھنے نہیں دوں گا۔۔ میں ابھی ابھی سٹڈیز سے فری ہوا ہوں میں پھر سے بکس دیکھ کر ٹراماٹاٸز نہیں ہونا چاہتا۔۔“ وہ سنجیدگی سے بولا تو اس کا چہرہ مرجھا گیا زایان کو اپنی بد اخلاقی ناگوار گزری تو فوری سنبھلا۔۔ 

”کیا سبجیکٹ ہے ؟ کونسا لیول ہے؟“ اس بار اس نے زرا نرمی سے پوچھا۔

”ماسٹرز ان سائیکالوجی۔ فرسٹ سمیسٹر۔۔“  وہ بجھی بجھی سی بولی۔۔ 

” واؤ گریٹ۔۔ پھر تو مجھے بتائیے کیسا انسان ہوں ؟ کیا سائیکی سمجھ آئی میری اب تک بات کر کے۔۔“  زایان نے دلچسپی سے پوچھا۔۔ 

”آپ خود پسند انسان ہیں اپنے علاوہ کسی کی پرواہ نا کرنے والے۔۔“ وہ پٹ سے بولی اور زایان کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ 

(آج کل لڑکیوں میں تمیز کا زرہ بھی نہیں بچا۔۔) 

وہ دانت کچکچاتا پگھلی ہوئی آئسکریم سے اپنا دماغ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ 

”مطلب میں اچھا نہیں۔۔ اور یہ کہ آپ کو پسند نہیں آیا۔۔“ تھوڑی دیر بعد وہ مسکرا کر بولا۔  

”نہیں بات یہ ہے کہ میں آپ کو ہینڈل کر لوں گی کیونکہ آپ ٹھنڈے مزاج کے ہیں اپنا غصہ خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔۔“  وہ زرا شرما کر بولی اور زایان اس کے چہرے پر چھلکتی گلابیاں دیکھتا روہانسا ہو گیا۔

 (زایان یہ کیا ہو رہا ہے تیرے ساتھ)۔۔

”ایکچوئلی میں اپنوں پر غصہ ہوتا ہوں مطلب جس سے فرینکنیس ہو۔۔ آپ سے ایسا کوئی تعلق نہیں ابھی۔۔“  زایان نے فوری وضاحت دی وہ خاموش رہی۔ 

”خیر میں اتنا کر سکتا ہوں شادی سے پہلے ٹائم دوں مطلب شادی ڈیلے کروا لیں گے۔۔ آپ کی ڈگری کمپلیٹ ہو جائے پھر شادی کر لیں گے۔۔ میں داجان سے بات کرتا ہوں اور آپ اپنی فیملی سے بات کریں۔۔“  وہ سنجیدگی سے اپنا ارادہ ظاہر کر گیا۔۔ 

”جی یہ ٹھیک ہے۔۔“ وہ بھی پرسکون ہوئی۔ 

”اور اس دوران ہم ایک دوسرے کو بھی سمجھ لیں گے ہو سکتا ہے ہمیں اگلی چند ملاقاتوں میں ایک دوسرے کی بہت سی عادات ناپسند ہوں۔۔“  زایان نے نرمی سے سمجھایا ورنہ جی چاہ رہا تھا اسے جھنجھوڑ کر کہہ دے مجھے تمہارے جیسی لڑکیاں نہیں پسند جان چھوڑو میری۔۔ مگر وہ بے مروت ہرگز نہیں تھا۔۔

💜💜💜💜

”مروہ پرنس ایس کی ایک بات بتاؤں۔۔“  لیپ ٹاپ پر جھکی دیا نے اچانک سر اٹھا کر مروہ کو مخاطب کیا، تو موبائل پر چیٹنگ میں بزی مروہ جھٹکے سے سیدھی ہوئی۔

” کیا بات جلدی بتاؤ۔۔“ وہ تیزی سے اٹھ کر قریب ہوئی۔ وہ دونوں اس وقت ڈورم میں تھیں رات کا وقت تھا۔ مروہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب بیٹھی۔۔

”تقریباً دو ہفتے پہلے ایس میری شاپ پر آیا تھا۔۔“ دیا نے اس روز کا سارا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ بتایا۔۔ مروہ حیرت سے اچھلی۔۔ 

” اس کا مطلب وہ سیکریٹلی کسی لڑکی کو ڈیٹ کر رہا ہے؟“ مروہ نے اندازہ لگایا تو دیا نے نفی میں سر ہلایا۔۔ 

”ڈیٹ نہیں کر رہا، مگر کرنا چاہ رہا ہے، یا پھر اسے کوئی لڑکی پسند آگئی ہے اور اسے خود بھی کنفرم نہیں وہ اسے بتائے یا نہیں۔۔“  دیا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔

” اس کا کیا مطلب ہوا؟“ مروہ نے ناک چڑھائی۔۔ 

” کیونکہ آگے سنو۔۔ اور اس نے ویسا صرف ایک بار نہیں کیا وہ چار سے پانچ مرتبہ ایسا کر چکا ہے۔۔ ہماری شاپ پر آتا ہے مختلف گلدستے تیار کرواتا ہے کبھی اسے ففٹی روزز کا بوکے چاہئیے ہوتا ہے کبھی ڈفرنٹ فلاورز کا۔۔ وہ اسی طرح پھر کارڈ لکھ کر پے کر کے اور وہ وہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔۔“ مروہ اس انکشاف پر حیرت سے چیخی۔۔ 

” کیا؟ مطلب وہ پاگل ہو چکا ہے۔۔“ مروہ کو اس عجیب لڑکے پر شدید حیرت ہوتی تھی جس کا ہر کام دنیا سے انوکھا تھا۔۔ 

”اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ ہر بار کارڈ پر وہی ایک لائن لکھی ہوتی ہے

"I feel peace when I see you love.."

اس کے علاوہ ایک بھی لفظ نا زیادہ نا کم۔۔“  دیا الجھی الجھی سی بول رہی تھی۔۔ 

” تو پاگل تم نے اس سے بات کیوں نہیں کی۔۔ اس سے پوچھو کیا وجہ ہے جو وہ یوں کر رہا ہے۔۔“ مروہ نے اس کی اب تک خاموشی پر ماتم کیا۔ وہ ہوتی تو پہلی فرصت میں ایس کے پاس پہنچ جاتی۔۔ 

”میں نے بھی سوچا اس سے کہوں مگر میری شاپ اونر نے منع کر دیا کہ اکثر ایسا ہو جاتا ہے کسٹمر بوکے ریڈی کروا کر بھول جاتے ہیں یا پےمنٹ کر کے بھی نہیں لیتے پروگرام کینسل ہو جانے پر۔۔ اس نے کہا جب تک وہ پے کر رہا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا چاہے وہ ڈیلی ہزار بوکے ریڈی کروائے اور پھر لیے بنا چلا جائے۔۔ تو میں بھی بس اسے ایز آ کریزی کسٹمر ڈیل کرتی ہوں۔۔“  دیا نے وضاحت دی۔ مروہ نے منہ بسورا اسے یہ سب فضول لگ رہا تھا۔ اس کا خیال تھا اگر ایس وہاں جاکر ایسا کر رہا تھا تو دیا کو اس سے پوچھنا چاہئیے تھا۔

”اور دوسری بات جب سے اس نے کالج میں اناؤنس کیا ہے اس کا اور میرا کوئی تعلق نہیں۔۔ میں کافی ایزی ہو گئی ہوں اب پہلے کی طرح لڑکیوں کا کوئی گروپ مجھ سے آ کر خوامخواہ نہیں الجھتا۔۔ میں پہلے بھی کئیر کرتی تھی سنبھل کر رہتی تھی مگر کوئی نا کوئی مجھ سے زرا زرا سی بات پر الجھ جاتا تھا۔۔ اب میں ایک سائیڈ پر رہتی ہوں تو باقی سب بھی مجھے اگنور کرتے ہیں۔ پہلے ایس کی وجہ سے مجھے سپیشل ٹریٹ کیا جاتا تھا زلیل کیا جاتا تھا۔۔ اب سب مجھے عام لڑکی سمجھتے ہیں اب لڑکیاں ” یو آر نتھنگ پور گرل“  کہہ کر جان چھوڑ دیتی ہیں تو میں اُس سے دوبارہ بات کر کے سب کی نظروں میں نہیں آنا چاہتی۔۔“ 

دیا نے سنجیدگی اور سکون سے مروہ کو جواب دیا۔۔ 

”اوہ تو تم اس لیے ایس کو ایوائڈ کرتی ہو۔۔“ مروہ کو دیا کا ایس سے چھپ کر رہنا اب سمجھ آیا تھا۔۔ کمرے میں ان کی تیسری روم میٹ جو کہ انڈین لڑکی تھی داخل ہوئی شاید وہ اپنی پارٹ ٹائم جاب سے اب آ رہی تھی۔۔ مروہ اور دیا خاموش ہو گئیں۔ 

ایسا نہیں تھا کہ وہ لڑکی بالکل اجنبی تھی اس کی بھی کافی اچھی دوستی ہو چکی تھی مگر ایس کی بات کرنا رسک تھا سو وہ دونوں اس کے آنے پر اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر پڑھنے میں مصروف ہو گئیں۔۔

سالک نے مسلسل پیچھا کرتی گاڑی سے تنگ آ کر قریب کسی کلب کی طرف گاڑی بڑھا دی۔۔ اور جورڈن کو میسج کر کے بلایا۔۔ جورڈن اتنے وقت بعد سالک کا میسج ملنے پر تیزی سے کلب کی طرف بھاگا۔۔ سالک نے ایک نظر پیچھے دیکھا اور کلب میں گھس کر لوگوں میں گم ہوا۔۔

(سالک آج کل تم ایک فلاور شاپ پر اکثر نظر آتے ہو جہاں ایک مسلم گرل کام کرتی ہے۔۔ کیا بات ہے، کیوں جاتے ہو؟ کیا تم اس لڑکی کو چاہتے ہو۔۔ تم کبھی وہاں سے کچھ لے کر نہیں گئے۔۔ کیا تم اس لڑکی کو ڈیٹ کر رہے ہو۔۔) 

آج ہی صبح جوش سے بھری آواز میں اس کے باپ نے اسکا بھانڈا پھوڑا تھا اور وہ شاکڈ سا ان کی انفرمیشن پر انہیں دیکھے گیا۔۔ 

(واٹ۔۔ سالک کون ہے وہ لڑکی؟ کیسی لگتی ہے؟ کیا وہ بہت کیوٹ ہے؟ کیا وہ تمہارے ساتھ پڑھتی ہے؟ ہمیں بھی ملواؤ اس سے۔۔ اسے گھر انوائٹ کرو۔۔ ) 

اس کی ماں کا خوشی سے برا حال ہو گیا تھا اور بات یہاں نہیں رکی تھی اس کے نانا ، دادا ، دادی اور کزنز چند وقفے کے حساب سے سب کی کال آئی تھی اور اسے خوامخواہ کی مبارکباد دی جارہی تھی۔ اس کے دادا اور دادی نے تو اسے شادی تک کا کہہ دیا۔ 

”سالک تم جلد بیس کے ہو جاؤ گے۔۔ شادی کر لو یہ نا ہو یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے۔۔“ اس کے دادا نے اسے مشورہ دیاتھا۔ 

” سالک فوراً شادی مت کرنا پہلے لَو لائف کو انجوائے کرو۔“ یہ اس کے نانا کا کہنا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے ایک سو ایک طریقے بتائے تھے ڈیٹ کرنے کے۔۔ سالک کے انکار اور وضاحتوں کو نا کوئی سن رہاتھا نا ہی مان رہا تھا۔ 

ایسا لگتا تھا سالک کے پیدا ہوتے ہی اس لمحے کا انتظار کیا تھا سب نے۔۔ اور اس سب کی وجہ صرف اور صرف اس کا باپ تھا اور اس کا پیچھا کرتا یہ بندہ۔۔ سالک نے اس بندے کو گھورا اور وہاں لفٹ کرواتی لڑکیوں کو اگنور کرنے کی بجائے وہ رسپانس دیتا باپ کی حالت تصور کر کے ہی خوش ہوا جا رہا تھا جب جورڈن نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ 

"sorry am late S.. this club is so far from my home you know" 

(دیر سے آنے کے لیے افسوس ہے ایس۔۔ تم جانتے ہو یہ کلب میرے گھر سے بہت دور ہے)  

وہ سالک سے بات کرتا حد سے زیادہ خوش لگ رہا تھا۔

" see jo.. the blue hoodie man behind me.. if you distract him and lemme go out from club .. then we are even.. you have last chance.."

(دیکھو جو۔۔ میرے پیچھے بلو ہُڈی والے بندے کی اگر تم مجھ سے توجہ ہٹا دو اور مجھے باہر جانے دو تو ہمارا معاملہ برابر ہو جائے گا۔۔ تمہارے پاس آخری موقع ہے۔۔)

اور جورڈن اس کی ہدایت پر سر ہلا گیا وہ یہ موقع ہرگز گنوانے والا نہیں تھا۔۔ سالک کی دوستی اسے ہر حال میں چاہئیے تھی۔۔ وہ وائن اٹھاتا اس بندے کے قریب گیا اور گلاس اس پر گراتا خومخواہ لڑنے لگا۔ ہاتھا پایی میں ایک دو اور بندوں کو ہاتھ لگا اور ہنگامہ سا برپا ہو گیا تھا۔ سالک اس موقع سے فائدہ اٹھاتا تیزی سے نکلا مگر گاڑی کے پاس پہنچنے تک اسے تین لمبے چوڑے سیاہ فام بندوں نے روک لیا۔ وہ پیچھے ہٹا تو پیچھے بھی چار ویسے ہی بندے تھے۔۔ سالک ان میں گھر گیا۔۔ 

"Who are you guys.. ?"

سالک نے پریشانی سے پوچھا وہ اپنے باپ کے بندے کو بھی ڈاج دے آیا تھا اور اب کسی مدد کی بھی امید نہیں تھی۔۔ 

"joseph sent you hi, boy"

(جوزف نے تمہیں ہائے بھیجا ہے لڑکے۔۔)

وہ مسکرائے اور اسے کھینچتے دور تاریکی میں لے گئے۔۔ سالک کو اندازہ ہو چکا تھا وہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تبھی چلایا۔۔

"Tell joseph when you see him.. he is done.."

وہ اس کی بات پر رکے اور پھر زور سے ہنسے، انہیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر سالک بری طرح پریشان ہوا۔

 آج کا دن اس کے لیے عذاب ثابت ہو رہا تھا وہ کافی دیر ان سے خود کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا مگر شاید انہیں یہی حکم تھا بنا رکے بنا بولے وہ اندھا دھند سالک کو مارتے جارہے تھے۔ اور سالک اپنا بس اتنا ہی بچاؤ کر پا رہا تھا کہ کوئی ہڈی نا ٹوٹ پائے مگر پھر بھی جانے سے پہلے انہوں نے اپنے بندے کے بدلے سالک کا بازو توڑا اور اسے ایک چھوٹی سی گلی میں پھینک کر چل پڑے۔۔

💜💜💜💜

دیا شاپ سے نکلی ہاتھ میں کچرے کا بڑا سا سیاہ شاپر تھا اس نے شاپ کے ساتھ والی گلی میں پڑے ڈسٹ بن میں وہ شاپر پھینکا اور ہاتھ جھاڑے۔۔ 

(واہ دیا تم نے ہمیشہ ہالہ سے کچرا اٹھوایا اور یہاں شاپ اونر تم سے وہی کام نکلواتی ہے، یہ ہوتی ہے قسمت۔۔) 

وہ ٹھنڈی سانس خارج کرتی بولی جب اسے کچھ محسوس ہوا۔  درد سے کراہنے کی آواز۔۔ بھاری سانسوں کی آواز۔۔

اس نے رخ موڑ کر گلی کے تاریک حصے کی طرف آنکھیں گاڑھ کر دیکھا اور آواز کی سمت قدم بڑھائے۔۔ وہاں کوئی لڑکا بمشکل دیوار سے ٹیک لگائے تقریباً لیٹنے جیسا بیٹھا تھا۔ وہ اسکے قریب جا کر جھکی۔۔

"Hello.. can you move sir?" 

 وہ اس لہولہان لڑکے کا کندھا چھو کر بولی مگر وہ اسی حالت میں سر جھکائے۔۔ دیوار سے کمر ٹکائے بیٹھا رہا۔۔

"can you please answer me tell me please if I can help you۔۔?" 

(کیا آپ پلیز مجھے جواب دے سکتے بتائیے کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟)

 وہ اس کی حالت پر روہانسی سی ہو گئی۔

”کہیں یہ بندہ مر تو نہیں گیا۔۔۔ اف کہیں نیکی گلے نا پڑ جائے اگر مجھے پولیس نے پکڑ لیا تو۔۔ مجھے تو کوئی چھڑوانے بھی نا آئے۔۔

وہ منہ میں بڑبڑاتی اس لڑکے کو جگانے کی کوشش کرنے لگی اور وہ جو اس کی آواز سے اسے پہچان چکا تھا۔ سر جھکائے رہا کیونکہ اگر وہ پہچان لیتی کہ وہ ”ایس“ ہے تو فوراً بھاگ جاتی اور کبھی مدد نا کرتی۔۔ 

”اففف۔۔ بس چھوڑ دیتی ہوں اسے۔۔ رات ہونے والی ہے مجھے ہاسٹل جانا ہے جلدی۔۔ دیر ہو گئی تو۔۔"

 ابھی یہی سوچتے وہ اٹھنے والی تھی کہ اس نے بازو پکڑ کر اسے اپنے قریب کیا۔۔

"Stay with me I am feeling better when you're close to me.."

(میرے پاس رہو۔۔  تم میرے قریب ہو تو میں بہتر محسوس کر رہا ہوں۔۔)

 اس لڑکے کی لڑکھڑاتی بھاری آواز پر اس کا دماغ بھک سے اڑا۔ تو کیا وہ چاہتا ہے کہ اس کی آخری سانسوں تک وہ ساتھ رہے اور زندگی میں پہلی مرتبہ بندہ مرتا دیکھے۔ وہ خوفزدہ سی بازو چھڑوانے لگی۔۔

"Call for help.. those son of bitches broke my cell and I can't move.. hurry up please or I'll die with lost of blood"

(مدد کے لیے (کسی کو) بلاؤ۔۔ ان *گالی نے میرا موبائل توڑ دیا ہے اور میں ہل نہیں سکتا۔۔ جلدی کرو ورنہ میں خون کے ضائع ہونے سے مر جاؤں گا۔۔)  

وہ اسی طرح لڑکھڑاتے ہوئے بمشکل یہ بول پایا تھا اور اس نے تیزی سے اپنا موبائل نکالا اور جیسا وہ کہتا گیا کرتی گئی ایک زندگی بچانے کا جوش ہی الگ تھا اور وہ بعد میں اپنے باپ کو یہ بتا کر ڈھیروں داد وصول کرنے والی تھی اور ان کا ہر وقت کا امریکہ بھیجنے کا پچھتاوا ختم کرنے والی تھی۔۔

اسے زرا اندازہ نا ہوا کالج میں اسی سے چھپ چھپ کر رہنے والی اس وقت اس کے کتنے قریب تھی۔۔ اور اس بات پر وہ بھی جیسے تکلیف بھلا چکا تھا وہ پاس تھی جس سے اسے سکون ملتا تھا۔۔

" if you hug me tightly I can die peacefully"

 اس کی دھیمی سرگوشی پر اس کے کان کھڑے ہوئے۔۔ یہ انداز اور اس کی نظر میں ایسے گھٹیا الفاظ تو ایک ہی انسان کے ہو سکتے تھے تو کیا وہ۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید غور کرتی پولیس اور ایمبولینس کی گاڑیاں پہنچ گئیں اور وہ ایک طرف ہو کر پولیس کو جو دیکھا وہ بتانے لگی۔۔۔

سالک نے سٹریچر پر لیٹے بند ہوتی آنکھوں سے پولیس کے ساتھ کھڑی دیا کو دیکھا جو اسی کا دیا ماسک اب تک لگائے ہاتھوں سے اشارے کر کر کے بول رہی تھی اور اس نے آنکھیں بند کرلیں۔۔

💜💜💜

” وہ لڑکی پرفیکٹ نہیں وہ بس تعریف سننے کی عادی لگی مجھے۔۔ اس کی ہر بات دوسروں کے لیے تھی۔۔ بڑوں کے بارے میں ایسا نہیں بولتے۔۔ یہ وہ۔۔ میری باتوں پر بہت بار اس نے یہ جتانا چاہا مجھے بولنے کا سینس نہیں۔۔ جب میں نے اسے کمپلیمنٹ (تعریف) نہیں کیا تو اس نے مجھے خود پسند کہہ دیا اور آپ جانتے ہیں اس نے کیا کہا؟ وہ مجھے ہینڈل کر لے گی۔۔ کیا میں کوئی بچہ ہوں یا وہ مجھے اون کرنے آ رہی ہے۔۔ 

اچھی لڑکی ہوتی تو کہتی میں ایڈجسٹ کر لوں گی مگر اس نے کہا وہ ہینڈل کر لے گی۔۔ 

اس نے مجھے کہا میں غصہ خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا وہ کہنا چاہتی تھی مجھے یہی کرتے رہنا چاہئیے۔۔ وہ ایسی معصوم یا ہلکی نہیں جیسا شو کر رہی ہے وہ میری زندگی عذاب کر دے گی۔۔“  زایان تیزی سے بولتا بس رو دینے والا ہو گیا۔ اسے بندوں کی پہچان تھی وہ ہمیشہ ہی بندے کو جیسے اندر تک پہچان لیتا تھا اور اسی وجہ سے وہ عزہ کی پرسنالٹی سمجھ چکا تھا۔۔ اور وہ یہ سب کسے بتا رہا تھا ؟ اپنے داجان کو۔۔ جو ایسے بیٹھے سر ہلا رہے تھے جیسے وہ تقریر کر رہا ہو۔۔ اور جب وہ تھک کر چپ ہو گیا تو گلا کھنکار کر بولے۔۔

”ابھی جوان ہو۔۔ جذباتی ہو رہے ہو۔۔ ہر چیز تم منفی زہنیت سے دیکھ رہے ہو۔۔ سب الٹا نظر آرہا ہے کیونکہ وجہ صرف اتنی ہے فیصلہ تم نے خود نہیں لیا۔۔ مگر بچے یقین رکھو بعد کی زندگی میں اپنے داجان کا شکریہ ادا کرو گے۔۔“

انہوں نے سمجھایا۔ زایان انہیں دیکھ کر رہ گیا۔ 

”اچھا زایان تم ابھی فری رہنا چاہتے ہو بزنس جوائن نہیں کرنا ابھی تو میرا ایک کام کرو، میں جن اداروں میں سٹوڈنٹس کے لیے ڈونیشن دیتا ہوں وہاں اکثر رزلٹ ڈیز پر اور دوسرے موقعوں پر مجھے بہت مان سے بلایا جاتا ہے اور میں انکار کر کر کے شرمندہ ہوتا ہوں۔ تم میری جگہ چلے جایا کرو۔۔ کبھی کبھی کہیں کہیں۔۔“  داجان نے اسے کہا تو وہ اچھل پڑا۔۔

”میں یہ سب کرتا اچھا لگوں گا؟ داجان مجھ سے کیا دشمنی ہے آپ کی؟“ زایان نے رونی صورت بنائی۔۔ ہر بار اپنی ہی وجہ سے پھنس جاتا تھا۔ 

” او دشمنی کیوں؟ ان فیکٹ سب سے ذیادہ سمجھدار ہو تم اس لیے تم سے کہا۔۔ کچھ سکولز ڈونیشن لینے کے باوجود رزلٹ صحیح نہیں دیتے۔۔ ان کا سٹاف چیک کرو، چینج کرو کچھ اپنی تعلیم کو کام میں لاؤ۔  میرا بچہ داجان کی مدد کرے گا ناں؟“  ان کی محبت بھری آواز پر اسے ہاں کرنا پڑی۔۔ وہ مسکرا کر اسکا گال تھپتھپاتے چلے گئے۔ 

”دی جان کبھی آواز اٹھائیں میرے لیے۔۔ آپ کو سب راز دینے کا فائدہ تو ہو مجھے۔۔ حد کرتی ہیں۔۔“  زایان خاموش بیٹھی دی جان سے لڑ پڑا۔۔ 

” زایان کیوں پاگل پن کے دورے لگ رہے ہیں تمہیں۔۔ ہر ایک سے لڑ رہے ہو۔۔“  قریب بیٹھے اس کے باپ نے اسے ٹوکا تو وہ منہ بناتا دادی کے بلانے پر ان کے پاس جا بیٹھا۔۔

”زایان اللّٰہ پر اپنا فیصلہ چھوڑ دو، اگر وہ نا چاہے تو گھر آئی باراتیں لوٹ جاتی ہیں۔۔ نکاح ٹوٹ جاتے ہیں۔۔ اگر وہ تمہارے نصیب میں ہے تو تم کچھ کر نہیں سکتے اگر نہیں ہے تو تمہارے داجان کچھ نہیں کر سکتے۔۔ میری زندگی اللّٰہ سے مانگو ناں۔۔ وہ رب چاہے تو ایسے نواز دیتا ہے جیسے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا۔۔“ انہوں نے نرمی سے سمجھایا تو زایان بے چارگی سے خاموش ہو گیا۔۔ 

”اچھا شادی ڈیلے کروا دیں یار پلیز۔۔“  اس کی منت پر دی جان نے سر ہلایا۔ 

”ٹھیک ہے میں کہتی ہوں شادی ابھی نا کی جائے۔۔“  انہوں نے تسلی دی، زایان گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکل گیا۔۔ 

”اب تم بالکل ناکارہ ہو چکے ہو زایان۔۔ بالکل بے فائدہ۔۔“ 

اس نے خود پر تاسف کیا۔۔

💜💜💜💜

ہالہ کا پریشانی سے برا حال تھا۔۔ اس کا وہ گولڈن لاکٹ جو اسے اس کی ماں نے خود پہنایا تھا اس سے کھو گیا تھا اسے پہلے لگا تھا لاکر میں رکھا ہوگا اس نے مگر نہیں وہ اسی روز سے غائب تھا جب وہ پیپر دے کر آئی تھی اور اب ہر جگہ ڈھونڈ لیا پر مل کر نہیں دیا۔۔ وہ بے بسی سے بال کھینچنے لگی۔۔

”کیا کرے۔۔ کہاں تلاش کرے۔۔“ اسکا سوچ سوچ کر برا حال تھا تین چار مرتبہ چھپ چھپ کر رونے کا سیشن بھی چلا چکی تھی۔۔ اب وہ روڈز پر نہیں ڈھونڈ سکتی تھی۔۔ آٹو والے سے بھی جا کر نہیں پوچھ سکتی تھی۔۔ اب آخری آپشن تھا زایان۔۔ اسکا نمبر وہ فارس کے موبائل سے لینے کے لیے ان کے گھر گئی۔۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ایسی حرکت کرنے پر مجبور ہو رہی تھی وہ فارس سے بھی نہیں لے سکتی تھی وہ کیا سوچتا؟ اور نمبر تو ہرگز نا دیتا۔ اور تائی جان نے تو اس کا منہ توڑ دینا تھا۔۔ 

اس کے دوست کا نام تو غزالہ آپی سے سن ہی چکی تھی اب بہانے سے فارس کے کمرے کے گرد منڈلانے لگی کہ غزالہ چائے کا کپ لیے فارس کے کمرے کی طرف جانے لگی ہالہ نے جلدی سے روک لیا۔ 

”آپی میں دے آتی ہوں فارس بھائی کو چائے۔۔ سلام دعا بھی ہو جائے گی۔۔“ اس نے ڈوپٹہ سیٹ کرتے ہوئےکہا۔ ”ہاں تم ہی جاؤ۔۔ آج کل پڑھائی سے فری ہے تو دماغ ہر وقت خراب رہتا ہے اس کا۔۔“  غزالہ نے اکتا کر کہا اور کچن کی طرف چلی گئی اور ہالہ کے ہاتھ کانپنے لگے اگر فارس کا آج کل مزاج خراب تھا مطلب وہ بات بے بات بری طرح جھڑک دے گا۔۔ وہ ہمت کرتی کمرے میں گئی تو فارس کمرے میں نہیں تھا اور باتھ روم میں پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔۔ 

” افف لگتا ہے اللّٰہ بھی میرا ساتھ دے رہا ہے۔۔“ وہ کپ ٹیبل پر رکھتی اس کا موبائل ڈھونڈنے لگی جو اس کے بیڈ پر تکیے کے بھی نیچے پڑا ملا۔ 

” اللّٰہ اتنا تو عورتیں اپنا زیور بھی چھپا کر نہیں رکھتی ہوں گی جتنا انہوں نے موبائل چھپا رکھا ہے۔۔“  ہالہ نے بڑبڑا کر اس کا موبائل بالکل سیدھا کر کے سائیڈ سے دیکھا آف سکرین پر پیٹرن کے حساب سے انگلی کے نشان تھے جس پر وہ انگلی پھیرتی گئی اور موبائل انلاک ہو گیا۔۔ 

اس نے جلدی جلدی کانپتے ہا تھوں سے زایان کا نمبر نکالا اچھے سے یاد کیا اور موبائل بند کر کے اسی طرح تکیہ کے نیچے رکھ رہی تھی کہ باتھ روم میں پانی رکنے کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے باہر نکلتی سیدھی درمیانے دروازے سے اپنے گھر پہنچی۔ زایان کا نمبر سیو کیا اور گہرے گہرے سانس بھرتی اپنی حالت درست کرنے لگی۔ اللّٰہ اس چوری کے لیے معاف کردے، آئندہ کبھی یہ حرکت نہیں کروں گی۔۔“ 

وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی خفت سے بولی تھی۔۔

💜💜💜💜

” ڈی۔۔ تمہیں پتہ ہے ایس کو کچھ سٹریٹ فایٹرز نے اتنا مارا کل اور وہ ہاسپٹل میں ایڈمٹ، بہت کریٹیکل کنڈیشن میں ہے۔۔“ مروہ پھولی سانسوں سے اس کے پاس بھاگتی ہوئی آئی اور بتایا۔۔ وہ سب کی دیکھا دیکھی اب اکثر اسے ڈی کہنے لگی تھی۔۔ دیا نے ناک چڑھائی۔۔۔ 

” شکل سے ہی پنگے باز لگتا تھا پھر کر بیٹھا ہو گا غلط اور۔۔۔“ وہ لاپروائی سے بولتی ایک دم چونکی۔۔ 

” کب ہوا یہ ایکسیڈنٹ؟“ اس نے مروہ سے دوبارہ پوچھا۔۔ 

” کل رات ہوا اور کتنی بے حس ہو تم۔۔ کیا انسانیت بھی ختم ہو گئی تم میں؟ ایک انسان مرنے پر ہے اور تم اب بھی اس کو برا کہہ رہی ہو۔۔“ مروہ نے اسے شرم دلانا چاہی۔۔ اتنی بےحسی؟ یہاں پورے کالج کی لڑکیاں جیسے سوگ میں چلی گئی تھیں ہر جگہ پرنس کی فکر، اس کی انجری، اس کی صحت یابی کا زکر تھا اور دیا اف۔۔ مروہ نے سر جھٹکا۔۔ سنگدل لڑکی۔۔

اور اس وقت اندر کہیں دیا کو بھی افسوس ہوا کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی اسے رات ایس ملا تھا اور کس حالت میں تھا یہ تو وہ بھی دیکھ  چکی تھی کتنا خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا اور کتنی بے بسی کی کیفیت میں تھا وہ۔۔ سارا دن دل میں اٹھتی فکر کو وہ ” خیر مجھے کیا“ کہہ کر جھٹکنے کی کوشش کرتی رہی مگر آنکھوں کے سامنے اس کی وہی زخمی حالت آجاتی۔۔ اور آخر شام کو جاب سے جلدی آف لے کر وہ انسانیت کے ناطے ایس کو پوچھنے کے لیے روانہ ہوئی۔۔ 

ہاسپٹل اور روم نمبر کا تو کالج میں ہر طرف ہی زکر تھا سو اسے بھی یاد تھا ہاتھ میں ایک بوکے لیے اب وہ روم کے سامنے متذبذب سی کھڑی لب کاٹنے لگی۔۔ اسے تو پتہ تھا وہ انسانیت کے ناطے آ گئی مگر ایس نے غلط مطلب لیا تو؟ اسے برا لگا اور وہ غصہ ہو گیا تو؟  اسکی فیملی اندر ہوئی تو؟ ۔۔۔۔کیا کرے گی وہ؟

(اوہو کہہ دوں گی کالج فیلو ہیں، نہیں مجھے نہیں آنا چاہئیے تھا مگر یہ تو بری بات ہے اس بندے نے بہر حال مجھ پر تین احسان کیے ہیں۔۔ پہلی بار اس بدتمیز لڑکے سے پروٹیکٹ کیا۔۔ مجھے ماسک دے کر میرا اعتماد بحال کرنے میں مدد دی اور پھر آخری بار مجھے اپنی گرل فرینڈ نا ہونے کا اعلان کر کے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا۔۔ اس کا جو بھی مقصد ہو میرا تو فائدہ ہی ہوا ناں۔۔) 

وہ دروازے پر ہاتھ رکھے یہاں آنے کے جواز تلاش کرنے لگی۔ 

(اور سب سے پہلے وہ ایک انسان ہے جو اتنا زخمی ہوا اور میں اس کی بری حالت دیکھ بھی چکی ہوں۔۔) 

آخر میں وہ سر ہلا کر تھوڑی نروس سی کمرے میں داخل ہوئی۔۔

💜💜💜💜💜

وہ رات تک باہر یہاں وہاں گاڑی دوڑاتا اپنی فرسٹریشن نکالتا رہا اور پھر تھک کر گھر آیا اور سیدھا اپنے کمرے میں جاکر بیڈ پر گرا۔۔ 

”اب میں سکولز اور کالجز میں انسپکشن کرونگا۔۔ اور پھر اس سائکو کی ڈگری کمپلیٹ ہونے پر اس سے شادی کر کے ابنارمل لائف گزاروں گا اور ایک دن اسی ٹینشن میں آدھا بوڑھا ہو کر مر جاؤں گا۔۔“ وہ اٹھ بیٹھا۔۔ 

”واؤ کیا آئڈیل لائف ہو گی زایان۔۔ “ وہ خود ترسی کا شکار ہونے لگا۔۔ 

وارڈروب سے کپڑے لے کر فریش ہونے کا ارادہ کیے ابھی باتھ روم کی طرف بڑھا کہ کال آئی۔ اس نے نمبر دیکھا کوئی انجان نمبر تھا۔۔ 

”اب بس رانگ نمبرز کی ہی کمی رہ گئی تھی زندگی میں۔۔“ اس نے کوفت سے سیل بیڈ پر پھینکا اور شاور لینے چلا گیا.. کال اب بھی آرہی تھی۔۔

💜💜💜💜

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے ہی وہ مغرور شہزادہ پیشنٹ بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا رنگت میں زردی گھلی تھی اور ماتھے پر پٹی بندھی تھی۔۔ اور ایک اونچا لمبا مرد، جس کی شکل ایس سے ہی ملتی تھی رنگت سفید، سیاہ بال کنپٹیوں سے گرے تھے، افسردہ اور بکھری بکھری سی حالت میں ایس کا دایاں ہاتھ تھامے سر جھکائے قریب چئیر پر بیٹھا تھا اور دوسری طرف کچھ فاصلے پر ونڈو کے پاس ایک بڑی عمر کا مرد جس کے بال بالکل دودھ کی طرح سفید تھے قد لمبا تھا رنگت سنہری تھی چہرے پر فکر کے ساتھ دبا دبا ساغصہ تھا اور کال پر کسی کو ضروری ہدایات دے رہا تھا جو کہ یقیناً ایس کے مجرموں کو ڈھونڈنے کا ہی کہا جا رہا ہو گا۔۔ 

دیا اندر تو آگئی مگر اب نروس سی وہیں کھڑی دیکھنے لگی۔۔

” ہائے خدایا یہ ایس کم تھا یہ دو اور۔۔ کیسے، کیا بولوں گی۔۔“  ان دو بارعب شخصیات کو دیکھ کر دیا گھبرا کر مڑی ارادہ چپ چاپ نکل جانے کا تھا۔۔ 

” فلاور شاپ گرل۔۔؟“ پیچھے سے حیرت بھری آواز آئی، وہ جھٹکے سے رکی۔۔ انہوں نے یا تو ماسک، سٹالر سے اندازہ لگایا تھا یا ہاتھ میں دبے پھولوں کے بوکے سے مگر دیا کے لیے حیرت کا مقام تھا، وہ اسے کیسے جانتے تھے؟

اب کال پر بات کرتا مرد بھی کال بند کر کے اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کے خاموش کھڑے رہنے پر وہ دونوں ہلکا سا مسکائے۔ 

"See I knew she'll come.. here she is.."

(دیکھو میں جانتا تھا یہ آئے گی اور یہ آگئی۔۔) 

بڑی عمر کا مرد دوسرے مرد سے بولا اور دیا کو ایک اور جھٹکا لگا۔۔

"Come dear.. why are you standing there.. good to see you.."

(آؤ پیاری۔۔ وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔ تمہیں دیکھ کر اچھا لگا۔) ایس کے پاس بیٹھا مرد نرمی سے بولا۔

"Ohh.. I.. I am dia.. I am his college fellow.. am B.com 1st smester student.. I just came to see him.. I mean ۔۔ I Just..

(م۔۔میں دیا ہوں۔۔ میں اس کی کالج فیلو ہوں بی کام فرسٹ سمسٹر کی سٹوڈنٹ ہوں۔۔ میں بس اسے دیکھنے آئی تھی۔۔ میرا مطلب میں صرف۔۔ ) 

دیا نے اپنا تعارف دیتے ہوئے سالک کی طرف اشارہ کر کے کچھ کہنا چاہا۔۔ وہ ان دونوں کو اس طرح خود کو دیکھتا پا کر بری طرح گھبرائی۔۔ 

(مجھے نہیں آنا چاہئیے تھا۔۔ میں نے غلط کیا یہاں آ کر۔۔) 

وہ دل میں ایک ہی گردان کیے جا رہی تھی۔ 

"Its ok sia.. you can come anytime to see him, you don't need any reason.. in fact am sure he'd love to see you here.. am his grand pa and he is his father.. well um.. I think we should leave.. nah.."

( کوئی بات نہیں سیا (دیا) تم کسی بھی وقت اسے ملنے آ سکتی ہو تمہیں وجہ کی ضرورت نہیں۔۔ دراصل۔۔ اسے تمہارا یہاں آنا پسند آئے گا۔۔ میں اس کا نانا ہوں اور یہ اس کا باپ۔۔ بہت اچھے ۔۔ میرے خیال میں ہمیں چلنا چاہئیے۔۔ نہیں؟ ) 

اس کے نانا نے دیا کے پاس آ کر دیا کا سر تھپتھپا کر بتایا اور پھر آخری جملہ اس کے باپ کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ بھی سر ہلا کر اٹھے۔

"N..No am ok I just.. actually am already late.. he looks fine.. I've to go.."

دیا گھبرا کر تیزی سے بولی۔ وہ لوگ اسے اس طرح پرائیویسی کیوں پرووائڈ کر رہے تھے دیا کے ہاتھ پیر پھول گئے آخر سمجھ کیا رہے تھے وہ۔۔ یہ انگریز لوگ بھی ناں۔۔ 

"It will be a big help if you stay here for a while.. I have to discuss his condition with doc and his grandpa wanted to see his mother as she had delirious since last night as she heard about him... we can't leave him alone.. dont worry we'll drop you to your home.."

(اگر تم کچھ دیر یہاں ٹھہر جاؤ تو بہت بڑی مدد ہو جائے گی مجھے ڈاکٹر سے اس کی کنڈیشن ڈسکس کرنی ہے اور اس کے نانا کو اس کی ماں سے ملنا تھا وہ رات سے بے ہوش ہے جیسے اس نے اس کا سنا۔۔ فکر مت کرو ہم تمہیں تمہارے گھر پہنچا دیں گے۔۔) 

ایس کے باپ نے نرمی سے کہا اور وہ دونوں اس کا سر تھپتھپا کر چلے گئے اور دیا اب تک ان کی بات سمجھنے کی کوشش کرتی رہ گئی۔۔ پھر سامنے پڑے مغرور لڑکے کو دیکھا جو اس وقت اس طرح لیٹا بہت بے بس لگ رہا تھا وہ گہرا سانس بھرتی آگے بڑھی اور بوکے ایک سائیڈ پر ٹیبل پر رکھا اور ایک بار پھر بغور اسکا جائزہ لیا۔۔ 

” زیادہ مسئلہ لگ تو نہیں رہا۔۔ لگتا ہے ہڈیاں بچ گئیں۔۔اوہ۔۔“ اسکا مکمل جائزہ لیتی بولتے بولتے رکی اور بایاں بازو دیکھا جہاں پلستر چڑھا تھا۔۔  

"ایک بازو شہید۔۔ اووو لگتا ہے لڑکی کو چھیڑنے کا انعام ملا ہے۔۔“  اس کی آواز میں افسوس سے زیادہ دبا دبا جوش محسوس کرتے سالک نے آنکھیں کھولیں تو وہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی اور بمشکل گرتے گرتے بچی۔۔ وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا اسکے سفید پڑتے خشک ہونٹ سختی سے بھنچے تھے۔۔ 

"H..hi.. am..am...D"

وہ چوروں کی طرح نظریں چراتی اٹک اٹک کر بولی۔۔ وہ خاموش رہا اور اس کی خاموشی سے وہ پریشان ہوئی۔ اپنا مزید ٹھہرنا عجیب لگا۔۔

"Why are you here??? you dont need to come here for me.. we aren't close enough to visit eachother.."

(تم یہاں کیوں ہو؟۔۔ تمہیں یہاں میرے لیے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ ہم اتنے قریبی نہیں کی ایک دوسرے کے پاس ملنے جائیں۔۔) 

وہ مدھم آواز میں بولا۔۔ دیا کو سخت شرمندگی ہوئی۔۔

(تو احسان فراموش لوگوں کی ایسی شکل ہوتی ہے۔۔۔۔ رات کیسے چپک چپک جارہا تھا۔۔ مطلب پرست۔۔) 

اسے گھور کر دیکھتی دیا نے اردو میں اپنا غصہ اس پر نکالتے دانت پیسے اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔ 

" you don't have to go now.. my granpa will cause a big trouble.. if you'lnl go without his permission..."

(اب تم مت جاؤ۔۔۔ اگر تم بنا اجازت کے گئیں تو میرے نانا بڑی مشکل پیدا کر دیں گے۔۔) 

سالک کی سنجیدہ آواز پر دروازے کی ناب پر رکھا اسکا ہاتھ جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔۔

💜💜💜💜

ہالہ مسلسل کال کرتی اسے گالیوں سے نوازنے لگی۔۔ یا خدا نمبر تو صحیح ہے ناں۔۔ وہ ایک بار پھر سے کال ملاتی بد دلی سے بڑبڑائی۔۔

"کیا مصیبت ہے۔۔ اگر کوئی کال نا اٹھائے تو اس کا کیا مطلب ہوا موڈ نہیں ڈھٹائی سے کال کیے جا رہے ہو۔۔“  کال اٹینڈ کرتے ہی وہ پھاڑ کھانے کو دوڑا۔۔ ایک پل کے لیے تو وہ بھی گڑبڑا گئی۔۔

 کتنا بد لحاظ بندہ ہے یہ۔۔ اس نے سوچتے ہوئے گلا کھنکارا۔۔ ” سوری مگر مجھے شوق نہیں اس طرح لوگوں کو کالز کرنے کا۔۔ ایمرجنسی ہے،  ضروری بات ہے۔۔ اس لیے گھنٹے سے ذلیل ہو رہی ہوں۔۔“  وہ کاٹ دار لہجے میں بولی تو زایان نے موبائل کان سے ہٹا کر گھورا، آواز اور انداز جانے پہچانے سے لگ رہے تھے۔۔

”دیکھو اس دن مجھے لگتا ہے میرا لاکٹ تمہاری گاڑی میں کہیں گر گیا مجھے اپنا وہ لاکٹ ہر حال میں چاہئیے اور۔۔ “ وہ تیزی سے بولتی چلی گئی۔۔ 

” اوہ تم۔۔ میں وہی سوچ رہا تھا ابھی کہ نا سلام نا دعا، سیدھا پوائنٹ پر آنے والی دنیا کی بد تمیز ترین لڑکی تو ایک ہی ہے مگر یقین نہیں آیا کہ تم۔۔ اور مجھے کال۔۔ نا بھئی۔۔ مگر کام ہو تو یہ بھی کر سکتی ہو تم۔۔ اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔۔“  بال سنوارتا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا سارے دن کی کوفت، بےزاری اور اداسی کہیں دور جا سوئی تھی۔۔ ہالہ اس کی باتوں پر صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی۔۔ 

”ایک بار۔۔۔ بس ایک بار ہالہ لاکٹ مل جائے منہ توڑ دینا اس بندے کا۔۔“  وہ دل میں ارادہ باندھتی خود کو صبر کی تلقین کرنے لگی۔۔ 

”معاف کرنا۔۔ میں بہت پریشان ہوں وہ لاکٹ میری امی نے اپنے ہاتھوں سے پہنایا تھا مجھے۔۔“ وہ زرا سنبھل کر سنجیدگی سے بولی۔۔

”تو۔۔؟ بھئی اور لے لو۔۔ اور ان سے کہو دوبارہ پہنا دیں۔۔“ 

اس کا موڈ آف ہوا یہ لڑکی صرف اپنے مطلب کی ہی بات کرتی ہے۔۔ اور میں جیسے ملازم ہوں اس کا، کال کرتے ہی کام بتا دیا۔۔

”ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔۔“  وہ سپاٹ لہجے میں بولی تو زایان نے نچلا لب دانتوں تلے دبا کر خود کو فضول گوئی پر ملامت کی۔ 

” ایم سوری۔۔ میں دیکھتا ہوں او۔کے۔۔ میری گاڑی کزن لے گیا تھا۔۔ میں چیک کرتا ہوں وہ واپس آیا یا نہیں۔۔ “  اسک ی گاڑی گھر پر تھی مگر اس نے سوچا اگر لاکٹ نا ملا تو۔۔ فوری انکار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ 

” تم مجھے اس لاکٹ کی کوئی تصویر ہے تو بھیجو۔۔ پھر ہی آسانی سے ڈھونڈ پاؤں گا ناں۔۔"  اس نے نیا شوشا چھوڑا تو ہالہ کا دل کیا یہیں سے پنچ دے مارے۔۔ اور ناک توڑ دے۔۔

”پکچر کیوں؟ ہو گا تو نظر آجائے گا ناں۔۔“ وہ اس کی کم عقلی پر افسوس کرتی بولی۔۔

” او میڈم میری گاڑی میں میری فیملی، میری منگیتر اور بہت لوگ سفر کر چکے اب اگر ان کا لاکٹ مجھے ملے اور میں اٹھا کر تمہارے حوالے کردوں۔۔ کیوں بھئی خوامخواہ۔۔“ وہ شرارت سے بولتا اسے آگ لگا گیا۔۔ 

” تو میں واپس کر دوں گی۔۔ مجھے کسی کی چیز رکھنے کا شوق نہیں۔۔ میں بھیجتی ہوں پکچر۔۔ جلدی انفارم کر دینا۔۔“  وہ ضبط سے بولی، اپنا کام نا نکلوانا ہوتا تو ٹکا کر جواب دیتی کہ نانی یاد آجاتی اس انسان کو۔۔ 

” کیسے انفارم کروں مطلب فارس کو بتاؤں۔۔؟“ وہ جان بوجھ کر اسے زچ کرتا بولا۔۔

” آنکھیں ہیں ناں؟ تو یہ نمبر جس سے کال آئی ہے اس پر بتا دینا۔۔ اور فارس بھائی سے کچھ مت کہنا ورنہ میں مکر جاؤں گی۔۔“ وہ تیزی سے بولی۔ اس کا آخری جملہ جیسے اسکی عادت تھی زایان بے ساختہ ہنس پڑا۔۔ 

”مکرنے کی عادت تو چلو اچھی ہے مگر میرے پاس کالز ریکارڈ ہوتی ہیں تو۔۔“  وہ شرارت سے بولا تو اسکا جملہ ہالہ کو صاف دھمکی لگی تھی۔۔ وہ خوفزدہ سی کال کاٹ گئی۔۔ زایان نے موبائل دیکھا اور اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔۔

” یہ کیا بکواس کی زایان۔۔ یہ کیا لوفر گردی دکھا دی۔۔“  وہ جلدی سے دوبارہ کال ملاتا اسکا خوف تصور کر کے خود کو ملامت کرنے لگا۔۔ 

ہالہ ہاتھ میں موبائل لیے خوفزدہ سی بیٹھی تھی۔۔ اگر تائی جان، فارس بھائی، بابا، اکرام سب کو پتہ چلا کہ اس نے غیر لڑکے کو کال کی ہے۔۔ تو وہ ہالہ کو کیسی لڑکی سمجھیں گے؟ اور ریکارڈنگ ظاہر کر دے گی وہ پہلے سے جانتی بھی ہے۔۔ 

” یہ کیا ہو گیا مجھ سے۔۔  یہ کیا کر بیٹھی ہوں۔۔ اگر وہ برا انسان ہوا تو؟۔۔ اگر اس نے مجھے بلیک میل کیا تو کیا کرونگی؟“ موبائل پر مسلسل اسی نمبر سے آتی کال پر ہالہ کا دل بری طرح سہما۔۔ وہ کیوں بھول گئی وہ لڑکی ہے۔۔ اور اسکا گھرانہ ایسا آزاد نہیں کہ اس بات پر اسے معاف کر دیا جائے گا۔۔ وہ چہرے سے پسینہ صاف کرتی اللّٰہ سے معافیاں مانگے جا رہی تھی کہ میسج ملا اس نے ڈرتے ڈرتے کھولا۔

"ایم سوری میں نے بہت غلط مذاق کر دیا۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔ لاکٹ ملا تو میسج کر دوں گا۔۔ کوئی ریکارڈنگ نہیں۔۔ اللّٰہ کی قسم۔۔“  ہالہ کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑے اور دل کو زرا سا اطمینان ہوا۔۔ مگر جواب دینے کی غلطی نہیں کی تھی۔۔

 💜💜💜

وہ قریب چئیر پر بیٹھی بس پریشانی سے دروازے کو دیکھے جا رہی تھی کب ایس کے نانا آئیں اور وہ اجازت لے کر جائے اور وہ ساری زندگی یہ غلطی نہیں دہرائے گی۔۔  

”کیا لگتا تھا میرا جو بھاگتی چلی آئی۔۔ پاکستان میں ہوتی تو کیا بابا کرنے دیتے ایسا۔۔ اور  ایسے بھی کوئی احسان نہیں کیے اس بندے نے۔۔ پہلے اتنے لوگوں کے درمیاں مجھے گرل فرینڈ بنا دیا پھر سب کے سامنے اعلان کر دیا گرل فرینڈ نہیں ہے۔۔ مطلب مذاق بنا دیا سب میں میرا۔۔“  وہ نفی میں سر ہلاتی سالک کے وہ کام جو آنے سے پہلے احسان لگ رہے تھے اب زلالت میں گننے لگی اور پریشانی سے ٹانگ ہلاتی دھیمی آواز میں بولتی جا رہی تھی۔۔ سالک آنکھیں بند کیے اسکی حرکتوں کو برداشت کرنے کی کوشش میں نڈھال ہونے لگا۔۔ 

"Thank you foh savin ma life.."

وہ اچانک آنکھ کھول کر اسے دیکھتا بولا اور وہ جیسے خواب سے جاگی۔۔ سنبھل کر بیٹھی۔۔

" saving your life?..  I did this?? "

وہ نخرہ دکھانے کو تیار ہوئی اور گرے آنکھیں چمکنے لگیں۔۔ اب وہ اسے بتائے گا کیسے اس نے احسان کیا اور پھر اب تو وہ جھک کر رہے گا۔۔ 

"Sorry I think I misunderstood.. "

اور وہ فوری معذرت کرتا خود بھی مکر گیا۔۔ دیا نے اس احسان فراموش، نخرے باز کو گھورا۔۔

"Oh last night... was that you.. the poor person had begged me to save his life.. was that you really.. 

(اوہ رات۔۔۔ تم تھے۔۔ وہ بچارا بندہ۔ جس نے مجھ سے اپنی زندگی بچانے کی منتیں کی تھی۔۔ وہ واقعی تم تھے۔۔) 

دیا نے جلدی سے یاد آجانے جیسا انداز اپنایا، ایسے آسانی سے بخشنے والی نہیں تھی وہ۔۔ اس احسان کو اچھا خاصہ استعمال کرنا تھا ابھی تو اس نے۔۔ زندگی بچانے کی بڑی قیمت لینی تھی۔۔ 

سالک نے اس کی آواز میں اس بار بھی جوش محسوس کرتے اپنی مسکراہٹ دبالی۔۔ اور آنکھیں بند کر کے گہرا سانس بھرا اور پھر سے اسے دیکھا، جو سر جھکائے یقیناً اپنی خوشی کو دبا رہی تھی ۔۔

"In return... I'll buy you more masks.."

(بدلے میں۔۔ میں تمہیں اور ماسک لے دوں گا۔۔)

 سالک نے اسے احساس دلانا چاہا کہ ماسک کی جان چھوڑی ہی پڑتی ہے ایک دن۔۔ دیا نے بےساختہ ماسک پر ہاتھ رکھا اب اسے کیا بتاتی اسکی کلاس فیلو نینسی نے اسے بتایا تھا کہ یہ ماسک بہت مہنگا ملتا ہے اور وہ اس کی قیمت پوری کیے بغیر تو اتارنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔ لب کاٹتی اسے دیکھنے لگی۔۔

”تمہیں ایک بات بتاؤں۔۔ تم نہایت گھنے۔۔ چالاک، خود کو سب سے اعلٰی سمجھنے والے اور دنیا کے سب سے بد دماغ اور مغرور انسان ہو، ٹھیک ہے بہت پیارے ہو پر مجھے زہر سے بھی زیادہ برے لگتے ہو۔۔“  دیا نے اردو میں اسے دیکھ کر مزے سے کہتے دل کی بھڑاس نکالی کہ وہ سمجھ کہاں سکتا ہے اس کی زبان اور اس کی باتیں۔۔

"Diana...did you say.. you love me.?"

سالک نے اسے جواباً سنجیدگی سے پوچھا۔۔ تو اس کی ناسمجھی پر دیا کو ہنسی آئی۔۔ 

"You can't hold in.. when am in pain.. so you came to see me...

I wrote address in the note for very first day when I bought flower..

( تم برداشت نہیں کر پاتی۔۔ جب میں تکلیف میں ہوں۔۔  تو تم مجھے ملنے آگئیں۔۔ میں نے بالکل پہلی بار جب پھول خریدا ، پرچی پر ایک ایڈریس لکھا تھا۔۔) 

سالک کی پہلی بات پر ابھی وہ وضاحت دینے والی تھی کہ اس نے اچانک پھول کا زکر کیا، دیا اس کی بات پر چونکی۔۔ ایڈریس؟ کہاں ؟ اس نے کیوں نہیں نوٹس کیا۔۔؟

I wrote you to send flower there but you kept it for you.. same goes for every time.

(میں نے تمہیں لکھا کہ پھول اس پتہ پر بھیجو مگر تم نے اپنے لیے رکھ لیا۔۔ اور ہر بار یہی کیا۔۔) 

سالک کی باتوں پر دیا کا شرمندگی سے برا حال ہوگیا وہ کیسے اتنی لاپرواہ ہو سکتی ہے۔۔ اس نے وہ پرچی کیوں نہیں دیکھی۔۔ 

"Do you love me Diana..?"

وہ آخر میں رک کر پھر سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔ دیا بری طرح خفت محسوس کرنے لگی تھی، وہ کیا کرتی رہی؟ کیا سوچتا ہو گا۔۔

No...no.. I really don't... I was fool.. proly I lost that note.. I..dont..

( نہیں۔۔نہیں۔۔ میں سچ میں لَو نہیں کرتی۔۔ میں بیوقوف تھی۔۔ شاید میں نے پرچی گنوادی۔۔میں۔۔ نہیں..) 

دیا نے گھبرا کر تیزی سے وضاحت دی۔۔ 

اور تیزی سے اٹھی۔۔ اب وہ ایک لمحہ بھی نہیں رک سکتی تھی۔۔ سالک اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا پھر اپنے بائیں طرف کھڑی دیا کا ہاتھ نرمی سے تھاما وہ ہڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔۔

"I'll pay back for your favour... you saved my life D.. "

(میں تمہاری مدد کا جواب دونگا۔۔ تم نے میری زندگی بچائی ہے ڈیانہ۔۔) 

سالک نرمی سے مسکرایا اور اس کا ہاتھ چھوڑدیا۔۔ وہ تیزی سے باہر نکلی تو ایک ڈرائیور گاڑی لیے اس کا ٹھہرا تھا۔۔

💜💜💜💜💜

” سب نے ٹرائے کیا کہ کسی طرح ایس سے مل سکیں، مگر جب تک وہ ہاسپٹل رہا سیکیورٹی ٹائٹ تھی۔۔ گھر جانے کی تو کبھی اس نے پرمیشن نہیں دی ناں۔۔“ مروہ مسلسل بولتی جا رہی تھی دیا سر جھکائے سنتی لب بھنچ گئی۔

 اگر سیکیورٹی اتنی ٹائٹ تھی تو اسے کیوں نہیں روکا گیا؟ اس سے تو کسی نے کچھ پوچھا تک نہیں تھا۔۔ وہ تو ڈائریکٹ کمرے میں چلی گئی تھی پر کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔۔ 

” افف اللّٰہ میرے لیے یہ سپیشل ٹریٹمنٹ کیوں؟" وہ اپنا سر پکڑ بییٹھی۔۔ 

اس روز کی الجھن مزید بڑھتی جا رہی تھی۔۔

”ہفتہ ہو گیا ہے ایس نہیں آرہا اور قسم سے زرا دل نہیں لگ رہا ڈی۔۔ وہ رونق ہے یہاں کی۔۔ چلتا پھرتا نظر کے سامنے رہتا تھا تو اچھا لگتا تھا۔۔“ مروہ کی بے تکی اور بے ہودہ باتوں پر اس کا سر کا درد بڑھنے لگا۔۔ 

” تم اس کے گھر شفٹ ہو جاؤ مروہ۔۔ کیونکہ ساری زندگی نظر کے سامنے رہنا ویسے تو ممکن نہیں۔۔ اور اب اس کا تو لاسٹ سمسٹر چل رہا ہے وہ تو یہاں سے موو کر کے یونی چلا جائے گا۔۔ “ دیا نے مخلصانہ مشورہ دیا۔ مروہ اسے دیکھنے لگی اور پھر چونک گئی۔۔

” آئڈیا اچھا ہے۔۔ پر وہ ہاتھ آئے تب ناں ۔۔ اتنا اکھڑ مزاج اور مرضی کرنے والا ہے، دل چاہے تو ہنس کے جواب دیتا ہے ورنہ کاٹ دار نظروں سے دیکھ کر ہی چپ کروا دیتا ہے۔۔ یاد نہیں تمہارا کیا حال کیا پہلے کہہ دیا مائی گرل۔۔ پھر کہا نو لونگر بی لانگز ٹو می۔۔“ مروہ نے آہ بھری اور دیا اس کی بات پر جیسے ہوش میں آئی۔۔ 

(ہاں یہی تو میرے ساتھ بھی کرتا ہے اور پھر میں نے ظاہر ہے احسان کیا اس کی زندگی بچائی تو میرا کردار ظاہر ہے باقی سب سے تو الگ ہو گا اب۔۔) 

وہ دل میں سوچتی پر سکون ہوئی۔۔ الجھن کا سرا مل گیا اور اس غائب دماغ لڑکی کو یہ خیال ہی نا رہا کہ اس کی فیملی نے کیسے دیکھتے ہی پہچانا اور سیکیورٹی والوں کو کیا پتہ کے وہ زندگی بچانے والی محسنہ ہے۔۔؟

اسی وقت شور سا مچا اور وہ دونوں متوجہ ہوئیں۔۔ 

” ایس از ہئیر۔۔؟“ ایس آگیا تھا مروہ تو تیزی سے اٹھ کر بھاگی اور دیا پھر سے چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگی۔

وہ سب کی فکر بھری آوازوں پر ہلکا سا مسکراتا آگے بڑھا بازو پر پلستر ابھی بھی موجود تھا ماتھے پر پٹی بھی بدستور بندھی تھی چہرے پر کہیں کہیں ہلکے نیلے چوٹوں کے نشان تھے۔۔ رنگت میں زردی بھی ہلکی سی گھلی تھی۔۔  جورڈن اسکے ساتھ ساتھ سایہ بنا پھر رہا تھا۔۔ 

نوٹس بورڈ پر اس کی صحت یابی کے سٹکی نوٹس کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔۔ایسا لگتا تھا ہر دن، روزانہ، بلا ناغہ اسے یاد کیا جاتا تھا۔۔ بس اتنا فرق تھا ان میں کہیں بھی ڈی کے نام کا نوٹ نہیں تھا۔

"So you're tryina ignore me.."

وہ دھیرے سے ہنسا اور نوٹس بورڈ پر چھپا کر ایک سٹکی نوٹ لگا دیا۔۔

"I feel peace when I see you love"   

اب اطمینان سے سر ہلاتا آگے بڑھا کیونکہ سمسٹر ایگزام سر پر تھے سو وہ لائبریری میں جا بیٹھا  تھا۔۔

💜💜💜💜

زایان نے گاڑی پوری طرح چھان ماری مگر وہ لاکٹ نہیں ملا۔۔ وہ پریشانی سے نچلا لب دانتوں تلے دبائے موبائل پر بھیجی لاکٹ کی پکچر دیکھنے لگا اور پھر کچھ سوچ کر مطمئین ہوا اور جیولر شاپ پر گیا انہیں لاکٹ کا ڈیزائن دکھا کر سیم ویسا بنانے کا کہا۔ 

” یہ کل تک آپ کو تیار ملے گا سر۔۔ کامن ڈیزائن ہے آسانی سے بن جائے گا۔۔“ اسکی بے تابی دیکھتے ہوئے جیولر نے اسے اطمینان دلایا تو زایان کا سانس بحال ہوا۔۔

”تمہارا لاکٹ مل گیا پسنجر سیٹ کے نیچے پڑا تھا۔۔ بتا دینا کیسے اور کب دینا ہے۔۔“

 اس نے جلدی سے ہالہ کو میسج کیا کیونکہ اسے اچھے سے اندازہ تھا وہ بھی فکر کے مارے جان اٹکائے بیٹھی ہوگی اور وہی ہوا وہ جیسے موبائل ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔۔ 

” تھینک یو سو مچ۔۔ میں نے ایک دو دن تک بکس لینے جانا ہے۔۔ آپ کو بک شاپ کا نیم اور ٹائم بتا دوں گی۔۔“ اس کا فوری رپلائی آیا۔۔ 

”آپ۔۔؟ آپ۔۔؟ “ وہ آپ پر اٹکا اور حیرت سے دہرانے لگا۔۔ 

” ہائے یہ مطلبی لڑکی کی عزت۔۔۔ کڑوے کریلے کی طرح لگتی ہے قسم سے۔۔“ وہ ہنستا ہوا شاپ سے نکلتا گنگناتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔ 

💜💜💜💜

اس نے کلاسز آف ہونے پر لاکر جا کر کھولا تاکہ صرف کالج میں یوز ہونے والا سامان بکس وغیرہ رکھ کر جاب پر جا سکے مگر سامنے اسے ایک پیکٹ ملا۔ اس نے حیرت سے کھولا اندر مختلف گرلش کلرز میں ماسک تھے۔۔ اس بار فلیکسیبل کپڑے جیسا نرم سا مٹیرئیل تھا اور ایک نوٹ۔۔

"Feel free to use'em.. the first one must be itchy.. nah..?"

(انہیں آزادی سے استعمال کرو۔۔ پہلے والا تنگ کرتا ہوگا 

۔۔ نہیں؟)   ایس کی ہینڈ رائٹنگ تھی۔۔ 

وہ گھور کر دیکھتی رہی پھر پٹخ کر پیکٹ پھینکا اور لاکر بند کیا۔۔ مڑ کر دو قدم چلی اور پھر رک کر پلٹی۔۔ لاکر کھولا پیکٹ نکالا۔۔۔ ایک لائٹ گرے کلر کا ماسک نکالا اور پچھلا اتار کر پہن لیا۔۔ 

” میں نے اس پر احسان کیا ہے۔۔ اس کی زندگی بچائی ہے اگر وہ اسطرح کی چھوٹی موٹی چیزوں سے خود کو میری نیکی کے بوجھ سے آذاد کرنا ہی چاہ رہا ہے تو مجھے دل بڑا کر لینا چاہئیے ناں۔۔“  وہ ماسک لگائے ڈھٹائی سے جواز پیش کرتی خو کو برحق بناتی اطمینان سے چل پڑی۔۔ اور وہ صرف احسان ہی تو کر رہی تھی اس کے دئیے ماسک لے کر۔۔ نقاب کی نسبت کافی ایزی فیل ہوتا تھا اور اس کے دل میں امریکہ آنے کے بعد سے جو ایک خوف تھا کہ یہاں کے لوگ اس کے پردہ کو لیکر اسے تنگ کریں گے اس سے بھی بچی ہوئی تھی۔۔ اگر کسی الگ اور آسان طریقہ سے اللّٰہ کا حکم بھی مانا جائے اور خود کو اطمینان بھی رہے تو برائی کیا تھی۔۔

💜💜💜

وہ ہالہ کی بتائی شاپ میں کھڑا خوامخواہ کبھی ایک کتاب اٹھا کر دیکھتا کبھی دوسری۔۔ جب پیچھے سے آواز آئی۔۔

”کہاں ہے میرا لاکٹ۔۔؟“ وہ ہمیشہ کی طرح ڈائریکٹ پوائنٹ پر آئی۔۔ زایان چونک کر پلٹا۔

” مجھے کہنے کا حق تو نہیں مگر۔۔۔ تمہیں پتا ہونا چاہئیے کہ تمیز نامی چیز زرہ بھی نہیں تم میں۔۔“  وہ پاکٹ سے لاکٹ نکال کر اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔۔ وہ جھپٹ کر لاکٹ لیتی بغور جائزہ لینے لگی۔۔ 

زایان کا دل خوف سے سکڑا۔۔ اپنی طرف سے تو اس نے اچھا خاصہ لاکٹ کو دیواروں سے رگڑ کر کبھی زمین پر رگڑ کر زرا پرانا اور اس کے لاکٹ جیسا رنگ دینا چاہا تھا مگر ہو بھی سکتا ہے وہ پہچان لے۔۔ 

” ٹھیک ہے شکریہ۔۔ اور تم تمیز دار ہو اس کا ایوارڈ ضرور حکومت کی طرف سے ایک دن ملے گا۔۔ ہمت مت ہارنا۔۔“ وہ لاکٹ سے جیسے ہی مطمئین ہوئی۔۔ زایان کو دیکھ کر طنزیہ جواب دیا اور وہ جو اسے ریلیکس ہو کر لاکٹ اپنے ہینڈ بیگ میں رکھتا دیکھ رہا تھا اس کے جواب پر بھنا گیا۔۔

” یہ مجھے سامنے کھڑے کرارے کرارے جواب دیتی ہو اس رات کیا ہوا تھا جب زرا سی دھمکی پر سانس رک گیا تھا ؟“ وہ جتا کر بولا اور جان بوجھ کر اسی بات کا زکر کیا۔۔ ہالہ نے اسکی ”بدلحاظی“ پر اسے گھورا۔۔ 

”میں بھی بہرحال لڑکی ہی ہوں ناں۔۔ تم جیسے سکیمر سے میرا کیا مقابلہ۔۔ تو ڈر گئی تھی۔۔ کوئی بھی شریف لڑکی ہوتی۔۔ ڈر جاتی۔۔“ وہ وضاحت دیتی پلٹ کر جانے لگی۔۔

”میں نے اتنی بڑی مدد کی تم مجھے سکیمر کہہ رہی ہو؟“ زایان صدمے سے بولا۔۔ وہ رکی۔۔

” نہایت بد لحاظ اور بد زبان لڑکی ہو۔۔ دوبارہ سامنا بھی ہوا ناں تو میں کوئی مدد نہیں کروں گا تمہاری۔۔“  زایان دھمکی دینے لگا اور جیسے ہالہ کو فکر ستائے گی اس بات پر۔۔

” شکریہ۔۔ انشاءاللّٰہ دوبارہ سامنا نہیں ہوگا۔۔ ہوا بھی تو ہم ایسا ظاہر کریں گے جیسے پہلے کبھی نہیں ملے۔۔“ ہالہ نے بنا سوچے سمجھے اتنا بڑا دعویٰ کیا۔۔ زایان تو ناراض سا پیر پٹختا وہاں سے چلا گیا۔۔ 

” گڈ ہالہ۔۔ اچھی لڑکیاں۔۔ غیر لڑکوں سے نرمی سے بات نہیں کرتیں۔۔ اور ان سے کوئی بھی تعلقات نہیں بڑھاتیں۔۔“ وہ خود کو شاباش دینے لگی۔۔ اسے نہیں پتہ تھا آنے والے وقت میں وہ زایان سے کئیے دعوے سے بہت جلد خود ہی مکرنے والی ہے۔۔

💜💜💜💜

وہ شاپ پر بیٹھی تھی کہ گلاس وال سے سامنے روڈ پر نظر پڑی۔۔ بڑی سی گاڑی آ کر رکی اور شوفر نے پچھلا ڈور کھولا۔۔ اندر سے سالک کو نکلتا دیکھ کر وہ ٹھٹکی وہ اپنی انجریز کی وجہ سے خاص طور پر بازو کے ریکور نا ہونے پر خود ڈرائیو نہیں کر پا رہا تھا۔ 

دیا فوراً اٹھ کر پھولوں پر پانی سپرے کرنے لگی اور شاپ اونر سامنے کاؤنٹر پر آ ٹھہری۔ 

”I was here to talk with your shop worker cuz she didn't follow my order to send flowers somewhere but... it seems like i have to talk with you.. "

(میں یہاں آپ کی شاپ ورکر سے بات کرنے آیا تھا کیونکہ اس نے میرا کہیں پھول بھیجنے کا آرڈر پورا نہیں کیا لیکن۔۔۔ ایسا لگتا ہے آپ سے بات کرنا پڑے گی۔۔)  

سالک اندر آتے ہی دیا کو ایک نظر دیکھے بنا شاپ اونر سے مخاطب ہوا تو دیا کے کان کھڑے ہوئے اور اپنی یہ باعزت پارٹ ٹائم جاب ہاتھ سے جاتی نظر آئی۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور سوالیہ نظروں سے سالک کو دیکھتی اپنی مالک کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔

"I know him... he is my... my college fellow.. I'll talk to him.. "

(میں اسے جانتی ہوں۔۔ یہ میرا۔۔۔میرا کالج فیلو ہے ۔۔ میں اس سے بات کروں گی۔۔)

 دیا کی گھبراہٹ پر سالک جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اسی جگہ کھڑے ہوئے پیروں کو موڑ کر رخ اس کی طرف موڑا اور سر زرا سا ترچھا کیے اس کو مسکرا کر جتاتی نظر سے دیکھا۔۔

"Hi D.. should we talk here... or.."

(ہیلو ڈی۔۔ ہمیں یہیں بات کرنا چاہئیے۔۔ یا۔۔) 

اس سے بولتا وہ جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ گیا۔۔ شاپ اونر وہاں سے ہٹ کر پھول سیٹ کرنے لگی تھی۔۔ 

" I really didn't notice the address note.. my bad.. please don't tell her"

(میں نے واقعی ایڈریس والی پرچی پر غور نہیں کیا۔۔ میری غلطی ہے۔۔ پلیز اسے مت بتانا۔۔۔) 

دیا نے دانت پیس کر اس احسان فراموش کو دیکھ کر کہا جو اسے یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔

"Meet me at cafe after you done... with one bouquet and i'll show you the person I mentioned..."

(مجھے کیفے میں ملو جب یہاں سے فارغ ہو جاؤ.. ایک بوکے کے ساتھ اور میں تمہیں اس سے ملواؤں گا جسکا زکر کیا تھا۔۔) 

سالک نے سنجیدگی سے اس انسان کا حوالہ دیا جس کے لیے وہ فلاور خریدتا تھا۔۔ اس سے کہتے ہوئے کیفے کا نام پرچی پر لکھ کر اس کے سامنے رکھا اور بوکے کی قیمت پہلے سے ادا کر کے پلٹا۔۔  دیا اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔ نا وہ ہاں کر پائی نا ہی انکار۔۔

 اور وہ جیسے آیا تھا ویسے پلٹ کر چلا گیا۔۔

💜💜💜💜💜

زایان بال سنوارتا فریش سا ڈنر کی ٹیبل پر آیا اور داجان کے پاس چئیر کھسکا کر بیٹھا۔۔

” تو پھر کیسا جا رہا ہے وہ کام جو میں نے تمہیں سونپا تھا۔۔“ داجان نے گلا کھنکار کر اس سے پوچھا تو سلاد اٹھاتا زایان ہڑبڑایا۔

” اٹس گڈ۔۔ آپ بس فکر چھوڑ دیں۔۔“ وہ سنبھل کر بولا اور مسکرا کر سلاد کا پتا منہ میں رکھا۔

” بیٹا فکر تو میری تم نے یوں ختم کی کہ فخر سے سر بلند ہو گیا ہے۔۔ پہلے صرف انویٹیشن کالز آتی تھی اب انوی ٹیشن کے بعد گلہ بھی کیا جاتا ہے کہ انتظار کرتے رہے کوئی آیا نہیں۔۔“  داجان نے طنزیہ کہا تو سلاد کا پتا حلق میں پھنس گیا باقی سب بھی اس کی حالت پر ہنس پڑے تھے۔

” اتنی لاپروائی کی کیا وجہ ہے زایان ؟ تم اگر ”میرے“ کام کو وقت نہیں دے رہے تو بزی کہاں ہو آج کل۔۔؟ “ داجان نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔۔

” میں جانتا ہوں اس کی مصروفیات۔۔“  راسم نے مزے سے کہتے ہوئے سب کے ساتھ ساتھ زایان کو بھی چونکایا۔۔ راسم نے زایان کو مسکرا کر دیکھا اور مسکراہٹ سے ہی زایان کو گڑ بڑ کا احساس ہوا۔۔ وہ سب ایک دوسرے پر جان دیتے بھی تھے اور کبھی کبھی جان نکالنے کا سامان بھی خوب کرتے تھے۔۔ اور زایان تو چھوٹا ہونے کی وجہ سےاکثر سب بڑے کزنز کا شکار بنا رہتا تھا۔ 

” کافی دن پہلے کی بات ہے کہ زایان بڑا غصے میں گھر آیا اور اتنا غائب دماغ تھا کہ گاڑی کا ڈور بند کیے بنا اندر چلا آیا، میں گاڑی کا ڈور بند کرنے آگے ہوا تو کیا دیکھتا ہوں۔۔“ راسم سسپنس بڑھاتا کہانی کی طرح سنا رہا تھا۔

” بکواس کر بھی چکو بے غیرت انسان کیا فلمیں بنا رہے ہو۔۔“ داجان نے بے چینی سے اسے ٹوکا۔۔

” وہیں آرہا تھا داجان۔۔ کام کی بات پر ہی آ رہا ہوں۔۔ “ راسم نے انہیں مزید بولنے سے منع کیا وہ لب بھنچ کر راسم کو دیکھنے لگے اور زایان کے ساتھ باقی لڑکے لڑکیوں کے کان خرگوشوں کی طرح کھڑے تھے، راسم چاہے ڈرامہ باز ہو مگر بات کام کی ہی کرتا تھا۔ 

” مجھے پسنجر سیٹ کے نیچے چمکتی چیز نظر آئی۔۔ غور سے دیکھا تو نفیس سا گولڈن لاکٹ پڑا تھا۔۔“ راسم نے دھماکہ کیا، زایان کے پرخچے اڑ گئے اور سب کے منہ کھل گئے۔

” کہاں ہے وہ لاکٹ۔۔۔ آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا راسم بھائی۔۔“ زایان نے بے چینی سے پوچھا اور راسم کو دیکھ کر دانت پیسے۔۔

” بے چینی دیکھو بے شرم انسان کی۔۔ کس کا لاکٹ ہے یہ؟“  اس کے بابا ارمان صاحب نے اسے گھورا۔۔

” یہ عزہ کا۔۔“ اس نے بولنا چاہا۔  

”عزہ کا ہرگز نہیں ہے۔۔ وہ اس روز کے بعد نہیں ملی تم سے۔۔ جھوٹ مت بولنا۔۔“ اس سے پہلے کے وہ اپنی منگیتر عزہ کے نام تھوپتا داجان نے فوری ٹوکا۔

”وہی کہہ رہا ہوں عزہ کا نہیں ہے۔۔“ وہ بھی بات بدل کر منہ بسور گیا۔

” تو پھر کس کا ہے۔۔؟ زایان کسے لیے پھرتے ہو۔۔؟ اوہ تو شادی سے انکار کی وجہ ایک اور لڑکی تھی۔۔؟ کب سے چل رہا ہے چکر۔۔۔؟“ سب کے لاتعداد سوالوں پر زایان نے لب بھنچ کر راسم کو دیکھا۔

”کیا۔۔؟ میں نے تو تمہیں پہلے اس لیے نہیں بتایا کہ انتظار تھا آخر کب تم خود مجھ سے پوچھنے آتے ہو مگر کیا پتہ چلتا ہے کہ زایان نے ایک جیولر شاپ پر ایک نفیس سا لاکٹ بنانے کا آرڈر دیا اور آج جس طرح فریش لگ رہے ہو لگتا ہے دے بھی آئے لاکٹ۔۔“ راسم نے ہنسی دبا کر مزید بھانڈا پھوڑا اور اس بار تو سب حیرت کے مارے سن ہو گئے۔۔ 

دوسرا لاکٹ۔۔؟ وہ بھی آرڈر پر بنوا کر۔۔؟ مطلب جو بھی لڑکی تھی خاص تھی۔۔ 

” راسم تمہیں یہ سب کیسے پتہ۔۔؟“ صیام بھائی نے راسم کو گھورا۔۔ 

” بس اتفاق ہوتے چلے گیے۔۔ یہ جب جیولر کے پاس آرڈر دینے گیا تو میرا ایک دوست وہاں موجود تھا اس نے کل یونہی ذکر کیا کہ زایان نے اس طرح لاکٹ آرڈر پر بنوایا ہے۔۔“ زایان کا جی چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔۔ یا کچھ بھی ہو وہ سب کی نظروں سے ابھی اور اسی وقت اوجھل ہو جائے۔ داجان اور بڑے سب اس کی طرف متوجہ تھے۔ 

” ہمیں پہلے بتاتے اگر ایسا کچھ تھا۔۔ جب میں نے عزہ سے رشتے کی بات کی تو تب کیوں نہیں بتایا زایان۔۔ کمٹمنٹ کے بعد یہ حرکتیں کیوں۔۔؟“  داجان کے تیور کافی خطرناک تھے۔ ان سب کو صرف اس بات پر اعتراض تھا کہ زایان نے پہلے کیوں چھپایا اور اب عزہ سے شادی کی بات چل رہی تھی تو چھپ کر ایسی حرکتیں کرتا پھر رہا تھا۔۔ 

” پہلے ایسا کوئی سین جو نہیں تھا۔۔ اب بھی ایسی کوئی بات نہیں۔۔ وہ بس میری جاننے والی ہے۔۔ وہ تو مجھے کسی گنتی میں ہی نہیں لاتی۔۔ کیا بتاتا کسی کو۔۔ ریان کو پتہ ہے اور دی جان کو بھی پتہ ہے سب۔۔“  زایان تیزی سے وضاحتیں دیتا سمجھ نہیں پا رہا تھا کیا بتائے اور کیا چھپائے۔۔  ریان اپنا نام آنے پر اٹھ کر تیزی سے چلا گیا۔ دی جان اپنے کمرے میں تھیں وہ ڈنر جلدی کرتی تھیں۔

”فری ہو کر میرے پاس آنا اور اپنا خزانہ لے لینا۔۔“ راسم نے اٹھ کر اس کے کندھے پر تھپکی دی اور چلا گیا۔

 اسی طرح ایک ایک کر کے سب اٹھ گئے اب بس باپ، چچا تھے۔۔ دا جان تھے اور زایان۔۔ 

باقی سب زایان کی حالت پر باہر کھڑے ہنس رہے تھے۔۔ ان کا پیار زایان کے لیے ایسا ہی تھا۔

💜💜💜Yaman Eva writes💜💜💜

وہ نا چاہتے ہوئے بھی کام سے فری ہوتی اس کیفے کی طرف چل پڑی جو کہ سالک نے اس کی شاپ کے قریب کا ہی بتایا تھا۔۔ اسے خوف تھا نا گئی تو کہیں وہ بےحس انسان واقعی اس کی شکایت لگا کر نوکری سے نا نکلوا دے۔۔ 

اس نے کیفے میں قدم رکھتے ہی ارد گرد نظر گھمائی تو ایک سائیڈ پر کارنر میں بالکل شیشے کے ساتھ والی ٹیبل پر سفید ہُڈی میں وہ سر جھکائے منہ میں سٹرا ڈالے کافی پیتا نظر آیا۔۔

اور اس کے عین سامنے گولڈن بالوں والی کوئی بیٹھی تھی جس کی بس کمر ہی دیا کو نظر آئی۔۔

”ہائے یہ برا بندہ پھر پتہ نہیں کہاں زلیل کروانے بلائے بیٹھا ہے۔۔“  وہ دانت کچکچاتی اسے دیکھ رہی تھی۔۔ دل کر رہا تھا ہاتھ میں پکڑا بوکے اس کے منہ پر دے مارے اور بھاگ کر کہیں چھپ جائے۔۔ 

وہ ابھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ سالک کی نظر اس پر پڑی وہ مسکرایا اور اپنی عادت کے مطابق سر زرا سا ترچھا کر کے اسے دیکھنے لگا۔۔ 

وہ بمشکل اپنے برہم مزاج کو نارمل رکھتی آگے بڑھی اور ان کی ٹیبل کے قریب رکی۔۔ 

“Meet her mum.. she is Diana.."

سالک نے دیا کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس کے سامنے بیٹھی ینگ سی عورت جسکی رنگت سنہری تھی اور سالک جیسی سیاہ آنکھیں اور براؤنش گولڈن بال تھے۔۔ متوجہ ہوئیں۔۔

"Hi , I am Dia... not diana sorry.."

دیا نے اس عورت جسے اس نے مام کہا تھا،  کے ساتھ والی چئیر سنبھالتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔۔ اور اپنا نام دہرایا۔۔ 

"Oh hi sia I was very excited foh this meeting..

(اوہ ہیلو سیا میں اس ملاقات کے لیے بہت پرجوش تھی۔۔ ) اس کی ماں نے مسکرا کر دیا کا ہاتھ تھاما، دیا خود کو سیا کہنے پر منہ بسورنے لگی۔۔ لگتا ہے پورے گھر کو نام بگاڑنے کا مرض ہے۔۔

"Give this bouquet to my mum D"

(یہ بوکے میری مام کو دو ڈی۔۔) 

سالک کے کہنے پر وہ چونکی اور بوکے جلدی سے اس کی مام کو دیا جو نہال ہوتی نظروں سے دیا کو دیکھے جا رہی تھیں۔۔ 

” اوہ تھینکس ہنی۔۔ “ انہوں نے نرم مسکان لبوں پر سجائے شکریہ ادا کیا۔۔

"Ohh so she is the one.. you feel peace to see her.. your love.."

( اوہ تو یہ ہیں وہ۔ تم انہیں دیکھ کر سکون محسوس کرتے ہو۔۔ تمہاری محبت۔۔) 

دیا نے اپنی الجھن سلجھائی تو سالک کی ماں ہنس پڑی۔۔

"No you're the one i feel peace to see you... love.."

سالک نے آگے کی طرف جھک کر اپنے الفاظ دہرائے اور اس کی ماں کے سامنے ایسی ”بےشرمی“ پر دیا کا چہرہ سرخ ہوا۔۔ 

”یا اللّٰہ یہ بندہ کیا چیز ہے۔۔ کس مٹی سے بنایا تھا اسے۔۔ ناشرم۔۔ نالحاظ۔۔"  دیا خفت سے انگلیاں چٹخاتی بڑبڑائی جو سالک کی ماں نے اچھے سے سنی۔۔ وہ ایک دم قہقہہ لگا کر ہنسیں۔۔  

” یہ نارمل نہیں ہے۔۔ ہے ناں؟  اس کے بابا بھی اس کو جن کہتے ہیں۔۔“ اس کی ماں کے اردو میں جواب دینے پر دیا کا دماغ بھک سے اڑا۔۔ 

” آ۔۔آپ اردو جانتی ہیں۔۔؟“ دیا نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا۔۔ سالک نے مسکراہٹ چھپانے کے لیے کولڈ کافی کا سپ لیا۔۔ 

” جی ہاں۔۔  ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ سالک کیا تم نے اسے نہیں بتایا ؟ “  اور دیا نے اسکا اصل نام بھی پہلی مرتبہ سنا تھا۔

” میں نے کسی سے ایسی پرائیویٹ باتیں نہیں کی کبھی۔۔“ ایس کو اتنی صاف اردو بولتا دیکھ کر دیا کے کانوں میں اُس کے سامنے کہے اپنے اردو جملے گونجنے لگے۔۔۔ اسے پسینے چھوٹ گئے۔۔ 

” کتنی بد زبان ہو دیا۔۔ کتنا برا بولتی ہو۔۔ بابا نے سمجھایا بھی تھا تمیز سے بولا کرو پر۔۔“ وہ خود کو لعن طعن کر رہی تھی۔۔ سالک کی ماں نے سوفٹ ڈرنک کا گلاس اس کے سامنے رکھا۔۔

اور دیا اپنی سوچوں اور شرمندگی میں گم وہ گلاس اٹھا کر ماسک منہ سے نیچے کرتی پینے لگی اسے خیال ہی نہیں رہا وہ ماسک اتار رہی ہے سالک کے سامنے۔۔۔؟

سالک کی مام نے باقاعدہ رخ موڑ کر اس گلابی گڑیا کا چہرہ دیکھا اور سالک اسے دیکھتا نفی میں سر ہلاتا ہنس دیا۔۔ 

"Mum wanted to meet ya.. so I arranged meeting.. don't get the wrong idea.. I don't love her"

(مام تم سے ملنا چاہتی تھیں تو میں نے یہ ملاقات طے کی۔۔ غلط مت سمجھیں۔۔ میں اس سے محبت نہیں کرتا۔۔) 

سالک نے دیا کو کیفے بلانے کی وضاحت دی اور آخری جملہ اپنی ماں سے کہا۔۔ دیا اس کے بولنے پر خیال سے جاگی اور اپنی ماسک ہٹانے کی حرکت پر دل کھول کر شرمندہ ہوئی۔۔ اس سے پہلے کہ مزید غلطیاں کرتی، گلاس ٹیبل پر رکھ کر جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔۔ ماسک سیٹ کیا۔۔

”م۔۔مجھے اب جانا چاہئیے۔۔ دیر۔۔ دیر ہو گئی۔۔“ وہ ہکلا کر بولتی چئیر پیچھے کرنے لگی۔۔

"Sia what happend..?"

سالک کی ماں نے فکر مندی سے پوچھا جبکہ سالک خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔

"آ۔۔آپ سے مل کر اچھا لگا۔۔“ دیا نے جلدی سے کہا اور ان کے پکارنے پر بھی نہیں رکی۔۔ 

” سالک اسے کیا ہوا۔۔ کچھ برا لگا؟“ ماریہ بیگم نے سالک کو پریشانی سے بیٹے کو دیکھا۔۔

” اسے آپ پسند نہیں آئیں۔۔“ وہ کندھے اچکاتا شرارت سے بولا تھا۔۔

💜💜💜💜

”سالک اگر واقعی ایساہے کہ تم اس لڑکی کو تنگ کر رہے ہو تو بہت غلط بات ہے مطلب ہم لوگوں نے بھی اس بچاری کو اس طرح سپیشلی مل کر ڈسٹرب کر دیا۔۔“ 

احرام صاحب نے بیوی کی بتائی تفصیل سے یہی نتیجہ اخذ کیا۔۔ سالک موبائل پر مصروف تھا بس سر ہلا دیا۔۔ 

"Dont play with girls honey... she is pretty but she looks so innocent.. "

(لڑکیوں سے مت کھیلو پیارے۔۔ وہ پیاری ہے لیکن وہ بہت معصوم لگتی ہے۔۔ ) 

سالک کی ماں نے نرمی سے سمجھانا چاہا انہیں دیا کی گھبراہٹ پر دلی افسوس ہوا تھا۔۔ کیا سالک اسے تنگ کرتا رہتا تھا۔۔ ؟  سالک نے اس بار بھی سر ہلایا اور موبائل پر بزی رہا۔۔

”سالک جب بات کی جا رہی ہو تو جواب دیا کرو۔۔“ احرام نے زچ ہو کر اسے پکارا۔۔

”پاپس۔۔ آپ ان ساتوں نیگروز (سیاہ فام) پر سے کیس ہٹائیں جنہوں نے مجھے مارا تھا۔۔ انہیں آج ریلیز کروا دیں۔۔“ سالک کی اچانک فرمائش پر دونوں چونکے۔۔ 

” کیا؟ کبھی نہیں۔۔ ابھی تک پوری طرح ٹھیک بھی نہیں ہوئے۔۔ اور انہیں نکالا تو پھر تمہیں نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔۔“ ماریہ تیزی سے بولیں اور سالک کا چہرہ پریشانی سے دیکھا۔۔

” کم آن مام ۔۔ ان لوگوں کی مجھ سے کوئی دشمنی نہیں۔۔ وہ کسی اور کے کہنے پر مجھے مارنے آئے تھے۔۔ “  سالک نے انہیں سمجھایا۔۔

” اور وہ کس کے کہنے پر تمہیں مارنے آئے تھے؟ یہ اتنی دشمنیاں کہاں پال رکھی ہیں اپنی ایج دیکھو اور اپنے کام دیکھو۔۔ ایسا لگتا ہے بائیس سال سے آگے جاؤ گے تو پورا امریکہ تمہارا دشمن بن چکا ہو گا۔۔“ احرام صاحب بری طرح تپ گئے تھے اسکی ڈھٹائی اور من مانی سے۔۔

”کوئی دشمن نہیں۔۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بائک چھینی۔۔ گرین پا نے انکی آدھی گینگ کو الگ الگ کیسز میں پھنسا کر پولیس کے حوالے کر رکھا ہے اب کوئی مسئلہ نہیں آپ بس انہیں ریلیز کریں ورنہ میں اپنے لائر کے ساتھ جا کر۔۔“  سالک نے باپ کو دھمکی دینی چاہی تھی۔۔

” بس ٹھیک ہے ہر وقت باپ کو زلیل کروانے کی ضرورت نہیں۔۔“ احرام نے خفگی سے کہا ماریہ پریشانی سے ماتھا رگڑ رہی تھیں۔۔

______________

"I'll crush joseph foh ya.. I dunno what you'r up to.. why you'r so peacefull after what joseph had done.. "

(میں جوزف کو تمہارے لیے کچل کر رکھ دونگا۔۔ میں نہیں جانتا تم کیا کرنے والے ہو۔۔ جوزف جو تمہارے ساتھ کر چکا ہے اس کے بعد اتنے پر سکون کیوں ہو۔۔) 

سٹیو سالک کو کال کر کے اپنی آفر پیش کر رہا تھا اور وہ پچھلے کئی دن سے ایسا کر رہا تھا۔۔ اسے سالک جیسا تیز لڑکا اپنی گینگ میں چاہئیے تھا۔۔ 

"In return..? you wan me to join ya.. stew am free soul.. i love ma freedom.. I'll handle this matter myself.. but.... I'll meet ya soon.. stay there"

(بدلے میں۔۔۔؟ تم چاہتے ہو میں تمہیں جوائن کروں۔۔ سٹیو میں آذاد روح ہوں۔۔ مجھے میری آزادی پیاری ہے۔۔ میں یہ معاملہ خود حل کروں گا لیکن۔۔ میں جلد تمہیں ملوں گا۔۔ وہیں رکو۔۔۔ ) 

سالک نے اسے صاف گوئی سے کہا اور کال بند کر کے سامنے کھڑی قدرے پرانی عمارت کو دیکھا جہاں کچھ پرانے فلیٹس تھے اور نچلے طبقے کے لوگوں کی رہائش تھی۔ 

"So Helsi.. its time foh your pay back"

(تو ہیلس۔۔ یہ تمہارے قیمت چکانے کا وقت ہے۔۔) 

سالک نے ایک نظر موبائل پر ملے فلیٹ نمبر کو دیکھا اور قدم آگے بڑھائے۔۔

💜💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜💜

وہ اس وقت کسی پرائیویٹ کالج میں بیٹھا تھا اور ان کا ایجوکیشن ریکارڈ، رزلٹس ڈیٹیل اور سٹاف کا بائیو ڈیٹا چیک کر رہا تھا۔۔ 

موبائل پر سب بڑے کزنز کے میسجز مل رہے تھے وہ ابھی تک چھیڑ چھاڑ میں لگے تھے۔۔ 

زرا جو امید لگی تھی کہ رشتہ توڑنے کا کوئی جواز ڈھونڈتا اب وہ بھی چلی گئی۔۔ دا جان بری طرح ناراض ہو چکے تھے۔۔ اب الٹا انہیں منانے کے لیے وہ پوری لگن سے یہ ”فضول“ کام کر رہا تھا۔۔

وہ اپنا کام مکمل کر چکا تھا سب بالکل سہی جا رہا تھا اس کالج میں۔۔ ان سے پھر باقاعدہ میٹنگ کا کہہ کر وہ وہاں سے نکل آیا۔۔ اور سارے میسجز پڑھے بنا ڈیلیٹ کرتا گاڑی میں بیٹھا۔۔

”واہ اللّٰہ بزنس پڑھ کر میں اب تعلیمی اداروں کا  (D.O) بن کر رہ گیا ہوں۔۔ یہی قسمت تھی میری۔۔ بلکہ میری قسمت ہی میری ہر خواہش سے الگ ہے۔۔“ وہ اللّٰہ سے شکوہ کرتا گھر کے طرف جاتی گاڑی روک چکا تھا۔۔

” گھر جا کر کیا کروں گا ہونہہ۔۔۔ جیسے سب کو میری بڑی پرواہ ہے ناں۔۔ اچھا ہے اب بس کسی سے بات ہی نہیں کیا کروں گا۔۔“ وہ سب سے ناراضگی کا پکا ارادہ باندھے ایک سکول کی طرف گاڑی موڑ گیا۔۔ 

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜💜

وہ کالج آف ہونے پر مروہ کے ساتھ باتیں کرتی جا رہی تھی کہ پیچھے سے آتی کسی لڑکی کا کندھا اس کے کندھے سے زور سے ٹکرایا وہ گرنے لگی کہ مروہ نے اس تھام لیا۔۔ 

"What rubbish.. "

مروہ گالیاں دیتی اس لڑکی کا اگنور کیے جانا دیکھ رہی تھی۔۔ دیا نے اپنا سٹولر سیٹ کیا۔ 

”میں ٹھیک ہوں مروہ۔۔ اب تم جاؤ میں بھی کام پر جاتی ہوں۔۔“  دیا نے مروہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے تسلی دی۔ اس نے سر ہلا کر قدم ڈورم کی طرف موڑے اور دیا سر جھکائے اپنے راستے کی طرف چل پڑی۔۔ اس کی طبیعت رات سے خراب تھی، ٹمپریچر محسوس ہو رہا تھا مگر وہ اگنور کیے بس پر بیٹھتی شاپ پر آگئی۔۔ 

اور اب کاؤنٹر پر سر رکھے نیم وا آنکھوں سے شیشے کے پار آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگی۔۔

"These flowers aren't fresh... why don ya demolish'em.."

(یہ پھول تازہ نہیں ہیں۔۔ تم انہیں ضائع کیوں نہیں کر دیتیں۔۔)  

دیا نے اس آواز پر مڑ کر دیکھا۔۔ وہ لڑکا پچھلے کئی روز سے ان کی شاپ پر آ رہا تھا اور اکثر اسی طرح بلا وجہ بحث کر رہا تھا۔۔ دو بار تو دیا نے ڈیل کیا مگر شاپ اونر نے دیا کو منع کر دیا کہ آئندہ یہ لڑکا آئے تو وہ خود بات کر لے گی۔۔ دیا نے اس کے دیکھنے پر اسے گھورا۔۔ عجیب سا لڑکا تھا اور بہت عجیب نظروں سے دیکھتا تھا۔۔

"Sir you may go and buy fresh flowers from other shops.. dont waste our time please.."

 (جناب آپ جا سکتے ہیں اور دوسری دکانوں سے تازہ پھول خریدیں۔۔ ہمارا وقت ضائع مت کریں پلیز۔۔) 

دیا مزید برداشت نا کر پائی تو سرد لہجے میں اس لڑکے کو ٹکا کر جواب دیا۔۔ 

اس کے لہجے پر شاپ اونر اور وہ لڑکا چونکے۔ وہ اب بھی اسے گھور رہی تھی۔۔ وہ لڑکا ایک غصیلی نظر اس پر ڈال کر چلا گیا۔۔ 

دیا نے چکراتا سر پھر سے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔۔

💜💜💜

جس سکول میں وہ اس وقت آیا تھا یہاں داجان نے پانی کی طرح پیسہ بہایا تھا۔۔ فرنیچر اور اس سکول کی بلڈنگ کی مرمت، رنگ و روغن تک کروایا تھا اور اس کے بعد یہاں کا تعلیمی ریکارڈ بھی اچھا نا تھا اور سب سے زیادہ مایوسی اسے اس بات پر ہوئی تھی کہ یہاں کے سٹاف میں تین سے چار ٹیچرز تعلیمی حساب سے اپنی سیٹ کے قابل نا تھیں مگر انہیں جان پہچان کے وجہ سے رکھا گیا تھا۔۔ داجان کا ایک ہی شوق تھا ایک ایک غریب بندے کو پکڑ کر پیسہ یا راشن دینے کی بجائے وہ چاہتے تھے اگر ہر ضرورت مند کے گھر کا ایک بھی فرد کامیاب ہو کر خود اپنے گھر کی کفالت کرے تو اس سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں تھی۔۔ 

اس لیے ان کا سارا دھیان سٹوڈنٹس کو مواقع فراہم کرنے پر رہتا تھا اور یہاں کا حال ان کے خواب کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھا۔۔

 زایان اس وقت بڑی مشکل سے ضبط کیے ہیڈ مسٹریس کی وضاحتیں سن رہا تھا۔۔ اور ہاتھ میں ایک اور ٹیچر کے بائیو ڈیٹا کی فائل تھی۔۔ اور تعلیم کا باکس دیکھ کر زایان کا پارہ ہائی ہو گیا۔۔ اس نے فائل ٹیبل پر پٹخی۔۔ 

”مس ہالہ خادم۔۔  ڈیورنگ گریجوییشن (گریجوئشن کرنے کے دوران) یہاں جاب کر رہی ہیں اور آپ نے انہیں ففتھ کلاس کا ہولڈ دے رکھا ہے۔۔ آپ کو اندازہ بھی ہے ففتھ کلاس بچوں کی (base) کے لیے کتنی امپورٹنٹ ہوتی ہے۔۔“ زایان کی سرد آواز پر ہیڈ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔۔ انہیں کہاں اندازہ تھا کبھی خاص دنوں میں بھی نا آنے والے بہرام خان صاحب اس طرح اچانک اپنے اس سرد مزاج اور نہایت سخت مزاج پوتے کو انسپکشن پر بھیج دیں گے۔۔ 

”سر دراصل یہ ٹیچر بہت زہین، محنتی اور قابل ہیں ان کے آنے کے بعد تو بچوں کے رزلٹ پر بھی کافی اچھا اثر پڑا ہے۔۔“ ہیڈ نے اسے وضاحت دینا چاہی مگر اس کا دماغ اس کی تعلیم پر اٹکا تھا۔۔ 

”آپ ابھی اور اسی وقت میٹنگ ارینج کریں اور سارے سٹاف کو بلائیں۔۔“ زایان نے آرڈر جاری کیا اور ہیڈ نے جلدی سے اس کی بات پر عمل کیا۔۔

اگلے کچھ لمحوں میں سٹاف روم میں ساری ٹیچرز جمع تھیں اور اس سخت مزاج بندے کو ڈسکس کر رہی تھیں کہ زایان کمرے میں داخل ہوا۔۔ ہالہ کا اسے دیکھ کر سانس اٹک گیا۔۔

💜💜💜💜

سالک اُس پرانے فلیٹ کے سامنے پہنچا۔۔ ڈور ہلکا سا ناک کر کے پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔ بلیک ہُڈی نے سر ماتھے تک ڈھانپ رکھا تھا اور چہرے پر سیاہ ماسک کی وجہ سے اسکو پہچاننا مشکل تھا۔ اسے کی ہول سے دیکھ کر دروازہ کھول دیا گیا تھا۔۔

"Hi hels...  after long time. "

دروازہ کھلنے پر وہ مسکرایا اور سامنے گولڈن بالوں والی لڑکی نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ اندر بڑھا۔۔ فلیٹ پرانا تھا مگر اندر گندگی اس سے کہیں زیادہ تھی میلے کپڑے، کھانے کے ریپرز اور شراب کی بوتلیں پرانے صوفے اور فرش پر پھیلے ہوئے تھے۔۔ 

"Sorry its... you suddenly rollup..  so.."

(معاف کرنا۔۔ تم اچانک آدھمکے۔۔ تو۔۔) 

وہ تیزی سے اس کے بیٹھنے کی جگہ بنانے لگی۔۔ سالک نے ناک چڑھایا۔۔ طائرانہ جاٸزہ لیتے ہوئے ارد گرد دیکھا اور سامنے ہی زرا اونچی ٹیبل پر پڑے گلدان کو غور سے دیکھ کر رکا، اس کے ڈیزائن میں ایک سوراخ تھا جو اس ڈیزائن سے میچ نہیں کر رہا تھا۔ وہ اس طرف بڑھا۔۔

"Hey.. why dont you sit here.."

وہ گھبرا کر اس کے سامنے آتی اسے پیچھے پڑے صوفے کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگی۔۔ سالک نے اس کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھا اور اس کو کندھوں سے پکڑ کر ایک طرف ہٹاتے گلدان اٹھا لیا۔۔ وہ لب کچلنے لگی۔۔

"So helsi.. this is your behaviour to your benefactor... ..

(تو ہیلسی۔۔۔ تمہارا اپنے محسن سے یہ رویہ ہے۔۔) 

سالک نے اس گلدان میں سے چھپا ہوا چھوٹا سا کیمرہ نکالا۔۔ اور اسے گھورا۔۔

"میں نے خود پر لگائے تمہاری بہن (چیلسی) کے مرڈر کے جھوٹے الزام کو معاف کیا اور تم پر ہوا مجھے مارنے کی کوشش کا کیس واپس لیا۔۔ اور یہاں تم میری ملاقات ریکارڈ کرنے والی تھیں۔۔ کیوں۔۔؟"

سالک نے درشتی سے وہ چھوٹا سا لینز اپنے ہاتھ کی مٹھی میں دبا کر اس سے پوچھا۔۔

”میرے بوائے فرینڈ نے یہ لگایا ہے۔۔ اسے خوف تھا تم مجھ سے زاتی طور پر بدلہ لینا چاہو گے۔۔ اسے لگا تم نے اس لیے پولیس سے مجھے چھڑوایا۔۔ دیکھو ایس۔۔ وہ سب میں نے غلطی سے کیا۔۔“ وہ تیزی سے سالک کو وضاحت دیتی بہت خوفزدہ لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر نہیں لگتا تھا یہ وہی ہیلسی ہے جو اتنا بڑا گروپ لے کر سالک کو مارنے کے لیے پہنچی تھی۔۔ 

” سیرئیسلی۔۔ کیا سمجھتے ہو تم لوگ مجھے۔۔ مرڈر کردوں گا تمہارا یا کیا۔۔ میں تو فاٸٹر بھی نہیں۔۔ کیوں ڈرتے ہو تم لوگ مجھ سے۔۔“  سالک منہ بگاڑتا جا کر اس کی بنائی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔ ہیلسی خاموشی سے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔

” پھر کیوں آئے ہو تم؟“ اس نے فلور کشن پر بیٹھتے ہوئے سالک کے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی۔۔ 

”مجھے وہ سب بندے چاہئیں۔۔ جو تم لائی تھیں مجھے مارنے کے لیے۔۔۔“ وہ سکون سے بولتا ہیلس کو بے سکون کر گیا۔۔

” وہ بس میرے کہنے پر اکٹھے ہوئے۔۔ کسی نے کوئی نقصان نہیں کیا۔۔ وہ کوئی گینگ نہیں۔۔ وہ سب عام سے سٹریٹ فائٹرز تھے۔۔“ ہیلس نے اسے ان کی طرف سے صفائی دی۔۔

”ہیلسی میں جانتا ہوں وہ گینگ نہیں۔۔ بدلہ نہیں لینا۔۔ مجھے ان سے کام ہے۔۔ انہیں کیسے اکٹھا کرنا ہے یہ بتاؤ۔۔ “ سالک نے اسے نرمی سے تسلی دے کر اپنی وجہ بتائی تو وہ چونکی۔۔

” کیا کام۔۔۔ یہاں بے حساب گینگ ہیں۔۔ وہ تو بس عام سے۔۔“ وہ الجھن زدہ سی بول رہی تھی جب سالک نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر اسے مزید بولنے سے روکا۔۔ وہ چپ ہوئی۔۔

”یہ جو عام سٹریٹ فائٹرز ہوتے ہیں۔۔ یہ کسی گینگ سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔۔ یہ ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو کئی قتل کر جائیں پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ انہیں کوئی اون نہیں کر رہا ہوتا یہ آزاد ہوتے ہیں۔۔ یہ اپنا کام کرتے ہی الگ ہو جاتے ہیں اور ایک ساتھ سب کو پکڑنا بھی پولیس کے بس کا کام نہیں۔۔ تو۔۔۔؟ اب بنا کویی سوال کیے مجھے جواب دو۔۔“ سالک نے سنجیدگی سے وضاحتی جواب دیا تو وہ اسے دیکھنے لگی جو خود کو معصوم ظاہر کرتا تھا اور اس کی اتنی گہری انفرمیشن پر ہیلسی نے گہرا سانس بھرا۔۔ مطلب اس کا بوائے فرینڈ ایس کے بارے میں ٹھیک کہتا تھا وہ جو دکھتا ہے ویسا نہیں۔۔ اور کافی خطرناک انسان ثابت ہو سکتا ہے۔۔ 

” انہیں میرا بوائے فرینڈ جمع کر سکتا ہے۔۔ اور وہ ابھی آنے والا ہوگا کیونکہ تم نے کیمرہ بند کر دیا ہے۔۔“ ہیلسی کے جواب پر وہ اطمینان سے صوفے کی بیک سے پشت ٹکا کر بیٹھا اور ٹھیک دس منٹ بعد ہیلسی کا بوائے فرینڈ حواس باختہ سا فلیٹ میں داخل ہوا تھا۔۔ 

💜💜💜💜EvaWrites💜💜💜

زایان سنجیدہ سا آ کر ایک چئیر پر بیٹھا اور سامنے ٹیبل پر رزلٹس کے ریکارڈ اور ٹیچرز کا بائیو ڈیٹا تھا۔۔ 

ہالہ کے پسینے چھوٹ گئے۔۔ یہ؟ یہاں؟ اب اس کے ساتھ کیا کرے گا وہ؟ اب تو سارے بدلے لے گا، اسے کیا پتہ تھا اسی بندے کی اسے سخت ضرورت پڑنے والی تھی اور وہ آخری بار لاکٹ لیکر اتنی بد تمیزی کر کے آئی تھی۔۔ وہ بابا کے منع کرنے پر ہی رک جاتی اور اس سکول کو جوائن نا کرتی۔۔ تو آج زلیل ہونے سے بچ جاتی کیونکہ یہاں سب سے کم عمر اور کم تعلیم اسی کی تھی۔۔ وہ ابھی سٹوڈنٹ تھی اور یہ جاب کر رہی تھی۔۔ اسے اندازہ ہوگیا سب سے زیادہ اسی کی کلاس لی جائے گی۔۔

وہ پتہ نہیں کیا بول رہا تھا اسے سنائی نہیں دیا۔۔ اب وہ اس کا نام لے رہا تھا وہ غائب دماغی سے اسے تک رہی تھی۔۔

” مس ہالہ خادم۔۔ “ زایان نے جواب نا ملنے پر کچھ سختی سے کہتے سب کی طرف نظر گھمائی۔۔ اور پھر اس کی نظر اس پر پڑی۔۔ 

سیاہ چادر اور نقاب میں گرین شیڈ دیتی گرے آنکھیں جو اسی پر جمی تھیں۔۔ وہ بری طرح چونکا۔۔ فارس کی کزن؟ یہاں؟

اس کا نام جاننے کا تو کبھی موقع ہی نہیں ملا تھا تو کیا وہی تھی ہالہ خادم ؟

ساتھی ٹیچر نے اس کی غائب دماغی پر اسے ٹہوکا مارا۔۔ مانا کہ لڑکا بلا کا ہینڈسم ہے پر ایسی بھی کیا بے اختیاری مس ہالہ۔۔ وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔۔ زایان بھی اب سنبھل چکا تھا۔

”سر م۔۔مجھے یہ جاب قابلیت پر ملی ہے۔۔ بہتر ہو گا آپ میری ایجوکیشن کی بجائے میرا رزلٹ دیکھیں۔۔“ وہ سنجیدہ با اعتماد لہجے میں بولی۔۔ زایان کو اس کی آنکھوں میں التجا صاف نظر آئی تھی مگر اس نے ہالہ کے کیے دعوے پر عمل کرتے ہوئے اسے اجنبیت سے دیکھا۔۔

”تو مس ہالہ آپ کے اس اعتماد کی وجہ سے آپ کو کیا لگتا ہے آپ اس جاب کے لیے صحیح ہیں۔۔؟  اگر آپ اپنی کلاس میں ٹاپ کرنے والی سٹوڈنٹ ہیں اور آپ کہیں کہ آپ کو اپنی ہی کلاس کی ٹیچر بنا دیا جائے کیونکہ آپ انہیں پڑھا سکتی ہیں تو کیا آپ کو یہ جاب دے دی جائے گی؟۔۔ نہیں اگر تعلیم کو چھوڑ کر صرف قابلیت پر جاب دی جانے لگے تو پڑھ لیا بچوں نے۔۔“ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔

ہالہ نے بولنا چاہا پر میم کے چپ رہنے کے اشارے پر بے چارگی سے سر جھکا گئی۔ 

”سر آپ ٹرائل پر ان ٹیچرز کو رہنے دیں۔۔ اور اگر رزلٹ آپ کے مطابق نا آئے تو ہم۔۔ “ ہیڈ نے اپنی رائے پیش کرنا چاہی۔۔

”بچوں کا آدھا سال آپ لوگ ٹیچرز کے ٹرائل پر ضائع کر دیتے ہیں تو پھر یہی رزلٹ آئے گا ناں۔۔“ زایان اس بار ہالہ سے زاتی دشمنی نکالتا سب پر غصہ کرنے لگا۔۔ 

ہالہ بے بسی سے لب کچلنے لگی۔۔ 

”اب تو دکھائے گا نخرے۔۔ موقع جو مل گیا بدلہ لینے کا۔۔“ ہالہ بڑبڑائی۔۔ وہ سب کو چھوڑ کر بس اسی کو پکڑ بیٹھا تھا۔۔ 

”مجھے کم تعلیم والی ٹیچرز سے ایک ہی جواب پوچھنا ہے کہ یہاں جاب کرنے کی کیا وجہ ہے وہ بھی تعلیم مکمل کیے بنا؟ “ زایان نے سنجیدہ نظر ہالہ پر ڈالتے سب ٹیچرز کو دیکھا۔

کچھ نے شوق بتایا کچھ نے مجبوری۔۔ ایک ہالہ تھی جو لب بھینچے سر ڈالے بیٹھی تھی۔۔ 

یہ نا اس کا شوق تھا نا مجبوری۔۔ وہ بس فارغ رہ رہ کر تھک چکی تھی تو یہاں آگئی مگر اُس سامنے بیٹھے سر پھرے سے کیا کہے۔۔؟

زایان نے خاموش بیٹھی ضدی لڑکی کو ایک نظر دیکھا اور پھر آس بھری نظروں سے خود کو تکتی باقی ٹیچرز کو۔۔ 

”میں ایک ہفتہ کے بعد آپ کی کلاسز کا ٹیسٹ لے کر رزلٹ دیکھوں گا۔۔ اب تک جتنا بھی پڑھایا ہے وہ سب ٹیسٹ میں شامل ہو گا جس ٹیچر کا رزلٹ صحیح نا ہوا وہ بنا بحث کیے یہاں سے چلی جائے گی۔۔“ زایان نے اپنا فیصلہ سنایا اور اٹھ کھڑا ایک کٹیلی نظر بدستور سر جھکائے بیٹھی ہالہ پر ڈالی اور باہر نکل گیا۔ 

ہالہ نے اس کے جاتے ہی پرسکون سانس لیا، کچھ ہی وقت کے بعد جب وہ کلاس میں داخل ہو رہی تھی اس کے موبائل پر میسج ملا۔۔

”تم خود کو اس جاب سے فارغ ہی سمجھو۔۔۔ بچوں کے لیے ویل مینرڈ اور ویل ایجوکیٹڈ ٹیچر ضروری ہوتی ہے اور تم میں دونوں کی کمی ہے۔۔“ میسج پڑھ کر ہالہ نے دانت پیسے۔

”نکال کر تو دکھائے زرا۔۔ بڑا آیا نواب زادہ ہونہہ۔۔“  وہ دانت پیستی بڑبڑائی۔ کچھ دیر پہلے زایان کا غصیلا روپ دیکھ کر جو ہوش اڑے تھے،  اب بحال کیے اکڑ کر بولی۔۔ اور موبائل ٹیبل پر پٹخ کر کلاس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜💜

"are you ok dia... you look pale... what happend little girl..?"

(کیا تم۔ٹھیک ہو دیا۔۔ تم زرد لگ رہی ہو۔۔ کیا ہوا چھوٹی لڑکی۔۔ ) 

شاپ اونر مسز جیمز نے دیا کو کب سے سر کاؤنٹر پر رکھے دیکھ کر اسکے پاس آ کر پوچھا۔۔ اس نے جلتی آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا اس کی آنکھوں کا گلابی پن مسز جیمز کو ٹھٹکا گیا۔۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چھوا جو بخار کی حدت سے جل رہا تھا۔۔

"am fine mrs james.... its just... am tired.. I think...?

دیا نے کمزور کپکپاتی آواز میں بتایا اور چکراتا سر تھام کر سیدھی ہو بیٹھی۔۔

“you're kidding me.. you are burning like fire.. come on.... let's go for check up before you go back like this "

(تم مذاق کر رہی ہو۔۔ تم آگ کی طرح جل رہی ہو۔۔۔ چلو بھی۔۔ اس سے پہلے کہ تم اسی حالت میں واپس جاؤ.. چیک اپ کے لیے چلتے ہیں..) 

مسز جیمز نے پریشانی سے اسے دیکھا جو ان کی بات پر نفی میں سر ہلاتی ایک ہی ضد کیے جا رہی تھی کہ وہ ٹھیک ہے جبکہ اس کا حال خراب ہوتا جا رہا تھا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا اور سر بری طرح گھوم رہا تھا۔۔ 

وہ خود پریشان ہو گئی۔۔ جب وہ آئی تھی تب تو اتنا مسئلہ نہیں تھا اور وقت گزرنے پر وہاں شام ہو رہی تھی۔۔ اسے واپس بھی جانا تھا اور حالت بھی خراب ہو رہی تھی۔

"am ok i'll take medicine from phormacy in next street.. I've to go.."

(میں ٹھیک ہوں۔ میں اگلی گلی میں فارمیسی سے دوا لے لونگی۔۔ اب مجھے جانا ہے۔۔)

 وہ ان سے معذرت کرتی اٹھ کر شاپ سے نکلی۔۔ مسز جیمز نے اس کی ضد پر کندھے اچکائے۔۔ 

وہ بری طرح گھومتا سر لیے ابھی گلی کے کارنر تک پہنچی کہ دن والے لڑکے نےاس کا راستہ روکا۔۔ دیا نے بمشکل آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔

”ہیلو بہادر لڑکی۔۔۔ اکیلی کہاں جا رہی ہو۔۔ 

مجھے جوائن کرو۔۔ ویسے بھی تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لیے میں تمہاری شاپ پر نجانے کتنی مرتبہ جا چکا ہوں مگر تم ماسک ہی نہیں اتارتیں۔۔ کیا اتنی بری شکل ہے۔۔؟“ وہ دیا کے قریب آتا بول رہا تھا وہ پیچھے ہوئی۔۔، اپنی حالت کی وجہ سے اس سے بولنا مشکل ہو رہا تھا اور دل چاہ رہا تھا اس کا منہ توڑ دے پر اپنی بے بسی پر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔۔

”آج تم نے اس طرح روڈ ہو کر مجھے شاپ سے نکال کر اچھا نہیں کیا۔۔“ وہ لڑکا گہری نظریں اس پر گاڑھے مزید قریب ہونے لگا۔۔ 

"Ahan.. she is not  the one you can take easily... not yet.. "

(آہاں۔۔۔ یہ وہ لڑکی نہیں جسے تم آسانی سے لے سکو۔۔ فی الحال نہیں۔۔) 

مسکراتی آواز پر لڑکے نے چونک کر پیچھے دیکھا۔۔ سیاہ ہُڈی میں نظر آتا سفید برف جیسا چہرہ اور سیاہ رات جیسی چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتا، سیاہ جیبز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے وہ لڑکا مسکرا کر آگے بڑھا۔۔

دیا سالک کی آواز پہچانتی وہیں دیوار کا سہارا لیتی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔

وہ لڑکا تمسخر بھری نظریں سالک پر ٹکائے اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔

"whoa... a tall young boy came to help.. what? you're her guardian or boyfriend... you're too young enough to a father boy....right? "

(ایک لمبا کم عمر لڑکا مدد کو آیا ہے۔۔ کیا؟۔۔ تم اس کے وارث ہو یا بوائے فرینڈ۔۔ باپ ہونے کے لیے تو بہت چھوٹے ہو لڑکے۔۔۔ ٹھیک۔۔؟) 

وہ مذاق اڑاتا سالک کے قریب آیا اور ہاتھ بڑھا کر سالک کی ہُڈی اتارنی چاہی مگر سالک نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ پکڑا اور مروڑ کر اس کی کمر سے یوں لگایا کہ اس کا بےاختیار رخ مڑا اور سالک کی طرف پشت ہو گئی۔۔ وہ درد سے چیخا۔۔ سالک نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر اسکی پشت پر زوردار کِک ماری اور وہ منہ کے بل زمین پر جاگرا۔۔ 

"Oooh I always wanted to show my fight to ma girlfriend.. thank you bro"

(اوہ میں ہمیشہ اپنی گرلفرینڈ کو اپنی فائٹ دکھانا چاہتا تھا۔۔ شکریہ بھائی۔۔۔) 

سالک شرارت سے ہنس کر بولا۔ اس کے اوپر سے گزرتا دیا کے سامنے جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھا۔۔ 

” تم ٹھیک ہو؟ میں بس تم سے اس دن یوں کیفے بلانے کے لیے سوری کرنے آیا تھا، شاپ لیڈی نے تمہارا بتایا تو۔۔۔“ وہ رک گیا کہہ نہیں پایا کہ اس کے یہ بتانے پر کہ دیا کی طبیعت خراب ہے اور وہ دائیں طرف گلی میں فارمیسی کی طرف گئی ہے۔۔ سالک اپنی گاڑی کا ہوش بھلائے اس طرف بھاگا آیا تھا۔۔

دیا اسی طرح سر ڈالے بیٹھی رہی اور ہاتھ بڑھا کر کسی خوفزدہ بچے کی طرح اس کی جیکٹ مٹھی میں دبا کر پکڑی۔۔ 

” مجھے ڈورم تک لے جاؤ پلیز۔۔“ وہ سسکی۔۔ سالک نے لب بھنچ کر اس کا جھکا ہوا سر دیکھا اور پھر اپنے سینے پر اس کے مٹھی کی شکل میں رکھے ہاتھ کو دیکھا۔ 

وہ نیم غنودگی میں جا چکی تھی۔۔ اس نے آگے بڑھ کر نرمی سے اسے کندھوں سے تھامتے سہارا دے کر کھڑا کیا اور اوپر اٹھا لیا۔۔ کچھ دور فلاور شاپ کے آگے کھڑی اپنی گاڑی کے پاس جا کر اسے احتیاط سے گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی ہاسپٹل کی طرف بڑھا دی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜💜

” فارس تم جانتے ہو داجان کی وجہ سے یہ کام کر رہا ہوں اور وہ ہاسپٹل والی لڑکی تمہاری بہن ہے یا جو بھی۔۔ اس کی ایجوکیشن اس جاب کے لیے سوٹ ایبل نہیں اور پھر سٹڈی کے درمیان یہ جاب کیوں کر رہی ہے وہ۔۔؟“  زایان نے سب بتا کر فارس سے سوال کیا۔۔

 ”یار چچا کی بیٹی ہے۔۔ ابھی کچھ وقت ہوا ہے جاب سٹارٹ کی اس نے۔۔“ فارس نے اکتائے ہوئے انداز میں بتایا تو زایان کی الجھن بڑھی۔۔

” کیا یہ جاب اس کی ضرورت ہے؟ مطلب تمہارے چچا فاٸنینشلی ویک ہیں کیا۔۔؟“  زایان کے لہجے میں صاف محسوس کی جانے والی فکر پر فارس تھوڑا رکا پھر سر جھٹک کر بولا۔۔

” بالکل ایشو نہیں ایسا کوئی۔۔ بس بات اتنی ہے میرے چچا کی دو بیٹیاں ہیں اور دونوں حد درجہ ضدی۔۔ یہ تو ابھی خیر کافی سلجھی ہوئی اور معصوم ہے بس میری سسٹر ایم۔اے کر رہی ہے اور ٹیچنگ بھی اس کی دیکھا دیکھی شوق چڑھ گیا ہے محترمہ کو۔۔“  فارس کے لب و لہجے پر زایان کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ اور اس نے الوداعی کلمات کہہ کر کال کاٹ دی۔۔

”معصوم۔۔؟ سلجھی ہوئی۔۔؟“  تو باقی لوگوں کی نظر میں جھوٹی لڑکی یہ بن کر رہتی ہے۔۔ گڈ۔۔۔

” ہالہ۔۔“ وہ اسکا نام لبوں پر لاتے ہی مسکرا اٹھا۔ 

”کتنا سویٹ نیم ہے یار اس کڑوی لڑکی کا۔۔“ وہ اسے یاد کرتے ہنسا۔۔ ہاتھ میں اس کا لاکٹ تھا۔۔

💜💜💜💜


ہیلسی کی کال آرہی تھی۔۔ وہ دیا کو چھوڑ کر ان کی طرف چلا گیا۔۔ اس کے بوائے فرینڈ نے وعدے کے عین مطابق ان سٹریٹ فائٹرز کا ایک بہت بڑا گروپ جمع کر رکھا تھا۔۔ سالک نے ایک نظر ان ٹیٹوز کے بھرے جسم اور چین پہنے عجیب عجیب حلیوں والے بلیکس اور وائٹس (سیاہ فام اور سفید فام) کے مکس گروپ کو دیکھا اور مطمئین ہو کر سر ہلایا۔۔ 

"Josh'll send ya the information and pictures of'em.. you've to beat..

(جاش (ہیلس کا بوائے فرینڈ) تم لوگ کو ان لوگ کی تصاویر اور معلومات بھیجے گا جنہیں تمہیں مارنا ہو گا۔۔) 

سالک نے جاش کو اپنے موبائل سے سب سینڈ کرتے ہوئے ان سب کو کہا۔۔ اور جن کا کہا جا رہا تھا ان میں سات نیگروز کے علاوہ جوزف بھی شامل تھا۔۔ 

"beat'em to pulp... let'em feel the pain.. i felt alone in dark street.... But just don let'em die..."

(ان کو مار کر کچومر نکال دو۔۔ انہیں اس درد کو محسوس کرنے دو جو میں نے اس اندھیری گلی میں اکیلے محسوس کیا تھا۔۔ لیکن۔۔ بس انہیں مرنے مت دینا۔۔) 

سالک کے چہرے کے تاثرات اس وقت پتھر کی طرح سخت اور برف جیسے سرد ہو رہے تھے۔۔ سیاہ آنکھوں میں سرخ ڈورے خون ابھرے ہوئے تھے۔۔ وہ سب اس چھوٹے لڑکے کی سرد آواز پر مسکرائے۔۔ 

"wooa man I thought you're the innocent guy.. you are givin uz dangrous vibes.. "

(وٶ یار۔۔ میں نے سوچا تھا تم ایک معصوم بندے ہو۔۔ تم ہمیں خطرناک محسوس کروا رہے ہو۔۔) 

ایک بندے نے کہا۔ سب سالک کو اس طرح دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے۔ یقیناً یہ لڑکا چھپی ہوئی موت جیسا ہے۔۔ اس کا بدلہ لینا انہیں پسند آرہا تھا وہ خطروں کے کھلاڑی تھے انہیں یہی چیز متاثر کرتی تھی۔۔ 

سالک نے سر جھٹکا اور گہرا سانس بھر کر خود کو نارمل کیا اور لبوں پر وہی نرم مسکان کھلائے الگ سا بندہ بن گیا جیسے۔۔

"Josh lemme know their condition.."

(جاش مجھے ان کی حالت بتانا۔۔ ) 

تصاویر بھیجنے کا کہتا سالک وہاں سے نکل پڑا۔۔

💜💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

زایان سوٹڈ بوٹڈ تیار ہو کر بالوں کو جیل سے سیٹ کیے خود پر کلون کی بارش کر چکا تھا۔۔

مگر پھر بھی لگتا تھا تیاری ادھوری رہ گئی ہے۔۔ وہ جب سکول پہنچا تو کھلبلی مچی تھی۔۔

 ہر کلاس ٹیچر بچوں کو رٹے لگوانے پر سر کھپا رہی تھی اور بچے اس افراتفری پر بری طرح پریشان صورت لیے کتابوں کو ہاتھ میں لیے گھبراہٹ میں کبھی پڑھتے کبھی دہراتے تھے۔۔ انہیں تو یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا ٹیسٹ اچھا نا ہونے پر ان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔۔ انہیں لگا یہ ان کے لیے بھی نقصان ہی ہو گا۔۔

ہالہ بھی تھوڑی بہت اندرسے ڈری ہوئی تھی مگر ظاہری طور پر وہ خود کو نارمل رکھے کھڑی تھی۔۔ ٹیسٹ لیا جا رہا تھا۔۔ زایان ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے مغرور سا بیٹھا تھا۔۔ 

اور پھر وہی ہوا جس کا اسے اندازہ تھا سالوں کا خراب رزلٹ ایک ہفتہ میں کیسے بہتر ہو سکتا تھا۔۔ کچھ سب پڑھا ہوا تیار کرنے کا ٹائم کم تھا۔۔ کچھ ٹیچرز کی دھمکیوں نے بچوں پر پریشر اتنا ڈالا کہ جو آتا تھا وہ بھی خراب کر گئے۔۔

البتہ کچھ ٹیچرز کا رزلٹ بہترین تھا مگر ان میں ہالہ شامل نا تھی۔

زایان نے پوائنٹس چیک کرتے ہوئے جب ہالہ کی کلاس کا چیک کیا تو اس کا جی چاہا زور زور سے قہقہے لگائے۔۔ ہالہ نے سر جھکا رکھا اور زایان کے سامنے پہلی مرتبہ وہ اس طرح جھکے سر اور خاموشی سے ٹھہری تھی۔۔ 

”جن کا رزلٹ خراب ہے وہ جاب سے فارغ ہیں ان کی جتنی پے بنتی ہے انہیں دیں اور کچھ پڑھی لکھی ٹیچرز کو ان کی جگہ ہائر کریں۔۔“ زایان کی سنجیدہ بارعب آواز ہال میں گونجی۔۔

”سر اس طرح اچانک سے ٹیچرز کا ملنا مشکل ہو گا ابھی اس منتھ کے لاسٹ تک یہ ٹیچرز اگر۔۔۔“ ہیڈ نے اسے سمجھانا چاہا مگر نہیں۔۔

” اگر آپ کہیں تو میں ڈھونڈ لاؤں؟۔۔ اتنی پڑھی لکھی لڑکیاں جاب لیس گھوم رہی ہیں اور آپ لوگ صرف جان پہچان پر کم تعلیم والی ٹیچر ہائر کر لیتے ہیں۔۔ دیکھئیے اس مرتبہ اگر اس سکول کے کسی بچے نے پوزیشن نا لی تو اپنا سکول آپ خود سنبھالئیے گا۔۔“ وہ بے مروتی اور سختی سے بولتا ان کو چپ کروا گیا۔۔

”میں نے اسی منتھ کے سٹارٹ میں جوائن کیا تھا۔۔ تو بچوں کا یہ رزلٹ میری وجہ سے نہیں ہے۔۔“ ہالہ کے لیے زایان کی اکڑ برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔ پورا دن عجیب ٹینشن بھرا ٹیسٹ اور پھر رزلٹ بنانے میں گزر گیا تھا اور اب عین چھٹی کے وقت وہ آرڈر جاری کر رہا تھا جب مزید بحث کا وقت بھی نہیں بچ رہا تھا کیونکہ سکول آف ہونے کے بعد رکنا مشکل تھا۔

”مس ہالہ آپ نے یہ بات اس روز کیوں نہیں کہی جب ٹیسٹ کی بات ہوئی تھی۔۔“ زایان نے سینے پر ہاتھ باندھ کر سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔۔

” آپ نے اس روز میری بات سنی کب تھی؟۔۔ اور پھر میں نے اس ہفتہ میں پوری کوشش کی کہ شاید کچھ بہتری آس کے اور آیی بھی ہے۔۔ “ وہ دانت کچکچاتی بمشکل اپنا لہجہ ”تمیز“ کے دائرے میں رکھ پائی تھی۔۔ زایان اس کی بے بسی پر دل میں خوب قہقہے لگا رہا تھا۔۔

”میں نے سب کی بات سنی۔۔ میں نے سوال بھی کیا، جاب کرنے کی وجہ تک پوچھی، تب شاید آپ کو جواب دینا گوارا نہیں تھا۔۔“ زایان نے اسے جتایا۔۔

باقی سٹاف حیرت سے ہالہ کی جرأت ملاحظہ کر رہا تھا جو اتنے سخت گیر انسان سے اس طرح بحث کر رہی تھی اور عام حالات میں کوئی دوسرا ایسی جرأت زایان کے سامنے کر بھی نہیں سکتا تھا مگر ہالہ کو باقی جگہوں پر اس کی اجازت چاہئیے نہیں تھی اور یہاں زایان نے خود ہی اجازت دے دی تھی۔۔ سب آہستہ آہستہ وہاں سے جانے لگے۔۔ ہالہ گھورتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ 

”دیکھیں جناب ذاتی دشمنی بیچ میں مت لائیں تو اچھا ہوگا۔۔ میں یہ جاب نہیں چھوڑ سکتی پلیز۔۔“ ہالہ دھیمے لہجے میں زایان سے کہتے ہوئے آخری جملہ پر نا چاہتے ہوئے بھی التجائیہ انداز میں بولی تھی۔۔ زایان نے ایک نظر بغور اسے دیکھا اور پھر قدم بڑھاتا اس کے عین سامنے آن ٹھہرا۔۔ سینے پر بازو باندھے اور جھک کر اسکی نقاب میں چھپی آنکھوں میں جھانکا۔۔

”مس ہالہ آپ اس جاب سے فارغ ہیں۔۔“ وہ مکمل سنجیدگی سے جملہ مکمل کر کے مسکرایا۔۔ 

جب فارس نے اسے بتایا تھا کہ وہ شوقیہ یہ جاب کر رہی ہے وہ خود چاہتا تھاکہ ہالہ جاب نا کرے اور اپنی سٹڈیز پر فوکس کرے۔۔ سکولز کی جاب کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔

ہالہ نے بے بسی اور غصے سے اس زہر سے بھی زیادہ زہریلے بندے کو گھورا۔۔ 

” دنیا کے سب سے ذیادہ گھٹیا، بےحس، بدتمیز اور بے ہودہ انسان ہو تم۔۔ تم سے اچھے کی امید تھی بھی نہیں مجھے۔۔ اللّٰہ کرے ظالم ترین بیوی ملے جو تمہارا جینا حرام کردے اور یہ جو آج استانیوں کے لیے چمک کر آئے ہو ناں ساری بے ہودگیاں نکال دے تمہاری بیوی۔۔ آمین۔۔“ وہ اس کے سامنے اپنا پچھلے ہفتے سے ضبط کیا سارا غصہ تفصیل سے اتارتی پلٹ کر چلی گئی۔۔ زایان حیرت کے مارے اتنا شاکڈ ہوا کہ جواب تک نا دے پایا اور نا ہی ہالہ نے اتنا موقع دیا تھا۔۔  صد شکر ارد گرد کوئی موجود نا تھا۔۔ وہ گنگ سا ہالہ کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔

💜💜💜💜EvaWrites💜💜💜💜

سالک اس کے منع کرنے کے باوجود اسے ہاسپٹل سے اچھے سے چیک اپ کروا رہا تھا۔۔ فوری ٹریٹمنٹ اور میڈیسنز سے وہ کچھ گھنٹوں میں کافی بہتر ہو گئی۔۔  

اس کے سنبھلنے پر ہی سالک اسے ڈورم تک چھوڑنے گیا۔۔ اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر اپنے پاس رکھا۔ وہ دواؤں کی وجہ سے نیم غنودگی میں تھی تو آرام سے موبائل دے دیا۔۔ 

وہ اسے سہارا دیتا اندر گیا آگے مروہ اور وہ انڈین لڑکی دونوں موجود تھیں، دیا کو سالک کے ساتھ آتا دیکھ کر ہر کوئی متوجہ ہونے لگا تھا۔۔ مروہ خود بھی ہونق سی سالک کو دیکھ رہی تھی۔۔ پرنس؟ دیا کے ساتھ؟

"I saw her, sitting on street and she wasn't in good condition so... I had to rescue her... and am done here.."

(میں نے اسے گلی میں بیٹھے دیکھا تھا۔۔ اس کی حالت اچھی نا تھی تو مجھے اسے اس حالت سے بچانا پڑا۔۔ اور میرا کام یہاں ختم ہوا۔۔)

وہ سنجیدگی سے بولا۔۔ مروہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیا کو تھاما اور کمرے میں لے گئی۔۔ ہاں مگر وہ انڈین لڑکی کچھ دیر بعد آئی تھی۔۔

💜💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

زایان سب کے درمیان صوفے پر نیم دراز تھا۔۔ باقاعدہ سب نے ہر قسم کی لالچ دے کر سوری کی تھی اور اسے منایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کی مرضی کی شادی کرنے میں اس کی مدد کریں گے۔۔ اب یہ نہیں پتہ تھا اس بات میں کتنی حقیقت تھی وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔۔ کب کونسا کام کر جائیں یا کب اپنے کہے سے پھِر جائیں کچھ پتہ نہیں چلتا تھا اور یہ تو معمول کی بات تھی سو زایان بھی اب سب کچھ بھلائے ان کے درمیاں بیٹھا تھا مگر سوچ کا زاویہ اسی چھوٹی سی لڑکی کے گرد گھوم رہا تھا جس کی زبان اس کے سائز سے بھی بڑی تھی۔۔ 

” میں نے تو اسی کا فائدہ کرنا چاہا تھا۔۔ مجھے بھی اندازہ ہے یہ جابز کتنی ٹف ہوتی ہیں۔۔۔

اپنی سٹڈیز پر فوکس کیسے کر پائے گی اگر یہ جاب کی تو۔۔۔ اتنی تیز چھری جیسی زبان ہے اس لڑکی کی توبہ۔۔ بات کرتی ہے تو بندے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔۔۔ اور بد دعا دے ڈالی۔۔؟ 

اللّٰہ اسکی دعا سن لے کیونکہ پوری دنیا میں اگر کوئی ایسی ظالم بیوی ہو سکتی ہے تو وہ خود ہے۔۔ “  وہ دل ہی دل میں سوچتا اس بات پر ہنسا۔۔ اور بکھرے بالوں میں انگلیاں چلاتا سنوارنے لگا۔۔ 

وہ اس کے سامنے ہونے پر اس کی باتوں پر بہت چڑ جاتا تھا مگر بعد میں وہی سب باتیں انجوائے کرتا تھا۔۔ 

ریان اور راسم اس کے خیالوں میں گم ہونے کا فائدہ اٹھائے اسکا موبائل چھان رہے تھے۔۔ مگر کسی لڑکی کی تصویر نا ملی وہ میسجز پر گئے اور ایک کنورسیشن پر دونوں ٹھٹکے۔۔ میسجز سے زیادہ نام نے ٹھٹکایا تھا۔۔

"Fast &furious"  (تیز اور غصیلی)

وہ اونچا اونچا پڑھ کر سب کو بتانے لگے کانٹیکٹ نیم بھی میسج بھی۔۔ جن سے اندازہ ہو چکا تھا یہ وہی لاکٹ گرل ہے۔۔

زایان بھی ان کی حرکت پر چونکا اور جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ سب زایان کے یک طرفہ میسجز انجوائے کر رہے تھے اور وہ خفت زدہ ہو رہا تھا۔۔

”راسم بھائی۔۔ ریان میرا سیل دے دیں ورنہ بہت برا ہو گا۔۔“ وہ دھمکیاں دینے لگا مگر پرواہ کسے تھی۔۔ اس نے اٹھ کر موبائل چھینا۔۔ 

”کیا بات ہے زایان لڑکی جواب نہیں دیتی یا تم نے اس کے میسجز ڈیلیٹ کیے ہوئے ہیں؟ 

دیکھ کر ہی پتہ چل رہا ہے لڑکی کا سہی رعب ہے زایان پر اور یہ ننھی منھی کوششیں کرتا ہے رعب جھاڑنے کی۔۔ 

داجان بچارے اس مجنوں کے دماغ سے اس حسینہ کا خیال نکالنے کے چکر میں لیلٰی مجنوں کو سکول میں ملوا بیٹھے۔"

سب کے جملوں پر زایان بِنا جواب دئیے سیٹی بجاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور ڈور لاک کرتے ہی ہالہ کو میسج کیا۔

"say sorry to me haala.. it was too much.. I'll never let it go.."

(مجھے سوری کہو ہالہ۔۔ یہ بہت زیادہ ہو گیا تھا میں یہ بات جانے نہیں دوں گا۔۔) 

_____________

ہالہ نے رات کے برتن دھو کر کچن صاف کیا اور دروازہ بند کر کے ایک نظر بابا کے کمرے میں جھانکا پھر اپنے اور دیا والے مشترکہ کمرے میں آگئی۔۔ دیا کو میسج کرنے کے لیے موبائل اٹھایا تو میسجز آئے ہوئے تھے۔۔

"say sorry to me haala.. it was too much.. I'll never let it go.."

"ok sorry I was rude today.."

"do not burden yourself hala for this tough job.."

sorry..     ok sorry na.... okayyy sorry..

بہت سارے میسج تھے ہالہ بری طرح تپ گئی۔۔

یہ میرا نام کیسے لے رہا ہے۔۔ میں جاب کروں یا نہیں اسے کیا تکلیف ہے۔۔ آج جب میں یہ سیٹ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی تب تو کیسے فرعون بن گیا ہونہہ۔۔ 

وہ طیش میں بڑبڑاتی جا رہی تھی مگر میسج کے جواب نہیں دئیے۔۔

اور وہ جو آج بری طرح ڈس ہارٹ ہوئی تھی۔۔ بابا سے بھی کہہ چکی تھی کہ اب جاب نہیں کرے گی اس کے میسجز نے زخم تازہ کر دیا۔۔

نجانے کونسی منحوس گھڑی تھی جب اس بندے سے میرا ٹکراؤ ہوا اور تب سے بد بختی میرے ماتھے پر ہی بسیرا کر گئی۔۔ کوئی جو کام میرا سیدھا ہوا ہو۔۔ 

وہ ناک چڑھائے گلے میں پہنے لاکٹ پر عادت کے مطابق انگلی پھرتی بولتی جا رہی تھی۔۔

💜💜💜EvaWrites💜💜💜

سالک گاڑی گیراج میں کھڑی کرتا دیا کا موبائل اٹھائے گھر میں داخل ہوا۔۔

"Salik dinner is ready.. 

اس کی مام نے اسے دیکھ کر بتایا تاکہ دوبارہ نکلنے کا نہیں سوچے۔۔

"I don't have appetite..

(مجھے کھانے کی حاجت نہیں۔۔) 

وہ ہاتھ کھڑے کیے بولا اور دوسری طرف ڈنر ٹیبل پر لگاتی میڈ کو دیکھا۔۔

"Meini one cold coffe.. in ma room.."

(مینی ایک کولڈ کافی۔۔ میرے کمرے میں۔۔)

وہ حکم دیتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ 

نائٹ ڈریس نکال کر فریش ہونے چلا گیا اور جب واپس آیا تو کولڈ کافی کا بڑا مگ اس کی سائڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔۔ وہ بیڈ پر نیم دراز ہوتا دیا کا موبایل اٹھا کر ان لاک کرنے لگا۔۔ 

اس نے لاک آج ہی اس انڈین لڑکی سے پوچھ لیا تھا جو دیا کی روم میٹ اور فرینڈ بھی تھی۔۔ 

"اب یہ تمہارا قصور ہے کہ تم نے اپنا لاک سب کے سامنے لاپروائی سے کھولا۔۔“ وہ دل میں اس سے مخاطب ہوتا پورا موبائل مزے سے چھان رہا تھا۔

پھر گیلری کھولی۔۔ سیاہ آنکھوں میں ستارے سے چمکنے لگے۔۔ 

وہ بڑے جوش اور سکون سے یہ غیر اخلاقی حرکت کر رہا تھا جس کا اندازہ اس وقت دواؤں کے زیرِ اثر سکون کی نیند لیتی دیا کو ہو جاتا تو سارے نشے اور سکون اڑ جاتے۔۔ اور بخار ساری زندگی نا اترتا۔۔

 کولڈ کافی کے سپ لیتا کسی تھیٹر میں مووی دیکھنے جیسا انجوائے کر رہا تھا۔۔ سامنے ہی دیالہ کی تصاویر تھیں۔۔  براؤن شہد رنگ لمبے سیدھے بال۔۔ کہیں جوڑے کی شکل میں تو کہیں کیچر میں اس طرح قید تھے کہ سلکی لٹیں نکل کر چہرے کے گرد پھیلی تھیں۔۔ گلابی معصوم سا چہرہ اور نازک سے نقش۔۔ اور ایک بھی تصویر میں وہ صاف ستھری یا سجی دھجی نہیں تھی۔۔ سب تصاویر میں رف حلیہ تھا اور بکھرا بکھرا میلہ کچیلا کسی کام کرنے والی ماسی جیسا حلیہ، مگر کوئی بھی نازیبا تصویر یا کہیں بھی بے لباسی کی جھلک تک نا تھی۔۔

سالک متاثر ہوا۔۔ 

"Diana the good pretty girl.. why are you in hell damnil.."

(اچھی پیاری لڑکی دیالہ۔۔۔ تم اس جہنم میں کیوں ہو۔۔) 

اس کا امریکہ جیسے آزاد ملک میں آ جانا سالک کو اکثر ہی برا لگتا تھا۔۔

اور پھر ایک ویڈیو سامنے آئی۔۔ سالک رک گیا۔۔

اس نے وہ اوپن کی تو سامنے وہ سپائسی فوڈ کی وجہ سے گلابی آنکھیں اور گلابی ناک لیے ندیدے بچوں کی طرح کھا رہی تھی اور سوں سوں کرتی ڈوپٹے سے ناک رگڑتی جا رہی تھی۔۔

"Eww yuk ugly princess.."

سالک نے اسکا حلیہ اور حرکتیں دیکھ کر ناک چڑھا کر کہا اور نچلا لب دانتوں میں دبائے ہنسی دباتا ایک ایک کر کے اس کی ہر تصویر اور یہ ویڈیو اپنے موبائل میں شئیر کرتا چلا گیا اور سب ریکارڈ مٹاتا مزے سے لیٹ گیا۔۔ 

اگر کسی کو لگتا تھا سالک شریف اور اچھا بچہ ہے تو یہ ان کی غلطی ہے سالک کی نہیں۔۔

💜💜💜💜💜💜

” کہاں جا رہے ہیں داجان۔۔ “ زایان داجان کو تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھتا دیکھ کر فوراً آگے ہوا اور ان کا ہاتھ تھاما۔۔

”انویٹیشن آیا ہے کہیں سے۔۔ وہاں جا رہا ہوں۔۔“ وہ رک کر اسے دیکھنے لگے۔۔ چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔ 

” سکول سے آیا ہے یا کالج سے؟ میں جاتا ہوں ناں داجان۔۔ باقی سب بھی تو سنبھال رہا ہوں۔۔ “ زایان نے رونی صورت بنا کر انہیں دیکھا جو ابھی تک ناراض تھے۔۔ 

”او میرا بچہ میں کسی دوست کے پوتے کی شادی میں جا رہا ہوں۔۔ اگر تمہارا انٹرسٹ ہے تو نیکسٹ ویک ایک سکول میں رزلٹ پروگرام ہے۔۔ اس سکول کا رزلٹ بہت شاندار ہے بورڈ کی تین پوزیشنز لی ہیں بچوں نے۔۔ وہاں مجھے چیف گیسٹ کے طور پر انوی ٹیشن ملا ہے۔۔ وہاں چلے جانا اور ان بچوں کی مزید ایجوکیشن کے لیے سکالرشپ یا دوسری کوئی ضرورت ہو سب سنبھال لینا۔۔“  اس کا گال تھپتھپا کر اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے لگے ہاتھوں کام بھی سونپ دیا اور وہ بس پھیکا سا ہنس پڑا۔۔ 

داجان چلے گئے وہ اپنے بال نوچنے لگا۔۔  

”زایان خبیث کیا ضرورت تھی داجان سے پوچھنے کی۔۔ افف اب اس بورنگ پروگرام میں جانا پڑے گا اور وقت برباد ہو گا۔۔“ وہ بال بگاڑتا دوبارہ سے گاڑی میں بیٹھ کر خود بھی گھر سے نکل گیا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜

دیا صبح اٹھی تو کافی بہتر تھی۔۔ موبائل کی تلاش میں ہاتھ مارا مگر کہیں نا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔۔ مروہ سے پوچھا تو اس نے بھی نفی میں سر ہلایا۔۔

 پھر اس نے اور مروہ نے پورا کمرہ چھان مارا پر کہیں نا ملا۔۔ ان کی روم میٹ صبح کی ہی جا چکی تھی۔۔ 

”شاپ سے جب نکلی تھی میرے ہاتھ میں تھا مگر اس کے بعد کا کچھ نہیں اندازہ۔۔ “ دیا نے مروہ کے پوچھنے پر بتایا۔۔ 

 تھک کر مروہ کالج چلی گئی اور وہ ڈورم سے نکلتی قریبی پارک تک گئی۔۔ ایک سائیڈ کے بنچ پر سر ڈال کر بیٹھ گئی۔۔ اب گلی گلی جا کر موبائل ڈھونڈنے کی ہمت نا تھی۔۔

اور رات جو ہوا اس کی شرمندگی الگ تھی۔۔

مسز جولی کے بار بار کہنے پر بھی وہ ضدی سی نکل تو پڑی تھی اور اگر سالک نا آتا؟ وہ نا بچاتا تو اس اکیلی گلی میں کون آتا اس کی مدد کے لیے؟ اس کے بابا نے کتنا سمجھایا تھا بےوقت بلا وجہ بہادری مت دکھانا۔۔ اسے کیوں زعم تھا وہ بہادر ہے۔۔ وہ با اعتماد اور بہادر بے شک ہوتی مگر اچھی لڑکیاں اگر اپنی حفاظت کے لیے احتیاط کریں تو اسے بزدلی نہیں کہا جاتا بلکہ یہی ان کی بہادری ہے۔۔ اور یہ بات خادم صاحب کے ہار بار سمجھانے کے باوجود ان کی دونوں بیٹیوں کی سمجھ میں نہیں بیٹھتی تھی۔۔

 فرق اتنا تھا ہالہ کے کارنامے چھپے ہوئے تھے دیا کے سامنے تھے مگر دونوں نے قسم کھا رکھی تھی ان کی بات پر عمل نہیں کرنا۔۔

دیا کا زہن بھٹک کر سالک کی طرف گیا۔۔ وہ کیسے سالک سے ہیلپ مانگ گئی۔۔ کیسے اس پر اعتبار کر گئی۔۔ اگر رات اسے کچھ ہو جاتا تواس کے پاس یہاں کوئی اپنا نہیں تھا جو اس کی مدد کو بڑھتا مگر رات سالک نے کسی اپنے کی طرح اسکو محفوظ کیا تھا اور اس کی بیماری میں بھی اس کا خیال رکھا تھا۔۔ 

سالک جو دیا کو موبائل واپس کرنے آیا تھا۔ اس کے ڈورم سے نکل کر پارک آنے تک خاموشی سے اس کے پیچھے سر ڈالے ایک ہاتھ جینز کی پاکٹ میں اور ایک ہاتھ میں اپنا موبائل پکڑے چل رہا تھا۔۔ اس کا یوں بنچ پر بیٹھ کر سوچوں میں گم رہنا نوٹس کیا اور آگے بڑھ کر بنچ پر اس سے فاصلہ رکھ کر بیٹھ گیا۔۔ 

دیا نے چونک کر اسے دیکھا اور سر جھکا لیا۔۔

”کیا تم اب ٹھیک ہو۔۔ رات تم کسی بچے کی طرح رو کر مجھ سے مدد مانگ رہی تھیں۔۔“ سامنے دیکھتا وہ لبوں پر مسکان دبائے سنجیدگی سے بولا اور دیا خفت زدہ ہوئی۔۔

”ہاں اب بہتر ہوں۔۔ تھینکس۔۔ معاملہ برابر ہوا۔۔ کچھ وقت پہلے تم بھی اسی طرح مجھ سے مدد مانگتے رونے والے تھے بس۔۔“ دیا نے اسے جتایا تو وہ ہنس پڑا۔۔ 

”برابر کہاں۔۔ تم مجھے وہاں چھوڑ آئی تھیں اور میں تمہارے سنبھلنے تک تمہارے ساتھ رہا۔۔“ وہ بھی کہاں چوکنے والا تھا احسان جتا کر بولا۔

”تم لڑکے ہو تمہارے پاس گاڑی تھی۔۔ میں لڑکی ہوں میں کیسے ہاسپٹل لے جاتی۔۔ مگر مدد آ جانے تک میں بھی تمہارے ساتھ رہی تھی۔۔“ وہ دونوں ایک دوسرے کو شکریہ کہنے کی بجائے احسان جتانے میں لگے تھے۔۔

”میں نے وقت پر پہنچ کر تمہیں اس لڑکے سے بچایا اور تم اتنی لیٹ آئی تھیں کہ وہ مجھے تقریباً مار چکے تھے۔۔“ سالک نے ایک اور فرق بتایا۔۔

”تم نے ایک لڑکے کو ہرا کر مجھے بچایا، کوئی اتنا بڑا کارنامہ نہیں تھا۔۔ اور میں لڑکی ہوں سپر ہیرو تھوڑی ہوں جو اتنی بری طرح مارتے لوگوں سے بچا پاتی۔۔“ وہ منہ بسورتی رخ دوسری طرف پھیر گئی۔۔ سالک نے چہرہ موڑ کر اسے گھورا۔۔

”میں نے تمہارے موبائل کی حفاظت کی تم نے تو بس مجھے دوسرے لوگوں کے حوالے کر دیا تھا اور کچھ بھی نہیں۔۔“ سالک نے جیکٹ کی پاکٹ سے موبائل نکالتے ہوئے سکون سے اس کے سامنے کیا۔۔ دیا کی آنکھیں پوری سے زیادہ پھیل گئیں۔۔ جلدی سے اپنا موبائل لیا۔۔

”کاش مجھے تمہارے موبائل کا پاسورڈ معلوم ہوتا تو کوئی پرائیویسی نا رہنے دیتا۔۔“ سالک نے معصوم صورت بنائی تو دیا نے دھڑکتے دل سے دل میں شکر ادا کیا۔۔

”مگر ہر بار ایسا نہیں ہوگا پھر کبھی تمہارا سیل میرے ہاتھ لگا تو سب ڈیٹا نکالوں گا اور میں”کسی“ سے بھی پوچھ سکتا ہوں تو بہتر ہے اپنا پاسورڈ بدل دو اور کبھی کسی کو مت بتانا۔۔“ سالک نے سنجیدگی سے کہتے اسے وارننگ دی اور اس خیال پر دیا بھی ڈر گئی۔۔

میرے ایگزامز ہیں مجھے چلنا چاہئیے اور۔۔“ وہ اٹھا اور رک کر دیا کو دیکھا جو موبائل ہاتھ میں دبائے پہلے کی نسبت کافی ریلیکس لگ رہی تھی۔

”وہ کہتے ہیں نا نیکی کر دریا میں ڈال۔۔ مجھے ایسا کرنا نہیں آتا۔۔ میں جو نیکی کروں اسے سنبھال کر رکھتا ہوں اور بہت اچھے سے یوز کرتا ہوں۔۔“  اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری جو دیا کو بھی چونکا گئی۔۔

”میں نے جو رات نیکی کی ہے ناں ڈی۔۔ میں اس کا بدلہ بھی لوں گا۔۔“ وہ مڑ کر چلا گیا۔۔

” میں ”اس“ انسان کو اچھا سمجھ بیٹھی؟ لعنت ہے مجھ پر۔۔“ دیا غصے سے اس کی پشت دیکھتی بڑبڑائی۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜💜

وہ گاڑی مارکیٹ کے سامنے روک کر خود آگے بڑھا۔۔ راسم کی برتھ ڈے آنے والی تھی اور زایان اس کی یونی لیول کی کلاس فیلو رائمہ کی طرف سے گفٹ بھیجنے والا تھا۔۔ رائمہ کا راسم پر بری طرح کرش تھا۔۔ وہ کچھ وقت راسم کو گفٹ کے طور پر پرفیومز بھیجتی رہی تھی اور اس بات پر ایک بار راسم کی داجان سے اچھی خاصی کلاس لگ چکی تھی اور یہ بات راسم کی وائف بھی اچھے سے جانتی تھی۔

اب زایان وہی پرفیوم رائمہ کے نام سے راسم کو بھیجنے والا تھا۔ اسے یہ بھی پتہ تھا وہ پرفیوم کہاں سے مل سکتا تھا اس لیے اسی مارکیٹ آیا تھا۔۔ وہ پرفیوم سب کے درمیان جا کر راسم کو دینے والا تھا اور اس کے بعد راسم کا اس کی بیوی اور داجان جو بھی حال کریں اس کی بلا سے۔۔ 

زایان کا کام بس وہیں تک تھا۔۔ وہ تصور میں راسم کی حالت سوچتا سامنے ہی ریک میں پڑی ایک اکلوتی پرفیوم کی شیشی کی طرف بڑھا یعنی وہ بس ختم ہی تھا اور آخری بچ گیا تھا۔۔ زایان کے اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ رکھتے ہی اسی لمحہ ایک اور ہاتھ بھی پرفیوم پر آن رکا تھا۔۔ زایان نے اسے دیکھا اور چونکا۔۔ 

” ہالہ۔۔۔ ؟“ اس کے نام لینے پر ہالہ نے دانت کچکچا کر اس کے ہاتھ سے پرفیوم چھیننا چاہا مگر زایان نے بھی گرفت مضبوط کر لی۔ 

”دیکھو ہالہ آج کوئی بحث نہیں۔۔ مجھے ہر حال میں یہی پرفیوم چاہئیے۔۔“  زایان نے نرمی سےاسے سمجھایا۔۔ باکس پر پکڑ مضبوط رکھی۔۔

”خبردار جو میرا نام لیا دوبارہ۔۔ اور اس پرفیوم پر پہلا حق میرا ہے اور مجھے بھی ہرحال میں چاہئیے۔۔“ ہالہ نے اسے گھورا اور باکس دوسری جانب سے پکڑے رہی۔

”او۔کے نہیں لیتا نام۔۔ دیکھو سب لوگ متوجہ ہو رہے ہیں۔۔ تم اس طرح مجھ سے بحث کرتی بہت آکورڈ لگ رہی ہو۔۔ سو ضد مت کرو۔۔ پلیز۔۔“ زایان نے ارد گرد دیکھ کر چالاکی سے کہا۔

”ہاں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ لڑکا خوامخواہ لڑکی سے الجھ رہا ہے۔۔ مجھے اپنے بابا کے برتھ ڈے گفٹ کے طور پر یہ پرفیوم چاہئیے اور میں یہ ہرگز نہیں جانے دوں گی۔۔“  ہالہ نے جھٹکے سے کھینچا تو زایان کی گرفت زرا ہلکی ہونے کی وجہ سے پرفیوم اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔۔

”میں تم جیسی بدتمیز لڑکی کو ہرگز مزید فیورز نہیں دینے والا۔۔ ابھی اور اسی وقت پرفیوم دو ورنہ آج یہاں تماشہ کھڑا ہو جائے گا۔۔“  زایان سختی سے بولا۔ وہ راسم سے بدلہ لینے کا پلان فیل نہیں ہونے دے سکتا تھا۔۔

”اور مجھے تم جیسے بے ہودہ انسان کے منہ لگنا بھی نہیں ہے۔۔ اور تماشے کی خوب کہی، یہ اب کیا لگا رکھا ہے۔۔ میلہ۔۔؟“ ہالہ بپھر گئی تھی اس کے بدتمیز کہنے پر۔۔ 

”تم ناں انتہا کی سر پھری اور بےشرم لڑکی ہو۔۔ جو ہر وقت ہر جگہ سامنا ہونے پر جان بوجھ کر مجھ سے الجھتی ہو۔۔“ زایان کی نظر اس کے ہاتھ میں دبے پرفیوم پر تھی اور لہجے میں گرمی بڑھنے لگی۔۔ اسے ہالہ کا ہر بار ضد کرنا برا لگ رہا تھا۔۔

” اور تم بھی کوئی ہر وقت نفل نہیں پڑھتے رہتے اور مجھے کوئی شوق نہیں جان بوجھ کر بات کرنے کا۔۔ میری تو اپنی قسمت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے جب سے تم سے سامنا ہونے لگا ہے۔۔ اور مجھے بے شرم کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیتے تو اچھا ہوتا۔۔“ ہالہ نے تپے تپے لہجے میں کہا اور آگے چل پڑی۔۔ زایان کو آج پہلی مرتبہ سچ میں بری لگ رہی تھی۔۔

وہ سختی سے لب بھنچے اسے جاتا دیکھ رہا تھا پھر جھٹکے سے اس شاپ سے نکلتا مارکیٹ سے بھی نکل گیا اور فارس کو کال کر کے اس پرفیوم کا نام بتا کر لانے کا کہا۔۔ 

فارس دوسری مارکیٹس کا بھی جانتا تھا۔۔ اس نے او۔کے کہہ دیا۔۔ زایان غصے سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes 💜💜💜

سالک کو جوزف اور ان بندوں کی نہایت بری حالت کی پکچرز ملی تھیں۔۔ انہیں وحشیانہ طریقے سے مارا گیا تھا اور بس اٹکتی سانسیں رہنے دی تھی۔۔ سالک نے جاش کو ”ویل ڈن “ کا میسج بھیجا اور ان کی ڈیل سے بھی زیادہ رقم بھیجی۔۔ وہ ان کے کام سے مطمئین ہوا تھا۔۔ 

جاش اور وہ سب اتنی رقم ملنے پر سالک کے لیے جیسے خود کو قید کر گئے۔۔  

"whenever You need more favours ,We'll come.. each and any time...jus give us a call.. we'll be there.. fo ya... just gather uz.."

(جب کبھی تمہیں مزید مدد چاہئیے۔۔ ہم آئیں گے۔۔ ہر دفعہ کسی بھی وقت۔۔ بس ہمیں بلانا۔۔ ہم وہاں ہوں گے تمہارے لیے۔۔ بس ہمیں اکٹھا کر لینا۔۔) 

سالک نے میسج پڑھ کر ڈیلیٹ کیا۔۔۔ وہ اپنے راستے خود بنانا جانتا تھا۔۔

اس بدلے سے فارغ ہو کر وہ اپنے ایگزامز میں بزی ہو گیا تھا اور جس روز اس کا لاسٹ پیپر تھا۔۔ اسے سٹیو کی کال موصول ہوئی۔۔

"S you've a problem...Its about the girl from flower shop... I'll tell you but first.. let's make a deal.. I'll help you and you'll work fo me.. hurry up you don't have much time.."

(ایس تمہارے لیے ایک مسئلہ ہے۔۔ یہ فلاور شاپ والی لڑکی کے بارے میں ہے۔۔ میں تمہیں بتاؤں گا مگر پہلے ڈیل کرتے ہیں۔۔ میں تمہاری مدد کرونگا اور تم میرے لیے کام کرو گے۔۔ جلدی کرو تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں۔۔) 

سالک کے سر پر خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔۔ وہ جس طرح شاپ پر بار بار جاتا تھا،۔۔ جیسے وہ دیا کو کیفے بلوا کر مام سے ملوا چکا تھا۔۔ جیسے ہاسپٹل میں اٹینڈنس الاؤ نا ہونے پر بھی دیا کو اجازت دی تھی۔۔ اور جیسے اس روز شام کو لڑکے سے بچا کر ہاسپٹل لے گیا تھا۔۔ 

تو اس کے دشمنوں کی نظر دیا پر تو پڑنی ہی تھی۔۔ اس نے یہ بات کیوں نہیں سوچی تھی۔۔

"So the deal is I'll tell ya about your daughter.. clara is drugs addicted since last three months and she is in relation with the boy who is the membr of jack's gang.. "

(تو ڈیل یہ ہے میں تمہیں تمہاری بیٹی کے بارے میں بتاؤں گا۔۔ کلارا کو پچھلے تین ماہ سے ڈرگز کی عادت پڑ چکی ہے اور وہ جس لڑکے ساتھ ریلیشن میں ہے وہ جیک کی گینگ کا ہے۔۔) 

سالک نے سرد لہجے میں کہا۔۔ جیک کی گینگ لڑکیوں کو ڈرگز کا عادی کر کے آگے بیچ دینے کے لیے مشہور تھی۔۔ سٹیو کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے اس اطلاع پر۔۔ 

"S gimme detail... please lemme know the name of boy... S... "

سٹیو پاگل ہونے لگا اسے ڈیل بھی بھول گئی۔۔

"Why sudden stew... i'll save ma girl first... and am not sure if I should tell you are not..."

(اچانک کیوں سٹیو۔۔ میں پہلے اپنی لڑکی کو بچاؤں گا۔۔۔ اور مجھے نہیں پتا کہ تمہیں بتاؤں گا یا نہیں۔۔) 

سالک کے کہنے پر سٹیو بے بس ہوا۔۔ اور جلدی سے بنا کسی شرط کے وہ انفرمیشن سالک کو بتا دی جسے وہ سالک کو اپنا کرنے کے لیے یوز کرنا چاہتا تھا۔۔ سالک نے سب سنتے ہی کال بند کی اور تیزی سے گاڑی میں بیٹھتا مارسیل کا نمبر ملا گیا۔۔ 

"Marcell...wana know about illegal bike race..? meet me the same cafe..."

(مارسیل۔۔ الیگل بائک ریس کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟۔۔ مجھے اسی کیفے میں ملو۔۔) 

سالک نے بولتے ہی کال بند کی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ اس کا پیپر تھا اور آخری سمسٹر کا آخری پیپر اگر وہ چھوڑ گیا تو پورے سمسٹر پر اثر پڑتا مگر یہ بات اسے بھول چکی تھی۔۔

💜💜💜Yaman Eva Writes💜💜💜💜

راسم برتھ ڈے کیک کاٹ کر ابھی داجان کے منہ میں پیس ڈال کر ہٹا تھا کہ ملازم نے ایک پارسل لا کر پکڑایا۔۔  

”راسم صاب آپ کے لیے آیا ہے۔۔“ راسم نے مسکرا کر لیا اور جذباتی ہو کر اسی وقت پیکنگ کھولی جب اندر سے پرفیوم نکلا جہاں داجان وہ پرفیوم دیکھ کر چونکے وہیں راسم کا رنگ اڑا۔ ریان نے جلدی سے پیکنگ پر لگا کارڈ کھولا۔۔  

”ہیپی برتھ ڈے ڈئیر راسم۔۔ یورز رائمہ۔۔“ صائم اور دوسرے سب کزنز راسم کی کلاس کے لیے پہلے سے تیار ہو بیٹھے اور داجان کی تو غصے سے بری حالت ہو گئی۔۔

”بے غیرت ڈھیٹ تم نے رابطہ ابھی ختم نہیں کیا۔۔ انتہا درجے کے بےشرم ہو تم۔۔“ راسم کی شکل پر بارہ بجنے لگے اس نے تو کب کا اس لڑکی کو منع کردیا تھا ایسا کچھ بھی کرنے کا۔۔ پھر اچانک کیسے۔۔ وہ خود بھی کنفیوز تھا۔۔ 

”اب ان کو پرائیویسی دے رکھی ہے ان کا سیل فون چیک نہیں کیا جاتا، ان کا کہاں کہاں آنا جانا ہے ان سے کوئی پوچھتا نہیں اس لیے۔۔۔“  اس کی بیوی نے گھور کر داجان کو وہ سب آزادیاں ختم کرنے کا اشارہ دیا۔۔ سب ہی راسم کو شرم دلا رہے تھے۔۔ زایان ایک طرف بیٹھا سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے سوچا تھا راسم کی یہ درگت انجوائے کرے گا مگر اسے کوئی دلچسپی ہی محسوس نہیں ہوئی۔۔ 

اس کا دماغ پرفیوم شاپ پر ہونے والی لڑائی پر ہی اٹکا تھا۔ 

”ٹھیک ہے میں اوور ہو گیا مگر اس کی بھی غلطی ہے ہر وقت جھگڑا اور بدتمیزی کر کے چل پڑتی ہے۔۔ میں نے اتنی بدتمیزی تو کبھی کسی کی برداشت نہیں کی۔۔ جتنی اس کی برداشت کر چکا ہوں وہ بھی کھلے دل سے مگر کوئی حد ہوتی ہے۔۔“  وہ مسلسل دل میں ہالہ پر ناراض ہوتا اپنی ضد اور اپنی جواباً کاروائی بھول چکا تھا۔۔ 

راسم نے بھی ایک نظر اسے شک سے دیکھا تھا کہ کہیں زایان نے بدلہ نا لیا ہو۔۔

 مگر اس کا گم صم انداز دیکھ کر اپنی سوچ کی نفی کی اگر وہ ہوتا تو اس وقت انجوائے کر رہا ہوتا۔۔ وہ بے چارا سر پکڑ بیٹھا۔۔ بیوی الگ ناراض ہو چکی تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrite💜💜💜

سالک کالج میں دیا کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا تو مروہ کو جا لیا۔

” وہ ڈورم سے تو مجھ سے بھی پہلے نکل چکی تھی اور کالج بھی نہیں آئی۔۔۔ آج آنا تو تھا مگر۔۔ ہو سکتا ہے اس کی طبیعت ٹھیک نا ہو۔۔“ وہ اسے بتاتے ہوئے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔ اس کا تو آج پیپر تھا اسے تو اس وقت ایگزام ہال میں ہونا چاہئیے تھا اور وہ دیا کا پوچھتا پھر رہا ہے۔۔؟

سالک وہاں سے نکلا اور ہر ممکن جگہ چھان ماری۔۔ مگر وہ کہیں نہیں تھی۔۔

اس کی شاپ پر گیا تو وہاں شاپ اونر اکیلی کھڑی تھی۔۔ 

"yes I called her to come here early cuz I've to go somewhere but she isn't here yet.. its already late.."

(ہاں میں نے اسے بلایا تھا کہ جلدی آجائے کیونکہ مجھے کہیں جانا ہے مگر وہ ابھی تک یہاں نہیں آئی۔۔ پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔۔)  

مسز جولی نے ٹائم دیکھتے ہوئے منہ بنا کر کہا۔۔ 

سالک وہیں تھم گیا۔۔ اسے سٹیو نے بتایا تھا کہ جوزف دیا کو کڈنیپ کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے اور یہ بات سٹیو کے ایک بندے نے بتائی تھی جو جوزف کی گینگ میں سٹیو کا سپائے تھا۔۔ 

اور جوزف لڑکیوں کو یوز کر کے جیک کی گینگ کو دے دیتا تھا۔۔  تو کیا وہ جوزف کے ہاتھ لگ چکی ہے؟

سالک کوایک دم اس لڑکی پر شدید غصہ آیا جو اس کے حواس سلب کر چکی تھی۔۔ وہ یہاں آئی ہی کیوں تھی۔۔ اتنی چھوٹی ایج میں بغیر کسی فیملی کے وہ یہاں آنے کا سوچ بھی کیسے گئی۔۔ اس کا جی چاہا بھاڑ میں جھونکے اور چلا جائے۔۔ 

ابھی بھی کچھ وقت باقی تھا اس کے پیپر میں اگر ابھی سب چھوڑ کر چلا جائے تو آرام سے پہنچ جاتا مگر۔۔ دیا پھر کبھی ساری زندگی آذادی میں سانس نا لے پاتی۔۔ 

اس نے لب بھنچ کر مارسیل کو کال ملائی اور جوزف کے خفیہ ٹھکانے کا پتہ دیا جہاں وہ الیگل بائک ریس کرواتا تھا اور آج رات بھی کروانے والا تھا۔۔ مارسیل کی ٹیم ان بائکرز کو موقع پر پکڑنے کے لیے ایک عرصہ سے کوشش کر رہی تھی مگر جوزف بہت تیز تھا کب بائک ریس کروا لیتا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔۔

سالک کی طرف سے یہ ٹِپ (خبر) ملتے ہی اپنی ٹیم کو ریڈ کے لیے ریڈی کیا۔۔ 

سالک نے بے چارگی سے سٹیو کو کال ملائی۔۔ 

"No any deal stew.. help me to save ma girl and I'll give ya detail of boy your daughter is dating.."

( کوئی ڈیل نہیں سٹیو۔۔ میری لڑکی ڈھونڈنے میں میری مدد کرو اور میں تمہیں اس لڑکے کی تفصیل دوں گا تمہاری بیٹی جسے ڈیٹ کر رہی ہے۔۔) 

سالک نے سنجیدگی سے کہا اور سٹیو نے فوراً حامی بھر لی۔۔

"Am not sure where that damn kept her.. am tryin to contact my boy..."

(مجھے اندازہ نہیں اسے کہاں رکھا ہے۔۔ میں اپنے لڑکے سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔ ) 

سٹیو نے جلدی سے کہا۔۔ سالک نے کال کاٹ دی۔۔

"josh i've a work foya.. if anyone know about the secret places of joseph.. give'em work call... I've to release a girl from joseph.. its urgent..."

(جاش میرے پاس تمہارے لیے کام ہے۔۔ اگر کوئی جوزف کے خفیہ ٹھکانے جانتا ہے۔۔ انہیں کام پر بلاؤ۔۔ مجھے ایک لڑکی کو جوزف سے آزاد کروانا ہے۔۔ یہ ضروری ہے۔۔) 

سالک نے دیا کا حلیہ بھی بتا دیا اور کال کاٹی۔۔ 

اس کے سیل پر احرام ، ماریہ۔۔ کالج ہیڈ اور نانا کی کالز آرہی تھیں۔۔ وہ جانتا تھا وہ لوگ اس کے پیپر سے غیر حاضری سے پریشان ہیں۔۔

اس نےماریہ بیگم کی کال اٹینڈ کی۔۔ 

”سالک تم ٹھیک ہو ناں۔۔ تم پیپر کے لیے کیوں نہیں گئے۔۔؟“ وہ حددرجہ پریشان تھیں لگتا تھا رو پڑیں گی۔۔

”ایم فائن مام۔۔۔ میں پیپر نہیں دے پاؤں گا۔۔۔“ وہ پریشانی سے لب کاٹتا بولا اور بنا کسی وضاحت کے کال کاٹی اور یہی عمل اس نے احرام اور کالج والوں کے ساتھ بھی کیا۔۔ 

”پیپر دوں یا اس مصیبت کو بچاؤں جو میرے لیے عذاب کی طرح نجانے کہاں سے نازل ہو چکی ہے۔۔“ نانا کی کال اٹینڈ کرتے ہی وہ چیخ پڑا وہ چونکے۔۔

"Are you talking about sia?.. what happend to her?? "

نانا کے پریشانی سے پوچھنے پر اس نے سب بتایا۔۔ اور یہ بھی کہ دیر ہوئی تو پھر دیا کبھی نظر نہیں آئے گی۔۔

"Ohh paper isn't a big deal.. we'll freez the smester.. just go ahead.. am comin too"

(اوہ پیپر بڑی بات نہیں۔۔ ہم سمسٹر فریز کروا لیں  گے۔۔ تم بس جاؤ۔۔ میں بھی آرہا ہوں۔۔)  

نانا نے کہہ کر کال کاٹ دی اور سالک کو سمجھ نا آئی کہ اب کیا کرے کہاں جائے۔۔

"go to hell... just go to hell shitt.."

سالک دیا پر غصے سے چلا رہا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا اسے بھاڑ میں جھونکے اور گھر جا کر ریلیکس کرے پر اس کا دل اور دماغ اس بے حسی پر راضی نہیں ہو رہے تھے۔۔ 

وہ جانتا تھا اس کا یہاں کوئی نہیں جو اسے بچا پائے گا۔۔ اس نے پھر سے مارسیل کو کال ملا کر جلدی کرنے کو کہا اور بتایا کہ اسے لڑکی آذاد کروانی ہے اگر ملے تو مارسیل کسی کے سامنے نا لائے بس سالک کو کال کرے۔۔ مارسیل نے او۔کے کہہ کر کال کاٹی اور سالک گاڑی میں بیٹھتا جوزف کو گالیاں دینے لگا۔۔ 

پھر گاڑی سٹارٹ کر کے جوزف کی طرف چل پڑا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

 زایان اس رزلٹ ڈے پروگرام میں بےزار سا بیٹھا تھا۔ اسے سپیچ کا کہا تو اس نے معذرت کر لی وہ کونسا سچ میں ایجوکیشن آفیسر تھا جو سپیچ دیتا۔۔  سٹوڈنٹس کو پوزشن لینے پر ٹرافی دینے کے لیے اس سے کہا تو اس پر بھی اسی طرح سیٹ پر جم کر بیٹھا معذرت کر گیا۔۔ 

سب نے حیرت سے اس رُوڈ بےزار بندے کو دیکھا اگر کچھ کرنا ہی نہیں تھا تو آیا کیوں۔۔ مگر وہ نوابوں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا رہا اور پھر پروگرام مزید لمبا ہوتا دیکھ کر ہیڈ سے بات کر کے آفس میں جا بیٹھا۔۔

”معذرت سر۔۔ اگر آپ کو کہیں جانا ہے تو میں پہلے آپ کی بات سن لیتی ہوں۔۔“ اس کے اس طرح اکیلے آفس میں جا کر بیٹھنے کا سن کر وہ پریشان ہوئی کہ کہیں اس بات کو بعد میں ایشو نا بنا لیا جائے۔۔ 

” اٹس او۔کے ٹیک یور ٹائم۔۔ بٹ ہوسکے تو ذرا جلدی فری ہوں۔۔ آپ نے جو کہا کہ ان سٹوڈنٹس کے لیے منتھلی الاؤنس چاہئیے مجھے اس کی ڈیٹیل دیں۔۔“ زایان نے اسے تسلی دی تو وہ باہر چلی گئیں۔۔ 

”ویسے بھی داجان کی نظر میں نکما ہی ہوں۔۔ 

یہ لاسٹ ٹائم ہے بس زایان۔۔“ وہ آفس کے صوفے پر بیٹھا بڑبڑا رہا تھا۔۔ جب اسے آفس کے دروازے پر ہی دو نسوانی آوازیں سنائی دیں۔۔ 

” غزلہ آپی یہ جو فارس بھائی کے فرینڈ چیف گیسٹ بن کے آئے ہیں ناں۔۔ اسی نے مجھے نکالا پچھلی جاب سے بھی۔۔ اب یہاں بھی مجھے دیکھا تو میری جاب جو ابھی کنفرم بھی نہیں ہوئی ختم ہو جانی ہے۔۔“  یہ ہالہ کی آواز تھی زایان نے اس کی بات پر لب بھنچے۔۔

”نہایت ضدی لڑکی ہے مہینہ بھی نہیں ہوا اور یہاں جاب کرنے آگئی۔۔“  وہ خود سے بولا۔۔

” اوہو یہ تو مسئلہ ہو جائے گا پھر۔۔۔ میم تو پہلے ہی بڑی مشکل سے اس ٹرائل کے لیے مانی ہیں وہ تو فوری عمل کریں گی۔۔“  غزالہ پریشانی سے بولی۔۔ اچھا وہ اس وقت سٹیج پر نظر نہیں آرہا لگتا ہے چلا گیا شاید۔۔ تم بس آفس میں بیٹھو باہر مت آنا ہم پھر فارس سے ہی بات کریں گے۔۔“ غزالہ نے اسے تسلی دی اور اس کے اندر آنے کا سن کر زایان صوفے سے کھڑا ہوتا سینے پر بازو لپیٹے عین دروازے کے سامنے ٹھہر گیا۔ چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔ 

وہ اندر داخل ہوئی تو زایان کو سامنے دیکھ کر اس کا دماغ بھک سے اڑا۔۔ چہرے پر بجلی کی سی تیزی سے نقاب کیا ایسے کہ زایان اس کی ایک جھلک بھی سہی سے نہیں دیکھ پایا تھا۔۔

” تو تم باز نہیں آؤ گی ؟“ زایان کا سنجیدہ جملہ اسے پریشان کر گیا۔۔ 

” دیکھو۔۔ مجھے جاب کی ضرورت ہے۔۔ آگے پڑھائی میں آسانی ہوتی ہے اور وقت بھی اچھا گزرتا ہے۔۔ میں گھر میں اکیلی بیٹھے بیٹھے پاگل ہو جاؤں گی۔۔ “ اس نے شاید پہلی مرتبہ زایان سے اپنی زاتی نوعیت کی بات کی تھی وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔ 

” میں نے اب تک جتنی بھی بار بدتمیزی کی ہے ناں اس سب کے لیے سوری۔۔ میں سب الزام اپنے سر لیتی ہوں تم۔۔۔ آ۔۔آپ سے صرف میں ہی بدتمیزی کرتی رہی اور میں ہی بری ہوں۔۔ اس جاب کے لیے پچھلے کئی دن سے بہت محنت کر رہی ہوں پلیز۔۔“  ہالہ کا سارا غرور اور طنطنہ کہیں بھاپ بن کر اڑ گیا۔۔ 

ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے والا حساب کیے وہ چاہے دل میں زایان کے ہر جگہ نازل ہو جانے کو خوب کوس رہی تھی مگر زبان پر معذرت اور عاجزی کا رنگ چڑھا تھا۔۔

” دل سے تو ہرگز نہیں مان رہی ہو گی تم۔۔“  زایان نے بغور اسے دیکھتے جیسے اس کے انداز میں سچائی کو کھوجنا چاہا۔۔۔۔

” آپ نے میرے دل کا اچار ڈالنا ہے؟ زبان سے تو مان رہی ہوں ناں۔۔“  ہالہ نے بے چارگی سے کہا تو زایان سب ناراضگی غصہ بھلائے ہنس پڑا۔۔

” مجھے اتنے کڑوے دل کا اچار ڈال کر اپنی محنت ضائع نہیں کرنی۔۔“ وہ شرارت پر آمادہ ہوا۔ 

” اگر اپنے چسکے سائیڈ پر رکھیں تو یہ جملہ میں نے محاورتاً کہا۔۔“  ہالہ نے غصہ دبایا نجانے اس انسان کو عزت راس کیوں نہیں تھی۔۔۔

دیکھو مجھے تمہارا یہ ٹیچنگ کرنا پسند نہیں۔۔ اور مجھے پتہ ہے تم اپنی عادت کے مطابق اس بار بھی بحث کرو گی اور میری بات تو بالکل نہیں مانو گی۔۔ پھر تمہیں کیوں لگ رہا ہے میں تمہاری بات مان جاؤں گا۔۔“ زایان کے استحقاق بھرے جملوں نے ہالہ کی ایک پل کے لیے بولتی بند کر دی۔ 

جی چاہا سب بھلائے اس کی خوب عزت افزائی کرے۔۔ آخر رشتہ کیا ہے جو یوں بول رہا ہے۔۔ جاب کرنا نہیں پسند؟

” میں آپ کی عزت کر رہی ہوں سوری بھی کر رہی ہوں تو کیوں مجھے بدتمیزی پر اکسا رہے ہیں۔۔“ ہالہ نے خطرناک تیوروں سے گھورا تو زایان جلدی سے چپ ہوا۔۔ 

”او۔کے ایسا ہے کہ یہاں اپنی فیملی کا سب سے چھوٹا لڑکا ہوں جو یونی سے فری ہو کر انجوائے کرنا چاہتا تھا مگر نکما سمجھ کر اس بوگس کام پر لگا دیا۔۔ تو میں بس اب فیملی بزنس جوائن کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔۔“ ہالہ نے بےزاری سے اس کی بات سنی جس کا اس سے لینا دینا نہیں تھا۔۔

” تو میں دوبارہ آؤں گا نہیں۔۔ تمہاری جاب کہیں نہیں جائے گی مگر ایک شرط ہے۔۔“ زایان نے مطلب کی بات اب نکالی تھی۔ ہالہ نے مجبوراً شرط کی بات پر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔ 

”اب جب کبھی سامنا ہو آرام سے اور نرمی سے بات کیا کریں گے۔۔ لڑائی نہیں ہو گی۔۔“  زایان کی شرط پر اس نے ناک پر سے مکھی اڑائی اور احسان لگا کر ”ٹھیک ہے“ کہا۔۔ 

” اس طرح میری بات مانتی کتنی اچھی لگ رہی ہو۔۔ بتا نہیں سکتا۔۔“  زایان نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اس کی بات پر ہالہ کا پارہ ہائی ہونے لگا مگر وہ ضبط سے لب بھنچ گئی اور تیزی سے وہاں سے نکلی۔۔

” یا اللّٰہ اس بے ہودہ بےشرم بندے سے دوبارہ کبھی میرا سامنا نا کروانا۔۔“ وہ باہر نکل کر اللّٰہ سے التجائیں کرتی غزالہ کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔ اور زایان اتنے دن بعد پھر سے ہلکا پھلکا سا مسکراتا ہوا صوفے پر بیٹھا اب تو سب اچھا اچھا سا لگ رہا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

دیا کا سن دماغ آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگا اسے اچانک بس سٹاپ پر سپرے کر کے بے ہوش کیا گیا تھا اور اس کے بعد کیا ہوا وہ بے خبر تھی۔

نیم وا  آنکھوں کو پورا زور لگا کر کھولنے کی کوشش کرتے اس نے دھندلایا ہوا منظر دیکھ کر اپنی حالت کا اندازہ لگانا چاہا۔۔ کمرہ حد سے زیادہ چھوٹا تھا، نیم اندھیرا تھا۔۔ کھڑکیوں پر شیٹ چڑھا کر روشنی کا راستہ بند کیا ہوا تھا۔۔ 

اس کے حواس کچھ بحال ہوئے تو وہ قید پرندے کی طرح پھڑپھڑائی۔۔ ہاتھ پاؤں بندھے تھے اور وہ ایک پرانے سے سنگل بیڈ پر پڑی تھی۔۔ منہ پر نہایت سختی سے بندھی پٹی کی وجہ سے آواز نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بے بسی سے سسک پڑی۔۔۔ کمرے میں عجیب سی بدبو تھی جو یقیناً شراب کی تھی اور ہر طرف بکھرا گند اسکا دل متلانے لگا۔۔۔

اس کی ضد اسے کہاں لے آئی تھی اور امریکہ آنے کے بعد سے ہی وہ باپ سے کیے وعدے بھی بھولتی جارہی تھی۔۔ احتیاط کرنا۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔ کسی پر بھی اعتبار نا کرنا۔۔ غیر ضروری کاموں میں مت گھسنا۔۔ کسی سے مت لڑنا۔۔ اپنا پردہ پورا رکھنا۔۔ ان میں سے کچھ بھی سہی سے نہیں کر پائی تھی۔۔ 

اسے اب سمجھ آرہی تھی پاکستان میں وہ بہادری دکھا سکتی تھی، اس کے پاس باپ کا ساتھ تھا۔۔ فارس اور اکرام جیسے بھی تھے ڈھال تھے۔۔ اسے پتہ تھا کسی مصیبت میں پھنسنے سے پہلے ہی اس کو بچا لیا جائے گا۔۔ 

یہاں اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔۔ اب جب وہ صبح سے اس عجیب کمرے میں پڑی تھی آدھا دن گزر گیا شاید کسی کو پتہ بھی نا ہو دیا غائب ہے۔۔ شاید اسے کوئی ڈھونڈے بھی نا۔۔ 

شاید وہ یہاں پڑے پڑے مر جائے اور کسی کو پتہ بھی نا چلے۔۔ اس کی ضد اسکی سزا بن گئی تھی۔۔

ہالہ نے بتایا تھا اس کے جانے کے بعد سے بابا نا سو پاتے ہیں نا باتیں کرتے ہیں۔۔ کھل کر ہنس بھی نہیں سکتے ہر وقت فکر میں رہتے ہیں۔۔ اسے اپنے باپ کی بےبسی اب محسوس ہو رہی تھی۔۔ 

اس کا باپ دنیا کو جانتا تھا وہ نہیں جانتی تھی اب جان گئی تھی۔۔ وہ غلط تھی شروع سے اب تک وہی غلط تھی اور غلطیاں کرتی چلی گئی۔۔

”اللّٰہ مجھے یہاں سے بچا لے۔۔“ وہ ہچکیوں سے روتی اللّٰہ کو پکار رہی تھی۔۔ 

اب پتہ نہیں اسکا کیا انجام ہونے والا تھا۔۔

💜💜💜

سالک کی پریشان آواز پر احرام صاحب بری طرح ڈر گئے تھے۔۔

”سالک تم پھر کسی مصیبت میں ہو۔۔ یا اللّٰہ شکر ہے تو نے بس ایک ہی بیٹا دیا ہے۔۔ ایسے دو یا تین ہوتے تو میری زندگی کا کوئی لمحہ سکون سے نا گزرتا۔۔“ انہوں نے اپنے چچا کو کال ملائی۔۔ انہیں یقین تھا سالک کا مسئلہ سالک کے نانا کو ضرور پتہ ہوگا دونوں پارٹنر جو تھے۔۔

” ہاں احرام میں تمہیں ہی کال کرنے والا تھا۔۔سالک کو بار بار پیپر کے لیے کالز مت کرنا وہ بہت اپ سیٹ ہے اس وقت۔۔ سیا کو کسی نے کڈنیپ کر لیا ہے اور وہ لوگ بہت خطرناک ہیں۔۔“ وہ تیزی سے بولے تو احرام بھی فکرمند ہو گئے۔۔

”اور ضرور وہ سالک کے ہی جاننے والے ہوں گے۔۔ دیکھ لیں آپ۔۔ ایک بار خود بھی موت کے منہ سے بچا ہے اور اب اس معصوم لڑکی کو پھنسا دیا۔۔“  وہ بری طرح پریشانی سے بولے۔۔

”وہ کچھ کر لے گا۔۔ تم ابھی تک اپنے بیٹے کو سمجھ نہیں پائے۔۔ وہ دوسرے رئیس زادوں کی طرح ماماز بوائے نہیں ہے۔۔ وہ مار کھا بھی لیتا ہے مارتا بھی ہے۔۔ اس کی پرسنالٹی میں سب پرفیکٹ ہے۔۔“ وہ الٹا سالک کی سائیڈ لیتے کال کاٹ گئے۔۔ 

” مجھے پرفیکٹ بیٹا نہیں چاہئیے مجھے بس میرا بیٹا ہر مصیبت سے محفوظ چاہئیے اور یہ بات نا میرا بیٹا کبھی مانے گا نا اس کے گرین پا۔۔“  احرام صاحب بے بسی سے سالک کو کالز کر رہے تھے۔۔ جو مسلسل اگنور کر رہا تھا۔۔ اور پھر میسج بھیجا۔۔

” پاپس پیپر کا ٹائم اپ ہے یار تنگ نہیں کریں۔۔“ اور احرام کی سانس قدرے بحال ہوئی یعنی وہ ٹھیک ہے۔۔    

” میرے جن کال اٹھاؤ ۔۔ بھاڑ میں گیا پیپر۔۔ تمہیں کوئی ہیلپ چاہئیے تو مجھے بتاؤ۔۔“ انہوں نے جواباً ٹائپ کر کے بھیجا اور اس کا وہی ہمیشہ والا جواب تھا۔

"I'll handle on my own"

سالک اپنے معاملات میں کسی کو گھساتا کب تھا اپنے طریقے سے ہی چلنا تھا اسے۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

"we have found the location of number  S.. this is the opposite direction of bike race location"

(ہم نے نمبر کی لوکیشن ٹریس کر لی ہے ایس۔۔ یہ بائک ریس والی لوکیشن سے دوسری سمت ہے۔۔) 

مارسیل کے میسج پر سالک جو گاڑی میں سٹئیرنگ پر ماتھا رکھے آنکھیں بند کیے ایک جگہ ساکن بیٹھا تھا جلدی سے سیدھا ہوا۔۔

"gimme marcell... send me location hurry up.. and you should've go to bike race.. "

سالک نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔۔ اور جاش کو کال ملا کر بندے بھیجنے کا کہا۔۔ 

لوکیشن جس طرف کی ملی تھی اس طرف جو اڈا تھا وہ جاش کو ایک بندہ پہلے بتا چکا تھا۔۔ سالک نے گاڑی اسی طرف موڑ لی۔۔ 

ٹریس کی ہوئی لوکیشن حرکت میں تھی وہ چونکا۔۔ کیا دیا کو کہیں اور لے جایا جا رہا ہے۔۔؟

گاڑی ایک نہایت رش والی جگہ پر رکی۔۔ یہ کوئی مچھلی بازار تھا۔۔ بند اور تنگ گلیاں اور ہر طرف لوگوں کا شور۔۔ گوشت مچھلی کی بدبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔۔ 

سالک نے ماسک نکال کر لگایا اور گاڑی سے اتر کر پیدل چل پڑا۔۔ مگر مسلسل موو کرتی لوکیشن پر وہ ٹھٹک کر رکا۔۔ لوکیشن بالکل قریب کی تھی مگر اسے یہاں دیا کے حلیہ کی کوئی لڑکی دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔۔ شام ہونے لگی تھی۔۔ 

دیا کو کڈنیپ کر کے اس کا سیل اسکے پاس تو نہیں رہنے دیں گے۔۔ سالک نے ارد گرد نظر دوڑائی لوکیشن بالکل قریب کی ہو چکی تھی سالک کے ساتھ سے ہی بلیک ہُڈی والا بندہ سر ڈالے گزر رہا تھا۔۔ سالک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔۔  وہ حیرت سےسالک کا منہ دیکھنے لگا۔۔

"Where is the girl... " 

وہ بندہ نفی میں سر ہلاتا رہا۔۔

"what you taklin about boy.. who the hella you.. I dunno.."

(کیا بات کر رہے ہو لڑکے۔۔ کون ہو تم۔۔ میں نہیں جانتا۔۔)  سالک اس کا گریبان پکڑے منہ پر پر پنچز مارتا اس کی بات ہی نہیں سن رہا تھا۔۔ لوگ جمع ہونے لگے اور شور سا مچ گیا تھا۔۔ 

اس بندے کو سالک نے پیچھے دھکا دیا تو وہ زور سے زمیں پر جا گرا اس کی ہُڈی کی پاکٹ سے سیل نکل کر زمیں پر گرا۔۔ سلور بلیک موبائل دیا کا تھا۔۔ سالک نے جلدی سے موبائل اٹھایا ۔۔ 

"hey you bastard..how dare ya to beat me you f*..."

وہ بندہ بری بری گالیاں دیتا چیخ رہا تھا۔۔ سالک موبائل لے چکا تھا۔۔ سمجھ گیا انہیں بھٹکانے کے لیے اس بندے کو یوز کیا گیا تھا۔۔۔ سالک نے دونوں ہاتھ اٹھا کر قدم پیچھے کیے اور جھنڈ کو چیرتا وہاں سے نکلا۔۔ بندہ ابھی بھی چیخ رہا تھا۔

"S where are you... come here "

جاش کی کال تھی وہ کہیں بلا رہا تھا سالک اسی بازار میں سے تیزی سے بھاگتا چیزوں سے اور لوگوں سے ٹکراتا آگے بڑھ رہا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

 زایان لیپ ٹاپ سامنے رکھے وہ سب فائلز بےزاری سے چیک کر رہا تھا جو آفس جوائن کرنے کے اعلان پر صائم نے دی تھیں۔۔ 

”یہ سب اچھے سے سمجھو، پڑھو، کچھ سمجھ نا آئے تو ہم میں سے کسی سے بھی پوچھ سکتے ہو۔۔ آفس جوائننگ سے پہلے یہ سب پتہ ہونا ضروری ہے۔۔“ صائم کے اس طرح کہنے پر اس نے تب تو جلدی سے (یو ایس بی) لے لی تھی مگر اب جمائیاں لیتا بےزار ہوا جا رہا تھا۔۔ 

آج کل پھر سے رشتہ کے صدمے کی وجہ سے دی جان اور باقی سب سے بھی بائیکاٹ چل رہا تھا مگر اب کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔۔ جب سے اس کا رشتہ ہوا تھا یہ دورہ اکثر لگ جایا کرتا تھا۔۔

اس کے سیل پر پورے ایک مہینہ بعد خود سے ببلی کی کال آرہی تھی وہ چونکا۔۔ 

”ہیلو ببلی سناؤ کوئی خوشخبری ہے کیا؟“ زایان بے صبری سے بولا۔۔

”زایان صاب جی آپ عزہ بی بی کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔۔ نا ان کی کالز لیتے ہیں نا میسج کا جواب دیتے ہیں۔۔“ ببلی نے الگ راگ الاپا تھا۔۔ زایان جل بھن گیا۔۔ 

” اور یہ بات تمہیں اس شریف اور دنیا کی بہترین بی بی نے بتائی ہے ؟ اسے شرم نہیں آئی منگیتر کے بارے میں ایسا سب کو بتانے پر۔۔؟“  زایان نےالٹا ناراضگی کا اظہار کر کے ببلی کو بوکھلا دیا۔۔

”نہیں صاب وہ تو جی اپنی کزنوں کو بول رہی تھیں کیونکہ۔۔“ ببلی کچھ بولتے بولتے رکی زایان کے کان کھڑے ہوئے۔

”کیونکہ کیا؟۔۔  دیکھو جو بھی ہے جلدی بتاؤ۔۔ اب ویسے بھی دی جان کہہ رہی تھیں تمہیں بلوائیں بہت لمبی چھٹی ہو گئی۔۔ اور اگر تم میرا کوئی بھی فائدہ کیے بنا آئیں تو حشر بگاڑ دوں گا۔۔ “ زایان جوش سے بولتا ببلی کو دھمکی دے گیا۔۔

” صاب وہ آپ سے اب بےزار ہونے لگی ہیں۔۔ وہ بول رہی تھیں آپ کے جیسا بندہ ساری زندگی کسی کی پرواہ نہیں کر سکتا آپ بس اپنی مرضی سے جینے والے بندے ہیں۔۔“ عزہ کے روشن خیالات سن کر زایان کے اندر تک ٹھنڈ پڑ گئی تھی۔۔ 

”نالاٸق ہے بھئی پھر تو۔۔ نفسیات پڑھ رہی ہے اور یہ نہیں سمجھ پائی اگر مجھے اس سے محبت ہوتی تو مجھ سے زیادہ کئیرنگ بندہ کوئی نہیں۔۔“ زایان بالوں میں انگلیاں چلاتا مسکرایا اور وہ کتنا سچا تھا یہ تو اسے جاننے والے بھی جانتے تھے۔۔

” ان کی آج کل اپنے ایک کزن جو باہر سے آئے ہیں، ان سے کافی دوستی ہوئی ہے۔۔ وہ کہتے ہیں نا سولومیٹ۔۔ وہ بنے ہوئے ہیں۔۔“ ببلی نے منہ بگاڑ کر کہا تو زایان نے قہقہہ لگایا۔۔ 

"سوؤلمیٹ ہوتا ہے۔۔ “ زایان نے ایکسینٹ کے ساتھ لفظ بیان کیا۔۔ 

” اب بس تم آنے کی تیاری پکڑو میرے لیے اتنا بہت ہے۔۔ باقی کام وہ لوگ خود کریں گے۔۔“ زایان نے خوشی سے پاگل ہوتے کہا۔۔ ببلی نے کال کاٹی۔۔ اس کے زایان صاب تو پاگل تھے جو اتنی اچھی لڑکی کے دل بدلنے پر خوش تھے۔۔ وہ افسوس کر سکتی تھی۔۔۔

”ہالہ میری ہالہ۔۔ تم کب میری بنو گی۔۔“ وہ ہالہ کو سوچ کر مسکرا رہا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

وہ سکڑی سمٹی سی نیم بےہوش پڑی تھی۔۔ رو رو کر آنسو جیسے خشک ہو گئے۔۔ اسے لگ رہا تھا یہاں پڑے جیسے صدیاں گزر گئی ہیں۔۔ 

دروازے پر ہوتی کھٹ پٹ سے اس کا پورا جسم خوف سے تھرا اٹھا۔۔ اندر کوئی جوان مرد آیا تھا۔۔ سفید چہرے پر سنہری ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور آنکھیں سنہری براؤن مگر حد سے زیادہ سرخ تھیں۔۔ اس کے دیکھنے پر ہی دیا کا دل کانپا۔۔ 

اس کا ماسک تو چہرے پر تھا نہیں اس کا سٹالر بھی بس سر پر اٹکا ہوا تھا۔۔ وہ بے بسی سے سسکی۔۔ وہ بندہ آگے بڑھا۔۔ 

"seems like your boyfriend is not that loyal.. nobody came to help'ya poor girl, its already evening.."

(ایسا لگتا ہے تمہارا بوائے فرینڈ اتنا وفادار نہیں۔۔ کوئی بھی تمہیں بچانے نہیں آیا بے چاری لڑکی۔۔ شام ہو چکی ہے۔۔)

 وہ استہزائیہ مسکرایا تھا۔۔ 

"I don...ve... boy..friend.."

دیا خشک لبوں کو بمشکل حرکت دے پائی تھی۔۔

"then who'se that basterd to you..? don tell me you were only one night stand girl.. are you??"

(پھر وہ*گالی کون ہے تمہارا۔۔ کہیں تم رات گزارنے والی لڑکی تو نہیں۔۔ کیا ہو؟ ) 

اس نے آگے بڑھ کر دیا کے بال مٹھی میں دبا کر جھٹکے سے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا۔۔ اور اس کے منہ پر اتنی شدت سے تھپڑ مارا کہ اس کا نازک گال اندر سے پھٹ گیا اور منہ میں خون کا زائقہ گھل گیا۔۔۔ خوف اور زلت کے مارے اس کا رنگ بالکل سفید پڑ گیا تھا۔۔ 

"I  dun..no..any..one.. 

..ple...ase...le...me...go"

دیا نے روتے ہوئے التجا کی تھی اور وہ پاگلوں کی طرح اسے گھسیٹتا بیڈ سے زمین پر پھینک چکا تھا۔۔ اس کے بال کھل کر اس کے گرد بکھر گئے۔۔ وہ بے پردہ ہو چکی تھی، وہ زلت سے گڑ گئی۔۔

"jus tell me Is that boy S is police spy?.. or he own a gang .. how could be .... he is too young.. how can he beat me .... that f* bastard abolished my gang.."

(مجھے بتاؤ وہ لڑکا ایس پولیس کا سپائے ہے؟۔۔ یا اس کی گینگ ہے۔۔ کیسے ہو سکتا ہے یہ۔۔ وہ بہت چھوٹا ہے۔۔ وہ کیسے مجھے ہرا سکتا ہے اس *گالی نے میرے گروپ کو توڑ دیا۔۔) 

وہ پاگلوں کی طرح دیا سے سالک کے بارے میں کچھ بھی سننے کے لیے اسے مار رہا تھا۔۔ اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔۔ ناک سے خون بہنے لگا تھا۔۔ منہ سے بھی وہ خون اگل رہی تھی اور لگتا تھا اس کے جسم کی جلد پھٹ رہی ہے۔۔ 

باہر اچانک شور سا پیدا ہوا تھا۔۔۔ اور قدموں کی دھمک، چیخوں اور گالیوں کی آوازوں میں شامل ہوتی عجیب سی دہشت پھیلا گئی۔ وہ بھی زرا رکا، دیا کے بال مٹھی میں جکڑے تھے اور وہ موم کی گڑیا کی طرح سر گرائے جیسے سولی پر لٹکی تھی۔۔

”جوزف“ سالک اسے دیکھ کر دھاڑا تھا۔۔

جوزف نے دیا کے بالوں سے ہاتھ ہٹایا اوروہ کٹی ہوئی شاخ کی طرح زمیں پر گری۔۔

"How dare you to touch her.. 

I'll burn your filthy hand..."

(اسے چھونے کی ہمت کیسے ہوئی تمہاری۔۔ میں تمہارے گندے ہاتھ جلا دوں گا۔۔) وہ تیر کی طرح اس کے سر پر پہنچا اور اس کا گریبان پکڑتا گھونسوں کی بارش کر گیا۔۔ وہ جنونی سا ہو رہا تھا چند لمحوں میں اس نے جوزف کو سنبھلنے کا موقع دئیے بنا اس کے منہ کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ اس کے ناک کی ہڈی توڑ دی۔۔ اس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔۔ اس کے کچھ دانت تک گرا دئیے۔۔ سالک کے اپنے ہاتھ زخمی ہو رہے تھے مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔۔ اس کے بال پسینے سے بھیگ کر ماتھے پر بکھر چکے تھے اور آنکھوں میں وحشت بھری تھی۔۔۔

you dare to touch her.. i'll kill you"

وہ مسلسل چیختا بالکل الگ روپ میں تھا۔۔ اس کی دونوں بازوؤں کی ہڈیاں توڑ دیں۔۔ اس سب میں اسے یہ بھی بھول گیا کہ اسے دیا کو سنبھالنا چاہئیے۔۔ 

"S police raid.. we've to go.."

جاش نے اسے آ کر اطلاع دی اور اپنے سب بندوں سمیت وہاں سے نکل گیا۔۔۔

سالک نے آگے بڑھ کر دیا کے بال سمیٹ کر اس کا خون سے بھرا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں ضبط اور تکلیف سے سرخ ہوئی تھیں۔۔ اس کے ہاتھ پاؤں کھول کر اس نے بے اختیار دیا کو گلے سے لگا لیا۔

"I'm sorry D... its my fault am sorry"

اسے خود میں بھنچے وہ بار بار یہی دہراتا جا رہا تھا۔۔ دیا بے ہوش ہو چکی تھی۔۔ 

”سالک ہم اسے کسی اچھے ہاسپٹل لے جا سکتے ہیں۔۔ بچی کی حالت ٹھیک نہیں۔۔“ وہ دیا کو اپنے گھر لے آیا تھا اور احرام اسے سمجھا سمجھا کر زچ ہونے لگے۔۔ مگر وہ کچھ نہیں سن رہا تھا۔۔

”میں اسے کہیں بھی اکیلا چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتا۔۔ آپ کسی اچھے ڈاکٹر کو یہیں بلوائیں۔۔ اگر اس ٹائم اسے اکیلا چھوڑا تو پوری زندگی کے لیے ٹراماٹائز ہو جائے گی۔۔“ سالک کی بے چینی اور پریشانی کی کوئی حد نہیں تھی۔۔

”ٹھیک ہے تم تو ریلیکس کرو۔۔ اتنے اپ سیٹ کیوں ہو۔۔ وہ اب سیف ہے۔۔“ ماریہ نے اس کے بال ماتھے سے ہٹاتے ہوئے پیار سے اس کا گال چوما۔۔ انہیں سالک کا یہ میچور سا روپ بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔ 

اس کے نانا اس کی حالت سے محظوظ ہو رہے تھے جو مسلسل پریشانی سے ماتھا رگڑ رہا تھا۔۔

” اس لڑکی کو ناں شوق ہے اکیلے گھومنے کا۔۔ صبح صبح اکیلی جاب پر نکل گئی۔۔“ وہ اب صوفے پر بیٹھا غصہ ضبط کر رہا تھا۔۔

” تم پر ہی چلی گئی ہے پھر تو۔۔“ احرام ڈاکٹر کو کال کرتے اسے جتانے لگے۔۔ 

”میں اسے دیکھ آؤں مام ؟ کیا اب وہ ہوش میں ہے؟“ سالک پھر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ 

”جاؤ بھئی رات سے سو بار اسے دیکھ چکے ہو۔۔ اب پوچھنے کا تکلف مت کرو۔۔“ اس کے نانا نے اسے چھیڑا وہ سر ہلاتا چل پڑا۔۔

” اوہ مائے گاڈ۔۔ سالک کتنی کئیر شو کر رہا ہے۔۔پہلی بار اسے اتنا سینسٹو دیکھ رہی ہوں۔۔“ ماریہ خوشی سے پاگل ہونے کو تھیں۔۔ 

” سالک کل سے مجھے ڈینائے کر رہا ہے۔۔ وہ کہتا ہے اسے بس فکر ہے کیونکہ وہ چھوٹی اور کم عقل ہے۔۔ پاگل کو احساس ہی نہیں وہ کتنی سپیشل ہو چکی ہے اس کے لیے۔۔“ احرام کال سے فارغ ہو کر آئے تو مسکرا کر بولے۔۔

” وہ اتنا بچہ بھی نہیں۔۔ بس وہ مانے گا نہیں۔۔“ نانا نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا۔۔

"salik is growin so well... "

ماریہ ہنس کر بولیں۔۔ ان کا وہ ضد کرنے والا، اپنی منوانے والا اور کبھی کبھی لاڈ اٹھوانے والا بیٹا کل سے کسی سمجھدار آدمی کی طرح بی ہیو کر رہا تھا۔۔ وہ دیا کے لیے کسی سائبان کی طرح بن گیا تھا۔۔ پر وہ اسے محبت کہنے کو تیار نہیں تھا۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

وہ اس پر تعیش بڑے سے کمرے میں مخملی پُرسکون بستر پر آنکھیں بند کیے پڑی تھی۔۔ 

کمرہ بہت بڑا کھلا تھا دیواریں شیشے کی تھیں مگر ان پر پردے دیے ہوئے تھے۔۔ آف وائٹ اور سکائے بلو کلر کمبی نیشن کا یہ کمرہ ہلکی سی خوشبوؤں سے بھرا تھا جس سے اعصاب پر بہت اچھا اثر پڑتا تھا مگر دیا ابھی بھی زہنی طور پر اسی گندگی بھرے چھوٹے کمرے میں تھی۔۔ جہاں اکیلی اور خوفزدہ وہ ایک پورا دن سانس اٹکائے پڑی رہی تھی۔۔۔۔ 

اسے ابھی بھی خود پر ان غلیظ نظروں کا احساس ہوتا تھا۔۔ اور جسم میں ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔۔ وہ بے چین سی پڑی سسکنے لگی۔۔

دروازہ کھلا تو اس نے بھی آنکھیں کھولیں اور دل عجیب سے خوف میں لپٹا تھا۔۔

کیا اب وہ ساری زندگی قدموں کی چاپ سے۔۔ دروازوں کی آواز سے ڈرتی رہے گی۔۔ 

سالک دھیمے قدموں سے چلتا اس کے قریب آیا وہ چھت پر لٹکتے مدھم روشنیاں پھیلاتے فانوس کو تک رہی تھی۔۔

"D are you ok?"

اس نے نرمی سے پوچھا۔۔ وہ اس پر غصہ کرنا چاہتا تھا پر اس کی حالت پر اسے مزید دکھ نے گھیر لیا۔۔ دیا نے اس کی آواز پر آنکھیں میچ لیں۔۔

کل نجانے وہ کس حال میں ملی ہو گی اسے۔۔ پردہ تو اتر گیا تھا۔۔ وہ بے ہوش تھی اور اب جب آنکھ کھلی تھی تو اس کے وجود پر ریشمی ہلکا پھلکا ڈھیلا سا نائٹ ڈریس جیسا گاؤن تھا۔۔ 

اس کے اپنے کپڑے کہاں تھے۔۔؟ وہ کس حال میں سب کے سامنے آئی تھی؟ وہ نہیں جانتی تھی اور یہی بات اسے تڑپا رہی تھی۔۔

اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ میں تکلیف اور شرمندگی کے تاثرات پر سالک نے لب بھینچے۔۔

”تم سیف ہو۔۔ سوری میں تمہیں نہیں بچا سکا۔۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ تم اس طرح نظریں بھی نا ملا سکو۔۔ تمہیں پولیس نے بچا لیا تھا تمہاری عزت محفوظ ہے۔۔ اور بحفاظت یہاں پہنچایا گیا۔۔“ سالک کے تیز دماغ نے اس کا جیسے خوف بھانپ لیا تھا۔۔ وہ اپنا زکر گول کرتا سب پولیس کے نام کر گیا۔۔ اس کو بچا کر یہاں لانے تک۔۔ اس نے اپنا آپ چھپا لیا۔۔

دیا کے کھنچے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔۔ وہ آنکھیں گھما کر سالک کو دیکھنے لگی۔۔

” وہ۔۔ بہت۔۔۔بے رحم۔۔اس۔۔نے مجھے۔۔بہت۔۔مارا۔۔“ وہ اپنی تکلیف نہیں بھول پا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر زخموں کے نشان تھے۔ سالک لب کچل کر رہ گیا۔۔ 

” مجھے بابا پاس۔۔۔جانا۔۔ہے۔۔پلیز۔۔“ وہ رونے لگی سالک نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے کے گرد لپٹے ریشمی سٹالر کے ایک کونے سے اس کے آنسو جزب کیے۔۔ 

” ایم سوری ڈی۔۔“ وہ بس یہی کہہ پایا تھا۔۔

 اسے یہ احساس بری طرح کھا رہا تھا کہ یہ سب سالک کی وجہ سے جھیلا تھا دیا نے۔۔

 ”یہاں سب برے۔۔۔ تم سب لوگ برے۔۔۔ہو۔۔“  دیا کے چہرے پر تکلیف کے ساتھ غصہ ابھرا۔۔

”look D.. nobody knows about'ya.. your friend dorm fellows or college.. and there is nothing to talk about.. no need to tell anyone.. you're ok.. and stay here untill you complete recover fom injuries.. dont think too much.."

(دیکھو ڈی کوئی تمہارے بارے میں نہیں جانتا۔۔ تمہاری دوست ڈورم یاکالج کے لوگ۔۔ اور کچھ ایسا ہے بھی نہیں کہ بات کی جائے۔۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔۔ تم ٹھیک ہو اور اپنے زخموں سے مکمل ٹھیک ہونے تک یہیں رہو۔۔ زیادہ مت سوچو۔۔) 

اس پر بلینکٹ سیٹ کر کے وہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرتا بولا اور اسی انداز میں ہی اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔

(بے حس، پتھر انسان۔۔۔ اسے احساس ہی نہیں یہ سب میں نے اس کی وجہ سے جھیلا ہے۔۔ اسے کیا لگتا ہے کچھ نہیں ہوا؟ یہ وہاں ہوتا تو اسے احساس ہوتا میں نے کتنی تکلیف جھیلی ہے۔۔ مجھے کتنی زہنی ازیت دی گئی۔۔ سنگدل انسان)  

وہ دل میں سالک کی لاپروائی پر کڑھتی سسکنے لگی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

” زایان یار پلیز میری اس کزن کی جاب رہنے دینا میری بہن تو میرا دماغ کھا گئی ہے۔۔“ فارس اور زایان ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ یونی کے بعد آج ملنے کا پروگرام بنایا تھا۔۔ جب باتوں کے دوران اچانک فارس نے کہا۔۔

” ہمم۔۔۔ میں تو اب انوالو بھی نہیں ہوں ڈونٹ وری۔۔ ویسے تمہاری سسٹر کی سپورٹ پر ہی تمہاری کزن یہ جاب کر پا رہی ہے ورنہ اس سکول میں اس کی جاب پاسبل نہیں تھی۔۔“ زایان نے ابرو چڑھا کر فارس کو کہا۔۔ 

” یار چھوڑو۔۔ ہم نے بہت سمجھایا۔۔ اکرام بھائی کو تو جاب کرنا ہی نہیں پسند۔۔ پہلے بہن کی ضد کے آگے چپ ہوئے اب اس کے لیے۔۔ خیر جب ہمارے گھر آئے گی تو پھر بھول جائے گی جابز۔۔“ فارس بےخیالی میں بولتا چلا گیا۔ زایان ٹھٹکا۔۔

” کیا مطلب ؟ تمہارے گھر۔۔“  زایان کا سارا دھیان اس بات کی طرف ہوا۔۔

مطلب یار شادی کے بعد۔۔۔ اکرام بھائی کی فیانسی ہے ناں وہ۔۔“ فارس نے اپنی بات کی وضاحت کی اور زایان کو لگا پورے ہوٹل کی بلڈنگ اس کے سر پر آگری ہے۔۔ شاک میں وہ منہ کھولے فارس کا منہ دیکھنے لگا جہاں مذاق کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔۔

” کیا ہوا۔۔؟“ فارس کو اس کا یہ انداز حیران کر گیا۔

” نہیں۔۔۔ مطلب سیرئیسلی۔۔۔ تم نے کبھی پہلے زکر نہیں کیا۔۔ آئی مین۔۔ ٹو مچ ایج ڈفرینس۔۔“  زایان نے گڑبڑا کر بے ترتیب جملے کہے۔۔ فارس ہنسا۔۔

” پہلے کبھی فیملی پر بات بھی تو نہیں ہوئی۔۔ اور ایج کا کیا ہے یار۔۔ان کی مدر ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئیں۔۔ میری امی نے انہیں سنبھالا۔۔ ہمارے ماحول کو اچھے سے جانتی ہے۔۔ امی کی خواہش تھی۔۔۔ بلکہ امی تو چھوٹی بہن کا میرے لیے کہتی تھیں پر۔۔ خیر دیکھا جائے گا میری چھوٹی کزن تو بات کرے بندہ اللّٰہ سے پناہ مانگتا ہے۔۔“ فارس نے جھرجھری لے کر بتایا۔۔

(پناہ تو اس محترمہ کی باتیں بھی مانگنے پر مجبور کرتی ہیں لیکن شاید یہ سپیشل علاج صرف میرے لیے ہی مقرر کر رکھا ہے گھنی نے۔۔) 

زایان نے دل میں جل کر کہا۔۔ اسے فارس بھی زہر لگ رہا تھا اس وقت۔۔ 

جی چاہا ٹیبل الٹ دے اور اس کا گریبان پکڑے اور دو لگا کر کہے۔۔ تم سب ہی کڑوی زبان والے ہو جب بولتے ہو دل توڑ دیتے ہو۔۔ پر ضبط کرنا پڑا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

سالک کی ساری فیملی اسے نازک پھول کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی۔ اتنی کئیر اور پیار پر دیا بھی بہتر ہونے لگی تھی۔ 

مگر سالک اب اس کا سامنا بہت کم کرتا تھا۔۔ وہ بس اسک ے سونے پر اسے جا کر دیکھتا ورنہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرتا اسے اگنور کر رہا تھا۔۔

اسے تو اس رات والی بے اختیاری پر بھی خود پر غصہ تھا۔ کیوں وہ اتنا پاگل ہو گیا۔۔

دیا کمرے میں اکیلی پڑی تھی پہلے سے کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔ سالک کی فیملی اُس کی بیسویں سالگرہ کی تیاریوں میں بزی تھی۔۔ وہ جھجھک کر کمرے سے باہر نکلی۔۔

لاکھ سب نے توجہ دی ہو مگر پرایا ہی گھر تھا۔۔ پرائے لوگ تھے۔۔ اس کی شرم اور جھجھک ویسی ہی تھی وہ فرینک نہیں ہو پائی۔۔

کمرے سے باہر قدم رکھتے ہی اس کی آنکھیں کھلیں۔۔ گھر تھا یا محل۔۔ اتنا بڑا اور شیشے کا۔۔ وہ جس روز سے آئی تھی اب نکل رہی تھی۔۔

دھیمے قدموں سے چلتی ایک کمرے کے آگے زرا رکی۔۔ اندر سے سالک کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔۔  وہ اپنے نام پر بےساختہ رک گئی۔۔

” میں نے یہ سب ”اس“ کے کہنے پر کیا۔۔ مجھے اس کا نام دیالہ بڑا عجیب لگا تھا۔۔ اس سے زیادہ اس کا حلیہ۔۔ میں نے شروع کے سب ایکسیڈنٹ جان بوجھ کر کیے۔۔۔ مجھے اس کا ضرورت سے زیادہ اعتماد کا زعم اچھا نہیں لگا۔۔ اس کا غرور توڑنا تھا۔۔۔ اسے سب کے درمیاں گرل فرینڈ کہا مجھے پتہ تھا اس کے بعد اس کا سکون برباد ہو جائے گا۔۔

مگر وہ کچھ زیادہ ہی تنگ ہو رہی تھی۔۔ اتنی کہ وہ خود کو میرے ہی نام سے سب سے بچانے لگی تو مجھے بس فیل ہوا کہ میں سزا ختم کر دوں۔۔ میں نے اسی طرح سب کے درمیان کہہ دیا میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔ 

پھر تو اس کھیل کو میں انجوائے کرنے لگا۔۔ اسے فلاورز دیتا، اس کا زچ ہونا اور گھبرانا میں انجوائے کر رہا تھا بس۔۔۔“

دیا کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔۔ وہ کھیل تھی اس انسان کے لیے؟ اس بے حس کو اندازہ بھی تھا اس کے کھیل کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں آئی اور اس نے کتنی بڑی تکلیف جھیلی۔۔ 

وہ کمرے میں آکر بستر پر گری۔۔  پوری دنیا اپنا مذاق اڑاتی محسوس ہو رہی تھی۔۔ وہ خود کو بہت سمجھدار سمجھتی تھی اور کتنی بےوقوف نکلی۔۔ وہ استعمال ہوئی اور اسے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔ یہاں کے لوگوں نے پرانی دیا کو مل کر مار دیا تھا۔۔ وہ کتنی دیر روتی رہی۔۔۔

💜💜💜

سالک اپنے نانا کے سامنے سر جھکائے سب بول رہا تھا۔۔ اس کے نانا مسکرا دیئے۔۔

” مگر مجھے اس دن اس پر ایک الگ لڑکی کا گمان ہوا تھا گرین پا۔۔ جب اس رات وہ اس لڑکے کے خوف سے سر جھکائے کسی بچے کی طرح خوفزدہ بیٹھی تھی۔۔۔ وہ ویسی تو ہرگز نہیں جیسا مجھے بتایا گیا تھا۔۔ وہ مغرور نہیں۔۔ بدتمیز بھی نہیں۔۔ وہ بری لڑکی تو بالکل نہیں۔۔۔

مجھے پہلی بار اس پر تب بہت ترس آیا تھا۔۔  وہ معصوم ہے۔۔ وہ پر اعتماد ہے۔۔ اور۔۔۔ بس وہ کئیر لیس ہے۔۔ ناسمجھ ہے۔۔ “ سالک نے لب کچلے اور گہرا سانس بھرا۔۔ دل میں ایک بوجھ تھا جو وہ آج گرین پا کے سامنے ہلکا کر رہا تھا۔۔ اس کی حالت بہت عجیب ہو رہی تھی۔۔

” پھر میں نے اس کا موبایل اٹھایا، اس کا ڈیٹا نکالا۔۔ اس کی پرائیویٹ چیز تھی۔۔ یار گرین پا۔۔ اس لڑکی نے مجھ سے وہ کام کروائے جو میں نے کبھی نہیں سوچے تھے۔۔ ایک لڑکی کا موبائل؟ سیرئیسلی آئی واز ٹوٹلی لاسٹڈ۔۔۔ میرا غلط مقصد نہیں تھا۔۔ مجھے بس اسے کھل کر دیکھنا تھا۔۔ اور شاید وہی لمحے تھے جب میں اس کا اسیر ہوا۔

she is whitch.. she makes me to do what I never imagine... she is so fine .. what the hella she.. 

(وہ ساحرہ ہے۔۔ اس نے مجھ سے وہ کام کروائے جن کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔۔ وہ بہت خالص ہے۔۔ کیا ہے وہ لڑکی۔۔) “ سالک واقعی کسی سحر میں جکڑا ہوا لگ رہا تھا۔۔

"its just you're damn honest with your emotions.. its ok boy.. its ok to fall in love.. don let'er go..

(ایسا ہے کہ تم اپنے ایموشنز میں بہت بری طرح ایماندار ہو۔۔ کوئی بات نہیں لڑکے۔۔ محبت ہو جانا ٹھیک ہے۔۔ اسے جانے مت دینا)

 اس کے نانا نے ہنس کر اس کی پریشانی دور کی۔۔ وہ بس اپنے بال بگاڑتا رہ گیا۔۔ 

”میری یہ برتھ ڈے بہت سپیشل ہونے والی ہے۔ ڈی بھی ہوگی ناں؟ میری لائف کا یہ کمنگ ٹوئنی ائیر بہت سویٹ ہے۔۔“ وہ اس بات پر کھل کر مسکرایا اور بیڈ پر بازو پھیلائے گر گیا۔۔

 وہ سب کو پاگل کرتا تھا۔۔ وہ سب کا دماغ گھما کر رکھ دیتا تھا، اس نے سب سے پیار لیا تھا مگر اب۔۔؟ اب کیا ہو گیا تھا۔۔؟

سب کو پاگل کرنے والا خود پاگل ہو رہا تھا۔۔ اس نے پہلی بار کسی سے محبت کی تھی اور اس شدت سے کی تھی کہ خود بھی چونک گیا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

دیا نے ایک پورا دن ایک پوری رات کانٹیکٹ نہیں کیا اور جب کیا تو اس کی کمزور آواز اس کے بابا کا دل دھڑکا گئی۔ 

”دیا میری جان تم ٹھیک ہو؟ “ وہ بری طرح ڈر گئے تھے۔۔ 

”میں ٹھیک ہوں بابا۔۔ بس ٹمپریچر تھا۔۔“ وہ جانتی تھی بالکل ٹھیک ہونے کا جھوٹ بولا تو وہ زیادہ پریشان ہو نگے۔۔

” دیا بار بار کیوں ٹمپریچر ہو رہا ہے۔۔“ وہ فکرمندی سے بولے، دیا کو آج ان کے لہجے میں بے بسی شدت سے محسوس ہوئی تھی ، وہ بیٹی کی طبیعت کا سن رہے تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔۔ اس نے بمشکل سسکی روکی۔۔۔

” تمہاری فرینڈ کو ہالہ نے کال کی، اس لڑکی کو تمہارا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔۔ کیسی دوست ہے اتنی لاپرواہ۔۔“ وہ ناراضگی سے بولے۔۔ اور دیا نے پہلی بار مروہ کی لاپروائی پر شکر ادا کیا تھا۔۔۔

دیا نے اسے کہا وہ ڈورم نہیں آئے گی اس نے کہا او۔کے وہ خود کسی ریلیٹو کے ہاں جا رہی تھی۔۔ 

ان دنوں سمسٹر ایگزام بریک تھا۔۔ اکثر لوگ گھروں کو گئے ہوئے تھے اور یہاں کسی کو کیا پرواہ کوئی کیا کر رہا ہے۔۔ کہاں جا رہا ہے؟۔۔ 

” بابا آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں ناں۔۔۔ میں نے بالکل آپ کی پرواہ نہیں کی، میں بہت بری بیٹی ہوں۔۔“ وہ بولی۔۔ اس لیے اللّٰہ نے مجھے سزا دی بابا۔۔ میں نے بہت تکلیف اٹھائی۔۔۔ وہ دل میں ان سے مخاطب ہوئی۔۔ 

”نہیں دیا۔۔ میں ناراض نہیں ہوں بالکل نہیں۔۔ اپنا خیال رکھو۔۔ دل لگا کر پڑھو اور۔۔۔ احتیاط کیا کرو دیا۔۔ تم بہت لاپرواہ ہو۔۔“ وہ عادت کے مطابق اسے سمجھا رہے تھے۔۔ دیا سر جھکا کر سنتی رہی اور اس بار وہ ان لفظوں کی اہمیت بھی جانتی تھی۔۔

💜💜YamanEvaWrite💜💜💜

ہالہ تائی جان کو پلاؤ دینے آئی تھی جب فارس بھائی نے اچانک پوچھا۔۔ 

”ہالہ تم زایان کو جانتی ہو۔۔مطلب کبھی ملی ہو۔۔؟“ فارس کے دماغ پر زایان کا شاکڈ ری ایکشن ابھی تک جما ہوا تھا۔۔

اس کے سوال پر ہالہ چونکی سب بیٹھے تھے۔ اکرام بھی موجود تھا۔۔

”جی ہاں جانتی ہوں۔۔ آپ کے فرینڈ ہیں۔۔ اور تائی جان جب ہاسپٹل میں تھیں۔۔۔ تب ملے بھی تھے۔۔“  ہالہ نے بنا جھجھکے اعتماد سے ”آدھا“ جواب دیا۔۔ فارس اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

” نہیں مطلب اور کہیں۔۔“  فارس کا سوال اکرام کے گھورنے پر ادھورا رہ گیا۔۔ 

”ان سوالات کا کیا مطلب ہے فارس؟  تمہارا دماغ خراب تو نہیں۔۔“ اکرام کے سخت لہجے پر فارس گڑبڑایا۔۔ 

” نہیں وہ۔۔۔ مجھے ایسا لگا زایان اسے پرسنلی جانتا ہے۔۔“ فارس نے پرسوچ لہجے میں جواب دیا۔۔ ہالہ کا دل دھک سے رہ گیا۔۔

” تو یہ سوال تمہیں اپنے اس دوست کا گریبان پکڑ پوچھنا چاہئیے تھا ناکہ یوں گھر آکر ہالہ سے تفتیش کرو۔۔“ اکرام نے طیش بھر ے لہجے میں فارس کو غیرت دلائی تو وہ چپ ہو کر رہ گیا۔۔

”بے شرم انسان بہن کی باتیں دوست سے کر ہی کیوں رہے ہو۔۔ تمہارا دماغ تو ہمیشہ سے فارغ ہی رہا ہے۔۔“ تائی جان بھی اسے اسے ڈانٹنے  لگیں۔۔ ہالہ بہانے سے وہاں سے کھسکتی گھر آگئی۔۔

”یہ بندہ میرے ہاتھ چڑھے۔۔ قتل کر دوں گی اس کا۔۔“ ہالہ نے غصے سے کال لاگ سے اس کا نمبر ڈھونڈا اور کال ملائی۔۔ وہ جو اداس سا ٹیرس میں ٹہل رہا تھا ہالہ کی کال پر ٹھٹکا ۔۔

”کیا بگاڑا ہے تمہارا میں نے۔۔۔ کیوں منحوس سائے کی طرح سر پر منڈلا رہے ہو میرے۔۔۔ فارس بھائی سے کیا بکواس کی تم نے۔۔“ اس کے کال اٹینڈ کرتے ہی ہالہ بنا لحاظ کے گولی کی طرح لگی تھی۔۔۔     

”لڑکی تمیز کا کوئی قطرہ بھی نہیں چھوڑا خود میں تم نے۔۔ زمانے سے سنو تو تم سا شریف کوئی نہیں۔۔۔ سکون تو میرا برباد کیا ہوا ہے تم نے۔۔ اب تمہیں کیا تکلیف پہنچ گئی۔۔“ زایان بھی دوبدو بولا تھا۔۔۔

” سکون کبھی ساری زندگی ملا ہے؟ مجھ پر الزام ڈال رہے ہو۔۔۔ اور زمانہ تمہاری طرح میرا جینا حرام نہیں کرتا۔۔۔ دو دن نہیں چین کے گزرتے ہیں م کہ نازل ہو جاتے ہو۔۔عذاب۔۔“ 

ہالہ دانت کچکچاتی جیسے اسے کچا چبانے کو تھی۔۔

”بس آ گئیں نا اصلیت پر۔۔ کام تھا تو تم سے زیادہ میٹھا کوئی نہیں تھا۔۔ گھنی چالاکو ماسی۔۔ تم دنیا کو پاگل بنا سکتی ہو مجھے نہیں۔۔ دل کر رہا ہے ابھی تمہارے گھر پہنچ کر سب کو تمہارے نیک فرمان سناؤں۔۔ اور فارس کی فیملی سے بھی کہہ دوں جان چھڑوا لیں اس شیطان سے۔۔“ زایان تو پہلے ہی اس کی منگنی کا سن کر بھڑکا ہوا تھا مزید اس کے الفاظ نے آگ لگا دی تھی۔۔

” نہیں یہ آگ کیوں لگ رہی ہے خوامخواہ۔۔ ابھی میرے گھر آنے کی حاجت بھی رہ گئی ہے، فارس بھائی کو میرے بارے میں کیا ارشادات سنائے کہ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے میرے دوست کو جانتی ہو۔۔ کوئی انہیں بتائے، جاننے لائق کچھ ہے ہی نہیں ان کے دوست میں۔۔“ ہالہ کا پارہ ہائی ہوتا جا رہاتھا۔۔ 

” او بی بی تم بھی کوئی مس ورلڈ کا ایوارڈ نہیں جیت چکیں۔۔ اور فارس کو کیا کہا میں نے۔۔ میرے آگے تو اتنی زبان چلتی ہے اس سے کیوں نہیں پوچھ لیا۔۔“ وہ تپ گیا اسے ہالہ پر بری طرح تاؤ آیا تھا اس وقت۔۔

” تمہیں تو اللّٰہ پوچھے گا  ان شاء اللہ۔۔۔ یہ جو دوسروں کے گھروں میں آگ لگاتے ہو ناں۔۔“ ہالہ کے جملے نے اسے سلگا کر رکھ دیا۔۔

” میں ناں آل ریڈی اچھے موڈ میں نہیں ہوں۔۔ رہی سہی کسر تم جیسی زہریلی لڑکی نے پوری کردی۔۔ اب کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو تو کال کاٹو ورنہ سن لو گی مجھ سے کچھ۔۔“ زایان نے برداشت کرتے ہوئے اسے وارننگ دی۔۔ 

”میرا بھی ساری رات کال کر کے دل جلانے کا ارادہ نہیں تھا۔۔ بس کہنا تھا اپنی لمٹ میں رہو۔۔ آئندہ فارس بھائی کے سامنے خبردار جو جان پہچان جتانے کی کوشش کی۔۔ مجھے جانتے نہیں ہو پھر۔۔“  ہالہ نے اسے سختی سے باز رکھنا چاہا۔۔ 

” بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا فارس بھائی۔۔ پورا خاندان پاگلوں کا ہے۔۔ تمہیں بھی اچھے سے جانتا ہوں۔۔ ڈبل فیسڈ۔۔“ زایان نے زہر اگلا اور دونوں نے ایک ساتھ کال کاٹی۔۔ 

” کوئی بچھوؤں کے خاندان سے تعلق ہے اس کا تو۔۔ موقع ملتے ہی ڈنک مارنے کو تیار ہوتی ہے۔۔“ وہ بڑبڑایا۔۔ سر میں درد الگ ہونے لگا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrite💜💜💜

وہ سمپل سلکی گلابی گاؤن پہنے سر پر اچھے سے ہم رنگ سٹالر لپیٹ رہی تھی۔۔ 

نازک سے نقوش والے چہرے پر بھی گلابی پن تھا چہرے پر کہیں کہیں اب بھی نشان تھے مگر گرے آنکھوں میں شعلے لپک رہے تھے۔۔۔

” مجھے کمزور اور ڈرپوک سمجھنے کی بہت بڑی غلطی کر بیٹھے ہو مسٹر سالک۔۔ تم میرے ساتھ کھیلو گے اور میں عام لڑکیوں کی طرح اس بات پر منہ چھپائے یہاں سے چلی جاؤں گی؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔ تم نے جو ازیت مجھے پہنچائی اس کا آدھا حصہ تو ضرور لوٹاؤں گی۔۔“ وہ شیشے میں اپنا نازک سراپا دیکھتی سالک سے دل میں مخاطب ہوئی اور باہر نکلی۔۔ 

باہر وہ شیشے کا محل رنگوں میں نہایا ہوا تھا کیونکہ تھیم پارٹی تھی اس لیے ارد گرد مختلف کریکٹرز اپنائے لوگ گھوم رہے تھے۔۔

دیا نے بس چہرے پر باربی ماسک چڑھا کر اپنا پردہ پورا کیا تھا۔۔ قدم بڑھاتی وہ نیچے روشنیوں بھرے ہال میں پہنچی اور ایک سائیڈ پر سب سے الگ ہو کر ٹھہر گئی۔۔

سالک نے کیک کاٹا اور سب سے مبارک اور تحفے لیتا وہ بے چینی سے یہاں وہاں دیکھتا دیا کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔ 

کچھ دیر تک سب بڑے الگ ہو چکے تھے اور ینگ پارٹی ایک الگ جگہ پر جمع ہو کر انجوائے کرنے لگی تھی جب دیا سالک کی بے چینی ختم کرتی اس کے سامنے گئی۔۔

"D tell me if you feel uneasy.. its ok to leave the party if you're tired.."

(ڈی مجھے بتاؤ تم تنگ ہو رہی ہو۔۔؟ اگر تم تھک گئی ہو تو پارٹی سے چلی جاؤ۔۔ کوئی بات نہیں۔۔) 

وہ نرمی سے بولا تھا۔۔۔ 

ڈارک بلو ٹکسیڈو میں اسکی دراز قد نوٹس میں آ رہی تھی۔۔ بال جو پہلے تو جیل سے بنا کر ماتھے سے ہٹائے ہوئے تھے اب ہلکے ہلکے ماتھے پر بکھرے تھے اور بازو کہنیوں تک پیچھے کیے وہ خطرناک حد تک وجاہت اور دلکشی کا مجسمہ لگ رہا تھا۔۔ آج جیسے ایک دم بڑا ہوگیا تھا۔۔ سب کی نظریں اس برف کے شہزادے پر ٹکی تھیں جو اس باربی کے سامنے کھڑا بول رہا تھا۔۔  

”دیا نے ارد گرد دیکھا۔۔ صرف ان کی سوسائٹی کےجوان لڑکے لڑکیاں موجود تھے اور چند ایک کالج سے سالک کے جاننے والے۔۔ 

” میں ٹھیک ہوں۔۔“ اس پر اچانک گھبراہٹ طاری ہونے لگی تھی۔۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچے وہ جیسے اپنے اندر پیدا ہوتی عجیب سی گھبراہٹ پر قابو پانا چاہ رہی تھی۔ ماسک کے پیچھے اس کا چہرہ پسینے سے تر ہو رہا تھا۔۔

سالک نے اس کے ہاتھ تھام کر اس کی سختی سے بھنچی مٹھیاں کھولیں اور اپنے ہاتھوں میں لیکر نرمی سے دبائے جیسے اسے اپنے ہونے کا احساس دلانا چاہا۔۔ دیا چونکی وہ اس کے اندر کا خوف کیسے بھانپ گیا تھا؟ سالک نے اسے دیکھا چہرے پر شفاف مسکان تھی اور دونوں ہاتھوں میں دیا کے نازک سے گلابی ہاتھ تھے۔۔

دیا اس کے چہرے کی دلکشی کو دیکھتے وہ سب الفاظ ذہن میں دہرا رہی تھی جو سالک نے اس کے لیے استعمال کیے تھے۔۔ 

اس نے اچانک اپنے ہاتھ جھٹکے سے چھڑوائے اور سالک کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے دھکا دیا۔ وہ پیچھے کی طرف ہلکا سا لڑکھڑایا اور حیرت سے دیا کو دیکھا۔۔

سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔ 

ہر طرف خاموشی چھا گئی اور سب کی نظریں سالک اور اس کے سامنے کھڑی لڑکی پر ٹک گئیں۔۔ 

دیا کے دل کا سارا غبار بہت غلط موقع پر دماغ پر چڑھا تھا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر گیا۔۔ 

وہ ”بدلہ“ اسی وقت لینے والی تھی۔۔  سالک سب کے درمیاں تماشہ بننے والا تھا۔

💜💜💜

وہ حیرت سے دیا کو دیکھ رہا تھا۔۔

"Dont touch me.."

وہ کانپتی آواز میں بولی۔۔ سب اس پاگل لڑکی کو دیکھنے لگے۔۔ سالک نے گہرا سانس بھر کر خود کو نارمل کیا اور اسے آہستہ سے پکارا۔۔ ”ڈی“

"I'm sorry... you were nervous so I..

وہ اب بھی نرم لہجے میں بولا۔۔

"I'm not weak girl.. dont you dare to touch me... I was just playing with you ... my shy behave.. my smile.. good response... was all just a game.. i wanted to show everyone that you are not special.. you are ordinary flirt boy.. you are nothing but attention seeker... "

(میں کمزور لڑکی نہیں ہوں۔۔ مجھے چھونے کی ہمت مت کرنا۔۔ میں صرف تمہارے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔ میرا شرمیلا رویہ۔۔ میری مسکراہٹ، میرا اچھا برتاؤ سب ایک کھیل تھا میں سب کو دکھانا چاہتی تھی کہ تم کوئی خاص نہیں۔۔ تم ایک عام دل پھینک لڑکے ہو۔۔ تم توجہ کے بھوکے ہو اور کچھ نہیں۔۔)   

وہ سالک سے بدلہ لینے میں اتنی نفرت میں لپٹی تھی کہ اس کے ساتھ خود کو بھی زلیل کر رہی تھی۔۔ 

سب ایک دوسرے کو دیکھتے سرگوشیاں کر رہے تھے۔۔ ان لوگ کو سالک کا یہ روپ متوجہ کر گیا۔۔

وہ لڑکی اسے برا کہہ رہی ہے اور وہ چپ ہے؟

سالک کا چہرہ اس کے الفاظ پر غصے اور خفت سے سرخ ہوا۔۔ اس نے آنکھیں سختی سے میچیں اور گہرا سانس لیتا خود پر ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔ دیا وہ سب فضول الفاظ کہہ کر وہاں سے جانے لگی تھی کہ سالک نے اس کا بازو پکڑا اور جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔ 

”میرا ہاتھ چھوڑو تم نے مجھے ذلیل کر دیا۔۔ میرا پڑھنے کا خواب تمہاری وجہ سے ادھورا رہ جائے گا۔۔ میں نےان غیر مردوں کے ہاتھوں بے حجابی کی زلت اٹھائی۔۔ تمہارا کیا بگاڑا تھا۔۔“ وہ اس سے بازو چھڑوانے کی کوشش کرتی تنفر سے بولتی چلی گئی۔۔ سالک نے لب بھنچے۔۔

"show me your face one more time and i'll never let this slid.. get out..

(ایک بار اور اپنا چہرہ دکھایا تو یہ بات ایسے نہیں جانے دوں گا۔۔ دفع ہو جاؤ۔۔) 

سالک نے سرد لہجے میں کہہ کر اس کا بازو چھوڑا۔۔

اس کے لہجے پر وہ کانپی اور تیزی سے پیچھے ہوتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔ 

وہ جان ہی نہیں پائی وہ اس کے لیے اپنے فائنل سمسٹر کا پیپر چھوڑے دیوانوں کی طرح اسے ڈھونڈتا رہا تھا۔۔

اسے پتہ ہی نہیں چلا وہ اس کو ڈھونڈ کر کیسے سب کی نظروں سے بچا کر اپنے سینے میں چھپا گیا تھا۔۔ 

وہ یہ بھی بھول گئی ایک بار اندھیری گلی میں اس کی عزت بچانے کا احسان کر چکا ہے۔۔

وہ اس کی محبت نہیں جان پائی اور اس کو سب کے درمیان زلیل کر کے چلی گئی۔۔ 

اسے لگا تھا اب سب سالک سے نفرت کریں گے۔۔ وہ غلط تھی۔۔ وہ اگر پلے بوائے تھا، فلرٹ تھا تو بھی یہاں کھڑے ہر ایک کو قبول تھا کیونکہ یہاں یہ سب چلتا تھا۔۔ وہ خود کو کسی کے سامنے ”اچھا“ بنا کر پیش کرتا بھی نہیں تھا مگر آج وہ خو کو سب کے سامنے بری لڑکی بنا گئی تھی۔۔ وہ اپنی زات کا تماشہ بنا گئی تھی۔۔

سالک کتنی دیر اسی جگہ کھڑا رہا۔۔ اس کی زندگی کا یہ سال اسے ساری زندگی یاد رہنے والا تھا ۔۔۔

وہ جتنا خوش تھا اتنا اب بکھر کر رہ گیا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

” بابا مجھے واپس بلالیں۔۔ مجھے آپ کی اور ہالہ کی یاد آتی ہے۔۔ اس لیے میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی۔۔“ وہ اپنے باپ کو کال کر کے رو پڑی تھی۔۔ وہ گھبرا گئے۔۔ 

”ٹھیک ہے دیا ۔۔۔ پریشان کیوں ہو رہی ہو۔۔؟ کیا کسی نے کچھ کہا ہے۔۔؟ “ انہیں عجیب عجیب وہم ستانے لگے تھے۔ اتنی ضد اور شوق سے گئی تھی اور اب بی کام بھی پورا نہیں کیا کہ واپسی کی رٹ لگا لی۔۔ وہ بس روتی رہی۔۔ 

انہیں کسی طرح پیسہ برابر کر کے اسے بلوانا ہی پڑا تھا۔۔ دیا کے سب خواب ادھورے رہ گئے اور وہ کسی مجرم کی طرح چپ چاپ امریکہ سے واپس آگئی اور اس سب کا زمہ دار وہ اب بھی سالک کو ہی مانتی تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

وہ شاور لیکر شیشے کے سامنے کھڑا بال خشک کر رہا تھا جب اچانک ہالہ کی رات والی بات یاد آئی۔۔ فارس اس سے کیوں پوچھ رہا تھا کہ وہ مجھے جانتی ہے یا نہیں۔۔؟ 

فارس بھی دنیا کا عیار ترین بندہ ہے۔۔ زرا سی بات ہی تو کی تھی وہ بھی حلق میں پھنس گیی گھنے کے۔۔ وہ منہ بناتے بڑبڑایا۔

کہیں وہ میری وجہ سے مشکل میں نا پھنس جائے۔۔ فارس کی فیملی کہیں اس پر شک تو نہیں کر رہی؟ اسے فکر ہونے لگی۔۔

اچھا ہے شک کرے اور وہ اکرام شک میں منگنی توڑ دے گا۔۔  اچانک شیطانی سوچ دماغ میں آتے ہی اس کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمکنے لگیں۔۔

لیکن۔۔ نہیں یار لڑکی ہے بچاری۔۔ کہیں زیادہ مشکل میں نا آ گئی ہو۔۔ جس نے کبھی میسج کا جواب نہیں دیا۔۔ اس نے کال کر لی مطلب ضرور کوئی مسئلہ ہے۔۔ 

اس کی فکر مزید بڑھی تو اپنا موبائل اٹھا کر میسج ٹائپ کرنے لگا۔۔

”ہالہ زیادہ ایشو بنایا فارس نے تو مجھے بتاؤ۔۔ میں کلئیر کر دوں گا۔۔ بائے گاڈ ایسی کوئی بات نہیں کی کہ وہ شک کرے۔۔ مجھے بتاؤ اگر کوئی مدد کر سکوں تو۔۔“ 

میسج سینڈ کرتے وہ بےچینی سے موبائل کی سکرین دیکھتا رہا۔۔ اسے پتہ تھا اگر زیادہ مسئلہ ہوا تب ہی جواب آئے گا ورنہ نہیں۔۔ 

موبائل ٹیبل پر رکھ کر اس نے بال برش کیے کہ میسج ٹون بجی اس نے جلدی سے اٹھا کر اوپن کیا۔۔۔

” ہاں بھاڑ میں چلے جاؤ اور واپس نا آنا۔۔“ اور یہ مدد تھی جو ہالہ نے اس سے مانگی تھی۔۔ 

زایان نے موبائل پٹخا۔۔ 

لعنت ہے مجھ پر جو اس لڑکی کے لیے فکر مند ہوا۔۔ میری بلا سے پورا گھر جینا حرام کر دے اس کا۔۔ وہ چِڑ کر بڑبڑایا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

”وہ اتنی انسلٹ کر گئی اور تم نے اسے جانے دیا؟  اتنی احسان فراموش لڑکی۔۔ اتنی سنگدل کیسے ہوسکتی ہے وہ لڑکی ؟“  احرام صاحب غصے سے بول رہے تھے۔۔ 

بات سالک کی فیملی تک بھی پہنچ ہی گئی تھی اور انہیں سالک سے بڑھ کر کوئی عزیز نہیں تھا۔۔ دیا بھی بری لگ رہی تھی۔۔

سالک خاموش سا صوفے پر نیم دراز غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے ہوئے تھا۔۔

”تم نے اسے یہ سب بولنے ہی کیوں دیا سالک۔۔“  ماریہ بیگم کو سالک کی اس وقت والی حالت کا سوچ سوچ کر ہی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔ کیسے فیس کیا ہوگا اس نے۔۔ اپنی ہی برتھ ڈے پر سب لوگوں کے درمیان ایسی بات سن کر اس پر کیا گزری ہو گی۔۔

”محبت کی ہے اتنا تو رائٹ دے سکتا تھا اسے کہ ایک بار کی غلطی معاف کر دوں۔۔ اس نے میری وجہ سے جو سب فیس کیا۔۔ اس کا بدلہ اتار چکی اب مجھے گلٹ نہیں رہے گا۔۔“ سالک سنجیدگی سے بولا اور لاپروائی سے ان سب کے پریشان چہرے دیکھے۔۔

” کیا تم ٹھیک ہو سالک؟“  نانا نے فکرمندی سے اس کا انداز نوٹ کیا۔۔ اتنا ٹھہراؤ اور اتنا سرد پن تو سالک میں کبھی نہیں تھا۔۔ اب وہ کیسے اتنی بڑی بات برداشت کر گیا۔۔

"yes.. i'm ok and lemme just forget about that girl and that night..

(جی میں ٹھیک ہوں اور مجھے بس اس لڑکی اور اس رات کے بارے میں بھولنے دیں۔۔)

سالک نے اپنی کار کی کیز اٹھائیں اور وہاں سے چلا گیا۔۔ وہ لوگ اتنے پریشان تھے کہ اسے روک بھی نہیں پائے۔۔

سالک کار میں بیٹھنے لگا کہ اسے ایک میسج ملا جس میں اسے دیا کے واپس جانے کا بتایا جا رہا تھا۔۔ اس نے جواب بھیجا۔

"Its ok.. let'er go... I dont need her.."

(کوئی بات نہیں اسے جانے دو۔۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۔) 

وہ کار روڈ پر ڈالے سپیڈ بڑھاتا گاڑی میں میوزک آن کر لیا۔۔

I do the same thing I told you..

that I never would.

I Told you I'd change Even.

when I knew I never could..

I know I cant find ..

anyone else as good as you..

I need you to stay..

need you to stay hey (JB stay)

(میں وہی سب کر رہا ہوں۔۔

 جو میں نے کہا تھا کبھی نہیں کر سکتا۔۔

 میں نے تمہیں بتایا میں بدل جاؤں گا 

جب میں جانتا تھا میں کبھی نہیں بدل سکوں گا۔۔ 

میں جانتا ہوں میں تمہارے جیسا

 اچھا کوئی اور نہیں ڈھونڈ سکتا۔۔ 

مجھے تمہارے ہونے کی ضرورت ہے۔۔ ) 

سالک کی آنکھ میں ہلکی سی نمی چمکی تھی۔۔

”میں نے تمہارے علاوہ کسی کے لیے اپنی زات کو لیٹ ڈاؤن نہیں کیا تھا ڈی۔۔ تم نے سہی کیا مجھے بتا دیا کہ میں غلط تھا۔۔“  اس نے لب اتنی سختی بھینچے کہ سفید پڑ گئے اور آنکھوں کا گلابی پن سرخی میں ڈھلنے لگا تھا۔۔ سالک کی کمزوری یہی تھی کہ وہ جو کرتا تھا شدت سے کرتا چاہے وہ نفرت ہو یا محبت۔۔ 

اور اس بار اسے محبت کی شدت پاگل کر رہی تھی۔۔ بھول جانے میں وقت تو لگتا ہے۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

ہالہ سب سمیٹ کر کمرے میں آئی اور دیا کے سنگل بیڈ کے پاس جا کر رکی۔۔ وہ آج ہی صبح پہنچی تھی۔۔ بابا تب سے بہت خوش تھے مگر دیا انہیں بہت کمزور لگی تھی۔۔ اس کے چہرے پر جو چوٹوں کے ہلکے نشان تھے وہ ہالہ اور بابا دونوں کو ٹھٹکا گئے تھے مگر دیا کچھ بھی بتانے کو تیار نا تھی۔۔ 

ہالہ نے اس کے پاس بیٹھ کر غور سے ان نشانات کو دیکھا اور لب بھنچے۔۔

”کیا ہوا تھا دیا تمہارے ساتھ۔۔ کچھ تو ہے جو تم نے اپنی زات پر جھیلا ہے کچھ ایسا جو تمہارے خواب کی بھی راہ میں آگیا اور تم واپس لوٹ آئیں۔۔ تم کب بڑی ہوؤ گی دیا۔۔“ اس کے بالوں میں پیار سے انگلیاں چلاتی ہالہ نے تاسف سے اسے مخاطب کیا۔۔ 

وہ اچانک نیند میں بے چینی سے کسمسانے لگی۔۔ 

”ن۔۔نہیں۔۔ ک۔۔۔کچ۔۔ھ۔ ن۔۔نہیں۔۔ جانتی میں۔۔۔مجھ۔۔۔ے۔۔۔چھ۔۔۔چھوڑو۔۔“  وہ سسک رہی تھی۔۔ ہالہ آنکھیں حیرت سے پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ وہ مٹھیاں سختی سے بھینچتی جا رہی تھی اور پسینے کی ننھی بوندیں اس کے چہرے پر چمکنے لگی تھیں۔۔ 

ہالہ نے نہایت خوف سے دیا کا لرزتا جسم دیکھا۔۔ اور اس کے ہاتھ نرمی ست تھامے۔۔

اس کے ساتھ کیا ہوا تھا جو اس کی نیند میں بھی سکون نہیں آنے دے رہا تھا۔۔؟

اور دیا اسی ٹراما میں جا چکی تھی جس کا اندازہ سالک کو پہلے سے تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

"S if you gimme the joseph's bike racer Aden's safely... I'll let her go safely.."

(ایس اگر تم مجھے جوزف کا بائک ریسر ایڈن خیریت سے دے دو۔۔ میں اسے خیریت سے جانے دوں گا۔۔)   

سٹیو کی بیٹی جیک کے ہاتھ چڑھ چکی تھی۔۔ سالک نے اس کے لیے جیک سے بات کی تو اس نے ڈیل سامنے رکھی۔۔ جوزف کی گینگ ویسے بھی ٹوٹ چکی تھی۔۔ اس کا بایک ریسر اس وقت امریکہ میں بایک ریسنگ میں پہلے نمبر پر تھا۔۔ جیک کو بھی اسی کی ضرورت تھی۔۔ سالک نے کچھ سوچ کر ہاں کر دی۔۔۔

ویسے بھی سٹیو دیا کا پہلے سے بتا کر اس پر احسان کر چکا تھا۔۔ اور سالک کو لگا اس کا ہی قصور تھا جو دیا کی فکر میں سٹیو کی بیٹی کو بھول گیا اور سٹیو اس لڑکے کو ڈھونڈ نہیں پایا تھا جو اس کی بیٹی کو ورغلا رہا تھا۔۔

"Dont touch her untill I get the boy you want.. 

سالک نے اسے کہہ کر مارسیل کو کال ملایی۔۔ 

ایڈن پولیس کسٹڈی میں تھا۔۔ مارسیل کے مطابق کیس اتنا بڑا نہیں تھا ایک اچھا وکیل آرام سے اس کی ضمانت کروا سکتا تھا۔۔ 

سالک نے اپنے لائر کو میسج کیا اور ایڈن کی ضمانت کروا کر اسے اسی روز جیک کے حوالے کر دیا۔۔ ایڈن اس کا شکر گزار تھا۔۔ جیک بھی کام کا بندہ مفت ملنے پر سالک کا احسان مند ہوا۔۔

سٹیو بھی بیٹی کے ٹھیک ٹھاک واپس ملنے پر سالک کا مقروض ہو چکا تھا۔۔ 

اور سالک یہی تو کرتا تھا احسان کرتا تھا اور خرید لیتا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

سکول میں بریک ٹائم چل رہا تھا، وہ سٹاف روم سے باہر ہو کر دیا سے فون پر بات کر رہی تھی۔۔ جب سے دیا آئی تھی ہالہ اس کی فکر میں لگی رہتی تھی۔۔ وہ بات کر کے ہٹی تو سامنے اینٹرینس سے آتے زایان پر نظر پڑی۔۔ اس کے وجیہہ دلکش چہرے پر سن گلاسز لگے تھے۔ وہ سیدھا ہیڈمسٹریس کے روم میں جا رہا تھا۔۔

”یا اللّٰہ کہیں بدلہ لینے تو نہیں آ گیا؟ میں نے بد تمیزی جو کی اتنی پھر سے۔۔“ وہ پریشان ہوئی۔۔

” اللّٰہ پوچھے تمہیں ہالہ۔۔۔ کتنی لمبی زبان ہے۔۔ کبھی بڑا نقصان اٹھا بیٹھو گی اس زبان کی بدولت۔۔  یہ بندہ تو ویسے شکل سے بھی سات نسلوں تک دشمنی چلانے والا لگتا ہے۔۔ پتہ نہیں گھٹی میں کسی نے لسوڑا تو نہیں دے دیا تھا۔۔“  وہ فکر سے ٹہلتی وہیں آفس کے دروزے پر نظریں ٹکائے بولتی جا رہی تھی۔۔ ایک دن پہلے ہی تو اس کی جاب ڈن ہوئی تھی۔ اس کا ٹیچنگ سٹائل اور رزلٹ پسند کیا گیا تھا اور آج ہی وہ آ دھمکا تھا پھر سے۔۔۔

آفس میں بیٹھے زایان کو اگر زرا بھی اندازہ ہوتا کہ آج ہالہ اسکی راہ دیکھتی اسی کو سوچ رہی ہے ساری زندگی آفس سے باہر نا نکلتا۔۔ 

بریک اوور ہو گئی تھی وہ نا نکلا تھا۔۔ ہالہ بےچینی سے آفس کا دروازہ تکتی کلاس میں چلی گئی۔

💜💜💜

اتوار کا دن تھا، بابا کسی دوست کے ہاں گئے تھے اور وہ دونوں بہنیں تائی جان کے گھر آئی ہوئی تھیں۔۔ غزالہ ان کے لیے کھانا تیار کر رہی تھی۔۔

”چند دن نہیں ہوئے تمہیں آئے۔۔ تم نے باپ کا پھر سے جینا حرام کر دیا۔۔ اب تم نوکریاں کرو گی۔۔ اور پڑھائی کون پوری کرے گا۔۔؟“  تائی نے دیا کی بد دماغی پر اس سے سوال کیا۔

"پڑھ بھی لوں گی۔۔ جاب بھی ضروری ہے۔۔ میں نے بابا کے بہت پیسے ضائع کروائے۔۔ پہلے وہ پورے کروں گی پھر پڑھوں گی۔۔ ویسے بھی مجھے بریک چاہئیے۔۔“ دیا نے صاف گوئی سے جواب دیا۔۔

”اسے رہنے دیں تائی امی۔۔ مجھے لگا تھا وہاں سے کچھ میچور ہو کر آئی ہے پر اس کا بچپنا تو بڑھ گیا ہے۔۔ بابا اور میں تو سمجھا کر تھک چکے۔۔“ ہالہ نے بے دلی سے کہا۔۔ 

قریب ہی موبائل پر مصروف فارس نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔ 

”مجھے بھی لگا تھا شاید کوئی اچھا چینج آیا ہوگا دیا میں۔۔“ اس کی شرارت بھری آواز پر دیا نے اسے گھورا۔۔

” وہاں تو میں نے اچھے اچھوں کے منہ توڑ دئیے۔۔ بس یہ ٹریننگ بڑی اچھی دی ہے انگریزوں نے۔۔“ دیا نے بنا لحاظ کے جواب دیا۔۔ ہالہ دانت پیس کر رہ گئی۔۔ فارس نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔۔

”کوئی لحاظ بھی سیکھ لو بڑا ہے کتنا تم سے۔۔ ہالہ بھی تو ہے بڑوں سے کیسے ادب سے بات کرتی ہے۔۔“ تائی نے دیا کو ٹوکا۔۔ 

”ہالہ دوغلی ہے۔۔“ دیا بڑبڑائی۔۔ ہالہ بھی پہلے تو اپنی تعریف پر گڑبڑائی مگر پھر معصومیت سے سر جھکا کر مسکرا دی۔

” کمپنی بہت چھوٹی ہے بے نام سی۔۔ کہیں اچھی جگہ جاب نہیں ملی۔۔؟“  اکرام بھی ان کے ساتھ آ بیٹھا اور دیا سے مخاطب ہوا۔۔

”میری ڈگری کمپلیٹ نہیں۔۔ بی کام کے دو سمسٹر امیرکن کالج سے کیے ہیں اس لیے یہ جاب بھی مل گئی اور اچھی ہی ہے۔۔ فارس بھائی کو کہا تھا پر انہیں خود نہیں ملی جاب مجھے کیا بتاتے۔۔“  دیا نے پھر توپوں کا رخ فارس کی طرف موڑا۔۔ وہ اسے گھور کر رہ گیا۔۔

اکرام اس کی بات پر چپ ہو گیا۔۔ 

” مجھے میرے فرینڈ نے آفر کی تو ہے۔۔ ابھی وہ کام سمجھ رہا ہے پھر نیو بزنس سیٹ اپ سٹارٹ کرے گا۔۔ تم چاہو تو ہمیں جوائن کر سکتی ہو۔۔ ذہین ہو جلدی کام سمجھ جاؤ گی۔۔“ فارس موبائل ایک طرف رکھ کر پوری طرح متوجہ ہوا۔

دیا کی آنکھیں چمکیں اور ہالہ کی آنکھیں پوری سے زیادہ کھل گئیں۔۔ فارس کا دوست۔۔؟ مطلب زایان۔۔۔

”نہیں دیا ابھی اتنی بھی سمجھدار کہاں ہے۔۔ اچھا ہے چھوٹی موٹی ایزی جاب کرے۔۔ زیادہ برڈن والی جاب کر بھی نہیں پائے گی۔۔ ویسے بھی بس بابا نے اس کی مائگریشن ہونے تک اور نیکسٹ ائیر ری سٹارٹ کرنے تک ہی جاب کی پرمیشن دی ہے۔۔“  ہالہ نے دیا سے پہلے بول کر فارس کو جواب دیا اور دیا کا بھی ہاتھ دبا کر چپ رہنے کا کہا۔۔ فارس نے کندھے اچکائے۔ 

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

زایان سکول سے واپس آ رہا تھا کہ اسے میسج ملا۔۔ اس نے ہالہ کا نمبر دیکھا تو چونکا۔۔ 

”آپ نے مدد کا پوچھا تھا۔۔ دراصل بس اور کچھ بھی نہیں چاہئیے۔۔ جاب چلتی رہے بہت ہے۔۔“  زایان نے حیرت سے میسج پڑھا اور پھر جیسے سمجھ آٸی۔۔  

”گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے یہ لڑکی۔۔ ضرور دیکھ لیا ہوگا مجھے سکول میں۔۔ پڑ گئی اپنی جاب کی فکر۔۔“ اس نے سر جھٹکا۔۔ 

اپنا کام ختم کر کے گھر آیا تو اسے میسج کیا کہ ضروری بات کرنی ہے پر کوئی جواب نا آیا اور رات سے انتظار کرتے اگلا دن ہوا اور پھر شام جواب نہیں آیا۔۔ 

وہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔

 ” بڑی مطلب پرست ہے یہ لڑکی۔۔“  وہ زچ ہوا۔۔ فکر الگ کھائے جا رہی تھی کہیں فارس سمجھ نا گیا ہو زایان کی فیلنگز۔۔ کہیں اس کی فیملی مسئلہ نا کھڑا کر دے۔۔

اور خوامخواہ زایان کی وجہ سے بنا کسی قصور کے وہ مشکلیں جھیلے یہ زایان کو منظور نہیں تھا بالکل۔۔۔ محبت میں مشکل تھوڑی پیدا کی جاتی ہے؟ محبت تو آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

"Thomas gona plan against you S... he is tryin to make you feel guilty fo him."

(تھامس تمہارے خلاف کوئی پلان کرنے والا ہے ایس۔۔ وہ تمہیں اس کے لیے (اس کے خلاف جانے پر) احساس جرم میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔) 

جورڈن نے سالک کو مل کر بتایا تو وہ بے نیازی سے مسکرایا۔ اس نے تھامس کو دھوکہ دینے پر پولیس کے ہاتھوں اچھا خاصہ زلیل کروایا تھا۔۔ اس نے ری ایکشن تو دینا ہی تھا۔۔

”And what's he up to.. what can he even do.. will beat me... ok let him be.."

(اور وہ کیا کرنے والا ہے.. آخر کر کیا سکتا ہے وہ۔۔ مجھے ہرائے گا۔۔ اسے کرنے دو۔۔) 

سالک نے اسے سیرئیس ہی نہیں لیا۔۔ اور کالج کے بعد ایکسٹرا کلاسز کے بعد جب وہ گھر آنے لگا تو تھامس اس کے سامنے آیا۔۔ نفرت بھری آنکھوں سے دیکھتا وہ اس کا وہی دوست تھا جو اس پر کبھی جان دینے کا دعویٰ کرتا تھا۔۔  اب دو لڑکوں کے ساتھ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔۔ 

سالک گاڑی روک کر اترا اور اس کے سامنے آیا۔۔ 

"Hi T.. you used to be my loyal friend and here you are.. want to kill me.."

(ہیلو ٹی۔ تم میرے وفادار دوست ہوتے تھے اور یہ ہو تم۔۔مجھے مارنا چاہتے ہو۔۔) 

سالک کے چہرے پر زخمی سی مسکراہٹ آ ٹھہری اور آنکھوں میں سرد پن ابھرا۔۔ تھامس کے اشارے پر اس کے نئے دوست ایک ساتھ سالک کی طرف بڑھے اور اس کے دونوں بازو پکڑنے چاہے۔۔ سالک مسکرایا اور ایک جھٹکے سے دونوں کے بال پکڑ کر سر ایک دوسرے سے ٹکرائے۔۔ 

وہ چکرا کر لڑکھڑائے۔۔ سالک نے آگے بڑھ کر تھامس کے منہ پر زوردار پنچ مارا۔۔ تھامس اس کے لیے تیار نہیں تھا۔۔ پیچھے کو جا گرا۔۔ سالک جو کبھی اتنا خود کو لڑائی میں سر نہیں کھپاتا تھا آج سارا غبار ان تینوں پر اتارتا ان کو سنبھلنے کا موقع دئیے بنا لہولہان کر دیا۔۔ اس دوران تھوڑی بہت مار کھاٸی بھی تھی مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔۔

اس کے اندر کا غبار نکلا تھا کچھ۔۔ وہ ہلکا پھلکا ہوتا پھٹے ہونٹ سے بہتا خون صاف کرتا خود اپنی حالت پر ہنس پڑا۔۔  اور انہیں اسی حالت میں چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھا اور ہوا کی طرح سیکنڈوں میں غائب ہو گیا۔۔

 گھر آیا تو اسے گھر سے باہر کھڑے باڈی گاڈ نے بوکے دیا۔۔

"for you sir.. sent by anonymous..."

(آپ کے لیے آئے ہیں جناب۔۔ کسی نامعلوم نے بھیجے ہیں۔۔)  

سالک کے ماتھے پر بل پڑے۔۔ 

“throw that shit away..

(اس گندگی کو دور پھینکو۔۔۔)

وہ ناگواری سے سرخ گلاب دیکھتا آگے بڑھنے لگا تھا کہ اس بوکے پر لگے کارڈ کو دیکھ کر چونکا۔۔

"wait.... show me card.."

سالک نے اس سے کارڈ لے کر کھولا تو اسے جھٹکا لگا تھا۔۔ اسکی ہینڈ رائٹنگ اور اسی کا کارڈ۔۔

"I feel peace when I see you love.."

سالک نے کارڈ مٹھی میں مروڑا۔۔ اس کے جبڑے سختی سے بھنچ گئے تھے۔۔۔                        

"what the....."

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

ہالہ کچن میں رات کا کھانا تیار کر رہی تھی۔ دیا تائی کے گھر سے آ کر سو گئی تھی۔ اب اٹھ کر شاور لیا اور مغرب کی نماز پڑھ کر ہالہ کی جگہ پر آ کر بیٹھی اور اس کا موبائل اٹھایا جس پر کالز آ رہی تھیں۔۔ سکرین پر انجان نمبر دیکھ کر اس نے پہلے رکھنا چاہا مگر پھر کال دوبارہ آتی دیکھ کر اس نے خاموشی سے اٹینڈ کیا۔۔ 

”یہ تم اپنی چالاکیاں نا آئندہ مجھ پر کم جھاڑنا۔۔ ضرورت تھی تو میسج کر دیا اب میسجز، کالز کر کر کے میری انگلیاں ٹیڑھی ہوگئیں اور تم غائب ہو۔۔ نہیں سمجھا کیا ہوا ہے مجھے تم نے مس ہالہ۔۔؟“  کوئی بڑے غصے سے نان سٹاپ بولتا چلا گیا۔۔ دیا چونکی، یہ اکرام تو ہرگز نہیں تھا تو ہالہ کس سے بات کرتی ہے۔۔؟

”تو کس نے کہا تھا اتنی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کو۔۔ انگلیاں ٹیڑھی ہو گئیں پر عقل نا آئی۔۔“ دیا نے عادت کے مطابق اجنبی  کو بھی گھرکا۔۔

اسے کسی اجنبی کا یوں ہالہ کا اتنے مزے سے نام لینا سخت برا لگا تھا۔۔

زایان زرا سا چونکا۔۔ آواز اور انداز تو وہی تھا۔۔ پر آج ہلکا سا بدلاؤ تھا۔۔ لہجہ میں ہلکی سی نرمی اور نازکی تھی۔۔

”تمہاری آواز کو کیا ہوا آج۔۔؟“ وہ سب بھول کر حیرت سے بولا۔۔ دیا گڑبڑائی۔۔

”فلٹر یوز کر رہی ہوں کیوں پسند نہیں آئی میری آواز۔۔۔“ وہ پھر سے سنبھل کر بولی۔۔

” میں یہاں کل سے بات کرنے کی کوشش میں لگا ہوں اور تم فلٹر فلٹر کھیل رہی ہو۔۔۔ تم کوئی بچی ہو۔۔ ؟ جتنا بھی (baby) ٹچ دے لو آواز کو۔۔ ہو تو تم وہی لومڑی کی خالہ، زمانے بھر کی چالاکیاں تم میں بھری ہیں۔۔ ایک نمبر کی دوغلی ہو۔۔“  دیا اس کی باتوں پر چونکی۔۔ یہ جو کوئی بھی تھا اتنا تو کلوز تھا ہی کہ ہالہ کا ”اصلی“ روپ جانتا تھا۔۔

” کیا چالاکیاں دیکھ لیں تم نے۔۔ تمہارے گھر ڈاکا ڈالا ہے یا تمہیں بہلا کر مینار پاکستان کی اونچائی پر لے جا کر دھکا دے دیا۔۔ ارے خوش نصیب ہو ہالہ سے دور ہو۔۔۔ ورنہ تو منہ سے نوالہ چھین لے اور پتہ بھی نا چلے۔۔ تمہیں کیا کہا۔۔؟ کیسے کیسے لوگوں کو اللّٰہ نے آزاد چھوڑ رکھا ہے ایک ہمیں ہی سارے گناہوں کی سزا دنیا میں دینے کے لیے تائی جان کو سر پر بٹھا دیا۔۔“  آج وہ جب تک بیٹھی رہی تھی تائی ناسمجھی اور بےوقوفی کا طعنہ دیتی رہی تھیں۔ اس لیے اس نے تائی کا غصہ بھی اتار دیا۔۔ 

زایان تائی والی بات پر ٹھٹکا۔۔ وہ کبھی اپنے گھر والوں کا گلہ نہیں کرتی تھی۔۔

” کیا تمہاری تائی نے کچھ کہا ہے؟ کیا ہوا ہالہ۔۔ مجھے بتاؤ میں کلئیر کر دوں گا سب۔۔“ وہ پریشانی سے بولا دیا نے پھر سے سیل کو گھورا۔۔۔

” تم کیا کلئیر کرو گے مسٹر۔۔۔ میری تائی کی یادداشت بھی چھین لو ناں پھر بھی کوئی نئی بات ڈھونڈ ہی لیں گی طنز کے لیے۔۔ اور تم بھی اب رکھو فون بہت کر لیں باتیں۔۔ اتنا ہی فری ٹائم ہے تو اللّٰہ اللّٰہ کرو۔۔ آئے بڑے ہالہ کے فکر والے۔۔“ وہ تیزی سے بولتی زایان کا سر گھما گئی۔۔

” آج زبان مبارک کی تیزیاں کچھ زیادہ نہیں بڑھ گئیں؟  تمہیں گھٹی میں سبز مرچ تو نہیں کھلائی گئی تھی۔۔ تم پر تمیز سے بات کرنا حرام ہے کیا۔۔؟ تمہاری زبان تو دن بدن زہریلی ہی ہوتی جارہی ہے۔۔ فکر کرو بھی کانٹے چبھتے ہیں۔۔“ زایان جو اتنی فکر میں کل سے گھلا جا رہا تھا بری طرح دماغ الٹا تھا اس کا۔۔ 

 ”ہاں تو کس رشتے سے فکر ستا رہی ہے اتنی۔۔ اپنے گھر میں کوئی نہیں ہے؟  اگر اتنی ہی ہمدردی دل میں ابل رہی ہے تو گھر والوں کی فکر کرو۔۔ اب پھر بھی کبھی فکر ستائے تو کال مت کرنا اپنے ماں باپ کو بھیجنا۔۔ شادی کر کے سامنے بٹھا کے، کر لینا جتنی باتیں کرنی ہوں پھر چاہے شادی کے  فیصلے پر پچھتاوے میں روزانہ بی پی شوٹ ہو۔۔ میری بلا سے۔۔ بائے۔۔“ وہ کہہ کر کال کاٹ گئی۔۔ اور مسلسل بولنے سے پھولی سانس برابر کرنے لگی۔۔  

”ہالہ مجھے تو سمجھاتی تھی غیر مردوں سے فری نا ہوا کرو۔۔ خود ایک غیر کو ہر بات بتا رکھی ہے۔۔“ وہ موبائل اس کی جگہ پر پھینکتی ناک چڑھا کر بڑبڑائی۔۔ 

اور وہاں زایان ہق دق رہ گیا۔۔ یہ آج ہالہ کو کیا ہو گیا تھا؟ بولتی تو چلو اسی طرح تھی کاٹ کھانے جیسا مگر آج آواز اور لہجے میں ہلکا سا فرق اب تو زایان کو اور بھی محسوس ہوا۔۔

اس نے رشتہ بھیجنے کی بات کی؟ کیا واقعی؟

فارس کی فیملی نے لگتا ہے اتنا ہرٹ کیا ہے کہ وہ زایان کو رشتہ بھیجنے تک کا کہہ گئی۔۔؟   وہ تو اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا اس بات پر۔۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

"Hello NY...  Good evening Love's...

Cars are on the line.... Try your hard.. avoid the police... If police catche you... we'll not responsible... Go my love.. Go ahead and win at any cost.."

(ہیلو نیویارک۔۔ شام بخیر پیارو۔۔ گاڑیاں لائن پر ہیں۔۔ اپنی پوری کوشش کریں۔۔ پولیس سے بچ کر رہیں۔۔ اگر پولیس نے پکڑا ہم زمہ دار نا ہوں گے۔۔ جاؤ۔۔ اور ہر حال میں جیتو۔۔)

تین گاڑیاں لائن میں ٹھہری تھیں۔۔ سنہرے بالوں والی لڑکی جس کا لباس نا ہونے جیسا تھا۔۔ گاڑیوں کے سامنے ٹھہری ادا سے بول رہی تھی۔۔ ارد گرد لوگوں کا اور گاڑیوں کا ہجوم تھا جن کا شور گاڑیوں کی شور دار آواز میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

یہ ریس صرف الیگل نہیں تھی۔۔ بلکہ بہت خطرناک تھی اس میں سپیڈ کی کوئی حد قائم نہیں تھی۔۔ اس میں اکثر گاڑیاں الٹ جاتی تھیں اور آگ بھی لگ جاتی۔۔ جان بھی چلے جانا عام بات تھی۔۔ یلو اور بلو دو کارز کے درمیان سالک کی سلور گرے سپورٹس کار تھی۔۔ 

"1....2...3.....you've go.." 

وہ لڑکی کاؤنٹ کرتے اچانک چھوٹا سا سرخ جھنڈا اٹھا کر چیخی۔۔ گاڑیاں یک دم آگے بڑھیں اور اس لڑکی کے بالکل پاس سے ہوا کی طرح گزریں۔۔ لوگوں کا شور کان پھاڑ دینے والا تھا۔۔ گاڑیوں میں لگا میوزک لاؤڈ ہو چکا تھا۔۔

یہ سالک کی پہلی خطرناک ریس تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

زایان آفس میں بیٹھا تھا۔۔ لیب ٹاپ پر انگلیاں تیزی سے چل رہی تھیں اسے آج ہر حال میں یہ فائل تیار کرنا تھی۔۔۔ اسے جلد اپنا بزنس سٹارٹ کرنا تھا۔۔ انٹرکام پر اسے ان کے ایک بزنس پارٹنر کے آنے کی اطلاع دی گئی تو وہ رکا۔۔

”او۔کے بھیج دو۔۔“ زایان نے اجازت دی اور اگلے لمحے آفس میں صیام کا ہم عمر خوش شکل سا لڑکا اندر داخل ہوا۔۔ زایان سے مسکرا کر ہاتھ ملایا اور سامنے چئیر پر بیٹھا۔۔ 

”کیسے آنا ہوا واصف لغاری۔۔“ زایان نے انٹر کام پر اس کے لیے ریفریشمنٹ کا انتظام کرنے کا کہتے ہوئے پوچھا ۔۔

”سنا ہے نیو بزنس سٹارٹ کرنا چاہتے ہو۔۔ میں بھی پارٹنر شپ کرنا چاہ رہا تھا۔۔ تمہارا سنا تو خود کو آنے سے روک نہیں پایا۔۔“ وہ خوش اخلاق تھا یا اس وقت ایسا بن رہا تھا زایان کے لیے فرق کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔ 

واصف لغاری کا بزنس کی دنیا میں عیاری اور موقع پرستی میں بڑا نام تھا۔۔ بزنس لائن میں وہ خان انڈسٹریز اور خان کمپنیز سے کافی پیچھے تھا مگر چالاکی اور ہوشیاری میں شاید اس کی برابری کبھی کوئی نہیں کر پایا۔۔ 

”کیوں نہیں۔۔ تمہارا ایکسپیرئینس بھی کام آئے گا میرے۔۔“ زایان نے مسکرا کر کہا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔ 

” خوشی سے۔۔۔ تمہیں دیکھ کر لگتا ہے بزنس لائن کا ہر حربہ آزمانے کا شوق رکھتے ہو۔۔ میرے ساتھ ہاتھ ملانے میں ہم دونوں کا ہی فائدہ ہے۔۔“ واصف چالاکی سے بولا۔۔ 

اور دو گھنٹوں کی طویل گفتگو میں ان کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔۔ 

زایان نے اس کی پارٹنر شپ قبول کر لی جسکی دشمنی موت سے بھی گندی ہوا کرتی تھی۔

💜💜💜👇👇

دیا کمرے میں بیٹھی لیب ٹاپ پر اپنی جاب کا کچھ کام کر رہی تھی اسے ٹائپنگ کی سپیڈ ہائی کرنے کے لیے پریکٹس بھی کرنا تھی۔۔ 

اچانک لائٹ چلی گئی اور کمرے میں اچھا خاصہ اندھیرا چھا گیا تھا۔۔ شام کا ٹائم تھا۔۔ 

دیا کی حالت عجیب سی ہونے لگی۔۔ 

اندھیرا ، خاموشی اور پھر تنہاٸی کی وجہ سے اس کا دم گھٹنے لگا۔۔ وہ تیز تیز سانس لیتی خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتی مزید سے مزید تر بد حواسی کا شکار ہوتی جا رہی تھی۔۔

ہالہ نے دیا کے خیال سے ٹارچ اٹھا کر کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔۔ 

کمرے کے باہر دھیمے قدموں کی آواز اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز نے دیا کا دل بند کر دیا وہ اچانک زور سے چیخنے لگی۔۔۔

”dont come... dont come to me.. please spare me.. please..

(مت آؤ۔۔ میرے پاس مت آؤ۔۔ پلیز مجھے بخش دو۔۔ پلیز۔۔) وہ آنکھیں اور مٹھیاں سختی سے بھنچے چیختی جا رہی تھی۔۔

ہالہ جلدی سے کمرے میں داخل ہو کر اس کی طرف بڑھی۔۔ 

”دیا ۔۔ دیا کیا ہوا۔۔ یہ میں ہوں ہالہ۔۔ دیا۔۔ آنکھیں تو کھولو۔۔“ وہ اسے سینے سے لگائے مسلسل اسے پکارتی رہی۔۔ دیا اس کے گرد بازو لپیٹتی اس کے گلے لگ کر پوری شدت سے رو دی تھی۔۔ 

” ہالہ مجھے بچا لو ان لوگوں سے۔۔ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ میں نہیں جانتی کچھ بھی۔۔  مجھے نہیں پتہ ایس گینگسٹر ہے۔۔ یا پولیس کا بندہ۔۔ ہالہ۔۔“ وہ روتی ہوئی ہالہ کے سینے میں منہ چھپاتی بولتی جا رہی تھی۔۔ ہالہ کو اس کی ایک بھی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔۔ وہ پریشانی سے اس کی پیٹھ تھپتھپاتی رہی۔۔ 

” ٹھیک ہے دیا۔۔ میں ہوں ناں۔۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی۔۔ رونا بند کرو دیا۔۔ تم اب اپنے گھر ہو۔۔ تم ہمارے پاس ہو تمہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔“ ہالہ اسے تسلیاں دیتی رہی اور دیا کا خوف و دہشت سے لرزتا وجود نجانے کتنی ہی دیر لے گیا تھا سنبھلنے میں۔۔ 

ہالہ کی فکر میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔ وہ دن بھر ایک نارمل انسان جیسا بی ہیو کرتی تھی۔۔ وہ بس رات کو سوتے ہوئے یا اندھیرے اور تنہائی میں اسی خوف کا شکار ہو جاتی تھی۔۔

ٹراما یہی تو ہوتا ہے۔۔ ایک بالکل ٹھیک اور نارمل انسان کے لا شعور کا ایک خوف ایک خاص وقت پر بالکل اچانک سے حملہ آور ہوتا ہے۔۔ 

اور وہ انسان اس لمحہ میں ابنارمل ہو جاتا ہے۔۔ خوفزدہ ہو جاتا ہے اور اسی لمحہ میں چلا جاتا ہے جس لمحے میں اس کی زات میں اس خوف نے پنجے گاڑے ہوتے ہیں۔۔ 

دیا کی حالت بھی یہی ہو چکی تھی۔۔ وہ نارمل تھی مگر ٹراماٹائزڈ تھی اور اس کا ٹراما ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہا تھا کیونکہ ہالہ اس کی حالت نہیں سمجھ پا رہی تھی اور اپنے باپ کو بتانے سے ڈر رہی تھی۔۔ وہ خود بھی ناسمجھ ہی تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

”تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟ واصف لغاری سے پارٹنر شپ کیوں کی؟۔۔ اچھا خاصہ بدنام اور عیار بندہ ہے۔۔ وہی ملا تھا؟“ زایان کے فادر غصہ سے بول رہے تھے۔۔ چائے پیتا زایان انہیں یوں سن رہا تھا جیسے ابھی واصف کو جا کر انکار کر دے گا۔۔  داجان کا الگ بی پی ہائے تھا۔۔

”اس پاگل کو الگ بزنس کرنے کی اجازت ہی کیوں دی آپ لوگوں نے۔۔“ اسکا بڑا بھائی صائم اس کی ڈھٹائی اور خاموشی پر دانت پیس کر بولا۔۔ 

”میں تو سمجھا سمجھا کر اپنا منہ دُکھا بیٹھا ہوں۔۔ اب تو بولا بھی نہیں جا رہا۔۔“ صیام نے بے چارگی سے کہا۔۔ زایان اب بھی توجہ سے سب کو سنتا چائے پی رہا تھا۔۔

”رہنے بھی دیں۔۔ ایک بار عزت لے گا واصف سے تو ساری چالاکی نکل جائے گی۔۔ پھر داجان والا کام سنبھال لے گا ہمارا اچھا بچہ۔۔“ راسم نے مسکراہٹ دبا کر اسے چھیڑا۔۔ ریان خاموشی سے سامنے ٹیبل پر پڑے کباب کھاتا جا رہا تھا۔۔

” تم نے کچھ بولنا ہے تو تم بھی بول لو۔۔ ویسے بھی سب حصہ ڈال رہے ہیں۔۔“ زایان نے اسے مخاطب کیا تو سب کو تپ چڑھی۔۔

”بکواس کرنا ہی سیکھا ہے تم نے بس۔۔ میری اگر آج طبیعت خراب ہوئی ناں تم سب کی مسلسل چک چک سے تو لائن میں کھڑا کر دو دو لگاؤں گا۔۔“ داجان نے جبڑے بھنچ کر سر کا درد برداشت کیا۔۔

” اسے دیکھئیے بابا جان۔۔ سر ایسے ہلا رہا ہے جیسے قوالی کہہ رہے ہیں ہم۔۔ انتہائی ڈھیٹ اولاد ہے میری۔۔“ زایان کے بابا نے داجان سے کہتے ہوئے سر ہلاتے زایان کو گھورا تو وہ ہنسی دبا گیا۔۔ 

”مجھے کیوں ساتھ گن رہے ہیں آپ۔۔“ صاٸم کو صدمہ لگا۔۔ 

”تم بھی زایان سے پیچھے نہیں ہو۔۔“ صیام نے اسے جواب دیا۔۔ 

”تم لوگ پانچ منٹ خاموش نہیں ہو سکتے۔۔“ بڑے چچا نے ان کو چپ کروا کر داجان کی طرف اشارہ کیا جو انہیں گھور رہے تھے۔۔

زایان نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر داجان کو دیکھا۔۔ 

”مجھے عزہ سے شادی نہیں کرنی۔۔“ ایک اور کوشش کرنا چاہی۔۔ 

”اور یہ بات ہم سب کو زبانی یاد ہو گئی ہے وجہ سمیت۔۔“ ریان نے حصہ ڈالا۔۔ 

”تم واصف لغاری کے ساتھ بزنس کر لو۔۔“ داجان نے پھر سے رشتہ کی بات آتی دیکھی تو لاپروائی سے بول کر چلے گئے۔۔ بابا چچا لوگ بھی اٹھ کر جا چکے تھے زایان تو سر کا درد بن چکا تھا۔۔

”میری کوئی نہیں سنتا۔۔“  زایان نے منہ بسورا۔۔ 

” آپ سب کے روئیے مجھے بس ایک احساس دلاتے ہیں کہ شاید میں اڈاپٹڈ ہوں۔۔“  زایان نے سب بڑے بھائیوں کو دیکھا۔۔

” ہم نے کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا تمہیں۔۔ تاکہ جوان کر کے عزہ سے شادی کر سکیں۔۔“ صائم نے دانت لبوں تلے دبا کر کہا۔۔ سب نے قہقہہ لگایا۔ زایان نے دانت کچکچائے۔۔ 

” اس گھر سے تو اچھا ہے میں جیل میں رہ لوں۔۔ شاید کچھ قدر ہو وہاں میری۔۔“ زایان نے غصے سے اونچی آواز میں کہا۔۔۔

” تم ناں زایان ابنارمل ہو۔۔ تمہیں بس عزہ ہی سنبھالے گی آ کر۔۔“ صیام نے اسے مسکرا کر کہا۔۔

” اور جو تم ہماری ہر بات پر بدلے لیتے پھرتے ہو ناں۔۔ یہ ان گناہوں کی سزا سمجھ لو۔۔“ راسم کو پرفیوم والے واقعہ کی سن گن مل چکی تھی۔۔

” میرے ساتھ جو کریں خیر ہے۔۔ پتہ نہیں کونسے گھر ہوتے ہیں جہاں چھوٹوں کی عزت ہوتی ہے۔۔ میری بے حس فیملی تو ایک ایک لفظ جوتے کی طرح مارتی ہے اور دن رات سناتی ہی رہتی ہے۔۔“ زایان نے جلن زدہ لہجے میں کہا۔۔ 

” او بھائی تم باتوں کے بھوت ہو بھی نہیں۔۔ اب واصف کی آفر لیتے ہوئے کسی سے پوچھا تک نہیں۔۔ سمجھا رہے ہیں تو الٹا عزہ نکل آئی۔۔ ہر بات پر عزہ ، عزہ کرتے ہو۔۔۔ محبت ہو گئی ہے تمہیں اس سے، بس کر دو بہانے رشتہ توڑنے کے۔۔“ صائم زایان کا بھائی تھا اسی کی طرح بولتا چلا گیا۔۔ زایان کا منہ کھل گیا۔۔۔

محبت اور عزہ۔۔؟ اس سے بہتر مر نا جاؤں؟

” اور یہ جو تم نے ببلی کے ساتھ مل کر ماسٹر پلاننگ کی ہے ناں۔۔ وہ بھی ہم ببلی سے تفتیش کر کے اگلوا چکے۔۔ تم اسے یوں اچانک غائب کرواؤ گے اور ہمیں پتہ نہیں چلے گا۔۔۔؟ 

بیٹا ابھی ان چالاکیوں کے لیے بچے ہو تم۔۔“ راسم نے زایان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ زایان کے سر پر دھماکے ہونے لگے۔۔ اس نے سب کے جتاتے اور مسکراتے چہرے دیکھے۔۔ وہ کیسے بھول گیا اس کے یہ بڑے بھائی ان چالاکیوں میں پی ایچ ڈی کیے بیٹھے ہیں۔۔۔

” آپ لوگ سمجھ نہیں رہے۔۔ جس لڑکی کے لیے اتنے ٹائم سے پاگل ہوا جارہا ہوں۔۔ وہ لڑکی مان گئی ہے۔۔“ زایان نے آخری حربہ کے طور پر معصوم صورت بنا کر انہیں اپنا راز تک اگل دیا۔۔ اگر وہ سب مل جائیں تب بھی زایان کا کام پکا تھا۔۔

” ہاں بھئی پتہ ہے سب۔۔ سمجھ تو تم نہیں رہے۔۔ اب اگر سب کی طرح تم نے بھی انکار کیا تو داجان ہم سب سے ناراض ہو جائیں گے۔۔ ہم تمہیں داجان کی ناراضگی پر قربان کرتے ہیں۔۔“  صیام نے سنجیدگی سے بتاتے ہوئے آخر میں شرارتی انداز اپنایا۔۔ زایان کا اس ” سنگدلی“ پر دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔۔  وہ پیر پٹختا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا ۔۔۔ 

” بچہ ہے قسم سے۔۔ تھوڑا سا بھی صبر نہیں۔۔“ صائم پیچھے سے مسکرا کر بولا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

سالک کی گاڑی دوسرے نمبر پر پہنچی تھی۔۔ وہ ریس ختم ہوتے ہی وہاں سے نکل گیا اسے نا لڑکیوں سے ”کانگریٹس“ کروانا تھا نا ہی وہ اتنا فری تھا کہ مزید وقت ضائع کرتا وہاں۔۔

گھر پر پھر سے اس کے نام بکے آیا ہوا تھا اور یہ چوتھا تھا جو اسے دو دو دن کے وقفے سے مل رہا تھا۔۔ اس پر بھی ویسا ہی کارڈ تھا۔۔ سالک کا لکھا ہوا کارڈ جو اس نے دیا کو دئیے تھے۔۔ اس نے تنفر سے یہ بھی ڈسٹ بن میں پھینکا۔۔

اندر نانا اس کے ماں باپ سے باتیں کر رہے تھے۔۔ 

” اتنی لیٹ کہاں سے آرہے ہو سالک۔۔ ڈنر بھی سہی سے نہیں کیا تھا تم نے۔۔“ احرام جانتے تھے وہ ان سنی کرے گا پھر بھی مجبور تھے پوچھ بیٹھے۔۔ 

” آج کچھ نیا کرنے گیا تھا۔۔“ وہ لاپروائی سے بولا۔۔۔۔

” اب کیا نیا ڈھونڈ لیا۔۔“ ماریہ پریشان ہوئیں۔۔ 

”سالک تم نے اگر اس طرح پاگل ہونا تھا تو اسے روک لیتے۔۔ میں نے بتایا بھی تھا جب وہ جارہی تھی۔۔“ نانا نے اس کا بگڑا ہوا حلیہ دیکھ کر کہا۔۔

” مجھے جورڈن نے بھی میسج کیا تھا۔۔ مجھ سے یہ بات دوبارہ نہیں کیجئیے گا۔۔ میں اس لڑکی کو بھول چکا ہوں۔۔ اس پر دوبارہ کوئی بات نہیں۔۔“ سالک نے ناراضگی سے نانا کو ٹوکا۔۔

”تمہاری حالت دیکھ کر تو نہیں لگتا اسے بھول گئے ہو۔۔“ ماریہ بے چینی سے بولیں۔۔

”مجھے اپنے ہاتھوں سے کچھ سپیشل سا بنا دیں مام بھوک لگ رہی ہے۔۔“ سالک نے انہیں بہلانے کے لیے کام بتایا وہ نہال ہوتی فوراً اٹھ کر کچن میں گئیں۔۔

احرام خاموشی سے سے دیکھ رہے تھے۔۔ 

” ماں ہی بس تمہاری اپنی ہے۔۔ مجھے ستاتے رہا کرو۔۔“ احرام ناراض ہوئے اس کے نانا بھی ہنسے۔۔

” میں جب جوزف کو مار رہا تھا جانتے ہیں اس نے مجھے کیا کہا۔۔ اگر اس لڑکی کو تکلیف پہنچانے والوں کو مارنا چاہتے ہو تو خود کو شامل رکھنا یہ یہاں تمہاری وجہ سے پہنچی ہے۔۔“ سالک نے کچھ یاد کرتے ہوئے بتایا۔۔ وہ لوگ بری طرح ڈر گئے سالک کی بات پر۔۔ 

”اس نے بکواس کی ہے۔۔ “ احرام غصے سے بولے۔۔ 

” اس نے سچ کہا تھا۔۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔ میں کسی کے لیے اپنی جان کیوں لوں گا بھئی۔۔ اور یہ میں آپ کی ہی پرواہ میں کہہ رہا ہوں۔۔ الزام نا لگایا کریں مجھ پر۔۔“ سالک نے آخری لفظوں پر زور دے کر کہا۔۔

” صرف جان نہیں سالک۔۔۔ اپنے آپ کو بھی کسی کے لیے برباد نا کرو۔۔ آج بھی تم ایک کار ریس کا پتہ کرتے پھر رہے تھے۔۔“ احرام سنجیدگی سے بولے۔

”آپ کا سپائے تھوڑا لیٹ ہے۔۔ میں کار ریس کر کے ہی آرہا ہوں پاپس۔۔“ سالک نے دھماکہ کیا۔۔ 

”تم اور کیا کیا کارنامے کرنے والے ہو آج ہی بتا دو مجھے۔۔۔ ہر وقت کے بی پی ہائی سے تنگ آگیا ہوں۔۔ آج ہی پھٹ جائے میرے دماغ کی رگ۔۔“  احرام بڑی مشکل سے ضبط کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔

” اتنا ہائپر کیوں ہو رہے ہیں بچہ تھوڑی ہوں۔۔ ٹوئنی ہو چکا ہوں“ سالک نے منہ پھلا لیا۔۔

” یار تم ناں اتنے ہی خطرناک کام کرنا چاہتے ہو تو شادی کر لو ۔۔ مجھے امید ہے تمہارا بیٹا تمہیں ہر خطرے کی تفصیلی تصویر دکھائے گا۔۔“  نانا جان کے کہنے پر وہ ایک پل کو چپ ہوا۔۔

” میرا بیٹا اپنے گرینڈپا پر بھی جا سکتا ہے۔۔ اچھا بچہ۔۔“ سالک نے شرارت سے باپ کو سنوایا۔۔

” میرے باپ کو میرے پیچھے زلیل نہیں ہونا پڑا تھا سالک۔۔“ احرام نے اسے جتایا۔۔

”میں بھی آپ کے والے شوق نہیں رکھوں گا۔۔ “ اس نے احرام کو سالک کی پل پل کی خبر رکھنے اور ہر بات پر ٹوکنے والی عادت کا اشارہ دیا۔۔ 

” تم باپ تو بنو پھر پتہ چلے گا۔۔۔ جس باپ کا بیٹا انسان کی بجائے جن جیسا ہو اس کی نیندیں اسی طرح حرام ہو جایا کرتی ہیں۔۔“ احرام صاحب تاسف سے بولے۔۔ سالک نے سر خم کر کے اس تعریف ”جن“ پر شکریہ ادا کیا۔۔ 

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

"ہالہ تم کسی لڑکے سے باتیں کرتی ہو؟ تمہاری کچھ دن پہلے ایک کال آئی تھی۔۔ وہ لڑکا ہر بات جانتا تھا تمہارے بارے میں ۔۔۔ تائی جان کا بھی پتہ تھا اسے۔۔“  دونوں بہنیں رات کا کھانا کھا رہی تھیں جب اچانک دیا نے پوچھا۔۔ ہالہ کا نوالہ حلق میں اٹک گیا۔۔   

” پہلے تو میں نے سوچا چپ رہوں مگر مجھے جاننا ہے۔۔“ دیا نے مزید کہا۔۔

” دیا تم نے دوسروں کی کالز سننا کب سے شروع کر دیا۔۔“ ہالہ نے دانت پیس کر کہا۔۔

”کیوں مجھے بتانے کا ارادہ نہیں ہے۔۔ کون ہے آخر وہ۔۔ اتنا فری ہو کر بول رہا تھا۔۔“  دیا کا تجسس مزید بڑھ گیا۔۔

” ہے ایک لوفر۔۔ اور وہ سب اس لیے جانتا ہے کیونکہ فارس بھائی کا وہی دوست ہے جس کا بتایا تھا ہاسپٹل میں ملا تھا۔۔ اور کچھ بھی غلط سوچنے کی ضرورت نہیں ایسا ویسا کچھ نہیں۔۔ میں خود تنگ ہوں اس بندے سے۔۔۔ ہر جگہ نازل ہو جاتا ہے۔۔“  ہالہ ناک چڑھا کر بولتی اچھی خاصی تپی ہوئی لگ رہی تھی۔۔

دیا نے جلدی سے پانی کا گلاس منہ سے لگا کر اپنی گھبراہٹ چھپائی۔۔ 

وہ تو رشتہ بھیجنے کا کہہ گئی تھی اور بات اور نکلی؟

”ویسے تم نے کیوں کی اٹینڈ کال۔۔۔ کیا بات کی اس سے؟“ ہالہ کو بھی اچانک ہی فکر ہوئی کیونکہ دیا کا اسے پتہ تھا بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دینے سے باز نہیں آتی۔۔

”ہالہ اب کیا ہو گا۔۔ میں نے تو غصے میں اسے کہہ دیا تمہارے لیے رشتہ بھیج دے۔۔“ دیا کی بات پر ہالہ کا کھانا حلق میں پھنسا اور کھانس کھانس کر اس کی سنہری رنگت میں سرخی بھر آئی۔۔

” دیکھو میرا قصور نہیں۔۔ وہ بار بار فکر ظاہر کرتا مجھے فلرٹی لگا تو غصے میں کہہ دیا میں نے اور کسی فلرٹی لڑکے کی حد بھی یہی ہوتی ہے جہاں رشتہ بھیجنے کی بات ہوئی وہ غائب۔۔۔ اب تم دیکھنا یہ بندہ بھی۔۔“  دیا اس کو پانی ڈال کر دیتی جلدی جلدی وضاحت دینے لگی۔۔ ہالہ کا جیسے ہی سانس بحال ہوا دیا کی کمر پر ٹکا کر ایک لگائی۔۔ 

”آئی امی۔۔ ہالہ مار کیوں رہی ہو۔۔“  دیا اپنی کمر سہلاتی رونی صورت بنا کر بولی۔۔

”اگر وہ بے ہودہ بندہ واقعی رشتہ لے کر آجائے پھر؟  فارس بھائی کو پہلے اس کی حرکتوں سے مجھ پر شک ہوتا ہے۔۔ جو بندہ دوسری بار ملنے پر ہی بھرے بازار میں ہاتھ پکڑے اور کپڑوں کا رنگ پوچھے، سوچو وہ کس قسم کا ہو گا۔۔۔ 

تم نے ایسے انسان کو رشتہ بھیجنے کا کہہ دیا وہ بھی تب جب میرا رشہ طے ہے اور میں اس رشتے پر راضی بھی ہوں۔۔ کچھ عقل بچائی ہے یا سب ان انگریزوں میں بانٹ آئی ہو۔۔؟ جاہل کی جاہل رہنا ساری عمر بس۔۔“  ہالہ غصے سے اس کی کلاس لیتی جلدی سے اپنا موبائل ڈھونڈنے لگی۔۔ 

”مجھے تو ایسا چالاک نہیں لگتا جسے آواز تک کی پہچان نہیں ہوئی۔۔“ دیا نے منہ بگاڑ کر کہا اور ہاتھ سے اب بھی جلتی کمر سہلا رہی تھی۔۔

” وہ میرا باپ نہیں ہے آوازیں پہچانے۔۔ ہمارے خاندان والے جو ہمیں بچپن سے جانتے ہیں کال پر وہ بھی اکثر نہیں پہچان پاتے۔۔ تمہاری اور میری آواز کا فرق اتنا سا ہے کہ کوئی ہر وقت بات کرنے والا ہی پہچان سکتا ہے اور میں اس بندے سے ہر قت گپیں نہیں لڑاتی۔۔ “  وہ دیا کو گھورتی موبائل پر زایان کا نمبر ڈھونڈ رہی تھی۔۔

” میں نے اس کا نمبر بلاک کر دیا تھا مجھے لگا تم غلط کام۔۔۔“  ہالہ کی کھا جانے والی نظروں پر دیا سہم کر چپ ہوئی۔۔ 

” میری عزت کا جنازہ نکلواؤ گی۔۔ تائی جان نے زندہ گاڑ دینا ہے مجھے۔۔۔ اور بابا۔۔ ہائے وہ بندہ آگیا تو۔۔“ ہالہ فکر مندی سے لب کچلتی پریشانی کے مارے کھانا بھی بھول چکی تھی۔۔ دیا اسے چور نظروں سے دیکھتی اپنا کھانا مکمل کرنے لگی۔۔۔ 

” اتنا بھی کیا مسئلہ ہے۔۔۔ رشتہ آئے گا تو انکار ہو جائے گا بس۔۔“ دیا نے کچھ دیر بعد آہستگی سے کہنا چاہا۔۔ 

”اور وہ ایسا بے چارہ نہیں کہ چپ کر جائے وہ ریکارڈنگ سنائے گا اور ۔۔۔۔ ہاں یہ ہوئی نا بات ریکارڈنگ میں آواز تمہاری ہے۔۔۔ تو تم ہی پھنسو گی۔۔“ ہالہ نے اسے ڈرایا تھا اسکی آنکھیں پھیل گئیں۔۔ 

”ہالہ نہیں۔۔ ہائے نا۔۔“ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔۔

💜💜💜

وہ زمین پر نیم مردہ پڑی تھی۔۔ بال بکھرے ہوئے تھے چہرہ زخمی تھا۔۔ وجود میں تکلیف ایسی کہ سانس لینا بھی درد دے رہا تھا۔۔ اس کے کانوں میں کسی کے درد سے چیخنے کی آوازیں گونج رہی تھی۔۔ کوئی بہت بے دردی سے کسی کو مار رہا تھا۔۔

"you dare to touch her.. i'll kill you..."

اس کے کانوں نے یہ جملہ سنا۔۔ مگر کچھ بھی سمجھ میں نہیں بیٹھا تھا۔۔ وہ کہاں ہے؟ اور یہ آوازیں کیسی ہیں۔۔؟ زمین پر قدموں کی دھم دھم ہو رہی تھی۔۔ کوئی آگے بڑھ کر قدموں کے بل اس کے پاس بیٹھ کر اس پر جھکا۔۔ 

اس کے بالوں کو نرمی سے سمیٹا، اس کے چہرے پر لگے 

خون کو کوئی بے تابی سے صاف کرنا چاہ رہا تھا۔۔ وہ بےجان پڑی سب محسوس کر رہی تھی۔۔ اس لمس میں نرمی تھی، تحفظ تھا۔۔ وہ یہ ہاتھ تھامنا چاہتی تھی۔۔ وہ کہنا چاہ رہی تھی کہ اسے یہاں سے بچا کر دور لے جایا جائے۔۔ پھر اس نے اس کے گرد بازو پھیلا کر اسے سینے سے لگایا اور خود میں سمیٹ لیا۔

اسے پکارا جا رہا تھا۔۔ اس کا کندھا ہلا کر جانے کا کہا گیا پر وہ اسے سینے میں بھنچے بیٹھا تھا۔۔ 

وہ مسلسل کچھ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔۔ 

دیا کی آنکھ جھٹکے سے کھلی اس کا پورا جسم پسینے سے بھیگ چکا تھا۔۔ 

”یہ کیسا خواب تھا۔۔ سالک وہاں تھا؟“ وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی حیرت سے بڑبڑائی۔۔

"am sorry D.. Its my fault am sorry.."

دیا کو یہ جملہ ،جو اس نے ابھی خواب میں سنا تھا، بری طرح ہلا گیا تھا۔۔

ہاں ٹھیک ہے وہ اب اکثر خواب میں وہی لمحے دیکھتی تھی۔۔ بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں اور اکیلے کمرے میں محسوس ہونے والی بے بسی محسوس کرتی تھی مگر آج کا خواب تو بہت الگ تھا۔۔ وہ بے یقین سی بیٹھی تھی۔۔

”سالک مجھے بچانے گیا تھا؟۔۔ اس نے یہ سب کیا؟ ہو ہی نہیں سکتا، بالکل نہیں۔۔ وہ لاپرواہ انسان بھلا کسی کی اتنی پرواہ کیوں کرے گا۔۔ بھلا اسے کیا وہ مرے یا جیے۔۔ اس کی بلا سے وہ ساری زندگی اس قید میں پڑی رہتی۔۔ نہیں یہ خواب جھوٹا ہے۔۔ ہالہ ٹھیک کہتی ہے خواب تو بس خواب ہوتا ہے۔۔ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔۔ سالک اتنا حساس تھا ہی نہیں۔۔“ وہ پانی کا گلاس بھر کر پیتی مسلسل اپنے خواب کی نفی کرتی رہی۔۔ 

وہ تب نیم بے ہوشی میں تھی مگر بالکل بے ہوش نہیں ہوئی تھی۔۔ یہ وہ لمحے تھے جو اس کے لاشعور میں کہیں چھپے تھے جن لمحوں کو اس نے محسوس کیا تھا مگر ذہنی حالت بہت خراب ہونے کی وجہ سے یاد نہیں رکھ پائی تھی۔۔ 

یہ سب اس نے سوچنا چاہا بھی نہیں تھا۔۔ مگر ہمارے دماغ کے لا شعور میں بہت سے ایسے لمحے جو ہماری یادوں سے (hide) ہو چکے ہوں خواب میں آ جاتے ہیں۔۔ دیا کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا..

اب نیند آنا تو مشکل تھی۔۔ وہ اپنے بستر پر پڑی گہرے گہرے سانس بھرتی خود کو نارمل کرنے لگی۔۔  مگر وہ اس خواب کو سچ نہیں مان سکتی تھی۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

سالک کا بزنس یونی ورسٹی میں ایڈمیشن ہو چکا تھا۔۔ وہ فی الحال اپنی سٹڈیز پر فوکسڈ تھا (ماں باپ کے سامنے)۔۔ تو گھر میں آج کل سکوں تھا۔۔ وہ اس سب کے دوران دو کار ریسز میں حصہ لے چکا تھا اور وہ تب تک کار ریس میں پارٹیسیپیٹ کرتا رہے گا جب تک جیت نہیں جاتا۔۔۔ اور جلد اس کا جیتنا کنفرم تھا۔۔

اس کو پورے سات بوکے مل چکے تھے اور کارڈز اب ختم ہو چکے ہوں گے کیونکہ اس نے دیا کو سات بوکے دئیے تھے بس۔۔ اس کو انتظار تھا کہ اب بوکے آتا ہے یا نہیں اور اگر آتا ہے تو اس بار کارڈ پر کیا لکھا ہو گا۔۔  اور پھر اسی طرح دودن بعد اسے بوکے ملا تو وہ ٹھٹکا بوکے پر موجود کارڈ پر سٹکی نوٹ لگا تھا۔۔ وہی سٹِکی نوٹ جو اس نے کالج کے نوٹس بورڈ پر لگایا تھا۔۔ 

"I feel peace when I see you love..

وہی جملہ اس کی کی رائٹنگ میں۔۔ سالک کے جبڑے بھنچ گئے۔۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ کون ہے اور اسے یہ بھی پتہ تھا یہ سب اس کے رسپانس کے لیے کیا گیا ہے۔۔۔

اب مزید یہ سلسلہ جاری نہیں رکھا جا سکتا تھا وہ یہ بھی سمجھ چکا تھا۔۔ 

اس کی توجہ چاہئیے تھی اور وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا۔۔ وہ اگنور کر کے آگے بڑھ گیا۔۔

اس کا شک سہی تھا اس کے بعد بوکے نہیں ملے کبھی۔۔ سالک کو پرواہ بھی نہیں تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

فارس زایان کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ 

”میں ڈفرنٹ پروڈکٹس کا بزنس سٹارٹ کرنا چاہ رہا ہوں میں نے سب سٹڈی کر لیا ہے۔۔ 

یہ کام ہی میرے لیے ایزی ہے اور ان چیزوں کی ڈیمانڈ ہے۔۔ ہم خود پروڈکٹس تیار کروائیں گے۔۔ 

اور مارکیٹس میں سٹاک کے حساب سے دیا جائے گا۔۔    پروڈکٹس ایکسپرٹ ہائر کر لیں۔۔ جو کاسمیٹکس اور دوسری یوز کی چیزیں تیار کریں۔۔ واصف ایکسپرٹس کی چھان بین کرے گا۔۔ اور میرا بھائی صائم اس کے ساتھ اس سب میں شامل ہو گا۔۔ بلڈنگ ریڈی ہے مٹیریل تم کلیکٹ کر لینا۔۔ میں باقی سٹاف ہائر کروں گا اور دیکھو میرا ٹارگٹ بس ایک ماہ ہے۔۔ تب تک سب سیٹلمنٹ ہو جانی چاہئیے۔۔۔“  زایان نے تیزی سے لیب ٹاپ پر ایڈ تیار کرتے ہوئے فارس کو تفصیل سے بتایا۔۔ واقعی اس کا ورک کمپلیٹ تھا۔۔

”او۔کے میری طرف سے تو تم بے فکر ہو جاؤ میں یہ کر لوں گا۔۔ اور تمہارا بھائی بھی اس بزنس میں پارٹنر ہے۔۔؟“  فارس نے اس سے پوچھا۔۔ 

”پارٹنر؟ بالکل نہیں۔۔ اس کا اپنا بہت کام ہے مگر زبردستی گھس رہا ہے۔۔ وہ کیا صیام بھائی بھی ایک ایک تفصیل پوچھ رہے ہیں۔۔ ان دونوں کو لگتا ہے میں یہ اکیلے نہیں کر سکتا۔۔“ فارس نے حیرت سے زایان کو دیکھا جو خفگی سے بول رہا تھا۔۔    

” یار سیرئیسلی۔۔۔ تمہاری فیملی اتنی کئیر کرتی ہے تمہاری۔۔ نارملی ایسی بڑی فیملیز میں سب اپنے ہی کاموں کو توجہ دیتے ہیں۔۔ اور تمہارے بھائی اتنے بزی شیڈول سے تمہارے لیے ٹائم نکال کر تمہیں ہیلپ آؤٹ کر رہے ہیں۔۔ تمہیں ان کا پیار نظر نہیں آتا بس ہر وقت منہ پھلائے ان کا گلہ کرتے رہتے ہو۔۔“  فارس نے اچھی خاصی ایموشنل تقریر کر ڈالی تھی۔۔ زایان نے کھٹاک سے لیب ٹاپ بند کیا اور اسے گھورا۔۔

”مانا کہ بھائی میرے لیے یہ سب کر رہے ہیں مگر اب ایسے بھی سیدھے نہیں جیسے لگتے ہیں۔۔ تم نے اپنے گھر بیٹھے میری فیملی کی کئیر دیکھ لی، تھینکس ! تمہاری باتوں سے میری آنکھیں بھر آئیں۔۔۔ اب جا کر اپنا کام کرو۔۔ “ زایان نے اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کہا۔۔۔

فارس منہ بگاڑتا اٹھ کر چلا گیا۔۔

”میرے گھر آ کر رہے تو پتہ چلے کتنا ”پیار“ لٹایا جاتا ہے مجھ پر۔۔“ زایان پھر سے کام میں مصروف ہوتا بڑبڑایا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrite💜💜💜

وہ بریک ٹائم سٹاف روم میں بیٹھی ٹیسٹ چیک کر رہی تھی۔۔ جب اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔۔ وہ نروس سی موبائل کی سکرین پر اکرام کا نام دیکھ رہی تھی۔۔ آج کل غزالہ کی شادی کی تیاری چل رہی تھی اور تائی نے ہالہ کو شاپنگ کا کام سونپا تھا۔۔ شاید اس لیے اکرام کال کر رہا ہو۔۔۔اس نے سوچ کر کال اٹینڈ کی۔۔ 

”ہالہ چاچو کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔“ اکرام کا جملہ تیر کی طرح اس کے کان میں لگا تھا۔۔ 

” دیکھو میں تمہیں لینے آرہا ہوں۔۔ شاید دیا کو ہاسپٹل سے کال آئی تھی اس کی طبیعت خراب ہے، تم اسے سنبھالنا۔۔ چاچو کا زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔۔“ وہ جلدی جلدی بول رہا تھا اور اس کی پریشان آواز سے ہالہ کو شدید خوف محسوس ہوا تھا۔۔ 

وہ ساکت وجود لیے اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی۔۔

گھر میں دیا بے ہوش پڑی تھی۔۔ کیونکہ کال لاگ میں فسٹ نمبر اس کا تھا تو کال بھی اسی کو آئی تھی۔۔ انہیں ہاسپٹل لے جایا جا چکا تھا۔۔

ہالہ رو رو کر پاگل ہوتی دیا کو بھی سنبھال رہی تھی  تائی جان بھی بی پی ہائے کی وجہ سے سر لپیٹے بیٹھی تھی۔۔ 

فارس اور اکرام ہاسپٹل میں تھے۔۔ 

ایکسیڈنٹ اتنا شدید تھا کہ خادم صاحب کے سر کی ہڈی، کندھا، پسلیاں اور ایک ٹانگ بری طرح متاثر ہوئے تھے۔۔

 دو میجر آپریشنز کی ضرورت تھی اور چھوٹے موٹے دوسرے آپریشنز بعد میں کرنے پڑتے مگر اس وقت ہاسپٹل کا خرچ لاکھوں کے حساب میں بن رہا تھا۔۔ 

فارس اور اکرام بہت بھاگ دوڑ کر کے بھی ڈیڑھ لاکھ تک جمع کر پائے تھے کیونکہ غزالہ کی شادی کے لیے دھوم دھام، زیورات اور میرج ہال کی بکنگ کے چکر میں اچھا خاصہ قرض لے چکے تھے۔۔ اب مزید قرض لینا مشکل تھا۔۔ 

________________

پہلے آپریشن کی فی جمع کروائی جا چکی تھی۔۔ مزید رقم کے لیے فارس اور اکرام اچھے خاصے زچ ہو چکے تھے۔۔ دیا کی طبیعت کافی سنبھل گئی تھی ہالہ اسے ساتھ لگائے خاموشی سے جیولر شاپ پر گئی اور وہ کچھ زیور جو خادم صاحب نے اپنی بیٹیوں کے لیے بنا رکھا تھا جیولر کے سامنے رکھے۔۔ دیا چپ سادھے ہالہ کا ساتھ دے رہی تھی۔۔ باپ سے بڑھ کر انہیں کچھ عزیز تھا بھی کہاں۔۔ یہ زیور یا جمع پونجی پھر بن جاتی مگر خادم صاحب کو کچھ ہو جاتا تو۔۔۔ 

”ہالہ امی کے دئیے لاکٹ بھی ملالیں؟“ پیسے کم بن رہے تھے دیا نے سرگوشی میں ہالہ سے کہا تو وہ چونکی۔

” ہاں مجھے ان کا خیال ہی نہیں رہا۔۔“  دونوں بہنوں نے اپنے اپنے لاکٹ اتار کر کاؤنٹر پر رکھے۔۔  یہ پیسے بھی کم تھے۔۔ ہاسپٹل کا خرچ کہیں زیادہ تھا۔۔ ہالہ کی سوچ بار بار زایان پر جانے لگی۔۔ اگر وہ اس سے قرض لے۔۔۔ کیا وہ دے گا؟ اگر نہیں ایک بار ٹرائی تو کرنا چاہئیے۔۔

”کیا مطلب ہے آپ کا۔۔ یہ دونوں بالکل ایک جیسے ہیں پھر ایک کی قیمت زیادہ اور ایک کی کم کیوں ہے۔۔“ ہالہ کی سوچوں کا تسلسل دیا کی آواز پر ٹوٹا۔۔ وہ بھی متوجہ ہوئی۔۔ 

جیولر ہالہ کے لاکٹ کی قیمت زیادہ جبکہ دیا کے لاکٹ کی قیمت کم بتا رہا تھا۔۔ 

”دیکھئیے یہ لاکٹ پیور وائٹ گولڈ کا ہے۔۔ اس پر صرف سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔۔ اس کی قیمت کافی زیادہ ہے جبکہ دوسرا سمپل گولڈ کا ہے اس لیے کم قیمت ہے۔۔“  جیولر کی بات پر دونوں کا منہ کھل گیا۔۔ یہ فرق کیسے اور کیوں تھا۔۔؟

اور اچانک ہالہ کے دماغ میں جھماکہ ہوا۔۔ اس کا لاکٹ کھو گیا تھا۔۔ اور اسے زایان نے ڈھونڈ کر دیا تھا۔۔ تو کیا یہ اس نے ویسا بنوا کر دیا تھا؟ 

ہالہ کے دماغ کی رگیں اس دھوکے پر پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔۔ اس نے بے بسی سے لاکٹ کو دیکھا اس وقت باپ سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔۔ 

اور اس نے دیا کی حیران سوالیہ نظروں سے نظریں چرا لیں۔۔ جیولر ساری پے منٹ کاؤنٹ کر رہا تھا۔۔۔ ہالہ کے دل میں زایان کے اس جھوٹ سے کانٹا سا گڑھ گیا تھا۔۔ 

اگر اسے لاکٹ نہیں مل سکا تھا تو یوں دھوکا دینے کی کیا ضرورت تھی۔۔ صاف بتا دیتا اس کا قصور تھوڑی تھا۔۔ ہالہ نے ہی گم کیا تھا۔۔  

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

وہ آج پھر کار ریس میں شامل تھا۔ یہ ریس راؤنڈ وائز تھی۔۔ یہ ریس بہت خطرناک تھی۔۔ اس میں بھی سپیڈ لمٹ نہیں تھی اور یہ بزی روڈز پر تھی (جہاں ٹریفک موجود ہو) اور آف کورس ٹریفک سگنلز بریک کرنے پر پولیس کی گاڑیاں فالو کرتی تھیں۔۔ اس کا رُول تھا کہ پولیس کو ڈاج کرنا تھا۔۔ سپیڈ بھی ہائی رکھنی تھی۔۔ ٹریفک کو ایوائڈ کرنا تھا۔۔

 اس سب کے بعد جو ڈیڈ لائن کو کراس کر لے وہ نیکسٹ راؤنڈ میں۔۔  اگر اس سب میں کوئی پولیس کے ہاتھ آجائے، ایکسیڈنٹ میں پھنس جائے یا پھر ریسر گاڑی کنٹرول نا کر پائے اور مر جائے، یا سوئیر انجری کا شکار ہو جائے۔۔ وہ آف کورس گیم سے آؤٹ۔۔  چاہے وہ ساری زندگی معذوری میں گزار دے۔۔ کسی کو پرواہ بھی نہیں تھی۔۔

سالک کو اس ریس میں حصہ نہیں دیا جا رہا تھا کہ وہ چھوٹا ہے۔۔ اس نے نجانے کتنی منتیں کر ڈالی تھیں اور جیک کے ریسورسز سے اسے اس ریس میں حصہ ملا تھا۔۔ 

 اس ریس کے تھری راؤنڈز تھے۔۔  پہلے راؤنڈ میں سالک کا فورتھ نمبر تھا۔۔ ففتھ نمبر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر آؤٹ ہو چکا تھا (وہ مر چکا تھا)۔۔ 

 یہ دوسرا راؤنڈ تھا اور سالک کو ہر حال میں لاسٹ راؤنڈ اوپن کرنے کے لیے ٹاپ تھری میں نمبر لانا تھا۔۔ 

وہ یہ ازیت ناک اور خوفناک موت کا کھیل بہت شوق سے کھیل رہا تھا وہ سب ریسرز میں کم عمر اور نان ایکسپیرئینسڈ تھا۔۔ 

اس ریس کے گیمرز اپنی موت اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے تھے مگر وہ اس کے عادی تھے۔۔ وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ چھوٹے سٹیپس میں پریکٹس کر کے اس سٹیج پر پہنچے تھے۔۔

ریس سٹارٹ ہو چکی تھی، وہ گاڑیوں سے بچتا سپیڈ تیز کرتا جا رہا تھا۔۔  پولیس کی گاڑیاں مسلسل پیچھا کر رہی تھیں اور وہ اسے رکنے کا اعلان دہرا دہرا کر زچ ہو چکے تھے۔۔ 

وہ بہت جگہوں پر ایکسیڈنٹ سے 0.000001 رسک سے بچا تھا۔۔ ایک دو جگہوں پر اس کی گاڑی راؤنڈ میں گھوم کر رہ گئی تھی۔۔ پر اس پر ایک ہی لگن سوار تھی، اسے پوائنٹ تک پہنچنا تھا۔۔ اسے لاسٹ راؤنڈ میں اینٹری چاہئیے تھی۔۔ 

وہ ہار ماننے کو تیار نا تھا۔۔ 

اسے پہلے کہہ دیا گیا تھا اس کی موت طے ہے کیونکہ وہ یہ ریس نہیں جیت پائے گا۔۔ 

اسے ہر حال میں انہیں دکھانا تھا کہ وہ پہلے نمبر پر نا سہی مگر لاسٹ راؤنڈ میں تیسرے نمبر پر سہی زندہ واپس لوٹے گا۔۔ 

وہ سالک تھا۔۔ وہ جو سوچتا تھا کر گزرتا تھا۔۔

جکہ سالک کے اس جنون کو دیکھ کر اس ریس میں آنے والے سب حیران تھے۔۔ 

اس کے پاس سب تھا تو وہ کیوں اپنی زندگی کو رسک پر ڈالے ہوئے تھا۔۔؟

اس کے پاس بہت پیسہ تھا اسے جیت کی رقم کی بھی ضرورت نہیں تھی۔۔ 

یہ شوق تھا تو بہت برا شوق تھا۔۔ 

اور اگر یہ کوئی چیلنج تھا تو وہ اس کے لیے بہت ینگ تھا۔۔ یہ ایڈونچر تھا تو اسے اس ایڈونچر سے بہتر سیدھے صاف پوائزن لے کر مر جانا چاہئیے تھا۔۔ یہ ازیت کیوں۔۔؟

اور وہ کسی کو کیا بتاتا۔۔ اسے زندگی میں پہلی بار کسی نے سب کے درمیان زلیل کیا تھا اور وہ اس انسان کے سامنے خاموش رہنے پر مجبور تھا۔۔ اسے اپنی اس مجبوری پر غصہ تھا۔۔

اسے محبت ہوئی تھی اور اس کا غم تھا۔۔ 

وہ پہلی بار کسی سے ہارا تھا اسے اس ہار کا دکھ تھا۔۔ اپنے ہار مان جانے کا دکھ تھا۔۔

اسے اس سب کا غبار نکالنا تھا اور کسی چھوٹے موٹے کام سے سکون ملنا بھی نہیں تھا۔۔

اس نے اس ریس کے روڈز پر پہلے سٹڈی کر لی تھی۔۔ ان روڈز کے درمیان کچھ چھوٹے اور چھپے ہوئے روٹس تھے، سالک کبھی پولیس سے بچنے کے لیے ان روٹس کو فالو کر لیتا کبھی روڈ پر آجاتا تھا۔۔ وہ پولیس کو ڈاج دینے میں کامیاب ہوتا جا رہا تھا اور ڈیڈ لائن کے قریب بھی پہنچ گیا مگر اس بار بھی راستہ لمبا ہو جانے کی وجہ سے اس کا تیسرا نمبر ہی آیا تھا۔۔ 

مگر وہ لاسٹ راؤنڈ میں شامل ہو گیا تھا۔۔ 

اگلی ریس کا ٹاٸم ایک ماہ بعد تھا کیونکہ اس ریس کی وجہ سے پولیس سیکیورٹی آج سے ٹائٹ ہو جانے والی تھی۔۔ پچیس دن تک سکون رہنے پر پولیس نارمل روٹین پر آجاتی اور تیسویں دن ان کی ریس پھر سے طے تھی۔۔

وہ بری طرح تھک گیا تھا۔۔ بال پسینے سے تر ماتھے پر چپک رہے تھے۔۔ برف جیسی رنگت میں سرخیاں پھوٹ رہی تھیں۔۔۔

گاڑی میں ہی بیٹھا وہ سانس بحال کر رہا تھا اسے گھر جانے سے پہلے نارمل ہونا تھا کیونکہ وہ ایکسٹرا کلا سز کا کہہ کر گھر سے نکلا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

خادم صاحب کا ایک آپریشن ہو چکا تھا۔۔ ان کی نیکسٹ آپریشن کی فی الحال ڈیٹ نہیں دی گئی تھی۔۔ بلڈ لاس سے وہ بہت ویک ہو چکے تھے۔۔ 

ابھی ہاسپٹل میں ہی ایڈمٹ رکھنا تھا انہیں۔۔ 

ہالہ سر ڈالے درود کا ورد کیے جا رہی تھی دیا پریشانی سے ٹہلتی کبھی رک کر فارس کو دیکھتی کبھی اکرام کو۔۔ وہ دونوں ہی مزید پیسوں کا انتظام نہیں کر پا رہے تھے۔۔ 

”فارس بھائی آپ کا فرینڈ بھی تو دے سکتا ہے۔۔ اس سے بات کر لیں۔۔“ دیا نے اسے زایان کی طرف توجہ دلائی۔۔ وہ چونکا، ہالہ نے بھی اسے دیکھا۔

” ریسینٹلی اس نے اپنا بزنس سٹارٹ کیا ہے کروڑوں کی رقم انویسٹ کی ہے اور اب میں اس سے قرض مانگ کر اسے تنگ نہیں کر سکتا۔۔“  فارس نے فوری انکار کیا۔۔ ہالہ اس کی بے حسی پر کھول کر رہ گئی۔۔ ابھی پچھلے دنوں اس نے اپنی بہن کی شادی کے لیے دوست کو تنگ کر لیا تب اس کی بزنس انویسٹمنٹ وغیرہ یاد نا تھی اور اب جب بہت ضروری تھا تو۔۔۔ 

دیا نے سر جھکا کر بیٹھے اکرام کو دیکھا پھر فارس کو۔۔ اس کا جی چاہا ان کا گریبان پکڑے اور غیرت دلائے کہ شادی کے لیے جو میرج ہالز کی بکنگ کی وہ کینسل کر سکتے ہیں۔۔ مگر ہالہ کہتی تھی وہ اب تک جتنا دے چکے وہ بھی بہت ہے۔۔ انہوں نے شادی فی الحال کینسل کر دی۔۔ یہی بہت ہے وہ بکنگ وغیرہ کینسل کر کے یا جیولری بیچ کر اپنی بہن کی شادی کیوں تباہ کریں۔۔ 

دیا بھی سر پکڑ کر رہ گئی۔۔ تھوڑے بہت پیسے نہیں تھے ایک بڑی رقم تھی جس کا ملنا مشکل تھا اور اگر وہ نا کر پائے کچھ اور پھر آپریشن کی ضرورت پڑ جائے یا ہاسپٹل کے دوسرے اخراجات کے لیے رقم کم پڑ جائے تو؟؟

ہالہ ہاتھوں میں چھپائے بے بسی سے رو دی۔۔ 

دیا اپنے دفتر سے لون مانگنے چلی گئی۔۔۔

کم از کم وہ اکرام اور فارس کی طرح بیٹھ کر اپنے باپ کے مرنے کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

زایان ان دنوں سب بھلائے اپنا کام کر رہا تھا۔۔ داجان نے کہہ دیا تھا اگر وہ یہ بزنس اچھے سے ایک ماہ میں سٹارٹ نا کر پایا تو وہ فوری عزہ سے شادی کر دیں گے اور زایان جانتا تھا انہوں نے ایسا کیوں کہا۔۔ کیونکہ انہیں لگتا تھا زایان نہیں کر پائے گا۔۔ اور پھر وہ شادی سے انکار کرنے کی بات کرنے لائق نہیں رہے گا۔۔ دوسری صورت میں وہ عزہ سے رشتہ توڑنے کو تیار تھے۔۔ 

اور اب وہ اپنی ساری توجہ بس اپنے کام پر رکھے ہوئے تھا۔۔ صائم اور صیام کے علاوہ ریان اور راسم بھی نامحسوس انداز سے اس کی مدد کر رہے تھے۔۔ وہ سب بھی پوری طرح اس کی یہ کمپنی اچھے پیمانے پر سٹارٹ کر کے زایان کی جان عزہ نامی بلا سے چھڑوانا چاہ رہے تھے۔۔ 

مگر یہ بات نا وہ زایان کے سامنے کہنے والے تھے نا زایان ماننے والا تھا۔۔ کبھی نہیں۔۔ وہ اب بھی یہی کہتا تھا ان سب کو کہ وہ اس پر نظر رکھنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔۔ صرف اس لیے کہ انویسٹ ہوا پیسہ نا ڈوبے اور یہ کہ انہیں زایان اس قابل ہی نہیں لگتا تھا جو یہ کام کر پائے۔۔۔

وہ بس ہنس پڑتے تھے۔۔ 

” اس میں کچھ جھوٹ بھی نہیں زایان۔۔  ہم نہیں ہوں تو تم سب گڑبڑ کر دو گے۔۔“ وہ اسے چڑا کر مزہ لیتے تھے۔۔

ان کا اور زایان کا رشتہ ایسا ہی تھا نا وہ اپنا پیار ظاہر کرتے تھے نا زایان مانتا تھا۔۔

”فارس تم کہاں غائب ہو ؟ تمہاری بہن کی شادی تو پندرہ دن بعد ہے۔۔“ زایان نے فارس کو کال ملا کر اس کی غیر حاضری پر اسے غصے سے کہا۔۔

” یار بس وہی تیاریاں۔۔ تم تو ابھی سے باس بن گٸے۔۔“ فارس نے بات چھپا لی۔۔

” فارس بے ہودہ مزاق مت کرو میرا موڈ آف ہے۔۔پہلے ہی ابھی میرے بھائی مجھ سے لمبی میٹنگ کر کے گئے ہیں اور ایک ایک بات کی وضاحت مانگتے میرا سر گھما چکے ہیں۔۔“ زایان جو صائم وغیرہ کے جاتے ہی بھرا بیٹھا تھا، پھٹ پڑا۔۔ 

”اوہ سوری میں جلد اپنا کام مکمل کروں گا میں بس۔۔“  اس سے پہلے کہ فارس اور بہانہ گھڑتا زایان نے اسے چپ کروا دیا۔۔

” جلد نہیں بہت جلد۔۔ اور واپس آؤ۔۔ میں سیرئیس ہوں۔۔ یہاں کوئی مزاق نہیں چل رہا۔۔ 

سب کو لگتا ہے میں یہ کام کر ہی نہیں سکتا۔۔ 

تم اگر مزید لیٹ ہوئے تو میں کسی اور کو ہائر کر لوں گا ۔۔ دوستی کی وجہ سمجھ لو کہ ایک اور چانس دے رہا ہوں۔۔“ زایان نے بنا لحاظ کیے اسے سنا ڈالیں۔۔ اور کال بند کر دی۔۔

صائم لوگ الگ اس کا دماغ گھما رہے تھے۔۔

” ہر چیز کی رپورٹ چاہئیے انہیں۔۔ پر وقت آجاتے ہیں مجھے ڈانٹنے۔۔۔ میں نے تھوڑی کہا ہے میرا کام کریں۔۔ کیا بابا لوگ نے انہیں یوں تنگ کیا تھا۔۔“  زایان بری طرح چڑچڑا ہو رہا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

وہ لون کی ایپلیکیشن دئیے پچھلے ایک گھنٹہ سے باہر بیٹھی اس ایپلیکیشن کے ایکسیپٹ ہونے کا ویٹ کر رہی تھی۔۔ مگر اسکے سینئیر اس وقت کسی بہت بڑی کمپنی سے مرجنگ کی میٹنگ میں بزی تھے۔۔ دیا باہر بیٹھے بیٹھے رونے والی ہو گئی۔۔ اب مرجنگ کرنے کا سوچا جا رہا ہے مطلب لون ملنے کے چانسز ایک پرسنٹ بھی نا تھے مگر وہ پھر بھی بیٹھی تھی اور کہیں سے پیسے ملنے کی کوئی امید جو نا تھی۔۔۔ 

میٹنگ ختم ہوچکی تھی۔۔ میٹنگ ہال سے ایک سوٹڈ بوٹڈ کافی خوش شکل سا بندہ تھری پیس پہنے نکلا۔۔۔ دیا کا باس اس کے پیچھے چل رہا تھا۔۔ وہ بندہ چلتا چلتا دیا کو دیکھ کر رکا۔۔

”اس لڑکی کو کیا مسئلہ ہے؟“ اس نے مڑ کر دیا کے باس سے پوچھا۔۔

”سر لون کی ایپلکیشن دی ہے فادر کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔ مگر ہم نہیں دے پائیں گے ابھی مرجنگ ہوئی ہے۔۔“ اس نے دیا کو دیکھ کر بتایا۔۔

” او۔کے تم جاؤ۔۔ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔“  انہیں بھیج کر وہ دیا کے پاس آیا۔۔

” کیا بات ہے چھوٹی لڑکی۔۔ مجھے بتاؤ میں تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہوں۔۔“ مردانہ نرم آواز پر دیا نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک پل تو بے خود سا دیکھتا رہ گیا۔۔

گرے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ گلابی پن تیر رہا تھا۔۔ وہ گلابی ہاتھوں سے بار بار آنکھیں رگڑتی آنسوؤں کو بہنے سے روک رہی تھی۔۔

اس بندے کی نرم آواز پر کھڑی ہو کر وہی سب بتانے لگی جو اس کا باس بتا چکا تھا۔۔

”تمہیں یہ رقم میں دے دوں گا۔۔۔ ادھار سمجھ لینا۔۔“ وہ فوراً بولا اور دیا سکتہ زدہ ہوئی۔۔۔

پیسوں کا انتظام ہو بھی گیا اتنی جلدی۔۔۔؟

”تمہیں ایک پیپر جس پر یہ رقم لکھی ہوگی اور یہ بھی کہ میں تمہیں دے رہا ہوں ادھار کے طور پر، وہ سائن کرنا ہوگا۔۔۔ سوری ٹو سے آج کل زمانہ بھی تو ایسا ہے۔۔۔ کچھ تو گارنٹی مجھے بھی چاہئیے۔۔“ اس نے مسکرا کر کہا اور دیا کو اعتراض بھی نہیں تھا۔۔ کیونکہ وہ پیسہ لے کر مُکر جانے کا ارادہ رکھتی بھی نہیں تھی۔۔۔

اس نے اس بندے کے ساتھ جا کر ایک سٹیمپ پیپر سائن کیا اور پچاس لاکھ لے کر ہاسپٹل پہنچ گئی۔۔۔ اب ان کے باپ کے علاج میں کوئی کمی نا ہوگی۔۔ اب ان کے بابا جلد ٹھیک ہو جانے والے تھے۔۔ دیا اور ہالہ کی اٹکی سانسیں بحال ہو چکی تھیں۔۔۔ اکرام اور فارس اتنی بڑی رقم دیکھ کر شاکڈ تھے۔۔۔ کہاں سے لائی تھی وہ؟

اس کا دفتر اتنا بڑا لون ہرگز نہیں دے سکتا تھا۔۔ 

پھر کسے جانتی تھی کہ اتنی بڑی رقم ایک ساتھ دے دی گئی اتنی چھوٹی لڑکی کو جو نہایت معمولی سی جاب کرتی تھی۔۔؟؟

💜💜💜💜


زایان سامنے بیٹھے فارس کو گھور رہا تھا۔۔ 

”اب کیا ہے یار آ تو گیا ہوں۔۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تم باس بن کر حد سے زیادہ ہی سٹرِکٹ ہو گئے ہو یار۔۔“ فارس نے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔۔

"just gimme reason for your three days absence no more gibberish...

this isn't funny, am damn serious faris.

(صرف اپنے تین دن غیر حاضری کی وجہ دو مزید بے مقصد بات نہیں۔۔ یہ مزاق نہیں اور میں بالکل سنجیدہ ہوں۔۔)  زایان نے سنجیدگی سے دانت پیسے۔۔ اس کے سر پر اتنا کام تھا۔۔ اور مہینہ بس پورا ہو چکا تھا ایسے میں فارس کا نان سیرئیس رویہ اسے شدید غصہ دلا رہا تھا۔۔

”یار میرے چچا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔۔۔ اور بہت سیرئیس انجریز ہیں، اس لیے۔۔“  فارس کی بات نے زایان کی توجہ کھینچی۔۔ فارس کے ایک ہی چچا تھے مطلب ہالہ کے فادر؟

”کب ہوا ؟ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔؟ “ زایان پریشان ہوا، فارس پھر سے چونکا تھا۔۔

” ہاسپٹل ڈیوز بہت زیادہ ہوں گے۔۔ کیا تمہیں پیسوں کی ضرورت تو نہیں؟  مجھے تو بتاتے فارس۔۔ اب بھی کچھ ضرورت ہو تو بتاؤ۔۔ علاج میں کمی مت کرنا۔۔“  زایان نے جس انداز سے کہا تھا اس کی فکر، بے چینی اور پریشانی فارس کو ٹھٹکا رہے تھے۔۔ وہ بمشکل اپنے زہن میں آتے ”خیالات“ کو جھٹک رہا تھا۔۔

”ابھی ہیں تو انڈر آبزرویشن اور ہاسپٹل ڈیوز بھی بہت زیادہ ہیں مگر کچھ نہیں چاہئیے یار۔۔ مجھےاور اکرام بھائی کو تو اچھی خاصی پرابلم ہو رہی تھی پیسے نہیں پورے کر پا رہے تھے۔۔ میں نے سوچا تھا تم سے بات کرنے کا مگر۔۔ “

فارس بات کرتے کرتے رکا۔۔

” تمہیں لگا ہوگا میں نہیں دوں گا ؟ یا یہ کہ میرے پاس نہیں ہوں گے؟۔۔ میں پیسوں کا انتظام آرام سے کر سکتا تھا۔۔ یہ سب انویسٹمنٹ داجان نے کی تھی۔۔ میرے پاس تھے ناں پیسے۔۔“  زایان نے خفگی سے کہا۔۔ اسے ہالہ کا خیال ستا رہا تھا۔۔

”مجھے پتا تھا تم دے دوگے یار۔۔۔ مگر میرے چچا کی بیٹیاں اس معاملے میں ہماری سوچ سے زیادہ تیز نکلیں۔۔ ایک دن بڑی نے پانچ لاکھ لا کر دے دئیے اور اگلے دن چھوٹی پچاس لاکھ لے آئی، ہمیں تو چچا کے ساتھ ان کی پریشانی بھی کھا جائے گی۔۔ نجانے کہاں سے اتنے پیسوں کا انتظام کر رہی ہیں۔۔۔ سنتی مانتی کسی کی ہیں نہیں۔۔ اپنی من مانی کیے جا رہی ہیں۔۔“ فارس پریشانی ظاہر کرتا بولتا جا رہا تھا۔۔ 

زایان کے جبڑے بھنچ گئے۔۔ اور وہ خاموشی سے فارس کو دیکھنے لگا۔۔ پھر سر جھٹک کر رہ گیا۔

”مطلب وہ خود ہی سب ہینڈل کر چکی ہیں۔۔“  زایان سرسری سا بول کر خود کو مصروف ظاہر کرنے لگا۔ فارس بھی اٹھ کر اپنے کیبن میں چلا گیا۔۔ اس کا ”کام “ ہو چکا تھا۔۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

اکرام کمرے میں خادم صاحب کو کپڑے چینج کروا رہا تھا اور وہ دونوں بہنیں ہاسپٹل کے کاریڈور میں کمرے کے باہر ہی چئیرز پر بیٹھی سینڈوچ کھا رہی تھیں جو ہالہ گھر سے تیار کر کے لائی تھی۔۔ دیا نے ہالہ کے پوچھنے پر بتا دیا تھا کہ اسے اتنی بڑی رقم کسی نیک دل انسان نے ادھار کے طور پر دی ہے۔۔

” دیا سہی سے دیکھا تو تھا ناں پیپرز کو۔۔“ ہالہ نے گھبرا کر اسے دیکھا جو بابا کے لیے اتنا بڑا رسک لے بیٹھی تھی۔ یہ قرض چکانے کا مرحلہ بھی تو تھا ابھی۔۔

” ہاں اس پر رقم لکھی تھی اور یہ کہ قرض لے رہی ہوں جو بعد میں چکانا ہے۔۔“ دیا نے سر ہاں میں ہلا کر بتایا۔۔ ہالہ ریلیکس ہوئی۔۔

اسی وقت فارس وہاں آیا اور انہیں باتیں کرتا دیکھ کر ان کے پاس رکا۔۔

” کچھ بتانا پسند کرو گی دونوں کہ وہ پیسے کہاں سے لائی تھیں۔۔ ہالہ تو چلو پانچ لاکھ لائی۔۔ تم کہاں سے پچاس لاکھ لے آئی تھیں۔۔“  فارس نے کتنے دن سے ذہن میں مسلسل چبھتا سوال کیا۔

ہالہ نے اس کے لب و لہجے پر لب بھنچ کر ضبط کیا جبکہ دیا نے ہاتھ میں آدھا کھایا سینڈوچ ٹفن باکس میں پٹخ کر فارس کو دیکھا۔۔

”کیوں آپ کو بھی چاہئیے تھا۔۔؟“ دیا کے بدتمیز لہجے پر فارس نے اسے گھورا۔۔

” تم نے زبان ہی چلانی ہوتی ہے بس۔۔ 

اگر تم نے کسی سے قرض بھی لیا ہے ناں یاد رکھنا تم جیسی معمولی جاب کرنے والی جس کے ادھار واپس کرنے کے چانسز بھی کم ہوں اسے کوئی خوامخواہ قرض کبھی نہیں دے گا۔۔۔ اور مفت میں تو بالکل نہیں دے سکتا کوئی اتنی بڑی رقم۔۔ دعا کرو کہ اس قرض کی کوئی اس سے بھی بڑی قیمت نا چکانی پڑ جائے، ہم نے باہر کی دنیا دیکھی ہے ہمیں پتہ ہے کیسے کیسے فراڈ ہو رہے ہیں۔۔ تم جانتی ہی کیا ہو۔۔ تمہاری عمر اتنے بڑے کام کرنے کی نہیں جو تم کرتی پھر رہی ہو۔۔“  فارس نے سخت غصیلے لہجے میں کہا۔۔

” ہمیں پتہ ہے مگر مجبوری تھی فارس بھائی، بابا کے آپریشنز کے لیے پیسے بھی تو چاہئیے تھے۔۔“  ہالہ نے دھیمی آواز میں کہہ کر بات ختم کرنا چاہی۔۔ اکرام کمرے سے نکل کر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔

” کیا مجبوری تھی؟ ہم مر گئے تھے کیا؟ کر لیتے کچھ نا کچھ۔۔“ فارس ناگواری سے بولا۔۔

” کیا کر لیتے آپ۔۔ اپنی بہن کی شادی کے لیے قرض لے لینے کے بعد آپ اپنے دوست کو بھی تنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔ یہ کچھ نا کچھ کرنے کے لیے جتنا وقت آپ لوگ لے رہے تھے تب تک اگر ہم بھی منہ اٹھائے آپ لوگوں کو دیکھتے تو اپنے باپ کو کھو دیتے۔۔ جب آپ کہہ ہی چکے تھے کچھ نہیں کر پا رہے تو ہمیں ہی کرنا تھا۔۔ ہمارا باپ موت کے قریب تھا ہم آپ لوگ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔۔“  دیا بھڑک اٹھی تھی۔۔ طیش اور نفرت سے بولتی چلی گئی۔۔ ہالہ بھرائی آنکھوں سے بس اسے دیکھ کر رہ گئی جو بات کرتے کرتے سسک پڑی تھی۔۔ 

اکرام سپاٹ نظروں سے دیا کو دیکھ رہا تھا۔

” تو؟ مطلب ہم تو ہیں ناکارہ۔۔۔ ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تو تم باپ کے علاج کے نام پر کچھ بھی کرتی پھرو گی۔۔“ فارس نے غرا کر اس کا بازو دبوچا۔۔۔

” ہاں میں اپنے باپ کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔۔ اور اگر آج یہاں بابا کی جگہ تایا جان ہوتے تب بھی یہی کرتی آپ کی طرح ان کے مرنے کا انتظار نا کرتی۔۔“ دیا نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔۔ ہالہ بے بسی سے رونے لگی تھی۔۔ اکرام نے آگے بڑھ کر فارس کو مزید کچھ بولنے سے منع کیا۔۔

”فارس ہاسپٹل میں تماشہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ تم دونوں حد کراس کر رہے ہو۔۔ جاؤ تم فارس یہاں سے۔۔“ اکرام نے اس کا رخ موڑ کر سخت لہجے میں کہتے ہوئء دیا کو بھی گھورا جو چہرہ موڑے آنکھوں میں بھرے آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کے چکر میں چہرہ اور آنکھیں سرخ کیے کھڑی تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

مارسیل سالک کے سامنے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا جو پہلے سے کافی بدلہ بدلہ سا لگ رہا تھا۔۔

"look S... am just tryna sayin if this information is true.. you're in big trouble.. police is now actively investigating this case.. they even collect the names of most suspicious car racers and guess what... your name is in the list too.."

(دیکھو ایس۔۔ میں بس یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں اگر یہ معلومات سچ ہیں تم ایک بڑی مصیبت میں ہو۔۔ پولیس اس وقت بہت ایکٹیولی اس کیس کو انویسٹی گیٹ کر رہی ہے۔۔ یہاں تک کہ انہوں نے سب سے زیادہ مشکوک کار ریسرز کے نام بھی جمع کر لئیے ہیں اور تمہارا نام بھی شامل ہے۔۔) مارسیل نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ سالک نے سر جھکا کر مسکراہٹ دبائی۔۔

"Marcell am not playing dirty.. why you even cncerned about me.. just lemme do what i want.. and do your job properly.. If I win I'll vanished and.. i'll lose in one case if i die on the scene.. either way you cant catch me..

(مارسیل میں غلط نہیں کر رہا، تم میرے لیے اتنے فکرمند کیوں ہو۔۔ مجھے کرنے دو جو میں کرنا چاہتا ہوں اور تم اپنا کام اچھے سے کرو۔۔ اگر میں جیتا میں غائب ہو جاؤں ن

گا اور میں ایک ہی حال میں ہاروں گا اگر میں موقعے پر مرگیا، کسی بھی صورت تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔۔)

 سالک نے بے نیازی سے کہا مارسیل کو اس کا اپنی زات کے لیے یوں لاپروائی سے بولنا اور مرنے کی باتیں کرنا ناگوار گزرا۔۔ 

"Its winter season... soon it'll snow and it'll dangerous even drive in normall speed and car race is too much.. come on boi think about your family.. and what if you face the severe injuries cause of accident... Live your life why are you tryin to risk your life..

(یہ سردیوں کا موسم ہے جلد برفباری ہوگی اور نارمل سپیڈ میں ڈرائیو کرنا ہی خطرناک ہو گا کار ریس تو بہت زیادہ ہو جائے گا۔۔ چلو بھی لڑکے اپنی فیملی کا سوچو اور کیا ہو اگر تم ایکسیڈنٹ ہو جانے سے شدید زخموں کو شکار ہو اپنی زندگی جیو۔۔ کیوں زندگی کو رسک پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہو۔۔) 

مارسیل نے اس لاپرواہ لڑکے کو سمجھانا چاہا اگر وہ سوچ کر ہی اتنا فکر مند ہو رہا تھا تو اس کے ماں باپ کا کیا ہو گا۔۔ مگر اس لڑکے کو جیسے پرواہ ہی نہیں۔۔ 

"lemme die or make it possible to cut of me from case mars.. i already make it to the last round i cant step back.. but for the next time i'll think about it..

(مجھے مرنے دو یا مجھے کیس سے ہٹا دینے کو ممکن بناؤ۔۔ میں پہلے ہی آخری راؤنڈ تک آ گیا ہوں اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا لیکن اگلی بار کے لیے میں اس بارے میں سوچوں گا) 

سالک نے سارا کام اس کے زمہ ڈال دیا اور مزے سے بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔۔ مارسیل نے بے بسی سے بال کھینچے مطلب اگر وہ کچھ نا کر پایا تو اس کا قصور ہو گا۔۔؟  یہ لڑکا بے حس ہے بہت۔۔۔

مگر مارسیل اسے یہ سب کرتا نہیں دیکھ پا رہا تھا۔۔ وہ سالک کو دیکھتا سوچ میں ڈوب گیا۔۔

"and dont you dare to try something bad... like a case and imprisonment to keep me.away from race.. i'll handle it but i'll cut you off from my contacts..

(اور تم میرے ساتھ کچھ غلط کرنے کی ہمت نا کرنا۔۔ جیسے کوئی کیس کرو اور مجھے ریس سے دور کرنے کے لیے قید کی سزا دو میں یہ معاملہ سنبھال لوں گا اور تمہیں بھی اپنے رابطوں سے ہٹا دوں گا۔۔)  

سالک نے اسے وارننگ دی۔۔ اسے اندازہ تھا ایک پولیس دماغ ایسا ہی کچھ سوچے گا۔۔ مارس گڑبڑایا۔۔ 

"is he any kind of mind reader or what.

(یہ کوئی دماغ پڑھنے والا ہے یا کیا ہے؟)

مارس بڑبڑایا اور سر جھٹکا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

زایان ہاسپٹل آنے سے خود کو مزید نہیں روک پایا تو ہمت کرتا آ ہی گیا۔۔ 

دن کا وقت تھا اکرام اور فارس جاب پر تھے تائی جان صبح ہی چکر لگا کر جا چکی تھیں۔۔ اس وقت وہ دونوں بہنیں ہی اکیلی وہاں موجود تھیں۔۔  دیا رات بھر فارس سے ہوئی جھڑپ کی وجہ سے روتی رہی تھی۔۔ سو بھی نا پائی اور اب وہیں چئیر خادم صاحب کے بیڈ کے پاس ہی رکھے اونگھتی اونگھتی آخر سر سامنے بیڈ پر ٹکا کر سونے لگی، بابا جاگے ہوئے تھے دیا کا سر تھپتھپاتے افسوس سے اپنی معصوم سی بیٹی کی بے آرام نیند دیکھ رہے تھے۔۔

ہالہ ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر باہر نکلی۔۔ ارادہ تھا کہ باہر کی ہوا لے زرا۔۔ 

کوریڈور میں سامنے سے آتے زایان کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ تھم گئی۔۔ اور لب بھنچ لیے۔۔ 

زایان دھیمی چال چلتا اس کے پاس آ کر رکا اور سلام کیا ۔۔ ہالہ نے جواب دینا بھی گوارا نا کیا۔۔

” کیوں آئے ہو یہاں۔۔“ ہالہ کے سپاٹ سرد لہجے پر وہ حیران ہوا۔۔ اب تو اس نے کچھ کیا بھی نہیں تھا پھر کیوں خفا تھی وہ۔۔ 

” تمہارے فادر کے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا تو۔۔“ اس نے ہالہ کے رویے کو پریشانی سمجھ کر اگنور کرتے ہوئے نرمی سے جواب دینا چاہا۔۔

” میرے فادر سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں نا ہی مجھ سے تو آنا بھی فضول ہے۔۔ تم چلے جاؤ۔۔“ ہالہ سختی سے بولی، جی چاہا دھکے دے کر بھگا دے۔

” تم چاہے جو بھی سمجھو فارس نے مجھے بتایا تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔“ زایان نے کندھے اچکائے۔۔ اس کی ڈھٹائی پر ہالہ کا دماغ کھول اٹھا۔

” تو فارس سے ہی حال پوچھ لیتے، یہ رسم نبھانے یہاں کیوں آئے۔۔ میں تم جیسے دھوکے باز کو اپنے سامنے نہیں دیکھنا چاہتی۔۔“ ہالہ نفرت سے اسے دیکھتی دبا دبا سا چلائی۔۔

”کیا دھوکہ دیا ہے؟ رشتہ نہیں بھیجا اس لیے؟“ زایان کے جملے پر ہالہ کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ 

”رشتہ کیوں بھیجو گے میری منگنی ہو چکی ہے اور میں بہت خوش ہوں اپنی منگنی سے۔۔ میری زات کو تماشہ مت بناؤ اور جاؤ یہاں سے۔۔“ ہالہ نے کرختگی سے کہا زایان کے ماتھے پر بل پڑے۔۔

” تم سے لاسٹ ٹائم میری چھوٹی بہن نے بات کی تھی اس کی باتوں کو سیرئیس لینے کی ضرورت نہیں۔۔“ ہالہ نے اس کے بولنے سے پہلے ہی اس کی غلط فہمی دور کی زایان آہ بھر کر رہ گیا ۔۔ اور کتنا زلیل ہونا باقی تھا پتہ نہیں۔۔ یعنی ایک کم تھی کہ دوسری نے بھی حصہ ڈالا تھا۔۔

”تو پھر کیا دھوکہ دیا ہے۔۔“ وہ وہیں کوریڈور میں کھڑا اس سے سوال کرنے لگا۔ نجانے کیسی کشش تھی اس سخت مزاج لڑکی میں کہ وہ اس کا ہر لہجہ ہر جملہ برداشت کر لیتا تھا۔۔ 

وہ جو اپنے بھائیوں کی چھیڑ چھاڑ کو بھی اپنی انسلٹ سمجھ کر منہ بنائے رکھتا تھا۔۔۔اس لڑکی کی دی زلت کو بھی انعام کی طرح قبول کرتا تھا۔۔ برا لگتا ہی نہیں تھا کچھ۔۔

” تمہیں کیا لگا مجھے نقلی لاکٹ بنوا کر دو گے اور مجھے ساری زندگی پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ تمہیں سکون تو ملا ہو گا مجھے پاگل بنا کر۔۔ جب میں نے وہ لاکٹ لے کر پاگلوں کی طرح تمہارا شکریہ ادا کیا۔۔ تمہیں سکون تو ملا ہو گا۔۔ یا جب میں نے کہا تھا اس کے بغیر مجھے نیند نہیں آتی اور اس کے بعد میں ہر رات سکون سے سوئی کہ میری ماں کا دیا لاکٹ میرے گلے میں ہے تم مجھ پر ہنسے ہو گے ناں۔۔“ 

وہ بولتے بولتے رو پڑی اپنی بے خبری پر رونا آ رہا تھا ۔۔ اپنے بے وقوف بن جانے کا صدمہ تھا یا پھر شاید آج کل ہر بات ہی محسوس ہونے لگی تھی۔۔ زایان سر جھکا گیا۔۔

وہ نہیں جانتا تھا اسے کیسے پتہ چلا۔۔ لیکن اگر اب وہ کہہ دیتا کہ اصلی لاکٹ اس کے پاس ہے تو وہ واقعی یہی سمجھتی کہ وہ اس کے جذبات کے ساتھ جان بوجھ کر کھیلتا رہا ہے۔۔ سچائی بتانے کا فائدہ نہیں تھا وہ یقین نا کرتی۔۔

”دیکھو میں نہیں چاہتی میری فیملی یا جاننے والے تمہیں یہاں دیکھ کر میری زات پر شک کریں تم بہتر ہو گا یہاں سے چلے جاؤ۔۔“ ہالہ اس کے سامنے اپنے یوں بزدلوں کی طرح رونے پر خود کو سنبھالتی بھیگی آواز میں بولی۔۔۔

زایان بے بسی سے اسے دیکھنے لگا۔۔ وہ اس کے آنسو صاف کرنا چاہتا تھا۔۔ اسے تسلی دینا چاہتا تھا۔۔۔ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر کس حق سے کرتا سب۔۔ وہ لب کچلتا رہ گیا۔۔

”ہالہ انسانیت کے ناطے سہی مگر پلیز پیسوں کی یا کوئی بھی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ۔۔“ وہ خود پر سے اختیار کھوتا پوچھ بیٹھا۔۔

”کیوں؟ اوہ تمہارے دوست نے تمہیں بھی بتا دیا ہوگا۔۔ کہ ہم نے اپنے باپ کے لیے نجانے کہاں کہاں سے رقم ”کمائی“ تو تم بھی ترس کھانے آگئے؟ تم نے سوچا تم بھی حصہ ڈال لو گے۔۔“ ہالہ حالات کی وجہ بہت تلخ ہو رہی تھی۔۔ اس کے جملوں نے زایان کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔۔۔

یعنی فارس نے صرف اس کے سامنے بکواس نہیں کی ان بہنوں کو بھی کچھ نا کچھ کہا ہو گا۔۔

زایان مجبور تھا کہ ہالہ کے حق میں بولتا تو ہالہ کے لیے مشکل کھڑی ہو جاتی ورنہ وہ فارس کا منہ توڑ دینا چاہ رہا تھا۔۔

”نہیں۔۔ مجھے پتہ ہے جتنی بھی مجبوری تھی تم نے با عزت راستہ ہی اپنایا ہو گا۔۔ میں بس مدد کرنا چاہ رہا تھا۔۔ برا لگا تو سوری۔۔ مگر آئندہ خدا نا کرے اگر کسی انجان سے پیسے لینے پڑ جائیں تو مجھے وہ انجان سمجھ لینا پلیز۔۔۔“ 

وہ سنجیدگی سے درخواست کرتا وہیں سے پلٹ گیا۔ ہالہ ساکت رہ گئی۔ فارس بچپن سے جانتا تھا وہ اعتبار نہیں کر پایا تو وہ غیر۔۔ جسے ملے کچھ ہی وقت ہوا تھا اسے کیسے اعتبار تھا اسکی زات پر؟

اسے زایان کی محبت کا اگر زرا بھی اندازہ ہو جاتا تو شاید کبھی اس سے اتنے سخت جملے نا بول پاتی جو آج بول گئی تھی۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

مارسیل موبائل ہاتھ میں پکڑے متذبذب سا بیٹھا تھا۔۔ سالک نے اسے سختی سے منع کیا تھا کہ اس کے باپ کو انفارم نا کرے مگر آج ریس ہونا تھی اور مارس کا صبر ختم ہو رہا تھا۔۔ 

اس نے احرام کو کال ملائی۔۔ 

"your son S is gonna take part in car race tonight 11 O' clock.. this race is too dang... as you know its snowing, roads are slippery.. plus race rules are deathly strict... so please dont let him go tonight...

(آپ کا بیٹا ایس آج رات گیارہ بجے ریس میں حصہ لینے والا ہے، ریس بہت خطرناک ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں برفباری ہو رہی ہے روڈز پر پھسلن ہے۔۔ اور اس کے ساتھ ریس کے رولز مارنے والے ہیں۔۔ اس لیے پلیز آج رات اسے نا جانے دیں۔۔) 

مارسیل نے اطلاع دی احرام کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا، اس وقت دس بج رہے تھے مگر سالک تو جا چکا تھا نو بجے سے بھی پہلے کا۔۔ 

اور دوسری طرف ریس شروع ہو چکی تھی۔۔ جس کا اصل وقت نو بجے تھا مگر پولیس کو بھٹکانے کے لیے گیارہ اناؤنس کیا تھا۔۔

سالک ریس کی گاڑیوں کے درمیان اپنی گاڑی لاتا سامنے روڈ کو دیکھنے لگا۔۔

ہلکی ہلکی سنو فال ہو رہی تھی روڈز گیلے ہو رہے تھے اور پھسلن بڑھ چکی تھی۔۔۔

باقی دو ریسرز آخری راؤنڈ تک آ جانے کے بعد جیت کی رقم سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے تھے جبکہ سالک کو بس ایک ضد تھی کہ وہ جیتے چاہے اس کے لیے جان چلی جائے۔۔ 

تیز میوزک کا شور اناؤنسمنٹ کے لیے ہلکا ہوا تھا اور دیکھنے والوں کا شور جوش سے بڑھ گیا تھا۔۔ اناؤنسر لڑکی گاڑیوں کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔ پچھلی کچھ ریسز میں دوسرا تیسرا نمبر لے کر اور اس ریس کے آخری راؤنڈ میں آجانے پر سب کی نظریں سالک پر جمی تھیں۔۔ وہ برف کا شہزادہ جو برف جیسا ہی سرد مزاج تھا۔۔ بال پیچھے کیے سنجیدہ سا بیٹھا تھا۔۔

وہ کار ریس کا ابھرتا ستارہ تھا۔۔ جس کے لیے فین لڑکیوں کا دل بری طرح سے دھڑکنے لگا تھا۔۔ اس کے پاس ریس کے جنون کے ساتھ بلا کی خوبصورتی جو تھی انہیں پاگل کرنے کیلیے۔۔۔

لڑکیاں چیخ چیخ کر اسے گڈ لک کہہ رہی تھیں۔۔ 

"Go .. go S.... win the race... we know you are the winner love... you gonna win today...go and break the record... go and win our heart love.. You are the best... you are the love S....

وہ اس شور سے بے نیاز گاڑی کا شور بڑھاتا جا رہا تھا اور پھر اناؤنسر نے جھنڈا اٹھا کر آگے بڑھنے کا اشارہ دیا۔۔ گاڑیاں جھٹکے سے آگے بڑھتی پل بھر میں نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ 

پیچھے میوزک کا شور بڑھ گیا۔۔

اب بس انتظار باقی تھا ان تین میں سے کون واپس آتا ہے، کون ہارتا ہے اور کون مر جاتا ہے۔۔

میزک پر جھومتے لوگ بس جیتنے والے کا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔ جو نہیں آیا نا سہی۔۔

💜💜💜 #Shah_E_Man ❤️❤️❤️

صائم اور صیام لیپ ٹاپ پر زایان کے سٹارٹ ہو چکے بزنس کی ڈیٹیلز چیک کر رہے تھے۔۔

””یار یہ سٹاف کی ڈیٹیلز دیکھنا زرا.. پروڈکٹس تیار کرنے والی ٹیم کا بائیو ڈیٹا چیک کرو۔۔“ صیام کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تو صائم سے بولا۔ صائم نے سب ڈیٹا نکال کر چیک کیا۔۔

اچانک وہ چونکے اور ایک دوسرے دیکھنے لگے۔۔۔  

”مجھے پتہ تھا یہ واصف ضرور کچھ گڑبڑ کرے گا۔۔ گھٹیا انسان۔۔“ صائم نے دانت پیسے۔۔ صیام تیزی سے سب دیکھتا جا رہا تھا۔۔

”اسے لگا ہو گا زایان اکیلا سب کر رہا ہے۔۔ زایان کو پاگل بنانا تو آسان ہی تھا ناں یار۔۔ وہ یہ سب پہلی بار کر رہا ہے۔۔“ صیام نے سنجیدگی سے کہتے تاسف سے سر ہلایا۔۔ 

”اب داجان کو بتائیں یا خود کچھ کریں؟“ صائم نے مٹھیاں بھنچتے ہوئے کہا۔۔ 

”لیٹس سی یار۔۔۔ ابھی بہت رات ہو گئی چل کر سوتے ہیں۔۔“ صیام نے لیپ ٹاپ بند کیا اور انگڑائی لے کر کہا۔۔ 

 ”زایان کو نہیں بتائیں گے جذباتی بندہ ہے۔۔ خوامخواہ پنگا لے بیٹھے گا۔“ صائم نے زرا رک کر کہا۔ وہ زایان کو اس سب سے دور رکھنا چاہتا تھا۔۔ صیام بھی متفق ہوا۔۔ 

جبکہ دوسری طرف اپنے کمرے میں بیٹھے زایان کے سامنے بھی وہی سب ڈیٹیلز لیپ ٹاپ پر نظر آرہی تھیں۔۔  اس کا خون کھول رہا تھا۔۔

سٹاف کی پے کے نام پر لاکھوں پیسہ غائب کیا ہوا تھا اور ان کی پے بہت کم دی جا رہی تھی اور پروڈکٹس میکنگ ٹیم میں اکثر میمبر پروڈکٹس میکنگ میں نان ایکسپیرئینسڈ تھے۔۔ 

اسی وجہ سے پروڈکٹس بھی سوچ کے مطابق سیل نہیں ہو رہی تھی۔۔ 

اب تو حد ہو گئی تھی فیڈ بیک میں کچھ لوگوں نے کمپلین کرنا شروع کر دی تھی۔۔ 

کاسمیٹکس کے یوز پر کچھ لوگ کی سکن برننگ کا شکار ہو رہی تھی۔۔ 

زایان نے کھٹاک سے لیپ ٹاپ بند کیا۔۔۔

”گھٹیا انسان پارٹنر شپ نہیں مجھے لوٹنے کے لیے آیا تھا۔۔“ وہ ٹیرس میں ٹہلنے لگا۔۔ 

موسم کافی بدل چکا تھا۔۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈک بھی اس کی گرمی کم کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔ 

زایان نے ساری پراڈکٹ میکنگ ٹیم کی میٹنگ بلوائی۔۔ واصف بھی پتہ چلنے پر آ گیا کیونکہ یہ ٹیم اسکے انڈر تھی۔۔ 

زایان نے سب سے پے کی ڈیٹیل اور دوسری ضروری باتیں پوچھنی چاہیں تو واصف درمیان میں بول پڑا ۔۔

”یہ سب میں سنبھال رہا ہوں تو اس میٹنگ کا کیا مقصد ہے۔۔؟“  اس کے لہجے میں حاکمیت تھی، زایان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔

”میں اگر کچھ غلط محسوس کروں گا تو سوال بھی کروں گا میٹنگز بھی ارینج کروں گا۔۔ تمہارے ہائر کیے سٹاف سے نا میں سیٹسفائڈ ہوں نا ہماری مارکیٹ اس کو ایکسیپٹ کر رہی ہے مسٹر لغاری۔۔ مجھے بزنس کرنا ہے تجربہ نہیں۔۔“ زایان درشتی سے بولتا اسے چپ کروا گیا۔۔ 

اور وہ سب کی غلطیاں پوائنٹ آؤٹ کرتا جھاڑتا جا رہا تھا۔۔ سب بوکھلا گئے۔۔ 

واصف اس کی اتنی گہری آبزرویشن پر جبڑے بھینچ گیا اگر اسے اندازہ ہوتا لاپرواہ نظر آنے والا زایان اتنا تیز نکلے گا تو وہ زرا سنبھل کر چلتا۔۔ 

”او۔کے یہ سب اب سے کئیر فل ہوں گے۔۔ میں ان پر ٹائٹ چیک رکھوں گا۔۔“ واصف نے ایک بار دوبارہ درمیان میں بات کی۔۔ زایان نے ایک تپتی نظر اس پر ڈالی اور ٹیبل پر کچھ فائلز پٹخیں اور سب کے سوالیہ چہروں کو دیکھا۔۔ 

”یہ سب لوگ یہاں سے اپنی پےمنٹ کلییر کروائیں اور جا سکتے ہیں۔۔ یو آر نو لونگر آور ٹیم ممبر۔۔۔ یہ لوگ بالکل چھوڑنا چاہیں بھی جاسکتے ہیں ورنہ دوسری ٹیمز میں شامل ہو جاییں۔۔ اپنے حساب کا ورک سیلیکٹ کر سکتے ہیں۔۔ مارکیٹنگ یا پیکنگ۔۔“ زایان سنجیدگی سے بول رہا تھا واصف نے گھورتی نظروں سے اس کا انداز دیکھا۔۔ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ اس کا پہلا تجربہ تھا۔۔ 

سب نے پھرتی سے فائلز اٹھائیں۔۔ جن کی فائلز نا تھیں وہ پرسکون ہوئے اور جن کی تھیں وہ پریشان۔۔ مگر زایان نے انہیں وہاں سے فوری جانے کا کہہ دیا۔۔ 

”تم جس طرح انہیں ایک موقع دئیے بنا بھیج رہے ہو نقصان اٹھاؤ گے۔۔۔ ٹیم کم رہ گئی تو کام کی سپیڈ کم ہو جائے گی۔۔“  واصف نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا جو کچھ سننے کو تیار نا تھا۔۔

”او۔کے جو نیو سٹاف ہائر ہوا ہے انہیں میٹنگ ہال میں بھیجو۔۔“ زایان نے اپنے پی۔اے کو کہا۔۔ وہ سر ہلا کر چلا گیا۔ واصف اپنے اگنور کیے جانے پر زہریلی نظروں سے زایان کو گھورنے لگا۔۔ 

”میں اس بزنس میں پارٹنر ہوں اور تمہیں سٹاف ہائر کرنے سے پہلے مجھ سے مشورہ کرنا چاہئیے تھا۔۔“ واصف کی بات پر زایان نے اسے دیکھا اور ضبط کیا۔۔

”تم صرف تھرٹی پرسنٹ شئیر ہولڈر ہو اور وہ بھی اب نہیں رہو گے، میرے بابا نے وہ شئیرز خریدنے کا کہا ہے۔۔ عزت سے سیل کرو یا پھر ایسے ہی زلیل ہوتے رہو۔۔ میں اب تمہیں میں ان معاملات میں گھسنے نہیں دے سکتا۔۔

تم میری محنت ضائع کر رہے ہو اور میں ایسا کرنے نہیں دے سکتا۔۔“  زایان نے روم میں آتے نئے سٹاف کو دیکھا اور چئیر سنبھالی۔۔ 

یہ ٹیم پراڈکٹ میکنگ میں پہلے نمبر پر تھی۔۔

ہائی الاؤنس پر انہیں صائم اور صیام نے ہائر کیا تھا۔۔ وہ زایان کی محنت ضائع ہوتی نہیں دیکھ سکتے تھے۔۔ زایان کا مورال ڈاؤن ہو جاتا تو شاید وہ خود کو کبھی کچھ کرنے کے قابل نا سمجھتا۔۔

”تم اس بات کو بہت ریگریٹ کرو گے زایان خان۔۔“ واصف نے اسے غرا کر دھمکی دی۔۔

” میں تم سے ہاتھ ملا کر آل ریڈی بہت ریگریٹ کر رہا ہوں۔۔“ زایان نے بے نیازی سے کہا۔۔

”اور اب آپ جاسکتے ہیں مسٹر لغاری۔۔ میں میٹنگ میں کوئی انٹرپشن نہیں چاہتا۔۔“ زایان کے الفاظ پر واصف کا چہرہ زلت سے سرخ ہوا۔۔ 

”تم اپنے اس دھوکے کی قیمت چکاؤ گے۔۔ میں تمہارے پورے گھر کو برباد کر دوں گا جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔“ واصف آگ بگولہ ہوتا بولا اور تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا۔۔ زایان سر جھٹک سامنے متوجہ ہوا اور انہیں اپنا کام سمجھانے لگا۔۔

”اس بار مارکیٹ میں میری پراڈکٹ سب سے ہائے کوالٹی کی ہونی چاہئیے۔۔ سینسٹو سکن کے لیے الگ سے میڈی کیٹڈ پراڈکٹ تیار کریں۔۔   پے اب ڈبل ہے اور اچھے ورک پر بونس کا بھی وعدہ کرتا ہوں۔۔“  

زایان نے میٹنگ اینڈ کی اور وہاں سے نکل کر اپنے آفس میں چلا گیا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

سالک کی گاڑی سپیڈ سے آگے بڑھ رہی تھی۔۔ 

کار ریس کے انواٸرمنٹ کے حساب سے بیسک رولز وہ اچھے سے نہیں جانتا تھا۔۔

روڈز پر پھسلن کی وجہ سے باقی دو کار ریسرز نے سپیڈ نارمل رینج پر رکھی جسے اچھے سے قابو کیا جا سکے مگر سالک اس سب سے بے نیاز آگے بڑھ رہا تھا۔۔ 

اس کی گاڑی کی سپیڈ بھی پہلے سے زرا کم تھی مگر ایسی نہیں کہ وہ سنبھال پاتا۔۔

دو تین جگہوں پر روڈ سے اتری۔۔ کبھی سپیڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ راؤنڈ میں گھومتی گاڑی مشکل سے ٹریک پر لایا۔۔ 

شارٹ روٹس کو یوز کرتے ہوئے وہ باقی دو سے آگے ہی تھا۔۔ مگر اب گاڑی سنبھالنا اس کے لیے بے حد مشکل ہو رہا تھا۔۔ 

احرام مارس کی بتائی جگہ پر جانسن کے ساتھ جا رہا تھا، وہ سالک کو کال کر کے ڈسٹریکٹ بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔ 

سالک ایک دو بار بمشکل ایکسیڈنٹ سے بچا تھا۔۔

مگر جو ضد اس کے سر پر سوار تھی جیت کی۔۔ اس نے اس کی ساری سوچیں مفلوج کر دیں۔۔

وہ گاڑی کی رفتار بڑھاتا جا رہا تھا۔۔۔ 

وِننگ پوائنٹ بس کچھ دور تھا۔۔ آج کی ریس اس کے نام ہونے والی تھی جب دماغ کے ایک بالکل چھپے ہوئے یادوں کے درخت سے جیسے ایک پتا اچانک گرا تھا۔۔ آنکھوں کے پردے پر گلابی چہرہ لہرایا۔۔

”میں کمزور لڑکی نہیں ہوں۔۔ مجھے چھونے کی ہمت مت کرنا۔۔ میں صرف تمہارے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔ میرا شرمیلا رویہ۔۔ میری مسکراہٹ۔ میرا اچھا برتاؤ سب ایک کھیل تھا میں سب کو دکھانا چاہتی تھی کہ تم کوئی خاص نہیں۔۔ تم ایک عام دل پھینک لڑکے ہو۔۔ تم توجہ کے بھوکے ہو اور کچھ نہیں۔۔"

کانوں میں وہ آواز گونجی تھی اور اس کی سماعتیں اپنے ساتھ بہا گئی۔۔ 

اس کی آنکھوں کے آگے دو نفرت بھری گرے آنکھیں لہرائیں اور وہ جیسے ارد گرد سے بے نیاز سا تکلیف سے لب بھنچ گیا۔۔ گاڑی سامنے سے آتی دوسری گاڑی سے ٹکرا گئی تھی اور اب گول گول گھومتی روڈ سے ہٹتی چلی گئی۔۔ 

اس کا دماغ اچانک تاریک ہونے لگا اور آنکھیں بند کرتے اس کے منہ سے تکلیف کی شدت سے سسکی نکلی۔۔

وہ تو بھول گیا تھا سب؟ پھر یہ کیسے اچانک سب یاد آیا تھا۔۔ اس کی زندگی کے کچھ تجربے ایسے تھے جو پہلے قدم پر ہی ناکام ہوئے تھے جن میں ایک نمبر محبت کا بھی تھا۔۔

سالک کو لگا تھا وہ سب بھول گیا ہے۔۔ 

وہ سب اس کے دل پر لکھا جا چکا تھا۔۔ 

وہ آسانی سے معاف کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔۔

ہاں بشرطیکہ اس کی سانسیں باقی رہیں۔۔

روڈ پر اتنی بری طرح سے ہوئے ایکسیڈنٹ پر گاڑیاں رکنے لگیں۔۔ 

اس کے ساتھی کار ریسرز وہاں سے جا چکے تھے۔۔

سالک یہ ریس بھی نہیں جیت پایا تھا اور خود کو بھی بچا نہیں پایا۔۔ 

احرام وہاں پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ سالک کی گاڑی کی یہ حالت دیکھ کر ان کے پسینے چھوٹ گئے۔۔ جانسن نے انہیں سہارا دیکر سنبھالا۔۔

جیت کے نعرے لگانے والوں کے درمیان  پہلی مرتبہ کسی کار ریسر کے ایکسیڈنٹ پر سناٹا چھا گیا اور جیتنے والے کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے سب۔۔

ایمبولینس جو ایریا میں سنوفال اور ایکسیڈنٹس کے خطرات کی وجہ سے ایکٹولی راؤنڈ پر تھیں۔۔ فوراً پہنچی تھی۔۔

مارس نے اپنے سارے ریسورسز استعمال کر کے اس حادثہ کو آرڈینری ثابت کیا تھا اور کار ریسر کے طور پر اس کی پہچان چھپا لی گئی تھی۔۔

سالک انسان تھا اور وہ یہ بات شاید بھلا چکا تھا۔۔ وہ غلطیاں کرتا تھا اور ان سے سیکھتا تھا۔۔

مگر وہ بھول گیا کہ کبھی کبھی کچھ غلطیاں ناقابل تلافی نقصان بھی کر سکتی ہیں۔۔

سالک کو بس معجزوں پر یقین تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

خادم صاحب گھر شفٹ ہوچکے تھے اور ان کی ضد پر ہی غزالہ کی شادی کر دی گئی تھی جس کے صرف نکاح اور ولیمہ کے فنکشن دونوں بہنوں نے باری باری اٹینڈ کیے تھے۔۔

فارس نے شادی کے اگلے ہی دن پھر سے آفس جانا شروع کر دیا تھا کیونکہ زایان اب اس کے لیے یونی والا نرم مزاج زایان نہیں رہا تھا۔۔ 

وہ اب اسے سہی زلیل کرتا تھا۔۔ مگر اچھی پے ہونے کی وجہ سے فارس مجبور تھا جاب نہیں چھوڑ سکتا تھا مگر دل ہی دل میں تاؤ کھاتا رہ جاتا تھا۔۔ 

 اکرام بےزار سا بیٹھا تھا جب ماں کے ان دونوں بہنوں کے صبر اور ہمت پر تعریفی جملے سن کر طنزیہ ہنسا۔۔

”آپ کو اندازہ بھی ہے کیا کرتی پھر رہی ہیں وہ ”صابر“ بچیاں۔۔؟  جو پیسے ہم جمع نہیں کر پائے وہ دو دن میں لے کر آ گئیں۔۔ ہالہ پانچ لاکھ لائی اور دیا پچاس لاکھ۔۔۔ یہ عام بات نہیں ہے امی۔۔ 

کیا غزالہ اس طرح پیسے لا سکتی ہے؟“ اکرام کے سرد و سپاٹ لہجے پر تائی جان چونکیں۔۔

” تم نے ہالہ سے کچھ کہا تو نہیں؟ 

وہ ہمارے سامنے پلی بڑھی ہیں ان کے کردار میں آج تک کوئی کھوٹ دیکھا؟ “  تائی نے سخت نظروں سے اسے دیکھا۔۔ 

”مگر اب یہ کردار کی گواہی نا ہی دیں تو اچھا ہے۔۔ ہالہ نے مجھے بتایا تک نہیں پیسے کہاں سے آئے۔۔“ اکرام کے انداز تائی کو کھٹکا رہے تھے۔۔

”اس نے باپ کا بنایا زیور اور اپنی ماں کا چھوڑا زیور بیچا۔۔ مجھے تم بھائیوں کے سامنے نام لینے سے منع کیا کیونکہ اسے غلط فہمی تھی کہ تم جیسے خود دار مردوں کو یہ بات بری نا لگے۔۔ اسے لگا تم منع کرو گے ایسا کرنے پر۔۔ اور یہ ہے خود دار مردوں کی سوچ۔۔ لعنت ہے تم پر اکرام۔۔ مجھے فارس سے تو امید تھی مگر تم سے نہیں۔۔“ تائی جان نے اکرام کو شرم دلائی اور اٹھ کر چلی گئیں۔۔

 انہیں اپنے بیٹوں کی چھوٹی سوچ پر دکھ ہوا۔۔ وہ بےشک ہالہ اور دیا پر سختی کرتی تھیں کیونکہ انکی زمہ داری ان کے کندھوں پر تھی۔۔ بیٹیاں کانچ سی ہوتی ہیں زرا سی رگڑ بھی لگ جائے تو ٹوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے۔۔

مگر یہ نہیں تھا کہ انہیں ان کے کردار پر شک ہوتا۔۔ ان کے بیٹوں نے تو حد کر دی تھی..

------------>>>>>   ------------------->>>>>>

ہالہ چائے بنا کر کمرے کی طرف آئی تو دیا کے سامنے اکرام کو کھڑے دیکھ کر چونکی۔۔

”دیکھو دیا مجھے سچ سچ بتا دو کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لی تھی۔۔ میں تمہارا بھائی ہوں۔۔ تم پر شک نہیں مگر جاننا چاہتا ہوں۔۔ تم کسی مشکل میں تو نہیں پھنس گٸیں۔۔ 

ہالہ کا تو امی نے بتا دیا کہ زیور بیچا پر تم نے کیسے حاصل کی؟“  اکرام کے لفظ چاہے قابل قبول تھے مگر لہجہ ہالہ کو بہت برا لگا۔۔

”میں نہیں جانتی وہ کون ہے بس اس نے دے دئیے۔۔۔  اور یہ ادھار کی رقم ہے میں واپس کر دوں گی۔۔“ دیا نے سر جھکا کر سچ بتا دیا۔۔ 

”تم اسے جانتی تک نہیں اور اس نے یہ پیسہ دے دیا۔۔؟  مجھے پاگل مت بناؤ دیا۔۔  دنیا دیکھ رکھی ہے میں نے۔۔ مفت میں یہ پیسہ کوئی نہیں دے سکتا۔۔“  اکرام کی سخت آواز پر دیا کا دل سہما۔۔

”تو کیا سننا چاہتے ہیں آپ؟  کیا قیمت ادا کی ہوگی دیا نے جو اتنی بڑی رقم مل گئی۔۔؟“ ہالہ نے اندر آ کر چاۓ ٹیبل پر رکھی اور سینے پر ہاتھ باندھ کر سرد لہجے میں سوال کیا۔۔

اکرام نے چونک کر اس کا سپاٹ چہرہ دیکھا۔۔

” ہالہ میں تم لوگوں پر شک تھوڑی کر رہا ہوں۔۔ ایک سوال کیا ہے جواب دینا مشکل کیوں ہو رہا ہے۔۔“  اکرام نے لہجے کو زرا نرم کیا۔۔

”شک ہی تو کیا ہے۔۔ آپ خود ابھی بتا چکے ہیں یہاں آنے سے پہلے تائی امی سے ہمارے کردار کی وضاحت لے کر آئے ہیں۔۔۔ اور ایسے سوال کا فائدہ جب آپ کسی جواب کو سچ ماننے کو تیار ہی نہیں۔۔“ ہالہ نے سنجیدگی سے بولتے ہوئے دیا کو اس کے سامنے سے ہٹایا۔۔

وہ اپنے باپ کے لیے ذلیل بھی ہوں اور وضاحتیں بھی دیں۔۔؟  وہ تنفر سے اکرام کو گھورنے لگی۔۔

” ٹھیک۔۔، مت جواب دو۔۔ کل کو کسی مصیبت میں پھنسو تو ہمارے پاس مت آنا۔۔ میں نے مدد کرنا چاہی اتنا بہت ہے میرے لیے۔۔“ اکرام غصے سے بول کر چلا گیا۔۔ دیا سر جھکائے اپنے بستر پر گرنے کے انداز سے بیٹھی۔۔ 

”ہالہ میں نے غلط کر دیا ناں پھر سے۔۔ یہ لوگ ٹھیک کہہ رہے ہیں وہ مجھے جانتا نہیں تھا کیوں دیا پیسہ۔۔ وہ بھی پچاس لاکھ۔۔“ دیا کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔۔ ہالہ نے گہرا سانس بھرا۔۔

”دیا اب کچھ کیا نہیں جا سکتا۔۔ جو ہونا تھا اب ہو گیا۔۔ اب سوچنا یہ ہے آگے کیا کریں۔۔ 

اللّٰہ پر بھروسہ رکھو۔۔ مجبوری تھی ہماری اس لیے ہماری سوچ سمجھ کام نہیں کر پائی۔۔“  ہالہ اندر سے بے شک ڈر گئی تھی مگر دیا کو تسلی دی۔۔

وہ جانتی تھی اکرام یا فارس صرف اپنے شک کی تسکین کے لیے پوچھ رہے ہیں۔۔ 

مدد کرنا چاہتے تو پہلے کرتے اور یہ نوبت ہی نا آنے دیتے۔۔ 

اب جو کرنا تھا انہیں خود کرنا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

دیا آفس سے واپس آ کر تھکن زدہ سی صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھی مروہ کو کمپنی دے رہی تھی جو ہفتہ ہوا تھا، اپنا بی کام کمپلیٹ کر کے امریکہ سے آئی تھی۔۔ 

”تمہاری بہن گھر پر ہوتی ہے؟“ مروہ نے کچن میں کام کرتی ہالہ کا پوچھا۔۔ 

”ہالہ ٹیچنگ کرتی تھی مگر اس نے سکول جاب چھوڑ دی کیونکہ بابا کو ابھی بھی کئیر اور اٹینشن کی ضرورت ہے۔۔ گھر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔۔“ دیا نے سنجیدگی سے بتایا۔۔ 

”تم امریکہ سے اتنی اچانک چلی آئیں۔۔ اپنی ڈگری ہی کمپلیٹ کر لی ہوتی تو آج اچھی جاب مل جاتی “ مروہ نے دیا کی بکھری حالت دیکھی تو تاسف سے بولی۔۔ اس کے گلابیاں چھلکاتے چہرے پر اب ہلکا سا زرد پن تھا۔۔ 

”میں ٹھیک ہوں مروہ تم سناؤ وہاں سب کیسا تھا۔۔“  دیا نے بات بدلی۔۔ 

”ہاں سب ٹھیک ہی تھا۔۔ تمہیں وہ پرنس یاد ہے؟“ مروہ نے اچانک سالک کا زکر چھیڑا۔۔ 

دیا نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا۔۔ اسے سالک یا اس کی کسی بات سے اب دلچسپی نا تھی۔۔ وہ اپنے اس خواب سے پہلے ہی پریشان تھی جو اسے اب اکثر آتا تھا۔۔ سالک کا اسے بچانا اور سوری کہنا۔۔ 

اس خواب کی وجہ سے دیا کو اب سالک سے سخت الجھن ہونے لگی تھی۔۔

” تمہارے بعد اس نے سمسٹر کلئیر کیا اور بزنس یونیورسٹی چلا گیا تھا مگر پھر مہینہ پہلے وہ غائب ہو گیا۔۔ کالج میں یہ خبر پھیلی ہوئی تھی کہ وہ خطرناک کار ریسز میں حصہ لیتا تھا۔۔  پھر ایک ریس میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوا۔۔

کچھ رومرز ہیں کہ اس ایکسیڈنٹ میں اس کی ڈیتھ ہو گئی۔۔ کچھ کا کہنا ہے وہ بچ گیا مگر کوما میں ہے۔۔ اور کوئی کہتا ہے اس کے گرینڈ فادر اسے لندن لے گئے۔۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے وہ الیگل کار ریسز کی وجہ سے جیل میں ہے۔۔

جتنے منہ اتنی باتیں مگر سچ کوئی نہیں جانتا۔۔۔ وہ خود آ کر کچھ بتا سکتا ہے۔۔ مگر اسے غائب ہوئے مہینہ ہو چکا ہے۔۔ اسے دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔۔“ 

مروہ بولتی جا رہی تھی۔۔ دیا کا دل رک گیا۔۔ اس نے سالک کو بد دعائیں تو نہیں دی تھیں پھر کیوں ہوا اس کے ساتھ ایسا۔۔؟ اس کے دل میں کوئی جذبہ نہیں تھا پھر بھی اسے تکلیف ہویی تھی۔۔ اس کے اس انجام پر۔۔ وہ کچھ بولنے کے قابل ہی نا رہی۔۔ 

مروہ چلی گئی اور رات بھی ہوگئی۔۔  ہالہ نے اس سے پوچھا بھی کہ اس کی طبیعت خراب تو نہیں۔۔ مگر اسے لگی چپ نا ٹوٹی تھی۔۔

رات کے پچھلے پہر نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں میں سے جانے کیوں سالک کے لیے اس کی آنکھ سے دو آنسو چپکے سے نکلے تھے۔۔ 

💜💜💜💜

دیا اپنا کام ختم کر کے وہاں سے نکلی اور اب اس بڑی سی بلڈنگ کے سامنے کھڑی تھی۔۔

اس نے جس سے قرض لیا تھا اس نے بلوایا تھا۔۔ 

اکرام اور فارس نے جب سے اس بات کو اتنا اچھالا تھا تب سے وہ بھی ڈر گئی تھی۔۔

کم عقل تھی مگر نا سمجھ نہیں تھی۔۔

اس نے قدم بڑی مشکل سے زمین پر جمائے اور مضبوطی سے چلتی اندرکی طرف بڑھی۔۔

ریسیپشنسٹ نے اسے انتظار کرنے کا کہا کہ باس ابھی میٹنگ میں بزی ہیں۔۔ 

وہ کچھ فاصلے پر سٹنگ ایریا میں خاموشی سے بیٹھی تھی۔۔۔ دل بری طرح سے گھبرا رہا تھا۔۔

آدھا گھنٹہ کے جان لیوا انتظار کے بعد اسے ریسیپشن گرل نے اشارہ کر کے بلایا۔۔ 

”آر یو مس دیالہ خادم۔۔“ اس نے کنفرم کرنا چاہا تھا شاید۔۔ دیا نے بس ہاں میں سر ہلایا۔۔

او۔کے فالو می مس دیالہ۔۔“ وہ اسے لیے آگے چل پڑی۔۔ دیا اس کے پچھے قدم بڑھاتی بار بار دل میں سوال دہرا رہی تھی۔۔ 

” کیا اس نے یوں اکیلے آ کر اچھا کیا۔۔“ 

لڑکی نے ایک بہت بڑے آفس کے سامنے قدم روک کر اسے اندر کی طرف اشارہ کیا اور خود واپس پلٹ گئی۔۔ دیا نے دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتے دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھا۔۔ 

اس کی آنکھیں کھل گئیں۔۔ اتنا بڑا آفس۔۔ 

جہاں وہ کام کرتی تھی اس کی نسبت یہ کمپنی۔۔ یہ آفس سب کچھ بہت بڑا اور قیمتی تھا۔۔

”مس دیالہ پلیز ہیو آ سیٹ۔۔“  سامنے ہی بڑی سی شیشے کی ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چئیر پر گول گول گھومتا وہی خوش شکل لڑکا بیٹھا تھا۔

دیا نے خود کو مضبوط ظاہر کیا اور آگے قدم بڑھائے اور چئیر سنبھالی۔۔ 

اس کے نقاب کے پیچھے چھپے چہرے پر پسینہ آ رہا تھا۔۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔ 

اس شخص کے انداز اسے اچھے نہیں لگ رہے تھے جو بغور اسکا جائزہ لے رہا تھا۔۔

”آپ کے فادر اب سٹیبل کنڈیشن میں ہیں؟“ اس نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر پوچھا۔۔

”یس مچ بیٹر۔۔“ دیا نے سر جھکا کر جواب دیا۔۔

اس انسان کا احسان تو بہر حال تھا اس پر۔۔

”گڈ اور آپ پیسوں کی فکر مت کریں۔۔ اس کے بدلے میرا ایک کام کر دیں۔۔“ مسکراتے لہجے سے کہے جملے نے دیا کا دل لرزایا۔۔۔

پچاس لاکھ کے بدلے کیا کام ہو سکتا ہے۔۔ ؟

”آپ کو بس خان انڈسٹری کے سب سے چھوٹے بیٹے کو ٹریپ کرنا ہے۔۔“ اس کے اگلے جملے نے اس کا دماغ بھک سے اڑایا تھا۔۔ 

”ک۔۔کیا مطلب۔۔۔ کیسے ٹریپ۔۔؟“ دیا نے خشک ہوتے لبوں کو تر کر کے پوچھا۔۔۔

”آپ نے جا کر اس کی فیملی کے سامنے کہنا ہے کہ اس نے محبت کے نام پر آپ کو یوز کیا۔۔۔ ثبوت کے طور پر آپ پرگنینسی کی میڈیکل رپورٹ بھی دکھا دیں گی جو میں ابھی تیار کروا دوں گا۔۔“  وہ انسان بول نہیں رہا تھا دیا کی زات کو جیسے جلا کر راکھ کر رہا تھا۔۔

” میں یہ بے ہودہ جھوٹا کھیل نہیں کھیلنے والی۔۔ آپ کے پچاس لاکھ میں آپ کو دے دونگی۔۔“ دیا جھٹکے سے اٹھی اور سرد لہجے میں بولی۔۔۔

”آہاں پچاس ”لاکھ“ نہیں پچاس ”کروڑ“۔۔ آپ تب کافی پریشان تھیں جلدی میں سب پڑھ گئیں مگر رقم کے زیروز آپ نے سہی سے دیکھے نہیں تھے تب۔۔“ وہ شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا۔۔

دیا کا پورا جسم یکدم سن پڑگیا۔۔  

”یہ۔۔ بکواس ہے۔۔ آپ نے مجھے پچاس لاکھ دئیے تھے۔۔“ وہ کپکپاتی آواز میں بولی تھی۔۔

”یہ بات تو آپ اور میں جانتے ہیں مس دیالہ۔۔ مگر ان پیپرز کے حساب سے آپ نے مجھ سے پچاس کروڑ لیا تھا اور آپ کے سائن بھی ہیں۔۔ میں عدالت میں چیلنج کر سکتا ہوں۔۔“ دیا بے جان ہوتی ٹانگوں سے چئیر پر گری تھی۔۔

”آپ کو کیا ملے گا ایک بے بس انسان کو اس طرح استعمال کر کے۔۔“  وہ رو دینے والی ہوگئی۔۔

”میں صاف بات کروں گا۔۔۔ میں کبھی مفت میں احسان نہیں کرتا۔۔ مجھے بزنس ڈیلز کے لیے لڑکیاں تو ضرورت پڑتی ہیں تمہیں اس روز دیکھا تو سوچا ایک کم عمر حسین لڑکی کی مدد بھی ہو جائے گی اور میرا کام بھی۔۔ تم کافی عزت دار لگتی ہو۔۔۔ تمہارے اوپر اتنا احسان کر رہا ہوں کہ نا تمہارا پردہ اترے گا نا عزت جائے گی۔۔ “ وہ اب سنجیدگی سے بول رہا تھا اس کے لفظوں پر دیا کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔۔ 

فارس اور اکرام کا ایک ایک لفظ یاد آرہا تھا۔۔۔

ان کا طریقہ بہت غلط تھا مگر ان کی بات کتنی سچ نکلی۔۔ واقعی انہوں نے دنیا دیکھ رکھی تھی اس لیے انہیں غصہ آیا تھا۔۔ دیا کو اب احساس ہو رہا تھا۔۔ جلد بازی میں کیا کر بیٹھی تھی۔۔

”م۔۔۔میں ایسا کر بھی لوں تو۔۔۔ تمہیں کیا ملے گا۔۔“ دیا نے ٹوٹے لفظوں میں اسے غیرت دلانا چاہی۔۔

” مجھے سکون ملے گا۔۔ دیکھو انہوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔۔ میرے ساتھ پارٹنر شپ کی مجھ سے کام لیا اور جب کمپنی چل پڑی تو نکال دیا اور میرے شئیرز بھی کھینچ لیے۔۔ دیکھا جائے تو تم ایک مظلوم کی مدد کرو گی۔۔۔ 

تمہیں بس جا کر یہ سب کہنا ہو گا۔۔

ایک اتنی کم عمر اور بے بس لڑکی کے ساتھ ان کے اپنے ہی گھر کے چھوٹے بیٹے کی ناانصافی اس گھرانے کو ہلا دے گی وہ لوگوں کے خوف سے اور بدنامی کے ڈر سے تمہیں چپ رہنے کے پیسے دیں گے۔۔  جتنا بھی پیسہ مانگو گی۔۔ 

چاہو تو مجھے پیسہ لوٹا دینا ورنہ سارے پیسوں سے اپنے باپ کا باقی علاج بھی سکوں سے کروانا اور باقی زندگی عیش کرنا۔۔ 

تم نقاب میں ہوگی۔۔ چھپے ہوۓ کیمرہ سے ساری ویڈیو بنے گی تمہارا کہیں نام نہیں آئے گا۔۔“

وہ اپنا سارا پلان ایک ہی سانس میں بتاتا چلا گیا۔۔

” ت۔۔تم جھوٹ بول رہے ہو ۔۔۔۔ وہ ویڈیو تم نیٹ پر دو گے ناں۔۔۔ مجھے دنیا کے سامنے بدنام کر دو گے۔۔ خدا کے لیے مجھے ایک موقع دو۔۔ میں سارے پیسے لوٹا دوں گی۔۔

کسی اور سے یہ کام کروا لو۔۔“ دیا نے منت کرتے ہوئے کہا۔۔ وہ یہ کام کبھی نہیں کر سکتی۔۔

”دیکھو وہ ویڈیو نیٹ پر دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔ میں ان سے اس ویڈیو کے زریعے اپنا انصاف مانگوں گا۔۔ اور تم تو ویڈیو میں کہیں ہو گی نہیں۔۔ تمہاری آواز بھی میں چینج کر دوں گا۔۔“  وہ دانت پیستا بڑی مشکل سے لہجہ نرم کر کے بولا۔۔

”ن۔۔نہیں۔۔۔ میں یہ گناہ نہیں کر سکتی۔۔“  دیا نے انکار کیا اور کھڑی ہو کر پلٹی۔۔

”تم میری نرمی کا ناجائز فاٸدہ اٹھا رہی ہو۔۔۔“ وہ پیچھے سے غرایا۔۔

”تمہیں عزت راس نہیں۔۔ اگر میں زبردستی نشہ دے کر تمہیں کسی بزنس ڈیل کے بدلے کسی کو بھی دے دیتا بھی تم کچھ کرنے کے قابل نا ہوتی۔۔

عزت دار گھرانے کی لگتی ہو اس لیے تمہارے حساب کا کام دے رہا ہوں۔۔ ان لوگوں کی یہ گارنٹی ہے کہ تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں کریں گے۔۔ عزت دار لوگ ہیں۔۔ 

اب تم خود چنو۔ یا یہ کام کرو اور قرض سے آذاد ہو جاؤ۔۔ 

یا پھر مجھے ابھی پچاس کروڑ دو ورنہ عدالت تک گھسیٹتا ہوا لے جاؤں گا۔۔“  وہ ساری نرمی، شرافت اور لحاظ بھلائے اپنے گھٹیا پن پر اتر آیا۔۔ دیا نے زلت سے آنکھیں میچیں۔۔ 

پورا وجود زلزلے کی زد میں تھا جیسے۔۔ 

یہ وہ کیا کر بیٹھی تھی۔۔ کاش اکرام اور فارس ان کی مدد کرتے اور یہ وقت نا آنے دیتے۔۔۔

کاش ان کا اپنا کوئی بھائی ہوتا۔۔

کاش بابا کا ایکسیڈنٹ ہی نا ہوا ہوتا۔۔ 

یہ سب مصیبت کیوں مول لی اس نے۔۔۔ کیا کر چکی تھی۔۔

انکار کرتی بھی زلت۔۔۔ حامی بھرتی بھی رسوائی ہی تھی۔۔ 

اور اس نے وہ راستہ چن لیا جو اللّٰہ تو جانتا ہی تھا مگر لوگ نا جان پاتے۔۔۔

اس نے خود کو بچانے کے لیے کسی اور پر جھوٹا الزام لگانے کو چن لیا۔۔

واصف لغاری کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔۔  خان فیملی کی زلالت اس نے طے کر دی تھی۔۔      

”اب دیکھتا ہوں کیسے زایان خان کو بچاتے ہیں سب اس رسوائی سے۔۔“ وہ تنفر سے سوچتا ان کی حالت تصور کر کے ہی خوش ہوا جا رہا تھا۔۔۔ 

اگر وہ لوگ لڑکی کا جھوٹ بعد میں پکڑ بھی لیتے تو وہ ویڈیو میڈیا کو دینے والا تھا۔۔۔

ان کے لیے فرار کا راستہ کوئی نا بچتا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

سالک کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔۔ گاڑی بالکل الٹ چکی تھی۔۔۔ ایمبولینس پہنچ گئی تھی۔۔ اسے گاڑی سے نکالا گیا۔۔ 

گاڑی اتنی مضبوط تھی کہ باڈی پر بہت زیادہ اثر نہیں پڑا تھا۔۔

اسے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کر لیا گیا تھا۔۔ 

اس کا چیک اپ ہو رہا تھا۔۔ اس کے ماں باپ اور نانا باہر جیسے زندگی ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے۔۔

سانسیں سینے میں اٹکائے وہ ڈاکٹرز کے جواب کا ویٹ کر رہے تھے۔۔ 

ڈاکٹرز نے تفصیلی معائنہ کے بعد حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اس دنیا سے الگ لڑکے کو جو شاک سے بے ہوش تھا۔۔

”آپ کے بیٹے کے سر پر چوٹ ہے جو بہت خطرناک نہیں۔۔ اس کے جسم پر ہلکی پھلکی چوٹیں ہیں مگر ہڈیاں سلامت ہیں“  ڈاکٹر نے مسکرا کر بتایا اور ان پر تو خوشی سے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔۔

سالک دنیا کے ان ون پرسنٹ لوگوں میں شامل تھا جن کے ساتھ معجزے ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔

یہ کوئی نئی بات نا تھی۔۔ ہنڈرڈ میں سے ون پرسنٹ لوگ اس دنیا میں ایسے ہیں جو شدید ایکسیڈنٹس سے یوں بچ جایا کرتے ہیں جیسے وہ وہاں تھے ہی نہیں۔۔ 

اور معجزوں پر یقین رکھنے والے سالک کے ساتھ بھی معجزہ ہو چکا تھا۔۔

مارسیل کی ریکوئسٹ پر اس کے نانا اسے لندن لے گئے تھے۔۔ 

وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی بزنس کی ڈگری وہیں سے کمپلیٹ کرے بس۔۔ امریکہ میں تو جیسے گینگسٹر اور پولیس کو اپنے ہاتھ میں کر چکا تھا۔۔ 

سالک نے اپنی ریس کی ہار کا سارا الزام دیا کے سر ڈالا تھا۔۔ وہی تھی جس کی وجہ سے یہ سب ہو گیا تھا۔۔ 

وہ اب ساری زندگی اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔ وہ اپنے دل کے آخری کونے سے بھی اس کی یاد اور اس کی محبت نوچ کر نکال چکا تھا۔۔

سالک اب بدل گیا تھا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

تائی جان ہالہ کے پاس بیٹھی تھیں۔۔ 

” ہالہ مجھے غلط مت سمجھنا مگر دیا ناسمجھ ہے۔۔ اتنی کوئی کمسن نہیں مگر دماغ بڑا نہیں ہوئی۔۔ سوچوں میں بچپنا ہے۔۔ کچھ بھی کر گزرتی ہے۔۔ بعد میں سوچتی ہے مگر تم تو سمجھدار ہو ناں۔۔۔ اتنا بڑا رسک کیسے لینے دیا اسے۔۔“ ہالہ بے چینی سے لب کچلتی بیٹھی رہی۔۔

”تائی امی بابا کی حالت آپ جانتی ہیں ناں۔۔ 

اس وقت تو بس موت کے منہ میں تھے۔۔۔ 

کہیں سے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔۔ آپ کو شاید برا لگے مگر۔۔ اس کی جگہ میں ہوتی بھی یہی کرتی اور اگر وقت پیچھے پلٹ جائے اور دوبارہ سے وہی چوائس آئے۔۔ ہم تب بھی یہی کریں گی۔۔ ہم بابا کے بغیر زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔۔“ ہالہ نے انہیں دیکھ کر بے چارگی سے کہا۔۔ اور وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی۔۔

سامنے بیٹھے اکرام نے سختی سے لب بھینچے۔۔

”ہم سمجھتے ہیں تم دونوں کی فیلنگز مگر تم ہمیں نہیں سمجھ پا رہیں۔۔ اگر خدا نا کرے کوئی بڑا نقصان ہو اور سنبھلنے کا موقع بھی نا ملے تو۔۔ سب چھوڑو چاچو کو پتہ چلے تو وہ بھی اس بات پر ناراض ہوں گے۔۔“  اکرام نے اسے سنجیدگی سے کہا۔۔

”تو اب ہم کیا کر سکتے ہیں آخر۔۔ اب تو ہو گیا۔۔ پیسے جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔ کچھ نہیں ہو پا رہا۔۔“ 

ہالہ نے پریشانی سے کہا۔۔

فارس باہر دروازے پر کھڑا کتنی دیر دیا کا انتظار کرتا رہا۔۔ اور پھر پیر پٹختا اندر آیا۔۔

”اب کال کرو اسے۔۔ کہاں ہے وہ؟ شام ہو گئی ابھی تک آئی کیوں نہیں۔۔ آفس سے بھی اپنے وقت پر نکل گئی تھی۔۔“

 فارس ہالہ کے سر چڑھ دوڑا۔۔ وہ مزید گھبرا گئی۔۔ دیا کی فکر الگ کھا رہی تھی۔۔

فارس کا گستاخ رویہ الگ پریشان کر رہا تھا۔۔

”میں کرتی ہوں کال۔۔ شاید مارکیٹ تک گیی ہو۔۔ بابا کی میڈیسنز وغیرہ۔۔“ ہالہ نے دیا کو کال ملاتے ہوئے ان لوگوں کو وضاحتیں دیں۔۔ 

دل میں دیا کی فکر بڑھتی جا رہی تھی۔۔

”یا اللّٰہ میری معصوم بہن کی حفاظت کرنا۔۔“  دیا کال نہیں اٹھا رہی تھی۔۔ ہالہ دل میں دعائیں کرنے لگی۔۔  رونا چاہتی تھی مگر ان لوگوں کے سامنے رونے کا مطلب انہیں مزید بولنے کی اجازت دے دینا اور وہ یہ ابھی افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔۔

دیا نے کال کاٹ دی تھی۔۔ ہالہ نے جلدی سے میسج ٹائپ کیا۔

 ”دیا پلیز پک مائے کال۔۔۔ ایم وری اباؤٹ یو۔۔“ فارس اور اکرام کی نظریں اسی پر تھیں۔۔ اس نے پھر کال کی تو دیا نے اٹینڈ کی۔۔

” ہالہ میں ضروری کام میں بزی ہوں شاید لیٹ ہو جاؤں۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔“ دیا نے اسے تسلی دی مگر اس کی آواز میں بھیگا پن محسوس کر کے ہالہ کا دل رکا۔۔ کیا وہ کسی مشکل میں ہے؟ 

فارس نے اس سے موبائل جھپٹا۔۔

”کہاں ہو تم؟  ابھی تک گھر کیوں نہیں آئیں؟“ فارس چیخ کر بول رہا تھا۔۔ تائی جان نے سر پکڑا۔۔ دیا جواب دئیے بنا کال کاٹ چکی تھی۔۔

”میری بات یاد رکھیں۔۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔۔ میں نے دیا کو لغاری کمپنی میں جاتے دیکھا تھا۔۔ اندازہ بھی ہے کتنا بدنام بندہ ہے وہ۔۔ اس کی کمپنی میں کام کرنے والی لڑکی کو بھی لوگ اچھا نہیں سمجھتے اور دیا تو وہاں جاب بھی نہیں کرتی۔۔“ فارس غصے سے چہرہ لال بھبھوکا کیے بولتا چلا گیا۔۔ 

” تو جب آپ اتنا سب جانتے تھے اسے تب جا کر روکا کیوں نہیں۔۔؟“ ہالہ کو شدید غصہ آیا تھا۔۔

”میں ؟ کوئی اوقات ہے سہی تمہاری نظر میں میری؟ اس نے وہیں سب کے سامنے میرا تماشہ بنا دینا تھا۔۔“ 

فارس نے طنزیہ کہا۔۔

”کیوں بناتی تماشہ۔۔ اتنی بد تمیز نہیں ہے وہ۔۔ بہن سمجھا ہوتا تو یہ پرواہ نا ہوتی۔۔ بازو سے پکڑ کر گھر لے آتے۔۔ غزالہ ہوتی تو تب بھی یہی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے۔۔“  تائی جان نے فارس کو گھورا اور روتی ہوئی ہالہ کو گلے سے لگایا۔۔

” غزالہ ان جیسی ہے بھی نہیں۔۔“ فارس نے نفرت سے کہا۔۔ 

”زبان سنبھال کر بات کرو فارس اور یہاں شور مت کرو چاچو بے شک میڈیسن کی وجہ سے نیند میں ہیں مگر تمہاری آواز سے جاگ بھی سکتے ہیں۔۔“ اکرام نے اسے سخت نظروں سے دیکھ کر مزید بولنے سے باز رکھا۔۔ فارس غصے سے ایک سائیڈ پر جا بیٹھا۔۔

”ہالہ۔۔ کہیں دیا نے۔۔ اسی لغاری سے لون تو نہیں لیا۔۔؟“ اکرام نے بے چینی سے پوچھا۔۔ 

”میں نہیں جانتی۔۔ وہ خود نہیں جانتی تھی کون ہے وہ۔۔“ ہالہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔

دیا کی آواز اس کے کانوں میں ٹھہر گیی تھی۔۔ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ وہ مصیبت میں ہے۔۔

” اگر ایسا ہوا تو بہت گڑبڑ ہو جائے گی۔۔“ اکرام نے ماتھا مسلا۔۔ تائی نے بھی دل پر ہاتھ رکھا۔۔

” وہ بچی ہے حالات جو ایسے تھے۔۔ اللّٰہ اس کی حفاظت کرے۔۔“ تائی امی کی فکر پر ہالہ کا دل بھر آیا۔۔ 

”اسے لے آئیں وہاں سے۔۔ پلیز آج لے آئیں آئیندہ میں اسے جاب بھی نہیں کرنے دوں گی۔۔ جو کہیں گے آپ۔۔ ویسے ہی کریں گے ہم لوگ۔۔“ ہالہ نے ان دونوں بھائیوں کی منت کی۔۔ 

اکرام فارس کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

رات کا وقت تھا سب کھانا کھا چکے تھے اب چائے، کافی لیے باتیں کر رہے تھے۔۔ 

بچے ماؤں کی گودوں میں لیٹے نیند بھگانے کی کوشش میں لگے تھے۔۔ 

جب اچانک دروازے سے سیاہ چادر اور نقاب والی لڑکی اندر داخل ہوئی۔۔ 

آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ لگا تھا پھر بھی گرے آنکھوں میں گھبراہٹ اور نمی واضح تھی۔۔ 

”جی کس سے ملنا ہے؟“ دی جان نے نرمی سے اس لڑکی کو دیکھا جو وہیں دروازے کے پاس ہی جھجھک کر رک گئی تھی اور غور سے دیکھنے پر آسانی سے معلوم ہوتا تھا وہ بری طرح کانپ رہی ہے۔۔ سب کی فکر مند نظریں اس پر جم گئیں۔۔

اس نے سامنے بیٹھے خوشحال گھرانے کو دیکھا۔۔

وہاں پانچ لڑکے بیٹھے تھے جو تقریباً ایک جیسے ہی لگ رہے تھے۔۔  پتہ نہیں ان میں سے کس کو آج وہ بدنام کرنے والی تھی۔۔

”م۔۔۔مجھے بہرام خان سے بات کرنی ہے۔۔“ وہ لرزتی آواز میں مشکل سے بول رہی تھی۔۔

”جی آؤ بیٹا بیٹھ کر بات کرو کیا مسئلہ ہے۔۔“ داجان نے نرمی سے اسے بیٹھنے کا کہا۔۔   

وہ ان کی نرمی پر ڈگمگائی۔۔ ایسے اچھے لوگوں کو زلیل کرنا سہی تھا؟ مگر واصف کی دھمکی یاد آئی تو اس نے سر جھٹکا۔۔

”مجھے۔۔ انصاف چاہئیے۔۔۔۔ اس۔۔۔گھر کے۔۔۔چھوٹے۔۔۔ بیٹے نے پچھلے۔۔۔ایک سال سے ۔۔۔مجھ سے محبت کا۔۔ جھوٹا کھ۔۔۔کھیل۔۔۔ کھیلا۔۔“  اٹک اٹک کر بولتی دیا کی زبان لڑکھڑائی۔۔ 

وہ صرف اس پر نہیں اپنی زات پر بھی کیچڑ اچھال رہی تھی اور یہ آسان تھوڑی تھا۔۔

سب گھر والے دھماکوں کی زد میں تھے۔۔ 

ریان نے اسکی گرے آنکھیں دیکھ کر زایان کو دیکھا۔۔ کیا یہی وہ لڑکی تھی جس کے لیے وہ پاگل ہوا جاتا تھا اور وہ اس پر الزام لگانے آ گئی؟  زایان گنگ سا اسے دیکھ رہا تھا۔۔ 

سیاہ چادر، نقاب مگر گرے آنکھوں کا رنگ تھوڑا الگ تھا۔۔ ہالہ کی آنکھوں میں گرے کے ساتھ سبز سا شیڈ آتا تھا۔۔ اس کی رنگت سنہری تھی۔۔۔ تو یہ کون تھی۔۔؟

”یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟ کوئی ثبوت ہے اس بات کا۔۔“ داجان سختی سے دھاڑے۔۔ 

دیا خوف سے جھٹکا کھا کر ایک قدم پیچھے ہوئی اور پھر ہاتھ میں پکڑا وہ کاغذ کا ٹکڑا سامنے کیا۔۔ صائم نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے کاغذ جھپٹا اور پڑھنے لگا۔۔ 

”جھوٹ۔۔۔ بکواس ہے یہ۔۔“ وہ دیا کو گھورنے لگا۔۔ راسم نے آگے بڑھ کر اس سے لیا۔۔

”پریگنینسی رپورٹ؟“ راسم کے جملے پر جہاں باقی سب کو جھٹکا لگا۔۔۔

زایان کے جبڑے بھینچ گئے۔۔۔ اس نے ایک نظر سب کو شاکڈ کھڑا دیکھا اور پھر سامنے کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو جسے دیکھ کر کوئی بھی نا مانتا کہ وہ جھوٹی یا دھوکے باز ہے۔۔ 

اپنے آفس میں بیٹھا واصف سب دیکھتا انجوائے کر رہا تھا۔۔ 

”اب یقین دلاؤ زایان خان۔۔ سب کو اپنے کردار کی گواہیاں دیتے پھرو۔۔“ وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔

اس نے دیا کو اس کام کے لیے چنا بھی اس لیے تھا۔۔ وہ معصوم سی لگتی تھی۔۔ 

اور جیسے واصف نے اسے ڈرا کر بھیجا تھا اس کی حالت دیکھ کر سب کو لگتا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہی ہوا ہے۔۔

اگر کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید اس کا ڈرامہ پہچان بھی لیا جاتا۔۔ 

مگر دیا کا خوف اور خراب حالت سچ تھی۔۔ 

سامنے ہی سب خان فیملی اس رپورٹ کو دیکھ رہے تھے۔۔   جو واصف نے اپنی ڈاکٹر کزن سے بنوائی تھی۔۔ 

واصف کو انتظار تھا جب زایان اپنی سچائی کی قسم کھاتا اور سب کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جاتا۔۔ 

وہ سب ویڈیو ریکارڈ کر رہا تھا۔۔

💜💜👍👍

سب شاکڈ کھڑے تھے۔۔ زایان کا دماغ گھومنے لگا اس لڑکی کے جھوٹ اور دیدہ دلیری پر۔۔ 

”کس کے کہنے پر یہ سب کر رہی ہو؟ کس نے بھیجا ہے۔۔ شرم نہیں آرہی جھوٹا الزام لگاتے ہوئے۔۔“ صاٸم غصے سرخ ہوا جا رہا تھا۔۔

زایان سے سوال کرنا تو دور اس کے بولنے سے پہلے ہی سب بول رہے تھے۔۔

دیا کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے وہاں واصف کام خراب ہوتا دیکھ کر بدمزہ ہونے لگا۔۔ 

”یہ لڑکی بکواس کیوں نہیں کر رہی؟ چپ چاپ کیا دیکھ رہی ہے۔۔؟“  اس کا بس نہیں چل رہا تھا خود چلا جائے اور جو منہ میں آئے بولتا جائے۔۔

”مجھے لگا تھا تمہارا بدلہ وہیں پورا ہو گیا مگر لگتا ہے ابھی بھی بےسکون ہو۔۔“ دیا اس آواز پر سن ہویی۔۔ سالک؟

باقی سب نے حیرت سے جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے سکون سے کھڑے سالک کو دیکھا۔۔ جو اب چلتا ہوا دیا کے سامنے آ رکا۔۔ 

وہ جو اپنے پیرنٹس سے کال پر بات کرنے اوپر اپنے کمرے میں تھا شور کی آواز پر باہر آیا۔۔ 

وہ جو کہتا تھا دیا کو بھلا چکا ہے۔۔ دور سے ہی اسے پہچان گیا۔۔ اس کی بات سنتا وہ حیران ہوا تھا۔۔

دور کھڑے ہو کر اس نے دیا کی ایک ایک حرکت کو غور سے دیکھا۔۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔۔ ماتھے سے بار بار پسینہ صاف کرتی وہ آنکھوں پر ٹکے چشمے کو بار بار سیٹ کرتی اسے متوجہ کر گئی تھی۔۔ 

دیا ساکن کھڑی سالک کو دیکھ رہی تھی۔۔ 

”میں خان فیملی کا چھوٹا چھوٹا بیٹا ہوں۔۔ سالک اقیان خان۔۔ کیا ہوا؟ سرپرائز ہاں؟“ سالک کے الفاظ پر دیا کے ساتھ ساتھ واصف بھی شاکڈ ہوا۔۔

”تم پچھلے سال امریکہ میں میرے ساتھ تھیں۔۔ کیا تم نے بھیجنے والے کو یہ بتایا؟ تم ”مجھ“ پر یہ الزام لگا سکتی ہو آرام سے۔۔ مگر زایان خان پر نہیں۔۔ بہت لوگ گواہ بھی ہیں کہ تم میرے ساتھ ہوتی تھیں۔۔ اور یہ جو رپورٹ ہے۔۔“ سالک نے مڑ کر راسم کے ہاتھ سے رپورٹ لی اور دیا کی نظروں کے سامنے لہرائی۔۔ 

”ہم اسے عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔۔ فیک رپورٹ تیار کرنے والے ڈاکٹر، تیار کروانے والے اور اس سے بلیک میل کرنے والے تینوں پر کیس بھی کروا سکتے ہیں۔۔ 

تمہیں جس نے بھی بھیجا یہ سب باتیں نہیں سوچیں۔۔؟“ سالک اس کے سامنے جھک کر مسکرایا۔۔ واصف اس لڑکے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ جو زایان سے کچھ انچ لمبا ہی ہو گا اور عمر میں اکیس / باٸیس کے قریب اور زہانت سے چمکتی سیاہ آنکھیں۔۔ واصف کے چھکے چھڑا گیا۔۔ 

سالک نے ہاتھ بڑھا کر دیا کا چشمہ اتارا اور غور سے دیکھا، چشمہ پر جدید چھپا ہوا کیمرہ لگا تھا۔۔ جس سے گلاسز سے آسانی سے سب مناظر دیکھے جا سکتے تھے۔۔

”یہ کھلونے بہت دیکھے ہیں۔۔“ وہ ہنس کر بولا۔

”تو یہاں سے سب کی ویڈیو بنا رہی تھیں تم؟ یہ سب کب سیکھا۔۔ ایک سال میں ہی اتنی ترقی۔۔؟“ سالک نے چشمہ دونوں ہاتھوں سے توڑا تو واصف کے پاس لیپ ٹاپ پر اندھیرا چھا گیا۔۔۔ کون تھا یہ لڑکا کیسے جان گیا سب۔۔؟

”یہ کام واصف کے علاوہ کسی کا نہیں ہو سکتا۔۔ گھٹیا ترین بندہ ہے۔۔“ زایان نے دانت پیسے۔۔ دیا کے قدم لڑکھڑانے لگے۔۔ وہ لوگ جان گئے۔۔ ان کی عزت بچ گئی مگر اب واصف اس کا کیا حال کرنے والا ہے؟

”تم سے کہا تھا جذباتی پن مت کرنا اگر اس لڑکی کی جگہ کسی اور کو بھیج دیتا اور یہ بات میڈیا تک چلی جاتی تو۔۔؟

میڈیا میں سچ ثابت کرنے سے پہلے اچھی خاصی بدنامی ہو جاتی۔۔  واصف تو اب اپنی اوقات دکھانے لگا ہے۔۔“

سب لڑکے ڈسکس کرنے لگے تھے۔۔ 

گھر کی عورتوں کے الگ اٹکے سانس بحال ہوئے تھے۔۔ اب سب کی سوالیہ نظریں دیا کی جھکی نظروں پر تھیں۔۔

”تم سے کیا لالچ دے کر یہ کام کروایا؟ لغاری نے کروایا نا یہ۔۔“ داجان نے دیا کو دیکھ کر پوچھا۔۔ سالک صوفے پر سب کے درمیان بیٹھ چکا تھا۔۔ نظریں بھی پھیر لیں۔۔

”م۔۔میں نے اس سے قرض۔۔۔ لیا تھا۔۔“ دیا کو بتاتے ہوئے بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔۔

سب نے چونک کر اسے دیکھا جو سر جھکائے دھیرے سے بولی۔۔ زایان اس میں کسی کی شبیہہ کھوج رہا تھا۔۔

”کمال ہے لڑکی تمہیں بس وہی لغاری ملا تھا۔۔“ صیام نے تاسف سے کہا۔۔ 

دیا بتانا چاہتی تھی وہ اسے نہیں جانتی اور یہ کہہ وہ مجبور تھی تب بھی آج بھی۔۔ مگر بولنے کی ہمت ختم تھی۔۔

”تم کیسے جانتے ہو اسے سالک؟ چھپے رستم کیا سین ہے۔۔“ ایسی باتوں کا خیال ہمیشہ ریان کو ہی آتا تھا۔۔ سب بھائی اسے چھیڑنے لگے۔۔ 

زایان کی پرسوچ نظریں اب بھی دیا پر جمی تھیں۔۔ 

”میں اسے نہیں جانتا۔۔ امیرکہ میں کالج فیلو تھی۔۔“ سالک صاف مکر گیا۔۔ وہ زایان تھوڑی تھا کہ تنگ ہو جاتا یا وضاحتیں دیتا۔۔

”کیا تم۔۔۔ فارس کی کزن ہو؟“ زایان نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔ دیا اس کے سوال پر چونکی۔۔

”جی۔۔ “ مزید سر جھکا لیا۔۔ فارس کے جاننے والے ہیں مطلب اب اس کی خیر نہیں۔۔

زایان سب سمجھ گیا مطلب اپنے باپ کے لیے اس نے قرض واصف سے لیا۔۔ 

”م۔۔۔میں نہیں جانتی اس بندے کو۔۔۔ قرض بھی اس نے خود دیا۔۔۔ میں نے مجبوری میں۔۔ میں یہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔“ دیا کی آواز بھرا گئی۔۔ واصف جیسے گھٹیا انسان کی ایک بات درست تھی کہ وہ لوگ اچھے تھے۔۔

”تم یہاں آ کر بیٹھو بچے۔۔ اور اپنا مسئلہ بتاؤ۔۔“ دی جان نے نرمی سے کہا۔۔ 

سالک اس سب میں انجان بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔

”مم۔۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔“ دیا جیسے اچانک خواب سے جاگی۔۔ واصف کا خوف اب بھی اس کے سر پر سوار تھا۔۔ مگر ہالہ کی پریشانی دیر ہونے پر مزید بڑھ جاتی۔۔

”او۔کے واصف سے کتنا قرض لیا تھا۔۔ واصف کو قرض میں لوٹا دوں گا ورنہ وہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔۔“زایان فوراً اس کے پاس جا کر بولا۔۔ اس کی یہ ہمدردی سب کو کھٹکا رہی تھی، کوئی تو بات تھی۔۔ 

اتنا مہربان اس لڑکی کے لیے جو اسے بدنام کرنے ہی والی تھی۔۔ اگر سالک نا ہوتا تو شاید سب کے دماغ مفلوج ہو چکے تھے جیسے۔۔۔

”مجھے۔۔ قرض نہیں لوٹانا۔۔۔ مجھے اس سے جان چھڑوانی ہے۔۔۔ اس نے پچاس لاکھ دئیے اور۔۔ پچاس کروڑ لکھ کر سائن کروائے۔۔۔ پلیز میری اس سے جان چھڑوا دیں۔۔“ 

دیا بے اختیار مدد کا کہہ کر رو پڑی تھی۔۔ وہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھی۔۔ سب نے افسوس سے اسے دیکھا۔۔ زایان کو لغاری کی بے غیرتی پر شدید غصہ آیا تھا۔۔ 

”اس سے جان چھڑوانی ہے تو مجھ سے نکاح کرنا ہوگا۔۔ ابھی اور اسی وقت۔۔“  سالک کا اچانک جملہ سب کو حیران کر گیا۔۔ 

دیا نے اس موقع پرست کو دیکھا جو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔

”نکاح کیوں۔۔؟“ دیا نے انکار کرنے جسا کیوں کہا۔۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔۔ 

یعنی یہ کالج فیلو وہی فلاور شاپ گرل ہے۔۔

”ہم مدد کریں اور شکریہ کہے بنا چلی جاؤ پھر سے الزام لگا کر۔۔۔ تم ہو ہی احسان فراموش۔۔“ سالک نے بے نیازی سے کہتے ہر راستہ بند کیا۔۔ 

زایان نے سر پر ہاتھ پھیرا یعنی دونوں بہنیں ہی ایسی ہیں۔۔ مگر دیا کے سامنے زایان نہیں تھا جو جانے دیتا وہ سالک تھا اور وہ ایسے آسانی سے جانے دیے والا تھا بھی نہیں۔۔ جب تک پورا حساب نا چکا لیتا۔۔

میں نے پہلے وارن کیا تھا۔۔ اگلی بار سامنے آئیں تو جانے نہیں دوں گا۔۔“ سالک پوری تیاری سے جیسے بدلہ لینے کو تیار ہوا تھا۔۔ 

اسے لگا تھا وہ بدل گیا اور اسے بھول گیا۔۔ مگر آج پتہ چلا وہ تو وہیں اسی لمحہ میں کھڑا ہے جب دیا اسے چھوڑ کر گئی تھی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

واصف ابھی تک اپنے آفس میں بیٹھا بل کھا رہا تھا۔۔ کام بھی نہیں بنا اور کھل کر سامنے آجانے پر خان فیملی کو بھی اپنے خلاف کر دیا۔۔ بزنس کی دنیا کا بادشاہ تھا بہرام خان اور اس سے دشمنی کا مطلب تھا بزنس میں اب کوئی اس سے ڈیل نا کرتا۔۔ نا ہی اس سے کوئی بڑی کمپنی اب مرجنگ کرتی کبھی۔۔

”مجھے اندازہ ہوتا اتنی ناکارہ نکلے گی لڑکی تو سہی مزہ چکھاتا اس شریف زادی کو۔۔“ وہ دیا کو دل میں مخاطب کرتا پھنکار رہا تھا۔۔ 

”اب اگر جوابی کاروائی کی خان فیملی نے تو میں اس لڑکی دیالہ کو چھوڑوں گا نہیں۔۔ اس کے گھر والوں کو زلیل نا کروایا تو نام بدل دے گی میرا۔۔“ وہ اپنے بال نوچنے لگا۔۔

”وہ لڑکا کون ہو سکتا ہے؟“ وہ اچانک رکا۔۔

”کیا واقعی خان فیملی کا چھوٹا بیٹا ہے؟“ وہ اب سالک کی کھوج میں لگنے والا تھا۔۔

”یہ لڑکا خود کو ہوشیار سمجھ رہا ہے۔۔ سارا کام بگاڑ دیا اب واصف سے خود کو بچا کر دکھائے۔۔“ واصف نے دیوار پر مکا مارتے ہوئے کہا۔۔ 

وہ اگر جان لیتا کہ وہ ”لڑکا“ کتنا تیز ہے تو ابھی سے توبہ کر لیتا۔۔ 

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

اکرام اور فارس ایسے ہی لوٹ آئے تھے۔۔ وہ وہاں بھی نہیں تھی ریسیپشن پر کھڑی لڑکی نے بتایا کہ وہاں سے تو کب کی جا چکی۔۔ 

فارس ہالہ کا دماغ کھائے جا رہا تھا۔۔ 

اکرام بھی چپ بیٹھا تھا۔۔۔ 

ہالہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر رو رہی تھی۔۔

جب اچانک دروازے سے سر جھکائے دیا اندر آئی۔۔ ہالہ نے اس کے پاس جاکر اسے گلے سے لگایا اور شدت سے رو پڑی۔۔ 

”دیا کہاں چلی گئی تھیں۔۔؟ ٹھیک ہو ناں؟“ دیا نے سر ہلا دیا۔۔ بولنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔۔ سالک نے اس سے نکاح کر لیا تھا اور اب اسے گھر لے آیا تھا کہ سب کو اس کے سامنے نکاح کا بتائے۔۔ وہ چھوڑنے آیا تھا تاکہ دیا گھر والوں سے یہ بات نا چھپا پائے۔۔

اس نے ایک قرض سے جان چھڑوانے کے بدلے نجانے کیا کیا شرائط رکھی تھیں جن کے رزلٹ میں وہ خود کو بس سالک کی قیدی ہی سمجھتی تو سہی تھا۔۔ 

دیا کو اس پر شدید غصہ آرہا تھا۔۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائی اور ایک لون سے بچنے کے لیے مزید پھنستی چلی گئی۔۔۔  

زایان ساتھ آیا تھا اور سارے راستے نجانے کیا کیا سمجھاتا رہا تھا وہ کچھ نا سن پائی نا ہی سمجھ پائی۔۔ 

سالک کو کچھ سمجھنے کی ضرورت ہی کب پڑتی تھی۔۔ 

اور دیا۔۔ اس کی تو سوچ ہی یہاں آ کر رک گئی کہ نکاح کی کیا وجہ دے گی گھر والوں کو۔۔

زایان باہر گاڑی میں ہی بیٹھا تھا اور جو اندر آیا تھا وہ کچھ بول کر نہیں دے رہا تھا۔۔

” ہالہ، تائی امی م۔۔۔میں نے نکاح کر لیا ہے۔۔“  دیا نے بتایا تو سب کہ توجہ پیچھے دروازے پر کھڑے اس لڑکے پر پڑی جو لاپروائی سے سب کو دیکھ رہا تھا۔۔

برف جیسا سفید رنگ اور ماتھے پر بکھرے گولڈن براؤن سے بال، سفید شرٹ جینز پہنے لمبی قد اور مغرو سے نقوش والا۔۔۔ ہالہ شاکڈ کھلی آنکھوں سے دیا کو دیکھ رہی تھی۔۔ تائی جان اور اکرام بھی ساکت رہ گئے۔۔

فارس بھڑک ہی تو اٹھا تھا۔۔ دیا کے سر پر سوار ہو گیا اور تپتی آنکھوں سے دیا کو دیکھے لگا۔۔

”اس سے کیا ہے نکاح۔۔۔؟ کون ہے یہ لڑکا۔۔؟ کب سے چل رہا ہے یہ سب۔۔؟ اس لیے تم نوکری کرنے جاتی تھی۔۔ نوکری کے بہانے تم۔۔۔“  فارس ایک پر ایک الزام لگاتا جا رہا تھا۔۔ اور دیا پر ہاتھ اٹھایا مگر اس سے پہلے کہ وہ تھپڑ مارتا سالک نے آگے بڑھ کر ہاتھ پکڑ لیا۔۔

”ایکسکیوزمی۔۔ اپنے ہاتھ اور زبان کا زرا کم یوز کرو۔۔ میں بہت بدتمیز مشہور ہوں۔۔“ سالک نے سرد لہجے میں کہا فارس نے دانت کچکچائے۔۔ اکرام سپاٹ نظروں سے دیا اور سالک کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اب مزید دیا سے کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔

” میں ڈی کا امیرکہ میں کالج فیلو تھا۔۔ آج پاکستان میں ملے تو نکاح کر لیا۔۔“  سالک نے اتنے مزے سے کہا کہ دیا کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔۔ وہ بچا رہا تھا یا پھنسا رہا تھا؟

 ہالہ نے بے یقینی سے دیا کو دیکھا۔۔

”ایسے کیسے کر لیا نکاح۔۔ دیا تم میں شرم لحاظ مر گیا ہے کیا۔۔ نا پوچھا نا بتایا۔۔ اتنے ابال اٹھ رہے تھے تو ہمیں بتاتیں۔۔ باپ کے ٹھیک ہونے کا ہی انتظار کر لیتیں۔۔“  

تائی جان نے اسے سخت الفاظ میں کہا۔۔ 

”شرم لحاظ تو پہلے ہی نہیں تھا اس میں۔۔ اور بھیجیں چاچو بیٹی کو امریکہ۔۔ یہ وہاں یہی عیاشیاں کرتی رہی ہے اس لیے تو ڈگری لیے بنا ہی آگئی۔۔ “ فارس کی زبان نے پھر زہر اگلا۔۔ آج ہالہ بھی کچھ نا بول پائی۔۔

”کوئی غلط کام نہیں کیا میں نے۔۔ مجبوری تھی اس لیے کیا ہے نکاح۔۔ میرا پہلے اس انسان سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔۔ ہالہ میرا یقین کرو۔۔“  دیا نے چیخ کر کہا اور ہالہ کاہاتھ تھاما جو برف کی طرح جم گئی تھی۔۔

”کیا مجبوری تھی ایسی۔۔؟“  اکرام نے سرد لہجے میں سوال کیا۔۔ دیا بے چارگی سے ان لوگوں کو دیکھنے لگی مجبوری بتانے کے چکر میں اسے یہ بھی بتانا پڑتا کہ آج وہ کیا کرنے والی تھی۔۔ تو ایک اور ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔۔ سالک اب بھی چپ تھا۔۔

دیا نے مدد طلب نظروں سے اسے دیکھا تو وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔۔

”بے غیرت بندہ“ دیا نے دانت پیسے آج تو وہ دل کھول کر بدلے لے رہا تھا۔۔

”میں نے اس کی فیملی سے لون لیا تھا اور ان لوگوں نے لون کے بدلے میرا نکاح کروا دیا۔۔“ دیا نے کہانی بنا لی۔۔ سالک نے اسے گھورا۔۔ باقی بھی حیران ہوئے۔۔ 

”اتنے بے ضمیر لوگ۔۔۔؟ مجبوری کا فائدہ اٹھا لیا۔۔“  تائی جان نے سالک کو کڑی نظروں سے دیکھا۔۔ 

” جس گھر میں دو مردوں کے ہوتے لڑکی باپ کے علاج کے لیے ایک ایک دروازہ بجائے۔۔ ان لوگوں کے منہ میں ضمیر کا لفظ جچتا ہی نہیں۔۔“  سالک نے اکرام اور فارس پر چوٹ کی تو وہ بلبلا کر رہ گئے۔۔ 

”ہالہ سالک کے انداز دیکھتی اندر ہی اندر زرا مطمئین ہوئی۔۔ اس بندے میں لحاظ نہیں مطلب دیا کی پروٹیکشن اچھے سے کر سکتا ہے۔۔ تائی جان بھی اب چپ تھیں۔۔

” دیا تم جاؤ یہاں سے۔۔ کل آ کر بابا سے مل لینا۔۔ مگر ابھی جاؤ۔۔  میں مزید بات نہیں کرنا چاہتی۔۔“ ہالہ نے اچانک کہا تو دیا رونے والی ہو گئی۔۔ اسے ہالہ سے یہ امید نا تھی۔۔

ہالہ نے ناراضگی ظاہر کرتے اسے بھیجا مگر حقیقت یہ تھی کہ اسے ڈر تھا اکیلے میں اکرام یا فارس دیا کی سہی کلاس لیتے اور شاید ہاتھ بھی اٹھا ہی لیتے اب ان سے کوئی بھی امید کی جا سکتی تھی۔۔ 

”ہالہ قسم سے میں۔۔“ اس سے پہلے کہ دیا کچھ بولتی ہالہ نے اس کا بازو پکڑا اور کھینچ کر بیرونی دروازے تک لے گئی۔۔ 

” دیا کل بات کریں گے ابھی جاؤ۔۔“ اس نے آہستگی سے التجا کی۔۔ سالک جو پہلے ہی دروازے سے باہر نکل چکا تھا ان بہنوں کی چالاکی پر نفی میں سر ہلایا۔۔

”کیا ہوا واپس کیوں آئیں۔۔؟“  زایان نے حیرت سے ان دونوں کو آتا دیکھ کر پوچھا۔۔ 

”کیونکہ اس کی فیملی نے اسے نکال دیا گھر سے۔۔“ سالک فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے مزے سے بولا۔۔ دیا نے پیچھے بیٹھ کر ٹھا کر کے دروازہ بند کیا۔۔ 

”کیونکہ اس شخص نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میری فیملی مجھے رکھتی۔۔“ دیا کے جواب پر وہ یوں ہو گیا جیسے سنا ہی نا ہو۔۔

زایان نے خاموشی سے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔

💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜

”تمہارا تو ایکسیڈنٹ ہوا تھا ناں۔۔ تم بچ گئے تھے؟“ 

کمرے میں اکیلے بیٹھے دیا کو عجیب سی کنفیوژن فیل ہوئی تو نہایت فضول سوال کیا۔۔ سالک جو بیڈ پر بیٹھا اب سونے کی تیاری کر رہا تھا حیرت سے کچھ فاصلے پر صوفے پر بیٹھی دیا کو دیکھا۔۔

”تم میری جاسوسی کرواتی رہی ہو؟“ 

اس کے سوال پر دیا ہڑبڑائی۔۔ 

” میں کیوں۔۔ مروہ نے بتا دیا تھا یونہی۔۔“ 

وہ ناک چڑھا کر بولی۔۔ 

” میری؟ تمہاری وہی فرینڈ جو مجھے بوکے بھیجتی رہی اور ساتھ میرے والے کارڈز بھی؟ تو پھر ضرور تم نے ایسا کرنے کو کہا ہو گا۔۔۔“ سالک کی بات پر دیا کی آنکھیں پوری سے زیادہ پھیل گئی تھیں۔۔

”مروہ بوکے بھیجتی تھی؟ میں کیوں کہوں گی میں تو وہیں ڈورم کے ڈرار میں سب کارڈز پھینک آئی تھی۔۔“ 

دیا نے وضاحت دی۔۔

” تم نے ڈورم میں سنبھال کر رکھے تھے وہ کارڈز؟ تم نے اسے میرا ایڈریس تک دیا۔۔ تم نے اسے کہا ہو گا کہ بوکے بھیجتی رہے تاکہ میں تمہیں یاد رکھوں۔۔ تمہیں لگتا ہے اب تم اب ڈینائے کرو گی اور میں مان جاؤں گا۔۔؟“ 

سالک نے جان بوجھ کر اس پر ملبہ ڈالا حالانکہ وہ جانتا تھا مروہ چھپ کر یہ سب کرتی رہی ہو گی۔۔

” میں ایسے برے کام نہیں کرتی۔۔ ایڈریس اس نے پوچھا تو بے دھیانی میں بتا گئی تھی۔۔ مجھے کیا پتہ تھا وہ یہ کرے گی۔۔“  دیا نے خود بھی بے یقینی سے سر ہلایا۔ مروہ اتنی دیوانی ہو گئی تھی ایس کی۔۔؟حد ہے۔۔۔

”سنو تم نے مجھ سے نکاح کیوں کیا؟ بدلہ مت کہنا یہ جھوٹ ہے۔۔“  دیا نے اسے سوتے دیکھ کر پھر سے سوال کیا۔۔

”سکون کے لیے۔۔۔“  وہ بلینکٹ ڈال کر آہستگی سے بولا۔۔ دیا نا سمجھی سے اس کی بات سوچنے لگی۔۔ 

”کیا مطلب۔۔؟ سمجھ نہیں آئی۔۔۔؟“ 

پھر سے سوال کیا۔۔ وہ زچ ہو گیا۔۔

” تمہارے پاس دماغ نہیں ہے سمجھنے کی کوشش مت کرو۔۔ مجھے سونے دو۔۔“  وہ بدلحاظی سے بولا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔

”تو۔۔۔ میں کہاں سوؤں گی؟“  دیا نے آخر اتنی باتوں کے بعد اصل سوال کر ہی لیا۔۔

وہ بیڈ پر پھیل کر سویا ہوا تھا اور دیا جب سے کمرے میں آئی تھی، سمٹ کر ایک صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ 

”دیکھو یہاں میرے ساتھ آ کر سونے کا سوچنا بھی مت۔۔ میں نے ابھی تمہیں معاف نہیں کیا۔۔ تو ڈریسنگ روم میں جو لیفٹ کارنر میں الماری ہے وہاں سے ایکسٹرا بلینکٹ لو اور وہیں صوفے پر سو جاؤ۔۔ “ 

سالک جھٹکے سے اٹھا اور اسے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔۔ ساتھ میں ہدایت جاری کرتا پھر سے سو گیا۔۔ 

”اور جیسے میں تمہارے ساتھ سونے کو تیار ہو جاتی۔۔ اس کمرے میں بھی رہنا نہیں چاہتی۔۔ یہ تو مجبوری ہے میری ورنہ۔۔“  وہ منہ بسورتی بلینکٹ اٹھا لائی اور صوفے پر ہی سمٹ کر سو گئی۔۔ سالک نے جواب نہیں دیا۔۔ 

جب وہ سو گئی تو اٹھ کر اس کے پاس وہیں قالین پر جا بیٹھا اور اس کا چہرہ دیکھے گیا۔۔

اب کہاں سونے والا تھا وہ۔۔

وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھا رہ گیا۔۔ نیلگوں روشنی میں دیا کا زردی مائل سفید چہرہ چمک رہا تھا۔۔ وہ اسے دیکھتا تھک ہی نہیں رہا تھا۔۔ جب رات کے پچھلے پہر سالک کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر جاتا دیا کے چہرے پر بے چینی سی ابھری۔۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔۔ دیا بے چینی سے سر یہاں وہاں جھٹکتی سسکنے لگی۔۔ وہ نا سمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما۔۔ تو وہ بڑبڑانے لگی۔۔ 

”میں کچھ۔۔۔ نہیں۔۔ جانتی۔۔ مجھے نہیں۔۔ پتہ۔۔۔ مجھے چھ۔۔۔چھوڑو۔۔“  سالک نے سر جھکا کر ضبط کیا۔۔ تو ڈی تب سے ٹراماٹاٸزڈ ہے؟

مطلب وہ ابھی تک اس فیز میں ہے؟

اس کے ہاتھوں کی بھنچی مٹھیاں کھولنی چاہیں تو اس نے سالک کا بازو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور اس کے کندھے پر سر رکھ گئی۔۔ 

اگر وہ جاگ رہی ہوتی تو وہ ایسا کبھی نا کرنے دیتا۔۔ وہ ابھی اسے خود سے دور رکھنا چاہتا تھا۔۔ مگر اس وقت وہ نیند میں تھی اور ٹھیک بھی نہیں تھی سالک ویسے ہی بیٹھا اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا رہا۔۔ تھوڑی دیر تک اس کی بےچینی اور سسکیاں کم ہوتے ہوتے ختم ہو گئیں اور وہ سکون کی نیند سو گئی۔۔

مگر سالک اب بھی وہیں بیٹھا تھا۔۔

💜💜💜

دیا گھر آئی ہوئی تھی اور اب بابا کے ساتھ بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھاتی دونوں بہنیں ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھیں جب دیا نے ہالہ کو اشارہ کیا کہ وہ بابا کو بتائے۔۔ 

ہالہ کو اس پر شدید تپ چڑھی جسے ہر کام کی جلدی ہوتی تھی۔ لون لینے کی جلدی۔۔ پھر لون کے بدلے خان فیملی کے پاس جانے کی جلدی۔۔ نکاح کی جلدی۔۔ اور اب دوسرے ہی دن بابا کو بتانے کی جلدی۔۔ باقی ہر کام ہالہ کو بتائے پوچھے بنا کر لیا۔۔ اب ہالہ یاد آ گئی۔۔ 

دیا نے ہالہ کو اگنور کرتے دیکھا تو بے چین ہوئی۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بابا کو کسی اور سے پتہ چلے اور انہیں افسوس ہو۔۔ فارس یا اکرام کا کیا بھروسہ کب آ کر کوئی بھی کہانی بنا کر بتا دیں۔۔۔

”ایکسیڈنٹ کے بعد جب مجھے لگا کہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوں تو تم دونوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔۔“  بابا نے بات شروع کی تو دونوں چونکیں۔۔ 

”اللّٰہ کا شکر ہے زندگی دے دی اللّٰہ نے۔۔ اب وہ باتیں مت سوچیں۔۔“ ہالہ نے انہیں نرمی سے ٹوکا۔۔ ان کی آنکھوں کی نمی اور لہجے کی بے بسی دونوں بہنوں کو دکھی کر رہی تھی۔۔

”لیکن اگر میری زندگی ختم ہو جاتی؟ یا ہو سکتا ہے اللّٰہ نے بس مہلت دی ہو۔۔ میں اس طرح تم دونوں کو لاوارث چھوڑ کر نہیں مر سکتا۔۔“ بابا کی بات پر ان کے رنگ اڑے۔۔

”دیکھو بیٹا موت برحق ہے۔۔ چلو ٹھیک ہے مان لیا جائے ابھی میری زندگی باقی ہے مگر اس دنیا میں قیامت تک زندہ تو کوئی نہیں رہے گا۔۔ اپنے وقت پر مجھے بھی جانا ہے۔۔“ وہ دونوں بابا کی باتوں پر بے چین ہوئیں۔۔

”چھوڑیں یہ باتیں۔۔ مرنا تو ہے کیا پتہ آپ سے پہلے میری باری ہو۔۔ بس ایسی باتیں اب نہیں کرنی آپ نے۔۔۔“ 

دیا نے منہ بنا کر کہا۔۔ 

”میری بات سنو دونوں۔۔ مجھے پتہ ہے بھابھی بیگم نے تم دونوں کو ماں کی طرح پالا ہے اور غزالہ کے برابر ہی سمجھتی ہیں مگر پھر بھی۔۔ میں تم دونوں کے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔ اکرام اور فارس کے ساتھ۔۔ میرے بعد بھی انہی نے سنبھالنا ہے تو جائز رشتہ بنانا چاہتا ہوں۔۔ “ بابا کی بات پر ہالہ ان کا منہ دیکھنے لگی جبکہ دیا کا تو رنگ فق ہو گیا۔

”بابا پلیز ابھی یہ بات۔۔“ اس سے پہلے کہ دیا کچھ کہتی انہوں نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھنے لگی۔۔

”گھر کے بچے ہیں۔۔ دیکھے بھالے ان کے علاوہ اس جلدی میں کسی پر یقین نہیں کر پاؤں گا۔۔

اور بچپن سے تم دونوں کی بات طے ہے۔۔ دیا چھوٹی تھی کبھی زکر نہیں کیا۔۔ اپنے بابا کا مان رکھ لو بیٹا۔۔ میں نا بھی مروں تب بھی مجھے بس تم دونوں کی طرف سے اطمینان چاہئیے۔۔“ وہ شاید بہت بری طرح ڈر گئے تھے۔۔ کوئی بھی دو بن ماں کی بیٹیوں کا باپ ہوتا تو یونہی ڈر جاتا۔۔ انہوں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔۔ اس سارے عرصہ میں وہ بس دیا اور ہالہ کی فکر میں جیتے مرتے رہے تھے۔۔ 

اگر دوبارہ کبھی مہلت نا ملی تو۔۔ شاید ان کے اندر ایک خوف تھا۔۔ کہ ان کے جانے کے بعد سب کے مزاج ان کی بیٹیوں کو لاوارث سمجھ کر بدل نا جائیں۔۔ 

اور مزاج تو بدل ہی گئے تھے۔۔ فارس نے ایسا بی ہیو کبھی نہیں کیا تھا۔۔ اکرام کا رویہ دیا سے ایسا سرد کبھی نہیں ہوا تھا۔۔

”بابا کیا آپ کو اپنی بیٹیوں پر۔۔ اپنی تربیت پر یقین ہے کہ ہم کبھی کچھ غلط نہیں کریں گی۔۔؟“ ہالہ نے اچانک سنجیدگی سے سوال کیا جبکہ دیا سر ڈالے آنے والے وقت کا سوچ رہی تھی۔۔ 

”مجھے خود سے اور اس دنیا کے ہر انسان سے پہلے اپنی بیٹیوں پر یقین ہے۔۔“  انہوں نے ہالہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا۔۔

”پھر میری بات پیشنش سے سنیں بابا۔۔“ ہالہ کے جملے پر دیا اور بابا دونوں چونکے۔۔

اور ہالہ آہستگی سے سب سچ سچ بتاتی چلی گئی۔۔ وہ تھک گئی تھی اپنے اور دیا پر لگتے الزامات سن سن کر اور بابا سے چھپا کر۔۔ انہوں نے جو بھی کیا مجبوری میں بے بسی میں کر لیا مگر وہ بدکردار نہیں تھیں۔۔

ہالہ نہیں چاہتی تھی فارس یہ سب اپنے انداز میں بتا کر ان کے باپ کو ان پر شک کرنے پر مجبور کر دیتا۔۔ اکرام سے اسے امید تھی کہ کم ازکم ان پر غلط بات نہیں بنائے گا۔۔

ہالہ نے لون سے لے کر دیا کے نکاح، فارس کا رویہ اور اپنے خدشے سب کہہ ڈالے۔۔

”ہاسپٹل کا خرچ پورا کرنے کے لیے۔۔ دیا اس دلدل میں پھنسی تھی مگر ان اچھے لوگوں نے بچا لیا۔۔“  ہالہ نے بابا کی سنجیدگی اور خاموشی پر مزید کہا۔۔ 

”تو تم کیا کہنا چاہتی ہو عقلمندی دکھائی اس نے؟ اگر نقصان اٹھاتی، کوئی مدد نا کرتا تو؟ میں اپنی زندگی میں تم لوگوں کی زلالت دیکھنے سے مر جانے کو ترجیح دیتا۔۔“ 

بابا نے سخت غصے سے کہا۔۔  

”تم دونوں نے مایوس کیا ہے۔۔ دیا ہمیشہ سے کم عقل تھی اور اس کے سدھرنے کی امید آج دفن ہو گئی۔۔ ہالہ تم نے بھی اسے سب کرنے دیا؟۔۔ مجھے لگتا تھا تم اسے اچھے سے سنبھال لو گی۔۔ دونوں نے نہایت فضول کام کیے۔۔ مجھے شرمندہ کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔“ 

بابا نے خفگی سے رخ موڑا۔

وہ سر جھکائے بیٹھی رہیں۔۔جانتی تھیں وہ غلط کر گئیں اور یہ بھی کہ بابا کا غصہ برحق ہے اور وقتی بھی۔۔ 

”ہالہ کے نکاح کی بات کروں گا بھابھی سے۔۔ اسی دن دیا کے سسرال سے کہنا باقاعدہ رخصتی کروا لیں تاکہ سب کو پتہ بھی چل جائے۔۔“ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولے تو وہ سر جھکا گئیں۔۔ اب انکار کرنے کہ ہمت تھی بھی نہیں ان میں۔۔

جی ٹھیک ہے بابا۔۔“ دیا نے انہیں جواب دیا۔۔

”ہالہ اس لڑکے کو بلواؤ۔۔ مجھ سے آ کر ملے میں پہلے اچھی طرح سے دیکھنا چاہوں گا کیسا ہے۔۔ اس کے خاندان کا بھی پتہ کرواتا ہوں شکیل (انکا بہترین بھاٸیوں جیسا دوست) سے کہہ کر اور رخصتی تک دیا گھر رہے گی۔۔“  وہ دیا سے اچھی خاصی ناراضگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولے تھے۔۔ دیا نے رونی صورت بنا کر کچھ بولنا چاہا مگر ہالہ نے اسے چپ رہنے کا اشارہ دیا تو وہ بھی چپ ہو گئی۔۔

        👉YamanEvaWrites👈

”سالک یہ کیسی خوشی دی ہے یار۔۔ نا بتایا نا بلایا۔۔۔ ہمارا ویٹ کر لیتے زرا تمہیں اندازہ بھی ہے اس لمحے کا تمہارے پیدا ہونے کے بعد سے کتنا ویٹ کیا ہے۔۔“ احرام بری طرح اداس ہوئے۔۔ اکلوتے بیٹے کے نکاح میں شامل نا تھے۔۔ ماریہ بھی خوشی اور صدمے کے ملے جلے تاثرات لیے سر پکڑے بیٹھی تھیں۔۔

”you're very disloyal buddy...yu showed us like you were dyin to see your grand parents and all but here you are.. married already..so that was your plan..."

(تم بہت بےوفا ہو دوست۔۔ تم نے ہمیں یہ ظاہر کیا جیسے تم اپنے دادا، دادی اور سب کو ملنے کے لیے مرے جا رہے ہو لیکن یہ ہو تم۔۔ شادی بھی کر بیٹھے تو یہ ارادہ تھا تمہارا۔۔)

 نانا کا الگ منہ پھولا ہوا تھا۔۔ سالک کے ساتھ مسلسل کوئی نا کوئی مسئلہ ہوتا رہا اور پھر ایکسیڈنٹ بھی۔۔ چاہے وہ بچ گیا تھا مگر خان فیملی کی تو جان لبوں پر آ اٹکی تھی جیسے۔۔ وہ سب تو ملنے نہیں جا سکتے تھے، ان کے بار بار بلانے پر سالک آ گیا تھا مگر نکاح ؟ 

اس پر ان لوگوں کو شک ہونے لگا کیا وہ اسی لیے پاکستان گیا تھا ؟؟؟

"It was sudden decision. trust me I didn't even imagine... she was here and was cryin for help and you know very well she is one thankless girl I've ever seen.. in fact I also wanted to give her punishment for what she had done to me .."

(یہ اچانک فیصلہ تھا میرا یقین کریں میں نے ایسا تصور بھی نہیں، وہ یہاں تھی اور مدد کے لیے رو رہی تھی اور آپ اسے اچھے سے جانتے ہیں وہ اب تک کی سب سے زیادہ احسان فراموش لڑکی ہے دراصل وہ جو میرے ساتھ کر چکی ہے میں اسے سزا دینا چاہتا تھا۔۔)  

سالک نے انہیں وضاحت دی۔۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے ان کی فیلنگز کا احساس ہوا تھا۔۔۔ انہیں معاف کرنا ہی پڑا پہلی بار تو سالک وضاحت دے رہا تھا اتنا بہت تھا۔۔ وہ تینوں پاکستان آنے کی تیاری پکڑنے لگے۔۔ اب کون کافر بیٹھتا وہاں۔۔

________________

بہرام خان اور شہرام خان دو بھائی تھے۔۔ شہرام خان امریکہ میں سٹڈی کرنے کے بعد بزنس سٹارٹ کر کے وہیں شادی کر کے بس گئے۔۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔۔ جبکہ بہرام خان کے چار بیٹے تھے اور ایک بیٹی۔۔

بڑے بیٹے انعام خان کا ایک ہی بیٹا صیام اور دو بیٹیاں تھیں۔ دوسرے اعصام خان کے دو بیٹے راسم خان اور ریان خان اور ایک بیٹی تھی۔ تیسرے بیٹے حسام خان کے دو بیٹے صاٸم خان اور زایان خان اور تین بیٹیاں تھیں۔ اعصام کی بیٹی ہانیہ صائم کی بیوی جبکہ انعام خان کی دوسری بیٹی نمرہ راسم کی بیوی تھی۔۔

سب سے چھوٹے احرام خان جس کی شادی چچا کی بیٹی ماریہ سے ہوئی تھی۔۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا سالک اقیان۔۔ سب سے چھوٹا اور سب کی جان۔۔

اس گھر میں سب بنا فرق کے محبت سے رہتے تھے۔۔ ماؤں کو سب بچوں سے برابر پیار تھا۔۔ اور نا ہی باپوں کا فرق کیا جاتا تھا۔۔۔ کسی کام کی پرمیشن چاہئیے۔۔ ضروری بات کرنی ہو یا پیسے چاہئیں ہوں کسی بھی باپ یا ماں سے بول دیا جاتا بنا جھجھکے۔۔

سالک سے پہلے زایان سب کی محبتوں کا مرکز تھا۔۔ اور شروع سے ہی چھیڑ چھاڑ پر بری طرح چڑ جانے والا اور منہ پھلا کر لڑنے والا۔۔ اسی لیے سب بڑے اسے چھیڑتے تنگ کرتے اور اس کے شور شرابا اور لڑائی کو خوب انجوائے کرتے تھے۔۔ 

پھر سالک آیا اور سب کی توجہ بٹ گئی۔۔ عام طور پر ایسی کنڈیشن میں اٹینشن ڈیوائیڈ ہو جانے پر بچے برا مان جاتے ہیں مگر زایان اور سالک کا کیس الگ تھا۔۔ 

زایان کو پوری دنیا میں سالک سے زیادہ عزیز کوئی نا تھا۔۔ اور بڑے بھائی بہنوں کا بھی یہی حال تھا۔۔ وہ دنیا سے الگ تھا۔۔ 

اور دی جان کے بقول سب کے دماغ کا امتحان تھا۔۔ شروع سے ہی ہر کارنامے پر چونکا اور ڈرا دینے والا اور اپنی من مانی کرنے والا۔۔

اسے سب کی طرف سے ڈھیل ملتی تھی ۔ وہ کچھ بھی کر جاتا انہیں قبول تھا اور اس چیز کا سالک نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا۔۔ اور شاید اس کے معاملہ میں سب سے زیادہ نرم زایان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔۔۔

داجان جیسے رشتوں کو سوچ بچار کر جوڑنے والے انسان کو بیٹھے بیٹھے نکاح کروانے پر سالک ہی مجبور کر سکتا تھا مگر نانا اور ماں باپ کو سہی صدمہ پہنچا گیا تھا۔۔

       👉YamanEvaWrites👈

واصف بری طرح ناکامی کا سامنا کر رہا تھا۔۔

زایان نے اس کے شئیرز دو مزید نامی گرامی کمپنیز سے خرید لیے تھے۔۔ اور بدلے میں چند چھوٹی کمپنیز اس کے ہاتھ رہ گئی تھیں جن سے اس نے مرجنگ کی ہوئی تھی۔۔ 

اس نے جواباً زایان کی موسٹ سیلنگ کاسمیٹکس کے لیے جو ماڈل گرل تھی اسے خرید کر سکن خراب ہو جانے کی غلط نیوز پھیلا دی جسے زایان نے میڈیا کے سامنے فیک کہہ کر چیلنج دے دیا کہ ایک بھی اور ایسا کیس سامنے لایا جائے تو وہ مان جائے گا۔۔ اس وقت عین موقع پر واصف اور کسی کو ہائر نہیں کر سکتا تھا۔۔ 

پھر زایان نے سب کے سامنے واصف کا نام لےکر اسے اچھا خاصہ میڈیا کے سامنے ہی ذلیل کر دیا۔۔ واصف کا دوسرا پلان ناکام ہونے کے ساتھ اسی پر پلٹ آپا تھا۔ وہ اچھا خاصہ بد حواس ہو چکا تھا۔۔ مگر یہ طے تھا وہ جوابی کاروائی ضرور کرنے والا تھا مگر پرواہ کسے تھی۔۔۔

اس وقت زایان آفس میں بیٹھا تھا جب فارس اس کے آفس میں آیا۔۔ اسے دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی زایان کا موڈ آف ہوا تھا مگر وہ اپنے ایکسپریشن چھپا گیا۔۔۔

”تمہارا کام پر دھیان نہیں ہے فارس۔۔ تم نے کام بھی اپنی مرضی کا چنا ہے۔۔ تمہیں بس پراڈکٹس کے لیے جو سٹف یوز ہوتا ہے، اس کا ریکارڈ سیٹل کرنا ہوتا ہے۔۔ 

اور میں یہ تیسری مرتبہ غلط رپورٹ دیکھ رہا ہوں۔۔“ 

زایان نے اس کے بیٹھتے ہی ایک فائل سامنے رکھی۔۔

”یار کیا کروں گھر میں عجیب سی ٹینشن چل رہی ہے۔۔ میری چھوٹی کزن نے اپنی مرضی سے نکاح کر لیا ہے۔۔ کسی امریکی لڑکے سے جس کے نا خاندان کا پتہ ہے نا کردار کا۔۔ اور اس کا ایٹیٹیوڈ ایسے تھا جیسے کہیں کا پرنس۔۔“ فارس بنا سوچے سمجھے بولتا جا رہا تھا جب زایان نے ٹیبل پر ہاتھ مار کر اسے روکا۔ فارس نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا جس پر غصیلے تاثرات تھے۔۔ 

”وہ پرنس ہی ہے۔۔ وہ ہمارے گھر کا پرنس ہے۔۔ وہ میرا چھوٹا بھائی سالک ہے۔۔“ سالک کے نام پر فارس بھی ہڑبڑایا۔ اس کا زکر تو زایان کی ہر بات میں ہوتا تھا۔۔

”مجھے تو تمہاری گندی زبان پر حیرت ہو رہی ہے فارس تم ہر وقت اپنی کزنز کا زکر نیگیٹو ورڈنگ میں کرتے ہو وہ بھی میرے سامنے۔۔ ایک بالکل تیسرے بندے کے سامنے۔۔ شرم آنی چاہئیے تمہیں۔۔ 

میں نے اب تک برداشت کیا مگر اب نہیں پہلی بات تو تم بھائیوں کی بے حسی کی وجہ سے وہ معصوم اتنے گھٹیا شخص کا شکار بنی اور اب وہ ہمارے گھر کی عزت ہے۔۔ سالک کی وائف ہے۔۔ دوبارہ اس کے بارے میں اتنی گھٹیا بکواس مت کرنا۔۔

اور سالک کی ذات پر بولنے والے تم ہوتے کون ہو۔۔ تم آج اور ابھی اس جاب سے ریزائن دو۔۔ تم میری دوستی کے بھی لائق نہیں۔۔“  زایان کی برداشت اب جواب دے گئی تھی۔۔

 وہ سالک کی زات پر بول بیٹھا تھا اب تو معافی کی کوئی گنجائش بچتی ہی نا تھی۔۔ فارس لب بھنچ کر وہاں سے اٹھتا باہر نکل گیا۔۔ زایان نے بمشکل گہرے گہرے سانس بھر کر خود کو نارمل کیا۔۔۔

”ہالہ کیسے گھٹیا لوگوں میں پھنسی ہوئی ہو؟ میں کیا کروں۔۔ کیسے تمہیں اس جہنم سے نکالوں۔۔“ 

بالوں میں انگلیاں پھنسائے زایان کو اب بھی ہالہ کی فکر ستا رہی تھی۔۔ 

وہ تو اب اس سے کانٹیکٹ بھی نہیں کرتا تھا جتنا قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا اتنی دور ہوتی جا رہی تھی وہ۔۔ 

        👉YamanEvaWrites👈

سالک خادم صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ وہ بغور اسکا جائزہ لے رہے تھے۔۔ دیا بھی ایک طرف خاموشی سے بیٹھی تھی۔۔ ہالہ سالک کے لیے کوکنگ کرنے میں لگی تھی۔۔

سالک صوفے کی ٹیک لگائے سینے پر بازو باندھے بیٹھا تھا۔۔ چہرے پر تھوڑی سی بےزاری بھی تھی اور بابا کے یوں غور سے دیکھنے کی وجہ سےکچھ نروس سا بھی تھا۔۔

خادم صاحب کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آئی تھی۔۔ وہ کسی ”معصوم“ بچے جیسا لگ رہا تھا اس وقت۔۔ 

داجان نے کہا بھی تھا وہ ساتھ چلتے ہیں مگر اس نے صاف کہا۔۔ 

”یہ میٹنگ میرے لیے ارینج کی ہے تو میں ہی جاؤں گا، آپ لوگ نیکسٹ ٹائم جانا۔۔“  اب پچھتا رہا تھا۔۔

”بیٹا آپ بھی دیا کے ایج فیلو ہی لگ رہے ہو۔۔ تو دونوں کو ہی ایک دوسرے کی اچھی بری نیچر سے کمپرومائز کرنا پڑے گا۔۔ میں ویسے یقین سے کہہ سکتا ہوں میری بیٹی اچھی بیوی ثابت ہوگی فرماں بردار، عزت کرنے والی، ہر بات ماننے والی اور اب سے اجازت لے کر ہی ہر کام کرے گی۔۔“ بابا نے سالک کو بتانے کے ساتھ ساتھ دیا کو سمجھایا تھا۔۔ اشارہ دیا کہ ایسے ہی رہنا۔۔

”نو انکل یہ مجھ سے چھوٹی ہے۔۔ مگر یہ میری رسپیکٹ نہیں کرتی، بات ماننا اور پرمیشن لینا تو الگ۔۔ یہ جھوٹے الزام لگاتی ہے۔۔“ سالک نے بے مروتی کی حد کرتے ہوئے صاف صاف جواب دیا۔۔ 

خادم صاحب ایک پل کو تو اس کے اتنے اونیسٹ ہونے پر چپ سے ہوئے اور دیا کو دیکھا جو پوری سے زیادہ کھلی آنکھوں سے اس بد لحاظ کو دیکھ رہی تھی۔۔

نجانے وہ کونسے لڑکے ہوتے ہیں جو بیویوں کی باتیں چھپا جاتے ہیں ان کے گھر والوں سے۔۔ اس بندے نے تو ایک بات بھی راز میں نہیں رکھی تھی۔۔ دیا نے بابا کی شرم دلاتی نظروں پر سر جھکایا اور دانت پیسے۔۔۔

”آئیندہ ایسا نہیں کرے گی۔۔ آپ مجھے سمجھدار لگتے ہو بیٹا دوبارہ ایسے کرے بھی تو سمجھا لینا۔۔“ 

بابا نے نرمی سے سالک کو کہا۔۔ وہ سر ہلا گیا۔۔ 

ہالہ سالک کے سامنے چیزیں لا کر رکھنے لگی۔۔

جن میں بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو سالک کبھی نہیں کھاتا تھا۔۔۔ مگر اس نے ہالہ کا دل رکھنے کے لیے چکھا بھی اور تعریف بھی کی۔۔ 

یعنی سب کے لیے لحاظ تھا ایک دیا سے ہی مسئلہ تھا۔۔ 

اس کی ہالہ سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی شاید اس لیے کہ وہ دونوں ایج فیلوز تھے۔۔۔

ہالہ کو بھی وہ اچھا لگا تھا۔۔ وہ نہیں جانتی تھی سالک زایان کا کزن بھائی ہے نا دیا نے زکر کیا تھا۔۔

ہالہ سے چھوٹی موٹی باتیں کرتا وہ خادم صاحب کو مطمئین کر گیا تھا۔۔ ان سب کے درمیان دیا منہ پھلائے بیٹھی رہی مگر سالک کو پرواہ ہی نہیں تھی۔۔ اس کا غصہ دیا پر اب بھی کم نہیں ہو رہا تھا کیونکہ وہ اپنے کیے پر شرمندگی ظاہر کرنے کو تیار نا تھی۔۔

      👉YamanEvaWrites👈

”سر سالک اقیان نامی لڑکا آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔“ واصف کو انٹرکام پر ریسیپشن گرل نے اطلاع دی تو وہ چونکا۔۔ سالک اقیان؟

وہ اس نام کے کسی انسان کو نہیں جانتا تھا مگر کچھ سوچ کر اندر بھیجنے کا کہا۔۔۔

سالک جو سینے پر ہاتھ باندھے ریسیپشن ڈیسک پر ہی کھڑا تھا لڑکی کے ساتھ اس کے آفس کی طرف چل پڑا۔۔

اس کے بھاییوں کو پتہ تک نہیں تھا وہ کہاں ہے۔۔ اگر اندازہ ہو جاتا تو کبھی نا آنے دیتے۔۔ وہ سالک کو کسی مشکل میں پھنسنے نہیں دے سکتے تھے مگر سالک پہلے کب کچھ پوچھ کر کرتا تھا جو آج کرتا۔۔ 

مزے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور اسے دیکھ کر واصف کھٹکا۔۔

یہ تو وہی لڑکا ہے۔۔ خان فیملی کا سب سے چھوٹا بیٹا۔۔ یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟

اسے سالک کا اس طرح آجانے کا مقصد سمجھ نہیں آیا تھا مگر اچھا ہی ہوا کہ وہ آ گیا۔۔

حساب چکانے کا موقع مل گیا تھا۔۔۔

👇👇👇👇👇👇 

سالک آ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔۔ اس کے اعتماد اور دیدہ دلیری پر واصف نے بغور اسکا جائزہ لیا۔۔ بلو جینز پر سکائے بلو ڈریس شرٹ پہنی ہوئی تھی جو اس کی سفید برف سی رنگت پر کھِل رہی تھی۔۔ شرٹ کا اوپر کا ایک بٹن کھلا تھا، ماتھے پر گولڈن براؤن بال پھیلے تھے۔۔ سیاہ آنکھوں سے وہ اس کے سارے آفس پر نظر گھما رہا تھا جیسے اسی کام کے لیے آیا ہو۔۔ 

اس لڑکے کی شکل معصوم تھی جیسے لاڈوں پلا بچہ جسے کوئی لڑائی جھگڑا نا آتا ہو۔۔ ہاں آنکھوں سے زہانت ٹپک رہی تھی۔۔ مطلب آسان کیس تھا۔۔ واصف مسکرایا۔۔۔

” تو تم خان فیملی کے چھوٹے لڑکے ہو جسے دنیا سے چھپا رکھا ہے انہوں نے۔۔“ واصف نے انٹرکام پر ریفریشمنٹ کا آرڈر دیا۔۔

”Everyon wants to keep their precious things hidden.. were you surprised??

(ہر کوئی اپنی قیمتی چیز چھپانا کر رکھنا چاہتا ہے۔۔ کیا تم حیران ہوئے تھے۔۔؟) 

سالک نے بولتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔۔

”تم اس لڑکی دیالہ کو کتنا جانتے ہو؟ اس نے مجھ سے لون لیا اور میرے ساتھ۔۔“ اس پہلے کہ واصف کوئی بکواس کرتا یا دیا پر الزام لگاتا ایک لڑکی ٹرالی گھسیٹتی آفس میں داخل ہوئی۔۔ وہ چپ ہو گیا۔۔ سالک کی گلابی پڑتی آنکھیں اس پر ٹک گئی تھیں۔۔ 

لڑکی نے کافی کا کپ اٹھا کر واصف کے آگے کیا تو اس کے ہاتھ سے کپ پھسلا اور گرتے گرتے بچا۔۔ مگر اچھی خاصی کافی چھلک کر اس کی سفید شرٹ کو داغدار کر گئی۔۔ 

”what the hell rubbish.. get out.."

واصف غصے سے دھاڑا تو لڑکی باہر بھاگی۔۔ 

"You should change..don'ya have extra..

(تمہیں(شرٹ) بدل لینی چاہیے کیا تمہارے پاس اضافی شرٹ نہیں ہے۔۔؟) 

سالک نے مفت مشورہ دیا۔ واصف بےزار ہوتا آفس کے سائیڈ پر ایک کمرے میں گیا۔۔ شرٹ چینج کرنے سے پہلے اسے گرم کافی سے جلا سینہ صاف کر کے میڈیسن بھی یوز کرنا تھی، یہ ٹائم بہت تھا سالک کے لیے۔۔ 

سالک نے اٹھ کر سامنے پڑے واصف کے لیپ ٹاپ میں اپنا کوڈ ڈالا اور سسٹم ہیک کر لیا۔۔ یہ ہیکنگ اس نے لندن اپنے نیبرہوڈ لڑکے سے سیکھ لی تھی۔۔

پھر یہاں وہاں نظر دوڑائی۔۔ قدم بڑھا کر سٹنگ ایریا کے بالکل سامنے کھڑے ایک ڈیکوریشن پیس مجسمہ کا جائزہ لیا۔۔ اور اس کے جھکے سر پر بنے بالوں کے ڈیزائن پر ایک چھوٹا کیمرہ اس طرح چھپایا کہ بہت قریب سے غور کرنے پر لینز نظر آ رہا تھا۔۔ سالک مطمئین ہو گیا اور اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔۔

واصف باہر آ گیا تھا۔۔ اب اسے واصف کے آنے پر کچھ باتیں کر کے ایکسکیوز کر کے نکل جانا تھا۔ اس کا کام ہو چکا تھا۔۔

       👈YamanEvaWrites👉 

سالک کی فیملی اور نانا آ چکے تھے اور آج کچھ بڑے۔۔ دیا کے گھر باقاعدہ شادی کرنے کی بات ڈسکس کرنے گئے ہوئے تھے۔۔

 سنڈے تھا تو سب لڑکے گھر پر تھے۔۔۔ 

بچے برنچ (بریک فسٹ اور لنچ کے درمیان ہلکا پھلکا کھانا) لیے سائیڈ پر ایک کمرے میں ایل ای ڈی پر کارٹون مووی دیکھ رہے تھے۔۔ 

سالک سب بڑے بھائیوں کے درمیان صوفے پر نیم دراز واصف کا ہیک کیا سارا سسٹم چھان رہا تھا۔۔ اس کی ایک ایک ای میلز۔۔ اس کی بزنس ڈیٹیلز۔۔ اس کے پرسنل اکاؤنٹس تک۔۔

”ہمارا پرنس تو زایان سے بھی تیز نکلا۔۔ شادی کروا بیٹھے گا چند دنوں میں۔۔“ صیام نے سالک کے بال بکھیرتے ہوئے کہا۔۔

”ڈی سے زیادہ تو اس کی بہن ہیلے اچھی ہے۔۔“  سالک اچانک بولا۔ زایان نے اسے دیکھا، کیا مقصد تھا اس کی بات کا۔۔۔

”وہ میری ایج فیلو بھی ہے۔۔“ اگلی بات نے زایان کو گڑبڑ کا احساس دلایا۔۔ 

”تم نے اپنی ڈی سے نکاح کرلیا ہے اب ایسی باتیں نہیں کرو پاگل لڑکے۔۔“ ریان نے اسے چپ کروانا چاہا۔۔ 

”وہ سنگل نہیں ہے اس کا بھی نکاح ہے میری شادی پر۔۔“ سالک کو بس یہ بتانا تھا؟

زایان کے تو ارد گرد دھماکے ہونے لگے۔۔ نکاح ہالہ کا۔۔؟ فارس سے رابطہ ختم ہونے کی وجہ سے اسے پتہ نہیں چلا تھا۔۔

” میں ہیلے کا بتا رہا ہوں آپ سن رہے ہیں زایان بی۔۔؟“ سالک نے اسے پھر سے متوجہ کیا۔۔ سب نے اسے حیرت سے دیکھا وہ زایان کو کیوں بتا رہا ہے۔۔۔

”تم اسے کیوں بتا رہے ہو۔۔۔ 

تمہارے زایان بی کو ایک ہی لڑکی کا صدمہ کھا گیا ہے۔۔ 

تم اس کے سامنے اپنی عزہ بھابھی کی بات کیا کرو۔۔ 

زایان تم نے عزہ کو نہیں ملوایا سالک سے۔۔“

وہ سب پھر سے شروع ہو چکے تھے زایان نے ماتھے پر بل ڈال کر سب کو گھورا۔۔ 

سالک سنجیدگی سے زایان کو دیکھنے لگا۔۔

”اس دن ڈی کے گھر سے نکلا تو ڈی کا کزن فارس ملا مجھے۔۔ اس نے کہا تم کزنز کو بس میری کزنز ملی تھیں۔۔ پہلے زایان اب تم۔۔ وہ میرے بھائی کی منگیتر چھیننا چاہتا ہے تم نے میری منگیتر چھین لی۔۔“  سالک نے حرف بہ حرف فارس کی بات سنا ڈالی۔۔

زایان کے جبڑے فارس کی بے غیرتی پر بھینچ گئے تھے۔۔

”واٹ وہ فارس کی کزن ہے۔۔۔

تو مطلب وہ سالک کی سسٹر ان لا ہے؟

زایان تم اس لڑکی کو پسند کرتے ہو ؟

تو یہ تھے فارس سے ملاقاتوں کے راز؟

ان کے تابڑ توڑ سوالات پر زایان نے بے چارگی سے سالک کو دیکھا جو معصومیت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

”او میرے کیوٹ جن۔۔ مجھ سے اکیلے میں بھی بات کر سکتے تھے ہو۔۔“  زایان نے آہستگی سے کہتے اسے مزید بولنے سے باز رکھنا چاہا۔۔

”میں نے اس سے کہا زایان خان تمہارے بھائی کا نکاح رکوا بھی سکتا ہے، تُڑوا بھی سکتا ہے۔۔“ سالک کے اگلے جملے نے سب کو قہقہہ لگانے پر مجبور کیا جبکہ زایان کا منہ کھل گیا۔۔

”واہ ہمارے ٹائیگر۔۔۔ سیکھو اس سے زایان تم تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہو۔۔ تمہارے حصے کی دھمکی تک چھوٹے نے دے ڈالی۔۔ اب تو ہمت پکڑو۔۔“  وہ سب اسے غیرت دلاتے سالک کے بال بکھیر رہے تھے یہ ان کا پیار کا اظہار تھا سالک کے بال بگاڑنا۔۔ 

”مجھے زبردستی نہیں کرنی، منا کر لینا ہے اسے۔۔ وہ پہلے ہی مجھ سے بری طرح ناراض ہو چکی ہے۔۔ میری ایک غلطی کی وجہ سے۔۔“  زایان نے سنجیدگی سے کہا۔۔ سالک نے کندھے اچکائے۔۔ باقیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ 

”او۔کے میٹنگ ارینج کروا دیتے ہیں ۔“ سب فل فام میں آگئے تھے۔ زایان نے جوش و جذبات سے سالک کو گلے سے لگا کر اس کے گال پر کِس کی۔۔ وہی تو تھا جس نے ہالہ کے نکاح کی خبر دی تھی۔۔ سالک پیچھے ہوا اور دوسرا گال بھی آگے کیا۔۔ سب ہنس پڑے سالک بچپن سے ہی ایسا کرتا تھا۔۔۔ وہ بھائیوں کے لیے بدلا ہی نہیں تھا۔۔

        👈YamanEvaWrites👉

ان کے پلان کے مطابق سالک نے خادم بابا (ان کی فرمائش پر وہ یہی بلاتا تھا اب) کو کال کر کے ہالہ اور دیا کو مال میں بھیجنے کا کہا کہ وہ ان دونوں کے برائیڈل ڈریس خود لینا چاہتا ہے۔۔ وہ مان گئے تھے سالک کا مرضی کرنے اور بات منوانے کا انداز انہیں بہت بھاتا تھا جیسے سالک ان کی بیٹے کی حسرت کی تسکین تھا۔۔۔

سالک اور زایان مال پہنچے۔۔

”زایان بی آپ ہیلے سے بات کر کے مجھے میسج کر دینا۔۔ میں ابھی ڈی کو لے کر سائیڈ پر ہو جاؤں گا۔۔ “ سالک نے گاڑی سے نکلتے ہوئے کہا۔۔ زایان نے او۔کے کہہ کر اس کے ساتھ قدم بڑھائے۔۔ وہ دونوں ان کی بتائی جگہ پر کھڑی تھیں۔۔ سالک ہالہ سے ملا، حال احوال پوچھا اور ایکسکیوز کرتا دیا کا ہاتھ پکڑے دوسری طرف چل پڑا۔۔ دیا اس کی حرکت پر بری طرح کنفیوز ہوئی۔۔ ہالہ نے ہنس کر نفی میں سر ہلایا اور پیچھے مڑی۔۔

زایان عین اس کے پیچھے ہی سینے پر ہاتھ باندھے سنجیدہ سا کھڑا تھا۔۔

ایش گرے تھری پیس۔۔ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کیے شرٹ کا اوپر والا ایک بٹن کھلا تھا۔۔

بازو تھوڑے پیچھے کیے ہوئے تھے۔۔ بال تھوڑے تھوڑے ماتھے پر آ رہے تھے۔۔ چہرے پر ہلکی ہلکی تھکن اور حلیہ بتا رہا تھا کہ وہ آفس سے سیدھا یہاں آیا ہے۔۔ پر کیوں۔۔؟

”مجھ سے بات کیے بنا آگے نکل جاؤ اور اپنا کام کرو۔۔“  ہالہ نے رخ پھیر کر اسے وارن کیا تھا۔۔۔ زایان مسکرایا اور اس کے سامنے آیا۔۔

”اپنا کام ہی کر رہا ہوں۔۔ تم سے پوچھنے آیا ہوں۔۔ کیا تم واقعی شادی کر رہی ہو ہالہ۔۔؟“ سوال کرتے ہوئے اس کے لہجے میں اداسی اتر آئی تھی۔۔ ہالہ کا دماغ گھوم گیا۔۔

”فارس بھائی نے بتا دیا ناں، نہایت گھٹیا حرکت ہے یہ۔۔ میں نکاح کروں یا شادی۔۔ میرا مسئلہ ہے۔۔“ ہالہ نے بے رخی سے جواب دیا۔۔

”فارس نے نہیں بتایا۔۔ اسے تو میں جاب سے بھی نکال چکا ہوں۔۔“  اس کی بات پر ہالہ چونکی۔۔  ”اچھا کیا۔“ دل میں داد دی۔۔ پھر سر جھٹک کر ڈریسز دیکھنے لگی۔۔

”ہالہ۔۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں پلیز تم وہاں انکار کردو۔۔ “ زایان نے دوٹوک بات شروع کی۔۔

”تمہارا دماغ خراب ہے ؟ میرا نکاح طے ہو چکا ہے۔۔ اور میں تمہارے لیے کیوں انکار کر دوں۔۔ ہو کون تم۔۔؟“ ہالہ کو اس کی بات سخت ناگوار گزری تھی۔۔

”میں اب کچھ نہیں اس لیے سب کچھ بننا چاہتا ہوں۔۔ اور تم ان بے حس لوگوں میں شادی کرنے کو تیار ہو۔۔؟ بھول گئی ہو پچھلے دنوں ہی وہ لوگ تم بہنوں کی مدد کیے بنا بے حس بنے رہے۔۔ ان کی وجہ سے تمہاری بہن اتنی سی ایج میں اتنے گھٹیا بندے کے جال میں پھنسی۔۔ اگر وہ اس انسان کے چنگل سے نا نکل پاتی پھر؟ انہوں نے تمہیں ایک وارث کی طرح سنبھالا تک نہیں۔۔ تم اس بے ضمیر انسان سے شادی کرو گی ہالہ۔۔؟“ زایان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف رخ موڑا۔۔

ہالہ نے لب بھینچے۔۔ یہ باتیں وہ کہاں بھول سکتی تھی مگر یاد رکھ کر بھی ازیت کے علاوہ کچھ نہیں ملتا تھا۔۔ اس نے بازو چھڑوایا اور نم آنکھیں چھپائیں۔۔

”ہاں کروں گی نکاح۔۔ کیونکہ یہ رشتہ میرے باپ نے جوڑا ہے ان کا مان نہیں توڑ سکتی اور اگر میں یہ سب سوچ کر انکار کر بھی دوں تو ہمارے بابا اکیلے رہ جائیں گے۔۔ 

میں ساری زندگی شادی کے بغیر ان کے پاس گزار سکتی ہوں مگر بابا نہیں کر سکتے ایسا اور ایک وہی گھر ہے جہاں میں اپنے بابا کے قریب ہوں گی۔۔ ان کا خیال رکھ سکوں گی۔۔ اس لیے تم جاؤ اور مجھے تنگ مت کرو۔۔ پتہ نہیں کیسے ہمارے گھر کی ہر بات پتا کروا لیتے ہو۔۔“ ہالہ نے سختی سے کہتے ہوئے اسے گھورا۔۔ وہ بےبسی سے لب کاٹنے لگا۔۔

”اگر یہی بات ہے تو۔۔ میں بھی تمہیں ان سے الگ نہیں کروں گا۔۔ ان کے پاس رہنا۔۔ جب  تک چاہو گی منع نہیں کروں گا۔۔“ زایان نے اس کے رخ پھیرنے پر پھر سے سامنے آ کر کہا۔۔

” یہ پہلے کی باتیں ہیں۔۔ بعد میں یہی کہنے والے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اور تم تو شکل سے ہی بے ایمان لگتے ہو۔۔“ ہالہ نے رکھائی سے کہا، زایان نے ضبط کیا۔۔ 

” وہ اکرام جتنا فرشتہ لگ رہا ہے ناں پچھتاؤ گی تم بھی۔۔“ زایان کے کہنے پر اس کی آنکھیں پھیلیں۔۔

” ہالہ آئی سوئیر میں اپنے کہے پر قائم رہوں گا۔۔ تمہارے بابا کو بھی ہم اپنے ساتھ رکھ لیں گے ناں۔۔“  زایان نے اسے یقین دلایا۔

”میرے بابا ایسا کبھی نہیں کریں گے۔۔۔ وہ خود دار ہیں اور ان کی خود داری کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتی۔۔“ 

ہالہ نے جیسے ہر پہلو پر غور کیا ہوا تھا۔۔

”او۔کے تو میں شفٹ ہو جاؤں گا تمہارے ساتھ۔۔ تم بس شادی کر لو جیسے چاہو گی ویسے رہنا۔۔ تم مجھ سے کوئی بھی گارنٹی لے لو نہیں مُکروں گا۔۔“ زایان نے اس کا ہر اعتراض رد کر کے التجائیہ لہجے میں کہا۔۔ ہالہ کی تو آنکھیں کھلی رہ گئیں۔۔ 

”تم۔۔۔ تم پاگل تو نہیں ہو۔۔؟ میں اپنے باپ کو اب انکار کر کے پورے خاندان کے سامنے شرمندہ کرواؤں۔۔؟ مجھے کوئی اعتراض نہیں اس شادی پر اور نا ہی میں کسی بھی قسم کا رسک لے سکتی ہوں۔۔ 

پہلے ہی وہ دیا کی وجہ سے اچھے خاصے ہرٹ ہوئے ہیں۔۔ اب میں بالکل بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرنے والی۔۔ تم کیا جانو ایک باپ کا بیٹی پر مان ہو اور بیٹی وہ مان توڑ دے تو باپ چاہے ساری عمر مسکراتے رہیں۔۔ معاف کر دیں مگر ان کے دل سے وہ درد نہیں جاتا۔۔ میں اتنی سیلفش نہیں ہوں کہ اپنا سوچ لوں اور پھر میرا باپ اس حال میں خاندان کے ایک ایک انسان کو وضاحتیں دیتا پھرے۔۔ 

اور تائی جان کا کیا انہوں نے اپنی بیٹیوں کی طرح پالا ہے اس سب مشکل وقت میں ہمارے لیے بیٹوں سے بھی لڑتی رہیں اور میں ان کے گھر کی پہلی خوشی تباہ کر دوں؟ ایسے تو یہ بات سچ ہو جائے گی کہ پرائی بیٹی تھی اس لیے ان کا اعتبار توڑا۔۔ بالکل نہیں۔۔“ 

ہالہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا پھنسا تھا۔۔ بولتے بولتے آواز بھرا گئی تھی۔۔

اسے ہر ایک کا احساس تھا اسے سب رشتوں کی قدر تھی اس نے اپنے علاوہ ہر ایک کا سوچا تھا۔۔ زایان اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔ 

کچھ بچا ہی نہیں تھا بولنے کو۔۔ وہ کتنا سچ بولی تھی۔۔ وہ محبتوں اور مان کے وزن میں دبی تھی۔۔ زایان اُس سے مزید بحث کر کے اسے اور ازیت نہیں دے سکتا تھا۔۔ 

کیا تھی یہ بہنیں۔۔ ایک نے باپ کی خاطر اپنی زات تک بھلا دی، اتنے رسک لیے۔۔ عزت تک کی پرواہ نہیں کی اور اپنی زات پر سوال کرنے والے اور انگلیاں اٹھانے والوں کے سامنے بھی سر جھکائے رہی کہ وہ جانتی تھی وہ غلط کر گئی مگر بیٹی تھی مجبور تھی، باپ کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔۔

دوسری اپنی پوری زندگی رشتوں کے مان پر قربان کرنے کو تیار تھی۔۔

زایان نے ہالہ کو بے بسی سے دیکھا جو اپنے آنسو ضبط کیے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔۔ کاش وہ اس چھوٹی لڑکی کا بوجھ بانٹ سکتا۔۔ کاش وہ اسے ان سب فکروں سے آزاد۔۔ خوشیوں بھری زندگی دے پاتا۔۔۔ کاش!

”ہالہ زندگی کے کسی موڑ پر یہ سب سہتے سہتے تھک جاؤ یا ہمت جواب دے جائے تو پلٹ آنا۔۔ میں یہیں ملوں گا تمہارا انتظار کرتے ہوئے۔۔ میں تمہاری لمبی مسافت کی سب تھکن اتار دوں گا۔۔ بس مجھ پر یقین کرکے دیکھنا۔۔“  زایان نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور فوری چھوڑ دیا۔۔ وہ سر جھکائے کھڑی رہی۔۔

      👈👈-------->>>>>>> 

دیا سالک کے ساتھ شاپنگ مال کے ایک طرف فوڈ کارنر میں بیٹھی تھی۔۔ سالک اسے یہاں لا کر اب موبائل پر مصروف تھا۔۔ دیا کی الجھی نظریں اس پر جمی تھیں۔۔

اسے دیکھ کر اپنے خواب یاد آئے۔۔ اس کی وہ بے تابی، بے چینی اور جنون یاد آیا۔۔ کیا ایسا کبھی ہو سکتا ہے۔۔۔؟

”سالک۔۔۔ تم سے ایک بات پوچھوں۔۔؟“ دیا نے جھجھک کر اسے پکارا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔۔ اور ہاں میں سر ہلایا۔۔

”جب۔۔ میں تمہارے گھر تھی۔۔ اس ایکسیڈنٹ کے بعد۔۔ تم میرے پاس آئے تھے کمرے میں۔۔“ دیا اپنی کڈنیپنگ کا زکر کر رہی تھی وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔

”تمہارے ہاتھ پر بینڈیج کیوں تھی؟ مطلب وہ چوٹ کیسے لگی تھی۔۔؟“  اپنے خوابوں پر اس نے ہر لمحہ کو سوچا تھا۔۔

(جوزف کو پاگلوں کی طرح مارتے اس نے ہاتھ زخمی کیا تھا، وہ بینڈیج۔۔ تب دیا نے توجہ نہیں دی۔۔) 

”اس رات کلب میں کسی سے لڑنے پر ہاتھ پر کانچ لگ گیا تھا۔۔“  اگر دیا جھوٹے الزام لگانے میں ماہر تھی تو سالک بھی جھوٹی کہانیاں بنانے میں ماسٹر تھا پورا۔۔

”میں ایک پورا دن گم رہی۔۔ تم نے مجھے سرچ کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔؟“ دیا نے بگڑے موڈ سے اس برف کے مجسمے کو گھورا۔۔

”اور میں کیوں کرتا سرچ۔۔۔؟ مجھے کیا پتہ تھا تم لاپتہ ہو۔۔“ سالک نے لاپروائی سے کندھے اچکائے۔۔ وہ مزید بگڑ گئی۔۔

”تم نے مجھے کسی کے کہنے پر کالج میں زلیل کیا اور اب نکاح کس کے کہنے پر کیا ہے۔۔ یہ بھی بتا دو۔۔“  وہ اسے سرد نظروں سے گھور رہی تھی، سالک نے ابرو چڑھائے۔۔

”اور کتنا زلیل کیا؟ تمہارا پردہ، تمہارا کانفیڈینس تمہیں لوٹایا۔۔ اس لڑکے سے بچایا جو ”زلیل“ کر رہا تھا۔۔ اگر یہ زلیل کرنا ہے تو سوری بہت غلط کیا۔۔“ سالک نے اپنا احسان گنوایا۔۔ وہ احسان بھولنے نہیں دیتا تھا کسی کو مگر جو اس نے دیا کی ”محبت“ میں کیا وہ بتانا نہیں چاہتا تھا۔۔ وہ اپنی ”محبت“ کا ابھی زکر ہی نہیں چاہتا تھا۔۔

”پھر مجھ سے نکاح کیوں کیا؟“ دیا کی سوئی نکاح پر اٹکی تھی۔۔

”ریزن بتا چکا ہوں۔۔“ سالک نے یاد دلایا۔۔

”وہ ایک فضول بات تھی۔۔ سکون کے لیے؟ کیا مطلب؟“ 

اور اس کی کم عقلی پر سالک کا جی چاہا کوئی بھاری چیز اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے۔۔ 

”بےوقوف لڑکی۔۔“ وہ بڑبڑایا۔۔

”اوہ تو بدلہ لینا چاہتے ہو۔۔ بدلے کی تسکین کے لیے۔۔ یہی بات ہے ناں۔۔؟“ وہ واقعی اس معاملہ میں زیرو تھی۔۔ سالک نے نفی میں سر ہلایا اور نچلا لب دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ دبائی۔۔ 

” میں تمہارا شکار نہیں بننے والی۔۔ مجھے طلاق دو۔۔“ دیا کی اگلی بات پر اسے جھٹکا لگا اور اس نے اتنی سختی سے دیا کو دیکھا کہ ایک پل کو وہ بھی گھبرا گئی۔۔

”تمہیں پتہ ہے اگر میں نے ڈیوورس دی تو کیا ہوگا تمہارا۔۔“ سالک نے خود پر ضبط کر کے پوچھا اور ٹیبل پر آگے ہو کر اس کی طرف جھک کر ابرو چڑھائی۔۔

”میں ایجوکیشن کمپلیٹ کروں گی۔۔ جاب کروں گی۔۔بابا کے پاس رہوں گی۔۔ انہیں کوئی کام نہیں کرنے دوں گی۔۔“ دیا کے دل میں بھی کہیں ہالہ والی خواہشیں چھپی تھیں۔۔

”نہیں۔۔۔ تمہاری شادی تمہارے کزن فارس سے ہوجائے گی۔۔ اور وہ تمہاری من مانیوں کے سارے بدلے لے گا۔۔“ سالک نے نفی میں سر ہلایا اور اطمینان سے اسے بتایا۔۔

” تمہیں ایسا فارس بھائی نے کہا۔۔؟“ دیا کی آنکھیں خوف سے پھیلیں۔۔ 

”yess he even asked me if i want to divorce'ya.. he'll be waiting foh ya.."

(ہاں حتٰی کہ اس نے مجھ سے پوچھا۔۔ میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہوں وہ انتظار کرے گا۔۔) 

سالک نے دو کی چار لگائیں۔۔ 

”دیکھو تم مجھے ڈیوورس بالکل مت دینا۔۔ ان کے کہنے پر تو بالکل بالکل نہیں۔۔ تم میرے جیسی لڑکی کو چھوڑ کر فل لائف ریگریٹ کرو گے اور تم۔۔۔ تم مجھے ڈھونڈتے رہو گے ہر جگہ۔۔“  دیا نے فوری بات بدلی۔۔ اگر فارس نامی بلا سے شادی کرنی پڑے تو سالک اس سے تو کافی بہتر آپشن تھا۔۔ 

”You're helpless Diana.."

سالک نے ہنسی دبا کر کہا۔ تبھی اسے زایان کا میسج ملا وہ کیب کر کے آفس جا چکا تھا۔۔ سالک اٹھ کھڑا ہوا۔۔ 

” آؤ تم دونوں کو گھر ڈراپ کر دوں۔۔ ڈریسز مام آرڈر پر ریڈی کروا رہی ہیں۔۔ ایک دو دن تک بھیج دیں گی۔۔“ 

سالک نے دیا کو چلنے کا اشارہ دیا اور قدم ہالہ کی طرف بڑھا دئیے۔۔

دیا اور ہالہ اپنے کمرے میں تھیں۔۔ گھر میں مہمان جمع ہو چکے تھے دیا کی آج مہندی تھی۔۔ اور اس وقت لائم یلو پلین پیروں کو چھوتی فراک میں اس کی گلابی رنگت چمک رہی تھی۔۔ آج ہی خاندان والوں کے درمیان اس کا اور ہالہ کا باقاعدہ نکاح ہوچکا تھا۔۔ 

وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر لیٹی تھیں۔۔ 

”ہالہ تم اپنے نکاح سے خوش ہو؟“ دیا نے سر موڑ کر ہالہ کو دیکھا جو چھت کو گھور رہی تھی، اس کی آواز پر چونکی۔

” تم نے بابا کو دیکھا تھا دیا۔۔؟ وہ کتنے خوش تھے انہیں دیکھ کر میری ساری فکریں جیسے غایب ہو گئیں۔۔“ 

وہ مسکرائی۔۔

”ہالہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا میری بھی رخصتی ڈیلے کر دی جائے؟۔۔ میں تم سے بھی چھوٹی ہوں۔۔“ دیا کو نجانے کیا گھبراہٹ تھی۔۔

” تائی امی نے تو بابا کی خاطر صرف نکاح پر حامی بھر لی، تمہارا سسرال یہ کبھی نا کرتا۔۔ یہی فرق ہوتا ہے اپنے اور پرائے میں۔۔“ ہالہ کی بات نے دیا کا موڈ آف کر دیا۔۔

”کچھ وقت پہلے ہی اپنے پرائے کا فرق بہت اچھے سے جان چکی ہوں ہالہ۔۔ ان اپنوں نے ہاتھ جھاڑ لیے تھے اور جب میں نے پیسوں کا انتظام کیا تو سوال کرنے آ گئے۔۔ اور وہ غیروں نے کھڑے کھڑے میری جگہ قرض لوٹایا اور جانتی ہو کس نے دیا وہ قرض۔۔؟“ دیا نے چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔

”سالک نے۔۔“  ہالہ نے خود سے جواب دیا۔۔

”نہیں۔۔ زایان بھایی نے۔۔ فارس بھائی کے فرینڈ زایان خان۔۔ جن کا تم کہتی تھی کہ لوفر ہے۔۔“ دیا نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔ ہالہ ایک پل کو اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔

”اس کا یہاں کیا زکر۔۔؟“ ہالہ کی حیرت دوگنی ہو چکی تھی۔۔

”وہ سالک کے بڑے بھائی ہیں اور آج وہ اتنے اہم دن پر نہیں آ سکے، صرف تمہاری وجہ سے۔۔“ دیا کے الفاظ پر ہالہ خاموش ہو گئی۔۔

” مجھے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔۔ اچھی لڑکیاں باپ کے فیصلے پر یقین رکھتی ہیں۔۔“ ہالہ نے سنجیدگی سے کہا۔

”ہم کوشش بھی کر سکتے تھے۔۔ تم نے مجھے بابا سے بات کرنے نہیں دی۔۔“ ہالہ کو مسلسل افسوس کھا رہا تھا۔ ہالہ اب بھی چپ تھی، دیا سمجھ دار ہوتی تو بگڑا کیا تھا۔۔

سالک نے آج جب دیا کو رُوڈلی کہا۔۔ 

”تم بہنیں اسی لائق ہو جب کبھی مجبوری میں ہاتھ آؤ بندہ نکاح کر لے۔۔ مگر زایان بی بہت (calm) ہیں اس معاملہ میں۔۔ ان کی محبت کی ڈیفینیشن ہی الگ ہے۔۔ خود کو ختم کر لیں گے مگر فورس نہیں کریں گے ہیلے کو۔۔“ 

دیا کو تب سے مرچیں لگی ہوئی تھیں۔۔ 

اس نے یہی الفاظ ہالہ کو بتائے تو وہ ہنس پڑی تھی۔۔ 

”دیا سالک کتنا کیوٹ لگتا ہے کبھی کبھی۔۔“ اسے زایان کی بات سے فرق نہیں پڑا تھا، اس کی ساری توجہ سالک پر تھی۔۔ دیا کو سخت زہر لگی تھی وہ اس وقت۔۔

وہ پاگل سمجھ ہی نہیں سکتی تھی اگر وہ زایان کا احساس کر لے تو آج ہی جڑنے والے رشتے میں خیانت نا ہو جائے گی۔۔

اور رشتوں کے معاملے میں ہالہ ہمیشہ خالص تھی۔ اسے ملاوٹ کرنا نہیں آتی تھی۔۔

دیا کو جب اس کی لمبی خاموشی پر لگا، وہ سو گئی ہے۔۔ وہ رخ دیوار کی طرف کیے گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔۔ ہالہ کی قسمت اتنی بری کیوں تھی اور وہ اتنی ناکارہ کیوں کہ اس کے لیے کچھ بھی نا کر پائی تھی۔۔

اس کے سیل پر سالک کی کال آ رہی تھی۔۔ اس نے غصے سے اٹینڈ کی۔۔

”اور کچھ رہ گیا تھا کہنے کو۔۔؟ اور تم مجھے پہلے نہیں بتا سکتے تھے زایان بھائی کا۔۔؟“  دیا کو سخت تپ چڑھی تھی اس پر۔۔

”سوری مجھے بہت لیٹ احساس ہوا تم عقل سے فارغ ہو۔۔ تمہاری سمجھداری اب تو کھلنے لگی ہے میرے سامنے۔۔“ سالک نے بھی نرم لہجے میں ٹکا کر طعنہ مارا۔۔

”یہی طنز کرنے کے لیے کال کی تھی۔۔؟“ اپنی باری آئی تو وہ الٹا اسے جتانے لگی۔۔

”نہیں مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے۔۔“  سالک کی بات پر دیا نے منہ بنایا۔۔ یہ بھی تو کہہ سکتا تھا۔۔ مس کر رہا ہوں یا یہ کہ تمہیں دیکھنے کا دل کر رہا ہے وغیرہ۔۔۔

”پہلے مجھے بتاؤ تم نے امریکہ میں میرے ساتھ وہ سب کس کے کہنے پر کیا۔۔ گرل فرینڈ کہنا پھر مکرنا پھر بوکے دینا وہ سب۔۔“  دیا نے دل میں گڑا سوال کیا۔۔ 

”میری کزن اسمارہ نے مجھے تمہارا بتایا تھا۔۔  اس نے کہا تم رُوڈ، ایروگینٹ اور پراؤڈی لڑکی ہو۔۔ اور تم نے اسے کالج میں ٹف ٹائم دیا ہے سو میں تمہیں امیرکہ آنے پر ریگریٹ کرواؤں۔۔“  دیا کا پارہ اسمارہ کا نام سن کر ہی آسمان کو پہنچا تھا۔۔ 

“But let it be.. I knew you are not that girl.. so close the topic..”

(لیکن یہ بات جانے دو۔۔ میں جانتا ہوں تم ویسی نہیں اس لیے یہ ٹاپک ختم کرو۔۔)

سالک نے اس کے بولنے سے پہلے ہی اس بات کو ختم کرنے کا کہا۔۔

”اب پتا چلے گا اسمارہ کو جب اس کی گیم الٹ گئی اور تم مجھ پر بری طرح فدا ہو گئے۔۔“ دیا نے چسکہ لیتے ہوئے کہا۔

”ایکسکیوزمی ڈیانہ۔۔ میں تم پر ”فدا“ ٹائپ کچھ فیل نہیں کرتا۔۔ میں جو پوچھوں اس بات کا جواب دو۔۔ اور زرا خواب سے بھی جاگو۔۔“ سالک نے اس کی ساری خوشی پر پانی پھیر دیا۔۔ 

”پھر پوچھو جلدی مجھے نیند آرہی ہے۔۔“ دیا نے اس کے یوں مُکر جانے پر دانت پیس کر کہا۔۔۔ سالک نے ہنسی دبائی۔۔

”کیا تم اس ریلیشن سے خوش ہو۔۔ ہمارے نکاح سے۔۔؟“ آج دوسری مرتبہ نکاح۔۔ ری میرج کر لینے کے بعد اسے یہ خیال آیا تھا۔۔ دیا نے شاباش دی تھی اس کی ”فکر“ کو۔۔۔

”اب کیسے یاد آ گیا؟“ دیا نے پوچھا۔۔

” راسم بی نے ایک بار کہا تھا مجھے تم سے یوں پوچھنا چاہئیے کیونکہ عام طور پر لڑکی زبردستی بنائے رشتے کو قبول کرنے میں اتنا ٹائم لے لیتی ہے کہ نبھانے والا تھک جاتا ہے۔۔ سم تھنگ لائک دس۔۔ مجھے ابھی یاد آیا تو پوچھ لیا۔۔“ سالک نے بے نیازی سے کہا۔۔

”اور اگر میں کہوں کہ مجھے نہیں قبول۔۔؟“

دیا اس کا جواب جاننا چاہتی تھی۔۔ وہ منائے گا۔۔ اس کی ہر بات ماننے کا وعدہ کرے گا۔۔ اس سے محبت کا اظہار کرے گا اور اس کی ان سب سوچوں سے ہٹ کر وہ بول رہا تھا۔۔

”تمہارے پاس فارس کا آپشن ہے انکار کے بعد۔۔ اگر میں ڈیسینٹلی پوچھ رہا ہوں تو تم بھی نائسلی بولو ناں۔۔“ سالک نے سب خوابوں کو توڑ دیا تھا۔۔ دیا کا دل کرلایا۔۔ وہ لو میرج کیسی ہوتی ہیں جب لڑکے رخصتی سے پہلے کالز کر کے دیکھنے کا کہتے ہیں۔۔ اپنی محبتوں کا۔۔ بے قراریوں کا اظہار کرتے ہیں۔۔ مگر سالک نے قسم کھا رکھی تھی دنیا سے ہٹ کر چلنا ہے۔۔ سالک نے اس کی خاموشی پر پکارا۔۔

”ڈی۔۔۔؟ کیا بہت نیند آ رہی ہے؟“ اس بار لہجے میں پیار تھا یا پھر بس دیا کو لگا تھا۔۔

”ہاں نیند آ رہی ہے۔۔“ اس نے جھوٹ بول دیا۔۔ 

”او۔کے۔۔“ وہ کال کاٹ گیا۔۔

دیا منہ بسورتی سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔ سالک نے مسکرا کر انگڑائی لی۔۔ اسے تو بس ڈی کو سننا تھا۔۔ اب نیند اچھی آنی تھی۔۔۔ 

       👈YamanEvaWrites👉

زایان کے لیے دن اور رات ایک جیسے اداس اور بے زار سے ہو گئے تھے۔۔۔

ہالہ کے ملنے کی امید نہیں رہی تھی۔۔ اس سے بات کرنے کی اسے دیکھنے کی بھی اجازت چھن چکی تھی۔۔

وہ نہیں چاہتا تھا ہالہ کے نکاح کی ازیت سہے مگر سالک کی خوشی میں کیسے نا جاتا۔۔ وہ سوگ زدہ دل لیے تیاری کر رہا تھا جب سالک اس کے پاس آیا۔۔ 

”زایان بی آپ ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔“ سالک نے غور سے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھا۔۔

”آج تمہارا باقاعدہ نکاح ہے میں کیسے نہیں خوش ہوؤں گا۔۔“  زایان نے جھوٹی مسکان لبوں پر سجائی مگر سالک کو برا لگا تھا۔۔

”آج ہیلے کا بھی نکاح ہے۔۔“ اس نے ناک چڑھا کر اسے یاد دلایا۔۔

”اس کا نام ہالہ ہے یار ہر نام پر انگلش ٹچ دیتے ہو۔۔“ زایان نے بات بدلنی چاہی۔۔

”اگر آپ ان ایزی ہوں تو کہیں دور چلے جائیں۔۔ مجھے نکاح شادی وغیرہ میں خود کوئی انٹرسٹ نہیں۔۔ مجھے ڈی چاہئیے تھی۔۔ وہ مل گئی۔۔“  اس نے ہونٹ چبا کر بے زاری کا اظہار کیا۔ زایان خاموش نظروں سے دیکھنے لگا۔۔ صاف لگ رہا تھا وہ زایان کے لیے ایسا بول رہا ہے بس۔۔

”ok I've to go.. but remember B.. if you dont feel good just skip this mess.. I dont mind..

(ٹھیک ہے، مجھے جانا ہو گا۔۔لیکن یاد رکھیں بھائی۔۔ اگر آپ اچھا محسوس نا کریں تو یہ سب چھوڑ دینا۔۔ میں برا نہیں مانوں گا۔۔)

سالک کہہ کر چلا گیا۔۔ زایان بھی لاکھ چاہنے کے باوجود گھر سے نکل کر اپنے آفس میں جا بیٹھا اور گھر والوں کو سالک نے کیسے ڈیل کیا وہ نہیں جانتا تھا۔۔

مگر آج رخصتی میں وہ چلا آیا تھا۔۔ میرج ہال کا سارا انتظام خان فیملی کی طرف سے تھا جس کی وجہ سے مکس گیدرنگ تھی تو ہالہ بھی حجاب کے انداز میں چادر نما ڈوپٹہ لپیٹے گرے اور پرپل کمبی نیشن میں فراک غرارہ پہنے یہاں وہاں اپنے جاننے والوں کو مل رہی تھی۔۔ زایان کی نظر اس پر پڑی تو کتنی دیر بے خود سا اسے تکتا چلا گیا۔۔۔ وہ سادگی میں بھی اس کے حواسوں پر سوار ہو رہی تھی۔۔ زایان کو اس کا پردہ، نکاح سب بھول گیا تھا۔۔ بس وہ یاد رہی۔۔

اچانک خود پر قابو پاتا وہ ایک سائیڈ پر چلا گیا اور گہرے گہرے سانس بھرتا اپنے اندر کی گھٹن پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔۔ 

وہ جس سائیڈ پر ٹھہرا تھا۔۔ وہاں ہی قریب چیف گیسٹس کے لیے الگ رومز تھے جن کی طرف ہالہ آ رہی تھی۔۔ 

زایان اچانک اس کے سامنے آیا۔۔ وہ گھبرا کر اپنے چہرے کو ڈوپٹے میں تقریباً چھپاتی سائیڈ سے نکلنے لگی جب زایان نے راستہ روکا۔۔

 ”کیا تم خوش ہو ہالہ؟ کیا واقعی اب تم مطمئین ہو؟ اگر ایسا ہوا تو ساری زندگی یونہی گزار دوں گا مگر تمہارے راستے میں نہیں آؤں گا اور اگر تم مجھے زرا سی بھی اداس لگیں کبھی یا پریشان تو پھر میں خاموش نہیں بیٹھوں گا۔۔“ وہ سنجیدگی اور بے چینی سے اس سے بات کر رہا تھا۔۔ 

”ک۔۔کیا مطلب ہے تمہارا؟۔۔ میرا کل ہی نکاح ہوا ہے۔۔  تمہیں اب میرے راستے نہیں روکنے چاہئیں مسٹر زایان۔۔۔ کسی نے دیکھ لیا تو مجھ پر نکاح کے بعد بدکرداری کا الزام لگ جائے گا۔۔“ ہالہ واقعی اس طرح، اس جگہ اس کے روک کر بات کرنے پر بری طرح پریشان ہوئی اور وہ بھی کب ایسا چاہتا تھا۔۔

نجانے کیا ہو گیا تھا اسے دیکھ کر۔۔

”تم نے مجھے اور میری محبت کو غلط کیلکولیٹ کیا۔۔ تمہیں لگا ہو گا تمہارے نکاح یا شادی کے بعد میری محبت میں کمی آ جائے گی تو یہ بھول ہے تمہاری۔۔۔

مجھے ان چیزوں سے فرق نہیں پڑتا ہالہ۔۔ مجھے تم سے، تمہاری زات سے، تمہارے کردار سے، محبت ہوئی ہے۔۔ اور یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔۔“ وہ ”آج“ کھل کر اظہار کر رہا تھا۔۔ 

ہالہ کی آنکھیں پوری سے زیادہ کھل گئی تھیں۔۔  کیا وہ پاگل ہو گیا ہے۔۔؟

”میرے راستے سے ہٹو۔۔ شیطان کی طرح بہکا کر تم میرا دل نہیں بدل سکتے۔۔ ویسے کیا تم ہمیشہ سے ہی اتنے بے حیا تھے یا اب کوئی کیڑا دماغ میں گھس گیا ہے۔۔“ ہالہ کو اس پر تپ چڑھا۔۔

”پاگل کر دیا ہے تم نے مجھے۔۔ کبھی زندگی میں کسی لڑکی کو اس طرح نہیں سوچا اور اب نکاح شدہ لڑکی کے لیے بھی سوچوں سے نجات نہیں مل رہی۔۔“ وہ بے بسی سے بال نوچنے کو آیا تھا۔۔

ہالہ نے یہاں وہاں دیکھا۔۔ شکر نا کئی یہاں قریب تھا نا ہی کوئی متوجہ تھا۔۔

”دیکھو اپنے پاگل پن کا علاج کرواؤ اور خبردار! اب مجھ سے کبھی بھی سامنا ہونے پر جان پہچان کا اظہار کیا تو کسی کا بھی لحاظ کیے بنا عزت افزائی کروں گی۔۔“ ہالہ نے تپتے لہجے میں وارن کیا۔۔ زایان تیزی سے وہاں سے ہٹا اور ہال سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔

خود کی بے اختیاری پر غصہ آرہا تھا مگر ہالہ کا معصوم سا چہرہ آنکھوں میں جم چکا تھا۔۔ سنہری رنگت سادگی میں بھی سونے کی طرح چمکتی ہوئی اس کی آنکھوں میں اب تک چبھ رہی تھی۔۔۔

       👈YamanEvaWrites👉  

دیا پر دلہن بن کر بہت روپ آیا تھا۔۔ کچھ چہرے کی معصومیت کا چارم تھا اور کچھ کم عمری کا رنگ بھی تھا جو مل کر سب کی توجہ کھینچ رہے تھے۔۔ 

اور دور کچھ لائٹس سے ہٹ کر کھڑے فارس کی جلتی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔۔ اس نے ایک نظر ساتھ بیٹھے سالک پر ڈالی جو اس وقت بھی سیل ہاتھ میں لیے نجانے کیا کر رہا تھا۔۔۔

”تم نے اس انسان کو چنا جسے آج کے اتنے اہم موقع پر تمہارے اس من موہنے روپ تک کا احساس نہیں۔۔ تم روؤ گی دیا۔۔“ فارس نے جیسے بد دعا دی تھی اسے۔۔ اکرام سب مہمانوں کو سنبھالتا انتظام میں لگا تھا۔۔۔ فارس وہاں سے نکل کر چلا گیا۔۔ وہ مزید یہ سب نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔

ان دونوں دوستوں کی حالت ایک سی تھی مگر اب ان میں اتنا فاصلہ آ چکا تھا کہ ایک دوسرے کا دکھ بانٹنا دور دیکھنا بھی گوارا نا تھا۔۔ 

دیا رخصتی کے بعد جب خان پیلس پہنچی اسے بس کسی طرح کمرے میں پہنچنے کی جلدی تھی۔۔۔ کچھ خاص رسمیں تھیں جن سے جان چھڑوا کر اس نے فوری رونی صورت بنا کر ہر بڑی عورت کو دیکھا اور انہیں اس ڈرامہ کوئین پر ترس آ ہی گیا تھا۔۔ 

اس کی تھکن کے احساس سے کمرے میں پہنچایا۔۔ اور جیسے ہی سب پلٹ کر گئے۔۔ 

وہ جلدی سے بلینکٹ کھول کر بیڈ پر پھیل کر لیٹ گئی۔۔ سالک ابھی بھائیوں کے ساتھ تھا ۔۔ دیا کو اسی موقع سے فائدہ اٹھانا تھا۔۔۔ 

”تم اب یہ جگہ لے کر دکھاؤ نواب زادے۔۔ میں اب تمہیں دن میں تارے دکھاؤںگی۔۔ تم نے مجھے بہت دھمکیاں دے لیں۔۔“ سکون سے آنکھیں بند کرتی وہ بولی اور سالک کے آنے تک وہ واقعی نیند میں گم تھی۔۔

سالک نے اسے دیکھا جو پھیل کر سوئی پوری کوشش میں تھی کہ جگہ کم بچے۔۔ 

اس نے ڈریسنگ سے ایکسٹرا بلینکٹ اٹھایا،، بڑے کھلے صوفے پر رکھا اور مسکرا کر دیا کو دیکھا۔۔ 

اور اگلی صبح جب دیا کی آنکھ کھلی تو وہ صوفہ پر تھی اور بیڈ پر سالک مزے سے سو رہا تھا۔۔ اس نے دانت کچکچائے تھے۔۔ وہ بندہ ہاتھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ زلیل کر سکتی۔۔

       👈YamanEvaWrites👉

واصف میٹنگ ہال میں سب ایمپلائے جمع کیے انہیں اہم نکات سمجھا رہا تھا۔۔

اس کی پچھلے دنوں ہی ایک جگہ ڈیل ہوئی تھی اور بہت پروفٹ ایبل ڈیل تھی۔۔ 

پچھلے ایک ماہ سے وہ مسلسل کوششوں کے باوجود ناکام ہو رہا تھا۔۔ اس کی کمپنی مشینری تیار کرتی تھی۔۔ اس کا سامان بہت معیاری ہونے کے باوجود اس کے پاس ہوئے آرڈرز کینسل ہو رہے تھے اور باقاعدہ سب مشیری ٹیسٹ کر کے ڈیلز ڈن ہو رہی تھیں مگر پھر نجانے کیا ہوتا کہ وہ لوگ ایک دن بعد ہی کینسل کر دیتے۔۔

اور اب وہ محنت کر رہا تھا کہ کوئی کمی نا رہے۔۔ اس کا مسلسل نقصان ہو رہا تھا اگر یہی سلسلہ رہا تو جلد بینکرپٹ ہو جانا تھا۔۔

وہ میٹنگ میں ڈیل کے ایک ایک پوائنٹ ڈسکس کر رہا تھا جب اسے کال آئی۔۔

”اوہ ہیلو مسٹر شیرازی۔۔۔ میں بس ابھی آپ سے ہوئی ڈیل ہی چیک کر رہا تھا۔۔“ واصف نے لہجے میں مٹھاس بھر کر کہا۔۔

”laghari.. you dont need to check.. deal is canceled already.. you're very unreiable person,,bye don call me back..

(لغاری تمہیں چیک کرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈیل پہلے ہی کینسل ہو چکی ہے۔۔ تم بہت ناقابل اعتبار انسان ہو۔۔ بائے مجھے واپس کال مت کرنا۔۔) 

اس بار بھی ڈیل کینسل کر دی گئی اور وہ اپنے بال نوچتا رہ گیا۔۔ 

”get out ya'll.. do work proper "

اس نے چیخ کر سارے سٹاف پر غصہ اتارا۔۔ 

اور گلے میں لٹکتی ٹائی کی ناٹ کھینچ کھینچ کر ڈھیلی کی اور وہیں چئیر پر گرا۔۔ 

”زایان خان یہ ضرور تمہارا کام ہے مگر تم دیکھنا اب جو میں کروں گا۔۔ وہ تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی۔۔“ واصف زہریلے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔۔ آنکھیں لال انگارہ ہو گئی تھیں۔۔ اپنا ہر حربہ ناکام ہوتا نظر آیا تھا۔۔

اس نے سیل فون نکال کر اپنے ایک بندے کو کال ملائی اور گہرے سانس لیتا اپنے اندر لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے لگا۔۔ 

”ہاں۔۔ ہیلو۔۔ تمہیں زایان خان کو فالو کرنے کا کہا تھا۔۔ ہاں۔۔ کوئی خاص بات ہے تو بتاؤ۔۔“ واصف نے پوچھا اور اس کا بندہ فر فر بتانے لگا واصف کی آنکھیں یکدم جیسے چمکی تھیں۔۔ 

”گڈ ورک۔۔ اب بس وہ کرنا جو میں کہوں گا۔۔“ اس کی شاطر آنکھوں میں شیطانی رنگ ابھرنے لگے تھے۔۔ اس کو اب ہی تو زایان خان کو ہرانے کا مہرہ ملا تھا....


ولیمہ ہو چکا تھا، دیا سارا زیور پٹخ پٹخ کر ڈریسنگ ٹیبل پر اتار کر رکھ رہی تھی۔۔ 

سالک پیچھے ہی بیڈ پر بیٹھا چہرہ ہاتھ پر ٹکا کر ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

”مجھے تم سے اتنی کم ظرفی کی امید نہیں تھی۔۔ تم نے دو دن کی تھکی ہوئی ”اپنی“ دلہن کو یوں صوفے پر پھینک دیا جیسے ناکارہ چیز ہو۔۔“ دیا نے اسے اپنی دلہن پر زور دے کر اپنی اہمیت جتانی چاہی۔۔ 

”میں نے بہت احتیاط سے سلایا تھا۔۔ یہ ”پھینکا“ ورڈ تم خود سے لگا رہی ہو۔۔“ سالک نے اطمینان سے کہا۔۔

””وہی مطلب ہوتا ہے۔۔ تم خود سو جاتے۔۔“ دیا کا جی چاہا بھاری جھومر پوری شدت سے پھینک کر مارے کہ اس مغرور انسان کی عقل ٹھکانے لگ جائے۔۔ پر ضبط کرنا پڑا۔۔

” میں صوفہ پر پورا نہیں آتا۔ تمہارا سائز کافی چھوٹا ہے، تمہارے لیے تو وہ بھی بیڈ لگتا ہے۔۔“ سالک نے مسکراہٹ دبا کر اس کی درمیانی قد اور نازک وجود پر چوٹ کی۔۔

”مطلب ہم جہاں پورے آ جائیں، وہیں سو جائیں۔۔“ دیا نے زیورات سے چھٹکارا حاصل کر کے رخ موڑا اور اسے گھور کر دیکھا۔۔

”آف کورس لٹل پرنسز۔۔“ سالک نے ہاں میں سر ہلا کر تائید کی۔۔

”تو تم قالین پر سو جاؤ۔۔“ دیا کا مشورہ حاضر تھا۔۔ سینے پر ہاتھ باندھ کر ابرو چڑھائی جیسے کہتی ہو اب بتاؤ۔۔ سالک نے اس کے چہرے کو دیکھا جہاں مٹا مٹا سا میک اپ اس کی کشش بڑھا رہا تھا۔۔

”ڈی۔۔“ اس نے کھڑے ہو کر اس کی طرف قدم بڑھائے۔۔ دیا نے سوالیہ نظر سے دیکھا۔۔

”کیا تم میرے ساتھ سونا چاہ رہی ہو۔۔؟“ سالک نے الٹا اس پر الزام تھوپتے اس کا جائزہ لیا اور اس کے بالوں پر اٹکی پنز اتارنے لگا۔۔۔۔ 

”ہاں ناں۔۔“ دیا نے سوچے سمجھے بنا جگر جگر کرتی پوری سے زیادہ آنکھیں کھول کر کہا۔۔

”تم اتنی بولڈ لگتی تو نہیں تھیں۔۔“ سالک اس کے پر جوش جواب پر حیران رہ گیا۔۔

”اوہو۔۔ اس میں بولڈنیس کی تو بات ہی نہیں۔۔ دیکھو ایک سائیڈ تمہاری ایک میری۔۔ کوئی لڑائی نہیں کرے گا۔۔ اور خوش دلی سے بیڈ شئیر کریں گے۔۔“  دیا کے مشورے پر سالک نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ مطلب کیا معصومیت ہے واہ۔۔ اسے مزہ آیا۔۔

”او۔کے۔۔ تو تم چینج کر کے آؤ پھر رولز بناتے ہیں۔۔ یہ بیڈ میری پراپرٹی ہے۔۔ اور پراپرٹی شئیر کرنے کا پراپر وے ہوتا ہے۔۔۔ ویسے تو تم بھی اب ”میری“ پراپرٹی ہو۔۔ بٹ اس بات کو بعد میں ڈسکس کروں گا۔۔“ سالک نے اس کے بال آزاد کروا کر پیچھے ہوتے حکم نامہ جاری کیا وہ فوری عمل کرتی چینج کر کے آئی اور اس کے سامنے آ بیٹھی۔۔

”تو۔۔ رولز یہ ہوں گے تم میرے ساتھ فری نہیں ہو گے۔۔ اپنی سائیڈ پر رہو گے۔۔ نائٹ بلب آن رہے گا۔۔ بلینکٹ اپنا اپنا ہوگا۔۔ پانی کا جگ تمہاری سائیڈ پر ہو گا۔۔ مجھے پیاس لگی تو تم دے دینا۔۔ میں کبھی کبھی۔۔۔ بہت کم کبھی کبھی ڈر جاتی ہوں تو تب تمہیں بس لائٹس آن کر کے مجھے جگا دینا ہو گا۔۔“ دیا نے بیٹھتے ہی اپنی شرائط بتائیں۔ سالک کی آنکھیں پھیلیں۔۔ 

”بوگس رولز۔۔“ ناک چڑھایا۔۔

”رولز یہ ہیں کہ لائٹس آن نہیں ہوں گی چاہے کچھ ہو جائے۔۔۔ جو ڈرے گا دوسرا اسے سنبھالے گا، اس کی نیند خراب نہیں کرے گا۔۔ پانی دونوں سائیڈز ہو گا جسے پیاس لگے خود پیے۔۔۔ دو بلینکٹ والا پھیلاؤ مجھے اریٹیٹ کرتا ہے سو ہم ایک ہی کوئلٹ (رضائی) یوز کریں گے۔۔ 

ہم اپنی سائیڈز چینج بھی کر سکتے ہیں اٹس او۔کے۔۔“ 

سالک نے رولز بتائے اور دیا کو اعتراض کا موقع دئیے بنا ”ڈن“ کہہ کر لیٹ گیا۔۔ وہ بھی اپنی جگہ جم کر بیٹھی اسے دل میں ہی اسے گالیاں دیتی رہی۔۔

”او۔کے اب مجھے گالیاں مت دو سو جاؤ۔۔ دونوں کے رولز مانے جائیں گے۔۔“ سالک نے اسے یونہی بیٹھا دیکھ کر اسے اطمینان دلایا تو وہ سر ہلاتی لیٹ گئی۔۔۔

سالک نے خاموشی سے رضائی پھیلا کر اس پر ڈالی۔۔۔ 

”میرے رول کے حساب سے تم مجھ سے فری بھی نا ہو۔۔“ دیا نے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔۔ سالک نے گھورا اور اس کے ہاتھ پکڑ کر آنکھیں بند کر کے سونے لگا۔۔

”میرے ہاتھ کیوں پکڑے ہیں۔۔؟“  دیا نے ہاتھ کھینچنے چاہے پر اس کی پکڑ مضبوط تھی۔۔

”مجھے بھی کبھی کبھی۔۔۔ بہت کم کبھی ڈر لگتا ہے۔۔ میں بس ہاتھ پکڑ کر سو جاؤں گا۔۔ تم رُول کے مطابق مجھے سنبھالو گی۔۔ نیند خراب مت کرو اب۔۔“  سالک نے اس کی بات لوٹائی۔ دیا نے ناک چڑھا کر اس ”ڈرپوک“ کو دیکھا۔۔ جو دن ٹائم خود جن بنا پھرتا تھا یعنی رات کو اس کی یہ حقیقت ہے۔۔۔؟ 

”تو تمہاری ایک کمزوری ہاتھ آگئی۔۔“ دیا نے مزہ لیتے سوچا اور سونے لگی۔۔

سالک اس کے ٹراما اور خوف کے بارے میں جانتا تھا تبھی مضبوطی سے اس کے ہاتھ تھامے رہا۔۔ دیا بھی اس پر احسان کر کے چپ رہی۔۔ اندر کہیں خود کو بھی اطمینان ہوا تھا۔۔ نائٹ بلب آن تھا مگر پھر بھی اسے وحشت سی ہوتی تھی۔۔ اب سکون تھا۔۔ 

اور کیونکہ اس کے ہاتھ سالک کی نرم گرفت میں تھے وہ اس کے پاس تھا تو پچھلی رات کی طرح یہ رات بھی اس کی سکون سے گزری۔۔ بے چینی اور خوف طاری نا ہوا تھا۔۔

مگر اگلے ہی دن سب کے درمیان اس نے سالک کی ”کمزوری“ بتائی تھی۔۔ 

”آپ لوگوں کو کچھ اندازہ ہے سالک کو رات کے وقت ڈر لگتا ہے اور یہ ہاتھ پکڑے بنا پھر سو بھی نہیں سکتا۔۔“ دیا کے جملے پر سب یکدم ہنسے تھے اور سالک شرمندگی چھپانے کے لیے سب کو اگنور کیے چپ چاپ ناشتہ کرتا رہا۔۔ پر دل ہی دل میں دیا کی چالاکی پر دانت پیس رہا تھا۔۔۔۔

سب سالک کو چھیڑ رہے تھے دیا مزے سے ناشتہ کرتی رہی۔۔ بدلہ جو اتار چکی تھی۔۔

        👈YamanEvaWrites👉

فارس اس وقت واصف کے رابطہ کرنے پر آفس میں اس کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ 

”میں نے سنا ہے زایان خان نے تمہیں زرا سی بات پر جاب سے فارغ کر دیا۔۔ ہاؤ رُوڈ۔۔ دوستی کا بھی لحاظ نہیں اس انسان میں۔۔“ واصف نے جلتی پر تیل چھڑکنے والا کام کیا۔۔

”تو۔۔؟ تم بتاؤ۔۔ کیوں بلایا مجھے؟“ فارس کو اس کی بات ناگوار گزری تو بےزار سا بولا۔۔

”دیکھو اس کی دی زلالت کا بدلہ تو تم بھی لینا چاہو گے اور مجھے بھی لینا ہے اور مجھے بس یہ پتا ہے دنیا میں سب سے مہنگی دشمنی دوست کی ہوتی ہے کیونکہ دوست ہر راز سے واقف ہوتا ہے۔۔ تو تم مجھ سے ہاتھ ملا لو۔۔ تمہیں جاب دوں گا یہاں۔۔ عزت بھی ہوگی۔۔ ہم دونوں کا مقصد اسے تباہ کرنا ہے۔۔“ واصف نے صاف گوئی سے بولتے ہوئے ہر بات واضح کی۔۔

فارس کی پر سوچ نظریں اس پر جمی تھیں۔۔ وہ صرف زایان کی وجہ سے آج بے روزگار بھی تھا اور اس کی منگیتر چھن گئی تھی وہ الگ غم۔۔ اس نے سر جھٹکا۔۔

”ٹھیک ہے تو تم ویسا کرتے جاؤ جو میں کہوں گا۔۔ دونوں فائدہ میں رہیں گے۔۔“ فارس نے اسے سنجیدگی سے کہا واصف مسکرایا۔۔

”تم میرے پرسنل آفس میں آجاؤ۔۔ یہاں مجھے لگتا ہے زایان کا کوئی تو سپائے ہے جو میری ہر ڈیل خراب کر رہا ہے وہ۔۔ جو ڈیلز چھپ کر یاں بیٹھ کر فائنلائز کیں وہ کام بھی بگڑے۔۔“ واصف اسے لیے آفس کے ساتھ والے روم میں گیا۔۔ اپنے موباٸل کی سکرین پر یہ ویڈیو دیکھتے سالک نے ان دو عیار بندوں کی زایان کے خلاف دوستی دیکھی تو سیاہ آنکھوں میں شعلے لپکنے لگے تھے۔۔

اندر ایک اور آفس پلس بیڈروم ٹائپ تھا جہاں ایک سائیڈ پر وارڈروب تھی۔۔ اس کے کچھ فاصلے پر ایک سنگل بیڈ اور اس کے قریب ہی دیوار کے ساتھ ایک شیشے کی ٹیبل اور چھوٹی سی الماری تھی جہاں ڈرنکس کی بوتلیں ترتیب سے پڑی تھیں۔۔۔ اور ٹیبل پر فلاسک رکھے تھے۔۔۔۔ دوسری سائیڈ پر سٹنگ ایریا تھا۔۔ ایک بڑا سا ایل۔ای۔ڈی بھی لگا تھا۔ 

”میرا اصل نشانہ سالک خان ہے پہلی بات کہ زایان کی سب سے بڑی کمزوری وہی ہے۔۔ اس کا نقصان مطلب زایان کو زہنی جھٹکا۔۔ اور کچھ میرے زاتی حساب نکلتے ہیں اس کی طرف۔۔“ سٹنگ ایریا میں صوفے پر بیٹھتے ہی فارس بولا۔۔ واصف چونکا اور پھر قہقہہ لگایا۔

”گڈ پوائنٹ۔۔۔ میری تو عقل ماؤف ہو گئی تھی۔۔ میرا اپنا بھی اصل کام اسی لڑکے نے خراب کیا۔۔ تو کوئی آئڈیا ہے کیسے اس کو قابو کا جائے۔۔“ الماری کے پاس جا کر ڈرنک کی بوتل نکالتا واصف پوچھ رہا تھا اور فارس نے ایک تیر سے دو شکار کرنے چاہے۔۔ اسے دیا بھی چاہئیے تھی اور زایان کی ہار بھی۔۔۔ اس نے اپنا پلان واصف کو بتایا۔۔

”وہ جب گھر سے نکلے گی تمہیں ٹیکسٹ کروں گا۔۔ سالک خان کی بیوی ہمارے ہاتھ آئے گی اور اس بات کو یوز کر کے ان بھائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کریں گے۔۔ آگے ہمارا کام ختم پھر زایان خان ہی اس چھوٹے لڑکے کو سنبھال لے گا۔۔“  فارس کے پلان پر واصف نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھا۔۔

”تم تو بڑے کمینے ہو۔۔ اور لڑکی کا کیا کرنا ہے۔۔“ واصف نے گلاس میں انڈیلی وہ حرام چیز منہ سے لگائی اور فارس کو لینے کا اشارہ کیا مگر اس نے منع کر دیا۔۔

”لڑکی سیف رہنی چاہئیے۔۔ میری بتائی جگہ پر پہنچانا فوراً۔۔ اسے کوئی ہاتھ بھی نا لگائے۔۔“ فارس نے اسے وارن کیا۔۔ 

”تم فکر نا کرو۔۔ میں زبان کا پکا ہوں۔۔ وہ محفوظ رہے گی۔۔“ واصف نے اسے تسلی دی۔۔ 

        👈YamanEvaWrites👉

”کل ماما اور احرام بابا تو چلے گئے، نانا جان کو داجان نے ابھی روک لیا کہ اتنے ٹایم بعد ہم بھائی ملے ہیں۔۔“  دیا چئیر پر بیٹھی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے گاجر کھاتی بول رہی تھی۔۔

”اچھی بات ہے۔۔ سالک نے کب جانا ہے تمہیں ساتھ لے جائے گا؟“ ہالہ نے فریج سے گوشت نکال کر دھوتے ہوئے پوچھا۔۔ 

”سالک کے پاس ابھی دس دن ہیں۔۔ وہ مجھے نہیں لے جا رہا۔۔“ دیا نے آخری بات پر منہ بسورا۔۔ ہالہ اس کی اداسی پر مسکرائی۔۔

دیا مکلاوے کی رسم کے لیے ولیمہ کے دو دن بعد رہنے آئی ہوئی تھی۔۔ ہالہ اس کے لیے اس کی پسند کا لنچ تیار کر رہی تھی۔۔ وہ دونوں ساتھ میں باتیں بھی کر رہی تھیں۔۔۔

”تمہیں پتہ ہے ہالہ وہ میرا بہت اچھا فرینڈ بن گیا ہے۔۔ میں اس سے کھل کر باتیں کرتی ہوں۔۔ وہ ہزبینڈ ٹائپ بی ہیو نہیں کرتا۔۔ وہ مجھے فرینڈلی ٹریٹ کرتا ہے اس لیے مجھے اس سے بولنے میں، اس سے فری ہونے میں اور مذاق کرنے میں جھجھک نہیں ہوتی۔۔ وہ جب جائے گا تو کتنی اداس ہو جاؤں گی۔۔ بٹ اسے اپنی ڈگری کے لیے لندن جانا ہے۔۔ مجھ سے وہاں اکیلا نہیں رہا جائے گا۔۔ سب کہتے ہیں امریکہ یا لندن جاؤں اور اپنی ڈگری کمپلیٹ کروں مگر مجھے پتہ نہیں اب دور جانے کا سوچ کر بھی وحشت ہوتی ہے۔۔“ دیا نے گاجر کترتے ہوئے اداسی سے کہا اور گہرا سانس بھر کر ٹیک لگائی۔۔

ہالہ نے کھڑکی سے باہر فارس کو جاتا دیکھا کیونکہ ان کے اور دیا لوگوں کے گھر کی ایک دیوار تھی اور درمیان میں آنے جانے کا راستہ تھا تو اکثر وہ لوگ ایک دوسرے کا  بیرونی دروازہ یوز کر لیتے تھے۔۔ 

فارس بھی اس وقت اپنے گھر سے باہر جانے کے لیے آیا تھا۔۔ ہالہ نے اسے آواز دے کر روکا۔۔ 

”میں نے بابا کی پین کلر ٹیبلیٹس منگوانی تھیں۔۔۔ صبح اکرام سے کہا تو انہوں نے کہا واپسی پر لیتے آئیں گے۔۔ مگر بابا کو اب بہت پین ہو رہی ہے سر میں بھی ٹانگ اور کندھے میں بھی۔۔“ ہالہ نے دیا کو بتاتے ہوئے فریج کے اوپر ہی پڑا اپنا والٹ اٹھا کر پیسے نکالے۔۔ فارس کچن کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔۔ دیا کو دیکھا جو کھِلتے میرون ڈریس میں تھی۔ جس پر سلور ہلکا پھلکا کام کیا ہوا تھا اور ہم رنگ ڈوپٹہ اچھے سے پھیلا کر لیا ہوا تھا۔۔ اس کے سلکی براؤن بالوں کی لٹیں گلابی چہرے کے گرد پھیلی تھیں۔۔ 

فارس نے بمشکل نظر پھیری۔۔ وہ اُسے (give up) نہیں کر سکتا تھا یہ تو طے تھا۔۔۔

ہالہ نے پیسے دے کر ٹیبلٹ لا کر دینے کا کہا۔۔

”سوری ہالہ۔۔ مجھے بہت ضروری کام سے جانا ہے اور بہت دیر ہو جائے گی۔۔“ فارس نے کچھ سوچتے ہوئے فوری انکار کیا۔۔ ہالہ نے لب بھنچے۔۔ قریب ہی ایک دو گلی چھوڑ کر روڈ پر میڈیکل سٹور تھا۔۔ وہ چاہتا تو ابھی لے کر دے جاتا پر وہ تو اب بہت بدل چکا تھا۔۔

”میں چلی جاتی پر۔۔۔ کھانا تیار کرنا ہے۔۔ خیر آپ جائیں۔۔“ ہالہ نے بد دلی سے کہتے اسے جانے کی اجازت دی۔۔

”ہالہ میں لے آتی ہوں۔۔ ہم پہلے بھی اپنا کام خود ہی کرتی تھیں اب کیا بدلا ہے۔۔“  دیا نے ہالہ سے کہتے ہوئے فارس کو جتایا اور اپنی چادر لینے کمرے کی طرف گئی۔۔

فارس نے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے واصف کو میسج کیا اور پلٹ کر دیکھا جہاں دیا چادر لے کر کمرے سے نکل رہی تھی۔۔ وہ مطمئین سا گھر سے نکل گیا۔

        👈YamanEvaWrites👉

سالک جورڈن سے وہاں کی اپ ڈیٹس لیتا لان میں ٹہل رہا تھا کہ موبائل پر ملنے والے میسج پر اس سے بائے کر کے میسج کھولا جو دیا کی طرف سے تھا۔۔

”اگر میری ایک شرط ماننے کو تیار ہو جاؤ تو تمہاری آج صبح لی پکچر کسی کو نا دکھانے کا وعدہ۔۔“ سالک کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔۔ پھر اس نے پکچر بھی سینڈ کی۔۔ سالک نے اوپن کی تو آنکھیں کھل گئیں۔۔ 

وہ صبح صبح سلیپنگ گاؤن میں ہی جب دانت برش کرتے کرتے دیوار سے ٹیک لگا کر نیند کر رہا تھا۔۔ برش ویسے ہی منہ میں دبا تھا۔۔ اور دیوار سے ٹکا سر زمین کی جھکا ہوا تھا۔۔ بال بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے تھے۔۔

سالک کے ہوش اڑ گئے۔۔ یہ اس نے کب بنائی۔۔؟ اس نے جلدی سے میسج کیا۔۔

”شرط بتاؤ تم۔۔ مجھے ان چیزوں سے ڈر نہیں لگتا آج اور ابھی میڈیا پر دو۔۔ وائرل نا ہو گئی تو کہنا۔۔“ اس نے لاپروائی کا مظاہرہ تو کر لیا مگر ڈر بھی رہا تھا۔۔ دیا کا جواب فوری ملا تھا۔۔ سالک نے جلدی سے پڑھا۔۔

”تم پھوپھو کے گھر اسمارہ کے سامنے مجھے آئی لو یو کہو گے اور اسے جلاؤ گے۔۔“ دیا کی بچگانہ بات پر وہ نچلا لب دانتوں تلے دبائے مسکرایا۔۔

سالک کی پھوپھو نے دیا کی دو دن بعد واپسی پر انہیں ڈنر پر انوائٹ کیا تھا۔۔۔

”او۔کے تم کہو تو رومینس کرنے کو بھی تیار ہوں۔۔“ سالک نے شرارت سے لکھا۔۔

”رولز بھول گئے؟ فری مت ہو میرے ساتھ۔۔“ دیا نے اسے غصے والا ایموجی بھیجا۔۔۔

”وہ رولز بیڈ شئیر کرنے کے ہیں مائے کیوٹ وائف۔۔ اور پھر تم مجھ سے جھوٹ بلوا رہی ہو تو فائن تو پے کرنا پڑے گا۔۔“ سالک کے شوخ جواب پر وہ جل بھن گئی تھی۔۔

”ٹھیک ہے پھر میں تمہاری پکچر سب کو دکھاؤں گی بس۔۔“ وہ بھی دیا تھی اپنی دھمکی پر واپس آئی۔۔ 

سالک نے جلدی سے اپنی فون گیلری اوپن کی اور جو دیا کی نیند میں اس کے ساتھ اپنی سلفیز لیتا رہتا تھا، دو/تین بھیج دیں۔۔ 

جن میں بولڈ سے انداز میں اس کے قریب تھا۔ ایک پکچر میں وہ اس کے گال پر کس کر رہا تھا۔۔ دیا کے تو کانوں سے دھوئیں نکل پڑے۔۔ سالک نے میسج بھیجا۔۔ 

”Your hubby isn't that innocent..."

دیا کو اس کی ”بےشرمی“ پر سہی آگ لگی۔۔ 

”مجھے گھر آنے دو میں تمہاری ساری بےشرمی نکالوں گی۔۔ یہ جو وہاں بیٹھے شیر ہو رہے ہو ناں۔۔ میں تمہیں اچھا سبق سکھاؤں گی۔ بس زرا صبر رکھو تم۔۔“  دیا کی تفصیلی دھمکی پڑھ کر وہ منہ پر ہاتھ رکھے چہرہ آسمان کی طرف اٹھائے کھل کر ہنس رہا تھا۔۔ 

”Oh D why are you makin me crazy.."

وہ اس کے مسج دوبارہ سے دیکھتا بولا اور پھر گیراج کی طرف جاتے زایان پر پڑی۔۔ 

زایان آج طبیعت خراب کی وجہ سے لیٹ آفس کے لیے نکل رہا تھا جب سالک نے اسے روکا۔۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

”زایان بی۔۔ آج آپ کی ملک انڈسٹری سے جو بزنس ڈیل فائنل ہونی ہے اسے زرا سپیس دیں اور پہلے ان کا بائیو ڈیٹا نکلوائیں۔۔ وہ واصف لغاری کے ریفرنس سے آرہے ہیں۔۔ اس کی جگہ آپ کسی اور سے بات فائنلائز کر دینا آج ہی۔۔ اور۔۔“ سالک اسے تفصیل سے بتاتے ہوئے حیران ہی تو کر گیا تھا۔۔ 

”یہ تو میں پتہ چلوا چکا ہوں میرے کیوٹ جن۔۔ یہ بتاؤ تمہیں کیسے پتہ چلا یہ سب؟“  زایان نے اس کے بال بگاڑتے ہوئے پوچھا۔۔ سالک کیا بتاتا ہِڈن کیمرے سے واصف کی ان سے میٹنگ سن چکا ہے۔۔ خاموشی سے بال سنوارنے لگا۔۔ زایان نے ہنس کر اسے گلے سے لگایا تو سالک نے غیر محسوس انداز سے ٹریکر اس کے کوٹ کی پاکٹ میں ڈال دیا۔۔ زایان اس کا کندھا تھپتھپا کر نکل گیا۔۔ سالک نے جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔۔ اب وہ واصف کا مزید کباڑہ کرنے کو تیار تھا۔۔ 

”I'll regret if I let you go this time.. Am the one who'll bring you a biggest loss laghari.. just wait.."

(اس بار تمہیں جانے دیا تو پچھتاؤں گا۔۔ میں وہ ہوں جو تمہارا بہت بڑا نقصان لائے گا لغاری۔۔ صرف انتظار کرو۔۔) سالک نے موبائل نکال کر لغاری کو دیکھا وہ زایان کو محفوظ کرتا جان نہیں پایا ان کی نظر دیا پر ہے۔۔

       👈YamanEvaWrites👉

وہ میڈیکل سٹور سے باہر نکل کر ابھی کچھ دور آئی تھی کہ ایک تیز رفتار گاڑی میں بیٹھے کچھ لوگوں نے اسے دھکیل کر گاڑی میں ڈالتے ہوئے اس کے ناک پر کلوروفام والا رومال رکھا۔۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ وہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پائی اور بے ہوش ہو گئی۔۔ گاڑی اسی تیز رفتاری سے آگے بڑھ گئی۔۔ اور کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔۔

وہ جب کافی دیر بعد ہوش میں آئی تو سر چکرا رہا تھا۔۔ پوری طرح حواس بحال ہونے لگے تو محسوس ہوا ہاتھ پاؤں نہیں ہلاپا رہی۔۔ وہ کسی کرسی پر بندھی بیٹھی تھی۔۔ منہ پر کپڑا بندھا تھا۔۔

وہ خوف سے آوازیں نکالتی خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

وہ جو کوئی بھی تھے اتنی مہربانی کی تھی کہ اس کی چادر نہیں اتاری تھی۔۔  

اس نے نظر گھما کر ارد گرد جائزہ لیا۔۔ کمرہ درمیانے سائز کا تھا۔۔ کھلا سا صاف ستھرا۔۔ کریم کلر میں نیو فرنیچر بھی پڑا تھا۔۔ ایک سائیڈ پر بڑی سی گلاس ونڈو بھی تھی جس پر پورے سے زرا کم کرٹن پھیلے ہوئے تھے۔۔ 

دیکھنے میں کسی بلڈنگ کا اپارٹمنٹ لگ رہاتھا۔۔ اگر وہ کسی طرح اپنا منہ کھول پائے یا پھر ہاتھ پاؤں کھول لے تو بآسانی اپنی مدد کی جا سکتی تھی۔۔ مگر منہ کا کپڑا اور رسیاں مضبوطی سے بندھی تھیں۔۔ وہ رونے والی ہو گئی۔۔

اسی وقت کوئی مرد دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو اس نے جلدی سے سر ایک طرف لڑھکا کر بے ہوشی کی ایکٹنگ کی۔۔

”یس سر ہو گیا۔۔ لڑکی ہمارے پاس ہی ہے۔۔ نہیں نہیں زایان سر آپ پریشان مت ہوں کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔۔ جی ابھی بے ہوش ہیں۔۔ او۔کے سر۔۔“ وہ بندہ قریب کھڑا اس کا جائزہ لیتا بول رہا تھا پھر اسے بے ہوش پا کر واپس پلٹ گیا۔۔ جبکہ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ زایان سر؟

زایان؟ کیا یہ زایان خان کی بات ہوئی؟ اس نے اغوا کروایا مگر کیوں۔۔۔ ؟

وہ غم اور غصے سے بے حال ہوئی جا رہی تھی۔ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا تھا، سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔۔ 

بس سر ڈالے بے بسی سے سسکنے لگی۔۔ دل میں کہیں اندر ایک اطمینان بہرحال اترا تھا کہ اس کی عزت محفوظ ہے۔۔۔ کم از کم زایان میں اتنی تو غیرت ہے یہ تو وہ جانتی ہی تھی۔۔ مگر پھر بھی خوف دماغ پر حاوی ہو رہا تھا اتنا کہ چند لمحے سسکتی رہی اور پھر سے بے ہوش ہوتی حواس کھوتی چلی گئی۔۔

        👈YamanEvaWrites👉

فارس اپنے دوست کے فلیٹ پر بے صبری سے ٹہلتا انتظار کر رہا تھا۔۔ آج ایک بار دیا اس کے پاس آجائے۔۔ 

وہ طلاق ہونے تک اور اپنے ساتھ اس کا نکاح ہونے تک اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا۔۔ اس نے سوچ لیا تھا۔۔ 

”پتہ نہیں لغاری کے بندے کہاں مر گئے ہیں۔۔؟“ اس نے بے چینی سے ہاتھ مسلے۔۔

تبھی موبائل پر رنگ ٹون گونجی۔۔ وہ ٹھٹکا واصف کی کال تھی۔۔ اس نے اٹینڈ کی۔۔

” ہیلو۔۔۔ ہاں۔۔ ل۔۔لڑکی ہمیں نہیں ملی۔۔ اسے کوئی اور اٹھا گئے۔۔“ واصف کی بوکھلائی ہوئی آواز پر اس کے ہاتھ سے موبائل گرا۔۔ واصف ہیلو ہیلو کر رہا تھا۔۔ فارس کے تو حواس گم ہونے لگے۔۔ 

”دیا۔۔ “ وہ بال نوچتا زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔

👉👇👇😞😞😞

واصف کے سامنے اس کے تینوں بندے سر جھکا کر کھڑے تھے، وہ سب کو گھور رہا تھا۔۔

”ایک کام ڈھنگ سے نہیں کر سکے تم لوگ۔۔

مفت خور ہو سب۔۔ جی چاہ رہا ہے سب کے سینے گولیوں سے چھلنی کر دوں۔۔“ واصف بھوکے شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا۔۔ 

ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ ان میں سے ایک جو ان کا لیڈر تھا، اس نے باقی دو کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر انہوں نے لب سئیے سر جھکا دئیے۔۔

”ایک چانس ملا تھا ایک اور آخری چانس اور تم ناکارہ لوگوں نے وہ بھی ضائع کر دیا۔۔“ واصف کا بس نہیں چل رہا تھا ان کے منہ نوچ لے۔۔ 

”اب دفع ہو جاؤ۔۔ منہ اٹھائے کیوں کھڑے ہو۔۔ یہاں سے جاؤ ورنہ ابھی قتل کر دوں گا۔۔“ وہ انہیں وہیں جمے دیکھ کر پھر سے دھاڑا۔۔

وہ جلدی سے کمرے سے نکل گئے۔۔ 

”اب کیا کریں۔۔ کچھ سوچو ورنہ باس یونہی غصے میں خرچہ پانی بند کر دیں گے۔۔“ باہر نکلتے ہی ایک نے پریشانی سے کہا۔۔ اور وہ آپس میں کچھ ڈسکس کرتے نکل گئے۔۔

واصف اپنے آفس میں ہی ٹہل رہا تھا۔۔ جب دھاڑ سے دروازہ کھول کر سالک آیا۔۔ اس کے پیچھے گارڈز تھے۔۔ جو اسے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ واصف نے اسے دیکھا تو ٹھٹکا۔۔

گارڈز کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ چلے گئے۔۔

سالک اسے سختی سے گھور رہا تھا۔۔

”تمہیں سڈَن میٹنگز پسند ہیں کیا۔۔؟ “ واصف نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔

”واصف لغاری تم نے بزنس فائٹ میں فیملی انوالو کی ہے تم اگر پرسنل ہونا چاہ رہے ہو تو اب نیکسٹ ٹائم میرے آنسر کو ویلکم کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔“ سالک کی وارننگ پر اس کا منہ کھل گیا۔۔ وہ اس کی نظر میں کل کا پیدا ہوا لڑکا اور ایسی ہمت۔۔۔؟ آخر وہ ہر بات جان کیسے جاتا ہے۔۔ 

”کیا بات کر رہے ہو۔۔؟ کونسی فیملی۔۔؟“ واصف صاف مکر گیا۔۔ کام تو ویسے بھی ہوا نہیں تھا تو الزام خود پر کیسے آنے دیتا۔۔

”تم جانتے ہو میں کیا بات کر رہا ہوں۔۔ پولیس اس معاملہ میں انوالو ہو چکی ہے۔۔ مگر میں تمہارا کہیں نام آنے نہیں دوں گا۔۔ 

تمہیں میں اس حال تک لاؤں گا کہ تم منہ چھپاتے پھرو گے لوگوں سے۔۔ 

It'll be good if you release her now..or I'll kill you basterd its my very last warning.. 

(یہ اچھا ہوگا اگر تم اسے ابھی آزاد کر دو یا میں تمہارا قتل کر دونگا *گالی۔۔ یہ میری بالکل آخری وارننگ ہے۔۔)

سالک نے سرد لہجے میں کہا۔۔ واصف کچھ پل کے لیے تو سہی پریشان ہوا اس کے پاس لڑکی ہوتی تو ابھی چھوڑ دیتا مگر اس کے پاس تو واقعی لڑکی نا تھی تو کہاں سے لائے۔۔ نجانے کون لے گیا۔۔

اس نے فکرمندی سے اپنا ماتھا مسلا۔۔

      👈YaمaنEوaWرiٹes👉

زایان خاموشی سے سامنے بیٹھی سبینہ کو دیکھ رہا تھا۔۔ جو اچانک سے ہی آج اس کے آفس آ گئی تھی اور اب اس کے آفس کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔ زایان بےزار ہوا۔۔

”تم تو جرمنی چلی گئی تھیں یار۔۔ اب اتنے وقت بعد کیسے آنا ہوا وہ بھی اچانک سے۔۔ اور میرے آفس کا کس نے بتایا۔۔؟“ زایان نے اس سے پوچھا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔۔

”تم نے مجھے ہوپ لیس کر دیا تھا۔۔ تو میں نے خود کو سنبھالنے کے لیے یہاں سے دور تو جانا ہی تھا۔۔ بٹ آئی واز ٹوٹلی فیلڈ۔۔ پھر تم نے بھی تو نمبر چینج کر لیا تھا کوئی کانٹیکٹ ہی نہیں رکھا۔۔“ وہ اپنا بتاتے ہوئے اس سے گلہ کرنے لگی۔۔ زایان نے گہرا سانس بھرا اور پیچھے چئیر سے ٹیک لگا کر بیٹھا۔۔

”میں کچھ بزی تھا۔۔ اپنا بزنس سٹیبل کرنے میں کسی سے کانٹیکٹ نہیں رہا۔۔“ زایان نے فیور سے تپتی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔۔ 

”بائی دا وے۔۔ میرا فارس سے کانٹیکٹ ہوا تو اس نے بتایا کہ آج کل کمپنی اون کر رہے ہو اور یہ کہ تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی۔۔“ اس نے آخر میں آنکھ مار کر شوخی سے کہا۔۔ زایان نے لب بھنچے۔۔

”تو میں آ گئی۔۔ شاید اب میری طرف دیکھ لو۔۔“ وہ حسرت سے زایان کا دلکش وجیہہ چہرہ تکتی بولی۔۔ وہ تھا ہی ایسا کہ اس سے دستبرداری مشکل ہی ہو جاتی تھی۔۔

”سبینہ پلیز میں یہ بات کرنا نہیں چاہتا۔۔ ہم فرینڈز ہیں اور بس۔۔“ زایان نے اسے سختی سے ٹوکا۔۔ وہ چپ سی ہو گئی۔۔ زایان بدل گیا تھا۔۔ وہ اب نرمی سے نہیں سختی سے حد کا بتا رہا تھا۔۔ وہ جانتی ہی کہاں تھی اسے محبت نے یہ مزاج انعام میں بخشا تھا۔۔

”او۔کے سوری۔۔ پاپا چاہتے ہیں اب بزنس رن کرنے میں ان کی ہیلپ کروں مجھے ایکسپیرئینس  گین کرنا ہے سو ایز یو سیڈ وی آر فرینڈز۔۔ مجھے یہاں جاب دو۔۔ میں اسی لیے آئی ہوں۔۔ اور پلیز اب انکار مت کرنا۔۔“ سبینہ نے اپنے آنے کا مقصد بتایا اور اس کے بولنے پہلے ہی التجائیہ لہجے میں ریکوئسٹ کی۔۔ زایان نے گہرا سانس بھرا۔۔ 

”او۔کے۔۔ یو کین جوائن می۔۔“ وہ کنپٹی مسلتا بول رہا تھا۔۔ آج آفس تو آ گیا تھا مگر طبیعت اب بھی اَن سٹیبل تھی اب تو سر میں درد بھی ہونے لگا تھا۔۔ اس نے میسج کی بپ پر          

موبائل اٹھا کر دیکھا۔۔

سالک کا میسج تھا کہ گاڑی بھیجے گھر اسے کہیں جانا ہے۔۔ اس کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی۔۔ شوفر کو کال کر کے گاڑی لے جانے کا کہا اور ریان کو میسج کیا کہ اسے واپسی پر پک کر لے۔۔ 

سبینہ اتنے عرصے بعد اسے سامنے دیکھ کر دل کھول کر دیکھ رہی تھی۔۔ وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔ 

چہرے پر اب یونی بوائے والی شوخی و شرارت کی بجائے میچورٹی تھی۔۔۔ 

بال جیل سے پیچھے کو سیٹ کیے ہوئے تھے۔۔ ہلکی ہلکی سی بڑھی شیو اس کی سفید رنگت پر بہت سے زیادہ جچ رہی تھی۔۔ 

       👈YamanEvaWrites👉 

فارس بری طرح بکھری حالت میں گھر آیا تو ہمت کر کے چاچو کے گھر گیا۔۔ ڈرائنگ روم میں کوئی نا تھا سب چاچو کے روم میں تھے۔۔ وہ روم کے دروازے پر جم گیا۔۔

اکرام، اس کی امی اور خان فیملی کے دو بڑے مرد زایان کے دادا اور دادا کے بھائی بھی آئے ہوئے تھے۔۔ چاچو کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری سرخ ہو رہی تھیں۔۔ 

وہ بندہ جو اپنی حالت کی وجہ سے زیادہ نہیں بیٹھ سکتا تھا اب نجانے کتنی دیر سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔۔ ایک باپ کے لیے اس سے بڑی بے بسی کیا ہو سکتی تھی کہ بیٹی شام ہو جائے گھر نا آئی ہو اور وہ اسے تلاش کرنے بھی نا جا سکتے ہوں۔۔ ہالہ وہاں نظر نہیں آ رہی تھی مگر ساتھ والے کمرے میں رونے کی آواز آرہی تھی۔۔ فارس کو شدید شرمندگی ہونے لگی۔۔

وہ کیوں اتنا بے حس ہو گیا۔۔؟

اس نے اپنے چچا کی حالت کیوں نا سوچی۔۔ اپنی ماں کو روتا دیکھ کر اس نے نظر چرائی۔۔ اکرام کمرے کے بالکل کارنر میں ایک چئیر پر بیٹھا تھا اس کی آنکھوں میں بھی جیسے خون اترا ہوا تھا۔۔ حالت بتا رہی تھی دفتر سے آنے کے بعد وہ بھی گلیوں کی خاک چھان چھان کر اب نڈھال بیٹھا تھا۔۔ 

زایان کے داجان اپنے جان پہچان کے کمشنر سے بار بار کال کر کے اپڈیٹ حاصل کر رہے تھے مطلب پولیس بھی انوالو ہو چکی تھی؟ اسے پسینے چھوٹے۔۔

”السلام علیکم۔۔ آں۔۔ سب خیریت۔۔تو ہے ناں۔۔“ اس نے انجان پن کا مظاہرہ کرتے پوچھا۔۔ زبان زرا لڑکھڑائی تھی دل میں جو چور تھا۔۔

”ہالہ صبح سے غائب ہے۔۔“ اکرام نے سرد لہجے میں بتایا تو فارس کے سر پر دھماکہ ہوا۔۔ مگر دیا کی بجائے ہالہ کیوں؟

”ہ۔۔ہالہ ک۔۔کیا مطلب؟“ وہ بری طرح بوکھلایا۔۔

”ہاں خادم کی دوا لینے گئی تھی اب تک نہیں آئی۔۔ کھانا بنا رہی تھی دیا کے لیے۔۔ دیا نے بتایا وہ جا رہی تھی تو ہالہ نے اسے روک دیا کہ اب اس کا یوں جانا اچھا نہیں لگتا۔۔ وہ خود جائے گی۔۔ اب شام ہونے کو آ گئی ہے، سارا علاقہ چھان مارا۔۔ ناجانے کہاں گئی بچی۔۔“  تائی جان نے پریشانی سے بتایا۔۔ فارس گم صم ہو گیا۔۔ اکرام اس بات پر استہزائیہ ہنسا گویا وہ جان بوجھ کر گئی ہو۔۔ 

اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا بیرونی دروازے کو دھاڑ سے کھول کر کوئی اندر آیا۔۔ سب کے ساتھ فارس بھی چونکا اور باہر کی طرف دیکھا۔۔ سالک غصے سے بھرا اندر آ رہا تھا۔۔ چہرے اور آنکھوں میں سرخی تھی اور بال بے ترتیبی سے بکھرے تھے۔۔

وہ فارس کو دیکھ کر تیر کی طرح اس کے سر پر پہنچا اور اس کا گریبان پکڑا۔۔ سب حیران رہ گئے۔۔ فارس بھی گھبرا گیا۔۔

”کہاں ہے وہ سچ سچ بتا دو۔۔ میں جانتا ہوں یہ تمہارا اور واصف کا پلان ہے۔۔“ سالک نے غرا کر کہتے ہوئے اسے زور جھٹکا دیا۔۔

اس کے الفاظ پر سب ساکت ہوئے فارس کا تو سانس سینے میں اٹک گیا۔۔ وہ کیسے جانتا ہے یہ بات؟ وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔۔  

”میں نہیں جانتا۔۔ میں قسم کھاتا ہوں میں اس میں انوالو نہیں۔۔“  فارس کی دی صفائی پر اکرام اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کی طرف بڑھا۔۔ تائی جان کی تو آنکھیں فارس پر جمی تھیں۔۔ وہ آج بھڑک کیوں نہیں رہا۔۔ یوں گھبرا کر صفائی کیوں دے رہا ہے۔۔ ماں تھیں اس کی رگ رگ سے واقف تھیں۔۔

”تم یہ کیا کر رہے ہو؟ ہم اپنے گھر کی عورتوں کو خود اٹھوانے والے گھٹیا کارنامے سر انجام نہیں دیتے اور یہ اس گھر میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔۔ اس کا گریبان چھوڑو۔۔“ اکرام کے جملے اور لہجے پر جہاں خادم صاحب نے آنکھیں شدت سے بند کر کے سسکی روکی وہیں داجان اور نانا کو بھی سخت برا لگا تھا۔۔ سالک نے اسے جھٹکے سے چھوڑ کر اکرام کو دیکھا۔۔ 

”یہ تو پھر تم بھائیوں کی مہربانی ہے۔۔ ان کے باپ کے ایکسیڈنٹ کے بعد سے ہی وہ یہ مصیبتیں جھیل رہی ہیں نا۔۔؟ کیونکہ ”تم“۔۔ اس گھر کے دونوں لڑکے سنبھالنے کی بجائے رخ موڑے رشتہ جتاتے رہتے ہو۔۔ تمہاری باقی باتوں کے جواب میں بعد میں فرصت سے دوں گا۔۔“ سالک کی صاف گوئی اور سرد پن پر اکرام نے لب بھنچے وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ کافی حد تک سچ بول رہا تھا۔۔ اور پھر پیچھے بیٹھے وہ دو بارعب بزرگوں کی پہلے ہی کڑی نظریں اس پر جمی تھیں۔۔ وہ تو منہ توڑ دیتے شاید۔۔۔ 

سالک نے ابھی جانے کے لیے دروازہ کھولا ہی تھا کہ سامنے سے ہالہ لڑکھڑاتی ہوئی اندر داخل ہو رہی تھی۔۔ سالک نے اسے کندھوں سے تھام کر اسے سہارا دیا تھا۔۔

                         ❤️❤️  #Yaman_Eva 👉

ہالہ بابا کے سینے سے لگی بیٹھی تھی۔۔ سب نے شکر پڑھا کہ وہ صحیح سلامت خود ہی لوٹ آئی تھی۔۔ دیا تو نجانے کتنی دیر سے کمرے میں مٹھیوں میں بال دبوچے گھٹ گھٹ کر رو رہی تھی۔۔ اس نے بھی جھیلا تھا کڈنیپنگ کا عذاب۔۔ اسے اندازہ تھا کتنی بے بسی اور ازیت ہوتی ہے۔۔ اسے بری طرح خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔ نجانے ہالہ کیسی ہو گی اور کس حال میں ہوگی۔۔ 

مگر شکر تھا ہالہ نے زیادہ تکلیف نہیں جھیلی تھی اور شام تک خود آ چکی تھی۔۔ دیا ابھی بھی سہمی سہمی سی اس کا ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں لیے بیٹھی تھی جیسے چھوڑا تو وہ پھر سے کہیں کھو نا جائے۔۔

”بچے کچھ اندازہ ہے کون تھے کڈنیپ کرنے والے۔۔؟“ داجان نے نرمی سے پوچھا۔۔ سالک نے سر جھٹکا اس کے خیال میں یہ کام واصف کا تھا اور جب دن ٹائم وہ اسے دھمکا کر آیا تھا تو اس نے بھیج دیا۔۔ 

ہالہ نے لب بھنچے۔۔ جی چاہا سب کے درمیان بہرام صاحب کو ان کے پوتے کا کارنامہ بتائے جس نے کڈنیپ بھی کروایا اور پھر کچھ کہے بنا چھوڑ بھی دیا۔۔ وہ بھی ایسے کہ اس کے ہاتھ پاؤں کھول کر دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔۔ وہ جان گئی یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے مگر اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور وہاں سے نکل آئی تھی۔۔ 

وہ وہاں سے دھکے کھاتی لوگوں سے پوچھ پوچھ کر گھر تک پہنچی تھی۔۔

اسے شدید نفرت ہوئی تھی اس سارے وقت میں زایان خان سے۔۔ 

”میں نہیں جانتی کون تھے میں نیم بے ہوشی میں رہی جب مجھے زرا ہوش آیا تو انہوں نے کچھ بھی کہے پوچھے بنا مجھے چھوڑ دیا۔۔“ ہالہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔

”مذاق کر رہی ہو؟ کسی نے تمہیں اغوا کیا اور پھر شرافت سے چھوڑ دیا؟ پاگل سمجھا ہے ہمیں۔۔؟ کون ہے جس کے کارنامے پر پردہ ڈال رہی ہو۔۔؟ بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔؟“ 

اکرام سب کا لحاظ کیے بنا چیخ کر بولا۔۔ ہالہ نا چاہتے ہوئے بھی گھبرا گئی۔۔ خادم بابا نے شرمندگی اور غم کی ملی جلی حالت سے اکرام کا روپ دیکھا۔۔ تائی جان نے بیٹے کے اس بیگانے روئیے پر بے بسی سے سر تھاما۔۔

اور فارس خاموشی سے اپنے گھر چلا گیا۔۔

”خادم بچے کیا مجبوری ہے جو اس جاہل انسان کے پلے بیٹی باندھ دی؟  جسے اتنی تمیز نہیں کہ ہمارے سامنے ہی لحاظ کر لے۔۔“ سالک کے نانا زرا کم برداشت والے تھے ناک چڑھا کر اکرام کی طرف اشارہ کرتے بولے۔۔

”ان بہنوں نے یہ تماشہ بنا رکھا ہے آپ لوگ چاہتے ہیں میں لحاظ کروں؟ پہلے چھوٹی رات تک غائب رہی اور پھر نکاح کروا کر آ گئی اور اب بڑی نے بھی حصہ ڈال لیا۔۔ نجانے کون لے گیا اور پھر بنا کہے چھوڑ دیا۔۔ کیا فلم چل رہی ہے یہاں۔۔“ اکرام بد لحاظی کی حد پار کر رہا تھا۔۔ سالک کا پارہ آسمان پر پہنچ رہا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا خادم صاحب جو ہالہ کی زرد رنگت دیکھ رہے تھے جیسے کسی فیصلہ پر پہنچتے بول پڑے

”اکرام ابھی اور اسی وقت میری بیٹی کو میرے غلط فیصلے سے آزاد کرو۔۔“ ان کی آواز کانپ رہی تھی۔۔ اکرام ساکت ہوا۔۔

”کچھ مت کہیں بھابھی۔۔ آپ دیکھ رہی ہیں اس کا رویہ۔۔ یہ انسان ساری عمر اسی بات کا طعنہ دے کر اس کی زندگی عذاب کر دے گا۔۔ میں اپنی معصوم بیٹی کی زندگی جانتے بوجھتے جہنم میں کیوں دھکیلوں؟ صرف اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔؟“  تائی نے کچھ کہنا چاہا جب بابا نے انہیں احترام سے جواب دیا۔۔ وہ چپ کی چپ رہ گئیں۔۔ 

”چاچو میں بھی تو اپ سیٹ ہوں۔۔ آپ بات کیوں نہیں سمجھ رہے۔۔ یہ بتائے گی تو ایسا کرنے والوں کو سزا ملے گی۔۔“  اکرام نے جلدی سے اپنے روئیے کی وضاحت دی۔۔ ہالہ اور دیا ایک ایک کا منہ دیکھ رہی تھیں۔۔ 

”ڈیوورس دو ورنہ اور بھی طریقے ہیں۔۔ تم نے سنا ناں خادم بابا نے کیا کہا۔۔؟“ سالک نے غصے سے کہا اور پھر اکرام سے اسی وقت طلاق دلوا کر ہی اسے جانے دیا تھا۔۔

ہالہ بے دم سی بیٹھی رہ گئی تھی جبکہ دیا کے اندر تک سکون اترا تھا۔۔

”گرینڈ فادر، گرین پا۔۔آپ لوگوں کو چاہئیے کہ ہیلے اور زایان بی کی شادی کروا دیں۔۔ زایان بی لوز ہر آ لاٹ۔۔“ سالک نے نانا اور دادا کے درمیاں بیٹھ کر زرا سرگوشی میں کہا۔

”اچھا؟ بھائیان پھر کیا کہتے ہیں۔۔؟ زایان کا رشتہ آپ بتا رہے تھے پچھلے ماہ ختم کر دیا تو پھر ۔۔“  نانا جان تو تھے ہی سالک جیسے۔۔ جوش بھرے لہجے میں کہا۔۔ 

داجان سوچ میں ڈوبے تھے سر اثبات میں ہلایا۔۔ خادم صاحب سے بات کی بلکہ ریکوئسٹ کی تھی۔۔ کیونکہ صرف نکاح تھا تو عدت کی ضرورت نا تھی۔۔ اور پھر بیٹھے بٹھائے رشتہ طے ہوا۔۔ خان فیملی کے سارے مرد اور کچھ عورتیں آ گئیں۔۔ اسی دن رات کے نو بجے تک ہالہ کا نکاح زایان سے کر دیا گیا۔۔ ہالہ اس اچانک فیصلہ پر ضرور انکار کرتی اگر سالک اسے چپ نا کرا دیتا تو۔۔

”heley just trust me.. do you?"

سالک نے کتنے مان سے پوچھا تھا وہ جو کچھ ہی دن پہلے اس کا بھائی اور دوست بنا تھا اور اپنے رشتے کا حق ادا کرتے ہوئے پاگلوں کی طرح سارا دن ہالہ کے لیے جگہ جگہ گھومتا۔۔ پورا شہر چھانتا رہا تھا۔۔ اسے ہالہ کیسے انکار کرتی؟ اسے پہلی بار ”بھائی“ والا مان مل رہا تھا۔۔ کوئی اس کی فکر کر رہا تھا۔۔ اس کے باپ نے سالک پر یقین کر لیا تھا تو اس نے بھی سر جھکا لیا۔۔ زایان بے شک برا ہو سالک اس کی ڈھال ہے۔۔ اسے یقین ہو گیا تھا۔۔

زایان تو کتنی دیر بے یقینی سے جم ہی گیا تھا۔۔ اس کا نکاح؟ ہالہ سے؟

وہ جو گھر پہنچ کر بخار کی حدت سے جلتا بستر میں پڑا تھا۔۔ سب بھلائے حاضر ہوا تھا۔۔ چہرے پر اب بھی سرخی اور نقاہت تھی۔۔ مگر خوشی کی چمک ان پر بھاری تھی۔۔

”اپنی امانت لے جائیں آپ لوگ۔۔ کل بات خاندان میں پھیل جائے گی تو جواب طلبی کے لیے سب آئیں گے۔۔ میں جواب دے لوں گا مگر میں نہیں چاہتا ہالہ اس سب سے گزرے۔۔“ 

بابا نے ان سے کہا اعتراض انہیں بھی نا تھا۔۔

دیا گھر رک گئی تھی اور ہالہ خان پیلس رخصت ہو چکی تھی۔۔

یہ تھی ان کی قسمت اور ان کا ملنا ایسے ہی طے تھا۔۔۔ ہالہ نے زایان کا ہی ہونا تھا۔۔ زایان کو اب یقین ہو گیا تھا۔۔۔

وہ دونوں دل میں اپنے اللّٰہ سے ہمکلام تھے۔۔ زایان شکر گزار تھا اس ”عنایت“ پر۔۔

ہالہ شکوہ کناں تھی اس ”سزا“ پر۔۔

(نوٹ : اگر لڑکی اور لڑکا کا صرف نکاح ہو اور کوئی ازدواجی تعلق نا ہو تو اس طلاق کی عدت نہیں ہوتی۔۔)

💜❤💛💜❤💛💜❤💛💜

سالک تم مت جاؤ پلیز۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے بہت۔۔“ سالک کو دروازے کی طرف جاتا دیکھ کر کچن سے برتن دھو کر نکلتی دیا جلدی سے بولی۔۔ وہ رکا اور اس کی رونی صورت دیکھی جو واقعی ہالہ کے واقعہ سے ابھی تک خوفزدہ سی تھی۔۔

”میں ڈور لاک کرنے جا رہا ہوں۔۔ مجھے اس وقت زایان بی کے ساتھ ہونا چاہئیے تھا اور میں یہاں تمہاری سیکیورٹی کرتا پھر رہا ہوں۔۔ حد ہے ۔“ وہ منہ بنا کر بڑبڑاتا ہوا دروازے کی طرف گیا۔۔ دیا نے اطمینان بھری سانس لی۔۔

بابا کو کھانا کھلا کر میڈیسن دے دی تھی۔۔ 

ایک نظر ان کے کمرے میں جھانکا۔۔ آج دوسری بیٹی کو بھی قدردان اور محفوظ ہاتھوں میں دے کر وہ پرسکون لگ رہے تھے۔۔

دیا اپنے اور ہالہ کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھی۔۔ کمرے میں سنگل بیڈ ملا کر ایک بیڈ بنا ہوا تھا۔۔ جو دیا کی شادی کے بعد ہالہ نے ہی ایسے سیٹ کر لیا تھا۔۔ کمرے میں پھیلاوا دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور کپڑے وغیرہ سمیٹنے لگی۔۔ بیڈ پر نئی بیڈ شیٹ ڈالی۔۔ 

”اگر جو سالک ایسا روم دیکھتا۔۔ کیا کہتا، کتنا گند مچا کر رکھتی ہے ہالہ۔۔ افف۔۔ زایان بھائی کی قسمت۔۔“  آج پہلی بار ہالہ کی بجائے خود سمیٹتی وہ خود کو نہایت صفائی پسند سمجھنے لگی تھی۔۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سالک دروازے پر کھڑا کمرے کا جائزہ لے رہا تھا اور نجانے کب سے کھڑا تھا۔۔

”how dirty you are Diana.. but thank God you've ability to clean your mess...

دیا کے متوجہ ہونے پر وہ ناک چڑھا کر بولا۔۔

”یہ روم ہالہ کے یوز میں ہے۔۔ میں آج صبح ہی آئی ہوں اگر یاد ہو تو۔۔“  دیا نے فوری سارا ملبہ ہالہ پر پھینکا۔۔ 

”اور صبح سے یہ روم تمہارے یوز میں ہے۔۔ نہیں؟“ سالک کندھے اچکاتا آگے بڑھا اور بیڈ پر جا بیٹھا۔۔ دیا نے شرمندگی سے یہاں وہاں دیکھا۔۔ کوئی جو موقع سالک جانے دے۔۔

”سالک یہ سب کہیں تم نے تو نہیں کیا۔۔ ؟ تم نے ہالہ کے نکاح پر کہا تھا تم زایان بی کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہو۔۔“ دیا اچانک یاد آنے پر اس کے پاس جا بیٹھی اور آنکھیں پوری سے زیادہ پھیلا کر اسے دیکھا۔۔

”ایک فری ایڈوائز ہے۔۔ تمہارا دماغ بالکل سپییر ہے۔۔ سو پلیز تم اسے یوز کرنا بند کر دو۔۔ ورنہ سر بالکل خالی ہو جائے گا۔۔“ سالک کے الٹے جواب پر وہ مزید شکی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ 

”ڈی فار گاڈ سیک۔۔ میری کوئی سسٹر نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں میں اس طرح ہیلے کا لوگوں میں تماشہ بنواؤں گا۔۔ اسے یوں کڈنیپ کر کے سٹرینجرز میں اکیلا چھوڑوں گا اور ایک پورا دن مینٹلی ٹارچر کر کے اسے یونہی ہیلپ لیس چھوڑ دوں گا۔۔؟ تم مجھے اچھا نہیں سمجھتی تو مت سمجھو مگر اتنا شیم لیس نہیں ہوں میں۔۔“ سالک نے سختی سے کہا تو وہ شرمندہ ہو گئی۔۔ اسے اس طرح شک نہیں کرنا چاہئیے تھا۔۔

”میں نے کہا تھا کچھ بھی کروں گا۔۔ اور وہ کچھ یہ تھا کہ میں نے پہلی فرصت میں ہی نکاح کروا دیا۔۔ میں ہیلے کو سارا دن سرچ کرتا رہا ہوں۔۔ اگر تمہیں مجھ پر اس لیے ڈاؤٹ ہے کہ ڈھونڈ نہیں پایا تو میں بتا دوں مجھے یہاں کی پلیسز کا پتا نہیں۔۔ اور میں انسان ہوں جن نہیں کہ سیکنڈز میں اسے ڈھونڈ کر سامنے لے آتا۔۔“  وہ بری طرح بگڑ گیا۔۔ اتنی خواری کے بعد جسے سب سے زیادہ مشکور ہونا چاہئیے تھا، اس سے یہ بات سن رہا تھا۔۔ تھکن مزید بڑھ گئی تھی۔

اسے دیا کی یہ بات۔۔ یہ شک بہت ہرٹ کر گیا تھا۔۔ اس نے واقعی ہالہ کو بہن سمجھا تھا اور بہن کی بہتری کے لیے بھی کوئی بھائی ایسا بے ہودہ سٹیپ نہیں لے سکتا تو ڈی نے اسے ایسا کیوں سمجھا؟

وہ ایک سائیڈ پر بگڑے موڈ کے ساتھ لیٹ گیا تھا۔۔ دیا لب کچلتی اسے دیکھنے لگی۔۔

” تم نے اسی طرح مجھے کیوں نہیں ڈھونڈا تھا سالک۔۔“ تھوڑی دیر بعد دیا کا شکوہ سن کر سالک کو اچھا خاصہ جھٹکا لگا تھا۔۔ یعنی ابھی بھی اپنا صدمہ باقی تھا اس کا۔۔؟ 

"seriously?. you're too much D..."

سالک اٹھ کر بال نوچنے لگا۔۔ دیا کی آنکھوں میں اب بھی شکوہ تھا۔۔ ہالہ کے لیے پاگل ہوا میرے لیے کیوں نہیں؟ ہالہ کی فکر تھی کہ کچھ غلط نا ہو جائے۔۔ میری فکر کیوں نہیں ہوئی؟ وہ رونے کی تیاری باندھنے لگی۔۔

”تمہیں پتہ ہے میں اکثر جب رات کو ڈرتی ہوں۔۔ جب میں خواب میں اسی جگہ وہی ازیت بار بار سہتی ہوں تو ہمیشہ تم سے شکوہ ہوتا ہے کہ مجھے ڈھونڈا کیوں نہیں تھا تم نے؟ تمہیں اندازہ ہے اس نے مجھے کتنی بے دردی سے مارا تھا۔۔“ وہ ایک بازو آنکھوں پر رکھے رونے لگی۔ سالک شاکڈ رہ گیا۔

”میں آج تک اس وقت سے نہیں نکل پائی کیونکہ مجھے ہالہ کی طرح کسی نے نہیں ڈھونڈا تھا۔۔ میں وہاں پورا دن اکیلی تھی سالک۔۔“ اسے ایک ہی صدمہ کھائے جا رہا تھا۔۔ 

سالک نے ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو آنکھوں سے ہٹایا تو اس نے بھیگی آنکھوں سے سالک کو دیکھا۔۔ سالک یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔۔

”تمہیں شرم نہیں آرہی سالک؟ تم اب بھی مجھے روتا دیکھ کر خوش ہو رہے ہو۔۔“  دیا نے اس کے یوں بازو ہٹا کر دیکھنے پر خفگی سے کہا۔۔ سالک نے ہنس کر اسے دیکھا اور آگے بڑھ کر سینے سے لگا لیا۔۔

”میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا تھا ڈی۔۔ سارا دن ڈھونڈا تھا۔۔“ اسے گلے سے لگا کر وہ بولا۔۔

اگر اسے زرا بھی اندازہ ہوتا وہ اس کی وجہ سے اتنا (suffer) سفر کرتی رہی ہے تو پہلے دن بتا دیتا اس نے خوامخواہ اس بات کو چھپائے رکھا۔۔ اس کے سینے سے لگی دیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔

”سالک میں ایک خواب دیکھتی ہوں کہ تم کسی کو بہت زیادہ مار رہے ہو۔۔ اور پھر مجھے ہگ کر کے سوری کر رہے ہو۔۔ کیا یہ سچ ہے۔۔“ دیا نے چہرہ اس کے سینے میں چھپاتے ہوئے پوچھا تاکہ وہ اس کا مزاق نا اڑائے اس خواب پر۔۔ سالک نے گہرا سانس بھرا، اب چھپانے کا فائدہ نہیں تھا۔۔ ڈی کی اس پریشانی اور خواب دیکھنے پر اس کی کنفوژن دور کرنا ہی بہتر لگا۔۔

”یہ بالکل سچ ہے۔۔ وہ خواب نہیں وہ سچ ہے۔۔“ سالک نے اس کا سر تھپتھپایا۔۔

”تم کیا بول رہے تھے تب بتاؤ؟“ دیا نے سر اٹھا کر بغور اس کا چہرہ دیکھتے اندازہ لگانا چاہا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔۔۔ 

”you dare to touch.. i'll kill you..

something like this.. I beged you while hugging you saying...sorry D it was my fault.. are you clear..?

(تم نے اسے چھونے کی ہمت کی میں تمہیں مار ڈالوں گا۔۔ کچھ ایسا کہا۔۔ میں تمہیں گلے لگائے منت کر رہا تھا اور کہا تھا معاف کرنا ڈی یہ میری غلطی تھی.. کیا اب تم (اس معاملہ میں) واضح ہو۔۔؟)  

سالک وہی سب بول رہا تھا جو وہ خواب میں دیکھتی آئی تھی۔۔ پھر اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کرتے ہوئے پوچھا۔۔ دیا بے ساختہ سر ہلا گئی۔۔

”سالک تمہارا وہ سمسٹر پیپر اس دن میری وجہ سے رہ گیا تھا؟“ دیا کو سالک کی فیملی نے بتایا تھا کہ اس کا پیپر رہنے کی وجہ سے سمسٹر فریز کرنا پڑا۔۔اب وجہ سمجھ آ رہی تھی۔۔ سالک نے ہاں میں سر ہلایا۔۔ 

”مطلب۔۔تم مجھے پسند کرتے تھے تب سے۔۔؟“ 

وہ شرما کر بولتی اسی نتیجہ پر پہنچی تھی۔۔

”نہیں یہ سب سٹرَگل شوق میں کرتا گیا۔۔“ سالک ہنستے ہوئے پھر سے اپنی جگہ لیٹ کر دیا کو دیکھنے لگا۔۔ جو اب پر سکون سی بنا سانس لیے بولتی جا رہی تھی سالک نے اس کا گلابی نازک سا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا اور آنکھیں بند کیے سونے لگا۔۔ دیا نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔۔ 

”میں جب بھی باتوں میں مصروف ہوں تم فری ہونے لگتے ہو۔۔ میں تمہارے یہ ڈر لگنے والے ڈرامے سمجھ گئی ہوں۔۔ وہ جو تم نے سیلفیز لی ہیں۔۔ ڈرنے والی شکلیں ایسی نہیں ہوتیں۔۔ اور میں تمہاری اُس حرکت کا بدلہ ابھی لے چکی ہوں۔۔۔“ دیا نے کہتے موبائل اس کے سامنے لہرایا تو وہ چونکا۔۔ 

”مطلب کیسا بدلہ؟“ سالک اس فتنہ کو گھورنے لگا۔۔ جو ابھی اتنی معصوم بنی روتی جا رہی تھی اور اب پھر سے اپنے روپ میں تھی۔۔

”چیک مائے وَٹس ایپ سٹیٹس۔۔“ وہ شرارت سے بولی۔۔ سالک نے جلدی سے سیل اٹھا کر چیک کیا تو اس کی وہی پکچر جس میں وہ برش کرتے ہوئے نیند کر رہا تھا، دیا نے سٹیٹس پر لگائی ہوئی تھی۔۔ سالک جل بھن گیا۔۔ کتنی شرم کی بات تھی۔۔

”You D fo Damnil.. get ready fo my answer.. "

سالک نے موبائل بیڈ پر پٹخا۔۔ دیا زور سے کھلکھلائی۔۔ سالک سوچ چکا تھا سے کیا کرنا ہے۔۔ ڈی سہی پچھتانے والی تھی۔۔ 

        👈YamanEvaWrites👉   

تائی جان اپنے کمرے میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گئیں۔۔ اکرام کی حرکت نے ان کا دل بری طرح توڑ دیا تھا۔۔ 

فارس اور اکرام آگے پیچھے ان کے کمرے میں آئے مگر وہ چپ کر کے پڑی رہیں۔۔

”امی آپ ٹھیک تو ہیں۔۔“ اکرام نے آہستگی سے پوچھا۔۔ ان کا چہرہ بالکل زرد ہو رہا تھا۔۔

”میں نے تو پوری کوشش کی تھی۔ اچھی لڑکیاں چنیں۔۔ باوفا اور گھر بسانے والی۔۔ مگر تم دونوں کو شاید باحیا لڑکی چاہئیے ہی نہیں تھی۔۔“ تائی نے سنجیدگی سے کہتے اپنے دائیں بائیں بیٹھے بد نصیب بیٹوں کو دیکھا۔۔

”میرا کیا قصور ہے۔۔ شروع سے آپ نے کہا دیا سے زیادہ فری نا ہوں۔۔ اسے رشتے کا احساس نا دلاؤں۔۔ معصوم ہے۔۔ نا سمجھ ہے۔۔ میں اس کے ساتھ بس ایک کزن کی طرح رہا اور وہ کسی سے نکاح کر کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔ میری تو کبھی ہوئی نہیں وہ۔۔ ورنہ اکرام بھائی کی طرح نا کرتا کبھی۔۔“  فارس تو پھٹ پڑا تھا۔۔ اکرام نے لب بھینچے۔۔

”ان کی حرکتیں دیکھی ہیں۔۔ پورے محلے، پورے خاندان میں ایک یہی لڑکیاں کیوں ہر بار گھر سے غائب ہوئیں اور بھی خوبصورت لڑکیاں ہیں یہاں۔۔ نا کبھی کوئی اغوا ہوئی نا گھر سے غائب ہو کر نکاح کروا کر آئی۔۔ آپ کو اب بھی لگتا ہے وہ اچھی ہیں۔۔۔“  اکرام نے تنفر سے کہتے ہوئے ماں کو دیکھا۔۔

”ہاں کیونکہ ان پر یہ وقت تم لوگوں کی وجہ سے آیا۔۔ سب کے گھروں میں مجبوریاں ہوتی ہیں، مرد سہارا بنتے ہیں یہاں تم سہارا بن کر نا دئیے۔۔ اپنی بہن کی شادی کے لیے ہر جگہ قرض کی بات کی۔۔ باپ جیسے چچا کے لیے نہیں کر پائے، جب وہ موت کے منہ میں تھا۔۔۔ وہ چچا جس نے باپ کے بعد جتنا ہو سکا سہارا بن کر دکھایا۔۔ غزالہ کا اتنا مہنگا فرنیچر اسی نے بنوایا کہ وہ باپ ہے اس کا حق ہے۔۔ اس پر وقت آیا تو یہاں سے چند پیسے پکڑا کر ہاتھ جھاڑ لئیے۔۔“ تائی جان نے انہیں شرم دلائی۔۔

”یہ دیا کی ہمت تھی کہ آج ان کا باپ ان کے سر پر سلامت ہے۔۔ وہ کم عقل اور نا سمجھ تھی مگر باپ کی زندگی پر کمپرومائز نہیں کر سکی۔۔ اور دیا نے بتایا مجھے کہ یہ فارس۔۔ اِسے ہالہ نے کہا تھا، دوا لا دے مگر ”کام ہے“ کہہ کر چل پڑا۔۔ کونسا ملک سنبھال رہا ہے۔۔ اسے شرم نہیں آئی، پانچ منٹ لگتے دوا لا دیتا۔۔ تمہیں کہا تو تم نے بھی کہا واپسی پر لاؤں گا۔۔ مریض ہے وہ بندہ۔۔ تکلیف سے پڑا تھا تو کیا پورا دن تڑپنے دیتیں باپ کو؟ چلی گئی خود۔۔“  تائی جان کا سانس پھولنے لگا تھا۔۔ دونوں سر ڈالے بیٹھے رہے۔۔

”ان کے کردار کا یہیں سے اندازہ لگا لو۔۔ اتنے بڑے گھر کے لڑکے اتنا پیسہ، تعلیم، عزت اور شہرت ہے اور ان سے نکاح کے لیے بنا سوچے ہاں کی دونوں نے۔۔۔ یہ بڑے لوگ جن کا شہر میں ایک نام ہو۔۔ بدکرادر لڑکی اپنے گھر ملازمہ بھی نا رکھیں وہ بیوی بنا گئے۔۔ 

انہیں پتہ تھا یہ لڑکیاں اچھے برے حال میں ساتھ دینے والی ہیں۔۔ باوفا ہیں، باکردار ہیں۔۔ وہ پہچان گئے بس تم بد نصیب اپنی کم عقلی کی وجہ سے آج خالی ہاتھ بیٹھے ہو۔۔“ 

ماں کی بات پر فارس نے سختی سے آنکھیں بند کیں۔۔ 

”اور کون جانتا ہے یہ کروانے والا بھی وہ زایان خود ہو۔۔ تبھی تو بنا سوچے نکاح کر لیا۔۔ ورنہ کون اتنا اچھا ہوگا جو لڑکی کڈنیپ کرے اور پھر بنا کچھ کہے چھوڑ بھی دے۔۔“ اکرام نے استہزائیہ انداز میں سر جھٹکا۔۔

فارس نے چونک کر بھائی کو دیکھا اور اسکے دماغ میں کلک ہوا۔۔ ان کے کڈنیپ کرنے سے پہلے ہی کڈنیپنگ ہونا۔۔ اور واصف تو ویسے بھی کہہ رہا تھا زایان خان کی اس پر نظر ہے۔۔۔ تو کیا زایان نے ہالہ کو محفوظ کرنے کے لیے اٹھوایا؟ اس کی ہالہ کے لیے دلچسپی تو وہ بھی بہت بار دیکھ چکا تھا۔۔ اس کے زہن میں لگی گرہ سی جیسے کھلی تھی۔۔ 

”اب بھی یہی سوچو گے۔۔ باعزت مرد ہمیشہ باعزت طریقہ اپناتا ہے۔۔ وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے اُس لڑکی کے کردار پر لوگوں کی انگلیاں کیوں اٹھوائے گا جس لڑکی کو اپنی عزت بنانا ہو۔۔؟“ ماں کی بات پر فارس کو لگا انہوں نے اسی کو بےغیرتی کا طعنہ دیا تھا۔۔ وہ خجل زدہ سا سر جھکا گیا۔۔

”خسارے میں رہو گے۔۔۔ وہ تو اپنے گھروں میں بس جائیں گی۔۔ کل کو سب بھول جائیں گی۔۔ تمہارے ہاتھ خسارہ ہی آئے گا، میری بات یاد رکھنا۔۔ اب جاؤ مجھے سونا ہے۔۔ جاؤ اور اپنے لیے باکردار لڑکیاں خود تلاشنا۔۔ میرا فرض پورا ہوا۔۔“  وہ سائیڈ ٹیبل کی دراز سے بی پی کی گولی نکال کے لینے لگیں۔۔ وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔۔ 

ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔ وہ بھی اپنے بچے تھے مگر ان دو کو بھی چھوٹی سی تھیں، پال کر جوان کیا۔۔ بیٹیاں ہی سمجھا تھا۔۔ ان کے لیے تو سب بچے برابر تھے۔۔ 

اور عورت جب ایک بار ”ماں“ کا روپ دھار لے تو وہ بس ماں ہوتی ہے اپنی، پرائی یا سوتیلی نہیں ہوتی۔۔ اور وہ ہالہ دیا کے لیے ماں تھیں۔۔ اور ماں کا دل تو اداس تھا ہی کہ بیٹیوں کی ان حالات میں الزام اور طعنے سہہ کر نکاح ہوئے تھے۔۔ انہیں اندازہ تھا ان پر کیا گزرتی ہو گی۔۔۔ وہ خوش ہونے سے پہلے اپنے غم کو دل میں دباتی ہوں گی۔۔ پھر مسکراتی ہوں گی۔۔  

اور وہیں دوسری طرف انہیں اپنے بیٹوں کے فیوچر کی فکر بھی ستانے لگی تھی۔۔ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے مستقبل کا سکون کھو چکے تھے۔۔ اب جانے کیا نصیب ہو۔۔

       👈yamanEvaWrites👉    

زایان کمرے میں آیا تو ہالہ سنگل صوفے پر سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی۔۔ سر گھٹنوں میں دئیے یقیناً اس اچانک شادی کا ماتم منا رہی تھی۔۔۔ 

”ہالہ۔۔“  زایان نے اس سے کچھ قدم دور رک کر اسے نرمی سے پکارا۔۔ اس نے گلابی آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ آنکھوں میں زایان کے لیے شدید غصہ اور نفرت تھی۔۔ زایان کا دل اس کی حالت پر کٹ کر رہ گیا۔۔ ہالہ نے تنفر سے رخ پھیر لیا۔۔

”تم۔۔۔ تم بیڈ پر سو جاؤ پلیز۔۔ اس طرح تھک جاؤ گی بیٹھے بیٹھے۔۔“  زایان نے نرمی سے کہا پر وہ بنا جواب دئیے بیٹھی رہی۔۔

وہ بھی وارڈروب سے اپنا ایزی ڈریس لے کر چینج کرنے چلا گیا۔۔ چینج کر کے آیا۔۔ جگ سے پانی ڈال کر میڈیسن لی۔۔ 

اس آنے جانے اور نکاح کے جھنجھٹ میں اب طبیعت مزید بگڑ رہی تھی۔ چہرہ موڑ کر صوفے پر بیٹھی ہالہ کو دیکھا۔۔

آج وہ بنا چادر کے ڈوپٹہ پہنے اس کے کمرے میں موجود تھی۔۔  اس کی محرم کے روپ میں۔۔ زایان کا دل شدت سے دھڑک اٹھا۔۔ 

”بیبی پنک خوبصورت سا مگر کافی سادہ سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔ جو دیا نے نکاح سے پہلے اسے زبردستی پہنوایا تھا۔۔ 

ڈوپٹے سے نکلے ڈارک براؤن بال اس کے گرد پھیلے تھے۔۔ وہ وقفے وقفے سے کبھی ٹانگیں اور کبھی اپنے پیر دبا رہی تھی۔۔

”ہالہ پین کلر لے لو۔۔“  زایان نے مجبور ہو کر اسے دوبارہ سے مخاطب کیا۔۔

”زہر لا دو ایک ہی بار۔۔ تاکہ تم سے اور زندگی سے جان چھوٹے میری۔۔“ وہ سر اٹھا کر طیش سے بولی تو وہ گہرا سانس بھر کر اٹھا اور اس کے پاس پہنچا۔۔ 

”میں تمہاری تھکن کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔۔ آئی مین آج کا دن کافی ٹائرنگ تھا تمہارے لیے۔۔“  زایان نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا۔۔ ہالہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔۔ اور اسے دیکھا۔۔

”ہاں تم تو جانتے ہو کتنا زلیل کر چکے ہو مجھے۔۔۔ اب فکر ستا رہی ہے؟ اور دیکھو کتنی ڈھیٹ ہوں میں۔۔ پھر بھی زندہ ہوں۔۔“  ہالہ دبا دبا سا چِلائی۔۔ زایان اس کی نفرت پر اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔

”تمہیں لگتا ہے یہ سب میں نے کیا؟“  زایان نے سنجیدگی سے اس کا آنسوؤں سےترچہرہ دیکھا۔۔

”مجھے اس بات پر یقین ہے۔۔ اب تم مکرو گے تب بھی فرق نہیں پڑتا۔۔“ ہالہ نے کہہ کر چہرہ گھٹنوں میں چھپا لیا۔۔

زایان کمرے سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک ملازمہ بھی تھی۔۔ جس کے ہاتھ میں آئل کی بوتل تھی۔۔ ہالہ نے سوالیہ نظر سے دیکھا۔۔

”بیڈ پر خود آؤ گی یا میں لے جاؤں۔۔“ وہ اب بالکل سنجیدگی سے بول رہا تھا۔۔

ہالہ نے اس ملازمہ کو مسکراہٹ دباتا دیکھا تو خفت زدہ سی اٹھ کر بیڈ پر جا بیٹھی۔۔

”ببلی وہ جو تم دی جان کو کرتی ہو مساج وغیرہ۔۔ وہ اس کو بھی کر دو پلیز۔۔“  زایان نے ملازمہ سے کہا وہ سر ہلا کر ہالہ کے پیروں کی طرف آ کر بیٹھ گئی۔۔ زایان بیڈ کی دوسری سائیڈ پر جا کر بلینکٹ سر تک ڈالے لیٹ گیا تھا۔۔

”مم۔۔۔مجھے نہیں کروانا کچھ بھی۔۔“  ملازمہ کے پاؤں پکڑنے پر ہالہ نے گڑبڑا کر کہا۔۔

”ششش بی بی جی۔۔ چپ چاپ کروا لیں،، آپ کو سکون ہی ملے گا ورنہ زایان صاب اتنے غصیلے ہیں کہ ابھی پورا گھر سر پر اٹھا لیں گے۔۔“  ببلی نے سرگوشی میں کہہ کر اسے ڈرایا تو وہ بھی آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی۔۔

اور پھر واقعی نرم ہاتھوں سے کی مالش سے اس کو سکون ملنے لگا۔۔ پیروں اور پنڈلیوں کی مالش کرواتے کرواتے وہ نیم دراز سی نیند میں جانے لگی۔۔ ببلی مالش کر کے اس کی ٹانگیں تب تک دباتی رہی جب تک وہ گہری نیند میں نا چلی گئی۔۔ 

زایان نے بلینکٹ سے سر نکال کر اسے دیکھا پھر ببلی کو مسکرا کر ویل ڈن کہا۔۔

”زایان صاب یہ تو بہت پیاری اور بہت معصوم سی ہیں جی۔۔ اتنا میٹھا بولتی ہیں جی۔۔ اور۔۔  

” تم نے عزہ کا بھی یہی کہا تھا۔۔ تمہاری تعریف کے یہی الفاظ ہیں بس؟“  زایان نے اسے ٹوک کر آنکھیں دکھائیں تو وہ منہ بناتی اٹھ کر چلی گئی۔۔

زایان نے ہالہ کا سر تکیے پر رکھ کر سہی سے لٹایا اور اس کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار باندھ کر بلینکٹ اوپر ڈال دیا۔۔

وہ اس کی بانہوں میں سکون سے گہری نیند سو رہی تھی۔۔ زایان نے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور کسی قیمتی خزانے کی طرح اسے خود میں سمیٹتا، سکون سے آنکھیں بند کر کے سونے لگا۔۔ 

آج کی رات اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچی تھی۔۔۔ یہ شاید اس کے صبر کا انعام تھا کہ اس نے ہالہ کے نکاح ہونے پر بھی کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا تھا بلکہ اللّٰہ پر یقین رکھا تھا اور ہار نہیں مانی تھی۔۔ اسے ہالہ کی غلط فہمی سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔۔ وہ مل گئی ہے تو غلط فہمیاں بھی ایک دن ختم ہو جانی تھیں۔۔ اسے کوئی جلدی بھی نا تھی۔۔

       👈YamanEvaWrites👉 

ساری خان فیملی کی عورتیں اس وقت داجان اور دی جان کے کمرے میں بیٹھی تھیں۔۔ مرد اپنے آفسز گئے ہوئے تھے۔۔ بس داجان اور نانا گھر پر تھے اور زایان جس کی طبیعت ”خراب“ کا بہانہ اب بھی جاری تھا حالانکہ اب وہ کافی بہتر تھا۔۔ اس وقت بھی دی جان کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔ 

ہالہ سر جھکائے ربیعہ بیگم یعنی اپنی ساس کے پاس بیٹھی تھی۔۔ جو اسے ولیمہ کے ڈریس کا ڈیزائن اور کلر سیلیکٹ کروا رہی تھیں۔۔ سب کے اتنا کہنے پر کہ زایان کے ساتھ جا کر خود لے آئے پر وہ نا مانی۔۔ اسے زایان نامی بلا کے ساتھ کہیں نہیں جانا تھا۔۔

”یہ گرے اور ریڈ کمبی نیشن لہنگا کیسا ہے؟“ انہوں نے ایک بہت خوبصورت بھاری کام والا لہنگا دکھایا جو واقعی بہت پیارا تھا۔۔۔ اور ہالہ کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔

”زایان کو بھی یہی کلرز پسند ہیں۔۔“ اس سے پہلے کہ ہالہ ڈن کرتی انہوں نے بتایا تو ہالہ نے منہ بنایا۔۔ زایان جو دی جان کی گود میں سر رکھے ہالہ کو ہی دیکھ رہا تھا، اس کے اس ری ایکشن پر مسکرایا۔۔

”مم۔۔ مجھے ہیوی ڈریسنگ نہیں پسند۔۔ کبھی نہیں پہنے اور پھر کیری بھی نہیں کر پاؤں گی میں۔۔“ ہالہ نے بے چارگی ظاہر کرتے ہوئے انکار کیا۔ وہ زایان کی پسند کیوں پہنتی۔۔ خوامخواہ؟

”اوہ۔۔ اچھا یہ کیسا ہے۔۔؟“ انہوں نے اور دکھایا۔۔ وہ بھی لہنگا ہی تھا۔۔

”زایان کو لہنگا اچھا لگتا ہے۔۔ یہ ہر وقت کہتا تھا اپنی شادی اور ولیمہ دونوں دن لہنگا ہی پہنواؤں گا اپنی دلہن کو۔۔“ 

وہ ہنس کر بتا رہی تھیں۔۔ ہالہ موڈ خراب ہوا۔۔

”آ۔۔آپ کو برا نا لگے تو یہ لے لوں؟ مجھے یہ ڈریس اچھا لگ رہا ہے۔۔“ کچھ دیر بعد ایک نفیس سی میکسی جو ڈل گولڈن تھی اور گلے اور بارڈر پر بھاری کام جبکہ باقی میکسی پر لائٹ سا سیلف کلر کام ہوا تھا۔۔ ہالہ نے اس کا کہا اور چہرے پر اچھی خاصی معصومیت طاری کرتے ہوئے انہیں دیکھا۔۔ زایان کے لیے یہ سب دلچسپ بھی تھا اور ہنسی روکنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔۔ 

”ارے۔۔۔ برا کیوں لگے گا۔۔ چلو یہی ڈن۔۔“ انہوں نے پیار سے ہالہ کا گال تھپتھپا کر کہا۔۔

”تم کوئی ایک لہنگا دیا کے لیے سلیکٹ کر لو۔۔“ دی جان نے انہیں مشورہ دیا تو انہوں نے ریڈ گرے دیا کے لیے ڈن کر دیا۔۔

سالک اسی وقت اندر آیا۔۔ سب سے مل کر ہمیشہ کی طرح نانا اور دادا کے پاس جا بیٹھا۔۔ اس کے بیسٹ فرینڈ جو وہی تھے۔۔۔

”او ہمارا کیوٹ بے بی آ گیا۔۔ کیا بات ہے آج کل بےبی کی نیند پوری نہیں ہو رہی۔۔“  اسے دیکھتے ہی زایان اور اس کی کزنز جو اب ولیمہ کے لیے آئی ہوئی تھیں، سب نے چھیڑا یعنی سب سٹیٹس دیکھ چکے تھے۔۔ 

سالک نے منہ بنا کر دیا کو دل ہی دل میں کوسا جو اسے ہر وقت سب کے درمیان بچہ بنانے پر تلی تھی۔۔ 

”سیا نہیں آئی؟“ نانا جان نے پوچھا۔۔ ان کی دیا سے اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔۔

”نہیں وہ تو بابا خادم پاس ہی رکے گی ابھی۔۔“ سالک نے انہیں جواب دیتے ہوئے ہالہ کو دیکھا جو اس کی کزنز کی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔۔ وہ ریلیکس سا ہو گیا۔۔

”ہالہ کہاں ہے ماما۔۔؟“ زایان آفس سے آنے کے بعد سے دیکھ رہا تھا کہ ہالہ نظر نہیں آ رہی۔۔ چینج کر کے آیا تو ٹی۔وی لاؤنج میں سب بیٹھے تھے۔۔ ایک فلور کشن پر بیٹھتے ہوئے اس نے بہانے سے یہاں وہاں دیکھتے پوچھا۔۔

”وہ تو اپنے بابا سے ملنے گئی ہے۔۔۔ اس نے تو کہا تم سے پوچھا ہے۔۔؟“ ربیعہ بیگم نے بتا کر اسے حیرت سے دیکھا۔۔

”اوہ۔۔ ہاں پوچھا تھا۔۔ مجھے خیال نہیں رہا مجھے لگا رات تک جائے گی۔۔“  وہ بالکل بتا کر نہیں گیی تھی مگر زایان کو بات بنانا پڑی ورنہ ہالہ کے جھوٹ پر سب کا دل برا ہو جاتا اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔

”ہاں کہہ رہی تھی ولیمہ میں ابھی دو دن رہتے ہیں اور سالک تو ولیمہ کی رات ہی واپس جا رہا ہے تو دیا کو سالک کے ساتھ رہنا چاہئیے۔۔ تب تک وہ وہاں رہے گی۔۔“  اس کی تائی جان نے بتایا۔۔ سالک کے جانے پر سب اداس تھے مگر اس کا فائنل سمسٹر سٹارٹ ہو چکا تھا۔۔ وہ بس زایان کے ولیمہ تک رک گیا۔۔ زایان کی نظر سامنے نانا جان کے ساتھ بنا رکے بولتی دیا پر پڑی۔۔ 

”میں ایک فنی ویڈیو دکھاتا ہوں،  آپ لوگ انجوائے کریں گے۔۔“  اچانک ہی سالک بولا اور سب کو دیکھا۔۔ سب کے ساتھ دیا بھی متوجہ ہوئی۔۔

وہ سنگل صوفے پر اس طرح لیٹا تھا کہ صوفہ کے ایک بازو پر سر رکھا تھا دوسرے پر ٹانگیں۔۔ اور سب کے دیکھنے پر اس نے موبائل پر ایک ویڈیو لگائی اور بازو اونچا کیے موبائل ایسی ڈاٸریکشن پر رکھا کہ سب آسانی سے دیکھ سکیں۔۔ 

سامنے ویڈیو میں دیا سپائسی فوڈ کھا رہی تھی۔۔ آنکھیں اور ناک لال ہو رہی تھی۔۔ سوں سوں کرتی ڈوپٹہ ناک پر رگڑتی بھوکے بچے کی طرح کھاتی جا رہی تھی۔۔

سب کا قہقہہ بلند ہوا۔۔ دیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ یہ ویڈیو سالک کے پاس کیسے آئی؟ کیا ہالہ نے دی؟ وہ بری طرح شرمندہ ہوئی تھی۔۔ سالک اس سٹیٹس کا بدلہ لے چکا تھا۔۔

”اوہ مائے گاڈ۔۔ سیا یو آر سو کیوٹ۔۔“ نانا جان نے پیار سے کہا۔۔ داجان نے ہنس کر سالک کو دیکھا جو اتنا انجوائے کر رہا تھا۔۔۔

”یار یہ کیا کر رہے ہو۔۔ تمہیں اندازہ بھی ہے یہ وایف نامی بلا کتنی ڈینجرس ہوتی ہے۔۔؟“ صایم نے آنکھیں پھیلا کر اسے ڈرایا۔۔

”دیا کیا تمہیں لڑنا نہیں آتا؟“ راسم نے بھی شرارت سے کہا۔

”سالک تمہاری خیر نہیں۔۔“ زایان نے دیا کے دانت کچکچانے پر مزہ لیتے ہوئے کہا۔۔ مگر سالک کو پرواہ نہیں تھی۔۔ وہ کندھے اچکاتا دیا کو آنکھ مارتا مزید بھڑکا گیا تھا۔۔ 

”صیام یہ کیا نیوز چل رہی ہے زرا والیوم بڑھاؤ۔۔“ داجان کی نظر ایل ای ڈی پر پڑی تو اچانک بولے۔۔ سب متوجہ ہوئے۔۔

مشہور بزنس پرسنالٹی واصف لغاری کے آفس کی ویڈیوز لیک۔۔ بزنس کے نام پر سائیڈ بزنس۔۔ کمپنی کی لڑکیوں سے غیر اخلاقی برتاؤ۔۔ غریب اور مجبور لڑکیوں کو جاب کے نام پر بلیک میلنگ۔۔ 

واصف لغاری کی تصاویر کا ڈھیر تھا۔۔ رپورٹرز چیخ چیخ کر اس کا اصلی چہرہ دکھا رہے تھے۔۔ اور اس کی اصلیت نکلنے پر جو مجبور لڑکیاں بدنامی کے ڈر سے خاموش تھیں اب ٹاک شوز پر آ کر اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کی داستانیں سناتی ہمدردی حاصل کر رہی تھیں۔ 

میڈیا نے تہلکہ مچا دیا تھا۔۔ بزنس کی دنیا کے چھوٹے موٹے بزنس مین بھی اس سے کوئی تعلق نا رکھنے کا اعلان کرتے خود کو شریف اور غیرت مند ثابت کرنے پر تلے تھے۔۔

اس پر کیسز بن گئے تھے۔۔ پولیس تلاش میں تھی مگر وہ جانے کس بل میں جا چھپا تھا۔۔

”واہ۔۔ کس شیر نے رکھ دیا واصف کی دکھتی رگ پر ہاتھ۔۔ 

بہت گھٹیا بندہ نکلا یہ تو بھئی۔۔ ہوا کیسے یہ سب۔۔  اب لغاری پکا بینکرپٹ ہو گا۔۔ 

اسے جیل ہو گی۔۔ سزا کب تک ہو گی؟

یہ اب گلیوں پر آ جائے گا۔۔ عزت راس نہیں تھی۔۔ 

اس کے اپنے آفس سے کسی نے ویڈیوز لیک کی ہونگی۔۔ 

کوئی تو تنگ آیا کہ یہ قدم اٹھا لیا۔۔ 

یہ ہمت پہلے کیوں نہیں کی کسی نے۔۔“ سب مرد اس بات کو ڈسکس کرتے اپنی رائے اور خیال پیش کرنے لگے۔۔ 

سالک موبائل پر گیم کھیلتا سن رہا تھا۔۔ پھر اپنے قریب ہی فلور کشن پر بیٹھے زایان کی طرف جھکا۔۔  

”زایان بی۔۔ ایم شیور ہالہ کی کڈنیپنگ میں اس کا ہاتھ تھا۔۔ اپنی مس انڈرسٹینڈنگ دور کرنی ہیں تو اب آپ کی باری ہے۔۔ اس کے خاص بندوں کو ڈھونڈیں اور پتا لگوائیں۔۔“ سالک کی بات پر زایان نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا جو بس دکھنے میں ہی معصوم تھا ورنہ انگلیوں پر نچاتا تھا۔۔

”اوئے جن یہ تمہارا کام تو نہیں۔۔؟“ زایان نے سرگوشی میں سوال کیا۔۔

”سیرئیسلی؟ مجھے یہ کام نہیں آتے زایان بی۔۔ اور آفس کے اندر کی ویڈیوز مجھے کون دے گا۔۔ آپ لوگ پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں مجھے۔۔“ وہ فوراً مکرتا الٹا ناراض ہونے لگا۔۔

یہ کام اسی کا تھا مگر وہ یہ بات ساری زندگی نہیں ماننے والا تھا۔۔ 

       👈YamanEvaWrites👉

سالک نے کافی بنانے کا کہا تو دیا غصے سے گرما گرم کافی بنا کر کمرے میں گئی۔۔ 

وہ موبائل پر لگا ہوا تھا۔۔ وہ اس کے پاس جا بیٹھی، تب بھی وہ ویسے ہی گم رہا۔۔

تھوڑی دیر اسے گھورتی رہی پھر اس کا ہاتھ پکڑا اور شہادت والی انگلی گرم کافی میں ڈِپ کی۔۔ 

"آؤچ۔۔۔"  انگلی جلنے پر سالک کے ہاتھ سے سیل گرا اور اس نے تیزی سے ہاتھ کھینچا۔۔

”ڈی یہ کیا کر رہی ہو۔۔ پاگل ہو کیا۔۔؟“ وہ سرخ ہوتی انگلی سہلاتا چیخا۔۔ دیا نے کافی کا مگ آگے کیا۔۔

”سوری غلطی سے ہوا۔۔ آپ نے کافی مانگی تھی ناں۔۔ یہ لیں۔۔“  وہ معصوم بنی۔۔

”رکھو اسے فوراً۔۔ میں کولڈ کافی پیتا ہوں۔۔ اور یہ تم نے جان بوجھ کر کیا ہے۔۔ اوف۔۔“  وہ ابھی تک اپنی جلن کرتی انگلی کا جائزہ لے رہا تھا۔۔ پھر اسے گھورا۔۔

”آپ نے وہ میری ویڈیو کہاں سے لی اور سب کو کیوں دکھائی؟ سزا ملی ہے آپ کو۔۔“  وہ اب سب کے سمجھانے پر اسے آپ کہتی تھی۔

”اوہ رئیلی۔۔ تو پھر لاؤ اپنا ہاتھ دو تمہارا تو پورا ہاتھ جلانا چاہئیے مجھے۔۔ تم نے میری پکچر لے کر سٹیٹس لگایا۔۔ تمہاری تو بڑی سزا بنتی ہے پھر۔۔“  سالک نے زبردستی اس کا ہاتھ پکڑا تو دیا کی خوف سے آنکھیں پھیلیں۔۔

”سالک میرا ہاتھ جلا تو میں یہاں شور مچا دوں گی اور سب کو بتاؤں گی کہ آپ ہمیشہ مجھ پر اس طرح ظلم کرتے ہیں اور۔۔“  وہ دھمکی دیتی پیچھے کھسک رہی تھی۔۔ سالک نے جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا۔۔

”میں پہلے تمہارا منہ باندھوں گا۔۔ پھر تمہارے ہاتھ کی ایک ایک کر کے سب انگلیاں جلاؤں گا۔۔ اور ہو سکتا ہے دونوں ہاتھ جلاؤں۔۔ “ سالک نے اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر ڈرایا۔۔ اس کی انگلی میں شدید جلن ہو رہی تھی۔۔ 

دیا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس کے چہرے پر غصہ ڈھونڈنا چاہا مگر وہ نارمل ہی تھا۔۔ وہ یکدم ریلیکس ہوئی۔۔

”کافی تو ٹھنڈی ہو جائے گی تب تک۔۔ یہ سب کرنے کے لیے تو کچن میں جانا پڑے گا ہمیں۔۔“ وہ اب مزے سے بولی۔۔ 

”ایک اور آپشن بھی ہے سویٹ ہارٹ۔۔۔ میں نائف سے تمہاری انگلیاں نا کاٹ دوں؟ یہ جو تمہارے ہاتھ کچھ زیادہ چلنے لگے ہیں۔۔؟“  سالک نے مسکرا کر کہا۔۔ اس کے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑے اور اپنی جلتی انگلی سامنے کر کے اس کا کارنامہ دکھایا۔۔ جو وہ سر انجام دے چکی تھی۔۔

”میں۔۔ میں۔۔ اس پر آپ کو آئنٹمنٹ لگا دوں؟ کیا بہت زیادہ جل گیا ہے۔۔“  دیا نے سرخ ہوتی انگلی دیکھی تو شرمندہ ہو گٸی۔۔ سالک کی تکلیف کا احساس ہوا تو پوچھا۔۔

”اتنی سیویج (ظالم) کیوں ہو جاتی ہو ڈیمنل۔۔ میرے پاس تو تمہاری پکچرز بھی ہیں بہت ساری۔۔ جب تمہارا سیل امیرکہ میں میرے پاس رہ گیا تھا۔۔ آئی مین میں نے خود ہی رکھ لیا تھا۔۔ تب مجھے تمہارا پاسورڈ بھی پتا تھا۔۔ میں نے سب پکچرز اور یہ ویڈیو لی تھی۔۔“ سالک نے ایمانداری سے اسے بتایا اور اسکے ہاتھوں پر گرفت اور بھی مضبوط کی تاکہ وہ اس پر ہاتھ نا چلائے۔۔۔

”کیا؟۔۔ تب؟ تب سے آپ کے پاس۔۔ تمہیں اللّٰہ پوچھے گا۔۔ گناہ کیا ہے۔۔ جھوٹے، بے ایمان، بے شرم۔۔ ہاتھ چھوڑو بتاتی ہوں میں۔۔ مجھے پورا ہاتھ جلانا چاہئیے تھا۔۔“  دیا اس پر چیختی دانت پیس پیس کر بول رہی تھی ہاتھ چھڑوانے کے لیے اچھا خاصہ زور لگایا۔ اگر جو وہ چھوڑ دیتا اس کے بال کھینچ لیتی۔۔

”اب بتا رہا ہوں ناں۔۔ یہ بھی تو دیکھو کتنا اونیسٹ ہوں۔۔ تم سے چھپاتا نہیں ہوں کچھ بھی۔۔“ وہ دیا کے تاثرات سے محظوظ ہوتا بولا۔۔ دیا کو غصہ کے ساتھ شرمندگی بھی ہونے لگی۔۔ کتنی بری پکچرز تھیں اس کی سب۔۔ اسے پتہ ہوتا تو سالک کے سامنے اتنا صفائی پسند اور بن ٹھن کر رہنے کا ڈرامہ تو نا کرتی۔۔ وہ تو انجوائے کرتا رہا ہو گا۔۔ 

”میرے ہاتھ چھوڑو۔۔ تم نے بہت غلط حرکت کی ہے تم بہت برے ہو۔۔ ”آپ“ کہلانے کے بھی لائق نہیں ہو۔۔“ وہ روہانسی ہو کر بولی۔۔ سالک نے نرمی سے اپنی طرف کھینچ کر اسے سینے سے لگا لیا۔

”I love you D.. I will miss you.. I want you to leave with me..

(میں تم سے محبت کرتا ہوں ڈی۔۔ میں تمہیں یاد کروں گا۔۔میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو۔۔)

سالک کی اداس آواز اور جملوں پر دیا کا دل دھڑک اٹھا۔۔ پر وہ خاموش رہی۔۔ وہ بھی سالک کے جانے پر اداس تھی۔۔ اسے یاد کرے گی یہ بھی جانتی تھی۔۔ اور یہ بھی کہ اب سالک اسے شاید خود سے بھی زیادہ اچھا لگتا تھا۔۔ 

مگر اسے یہ سب کہنا نہایت مشکل لگا۔۔

”Will you miss me..? Will you not?

سالک نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے ناراضگی سے پوچھا تو وہ منہ بسورنے لگی۔۔ یہ سوال بھی بھلا کرنے والا تھا۔۔

“I will make sure that you miss me..

(میں یقینی بناؤں گا کہ تم مجھے یاد کرو۔۔)

سالک نے اس کی خاموشی پر اچانک کہا اس سے پہلے کہ دیا کو اس کی بات سمجھ آتی سالک نے اس کے گال پر لب رکھے۔۔ اس کے تپتے لمس پر وہ شرم سے سرخ ہو گئی۔۔ گلابی گالوں پر سرخیاں دیکھ کر وہ ہنسنے لگا۔۔

“Aww You Will miss me A lot.."

اسے سب جواب مل گئے تھے۔۔ مزہ لے کر بولا تو دیا نے اسے دھکا دیکر پیچھے کیا اور اپنی سائیڈ پر لیٹ کر سر تک رضائی اوڑھ لی۔۔ سالک اس کی شرم پر اور بھی زور سے ہنسا۔۔ اسے تو دیا کو چپ کروانے کا طریقہ آج پتا چل رہا تھا۔۔ڈی؟ اور شاۓ؟

وہ بھی موبائل ایک طرف رکھ کر اس کے ساتھ لیٹا اور اس کا سر اپنے بازو پر ٹکا کر اس کے گرد حصار باندھ لیا۔۔ 

دیا اس کے پرحدت حصار میں سمٹی خاموش پڑی تھی۔۔

یہ وہ واحد انسان تھی جس کی ہر غلطی وہ معاف کر دیتا تھا۔۔ وہ پہلی لڑکی تھی جو اس کے سامنے ہوتی تھی تو اسے پِیس فیل ہوتا تھا اور وہ اب اسی کی تھی ہمیشہ کے لیے۔۔ سالک آنکھیں بند کیے مسکرایا۔۔

        👈YamanEvaWrites👉 

وہ برتن دھو رہی تھی جب پیچھے گلا کھنکارنے کی آواز پر مڑ کر دیکھا اکرام ٹھہرا تھا۔۔ ہالہ نے رخ پھیر لیا۔۔ شاید وہ خادم صاحب کو ملنے آیا تھا مگر اب یہاں کیوں ٹھہر گیا۔۔ ہالہ کو ناگوار محسوس ہوا۔۔

”آئم سوری اس دن بہت غلط بول گیا۔۔“  وہ معذرت کرنے لگا۔۔ اس کے لہجے میں شرمندگی تھی مگر اب فائدہ ہی کیا تھا۔۔ ہالہ خاموشی سے برتن سے ویسٹ فوڈ صاف کر کے لیکوئیڈ کلینر لگاتی جا رہی تھی۔۔ 

”کیا تم اب خوش ہو؟“ اکرام نے مزید سوال کیا جیسے اس کے اگنور کرنے سےاسے فرق ہی نا پڑا ہو۔۔ ہالہ نے پلیٹ سنک میں پٹخی۔۔

”بہت خوش ہوں۔۔ اس انسان نے میری عزت ڈھانپ لی۔۔ میرے باپ کی پریشانی ختم کی۔۔ مجھے احساس دلایا کہ میں عزت سے اپنائے جانے کے قابل ہوں۔۔ وہ مجھے عزت دیتا ہے، مان دیتا ہے، محبت سے رکھا ہوا ہے۔۔

 الحَمْدُ ِللّٰه۔۔ بہت خوش ہوں۔۔“ ہالہ خود چاہے نا مانتی مگر اکرام کے آگے سب کہتی گئی۔۔

”اپنائے گا ہی۔۔ کوئی پاگل بھی سمجھ جائے کہ اس روز تمہیں بس میرے نکاح سے آزاد کروانے کے لیے اس نے غائب کیا اور پھر فرشتہ بن کر آ گیا۔۔ اس امیر زادے کا کیا بگڑا۔۔ اسے تم چاہئیے تھیں، لے لیا چاہے زلیل کروا کر سہی۔۔“ 

اکرام نے حسد و نفرت سے کہا۔۔

”اس کا ضرور بگڑتا اگر یہاں غیرت کا مظاہرہ کر کے رشتہ توڑنے کی بجائے اس کا گریبان پکڑ کر سوال کیا ہوتا۔۔ اور اگر اتنی جرأت نہیں تھی تو اب عزت دار مرد کی طرح مجھ سے بات کرنے سے پرہیز کریں۔۔ اب میں غیر محرم ہوں امانت ہوں کسی کی۔۔ اپنے افسوس اور معافی تلافی اپنے پاس رکھئیے اور جائیے۔۔“ ہالہ نے غرا کر کہا اور غصہ ظاہر کرنے کو برتن سنک میں پٹخنے لگی۔۔ وہ شرمندگی سے لب بھنچ کر وہاں سے چلا گیا۔۔

وہ سر جھٹک کر پانی سے برتن دھونے لگی۔۔ جب آہٹ پر چونکی۔۔ زایان کچھ ہی فاصلے پر شیلف پر فروٹس، گوشت اور دوسری ضرورت کی چیزیں رکھ رہا تھا۔۔ 

اس کے ماتھے پر بل تھے وہ اکرام کو یہاں سے اپنے گھر جاتا دیکھ چکا تھا۔۔

”تمہارا کزن کیا کر رہا تھا یہاں۔۔؟“ زایان نے ہالہ کی طرف دیکھا۔۔ وہ چپ رہی۔۔

”اسے بتا دو ایک ہی بار کہ اب اس سے تمہارا تعلق نہیں۔۔ اور یہ بھی کہ مجھے نہیں پسند وہ تم سے بات کرے۔۔“ زایان نے سختی سے کہا۔۔ برتن دھوتی ہالہ کا سر گھوم گیا۔۔

”اتنی تکلیف ہو رہی ہے تو خود جا کر کہہ دو۔۔ میں نے اسے نہیں بلوایا تھا۔۔ میں نے تو تمہیں بھی نہیں بلوایا تھا، تم بھی بن بلائے ہر بار آئے۔۔ وہ بھی تمہاری ہی برادری کا لگتا ہے۔۔“  ہالہ نے اکرام کا غصہ بھی اس پر اتارا۔۔ زایان کے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا۔

”بس تقریر کروا لو۔۔ میرے خلاف تم ساری زندگی بنا رکے بول سکتی ہو۔۔ ایک بات کہہ دو بھی کیڑا کاٹ لیتا ہے۔۔ میرے گھر والوں کے سامنے تو بڑی ”آپ،آپ“ کرتی ہو۔۔ کوئی اکیلے میں دیکھے تمہاری زبان کے جوہر۔۔“ زایان نے سینے پر ہاتھ باندھ کر طنز کیا۔۔

”میرا بس چلے تو تمہاری فیملی کے سامنے تمہیں منہ ہی نا لگاٶں مگر تمہیں شوق ہوتا ہے عورتوں کی طرح گھس گھس کر بات کرنے کا۔۔ جواب دینا مجبوری ہے۔۔ نہیں مطلب عزت راس نہیں تو بتا دو۔۔ سب کو تمہارے کارنامے بتا دوں۔۔“ ہالہ نے برتن دھو کے ایک طرف رکھے اور ڈوپٹے سے بھیگے ہاتھ صاف کرنے لگی۔۔ سردی اچھی خاصی بڑھ گئی تھی۔۔ ٹھنڈے پانی کی وجہ سے اس کے ہاتھ سرخ ہو رہے تھے۔۔ زایان نے فکر سے اسے دیکھا۔۔

”بڑی مہربانی کرتی ہو کہ سب کے درمیان عزت دیتی ہو۔۔ اکیلے میں پیار سے بولنے کو تو شاید زبان پر فالج پڑتا ہے تو چلو اتنا بہت ہے۔۔“ زایان نے بھنویں اچکا کر کہتے آگے بڑھ کر اس کے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو تھام کر اپنے ہاتھوں کی گرم گرفت میں لے کر گرمائش پہنچائی۔۔

”پیار کے لائق کام کیا ہے؟ اور میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش نہیں کرو۔۔“ ہالہ نے ہاتھ کھنچنے چاہے مگر اس کی کوشش پر زایان نے الٹا گھور کر اسے دیکھا۔۔

”شام کے وقت ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈالے کھڑی ہو۔۔ ٹھنڈ لگ گئی تو؟ عجیب سر پھری اور ضدی لڑکی ہو بھئی۔۔ پورے زمانے کا پیار، مان اور عزت نظر آتا ہے، ایک میں نے ہی کوئی قرض لے رکھا ہے تم سے۔۔ پھاڑ کھانے کو تیار رہتی ہو۔۔“

وہ فکر سے اسے دیکھتا، سر جھٹک کر بول رہا تھا۔۔ اس کے ہاتھ ویسے ہی اپنے ہاتھوں میں نرمی سے دبائے رکھے۔۔ 

”میں نے پہلی بار یہ کام نہیں کیا۔۔ نا ہی یہ سردی کوئی میری زندگی میں پہلی بار آئی ہے۔۔ میں دس سال کی عمر سے یہ کام کر رہی ہوں۔۔ اب چھوڑو ہاتھ، مجھے چائے بنانی ہے۔۔“

ہالہ نے زچ ہو کر کہا اور ہاتھوں کو چھڑوایا۔۔ زایان پیچھے ہو کر شیلف سے ٹیک لگا کر ٹھہر گیا۔۔ وہ چائے کے لیے کیٹل اٹھا کر چولہے پر رکھنے لگی۔۔ 

”تم بابا سے ملنے آئے ہو؟ تو وہ کمرے میں سو رہے ہیں۔۔ وہاں جاؤ اور بیٹھو۔۔۔ میرے سر پر سوار ہو کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔۔“  ہالہ نے ناک چڑھا کر اسے وہاں سے بھیجنا چاہا۔۔ زایان نے مسکراہٹ دبائی۔۔

”میرے دیکھنے پر بھی پابندی ہے کیا اب؟ اور انہیں آرام کرنے دو۔۔ میں ابھی یہیں ہوں رات کا کھانا کھا کر جاؤں گا۔۔ داجان نے کہا ہے مجھے یہاں چکر لگاتے رہنا چاہئیے اور میرے لئیے بھی چائے بنا لینا۔۔ پانی تو تم نے پوچھا نہیں کام سے سیدھا یہاں آیا ہوں۔۔ پتہ نہیں زندگی میں کچھ سیکھا بھی ہے یا سب تمیز طریقہ اڑا کر مجھے ملی ہو۔۔“  زایان نے پھر سے تقریر جھاڑی۔ ہالہ کو تپ چڑھی۔۔

”یہ چائے میں محلے والوں کے لیے نہیں بنا رہی۔۔ صبر نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے۔۔ تم میرا دماغ خراب مت کرو اور جاؤ یہاں سے۔۔ اندر جا کر بیٹھو۔۔ یہاں ٹھہر کر تھکن یاد نہیں آرہی۔۔“  ہالہ مسلسل بول رہی تھی، زایان کی نظر اس کے ہاتھوں پر تھی جو اس نے چولہے کے پاس کیٹل کے قریب ہی گرمائش کے لیے سیدھے کیے ہوئے تھے۔۔ زایان نے تفکر سے اس کی کلائیاں پکڑ ہاتھ پیچھے کیے۔۔

”یار تم ابنارمل تو نہیں ہو؟ آگ کے اتنے قریب ہاتھ رکھے ہیں۔۔۔ جلنا ہے کیا؟ اتنی زبان چلتی ہے عقل کا استعمال بھی کر لیا کرو یا مجھے زچ کرنے کے لیے کر رہی ہو یہ سب۔۔“ زایان اس کی کم عقلی پر اسے ٹوکنے لگا۔۔

”میں ایسے ہی کرتی ہوں۔۔ زیادہ میری فکر میں گھلنے کی ضرورت نہیں اور تم اتنے ہی اریٹیٹ ہو رہے ہو تو کیوں نکاح کے لیے چراغ کے جن کی طرح حاضر ہو گئے تھے؟ کسی نارمل لڑکی سے کرنا تھی شادی بھی۔۔ کم از کم آج یہاں تقریر نا جھاڑنی پڑتی۔۔ اتنے سمجھدار تم۔۔ بس یہی ڈانٹنے اور لڑنے کا شوق پورا کرنا تھا جھٹ سے نکاح رچانے آ گئے تھے۔۔“ ہالہ نے پھر سے چڑھائی کر دی۔۔

”وہ تو تم فکر ہی نا کرو۔۔ اور بیوی بھی لاؤں گا ہی۔۔ جو عزت کرے۔۔ خدمت کرے۔۔ تمیزدار ہو۔۔ مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔ سمجھدار بھی ہو اور پیارا سا مسکرا کر ڈیلی ویلکم کرے شام کو۔۔ مگر تمہیں بھی اپنے پاس ہی رکھوں گا۔۔ جان نہیں چھوڑوں گا اب تمہاری۔۔“  ہالہ اس کی باتوں پر شاکڈ سی نیم وا منہ لیے اسے دیکھنے لگی۔۔ کیا خواب ہیں جناب کے۔۔ دوسری بیوی؟

”مجھے پاس رکھ کر کونسے خزانے دریافت کرنے ہیں؟ جب سب کچھ اس دوسری سے میسر ہو گا۔۔ میرا خون جلانا ضروری ہے کیا۔۔۔  میں کیوں تمہاری شکل دیکھوں ساری زندگی۔۔ خوامخواہ۔۔ عذابِ خدا۔۔“ 

وہ چڑ کر بڑبڑاتی جا رہی تھی۔۔ چائے ابلنے لگی تھی وہ بگڑے موڈ سے بے دھیانی میں کیٹل پکڑنے لگی جب زایان نے عین ٹائم پر ہاتھ پکڑ لیا۔۔

”اتنا بھڑکنے کی ضرورت نہیں۔۔ کوئی کپڑا یوز کرو گرم ہے۔۔ یا ہولڈر سے پکڑو اور تمہیں خوامخواہ تھوڑی رکھوں گا۔۔ تمہیں دیکھ کر، تم سے بات کر کے جو سکون ملتا ہے وہ دوسری سے کہاں ملے گا۔۔ تم تو میرے دل کا سکون ہو۔۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔۔ تمہیں دیکھ لوں تو ساری تھکن، ہر پریشانی اور فکر ختم ہو جاتی ہے۔۔“ اس کا ہاتھ لبوں سے لگاتے وہ جذب سے بولا۔۔ ہالہ کا دل زور سے دھڑکا۔۔ اس نے کھینچ کر ہاتھ چھڑوایا اور رخ موڑے جلدی سے کپ اٹھاتی جیسے سب ان سنا کر گئی۔۔

”کمرے میں لے آنا چائے۔۔ میں اب تمہارے بابا سے بھی مل لوں۔۔“ زایان اس کے قریب ہوا اور سر تھپتھپا کر باہر نکل گیا۔۔ وہ سر جھکائے لب کچلتی کھڑی رہ گئی تھی۔۔

دیا بھاری لہنگا پہنے آج ہی ہائی ہیل کا بھی شوق آزما بیٹھی تھی اور اب کھڑے ہونا بھی محال لگ رہا تھا۔۔ تبھی تھکن کا بہانہ کرتی ایک سائیڈ پر صوفے پر بیٹھ گئی۔۔ بھاری کام سے جیسے کندھے بھی جھک گئے تھے۔۔ اس نے ہالہ کو دیکھا جو سٹیج پر بیٹھی اس کی نسبت کافی ایزی لگ رہی تھی۔۔

دیا نے کوٹ شوز میں پھنسے پیر زرا نکالے اور کب سے اشارہ کر کے اپنے پاس بلاتی ہالہ کو اگنور کیے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا۔۔ 

ہالہ نے دانت پیستے دو چار گالیوں سے نوازا۔۔

سالک سب بھائیوں کے ساتھ بزی تھا جو اسے اپنے جاننے والوں اور فرینڈز سے ملوا رہے تھے۔۔ دیا ٹیک لگا کر سکون سے بیٹھ گئی۔۔

”ہائے دیالہ خادم۔۔“ اسمارہ اس کے پاس آ کر بیٹھی۔ دیا نے بےزاری سے اسے دیکھا اب وہ سر کھا جائے گی۔۔۔

”بڑا ایٹیٹیوڈ آ گیا ہے میرے کزن سے زبردستی شادی کر کے۔۔  اب تو تم ہائے ہیلو سے بھی گئیں۔۔“  اسمارہ نے اس کے اگنور کرنے پر طنزیہ جتایا۔۔ 

”تمہارا کزن ایسا دودھ پیتا بچہ نہیں کہ میں زبردستی کروں اور وہ بچارا پھنس جائے۔۔“ دیا نے ناک چڑھا کر جواب دیا۔۔۔

”اوہ کہیں ایسا تو نہیں جہاں آج میں ہوں اس جگہ کا خواب تم دیکھتی رہیں؟ پہلے بتانا تھا۔۔ شاید تمہارے دیوانے کزن کی نکاح کی دھمکی پر سٹینڈ لے لیتی تمہارے لیے۔۔“  دیا فل فام میں آتی مسکرا کر بولی۔۔

”اوہ شٹ اپ۔۔ مجھے تمہارے جیسی چیپ حرکتیں آتی نہیں ورنہ آج تم وہیں امریکہ میں ڈگری کمپلیٹ کرنے کے چکر میں دھکے کھا رہی ہوتیں۔۔ ویسے تمہیں تھینک فُل ہونا چاہئیے میرا۔۔ میں اگر سالک بھائی کو تمہارا انٹرو نا دیتی تو تم ان کی نظر میں آنے کے قابل بھی نہیں تھیں۔۔“ 

اسمارہ نے اس پر چوٹ کی۔۔ دیا نے خود کو لعنت دی۔۔ اس سے تو اچھا تھا ہالہ کے پاس بیٹھ جاتی، وہ اچھے جواب دے لیتی۔۔ اس نے یہاں وہاں سالک کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔۔ 

”اب کیا۔۔؟ جواب نہیں دینا۔۔ ویسے تو کالج لیول سے ہی تمہیں یہی خوش فہمی تھی کہ تمہاری حاضر جوابی کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا۔۔ “ اسمارہ نے اسے پرانے دن یاد دلائے اور دیا کا بالکل ہلکے پھلکے میک اپ میں چمکتا چہرہ دیکھا۔۔ کیا قسمت تھی اس لڑکی کی بھی۔۔ اس کے نانا کے گھر کا سب سے لاڈلا اور شہزادوں جیسا لڑکا لے اڑی تھی وہ بھی بیٹھے بٹھائے۔۔ اسمارہ کو اب اور بھی زہر لگنے لگی تھی وہ۔۔

”اب میں میریڈ ہوں، میچور ہوں۔۔ اب مجھے اچھا نہیں لگتا ہر ایک سے بحث کرنا۔۔ میرا موڈ آف ہو گیا تو سالک اقیان کو برا لگے گا ناں۔۔ آج انہوں نے جانا ہے میں نہیں چاہتی انہیں اداس کر کے بھیجوں۔۔“ دیا نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

”اوہ۔۔ تو تمہیں تمہارے سالک اقیان نے نہیں بتایا کہ اس کی فلائٹ کینسل ہو گئی۔۔ اوہ مائے بیڈ۔۔“  اسمارہ ابھی اپنے نانا سے سالک کو بات کرتا سن کر آ رہی تھی۔۔ دیا کو کہتی کھلکھلا کر ہنسی۔۔ اسے جتایا کہ اس کی یہی حیثیت ہے۔۔ دیا کو جھٹکا لگا۔۔

”اوہ سویٹ۔۔ سالک سے میری ناراضگی دیکھی ہی نہیں جاتی۔۔ دیکھو یہ ابھی آج صبح کی ہی بات ہے کہ میں نے بات کرنا چھوڑ دیا کہ ان کا یوں جلدی جانا مجھے اداس کر رہا تھا۔۔ اپنے بابا کی وجہ سے میں بھی نہیں جا رہی اور یہ اب فلائٹ کینسل کروا لی۔۔“  دیا نے سنبھل کر بات بنا لی۔۔

”بائی دی وے۔۔ فلائٹ کینسل کروائی نہیں، کچھ ایشوز کی وجہ سے ہو گئی۔۔ لندن کوئی فلائٹ نہیں جا رہی موسم کی خرابی کی وجہ سے۔۔“ اسمارہ نے تمسخر سے دیکھا۔۔

”اسمارہ مجھے لگا تم بہت اسمارٹ ہو۔۔ اب کیا وہ سب سے کہیں کہ میری وجہ سے نہیں جا رہے؟ اور ویسے بھی انہیں پہلے امیرکہ جانا تھا بٹ۔۔ خیر میں تمہیں کیوں یہ سب بتا رہی ہوں۔۔“  دیا جھوٹ پر جھوٹ بولتی بے نیازی سے کندھے اچکا گئی۔۔

اسمارہ کا منہ کھلا رہ گیا۔۔ اسے یقین تھا دیالہ جھوٹ بول رہی ہے مگر تھوڑی کنفیوز ہوئی۔۔ کوئی اتنے اعتماد سے جھوٹ کیسے بول سکتا ہے۔۔ تو کیا واقعی سالک اس کے لیے رکا؟

اسمارہ کے لیے دیا کی شکل دیکھنا بھی محال ہوا تو جھٹکے سے اٹھ کر چلی گئی۔۔

دیا نے دانت پیس کر یہاں وہاں دیکھا۔۔ 

”آج سالک میرے ہاتھ آئے۔۔ اگر نہیں جا رہا تو سب سے پہلے مجھے بتانا چاہئیے تھا ناں؟“ دیا کا غصہ سے برا حال ہو رہا تھا۔۔ 

اس سے بدلہ لینے کی دل میں ٹھان لی تھی۔۔

      👈YamanEvaWrites👉

زایان کسی لڑکی کے ساتھ سٹیج پر آیا اور ہالہ سے ملوانے لگا۔۔

”ہالہ یہ میری یونی فرینڈ سبینہ ہے اور سبینہ یہ ہے میری کیوٹ سی وائف ہالہ۔۔“  زایان نے سبینہ کو بتاتے ہوئے پیار سے ہالہ کا سجا سنورا روپ دیکھا۔۔ ہالہ نے بمشکل سر ہلا کر سبینہ کو ”ہائے“ کا جواب دیا۔۔

”شی از پریٹی۔۔ تو اس لیے اپنی منگنی بریک کر کے بھی مجھ پر نظر نہیں پڑی۔۔ اسے پہلے ہی پسند کر چکے تھے۔۔“ سبینہ نے مسکرا کر ہالہ کی طرف اشارہ کرتے کہا۔۔

”فضول بات نہیں سبینہ۔۔“ زایان نے اسے تنبیہہ کی مگر ہالہ کے کان کھڑے ہوئے۔۔

”کافی چینج ہو چکا ہے زایان۔۔ یونی میں بہت جولی اور فرینڈلی تھا۔۔ اب تو بہت سیرئیس اور ریزروڈ ہو گیا ہے۔۔ اب پتہ نہیں وقت کا اثر ہے یا تمہارا۔۔ تم جانتی ہو؟“ 

سبینہ نے دوستانہ لہجے میں جیسے ہالہ کو اطلاع دی زایان نے سخت نظروں سے گھورا۔۔

”میں بہت کچھ جانتی ہوں۔۔ یہ پیدائشی گرگٹ ہے۔۔“ ہالہ نے دوسرا جملہ ہلکا سا بڑبڑا کر کہا جو اس کے پاس بیٹھے زایان نے بخوبی سنا تھا۔۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔

”تو پہلی بار کب اور کہاں ملے تم دونوں۔۔“ ایک طرف صوفے پر ٹکتی سبینہ نے فرصت سے سوال کیا۔۔ لگتا تھا جیسے آج پوری کہانی سن کر ہی جائے گی۔۔

”پہلی مرتبہ میں نے اس کے گھر کے پاس سٹریٹ میں دیکھا تھا۔۔ پھر مارکیٹ میں۔۔ پھر ہاسپٹل میں۔۔ اینڈ یو ول نیور بیلیو۔۔ یہ نقاب کیے ہوتی تھی۔۔ بٹ مجھے یہ بہت پسند آئی تھی ہر بار پہلے سے زیادہ اور حد سے زیادہ۔۔“ 

زایان کو گویا لمحہ لمحہ ازبر تھا۔۔ ہالہ کو دیوانوں کی طرح تکتے وہ بولتا گیا۔۔

سبینہ کے لیے زایان کی یہ محبت کسی دوسری کے لیے دیکھنا مشکل تھا، وہ اٹھ کر معذرت کرتی وہاں سے چلی گئی۔۔  ہالہ نے چہرہ موڑ کر ساتھ بیٹھے زایان کو دیکھا جو اب بھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔

”یہ نہیں بتایا نکاح کیسے ہوا؟ کیسے تم نے نکاح شدہ لڑکی کو اغوا کر کے طلاق کروائی اور اسی وقت قربانی دیتے نکاح کر لیا۔۔“  ہالہ نے اسے استہزائیہ نظر سے دیکھا۔۔

”ہالہ پلیز۔۔“  زایان کے لیے یہ لفظ زہر جیسے تھے۔۔ وہ عزت کرتا تھا ہالہ کی۔۔ رسوا کیسے کر سکتا تھا۔۔ ہالہ کا شک اسے دکھ دے رہا تھا۔۔ وہ لب بھنچ کر اس ظالم لڑکی کو دیکھے گیا۔۔

”کیوں؟ تمہیں ایسا کرتے شرم نہیں آئی۔۔ بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے۔۔؟“ ہالہ نے تنفر سے اسے دیکھا اور رخ پھیر لیا۔۔

”ایسا نا ہو جس روز سچ سامنے آئے۔۔  تم مجھ سے نظر نا ملا پاؤ۔۔ میرا یقین کر لو، وہ سب میں نے نہیں کیا۔۔“ 

زایان نے بے چارگی سے اس کا چہرہ دیکھا۔۔ شاید وہ دنیا کا سب سے انوکھا دلہا ہو گا جو ولیمہ کی دلہن کو رومانس کی بجائے اپنی بے گناہی کا یقین دلا رہا تھا۔۔ ہالہ نے سر جھکا لیا۔۔ اسے یقین نہیں تھا مگر وہ خاموش رہ گئی۔۔

اسے گھر کے باہر سے اغوا کر لیا گیا تھا۔۔ ایک آدھا دن وہ بےقصور رسیوں سے بندھی رہی اور اسے نیم غنودگی میں کیا سنائی دیتا ہے کہ یہ سب کرنے والوں کا ماسٹر مائنڈ زایان ہے۔۔ 

پھر اسے آزاد کر دیا جاتا ہے۔۔ وہ شہر کے دوسرے کونے سے جیسے صدیوں کا سفر طے کرتی دل و دماغ میں اپنی پاکیزگی اور معصومیت کی گواہی کے لفظ جوڑ توڑ کرتی شام کو گھر پہنچتی ہے۔۔ اس کی زات تماشہ بن چکی تھی، اس کے کردار پر سوال اٹھا تھا۔ اس کے پاس اس بے نام اغوا اور پھر رہائی کا جواب نہیں تھا۔۔ سب کے درمیان کھڑے کھڑے اس کی طلاق ہوئی تھی۔۔ اس کی زات کی دھجیاں اڑائی گئیں اور پھر ایک فرشتہ نما انسان نے اس کا ہاتھ تھام کر سب میں نام کما لیا اور وہ وہی تھا جس نے اس سب کھیل میں اسے دھکیلا تھا۔۔

اس لڑکی کی تکلیف کیا کوئی سمجھ سکتا ہے؟ کیا وہ انسان جو اب اس کی زندگی پر حق رکھے اپنے آپ کو بے گناہ کہتا تھا مگر اس کے پاس اس بات کا ثبوت نہیں تھا۔۔ کیا وہ سمجھ سکتا ہے اس کی تکلیف کہ کیسے اس نے سب کے درمیان اس کی اصلیت کھولنے کی بجائے اس سے رشتہ جوڑ لیا تھا۔۔ 

اب یہ رشتہ نبھانا کیا اتنا آسان تھا۔۔ وہ اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی۔۔ یہ سب کرنے والا ماننے کی بجائے مکر رہا تھا، اسے یہ بات مزید تکلیف دیتی تھی۔۔ رلاتی تھی۔۔

زایان غلط نہیں تھا مگر اس کے پاس اس بات کا کوئی گواہ بھی نا تھا۔۔ وہ سچا تھا مگر ثبوت نہیں تھا۔۔ ہالہ کا الزام اسے اداس کے ساتھ اب ناراض بھی کر رہا تھا۔۔

مگر غلط ہالہ بھی نہیں تھی۔۔

بس وقت غلط تھا۔۔ قسمت خراب تھی۔۔ وہ دونوں ایک ہو گئے تھے مگر ایک دوسرے کے لیے دل میں گِلے بڑھ رہے تھے۔۔

رشتہ بن چکا تھا مگر کمزور تھا۔۔

      👈YamanEvaWrites👉

سیاہ لباس میں اپنے بالوں کو آج زرا ماتھے سے ہٹا کر سر پر سیٹ کیے سب سے مسکرا کر ملتے سالک کو اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ ڈی اس سے شدید والا ناراض ہو چکی تھی۔۔

وہ کبھی کبھی دور صوفے پر بیٹھی دیا کو بھی دیکھ رہا تھا جو بھاری جوڑا پہنے تھکی تھکی سی یہاں وہاں دیکھتی اسے بہت ”کیوٹ“ لگ رہی تھی۔۔ اسے سرپرائز کرنے کا سوچ کر وہ مسکرا رہا تھا۔۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا وہ خود سرپرائز ہونے والا ہے۔۔ 

صیام بھائی کے چھوٹے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ اپنی وائف کے ساتھ جلد فری ہو کر گھر جانے لگے تو دیا بھی ان کے سر پر جا پہنچی۔۔ 

”صیام بھائی مجھے بھی میرے گھر چھوڑ دیجئیے گا۔۔ بابا اکیلے ہوں گے۔۔“  دیا نے جلدی سے کہا حالانکہ چاہے ان لوگوں کے بیچ جو بھی ہو چکا ہو۔۔ اپنے چچا کو اب بھی پہلے کی طرح فارس یا اکرام سنبھالتے تھے جیسا کہ ان کے کپڑے چینج کروانا وغیرہ۔۔ 

آج رات بھی ان میں سے ایک نے سونا تھا ان کے پاس۔۔ مگر دیا کو تو سالک سے ناراضگی ظاہر کرنا تھی۔۔

”سالک سے ابھی بات کر کے آئی اس نے کہا ”او۔کے“ چلی جاؤ۔۔“ صیام بھائی کچھ بولنے ہی لگے تھے کہ جھٹ سے بول پڑی۔۔

”او۔کے گڑیا آ جاؤ۔۔“  صیام کی بیوی نے مسکرا کر کہا اور وہ لوگ پہلے اسے گھر ڈراپ کرنے گئے اور پھر اپنے گھر کی طرف۔۔

ولیمہ اختتام پذیر ہوا تو میکسی سے الجھتی ہالہ سٹیج سے اترنے لگی۔۔ زایان نے ہاتھ تھامنا چاہا سہارا دینے کو مگر وہ نظر انداز کیے اپنی مدد آپ کے تحت قدم جما جما کر چلتی قدم بڑھانے لگی۔۔

زایان گہرا سانس بھر کر اس کے ساتھ پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔ اس کی میکسی کی ٹیل پیچھے قالین پر پھیلی تھی۔۔

دیا کی تلاش میں یہاں وہاں دیکھتے وہ قالین سے الجھی اس سے پہلے کہ زمین پر جا گرتی زایان نے آگے بڑھ کر اس کے گرد بازو پھیلاتے اسے سنبھال لیا۔۔

”کتنی ضدی ہو ہالہ۔۔ اگر یہاں تم گر گئیں تو میں ہی اٹھا کر لے جاؤں گا تو اب میرا سہارا لینے میں کیا حرج ہے۔۔“ 

اس کے گرد ایک بازو پھیلایا اور ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔۔ وہ خاموش ہو گئی۔۔ اگر گر گئی یہاں تو شرمندگی الگ ہو گی۔۔

گاڑی سے کچھ دور جا کر وہ رکی زایان کو دیکھا۔ وہ گاڑی کے پاس پہنچ گیا تھا۔۔

”مجھے گھر لے جاؤ بابا کے پاس۔۔“  ہالہ نے اسے کہا تو زایان نے گاڑی کا ڈور کھولا۔۔

”ابھی بہت رات ہو گئی ہے ہالہ۔۔ کل لے جاؤں گا۔۔ اب بیٹھو سردی بڑھ رہی ہے اتنی۔۔“ وہ نرمی سے بولا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ دیا۔۔ 

باقی سب بھی۔۔ ہر کوئی اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھتے گھروں کو روانہ ہوئے۔۔

”نہیں۔۔ تم نے کہا تھا مجھے گھر جانے سے منع نہیں کرو گے اور مجھے۔۔۔“ ہالہ وہیں کھڑی بحث کرنے لگی۔ زایان نے یہاں وہاں دیکھا کوئی متوجہ نہیں تھا۔۔ اس نے ہالہ کو اچانک اپنی طرف کھینچا اور بازوؤں میں اٹھا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔۔ ہالہ نے مزاحمت کرتے ہوئے اسے گھورا۔۔ چہرہ خفت سے سرخ ہو گیا تھا۔

”تم ایک جھوٹے اور بے شرم انسان ہو۔۔“  فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے وہ غصہ کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگی مگر وہ مسکراہٹ دباتا اس کی سیٹ بیلٹ بند کرتا اپنی طرف آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔

”تم وعدہ خلاف ہو۔۔ جھوٹے۔۔ میں نے کہا تھا ناں پہلے اتنے اچھے بننے والے بعد میں ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔۔“ 

ہالہ نے دانت پیس کر اسے جتایا۔۔

”میں نے کب وعدہ کیا تھا۔۔ اگر یاد ہو تمہں جب یہ بات کہی تھی تم نے تب یقین نہیں کیا تھا میرا۔۔ مجھے انکار کر دیا تھا۔۔ تو اب مجھے وہ وعدے یاد مت دلاؤ۔۔“  

زایان نے گاڑی سٹارٹ کرتے روڈ پر ڈالی اور اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں لاک کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کی پشت اپنے لبوں سے لگائی۔۔ ہالہ کا چہرہ غصے اور شرم سے گویا خون چھلکانے لگا۔۔ اس معاملہ میں اسی طرح زبردستی حق جتاتا تھا۔۔

”ہاتھ چھوڑو میرا۔۔“  اس نے غرا کر کہتے ہوئے ہاتھ کھینچنے کی بہت کوشش کی۔۔ 

”اب میں اپنے طریقے سے ہینڈل کروں گا تمہیں۔۔ اس لیے چپ چاپ بیٹھو۔۔ میں جتنا تمہیں ریکوئسٹ کرتا ہوں، تم مجھے بلیم کرتی ہو۔۔“  زایان نے اسے وارن کیا مگر ہاتھ نہیں چھوڑا اور ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتا رہا تھا۔۔

ہالہ نے دانت کچکچا کر اس بے ایمان اور مرضی کرنے والے انسان کو دیکھا۔۔ 

       👈YamanEvaWrites👉

سالک نے دیا کو ہر جگہ تلاش کیا مگر وہ نا ہال میں کہیں تھی نا گھر جانے والوں میں شامل تھی۔ دیا کو سو بار کالز ملائیں تب جا کر کال اٹینڈ کی اس نے۔۔

”میں گھر آ گئی تھی صیام بھائی کے ساتھ۔۔ چینج کر رہی تھی، بستر سیٹ کر رہی تھی اس لیے کال اٹینڈ نہیں کی۔۔“ اس نے بڑے سکون سے تفصیلی جواب دیا۔۔ 

"Are you mad D.. You'll never listen to me.. that basterd wasif is on the run.. do you know how much dangrous is this condition... damnil..

(کیا تم پاگل ہو ڈی۔۔ تم میری کبھی بات نہیں سنو گی۔۔ وہ *گالی ابھی بھاگا ہوا ہے۔۔ کیا تم جانتی ہو یہ حالت کتنی خطرناک ہے۔۔ ڈیمنل۔۔) 

وہ غصے سے چیخا۔ دیا نے سہم کر موبائل کان سے ہٹایا۔۔ وہ پہلی بار یوں غصہ ہو رہا تھا۔۔ اس نے تو ڈرنا تھا۔۔

وہ بجائے کوئی ایکسکیوز دینے کے، کال کاٹ کر جلدی سے بلینکٹ میں منہ چھپا گئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ 

اب خود کو بھی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ بابا کو پین کی وجہ سے زیادہ تر رات کو نیند کی ٹیبلٹ دی جاتی تھی تو وہ اب سو رہے تھے۔۔ اس کے آنے سے پہلے فارس تھا ان کے پاس۔۔ دیا کے آنے پر وہ اپنے گھر چلا گیا کہ صبح آ جائے گا۔۔

یوں دیکھا جائے تو وہ اس وقت بالکل اکیلی تھی اور سالک کی بات نے اچھا خاصہ ڈرا دیا تھا اب نیند بھی گم ہو گئی تھی۔۔

_______________________

سالک نے اپنی ہُڈی پہنی اور داجان کی گاڑی کی چابی لے کر گھر سے نکلا۔۔ وہ دیا کے معاملہ میں ان حالات میں کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔

خادم صاحب کے گھر کے قریب اسے اندھیرے میں دیوار کے پاس کوئی سائے نظر آئے تو اس کی سیاہ آنکھوں میں شعلے لپکے تھے۔۔ دیوار سے پشت لگائے بنا آواز کیے ان کی طرف بڑھا۔۔ ان میں سے ایک دیوار پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا جب سالک نے اس کی ٹانگ دبوچ کر زمین کی طرف کھینچا تو وہ کمر کے بل نیچے آ گرا۔۔ اس کے ساتھ باقی دو بھی چوکنا ہوئے اور ہاتھ میں پکڑی چھوٹی ٹارچ اس کی طرف کر کے دیکھا۔۔

سالک نے چہرے پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں کو روشنی سے بچایا اور اس کا وہ ہاتھ پکڑ کر انہی کی طرف مروڑا، اس کے منہ سے دبی دبی چیخ نکلی اور سالک نے اس روشنی کی مدد سے اس کے ناک پر زوردار پنچ مارا۔۔ 

دوسرا تیزی سے آگے بڑھا۔ سالک نے ٹانگ اس کے پیٹ پر ماری اور پیچھے زمین پر پڑا بندہ تب تک اٹھ کر سالک کو پیچھے سے دبوچ گیا۔۔ سالک نے کہنی پیچھے کر کے اس کی سائیڈ پر پوری شدت سے ماری تو وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا۔۔ اندھیرا اور خاموشی اور سرد رات میں وہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔۔

”کون ہو تم؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟“ ان میں سے ایک کی گردن بازو میں لاک کر کے ان سے پوچھا۔۔ وہ بغور سالک کا جائزہ لینے لگے۔۔ ہُڈی میں سے چہرے کا نچلا آدھا حصہ نظر آرہا تھا اور رنگ برف سا سفید تھا۔۔۔  

”تم کون ہو لڑکے اور رات کے اس پہر اس علاقے میں تمہارا کیا کام۔۔ تم یہاں کے نہیں لگ رہے۔۔“ اس کا روشنی میں گہرا جائزہ لینے پر صاف پتا چل رہا تھا وہ اس چھوٹے علاقے میں رہنے والا نہیں۔۔ مہنگے کپڑے، جوتے اور لڑنے کا انداز بتاتا تھا فائٹنگ کی باقاعدہ ٹریننگ ہے۔۔

”مجھے جواب دو ورنہ اس کی گردن توڑ دوں گا۔۔۔ یہ گھر میرا ہے تم لوگوں کا یہاں کیا کام ہے۔۔“  سالک نے گرفت اس بندے کی گردن پر مزید سخت کی تو وہ تڑپ کر اس کے بازو پر ہاتھ مارنے لگا۔۔ لگتا تھا یہ شکل سے نرم مزاج نظر آنے والا لڑکا واقعی یہاں بے دردی سے قتل کر سکتا ہے۔۔

”دیکھو ہم تو بس عام سے چور ہیں۔۔ چوری کی نیت سے آئے تھے۔۔ مگر اب اس علاقے میں نہیں آئیں گے۔۔“  انہوں نے اسے یقین دلایا اور اس بندے کو چھوڑنے کا کہا۔۔

”تمہیں واصف لغاری نے بھیجا ہے۔۔“  سالک نے کچھ سوچ کر یونہی اندھیرے میں تیر چھوڑا اور ٹارچ کی روشنی میں ان کے چہرے دیکھے، وہ چونکے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے۔۔

سالک کو جواب مل گیا تھا۔۔ وہ واقعی واصف کے بھیجے بندے تھے۔۔ جیسا کہ اسے شک تھا کہ واصف اپنی گرفتاری سے پہلے کچھ نا کچھ ضرور کرے گا اور وہ غلط نہیں تھا۔۔ سالک کے پاس یہی موقع تھا ان سے سچ اگلوانے کا۔۔ بازو میں قید گردن والا بندہ مرنے والا ہو رہا تھا۔۔

باقی دو نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا۔۔ بات کرنے کے بہانے قریب ہو کر لڑکے کو دبوچ لیا جائے۔۔ وہ اس کی طرف بڑھنے لگے۔۔

مگر سالک کافی سے زیادہ ہوشیار تھا اس وقت۔۔ اس بندے کی گردن کو ہلکا سا جھٹکا دیا تو وہ دبا دبا سا چلایا۔۔ وہ دونوں یکدم رک گئے۔۔

”میرے ساتھ گیم مت کھیلنا۔۔ مجھے میرے چند سوالوں کے جواب دے دو گے تو جانے دوں گا۔۔ ورنہ میں جانتا ہوں تم لوگ ہی کڈنیپر ہو۔۔ کمشنر کی تلاش اب بھی تم لوگوں کے لیے جاری ہے مگر ہم نے کسی پر شک نہیں ظاہر کیا۔۔۔

لیکن اب مزید میں تم لوگوں کو برداشت نہیں کر سکوں گا۔۔“  سالک نے سرد بھاری آواز میں سختی سے کہا تو وہ بوکھلا کر سوچ میں پڑ گئے۔۔ 

👈👈👈👈👇👌

وہ دونوں تھوڑی سوچ بچار کے بعد آخر کار سچ بتانے کو تیار نظر آئے تھے۔۔

”مگر کیا گارنٹی ہے تم باس کو یا پولیس کو ہمارا نہیں بتاؤ گے۔۔“ انہوں نے اپنی سیفٹی کی گارنٹی مانگی۔۔ سالک جو اپنا سیل آن کر رہا تھا، چونکا۔۔ سیل ان کے سامنے لہرایا۔۔ 

بازو میں قید بندے کو چھوڑا تو وہ بھی گردن سہلاتا سامنے ساتھیوں کے پاس جا ٹھہرا۔۔ وہ حیران ہوئے۔۔ کیا وہ لڑکا پاگل ہے جو ان تین کے سامنے مزے سے اکیلا کھڑا ہے۔۔

”میں تم لوگوں کو آزاد کر کے سامنے اکیلا ہوں۔۔ اور یہ رہی گارنٹی۔۔“ سالک نے کہتے ہوئے موبائل سامنے کیا جس میں کیمرہ آن تھا۔۔

ان کی سیکنڈز میں پکچرز لیں۔۔ وہ بوکھلا گئے۔۔ سالک مسکرایا۔۔

”تمہارے چہرے سیو ہیں اب میں چاہوں تو پولیس کو دے کر تمہیں اریسٹ کروا لوں مگر سچ بتادو تو چھوڑ دوں گا۔۔“ سالک کی توجہ سیل پر تھی اور ان سے بول رہا تھا۔۔ اس نے پکچرز نانا کے نمبر پر سینڈ کر دیں۔۔ 

انہوں نے یکدم پھرتی سے اسے دبوچا۔۔ دو نے اس کے بازو مضبوطی سے پکڑے اور ایک پے در پے وار کرتے بری طرح اسے مارنے لگا۔۔ 

سالک کو جتنے ایزی گوئنگ لگے تھے، اتنے تھے نہیں۔۔ انہوں نے اسے اچھا خاصہ نڈھال کر دیا تھا اور جب انہوں نے چھوڑا تو وہ نڈھال سا نیچے زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔

”اپنی عمر دیکھو لڑکے۔۔ تمہاری عمر جتنا تو ہمارا یہ مار دھاڑ کا تجربہ ہے اور تو ہمارے ساتھ چالاکی کھیلنے لگا تھا۔۔“ وہ اس سے موبائل چھین کر تمسخر سے بولے۔۔ سالک ان کی بات پر بے ساختہ ہنسا۔۔ 

”کسی کو ہرانے کے لیے تجربہ نہیں دماغ چاہئیے سر۔۔“ 

وہ ہنسنے کی وجہ سے دکھتے جسم پر کراہ کر بولا۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی، زہین آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی۔۔ وہ چونکے۔  ”کیا مطلب۔۔؟“ موبائل کو دیکھا۔۔

”تم اگر مجھے مار بھی دو یا یہ موبائل چھین لو تب بھی میں تم لوگوں کی پکچر اپنے ایک کانٹیکٹ کو بھیج چکا ہوں۔۔ اب اگر صبح تک میں نے کوئی کانٹیکٹ نا کیا تو وہ پکچرز سیدھا پولیس کو ملیں گی۔۔“ سالک کی بات پر ان کے دماغ کھول اٹھے۔۔ 

مگر مجبوراً موبائل سالک کو پکڑا کر اسے دیکھنے لگے۔۔ اب بتائے بنا چارہ نا تھا۔۔

”ہمیں واصف لغاری نے کہا تھا اس گھر کی لڑکی اٹھانی ہے اور اس میں ایک اسی گھر کا لڑکا مدد کرے گا۔۔ باس کی کچھ باہر کے لوگوں (فارن ڈیلی گیشن) سے کوئی میٹنگ تھی۔۔ اس دن ہمیں فارس نامی لڑکے کا میسج ملا کہ لڑکی یہ دو گلی چھوڑ کر روڈ پر میڈیکل سٹور تک آئے گی۔۔۔ ہم ویسے بھی باس کی ہدایت پر اسی ایریا میں تھے۔ لڑکی سامنے ہوئی تو اٹھا لی۔۔ 

ہمیں فارس نے ایک ایڈریس دیا تھا جہاں لے جانا تھا لڑکی کو۔۔ مگر عین وقت پر باس کی سیکرٹری بینا نے ہمیں لڑکی کو باس کے اپارٹمنٹ لے جانے کا بولا اور یہ کہ وہ خود وہاں آئے گی کچھ وقت تک۔۔ پھر فارس کے پاس لے جائے گی۔۔ 

ہم نے لڑکی کو رسیوں سے باندھ دیا اور ایک کیمرے کی مدد سے کمرے سے باہر بیٹھ کر لڑکی پر نظر رکھی جب وہ ہوش میں آئی تو میں نے باس کی ہدایت کے مطابق کمرے میں جا کر کال کا ڈرامہ کر کے ظاہر کیا کہ یہ کام زایان خان نے کروایا ہے۔۔“  انہوں نے اپنی اپنی جگہ ساری بات بتا دی سالک جو چھپ کر موبائل کا کیمرہ ان کی طرف کر کے ویڈیو بنا رہا تھا، چونک گیا۔۔ یہاں تک تو ادھوری بات تھی۔۔

”تو چھوڑا کیوں لڑکی کو۔۔“ سالک نے سوال کیا۔۔ وہ زرا رکے اور پھر ایک بولنے لگا۔۔۔

” جب بینا آئی تو بہت جلدی میں تھی کیونکہ پولیس انوالو ہو گئی تھی اور کمشنر جان پہچان کا نہیں تھا کہ معاملہ سنبھال سکے۔۔ ہمیں بس جلد از جلد لڑکی فارس نامی لڑکے کے حوالے کرنا تھی مگر یہاں ہم سے گڑبڑ ہو چکی تھی کہ ہم نے غلط لڑکی اغوا کر لی تھی۔۔ بینا نے دیکھا تو چیخی کہ ہمیں زایان خان کی چھوٹی بھابھی کو اغوا کرنا تھا مگر وہ نجانے کون لڑکی تھی۔۔ بینا نے زایان خان کی بھابھی دیکھی ہوئی تھی مگر اس لڑکی کو ہم نہیں جانتے تھے۔۔ فارس کے حوالے بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔ باس کو بتاتے تو مزید معاملہ بگڑتا۔۔ پولیس کا خطرہ بھی بڑھ چکا تھا۔۔ (یعنی انہیں اندازہ ہی نہیں تھا یہ لڑکی بھی اسی گھر کی ہے۔۔)

ہم نے بینا کے کہنے پر چپ چاپ لڑکی کو آزاد کیا اور جب باس نے میٹنگ سے فری ہو کر پوچھا تو ہم نے کہہ دیا کہ لڑکی اغوا نہیں کر سکے، کوئی اور اغوا کر گیا۔۔ 

معاملہ سولو ہو چکا تھا اور کسی کو خبر نہیں ہوئی مگر تم کون ہو۔۔ کیسے جان گئے کہ اغوا ہم نے ہی کیا تھا۔۔؟“ ان کے سوال کا سالک نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔۔

وہ ویڈیو زایان کو بھیجی اور دیوار کے سہارے اٹھا۔۔ سردی شدید ہو رہی تھی جس کی وجہ سے چوٹیں تکلیف دے رہی تھیں۔۔ پورا جسم درد کر رہا تھا۔۔ 

”اگر واصف لغاری کے اریسٹ ہونے میں ہیلپ کرو تو تمہارا نام نہیں آنے دوں گا۔۔ کسی بھی معاملہ میں۔۔ آج کس کام سے آئے تھے تم لوگ؟“ سالک نے سوال کیا۔۔

”اسی کام سے مطلب۔۔ زایان خان کی بیوی کو اغوا کر کے باس کے حوالے کرنا تھا۔۔ ہم کچھ دن سے مسلسل اس گھر پر نظر رکھے ہوئے ہیں آج وہ لڑکی آئی ہے۔۔ مگر تم بیچ میں آگئے۔۔“ ان کے الفاظ پر سالک کو شدید غصہ آیا تھا دیا پر۔۔ اگر وہ آج نا آتا تو؟

” تم واصف لغاری کو کہنا لڑکی کڈنیپ کر لی ہے۔۔ پھر جہاں وہ خود ہو گا وہیں بلوائے گاتمہیں۔۔ یا تمہارے پاس آئے گا جو بھی کرے اس نمبر پر میسج کر دینا پولیس پہنچ جائے گی۔۔ تم لوگ نکل جانا۔۔“ سالک نے کمشنر سعد کا نمبر دیا جو داجان کے دوست کا بیٹا تھا۔۔

اور واصف کی گرفتاری کے لیے آج کل چپہ چپہ چھان رہا تھا۔۔ 

وہ اپنی جان کے بدلے واصف کا سودا کر کے چلے گئے اور جب سالک کو یقین ہو گیا کہ اب خطرہ نہیں۔۔ وہ وہیں سے پلٹ آیا۔۔ اگر آج کی رات دیا ڈرتی ہے یا سو نہیں پاتی تو اچھا ہے، اسے سزا ملے۔۔ سالک نے ریان کو میسج کیا کہ وہ اسے آ کر لے جائے اور خود بمشکل لڑکھڑا کر دیواروں کے سہارے چلتا گاڑی تک پہنچا اور اس میں بیٹھ کر اپنے سانس بحال کرنے لگا۔۔

واقعی وہ کوئی تجربہ کار کھلاڑی تھے جو اس کا جوڑ جوڑ دکھا گئے تھے۔۔ 

      👈YamanEvaWrites👉

زایان نے ویڈیو دیکھی تو اسے جھٹکا لگا۔۔ فارس اس سب میں شامل تھا؟ حد تھی بے حسی اور بے غیرتی کی۔۔ 

ہالہ زیوارات، بھاری میکسی اور میک اپ سے آزاد ہو کر ہلکے پھلکے لباس میں آئی تو زایان نے سیل ایک سائیڈ پر رکھا اور بیڈ کے دوسرے کنارے ٹکتی ہالہ کا ہاتھ تھاما۔۔ ہالہ نے ہمیشہ کی طرح جواباً شدید غصہ اور الجھن سے گھورا۔۔

”ہالہ تمہارے پاس کیا پروف ہے کہ تمہیں کڈنیپ میں نے کروایا؟ او۔کے میرے پاس نہیں تو تم کیسے یقین سے کہہ سکتی ہو یہ سب میں نے کیا۔۔؟“  زایان کے سوال پر ہالہ نے اسے دیکھا جو اتنا ”شریف“ بن رہا تھا۔۔

”تمہارے بندے نے مجھے سوتا ہوا سمجھ کر تمہیں کال ملا کر سب او۔کے کا اشارہ دیا تھا۔۔“ ہالہ کے جواب پر زایان تاسف سے مسکرایا۔۔

”اور کیا تم نے میری آواز سنی؟ کیا اس دنیا میں صرف میرا نام زایان ہے؟“ زایان ایک بار  چاہتا تھا وہ خود سوچے اور سمجھے۔۔

”مجھے آواز سننے کی ضرورت تھی؟ اور ساری دنیا چھوڑ کر زایان نام ہی کیوں تھا کڈنیپر کا؟ کم از کم ”مجھے“ تو صرف ایک ہی زایان جانتا تھا اور وہ تم ہو۔۔“ ہالہ نے سختی سے کہا اور سونے کے لیے لیٹنا چاہا مگر زایان ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہیں تھا۔۔ 

”پھر تم نے کسی کو بتایا کیوں نہیں؟ میرا نام بھی سن لیا یقین ہو گیا کہ میں ہی تھا تو سب کے پوچھنے پر خاموش کیوں رہیں؟ کیا محبت کرتی ہو مجھ سے؟“ زایان کے سوال پر ہالہ کا دماغ جھنجھنا اٹھا۔۔

 محبت؟ زایان سے؟ اس کا دل زور سے دھڑکا۔۔

”اس دن میرے حواس کام نہیں کر رہے تھے۔۔ اس کے بعد مجھے موقع دئیے بنا نکاح کر دیا گیا۔۔“  ہالہ نے بات بنا لی۔۔ وہ اسے نہیں کہہ پائی، اس دن شدید غصہ کے باوجود اور سب کے لاکھ پوچھنے پر بھی وہ زایان کا نام جان بوجھ کر چھپا گئی تھی۔۔ 

نجانے اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کوئی زایان کو برا بھلا کہے، سب اس سے نفرت کریں۔۔ پتا نہیں کیوں وہ اس کا نام چھپا گئی۔۔ حالانکہ اسے غصہ آج تک تھا اور انتظار بھی کہ زایان اپنی غلطی مان کر اس سے معافی مانگ لے۔۔ اور وہ سوچ چکی تھی کہ وہ بنا مزید کچھ کہے معاف کر دے گی مگر وہ مانتا تب ناں۔۔

”اور اب میں اگر تمہاری فیملی کو بتا دوں تو یہ جو تم میرا خیال رکھتے ہو ناں پھر شاید کبھی نا رکھو۔۔ یہ پیار، فکر اور کئیر سب دکھاوا اسی لیے ہے کہ میں تمہارا راز کسی کو نا بتاؤں۔۔“  زایان اس کی بدگمانی پر ساکت رہ گیا۔۔ تو کیا وہ اس کی خالص محبت کو بس ایک ”دکھاوا“ سمجھتی ہے۔۔ اسے شدید صدمہ پہنچا تھا۔۔

”ہالہ۔۔ میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا۔۔ محبت کرتا ہوں تم سے۔۔ جیسے بھی حالات میں ملی ہو، قبول ہو دل سے۔۔ اس سب میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔۔ کیا میرے الفاظ، میرے لہجے میں، میری آنکھوں میں سچائی نہیں دیکھ سکتیں تم؟ ایک آخری بار کہتا ہوں۔۔ اگر کسی ثبوت گواہ کے بنا کہوں کہ وہ سب میں نے نہیں کیا اور پھر بھی اپنی محبت میں تمہیں اپنا نام دیا، حفاظت کی، خیال رکھا۔۔  

یہ توجہ، پیار، فکر اور میری محبت۔۔ سب سچ ہے۔۔ تو کیا میری بات مان لو گی؟“  زایان نے آخری کوشش کی تھی۔۔ اس کے دل میں عجیب سی کسک تھی کہ ہالہ اس کے کہے پر ایمان لے آئے۔۔

”میں ایک عام سی لڑکی ہوں۔۔ جو دیکھا سنا اس پر یقین ہے۔۔ مجھے لفظ، لہجے اور آنکھیں پڑھنے اور سمجھنے نہیں آتے۔۔ اگر تم کہتے ہو کہ وہ تم نہیں تھے تو ثبوت دکھا دو۔۔ مان جاؤں گی۔۔“  ہالہ نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے زایان کو مایوس کر دیا۔۔ زایان نے موبائل اٹھا کر ویڈیو اوپن کی اور ہالہ کو دے دی۔۔

”یہ ہے ثبوت۔۔ سالک نے کچھ وقت پہلے بھیجی ہے۔۔ اس کے بعد شاید تمہیں میرا یقین آجائے لیکن تم نے مجھے بری طرح ہرٹ کیا ہے آج۔۔ میں وہ پاگل ہوں جو چاہتا تھا کہ میری اس جان لیوا محبت کو تم خود پہچانو۔۔ میں تمہاری خاموش آنکھوں کے دکھ پڑھ سکتا ہوں، میں تمہاری خاموشی میں بھی تمہارے احساس پہچان لیتا ہوں۔۔ 

تمہاری تکلیف بے چینی اور خوف تمہارے لہجے سے ہی سمجھ لیتا ہوں۔۔ اس سب کے بدلے بس اپنے لفظوں کا یقین چاہتا تھا ہالہ مگر تمہارے پاس مجھے دینے لیے کچھ بھی نہیں سوائے بد گمانی اور نفرت کے۔۔“  ہالہ ویڈیو دیکھتی شاکڈ ہو چکی تھی۔۔ فارس کی حقیقت پر اسے صدمہ ہوا تھا۔۔ زایان کے الفاظ پر اس نے لب دانتوں تلے دبا کر سسکی روکی۔۔ زایان بیڈ کے دوسرے کنارے اپنی جگہ لیٹ کر اس سے رخ پھیر گیا اور ہالہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بعد سے اب تک یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ ہالہ کی طرف پشت کیے سو رہا تھا۔۔ ہالہ نے بے دم ہو کر گھٹنوں پر سر ٹکایا اور سسکیوں کو دباتی گھٹی گھٹی آواز میں نجانے کتنی دیر روتی رہی۔۔۔

اس رات چار لوگ اپنی اپنی جگہ جاگے تھے۔

ہالہ پچھتاوے اور اپنوں کے دئیے زخم پر روتی رہی تھی۔۔ 

زایان اپنی محبت کی بے قدری پر اور ہالہ کی سسکیوں پر ساری رات بے چین رہا تھا۔۔

سالک دیا پر غصہ اور اپنے زہنی و جسمانی تکلیف پر ساری رات جاگتا رہا تھا۔۔ 

اور دیا جسے یقین تھا سالک اس کے اکیلے پن کا خیال کر کے ضرور آئے گا۔۔ پوری رات اکیلی خوف سے روتی رہی تھی۔۔ 

       👈YamanEvaWrites👉

ریان سالک کو کسی کلینک سے چیک کروا کر پین کلرز لیتا اسے گھر لایا تھا۔۔ سالک نے رات کو تو کسی طرح ریان کو خاموش رہنے پر منا لیا تھا مگر ریان کے صبح بتانے پر خان پیلس میں کہرام مچا تھا۔۔ 

سالک کے چہرے اور باقی جسم پر نیل اور دوسری چوٹوں کے نشان دیکھ کر دی جان تو بری طرح رونے لگیں۔۔ سب کی حالت خراب ہو گئی۔۔ اسے دیکھ کر ہی انہیں تکلیف کی شدت اپنے اندر محسوس ہوئی تھی۔۔۔

نجانے کیسے لوگوں میں پھنسا۔۔ انہوں نے جب مارا ہو گا۔۔ سالک کتنا اکیلا ہو گا۔۔ کتنی تکلیف ہوئی ہو گی۔۔ مدد کے لیے پکارا ہوگا۔۔ نجانے کیا ہوا ہوگا۔۔ بڑے بھائیوں کا بس نہیں چل رہا تھا سالک کا یہ حال کرنے والے سامنے آئیں تو انہیں دنیا کی بد ترین سزا دے دیں۔۔

”کس سے جھگڑا ہوا؟ کون تھے وہ لوگ ؟ کیوں مارا تمہیں؟ کہاں گئے تھے تم سالک؟“ سوالوں کی بوچھاڑ تھی۔۔

”میری فائٹ ہوئی تھی۔۔ میں نے مار کھائی ہے تو مارا بھی ہے۔۔ میرے پاس ریزن تھا۔۔“  سالک کے جواب پر انہیں احرام کی بے بسی کا اندازہ آج ہو رہا تھا۔ جب ہر بار پوچھنے پر احرام کہتا تھا۔۔

”سالک اب اچھا بچہ نہیں رہا۔۔ الٹے سیدھے کام کرتا ہے۔۔ بری طرح زخمی ہو کر آ جاتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اس کے پاس ریزن تھا۔۔“ اور ہمیشہ کی طرح سالک نے نا ریزن بتایا نا ہی ان بندوں کا جنہوں نے یہ حال کیا تھا۔۔ 

اس کا ایک ہی جواب حاضر تھا۔۔

”I can handel this matter...

زایان نے اپنے اس چھوٹے شہزادوں جیسے بھائی کو سینے سے لگا کر اس کا چہرہ چوما۔۔ وہ اسے سب سے بڑھ کر پیارا تھا۔۔

”تم نے اپنی جان کیوں رسک میں ڈالی سالک۔۔ میرا معاملہ تھا میں ہینڈل کر رہا تھا ناں۔۔ مجھے اپنی بے گناہی کے ثبوت یا گواہ کی اتنی ضرورت نہیں تھی کہ تم یوں تکلیف اٹھاتے۔۔“  زایان نے تکلیف سے اسے دیکھا جو ایسے مسکرا رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔ اور سب کسی اور کے لیے فکرمند ہوں۔۔

”اٹس او۔کے زایان بی۔۔۔ یہ سب بائی چانس ہوا کہ آپ کی انوسینس کا پروف مل گیا۔۔ میرا اپنا ایک میٹر تھا جس کی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔ آپ گلٹی مت ہوں پلیز۔۔“ 

سالک نے اسے اطمینان دلایا۔۔ 

”مجھے اکرام کا نمبر دیں۔۔ میں اسے یہ ویڈیو بھیجوں گا۔۔ میں نہیں چاہتا وہ ہیلے کے ساتھ غلط کر کے بھی ساری زندگی خود کو صحیح سمجھ کر ریلیکس رہے۔۔ جس نے غلط کیا ہے اسے اندازہ ہونا چاہئیے۔۔ وہ ریگریٹ کرے۔۔“ سالک نے زایان سے کہا۔۔ وہ اتنی آسانی سے معاف کر دینے والوں میں سے تھا بھی نہیں۔

”پھر فارس کے بارے میں کیا کہو گے؟“ زایان نے ابرو اچکا کر دیکھا۔۔

”وہ جانتا ہے اس نے غلط کیا۔۔ وہ گلٹی ہے۔۔ وہ اب خادم بابا کو سنبھالتا ہے۔۔ اسی گلٹ میں وہ ڈی کے سامنے بھی نہیں آتا۔۔ وہ خود کو خود سزا دے رہا ہے۔۔ “ سالک کو سب خبر تھی جیسے۔۔ کندھے اچکائے۔۔ 

زایان نے ہار مان لی۔۔ سالک ان سے الگ سوچتا ہے اور کچھ بھی کر گزرتا ہے۔۔

وہ ہر معاملہ میں احتیاط کرتے تھے اور سالک کو احتیاط کرنا نہیں آتا تھا۔

”سالک اس گھر میں اور بھی سب لڑکے ہیں۔۔ لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں مگر سمجھداری سے طریقے سے بات کر کے معاملات سنبھالے جاتے ہیں۔۔ تم جب کسی سے جھگڑا کرتے ہو سیدھا مار دھاڑ پر اتر آتے ہو۔۔  ہر وقت اپنی حالت خراب کی ہوتی ہے۔۔“

 داجان نے ناراضگی سے اسے دیکھا جسے اپنی پرواہ ہی نہیں تھی اور سالک کو طریقے سے بات کرنا آتی ہی کب تھی۔۔

👈YamanEvaWrites👉

ہالہ صبح سالک کے سامنے بیٹھی تھی۔۔

”تھینکس سالک۔۔ میں بہت ازیت میں تھی۔۔۔ تم نے میرے اندر کا بوجھ ختم کیا ہے۔۔ مجھے بس دکھ یہ ہے کہ تمہاری حالت کی زمہ دار بھی شاید میں ہی ہوں۔۔“ 

ہالہ نے شرمندگی سے اعتراف کیا۔۔

”تم اب زایان بی پر ڈاؤٹ مت کرنا ہیلے۔۔ وہ تمہیں خوش رکھیں گے۔۔ آئی گارنٹی یو۔۔ تم نے انہیں کڈنیپر سمجھا پھر بھی میرے کہنے پر نکاح کرلیا اور کسی کے سامنے ہیومیلیٹ نہیں کیا۔۔ انسلٹ نہیں کی سب گھر والوں کے سامنے۔۔ اس سب کے لیے تھینکس۔۔ اگر ڈی ہوتی نا تو وہ اب تک سب کے درمیاں مجھے خوب سنا چکی ہوتی۔۔“ 

سالک نے منہ بنا کر کہا۔۔ جس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچا تھا۔۔ اسے خبر ہی نہیں تھی اور ہالہ خوا۔خواہ سوری فیل کر رہی تھی۔۔ وہ دل میں ناراض ہوا۔

”او۔کے میں گھر جاتی ہوں دیا کو بھیجوں گی۔۔ آئم سوری۔۔ دیا پاگل ہے اسے یہاں ہونا چاہئیے تھا۔۔ وہ اصل میں اب بھی بابا فلی ریکور نہیں ہوئے تو ہمیں فکر ہوتی ہے۔۔“ 

ہالہ نے دیا کی طرف سے وضاحت دی۔ سالک خاموش رہا اسے دیا کی بات پر ہی تپ چڑھنے لگتا تھا۔۔

زایان کے کہنے پر ہالہ ڈرائیور کے ساتھ گھر گئی اور دیا کو واپس جانے کا بولا۔۔ 

دیا گلابی آنکھیں لیے نڈھال سی بیٹھی تھی۔۔ سالک کا سن کر ڈرائیور کے ساتھ آ گئی تھی اور اب سالک کے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔

وہ نیم دراز کچھ فاصلے پر بیٹھی دیا کو ماتھے پر بل ڈالے گھور رہا تھا۔۔۔

”آ۔۔آپ کو بہت زیادہ مارا کیا ان غنڈوں نے۔۔؟ کون تھے وہ؟ کیوں مارا انہوں نے۔۔؟“  وہ آخر ہمت کر کے پوچھنے لگی۔

”تمہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ کوٸی مجھے مار بھی ڈالے۔۔ تم خوشی سے اپنے گھر جا کر رہو۔۔ مجھے لگتا ہے کسی بچی سے ڈیل کر رہا ہوں۔۔ کب بیٹھے بیٹھے تمہارا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔۔ نا کچھ پوچھتی ہو نا بتاتی ہو۔۔ بس اپنی مرضی کیے جاؤ تم۔۔“ 

سالک نے بری طرح جھاڑا تو وہ چپ سی ہو گئی۔۔

”مجھے لگا تھا آپ آئیں گے۔۔ آپ کی فلائٹ کینسل ہوئی، مجھے بتایا تک نہیں۔۔ اسمارہ کو بتا دیا۔۔ پھر مجھے کال کر کے ڈرایا بھی۔۔ میں ساری رات ڈرتی رہی اور آپ پھر آئے بھی نہیں۔۔“ وہ اب بھی روہانسی ہوتی اپنے رونے روتی چلی جا رہی تھی۔۔ سالک کا دماغ گھوم گیا۔۔

”شٹ اپ ڈی۔۔ مجھے وہیں اسی وقت کال آئی کہ فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔۔ گرین پا کو بتایا۔۔ تمہیں بھی گھر آ کر بتاہی دیتا ناں۔۔ تم اور تمہارے ایٹیٹیوڈ۔۔ یہاں زرا بات ہوئی اور تمہارا موڈ آف۔۔ گرو اَپ۔۔ یو آر ناٹ آ چائلڈ۔

میں ہر بار تمہیں سیفٹی دینے نہیں آ سکتا۔۔ تم اپنا اور میرا لاس کر کے ہی رہو گی کبھی۔۔ اگر کل میری فلائٹ کینسل نا ہوئی ہوتی تو جانتی ہو کیا ہوتا۔۔؟ یو آر ٹو مچ۔۔“ 

سالک نے اپنی ساری بھڑاس نکالی اور وہ منہ کھولے ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ کس بات کی سیفٹی؟ کیسا لاس؟ دیا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جو آنکھیں بند کر کے گہرے گہرے سانس لیتا جیسے ضبط کرنا چاہ رہا تھا۔۔

” اب جاؤ ڈی۔۔ ابھی، فی الحال جاؤ۔۔ مجھ سے کوئی بات مت کرو ورنہ میں شاید ایز ہیومن بھی تمہیں بئیر(برداشت) نہیں کر سکوں گا۔۔“  سالک نے سختی سے کہا۔۔ دیا کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کے گھر جانے پر سالک اتنا ناراض کیوں ہو رہا ہے؟ وہ ناسمجھی سے اس کا غصیلا اور سرد رویہ دیکھ رہی تھی۔۔

”میں۔۔ مجھے اکیلے ڈر لگتا ہے۔۔ بابا کے پاس فارس بھائی ہوتے ہیں سالک۔۔ مجھے اکیلے کمرے میں ڈر۔۔ 

”گیٹ آؤٹ ڈی۔۔“  دیا کی بات سالک کی دھاڑ پر ادھوری رہ گئی۔۔ سالک کا یہ روپ اسے در حقیقت ڈرا کر رکھ گیا۔۔۔

وہ بالکل الگ انسان لگ رہا تھا اس وقت۔۔ 

اس نے سرخ آنکھوں سے دیا کو دیکھا تو وہ فوراً اٹھ کر باہر بھاگ گئی۔۔

سالک نے سر تکیہ پر ٹکا دیا۔۔ کمشنر سعد نے صبح صبح واصف کے خفیہ ٹھکانے پر ریڈ ڈالی تھی۔۔ اس نے بتایا تھا کہ واصف نے فیک پاسپورٹ بنائے ہوئے تھے۔۔ ایک اپنا اور ایک لڑکی کا۔۔ وہ آج کی ہی فلائٹ سے دوبئی نکلنے والا تھا۔۔ 

سالک سمجھ گیا وہ لڑکی دیا تھی۔۔ اور اگر وہ نا پکڑا جاتا۔۔ اگر رات کے اس پہر وہ لوگ دیا کو اغوا کر کے واصف کے حوالے کر دیتے۔۔ وہ اسے دبئی لے جاتا اور انہیں شاید کبھی پتا ہی نا چلتا دیا کہاں غائب ہوئی ہے۔۔ اور کون جانے لغاری دیا کے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔

یہ سب سوچ کر ہی سالک کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔۔ اسے دیا پر حد سے زیادہ غصہ آیا تھا۔۔

💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜

ہالہ سارا دن اپنے گھر میں بھی خاموش سی رہی۔۔ بابا نے محسوس کیا تو پوچھ بیٹھے۔۔ وہ لب کاٹتی جواب سوچتی رہ گئی۔۔

”وہ۔۔ بابا مجھے بس آپ کی فکر ہوتی ہے۔۔ آپ کو اب کوئی مسئلہ تو نہیں ناں۔۔؟“ وہ بات بدل گئی۔۔ وہ سمجھ گئے کہ وہ بتانا نہیں چاہ رہی سو خاموش رہے۔۔

”ہالہ میری فکر مت کیا کرو اب تم دونوں۔۔ فارس میرا بہت خیال رکھتا ہے۔۔ اپنا سارا وقت مجھے دیتا ہے۔۔ 

یہ اس طرح تم لوگوں کا آنا جانا بہت غلط ہے۔۔ وہ لوگ بہت اچھے ہیں کہ یہ سب برداشت کر رہے ہیں۔۔ زایان اور سالک کی شکل میں مجھے اتنے اچھے بیٹے ملے ہیں۔۔ میں چاہوں گا تم انہیں ٹائم دو۔۔ اپنے نئے رشتے کو ٹائم دو۔۔ 

ان کی عزت کرو بیٹا۔۔ جو مرد عزت دے اور آپ کی خامیوں کو بھی دل سے قبول کرے۔۔ وہ انسان ساری عمر آپ کا سایہ بن کر رہ سکتا ہے۔۔ اس لیے تم اپنے سائبان اب اپنی بے وقوفیوں سے مت گنوانا۔۔“ انہیں اپنی بیٹیوں کی کم عقلی کا بخوبی اندازہ تھا تبھی سمجھانے لگے۔۔ ہالہ نے سر جھکا لیا۔۔ وہ ان کی ہر بات کو زہن میں بٹھا چکی تھی۔۔ دیا کو بھی وہ سمجھا چکے تھے۔۔

”بابا میں آپ کے لیے کھانا بناتی ہوں آپ ریسٹ کریں۔۔“ ہالہ نے کچھ باتوں کے بعد انہیں لیٹا کر کہا اور خود کچن میں آ گئی۔۔ 

زہن پر مسلسل زایان کی باتیں اور ناراضگی سوار تھی۔۔ وہ اس سے اب بات بھی نہیں کر رہا تھا۔۔ بظاہر لگتا تھا وہ نارمل ہے مگر ہالہ کو محسوس ہو رہا تھا اس کا انداز اپ پہلے جیسا کئیرنگ اور پیار بھرا نہیں تھا۔۔ 

وہ سوپ تیار کرتی شیلف سے ٹیک لگائے ٹھہر گئی۔۔ زندگی نے اچانک ہی پلٹا کھایا تھا کہ اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔۔  زایان کی ناراضگی اسے بے چین کر رہی تھی۔۔ اس نے بس ایک ثبوت ہی تو مانگا تھا اس کے بے قصور ہونے کا۔۔ 

جیسے سالک نے سچ ڈھونڈا۔۔ ایسے وہ بھی تو ڈھونڈ سکتا تھا۔۔ کیا اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ ہالہ کتنی بے سکون تھی۔۔ الٹا وہ ناراض ہو گیا۔۔ تو کیا محبت کرنے والے اتنے ہی حساس ہوتے ہیں۔۔؟؟

کیا وہ چاہتا تھا ہالہ دل کی بے سکونی کے باوجود جھوٹ بول دیتی کہ اسے یقین ہے؟

کیا وہ اپنے رشتے میں جھوٹ کی ملاوٹ پر راضی تھا؟ زایان خان اتنا عجیب کیوں تھا؟

ہالہ نے سر تھام لیا۔۔۔ وہ ایک سادہ سی، عام سی لڑکی تھی۔۔ پتا نہیں کیوں اسے اتنا مشکل بندہ مل گیا تھا۔۔

فارس اسے کچن میں دیکھ کر وہیں آ گیا۔۔

”ہالہ۔۔ ٹھیک ہو؟“ اس کے پوچھنے پر ہالہ چونکی اور اسے دیکھا۔۔ یہ وہ انسان تھا جس نے اس کی زندگی بدل دی تھی۔۔ اور شاید اسے احساس تک نہیں تھا۔۔

”ٹھیک ہوں۔۔“ وہ دو لفظی جواب دے کر رخ پھیر گئی۔۔ وہ قصوروار تھا اور یوں چپ رہا تھا۔۔ تب بھی جب اسے اس کا بھائی رسوا کر رہا تھا۔۔۔ وہ گواہ بھی تو بن سکتا تھا۔۔

”ہالہ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔" وہ کچھ دیر بعد سر جھکائے بولا۔ وہ خاموش رہی تھی۔۔

اور پھر فارس نے وہ آدھا سچ بتا دیا جو وہ جان گئی تھی۔۔

”میں شامل تھا مگر مجھے اندازہ نہیں تھا زایان پہلے ہی تمہیں کڈنیپ کروالے گا۔۔ وہ بہت پہلے سے ہی تم میں دلچسپی لے رہا تھا۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا وہ یہ قدم اٹھا لے گا۔۔“ فارس خود بھی الجھا ہوا تھا۔

”مجھے معاف کر دو ہالہ پلیز۔۔ کہیں نا کہیں میں قصوروار ہوں بلکہ شاید تمہارے ساتھ یا دیا کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا سب میں میرا قصور رہا ہے۔۔ میں شرمندہ ہوں۔۔ میں دیا کا سامنا نہیں کر سکتا میں امید کرتا ہوں تم دونوں مجھے معاف کر دوگی۔۔“ 

فارس کی آواز میں نمی گھلی تھی۔۔ بنا سوچے سمجھے غلطیاں کرنے والوں کو جب احساس ہو جائے تو اسی طرح ضمیر کی عدالت شرمندہ کرتی ہے۔۔ اور اتنا کرتی ہے کہ چین سکون کو ترس جاتا ہے انسان۔۔ فارس کا بھی یہی حال ہو رہا تھا۔۔ اب جب احساس ہوا تھا اور وہ گننے بیٹھا تو بےحساب غلطیاں نظر آنے لگی تھیں۔۔ سکون ختم ہونے لگا تھا۔۔

”مجھے زایان نے کڈنیپ نہیں کیا تھا۔۔“ ہالہ نے بے اختیار اسے زایان کی سچائی اور پورا سچ بتایا تھا۔۔ فارس کا سر مزید جھک گیا۔۔ 

یعنی اصل قصور اسی کا نکلا تھا۔۔۔

وہ کہتے تھے زایان نے اتنی بڑی قربانی دی کیونکہ وہ خود شامل تھا اس میں۔۔

مگر وہ تو کہیں تھا ہی نہیں۔۔ بس اس کی محبت تھی ہالہ کے لیے۔۔ شروع سے آخر تک۔۔ جس بھی حال میں ہالہ اسے ملی۔۔ نا اس نے کردار کی گواہی مانگی نا پاکیزگی کا ثبوت۔۔ اس نے ہالہ کو ہر حال میں قبول کیا تھا۔۔ فارس نے بے ساختہ دل میں اعتراف کیا تھا کہ اکرام جس محبت کا دعویٰ کرتا تھا اس سے کہیں بہتر زایان خان کی خاموش محبت تھی۔۔ زایان، اکرام سے بہت بہتر تھا۔۔

وہ ہالہ سے پھر سے معافی مانگ رہا تھا اور ہالہ نے معاف کر بھی دیا۔۔ دل سے۔۔ کیا ہوا اگر وہ غلطی کر بیٹھا تھا۔۔ اس کی غلطی نے ہالہ کو زایان جیسے انسان کی زندگی میں شامل کیا تھا۔۔ یہ نقصان تو نہیں تھا۔۔

”اب تم دونوں اپنے گھر رہا کرو ہالہ۔۔ بے شک ملنے آؤ چاچو کو۔۔ مگر اب ان کی زمہ داری میرے اوپر ہے۔۔ امی نے مجھے کہا ہے وہ مجھ سے راضی رہیں گی اگر میں چاچو کے بیٹے کی طرح ان کا سہارا بنوں۔۔ اور میں یہ کروں گا۔۔ مجھے میری ماں کو راضی کرنے کے لیے اور چاچو کی محبت کا صلہ دینے دو۔۔“

 فارس کی درخواست پر ہالہ نے سر ہلا دیا۔۔

👈YamanEvaWrites👉

دیا دی جان کے پاس ان کے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔۔ شام کا وقت تھا، دی جان مغرب پڑھ کر اب تسبیح کر رہی تھیں۔۔ ایک نظر چپ چپ سی دیا پر ڈالی جو سارا دن شدید بخار میں جلتی رہی تھی۔۔

آج سارا دن وہ وقفے وقفے سے سالک کے کمرے میں جاتی رہی تھی، پہلے تو دو تین بار اس نے سختی سے جانے کا کہا۔۔ پھر اس کے جانے پر اگنور کرنے لگا۔۔ اس کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر سب کے بار بار کہنے پر بھی ایک جگہ نہیں بیٹھی۔۔ کیا بتاتی اپنے روم میں سالک نہیں ٹکنے دے رہا تھا۔۔

پھر اسے راسم کی وائف نمرہ نے زبردستی ہلکا پھلکا لنچ کروایا اور میڈیسن دی تو وہ دی جان کے روم میں آ کر سو گئی تھی۔۔ اب آنکھ کھلی تو پھر سے سالک کا اپنے ساتھ ”برا رویہ“ یاد آنے لگا۔۔

 دی جان نے پریشانی سے اس کا زرد چہرہ دیکھا جو ان کے پوچھنے پر بھی بس طبیعت کا بہانہ بنا رہی تھی مگر صاف پتہ چل رہا تھا کہ کوئی بات ہے جو اسے پریشان کر رہی ہے۔۔

”دیا بچے اب طبیعت کچھ بہتر ہوئی؟“ دی جان کے پوچھنے پر وہ چونکی اور خشک ہونٹوں کو تر کر کے”جی“ کہا۔۔

”دی جان کوئی آیا ہوا ہے کیا؟“

دیا کی نظر دور صوفہ پر پڑے ہینڈ بیگ پر پڑی تو اس نے دی جان سے سوال۔کیا۔۔

”ہاں اسمارہ آئی ہے۔۔ باقی فیملی تو دن ٹائم آئی تھی تب وہ یونی میں تھی۔۔ پھر اب آئی سالک کو پوچھنے۔۔ تمہارے کمرے کی طرف ہی گئی ہے۔۔“ دی جان کے بتانے پر دیا بال سمیٹتی اٹھی، ڈوپٹہ سیٹ کیا اور واش روم میں منہ دھونے چلی گئی۔۔

وہاں اسمارہ سالک کا سر کھا رہی تھی وہ خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔۔ 

”آپ کی وائف کمال کرتی ہے۔۔ کل جب میں نے یونہی زکر کیا کہ آپ کی فلاٸٹ کینسل ہو گئی ہے تو بولی کینسل نہیں ہوئی اس کی ناراضگی کے خوف سے آپ نے ڈیلے کیا ہے۔۔ اور اب جب آپ اس حالت میں ہیں تو نانی جان کے کمرے میں مزے سے نیند کر رہی ہے۔۔“ اسمارہ نے اچانک دیا کا زکر چھیڑا تو وہ بے چین ہوا۔۔ 

اسے دن ٹائم نمرہ آپی نے بتایا تھا کہ دیا کو بہت تیز بخار ہے۔۔ اس نے ان سے ریکوئسٹ کی تھی کہ لائٹ سا لنچ کروا کر میڈیسن دے دیں لیکن وہ ابھی تک سو رہی ہے؟ کیا اس کی طبیعت زیادہ خراب تو نہیں۔۔؟ سالک کی سوچ دیا کے گرد گھومنے لگی۔۔ 

وہ اچھے سے جانتا تھا رات اکیلے رہ کر اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔۔ 

”سالک بھائی کیا ہوا؟ آپ کو بھی برا لگ رہا ہے ناں؟  وہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ کئیرلیس ہے۔۔ “ 

اسمارہ نے اس کی خاموشی پر مزید کہا۔۔

”وہ مجھے اچھی لگتی ہے، جیسی بھی ہے۔۔ وہ امیچور ہے ابھی۔۔ مگر وہ پھر بھی ٹرائے کرتی ہے ہمارے ریلیشن کو سمجھنے کی۔۔  وہ اس وقت یہاں نہیں کیونکہ اس کو ٹمپریچر ہے۔۔ پھر بھی دن بھر وہ میرے پاس رہی۔۔ 

اور تم ہمارے پرسنل میٹرز کو دوبارہ ڈسکس مت کرنا پاگل لڑکی۔۔ اچھا تھوڑی لگتا ہے۔۔“  سالک نے مسکرا کر اسے اس کی حد بتائی۔ اسمارہ بری طرح خفت کا شکار ہوئی۔۔

اسی وقت دیا بھی روم میں داخل ہوئی۔۔ اسمارہ نے اسے دیکھا تو اٹھی اور گھر جانے کا کہہ کر وہاں سے چلی گئی، اس سے دیا کی صرف موجودگی بھی برداشت نہیں ہوئی۔۔ 

سالک نے دیا کا دھلا ہوا چہرہ دیکھا۔۔ گلابی پن کی بجائے رنگت میں زردی سی گھلی تھی۔۔ آنکھیں اور گال سرخ ہو رہے تھے ٹمپرچر کی وجہ سے۔۔ خشک پڑتے ہونٹ اور بکھرے براؤن بال۔۔  سالک کو اس کی حالت پر دکھ ہوا۔۔

”آپ نے مجھے سارا دن یہاں نہیں آنے دیا اور خود اسمارہ کے ساتھ کب سے باتیں کر رہے تھے۔۔“ وہ اس کے بالکل سامنے آ کر ڈرتے ڈرتے بیٹھ گئی اور سالک سے شکوہ کرتی رو پڑی۔۔

 وہ حیران رہ گیا۔۔ حد ہو گئی تھی اب۔۔ وہ کتنا غصہ ہوا دیا پر۔۔ وقتی طور پر تو بری طرح سہم جاتی تھی مگر اس وقت کیسے وہ شکوہ کرتی رونے لگی تھی۔۔ سالک کی ناراضگی اسے ”اب“ کچھ زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔۔

وہ اسے روم میں برداشت نہیں کر رہا اور اسمارہ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔۔ 

سالک نے گہرا سانس بھرا ایک پوری رات اور پورا دن کافی تھا ناراضگی کا اور اتنا ہی بہت تھا دیا کو رلانے کے لیے۔۔ 

وہ اس کے پاس بیٹھی رو رہی تھی، وہ جانتی تھی اس نے سالک کو خفا کیا ہے مگر اسے منانا نہیں آتا تھا۔۔ سالک تو جانتا تھا ناں وہ اب گلٹی ہے۔۔ اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔۔

”You were mistaken D.. but you'll never admit your fault.. will you?"

سالک کے کہنے پر وہ اس کے گلے میں بازو ڈالے اس کے کندھے پر ماتھا ٹکا گئی۔۔

اب یہی ایموشنل راستہ نظر آ رہا تھا سالک کو اپنی طرف مائل کرنے کا۔۔

”سوری سالک۔۔ اب نہیں کروں گی ایسا۔۔“ سالک نے دانتوں تلے لب دبا کر مسکراہٹ دبائی اور اس کے گرد بازو پھیلا کر حصار باندھ لیا۔۔

”میں اب تمہیں ایسا کچھ کرنے کا موقع بھی نہیں دوں گا ڈی۔۔ میں اب تمہیں خود سے دور نہیں کروں گا۔۔ اپنے پاس رکھوں گا۔۔ تم اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکتیں تو اب میں ہی تمہیں سنبھالوں گا۔۔“ 

سالک نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے پیار سے کہا۔۔ دیا اس کے کندھے پر سر رکھے سسکتی رہی۔۔ 

”کیا تم نے میڈیسن لی؟ لنچ میں کیا لیا تھا؟“ اسے چپ کروانے کے لیے سالک نے نرمی سے سوال کیا۔۔ وہ زرا رکی۔۔

”کچھ بھی نہیں لیا اور مجھے اب بھی ٹمپریچر ہے سالک۔۔“ وہ اس کے سامنے چہرہ کیے صفائی سے جھوٹ بولنے لگی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ماتھے پر رکھا جو گرم تھا مگر پہلے سے کافی بہتر تھی وہ۔۔

”ڈی نمرہ آپی نے مجھے خود بتایا۔۔ تمہیں لائٹ سے سینڈوچ بھی کھلائے اور میڈیسن بھی دی۔۔ تم کتنی بڑی لائر ہو۔۔“ سالک نے اسے گھورتے ہوئے شرم دلائی۔۔

”میں تو۔۔ بس۔۔ چیک کر رہی تھی کہ میری کچھ خبر بھی رکھی آپ نے یا نہیں۔۔“  وہ بات بنا لینے میں ماہر تھی۔۔  سالک ہنس پڑا۔۔ اس کے گرد حصار مزید تنگ کرتا اسے خود میں بھینچ گیا۔۔ 

سارے دن کی بےزاری اور بے چینی کہیں دور جا سوئی تھی۔۔ دیا کے لیے فی الحال اتنا سبق بہت تھا۔۔ اس نے سالک کا جو روپ اس وقت میں دیکھا تھا اس نے سہما کر رکھ دیا تھا۔۔ سالک کے سینے میں منہ چھپائے سکون سے پڑی رہی۔۔

محبت کرنے والا انسان جب غصہ کرے اور بے زاری کا اظہار کرے تو تب کیسا لگتا ہے، دیا نے دیکھ لیا تھا۔۔ اب وہ دوبارہ کوئی غلطی دہرانے والی نہیں تھی۔۔

👈YamanEvaWrites👉

خادم صاحب کے کہنے پر ہالہ نے زایان کو میسج کیا کہ وہ اسے لے جائے۔۔ اسے یقین تھا کہ زایان ڈرائیور کو ہی بھیجے گا۔۔

وہ پریشان سی بابا کے سامنے بیٹھی تھی جو زایان کے انتظار میں سو بھی نہیں رہے تھے۔۔ کتنی شرمندگی ہو گی جب وہ نہیں آئے گا۔۔

مگر اسے تب شدید حیرت ہوئی جب زایان خود اسے لینے آیا۔۔ اس کے بابا سے  ملا اور کچھ دیر بیٹھ کر باتیں بھی کیں۔۔ اسے دیکھ کر بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ اس کا موڈ خراب ہے یا وہ ہالہ سے ناراض ہے مگر جب وہ بابا سے مل کر گھر آنے لگی تو اسے جھٹکا لگا۔۔ 

زایان اس کے ساتھ ویسے ہی ریزرو اور اگنور کرتا انداز لیے ہوئے تھا۔۔  وہ گھر آنے تک سوچتی رہی کہ اس کا موڈ کیسے بحال کرے۔۔؟

کیا وہ اب پہلے جیسا کبھی نہیں ہو گا؟

اور پھر دو تین روز اسی طرح گزر گئے۔۔ وہ جتنی کوشش کرتی تھی سب نارمل ہو جائے مگر زایان کے انداز میں گرمجوشی اب بھی مقفود تھی۔۔

مسلسل تین دن وہ اسی طرح منہ پھلائے رہا تو وہ بری طرح اکتا گئی۔۔ بہانے بہانے سے بات کرتی کبھی کبھی لڑ پڑتی۔۔ 

مگر وہ خاموشی سے سنتا اور بنا جواب دئیے اپنا کام کرتا رہتا تھا اور ایک رات جب وہ معمول کے مطابق لیپ ٹاپ لیے کام کر رہا تھا۔۔ ہالہ اس کے پاس جا بیٹھی۔۔ زایان نے اب بھی اگنور کیا۔۔

”کیا تم ناراض ہو؟ آخر کس بات پر؟“ ہالہ نے آخر اسے مخاطب کر لیا۔۔

”اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں تم پر غصہ نہیں ہوا۔۔ تم پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔۔ ڈانٹا نہیں۔۔ گھر جانا چاہا تو بھیج دیا، واپس آنا چاہا تو لے آیا ہوں۔۔ اور سب ویسے ہی کر رہا ہوں جیسا تم چاہتی تھیں ہالہ۔۔ پھر تمہیں کیا پریشانی ہے؟“ زایان نے لیپ ٹاپ پر نظر جمائے سرسری انداز میں جواب دیا۔۔ 

وہ جانتا تھا ہالہ کو اب توجہ چاہئیے مگر وہ نہیں مانے گی۔ اگر وہ نہیں مان رہی تو وہ بھی اس بار منوا کر رہے گا۔۔

ہالہ ایک پل کے لیے چپ سی ہو گئی۔۔ وہ سہی تو کہہ رہا ہے مگر اسے کمی سی محسوس کیوں ہو رہی تھی۔۔؟

” تمہارا رویہ سرد سا ہے۔۔ بس فرض نبھانے جیسا سب کر رہے ہو؟“ ہالہ نے بے ساختہ وہ کہہ دیا جو فیل کر رہی تھی۔

”تو کیا میں گرمجوشی سے پیش آیا کروں؟ کیا میں پیار سے سب کروں تو تمہیں اچھا لگے گا۔۔؟“  زایان کے سوال پر وہ خفت زدہ ہوئی۔۔ زایان اب اس کا سنہری چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔ جہاں پریشانی نظر آ رہی تھی۔۔

اس کا جی چاہا سب بھلا کر اس کے چہرے کے گرد پھیلے بال سمیٹے اور اسے خود میں سمیٹ لے مگر ہالہ کو اس نے محسوس کروانا تھا۔۔ اس لیے ضبط کرنا پڑا۔۔

”میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔ میں بس۔۔ یونہی فِیل ہوا مجھے جیسے تم ناراض ہو۔۔“ ہالہ نے کندھے اچکا کر لاپروائی ظاہر کی۔۔

”ویسے بھی میری محبت، فکر اور کئیر تمہیں ایک بوگس ڈرامہ لگتی ہے۔۔ تو میں کیوں اپنے جذبے تم جیسی ہرٹ لیس لڑکی پر ضائع کروں؟ نیور ہالہ۔۔ میری بھی سیلف رسپیکٹ ہے۔۔“  زایان نے سر جھٹکا۔۔ 

ہالہ لب کچلنے لگی۔ (کتنا گھنا ہے یہ بندہ۔۔ دل میں برسوں میل رکھنے والا ہونہہ۔۔)

”تو کیا کروں؟ تم اسی بات پر اٹکے ہو۔۔ سوری کہہ چکی ہوں ناں؟ پتہ نہیں کیا تسکین ملے گی منتیں کروا کر۔۔“ 

ہالہ نے منہ بسور کر کہا زایان نے ماتھے پر بل ڈال کر دیکھا تھا اسے۔۔ (ضدی لڑکی۔۔)

ہالہ اٹھ کر اپنی جگہ پر جا لیٹی اور کتنی دیر تک بڑبڑاتی زایان پر غصہ ہوتی رہی۔۔

وہ بے نیاز بنا بیٹھا رہا۔۔ اس نے سوچ لیا تھا اب جب تک ہالہ سہی سے نہیں مان لیتی زایان کی خالص محبت کو۔۔ 

جب تک وہ خود اسے توجہ نا دینے کا اور اجنبیت کا گلہ نہیں کر لیتی وہ تب تک اسی طرح ٹریٹ کرتا رہے گا۔۔ 

(ایسے تو پھر ایسے سہی ہالہ میڈم۔۔) وہ دل میں مسکرایا۔۔ ہالہ کی بے چینی اور بے زاری اسے مزہ دے رہی تھی۔۔ اگر وہ ضدی ہے تو زایان کی بھی ضد ہے اب وہ سستے میں نہیں مانے گا۔۔ 

💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜💜

ہالہ دیا کا ٹمپریچر چیک کرنے اس کے روم میں آئی تو وہ فریش سی بیٹھی تھی۔۔

”لگتا ہے بالکل ٹھیک ہو گئی ہو؟“ ہالہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کے بال سنوارے۔۔

”ہالہ۔۔ سالک مجھے نانا جان کے ساتھ امیرکہ بھیج رہا ہے، وہ نہیں چاہتا میں یہاں رہوں۔۔

یہ کیا بات ہوئی ہالہ۔۔ وہ خود بھی نہیں ہوگا وہاں اور مجھے بھی سب سے دور بھیج رہا ہے۔۔“ 

دیا نے اسے بتاتے ہوئے دلگرفتگی سے کہا۔۔ 

”وہاں تم اکیلی نہیں ہوگی دیا۔۔ تمہارے ساس، سسر اور نانا جان بھی تو ہیں اور سالک چاہتا ہے اس کی ڈگری کمپلیٹ ہونے والی ہے تو تمہاری بھی سٹڈیز کمپلیٹ کروائے۔۔ 

تم یہ دیکھو کہ تمہارے شوق کا خیال ہے اسے۔۔“ 

ہالہ نے اسے سالک کی کئیر کا احساس دلانا چاہا تاکہ وہ سالک کے ہر عمل کو پازیٹو سمجھے۔۔

”نہیں ہالہ وہ بس چاہتا ہے اس کی وائف ویل ایجوکیٹڈ ہو۔۔“ دیا نے خفگی سے بالوں کو جھٹکا دیا۔۔

”یہ بھی محبت ہی ہے اس کی کہ اسے ویل ایجوکیٹڈ وائف چاہئیے تھی پھر بھی تم سے شادی کی۔۔ اب تم اپنا ہی شوق اس کی خاطر پورا کرو اور دل لگا کر پڑھنا۔۔“ 

ہالہ نے پھر سے پازیٹو سائیڈ سامنے کی۔۔

”ہالہ تم ہر کسی کے لیے پازیٹو ہو۔۔ ہر ایک کو سمجھتی ہو۔۔ زایان بھائی کے لیے کیوں الگ مزاج ہے۔۔۔

اب مجھے غلط مت سمجھنا۔۔ کل زایان بھائی کہہ رہے تھے ہالہ اتنی نیگیٹو کیوں ہے۔۔ ہر بات میں نقص نکالتی ہے۔۔ 

مجھے تو حیرت ہوئی ہمارے پورے خاندان کی صلح جو، خوش مزاج اور مثبت سوچ رکھنے والی کا اپنا ہزبینڈ اس کی نیگیٹیویٹی کے عذاب سے گزر رہا ہے۔۔“

دیا کی نان سٹاپ شرمندہ کرتی تقریر پر ہالہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔

”دیا جب سے امی کی ڈیتھ ہوئی میں نے خود پر خول سا چڑھا لیا تھا۔۔ ہر کوئی کہتا تھا بن ماں کی بیٹیاں بگڑ جاتی ہیں۔۔  میں سب کو دکھانا چاہتی تھی کہ ہماری ماں کی تربیت کا رنگ اتنا ہلکا نہیں اور نا ہی میں تائی امی کو شرمندہ کروانا چاہتی تھی۔۔ تو میں نے خود کو ایسا بنا لیا کہ کوئی ہم میں عیب نا تلاشے۔۔۔

اور میں تمہیں کیا بتاؤں۔۔ شاید اس پوری دنیا میں وہ واحد انسان جس کے سامنے میں ہمیشہ اپنے اصل روپ میں آئی وہ زایان خان ہی ہے۔۔

شروع سے اب تک میں نے صرف اس کے سامنے کبھی بناوٹ اور اچھائی کا رنگ نہیں بنایا۔۔ میرے دل میں جو ہوتا تھا بول دیتی تھی۔۔ اس پر غصہ بھی خوب کیا۔۔ اس سے لڑائی بھی کی اور اس سے فیورز بھی بہت لیں۔۔ 

ہر اجنبی سے فاصلہ رکھنے اور سنبھل کر رہنے والی میں۔۔ نجانے زایان خان سے کبھی کیوں نہیں ڈری۔۔ وہ بابا کے بعد واحد انسان ہے جس سے میں اونیسٹ ہوں۔۔ 

میں اس کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتی۔۔ شاید میں اس لحاظ سے سب سے زیادہ اعتبار بھی اسی پر کرتی ہوں۔۔ 

یہ تو انسانی فطرت ہے دیا انسان جو دیکھتا سنتا ہے وہی مانتا ہے۔۔ اور میں ایک عام انسان ہوں بس۔۔“ ہالہ دھیرے دھیرے اپنے دل کا سب حال کھولتی چلی گئی۔۔

دیا اسے دیکھ کر مسکرائی۔۔

”اف۔۔ زایان بھائی اتنا منہ پھلائے پھرتے ہیں انہیں اندازہ بھی نہیں ہے وہ ہالہ کے لیے کتنے سپیشل ہیں۔۔ 

ان کے علاوہ دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں جس پر ہالہ نے اپنا آپ یوں کھولا ہو۔۔“  دیا دل میں سوچتی زایان کی ناسمجھی پر ماتم کرنے لگی۔۔ 

💜💜💜💜💜YamanEvaWrites💜💜💜💜💜

دیا اور سالک روانہ ہو چکے تھے۔۔ دیا نانا جان کے ساتھ امیرکہ اور سالک لندن اپنی ڈگری کا لاسٹ سمسٹر کمپلیٹ کرنے۔۔ 

اب تو اسے لندن بھیجتے ہوئے بھی سب کو ڈر لگتا تھا۔۔ سالک جہاں جاتا ہے۔۔ جھگڑے کرتا ہے۔۔ دشمن بناتا ہے اور پھر خود بھی مار کھا کر سب کے دل دہلا دیتا ہے۔۔ 

اور کون جانے وہ وہاں بھی یہی کرتا ہو۔۔

اکیلا ہو مرضی کا مالک ہو اور پنگا نہ لے؟

ایسا سالک کے لیے ممکن نہیں تھا۔۔

دیا نے امیرکہ میں ایڈمیشن کروا کر سٹڈی سٹارٹ کر لی تھی۔۔ سالک جو خود کسی کی نہیں مانتا تھا اور ہر جگہ الٹے کام کرتا تھا، اب دیا کے لیے اس نے سو ہدایات دی تھیں۔۔ 

دیا کو فیملی میمبر کے بغیر باہر کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔ اسے کالج ڈرائیور ڈراپ بھی کرتا اور پِک بھی۔۔ 

اور اچھی بات یہ تھی کہ دیا نے اچھی لڑکیوں کی طرح اس کی ہر بات مانی تھی اور عمل بھی کیا تھا۔۔

اس وقت رات ہو رہی تھی۔۔  دیا سالک کے بڑے سے کمرے میں ریموٹ سے گلاس والز پر پردے برابر کرتی جہازی سائز بیڈ پر لیٹی اور سالک کو ویڈیو کال ملائی۔۔ 

وہ اپنی پریزینٹیشن ریڈی کر رہا تھا ۔ دیا کا چہرہ دیکھ کر مسکرایا۔۔ 

”سنا ہے آج تم نے کوکنگ کا شوق پورا کیا؟“ 

سالک نے دلچسپی سے اسے دیکھ کر پوچھا 

”جی ہاں۔۔ میں نے مما سے چیز پیزا بنانا سیکھا ہے۔۔ تمہیں پسند ہے ناں؟“  دیا نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی اور لیپ ٹاپ گھٹنوں پر ٹکا دیا۔۔ 

”مجھے تم پسند ہو اور تمہارے ہاتھ سے بنی ہر چیز۔۔ مگر تم یہ کام ابھی مت کرو ڈی۔۔ جب میں آؤں پھر کر لینا جو بھی کرنا ہو۔۔ ابھی سٹڈی پر فوکسڈ رہو۔۔“  سالک نے نرمی سے سمجھایا تو دیا نے دونوں بازو کراس کی طرح کر کے اسے دیکھا۔۔

”میں تمہارے لیے ایک بار بس پیزا بناؤں گی بس۔۔ سالک مجھے کوکنگ نہیں کرنی۔۔“ دیا نے صاف صاف انکار کیا۔

”اپنے ہاتھ دکھاؤ؟“ سالک نے اچانک فرمائش کی ۔۔دیا نے کیمرہ کے سامنے دونوں ہاتھ لہرائے اور الٹ پلٹ کر دکھایا۔۔

”سہی سلامت ہو۔۔ مجھے لگا تھا جتنی کئیرلیس ہو۔۔ کوکنگ کے وقت کَٹس لگے ہوں گے۔۔“ سالک کے چہرے پر اپنے لیے توجہ دیکھ کر وہ کھِل اٹھی۔۔

”مجھے مما نے کٹنگ کا کام نہیں کرنے دیا۔۔ وہ سب میڈ نے کیا۔۔۔“ دیا نے نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔۔ اس کی آنکھوں میں نیند کی خماری صاف دیکھی جا سکتی تھی۔۔

”ڈی۔۔۔ مجھے سونگ سناؤ۔۔“ سالک کی انوکھی فرمائش پر اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔

”مجھے سونگز نہیں آتے۔۔“  وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔۔

”او۔کے کوئی مووی سٹوری سنا دو یا پھر کوئی فیری ٹیل۔۔“ دیا نے جمائی لیتے ہوئے سالک کی اوٹ پٹانگ بات سنی۔۔

”سالک کیا تمہیں سر پر کوئی چوٹ لگی ہے؟ پاگل واگل تو نہیں ہو گئے۔۔؟“  دیا نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولا۔۔

”تم کال کرتے ہی سونے لگتی ہو ڈی۔۔ میں کال ڈراپ ہونے کے بعد سے ہی نیکسٹ کال کا ویٹ کرنے لگتا ہوں اور جب تم سامنے آتی ہو سلیپنگ بیوٹی بن جاتی ہو۔۔ “ 

سالک نے بے چارگی سے کہا۔۔ 

اتنی دور بیٹھے وہ اسے جگا بھی نہیں سکتا تھا۔۔ آوازوں کو وہ سنتی نہیں تھی۔۔

”کیونکہ میں ایک ہارڈورکنگ سٹوڈنٹ ہوں۔۔ میرا دن بزی ہوتا ہے اس لیے رات ہوتے ہی مجھے سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔۔“  دیا کے لہجے میں فخر سمٹ آیا۔۔

”تو کیا میں تمہارا سکون نہیں؟“ 

سالک نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔

”تم سکون ہو اس لیے کال ملاتی ہوں۔۔ تمہیں دیکھتی ہوں اور اچھی نیند آجاتی ہے۔۔“  دیا کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمکنے لگیں۔۔

سالک سرد آہ بھر کر رہ گیا۔۔

”تو یہ ہوگئی تمہاری بات۔۔ اور میرے سکون کا کیا۔۔ مجھے تم باتیں کرتی اور ہنستی ہوئی اچھی لگتی ہو۔۔ مگر تم نے قسم کھا لی ہے مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کرنی۔۔

کیا بات ہے امیرکن پریزیڈنٹ بن گئی ہو کیا؟ اتنی تھکن کہاں سے لاتی ہو۔۔؟“ سالک نے صوفے پر ٹانگیں سیدھی کر کے ریلیکس ہوتا نیم دراز ہوا۔۔

”سالک ہمارے اس سمسٹر کے لاسٹ میں یہاں فیسٹیول ہے پروم پارٹی بھی ہوگی۔۔ کیا میں جوائن کر لوں۔۔؟ میری سب فرینڈز اب مجھے misanthropist <انسانوں سے بیزار>

ہونے کا طنز کرتی ہیں۔۔ “ دیا نے اسے منایا۔ سالک اس کی فرمائش پر چپ ہوا۔۔

”میں سوچ کر جواب دوں گا۔۔۔ کتنا ٹائم رہتا ہے؟“ سالک نے طریقے سے اسکا زہن بٹایا۔۔

”ابھی تو کچھ منتھ رہتے ہیں۔۔ مگر تم مجھے پرمیشن ضرور دینا۔۔ مجھے پروم پارٹیز کا بہت شوق ہے۔۔“  دیا نے دنیا بھر کی معصومیت چہرے پر سجا کر آنکھیں پٹپٹائیں۔

”پروم میں ایک ڈانس پارٹنر بھی چاہئیے ہوتا ہے ڈی۔۔ میں وہاں نہیں ہوں تو ان باتوں کو ابھی زہن میں بھی مت لاؤ۔۔“ سالک نے اس پاگل کو سمجھایا جسے شاید پروم لفظ ہی اچھا لگ رہا تھا۔۔ اور پارٹی کا سن کر فیسی نیٹ ہو رہی تھی۔۔

”سالک پلیز۔۔“  دیا نے چہرے پر مزید کیوٹنس سجا کر اسے دیکھا۔۔ 

”ڈی تم نے یہ پپی فیس بنانا کب سیکھے؟

انسانوں کی طرح بات کرو۔۔ مجھے اپنی کیوٹنس مت دکھاؤ۔۔“ سالک نے شرارت سے کہتے ہوئے اس کا سارا موڈ خراب کر دیا۔۔ 

پپی فیس (کتوں کا وہ مخصوص انداز جو وہ مالک کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپناتے ہیں)۔۔۔ پپی فیس؟ حد ہے۔۔

”میں نے کہا ناں سوچ کر جواب دوں گا۔۔ 

میں ٹرائے کروں گا کچھ اور انٹرسٹنگ سا پلان کروں تمہارے لیے۔۔ پروم پارٹیز کو بھول جاؤ۔۔“ 

سالک نے اسے لالچ دیتے ہوئے بہلانا چاہا۔۔

”او۔کے میں نے آج بیسمنٹ میں تمارے گیرج میں گاڑیاں دیکھیں۔۔ کیا میں اپنی پسند کی گاڑی میں لانگ ڈراییو پر جا سکتی ہوں۔۔“ دیا نے ایک اور سوال کیا۔۔ 

”آفکورس ڈی۔۔ وہ سب تم یوز کر سکتی ہو۔۔“ سالک نے اپنے جیسے شوق پر اسے ہنس کر دیکھا۔۔

”تو میں کل سے ہی لائسنس کے لیے ڈرائیونگ کلاس لینا سٹارٹ کرتی ہوں۔۔“ دیا کی بات پر سالک کا دماغ بھک سے اڑا۔۔

”میرا وہ مطلب نہیں۔۔ تم خود ڈرائیو نہیں کر سکتیں۔۔ ڈرائیور کو ساتھ رکھو ڈی۔۔ تم اکیلے رہ کر ہر بوگس بات سوچ رہی ہو۔۔

تمہارے شوق عجیب ہو گئے ہیں۔۔ 

کیا تمہارے سر پر کوئی چوٹ لگی ہے؟

تم ٹراما سے تو کافی ریکور کر گئی تھی۔۔ یہ پھر کیسے مینٹلی ان ویل خیال آتے ہیں تمہیں؟“ 

سالک نے اسے دیکھ کر دعا کی کہ اس سے پہلے کوئی اور الٹی فرمائش ہو۔۔ ڈی کو نیند آجائے جو فرمائشوں پر اٹک چکی تھی۔۔

”سالک میری فرینڈ ہیلن کہتی ہے تم مجھ سے جلد بے زار ہو جاؤ گے اور میری ہر بات پر تمہیں لگے گا، میں پاگل ہوں۔۔ 

اس نے کہا ریلیشن شپ میں وہ پیریڈ جب ہمیں ایک دوسرے کی بات بوگس لگتی ہے وہ سائن ہوتا ہے کہ وی آر ڈن۔۔ 

تمہیں میری باتیں آج بوگس بھی لگی۔۔

مینٹل کنڈیشن بھی ان ویل لگ رہی ہے۔۔۔

سالک تم اگر بھول رہے ہو تو میں یاد دلا دوں ہم مسلمان ہیں اور مشرقی لوگ ہیں۔۔ ہم اپنے رشتے بنا لیں تو نبھاتے ہیں اور اپنے لائف پارٹنر کے ساتھ لوٸیلٹی شو کرتے ہیں۔۔“ دیا نے پریشانی سے اپنی اوبزرویشن اور اپنی فرینڈ کے قیمتی خیالات سے اسے آگاہ کرتے ہوئے لگے ہاتھوں نصیحت کرتے ہوئے غیرت بھی دلا دی۔۔

”مجھے سب یاد ہے۔۔۔ اینڈ آئی جسٹ ہوپ کہ میرے آ جانے تک تمہارا کچھ دماغ ضرور بچے۔۔ بس اتنا سا کہ تمہیں سدھارنے کی امید ہو میرے پاس۔۔ تم فرینڈز کے معاملہ میں بہت پُور ہو۔۔ 

اپنی فرینڈ کو بتانا ہم ریلیشن شپ میں نہیں۔۔ میرج ریلیشن میں ہیں۔۔ اور یہ بھی کہ ہمارے ہاں کوئی پیریڈز نہیں ہوتے بس ایج ڈفرینس میں لائف سٹائل اور ایموشنز کے اپس ڈاؤن ہوتے ہیں، بریک اپ نہیں ہوتا۔۔ 

اور ڈی پلیز اپنے ننھے سے دماغ میں تم بھی یہ بات ایڈجسٹ کر لو تو اچھا ہے۔۔“  سالک نے اسے سنجیدگی اور نرمی سے سمجھایا۔۔ دیا کو سمجھ آئی یا نہیں مگر پھر سے نیند ضرور آنے لگی تھی۔۔ اس لیے وہ بند ہوتی آنکھوں سے سر جھولاتی ہاں ہاں کرتی جا رہی تھی۔۔

”ڈی۔۔ سیدھی ہو کر لیٹو۔۔۔“ سالک نے اسے پکارا۔۔ وہ اب بھی نیند میں ہاں کرنے لگی۔۔

“Ohh please.. D wake up.. lay down properly..” 

سالک نے زرا زور سے کہا تو وہ ہڑبڑائی۔۔

”او۔کے سمجھ گئی۔۔ ٹھہرو میری بیک پین کر رہی ہے۔۔ میں زرا سہی سے لیٹ جاؤں۔۔“  وہ سالک سے کہتی وضاحت دینے لگی اور ایسے ظاہر کیا کہ ہر بات سنی اور سمجھی ہے اور یہ بھی کہ اب بھی باتیں کرے گی بس زرا سہی سے لیٹ جائے تب۔۔۔

سالک کو اس کی سادگی اور معصومیت پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔۔  وہ سیدھی ہو کر لیٹ چکی تھی۔ سالک نے مسکرا کر سکرین پر نظر آتا اس کا چہرہ چھونے کی خواہش میں سکرین پر ہاتھ پھیرا۔

“Love you D.. "

ہولے سے کہا اور کال کاٹ دی۔۔ دیا اب گہری نیند میں جا چکی تھی۔۔ لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پر پڑا ہمیشہ کی طرح خود سلیپنگ موڈ میں چلا گیا تھا۔۔۔

💜💜💜💜YamanEvaWrites👊👊👊👊👊

ہالہ نے آدھا دن سب سے باتیں کرتے یہاں وہاں گھومتے گزار دیا۔۔ 

پھر بور ہو کر روم میں آئی تو زایان کی وارڈروب سیٹ کرنے کا سوچا۔۔ اس کے بعد تو ویسے زایان کے آنے کا ٹائم ہو جانا تھا تب وہ خود کو اس کے لیے سجائے گی۔۔

فی الحال وہ ڈریسنگ روم میں آئی اور وارڈروب میں سب کپڑے ترتیب دئیے، گول مول کر کے پھینکی شرٹس کو تہہ لگائی۔۔ پھیلاوا سمیٹ رہی تھی جب اس کی نظر شرٹس میں پڑی کسی چمکتی چین پر پڑی اس نے نکالی تو وہ اسی کا لاکٹ تھا جو اس سے کھو گیا تھا اور زایان نے اس کی جگہ فیک لاکٹ بنوا کر بھیجا تھا۔۔۔

ہالہ کی آنکھیں پوری سے زیادہ کھلیں۔۔ 

”اس انسان نے میرا دماغ گھما دیا ہے۔۔ بس بہت کر لیا میں نے لحاظ۔۔“ ہالہ نے دانت پیسے اور لاکٹ مٹھی میں دبایا۔۔

تھوڑی دیر تک زایان آ گیا۔ اس کا وہی لیا دیا انداز تھا۔۔ سیدھا جا کر وارڈروب سے ڈریس اٹھایا وہاں صفائی اور ترتیب دیکھ کر مسکرایا مگر چینج کر کے جب روم میں آیا تو چہرے پر بے نیاز سی سنجیدگی تھی۔۔

حیرت اسے تب ہوئی جب روزانہ کی طرح ہالہ اس سے بہانے بہانے سے بات کرنے کی بجائے سنگل صوفے پر پتھر بنی بیٹھی رہی۔۔ 

بلکہ ایک دو بار تو زایان کو لگا اسے گھور بھی رہی ہے مگر اس کے دیکھنے پر وہ رخ پھیر لیتی تھی۔۔

زایان بری طرح بد مزہ ہوا۔۔ ابھی وہ راضی نہیں ہوا کہ وہ تھک بھی گئی۔۔؟

وہ چور نظروں سے اس کا جائزہ لینے لگا جو سادہ سا چہرہ لیے بیٹھی تھی۔۔ مطلب آج اس نے زایان کے لیے وہ ہلکا پھکا میک اپ، سٹائلش سی ڈریسنگ اور بال کھولنے کا تکلف بھی نہیں کیا جو وہ کچھ روز سے بلاناغہ کر کے زایان کا دل دھڑکاتی تھی۔۔ 

”کیا میں نے ماننے میں بہت دیر کردی؟" زایان نے پریشانی سے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور پھر ڈنر کے ٹائم بھی وہ اسی طرح اس کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھنے کی بجائے بالکل سامنے ہی ربیعہ بیگم کے ساتھ بیٹھ گئی۔

”کیا بات ہے تم دونوں میں کوئی جھگڑا چل رہا ہے کیا؟“ داجان نے شاید ان کا الگ بیٹھنا نوٹس کر کے پوچھا۔۔ 

”جی زایان کافی دن سے ناراض ہیں مجھ سے۔۔“ اس سے پہلے کہ زایان کوئی بات بناتا ہالہ بول پڑی۔۔

سب کے منہ کھل گئے۔ زایان نے حیرت سے ہالہ کو دیکھا۔۔

”کیوں زایان؟ ہم بھاییوں پر دل نہیں بھرا کہ بیوی سے بھی یہی نخرے شروع کر دئیے؟"

راسم کی شریر آواز ابھری زایان خفت زدہ ہو کر ہالہ کو دیکھنے لگا جو سر ڈالے کھانا کھا رہی تھی۔۔

”کیا بات ہے؟ کیوں ناراض ہو؟“ داجان نے زایان کو مخاطب کیا۔۔ اب تو شادی بھی زایان کی پسند سے ہوئی پھر کیوں وہ یہ سلوک کر رہا ہے۔۔

اور زایان کی حالت تب خراب ہوئی جب ایک مرتبہ پھر سے ہالہ نے اس کے بولنے سے پہلے ناراضگی کی ”وجہ“ بھی بتادی۔۔

سب نے حیرت سے ہالہ کو دیکھا۔۔ زایان کا جی چاہا اسے کھینچ کر کمرے میں لے جائے اور سب کی یادداشت سے ہالہ کی ابھی کہی باتیں نکال دے۔۔ 

”آئم سوری میں نے آپ کو اتنا غلط سمجھ کر ہرٹ کیا۔۔“ 

اب ہالہ نے سر جھکا کر سب کے درمیان معافی مانگی۔۔ داجان مسکرا دئیے۔۔

زایان کو اس کا سب کے درمیان جھکا چہرہ اور شرمندگی بری لگی۔۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا وہ اس طرح سب کے درمیان معافی مانگ کر خفت زدہ ہو۔۔

وہ خاموشی سے اسے دیکھے گیا۔۔ وہ بناوٹ نہیں کر رہی تھی نا اسے سب کی ہمدردی چاہئیے تھی بلکہ اس نے سب کے درمیان اپنی بے اعتباری اور الزام کا بتا کر خود کو ہی کم عقل ثابت کیا تھا مگر کسی کا دل اس کی طرف سے برا نہیں ہوا اور ہالہ کو اسے منانے کا اور کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا تھا۔۔

رات کو سونے کے لیے جب زایان روم میں آیا تو بلینکٹ کھول کر خود پر ڈالتی ہالہ کو دیکھ کر تاسف سے مسکرایا۔۔

”ہالہ ہمارے درمیان کی بات تھی سب کے سامنے اپالوجائز کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔“ زایان نے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ لہجے میں اتنے دنوں بعد نرمی تھی اور اس کے لیے وہی مخصوص توجہ بھی۔۔

”تمہیں میرا اکیلے میں سوری کرنا سکون نہیں دے رہا تھا۔۔ میں نے جو الزام اکیلے میں لگایا اس کی معافی سب کے درمیان مانگ لی۔۔ اب شاید تمہاری انا کو تسکین مل جائے۔۔“ ہالہ نے سنجیدگی سے کہا تو زایان شرمندہ ہوا۔۔

اسے مان جانے میں اتنا وقت نہیں لینا چاہئیے تھا۔۔ سالک نے جاتے ہوئے کہا بھی تھا کہ۔

زایان بی وہ غلط نہیں، اس کی جگہ کوئی بھی ہوتی یہی کرتی۔۔ اس نے آپ کو غلط سمجھ کر بھی سب کے درمیان عزت رکھی یہ بہت ہے اور رشتہ اب بنا ہے تو ٹرسٹ بھی اب قائم ہو گا۔۔

مگر زایان کو پتہ نہیں کیا فضول ضد ہو گئی تھی۔۔

”ایم سوری میری جان۔۔ میں کچھ زیادہ لمبی ناراضگی جھاڑ گیا۔۔“ زایان نے خجل زدہ لہجے میں کہا۔۔۔ اور ہالہ کا ہاتھ نرمی سے تھاما۔۔

”اٹس او۔کے۔۔۔ محبتوں میں ہر رویہ برداشت کر لینے کے دعوے بس تب تک ہی ہوتے ہیں جب تک لڑکی نہیں مل جاتی اور مجھے یہ حقیقت اب پتہ چل گئی ہے تو آئیندہ اس سے زیادہ کی امید نہیں رکھوں گی۔۔“ 

ہالہ کے جملے پر زایان لب کاٹتا خفت زدہ ہوا۔

اس نے تو واقعی براشت کر لیا تھا۔۔ دل بھی اسی دن پھر سے صاف ہو گیا تھا جب ہالہ نے حقیقت جان کر سوری کیا تھا مگر وہ اپنی ناراضگی کے اس طویل ڈرامے سے اسے خود سے فاصلہ قائم کرنے پر مجبور کر گیا تھا۔

ہالہ نے لاکٹ اس کے سامنے لہرایا تو وہ چونکا۔۔ 

”اس کی وضاحت چاہئیے۔۔“ ہالہ نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔ زایان نے گہرا سانس بھرتے جو حقیقت تھی، بتا دی۔۔

”یہ جب ملا تو تمہیں نہیں دے پایا اگر تب دیتا تو تم مجھے غلط سمجھتی۔۔“ زایان نے وضاحت دی اور اس کے ہاتھ سے لاکٹ لے کر اس کی نازک سی گردن پر سجا دیا۔۔

ہالہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔۔ 

”یہ سنبھال کر رکھنے کے لیے تھینکس۔۔ مجھے لگا تھا میں نے یہ کھو دیا ہے۔۔“ وہ اس پر ہاتھ پھیرتی یاسیت سے بولی اور زایان سے فاصلے پر ہو کر سو گئی۔۔

”لو زایان تمہیں تو محبت کرنا ہی آیا بس۔۔ نبھانا نہیں آیا۔۔“

رشتوں میں بیلنسڈ ہونا چاہئیے۔۔ ناراض ہونا ٹھیک ہے مگر آگے والا منائے تو مان جانا چاہئیے۔۔۔

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔

ہالہ کو اپنے قریب کرنے کے لیے اس کا دل جیتنا بہت ضروری تھا جو اب زایان کو پہلے پہلے کرنا تھا۔۔۔

💜💜💜💜💜💞💞💞💞💞💜💜💜💜💜💜

"ڈی میرا کل پیپر ہے سو۔۔ آج رات بات نہیں ہو گی۔۔ ابھی کرو بات۔۔“ سالک نے شام کو ہی کال کر لی۔۔ 

”تو تمہیں پڑھنا چاہئیے سالک۔۔ کل بات کر لیتے۔۔“ دیا نے مصروف سے انداز میں کہا۔۔

”مشورہ نہیں چاہئیے۔۔ میری طرف دیکھ کر کیوٹ سی سمائل دو۔۔“ سالک نے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اپنا چہرہ ٹکا کر اسے دیکھا۔۔

”کیوٹ سمائل دوں اور پھر تم کہو گے میں پپی فیس بناتی ہوں۔۔“ دیا نے منہ بنایا۔ اس کی بات زہن پر اب بھی جمی تھی۔۔

سالک نے مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا۔۔

”you are my princess not puppy honey..

so hurry up gimme a cute smile so that i can do my best for exam.. you never know what you are fo me..

(تم میری شہزادی ہو پپی نہیں۔۔ اس لیے جلدی سے کیوٹ سمائل دو تاکہ میں ایگزیم بہترین کر سکوں۔۔ تم کبھی نہیں جانو گی تم میرے لیے کیا ہو۔۔) 

سالک نے پیار سے کہا، دیا کی گردن اکڑ گئی۔۔

”سالک تم میری ناراضگی بھی برداشت نہیں کر سکو گے کبھی؟“ سالک اس کی بات پر کھٹکا، وہ کیا کہنے والی ہے۔۔ 

مگر ہاں میں سر ہلایا۔۔

”سالک آج پروم پارٹی ہے تو۔۔

”ڈی اپنے بال دکھاؤ۔۔۔“ دیا آج دوبارہ وہی بات کرنے لگی کہ سالک نے جلدی سے کہا۔۔

”کیوں۔۔ کیا ہوا؟“ دیا نے اپنے بال آگے کیے اور حیرت سے سالک کو دیکھا۔۔

”گڈ مجھے لگا تم نے کٹنگ کروا لی۔۔ یو نو مجھے تمہارے بال بہت پسند ہیں۔۔ تمہاری آنکھیں اور تمہاری یہ چھوٹی سی ناک۔۔ ڈی تم نے مجھے اتنا پاگل کیوں کر دیا ہے۔۔ 

میں چاہتا ہوں میری تمہارے جیسی ایک بیٹی ہو اور میں ابھی سے بتا رہا ہوں۔۔ میں اسے تم سے زیادہ پیار کروں گا۔۔“ سالک نے دیوانگی سے کہا۔۔ دیا کا شرم سے چہرہ سرخ ہو گیا اور گال تپ گئے۔۔

”سالک تم مجھ سے ایسی بات مت کرو۔۔ میں کال کٹ کر دوں گی۔۔“ دیا نے اپنے گال تھپتھپاتے ہوئے اسے وارننگ دی۔۔ اس کا دل پسلیوں میں دھڑکنے لگا تھا۔۔

”او۔کے۔۔ او۔کے۔۔ ایزی۔۔ میں نے ایک وش بتائی ہے۔۔ تم نے مجھے کیوں نہیں بتائی یہ بات کہ میں فادر بننے والا ہوں۔۔ 

 تمہیں پتا ہے میں جلد واپس آ جاؤں گا۔۔ 

کیا تم نے میرا ویلکم پلان کیا؟

ڈی مجھے سرپراٸزز بہت پسند ہیں اور یہ تو سب سے زیادہ سپیشل تھا۔۔“ سالک کی باتوں سے وہ گلابی پڑ گئی۔۔

مگر اس کے آنے کا سن کر خوش بھی ہوئی۔۔

”ویلکم ؟ ہاں کروں گی ناں۔۔

اور تمہیں پتہ ہے سالک مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ سٹریس نہیں لینا۔۔ مطلب کوئی بھی سٹریس۔۔ سالک میں پروم۔۔" 

دیا پھر سے اپنے مطلب کی بات پر آنے لگی۔۔

”ڈی سٹریس نہیں لینا مطلب۔۔ 

تمہیں فزیکلی فٹ رہنا ہوگا۔ کوئی تھکن والا کام نہیں۔۔ 

اگر تم فزیکلی ٹائرڈ ہو گی تو مینٹلی ڈسٹربنس بھی ہوگی۔۔ 

یہ سب سٹریس میں آتا ہے۔۔"

so you need to act serioisly..

grow up you are not child.”

سالک نے نرمی سے اس کی بات کاٹی۔۔ دیا نے سمجھ لیا کہ وہ یہ بات نہیں کرنے والا۔۔

اس نے بھی دوبارہ بات نہیں چھیڑی۔۔

 اس سے باتیں کر کے سالک ریلیکس ہو کر کال اینڈ کر گیا۔۔ ہیلن کی کالز آئی ہوئی تھیں۔۔ دیا کا زہن پھر سے پارٹی کی طرف گیا۔۔

وہ ایکسپیکٹ کر رہی تھی۔۔ اس کا مطلب وہ اِن فیوچر اب تو بالکل کوئی پارٹی، فیسٹیول اور فرینڈز گیدرنگ اٹینڈ نہیں کر سکتی تھی۔۔

"مگر ابھی تو کر سکتی ہوں بیبی کے بعد نہیں۔۔" وہ اچانک سوچ کر مسکرائی۔۔

اپنی ایک پیاری سی میکسی نکالی اور شاور لے کر تیار ہوئی۔

ایزی شوز پہنے اور بالوں کا جوڑا بنا کر سٹالر پہنا۔۔ بالکل لائٹ سا میک اپ کیا اور ایک شال اوڑھی اور ہیلن کو کال ملائی۔۔

"heley.. I was talking to my husband and guess what.. I got permission to attend the party now..

(ہیلی میں اپنے ہزبینڈ سے بات کر رہی تھی اور گیس کرو کیا ہوا۔۔ مجھے اب پارٹی اٹینڈ کرنے کی پرمیشن مل گئی۔۔) دیا نے اسے بتایا۔۔

"I'll pick you in 3 minutes. get ready"

ہیلن نے کہا۔۔ اس نے سر ہلا دیا۔۔

ماریہ بیگم کو بتانے گئی تو وہ حیران ہو گئیں۔۔

”تمہیں سالک نے پرمیشن دے دی؟“ انہوں نے حیرت سے دہرایا۔۔ دیا نے ہاں کر دی۔۔

اب وہ کیا کہتیں، ہدایات دے کر او۔کے کہہ دیا اور دیا خوشی سے چل پڑی۔۔ 

اس کا خیال تھا واپس آ کر اسے منا لے گی۔۔

”پتا نہیں کب بڑا ہوگا سالک۔۔ اتنی غیر زمہ داری۔۔؟ نا بیوی میں عقل ہے نا اس پاگل میں۔۔“ ماریہ بڑبڑا کر رہ گئیں۔۔

🌟🌟🌟🌟YamanEvaWrites🌟🌟🌟🌟👉

اکرام کو جب سے سالک نے ویڈیو بھیجی تھی وہ پاگل سا ہو گیا تھا۔۔

”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔۔ تم نے گھر کی لڑکی کا کڈنیپ پلان کیا۔۔ تم شروع سے گھٹیا تھے فارس۔۔“ اس نے فارس کا گریبان پکڑ لیا۔

”میں بہت گھٹیا تھا مانتا ہوں مگر میں نے معافی مانگ لی ہے۔۔ مجھے کسی کی بھی وضاحت سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اکرام بھائی۔۔“  فارس نے اپنا گریبان جھٹکے سے چھڑوا کر جتایا۔۔ 

اکرام کو شدت سے احساس زیاں ہوا تھا۔۔ اسے کیوں ضرورت پڑی ثبوت کی۔۔ ہالہ کا کردار اس کے سامنے ہی تو تھا۔۔ شفاف اور کسی بھی برائی سے پاک۔۔ وہ تو دیا کی طرح کبھی ضد بھی نہیں کرتی تھی۔۔ جو، جب کہا گیا، مانتی گئی۔۔“ اکرام نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت کو خراب کر دیا تھا۔۔ 

وہ ہالہ سے کئی بار معافی مانگنے کی کوشش کر چکا تھا۔۔ مگر وہ بابا سے بھی ملنے اس وقت آتی جب وہ گھر نا ہوتا۔۔

ہالہ نے نمبر چینج نہیں کیا تھا۔۔ اکرام بلاناغہ اس سے معافی کی درخواست کرتا رہا۔۔

دنوں کی گنتی یاد نہیں تھی۔۔ وقت کے غبار نے بھی اس کے دل کو دھندلایا نہیں تھا۔۔ 

اپنے زیاں کا رنگ آج بھی صاف دکھتا تھا۔۔

وہ میسجز کرتا جو وہ نہیں جانتا وہ پڑھتی بھی تھی یا نہیں۔۔ کالز اس نے کبھی اٹینڈ نہیں کیں مگر اکرام اب تھکتا ہی نا تھا۔۔

سالک نے سہی کہا تھا۔۔ جب تک اسے سچائی کا علم نا تھا، اسے سکون تھا کہ اس نے اپنے غلط فیصلے کو بر وقت صحیح کر لیا تھا۔۔ 

مگر جب سے سچائی جانی تھی۔۔ سکون اس کی زات سے بالکل روٹھ گیا تھا جیسے۔۔۔

🌟🌟🌟🌟🌟YamanEvaWrites🌟🌟🌟🌟🌟

ہیلن اور دیا دونوں پارٹی ہال کے دروازے پر پہنچیں جب گارڈ نے روک لیا۔۔

“I've to check your identity first..

show me your cards..

(مجھے پہلے تم لوگوں کی پہچان چیک کرنا ہوگی۔۔ اپنے کارڈز دکھاؤ۔۔) 

گارڈ کے کہنے پر دونوں نے کارڈز دکھائے۔۔

”You aren't allow to go inside..

go back.. and she can attend the party.

(تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں۔۔ واپس جاؤ اور یہ پارٹی اٹینڈ کر سکتی ہے۔۔) 

گارڈ نے ہیلن کو اندر جانے کا اشارہ کیا مگر دیا کو روک لیا۔۔ وہ دونوں حیرت زدہ رہ گئیں۔۔

“but?? she is adult.. student of this college.. so whats the problem..? 

you must be joking.. are you?..

(لیکن کیوں؟ یہ بالغ ہے۔۔ اس کالج کی سٹوڈنٹ ہے۔۔ تو مسئلہ کیا ہے۔۔ تم ضرور مزاق کر رہے ہو۔۔ کر رہے ہو؟) 

ہیلن نے گارڈ کو گھور کر وضاحت مانگی۔۔

”we dont have any reason to give you explainations.. if you dont wana go without her.. you may go back with her.. but we cant let'er go..

(ہمارے پاس تمہیں ضاحت دینے کی کوئی وجہ نہیں۔۔ اگر تم اس کے بنا نہیں جانا چاہتیں۔۔ تم اس کے ساتھ واپس جا سکتی ہو۔۔ مگر ہم اسے نہیں جانے دے سکتے۔۔)

وہ گارڈز بے مروتی سے بول کر بالکل سیدھے ہو کر اپنی جگہ ٹھہر گئے۔۔ 

دیا کا غصے اور شرمندگی سے برا حال ہو گیا۔۔ اس نے ہیلن کو دیکھا۔۔

"Its ok.. heley.. You go first and enjoy your evening...

دیا نے ہیلن کو بمشکل مسکرا کر کہا تو وہ سر ہلاتی اندر چلی گئی۔۔

دیا کا جی چاہا کسی گاڑی کے نیچے آ کر مر جائے۔۔ اتنا تیار ہوئی، جھوٹ بولا اور جانے ہی نہیں دیا۔۔ آخر اسے ہی کیوں؟ کیونکہ وہ مسلم ہے؟ پاکستانی ہے؟ 

”ہونہہ گھٹیا لوگ مجھے ان بے ہودہ پارٹیز میں جانے کا شوق بھی نہیں۔۔“ وہ غصے سے بولتی باہر آئی تو اس کا ڈرائیور گاڑی سمیت سامنے ٹھہرا تھا۔۔ وہ سٹپٹا گئی۔۔

”Why are you here. I didn't call you..

دیا نے اپنے چہرے پر چھائے غصے اور بے بسی کو چھپا کر نارمل لہجے میں پوچھا۔۔

”Sir Iqyan told me to pick you ma'am"

(سر اقیان نے آپ کو لینے کا کہا مادام۔۔) 

ڈرائیور نے گاڑی کا ڈور کھولا اور سر جھکا کر اس کے بیٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔۔

اور دیا کو ایک پل میں سب سمجھ آئی تھی۔۔

تو یہ سب سالک کی مہربانی تھی کہ اسے دروازے سے ہی لوٹا دیا اور اندر نہیں جانے دیا۔۔ وہ بھی خوامخواہ۔۔

دیا غصے سے گاڑی میں بیٹھی۔۔ اب گھر ہی جانا تھا اور کر بھی کیا سکتی تھی۔

🌟🌟🌟🌟🌟YamanEvaWrites🌟🌟🌟🌟🌟

زایان آفس سے جلدی کام ختم کر کے فری ہوا اور اپنی کچھ میٹنگز تھیں، جنہیں کینسل کرتا وہ گھر کی طرف نکلا۔۔

ہالہ کو زیادہ وقت دینا چاہتا تھا مگر جب اپنا روم خالی دیکھا۔۔ ملازمہ سے ہالہ کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ دی جان اپنے ساتھ پھپھو کی طرف لے گئیں آج۔۔۔

وہ بدمزہ سا خالی کمرے میں جمائیاں لیتا بیٹھا رہا۔۔۔ ہالہ کو کال کرنے کا سوچا تو اس کے تکیہ کے نیچے سے ٹیون کی آواز آئی۔۔

”حد ہے مادام سیل بھی گھر چھوڑ گئی۔۔“ وہ سرد آہ بھرتا اس کا موبائل اٹھا کر دیکھنے لگا۔

کال لاگ میں اکرام کے نمبر سے ان گنت مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں اور انباکس میں بھی لاتعداد میسجز تھے۔۔ جو اوپن کیے ہوئے تھے مگر رپلائے نہیں تھا کوئی۔۔

زایان نے بالکل لاسٹ میسج دیکھا جو ابھی ملا تھا اور یقیناً ہالہ نے پڑھا بھی نہیں تھا۔۔

”ہالہ مجھے ایک بار معاف کر دو اگر تم اس انسان کے ساتھ خوش نہیں ہو تو ایک بار مجھے آزما کر تو دیکھو۔۔ میں اب ساری زندگی تمہیں ایک سخت لفظ بھی نہیں کہوں گا۔۔ ایک بار مجھے معاف کر کے اپنا لو۔۔“ 

زایان کے دماغ کی رگ پھٹنے والی ہو گئی۔۔

شام کے قریب جب ہالہ گھر واپس آئی تو زایان کو کمرے میں پہلے سے موجود پایا۔۔ وہ ہالہ کا موبائل ہاتھ میں لئیے سختی سے جبڑے بھنچے بیٹھا تھا۔۔

چادر اتارتی ہالہ نے بغور اسے دیکھا اور گہرا سانس بھرا۔۔ ضرور اس نے اکرام کے میسج، کالز دیکھ لی ہوں گی۔۔

ہالہ کو ہمیشہ سے سیل لاک لگانے کی عادت نا تھی اور اس کے موبائل میں فضول میسجز وغیرہ بھی دیا ہی ڈیلیٹ کرتی تھی۔۔

وہ اپنے زہن میں وضاحت کے الفاظ ترتیب دینے لگی۔۔ 

”آ گئیں تم۔۔ آج میں جلدی آیا تھا کہ تمہارے ساتھ کچھ وقت گزاروں گا۔۔“ زایان اسے دیکھ کر نارمل ہو گیا تھا۔۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔

ہالہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اس کے ہاتھ کو۔۔ وہ لب کاٹتی آگے بڑھی۔۔

”اپنے کردار کی یا ناکردہ عمل کی وضاحت دینا ہر انسان کے لیے مشکل کام ہوتا ہے اور ہالہ کے لیے تو مشکل ترین تھا۔۔

اس نے غائب دماغی سے زایان کا ہاتھ تھاما تو زایان نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور نرمی سے ہاتھ دبایا۔۔

ہالہ کی نظر اپنے موبائل پر تھی۔۔۔

”تمہیں اپنا سیل چاہئیے تو کہہ دو۔۔ یوں گھور کر تو مت دیکھو یار۔۔“ اس نے زایان کو دیکھا تو وہ بول پڑا اور موبائل اس کی گود میں پھینکا۔۔ ہالہ چپ رہی۔۔

”سوری تمہارا سیل یونہی ٹائم کِل کرنے کے لیے دیکھتا رہا۔۔ ان لاک تھا تو مجھے خیال نہیں رہا۔۔“  زایان نے گلا کھنکار کر صفائی دی کہ بہرحال یہ غلط حرکت تھی۔۔

”دیکھو اکرام نے۔۔“ ہالہ اسے شاید وضاحتی جواب دینے والی تھی جب زایان نے ہاتھ دبا کر نفی میں سر ہلایا۔۔

”کچھ مت کہو ہالہ۔۔ مجھے ٹرسٹ ہے تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ اور مجھے اُس کے عمل کی وضاحت مت دو جو تم نے کیا ہی نہیں۔۔“  زایان کے نرم لہجے اور مہربان جملے پر ہالہ کے دل سے بوجھ اترا۔۔ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔

”ہاں یہ ضرور بتاؤ کہ مجھ سے پوچھ کر کیوں نہیں گئی۔۔ چلو پوچھا نہیں تو بتا کر ہی چلی جایا کرو۔۔ آدھا دن تمہارے چکر میں ضائع کیا اور تم میسر نہیں تھیں۔۔“ 

زایان نے مظلومیت سے کہا۔

”میں تمہاری جواب دہ نہیں۔۔ تمہیں اپنا قیمتی آدھا دن برباد کرنے سے پہلے مجھے سے پوچھ لینا چاہئیے تھا کہ میں بھی یہ چاہتی ہوں یا نہیں۔۔“ ہالہ نے ہاتھ چھڑوا کر سکون سے جواب دیا۔۔

اس کے جھکے سر اور خاموشی پر جو زایان کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ ہالہ اس بات پر بھی سر جھکا کر شرمائے گی اور آئیندہ کے لیے ایسا کبھی نا کرنے کا کہے گی۔۔

 پل میں ہوا ہوئی۔۔

”اگر تمہیں تکلیف نا ہوا کرے تو مجھے اپنے ہزبینڈ کے طور پر سوچنے کی زحمت کر لینا کبھی۔۔ شاید مجھ سے بات کرتے وقت جو لہجے میں اکڑ ہوتی ہے اس میں افاقہ ہو جائے۔۔“  زایان نے ناک چڑھا کر اسے اس کی ”بدسلوکی“ پر شرمندہ کرنا چاہا۔

”تمیز سے بات کر رہی ہوں تو تمہیں ہی سانپ کاٹ لیتا ہے۔۔ اب کونسی بدتمیزی دیکھ لی ہے مجھ میں۔۔ تمہیں اگر مجھ میں اتنے ہی نقص نظر آتے ہیں تو شادی کیوں کی۔۔“ 

ہالہ نے بے نیازی سے کہتے وہی ہمیشہ والا طنز کیا۔ زایان کو جی کھول کر تپ چڑھی۔۔

”شادی کر لی ناں اب۔۔ دماغ خراب ہو گیا تھا میرا۔۔ ہر وقت میرے موڈ کا ستیاناس مار دیتی ہو۔۔ کبھی جو رومانٹک ہونے لگو تمہاری زبان کا زہر گھل جاتا ہے درمیان میں۔۔“ 

زایان نے اسے ٹھیک ٹھاک گھوری سے نوازا۔۔

”اوہ تو تمہارے ہاں ان کُڑھتی نظروں سے دیکھنے کو رومانس کا نام دیا جاتا ہے؟

کوئی ایک دن ایسا گزارا بھی ہے جب مجھ سے کوئی گلہ نا کیا ہو۔۔؟“  ہالہ نے سراسر الزام لگایا تو زایان تڑپ اٹھا۔۔

”اور کوئی ایک دن بتا دو جب میں نے پیار سے بات کا آغاز کیا ہو اور تم نے بھی محبت سے ہی جواب دیا ہو۔۔

پہلے تو مجھے لگا چلو غلط فہمی ہے اس لیے مگر اب کیا ہوا؟  کیا ساری زندگی یہی سلوک کرنے کا سوچا ہے تم نے۔۔؟“ زایان نے بھڑک کر کہا۔۔ اچھے خاصے موڈ کا بھرتا بنا دینے میں ماہر بیوی ملی تھی اپنی قسمت کو کوستا نا تو کیا کرتا۔

”تم گلی کے ناکارہ عاشقوں کی طرح ہر بات میں پیار محبت کیوں گھسا لاتے ہو۔۔ 

پہلے اپنے لہجے میں تو سلجھاؤ لاؤ پھر پیار محبت کے قصے شروع کرنا۔۔“  ہالہ نے کانوں سے جھمکے اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔۔ 

زایان نے بے چارگی سے اسے دیکھا، جس سکون سے وہ بات کر رہی تھی مطلب اس کا انداز نارملی یہی تھا۔۔ زایان کے لیے تو یہی تھا باقی تو ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتی تھی۔۔ اس نے سر جھٹک کر غصہ ختم کیا۔۔

”پیار محبت کے قصے تو تمہاری پہلی جھلک میں ہی شروع ہو گئے تھے۔۔“  وہ اس کی بات کا برا منائے بغیر پیار سے بولا۔۔۔

”مجھے پہلے ہی شک تھا کہ ٹھرک پن عادت میں ہے تمہارے۔۔“  ہالہ کا الٹا ہی جواب ملا۔۔

”ہالہ۔۔“ زایان نے دانت پیسے۔۔

”اگر تم خاموش رہو تو مجھے بھی زرا سکون ملے۔۔۔ خدا کے لیے میرا آج کا ٹائم مزید سپوئل مت کرو۔۔“ وہ زچ ہو کر بولا۔۔ ہالہ نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔۔ 

”میرا بات کرنا گوارا نہیں اور اس پر تمہیں محبت کا دعویٰ بھی ہے۔۔ اگر یہ محبت ہے تو بہت بری ہے۔۔“ ہالہ ٹھیک ٹھاک برا مان گئی۔۔

زایان نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا کر اس کے گرد بازوؤں کا حصار باندھ لیا۔۔

”تم چاہتی کیا ہو؟ بات اچھے سے نہیں کرتی ہو مجھ سے۔۔ نا میری کوئی بات تمہیں اچھی لگتی ہے۔۔ جو رویہ میرے ساتھ ہے، یہ تمہارا حقیقی روپ ہے یا جو باقی سب کے ساتھ ہے وہ تمہارا اصل ہے؟“ زایان نے اس بار نرمی سے کہتے ہوئے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا۔۔۔

”تمہیں کیا لگتا ہے؟“ ہالہ نے الٹا سوال کیا۔۔

”مجھے تو محبت لگتی ہے۔۔“ اس کی آنکھوں میں جھانک کر زایان نے شوخی سے کہا تو ہالہ کا دل دھڑکا۔۔ وہ نروس سی پیچھے ہوئی۔۔

”میرے ساتھ ڈرامہ مت کرو۔۔“ خود کو چھڑوا کر اپنی شرم پر خفگی کا رنگ چڑھایا۔۔ 

”تمہارے گال کیوں سرخ ہو رہے ہیں؟“ زایان نے ہنس کر ایک ہاتھ سے اس کا گال چھوا۔۔ 

”میں نے شاید میک اپ ہیوی کر لیا ہوگا۔۔ دی جان نے کہا تھا اچھے سے کرنا تو۔۔“ ہالہ بوکھلا کر وضاحت دیتی زایان کو بری طرح اپیل کر گئی تھی۔۔

”تمہارا یہ میک اپ بہت سوٹ کر رہا ہے۔۔ 

میں تو کہتا ہوں ڈیلی کیا کرو۔۔“ زایان اس کے قریب ہو کر غور سے دیکھتے ہوئے فرمائش کرنے لگا۔۔

”تم نے اپنے کاسمیٹکس پروڈکٹ مجھ پر ہی ٹیسٹ کرنی ہیں کیا؟“ ہالہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دور دھکیلتے ہوئے کہا۔۔۔

زایان کے انداز اسے بوکھلانے پر مجبور کر رہے تھے، دل کا شور الگ کانوں کو پھاڑنے پر تلا تھا۔۔۔

”نہیں مجھے اپنے سارے ایموشنز تم پر ٹیسٹ کرنے ہیں۔۔“ اسے کھینچ کر اپنے گلے سے لگاتے وہ اپنائیت سے بولا اور ہالہ کے حواس گم ہونے لگے۔۔ 

”ہالہ اگر تم اکرام کو معاف کرنا چاہو تو کر سکتی ہو اور میری وجہ سے اپنے رشتوں کو اوائڈ مت کرنا کبھی۔۔۔ میں نا تنگ نظر ہوں نا شکی مزاج۔۔۔

مجھے یقین ہے تم میری ہو تو اپنی زات کو اور اپنے جذبوں کو میری امانت کی طرح سنبھال کر ہی رکھو گی اور میرے لیے اتنا بہت ہے۔۔“ زایان اسے خود میں بھینچے اس کے بالوں کو سنوارتے ہوئے نرمی سے بول رہا تھا۔۔

ہالہ کی آنکھیں تشکر سے نم ہوئیں۔۔ زایان نے نرمی سے اسے اسے خود میں سمیٹتے ہوئے اس کی نم آنکھوں کو چوم لیا۔

جو انسان اس کی زات کا خود گواہ بن رہا ہے وہ اس سے کبھی کسی عمل کی وضاحت نہیں مانگے گا۔۔

اس کا دل سکون سے بھر گیا۔۔۔

بابا نے ایک بار کہا تھا۔۔ ہم بہتر کی تلاش میں اکثر بہترین کو کھو دیتے ہیں۔۔۔

ہالہ یہ بے وقوفی نہیں کرنے والی تھی۔۔۔

اسے بہترین انسان ملا تھا وہ بھی بن مانگے۔۔ اس کی خاموشیوں اور صبر کا انعام اسے زایان کی صورت میں ملا تھا۔۔

🌟🌟🌟🌟YamanEvaWrites🌟🌟🌟🌟🌟👉

دیا نے وہاں سے آنے کے بعد گھر والوں کو بہانہ بنا دیا کہ وہ اپنی ”حالت“ کی وجہ سے جلدی آ گئی۔۔ مگر اس کے بعد دو دن ہو گئے، اس نے سالک سے بات نہیں کی۔۔

اس لیے نہیں کہ وہ ناراض تھی بلکہ اس لیے کہ اسے اندازہ تھا سالک اس کی اچھی ”کلاس“ لے گا۔۔  

کالج سے وہ فری ہوچکی تھی۔۔ مزید آگے پڑھائی کا فی الحال کچھ نہیں سوچا تھا۔۔

سو اب گھر میں ریسٹ کے نام پر بور ہوتی رہتی تھی۔۔

آج صبح اس کی آنکھ کافی لیٹ کھلی۔۔ وہ فریش ہو کر نیچے آئی تو پتہ چلا احرام بابا آفس جا چکے تھے اور ماریہ اس کے اٹھنے کا ویٹ کرتی رہیں پھر نانا جان کی طرف چلی گئیں۔۔ 

نانا جان کا گھر کافی دور تھا ان کی واپسی رات سے پہلے تو ممکن نا تھی۔۔

یعنی آج وہ گھر پر اکیلی تھی۔۔ آج ہیلن کی برتھ ڈے پارٹی تھی اور ٹائم بھی سوٹ ایبل تھا، بہت لیٹ نائٹ نہیں تھی۔ وہ گھر بابا احرام اور مما کے آنے سے پہلے آ سکتی ہے۔۔

بریک فسٹ کیا اور کچھ دیر مووی دیکھ کر ٹائم پاس کیا۔۔ ہالہ سے بات بھی کر لی۔۔ بابا سے بھی۔۔ 

پھر اٹھ کر اپنے روم میں گئی۔۔

”اب یہاں روک کر دکھانا سالک اقیان۔۔“ 

تیاری کرتے ہوئے سالک کو دل میں مخاطب کیا۔۔ 

ڈریسنگ آج بھی وہی تھی۔۔ سلور گرے میکسی جو گھٹنوں سے نیچے پرپل کلر میں تھی۔۔ ہائی ہیل کی جگہ ایزی شوز اور اسی طرح اونچا جوڑا اور میکسی کے ہی ساتھ کا سٹالر جس کی سر والی جگہ پر بھی بھاری کام کیا ہوا تھا۔۔۔

شال لے کر وہ نکلی اور ڈرائیور کے ساتھ ہیلن کے گھر آ گئی۔

اس کی برتھ ڈے پارٹی گھر پر ہی تھی۔۔

مگر جب دیا گھر کے اندر داخل ہوئی تو سکتہ زدہ رہ گئی۔۔

بالکل کلب والا انوائرمنٹ تھا۔۔ رات جیسا اندھیرا اور تیز گھومتی کلب لائٹس۔۔

اندر میوزک کا بھی اچھا خاصہ شور تھا۔۔ 

ڈرنک کرتے اس کے کلاس فیلو لڑکیاں لڑکے جھوم رہے تھے۔۔کچھ لوگ کپلز کی صورت الگ الگ بیٹھے تھے۔۔۔

یہ برتھ ڈے پارٹی کم اور کاک ٹیل پارٹی زیادہ لگ رہی تھی۔۔ ہیلن اس سے آ کر ملی تو خوشی سے پاگل ہو گئی۔۔

"Finally you came for my B'day... I should feel honoure.. you are one of them who rarely attends the parties..

(آخر کار تم میری برتھ ڈے پارٹی پر آ گئی۔۔ مجھے اعزاز محسوس کرنا چاہئیے۔۔ تم ان لوگوں میں سے ہو جو بہت کم پارٹیز اٹینڈ کرتے ہیں۔۔) 

ہیلن کی خوشی پر اسے جو زرا گھبراہٹ ہوئی تھی۔۔ دور ہو گئی۔۔

یہ کوئی زیادہ برا تجربہ بھی نہیں تھا۔۔ سب اپنے آپ میں مگن تھے۔۔ وہ ایک طرف بیٹھ گئی۔۔ ہیلن سے کہہ دیا کہ اسے کوئی ڈانس پارٹنر یا ڈرنک وغیرہ نہیں چاہئیے۔۔

مگر تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہیلن کا کزن جو کالج میں ایک سال سینئیر رہا تھا، اس کے پاس آیا۔۔

"I was eagerly waiting for you.. at last you came for hela...

come dance wimme and take off your mask hon. no one gonna see you..

(میں بے تابی سے تمہارا انتظار کرہا تھا۔۔ آخر کار تم ہیلا کے لیے آ گئی۔۔ آؤ میرے ساتھ ڈانس کرو اور اپنا ماسک اتار دو ہنی۔۔ کوئی تمہیں نہیں دیکھنے والا۔۔) 

وہ مسکرا کر بول رہا تھا۔۔ دیا بےزاری سے اپنی جگہ سے اٹھی، ارادہ یہاں سے جانے کا تھا۔۔

وہ سامنے ہوا اور ہاتھ اس کے سامنے کیا اور آنکھوں سے اپنا ہاتھ تھامنے کا اشارہ کیا۔۔

دیا نے گھورتی آنکھوں سے اس کا ہاتھ مروڑنے کی غرض سے ہاتھ بڑھایا (نانا جان نے تھوڑا بہت سیلف ڈیفینس سکھا دیا تھا۔۔)  مگر اس سے پہلے کہ دیا اس کا ہاتھ تھامتی اس کے عین پیچھے سے کسی نے بازو بڑھا کر دیا کا ہاتھ تھام لیا۔۔  جانے پہچانے لمس پر دیا نے چہرہ موڑ کر دیکھا تو سالک کھڑا تھا۔۔

”sorry she is with me.. "

سالک نے کہتے ہوئے دیا کو اسی طرح ہاتھ پکڑے اپنی جانب گھمایا۔۔ دیا کا چہرہ اس کے سینے میں چھپ گیا اور سانس حلق میں اٹکی۔۔ سالک کہاں سے آ گیا۔۔

وہ لڑکا سالک کو گھورتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔

"میں اس کا ہاتھ توڑ دیتی، زرا صبر تو کرتے۔۔"

دیا نے سالک کو تکتے ہوئے کہا مگر وہ خاموشی سے اسے ساتھ لیے وہاں سے باہر آیا اور اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔

وہ کچھ نا بولا تو مزید ہمت دیا کو بھی نا ہوئی مگر جب راستہ انجان لگا تو چونکی۔۔

”سالک ہم کہاں جارہے ہیں۔۔“ دیا نے سوال کیا۔۔

”لانگ ڈرائیو۔۔ تم گھر رہ کر بور ہو رہی تھیں، تو تمہیں فریش کرنا چاہتا ہوں۔۔“ سالک نے نارمل لہجے میں کہا۔۔

”تم اچانک کیسے آ گئے؟ اور ہیلن کے گھر کیسے؟“ 

دیا نے ریلیکس ہو کر پوچھا مگر چہرے پر اب بھی قدرے پریشانی تھی۔۔

”میں رات ہی آ گیا تھا ڈی۔۔ میں رات تمہارے پاس ہی تھا۔۔ تمہیں اب بہت نیند آتی ہے۔۔ مارننگ ٹائم بھی میں تمہارے سوئے رہنے کی وجہ سے اپنے کچھ جاننے والوں سے ملنے چلا گیا تھا۔۔ اب تمہارے ڈرائیور نے پوچھا تو میں نے کہا لے جائے، تم ایک بار دیکھ لو سب پھر میں ریسیو کر لوں گا۔۔“ سالک نے ڈرائیو کرتے ہوئے سکون سے اس پر دھماکہ کیا۔۔

”سالک تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ مجھے آنے سے پہلے بتاتے۔۔ میں سرپرائز پلان کرتی۔۔ ویلکم کرتی۔۔ تم بہت برے ہو۔۔ بس سب کچھ خود کرتے ہو۔۔ میرے لیے کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔۔“ دیا کو شدت سے افسوس ہوا۔۔

وہ آ بھی گیا، مل بھی لیا اور دیا کو خبر تک نہیں ہوئی۔۔ سامان وہ پھیلاتا نہیں کہ دیا کو دیکھ کر سمجھ آتی۔۔۔ وارڈروب سے اس نے بس میکسی نکالی اور کہیں دھیان نہیں دیا۔۔ سالک اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔۔

”مجھے تمہارے بورنگ پلان سے بچنا ہی تو تھا۔۔ مجھے نہیں لگتا تم کچھ بھی انٹرسٹنگ کر سکتی ہو۔۔“ 

سالک نے شرارت سے کہا۔

”میں کر سکتی ہوں۔۔“ دیا نے گھورا۔۔

”جیسا کہ۔۔“ سالک نے ابرو چڑھائی۔۔

”کچھ بھی۔۔۔“ وہ کندھے اچکا کر بولی۔

”او۔کے کِس می۔۔“ سالک نے اسی تیزی سے کہا۔۔ 

”او۔کے۔۔“ دیا اس کی طرف مڑی تو ہوش آنے پر شرم سے گال دہک اٹھے۔۔۔

”سالک تم بہت بری باتیں سیکھ آئے ہو۔۔“ دیا نے شرم سے بولتے ہوئے اسے بھی شرم دلانا چاہی۔۔

”یہاں روڈ رومانس کا بہت رواج ہے ڈی۔۔ 

تم ویسے بھی میرے پیچھے اتنا بگڑ چکی ہو۔۔ پہلے پروم پارٹی اور پھر بنا بتائے کاک ٹیل پارٹی۔۔ تو تھوڑی سی بے شرمی بھی سیکھ لینی تھی۔۔۔“ سالک نے نچلا لب دانتوں تلے دبا کر شرات سے کہا تو دیا کے ہوش گم ہوئے۔۔۔

”بس یہی دو بار۔۔ میں نے پہلے بنا ضرورت گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھا۔۔ 

پروم پارٹی میں تم نے اتنا اچھا ویلکم کروایا کہ میں نے خوب انجوائے کیا اور انہی قدموں سے واپس آ گئی۔۔“ 

دیا کے طنزیہ جملوں پر سالک نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔

”اور یہ کاک ٹیل پارٹی تھی، مجھے اندازہ نہیں تھا میں تو بس ہیلن کے برتھ ڈے پر آئی تھی وہ بھی اب پتہ چلا لائی گئی تھی۔۔“  دیا نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔ سالک نے ہنس کر اس کی بے چاری شکل دیکھی۔۔ 

”میں نے پہلے کہا تھا ڈی۔۔ تم خود کو نہیں سنبھالو گی تو میں سنبھالوں گا۔۔

مجھے پتہ ہے یہ پارٹیز سہی نہیں۔۔ ایڈلٹ پارٹیز ہوں تو ڈرنک بھی ہو گی۔۔ 

اور تم نہیں جانتی تھی میں تو جانتا ہوں۔۔ 

so dont worry ma soul.. i'll take care about you.." 

سالک نے پیار بھرے انداز سے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا لیا۔۔

”میں آ گیا ہوں ناں سب شوق پورے کرواؤں گا۔۔۔“ 

اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھاتے ہوئے اسے کہا۔۔

اور سالک اپنا کہا پورا کرتا ہے یہ بات اب دیا کو اچھے سے پتہ تھی۔۔ وہ اس کے کندھے پر سر رکھ گئی، سالک نے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھ دئیے۔۔

 اس کی کمپنی میں اپنا لانگ ڈرائیو کا شوق پورے شوق سے پورا کر رہی تھی۔۔

🌟🌟🌟🌟YamanEvaWrites🌟🌟🌟🌟👉

پانچ سال بعد:-

ہالہ اور دیا بینکوئٹ میں بیٹھی تھیں۔۔ فارس کا نکاح تھا آج۔۔

ایک سال پہلے ہی غزالہ اور تائی نے ایک سادہ سی لڑکی ڈھونڈ کر اکرام کی شادی کی تھی۔۔ اب خادم صاحب کے بہت زیادہ سمجھانے پر فارس شادی کے لیے مانا تھا۔۔

دونوں بہنیں اتنے وقت بعد ملی تھیں۔۔

ہالہ کا تین سالہ بیٹا تھا نویان۔۔ بالکل زایان جیسا شکل بھی اور کچھ عادات بھی۔۔ 

وہ بہت نرم مزاج اور اچھا بچہ تھا۔۔

اس وقت بھی زایان کے ساتھ تھا اور ہالہ مزے سے بیٹھی انجوائے کر رہی تھی۔۔

جبکہ دیا کا ساڑھے چار سالہ بیٹا ”عویم خان“ اس وقت سب پر عذاب کی طرح نازل تھا اور دیا کی جان ہلکان کیے ہوئے تھا۔۔

ایک ایک چیز پر تنقید اور سوال اس کی عادت تھی جو دیا کو زہر لگتی تھی۔۔

”کسی کی سنتا تو ہے نہیں۔۔ اوپر سے احرام بابا کہتے ہیں تنقید نہیں کرتا اوبزرویشن اچھی ہے۔۔ ہر چیز کو سمجھتا ہے۔۔

سالک کو تو اس کی کوئی بات بری لگتی ہی نہیں ہے۔۔ ضدی اتنا ہے کہ سمجھا سمجھا کر بندے کا آدھا خون جل جاتا ہے مگر عویم کی بات وہیں اٹکی ہوتی ہے۔۔“  

دیا جو خود بھی ضدی ہوا کرتی تھی، اب سب کچھ بھول چکی تھی۔۔ بیٹے نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔

ہالہ مسکرا کر عویم کو دیکھ رہی تھی جو اب کسی مہمان کے سر پر سوار تھا۔۔

رنگت اور قد اس کا بالکل سالک والے تھے مگر نقش سارے دیا جیسے تھے۔۔ گرے آنکھوں میں بلا کی چمک اور غرور تھا مگر عادات اس کی الگ تھیں۔۔ ذہین تھا مگر بے حد سنجیدہ اور اتنی سی عمر میں ہی سخت مزاج تھا۔۔

”زایان بھائی اور تمہاری اب بھی لڑائی ہوتی ہے کیا؟“ دیا نے شرارت سے پوچھا۔۔

”مت پوچھو زایان کا۔۔ خون جلائے رکھتا ہے، میں کڑھتی رہتی ہوں۔۔ خود ڈھیٹوں کی طرح مسکراتا رہتا ہے۔۔ مجال ہو جو کسی بات کا اثر لے وہ بندہ۔۔“ ہالہ نے ناک چڑھائی۔۔

دیا کو یاد آیا جب تقریباً دو سال پہلے زایان نے کال پر دیا سے کہا تھا۔۔

”ہالہ ہر وقت لڑتی ہے۔۔ مطلب سہی سے بات تو کرتی نہیں ہے اور طنز تو اتنے کرتی ہے کہ حد نہیں۔۔“  وہ بری طرح چڑا ہوا تھا مگر جب دیا نے اسے سمجھایا کہ ہالہ کا مزاج ایسا ہی ہے۔۔ وہ زایان کے ہی آگے کھل کر بولتی ہے اور ساری بھڑاس نکالتی ہے۔۔ باقی تو سب کے سامنے بناوٹی ہے تب زایان کو ہالہ کا اپنے ساتھ اونیسٹی شو کرنا دل کو بھایا تھا اور شاید اب تک اسی لیے وہ ہالہ کی ہر بات اور لڑائی انجوائے کر کے اس کا دل جلاتا تھا۔۔ 

دیا دلچسپی سے ہالہ کے جھگڑوں کی داستان سن رہی تھی۔۔

ویسے بھی اس کے پاس چند دن بچے تھے۔۔ پھر اس نے اپنے مغرور اکڑو بیٹے کے ساتھ واپس چلے جانا تھا کیونکہ سالک ان کے ساتھ نہیں آس کا تھا اور سالک، عویم ایک دوسرے سے زیادہ وقت دور نہیں رہ سکتے تھے۔۔

THE END💜💜💜💜💜

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Shah E Man Season 1Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Shah E Man Season 1 written by Yaman Eva. Shah E Man Season 1 by Yaman Eva is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *