Ishqam By Bisma Abdulrehman New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday, 2 September 2024

Ishqam By Bisma Abdulrehman New Complete Romantic Novel

Ishqam By Bisma Abdulrehman New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ishqam By Bisma Abdulrehman New Complete Romantic Novel 

Novel Name: Ishqam

Writer Name: Bisma Abdulrehman

Category: Complete Novel

یہ زندگی کی جو کتاب ہے،

یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے

کہیں اک حسین خواب ہے

کہیں جان لیوا عذاب ہے

کبھی کھو لیا، کبھی پا لیا،

کبھی رو لیا کبھی گالیا

کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں،

کہیں تشنگی بے حساب ہے

کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ،

کہیں اور ہی کوئی روپ ہے

کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی،

کہیں مہرباں بے حساب ہے

یہ جو زندگی کی کتاب ہے

یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے،

آگئ منحوس طلاق لے کر ہمارے سینے پر مونگ دلنے

رفت بیگم کی چنگارتی آواز پرسب نے دروازے کی طرف دیکھا

جہاں سانولے رنگ،تیکھے نکوش ،بڑی بڑی براؤن آنکھیں جن میں ویرانی نے ڈیرہ جمایا تھا حجاب سے بالوں کو چھپاۓ تقریباً22 سال کی لڑکی کھڑی تھی۔

وہ جو پہلے ہی اپنی قسمت کی ستم ظریفی پر ماتم کناں تھی ان کہ بات پر آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھر گیئں۔

ارے بھابی یہ تو ہے ہی منہوس وہاں بھی اپنی منہوسیت دکھائی ہو گی تبھی تو شادی کے دو ہفتے بعد ہی چلتا کر دیا اب ہر کوئی ہماری طرح تھوڑی ہوتا ہے شمع بیگم نے بھی اپنا زہر اگلا۔

اس نے  ڈبڈباتی نظروں سے سب کو دیکھا اور اپنے بے جان وجود کو تقریبا گھسیٹتے ہوۓ اپنے کمرے میں لے جا کر بند ہو گئی۔

(ہمارے معاشرے کا علمیہ ہے کہ طلاق کا الزام بھی عورت کے زمرے میں ہی آتا ہے  اس میں قصور چاہے مرد کا کیوں نہ ہو عورت قصور وار نہ ہو کر بھی قصور وار ٹھہرائی جاتی ہے)

یہ ہے نگین ولا ۔جہاں ساجد صاحب اپنی بیگم رفعت کے ساتھ رہتے ہیں۔انکی دو اولادیں ہیں۔پہلی ثمرہ اور دوسرا بیٹا شہروز۔ان کی ایک بھتیجی آہلہ بھی یہی رہتی ہے۔اس کے والدین کا ایک ایکسیڈینٹ میں انتقال ہو گیا تھا اس کی پیدائش کے دو ماہ بعد۔شمع بیگم کے شوہر بھی چونکہ ان کے ساتھ تھے تو وہ بھی انتقال کر گۓ۔شوہر کے انتقال کے بعد وہ بھی نگین ولا میں ہی اپنی بیٹی مروہ کو لے کر آ گئیں جو کہ اس وقت ایک سال کی تھی۔

کافی دیر رونے کی وجہ سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا تو وہ شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی ۔

اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی۔

بچپن سے سب اسے منہوس کہتےتھے ۔چاچی اور پھوپھو کہتی کہ اس کی منہوسیت سے تینوں انتقال کر گۓ۔دادی بھی بیٹے کا دکھ سہہ نہ سکی تو وہ بھی اس دنیا سے چل بسی۔اس کا الزام بھی اس پر آگیا۔تب سے سب اسے منہوس کہتے  کام کوئی بھی غلط ہوتا الزام اس پر ہی لگتا۔ابھی تو اسے اپنی زندگی میں امید کی روشنی نظر آئی تھی ۔چند دن پہلے وہ کتنے خواب سجا کر رخصت ہوئی تھی لیکن قسمت ہی شائد اس سے ناراض تھی جو اس کو وہاں سے زلت ہی ملی۔

سب کچھ یاد کرتے ہوۓ اس کے اعصاب جواب دے گۓ اور وہی شاور کے نیچے سر گھٹنوں پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔رات کے ساۓ گہرے ہو رہے تھے۔

آسمان پر بادل اپنا راج جماۓ زور و شور سے برس رہے تھے جیسے وہ بھی اس کےغم میں شریک ہوں۔

تین ماہ دس دن بعد

آج اس کی عدت ختم ہو گئ تھی۔عدت کے دوران نہ تو کوئی اس کے کمرے میں آیا اور نہ یہ باہر نکلی۔ملازمہ کھانا کمرے میں دے جاتی تھی۔

اب اس کو کمرے نکلنا عزاب لگ رہا تھا جانتی جو تھی کہ اسے دیکھ کر ہی سب اس کا مزاق بناۓ گے اور چچی پھوپھو کو زہر اگلنے کا موقع مل جاۓ گا۔

ابھی وہ انہی سوچوں میں تھی کہ پھوپھو کمرے میں آوارد ہوئیں۔

ارے منہوس اب کیاکمرے میں ہی ڈیرہ جمانے کا ارادہ ہے اٹھو اور سب کے لیے ناشتہ بناؤ۔

تین ماہ تمہاری خدمت کیا کر لی تم تو ماہرانی ہی بن گئ۔اپنی اوقات نہ بھولو وہ آنسو پیتی کچن میں چلی گئی۔

سب کا ناشتہ ان کو سرو کیا سرو کرتے ہوۓوہ ان سب کی تمسخرانہ نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی۔

ارے بینگن تم بھی تو بیٹھو ہمارے ساتھ ناشتہ کروشہروز اسے اس کے رنگ کہ وجہ سے بیینگن کہتا تھا۔

وہ جانتی تھی کہ وہ ہمیشہ کی طرح اسے تنگ کرنے کے لیے بول رہا ہے اسے اس سے کوئی ہمدردی نہی ہے اس لیے اس نے اگنور کیا

۔

ارے جواب تو دو شہری کو مروہ نے اسے کچن کی طرف جاتے دیکھ کر کہا۔

مجھے بھوک نہی ہے جب ہو گی کر لوں گی وہ بھی روکھا جواب دے کر چلی گئی۔

اس کے زیادہ ہی پر نہی نکل آۓارے بھئ انہی پروں نے تو اسے وہاں ٹکنے نہ دیاکمبخت ماری طلاق لے کر آگئی ہمارے بچوں کی خوشیوں کو نظر لگانے پھوپھو نے چاچی کو بھڑکایا۔

بات کرتی ہوں ساجد سے کرے اس کا کوئی بندوبست ۔

کچن سے ان کی باتیں سنتی وہ اپنی ناقدری پر رودی۔

گھر کے سارے کام کرنے کے بعد وہ کچھ دیر آرام کی غرض سے کمرے میں آگئی۔

تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ شہروز اور مروہ اندر آۓاور بے تکلفی سے صوفے پر بیٹھ گۓ۔

وہ خود کو ان کہ باتوں کے لیے مضبوط کرنے لگی

جانتی تھی یہ ضرور اس کے زخم پر نمک چھڑکنے آۓ ہوں گے۔

ارے کزن تم تو آرام کر رہی تھی مروہ ہم نے ایوی ڈسٹرب کر دیااس نے ایسے کہا جیسے اسےواقعی اس کے آرام میں خلل ڈالنے کا بڑا افسوس ہوا ہو۔

ہاں بھئ ڈسٹرب تو کر دیا

بے چاری اپنے سابقہ شوہر کو یاد کر رہی ہوں گی۔دونوں ایک دوسرے کی ہاتھ پر تالی مارے ہنس ریے۔جنکہ ان کی بات پر وہ آنسو پیتی لب بھینچ کر رہ گئی۔

ویسے اس میں اس کا بھی کوئی قصور نہی تھا ہر انسان کی طرح وہ بھی خوبصورت بیوی چاہتا تھا لیکن اسے تم مل گئی۔

پھر وہ بے چارہ کیا کرتا۔شہروز نے اس کے سابقہ شوہر کہ طرف داری کی۔

تم فکر نہ کرو اب میں امی کو بولوں گا کہ وہ تمہارے لیے کوئی کالا ڈھونڈے پھر وہ تمہیں چھوڑے گا بھی نہی اپنی بات کر کے وہ خود ہی ہنس دیا۔

اس طرح کی دو تین اور باتیں کر کے وہ چلے گۓ 

۔آہلہ جو ان کی باتیں ضبط سے سن رہی تھی ان کے جاتے ہی اس کا سارا ضبط ٹوٹ گیا۔

اس نے وضو کیا اور اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو گئی

بے شک وہ ہمارے دلوں کو بہتر جانتا ہے۔نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ۔

"اے میرے رب تو میری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے،،اے میرے رب تو رحمن اور رحیم ہے،،تو کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ نہی آزماتا یااللہ مجھے صبر کرنے کی توفیق دے،،آمین۔"

دعا مانگ کر وہ رات کا کھانا بنانے کچن چلی گئی۔

صبح سے رات تک گھر کے سارے کام کرنا،پھوپھو چچی کی جلی کٹی باتیں سننا یہ سب اس کا معمول بن گیا تھا۔

دن اسی طرح گزر رہے تھے۔

دو دن سے وہ سکون میں تھی کیونکہ چچی اور پھوپھو کسی رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے سرگودھا گئی ہوئی تھیں۔اس لیے وہ ان کی جلی کٹی باتوں سے بچی ہوئی تھی

گھر میں شہروز مروہ اور وہ خود تھی۔

شہروز اور مروہ بھی زیادہ تر ان دو دنوں میں گھر سے باہر ہی رہے تھے۔

وہ رات کا کھانا بنانے کے لیے گوشت دھو رہی تھی کہ مروہ کچن میں داخل ہوئی 

۔

سنو میرے اور شہروز کے کچھ فرینڈز آرہے ہیں تو ڈنر میں اچھا سا اہتمام کرنا ،میٹھے میں بھی کچھ بنا دینا۔  اسنے کچن میں داخل ہو کر اسے حکم دیا

کب تک آئیں گے وہ لوگ ؟؟

7 بجے تک آجائیں گے۔اس نے سر ہلا دیا۔

اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو 5:50 ہو رہے تھے ۔یعنی میرے پاس ڈیڑھ گھنٹہ ہےاس نے سوچا 

اور جلدی جلدی کھانا بنانے لگی۔

یہ سب اسے اکیلے ہی کرنا تھا کیونکہ چچی نے اسکی عدت کے بعد ملازمہ کی چھٹی کر دی تھی۔اس نے چکن کراہی،قیمہ گوشت ،بریانی میٹھے میں فروٹٹرائفل اور کھیر بنائی۔

ابھی وہ سلاد بنا رہی تھی کہ مروہ نے چاۓ بنانے  اور باہر لانے کاآرڈر کیا۔

لیکن میں کیسے وہ منمنائی۔

کیا مطلب کیسے اب یہ بھی تمہیں بتانا پرے گا کے کیسے آؤ گی اپنے پیروں سے چل کر آؤ گی اور کیسے آؤ گی جاہل اسے باتیں سنا کر وہ چلی گئی۔

اس نے بے بسی اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا

جو اتنے کم ٹائم میں اتنا زیادہ کھانا بنانے کی وجہ سے خراب ہو گۓ تھے۔

اس نے چاۓ کے لیے پانی چولہے پر چڑھایا۔چاۓ لے کر وہ ڈرائینگ روم میں انٹر ہوئی کہ وہاں ان کے دوستوں کو  شراب پیتے دیکھ رک گئی۔

وہ خیران ہوئی کہ وہ لوگ کیسے عام مشروب کی طرح اس زہر کو اپبے اندر انڈیل رہے ہیں۔زیادہ خیرت تو اسے اس بات پر تھی کہ شہروز اور مروہ نے بھی ہاتھ میں گلاس پکڑا ہوا تھا اسے جھٹکا لگا اس نے آج تک کبھی ان دونوں کو ڈرنک کرتے ہوۓ نہی دیکھا تھا اور نہ ہی اس کی 22 سال کی زندگی میں اس نے شہروز کو کبھی نشے کی حالت میں گھر لوٹتے پایا تھا اسنے ایک دفع پھر سب کو دیکھا اور 

ناگواری سے سر جھٹکا ۔

سب کو چاۓ سرو کر کے وہ جلدی سے وہاں سے نکلی ان کی نظروں سے اسے خوف آرہا تھا۔

اس نے کھانا ٹیبل پر لگایا اور مروہ کو اطلاع دی

۔

اس کا ارادہ جلد ازجلد کمرے میں جانے کا تھا۔

وہ اس پر عمل بھی کرتی کہ شہروز نے کھانا کون سرو کرے گا کہہ کر روک لیا۔

ویسے تمہاری نوکرانی ہے مست؟؟شہروز کے ایک دوست نے کہا۔

اب ایسی بھی کوئی نہی ہے رنگ دیکھو اس کا۔مروہ نے جیلس ہو کر کہا۔

نوکرانی نہی کزن ہے میری شہروز نےدوست کی تصحیح کی۔

کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ دوبارہ ڈرائنگ روم چلے گۓ۔

آہلہ کمرے برتن اٹھا رہی تھی کہ شہروز کا وہی دوست کچن میں آیا 

اور پانی کے بہانے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

وہ اس کے ہاتھ پکڑنے پر کانپ گئی اور گلاس نیچے گر کر چکنا چور ہو گیا۔

نشے مین ہونے کی وجہ سے گرفت ڈھیلی تھی اس نے ہمت کر کے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔

اسی ہاتھ کا نشان اس کے گال پہ چھوڑ دیا۔

شہروز جو اپنے دوست کی فطرت سے واقف تھاگلاس کی آواز پر فوراًکچن کی طرف بھاگا۔

اس کے پیچھے ہی دوسرے دوست بھی آۓ۔

شہروز نے جب آہلہ روتے دیکھا تو اسے گڑ بڑکا احساس ہوا۔

آہلہ نے اسے سب کچھ بتا دیا ۔شہروز کا خون کھول اٹھا ۔اس نے اپنے دوست سمیر کو پیٹنا شروع کر دیا۔

اس کے دوستوں نے اسے سمیر سے دور کیا اور سمیر کو لے کر وہاں سے چلے گۓ۔

آہلہ بھی روتے ہوۓ کمرے میں بھاگ گئ۔

تم نے اتنا اوور رییکٹ کیوں کیا اس نے اس کا صرف ہاتھ ہی تو پکڑا تھا۔مروہ نے اس کے کمرے میں آتے کہااس کواس کا آہلہ کے لیے سمیر کو مارنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

فارگوڈ سیک مروہ وہ کزن ہے ہماری میں کیسے برداشت کرتا کہ کوئی میرے گھر کی عزت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ابھی اتنا بے غیرت نہی ہوا میں۔

سمیر نے میرا ہاتھ بھی تو کتنی دفع پکڑا ہےتب تو تم کچھ نہی بولے اور نہ ہہ تمہاری غیرت نے تہیں کچھ کہااسے لاجواب چھوڑ کر وہ چلی گئی۔

اسکے جانے کے بعد وہ اپنے آج کے عمل کے بارے میں سوچنے لگا کہ اس نے آہلہ کے لیے سمیر کو کیوں مارا،کیوں اسے اس کا ہاتھ لگانا برا لگا ۔

لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ سرجھٹک کر سو گیا۔

کمرے میں آکر اہلہ نے وضو کیا اور شکرانے کے نفل ادا کیے  اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے آج اس کی عزت کی حفاظت کی تھی۔

صبح شہروز کا بھی شکریہ ادا کروں گی اس نے سوچا۔

مروہ تو جلن کی آگ میں جھلس رہی تھی۔اسے شہروز کا عمل بلکل پسند نہی آیا تھا۔

اس نے شروع سے ہی اپنی ماں سے سنا تھا شہروز اس کا ہے۔تو وہ اب کیسے برداشت کرتی کہ وہ اس پر کسی اور کو فوقیت دے۔

آج صبح سے مطلع آبرآلود تھا۔ٹھنڈی ہوا روح کو سکون بحش رہی تھی۔گرمیوں کے موسم میں بارش لوگوں کے لیے باعث رحمت ہوتی ہے۔

وہ کچن میں پکوڑے بنانے کء لیے مصالحہ تیار کر رہی تھی کہ باہر سے بارش کی آواز آئی۔

زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کو چھوا۔بارش کی تو وہ دیوانی تھی لیکن صرف دیکھنے کی حد تک۔

پکوڑے بنا کر وہ شہروز کے کمرے کے دروازے کے باہر اجازے کے لیے کھڑی تھی۔

آجاؤ اجازت پر وہ اندر داخل ہوئی۔

میں نے پکوڑے بناۓ تھے تو وہ دینے آئی تھی اس نے پلیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

ٹھیک ہے شہروز نے یک لفظی جواب دیا۔

کچھ اور بھی کہنا ہے اس نے اسے اپنی انگلیاں مسلتے ہوۓ کہا۔

جی وہ مجھے کل کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا اس نے ڈرتے ہوۓ کہا مبادہ وہ کہیں اس پر طنز ہی نہ کر دے۔

اور کچھ؟؟

نہیں۔

تو پھر میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو جاؤ۔

وہ جانے کے لیے مڑی کہ یک دم کچھ یاد آنے پر پھر اس کی طرف پلٹی

اس کے پلٹنے پر اس نے آئبرو اچکائی 

اس کے آئبرو اچکانے پر وہ گڑبڑائی

وہ مجھے پوچھنا تھا کہ آپ نے اور مروہ آپی نے بھی کل درنک کی تھی کیا اس نے جھجھک کر آخر پوچھ ہی لیا جس پر کل سء ہی اس کی حیرت سوا تھی

تمہیں کیا لگتا ہے اس نے الٹا اس سے سوال کیا

میں کیا کہہ سکتی ہوں 

ہمم اگر تم کل اپنی آنکھوں کا استعمال کرتی تو تمہیں آج مجھ سے یہ پوچھنے کہ زحمت نہ کرنی پڑتی ۔۔۔۔۔ خیر میں تمہاری یہ غلط فہمی بھی دور کر دیتا ہوں کہ ہم دونوں نے سوفٹ ڈرنک لیا ہوا تھا

آہلہ کو لگا جیسے اس نے اس پر طنز کیا ہو تو پھر اسکا جواب سن کر وہ بغیر کچھ کہے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔ اسے یہ جان کر دلی خوشی بھی ہوئی تھی کہ جیساچوہ سوچ رہی تھی ویسا کچھ نہی ہے 

کل پھوپھو اور چچی نے آجانا تھا تو وہ آج پورے گھر کی اچھی طرح صفائی کرنے میں مصروف تھی۔

صفائی کے بعد وہ رات کا کھانا بنا رہی تھی کی شہروز کچن میں آیا۔

میری شرٹ پریس کر دو

اس نے شرٹ آگے کی۔

جی کرتی ہوں بس پانچ منٹ تک۔

چولہا بند کر کے وہ شرٹ پریس کرنے چلی گئی 

۔

وہ ابھی شرٹ پریس کر رہی تھی مروہ وہاں آگئی۔تم یہاں کھڑی ہو اور کچن میں سے کچھ جلنے کی سمیل آرہی ہے۔

لیکن میں تو چولہا بند کر کے آئی تھی اس نے پریشانی سے کہا۔

تو تمہیں کیا لگتا ہے میں جھوٹ بول رہی ہوں اس نے زرا غصے سے کہا۔

نہی میرا یہ مطلب نہی تھا میں جا کر دیکھتی ہوں وہ اس کے غصے سے خائف ہوئی۔

اس نے دیکھا تو چولہا بند تھا وہ کچن سے لاؤنچ میں آئی کہ لینڈلائن بجنے لگا۔وہ بات کر کے مڑی تھی کہ شہروز کو خود کو خونخوار نظروں سے دیکھتے پایا۔ 

کیا ہوا شہروز بھائی؟؟وہ اس کا غصہ سمجھنے سے قاصر ہوئی۔

یہ کیا ہے؟؟اسے اس کا سوال سمجھ نا آیا

یہ آپکی شرٹ ہے۔

میں شرٹ کی نہی اس کی بات کر رہا ہوں ایڈیٹ اس نے غصے سے کہا۔

یہ کیسے ہوا اس نے جلی ہوئی شرٹ دیکھ کر پریشانی سے کہا۔

کیا مطلب کیسے ہوا تم پریس کر رہی تھی نہ  تو تم بتاؤ کیسے ہوا؟؟اس کی ناسمجھی پر اسے اور غصہ آیا

جی میں کر رہی تھی لیکن تب تو شرٹ ٹھیک تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مروہ آپی نے مجھے کہا کہ کچھ جلنے کی سمیل آرہی ہے تو میں وہ چیک کرنے کچن میں آگئی۔وہ اپنی صفائی دے رہی تھی کہ مروہ اپنا نام سن کر جلدی سے بولی۔اچھا تو یہ کچن ہے اس نے لاؤنج کے چاروں طرف اشارہ کر کے طنزیہ کہا۔

شہروز یہ اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے مجھ پر الزام لگا رہی ہے میں نے تو اسے کچھ کہا ہی نہی تھا انفیکٹ میں تو صبح سے اس سے ملی ہی نہی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر پتا نہی یہ کیوں مجھ پر الزام لگا رہی ہے مروہ نے اپنی صفائی پیش کی۔

تم مان کیوں نہی رہی کہ تم نے جلائی ہے کیوں مروہ پر الزام لگا رہی ہو اسے اس پر غصہ آرہا تھا جواپنی غلطی ماننے کے بجاۓ مروہ پر الزام لگا رہی تھی۔

تمہیں پتا ہے یہ میری فیورٹ شرٹ تھی۔سوری ۔تمہاری سوری سے یہ واپس آجاۓ گی۔اب اپنی شگل گم کرو جب کوئی کام کرنا آتا نہ ہو تو کرتے نہی ہیں وہ اس پر شعلہ بار نظریں ڈالتا ہوا لاؤنج کراس کر گیا۔

مروہ بھی مسکراتی نظر اس پر ڈال کر چلی گئی۔

وہ ایک بار پھر اپنی تزلیل پر آنسو پیتی رہ گئی۔

چچی پھوپھو بھی آگئ تھیں۔اور آتے ہی ان کام شروع ہو گیا تھا جو کہ اسے سنانا تھا ۔

اس واقع کے بعد اس نے شہروز اور مروہ سے بات کرنا بلکل ختم کر دی تھی۔

اگر وہ کوئی کام کہتے بھی تو چپ چاپ کر دیتی۔

آج ہی اسے چچی سے معلوم ہوا تھا کہ اس کی دوست حجاب لندن سے واپس آئی ہے ۔(وہ اپنی ساس کے علاج کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ کچھ عرصے پہلے لندن گئی تھی۔اس کی شادی پر بھی وہ شرکت نہ کرسکی)ایک وہی تو تھی جو اس کی زندگی کے ہر پہلو سے واقف تھی۔جو اسکی خیر خواہ اور ہمدرد تھی۔

وہ اپنی دوست سے مل کر اپنا دل کا غبار نکالنا چاہتی تھی جو اتنے عرصے سے اس کے اندر تھا۔لیکن اصل مسلہ تو اجازت کا تھا جو چچی اس کو کبھی نہ دیتی 

لیکن پھر وہ یہ سوچ کر کہ ایک دفع پوچھنے میں کیا حرج ان کے کمرے میں گئی۔

چچی وہ میں حجاب سے ملنے جانا چاہتی ہوں وہ اپنے گھر آئی ہوئی ہے بس تھوڑی دیر میں آجاؤں گی اس نے اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔

ٹھیک ہے چلی جاؤ لیکن جلدی آجانا رات کا کھانا بھی تم نے بنانا ہے۔

جی چچی میں جلدی آجاؤں گی ان کے  اتنی جلدی مان جانے پر۔اس نے خوشی سے کہا۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وہ خود کو چادر میں چھپاۓ حجاب کے گھر کے لیے نکل گئی۔

رکشے پر 10 منٹ کی مسافت کے بعد دو منزلہ گھر کے باہر کھڑے ہو کر اس نے بیل دی

تو حجاب کے چھوٹے بھائی فیضان نے دروازہ کھولا ۔

اسلام علیکم آپی۔

وعلیکم سلام کیسے ہو تم اس نے مسکرا کر پوچھا۔

میں بلکل ٹھیک ہوں آپی آپ کیسی ہیں؟؟

میں بھی ٹھیک ہوں اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

حجاب گھر ہی ہے؟؟

جی آپ آئیں اندر۔

وہ فیضان کے ساتھ اندر آگئی۔

اسلام علیکم !کیسی ہیں آپ آنٹی؟؟

میں الحمدللہ ٹھیک تم سناؤ کیسی ہو ؟؟

میں بھی ٹھیک ہوں۔

مائکے آئی ہوگی؟؟جی ۔

انٹی حجاب کدھر ہے؟؟اس نے انٹی کے سوالات سے بچنے کے لیے بات بدلی۔

اپنے کمرے میں ہی ہے جاؤ مل لو تب تک میں تم لوگوں کے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوں۔

وہ سر ہلا کر کمرے کی طرف چل دی۔

تم یہاں مجھے یقین نہی ہو رہا کہیں میں کوئی خواب تو نہی دیکھ رہی اوہ مائی گاڈ تم تو سچ مین ہو حجاب نے خود کو چٹکی کاٹکر یقین دلایا۔حجاب نے اسکی موجودگی کا یقین کر کےاسے گلے لگایا۔وہ اپنی ہی رو میں بول رہی تھی کہ اسکے رونے پر بوکھلائی۔اس نے اسے بیڈ پر بٹھایا

اور پریشانی سے پوچھاکیا ہوا آہلہ میری جان کیوں رو رہی رہو؟؟

وہ ابھی کوئی جواب دیتی کہ حجاب کی امی ٹرے میں لوازمات لیے اندر آئی۔

اس نے اپنے آنسو صاف کیے

۔

تم لوگ باتیں کرو تب تک میں آہلہ کے پسند کی بریانی بنا لوں انہوں نے ٹرے رکھتے ہوۓ کہا(حجاب کی امی اس کے گھر کے حالات سے واقف تھیں انہیں  اہلہ بلکل اپنی حجاب کی طرح عزیز تھی ۔آہلہ کو چچی اور پھوپھو حجاب کے گھر بہت کم آنے کہ اجازت دیتی تھیں۔

اس لیے وہ اکثر آہلہ کے لیے بریانی بنا کر حجاب کے ہاتھ یونیورسٹی بھیجتی تھیں۔)

نہی آنٹی اس کی ضرورت نہی ہے میں صرف تھوڑی دیر کے لیے آئی ہوں بریانی پھر کبھی اس نے انہیں ٹالا وہ نہی چاہتی تھی کہ لیٹ ہونے پر چچی اور پھوپھو کی باتیں سنے۔

کوئی نہی میں بنا رہی ہوں اور تم کھا کر جاؤ گی تم لوگوں کے باتیں کرنے تک میں بنا لوں گی انہوں نے اسے ڈپٹااور اسکی سنے بغیر چلی گئیں۔

اب بتاؤ کیوں رو رہی تھی تم ؟؟ان کے جاتے ہی حجاب اسکی طرف متوجہ ہوئی ۔

حجاب نے اسے اپنہ طلاق کے بارے میں بتایا۔

کیا مطلب کے اس نے تمہیں دو ہفتے بعد طلاق دے دی وہ شاکڈ سی بولی۔تم نے اس سے وجہ نہی پوچھی ؟؟

حجاب کو اس شخص پر غصہ آرہا تھا۔

وہ کہتا تھا کہ وہ اس شادی پر راضی نہی تھااس کی ماں نے زبردستی کی تھی اس کے ساتھ اور اس کا کہنا ہے کہ وہ مجھ جیسی کالی کے ساتھ ساری زندگی نہی گزار سکتااس نے اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوۓ وجہ بتائی۔

یہ بات اس کو دو ہفتے بعد پتا چلی کہ وہ تمہارے ساتھ نہی رہ سکتا پہلے وہ اندھا تھا۔

اس کا بس نہی چل رپا تھا کہ وہ اس گھٹیاشخص کا سر پھاڑ دیتی۔

اس نے روتی ہوئی آہلہ کو گلے لگایا اور خود بھی اپنی دوست کے دکھ پر رو دی۔

کافی دیر تک اس نے اسے رونے دیا تا کہ وہ اپنا غبار نکال سکے۔

پھر اس نے اسے علیحدہ کیا ۔

کیا اس کے اور تمہارے درمیان میاں بیوی جیسا رشتہ تھا اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔

نہی ،،اس نے تو پہلے دن  ہی کمرے سے نکال کر مجھے میری اوقات بتا دی تھی پھر اس دن کے بعد سے اس کی امی کہ کہنے پر کہ وہ وقت کے ساتھ مجے قبول کر لے گا تب تک تم دوسرےکمرے میں رہ لو میں دوسرے کمرے میں رہ رہی تھی۔

اسکے جواب پر وہ ریلیکس ہوئی۔یہ تو اچھا ہوا نہی تو تمہارے لیے مشکل ہو جاتی۔

اس نے بھی سمجھ کر سر ہلایا۔

تم بتاؤ تمہاری ساس کی طبیعت کیسی ہے اب؟؟اس نے اپنے آنسو صاف کر کے اس کی ساس کے بارے میں پوچھا۔

ڈاکٹرز کے مطابق ان کا ٹیومر لاسٹ سٹیج پر تھا کافی عرصہ علاج کرانے پر بھی وہ صحت یاب نہ ہوسکیں اور خالقِ حقیقی سے جا ملی۔

اوہ!!  بڑا افسوس ہوا سن کر اللہ انہیں جنت الفردوس میں آعلی مقام عطا فرماۓ آمین۔

کب تک ہو یہاں اس نے حجاب سے پوچھا۔

ابھی کچھ دن رہوں گی یہاں افہام حیدرہ آباد کسی کام سے گۓ ہیں کہ رہے تھے آکر لے جاؤں گا تب ےک تم اپنہ امی کہ گھر رہ لو افہام کا زکر کرتے ہوۓ اس کے چہرے پر الگ ہی چمک تھی 

۔

آہلہ نے اسکی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی۔

وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ابھی اس نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ پھوپھو شروع ہوگئیں شائد انہیں چچی سے معلوم پر گیا تھا اس کے جانے کا۔

مل گئ فرصت سیر سپاٹے سے بیبی تو کچن کو بھی دیکھ لو ۔

وہ سرد سانس خارج کر کے بغیر جواب دیے کچن میں چلی گئی وہ ان کو یہ نہی کہہ سکتی تھی کہ مروہ بھی تو سارا سارا دن اپنی دوستوں کے پاس گزارتی ہے۔

کھانا ٹیبل پر لگا کر وہ سب کو بلانے چلی گئی۔

ساجد صاحب بزنس میں کسی مسلے کے لیے لاہور گئے ہوۓ تھے۔

معمول کے مطابق اس نے سب کے لیے باشتہ بنایا۔

سب خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے مروہ نے شہری کو سمیر کے بارے میں بتایا۔

شہری وہ بہت شرمندہ ہے اپنی اس دن والی حرکت پر اس نے آہلہ کی طرف دیکھ کر کہا جس کا چہرہ خوف سے سفید پر گیا ۔

اس کے سفید چہرے کو دیکھ کر وہ مکاری سے مسکرائی ۔

دیکھو شہری یہ سب تو ہمارے سرکل میں عام ہے۔

تم لوگ کسی کی بات کر رہے ہو ابھی مروہ آگے کہتی کہ پھوپھو نے آہلہ کے چہرے کا اڑا رنگ دیکھ کر مشکوک لہجے میں پوچھا۔

مروہ نے ساری بات بتا دی ۔

اور ریلیکس ہو کر دیکھنے لگی کیوں کہ آگ تو وہ لگا چکی تھی اب بس تماشا دیکھنا تھا۔اس نے بات جان بوجھ کر اس وقت کی تھی جب سب موجود ہوں۔۔۔۔۔وہ جانتی تھی کہ یہ بات جب مامی اور امی کو پتا چلے گی تو وہ اسے خوب سنائیں گی 

پھوپھو آہلہ کی طرف بڑھی تھیں شہروز نے ان کے ارادے کو سمجھ کر جلدی سے کہا 

اس میں اس کا کوئی قصور نہی ہے وہ تو کمرے میں جانا چاہتی تھی لیکن میں نے ہی اسے کھانا سرو کرنے کے لیے روک لیا تھا۔

وہ شہروز کے پیچھے تھر تھر خوف سے کانپ رہی تھی۔

تم نہی جانتے اس گھنی میسنی کو ضرور اس نے ہی اس لڑکے کو کوئی اشارہ دیا ہو گا ورنہ وہ کیوں اس کے پیچھے آتا۔۔۔۔۔۔یہ کونسا حور پری ہے کہ اس کے اشارے کے بنا ہی وہ اس کے پیچھے آگیا ۔۔۔۔۔۔ ضرور اس منہوس نے ہی کوئی اشارہ دیا ہو گا 

انہون نے اسے اس کے پیچھے سے نکالتے کہا۔

پھوپھو میرے بال چھوڑ دیں اس نے درد سے کہراتے اپنے بال ان سے چھڑواتے کہا۔

اب بڑا درد ہو رہا ہے تب شرم نہ آئی جب اس لڑکے کو کچن میں بلوایا تھا چچی نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

وہ بے یقینی سے ان کے خود پر لگاۓ الزامات سن رہہ تھی۔

اسے اتنا تو پتا تھا کہ وہ اسے پسند نہیں کرتیں لیکن کیا وہ اس کے کردار کو لے کر اتنی بے یقین تھیں یہ اسے آج معلوم ہوا تھا۔

اس کے بالوں کا درد بھی کہیں پیچھے جا سویا تھا اس درد کے جو اسے اپنے دل میں محسوس ہو رہا تھا ان کی اس قدر بے اعتباری پر۔

وہ تو اسے اور بھی کچھ کہہ رہی تھیں اسے کچھ سنائی ہی نہی دے رہا تھا اور پھر وہ چکراتے سر کے ساتھ بے ہوش ہوگئ۔

دو دن بعد اسے ہوش آیا تھا۔ابھی بھی وہ ہسپتال کے بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی۔

اب کیسی ہو؟؟شہوز نے  پوچھا

زندہ ہوں  جواب کسی بھی احساس سے عاری تھا

تمہیں پتا ہے ہم سب کتنے پریشان ہو گۓ تھے۔بابا بھی تمہارا سن کر آگۓ ہیں واپس ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے گھر گۓ ہیں۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا تو اور شرمندہ ہو گیا۔۔۔۔۔وہ اس سب کا زمہ دار خود کو سمجھ رہا تھا۔۔۔۔چاہے وہ کتنا ہی اسے ناپسند کرتا تھا لیکن اسے اس پر اعتبار تھا کہ وہ کبھی کوئی ایسا کام نہی کر سکتی جس سے ساجد صاحب کا سر شرمندگی سے جھک جاتا

آہلہ میں مروہ کی طرف سے معافی مانگتا ہوں اس کا بھی ایسا کوئی انٹینشن نہی ہو گا۔

وہ استہزایہ ہنسی۔

آپ کو میری کیوں فکر ہو رہی آپ کو بھی باقی سب کی طرح افسوس ہونا چاہیے کہ میں زندہ بچ گئی۔

ایسی کیوں باتیں کر رہی ہو ۔

مجھے کچھ دیر اکیلے رہنا ہے اسنے منہ دوسری طرف کر لیا۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

تم نے ماما اور پھوپھو کے سامنے اس واقعی کا زکر کیوں کیا اس نے مروہ کا بازو اپنی گرفت میں لیتے ہوۓ سوال کیا۔

وہ جو پارٹی پر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی اس افتادہ پر گبھرا گئی پھر سنمبھل کر اپنا بازو اس سے چھرواتی  بولی۔

مجھے کیا پتا تھا یہ سب ہو جاۓ گا مجھے تو خود گلٹی فیل ہو رہا ہے کہ مجھے یہ بات ان کے سامنے نہی کرنی چاہیے تھی ۔

اس نے معصوم سی شکل بنائی۔

کیسی ہےاب وہ؟؟ ماموں بتا رہے تھے ہوش آگیا ہے اسے۔

ہاں آگیا ہے لیکن وہ اس سخت خفا لگ رہی ہے ہم جتنا بھی اسے برا بھلا بولیں لیکن یہ میں نے کبھی نہی چاہا تھا ۔تمہیں پتا ہے اسے نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا ۔اور مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اس سب کی وجہ میں ہوں۔۔۔۔وہ سچ میں شرمندہ لگ رہا تھا

مجھے بھی اسکے ساتھ ہمدردی ہے لیکن اس میں تمہارا کوئی قصور نہی ہےاس نے مصنوعی ہمدردی سے کہا

میرا ہی قصور ہے مروہ اگر اس دن میں اس کمینے کو نہ بلاتا تو آج وہ ہسپتال نہ ہوتی وہ سخت شرمندہ دکھائی دے رہا تھا۔

اچھا اسے چھوڑو بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں اسے اس کا زکر پسند نہ ایا تو بات بدل دی ۔

تم کہاں جا رہی ہو اس نے اس کے حلیہ کو دیکھ کر کہا۔

بلیو پینٹ پر ریڈ شرٹ پہنے ڈارک ریڈ لپ سٹک لگاۓ بال کھلے چھوڑے وہ کسی کا بھی ایمان ڈگمگانے کو تیار کھڑی تھی۔

اس نے اس کا سوال نظر انداز کیا۔

دوست کی طرف جا رہی ہوں اس کےجواب نہ دینے پر اس نے منہ بسورا۔

ہمیشہ کی طرح پیاری لگ رہی ہو۔اس نے اس کی بالوں کی لٹ کو پکڑتے ہوۓ کہا۔

مروہ تو اسکی تعریف پر کھل اٹھی۔

اس سے پہلے کہ وہ کوئی گستاخی کرتا ساجد صاحب نے دروازہ ناک کیا۔

مروہ کا موڈ خراب ہو گیا۔

شہری نے اسے دور کر کے دروازہ کھولا تو سامنے بابا کھڑے تھے۔

ارے برخودار تم یہاں تم تو ہسپتال تھے انہون نے حیرانگی سے پوچھا۔

جی بابا میں ہسپتال ہی تھا آہلہ کو نرس نے انجیکشن لگا دیا تھا تو وہ سوگئی میں نے سوچا تب تک گھر کا چکر لگا آؤں۔

صحیح اور بیٹا تم کیسی ہو انہوں نے مروہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔

میں بلکل ٹھیک ماموں جان ۔

اس کو کیا ہونا تھا بابا ،،یہ سوال تو آپ کو مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا ۔

کیوں بیٹا جی انہوں نے حیرانگی سے پوچھا

کیونکہ آپ کی اس بھانجی پلس میری کزن کم چڑیل نے میرا سارا خون پی لیا دیکھے تو میں کتنا کمزور ہو گیا ہوں اس نے مسکینی صورت بنائی۔

وہ اس کےجواب پر ہنس دیے۔

بھئ یہ تو تم دونوں کا معاملہ ہے مجھ بوڑھے کو تو اس سے دور ہی رکھو انہوں نے مسکرا کر کہا۔

آپ کہاں سے بوڑھے ہیں ماموں اس ایج میں بھی آپ اتنے ہینڈسم لگتے ہیں آپ کے لیے تو آج بھی رشتوں کی لائن لگ جاۓ اس نے شرارت سے کہا۔

یہ بات اپنی ممانی کے سامنے مت کرنا نہی تو مجھے گنجا کر دیں گی انہوں نے مسکینی شکل بنائی جیسے کے وہ سچ میں گنجا کر دیں گی۔

اب ایسی بھی بات نہی ہے بابا  میں ماما کو بتاؤں گا ۔

آیا بڑا اپنی ماں کا چمچہ انہوں نے برا سا منہ بنایا تو وہ دونوں ہنس دیے۔

ایک دن اسے انڈر ابزرویشن رکھ کر ڈاکٹرز نے آج اسے ڈسچارج دیا تھا اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کہ انہیں ہر ٹینشن سے دور رکھیں نہی تو انکی صحت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔

ایک بار پھر اپنی زات پر لگےتمام الزامات یاد کر کے آنسو ابل ابل کر آنکھوں سے نکل رہے تھے۔

ساجد صاحب تو پریشان ہوگۓ کیونکہ یہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے تھے۔

ارے بیٹا تم پریشان مت ہو لوگ تو ہوتے ہی باتیں کرنے کے لیے ہیں ان کی باتوں کو دل پر نہی لگاتے۔انہوں نے جو انہیں بتایا گیا تھا  (کسی محلے کی عورت نے اسے طلاق کا طعنہ دیا جس کو اس نے دل پر لگا لیا اور اپنی طبعیت خراب کر لی) اسے کے مطابق سمجھایا۔

آہلہ سمجھ گئی کہ ان سے بات چھپائی گئی ہے۔

اس نے بھی اس ڈر سے نہ بتایا کہ کہیں وہ بھی اسے ہی نہ الزام دیں۔

گھر پہنچتے ہی اسے اس کی طبعیت کے پیش نظر کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔

چچی اور پھوپھو نے بھی چچا کی وجہ سے مروتاً پوچھ لیا تھا۔

مجھے سچ میں نہی پتا تھا کہ یہ سب ہو جاۓ گا ورنہ میں کبھی یہ بات نہ کرتی اس نے جھوٹی ہمدردی دکھائی۔

کوئی بات نہی اسنے کہا ۔

شہری اسے آرام کی ضرورت ہے ہم چلتے ہیں تاکہ وہ آرام کر سکے۔

شہری کے جاتے ہی وہ اس کے پاس آئی اور کان کے جھکتے ہوۓ کہا

میرے شہری سے دور رہنا ورنہ اس سے برا حال کروں گی کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہی رہو گی۔

مروہ کی دھمکی پر اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا اندیشہ ظاہر کیا

یہ آپ نے سب کیا تھا اس کا میرا ہاتھ پکڑنا سب کچھ پوچھتے ہوۓاس کہ آواز کانپ رہی تھی

ہاں وہ بغیر شرمندگہ کہ بولی

آج کل ہم لوگ اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ کسی کا دل دکھا کر ایک بار بھی ہمیں ندامت نہی ہوتی بلکہ ہم تن کر اپنی غلطی کو مانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہمارا کہنا کہ ہم لوگ زندہ دل لوگ ہیں یہ غلط ہے ۔۔۔۔۔ زندہ دل تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔۔۔۔ 

لیکن کیوں

فلیش بیک

وہ اپنے دھیان میں اندر آرہی تھی کہ باہر جاتے ہوۓ شہری سے ٹکرائی ،،شہری نے اسے گرنے سے بچانے کے لیے کمر میں ہاتھ ڈال کر سہارا دیا اس نے بھہ اس لے لندھے کو گرنے کے ڈر سے پکڑا ہوا تھا۔اتفاق سے مرہ سیڑھیاں اتر رہی تھہ کپ اس نے یہ منظر دیکھ لیا اور اسے لگا کہ آہلہ اب شہری لے پیچھے ہے اس لیے اس نے اپنے دوست سمہر کو کال کیاور یہ سب کرنے لو کہا اسے تو یہ تھا کہ شہری آہلہ کو ہی برا بھلا کہے گا لیلن یہاں سب الٹا ہو گیا اور شہری نے سمیر کو پیٹنا شروع کر دیا۔

پھر اگلی صبح اس نے آہلہ کو شہری لے لمرے سے نکلتے دیکھ لیا تھا ۔

اس کے اندر آگ جل رہی تھی ۔اس نے جان بوجھ کو سب کے سامنے بات چھیری ۔

حال

مجھے شہروز بھائی نے گرنے سے بچایا تھا ایسا کچھ بھی نہی ہے جیسا تم سوچ رہی ہو ۔

اس نے بہتے آنسو  کے ساتھ اپنی صفائی  دینے کی کوشش کی۔

اب تو تم بہانے بناؤ گی ہی لیکن میں پھر وارن کر رہی ہوں شہری سے دور رہو وہ اسے انگلی اٹھا کر وارن کرتی چلی گئ ۔

آہلہ کو آج شدت سے اپنے والدین کی کمی محسوس  ہو رہی تھی۔وہ ان کی تصویر کو تکیے کے نیچے سے نکال کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔

     ؎ اپنوں میں بھی غیروں کا عکس دکھتا ہے

        جب اپنے  ہی  زخموں  کا  سبب  بنتے  ہیں

اسے گھر آۓ دو دن ہونے کو تھے ۔چچی اور پھوپھو اسکے بعد سے اس کے کمرے میں نہی آئی تھیں۔کھانا وغیرہ اسکے کمرے میں ہی آجاتا تھا اور چچی نے بھی اسے کام کے لیے نہ بلایا تھا۔شائد چچا کی وجہ سے ۔

آج چچا اسے ناشتے کے لیے بلانے آۓ تھے کہ وہ سب کے ساتھ ناشتہ کرے۔وہ چچا کے ساتھ ٹیبل  پر آئی تو اسے دیکھ کر چچی پھوپھو اور مروپ کا منہ بن گیا تھا لیکن چچا کی وجہ سے کسی نے کچھ کہا نہ تھا۔

وہ ناشتہ کرکے برتن اٹھانے لگی تھی کے چچا بولے

بیٹا آپ کو آج سے کام کرنے کی ضروتت نہی ہے آپ کی شادی کے بعد آپ کی چچی نے ملازمہ رکھی تھی

اس نے ہاتھ روک کر چچی کو دیکھا جنہیں یقیناً ان کی بات پسند نہ آئ تھی۔

لیکن ساجد صاحب شادی سے پہلے بھی یہی کام کرتی تھی وہ تو اس کی شادی پر میں نے مالازمہ رکھی تھی تو اس کے آنے کے بعد میں نے اسکی چھٹی کر دی۔

تو آپ اسے دوبارہ بلا لیجیے لیکن آج سے آہلہ بھی کوئی کام نہی کرے گی اور اگر آپ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں گھر میں ہونے والے واقعات سے بے خبر ہوں تو یہ آپ سب کی غلط فہمی ہےانہوں نے چچی اور پھوپھو کو چھپے الفاظ پر  تنبیہ  کی۔

پھوپھو اور چچی تو پہلو بدل کر رہ گئیں۔

وہ آہلہ کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر چلے گۓ۔

تم نے بتا یا ہے نہ انہیں تم نے انہیں ہمارے خلاف باتیں بتائی ہیں نہ انکے جاتء ہی پھوپھو اس کے سر پوئیں۔

نہی پھوپھو میں نے انہیں کچھ بھی نہی بتایا اسے نے ڈر کر جواب دیا۔

شمع جانے دو اسے

بھابی آپ نے اسے جانے کو کیوں کہا کہیں آپ کو بھی توو اس سے ہمدردی نہی ہو گئی۔

نہی ایسی کوئی بات نہی ہے  مجھے نہی لگتا کہ اس نے ساجد صاحب کو کچھ بتایا ۔

آپ کو ایسا کیوں لگتا ؟؟

کیونکہ وہ ایسا بلکل بھی نہی چاہے گی ساجد صاحب اسے برا سمجھے ،،،انہیں یہ بات کسی اور سے معلوم ہوئی ہے۔

لیکن کس نے بتایا ہو گا بھائی صاحب کو انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔

جواب میں وہ کندھے اچکا گئیں۔

گھر کے سارے کام اب ملازمہ ہی کرتی تھی۔ساجد صاحب کے سامنے وہ اسے کچھ کہتی تو نہ تھیں لیکن ان کی غیر موجودگی میں اسے خوب سناتی تھیں۔گھر میں فارغ رہ کر وہ بور ہو جاتی تھی۔شہروز نے کافی دفع اس کی خیرہت پوچھی تھی لیکن اس نے بے رخی سے جواب دیا۔

موبائل اس کے پاس تھا نہی کہ وہ حجاب سے بات کر سکتی  ۔

بارہ بجے کا وقت تھا ۔ساجد صاحب سٹدی روم سے باہر نکلے تو لان میں کسی کے بیٹھنے کا وہم ہوا تو وہی آگۓ۔

۔سردیوں کا وسط تھا اور شام کو تو سردی مزید بڑھ جاتہ تھی ایسے میں وہ بغیر شال کے بیٹھی ہوئی تھی۔ شائد اسے یہ موسم پسند تھا جو اسے سردی فیل نہی ہو رہی تھی یا پھر اس کے اندر کوئی احساس ہی نہ باقی تھا۔

ساجد صاحب نے اسے اپنی شال اوڑھائی تو وہ چونکی۔

چاچو آپ ؟؟

جی میں ،،آپ اتنی سردی میں یہاں کیا کر رہی ہو؟؟

نیند نہی آرہی تھی چاچو

جواب دے کر وہ خاموش ہو گئی۔

بیٹا میں جانتا ہوں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے،،، نہی بلکہ شروع سے ہوتی آئی ہے اور اس میں میری زات بھی شامل تھی۔

لیکن آپ نے تو مجھے کبھی منحوس نہی کہا تھا۔

(ساجد صاحب اس سے بات نہی کرتے تھے شروع سے ہی لیکن اسے منحوس بھی نہ کہا تھا کبھی۔)

میں نے بے شک نہی کہا تھا لیکن کسی کو روکا بھی تو نہی کہنے سے ان کا اشارہ سب کی طرف تھا۔

اس میں آپ کا کوئی قصور نہی میں ہی منحوس تھی کہ میرے پیدا ہوتے ہی ماما اور بابا اس دنیا سے چلے گۓاور آپی مروہ کے ابو بھی اس نے روتے ہوۓ کہا۔

یہ سب ہمارے دماغ کا فتور ہے ،،ہر شحص کے موت کا وقت مقرر ہے انہوں نے اسے سمجھایا۔

لیکن وہ تو مجھے ہی اس کی وجہ سمجھتے ہیں

ایک دن وہ تمہارا یہ شکوہ بھی ختم ہو جاۓ گا چلو اب اندر چلو سردی بڑھ گئی ہے۔

وہ کمرے میں ظہر کی نماز پڑھ رہی تھی کہ شکیلہ (ملازمہ ) نے اسے حجاب کے آنے کی اطلاع دی

اس نے جانماز جگہ پر رکھی اور باہر آگئی۔

کیسی ہو تم ؟؟اس نے آگے بڑھ کر حجاب کو گلے لگایا۔

اسے دیکھ کر پھوپھو منہ بنا کر وہاں سے چلی گئیں۔

میں ٹھیک ہوں   تم کیسی ہو؟؟

میں بھی ٹھیک ہوں ۔

آؤ کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں۔

شکیلہ خالہ چاۓ میرے کمرے میں لے آئیے گا

جی بی بی جی

خالہ کتنی دفع کہا ہے مجھے بی بی جی مت بولا کریں اس نے خفگی سے کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا جی

وہ مسکرا دی

پیچھے شکیلہ خالہ نے اسے ڈھیروں دعائیں دی۔

تمہیں میری یاد کیسے آگئ وہ شکوہ کناں ہوئ۔

ایسی بات نہی ہے تم تو جانتی ہو اپنی پھوپھو اور چچی کو انہیں تمہارا کسی سے ملنا اور کسی کا تم سے ملنے آنا پسند نہی اسی لیے میں نہی آئی۔

تو پھر اب بھی نہ آتی وہ ہنوز خفا تھی۔

شام کو افہام مجھے لینے آنے والے ہیں ان کو کپنی باہر بھیج رہی ہے کچھ عرصے کے لیے وہ مجھے بھی ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں دو دن بعد ہماری فلائیٹ ہے میں نے سوچا تم سے ملتی جاؤں پھر نا جانے کب ملاقات ہو۔

اس نے وضاحت دی ۔

اب تو ناراضگی ختم کر دو ۔

ٹھیک ہے کیا یاد کرو گی کس سخی سے پالا پڑا ہے۔

شکریہ جہاں پناہ 

وہ دونوں ہنس دیں

اتنے میں شکیلہ خالہ چاۓ لے آئیں۔

اللہ تمہیں یونہی مسکراتا رکھے انہوں نے اسے ہنستے دیکھ دعا دی۔

آمین

اس نے آگے بڑھ کر حجاب کو چاۓ پکڑائی۔

تم بتاؤ کیا کرتی ہو آج کل اس نے چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ آہلہ سے  پوچھا

کچھ خاص نہی گھر میں بور ہوتی رہتی ہوں

ہیں!!یہ معجزہ کب ہوا

جب سے چچا کے کہنے پر چچی نے ملازمہ رکھی ہے گھر کے کام کے لیے تب سے 

پھر تو کمال ہو گیا۔

تو تم اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے کچھ کرتی کیوں نہی ہو؟؟

کیا کروں تم ہی بتا دوکیوں کہ میں تو تھک گئی ہوں سوچ سوچ کر

تم نے اپنی ڈگری کیا صرف چاٹنے کے لیے رکھی ہے

کیا مطلب وہ نا سمجھی سے بولی

بدھو اس کو استمعال میں لاؤ ۔

اس نے اس کے سر پر چپٹ لگائی۔

میں ابھی بھی نہی سمجھی حجاب ۔

حجاب کا اس کی عقل پر ماتم کرنے کا دل چاہا

ارے میری عقل سے پیدل پیاری دوست میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ تم کہیں کوئی جاب کر لو ۔

تم جانتی ہو مجھے جاب وغیرہ میں کوئی انٹرسٹ نہی ہے

تو اب انٹرسٹ لے لو وہ بضد ہوئی

اس نے اسے گھورا

مجھے ایسے گھورنے سے کچھ نہی ہو گا جو میں نے کہا ہے اس کے بارے میں سوچنا ضروراس سے تمہاری بوریت بھی ختم ہو جاۓ گی اور تمہارا مائنڈ بھی فریش رہے گا۔

کچھ سوچ کر اس نے پوچھا

جاب کونسی؟؟

کوئی بھی کر لینا ویسے میری مانو تو کسی سکول میں ٹیچنگ کر لو اس کہ ٹائمنگ بھی صحیح ہوتی ہے اور برڈن بھی اتنا نہی ہوتا ہے۔

شکیلہ خالہ نے حجاب کے ابو کی آمد کے بارے میں

بتایا تو وہ اسے الوداع کرنے کے لیے ساتھ ہی باہر آئی

۔لاؤنج میں انہیں مروہ مل گئی۔

اسلام علیکم کیسی ہو مروہ؟؟

میں بلکل ٹھیک تم سناؤ کیسی ہو  ؟؟

میں الحمدللہ ٹھیک ۔

جارہی ہو تھوڑی دیر رک جاتی

نہی میں کافی وقت کی آئی ہوئی تھی ۔

چلو ٹھیک ہے پھر  وہ ہاتھ ملا کر چلی گئی۔

میں بھی چلتی ہوں اب تم اپنا خیال رکھنا اور جو میں نے کہا اسکے بارے میں ضرور سوچنا اوکے۔

تم بھی اپنا خیال رکھنا ۔

کمرے میں آکر وہ جاب کے بارے میں سوچنے لگی۔

جب کچھ سمجھ نہ لگی تو کچن میں چلی گئی۔

خالہ کوئی کام ہے تو مجھے بتائیں میں کر دیتی ہوں۔نہی بیٹا سب ہو گیا ہے یہ تو میں شہروز بابا کے لیے چاۓ بنا رہی تھی ان کے سر میں درد ہو رہا تھا انہوں نے چاۓ کپ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔

او اچھا۔

وہ چاۓ لے کر کچن سے نکل رہی تھیں کہ شمع بیگم نے آواز لگائی۔

بیٹا تم یہ شہروز بابا کو دے آؤ اگر میں ان کو چاۓ دینے کے لیے چلی گئ تو دیر ہو جاۓ گی اور پھر بیبی جی مجھ پر غصہ کریں گی انہوں نے التجا کی۔

وہ جو انکار کرنے لگہ تھی ان کی پریشانی پر چپ ہو گئی۔

اسے شہروز سے کوئی خار نہ تھا بلکہ  جس طرح اس نے ہسپتال میں اس کا خیال رکھا تھا وہ اس کے لیے مشکور تھی اور اس کے دل میں اس کے لیے جو بدگمانی تھی وہ چھٹ گئی تھی۔وہ اس سے دور دور اس لیے رہتی تھی کہ وہ دوبارہ اپنی زات پر کوئی الزام نہی لگوانا چاہتی تھی۔

بہرحال وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی ٹرے میں چاۓ کے ساتھ درد کی گولی بھی رکھ لی۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

دروازہ کھلا ہوا تھا یعنی وہ شکیلہ خالہ کا انتظار کر رہا تھا۔

وہ کمرے میں گئی تو وہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا ہوا تھا ۔ اس نے سائڈ ٹیبل پر ٹرے رکھی اور گلا کھنگارا۔

آواز پر اس نے بازو آنکھوں سے ہٹایا ۔

چاۓ اس نے چاۓ کی طرف اشارہ کیا ۔شکیلہ خالہ بزی تھیں اس لیے میں لے کر آگئی چاۓ کے ساتھ درد کی گولی ہے وہ بھی کھا لینا۔

اپنی بات کہہ کر وہ اسے بولنے کا موقع دییے بغیر چلی گئی۔

اور وہ حیران سا اسے دیکھتا رہ گیا۔

کافی دن تک وہ اس بارے میں سوچتی رہی ۔آخر اس بوریت سے تنگ آکر اسنے ایک فیصلہ کیا۔

چاچو میں اندر آجاؤں اس دروازہ ناک کرکے اجازت چاہی۔

آجاؤ بیٹا انہوں نے اسے دیکھ کر فائل بند کر دی۔

وہ شہروز کو بھی اندر دیکھ کر وہی رک گئی ۔اس کے مطابق تو اس وقت سٹڈی روم میں صرف چاچو کو ہونا چاہیے تھا۔

اسے ایک جگہ رکے دیکھ کر انہوں نے اشارے سے پاس بلایا۔

وہ ان کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی۔

ایسی کیا بات ہے جو آپ کو آج سٹدی روم کا رخ کرنا پڑا ۔

چاچو میں جاب کرنا چاہتی ہوں اس نے ہمت کرکے بات شروع کی۔

وہ جو اس کے آنے پر خود کو موبائل میں بزی شو کروا رہا تھا تاکہ وہ کھل کر بات کر سکے چونکا۔

بیٹا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتاؤ اگر کسی نے کچھ کہا ہے تو پھر بھی بتاؤ ۔

چاچو مجھے کسی چیز کی ضرورت نہی ہے اور نہ ہی کسی نے مجھے کچھ کہا ہے۔وہ سانس لینے کے لیے رکی۔میں سارہ دن گھر بور ہو جاتی ہوں ہوں اس لیے میں جاب کرنا چاہتی ہوں اور کوئی وجہ نہی ہے۔اس نے ان کا ہاتھ پکر کر وضاحت کی۔

کس قسم کی جاب کرنا چاہتی ہو اب کہ شہروز نے پوچھا۔

میں ٹیچنگ کرنا چاہتی ہوں ۔

ہمم اس نے پرسوچ انداز میں کہا۔

چاچو کیا آپ کی اجازت ہے اس نے آس سے پوچھا۔

اگر تم یہ اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے کرنا چاہتی ہو تو پھر اجازت ہے۔

تھینکیو سو مچ چاچو تھینکیو سو مچ چاچو یو آر گریٹ اس نے ایکسائٹمنٹ سے ان کا ہاتھ چوم ڈالا۔

شہروز تو اسے آج پہلی دفع اتنا خوش دیکھ رہا تھا اسے ہنستے دیکھ اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی جس کا اندازہ اسے خود بھی نہ ہوا۔

ساجد صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

وہ جانے کے لیے پلٹی تھی کہ شہروز کی آواز پر مڑی۔

کل اپنی سی وی تیار رکھیے گا ۔میرے دوست کی مما کا سکول ہے کافی مشہور بھی ہے میں کل آپ کو وہاں لے جاؤں گا ۔

میں اپنی قابلیت پر سلیکٹ ہونا چاہتی ہوں۔

یو ڈونٹ وری وہ تمہاری قابلیت کو دیکھ کر ہی تمہیں سلیکٹ کریں گے۔

اس کے مقابل آکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔اس کی آنکھوں میں آج آہلہ کو کچھ نیا محسوس ہوا تھا جس کو وہ سمجھ نہ سکی اور سر جھٹک کر سر ہلا دیا۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

الارم کی آواز پر اس نے کسلمندی سے آنکھ کھولی۔ اسے یاد آیا کہ آج اسے شہروز کے ساتھ انٹرویو کے لیے جانا ہے تو وہ جلدی سے بستر سے اٹھی۔وضو کہا اور نماز ادا کی۔پھر انٹرویو کے لیے کپڑے دیکھنے لگی ۔کپڑے سلیکٹ کرنے میں اسے ہمیشہ ہی مشکل پیش آتی تھی۔پانچ منٹ بعد وہ کپڑے لے کر واش روم میں گھس گئی۔

اس نے ساجد صاحب کو سلام کیا تو شہروز نے اسے دیکھا ۔وہ پنک فراق کے ساتھ سفید چوری دار چاجامہ پہنے پنک ہی جیکٹ پہنے بالوں کو حجاب سے کور کیے سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔اسے دیکھ کر اس کے دل کہ رفتار تیز ہوئی تھی۔

جبکہ آہلہ خاموشی سے اپنا ناشتہ کرنے میں مگن تھی

۔شہروز کہ نظر بار بار اس کی طرف اٹھ رہی تھی جسے دیکھ کر مروہ کا سیروں خون جل رہا تھا۔وہ غصے سے ناشتہ چھوڑ کر چلی گئی کسی نے بھی اس کا نوٹس نہ لیا۔

تم اپنے ڈاکومنٹس لے آؤ تب تک میں گاڑی نکالتا ہوں ۔

یہ کہاں جا رہی ہے چچا کی موجودگی میں چچی نے زرا دھیمے لہجے میں ہی پوچھا  

آہلہ ٹیچنگ کرنا چاہتی ہے اسی سلسلے میں شہروز اسے لے کر جا رہا ہے۔

ان کے سامنے تو وہ چپ ہو گئیں  لیکن دل میں ان کے اجازت دینے پر سانپ لوٹ رہے تھے۔یہی حال شمع بیگم کا تھا۔

شمع بیگم مروہ کے کمرے  میں گئیں تو وہ اوندھے منہ لیٹے رو رہی تھیں ۔وہ جلدی سے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھی اور اس کو سیدھا کیا۔

کیا ہوا مروہ تم رو کیوں رہی ہو انہوں نے بے چینی سے پوچھا وہ بھلا اپنی اکلوتی بیٹی کی انکھوں میں آنسو کیسےدیکھ سکتی تھیں۔

اس کی طرف سے ہنوز خاموشی تھی۔

دیکھو مروہ کیوں مجھے پریشان کر رہی ہو کچھ بتاؤ تو

ماما وہ آہلہ شہری کو مجھ سے چھین لے گی۔اس نے روتے ہو ۓ اپنی خاموشی کر توڑا۔

ایسا تم کیوں کہہ رہی ہو ؟؟ماما آج صبح شہروز بار بار اسی کی طرف دیکھ رہا تھااس نے صبح کا واقعی یاد کرتے ہوۓ کہا۔

مروہ میری طرف دیکھو انہوں نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے ہوۓ کہا تم اس بات کو لے کر رورہی ہو شہروز صرف تمہارا ہے اسے تم سے کوئی نہی چھین سکتا اور وہ منحوس تو کبھی نہی۔پہلی بات تو شہروز ہی ایسا کچھ نہی کرے گا اور دوسری بات اگر اس نے ایسا کچھ کہا بھی تو تمہاری ممانی ایسا کچھ ہونے ہی نہی دیں گی۔کیا تم جانتی نہی ہو اپنی مممانی کو وہ کبھی بھی آہلہ کو اپنی بہو کے طور پر قبول کبھی نہی کریں گی۔

انہوں نے اسے حوصلہ دیا ۔

چلو شاباش اپنا منہ صاف کرو میری بیٹی ایسے روتے ہوۓ بلکل اچھہ نہی لگ رہی انہوں نے پیار سے کہا۔

تو وہ منہ دھونے چلی گئی ۔

دور کھڑی قسمت نے ان کی باتوں کو سنا تھا اور مسکرا دی۔اب یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا کہ شہروز کس کا محرم بنے گا اس کے دل پر کون راج کرے گی۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

وہ خاموشی سے گاڑی سے باہر دوڑتے مناظر کو دیکھ رہی تھی۔شہروز ڈرائیونگ کے دوران گاہے بگاہے اسے بھی دیکھ رہا تھا۔بلڈنگ کے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کرکے اس نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔

وہ تو سکول کی اتنی عمدہ عمارت دیکھ کر خوشگوات حیرت میں تھی۔مختلف کاریڈور سے گزر کر وہ اسے پرنسپل آفس لے کر پہنچا ۔

یس کم ان اندر سے آواز آئی۔

اسلام علیکم انہوں نے مشترکہ سلام کی

وعلیکم سلام آپ یقیناً مسٹر شہروز ہیں ائم رائٹ پرنسپل نے اپنا چشمہ ناک پر کرتے ہوۓ کہا۔

(یہ ہیں پرنسپل میڈم سلمہ عمر 45 سال )

جی میں شہروز ہوں اور یہ آہلہ ہیں ۔

ہمم تو یہ یہاں جاب کرنا چاہتی ہیں 

۔

جی آہلہ نے کہا

اپنی سی وی دیں آپ ۔

آہلہ نے اپنہ سی وی انہیں پکڑائی

ہمم کوالیفیکیشن تو آپ کی اچھی ہے ۔اور ہمیں ایک ٹیچر کی ضرورت بھی ہے تو آپ کس کلاس کے بچوں کو پڑھانے میں انٹرسٹڈ ہیں ۔

کے جی بچوں کو

آر یو شور کے آپ کر لیں گی کیوں کہ کم ٹیچرز ہی چھوٹےبچوں کو پڑھانے کے لیے خود کو پیش کرتی ہیں۔

جی میں کر لوں گی اس نے اعتماد سے کہا 

اوکے دین آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں آپ کہ پے پچیس ہزار ہو گی اور سکول کی ٹائمنگ 8 سے 2 بجے ہے۔باقی کے معاملات آپ یہاں پر رہ کر سیکھ لیں گی۔

جی شکریہ۔

کانگریجولیشنز اس نے پرنسپل کے آفس سے نکلتے اسے مبارک دی۔

تھینکیو اس نے یک لفظی جواب دیا۔

تم کیا مجھ سے ناراض ہو 

اس نے اسکے یک لفظی جواب پر کہا

نہی اس نے نہ میں سر ہلایا

تو پھر تم مجھ سے بات کیوں نہی کر رہی....... بات تو میں آپ سے پہلے بھی نہی کرتی تھی اس نے ایک نظر اسے دیکھ کر کہا۔پہلے کے لیے ائم سوری وہ شرمندہ دکھائی دے رہا تھا۔

وہ اسے شرمندہ نہی کرنا چاہتی تھی اس کہ شرمندگی کو ختم کرنے کے لیے اب وہ رک کر مگر دھیمے لہجے میں بولی۔ 

میرا آپ سے بات کرنا شائد کسی کو اچھا نہ لگے اس لیے نہی کرتی ۔

کسی نے تم سے کچھ کہا ہے اس نے سنجیدگی سے پوچھا 

نہی اس نے نہ میں سر ہلایا

تو پھر ہم آج سے دوست ہوۓ اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا

وہ ہاتھ کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی

اتنا کیا سوچ رہی ہو میں تمہارا کزن بھی ہوں

میں ہاتھ نہی ملا سکتی ہو اور دوسرا لڑکا اور لڑکی دوست نہی ہو سکتے 

اسے اس کی سوچ اچھی لگی تھی۔

ہمم لیکن ہم از آ کزن تو بات کر ہی سکتے ہیں

اس نے مسکرا کر سر ہلایا

وہ بھی مبہم سا مسکرا دیا

        ؎   تیری اس مسکراہٹ پر اے جاناں

               ہم اپنا دل  تجھ  پہ   ہار  بیٹھے

ایک اور صبح طلوع ہوئی تھی پرندے چہچہا رہے تھے۔آہلہ آج بے حد خوش تھی وہ آج اپن نئی منزل پر پہلا قدم رکھنے جا رہی تھی۔ وہاں اسکی  الگ پہچان ہو گی ۔

آج بھی اسے شہروز نے پک اینڈ ڈراپ دینا تھا جب تک گاڑی کا بندوبست نہی ہو جاتا۔

سنو وہ گاڑی کا دروازہ کگولنے لگی تھہ کہ شہروز نے پکارا۔

جی وہ دروازہ چھوڑ کر اسکی طرف مڑی ۔

بیسٹ آف لک اپنا خیال رکھنا اور اگر کوئی پریشانی ہوئی تو مجھے کال کر دینا ٹھیک ہے

میرے پاس موبائل نہی ہے وہ دھیمے سے بولی

کیا اس نے کیا کو لمبا کیا

تمہارے پاس سچ میں موبائل نہی ہےوہ شاک میں تھا بھلا اتنے مارڈن دور میں کسی کے پاس موبائل کا نہ ہونا واقعی شاک کی بات تھی۔

میرے پاس تھا موبائل لیکن وہ حمزہ(  سابقہ شوہر) نے لے لیا تھا اس کے شاک پر وہ بولی

اس نے سانس خارج کی

ٹھیک ہے۔میں دو بجے لینے آؤں گا تب تک تم باہر نہی نکلو گی اوکے۔

اس نے سر ہلایا ۔

جب تک وہ اندر نہ چلی گئی تب تک وہ ادھر ہی کھڑا رہا ۔

آہلہ اسکے لہجے میں اپنے لیے فکر دیکھ کر حیران تھی ۔آج سء پہلے اس نے کیا کسی نے بھی اس کی فکر نہ کہ تھی۔بس چاچو ہر ماہ اسے بیس ہزار دے دیتے تھے ۔وہ تمام سوچوں پر سر جھٹکتی پرنسپل آفس داخل ہوئی۔

اسلام علیکم میم اس نے سلام کیا

وعلیکم سلام آئیے مس آہلہ آپ تو ٹائم کہ کافی پنکچول ہیں انہوں نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا۔

وہ ہلکا سا جواب میں مسکرائی۔

انہوں نے انٹرکام پر کسی کو بلوایا۔

اس کہ عمر کی اہک لڑکی اجازت لے کر اندر داخل ہوئی۔

اسلام علیکم میم 

وعلیکم سلام مس فاریہ ۔ان سے ملیں یہ ہیں مس آہلہ انہوں نے آج ہی جوائن کیا ہے اور کے جی کے سٹوڈنٹ کو ٹیچ کریں گی اور مس آہلہ یہ آپ کو اپ کہ کلاس ٹائم ٹیبل اور رولز کے بارے میں گائڈ کر دیں گی۔

انہوں نے پہلے فاریہ اور پھر آہلہ کو بتایا کیا۔

ہاۓ میرا نام فاریہ ہے اور پیار سے سب مجھے فاری کہتے ہیں پرنسپل آفس سے نکلتے ہی اس نے اپنا تعارف کروایا۔

میرا نام آہلہ ہے۔

یہ تو مجھے بھی پتا ہے اس نے منہ بسورا۔

تمہارا کوئی نک نیم نہی ہے ؟؟

اس نےنہ میں سر ہلایا۔

ہممم چلو کوئی نہی میں رکھ دوں گی اس نے اپنے ہاتھ پر تالی مارتے ہوۓ کہا۔

آہلہ کو وہ کافی شوخ چنچل اور باتونی لگی ۔

اتنے میں اس کی کلاس آگئی۔

یہ لو آگئی تمہاری منزل اس نے کلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔

یہ دیکھو یہ ہیں تمہارے افلاطون بچے اس نے شرارت سے آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔

اس کی اس حرکت پر آہلہ ہولے سے ہنس  دی۔ 

چلو اب میں بھی چلوں میرے بچے بھی انتظار کر رہے ہوں گے۔

او ہاں اسنے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارےء ہوۓ کہا

یہ تو میں تمہیں بتانا ہی بھول گئی ۔ساتھ والی کلاس چھوڑ کر اگلی کلاس میری ہے ۔11 بجے بریک ٹائم ہوتا ہے تم وہی آجانا چلو تم رہنے دینا میں خود آجاؤں گی اور باقی سٹاف سے بھہ ملوا دوں گی۔

اپنی بات کر کے وہ اسکی طرف مسکراہٹ اچھالتی چلی گئی۔

اس کء جاتے اس نے بچوں کی طرف دیکھا جو اسے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ۔

کیسے ہو کیوٹ کیوٹ بچو اس نے ایک بچی کے پھعلو پھولے گالوں کو پیار سے کھینچتے کہا۔

فائن میم انہوں نے کورس میں کہا۔

آپ کو پتا ہے میں کون ہوں؟؟اس نے اپنا کلچ رکھتے ہوۓ کہا

نہی سب نے نہ میں سر ہلایا سواۓ ایک کے

آپ کو پتا ہے میں کون ہوں ؟؟

وہ اس کے پاس گئی۔

ہاں اس نے معصومیت سے ہاں کہہنے کے ساتھ سر بھی ہلایا۔

اسے اس کی اس ادا پر پیار آیا ۔

اس نے اس کے گالوں پر کس کی تو وہ شرما دیا۔

اچھا تو بتاؤ کون ہوں میں؟؟

آپ اس نے سوچنے کے انداز میں تھوڑی پر انگلہ رکھی۔

ہمم میں

آپ تو لڑکی ہو اس نے معصومیت سے کہا

اچھا اپس نے اچھا کو کھینچا تو اس بچے نے سر ہلا دیا۔

یہ تو آپ نے ٹھیک کہا

وہ ہنسی۔

آپ کا نام کیا ہے اس نے بچے سے پوچھا 

میرا نام ابرار ہے۔

آپ کہ طرح آپ کا نام بھی پیارا ہے۔

تو بچو میں میرا نام آہلہ ہے اور میں آپ کی نیو ٹیچر ہوں۔ہم لوگ پڑھا بھی کریں گے اور ساتھ ساتھ کھیلا بھی کریں گے۔

آپ ہمارے ساتھ کھیلیں گی ٹیچر ۔

پہلی بچی جس کے اس نے گال کھہنچے تھے نے خوشی سے پوچھا۔

جی میں بھی آپ کے ساتھ کھیلوں گی۔

آج ہم کچھ بھی نہی پڑھیں گے صرف باتیں کریں گے 

آپ سب پہلے مجے اپنا نام بتاؤ۔

میرا نام تقوی ہے میرا علی اس طرح سب نے باری باری اپنا نام بتایا۔

باتیں کرتے ہوۓ وقت کا پتا نہ چلا اور بریک کا ٹائم ہو گیا۔

چلو بچو آپ لوگ جاکر کھیلو باہر لیکن دیھیان سے کھیلنا اوکے نہ خود کو چوٹ لگوانا نہ ہی کسی کو لگانا اوکے 

یس میم۔

میم آپ ہمارے نہی کھیلیں گی؟؟اقراء نے پوچھا

آج میرا فرسٹ ڈے ہے نہ تو مجھے باقی ٹیچرز سے بھی ملنا ہے تو میں پکا آپ کے ساتھ کل کھیلوں گی۔

وہ بچون کی لائن بنوا رہی تھی کہ فاریہ تب تک فاریہ نے اپنی انٹرہ دی۔

چلو میں تمہیں باقی سب سے ملواتی ہوں۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

وہ سے لیے سٹاف روم میں داخل ہوئی جہاں دوسری ٹیچرز باتوں میں مگن تھیں۔

اس نے دیکھا وپ کوئی پندرہ بیس ٹیچرز تھیں ۔

وہ سب بھی اسے دیکھ رہی تھیں۔

ان سب کے دیکھنے پر وپ لچھ نروس ہوئی لیکن جلد اپنا عتماد بحال کر کے اس نے سلام کیا

سب نے سلام کا جواب دیا۔

تو میری پیاری پیاری ساتھیوں یپ ہے مس آہلہ انہوں نے آج ہی جوائن کیا ہے اور یہ کے جہ کی ٹیچر ہیں۔

اس نے اس کا تعارف کروایا۔

اوہ اچھا نائس ٹو میٹ یو 

ایک ٹیچر نے خوش اخلاقی سے کہا

سیم ہئیر اس نے بھی مسکرا کر کہا

بائی دا دے ماۓ نیم از صوفیہ

سب نے اپنا تعارف کروایا

سب اسے اچھی لگیں سب کی نیچر اچھی لگی اسے ماسواۓ ایک ٹیچر عمارہ کے۔وہ اسے کافی مغرور لگی۔خیر اسے کیا اس نے سب کہ خوش اخلاقی کا جواب خوش اخلاقی سے دیا۔

تعارف اور باتیں کرتے ہوۓ بریک کا آدھا ٹائم گزر گیا۔

اس کی فاریہ کےساتھ ساتھ صوفیہ سے بھی دوستی ہوگئی تھی۔یہ بھی نیچر وائز فاریہ کی طرح شوخ چنچل تھی باتونہ بھی تھی لیکن فاریہ سے کم۔

وہ دونوں امیر گھر کی تھیں اور وقت گزاری کے لیے یہ جاب کر رہی تھیں۔

وہ لوگ کینٹین سے چاٹ لے کر کینٹین میں رکھی گئی ایک ٹیبل پر بیٹھ گئیں۔

تم نے باقی ٹیچرز کی طرح کینٹین بواۓ سے وہیں کچھ کیوں نہی منگوایا۔

اس نے اپنے ذہن میں گردش کرتا سوال پوچھ لیا اس نے دہکھا تھا کہ سب نے ہی کینٹین بواۓ کو اپنا اپنا آرڈر لکھوایا تھا سواۓ ان دونوں کے۔

بقول فاریہ کے جو مزہ خود چل لر کینٹین میں آکر خود چیز لے کر یہیں بیٹھ کر کھانے میں ہے وہ وہاں بیٹھ کر نہی مل سکتا ۔

صوفیہ نے فاریہ کے الفاظ دوہراۓ۔

تو اور کیا وہاں میڈموں کی طرخ بیٹھ کر آرڈر کرو اور اسی سڑی ہوئی جگہ پر بیٹھ کر کھاؤ یہ کوئی زندگی ہے۔مزہ تو کھلے آسمان تلے کھانے میں ہے اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔

تم بتاؤ میں صحیح کہہ رہی ہوں نہ

اس نے اس کی تائد چاہی

بات تو تمہاری سو فیصد درست ہے۔

چاٹ کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوۓ ٹائم کا پتا ہی نہ چلا ۔

چلو اٹھو اب چلیں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں بریک اوور ہونے میں۔

صوفیہ نے ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا۔

ہاں چلو وہ دونوں بھی اس کہ ہمراہ ہوئیں۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

کاریڈور سے وہ لوگ ٹرن لینے لگی تھیں کے سر واصف نے مس فاریہ کو بلایا۔

کیسی ہیں مس فاریہ؟؟اس نے بے تکلفی سے پوچھا

میں بلکل ٹھیک ہوں سر واصف۔

یہ کون ہیں ان سے انٹروڈیوس نہی کروائیں گی آپ۔

اس نے آہلہ کی طرف دیکھ کر فاریہ سے کہا

جی ضرور یہ مس آہلہ ہیں ۔

سوری ٹائم ہو گیا ہے کلاس کا تو ہمیں چلنا چاہییے۔

ایسکیوزمی۔

وہ ایسکیوز کرتی انہیں لے کر آگے بڑھ گئی۔

یہ سر جو ابھی ملیں ہیں نہ ان سے زرا دور رہنا ۔یہ زرا فلرٹی ٹائپ ہیں ۔

اس نے ساتھ چلتی ہوئی آہلہ کو آگاہ کرنے کے ساتھ مشورہ بھی دیا

ہوں

چھٹی کے ووت بھی وپ تینوں اکٹھی باہر آئیں۔

وہ گیٹ کے پاس کھڑی باتیں کر رہی تھیں کپ چوکیدار نے اسے شہروز کے آنے کی اطلاع دی۔

وہ دونوں بھی اس کے ساتھ باہر آئیں۔شہروز کو گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاۓ دیکھ  وہ ان کو خدا حافظ کہتی گاڑی کی سمت چل دی۔

شہروز اسے دیکھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔

کیسا گزرا دن اس نے سکول سے گاڑی تھوڑی آگے نکال کر کہا۔

اچھا تھا۔

صرف اچھا تھا؟؟

نہی بہت اچھا گزرا میرا دن سارا سٹاف اچھا ہے ۔اس نے سرسری سا بتایا۔

اس کے بعد گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔

اسے گھر اتار کر وہ وہیں سے واپس چلا گیا تھا۔

وہ سیدھا اپنے کمرے میں گئی فریش ہو کر وپ کچن میں خالہ کہ مدد کی غرض سے گئی۔

ارے بیٹا آگئی تم 

جی خالہ 

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آئی ہوں اس نے پانی گلاس میں ڈالا۔

تو تھوڑی آرام کر لیتی تھک گئی ہو گی انہوں نے اس کا خیال کیا۔

نہی خالہ اب آرام راے کو ہی کروں گی آپ بتائیں رات کے لیے کیا بنانا ہے میں آپ کی ہیلپ کر دیتی ہوں 

اس نے ان کے ہاتھ سے سبزی لی

بیٹا آپ رہنے دو میں کر لوں گی۔

ان کے لاکھ منع کرنے پر بھی اس نے ان کہ کافی مدد کی۔

رات کا کھانا بھی سب نے خاموشی سے کھایا۔

وہ خالہ کے ساتھ ان کے منع کرنے کے باوجود برتن دھلوا کر ہی کمرے میں آئی۔

وہ اپنے آج کے دن کے بارے میں سوچنے لگی۔

آج وہ سچے دل سے مسکرائی تھی۔اسے ان دونوں کی کمپنی اچھی لگی تھی۔وہ دونوں ہی زندگی کو جینے والی تھیں۔اس اپنا جاب کا فیصلہ درست لگا تھا آج۔

شہروز فریش ہو کر کمرے میں آیا ۔

مروہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی شائد اس کا انتظار کر رہی تھی۔

تم اس وقت خیریت اس نے دیوار پر لگہ گھڑہ میں وقت دیکھتے ہوۓ کہا جو رات کے اا کا ہندسی دکھا رہی تھی۔

ہاں وہ فریحہ مصطفی لوگوں کا میسج آیا تھا۔

وہ لوگ  مری جانے کا پلین بنا رہے ہیں ۔

کب جانا ہے؟؟اس نے بال برش کرتے ہوۓ پوچھا۔

کل 

ہمم کل تو ممکن نہی ہے کیونکہ مجھے  آہلہ کو پک اینڈ ڈراپ کرنا ہے ۔

تو اس میں کونسی بڑی بات ہے وہ لوکل چلی جاۓ گی اس کے اندر تو اس کے انکار پر وہ بھی اس منحوس کی وجہ سے بھانپڑ جل اٹھے تھے لیکن وہ بظاہر سکون سے بولی۔

جب تک کسی کنوینیس کا انتظام نہی ہو جاتا تب تک بابا نے اسے میری زمیداری بنایا ہے۔

تو پھر میں ان لوگوں کو کیا بولوں۔

تم کچھ مت بولنا میں خود ہی انہیں کہہ کر کسی اور دن کا پلین کرتے ہیں۔

ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی وہ پیر پتخ کر یہ جا وہ جا۔

اگلے دن بھی اس نے ہی اسے ڈراپ کیا تھا۔اسے ڈراپ کر کے وہ سیدھا موبائل سنٹر گیا تھا جہاں سے اس کے لیے لیٹیسٹ آئی فون لیا تھا۔۔۔۔۔

وہ آج لیٹ ہو گئی تھی اس لیے جلدی جلدی قدم اٹھاتی کلاس کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں ہی اسے فاریہ اور صوفیہ مل گئیں جو یقیناًاس کا انتظار کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

سوری یار آج لیٹ ہو گئی اصل میں خالہ بیمار تھیں اس لیے سب کا ناشتہ بناتے ہوۓ لیٹ ہو گئی اس نے وجہ دی۔۔۔۔۔۔۔

کوئی بات نہی اب تو کلاس کا وقت ہو گیا ہے تو پھر بریک میں ملتے ہیں  صوفیہ نے کہا۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔۔

وہ تینوں  اپنی اپنی کلاس میں چلی گئیں۔۔۔۔۔

گڈمارننگ میم۔۔۔ 

وعلیکم سلام بچو اینڈ گڈ مارننگ

چلو سب بچے اپنی اپنی بکس کھولو۔۔۔۔۔۔۔

بچوں کو پڑھاتے ہوۓ ان سے باتیں کرتے ٹائم کا پتا ہی نہ چلا ۔اس نے بچوں کے ساتھ کلاس میں ہی کھیل لیا تھا پزل گیم۔۔۔۔۔۔۔

ہم لوگ یہاں کیوں بیٹھ گئے ہیں اس نے انہیں سٹاف روم میں بیٹھتے کہا۔۔۔۔۔۔

وہ اس لیے کہ میم سلمہ نے کچھ رول بناۓ ہیں جب میں سے ایک سٹاف روم کو سلامی دینا لازمی ہے صوفیہ نے منہ بنا کر کہا اسے یہ رول سخت برا لگتا تھا۔۔۔۔۔۔

اوہ اچھا۔۔۔۔۔ 

ابھی  وہ کچھ اور بھی کہتی کہ مس عمارہ کے بات پر وہ شرمندہ ہو گئی۔۔۔۔۔۔

مجھے بہت افسوس ہوا آپ کی طلاق کا ۔بھلا اتنی سی عمر میں طلاق یافتہ ہونا واقعی بد نصیبی کی بات ہے۔۔۔۔۔۔

ان کی بات سن کر وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی وہ کہتی بھی تو بھلا کیا۔۔۔۔۔۔

سب اس کی طرف خیرانگی سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔۔

میم عمارہ آپ اپنے نصیب کی فکر کریں دوسروں کے نصیب کے بارے میں آپ راۓ نہ ہی دیں تو اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شائد آپ بھول گئی ہیں کہ آپ کی بھی منگنی ٹوٹ گئ ہے جو میری ناقص علم کے مطانق آپ کی پسند سے ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔

فاریہ نے بھی حساب برابر کیا بھلا وہ کہاں برداشت کر سکتی تھی کہ اس کی دوست کو کوئی کچھ کہے۔۔۔۔۔۔

ان کے ڈاکومنٹس پر میرڈ لکھا ہوا تھا جب کہ یہ  سنگل ہیں۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں نے ایسے ہی کہہ دیا۔۔۔۔۔

خود پر جب بات آئی تو وہ وضاحت دینے لگی۔۔۔۔۔۔

اپنی وضاحت آپ اپنے پاس ہی رکھیں تو بہتر ہو گا۔۔۔۔۔

اتنا کہہ کر وہ آہلہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئی۔وہ اس کی انکھوں میں پانی دیکھ چکی تھی وہ نہی چاہتی تھی کہ اس کی دوست دوسروں کے سامنے آنسو بہا کر خود کو کمزور کرے۔۔۔۔۔۔

صوفیہ بھی ان کے پیچھے آئی۔۔۔۔

وہ دونوں اسے کینٹین کی بیک سائڈ لے گئیں جہاں بلکل خاموشی تھی اور کوئی موجود بھی نہ تھا

اسےوہاں  بینچ پر بٹھا کر وہ دونوں اس کے سامنے دو نواز بیٹھ گئیں۔۔۔۔۔

اس نے انہیں اپنی شادی سے لے کر طلاق تک سب بتا دیا۔۔۔۔۔ ۔

یہ تو قسمت کی بات ہوتی ہے اس میں ہمارا کوئی زور نہی ہوتا ۔یقیناً اللہ نے تمہارے لیے کوئی بہتری ہی رکھی ہو گی اس میں۔۔۔۔۔۔ اور لوگوں کی باتوں کو اگنور کیا کرو وہ تو پیدا ہی باتوں کے لیے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔

صوفیہ نے اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا۔۔۔۔۔

اور اگر رونے کو دل کرے تو اللہ کے سامنے رو لیا کرو کیوں کہ وہ انسانوں کی طرح تمہارے رونے پر مزاق نہی بناتا آئی میری بات سمجھ میں۔۔۔۔۔۔

بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے یہ اب تم نے رو کر خود کو کمزور نہی کرنا۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ان سب کو دکھانا ہے کہ تم مضبوط ہو۔۔۔۔۔ 

اس نے اپنے آنسو صاف کیے اس نے سچے دل سے اپنے رب کا شکر ادا کہا تھا جس نے اسے مخلص دوستوں سے نوازا تھا۔۔۔۔۔۔

   ؎ مخلص دوست بھی خدا کی رحمت ہوتے ہیں

        دھوپ   میں  چھاؤں  کی  طرح  ہوتے  ہیں

چلو اٹھو کچھ کھا لیں نہی تو میرے چوہوں نے ایسے ہی فوت ہو جانا ہے فاریہ نے دہائی دی۔۔۔۔۔

وہ لوگ کھانے سے انصاف کر رہی تھیں کہ فاریہ نے پوچھا۔۔۔۔

کل جو تمہیں لینے آیا تھا وہ کون تھا۔۔۔۔؟؟

وہ میرا کزن ہے شہروز تایا زاد بھائی میرا۔۔۔۔۔

شہروز اس کا تایا زاد بھائی تھا لیکب وہ شروع سے ہی ساجد صاحب کو چچا کہتی آئی تھی

میرڈ ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟

تمہیں کیا وہ میرڈ ہو کہ کنوارا تمہیں اس سے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ویٹ ویٹ کہیں تمہیں اپنے لیے پسند تو نہی آگیا صوفیہ نے آئبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔۔۔

تم تو جب بھی بولنا فضول ہی بولنا۔۔۔۔۔ 

اس نے اس کی کمر میں ایک مکہ جڑا۔۔۔۔۔۔

کتنا مردانہ ہاتھ ہے تمہارا اس نے اپنی کمر کو سہلاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔

اگر اب تم چپ نہ ہوئی نہ تو قسم سے آج تمہیں مجھ سے کوئی نہی بچا سکتا۔۔۔۔۔۔ اس لیے اگر اپنی حیریت چاہیے ہو تو چپ کر کے بیٹھ جاؤ اس نے اپنے ہاتھ کا مکہ بنا کر اسکے سامنے کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔

تو وہ اسکی دھمکی پر چپ ہوگئی اس کا کیا بھروسہ وہ اپنے کہے پر عمل ہی نہ کر دے۔۔۔۔

تم تو بتاؤ اسے تو فضول بولنے کی عادت ہے۔۔۔۔۔صوفیہ کی طبعیت سیٹ کر کے وہ اس کی طرف مڑی

نہی اس کی شادی نہی ہوئی۔۔۔ ۔

کہیں اینگینجڈ ہے کیا؟؟

نہی اس نے نہ میں سر ہلایا۔۔۔۔۔۔۔ اسے سمجھ نہی آرہی تھی کہ وہ یہ سب کیوں پوچھ رہی ہے اگر اسے وہ پسند نہی آیا اپنے لیے۔

ہیییں اگر وہ اینگینجڈ بھی نہی ہے تو پھر گھر میں اتنا اچھے گڈ لکنگ لڑکے کے ہوتے ہوۓ تمہاری شادی غیروں میں کیوں کر دی وہ حیرت سے بولی۔۔۔۔۔۔

شرم کرو کچھ میرے بھائیوں کی طرح ہیں وہ اس نے اسے ٹوکا ۔اس نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگایا

اس نے تو کبھی ایسا سوچا تک نہ تھا۔۔۔۔۔

یار شادی سے پہلے سارے کزن بھائیوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔شادی کے بعد ہی وہ شوہر کے رتبے پر فائز ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اس نے ان کے علم میں اضافہ کیا۔۔۔۔

اچھا اس ٹاپک کو چھوڑو کوئی اور بات کرتے ہیں۔صوفیہ نے  اسے کا موڈ دیکھ کر کہا اسے شائد اس کا اس طرح کہنا اچھا نہی لگا تھا۔۔۔۔۔

فاریہ نے بھی بغیر برا مانے اس بات کو یہی چھوڑ دیا۔۔۔۔

ہاں تو کیا بات کریں فاریہ نے اپنی گال پر انگلی سے ٹپ ٹپ کرتے ہوے کہا۔۔۔۔۔ 

چلو اس کے نک نیم پر بات کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا دن ہے آج مجھے اس کا نک نیم سوچتے ہوۓ لیکن کچھ سمجھ ہی نہی آرہی ۔اس نے یک دم یاد آنے پر  بے بسی سے کہا۔۔۔۔۔

واقعی وہ کل سے اس کا نک نیم سوچنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ اپنا آدھا دماغ تو اس پر ہی یوز کر چکی تھی اس کے مطابق۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سمبھ ہی نہی آرہی تھی کہ کیا رکھے۔۔۔۔۔۔ 

تمہارے نام کا مطلب چاند ہے نہ صوفیہ نے اس کی تصدیق چاہی۔۔۔۔۔

اس نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔۔

کافی  دیر سوچنے کے بعد صوفیہ کو بھی کوئی  نام نہ سوجھا تو اس نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔۔۔۔۔۔

یار مجھے بھی کچھ نہی سوجھ رہا۔۔۔۔۔

تم لوگ مجھے آلی کہہ لیا کرو اس نے ان دونوں کی مشکل حل کر دی۔۔۔۔۔۔

ہمم یہ ٹھیک ہے آج سے تم ہمارے لیے آلی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم سب آج سے ایک دوسرے کو نک نیم سے ہی بلایا کریں گے فاریہ نے ایکسائٹڈ ہو کر اپنا ہاتھ ان دونوں کے سامنے کیا۔۔۔۔۔۔

ان دونوں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گویا اس کی بات پر مہر لگائی تھی۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

آج بھی ٹائم سے پہلے ہی شہروز  اس کا ویٹ کر رہا تھا ۔وہ ان کو باۓ بول کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔

وہ باہر کے دوڑتے مناظر کو دیکھ رہی تھی کہ شہروز نے ایک ڈبہ اس کے آگے کیا۔۔۔۔۔

یہ لو  اس نے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ کو سنمبھالتے ہوۓ دوسرے ہاتھ سے ڈبہ آگے کیا۔۔۔۔۔

یہ کیا ہے۔۔۔۔۔ ؟؟اس نے ڈبہ پکڑا۔۔۔۔

تمہارے ہاتھ میں ہی ہے خود کھول کر دیکھ لو۔۔۔۔ 

اس نے ڈبہ کھولا تو اس میں لیٹیسٹ آئی فون تھا۔۔۔۔۔

یہ کس کا ہے؟؟اس نے موبائل کو چاروں طرف سے دیکھ کر پوچھا

ظاہر ہے تمہارے ہاتھ میں ہے تو تمہارا ہی ہوا۔۔۔۔۔

اس نے ایک نظر اسے دیکھ کر کہا جو اس کے جواب پر پریشان ہوگئی تھی۔۔۔۔۔

لیکن میں اس کا کیا کروں گی ۔۔۔۔ ؟؟وہ ابھی بھی مطمئن نہ تھی۔۔۔۔۔

جو سب لوگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے مجھے تم سے اتنے بچگانا سوال کی امید نہی تھی۔۔۔۔۔

نہی۔۔۔۔۔۔ میں تو بس ایسے اس کے جواب پر وہ کھسیانی ہوئی۔۔۔۔۔

اس نے دیکھا وہ چپ ہو گئی تھی لیکن ابھی بھی مطمئن نہی ہوئی تھی اس لیے اضطراب میں اپنی انگلیاں مڑور رہی تھی۔۔۔۔۔

اس نے گہرا سانس لیا اور بولنا شروع کیا ۔۔۔۔۔

بابا کو اس دفع پرافٹ زیادہ ہوا اس لیے انہوں نے مجھے تمہارے پیسے دیے کہ تمہیں دے دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم پیسے خرچ تو کرتی نہی ہو آئی مین تم شاپنگ وغیرہ پر تو جاتی نہی ہو نہ ہی آؤٹنگ پر۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں نے سوچا کہ تمہیں بھی موبائل کی ضرورت ہو گی اس لیے میں نے تمہارے لیے خرید لیا۔۔۔۔۔۔

جیسے جیسے وہ کہہ رہا تھا ویسے ویسے وہ مطمئن ہو رہی تھی 

اس نے دیکھا اب وہ مطمئن ہو کر باہر دوڑتے مناظر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے گہرا سانس ہوا میں حارج کیا۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اس سے جھوٹ بولا تھا وہ جانتا تھا وہ خوددار ہے اور اس سے ایسے موبائل کبھی نہی لے گی اس لیے اس نے جھوٹ بول دیا۔۔۔۔۔۔

اسے گھر اتار کر وہ چلا گیا تھا۔

وہ ہال میں داخل ہوئی ۔مروہ اسے دیکھ کر فوراً اس کی طرف آئی وہ اسے کھڑکی سے آتا دیکھ چکی تھی ۔۔۔۔۔

تم کب اپنا بندوبست کرو گی۔۔۔۔ کما خود رہی ہو اور عیش کر رہی ہو  اور دوسروں کو عزاب میں ڈالا ہوا ہے ۔۔۔۔۔اسے روک کر مروہ نے نہایت ہی جارحانہ انداز میں اس کا بازو پکڑ کر کہا۔۔۔۔۔

میں سمجھی نہی؟؟ اس نے اس کی نسبت آرام سے اپنا بازو چھڑوایا ۔۔۔۔۔۔۔اس دن کے بعد سے وہ آج اس سے بات کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اب اس نے کیا کر دیا جو وہ اس طرح بھڑک رہی ہے۔۔۔۔۔۔

کیوں تم کوئی دودھ پیتی بچی ہو جو تمہیں سمجھ نہی آرہی۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے وہ مری نہی جارہا کہ تمہیں پک اینڈ ڈراپ جو کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ 

اس لیے تمہارے پاس کل تک کا وقت ہے اپنے لیے کسی بھی گاڑی کا بندوبست  کرو  اب یہ تنہاری سر درد ہے کہ کیسے کرو گی اپنی بات کہہ کر وہ  واک آؤٹ کر گئی۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آکر وہ فریش ہوئی۔پھر اس نے کچن کا رخ کیا تاکہ رات کے لیے کچھ بنا سکے  خالہ تو آج چھٹی پر تھیں۔۔۔۔۔۔

اس نے آلو بینگن بناۓ اور ساتھ روٹیاں۔۔۔۔۔۔

آج تو لگتا ہے کھانا آہلہ نے بنایا ہے ساجد صاحب نے پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔ 

اس کی تعریف پر رفعت اور شمع بیگم نے منہ بنایا۔۔۔۔۔

جی چاچو خالہ آج چھٹی پر تھیں اس لیے میں نے بنا دیا۔۔۔۔

اور بتاؤ بیٹا کیسی جا رہی جاب کوئی مسلہ تو نہی ہے نہ اگر ہے تو بتاؤ انہوں نے نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔

نہی چاچو کوئی مسلہ نہی ہے۔۔۔۔ 

ہمم  یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔

ماموں میرے اور شہروز کے فرینڈز مری جانے کا پلین بنا رہے ہیں تو کیا ہم چلے جائیں مروہ نے اجازت طلب نظروں سے انہیں دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔

اسے ان کا آہلہ کے ساتھ ایک دم سے پولائٹ ہونا ایک آنکھ نہ بھایا۔۔۔۔

ضرور بچے جاؤ میری طرف سےاجازت ہے لیکن مری سے واپسی پر شہروز تمہیں آفس باقاعدہ جوائن کرنا پرے گا اب اس معاملے میں کوئی رعایت نہی ملے گی تمہیں ۔۔۔۔۔۔ پہلے ہی تم میری ڈھیل کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوۓ سٹدی کے بعد بھی آفس کا رخ نہی کیا

پہلی بات مروہ کو دیکھ کر جبکہ دوسری شہروز کو دیکھ کر کی اور اپنے ہاتھ نیپکن سے صاف کر کے چئیر سے اٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔

رات کو سونے کے لیے لیٹی تو اسے موبائل کا ہاد آیا اس نے موبائل نکالا اور اس کی سیٹینگ وغیرہ کر کے موبائل چارجنگ پر لگا دیا۔سم اس میں وہ پہلے ہی ڈلوا چکا تھا۔۔۔۔۔۔

اب مسلہ اس کے آنے جانے کا تھا وہ اپنے لیے کسی کو پریشان نہی کر سکتی تھی ۔کچھ سوچ کر وہ مطمئن ہوتی سو گئی۔۔۔۔۔۔

معمول کے مطابق وہ اٹھی نماز ادا کر کے قرآن مجید کی تلاوت کی 

کچن میں وہ آئئ تو خالہ پہلے سے موجود تھیں۔۔۔۔۔ ۔

خالہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے اس نے ان کی حیریت پوچھی۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا کل ہلکی سی حرارت ہوگئی تھی بس۔۔۔۔ 

موسم کہ تبدیلی کی وجہ سے ۔

اپریل کا مہینہ شروع ہوگیا تھا سردیاں بھی رخصت ہو گئی تھیں۔موسم کہ تبدیلی کی وجہ سے اکثر اس موسم میں بخار وغیرہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔

لیکن مجھے تو آپ ابھی بھی ٹھیک نہی لگ رہیں اس نے ان کا نقاہت زدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔

اس نے آگے بڑھ کر ان کا ماتھا چھوا تو ان کو ابھی بھی ہلکا ہلکا بخار تھا۔۔۔۔۔۔

آپ کو ابھی بھی ہلکا ہلکا بخار ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔آپ اپنا بلکل بھی خیال نہی رکھتیں اوپر سے آپ آرام کرنے کی بجاۓ کچن میں آگئیں۔ان نے خفگی سے کہا۔۔۔۔۔۔

ارے بیٹا کل بھی آپ کو میری وجہ سے کام کرنا پڑا جبکہ اب آپ خود سکول جاتی ہو۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا  لیٹ نہ ہو جاؤ اسی لیے آگئی ویسے بھی بیٹھ بیٹھ کر اکتا گئی تھی۔۔۔۔۔۔

انہوں نے اس کا خفا چہرہ دیکھ کر مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔۔

میری بات تو آپ نے ماننی نہی ہے نہ تو پھر اب آپ بھی مجھے منع نہی کریں گی۔۔۔۔۔ 

اس نے چاۓ بنانے کےلیے پانی چولہے پر چڑھاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔ ۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ انہیں بھی کمزوری فیل پو رہی تھی اس لیے وہ بھی مان گئیں۔۔۔۔۔۔

ناشےی ٹیبل پر لگا کر وہ کمرے میں تیار ہونے آگئی۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

کیسا لگا موبائل۔۔۔۔۔ ؟؟شہروز نے بات کرنے کے لیے خود ہی پوچھ لیا کیونکہ اس نے تو بولنا نہی تھا۔

کچھ دنوں سے اسے خود اپنی سمجھ نہی آرہی تھی ۔وہ جب جب اس کے ساتھ ہوتی اس کا دل کرتا کہ وہ اس سے کھل کر بات کیا کرے۔وہ اپنے اور اس کے درمیان تکلف کی جو دیوار جو کہ اسکی اپنی بنائی گئی تھی کو زائل کرنا چاہتا تھا۔اور ایسا کیوں تھا یہ وہ ابھی بھی سمجھنے سے  قاصر تھا۔۔۔۔۔۔

اچھا تھا اس نے مختصر جواب دیا۔۔۔۔۔

وہ اگر اس سے بات کرنا چاہتی بھی تو نہی کر پاتی تھی وجہ مروہ تھی۔۔۔۔۔۔

اس میں میرا نمبر سیو کر لو ضرورت پر سکتی ہے۔ اسے نے اپنا نمبر بتایا تو اس نے خاموشی سے موبائل میں فیڈ کر لیا۔۔۔۔۔۔

گیٹ کے سامنے وہ اسے اتار کر چلا گیا تھا۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

آج وہ اسے کاریڈور میں اس کا انتظار کرتی نظر نہ آئیں تو اس نے سوچا کہ شائد وہ اپنی کلاس میں ہوں گی وہ بھی اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔

کلاس سٹارٹ ہونے میں ابھی وقت تھا وہ فاریہ کی کلاس میں داخل ہوئی لیکن وہ وہاں بھی موجود نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔

وہ دوبارہ اپنی کلاس میں آگئی ۔

یہ اس کا بچوں کے ساتھ فن ٹائم تھا۔جب ایک بچی اس کے پاس آئی اور بولی میم آپ کو پتا ہے میرا بھائی ہوا ہے کل اتنا چھوٹا سا ہے اس نے اپنے ہاتھوں کو کھول کر بتایا۔۔۔۔۔۔۔

پھر  تو آپ کو مبارک ہو اب تو آپ کے ساتھ کھیلنے کے لیے آپ کا چھوٹا بھائی آگیا ہے۔۔۔۔۔۔

نہی نہ میم وہ مجھ سے نہی کھیلتا نہ مجھے پیار کرنے دیتا ہے اس نے منہ بنایا۔۔۔۔۔

اس کی بات سن کر وہ مسکرائی۔۔۔۔۔۔

وہ ابھی چھوٹا ہے نہ اس لیے آپ کے ساتھ کھیلتا نہی ہے جب بڑا ہو جاۓ گا تو پھر وہ آپ کے ساتھ کھیلا کرے گا ۔۔۔۔۔۔

اس نے اس کے گال کھینچے۔

چلو بچوں آپ کی بریک کا ٹائم ہو گیا ہے۔باہر جا کر کھیلو لیکن سیفلی اوکے۔۔۔۔۔

اوکے میم سب نے ایک ساتھ کہا۔

وہ بھی فاریہ کو چیک کرنے کہ وہ آئی ہے کہ نہی اس کی کلاس میں جانے کے لیے پرس اٹھا کر مڑی تھی کہ وہ دونوں دروازے پر کھڑی اسے مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

وہ ان کے گلے لگی۔۔۔۔۔۔

مجھے لگا تم دونوں نے مل کر چھٹی کا پلین بنایا ہےاور میں آج بور ہو جاؤں گی لیکن ٹھینک گاڈ کے تم لوگ آگئیں۔انہیں دیکھتے وہ بولنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔

تم پہ ہماری صحبت کا اثر ہو رہا ہے فاریہ نے اسکے نان سٹاپ بولنے پر چوٹ کی۔۔۔۔۔۔۔

وہ شرمندگی سے چپ ہو گئی۔۔۔۔۔۔

ارے چپ کیوں ہو گئی میں نے تو مذاق میں کہا ہے بلکہ یہ تو اچھی بات ہے کہ تم کھل کر بات کر رہی ہو اس طرح کھل کر بات کیا کرو ۔۔۔۔۔۔۔

دونوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔۔۔

بات کرتے کرتے وہ سٹاف روم میں آگئیں۔۔۔۔۔

انہیں دیکھ کر مس عمارہ نے  برا منہ بنایا جیسے ان کی آمد انہیں ناگوار گزری ہو۔۔۔۔۔۔ 

ہوں دیکھو تو کیسے ہمیں دیکھ کر برے برے منہ بنا رہی ہے صوفیہ نے اسے منہ بناتے دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔

بناتی رہے اس کا منہ ہی ٹیرا ہونا ہے ہمارہ کیا جانا ہے فاریہ نے بھی حصہ ڈالا۔۔۔۔۔۔

فاری صوفی چپ کرو یہ سٹاف روم ہے ایسے اچھا نہی لگتا اس نے انہیں چپ کروانے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔۔۔۔۔۔۔

آواز اتنی تھی کہ صرف وہ تینوں ہی سن سکتی تھیں لیکن آہلہ کو پھر بھی ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی سن ہی نہ لے۔۔۔۔۔۔

تم تو چپ کرو ڈرپوک سارے اپنی باتوں میں مصروف ہیں کوئی نہی سن رہا فاریہ نے اسے جھاڑ کر چپ کروایا۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو تو آج تو انہوں نے میچنگ کی ہوئی ہے فاریہ کے کہنے پر اب وہ بھی متوجپ ہوئی۔۔۔۔۔ 

کس کس نے اب کہ وہ بھی متجسس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔

ارے وہی مس عمارہ نے اور سر واصف نے ۔۔۔۔۔۔۔

یہ اتفاق بھی تو ہو سکتا ہے اس نے راۓ دی۔۔۔۔۔

یہ کوئی اتفاق نہی ہے آلی بلکی یہ ان کہ آپس میں سیٹینگ کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔ 

میں سمجھی نہی۔۔۔۔ 

ارے بدھو اس کا مطلب ہے کہ ان دونوں کا چکر چل رہا ہے صوفیہ نے رازداری سے بتایا۔۔۔۔۔

اب چپ کر جاؤ وہ ہمارے طرف ہی دیکھ رہی ہے اس نے انہیں ڈپٹا۔۔۔۔

اب کہ وہ بھی معجزاتی طور پر چپ ہوں گئیں۔۔۔۔۔

تم لوگ کیسے آتی ہو آئی مین کسی وین پر یا پھر خود۔۔۔۔۔ ؟؟

گاڑی ان میڈم کی ہے تویہ مجھے بھی پک کر لیتی ہے صوفیہ نے فاریہ کہ جانب اشارہ کیا۔۔۔۔۔

ہمم وہ مایوس ہوئی ۔۔۔۔۔

ویسے تم کیوں پوچھ رہی تھی 

ایکچولی مجھے کوئی گاڑی والا نہی مل رہا جس سے میں آسکوں اور شہروز کو میں اپنی وجہ سے پریشان نہی کرنا چاپتی اس نے پریشانی بتائی۔۔۔۔۔۔

تو اس میں کونسا مسلہ ہم آتے ہوۓ پک کر لیا کریں گے اور جاتے ہوۓ بھی فاریہ نے چٹکی بجا کر کہا۔۔۔۔۔

مجھے اچھا نہی لگے گا میری وجہ سے تمہیں آؤٹ آف وے جانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔

تمہارے اچھا لگنے کی تو ایسی کہ تیسی۔۔۔۔۔ آج سے ہی تمہیں پک اینڈ ڈراپ ہم کریں گے۔اسے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ

فاریہ نے ہتمی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

چارو نا چار اسے ان کی بات ماننا پڑی۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے لیکن آج سے نہی کل سے ۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔

اپنا نمبر دو تا کہ آنے سے پہلے ہم لوگ تمہیں انفارم کر دیا کریں ۔۔۔۔۔

یاد آنے پر صوفیہ نے کہا۔۔۔۔۔

انہوں نے ایک دوسرے کا نمبر ایکسینج کیا۔۔۔۔

چلو اب کینٹین چلتے ہیں کہ باتوں سے ہی آج پیٹ بھرنے کا ارادہ ہے۔

اتنے دنوں میں وہ اتنا تو جان گئی تھی کہ فاریہ بھوک کی بھی کچی ہے۔۔۔۔۔

اس کی دہائی پر وہ دونوں اسے لیے کینٹین گئیں۔۔۔۔۔

وہ باہر آئی تو شہروز اس کا ہی انتظار کر رہا تھا۔وہ ان دونوں سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

اس نے اسے دیکھا جو سنجیدگی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اب اپبے دوستوں کے ساتھ آیا جایا لرے گی لیکن وہ تزبزب کا شکار تھی کے کہ کیسے بتاۓ۔۔۔۔۔

چاہے اس کا لہجہ اب اس کے ساتھ نرم ہوتا تھا وہ بھی کسی طنز کے بغیر لیکن پھر بھی وہ اختیاط ہی کرتی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ڈرائیونگ کر رہا تھا اسے جلدی جانا تھا کیونکہ اس کا دوست اس کا ریسٹورینٹ میں انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔اس نے ٹرن لیا تو اچانک نظر اس پر پڑی جو پریشانی سے اپنی انگلیاں مدل رہی تھی۔۔۔۔۔

کوئی بات ہے جو کرنا چاہتی ہو اس نے اس کے عمل سے یہی اخز کیا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن ہچکچا رہی ہے۔۔۔۔

جی وہ مجھے بتانا تھا کہ میری دوست ہے فاریہ کل سے وہ مجگے پک اینڈ ڈراپ دے دیا کرے گی۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے لیکن تمہیں اگر کبھی کوئی پریشانی پیش آۓ تو تم مجھے کال کر سکتی ہو اوکے۔۔۔۔۔۔اور تم تم سے بلا جھجک کوئی بھی بات کر سکتی ہو جیسے مروہ کرتی ہے۔۔۔۔۔جب تم ایسے ہچکچا کر بات کرتی ہو تو مجھے لگتا ہے کہ تم نے مجھے معاف نہی کیا

ایسی بات نہی ہے بس کبھی آپ سے کھل کر بات نہی کی اس لیے۔۔۔۔۔

تو تم کیا کرو بات اسی طرح تمہاری ہچکچاہٹ کم ہو جاۓ گی۔۔۔۔۔

جی اس نے صرف یہی کہ

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تا اسے سکول جوائن کیے ایک ماہ ہونے کو تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں جو کہ مثبت تھیں۔۔۔۔اب وہ کھل کر سب سے بات کر لیا کرتی تھی ۔۔۔۔۔اب وہ زندگی گزارنا نہی بلکہ جینا سیکھ گئی تھی۔۔۔۔۔

اب وہ پہلے والی دبو قسم کی لڑکی نہی تھی ۔۔۔۔اس سب میں سب سے بڑا ہاتھ اس کی دوستوں کا تھا۔۔۔۔وہ یونی میں پڑھی تھی جہاں لڑکے بھی تھے لیکن وہ اپنا اعتماد بحال نہی کر پائی تھی شائد اس لیے کہ اس کی کوئی دوست نہی تھی جو اسے اس کے خول سے باہر نکالتی۔۔۔۔۔۔اب بھی وہ شائد کبھی دوستی میں پہل نہ کرتی اگر فاریہ اسکی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھاتی۔۔۔۔۔اب وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہی تھک رہی تھی کہ اس نے اسے مخلص دوست جیسی نعمت سے نوازا تھا۔۔۔۔

کہیں نہ کہیں اس کی مثبت تبدیلی کے پیچھے شہروز اور ساجد صاحب کے نرم رویے کا بھی ہاتھ تھا۔۔۔۔۔جو اسے یہ احساس دلاتے کہ وہ اکیلی نہی ہے اور نہ ہی منہوس۔۔۔۔

شہروز اور آہلہ اپنے دوستوں کے ساتھ مری گئے ہوۓ تھے کل کے۔۔۔۔جانا تو انہوں نے کافی پہلے تھا لیکن کسی دوست کے ایکسیڈینٹ کی وجہ سے وہ پالان ملتوی ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

وہ اپنی سوچوں کے گرداب کو جھٹکتی واش روم شاور کیبے چلی گئی۔۔۔۔

شاور لے کر وہ تیار ہونے لگی۔۔۔۔تیار ہو کر اس نے گھڑی دیکھی جہاں سوئی دس کا ہندسہ پار کر گئی تھی۔۔۔۔۔اس نے فاریہ کو فون ملایا کہ وہ ابھی تک کیوں نہی آئی۔۔۔۔اس کے جواب پر وہ جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتی لاؤنج کراس کر گئی۔۔۔۔

آج انہیں لیٹ جانا تھا جس کی وجہ میم سلمہ کا میٹنگ ارینج کرنا تھا۔۔۔ بچوں کا آج آف تھا۔۔۔۔اسے گیٹ پر کھڑے پانچ منٹ ہو گئے تھے لیکن فاریہ ابھی تک نہ آئی تھی ۔۔۔۔اس نے غصے سے اسے فون ملایا ۔۔۔۔ابھی رنگ پوری گئی بھی نہ تھی کہ کسی گاڑی کے پہیے زور سے چڑچڑاۓ۔۔۔۔۔

پہیوں کے چڑچڑانے کی آواز پر وہ ڈر سے اچھلی۔۔۔۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ گاڑی کسی اور کی نہی بلکہ فاریہ کی تھی۔۔۔۔وہ تو پہلے ہی اس کے لیٹ آنے ہر تپی تھی کہ اس کی اس حرکت پر تو اسے رج کر غصہ آیا۔۔۔۔۔جس کا اظہار اس نے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کر کے کیا۔۔۔۔۔

خدا کو مانو لڑکی کیوں میری گاڑی کو شہید کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔اس کے اتنی زور سے دروازہ بند کرنے پر فاریہ نے کہا۔۔۔۔

تم تو منہ بند ہی رکھو۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے میں کتنا ڈر گئی تھی جب تم اتنی اتنی تیزی سے میرے پاس گاڑی روکی۔۔۔۔۔۔میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔۔۔اس نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔اس نے اپبے دل پر ہاتھ رکھا جو ابھی بھی سو کی سپیڈ سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔۔مجھے مت سناؤ ۔۔۔۔ اسے سناؤ جس کی وجہ سے ہم آج لیٹ ہوۓ ہیں۔۔۔۔اس نے بیک مرر سے آہلہ کو دیکھ کر اپبے ساتھ آگے بیٹھی صوفیہ کی طرف اچارہ کیا۔۔۔۔

آہلہ نے غصے سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔

سوری نہ ۔۔۔۔۔۔ نماز پڑھ کر سو گئی تھی اور گھر میں سب کو پتا تھا کہ آج لیٹ جانا ہے ۔۔۔۔۔اس لیے کسی نے اٹھایا ہی نہی اور میری آنکھ بھی نہ کھلی۔۔۔۔اس لیے لیٹ ہو گئی۔۔۔۔اس نے بتا کر بے چاری سی شکل بنائی جو کہ صرف بنانے کی حد تک تھی۔۔۔۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔لیکن آئندہ ایسا مت کرنا

صوفیہ نے سر ہلایا

گاڑی پارک کر کے وہ لوگ عمارت کے اندر گئیں۔۔۔۔۔۔سارا سکول سائیں سائیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔سارے سکول میں خاموشی کا راج تھا۔۔۔۔۔

وہ لوگ سیکنڈ فلور پر میٹنگ روم میں انٹر ہوئیں تقریباً سارے ٹیچرز وہاں پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔۔صرف میم سلمہ نہ تھیں۔۔۔۔شائد وہ کچھ دیر بعد آنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔۔۔۔۔

انہوں نے سب کو مشترکہ سلام کیا اور اپنی جگہوں پر بیٹھیں۔۔۔۔

کچھ دیر بعد میم سلمہ بھی آگئیں۔۔۔۔

سب نے کعرس میں انہیں سلام کیا تو وہ سر کے اشرے سے جواب دیا اور ڈائس کے دوسری طرف جاکر کھڑی ہو گئیں۔۔۔۔۔

آپ اس میٹنگ کا مقصد آپ لوگوں کو مطلعہ کرنا تھا کہ ایک ماہ بعد فائنل ایگزیمز سٹارٹ ہوں گے اور اس ایک ماہ میں نہ صرف آپ نے سٹودنٹس کا سلیبس کور کروانا ہے بلکہ ان کی تیاری بھی کروانی ہے۔۔۔۔۔۔۔

  آئی ہوپ کہ آپ لوگوں کے لیے یہ وقت کافی ہو گا تیاری کروانے کے لیے۔۔۔۔۔

یس میم ۔۔۔۔  

اور میم اس دفع رزلٹ پر کونسے ہستی مدوع ہو گی۔۔۔؟؟؟یہ سوال میل ٹیچر سر فاحد کی طرف سے تھا

یہ آپ سب کے لیے سرپرائز ہے۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

کتنا اچھا ہو اگر میم  قراتلعین کو بلا لیں۔۔۔۔۔پتا ہے لاسٹ ٹائم بھی میم نے شاہد آفریدی کو بلایا تھا۔۔۔۔۔

فاریہ نے اشتیاق سے کہا

ہاں ویسے قراتلعین کے بلا لینا چاہیے۔۔۔۔۔اس کا گانا وے بھلیا سائیاں کٹ کٹ رویاں ۔۔۔۔کتنے مزے کا ہے بلکل ایسے جیسے وہ الفاظ نہی بلکہ آپکی  اپنی داستان ہوں۔۔۔۔صوفیہ نے کھوۓ کوۓ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

اس کے کھوۓ کھوۓ لہجے پر دونوں نے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ دونوں پریشان ہوئیں۔۔۔۔  

ہے کیا ہوا۔۔۔۔۔آہلہ نے اسے اپبے ساتھ لگاتے کہا

کچھ نہی ۔۔۔۔اس نے مسکرا کر اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی ۔۔۔

تمہیں جب بھی لگے تمہیں ہماری ضرورت ہے تم ہمیں اپبے ساتھ پاؤ گی۔۔۔  ہم ہر وقت  تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔۔فاریہ نے سنجیدگی سے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ۔۔۔۔۔۔آہلہ نے بھی اس کی تائید کی۔۔۔۔۔

وہ ان کو دیکھ کر نم آنکھوں سے مسکرائی۔۔۔۔۔اسے خوشی ہوئی تھی کہ انہوں نے پوچھنے کی بجاۓ اسے اپنی موجودگی اور دوستی کا احساس دلایا تھا۔۔۔۔

اس نے انہیں بتانے کا ارادہ کیا جس کہ بارے میں صرف وہ اس کا خدا اور وہ دشمن جان جانتا تھا۔۔۔۔۔

میرے کزن ہیں طلحہ ۔۔۔۔۔میں ان سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔لیکن وہ مجھ سے محبت نہی کرتے ۔۔۔۔۔

اس نے انہیں دیکھ جو اس کی بات کو نہایت انہماک سے سن رہی تھیں۔۔۔۔۔انہیں دہکھ کع اس جے گہرا سانس لیا اور آگے بتانا شروع کیا۔۔۔۔

میں نہی جانتی کب اور کیسے مجھے ان سے محبت ہو گئی۔۔۔۔۔یا شائد ان کی شادی سے پہلے ہی مجھے ان سے محبت تھی لیکن میں اپنے احساسات کو اس وقت سمجھ نہی سکی اور یہی مجھ سے کوتاہی ہو گئی کہ میں ان کے بارے میں اپنے احساسات کو ہی نہ جان پائی۔۔۔۔۔۔

اس کے شادی سے پہلے والی بات پرچوہ چونکی ضرور لیکن بولی کچھ بھی نہی۔۔۔۔وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنے دل کا غبار باہر نکال لے۔۔۔۔

جب میں نے ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ مجھے ان سے محبت نہی ہے بلکہ میں صرف تمہاری ضرورت ہوں۔۔۔۔۔۔ اس نے ہچکی لی ۔۔۔ ۔۔۔ میں کیسے اپنی پاک محبت کے لیے ایسے الفاظ سن سکتی تھی ۔۔۔۔۔اس نے اپنے بہتے آنسو پونچھے ھو اس ستم گر کے کہے الفاظ یاد کر کے بہنا شروع ہو گئے تھے۔۔۔۔۔

اس کے بعد میں نے اپنے جزبات کو اپنے تک محدود کر لیا۔۔۔۔لیکن ان کی محبت آج بھی میرے دل میں اپنے پر پھیلاۓ بیٹھی ہے۔۔۔۔۔۔

دونوں نے اٹھ کر اسے گلے لگایا ۔۔۔۔۔۔کافی دیر وہ ان سے لگی روتی رہی۔۔۔۔۔پھر جب وہ کچھ سنمبھلی تو انہوں نے اسے علیحدہ کیا۔۔۔۔۔

وہ دونوں تو سوچ بھی نہی سکتی تھیں کہ ہر وقت ان کے سامبے مسکرانے والی ان کی یہ دوست کس ازیت سے گزر رہی ہے۔۔۔۔۔

دیکھو میری جان تم نے کہا شادی سے پہلے ۔۔۔۔تو کیا وہ شادہ شدہ ہیں۔۔۔؟؟؟فاریہ نے پوچھا

ہاں۔۔۔۔اس نے ہاں میں سر ہلایا 

تو تم اس محبت سے دستبردار ہو جاؤ۔۔۔۔انہیں اپبی محبت سے آزاد کر دو۔۔۔۔۔تا کہ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔۔کیونکہ محبت قربانی مانگتی ہے۔۔۔۔۔۔

تم بتاؤ کیا اتنا آسان ہوتا ہے اپنی محبت سے دستبردار ہونا 

اسکے کہنے پر دونون نے نظریں چرائیں

ان کے نظریں چرانے پر وہ استہزایہ ہنسی

ان کی بیوی صبا کی دو سال پہلے ڈیتھ ہو چکی ہے ۔۔۔۔اگر وہ اپنی زندگی میں اپنی بیوی کے ساتھ خوش ہوتے تو میں کبھی بھی ان سے اپنی محبت کا اظہار نہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اپنی محبت ان پر حوشی خوشی وار دیتی بنا ایک پل لیے۔۔۔۔۔

کیا وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے تھے۔۔۔۔۔کیا ان کی لو میرج تھی۔۔۔۔۔یہ پوچھنے والی آہلہ تھی

  نہی ان کی ارینج میرج تھی ۔۔۔۔۔۔نکاح ایک پاک بندھن ہے جس میں دو انجان لوگوں کو محبت ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے ان کو بھی تھی ۔۔۔۔

پھر تو انہیں خوش ہونا چاہیے بلکہ اپبی قسمت پر رشک کرنا چاہیے کہ کوئی لڑکی ان سے اس قدر محبت کرتی ہے کہ ان کی خوشی پر اپبی محبت کو بھی وار سکتی ہے۔۔۔۔۔فاریہ نے کہا۔۔۔۔

میں جانتی ہوں وہ میری محبت کو بھی میرے لیے ٹکرا رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ کہتے نہی ہیں لیکن ان کی آنکھیں مجھے سب بتا دیتی ہیں کہ وہ خود کو میرے قابل نہی سمجھتے ۔۔۔۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ میں بہترین انسان ڈیزرود کرتی ہوں لیکن وہ یہ نہی سمجھ رہے کہ میرے لیے سب سے بہترین وہ خود ہیں۔۔۔۔۔

تم رو نہی۔۔۔۔دعا کرو کہ وہ رب اسے تمہارے مقددر میں کر دے ۔۔۔۔۔دعا میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔۔۔۔آہلہ نے اس کے آنسو صاف کیے۔۔۔۔۔

اسنے ہاں میں سر ہلایا

ویسے وہ دکھنے میں کیسے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں نے سنا ہے کہ پیار اندھا ہوتا ہے کہیں تم نے بھی تو کسی کالے کلوٹے یا پھر بھیبگے سے تو پیار نہی کر لیا۔۔۔۔۔

پہلی بات کہ پیار سوچ سمجھ کر یا کسی کی خوبصورتی دیکھ کر نہی ہوتا بلکہ یہ خود ہی انسان کو اپبی لپیٹ میں لے لیتی ہے پھر آپکا محبوب کالا ہو یا گورا اس سے فرق نہی پڑتا۔۔۔۔۔۔اور طلحہ بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔۔۔ میرے لیے وہ میرے بابا کے بعد دنیا کے سب سے خوبصورت مرد ہیں۔۔۔۔۔اس نے اپبے تصور میں طلحہ کے عکس کو دیکھ کر کھوۓ کھوۓ کہا۔۔۔۔

آہلہ دیکھو تو ہناری پیاری سی دوست تو  جیجو کو یاد کر کے کیسے مسکرا رہی ہے۔۔۔۔۔

ان کے کہنے پر وہ جھینپ گئی۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

شہروز جو کہ مری اپنے دوستوں کے اصرار پر آیا تھا۔یہاں آکر بھی اسے سکون نہی ملا تھا ایک عجیب سی بے نام سی بے چینی تھی جو اسے اپنی  لپیٹ میں لیے ہوۓ تھی۔

وہ یہاں ہو کر بھی یہاں نہ تھا۔مروہ نے بھی اس کی غائب دماغی کو نوٹ کیا تھا نوٹ تو سب دوستوں نے ہی کیا تھا لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتا۔

ابھی بھی وہ اسی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے سیگریٹ پی رہا تھا کہ مروہ نے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھا۔

وہ چونکا۔

تم اس نے اس کا سر کندھے سے دور کیا۔

ہاں کیا میں نہی آسکتی اس نے لاڈ سے کہا اور اسے کے ساتھ  بینچ پر بیٹھ گئی۔

نہی میں نے  ایسا تو نہی کہا ۔

اس نے سیگریٹ پھینکی۔

تم پی لو میں نے کونسا تمہیں روکا ہے۔

اس نے اسے سیگرٹ کو مسلتے دیکھ کہا

نہی بس یہ ویسے بھی آخری تھا۔

اس نے اپنی بے چینی کو پسے پشت ڈالتے ہوۓ کہا

وہ بھی بینچ پر بیٹھ گیا

خاموشی دیر کی خاموشی سے اکتا کر اس نے اسے واک کی آفر کی۔

ویسے تو اپریل کے مہینے میں گرمی کا موسم شروع ہو جاتا ہے لیکن مری میں ابھی بھی اتنی  سردی تھی کہ انہیں جرسی وغیرہ پہننی پر رہی تھی۔

وہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کے ہمقدم ہوا

میں نوٹ کر رہی ہوں تم جب سے یہاں آۓ ہو کافی بے چین سے ہو 

اس نے عام سے لہجے میں کہا لیکن لفظ بے چینی پر وہ ٹھٹھکا 

تو کیا وہ چہرے سے بھی اتنا بے چین نظر آتا تھا جتنا وہ اندر سے تھا

اسنے خود کو جلدی سے کمپوز کیا کیوں کہ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی

نہی تو بس ایسے ہی طبعیت کچھ ٹھیک نہی تھی اس نے جھوٹ بولا

تو تم مجھے بتاتے نہی تو کیف لوگوں کو تو کم از کم بتاتے وہ تمہیں کسی ڈاکٹر کو دکھاتے اس نے پریشانی سے کہا۔۔۔۔ 

مجھے خود ابھی معلوم نہی ہے کہ مجھے کیا ہے تو میں ڈاکٹر کو کیا بتاؤں گا اس نے دل میں سوچا لیکن بولا بس یہی۔۔۔۔۔

میڈسن لے لی تھی میں نےاب بہتر ہوں۔۔۔

اس نے اسے ٹالا۔۔۔۔

وہ لوگ واک کرتے کرتے ہوٹل سے کافی دور نکل آۓ تھے۔۔۔۔۔

چلو شہری اس ڈھابے سے چاۓ پیتے ہیں اس نے سڑک کے دوسری طرف لگے ڈھابے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔

چلو۔۔۔۔ 

وہ اسے لے ڈھابے پر آیا۔۔۔۔۔

ہلکی پھلکی گفتگو کے درمیان انہوں نے چاۓ پی اور پیمنٹ کر کے ہوٹل واپسی کے لیے چل دیے۔۔۔۔

وہ اور اس کا جگری دوست فواد ایک روم شئیر کر رہے تھے۔دوست تو سب بھی اس کے تھے لیکن فواد اس کا جگری دوست تھا۔۔۔۔۔

واپسی پر کمرے میں آکر وہ پھر سے اسی کے خیالوں میں کھو گیا ۔۔۔۔۔

فواد جو اپنی منگیتر سے فون پر بات کر کے کمرے میں آیا تھا اسے خیالوں میں کھویا دیکھ اس کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔

اس نے اس کی کمر میں ایک مکہ رسید کیا کے وہ ہوش میں آیا۔۔۔۔۔

اب بتا وہ کون ہے جس کے خیالوں میں تو کھویا ہوا ہے ۔۔۔۔۔

اسے اٹھتا دیکھ وہ بھی بیٹھ گیا

فضول مت بول

اس نے اسے گھورا

میں فضول بول رہا ہوں اور تو جو اس فضول کے بارے میں سوچ رہا ہے اس کا کیا۔۔۔۔

اسنے بھی اسی کے انداز میں کہا تو شہری نے اسے گھورا۔۔۔۔۔۔

خبردار اگر تم نے اسے فضول کہا تو

اپنا نشانہ سہی دیکھ کر وہ کھل کر ہنسا 

دانتوں کی نمائش تو بند کرو 

میں تو اس لیے ہنس رہا ہوں کہ میرا دوست بھی محبت کی وادی میں قدم رکھ چکا ہے

اس کے گھورنے پر وہ سیدھا ہوا

ایسا کچھ نہی ہے 

ایسا ہی ہے تم خود سے چھپا رہے ہو اگر ایسا نہی ہے تو پھر تم اتنے بے چین کیوں ہو ۔۔۔۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے 

ایسا ہو سکتا نہی میرے دوست بلکہ ہو گیا ہے دیکھ تیرا دوست ہوں تجھے جانتا ہوں اسلیے کہہ رہا ہوں اگرتجھے میری بات پر یقین نہی ہے تواپنی آنکھیں بند کر اگر تجھے وہ دکھائی دی تو سمجھ تو اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔

اس نے اس کی مشکل آسان کی

اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں بند کیں تو اسکا چہرہ چھم سے اس کی آنکھوں کے پردے پر لہرایا

وہ شاکڈ ہوا۔۔۔۔۔

دیکھا میں نے تو پہلے ہی کہا تھا تم ہی نہی مان رہے تھے۔۔۔۔۔ 

اس نے اسے شاکڈ دیکھ کر کہا ۔۔۔۔

تو وہ بھی کھل کر مسکرایہ اور ایک دفع پھر اکی یاد میں کھو گیا۔۔۔۔

اتنے دن کی بے چینی کا آخر اسے کارن مل ہی گیا تھا۔۔۔۔

اس نے تو کبھی سوچا بھی نہی تھا کہ وہ کزن جسے وہ کبھی بلانا پسند نہی کرتا تھا جس کےرنگ کی وجہ سے وہ اسے بینگن کہا کرتا تھا  وہی  اس کے دل پر قبضہ کر بیٹھے گی۔۔۔۔۔

تمہیں اک بات کہنی ہے

مگر ناراض مت ہونا

کہ تم جو ہر گھڑی مجھ کو

اتنا یاد آتے ہو

ہمیں اتنا ستاتے ہو۔۔۔

کہ ہم تم دور ہیں دونوں

بہت مجبور ہیں دونوں

نہ اتنا یاف آؤ تم۔۔۔۔۔

نہ اتنا ستاؤ تم۔۔۔۔۔

کہ اتنا یاد آکر تم

ہمیں اتنا پاگل بنا کر تم

فقط اتنا بتا دو ۔۔۔۔

ہماری جان لو گے تم؟؟

مگر یہ بھی حقیقت ہے 

تمہاری یاد ہی تو ہے

جو ہر پل ساتھ رہتی ہے

خوشی میں بھی غموں میں بھی

اداسی کے پلوں میں بھی

تمہاری یاد ہی تو ہے

جو ہر پل یہ بتاتی ہے

مجھے احساس دلاتی ہے

کہ،،

ہم تم بن ادھوڑے ہیں

اس پر جب سے اس کی محبت کا انکشاف ہوا تھا وہ تو ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔وہ جلدی سے یہاں سے جانا چاہتا تھا لیکن دوستوں کو بھی ناراض نہی کر سکتا تھا اس لیے ان کے ساتھ انجواۓ کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔  

آج چار دن مری میں گزار کر ان کی واپسی تھی۔۔۔۔۔۔وہ تو سفر کے ختم ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ یہ سفر جلدی سے ختم ہو اور وہ اسے اپنے روبرو دیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے اتنے دن کی تشنگی کو مٹاۓ ۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ لاؤنج میں بیٹھا شمع  اور رفعت بیگم سے پیار بٹور  تھا۔وہ ان دونوں کا ہی لاڈلا تھا اسی لیے شمع بیگم کی خواہش تھی کہ وہ ان کا داماد بنے۔۔۔۔۔۔۔۔مروہ تو پہلے ہی آرام کرنے چلی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ رفعت بیگم کی گود میں سر رکھے بے چینی سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھا لیکن وہ تھی کہ اسے انتظار کراۓ جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔

اب اس   کو کیا پتا کوئی شدت سے ان کو دیکنھے کے لیے نظریں بٹھاۓ بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔۔

جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ  ریسٹ کا بہانا بنا کر اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

کمرے میں آکر وہ فرہش ہوا ۔ایک بار پھر سے ذہن اس کی طرف گیا تو وہ بے چین ہوتا کچن میں چلا گیا کہ شائد اب وہ اسے کچن میں ہی نظر آجاۓ۔۔۔۔۔۔۔

اس کی قست کو شائد اس پر رحم آگیا تھا کہ وہ اسے کچن میں چاۓ بناتی مل گئی۔۔۔۔۔۔۔

اممم۔۔۔۔۔۔ ایک کپ چاۓ ملے گی اس نے گلا کھنگار کر اسے متوجہ کیا۔۔۔۔۔۔

اس نے مڑ کر دیکھا اور سر ہلا یا۔

وہ وہیں کچن میں رکھی چئیر پر بیٹھ گیا اور اپبی نظروں سے دل میں اتارنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے چاۓ کا ایک کپ اس کے آگے رکھا اور دوسرا لے کر خود بھی اس کے سامنے والی چئیر پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔

وہ بیٹھنا تو نہی چاہتی تھی لیکن پھر یہ کہ ایسے جانا اسے اچھا نہ لگا اس لیے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیسی ہو اس نے ہی آغاز کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال کرتے ہوۓ اس نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمدللہ ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں اس نے نظریں جھکا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بھی ٹھیک ہوں بلکہ اب تو بلکل ٹھیک ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

اس کے جواب پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو دھک سے رہ گئی وہ اپنی آنکھوں میں محبت لیے اسے تک رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کوئی بچی نہ تھی اس کی آنکھوں کی چمک اور اس میں بسی اپنے لیے محبت کو وہ دیکھ نہ پاتی ۔۔۔۔۔۔

وہ جلدی سے چاۓ ختم کر کے کمرے میں آگئی اس کے اوجھل ہونے تک شہروز  نے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آکر وہ چکر پر چکر لگاۓ اس کی آنکھوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اسے اس کی آنکھوں میں محبت کے ساتھ ساتھ احترام بھی دکھا تھا۔۔۔۔۔   

تو کیا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اس نے سوچا۔۔۔۔۔۔

اپنی سوچ پر اس نے استغفرللہ کہا۔۔۔۔۔۔۔

کیا سوچے جا رہی ہو یقیناً تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اس نے خود کو ڈپٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

بچوں کے پیپرز شروع ہو گۓ تھے ایک ہفتے تک پیپر ختم ہونے تھے ۔اس دوران شہروز سے بھی اس کی کم ہی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناشتے اور رات کے کھانے پر ہی وہ اسے دیکھتی تھی کیوں کہ وہ اب ساجد چاچو کے ساتھ آفس جاتا تھا۔

اس دوران اس نے کافی دفع نوٹ کیا تھا کہ وہ اسے دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

آج بھی رات کے کھانے پر وہ سب لوگ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھے تھے کہ اسے آج بھی اس کی نظرون کی تپش خود پر محسوس ہوئی ۔اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے دیکنھے پر وہ کھانے پر جھک گیا تو وہ بھی سب پر نظر ڈالتی مطمئن ہوتی کھانے میں مصروف ہو گئی۔۔۔۔۔۔

وہ اسے اکثر خود کو دیکھتا پاتی لیکن اسکی نظروں میں اپنے لیے محبت کے علاوہ اخترام کو دیکھ کر وہ سکون کا سانس لیتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے باوجود بھی وہ اس کی طرف پیش قدمی نہی کرسکی اور نہ وہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔

ایک تو پہلی شادی کے تجربے سے ڈر گئی تھی تو دوسری وجہ رفعت بیگم اور مروہ تھیں۔وہ جانتی تھی کہ وہ اسے کسی صورت بہو کے روپ میں قبول نہی کریں گی۔اور مروہ کی آنکھوں میں بھی وہ اس کے لیے پسندیدگی دیکھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ لوگ فری ہوگئی تھیں۔اج بچوں کا آخری پیپر تھا۔وہ لوگ فری ہو کر کینٹین آگئیں۔

وہ لوگ ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھیں کہ صوفیہ کا موبائل رنگ ہوا۔

اس نے اوکے کر کے موبائل کان سے لگایا تو اس کا رنگ اڑ گیا۔۔۔۔۔۔

کیا ہوا صوفی سب ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کو پریشان دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔

دادو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اس نے روتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔

تو اب۔۔۔۔۔۔ وہ بھی پریشان ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔

امی رضا بھائی کو  بھیج رہی ہیں مجھے لینےدادو مجھے بلا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

تم پریشان مت ہو اللہ اپنا کرم کرے گا اور دیکھنا وہ بلکل ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔

دونوں نے اسے گلے لگایا اور تسلی دی۔۔۔۔۔۔

اس وقت وہ  لوگ گیٹ کے پاس اندر والی سائڈ کھڑی تھیں کہ چوکیدار نے انہیں رضا کی آمد کے بارے میں بتایا۔۔۔۔۔۔

وہ ان سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓

وہ جب تک ہسپتال پہنچی اس کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رضا نے بھی اسے تسلی دی لیکن وہ اس کی بات کو ان سنا کر کے روۓ جا رہی تھی۔وہ اپنی دادو سے بہت محبت کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔

وہ اندر کمرے میں جہاں اس کی دادو کو رکھا گیا تھا داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔۔

انہیں مصنوعی سانس دینے کے لیے وینٹیلیشن پر رکھا گیا تھا۔۔۔ ۔۔

وہ جلدی سے ان کے قریب گئی اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اور رونا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔  

اس کی دادی نے اپنا جھڑیوں زدہ کمزور ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر رونے سے منع کیا۔۔۔۔ 

انہوں نے اپنا ماسک اتارا تو اس نے انہیں روکا۔۔۔۔۔۔

انہوں نے نفی میں سر ہلایا اور  آہستہ آہستہ اپنی  بات کہی۔۔ ۔  

میں تمہیں اور  طلحہ کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتی ہوں اپنی بوڑھی دادی کی یہ آخری خواہش پوری کر دو 

ان کی بات پر کمرے میں موجود افراد تڑپ گۓ۔۔۔۔۔۔۔

اس نے تڑپ کر اپنا ہاتھ ان کے منہ پر رکھا اور نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔۔۔

انہوں نے اس کا ہاتھ منہ سے ہٹایا اور ایک بار پھر التجا کی۔۔۔۔۔۔

اس کا سر خود بہ خود ہاں میں ہل گیا۔۔۔۔۔۔۔

اس کی ہاں پر ان کے چہرے پر خوشی کی رمک آگئی۔۔۔۔۔۔۔

پھر وہیں ہسپتال میں ہی اس کا نکاح پڑھوایا گیااور وہ صوفیہ اکمل سے صوفیہ طلحہ بن گئی۔۔۔۔۔۔۔

نکاح کے بعد ڈاکٹر کے کہنے پر سب ان کے روم سے چلے گۓ کہ وہ آرام کر سکیں۔۔۔۔۔۔

اس کی خوشی سمٹے نہی سمٹ رہی تھی یہ سوچ ہی اسےکہ  وہ طلحہ کہ زوجیت میں آ گئی ہے اسے ہواؤں میں اڑا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایک سوچ پر س کہ خوشی سمٹ جاتی کہ کیا وہ اسے اپنی زندگی میں قبول کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔

فاریہ اور آہلہ نے دادی کی حیریت معلوم کرنے کے لیے فون  کیا تھا اور اسے تسلی دی تھی۔۔۔۔۔

وہ اپنہ زندگی کی اتنی بڑی خوشی اپنی دوستوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتی تھی لیکن پھر کچھ سوچ کر وہ رک گئی۔وہ ایک دفع طلحہ سے اس بارے میں بات کرنا چاہتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن انڈر ابزرویشن رکھ کر ڈاکٹرز نے صفینہ بیگم کو ڈسچارج کر دیا تھا۔۔۔۔۔ ۔

وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن   نکاح کے بعد سے وہ اسے دکھا ہی نہی۔۔۔۔۔۔۔ آج اتنے دنوں بعد ناشتے پر اسے دیکھ کر ایک جھیجھک تھی جو اسے اس سے محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔محبت تو وہ اسے سے کافی پہلے سے کرتی تھی لیکن اسے اس سے تب جھیجھک محسوس نہی ہوتی تھی ۔ناشتے پر بھی وہ اسے بار بار دیکھتی رہی لیکن  اس نے ایک دفع نظر اٹھا کر بھی اسے نہ دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔

اس کے اس طرح کے رویے پر وہ بدگمان ہوئی یعنی اس کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی ۔۔۔۔۔

وہ ابھی کچھ اور سوچتی کہ دادو کی آواز اس کے کانوں میں پری جو طلحہ کو آج سے اسے سکول لے کر جانے اور لانے کا حم دے رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

ایگزیمز کے بعد  ایک ہفتہ انہیں آف ملا تھا ۔ایک ہفتے بعد وہ آج سکول جارہی تھی۔۔۔۔۔۔

طلحہ کو گاڑی میں بھی سنجیدہ اور خود سے بیگانہ ددیکھ کر اس نے دلبرداشتہ ہو کر خود ہی بات شروع کی۔۔۔۔۔۔ 

آپ کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی اس نے ڈھرکتے دل کے ساتھ سوال کیا اس کا جواب تو بھی با خوبی جانتی تھی  لیکن وہ پھر بھی اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔

اگر میں کہوں ہاں تو۔۔۔  اس کا دھیان ابھی بھی سڑک پر تھا۔

اس نے سوال کے بدلے سوال کیا۔

تو میں کہوں گی کہ اگر آپ کے ساتھ زبردستی بھی کی گئی ہے تو اس بات کو بھول کر اب اس رشتے کو دل سے قبول کریں۔۔۔۔۔

اس نے رسانیت سے کہا۔۔۔۔۔

دل سے ان رشتوں کو قبول کیا جاتا ہے جو رضا مندی سے جڑے ہوں نہ کہ زبردستی۔۔۔۔۔۔۔اور میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مجھے تم میں نہ تو پہلے انٹرسٹ تھا اور نہ اب ہے۔۔۔۔۔۔ اس لیے مجھ سے اور اس رشتے سے امیدیں مت لگانا میں پورا نہی کر سکوں گا۔۔۔۔

اس نے اپنے الفاظوں سے اس کا دل توڑا۔۔۔۔۔

کیا آپ کو کبھی بھی مجھ سے محبت نہی ہو گی اس نے آخری کوششش کی۔۔۔

نہی ۔۔۔۔۔ 

اسکی  آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے نظریں دوبارہ سڑک پر مرکوز کیں۔۔۔۔۔۔

ایک دن آپ کو مجھ سے محبت ہو گی اور آپ خود مجھ سے اپنی محبت کا اقرار کریں گیں۔۔۔۔۔

پہلے تو اس کے جواب پر وہ دلبرداشتہ ہوئی لیکن پھر اعتماد سے بولی۔۔۔۔۔۔یہ اعتماد اسے خود پر نہی بلکہ اپنی محبت   پر تھا کہ وہ اسے خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی اپنی محبت اور اپنی وفا سے۔۔۔۔۔۔۔

اسکی بات پر اس نے لب بھینچ لیے۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد گاڑی میں خاموشی رہی ۔۔۔۔۔۔

گاڑی کے رکنے پر وہ خدا خافظ کہتی عمارت کے اندر داخل ہو گئی جہاں اس کی دوستیں اس کا بےصبری سے انتظار کر رہی تھیں۔۔۔۔۔

وہ اس کی پشت کو تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

ابھی اس نے عمارت کے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ وہ دونوں کسی جن کی طرح حاضر ہوئیں۔۔۔۔۔۔

صوفی نے انہیں کال پر بتا دیا تھا کہ وہ آج خود آۓ گی اس لیے وہ لوگ چلی جائیں۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں کب سے اس کا انتظار کر رہی تھیں لیکن وہ تھی کی آ ہی نہی رہی تھی۔۔۔۔۔۔

جب وہ انہیں عمارت کے اندر کھڑی دکھی لیکن اس کا دھیان باہر کی طرف تھا ۔وہ دونوں کسی جن کی طرح اس پاس حاضر ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔

اسے پھر بھی گیٹ کہ طرف سوچوں میں گم دیکھ کر انہیں شرارت سوجھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو گیٹ سے باہر دیکھتی اپنی سوچوں میں طلحہ سے مخاطب تھی بری طرح ڈر کر چونکی

اس کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی۔۔۔۔ ۔

ہاہاہا ہاہاہا تم ڈر گئی۔۔۔۔۔

اس کے ڈرنے پر وہ دونوں ہنسی۔۔۔۔

اس نے انہیں گھوری سے نوازا۔۔۔۔

اچھا اچھا اب نہی ہم ہنستے انہون نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔۔۔

ویسے یہ تو بریکنگ نیوز ہے ۔۔۔۔۔

کونسی۔۔۔۔۔۔؟؟ آہلہ نے اپنی ہنسی روکتے بظاہر سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔

ورنہ وہ جانتی تھی فاری ضرور کوئی الٹی بات ہی کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔

فاری اور سنجیدہ بات یہ تو ہو ہی نہی سکتا تھا۔۔۔۔۔

وہ یہ کہ اس نے رک کر سسپنس پھیلایا۔۔۔۔۔۔

اب بک بھی دو کیا سسپینس پھیلا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔

وہ یہ کہ دوسروں کو ڈرانے والی چڑیل خود ڈر گئی

یہ سن کر آہلہ کا ہنسی کا فوارہ چھوٹا۔۔۔۔۔۔

جبکہ صوفی نے دانت پیسے۔۔۔۔۔

اب کیا کروں مجھ سے بھی زیادہ ڈراؤنی چڑیلیں اس دنیا میں آ گئیں ہیں جن کو دیکھ کر مجھ جیسی تم لوگوں کے مطابق ڈراؤنی چڑیل بھی ڈر گئی۔۔   

اس نے اطمینان سے بدلہ چکایا۔۔۔۔۔

اب کہ ہنسنے کی باری اس کی تھی

وہ دونوں خود پر چڑیل کے القاب پر صدمے میں چلی گئیں۔۔۔۔۔۔

کیا میں تمہیں چڑیل لگتی ہوں فاریہ نے اپنا رخ آہلہ کی طرف کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔

اور میں؟؟۔۔۔۔۔۔

انکی شکلیں دیکھ کر وہ کھل کر ہنسی۔۔۔

تمہارے وہ بھی تو پھر جن ہی ہوۓ نہ وہ بھی کوجے والے ۔۔۔۔۔۔۔

فاریہ نے بھی اپنا بدلہ چکایا۔۔۔۔۔

فاریہ بدلہ نہ لے یہ تو ہی نہی سکتا۔۔۔۔

طلحہ کو جن کہنے پر اس نے انہیں گھورا اور ساتھ تنبیہ بھی کی۔۔۔۔۔

خبردار اگر تم لوگوں نے ان کے بارے میں کچھ کہا تو۔۔۔۔۔

اوہ دیکھو تو فاری کیسے یہ ان کہہ رہی ہے اور اور تو اور ابھی وہ ان کی زندگی میں شامل بھی نہی اور یہ میڈم کیسے ان کو جن کہنے پر برا منا رہی ہے۔۔۔۔۔

اس نے کچھ شوخی اور کچھ ناراضگی سے فاری کو کہا۔۔۔۔۔۔

وہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔۔

تم لوگوں کی انفارمیشن میں اضافے کے لیے بتا دیتی ہوں کہ وہ اب میرے مجازی خدا ہیں اور ان کے بارے میں ایسا ویسا کچھ کہنے سے پرہیز کیا جاۓ ورنہ ان کی مسز آپ کا منہ شریف توڑنے میں بلکل دیر نہی لگائیں گی۔۔۔۔۔۔۔

اس نے کچھ اکڑ کر کہا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔    

ان دونوں نے تو اس کی دھمکی کو سنا ہی نہی وہ تو اس کے مجازی خدا کہنے پر شاکڈ تھیں۔۔۔۔۔

اپنے شاک سے نکل کر وہ دونوں اس پر ٹوٹ پریں۔۔۔۔۔

ان کے ایسا کرنے پر وہ بوکھلائی۔۔۔۔۔۔۔

پرے ہٹو موٹیو مجھے کرسی سے گرانا ہے کیا ۔۔۔۔۔۔

اس نے ان دونوں کو خود سے دور کیا۔    

یہ لو ہو گئی پیچھے۔۔۔۔۔ اب بتاؤ یہ سب کب اور کیسے ہوا اور وہ تمہارے کھڑوس اوہ میرا مطلب  مجازی خدا مان کیسے گئے اس کے گھورنے پر آہلہ نے جملہ سہی کیا۔۔۔۔  

ہاں ہاں بتاؤ یہ معجزہ کیسے ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں خوشی سے اب اس کے جواب کی منتظر اسے دیکھ رہی تھیں وہ دونوں اس طرح اس کے ساتھ بیتھی ہوئی تھیں کہ دائیں جانب آہلہ تھی تو بائیں جانب فاریہ۔۔۔۔۔۔

اس نے دونوں کو باری باری دیکھا۔۔۔۔۔۔وہ جانتی تھی کہ وہ جتنا جاننے کے لیے اتاولی ہو رہی ہیں جب انہیں پتا چلے گا کہ نکاح کو ایک ہفتہ  ہو گیا ہے تو وہ اسے قتل کرنے میں بھی دیر نہیں لگائیں گی۔۔۔۔۔

بتاؤ بھی آہلہ نے اسے خاموش دیکھ کرکہا۔۔۔۔۔۔

اہ ہاں وہ اس دن بتاہا تھا نہ کہ دادی کی طبعیت خراب ہو گئ ہے ۔۔۔۔۔۔

اس نے تمہید باندھی۔۔۔۔

تو تمہاری دادی کی بیماری کا تمہارے نکاح سے کیا تعلق ۔۔۔۔۔۔

دونوں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔

تعلق ہے بلکہ بہت گہرا تعلق ہے اس نے ڈرتے ڈرتے سب بتا دیا دادی کا ایموشنل بلیک میل کرنا نکاح کا ہونا سب کچھ۔۔۔۔۔

یعنی اس نکاح کو ہوۓ ایک ہفتہ ہو گیا ہے فاریہ نے اسے خشمگین نظروں سے گھورا۔۔۔۔۔

اس نے آہلہ کی طرف دیکھا تو بھی اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ابھی آنکھوں سے ہی قتل کر دے گی۔۔۔۔۔

اس نے شرمندگی سے نظریں جھکا دیں۔۔۔۔

فاریہ کے اشارے پر آہلہ بھی اپنی کرسی سے اٹھ گئ۔۔۔۔ ۔

وہ جو ان کے ردعمل سے ڈر رہی تھی ان کی خاموشی پر سر اٹھایا تو وہ لوگ وہاں تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔

یعنی وہ اس سے ناراض ہو کر چلی گئ تھیں۔اس نے خود کو رج کے کوسا اور پریشان سی ان کےپیچھے بھاگی۔۔۔۔۔

وہ دونوں اسے آہلہ کی کلاس میں بیٹھی ملیں۔۔۔۔۔۔

وہ ان کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھی تو دونوں نے ناراضگی سے منہ پھیر لیا۔۔۔۔۔ 

ناراض ہوَ؟؟اس نے شرمندگی سے پوچھا۔۔

نہی نہت خوش اتنا خوش کہ بھنگرے ڈالنے کو دل کر رہا ہے کہ ہماری دوست نے ہم سے ہی اپنی خوشی شئیر نہی کی۔۔۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا نہ کہ تم ہمیں اس قابل ہی نہی سمجھتی کہ ہم سے اپنی خوشہ شئر کر سکو۔۔۔۔۔ 

نہی فاری ایسی بات نہی ہے میں تم دونوں سے سب سے پہلی یہ خوشی شئیر کرنا چاہتی تھی لیکن حالات ہی کچھ ایسے بن گئے تھے ۔۔۔۔۔دوسرا میں پہلے طلحہ سے اس بارے میں بات کرنا چاہتی تھی اس لیے تم لوگوں کو نہی بتایا۔۔   

اس نے وضاحت دی۔۔۔۔۔۔

دیکھو فاری وہ واقعی شرمندہ دکھائی دے رہی آہلہ نے اس کو شرمندہ دیکھ کر اس کی فیور کی

تو تم معافی چاہتی ہو فاریہ نے پوچھا۔۔۔۔۔ 

ہاں ۔۔۔۔۔۔

لیکن معافی تو تمہیں ایک شرط پر ہی مل سکتی ہے اگر تم ہمیں ٹریٹ دو وہ بھی زبردست والی اور ہماری بتائی گئی جگہ پر ۔۔۔۔۔۔   

اس نے شرط بتائی

ایک منٹ ایک منٹ اور ہمارے جیجو سے بھی ملواؤ گی تب پوری معافی ملے گی ورنہ نہی۔۔۔۔   

آہلہ نے شرارت سے اپنی شرط بتائی

ٹھیک ہے وہ آسانی سے مان گئی 

اب تو تم ہم میں سے نہی رہی آہلہ نے افسردگی سے کہا

کیوں میں تم میں سے اب کیوں نہی مجھے کونسا سینگ اگ آۓ ہیں

اس نے دونوں آئبرو اٹھاۓ

سینگ تو نہی اگے لیکن اب تم سیاں جی والی ہو گئی ہو فاریہ ہنسی

وہ دونوں اسے تنگ کرنے پر آمادہ ہوئیں 

اچھا اب تم لوگ بس بھی کرو کب سے تنگ کیے جا رہی ہو ۔۔۔۔۔وہ عاجز آگئ کب سے وہ اسے تنگ کیے جا رہی تھیں۔۔۔۔۔

جب وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو اس نے انگلی اپنے کانوں میں ٹھونس لی کہ شاید وہ چپ ہو جائیں لیکن وہ بھی اپنے نام کی ایک تھیں مجال ہے جو انہوں نے اس کے عمل کا اثر کرتے ہوۓ اسے چھیڑنے سے باز آئیں۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

چھٹی وقت وہ لوگ گیٹ پر کھڑی تھیں ۔۔۔۔کھڑی نہیں بلکہ طلحہ کا انتظار کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔کیونکہ بقول ان دونوں کے اپنے  آفیشل جیجو کو دیکھنے کا حق تو وہ لوگ رکھتی ہیں۔۔۔۔۔

انہیں انتظار کرتے ہوۓ پانچ منٹ گزرے تھے کہ صوفیہ کا سیل فون بجا۔۔۔۔اس نے دیکھا تو موبائل پر طلحہ کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔۔

طلحہ کا نام پڑھ کر وہ دونوں معنی خیز مسکرائیں

جی طلحہ۔۔۔جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔کوئی بات نہی دوسری طرف سے شاید کچھ کہا گیا تھا۔۔۔۔۔

کیا کہہ رہے تھے طلحہ بھائی۔۔۔۔اس نے فون رکھا تو آہلہ نے اس سے پوچھا

ایک ارجنٹ میٹنگ آگئی ہے جس کی وجہ سے وہ مجھے پک نہی کر پائیں گے ۔۔۔۔۔اس لیے کہہ رہے تھے کہ اپنی دوست کے ساتھ ہی آجانا ۔۔۔۔۔۔اس نے افسردگی سے کہا ۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا تھا کہ وہ اس کے ساتھ جاۓ گی ۔۔۔۔۔وہ اس سے باے نہ کرتا لیکن اس کے کیے تو یہی کافی تھا کہ وہ اسے دیکھ سکتی تھی محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔

اچھا نہ تم افسردہ کیوں ہو رہی ہو انہیں کام پڑ گیا اچانک اسی لیے وہ نہی آ پاۓ ورنہ وہ آتے۔۔۔۔اس کو افسردہ دیکھ کر فاریہ نے تسلی دی۔۔۔

ہمم۔۔۔۔۔ چلو آج تم میری گاڑی کی سواری کرو۔۔۔۔

وہ تینوں گاڑی میں سوار ہو گئیں۔۔۔۔۔گاڑی میں ان کی نوک جھوک بھی جاری تھی کہ اچانک گاڑی بند ہو گئی۔۔۔۔

آہلہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو جواباً فاریہ نے کندھے اچکاۓ۔۔

اب کندھے کیا اچکا رہی ہو ۔۔۔باہر چل کر دیکھو کیا ہوا ہے تمہاری اس شاہی سواری کو۔۔۔۔صوفیہ نے اسے کندھے اچکاتے دیکھ کر ڈپٹا۔۔۔۔۔

اس کے ڈانٹنے پر وہ برا سا منہ بناتی گاڑی سے نکلی اور گاڑی کا بونٹ اٹھا کر دیکھنے لگی لیکن سے کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔۔۔

اس کے پیچھے پیچھے وہ دونوں بھی گاڑی سے نکلی۔۔۔۔کیا ہوا گاڑی کو۔۔۔۔پتا نہی کچھ سمجھ نہی آ رہی۔۔۔۔۔فاریہ نے پریشانی سے کہا

 تو اب کیا کریں۔۔۔۔آہلہ نے کہہ کر راستے پر نظر ڈالی جو دوپہر ہونے کی وجہ سنسان تھی اکا دکا لوگ اور گاڑیاں ہی تھیں۔۔۔۔ 

لفٹ ہی لینی پڑے گی فاریہ نے کہا اور لفٹ کے لیے سڑک پر نظر دوڑائی۔۔۔۔۔

ایک تو آج گاڑی والوں کی سٹرائک تھی جس کی وجہ سے وہ لوگ بس یا رکشہ وغیرہ پر نہی جا سکتی تھیں۔۔۔۔

ایک دو گاڑیاں ان کے اشارے پر رکی بھی تھیں لیکن

ان میں لڑکوں کو جو کہ حلیے سے ہی اوباش دکھتے تھے دیکھ کر انہوں نے ان سے لفٹ نہ لینے میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔

انہیں آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا راستے پر کھڑے لیکن ابھی تک کوئی شریف گاڑی والا نہی ملا تھا۔۔۔۔

یار میں تھک گئی ہوں اب اور مجھ سے نہی کھڑا ہوا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔فاریہ نے سڑک کنارے بیٹھ کر ٹانگوں کو دباتے دہائی دی۔۔۔۔۔

کھڑا تو ہم سے بھی نہی ہوا جا رہا صوفیہ نے بھی کہا۔۔۔۔آہلہ کی حالت کچھ اچھی نہی تھی۔۔۔۔۔۔آج ان کی قسمت ہی خراب تھی ۔۔۔۔۔آہلہ نے شہروز کو دو تین دفع کال کہ تھی لیکن اس کا موبائل شاید سائیلینٹ موڈ پر تھا جو وہ اٹھا نہی رہا تھا۔۔۔۔۔اب وہ تینوں سڑک کنارے چونکری مار کر بیٹھ گئ تھیں۔۔۔۔فاریہ نے بیگ سے کچھ لیز نکالے اور ان کو دیے۔۔۔۔۔حد ہے ویسے فاری مطلب تم کتبی بھی ٹینس سٹویشن میں ہو لیکن تم کھانا نہی بھولتی۔۔۔۔۔آہلہ نے چپس منہ میں ڈالتے کہا۔۔۔۔۔

مجھے ٹینشن میں زیادہ بھوک لگتی ہے

ہیییییی۔۔۔میں نے سنا تھا لوگوں کو ٹینشن میں بھوک کم لگتی ہے۔۔۔۔۔اور تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں زیادہ لگتی ہے۔۔۔۔۔مطلب تم نے ہر کام دنیا سے انوکھا کرنا ہے۔۔۔۔۔

کہہ تو تم سہی رہی ہو صوفی۔۔۔۔۔یہ تو اس کے جینز بے چارے اچھے ہیں جو اس کے اتنے کگانے پر بھی اس کے فگر پر زرا اثر نہی ہوتا ۔۔۔۔۔ورنہ جتنا یہ کھاتی ہے اس نے تو غبارے کی طرح پھول جانا تھا۔۔۔۔۔

ان کے غبارہ کہنے پر اسے صدمہ ہوا

وہ ابھی ان سے بدلہ لیتی کہ ایک گاڑی ان کے عین مقابل رکی ۔۔۔۔اور گاڑی سے ایک نوجون نکلا۔۔۔۔

ارے سر فاحد آپ ۔۔۔۔۔ سر فاحد کو دیکھ کرطوہ لوگ جو سڑک کنارے بیٹھ کر ہر چہز سے بے نیاز ہو کر کھانے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف تھیں جلدی سے اٹھیں۔۔۔۔اب انہیں شرمندگی ہو رہی تھی کہ سر فاحد نجانے ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے کہی یہی نہ سمجھ لیں کہ وہ بھیک مانگنے کا پارٹ ٹائم جاب کرتی ہیں۔۔۔۔

جی میں ۔۔۔۔۔آپ لوگ یہاں اور ایسے کیوں بیٹھی ہوئی ہیں۔۔۔۔اس نے سن کے بیٹھنے والے انداز کی طرف اچارہ کیا۔۔۔۔

کہیں آپ یہ تو نہی سمجھ رہے سر کہ ہم بھیک مانگ رہی ہیں۔۔۔۔۔اگر ایسا کچھ سوچا بھی ہے تو تصحیح کر لیں کہ ہم یہاں بھیک مانگنے کے لیے نہی بیٹھے تھے بلکہ اس لیے بیٹھے تھے کہ ہماری گاڑی خراب ہو گئی تھی اور لفٹ بھی نہی مل رہی تھی اس لیے ہم لوگ کھڑے کھڑے تھک گئے تھے۔۔۔۔۔اس نے تفصیل سے بتایا

نہی میں ایسا کچھ نہی سمجھ رہا اور ویسے بھی اتنی خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کو کون کافر بھکارن سمجھے گا ۔۔۔۔۔۔۔سر فاحد نے ہنس کر کہا

شکریہ سر ہماری تعریف کے لیے

وہ دونوں تو خاموش کھڑی تھیں کب سے فاتیہ ہی بولی جا رہی تھی۔۔۔۔۔اس کے بنا بات کے ہانکنے ہر آہلہ نے اسے کہنی ماری اور اشارہ  کیا کہ فضول بولنے کی بجاۓ مدعے کی بات کرے۔۔۔۔۔۔

اس کے کہنی مارنے پر اس نے اپنی زبان کو فضول گوئی سے روکا اور اس کے اشارے پر سر فاحد سے لفٹ مانگی۔۔۔۔۔۔

جس پر انہوں نے انہیں ہاں کہا۔۔۔۔

سب سے پہلے انہیں آہلہ کو اتارنا تھا۔۔۔۔۔آہلہ نے انہیں ایڈریس سمجھایا اور چپ کر کے سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔۔۔۔

گھر آنے پر اس نے شکریہ کہا اور گاڑی سے نکل گئی۔۔۔۔وہ دل میں دعا کر رہی تھی کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے نہی تو سو سوال جواب ہوتے اس سے۔۔۔۔۔

کمرے میں آکر اس نے شکر کا سانس لیا کہ کسی نے نہی دیکھا تھا۔۔۔۔۔اسے الجھن ہو رہی تھی۔۔۔۔وہاں گرمی میں کھڑے ہونے سے پسینے کی بدبمبو بھی آرہی تھی۔۔۔۔۔اس نے کپڑے لیے اور واش روم میں بند یو گئی۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

اسے نیند نہی آ رہی تھی اس لیے وہ لان میں چہل قدمی کرنے لگی۔۔۔۔۔شہروز اپنے کمرے کی ٹیرس پر کھڑا تھا کہ اسے دیکھ کر اسے مسڈ کالز یاد آئیں جو وہ موبائل سائلنٹ پر ہونے کی وجہ سے دیکھ نہی پایا تھا ۔۔۔۔۔اس نے بھی نیچے کے لیے قدم اٹھاۓ۔۔۔۔۔

تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔اس نے اسکے ہم قدم ہو کر کہا۔۔۔۔۔۔وہ تو ہمیشہ اب اس کے ہم قدم چلنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

اس نے آواز پر دیکھا تو وہ اس کے بلکل ہم قدم تھا۔۔۔۔کچھ نہی بس ویسے ہی نیند نہی آ رہی تھی ۔۔۔۔تو سوچا کچھ دیر لان میں چہل قدمی ہی کر لوں۔۔ ۔۔۔۔

ہمم سہی ۔۔۔۔۔دوپہر کو تمہاری مسڈ کالز آئیں تھیں جو کہ میں پک نہی کر سکا۔۔۔۔۔۔سب خیریت تھی کہ تم نے مجھے کال کی۔۔۔۔۔بعد میں میں نے ٹرائی کیا تگا لیکن تمہارا موبائل آف جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔

جب اس نے اس کی مسڈ کالز دیکھی تو اسے پریشانہ ہوئی کیونکہ آہلہ نے کبھی بھی اسے کال نہی کی تھی۔۔۔اب اس نے کی تھی تو یقیناً کوئی پریشانی پیش آئی گی اسی لیے اس نے کی تھی۔۔۔۔۔اس نے اسے کال بیک کی لیکن اس کا مابائل بن جا رہا تھا۔۔۔۔۔

جی وہ فاریہ کی گاڑی رستے میں خراب ہو گئی تھی اس لیے کال کی تھی۔۔۔۔۔اور موبائل کو بند کر کے میں نے چارجنگ پر لگایا تگا شاید اسی وقت آپ نے کال کی ہو گی ۔۔۔۔۔۔

تو پھر تم لوگ کیسے آئیں۔۔۔۔۔کیا کسی سے لفٹ لی تھی۔۔۔۔

جی ہمارے سکول کے میل ٹیچر ہیں سر فاحد انہوں نے ہی ہمیں ڈراپ کیا تھا۔۔۔۔۔

سوری ۔۔۔۔۔۔ تم نے مشکل میں مجھے یاد کیا اور میں تمہار کام نہی آسکا۔۔۔۔۔

کوئی بات نہی۔۔۔۔

کافی دیر باتیں کرنے کے بعد جو کہ زیادہ تر شہروز ہی کر رہا تھا وہ جس اس کی بات کا جواب دے دیتی ۔۔۔۔۔آہلہ سونے کے لیے چلی گئ۔۔۔۔۔

شہروز پیچھے چاند کو دیکھ کر مسکرایہ۔۔۔۔۔

وہ جونہی گھر پہنچی تو بانو چچی نے اسے دادی کا پیغام دیا ۔۔۔۔۔وہ بیگ رکھ کر فوراًان کے کمرے میں پہنچی۔۔۔۔۔

جی دادو آپ نے بلایا تھا مجھے۔۔۔۔طبعیت تو ٹھیک ہے نہ آپکی۔۔۔۔۔اس نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔

ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔کیا میں تمہیں بغیر کام کہ نہی بلا سکتی۔۔۔۔

انہوں نے اسے اپنی طرف سے مطمئن کیا۔۔۔۔۔

نہی دادو آپ جب چاہیں مجھے بلا سکتی ہیں میں تو آپکی طبعیت کی وجہ سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔

فہمیدہ بتا رہیی تھی کہ تم ابھی تک نہی آئی۔۔۔۔

جی دادو فاریہ کی گاڑی رستے میں خراب ہوگئی تھی ا لیے دیر ہو گئی۔۔۔۔

کیا مطلب تمہیں طلحہ نہی چھوڑ کر گیا۔۔۔۔

انہوں نے ہی مجھے چھوڑنا تھا لیکن ان کی ارجنٹ میٹنگ تھی جس کی وجہ سے وہ نہی آۓ۔۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔۔۔

مجھے تم سے اس رشتے کے بارے میں بات کرنی تھی۔۔۔۔۔

جی دادو۔۔۔۔

بیٹا میں جانتی ہوں کہ طلحہ نے میری خواہش کا احترام کرتے ہوۓ تم سے نکاح کیا ہے۔۔۔۔۔۔اور اسے وقت لگے کا اس رشتے کو قبول کرنے میں ۔۔۔۔۔صبا کے ساتھ اس کی شادی چاہے پسند کی نہ تھی لیکن اس رشتے میں اللہ نے برکت رکھی ہے۔۔۔۔جس سے دو انجان لوگ ایک دوسرے کے انتہائی قریب آجاتے ہیں۔۔۔۔۔اور پھر ان دونوں کا تو دو سال کا ساتھ تھا۔۔۔۔۔یقیناً اس کے دل میں بھی صبا کے لیے محبت ہو گی ۔۔۔۔۔انہوں بے سانس لی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔۔۔۔

بیٹا اب تمہیں اس کے دل میں اپبے لیے جگہ بنانی ہے اپنی محبت سے۔۔۔۔۔وہ تمہیں نا پسند نہی کرتا بلکہ تم تو اس کی کزن ہو ۔۔۔وہی کزن جس کے بچپن میں وہ لاڈ اٹھایا کرتا تھا۔۔۔۔۔مجھے امید ہے وہ تمہیں اور اس رشتے کو جلد ہی قبول کر لے گا بس تمہیں صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے میری بچی۔۔۔۔اور میں جانتی ہوں کہ تم بھی اس سے محبت کرتی ہو اور اسی محبت سے تم اسے اپنا گرویدہ بنا لو گی۔۔۔انہوں نے اس کے ہاتھ پر ہلکا سا دباؤ ڈالا۔۔۔۔۔آپکو کیسے پتا دادو۔۔۔۔اس نے بمشکل الفاظ کہے۔۔۔۔

بیٹا یہ بال میں نے دھوپ میں سفید نہی کیے۔۔۔۔۔

جی جانتی ہوں بابا لوگوں سے سر کھپا کھپا کر کیے ہیں۔۔۔۔۔وہ ہنسی

چل شریر ۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓

رات کے کھانے پر سبھی ٹیبل پر موجود تھے کہ دادو نے اسے محاطب کیا۔۔۔۔

جی دادو۔۔۔۔۔اس نے ادب سے کہا

بیٹا بیوی شوہر کی زمہ داری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔اور صوفیہ تمہاری زمہ داری ہے۔۔۔۔آج بھی تم اسے لینے نہی گئے۔۔۔۔۔۔جبکہ میں نے کہا بھی تھا کہ تم اسے لینے جاؤ گے۔۔۔۔۔

دادو میری ارجنٹ میٹنگ آ گئی تھی اس لیے۔۔۔۔۔میں نے اسے کال کر کے بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

بیٹا آپ نے تو بتا دیا تھا لیکن آتے ہوۓ اس کی دوسے کہ گاڑی خراب ہو گئی ۔۔۔۔۔کتنہ پریشانی ہوئی بچی کو۔۔۔۔۔اس لیے اب کوئی بھی ضروری کام ہو تم ہی اسے لینے جاؤ گے ۔۔۔۔۔۔بیوی پہلے نمبر کام دوسرے پر ہونا چاہیے تمہارا۔۔۔۔۔

جی دادو آئیندہ خیال رکھوں گا۔۔۔۔اس نے انہیں تابعداری سے جواب دیا لیکن صوفیہ کو گھورنا نہ بھولا۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

وہ لوگ باتیں کررہی تھیں کہ پیین نے انہیں میم سلمہ کا پیغام دیا۔۔۔۔۔

اب میم نے کیوں بلایا ہے ۔۔۔۔

آلی ہم بھی تمہارے ساتھ ہی ہیں ہمیں کیسے پتا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے جواب دینے لگی تھی کہ میم سلمہ کے سلام کرنے پر چپ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ سب کیسے ہیں ؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب فٹ فاٹ ہیں میم آپ تو اس ہفتے میں مزید پیاری ہو گئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

سر فاحد کے جواب پر سب ہنس دیے۔۔۔۔۔۔

میم سلمہ بھی ہنس دی۔۔۔۔۔۔۔۔

سر فاحد کی نیچر فرینکلی تھی وہ ہر ایک کے ساتھ فرینکلی بات اور مزاق کرتے تھے لیکن اپنی حد میں رہ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے سب ہی ان کی باتوں اور کمپنی کو انجواۓ کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

اب اس بارے میں میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔۔۔ ویسے نکھرے نکھرے تو آپ بھی لگ رہے ہیں اب آپ بتائیں اس نکھار کی وجہ کونسی کریم ہے۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا

فائزہ بیوٹی کریم ۔۔۔۔۔۔۔۔

سر سرمد کے جواب پر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔

آپ کو بڑا پتا ہے سر کہیں آپ لگاتے تو نہی۔۔۔۔۔۔

سر فاحد نے معصومیت سے پوچھا۔۔۔۔۔

نہی جناب ہمیں ان چونچلوں کی ضرورت نہی ہم قدرتی حسن سے ہی مالا مال ہیں ان مصنوعی چیزوں کی ہمیں ضرورت نہی ہے۔۔۔۔۔۔   

سر سرمد نے کالر اکڑاۓ

سب ان کی نوک جھوک کو انجواۓ کر رہے تھے۔۔۔۔۔

وہ لوگ ایسے ہی ایک فیملی کی طرح سکول میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

میم  سر فاحد کی بیوٹی کا راز کوئی کریم نہی بلکہ ان کی منگنی ہے۔۔۔۔۔۔۔ سر واصف نے سر فاحد کی حوبصورتی کا راز بتایا

بہت بہت مبارک ہو سب نے سر فاحد کو مبارک دی۔۔۔۔۔۔

یہ باتیں تو چلتی رہیں گی پہلے کچھ ضروری بات کر لیتے  ہیں جس کے لیے آپ سب کو بلایا گیا ہے وہ سنجیدہ ہوئین۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ اس سال رزلٹ پر آنے والے گیسٹ کون ہے یہ سب کو جاننے کا شوق تھا ،،، ہم پہلے ہی آپ سب کو نام بتا دیتے لیکن اس وقت کنفرم نہی تھا کہ وہ شرکت کر پائیں گی کہ نہی ،،،، لیکن چونکہ اب کنفرم ہو گیا ہے تو آپکو بتا دیتیں ہیں۔۔۔۔۔۔

وہ مسکرائیں اور سب کو دیکھا تو تجسس سے ان کی بات سن رہے تھے۔۔۔۔۔۔

یہ میم اتنا سسپنس کیوں کریٹ کر رہی ہیں بتا بھی دیں اب ۔۔۔۔۔۔فاریہ نے آہلہ کے کان میں سر گوشی کی

آہلہ نے اسے چٹکی کاٹی۔۔۔۔۔

کیا ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی بازو سہلائی

چپ کر کے بیٹھو میم بتانے تو لگی ہیں۔۔۔۔۔

تو جو ہستی اس دفع ہمارے رزلٹ پر از آ گیسٹ شرکت کر رہی ہیں وہ نورمصطفی گیلانی ہیں ،،،، وہ اپنی بے پنہا مصروفیت سے وقت نکال کر ہماری تقریب میں شرکت کر رہی ہیں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ سب کچھ بہترین ہو۔۔۔۔۔۔۔۔  

اس کے لیے آپ سب کو کچھ کام ہیں جو میں آپ سب کو تقسیم کر رہی ہوں اور مجھے امید ہے آپ لوگ مجھے مایوس نہی کریں گے۔۔۔۔۔۔

یس میم۔۔۔۔۔

مس سندس اور مس عمارہ  آپ کی زمہ داری ڈسپنل کو دیکھنا ہے گرلز کی سائڈ پر اور سر فاحد اور سر سرمد کی بوائز سائڈ پر۔۔۔۔۔۔

مس فاریہ آپ اور مس صوفیہ کمپیرنگ کریں گی اور اس سلسلے میں آپ مس فائقہ اور سم ثمرین سے رابطہ کر لیجیے گا وہ بچوں کو تیاری کروائیں گی

اور اب آتے ہیں گیسٹ کے استقبال کی طرف تو اس کہ زمہ داری مس آہلہ آپ کی ہے اور اس میں کی قسم کی کوتاہی برداشت نہی کی جاۓ گی۔۔۔۔۔

آئی ہوپ آپ سب اپنا کام بخوبی انجام دے گیں اور شکایت کا موقع نہی دیں گے۔۔۔۔۔۔

سب نے سر ہلایا

💓💓💓💓💓💓💓

میٹینگ کے ختم ہونے پر سب اپنی اپنی خوشگپیوں میں مصروف ہو گئے جبکہ وہ تینوں کینٹین کی بیک سائڈ پر آ گئیں۔۔۔۔۔

یہ نور مصطفی گیلانی کون ہیں جن کے لیے میم اتنا کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

آہلہ نے اپنے زہن میں کب سے گھوم رہا سوال کر ہی ڈالا۔۔۔۔۔

تم نہی جانتی ان کو ۔۔۔۔۔۔

نہی اس کے نفی میں سر ہلانے پر دونوں نے اسے ایے دیکھا جیسے انہیں اس کے اس سوال کی امید نہ ہو۔۔۔۔۔

مجھے سچ میں نہی پتا۔۔۔۔   اگر پتا ہوتا تو تم لوگوں سے کیوں پوچھتی۔۔۔۔۔  

اس نے ان کے دیکھنے پر یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ سچ میں اس  کو نیی جانتی جس کا نام نور مصطفی گیلانی ہے۔۔۔۔  

ویسے تم کس دنیا میں رہتی آئی ہو جو تم ان کو نہی جانتی۔۔۔۔۔  

فاریہ کے کہنے پر وہ چڑی

اچھا نہی بتانا تو مت بتاؤ اب مجھے نہیں معلوم تو کیا کروں۔۔۔۔۔۔

اس کے چڑنے پر صوفی نے ان کے بارے میں بتایا۔۔۔۔۔

نور مصطفی گیلانی مصطفی گیلانی کی وائف اور گیلانی ایمپائر کی مالک ہیں۔

دنیا میں جہاں بڑے بڑے بزنس مینز کا زکر کیا جاتا ہے وہیں ان کا نام بھی  لیا جاتا ہے بلکہ بڑے بڑے بزنس مین ان کے ساتھ بزنس کرنے کے خواہش مند ہیں۔۔۔۔۔۔ 

اس نے ان کا تعارف کروایا

ہمم تو ان کے ہسبنڈ کیا کرتے ہیں۔۔۔  

ان کا بھی اپنا بزنس ہے ۔۔۔۔۔۔نور گیلانی بزنس کے ساتھ ساتھ محتلف این جی اوز بھی چلاتی ہیں۔۔۔۔۔۔

اور تو اور ان کا بیٹا عاجل ہے یار کیا بتاؤں بلکل کسی فلم کے ہیرو کی طرح ،،،،ٹھہرو میں تمہیں اس کی پک دکھاتی ہوں۔۔۔۔۔

اس نے گوگل سے سرچ کر کے اسے پک دکھائی۔۔۔۔

گورا رنگ نیلی آنکھیں جیسے اپنے اندر پورے سمند کو سموۓ ہوۓ ہوں ہلکی ہلکی شیو اور مونچھوں میں تمام تر وجاہت لیے وہ کسی کو بھی زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔

اسے اس کی آنکھوں کے رننگ نے اٹریکٹ کیا تھا لیکن پھر اس نے سر جھٹکا۔۔۔۔۔

او بی بی اتنی آہیں کیوں بھر رہی ہو وہ شہزادہ ہے اور کسی شہزادی سے ہی شادی کرے گا تم خوامخواہ اس کو دیکھ کر آہیں بھرتی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں تم تو جیلس ہو گی ہی میں نے تمہاری ہبی کی تعریف جو نہی کی اور شادی تو میں اپنے فوجی سے کروں گی۔۔۔۔

فوجیوں سے اس کے لگاؤ کو تو وہ جانتی تھیں اور دعا گو تھیں کہ اسے فوجی ہی ملے جو اس کی دوسروں کی سنے بغیر اپنی ہانکنے کی عادت کو تو ختم کرواۓ۔۔۔۔

میں کیوں جیلس ہوں میرے ہبی جیسا تو کوئی بھی نہی ہے۔۔۔۔۔

اچھا جی ۔۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔

ویسے اگر یہ بھی تقریب میں شرکت کرے تو کتنا مزہ آۓ میں تو اس کے ساتھ سیلفی بھی لوں۔۔۔۔۔ 

اس کی سوئی ابھی بھی وہی اٹکی ہوئی تھی

اسے سوچنے کی بجاۓ اگر تم جو کام میم نے تمہیں دیا ہے دیکھ لو تو میم ہی شائد تمہارے کام سے امپرس ہو کر تمہیں کوئی ٹرافی پکرا دیں۔۔۔۔۔ 

تمہیں تو وہ بھی میم نے نہی دینی۔۔۔۔۔

انہیں بحث کرتے دیکھا تو اس نے ان دونوں ڈانٹ کر چپ کروایا۔۔۔۔ 

💓💓💓💓💓💓💓💓

وہ لوگ کینٹین بیٹھی برگر سے انصاف کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔

آج سے مجھے لینے اور چھوڑنے طلحہ آیا کریں گے صوفیہ نے یاد آنے پر بتایا۔۔۔۔۔

ہمم یعنی دولہے میاں کو نکاح کے بعد ہماری دوست کی قدر ہو گئی فاریہ نے شوخی سے کہا ۔۔ ۔ 

جبکہ وہ سنجیدہ ہی رہی۔۔۔۔

ابھی کہاں ابھی تو ان کے دل میں اپنے لیے محبت پیدا کرنی ہے اور یہ جو تم قدر فکر اینڈ آل دیٹ کی بات کر ہی ہو نہ یہ بھی دادی کی وجہ سے وہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ 

اس نے انہیں کل رات کھانے کا واقع بتایا۔۔۔۔

نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے صوفی دیکھنا ایک دن ان کے دل میں نہ صرف تمہارے لیے محبت ہو گی بلکہ وہ تمہاری قدر بھی کریں گے آہلہ نے اس کی ہمت بندھائی۔۔۔۔

اللہ کرے وہ دن جلدی آۓ ۔۔۔۔۔۔

تینوں نے آمین کہا۔۔۔۔۔

تو پھر چلو آج تمہارے انننننننننن کو بھی دیکھ لیتے ہیں جن کے پیچھے ہماری دوست کم چڑیل زیادہ فدا ہیں۔۔۔۔۔

فاریہ نے ان کو لمبا کھینچا۔۔۔۔۔

اس کے ان کہنے پر وہ دونوں ہنسی لیکن اس کے چڑیل کہنے پر صوفیہ نے پاس پڑی  بک اس کے سر میں دے ماری۔۔۔۔۔

کیوں مجھے مار کر میرے ہونے والے شوہر کو بیوہ کرنا چاہتی ہو ۔۔۔۔

اس نے اپنے سر کو دہلاتے ہوۓ اپنی زبان کا جوہر دکھایا۔۔۔۔۔

آہلہ تو بیوہ لفظ پر لوٹ پوٹ ہو رپی تھی۔۔۔۔۔

سیریسلی فاری مرد اور بیوہ۔۔۔۔۔

وہ پھر ہنسی۔۔۔۔

اب اسے احساس ہوا کے وہ کیا بول گئی ہے اس لیے اپنی بات کو کور کرنے لیے بولی۔۔۔۔۔۔

اگر لڑکی بیوہ ہو سکتی ہے تو لڑکا کیوں نہی۔۔۔۔ 

ہاں جی فاریہ دی گریٹ کے لیے تو سب ممکن ہے

اب کے صوفیہ بولی۔۔۔  

اس نے اپنے فرضی کالر اٹھاۓ۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

وہ تینوں گیٹ کے پاس کھڑی طلحہ کا انتظات کر رہی تھیں

انتظار تو وہ بھی شدت سے اس کا کر رہی تھی لیکن ان دونوں کو تو شائد اس بھی زیادہ شدت سے اس کا انتظار تھا وہ انہیں دیکھ کر رہ گئی۔۔۔۔۔

یار صوفی تمہارا ہبی تو آ ہی نہی رہا  ۔۔۔۔۔فون کر کے پوچھ لو کہیب کل کی طرح موصوف کو کوئی کام نہ یاد آ گیا ہو۔۔۔۔۔۔نہی تو دھوپ میں کھڑے کھڑے میرا رنگ کالا ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔

فاریہ کو اپنے رنگ کی فکر پڑ گئی۔۔۔۔۔

اب کہ وہ بھی پریشان ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ انہیں یہاں کھڑے پندرہ منٹ ہو گۓ تھے لیکن وہ آ ہی نہی رہا تھا۔۔۔۔۔۔

اس کے دل میں مختلف وسوسوں نے ڈیرا جمانا شروع کر دیا وہ مسلسل اس کی خفاظت کی دعائیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔ 

پانچ منٹ مزید گزرے تھے کہ ایک سوک اس کے پاس کھڑی ہوئی اور اس میں سے طلحہ نکلا

وہ اس کی طرف بڑھی تو وہ دونوں بھی اس کی تقلید میں بڑھیں۔۔۔۔۔ 

وہ اس سے اتنی تاخیر کی وجہ پوچھنے کے لب وا کرنے لگی تھی کہ وہ دونوں اس سے پہلے شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔۔

اسلام علیکم جیجو آئی مین مسٹر طلحہ۔۔۔۔۔

فاریہ نے آہلہ کے کہنی مارنے پر جملہ درست کیا

وعلیکم سلام ۔۔۔۔۔

ہم دونوں صوفی کی فرینڈز ہیں۔۔۔۔۔

اچھا لگا آپ سے مل کر ،،،، چلیں پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔انہیں کہہ کر اس نے اسے چلنے کا کہا

جی ۔۔۔۔۔۔۔ان سے مل کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئی

ان کے جانے کے بعد وہ بھی اپنی گاڑی کی طرف بڑھیں 

💓💓💓💓💓💓💓

ویسے جیجو ہیں ہینڈسم فاریہ نے تعریف کی اسے وہ اپنی دوست کے لیے پسند آیا تھا اور وہ دعا گو تھی کہ اس خوبرو کے دل میں اس کی دوست کے لیے مخلص جزبات پیدا ہو جائیں

ہاں وہ تو ہیں آہلہ نے بھی اس کہ تائد کی

آپ کہاں تھے ،،،،،، میں اتنا پریشان ہو گئی تھی ،،،،، اتنے برے برے خیالات میرء زہن میں آ تہے تھے اوپر سے آپ کا فون بھی آف تھا

اس نے اس کے چہرے پر اپنے لیے فکر دیکھی تو ایک انجانی سی اسے خوشی ہوئی

میٹینگ تھی پھر میرا دوست آگیا شہروز یاد ہے اس لیے دیر ہو گئی

اچھا ویسے تو کافی دیر ہو گئ وہ ہمارے گھر نہی آۓ

ہمم شادی پر آۓ گا اب 

اس کے شادی کے زکر پر وہ شرما کر خاموچ ہو گئی

شہروز طلحہ کا یونیورسٹی کا دوست تھا شہروز تھا تو اس سے دو سال جونئیر لیکن ان میں دوستی کمال کی تھی وہ اکثر ان کے گھر بھی جاتا تھا اور طلحہ بھی  اس لیے ان کی فیملیز بھی ایک دوسرے کو اچھے سے جانتی تھیں

💓💓💓💓💓💓💓

رات کے بارہ بج رہے تھے کہ اسے پیاس لگی۔۔۔۔۔اس نے جگ دیکھا تو اس میں پانی ختم تھا ۔وہ پانی پینے کی غرض سے کچن میں آئی تو شہروز اسے لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا دکھا۔۔۔۔۔

وہ خیران ہوئی کہ وہ اس وقت یہاں۔۔۔۔۔ ۔وہ اپنی کنپٹیوں کو ہاتھ کی دو انگلیوں سے مسل رہا تھا۔

وہ سمجھ گئی کہ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔اس نے اپنے لیے جگ میں پانی ڈالااور  اس کے لیے چاۓ کا پانی چولہے پر رکھا۔۔۔۔۔

یہ لیں چاۓ اس نے چاۓ کا مگ اس کے سامنے کیا۔۔۔۔۔

اسکی آواز پر اس نے سر اٹھایا اور مگ تھاما۔۔۔۔۔

شکریہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس کی واقعی بہت ضرورت تھی

اسے جانا مناسب نہ لگا اس لیے وہ سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔

تم بتاؤ تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے۔۔۔۔۔ اس نے چاۓ کا سپ لیتے اس سے پوچھا جو اس کے سامنے کنفیوذ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔

اچھی جا رہی ہے۔۔۔۔

ہممم ۔۔۔۔ اس کے بعد دونوں طرف سے خاموشی رہی

اس نے مگ ٹیبل پر رکھا تو وہ کچن میں مگ رکھنے چلی گئی۔۔۔۔۔۔

صبح ساجد صاحب نے اسے میٹینگ کے لیے کراچی بھیج دیا تھا۔ میٹینگ تو اس دوپہر میں ختم ہو گئی تھی اس لیے وہ وہاں رکنے کی بجاۓ واپس آگیا۔۔۔۔۔۔

وہ نہی چاہتا تھا کہ وہ اس کے دیدار سے ایک دن بھی محروم رہ جاۓ۔ اس لیے وہ واپس آگیا لیکن راستے میں گاڑی کی خرابی کہ وجہ سے اسے پہنچتے پہنچتے بارہ بج گۓ ۔۔۔۔۔۔ اسے افسوس ہوا ہے کہ وہ رات کے کھانے پر اس کے دیدار سے محروم رہ گیا ۔لیکن اسے اس وقت اپنے سامنے دیکھ کر اس کی تو گویا مراد بھر آئی تھی ۔یعنی وہ رب بھی اس کی محبت اور تڑپ کو جانتا تھا اسی لیے اسے اس کے دیدار سے اس نے اسے محروم نہ ہوۓ دیا تھا۔

وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا کمرے میں چلا گیا

اف میں تو تھک گئی وہ گرنے کے انداز میں کرسی پر بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔

ہاں تم نے ہل جو چلاۓ ہیں۔۔۔۔۔۔ صوفیہ نے طنز کیا۔۔۔۔۔

ہل چلانے سے زیادہ مشقت دہ کام ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔ آہلہ اچھی ہے نہ اس کو اتنا آسان کام ملا ہے۔۔۔۔

دوسروں کی طرف ہی دیکھتی رہنا اپنے کام پر نہ توجہ دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ لو جی یہ اچھی بات ہے صبح سے میں کبھی مس فائقہ کے پاس تو کبھی مس ثمرہن کے پاس چکر لگا لگا کر تھک گئی ہوں اور ان میڈم کو ابھی بھی مجھ سے شکایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بھی تمہارے ساتھ ہی تھی کوئی اتنا بڑا تیر نہی مارا تم نے۔۔۔۔۔ ۔

تم لوگ تو ہر جگہ لڑنا شروع ہو جاتی  ہو۔۔۔۔۔۔۔

مس آلی اپنا جملہ درست فرمائیے میں نہی یہ جگھڑتی ہے اس نے فاریہ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔

ہاں ہاں لگا لو مجھ بے چاری پر الزام۔۔۔۔۔۔تم لوگوں کو تو میں ہی دکھتی ہوں۔۔۔۔۔۔فاریہ کی اداکاری عروج پر تھی۔۔۔۔۔

یار کوئی کسی پر الزام نہی لگا رہا اس لیے اب چپ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی لڑائی سے تنگ آ کر اس نے کہا۔۔۔۔۔

تم بھی اسی میسنی کی سائڈ لے رہی ہو۔۔۔۔

یہ دیکگو میرے جڑے ہاتھ میں کی ہی سائڈ نہی لے رہی۔۔۔۔۔اس لیے اب تم دونوں اپبی اپنی زبانوں کو آرام دو ۔۔۔۔۔بے چاری سارا سارا دن چل شل کر تھک گئی ہوں گی۔۔۔۔

اس نے صلح انداز میں کہا۔۔۔۔

کافی دیر تک وہ دونوں خانوش رہیں توطان کی چپی اسے اچھی نہ لگی۔۔۔۔۔اسے تو اپنی دوستیں ہر وقت بولتی شرارتیں کرتی اچھی لگتی تھیں۔۔۔اس لیے اس نے آؤٹنگ کا آئدیا دیا۔۔۔۔۔وہ جانتیبتھی کہ کھانے کی بات پر تو فاریہ ہمیشہ آگے ہوتی ہے۔۔۔۔۔اور جب پیسے بھی کی اور کہ ہوں تو وہ کبھی بھی انکار نہی کرے گی۔۔۔۔۔

میں سوچ رہی تھی کہ کہی باہر چلتے ہیں ہوٹلنگ کرنے اسی بہانے آؤٹنگ بھی ہو جاۓ گی اور صوفی نکاح کی ٹریٹ بھی دے دے گی۔۔۔۔۔۔ کیسا لگا آئیڈیا۔۔۔۔۔

ااااہاں۔۔۔۔ گریٹ او آلی جان اس بات پر میرا دل کر رہا ہے کہ تمہارا منہ چوم لوں۔۔۔۔

اس نے اس کی طرف فلائنگ کس اچھالی

اپنہ یہ چھچھوری حرکتیں بند کرو فاری نہی تو منہ توڑ دہنا ہے میں نے تمہارا۔۔۔۔۔۔پھر نہ کہنا بتایا نہی تھا۔۔۔۔۔ اس نے مکہ اسکی طرف کرتے کہا۔۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے صوفی نے بھی ہامی بڑھی۔۔۔۔۔۔۔ان دونوں کے چپ ہوتے صوفی نے بھی ہامی بھری۔۔۔۔۔۔

آج نپی تو کل تو انہیں ٹریٹ دینی تھی تو آج کیوں نہی ۔۔۔۔۔۔ویسے بھی یہ دونوں اس کی بغیر جیب خالی کراۓ تو جان نہی چھوڑنے والی تھیں۔۔۔۔۔۔

چلو پھر ڈن ہو گیا۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

آہلہ نے کال کر کے ساجد صاحب سے اجازت لے لی تھی۔۔۔ ۔۔ 

صوفیہ نے بھی طلحہ کو میسج کر دیا تھا کپ آج عہ اسے لینے نہ آۓ وپ اپنی دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ پر جارہی ہے اور وہ اسے ڈراپ بھی کر دیں گی۔۔۔۔۔۔ 

اس نے اوکے کا رپلائی کیا۔ ۔ 

وہ لوگ Andaaz restaurant میں بیٹھی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔کھانا انہوں نے آرڈر دے دیا تھا۔۔۔۔۔

آہلہ فاریہ کی کسی بات پر ہنس رہی تھی کہ ہنستے اس کی اچانک نظر اپنے ٹیبل سے کچھ دور فاصلے پر ایک ٹیبل پر پڑی۔     

صوفی فاری وہ طلحہ بھائی ہیں نہ اس نے ان دونوں کا دیہان اس ٹیبل کی طرف کروایا۔۔۔۔۔  

ہاں یہ تو طلحہ ہی ہیں۔     

دیکھو تو سیاں جی پیچھے پیچھے آگئے۔۔۔  

فاریہ نے اسے چھیڑا۔۔   

بکواس بند کرو تم ۔۔۔۔  

چلو ان کے پاس چلتے ہیں۔۔۔۔۔

پاگل ہو گئی ہو کیا تم ان کے ساتھ کوئی اور بھی بیٹھا ہوا ہے اور ہم منہ اٹھا کر چلے جائیں۔۔۔۔۔ اچھا نہی لگتا ۔۔۔۔    

فاریہ نے منہ بنایا۔۔۔۔ 

کچھ نہی ہوتا آلی وہ ضرور شہری بھائی ہوں گے طلحہ کے دوست چلو میں تم لوگوں کو ان سے ملواتی ہوں بہت اچھی نیچر ہے ان کی۔۔۔۔ اب کہ صوفہ نے کہا

یہ تو ہے ہی پاگل صوفی ایسے اچھا نہی لگتا اس نے پھر کہا۔۔۔۔۔ 

تمہارا اچھا کی تو ایسی کی ٹیسی۔۔۔۔۔

فاریہ نے کہتے ہی اسے پکڑ کر اٹھایا اور زبردستی اس ٹیبل پر لے گئی۔۔۔۔۔ 

💓💓💓💓💓💓💓

اسلام علیکم صوفی نے سلام کیا۔۔۔۔۔

فاریہ اور آہلہ اس کے پیچھے تھیں۔۔۔۔۔

وعلیکم سلام طلحہ نے چونک کر جواب دیا۔۔۔۔۔۔

ان کی موجودگی یہاں اس کے لیے غیر متوقع تھی۔۔۔۔۔

ان دونوں نے بھی سلام کیا

اسلام علیکم شہری بھائی۔۔۔۔۔ آپ تو عید کا چاند ہو گۓ۔۔۔۔ نظر ہی نہی آتے۔۔۔۔۔۔سلام کے بعد اس نے ان کے نہ ملنے پر شکوہ کیا۔۔۔۔

وعلیکم سلام چھوٹی بس ایسے ہی ٹائم ہی نہی ملا ۔۔۔۔۔  

آواز پر آہلہ نے دوسری طرف دیکھا تو وہ شہری تھا۔۔۔۔ 

وہ الجھی وہ یہاں کیا کر رہا تھا اور طلحہ سے اس کا کیا تعلق تھا

شہری بھائی یہ میری دوستیں ہیں آہلہ اور فاریہ وہ سائڈ پر ہوئی۔۔۔۔۔ ۔اس کے سائڈ پر ہونے سے وہ دونوں اب سامنے تھیں۔۔۔  

آہلہ کو دیکھ کر تو اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک ہوئی تھی۔۔۔

وعلیکم سلام۔۔۔۔  

اسکی آنکھوں کی چمک کو دیکھ کر وہ ہمیشہ کی طرح نظریں جھکا گئی۔۔۔۔

بیٹھیے آپ لوگ اس نے انہیں بیٹھنے کو کہا

صوفی نے طلحہ کو دیکھا اس نے نظروں سے اجازت دی تو وہ بیٹھ گئیں۔۔  

آپ لوگ یہاں کیا کر رہی تھیں شہری نے آہلہ سے پوچھا۔۔۔۔۔

وہ صوفیہ نے ٹریٹ دی ہے۔۔۔۔  

اچھا۔۔۔۔

آپ لوگ جانتے ہیں ایک دوسرے کو طلحہ نے اس کے ڈائریکٹلی اس کے پوچھنے پر اس سے پوچھا۔۔۔۔۔

فاریہ نے تو شہری کو دیکھا ہوا تھا اس لیے وہ چپ رہی لیکن صوفی نے چونکہ اس دن صرف اس کی پیٹھ ہی دیکھی تھی اس لیے طلحہ کے سوال پر اس نے دونوں کو دیکھا۔۔۔۔۔

ہاں ہم کزنز ہیں ۔۔۔۔۔جواب شہری کہ طرف سے آیا تھا

او آئی سی۔۔۔۔۔

اچھا تو وہ آپ تھے جو  اسے چھوڑنے آتے تھے۔۔۔۔

جی وہ میں ہی تھا۔۔۔۔۔

چلو آلی تم سے تو رشتہ داری نکل آئی۔۔۔۔

ہمم ۔۔۔۔۔اس نے صرف ہمم کہا۔۔۔

تم لوگوں نے کچھ آرڈر کیا یا پھر ایسے ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔۔۔

آرڈر کیا تھا پھر آپ لوگوں کی طرف آلی کی نظر پڑی تو ہم لوگ یہاں آگۓ۔۔۔۔۔۔

صوفی نے طلحہ کو جواب دیا

یہ ہمیں بھی دیکھتی ہیں اس نے سرگوشی نما آواز میں کہا لیکن طلحہ اس کی سرگوشی کو سن چکا تھا وہ اس کی آنکھوں کی چمک اور بار بار اس کی طرف اس کا دیکھنا بھی دیکھ چکا تھا اس لیے وہ اس سے بعد میں پوچھنے کا ارادہ کرتے ویٹر کو آواز دی۔۔۔  

یس سر۔۔۔۔۔ ہائو آئی کین ہیلپ یو۔۔۔۔ویٹر بے مودبانہ انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے آپ کو جو کھانے کا آرڈر دیا تھا آپ وہ اس ٹیبل پر سرو کر دیں۔۔۔۔

یس سر۔۔۔۔

کھانا ان کے ٹیبل پر سرو کر دیا گیا تھا۔۔۔۔

انہوں نے کھانا شروع کیا۔۔۔

کھانے کے بعد بل کی پیمنٹ طلحہ نے کی جس پر صوفیہ نے انکار بھی کیا کہ جب اس نے اپنی فرینڈز کو ٹریٹ دی ہے تو بل بھی تو اسے ہی پے کرنا چاہیے لیکن طلحہ نے اس کی ایک نہ مانی اور خود ہی پیمنٹ کی۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

چلو ۔۔۔۔۔

وہ لوگ پارکنگ میں کھڑے تھے کہ شہری نے طلحہ سے مل کر اسے کہا۔۔۔۔۔۔

وہ بھی ان سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔

تم نے بتایا نہی کہ صوفیہ تمہاری دوست ہے۔۔۔۔

اس نے سگنل پر گاڑی روکی وہ جانتا تھا کہ وہ فضول سوال کر رہا ہے لیکن اس سے بات کرنے کے لیے اس نے یہ فضول سوال بھی کر دیا۔۔۔۔۔

آپ نے کبھی پوچھا ہی نہی اور مجھے نہی معلوم تھا کہ طلحہ بھائی آپ کے دوست ہوں گے۔۔۔۔

ہمم سگنل کھل چکا تھا اس نے گاڑی سٹارٹ کی

طلحہ بتا رہا تھا کہ اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں اس کہ دادو دونوں کی شادی کرنا چاہ رہی ہیں۔۔۔۔

پتا نہی صوفیہ نے تو نہی بتایا اس بارے میں کچھ۔۔۔۔

ہممم ہو سکتا ہے اس بارے میں اسے علم نہ ہو شہری نے اندازہ لگایا۔۔۔۔

ہو سکتا ہے۔۔۔۔اسے بھی یہی لگا۔۔۔۔۔

گھر پہنچ کر گاڑی پارک کر کے 

شہری لان میں ہی رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

وہ لان کراس کرتی لاؤنج میں آگئی وہ جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اس کا ارادہ شکیلہ خالہ کی مدد کرانے کا تھا اس لیے وہ بے دھیانی میں سیڑھیاں چڑھتی مروہ سے ٹکرا گئی۔۔۔۔

مروہ جو پہلے ہی اسے شہری کے ساتھ آتا دیکھ کر کڑھ رہی تھی اس کے ٹکرانے پر پھٹ پڑی۔۔۔۔

اندھی ہو نظر نہی آتا کیا۔۔۔۔ جو یوں جاہلوں کہ طرح سیڑھیاں چڑھ رہی ہو۔۔۔

سوری وہ میں جلدی میں تھی اس لیے ٹکرا گئ۔۔۔۔

ہوں جلدی میں تھی ظاہر ہے باہر دوسروں کے ساتھ سیر سپاٹے کرتی پھرو گی تو ایسے ہی ہو گا نہ۔۔۔۔۔

کیا مطلب میں سمجھی نہی۔۔۔۔

ہوں ۔۔۔۔اب نا سمجھنے کی ایکٹنگ شروع کر دو۔۔۔۔۔ ایکٹنگ کرنے میں تو تم ماہر ہو۔۔۔۔۔

میں ایکٹنگ نہی کر رہی اور نہ مجھے کرنے کی عادت ہے یہ آپ کو زیادہ سوٹ کرتی ہے۔۔۔۔۔

اس نے اسے پچھلے واقعی کہ طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔

یو،،،،اب تم مجھ سے زبان چلاؤ گی ،،،،،اپنی اوقات لگتا ہے بھول گئی   ہو جو یوں زبان درازی کر رہی ہو۔۔۔ شائد بھول گئی ہو کہ تم منحوس ہو۔۔۔۔  

کیا اوقات ہے میری ہاں اس گھر کی فرد ہوں میں ،،، اوقات تو آپ کو نہی معلوم اپنی ،،،آپ بھول رہی ہیں مروہ آپی کہ یہ آپ کا نہی بلکہ میرے بابا اور چاچو کا گھر ہے۔۔۔۔۔

اس نے اعتماد سے اسے اس کی اوقات دکھائی،،،وہ ہوتی کون ہے جو اسے باتیں سناۓ۔۔۔۔۔

وہ اعتماد سے اس کی باتوں کا جواب دے رہی تھی یہ اعتماد اس کی دوستوں کا بخشا ہوا تھا۔۔۔۔۔

مروہ کا چہرہ اپنی توہین کے احساس سے سرخ ہو گیا۔۔۔۔

پھر بھی وہ اسے دھمکی دینے سے بعض نہ آئی۔۔۔۔

میں نے کہا تھا نہ کہ شہری سے دور رہنا تم نے سیریس نہی لی میری بات۔۔۔۔ اب دیکھنا میں کیا کرتی ہوں۔۔۔۔۔

اس کی دھمکی پر وہ سر جھٹک کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

وہ تن فن کرتی شمع بیگم اور رفعت بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔

انہوں نے اسے غصے میں دیکھا تو اس سے وجہ پوچھی۔۔۔

وجہ کیا ہونی ہے ایک ہی تو مصیبت ہے اس گھر میں اس نے نخوت سے کہا۔۔۔۔۔

تم آہلہ کی بات کر رہی ہو۔۔۔۔۔

جی ممانی میں اسی کی بات کر رہی ہوں،،، سکول سے چھٹی تو دو بجے ہو جاتی ہے اور یہ میڈم ابھی گھر آ رہی ہیں ۔۔۔۔۔پتا نہی کس کے ساتھ سیر سپاٹے کر کے آئی۔۔۔  میں نے وجہ پوچھی تو مجھے میری اوقات بتانے لگی۔۔۔۔

اس نے رونی صورت بنائی۔۔۔۔

اس منحوس کو تو ساجد صاحب کہ وجہ سے میں کچھ کہہ نہی پاتی تو اس نے ہواؤں میں اڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔ کرتی ہوں میں آج اسے سیٹ زیادہ ہی پر پرزے نکال لیے ہیں اس نے۔۔۔۔ انہوں نے غصے اور نفرت سے کہا۔۔۔۔۔

اس دوران شمع بیگم خاموش بیٹھی اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔  

رفعت بیگم کسی کام سے باہر گئیں۔۔۔۔۔

تو وہ شاطرانہ مسکرائی ۔۔۔۔تیلی لگانے کا کام تو وہ کر چکی تھی اب دیکھنا تھا کہ آگ کب لگتی ہے۔۔۔   

ایسے کیا دیکھ رہی ہیں امی کیا آپ کو میری بات کا یقین نہی ہے۔۔۔۔

یقین تو ہے لیکن مین تمہیں بھی جانتی ہوں ،،،،، اولاد ہو تم میری۔۔۔۔ رگ رگ سے واقف ہوں تمہاری میں ،،،،، اور یہ بات بھی جانتی ہوں کہ ضرور تم نے ہی پہلے کچھ ایسا کیا ہو گا جو وہ اج اس طرح تمہیں جواب دے گئی۔۔۔۔۔

سہی کہہ رہی ہوں نہ میں۔۔۔۔  

ارے میری پیاری امی آپ تو بہت سمجھدار ہو گئی ہیں اس نے انہیں ہگ کیا۔۔۔۔

پرے ہٹو انہوں نے اسے دور کیا۔۔۔۔  

یہ لیں ہو گئ دور وہ خفگی سے بیڈ سے ہی اتر گئی۔۔۔۔۔

ادھر آ میری دھی انہوں نے اسے پاس بلایا اور پیار کرنے لگیں۔۔۔۔

ایک یہی تو کل جہان تھی ان کا اس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی تھیں۔۔۔۔

کچھ والدین اپنی اولاد کی غلطی پر اسے روکنے کی بجاۓ صحیح راستے پر لانے کہ بجاۓ چھپا کر انہیں فروغ دیتے ہیں ،،،،ان کی ہر جائز نا جائز بات یا خواہش کو پورا کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں لیکن والدین یہ نہی سوچتے کہ ان کے بے جا لاڈ پیار ان کہ زندگی کو خراب کر دے گا اور شائد یہی کام شمع بیگم کر رہی تھیں اور نجانے اس کا کیا انجام ہونا تھا۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

ارے بیٹی آج تم لیٹ آئی ہو ،،، میں اتنی پریشان ہو گئی تھی۔۔۔۔۔

اس نے دیکھا وہ اس کے لیے پریشان تھیں اس کی آنکھوں میں نمی آئی اس طرح تو کبھی چچی اور پھوپھو بھی اس لیے پریشان نہی ہوئی تھیں جن سے ان کا خون کا رشتہ ہے اس نے نمی چھپائی 

ان کی پریشانی پر وہ خوامخواہ ہی شرمندہ ہوئی۔۔۔۔۔

جی خالہ وہ میری دوست ہے صوفیہ سکول میں  اس نے اپنے نکاح کی ٹریٹ دی تھی اس لیے دیر ہو گئ۔۔۔۔

اچھا بیٹا تو تم آرام کرتی۔۔۔۔  

خالہ تھوڑا سا کام کروا کر لوں پھر آرام کروں گی۔۔۔ اس نے آٹا گوندنے کی تیاری کرتے کہا

خالہ کے ساتھ سبزی بنا کر اس نے وقت دیکھا تو چھے بج رہے تھے تو وہ کمرے میں چلی آئی اور کچھ کرنے کا تھا نہی اس لیے اس نے ان دونوں کو کانفرس کال کی۔۔۔۔۔

اوۓ تمہیں ایک گھنٹے میں ہی ہماری یاد ستانے لگی

اس کے سلام پر سپیکر سے فاریہ کی شوخ آواز ابھری۔۔۔۔۔

ہوں تمہاری خوش فہمی ،،،، وہ کیا کہتے ہیں صوفی بندہ کیا پال لے لیکن اس طرح کا کچھ ہے نہ مجھے یا نہی آرہا۔۔۔۔۔

بندہ کتا پال لے لیکن خوش فہمی نہ پالے۔۔۔۔

اب صوفی کی آواز ابھری

یعنی تم ہمیں یاد نہی کر رہی تھی۔۔۔۔

کر رہی تھی نہ لیکن تمہیں نہی صوفی کو اس نے اسے تنگ کیا۔۔۔

وہ اس کی پہلی بات پر مسکرائی لیکن بات کے مکمل ہونے پر اس نے منہ بنایا۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر تم اسی سے بات کرو جس کی تمہیں یاد آ رہی تھی۔۔۔۔۔ فون بند کر رہی ہوں میں سپکیر سے اس کی ناراض آواز ابھری۔۔۔۔

ارے میری بنو میں تو مزاق کر رہی تھی اس کے ناراضگی سے فون بند کرنے کی بات پر اس نے فوراً کہا مبادہ وہ اپنے کہے پر عمل ہی نہ کر ڈالے۔۔۔۔

ان کی گفتگو پر دوسری طرف صوفی ہنس رہی تھی

لیکن میں بلکل بھی مزاق نہی کر رہی ۔۔۔۔

اچھا اچھا یار سوری۔۔۔۔  

نہی ۔۔۔۔۔

میری پیارہ سی سہیلی نہی ہو۔۔۔ ۔

اسی طرح اسے مناتے ہوۓ آدھا گھنٹا گزر گیا وہ مان ہی نہی رہی پھر کہیں جا کر اس کے ترلے منتیں کرنے پر وہ مانی لیکن ایک شرط پر ۔۔۔۔

اور وہ شرط یہ تھی وہ کل اپنے پیسوں سے اسے دو برگر کھلاۓ گی۔۔۔۔

ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس نے کال ڈسکنکٹ کر دی۔۔۔۔۔

فون بند کر کے بھی وہ اس کی باتوں کو سوچ کر خود ہی مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔

اسے اس بات پر یقین ہو چلا تھا کہ رشتے احساس کے ہوتے ہیں اور اگر احساس ہی مر جاۓ تو اپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں اور اسی احساس سے غیر بھی اپنوں سے سبقت لے جاتے ہیں۔۔۔۔۔

شکیلہ خالہ اسے کھانے کے لیے بلانے آئیں تو اس نے وقت دیکھا۔۔۔۔  

اسے پتا ہی نہ چلا کہ وہ کب سے اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اسے وقت کا ہی احساس نہ ہوا۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

وہ ڈرائنگ روم میں آئی تو سبھی بیٹھے ہوۓ تھے اس نے سب کو سلام کیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔

وہ اپنے لیے چاول نکال رہی تھی کہ چچی کے سوال پر اس کا لمحہ بھر کو ہاتھ رکا۔۔۔۔۔

مروہ اسے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

وہ مجھ سے پوچھ کر گئی تھی جواب اس کی بجاۓ ساجد صاحب کہ طرف سے آیا تھا۔۔۔۔۔

یہ کیا ہو گیا وہ تو اس کو ان کی نظروں میں گرانا چاہتی تھیں۔۔۔۔

آپ کیسی باتیں کرتے ہیں ساجد صاحب جوان بیٹی کو آپ نے پہلے کیا کم چھوٹ دی ہے جو اب یہ سیر سپاٹے پر بھی جائے گی ۔۔۔۔حالات تو آپ جانتے ہیں آج کل کے جوان لڑکی ہے کل کلاں کو چھ ہو گیا تو جواب تو اس معاشرے کو ہمیں دینا ہو گا۔۔۔۔۔

جی بھائی بھابی بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں میری بچی بھی تو پڑھی لھکی لیکن اس نے تو جاب کرنے کی خواہش نہی کی تو پھر اسے کیا ضرورت ہے جاب کے چونچلے کرنے کی جب ہر چیز تو آپ اسے مہیا کر دیتے ہیں ۔۔۔۔شمع بیگم نے بھی آگ کو بھڑکانے کا کام کیا۔۔۔۔

جس سوسائٹی سے ہم بلانگ کرتے ہیں ہیں وہاں پر آپ جانتی ہیں کہ یہ گھونا پھرنا سب عام سی بات ہے۔۔۔۔ اور پھر وہ تو کبھی گئی ہی نہی گھومنے آج اس کا دوستوں کے ساتھ پلان بن یا تو وہ مجھ سے اجازت لے کر چلی گئی اور پھر مروہ بھی تو مری گئی تھی گھومنے تب تو آپ میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہی ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

بھائی صاحب آپ میری بیٹی کو اس کے ملا رہے ہیں انہوں نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔

نہی شمع میں کہ کو کسی سے نہی ملا رہا اگر مروہ مجھے عزیز ہے تو مجھے اپنے بھائی کی آخری نشانی بھی دل و جان سے عزیز ہے۔۔۔۔اب انہوں نے نرم لہجے کہا۔۔۔۔۔۔۔

اپنی اتنی زلت پر اس کی آنکھ سے ایک آنسو ضبط کے باوجود بھی بے مول ہو گیا تھا اور یہ آنسو شہری کے دل پر گرا تھا ۔۔۔۔۔۔

ماما پوپھو آپ لوگ یہ کیسی جاہلیت والی باتیں کر رہی ہیں آہلہ میرے ساتھ تھی جس دوست نے ان کو نکاح کی ٹریٹ دہ تھی تو میرے دوست طلحہ 

آپ جانتے ہیں تو ہیں اسے اس کی منکوحہ ہے۔۔۔۔۔ اتفاقاً میں اور طلحہ بھی اسی ریسٹورنٹ تھے اسی لیے یہ لوگ ہمارے ساتھ ہی تھیں ۔۔۔۔۔۔اس نے وضاحت دی وہ نہی چاہتا تھا کہ کوئی اسے غلط سمجھے۔۔۔۔۔

سن لیا آپ لوگون نے ،،،، اب اس بارے میں اس گھر میں کوئی بات نہی ہو گی وہ حتمی لہجے میں کہہ کر کرسی سے اٹھ گئے۔۔۔۔۔

مروہ شمع بیگم اور رفعت بیگم اس اب خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔

وہ بھی ان کے اٹھنے پر جلدی سے کمرے کی طرف بھاگی وہ نہی چاہتی تھی کہ کب سے آنسؤں پر باندھا گیا ضبط ان کے سامنے ٹوٹ جاۓ وہ ان کے سامنے رو کر خود کو کمزور ظاہر نہی کرنا چاہتی تھی اس لیے وہ کمرے میں آگئی۔۔۔۔۔

اس کے جانے کے بعد شہری کا بھی یک دم کھانے سے دل اچاٹ ہو گیا وہ ایک افسوس بھری نظر ان سب پر ڈال کر باہر چلا گیا۔۔۔۔۔

مروہ اپنے پلین کی ناکامی پر کلس کر رہ گئی ۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

وہ اپنے کمرے میں آکر خوب روئی اسے اپنے ماں باپ کی یاد آج شدت سے آئی تھی اگر وہ اس وقت اس کے ساتھ اس کے پاس ہوتے تو کوئی بھی اسے کچھ نہ کہتا اس پر یوں الزامات نہ لگاۓ جاتے یوں اسے زلت نہ کیا جاتا۔۔۔۔۔۔۔

اداسی کی،

کوئی تو آخری حد ہو۔۔۔۔!

کہ جس کے بعد

ممکن نہ رہے کچھ اور غم سہنا

یا پھر یوں ہو کہ

غم سہنے کہ عادت اس طرح کچھ ہو

کہ سہہ کر بھی،

نہ جنبش ابروؤں میں اور نہ ماتھے پہ بل آۓ،

شکستہ، ٹوٹتےاعصاب پر طاری تھن نہ ہو

لبوں سے بے اراہ ٰٰآہ نہ نکلے

نہ دل ڈوبے

کبھی ہلکی نمی رخسار پر 

آنکھوں سے نہ اترے

لبوں کو سی لیا جاۓ

نمی کو پی لیا جاۓ

چھبن میں اور تھکن میں

خاموشی سے جی لیا جاۓ

اداسی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی تو

آخرہ حد ہو

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

یہ آپ نے اچھا نہی کیا ساجد اس کے سامنے آپ نے مجھ سے کتنے روکھے انداز میں بات کی ہے آپ کو اندازہ ہے 

وہ کتاب پڑھ رہے تھے ایک دفع پھر ان کی وہی بات چھیڑنے پر گہری سانس بھری

تم کیوں اس بن ماں باپ کی بچی کے پیچھے پڑ گئی ہو آخر اس نے کیا بگاڑا ہے تمہارا جو تم یوں اس کے معاملے میں سرد پن اختیار کر لیتی ہو

آپ ابھی بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں ساجد کے میں اس سے اس طرح کا سلوک کیوں کرتی ہوں کیا آپ بھول گئے ساجد کہ اس کی ماں کی وجہ سے کیا کیا ہوا اس کی ماں کی وجہ سے میں نے اسے ہمیشہ کے لیے کھو دیا ساجد مجھے وہ آج تک نہی بھولا میں کیا کروں اسے دیکھ کر مجھے اس کی ماں کی یاد آتی ہے اور میری نفرت  پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہے وہ چلاتی بری طرح رو دیں

ساجد صاحب نے انہیں اپنے حصار میں لیا اور سر سہلانے لگے

آپ بھول کیوں نہی جاتی رفعت اس میں اس کا کوئی قصور نہی تھا قسمت میں ایسا ہونا ہی لکھا تھا

میں نہی بھول پاتی ساجد چاہنے کے باوجود نہی بھول پاتی وہ ہر روز میرے خواب میں آتا ہے انہی ہاتھوں سے میں نے اسے پالا تھا اس کے لاڈ اٹھاۓ تھے انہوں نے اپنے ہاتھ آگے کیے بے بسی سے کہا

انہیں آج بھی وہ اس کے لیے اتنی ہی بے بس ملی جتنی وہ پہلے ہوتی تھیں

انہوں نے ان کا سر تھپکا

جب وہ پھر بھی چپ نہ ہوئیں تو انہوں نے ان کہ نظر سے بچ کر گلاس میں پانی ڈالا اور نیند کی گولی اس میں ملا دی

پانی پیتے ہی وہ بڑبڑاتے ہوۓ نیند کی وادی میں اتر گئ

رونے کے باعث اس کے سر میں درد ہو رہا تھا جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ کچن میں چلی آئی۔اسے اس وقت کچن میں دیکھ کر وہ بھی اسی طرف آگیا۔اس کی روئی سوجھی آنکھیں اس کے کافی دیر رونے کی چغلی کر رہی تھیں۔س نے کرب سے آنکھیں میچیں۔جن آنکھوں میں وہ زندگی سے بھرپاعر چمکے دہکنھے کی دیا کرتا تھا آج انہہ آنکھوں سے اسی کی ماں کی وجہ آنسو نکلے تھے۔

وہ بھی اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کر چکی تھی وپ جانتی تھی کہ کون ہے اسی لیے اپنے کام میں مصروف رہی۔۔۔۔۔۔۔

چونکے تو وہ دونوں رفعت بیگم کے چلانے پر تھے۔۔۔۔۔۔وہ دونوں حواس باختہ ان کے کمرے کی طرف بھاگے ۔وہ دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھانے ہی لگا تھا کہ وہ دونوں ان کی بات سن کر وہی منجمد ہو گئے۔۔۔۔۔

ان دونوں نے ناسمجھی اور الجھن سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ وہ کس کی بات کر رہی ہیں اور اس سے آہلہ کا کیا تعلق۔۔۔۔۔۔ایسی کون سی بات ہے جس سے وہ سب انجان تھے ۔۔۔۔۔ کیا کوئی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ آہلہ کے ساتھ برا رویہ اختیار کیے ہوئی ہیں۔۔۔۔۔ یہ وہ سوچ تھی جو اس وقت دونوں کے زہن کو الجھا رہی تھی اور اسی تجسس کی وجہ سے وہ دونوں وہی کھڑے رہے۔۔۔۔۔

جب رفعت بیگم کی آواز آنا بند ہو گئی تو اس نے آہتسہ نے دروازہ ناک کیا۔۔۔۔

ساجد صاحب نے جب دروازہ کھولا تو ان دونوں کو دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے کہ کہیں انہوں نے ان کی باتیں تو نہی سن لیں شہری کے براہ راست پوچھنے پر ان کا شک یقین میں بدل گیا۔۔۔۔۔

انہوں نے دونوں کو کچھ نہی کہہ کر ٹالنا چاہا لیکن وہ دونوں شائد آج اس بات کی تہہ تک جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔۔۔۔۔ چارو ناچار انہوں نے کل سب بتانے کا کہتے کمرے میں جانے کو کہا۔۔۔۔

وہ دونوں کمرے میں آگۓ لیکن ان کا زہن اسی بات پر اٹکا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔آہلہ ان کی باتوں سے اتنا تو سمجھ گئی تھی اس بات کا تعلق کہیں نہ کہیں اس کی امی سے ضرور ہے لیکن کیا وہ یہ سمجھ نہی پا رہی تھی۔۔۔۔۔ دونوں کی رات کروٹ بدلتے ہی گزری تھی ۔۔۔۔۔۔

ادھر ان کے جانے کے بعد وہ اضطرابی حالت میں کمرے کے چکر لگانے لگے انہیں اپنے اندر ہمت جمع کرنی تھی اس راز کو بتانے کے لیے جسے وہ آج تک بچوں سے چھپاتے آۓ تھے اور رفعت اور شمع بیگم سے بھی وعدہ لیا تھا کہ وہ کبھی اس بات کو بچوں پر اشکار نہیں کریں گی اور وہ شائد اسی وعدے کا پاس کرتے ہوۓ  اس سے برا سلوک رکھنے کے باوجود وہ اسے اس بارے میں کوئی طعنہ نہ دیا تھا۔۔۔۔ لیکن اسے دیکھ کر وہ نفرت کی آگ میں جلتی رات کو اٹھ اٹھ کر اس شخص کے لیے روتی تھیں اور اس بات سے ساجد صاحب بھی باخوبی واقف تھے۔۔۔۔۔۔۔

صبح بھی وہ دونوں تیار ہو کر ڈائنگ ٹیبل پر آۓ تو ساجد صاحب ان کے چہروں پر بے چینی بھانپ کر گہرا سانس بھر کر رہ گۓ۔۔۔۔۔۔

سارا دن وہ بے چینی سے رات کے ہونے کا انتظار کرتی رہی۔رات کے کھانے کے بعد ساجد صاحب نے سب کو اپنے کمرے میں بلایا۔۔۔۔۔۔

کیا بات ہے بھائی صاحب جو آپ نے ہمیں اس وقت یاد کیا۔۔۔۔۔۔

انہوں نے گہری سانس بھری ۔گہری سانس بھر کر گویا انہوں نے خود کو بولنے کے لیے تیارکیا۔۔۔۔۔

انہوں نے ان کے سوال کو نظر انداز کیا اور دیوار کی طرف دیکھ کر بات شروع کی۔۔  

میرا خیال ہے کہ وقت آگیا ہے بچوں کو بھی اس راز کے بارے میں بتا دیا جاۓ جس سے ان کو آج تک بے خبر رکھا گیا ہے۔۔۔۔۔۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب ماجد میرا چھوٹا بھائی یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا۔نور رفعت کی چھوٹی بہن ، زکیہ اور شمع بھی اسی یونیورسٹی پڑھتے تھے۔ زکیہ نور رفعت اوراحتشام  ہمارے دور کے چچا اور پھوپھو  کے بچے تھے اور اسی شہر میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ان سب کی آپس میں بہت بنتی تھی۔۔۔۔۔۔ ۔ان سب کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہی ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔

بات کرتے کرتے وہ ماضی میں کھو گئے۔۔۔۔۔۔

یار تم کیوں ناراض ہو رہی ہو مجھ سے ماجد نے جنجھلا کر پوچھا وہ کب سے اس سے اس کی ناراضگی کی وجہ پوچھ رہا تھا اور وہ تھی کہ وجہ بتانے کی بجاۓ چپی اختیار کیے ہوۓ تھی۔۔۔۔۔۔اسے اس کی چپی گھل رہی تھی۔۔۔۔۔۔

اب کہ اس کے جھنجھلا کر پوچھنے پر اس نے اپنا کفل توڑا۔۔۔   

کیوں تمہیں نہی معلوم وجہ۔۔۔ ۔  اس نے کڑے تیوروں سے پوچھا۔۔۔۔۔ یعنی حد ہو گئ ان نواب کو وجہ ہی نہی معلوم۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے بے بسی سے نور اور شمع کو دیکھا جس پر انہوں نے کندھے اچکاۓ یعنی وہ اسے نہی بتانے والی تھیں۔۔۔۔۔۔۔

یار مجھے نہی معلوم تم کیوں ناراض ہو ۔۔۔۔۔

اچھا جی تو پھر جب وجہ معلوم ہو جاۓ تو مجھ سے بات کرنے آنا اگر ایسے میرے پاس آۓ تو تمہارا یہ بوتھا شریف تھپڑوں سے لال کر دوں گی۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ پیر پٹحتی غصے سے وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔۔۔۔۔

اس کے پیچھے ہی نور اور شمع بھی بھاگیں۔۔۔۔۔

ان کے جانے پر وہ اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

کلاس لینے کے بعد وہ بھی ان کے پیچھے کینٹین چلا آیا اس نے کافہ دفع اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے اس کی کوشش ناکام کر دی ۔۔۔۔

اب کے اس نے اسے تنگ کرنے کے لیے زکی کہا کہ شائد وہ اس سے اس بات پر ہی جھگڑا کرے لیکن اس نے اپنی چپ نہ توڑی۔۔۔۔۔۔۔

اس نے خاموشی سے سارا کیچپ اس کے منہ پر مل دیا اس نے اس کا منہ تھپڑوں سے تو نہی لیکن کیچپ سے ضرور لال کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔  

اب کینٹین پر سب  ہی اس کی شکل دیکھ کر ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک غصے بھری نظر سب پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓

شمع جو اپنے بھائی کی حالت پر ہنس رہی تھی اس کے غصے ے جانے پر پریشان ہوئی۔۔۔۔۔

زکیہ یار بھائی غصہ ہو کر چلے گئے ہیں ۔۔۔۔

تو میں کیا کروں سب کچھ اسی کا کیا دھرا ہے جب میں نے اسے پہلے ہی وارن کیا تھا کہ بغیر وجہ جانے میرے پاس آیا تو میں اس کا چہرا لال کر دوں گی۔۔۔۔۔ اب وہ میری مرضی کہ میں تھپڑ سے کروں کہ کیچپ سے ۔۔۔۔۔۔پہلی بات اس نے سیریس جبکہ دوسری اس نے کیچپ کی طرف اشارہ کر کے شرارت سے کی۔۔۔۔۔

یار ویسے شکل دیکھنے والی تھی ماجد کی نور نے اس کی شکل ایمیجن کرتے کہا۔۔۔۔

ظاہر ہے بھئی جب دی گریٹ زکیہ کی نظر کرم ہو تو شکل دیکھنے والی ہی ہوتی ہے اس نے ہنس کر نور کے ہاتھ پر تالی ماری۔۔۔۔

چلو اب تم اپنے بھائی کی چمچی نہ بنو ۔۔۔۔ہمیں پتا ہے کہ تم اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی ہو شمع کو کچھ بولنے کے لیے مبہ کولتا دیکھ کر اس نے پہلے ہی اسے وارن کیا۔۔۔۔

اچھا بی بنو نہی کہتی وہ کچھ اپنے بھائی کے دفاع میں اب چلو کلاس کے لیے دیر ہو رہی ہے نور  نے شرارت سے کہتے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔۔۔

تمہیں کتنی دفع کہا ہے کہ مجھے بی بنو مت کہا کہو۔۔۔۔۔زہر لگتا ہو مجھے تم سب  جب تم مجھے بی بنو کہتی ہو ۔۔۔۔۔۔دیکھنا اب میں کرتی کیا ہوں تمہارے ساتھ کہ تم تم یہ لفظ کہنے سے پہلے سو دفع سوچو گی وہ پانی کی بوتل کا ڈھکن کھولتے ہوۓ بولی۔۔۔

اس کے ارادے جان کر وہ سر پٹ بھاگی۔۔۔۔۔۔وہ بھی پانی کی بوتل لیے اس کے پیچھے بھاگی۔۔۔

شمع نے ان دونوں کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا

💓💓💓💓💓💓💓

دیکھو زکیہ پلیز میں معافی منگتی ہوں تم سے لیکن یہ بوتل پھینک دو اس نے بھاگتے بھاگتے پیچھے مڑ کر اس سے کہا

اور اسی اثنا میں اس کی ٹکر یونیورسٹی کے خوبصورت اور امیر لڑکے سے ہوئی۔۔۔۔

زکیہ بھی اس کے ٹکرانے پر رک گئی۔۔۔

آئم سوری اس نے جلدی سے معافی مانگی کیونکہ غلطی اس کی تھی۔۔۔۔۔

اٹس اوکے مصطفی جو اسکے اپنے سامنے ہونے پر یقین کر رہا تھا اس کے سوری بولبے پر جلدی سے بولا۔۔۔۔۔

اٹس اوکے مس نور ایسا ہو جاتا ہے آپ کو سوری بولبے کی ضرورت نہی ہے اس نے نرم لہجے میں کہا۔۔

اس کے نرم لہھے پر اس بے سر اٹھایا تو بے ساختہ اس کی آنکھیں اس کی نیلی آنکھوں سے ٹکرائیں نور نے گڑبڑا کر اپنی آنکھیں جھکا لیں اس کے ایسا کربے پر وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔

اوہ بھائی صاحب میری دوست کو دیکھ کر مسکرا کیوں رہے ہو۔۔۔۔۔مانا کہ وہ خوبصورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہی ہے تم اسے دیکھ کر مسکراتے جاؤ۔۔۔۔۔

وہ جو کب سے ان کے پیچھے کھڑی تھی آگے آئی۔۔۔۔

اس کے ایسا کہنے پر نور نے اسے آنکھیں دکھائیں۔۔۔۔

مس آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں کوئی ان پر لائن نہی مار رہا تھا۔۔۔

او مطلب تم مارنے کا ارادہ رکھتے ہو۔۔۔۔۔  

جیییی وہ ناسمجھی سے صرف جی ہی کہہ پایا۔۔

سوری مصطفی یہ ایسی ہی ہے اس کی باتوں کا برا مت منانا ماجد جو کہ اسے ڈھونڈ رہا تھا اسے کسی کے ساتھ جھگڑتے دیکھ کر اس طرف آیا۔۔۔۔

اس نے پہلے اسے چپ کروایا اور پھر مصطفی سے سوری کی۔۔۔۔

کوئی بات نہی ۔۔۔۔

ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں ۔۔۔۔۔

مصطفی نے بھی مصافحہ کیا

نور تو شرمندگی کے مارے سر ہی نہ اٹھا سکی۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

وہ ان دونوں کو لیے تھوڑی ہی آگے بڑھا تھا کہ وہ واش روم کا بہانہ بنا کر واپس اسی جگہ آئی۔۔۔۔

سنیے اس نے اسے آواز دی

جی آپ نے مجھے کہا

جی 

جی بولیے۔۔۔۔ کچھ رہ گیا تھا جو آپ نے دوبارہ یہاں چل کر آنے کی زحمت کی اس نے شرارت سے کہا۔۔۔۔۔

جی مجھے کہنا یہ تھا کہ میں صرف آپ کو تنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ آپ ایک شریف انسان ہیں لیکن ایک شریف انسان کو بھی تنگ کرنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔اور ہاں یہ بھی کہنا تھا کہ بیسٹ آف لک۔۔۔۔

اس نے شان بے نیازی سے کہتے اسے وش بھی کیا

بیسٹ آف لک کس لیے۔۔۔۔

ارے آپ میری دوست سے محبت کرتے ہیں تو اسے پرپوز کرنے کے لیے اسے منانے کے لیے اور سب سے زیادہ تو اسے ساری زندگی جھیلنے کے لیے اس نے آرام سے اس کے سر پر دھماکہ کیا اور وش کرنے کی وجہ بتائی۔۔۔۔۔

وہ تو اس کے انکشاف پر حیرتوں کے سمندر میں گوتا زن تھا۔۔۔

آپ کو کیسے پتا اس نے جب اس سے پوچھا تو اس کے لہجے میں بھی حیرت کا عنصر تھا۔۔۔

دی گریٹ زکیہ ہے ہی انٹیلیجنٹ اس کو سب ہی معلوم ہوتا ہے بس  لوگ ہی میری قابلیت کو نہی مانتے ہاں نہی تو اس نے ہاتھ نچا کر کہا۔۔۔۔

جی وہ تو آپ کے انکشاف پر مجھے پتا چل ہی گیا ہے یہ آپ کتنی انٹیلیجنٹ ہیں ۔۔۔۔۔ویسے یہ بتانا پسند کریں گی کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں آپ کی دوست سے محبت کرتا ہوں۔۔۔۔۔جبکہ  میں نے تو آج تک انہیں مخاطب تک نہی کیا۔۔۔  

وہ ایسے میرے ہونے والے جیجا جی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک روز باۓ چانس میں نے آپ کو پلڑ کی اوٹ سے نور کو دیکھتے ہوۓ دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آپ اسے اپنی بدقستی سمجھیں یا پھر میری خوش قسمتی کہ میں نے اس دن کے بعد سے اپنے ارد گرد دھیان رکھنا شروع کردیا اور آپ اور آپ کی محبت دونوں پکڑی گئیں اس نے مزے سے اپنا کارنامہ بتایا۔۔۔۔

تو سالی صاحبہ آپ سے گزارش ہے کہ اس بات کو زرا اپنی دوست سے چھپا کر رکھیے گا کیونکہ میں یہ بات خود انہیں بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ 

جی آپ بے فکر رہیں جیجا جی آپ کی یہ سالی آپ سے وعدہ کرتی ہے کہ یہ بات وہ اسے تو کیا کسی کو نہی بتاۓ گی اور دی گریٹ زکیہ اپنا وعدہ ضرور نبھاتی ہے ہاں نہی تو۔۔۔۔۔۔

بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔۔۔  

چلیں اب میں چلتی ہوں یہ نہ ہو کہ وہ سب میری گمشدگی کا اشتہار یونی میں لگوا دیں۔۔۔۔

ٹھیک ہے خدا خافظ۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓💓

اتنی دیر لگتی ہے کیا واش روم میں اس کے کافی دیر سے آنے پر ماجد نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔۔۔۔

شمع تم اپنے بھائی کو بول دو کہ اگر دوبارہ اپنا منہ لال نہی کروانا چاہتا تو چپ ہی رہے۔۔۔۔۔۔۔اور اسے کس نے کہا تھا کہ میرا ویٹ کرے اگر اتنی ہی جلدی تھی تو چلا جاتا اسے جواب دینے کی بجاۓ اس نے شمع کو کہا ۔۔۔۔۔۔

وہ بخوبی سمجھ گیا تھا کہ وہ کہہ تو شمع کو رہی ہے مگر سنا اسے ہی رہی ہے۔۔۔۔۔اس کے اس قدر شدید ناراضگی پر وہ اب تو یقینی طور پر پریشان ہو گیا کیونکہ وہ کبھی بھی اس سے اتنا اور اتنی دیر تک ناراض نہی ہوئی تھی اور اگر زیادہ ہوتی بھی تھی تو اس سے ناگ رگڑوا کر معافی بھی منگواتی تھی لیکن اس دفع تو وہ یہ بھی نہی کر رہی تھی اور ستم ظریفی تو یہ تھی کہ اسے یاد بھی نہی آرہا تھا کہ ایسی کیا بھول ہوگئی اس سے جو وہ اس طرح اس کے ساتھ کر رہی ہے۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓

گر جاکر بھی اس نے وقتاً فوقتاً اسے کال کی تھی جسے اس نے اٹھانے کی زحمت نہی کی تھی۔۔۔۔

جب اس نے اس کی کسی کال یا میسج کا رپلائی نہ کیا تو وہ دندناتا ہو شمع کے کمرے کی طرف بڑھا

اس نے زور سے دروازہ کھولا تو اتنی زور سے دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ بوکھلائی۔۔۔۔

سب دروازے پر س نے اپنے بھائی کو غصے میں دیکھا تو اسے ساری بات سمنجھ آگئی کہ اس کا بھائی کیوں اس قدر غصے میں ہے۔۔۔۔۔۔

دیکھو شمع آرام سے بتا دو کہ وہ کیوں ناراض ہے مجھ سے۔۔۔۔اور سچ سچ بتانا اور یہ تو مجھے مت ہی کہنا کہ اس نے تم سے وعدہ لیا ہے اس نے غصے سے چبا چبا کر کہا۔۔۔۔۔

آئم سوری بھائی لیکن اس نے سچ میں مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ اگر میں نے آپ کو بتایا تو وہ مجھ سے دوستی ختم کر دے گی اس نے بے چارگی سے وجہ بتائی ۔۔۔۔۔اپنے بھائی سے زیادہ تو وہ بے بس تھی ایک طرف بھائی تھا تو دوسری طرف جان سے پیاری دوست تھی

بھائی آپ پلیز مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا 

وہ اس کا جواب دیے بغیر کمرے سے نکل گیا

اس کے نکلنے پر اس نے بے بی سے اپنا سر ہاتھوں میں پکڑا اور زکیہ کو کوسنے لگی جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پستی تھی۔۔۔۔۔۔۔

ساری رات اس نے بے چینی سے گزاری بے چینی کے ساتھ ساتھ اسے اس پر غصہ بھی آرہا تھا لیکن افسوس وہ کچھ کر نہی سکتا تھا ساری رات اس نے سسموکنگ کرتے گزاری۔۔۔۔۔۔

زکیہ بھی اس کے کال اور میسجز کا رپلائی نہ کرنے پر دکھی تھی لیکن پھر وہ پل یاد کر کے دکھ پر غصہ حاوی ہو جاتا۔۔۔۔۔۔

صبح وہ شمع کا انتظار کیے بغیر یونیورسٹی چلا گیا یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا

وہ لوگ گراؤنڈ میں بیٹھی گپیں ہانک رہی تھیں کہ وہ بھی ادھر ہی آگیا اور بغیر کسی کو سمجھنے اور بولنے کا موقع دیے  وہ اسے بازو سے پکڑتا پارنگنگ لاٹ میں لے آیا اور غصے سے اس سے اپنے اگنورنس کی وجہ پوچھی وہ تنگ آگیا تھا کل سے اسکی اگنورنس برداشت کرتے کرتے ۔۔۔۔۔۔۔وہ پہلے نرمی سے ہی اس سے پوچتھا رہا لیکن اب اسے بھی غصی آگیا

اگر وہ سیر تھا تو وہ بھی سوا سیر تھی

اس کے غصے کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوۓ اس نے اپنا بازو اس کے ہاتھ سے چھڑوایا اور اس سے بھی زیادہ غصے سے بولی

یہ کیا بد تمیزی ہے 

دیکھو زکیہ میں کل سے برداشت کر رہا ہوں تمہاری حرکتوں کو اس لیے شرافت سے مجھے بتا دو اس سب کی وجہ۔۔۔۔ورنہ مجھ سے کسی بھلائی کی امید نہ رکھنا اس نے اسے وارن کیا

او اچھا تو اب یہ زمانہ آگیا کہ تم مجھے دی گریٹ زکیہ کو دھمکی دو گے ہاں نہی تو اس نے ہاتھ جھلا کر غصے سے کہا

دیکھو زکی او آئی مین زکیہ پلیز بتا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صحیح بات ہے کل سے سوچ سوچ کر پاگل ہو گیا ہوں لیکن کوئی سرا ہاتھ نہی لگا اس کے گھورنے پر اس نے تصحیح کی

اب کے اس نے نرمی سے التجا کی وہ جانتا تھا کہ وہ غصے سے تو بلکل بات نہی کرے گی اس لیے اس نے نرمی سے ہی اس سے بات کی

ہوں تو تمہیں بلکل بھی نہی پتا اس کے نرم لہجے پر اس نے اپنی کل کی چپی توڑی

نہی اس نے نفی میں سر ہلایا

ہمم ۔۔۔۔ کل تم اس باندری کی منہ والی ہانیہ کے ساتھ کیا کر رہے تھے اس نے آنکھیں سکڑیں آخر اس نے تھیلی سے بلی نکال ہی دی

اس کے کہنے پر اسکے دماغ میں جھماکہ ہوا اور کل کا واقع اس کے زہن میں فلم کی صورت چلا ہوا کچھ یوں تھا کہ ہانیہ جو کہ اس کی کلاس کی لڑکی تھی اور شائد اس میں انٹرسٹڈ بھی تھی ۔وہ کل کاریڈور سے گزر رہا تھا کہ ہانیہ چلتے ہوۓ لڑکھڑائی ۔یہ اتفاق تھا کہ وہ اس سے چند قدم دور تھا کہ اس نے اسے  گرنے سے بچانے کے لیے سہارا دیا اور شائد اسی وقت زکیہ بھی وہاں سے گزر رہی تھی اور اس نے سب دیکھ لیا اور تب سے وہ اس سے ناراض تھی

او شٹ یار تم کل سے اس بات پر ناراض ہو اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا

کیا مطلب تمہارا ۔۔۔۔۔ تمہارے لیے یہ کوئی بات نہی ہو گی لیکن میرلے لیے ہے۔۔۔۔۔تمہارے لیے یہ بات معنی نہی رکھتی ہو گی لیکن میرے لیے معنی رکھتی ہے کیونکہ تم میرے ہو اور میں تمہارے ساتھ کسی کو برداشت نہی کر سکتی آئی سمجھ اس نے شہادت کی انگلی اس کے سینے کی جگہ پر مارتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا

میں یہ نہی کہہ رہا۔۔۔۔وہ سب اتفاق تھا وہ گر رہی تھی تو میں نے اسے بچانے کے لیے سہارا دیا تھا ایسا کچھ نہی ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو ۔۔۔میں صرف اور صرف تم سے پیار کرتا ہوں اور آخری سانس تک کرتا رہوں گا اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی محبت کا یقین دلایا اور اس نے اسکی محبت پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا تھا

اب تو تم مجھ سے ناراض نہی ہو نہ وہ جانتا تھا کہ وہ راضی ہو گئی ہے لیکن وہ پھر بھی تصدیق چاہتا تھا

ہاں نہی ہوں اب ناراض لیکن تم اب اس بندری سے سو فٹ کے فاصلے پر رہو گے اس نے تصدیق کے ساتھ اسے تنبیہ کی

ٹھیک ہے لیکن تم غلط سمجھ رہی ہو ایسا نہی جیسا تم اسے سمجھتی ہو 

میں اس بحث میں نہی پڑنا چاہتی اور چلو کافی دیر ہو گئی ہے وہ لوگ انتظار کر رہی ہوں گی

ہاں چلو تمہاری وجہ سے میں شمع سے بھی ناراض تھا اور اسے لیے بغیر ہی یونی چلا آیا تھا

اب تم اسے کچھ نہی کہو گے اس میں اس کا کوئی قصور نہی ہے میں نے ہی اسے منع کیا 

ہمم معلوم ہے مجھے

💓💓💓💓💓💓💓💓

شکر ہے لیلی مجنوں کی جوڑی آگئی انہیں بیٹھتے دیکھ کر نور نے کہا

سوری گڑیا میں کل غصے میں تھا 

کوئی بات نہی بھیا وہ مسکرائی

(بہن بھائیوں کا رشتہ بڑا انمول ہوتا ہے یہ ایک نایاب اور خوبصورت رشتہ ہوتا ہے اگر بہن بھائیوں پر جان لٹاتی ہیں تو بھائی بھی ان کی ایک مسکراہٹ کے لیے اپنی جان وارنے سے بھی دریغ نہی کرتے ۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی  خوشی غم تکلیف میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں )

شکر ہے بھائی آپ صحیح سلامت واپس آگۓ ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا آج بھی آپ کا چہرا لال ہو گا 

وہ شرارت سے کہہ کر مسکرائی

ہاں لیکن آج تھپڑوں سے لال ہوتا نور نے بھی ٹکرا لگایا

کل کی حالت یاد کر کے وہ بھی ڈھیٹوں کی طرح مسکرایا 

ارادے تو آج بھی اس کے نیک ہی تھے لیکن میں نے ہی اپنا بچاؤ کر لیا بھئ ہم کسی سے کم تھوڑی ہیں اس نے کالر اکڑاۓ

ہاں جی اسی لیے کل آپ کی ٹھیک ٹھاک مرمت ہو گئی تھی 

اچھا نہ چھوڑو بھی اب کل کی بات ۔۔۔۔۔۔رات گئی بات گئ زکیہ کے کہنے پر اس نے بات ختم کرنی چاہی ۔۔۔۔۔ اسے جواب دے کر وہ اسے دوبارہ ناراض نہی کر سکتا تھا 

اچھا یہ سب چھوڑو تم دونوں لیلی مجنوں کے چکر میں ہم نے ابھی تک کچھ کھایا بھی نہی 

نور نے دہائی دی

ابھی کوئی کچھ کہتا کہ ماجد کا موبائل بجا۔۔۔۔۔اس نے سب کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا

ہمم ٹھیک ہے میں گراؤنڈ میں ہی بیٹھا ہوں۔۔۔۔۔ ہاں پیپل کے درحت کے رائٹ سائڈ پر ۔۔۔۔۔۔ ہمم ٹھیک ہے مختصر سی بات کر کے اس نے موبائل پینٹ کی جیب میں رکھ لیا

کون تھا یہ پوچھنے والی زکیہ تھی

وہ مصطفی تھا یاد ہے جس کی کل ٹکر ہوئی تھی نور سے ۔۔۔۔۔۔ وہ تھا وہ بھی یہی آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔ سر نے ہمیں پروجیکٹ دیا ہے اسی سلسلے میں ۔۔۔۔۔۔ اور ہو سکتا ہے کہ کچھ دنوں تک وہ میرے ساتھ ہی رہے یعنی کہ ہمارے ساتھ تو ہوپ سو کہ تم میں سے کسی کو برا نہی لگے لگا ۔۔۔۔۔ وہ ایک اچھا اور شریف لڑکا ہے اس لیے میں نے بھی کوئی قباحت نہی سمجھی ورنہ میں خود ہی منع کر دیتا

کوئی بات نہی ہمیں معلوم ہے ہہ تم کسی بھی ایرے غیرے کو ہم سے نہی ملواؤ گے سب نے  زکیہ کی اس بات کی تاکید کی 

ہاں پرجیکٹ سے مجھے یاد آیا نور سر سرمد بھی تو کہہ رہے تھے کہ ہمیں بھی پروجیکٹ ملے گا جس میں ہمارے سینئرز کے ساتھ گروپس بنیں گے شمع نے نور سے کہا

ہاں یہ تو میں بھول ہی گئی زکیہ نے بھی کہا

ویسے تم لوگوں کو کب پروجیکٹ ملا زکیہ نے کچھ سوچتے ہوۓ پوچھا

آج ہی ملا ہے اور جو بات ابھی نور کہہ رہی ہے یہی بات ہمارے سر بھی کہہ رہے تھے کہ ہمارے والے گروپ میں جونیرز بھی شامل ہوں گے جن کا وہ کل بتائیں گے

اس نے سر کی بات یاد کرتے ہوۓ بتایا

سچ میں یعنی ہمارے ساتھ زکیہ نے خوش ہوتے کہا کیونکہ ان کے جونیرز یہ لوگ تھے ان سب کے سبجیکٹس سیم تھے

اوہ میڈم خوش ہونے کی ضرورت  نہی ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی اطلاع کے عرض ہے مادام کہ ان کے بھی دو سیکشن ہیں اور ہمارے بھی ۔۔۔۔ اس لیے زیادہ خوش مت ہو شمع نے اس کی خوشی پر پانی پھیرا

اتنے میں مصطفی بھی آگیا

اس نے نور کو نظروں میں رکھتے ہوۓ سلام کیا

وعلیکم سلام مصطفی بھائی۔۔۔۔۔۔ویسے میں آپ کو بھائی بلا سکتی ہوں نہ زکیہ نے گرم جوشی سے جواب دیا اور ساتھ ہی پوچھ بھی لیا

جی ضرور کیوں نہی بہنا اس نے بھی خوش دلی سے جواب دیا

ماجد بتا رہا تھا کہ ابھی گروپس نہی بنے تو آپ لوگ ابھی سے اس پر کیوں کام شروع کر رہے ہیں جب سر گروپس بنائیں گے تم کر لیجیے گا

وہ اس لیے بہنا کہ سر نے ہمیں پروجیکٹ بتا دیا ہے اور اس کے لیے ایک ہفتہ دیا ہے تو ہم نے سوچا کہ ہمارے گروپ ممبرز تو جونیرز ہوں گے تو کیوں نہ ہم آج کچھ ڈسکس کر لیں تاکہ کل جونیرز کو سمجھانے میں ہمیں آسانی ہو

او اچھا

اچھا زکیہ میں اور شمع کینٹین سے کچھ کھانے کے لیے لینے جا رہی ہیں۔۔۔۔ تو تم بتاؤ تم کیا کھاؤ گی بھوک کی ہلکی نور نے ان سب کو باتوں میں جڑے دیکھ کر کہا 

میرے پاس تو آج پیسے ہی نہی ہیں اس نے نہایت معصوميت سے کہا 

ایسے بولو کہ تمہارے پاس پیسے ہیں لیکن آج کسی کی جیب سے کھانے کا دل کر رہا ہے نور نے ہنستے ہوۓ کہا 

وہ سب جانتے تھے کہ جب بھی اس کا کسی کی جیب خرچ سے کھانے کا دل کرتا تو وہ ایسے ہی کہتی تھی

آئی لو یو 😘 تم کتنا جانتی ہو نہ مجھے اس نے اسے فلائنگ کس کی

یہ چھچھوڑا پن جو ہے نہ مجھ پر نہ جھاڑا کرو اور اب شرافت سے بتاؤ کے کس کے پیسوں سے اور کیا کھانا ہے

ماجد اس نے پیار سے ماجد کی طرف دیکھا 

اور ماجد تو اس کے پیار سے بلانے پر نثار ہوتا اسے اپنا بٹوا ہی پکڑا دیا۔۔۔۔۔ اس نے بٹوے سے پیسے نکال کر نور کو دیے اور اپنا ماجد اور مصطفی کا کھانا بھی خود ہی بتا دیا۔۔۔۔۔۔ ساجد تو اس کے پیار سے کہنے پر کچھ بھی کھا لیتا اس لیے نہ بولا لیکن مصطفی تو نور میں ہی کھویا ہوا تھا اس لیے اسے کچھ نہ سنائی دے رہا تھا اور نہ دکھائی سواۓ نور اور اس کی ہنسی کے

مصطفی تو اس کی ہنسی میں کھو گیا اسے لگ رہا تھا کہ اس نے اس سے خوبصورت ہنسی آج تک کسی کی نہی سنی  وہ مسمرائز سا اس کو ہنستے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ بے ساختہ اس کے دل نے سے شعر پڑھا تھا

خدا کرے سلامت رہے کسی دعا کی طرح

اک تو اور دوسرا مسکرانہ تیرا

وہ کب کی جاچکی تھی لیکن مصطفی اس کی ہنسی میں ہی کھویا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ساجد موبائل پر لگا ہوا تھا اس لیے اس نے اس کا کھونا نوٹ نہ کیا لیکن زکیہ نے خوب نوٹ کیا

ارے مصطفی بھائی نکل آئیں اس کے خیالوں سے وہ جاچکی ہے وہ اس کے نزدیک ہو کر اہستہ آواز میں کہا تو وہ جیھینپ گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا 

ارے بے فکر رہیں مصطفی بھائی میرے علاوہ کسی نے نہی دیکھا اور وہ کیا گانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پیار کیا تو ڈرنا کیا ۔۔۔۔جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔۔۔ پیار کیا ہے کوئی چوری نہی کی

وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اسے زکیہ کی شرارتی آواز سنائی دی جس میں وہ باقاعدہ گانا گا رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس کی آواز آہستہ تھی لیکن پھر اسے ڈر تھا کہ کہیں ماجد سن ہی نہ لے۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ماجد اس کا بھائی نہی کزن ہے لیکن پھر بھی وہ ڈرتا تھا کہ ناجانے وہ کیا سمجھتا

دیکھو بہنا چپ کر جاؤ وہ سن لے گا اس نے بے چارگی سے ماجد کی طرف اشارہ کیا

اوکے وہ بھی شرافت سے مان گئی

ماجد موبائل پر لگا ہوا تھا لیکن جب زکیہ مصطفی کی طرف جھکی تو اس کے ساری خصیات ان کی طرف متوجہ ہو گئیں۔۔۔۔۔ لیکن وہ خود کو ایسے شو کروانے لگا جیسے اس کا دیھیان ان کی طرف بلکل نہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسے جیلیسی فیل ہونے لگی اور ساتھ ساتھ تجسس بھی کہ وہ تو اسے صحیح طرح سے جانتی بھی نہی ہے تو پھر وہ اس سے رازداری میں کیا باتیں کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن تجسس کے آگے جیلسی سبقت لے گئی اور اس نے موبائل جیب میں ڈال لیا تاکہ وہ لوگ بس کر دیں کیونکہ وہ صرف اتنا ہی برداشت کر سکتا تھا

ہمم تو ڈسکس کر لیں اس نے کہا

ٹھیک ہے اس نے بھی ہامی بھر لی

وہ دونوں تھوڑی دور ہو گۓ اور ڈسکس کرنے لگے

ابھی وہ لوگ ڈسکس کر رہے تھے کہ شمع نے ان کے پاس آئی

بھائی ہم لوگ آپ لے آئیں ہیں اب آپ لوگ آکر کھا لیں بعد میں ڈسکس کر لیجیے گا۔۔۔۔۔۔ تو وہ دونوں بھہ سر ہلا کر اس کے ساتھ ہی آگۓ

نور لوگوں کی کلاس کا ٹائم ہو گیا تو وہ لوگ چلی گئیں اور اب پیچھے صرف وہ دونوں ہی رہ گئے تھے وہ لوگ دوبارہ سے ڈسکس کرنے لگے

💓💓💓💓💓💓💓💓💓

گھر آکر اس نے شاور لے کر ظہر کی نماز قضا ادا کی کیونکہ ان کی کلاسز کی وجہ سے اس کی ظہر کی نماز رہ جاتی تھی۔۔۔۔۔۔ نماز پڑھ کر وہ کل کا ٹیسٹ تیار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھا ٹیسٹ تیار کر کے اس نے فیسبک اوپن کی تو ماجد کی تصویر پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی 

کالی شلوار قمیص پہنے وہ اسکی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کر گیا

کافی دیر وہ اسکی تصویر کو دیکھتی رہی جیسے اسے اپنی آنکھوں سے دل میں خفظ کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے لب اس کی تصویر پر رکھے اور اپنی حرکت پر خود ہی شرما دی اور اس پر یہ شعر کمنٹ میں لکھ دیا

ریزہ ریزہ ہونا بنتا ہے میرا

اترا ہےکیرے دل پر تیرا عشق مکمل

کمنٹ میں اس کا شعر پڑھ کر وہ جاندار مسکرایا۔۔۔۔اور اگلے ہی پل اسے فون کھڑکا دیا

اس نے فون کان سے لگا کر صرف ہمم کہا۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے اس کا کمنٹ پڑھ لیا ہے۔۔۔۔۔ وہ جتنی بھی اس کے سامنے ترخم خان بنتی تھی۔۔۔۔۔ تھی تو عورت نہ شرم و حیا تو عورت کا زیور ہوتا ہے

ہمم تو شرمایا جا رہا ہے مجھ سے

اس کے شرمانے سے مخظوظ ہوتے اس نے اسے چھیڑا

نہی تو وہ بوکھلائی اسے کیسے پتا

اب تم سوچ رہی ہو گی کہ مجھے کیے پتا کہ تم شرما رہی ہو۔۔۔۔۔تو جاناں میرے دل کے تار تمہارے دل سے جڑے ہیں 

اس کی دلکش آواز کانوں میں پڑی تو وہ مزید بوکھلائی 

اف یہ تو میری ہر سوچ پڑھ لیتا ہے

اسے پر سکون کرنے کے لیے اس نے بات بدل دی

تم کافی دن سے آئی نہی ہماری طرف۔۔۔۔۔ بھائی اور بھابی (رفعت) بھی پوچھ رہی تھیں تمہارا

ہاں ٹائم ہی نہی ملا 

ہاں تم اتنی بزی رہتی نہی سارے پاکستان کے کام تو جیسے تمہارے زمہ ہیں نہ

پاکستان کے تو نہی البتہ گھر کے تو ہیں نہ اور پھر پڑھنا بھی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ویسے تمہیں تو فرق نہی پڑنا چاہیے تم سے تو روز مل لیتی ہوں

لیکن میرا دل کرتا ہے کہ میں تمہیں ساری عمر اپبے سامنے بٹھا کر دیکھتا رہوں

لائن مار رہے ہو

حد ادب لڑکی لائن نہی مار رہا اپنے دل کا حال بتا رہا ہوں جو ہر وقت تمہیں دیکھبے کی چاہ کرتا ہے تمہیں سننے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور ہر وقت تمہارے نام کا ہی ورد کرتا رہتا ہے

اس کے اظہار پر وہ گہرا مسکرائی

زکیہ۔۔۔۔۔ کافی دیر ایک دوسرے کی سانسوں کی آواز سننے کے بعد اس نے اسے پکارا

ہمم

ایک سوال پوچھوں اگر تمہیں برا نہ لگے تو

تمہیں کب سے اجازت کی ضرورت پڑ گئی۔۔۔۔۔۔ تم ہر سوال کا حق رکھتے ہو ماجد 

کیا کوئی ایسی بات ہے جس سے تم باخبر ہو اور میں بے خبر اس نے ایسے لفظوں کا چناؤ کیا جس سے اگر اسے برا لگنا بھی ہوتا تو نہ لگے

اوہ ہاں۔۔۔۔۔۔ میں کیسے بھول گئی اتنی اہم بات مجھے تمہیں بتانی تھی اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔۔۔۔۔ 

کونسی اہم بات وہ مستفر ہوا

وہ مصطفی نہی ہے تمہارا دوست 

ہاں تو

ہاں تو وہ یہ کہ وہ ہماری نور سے محبت کرتا ہے

کییییییا۔۔۔۔۔ لگا نہ شاک۔۔۔۔۔ اس کے کیا کو لمبا کھینچنے پر وہ مسکرائی

تمہیں کیسے پتا چلا کہ وہ نور سے محبت کرتا ہے  اور کیا نور کو پتا ہے اور اس نے تمہیں خود بتایا ہے وہ شاک سے نکل کر جو بولنا شروع ہوا تو بولتا ہی چلا گیا

ارے بریک پر پاؤں رکھو

ہاں رکھ لیا۔۔۔۔۔ میرا مطلب چپ ہو گیا

نہی اس نے نہی بتایا اور نہ ہی نور کو پتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے پہلے دن سے لیکر اس دن تک والی بات بتائی

ہمم مصطفی اچھا لڑکا ہے

ویسے تمہیں کیوں لگا کہ کوئی بات ہے جس سے تم بے خبر ہو

پھر ساجد نے اسے گراؤنڈ والی ساری بات بتا دی

تو تم شک کر رہے تھے اس نے دھیمے لہجے میں کہا

میں مر کر بھی ایسا نہی کر سکتا۔۔۔۔۔ہاں مجھے جیلسی ضرور ہوئی تھی جب تم اس سے راز و نیاز کر رہی تھی 

وہ اس پر شک کرنے کا تو سوچ بھی نہی سکتا تھا۔۔۔۔

اگر تم نے ایسا کبھی کیا بھی تو وہ تمہیں گنجا کر دوں گی اس نے اپنی ٹون میں آتے اسے دھمکی دی

کب اظہار کر رہا ہے وہ نور سے اپنی محبت کا۔۔۔۔۔ویسے بھی آخری سال ہے ہمارا یونی میں

پتا نہی کہہ رہا تھا کہ جلد ہی کرے گا  

تم مجھ سے کب اظہار کرو گی ۔۔۔۔میں تو دن میں کتنی دفع تم سے اظہار کرتا ہوں اس نے شکوہ کیا

یہ سچ تھا کہ وہ دن میں کوئی سو دفع اسے آئی لو یو کے میسج کرتا تھا اس کے ہر عمل سے اس کے لیے محبت دکھتی تھی۔۔۔۔۔۔محبت تو وہ بھی کرتی تھی لیکن اس نے آج تک اپنی زبان سے اس کا اس کے سامنے اظہار نہی کیا تھا

بہت جلد جب میں پورے حق سے تمہاری زندگی میں شامل ہوں گی یہ میری طرف سے تمہارے لیے نکاح کا تخفہ ہوگا

میں اس پل کا شدت سے اتنظار کروں گا اس نے شدت جزب سے کہا

میں بھی کہا تو اس بے بھی تھا لیکن دل میں

وہ تو خوشی سے پھولے نہی سما رہی تھی کہ ان کے گروپ میں سینئرز کوئی اور نہی بلکہ ماجد اور مصطفی ہیں۔۔۔۔۔اپنی خوشی میں وہ یہ بھی بھول گئی کہ شمع کی جگہ ان کے گروپ میں کوئی اور لڑکی ہے

وہ لوگ اس وقت اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوۓ تھے ماجد اور مصطفی بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔۔۔۔۔چونکہ اب انہیں مل کر کام کرنا تھا اس لیے کسی نے بھی برا نہ مانا

سر کو مجھ سے کیا دشمنی تھی جو انہوں نے آپ سب کو ایک گروپ میں جب کہ مجھے کسی دوسرے گروپ میں ڈال دیا وہ رو دینے کو تھی۔۔۔۔۔

ان تینوں کا پہلے سال سے ہی گروپ بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔اگر کبھی کسی اسائنمنٹ کے لیے کسی لڑکی کو شامل کرنا ہوتا تو وہ لوگ کر لیتی تھیں لیکن جونہی اسائنمنٹ ختم اس کے بعد ان کا اس لڑکی سے کوئی واسطہ نہ ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔

اب کسی اور گروپ میں شامل ہو کر کام کرنا اسے مشکل لگ رہا تھا

کیوں نہ ہم اس لڑکی کے پاس جائیں اور اس سے ریکویسٹ کریں کہ وہ تمہارے والے گروپ میں چلی جاۓ اور تم ہمارے والے میں

نور نے اس کی رونی شکل دیکھ کر حل بتایا

آئڈیا تو اچھا ہے لیکن اگر وہ لڑکی نہ مانی تو اس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا

یہ تو اب اس سے بات کر کے ہی پتا چلے گا کہ وہ مانتی ہے کہ نہی زکیہ نے اٹھتے ہوۓ کہا

ہم لوگ تو جا رہے ہیں اس لڑکی سے بات کرنے ۔۔۔۔۔آپ لوگ تب تک کینٹین پر جا کر ہمارا ویٹ کریں اور ہاں کچھ آرڈر بھی کر لینا

پیسے ساجد نے فوراً کہا

ہااااا۔۔۔۔۔۔اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا

اب دو دو جینٹلمین کہ ہوتے ہوۓ ہم اپنے اپنے کھانے کا بل دیتے ہوۓ اچھے تھوڑی نہ لگے گیں کیوں نور اور شمع

ہاں یہ تو تم نے سو آنے سچ بات کہی نور نے کہا

میں تو ہمیشہ سچ ہی بات کرتی ہوں ہاں نہی تو

ٹھیک ہے آپ لوگ جائیں ہم انتظار کریں گے آپکا مصطفی نے نور کی طرف دیکھ کر کہا

وہ لوگ بھی ان کے ساتھ ہی اٹھ گئے۔۔۔۔۔۔وہ لوگ کینٹین چلے گئے جبکہ انہوں نے اس لڑکی کو ڈھونڈنے کے لیے گراؤنڈ کا رخ کیا

💓💓💓💓💓💓💓💓

ان لوگوں نے بڑی مشکل سے اس لڑکی کو راضی کیا تھا۔۔۔۔۔۔اب وہ لوگ خوشی خوشی کینٹیں میں آ گئیں۔۔۔۔ان کے کہے کے مطابق وہ دونوں ان کا انتظار کر رہے تھے اور کھانا بھی ٹیبل پر تھا۔۔۔۔

مان گئی وہ لڑکی ۔۔۔۔ان کے بیٹھتے ہی مصطفی نے پوچھا۔۔۔۔ 

جی مان ہی گئی لیکن بڑی مشکل سے ۔۔۔اب صرف سر سے بات کرنی پھر یہ ہمارے گروپ میں ہو گی۔۔۔۔۔

مان جائیں گے سر تم ان سے بات کر لینا اور کہنا کہ وہ لڑکی بھی راضی ہے تو سر کچھ نہی کہیں گے۔۔۔۔نور کے کہنے پر ساجد نے جواب دیا تو ان تینوں نے سر ہلایا۔۔۔۔۔

ایک ہفتہ انہوں نے خوب محنت کر کے پروجیکٹ تیار کیا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ہفتے میں مصطفی کی بھی ان سب سے اچھی دوستی ہو گئ تھی۔۔۔۔

پروجیکٹ پر سر نے ان کی محنت کو سراہا تھا۔۔۔۔۔

اب وہ لوگ سب اکھٹے ہی پاۓ جاتے تھے ۔۔۔۔مصطفی بھی اس ایک ہفتے میں جان گیا تھا ماجد اور زکیہ ایک دورے سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

مصطفی کی ان سے دوستی کو تین ماہ ہو گۓ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عرصے میں 

اس نے کافہ دفع خود میں ہمت پیدا کی کہ وہ نور کو پرپوز کر سکے لیکن ہر دفع اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اسے برا لڑکا سمجھ کر انکار ہی نہ کر دے اس نے اسے ابھی تک اپنی فیلنگز کے بارے میں نہی بتایا تھا۔۔۔۔

ماجد اور مصطفی گراؤنڈ میں بیٹھے تھے۔۔۔۔۔لڑکیوں کا لیکچر تھا اس لیے وہ لوگ لیکچر لے رہی تھیں۔۔۔۔

تم کب نور کو پر پوز کر رہے ہو۔۔۔۔۔اب تو یہ ہمارالاسٹ سمیسٹر ہے۔۔۔۔۔

تمہیں کیسے پتا اس نے ہکلا کر پوچھا۔۔۔۔۔

زکیہ نے بتایا اور کون بتاۓ گا۔۔۔۔

دیکھ ساجد مجھے غلط مت سمجھنا میں سچ میں نور سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔۔اور اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔اسے ڈر تا کہ کہیں وہ اسے غلط ہی نہ سمجھ لے۔۔۔۔

میں جانتا ہوں کہ تم اس سے محبت کرتے ہو ۔۔۔۔اور اس ڈر کو ختم کر دو کہ میں تمہیں غلط سمجھوں گا۔۔۔۔۔اگر مجھےتم پر یقین نہ ہوتا تو کبھی بھی تمہیں ان سے نہ ملواتا اور نہ تمہاری ان سے دوستی ہونے دیتا۔۔۔۔۔اور جب مجھے پتا چلا کہ تم نور سے محبت کرتے ہو تو میں تمہارے دانت توڑ دیتا لیکن تب جب تم برے انسان ہوتے۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ تم نور کو ہمیشہ خوش رکھو گے ۔۔۔۔۔اس نے اس کے کندھے ہر ہاتھ رکھا۔۔۔ 

تھینکیو سو مچ ماجد ۔۔۔۔۔اس نے اسے گلے لگایا۔۔۔ 

اب پیچھے ہٹو اور مجھے بتاؤ کہ کب تم پرپوز کر رہے ہو اسے۔۔۔۔۔

یار بہت دفع کہنے کی ہمت کی ہے لیکن اس کے انکار کے ڈر سے پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔۔۔۔

تو کیا تم اسے کبھی بتاؤ گے ہی نہی ۔۔۔ 

بتاؤں گا  اسے انشاء اللہ۔۔۔۔لیکن ابھی نہی۔۔۔۔فائنل ایگزیمز کے بعد ۔۔۔۔اس نے سانس کھینچی۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓

آج ویکینڈ تھا اور وہ لوگ نور کے گھر جمع تھے ۔۔۔۔۔مصطفی نہی تھا بس ۔۔۔۔۔۔ماجد کے بھائی اور بھابی رفعت بھی وہیں تھیں۔۔۔۔۔

ان سب کا پلان آج گھر میں ہی انجواۓ کرنے کا تھا۔۔۔۔۔جس میں انہوں نے سب سے پہلے باربی کیو اور پھر موی دیکھنے کا پلان بنایا تھا۔۔۔۔۔

اس لیے وہ لوگ صبح سے ہی یہاں تھے اور رات بھی سب کا یہی رکنے کا پلان تھا۔۔۔۔۔چونکہ سب کزنز تھے اس لیے زکیہ کے گھر والوں اور نور کے گھر والوں نے بھی اعتراض نہ کیا۔۔۔۔۔

وہ لوگ نور کے کمرے میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ نور کی امی شہناز کمرے میں آئیں۔۔۔۔۔

تم لوگوں نے کیا ساری جہاں کی باتیں آج ہی کرنی ہیں کیا۔۔۔۔۔وہ لوگ دوپہر کی کمرے میں بند تھیں اور اب چار بجنے والے تھے لیکن ان کے باہر آنے کے اثرات نہ دیکھ کر وہ خود ہی کمرے میں آ گئیں۔۔۔۔۔۔

ان کے ہاتھ میں جوس کا گلاس تھا انہوں نے وہ رفعت کو دیا ۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ امید سے تھی اور آخری ماہ چل رہا تھا اس کا ۔۔۔

ارے امی آپ بھی آئیں۔۔۔۔نور نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھایا۔۔۔۔

امی اب یہ آپکا بھی دماغ کھانے والی ہے۔۔۔۔رفعت نے ہنس کر کہا کیونکہ وہ تینوں کب سے اس کے بے بی بواۓ کو ڈسکس کر کر کے اس کا دماغ کھا چکی تھیں۔۔۔۔۔

آپی ہم نے کب آپکا دماغ کھایا ۔۔۔۔۔ہم تو اپنے بے بی کو ڈسکس کر رہے تھے۔۔۔۔۔ 

جی معلعم ہے مجھے ۔۔۔۔۔کہ آپ اپنے بے بی کو ہی ڈسکس کر رہی تھیں تینوں لیکن اس میں ان کی ماما کو بھی تو انوالو کیا ہوا ہے آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔

ہاں تو کیا آپی کوئی نام ہی نہی سمجھ آ رہا ۔۔۔۔جو نام مجھے اچھا لگتا ہے اس میں یا تو یہ زکیہ کوئی نقص نکال دیتی ہے اور اگر اسے پسند آتا ہے تو یہ شمع کو پسند نہی آتا۔۔۔۔۔۔اس نے برا سا منہ بنایا

اور یہی حال زکیہ اور شمع کا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

دیکھو بیٹا بچے ہر پہلا حق اس کے ماں باپ کا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اور پھر ہو سکتا ہے کہ نازیہ رفعت کی ساس نے بھی کوئی نام سوچ رکھا ہو۔۔۔۔۔اس لیے تم لوگ اس بات پر خود کو پریشان مت ہو ہو سکتا ہے وہ نام جو وہ لوگ رکھیں وہ تم تینوں کو پسند آجاۓ۔۔۔۔۔انہوں نے رسانیت سے انہیں سمجھایا تو وہ تینوں بھی سمجھ کر سر ہلا گئیں۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓💓

رات کو دس بجے وہ لوگ لان میں بار بی کیو کر رپے تھے اور ساتھ ساتھ انتاکشری بھی کھیل رہے تھے۔۔۔۔۔

انہوں نے شہناز بیگم اور امجد نور کے بابا کو بھی کہا تھا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر کہ تم لوگ انجواۓ کرو انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔

 ساجد نے ان کے آگے بار بی کیو کی پلیٹ رکھی اور وہیں بیٹھ گیا۔۔۔۔

چلیں ساجد بھائی اب آپ ہمیں کوئی گانا سنائیں جو کہ م سے ہو۔۔۔۔زکیہ نے فرمائش کی۔۔۔۔۔

ارے مجھے کہاں گانا وانا آتا ہے تم ماجد کو بولو وہ گا دے گا گانا۔۔۔۔کیوں ماجد ۔۔۔۔۔اس نے انکار کے ساتھ ساتھ  شرارت سے ماجد سے بھی پوچھ لیا۔۔۔۔۔ماجد نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور سٹڈی کے بعد اس کا باقاعدہ رشتہ بھیجنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔اس پر اسے بھی کوئی اعتراض نہی تھا کیونکہ اسے اپنے بھائی کی خوشی سب سے زیادہ عزیز تھی اور پھر زکیہ بھی دیکھی بھالی تھی۔۔۔۔اس لیے اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔۔۔۔

کیوں نہی ہم تو ہمیشہ ان کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔۔۔۔اس نے سر کو خم دے کر اسے سب سے چھپا کر آنکھ ماری۔۔۔۔۔

اچھا تو پھر تم ہی سنا دو کوئی گانا۔۔۔۔ 

ااااااہاں۔۔۔۔۔گانا نہی میں تو غزل سناؤں گا۔۔۔۔۔

ٹھیک ہے تماری مرضی۔۔۔۔

لفظوں کی طرح مجھ سے ،کتابوں میں ملا کر

دنیا کا تجھے ڈر ہے تو، خوابوں میں ملا کر

پھولوں سے تو خوشبو، کا تعلق ہے ضروری

تو مھھ سے مہک بن کر ، گلابوں میں ملا کر

ساغر کو چھو کر، میں تجھے محسووس کرونگا

مستی کی طرح مجھ سے شرابوں میں ملا کر

میں بھی ہوں بشر، تبھے بہکنے کا  بھی ڈر ہے

اس واسطے تو مجھ سے،محابوں میں ملا کر۔!!

وہ غزل کے دوران اسے ہی مسلسل نظروں میں لیے ہوۓ تھا جسے محسوس کر کے وہ سمٹی جا رہی تھی۔۔۔۔

شمع اور نور کی معنی خیز نظروں پر وہ ان کو بس گھور ہی سکی۔۔۔۔وہ ان کی طبعیت اچھے سے سیٹ کرتی لیکن ساجد اور رفعت کی موجودگی کی وجہ سے وہ بس انہیں گھورنے پر ہی اکتفا کر سکی۔۔۔۔۔

ارے واہ واہ کیا بات ہے ماجد بھائی۔۔۔۔۔

واقعی بہت اچھی تھی غزل ۔۔۔۔رفعت نے بھی مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔

اس نے سر کو خم دے کر تعریف وصول کی۔۔۔۔

تم کچھ نہی بولو گی زکیہ ماجد نے اتنی اچھی غزل سنائی ہے اور فرمائش بھی تمہاری ہی تھی۔۔۔۔نور نے شرارت سے اسے کہا

جی بہت اچھی تھی ۔۔۔۔۔اس نے دل میں نور سے بعد میں بدلہ لینے کا سوچ کر اسے گھور کر اس کی تعریف کر ہی دی۔۔۔۔۔۔

چلو ماجد اب تمہاری باری ہے لانے کی ۔۔۔۔ساجد نے اس کے آگے خالی پلیٹ کی۔۔۔۔۔

جو حکم بادشاہ سلامت ۔۔۔۔۔

اس کے جانے کے بعد وہ لوگ دوبارہ مشغول ہو گئے۔۔۔۔

مین گیٹ کا دروازہ بجا تو سب نے حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔۔

ان کا حیران ہونا بنتا بھی تھا کیونکہ رات کے بارہ بج رہے تھے ۔۔۔۔۔

اس وقت کون ہو سکتا ہے ؟؟ رفعت نے کہا

تم لوگ بیٹھو میں دیکھ کر آتا ہوں۔۔۔۔۔ساجد نے ان سب کو کہا اور خود گیٹ کی طرف چلا گیا۔۔۔۔

اب سب کا دھیان اب گیٹ ہی طرف تھا۔۔۔۔ 

ساجد نے گیٹ کھولا تو سامنے لڑکے کو دیکھ کر اسے خوشگور حیرت ہوئی۔۔۔۔۔

تم اس وقت ۔۔۔۔۔۔اس نے اسے گلے لگایا

تم کم ازکم اپنے آنے کی اطلاع تو دیتے ۔۔۔۔میں تمہیں پک کرنے ہی ائیرپورٹ آجاتا۔۔۔۔۔ساجد کے شکوے پر وہ مسکرایا۔۔۔۔

یہ بیگ مجھے دو اور اندر چلو سب تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ساجد نے اس کے ہاتھ سے ایک بیگ لے کر اندر چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔

لان میں سب جو بڑے تجسس سے بیٹے تھے کہ اس وقت کون آگیا ۔۔۔۔۔سامنے سے آنے والی ہستی کو دیکھ کر تو نور چیخ مار کر اس کی طرف دوڑی اور اس آنے والے سے لپٹ گئی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔

آنسو تو رفعت کی بھی آنکھ میں آ گئے تھے اپنے سامنے موود اپنے بھائی کو اتنے سالوں بعد دیکھ کر۔۔۔۔لیکن وہ اپنی حالت کے پیش نظر نور کی طرح بھاگ کر اپنے بھائی سے لپٹ نہ سکی۔۔  لیکن وہ بھی آہستہ آہستہ چلتے ہوۓ اس کے پاس آئی اور نم  آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔

اس نے بھی نور کو آرام سے علیحدہ کر کے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اور اسے گلے لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔ایک تو اس کنڈیشن میں وہ پہلے ہی زیادہ احساس ہو گئی تھی لیکن اب اپبے سامنے اپنے بھائی کو دیکھ کر کوشش کے باوجود بھی وہ خود کو  رونے سے روک نہ سکی ۔۔۔۔۔۔

اس نے اسے نرمی سے علیحدہ کیا اور اس کے آنسو صاف کر کے اس کے بالوں پر بوسہ دیا اور اپنے بازؤں کے حلقے میں لے کر اندر کی جانب قدم بڑھاۓ۔۔۔۔

زکیہ جو ہونک بنی سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ماجد کے چٹکی بجانے ہر ہوش میں آئی۔۔۔۔۔

نور   شہناز بیگم اور امجد صاحب کو چہرے پر پریشانی سجاۓ لاؤنج میں لائی۔۔۔۔۔

وہ دونوں جو پریشانی سے باہر آرہے تھے اپنے سامنے اپنے بیٹے کو دیکھ کر دونوں ہی اپنی جگہ پر جامد ہو گئے۔۔۔۔۔ 

اس نے آگے بڑھ کر   شہناز بیگم  کو لگلے لگایا تو وہ ہوش میں آتی اسے علیحدہ کر کے میرا بیٹا احتشام کہہ کر  اس کا منہ دیوانہ وار چومنے لگیں۔۔۔۔۔اتنے سال اپنے بیٹے کی دوری پر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔۔۔

اس کی خود کی بھی آنکھیں نم تھیں ۔۔۔۔وہ خود بھی تو پردیس میں ان کے بغیر کیسے رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔۔۔۔اپنوں سے دور رہنا کہاں آسان ہوتا ہے ۔۔۔۔۔وہ پہلے ہی اپنی ماں کی آغوش میں آجاتا لیکن مجبوری کی وجہ سے اتنے سال ان سے دور رہا ۔۔۔  

ان کی آنکھیں صاف کر کے وہ امجد صاحب کے پاس گیا اور ان کو گلے لگایا۔۔۔۔۔اتنے سالوں بعد اپبے بیٹے کے لمس کو پاکر انہوں نے بھی اپنی پکڑ مضبوط کی۔۔۔۔

یہ سب دیکھ کر ہر ایک کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔۔۔۔

اس کے بعد وہ ماجد سے ملا اور اسکا حال احوال دریافت کیا۔۔۔۔

اسے لیکر وہ صوفے پر بیٹھے اور دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں کی پیاس بجانے لگے۔۔۔۔

بھیا آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہی ۔۔۔۔۔نور نے اس کے ساتھ بیٹھتے پوچھا ۔۔۔۔

کیونکہ میں آپ سب لوگوں کو سرپرائز دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔اور اگر میں آپ لوگوں کو بتا دیتا تو آپ لوگوں کے چہروں پر یہ خوشی کیسے دیکھتا جو مجھے اچانک دیکھ کر آپ لوگوں کے چہروں پر مجھے دیکھنے کو ملی ہے۔۔۔۔۔اس نے اس کے سر پر چپٹ لگائی۔۔۔۔

 بات کرتے کرتے اس کی نظر زکیہ پر گئی تو اس نے سوالیہ نظروں نور کی طرف کیں۔۔۔۔۔

وہ ماجد اور شمع کو تو پہچان گیا تھا لیکن یہ لڑکی کون تھی۔۔۔۔

بھائی یہ ثریا پھوپھو کی بیٹی ہے زکیہ ۔۔۔۔۔یہ ہماری بیسٹ فرینڈ بھی ہے ۔۔۔۔۔آج ہم لوگ باربی بی کیو کر رہے تھے اس لیے یہ یہاں ہے ۔۔۔۔اور آج رات یہی رکے گی۔۔۔۔۔

اوہ اچھا۔۔۔۔۔کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔اس نے اس سے پوچھا۔۔۔

جی الحمدللہ ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔

چلو نور اب بھائی کی جان چھوڑو ۔۔۔۔۔تھکا ہوا ہے وہ۔۔۔۔اور تم لوگ بھی اب آرام کر لو ۔۔۔۔باقی کا پلان پھر کسی دن کر لینا۔۔۔۔

شہناز بیگم نے ٹائم دیکھا تو رات کے دوبج رہے تھے۔۔۔۔اتنے لمبے سفر کی وجہ سے احتشام بھی تھکا تھکا تھا اس لیے انہوں نے سب کو آرام کرنے کا کہا۔۔۔ 

تو وہ لوگ بھی جی کہہ کر اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔۔

نور نے اپنی امی سے سن رکھا تھا کہ ان کا ایک بھائی بھی لیکن اس نے کبھی دیکھا نہی تھا اور پھر وہ رفعت اور ساجد کی شادی پر  بھی نہی آیا تھا۔۔۔۔اس لیے وہ پہچان نہ پائی۔۔۔۔۔۔

💓💓💓💓💓💓

چونکہ رات کو سبھی لیٹ سوۓ تھے اس لیے سب کی صبح ہی دیر سے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔آج کی صبح نے ایک اور محبت کو جنم دینا تھا۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں دس بجے کے قریب ناشتے کے لیے نیچے آئیں۔۔۔۔۔۔

لاشعوری طور پر اس کی نظریں سیڑھیوں  سے اترتی ان دونوں پر گئ تھیں۔۔۔۔۔۔لیکن یہ نظریں پلٹنے سے انکاری تھیں۔۔۔۔۔۔

کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ سوچ تھی جو اس کے زہن میں اس وقت تھی۔۔۔۔

وہ یک تک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ جو فیروزی رنگ کے فراک میں ہم رنگ ڈوپٹہ لیے نور کے ساتھ کسی بات پر ہنستی نیچے آ رہی تھی کہ کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کر کے اس نے نظریں اٹھائیں تو ماجد اسے فارفتنگی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔وہ بے ساحتہ مسکرا کر نظریں جھکا گئی۔۔۔۔۔۔

اس کےتو وہم میں بھی نہی تھا کہ ماجد کے علاوہ بھی کوئی اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔

ان کے سلام پر دونوں کا ارتکاس ٹوٹا تھا۔۔۔۔۔

میں تم دونوں کو اٹھانے گئی تھی لیکن تم تینوں تو جیسے کدھے گھورے بیچ کر سو رہی تھی۔۔۔۔۔

شمع پہلے ہی اٹھ چکی تھی

اوفو ماما رات کو اتنا دیر سے سوۓ اس لیے جاگ نہی آئی ورنہ آپ تو جانتی ہیں کہ میں آپ کی ایک آواز پر اٹھ جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔نور نے اٹھ کر ان کے گرد لاڈ سے بازو پھیلاۓ۔۔۔۔۔

ہاں میں تو تمہیں جیسے جانتی نہی ہوں نہ کہ تم کتنی میری فرمانبردار ہو۔۔۔۔اور یہ بھی تم نے خوب کہی کہ میری ایک آواز پر اٹھ جاتی ہو۔۔۔۔۔میں تمہیں ہہلے سو دفعہ کوئی آواز دیتی ہوں پھر بھی جب تم ٹس سے مس نہی ہوتی تب جا کر تمہیں غصے سے آواز دیتی ہوں جس پر تم ہر بار کی طرح ہڑبڑا کر اٹھتی ہو۔۔۔۔

ہاں تو ماما مجھے آپ کی صرف وہی ایک آواز سنائی دیتی ہے ۔۔۔۔۔تو پھر وہ ایک آواز ہی ہوئی نہ جس میں اٹھ جاتی ہوں۔۔۔۔۔اور ماما یہ آپیہ کہاں ہیں نظر نہی آ رہیں۔۔۔۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ اب اس کی کلاس شروع ہو جانی ہے ماما  سے سب کے سامنے ۔۔۔۔اور ماما نے بھی کسی کا لحاظ کیے بغیر شروع ہو جانا ہے اس لیے اس نے بات بدلنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔۔

 یہ جو تم نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے بات بدلی ہےنہ خوب جانتی ہوں میں۔۔۔۔۔اور رفعت ساجد کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئ ہے ۔۔۔۔۔اللہ خیر خیریت سے وقت لاۓ۔۔۔۔انہوں نے ان کے سامنے ناشتہ رکھتے کہا ۔۔۔۔

آمین ۔۔۔۔۔سب نے سچے دل سے آمین کہا۔۔۔۔

بھائی آپ اتنے سالوں آۓ ہیں تو کیا آپ ہمارے لیے کچھ لے کر نہی آۓ۔۔۔۔۔اس نے اب رخ احشام کی طرف کیا۔۔۔۔۔

نہی ۔۔۔۔مجھے یاد ہی نہی رہا ۔۔۔۔۔۔۔

کییییییا۔۔۔۔۔مطلب آپ کو یہ یاد ہی نہی رہا کہ کچھ لے کر جانا ہے گھر والوں کے لیے۔۔۔۔۔اس نے اپنی آنکھیں بڑی کر کے کہا۔۔۔۔۔

نہی۔۔۔۔۔

اچھا۔۔۔۔۔اس کا موڈ آف ہو گیا تھا۔۔۔۔

اےےےے۔۔۔۔۔تم نے منہ ہی لٹکا لیا ۔۔۔۔۔میں مزاق کر رہا تھا ۔۔۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تم لوگوں کے لیے کچھ نہ لاتا۔۔۔۔۔اس نے اس کا منہ اپنی طرف کر کے کہا۔۔۔۔۔

سچی آپ لاۓ ہو۔۔۔۔اس نے خوسی سے پوچھا

سچی مچی۔۔۔۔۔

پہلے تم ناشتہ کر لو پھر دکھاتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔

بہن بھائی کا پیار دیکھ کر زکیہ کے دل میں آیا کہ کاش اس کا بھی کوئی بھائی یا بہن ہوتی تو وہ بھی اس سے اسی طرح لاڈ اٹھواتی ۔۔۔۔۔وہ ناراض ہوتی اور وہ اسے مناتا۔۔۔۔۔

اس نے نمی کو پیچھے دھکیلا اور ناشتہ کرنے لگی۔۔۔۔

نور نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اب وہ صوفے پر بیٹھی احتشام کا انتظار کر رہی تھی جو اندر سے بیگ لینے گیا تھا۔۔۔۔

یہ لو یہ تمہارے لیے اس نے چاکلیٹس ببل گمز اور کاسمیٹکس کا سامان اس کے حوالے کیا۔۔۔۔

لو یو بھائی۔۔۔۔۔

لو یو ٹو ۔۔۔۔۔

یہ آپکے لیے امی اور یہ بابا کے لیے۔۔۔۔اس نے ایک خوبصورت سی شال انہیں دی۔۔۔۔

یہ آپکے لیے شمع مجھے پتا نہی تھا کہ آپکو کیا پسند ہے اس لیے میں جو نور کے لیے کایا وہی آپکے لیے لے آیا۔۔۔۔۔اس نے اس کا سامان اس کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔

شکریہ آپکا۔۔۔۔

پھر اس نے ماجد کو اس کا سامان دیا اور ساجد اور رفعت کا اور اس کے بچے کا سامان جو وہ باہر سے لایا تھا اپنے بھانجے کے لیے وہ علیحدہ کر کے شہناز بیگم کو دیا۔۔۔۔۔

یہ آپکے لیے زکیہ۔۔۔۔۔اس نے برینڈڈ گھڑی جو وہ نور کے لیے لایا تھا اسکی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔

وہ ہچکچائی۔۔۔۔۔اسے اس سٹویشن میں اپنا  آپ مس فٹ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اسے گفٹ لینا آکورڈ لگ رہا تھا جبکہ وہ اسے جانتی بھی نہی تھی اور نہ ان کی فیملی کی ممبر تھی۔۔۔۔۔

اس نے ماجد کی طرف دیکھا اور اس کے اشارے پر شکریہ کہہ کر گھڑی لے لی۔۔۔۔۔۔

اچھا بھیا اب میں کمرے میں  جا کر سارا سامان دیکھ لوں۔۔۔۔۔

وہ زکیہ اور شمع کو لے کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔

گئی۔۔۔

💓💓💓💓💓💓

احتشام بھائی اب آپکے ڈاکومنٹس کیسے بن گئے۔۔۔۔ماجد نے ان کے جانے کے بعد پوچھا۔۔۔۔۔۔

بس یار بن ہی گئے بڑی مشکل سے۔۔۔۔۔اتنی بھاگ دور کے بعد اللہ نے مجھے کامیاب کر ہی دیا۔۔۔۔۔اس نے گہری سانس لی

جونہی میرے ڈاکومنٹس بنے میں فوراً گھر کے لیے روانہ ہو گیا اس نے مسکرا کر کہا

اب آپ آۓ ہیں تو تو گھوڑی چڑھ کر ہی جائیے گا اس نے شرارت سے کہا

اسکی نظروں کے سامنے ایک پری پیکر کا چہرہ آیا لیکن وہ سر جھٹک گیا

نہی یار ابھی میری عمر ہی کیا ہے اس نے شرارت سے ہنس کر کہا

کچھ خدا کا خوف کریں بھائی تیس کے ہونے والے ہیں آپ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے

اس کو تم چھوڑو بیٹا اس کی اب میں شادی کروا کر ہی چھوڑوں گی پہلے بھی میں نے اسے کہا تھا کہ جانے سے پہلے شادی نہی تو منگنی کروا لو لیکن اس لڑکے نے میری ایک نہ سنی اور چلا گیا ۔۔۔۔اب تو میں اسے نہ تو باہر جانے دوں گی اور اس کی شادی بھی کرواؤں گی 

وہ کچن میں تھیں کہ احتشام کہ ابھی عمر ہی کیا ہے کہنے پر سارا کام چھوڑ چھاڑ کر باہر آئیں اور پھر اسے لتاڑا

ارے اماں میں تو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ پھر بعد میں مجھ سے ہی کہیں گیں کہ تمہاری بیوی نے مجھےیہ کہا تو کبھی فلاں۔۔۔۔۔لیکن میں آپ کو پہلے ہی کہہ رہا ہوں کہ بعد میں مجھ سے شکایت مت کریے گا میں تب کسی کو کچھ نہی کہوں گا ۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوۓ کہا

تم بے فکر رہو میں شکایت نہی کروں گی تم سے ۔۔۔۔۔اور پھر وہ بھی تو میری بیٹی ہو گی 

ٹھیک ہے جیسی آپکی مرضی

چلو پھر کل سے ہی رضیا رشتہ کرانے والی کو کہتی ہوں کہ کوئی اچھا سا رشتہ دکھاۓ

ارے اماں تھوڑے دن تو صبر کر لیں کل ہی تو آیا ہوں میں۔۔۔اس نے ان کی جلدبازی کو دیکھتے کہا

تو میں کونسا کل ہی تمہارا بیاہ کر رپی ہوں ابھی تو لڑکی ڈھونڈنی ہے پھر منگنی کریں گے پھر شادی

انہوں نے اپنی پلینگ بتائی

تو ان کی پلینگ پر وہ بے ساختہ ہنس دیا

💓💓💓💓💓💓💓

دوپہر کا کھانا کھا کر ماجد زکیہ لوگ گھر چلے گئے تھے

رات کو سوتے وقت اسے شہناز بیگم کی شادی والی بات یاد آئی تو وہ چھم سے اس کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا

اس نے اپنا سر جھٹکا اور سونے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا

آنکھیں بند کرتے ہی پھر وہی چہرہ اس کے زہن کے پردے پر لہرایا تو اس نے آنکھیں کھولی اور اپنی کیفیت پر حیران ہوا بھلا ایک ہی ملاقات ایک ہی نظر میں کسی سے کیسے محبت ہو سکتی ہے

کافی دیر سموکنگ کرنے اور سوچنے  کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے محبت نہی ہے بلکہ وہ صرف اٹریکٹ ہوا ہے

اس سوچ پر وہ مطمئن ہوتا سونے کے لیے لیٹ گیا

اب یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا کہ یہ صرف وقتی اٹریکشن تھی یا پھر کچھ اور

سب پریشانی سے ہاسپٹل کے کاریڈور میں بیٹھے تھے۔۔۔۔۔شہناز اور نازیہ بیگم ہاتھ میں تسبیح پکڑے کوئی ورد کرنے میں مصروف تھیں

جبکہ ساجد پریشانی و ضطرابی کیفیت میں بار بار اس کمرے کہ طرف دیکھ رہا تھا جہاں اس کی بیوی ایک نئی زندگی کو اس دنیا میں لانے کے لیے زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی

شمع نور زکیہ تینوں اپنے رب سے ان دونوں کی سلامتی کے لیے دعائیں کر رہی تھیں 

ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی سب نے ان کو گھیر لیا

آپ سب کو مبارک  ہو اللہ نے بیٹا دیا ہے آپکو

داکٹر نے انہیں خوشی کی نوید سنائ

یہ خبر سن کر ساجد نے آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا کر جبکہ آنکھوں میں اپنے رب کی اس نعمت پر خوشی کے آنسو تھے اپبے رب کا شکر ادا کیا

ڈاکٹر میری بیوی کیسی ہیں

وہ بھی ٹھیک ہیں ابھی انجیکشن کے زیر اثر غنودگی میں ہیں تھوڑی دیر تک ان کو روم میں شفت کر دیا جاۓ گا تب آپ ان سے مل سکتے ہیں

ڈاکٹر اپنے پیشہ وارانہ انداز میں کہتی چلی گئیں

سب نے اسے مبارک دی

شہناز نازیہ بیگم امجد صاحب نے اس کا ماتھا چوما

ماجد اور احتشام نے اسے گلے لگ کر جبکہ ان تیبوں نے اسے زبان سے ہی مبارک دی

کچھ ہی دیر میں رفعت کو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا اور وہ اپنے حواس میں بھی تھی

ساجد نے بے بی کو اسکی گود میں دیا تو ممتا کے احساس سے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں

ارے اپیا آپ تو ابھی سے رونا شروع ہو گئیں ابھی تو اس نے آپ کو رات کو جاگ کو اور رو رو کر ہی روتو بنا دینا دینا ہے

چل ہٹ پگلی یہ تو احساس ہی ایسا ہوتا ہے کہ خودبخود ہی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں شہناز بیگم نے اس کی پیشانی چومتے نور کو کہا

اپیا ہمارا بے بی بواۓ تو بہت پیارا ہے اس کا نام بھی اسی کی طرح پیارا ہونا چاہیے احتشام نے اس کے گال کو نرمی سے چومتے کہا

ہاں پیا بتاۓ نہ کہ آپ نے اور ساجد بھائی نے کیا نام سوچا ہے اس گڈے کا

میں نے تو کوئی نہی سوچا اور اس کا نام ہماری زکیہ رکھے گی

م۔۔۔۔یں اس کے کہنے پر اس نے اپبی طرف انگلی سے اشارہ کیا

ہاں تم رکگو گی اس کا نام اور ساجد کا بھی یہی کہنا ہے اس نے ساجد کی طرف دیکھ کر کہا

چلو اب زیادہ بھاؤ مت کھاؤ اور نام بتاؤ جلدی سے نور نے اس کو چپ دیکھ کر کہا

سب کی توجہ اس کی طرف ہی تھی۔۔۔۔۔احتشام اور ماجد بھی اسے ہی دیکھ رہے تھے

کافی دیر بعد اس نے سوچ کر شہروز نام بتا دیا

بہت پیارا نام ہے سب نے ہی اس نام کی تعریف کی

💓💓💓💓💓💓💓

احتشام کو آۓ چھ ماہ ہونے کو تھے اس دوران اس شہناز بیگم کو بڑی مشکل سے اس کی شادی کرنے سے روکا ہوا تھا ۔۔۔۔ 

ماجد اور مصطفی کی پڑھائی بھی مکمل ہو چکی تھی ۔۔۔۔

مصطفی کے گھر والے نور کے لیے رشتہ لینے ان کے گھر آۓ ہوۓ تھے

شمع بھی اپنے چھ ماہ کے بیٹے شہروز کے ساتھ آجکل یہی آئی ہوئی تھی 

نور کے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہ تھا اور پھر ماجد نے بھی ان سے پہلے ہی بات کر لی تھی اور مصطفی کے بارے میں سب بتا دیا تھا اس لیےبی وہ سب مطمئن تھے اس لیے انہوں نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اس رشتے کے لیے ہاں کہہ دی اور کسی بھی فضول رسم میں پڑنے کی بجاۓ اگلے ہفتے کو ہی نکاح اور رخصتی کی ڈیٹ فائنل کر دی تھی

اب کمرے میں نور شمع زکیہ اور رفعت تھی اس کے ساتھ اور اسے مصطفی کے نام سے چھیڑ رہی تھیں

مصطفی کے نام پر اس کے چہرے پر حیا سے لالی پھیل جاتی جس پر وہ اسے اور تنگ کرتیں

💓💓💓💓💓💓💓

اللہ اللہ کر کے جمعہ کا مبارک دن بھی آگیا اورچوہ وقت بھی جب اسے مصطفی کے نام اپنا سب کچھ کرنا تھا

بہت پیاری لگ رہی ہو میری جان اللہ تمہیں نظر بد سے بچاۓ زکیہ نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر اس کی تعریف کی اور کان کے پیچھے کالا ٹیکا بھی لگا دیا

ہاں تم واقعی بہت حسین لگ رہی ہو آج تو مصطفی بھائی گئے کام سے شمع کے ایسے کہنے پر اس کے گال گلال ہوگئے

چلو لڑکیوں باہر بارات آگئی ہے چلو شاباش ان کا استقبال کرو شہناز بیگم نے برائڈل روم میں آکر انہیں باراتیوں کا استقبال کرنے کو کہا

بارات میں زیادہ لوگ نہی تھے صرف قریبی رشتہ دار ہی تھے لیکن پھر بھی نور کے والدین نے ایک اچھا اور خوبصورت ہال بک کروایا تھا شافی کے لیے ۔۔۔۔۔وہ مصطفی کے گھر والوں کی طرح امیر نہ تھے بلکہ مڈل کلاس کے تھے لیکن وہ نہی چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی کو کوئی کچھ کہے

ان سب کو باہر بھیج کر انہوں نے اپنا رخ اس کی طرف کیا اور نم آنکھوں سے اس کا ماتھا چوما

کتنا مشکل ہوتا ہے نہ ماں باپ کے لیے اپنے جگر کا ٹکڑا کسی کے حوالے کرنا یہ صرف ماں باپ ہی جانتے ہیں کہ کیے وہ بیٹی کو اپنے آشیانے سے دوسرے آشیانے کی طرف روانہ کرتے ہیں

ماشاءاللہ میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے اللہ تمہارے نصیب بھی پیارے کرے انہوں نے اسے اپنے ساتھ لا کر کہا اور پھر خود بھی باہر چلی گئیں استقبال کرنے باراتیوں کا

ان کے جانے کے بعد وہ کچھ دن پہلے ہونے والے واقعی میں کھو گئی جب اسے علم بھی نہ تھا کہ وہ مسز مصطفی بھی بنے گی

یہ اس دن کی بات ہے جب ماجد اور مصطفی کا آخری دن تھا یونی کا

وہ لوگ گراؤنڈ میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ مصطفی نے اسے اکیلے میں بات کرنے کے لیے کہا وہ منع کر دیتی لیکن زکیہ اور ساجد نے اسے فورس کیا تو وہ اس ے ساتھ چپ چاپ بلڈنگ کہ دوسری سائڈ آ گئی جہاں ابھی کنسٹرکشن کا کام چل رہا تھا اس لیے کم سٹوڈنٹس ہی وہہاں موجود تھے

جی بولیے کیا کہنا ہے آپکو 

وہ اس کے سامنے آیا اور اپنا ایک گھٹنا زمین پر رکھ کر پھوپ والا اس کے سامنے کیا اور اسے پرپوز کر دیا

وہ جو اسے اپنے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا دیکھ رہی تھی اس کے پرپوز کرنے پر تو شاک رہ گئی

جب وہ کچھ نہ بولی تو زکیہ لوگ جو ان کے پیچھے ہی آۓ تھے بول پرے

 سے یس ڈفر یہ کہنے والی زکیہ تھی

زکیہ کی آواز پر وہ ہوش میں آئی اور ایک نظر سامنے بیٹھے مصطفی کی آنکھوں میں دیکھ کر سر ہاں میں ہلا دیا

اس کے ہاں پر جہاں وہ سرشار ہوا تھی وہیں زکیہ نے اسے کس کے گلے لگایا تھا

اس دن کو یاد کر کے اس کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ تھی

ااااہممممممم۔۔۔۔۔تم مصطفی بھائی کو تصور کر کے مسکرا رہی ہو نہ 

زکیہ کے کہنے پر وہ گڑبڑائی نہی تو

اس کو تم چھوڑو یہ گھنگٹ کر لو مولوی صاحب آنے لگے ہیں شمع نے اسے ڈوپٹہ اڑایا

کچھ دیر بعد وہ نور مصطفی بن گئی تھی

نکاح کے بعد اسے مصطفی کے داتھ لا کر بٹھایا گیا تھا

اممممم۔۔۔۔۔میں سوچ رہا ہوں کہ ہم بھی نکاح اب کر ہی لیتے ہیں تمہاری پڑھائی کا کیا ہے وہ تو ہوتی رہے گہ بعد میں

ایسا سوچنا بھی مت پہلے میری پڑھائی ہو گی پھر شادی اور تم نے کیسے سوچ لیا کہ تم جیسے ناکارہ نکمے بے روزگار کو میرے امی ابو میرا رشتہ دیں گے پہلی بات اس نے سیرئیس جبکہ دورسری بات اسے چڑانے کے لیے کی تھی

اب میں روزگار ہوں کہ بے روزگار آنا تو تمہیں میرے پاس ہی ہے اپنی کہہ کر وہ دلکشی سے مسکرایا تھا

جہاں یہ دونوں اپنی نوک جوک میں تھے وہیں شمع اپنے دل سے مجبور ہو کر یک تک احتشام کو دیکھ رہہ تھی یہ جانے بغیر کہ وہ زکیہ کو ماجد کے ساتھ سرگوشی میں باے کرتے دیکھ اسے اپنے اندر جلن ہو رہہ تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا سارا وجود ہی آگ کی بھٹی میں جلس رہا ہو

اس کا بس نہی چل رہا تھا کہ وہ کچھ کر دے یا تو زکیہ کو یا پھر اس ماجد کو

رخصتی کا شور مچا تو اپنوں سے جدائی پر نور کے آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے 

وہ سب کی دعاؤں میں پیا سنگ سدھارنے رخصت ہو ئی

چلو آؤ آج تمہاری رخصتی سے پہلے

کچھ لمحے یاد کر لیں

کچھ وقت محتسب و احتساب کر لیں

چلو آؤ آج تمہاری رخصتی سے پہلے

کوئی شام اپنے نام کر لیں

چلو آؤ کچھ سانجھے پل جی لیں

کچھ یاد کر لیں

کچھ آنکھوں میں نمی کے ساتھ

تمہارے لیے سدا خوش رہنے کی دعا کر لیں

لو آگیا ہے وقت قریب تمہاری رخصتی کا

تم باپ کے نام سے شوہر کے نام کے سنگ

اچھے نصیب کے ساتھ

اپنے دامن میں بھر کر خوشیوں کو

کہکشاں و بہاراں میں پرواز کر لو

قریب آیا ہے وقت

کچھ فرائض کی ادائیگی کا

چلو آؤ آج ہم سب مل کر

تمہاری خوشیوں کے لیے رب سے فریاد کریں

💓💓💓💓💓💓

نور کی رخصتی کے وقت اس کہ جلن کہیں پیچھے جا سوئی تھی لیکن گھر آکر اس کا بدن پھر کسی انجانی آگ کی لپیٹ میں تھا

اس نے فیصلہ کر لیا تھا کی نور کی شادی کے جھمیلوں سے فارغ ہو کر وہ امی کو بھیجے گا زکیہ کے رشتے کے لیے 

💓💓💓💓💓💓💓

چھوٹی موٹی رسموں کے بعد اسے مصطفی کے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا

آنے والے لمحوں کو سوچ کر اس کے ہاتھ پسینے سے بھیگ گئے اس نے اپنا ہاتھ ڈوپٹے سے صاف کیا

اسے بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ کلک کی آواز کے ساتھ مصطفی کمرے میں داخل ہوا اور اسے اپنے لمرے میں استحاق سے بیٹھے دیکھ کر دل سے مسکرایا

اسلام علیکم

اس کی سلام پر اس نے فقط سر ہی ہلایا

آپ ایزی ہو جائیں نور اس نے اسے گھبراتے دیکھا تو نرمی سی اس کا ہاتھ اپنء ہاتھ میں تھام کر کہا جبکپ وہ تو اس کے لمس آدھی ہو گئی اور گھبراہٹ میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑوایا

اس نے اس کا ہاتھ چھڑوانا نظر انداز کر کے پھر نرمی سے کہا

اگر آپ ابھی کمفرٹیبل نہی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہی ہے 

اس کے ڈائریکٹ کہنے پر اسے حیرت ہوئی اور پھر اپنی حیرانی پر جلدی سے قابو پاتی اس کا ہاتھ پکڑ گئی

 وہ جو اسے خاموش پا کر اٹھنے لگا تھا اس کے ہاتھ پکڑنے پر خوشگوار حیرت سے دوبارہ بیٹھ گیا

اس کا ہاتھ پکڑنا یہ سب ایک غیر ارادی عمل تھا

تو پھر کہا میں اسے تمہاری رضا مندی سمجھوں

اس نے آنکھیں جھکا دیں اور وہ سرشار سا لائٹ آف کرتا اسے باہوں میں بھر گیا

💓💓💓💓💓💓💓

نور کی شادی سے فارغ ہو کر اس نے شہناز بیگم سے زکیہ کے رشتے کی بات کی تو وہ خوشی خوشی راضی ہو گئیں

نور کو شادی کے بعد ہنی مون پر لے گیا جس سے وہ اس خبر سے بے خبر تھی

💓💓💓💓💓💓

بھائی صاحب ہم یہاں ایک خاص مقصد کے لیے آئے ہیں امجد صاحب نے بات شروع کی

جی بھائی صاحب آپ کو جو بھی کہنا ہے کھل کر کہیں زکیہ کے ابو نے ان سے کہا ان کو کچھ کچھ تو سمجھ آ گئی تھی لیکن وہ چاہتے تھے کہ وہ کھل کر بات کریں

بھائی صاحب ہم احتشام کے لیے زکیہ کا رشتہ لاۓ ہیں ہم اسے اپنے گھر کی بہو بنانا چاہتے ہیں ہم بڑی امید سے آۓ ہیں شہناز بیگم نے کہا

بھائی صاحب احتشام ہمارا دیکھا بھالا بچہ ہے اور پھر ہمیں پیارا بھی ہے لیکن میں کوئی بھی فیصلہ اپنی بیٹی کہ مرضی جانے بغیر نہی کر سکتا زکیہ کے ابو نے رسان سے کہا

جی بھائی کیوں نہی آپ زکیہ بیٹی سے پوچھ کر ہی جواب دیجیے گا لیکن جواب ہاں میں ہونا چاہیے 

بھابھی اب یہ تو زکیہ کا فیصلہ ہے کہ وہ کیا کہتی ہے ویسے بھی زندگی اس نے گزرانی ہے

ارے بھابی آپ نے تو کچھ لیا ہی نہی یہ لیں نہ آپ زکیہ کی امی نے ان کے سامنے کیک کیا

💓💓💓💓💓💓

بابا آپ اس وقت اس نے ٹائم دیکھا تو نو بج رہے اس وقت تو وہ عموماً سو جاتے تھے

جی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی

جی بابا بولیں اس نے انہیں بیٹھنے کے لیے جگہ دی

بیٹا آپ کے لیے احتشام کا رشتہ آیا ہے 

ان کی بات سن کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا

پھر بابا آپ نے کیا جواب دیا اس کی پھنسی پھنسی سی آواز نکلی خوف سے اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا

بیٹا میرا فیصلہ وہی ہو گا جو میری بیٹی کا ہو گا 

ان کی بات سن کر وہ ریلیکس ہوئی

اب جلدی سے میرا بچہ بتاۓ کہ وہ کس کو پسند کرتی ہے وہ جہاندیدہ مرد تھے انہوں نے عمر گزاری تھی اس لیے وہ اس کے اڑے رنگ کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے

 بابا وہ ۔۔۔۔

کیا بچے۔۔۔۔آپ مجھے بتا سکتے ہو

بابا وہ میں ماجد سے میرا مطلب ہے کہ میں اور ماجد ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں وہ تو رشتہ لانے کو بھی تیار ہے لیکن میں نے ہی اسے روکا ہوا ہے اس نے جلدی جلدی اپنی باے کہی

ہمم بیٹا آپ اسے بولو کہ وہ رشتہ لاۓ آپ کے لیے۔۔۔۔آج آپ کے لیے ایک رشتہ آیا ہے کل کو اور کوئی آۓ گا اس لیے آپ اسے بولو رشتہ لانے کے لیے

جی بابا

ان کے جاتے ہی اس نے ماجد کو کال کی اور رشتہ لانے کو کہا اور ساتھ ہی آج رشتے والی بات بھی بتا دی تو وہ بھی سنجیدگی سے کل لانے کا کہتا فون بند کر گیا

💓💓💓💓💓💓💓

جب سے احتشام کو زکیہ کے رشتے کا معلوم ہوا تھا وہ پاگل بنا پھر رہا تھا 

یہی صورتحال شمع کی تجہ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی محبت اس سے نہی بلکہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور وہ جس سے محبت کرےا ہے وہ کوئی اور نہی بلکہ اس کی اپنی دوست ہے اہسی دوست جو اس کے بھائی کی محبت ہے

وہ خود کو ہر طرف سے بے بس محسوس کر رہی تھی

وہ خوش تھی کی زکیہ نے رشتے سے انکار کر دیا ہے لیکن اس کا ٹوٹ گیا تھا اندر سے

احتشام نے کچھ سوچ کر گاڑی زکیہ کہ یونیورسٹی کی طرف موڑی وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے اس کے بغیر نہی جی سکے گا وہ

چھٹی کے وقت وہ اسے دکھی تو وہ شمع کو نظر انداز کرتا اس کے روبرو آیا 

اس کا خود کو نظر انداز کرنا اسے چھلنی کر گیا تھا لیکن وہ آنسو اندر اتارنے کے علاوہ کچھ نہی کر سکتی تھی

مجھے تم سے بات کرنی ہے زکیہ اس نے اسے مخاطب کیا

دیکھو پلیز انکار نہ کرنا ایک دفع میری بات سن لو 

وہ انکار کرنے لگی تھی لیکن اس کی بے چینی پر اس نے ہامی بھری

اسے لے کر وہ ایک سنسان سڑک پر آیا اور گاڑی روک کر وہ باہر نکلا

وہ بھی ڈرتے ڈرتے باہر نکلی وہ جتنا اس پر اعتبار کرتہ لیکن وہ تھا تو نا محرم اوپر سے موسم کے تیور بھی خراب تھے

جی بولیے 

میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں زکیہ پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو تم وہ پہلی لڑکی ہو جو اس دل کو اچھی لگی یو 

اس نے بے بسی سے کہا

احتشام میں ماجد سے محبت کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاپتی میں نے کبھی آپ کو اس نظر سے نہی دیکھا 

اس نے بے بسی سے کہا 

وہ مجبور تھی اپنے دل کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔۔وہ اسے بھی اس طرح نہی دیکھ پا رہی تھی وہ جانتی تھی کہ کسی کے پیار میں ٹھکرایا جانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے

دیکھو پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو زکیہ میں تمہیں خوش رکھوں گا ساری زندگی مجھ سے میرے جینے کی وجہ تو مت چھینو اس نے آنسو سے بھری آنکھوں سے اس سے التجا کی 

وہ سن رہ گئی اس کی آنکھوں میں موجود آنسو دیکھ کر 

اس نے سنا تھا کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کے لیے توتا ہے تو وہ اس سے سچی محبت کرتا ہے 

تو کیا وہ اس سے سچی محبت کرتا ہے

اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے 

اتنے میں اس نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیے اس کے اقدام پر وہ ششد رہ گئی

دیکھیے احتشام مجھے گنہگار مت کریے 

میرے بس میں کچھ نہی ہے نہی تو میں یہ دل خود آپکی ہتھیلی پر رکھ دیتی لیکن مجبوری یہ ہے کہ یہ دل میرے بس میں نہی ہے اس نے بے بسی سے اس کے ہاتھ کھولتے کہا

اسکی اپنی آنکھیں بھی نم تھیں

تو تم میری التجا کو رد کر رہی ہو 

جی اس نے رخ موڑ کر کہا

ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ پلیز تم کسی ٹیکسی سے چلی جاؤ ابھی میں ڈرائیو نہی کر سکوں گا

جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔آپ پلیز اپنا خیال رکھیے گا

💓💓💓💓💓💓💓

 بادل گرج رہے  تھے بجلی کی چمک آسمان کو دو حصوں میں تقسیم کر رہی تھی ۔۔۔۔۔تیز ہوائیں چل رہی تھیں جیسے سب کچھ اپنے ساتھ لے جانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔۔۔۔۔

تیز ہوائیں بارش بجلی کی چمک سب نے مل کر ماحول کو خوفباک بنایا ہوا تھا

لیکن اس خوفناک ماحول سے بے خبر ایک وجود سڑک پر بیٹھا اپنی محبت کا ماتم کر رہا تھا۔۔۔۔۔محبت نہی شائد عشق تھا جو وہ اس سے کرتا تھا 

باہر کا خوفناک ماحول بھی اسے ڈرا نہ پایا تھا یا پھر محبت میں ناکامی نے اسے بے خوف کر دیا

زکیہ کے جانے کے بعد وہ لمبا چوڑا وجود ڈھیر ہو گیا

کافی دیر گھٹنے کے بل سر جھکا کر بیٹھا رہا لیکن جب اس کی ازیت کی حد بڑھی تو وہ چلا اٹھا

اک لفظ محبت ہے اسے کر کے دیکھو تم

برباد نہ ہو جاؤ تو میرا نام بدل دینا

اک لفظ مقدر ہے اس سے لڑ کے دیکھو تم

ہار نہ جاؤ تو میرا نام بدل دینا

اک لفظ وفا ہے جو دنیا میں نہی ملتی

کہیں سے اگر مل جاۓ تو میرا نام بدل دینا

اک لفظ آنسو ہے اسے دل میں چھپا کر دیکھو تم

آنکھوں سے نہ نکل جاۓ تو میرا نام بدل دینا

اک لفظ جدائی ہے اسے سہہ کر دیکھو تم

ٹوٹ کر بکھر نہ جاؤ تو میرا نام بدل دینا

ساری رات اپنے آپ سے لڑتے اپنی محبت کا سوگ منا کر وہ سورج نکلے کہیں گھر لوٹا تھا 

بکھرے بال لہو رنگ آنکھیں بکھرا بکھرا سا وہ ہال میں آیا تو اس کی حالت دیکھ کر سب تڑپ گئے

کیا ہوا احتشام یہ کیا حالت بنا رکھی ہے اور ساری رات تم کہاں تھے پتا ہے میں کتنا پریشان ہو گئی تھی اوپر سے تنہارا موبائل بھی بند جا رہا تھا 

وہ ماں تھی اس کی حالت پر تڑپ کر کہتی اس کے پاس آئیں لیکن جیسے ہی انہوں نے اس کی پیشانی سے بال ہٹانے کے لیے ماتھے پر ہاتھ لگایا تو انہیں لگا کہ جیسے انہوں نے کسی جلتی شے کو ہاتھ لگا لیا

جل ہی تو وہ رہا تھا یک طرفہ محبت کی اذیت میں

ساری رات مجنوں کی طرح ہر شے بے نیاز وہ برستی بارش میں اپنے غم کو آنسؤں کی صورت نکالتا رہا تھا جس کے نتیجے میں وہ بخار میں تپ رہا تھا

تمہیں تو بہت تیز بخار ہے احتشام انہوں نے پریشانی سے اس کا ماتھا پھر گردن کو چھوتے کہا

کچھ نہی ہوا امی بس ہلکہ سا بخار ہے اس نے ٹالا

یہ ازیت تو اس اذیت کے آگے کچھ بھی نہ تھی جو وہ کل سے اپنے اندر لیے پھر رہا تھا

مجھے کچھ نہی سننا تم اندر کمرے میں چلو اور امجد صاحب  آپ ڈاکٹر کو فون کریں جلدی

اسے اندر زبردستی لے جاتے انہوں نے انہیں  ہدایت دی

ڈاکٹر اسے چیک کر کے سکون کس انجیکشن لگا کر چلا گیا تھا

💞💞💞💞💞💞💞

ماجد سے رات کو فون پر بات کرتے اسے احتشام کی طبعیت کا معلوم پڑا تھا

اس نے اسے کل کا واقعی بتا دیا

اسے بھی کل رات سے رہ رہ کر احتشام پر ترس آ رہا تھا

اس نے تو کبھی ایسا نہی سوچا تتا اور نہ کبھی چاہا تھا کہ اس کہ وجہ سے کوئی ازیت میں ہو

پھر ایسا کیوں ہو گیا اور ازیت بھی سیسی جسے بیان نہ کیا جا سکے احتشام کے آنسؤں نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا

ماجد ایسا نہی ہونا چاہیے تھا احتشام کو مجھ سے محبت نہی ہونی چاہیے تھے ساری غلطی میری ہے مجھے کبھی ان کے سامنے ہی نہی آنا چاہیے تھا

اس میں تنہاری غلطی نہی ہے ایسا ہونا قسمت میں لکھا تھا اوت پھر محبت خود تو نہی ہوتی یہ تو خودبخود ہو جاتی ہے اس میں نہ تو تمہارا قصور ہے اور نہ ہی احتشام بھائی کا

تمہیں برا نہی لگا ماجد ان کا مجھے پرپوز کرنا میرے لیے رشتہ لانا کچھ بھی نہی اس نے حیرت سے پوچھا

نہی  سچ بتاؤں تو مجھے برا نہی لگا انہوں نے کونسا جان بوجھ کر تم سے دل لگایا ہے بلکہ مجھے تو برا لگ رہا ہے انہیں اس حالت میں دیکھ کر کل رات سے وہ بخار میں تپ رہے ہیں دوائیوں سے بھی فرق نہی پڑ رہا

ماجد اگر نور سور رفعت بھابھی کو پتا طل گیا کہ ان کا بھائی میری وجہ سے ازیت میں ہے تو وہ تو مجھ سے ناراض ہو جائیں گی اس نے پریشانی سے کہا

نہی ایسا نہی ہوگا وہ تمہاری دوست ہے تمہیں بہتر جانتی ہے اس لیے وہ تم سے ناراض نہی ہو گی

اس نے اس کی پریشانی دور کی 

اب پتا نہی وہ واقعی پر سکون ہوئی تھی یا پھر ویسے ہی چپ ہو گئی تھی

میں اور شمع کل جا رہے ہیں ان کی عیادت کرنے اگر تم بھی جانا چاہو تو

ہممم چلوں گی میں بھی تم مجھے لے جانا جاتے ہوۓ 

جواب دے کر اس نے فون بند کر دیا

اور گہری سانس لی 

اس میں ہمت نہی تھی کہ وہ اس کا سامنا کرتی لیکن پھر بھی اس نے ہامی بھر دی

💞💞💞💞💞💞

وہ شمع اور ماجد کے ہمراہ احتشام کے کمرے میں داخل ہوئی توطاس کی حالت دیکھ کر وہ ایک مجرم کی طرح سر جھکا گئی

دو دن میں ہی وہ کنزور ہو گیا تھا چہرے پر زرد پن تھا جیسے سارا خون جسم سے نچوڑ دیا گیا ہو

سلام کی آواز پر اس نے اپنی بند آنکھیں کھولیں

سامنے ہی اپنی دل کی ملکہ کو دیکھ کر اسکے اندر ناجانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی کہ اسنے اٹھ کر بیٹھنا چاہا

ماجد نے آگے بڑھ پر اسکی مدد کی

آج اسے دیکھ کر وہ شادمانی سے نہی بلکہ اذیت سے مسکرایا تھا اس کی آنکھوں میں نمی پیدا ہوئی

اپنے محبوب کو اس حالت میں دیکھ کر دل تو شمع کا بھی کٹا تھا نمی اس کی آنکھوں میں بھی آئی تھی لیکن سب ہی اپنی اپنی جگہ سوچوں میں گم تھے کہ کسی نے بھی اس کی آنکھوں کی نمی کو محسوس نہ کیا

ان دونوں کا درد ایک سا تھا بس فرق یہ تھا کہ اس نے اپنے دل کی بات بتا دی تھی لیکن شمع سب کچھ اپنے اندر لیے ساری ازیت بغیر کسی کے علم میں لاۓ سہہ رہی تھی  

کیسی طبعیت ہے اب آپکی ماجد نے پوچھا

بہتر ہوں پہلے سے اسکی نقاہت سی آواز ابھری

زکیہ تو شرمندگی سے اس کا احوال تک نہ پوچھ سکی

اس کے بعد کمرے میں ان سب کے ہوتے ہوۓ بھی خاموشی چھا گئی

شہناز بیگم لوازمات لیے کمرے میں داخل ہوئیں تو سن نےبان سے ہلکی پھلکی گفتگو گی اور پھر رخصت ہو گئے

💞💞💞💞💞💞💞

یہ واقعی کو ایک مہینہ گزر چکا تھا 

نور بھی واپس آگئی تھی ہنی مون سے

نور کی طرف سے امید کی خبر ایک دفع پھر سوگواریت کو ختم کر دیا تھا سب ہی خوش تھے 

احتشا بھی خوش تھا اپنی بہن کے لیے لیکن اس کے اندر کیا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا

لیکن اس نے اپنی حالت سب سے چھپانہ شروع کر دی تھی وہ اپنی وجہ سے نا تو اپنے والدین کو پریشان کرنا چاہتا تا اور نہ ہی اپنی بہن کی خوشیوں کو مانند کرنا چاہتا تھا 

اور نہ ہی وہ چاہتا تھا کہ نور زکیہ سے اس بنا پر بدگمان ہو اس لیے اس نے یہ بات نور کو بتانے سے زکیہ ماجد اور گھر والوں کو منع کر دیا

بظاہر تو وہ سب کو فیل کرواتا کہ وہ اس واقعی کو بھول چکا ہے لیکن رات کو وہ اپنے رب کے آگے گڑگڑا کر روتا تھا 

کون جانتا تھا کہ سب کے سامنے خوش اور مطمئن دکھنے والا رات کو کس قدر ٹوٹتا ہے

شہناز بیگم نے پھر سے اس پر شادی کا دباؤ ڈالا تو وہ ان سے ناراض ہو کر کمپنی کی دوسری برانچ جو کہ کراچی تھی وہاں اپنا ٹرانسفر کروا لیا تھا

ایک طرف سے یہ اس کے لیے اچھا ہی تھا 

💞💞💞💞💞💞

وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ گزرتا گیا

احتشام کو کراچی آۓ سال ہونے کو تھے اس دوران وہ صرف دو تین دفع ہی گھر گیا ہوگا

زکیہ کی پڑھائی بھی ختم ہو چکی تھی

وہ ابھی کام سے فلیٹ لوٹا ہی تھا کہ اس کا موبائل رنگ ہوا اس نے نام دیکھا تو نور کا تھا

اس نے جھٹ سے کال پک کی اور سب سے پہلے اپنے بھانجے  کے بارے میں دریافت کیا جو کہ ابھی صرف پانچ ماہ کا تھا اور اس کی سنے بغیر اس سے بات کروانے کو کہا

وہ پانچ ماہ کا تھا لیکن بھلا کا ہوشیار شارپ مائنڈ تھا کہ ابھی سے اس نے گھو گھا کرنا شروع کر دیا تھا اس کی سپیڈ پر احتشام کو پورا یقین تھا کہ یہ وہ ایک سال کا ہونے تک بولنا شروع کر دے گا

اس سے بات کر کے اس کا موڈ جو گھر آتے ہی اداس ہو جاتا تھا خوشگورا ہو گیا تھا

اس سے بات کرنے کے بعد نور نے جو خبر اسے سنائی تھی اسے سن کر تو وہ سن ہو گیا اسکی بات سن کر اس نے بغیر جواب دیے فون بند کر دیا

اسے لگا جو بات نور نے اسے بتائی ہے وہ کوئی صور تھا یا پگھلا ہوا سیسہ جو اس کے کانوں میں انڈیلا گیا تھا

اسے معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ خبر اسے ملنی ہے اور وہ خود کو اس کے لیے تیار بھی کر چکا تھا لیکن پھر بھی اس کی حالت عجیب ہو گئی تھی 

اپنے عشق کی بارات میں شامل ہونے کی اسے دعوت دی گئی تھی

 کافی دیر اپنے آپ سے لڑتے جب وہ تھک گیا تو آنسو لڑیوں کی صورت اس کی آنکھوں سے نکلے

آج پھر وہ ٹوٹا تھا ٹوٹتا تو وہ روزانہ تھا لیکن اس کی شدت کم ہوتی تھی 

وہ وہیں ڈھے گیا 

💔💔💔💔💔💔💔

دوسری طرف نور جو اسے خوشی سے زکیہ اور مجد کی شای کا بتا رہی تھی بغیر اس کی حالت کو جانے اس کے سس طرح فون بند کرنے پر ارے ارے کرتی رہ گئی

پھر اس نے زکیہ کو فون ملایا اور اسے ماجد کے نام سے چھیڑنے لگی

وہ سرخ پڑتی کبھی موبائل کو کان سے ہٹا کر اس کو گھورتی جیسے یہ موبائل نہ ہو بلکہ نور ہو اور کبھی اسے تنبیہ کرتی لیکن وہ بھی سپبے نام کی ایک تھی 

💞💞💞💞💞💞💞💞

خیر خیریت سے  وہ دن بھی آگیا جب زکیہ پور پور ماجد کے لیے سجی تھی

نکاح کے بعد ان دونوں کو ساتھ بٹھایا گیا تھا

دونوں خوشی سے سرشار ایک دورے کے پہلو میں بیٹھے چاند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے

اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش پر زکیہ نے سر اٹھایا تو دھک سے رہ گئی

سامنے ہی وہ اپنی تمام تر وجاہت لیے اسے دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں محبت میں ناکامہ اور دل ٹوٹنے کی کرچیاں تھیں جسے محسوس کر کے وہ سر جھکا گئی

اس خبر کے بعد اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا آفس سے بھی اس نے چھٹی لے لی تھی 

جیسے جیسے اس کہ شاہ کے دن قریب آ رہے تھے ویسے ویسے اسے اپنی ازیت بڑھتی ہوئی نظر آ رہی تھی

وہ اذیت میں تھا لیکن اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ عہ خود اسے کی اور کا ہوتے ہوۓ دیکھے گا وہ ے دلہن کے لباس میں دیکھنا چاہتا تھا وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کی محبت کی اور کے نام کے جوڑے میں کیسی دکھتی ہو گی

اس لیے وہ آگیا تھا اپنی اذیت کو بڑھانے اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتے دیکھنے

جب اس نے اسے دلہن کے لباس میں دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ کوئی پری لگ رہی تھی 

اس پر سے اسے نظریں ہٹانا اسے مشکل ترین عمل لگ رہا تھا

 یہ وہی لڑکی تھی جس نے اس کے دل میں اپنا قبضہ کیا تھا جسے دیکھ کر اس کی دل کی دنیا بدلتی تھی دل میں پھول کھلتے تھے آج بھی وہی اس کے سامنے تھی آج بھی اس کے دل کی دنیا بدلی تھی لیکن فرق یہ تھا کہ اسے دیکھ کر آج دل میں پھول نہی کھلے تھے دل میں درد اٹھا تھا جو سارے جسم میں رفتہ رفتہ پھیل گیا تھا اسے کی اور کی بیوی دیکھ کر

اسکی نظروں کی تپش پر اس نے نظریں اٹھائیں اور جھکا دیں

وہ بھی خود پر قابو پاتا ماجد کو مبارک دینے سٹیج پر گیا

💞💞💞💞💞💞💞

ہال سے ہی وہ کہیں چلا گیا تھا 

رات کے بارہ بجے وہ گھر لٹا پٹا سا پہنچا تو گھر میں مکمل طور پر سناٹا تھا جس کا مطلب سب سو چکے تھے

وہ اپنے کمرے میں گیا اور بیڈ پر ڈھے گیا 

پھر کچھ سوچ کر وہ اٹھا اور اس نے کاپی پر کچھ لکھا

لکھتے ہوۓ اس کی آنکھ سے آنسو جھڑنے کی طرح بہہ رہے تھے

اپنا کام مکمل کر کے وہ پیچھے ہٹا اور دراز سے کوئی چیز نکالی 

وہ چیز کچھ اور نہی بلکہ زہر کی گولیاں تھیں انہیں ہاتھ میں پکڑ کر وہ مسکرایا اور ساری گولیاں خلق میں اتار لیں اور تصور میں زکیہ سے مخاطب ہوا

میں تمہیں کسی اور کا ہوتے ہوۓ نہی دیکھ سکتا تھا میں تم سے سچی محبت کرتا تھا میں نے بہت کوشش کی کہ یہ قدم نہ اٹھاؤں لیکن میں ہار گیا اس نے روتے ہوۓ ہچکی لی

مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں تمہاری خوشیوں کو نہ چھین لوں اس لیے میں نے خود ہی اپنی زندگی چھین لی بس آج آخری دفع تمہیں بتانا چاہتا ہوں کپ یہ دیوانہ تم سے بے پناہ محبت کرتا تھا خود سے بھی میں نے اپنی زندگی تم پر وار دی یہ کہہ کر وہ آخری دفع مسکرایا اور منہ سے جھاگ نکل کر اس کی گردن میں اگئی اور ساتھ ہی اس کی آنکھیں بند ہو گئیں

آج ایک اور محبت کرنے والا اپنے پیار کو امر بنا کر اس دنیا سے خاموشی   سے کوچ کر گیا تھا 

وہ آنکھیں جس میں کسی کے لیے محبت کی چمک ہوا کرتی تھی آج بلکل ویران بند پڑی تھیں

وہ اک شخص جانتی ہو تم؟

وہی، جو بے توجہی کے سبب ہمیشہ بے اصول رہتا تھا

وہ اک شحص جانتی ہو تم؟

وہ جسے نیند بہت پیاری تھی

وہ جو اک خواب کے اثر میں تھا

وہ جو لاعلم رہا منزل سے

وہی جو عمر بھر سفر میں تھا

وہ اک شحص ،جانتی ہو تم؟

جس نے خوشبو کی تمنا کی تھی، اور روندھے گلاب پاۓ تھے

جس نے اپنی ہی نیکیوں کے سبب،رفتہ رفتہ عذاب پاۓ تھے

وہ اک شخص ،جانتی ہو تمم ؟

وہ جس کا دین، بس محبت تھا

 وہ جس کا ایمان وفائیں تھیں 

وہ جس کی سوچ بھی پریشان تھیں، 

 وہ جس کے لب پر فقط دعائیں تھیں

وہی الجھی ہوئی سی بے چین باتوں والا

محبتوں سے ڈر گیا کل شب

ہجر کے دکھ کو سہتے سہتے، وہ شخص

مر گیا کل شب

آؤ اب لاش اٹھاؤ اس کی،وہ جو تیرے اثر میں رہتا تھا

آؤ اب سوگ مناؤ اس کا، وہ جو سورج کو قمر کہتا تھا

محبتوں سے،ڈر گیا 

کل شب

وہ شخص مر گیا کل شب_!!

💔💔💔💔💔💔💔

زکیہ اور ماجد جو گھر والوں کے ساتھ اپنی صبح کا آغاز کرتے ناشتہ کر رہے تھے کہ ساجد کا موبائل بجا اور پھر جو خبر انہیں سننے کو ملی وہ وحشت سے اپنی اپنی جگی سن ہو گئے

ہوش میں آکر رفعت نے رونا پیٹنا شروع کر دیا

ساجد اسے بڑی مشکل سے سنمبھال کر شہناز بیگم کے ہاں لے کر روانہ ہوا

ان کے پیچھے ہی سب گئے تو آگے صفت ماتم بچھی تھی شہناز بیگم اور نور میت سے لپٹ کر رو رہی تھیں

آج وہ گبرو جوان بلکل ساکت پڑا تھا 

زکیہ کی بھی آنکھیں نم تھیں اسے احتشام سے یہ امید تو نہ تھی

امید تو ماجد کو بھی نہ تھی 

وہ چہرو دیکھنے کے لیے جیسے ہی آگے بڑھی نور نے اسے دھکا دے کر پڑے کیا

خبردار خبردار اگر تم میرے بھائی کی میت کے قریب بھی آئی تم دوست ہو تم دوست نہی ہو تم تم ڈائن ہو جو میرے بھائی کو کھا گئی

اس نے چلاتے ہوۓ کہا

سب عورتیں ان کی طرف متوجہ ہو گئیں لیکن نور کو تو کوئی پرواہ ہی نہی تھی اس نے اپنے جان سے عزیز بھائی کو کھویا تھا 

اس کے دھکا دینے پر ماجد نے آگے بڑھ کر اسے تھاما

زکیہ پرہشام سی نور کو اور اس کے رویے کو فیکھ رہی تھی

نور اس میں میرا کوئی قصور نہی ہے اس نے آگے بڑھ کر اس تھامنا چاہا

دفع ہو میں نے کہا دفع ہو

تم کہتہ یو کہ تمہارا کیا قصور ہے میں بتاتی ہوں تمہارا کیا قصور ہے تمہاری محبت میں میرا بھائی اس دنیا سے چلا گیا کیا ہوتا ہیں کیا ہوتا اگر تم ان سے شادی کر لیتی وہ مرتے تو نہ اگر تم ان سے شادی کر لیتی 

کہتے کہتے وہ زمین پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی

رو تو وہ بھی رہی انجانے میں ہی لیکن وہ سچ ہی تو کہہ رہہ تھی اگر وہ اس سے شافی کر لیتی تو آج وہ کسی کی قاتلہ تو نہ کہلاتی

ماجد اسے لے جاؤ یہاں سے ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گی اس دفع رفعت نے اس کے آگے آگر اسے لہو رنگ آنکھوں سے کہا تو وہ اسے بھی یہی سہی لگا اس لیے وہ اسے لیے مڑا 

زکیہ نے روتے ہوۓ اہک نظر میت کو دیکھا اور اس کے ساتھ دروازہ عبور کر گئی

💞💞💞💞💞💞💞

احتشام کو فوت ہوۓ دو ہفتے ہو گئے تھے اس عرصے میں زکیہ اور ماجد کافی دفع نور کے پاس گئے تھے لیکن اس نے ہر دفع ملنے سے انکار کر دیا 

اس نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ وہ دونوں اس کے لیے مر گئے ہیں 

ظاہر ہے رفعت بھی احتشام کی ہی بہن تھی وہ نور کی طرح انہیں گھر سے نکال تو نہی سکتی تھی ظاہر ہے ماجد ساجد کا بھائی تھا اور ماجد زکیہ سے محبت کرتا تھا لیکن اس نے بھہ ان دونوں کو بلانا بند کر دیا تھا

ان کی تو سمجھ آتی تھی لیکن شمع بھی اس واقعی کے بعد سے اس سے کھچیکھچی سی رہتی تھی اس کے بلانے پر کھانے کو دوڑتی احتشام کے ساتھ ساتھ اس کی دوستیں بھی اس سے چھن گئی تھیں

پھر ایک دن زکیہ نے ہی اسے بلایا رو وہ جو اپنے اندر لاواہ لیے پھر رہی تھی پھٹ پڑی

میرے احتشام کو تو کھا گئی ہو اب کیا چاہتی ہو ہاں وہ تم سے محبت کرتے تھے لیکن میں نے پھر بھی صبر کیا اس صورت میں وہ کم ازکم میرے سامنے تو تھے تم تم نے تو انہیں ابدی نیند سلا دیا تمہاری محبت میری محبت کو کھا گئ اس نے روتے ہوۓ اپنا غبار نکالا

سب لوگ جو اس کی اونچی آواز پر باہر آۓ تھے اس انکشاف پر سب حیرت میں تھے یہ کیسا انکشاف تھا جو وہ کر گئی تھی

یہ تم کیا کہہ رہی ہو شمع

میں سچ کہ رہہ ہوں بھیا میں ان سے محبت کرتی تھی 

وہ روتے روتے اس کے گلے لگ گئی

💞💞💞💞💞💞💞💞

اس واقع کے بعد سے گھر کے ماحول میں ایک تناؤ آگیا تھا شمع اور زکیہ کے جھگڑے شروع ہو گئے

شمع بات بات پر اسے سناتی تھی 

اس کا حل دونوں بھائیوں نے ایک ہی نکالا کہ اس کی شافہ کر دی جاۓ

اس پر عمل کرتے ہوۓ شمع کے نا نا کرنے کے باوجود انہوں نے اس کی شادی کروا دیشادی کے ایل سال بعد ہی اللہ نے اسے بیٹی دی جس کا نام اس نے مروہ رکھا

زکیہ اور ماجد کی ابھی کوئی اولاد نہ تھی 

نور ابھہ بھی اپنی بات پر قائم تھی مصطفی سے کبھی کبھی اس کہ پہلے بات ہو جاتی تھی لیکن پھر اس سے بھی رابطہ ختم ہو گیا

مروہ کی پیدائش کے ایک سال بعد آہلہ ہوئی ماجد اور زکیہ کی بیٹی 

ہر کوئی خوش تھا لیکن ان کہ یہ خوشی کم وقت کے لیے تھی کہ شمع ک شوہر ماجد اور زکیہ کاڑ ایکسیڈینٹ میں مارے گئے

ماضی کی کتاب کو بند کر کے انہوں اپنی شریک حیات کو دیکھا جو اس حادثے کے بعد خود کو بدل گئی تھیں 

رفعت بیگم نے ازیت سے آنکھیں میچ لیں ان کے کے لیے ماضی کی کسی عذاب سے کم نہ تھی

ان کا سارا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا 

کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی ہر کوئی بے آواز آنسو بہا رہا تھا

خاموشی سے سب اٹھ کر کمرے سے چلے گئے کہنے کو کچھ تھا ہی نہی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ کمرے میں آکر اپنی ماما بابا کی تصویر کو سینے سے لگاۓ رو پڑی

اسے دکھ ہوا تھا احتشام کے لیے 

لیکن وہ اس سب میں اپنا قصور ڈھونڈ رہی تھی اس سب میں اس کا تو کوئی قصور نہ تھا قصور تو اس کے والدین کا بھی نہ تھا پھر کیوں سب ان سے نفرت کرتے تھے صرف اس بنا پر کہ وپ ایک دورے سے محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے ایک وجود اپنے آپ کو منوں مٹی جا سویا تھا

وپ تو اپنی ازیت سے فرار حاصل کر گئے تھے لیکن ان کا یہ قدم کس کس کے لیے مصیبت بن گیا تھا

وہ ان کی تصویر کو سینے سے لگاۓ بیٹھی تھی کہ شہروز دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا

اسے دیکھ کر اس نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور اٹھ کھڑی ہوئی 

وہ جانتا تھا کہ یہ رات سب پر آج بھاری ہو گی رفعت بیگم کو سنمبھالنے کے لیے ساجد صاحب موجود تھے لیکن وہ جانتا تھا آہلہ کے پاس کسی کا سہارا نہی ہے اس لیے وہ اسے دیکھنے کے لیے آگیا

اور اس کے متوقع کے مطابق وہ رونے کا شغل فرما رہی تھی

اسے دیکھ کر اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور اٹھ کھڑی ہوئی

اسے دیکھ کر اس نے سرد سانس خارج کی اور صوفے ہر جا بیٹھا اور اسے بھی سامنے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ بیٹھ گئی

ماجد اور زکیہ کی تصویر ابھی بھی اس کے ہاتھ میں ہی تھی

زکیہ چچی تو بہت بہادر تھی پھر تم کیوں تم رو کر خود کو کمزور ثابت کر رہی ہو

میں کمزور ہوں ہاں کمزور ہوں جس کے والدین اس دنیا میں نہ ہوں جس کے اپنے اس سے کسی نا کردہ وجوہ پر اس سے نفرت کرتے ہوں اس پر اعتبار نہ کرتے ہوں وہ انسان کمزور ہی ہوتا ہے اس نے روندھی آواز میں کہا 

میرے بابا اور ماما کا کیا قصور تھا احتشام انکل اگر ان سے پیار کرتے تھے تو اس میں میری ماما کا کیا قصور تھا انہوں نے تو نہی کہا تھا ان سے کہ وہ خودکشی کریں 

اس میں ان کا کوئی قصور نہی تھا میں جانتا ہوں تو پھر پھر کیوں مجھے بچپن سے اس کی سزا مل رہی ہے کیوں تائی اور پھوپھو مجھ سے نفرت کرتی ہیں جب میرا کوئی قصور نہی جب میری ماما بابا کا کوئی قصور نہی تم ہی بتاؤ اس کی بات کاٹ کر وہ چلا کر بولی اسکی آواز رندھ گئی تھی اس لیے چلانے پر بھی اس کی آواز اتنی کم تھی کہ کمرے کے باہر نہ جاتی

اسے خاموش دیکھ کر پھر اس نے کہا اچھا اگر تمہیں کسی سے محبت ہو اور کوئی لڑکی تمہیں بولے کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے اور تمہارے بغیر  نہی رہ سکتی تو کیا تم اس سے شادی کر لو گے  کیا اپنی محبت سے دستبردار ہو جاؤ گے اس نے اس کے آگے آکر سوال کیا

اس کی بات سن کر اسے چپ لگ گئی ایسا تو وہ کبھی نہ کرتا تو پھر زکیہ چچی کیسے کر دیتی یہ سوچ آتے ہی وہ چپ چاپ کمرے سے نکل گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وقت اچھا ہو یا برا کسی کے لیے نہی رکتا اسی طرح یہ رات بھی دن کے اجالے میں بدل گئی

ساری رات رو رو کر اس کی آنکھیں درد کر رہی تھیں سر بھی بھاری تھا لیکن وہ پھر بھی سکول کانے کے لیے تیار ہو گئی  

جانتی تھی جتنا وہ گھر رہ کر سوچے گی اتنا ہی خود کو ہلکان کرے گی اس لیے اس نے جانے میں ہی بہتری جانی

ناشتے پر بھی صرف ساجد صاحب اور شہروز ہی اسے دکھے 

یقیناً وہ دونوں رات کے زیر اثر تھیں

وہ سلام کر کے اپنی کرسی پر بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگی ناشتہ کر کے اس نے فاریہ کو جلدی آنے کا میسج کر کے کمرے گئی اور اپنا سامان لے کر گیٹ پر اس کا انتظار کرنے لگی

تھوڑی دیر میں ہی فاریہ بھی آگئی 

فاتیہ نے اس کی سوجھی ہوئی آنکھوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بہانا بنا کر ٹال دیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

صبح رفعت بیگم اٹھیں تو ان کا سر درد کر رہا تھا رات کو رونے اور لیٹ سونے کی سونے کی وجہ سے 

انہوں نے ٹائم دیکھا تو دن کے بارہ بج رہے تھے 

وپ فریش ہو کر کمرے میں آئیں تو ان کا دل آج اتنی دیر بعد اپنی بہن سے بات کرنے کو چاہا

ماں باپ کے بعد ایک ہی تو اس کی بہن تھی جس سے وہ اپنے دل کی باتیں کر سکتی تھیں

بات تو ان کی اکثر نور سے ہو جایا کرتی تھی لیکن ان کو ملے کافی سال ہو گئے تھے جب بھی ملنا ہوتا رفعت بیگم ہی ان سے ملنے جاتیں لیکن نور نے اس گھر میں قدم نہی رکھا تھا

انہوں نے دارز سے ڈائری نکالی اور نور کا نمبر ڈائل کیا دو دفع رنگ پر بھی کسی نے نہ اٹھایا تو انہوں نے تیسری دفع ڈائل کیا کہ شائد کوئی اٹھا لے

ان کی خوش قسمتی کہ تیسری دفع کسی نے فون اٹھا لیا لیکن  وہ نور نہی تھی

جی کون انہوں نے انجان آواز سن کر دریافت کیا

مجھے نور سے بات کرنی ہے دوسری طرف سے شائد آپ کو کس سے بات کرنی سے پوچھا گیا تھا

اس کے جواب میں مقابل نے اپنی بات کہہ کر کال کٹ کر دی تھی وہ خیران ہوئیں مقابل کی بدتمیزی پر اور اسے خوب کھڑی کھڑی سنائی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

سکول میں اس کا موڈ کافی حد تک ٹھیک ہو گیا تھا چونکہ دو دن بعد پروگرام تھا اس لیے کام زیادہ تھا جس میں اسے رات والی بات بھی بھول گئی تھی

اس میم ثمرین نے تو گھنچکڑ بنا کہ رکھ دیا ہے کبھی کسی سٹوڈنٹ کا نام خارج کرواتی ہیں تو کبھی کسی کا حد ہو گئی 

اب تو صوفیہ بھی تنگ آ گئی تھی

اگلی دفع تو اگر میں ادھر ہوئی تو میری توبہ جو میں کمپئیرنگ کے لیے مانوں فاریہ نے دونوں ہاتھ کان کو لگا کر توبہ کی

اچھا جی اگلے سال تم کیا  مارس پر جا رہی ہو جو تم نے ادھر نہی ہونا 

نہی صوفی جانی اب میں تمہاری طرح بد زوق اور بڈھی روح تھوڑی ہوں جو نکاح کے بعد اپنے میاں کو چھوڑ کر سکول سر کھپانے آیا کروں گی میں تو اپنے سیاں جی کے لیے گھر بیٹھ کر مزے مزے کے گھانے پکایا کروں گی کیونکہ میری امی کہتی ہیں کہ مرد کے دل کا راستہ پیٹ سے ہو کر جاتا ہے اس نے آنکھیں پٹپٹا کر صوفیہ کو لتاڑ کر شوخی سے کہا

ہاہاہاہاہا مطلب مرغی کو چچڑوں کے خواب صوفیہ نے قہقہا لگایا

اس میں خواب والی کونسی بات ہے انشاء اللہ انشاء اللہ میں بھی جلد ہی میاں والی ہو جاؤں گی اس نے دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں منہ پر پھیرے

اس کے انداز پر دونوں نے قہقہہ لگایا

ویسے مجھے گتا ہے یہ کہاوت جو مرد کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے یہ کسی ساس نے ہی ایجاد کی ہو گی آہلہ نے کہاوت کی طرف اشارہ کیا

وہ کیوں وہ دونوں مستفر ہوئیں

وہ ایسے کے اس کی بہو کھانا نہی بناتی ہو گی اس لیے اس نے یہ کہہ دیا کپ اب تو وہ میاں کو خوش کرنے کے لیے کھانا بناۓ گی

او سہی دونوں نے سر ہلایا

اچگا اس بات کو چھوڑو صوفی تم بتاؤ یار کب اپنی شادی کی بریانی کھلا رہی ہو فاریہ نے ایسے کپا جیسے اسے اس کی شادی کی نہی بلکہ بریانی کی خواہش ہو

پتا نہی بھی تو اس بارے میں کوئی بات نہی ہوئی 

شادی کی بات پر اسے شہروز والی بات یاد آئی لیکن پھر وہ یہ سوچ کر کے اگر ایسی بات ہوئی تو وہ بتا دے گی اس لیے چپ رہی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

رات کے کھانے کے  بعد سب کو دادی نے کمرے میں بلایا 

بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی سب ان کے کمرے میں موجود تھے  

سب بڑے جانتے تھے کہ انہوں نے کہا بات کرنی ہے

طلحہ کو بھی پتا تھی ان سب میں اگر کوئی انجان تھی تو وہ  صوفیہ تھی

جیسا کہ طلحہ اور صوفیہ کا نکاح تو ہو چکا ہے اس لیے اب میں چاہتی ہوں کہ ان کی رخصتی بھی کر دی جاۓ کسی کو بھی اس بات سے اعتراض نہی ہو تو پھر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں شادی کر دی جاۓ صوفیہ تمہیں اس فیصلے سے کوئی اعتراض تو نہی ہے

بتانے کے ساتھ ہی انہوں نے پوتی سے پوچھا

وہ جانتی تھیں کہ اسے کوئی اعتراض نہی ہو گا لیکن پھر بھی انہوں پوچھنا اپنا فرض سمجھا

سب کے سامنے یوں اپنی شادی کو ڈسکس کرتے اسے شرم آئی

پھر اسی شرم میں اس نے سر ہلاہا کر اشارہ کیا کہ اسے کوئی اعتراض نہی ہے اور فوراً کمرے سے نکل گئی

سب اس کے شرمانے پر ہنس دیے جبکہ وہ اسے جاتے دیکھتا رہا اسے نہی لگا تھا کہ وہ اتنی شائی ہو گی اس معاملے میں

چلو بیٹا پھر سب تیاری کرو ایک ماہ ہی ہے انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں اور بہوؤں کو کہا

صغرہ بیگم کے تین بیٹے تھے ۔بیٹی کی رحمت سے وہ محروم تھیں۔

بڑے بیٹے اکمل اور بہو اقراء ۔ان کے دوہی بچے تھے بڑا بیٹا رضا اور بیٹی صوفیہ۔

منچلے بیٹے اجمل اور بہو بانو ۔ان کا ایک ہی بیٹا تھا طلحہ۔

چھوٹے بیٹے اقبال اور بہو زینب ۔ان کے تین بچے تھے ۔بڑا بیٹا علی شرارتی سا سنجیدگی تو اسے چھو کر نہ گزری تھی۔چھوٹی بیٹی ماہپارہ جسے سب مانو کہتے تھے۔اور سب سے چھوٹا بیٹا حیدر جو ابھی نائنتھ میں تھا۔لیکن اپنے بڑے بھائی کے الٹ یعنی سنجیدہ رہتا تھا۔

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

رات کے دس بج رہے تھے جب رفعت بیگم کا فون بجا ۔شہروز بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ موبائل کی آواز پر چپ ہو گیا۔

اس نے دیکھا تو موبائل پر نور نام جگمگا رہا تھا۔اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ نور اور کوئی نہی بلکہ اس کی خالہ ہیں۔وہ ان سے کبھی ملا نہ تھا لیکن ان کی تصویر اور چھوٹے ہوتے ان کی باتیں امی سے ضرور سنیں تھیں 

اس نے موبائل سپیکر پر ڈالا اور ان کی طرف بڑھایا اور خود چپ کر کے بیٹھ گیا۔

وعلیکم سلام میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟؟ 

ہاں دوپہر کو کیا تھا فون میں نے بڑا دل چاہ رہا تھا تم سے بات کرنے کو لیکن آگے سے پتا نہہ کس ڈنگر نے فون اٹھایا تھا  جس نے بغیر میرا جواب سنے فون بند کر دیا انہیں ایک دفع پھر غصہ آیا اس پر

سوری آپا وہ عاجل تھا وہ معزرت خواہ ہوئیں

کوئی بات نہی بچا ہے اپنے بھانجے کے نام پر تو وہ خوش ہو گئیں

بچا کہاں ہے آپا 25 سال کا ہے لیکن اپنہ من مانی کرتا ہے جو دل میں آتا ہے وہی کرتا ہے میں تو تنگ آجاتی ہوں اس کی ضد اور بدتمیزیوں کو برداشت کرت کرتے انہیں تو جیسے موقع چاہیے تھا اسی لیے اپنی بہن کے آگے پھٹ پڑیں

مصطفی تو ایسا نہی تھا اور نہ تم پھر وہ کیوں ایسا ہے

پتا نہی آپا بچپن میں ضد کیا کرتا تھا تو اس کے دادا دادی پوری کردیا کرتے تھے پھر ان کی وفات کے بعد یہ کام مصطفی نے سنمبھال لیا اور میں بھی آفس جانا شروع ہو گئی اور دھیان ہی نہی دے پائی

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ حد درجے کا ضدی ہو گیا ہے 

تم کیوں خود کو پریشان کر رہی ہو بچا ہے انشاءاللہ سدھر جاۓ گا 

اچھا آپ بتائیں حیریت تھی آپ نے کال کی 

ہاں بس ویسے ہی تم سے بات کرنے کو دل کر رہا تھا تو کر لیا تمہارہ تو شائد دل نہی کرتا جو کبھی آپا کو کال نہی کی 

وہ اس سے اپنے فل کا درد شیئر کرنا چاہتی تھیں لیکن شہروز بھی بیٹھا ہوا تھا اس لیے انہوں نے بات گول مول کر کے ان کے فون نہ کرنے پر شکوہ کر دیا

شہروز ان کا اپنا بیٹا تھا لیکن وہ چاہتی تھیں کپ وہ اکیلے میں اپنی بہن سے بات کریں

ارے آپا ایسی بات نہی ہے آفس اور پھر این جی اوز کے کام سے ہی وقت نہی ملتا میرا بھی دل کرتا ہے ورنہ اپنے بھانجے بھانجی سے ملنے کا 

تو تمہیں کس نے روکا ہے تمہارے اپنے ہی بچے ہیں

جی آپا انشاء اللہ میں ضرور ملوں گی

پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے انہوں نے فون رکھ دیا 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ بے صبری سے کاریڈور میں ان کا انتظار کر رپی تھی آخر کو انہیں اپنی شادی کی نیوز بھی تو بتانی تھی

کافی دیر سے وہ ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی اس نے کافی دفع دونوں کو کال بھہ کی لیکن دونوں ہر دفع پانچ منٹ کا بول کر فون کاٹ دیتیں

پانچ پانچ منٹ کا بول کر پورے پندرہ منٹ ہو چکے تھے اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا 

اب وہ انتظار میں چکر لگا رہی تھی لیکن ان کو نیوز دینے کے لیے نہی بلکہ ان کی درگت بنانے کے لیے

دوسری طرف وہ دونوں اپنی ہونے والی درگت سے انجان تھیں اور ریلیکس سی تھیں

ان کے آتے ہی وہ ان پر چڑھ دوڑی اور ہاتھ سے انہیں تھپڑ مارنے لگی اور ساتھ ساتھ انہیں کوس بھی رہی تھی وہ دونوں تو اس افتادہ پر گھبرا گئیں

چڑیلوں تم لوگوں کے پانچ منٹ ہی نہی ختم ہو رہے تھے پانچ منٹ کہہ کر پورے پندرہ منٹ لیٹ ہو

فاریہ نے خود کو بڑی مشکل سے چھڑوایا اور آہلہ کی بے چاری شکل دیکھ کر اس نے خود ہی اس کی خلاصی کر دی

یار کیا آتے ہی دھوبی کی طرح تم نے ہمیں دھونا شروع کر دیا اور ہم لوگ شوق سے تھوڑی تمہاری ڈانٹ اور پٹائی کے لیے لیٹ آۓ ہیں وہ تو راستے میں ٹریفک بہت تھا اس لیے لیٹ ہو گیا

آہلہ نے بھی اس کی تائید کی

پکا نہ جھوٹ نہی بول رہی تم لوگ

 لو بھلا جھوٹ بول کر ہم نے تمہاری طرح جہنم کی ٹکٹ تھوڑی کا کٹانی ہے

تم تو رکو زرا 

اس سب میں تو وہ شادی کی نیوز دینا بھول ہی گئی تھی

چلو اندر چلو آج سب کچھ فائنلائیز کر لیں گے اور میں نے میم ثمرین کے آج پاؤں پکڑ لینے ہیں کہ خدا کا واسطہ ہے اب کل کوئی چینجنگ نہ کروانا 

ہاں نہیں تو عین موقع پر تو کچھ سمجھ بھی نہی آتی صوفیہ نے بھی فاریہ کی تائید کی

باتیں کرتی کرتی وہ تینوں کلاس تھری میں داخل ہوئیں جہاں مس ثمرین اور کچھ اور ٹیچرز بچوں کی پریکٹس کروا رہی تھیں

اسلام علیکم انہوں نے مشترکہ سلام کیا 

ان کے سلام پر بچوں نے ڈرامہ روک دیا 

ارے بچوں آپ کرو اپنا 

مس ثمرین آپ کو کوئی چینجگ تو نہی کروانی نہ اب کیونکہ آج ہم نے ترتیب دینی ہے کمپیرنگ کی جب ڈرامہ ختم ہوا تو صوفیہ نے پوچھا

نہی مس صوفیہ کچھ بھی چینجنگ نہی کرنی آپ لوگ ترتیب دیں لیں 

ان کے کہنے پر فاریہ نے شکر بھری سانس لی

وہاں سے نکل کروہ لوگ کینٹین آ گئیں

او ہاں مجھے تم لوگوں کو کچھ بتانا ہے بتانا توصبح تھا لیکن تم لوگوں کے چکر میں میں بتانا بھول گئی اس نے یاد آنے پر کہا

اچھا وہ کیا

دادی نے اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں میری شادی رکھی ہے اس نے شرما کر بتایا

بہت بہت مبارک ہو

دونوں نے اسے مبارک دی

سہی ہے پھر ہم لوگ اکٹھی شاپنک کریں گے فاتیہ پر جوش ہوئی

بدھو وہ تو دلہن ہو گی اور وہ تو اپنی شاپنگ اپنے دلہے کے ساتھ کرے گی آہلہ نے اس کی عقل پر ماتم کیا

او ہاں چلو کوئی نہی میں ہم دونوں تو ساتھ ہی شاپنگ کریں گے اور سب سیم سیم لیں گے 

اس نے ساتھ ہی تجویز دی

پھر کیا تھا اس نے ان دونوں کا خوب سر کھایا شاپنگ کی پلینگ میں۔

آج رزلٹ اناۏنس ہونا تھا سو ان تینوں کا اکٹھے جانے کا پلان تھا اس لیے صوفیہ نے بھی طلحہ سے اجازت لے لی تھی وہ تینوں اس وقت گاڑی میں بیٹھی تھیں اور آہلہ اور صوفیہ اسےگھورنے میں مصروف تھیں اس کےبرعکس وہ ان کی گھوریوں کو کسی بھی خاطر میں لاۓ بغیر اپنے آپ کو سنوارنے کی جدو جہد میں لگی ہوئی تھی آج ڈرائیونگ کی زمہ داری چونکہ صوفیہ کی تھی اس لیے وہ بے فکر تھی 

کیا میں بہت پیاری لگ رہی ہوں جو تم لوگوں کی نظر نہی ہٹ رہی

انہوں نے دیکھا وہ سلور رنگ کی پیروں کو چھوتی فراک بال سٹریٹ کیے کمر پر پھیلاۓ آنکھوں پر کاجل لگاۓ پہلے سے پیاری آنکھوں کو قاتلانہ بناۓ اب لپسٹک ہونٹوں پر سجا رہی تھی

وہ واقعی اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ کوئی بھی اگر اسے دیکھتا تو دیکھتے ہی اپنا دل اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا

تیار تو وہ دونوں بھی  آج کی مناسبت سے ہوئی تھیں 

آہلہ نے سفید پیروں کو چھوتی فراک ساتھ ہی سفید ڈوپٹے سے ہجاب کیا تھا پیروں میں کھسہ پہنے   میک اپ کے بغیر وہ بھی بہت پیاری لگ رہی تھی 

صوفیہ نے نارنجی کل کی شارٹ شرٹ اور کیپری پہنی ہوئی تھی ہلکہ پھلکہ میکپ کیے بالوں کی فرنچ ٹوسٹ بناۓ وہ بھی بہت پیاری لگ رہی تھی

یہ تم اس قدر تیار کیوں ہوئی ہو جیسے تم کسی شادی میں شرکت کرنے جا رہی ہو آہلہ نے بھنویں اچکائیں

 ارے یار میں اتنا بھی کوئی تیار نہی ہوئی صوفی تم تو گاڑی سٹارٹ کرو اس نے بے نیازی سے کہتے صوفیہ کو گاڑی چلانے کا کہا

اس کی بات کو نظر انداز کر کے اس نے اسے اوپر سے نیچے دیکھا گویا کہہ رہی ہو کہ ابھی بھی کچھ رہتا تھا

اچھا نہ یار اب اس طرح تو نہ دیکھو میں تو اس لیے اتنا تیار شیار ہوئی ہوں کہ شائد وہ پرنس بھی آجاۓ اور میرا لک کام کر جاۓ

تم بلو بیوٹی کی بات کر رہی ہو آہلہ کے منہ سے بے ساختہ بلو بیوٹی نکلا

اوہ تو میڈم انہیں بلو بیوٹی کے نام سے یاد رکھے ہوۓ ہیں فاریہ نے شرارت سے اسے چھیڑا

اس پر اس نے اسے گھورا

اپنی بکواس بند رکھو اور ایسا کچھ بھی نہی ہے میں کیوں اسے یاد رکھوں گی اور صوفیہ چلو تم گاڑی سٹارٹ کرو یہ نہ ہو ہم لوگ لیٹ ہو جائیں

فاریہ کو جواب اور گھوری سے نوازتے اس نے جلدی جلدی اسے بھی کہا 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

گیلانی ولا

دیکھیں مصطفی میں کب سے اسے کہہ رہی ہوں لیکن یہ میری بات ہی نہی سن رہا

کمرے میں آ کر انہوں نے اپنے ہمسفر سے کہا جو آفس جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے 

بلیک پینٹ کوٹ پہنے وہ ٹائی لگا رہے تھے 

اسے چھوڑیے آپ پہلے اپنے شوہر کی مدد کریں انہوں نے ٹائی ان کی طرف بڑھائی

وہ ان کی ٹائی باندھ رہی تھیں اور وہ اپنی من پسند بیوی کو دیکھ رہے تھے جو اتنے سال گزرنے کے بعد بھی خوبصورت تھیں ایسا لگتا تھا جیسے وقت انہیں چھو کر نہ گزرا ہو

انہوں نے ٹائی باندھ دی تھی لیکن چونکہ وہ مصطفی صاحب کے حصار میں تھیں اس لیے پیچھے نہ ہو پائیں

ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ؟؟ انہوں نے ان کے گال پر ہاتھ رکھ کر پوچھا

اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں آپ کو کوئی مسلہ ہے کیا انہوں نے ان کی کمر پر ہلکا سا دباؤ دیتے کہا

نہی اپ کی ہی ہے جب چاہے دیکھیں انہوں نے ان کے سینے پر سر رکھ دیا 

یہی تو ان کی کل کائنات تھے ان کا سکون سب کچھ 

کافی دیر ان کی پناہ میں سکون محسوس کر کے انہوں نے ان کا حصار توڑا اور پھر اپنے بیٹے پر توجہ دلائی

اب کیا کر دیا میرے شیر نے انہوں نے بھی انہیں رہائی دی اور خود پر پرفیوم سپرے کرتے آئینے میں ان کے نظر آتے خوبصورے وجود کو نظروں کے حصار میں رکھتے پوچھا

مصطفی آپ کے بے جا لاڈ پیار اور میری بے توجہی نے اسے ضدی بنا دیا ہے میری کوئی بات سنتا ہی نہی ہے اگر سن بھی لے تو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے

اچھا آپ یہ بتائیں آج کیا کر دیا اس نے وہ جانتے تھے کہ عاجل ضدی ہے اور نور اس کی اسی ضد سے نالاں تھیں اور ڈرتی بھی تھیں 

آج مجھے ایک فنکشن پر جانا تھا لیکن این جی و سے کال آ گئی ہے وہاں جانا میرا زیادہ ضروری ہے اور اگر میں فنکشن پر نہ گئی تو برا لگے گا اس لیے میں نے اسے کہا کہ وہ میری جگہ چلا بجاۓ فنکشن پر لیکن وہ مان ہی نہی رہا اب آپ بتائیں میں کیا کروں انہوں نے اپنی پریشانی بتائی

ہمم آپ فکر مت کریں میں ناشتے پر بات کرتا ہوں اس سے آپ بھی زرا اس سے تحمل سے بات کیا کریں ماشاء اللہ سے پچیس کا ہو گیا ہے

جی میں ہی غلط لگتی ہوں ہمیشہ آپ کو مجھے تو اس لڑکی کے لیے فکر ہوتی ہے جو میرے اس سر پھرے بیٹے کی قسمت میں ہو گی 

ایسی باتیں مت کریں نور ہمارا بیٹا ماشاءاللہ سے سمجھ دار ہے بس زرا سا ضدی ہے 

انہوں نے انہیں بازؤں کے حصار میں لیا اور ڈائنگ روم کا رخ کیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ سب ناشتہ کر رہے تھے سرونٹس پاس ہی سر جھکاۓ کھڑے تھے ناشتہ سرو کرنے کے لیے 

رابی بیٹا جاؤ اپنے بھائی کو بلا کر لاؤ نور نے اپنی چھوٹی بیٹی سے کہا جو کہ اپنے بھائی کی طرح ہی سر پھری تھی لیکن تھوڑی کم

ماما وہ خود ہی آجائیں گے آپ کو پتا تو ہے کہ انہیں نہی پسند کہ کوئی انہیں بلانے جاۓ اس نے اپنی جان چھڑوائی

سرونٹس بھی اسی لیے ریلیکس تھے کیونکہ ابھی ان کا سرپھرا مالک نہی آیا تھا ڈائینگ ٹیبل پر 

مصطفی صاحب خود اسے بلانے کے لیے جانے لگے تھے کہ وہ نک سک سا تیار آتا دکھائی دیا

گڈ مارننگ 

مارننگ ٹو بردر 

نور نے بیٹے کی طرف دیکھا جس کی پیشانی پر گیلے بال چپکے ہوۓ تھے شائد وہ ابھی نہا کر آیا تھا

وہ وجاہت کا پورا شاہکار تھا 

نور نے مصطفی صاحب کو اشارہ کیا کہ وہ بات کریں

عاجل تمہاری ماما کو کسی کام سے ارجنٹ این جی او جانا ہے اس لیے ان کی جگہ تم فنکشن میں چلے جاؤ

نہی بابا میں پہلے ہی انہیں کہہ چکا ہوں کہ میں نہی جاؤں گا کسی بھی فنکشن میں تو پھر آپ کو کہنے کا کیا مقصد تھا اس نے غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر کہا

ایسا ہی تھا وہ ضدی اپنی بات سے انخراف پر اگر اکثر وہ بدتمیزی کر دیا کرتا تھا 

سٹاپ اٹ عاجل وٹس رانگ ود یو اگر وہ تمہیں کچھ کہہ رہی ہیں تو ان کی ضرور کوئی مجبوری ہو گی اور تم ہو کہ سمجھنے کی بجاۓ الٹا بدتمیزی کر رہے ہو 

اس کی بدتمیزی پر مصطفی نے اس سے غصے میں کہا

جسٹ کام ڈاؤن بھائی رابی نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر کالم ڈاؤن کیا

ان کے غصے پر غصہ تو اسے بھی بہت آیا لیکن وہ اپنی بہن سے بہت محبت کرتا تھا اور نہی چاہتا تھا کہ اس کے سامنے وہ کوئی ایسی حرکت کر دے جس پر وہ بعد میں اس سے ناراض ہو جاۓ

یہ سب دیکھ کر نور کی آنکھوں میں آنسو آگئے

ماما آپ مت روئیں میں اور بھائی دونوں جائیں گے آپکی جگہ 

وہ جانتی تھی کہ وہ اب انکار نہی کرے گا

یہ نہی تھا کہ وہ مصطفی یا نور سے محبت نہی کرتا تھا وہ محبت کرتا تھا لیکن جہاں بات اس کے مزاج یا اس سے انخراف پر ہوتی وہاں وہ بدتمیزی کرنے سے بھی بعض نہی آتا تھا 

ابھی بھی وہ بد تمیزی تو کر گیا تھا لیکن نور کے آنسو دیکھ کر وہ نرم پڑ گیا

ٹھیک ہے چلا جاؤں گا میں لیکن اس کے بعد آپ لوگ مجھے کسی چیز کے لیے فورس نہی کریں گے 

نور نے شکر کیا چلو مانا تو سہی وہ

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ لوگ جونہی سکول پہنچی تو ہر طرف گہما گہمی تھی سٹوڈنس ٹولیوں کی صورت میں کھڑے باتیں کر رہے تھے 

وہ لوگ سٹاف روم میں داخل ہوئی جہاں سارے ٹیچرز بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے

وہ بھی اپنی جگہ پر بیٹھتیں اخری دفع کمپیرنگ پر نظر ڈالنے لگیں

میم آہلہ کم ود می آپ کو بکے وغیرہ دکھا دوں سر فاحد نے ان کے پاس آکر کہا

جی چلیے وہ ان کے ساتھ چلی گئی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ بلیک پینٹ پر بلیک ہی شرٹ اور جیکٹ پہنے خود پر اپنی پسندیدہ پرفوم سپرے کر رہا تھا جب رابی دروازہ ناک کر کے اندر آئی

واؤ بھائی لوکنگ گارجیس اینڈ ہاٹ دیکھنا آج تو لڑکیاں آپ کے اس روپ پر مر مٹے گیں اس نے آنکھ دبا کر اسکی تعریف کی

خود بھی وہ اس وقت بلو پینٹ پر ڈارک ریڈ شرٹ پہنے آنکھوں پر بلیک گلاسز لگاۓ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی 

کوئی نئی بات بولو 

ہمم تو پھر اس دنیا کے لیے تو نئی بات یہی ہو گی کہ آپ کسی پر مر مٹو کسی کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب جاؤ اس نے شرارت سے اس کے ساتھ آکر خود کو آئینے میں دیکھ کر کہا

ایسا کبھی نہی ہو سکتا کہ عاجل مصطفی گیلانی کسی کے عشق میں ڈوبے اس نے غرور سے کہا

تم اپنی بتاؤ تم تو کہیں کسی کےعشق وشق میں تو نہی ڈوبی ہوئی اس نے باہر چلتے اس سے پوچھا 

شائد تھوڑا تھوڑا اس نے ہاتھ کی شہادت اور انگوٹھے سے تھوڑا کا اشارہ کیا

ہمم سہی ہے ویسے کس سے عشق فرما رہی ہو بقول تمہارے جو تھوڑا سا ہے 

ہے کوئی اس نے لاپرواہی سے کہا

انہیں سیڑھیاں اترتے دیکھ نور نے ماشاءاللہ کہا 

دونوں ہی انتہا کے خوبصورت تھے 

وہ خود بھی اس وقت براؤن نفیس سی ساڑھی میں این جی جانے کے لیے تیار تھیں

اچھا ماما اب ہم لوگ جا رہے ہیں رابی نے ان کے گال پر کس کیا 

عاجل نے بھی انہیں ساتھ لگا کر کس کی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

عاجل کو گاڑی ڈرائیو کرنا پسند تھا اس لیے وہ خود ہی ڈرائیونگ کرتا تھا البتہ گارڈز کی ایک گاڑی ان کی گاڑی کے پیچھے تھی

تم نے بتایا نہی کہ کس سے عشق کرتی ہو عاجل نے ایسے عشق کہا جیسے اس کے لیے عشق ایک معمولی لفظ یا پھر کھیل ہو 

ابھی نہی ابھی تو اسے بھی اپنے عشق میں ڈبانا ہے پھر بتاؤں گی اس نے شرارت سے آنکھ دبا کر اسے ٹالا

اور اگر وہ نہ ڈوبا تو 

میں رابیل مصطفی گیلانی مصطفی گیلانی کی بیٹی اور عاجل مصطفی گیلانی کی بیٹی ہوں جو کہتی ہوں وہ کرتی ہوں اور جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے پھر چاہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہو یا نہ اس نے جنونی انداز میں کہا

اس کے لیے عشق پیار محبت وغیرہ کچھ معنی نہی رکھتا تھا اس کی نظر میں قابل عزت عورت صرف اسکی ماں اور بہن تھی وہ تو لڑکیوں  کو صرف استعمال کہ چیز سمجھتا تھا دوستی کی استعمال کیا اور چھوڑ دیا

اس کے جنونی انداز پر وہ ٹھٹھکا تھا اور اسی بے دھیانی میں اس کی کار آگے والی کار کو ہٹ کر گئی تھی 

آگے والا بھی گاڑی روک کر غصے سے باہر آیا اور غصے سے گاڑی کا شیشہ ناک کیا 

اس کے گاڑی روکنے کہ وجہ سے اسے بھی گاڑی روکنی پڑی ورنہ اس کا ارادہ بلکل نہ تھا 

گاڑی میں رابی تھی اس لیے وہ بھی اس کے شیشہ بجانے پر باہر آیا 

وہ باہر نکلا تھا کہ اس لڑکے نے اس کا کالر پکڑ لیا 

یہ دیکھ کر گارڈز بھی گاڑی سے نکل آۓ رابی گاڑی میں ہی بیٹھی تھی جانتی تھی اب کیاہو گا

گارڈز آگے بڑھنے لگے کہ اس نے ان کو اشارے سے روک دیا اور کسی گارڈ کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی جگہ سے بھی ہل جاۓ

کالر پکڑنے کی دیر تھی کہ اس کا ازلی غصہ عود آیا اس نے اپنا کالر اس سے چھڑوایا اور اس لڑکے کی ناک پر اتنے زور سے مکہ مارا کہ اس کے ناک سے خون بہنا شروع ہو گیا اور وہ درد سے بلبلا اٹھا 

ناک پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دور ہوا کہ اس نے ایک ہاتھ سے اس کا کالر پکڑ کر اس کے منہ پر درپے در مکے برسا کر اسے ادھ موا کردیا 

وہ بے چارہ دبلا پتالا سا اتنی سی مار پر ہی سڑک پر بے ہوش ہو کر گیا 

اس نے نخوت سے اس کے بے ہوش گرے ہوۓ وجود کو دیکھ کر گالی دی اور گارڈز کو اسے ہسپتال لے جانے کو کہا 

انہیں ہدایت دے کر اس نے اپنی جیکٹ اور شرٹ درست کی جو اس سب میں خراب ہو گئی تھی اسکے ہونٹ کا کنارہ بھی پھٹ گیا تھا 

گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ہاتھ سے اپنے بال سیٹ کیے اور شیشے میں اپنے ہونٹ کو دیکھا جو سائڈ سے سوجھ گیا تھا 

اس نے سر جھٹک کر گاڑی سٹارٹ کر دی 

موڈ اس کا خراب ہو چکا تھا لیکن ماما اور رابی کو بھی ناراض نہی کر سکتا تھا اس لیے خراب موڈ کے ساتھ ہی اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

فنکشن سٹارٹ ہوۓ آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا لیکن نور گیلانی کے آنے کے اثرات نظر نہی  آ رہے تھے اس لیے میم سلمہ نے فنکش سٹارٹ کرنے کو کہا

فاریہ اور صوفیہ کمپیرینگ کی خدمت سر انجام دے رہی تھیں اس لیے وہ اکیلی ہی بیٹھی ہوئی تھی کہ میم سلمہ اور سر واصف اس کے پاس آۓ اور کہا کہ وہ لوگ آگئے ہیں تو وہ بھی عجلت میں ہاتھ میں بکے پکڑے انہیں رسیو کرنے کے لیے ان کے ہمراہ ہوئی

وہ لوگ باہر پہنچے تو ان کے دیکھتے دیکھتے دو گاڑیاں رکیں ایک گارڈز کی گاڑی تھی اور دوسری میں وہ دونوں

گارڈز نے اتر کر فرنٹ ڈور کھولا تو کالے جاگرز میں مقید پیر باہر نکلا

مردانہ پیر دیکھ کر آہلہ الجھی 

جب وہ اپنی پوری وجاہت سمیت باہر نکلا

رابی بھی گاڑی سے باہر نکلی

میم سلمہ ان تک پہنچیں اور انہیں لیے اندر آئیں

اپنی الجھن کو سائیڈ پر رکھ کر آہلہ نے بکے رابی کو پکڑایا 

ویلکم میم اینڈ سر 

رابی نے اس لڑکی کو دیکھا اور مسکرا کر بکے لیا

جبکہ عاجل نے تو  مروتاً مسکرانا بھی گنواراہ نہ  کیا

آہلہ نے ایک نظر اس مغرور شخص کو دیکھا جس نے مروتاً بھی سر واصف  بھی مصاحفہ نہ کیا تھا 

میم سلمہ انہیں لے کر اندر بڑھ گئیں

تو وہ بھی ان کے پیچھے اندر چلی گئی

جب عاجل اور رابی اندر داخل ہوۓ تو سٹونڈٹس کے ساتھ ساتھ میل اور فی میل ٹیچرز بھی اس حسن کے پیکر شہزادے کو دیکھ کر رہ گئیں

لیکن وہ سب سے بے نیاز اپنی ازلی لا پرواہی کے ساتھ میم سلمہ کی تقلید میں سٹیج کے سامنے رکھے گئے صوفوں پر شان سے براجمان ہو گیا

میم سلمہ سٹیج پر آئیں تو فاریہ اور صوفیہ اتر کر اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئیں

یہ یہاں کیسے میرا مطلب آنا تو مس نور نے تھا صوفیہ نے پوچھا

جواباً دونوں نے کندھے اچکاۓ

چلو جو بھی ہے تمہاری  تیاری تو ویسٹ نہی گئی نہ  صوفیہ نے اس کی تیاری پر چوٹ کی

الحمدللہ اللہ اپنے نیک بندوں کی دعائیں رد نہی کرتے اس نے ہنستے ہوۓ کہا

ویسے یار یہ بندہ تو تصویر سے بھی زیادہ پیارا ہے فاریہ نے عاجل کو دیکھتے کہا

آہلہ نے غور سے دیکھا تو بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ اور جیکٽ پہنے بالوں کو سیٹ کیے اپنی نیلی آنکھوں میں بیزاری لیے وہ شچ میں تصویر سے زیادہ پیارا لگ رہا تھا

بلو بیوٹی ان بلیک  لاشعوری طور پر  یہ الفاظ سرگوشی نما اس کی زبان سے ادا ہوۓ

کچھ کہا تم نے صوفیہ نے اس کے ہلتے لب دیکھ کر کہا

نہی تو اسے خود خیرانی ہوئی کہ یہ الفاظ کیسے اس سے ادا ہو گئے 

کاش میرا ہبی بھی اس کی طرح کا ہو  اتنا ہی پیارا اور ڈیشنگ  

اگر تو تمہیں اپنے لیے بدتمیز شوہر چاہیے تو ضرور یہ دعا کرو آہلہ نے جل کر کہا 

کیوں

 پھر اس نے بتایا کہ اس مغرور بدتمیز شخص نے کیسے سر واصف کو اگنور کیا

یار جب بندہ اتنا امیر ہو اور پھر لاجواب حسن کا مالک ہو تو اتنی اکڑ تو بنتی ہے نہ فاریہ نے ابھی بھی اس کی سائیڈ لی 

بندے کو اب اتنا بھی مغرور نہی ہو جانا چاہیے کہ وہ کسی کو کچھ سمجھے ہی نہ اس کہ سائیڈ لینے پر تو وہ جل بھن گئی

ٹھیک کہہ رہی ہے آہلہ اتنا بھی کیا اٹیٹیوڈ بندے میں صوفیہ نے آہلہ کی بات سے اتفاق کیا

ابھی فاریہ اس کی شان میں کچھ کہتی کہ میم سلمہ کی آواز آئی جو یقییناً ان کا ویلکم کر رہی تھیں  

ہم مس نور مصطفی گیلانی کے شکر گزار ہیں جو اپنی مصروفیت کی وجہ سے تشریف نہ لاسکیں لیکن اپنے بیٹے اور بیٹی کو بھیج کر ہماری اس تقریب کو چار چاند لگا دیے ۔ ہمارے پورے سکول اور سٹاف کی طرف سے مسٹر عاجل اور مس رابیل کو خوش آمدید کہتے ہیں

سب بچوں نے کلیپنگ کر کے ویلکم کہا

آہلہ نے دیکھا یہ شخص اس پر بھی نہ مسکرایا تھا بس ہلکے سے سر کو خم دیا 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

تقریب کا آدھا حصہ گزر گیا تھا اسے یکدم یاد آیا کہ وہ اپنا پرس تو کلاس میں رکھ آئی تھی 

وہ جلدی جلدی جا رہی تھی کہ اسی جلدی میں وہ عاجل سے ٹکرائی 

اس کے ٹکڑانے پر عاجل کو تو کچھ نہ ہوا لیکن بے چاری آہلہ نیچے گر گئی

عاجل نے نیچے گری ہوئی لڑکی کو دیکھا تو اسے کوفت ہوئی اور غصے سے بولا 

اندھی ہو تم نظر نہی آتا تمہی جو یوں اندھوں کی طرح چل رہی ہو 

گرنے کی وجہ سے آہلہ کا پاؤں مڑ گیا تھا وہ پاؤں کو پکڑے درد کی وجہ سے رو رہی تھی اس کا سر نیپے جھکا ہوا تھا اس لیے وہ ٹکڑانے والے کو دیکھ نہ پائی

غصے سے بھری آواز پر اس نے سر اٹھایا تو وہی بدتمیز بلو بیوٹی اسے دکھا

اس کی بدتمیزی اور پھر اب غصے پر وہ بول پڑی

میں اندھی ہوں کہ تم اگر میں دیکھ کر نہی چل سکتی تھی تو تم دیکھ کر چل لیتے یا پھر تم نے اپنے یہ بنٹن صرف سجانے کے لیے رکھے ہیں اس نے انتہائی بدتمیزی سے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا

ایک تو اسے ویسے ہی پاؤں میں درد ہو رہا تھا اور پھر وہ بجاۓ اس کی مدد کرنے کہ الٹا رعب ڈال رہا تھا

اس کی بدتمیزی پر وہ اس کے مقابل نیچے جھکا اور اس کا جبڑا ہاتھ میں پکڑا گرفت اتنی سخت تھی کہ اسے لگا کہ اس کا جبڑا ٹوٹ جاۓ گا

اور پھر جب بولا تو الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کی پکڑ بھی سخت ہوتی گئی

کیا کہا تم نے اندھا ہوں میں اور یہ آنکھیں میں نے سجانے کے لیے رکھیں ہیں یا پھر میں یہ کہوں کہ میں نے تمہیں لفٹ نہی کروائی اور اسی لیے تم مجھ سے جان بوجھ کر ٹکڑائی ہو اور آتا ہی کیا ہے تم جیسی لڑکیوں کو

اس کے الفاظ پر اسے توہین محسوس ہوئی یعنی وہ اسے باقی لڑکیوں کی طرح سمجھ رہا تھا جو اس کی وجاہت سے اٹریکٹ ہو کر اس سے ٹکڑاتی ہیں 

اہانت کے احساس سے اس کا سارا چہرہ سرخ ہو گیا 

آہلہ نے بنا سوچے سمجھے اس کے منہ پر تھپڑ لگا دیا بغیر اپنے انجام کی پرواہ کیے 

اگراسے معلوم ہوتا کہ اس سر پھرے نے اپنے کالڑ پکڑنے والے کے ساتھ اس نے کیا کیا تھا تو وہ یہ قدم کبھی نہ اٹھاتی 

بہر حال قدم تو اس نے اٹھا دیا تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے 

یہ تو طے تھا کہ وہ اپنی اس زلت اور تھپڑ کا بدلہ ضرور لے گا لیکن کب اور کیسے یہ تو وقت نے بتانا تھا

عاجل اپنے گال پر ہاتھ رکھے بے یقین سا اس کے سامنے ہی بیٹھا تھا اس کے تو وہم و گمان میں بھی 

نہ تھا کہ وہ اس قدر جرات دکھاۓ گی

حیران پریشان تو خود آہلہ بھی تھی اس نے جزباتی ہو کر تھپڑ تو مار لیا تھا لیکن اب ڈر رہی تھی 

وہ بغیر کچھ بولے اسے لہو رنگ آنکھوں سے وارن کرتا چلا گیا بلکل خاموشی سے 

اس کی سمندر جیسی نیلی آنکھوں میں سرخی نے اسے ڈرا دیا تھا اس کی آنکھوں میں وارننگ تھی 

اس کے جانے کے  بعد وہ کب سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی ہوئی تھی اسے اپنے پاؤں کا درد بھی بھول گیا تھا یاد تھا توصرف اسکی انکھوں کی سرخی 

وہ بلکل خاموشی سے چلا گیا تھا لیکن اس کی آنکھیں چیخ چیخ کر اسے اس کے انجام سے ڈرا رہی تھیں

فنکشن کا اختتام ہو چکا تھا لیکن وہ بے نیاز بنی بس اسی جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گیا تھا

فنکش ختم ہو چکا تھا جب کافی دیر ڈھونڈنے پر بھی اسے وہ فنکشن والے ایریا میں نہ ملی تو وہ کلاسز کی طرف اسے دیکھنے آئیں

وہ باتیں کرتی جا رہی تھیں کہ کاریڈور میں وہ انہیں نیچے  بیٹھی دکھی وہ پریشانی سے اس کی طرف دوڑیں

کیا ہوا آہلہ تم یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو جب کافی دیر سے ان کے بلانے پر بھی وہ نہ ہلی تو فاریہ نے اس کا کندھا ہلایا

اس کے ہلانے پر وہ ہوش میں آتی اس کے گلے لگ کر رو پڑی 

کیا ہوا آہلہ میری جان ایسے کیوں رو رہی ہو صوفیہ نے پریشانی سے اس سے پوچھا 

جبکہ وہ ابھی بھی فاریہ کے گلے لگے رو رہی تھی 

اس سے الگ ہو گر اس نے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کیا جو مڑنے کی  وجہ سے سوجھ گیا تھا 

وہ انہیں اپنی بےو قوفی کے بارے میں بتانا چاہتی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر رک گئی کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی پریشان ہو جائیں گیں اس لیے اس نے پاؤں کی طرف اشارہ کر دیا

یہ کیسے ہوا صوفیہ نے اس کے پاؤں میں سوجھن کی جگہ ہاتھ لگاتے ہوۓ کہا

کچھ نہیں بس جلدی جلدی جا رہی تھی کہ اچانک پاؤں مڑ گیا اس نے آدھی بات بتائی اس نے یہ بات گول کر دی کہ وہ عاجل سے ٹکڑائی ہے عاجل سے نہیں  بلکہ اپنی اپنی بد قسمتی سے 

یہ تو کافہ سوجھ چکا ہے آلی تم ہمیں کال کر دیتی ناجانے کب سے   یہاں ایسے بیٹھی رو رہہ ہو فاریہ نے  اسے سہارا دیتے شکوہ کیا

میرا پرس کمرے میں تھا وہی لینے جا رپی تھی کہ گر گئی

چلو کوئی بات نہی اب رونا بند کرو چلو صوفی تم بھی  سہارا دو تو اسے ہاسپٹل لے کر چلتے ہیں

فاریہ نے صوفیہ کو مدد کے لیے کہا

اسے سہارا دے کر وہ لوگ گاڑی تک لائیں اور اسے پیچھے بٹھایا خود فرنٹ پر بیٹھ کر گاڑی ہاسپٹل کے راستے پر چلا دی

پندرہ منٹ بعد وہ لوگ ہاسپٹل میں تھیں ڈاکٹر نے آہلہ کی بینڈنج کر دی تھی اور ایک ویک آرام کرنے کا کہا تھا

اسے سہارا دے کر پھر انہوں نے گاڑی میں بٹھایا تھا فاری وہ عاجل گیلانی تو آدھے فنکشن میں ہی کہیں چلا گیا تھا 

صوفیہ نے فاریہ سے کہا

جبکہ اس کے زکر پر آہلہ نے لب بھینچ لیے اور آنکھیں بند کر کے سر سیٹ سے ٹکا دیا 

ہاں ہو سکتا ہے کچھ ضروری کام آن پڑا ہو تبھی چلا گیا

تمہاری سیلفی تو رہ گئی صوفیہ نے اسے یاد دلایا

ہو سکتا ہے زندگی میں پھر کبھی وہ مل جاۓ تب تو ضرور لوں گی موقع ضائع نہیں کروں گی اس نے افسوس اور عزم سے کہا

بس کرو یار تم لوگ اس کو ڈسکس کرنا آہلہ نے غصے سے کہا 

اسے بلکل بھی  اس شخص کا زکر اچھا نہی لگ رہا تھا ابھی تو بلکل بھی نہی جب اسے اس بدتمیز شخص پر اس کے الفاظ پر غصہ بھی تھا اور وہ اس کی آنکھوں سے خوفزدہ بھی تھی

اوکے کالم ڈاؤں ہم نہی کرتے اس کی بات صوفیہ نے اس کہا اور اشارے سے فاریہ کو بھی چپ رہنے کا کہا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

گھر پہنچ کر اس نے خود کے سہارے چلنے کی کوشش کی لیکن پاؤں پہ وزن پڑنے پر اسے درد ہو رہا تھا جس کی وجہ سے وہ چل نہی پا رپی تھی

صوفیہ اور فاریہ ہی اسے سہارا دے کر گھر کے اندر تک لائی تھیں

اس نے انہیں کمرے میں لے جانے کو کہا تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اسے لے جا رہی تھیں کہ مروہ ان ہے آگے دیوار بن کر  کھڑی ہو گئی

صوفیہ اور فاریہ تو اس لڑکی کو دیکھ رہی تھیں جو اچانک سے ان کے آگے آکر کھڑی ہو گئی تھی 

یہ کیا بدتمیزی ہے مروہ سائڈ پر ہو مجھے کمرے میں جانا ہے آہلہ نے درد کر ضبط کرتے اسے ہٹنے کو کہا 

جبکہ وہ اس کے چہرےپر درد کے آثار دیکھ کر اندر ہی اندر خوش ہو رہی تھی 

اگر نہ ہٹوں تو انے مزے سے مسکرا کر کہا

دیکھیں پلیز آپ سائڈ پر ہوں آہلہ کے پاؤں میں موچ ہے صوفیہ نے التجاحاً کہا کیونکہ وہ بھی دیکھ چکی تھی کہ کھڑے ہونے سے اسے درد ہو رہا ہے 

اوو چچچچچچ پھر تو بڑا درد ہو رہا ہو گا

اس نے اس کی التجا کو نظر انداز کرتے اس پر افسوس کیا

دیکھیں مس آپ جو بھی ہیں انسان تو کم ازکم آپ نہی ہیں کیونکہ اگر آپ میں انسانیت ہوتی تو آپ بجاۓ بحث اور مزاق اڑانے کے اپنی کزن کی مدد کرتیں خیر آپ سمجھ گئی ہو گیں کہ آپ کیا ہیں اس لیے براۓ مہربانی اپبا وجود ہماری آنکھوں سے دور کریں فاریہ نے اس کے ڈھیٹ پن پہ اسے اچھی خاصی سنائی

یو  نکلو تم ابھی کہ ابھی میرے گھر سے تم مجھے میرے گھر کھڑے ہو کر کہہ رپہ ہو کہ میں اپنی شکل گم کروں اور تم نے مجھے جانور بھی کہا اس نے اسکی طرف انگلی سے اشارہ کرتے سرخ چہرے سے کہا

مروہ آپ اپنی بات کی درستگی کرو یہ گھر آپ کا نہی ہے اس لیے آپ میری دوستوں کو یہاں سے جانے کے لیے نہی کہہ سکتیں اور دوستی بات اس نے آپ کو جانور نہی کہا آپ نے خود ہی اپنے آپ کو کہا ہے اس لیے میرے خیال سے اتنی بے عزتی آج کے لیے کافی ہے اس لیے باقی کی کل پر رکھ لیتے ہی آہلہ نے بھی اس کی اچھی سی کر کے ہاتھ کے اشارے سے سائڈ پر ہونے کو کہا

اتنی بے عزتی پر وہ بھی دوسروں کے سامنے وہ سرخ چہرہ لیے سائڈ پر ہو گئی

یار وہسے تمہاری اس چڑیل کزن کی آج اچھی خاصی ہو گئی  اور شکل تو دیکھنے والی تھی بے چاری کی فاریہ نے ہنس کر کہا

ہاں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے چہرے ہر کسی نے لال رنگ لگا دیا ہو اتنا سرخ ہو رہا تھا صوفیہ نے بھی یاد کرتے کہا

ان کی اپنی غلطی ہے جب میں نے انہیں آرام سے کہا تھا تو پھر کیوں کھڑی رہیں

اچھا کیا تم نے آلی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہی مانتے اگر تم آج چپ رہتی تو وہ تمہیں زیادہ دباتی

فاریہ کے کہنے پر اس نے سر ہلایا

چلو تم اب ریسٹ کرو اور میڈیسن بھی یاد سے کھا لینا اور اس پاؤں پر زیادہ وزن مت ڈالنا اب ہم چلتے ہیں 

دونوں نے اسے ہدایت دی اور اللہ خافظ بول کر چلی گئیں

ان کے جانے کے بعد اس نے میڈیسن لی  

مروہ کے ساتھ ہوئی تکرار سے اس کے زہن سے دوپہر والا واقع زہن کے پردے کے پیچھے چلا گیا تھا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

اسلام علیکم ماما 

فاریہ نے گھر میں انٹر ہوتے ہی اریج بیگم کو اونچی آواز میں سلام کیا اور ساتھ ہی دھپ سے صوفے پر گر گئی

اس کی سلام پر ایک نفیس سی عورت لاؤنج میں انٹر ہوئیں

میں نے کتنی دفع تمہیں کہا ہے کہ اتنی اونچی آواز میں سلام مت کیا کرو اتنی بڑی ہو گئی ہو لیکن عقل ہے کہ گھٹنوں میں جاتی جا رہی ہے 

اریج بیگم اس کے بچپنے پر سخت نالاں رہتی تھیں اس لیے اسے ٹوکا

ارے ماما میں کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو جاؤں آپ کے لیے تو بچی ہی ہوں نہ  اس نے لاڈ سے کہا اور ان کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا

بچی ہی سمجھتی رہنا خود کو پچیس کی ہو گئی ہو  اس عمر میں تو میری گود میں تم تھی اور ایک تم ہو کہ تمہارا بچپنا ہی نہی جاتا 

ماما وہ روہانسی 

ارے میری جان میں تو اس لیے تمہیں تمہارے بچپنے سے روکتی ہوں کہ کل کو تم نے دوسرے گھر بھی جانا ہے وہاں اگر ایسا کرو گی تو تمہارے لیے ہی مشکل ہو گی انہوں نے اسے پیار سے سمجھایا

ماں باپ امیر ہوں یا غریب انہیں اپنے بچوں کی ایک سی فکر رہتی ہے

اس کی آپ فکر نہ کیا کریں میں اپنے لیے بھی اپنے جیسا  ہی ڈھونڈلوں گی

کوئی ضرورت نہی ہے اپنے لیے خود ڈھونڈنے کی اپنے لیے بھی کوئی اپنی طرح کا جوکر ہی پسند کر لو گی اور آج شام کو تمہارے پاپا کے کوئی جاننے والے آنے والے ہیں تمہیں دیکھنے  اس لیے خاموشی سے تیار ہو کر آجانا اور کوئی چوں چراں نہی ہونی چاہیے انہوں نے ختمی لہجے میں کہا

ماما لڑکا کیا کرتا ہے اسے پتا تھا اب ماما نے اس کی باتوں میں بلکل بھی نہی آنا اس لیے اس نے لڑکے کے کام کے بارے میں ہی  پوچھ لیا کہ اگر تو فوجی ہوا تو پھر وہ شرافت کے ساتھ ہی تیار ہو گی

لڑکا کینڈا ہوتا ہے وہیں کوئی جاب کرتا ہے اس کے شرافت سے پوچھنے پر انہوں نے بھی اب کہ نرمی سے بتا دیا

ان کے جواب پر اس کے ماتھے پر سوچ شکن پڑیں 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

رات کے کھانے پر آہلہ کی غیر موجودگی محسوس کر کے ساجد صاحب نے اس کے بارے میں پوچھا 

اس کی کمی تو شہروز کو بھی محسوس ہوئی تھی لیکن وہ بے دھڑک پوچھ نہی سکتا تھا

صاحب جی وہ آہلہ بٹیا کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی اس لیے میں انہیں کھانا ہمرے میں ہی دے آئی تھی 

شکیلہ خالہ کے جواب پر اس کے منہ کو جاتا ہاتھ رک گیا تھا اس کی آنکھوں میں یکدم بے چینی پیدا ہو گئی

اسے خود پر افسوس ہوا کہ اس کی محبت وہاں درد میں تھی اور وہ آرام سے کھانا کھا رہا تھا

ان کے جواب پر ساجد صاحب کھانے سے ہاتھ روک کر آہلہ کی کمرے کی طرف بڑھے 

ان کے پیچھے ہی شہروز بھی بے چینی سے گیا

اس کا پیچھے جانا سب نے نوٹ کیا تھا 

شکیلہ خالہ کو اس کی آنکھوں میں بے چینی دیکھ کر لمحہ لگا تھا بات کو سمجھنے میں انہیں خوشی ہوئی تھی کہ چلو کوئی تو ہے جو اس کے درد پر بے چین ہوتا ہے

جبکہ شمع رفعت اور نور کے زہن میں مختلف خیالات آ رہے تھے اور وہ تینوں ہی ان خیالات کو جھٹلا رہی تھیں

کیسی ہے میری بیٹی اور یہ  چوٹ کیسے لگ گئی 

وہ جو بک پڑھ رہی تھی ان کہ فکر مند آواز پر بک سائڈ پر رکھ کر ان کی طرف متوجہ ہوئی

کچھ نہی چاچو بس گر گئی تھی تو موچ آ گئی

اگر زیادہ درد ہو رہا ہے تو ہاسپٹل چلتے ہیں شہوز نے فکر مندی سے اس کے پاؤں کو دیکھ کر کہا

آہلہ نے دیکھا وہ اسے نہی بلکہ اس کے پاؤں کو دیکھ رہا تھا اسے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے فکر دکھی 

اس فکر پر وہ بجاۓ خوش ہونے کے پریشان ہوئی وہ نہی چاہتی تھی کہ وہ اس راستے کا مسافر بنے جس کی کوئی منزل ہی نہ ہو 

نہی اس کی ضرورت نہی ہے فاریہ اور صوفیہ مجھے لے گئی تھیں ہاسپٹل اور ڈاکٹر نے بینڈج بھی کر دی تھی 

اس نے ان دونوں کو مطمئن کرنا چاہا 

ٹھیک ہے بیٹا جیدے تمہاری مرضی لیکن اگر کسی بھی چیز کی ضرورت پڑے تو بنا جھیجھک یاد کرنا اوکے یہ کہہ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعا دیتے وہ کمرے سے چلے گئے

میں خالہ کے ہاتھ دودھ کا گلاس بھیجتا ہوں وہ پی لینا اوکے اور پاؤں پر وزن نہ ڈالنا 

اسے ہدایت دیتا وہ بھی ایک نظر اسے دیکھ کر چلا گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

شام کے لیے فاریہ نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا اور کیسے اس رشتے سے جان چھڑوانی ہے

وہ جب ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سب اسے دیکھ کرسکتے میں آگئے وہ لگ ہی ایسی رہی تھی

سفید شلوار قمیص پہنے بالوں کی دو چٹیا بناۓ ہاتھ میں چاکلیٹ پکڑے جس کے نشان اس کے منہ اور قمیص پر بھی لگے ہوۓ تھے وہ اس وقت بلکل ایک چھوٹی بچی لگ رہی تھی

اریج بیگم نے ہوش میں آ کر اسے گھورا

ان کے گھورنے کو نظر انداز کرتی وہ لڑکے کی ماں اور بہن کے بیچ جگہ بنا کر بیٹھ گئی 

وہ دونوں تو اسے دیکھ کر پریشان ہو گئیں 

اسے ان کی خالت دیکھ کر مزہ آ رہا تھا اور لڑکے بے چارے کی شکل دیکھ کر تو اس کا قہقہ لگانے کو چاہا لیکن اس نے ضبط کیا قہقہہ لگا کر وہ اپنے کیے پر پانی  نہی پھیر سکتی تھی اس لیے خود پر کنٹرول کیے وہ اپنی نہ ہونے والی ساس اور نند کی طرف متوجہ ہوئی اور ان کو اپنی آدھ کھائی چاکلیٹ کی آفر کی

وہ بھلا کیا کہتیں اس لیے افضال صاحب کے دوست معزرت کر کے چلے گئے 

اریج بیگم تو شرمندگی سے کچھ بول ہی نہ سکیں

ان کے جانے یے بعد افضال صاحب نے کب کا روکا ہوا قہقہہ لگایا 

بیٹا اگر آپ کو یہ رشتہ منظور نہی تھا تو آپ مجھے بتا دیتیں یہ سب کرنے کی کیا ضرورے تھی انہوں نے نرمی سے پوچھا 

بابا ماما نے کہا تھا کہ تم نے کوئی چوں چراں نہی کرنی اس لیے میں نے بلکل بھی چوں نہی کی اب انہیں میں ہی پسند نہی آئی تو اس میں میرا کیا قصور 

لاڈ سے باپ کے گلے کا ہار بنے اس نے خود کو بری و زمہ کیا

اس بات پر دونوں نے قہقہہ لگایا جبکہ ان کے قہقہہ لگانے پر اریج بیگم نے ناراضگی سے منہ پھیر لیا

بابا ماما کو تو آپ نے ناراض کر دیا اب اپ اپنے منانے کا سیشن شروع کریں میں بھی کپڑے چینج کر کے اپبا کارنامہ دوستوں کو بتا دوں انہیں اریج بیگم ہی طرف متوجہ کروا کر وہ خود یہاں سے فرار ہو گئی

خفا خفا سے سرکار نظر آتے ہیں انہوں نے انبکے خفا چہرے کو دیکھ کر کہا

آپ کو میری کوئی فکر ہے جب دیکھو بیٹی کے ساتھ اس کی شرارتوں پر اس کے ساتھ مل کر قہقہے لگاتے ہیں آج اتنا اچھا گھر آیا رشتہ اس نے اپنی بےو قوفی سے گنوا دیا آپ جانتے ہیں آج کل اچھے لڑکے کہاں ملتے ہیں لیکن ایک ہماری بیٹی ہے جو ہر رشتے والے کو بھگا دیتی ہے اور یہ سب آپ کی شے کا نتیجہ ہے میں ماں ہو اس کی اسکا اچھا چاہتی ہوں

ان کے مزاق پر وہ سیریس بولیں

دیکھیں بیگم جوڑے آسمابوں پر بنتے ہیں میری بیٹی کو بھی اس کا جوڑ مل جاۓ گا آپ پریشان نہ ہوں بس ابھی اسے اپنی زندگی جینے دیں یہ رشتے پر بھی اپ کے کہنے پر میں نے ہامی بھری تھی اب جب تک وہ راضی نہی ہو گی کوئی بھی رشتہ نہی آۓ گا اس گھر میں

پر انہوں نے کچھ کہنا چاہا

بس میں نے کہہ دیا

ان کے دو ٹوک انداز پر وہ چپ ہو گئیں

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

کمرے میں آکر اس نے شیشے میں خود کو دیکھا اور پھر خود ہی قہقہا لگا کر ہنس پڑی

اممم ایک کام کرتی ہوں ابھی کپڑے چینچ نہیں کرتی بلکہ ان دونوں کو کانفرنس ویڈیو کال کرتی ہوں اس طرح آہلہ کی خیریت بھی پوچھ لیتی ہوں اور اپنا کارنامہ بھی بتا دیتی ہوں خود سے کہتے اس نے ان دونوں کو ویڈیو کال کی 

یہ بچی کون ہے صوفی مجھے یہ بچی دکھی دکھی لگ رہی ہے 

ہاں یہ تو وہی بچی ہے نہ جس کو ہم نے کل سڑک پر دیکھا تھا جس کی ناک بہہ رہی تھی صوفیہ نے یاد کرنے کی  کوشش کرتے سنبیدگی سے کہا

ان کے اس طرح کہنے پر اس نے منہ بسورا جس پر ان دونوں نے قہقہہ لگایا

ویسے یہ حلیہ کیوں بنایا ہوا ہے کسی فیشن کمپیٹیشن میں پارٹ لیا ہے کیا

نہی آلی جان یہ تو کسی لنگوڑ کو بھگانے کے لیے گیٹ اپ کیا تھا

کس لنگوڑ کو صوفیہ نے پوچھا

پھر اس نے اپنا کارنامہ ان کے گوش گزار کیا 

جسے سن کر ان کی ہنسی نہی رک رہی تھی 

اوہ مائی گاڈ یار تم نے یہ اسے بھگانے کے لیے کیا تھا  صوفیہ نے حیرانگی سے ہنستے پوچھا

ہاں تو اور کیا وہسے اس کی شکل دیکھنے والی تھی اس کی آنکھیں تو ایسے صدمے سے باہر آنے کو تھیں جیسے اس نے لڑکی نہی بلکہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ دیکھ لیا ہو 

عجوبہ تو تم ہو آہلہ نے ہنستے ہوۓ کہا

تمہارہ طبعیت کیسی ہے اب 

ٹھیل ہے میڈیسن لی تھی اور دودھ بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے پیا ہے 

سہی 

چلا اب میں اپنا حلیہ درست کر لوں تم لوگ باتیں کرو 

نہی میں بھی اب سونے لگی ہوں آہلہ نے کہا

چلو پھر گڈ نائٹ صبح بات ہو گی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

یہ منظر کلب کا ہے جہاں لڑکے لڑکیاں اپنے ٹھرکتے وھود کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھے وہیں دوسری طرف کاؤنٹر پر بیٹھا وجود اپنے اندر زہرپر زہر اندیلے جا رہا تھا 

وہ سکول سے اسی وقت اسے وارن کرتا نکلتا چلا گیا تھا رابی کو اس نے کال کر کے بتا دیا 

پہلے  گھر میں آگر پنچگ بیگ پر اپبا غصہ اتارنا چاہا لیکن وہ تھا کہ کم ہی نہی ہو رہا تھا بار بار اس کا تھپڑ مارنا زہن کے پردے پر لہرا جاتا جس سے اس کے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا 

تھک کر وہ کلب چلا گیا جہاں وہ دوستوں کے ساتھ جایا کرتا تھا 

کافی دیر سے وہ کاؤنٹر پر سر جھکاۓ بیٹھا رپا پھر اس نے پیگ بنوا کر اپنے اندر اندیلا لیکن جب اس سے بھی فرق نہ پڑا تو اس نے بوتل کو ہی منہ سے لگا لیا 

یار تو کب سے پیے  جا رہا ہے اب بس بھی کر دے اس کے دوست صارم نے اسے کہا

اس کی بات کو نظر انداز کیے وہ شراب قطرہ قطرہ اپنے  اندر اتارتا آہلہ سے بدلہ لینا کا عزم بنا رہا تھا

صارم بھی جان گیا تھا کہ ضرور کوئی بڑی بات ہے اس لیے وہ اتنہ زیافہ پی رہا ہے پیتا تو وہ روزانہ تھا لیکن اتنی مقدار میں نہی اپنی بات کو نظر انداز جاتا دیکھ کر اس نے بھہی اس سے دوبارہ نہ کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کرنی تو اس نے اپنی ہی اس لیے چپ رہا

اتنے میں ایک لڑکی جو کب سے اسے دیکھ رہی تھی اس کے ہاس آئی اور لاڈ سے اس کی گردن میں باہیں ڈالے اس کی گود میں بیٹھ گئی

عاجل نے کوئی رسپانس نہ دیا جبکہ اس کے دوسرے دوست اس لڑکی کی خوبصورتی کو دیکھ کر اسے گھورنے لگے سواۓ صارم کے وہ شراب تو پیتا تھا لیکن شباب سے دور ہی رہتا تھا

وہ لڑکی جس کا نام شینہ تھا تنگ وائٹ شرٹ جو کہ سلیو لیس تھی جس سے اس کے ددھیا بازو چمک رپے تھے ٹائٹ ہی پینٹ پہنے ہونٹوں کو گہری لال لپسٹک سے رنگے اس وقت اس کی باہوں میں بیٹھی تھی 

اس کا یہ روپ کسی کو بھی بہکانے کے لیے کافی تھا

یو آر سو ہاٹ دئیر شینہ نے اس کی گال پر انگلی پھیرتے کہا

جواباً عاجل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود کے قریب کیا 

لیٹس ڈانس شینہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا 

وہ اٹھ کر اس کے ساتھ لڑکھراتے ہوۓ ڈانس فلور پر آگیا 

اس جے شینہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کرچاسے قرہب کیا اور اسے ساتھ لگاۓ ڈانس کرنے لگا

شینہ نے ڈانس کرتے ہوۓ ہلکے سے اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ مس کیا

عاجل کوئی بھی رسپانس  بغیر اس کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا جب دوستی بار شینہ نے اس لے ہونٹ سے ہونٹ مس کیے تو عاجل نے اس کی کمر پر گرفت کرتے اس کے ہونٹوں کو بے دردی سے اپنی گرفت میں لیا اور اسے اٹھاۓ کمرے میں لے گیا 

اسے بیڈ پر لٹا کر وہ اس پر جھک آیا اور اور پھر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے 

ہونٹوں سے ہوتے وہ گردن پر آیا تو اسے آہلہ کا چہرہ دکھا اس نے اپنے دانت بے دردی سے اس کی گردن میں گاڑ دیے 

اس کے دانت گاڑنے پر وہ جو مد ہوش ہو رہی تھی درد سے کراہی لیکن اس نے کی کراہ کی پرواہ کیے بغیر اس کی گردن پر دانت گاڑھے رکھے 

شینہ نے ہمت کر کے اسے خود پر سے ہٹایا اور اسے گالیوں سے نوازتی کمرے سے چلی گئی

پیچھے وہ غصے سے کھولتا اپنے ہوش کھوتا آہلہ سے بدلہ لینے کا عہد کرتے دنیا و جہاں سے بیگانہ ہو گیا

اگلے دن اس نے کسی کا کال کرکے آہلہ کے بارے میں ساری انفارمیشن نکالنے کو کہا

مجھے اس لڑکی کی ساری انفارمیشن چاہیے اور تمہارے پاس صرف دو گھنٹے کا وقت ہے دو گھنٹے کا مطلب صرف دو گھنٹے ہیں نہ سایک منٹ اس سے اوپر اور نہ نیچے ورنہ اپنی حالت کے زمہ دار تم خود ہو گے اسے وارن کرکے اس نے فون کاٹ دیا

کچھ رات کی شراب اور کچھ غصے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ تھیں

کال بند کر کے وہ پھر سے اپنے اندر اٹھتے غصے کو نکالنے کے لیے ایک روم میں داخل ہوا وہ روم تھا کہ کوئی بڑا ہال 

اس روم کے ایک طرف جم کا ایریا بنایا گیا تھا تو دوسری طرف پینٹنگ کا سامان وغیرہ سلیقے سے پڑا ہوا تھا سارے کمرے میں جابجا پینٹنگز اور سکیچز تھے جو کہ بنانے والی کی محنت کا منہ بولتا ثبوت تھے ان کو دیکھ کر لگتا تھا کپ یہ جیسے کسی ماہر نے بنائی ہوں لیکن یہ کسی ماہر کے نہی بلکہ عاجل کے ہاتھوں کا جادو تھا اس کمرے کو خوبصورت بنانے والی گلاس وال تھی جو کہ کمرے کہ اندر ہی تھی اور اس کے پار خوبصورت سی مصنوعی گھاس اور اس کے درمیان فیارہ جس سے نکلنے والا نیلا پانی آنکھوں کو حیران کر دیتا تھا یہ بھی اسی کمرے میں ہی تھا لیکن  گلاس وال کی وجہ  سے یہ حصہ الگ لگتا تھا 

اس نے کینوس پر سے پردہ اٹھایا 

اب اس کا ہاتھ جلدی جلدی ایک ماہر گاریگر کی طرح کینوس پر چل رہے تھے 

آدھے گھنٹے کے بعد اس نے ہاتھ روک کر دیکھا تو بننے والی تصویر کو دیکھ کر اسے انتہا کا غصہ آیا

کیونکہ وہ تصویر کسی اور کی نہی بلکہ آہلہ کی تھی

اس نے  غصے سے اس کے چہرے پر مکہ مارا جب پھر بھی غصہ کم نہ ہوا تو اس نے اس کی تصویر کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اچھال دیا

اس نے نیچے پڑے ٹکڑوں کو نخوت سے دیکھا اور استزائیہ سا مسکرایہ اور نیچے پنجوں کے بل بیٹھ کر ان ٹکڑوں کا ہاتھ میں لے کر تصور میں آہلہ سے گویا ہوا

تم نے غلط جگہ پنگا لیا ہے میں تو اپنے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے والوں کو نہی بخشا کرتا اور تم نے سیدھا مجھے تھپڑ ہی مار دیا اب دیکھنا کیسے ان ٹکڑوں کہ طرح تمہیں بھی اور تمہاتی زات کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اتنی تمہیں ازیت دوں گا کہ تم پچھتاؤ گی معافی مانگوں گی لیکن تمہیں معافی نہی ملے گی ملے گی تو بس ازیت 

وہ گھنٹے کیسے اس نے انتظار میں گزارے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا

سر لڑکی کا نام آہلہ ہے ماں باپ بچپن میں ہی اس دنیا سے چل بسے اکلوتی ہے اور اپنے تایا کے گھر رہتی ہے وہ ابھی آگے بھہ بتا رہا تھا کہ اس نے اسے روک دیا 

سہی ہے تم ایسا کرو کچھ دن اس پر نظر رکھو کہاں آتی ہے کہاں جاتی ہے کس سے ملتی ہے سب کچھ کچھ سوچ کراس نے اس آدمی سے کہا

ٹھیک ہے سر 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

اس واقع کو دو ہفتے گزر چکے تھے اب آہلہ کا پاؤں بھی ٹھیک ہو گیا تھا اور صوفیہ کی شادی کو بھی ایک ہفتہ رہ گیا تھا 

ایک ہفتہ تو وہ پاؤں کی وجہ سے بیڈ ریسٹ پر تھی لیکن اس کے ٹھیک ہونے پر بھی وہ عاجل کے ڈر کی وجہ سے فاریہ کو شاپنگ کے لیے ٹالتی رہی 

اس کے دل میں عاجل کا خوف بیٹھ گیا تھا اسے ایک ہی ملاقات میں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بگڑا ہوا رئیس زادہ ہے اور اپنے بدلے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرے گا 

آہلہ کو جان سے زیادہ اپنی عزت کی پرواہ تھی اس لیے وہ بار بار فاریہ کو ٹالتی رہی لیکن پھر اس کی طرف سے خاموشی پر اس نے خوش ہو کر سوچا کہ وہ اسے کونسا جانتا تھا اس نے ایوی اس کا خوف دل میں بٹھا لیا اس لیے اس نے آج فاریہ کو شاپنگ کے کیے ہاں کر دی تھی 

اس وقت وہ لوگ مال میں شاپنگ کر رہی تھیں کہ آہلہ کو بار ہا محسوس ہوا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے لیکن پھر ادھر ادھر دیکھنے پر بھی اسے کوئی نہ دکھتا تو وہ اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک دیتی

فاری یہ کوئی دسویں شاپ ہے جس میں ہم لوگ داخل ہو رہے ہیں خدا کا واسطہ ہے کچھ پسند کرلو اپنے لیے بھی اور میرے لیے بھی وہ لوگ دو گھنٹے سے مال میں پھر  رہی تھیں لیکن فاریہ کو کچھ پسند ہی نہی آرہا تھا  

یار اب کوئی پسند ہی نہی آرہا تو کیا کروں 

اس نے ہینگ ہوۓ کپڑوں کو دیکھتے جواب دیا

مجھے کچھ نہی پتا اگر تمہیں اب کچھ بھی پسند نپ آیا تو میں پھر چلی جاؤں گی کیفے کیونکہ مجھ سے تو اب بھوک برداشت نہی ہو رہی

چلو پھر ایسا کرتے ہیں کہ پہلے کیفے چلے جاتے ہیں پھر شاپنگ کرتے ہیں

آہلہ آگے تھی جبکہ فاریہ پیچھے 

فاریہ نے ایک ڈریس ونڈو میں دیکھا تو اسے وہ پسند آیا تھا اسے دیکھنے کے لیے وہ آہلہ کو آواز دے کر دکان کی طرف بڑھی تھی کہ ساتھ والی شاپ سے نکتے ایک لڑکے سے اس کی ٹکڑ ہو گئی

آااااا بلڈوزر سر پھور دیا میرا اپنے سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھ کر اس نے اسے غصے سے کہا

تو بھنڈی تم بھی کھا کر کچھ موٹی ہو جاتی کم ازکم آج بچت ہو جاتی اس لڑکے نے بھی اس کے جسم کو کی طرف اشارہ کر کے کہا

یو فاریہ نے انگلی اٹھا کر کچھ کہنا چاہا کہ وہ اس کی انگلی کو اپنی شہادت کی انگلی سے لاک کیے شرارت سے بولا

خوبصورت ہوں نہ 

ہوں خوبصورت نہی بلکہ بہت بہت بہت بد صورت ہو فاریہ نے اپنی انگلی اس کی انگلی سے نکالتے کہا

جانتا ہوں ویسے تو تم میری باڈی سے ایمپریس ہو گئی ہو یہ تو بس ایسے ہی کہہ رہی ہو اس لڑکے نے اپنے باڈی جو کہ ایکسرسائز یا پھر سخت ٹرینگ کی وجہ سے بلکل کسی باڈی بلڈر کی طرح لگتی تھی کی طرف اشارہ کر کے  اس کو چڑایا

ہوں جتنے  تم موٹے ہو تمہیں تو کوئی لڑکی ہی نہ دے آۓ بڑے باڈی والے تماری جسامت دیکھ کر تو کوئی تمہیں بھینس ہی دے سکتا ہے لڑکی نہی فاریہ کیسے چپ رہ لیتی اس لیے اس نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا

آہلہ بے چاری تو کافی دیر سے اسے کھینچ رہی تھی لیکن فاریہ تھی کہ نہ تو اس کے ساتھ جا رہی تھی اور نہ ہی چپ کر رہی تھی آتے جاتے لوگ انہیں دیکھ رہے تھے

ایک آدمی جو ان کو لڑتا ہوا دیکھ رہا تھا ان کے پاس آیا

اینی پرابلم میم کیا یہ مسٹر آپکو تنگ کر رہے ہیں اس آدمی نے اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیا 

اس آدمی کے کہنے پر فاریہ کو شرارت سوجھی

لڑکے کے بولنے سے پہلے ہی فاریہ بول پڑی 

جہ یہ لڑکا جان بوجھ کر مجھ سے ٹکڑایا اور پھر مجھ سے بد تمیزی کرنے لگا  فاریہ نے مظلوم بنتے اس آدمی سے کہا

اوۓ کیوں تنگ کر رہے ہو لڑکی کو تمہارے گھر میں ماں بہن نہی ہے کیا ابھی ایک دوں گا تو ساری جوانی ہوا کی طرح باہر نکل آۓ گی اس آدمی نے جوش سے کہا

اس کے اس طرح سفید جھوٹ بولنے پر وہ لڑکا تو فاریہ کو دل میں میسنی اور جھوٹی کے لقب سے نوازتے اس آدمی کی طرف متوجہ ہوا

ایسی کوئی بات نہی ہے یہ لڑکی میری کزن ہے اور تھوڑی سی پاگل ہے 

اس نے جھوٹ بولا اور پاگل کہہ کر اپنی طرف سے بدلہ لیا

نہی یہ جھوٹ بول رہا ہے میں اس کی کوئی کزن وزن نہی ہوں

میں نے بتایا نہ آپکو کہ یہ تھوڑی سی پاگل ہیں اور ساتھ جھوٹ بھی کافی بولتی ہیں اس لیے آپ ان کی بات پر دھیان مت دیں

آہلہ بے چاری پریشان سی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جو معاملہ ختم کرنے کی بجاۓ بڑھا رہے تھے اسے ڈر لگ رہا تھا کپ کہیں کچھ غلط نہ ہو جاۓ

خود کو پاگل کہنے پر فاریہ تو تلملا کر رہ گئی

یہ جھوٹ ابھی فاریہ آگے کچھ کہتی کہ ایک عورت اس آدمی سے مخاطب ہوئی اور تیز لہجے میں بولی

آپ یہاں کیا کر رہے ہیں میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں پکڑیں اپنے اس سپوت کو تنک کر رکھا ہے ایک آپ اور آپ کے اس سپوت نے اس عورت نے چھوٹا بچہ اس آدمی کو پکڑایا

وہ لڑکا سمجھ گیا کہ یہ بیوی سے دب کر رہنے والا ہے 

مس آپ ان کی کیا لگتی ہیں اس لڑکے نے پوچھا 

جی بیوی ہوں

اوو ویسے بڑا افسوس ہوا مجھے آپ جیسی اتنی خوبصورت بیوی ہونے کے باوجود آپ کے یہ میاں اس لڑکی کو چھیڑ رہے تھے میں نے پوچھا کہ کیوں چھیڑ رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہیں کیا ہے تم اپنا کام کرو اس نے بڑی چالاکی سے جھوٹ بولا

اس کی اس چالاکی پر آہلہ اور فاریہ تو منہ کھولے اسے تک رہی تھیں جو اب بڑے مزے سے اس آدمی کو ڈرے اور بھیگی بلی بنے دیکھ رہا تھا جو تھوڑی دیر پہلے ایک لگا کر اسکی ساری جوانی نکالنے کی دھمکی دے رہا تھا اب اس کی شکل دیکھنے والی تھی جو صدمے سے کبھی اسے اور کبھی اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا

چلو آج تم گھر تمہاری ساری مستی میں آج نکالتی ہوں وہ عورت اسے آنکھیں دکھاتی  دھمکی دیتی ساتھ لے گئی اور وہ بے چارہ ناچار اپنی بیوی کے پیچھے چلا گیا

چچچچ اچھا شہری تھا اس لڑکے نے اس آدمی کی پیٹھ دیکھتے کہا

تم تم میں زرا بھی شرم نہی ہے جو دو میاں بیوی میں پھوٹ ڈال دی شیطان فاریہ نے چلا کر صدمے سے کہا

اس میں شرم والی کیا بات ہے جب اس کی بیوی کو ہی اس پر یقین نہی تھا اس نے فاریہ کی بات کو ہوا میں اڑایا 

تم بہت ہی بڑے فسادی ہو دفع ہو فاریہ اسے سائڈ کرتی آہلہ کو لے کر فوڈ کارنر چلی گئی

ان کے چانے کے بعد کچھ دور کھڑے ادمی نے کسی کو فون ملایا

جی سر میم مال میں آئی ہیں اور پتا کرنے پر معلوم پڑا ہے کہ ان کی کسی دوست کی شادی ہے ایک ہفتے بعد اس آدمی نے دوسری طرف موجود شخص کو بتایا

ٹھیک ہے جی سر اوکے 

فون کان سے ہٹا کر وہ شخص بھی فود کارنر کی طرف ان کے پیچھے چلا گیا 

فون بند  کرکے وہ تصور میں اس سے مخاطب تھا

کر کر لو مزے ایک اور ہفتہ لے لو کچھ دن اور کھلی ہوا میں سانسیں کیونکہ اس کے بعد یہی سانسیں میں تم پر تنگ کر دوں گا بس یہی سمجھ لو تم کہ جس طرح قربانی سے پہلے جانور کو کھلایا پلایا جاتا ہے اسی طرح میں نے یہ چبد دن تمہیں خوش رہنے کے لیے دان کیےکیونکہ  اس کے بعد پھر تم ان خوشیوں کے لیے ترسو گی جسٹ ویٹ اینڈ واچ

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

کیا ضرورت تھی تمہیں اس لڑکے سے بحث کرنے کی نہ تم اس سے بحث کرتی نہ وہ آدمی وہاں آتا اور نہ وہ لڑکا اس کی بیوی سے ایسا کچھ کہتا مجھے تو اس آدمی کے لیے برا لگ رہا ہے وہ بے چارہ تو مدد کے لیے آیا تھا اسے کیا پتا تھا کہ وہ تمہاری مدد کر کے اپنے پاؤں پر کلہاری مار رہا ہے آہلہ نے اس کے ساتھ چلتے اسے کہا

اس بدتمیز کا تو زکر ہی مت کرو ایک نمبر کا فسادی انسان تھا مجھے تو لگتا ہے کہ شیطان بھی اسی سے ٹپس لیتا ہو گا فساد ڈالنے کے لیے اور برا تو مجھے بھی لگا تھا اس آدمی کے لیے 

ویٹر کے آنے پر وہ چپ ہو گئیں

اس بات پر مٹی ڈالو تم یہ بتاؤ کہ آج تو کافی دیر ہو گئی ہے اور لیا ہم نے کچھ بھی نہی ہے تو پھر کل کا پھر پلان بنا لیتے ہیں فاریہ نے ویٹر کے جانے کے بعد کہا

نہ بابا نہ مجھے تو تم معاف ہی رکھو میری توبہ جو میں کل تمہارے ساتھ آؤں اور تمہیں پتا بھی ہے کہ ساری شاپنگ جس طرح تم کرتی ہو ایک ہفتے میں تو ہونے سے رہی اس لیے جو بھی لینا ہے وہ ہم لوگ آج ہی لے کر جائیں گی اس لیے خدا کا واسطہ ہے صرف ڈریسز کو گھورنا مت پسند بھی کرنا آہلہ نے باقاعدہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا 

وہ اس کے ساتھ چل چل کر تھک گئی تھی 

اچھا ٹھیک ہے 

اتنے میں ویٹر ان کا آرڈر لے کر آگیا

آتے ہوۓ ایک ڈریس مجھے پسند آیا تھا میں وہی لینے اسی شاپ پر جا رہی تھی کہ وہ بدتمیز ٹکڑا گیا اور پھر اس سب میں میں بھول گئی

شکر ہے تمہیں کچھ پسند تو آیا یہاں سے سیدھا وہیں چلیں گے آہلہ نے جوس کا سپ لیتے کہا 

آہلہ کو بھی وہ ڈریس بہت پسند آیا تھا جامنی کلر کی فراک جس کے دامن پر بلیک کلر کا خوبصورت کام کیا گیا تھا 

آہلہ اور فاریہ دونوں نے اپنے لیے سیم لیا تھا وہ ڈریس۔

سارا کچھ لینے کے باوجود کچھ چیزیں ابھی بھی رہ گئی تھیں لیکن ٹائم کافی ہو گیا تھا اس لیے وہ پرسوں پھر چکر لگانے کا ارادہ کرتے گھر چلی گئیں

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

بیٹا شادی کو ایک ہفتہ رہ گیا ہے لیکن اور صوفیہ کا شادی کا جوڑا ابھی رہتا ہے دادی نے صوفیہ کی امی کو کہا

جی اماں کہتی ہوں آج طلحہ سے کہ صوفیہ کو ساتھ لے جا کر اس  کی پسند کا جوڑا اسے دلاۓ سو ارمان ہوتے ہیں لڑکی کے جواب بانو بیگم نے دیا

وہ سب اس وقت صوفیہ کے کپڑے جو کہ کچھ بری کے تھے اور کچھ شادی کے بعد دعوتوں کے لیے تھے وہ ہینگ کر رہی تھیں

طلحہ بیٹے اپ بزی تو نہی مجھے آپ سے بات کرنی ہے  بانو بیگم اس کے لیے دودھ لے کر آئی تھیں 

جی امی میں فری ہوں آپ بیٹھیے اس نے لیپ ٹاپ بند کر کے انہیں بیڈ پر ہاتھ پکڑ کر بٹھایا اور خود ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا

بیٹا آپ کل صوفیہ کو شاپنگ پر لے جاؤ اسے اس کی پسند کا جوڑا دلوا دو انہوں نے اس کے سر میں انگلیاں چلاتے کہا

ماما میرا ساتھ جانا ضروری ہے کیا 

ان کے گھورنے پر وہ جلدی سے بولا

نہی میرا مطلب ہے کہ مجھے تو کوئی آئیڈیا نہی ہے کپڑوں کا تو میں کیسے اس کی ہیلپ کروں گا 

بیٹا میں نہی جانتی کہ تم کیوں اس سے کچھے کچھے رہنے لگے تھے ورنہ پہلے تو تم دونوں کی دوستی تھی تم اس کے لاڈ اٹھایا کرتے تھے اس کے ساتھ شاپنگ پر جایا کرتے تھے تب تو تمہیں پتا تھا کپڑوں کاطتو اب کیوں نہی کیا کوئی بات ہوئی ہے تم دونوں میں انہوں نے کھوجتی نظروں سے اسے دیکھا

کیونکہ وہ کافی عرصے سے اس کا کھچا کھچا رویہ اس سے دیکھ چکی تھیں

نہی ماما اس نے ٹالنا چاہا

بیٹا اگر کوئی بات ہے تمہارے زہن میں تو تم مجھ سے شئیر کر سکتے ہو 

ماما صبا کی ڈیتھ کے بعد صوفیہ نے مجھے میسج بھیجا تھا جس میں اس نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا ماما میں نے تو اسے ہمیشہ سے ہی چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کیا تھا پھر وہ میرے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتی تھی  اس نے سر جھکا بتایا

بیٹا اس نے صبا کے ہوتے تو تم سے ایسی کوئی بات نہی کہ تھی نہ اور پھر آپ اس سے اتنی محبت کرتے تھے اس کے سارے کام خود کیا کرتے تھے اس طرح تو اسے اپ سے محبت ہونی ہی تھی اور پھر وہ اپکی سگی بہن تو نہی تھی

لیکن امی 

لیکن ویکن کچھ نہی طلحہ وہ تمہاری کزن ہے بہن نہی تم دونوں کے درمیان یہ رشتہ بن سکتا ہے اور اب بننے بھہ جا رہا ہے اس لیے خود کو اس رشتے کے لیے سمجھا لو نکاح تو تم دونوں کا ہو چکا ہے اس لیے اس رشتے کو آگے بڑھانے کے لیے تمہیں یہ سوچ اپنے زہن سے نکالنی ہو گی بیٹا وہ بہت اچھی ہے اور پھر آپ اس کی ہر اچھی بری عادت کے بارے میں بھی جانتے ہو آپ دونوں کی انڈرسٹینڈنگ بھی ہے انہوں نے اسے نرمی سے سمجھایا

یہ دودھ پڑا ہے یاد سے پی لینا اور کل اسے شاپنگ پر بھی لے جانا اور جو میں نے سمجھایا ہے اسے بھی سوچنا اسے ہدایت دے کر وہ چلی گئیں جبکہ وہ ان کے جانے کے بعد صوفیہ کے بارے میں سوچنے لگا ایک بیوی کی حیثیت سے

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

اگلے دن وہ اسے شاپنگ پر لے جانے کے لیے اسے اس کے کمرے میں بلانے آیا 

وہ شائد نہا کر نکلی تھی اس لیے اسکے بال کمر پر بکھرے ہوۓ تھے گیلے بالوں کی وجہ سے اس کی قمیص لی بیک سائڈ بھی گیلی ہو گئی تھی اور کپڑا بلکل چپکا ہوا تھا وہاں سے 

وپ بنا نال کیے اندر آیا تو اس کی نظر سیدھا اس کی کمر پر گئ 

سوچ بدلی تھی تو نظریں بھی خود بخود بدل گئی تھیں

اور کچھ بانو بیگم کے سمجگانے کا بھک اثر تھا

صوفیہ جو آرام سے بال آگے کیے ڈرائیر سے سکھا رہی تھی خود پر نظروں کی تپش سے مڑی لیکن اس کو خود کی طرف دیکھتے ڈوپٹے کے بغیر ہوتے شرم سے سر جھکا گئی

آج اسے اس کی آنکھوں میں استحاق دکھا تھا کہ وہ پل بھر میں سرخ ہوتی نظریں جھکا دیں

اس کی اتنی بھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ ڈوپٹہ ہی اٹھا لے 

وہ قدم قدم چلتا اس کے روبرو آیا اس کا رخ آئینے کہ طرف کر کے اس کے ہاتھ سے ڈرائیر لے کر خود اس کے بال سکھانے لگا 

صوفیہ نظریں نیچے کیے کھڑی تھی 

طلحہ نے ڈرائیر اس کی کمر پر کیا تو وہ کپکپا اٹھی ڈرائیر کی گرم ہوا اور اس کی آنکھوں میں استحاق سے اس کی ہتھیلیاں نم ہو گئیں

بال سکھا کر اس نے بال اس کی کمر پر پھلاۓ اس کے سر پر بوسہ دیتا اسے باہر آنے کا کہتا چلا گیا

اس کے جانے پر اس نے کب کی روکی ہوئی سانس بحال کی اور اپنے گالوں پر آئی لالی کو مٹانے کے لیے اس نے اپنے گال تھپتپاۓ 

گھر والوں سے اجازت لے کر وہ مال میں آگئے 

شاپ کیپر ڈریس دکھا رہا تھا لیکن وہ چپ چاپ کھڑی تھی آج اسے طلحہ بدلہ بدلہ سا لگ رہا تھا اس کا ہاتھ بھی طلحہ کے ہاتھ میں تھا

میم یہ ڈریس دیکھیں یہ نیو آیا ہے سیل گرل نے بلڈ ریڈ کلر کا لہنگا انہیں دکھایا 

صوفیہ نے بھی ستائشی انداز میں لہنگے کو دیکھا

طلحہ نے لہنگے کا ڈوپٹہ صوفیہ کو اوڑھایا تو وہ سب کے درمیان اس کے اس طرح کرنے پر لال ہوتی سر جھکا گئی

اس کے لیے طلحہ کا یہ روپ نیا تھا اس کے لیے اس کا یہ روپ جتنا شاکنگ تھا اتنا ہی خوشگوار بھی

اس کے جھکے ہوۓ سر کو دیکھ کر اس نے سیل گرل کو لہنگا پیک کرنے کو کہا 

جیولری اور سینڈل لے کر وہ اسے فوڈ کارنر لے گیا تھا

تمہیں کیسا لگا ڈریس اس نے صوفیہ سے پوچھا 

پیارا تھا وہ نظریں نیچے کیے ہی بولی

آپ تو مجھ سے پیار نہی کرتے تو پھر یہ سب اس کا اشارہ صبح کے اور اب کے واقعی کی طرف تھا

کیونکہ تم میری کزن ہو اور منکوحہ بھی اس لیے 

یعنی آپ کو مجھ سے محبت نہی بس آپ اس رشتے کے لیے ایسا کر رہے ہیں اس نے مایوسی سے کہا

چلو چلیں کافی دیر ہو گئی ہے اس کی بات کو نظر انداز کیے اس نے سرد لہجے میں کہا

اس کے سرد پن پر وہ بھی مایوسی سے اٹھ گئی اسے لگا تھا کہ شائد وہ اس سے محبت میں ایسا کر رہا ہے لیکن اس نے اس کی یہ امید بھی توڑ دی تھی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ہے بات سنو تم نے فرہاد کو دیکھا ہے اس نے ایک لڑکے سے پوچھا 

آپ فادی بھائی کی بات کر رہی ہیں اس نے اس لڑکی کو  صدمے سے دیکھا جو پینٹ شرٹ پہنے گلے میں مفلر ڈالے ہائی پونی ٹیل کیے ایک کندھے پر بیگ ڈالے اس سے یونیورسٹی کے ڈان کا پوچھ رہی تھی

آپ پکا فادی بھائی کا ہی پوچھ رہی ہیں نہ اس لڑکے نے کنفرم کرنا چاہا کیونکہ اسے یہ لڑکی اچھے گھر کی لگی تھی 

اب کیا سٹیمپ پیپر پر لکھ کر دوں اس نے ناگواری سے کہا

نہی وہ فادی بھائی ایک لڑکے کی پٹائی کر رہے ہیں وہاں اس نے گراؤنڈ کی طرف اشارہ کیا

انہیں شکریہ کہتی وہ گراؤنڈ میں آئی جہاں وہ ایک لڑکے کی درگت بنانے میں مصروف تھا

رف سا حلیہ گلے میں چین ڈالے کلائی میں مختلف رنگ کے بینڈز باندھے وہ اس کہ ایک ہارٹ بیٹ تیز کر گیا تھا

اس کی پٹائی کیوں کر رہے ہو اس نے اس کے پاس جاکر بے تکلفی سے پوچھا  جیسے وہ اسکا اچھا دوست ہو

تم پھر آگئی کتنی دفع کہا ہے مت اپنا یہ تھوبڑا دکھایا کرو لیکن تم بھی ڈھیٹ ہڈی ہو بابار بے عزتی کروانے آجاتی ہو اس نے اس لڑکے کو چھوڑتے کہا

اتنی اچھی اور پیاری شکل کو اب تھوبڑا تو مت بولو 

میری مرضی میں جو بھی بولوں اس نے انتہائی روکھے انداز میں کہا

تمہارا یہ روکھا پن ہی تو میرا دل لے گیا اس نے آبکھ دباتے کہا

وہ اس کی بات کو نظر انداز کیے وہاں سے چلا گیا 

وہ بھی تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے ساتھ چل رہی تھی

تم بعض نہی آؤ گی اس نے رک کر تیورہ چڑھا کر پوچھا

نہی تم نے ہی تو کہا کہ میں ڈھیٹ ہڈی ہوں اس نے نارمل انداز میں کہا

تم جانتی بھی ہو میرے بارے میں ایک غنڈہ ہوں میں کوئی فلم یا ڈرامے کا ہیرو نہی جس کے پیچھے ہی تم پڑ گئی ہو جاؤ اپنے لیے کوئی اپنے جیسا ڈھونڈو بی بی مجھے تم میں کوئی انٹرسٹ نہی ہے 

اس نے اس کا بازو دبوچتے کہا

مجھے اس سے نہ فرق پڑتا ہے اور نہ پڑے گا کہ تم کون ہو مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ مجھے ساری زندگی تمہارے ساتھ تمہاری ہمسفری میں گزارنی ہے

اس نے درد کو برداشت کرتے مضبوط لہجے میں کہا

ایسا کبھی نہی ہوگا کبھی بھی نہی اس نے اس کا بازو چھوڑ کر چلاتے ہوے کہا اور اسے وہیں چھوڑے چلا گیا

ایسا ہو گا ضرور ہوگا فرہاد اس نے اپنی آنکھوں کی نمی کو پیچھے دھکیلتے چلاتے ہوۓ کہا کہ اس کی آواز اس تک پہنچ جاۓ

آج صوفیہ کی مہند ی تھی فاریہ آہلہ اور شہروز دوپہر میں ہی آگئے تھے ۔

صوفیہ کو بیوٹیشن مہندی کے فنکش کے لیے تیار کر رہی تھی جبکہ آہلہ صوفیہ اور ماہپارہ خود ہی تیار ہو رہی تھیں صوفیہ نے پیلے رنگ کے گرارے کے اوپر شارٹ پنگ کلر کی قمیص پہنی ہوئی تھی ۔پھولوں کا زیور پہنے وہ شہزادی لگ رہی تھی لیکن اس کے انداز میں سوگواریت تھی جو اس کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی 

آہلہ اور صوفیہ نے ییلو کلر کی فراک پر پنک ڈوپٹہ اوڑھا ہوا تھا آہلہ نے  ییلو کلر کا ہی حجاب لیا تھا جبکہ صوفیہ نے  بالوں کی چٹیا بناۓ اس میں موتیے کے پھولوں سے سجاوٹ کیے وہ بھی بہت پیارہ لگ رہی تھی جبکہ ماہپارہ نے ملٹی کلر کا لہنگا چولی پہنا ہوا تھا اور بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا یہ تینوں اسی کے کمرے میں تیار ہو رہی تھیں جبکہ باقی کی لڑکیاں دوسرے کمرے میں

مہندی کے فنکشن کا لان میں ہی انتظام کیا گیا تھا  

مصنوعی چھوٹے چھوٹے پودوں پر لائٹنگ کی گئی تھی ۔

ماشاء اللہ میری بہو تو چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے بانو بیگم نے کمرے میں داخل ہو کر صوفیہ کی نظر اتار کر اسکی پیشانی چومی ان کی تعریف پر اس کے دل میں آیا کہ کاش وہ بھی اس کی تعریف کرے جس کے لیے وہ اتنا سجی ہے

اس کی پیشانی پر بانو بیگم نے بوسہ دے کر انہیں جلدی جلدی اپنی تیاری ختم کر کے باہر آنے کا حکم دیا کیونکہ ان لڑکیوں کی تیاری میں ویسے ہی کافی دیر ہو گئی تھی 

ان کے کہنے پر سب اپنا اپنا ہاتھ جلدی چلانے لگیں 

آہلہ سب سے پہلے تیار ہو گئی تھی اس لیے وہ باہر چلی گئی کہ اگر کوئی کام ہو تو وہ کروا دے 

دادی کوئی کام ہے تو مجھے بتائیں اس نے دادی سے کہا

اس کے میٹھے اور نرم لہجے ہر تو دادی صدقے واری ہوئیں انہیں یہ لڑکی بڑی پیاری لگی تھی

نہ میری دھی کوئی کام نہی ہے تو ادھر آ میرے پاس بیٹھ انہوں نے اسے اپنے پاس پلنگ پر بلایا تو وہ ان کے پاس بیٹھ گئی انہوں نے اس کی پیشانی چومی اور اس پر سے پیسے وار کر پاس کھڑی ملازمہ کو دیے 

ان کے اتنے پیار پر اس کی آنکھیں نم ہوئیں یہ لوگ غیر ہو کر اس سے اتنا کر رہے تھے وہ جب یہاں آئی تھی تو نروس تھی کیونکہ وہ کبھی آئی نہی تھی یہاں لیکن ان سب کے پیار اور خلوص نے اس کی جھیجھک کو کم کر دیا وہ بلکل اسے بیٹی کی طرح ٹریٹ کر رہے تھے 

کیا ہوا دھی انہوں نے اسے آنکھ سے نکلا آنسو صاف کرتے دیکھ لیا تھا اس لیے پریشانی سے پوچھا

کچھ نہی دادی وہ بس آپ کے اتنے پیار پر آنکھیں بھیگ گئی تھیں اس نے مسکرا کر وجہ بتائی

تو وہ بھی مسکرائیں اور  پھر سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا

انہیں صوفیہ نے آہلہ کے بارے میں بتا دیا تھا انہیں افسوس ہوا تھا سن کر لیکن اس بچی کو سامنے دیکھ کر اس کے لہجے کو دیکھ کر انہیں ان لوگوں پر غصہ  آیا تھا جنہوں نے اس پھول جیسی بچی کو اتنے دکھ اور تکلیفیں دیں تھیں

اماں جی وہ طلحہ کا سوٹ نہی مل رہا بانو بیگم نے پریشانی سے کمرے میں داخل ہوتے کہا

وہ میری الماری میں پڑا ہے 

آہلہ بیٹا یہ تم طلحہ کو دے آؤ تب تک میں تمہارے انکل کو دیکھ لوں انہوں نے اجمل صاحب کی آواز پر سوٹ آہلہ کو پکڑاتے کہا

اس نے دروازہ ناک کیا تو شہروز نے دروازہ کھولا 

وہ جو بے زاری سے دروازہ کھولنے کے لیے اٹھا تھا سامنے اسے دیکھ کر اس کی بے زاری کہیں دور چلی گئی تھی وہ اسے دیکھ کر مسمرائز ہو گیا تھا اس نے کبھی بھی اسے اتنا تیار ہوۓ نہی دیکھا تھا 

اسے سامنے ایستادہ کھڑے دیکھ کر اسنے طلحہ کا سوٹ آگے بڑھایا لیکن وہ تو یہاں تھا ہی نہی ہوش میں تو تب آیا جب طلحہ نے اسے دھکا دے کر شکریہ کہہ کر آہلہ سے سوٹ لیا وہ بھی مسکرا کر کوئی بات نہی کہتی چلی گئی

دروازہ بند کر کے اب وہ شہروز کو دیکھے جا رہا تھا جو حجل سا ہوتا اب اپنے کان کھجا رہا تھا

یار ایسے تو نہ دیکھو 

کیوں 

مجھے شرم آ رہی ہے اس نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے کہا

اچھا جی تو میرے دیکھنے سے شرم آ رہی ہے تب تو شرم نہی آئی جب اسے لوفروں کی طرح گھورے جا رہے تھے 

یار میں اسے گھور نہی رہا تھا بلکہ پیار سے دہکھ رہا تھا کیا کروں جب بھی وہ میرے سامنے آتی ہے تو میری نظریں اس پر ٹھہر سی جاتی ہیں میری آنکھوں کو وہ بھا گئی ہے اسی لیے تو یہ آنکھیں بھی اسے دیکھ کر نظریں ہٹانا بھول جاتی ہیں 

اگر اتنا ہی بے بس ہو گئے ہو کہ اسے دیکھ کر تمہاری نظریں اس پر سے نہی ہٹتیں تو میرے بھائی اسے اپنے دل کی بات بتاؤ اور گھر والوں سے بات کر کے پاک رشتے میں بندھ جاؤ 

ہمم اس نے صرف ہنکار بھرا وہ اسے کیا بتاتا کہ اس کے کیا فیملی ٹرمز چل رہے ہیں اور رفعت بیگم بھی آسانی سے نہی مانیں گی لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جلد ہی اسے اپنی فیلنگز کے بارے میں بتا دے گا اور پھر ساجد صاحب سے بات کرے گا اسے پورا یقین تھا کہ وہ ضرور رفعت بیگم کو منا لیں گے

اوۓ کدھر کھو گئے جلدی سے تیار ہو پھر باہر بھی جانا ہے اس نے اسے خیالوں میں گم دیکھ کر اس کا کندھا ہلایا کندھا ہلانے پر وہ بھی ہوش میں آتا کپڑے لیے واش روم چلا گیا

بھائی آپ دونوں جلدی کریں نہیں تو ابا جی نے جوتا لے کر آجانا ہے علی نے کمرے میں جھانک کر ہانک لگائی

ہاں ہو گئے بس چلو طلحہ نے گھڑی پہنتے کہا پھر وہ تینوں لان میں آگئے

طلحہ شہروز اور علی سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ صوفیہ کو پیلے رنگ کے ڈوپٹے کے ساۓ کے نیچے آتا دیکھ کر اپنی جگہ منجمد ہو گیا وہ یک تک اسے ہی دیکھ رہا تھا جو پھولوں کے زیور میں خود بھی کوئی پھول ہی لگ رہی تھی دیکھ تو علی بھی صوفیہ کے ساتھ آتی لڑکی کو رہا تھا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہی آ رہا تھا کہ جس لڑکی نے اس کی نیندیں اڑا دی تھیں وہ اس کے سامنے موجود ہے اس نے خود کو یقین دلانے کے لیے اپنی آنکھوں کو مسلا اور سامنے دیکھا تو وہ وہی تھی اس کا دل خوشی سے جھوم اٹھا

آہلہ اور فاریہ اسے سٹیج کے پاس لائیں طلحہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اوپر چڑھایا جس ہر سب ینگ جنریشن نے ہوٹنگ کی لیکن وہ ہوٹنگ کو نظر انداز کیے اس نے اسے پھولوں سے سجے جھولے پر بٹھایا اور پھر خود بھی ساتھ بیٹھ گیا

صوفیہ کو اوپر چڑھا کر وہ مڑی تھی کہ یکدم کسی کے سامنے آنے سے وہ اچلھی لیکن جیسے ہی سر اٹھا کر دیکھا تو وہ چکرا کر رہ گئی یعنی وہ فسادی اس کا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گیا تھا

فسادی انسان شیطان کے چیلے کتنے لوفر اور بدتنیز ہو تم میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے اب پہنچ ہی گئے ہو تو دیکھنا میں تمہارا کیا حال کرواتی ہوں اس دن تو بچ گئے تھے تم 

اسے یہاں دیکھ کر تو آہلہ بھی حیران تھی 

چلیے پھر آپ یہ شوق بھی اپنا پورا کر لیں وہ اس نے اس کی طرف مسکرا کر کہا

اس کے مسکرانے پر تو وہ جل گئ

شہروز جو ان سے کچھ فاصلے پر ہی اپنے کسی دوست سے باتیں کر رہا تھا کہ فاریہ کی آواز پر دوستوں سے ایسکیوز کرتا ان کی طرف آیا

جی بہنا 

شہروز بھائی یہ لوفر انسان میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آگیا ہے اس دن بھی مال میں اس نے مجھے  چھیڑا اور جھوٹی اور پاگل بھی کہا اور اب بھی یہ یہاں آ گیا ہے 

شیور بہنا کہ اس نے ہی آپ کو چھیڑا تھا اس دن کیونکہ یہ تو شریف آدمی ہے 

کیا مطلب ہے آپکی اس بات کا کہ مجھے نظر نہی آتا

اور آپ اس کہ سائڈ کیوں لے رہے ہیں جیسے یہ آپ کے چاچے کا پتر ہو اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح کہا

بہنا یہ میرے چاچے کا تو نہی لیکن جس کی شادی آپ دونوں کھانے آئی ہو اس کے چاچے جا پتر ضرور ہے اس نے ہنستے ہوۓ ان کی معلومات میں اضافہ کیا

کیییا فاریہ تو صدمے میں ہی چلی گئی

وہ جب سے آئی تھی اس نے اسے نہی دیکھا تھا وہ بھی کام کے سلسلے میں سارا دن باہر ہی رہا تھا اس لیے اس نے بھی اسے دیکھا نہ تھا

جی میں آپکی دوست کا کزن بردر ہوں اور آپکو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی میں تو ایک شریف شہری ہوں اگر آپ کو اس بات کی کسی سے تصدیق بھی کروانی ہے تو آپ کروا سکتی ہیں علی نے شریف پن سے کہا

جی ہو سکتا ہے فاریہ نے بھی مصنوعی مسکراہٹ سے کہا 

وہ شہروز کے سامنے برا بن کر اسے اچھا ثابت نہی کرنا چاہتی تھی اس لیے اس نے بات کو ختم کرنے کو ہی بہتر جانا لیکن وہ اس سے بعد میں بدلہ لینے کا ارادہ ضرور رکھتی تھی 

اس کے مسکرانے ہر وہ بھی اسے آنکھ مارتا شہروز کے ساتھ سٹیج پر چلا گیا جہاں بڑے سب رسم کر رہے تھے 

اس کے آنکھ مارنے پر وہ جلتی کڑھتی اس پر دو لفظ لعنت بھیج کر صوفیہ کے پاس چلی گئی

بڑوں کے رسم کرنے کے بعد چھوٹوں نے بھی رسم کی پھر کھانے دور چلا اور اس طرح رات کے دو بجے مہندی کا فنکشن ختم ہوا 

قریبی رشتہ دار تو گھر چلے گئے تھے جو دور کے تھے وہ آج رات یہیں رکنے والے تھے اب ان سب کا ارادہ اس رات کو اور یادگار بنانے کا تھا اس لیے ساری ینگ جنریشن لان میں ہی گدوں پر اپنی اپنی جگہ سنمبھال کر بیٹھ گئے

علی نے مائک سنمبھالا 

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج ہمارے پیارے بھائی اور پیاری سی بہنا کی مہندی تھی اور ہم اس رات کو یادگار بنانے کے لیے ایک کمپیٹیشن کرنا چاہتے ہیں ٹپوں کا اس لیے دو ٹیمز بنیں گی ایک دلہن والوں کی اور ایک دلہے والوں کی اس لیے جو دلہے کی سائڈ پر ہیں وہ رائٹ سائڈ پر جبکہ دلہن والے لیفٹ سائڈ پر براجمان ہو جائیں

اس طرح طلحہ کی طرف علی شہروز سعد  رضا فرمان حماد تھے جبکہ صوفیہ کی طرف سعد کی بیوی عزہ ماہپارہ آہلہ فاریہ حیدر اور مہوش تھیں

چلیں جی شروع کریں 

آسمانی ست تارے ،آسنانی ست تارے 

اساں کری اور او لینی جیری لہنگے وچوں لت مارے فرمان کے ٹپے پر لڑکوں نے ہوٹنگ کی

آسنانی ست تارے آسمانی ست تارے 

اساں منڈا او لینا جیرا سہرے چوں اکھ مارے

ماہپارہ نے بھی جوابی کاروائی کی

چھلا میرا جی ڈھولا

کوئی کوٹھے اتےبوٹی اے

لوکاں دے ویاپ ہو گئے

ساڈی منگنی وپی اوکھی اے

علی کی دہائی پر سب لڑکیوں نے قہقہہ لگایا

چھلا میرا جی ڈھولا 

کوئی تندوری تائی ہوئی اے

اک ماہی اونج کوجا

اوتو بوتھی بنائی ہوئی اے

فاریہ نے ٹپہ بولا

کوئی کپڑا سیتا ای

کوئی کپڑا سیتا ای 

سچ دس وے ماہیا

کدی یاد وی کیتا ای

یہ سعد نے عزہ کو دیکھ کر بولا جس پر سب نے ہوٹنگ کی

آلو مٹر پکاۓ ہوۓ نے ،آلو مٹر پکاۓ ہوۓ نے 

ساڈے نالوں بٹن چنگے جیرے سینے نال لاۓ ہوۓ نے 

عزہ کے جواب پر سعد نے سیٹی بجائی

تندورہ تائی ہوئی اے

اک ماہی اونج کوجا

اوتوں عینک لائی ہوئی اے 

علی نے ماہپارہ کی عینک پر چوٹ کی

چٹے چاولاں دی ریچھ ماہیا 

می نری ریشم جئی تو جنگلا دا ریچھ ماہیا

فاریہ کے ٹپے ہر علی نے آنکھیں گھمائیں

دلہے میاں اپ بھی ہماری پیاری سی دلہن کے لیے کچھ بول دیں فاریہ کی فرمائش پر سب نے ہی زور و شور سے سر ہلایا

مجھے شاعری نہی آتی اس نے بہنا بنایا

اسکی بات پر صوفیپ کے دل میں چھن سے کچھ ٹوٹا یعنی وہ اس کے لیے دو لفظ نہی کہہ کتا تھا جبکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اسے شاعری آتی ہے اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں

اس کے بعد سب نے پھر سے شروع کیا لیکن اب وہ بے زاتہ سے سب دیکھ اور سن رہی تھی 

چات بجے تک ان کا یہ سلسلہ جاتی رہا پھر اذان کی آواز پر لڑکیوں کو ونر کا خطاب دیتے سب پنے اپنے کمروں میں چل دییے

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

آج اس کی بارات تھی وہ بے دلی سے بیوٹیشن کو خود کو تیار کرتے دیکھ رہی تھی  اسے جو خوشی نکاح کے بعد فیل ہوئی تھی آج اس کے دل میں کوئی خوشی نہی تھی طلحہ کہ کل کی بات نے اسکی ہمت کو توڑ دیا تھا 

ماشاءاللہ لکنگ بیوٹیفل میم بیوٹیشن نے اس کے سجے سنورے روپ کو دیلھ کر تعریف کی اس نے خود کو آئینے میں دیکھا 

بلڈ ریڈ کلر کے لہنگے میں بالوں کا اونچا جوڑا بناۓ ہیوی میک اپ کیے وہ بہت دلکش لگ رہی تھی اوپر سے اس کا سوگوار روپ اس کی دلکشی میں اضافہ کر رہا تھا کیا فائدہ ایسے روپ کا جب وہ ہی مجھ سے پیار نہی کرتے کیا اس نے تلخی سے سوچا

ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہو اللہ نظر بد سے بچاۓ آہلہ نے اس کے حسین مکھرے کو دیکھ کر کہا تو وہ تلخ سوچ سے نکل کر مسکرائی

واقعی بہت پیاری لگ رہی ہو اب چلو وہ فسادی باہر لینے آگیا ہے فاریہ نے اسکی تعریف کے ساتھ فسادی کی آمد کا بھی بتایا

کون فسادی اس نے حیرت سے پوچھا

وہ تمہارا کزن بردر علی میسنا فسادی اس نے ناک منہ چڑھا کر بتایا

وہ بہت اچھے ہیں فاری ایسے تو مت بولو اس نے علی کی سائڈ لی 

ہاں پتا ہے مجھے کتنا اچھا (میسنا اس نے دل میں کہا )ہےاس لیے اب چلو

وہ لوگ گیٹ پر پہنچی تو وہ باہر ان کا ہی انتظار کر رہا تھا اس کو پیچھے بٹھا کر اس نے اس کا لہنگا اندر کیا آہلہ پیچھے صوفیہ کے ساتھ بیٹھ گئی جبکہ وہ منہ بسورتی ناچار اس کے ساتھ آگے بیٹھ گئی وہ بھہ خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا ہال کے باہر گاڑی رکی تو آہلہ نے صوفیہ کو مدد دے کر باہر نکالا اور لال چنری کا گھنگھٹ اس کے آگے کر دیا

وہ بھی باہر نکلنے لگی تھی کہ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا پہلے تو وہ اس کے ہاتھ پکڑنے پر حیران ہوئی پھر غصے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا

سوری وہ مجھے تمہیں یہ بتانا تھا کہ تم آج دنیا کی سب سے سب سے بدصورت لڑلی لگ رہی ہو اس نے سوری کر کے سنجیدگی سے کہا

وہ جو اس کے سوری کرنے پر خوش ہو رہی تھی اس کی اگلی بات پر اس نے غصے سے اسے فیکھا اور مکہ ببا کر اس کے پیٹ میں مارا

آااا ظالم مار دیا اس نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دہائی دی بھلا اس نازک سی لڑکی کے ہاتھ کے مکے سے اس جیسے ہٹے کٹے انسان کو کیا ہو سکتا تھا 

شکر کرو ابھی مارا نہی اس لیے آئیندہ احتہاط کرنا اور ضروری نہی کہ ہر دفع تم بچ جاؤ اور اگر میں دنیا کی سب سے بد صورت لڑکی ہوں تو تم بھی کوئی حور پرے نہی ہو بلکہ ایک کوجے انسان ہواسے انگلہ دکھا کر وارن کرتی اسے یہ بھی بتا گئی تھی کہ وہ کوجا ہے

کوجی کا کوجا اس کے جانے کے بعد وہ خود سے بڑبڑایا اور ہنس دیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

نکاح چونکہ ان کا پہلے ہی ہو چکا تھا اس لیے اسے سیدھا سٹیج پر اس کے ساتھ ہی بٹھا دیا گیا تھا

آج فاریپ نے بھی اس کی طرف دیکھنے کی غلطی نہی کی تھی اور یہ بات طلحہ نے بھی نوٹ کی تھی لیکن اسے کہا کچھ نہی تھا وہ آج رات اس کی ساری غلط فہمیاں اور شکوے دور کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

کل رات ساجد صاحب کی طرف سے کوئی نہی آیا تھا لیکن آج ساجد صاحب اور مروہ آۓ تھے 

مروہ آنا تو نہی چاہتی تھی لیکن آہلہ اور شہروز کہ ایک ساتھ ایک ہی فنکشن پر ہونے کی وجہ سے وہ بھی مجبوراً آگئ تھی

ادھر آؤ میں تمہیں آہلہ لوگوں کے پاس چھوڑ آؤں شہروز نے مروہ سے کہا

اصل میں تو اسے آہلہ کو دیکھنا تھا کیونکہ اس نے ابھی تک اسے نہی دیکھا تھا وہ بھی ناچار اس کے ساتھ  چل دی کیونکہ اب وہ آ  تو گئی تھی اور ساجد صاحب اپنے عمر کے لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے اس لیے اس نے بور ہونے کی بجاۓ اس کے ساتھ جانا ہی مناسب سمجھا

آہلہ نے آج ریڈ فراک اور ریڈ ہی حجاب لیا ہوا تھا اس رنگ میں وہ ایک گلاب ہی لگ رہی تھی

آہلہ مروہ کو بھی کمپنی دینا اس نے اس کے پاس آ کر بڑی مشکل سے اپنی نظروں کے زاویے کو بدلتے کہا تھا ورنہ وہ اس رنگ میں اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ اسے مشکل لگ رہا تھا نظریں ہٹانا 

جی ضرور اس نے پرانی بات کو بھلا کر خوش دلی سے کہا جبکہ فاریہ نے کوئی بھی تاثر نہ دیا

شہروز کو آہلہ اور فاریہ کے ساتھ کھڑے دیکھ کر وہ بھی ان کی طرف چلا آیا

ہو از دس بیوٹیفل لیڈی اس نے مروہ کی طرف دیکھ کر پوچھا

میری اور آہلہ کی کزن ہے

نائس ٹو میٹ یو

سیم ہئر 

ساجد صاحب کے بلانے پر شہروز وہاں سے چلا گیا تھا اپنی اس دن کی بے عزتی کا بدلہ بھی  تو لینا تھا اس لیے اس کے رنگ کو نشانہ بنایا

تمہیں نہی لگتا آہلہ کہ تمہیں لائٹ کلرز پہننے چاہییں آئی مین یہ ریڈ کلر وائٹ فیس پر زیادہ اچھا لگتا ہے جبکہ تمہارا کلر تو سانولا ہے 

علی کے سامنے اپنے رنگ کو نشانہ بنتے دیکھ کر وہ شرمندگی سے سر جھکا گئ

شہروز جو مروہ کو ساجد صاحب کا پیغام دینے آیا تھا کہ وہ اس کی بات سن چکا تھا

رنگ سے فرق نہی پڑتا مروہ دیکھنےبوالی کی نظر کا سارا کمال ہوتا ہے ہو سکتا ہے تمہیں یہ کلر اس پر جچا نہ ہو لیکن کسی جو اس کا یہ روپ بہت پیارا لگا ہو اور پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ لایٹ کلرز سانولے جبکہ برایٹ کلرز وائٹ لوگ پہنیں اس نے سرد آواز میں کہا

اس کی سرد آواز پر انہوں نے پیچھے دیکھا جہاں وہ سرد نظروں سے مروہ کو دیکھ رہا تھا

مروہ کو اس کی بات کا مفہوم سمجھنے میں ایک منٹ لگا تھا تو کیا وہ سارے خدشات درست ثابت ہونے والے کیا شہروز اس سے چھیننے والا تھا 

میں تو وہ کچھ کہننے لگی تھی کہ اس نے اسے بیچ میں ہی ٹوک کر اسے ساجد صاحب کا پیغام دیا 

جاؤ بابا ویٹ کر رہے ہیں تمہارا ماما کا بی پی لو ہو گیا ہے اس لیے وہ گھر جا رہے ہیں گھر تو وہ بھی جانا چاہتا تھا لیکن ساجد صاحب نے اسے مطمئن کر دیا تھا کہ وہ ٹھیک ہیں بس بی پی لو ہو گیا اس ہیے وہ خود ان کا خیال رکھ لیں گے

وہ آہلہ پر ایک حسد بھری نظر ڈال کر چلی گئی اس کے پیچھے شہروز بھی چلا گیا

صرف نام اور صورت کی ہی پیاری تھی زبان کی تو  پوری کالی تھی علی کو بھی مروہ کی بات اچھی نہی لگی تھی 

تمہاری اس بات سے تو میں بھی متفق ہوں کوجے انسان 

اس کے کوجے کہنے پر اس نے گھورا تو وہ بھی اسے آنکھیں دکھاتی ایک بار پھر کوجا کہتی مسکراتی آہلہ کو لیے صوفیہ کے پاس چلی گئ

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

صوفیہ بدگمانیوں میں گھری طلحہ کے لیے سجی اس کے بیڈ پر بیٹھی تھی تھوڑی دیر پہلے ہی فاریہ ماہپارہ اور آہلہ بٹھا کر گئی تھیں پہلے تو اس کا دل چاہا کہ وہ کپڑے چینج کر لے لیکن پھر بیٹھ گئی 

اسے بیٹھے دو گھنٹے ہو گئے تھے اب تو اس کی کمر بھی دکھ رہی تھی غصے سے وہ بیڈ سے اتری اور شیشے کا سامنے جا کر جیولری اتارنے لگی  ابھی اس نے جھمکا اتارنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھایا ہی تھا کلک کی آواز کے ساتھ طلحہ کمرے میں داخل ہوا 

اسے دیکھ کر وہ پھر سے جھمکا اتارنے لگی اس کے مطابق اسے تو کوئی فرق نہی پڑتا 

وہ دروازہ لاک کرتا عین اس کے پیچھے کھڑا ہوا اور اس کے کان میں سر گوشی کی 

اےنی بھی کیا جلدی ہے سب اتارنے کی پہلے مجھے تو دکھاؤ جس کے لیے تیار ہوئی ہو اور پھر ابھی منہ دکھائی بھی تو رہتی ہے 

اس کی سر گوشی پر اس کا جھمکا اتارتا ہاتھ رکا تھا اس کی گرم سانسیں اسے اپنے کان پر محسوس ہو رہی تھیں خود کو کمپوز کر کے اس نے اس سے کہا

آپ تو پیار نپی کرتے مجھ سے تو پھر آپ کو کوئی فرق بھی نہی پڑنا چاہیے 

 اس کی بات پر اس نے اسے باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لا کر لٹایا اس نے اٹھنے چاہا تو اس نے اس کے اطراف ہاتھ رکھ لیے 

اب سٹویشن یہ تھی کہ صوفیہ لیٹی ہوئی تھی اور طلحہ بیٹھا  آدھا اس پر جھکا ہوا تھا جبکہ اس کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھیں اور ایک ہاتھ اس نے صوفیہ کی دوسری طرف رکھ کر اسے بیڈ پر پن کیا ہوا تھا

آج میں تمہارے سارے شکوے ساری بدگمانیاں دور کر دوں گا اس نے اس کے چہرے کو دیکھتے کہا اس کے کان کے پاس سرگوشی کی اور ساتھ ہی اس کی لو کو بھی چھو لیا

اس کے لمس پر وہ کانپی زبان دانتوں سے چپک گئی

اس کی خاموشی پر وہ سیدھا ہوا اور اسے بٹھایا اور باری باری اس کا زیور اس سے الگ کیا زیور کے بعد اس نے احتیاط سے اسکے ڈوپٹے کی پنز اتار کر ڈوپٹہ اس سے الگ کیا اور اس کی شہ رگ پر تل کو اپنے ہونٹوں سے چھوا صوفیہ جی جان سے لرزی اس کے کانپنے پر اس نے اسے چینج کرنے کو کہا تو وہ بھی جلدی سے کپڑے لے کر واش روم گھس گئی واش روم میں جاکر اس نے شیشے میں خود کو دیکھ کر تل پر ہاتھ لگایا اور اس کی جرات کو یاد کر کے جھرجھری لیتی جلدی سے ہاتھ ہٹا گئی

کپڑے تبدیل کر کے کہ وہ باہر آئی تو طلحہ بھی نائٹ ڈریس پہنے بیڈ پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا وہ جھجھکتی بیڈ کہ دوسری سائڈ آکر اس سے فاصلے پر لیٹ گئی 

طلحہ نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے قریب کیا اور ماتھے پر اپنا لمس چھوڑا صوفیہ کہ نظریں جھکی ہوئی تھیں اس نے باری باری اس کی آنکھوں اور پھر لمس چھوڑا اور اپنی شرٹ اتار کر سائڈ پر رکھی اور ساتھ ہی لائٹ آف کر دی

میں تمہاری بدگمانیاں زبان سے نہی اپنے عمل سے دور کروں گا طلحہ نے اس کے کان میں سر گوشی کی 

رات آہستہ آہستہ سرک رہی تھی اور دو پنچھی ایک دوسرے میں کھوۓ ایک دوسرے کو مکمل کر رہے تھے 

وہ صبح اٹھا تو اس کی نظر اپنے سینے پرسر رکھے سوتی ہوئی صوفیہ پر پڑی جو اسی کی شرٹ پہنے ہوئی تھی اس نے نرمی سے اس کے سر اپنے بازو پر کیا اور اس کے چہرے پر آۓ بالوں کو اس کے کان کے پیچھے کیے اور ماتھے پر عقیدت بھرا لمس چھوڑا نیند میں بھی وہ اس کے نرم گرم لمس پر کسمسائی اس کے کسمسانے پر وہ پیچھے ہوا اور ٹائم دیکھا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے اس نے اسے نرمی سے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں مزید چھپتی سو گئی اس نے اسے اٹھانے کے لیے اس کے لبوں سے اپنے ہونٹ مس کیے کہ شائد وہ اٹھ جاۓ لیکن وہ نہ اٹھی اس نے اس بار اس کے نرم لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لیا اور اپنی سانسیں اس میں انڈیلنے لگا 

وہ جو ابھی ایک گھنٹہ پہلے سوئی تھی اب اپنی بند ہوتی سانسوں پر فوراً بیدار ہوئی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ اسے دیکھ رہی تھی جو اسے جاگتے دیکھ کر اس کی ہاتھ کی انگلیوں کو اپنی انگلیوں میں الجھاتے شدت سے اس کی سانسوں کو پینے لگا تھا

جب صوفیہ کو لگا کہ اس کی سانس بند ہونے کو ہے تو اس نے اس کی سینے پر مکہ مارا اس کے مکہ مارنے پر وہ جو اس کے سانسوں سے خود کو سیراب کرتے مدہوش ہو رہا تھا ہوش میں آتے نرمی سے اس کے لبوں کو آزاد کیا اور اس کی پھولی سانسوں اور حیا سے سرخ چہرے کو دیکھتے گہرا مسکرایا 

سانس بحال ہونے پر اس نے ناراض نظر اس پر ڈالی

ایسے مت دیکھو تم نے ہی مجھے ایسا کرنے پر اکسایا تھا اس کے دیکھنے پر اس نے سارا الزام اس پر ڈال دیا

میں نے 

ہاں تم نے میں کب سے تمہیں جگانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن تم جاگ ہی نہی رہی تھی اس لیے مجھے ایسا کرنا پڑا اور دیکھو میرا طریقہ کامیاب رہا اب میں اسی طریقے سے تمہیں جگایا کروں گا اس نے اسے آنکھ مار کر کہا

ابھی تو تھوڑی دیر پہلے سوئی تھی اس نے اسے یاد دلایا

جانتا ہوں لیکن میری جان نماز کا ٹائم گزر رہا تھا جاؤ تم فریش ہو کر آؤ پھر نماز پڑھ کر سو جانا اس نے اس کے گال تھپتھپا کر کہا تو وہ بھی سر ہاں میں ہلاتی کپڑے لے کر واش روم چلی گئی

طلحہ کی امامت می نماز پڑھ کر وہ پھر سے سو گئی تھی 

اس کی آنکھ دستک کی آواز پر کھلی تھی اس نے آنکھیں مسل کر ٹائم دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے اس نے اپنے برابر دیکھا تو طلحہ وہاں نہی تھا وہ بھی منہ کے برے برے زاویے بناتی بالوں کا جوڑا بناتی دروازہ کھولنے کے لیے اٹھی

دروازہ کھولا تو سامنے ہی آہلہ فاریہ اور ماہپارہ اسے شرارتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں وہ ان کی نظروں سے حجل ہوتی کیا ہے اونچی آواز میں بولی 

اونچی آواز گویا اپنی حجل کو کم کرنے کے لیے تھی

لگتا ہے ابھی اٹھی ہو نیند بھی شائد پوری نہی ہوئی  فاریہ نے دروازے پر کھڑے شرارت سے پوچھا

ہاں نہ رات کو دیر سے سوۓ تھے صبح بھی جلدی اٹھنے کا غم تو اسے بھک تھا اس لیے اس کی شرارت کو سمجھے بغیر اس نے بھی بولنا شروع کر دیا لیکن پھر جب سمجھ آئی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے تو فوراً دانتوں تلے زبان دبا دی اور شرما دی 

ہاں آگے بتاؤ کیا صبح آہلہ نے شرارت سے اسکی آدھی بات کو پکڑ کر کہا

ان کی شرارت سمجھ کر رات اور صبح کے منظر یاد کر کے وہ کانوں تک سرخ پڑتی ان کے منہ پر ہی زور سے دروازہ بند کر گئی اس کے دروازہ بند کرنے پر انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور باہر سے ہی اسے نیچے آنے کا کہتیں چلی گئیں

ان کے قہقہے پر وہ ان کو گالیاں دیتی ان کے سامنے ایسی بات کرنے پر خود کو کوسنے لگی اور الماری سے آتشی رنگ کی کامدار فراک لے کر دریسنگ روم چلی گئی

وہ شیشے کے سامنے کھڑی ہلکا پھلکا میک اپ کر رہی تھی کہ طلحہ کمرے میں داخل ہوا اور اسے دیکھ کر واؤ کی شیپ میں ہونٹ سکیڑے 

وہ قدم قدم چلتا اس کے پیچھے کھڑا ہوا اور پیچھے سے ہی جھک کر ڈرا سے کچھ نکالا اس کے اس طرح جھکنے سے صوفیہ بھی گھبراتی سانس روکتی بلکل شیشے کے ساتھ لگ گئی تھی 

اس نے ایک خوبصورت کا سا پینڈنٹ ڈبی سے نکال کر اس کے گلے سے ڈوپٹہ نیچے کر کے اس کے گلے میں پہنایا اور جھک کر اس پینڈنٹ پر اپنے لب رکھے اور اس کے کان میں سر گوشی کی 

کیسا لگی منہ دکھائی

بہت پیاری ہے اس نے پینڈنٹ پر ہاتھ پھیرتے شیشے میں اس کے نظر آتے عکس کو دیکھ کر کہا

لیکن تم سے کم اس کی بات پر وہ نظریں جھکا گئی

آپ نے اس دن جھوٹ کیوں بولا کہ مجھے شاعری نہی آتی جبکہ آپ کو آتی ہے اس کے پیار بھرے لپجے ہر س نے اس دن کا شکوہ کیا

اچھا تو مسز اس دن کا برا مناۓ بیٹھی ہیں وہ تو میں نے اس لیے کہا تھا کیونکہ میں فرصت سے تمہاری تعریف کرنا چاہتا تھا کیونکہ شعر اور غزل سے کیا میں تمہاری تعریف کرتا اس نے زومعنی کہا

اس کی زومعنی بات پر وہ شرم سے سرخ ہوئی

لیکن تمہارا یہ گلہ بھی دور کر دوں گا لیکن رات کو اسے گہری نظرسے دیکھتا وہ مسکرایا اور وہ اس کہ نظروں سے خائف اور سرخ ہوتی اس کی ہمراہی میں سب کے ساتھ ناشتہ کرنے کے لیے نیچے آئی

سب نے ان کو آتا دیکھ کر دل میں ماشاءاللہ بولا اور ان کی نظر اتاری 

دادی کے آگے جھک کر دونوں نے پیار لیا اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے دادی تو اسے اپنے پوتے کے رنگ میں دیکھ کر ہی شادمان ہو گئی تھیں انہیں اپنا فیصلہ درست لگا تھا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ناشتہ کرنے کے بعد وہ لوگ لاؤنج میں بیٹھ گئے تھے 

صوفیہ تمہاری یہ دوست مجھے کل فسادی بدتمیز لوفر اور نجانے کیا کیا کہہ رہی تھی علی نے صوفیہ سے شکایت لگائی

اب ان کی شکل ہی لوفروں جیسی ہے تو میں کیا کہہ سکتی ہوں صوفیہ کے کچھ کہنے سے پہلے فاریہ نے کہا

اچھی خاصی شکل تو ہے میری بلکہ لڑکیاں تو مرتی ہیں مجھ پر اس نے اترا کر کہا

ہوں وہ اندھی ہوں گی اور وہ تم پر نہی بلکہ تمہاری شکل دیکھ کر خوف سے مرتی ہوں گی اس نے بھی حساب برابر کیا

ویسے تم کل کچھ کہہ رہی تھی شہروز سے کہ شائد تمہیں کسی نے پاگل کہا تھا ویسے تھا کون وہ اس نے شرارت سے لب دبا کر کہا

تھا کوئی تمہاری طرح کا لوفر اور جھوٹا اور تمہیں پتا ہے صوفیہ اس بدتمیز فسادی شخص نے جھوٹ بول کردو میاں بیوی میں لڑائی کرا دی اس نے اسے گھور کر جواب دیتے صوفیہ کو بتایا

پھر تو بڑا ہی وہ کمینہ انسان تھا تمہیں چاہیے تھا کہ اس شخص کا بوتھا توڑ دیتی کہ آئیندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرتا صوفیہ نے کہا

آہلہ تو ہنسی روکنے کے چکر میں لال ہو رہی تھی

اپنے بارے میں صوفیہ کے نادر اور نیک خیالات سن کر علی بے چارہ تو فاریہ کا منہ دیکھ کر رہ گیا جو اس پر ایک جتاتی ہوئی نظر ڈال کر بانو بیگم کی آواز پر کچن چاۓ لینے گئی تھی

چاۓ کے کپ دیکھ کر اسے شرارت سوجھی اس نے ایک کپ میں چھ چمچ چینی کے مکس کر کے اسے ٹرے کی ایک سائڈ پر رکھا نشانی کے لیے اور مسکرا کر باہر لاؤنج میں آگئی اس نے باری باری سب کو کپ تھمایا اور آخر میں آکر اسے زیادہ چینی والا کپ پکڑایا اور شرارتی مسکراہٹ اس کی طرف اچھال کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی

فاریہ کو کال آگئی جس کی وجہ سے وہ کال سننے کے لیے باہر چلی گئی اس کے جاتے ہی اس نے اپنا کپ اس کے کپ سے ریپلیس کر دیا اب زیادہ چینی والا کپ فاریہ کے پاس تھا سب نے اس سے اس حرکت کی وجہ پوچھہ جس پر اس نے سب کو خاموش رہنے کا کہا اور اس کی حالت اور ایکسپریشنز تصور کر کے مسکرایا

جب علی نے بانو بیگم کو کچن سے باہر جاتے دیکھا تو وہ بھہ اس کء پیچھے کچن میں گیا لیکن وہاں اسے چینی کے چھ چمچ ڈالتے دیکھ کر پہلے تو وہ حیران ہوا لیکن پھر اس کی مسکراہٹ سے وہ سمجھ گیا کہ ہہ کپ کسی اور کے ہیے بلکہ اس کے لیے ہے اس کے بدلے کے طریقے پر وہ مسکرایا اور اس کی نظروں میں آۓ بغیر وہ وہاں سے آگیا

وہ کال سن کر جلدی جلدی آئی کیونکہ اسے اس کی حالت دیکھنی تھی لیکن اسے  سکون سے چاۓ پیتے دیکھ کر اسے دھچکا لگا وہ کیسے اتنے سکون سے چھ چمچ چینی والی چاۓ پی سکتا ہے اسے حیران دیکھ کر اس نے اسے اس کی چاۓ کی طرف متوجہ کیا تو اس نے  غائب دماغی سے چاۓ کا کپ جیسے ہی منہ کو لگایا اگلے ہی لمحے ساری چاۓ فارے کی صورت میں باہر تھی اس نے علی کی طرف دیکھا تو اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہا تھا اس کے دیلھنے پر اس نے اسے آنکھ ماری اسے سمجھ آگئی کہ اس نے اس کی چاۓ سے اپنی چاۓ ریپلیس کی ہے

سب نے حیرانک سے اسے دیکھا تو وہ شرمندہ ہوتی معزرت کرتی منہ اسے گھور کر منہ دھونے چلی گئی

آہلہ اور صوفیہ بھی لاؤنج سے چلی گئ کیونکہ  انہیں پارلر جانا تھا

اب بتا تو نے اپنا کپ اس سے کیوں چینج کیا اور اس میں کیا تھا اور تو ہی وہی لڑکا ہے نہ جس نے اسے چھیڑا تھا اور میاں بیوک میں فساد بھی ڈالا تھا ان کے جانے کے بعد لڑکوں نے اسے گھیرا

ہاں میں ہی وہ لڑکا ہوں اور یہ اس کے کیے کا پھل تھا جو ابھی اسے ملا تھا 

کیا مطلب ؟؟

اس نے میری چاۓ میں چھ چمچ چینی ڈالی تھی میں نے دیکھ لیا اور پھر آپ کو پتا ہے اس نے کندھے اچکاۓ

ویسے تو کیوں تنگ کرتا ہے اسے شہروز نے پوچھا 

یار اب تم لوگوں سے کیا چھپانا اچھی لگتی ہے اور اسے تنگ کرنا بھی اچھا لگتا ہے اس لیے کرتا ہوں 

ویسے بڑا ہی کوئی بے شرم ہے تو کیسے دو میاں بیوی میں لڑائی کروا دی چچچچ اسے سناتے وہ لوگ اسے سناتے واک آؤٹ کر گئے وہ بس انہیں دیکھتا رہ گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ولیمے پر پھر فاریہ نے علی سے چاۓ والا بدلہ لے لیا تھا جو کہ علی کو بہت بھاری پڑا

آہلہ نے کیا کچھ یوں تھا کہ 

فلیش بیک

اسلام علیکم آنٹی فاریہ نے مسکرا کر سلام کیا

وعلیکم سلام جی بیٹا 

آنٹی وہ جو لڑکا نہی کھڑا ہے وہ اس نے علی کی طرف اشارہ کیا جو شہروز حیدر اور طلحہ کے ساتھ کھڑا تھا میں نے اسے کہتے سنا ہے کہ آپ اس ساڑھی میں بڑی ہاٹ لگ رہی ہیں اور وہ رکی

اور کیا کہا اس نے آنٹی نے غصے سے پوچھا

اور کہہ رہا تھا کیا مست فگر ہے آپکا اس نے معصومیت سے کہا

اس کی بات سننے کی دیر تھی کہ وہ آنٹی تن فن کرتی علی کی طرف گئیں ان کے جانے کے وہ ہاتھ جھاڑ کر مسکرائی جیسے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو اور جلدی سے آہلہ کو پکڑ کر ان سے کچھ فاصلے پر جا کر کھڑی ہو گئی جہاں سے انہیں آواز صاف سنائی دے

کیا کہہ رہے تم  ہاں کہ میں ہاٹ لگ رہی ہوں آنٹی نے علی کے پاس پہنچ کر سیدھا سوال کیا 

وہ تو انجان آنٹی اور پھر ان کے جملے پر حیران تھا 

کیا کہہ رہی ہیں آنٹی 

اچھا تو اب کاکے بن جاؤ کیا تم نے یہ نہی کہا کہ میرا فگر کیا مست ہے 

اس نے آنٹی کو دیکھا جو ساڑھی پہنے اپنے بھاری بھرکم جسم کے ساتھ جوئی مضحکہ  حیز لگ رہی تھیں 

آنٹی آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی 

شہروز آہلہ حیدر اور طلحہ تو سٹویشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ فاریہ اپنی امڈنے والی ہنسی کو روکنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی 

علی نے کافی دفع خود کو کلئیر کرنے کی کوشش کی لیکن آنٹی نے ایک نہ سنی اور اسے خوب سنا کر چلی گئیں 

ان کے جانے کے بعد فاریہ نے زور دار قہقہہ لگایا 

قہقہے کہ آواز پر علی نے اس کی سمت دیکھا اور اسکے انگوٹھا دکھانے پر اپنی بڑی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرتا اس سے بدلہ لینے کا کہتا چلا گیا جبکہ باقی سب ان کی بدلے پر کھل کر مسکراۓ

چونکہ صوفیہ کا مائکہ اور سسرال ایک ہی تھا اس لیے دادی نے اسے طلحہ کے کمرے میں ہی جانے کو کہا 

وہ زیادہ دیر اتنے ہیوی ڈریس کے ساتھ بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تھی اور پھر کچھ کل رات نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے بھی تھکن تھی لیکن وہ پھر بھی طلحہ کا انتظار کر رہی تھی وہ اس کا مجازی خدا تھا وہ اسے ناراض نہی کر سکتی تھی اس لیے انتظار کرنے کو ترجیح دی

اسے زیادہ انتظار نہی کرنا پڑا تھا کہ طلحہ کمرے میں داخل ہوا اور ڈور لاک کیا 

اس نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا  موبائل پر سانگ لگایا اور ہلکے ہلکے ڈانس موز کرنے لگا  پھر اس نے اس کے ساتھ کچھ سیلفیز لیں اور اسے چینچ کرنے کو کہا

وہ بیڈ پر ابھی لیٹی تھی کہ اس نے اسے اپنے حصار میں لیتے لائٹ آف کردی اور اس کا کان میں سرگوشی کی

لبوں کی شرارت سے بدن کے چور ہونے تک

میں تجھے اس طرح چاہوں کہ میری سانس رک جاۓ

خطاؤں پہ خطائیں ہوں نہ ہو کچھ بات کہنے کو

میں تجھ میں یوں سما جاؤں کہ میری سانس رک جاۓ

نہ ہمت تجھ میں ہو باقی نہ ہمت مجھ ہو باقی

مگر اتنا قریب آؤں کہ میری سانس رک جاۓ

میں اپنے لب یوں رکھ دوں تیرے لبوں پر

یا تیری سانس رک جاۓ یا میری پیاس بجھ جاۓ

اتنی بولڈ غزل پر وہ کانوں تک سرخ ہوئی 

اس نے اس کا چہرہ ہاتھ کے پیالے میں لے کر اپنے لب اس کے لبوں پر رکھ دیے اور اس پر اس کی روح پر قابض ہو گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

گاڑی روکو اس نے غصے سے کہا

اس نے گاڑی کو دوسرے راستے جاتے دیکھ کر کہا

صارم جانتا تھا کہ وہ ایسی جگہوں پر نہی جاتا اور نہ ہی مانتا ہے اس لیے اس کے ری ایکشن پر اس نے غصہ کرنے کی بجاۓ گاڑی روک دی

وہ غصے سے گاڑی سے باہر نکل آیا

صارم اس دانت کچکچاۓ

دیکھ یار مجھے پتا ہے کہ تم نہی مانتے ایسی باتوں کو لیکن یار یہ باتیں سچ ہیں اور پھر میں نے سوچا کہ ہم لوگ ہر ماہ کہیں نہ کہیں گھومنے جاتے ہیں تو پھر اس دفع اس جگہ چلے جاتے ہیں یو نو اڈونچر ہو جاۓ گا اس نے اسے قائل کرنے کے لیے ایڈونچر کہا نہی تو اسے ان جگہوں پر یقین تھا

دیکھ یار اب ہم لوگ آدھا رستہ طے کر آۓ ہیں اس لیے واپس جانے سے بہتر ہے کہ ہم لوگ اس جگہ سے ہو آتے ہیں اسے خاموش دہکھ کر اس نے قائل کرنے کہ کوشش کی 

نہی بلکل بھی نہی اس نے قطعیت سے کہا

دیکھ یار اگر تو میرا دوست ہے تو انکار نہی کرے گا

اسے انکار کرنے کے لب واہ کیے ہی تھی کہ اس نے اسے ایموشنل بلیک میل کیا

دیکھ میرا پیارا بھائی میرا دوست نہی ہے 

صرف تیرے لیے جا رہا ہوں اس نے انگلی اٹھا کر کہا 

شکریہ یار وہ اس کے گلے لگا

چل اب گاڑی میں بیٹھ اس کو علیحدہ کرتے اس نے کہا تو وہ بھی خوشی خوشی بیٹھ گیا

ہیر رانجھا مزار

وہ لوگ اس وقت ہیر کے مزار پر کے سامنے کھڑے تھے چند سیڑھیاں چڑھ کر ایک صحن اور ساننے نیلے اور سفید ٹائیل کے ساتھ ایک سادہ سی عمارت نظر آ رہی تھی اور اس کی پیشانی پر لگی تختی پر 

"دربارِ عاشق صادق" لکھا تھا۔ 

وہ لوگ اوپر چڑھے تو ہارمونیم لیے دو سازندے ہیر گا رہے تھے

رانجھا رانجھا کر دی ہن میں آپے رانجھا ہوئی

سدو مینوں وہیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی

رانجھا میں وچ، میں رانجھے وچ، غیر خیال نہ کوئی

میں نہی ،اوہ آپ ہے،اپنی آپ کرے دلجوئی

جو کجھ ساڈے اندر وسے، ذات اساڈی سوئی

جس دے نال میں یونھ لگایا ، اوہو جیسی ہوئی

چٹی چادر لاہ سٹ کڑیے، پہن فقیراں لوئی

چٹی چادر داغ لکیسی، لوئی نہ داغ کوئی

تحت ہزارے لے چل بلھیا، سیالیں ملے نہ ڈھوئی

رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوئی

اس گانے نے فضا میں عجیب سا سرور ڈال دیا تھا

صارم اندر ہیر کی قبر پر چلا گیا جبکہ وہ وہی باہر صحن میں کھڑا رہا اس نے کافی دفع کہا تھا کہ جب یہاں آ ہی گئے ہو تو پھر اندر بھی چل لو لیکن اس نے انکار کر دیا 

اب وہ وہاں لوگوں کو ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا جو مزار کی کھڑکی اور صحن کے بیچ لگے درخت پے دھاگا بانھ رہے تھے

صارم دعا مانگ کر باہر آیا تو اس نے اس سے پوچھا 

صارم یہ لوگ یہاں دھاگا کیوں باندھ رہے ہیں اس نے درخت اور کھڑکی کی طرف اشارہ کیا

یہ لوگ اپنی گمشدہ محبت اور محبوباؤں کے ملنے کی دعا کرنے آتے ہیں اور منت کے طور پر دھاگا باندھتے ہیں اور جب من کی مراد پوری ہو جاۓ تو گرہیں کھولنے اور چادر چڑھانے آتے ہیں

چلو آؤ اس درخت کے پاس میں بھی دھاگا باندھ آؤں کہنے کے ساتھ ہی وہ اسے اس کی نا نا کے باوجود درخت کے پاس لے آیا تھا

تو نے کونسی والی محبوبا کی منت مانگنی ہے اس نے مزاق اڑایا

بکواس بند کر عاجل  اس جگہ کھڑے ہو کر تو محبت اور عشق جیسے جزبے کا مزاق مت اڑا 

تو جانتا تھا کہ مجھے اس پیار عشق محبت پر یقین نہی ہے اور نہ ہی میں ان چیزوں کو مانتا ہوں پھر کیوں لایا تو مجھے یہاں 

اس نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور دھاگا باندھ کر اسے چلنے کا کہا تھا کہ عاجل کو بری طرح کھانسی شروع ہو گئی

صارم نے پریشانی سے اس کی پیٹھ تھپتھپائی لیکن کچھ فرق نہ پڑا تو صارم اسے درخت کے پاس بیٹھے ایک درویش کے پاس لایا اور ان سے پانی مانگا

درویش نے مٹی کے پیالے میں اسے پانی دیا

عاجل کبھی بھی مٹی کے برتن میں پانی نہ پیتا مگر اس وقت اتنی بری کھانسی لگی  تھی کہ اس نے جلدی سے پانی منہ کو لگایا

پانی پی کر وہ کچھ بہتر ہوا اور جانے کے لیے مڑا کہ درویش کی بات پر پلٹا

اس نے دیکھا وہ درویش سفیید لباس میں سفید داڑھی بڑے ہوۓ بال اور ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھ رہے تھے ان کے چہرے پر نور ہی نور تھا

عشق کی توہین نہ کر یہ اپنی توہین کا بدلہ ضرور لیتی ہے اور جسے یہ روگ لگ جاۓ اسے رلاتی بھی ہے یقیناً وہ ان کی باتیں سن چکے تھے 

عاجل مصطفی گیلانی کو کبھی عشق تو کیا محبت بھی نہی ہو سکتی یہ عشق پیار محبت عاجل مصطفی گیلانی کے لیے بنی ہی نہی ہے اس نے غرور سے کہا

اللہ کو غرور پسند نہی یہ صرف اس پاک رب کو ہی جچتا ہے اور اگر تجھے کبھی ہو گیا تو 

کبھی بھی نہی ہو ہی نہی سکتا میں کبھی کسی سے محبت نہی کرسکتا اور نہ ہی عشق

یہ انسان کے بس میں نہی ہوتی یہ ایک پاک جزبہ ہے اور یہ خوبخود ہو جاتی ہے اس درویش نے اسے سمجھایا

جو بھی ہے لیکن یہ چیز میرے لیے نہی بنی

اس کے قطعیت سے کہنے پر درویش نے یہ غزل پڑھی

تجھے عشق ہو خدا کرے

کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے

تیرے ہونٹ ہنسنا بھول جائیں

تیری آنکھ پرنم رہا کرے

تو اس کی باتیں کیا کرے

تو اس کی باتیں سنا کرے

اسے دیکھ کر تو رک پڑے

وہ نظر جھکا کر چلا کرے

تجھے ہجر کی ایسی جھڑی لگے

تو مرنے کی پل پل دعا کرے

تیرے خواب بکھریں ٹوٹ کر

تو کرچی کرچی چنا کرے

نگر نگر پھرا کرے تو گلی گلی صدا کرے

تیرے سامنے تیرا گھر جلے

تیرا بس چلے نہ بجھا سکے

کہ تیرے دل سے یہی دعا نکلے

نہ گھر کسی کا جلا کرے

تجھے عشق ہو پھر یقین ہو

اسے تسبیحوں میں پڑھا کرے

جے میں کہوں عشق ڈھونگ ہے

تو نہی نہی کیا کرے

تجھے عشق ہو خدا کرے

کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے

ان کی غزل شروع کرنے پر وہ جانے کے لیے مڑا تھا کہ صارم نے ہاتھ پکڑ کر اسے روکا جب درویش نے غزل ختم کی تو وہ صارم سے ہاتھ چھڑوا کر غصے سے مڑا کہ اسے پیچھے سے درویش کی مسکراتی آواز سنائی دی 

جا تجھے عشق ہو

وہ یوٹیوب پر کچھ دیکھ رہی تھی صوفیہ کے ولیمے کو گزرے دو دن ہو گئے تھے سکول سے بھی ابھی ایک ہفتے کی چھٹیاں تھیں اس لیے وہ کمرے میں بیٹھی بور ہو رہی تھی اس لیے اس نے یوٹیوب اوپن کیا اور ڈرامہ دیکھنے لگی 

وہ جو بڑے انہماک سے ڈراما دیکھ رہی تھی کہ بیچ میں  کال آنے پر بدمزہ ہوئی اس نے دیکھا نمبر ان نون تا اس لیے اس نے اٹھنے کی بجاۓ کٹ کر دیا ور دوبارہ ڈرامہ کی طرف متوجہ ہو گئی

ابھی دو سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ پھر سے اسی نمبر سے کال آئی اس دفع اس نے غصے سے نمبر کو دیکھا 

پتا نہی کیسے ان لوفروں کو نمبر مل جاتے ہیں اسے یہ تھا کہ کسی لوفر کو غلطی سے نمبر مل گیا ہو گا اور اب بار بار تنگ کر رہا ہے جیسے کہ عموماً ہوتا ہے

خود سے کہہ کر اس نے پھر سے کال کٹ کر دی

دوسری طرف عاجل کو اپنے آدمی سے معلوم ہوا تھا کہ اس کی دوست کی شادی ختم ہو گئی ہے تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اب اسے کال کر کے اپنی یاد دلائی جاۓ

اس نے پہلے کال کی تو اس نے کٹ کر دیا اس نے دوسری دفع پھر کیا تو پھر سے آہلہ نے کال کٹ کر دی عاجل کو اس پر بہت غصہ آیا اس نے غصے سے تیسری دفع پھر کال کی تو اس دفع کال پک کر لی گئی

آہلہ جو پھر سے ڈرامہ کو بڑے انہماک سے دیکھ رہی تھی تیسری دفع پھر اسی نمبر سے کال آنے پر اس نے غصے سے اس لوفر کا دماغ ٹھکانے لگانے کے لیے کال پک کر کے کان سے لگایا اور غصے سے بولی

کیا ہے جب بندہ بار بار کاٹ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تم جیسے لوفروں کو اگنور کر رہا ہے تمہارے گھر کیا ماں بہن بیوی نہی ہے جو یوں دوسروں کی بیٹیوں کو تنگ کرتے پھر رہے ہو 

اس کی بات سن کر عاجل کی آنکھیں لہو رنگ ہوئیں 

ماں اور بہن تو ہے لیکن بیوی نہی ہے تم بنو گی اس نے نہایت سرد آواز میں کہا

مقابل کی سرد آواز پر اس کی آنکھوں کے سامنے سرخ ڈوروں سے بھری نیلی آنکھیں آئیں تو وہ کپکپا اٹھی لیکن پھر اس کی اتنے دن کی خاموشی پر یہ کوئی اور بھی تو ہو سکتا ہے سوچ کر ریلیکس ہوئی

آپ کو شرم نہی آتی اور آپ ہیں کون اس نے غصےسے پوچھا

ارے ارے آپ تو اتنی جلدی بھول گئی ہمیں ویسے ہم کوئی بھولنے والے انسان تو نہی لیکن خیر میں آپ کی یاداشت کو ریفیریش کرواتا ہوں اور شرم کی بات تو چھوڑیے وہ تو مجھ میں ہے ہی نہی 

مقابل کے کہنے پر اسکے ماتھے پر بل پڑے

بکواس بند کرو اپنی 

ارے ابھی تو میں نے بتایا ہی نہی کہ میں کون ہوں تو سنو میں عاجل مصطفی گیلانی ہوں وہی جس کے منہ پر تم نے تھپڑ مار کر خود اپنی شامت بلوائی ہے اس نے گال پر ہاتھ رکھ کر نہایت غصے اور سرد آواز سے کہا

ت۔۔۔۔۔تم مقابل کی بات پر سرخ نیلی آنکھیں جھپاک سے اس کی سامنے آئیں اور ان کے شور ہر وہ خوفزدہ ہوتی ہکلائی

ہاں میں اس کے ہکلانے پر اس کے ڈر کو محسوس کرتا وہ مسکرایا 

تم یہی سوچ رہی ہو نہ کہ میں اتنے دن خاموش کیوں رہا تو وہ اس لیے کہ میں چاہتا تھا کہ میں  تم سے تب بدلہ لوں جب تم بلکل مجھے بھول گئی ہو اس طرح زیادہ مزہ آتا ہے اس کی بھی اپنی ہی منطق تھی

تو اب سے اپنی خوشیوں کے الٹے دن گننا شروع کر دو کیونکہ میں اب تمہاری زندگی میں ان کو آنے نہی دوں گا میں تمہیں اتنی ازیت دوں گا کہ تم پناہ مانگو گی معافی مانگو گی لیکن تمہیں عاجل معاف نہی کرے گا بلکہ دوگنی ازیت دے گا اتنی ازیت کہ  تم موت کی دعا مانگو گی لیکن میں تمہیں مرنے نہی دوں گا اس نے غرا کر سرد لہجے میں کہا

اس کی سرد غراہٹ پر اس کے اندر کپکی اٹھی ایک سرد لہر اس کے الفاظ پر اس کے جسم میں پھیلی اور اس نے جلدی سے کپکپاتے ہاتھوں سے موبائل بند کر کے بیڈ پر پھینک دیا جیسے وہ فون سے نکل کر اسے مار دے گا اور خود اپنے گھٹنے پر سر رکھ کر اپنے رب سے اپنی خفاظت کی دعا کرنے لگی

اس کے فون بند کرنے پر عاجل کا سرد وحشت زدہ قہقہہ پورے کمرے میں گونجھا اور اسے گالی دیتا موبائل کو ہاتھ میں گھماتا سیٹی کی دھن بجاتا وہ کمرے سے نکل گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

آج اسے سکول جانا تھا لیکن وہ عاجل کے ڈر کی وجہ سے نہی گئی تھی اس نے فاریہ سے طبیعت خرابی کا بہانا بنا کر چھٹی کی تھی 

وہ کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ وہ کب تک ایسے چھپ کر بیٹھی رہے گی اسے آج نہی تو کل تو باہر نکلنا ہے اس کی سوچ میں موبائل کی رنگ نے خلل ڈالا

اس نے دیکھا تو وہی نمبر تھا اس نے نفرت سے اس نمبر کو دیکھا اور سائلنٹ پر لگا کر برش کرنے لگی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب سے اس کی کال نہی پک کرے گی اور سکول بھی جاۓ گی البتہ اکیلے کہیں باہر نہی جایا کرے گی سکول بھی اس لیے کہ فاریہ ہر وقت اس کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ اسے کچھ نہی کہہ سکے گا لیکن وہ شائد ابھی عاجل کو نہی جانتی تھی 

بال برش کر کے وہ نیچے اگئی اور خالہ کے ساتھ دوپہر کا کھانا بنوانے لگی 

خالہ آپکو امی بلا رہی ہیں مروہ نے کچن میں داخل ہو کر آہلہ کو دیکھ کر شکیلہ خالہ سے کہا

ان کے جانے کے بعد وہ آہلہ کے پیچھے آئی اور اس کا بازو پکڑ کر پیچھے کمر پر لگا کر مڑورا 

آہلہ جو اپنے دھیان میں لگی ہوئی تھی اس کے ہاتھ بازو مڑورنے ہر کراہی لیکن عہ بےحس بنی اس کی بازو پر دباؤ بڑھاتی دانت پیس کر بولی

یہ جو تم شہروز کو اپنے آگے پیچھے گھمانے کے لیے حربے اپنا رہی ہو نہ ان کو ختم کر دو کیونکہ وہ صرف میرا ہے صرف مروہ کا اور بہت جلد وہ مجھ سے شادی بھی کرے گا اس یے اپنے حربے کہیں اور جا کر آزماؤ

اس کے دباؤ بڑھانے پر وہ سسکی اور اس کی باتوں نے تو اسکی آنکھوں میں مرچی گھول دیں یعنی سب ہی اسے ایسا سجھتے تھے کہ وہ لڑکوں لبھانے والی لڑکی ہے 

اپنی بات  کہہ کر مروہ اس کی کلائی کو زور سے مڑورتی چلی گئی 

اس نے اپنی کلائی کو دیکھا جو سرخ ہو گئی تھی اور اسے درد بھی ہو رہا تھا اس نے روتے ہوۓ اپنی کلائی سہلائی اور کمرے میں بھاگ گئی 

کمرے میں جاکر وہ روتی ہوئی بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گئی کہ اس کی توجہ ایک بار پھر موبائل کی چمکتی سکرین نے اپنی طرف کروائی اس نے دیکھا تو ابھی بھی اس نمبر سے کالز آ رہی تھیں اس نے کال کٹ کر دی 

عاجل جو آج اس کے ڈر سے سکول نا جانے پر اسے مزید خوفزدہ کرنے کے لیے کال کر رہا تھا اس کے کال پک نہ کرنے پر اس کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا لیکن اس نے پھر بھی کال کرنا نا چھوڑی کافی دیر اس کے کال پک نہ کرنے پر اس نے اسے ایک میسج سینڈ کیا اور اس کا سکون لوٹ کر اب مزے سے گنگنانے لگا

آہلہ نے کال کٹ کی تو فوراً ایک میسج اس نمبر سے اس کی سکرین پر چمکا اس نے میسج کھولا تو اس کے اندر دھمکی تھی 

تم نے اچھا نہی کیا میری کالز نہ اٹھا کر اب دیکھنا اس کا بدلہ میں کیسے لیتا ہوں تیار رہنا آج رات چھوٹے سے سرپرائز کے لیے ساتھ ہی آنکھ دبانے والا ایموجی تھا 

اس کا میسج پڑھ کر وہ تھوڑی سی خوفزدہ ہوئی لیلن ایموجی کو دیکھ کر اسے دل میں خوب کوسا

اور ساتھ ہی اس کا نمبر بلاک کر دیا اور خود سے بولی

میرے ساتھ برا کرنے کے لیے پہلے کم لوگ ہیں جو ایک یہ بھی شامل ہو گیا ہے اس نے دلبراشتہ ہو کر سوچا وہ پہلے ہی مروہ کی باتوں سے دلبرادشتہ تھی اب باقی کہ کمی اس کے میسج نے کر دی تھی 

اس کے بلاک کرنے پر وہ مسکرایا اور رات کو سرپرائز دینے کا ارادہ کرتے دوستوں کے ساتھ ہینگ آؤٹ کے لیے کمرے سے نکلا

وہ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج کراس کرنے لگا تھا نور کی آواز پر اس کے بڑھتے قدم رکے

تم نے پھر کسی کو مار کر ہسپتال پہنچایا ہے اس بار کیا وجہ بتاؤ گے اس کی اس کے سامنے آکر انہوں نے خشگمین نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا

اس نے میرا کالر پکڑا تھا  کیا یہ وجہ کافی نہی اسے ہسپتال پہنچانے کے لیے اس کی ہمت کیسے ہوئی میرا کالر پکڑنے کی اس لیے اس کی غلطی کی چھوٹی سی سزا دی ہے میں نے اسے اس نے پہلی بات غصے سے جبکہ دوسری آرام سے کی جیسے ٹیچر کسی بچے کو اس کی غلطہ پر سزا دیتا ہے

اس کے جواب پر تو وہ عش عش کر اٹھیں اور غصے و بے بسی سے کہا

تم کب سدھرو گے عاجل میں تو تنگ آ گئی ہوں تمہاری ضد ہٹ دھرمی سے تمہاری روز روز کی مار کٹائی سے کچھ تو چینچ لاؤ خود میں تمہاری عمر کے لڑکے اتنے سمجھدار ہوتے ہیں اپنے باپ کا بزنس چلاتے ہیں لیکن ایک تم ہو جسے سواۓ ضد لڑائی اور اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومنے سے ہی فرصت نہی ہے 

یہ میری لائف ہے اور اسے میں جیسے چاہوں گزاروں ان کی اتنی بڑی تقریر پر اس نے بس یہی کہا اور ان کی آواز پر کان دھرے بغیر باہر نکل گیا

پیچھے وہ اسے گھورتی اس کی ہدایت کے لیے دعا کرتی کمرے میں چلی گئیں

وہ کلب میں بیٹھا ڈرنک کر رہا تھا صارم نے اسے کافی دفع سوری بھی کیا لیکن وہ اس نے اس کی سوری کو کسی خاطر میں ہی نہ لایا

دیکھ یار مجھے نہی پتا تھا کہ وہ بابا جی ایسے تمہیں بولیں گے دیکھ میرا بھائی نہی ہے مان جا نہ پکا آئیندہ کبھی ایسی غلطی نہی کروں گا ویسے غلطی تمہاری بھی ہے تمہیں ایسی جگہ پر  ایسا بولنا ہی نہی چاہیے تھا پہلی بات اس نے کان پکڑ کر جبکہ آخری آہستہ آواز میں کہی کیونکہ اونچی کہہ کر وہ اپنی شامت نہی بلوانا چاہتا تھا 

دیکھ یہ آخری بار ہے ورنہ تو جانتا ہے مجھے میں دوستی کی بھی پرواہ نہی کرتا 

اچھا ٹھیک ہے 

ہمم اس نے گلاس بیریے کی طرف کیا اور پیگ بنانے کو کہا

وہ پیتے پیتے ڈانس فلور کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں لڑکیاں براۓ نام کپڑے پہنے ڈانس کر رہی تھیں لڑکوں کے ساتھ ان لڑکیوں کو دیکھ کر اسے آہلہ کا خیال آیا کہ اس نے تو آج رات اسے سرپرائز دینا تھا اس نے ٹائم دیکھا تو ایک بج رہا تھا وہ صارم کو خداخافظ کہہ کر کلب سے نکلا اور گاڑی آہلہ کے گھر کی طرف چلا دی

اب وہ باہر کھڑا اندر جانے کا رستہ ڈھونڈ رہا تھا کہ کھڑکی کے ساتھ پائپ کو دیکھ کر مسکرایا

پائپ کے ساتھ لٹک کر وہ اوپر آیا تو اس کی خوش قسمتی سے کھڑکی کھلی ہوئی تھی وہ پہلے ہی اس کے گھر اور کمرے کا پتا کروا چکا تھا 

وہ کھڑکی سے کود کر اندر آیا اور چاروں طرف کمرے کو دیکھا جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف چاند کی روشنی کمرے میں اندھیرے کو چیرتی روشنی کر رہی تھی  اسے سامنے ہی وہ محو استراوت دکھی اسے دیکھ کر اسے نئے سرے سے اس کا تھپڑ مارنا یاد آیا تو اس کی آنکھوں میں شعلے سے جل اٹھے اس کا دل چاہا کہ وہ ابھی اسی وقت اسے جان سے مار دے لیکن وہ اپنے دل کی نفی کرتا اس کے سرہانے کھڑا ہوا وہ اسے ایک دفع میں نہی مارنا چاہتا تھا وہ اسے تل تل مرتا دیکھنا چاہتا وہ اسے معافی مانگتے گرگراتے دیکھنا چاہتا تھا ایسے ہی تو اس کا بدلہ پورا ہونا تھا 

وہ اس کے سرہانے بچی ہوئی جگہ پر بیٹھا اور اس کے گلے پر اپنے ہاتھوں سے دباؤ ڈالا 

آہلہ جو مزے سے نیند کے مزے لے رہی تھی اپنی سانس رکنے پر آنکھیں کھولیں تو کسی کو اپنے سرہانے بیٹھے کر ڈر گئی اوپر سے وہ شخص اس کا گلہ بھی دبا رہا تھا جس سے اس کک سانس بھی اکھڑ رہی تھی اس نے چیخنا چاہا لیکن اس کی آواز کہیں دب گئی تھی خوف سے جب اس نے دیکھا کہ اب وہ بمشکل سانس لے رہی ہے تو اس نے  اپنا ہاتھ اس کے گلے سے ہٹایا تو وہ کھانستی اپنے گلے کو پکڑ کر تیز تیز سانس لینے لگی جب سانس اپنی رفتار پر پہنچی تو اسنے بیڈ سے اترنا چاہا کہ اس نے اس کا ارادہ جان کر اس کا  پاؤں پکڑ کر اسے بیڈ پر دھکا دیا  اور اس کے اوپر جھک گیا کہ اب وہ پوری کی پوری اس کے نیچے دبی ہوئی تھی 

اس نے اس شخص کو دیکھنا چاہا لیکن چاند کی روشنی میں بھی اس کا چہرہ صحیح سے دکھائی نہی دے رہا تھا

پیچھے ہٹو کون ہو تم اس نے کانپتی آواز سے پوچھا اسے اس شخص سے خوف آ رہا تھا جو رات کہ اس پہر اس کے کمرے میں گھس کر اس کا گلا دبا رہا تھا اور اب اس کے اوپر جھکا ہوا تھا اس کی ڈر کے مارے جان نکل رہی تھی کہ کوئی انجان اس پہر اس کے اوپر جھکا ہوا ہے وہ چلا کر سب کو بلانا چاہتی تھی لیکن پھر اپنی بدنامی پر اس نے آہستہ لیکن  کانپتی آواز سے پوچھا

ڈر کیوں رہی ہو میں ہوں لگتا ہے تن نے میرے سرپرائیز کو سیریس نہی لیا اس نے اس کے کانپتی آواز اور جسم کو محسوس کر کے کہا

وہ جو اسے اپنے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی اس کج سرد آواز پر اس کے ہاتھ رک گئے اور سرپرائز والی بات پر اسے وہ میسج یاد آیا اب وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی جب کہ اندھیرے میں صرف نیلی آنکھیں اور اس میں سرخ ڈورے ہی اسے دکھے ان آنکھوں کو وہ کیسے بھول سکتی تھی اس نے تو سوچا بھی نہی تھا کہ وہ اس پہر اس کے کمرے میں گھس آۓ گا

دیکھو پلیز مجھے معاف کر دو غلطی ہو گئی مجھ سے میں معافی مانگتی ہوں اس نے نیچے دبے ہی بھرائی آواز میں معافی مانگی اسے اس وقت صرف اپنی عزت کی فکر تھی

نہ بے بی نہ معافی کیا ہوتا ہے یہ لفظ تو میری ڈکشنری میں ہے ہی نہی اس نے اس کے آنسو اس کی گال سے بے دردی سے رگڑتے سرد آواز میں کہا

اسکے ایسا کرنے پر اس نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا پہلے ہی اس کی گرم سانسیں اس کی سانسوں سے الجھتی اسے پریشان کر رہی تھیں اوپر سے اس کا لمس جس میں نفرت تھی اس کا دل چاہا کہ وہ ابھی اس شخص کو مار دے لیکن اپنی بے بسی پر وہ رو پڑی

ارے ابھی تو صاف کیے تھے میں نے اس نے اس کے آنسو دوبارہ بہتے دیکھ کر پھر بے دردی سے رگڑے

ہٹو پیچھے اس نے اس کے سینے پر مکہ مارتے نفرت سے کہا

اس کے مکہ مارنے پر وہ غصے سے اس کا جبڑا  پکڑ گیا اور نہایت درشتگی سے بولا 

جب میں نے تمہیں کالز کیں تھیں تو کال کیوں پک نہی کی تھی ہاں میں تمہارا ملازم ہوں جو بار بار کال کرتا پھروں 

می۔۔یں نن ے نہی کہ۔۔ا تھا کال ک۔۔۔رنے کو اس نے بمشکل اس کی پکڑ میں درد برداشت کرتے نفرت سے کہا

ہاں تم کیوں مجھے بھلا بولو گی ویسے مجھے بڑی خوشی ہوئی تمہارے اندر اپنے لیے ڈر کو دیکھ کر ایسے ہی دیکھنا قطرہ قطرہ تمہارے اندر میں کیسے اپنا ڈر ڈالتا  ہوں کہ تم میرے نام سے بھی ڈرو گی اس نے مسکراتے کہا اور اس پر سے اٹھ گیا

اس کے اٹھنے پر وہ سانس لیتی اٹھی اسے اپنے سارے جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا

ویسے میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ تم دنیا کی واحد لڑکی ہو جس نے مجھے تھپڑ مارا ہے اور دیکھنا تم پہلی اور آخری ہی ہو گی کیونکہ جو حال تمہارا میں کروں گا اسے دیکھ کر کوئی بھی یہ جرات نہی کر پاۓ گا اس نے اس کی بازو کو اپنے شکنجے میں لیتے اپنی نیلی آنکھیں اس کے جھکے ہوۓ سر پر مرکوز کیے غصے سے کہا

ایک تو پہلے ہی اس جیسے ورزشی جسم کے مالک کے نیچے دبنے کی وجہ سے اس کے جسم میں درد ہو رہا تھا اوپر سے اپنے بازو میں اس کی انگلیاں دھنسنے پر وہ کراہ کر  رو پڑی 

ارے ڈارلنگ پھر سے رو پڑی ابھی ان کو سنمبھال کر رکھو کیونکہ تمہیں ان فیوچر ان کی بہت ضرورت پڑنے والی ہے اور آئی سوئیر میں تمہیں بہت رلانے والا ہوں 

وییسے تم نے سوچا کہ رات کے وقت تم اور میں ایک کمرے میں ایک ساتھ یو نو اس نے مسکرا کر کہا

اس کی بات پر اس کا چہرا سفید کہ مانن لٹھا پڑ گیا

یا پھر اگر کوئی اس وقت مجھے تمہارے کمرے میں دیکھ لے تو سوچا ہے کیا ہوگا اور تمہارے تو ماں باپ بھی نہی ہیں چچچچ کون بھروسا کرے گا تمہارا سارے یہی کہیں گے کہ تم نے مجھے بلایا ہے تبھیی میں آیا ورنہ میں کیوں آتا اس نے مزے سے اس کے سفید پڑتے چہرے کو  دیکھ مسکرا کر کہا

دیکھو پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں تمہارے پاؤں پکڑتی ہوں پلیز میری جان چھوڑ دو پلیز اس نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر روتے کہا اس کی باتوں سے تو اس کی جان نکلنے لگی تھی وہ سہی تو کہہ رہا تھا اگر وہ اس کے ساتھ کچھ کر دیتا یا پھر اسے کوئی اس وقت اس کے ساتھ کمرے میں دیکھ لیتا تو کیا ہوتا کوئی اس کی بات کا یقین نہ کرتا اس کے ماں باپ تو تھے نہی جو اپنی بیٹی پر یقین کرتے 

معافی تو میری ڈکشنری میں ہے نہی لیکن یہاں سے جانے کے بارے میں سوچ سکتا ہوں وہ بھی بغیر کسی کی نظروں میں آۓ اگر میری شرط منظور ہو تو 

ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اسے روتے کہا اس کے لیے اس وقت اتنا ہی کافی تھا کہ وہ یہاں سے چلا جاۓ

ٹھیک ہے میں یہاں سے جا رہا ہوں لیکن یاد رکھنا اب شرط کے طور ہر تمہیں وہی کرنا ہو گا جو میں کہوں گا یہی شرط ہے اور اگر تم منکری تو یاد رکھنا عاجل مصطفی گیلانی نام ہے میرا اگر میں اس وقت تمہارے کمرے میں آسکتا ہوں تو کچھ بھی کر سکتا ہوں کچھ بھی وہ کچھ بھی پر زور دیتا جیسے آیا تھا وہسے ہی چلا گیا تھا 

اس کے جاتے ہی وہ زمین پر بیٹھتی روتی چلی گئی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

طلحہ دیکھیں یہ مچھلی کتنی پیاری ہے اس نے اشتیاق سے گولڈن کلر کی مچھلی کو دیکھ کر کہا

وہ لوگ اس وقت دبئی کے ایکیورم اور انڈر واٹر زو میں تھے 

ہاں بہت پیاری ہے اس  نے اسکی خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر کہا اور اس کے گر بازو پھیلا کر اس کے ساتھ چلتے مختلف جانور دیکھنے لگا کبھی وہ پر جوش سی شیشے کو ہاتھ لگا کر دیکھتی تو کبھی بڑی مچھلی کے آنے پر ڈر جاتی

وہاں سے وہ لوگ مال میں گئے اس وقت رات تھی اور سارا شہر مصنوعی روشنی سے جگ مگ کر رہا تھا 

طلحہ نے اسے اپنی پسند کی شاپنگ کروائی اور اپنی شاپنگ اسے کرنے کو کہا اس طرح انہوں نے ایک دوسرے کی شاپنگ کی اور ہنستے مسکراتے ایک حسین دن گزار کر وہ لوگ ہوٹل میں اپنے کمرے میں داخل ہوۓ

اف میں تو تھک گئی اس نے بیڈ پر سامان رکھ کر کہا اور خود بھی بیٹھ گئی

جاؤ فریش ہو آؤ تب تک میں کھانا آرڈر کرتا ہوں وہ سر ہلا کر فریش ہونے چلی گئی طلحہ نے سارے بیگز الماری میں رکھے اور کھانا آرڈر کیا 

جب تک وہ فریش ہو کر آئی کھانا آچکا تھا 

انہوں نے مل کر ھانا کھایا اور کال کر کے برتن لے جانے کے لیے کہا

آؤ گھر بات کرتے ہیں اس نے اسے اپنے ساتھ بٹھا کر گھر فون ملایا

اسلام علیکم دادو انہوں نے مشترکہ سلام کیا

وعلیکم سلام دادی صدقے میرے دونوں پوتا پوتی کیسے ہیں 

تھک گئی ہوں دادی آج پورا دن باہر گھوم گھوم کر تو ٹانگیں درد کر رہی ہیں اور آپ کا یہ پوتا میرا بلکل بھی خیال نہی رکھتا تھکن کا رونا رو کر اس نے طلحہ کی جھوٹی شکایت لگائی

کیوں وے طلحہ کیوں میری بچی کا خیال نہی رکھتے تم ہاں اگر اب بچی سے مجھے تیری شکایت ملی نہ تو میں نے  ڈھنڈے سے تیری دھلائی کرنی ہے ان کی ڈانٹ پر اس نے گھور کر اسے دیکھا اور دادی  کو بولا

جی دادی آپ بے فکر رہیں میں آپ کی پوتی کا بہتتتتتتت خیال رکھوں گا اس نے بہت کو لمبا کھینچ کر اس پر زور دیا 

اچھا لے اپنی ماں اور باقی سب سے بات کر لو 

پھر صوفیہ نے سب کو آج کے دن کی ساری روداد بتائی اور ایکیورم کے بارے میں بھی سب نے اس کے خوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھ اس کی نظر اتاری اور اس کی دائمی خوشہوں کی دعا کی

کال بند کر کے اس نے طلحہ کی طرف دیکھا وہ اسے گھور رہا تھا کہ اس کے دیکھنے پر مسکرایا

اسے اس کی مسکراہٹ سے خطرے کی بو آئی

طلحہ نے اس کو بیڈ پر دھکا دے کر اس کے ہاتھوں کو بیڈ سے لگاتے اس پر جھک کر اس کے کان میں کہا

دادی کو کیا کہہ رہی تھی 

کچ۔۔۔۔۔چھ بھی تو نہی کچھ بھی تو نہی کہا میں نے اس نے سر نفی میں ہلاتے کہا

اچھا مجھے لگا کہ تم نے کہا کہ میں تمہاتا خیال نہی رکھتا کہتے اس نے اس کے کان پر لب رکھے

کیا کر رہے ہیں طلحہ چھوڑیں تمہارا خیال رکھ رہا ہوں دادی کا کہا سنا نہی کہ اگر میں نے تمہارا خیال نہ رکھا تو وہ مجھے ڈنڈے سے مارے گیں اس لیے اب چپ کرو اور مجھے خیال رکھنے دو اس نے اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر کے چپ کرا دیا

ماما مجھے نہی پتا آپ ممانی اور مامو سے میرے  اور شہروز کے رشتے کی بات کریں نہی تو یہ منہوس آہلہ شہروز کو مجھ سے چھین لے گی آپ نے دیکھا نہی تھا اس دن کیسے اس نے آہلہ کہ حمایت کی تھی پھر اس کی موچ پر وہ  کیسے اپنا کھانا چھوڑ کر گیا تھا اس کے کمرے میں اور کل تو اس نے حد کر دی ماما

کیوں کل کیا کیا تھا اس نے

ماما کل اس نے پھر کل کا واقع من ومن ان کے گوش گزار کیا ماما مجھے اس کے ارادے ٹھیک نہی لگ رہے اس سے پہلے کہ آہلہ اسے قابو میں کر لے آپ مامو سے بات کریں

ہوں کرتی ہوں بات کل رفعت بھابی سے اور تم جا سو جاؤ کافی دیر ہو گئی ہے انہوں نے پرسوچ انداز میں کہا

ایسے خدشات تو انہیں بھی اس دن لاحق ہوۓ تھے جب وہ اپنا کھانا چھوڑ کر اسے دیکھنے گیا تھا اب انہیں بھی مروہ کی بات سہی لگ رہی تھی اس لیے انہوں نے کل رفعت سے بات کرنے کا پکا ارادہ کیا اور عشاء کی نماز کے لیے وضو بنانے چلی گئیں

اس کے جانے کے بعد وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہی سوئی تھی جس سے اس کی آنکھیں سرخ اور سوجھی ہوئی تھیں اس نے جو ہمت کل اپنے اندر پیدا کی تھی باہر نکلنے کے لیے وہ کل رات آکر اسے اپنی باتوں سے خوفزدہ کر کے اس کی ہمت کو مسمسار کر گیا تھا لیکن وہ گھر رہ کر کسی کو شک نہی ہونے دینا چاہتی تھی اس لیے مارے بندھے وہ تیار ہوئی اس نے خود کو شیشے میں دیکھا تو اسے اپنی روئی روئی سوجھی آنکھوں کو دیکھ کر وہ ایک بار پھر کل رات کے واقعے کو یاد کر کے پھر رو پڑی اس کی سرد آواز اس کی غراہٹ اس کی دھمکی ابھی بھی اس کے کانوں میں گونجھ رہی تھی اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں خود کو کمپوز کیا اور گہری سابس لے کر بیگ لے کر کمرےبسے نکل گئی

اسلام علیکم 

وعلیکم سلام 

آج ناشتہ نہی کرنا کیا اسے بلکل تیار دیکھ کر ساجد صاحب نے پوچھا

نہی چاچو آج دل نہی کر رہا 

لیکن بیٹا کچھ تو کھا لیتی انہوں نے اصرار کیا

چاچو ابھی دل نہی چاہ رہا میں سکول جا کر لھا لوں گی اگر دل چاہا تو آپ پریشان مت ہوں ان کی اپنے لیے فکر پر اسے دلی خوشی ہوئی تھی اس لیے وہ انہیں مسکرا کر مطمئن کرتی چلی گئی

شہروز جو بغور سسے دیکھ رہا تھا اس کی سوجھی آنکھوں کو دیکھ کر ٹھٹھکا وہ اس سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن وہ ساجد صاحب کو مطمئن کرتی چلی گئی

اس کے جانے کے بعد بھی وہ اس کی سوجھی انکھوں کو سوچ کر اندر ہی اندر پرہشان ہو رہا تھا 

بیٹا ناشتہ تو سہی سے کرو رفعت بیگم نے اسے پلیٹ میں چمچ ہلاتے دیکھ کر ٹوکا ان کے ٹوکنے پر وہ سر ہلا کر پلیٹ پر جھک گیا 

شمع بیگم جو اسے غور سے دیکھ رہی تھیں اسے دہکھ کر انہیں مروہ کی بات درست لگی 

ساجد صاحب اور شہروز ناشتے کے بعد آفس جبکہ مروہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ شمع نے انہیں مخاطب کیا

بھابی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ہاں بولو 

یہاں نہی بھابی آپ کے کمرے میں اچھا چلو ایسی بھی کیا بات ہے جو تم باہر نہی کر سکتی تھی انہوں نے صوفے پر بیٹھ کر پوچھا

بھابی وہ مجھے وہ لڑکی کی ماں تھیں اس لیے بات کرتے ہوۓ ہچکچا رہی تھیں

کیا بات ہے شمع تمہیں جو بھی کہنا ہے تم کہہ دو تم میری نور کی طرح ہو انہوں نے ان ی ہچکچاہت پر ان کا کا ہاتھ دبا کر انہیں اپنائیت والا احساس دلایا

بھابی مجھے آپ سے مروہ اور شہروز کے متعلق بات کرنی ہے بھابی برا مت مانیے گا لیکن میں شہروز کو اپنا داماد بنانا چاہتی ہوں میں نے شروع سے ہی اپنی مروہ کے لیے شہروز کو سوچا ہے انہوں نے اپنی بات کی وہ نہی چاہتی تھیں کہ ان کی طرح ان کی بیٹی اپنی  محبت سے ہاتھ دھو بیٹھے 

تم جے تو میرے دل کہ بات کر دی شمع میں بھی یہی چاہتی ہوں ماشاءاللہ مروہ اتنی پیاری ہے اور پھر میری نظروں کے سامنے پلی بھری ہے مجھے بھلا کیا اعتراض ہونا ہے اور اب بچوں کی عمر بھی ہو گئی ہے انہوں نے خوشی سے کہا

تو بھابی پھر آپ بھائی سے بات کریں کیونکہ میں جلدی سے جلدی یہ شادی چاہتی ہوں اور اگر بھائی بھی مان جاتے ہیں تو میں اس ہفتے ان کا نکاح چاہتی ہوں رخصتی بے شک بعد میں ہو جاۓ

ہاں میں آج ہی بات کرتی ہوں  ان سے لیکن تمہیں اتنی جلدی کس بات کی ہے 

بھابی مجھے شہروز کی حرکتیں کچھ سہی نہی لگ رہیں

کیا مطلب وہ ناسمجھی سے گویا ہوئیں

بھابی میں نے شہروز کا آہلہ کی طرف جھکاؤ دیکھا ہے اور صرف یہ میں نے نہی بلکہ مروہ نے بھی محسوس کیا ہے 

ہمم تو تمہیں اس لیے جلدی ہے تم اس بات کو زہن سے نکال دو کہ آہلہ کبھی میری بہو بنے گی میری بہو صرف مروہ بنے گی اور میں آج ہی بات کرتی ہوں ساجد سے 

شکریہ بھابھی 

شکریہ کیسا اگر تم آج بات نہ کرتی تو تھڑے عرصے تک ساجد سے بات کر کے میں باقاعدہ تمہارے ہاں رشتہ لاتی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ماما بات کی آپ نے ممانی سے وہ ان کے کمرے داخل ہوئی

ہاں بات کی ہے میں نے تھوڑی دیر پہلے ماں صدقے وہ بھی تمہیں ہی بہو بنانا چاہتی ہیں بلکہ وہ تو کہہ رہی تھیں کہ اگر میں آج رشتہ کی بات نہ کرتی تو وہ خود آتیں  انہوں نے خوشی سے کہا

کیا سچ میں

ہاں ماما لیکن مامو تم ان کی فکر مت کرو رفعت بھابی بات کریں گی آج ان سے اور مجھے پورا یقین ہے کہ انہیں بھی کوئی اعترض نہی ہو گا 

آئی لو یو ماما یو آر دہ بیسٹ ماما ان ولرڈ وہ ان کے گلے لگی

لو یو ٹو میرا پیارا بچہ 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

 سکول آکر اس کا دل بچوں میں کچھ بہل گیا تھا وہ اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہی تھی ان کے بیچ ابھی تھرڈ پیریڈ چل رہا تھا کہ پین نے اسے میم سلمہ کے کیبن میں بلایا وہ بچوں کو کلرز کرنے کا کام دے کر ان کو شور نہ کرنے کی ہدایت دے کر ان کے آفس کے لیے چل دی

وہ کب سے اسے کال کر رہا تھا لیکن کال ہی نہی ہو رہی تھی یکدم اس کے زہن میں کلک ہوا کہ اس نے تو کل اس کا نمبر بلاک کر دیا تھا اسے خود پر غصہ آیا کہ اسے کل رات نمبر انبلاک کروا لینا چاہیے تھا لیکن اب تو کچھ نہی ہو سکتا تھا 

اس نے اپنے آدمی کو فون کیا اور اس کے بارے میں پوچھا 

ہمم کہاں ہو اور وہ کدھر ہے اس نے سرد لہجے میں پوچھا 

سر میں سکول کی بلڈنگ کے باہر کھڑا ہوں اور میم اندر ہیں ٹھیک ہے تم اپنا کام جاری رکھو کہہ کر اس نے اس کا فون بند کر دیا 

 اچھا تو آج سکول گئی ہوئی ہیں کیوں نہ ایک دفع پھر تمہیں اپنا دیدار کروایا جاۓ مسکرا کر کہتا وہ کیز لے کر کمرے سے نکل گیا

پندرہ منٹ میں ہوا سے باتیں کرتے وہ میم کے آفس میں داخل ہوا 

آپ آئیے سر کیسے آنا ہوا آپکا میم سلمپ نے اسے دیکھ خوشدلی سے بیٹھنے کو کہا اور آنے کی وجہ دریافت کی

آپ کے سٹاف میں مس آہلہ ہیں وہ میری کزن ہیں میں انہیں ہی لینے آیا ہوں کچھ کام ہے اس لیے 

اس نے بغیر کسی فضول بات کے مدعے کی بات کی

جی ویسے آہلہ نے کبھی بتایا نہی کہ آپ ان کے کزن ہیں جی دور کی کزن ہیں اس لیے ان کے سوال پر اسے غصہ تو بہت آیا لیکن تمیز کے دائرے میں رہ کر جواب دیا

اتنے میں دروازہ ناک کر کے آہلہ کیبن میں داخل ہوئی عاجل کی اس کی طرف پیٹھ تھی اس لیے وہ اسے دیکھ نہ پائی

آئیے مس آہلہ آپ کے کزن آپ کو لینے آۓ ہیں اس لیے آپ ان کے ساتھ چلی جائیں 

میم کی بات پر اس نے حیرت سے ہوچھا کون سے کزن میم  اس کے سوال پر عاجل  کرسی سے اٹھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اس کو سامنے دیکھ کر اس کا چہرہ سفید پڑ گیا وہ اس کے چہرے کو دیکھ کر مسکرایا عاجل اس کے بلکل سامنے تھا اس لیے میم سلمہ اس کے بدلتے رنگ کو دیکھ نہ سکیں

کچھ کام ہے اس لیے میں تمہیں لینے آیا ہوں اجازت لے چکا ہوں میم سے اس لیے میرے ساتھ چلو اس نے سنجیدگی سے کہا اور آنکھوں سے کچھ بھی کہنے سے باز رکھا 

اس کی آنکھوں کے اشارے کو سمجھ کر بے بس ہوتی کلاس میں اپنا پرس لینے چلی گئ وہ میم کے سامنے جانے سے انکار کر سکتی تھی لیکن وہ اپنی بدنامی نہی چاہتی تھی کیونکہ اس شخص سے کسی اچھائی کی امید نہ تھی 

کیوں آۓ ہو یہاں بلڈنگ سے نکل کر وہ آہستہ لیکن سرد آواز میں چلائی

آواز نیچی رکھو اور چپ چاپ چلو اسے بازو سے پکڑتے وہ زبردستی اسے گاڑی میں بٹھا کر گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا

دیکھو کہاں لے جا رہے ہو تم مجھے کھولو دروازہ میں کہہ رہی ہوں روکو گاڑی اسے سنسان علاقے کی طرف گاڑی لے جاتے دیکھ کر وہ خوف سے چلائی

اس کے چلانے ہر اس نے گاڑی کو یکدم بریک لگایا اچانک بریک لگانے کی وجہ سے آہلہ کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکرایا 

اف وہ اپنے سر کو پکڑ کر کراہی عاجل  اس کا جبڑا زور سے پکڑ کر زور سے چلایا خبردار اگر اب مجھے تمہاری آواز سنائی دی اور میرے سامبے تو اونچی اواز میں بولنا بھی مت سمجھی 

اسے چھوڑ کر اس نے دوبارہ گاڑی چلا دی وہ اپنے جبڑے کو ہاتھ میں پکڑ کر رو پڑی 

پلیز گاڑی روک دو میرے ساتھ ایسا مت کرو  اس نے اس کے آگے جوڑے تم پھر سے بول پڑی تمہیں میری بات ایک دفع سمجھ نہی آتی کیا اس نے اسے سخت نظروں سے دیکھا

ہاں نہی آتی مجھے سمجھ نا مجھے سمجھنا ہے کچھ تم بس مجھے میرے گھر چھوڑ دو خدا کا واسطہ ہے تمہیں پہلے وہ چلائی اور پھر بے بسی سے اسے خدا کا واسطہ دیا اسکا دل خوف سے پھٹ رہا تھا کہ وہ نجانے اسے کہاں لے کے جا رہا ہے اور اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہے 

تم تو رکو زرا تمہارا بندوبست تو کرتا ہوں میں اس نے کہنے کے ساتھ گاڑی روکی اور کوئی چیز تلاش کرنے لگا وہ اس کی ساری کاروائی دیکھ رہی تھی اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا ڈھونڈ رہا ہے جب اسے کچھ نہ ملا تو اس کی نظر اس کے سٹالر پر گئی جس سے اس نے حجاب کر رکھا تھا حجاب کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور اپنا ہاتھ بڑھایا اس اتارنے کے لیے 

وہ جو اس کی کاروائی نا سمجھی سے اپنا رونا بھول کر دیکھ رہی تھی اس کا ہاتھ اپنے حجاب کی طرف بڑھتے دیکھ کر اس نے اپنے حجاب کو سختی سے ہکڑ لیا اور تیزی سے سر نفی میں ہلانے لگی 

اس نے ایک ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑا جو وہ نفی میں ہلا رہی تھی اور اس کا حجاب اتارا اپنے بالوں کو بے پردہ دیکھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اس نے جب سے ہوش سنمبھالا تھا اپبے بالوں کو نامحرم کی نظروں سے چھپایا ہی تھا 

اس نے حجاب اتار کر اسے اس کے منہ پر باندھ دیا اور گاڑی چلانے لگا اس آوازوں کو اگنور کیے

اس کے کپڑا بانھنے ہر وہ سر نفی میں ہلا ہلا کر اسے منع کر رہی تھی لیکن اس نے اسکی ایک نہ سنی اور کپڑا زور سے اس کے منہ پر باندھ دیا اور ساتھ ہی ہاتھ بھی وہ اوں آں کر رہی تھی لیکن وہ اسے اگنور کر کے گاڑی چلانے میں بزی ہو گیا 

بے بسی ہی بے بسی تھی تھک ہار کر وہ رونے کا شغل کرنے لگی 

آدھے گھنٹے کی مزید ڈرائیو کر کے اس نے گاڑی ایک جنگل کے سامنے روکی جنگل کو دیکھ کر آہلہ ڈر لگا اس نے آس پاس دیکھا لیکن کوئی زی روح بھی اسے اس سنسان علاقے میں نہ دکھا 

عاجل نے گاڑی سے اتر کر اس کا دروازہ کھولا اور گاری سے اترنے کا کہا لیکن وہ سر نفی میں ہلاتی پیچھے کو کھسکی اس کے نفی پر عاجل نے اس کا بازو سختی سے پکڑ کر باہر نکالا اور اسے گسیٹتے ہوۓ جنگل میں لے جانے لگا جنگل کے آخر میں وہ اسے ایک لکڑی کے بنے چھوٹے سے ہٹ میں  گیا اور اندر سے کنڈی لگا دی 

اس کے کنڈی لگانے پر وہ خوفزدہ نظروں سے اسےدیکھنے لگی اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتے خوف کو دیکھ کر اسے اپنے اندر سکون محسوس ہوا وہ اسے جسمانی ازیت کے ساتھ ساتھ زہنی ازہت سے دوچار کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اسی لیے وہ اس کے ساتھ ایسا کر رہا تھا

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا قدم قدم چلتا اس کے نزدیک آ رہا تھا وہ جتنے قدم اس کی طرف بڑھاتا وہ اتنے ہی قدم پیچھے لیتی وہ اس کے بلکل نزدیک پہنچا تو اس نے پیچھے ہونے کے لیے قدم اٹھایا لیکن بد  قسمتی سے اب پیچھے دیوار تھی پیچھے دیوار کو دیکھ کر وہ بے بسی سے وہی کھڑی رہی کیونکہ اب مزید پیچھے تو وہ ہو نہی سکتی تھی 

تمہیں کیا لگ رہا ہے میں تمہیں یہاں اس سنسان جنگل میں کیوں لے کر آیا ہوں اس نے ایک ہاتھ دیوار ہر رکھ کر اسے پوچھا 

سو سوری تم کیسے بتاؤ گی ایک منٹ رکو میں ڈوپٹہ اتارتا ہوں پھر بتانا اس نے اس کے منہ سے ڈوپٹہ ہٹایا اور پھر ہاتھ کھولے

ڈوپٹہ اترنے پر اس نے گہری سانس لی 

چلو اب بتاؤ کیا لگتا ہے تمہیں لیکن وہ خاموش رہی اس نے اپنے ہاتھ سےاسے سامنے سے ہٹانا چاہا تو اس نےباس کے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ لیے جبکہ ایک ہاتھ ہنوز دیوار پر رکھا تھا 

اچھا چلو میں تمہیں دو آپشن دیتا ہوں اس میں سے بتاؤ کہ میں کیوں لایا ہوں تمہیں یہاں پہلا آپشن تمہیں یہاں موجود بھیڑیوں کہ خوراک بنانے یا پھر اپنی رات سوری دن کو رنگیلا بنانے جبکہ اس کے پہلے آپسشن پر وہ ڈری اور دوسرے پر تو اس کا رنگ پیلا پڑگیا 

لگتا ہے تمہیں دوسرا آپشن زیادہ ٹھیک لگا ہے اس کے چہرے کو زرد پن کو دیکھ اس نے مسکرا کر پوچھا

دیکھو پلیز مجھے معاف کر دو میں تمہارے پیر پکڑنے کو بھی تیار ہوں جب بات عزت پر آئی تو وہ بلکتی اس کے پیروں میں گر گئی

اس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا ابھی نہی ابھی تو تمہیں بہت کچھ دیکھنا ہے بہت کچھ سہنا ہے  اور اب یہ رونا بند کرو اور یہ جوڑا پہن کر آؤ

اس نے لال رنگ کی فراک اور کچھ ہلکی پھلکی جیولری اسے تھمائی 

نہی پلیز جاؤ اس نے غرا کر کہا

وہ پھر بھی جب اپنی جگہ سے نہ ہلی تو اس نے اس کے کان میں کہا

اگر خود نہی کرنا چاہتی تو بتا دو میں کروا دیتا ہوں

اسکی بات پر اس نے اچھنبے سے دیکھا اسے لگا شائد وہ اسے ڈرانے کے لیے کہہ رہا ہے لیکن اس کی آنکھوں اور چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر وہ تیزی سے نفی میں سر ہلاتی اس کے بتاۓ گئے کمرے میں بھاگ گئی

اس نے واش روم میں جا کر کپڑے دیکھے تو وہ خیران ہوئی اسے تھا کہ وہ کوئی برہنہ قسم کے کپڑے ہوں گے لیکن یہ تو پورے جسم کو ڈھانپنےوالے تھے ایک اور بات جس نے اسے چونکایا تگا وہ ڈریس کا کلر اور ساتھ ہیوی ڈوپٹہ تھا وہ اس کی سمجھ سے باہر تھا اسے سمجھ نہی آ رہی تھی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے اس کی آواز پر وہ بالوں کا جوڑا بناۓ نماز کی طرح ڈوپٹہ لیے باہر آئی

ہمم اچھی لگ رہی ہو لیکن یہ اچھا نہی لگ رہا اس نے اس کی تعریف کرتے اس کا ڈوپٹہ کھول کر اس کے سر پر پھیلایا اور اسے گھیرے میں لیتے دو تین تصویریں لیں وہ منع کرتی رہی لیکن اس نے اس کی ایک نہ چلنے دہ اوت محتلف پوزز میں اس کا ساتھ سیلفیز لیں

چلو اب تمہیں گھر چھوڑ آؤں سکول سے چھٹی کا ٹائم ہونےبوالا ہے اس نے اپنی کلائی میں پہنی برینڈد گھڑی میں وقت  دیکھ کر کہا

یہ کپڑے اس نے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا ہاں جاؤ چینج کر لو نہی تو سو سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے اور میں چاہتا ہوں کہ تم ایک دفع ہی سب کو اپنی صفائی دو اس نے معنی حیز کہا

اب تم زیادہ مت سوچو میں بڑے والے سرپرائیز کی بات کر رہا ہوں اس کی سرپرائیز والی بات پر وہ سہم گئی

سارے رستے عاجل نے اسے تنگ نہی کیا تھا وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا اور آہلہ سارے رستے یہ سوچتی آئی کہ وہ کونسے سرپرائیز کی بات کر رہا ہے 

مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے 

ہمم بولو وہ شمع نے مروہ کے لیے شہروز کی بات کی بات کی ہے مجھے بھی کوئی اعتراض نہی ہے آپ کیا کہتے ہیں 

مروہ میری بھانجی ہے بھلا مجھے کیا اعتراض ہوگا اور پھر یہ تو اچھی بات ہے کہ وہ اسی گھر میں رہ جاۓ گی انہوں نے مسکرا کر کہا

ٹھیک ہے پھر میں کل ہی شمع سے بات کروں گی انہوں نے خوشی سے کہا

ارے بیگم پہلے شہروز سے تو پوچھ لیں اس کی مرضی پوچھ لیں

وہ میرا فرمانبردار بیٹا ہے اور پھر مروہ اور اس کی اتنی اچھی دوستی ہے مجھے نہی لگتا کہ اسے کوئی اعتراض ہوگا انہوں نے مان سے کہا

لیکن پھر بھی یہ اس کی زندگی ہے اس لیے کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اسے پوچھ لینا بہتر ہے ٹھیک ہے پھر آپ اس سے پوچھ لیجیے گا پھر ہی میں شمع سے بات کروں گی انہوں نے کمبل درست کرتے کہا

وہ سونے کے لیے لیٹی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی اسے سرپرائز والی بات کھٹک رہی تھی ایک ڈر تھا جو اس کے دل کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوۓ تھا اس کے اندر یہ خوف بھج تھا کہ پتا نہی وہ اس کی تصویروں کے ساتھ کیا کرے گا 

وہ اس کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کسی کے گرنے کی آواز آئی اس نے دروازے کی طرف دیکھا تو وہ بند تھا پھر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو وہ فریز ہو گئی وہ آج بھی کھڑکی سے کود کر آیا تھا 

میرے بارے میں سوچ رہی تھی نہ اس نے اسکی وحشت سے پھیلی آنکھوں میں اپنی نیلی آنکھیں ڈال کر مسکرا کر کہا

اب کیا لینے آۓ ہو اس نے بیڈ سے کھڑے ہو کر پوچھا کچھ نہی بس تمہیں دیکھنے آیا تھا مزے سے کہہ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا 

لوگ محبت میں کھڑکی کود کر آتے ہیں اور ایک میں ہوں جو نفرت میں یہ کام کر رہا ہوں

دیکھو تھپڑ ہی تو مارا تھا تم بھی اس کے بدلے دو مار لو لیکن میری جان چھوڑ دو اس نے ہاتھ جوڑ کر غصہ و بے بسی سے کہا

بار بار وہ دروازے کی طرف بھی دیکھ رہی تھی کیونکہ ابھی صرف دس بجے تھے تھے تو سارے اپنے اپنے کمروں میں لیکن اسے ڈر تھا کہ کوئی آ نہ جاۓ

تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں تھپڑ نہی مار سکتا ایک کیا میں تو تمہیں جان سے مار دوں لیکن پھر مجھے مزہ نہی آۓ گا میں عاجل ہوں اور میرا بدلہ بھی الگ ہو گا کہتے اس نے اس کا موبائل سائٹ ڈرا سے اٹھایا اور کچھ کرنے لگا 

تمہارا یہ موبائل میں لے کر جا رہا ہوں صبح تمہیں ڈرا پر ملے گا اوکے باۓ اس کا موبائل پاکٹ میں ڈال کر اس کا گال تھتھپا کر وہ چلا گیا اور وہ اسے دیکھتی رہ گئی صبح جب اس نے دیکھا تو اس کا موبائل اس کے کہے کے مطابق ڈرا ہی پڑا ہوا تھا

کیا وہ دوبارہ آیا تھا لیکن میں نے تو کھڑکی بند کی تھی پھر کیسے آیا اس نے موبائل اٹھایا تو نیچے ایک چٹ تھی جس پر لکھا تھا 

تمہیں کیا لگا کہ تم کھڑکی بند کر دو گی تو میں اندر نہی آ پاؤں گا چچچچچ مجھے کوئی بھی چیز تم تک پہنچنے کے لیے نہی روک سکتی  اس نے غصے سے چٹ کے ٹکڑے کیے اور واش روم چلی گئی

عاجل جو اپنے موبائل کے کیمرے میں اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے غصے سے چٹ پھارنے پر مسکرایا

جب وہ دوبارہ آیا تھا تو کھڑکی بند تھی لیکن پھر اس نے دیوار پھلانگ کر کمرے میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ تین بج رہے تھے اس لیے اس بات سے تو وہ بے فکر تھا کہ کوئی اٹھا ہو گا اس وقت اور اگر کوئی دیکھ بھی لیتا تو اسے کیا فرق پڑنا تھا 

وہ کسی طرح اس کے کمرے تک پہنچا اور اس کی خوش قسمتی سے وہ کھڑکی تو بند کر گئی تھی لیکن دروازہ لاک کرنا بھول گئی تھی اس نے سب سے پہلے کمرے میں کیمرہ  اور مائکرو فون فٹ کیا جو کہ اس نے اپنے موبائل سے کنیکٹ کیا ہوا تھا

اور پھر اس کا موبائل جس میں اس نے چپ فٹ کی تھی وہ سائڈ ڈرا پر رکھا اور کمرہ اندر سے لاک کر کے کھڑکی رستے واپس چلا گیا

وہ آج بھی بغیر ناشتہ کیے سکول چلی گئی

وہ اور فاریہ اس وقت کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھیں تم کل کہاں چلی گئی تھی بریک ٹائم میں تمہاری کلاس میں گئی تھی لیکن تم وہاں بھی نہی تھی 

ہاں وہ چاچو کی طبعیت کچھ ٹھیک نہی تھی اس لیے شہروز مجھے لینے آۓ تھے اس نے جھوٹ بولا اوہ کیا ہوا انہیں بس بی پی کا مسلہ تھا اور کچھ نہی 

اللہ ان کو صحت دے آمین

صوفیہ کی کال آئی تھی کل مجھے اس نے بتایا

اچھا کیسی ہے وہ اور کب آ رہی ہے وہ آہلہ نے پوچھا

ٹھیک ہے وہ بتا رہی تھی کہ کچھ دنوں تک وہ لوگ آجائیں گے سہی 

چلو آج باہر کا کوئی پلان بناتے ہیں پہلے مال چلیں گے وہاں سے ونڈو شاپنگ کریں گے اور پھر آئس کرہم پارلر چلیں گے فاتیہ نےے آئیڈیا دیا

آہلہ بھی مان گئی کیونکہ اسے بھی ریفریشمنٹ چاہیے تھی کچھ دنوں سے وہ بہت ٹینس تھی عاجل کہ وجہ سے

چھٹی کے بعد وہ لوگ مال چلی گئیں وہ لوگ کپڑوں کو دیکھتیں اور تبصرہ کرتیں اس پر لیکن خرید کچھ نہی رہی تھیں اس طرح انہوں نے مال میں کچھ وقت گزارا اور ساتھ موجود آئس کریم پارلر میں داخل ہوئیں وہ لوگ دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھیں کہ اسی وقت ایک لڑکا بھی باہر نکل رہا تھا  آہلہ دوسری سائڈ پر تھی اس لیے وہ بچ گئی جبکہ فاریہ اس لڑکے سے ٹکڑا گئی 

فاریہ غصے سے اپنا سر اٹھا کر سامنے والے کو کچھ کہنے لگی تھی کہ سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وہ اپنے درد اور غصے کو بھول کر پرجوش سی اس شخص کے گلے لگی 

وٹ آ پلیزنٹ سرپرائز بی اس نے خوشی سے اس کے گلے لگ کر کہا

جبکہ وہ اس کو علیحدہ کر کے پریشانی سے اس کے ماتھے کو چھو کر دیکھنے لگا کہ زیادہ تو نہی لگی 

زیادہ تو نہی لگی گڑیا آئم سوری میری وجہ سے تمہیں درد ہوا آئم رئیلی سوری اس نے اسے ایک سائڈ سے گلے لگا کر کہا

نو بی مجھے نہی لگی زیادہ اس نے اس کی فکر پر مسکرا کر کہا

آہلہ تو فاریہ کو دیکھ رہی وہ جو چھوٹی سی بات پر دوسرے کا سر پھوڑنے کو تیار رہتی تھی اب اس شخص کے ٹکرانے پر بجاۓ اسے کچھ سنانے کے خوشی سے اس کے گلے لگ کر باتیں کر رہی تھی 

بی اس سے ملیں یہ ہے میری دوست آہلہ اس نے آہلہ کا تعارف کروایا جسے وہ اپنی خوشی میں بھول چکی تھی 

اس شخص نے آہلہ کے سر پر ہاتھ رکھا 

اور آہلہ یہ میرے بھائی ہیں باقر

چلیں بی ہمارے ساتھ آئس کریم کھائیں نابتانے کا بدلہ میں آپ سے بعد میں لے لوں گی گھر جا کر دونوں کا تعارف کروا کر اس نے اسے آئس کریم ان کے ساتھ کھانے کی آفر کی 

چلو وہ بھی ان کے ساتھ چلا گیا

کچھ دور علی جو کسی کام کی وجہ سے یہاں آیا ہوا تھا فاریہ کو دیکھ کر وہ اسکی طرف آنے والا تھا کہ اسے کسی کے گلے لگے دیکھ کر وہ جلن اور غصے سے مٹھیاں بھینچ گیا اور غصہ حد سے سوا تو تب ہوا جب اس لڑکے بے بھی اسے گلے لگایا اسے لگا اب وہ اپنا غصہ کنٹرول نہی کر پاۓ گا 

وہ بھی کچھ دور ٹیبل پر اپنے فیس کے آگے مینیو کر کے بیٹھ گیا اور گاہے بگاہے وہ ان پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا فاریہ کا اس سے اتنی بے تکلفی سے باتیں کرنا اسے سخت ناگوار گزر رہا تھا 

آئس کریم کھاتے ہوۓ آئس کریم فاریہ کے کپڑوں پر گری تو وہ انہیں صاف کرنے کا کہہ کر واش روم گئی

اسے اٹھتے دیکھ کر وہ بھی اس کے پیچھے گیا اور واش روم میں جانے سے پہلے اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنا منہ رومال سے کور کر کے اندر داخل ہوا وہ جو آئس کریم صاف کر کے مڑنے لگی تھی کہ کسی نے اس کے بازو کو جارحانہ انداز میں پکڑ کر دیوار سے پن کیا جس سے اس کا منہ دیوار کے ساتھ بری طرح لگ گیا فاریہ جیسی نڈر لڑکی بھی اس اچانک افتادہ پر گھبرا گئی  

اس نے اپنے ہاتھوں کو دیوار پر رکھ کر پیچھے ہونا چاہا کہ علی نے اسکے دونوں ہاتھ کمر پر باندھ دیے اور سرد آواز میں اس کے کان کے پاس غرایا 

کون تھا وہ جس کے گلے لگے ہنس رہی تھی تم 

فاریہ کو اس انجان شخص پر حیرانی کے ساتھ غصہ بھی آیا جو اس سے باز پرس کر رہا تھا خالانکہ وہ اسے جانتی بھی نہی تھی 

وہ جو بھی ہے تمہیں اس سے کیا اور چھوڑو مجھے اس نے غصے سے کہا

اس کے الٹے جواب پر اس نے اس کے سر پر زور ڈالا جس سے اس کا منہ اور دیوار سے لگا کہ اسے جلن ہونے لگی 

جتنا پوچھا ہے اتنا بتاؤ اس نے سرد آواز میں کہا

بواۓ فرینڈ ہے میرا اس نے اس کے سوال پر جھوٹ بولا بھلا وہ کیوں ہر ایرے گیرے کو جواب دیتی اور پھر وہ فضول میں اس پر رعپ جما کر پوچھ رہا تھا

کیا کہا بواۓ فرینڈ میری بات دھیان سے سنو تمہارا بواۓ فرینڈ اور شوہر صرف میں بنوں گا اس لیے کسی کو بھی اپنے پاس آنے دینے کی ضرورت نہی ہے اور خبردار اب تم اس بے ہودہ شخص کے پاس بھی کھڑی ہوئی اگر میں نے تمہیں دیکھ لیا نہ تو مجھ سے برا کوئی نہی ہو گا اس نے غصے سے کہا

تم ہوتے کون ہو مجھے بتانے والے کہ میں کس کے ساتھ بولوں کس کے ساتھ نہی اور اس کے پاس تو نہ صرف میں کھڑی ہوں گی بلکہ اس کےساتھ ہنس ہنس کر باتیں بھی کروں گی کیا کر لو گے تم ہاں اور شوہر اور وہ بھی تم انمپاسبل اور مجھے زرا چھوڑو تو سہی پھر بتاتی ہوں تمہیں میں کہ کیسے تم میرے شوہر بنو گے اس نے غصے سے کہا

آۓ ایم ایمپریسڈ بے بی لیکن بیوی تو تم میری ہی بنو گی اور اس شخص سے بھی دور رہو گی بلکہ اس سے کیا ہر مرد سے دور رہو گی صرف میں ہی تم سے ہنس کر باتیں کروں گا تمہارے گلے لگوں گا اور کوئی نہی سمجھی اس نے سرد آواز میں اس کے کان میں کہا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا 

فاریہ نے اسے پہچاننے کی کوشش کی لیکن اس کے رومال بندھے ہونے کی وجہ سے وہ صرف اس کی آنکھیں ہی دیکھ سکی تھی اور وہ بھی اسے اجنبی ہی لگیں ہاں اس کی باڈی اسے علی سے ملتی جلتی لگی لیکن اس کی آنکھیں تو بلیک تھی جبکہ یہ براؤن 

کا دیکھ رہی ہو اس نے اس کے بازو پر زور دے کر پوچھا وہ جو اس کی آنکھوں کو دیکھ اس کا اور علی کا موازنہ کر رہی تھی چونکی اور اس پر جھپٹی فاریہ نے اپنے بڑے بڑے ناخن اس کی گردن میں مارے 

علی اس کے لیے تیار نہی تھا اسی لیے وہ اپنا بچاؤ نہ کر سکا اور اس کے ناخن سے اس کی گردن زخمی ہو چکی تھی اس نے اپنی گردن پر جہاں اس نے ناخن مارے تھے ہاتھ لگایا تو خون کی بوند اس کے ہاتھ پر لگی 

فاریہ نے صرف اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے دانت بھی اس کی بازو میں گاڑ دیے اس سے پہلے کہ وہ اسے شیرنی بن کر زیادہ زخمی کرتی اس نے اس کی گردن کی مخصوص نس دبا کر اسے بے ہوش کر دیا

وہ بے ہوش ہوتی اس کی باہوں میں جھول گئی اس نے اس اسے آرام سے زمین پر بٹھایا اور اس کے گال کو دیکھا جو دیوار کے ساتھ لگنے کی وجہ سے سرخ ہو گیا تھا اس نے اس کے اس گال کو سہلایا اور اس کے کان میں علی کی کوجی کی سر گوشی کرتا واش روم سے باہر نکل گیا 

جب کافی دیر تک فاریہ نہ آئی تو ان دونوں کو تشویش ہوئی وہ دونوں واش روم والی سائڈ گئے کیونکہ یہ لیڈیز واش روم تھا اس لیے باقر باہر رک گیا جبکہ آہلہ اندر گئی

آہلہ اندر داخل ہوئی اور اسے دیوار کے ساتھ بے ہوش نیچے پڑے دیکھ کر وہ سرعت سی اس کے پاس پہنچی اور اس کے گال تھپتھپاۓ فاریہ اٹھو جب وہ دو تین دفع گال تھپتھپانے پر بھی ہوش میں نہ آئی تو وہ باقر کو بلانے کے لیے واش روم سے باہر گئی

آہلہ گڑیا فاریہ کہاں ہے اسے اکیلے واش روم سے پریشان نکلتے دیکھ کر اس نے پریشانی سے پوچھا باقر بھائی وہ فاریہ اندر بے ہوش پڑی ہے میں نے اسے کافی دفع آواز دی ہے لیکن وہ اٹھ نہی رہی اس کی بات سن کر وہ پریشانی سے واش روم میں داخل ہوا تو وہ بے ہوش پڑی ہوئی تھی وہ اس کے نزدیک گیا اور اس کا سر گود میں رکھ کر تھپتھپایا 

فاری گڑیا بھائی کی جان آنکھیں کھولو لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی

آیلہ گڑیا آپ نے پانی کا چھڑکاؤ کیا اس پہ اس نے پریشانی سے پوچھا نہی اس نے نفی میں سر ہلایا تھوڑا سا پانی ہاتھ میں بھرو یہاں سے اور اس کے مبہ پر چھینٹے مارو شائد ہوش میں آجاۓ اس نے پریشانی سے فاریہ کا سر گود میں رکھے آہلہ کو ہدایت دی 

آہلہ نے اس کے  چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کیا تو وہ کسمسائی اور اپنی مندی مندی آنکھوں سے باقر کو دیکھا جو اس پر جھکے اس سے پوچھ رہا تھا 

شکر ہے تمہیں ہوش آگیا فاری گڑیا میں تو ڈر گیا تھا اور تم یہ بے ہوش کیسے ہوئی 

پتا نہی میں تو ائس کریم صاف کرنے آئی تھی پھر اچانک چکر آۓ اور میں بے ہوش ہو گئی اس نے اٹھ کر بیٹھتے کہا

وہ بھلا کیوں اپنے لیے کسی کو پریشان کرتی جب وہ خود اس سٹرینجر کا مقابلہ کر سکتی تھی اس کے لیے تو وہ خود کافی تھی بس ایک دفع کہیں مل جاۓ اس کا بھرتہ نہ بنا دیا تو کہے یہ سوچ کر اس نے جھوٹ بولا

اچھا چلو اٹھو تم نے تو ہم دونوں کو پریشان کر دیا ضرور تم نے صحیح سے کھایا نہی ہو گا  اس لیے کمزوری سے چکر آگئے ہوں گے 

سوری آپ دونوں کو میں نے پریشان کر دیا 

اب اگر تم نے ایک دفع اور سوری کیا نا تو میں نے اور باقر بھائی نے تمہاری خوب پٹائی کرنی ہے مل کر 

اہاں باقر بھائی 

جی اب سے یہ میرے بھی بھائی ہیں کیوں باقر بھائی

کچھ دیر میں ہی باقر کے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ اجنبیت سے بھائی تک آ گئی تھی 

جی گڑیا آج سے آپ بھی میری بہن ہیں جب کبھی آپ کو میری ضرورت پڑے گی آپ اپنے اس بھائی کو ساتھ پاؤ گی اس نے شفقت سے کہہ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ دونوں مسکرا دیں

باقر اسے اپنے بازوں کے حلقے میں باہر لایا اس نے کہا بھی کہ وہ ٹھیک ہے لیکن اس نے اسے ڈپٹ دیا

علی جو واش روم سے کچھ دور ایک کونے میں ان سے چھپ کر کھڑا تھا کہ اسے اس شخص کے بازو کے حلقے میں دیکھ کر پھر سے مٹھیاں بھینج گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

لنچ ٹائم پر ساجد صاحب نے شہروز کو اپنے کیبن کیبن میں بلایا تا کہ وہ اس سے بات بھی کر سکیں اور لنچ بھی 

آجاؤں بابا اس نے دروازہ ناک کر پوچھا 

ہاں ہاں آجاؤ تمہارے اپنے باپ کا ہی آفس ہے انہوں نے مسکرا کر اسے اندر آنے کی اجازت دی

بیٹھو میں نے سوچا کہ اکٹھے لنچ کرتے ہیں آج باپ بیٹا کیوں کہا کہتے ہو 

جیسے آپ کی مرضی بابا ویسے کوئی خاص بات جو آج آپ  مجھ پر کرم نوازی کر رہے ہیں اس نے انہیں چھیڑا 

کیا میں ویسے ہی تمہیں نہی بلا سکتا کیا تم نے مجھے ایسا سمجھا ہوا ہے انہوں نے مصنوعی خفگی سے کہا

جی بابا اس میں اپ کو کوئی شک ہے کیا اس نے مسکرا کر کہا

شرم نہی آتی باپ کے سامنے بیٹھے ہو اور کیسے باپ سے مسخرے کر رہے ہو انہوں نے مصنوعی غصے سے کہا

آپ میرے دوست پہلے اور بابا بعد میں ہیں 

وہ اس سے باتوں میں نہی جیت سکتے تھے اس لیے انہوں نے لنچ کا پوچھا 

اچھا بتاؤ کیا کھاؤ گے 

جو آپ اپنے لیے منگوائیں گے میرے لیے بھی منگوا لیجیے گا اس نے سہولت سے کہا

ساجد صاحب نے انٹرکام پر لنچ کا کہا اور اس کی طرف سنجیدگی سے مڑے

مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے 

جی بابا کہیں ان کی سنجیدہ آواز پر وہ بھی سنجیدہ ہوا

دیکھو مروہ اچھی لڑکی ہے (اب ان کو کیا پتا کہ وہ کتنیییییی اچھی ہے  اچھی نہی بلکہ ڈائن نہی بلکہ چنڈالن ہے) پڑھی لکھی ہے سلیقہ والی ہے اور سب سے بڑھ کر گھر کی بچی ہے ہمارے سامنے اس کا بچپن گزرا انہوں نے تمہید باندھی

بابا آپ ٹو دہ پوائنٹ بات کریں اس نے ان کی تمہید ہر نا سمجھی سے کہا

تمہاری پھوپھو اور ماں چاہتی ہے کہ تمہیں اور مروہ کو ایک رشتے میں باندھ دیا جاۓ یعنی  تمہاری ماں مروہ کو گھر کی بہو اور تمہاری بیوی بنانا چاہتی ہیں 

ان کی بات پر تو وہ شاکڈ ہوا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ تو آہلہ سے محبت کرتا ہے اس کے سنگ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے پھر وہ اور مروہ کیسے 

بیٹا یہ تمہاری زندگی ہے تم نے گزارنی ہے اس لیے تمہارا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ ہمیں منظور ہو گا تم پر کوئی دباؤ نہی ہے تم سوچ سمجھ کر جواب دینا کوئی جلدی نہی ہے انہوں نے اس کی خاموشی پر نرمی سے کہا

بابا میں جانتا ہوں مروہ اچھی ہے اور ایک اچھی بہو اور بیوی بھی ثابت ہو سکتی ہے لیکن میں اور مروہ ایک نہی ہو سکتے وہ صرف میری اچھی دوست ہے اس کے علاوہ کچھ نہی اس نے دو ٹوک کہا

لیکن بیٹا تم دونوں کی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے تم وقت لے لو اس بارے میں ایک دفع سوچ لو پھر جواب دینا 

بابا میرا آج بھی یہی فیصلہ ہے اور کل بھی یہی ہو گا اس نے ختمی کہا

کیا کسی کو پسند کرتے ہو انہوں نے اس کی دوٹوک بات پر اس کے چہرے کو جانچتے پوچھا 

جی یک لفظی جواب دیا 

تو پھر بتاؤ وہ کون ہے تا کہ ہم رشتہ لے کر جائیں اس کے گھر ہم بھی تمہاری خوشیاں دیکھیں 

بابا ابھی نہی ابھی مججے پہلے اس سے خود بات کرنی ہے پھر آپ کو بتاؤں گا 

ٹھیک ہے لیکن زیادہ وقت نہ لگانا 

جی بابا 

اتنے میں ورکر لنچ لیے آفس میں داخل ہوا تو وہ دونوں چپ ہو گئے 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ لیکچرز کے بعد فرہاد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے  کینٹین  آئی تھی کہ اسے وہ اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ وہاں بیٹھا دکھا وہ چہرے پر مخصوص مسکراہٹ لیے اس کے ٹیبل ہر گئی لیکن یہ کیا وہاں اس کے فرہاد کے ساتھ ایک لڑکی بھی بیٹھی ہوئی تھی جو کہ اسی یونی کی تھی 

وہ چست پینٹ پر سلیو لیس شرٹ  جس سے بمشکل اس کا پیٹ چھپ رہا تھا پہنے اسے کے فرہاد کے بازو پر ہاتھ رکھے نزاکت سے بالوں کو جھٹکتی کچھ کہہ رہی تھی البتہ فرہاد کے چہرے اسے نہ تو خوشی اور نہ ناگواری کے تاثر دکھے

یہ دیکھ کر اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی اور آنکھوں میں غصہ اور ناگواری لیے وہ ایک ہی جست میں ان تک پہنچی اور اور اس کی زلفوں سے پکڑ کر اس لڑکی کو کرسی سے اٹھایا 

وہ لڑکی درد سے کراہی رابیل نے اس کے چہرے پر زور سے تھپڑ مارا 

ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے فرہاد کو چھونے کی یہ رابیل کہ پراپرٹی ہے مانڈ اٹ اس نے اس کے بالوں کو جھٹکا دیتے کہا

فرہاد نے اس سر پھری کو دیکھا اور موبائل میں بزی ہو گیا جیسے اسے اس کاروائی سے کوئی سروکار نہ ہو جبکہ اس کے دوست منہ کھولے لیلی کی درگت بنتے دیکھ رہے تھے کیونکہ لیلی کوئی عام لڑکی نہی تھی بلکہ ایم پی اے  ہاشم خان کی بیٹی تھی 

لیلی نے بھی اپنی نزاکت کو سائڈ پر رکھا اور اپنے بال اس کی گرفت سے چھڑواۓ اور اس کے پونی ٹیل میں مقید بالوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑنے لگی کہ رابیل نے اس کا وہی ہاتھ پکڑ کر مڑور دیا وہ بے چاری( خیر بے چاری تو نہی ) درد سے بلبلا اٹھی 

رابیل مصطفی گیلانی نام ہے میرا اپنی طرف بڑھتے ہاتھوں کو روکنا اور توڑنا جانتی ہوں اور میری چیزوں  اور من پسند انسانوں کی طرف جو اپنی گندی آنکھوں سے دیکھتا ہے میں اس کی آنکھیں نوچ لیتی ہوں اس نے اس کا بازو مروڑتے کہا

سب کے سامنے یوں خود کو اپنا من پسند کہلانا فرہاد کو سخت ناگوار گزرا

سب اب میری بات کان کھول کر سن لیں فرہاد عرف فادی بھائی صرف اور صرف رابیل گیلانی کا ہے صرف اور صرف رابیل کا اس لیے آئیندہ اگر کسی بھی لڑکی نے اس کی طرف گندی نظروں سے دیکھا تو اس سے بھی برا حال کروں گی اس نے کہنٽین میں بیٹھے سب افراد سے حاص طور پر لڑکیوں کو کہا

اور تم سن لیا نہ کہ فرہاد صرف رابیل کا ہے اس لیے آئندہ اس کے پاس بھی مت آنا اس نے اس کے بالوں کو آخری جھٹکا دے کر کہا

دیکھ لوں گی میں تمہیں لیلی ہاشم سے پنگا بہت مہنگا پڑے گا تمہیں انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتی بے عزتی سے سرخ چہرہ لیے وہ کینٹین سے نکلتی چلی گئی باقی سٹوڈنٹس بھی اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے

وہ اپنی پونی کو ٹائٹ کرتی اس کی طرف مڑی جو کرسی پر بیٹھا دونوں ٹانگیں ٹیبل پر رکھے لبوں میں سیکرٹ دباۓ کش لینے میں مصروف تھا 

 اور تم ویسے تو مجھ سے جان چھرواتے ہو کک میں تمہارے ٹائپ کہ نہی تو پھر اس چھمک چھلو کو کیوں اپنے قریب بٹھایا تھا وہ تمہارے ٹائپ کی ہے کیا اس نے اس کی نقل کی

جبکہ اس کے لیلی کو چھمک چھلو کہنے پر اس کے دوستوں کا قہقہہ ابلا لیکن وہ اس کی بات کو نظر انداز کیے کش لینے  میں مصروف تھا اس نے اس کی بات کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا

جواب تو دو اس نے اس کے ساتھ والی کرسی سنمبھالی

میری مرضی یک لفظی سرد آواز میں کہا

تمہاری مرضی کی تو ایسی کی تیسی اگر مجھے کوئی بھی لڑکی تمہارے ارد گرد نظر آئی یا تم مجھے کسی لڑکی کے ساتھ دکھے آئے سوئیر میں  پہلے اسے قتل کروں  گی پھر تمہیں اور پھر خود کو قتل کر دوں گی لیکن تمہیں کسی اور کا نہی ہونے دوں گی وہ جنونی انداز میں کہتی اسے کوئی پاگل لگی

آہلہ کو گھر چھوڑ کر وہ وہ دونوں گھر گئے

ماما ماما دیکھیں کون آیا ہے اس نے گھر میں داخل ہوتے حسب معمول اونچی آواز میں اریج بیگم کو پکارا

کتنی دفع تمہیں کہا ہے یوں جاہلوں کی طرح اونچی آواز میں مت پکارا کرو لیکن تم وہ سیڑھیوں سے اترتی اسے ہمیشہ کی طرح اس کے اونچا بولانے کی وجہ سے ڈانٹ رہی تھیں کہ آدھی سیڑھیوں پر پہنچتے اس کے ساتھ باقر کو دیکھ کر وہ خوشی سے جلدی جلدی سیڑھیاں اترتی اس تک پہنچیں

ارے میرا بیٹا آیا ہے ماشاءاللہ انہوں نے اس کی پیشانی چومی اس نے بھی ان کی عقیدت سے پیشانی چومی 

ارے میں بھی ہوں ماما آپ تو بی کے آتے ہی مجھے اگنور کرنا شروع ہو گئیں انہیں اس کی روٹھی آواز آئی

نہی میری جان میں اور ماما بھلا تمہیں بھول سکتے ہیں باقر  اسے ساتھ لگاتے  صوفے پر بیٹھا 

اور سناؤ  صدف کیسی ہے بچے کیسے ہیں اریج بیگم نے اسے کے لیے جوس کا گلاس کچن سے لاتے اسے پکڑا کر اپنی بہو اور پوتوں کے بارے میں پوچھا

وہ بھی الحمدللہ ٹھیک ہیں انشاءاللہ جلد ان کے ساتھ چکر لگاؤں گا وہ بھی آپ کو بہت مس کرتے ہیں اس نے مسکر کر بتایا

تمہیں کتنی دفع کہا ہے کہ اب تو یہاں ہمارے ساتھ شفٹ ہو جاؤ لیکن تم مانتے ہی نہی انہوں نے خفگی سے کہا

ماما انشاءاللہ جلد ہوں گا یہاں شفٹ اسی سلسلے میں یہاں آیا ہوں آج اس نے جوس کا سپ لیتے کہا

چلو تم جاؤ فریش ہو لو اور پھر آرام کرنا ورنہ افضال صاحب کے آتے ہی تم لوگوں نے اپنی باتیں شروع کر لینی ہیں اور پھر ہو تا رہا آرام تمہارا

جی ماما 

اور تم کہاں نکل کر رہی ہو جلدی سے فریش ہو کر آؤ اور میری مدد کراؤ کچن میں آج میں ساری ڈشز اپنے بیٹے کی پسند کی بناؤں گی اسے بھی کمرے میں جاتے دیکھ کر انہوں  نے اسے سختی سے کچن میں آنے کا کہا کیونکہ کام کے معاملے میں وہ بہت کام چور تھی اس لیے انہوں نے زرا سختی سے کہا

جی ماما ان کی سختی سے کہنے پر وہ منہ بسورتی کمرے کی طرف چل دی جبکہ اریج بیگم خوشی خوشی کچن میں چلی گئیں

اریج بیگم کی ایک بہن تھی جن کی شادی کے کافی سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو اریج بیگم نے افضال صاحب سے اجازت لے کر باقر کو ان کی گود میں ڈال دیا جب وہ پیدا ہوا تھا باقر کے تین سال بعد  فاریہ ہوئی جب باقر بڑا ہوا تو اریج بیگم کی بہن نے انہیں بتادیا تھا کہ وہ ان کا نہی بلکہ اریج کا بیٹا ہے اس پر اس نے شور مچانے کی بجاۓ اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اسے دو دو پیار کرنے والی مائیں دیں کچھ عرصے پہلے ہی ان کی بہن کا انتقال ہو گیا اور تب سے اریج بیگم اسے یہاں شفٹ ہونے کا کہہ رہی تھیں باقر کی بیوی آمنہ اور بیٹے ثاقب اور موہد تھے 

رات کے کھانے پر سب بیٹھے ہوۓ تھے 

اسلام علیکم 

باقر کی آواز پر افضال صاحب نے پیچھے دیکھا اور خوشی سے اٹھ کر گلے لگے 

برخودار تم اب اتنے بڑے ہو گئے کہ باپ کو  اپنے آنے کی اطلاع دینا بھی ضروری نہی سمجھا انہوں نے شکوہ کیا

بابا سوری میں آپ لوگوں کو سر پرائز دینا چاہتا تھا لیکن گڑیا نے مجھے آئس کریم پارلر دیکھ لیا اور میرا سارا سرپرائز خراب ہو گیا اس نے ان کے شکوے پر مسکرا کر کہا

اب شکوے بعد میں کر لیجیے گا بچے کو کھانا تو کھانے دیں

ہاں بیٹھو پھر مجھے اپنے پوتے کی ساری شرارتیں سننی ہیں 

شیور بابا  وہ مسکرایا

کھانا کھانے کے بعد وہ سب لاؤنج میں بیٹھ گئے اور باقر انہیں ثاقب کی باتیں بتانے لگا 

ہاہاہاہا بی ثاقب تو دن بدن شرارتی اور تیز ہوتا جا رہا ہے 

میں نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنی پھوپھی پر نہ جاۓ لیکن پھر بھی وہ تم پہ چلا گیا اس نے مصنوعی افسوس سے کہا

ابھی تو آپ اسے یہاں لائیں پھر دیکھیے گا کیسے میں اور وہ مل کر دوسروں کا جینا حرام کرتے ہیں اس نے اپنے ارادے بتاۓ

پھر تو اللہ ہی خافظ ہے ہمارا بھی اور پڑوسیوں کا بھی افضال صاحب نے ہنس کر کہا 

اور بتاؤ تم رکو گے کہ نہی 

بابا کل چلا جاؤں گا یونی سے آف تھا آج اس لیے میں نے سوچا کہ آپ سے مل آؤں اور ٹرانسفر کے کچھ ڈاکومنٹس سبمٹ کروانے تھے تو وہ بھی ہو جاۓ گا 

سہی کب تک ٹرانسفر ہو جاۓ گا تمہارا اس شہر میں بابا انشاءاللہ جلد ہو جاۓ گا اپنے دوست سے بات کی تھی میں نے اس نے کہا ہے کہ وہ جلدی کروا دے گا 

اللہ وہ دن جلدی لاۓ جب تم اور میرے پوتے میرے ہمارے ساتھ رہیں اور پھر ہم فاریہ کی دھوم دھام سے شادی کریں گے اس کی اریج بیگم کی بات پر سب نے امین کہا

کمرے میں آکر اس نے کافی دیر سونے کی کوشش کی لیکن اسے نیند نہی آرہی تھی  کل اتوار تھا اس لیے وہ بھی بے فکری سے لیپ ٹاپ پر جانان مووی دیکھنے لگی اس نے ہینڈ فری لگائی ہوئی تھی اس لیے اسے کسی کے آنے کی آہٹ محسوس نہ ہوئی

وہ دروازے کا لاک کھول کر کمرے میں  داخل ہوا اس کے لیے گھر میں داخل ہونا یا کمرے کا لاک کھولنا کوئی بڑا کام نہی تھا یہ تو اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا  

آرام سے دروازہ کھول کر وہ دروازے کے ساتھ کھڑا ہو کر اسے دیھنے لگا جو وائٹ کھلے ٹراؤزر پر براؤن شرٹ پہنے گود میں لیپ ٹاپ رکھے ہینڈ فری لگاۓ مووی دیکھنے میں بزی تھی 

اس نے آگے بڑھ کر اس کے کانوں سے ہینڈ فری اتارے فاریہ نے چونک کر ہینڈ فری اتارنے والے کو دیکھا تو سامنے آئس کریم پارلر والے لڑکے کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی بھلا وہ کیسے آیا یہاں

تم تمہاری اتنی جرات کہ تم میرے گھر کیا میرے کمرے میں گھس آۓ تمہیں تو میں ابھی بتاتی ہوں زلیل انسان وہ کڑے تیوروں سے بیڈ سے اتری اور اس پر جھپٹی 

اس نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے جو وہ اسے مارنے کے لیے استعمال کر رہی تھی اور مسکراتے ہوۓ بولا 

ہمت کی تو بات ہی مت کرو ہمت تو مجھ میں اتنی ہے کہ میں تمہیں ابھی کہ ابھی تمہیں یہاں سے اٹھا کر لے جاسکتا ہوں اور تم کچھ نہی کر پاؤ گی 

یو تم مجھے اٹھا کر لے جاؤ گے زلیل انسان کہتے اس نے پوری قوت سے اپنا گھٹنا اوپر اٹھا کر اس کے پیٹ میں مارا تو وہ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا دور ہوا 

اس کے دور ہونے کا فائدہ اٹھاتے فاریہ نے بیڈ پر سے کمبل اٹھایا اور اس کے اوپر ڈال کر اسے تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی وہ اندر سے ہی خود کا بچاؤ کر رہا تھا جب اسے لگا کہ وہ خود ہر سے کمبل ہٹا رہا ہے تو وہ اسے وہیں چھوڑ کر کمرے سے باہر گئی اور باقر کے کمرے کا دروازہ ناک کیا 

گڑیا تم اس وقت یہاں حیریت اس نے اس کے پھولے سانس کو دیکھ کر پوچھا 

بی وہ میرے کمرے میں کوئی گھس آیا ہے 

چلو وہ غصے سے اس کے کمرے کی طرف بڑھا 

اس نے کمرے کا لاک کھولا تو کمرے میں کوئی نہی تھا اس نے حیرت سے کمرے کو دیکھا بیڈ شیٹ اپنی جگہ پر سہی سے پڑی تھی 

یہاں تو کوئی نہی ہے گڑیا تھا بی میں نے خود اس کے پیٹ میں گھٹنا مارا تھا اور پھر اس اس پر کمبل ڈال کر میں آپ کو بلانے کمرے میں گئی اس نے ایک دفع پھرکمرے کو دیکھتے باقر کو جواب دیا  وہ خود حیران تھی کہ وہ اتنی جلدی کہاں چلا گیا 

رکو میں واش روم چیک کرتا ہوں اس نے واش روم چیک کیا تو وہاں بھی کوئی نہی تھا تم نے یقیباً خواب میں ایسا دیکھا ہو گا 

چلو جاؤ ریلیکس ہو کر سو جاؤ وہ اسے بیڈ پر بٹھاتا اسے سونے کی تاکید کرتا چلا گیا 

وہ بھی حیران پریشان سی لیٹ گئی

گھر آکر بھی اسے ایک پل کا سکون نہی ملا تھا بار بار نظروں کے سامنے اس وہ منظر آکر اس کا خون خولا رہا تھا وہ ایسا تو نہی تھا وہ تو شرارتی سا تھا بات کو ہوا میں اڑانے والا لیکن اس کے معاملے میں وہ بھی عاشقوں کہ طرح نکلا تھا جو اپنے پیار کو کسی کے ساتھ نہی دیکھ سکتے تھے 

وہ ایک سیکرٹ ایجنٹ اور پارک آرمی کا ممبر تھا اس کے جسم  میں وطن کی محبت خون کی طرح دوڑتی تھی لیکن اب اس کے خون میں اس کی محبت بھی خون کی طرح گردش کرنے لگی تھی

علی جو اسے صرف دھمکانے آیا تھا اس نے اپنے سورسز سے پتا کروایا تھا اور پتا کروانے پر اسے معلوم پڑا کہ وہ اس کا بھائی ہے یہ جان کر اس نے سکھ کی سانس لی وہ یہاں صرف اسے یہ باور کروانے آیا تھا کہ وہ صرف اس کی ہے لیکن وہ تو اس پر شیرنی بنی جھپٹ گئی اور اس پر کمبل ڈال کر اسے مارنے لگی 

اس نے اپنے اوپر سے کمبل ہٹایا تو وہ دروازہ سے باہر جاتی دکھی اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچتا وہ کمرہ لاک کرتی چلی گئی کچھ دیر بعد باہر سے آتی دو لوگوں کی قدموں کی چاپ پر وہ جلدی سے کھڑکی کی طرف بڑھا اور نیچے چلا گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

آپ نے بات کی شہروز  سے  سوتے ہوۓ انہوں نے پوچھا

ہاں کی تھی لیکن وہ مروہ کو صرف دوست اور کزن سمجھتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہی اور سب سے اہم بات وہ کسی کو پسند کرتا ہے اور اسی سے شادی بھی کرنا چاہتا ہے   تمہیں اس بات سے کوئی اعتراض تو نہی انہوں نے چشمہ اتارتے خود پر کمبل اوڑھتے کہا

مجھے بھلا کیوں کوئی اعتراض ہو گا میرا بیٹا ہے وہ مجھے اس کی خوشی عزیز ہے بس مجھے شمع کو انکار کرنا برا لگ رہا ہے کتنی آس سے اس نے شہروز کا کہا تھا انہوں نے افسردگی سے کہا

مروہ کے نصیب میں اللہ نے کوئی بہتر شخص ہی لکھا ہو گا اور پھر جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں جس کے نصیب میں جو لکھا ہے اسے وہی ہمسفر کے طور پر ملنا ہے

جی کہہ تو بلکل درست رہے ہیں آپ 

چلیں اب لائٹ آف کر دیجیے

شمع بیگم نے اٹھ کر لائٹ آف کر دی 

وہ دو دن سے اس کا بغیر ناشتے کے جانا اور پھر اس کا بجھا بجھا چہرہ نوٹ کر رہا تھا 

اسے لگا کہ شائڈ کوئی پریشانی ہے جو وہ ہچکچاہٹ میں شئیر نہی کر رہی یہی پوچھنے کے لیے اس نے اس کا کمرہ ناک کیا 

آپ اس نے دروازہ کھول کر کہا

ہمم مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے بلکہ کچھ ہوچھنا ہے 

جی کیا تمہیں کوئی پریشانی ہے یا کوئی ایسی بات جو تمہیں پریشان کر رہی ہو 

نہ۔۔۔۔ہی تو اس نے ہکلا کر کہا

تم جھوٹ بول رہی ہو اگر تم سچ بول رہی ہوتی تو تمہارے لہجے میں ہکلاہت نہ ہوتی اور نہ ہی تمہاری نظریں جھکی ہوتیں

اس کے درست اندازے پر وہ لب چبانے لگی اب وہ اسے کیا بتاتی کہ کوئی سر پھرا آدھی آدھی رات کو اس کے کمرے میں گھس اتا ہے اسے اپنا کزن بتا کر اسے سکول سے  لے جاتا ہے 

دیکھو اگر کوئی ایسی بات ہے تو تم شئیر کر سکتی ہو ایسے تو کوئی حل نہی نکلے گا اگر اس کو خود تک محدود رکھو گی تو  کوئی حل نہی نکلے گا بلکہ تم اسی پریشانی میں خود کو بیمار کر لو گی دو دن سے نوٹ کر رہا ہوں تمہیں کہ تم نا تو ناشتہ کرتی ہو اور نہ سہی سے کھانا کھا رہی ہو 

اس نے اپنی بات کر کے اسے دیکھا جو سر جکاۓ لب چبا رہی تھی اسے دہکھ کر وہ مزید گویا ہوا

دیکھو ہم تمہارے اپنے ہیں ہم سے تم اپنی بات شئیر کر سکتی ہو اور اگر مجھ  سے نہی کرنا چاہتی تو بابا سے کر لو وہ  تمہاری پریشانی کا بہتر حل نکالیں گے یا پھر تم ہمیں اس قابل نہی سمجھتی کہ اپنی پریشانی ہم سے شئیر کر سکو 

ایسی بات نہی ہے اگر مجھے کوئی پریشانی ہوتی تو میں ضرور بتاتی 

سہی ہے جیسے تمہاری مرضی اگر تم نہی بتانا چاہتی تو کوئی بات نہی لیکن تمہیں اگر لگے کہ تمہیں شئیر کرنا چاہیے تو تم مجھے بتا سکتی ہو 

جی اس کا جواب سن کر وہ کمرے سے نکل گیا تھا

اس کے جانے کے بعد وہ کافی دیر سوچتی رہی کہ آیا اسے شہروز کو بتانا چاہیے کہ نہہ کافی دیر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ اسے بتا دینا چاہیے

ہاں مجھے شہروز کو بتا دہنا چاہیے ایسے تو میں کبھی بھی اس مشکل سے نہی نکل پاؤں گی اور وہ مجھے ایسے ہی ٹینشن دیتا رہے گا اس نے خودسے کہا

عاجل جس نے ویسے ہی مائکروفون کنیکٹ کیا تھا کہ اس بات سن کر اس کا دماغ گھوم گیا اگر وہ کسی کو بتا دیتی تو یقیناً اس کا ڈر بھی کم ہو جاتا اور شہروز اس کی ڈھال بھی بن جاتا جو وہ نہی چاہتا تھا اس کے لیے اس جیسی بے سہارا لڑکی کو کڈنیپ کروانا یا پھر شوٹ کروانا کوئی بڑا کام نہ تھا لیکن وہ اسے زہنی ازیت دینا چاہتا تھا اس کے دل میں اپنا ڈر دیکھنا چاہتا تھا جو کہ ایسے ختم ہو جاتا

اس نے اسے کال ملائی اور غصے سے بعلا

خبردار اگر تم نے کسی کو بھی کچھ بھی بتایا نہی تو تمہاری پکچرز ایڈٹ کروا کر تمہارے گھر بھجوا دوں گا سمجھی 

اس کی بات پر اس کے ہاتھ میں موجود فون پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑی 

اور یہ بات  زہن سے  نکال دو کہ کوئی بھی تمہیں مجھ سے بچا سکتا ہے تمہیں میرے قہر سے کوئی نہی بچا سکتا اس لیے اگر اپنی عافیت چاہتی ہو تو چپ رہو اور جو میں کہتا ہوں وہ کرتی جاؤ نہی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہی چھوڑوں گا 

اور اب یہ مت سوچنے بیٹھ جانا کہ مجھے کیسے پتا کہ تم اپنے اس سو کالڈ کزن کو بتانے والی تھی تو وہ ایسے ڈئیر کے میری ہر وقت نظر تم پر ہے میں اپنے دشمن کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتا ہوں اور تم تو میری شپیشل والی دشمن ہو تو اس لیے ایکسٹرا نظر رکھنا تو بنتا ہے نہ اس لیے چپی میں ہہ تمہاری بھلائی اسے دھمکا کر اسے فون بند کر دیا

جبکہ وہ دم خود سی بیڈ پر گر گئی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

اگلے دن رفعت بیگم شمع بیگم کے کمرے میں انہیں شہروز کے انکار کا بتانے گئی وہ نہی چاہتی تھیں کہ وہ کسی آس میں رہیں

وہ اندر داخل ہوئیں تو مروہ بھی کمرے میں موجود تھی 

آئیے بھابی 

مروہ بیٹے آپ باہر چلے جاؤ مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے انہوں نے مروہ کو کمرے سے جانے کا کہا کیونکہ وہ نہی چاہتی تھیں کہ وہ ڈائریکٹ انکار پر دلبرداشتہ ہو اب کے انکار اور شمع کے بتانے میں فرق تھا 

جی ممانی وہ فرمانبرداری سے جی کہہ کر کمرے سے نکل گئی لیکن تجسس سے دروازے کے باہر ہی کھڑی رہی وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور اس کے اور شہروز کے بارے میں ہی بات کرنے آئی ہوں گی 

شمع مجھے تم اور مروہ دونوں عزیز ہو میرے لیے مروہ اور شہروز ایک جیسے ہیں میں نے کبھی بھی مروہ کو شہروز سے علیحدہ نہی سمجھا بلکہ اسے ہمیشہ اپنی بیٹی کی طرح چاہا ہے لیکن شہروز اس رشتے کے لیے نہی  مانا وہ کسی اور کو پسند کرتا ہے 

لیکن بھابی 

میں جانتی ہوں کہ تمہیں برا لگا ہو گا لیکن یہ سوچو کہ اگر ہم آج زبردستی یہ رشتہ طے کر دیتے ہیں تو کیا شہروز مروہ کو خوش رکھ سکے گا بعد کی زیادہ ازیت سے بہتر ہے کہ ابھی تھوڑی سی تکلیف برداشت کر لی جاۓ میں معافی مانگتی ہوں تم سے لیکن اس بات کو دل پر نہ لینا شہروز جتنا میرا بیٹا ہے اتنا ہی تمہارا بھی ہے اس لیے اس کے بارے میں بد گمان مت ہونا انہوں نے التجا کی 

بھابی آپکو معافی مانگنے کی ضرورت نہی ہے مجھے بھی شہروز کی خوشی عزیز ہے اور مروہ کو میں سمجھا دوں گی انہوں نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا 

ان کا شہروز کو داماد بنانے کا خواب جو وہ کافی دیر پہلے سے دیکھ رہی تھیں آج چکنا چور ہو گیا تھا 

مروہ جو دروازے سے کان لگاۓ اندر کی گفتگو سن رہی تھی شہروز کے انکار اور کسی اور کو پسند کرنے پر اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے  اسے یقین تھا کہ شمع اس کے لیے بولیں گی لیکن انہوں نے بھی شہروز کی خوشی کو ترجیح دی 

وہ تن فن کرتی شہروز کے کمرے کی طرف بڑھی آج اتوار تھا اس لیے وہ آج گھر ہی تھا

اس نے دھکا دے کر دروازے کو کھولا وہ جو شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال برش کر رہا تھا ٹھاہ کی آواز پر اس نے ناگواری سے دروازے کی طرف دیکھا تو ناگواری جگہ حیرت سے وہ اس کے لال ببھوکا چہرے کو دیکھنے لگا

تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ریجیکٹ کرنے کی ہاں اس نے اس کا گریبان پکڑ کر چلا کر کہا

گریبان چھوڑو میرا مروہ اس نے نرمی سے کہا وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا انکار اس تک پہنچ گیا ہے 

کیوں کیا ریجیکٹ کیا کمی تھی مجھ میں کیا میں خوبصورت نہی یا پھر وہ چڑیل مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے اس نے اس کا گریبان وہ ہنوز پکڑے ہوۓ تھی 

دیکھو مروہ تم اس وقت ہوش میں نہی ہو ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے 

نہی مجھے ابھی بات کرنی ہے اس نے ضدی لہجے میں کہا

مروہ میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں پھر کیسے میں تم سے شادی کر سکتا ہوں 

لیکن میں تو تم سے محبت کرتی ہوں 

لیکن میں نہی کرتا مروہ 

کون ہے وہ لڑکی اس نے اس کے صاف انکار پر اس کا گریبان چھوڑ کر پست لہجے میں پوچھا

ابھی نہی بتا سکتا 

کیوں

کیونکہ ابھی میں نے خود اسے نہی بتایا اپنی فیلنگز کا 

اگر اس نے انکار کر دیا تو کیا تم مجھے اپنا لو گے اس نے آس سے کہا

نہی میں پھر بھی تم سے شادی نہی کروں گا کیونکہ تم میری اچھی دوست ہو اور میں تمہیں وہ سارج خوشیاں نہی دے پاؤں گا جو تم ڈزرو کرتی ہو میں تم سے کیا کسی سے بھی شادی نہی کروں گا اگر کروں گا تو صرف اس سے

تم نے ابھی کہا کہ تم مجھے اپنی اچھی دوست سمجھتے ہو تو تمہیں اسی دوستی کا واسطہ ہے  تم مجھے اس لڑکی نام بتاؤ میں کسی کو نہی بتاؤں گی 

آہلہ یک لفظی جواب آیا

مروہ کو لگا اس کے سر پر اصل بم تو ابھی پھٹا ہے اس نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا 

دیکھو مروہ تم آہلہ سے کچھ نہی کہو گی بلکہ کسی سے نہی کہو گی 

وہ غائب دماغی سے سر ہلا کر کمرے سے نکل گئی

کمرے میں آکر اس نے کمرے کا نقشہ بل دیا ہر چیز جو جو اس کے ہاتھ آ رہی وہ توڑے جا رہی تھی اتنی تکلیف تو اسے یہ سن کر کہ وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے نہی ہوئی تھی جتنی اسے یہ جان کر ہوئی تھی کہ وہ آہلہ سے محبت کرتا ہے 

وہ بھلا کیسے ایک سانولے رنگ والی لڑکی سے شکست کھاتی جسکا نہ رنگ تھا نہ روپ اسے اپنی شکست قبول نہی تو بھی آہلہ کے ہاتھوں 

اس نے غصے میں لیمپ اٹھا کر شیشے پر مار کر شیشے کو چکنا چور کر دیا اور بے ڈھنگہ قہقہہ لگا کر ہنس دی وہ اس وقت ایک پاگل اور جنونی لگ رہی تھی 

اور شیشے کا ٹکڑا پکڑ کر ہنسنے لگی اور اپنی کلائی پر رکھ کر کٹ لگا لیا 

شمع بیگم نے جونہی دروازہ کھولا کمرے کی حالت دیکھ کر ان کا دل سہم گیا وہ کیسے مروہ کو سمجھاۓ گیں  وہ جانتی تھیں وہ زرا ضدی طبعیت کہ مالک ہے اور پھر شہروز کو تو شروع سے ہی اس نے اپ اپنا کہا تھا ایسے میں اسے کہنا کہ وہ  شہروز کو بھول جاۓ یہ ناممکنات میں سے تھی یہ سوچ کر وہ چیزوں پر سے گزرتی آگے بڑھی لیکن جونہی آگے بڑھیں سامنے وہ زمین پر بے سدھ پڑی ہوئی تھی اور اس کی ہاتھ اور زمین  پر خون لگا ہوا تھا وہ دل پر ہاتھ رکھتی چیختیں اس کی طرف بڑھیں

باقی کے گھر والے ان کی چیخ پر ہڑبڑا کر کمرے میں داخل ہوۓ تو وہ مروہ کا سر گود میں لیے روتی ہوئی دکھیں ان سب کا دل انجانے خوف سے دھڑکا 

شہروز جلدی سے آگے بڑھا اور اس کی نبض چیک کی جو ہلکی رفتار سے چل رہی تھی اس نے جلدی سے اسے گود میں اٹھایا اور باہر کی طرف دوڑ لگائی

رفعت بیگم نے روتی ہوئی شمع کو پکڑا اور اسے لیے باہر بھاگیں 

ان کے باہر جانے تک شہروز اسے بیک سیٹ پر لٹاۓ خود فرنٹ سیٹ ہر بیٹھ چکا تھا ساجد صاحب اس کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر بیٹھے اور گاڑی ہسپتال کے رستے پر ڈال دی 

شمع بیگم اور رفعت دوسری گاڑی میں ڈرائیور کےساتھ ہسپتال پہنچیں 

پیچھے آہلہ اور شکیلہ خالہ اس کے لیے دعا کرنے لگیں

شہروز نے ہسپتال کے باہر گاڑی روک کر جلدی سے اسے گود میں باہر نکالا اور جلدی سے اسے لیے ہسپتال کے اندر  داخل ہوا

اس کے پیچھے ہی ان کی گاڑی رکی  

ڈاکٹر صاحب میری بیٹی کیسی ہے ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی رفعت بیگم نے تڑپ کر ڈاکٹر سے پوچھا

جی اب وہ خطرے سے باہر ہیں اگر آپ لوگ تھوڑی دیر کرتے تو ان کے لیے مشکل ہو سکتی تھی ڈاکٹر پیشہ وارانہ انداز میں کہتا چلا گیا 

رفعت بیگم ڈاکٹر کی بات سن کر شکرانے کے نوافل ادا کرنے چلی گئیں

تھوڑی دیر بعد اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا 

شمع بیگم جانتی تھیں کہ یہ اس کا ری ایلشن تھا انکار پر اس لیے وہ اس کے عمل پر اس سے ناراض بیٹھی ہوئی تھیں

ماما اس نے روتے ہوۓ انہیں پکارا تو وہ اس کی پکار پر تڑپ کر ناراضگک کو بھلاتیں اس کی طرف مڑیں

جی ماما کی جان آپ کو زرا بھج میرا خیال نہی آیا تھا ایسی حرکت کرتے ہوۓ ایک بار بھی نہی سوچا تم نے تمہارے بعد میرا کیا ہو گا ایک تم ہی تو ہو جس کے لیے میں جیتی ہوں اور تم ہی مجھے تنہا کرنے چلی تھی انہوں نے روتے ہوۓ کہا

مانا مجھے اس وقت کجھ سمجھ نہی آ رہی تھی میں بس خود کو ختم کردینا چاہتی تھی اتنا کہہ کر وہ  چپ ہو گئ   

ماما آپ کو پتا ہے وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے اور پتا ہے وہ کس سے محبت کرتا ہے اس نے ان کی طرف دیکھتے پوچھا

کس سے 

ماما وہ آہلہ سے محبت کرتا ہے اس نے مجھے خود بتایا ماما ماما میں نے کہا تھا نک وہ مجھ سے میرے شہروز کو چھین لے گی ماما دیکھیں اس نے مجھ سے شہروز کو چھین لیا ماما اب میں کیا کروں گی اس نے روتے ہوۓ کہا

اس کے انکشاف پر پہلےتو وہ کچھ بول ہی نہ سکیں یعنی ماضی ایک بار پھر دہرا گیا تھا پہلے اس کی ماں نے اس کی محبت کو من و مٹی تکے سلا دیا تھا اور اب اس کی بیٹی اس کی بیٹی سے اس کی محبت چھین گئی تھی اور احتشام کی طرح مروہ نے بھی خود کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی تو کیا مروہ بھی اس کے آگے وہ سوچ نہ سکیں اس کے سوچنا بھی ان کے سانس روک رہا تھا انہوں نے اسکی پیشانی چومی 

تم نے غلط کیا مروہ تم بذدل تو نہی تھی جو تم نے یہ رستہ اپنایا تم خود کو ختم کر کے میدان چھوڑنے چلی تھی جبکہ تمہیں یہ معلوم ہے کہ رفعت کبھی بھہ اسے بہو نہی بناۓ گی تو تم نے ایسا کیوں کیا تم مجھے بتاتی ہم مل کر اس کا کوئی حل نکالتے اور تم بجاۓ اسے شہروز کے دل  سے نکالنے کے خود ہی اس کا رستہ صاف کرنے چلی تھی 

جب بات بیٹی کی جان پر آئی تو انہیں کچھ غلط نہی لگ رہا تھا انہیں بس اپنی بیٹی کی خوشی چاہیے تھی 

ماما لیکن وہ اس سے محبت کرتا ہے اور ممانی شہروز سے بہت محبت کرتی ہیں وہ انہیں منا لے گا اس نے چھت کو دیکھتے کہا

تو اس کا مطمب تم میدان چھوڑ کر  خود آہلہ کی گود میں اس کی محبت کو ڈال رہی ہو 

ماما میں کیا کروں میں مجھ سے برداشت نہی  ہو رہا کہ وہ سانولی میرے سے جیت جاۓ اس کے لہجے میں آہلہ کے لیے نفرت ہی نفرت تھی 

تو کون کہہ رہا ہے کہ تم اس سے شکست کھاؤ بلکہ تم اسے شہروز کی نظروں میں نیچے گراؤ اور تم جانتی ہو کہ تمہیں یہ کیسے کرنا ہے اس کی ماں نے تو مجھ سے میری محبت چھین لی لیکن تم اسے اپنی محبت مت چھیننے دینا 

آئی پرومس ماما اگر شہروز میرا نہی ہوا تو میں اہلہ کو بھی اس کا نہج ہونے دوں گی اس نے عزم سے کہا

رات کو ہی اسے ڈسچارج مل گیا تھا سب کو معلوم پڑ گیا تھا کہ اس کا اتنا شدید ری ایکشن کیوں تھا

شہروز نے اس سے اب تک بات نہی کی تھی وہ اس سے ناراض تھا 

سب اسے ہدایت دے کر چلے گئے تو اس نے باہر جاتے شہروز کو آواز دی 

ہمم اس نے صرف ہممم کہا اسے اس کے ری ایکشن پر غصہ تھا 

ناراض ہو اس نے پوچھا 

تو کیا نہی ہونا چاہیے اس نے سوال کے بدلے سوال کیا

ہونا چاہیے لیکن میں اس وقت اپنے ہواس میں نہی تھی جب یکدم آپ کو پتا چلے کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے تو انسان اپنے ہواس میں نہی رہتا خیر تم کیسے سمجھو گے 

جو بھی ہے مروہ لیکن اپنی جان لینے کی کوشش کرنا یہ کہاں کا حل ہے اور تم ایک پڑھج لکھج لڑکی ہو کر ایسی جاہلانہ حرکت کرنے چلی تھی اس نے اسے گھورا

اچھا اب تم ناراضگی ختم کرو میں وعدہ کرتی ہوں آئیندہ کبھی ایسک حرکت نہی کروں گی 

وعدہ ہاں پکا وعدہ 

ٹھیک ہے اب تم ریسٹ کرو اسے ریسٹ کا کہہ کر وہ کمرے سے چلا گیا

مجھے نہی معلوم تھا کہ مروہ اتنا شدید ری ایکشن دے گی 

ہمم مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں جلد ہی ان دونوں کی شادی کروا دینی چاہیے نہی تو آگے جا کر مسلے ہوں گیں

جی آپ سہی کہہ رہے ہیں  آپ شہروز سے بولیں کہ ہمیں لڑکی کا بتاۓ تا کہ ہم اس کے گھر رشتہ لے جاسکیں

❣❣❣❣❣❣❣❣

اس حادثے کو کافی دن ہو گئے تھے کسی نے بھی اس سے اس متعلق کوئی بات نہی کی تھی اور نہ ہی کچھ پوچھا سب چاہتے تھے کہ وہ اس بات کو بھول جاۓ لیکن یہ تو وہی جانتی تھی کہ وہ کیا سوچے بیٹھی تھی 

آج آہلہ کی برتھ ڈے تھی شہروز نے ساجد صاحب سے پرمیشن لے لی تھی کبھی کسی نے آہلہ کی برتھ ڈے آج سے پہلے سیلیبریٹ نہی کی تھی اور نہ ہی اسے خود یاد تھا کہ آج اس کی برتھ ڈے ہے شہروز آج اس کی برتھ ڈے پر اس سے اپنی محبت کا اظہار کرنے والا تھا 

وہ معمول کے مطابق سکول گئی اور ایک عام روز کی طرح دن گزارا 

شہروز نے طلحہ سے کال پر بات کر لی تھی اور اس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ آج اسے پرپوز کرنےبوالا ہے طلحہ اس کے لیے خوش تھا اور اس نے اسے اچھج اچھی ٹپس بھی دیں اور اس کی ہمت بھی بندھائی

آج ان لوگوں کی بھج واپسی تھی اور وہ لوگ آہلہ کو سر پرائز دینے والے تھے اس بات کا علم فاریہ کو بھی تھا لیکن اس نے آہلہ کو اس بات کی بھنک بھی نہ ہونے دی 

وہ موبائل میں بزی تھی کہ شہروز اس کے کمرے میں داخل ہوا اور اسے ساتھ چلنے کو کہا

کہاں جانا ہے اس وقت اس نے گھڑی کی طرف دیکھتے کہا جہاں بارہ بجنے میں دس منٹ تھے

زیادہ دور نہج یہیں بس ساتھ والا جو پارک ہے وہاں جانا ہے  

لیکن کیوں وک الجھی 

وہ تو سر پرائز ہے اس لیے چلو 

ٹھیک ہے وہ الجھتی اس کے ساتھ چلی گئی

پارک کے باہر رک اس نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور فاریک نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا 

فاریہ یہ تم ہو نہ اس نے نرم ہاتھ محسوس کر کے کہا

لیکن فاریہ خاموش رہی 

فاری یہ تم ہی ہو نہ شہروز آپ کدھر ہیں 

فاریہ کی خاموشج پر اس نے شہروز کو آواز دی

لیکن دونوں طرف سے خوماشی پر وہ پریشان ہوتی اپنی آنکھوں سے پٹی اتارنے لگی کہ فاریہ نے اس کا وہ ہاتھ بھج پکڑ لیا سلاور غباروں سے سجے ایک میز کے پاس لائی جس پر کیک رکھا ہوا تھا

فاریہ نے اس کہ پٹی اتاری اور کان میں ہیپی برتھ دے کہا 

اس نے دیکھا تو سامنے ہی سارے گھر والے اور طلحہ اور صوفیہ بھی موھود تھے 

سب نے اسے وش کیا مروہ نے تو اسے جلے انداز میں ہی وش کیا جبکہ شمع بیگم نے بغیر کسی تاثر کے وش کیا 

کیک کاٹ کر اس نے باری باری سب کو کھلایا ساجد صاحب اسے دعائیں دیتے گھر چلے گئے ان کے پیچھے شمع رفعت اور مروہ بھی چلی گئی کیونکہ انہیں اس کی خوشی سے کوئی سروکار نہی تھا اور وہ زیادہ دیر اس کے خوشی سے چمکتے چہرے کو نہی دیکھ سکتی تھی 

تم کتنی جھوٹی ہو فاری تم نے مجھے بتایا نہی کہ صوفیہ آج آ رہی ہے اور تم صوفی تم نے بھی مجھے نہی بتایا

سوری یار میں تمہیں بتانے والی تھی لیکن طلحہ کو شہروز کی کال آئی تو اس نے بتایا کہ تمہاری برتھ ڈے ہے تو میں نے انہیں تمہیں بتانے سے منع کر دیا کیونکہ میں سرپرائز دینا چاہتی تھی 

اور میں بھی جھوٹی نہی ہوں تم نے مجھ سے پوچھا ہی نہی تو پھر میں جھوٹی کیسے ہوئی اس نے آبرو اچکا کر پوچھا 

لیکن  تم بتا تو سکتی تھی اس نے منہ پھلا کر کہا 

تو پھر یہ سر پرائز کیسے رہتا بدھو اگر وہ بتا دیتی تو 

اسی طرح وہ لوگ ایک دوسرے سے نوک جھونک کر رہی تھیں کہ طلحہ کے اشارے پر وہ آہلہ کو لے کر لائٹوں سے سجی جگہ پر لائیں اور اسے وہی چھوڑ کر چلی گئیں اور وہ ارے ارے کرتی ان کے پیچھے جانے لگی کہ اسے شہروز کی بھاری آواز آئی

وہ اس کی آواز پر رک گئی 

وہ اسے سوالیہ نظروں سگ دیکھ رہی تھی کہ وہ اس کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا اور گلاب کا پھول آگے کیا 

وہ سمجھ گئی کہ وہ کیا کرنے والا ہے لیکن وہ سمجھنا ہی نہی چاہتی تھی 

میں نہی جانتا آہلہ کہ کب اور کیسے تم مجھے اچھی لگنے لگی کب تم نے میرے دل پر اپنا قبضہ کیا لیکن میں اب صرف یہ جانتا ہوں کہ اب یہ دل صرف تمہیں چاہتا ہے تمہاری ہمسفری کا طلبگار ہے تمہارے ساتھ زندگی کے خوشگوار پل جینا چاہتا ہے تمہارے ساتھ ہنسنا بولنا چاہتا ہے اپنا بڑھاپا تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہے اس نے اس کی طرف دیکھا جو خاموش سی اس کو سن رہی تھی

کیا تم مجھے اپنی زندگی کا حصہ بناؤ گی اس نے مسکرا کر پوچھا 

اس نے اس کی مسکراتی آنکھوں میں دیکھا تو اس کا دل کڑلایا کہ اے ظالم اتنی محبت کرنے والے کا دل مت توڑ لیکن اسے یہ کرنا تھا اس میں ہی سب کی بھلائی تھی 

گھر میں اگر مروہ کی خود کشی والی بات کا دوبارہ زکر نہی ہوا تھا لیکن وہ اتنی بھی بے خبر نہی تھی کہ اسے معلوم نہ ہوتا کہ  اس کا یہ شدید ردعمل اس کے انکار پر تھا

یہ آپ کیا کہہ رپے ہیں اس نے سخت لہجے میں پوچھا

تمہیں اپنی فیلنگز بتا رہا ہوں تمہاری زندگی میں شامل ہونے کی اجازت مانگ رہا ہوں اس نے اسکے لہجے کو اگنور کر کے لو یتی نظروں سے کہا

اس نے یہ نہی کہا تھا کہ وہ اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی اسکی زندگی میں چپکے سے شامل ہو گئی تھی کہ اسے بھی معلوم نہ ہو سکا اب وہ اس کی زندگی میں شامل ہونا چاہتا تھا

آپ شائد میرے ساتھ مزاق کر رہے ہیں لیکن یہ کوئی بہت ہی بے ہودہ مزاق ہے 

یہ کوئی مزاق نہی ہے اور نہ ہی میری محبت کوئی مزاق ہے میں تم سے سچی محبت کرتا ہوں اس نے اس کا بازو پکڑتے کہا تھا

لیکن میں آپ سے محبت نہی کرتی اور نہ کر سکتی ہوں

کیوں کیوں تم مجھ سے محبت نہی کر سکتی اگر تم میرے پچھلے رویے کے لیے کہہ رہی ہو تو میں تم سے معافی مانگ چکا ہوں اور تم نے مجھے معاف بھی کر دیا تھا پھر کیوں نہی کر سکتی تم  

کیونکہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں اس نے نظریں چرا کر کہ کیونکہ اسے اس کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل لگ رہا تھا جہاں اس کی بات پر اس کی آنکھوں میں بے یقینی کے ساتھ نمی بھی  پھیلی تھی 

تم مزاق کر رہی ہو نہ تا کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں اس نے مدہم سا قہقہہ لگا کر کہا اس کے قہقہے پر اس نے آنکھیں میچ لیں کیا کچھ نہ تھا اس قہقہے میں درد دکھ 

نہی میں سچ کہہ رہی ہوں میں کسی سے محبت کرتی ہوں اور اسی سے شادی بھی کرنا چاہتی ہوں اس نے ایک بار پھر جھوٹ بولا 

میں جانتا ہوں تم جھوٹ بول رہی ہو اور اس کی گواہ تمہاری یہ آنکھیں ہیں جو تمہارا ساتھ نہی دے رہیں اس نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا 

جب میں کہہ رہی ہوں کہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں تو آپ مان کیوں نہی رہے اس نے جھنجھلا کر پوچھا 

کیونکہ میرا دل نہی مان رہا اور نہ ہی تمہاری آنکھیں تمہاری زبان کا ساتھ دے رہی پیں

اس کی بات پر اس نے لب سختی سے بھینچ لیے 

دیکھو میں جانتا ہوں تم مروہ کی وجہ سے اور امی کی وجہ سے انکار کر رہی ہو لیکن آے سوئیر میں انہیں منا لوں گا  وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں ان کے لیے سب سے زیادہ ضروری میری خوشی ہے اور رہی بات مروہ کی تو وہ  سمجھ جاۓ گی 

آپ سمجھ کیوں نہی رہے نہی کرتی میں آپ سے محبت اور نہ کبھی آپ سے میں شادی کروں گی  اس نے سختی سے کہا

لیکن تم بھی اپنے زہن میں یہ بٹھا لو کہ شادی میں تم سے ہی کروں گا اور تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت نہی تو کوئی بات نہی شادی کے بعد تمہیں ہو جاۓ گی نہ بھی ہوئی تو میری محبت ہم دونوں کے لیے کافی ہو گی اس پر عتمادی سے کہا

اس کی بات پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے نکلتی چلی گئی

اس کے جانے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گرا ایک آنسو نکل کر اس کی آنکھ سے بے مول ہوا تھا وہ جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے لیکن پھر بھی اس کا کہنا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہے اس بات نے اس کے دل کو مٹھی میں جکڑا تھا اسے لگا کہ وہ سانس نہی لے پاۓ گا لیکن شکر کہ یہ جھوٹ تھا لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو اس کے آگے وہ سوچنا نہی چاہتا تھا 

میں تمہیں کسی اور کا ہوتے نہی دیکھ سکتا ہاں میں تمہیں منا لوں گا اس نے خود سے کہتے اپنے آنسو صاف کیے

وہ اپنے پیچھے آتی فاریہ اور صوفیہ کی پکاروں کو اگنور کرتی پارک سے نکلتی چلی گئی 

اس نے کمرے میں آکر درواز بند کیا اور بے آواز رونا شروع ہو گئی وہ اس کا دل نہی دکھانا چاہتی تھی  وہ اس سے محبت نہی کرتی تھی لیکن پھر بھی اس کی آنکھوں کی نمی نے اس کے دل کو پسیجا تھا اسے ملامت کیا تھا اسے روکنے کے لیے اس کے دل نے اسے آوازیں دیں تھیں لیکن وہ بے حس بنی اس کا دل توڑ آئی تھی وہ اس کی محبت کی سچائی پر ایمان لائی تھی لیکن وہ کیا کرتی وہ بھج تو مجبور تھی وہ کسی کی خوشیوں کا قتل کر کے اس پر اپنی خوشیوں کا محل نہی تعمیر کرنا چاہتی تھی  اسے وہ دن یاد آیا جب ہاسپٹل سے لوٹنے کے کچھ دن بعد مروہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی 

اسے اپنے کمرے میں پا کر اسے حیرت ہوئی تھی اور حیرت سے اس کی آنکھیں تب پھیلی تھیں جب وہ اس کے آگے اپنے ہاتھ دعا کی صورت میں پھیلا گئی تھی اس نے اسے ایسا کرنے سے روکنا چاہا تو اس نے اسے منع کیا تو وہ سوالی بنی اس سے سوال کر گئی

شہروز میری جھولی میں ڈال دو آہلہ میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں اتنی محبت تو مجھے اپنے آپ سے نہی ہے جتنی میں اس سے کرتی ہوں خدارا مجھے میرا شہروز دے دو اس نے روتے ہوۓ سوال کیا

یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں مروہ آپی میں بھلا شہروز کو کیسے آپکی جھولی میں ڈال سکتی ہوں

وہ تم سے محبت کرتا ہے اسی لیے اس نے میرے رشتے سے انکار کر دیا وہ جب تم سے کہے کہ وہ تم سے محبے کرتا ہے تو تم انکار کر دینا دیکھو تم بہت اچھی ہو دیکھو میں ایک سوالی بن کر تمہارے در پر آئی ہوں مجھے خالی پاتھ مت لوٹانا 

وہ اس وقت خود غرض بن رہی تھی وہ اپنی محبت کو پانے کے لیے اپنے ہج محبوب سے اس کی محبت کو چھین رہی تھی شائد وہ جانتی نہی تھی کہ محبت میں تو خود کو بھی اگر محبوب پر سے وارنہ پر جاۓ تو عاشق خود کو وار دیا کرتے ہیں اور ایک وہ تھی جو اپنی محبت کو اپنے محبوب ہر وارنے کی بجاۓ کسی کے در پر اسی کے محبوب سے اس کی محبت کو ٹھکرانے کا کہہ رہی تھی یپمی بھلا کیسی محبت تھی محبت تھی بھی یا نہی یا پھر یہ صرف دماغ کی ضد تھی جسے وہ محبت کا لیبل دے کر خود کو دھوکا دے رہی تھی

آپ بے فکر رہیں میں انکار کردوں گی اس نے اس کے پاتھ پکڑ کر کھولے تھے 

اس دن کو یاد کر کے وہ روئی تھی ایک سوالی کے سوال کو پورا کرتے کرتے وہ ایک پیار کرنے والے کا دل توڑ گئی تھی

وہ ابھی منہ دھو کر واش روم سے نکلی تھی اس کا موبائل بجنا شروع ہو گیا اس نے کوفت سے موبائل پر چمکتے نمبر کو دیکھا اس وقت وہ اس کی کسی بھج فضول گوئی کو سننے کے موڈ میں نہی تھی 

کال اٹیند نہ کرنے پر اسے ایک میسج موصول ہوا تھا جس میں لکھا تھا

ہیپی برتھ ڈے ڈئیر اینیمی کل اپنے گفٹ کے لیے تیار رہنا میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں ایسا گفٹ تمہیں آج تک کسی نے نہی دیا ہو گا ابز ایگین ہیپی برتھ ڈے ڈئیر اینیمی وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی کہ اب وہ اسکے ساتھ کیا برا کرنے والا ہے کیونکہ اچھائی کی امیس تو اس شیطان صفت انسان سے کرنا بیکار تھی 

آج کا دن ہی منہوس تھا خود کو پرسکون کرنے کے لیے اسے صرف ایک ہی رستہ دکھا تھا اور بے شک سکون اسی میں ہر انسان کا ہے 

اس نے وضو بنایا اور دو نفل ادا کر کے اپنے رب کے آگے اپنا دل کھول دیا تھا

کل کا دن آہلہ کے لیے ناجانے کونسی آزمائش کر آنے والا تھا

آج کا سورج جہاں کچھ لوگوں کے لیے خوشیوں کی کرن لایا تھا وہیں آج آہلہ اور شہروز کے لیے کسی آزمائش سے کم نہی ہونے والا تھا 

معمول کی طرح وہ تیار ہو کر ڈائنگ ٹیبل پر آئی لیکن شہروز کی طرف دیکھنے کی اس میں ہمت نہی تھی اس لیے سر جھکاۓ وہ اپنا ناشتہ کرنے لگی ناشتہ کر کے وہ ساجد صاحب کو خدا خافظ کہتی باہر چلی گئی جہاں فاریہ اس کا انتظار کر رہی تھی وہ چپ چاپ گاڑہ میں بیٹھ گئی وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے کل رات کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہے لیکن وہ اس بارے میں کوئی بات نہی کرنا چاہتی تھی اس لیے خاموشی سے وہ باہر  کے دوڑتے  مناظر دیکھنے لگی اسے ان مناظر میں کوئی دلچسپی نہی تھی وہ تو اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اسے دن بدن مشکل میں ہی دکھائی دے رہی تھی پہلے عاجل اور پھر شہروز 

کل رات سے اگر اس نے اس کا دل توڑا تھا تھا چین سے وہ بھی نہی رہی تھی 

فاریہ اسکی خاموشی پر خاموشی سے ڈراییونگ کرنے لگی اسے اس سے بہت سارے سوال کرنے تھے کل اس کے اس طرح چلے جانے سے وہ بھی روتے ہوۓ اسے کچھ گڑبر لگ رپی تھی وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اس سے محبت نہ بھی کرتی ہوتی تو تب بھی وہ اسے اس طرح انکار نہ کرتی یعنی بات یہاں صرف اس کی تائی کی نہی بلکہ کسی اور کی بھی تھی 

گاڑی سکول کی بلڈنگ کے سامنے رکی تو وہ دونوں عمارت کے اندر داخل ہو گئیں

سامنے ہی صوفیہ انکا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی وہ آج آنا تو نہی چاہتی تھی لیکن کل رات کے واقعے کے بارے میں اسے بھی آہلہ سے پوچھنا تھا وہ سرعت سی اس تک پہنچی اور اسے لیے گراؤنڈ کی پچھلی جگہ لے آئی اور کڑے تیوروں سے اسے دیکھنے لگی

آہلہ یہ تم نے کیا کیا کل رات ہاں تم میں زرا بھی انسانیت نہی انسانیت کو چھوڑو تمہیں زرا بھی اس بندے پر ترس نہی آیا تمہیں پتا ہے تمہارے جانے کے بعد وہ شخص بکھر گیا تھا ٹوٹ گیا تھا اس نے اسے جھنجھوڑا 

اور تم نے اس سے کہا کہ تم کسی سے محبت کرتی ہو تو بتاؤ کس سے محبت کرتی ہو تم 

میں کسی سے محبت نہی کرتی 

تو پھر کیوں ایسا کہا کیوں یہ کہہ کر اس کا دل توڑا تم جانتی ہو انہیں تمہاری بات پر یقین نہی آیا تھا لیکن پھر بھی انہیں تمہاری یہ بات ریزہ ریزہ کر گئی 

اس کی بات پر اس نے لب بھیچ کر چہرہ دوسری طرف کر لیا 

ایسے چہرہ پھیرنے سے اس کی تکلیف کم نہی ہو جاۓ گی اور نہ ہی اس کا ازالہ 

اس نے اس کا رخ اپنی طرف کرتے بے رخی سے کہا

تم تو میری دوست ہو مجھے سمجھو 

تمہاری دوست ہوں اسی لیے تمہیں کہہ رہہ ہوں ایسے انمول شخص کو مت ٹھکراؤ مخلص محبت کرنے والے بہت مشکل سے ملتے ہیں آہلہ قدر کرو اس کی 

صوفیہ مجھے لگ رہا ہے کہ بات کچھ اور ہے 

کیا مطلب 

مطلب یہ کہ یہ ایسا خود نہی بلکہ کسی کے لیے کر رہی ہے کیوں میں سہی کہہ رہی ہوں نہ کیونکہ اگر تم یہ خود کرتی تو تمہیں اس کے لیے برا نہ لگتا 

نہی میں نے یہ کسی کے کہنے پر نہی کیا ہاں میں مانتی ہوں کہ میں نے ان سے جھوٹ بولا کہ میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں ان سے بھی محبت نہی کرتی 

تم اسے ہاں تو بولتی پھر تم لوگوں کے باقاعدہ رشتے کے بعد تمہارے دل میں اس کے لیے محبت بھی پیدا ہو جاتی لیکن تم تو بہت سنگدل نکلی اس نے استہزایہ کہا وہ اسے مینٹلی ٹارچر کر رہی تھی کہ وہ اسے سچ بتا دے اتنا تو وہ اپنی دوست کو جانتی تھی کہ وہ کبھی کسی چیونٹی کو نہ مارے پھر کسی کا دل توڑنا یہ وہ کبھی نہی کر سکتی تھی 

نہی ہوں میں سگندل بس میں کسی کی محبت کو چھین کر خود اپنی زندگی نہی بسانا چاہتی اس نے روتے کہا کل رات سے اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا اب ان کے کہنے ہر وہ پھٹ پڑی 

کیا مطلب اس پر دونوں نے ناسمجھی سے کہا

پھر اسنے مروہ کا خودکشی کرنا اس سے التجا کرنا سب بتا دیا

اوہ مائی گاڈ آہلہ تم نے اسکی باتوں میں آکر ایسا کیا تم پاگل ہو تم سے اس نے کہا کہ وہ شہروز سے محبت کرتی ہے اور تم نے مان لیا 

اس نے شہروز کے لیے خودکشی کی تھی 

پاگل وہ شہروز سے محبت نہی کرتی اگر وہ اس سے محبت کرتی تو کبھی بھی اس سے اسکی محبت کو چھیننے کی کوشش نہ کرتی وہ صرف اسے پانا چاہتی ہے اور محبت میں قربانی مانگی نہی جاتی بلکہ دی جاتی ہے اور اس کی باتوں میں آکر تم نے شہروز بھائی کا دل توڑ دیا

ان دونوں کا دل کیا کہ وہ اس کی عقل پر ماتم کریں 

اب میں کیا کروں اس نے پرییشانی سے پوچھا

کچھ نہی جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب یہ سوچنا ہے کہ اسے سہی کیسے کرنا ہے

آہلہ مجھے سچی سچی بتاؤ اگر یہ مروہ والا سین نہ ہوتا تو تم شہروز بھائی کو کیا جواب دیتی فاریہ نے اس سے ہوچھا کیونکہ وہ جو اب اسے کرنے کے لیے کہنے والی تھی اس کے لیے ان کا یہ جاننا بے حد ضروری تھا 

شائد ہاں کہہ دیتی 

ابھی بھی شائد فاریہ نے صدمے سے پوچھا 

ہاں کیونکہ میرے دل میں ان کے لیے کوئی ایسی فیلنگز نہی ہیں اس نے سچائی سے کہا

تو پھر تم آج ہی جاکر شہروز بھائی کو ہاں بولو گی فاریہ نے اسے حکم دیا

نہی میں کیسے جا کر بولوں گی اس نے گھبراہٹ سے کہا 

جیسے کل ان کا دل توڑا تھا بلکل اسی طرح فاریہ نے ٹونٹ کیا

فاری بعض آ جاؤ اور تم آج ہاں بولو گی جا کر نہی تو مجھ سے برا جوئی نہی ہو گا اس نے دھمکی دی 

اوکے اس نے گہرا سانس لے کر کہا تو وہ دونوں خوشی سے اس کے گلے لگیں

دوسری طرف شہروز اور طلحہ جو فون پر ان کی باتیں سن رہے تھے ساری بات جان کر ریلیکس ہوۓ شہروز کو مروہ پر غصہ بھی آیا تھا کہ کیسے وہ آہلہ سے یہ سب کرنے کا کہہ سکتی ہے اور پھر فاریہ کی باتوں سے اسے بھی لگا تھا کہ مروہ اس سے محبت نہی کرتی کیونکہ بقول فاریہ کہ اگر وہ اس سے محبت کرتی تو اپنی محبت کی قربانی دیتی ناکہ آہلہ سے قربانی مانگتی  پھر صوفیہ کے پوچھنے پر اس کے شائد کہنے پر شہروز کے لب مسکراۓ

اگر چہ اس کا دل یہ جان کر بجھا تھا کہ اس کے دل میں اس کے لیے کوئی فیلنگز نہی ہیں لیکن یہ جان کر اس کا دل مطمئن ہوا تھا کہ اگر اس کے دل میں وہ نہی تو کوئی اور بھی نہی ہے اور اس کی آخری بات ہر اس کا دل جھوم اٹھا 

وہ قسمت کے کھیل سے انجان خوش ہو رہے تھے 

آہلہ اس لیے خوش تھی کہ اب اس کا ضمیر اسے ملامت نہی کرے گا شہروز اس لیے خوش تھا کہ وہ اس سے اقرار کرے گی اور فاریہ صوفیہ اور طلحہ ان کی خوشی میں خوش ہو رہے تھے اس بات سے انجان کہ وقت ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والا ہے 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ گھر پہنچی تو اسے نئی فکر لاحق ہو گئی کہ وہ کیسے شہروز کو ہاں بولے گی اسی کشمکش میں وہ کمرے میں چکر پہ چکر لگا رپی تھی کہ اسے آئیڈیا آیا 

ہاں میں رات کو سونے سے پہلے میسج پر کہہ دوں گی اور کل کے لیے معافی بھی مانگ لوں گی اس نے خود سے کہا اور ریلیکس ہو گئی کیونکہ کل رات جو وہ اس کے ساتھ کر گئی تھی اس کے بعد  وہ اس کا سامن کرنے سے کترا رہی تھی اور اب اسے ہاں بولنا جبکہ کل وہ انکار کر چکی تھی اسے عجیب لگ رہا تھا اس لیے اس نے میسج کرنے کا سوچا 

وہ پاگل اس سے انجان تھی کہ وہ ان کی باتیں سن چکا ہے اور بے صبری سے اس کی ہاں کا انتظار کر رہا ہے 

شہروز کا دل آج جھوم رہا تھا آفس میں بھی اس کا کسی کام میں دل نہی لگ رہا تھا اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ خوشی سے جھومے وہ جلد سے جلد گھر جانا چاہتا تھا کیونکہ تب ہی تو وہ اس سے ہاں کہتی اسے زندگی میں شامل ہونے کی اجازت دیتی  لیکن وہ آفس سے بھی نہی جا سکتا تھا کیونکہ ایک ایمپارٹینٹ میٹنگ جو اسے  اٹینڈ کرنی تھی 

رات کے کھانے پر بھی وہ بار بار اسے ہی دیکھ رہا تھا اور وہ بھی خود پر اس کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی اور آج اسے شرم آ رہی تھی اس کے دیکھنے سے یہ شائد اس کے نیم رضامندی کا اثر تھا 

کھانا کھانے کے بعد وہ کمرے میں آکر بار بار میسج لکھتی اور پھر اریز کر دیتی تھک کر وہ بیڈ پڑ بیٹھ گئی 

دوسری طرف شہروز شدت سے اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ تھی کہ اس کا صبر آزما رہی تھی 

ابھی اس نے خود کو ہمت دے کر موبائل اٹھایا ہی تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا اس نے موبائل بیڈ پر رکھ کر دروازہ کھولا تو سامنے مروہ تھی 

تمہیں مامو جان بلا رہے ہیں نیچے مروہ نے اسے پیغام دیا اور چلی گئی وہ بھی اسے بعد میں میسج کرنے کاسوچتی نیچے چلی گئی

اسے بلانے کے بعد مروہ شہروز کے کمرے میں گئی وہ جو شدت سے آہلہ کا انتظار کر رہا تھا خوشفہمی لیے اس نے دروازہ کھولا تو سامنے مروہ تھی اس نے اپنے  خوشی  سے دمکتے چہرے کو کمپوز کیا اور اس سے سرد لہجے میں گویا ہوا کیونکہ اسے مروہ پر غصہ تھا

کیا کام ہے 

وہ نیچے کوئی لڑکا آہلہ سے ملنے آیا ہے اس نے آرام سے کہا اسے وہ لڑکا دکھنے میں کافی امیر لگا تھا اور پھر وہ آہلہ سے ملنے کا کہہ رہا تھا تو اسے کچھ گڑبڑ لگی اسی لیے آہلہ کو کہہ کر وہ اسے بلانے آئی

اس کی بات پر وہ ناسمجھی سے نیچے کی طرف بڑھا

ساجد صاحب سٹڈی روم میں کوئی فائل دیکھ رہے تھے کہ چوکیدار نے انہیں کسی کے آنے کی اطلاع دی تو وہ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھانے کا کہہ کر فائل اپنی جگہ رکھ کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوۓ 

اسلام علیکم انہیں داخل ہوتا دیکھ کر عاجل نے نہایت اخلالق سے سلام کیا جو کہ کوئی معجزہ ہی تھا 

وعلیکم سلام سامنے پچیس چھبیس سال کے لڑکے کو  جو کہ کسی امیر گھرانے کا ہی لگ رہا تھا دیکھ کر جواب دیا اور بیٹھنے کا کہا

جی فرمائیے کیسے آنا ہوا اور معزرت میں نے آپ کو پہچانا نہی 

جی آپ بلکل درست کہہ رہے ہیں آپ مجھے نہی جانتے اور میں بھی آپ کے بارے میں کچھ زیادہ نہی جانتا اس نے ادب سے جواب دیا اگر آہلہ اسے اس وقت اس کا یہ روپ دیکھ لیتی تو غش کھاتی 

تو پھر بیٹا میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں اس کے لب و لہجے سے متاثر ہوتے انہوں نے مسکرا کر دوستانہ لہجے میں پوچھا اگر انہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا بم ان پر پھوڑنے والا ہے تو وہ کبھی بھی اس شخص سے خوش اخلاقی سے بات نہ کرتے

جی مجھے آہلہ ماجد سے ملنا ہے آپ انہیں بلا دیں باقی کی باتیں ان کے سامنے ہی ہوں گی 

آہلہ کے نام پر وہ ٹھٹھکے لیکن پھر سامنے والے کے ادب کو دیکھ کر انہوں نے کمرے کے باہر سے گزرتی مروہ کو آہلہ کو بلانے کا کہا  تو وہ عاجل کو دیکھ کر جی مامو جان کہتی اسے بلانے چلی گئی

اس نے جونہی کمرے میں قدم رکھا وہ جی چاچو کہنے والی تھی کہ سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر اس کی زبان تالو سے چپک گئی اس کی آنکھیں باہر آنے کو تھیں اسے اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں 

عاجل اسے دیکھ کر پر اسرار سا مسکرایا

شہروز جو ابھی آیا تھا اسے دروازے کے پاس کھڑے دیکھ کر اس کے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ بھی ہوش میں آتی اپنے ڈر کو دباتی بمشکل مسکراتی شہروز کے ساتھ اندر بڑھی

بیٹا آپ اسے جانتی ہیں یہ آپ سے ملنے کا کہہ رہے تھے 

چاچو ن وہ صاف انکار کرنے والی تھی کہ عاجل اس کی بات کو ٹوک کر گویا ہوا

ارے انکل یہ آپ نے کیسا سوال کر دیا یہ مجھے نہی جانتی ہوں گی تو اور کسے جانے گیں اس نے شہروز کی طرف دیکھ کر کہا

شہروز کو اس کا ایسا دیکھنا عجیب لگا لیکن وہ چپ رہا

کیا مطلب بیٹا ساجد صاحب نے الجھ کر کہا تو آہلہ نے ڈر سے اس کہ طرف دیکھا جس پر عاجل نے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ اس کی طرف پھینکی 

انکل اب بیوی شوہر کو یاد نہی رکھے گی تو پھر کسے رکھے گی کیوں آہلہ جان اس نے آہلہ کی طرف دیکھ اس کی تائد چاہی جو اس کی بات پر سانس روکے حیرانگی سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی 

کیا بکواس ہے یہ شہروز غیض وغضب بنتا اس پر جھپٹا

ارے سالے صاحب گھر آۓ داماد کے ساتھ کوئی ایسا کرتا ہے کیا اس نے اپنا کالڑ اس سے چھزڑوایا اور دوسری اپنا کالڑ پکڑنے والوں کو میں زندہ نہی چھوڑتا تم شکر مناؤ کہ اس کے کزن بردر اور میرے سالے ہو ورنہ اس نے کزن برد پر زور دیتے کہا

جبکہ اسکی بات پر شہروز کی آنکھوں میں سرخی پھیل گئی 

شہروز کی اونچی آواز پر باقی کے گھر والے بھی ڈرائنگ روم میں جمع ہو گئے اور شہروز کو ایک انجان شخص کا کالڑ پکڑے دیکھ کر وہ معاملہ سمجھنے کہ کوشش کر رہے تھے جبکہ تھوڑی دور کھڑے ساجد صاحب خاموشی سے عاجل کو دیکھ رہے تھے جو تھوڑی دیر پہلے انہیں اپنے لہجے سے متاثر کر گیا اور اب ایک غنڈے کی طرح شہروز کو دھمکی دے رہا تھا 

بس کریں آپ دونوں اور کیا ثبوت ہے کہ آہلہ تمہاری بیوی ہے ہو سکتا ہے تم جھوٹ بول رہے ہو ساجد صاحب نے ان دونوں کو بعض کیا اور اس سے سخت لہجے میں مخاطب ہوۓ وہ نرم لہجہ جو وہ پہلے اس سے اپناۓ ہوۓ تھی اب غائب تھا اب لہجے میں صرف سختی تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ وہ ان کے گھر کی عزت کے بارے میں بات کر رہا تھا

جبکہ باقی خواتین تو لفظ بیوی پر ٹھٹھکیں 

ان کے کہنے ہر اس نے شہروز کا ہاتھ جھٹکے سے پڑے کیا اور  مسکرا کر جیکٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکال کر ٹیبل پر پھینکا

شہروز نے جھپٹ کر وہ لفافہ اٹھایا اور اس میں موجود تصویروں کو دیکھ کر اس نے بے یقینی سے آہلہ کی طرف دیکھا جبکہ اس کے ہاتھ میں تصویریں دیکھ کر آہلہ کا دل گھبرایا 

ساجد صاحب نے آگے بڑھ کر وہ تصویریں اس کے ہاتھ سے لیں تو ان کا حال بھء شہروز کہ طرح کا تھا 

تصویروں میں عاجل اور آہلہ ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے اور آہلہ کے ڈریس سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ جیسے ابھی ان کا نکاح ہوا ہو کسی تصویر میں عاجل نے اسکے گرد بازو پھیلاۓ ہوۓ تھے تو کسی میں اس کے ماتھے پر کس کر رہا تھا 

خود کو سنمبھال کر ساجد صاحب نے آہلہ کے آگے تصویریں کرتے استفسار کیا

یہ تصویریں جو کہہ رہی ہیں کیا وہ سچ ہے کیا اس لڑکے کہ بات سچ ہے کہ تم اس کہ بیوی ہو 

جبکہ ان کی آنکھوں میں اپنے لیے بے یقینی دیکھ کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا 

نہی چاچو یہ جھوٹ ہے میں اس کی بیوی نہی ہوں میں تو اسے جانتی تک نہی یہ تو اس دن سکول وہ  روتے ہوۓ اپنی بے گناہی کا بتا رہی تھی کہ عاکل نے اس کی بات کو اچک لیا

اچھا تو کیا یہ تصویریں جھوٹ ہیں کیا ان میں تم نہی ہو 

ہاں بتاؤ کہ یہ تم نہی ہو اب کہ مروہ نے کہا

یہ میں ہی ہوں لیکن یہ اس دن 

اچھا تو آپ لوگوں کو ابھج بھی میری بات کا یقین نہی آرہا تو یہ دیکھیں یہ نکاح یہ تو جھوٹ نہی بول رہا اور اگر آپ لوگوں کو پھر بھی لگتا ہے کہ یہ فیک ہے تو آپ لوگ اسے چیک کروا سکتے ہیں اس نے کہتے ساتھ نکاح ٹیبل پر کھا تھا 

آہلہ کبھی نکاح نامے کو دیکھ رپی تھی تو کبھی عاجل کو وہ یہ کیا کہہ رہا تھا بیوی نکاح نامہ یہ سب کیا تھا اسے کچھ سمجھ نہی آ رہی تھی 

ساجد صاحب نے نکاح نامہ پکڑا تو ان کے ہاتھ کپکپا اٹھے شہروز نے جلدی سے ان کے ہاتھ سے نکاح نامہ لیا تو اسے ان سائن پر یقین نہی آ رہا تھا 

اس نے آہلہ کی طرف دیکھا جو نہی میں سر ہلا رہی تھی لیکن وہ اس نکاح کا کیا کرتا جس پر اس کے سائن تھے اسے یقین نہی آرہا تھا آج ہی تو وہ یہ جان کر جھوم اٹھا تھا کہ وہ آج اسے ہاں کہہ دے گی اور آج ہی یہ نکاح سامنے آگیا تھا وہ سمجھ نہی پا رہا تھا کہ وہ کس ہر یقین کرےنکاح نامے پر یا پھر آہلہ پر 

شمع بیگم نے آگے بڑھ کر نکاح نامہ اس کے ہاتھ سے لیا اور آہلہ کے سامنے لہرا کر اس سے پوچھا

اب بولو کہ یہ نکاح نامہ بھی جھوٹا ہے سچی تو صرف تم ہو بھلا اس لڑکے جو کیا ضرورت پڑھی تھی جھوٹ بولنے کی شمع بیگم کو تو موقع چاہیے تھا زہر اگلنے کا  اسے چپ دیکھ کر وہ مزید گویا ہوئیں

کیا گل کھلاتی پھر رہی ہو تم ہاں تمہیں زرا بھی شرم نہی آئی ایسی حرکت کرتے ہوۓ تمہارے ماں باپ نہی تھے تو کیا ہوا تایا تائی تو تھے جنہوں نے تمہیں پال کر بڑا کیا تھا کچھ اور نہی تو ان کی عزت کا ہی خیال کر لیتی پہلے تم طلاق کا دھبہ لے کر اپنے منہوس قدم اس گھر میں دوبارہ لے آئی اور اب بھی تجھے چین نہ آیا میں کہتہ ہوں تو مر کیوں نہی گئی یہ سب کرتے ہوۓ 

رفعت بیگم نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا وہ جو شمع بیگم کی باتوں سے چھلنی ہو رہی تھی ان کے تھپڑ پر لہرا کر زمین پر گری وہ مسلسل نہ میں سر ہلا رہہ تھی لیکن کوئی بھی اس کہ بات کا یقین نہی کر رہا تھا اس نے شہروز کی طرف امید سے دیکھا کہ شاؠد وہ اس کی بات کا یقین کر لے لیکن اسے یہاں بھی مایوسی ہوئی تھی وہ جو کل اس سے محبت کا اعتراف کر رہا تھا اس سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کی اجازت مانگ رہا تھا آج کسی اور کی باتوں پر یقین کر کے اس سے منہ پھیرے کھڑا تھا کیا یہ تھی اس کی محبت 

عاجل کو یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ وہ طلاق یافتہ ہے کیونکہ اسے نہی لگا تھا کہ اتنی کم عمر میں وہ طلاق یافتہ ہو گی وہ ایک طرف کھڑا تھا اس نے انہی روکنے کی کوشش نہی کی تجی کرتا بھی کیوں سارا کیا دھرا ہی اس کا تھا یہی تو وہ چاہتا تھا 

مروہ تو سب کچھ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کیونکہ اس کا کانٹا جو نکل گیا تھا اب شہروز صرف اس کا تھا پھر آہلہ کے ساتھ جیسا بھی سلوک ہو اسے کوئی پرواہ نہ تھی اس کا الو جو سیدھا ہو رہا تھا اسے کیا ضرورت تھی پراۓ کھدے میں کودنے کی 

رفعت بیگم نے اسے بازو سے بے دردی سے پکڑ کر اٹھایا اور اسے تھپڑ مارنے والی تھیں کہ ساجد صاحب کی درد بھری آواز پر وہ اسے چھوڑ کر ان کی طرف بڑھیں جو دل پر ہاتھ رکھے کراہ رہے تھے 

شہروز نکاح کے پیپرز کو ٹیبل پر پھینک کر ان کی طرف جلدی سے بڑھا اور انہیں اٹھا کر گاڑی میں ہاسپٹل لے گیا اس کے ساتھ رفعت بیگم بھی روتی ہوئی بیٹھ گئیں

ان کے جانے کے بعد شمع بیگم نے اسے بازو سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا تو وہ ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح گرتی زمین پر بیٹھ گئی 

تم بھی نکلو اپنی اس بدزات بدچلن بیوی کو لے کر آج سے ہمارا کوئی تعلق نہی ہے اس سے اور تم بی بی آج کے بعد اگر اس گھر میں قدم رکھنے کا سوچا بھی تو جان نکال دوں گی انہوں نے نخوت سے اسے اسے دھکا دیتے کہا اور اس کے منہ پر دروازہ بند کر دیا

وہ غائب دماغی سے سامنے دروازے کو دیکھ رہی تھی جبکہ آنکھوں کے سامنے ساجد صاحب کا درد سے کراہتا وجود تھا آنسو اس کی آنکھوں سے خاموشی سے بہہ رہے تھے 

عاجل اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑا اس کے ہاتھ پکڑنے ہر وہ ہوش میں آتی ایک دفع ہھر اس کے گال تھپڑ رسید کر چکی تھی

وہ غائب دماغی سے سامنے دروازے کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے ساجد صاحب کا درد سے کراہتا وجود تھا عاجل نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ ہوش میں آتی ایک اور تھپڑ اس کے گال کا زینت بنا چکی تھی 

اب اس تھپڑ کا بدلہ کیسے لو گے ہاں اب تم مجھے جان سے بھی مار دو تو مجھے کوئی فرق نہی پڑتا مجھے میرے گھر والوں کی نظروں سے تو تم مجھے گرا ہی چکے ہو اس نے اپنے آنسو رگڑتے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر نفرت سے کہا

اس کے تھپڑ پر وہ سرخ نیلی آنکھوں سے اسے گھورتا رہا جب اس نے اپنی بات مکمل کی تو اس نے اسکے دونوں بازو اپنی سخت گرفت میں لیے 

تم سمجھتی کیا ہو خود کو ہاں جن ہاتھوں سے تم نے مجھے دو تھپڑ مارے ہیں نہ انہیں میں کسی قابل نہی چھوڑوں گا اور رہی تمہاری عزت کی بات تو وہ تو ابھی بھی باقی ہے جسے جب چاہے میں روندھ سکتا ہوں اور تم ہر بار کی طرح کچھ بھی نہی کر پاؤ گی اور اب تو تمہارے اپنے بھی تمہارے پاس نہی ہیں جو تمہیں بچا سکیں

تمہیں شرم نہی آتی اپنے الفاظ ادا کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کرو کہ تمہاری اپنی بھی بہن ہے یہ نہ ہو تمہارا کیا اسے بھگتنا پڑ جاۓ 

خبردار اگر میری بہن کے بارے میں تم نے اپنی زبان سے کچھ بھی اول فول نکالا تو وہ تمہاری طرح نہی ہے جو طلاق لے کر بھی دوسرے مردوں سے عاشقی لڑاتی پھرے اس نے اسکا جبڑا زور سے پکڑ کر غرا کر کہا 

یقیناً وہ شہروز کے پرہوز کرنے والی بات جانتا تھا 

اس بار وہ اس کے چلانے پر خوفزدہ نہی ہوئی تھی بلکہ ڈٹ کر نڈر ہو کر جواب دیا تھا

یہ میرا زاتی مسلہ ہے میں کسی سے عشق لڑاؤں یا طلاق لوں تمہیں اس سے کوئی غرض نہی ہونی چاہیے اس لیے خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دو

مروہ جو کب سے بالکونی میں کھڑے انہیں دیکھ رہی تھی سیڑھیاں اترتی ان تک پہنچی اور دروازہ کھولا

دروازے کی آواز پر اس نے اس سمت دیکھا تو وہ عاجل کو اگنور کرتی  اس کو اپنی بے گناہی بتاتی اس سے التجا کرنے لگی

مروہ آپی میرا اس سب میں کوئی قصور نہی ہے میں اس شخص کی بیوی نہی ہوں خدارا مجھے گھر سے مت نکالیں میں اس وقت کہاں جاؤں گی میرا تو اس گھر کے علاوہ کوئی ٹھکانہ بھی نہی ہے اس نے روتے ہوۓ کہا

میں تمہاری یہ جھوٹی بے گناہی سننے نہی آئی بلکہ یہ کہنے آئی ہوں کہ جتنا تم نے اس گھر کی عزت کو ملیامیٹ کرنا تھا تم کر گئی اب خدارا یہاں سے چلی جاؤ اور آپ دکنھے میں تو امیر لگتے ہیں تو کیا آپ اپنی اس بیوی کو اپنے ساتھ لے کر نہی جاسکتے آہلہ سے نفرت سے کہتے اس نے عاجل کی طرف منہ کر کے طنز کیا

اپنی بکواس بند رکھو تم اور تم چلو یہاں سے اسے غصے سے کہتے وہ اس کا ہاتھ زبردستی پکڑ کر گیٹ عبور کر گیا جبکہ وہ مزاحمت کرتی اس سے ہاتھ چھڑوانے لگی 

اس کی مزاحمت پر اس نے اسے گیٹ کے باپر کھڑی اپنی گاڑی کے ساتھ پن کیا 

کیا چاہتی  ہو تم ہاں مزید زلیل ہونا چاہتی ہو تمہارے منہ ہر اس نے دروازہ بند کیا ہے

تماری وجہ سے ہوا ہے یہ سب تم نے وہ جھوٹا نکاح نامہ بنوایا  اور وہ سائن وہ وہاں پر کیسے آۓ جبکہ میں نے تو کسی پیپر پر سائن ہی نہی کیے تھے 

اس کی بات ہر وہ اپنے کارنامے ہر مسکرایا کہ کیسے اس نے اس کی ڈائری سے اس کا دستحط شدہ پیج پھاڑا تھا اور پھر اس نے رائٹنگ کسپی کرنے والے ماہر کو سیم اسی طرح کے سائن پیپر ہر کرنے کو کہا تھا اور نکاح نامہ اصلی تھا عاجل کے سائن بھہ اصلی تھے بس آہلہ کے سائن اصلی نہی تھے اپنی سوچ سے نکل کر اس نے اسے ساتھ چلنے کو کہا

مجھے تمہارء ساتھ کہیں نہی جانا اس نے نفرت سے کہا

اچھا تو کہاں جانا ہے اگر اپنے شوہر کے ساتھ نہی جانا تو 

نہی ہو تم شوہر میرے یہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی میں نے کسی پیپر پر سائن نہی کیے تھے اور وہ تصویریں بھی تم نے زبردستی بنائی تھیں اور میں کہیں بھی چلی جاؤں گی لیکن تمہارے ساتھ ہر گز نہی جاؤں گی سنا تم نے اس نے چیخ کر کہا

جیسی تمہاری مرضی کندھے اچکا کر اس نے گویا اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ جہاں جانا چاہے جاۓ

 سنسان سڑک پر وہ چلتی جا رہی تھی  وہ نہی جانتی تھی وہ کہاں جا رہی ہے بار بار سب کی باتیں اس کے کراد پر چلنے والے نشتر اسے کان میں گونج رہے تھے اور آنسو کسی آبشار کی طرح اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے جسے اس نے صاف کرنے کی کوشش نہی کی تھی کیونکہ یہ تو شائد اب ساری زندگی کے لیے اس کے ساتھی بننے والے تھے 

وہ اپنی سوچوں میں چلتی جا رہی تھی کہ اسے یہ بھی احساس نہ ہوا  کہ کوئی اس کے پیچھے آ رہا ہے 

چونکی تو وہ تب جب کسی نے پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑا اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو اس کا ہاتھ کسی کالے رنگ کے مردانہ ہاتھ میں تھا مردانہ کالے ہاتھ کو دیکھ کر خوف کی لہر اس کے جسم میں سرائیت کر گئی اس نے ڈرتے ڈرتے پیچھے دیکھا تو دو کالے رنگ کے آدمی شراب کے نشے میں دھت اس کے پیچھے کھڑے تھے ایک نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا جبکہ دوسرا اس کے دیکھنے پر کمینگی سے مسکرایا

اس نے روتے ہوۓ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تو وہ اس کی مزاحمت پر کمینگی سے مسکراۓ 

آہلہ نے اردگرد کسی کو مدد کے لیے پکارنے کے لیے نظر دوڑائی تو ہر طرف اندھیرے کو دیکھ کر وہ ڈر گئ اب  اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی سوچوں میں کسی سنسان سڑک پر کھڑی ہے جہاں کوئی زی روح بھی نہ تھا اس احساس سے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے نکل تو پہلے بھی رہے تھے لیکن اب اپنی عزت کے لیے نکل رہے تھے  اور اس نے اپنی مزاحمت تیز کر دی کیونکہ اسے اپنی مدد خود ہی کرنی تھی 

اسکی مزاحمت پر ایک آدمی دوسرے سے بولا

دیکھ یہ کیسے پھڑپھڑا رہی ہے 

اس کی بات پر دوسرا کمینگی سے مسکرا کر بولا

ایسی پھڑپھڑاتی چڑیا کو ہی تو قابو میں کرنے کا مزہ آتا ہے 

دیکھو خدا کا واسطہ ہے مجھے جانے دو اس نے ان کہ باتوں پر خوفزدہ ہوتے  خود کو بے بس پاتے التجا کی

ہاتھ آئی دوشیزہ کو کون چھوڑتا ہے اور تو تو لگ بھی مست رہی ہے چل اب منہ بند کر کہتے اس نے اس کا حجاب اتار کر دور پھینکا تھا 

اپنے حجاب کی بے حرمتی پر اس کے منہ سے چیخ نکلی تھی اور اس نے شدت سے اپنے رب سے اپنی عزت کی حفاظت کے لیے دعا کی تھی جو عرش تک پہنچ کر قبولیت کا شرف حاصل کر چکی تھی کیونکہ وہ رب سچے دل سے مانگی گئی دعا کو کبھی رد نہی کرتا   

اس کے وہاں سے جانے کے بعد وہ بھی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا تھا لیکن اس کی سوچوں کا مرکز صرف ایک وہی تھی مجھے اسے اکیلے نہی جانے دینا چاہیے تھا اور ویسے بھی وہ میری دشمن ہے اور اب دوسروں کی نظر میں میری بیوی بھی خود سے کہتے اس نے گاڑی اس سمت موڑی جس سمت وہ گئی تھی 

وہ گاڑی چلانے کے ساتھ اردگرد بھی دیکھ رہا تھا کہ شائد وہ  اسے مل جاۓ

پتا نہی ڈفر کدھر چلی گئی ہے ابھی وہ کچھ اور بھی خود سے کہتا کہ اسے کسی لڑکی کی چیخ سنائی دی اس نے جلدی سے گاڑی اس مت دوڑائی جہاں سے آواز آئی تھی 

وہ گاڑی سے اترا تو اس نے دیکھا کہ دو ہٹے کٹے کالے آدمی ایک لڑکی کو پکڑے ہوۓ گھیسٹ رہے تھے اور لڑکی مسلسل خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی اس نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ لڑکی کوئی اور نہی آہلہ تھی وہ غصے سے تیز قدم  اٹھاتا ان تک پہنچا اور پیچھے سے ایک آدمی کی قمیص کو پکڑ کر پیچھے دھکیلا وہ آدمی تھوڑا نشے میں تھا اس لیے پیچھے کی طرف گر گیا

اپنے ساتھی کے گرنے پر آدمی نے اس کی طرف دیکھا اسی وقت آہلہ نے بھی اپنی پانیوں سے بڑھی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا یعنی وہ اسے بچانے آیا تھا ان درندہ صفت آدمیوں سے اللہ نے اس کی دعا کو ضائع نہی کیا تھا بلکہ اسے اس کی مدد کے لیے بھیجا تھا وہ اس وقت بھول گئی تھی کہ اسے اس حال میں پہنچانے والا کوئی اور نہی بلکہ سامنے کھڑا وہ انسان ہے اسے صرف یاد تھا  تو وہ یہ کہ اس وقت وہ اس کے لیے کسی فرشتے سے کم نہی تھا

عاجل نے اس کے دیکھنے پر آنکھوں کے اشارے سے پر سکون رہنے کو کہا آہلہ بھی پرسکون ہو گئی

کتنی عجیب بات تھی نہ کہ اس سے نفرت کرنے والا اسے پرسکون ہونے کا اشارہ کر رہا تھا اور وہ جو اسی سے پناہ مانگ رہی تھی اس کے پر سکون کرنے پر ہو بھی گئی تھی

ان کے ایسا کرنے ہر دور کھڑی قسمت اور محبت مسکرائی تھی

اوۓ تو کون ہے دفع ہو یہاں سے جس آدمی نے اہلہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا نے کہا

ہاتھ چھوڑ اس کا اس کے سوال کو نظر انداز کر کے اس نے نہایت سرد لہجے میں کہا تو وہ آدمی بجاۓ ڈرنے کے اس کی بات ہر ہنسا جیسے کوئی لطیفہ سنایا گیا ہو 

کیوں بھے تیری یہ کیا لگتی ہے یا پھر تیری بھی نیت اس کو دیکھ کر خراب ہو گئی ہے اس نے آنکھ مار کر کہا یہاں عاجل کا صبر ختم ہوا تھا اور وہ اسے پوری قوت سے پیچھے کی طرف دھکا مار کر اس پر جھک کر در پے در مکے مارنے لگا 

اس آدمی کے گرنے کی وجہ سے آہلہ کا ہاتھ اس سے چھوٹ گیا تھا وہ جلدی سے جھکتی اپنا حجاب اٹھا کر سر پر اوڑھ چکی تھی 

اس آدمی کا دوسرا ساتھی بھی اب سنبھل چکا تھا جب اس نے اس کو اپنے ساتھک پر جھکے دیکھا تو اس نے عاجل کو پیچھے سے پکڑ کر دھکا دے کر اسے اپنے ساتھی پر سے ہٹایا

اب صورتحال یہ تھی وہ دو آدمی تھے اور عاجل ایک وہ ان دونوں کو اچھا سبق سکھا سکتا تھا لیکن اس وقت اس کے ساتھ آہلہ بھی تھی  اس لیے اسے یہاں سے فلحال بھاگ جانا ہی مناسب لگا اس نے دو قدم پیچھے لے کر آہلہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور دودری سمت بھاگنا شروع کر دیا وہ آدمی بھی ان کے پیچھے بھاگے 

جب وہ لوگ ان کی پکڑ میں نہ آۓ تو ان میں سے ایک آدمی نے جیب سے پسٹل نکل کر فائر کیا جو کہ عاجل کے بازو کو چھو کر گزر گیا

عاجل جو آہلہ کا ہاتھ پکڑے بھاگ رہا تھا اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی چیز اس کے بازو کو چیر کر اسے سلگا گئی ہے اس احساس کے ساتھ ہی اسکے منہ سے چیخ نکلی آہلہ نے اس کے کراہنے پر اس کی طرف دیکھا اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے اس کے چہرے پر درد کے تاثر تو نہ دکھے لیکن وہ جان گئی کہ اسے درد ہوا ہے آہلہ نے رک کر اس سے وجہ پوچھنی چاہی کہ اس نے  اسے بھاگنے کا کہا کیونکہ گولی لگنے کی وجہ سے  عاجل کی سپیڈ سلو ہو گئی تھی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ وہ لوگ ان کے قریب پہنچ گئے تھے آہلہ نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور پھر سے بھاگنا شروع کر دیا 

ان کو بھاگتے بھاگتے کافی دیر ہو گئی تھی حتی کہ بھاگتے بھاگتے وہ لوگ کافی دور نکل آۓ تھے بھاگنے کی وجہ سے ان کا سانس بھی پھول گیا تھا جب انہیں لگا کہ وہ لوگ ان کا پیچھا نہی کر رہے تھے تو وہ دونوں رک گئے اور گہرے گہرے سانس لینے لگے آہلہ نے دیکھا تو وہ لوگ اس وقت کسی جنگل میں تھے کیونکہ مختلف قسم کے جانوروں کی آوازیں اسے سنائی دے رہی تھیں اس نے ڈر کر عاجل کا بازو زور سے پکڑا تو وہ درد سے کراہا اس کے کراہنے پر اس نے جلدی سے ہاتھ ہٹایا اور اسے یاد آیا کہ بھاگتے ہوۓ کچھ ایسا ہوا تھا جس سے اسے درد ہوا تھا اس نے اندھیرے میں ہی اسے ایک درخت کے ساتھ بٹھایا 

تمہارے بازو میں درد ہے کیا اس نے فکر مندی سے پوچھا 

ہاں جھے لگتا ہے کہ انہوں نے گولی ماری ہے جو میرے بازو میں لگی ہے اس نے درد بھرے لہجے میں کہا کیونکہ اتنا بھاگنے کی وجہ ایک تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور پھر گولی کی درد علیحدہ 

اس کی بات ہر اس نے پریشانی سے اپنے اردگرد روشنی کے لیے کوئی چیز ڈھونڈنی چاہی لیکن اسے ناکامی ہوئی چاند کی روشنی سے وہ اس کے چہرے پر درد تو دیکھ سکتی تھی لیکن اس کا زخم اتنی سی روشنی میں دیکھنا ناممکن تھا

 کیا ڈھونڈ رہی ہو اسے اردگرد کچھ تلاشتے دیکھ اس نے اس سے ہوچھا

روشنی کرنے کے لیے کوئی زریعہ ڈھونڈ رہی ہوں اس نے مصروف انداز میں جواب دیا

یہاں ایسے کوئی چیز نہی ملے گی میرے پینٹ کی جیب میں موبائل ہے اسے نکال لو اس نے اپنی جیب کی طرف اشارہ کیا وہ اسے خود نکال کر دے دیتا لیکن وہ ایک ہاتھ سے خون کو روکے ہوۓ تھا اور دوسرا زخمی تھا

اس نے جھجھکتے ہوۓ اس کی جیب سے موبائل نکالا اور ٹارچ آن کر کے اس کی بازو کو دیکھا جہاں سے خون رس رہا تھا اس نے دیکھا اس کی ساری سفید شرٹ خون سے رنگی ہوئی تھی 

اپنا ہاتھ پیچھے ہٹاؤ مجھے زخم دیکھنا ہے 

اس نے زخم  کی جگہ ٹارچ فوکس کی لیکن اسے کوئی گولی نہ دکھی البتہ گولی لگنے کا نشان واضح تھا 

لگتا ہے گولی صرف چھو کر گزری ہے 

ہمم اس نے صرف ہممم کہا

ٹارچ کی روشنی سے جانوروں کی آوازیں زیادہ آنا شروع ہو گئیں

ٹارچ جو بندھ کر دو نہی تو روشنی کو دیکھتے ہوۓ جانور اس سمت آ جائیں گے اس نے اس کی بات پر سر ہلا کر جلدی سے اپنے حجاب سے تھوڑا سا کپڑا پھاڑہ اور بازو پر باندھ دیا تا کہ خون رسنا بند ہو جاۓ

 کپڑا اس کے بازو پر باندھ کر وہ بھی ساتھ ہی درخت کے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اس وقت اس پر جانوروں کا خوف طاری تھا لیکن دل میں اس کے ہونے سے اطمینان بھی تھا وہ اس کی شکر گزار تھی جس نے نہ صرف اس کی عزت کی خفاظت کی تھی بلکہ اس کے لیے گولی بھی کھائی تھک وہ چاہتا تو اسے چھوڑ کر جا سکتا تھا 

وہ یہاں رکنا نہی چاہتا تھا لیکن وہ یہاں سے نکل بھی نہی سکتا تھا جانوروں کی آوازوں سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ لوگ اس وقت جنگل کے بیچ و بیچ ہیں اور اندھیرے کی وجہ سے اسے رستے کا بھی نہی پتا تھا اس لیے وہ خاموشی سے درخت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

مجھے تو اب صوفیہ اور طلحہ کے بچوں کو گود میں کھلانا ہے کھانا کھانے کے بعد وہ سب لوگ اکٹھے لاؤنج میں بیٹھے ہوۓ تھے کہ دادی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا جس کا اس عمر میں ہر دادی کو ہوتا ہے 

دادی کے کہنے پر صوفیہ یوں سب کے سامنے شرما کر سر جھکا گئی جبکہ طلحہ اسے محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا 

کیوں دادی آپ میرے بچوں کو نہی کھلائیں گی کیا علی نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا جبکہ اس کی آنکھیں شرارت سے مسکرا رہی تھیں

چل بے شرم پہلے شادی تو کر لے پھر تیرے بچے بھی کھلا لوں گی دادی نے اسے دھپ رسید کرتے کہا

تو دادی روکا کس نے ہے چڑھا دیں مجھے بھی گھوڑی اس نے دانت نکالتے بے شرمی سے کہا

بڑا ہی تو کوئی بے شرم ہے اپنے منہ سے ہی اپنی شادی کی بات کر رہا ہے دیکھیں دادی کیا بے شرم زمانہ آگیا ہے رضا نے افسوس کرتے دادی کو بھڑکایا

آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آپ بھی اسی زمانے کے ہیں اس نے چبا کر کہا

نہ میرا بچہ تو بڑا معصوم ہے مجال ہے اس نے آج تک اپنی شادی کی بات کی ہو اور تم اپنے شادی کے خواب ابھی خواب ہی رہنے دو کیونکہ پہلے رضا کی شادی ہو گی پھر تمہاری دادی نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیرا

کیوں دادی ہماری شادی ساتھ بھی تو ہو سکتی ہے اس نے اعتراض کیا

اماں مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کے اس پوتے نے کوئی پسند کر رکھی ہے اسی لیے اتنا اتاولا ہو رہا ہے اکمل صاحب نے چاۓ کی چسکی لیتے ہنس کر کہا

کیا اکمل سہی کہہ رہا ہے اگر تو نے کوئی ماڈل شاڈل پسند کی نہ تو میں نے تجھے گھر سے نکال دینا ہے پہلے ہی بتا رہی ہوں 

توبہ دادی میں کیوں بھلا کسی ماڈل کو پسند کرنے لگا مجھے تو ایک نہایت ہی شریف لڑکی پسند آئی ہے اور آپ نے بھی اسے دیکھا ہوا ہے 

اچھا کون ہے وہ بانو بیگم نے بھی گفتگو میں حصہ لیا

وہ وہ اس نے صوفیہ کو دیکھا

یہ وہ وہ کیا لگا رکھی اور صوفیہ کی طرف کیوں دیکھ رہا ہے طلحہ نے آبرو اچکایا

صوفیہ وعدہ کرو کہ تم مجھے مارو گی نہی 

اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اس کی دوست کا نام لینے پر اسے مارنا ہی نہ شروع ہو جاۓ

ایسی کون ہے جس کو بتانے سے پہلے تمہیں مجھ سے اپنی خفاظت کی ضمانت لینی پڑ رہی ہے 

پہلے تم پکا والا وعدہ کرو 

ٹھیک ہے وعدہ اب بتاؤ 

دادی مجھے صوفیہ کی دوست فاریہ پسند ہے اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں دادی قسم سے وہ بہت اچھی ہے اور آج کی لڑکیوں کی طرح تو بلکل بھی نہی ہے جو کینچی کی طرح زبان چلاتی ہیں وہ تو بہت معصوم اور چپ چپ رہنے والی لڑکی ہے اس نے بتاتے اس کی تعریفوں کے پل بانھنے شروع کر دیے جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھے 

صوفیہ جو فاریہ کے نام پر حیرت و خوشی سے اسے دیکھ رہی تھی اس کی تعریفوں پر اپنی ہنسی کو روک نہ سکی اور زور سے ہنس پڑی اس کے ہنسنے پر سب نے اس کی طرف دیکھا 

سوری وہ مجھے اس کی بات پر ہنسی آگئی 

کیوں میں نے کونسا لطیفہ سنایا ہے علی نے منہ بنا کر کہا

تم نے جو اس کی تعریفوں کے لیے زمین اور آسمان ایک کر دیا ہے نہ یہ میرے لیے کسی لطیفے سے کم نہی ہے اس نے ہنستے ہوۓ کہا

دادی اسے چھوڑیں آپ بتائیں آپ کو کیسی لگی تھی وہ  اس نے ان کے پاس نیچے بیٹھ کر ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا

لڑکی تو اچھی ہے لیکن چپ والی بات تو اس میں نہی ہے 

دادی کی بات ہر اس نے کان کھجایا

رضا پتر اگر تجھے بھی کوئی پسند ہے تو بتا دے نہی تو یہ کام بھی ہم سر انجام دے دیتے ہیں

نہی دادو مجھے کوئی پسند نہی ہے آپ کا جو فیصلہ ہو گا میرے لیے وہ قابل حترام ہو گا اس نے تعابداری سے کہا

چلو بہو پھر اس کے لیے لڑکی ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اور کل پرسوں تک فاریہ کے گھر اس کا رشتہ لینے کے لیے بھی چلتے ہیں دادی نے اپنی تینوں بہووں کو کہا جنہوں نے کبھی انہیں ماں سے کم مرتبہ نہی دیا تھا بدلے میں انہوں نے بھی ماں بن کر دکھایا

پھر کیا تھا خواتین لڑکی ڈھونڈنے مہم کی پلانگ میں جھٹ گئیں اور مرد خضرات اپنے بزنس کی باتوں میں سب کو اپنی اپنی باتوں میں مشغول دیکھ کر ماہپارہ اور صوفیہ کمرے میں چلی گئیں

کچھ دیر بعد وہ لوگ بھی کمرے میں چلے گئے تو دادی نے سب کو مخاطب کیا 

میں سوچ رہی تھی کہ جب لڑکی گھر میں موجود ہے تو پھر باہر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے 

ان کی بات کو وہ لوگ سمجھ گئے تھے لیکن پھر بھی ان کی پوری بات کے لیے منتظر تھے

اگر تم میں سے کسی کو اعتراض نہ ہو تو کیوں  نہ رضا اور ماہپارہ کج بات پکی کر دی جاۓ اپنی بات کہہ کر انہوں نے اپنے بہووں اور بیٹوں کی طرف دیکھا جن کے چہروں پر اطمینان تھا 

ہمیں کوئی اعتراض نہی ہے اماں ہمارے لیے تو خوشی کی بات ہے کہ ہماری بیٹی ہمارے ساتھ رہے گی اور رضا سے بڑھ کر مجھے اچھا اور شریف داماد کہیں نہی ملے گا اقبال صاحب نے مسکرا کر کہا

اور تم لوگوں کو انہوں نے اقراء اور اکمل کی طرف دیکھ کر پوچھا

نہی اماں ہمیں بھی کوئی اعتراض نہی ہے  

چلو پھر ٹھیک ہے کل صبح بچوں سے بھی پوچھ لیں گے اور تم لوگ بھی اب آرام کر لو رات کافی ہو گئی ہے 

جی اماں 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ الماری میں اپنے اور طلحہ کے کپڑے ہینگ کر رہی تھی کہ طلحہ نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا اور اپنی تھوڑی اس کے کندھے پر رکھی 

اس کے حصار پر اس کے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ پھیل گئی 

اس کی طرف سے کسی بھی مزاحمت کو نا پا کر اس نے اپنا حصار تنگ کیا تو وہ شرم سے سرخ ہوتی اس کے حصار میں کسمسائی

دادی کی خواہش کو کب پورا کر رہی ہو اس نے اس کے گال پر لب رکھ کر پوچھا 

پلیز طلحہ ایک تو اس کی جسارت اوپر سے بے باکی سے پوچھنے پر وہ شرم سے سرخ پڑتی التجا کرنے لگی

پلیز سے کام نہی چلے ڈئیر وائفی اس نے اس کا گال پر پھر سے لب رکھ کر کہا اور اسے بازؤں میں اٹھاۓ بیڈ پر لٹایا تو وہ نظریں جھکا گئ

میں شہروز بھائی اور آہلہ ہے لیے بہت خوش ہوں اس نے اس کے شرارتی موڈ کو دیکھ کر بات بدلنی چاہی 

ہمم میں بھی اپنے دوست کی خوشی میں خوش ہوں اللہ اس کی خوشی کو نظر بد سے بچاۓ اس نے دعا کی اسے کیا پتا تھا کہ عاجل نامی نظر اس کے دوست کے پیار کو لگ چکی ہے 

میں جانتا ہوں ڈئیر وائفی تم میرا دھیاں ہٹا رہی ہو خود پر سے لیکن میں آج بخشنے والے موڈ میں نہی ہوں اور پھر ویسے بھی دادج کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمیں بھی تو کوشش کرنی چاہیے نہ تا کہ وہ جلد  از جلد دادی سے پر دادی کے عہدے پر اور ہم والدیں کے عہدے پر فائز ہو جائیں 

اس کی بےباک گفتگو پر وہ شرمیلی مسکراہٹ سے اس کے سینے میں منہ چھپاگئ

مجھ سے بچنے کے لیے تم میری ہی پناہوں میں آتی ہو لیکن آج یہ پناہ بھی تمہیں نہی بچا پاۓ گی اس نے اس کا منہ اپنے سینے سے جدا کرتے اس کے چہرے پر جابجا اپنی محبت کا لمس چھوڑتے کہا

اور ساتھ ہی لائٹ آف کر دی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ بیڈ پر لیٹا فاریہ کو آنکھوں میں سماۓ اپنی آنے والی زندگی کے خواب سجھا رہا تھا 

بس ایک دفع میری دسترس میں آجاؤ پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ یہ شرارتی سا علی تمہاری محبت میں کس قدر دیوانہ ہے کہ تمہارے ساتھ کسی شخص کو دیکھ کر ہی میری جان نکلنے کو ہوتی ہے 

ابھی تو تم میرا چین وین نیند سب لوٹ کر مزے سے سو رہی ہو نہ لیکن جب میرے پاس آؤ گی تو تمہاری یہ نیندیں میں چرا لوں گا وہ دلکشی سے مسکرایا اور کروٹ لے گر سونے کی کوشش کرنے لگا

دوسری طرف

لگتا ہے وہ سٹرینجر ڈر گیا مجھ سے تبھج دوبارہ اپنی شکل نہی دکھائی اچھا ہی ہوا کہ وہ نہی آیا نہی تو میں نے اس دفع اس کی ہڈی پسلی ایک کر دینی تھی یا اللہ سارے لفنگے بدمعاش مجھ سے ٹکڑاتے ہیں بس ایک فوجی ہی مجھ سے نہی ٹکڑاتا یا اللہ پلیز کوئی فوجی بھی مجھ سے ٹکڑا جاۓ اور اسے مجھ سے پہلی نظر میں ہی محبت ہو جاۓ وہ آنکھیں بند کر کے دعا کر رہی تھی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

شہروز جلدی سے گاڑی سے نکل کر اپنے دوست جیسے باپ کے کراہتے وجود کو باہوں میں لیے ہسپتال کے کاریڈور میں داخل ہوا اور ڈاکٹرز کو آوازیں لگانا شروع کر دیں اس کی آواز سن کر کچھ ڈاکٹرز کاریڈور میں میں بھاگے آۓ اور جلدی سے سٹریچر منگوا کر ان کو اس پر لٹا کر روم میں لے گئے

رفعت بیگم اپنے سوہاگ کے لیے روتے ہوۓ دعائیں کر رہی تھیں جبکہ شہروز فارمیلٹیز پوری کر رہا تھا 

وہ ساجد صاحب کج سلامتی کے لیے دعا مانگ رہی تھیں کہ ان کا فون بجا انہوں نے دیکھا تو نور کا فون تھا وہ فون اٹھاتیں کان سے لگاتیں رو پڑیں

کیا ہوا آپا سب ٹھیک تو ہے آپ رو کیوں رہی ہیں نور نے پریشانی سے پوچھا 

نور نور ساجد کو پتا نہی کیا ہو گیا ہے انہوں نے روتے ہوۓ کہا 

آپا آپ لوگ اس وقت ہیں کہاں 

انہوں نے ہسپتال کا نام بتایا تو نور نے فون بند کر دیا

کیا ہوا نور کیا کہہ رہی تھیں رفعت آپا اور آپ اتنی پریشان کیوں ہیں مصطفی نے انہیں پریشان دیکھ کر کہا

مصطفی آپا کو میری ضرورت ہے اس وقت ساجد بھائی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے آپ مجھے پلیز ہاسپٹل لے چلیں 

ہاں چلو میں بھی چلتا ہوں 

وہ دونوں تیزی سے باہر نکلے ہاسپٹل جانے کے لیے

وہ لوگ ہاسپٹل میں پہنچے تو کاریڈور میں ہی رفعت انہیں سر جھکاۓ ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھتی ہوئی دکھی 

آپا کیا بتایا ڈاکٹرز نے اب کیسی طبعیت ہے ساجد بھائی کی نور نے ان کے شانے ہر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وہ جواباً ان کے گلے لگ کر رونا شروع ہو گئیں

نور نے انہیں آرام سے علیحدہ کیا اور دوبارہ سے سوال دہرایا تو ان کی بجاۓ شہروز نے جواب دیا جو ابھی ریسیپشن پر فارمیلٹیز پوری کر کے آیا تھا

ان کو میجر ہارٹ اٹیک ہوا ہے ڈاکٹرز اندر چیک کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کہ جان ابھی خطرے میں ہے ابھی کچھ کہا نہی جا سکتا اس نے ضبط سے بتایا اس کی آنکھوں کے کونے سرخ پڑ گئے تھے 

تم شہروز ہو جی 

آپا آپ فکر مت کریں انشاءاللہ بھائی کو کچھ نہی ہو گا آپ دعا کریں ان کے لیے مصطفی نے شہروز کے کندھے ہر ہاتھ رکھ کر حوصلہ یا اور اپنی خدمت بھی پیش کی 

اگر میرے لائق کوئی بھی خدمت ہو تو بیٹا ہچکچانا نہی ہے ساجد میرے بڑے بھائیوں کی طرح ہیں

جی انکل

اتنے میں ڈاکٹر آئی سی یو سے باہر نکلا 

آپ کے پیشنٹ کی حالت آؤٹ آف ڈینجر ہے لیکن ابھی مکمل طور پر ہم سیٹسفائی نہی ہیں اس لیے ان کو چوبیس گھنٹے آبزرویشن میں رکھا جاۓ گا 

ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں کہا

ڈاکٹر کوئی خطرے والی بات تو نہی ہے  نہ شہروز نے پریشانی سے ان کے چوبیس گھنٹے آبزوریشن والی بات پر بے چینی سے پوچھا

دیکھیں مسٹر شہروز ہم آپ سے کچھ چھپائیں گے نہی جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کے والد صاحب اس وقت آوٹ آف دینجر ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ جوبیس گھنٹے بعد انہیں پھر سے ہارٹ اٹیک ہو اس لیے ہم انہیں ابزوریشن میں رکھنا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ نہ ہو لیکن احتیاط ضروری ہے 

جی ڈاکٹر آپ کو جو بہتر لگتا ہے آپ وہ کریں

اوکے کہہ کر ڈاکٹر چلا گیا

ڈاکٹر کی بات پر رفعت بیگم رونے لگیں

اسے بارہا مروہ کی کالز آچکی تھیں اس لیے وہ انہیں صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے قدرے سائڈ پر ہو گیا 

شہری مامو کی طبعیت کیسی ہے ماما بار بار ہاسپٹل آنے کی ضد کر رہی ہیں 

بابا کی طبعیت بہتر ہے تم ایک کام کرو پھوپھو کو لے کر ڈرائیور کے ساتھ ہاسپٹل آجاؤ اس طرح ان کے دل کو تھوڑی اطمینانیت رہے گی 

ٹھیک ہے

آپا بھائی کو ہوا کیا تھا ابھی چند روز پہلے تو میری آپ سے بات ہوئی تھی تب تو آپ نے نہی بتایا کہ ان کو ہارٹ پرابلم ہے

انہیں کوئی ہارٹ ایشو نہی ہے نور یہ تو بس اس منہوس کی وجہ سے ہوا ہے جس کی ماں نے ہم سے ہماری خوشیاں چھین لی اور اب اس کی بیٹی 

کس کی بات کر رہی ہیں آپا 

زکیہ کی بیٹی کی پھر انہوں نے آج ہونے والا سارا واقع ان کو سنا دیا

آپ حوصلہ رکھیں آپا 

تھوڑی دیر تک شمع اور مروہ بھی ہاسپٹل پہنچ چکے تھے 

صبح اس کی آنکھ آنکھوں میں پڑتی سورج کی کرن سے کھلی اس نے اپنے اردگرد دیکھا تو اسے یاد آیا کہ وہ کہاں ہے اور کل کیا کیا اس کے ساتھ ہو چکا ہے کل کا دن یاد کر کے اس کی آنکھوں سے آنسو بے مول ہوۓ اسے یاد آیا کہ اسے اس مصیبت تک لانے والا اور اس کی خفاظت کرنے والا بھی اس کے ساتھ ہے اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی ساری شرٹ خون سے رنگی ہوئی تھی اس نے دیکھا کہ سوتے ہوۓ بھی اس کے چہرے ہر درد کے تاثر تھے بال بکھڑے ہوۓ ہونٹ کا کنارہ پھٹا ہوا تھا لیکن پھر بھی آہلہ کو اسے دیکھ کر کسی شہزادے کا سا گمان ہوا تھا اس کے دل نے شدت سے چاہا کہ وہ اس کے ماتھے ہر بکھرے بالوں کو ہاتھ لگاۓ ان کو سنوارے لیکن دوسرے ہی پل اسے خود ہر خیرانی ہوئی وہ کیوں اپنے ہی ستمگر کے لیے یہ خواہش کر رہی تھی  اس کے دل نے پہلے تو ایسی خواہش نہی کہ تھی وہی تو اسے یہاں تک لانے والا تھا اس نے اپنے دل کو ڈپٹا

وہ اپنی سوچوں میں خود کو ڈپٹ رہی تھی کہ اسے اس کے کہرانے کی آواز آئی اس نے دیکھا کہ وہ نیند میں ہی اپنے بازو کو پکڑے کراہ رہا تھا 

کیا ہوا وہ فکر مندی سے اس کے بازو کو دیکھتی بولی

اس کے ہلانے پر وہ نیند سے بیدار ہوتا اپنے بازو کو ہلانے لگا جو شائد زخم اور ساری رات ایک ہی میں پوزیشن میں رہنے کی وجہ سے سوجھ گیا تھا

کچھ نہی ہوا اس نے درد کو برداشت کرتے اٹھ کر کہا

ہمیں ہاسپٹل چلنا چاہیے اس نے مشورہ دیا

ہمم ابھی تو یہاں سے پہلے نکل لیں اس نے چاروں طرف جنگل کو دیکھتے کہا

وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی کافی دیر چلنے کے بعد بلاخر انہیں سڑک کو نکلتا رستہ مل ہی گیا

وہ پیدل ہی سڑک پر چلنے لگے کیونکہ عاجل کی گاڑی یہی کہیں سڑک پر تھی 

پندرہ منٹ چلنے کے بعد انہیں گاڑی مل ہی گئی وہ لوگ اس کی گاڑی کو نہی لے کر گئے تھے شائد ان لوگوں کو شباب میں ہی دلچسپی تھی بس

بہر حال جو بھی تھا ان کے لیے اچھا ہی تھا نہی تو انہیں مزید خوار ہونا پڑتا

وہ گاڑی میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگا جو باہر ناجانے کھڑی کیا سوچ رہی تھی 

اب کیا آج کا دن بھی یہیں گزارنے کا ارادہ ہے اس نے طنز کیا

نہی تم چلے جاؤ مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہی جانا شائد تم بھول گئے ہو کہ مجھے گھر سے بے عزت کروا کر نکلوانے والے تم ہی تھے اس لیے مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہی جانا اس نے نفرت سے کہا تھوڑی دیر پہلے جو دل نے خواہش کی تھی اس کا شاہبہ تک اس کے لہجے میں نہ تھا  اور نہ ہمدردی اب صرف اس کے لہجے میں اس کے لیے نفرت تھی 

ہوں تو میں کونسا بھول گیا ہوں کہ تم میری دشمن ہو جس نے مجھے تھپڑ مارا تھا اور ایک تھپڑ تو کل رات بھی تم مجھے مار چکی ہو جس کا بدلہ ابھی رہتا ہے اور مجھے بھی تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کا کوئی شوق نہی ہے اگر تمہیں کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بننا ہے تو شوق سے رکو یہاں

اس کی بات پر وہ ان انسان نما درندوں کو یاد کرکے جھرجھری لیتی جلدی سے سیٹ پر بیٹھ گئی

تم نے مجھے کیوں بچایا کل تمہاری تو میں دشمن ہوں تو پھر نوچنے دیتے ان درندوں کو مجھے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے تھا

ہمم تم میری دشمن ہو اور تمہیں درد دینے کا تکلیف دینے کا حق صرف میں رکھتا ہوں اس لیے اور مجھے اپنی چیزوں میں شراکت پسند نہی پھر وہ چاہے دشمنی ہو یا محبت

اس کے جواب پر اس نے اس کی طرف دیکھا یعنی اس نے اسے بچاجا بھی اپنی دشمنج کے لیے تھا اس نے نفرت سے منہ پھیر لیا

وہ ہاسپٹل کے اندر چلا گیا جبکہ وہ گاڑی میں ہی بیٹھج رہی اس کا اس شخص کے ساتھ اندر جانے جا کوئی ارادہ نہ تھا وہ اب سوچ رہی تھی کہ کیسے وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے گی اور رہے گی کہاں اگر ساجد چاچو نے اس کی بات پر بھروسہ نہ کیا تو یہ سوچتے سوچتے اس کی نظر شہروز پر پڑی جو موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا 

اسے یاد آیا کہ چاچو کی طبعیت خراب ہو گئی تھی وہ بے چینی سے گاڑی سے نکلتی اس کے پیچھے ہاسپٹل کے اندر بڑھی

وہ ہاسپٹل کے اندر چلا گیا جبکہ وہ گاڑی میں ہی بیٹھج رہی اس کا اس شخص کے ساتھ اندر جانے جا کوئی ارادہ نہ تھا وہ اب سوچ رہی تھی کہ کیسے وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے گی اور رہے گی کہاں اگر ساجد چاچو نے اس کی بات پر بھروسہ نہ کیا تو یہ سوچتے سوچتے اس کی نظر شہروز پر پڑی جو موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا

اسے یاد آیا کہ چاچو کی طبعیت خراب ہو گئی تھی وہ بے چینی سے گاڑی سے نکلتی اس کے پیچھے ہاسپٹل کے اندر بڑھی

وہ اس کے پیچھے پیچھے اندر گئی تو اسے سامنے ہی سارے گھر والے دکھے دو انجان چہرے بھی تھے لیکن اس نے زیادہ دھیان نہ دیا اس وقت اس کے لیے صرف چاچو کی طبعیت کی خبر اہمیت رکھتی تھی اس کے لیے وہ آگے بڑھ کر رفعت بیگم سے پوچھنے لگی

تائی چاچو کیسے ہیں ڈاکٹرز نے کیا کہا ہے اس نے آگے بڑھ کر پریشانی و فکرمندی سے پوچھا

تم پھر اپنی منہوس شکل لے کر آگئی دل نہی بڑھا کیا ہماری عزت کی دھجیاں اڑا کر ارے تم نے تو یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا ساجد صاحب پر کیا اثر ہو گا تم نے تو انہیں بستر مرگ پر ڈال دیا رفعت بیگم اسے سامنے دیکھ کر پھٹ پڑیں رات سے وہ کس ازیت میں تھیں یہ وہی جانتی تھیں

تائی امی میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے کچھ بھء نہی کیا میں بے قصور ہوں آخر آپ میری بات پر یقین کیوں نہی کر رہے  اس نے روتے ہوۓ اپنی صفائی دی

تمہارے شوہر نے بھی کیا تمہیں چھوڑ دیا جو روتی ہوئی یہاں چلی آئی ہو مروہ نے طنز کیا

تائی آپ مجھے بس یہ بتا دیں کہ چاچو کیسے ہیں آپ کو میری بات کا یقین نہی کرنا تو مت کریں بس مجھے ان کے بارے میں بتا دیں اس نے مروہ کے طنز کو نظر انداز کر کے ان سے التجایہ کہا

ابھی رفعت بیگم کچھ کہتی کہ عاجل کی آواز ان سب کی سماعتوں سے ٹکڑائی

کیا کر رہی ہو یہاں میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ گاڑی سے مت نکلنا وہ چلتا چلتا اس کے قریب آیا

اس آواز پر جہاں آہلہ نے اسے مڑ کر دیکھا تھا وہیں شہروز نے ناگواری سے اپنا چہرہ موڑ لیا تھا

سب نے سماعت کی سمت دیکھا تو وہ بکھرے بالوں اور سفید خون سے رنگی شرٹ میں اپنی بھر پور وجاہت لیے بس آہلہ کو ہی دیکھ رہا تھا اس نے اپنے ارگرد دیکھنے کی ضرورت محسوس نہی کی تھی 

وہ چلتا چلتا اس تک پہنچا اور اپنی نیلی سرخ آنکھوں سے اس سے جواب مانگنے لگا

آہلہ نے جواب دینے کی بجاۓ نفرت سے منہ پھیر لیا اس کے ایسا کرنے ہر پہلے تو اس نے غصے سے مٹھیاں بھیج لیں لیکن پھر مکسرایا 

اس نے اس آگے بڑھ کر اس کے گرد اپنا ایک بازو پھیلایا اور شہروز کو دیکھ کر جتایا شہروز نے مٹھیاں بھینج کر اپنے غصے کو قابو کرنے کی کوشش کی 

آہلہ نے اپنا آپ اس سے دور کرنا چاہا تو اس نے گرفت مضبوط کر دی 

اگر آپ لوگوں کو آپ کے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا ہے تو براۓ مہربانی کسی ہوٹل کا روم بک کرواکر یہ پیار محبت وہاں ایک دوسرے کو جتا لیں جب شہروز سے زیادہ برداشت نہ ہوا تو اس نے عاجل کو دیکھتے طنز کیا اب اپنا غصہ بھی تو نکالنا تھا جو اسے دیکھ کر آیا تھا اور پھر اسے آہلہ کے گرد بازو پھیلا کر جتانا اسے آگ ہی تو لگا گیا تھا

ضرور کیوں نہی ویسے آئیڈیا  اچھا دیا ہے تم نے میں بھی سوچ رہا تھا کہ کچھ ٹائم اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ گزار لوں یو نو اب نئی نویلی دلہن کے ساتھ ٹائم کیسے گزارا جاتا ہے اس نے اس کے غصے سے لال چہرے کو دیکھتے آنکھ ونک کر کے کہا

اسے اس کا غصے سے لال چہرہ بہت پیارا لگ رہا تھا اس لیے اس نے اسے مزید لال کرنا چاہا وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے اپنی بہت کا دعوے دار تھا اس لیے اس نے اس کے سامنے آہلہ اور اپنے متعلق بے باک گفتگو کی 

ویسے اگر آج یہ میری بیوی نہ ہوتی تو کچھ عرصے میں یہ تمہاری بیوی ہوتی اور اس کے ساتھ تم ٹائم گزارتے لیکن افسوس تم پیچھے رہ گئے اس نے افسوس سے کہتے اس کا چہرہ دیکھ کر مسکرایا یعنی وہ اسے غصہ دلانے میں کامیاب ہو گیا تھا

آہلہ نے اپنی اس قدر تزلیل پر آنکھیں کرب سے بند کر لیں وہ کیا کوئی چیز تھی یا پھر بکاؤ مال جو دو مرد اس کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے تھے کہ ایک نہی تو دورا سہی 

تم اپنی حد کراس کر رہے ہو اپنی حد میں رہو تم اس نے آگے بڑھ کر اس کا گریبان پکڑتے چلا کر مگر دھیمی آواز میں کہا کیونکہ وہ اس وقت کوئی تماشا نہی چاہتا تھا جب اس کا باپ بستر مرگ پر تھا لیکن پھر بھی اس کی آواز اونچی ہو گئی تھی

اسکے گریبان پکڑنے پر غصہ ہونے کی بجاۓ وہ مسکرایا 

کیوں غلط کیا کہا میں نے کیا تم اس سے محبت کے دعوے دار نہی تھے کیا تم نے اسے پرپوز نہی کیا تھا کیا تم اس سے شادی کرنے کی خواہش نہی رکھتے تھے تم اس نے مسکراتی آنکھوں سے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا

یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ اور عاجل تم یہاں کیا کر رہے ہو مصطفی صاحب جو نور کو کینٹین لے کر گئے تھے واپسی پر عاجل اور شہروز کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے دیکھ کر کہا اور شہروز سے عاجل کا گریبان بھی چھڑوایا

مصطفی صاحب کے کہنے پر دونوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا

انکل آپ جانتے ہیں اس کو شہروز نے حیرانگی سے پوچھا 

ہاں جانتا ہو میں اسے لیکن تم مجھے یک بتاؤ کہ تم اسے کیسے جانتے ہو اور تم نے اس کا گریبان کیوں پکڑا ہوا تھا

نور جو عاجل کو یہاں دیھ کر حیران ہوئی تھیں کہ اس کہ سفید شرٹ پر خون کو دیکھ کر وہ پریشانی سے ہکلاتی اس سے پوچھنے لگیں

یہ خ۔۔۔ون ک۔۔۔کس کا ہے تمہیں کوئی چوٹ لگی ہے کیا مجھے بتاؤ عاجل یہ خون کیسے آیا تمہاری شرٹ پر وہ اس کے چہرے کو چھوتی پریشانی سے پوچھنے لگیں ان کی بات ہر مصطفی صاحب نے بھی اس کی طرف دیکھا ارو وہ بھی پریشانی سے اس سے پوچھنے لگے

کچھ نہی ہوا ماما اور بابا بس زرا سی گولی چھو کر گزری  ہے نتھنگ ایلز اس نے لاپرواہی سے جواب دیاجبکک اس کے جواب پر نور پریشانی سے اس کے بازو کو چھو کر دیکھنے لگیں

آہلہ اور باقی سب جو الجھن سے انہیں دیکھ رہے تھے اس کے ماما اور بابا کہنے پر چونکے شہروز کو اپنا جواب مل چکا تھا 

نور کیا یہ عاجل ہے رفعت بیگم نے حیرانی سے پوچھا

جی آپا یہ عاجل ہے آپکا بھانجا 

اب کہ عاجل نے بھی آہلہ کو دیکھا  اس کا ارادہ تو اسے کسی مخفوظ جگہ جہاں وہ درندوں سے محفوظ رہتی منتقل کرنے کا ارادہ تھا لیکن اب اسے سمجھ نہی آرہج تھی کہ وہ کیا کرے کیونکہ یہ نکاح تو جھوٹا تھا لیکن پھر وہ اپبی سوچوں کو پس پشت ڈالٹا اپنے ازلی لاپرواہی والے موڈ میں آ گیا

نور تم جانتی ہو جس لڑکے سے آہلہ نے نکاح کیا ہے وہ لڑکا کوئی اور نہی بلکہ تمہارا بیٹا ہے انہوں نے ان دونوں کے سروں پر بم پھوڑا

یہ کیا کہہ رہہ ہیں آپ آپا عاجل بھلا ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ بھی ہمیں اطلاع دیے بغیر انہوں نے اس بات کی نفی کی

اگر آپ کو اپنے ہونہار بیٹے پر اتنا ہی یقین ہے تو پھر پوچھیے اس سے کیا یہ آہلہ کا شوہر نہی ہے شہروز نے عاجل کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہا اسے موقع ملا تھا اسے بے عزت کرنے کا تو وہ کیسے جانے دیتا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے والی بات کا بدلہ بھی تو لینا تھا

مام یہ سچ کہہ رہا ہے میں نے آہلہ سے نکاح کیا ہے اور وہ میری منکوحہ ہے ان کے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے کہا 

آہلہ جو پرسکون ہوئی تھی کہ چلو وہ شائد اب اپنے جھوٹ کا اعتراف کر لے اپنے ماں باپ کے سامنے لیکن ایک دفع پھر خود کو بیوی کہنے پر اس نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کسی اور کا نہی تو اپنے ماں باپ کو ہی کچھ خیال کر لو

اس کے جواب پر انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا

تم نور کے کچھ کہنے سے پہلے نرس وہاں آئی

میم یہ ہاسپٹل ہے اس لیے پلیز اپنی آواز کو نیچے رکھیے اور اپنے مسائل گھر جا کر سالو کریں یہ آپکا گھر نہی ہاسپٹل ہے نرس نے انتہائی بدتمیزی سے کہا اور چلی گئی

اس ٹاپک کو گھر جاکر دیلھ لیں گے ابھی آپ لوگ ساجد بھائی کے لیے دعا کریں آخر مصطفی صاحب نے ہی انہیں چپ کروایا

وہ بھی ہاسپٹل میں رک گئی تھی یہ مصطفی صاحب کہ وجہ سے ممکن ہو پایا تھا ورنہ شمع بیگم اور رفعت بیگم اسے یہاں سے دھکے دے کر نکالتیں

عاجل تو کب کا گھر چلا گیا ویسے بھی اسے کونسا کسی کی فکر تھی جو وہ یہاں رکتا

اس نے مصطفی صاحب سے چاچو سے ملنے کی درخواست کی تو پہلے تو وہ نہ مانے کے اسے دیکھ کر وہ دوبارہ اپنی طبعیت نہ خراب کر لیں لیکن پھر اس کی التجا پر انہوں نے اسے ڈاکٹر سے اجازت لے کر اندر بھیجا 

وہ اندر بڑھی تو وہ بے ہوش تھے شائد نیند کی گولیاں کا اثر تھا وہ آہستہ آہستہ چلتی بیڈ کے قریب آئی اور ان کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگایا اور اپنی صفائی دینے لگی وہ جانتی تھی کہ وہ ہوش میں ہوتے تو اسے اپنے قریب بھی نہ آتے شائد 

آپ بھء مجھے ہی گناہگار سمجھ رہیں ہیں آپ تو میری بات کا یقین رکھتے اگر یقین نہی تھا تو پھر بھی مجھے ایک دفع اپنی صفائی کا موقع تو دیتے پھر اگر آپ کو میری بات پر یقین نہ آتا تو آپ مجھے جو سزا دیتے مجھے قبول ہوتی لیکن ایک دفع موقع تو دیتے اس نے ان کا ہاتھ تھام کر روتے ہوۓ کہا

میں سچ میں بے قصور ہوں مجھے تو اپنے اس تھپڑ کی سزا مل رہی ہے جو مجھ سے ہو گئی اگر مجھے پتا ہوتا تو میں کبھی بھج اس رستے سے نہ گزرتی جس سے عاجل گیلانی  کا گزر ہوتا اس نے روتے ہوۓ کہا

اتنے میں نرس کمرے میں آئی اور اسے باہر جانے کو کہا وہ اپنے آنسو صاف کرتی کمرے سے نکل گئی ان کے وجود سے باتیں کر کے اس کا دل ہلکا ہو گیا تھا

رات کے دس بجے ڈاکٹر نے انہیں ان کی مکمل صحت کی خوش خبری سنائی تھی 

آپ اپنے پیشنٹ کو گھر لے کر جاسکتے ہیں الحمد اللہ انہیں ان چوبیس گھنٹوں میں کوئی مائنر اٹیک نہی ہوا لیکن اب آپ کو پہلے سے زیادہ ان کا خیال رکھنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ انہیں کسی بھی ایسی بات سے دور رکھا جاۓ جو ان کے لیے ٹینشن کا باعث بنے 

رفعت بیگم نے اپنے رب کی کرم نوازج پر شکرانے کے نفل ادا کیے اس طرح رات کے 11 بجے ساجد صاحب ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آچکے تھے

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

چٹاخ

اس تھپڑ کی آواز پر ساری کلاس میں سکوت چھا گیا تھا اور ٹیچر سمیت سب سٹوڈنٹ ان دونوں کو دیکھ رہے تھے 

وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے شاک اور بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی جس کی غصے سے رگیں تنی ہوئی تھیں نسیں ہاتھ اور گردن کی اس قدر پھولی ہوئی تھی کہ انہیں دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے ابھی پھٹ جائیں گی 

پاگل لڑکی کیا سوچ کر تم نے ساری یونیورسٹی اور اس کے باہر پوسٹر لگاۓ ہیں ان پوسٹرز سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم کہ میں صرف تمہارا ہوں میں کوئی مال میں شو کروائی گئی چیز نہی ہوں جو تمہیں پسند آگئی ہو اور اب تم سب کو بتاتی پھر رہی ہو کہ میں تمہارا ہوں کیا میں نے کبھی تمہیں کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں چلو محبت کو چھوڑو کبھی کہا ہو کہ تم میں انٹرسٹڈ ہوں اس نے اسکا بازو پکڑ کر چلا کر کہا

جبکہ وہ تو ابھی بھی اپنے گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سی کہفیت میں تھی اس نے آخر ایسا  بھی کیا کر  دیا تھا جو وہ اسے تھپڑ مار گیا تھا وہ بھی سب کے سامنے اس نے تو صرف اس دن کے پیش نظر یونی اور اس کے باہر اس کی تصویر کے نیچے "فادی بھائی صرف رابی کا ہے" لکھوا کر اس کے پوسٹر لگواۓ تھے تاکہ سب جان جائیں کہ وہ صرف اس کا ہے اور اس کے مطابق اس نے کچھ غلط بھی نہی کیا تھا جب وہ تھا ہی اس کا تو یہ بات سب کو پتا بھی ہونی چاہیے تھی

بولو اب جواب دو اب کیوں چپ کر کے بیٹھی ہو بتاؤ میں نے تمہیں کبھی کہا ہو ایسا کچھ 

نہی اس نے نفی میں سر ہلایا

تو پھر دیم اٹ تم نے یہ حرکت کیوں کی کیوں میرے پیچھے پڑ گئی ہو تمہیں میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ میں تم سے کوئی محبت وہبت نہی کرتا اور نہ کر سکتا ہوں اس لیے دور رہو مجھ سے لیکن تم پھر بھی بعض نہی آئی لیکن اگر اب تم بعض نہ آئی تو دیکھنا میں کیا کرتا ہوں اور اسے صرف دھمکی مت سمجھنا اگر تم دوبارہ میرے پیچھے آئی یا ایسی ویسی کوئی حرکت کی تو میں اسی دن کسی بھی اپنی جیسی لڑکی کو بیوی کی حیثیت سے تمہارے سامنے لا کھڑا کروں گا اور یہ میرا عرف فادی بھائی کا وعدہ ہے تم سے اور تم کیا پورا زمانہ جانتا ہے کہ فادی بھائی اپنی بات کا پکا ہے اور یقیناً تم ایسا نہی چاہو گی اس لیے ۔۔۔۔۔اپنی بات ادھوری چھوڑتا وہ میز پر ہاتھ مارتا آندھی طوفان بنا کلاس سے نکلتا چلا گیا

اس کے جانے کے بعد وہ اپنے آنسؤوں کو صاف کرتی بھاگتی ہوئی یونیورسٹی سے ہی نکل گئی

فادی بھائی اب کیا کرنا ہے اس کے ایک ساتھی نے اس سے پوچھا 

کرنا کیا ہے جلدی سے سارے پوسٹرز ہٹواؤ اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے خود کو پرسکون کرنے کی ناکام سی  کوشش کرتے کہا جبکہ اس کا دل کر رہا تھا کہ سیدھا اس بے و قوف لڑکی کو شوٹ کر دے جو خود کو مشکل میں ڈالنے کا کوئی طریقہ ہاتھ سے جانے نہی دیتی تھی 

اس کا جواب سن کر اس کا ساتھی جلدی سے اپنا کام کرنے چلا گیا 

یونی سے آنے کے بعد سے وہ اپنے کمرے میں بند ہو گئی اس کا رو رو کر برا خال تھا اسے اس کے تھپڑ کا اتنا برا نہی لگا تھا جتنا اسے اس کے الفاظ نے گھائل کیا تھا 

وہ تو شکر تھا کہ گھر میں اس وقت ملازموں کے علاوہ کوئی نہی تھا نہی تو اسے اس حالت میں دیکھتے پریشان ہو جاتے 

وہ رابی جس کی آنکھ میں اس کے باپ ماں اور بھائی نے ایک آنسو نہ آنے دیا تھا وہ آج بلک بلک کر روئی تھی 

عاجل اگر کسی کی آنکھوں میں نمی کانے کا باعث بنا تھا روئی آج اس کی بہن بھی  تھی 

رونے کی وجہ سے اس کا سر شدید درد کر رہا تھا اسے ہلکا ہلکا بخار بھک ہو رہا تھا کافی دیر رونے کے بعد وہ ہمت کرتی نیچے گئی تا کہ کچھ کھا کر دوائی لے سکے اس وقت رات کے دس بج رہے تھے ملازمہ سے اسے پتا چلا کہ مصطفی اور نور کہیں گئے ہیں تھوڑی دیر پہلے تو وہ بھج کچھ بھی کھاۓ بغیر اوپر کمرے میں چلی گئی 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ہاسپٹل سے آکر وہ فریش ہو کر سو گیا تھا رات کو وہ ان کے آنے سے پہلے ہی دوستوں کے ساتھ کلب چلا گیا تھا اور رات دیر سے گھر پہنچا تھا

نور اس کا انتظار کرتی کرتی تھک کر کمرے میں سونے چلی گئی تھیں جب سے انہیں معلوم پڑا تھا کہ آہلہ اس کی بیوی اس پل سے انہیں سکون میسر نہی ہوا تھا وہ اس کی ضدی طبعیت سے جس قدر بھی نالاں رہتی تھیں لیکن انہیں اس سے یہ توقع نہی تھی کہ وہ ان کے علم میں لاۓ بغیر نکاح کر لے گا 

صبح بھی وہ آٹھ بجے ہی اس کے دروازے پر ناک پر ناک کیے جا رہی تھیں وہ جو رات کو دیر سے گھر آنے پر تھؤڑی دیر پہلے ہی سویا تھا دروازے پر دھرا دھر ناک کرنے پر غصے اور جنھجھلاہٹ سے بیڈ سے چلانگ لگا کر اٹھا انداز ایسا تھا جیسے ابھی وہ دروازہ بجانے والے کو کچا چبا جاۓ گا 

مام آپ وہ جو سمجھا تھا کہ کوئی ملازم ہو گا نور کو سامنے دیکھ کر اپنے بالوں کو ہاتھ سے سنوارتے اس نے انہیں اندر آنے کی جگہ دی

ہاں مجھے تم سے بات کرنی ہے کل بھی میں تمہارا انتظار کرتی رہی لیکن تم شائڈ لیٹ آۓ تھے 

جی مام دوستوں کے ساتھ تھا 

تمہارا بازو کیسا ہے اب دوبارہ چیک کروایا ڈاکٹر کو

نہی مام اتنا بڑا کوئی زخم نہی تھا اور ویسے بھی یہ چھوٹی موٹی چوٹیں آپ کے عاجل کا کچھ نہی بگاڑ سکتیں

اب آپ بتائیں آپ کیوں اتنی صبح میرے کمرے میں آئیں حیریت تھی 

اتنا تو وہ جانتا تھا کہ اس کی طبعیت کے علاوہ بھی کوئی بات ہو گی ورنہ وہ کبھی بھج اتنی صبح اسے نہ جگاتی جب انہیں معلوم تھا کہ اس کی صبح لیٹ ہوتی ہے

ہاں مھے تم سے آہلہ اور تمہارے متعلق بات کرنی ہے جی بولیے اس نے منہ میں سیگرٹ دباتے کہا تو نور نے ناگواری سے اسے ٹوکا

ماما آپ اسے چھوڑے آپ اپنی بات کہیں اس نے ان کی ناگواری پر دوٹوک کہا 

تم نے ہمیں اپنے نکاح میں شامل کرنا بھی ضروری نہی سمجھا پتا ہے ہمیں کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ہمیں آپا نے بتایا اور تم نے ایک طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کر لی تمہارے لیے کیا لڑکیوں کی کمی تھی جو تم نے ایک طلاق یافتہ سے شادی کی اور وہ بھی چھپ کر 

عاجل مجھے سچ سچ بتاؤ کیا تمہیں معلوم تھا کہ وہ زکیہ کی بیٹی ہے اسی عورت کی بیٹی جس کی وجہ سے میرا بھائی اس دنیا سے رخصت ہو گیا تم نے اسی کی بیٹی سے نکاح کر لیا انہوں نے روتے ہوۓ پوچھا

اب وہ انہیں کیا بتاتا کہ کوئی نکاح تو ہوا ہی نہی 

ماما مجھے معلوم نہء تھا کہ وہ وہی لڑکی ہے جس کی ماں سے آپ نفرت کرتی ہیں 

عاجل یہ بات تم کان کھول کر سن لو کہ میں اسے کبھی بھی اپنی بہو تسلیم نہی کروں گی تمہارے لیے میں نے کتنے خواب دیکھے تھے اور تم نے سب چکنا چور کر دیے

مام میری کوئی اس سے دلی وابستگی نہی ہے وہ تو کسی مجبوری  میں مجھے ایسا کرنا پڑا اور بہو آپکی پسند کی ہی اس گھر میں آۓ گی اس نے سیگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑاتے کہا

کیا تم سچ کہہ رہے ہو کہ تم نے یہ نکاح مجبوری میں کیا ہے اگر یہ نکاح مجبوری میں کیا ہے تم نے تو میں مصطفی سے کہتی ہوں کہ اس لڑکی کو گھر میں لانے کی کوئی ضرورت نہی ہے ہم تمہاری طلاق کروا دیتے ہیں انہوں نے خوش ہوتے کہا

کیونکہ کل رات ہی مصطفی انہیں بتا چکے تھے کہ وہ جلد ہی اسے اس گھر میں لائیں گے 

نہی ماما میں اسے طلاق نہی دوں گا وہ یہاں کسی کونے میں پڑی رہے گی آپ بے فکر رہیں اس کی وجہ سے آپ کو کوئی بھی پریشانی نہی ہو گی   

لیکن عاجل لیکن وینن کچھ نہی ماما جب میں نے کہہ دیا کہ نہی تو نہی اس نے حتمی کہا تو وہ بھی چپ ہو گئیں ان کے لیے تو یہ ہی بہت تھا کہ وہ اس سے محبت نہی کرتا وہ جتنا بھی خود کا دل فراخ کر لیتی لیکن وہ اسے تسلیم نہی کر سکتی تھیں 

ہاسپٹل میں بھی انہیں رفعت نے اس کے بارے میں کافی برا بھلا بتایا تھا جس سے انہیں آہلہ مزید بری لگنے لگی تھی وہ نہی چاہتی تھیں کہ ایک سانولء طلاق شدہ لڑکی ان کے بیٹے کی زندگی میں آۓ ان کا بیٹا شہزادوں کی سی آن بان رکھتا تھا اور وہ اس کے لیے ایسی ہی لڑکی چاہتی تھیں

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ناشتے کی ٹیبل پر رابی کو نا پاکر نور نے ملازمہ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کمرے میں سو رہی ہیں وہ ناشتے کا کہنے گئی تھی لیکن انہوں نے دروازہ نہی کھولا

نور اسے بلانے کے لیے جانے لگیں کہ عاجل نے انہیں روکا اور خود اسے بلانے کے لیے گیا

رابی دروازہ کھولا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا 

دو تین دفع بھی جب اندر سے کوئی رسپانس نہ آیا تو اسے پریشانی لاحق ہوئی اس نے ملازمہ سے ڈوپلیکیٹ کی منگوائی اور دروازہ کھولا

اس نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانے کے لیے ماتھے پر ہاتھ لگایا کہ اسے لگا جیسے اس نے کسی جلتی ہوئی بھٹی کو ہاتھ لگا لیا ہو اس کا جسم بخار سے تپ رہا تھا اور وہ اسی کے زیرِ اثر بے ہوش تھی 

اس نے جدی سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور ڈاکٹر کو کال کی 

اتنے میں ملازمہ نے ان کو بھی خبر دے دی تھی وہ بھی پریشانی سے رابی کے کمرے میں داخل ہوۓ

کیا ہوا رابی کو نور نے پوچھا

ماما اسے بہت تیز بخار ہے میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے وہ ابھی آتے ہوں گے اس نے انہیں بتایا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنے لگا اس کی جان بستی تھی رابیل میں 

تم یہ مجھے دو میں کرتی ہوں تمہارے بازو میں خود زخم ہے 

نہی ماما میں کر لوں گا اس نے انہیں منع کیا

مصطفج صاحب نے اپنے بیٹے کو مسکرا کر دیکھا جو بلا کا ضدی تھا لیکن اپنی بہن کے لیے وہ ہمیشہ نرم دل انسان بن جاتا تھا

ڈاکٹر نے رابی کو چیک کیا اور انجیکشن لگا کر اور دوائی دے کر ان کا خیال رکھنے کی ہدایت دے کر چلا گیا

ڈاکٹر کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی اسے ہوش آگیا تھا عاجل اس کے سرہانے بیٹھا اس کا سر ہی دبا رہا تھا جب اس نے اس کی پلکوں میں جنبش دیکھی تو اس نے اسے سہارا دے کر بٹھایا اور ملازمہ سے کچھ کھانے کے لیے منگوایا تا کہ وہ دوائی کھا سکے 

بھائی آپ یہاں ہمم پہلے تم یہ جوس اورسلائس کھاؤ اور میڈیسن بھی اس کے بعد ہم بات کرتے ہیں

اس نے ملازمہ کے ہاتھ سے ٹرے لے کر اس کے سامنے رکھی اور اپنے ہاتھ سے جوس اور سلائس کھلاۓ اور پھر میڈیسن دی اور پاس کھڑی ملازمہ کو برتن لے جانے کا اشارہ کیا

تمہیں کب سے بخار ہے اس نے اسے اپنے ساتھ لگا کر ایج ہاتھ سے اس کا سر دباتے پوچھا

کل سر میں تھوڑا تھوڑا درد تھا اور ہلکا سا بخار بھی تھا اس نے سچ بولا

تو تم نے میڈیسن کیوں نہی لی اور کسی کو بتایا کیوں نہی اور تم نے یقیناً کل رات کو کچھ جھایا بھی نہی ہو گا کیونکہ ڈاکٹر کے مطابق تم بے ہوش بخار اور کمزورء سے ہوئی تھی اس نے اس سے نرمی سے پوچھا اسے اس کی لاپرواہی پر غصہ تو بہت آیا تھا لیکن اس کی حالت کے پیش نظر اس نے اپنے لہجے کو نرم ہی رکھا

میں نیچے گئی تھی لیکن ماما بابا کہیں گئے ہوۓ تھے اور آپ بھی گھر نہی تھے اس لیے اکیلے کچھ کھانے کو دل نہی چاہا تھا تو کمرے میں آگئی

یہ تو کوئی بات نہی ہوئی رابی کہ ہم گھر نہی تھے توتم نے کھابا نہی کھایا وعدہ کرو آئیندہ ایسا کبھی  نہی کرو گی اور اگر تمہاری خراب ہو گی تو تم مجھے انفارم کرو گی میں چاہے کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوں میرے لیے تم سے ضروری کوئی چیز نہی ہے رابی 

اپنے بھائی کی اتنے نرم لہجے پر اس کی آنکھیں نم ہو گئیں

ارے اب کیوں رو رہی ہو اس نے اس کی نم پلکوں کو صاف کرتے فکر مندی سے پوچھا 

کچھ نہی بس ویسے ہی اب وہ اسے کیا بتاتی کہ یہ رونا تو شائد اب ساری زندگی کا تھا کیونکہ وہ اس سے دور خود کو رکھ نہی سکتی تھی اور اس کے سامنے جا کر وہ اسے کسء اور کا ہونے نہی دے سکتی تھی 

مصطفی صاحب جو اسے دیکھنے آۓ تھے ان دونوں کے پیار کو دیکھ کر مسکراۓ اور اپنے بچوں کے لیے دعا کی کہ ان کا پیار ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ ایسا ہی رہے 

اب کیسی طبعیت ہے میرے بیٹے کی انہوں نے اس کی پجشانی ہر ہاتھ رکھ کر حرارت چیک کرتے پوچھا ان کے لہجے میں اپنے دونوں بچوں کے لیے محبت ہی محبت ٹپکٹی تھی

اب بیتر ہوں بابا آپ سب جب میرے ساتھ ہیں تو میری طبعیت کی کیا مجال ہے کہ وہ خراب ہو اس نے ہنستے ہوۓ جواب دیا

میرا بیٹا انہوں نے اس کی پیشانی چومی 

اب آپ نے دو دن تک  یونی نہی جانا مکمل ریسٹ کرنی ہے اور اپنی ڈائٹ کا بھج خیال رکھنا ہے 

جی بابا یونی تو وہ بھی کچھ دن نہی کانا چاہتی تھی کیونکہ اسے دیکھ کر اس کا دل اسے پانے کو مچلتا تھا

ارے اٹھ گئی تم چلو اب تم اپنے بھائی کو بھی ناشتہ کرواؤ صبح سے اس نے بھی کچھ نہج کھایا ہوا نور نے ٹرے بیڈ پر رکھتے کہا

بھائی اس نے ناراضگی سے بولا

کیا بھائی ناراض مجھے ہونا چاہیے اور الٹا تم ہو رہی ہو 

ٹھیک ہے نہی ہوتی ناراض آپ ناشتہ تو کریں کب سے میری خدمت میں لگے ہوۓ ہیں 

جو حکم اس نے اس کے آگے سر کو خم دیتے کہا تو وہ مسکرا دی

وہ سب ناشتہ کر رہے تھے کہ دادی نے سب کو متوجہ کیا

جیسا کہ  رضا نے کہا کہ سے کوئی لڑکی پسند نہی ہے تو ہم نے اس کی شادی ماہپارہ سے کرنے کا ارادہ کیا ہے اگر تم دونوں کو کوئی اعترض نہ ہو تو دادی نے ماہپارہ اور رضا کو باری باری دیکھتے سب کا فیصلہ سنانے کے ساتھ ان کی رضامندی بھی پوچھی

دادی کی بات پر رضا نے اسے دیکھے بغیر ان کی خوشی میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہاں کہہ دیا تھا ماہپارہ نے بھی سر سے ہاں کا اشارہ کر دیا تھا اس میں تو اب اتنی ہمت نہی تھی کہ  وہ ایک دفع رضا کو ہی دیکھ لیتی 

ان کے اقرار پر سب کے چہروں پر خوشی دوڑ گئی

کھانے کے بعد وہ کمرے میں آ گئی اور رضا کے بارے میں سوچنے لگی آج رشتہ بدلہ تھا تو احساس بھی بدل گئے تھے 

اس یاد تھا کہ اس نے آج تک بنا کسج بات کے اسے مخاطب نہی کیا تھا یہ نہی تا کہ وہ غصے میں رہتا تھا بلکہ وہ تو سنجیدہ لیکن ٹھنڈے مزاج کا بندہ تھا لیکن پھر بھی ان میں بے تکلفی ویسی نہی تھی جیسی اکثر کزنز میں ہوتی تھی اور اب اسے ہی شوہر کے اینگل سے سوچنا اور دیکھنا اسے عجیب سے احساسات میں گھیر رہا تھا اسے یہ احساس اچھا بھی لگ رہا تھا اور عجیب بھی وہ اپنی ہی فیلنگز کو سمجھ نہی پا رہی تھی

اہمم اہمم میرے بھائی کے بارے میں سوچا جا رہا ہے صوفیہ نے شرارت سے مصنوعی گلا کھنگار کر پوچھا

نہ۔۔۔۔ہی نہی اپیا میں بھلا کیوں سوچوں کی انہیں اس نے بوکھلا کر کہا یہ تو بھئی تمہاری بوکھلاہٹ سے ہی پتا چل رہا ہے کہ تم اپنے ہونے والے مجازی خدا کے بارے میں ہی سوچ رہی ہو 

وہ اپیا دیکھو میں تمہاری اپیا پہلے اور ہونے والے شوہر کی بہن بعد میں ہوں اس لیے مجھ سے شرمانے کی ضرورت نہی ہے اس نے شرارت سے کہا

تم خوش ہو نہ اس رشتے سے اب کے اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سنجہدگی سے پوچھا

اپیا میں گھر والوں کی خوشی میں خوش ہوں اور پھر میں آپ سب کے ساتھ یہی ساری زندگی رہوں گی اس سے خوشی کی بات کیا ہو گی اس نے اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر مسرا کر کہا

بس وہ کبھج ان سے اتنی بات نہی ہوئی گھر میں تو ایسے مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے وہ زرا سنجیدہ سنجیدہ  رہتے ہیں اس لیے 

پگلی شادہ سے پہلے تو سارے ہی سنجیدہ ہوتے ہیں یہ تو شادی کے بعد پتا چلتا ہے کہ ان میں بھک رومینس کے کیڑے پاۓ جاتے ہیں اس نے ہنس کر کہا

اپیا اس کی بات ہر اس نے گال لال ہوۓ

کیا اپیا سچ ہی تو کہہ رہہ ہوں 

لگتا ہے طلحہ بھائی کافی رومینٹک ہیں اسی لیے آپ کو پتا ہے اس نے شرارت سے صوفیہ کو چھیڑا جس پر اس کے گال طلحہ کی بے باکی یاد کرتے فٹ سے گلال ہوۓ تھے

ابھی تو انہوں نے میرا رومینٹک موڈ دیکھا ہی نہی ہے طلحہ نے جواب دیا 

آواز پر انہوں نے اچھنبے سے دروازے کی طرف دیکھا تو وہ دونوں کھڑے تھے اور ان کی مسکراہٹ سے لگ رہا تھا کہ وہ دونوں ان کی باتیں باخوبک سن چکے ہیں ان دونوں کے گال خفت سے سرخ ہو گئے

وہ لوگ وہاں سے گزر رہے تھے ان دونوں کی گفتگو پر وہی رک گئے تھے 

آپ لوگ ہماری باتیں سن رہے تھے کتنی بری بات ہوتی ہے کسی کی باتیں سننا صوفیہ نے اپنی خفت کو چھپانے کے لیے الٹا انہیں آنکھیں دکھا کر کہا

جبکہ ماہپارہ تو رضا کو دیکھ کر ہی اپنا سر جھکا چکی تھی وہ یہ سوچ سوچ کر خود پر لعنت بھیج رہی تی اسے کیا ضرورت تھی اپیا سے یہ بات کہنے کی اب پتا نہی وہ کیا سوچ رہے ہوں گے اس کے بارے میں

ہم لوگ کسی کی تھوڑی باتیں سن رہے تھے میں تو اپنی بیگم کک باتیں جبکہ یہ اپنی ہونے والی مسز کی سن رہا تھا تو یہ کوئی غیر اخلاقی حرکت تو نہ ہوئی

اچھا اب آؤ ہم اپنے کمرے میں چلتے ہیں ہم وہاں چل کر تفصیل سے اس بات پر بحث کریں گے ابھی ان دونوں کو بھی باتیں کرنے کا موقع دو ان بے چاروں کا بھی دل کر رہا ہو گا کہتے اس نے اسے بولنے کا موقع دیے بغیر اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے لے گیا جبکہ وہ اس کی تفصیل سے بات کرنے پر شرم سے دوہری ہو گئی وہ جانتی تھی اس کی تفصیل سے کیا مراد تھی 

اب وہ دونوں کمرے میں اکیلے تھے اور ان دونوں کی طرف سے ہی خاموشی تھی وہ سرجھکاۓ بیٹھی تھی لیکن اس کا ایک ایک عضو اسکی سماعت کے لیے متوجہ تھا

جب کافی دیر دوسری جانب سے کچھ نہ بولا گیا تو وہ یہ سوچ کرکے شائد وہ چلا گیا ہو گا اس نے سر اٹھایا تو وہ بلکل اس کے سامنے کھڑا تھا اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس نے اپنی آنکھوں پر اپنی گھنی پلکوں کو گرایا تھا کہ اس کی آنکھیں ان گھنی پلکوں کے ساۓ میں چھپ گئی تھیں

اس کے ایسا کرنے ہر وہ دلکشی سے مسکرایا اور جھک کر اس کے کان میں ایک خوبصورت سی سر گوشی کی

میں کتنا سنجیدہ ہوں یا پھر رومینس کے کیڑے مجھ میں کتنے فیصد پاۓ جاتے ہیں یہ آپ کو میں شادی کی رات بتاؤں گا  

اس کی سرگوشی پر وہ مزید اپنا سر جھکا گئی 

اس میں تو پہلے ہی اسے دیکھنے کی ہمت نہی تو اوپر سے اس کی سرگوشی اس سرگوشی نے ساری ہمت اس کی ختم کر دی تھی وہ ایک نظر اسے دیکھنا چاہتی تھی لیکن اف یہ سرگوشی جو وہ کر گیا 

کافی دیر بعد اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ سر اٹھایا تو وہ کمرے میں نہی تھا شائد وہ سرگوشی کرتے ہی چلا گیا تھا

سرگوشی ایک دفع پھر اس کے کانوں میں رس گھولتی گونجی تو اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا

میں نہی ہوں اپنے وجود میں

مجھے جانے کس نے چرا لیا

میرے ساتھ رہتا ہے اک شخص

کوئی جادو اس نے چلا دیا

میری روح میں وہ سما گیا

مجھے عشق کرنا سکھا دیا

میری زندگی وہ بن گیا

مجھے جینا اس نے سکھا دیا

میں تو خود سے بھی نا آشنا

مجھے مجھ سے اس نے بلا دیا

میری زندگی کو  بدل دیا

مجھے خوش نصیب بنا دیا

ہاتھ تو چھوڑیں میرا اس نے نظریں جھکا کر کہا وہ جب سے اسے کمرے میں لے کر آیا تھا تب سے اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے دیکھے جا رہا تھا 

یہ ہاتھ میں اب ساری زندگی نہی چھوڑ سکتا  اسی ہاتھ کو پکڑ کر مجھے ساری زندگی تمہارے ساتھ گھومنا ہے اپنا ہر پل ہر لمحہ خوشگوار بنانا ہے اس نے چاہت سے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا

طلحہ آپ کو آفس سے دیر ہو جاۓ گی اس نے اسے ٹائم کا احساس دلایا 

وہ جو اپنی چاہت کے بدلے اس کی چاہت کے کچھ دو بولوں کی توقع کر رہا تھا اس کی بات پر بدمزہ ہوتا اس کے ماتھے پر لب رکھتے اس کے کان کی طرف جھکا 

میری چاہت کے بدلے میں آپ بھی تو دو بول محبت کے بول سکتی تھیں خیر کوئی نہی اس کی سزا آپ کو آج رات سود سمیت چکانی ہو گی اسنے ہلکے سے اس کے کان کی لو کو دانتوں تلے دبایا

اس کے جانے کے بعد اس نے اپنے کان کی لو کو ہاتھ سے سہلایا اور مسکرا کر خود سے بولی

میں آپ کو سزا دینے سے پہلے ہی منا لوں گی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ آج دو دن بعد یونی جا رہی تھی اس کا دل نہی تھا جانے کا لیکن وہ خود کو کمزور ظاہر نہی کرنا چاہتی تھی جانتی تھی سب کی زبان پر اس دن کا واقعی ہو گا اور وہ منظر سے ہٹ کر خود کو کمزور نہی ثابت کرنا چاہتی تھی 

وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں کی چمک مانند تھی اس نے آنکھوں میں کاجل لگا کر آنکھوں کی سوجھن کو کور کر لیا تھا ہلکے پھلکے میک اپ سے اس نے اپنے چہرے کو ہشاش بشاش بنانے کی کوشش کی تھی جو کہ کافج حد تک کارآمد بھج ثابت ہوئی تھی

اس نے آخری نظر خود کو دیکھا اسے اپنا آپ انجان لگا یہ وہ تو نہی تھی جو اپنی چیز پانے کے لیے کسی  بھی حد تک جانے کو گریز نہی کرتی تھی یہ وہ رابی تو نہی تھی جس نے عاجل سے اس کے لیے جنونی انداز اپنایا تھا یہ تو کوئی اور ہی تھی  اس نے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائی اور کیز لے کر کمرے سے نکل گئی

گڈمارننگ مام اینڈ ڈیڈ

مارننگ بیٹا 

ماما یہ بھائی کدھر ہیں اس نے سلائس اپنی پلیٹ میں رکھتے پوچھا

تم تو مت پوچھو تمہیں تو جیسے اپنے بھائی کی عادتوں کا علم نہی ہے انہوں نے بھنا کر کہا

کیا ہوا مام

کچھ نہی بیٹا تمہیں تو پتا ہے کہ عاجل کیسے تنگ کرتا ہے تمہاری مام کو 

اوکے ڈیڈ اس نے سمجھ کر سر ہلایا اور ناشتہ کر کے خداخافظ کہتی چلی گئی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

یہ منظر فاریہ کے گھر کا ہے جہاں اس وقت علی کے گھر والے بیٹھے فاریہ کے والدین سے اپنی خواہش کا اظہار کر رہے تھے 

آپ ہمارے گھر تشریف لاۓ ہمیں خوشی ہوئی لیکن فاریہ ابھی شادی کے لیے راضی نہی ہے پہلے بھج اس کا رشتہ آیا تھا جس پر وہ انکار کر چکی ہے کہ اسے ابھی شادی نہی کرنی افضال صاحب نے شائستگی سے بتایا

انہیں یہ لوگ اچھے لگے تھے اوپر سے فاریک سے بھی وہ ان کے بارے میں جانتے تھے 

آپ ایک دفع فاریہ سے پھر پوچھ لیں انکل مجھے یقین ہے کہ وہ انکار نہی کرے گی صوفیہ نے ریکویسٹ کی 

ٹھیک ہے بیٹا میں اس سے ایک دفع پوچھ لیتا ہوں پھر ہی کوئی جواب میں آپ لوگوں کو دے سکتا ہوں 

شکریہ انکل 

چلیں پھر ہمیں اجازت دیں دادی نے اجازت چاہی 

ارے ایسے کیسے آپ نے کچھ کھایا بھی نہی ایسے تو میں کہیں نہی جانے دوں گی آپکو پہلی دفع آپ ہمارے گھر آئے ہیں اریج بیگم نے اپنائیت سے کہا

انشاءاللہ بیٹی ضرور کھائیں گے لیکن اگلی دفع جب ہم فاریہ بیٹی کو اپنے بیٹے کے نام کی انگوٹھی پہنائیں گے

ماما ماما دیکھیں میں آ گئی فاریہ نے اونچی آواز میں اپنے آنے کی اطلاع دی جہاں اس کی اونچی آواز پر افضال صاحب اب اس کی ہونے والی کلاس پر مسکرا رہے تھے وہیں اریج بیگم تو ان کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ گئیں کیا سوچیں گے یہ لوگ کہ جس کا رشتہ وہ لوگ لینے آۓ ہیں اسے کوئی تمیز ہی نہی ہے 

ارے ماما آپ ڈرائنگ روم میں کیا کر رہی ہیں میں کب سے آپ کو آوازیں دے رہی ہوں پتا ہے میرا گلا خشک ہو گیا ہے آپکو آواز دیتے دیتے اس نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھتے بغیر ادھر ادھر دیکھے اریج بیگم کو سامنے دیکھتے بولنا شروع کر دیا

بیٹا جی زرا اپنے ارد گرد تو دیکھ لیں افضال صاحب نے اس کی توجہ ڈراینگ روم میں موجود سب لوگوں کج طرف کروائی

اس نےباری باری سب کو دیکھا تو شرمندہ ہوئی لیکن جونہی نظر اپنی ماما پر پڑی جو اسے سخت نظروں سے گھور رہی تھیں تو وہ سب کو سلام کرتی جلدی سے صوفیہ کا ہاتھ پکڑے اریج بیگم کی  نظروں سے اوجھل ہو گئی

معاف کریے گا یہ اس میں تھوڑا سا بچپنا ہے اریج بیگم نے شرمندگک سے کہا

بیٹا اس میں شرمندہ ہونے والی کونسی

بات ہے بچیاں ہی تو گھر کی رونق ہوتی ہیں ان کے بغیر تو گھر سونا سونا ہوتا ہے دادی نے کہا

اب جب بچی گھر آہی گئی ہے تو پھر آپ اس سے پوچھ لیں اس کی رضا مندی 

جی اریج بیگم کہہ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں

تم یہاں کیا کر رہی ہو اور میں نے تمہیں کال کر کہ پوچھا تھا تو تم نے کہا تھا کہ تماری طبعیت ٹھیک نہی ہے اس لیے تم آج نہی آ رہی اس نے اسے خشمگین نظروں سے گھورتے پوچھا

وہ میں وہ میں تم اس وقت گھر کہا کر رہی ہو تمہیں تو سکول ہونا چاہیے تھا جب اس سے کوئی بات نہ بن پائی تو اس نے الٹا اس سے سوال کیا

ہاں وہ تم بھی نہی آئی تھی اور آہلہ بھی لیو پر تھی تو میں نے اکیلے وہاں کیا کرنا تھا اس لیے میں بھی طبعیت خرابی کا بہانا بنا کر چلی آئی

اب تم بتاؤتم یہاں کیا کر رہی یو اور جھوٹ کیوں بولا کیونکہ یہ میرا گھر ہے کوئی ہاسپٹل تو ہے نہی جو تم یہاں چیک اپ کرانے آئی ہو

وہ تمہارے رشتے کے لیے آۓ ہیں میرے رشتے کے لیے لیکن کس کے لیے 

علی کے لیے  کیا اس فسادی کے لیے اس نے چیخ کر کہا

اپنا والیم آہستہ کرو اس نے اسکگ منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا

اس فسادی کو پتا ہے کہ تم لوگ یہاں آۓ ہو 

ہاں بلکہ یہ رشتہ اسی کے کہنے پر تو لینے آۓ ہیں ہم 

تم جانتی ہو کہ میں شادی صرف فوجی سے ہی کروں گی پھر تم نے منع کیوں نہی کیا گھر والوں کو اب میں کیسے انکار کروں گی دادی کو کتنا برا لگے گا ان کو تم نے کس مشکل میں ڈال دیا مجھے اس نے پریشانی سے کہا

یہ لو اس نے موبائل اس کی طرف بڑھایا

میں تمہیں کیا کہہ رہی ہوں اور تم مجھے موبائل پکڑا رہی ہو 

پہلے پکڑو تو سہی اسے اور کان سے لگاؤ وہ اب بھی ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی

اس کی ناسمجھی پر اس نے زبردستی اس کے کان سے موبائل لگایا وہ موبائل کان سے ہٹانے ہی لگی تھی دوسری طرف سے کوجی کہنے ہر اس نے دانت پیس کر فسادی کہا

اوۓ کوجی خبردار اگر رشتے سے انکار کیا تو 

تو تو کیا ہاں تم مجھے دھمکی دے رہے ہو 

اگر تم نے انکار کیا نہ تو تم ایک عدد فوجی پلس سیکریٹ ایجنٹ شوہر سے محروم ہو جاؤ گی

کییییا کیا تم نے فسادی تو تم پہلے ہی تھے اب جھوٹے بھی ہو گئے ہو اس اس کی بات ہر زرا بھی یقین نہی آیا تھا

جھوٹ نہی بول رہا اگر یقین نہی ہے تو اپنی دوست پلس ہونے والی نند سے تصدیق کروا لو فون سپیکر پر تھا اس نے صوفیہ کی طرف دیکھا رو اس نے ہاں میں سر ہلایا

فوجی تو ہمیشہ سے ہی اس کے کرش رہے تھے اور وہ شادی بھی کسی فوجی سے ہی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اب اسے اتنا باؤ نہی دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے لاپرواہی سے کہا

تو میں کیا کروں تم جو بھی ہو میں تو پھر بھی تم سے شادی نہی کروں گی فسادی انسان 

اگر تم نے انکار کیا نہ تو پھر دیکھنا میں تمہیں اٹھوا کر لے جاؤں گا

ہوں آۓ بڑے مجھے اٹھوانے والے اس نے ناک سے مکھی اڑائی

اچھا نہی اٹھواتا تمہیں لیکن پلیز تم رشتے کے لیے ہاں کر دو 

اب تم اتنا اصرار کر رہے ہو تو کر دیتی ہوں ہاں اب میں کسی کا دل تو نہی توڑ سکتی اس نے احسان کرنے والے انداز میں کہا

شکریہ جہاں پناہ

فون کے بند ہونے پر صوفیہ نے اسے گلے سے لگایا

تم نے مجھے بتایا کیوں نہی کہ کہ وہ فسادی انسان فوجی ہے

مجھے خود نہی معلوم تھا مجھے کیا گھر میں کسی کو بھی سواۓ پاپا  طلحہ اور چھوٹے پاپا کہ کسی کو نہی پتا تھا یہ تو جب اس نے دادی سے تمہارے رشتے کی بات کی تب میں نے طلحہ سے کہا کہ وہ صرف فوجی سے ہی شادی کرے گی اور تمہارا پچھلی دفع والا کارنامہ بھی بتایا تو انہوں نے مجھے بتایا تھا 

یہ بات کسی کو بھی معلوم نہی ہے گھر میں اس لیے تم بھی اس بات کا زکر کسی سے مت کرنا اوکے 

لیکن آلی کو تو بتا سکتے ہیں نہ ہاں 

اریج بیگم دروازہ ناک کر کے کمرے میں داخل ہوئیں

صوفیہ کو سنداشہ تھا کہ وہ کیا بات کرنے آئی ہیں اس لیے اس نے کمرے سے جانا بہتر سمجھا

آنٹی آپ بات کر لیں میں ڈرائنگ روم چلی جاتی ہوں شکریہ بیٹا 

تمہیں صوفیہ نے بتایا ہو گا کہ وہ لوگ کس سلسلے میں آۓ ہیں 

جی ماما اور مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہی ہے 

ان کے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے اپنا فیصلہ بتا دیا

جیتی رہو وہ نہال ہوتیں اس کی پیشانی چومتیں سب کو باہر خوشخبری دینے کے لیے چلی گئیں یہ بات ان کے لیے حیرت سے کم نہ تھی کہ وہ بنا کسی منت کے مان گئی تھی

انہوں نے سب کو اس کا فیصلہ بتایا تو دادی نے ہاتھوں میں سرسوں جمانے والا حساب کر دیا

اب جب کہ فاریہ بیٹی کو بھی کوئی اعتراض نہی ہے تو پھر آج ہی منگنی کر دیتے ہیں اور شادی کی ڈیٹ بھی رکھ دیتے ہیں بچوں کی

یہ کچھ زیادہ جلدی نہی ہو جاۓ گا اور پھر ہمیں اپنے بیٹے سے بھی مشورہ کرنا ہو گا اس بارے میں افضال صاحب نے کہا

جیسا آپ کو بہتر لگے لیکن منگنی کی رسم تو میں آج ہی کر کے جاؤں گی

پھر ان کے اتنے پیار اور اصرار پر افضال صاحب نے باقر سے فون پر مشورہ کر لیا تھا اور یوں فاریہ کو علی کے نام کی انگوٹھی پہنا کر اسے علی کے نام کر دیا گیا تھا

وہ یونیورسٹی پہنچی تو سب اپنے اپنے گروپ اور پارٹنر کے ساتھ بزی تھے وہ سانس خارج کرتی گاڑی سے نکلی اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھی 

وہ اپنے دھیان سے جا رہی تھی کہ لیلی اس کے رستے میں حائل ہوئی

سنا ہے فرہاد نے تمہارے چہرے کو اپنے ہاتھوں کا اعزاز بخشا ہے اس نے طنزیہ مسکرا کر کہا

ہممم تو تم جیلس ہو رہی ہو کہ یہ اعزاز تمہیں کیوں نہی ملا اس نے سینے پر دونوں ہاتھ باندھ کر کہا

یہ اعزاز تم جیسیوں کو ہی ملتا ہے جو زبردستی دوسروں کی زندگیوں میں شامل ہوتے ہیں مجھے تو اس سے شادی کا اعزاز حاصل ہو گا دیکھ لینا اس نے بال جھٹکتے ایک انداز سے کہا

اسکی بات پر اس کی آنکھوں میں سرخی دوڑی 

اگر وہ میرا نہی ہوا تو وہ ہوگا تمہارا بھی نہی اس نے انگلی اٹھا کر کہا

ہوں تمہاری خوشفہمی ہے لیکن میں تمہاری خوشفہمی کو دور کرنے کے لیے کچھ کر ضرور سکتی ہوں کیسے وہ ایسے کہ آج رات ہمارے گھر میں پارٹی ہے اور فرہاد میرے ساتھ ڈانس کرنے والا ہے اب تم میں اتنی سینس تو ہو گی ہی کہ وہ میرے ساتھ کیوں ڈانس کرے گا ظاہر ہے وہ مجھے چاہتا ہے اور اسی لیے وہ تم سے اپنی جان چھڑواتا ہے

اسے مسکرا کر باۓ کہتی وہ ہیل کی ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ چلی گئی

اس کی باتوں پر اب اس کا دل نہی کر رہا تھا کہ وہ کوئی بھی کلاس لے اسی لیے وہ کینٹین چلی گئی وہ اپنی محصوص جگہ پر بیٹھی کہ اسے اپنے آس پاس اس کی کلون کی مہک نے اپنی طرف متوجہ کیا اس نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے آس پاس دیکھا تو وہی اپنے دوستوں کے ساتھ محو گفتگو تھا اور اس کے ساتھ ہی لیلی بھی بیٹھی ہوئی تھی 

اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بڑھ گئیں اس نے فوراً سے پہلے اپنی نظر ان پر سے ہٹا لی اس کے زہن میں لیلی کی کہی باتیں گھوم رہی تھیں اسے اس کی باتوں پر یقہن نہی تھا لیکن اب انہیں ساتھ دیکھ کر اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ اس سے محبت ضرور کرتی تھی لیکن وہ خود کو کسی سیراب کے پیچھے تھکانا نہی چاہتی تھی اگر لیلی کی بات ٹھیم نکلتی تو وہ اب ان کے راستے سے ہٹنے کا فیصلہ کر چکی تھی ہاں لیکن وہ کبھی اپنی زندگی اور دل میں کسی کو آنے اجازت نہی دی گی یہ وہ سوچ چکی تھی محبت نے ایک سر پھری لڑکی کی سوچ بدل دی تھی وہ اپنے آنسو کو اندر دھکیلتی موبائل میں بزی ہو گئی جب اس نے فیصلہ کر ہی لیا تھا تو پھر دل کو مضبوط بھی کرنا تھا اور آنا بھک اسے اسی یونی تھا اس لیے وہ یہاں سے اٹھنے کی بجاۓ خود کو لاتعلق ظاہر کرتی وہیں بیٹھ گئی

اسے آتے ہوۓ لیلی اور فرہاد دونوں نے دیکھا تھا اسے دیکھ کر ہی لیلی نے جان بوجھ کر اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تا کہ وہ جیلس ہو لیکن اس کے نارمل رسپانس پر وہ کلس کر رہ گئی

فرہاد بظاہر خود کو اس سے لا تعلق ظاہر کیے بیٹھا تھا لیکن اس کی ایک ایک حرکت کو اس نے نوٹ کیا تھا اس کا اسے دیکھنا اور نظروں کا پھیر لینا اس کے نظر انداز کرنے پر اسے ایک بے چینی نے گھیرا تھا اسے اس کا یوں خود سے نظریں ہٹا لینا اچھا نہی لگا تھا وہ لاشعوری طور پر دو دن اس کا انتظار کرتا رہا تھا اور اب اس کے یوں نظر انداز کرنے پر اس اندر ہی اندر غصہ آ رہا تھا یہی تو میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے نظرانداز کرے مجھ سے دور رہے تو اب مجھے کیوں برا لگ رہا ہے کیوں اس کے یوں منہ موڑنے پر میرا دل بے چین ہے 

فرہاد فرہاد کہاں کھو گئے لیلی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اس کی سوچ سے باہر نکالا 

ہوں اس نے ابھی بھی غائب دماغی سے ہوں کہا

کیا ہوں میں کہہ رہی ہوں کہ آج پاپا نے گھر میں پارٹی رکھی ہے اور تمہیں ضرور آنا ہے وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں 

ہمم ہمم نہی آنا ہے تمہیں اوکے

اوکے اس نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا اور ٹیبل سے اٹھ کر چلا گیا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

ایک صوفے پر مصطفی اور نور جبکہ دوسرے صوفے پر رفعت ساجد اور شمع بیٹھے ہوۓ تھے عاجل کو انہوں نے آنے کا کہا تھا لیکن وہ صدا کا اپنی کرنے والا اس نے کہہ دیا تھا کہ آپ جانے اور آپکا کام 

نور نے اس گھر میں قدم بہت سالوں بعد رکھا تھا اس گھر سے اسے ایک انسیت تھی لیکن اب وہ اسی گھر میں قدم بھی نہی رکھنا چاہتی تھیں لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ اب انہیں نہ صرف اس گھر میں قدم رکھنا پڑا تھا بلکہ وہ آج اس عورت کی بیٹی کو جس سے انہیں آج نفرت تھی اسی کو وہ اپنے گھر لے جانے کے لیے آئی تھیں وہ بھی بہو کی حیثیت سے

ساجد بھائی بچوں سے غلطی ہو گئ ہے اب ہم بڑے ہیں اگر ہم ان کی غلطی کو سدھارے گے نہی تو کون سدھارے گا مصطفی صاحب نے تمہید باندھی

میں نے سوچا نہی تھا کہ یہ دن بھی مجھے دیکھنا پڑے گا اگر وہ مجھے اپنی پسند بتاتی تو میں خود اس کی شادی کرواتا لیکن اتنا بڑا دھوکا انہوں نے دکھ سے کہا

بھائی جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب وہ بچی ہمارے گھر کی عزت ہے اور ہم اسے عزت سے اپنے گھر لے جانے آۓ ہیں ایک گرینڈ ریسیپشن ان کا کر دیں گے جس میں سب کو پتا چل جاۓ گا 

ٹھیک ہے جیسا آپ لوگ مناسب سمجھیں

وہ نماز پڑھ کر کر اپنے رب سے اپنے لیے آسانیوں کی دعا کر رہی تھی اس واقعی کے بعد سے اس نے کسی کو بھی اپنی صفائی دینے کی کوشش نہی کی تھی بس اپنے رب سے اپنی راہنمائی کی دعا کی تھی اور اپنے لیے صبر مانگا تھا

اس نے ساجد صاحب سے بات کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کی تھی جو کہ ناکام ہی ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے اس کی شکل دیکھنے سے بھی انکار کر دیا تھا کجا کہ اس کی بات سننا شہروز کو دیکھ کر تو وہ خود ہی منہ موڑ لیتی تھی شکیلہ خالہ نے اس کا اس سب میں بہت ساتھ دیا تھا وہی اسے کھانا دینے آتی تھیں اور اسے صبر اور حوصلے کی تلقین کرتی تھیں وہ اس کے لیے ان دنوں ایک ٹھنڈی چھاؤں ثابت ہوئی تھیں ان کے مشورے پر ہی اس نے صوفیہ اور فاریہ سے جھوٹ بولا تھا کہ وہ کہی گئی ہوئی ہے 

اس نے شکیلہ خالہ کو سب بتا دیا تھا اور یہ سب جان کر انہیں عاجل پر بہت غصہ آیا تھا آیا تو شہروز پر بھی تھا لیکن وہ ملازم تھیں بھلا انہیں کیا کہہ سکتی تھیں

اس نے جانماز اپنی جگہ پر رکا تھا اور مڑی تھی کہ اسے چاچو دکھے 

انہیں اپنے کمرے میں دیکھ کر ایک امید کی کرن اس کے اندر بیدار ہوئی تھی کہ شائد انہیں اس کی بے گناہی کا یقین ہو گیا ہو لیکن اس کی یہ خوشفہمی کسی کانچ کی طرح چھناک سے ٹوٹی تھی ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اور جڑے ہاتھ دیکھ کر

باہر مصطفی اور نور آۓ ہیں تمہیں لینے یہ ان کا بڑا ظرف ہے جو وہ تمہیں اپنے ساتھ لینے آۓ ہیں اس لیے اب تم بھی جو بچی کچی عزت ہے ہماری اس کی لاج رکھ کر ان کے ساتھ چلی جاؤ 

وہ ان کے الفاظ پر شاک سی انہیں دیکھ رہی تھی بھلا وہ کیسے ایک نامحرم کی بیوی بن کر اس کے گھر چلی جاۓ جس سے اس کا کوئی جائز رشتہ نہی ہے 

چاچو مجھے آپکی عزت سب سے زیادہ عزیز ہے لیکن میں کیسے کسی نامحرم کے ساتھ چلی جاؤں یہ کیا تم نے نا محرم نامحرم لگا رکھا ہے بیوی ہو تم اس کی نکاح کر کے اب تم منکر رہی ہو کہ تمہارا اس سے نکاح ہوا ہی نہی ہے یہ جڑے ہاتھ دیکھو تم میرے اب چلی جاؤ یہاں سے میرا سر مزید مت جھکاؤ ان کے سامنے 

ٹھیک ہے پھر جب میرا اس سے نکاح ہوا ہے تو پھر آپ اسے بولیں کہ مجھے طلاق دے دے میں اس کے ساتھ کہیں نہی جاؤں گی 

تم نے کیا ساری شرم و حیا بیچ ڈالی ہے شادی بیاہ کوئی گڈے گڈی کا کھیل ہے کہ کل چھپ کر نکاح کیا اور اگے دن طلاق کا مطالبہ کر دیا اچھا ہوا ماجد اور زکیہ پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے نہی تو تمہاری بے شرمی دیکھ کر وہ ضرور اس دنیا سے رخصت ہو جاتے 

چاچو اس نے تڑپ کر کہا

یہ دیکھو میرے ہاتھ اگر ان کی لاج نہی تمہاری نظروں میں تو اپنے مرے ہوۓ ماں باپ کا ہی واسطہ ہے تمہیں چلی جاؤ ان کے ساتھ اور اگر نہی تو تمہاری اس گھر میں بھی کوئی جگہ نہی  ہے

ٹھیک ہے میں چلنے کے لیے تیار ہوں اس نے اپنے بہتے آنسو صاف کر کے کہا

بیٹا آپ نے ہاں کیوں کی وہ نامحرم ہے تمہارا تم دونوں کیسے ایک کمرے میں رہ سکتے ہو سمجھ رہی ہو نہ شکیلہ خالہ نے پریشانی سے کہا

وہ ساجد صاحب کے کہنے پر اس کے سامان پیک کرنے آئی تھیں

خالہ میں کیا کروں جب میرے اپنے ہی میرا یقین کرنے کو تیار نہی ہیں 

لیکن بیٹا یہ بھی تو سہی نہی ہے 

میں کیا کروں اگر میں اس گھر سے بھی نکال دی جاتی ہوں تو کہاں جاؤں گی میں باہر ان گنت بھیڑئیے اپنے شکار کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کم ازکم اس گھر میں مجھے خفاظت بھری چھت تو ملے گی اس نے اپنے ماں باپ کی تصویر بیگ میں رکھتے کہا

لیکن وہ بھی ایک نامحرم ہے

اس کے پاس کئی موقع تھے مجھے بے آبرو کرنے کے لیکن اس نے ایسا نہی کیا  

تم ابھی تک باتیں بگاڑ رہی ہو وہ تمہارے سسرالی نیچے تمہارا انتظار کر رہے ہیں ویسے تمارج بھی کیا قسمت ہے تمہیں تمہارا شوہر ہی لینے نہی آیا حالانکہ اسے آنا چاہیے تھا لینے تمہیں لیکن خیر ہمارے لیے تو یہ ہی بہت ہے کہ تم سے ہماری جان چھوٹ رہی ہے 

مروہ آپی میری فکر آپ مت کریں آپ اپنی فکر کریں کہیں یہ نہ ہو کہ میرے نکلنے سے بھی شہروز آپ کا نہ ہو سکے

وہ تو اب میرا ہی ہے اس کی تم ٹینشن مت لو اور چلو نیچے انکل آنٹی ویٹ کر رہے ہیں تمہارا

میں چلتی ہوں خالہ دعاؤں میں یاد رکھیے گا

وہ نیچے گئ اور سب کو سلام کیا مصطفی صاحب نے خوش اسلوبی سے جواب دیا جبکہ نور نے سلام کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور رفعت بیگم اور شمع سے اجازت لیتی اٹھ کر باہر چلی گئیں

وہ بھی ان کی تقلید میں باہر جانے لگی کہ رک کر ول شہروز کے سامنے آئی

آپ نے مجھ پر یقین نہی کیا آپ نے تو اپنی کی گئی محبت پر یقین نہی کیا ایک وقت آۓ گا جب آپ پچھتاۓ گیں کہ کاش اس وقت آپ نے میری بات کا یقین کیا ہوتا میری دعا ہے کہ اس وقت آپ کو معاف کرنے کے لیے میں موجود نہ ہوں اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور بیگ لیے باہر چلی گئی

ایک آنسو چپکے سے اس کی آنکھ سے بے مول ہوا تھا وہ خاموشی سے کمرے میں جا کر بند ہو گیا تھا 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

فاریہ کے گھر سے ہو کر وہ سیدھا آفس گیا تھا ایک میٹینگ اٹینڈ کرتے کرتے اسے کافی لیٹ ہو گیا اس نے گھر میں قدم رکھا تو ہر طرف اندھیرا تھا صرف کچن کی لائٹ کل رہی تھی وہ اپنا کوٹ اتار کر کندھے پر رکھتے سیڑھیاں چڑھتے اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اندھیرے نے اس کا استقبال کیا اسے خیرانی ہوئی کہ صوفیہ اس کا ویٹ کیے بغیر سو گئی اس نے سر جھٹک کر لائٹ جونہی آن کی سامنے کا منظر دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اس نے اپنی آنلھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں تو سامنے کا منظر وہی تھا

وہ چاہتی تھی کہ وہ آج خود سے اس کی طرف قدم بڑھاۓ اس لیے اس نے خود کو اس کے لیے دلہن کی طرح تیار ہونے کا سوچا 

کھانا کھا کر وہ کمرے میں آگئی اور تیاری کرنے لگی کیونکہ وہ آٹھ بجے تک آجاتا تھا  بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ وہ لیٹ گھر آتا تھا اس نے اپنی شادی کا لہنگا الماری سے نکالا اور چینج کرنے چلی گئی چینج کر کے اس نے جیولری نکالی اور باری باری پہننے لگی پائل پہنتے ہوۓ اس کا دل دھڑکا کیونکہ طلحہ کو اس کے پاؤں میں پائل بہت اچھی لگتی تھی شرمیلی مسکراہٹ سے اس نے پائل پہنی اور ہلکا پھلکا میک اپ کر کے خود کو آئینے میں دیکھا اور طلحہ کو کے تاثرات تصور کر کے خود ہی کھلکھلا کر شرما کر چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی

کافی دیر اس کا انتظار کر کے وہ تھک گئی تو اس نے اسے کال ملانے کا سوچا اس نے موبائل ابھی پکڑا ہی تھا کہ اسے گاڑی کا ہارن سنائی دیا گاڑی کے ہارن پر اس کا دل دھک دھک کرنے لگا وہ جلدی سے لائٹ آف کرتی بیڈ پر لہنگا پھیلا کر بیٹھ گئی

جب اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہوا تو وہ دروازے کو کنڈی لگاتا دلکشی سے بیڈ کی جانب قدم بڑھانے لگا 

بیڈ پر بلکل اس کے سامنے بیٹھ کر اس نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور دلکشی سے بولا

اگر مجھے پتا ہوتا کہ گھر میں ایک اتنا خوبصورت سر پرائز میرا انتظار کر رہا ہے تو میں کبھی اتنی لیٹ نہ آتا بات کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس کے ہاتھ کی ابھری نس کو بھی سہلا رہا تھا

اس کے ایسا کرنے پر اس کی ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئیں 

تم گھبرا کیوں رہی ہو ابھی تو میں نے سزا دی ہی نہی اس نے اس کی ہتھیلیاں سیدھی کرتے اس ہر لب رکھتے کہا

اب بھی سزا میں نے اتنا اچھا سر پرائز تو دیا ہے اس نے منہ بسور کر ناراضگی سے کہا

وہ سزا تو میں تمہارے اس روپ کو دیکھ کر ہی معاف کر چکا تھا یہ سزا تو مجھے جلدی نہ بلانے کے لیے ہو گی اس نے اس کے جھمکے کے ساتھ چھیڑہاخانی کرتے سرگوشی کی

طلحہ اس نے زبان تر کرتے اس کی مخمور آنکھوں کو دیکھتے کہا

جی طلحہ کی جان  

وہ تھوڑا سا پیچھے ہوں زرا 

تم نے آج مجھے خود دعوت دی ہے کہ میں تمہارے اس حسن کو اخراج بخشوں میں تو تمہارے بہت قریب آنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور تم مجھے زرا دور ہونے کا کہہ رہی ہو اس نے اس کے ہاتھ تکیے پر لگاتے کہا اور اس کی شہ رگ پر اپنا لمس چھوڑا 

اور اس پر قابض ہو گیا وہ تو پہلے ہی اس کی شدتوں پر بے حال ہو جاتی تھی اور آج تو اس نے خود اسے اپنی طرف بلایا تھا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

کیا ہے کیوں بے عزتی کروانے کا شوق ہو رہا ہے ٹھڑکی انسان تو زرا میرے سامنے آؤ پھر بتاتی ہوں تمہیں تمہیں تمہاری نانی دادی پر دادی نہ یاد کروا دی تو نام بدل دینا بدتمیز انسان پتا نہی کیا ملتا ہے تم لفنگوں کو تنگ کر کے وہ جب کال پک کر کے بولنا شروع ہوئی تو بریک لگانا ہی بھول گئی کب سے وہ اس چول انسان کو اگنور کر رہی تھی لیکن وہ بھی رج کے چول تھا بار بار کال کیے جا رہا تھا 

میری بات ہاں کیا تمہاری بات اب تم یہی بولو گے کہ مجھے تم سے محبت ہے فلاں ہے فلاں میں نے تمہیں فلاں جگہ دیکھا تو مجھے تم سے عشق ہو گیا تم تو رکو زرا سستے عاشق تمہاری ساری عاشقی کا بھوت نا اتارہ تو پھر کہنا اس کی بات کاٹ کر وہ پھر سے شروع ہو گئی

او میری ماں چپ کر اور مجھے بولنے دے اس کی کب سے چلتی فضول پٹر پٹر سے تنگ آ کر اس نے کہا

کییییا ۔۔۔۔۔۔ماں تو نے مجھے ماں کہا ماں ہو گی تیری بہن تیری چاچی تیری دو نمبر بیوی 

بسسسسسس اب اگر تم نے ایک لفظ بھی بولا نہ تو تمہاری زبان کو کاٹ دینا ہے میں نے اب کہ اس نے غصے سے کہا

تم چپ بلکل چپ وہ چلایا زچ آگیا تھا وہ اس کی زبان سے

کبھی تو اگلے کو بولنے کا موقع دیا کرو اور میں کوئی سستاعاشق نہی ہوں فاریہ بی بی آپ کا نیا نیا منگیتر  علی ہوں جسے آپ نے اپنی زبان سے اچھا خاصا زچ کر ڈالا ہے اس نے طنز کیا

اس کے تعارف پر اس نے دانتوں تلے زبان دبائی

تو تمہیں کس نے کہا تھا کہ تم کال کرو فسادی انسان 

میری مت ماری گئی تھی اسی لیے تمہیں کال کر دی

او اچھا مجھے لگا شائد مجھ سے بات کرنے کے لیے کال کی ہے  اس نے دانتوں تلے زبان دبا کر کہا

سیرئیسلی فاریہ دوسری طرف فاریہ کا قہقہ گونجھا تھا

اس کے قہقہے پر اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی

اچھا بولو تم نے کس لیے کال کی تھی اس نے ہنستے ہوۓ پوچھا

اپنی نئی نئی منگیتر سے بات کرنے کو دل کر رہا تھا اس لیے کال کی تھی لیکن تم نے سارے موڈ کا ستیا ناس مار دیا

اچھا سوری 

یاد ہے طلحہ بھائی کی شادی پر تم نے مجھے کوجا کہا تھا 

ہاں یاد ہے اب کوجے کو کوجا نہی بولوں گی تو اور کیا بولوں گی 

تو پھر کیا تم کوجے کی کوجی بننے کے لیے تیار ہو 

فسادییییییییی۔۔۔۔خبردار اگر تم نے مجھے کوجی کہا تو میں نے تمہارا خون پی جانا ہے 

اچھا مینڈک کی مونث کیا ہے 

مینڈکی

لومڑ کی

لومڑی اس نے نامسجھی سے جواب دیا

تو کوجا کی مونث کیا ہوئی

کوجی اب کے قہقہ لگانے کی باری علی کی تھی 

اب تم خود ہی کہہ رہی ہو کہ کوجے کی مونث کوجی ہے تو پھر تم بھی تو کوجی ہوئی نہ کوجے کی کوجی ہاہاہاہاہاہاہا

اگر تمہیں یہی سب بکواس کرنی ہے تو میں کال بند کر تہی ہوں اور آئیندہ مجھے خبردار اگر کال کی  تو  

اچھا اچھا فون تو مت کاٹنا مجھے کچھ کہنا ہے 

پیار ہو گیا ہے تم سے۔۔۔!

خود سے زیادہ

حد سے زیادہ

سب سے زیادہ۔۔۔!❤

اچھا اپنا بہت خیال رکھنا اور میں کال کروں گا اوکے کل اور پلیز ناراض مت ہونا باۓ گڈنائٹ

اس کے اس طرح اظہار پر اس کے دل کی ایک بیٹ مس ہوئی تھی 

بہت اچھا لگتا ہے 

جب تم مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہو

مجھے کسی ننھے بچے کہ طرح سمجھاتے ہو

بہت اچھا لگتا ہے 

جب تم مجھ پہ اپنا حق جتاتے ہو

اور مجھ سے کہتے ہو کہ تم میری ہو

بہت اچھا لگتا ہے 

جب میں ضد کرتی ،یا روٹھ جاتی ہوں

مجھے تم اپنی محبت سے مناتے ہو

بہت اچھا لگتا ہے !

تم سے تمہاری محبت کا اقرار سننا، جسے میں اپنا حق سمجھتی ہوں

بہت اچھا لگتا ہے !

مجھے تم سے محبت کرنا

کیونکہ میری زندگی کا واحد حاصل ہو تم

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ اس وقت لیلی کے گھر کے لان میں تھی جہاں رنگو بو کا سیلاب پھیلا ہوا تھا لوگ رنگ برنگے کپڑوں میں ہاتھ میں مشروب پکڑے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے اسے اس سب میں کوئی دلچسپی نہی تھی وہ  قدرے کونے پر کھڑی تھی کہ اس پر کسی کی نظر نہی جا سکتی تھی  

وہ کوفت سے سب کو دیکھ رہی تھی اسے لیلی کی بات جھوٹ لگ رہی تھی کیونکہ لیلی کافی دیر سے اس کی نظروں میں تھی اور فرہاد ابھی تک پارٹی میں نہی آیا تھا کیونکہ اگر وہ آیا ہوتا تو لیلی کے ساتھ ضرور دکھتا

وہ دل میں جانے کا ارادہ کرتی مڑی کہ سامنے ہی اسے فرہاد ہاشم صاحب سے گفتگو کرتا دکھا اس کے دیکھتے دیکھتے وہ لیلی کے پاس گیا اور لیلی نے اسے ہگ گیا اور اپنی دوستوں سے ملوانے لگی وہ اپنی آنلھوں میں آنسو لیے اس منظر کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں میں آنسو تھے جبکہ چہرے پر مسکراہٹ اسے لیلی کی بات سو فیصد درست لگ رہی تھی اس میں اتنی ہمت نہی تھی کہ وہ ان کے ڈانس تک وہاں پر رکتی وہ اپنے آنسوؤں پر پل باندھتی وہاں سے نکلتی چلی گئی

وہ لیلی کے ساتھ کوفت سے اس سے دوستوں سے مل رہا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے اس نے دفعتاً ارد گرد دیکھا تو اسے کوئی بھی ایسا شخص نہ ملا جو اسے دیکھ رہا ہو وہ سر جھٹک کر  لیلی سے ہاتھ چھڑوا کر ایک خالی ٹیبل پر چلا گیا اور اپنی سرخ آنکھوں سے سب کو دیکھنے لگا

لیلی جو رابیل کو وہاں سے نکلتا دیکھ چکی تھی اس نے کسی کو کال ملائی اور کچھ ہدایت دے کر پر اسرار سا مسکراتی دوستوں کے پاس چلی گئی

وہ اپنے بہتے آنسو کو صاف کرتی اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی بار بار بہتے آنسوؤں کو صاف کرتی وہ ڈرائیونگ کر رہی تھی آدھے رستے پہنچ کر  جب اس سے مزید ڈرائیونگ کرنا مشکل ہو گئی تو اس نے تھک ہار کر اپنا سر سٹیرنگ پر رکھ دیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی جیسے وک اپنے اندر اٹھتے غم و دکھ کو سلانے کی کوشش کر رہی ہو 

اے لڑکی نکل باہر ایک آدمی نے شیشہ بجایا

اے لڑکی بہری ہو گئی ہے کیا دوسری طرف پھر بجایا

مجھے لگتا ہے یا تو مر مرا گئی ہے یا پھر اسے اپنی زندگی عزیز نہی ہے دوسرے والے نے غصے سے کہا اور گن کی پچھلی سائڈ سے شیشے کو زور سے ضرب لگائی کہ شیشہ ٹوٹ گیا

کچھ ٹوٹنے کی آواز پر اس نے اپنے بھاری ہوتے سر اور آنکھوں سے سر اٹھایا جی اس وقت سر میں اس کے شدید ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں اس لیے وہ ان کو دیکھے ناسمجھی سے بولی

چل باہر نکل اسی آدمی نے ٹوٹے ہوۓ شیشے سے ہاتھ اندر ڈالا اور دروازہ ان لاک کیا اور اسے باہر لانے کے لیے بازو سے پکڑا 

ڈونٹ ٹچ می اس نے چلا کر اپنا بازو اس سے چھروانے کے لیے اسے دھکا دیا دھکے کی وجہ سے وہ آدمی پیچھے کی طرف گر گیا 

وہ آدمی ایک لڑکی سے دھکا کھانے کی وجہ سے سرخ چہرے سے اسکی طرف بڑھا اور زور سے اس کا بازو پکڑ کر گاڑی سے نکالا اگر وہ گاڑی کے دروازے کو نہ پکڑتی تو یقیناً گر جاتی 

اس نے سنمبھل کر اپنا ہیل والا پاؤں اس کے پاؤں پر زور سے مارا  تو وہ کراہ سے پیچھے ہٹا اسی کا فائدہ اٹھا کر اس نے گاڑی میں بیٹھنا چاہا کہ دوسرے آدمی نے اس کی کوشش کو ناکام بناتے گن کی پچھلی سائڈ اس کے سر کے پچھلے حصے پر ماری  جس سے وہ صرف پھڑپھڑا  کر رہ گئی

آخری منظر جو اس کی آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس کی آنکھوں میں لہرایا تھا وہ اس دشمن جان کا تھا اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی

جی کام ہو گیا اب آگے کیا کرنا یے اس کے  بے ہوش  وجود کو پکڑتے آدمی نے کسی کو کال ملائی

جی ٹھیک ہے دوسری طرف سے ناجانے کیا کہا گیا تھا جس پر اس آدمی نے  جی کہا تھا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣❣

اپنے سامنے شان سے کھڑی تین منزلہ وسیع مرقبے پر پھیلی عمارت کو دیکھ کر چند پل کو اس کی آنکھیں خیرہ ہوئی تھیں  

چلیں بیٹا مصطفی صاحب نے اسے کہا تھا نور تو پہلے ہی چلی گئی تھیں ان کی بات پر اپنی نظریں عمارت سے ہٹا کر وہ سر ہلا لر ان کی تقلید میں اندر کی طرف بڑھی

اندر قدم رکھتے ہی اس نے ستائش سے ہر چیز کو دیکھا تھا یہ گھر جتنا باہر سے دکھنے میں خوبصورت تھا اتنا ہی اندر سے اپنی مثال آپ تھا 

بیٹا یہ اب یہ گھر آپکا بھی ہے آپ جیسے چاہیں اس گھر میں رہ سکتی ہیں کوئی روک ٹوک نہی ہو گی آپ پر مصطفی صاحب نے اس کی آنکھوں میں ستائش دیکھ کر اس کے سر ہر ہاتھ رکھ کر اپنائیت سے کہا

ان کی بات پر وہ تلخ مسکرائی اس کا گھر اگر آج اس کو رہنے کے لیے مخفوظ چھت کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ کبھی مر کر بھی اس گھر میں نہ آتی جہاں وہ رہتا تھا

بیٹا عاجل زرا جزباتی اور ضدی ہے جانتا ہوں اس نے ہی تمہارے ساتھ زبردستی کی ہو گی لیکن بیٹا وہ دل کا بہت اچھا ہے اپنوں کے لیے وہ جان لے بھی سکتا ہے اور دے بھی تم اس سے بدگمان مت ہونا کیونکہ جب بدگمانی کسی رشتے میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ رشتہ کھوکھلا ہو جاتا اس کی مثال بلکل ایسے ہے جیسے دیمک لکڑی کو کھوکھلا کر دیتی ہے تم اپنے پیار محبت سے اس سے پیش آؤ گی تو وہ بھی تمہیں سر آنکھوں پر بٹھاۓ گا وہ اس کی مسکراہٹ سے کچھ اور ہی سمجھے تھے اس لیے ایک باپ کی طرح اسے سمجگانے لگے 

چلو جاؤ اب آرام کر لو رات کافی ہو گئی ہے اور ایک دفع پھر سوری عاجل کی طرف سے کہ اسے اس وقت گھر ہونا چاہیے تھا تم پلیز برا مت ماننا وہ اپنی مرضی کرتا ہے 

ان کی بات ہر اس نے سر ہلایا بھلا اسے کیا کہ وہ ضدی ہو جزباتی ہو یا پھر کچھ اور 

جاؤ شاباش یہ سیڑھیاں چڑھ کر پہلا کمرہ عاجل کا ہے انہوں نے اسے گائڈ کیا تو وہ بھی مجبورن ہاں میں سر ہلاتی چلی گئی جبکہ اس کا دل بلکل بھی نہی تھا

اس نے کمرے میں قدم رکھا تو اسے لگا  کہ وہ کسی مارکی کے ہال میں کھڑی ہے کیونکہ کمرہ تھا ہی اتنا بڑا جیسے وہ یہاں اکیلا نہی بلکہ بیس لوگ اور رہتے ہوں سارا کمرہ وائٹ اور گرے کلر کے کمبینیشن سے سجایا گیا تھا بیڈ شیٹ سے لے کر کرٹلز تک گرے اور وائٹ کلر کے  تھے سینٹر میں بیڈ تھا اس کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل تھا اس کے رائٹ سائڈ پر ڈریسنگ روم اور اس کے ساتھ ہی واش روم تھا 

وہ اپنا سامان وہیں نیچے رکھ کر دوسرے حصے کی طرف بڑھی وہ بڑھ رہی تھی کہ اچانک کسی چیز سے ٹکڑائی اس نے دیکھا تو سامنے کوئی چیز نہی تھی وہ پھر سے آگے بڑھی کہ ایک دفع پھر ٹکڑائی اسے سمجھ نہی آرہی تھی کہ جب سامنے کچھ ہے نہی تو وہ ٹکڑا کس چیز سے رہی ہے اس نے ایسے ہی اپنا ہاتھ اٹھایا کہ وہ چیک تو کرے کہ کیا ہے اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے کیا تو اس کا ہاتھ کسی چیز سے لگا اس کے ہاتھ لگنے کہ وجہ سے وہ جہاں پہلے کوئی چیز نہی لگ رہی تھی اب شیشے کی گلاس وال تھی پہلے تو وہ خیران ہوئی اور پھر خود ہی کھلکھکا کر ہنس دی 

اپنے کمرے سے کسی کی کھلکھلاہٹ پر وہ خیران ہوا بھلا اس کے کمرے سے سے کسی کے کھلکھلانے کی آواز آنا نا ممکن تھا اور وہ بھی ایک لڑکی کی سر بکھیرتی کھکھلاہٹ کی وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے میں جونہی داخل ہوا اپنےکمرے میں اسے پاکر خیران ہوا وہ کیونکر اس کے کمرے میں تھی 

اپنی خیرت پر وہ قابو پاتا اس کے پیچھے گیا اور سرد آواز میں بولا

تم یہاں کیا کر رہی ہو کس کی اجازت سے تم میرے کمرے میں داخل ہوئی ہو

وہ جو دوسری طرف کا حصہ دیکھنے کے لیے گلاس وال دھکیلنے لگی تھی پیچھے سے سرد آواز پر اس کا ہاتھ کانپا لیکن پھر خود کو کمپوز کر کے وہ مڑی اور چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ سجا کر اس سے بولی

اب تمہارے کمرے میں تمہاری بیوی نہی تو کیا پڑوسن آۓ گی اور مائنڈ اٹ آج سے یہ کمرہ تمہارا نہی بلکہ میرا بھی ہے اس کے جتنے تم مالک تھے اب میں بھی اتنی ہی اس کی مالک ہوں اس لیے مجھے کسی کی اجازت درکار نہی ہے 

اس کا دل جلا کر اب وہ جان بوجھ کر سارے کمرے کو دیکھ رہی تھی 

ویسے کمرہ کافی اچھا ڈیکوریٹ کیا ہوا ہے تم نے مجھے پسند آیا لیکن کچھ چینجیز کی ضرورت ہے وہ میں کر لوں گی 

اس کی بات پر اس نے غصے سے مٹھیاں بھینچی اور اس کا بازو زور سے پکڑا 

کہاں کی بیوی کونسی بیوی 

ارے تم تو اتنی جلدی بھول گئے کوئی بات نہی میں یاد کروا دیتی ہوں وہی بیوی جو بقول آپکے آپ سے بہت محبت کرتی ہے اور آپ بھی اس سے کرتے ہیں ارے وہی بیوی جس کے گھر میں داخل ہو کر اسے ہی تم نے اس کے اپنوں کی نظر سے گرا دیا وہی بیوی جسے تم نے لینے اپنے ماں باپ کو بھیجا وہی یاد آیا کچھ اس نے اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش نہی کی تھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ اسے یاد کروانے لگی 

 ہوں سب سمجھ رہا ہوں تم جو یہ بیوی بننے کا ناٹک کر کے اب مجھے پھنسانا چاہتی ہو نہ لیکن میں عاجل ہوں وہ دو ٹکے کا تمہارا عاشق  شہروز نہی اور نہ ہی تمہارا وہ سابقہ شوہر جو تمہاری باتوں میں آجاۓ گا اس کی باتیں اس کا لہجہ اسے سلگا ہی تو گیا تھا اس لیے وہ ازل کا لاپرواہ بنا اپنے الفاظ کو سوچے سمجھے اس کے دل کی دنیا کو ہلا گیا اسے اس کی اپنی نظروں میں ہی گرا دیا تھا

چلو اب دفع ہو میرے کمرے سے اس نے اسے باہر دھکا دے کر دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا تھا اور وہ روتی ہوئی وہیں دروازے کے پاس بیٹھ گئی تھی 

بیٹا یہ تم باہر کیوں اس طرح بیٹھی ہو اور رو کیوں رہی ہو کیا عاجل نے کچھ کہا ہے وہ سٹڈی روم سے باہر نکل رہے تھے کہ اسے اس طرح روتے دیکھ کر وہ اس کی طرف آگۓ

ان کے پوچھنے پر بھی وہ چپ روتی رہی 

اس کے رونے پر وہ اسے لے کر سٹڈی روم میں چلے گئے اور اسے پانی کا گلاس پکڑایا 

چلو اب مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے کیا عاجل نے کچھ کہا ہے 

دیکھو بیٹا مجھے اپنا باپ ہی سمجھو میں اس وقت عاجل کا باپ نہی بلکہ تمہارا باپ ہوں اس لیے مجھے بتاؤ کیوں رو رہی ہو تم اس کی خاموشی پر انہوں نے تشویش سے پوچھا

پھر اس نے اپنے ساتھ ہونے والی ساری ستم گری انہیں من ومن سنا دی سب بتاتے ہوۓ اس کے آنسو مسلسل اس کا چہرہ بھگو رہے تھے 

اس کے منہ سے سب سن کر وہ تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہے جو بیٹا بے شک ضدی تھا لیکن ان کا مان تھا انہوں نے تو کبھی خواب میں بھی نہی سوچا تھا کہ ان کا مان ایک دن اس طرح ان کا مان توڑ دے گا وہ بھی ایک بیٹی کے باپ تھے بیٹی کی تکلیف کو بخوبی سمجھتے تھے 

بیٹا میں تمہارے ساتھ ہوں تم جو بھی فیصلہ لینا چاہو میں تمہارے ساتھ ہوں

میں کیا فیصلہ کر سکتی ہوں میرے پاس تو رہنے کے لیے چھت بھی نہی ہے 

آج سے تم میری بیٹی ہو تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہی ہے رہی بات عاجل کے ساتھ رہنے کی تو تم دونوں نا محرم ہو ایک کمرے میں رہنا تم لوگوں کو جائز نہی ہے اس لیے تم کسی بھی دوسرے کمرے میں رہ لو اور میں کوشش کروں گا کہ ساجد بھائی سے بات کروں اگر وہ تمہاری بات کا یقین کر لیتے ہیں تو تم جانا چاہو ان کے پاس تو مجھے کوئی اعتراض نہی ہے تب تک تم اس گھر میں رہ سکتی ہو لیکن تمہیں خود کو مضبوط کرنا ہو گا دوسروں سے دب کر رہو گی تو لوگ تمہیں اور دبائیں گے اس لیے اپنے لیے سٹینڈ لینا سیکھو

اس نے سر ہلایا ان کی بات سے اسے بہت حوصلہ ملا تھا

بس میری ایک گزارش ہے کہ یہ بات باہر کسی کو نہ پتا چلے بلکہ عاجل کو بھی نہی کہ مجھے تم نے سب بتا دیا ہے تم ایسے ہی پریٹینڈ کرو سب کے سامنے جیسے تم اس شادی سے خوش ہو اور اگر عاجل تمہیں کچھ بھی کہے تو تم اس کا جواب ڈٹ کر دینا میں تمہارے ساتھ ہوں 

تم مجھے خود غرض سمجھ رہی ہو گی جو اپنے بیٹے کی غلطی پر اسے ڈانٹنے کی بجاۓ تم سے گزارش کر رہا ہے لیکن بیٹا اولاد چیز ہی ایسی ہے جو انسان سے وہ بھی کرواتی جو اس نے سوچا بھی نہی ہوتا انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا

ابھی آپ نے کہا کہ میں آپکی بیٹی ہوں تو باپ بیٹیوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے اچھے نہی لگتے ان کے ہاتھ تو بیٹیوں کے سروں پر شفقت سے رکھے اچھے لگتے ہیں اور پھر آپ میرے ساتھ ہیں تو مجھے کسی سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہی ہے اس نے ان کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگاتے کہا تو وہ اس کے ظرف پر نم آنکھوں سے مسکراۓ

کاش ان کا بیٹا ایسا نہ کرتا 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا کمرہ زیادہ بڑا نہی تھا لیکن چھوٹا بھی نہی تھا جو بات اس کا زہن اسے کہہ رہا تھا اس کی منافی یہ کمرہ کر رہا تھا کیونکہ یہ کمرہ تو بلکل بھی کسی اغواشدہ کو رکھنے کے لیے نہی تھا

کمرے میں ایک بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل ہی تھا اور صاف ستھرا  کمرہ تھا اس نے موویز میں دیکھ رکھا تھا کہ جب کسی کو اغواہ کیا جاتا ہے تو اسے ایک بوسیدہ حال کمرے میں رکھا جاتا ہے لیکن یہ کمرہ تو ویسا نہی تھا 

سارے کمرے سے ہوتی نظر اس کی کھڑکی سے آتی روشنی پر پڑی تو وہ پریشان ہوئی یعنی وہ ساری رات گھر سے غائب رہی ہے پتا نہی کسی کو گھر پر معلوم بھی ہو گا کہ نہی کیونکہ وہ پہلے بھی کبھی کبھی کبھار دوستوں کے گھر رک جایا کرتی تھی لیکن اب تو صورتحال ہی مختلف تھی وہ کسی دوست کے گھر نہی بلکہ کسی کی قید میں تھی 

یار کوئی آ ہی جاۓ کم ازکم میں اس سے پوچھو تو سہی کیوں مجھے یہاں باندھ رکھا ہے اس نے بیزاری سے کہا ایک تو کل رات فرہاد کو اس چڑیل کے ساتھ دیکھ کر وہ دلبرداشتہ ہو گئی تھی جس کی نتیجے میں اس کا دماغ کام نہی کر رہا تھا ورنہ وہ ان غنڈوں کو ان کی نانی تک یاد کروا دیتی کیونکہ وہ مارشل آرٹس کی چیمپئین تھی اور پھر کل جہاں انہوں نے کن ماری تھی اسے وہاں درد بھی ہو رہی تھی 

لیکن ہاۓ یہ محبت نامی بلا  واقعی کسی نے سہی ہی کہا ہے عشق نے نکما کر دیا ورنہ بندے ہم بھی کام کے تھے یہ سب اس میسنی چڑیل کی وجہ سے ہوا ہے نہ وہ فرہاد ہر ڈورے ڈالتی نہ میں وہاں جاتی اور نہ یہاں ہوتی یا اللہ پلیز پلیز کسی کوبھیج دیں میری مدد کے لیے نہی تو کسی اغواکار کو ہی بھیج دیں 

مجھے یہاں کیوں باندھا ہوا ہے اور تم تو چھوٹے سے ہو وہ دعا مانگ رہی تھی کہ اسی وقت ایک لڑکا کمرے میں داخل یوا جس کا چہرہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا لیکن وہ پھر بھی پہچان گئی تھج کہ یہ وہ نہی ہے

کیا مطلب ہے تمہارا کہ میں چھوٹا ہوں اس لڑکے نے ناراضگی سے کہا اسے شائد اپنا چھوٹا کہنا پسند نہی آیا تھا

ارے تم تو ناراض ہو گئے میں تو اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ جن دو آدمیوں نے مجھے کیڈنیپ کیا تھا وہ زرا ہتے کٹے اور بھاری جسم والے تھے اور بڑی عمر کے بھی لگ رہے 

اچھا تم نے دیکھا تھا انہیں

نہی انہوں نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا

اچھا مجھے یہ بتاؤ کہ مجھے یہاں کیوں لاۓ ہو دیکھو اگر پیسے ویسے چاہیے تو مجھے بتاؤ میں تمہیں ویسے ہی دلوا دیتی ہوں 

نہی باجی پیسے نہی چاہیے 

پھر مجھے کیوں کیڈنیپ کیا ہے اس نے سخت گھوری سے پوچھا

باجی وہ تو سر جی ہی کو پتا ہے اور تمہارا یہ سررررر جییی کہاں ہے 

جی وہ تو آپ کو کیمرے سے دیکھ رہے ہیں اس نے کونے میں لگے ایک کیمرے کی طرف اشارہ کیا

او ہیلو کیڈنیپر میری آواز آ رہی ہے تمہیں اگر آ رہی ہے نہ تو شرافت سے مجھے نکالو یہاں سے ورنہ میں میں تمہاری بوٹی بوٹی کر کے کتوں کو کھلا دوں گی تم جانتے نہی ہو مجھے میں کون ہوں 

اس کے کہنے پر جواب تو نہ آیا لیکن اس لڑکے کے موبائل کی بیپ ضرور بجی تھی موبائل پر شائد کوئی میسج آیا تھا جسے پڑھ کر وہ لڑکا کمرے سے نکل گیا تھا 

ایک منٹ بعد وہ لڑکا پھر کمرے میں داخل ہوا 

یہ کیا کر رہے ہو اس نے اسے ٹیپ قینچی سے کاٹتے پوچھا

اب اتنا تو وہ موویز میں دیکھ ہی چکی تھی کہ ٹیپ کا کیا یوز ہوتا ہے کیڈنیپینگ میں

باجی سر جی کا حکم ہے تمہاری اس قینچی کی طرح چلتی زبان کو بند کر دیا جاۓ اسنے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ٹیپ لگا دی جس پر وہ صرف اوں اوں ہی کرتی رہ گئ اور دل میں اس سر جی کو گالیاں دینے لگی انگلش میں اور دعا کرنے لگی کہ جلد از جلد عاجل اور مصطفی صاحب کو پتا چل جاۓ کیونکہ ان کے اتنے سورسز تو تھے کہ وہ اسے باعافیت ان کی قید سے چھڑوا لیتے 

مصطفی صاحب کے کہنے پر وہ دوسرے کمرے میں سو گئی تھی نئی جگہ پر تو اسے نیند بھی مشکل سے ہی آتی تھی اوپر سے اس کی زندگی  نے نئے موڑ لے کر اس کی نیندیں اڑا دی تھیں ساری رات کروٹ پر کروٹ بدلتی رہی لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی تھک ہار کر اس نے آنکھیں بند کر لی کہ شائد نیند کو  ہی اس پر رحم آ جاۓ

بمشکل ہی وہ دو تین گھنٹے سوئی ہو گی پھر اس کی آنکھ کھل گئی اس وقت صبح کے پانج بج رہے تھے اس نے وضو کیا اور اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہو گئی 

اے میرے مالک میں تیری ادنی سی بندی ہوں میں تو اپنے بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ نہی آزماتا اے میرے رب تو مجھے ہمت حوصلہ دے سب سہنے کی جھیلنے کی اے میرے مالک چاچو پر میری بے گناہی ثابت کر دیں مجھے ان کی نظروں میں سر خرو کر دے آمین

نماز ادا کر کے دعا مانگ کر اس نے ٹائم دیکھا تو ساڑھے پانچ ہو رہے تھے نیند تو اب اسے آنی نہی تھی اس لیے وہ لان میں آگئی ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پر پاؤں رکھتے ہی اس کے اندر تازگی پھیل گئی وہ گھاس پر چلتے چلتے اللہ کا ورد کرنے لگی اس نے خود کو وقت کے دھاگے پر چھوڑ دیا تھا

وہ اپنے عمل میں اس قدر مصروف تھی کہ اسے اپنے ساتھ کسی کے چلنے کا احساس ہی نہ ہوا چونکی تو تب جب مصطفی صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکا اپنے سر پر کچھ محسوس کر کے اس نے اپنے برابر دیکھا تو مصطفی صاحب اسے دیکھ کر شفقت سے مسکرا رہے تھے اس نے بھی انہیں مسکرا کر دیکھا

شاباش میرے بچے اسی طرح اللہ کے ساتھ جڑی رہو انشاءاللہ ایک دن وہ تمہیں سب کی نظروں میں سرخرو کر دے گا اور یہ بھی یاد رکھنا وہ آزماتا ہے اپنے بندوں کو کہ وہ اس کی طرف سے آئی گئی آزمائش پر صبر کرتے ہیں یا پھر اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں 

میں نہی جانتی یہ میری آزمائش ہے یا پھر میرے کسی عمل کی سزا 

جو پریشانی تمہیں اللہ کے قریب کر دے سمجھ جاؤ وہ تمہاری آزمائش ہے اور جو پریشانی تمہیں تمہارے رب سے دور کر دے وہ سزا ہے 

اب تم خود اپنا موازنہ کرو کہ آیا تم اللہ کے قریب ہوئی ہو کہ اس سے دور اسے سوچوں میں ڈال کر وہ باہر واک کے لیے چلے گئے

کافی دیر وہ اپنا احتساب کرتی نرم گرم گھاس پر چلتی تھک کر اندر چلی گئی

 لیکن اب جو بھی تھا اس نے خود کو بے وقعت نہی کرنا تھا نہ ہی دبنا تھا بلکہ اپنے لیے کھڑے ہونا تھا

ناشتے پر بھی وہ نہی گئی تھی ملازمہ اسے بلانے آئی تھی جس پر وہ جھجھکتی ڈائینگ ٹیبل پر آئی دھیرے سے سلام کر کے وہ بیٹھ گئی نور نے تو اسے سرے سے ہی اگنور کیا جبکہ مصطفی صاحب نے خوشدلی سے جواب دیا اور اسے ناشتہ کرنے کو کہا صد شکر کے اسے اس کا چہرہ نہی دکھا تھا رات کی تزلیل کے بعد وہ فیلحال اس کا چہرہ دیکھنے کی روادار نہی تھی لیکن اس کی یہ خوشی اس کے آنے سے مدھم پر گئی

اسے ایک نظر دیکھ کر وہ اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا وہ بھی ایسے ہو گئی جیسے اسے دیکھا ہی نہ ہو اصل میں تو اسے دیکھ کر اس کا خلق تک کڑا ہو گیا تھا 

وئر از رابی موم اس نے جوس کا گلاس رکھتے رابی کا پوچھا کمرے میں ہی ہو گی جاؤ نوراں رابی کو بلا کر لاؤ اسے جواب دینے کے ساتھ انہوں نے ملازمہ کو اسے بلانے کا کہا

تم رہنے دو میری بیوی اب سے میرے کام کرے گی کیوں بیوی صاحبہ اس نے ملازمہ کو روکتے اسے دیکھ کر طنز کیا جبکہ وہ تندہی سے اسے گھور کر رہ گئی لیکن پھر خود کو نارمل کرتی مسکرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے لیے چاۓ بنانے لگی اس نے چاۓ میں چینی کی جگہ نمک ڈال دیا اور اسے پکڑا کر دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی

اس نے جونہی کپ لبوں سے لگایا چاۓ فوارے کی صورت سامنے ٹیبل پر گری اس نے غصے سے کپ زور سے زمین پر پھینکا جہاں ملازم اس کے اس طرح کے ری ایکشن پر گھبرا گئے تھے ویسے ہی وہ بھی اچانک اس کے ردعمل پر اپنا سانس روک گئی تھی اسے نہی معلوم تھا کہ وہ کپ ہی پھینک دے گا یہ شرارت تو صوفیہ نے بھی علی کے ساتھ کی تھی تب تو علی نے مارے بندھے پی لی تھی وہ بھی اس سے یہی توقع کر رہی تھی لیکن وہ بھول گئی تھی کہ وہ علی تھا اور یہ عاجل نہایت بدتمیز 

تمہیں ایک چاۓ بنانے کو کہا تھا اور تم سے وہ بھی ڈھنگ سے نہ بنائی گئی کرسی سے کھڑے ہو کر اس نے چلا کر کہا 

وہ تو اس کے چلانے پر وہ بھی سب کے سامنے سہم گئی تھی یہ تو مصطفی صاحب تھے جنہوں نے عاجل کو تنبیہ کی تھی تو وہ چپ کر کرکے دوبارہ بیٹھ گیا تھا

اتنے میں ملازمہ ہانپتی کانپتی وہاں آئی

سر سر وہ وہ پھولی سانسوں کے درمیان بولنے کی کوشش کی 

کیا وہ وہ لگا رکھی ہے اب بول بھی دو کہ قسطوں میں بولنا ہے تم نے عاجل کو آہلہ کی حرکت پر پہلے ہی غصہ تھا اب وہی غصہ وہ ملازمہ پر نکال رہا تھا

اپنے سر کی دھاڑ کی وہ بے چاری ایک گہرا سانس لے کر بولی

سر وہ میم اپنے کمرے میں نہی ہیں 

کیا مطلب اپنے کمرے میں نہی ہے 

مام کیا رابی کا پلان کسی دوست کے گھر رہنے کا تھا نہی تو اس نے تو مجھے ایسا کچھ نہی بتایا نور نے پریشانی سے کہا رابی نے جب بھی کسی دوست کے گھر رہنا ہوتا تھا وہ کم ازکم انفارم لازمی کرتی تھی 

مام اس کا موبائل بھی آف جا رہا ہے عاجل نے دوبارہ کال ملاتے پریشانی سے پیشانی ملتے کہا

تھوڑی دیر ویٹ کر لو ہو سکتا ہے اسکی موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی ہو نہی تو اس کی دوستوں سے پوچھ لو ہو سکتا ہے وہ ان کے ساتھ ہو لیکن بتانا بھول گئی ہو

نہی ڈیڈ وہ اتنی لاپرواہ نہی ہے لیکن میں پھر بھی اس کی دوستوں سے رابطہ کرتا ہوں 

ڈیڈ وہ کسی دوست کے گھر نہی ہے سب کا کہنا ہے کہ ان کا کوئی پلان نہی تھا کسی کے گھر رکنے کا اس نے پریشانی سے مصطفی صاحب کو کہا 

وہ لوگ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے تھے اور عاجل بار بار پریشانی سے اس کو کال ملا رہا تھا 

نور کی تو اپنی بیٹی کی گمشدگی ہر بری حالت تھی وہ مسلسل روۓ جا رہی تھیں ایسے میں آہلہ نے ان کو سنمبھالا ہوا تھا 

مجھے نہی پتا مصطفی مجھے میری بچی کہیں سے بھی لادیں نور نے روتے ہوۓ کہا

کچھ نہی ہو گا ہماری بیٹی کو تم دعا کرو اس کے لیے کہ وہ جہاں بھی ہو حیر و عافیت سے ہو انہوں نے پریشانی سے کہا

بابا مجھے لگتا ہے ہمیں پولیس کی مدد لینی چاہیے 

ہمم چلو وہ بھی اس سے متفق ہوتے آہلہ کو نور کا خیال رکھنے  کا کہتے  پولیس سٹیشن کی طرف چل دیے

ارے مصطفی صاحب آپ کوئی کام تھا ہم سے تو ہمیں بلوا لیا ہوتا انسپکٹر نے ان کو آفس میں داخل ہوتے دیکھ کر خوشامدی سے کہا

نہی ایک مسلہ آن پہنچا ہے اسی سلسلے میں یہاں آنا پڑا 

جی بولیے مصطفی صاحب ہم آپکی کیا مدد کر سکتے ہیں 

انہوں نے اپنا مسلہ ان سے بیان کیا

آپ بے فکر رہیں ہم انشاءاللہ آپکی بیٹی کو ڈھونڈ لیں گے 

لیکن یہ بات باہر نہی نکلنی چاہیے اور نہ ہی میری بہن پر کوئی بات آنی چاہیے نہی تو میں سارے ڈیپارٹمینٹ کو ہلا کر رکھ دوں گا سمجھ گئے اور جس شخص نے بھی یہ کرنے کی جرات کی ہے وہ اس شخص کو آپ میرے حوالے کریں گے اس نے اپنی سرخ نیلی آنکھوں سے انسپکٹر کو وارن کیا 

ان کی طاقت کو انسپکٹر باخوبی جانتا تھا اس لیے اس نے تابعداری سے سر ہلایا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

اس کے جانے کے بعد وہ بغیر کسی سی کچھ کہے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا بار بار اس کے کہے جملے اس کے دماغ میں میں ہتھوڑے کی طرح ضرب لگا رہے تھے اس کا دل اسکی سچائی پر ایمان لانے ہو ضد کر رہا تھا تو دماغ اسے اس سے بد گمان وہ اپنی حالت پر پریشان تھا آیا کرے تو کیا کرے اسی کشمکس میں اس نے ساری رات اپنا اندر جلاتے اپنی جلن دکھ کو سیگریٹ کے دھواں سے باہر نکالتا رہا

وی ابھی شاور لے کر خود کے اعصاب کو پر سکون کر کے نکلا تھا کہ کمرے میں رفعت بیگم داخل ہوئیں اور ان کی بات پر اس کے ڈھیلے اعصاب پھر سے تن گئے تھے 

میں پہلے بھی انکار کر چکا ہوں تو پھر دوبارہ اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد

وہ تو اپنے شوہر کے ساتھ تمہیں دھوکا دے کر چلی گئی ہے اب کیا تم ساری عمر اس کا روگ لیے پھرتے رہو گے 

جو بھی ہے ماما لیکن میں ابھی شادی نہی کرنا چاہتا اور مروہ سے تو بلکل بھی نہی نہ آج نہ کل نہ کبھی اس نے ختمی کہا

کیوں کیا برائی ہے اس میں اس کرم جلی سے تو اچھی ہے کم ازکم عزتوں کو اچھالتی تو نہی پھر رہی وہ اس کی طرح پھر تمہیں کیا اعتراض ہے انہوں نے اسے گھورتے کہا انہیں سمجھ نہی آ رہی تھی وہ مروہ کے لیے مان کیوں نہی رہا تھا

جسے آپ میں اور باقی سب ستی ساوتری سمجھتے رہے ہیں وہ کوئی دودھ کی دھلی ہوئی نہی ہے 

اس نے نخوت سے کہا 

پہلے تو تمہاری بڑی بنتی تھی اس سے پھر اب کیا ہوا ہے 

جی بلکل ٹھیک کہا آپ نے وہ اس کی طرح عزتیں نہی اچھالتی لیکن نامحرموں کے ساتھ پارٹیاں ضرور کرتی ہے ان کے ساتھ باہوں میں باہیں ڈال کر ڈانس کرتی ہے اور تو کچھ نہی کرتی بس اب بھی بتائیں کیا آپ ایسی لڑکی کو بہو بنائیں گی اگر آپ کو اب بھی کوئی اعتراض نہی ہے تو مجھے بھی نہی ہے آپ میری اس سے بات پکی کردیں لیکن شادی میں ابھی نہی کروں گا 

اس کے ایک دوست نے اسے کلب میں بلایا تھا وہاں اس کے دوست نے ایک لڑکی کی طرف اس کو متوجہ کروایا تو وہ اس لڑکی کو دیکھ کر چکراہ کر رہ گیا کیونکہ وہ لڑکی کوئی اور نہی بلکہ مروہ تھی جو سلیولیس شرٹ پہنے پیٹ سے اوپر تک آتی شرٹ پہنے کسی لڑکے کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی یہ دیکھ کر اس کی رگیں غصے سے تن گئیں وہ غصے سے ڈانس فلور کی طرف بڑھا اور جارحانہ انداز سے اس کا بازو پکڑا اور اسے لا کر گاڑی میں پھینکا

وہ اپنے سامنے شہروز کو دیکھ کر گنگ رہ گئی اسے شہروز کے تیور ڈرا رہے تھے اور یہ ڈر بھی اندر اندر تھا کہیں وہ گھر میں نہ سب کو بتا دے 

کیا کر رہی تم وہاں اور یہ ڈریسنگ یہ ڈریسنگ کب سے کرنا شروع کر دی تم نے اس نے گاڑی میں بیٹھ کر اس کا بازو پکڑ کر دھاڑ کر کہا

آئیندہ کبھی نہی کروں گی پکا پرامس یہ تو میری دوست مجھے یہاں لے آئی تھی اس کی دھاڑ پر ڈر کر اس نے کہا

ہاں تم تو دودھ پیتی بچی ہو نہ جو اپنی دوست کی باتوں میں آگئی

پلیز شہری گھر میں کسی کو مت بتانا پلیز میں وعدہ کرتی ہوں آئیندہ ایسا کچھ نہی کروں گی پلیز اس نے روتے کہا 

ٹھیک ہے میں گھر میں کسی کو نہی بتاؤں گا لیکن اج سے ہماری دوستی ختم اور کوشش کرنا کہ تم میرے سامنے بھی کم ہی آؤ ورنہ نتائج کی زمہ دار تم خود ہو گی اس نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا اور گاڑی سٹارٹ کی 

مروہ کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ وہ گھر میں کسی کو نہی بتاۓ گا 

وہ اپنے کہے کے مطابق یہ بات کسی کو بتانا نہی چاہتا تھا لیکن اب ایک بار پھر ان کی وہی رٹ پر اسنے انہیں بتا دیا

مروہ ایسی نکلے گی انہیں یقین نہی آ رہا تھا وہ تو بے یقین سی اپنی جگہ پر بیٹھی رہ گئیں

اب بھی کیا آپ کا وہی کہنا ہے اگر ہے تو میں تیار ہوں اپنی کہہ کر وہ کمرے سے ہی نکل گیا 

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

صبح سے دوپہر دوپہر سے رات ہو گئی تھی لیکن رابی کا ابھی تک کوئی سراغ نہی ملا تھاسب  لوگ پریشان تھے آخر رابی کہاں جا سکتی تھی اگر اسے کسی نے کیڈنیپ کیا بھی ہوتا تو وہ وہ لوگ تاوان کے لیے کال ضرور کرتے لیکن خیرانی کی بات یہ تھی کہ ابھی تک انہیں ایسی کوئی کال موصول نہی ہوئی تھی اور یہی سب سے تشویش ناک بات تھی 

تم لوگ کیسے ڈھونڈ رہے ہو میری بہن کو ابھی تک تم لوگ کچھ پتا نہی کر سکے اس کے بارے میں اگر میری بہن کو کچھ ہوا تو میں تم سب کو مار ڈالوں گا تم لوگوں کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں کیسے بھی کر کے اسے ڈھونڈو مجھے میری بہن چاہیے واپس سمجھ آئی وہ خلق کے بل فون کی دوسری طرف انسپکٹر پر چلایا اور پوری شدت سے موبائل صوفے پر پھینکا اور روم میں چلا گیا 

آہلہ صبح سے ہی اس کا حال دیکھ رہی تھی جو بہن کے لیے پاگل ہوۓ جا رہا تھا دعا تو آہلہ بھی کر رہی تھی کہ وہ جہاں بھی ہو سہی سلامت ہو اس کی عزت اور جان مخفوظ ہو وہ نہی چاہتی تھی کہ اس کے بھائی کا کیا اس کے سامنے آۓ

مصطفی اور نور الگ پریشان تھے اپنے جگر کے گوشے کے لیے نور کی تو حالت خراب ہو گئی تھی جس پر ڈاکٹر نے انہیں نیند کا انجیکشن لگا کر سلا دیا تھا تا کہ وہ کچھ دیر ریسٹ کر سکیں

وہ اس سے ہمدردی کے لیے اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آئی کہ اس کے زخمی ہاتھ کو دیکھ کر فٹ سے اس کے پاس آئی اور اس کا ہاتھ پکڑا 

اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچا کہ وہ پھر سے اس کا ہاتھ زبردستی تھام گئی اور اپنے ڈوپٹے کا کونہ اس کے ہاتھ پر دبا کر خون روکا 

اسے بیڈ پر بٹھا کر وہ جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس لائی اور اس کے ہاتھ کی بینڈج کرنی شروع کی اس نے بھی مزاحمت بند کر دی وہ اس کی بینڈج کر رہی تھی کہ اس نے اسے مخاطب کیا

تم نے مجھے بدعا دی تھی نہ 

پتا نہی تم نے دی ہو گی تبھی تو آج میری بہن میری پہنچ سے دور ہے اور دیکھو میں اسے ڈھونڈ بھی نہی پارہا اس نے اپنی سرخ نیلی آنکھوں سے اپنے ہاتھ کو دیکھتے کہا

ایسا کچھ نہی ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو انشاءاللہ وہ جلد ہمارے ساتھ ہو گی اسے کچھ بھی نہی ہو گا تم ہمت رکھو اگر تم اس طرح کرو گے تو انکل آنٹی کو کون سنمبھالے گا 

تم جاؤ ابھی کمرے سے مجھے اکیلے رہنا ہے کچھ وقت وہ بھی اس کی اندرونی حالت کو سمجھتی چلی گئی

اسی لڑکے نے اس ٹیپ اس کے منہ سے ہٹائی تو وہ گہرے گہرے سانس لینے لگی جب اس کا سانس اپنی رفتار سے چلنے لگا تو اس نے گھور کر اس لڑکے کو دیکھا جو اب کھانے کی ٹرے اس کے سامنے رکھ رہا تھا 

بڑی جلدی نہی خیال آ گیا تمہیں کہ اغواشدہ کو کھانا بھی دیا جاتا ہے اس نے طنز کیا

سر جی نے کہا تھا کہ ابھی تمہارے اندر بڑی طاقت ہے اسی لیے تمہیں کھانا شام کو ہی دیا جاۓ 

مجھ میں ابھی بھی بہت طاقت ہے اس لیے پھر یہ کھانا تم ابھی بھی لے جاؤ اس نے ایک بار پھر طنز کیا

تمہارا یہ سر جی چاہتا کیا ہے مجھے رہا کیوں نہی کر رہا اس نے جھنجلا کر پوچھا 

کھانا کھا لو اس کے بعد سر جی تم سے ملاقات کریں گے مجھے نہی کھانا کھانا بس تم اپنے سر جی کو بولو کہ مجھے رہا کرے یہاں سے اس نے ضد کی

اس کی ضد پر وہ لڑکا باہر چلا گیا  

وہ سر نیچے کیے اپنے بھائی اور باپ کے یہاں پہنچنے کی دعا کر رہی تھی کہ اس کے پاس سے ایک آواز ابھری اس آواز کو تو وہ لاکھوں کڑوروں میں پہچان سکتی تھی اس نے سر اٹھایا اور سامنے اپنی سوچ کے سچ ہونے پر اسے یقین ہی نہ آیا وہ بھلا اسے کیوں کیڈنیپ کرے گا اسے اس سے کیا فائدہ سب سے بڑھ کر اس کا بھروسہ ٹوٹا تھا جس سے وہ محبت کرتی تھی اسی شخص نے اسے کیڈنیپ کیا تھا اسے اپنی محبت سے ہی گھن آنے لگی 

مجھے ایسے کیا ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی اب دیکھ لیا سر جی کو تو کھانا کھاؤ اسنے اسکی آنکھوں میں اپنے لیے بے یقینی دیکھ کر سرد آواز میں کہا

نہی کھانا مجھے کھانا مجھے بس اپنے گھر جانا ہے اس نے چلا کر کہا لیکن اس کی آواز بھر آئی تھی

اسے سامنے دیکھ کر اس کا کل رات لیلی کے ساتھ ہونا لیلی کی بات کا سچ ثابت ہونا اوت اب یہ انکشاف اس سب سے اس کی آواز ناچاہتے ہوۓ بھی بھر آئی

چپ بلکل چپ مجھے اونچی آواز اپنے سامنے سننا قطعی پسند نہی ہے اور زیادہ نخرے مت کرو چپ کر کے کھانا کھاؤ اس کے بعد میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں 

تم نے مجھے کیڈنیپ کیوں کیا میں تو تمہارے کہنے پر تمہارے رستے سے ہٹ گئی تھی پھر یہ کرنے کا مقصد 

یہ بتانا میں ضروری نہی سمجھتا اور نہ ہی جاننا تمہارے لیے ضروری ہے 

کیوں ضروری نہی ہے میرے لیے یہ بات میری زات سے جڑی ہے ایک رات پوری میں یہاں تمہاری قید میں رہی ہوں پھر میرے لیے یہ جاننا کیسے ضروری نہی ہے 

زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہی ہے اگر گھر چلنا ہے تو چلو نہی چلنا تو بھی تمہاری مرضی ہے 

اس کی بات پر اس نے ضبط سے اپنے انسو پئیے اور کرسی کی طرف دیکھا اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ اور پاؤں کھولے اور کمرے سے باہر نکل گیا وہ بھی صبر کے گھونٹ پیتی اس کے پیچھے کمرے سے نکل گئی

گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں تھی گاڑی میں بلکل خاموشی تھی رابی نے اس دوران ایک نظر بھی اسے نہی دیکھا تھا گھر کے باہر گاڑی روک کر اس نے اسے اندر جانے کو کہا تھا اور خود بھی اس کے پیچھے گھر میں داخل ہوا تھا

آہلہ مصطفی اور عاجل لاؤنج میں پریشان بیٹھے تھے  ابھی ڈی آئی جی کی کال انہیں آئی تھی اور انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا ایک آفیسر ان کی بیٹی کو گھر لے کر آرہا ہے تبھی وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے 

لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اس نے بابا بھائی پکارا اور بھاگ کر ان کے گلے لگ گئی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا عاجل نے اسے علیحدہ کیا 

شش چپ کچھ نہی ہوا اس نے اس کے آنسو صاف کرتے کہا

اس کے پیچھے ایک لڑکے کو کھڑا دیکھ کر جو یقیناً وہی آفیسر تھا مصطفی صاحب نے آہلہ کو رابی کو اندر لے جانے کا کہا اور خود اس آفیسر کو لے کر ڈرائینگ روم میں داخل ہوۓ

بہت بہت شکریہ بیٹا تمہارا 

انکل اس میں شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض تھا 

ڈی آئی صاحب نے کہا تھا کہ رابی کیڈنیپ نہی ہوئی تھی اور اس سب کے بارے میں آپ ہمیں تفصیل سے بتائیں گے 

جی انکل پھر اس نے انہیں بتانا شروع کیا

انکل میں ایک آفیسر ہوں لیکن کسی کیس کے لیے مجھے اپنا بھیس بدل کر رابیل جی کی یونی جانا پڑا وہیں ہماری ایک دو دفع ملاقات ہوئی وہاں میں ایک غنڈہ بنا ہوا تھا ان کی یونی میں وزیر پنجاب کہ بیٹی لیلی سے جھگڑا یوا تھا اسی کا بدلہ لینے کے لیے اس نے کچھ لوگ ہائیر کیے تھے رابیل کو کیڈنیپ کرنے کے لیے جب مجھے معلوم ہوا تو 

وہ لیلی کے ساتھ اس کی دوستوں سے بیزاری سے مل ریا تھا کہ اہنے اوپر کسی کی نظروں کو محسوس کر کے اس نے اپنے اردگرد دیکھا تو کوئی نہی تھا وہ لیلی سے ایسکیوز کر کے قدرے کونے والی ٹیبل پر آگیا 

لیلی بھی اتفاق سے اسی ٹیبل پر گئی اور کسی کو فون پر ہدایت دینے لگی وہ کسی لڑکی کو کیڈنیپ کروانے کا کہہ رہی تھی یہ سن کر اسے لیلی سے بھی شدید نفرت ہوئی یعنی جیسا باپ ویسی بیٹی چونکا تو وہ تب جب خود کلامی کرتے اس نے رابیل کا نام لیا اس کا دماغ فوراً الرٹ ہوا وہ جلدی سے پارکنگ میں آیا لیکن تب تک وہ جا چکی تھی اس نے اپنے ساتھیوں کو کال کی اور یہاں پہنچنے کا کہا خود بھی وہ اس کے پیچھے گیا 

لیکن اس کے جانے سے پہلے ہی وہ لوگ اسے بے ہوش کر چکے تھے اتنے میں اس کی ٹیم بھی پہنچ چکی تھی اس نے اور اس کی ٹیم نے ان دو غنڈوں کو ہراست میں لے لیا 

اس نے آگے بڑھ کر اسکے بےہوش وجود کو اپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنی ٹیم کو ہدایت دیتا وہاں سے چلا گیا

اسے لے کر وہ اپنے گھر آیا اور اس کی نگرانی کے لیے اپنے گھر میں کام کرنے والے بھروسہ مند ملازم جو کہ اٹھارہ سال کا لڑکا تھا اسے اس کے پاس چھوڑ کر وہ  دوبارہ پارٹی میں شامل یوا کیونکہ اسے ابھی اپنا مشن پورا کرنا تھا 

اس پارٹی میں وزیر ہاشم آج بیرونی ڈیلرز کے ساتھ ڈرگ کی ڈیلنگ کرنے والے تھے اسے انہیں پکڑنا تھا اس سب انفارمیشن کے لیے اسے لیلی کی ضرورت تھی اور رابیل کچھ اور سمجھ بیٹھی 

جب انہوں نے دیکھا کہ سب مصروف ہیں تو رانا ہاشم اپنے مہمانوں کو لے کر گھر کے اندر چلا گیا جہاں آج کی ڈیلنگ ہونی تھی 

انہیں اندر جاتا دیکھ کر اس نے اپنی ٹیم کو حملے کا سائن دیا تو اس کی ٹیم نے اس کے حکم کی پیروی کرتے ان کو گھیر لیا اور رانا ہاشم کو ثبوتوں کے ساتھ ہراست میں لے لیا گیا

وہ اسے صبح ہی بھیج دیتا لیکن اسے ناجانے کیا سوجھی کہ وہ اسے کیمرے سے دیکھتا رہا جیسے وہ اس لڑکے سے فرینکلی بات کر رہی تھی یہ لڑکی اس کی سمجھ سے باہر تھی کبھی اس کے لیے جنونی ہوتی کبھی اس کے لیے پیچھے ہٹ جانے والی اور کبھی سیریس سٹویشن میں لاابالی سی اس سب میں وہ اپنے لیے اسکا جنونی ہونا گول کر گیا تھا اب وہ انہیں کیا بتاتا کہ ان کی بیٹی اس کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہے

بیٹا میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں اگر تم وقت پر نہی پہنچتے تو نجانے وہ لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے 

انکل آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں اور پھر یہ میرا فرض تھا چلیں اب میں چلتا ہوں اجازت دیں وہ ان سے اجازت لے کر عاجل سے ہاتھ ملا کر چلا گیا

عاجل کو کچھ مسنگ لگ رہا تھا اس کی باتوں میں کچھ تو تھا جو وہ چھپا رہا تھا 

وہ  کافی دیر اس کے گلے لگ کر روتی رہی آہلہ بار بار اسے چپ کروا کر حوصلہ دے رہی اسے تو یہی تھا کہ وہ شائد اس حادثے کی وجہ سے ڈر گئی اب اصل وجہ تو وہ نہی جانتی تھی کہ وہ اس حادثے پر نہی بلکہ اپنا اعتماد ٹوٹنے پر رو رہی ہے 

چپ کر جاؤ رابی کچھ بھی نہی ہوا دیکھو تم اپنے گھر ہو اور سب سے بڑی بات تم محفوظ ہو اس نے بھی اس پر ترس کھا کر رونے کا شغل ختم کر دیا 

آپ کون ہیں جب اپنے غم سے فرصت ملی تو اس نے پوچھا 

اس پر آہلہ سوچ میں پڑ گئی کہ اب وہ اسے کیا بتاۓ کہ اس کا کیا تعلق ہے  پھر کچھ سوچ کر اس نے مسکرا کر کہا

تمہاری بھابی 

کیییییا

اس کی چیخ پر عاجل اور مصطفی صاحب فوراً سے کمرے کی طرف بھاگے دور ہونے کی وہ سے انہیں کیا تو نہ سنائی دیا لیکن اس کی چیخ پر وہ لوگ پریشانی سے کمرے میں داخل ہوۓ

کیا ہوا رابی عاجل نے پھولے سانس سے اس سے پوچھا تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے کی وجہ سے اس کا سانس پھولا ہوا تھا

رابی نے اسے دھکا دے کر علیحدہ کیا اور رونے لگی 

ہے کیا ہوا وہ اس کا دھکا دینا نظر انداز کر کے نرم لہجے میں اس سے پوچھا

آپ آپ نے شادی کر لی اور مجھے بتایا بھی نہی آپ تو کہتے تھے آپ میری پسند کی لڑکی سے شای کریں گے اور اب آپ نے مجھ سے پوچھنا تو دور بتانا بھی گنوارا نہ کیا

لک ایٹ می رابی رونا بند کرو میں تمہیں سب بتاتا ہوں اسے لیے وہ کمرے سے نکل گیا کیونکہ جب تک وہ اسے بتا نا دیتا اس نے روتے رہنا تھا 

اس کے پیچھے ہی مصطفی صاحب بھی چلے گئے وہ جانتے تھے کہ وہ ہر کسی سے تو جھوٹ بول سکتا ہے لیکن رابی سے نہی 

اب بتائیں مجھے اس سے علیحدہ ہو کر اس نے گھوری سے نواز کر اسے پوچھا اس نے اسے سب بتا دیا 

بھائییییییی وہ شاکڈ ہوئی

بھائی آپ نے ایک تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے اس کے ساتھ اتنا کچھ کر دیا 

ایک نہی دو تھپڑ اور تم کیا چاہتی ہو کہ میں اپنا بدلہ ادھورا چھوڑ دیتا نہ کبھی نہی اس نے عاجل گیلانی کو تھپڑ مارنے کی جرات کی تھی تو کچھ تو خمیازہ اس نے بھگتنا تھا 

لیکن بھائی وہ کتنی معصوم سی ہے ہو سکتا ہے اس نے تھپڑ لا شعوری طور پر مار دیا ہو اس نے اس کا دفاع کیا وہ خود ایک لڑکی تھی اور اس کے عمل کو سمجھتی تھی 

دیکھو رابی میں نے تمہیں سب سچ بتا دیا ہے تو اس کا مطکب یہ ہر گز نہی ہے کہ تم میرے معملات میں انٹر فئیر کرو اور یاد رکھو تم میری بہن ہو اس کی نہی اسنے سختی سے ٹوکا 

بھائی میں کسی کی سائڈ نہی لے رہی بس میں یہ کہنا چاہتی ہوں جب آپ لوگوں کا نکاح فیک ہے تو پھر اس کو اپنے گھر بھیج دیں 

میں اسے خود کوئی خوشی سے نہی لایا موم اور ڈیڈ لاۓ ہیں اور ساجد انکل بھی اسے گھر رکھنے کے لیے راضی نہی ہیں

اوہ ویسے بھائی اب اس کے ساتھ کچھ اور زیادتی مت کیجیے گا اتنا بدلہ کافی ہے اس نے ایک دفع پھر اپنے سر پھرے بھائی کو سمجھانے کی  ادنی سی کوشش کی جو کہ صرف کوشش ہی ثابت ہوئی اس پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا

ناؤ انف رابی یو آر کراسنگ یور لمٹس بہتر ہے کہ تم اس معملے سے دور رہو اور اب جاؤ ریسٹ کرو 

اسے سختی سے کہہ کر اس نے اسے کمرے سے جانے کو کہا اور خود بھی بیڈ پر جوتوں سمیت لیٹ گیا کیونکہ وہ کافی تھک چکا تھا

وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اسے وہی لڑکی دکھی 

ایسکیوزمی آپ کا نیم کیا ہے اور ماما کدھر ہیں میں جب سے آئی ہوں وہ مجھے دکھی نہی 

جی ان کی طبعیت خراب ہو گئی تھی تو ڈاکٹر نے انہیں انجیکشن لگا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ نیند میں ہیں اور میرا نام آہلہ ہے 

نائس ٹو میٹ یو اور برو کی طرف سے سوری وہ تھوڑے سے ضدی ہیں 

اس کی بات سے اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اسے سچ بتا چکا ہے وہ سر جھٹک کر تلخی سے مسکرا کر کمرے میں چلی گئی اس سے زیادہ کون جانسکتا تھا کہ وہ بلا کا ضدی شخص ہے اور اسی ضد میں اس نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا

تمہاری آلی سے بات ہوئی تھی اس کے بعد 

نہی تبھی لاسٹ ٹائم ہوئی تھی جب کانفرس کال پہ اس نے بتایا تھا کہ وہ اپنے کسی ریلٹو کے پاس جا رہی ہے 

ہمم یار تم ہی آجاؤ میں یہاں اکیلی بور ہو جاتی ہوں بور کیوں ہو جاتی ہو فارغ ٹائم اپنے ان کو کال کر لیا کرو صوفیہ نے شرارت سے کہا

ہوں اس سڑو سے بات کرنے کا مطلب اچھے خاصے موڈ کا ستیا ناس کرنا ہے

کیوں اس کی کمپنی تو اچھی ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ رہتے ہوۓ تو بندہ بور ہی نہی ہوتا اس نے تعجب سے کہا

یار اس کی ہر بات کوجی لفظ پہ ختم ہوتی ہے اب تم بتاؤ میں کوجی ہوں کیا 

ہاہاہاہا تو یار وہ تمہیں تنگ کرنے کے لیے کہتا ہو گا نہ ہنس لو تم بھی دیکھنا جب میں دیورانی بن کر آؤں گی نہ گن گن کر تم سے بدلے لیا کروں گی اس نے اسے دھمکایا 

تو میں بھی تمہارے سارے بدلوں کا حساب برابر کر دیا کروں گی اور یہ مت بھولو کہ میں عہدے میں تم سے بڑی ہوں گی تو زیادہ رعب جمایا کروں گی تم پر

رعب بعد میں جما لینا آلی کا میسج آیا ہے مجھے میں اسے بھی ایڈ کرنے لگی ہوں ہاں کرو اس کو اس کی خبر تو لیں زرا یہ تو ہمیں بھول ہی گئی ہے

بھولی نہی ہوں تم لوگوں کو تم لوگوں کو میں بھول سکتی ہوں بھلا 

تم تو بات ہی مت کرو تم تو جیسے پکا وہاں رہنے چلی گئی ہو فاریہ نے منہ بسورا

سوری یار یہاں کچھ نیٹ ایشو بھی ہوتا ہے اور دوسرا آنٹی کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے اس لیے ٹائم نہی ملتا تم لوگوں سے بات کرنے کا اس نے بہانا بنایا اسے اچھا نہی لگ رہا تھا یوں ان سے جھوٹ بولنا لیکن شکیلہ خالہ  نے اسے منع کیا تھا وہ بڑی تھیں کچھ سوچ کر ہی انہوں نے ایسا کرنے کو کہا ہو گا اسی لیے وہ انہیں بھی نہی بتا رہی تھی 

چلو اللہ ان کو شفا دے آمین اور تم جلدی سے جلدی واپس آؤ تاکہ میری بوریت تو ختم ہو نہ تم  آ رہی ہو اور نہ یہ چڑیل 

تم کیوں نہی جا رہی آہلہ نے صوفیہ سے پوچھا

یار میں سوچ رہی ہوں کہ میں اب یہ جاب چھوڑ دوں اور گھر کو طلحہ کو ٹائم دیا کروں 

کییییا یہ ظلم مت کرنا یار تم کونسا سارا دن سکول رہتی ہو جو پیچھے سے تمہارے میاں جی بور ہوتے ہوں گے  

فاری وہ ٹھیک کہہ رہی ہے اب وہ شادی شدہ ہے شادی کے بعد سو زمہ داریاں ہوتی ہیں اور صوفی تمہیں جو ٹھیک لگے تم وہی کرنا

ٹھینکس سویٹی اور فاری تم بھی سیڈ مت ہو انشاءاللہ کچھ عرصے تک تم میرے پاس ہی ہو گی 

انشاءاللہ آمین آہلہ نے شرارت سے کہا 

اچھا یار میں فون رکھتی ہوں اس نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے عاجل کو دیکھ کر جلدی سے باۓ بول کر فون رکھا

میرے کمرے کی ساری وارڈ روب ٹھیک کرو جا کر اس نے رعب سے کہا جیسے وہ سچ میں اس کی بیوی ہو اور اس کے کہنے پر فوراً سے پہلے اس کے حکم بر لاۓ گی

وارڈ روب تمہاری ہے تو میں کیوں کروں گھر میں اتنے ملازم ہیں کسی سے بھی کروا لو اسے بول کر وہ اپنے لیے ڈریس نکالنے لگی 

اس کے ہاتھ سے ڈریس لے کر اس نے پھینکا  اس کا بازو پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کر کے اس کے منہ پر پھنکارہ 

تم مجھے انکار کر رہی ہو کل تو بڑا کہہ رہی تھی کہ تم بیوی ہو میری اور وہ کمرہ بھی تمہارا ہے تو پھر شوہر کے کام کرنے میں کیا قباحت ہے 

اور تم بھی شائد بھول گئے ہو کہ تم نے کہا تھا کہ کونسی بیوی اور مجھے دھکے دے کر تم نے کمرے سے نکالا تھا اس نے بغیر خوف کے کہا 

کیونکہ تم ڈیزرو ہی وہی کرتی تھی 

تو تم بھی یہی ڈیزرو کرتے ہو 

یو کیا یو چلو نکلو کمرے سے سماور آئیندہ مجھے اپنا کوئی کام کرنے کو مت کہنا کیونکہ میں نوکر نہی ہوں تمہاری

دیکھ لوں گا میں تمہیں اس نے انگلی اٹھا کر کہا

دیکھ لینا لیکن بعد میں ابھی اس کمرے سے نکلو 

اس نے اسے دروازے کا رستہ دکھایا تو وہ غصے سے کمرے سے چلا آیا کمرے میں آکر وہ چکر پر چکر لگا کر اس سے اس کی بدزبانی کا بدلہ لینے کا سوچنے لگا پھر چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے وہ نور کے کمرے میں گیا

موم اس نے انہیں پکارا وہ جو رابی کے پاس بیٹھی اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھیں مسکرا کر انہوں نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا

موم میری وارڈ روب ساری خراب ہے اور اپ کو پتا ہے کہ مجھے بے ترتیب چیزوں سے الجھن ہوتی ہے اس لیے اپ پہلی فرصت میں وہ سہی کروائیں

تو بھائی آپ نوراں کو بولیں وہ کر دے گی  

نوراں کیوں جس سے چھپ کر شادی کی ہے اسے بولو وہ کرے اب کیا وہ تمہارے کام بھی نہی کر سکتی انہوں نے نخوت سے کہا

موم پہلے بھی تو نوراں ہی کرتی تھی تو اب بھی وہی کر دے گی اس نے ماں کے لہجے کو دیکھ کر کہا اب حقیقت سے وہ واقف تھی 

پہلے کی بات اور تھی میں بھی تو تمہارے ڈیڈ کے سارے کام خود ہی کرتی ہوں حالانکہ مجھے آفس اور این جی او کو بھی دیکھنا ہوتا ہے 

موم میں جا رہا ہوں کمرے میں اب اپ کسی کو بھی بولیں لیکن مجھے آدھے گھنٹے میں میری وارڈ روب درست حالت میں چاہیے 

نوراں انہوں نے نوراں کو پکارا 

جی میم جاؤ آہلہ میم کو بولو کہ میں بلا رہی ہوں

جی میم

میم وہ آپکو میم نور بلا رہی ہیں اپنے کمرے میں

مجھے اس نے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا

جی میم ٹھیک ہے تم چلو میں آتی ہوں

وہ حیران ہوئی بھلا وہ اسے کیوں بلا رہی تھیں ان کے پہلے دن کے رویے سے اسے یہ تو پتا چل گیا تھا کہ وہ اسے پسند نہی کرتیں 

جی آپ نے بلایا تھا ہاں بیٹھو جاؤ رابی تم اپنے کمرے میں اوکے موم 

تم عاجل کی بیوی ہو نکاح جیسے بھی ہوا ہو لیکن اس کے سارے کاموں کی زمہ داری تم ہر ہے جو تم نے کرنے ہیں ہمارے گھر میں یہ اصول نہی کہ بیوی کہ ہوتے شوہر کے کام ملازمہ کرے اب وہ سمجھ گئی کہ کیوں اسے بلایا گیا اور اس کے پیچھے اصل میں ہے کون 

اور تم فکر مت کرو یہ زمہ داری بہت تھوڑے عرصے کے لیے تم پر ہے اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا

کیوں کیا عاجل نے تمہیں نہی بتایا کہ وہ دوسری شادی کرے گا وہ بھی میری پسند کی ہوئی لڑکی سے 

وہ دو کرے یا چار مجھے اس سے فرق نہی پڑتا میری طرف سے آج ہی کسی سے کر لے میں کوئی اس پر مڑی نہی ھا رہی اس نے نارنل انداز میں کہا اس کے نارمل انداز پر انہیں حیرت ہوئی جتنی بھی لڑائی جھگڑا ہو لیکن ایک بیوی اپنی سوتن کی بات برداشت نہی کرتی اور یہ تو خود اپنے منہ سے کہہ رہی تھی کہ وہ کر لے 

عاجل جو اتنی دیر سے اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا جب زیادہ انتظار نہ ہوا تو وہ نور کے کمرے کی طرف آیا لیکن اندر کی آواز پر باہر رک گیا اور اس کے خیالات جان کر اس نے اپنی مٹھی بند کی وہ حسن کا شاہکار اپبی توہین کیسے برداشت کرتا جبکہ وہ اپنی وجاہت سے باخوبی واقف تھا ایک جہاں کی لڑکیاں اس کی خوبصورتی پر فدا تھیں اس کء لک پر مرتی تھیں اور یہ ایک سانولی سی لڑکی کہہ رہی تھی کہ وہ اس پر مڑتی نہی

اس کے کمرے سے نکلنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے نکل گیا 

جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے اسے دروازے سے پن کیا 

کیا سمجتی ہو تم کہ تم بہت خوبصورت ہو کبھی اپنی شکل دیکھی بھی ہے تم نے شیشے میں چلو اگر نہی دیکھی تو آج دیکھ لو اسے لے کر وہ شیشے کے سامنے آیا 

دیکھو خود کو اور مجھے اور بتاؤ تم کیوں نہی مرتی مجھ پر وہ اس کے پیچھے کھڑا اس کے کان میں دھاڑا

کیونکہ تم صورت میں تو وجاہت کے شاہکار ہو لیکن دل کے کالے ہو اور میں صورت پر نہی سیرت پر مڑتی ہوں اس نے اس کا رخ اپنی طرف کیا لیکن اس کے دونوں بازو اس کی آہنی گرفت میں تھے 

اچھا اسی لیے تم اپنے اس سو کالڈ عاشق پر مر مٹی تھی جس نے ایک لمحہ بھی تم پر بھروسہ نہ کیا  

میں مانتی ہوں کہ اس نے مجھ پر بھروسہ نہی کیا لیکن وہ تم سے لاکھ گنا اچھا ہے اس نے آج تک کسی کی عزت کو اچھالا نہی ہے ناہی تمہاری طرح وہ بدتمیز ہے اگر تم بیچ میں نہ آتے تو میرا انتخاب وہی ہوتا نہ کہ تم جیسا گمنڈی بدتمیز اس نے بھی تڑح کر جواب دیا

خود پر کسی اور  کو فوقیت دینے پر اس کی آنکھیں لہو چھلکانے لگیں

میرا یہ تم سے وعدہ ہے تم کسی بھی شخص کو اپنی زندگی میں شامل نہی کر سکو گی اور نہ میں شامل ہونے دوں گا یہ مجھ پر کسی اور کو فوقیت دینے کی سزا ہو گی لہو رنگ آتش فشاں آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈال کر اس کے کان میں غرایا 

اب کیا بت بنے رہنے کا ارادہ ہے  چلو وارڈ روب سیٹ کرو نہی نہی بلکہ رک جاؤ تمہاری اتنی اوقات نہی ہے کہ تم عاجل کی چیزوں کو چھوؤ بھی اسے بت بنے دیکھ کر اس نے اسے کہا اور ساتھ ہی اپنی بات کی نفی کر کے اسکی تزلیل کر گیا  اور زور زور سے نوراں کو آوازیں دینے لگا 

اس کی پکار ہر نوراں ہانپتی کانپتی پہنچی 

میری وارڈ روب سیٹ کرو اور پندرہ منٹ ہیں تمہارے پاس اسے حکم دے کر وہ کمرے سے چلا گیا تو نوراں بھی جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی جانتی تھی پندرہ منٹ کا مطلب پندرہ منٹ ہیں

❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھی ہیڈ فونز لگاۓ کوک پی رہی تھی یہ محض خو کو دلاسادینے والی بات تھی ورنہ اس کا گوشہ گوشہ اس کی طرف متوجہ تھا جس نے اس کے اعتبار اس کے بھرم کو توڑ دیا تھا 

دوسری طرف بیٹھا فرہاد اس کے نظر اندازکرنے پر اندر ہی اندر گھل رہا تھا اس کا مشن ابھی مکمل طور پر کمپلیٹ نہی ہوا تھا ابھی رانا ہاشم کا ایک ساتھی اس یونی کا ہی ایک فرد تھا رانا ہاشم سے پوچھ گچھ میں انہیں یہ معلوم تو پڑ گیا تھا کہ وہ اسی یونی کا ہے لیکن کون یہ خود رانا ہاشم بھی نہی جانتا تھا ورنہ جتنی دھلائی وہ لوگ کر چکے تھے انہیں یقین تھا کہ اگر انہیں پتا ہوتا تو وہ طوطے کی طرح فر فر اس آدمی کے بارے میں بتاتا

اسے اس کا یو بے نیاز بیٹھنا اچھا نہی لگ رہا تھا جب جانتا تھا کہ یہ غلط فہمی بھی اسی کی پیدا کی ہے وہ نہی چاہتا تھا  کہ وہ پھر سے اس کی طرف راغب ہو اور خود کو ان لوگوں کی نظروں میں لاۓ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ ان دونوں کے لیے مشکل پیدا کر سکتا تھا 

وہ کوک پی رہی تھی اور وقفے وقفے سے اس کی  نظروں میں لاۓ بغیر اسے بھی دیکھ رہی تھی اس کا دل اس کی طرف سے بدگمنان تھا لیکن وہ دل کو بھی نہی روک سکتی تھی اس لیے مجبور ہو کر وہ کبھی کبھی اسے دیکھ کر اپنے دل کی پیاس بجھا رہی تھی کہ اسی اثناء میں کسی نے اس کی ٹیبل پر ناک کر کے اسے متوجہ کیا

اس نے دیکھا تو ایک  سادہ سی لڑکی چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہی تھی اس کے دیکھنے پر لڑکی نے اپنے ناک کی وجہ پیش کی 

کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں شیور میرا نام عنایہ ہے نائس نیم اس نے مسکرا کر کہا اپکا رابی آئی مین رابیل رابی نک نیم ہے میرا بہت پیارا نیم ہے آپکا 

تھوری بات چیت کے بعد ان کی اچھی دوستی ہو چکی تھی اور نمبر کا تبادلہ بھی اسے عنایہ اچھی لگی تھی سادہ سی عنایہ کا لیکچر تھا اس لیے وہ وہاں سے چلی گئی 

وہ اپنی کار کا دروازہ کھول رہی تھی کہ دفعتاً اس کی نظر عنایہ پر پڑی جو پارکنگ میں شائد کسی کا ویٹ کر رہی تھی اسے اکیلے دیکھ کر وہ دروازہ بند کر کے اس کی طرف چلی آئی

تم یہاں اکیلی کھڑی کیا کر رہی ہو کسی کا ویٹ کر رہی ہو کیا 

ہاں بھائی کا ویٹ کر رہی ہوں پتا نہی آیا کیوں نہی اب تک پہلے تو آجاتا ہے ٹائم پر س نے پریشانی سے کہا

ایک کام کرو تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں تمہارے گھر ڈراپ کر دیتی ہوں اسنے آفر کی 

آپ کا شکریہ لیکن میں آپ کے ساتھ نہی جا سکتی ایکچلی میرے گھر والے اچھا نہی سمجھتے اس چیز کو اس نے شکریہ کے ساتھ اسے ٹالا اور وجہ بتائی

اوہ اس نے ہونٹوں کو گول کیا

چلو جب تک تمہارا بھائی نہی آجاتا میں تمہارے ساتھ یہی کھڑی ہو جاتی ہوں 

نہی آپ چلی جائیں خوامخواہ میری وجہ سے آپکو زحمت ہو گی زحمت کیسی دوست ہو اب تم میری اور دوستی میں زحمت نہی ہوتی 

ہے یو اس نے پاس سے گزرنے والے لڑکے کو اس نے آواز دی جس نے جان بوجھ کر اس کے کندھے سے اپنا کندھا ٹکڑایا تھا

جی میں اس لڑکے نے انجان بن کر کہا

ہاں تم وہ اس کے مقابل آ گئی اور رکھ کر ایک تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا وہ لڑکا اور آنے جانے والے سٹوڈنٹس رک کر حیرانگی سے اب ان لوگوں کو دیکھنے لگے 

وہ لڑکا اپنے گال پر ہاتھ رکھے شاک سے اسے دیکھ رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اسے تھپڑ کیوں ملا تھا یہ تو ان جیسے لفنگوں کا روز کا کام تھا جو یونی میں آکر بہانے بہانے سے لڑکیوں کو ٹچ کر کے انجواۓ کرتے تھے لیکن کسی لڑکی نے بھی آج تک ایسا ری ایکشن نہی دیا تھا اگر کسی نے دیا بھی تھا تو بس باتوں تک 

اب دفع ہو یہاں سے اور آئیندہ اگر ایسی حرکت تم نے کسی سے بھی کی تو اس تھپڑ کو یاد کر لینا نہی تو یہی تھپڑ کسی اور لڑکی سے کھانے کے لیے تیار رہنا

اس لڑکے نے ایک تھپڑ پر ہی توبہ کر لی 

تم ایسے کیوں دیکھ رہی ہو اس نے عنایہ سے پوچھا کچھ نہی اس نے کہا

چلو میرا بھائی آ گیا ہے میں چلتی ہوں اب  باۓ اس نے اپنے بھائی کو آتے دیکھ کر اس سے کہا

اوکے باۓ 

اسکے جانے کے بعد وہ بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی

دوستی کی اس سے ؟ عنایہ کے بھائی نے اس سے پوچھا  

ہاں ہو گئی دوستی اچھا ہے اب تم نے جلد سے جلد اپنا کام کرنا ہے 

تم بے فکر رہو یہ کام بھی میں جلد ہی کر دوں گی اس نے شیطانی مسکراہٹ سے کہا

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

فرہاد جو اس کا پیچھا کرتا یوا ہی پارکنگ میں آیا تھا وہ اس لڑکی کی حرکت کو دیکھ کر غصے سے مٹھیاں بھینج گیا وہ اس لڑکے کی طرف غصے سے بڑھا ہی تھا کہ اس سے پہلے ہی وہ اسے تھپڑ مار چکی تھی لیکن وہ پھر بھی اس لڑکے کو بخشنے کے موڈ میں نہی تھا اس لیے اس کے جانے کے بعد وہ اپنے ساتھی جو کہ اس کا جونئیر تھا کے ساتھ اس لڑکے کے پیچھے گیا اور اسے پیچھے سے پکڑ کر گاڑی میں ڈال کر مخصوص رگ دبا کر اسے بے ہوش کر دیا 

اس کے منہ پر کسی نے پانی پھینکا تھا کہ وہ ہوش میں آتا سٹویشن کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا آہستہ آہستہ اسے یاد آیا کہ وہ تھپڑ کھانے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا کہ کسی نے اسے کھینچا تھا اور بے ہوش کر دیا تھا اس کے بعد کا اسے کچھ یاد نہی تھا 

ابھی وہ اور دماغ پر زور دیتا کہ کسی نے اس کے اس کے بالوں کو سختی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کیا بالوں پر اتنی سخت پکڑ تھی کہ وہ لڑکا ہو کر درد سے بلبلا اٹھا اور ستم یہ کہ وہ اپنے بال چھڑوا بھی نہی سکتا تھا کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ کرسی سے بندھے ہوۓ تھے 

ک۔۔۔۔ون ہ۔۔و ت۔۔۔تم م۔۔۔ی۔۔یرے بب۔۔۔ال چھ۔۔ھو۔۔رو اس نے سر میں اٹھنے والی ٹھیسوں پر درد سے الفاظ توڑ کر پوچھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اگر ابھی اس کے بال اس شخص کی پکڑ سے نہ رہا ہوۓ تو اس کے سارے بال اس کے ہاتھ میں آجائیں گے

پہلے بتا کس کندھے سے تو نے اس لڑکی کے کندھے کو چھوا تھا اس شخص نے اس کی بات کو نظر اناز کر کے اپنا سوال داغا 

اس سوال پر اسنے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس شخص کو دیکھا جس کی صرف آنکھیں ہی دکھائی دے رہی تھیں وہ بھی وحشت زدہ اسے ان آنکھوں میں اتنا سرد پن نظر آیا کہ اسے لگا کہ وہ ابھی فریز ہو جاۓ گا 

کو۔۔۔ون سی ل۔۔۔۔لڑکی می۔۔۔ین ن۔۔نہ۔۔ی جا۔۔۔نتا ک۔۔سی ل۔۔ڑ۔کی کو 

اس شخص کی پکڑ اب اس کے بالوں پر اور سخت ہوئی تھی اس نےاسے زبان سے کچھ بھی بولنے کی بجاۓ پاس پڑا چاقو اٹھایا تھا اور اس کے ایک کندھے ہر گہرا کٹ لگایا وہ پہلے ہی اس کے چاقو پکڑنے پر ہراساں ہوا تھا اب کٹ لگنے پر شدت سے رونے لگا

می۔۔۔۔میں بتاتا ہوں 

اب کیا فائدہ اور تم تو کسی لڑکی کو جانتے ہی نہی

کہتے اس نے اس کے دوسرے کندھے پر کٹ لگایا  

چچچچچ اگر تم مجھے بتا دیتے تو تمہارا ایک کندھا تو محفوظ رہتا اس نے اسے روتے دیکھ کر افسوس سے کہا

آئیندہ اس لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو آنکھیں نکال دوں گا پھر تارتے رہنا  اور صرف اسے ہی نہی آج سے باقی لڑکیاں بھی تمہاری بہنیں ہیں سمجھ گئے کہ سمجھا دوں 

سمج۔۔۔جھ گیا اس نے روتے اپنے کندھوں سے نکلتے خون کو دیکھ کر کہا

اکرم اکرم جی سر اس کی مرہم پٹی کروا دینا جی سر 

❣❣❣❣❣❣❣❣

جب سے شمع بیگم اسے ڈانٹ ڈپٹ کر گئی تھیں تب وہ کھولے دماغ کے ساتھ شہری سے بدلہ لینے کے بارے میں سوچ رہی تھی 

اس کی ہمت کیسے ہوئی سب کو بتانے کی اس نے شیشے پر پڑا سارا سامان نیچے پھینکا 

اب دیکھنا شہروز ساجد میں کیسے تمہیں اور تمہاری محبوبہ کو منہ کے بل گراتی ہوں اور تم آہلہ دیکھنا تم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہی رہو گی تم اپنامنہ چھپاتی پھرو گی  اگر تم تب درمیان میں نہ ہوتی تو آج میں اس کی بیوی ہوتی

اسنے اپنے دوست کو کال کی 

زہے نصیب آج ہمیں کیسے یاد کر لیا

بکواس بند کرو اپنی اور میری بات سنو اس کے ایساکہنے پر دوسری طرف شخص نے دانت پیسے 

بولو

تمہیں ایک لڑکی کی تصویر بھیج رہی ہوں میں اس لڑکی کو تم نے اغواہ کرنا ہے اور پھر یہ لڑکی تمہاری ہوئی تم جو اسکے ساتھ جو کرنا چاہو کر سکتے ہو 

ہمم مطلب کچھ بھی 

ہاہاہاہا کچھ بھی اس نے ہنس کر کہا وہ اسکے کچھ بھی کا مطلب سمجھ گئی تھی 

ٹھیک ہے کام ہو جاۓ گا لیکن اسکے بدلے میں مجھے کیا ملے گا اسشخص نے مکاری سے کہا

کہا تو ہے وہ لڑکی تمہاری ہوئی اس سے اپنابھی دل بہلانا  اور اپنے دوستوں کا بھی اس کے علاوہ کیا چاہیے تمہیں

اس لڑکی کے ساتھ مجھے کچھ اور بھی چاہیے اس نے مکروہ مسکراہٹ سے کہا

ہاں بولو کتنے پیسے چاہیے 

پیسے نہی تم چاہیے تمہارے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہے منظور ہے تو تمہارا کام بھی ہو جاۓ گا 

جسٹ شٹ اپ 

اوہوں ڈونٹ بی بے بی بتاؤ منظور ہے کہ نہی

اس کے علاوہ تم جتنے بھی پیسے مانگو گے تمہیں مل جائیں گے 

ٹھیک ہے پھر دس لاکھ لے کر کلب آجانا لیکن پیسے مجھے کل چاہیے تمہارا کام پیسے ملنے کے بعد ہو گا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے کل رات آٹھ بجے ویٹ کرنا میرا 

اوکے 

فون بند کر کے اس کے دوست نے شیطانی قہقہہ لگایا تھا اس شیطانی قہقہے میں کسی کی زندگی کو نوچنے کے ارادے تھے 

وہ اپنے غصے میں بول گئی تھی کہ وہ بھی تو ایک لڑکی ہے کیسے وہ ایک لڑکی ہو کر کسی دوسری لڑکی کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر سکتی ہے  

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

کیا کر رہے ہیں چھوڑیں کوئی آجاۓ گا 

کوئی نہی آتا بارہ بج رہے ہیں سب سو رہے ہیں اس لیے تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کرنے دو 

یہ آپ کونسا کام کر رہے ہیں 

بیوی کو پیار کرنا بھی تو ایک کام ہی ہے اس نے اسے اور زور سے بھینچا

اس کے بھینچنے پر وہ سانس روک گئی کرو تم بھی اپنا کام اور زرا جلدی کرنا بھوک لگ رہی ہے نہی تو میں تمہیں کھا جاؤں گا پھر نہ مجھے کہنا

آپ پیچھے ہوں گے تو میں کام کروں گی نہ 

نہ کرنا ہے تو ایسے ہی کرو نہی تو خود کو میرا کھانا بننے کے لیے تیار کر لو 

آج وہ دوسرے شہر گیا ہوا تھا لیٹ آنے کی وجہ سے اب وہ اس کے لیے کھانا گرم کر رہی تھی سالن اس نے گرم کر دیا تھا اب روٹی بنانی تھی لیکن وہ اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیے ہی اس سے روٹی بنانے کا کہہ رہا تھا

اس کی دھمکی پر وہ کرتی کیا نہ کرتی کہ متصادق اس کے حصار میں ہی روٹی بنانے لگی جو کہ ایک مشکل امر تھا اس کے لیے

اہم اہم کسی کے گلا گھنگارنے پر جہاں روٹی رکھتی صوفیہ کا ہاتھ کپکپایا تا وہیں کباب میں ہڈی بننے والے کو دیکھ کر طلحہ نے دانت پیسے اور اسے اپنے حصار سے رہائی دی صوفیہ میں تو اتنی بھی ہمت نہی تھی کہ وہ آنے والے کو دیکھ لیتی وہ شرم سے سرخ ہوتی روہانسی بنا کسی کو دیکھے کمرے میں بھاگ گئی

شرم تو نہی آتی کسی کے رومینس میں خلل ڈالتے ہوۓ طلحہ نے دانت پیس کر کہا

جب آپ کو کرتے ہوۓ نہی آئی تو مجھے کیسے آتی اس نے دانت نکالتے کہا

دانت اندر کر اپنے نہی تو توڑ دوں گا دیکھا وہ کیسے بھاگ گئی یقیناً ناراض ہو گئی ہو گی اگر ہوئی نہ تو تمہیں میں چھوڑو گا نہی 

آپ لوگوں کو بھی تو خیال رکھنا چاہیے کہ ایک عدد کنوارا لڑکا بھی اس گھر میں رہتا ہے 

تو یہ کنوارا لڑکا اپنی منگیتر سے بات کرے یوں کسی کے مومنٹس تو خراب نہ کرے اس نے گھورا

تو آپ اپنا یہ رومینس کمرے میں جھاڑتے نہ کھلے عام کرنے کی کیا ضرورت تھی اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا 

اپنی زبان کو زرا قابو میں کرو 

پہلے آپ رومینس کرنے کے لیے مجھے بھی میری بیوی لا کر دیں میرا بھی دل کرتا ہے اس نے بے شرمی سے کہا

بہت ہی بے شرم ہو گئے ہو تم پتا نہی کس نے تمہیں فوج میں بھرتی کر لیا اس نے افسوس سے کہا

محنت کر حسد نہ کر 

حسد کرتی ہے میری جوتی 

چلیں آپ مانے تو سہی کہ آپ کی جوتی حسد کرتی ہے اس نے سانت نکالے

اب زیادہ باتیں مت بگاڑو یہ سالن اور روٹی رکھ کر دو مجھے پھر جا کر تمہاری بہن کو بھی منانا ہے 

یہ لیں جناب لیکن میری بات پر غور ضرور کیجیے گا 

کونسی بات پر

بیوی والی اس نے دانت پیسے 

ابھی بچے ہو تم ہنس کر کہا 

ہوں سب کو ہی میں بچہ دکھتا ہوں ایک میری منگیتر ہے جس سے میں ایسی کوئی بات کروں تو فوراً دھمکی پہ آجاتی ہے کیا بنے گا تیرا کیپٹین علی اس نے خود پر ہی افسوس کیا

میں نے آپ کو منع کیا تھا نہ کہا تھا نہ کہ پیچھے ہو جائیں لیکن اپ نہی ہوۓ اس نے روتے ہوۓ کہا اسے کتنی شرمندگی ہو رہی تھی  

یار سوری نہ مجھے کیا پتا تھا کہ وہ گھامڑ وہاں آجاۓ گا 

کوئی سوری وری نہی چاہیے مجھے آپکی آپ میری کوئی بات نہی مانتے میں اب ناراض ہوں آپ سے 

ٹھیک ہے پھر میں کھانا نہی کھاؤں گا 

اس نے گھور کر دیکھا وہ اب ناراضگی بھول کر فکر کرنے والی بیوی بن گئی تھی 

نہی ہوتی ناراض آپ کھانا کھا لیں

پکا ہاں پکا چلو پھر ادھر آؤ مجھے معلوم ہے تم نے بھی نہی کھانا کھایا ہو گا

اور واقعی اس نے کھانا نہی کھایا تھا اس کے بغیر

پھر دونوں نے ایک دوسرے کو کھانا کھلایا اور صوفیہ برتن رکھنے کچن چلی گئی

کہاں جا رہی ہو اسے اتنی رات کو تیار دیکھ انہوں نے پو چھا 

دوست کی برتھ ڈے ہے وہیں جا رہی ہوں اور پلیز اس وقت کچھ مت کہیے گا کیونکہ میں کچھ سننے کے موڈ میں نہی ہوں اس نے بدتمیزی سے کہا اس پر اس وقت صرف بدلہ لینے کی دھن سوار تھی 

یا اللہ میری بچی کی خفاظت کرنا دن بدن اس کی بڑھتی من مانیوں پر وہ پریشان تھیں قصور اس میں ان کا بھی تھا جو اسے سہی اور غلط میں فرق بتانے کی بجاۓ اس کا ساتھ دیتی رہیں اب اس کا انجام بھی تو کچھ ہونا تا جو کہ شائد ایک بھیانک انجام ثابت ہونے والا تھا 

آج انکا دل صبح سے ہی کسی انہونی کے ڈر سے دھڑک رہا تھا سارا دن وہ ان کی آنکھوں کے سامنے رہی تھی وہ وہ بھی کسی حد تک مطمئن تھیں لیکن اب وہ اس کے باہر جانے پر پریشان ہو گئیں تھیں اور اس کے لیے دعا کرنے لگی 

وہ پیسے لے کر کلب کی طرف بڑھ گئی یا شائد یہ کہنا بہتر ہو گا کہ اپنی بربادی کی طرف وہ کلب میں داخل ہوئی تو سب ہی اپنی من موج میں تھے کچھ لوگ شراب پی رہے تھے تو کچھ ٹھرک رہے تھے وہ پیسے لے کر کاؤنٹر کے پاس پڑے صوفے کی طرف آئی تو وہاں اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ کوئی اور بھی بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ اس کو نظر انداز کرتی بیگ رکھ کر خود بھی بیٹھ گئی

یہ رہے تمہارے پیسے گن لو پورے دس لاکھ ہیں اب تم جلدی سے میرا کام کرو اس نے عجلت سے کہا

تم فکر ہی مت کرو سمجھو تمہارا کام ہو گیا اس نے بیگ کو کھول کر پیسوں کو للچائی انداز میں دیکھتے کہا

چلو میں چلتی ہوں بس میرا کام ہو جانا چاہیے اس نے اٹھتے کہا

ارے اتنی جلدی بھی کیا ہے کچھ دیر بیٹھ تو جاؤ

نہی  دوستی کی خاطر ہی بیٹھ جاؤ وہ اسے بٹھاتے ہی مانا

جا سیفی میری دوست کے لیے ڈرنک لے کر آ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے آدمی کو اشارہ کیا تو وہ ڈرنک لینے چلا گیا اس شخص نے ڈرنک میں ایک گولی مکس کی اور شیطانی ارادوں سے واپس آیا

یہ لو پیو اور چل کرو اس نے اس کے آگے ڈرنک کیا

وہ ڈرنک کرنے کے ساتھ ساتھ ارد گرد بھی دیکھ رہی تھی تب اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا ڈرنک تو وہ پہلے بھی کرتی تھی لیکن اس میں گھولی گئی نشے کی گولی سے وہ مدہوش ہونے لگی 

جب اس پر گولی کا اثر ہونے لگا تو وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر  مسکراۓ اور اسے سہارا دے کر کلب سے باہر لاۓ اسے پیچھلی سیٹ پر لٹا کر خود وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے اور گاڑی زن سے اپنے فلیٹ کی طرف بھگا دی 

اسے لے کر وہ فلیٹ میں داخل ہوۓ 

یار لڑکی تو بڑی مست ہے ایک دم چکنی چکنی سیفی نامی آدمی نے ہوس سے اس کے بیڈ پر پڑے نشے میں مدہوش وجود کو دیکھ کر ہوس سے کہا

اسی لیے تو یہاں میرے بیڈ پر ہے اس نے ہنستے کہا

اگر تو نے اس کا ساتھ ایسا ہی کرنا تھا تو پھر پیسے مانگنے کی کیا ضرورت تھی

جب مجھے مفت میں لکشمی مل رہی تو میں کیوں منہ موڑتا اس سے اور دوسرا اس کے ساتھ وقت تو میں نے گزارنا ہی تھا آج نہی تو کل اور میری قسمت دیکھو یہ مچھلی خود ہی میرے پاس آ گئی اس نے قہقہہ لگایا

اور دوسری لڑکی جسے کیڈنیپ کرنا ہے اس کا کیا کرنا کیا واقعی تم کیڈنیپ کرو گے اسے 

ہاں کروں گا وہ بھی مست ہے آج رات اس کے ساتھ اپنی شام کو رنگین کرتے ہیں اور کل اس کے ساتھ ہماری تو موج ہی موج ہو گی اس نے اپنے شیطانی ارادے بتاۓ

یار اب مجھ سے مزید صبر نہی ہو رہا 

اوۓ رک پہلے میری باری ہے پھر تو جب تک چاہے مزے کرنا لیکن پہلے میری باری ہے 

وہ شیطانی عزائم سے بیڈ کی طرف بڑھا اور اس پر جھک گیا 

اس نے سب سے پہلے اس کو بے لباس کیا اور ہوس سے اس کے برہنہ جسم کو دیکھنے لگا اور اس پر کسی جانور کی طرح جھپٹ گیا 

وہ بے ہوش نہی تھی وہ ہوش میں تھی بس اس کا جسم کسی بھی طرح کی مزاحمت کرنے سے مفلوج تھا 

وہ جو آج کسی کو بے لباس کرنے کے پیسے دینے آئی تھی آج خود بے لباس پڑی تھی یہ کیسا مکافات تھا

وہ اپنے وجود پر اس وحشی کا درد بھرا لمس محسوس کرتی اشکبار تھی لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہی کر سکتی تھی وہ اپنی حیوانیت اس کے وجود پر اتارتے اب اس پر سے اٹھ کر اسے دیکھ رہا تھا جو بے سدھ پڑی تھی اس کے جسم پر جگہ جگہ سیگریٹ کے نشان تھے حتی کہ چہرہ بھی داغی تھا جس پر اسے غرور ہوا کرتا تھا

بے بی بہت مزہ آیا تم واقعی بہت خوبصورت ہو اب اس خوبصورتی کو خراج میرا دوست بھی پیش کرے گا اور مجھے یقین وہ تمہیں مایوس نہی کرے گا وہ اس کے کان کے پاس جھکا شیطانیت سے بولا 

وہ جی جام سے کانپ گئی اس میں اب سقت نہی تھی مزید درد برداشت کرنے کی 

دوسرے نے بھی اکر اس پر اپنی ہوس کو مٹایا تھا اور اسے یونہی برہنہ چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا درد کو برداشت کرت کرتے وہ بے ہوش ہو گئی تھی 

اب اس کا کیا کرنا ہے 

کرنا کیا ہے صبح کے اجالے سے پہلے اسے کہیں ٹھکانے لگانا ہو گا 

میرے خیال سے اسے کسی نہر یا ندی وغیرہ میں پھینک دیتے ہیں اس نے مشورہ دیا

ہمم چلو پھر ویسے بھی اجالا ہونے میں کچھ ہی وقت رہ گیا ہے 

اس کے برہنہ وجود کو بیڈ شیٹ سے ڈھانپ کر وہ اسے ٹھکانے لگانے کے لیے چل پڑے گاڑی ایک نہر کے پاس روک کر وہ اس کے بے ہوش وجود کو ہمیشہ کے لیے سلانے کے لیےنہر میں پھینکنے والے تھے کہ پولیس سائلنس کی آواز پر وہ گھبرا کر اسے وہی پھینک کر اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے تھی کہ عین وہ پولیس کی گاڑی ان کے پاس آکر رکی تو ان کے چہرے خوف سے سفید پڑ گئے

فرہاد جو اس وقت علاقے کے دوڑے پر نکلا تھا کہ دو لوگوں کو مشکوک پایا وہ ان کی طرف وین لے کر ایا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کوئی وجود ہے جسے وہ لوگ پھینکنے والے تھے اس نے جلدی سے اتر کر ان دونوں کو گردن سے دبوچا اور اپنے ساتھیوں کو یہاں پہنچنے کے لیے کہا

سر ہم بے قصور ہیں ہمیں کچھ نہی پتا پولیس کو سامنے دیکھ کر اب انہیں اپنی موت دکھائی دے رہی تھی تھوڑی دیر پہلے کا  شطاب کا نشہ اب ان کے سر سے ہوا ہو چکا تھا اب تو بس وہ اپنے بچنے کی دعائیں ہی کر رہے تھے

اچھا تو رات کے اس پہر تم لوگ یہاں فٹ بال کھیل رہے تھے اور یہ وجود بھی تم لوگوں کے ساتھ کھیل رہا تھا نہ اس نے بیڈ شیٹ میں لپٹے وجود کو دیکھ کر تیکھے چٹونوں سے ان سے پوچھا

سوری سر غلطی ہو گئی آئیندہ سے ایسا نہی ہو گا آپ جتنے پیسے چاہے لے لیں لیکن پلیز ہمیں چھوڑ دیں خود کو بچانے کے لیے وہ اسے رشوت کا لالچ دے گیا اور یہی اس کا رنگ سرخ ہوا تھا اور اس نے اس کے جبڑے پر زور سے مکہ مارا تھا کہ اسے سہی معنوں میں تارے دکھے تھے 

سالے تو مجھے رشوت دے گا دیکھ اب تیرا میں کیا حال کرتا ہوں رشیدے اسے گاڑی میں ڈال وہ کانسٹیبل کو کہتا اس وجود کی طرف بڑھا 

اس نے بیڈ شیٹ تھوڑی سی سرکائی تھی کہ صنف نازک کے برہنہ پاؤں پر نظر پڑتے ہی وہ نظریں پھیر گیا تھا اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں جیسے کسی نے اس کی آنلھوں میں مرچی ڈال دی ہو 

لیڈی کانسٹیبل کو اس کو دیکھنا کا کہتا وہ ان دونوں کی طرف بڑھا اور ان دونوں کو باہر نکالنے کا اشارہ کیا 

ان کے باہر نکلنے پر وہ اپنی بیلٹ اتارتا ان پر ٹوٹ پڑا 

اس نے انہیں اتنا ماراکہ اب ان دونوں سےاحتجاج بھی نہی ہو رہا جگہ جگہ سے خون رسنے لگا تھا 

سر ان کی نبض دھیمی چل رپی ہے ہمین انہیں فوراً ہاسپٹل لے کر جانا ہو گا لیڈی کانسٹیبل کے کہنے ہر وہ انہیں پولیس سٹیشن لے جانے کا کہتا لیڈی کانسٹیبل کو اس لڑکی کو ہاسپٹل لے کر جانے کو کہا اور خود بھی ہاسپٹل ان کے ساتھ روانہ ہوا

سر ان کی حالت بہت کریٹکل ہے ان کے  ساتھ  بہت ہی وحشیانہ سلوک کیا گیا ہے جگہ جگہ جلنے کے نشان ہیں اپ ان کے گھر والوں کو انفارم کریں جلدی سے جلدی کیونکہ ان کے زندہ رہنے کے چانسز  10 پرسنٹ ہیں اور پیشنٹ بار بار کسی آہلہ کا نام لے رہی ہیں ممکن ہو تو انہیں بھی بلا لیجیے گا 

لیڈی ڈاکٹر اس کی حالت کے بارے میں بتاتی انہیں ان کے گھر والوں کو بلانے کا کہنے لگی 

وہ اسی وقت ہاسپٹل سے پولیس سٹیشن جانے کے لیے نکلا اس کا بس نہی چل رہا تھا کہ وہ ان درندوں کو چوک میں الٹا لٹکا کر سب کے سامنے شوٹ کرے جو معصوم زندگیوں کو نوچتے پھرتے ہیں اس نے پولیس سٹیشن میں داخل ہوتے ہی رشیدے کو ڈنڈہ لانے کا کہا

رشیدے نے اسے ڈنڈہ لاکر دیا تو وہ غیض و غضب سے سلاخوں کے پیچھے گیا جہاں وہ دونوں تھے 

ان نے زور سے لاک اپ کھولا تو وہ دونوں اسے دیکھ کر کپکپا اٹھے اس نے ان پر ڈنڈے کی برسات شروع کر دی وہ اندھا دھند مار رہا تھا انہیں ان کی چیخین پوری جیل میں گونج رہی تھیں لیکن وہ بغیر ان کی چیخوں کو نوٹس لیے انہیں مارتا گیا 

اب پتا چلا درد کیا ہوتا ہے وہ معصوم بھی تمہارے آگے یونہی گرگرائی ہو گی یونہی منتیں کی ہوں گی تمہاری لیکن تم لوگ تو درندے ہو تم لوگوں پر تو کسی کی چیخ و پکار کا کچھ اثر ہی نہی ہوتا 

جانتے ہو وہ لڑکی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اگر وہ بچ بھی جاتی ہے تو دنیا والے اسے زندہ درگور کر دیں گے اسے اپنے الفاظوں سے طنزوں سے نظروں سے مار دیں گے اسنے اس کے بال پکڑ کر  غرا کر کہا

اب جلدی سے اور شرافت سے بلکل سچ سچ کا مطلب بلکل سچ ہے بتاؤ کہ کیا تم لڑکی کو جانتے ہو 

جی صاحب وہ میری دوست ہے پھر اس نے اس کا پتا لے کر اس کے گھر رابطہ کیا 

فون کی مسلسل بجتی رنگ پر شہروز نے کوفت سے اپنی انکھوں کو مسلتے موبائل پر انجان نمبر کو دیکھا تھا

کیا آپ شہروز بات کر رہے ہیں 

جی 

جی میں انسپکٹر فرہاد بات کر رہا ہوں آپکی کزن کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور وہ اس وقت زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں آپ پلیز ہاسپٹل آجائیے گا اور پیشنٹ کسی آہلہ کو بھی پکار رہی ہیں 

دوسری طرف سے اسے ہاسپٹل میں پہنچنے کا کہا گیا تھا مقابل کی بات سن کر اس کا فون ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا وہ حواس باختہ کمرے سے نکل کر ساجد صاحب کے کمرے کی طرف گیا تھا اور دھرا دھر اس نے دروازہ پیٹا تھا

کیا ہوا شہری رفعت نے سامنے بیٹے کو حواس باختہ دیکھ کر پریشانی سے پوچھا

م۔۔۔۔مام۔ما وہ مروہ وہ رونے لگا تھا 

کیامروہ شہروز بتاؤ رو کیوں رہے ہو اس کے رونے پر وہ حقیقت میں پریشان ہوتیں تیز آواز میں بولیں 

ماما مروہ ہاسپٹل میں ہے وہ زیادتی والی بات چھپا گیا تھا

کیا کب کیسے کیا ہوا مروہ کو 

کیا ہوا رفعت کون ہے دروازے پر 

بابا مروہ ہاسپٹل میں ہے جلدی چلیں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کے بچنے کے چانسز دس فیصد ہیں اور 

ماما آپ پھوپھو کو لے کر آئیں

اور کیا شہروز 

اور بابا یہ کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے کہتے ہوۓ وہ رو پڑا جبکہ ساجد صاحب بیڈ پر ڈھے گئے

کیا ہوا بھابی وہ ان کے گلے گئیں

شمع مروہ ہماری مروہ ہاسپٹل میں ہے 

یہ کی۔۔۔یا ک۔۔ہہ رہی ہیں بھا۔۔۔بی میں سچ کہہ رہی ہوں جلدی چلو 

بھابی یہ سچ نہی ہے میری بیٹی ہاسپٹل کیسے آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی شہری یہ بھابی کیا کہہ رہی ہیں شہری کو آتے دیکھ کر انہوں نے پوچھا

پھوپھو ماما ٹھیک کہہ رہی ہیں مروہ آپ کو بلا رہی ہے پلیز جلدی چلیں وہ رونا شروع ہو گئیں شہری انہیں بازؤں کے حلقے میں لیے گاڑی کی طرف بڑھا

وہ لوگ ہاسپٹل داخل ہوۓ تو فرہاد وہیں کمرے کے باہر ہی کھڑا تھا 

میں انسپکٹر فرہاد ہوں شہروز نے اس سے مصاحفہ کیا

آپکی کزن کے ساتھ دو لوگوں نے زیادتی کی ہے اور وہ دونوں مجرم بھی ہماری قید میں ہیں اور سب سے اہم بات کہ وہ آپکی کزن کے دوست ہی ہیں

نام کیا ہے ان دونوں کا اس نے سرخ آنکھوں سے پوچھا 

نام تونہی معلوم ابھی ان کا بیان ریکارڈ کرنا ہے اپ تب ہمارے ساتھ چلیے گا ابھی یہاں اپکا ہونا ضروری ہے 

شکریہ 

یہ میرا فرض تھا 

ڈاکٹر میری بیٹی کیسی ہے ڈاکٹر کے باہر نکلنے پر شمع بیگم اور رفعت ڈاکٹر کی طرف بڑھیں

آپ پیشنٹ کی کیا لگتی ہیں

میں ماں ہو اور یہ مامی 

آپ لوگوں سے میں کچھ نہی چھپاؤں گی آپ کی بیٹی کی حالت بلکل ٹھیک نہی ہے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور سارا جسم وحشیانہ سلوک کا گواہ بنا ہوا ہے ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن اپ کے پیشنٹ میں شائد اب زندگی گزارنے کی چاہ نہی ہے وہ بار بار کسی آہلہ کو بلا رہی ہیں میں آپکو کسی دھوکے میں نہی رکھوں گی لیکن ان کے بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے آپ ان کو بلا دیں جن کا پیشنٹ بار بار کہہ رہی ہیں 

ڈاکٹر جا چکی تھیں شمع بیگم اپنی جگہ سن کھڑی تھیں ڈاکٹر کیا کہہ رہی تھیں انہیں نہی معلوم تھا ان کے کان میں تو بار بار یہی الفاظ گھوم رہے تھے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ان کی پھول جیسی بچی کے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اور وہ مزے کی نیند سو رہی تھیں 

بھابی میری مروہ بھابی اس کے ساتھ کیا ہو گیا بھابی اس نے کیسے سب برداشت کیا ہو گا ان کو زرا بھی رحم نہ آیا میری بچی پر میری پھول جیسی بچی کو روندھ دیا انہوں نے وہ روتے روتے ان کے ہاتھوں سے پھسلتی زمین پر بیٹھتی رونے لگیں

ان کا اپنی بیٹی کی ازیت کو تصور کر کے ہی دل پھٹ رہا تھا اس نے تو یہ ازیت برداشت کی تھی شمع حوصلہ رکھو وہ انہیں اٹھانے لگیں

میں کیسے صبر کروں کیسے حوصلہ کروں میری بچی اندر پڑی ہے میں کیسے اس سے نظریں ملاؤں گی

 وہ ابھی بھی ہمارے لیے ہماری مروہ ہے آپ بس اس کی زندگی کی دعا کریں

تم آہلہ کو بلاؤ میرج مروہ اسے پکار رہی رہے ہاں تم اسے بلاؤ وہ ہزیانی ہوتی چلانے لگیں

تھیک ہے میں بلاتی ہوں ان کے اپنے آنسو بہہ رہے تھے 

شہروز نور خالہ کو فون کرو اور انہیں آہلہ کو لانے کا بولو مروہ بار بار پکار رہی ہے اسے

جی اچھا

تھوڑی دیر میں ہی آہلہ اور مصطفی صاحب سب ہاسپٹل میں موجود تھے 

ڈاکٹر سے پوچھ کر آہلہ کمرے میں داخل ہوئی تو مروہ کو اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل دکھا اس نے ہمیشہ اسے اپنی بڑی بہن مانا تھا آج اس حالت میں اسے دیکھ کر اس کے آنسو بہہ رہے تھے اس کے لیے جس نے اسے برباد کرنے کے لیے خود کو ہی برباد کر لیا تھا 

اسے دیکھ کر مروہ مسکرائی اور اسے پاس بلایا آہلہ بھی بنا دیر کیے اس کے پاس گئی اور اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا اس کے بوسہ دینے پر وہ شدت سے رونے لگی اسے اب اپبی غلطی کا احساس ہو رہا تھا 

آپ مت روئیں دیکھیے گا اللہ ان لوگوں کو سزا ضرور دے گا آپ کی اس ازیت کا بدلہ ضرور لے گا 

اس نے اپنے منہ سے ماسک اتارا 

اللہ نے بدلہ اس نے گہرا سانس لیا ہی تو لیا ہے پھر اس نے سانس لیا مجھے مع۔۔۔۔عاف کر دی۔۔۔ینا اس نے ہاتھ جوڑے 

آپ ایسے نہ کریں میں نے تو کب کا آپ کو معاف کر دیا 

مجھ۔۔۔جھے مع۔۔۔اف کر دی۔۔ینا می۔۔ں بہ۔۔۔ت بر۔۔بری ہو۔۔۔ں سب کو کہن۔۔۔نا کہ مج۔۔۔ھے مع۔۔اف کر دیں اس نے اکھرتی سانس سے کہا اور پھر آنکھیں موند لیں ہمیشہ کے لیے اس کے آنکھیں بے نور ہو گئیں جسم بے جان ہو گیا آہلہ کے ہاتھ میں موجود اس کا ہاتھ بے جان ہو کر بیڈ پر گرا تھا

آہلہ کی چیخ پورے ہاسپٹل میں گونجی تھی وہ ہراساں سی اس کے بے حس و حرکت جسم کو دیکھ رہی تھی جو اس کی آنکھوں کے سامنے ساکت ہوا تھا

اس کی دل دہلانے والی چیخ پر سب کمرے کی کسی انہونی کے ڈر سے دوڑے تھے 

سامنے ہی آہلہ کو وحشت سے اس کے وجود کو دیکھتے ان سب کے دل ڈر گئے تھے ڈاکٹرز کی ٹیم جلدی سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس کی نبض کو چیک کیا تھا جو بلکل ساکن تھی وہ زندگی ہار گئی تھی ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلایا تھا اور شمع کی چیخوں نے ہاسپٹل کی در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا 

میت کی حالت ایسی نہی تھی کہ اسے زیادہ دیر رکھا جاتا اس لیے فوراً ہی اس کی تدفین کر دی گئی تھی 

نور لوگ بھی وہیں تھے شمع تو سنمبھلے نہی سنمبھل رہی تھی اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کھوئی تھی صبر بھی آتا تو کیسے آتا ایک ماں کو کہنا کہ صبر کرو بہت آسان ہوتا ہے لیکن یہ صرف ایک ماں ہی جانتی ہے وہ کس کرب سے گزر رہی ہوتی ہے جس اولاد کو پیدا کرتے اس نے اتنی تکلیفیں اٹھائی ہوتی ہیں اسی کو اپنی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل کرنا کس قدر تکلیف دہ عمل ہے یہ کوئی ماں سے پوچھے 

وہ لوگ تدفین کر کے گھر واپس آۓ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ انہیں پولیس سٹیشن سے کال آئی

بابا انسپکٹر صاحب کی کال آئی تھی وہ لوگ ان کا بیان ریکارڈ کرنے لگے ہیں اور انہوں نے آہلہ کو بھی بلایا ہے 

آہلہ کو کیوں یہ کہنے والا عاجل تھا 

پتا نہی اب یہ تو وہاں جا کر ہی پتا چلے گا 

ٹھیک ہے چلو 

عاجل آہلہ کے کمرے میں داخل ہوا تھا وہ ساکن سی اپنے ہاتھ کو گھور رہی تھی 

آہلہ نے اس نے اسے پکارا لیکن اسنے کوئی رسپانس نہ دیا وہ یونہی اپنے ہاتھ کو گھورے جا رہی تھی 

آہلہ اس نے اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے پکارا تو اس نے خالی نظروں سے اسے دیکھا اس کہ روئی روئی آنکھوں میں نمی دیکھ کر اس کا دل دھڑکا تھا 

آہلہ نے لاشعوری طور ہر اسے گلے لگایا تھا اور رو پڑی تھی عاجل دم بخود سا رہ گیا تھا اسے ایک سہارے کی ضرورت تھی جو کہ اسے عاجل کی صورت ملا تھا اس کے نرم لمس پر اس کا دل کسی اور لے پر دھڑکا تھا اس کے لمس پر اس کے اندر تک سکون پیدا ہوا تھا اسکے رونے پر اس نے اس کے گرد بازو پھیلاۓ تھے اور اس کا سر تھپتھپایا تھا 

میں نے اسے جاتے دیکھا تھا اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں بے جان ہو کر گرا تھا اس نے روتے ہوۓ کہا 

ششش اس کا وقت ہی اتنا تھا وہ مجھ سے معافی مانگ رہی تھی میں میں نے تو اسے کب کا معاف کر دیا تھا میں نے سچ میں اسےمعاف کر دیا تھا وہ شدت سے رو پڑی تو عاجل نے گرفت مضبوط کی

شہروز جو اسے بلانے آیا تھا ان دونوں کو ایسے دیکھ کر اس نے آنکھوں میں آئی نمی صاف کی اور دروازہ ناک کیا 

عاجل جو اس کے لمس پر خود کے اندر سکون اترتا محسوس کر رہا تھا نے ناگواریت سے دروازے کی طرف دیکھا اورشہروز کو دیکھ کر اس نے آہلہ ہر پکڑ اور مضبوط کی تھی شہروز کو دیکھ ایک ان دیکھی انسیکیورٹی اسے ہوئی تھی 

آہلہ جو غم میں لاشعوری طور پر اس کے گلے لگ کر رو اپنا  غم ہلکا کر رہی تھی ناک کرنے پر اپنے حواس میں آتی اپنے عمل پر شرمندہ سی پیچھے ہونے لگی کہ عاجل نے اس پر گرفت مضبوط کر لی 

میں آہلہ کو بلانے آیا تھا سب جا رہے ہیں پولیس سٹیشن  اس کی ناگواریت پر اس نے آنے کی وجہ بتائی اس کی ناگواریت ہر وہ بھی اسے سنا سکتا تھا لیکن موقع ہی کچھ ایسا تھا کہ اسنے خود کو قابو کیا

ٹھیک ہے ہم آتے ہیں 

کیاسب جا رہے ہیں اس کے جانے کے بعد عاجل نے اسے آزاد کیا

نہی تو پھر مجھے کیوں بلا رہے ہیں

پتا نہی یہ تو وہاں جا کر ہی پتا چلے گا آؤ چلتے ہیں اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور کمرے سے باہر نکلنے لگی کہ عاجل نے اس کا بازو پکڑ کر باہر جانے سے روکا

کیا پہلے کوئی چادر لو پھر جانا اس نے سر ہلایا اور الماری سے چادر نکال کر اپنے اوپر اوڑھی

رکو اب کیا ہے اپنا چہرہ بھی ڈھانپو کہنے کے ساتھ اس نے آگے بڑھ کر اس کا چہرہ چادر سے ڈھانپا آہلہ کو اس کا دماغ کھسکا ہوا لگا اسے خود بھی نہی پتا تھا کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے 

اس نے آہلہ کو شہروز والی گاڑی میں بھی نہی بیٹھنے دیا تھا اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا تھا 

سارے رستے وہ یہی سوچتی آئی تھی کہ اسے نجانے کیوں بلایا گیا تھا 

وہ لوگ اس وقت کیبن میں بیٹھے ہوۓ تھے 

معزرت سر میں جانتا ہوں کہ آپکے گھر قیامت کا سا منظر ہو گا لیکن ہماری بھی مجبوری تھی ہمیں ان کا بیان ریکارڈ کرنا تھا 

لیکن اس میں آہلہ کو بلانے کی کیا ضرورت تھی 

ضرورت تھی اسی لیے ہمیں بلانا پڑا چلیے آپ لوگوں کو بھی پتا چل جاۓ گا کہ ہم نے کیوں آپکی وائف کو بلایا ہے 

اب وہ لوگ ٹارچر روم میں تھے جہاں بیان ریکارڈ کیا جانا تھا ان میں سے ایک لڑکے کو تو شہروز پہچان گیا تھا اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ابھی کہ ابھی اسے شوٹ کر دے جو دوستی کی آڑ میں ایک حیوان تھا 

وہ اسے کر بھی دیتا لیکن انسپیکٹر فرہاد نے اسے ایسا کرنے سے روکا 

رشیدے کیمرہ سیٹ کرو 

چلواب سچ سچ بتاؤ سب کچھ اس نے ان دونوں کو کہا جن کا مار کھا کھا کر برا حال تھا 

مروہ میرے دوست تھی کل رات مجھے اس کی کال آئی تو اس نے مجھے ایک تصویر بھیجی اور کہا کہ مجھے اس لڑکی کو اغواہ کرنا ہے اور پھر میں جو چاہے اس لڑکی کے ساتھ کروں اپنا اور اپنے دوستوں کا اس سے دل بہلاؤں 

وہ تصویر کس کی تھی فرہاد نے پوچھا 

اس نے آہلہ کی طرف اشارہ کیا 

اپنی طرف اشارہ پا کر وہ ڈگمگائی اس سے پہلے کہ وہ گرتی کہ عاجل نے اسے سنبھالا 

آہلہ کی طرف اس کے اشارے پر سب نے فق چہرے سے ایک دوسرے کو دیکھا انہیں یقین نہی ہو رہا تھا کہ یہ سب مروہ نے اس کے ساتھ کرنے کو کہا 

یہ جان کر کہ وہ لڑکی آہلہ ہے عاجل خون آشام نظروں سے اس کے لڑکے کی طرف بڑھا اور ایک زور دار مکہ اس کی ناک پر مارا کہ اس کے ناک سے خون بہنے لگا 

فرہاد نے آگے بڑھ کر عاجل کو اس کی پہنچ سے دور کیا تو وہ آہلہ کو گھیرے میں لیے کھڑا ہو گیا آہلہ کا وجود اس انکشاف پر زلزلوں کی زد میں تھا 

فرہاد نے اسے آگے بولنے کا کہا

پھر میں نے پیسوں کا مطالبہ کیا تو وہ مان گئی میں اس کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا اس لیے میں نے اسے پیسے لے کر کلب میں آنے کو کہا میں وہاں اپنے دوست کے ساتھ تھا جب وہ پیسے لے کر آئی سیفی نے میرے کہنے پر اس کی ڈرنک میں نشہ آور گولی ملا دی تھی جس سے وہ اپنے حواس کھونے لگی اس کے بعد ہم اسے لے کر فلیٹ گئے اور اس کے ساتھ 

ابھی وہ کہتا کہ کب سے کھڑے شہروز کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اس نے اس کا گریبان پکڑ کر اس کی ناک پر مکہ مارا تھا پہلے مکے پر ہی اسے اب بھی درد ہو رہا اب اسے لگا اس کے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو پلیز مسٹر شہروز آپ کنٹرول کریں خود پر 

ہمم تو تم کل مسز عاجل کو کیڈنیپ کر کے ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے تھے 

ج۔۔۔جی اس نے ہکلا کر کہا

یہ تصور کر کے ہی کہ وہ کل بے لباس کی جاتی اس کی عزت اس کی نسوانیت کو روندھا جاتا اس نے مضبوطی سے عاجل کا بازو پکڑا تھا یہ کیسا آج بھاری دن تھا ایک کے بعد ایک انکشاف

عاجل نے اس کے بازو پکڑنے پر اس کو اپنے بازؤں میں چھپانے کی کوشش کی تھی 

وہ خود بھی تو اسے تکلیف دینا چاہتا تھا اس نے اسے اس کے گھر والوں کی نظر میں گرایا تھا لیکن اب یہ سن کر کے کل اس کی عزت کو تار تار کیا جاتا اس کو ازیت سے دوچار کیا جاتا اس نے عاجل کے دل کو مٹھی میں لیا تھا اس کے پورے وجود میں آگ لگی تھی 

جبکہ آہلہ اس کے سینے میں منہ دیے دبی دبی رو رہی تھی 

کیا ثبوت ہے کہ  یہ سچ کہہ رہا ہے ہو سکتا ہے یہ جھوٹ بول رہا ہو مصطفی صاحب نے کہا ساجد صاحب میں تو بولنے کی بھی سکت نہی تھی 

یہ سچ کہہ رہا ہے لیکن ہھر بھی آپ لوگوں کی یقین دہانی کے لیے اپ کو ریکارڈنگ سنوا دینتے ہیں

ریکارڈنگ سن کر تو کسی قسم کا شاہبہ باقی نہ تھا ہر چیز کلئیر ہو چکی تھی سب ہی سکتے کے عالم میں تھے ساجد صاحب تو مصطفی صاحب سے نظریں تک چرا رہے تھے

تم لوگوں کو دل بہلانا تھا نہ تو چلو آج تمہارا دل میں بہلاتا ہوں اس کے بعد تمہارا دل اتنا بھر جاۓ گا کہ تمہیں اس کی چاہ نہی رہے گی عاجل نے ان کی طرف قدم بڑھاتے کہا

پلیز ان کے کیے کی سزا ان کو عدالت دے دے گا آہلہ نے اسے کہا

کیوں کیا تمہارا دل نہی کر رہا کہ تمہارے بارے میں ایسا سوچنے والوں کو تم جان سے مار دو اس نے آبرو اچکائی

ہم کون ہوتے ہیں کسی کو سزا دینے والے اور اللہ کا انصاف زیادہ اچھا ہوتا ہے اس لیے تم انہیں ان کے حال پر رہنے دو 

ٹھیک ہے وہ ان لوگوں کی بوٹی بوٹی کر دیتا لیکن اس کے کہنے ہر وہ اسے لیے باہر آگیا 

میں مروہ آپی کو معاف کر چکی ہوں اس لیے آپ سب سے گزارش ہے کہ اس بات کو یہیں دبا دیا جاۓ  کرنے والی اس دنیا سے اپنا بھگت کر جا چکی ہے اس لیے میں نہی چاہتی کہ کوئی انہیں برے الفاظ میں یاد کرے اس نے بھیگے لہجے میں کہا

اس کے اتنے ظرف پر عاجل اس کو دیکھ کر رہ گیا

مصطفی صاحب کو اس کی بات بہت پسند آئی تھی 

عاجل رات کو لے کر اسے گھر واپس آگیا تھا وہ ساری رات روتی رہی تھی اس نے اسے سچے دل سے معاف کر دیا تھا لیکن بار بار اپنے بے آبرو ہونے کا سوچ کر رہی اس کی آنکھوں سے آنسو نہی رک رہے تھے 

یہ کیا کردیا آپ نے مروہ آپی میرے ساتھ برا کرتے کرتے خود کو برباد کر لیا کاش آپ اتنی بدگمان نہ ہوتیں تو آج آپ سب کے درمیان ہوتیں اس نے کرب سے سوچا 

عاجل کمرے میں بیٹھا ڈرنک پر ڈرنک کر رہا تھا اس کا دل جل رہا تھا نا جانے کیوں اس قدر اس کے اندر جلن تھی کہ یہ شراب بھی اس کی اندر لگی آگ کو کم نہی کر پا رہی تھی  جب بھی ریکارڈنگ کے الفاظ اس کے کانوں میں گردش کرتے اس کا دل کرتا کہ وہ ان سب کو جا کر شوٹ کر دے جنہوں نے ایسا سوچا بھی اس کا دماغ اس طرف تو جا ہی نہی رہا تھا کہ وہ کیوں اتنا پاگل ہو رہا ہے اس وقت اسے صرف اسے اپنے اندر لگی آگ کو مٹانا تھا جو کہ ختم ہونا تو دور کی بات کم ہونے کو بھی نہی آ رہی تھی

یہ دنیا مکافات عمل ہے یہاں جو شخص جس کے لیے گڑھا کھودتا ہے اسی میں خود ہی گرتا ہے معوہ نے آہلہ کو بے لباس کرنا چاہا اور خود بے لباس ہو گئی نہ صرف بے لباس بلکہ اپنی جان سے چلی گئی

آہلہ نے کسی کا برا نہ چاہا تو اللہ نے اسے اس اپنی خفاظت میں رکھا کہ عاجل جیسا برے کرنے والے سے بھی اس کی عزت مخفوظ ہے 

آج گھر میں مروہ کے ایثال ثواب کے لیے قرآن خانی کروائی جا رہی تھی نور لوگ بھی آج یہیں تھے ساجد صاحب کے دل میں بھی اب آہلہ کے لیے پھر سے نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا جس کا ثبوت انہوں نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر دیا تھا  عاجل کو تو اس سب میں کوئی دلچسپی نہی تھی لیکن وہ شہروز سے انسکیورٹی پر آ گیا تھا نور تو جتنا خیران ہوتی کم تھیں کیونکہ وہ جب بھی گھر میں میلاد وغیرہ کرواتی تھیں وہ ہمیشہ غائب ہوتا تھا 

صوفیہ اور فاریہ کو بھی آہلہ نے بلایا تھا وہ اب ان سے مزید جھوٹ نہی بولنا چاہتی تھی

قرآن خانی پڑھ کر سب کو کھانا کھلایا گیا اب گھر میں صرف مصطفی کی فیملی اور فاریہ صوفیہ تھیں محلے والے کھانا کھا کر جا چکے تھے 

شمع بیگم چپ سی ہو گئی تھیں نہ بولتی تھیں نہ کسی کے سوال کا جواب دیتی ان کو مروہ کا گہرا صدمہ پہنچا تھا پہچتا بھی کیوں نہی وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی دکھ تو بہت بڑا تھا صبر بھی آہستہ آہستہ ہی آنا تھا 

آہلہ نے ان کو کھانا کھلا کر دوائی دے کر سلا دیا تھا کیونکہ وہ جتنا مروہ کے بارے میں سوچتی اتنا ہی ڈپرس ہوتیں جو کہ ان کی صحت کے لیے اچا نہی تھا  اور ایسے میں نیند ان کے اعصاب کے لیے بہت ضروتی تھی وہ ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گئی جہاں صوفیہ اور فاریہ تھیں اس نے کمرے میں آکر گہرا سانس لیا گویا اپنی اعصابی و زہنی تھکن کو اس سانس میں خارج کیا تھا 

بہت افسوس ہوا آلی تمہاری کزن کا سن کر صوفیہ نے افسوس کیا

ہاں بس وہ اپنی زندگی ہی اتنی لکھوا کر آئی تھیں

ہمم اللہ ان کے درجات بلند فرماۓ اور آگے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے آمین

آنٹی کی طبعیت کیسی ہے فاریہ نے پوچھا

بہتر نہی ہے چپ سی ہو گئی ہیں اگر کوئی تعزیت کے لیے آتا ہے تو چپ کر کے اسے دیکھتی جاتی ہیں 

صدمہ بھی تو بہت بڑا ہے  اللہ انہیں صبر دے 

آمین

مجھے تم لوگوں کو کچھ اور بھی بتانا ہے اس نے اپنے دونوں ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنساتے کہا 

ہاں کہو

وہ پھر اس سے نے اپنے ساتھ ہونے والا ایک ایک واقع انہیں بتا دیا

اوہ مائی گاڈ آلی تمہارے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اور تم نے ہمیں بھنک بھی نہی پڑنے دی دونوں نے شاک و صدمے سے کہا

مجھے خود اس وقت سمجھ نہی آ رہی تھی کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے 

دکھنے میں کتنا گڈ لکنگ لگتا ہے اور حرکتیں دیکھو شیطانوں والی یہ فاریہ تھی 

اور جھے تو انکل پر افسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے بھی تمہارا یقین نہی کیا چلو انکل کو تو چھوڑو شہروز بھائی نے بھی نہی کیا بہت غلط کیا انہوں نے 

اس میں شہروز کی بھی کوئی غلطی نہی ہے اس وقت حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ اس کی جگہ اگر میں ہوتی تو میرا ری ایکشن بھی یہی ہوتا

تم ابھی بھی ان کی سائڈ لے رہی ہو 

نہی میں اس کی سائڈ نہی لے رہی بلکہ حقیقت بتا رہی ہوں 

اچھا اب آگے کیا کرنا ہے 

زندگی کی اگلی سانس کا پتا نہی ہے اور جب تک میری سانس چل رہی ہے میں نہی چاہتی کہ میں اسے کسی بھی بدلے عداوت یا دشمنی کے نظر کر دوں اسلیے میں نے شہروز کو بھی سچے دل سے معاف کر دیا ہے اور عاجل کو بھی اس سب کے لیے جو اسنے میرے ساتھ کیا ہے  اور میں آج اس سے باقاعدہ معافی بھی مانگ لوں گی اس نے بتایا 

دروازے کے پار کھڑا وجود خود کو زمین میں گڑھتا محسوس کرنے لگا اس نے کیا کیا تھا اور اُس کا ظرف کتنا بڑا تھا وہ مردہ قدموں سے واپس پلٹ گیا تھا 

تو اس کے بعد کیا کیا وہ تمہیں معاف کر دے گا کیونکہ اب تک اس نے جو بھی کیا ہے تمہارے ساتھ اسے دیکھ کر مجھے نہی لگتا کہ وہ تمہیں معاف کر دے گا اتنی آسانی سے صوفیہ نے پچھلی باتوں کو سامنے رکھتے اپنا خدشہ ظاہر کیا جو کہ ایک طرح سے سہی بھی تھا

وہ معاف کرے یا نہ کرے یہ اس کا عمل ہے لیکن معافی مانگ کر میرا ضمیر مطمئن ہو گا اور سب سے بڑھ کر میں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکوں گی 

ہم تمہارے ساتھ ہیں انہوں نے اسے گلے لگایا

وہ صوفیہ کو طلحہ کا پیغام دینے آیا تھا لیکن اندر سے ہونے والے انکشاف پر دم بخود رہ گیا اس نے کیا کر دیا تھا واقعی اس نے سہی کہا تھا کہ جب اسے حقیقت معلوم ہو گی تو وہ پچھتاۓ گا ہاں وہ واقعی پچھتا رہا تھا کہ کاش وہ اس پر یقین کرتا نہ کہ تصویروں پر لیکن کاش کاش ہی ہوتا ہے 

وہ سر ہاتھوں میں گراۓ اپنی نادانی پر اپنی کم عقلی پر خود کو کوس رہا تھا کہ اسے یاد آیا کہ وہ تو طلحہ کا پیغام دینے آیا تھا اور طلحہ بھی اس کا انتظار کر رہا ہو گا وہ اپنی ندامت سمیت دوبارہ اس کے کمرے کی طرف بڑھا لیکن اب اس کے قدموں میں بھی ندامت تھی 

اس نے دروازہ ناک کیا اور اندر آیا وہ میں صوفیہ اور فاریہ کو بلانے آیا تھا طلحہ ان کا نیچے ویٹ کر رہا ہے اس نے نظریں جھکا کر کہا یہ نظریں آج احترام سے نہی بلکہ شرمندگی سے جھکی تھیں

جی وہ دونوں چلی گئی ہیں اس نے جواب دیا

کیا تم نے واقعی مجھے معاف کر دیا اتنی آسانی سے اس نے پوچھا 

اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 

میں تمہاری اور ان لوگوں کی باتیں سن چکا ہوں اس کی ناسمجھی پر اس نے کہا

جی میں نے آپ کو معاف کر دیا اور ویسے بھی آپ کا جرم اتنا بڑا نہی تھا کہ معاف نہ کیا جا سکتا جب وہ رب اپنے بندے کو معاف کر سکتا ہے تو پھر ہم انسان کیوں نہی جبکہ ہم تو اس کے ادنی سے غلام ہیں اس نے ہلکا سا مسکرا کر کہا

تو کیا ہم پہلے جیسے نہی ہو سکتے اس کی مسکراہٹ پر اس نے حوصلہ کرتے کہا

کیا مطلب مطلب یہ کہ اب جب کہ میں یہ جان گیا ہوں کہ وہ سب جھوٹ تھا تو ہم بابا کو یہ سب بتا کر تمہاتی پوزیشن کلئیر کر دیتے ہیں پھر تم اسی گھر میں رہنا اور اس نے رک کر اسے دیکھا 

اور یہ کہ میں اب بھی تم سے محبت کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں میں جانتا ہوں کہ میں نے بہت غلط کیا لیکن میں اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں میں پلیز مجھے ایک موقع دو آئی پرامس تمہیں شکایت کا موقع نہی دوں گا ساری عمر تمہیں خوش رکھوں گا بس ایک دفع تم ہاں بول دو وہ ملتجی ہوا 

اس کی بات پر اس کی پیشانی پر بل پڑے 

شہروز میں نے آپ کو معاف ضرور کر دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہی ہے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو سکتا ہے نہی سب کچھ پہلے جیسا نہی ہو سکتا چاہ کر بھی نہی ہو سکتا آپ پر بھروسہ کر کے میں اس دن  آپ کو رضا مندی دینے والی تھی لیکن آپ نے کیا کیا آپ نے میرے بھروسے کو چکنا چور کر دیا جب ایک بار کسی پر کیا گیا بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے نہ تو دوبارہ وہ بھروسہ قائم نہی ہوتا 

اور آپ نے کہا کہ آپ مجھ سے شادی کر کے ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کسی ایسی لڑکی کو اپنائیں جو آپ کا ساتھ پا کر مکمل محسوس کرے خود کو جس کے لیے آپ کا ساتھ ہی سب کچھ ہو اس کا بھروسہ مان جیتیے گا اور اسے کبھی مت توریے گا تو میں سمجھوں گی کہ آپ نے ازالہ کر لیا 

میں آپ کی کزن ہوں اور ہمیشہ رہوں گی خون کے رشتے ٹوٹا نہی کرتے کوئی اور رشتہ ہم میں ہو یا نہ ہو کزن کا رشتہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہے گا اور میں امید کرتی ہوں کہ اب آپ اس رشتے کا پاس رکھیں گے اس نے مسکرا کر امید سے کہا

میں تمہیں مایوس نہی کروں گا اس نے بھی مسکرا کر کہا جبکہ دل میں تو کرچیاں تھیں لیکن جب وہ اس سے کزن ہونے کا مان نہی چھین رہی تھی تو وہ بھی اس مان کو توڑنا نہی چاہتا تھا

ایک اور وجود ان کی باتیں سن کر پلٹا تھا 

وہ جب کمرے میں آیا تھا تو اس کے کے قدموں میں ندامت لیکن اب ندامت کے ساتھ ساتھ شکست بھی تھی

❣❣❣❣❣❣❣

گھر آکر آج پھر اس نے حرام کو اپنے اندر انڈیلنا شروع کیا تھا آج اسے وہ خود سے دور جاتی دکھائی دی تھی ایک پل لیکن دوسرے ہی پل جب اس نے ادسے انکار کیا تھا تو وہ انکار اس کے دل کے اندر ٹھنڈی پھوار بن کر برسا تھا اس کا دل میں خوشی سے جھوم اٹھا تھا لیکن دوسرے ہی پل یہ خوشی بھی مانند پڑی تھی یہ سوچ کر کہ وہ اس کی بیوی نہی ہے جب سب کو اصلیت کا پتا چلے گا تو وہ اسے یہاں سے لے جائیں گے اس کی دسترس سے دور یہ بات اس کی روح فنا کر رہی تھی 

ابھی ابھی تو اس پر انکشاف ہوا تھا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے محبت نہی بلکہ عشق کرتا ہے اور وہ اس سے معافی مانگ کر جانے کا سوچ رہی تھی اس کی زندگی سے اس نے پختہ عہد کر لیا تھا کہ وہ اسے خود سے دور جانے نہی دے گا کبھی بھی نہی اس کے لیے چاہے اسے زبردستی ہی کیوں نہ کرنی پڑے دوبارہ اس کے ساتھ لیکن وہ اسے خود سے دور جانے نہی دے گا 

لیکن کیا محبت زور زبردستی سے حاصل کی جا سکتی ہے کہا کسی کے دل میں اپنے لیے محبت جیسا جزبہ پیدا کیا جا سکتا ہے نہی ہر گز نہی زور زبردستی سے کسی کو اپنا پابند تو کیا جا سکتا ہے لیکن محبت نہی کروائی جا سکتی کسی کو اپنا عادی تو بنایا جا سکتا ہے لیکن عادت تو مجبوری کا نام ہوتا ہے جسے ہر حال میں پورا کرنا ہوتا  ہے عادت میں تو دل کو نہی دیکھا جاتا لیکن محبت کا تعلق تو سراسر دل سے سے 

رابی جو اس کے کمرے کے پاس سے گزر کر اپنے کمرے میں جا رہی تھی اس کے کمرے کے کھلے دروازے سے اس کی آواز پر کمرے میں داخل ہوئی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر اس نے افسوس سے اپنے بھائی کو دیکھا جو شراب اپنے خلق میں انڈیلتا ساتھ کچھ بول بھی رہا تھا

اس نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو عاجل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا

وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی 

تمہیں پتا ہے رابی عاجل مصطفی گیلانی جس نے کہا تھا کہ اسے کبھی محبت نہی ہو سکتی آج اسے محبت نہی عشق ہو گیا ہے وہ مسکراتا گویا ہوا تو اس نے تعجب سے اسے دیکھا اسے لگا کہ وہ شائد زیادہ ہی ڈرنک کر چکا ہے اس لیے ان نے اس بات کو سیریس نہ لیا 

پوچھو گی نہی کس سے ہوا ہے چلو میں ہی بتا دیتا ہوں آخر تمہیں بھی تو پتا ہونا چاہیے کہ تمہارے بھائی کا عشق کون ہے

ارے پوچھو تو اسے نے اسے چپ دیکھ کر دوبارہ کہا

کس سے 

آہلہ ماجد سے اس نے دلفریب انداز میں کہا جبکہ رابی کو لگا اس نے غلط نام سن لیا ہو 

بھائی کس کا نام لیا آپ نے 

آہلہ کا اسنے ہنس کر کہا 

ویسے کتنا اچھا لگے گا نہ آہلہ عاجل گیلانی بلکل پرفیکٹ ہمارے تو نام بھی ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں اسی لیے تو دیکھو کتنے اچھا ساؤنڈ کر رہے ہیں آہلہ عاجل ایک بار پر اس نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام لگایا 

جبکہ رابی تو ہونقوں کی طرح اپنے بھائی اور اس کی باتوں کو سن رہی تھی

بھائی آپ کو ریسٹ کرنی چاہیے یہ شراب آج آپ کے دماغ پر چڑھ گئی ہے 

تمہیں لگ رہا ہے کہ میں نشے میں بول رہا ہوں اس نے ناراضگی سے کہا

ہاں اس نے صاف گوئی سے کہا

ہاہاہاہاہا تمہیں بھی یقین نہی آ رہا نہ دیکھنا جب میں اسے بتاؤں گا نہ تو اسے بھی پہلے یقین نہی آۓ گا لیکن اسے میرا یقین کرنا ہو گا میری محبت پر ایمان لانا ہو گا پہلے اس نے ہنس کر پھر جنونی ہو کر کہا

بھائی پلیز آپ جتنا اس کے ساتھ کر چکے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے وہ سب بھول کر آپ کی محبت پر لبیک کہیں گی نہی بلکل بھی نہی اس نے نفی میں سر ہلایا

میں معافی مانگ لوں گا لیکن اسے میرا ہونا پڑے گا ہر حال میں اس نے ضدی لہجے میں کہا

اگر اس نے معاف نہ کیا اور نہ قبول کی آپکی محبت پھر اس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا اور ساتھ اس کے ارادے جاننے چاہے 

تونہ کرے میں کونسا مرا جا رہا ہوں اس کی معافی کے لیے مجھے تو بس وہ اپنی زندگی میں چاہیے ہمیشہ کے لیے صرف اور میری بن کر صرف اپنے عاجل کی اور کسی کہ نہی اور اس کے لیے مجھے اگر ہر حد بھی پار کرنی پڑی تو میں کروں گا 

بھائی اس نے افسوس سے پکارا 

ہمم

بھائی محبت زور زبردستی سے حاصل نہی کی جاتی اگر آپ زور زبردستی سے انہیں اپنی زندگی میں شامل بھی کر لیتے ہیں تو کبھی ان کے دل تک رسائی حاصل نہی کر سکیں گے اس نے سمجھایا

اس سے بہتر کون جان سکتا تھا وہ بھی فرہاد کے لیے جنونی ہوئی تھی لیکن کیا حاصل ہوا کچھ بھی نہی 

تم اپنا لیکچر بند کرو اور جاؤ کمرے میں اسے جھڑکتا وہ اسے کمرے سے نکال چکا تھا 

اور خود آہلہ عاجل بربڑاتا بیڈ پر ڈھے گیا 

وہ اس سے معافی مانگنا چاہتی تھی رات کافی ہو گئی تھی اس لیے اس نے صبح اس سے معافی مانگنے کا ارادہ کیے سو گئ

وہ تو اس معمالے کو سلجھانے کی کوششوں میں تھی اسے کیا معلوم تھا کہ وہ کن سوچوں اور منصوبوں میں ہے 

❣❣❣❣❣❣❣

وہ کچھ دنوں سے کسی مشن پر تھا اور اس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ کال نہی کر سکے گا اور وہ پریشان نہ ہو اس لیے وہ ابھی بیڈ پر لیٹی اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ جب بھی اسے کال کر کے اس سے پیار بھری باتیں کرتا تو وہ اسے جھڑک دیتی تھی اور پھر اس کا معصومیت بھرے لہجے میں شکوے کرنا آج اسے اسکی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں 

اس کی ہر دعا میں اب اس کی سلامتی کی دعا شامل ہوتی تھی وہ جانتی جو کام وہ کرتا ہے وہ خطرناک ہے لیکن وہ اسے منع نہی کر سکتی تھی کیونکہ وہ اپنے ملک کی محبت میں کر رہا تھا 

وہ اسی کی باتوں کو سوچ کر مسکرا رہی تھی کہ کسی بچے کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرا تھا اس نے  دیکھا تو اس کا پارٹنر بیڈ پر چڑھ کر اس کے چہرے کو چھو رہا تھا اس نے خوشگواریت کے احساس سے اسے دیکھا تھا اور فٹا فٹ اس کے گال چوم ڈالے تھے

پھوپھو کی جان تم کب آۓ اسنے اسے اپنی گود میں بٹھایا تھا

تھولی دیل پہلے اس نے معصومیت سے جواب دیا 

اچھا اور کون کون آیا ہے 

وہ سہی بولتا تھا لیکن ر اور ڑ کو ل پڑھتا تھا

ماما پاپا چھوٹو اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں پر گن کر بتایا 

واہ چلو پھر نیچے چل کر سب سے ملتے ہیں اسے گود میں اٹھا کر وہ نیچے  آئی 

واہ بھئی واہ آج تو ہمارے گھر میں رونق لگ گئی اس نے سب کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر  چہکتے ہوۓ کہا

جی جناب باقر نے اٹھ کر اسے گلے لگا کر سر پر بوسہ دیا 

اسلام علیکم بھابی 

وعلیکم سلام آمنہ نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سے کہا

اوۓ ٹینے ادھر آ اس نے ڈیڑھ سالا موہد کو زمین پر پاؤں کے بل رینگتے دیکھ کر کہا تو اس نے پلٹ کر اپنے سامنے والے دو دانتوں کی نمائش کی

فاریہ کو اس کی اس ادا پر بہت پیار آیا اس نے ثاقب کو صوفے پر بٹھایا اور اسے اٹھا کر گود میں لے کر چوما 

جس پر اس نے منہ بسورا تو فاریہ نے جان کر دو

بارہ اس کا منہ چوما اب کی بار اس نے غصے سے دیکھا اور اس کے ہاتھ پر کاٹ دیا 

اس کی حرکت پر سب کا قہقہہ گونجا 

دیکھیں بی آپ کا یہ بیٹا کیسے مجھے ٹارچر کر رہا ہے اس نے اپنا ہاتھ آگے کر کے جس پر اس کے دو دانتوں کے نشان تھے دیکھا کر مصنوعی شکایت لگائی

ہاہاہاہا اب اس پر تمہارا کچھ تو اثر ہونا تھا نہ 

ویری فنی اس نے منہ بنایا 

ڈنر ریڈی ہو گیا  ملازمہ نے بتایا تو سب اٹھ گئے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا اور سب اپنے کمروں میں چلے گئے

آپ سے میں نے کہا بھی تھا کہ مجھے نہی آنا یہاں پھر بھی آپ نے اپنی من مانی کی آمنہ نے غصے سے کہا

اپنی آواز آہستہ رکھو اس نے مڑ کر تنبیہہ کی 

کیوں رکھوں جب میں یہاں نہی رہنا چاہتی تو کیوں مجھے لے آۓ یہاں اچھا بھلا بابا کہہ رہے تھے کہ یہاں آجاؤ لیکن تم ہی نہی مان رہے تھے کیا ہے یہاں کچھ بھی تو نہی وہاں کم ازکم ایک اچھی لائف تو ہماری منتظر تھی لیکن نہی تمہیں تو اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا ہے 

تو تم کیا چاہتی تھی کہ میں اپنا گھر ہونے کے باوجود گھر داماد بنتا اللہ کا دیا سب کچھ ہے  ہمارے پاس پھر ناشکری عورت کیوں ناشکری کر کے اللہ کو ناراض کرتی ہو 

ہوں سب کچھ ہے میں ہی ناشکری ہوں وہ بڑبڑاتی خود پر کمبل ٹھیک کرنے لگیں

میں آج بہت خوش ہوں میرے دونوں بچے آج میرے پاس ہیں افضال صاحب نے خوشی سے کہا

خوش تو میں بھی بہت ہوں کون ماں باپ اپنی اولاد کے پاس خوش نہی ہوتا دیکھا تھا آپ نے کیسے بچوں کے آنے سے گھر میں  رونق ہو گئی یہ اچھا ہوا کہ باقر پہلے شفٹ ہو گیا یہاں ورنہ فاریہ کی شادی کے بعد یہ گھر بلکل سونا ہو جاتا 

فاریہ کی شادی کی بات کہاں سے بیچ میں آ گئی اتنی جلدی اپنی بیٹی کو رخصت نہی کروں گا میں

ایک نہ ایک دن تو کرنا ہے نہ اور اگر اس کے سسرال والے کہتے ہیں شادی کا تو کیا آپ انکار کر دیں گے اور کوئی جلدی نہی ہے پورے پچیس کی ہو گئی یہی سہی عمر ہوتی ہے شادی کی 

ہمم 

وہ ثاقب کو کہانی سنا رہی تھی کہ اس کا موبائل بجا اس نے نمبر دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ثاقب جو انہماک سے پرنس اور پرنسس کی کہانی سن رہا تھا اپنی پھوپھو کہ چپ ہونے پر اس نے بدمزہ ہوتے انہیں دیکھا جو فون کو پکڑے مسکرا رہی تھیں 

پھوپھو اس نے ہلایا

ہوں کس کا فون ہے کسی کا بھی نہی اس نے موبائل کو سائڈ پر رکھتے کہا 

آپ جھوٹ بول لہی ہو اس نے اپنی چھوٹی سی پیشانی پر بل ڈال کر کہا

نہی تو اس نے حیران ہو کر اس کے بل دیکھے 

نہی آپ جھوٹ بول لہی ہو میں نے دیکھا انکل کی کال تھی 

آپ کو کیسے پتا میں نے تصویل دیکھی ابھی بابا نے مجھے دکھائی تھی انکل کی اس نے اسے بتایا کہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کے انکل ہیں

ہاہاہا اچھااااا ہاں اس نے زور سے ہاں میں سر ہلایا 

تبھی دوبارہ کال آنی شروع ہو گئی

اچھا اپنے انکل سے بات کرو گے اس کے پوچھنے پر اس نے جھٹ سے ہاں میں سر ہلایا 

اسلام علیکم 

وعلیکم سلام پہلے کال کیوں نہی پک کی سلام کا جواب دے کر اس نے پیار بھرہ شکوہ کیا

ثاقب کو سٹوری سنا رہی تھی اچھاااا

انکل انکل اس کے بولنے پر فاریہ نے موبائل اس کی طرف کیا کیونکہ ویڈیو کال تھی 

ہاۓ لٹل چیمپ اس نے ہاتھ ہلایا

ہاۓ نہی بولتے بابا کہتے ہیں سلام کہتے ہیں اس نے بڑوں کی طرح سمجھایا

اوکے اسلام علیکم

وعلیلم سلام کیسے ہو ائے ایم فٹ

گڈ تو کونسی سٹوری سن رہے تھے آپ 

پرنس اور پرنسسس کی 

وہ کیوں آپ تو بواۓ ہو آپ کو تو سپائڈر مین والی سننی چاہیے 

نو آئے ڈونٹ لائک دیٹ اوہ سہی

چلو یار پھر میری اپنی پھوپھو سے بات ہی کرا دو 

جی جی کیا اتنے دنوں بعد فون کیا ہے اور بدلے میں تم حال وغیرہ پوچھنے کے جی کہہ رہی ہو دس از ناٹ فئیر 

ہاہاہا اچھا کیسے ہیں آپ مس کیا مجھے 

پہلے تو ٹھیک نہی تھا لیکن اب ہو گیا ہوں اور مس تو تمہیں بہہہہہہت کیا 

تم نے مجھے کیا 

نہی تم بھولے ہی نہی تو یاد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہی ہوتا 

اس کے جواب پر اسے خوشگوار حیرت ہوئی آج وہ روز کے برعکس پیار بھرے جملے بول رہی تھی

لگتا ہے میرے اتنے دنوں کی دوری نے تم پر اچھا اثر کیا ہے 

پتا نہی وہ خاموش ہوئی

مجھے ڈر لگتا ہے علی تمہارے کام سے تم فوجی ہوتے تو میں خوش ہوتی لیکن تم ایک ایجنٹ بھی ہو تمہارا کام ہی ایسا ہے کہ سو لوگ تمہارے دشمن ہوں گے میں تمہیں کھونے سے ڈرنے لگی ہوں 

اسے اس کا لہجہ بھیگا لگا 

ششش فاریہ کچھ نہی ہو گا مجھے اور یہ کام میں نہی چھوڑ سکتا مجھے اپنے ملک کی قوم کی خفاظت کرنی ہے اس کے لیے اگر مجھے جان کی بازی بھی لگانی پڑی تو میں پیچھے نہی ہٹوں گا بلکہ شہادت کا جام پیوں گا اور زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہم اپنے وقت سے پہلے نہ تو مر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے وقت سے زیادہ زندگی جی سکتے ہیں اس لیے موت سے کیا گھبرانا 

تم اپنا دل مضبوط کرو میری فاریہ تو بہت بہادر ہے میں جب تک زندہ رہوں گا میری ساری وفائیں تمہارے نام ہوں گی کیا تم میرے ساتھ وفا نبھاؤ گی

مرتے دم تک اس نے جواب دیا تو وہ مسکرایا  

وہ بھلا کہاں اسے اداس دیکھ سکتا تھا اسلیے وہ اس کا دھیان بھٹکانے کے لیے  دوسری باتیں کرنے لگا

❣❣❣❣❣❣❣

وہ جب سے آہلہ کے گھر سے ہو کر آئی تھی اس کی طبعیت کچھ بوجھل سی تھی اس کا دل بھی خراب ہو رہا تھا  ابھی وہ قہہ کر کے کہ آئی تھی کہ دوبارہ اس کا دل خراب ہوا وہ منہ پر ہاتھ رکھتی واش روم کی طرف دوڑی وہ واش بیسن پر جھکی قہہ کر رہی تھی کہ کمرے میں طلحہ کہ آواز آئی جو اسے آواز دے رہا تھا اس نے تولیے سے منہ تھپتھپایا اور باہر آئی

دو بار قہہ کرنے سے ہی اس کی حالت خراب ہو گئی تھی کیا ہوا وہ اس کے زرد پڑتے چہرے کو دیکھ کر پریشان فکرمند سا اس کی طرف بڑھا 

کچھ نہی شائد وہاں کھانا کھایا تھا وہی سوٹ نہی کیا اس لیے دل خراب ہو رہا ہے اس نے اس کی فکرمندی پر مسکرا کر اپنا اندازہ بتایا 

ہمم کب سے ہو رہا ہے اس نے پر سوچ انداز میں  کہا

صوفیہ کا یہ پہلا ایکسپیرئینس تھا لیکن اس کا نہی وہ جانتا کہ کس حالت میں قہہ وغیرہ آتی ہے 

جب سے وہاں سے آئی ہوں 

چلو آؤ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرو وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی واش روم بھاگی وہ واش بین پر جھکی تھی کہ اسے اس کی شوخ آواز آئی

یہ میرے منھے یا منھی کے آنے کی اعلامات ہیں 

اس نے خفگی سے اسے دیکھا 

میری یہاں طبعیت خراب ہے اور آپکو شرارتیں سوجھ رہی ہیں 

میں کوئی شرارت نہی کر رہا بلکہ تمہیں بتا رہا ہوں کہ یہ خوشخبری کی بات ہے اس لیے کہہ رہا ہوں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں کنفرم بھی ہو جاۓ گا 

ڈاکٹر نے کنفرم کر دیا تھا طلحہ کے چہرے پر تو باپ بننے کی خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی 

اس خوشخبری پر صوفیہ کے اندر ایک نیا سا احساس پیدا ہو رہا تھا جو کہ ممتا کا تھا 

بے شک یہ احساس ہی بہت دلفریب ہوتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہی کیا جا سکتا 

گھر آ کر انہوں نے سب کو نیوز دی تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے سب نے انہیں صدا خوش رہنے کی دعا دی 

دادی نے تو اپنے خاندانی کنگن تک صوفیہ کے حوالے کر دیے تھے کیونکہ وہ ان کے پوتے اور نواسے کی ماں بننے والی تھی ساتھ ہی اسے خوش رہنے اور اپنا خیال رکھنے کی سخت ہدایت بھی دی 

یہ احساس ہی اس کے لیے خوش کن تھا کہ ایک وجود اس کے اندر اب پل رہا ہے اس کی محبت کی نشانی 

وہ بہت خوش تھی لیکن اسے اب اسے طلحہ کا سامنا کرنے سے بھی شرم آ رہی تھی 

وہ کمرے میں آیا تو وہ آنکھیں بند کیے بیڈ سے ٹیک لگاۓ بیٹھی ہوئی تھی وہ اس کے لیے لایا گیا جوس سائد ٹیبل پر رکھ کر اس کے سامنے بیٹھا اور اس کے ماتھے پر عقیدت سے بوسہ دیا 

یہ وہ عورت تھی جو اس کی محبت تھی اور اب اس کے بچے کی ماں کے عہدے پر فائز ہونے والی تھی 

اس کے لمس پر اس نے آنکھیں وا کی تو اس کا مسکراتا چہرہ اس کے دل کے تاڑ چھیڑ گیا 

آج تو اس کی مسکراہٹ  کی جھپ ہی نرالی تھی  

بہت بہت مبارک ہو اس نے اس کے ہاتھ تھام کر انہیں آنکھوں سے لگاتے کہا

آپ کو بھی کیسا لگ رہا ہے پرومش ہونے پر اس نے شرارت سے کہا تو اس کی شرارت پر پہلے اسے آنکھیں دکھاتی بعد میں ہنس پڑی اور اس کے کندھے پر سر رکھ دیا

بہت اچھا مجھے لگ رہا ہے آج میں مکمل ہو گئی ہوں صرف تم نہی بلکہ ہم دونوں کو اس نعمت سے نواز کر ہمارے رب نے ہم دونوں کو مکمل کر دیا ہے 

اب تم نے اپنا بہت خیال رکھنا ہے زیادہ سے زیادہ خوش رہنا ہے کیونکہ مجھے اپنا بے بی ہنس مکھ چاہیے تمہاری طرح میں تو چاہتا ہوں کہ وہ جب اس دنیا میں آۓ تو ہنستا ہوا 

اس کی آخری بات پر وہ کھلکھلا اٹھی 

ایسے ہی ہنستی رہا کرو 

چلو اب یہ جوس پیو ویسے اب وومٹنگ تو نہی ہو رہی اس نے جوس جا گلاس پکڑاتے فکرمندی سے پوچھا 

نہی اب بہتر ہے 

ڈاکٹر کہہ رہی تھی شروع شروع میں ایسا ہوتا ہے لیکن اگر تم اپنی ڈائٹ کا خیال رکھو گی تو بہت کم ہو گا ایسا اس نے ڈاکٹر کی بات اسے بتائی

ہمم چلو اب سو جاؤ آج سارہ دن تم نے ریسٹ نہی کیا تھک گئی ہو گی اسے آرام کرنے کا کہہ کر وہ اٹھنے لگا کہ اس نے ہاتھ سے اسے روکا اور اپنے پاس لیٹنے کا اشارہ کیا

اس کے روکنے پر وہ مسکراتا اس کے پہلو میں بیٹھا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا اس کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتی اپنے اندر سکون اترتا محسوس کرتی وہ نیند کی وادی میں چلی گئی جہاں آج ایک نیا وجود بھی اس کا خواب میں منتظر تھا

صبح وہ اٹھا تو اس کا سر بھاری ہو رہا تھا اس نے اپنا دکھتا سر ہاتھوں میں تھاما کچھ دیر یونہی سر کو ہاتھوں میں تھامے وہ بیڈ پر بیٹھا رہا پھر جب کچھ حواس بحال ہوۓ تو فریش ہونے واش روم چلا گیا

ناشتے پر آہلہ نے اسے غیر موجود پایا تو ناشتہ کرنے کے بعد وہ کمرے میں جانے کہ بجاۓ لاؤنج میں اس کے نیچے آنے کا انتظار کرنے لگی کیونکہ وہ جلد از جلد اب اس معاملےکو رفع دفع کرنا چاہتی تھی 

جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی وہ نیچے نہی آیا تو وہ خود اس کے کمرے کی طرف بڑھی 

 اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ ناک کیا وہ اندر سے ڈر بھی رہی تھ کیونکہ  وہ جانتی تھی اسے کسی کا بھی اس کے کمرے میں یوں آنا پسند نہی تھا اس لیے وہ ناک کر کے اجازت کے لیے باہر ہی کھڑی رہی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا اس نے  دوبارہ ناک کیا لیکن پھر وہی خاموشی دروازہ اندر سے لاک نہی تھا اس کا اندازہ اسےہو گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ جاگا ہوا ہے اس نے ہمت کر کے اپنا پاؤں اندر رکھا اور کمرے میں داخل ہوئی 

پہلے دن کے بعد وہ آج دوبارہ اس کمرے میں قدم رکھ رہی تھی یہ کمرہ بے شک کسی شہزادے کے لیے ہی بنایا گیا تھا اس کا ایک حصہ تو وہ دیکھ ہی چکی تھی اسے دوسرا حصہ دیکھنا کا بھی تجسس ہوا اس نے دیکھا کمرے میں وہ کہیں بھی نہی تھا واش روم سے شاور کی آواز آ رہی تھی 

کیوں نہ اس کے نکلنے تک میں دوسرا حصہ بھی دیکھ لوں اس نے سوچا اور اپنے قدم اس کی طرف بڑھاۓ وہ گلاس وال کے پاس پہنچی تو اس نے احتیاط سے ہوا میں ہی ہاتھ اٹھا کر گلاس وال کو ٹتولنا چاہا کیونکہ اس کا دفع اسکا سر ٹکڑوانے کا کوئی ارادہ نہ تھا تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کا ہاتھ گلاس وال سے ٹکڑایا اور وہ واضح ہوئی

وہ گلاس وال کو دھکیل کر دوسرے حصے میں گئی جہاں ایک طرف جم بنائی گئی تھی اور دوسری طرف پینٹینگز اور سکیچز بنے ہوۓ تھے اس نے حیرانگی سے انہیں دیکھا جم کا ہونا  اس کے کمرے میں ایک معمولی سی بات تھی لیکن یہ اس کے لیے حیرانی کا باعث تھے اسے نہی پتا تھا کہ یہ کھڑوس بھی نیچر سے لگاؤ رکھتا ہو گا وہ ہر پینٹنگ کو ہاتھ لگا کر دہکھ رہی اور ساتھ دل میں سراہ بھی رہی تھی کہ دفعتاً اس کی نظر گلاس وال کے پار ایک حسین دل چھو لینے والے منظر پر پڑی وہ مسمرائز سی یک ٹک اس منظر کو دیکھ رہی تھی وہ قدم قدم اٹھاتی اس منظر کی طرف بڑھی اس نے گلاس وال کو دھکیلا تو پھولوں کی تازہ مہک اس لے نتھنوں سے ٹکراتی اس کے اندر سرور پیدا کر گئی اس نے آنکھیں بند کر کے ان کی مہک کو اپنے اندر اتارا اور  جوتا اتار کر ننگے پاؤں گھاس پر چلنے لگی وہ فوارے کے قریب کھڑی اس سے نکلتے نیلے پانی کو دیکھ رپی تھی اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس خوبصورت پانی کو اپنے ہاتھ میں قید کرنا چاہا تو وہ نیلا پانی اس کے ہاتھ سے پھسلتا نیچے گر گیا اس پانی کا رنگ بلکل اس کی آنکھوں سے میچ کرتا تھا اور زیادہ تر پھول بھی نیلے اور سفید کلر کے تھے اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اسے نیلا رنگ پسند ہے 

وہ باہر آیا تو اس نے چاروں طرف کمرے میں دیکھا لیکن کوئی بھی نہی تھا شاور لیتے ہوۓ اسے ایسا لگا کہ جیسے کوئی اس کے کمرے میں موجود ہو اس کی نظر گلاس وال پر پڑی جو کہ ویزیبل تھی وہ کھولتے دماغ کے ساتھ گلاس وال کو دھکیلتا اندر بڑھا بھلا کسی کی جرات تھی کہ وہ بنا اس کی اجازت کے اس کے کمرے میں داخل ہوتا نہ صرف داخل بلکہ دوسرے حصے کی طرف بھی جاتا جہاں وہ موم کو تو کیا رابی کو بھی نہی جانے دیتا تھا 

لیکن گلاس وال کے پار کا منظر اس کے آنکھوں کے ساتھ دل کو بھی چھو گیا جہاں وہ فوارے کے کنارے بیٹھی ہر چیز سے بے نیاز ہاتھ میں نیلے پانی کو بھرتی خود پر پھینکتی اور خود ہی کھلکھلاتی

اب اس کے چہرے پر غصے کی بجاۓ مسکراہٹ تھی وہ ایسا ہی اسے ہمیشہ اپنے پاس اپنے ساتھ اپنے کمرے میں دیکھنا چاہتا تھا  وہ چلتا اس کی طرف آیا اس کی آنکھیں ابھی بھی اس پر ٹکی تھیں جو اس کی آمد سے بے خبر اپنی دنیا اپنی موج میں مگن تھی 

وہ اس طرح بیٹھی تھی کہ اس کا ایک رخ عاجل کی طرف تھا وہ اس کے ہیچھے کھڑا ہوا اور جھک کر اسے کان میں گڈ مارننگ کہا وہ جو یہاں آکے سب بھول بھال کر اس خوبصورتی میں کھو گئی پیچھے سے اس کی آواز پر وہ ہڑ بڑا کر آگے گرنے کو تھی کہ اس نے اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پر رکھ کر اسے آگے گرنے سے بچایا وہ ساکت سی سب بھول کر اب اس کا ہاتھ اپنے پیٹ کے گرد لپٹا دیکھ رہی تھی وہ آدھے سے زیادہ اس پر جھکا ہوا تھا اس نے اس کے گرد لپٹے ہاتھ کی مدد سے اسے اٹھایا وہ اب کھڑی اس کےساتھ چپکی ہوئی تھی اس کی گرم سانسیں اس کو اپنی  پیٹھ پر  محسوس ہو رہی تھیں اور اس کے بالوں سے گرتا ہانی اس کے شولڈر پر گر رہا تھا اس نے گھبرا کر اس کی گرفت سے نکلنا چاہا عاجل نے اسکے کسمسانے پر اس کا رخ اپنی طرف کیا تو وہ اسے شرٹ لیس دیکھ کر اپنی نظریں جھکا گئی اور مزاحمت سخت کر دی عاجل نے ایک ہاتھ سے اسے پکڑا اور ایک ہاتھ اپنے بالوں میں گھمایا تو پانی کے قطرے آہلہ کے چہرے پر گرے اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں  اس کے آنکھیں بند کر نے پر وہ مسکرایا اور اس کی آنکھوں پر جھکا وہ انہیں اہنے لمس سے متعارف کروا گیا اس کے اس عمل پر آہلہ کی سانسیں تیز ہوئیں 

ایک فسوں تھا جو  ان کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا وہ اس کی آنکھوں سے ہوتا اس کے گالوں پر آیا اس سے پہلے کہ وہ اس کے گالوں پر بھی وہی عمل دہراتا آہلہ نے اپنے دل کو سنمبھالتے اسے دھکا دیا تو وہ بھی اس فسوں سے باہر آیا اس نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا  

وہ اس سے رخ موڑے اپنا تنفس بحال کرنے لگی  جو اس کے پاس آنے سے بگڑ گیا تھا 

جب اس کا سانس اپنے معمول پر آیا تو اس نے اس کی طرف رخ کر کے اس کی خون خوار نظروں کو نظر انداز کرتے اپنی کہی

مجھے کچھ بات کرنی تھی بات نہی بلکہ مجھے اپنے اس تھپڑ کی معافی مانگنی تھی میں جانتی ہوں میری بھی غلطی تھی مجھے ایسے بنا سوچے سمجھے ہاتھ نہی اٹھانا چاہیے تھا لیکن تم نے بھی اس کا بدلہ لے لیا مجھ سے لیکن اب میں چاہتی ہوں کہ اس سب کو یہیں ختم کر دیا جاۓ اس کے لیے اگر تم مجھے بھی تھپڑ مارنا چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہی ہے اپنی بات کہہ کر وہ  چپ ہوئی

اور اگر میں معاف نہ کروں تم سے مزید بدلہ لینا چاہوں تو اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں تم پر تمہاری سانسیں بھی تنگ کر دوں گا لیکن ابھی تک میں نے ایسا نہی کیا اس کا کیا پھر کیا میں اپنی بات سے منکر جاؤں اس نے ابرو اچکا کر پوچھا

اس کی بات ہر اس نے خشک خلق سے اس کی طرف دیکھا لیکن اسے شرٹ لیس دیکھ کر پھر نظریں جھکا گئی

میں تم سے معافی مانگ تو رہی ہوں اور میں پلیز اب اپنی زندگی میں سکون چاہتی ہوں پلیزاس بدلے میں کیا رکھا ہے 

واقعی ٹھیک کہہ رہی ہو تم اس بدلے میں کچھ نہی رکھا لیکن میں  اپنی باتوں سے منکرنے والوں میں سے بھی نہی ہوں ایک کام ہو سکتا ہے جس سے میری بات بھی پوری ہو سکتی ہے اور تمہیں معافی بھی مل سکتی ہے 

کیسے 

وہ ایسے کہ تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہو گی اس طرح میں تمہاری سانسیں بھی تم پر تنگ کر دوں گا اور بدلہ بھی ختم ہو جاۓ گا اس نے معنی خیزی سے کہا 

اس کی بات ہر اسے پتنگے ہی تو لگ گئیں

ہوش میں تو ہو تم کیا بولے جا رہے ہو اس نے غصے سے کہا اس کا زومعنی مطلب وہ اچھے سے سمجھ گئی تھی تبھی لال پیلی ہوتی غصے سے بولی 

اس میں غلط کیا ہے کیا تم نے سنا نہی کہ جہاں نفرت پیدا یوتی ہے وہیں سے عشق پڑھوان چڑھتا ہے اور ہاں مجھے تم سے محبت یو گئی ہے میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں اس میں میرے خیال سے حرج بھی کویی نہی ہے  اس نے اس کی نسبت سکون سے کہا 

میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگنے آئی تھی نہ کہ تمہاری فضول گوئی سننے اور تم مردوں کو کیوں لگتا ہے کہ جب عورت معاف کر دیتی ہے تو اس کے دل میں تمہارت لیے کوئی جزبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے

ایسا کچھ بھی نہی  ہے میرے دل میں تمہارے لیے اور نہ تمہارے دل میں میرے لیے اس لیے پلیز میری جان چھوڑ دو تنگ آ گئی ہوں میں تم سے تمہارے اس سو کالڈ بدلے سے میرا بھی دل کرتا ہےکہ میں بھی دوسروں کی طرح سکون سے زندگی گزاروں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تم میری جان چھوڑ دو گے اس لیے پلیز معاف کر دو مجھے اس نے ہاتھ جوڑ کر ضبط سے کہا

اس کے جان چھوڑنے والی بات پر اس کی اوشن بلو آنکھوں میں یکدم سرخی پھیلی تھ اسے بازؤں سے پکڑ کر  وہ اس کے کان میں دھاڑا تھا 

یہ جان تو کبھی نہی چھوٹے گی اور تم بھی اب سے اپنی کھلی اور بند آنکھوں سے میرے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب دیکھنا شروع کر دو کیونکہ بہت جلد تمہارے سارے حقوق میرے نام ہوں گے پھر چاہے تمہاری رضا مندی سے یا پھر زبردستی سے لیکن دسترس میں تو تم میری ہی آؤ گی 

میں خود کو موت کے حوالے کر دوں گی لیکن کبھی بھی اپنے حقوق تمہارے نام نہی کروں گی اس نے مضبوطی سے کہا

اس کی موت والی بات ہر اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا اس کے ہاتھوں کی گرفت اس کے بازؤں پر ڈھیلی پڑی تھی اس کی ڈھیلی گرفت پر وہ اس سے اپنا آپ چھڑوا کر بھاگ گئی تھی 

وہ وہیں گھاس ہر گر گیا تھا اس نے اپنے عمل سے اس کے اندر اتنا زہر اتنی نفرت بھر دی تھی کہ وہ اس سے شادی کی بجاۓ موت کو گلے لگانا پسند کرتی تھی موت والی بات اس کے دل پر خنجر کی طرح لگی تھی وہ کسی کے بڑے سے بڑے دکھ پر نہ رونے والا عاجل آج رو پڑا تھا 

وہ وہاں سے بھاگتی سیدھا اپنے کمرے میں آئی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی کیوں اس کی زندگی میں سکون نہی تھا کیا سارے غم اس کی زندگی میں ہی لکھے تھے 

❣❣❣❣❣❣❣❣

کب تم کام شروع کرو گی وہ انسپکٹر ہمارے پیچھے پڑا ہے اس نے چبا کر کہا

میں کیا کروں وہ دو دن سے نہی آ رہی نہی تو میں اپنا کام کر چکی ہوتی اور تم زرا اپنا روعب مجھ پر مت جمایا کرو مقابل کےچبا کر کہنے پر  اس نے بھی روکھے لہجے میں کہا

ناراض کیوں یوتی ہو میں تو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جتنا جلدی وہ چڑیا ہماری قید میں ہو گی اتنی جلدی ہم اس راشم کو اس کی قید سے رہا کروا پائیں گے کیونکہ اس کے پاس ہیرے ہیں جو کہ مجھے چاہیے تمہیں نہی ہمیں اس انسپکٹر کو تو یہ بھی نہی پتا ہو گا کہ جس آدمی کو وہ ڈھونڈ رہا ہے وہ کوئی آدمی نہی بلکہ میں ہوں چچچچ بے وقوف انسپکٹر دونوں نے قہقہہ لگایا 

میں نے غور کیا ہے کہ وہ انسپکٹر اس چڑیا پر نظر رکھے ہوۓ ہے اس لیے ہمیں پہلے اس کا دھیان بھٹکانا ہو گا تبھی ہم کچھ کر سکیں گے 

تم بس اس چڑیا کو قید کرنے کا سوچو اس انسپکٹر کو میں دیکھ لیتا ہوں

وہ لیکچر لے کر کلاس سے نکلی تھی کہ اسے عنایہ کی پریشان سی آواز اپنے برابر سے سنائی دی 

کہا تھی تم اتنے دن سے پتا ہے میں اتنی پریشان ہو گئی تھی  

سوری یار وہ ایمرجنسی تھی جس کی وجہ سے میں نہی آپائی تم بتاؤ تم کیسی ہو 

میں ٹھیک ہوں سہی ابھی کوئی لیکچر ہے ؟

نہی فری ہوں تو چلو کینٹین چلتے ہیں چلو وہ دونوں کینٹین آ گئیں

وہ دونوں کھا رہی تھیں کہ عنایہ کا موبائل بجا اس کا اڑا رنگ دیکھ کر رابی نے ہریشانی سے اسے دیکھا 

کیا ہوا وہ بھا۔۔۔بھائی کا ایکسڈینٹ ہو گیا ہے بول کر وہ رونا شروع ہو گئی

رو مت یہ بتاؤ کہ کس ہاسپٹل میں ہے ہم ابھی چلتے ہیں اس نے ہاسپٹل کا نام بتایا 

وہ ابھی آدھے رستے پہنچی تھیں کہ دو گاڑیاں عین ان کی گاڑی کے آگے آ کر  رکی تھیں رابی نے پریشانی سے ان گاڑیوں کو دیکھا اسے کچھ گڑ بڑ لگ رہی تھی ابھی وہ گاڑی ریورس کرتی کہ عنایہ نے اس کے سر پر گن تان لی رابی نے حیرت سے اسے دیکھا جو اب شاطرانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہی تھی 

ہوئی نہ شاک ہاہاہا تم امیر لوگ بھی کتنے بھولے ہوتے یو یا پھر میں بولوں کہ بے و قوف جو کسی کی بھی باتوں میں آ جاتے ہو

مطلب وہ فون ایکسیڈینٹ سب جھوٹ تھا ہاں وہ تو میرے ساتھی کا فون تھا اس نے مجھے گرین سگنل دیا تھا چلو اب گڈ باۓ اس نے اسے کلوروفام سے بے ہوش کر دیا تھا 

اسے ایک فون آیا تھا پرائیوٹ نمبر سے جس میں اسے بتایا گیا تھا کہ جس آدمی کو وہ تلاش کر رہا ہے وہ فلاں جگہ چھپا بیٹھا ہے وہ فوراً اس جگہ پہنچا تھا اپنی ٹیم کے ساتھ لیکن وہاں کچھ بھی نہی تھا اسے رونگ انفارمیشن دی گئی تھی یا پھر کچھ دیر کے لیے گمراہ کیا گیا تھا اس نے طیش میں گاڑی پر ہاتھ مارا کہ تبھی اس کا موبائل بجا وہی پرائوٹ نمبر تھا اس نے غصے سے کال پک کی 

جانتا ہوں جانتا ہوں ابھی بہت غصہ آ رہا ہو گا تمہیں مجھ پر دل بھی کر رہا ہو گا مجھے شوٹ کرنے کا لیکن افسوس تم اہسا نہی کر پاؤ گے ہاہاہایا

یو بلڈی باسٹرڈ چھوڑوں گا نہی میں تمہیں

ہاہاہاہا مت چھوڑنا پر پہلے اپنی محبوبہ کو تو بچا لو بے چاری ہمدردی میں ماری گئی

جسٹ شٹ اپ ایک سیکنڈ میں اسے سب سمجھ آ گئی تھی کہ اسے منظر سے ہٹایا گیا تھا 

کیا کیا ہے تم لوگوں نے اس کے ساتھ اگر اسے ایک خروچ بھی آئی نہ تو تمہیں عبرت بنا دوں گا میں اس نے چلا کر کہا 

ہاہاہاہا لگتا ہے بہت پیار کرتے ہو میری سوچ سے بھی زیادہ چلو ہمارے لیے ہی فائدہ مند ہے اس نے قہہقہ لگایا

چاہتے کیا ہو تم رانا ہاشم وہ نہی مل سکتا کبھی نہی تو پھر اپنی محبوبہ کو بھی دفنانے کے لیے تیار ہو جانا تمہارے پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں ان چوبیس گھنٹوں میں سے  جتنے گھنٹے گزرتے جائیں گے اتنے زخم تمہاری محبوبہ کے جسم پر چھپتے جائیں گے اور ساتھ ہی فون کٹ کر دیا 

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا جس کا ڈر تھا وہی ہوا وہ ان لوگوں کی نظروں میں آ گئی تھی وہ رانا ہاشم کو ان کے حوالے نہی کر سکتا تھا اور نہ ہی اسے کچھ ہونے دے سکتا تھا 

کیا ہوا فرہاد اس کا ساتھی علی  جو کہ یونی میں بھی اس کے ساتھ ہوتا تھا اسنے اس کی حالت دیکھ کر پوچھا باقیوں میں تو اتبی ہمت نہی تھی 

اس نے اپنی سرخ آنکھیں اٹھائیں 

ان لوگوں نے رابی کو مہرہ بنایا ہے رانا ہاشم کو چھڑوانے کے لیے 

اوہ مائی گاڈ تو کیا وہ اس وقت ان لوگوں کے قبضے میں ہے ہاں اس نے سر ہلایا 

لیکن کیسے تم تو ہر وقت اس پر نظر رکھے ہوۓ تھے

اس کے کہنے ہر اس کے کان میں میں دو الفاظ گونجے 

عنایہ اوہ شٹ میں اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتا ہوں اس نے گاڑی پر ہاتھ مارا

اس سب میں عنایہ بھی شامل ہے کیونکہ دو دن پہلے بھی میں نے اسے ہی دیکھا تھا اس کے ساتھ اور آج بھی 

یعنی عنایہ کا اس سے دوستی کرنا ایک چال تھی 

ہاں ہمیں کچھ بھی کر کے رابیل کو چھڑوانا ہو گا 

اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گا وہ اس کے گلے لگا کچھ نہی ہو گا اسے ہم اسے چھڑوا لیں گے ان کی قید سے سہی سلامت اس نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی

❣❣❣❣❣❣❣❣

اسنے اپنے سینے پر سر رکھ کر سوتی صوفیہ کو دیکھا اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر اس نے اختیاط سے اس کا سر سرہانے پر رکھا اور خود فریش ہونے چلا گیا 

فریش ہو کر وہ باہر آیا تو وہ ابھی بھی سو رہی تھی وہ مسکراتا اس تک آیا پہلے اس نے اس کے پیٹ پر اپنے لب رکھ کر اپنے بے بی کو وش کیا اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے پیار سے جگانے لگا اس کے جگانے پر وہ منہ بسورتی دوسری طرف  کروٹ لے کر سو گئی تو وہ بھی اس کی اسے تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتا ایک بار پھر اس کے ماتھے پر بوسہ دیتا موبائل اور کیز لے کر نیچے چلا

گیا

صوفیہ نہی اٹھی ابھی تک بانو بیگم نے اسے اکیلا نیچے آتے دیکھ کر پوچھا  

نہی ماما شائد کل کی تھک گئی ہے اور رات کو بھی اس کی طبعیت ٹھیک نہی تھی اس لیے میں نے اسے اٹھانا مناسب نہی سمجھا 

بلکل ٹھیک کیا تم نے ابھی سونے دو بعد میں میں اسے خود اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروا دوں گی  انہوں نے پیار سے کہا تو زینب بیگم نے اپنی بیٹی پر رشک کیا جسے اتنا اچھا سسرال ملا تھا 

چلو تم تو ناشتہ کرو انہوں نے اس کے آگے ناشتہ کیا 

اس کی آنکھ کھلی تو دس بج چکے تھے اس نے برابر میں دیکھا تو جگہ خالی تھی وہ جلدی سے فریش ہو کر نیچے گئی تو سب خواتین اپنے اپنے کاموں میں لگی تھیں مرد سارے کام پر چلے گئے تھے وہ سیڑھیاں اترتی نیچے گئی 

چاچی طلحہ نے ناشتہ کیا تھا اس نے کچن میں داخل ہو کر پوچھا 

ہاں کر کے گیا ہے اور ساتھ مجھے یہ آرڈر بھی دے کر گیا ہے کہ تمہیں بھی کروا دوں اپنی  نگرانی میں 

ہوں اگر اتنی ہی فکر تھی تو کروا کر جاتا نہ 

بیٹا جی اس نے تو اٹھایا تھا تم ہی گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہی تھی انہوں نے اس کے سر پر چپٹ لگائی

چلو تم باہر جا کر بیٹھو میں تمہارے لیے ناشتہ لاتی ہوں  انہوں نے اسے باہر بھیجا کیونکہ کچن میں گرمی تھی 

وہ سر ہلا کر باہر چلی گئی

بانو بیگم نے اسے اہنی نگرانی میں ناشتہ کروایا 

ناشتہ کر کے وہ کمرے میں آ گئی  کہ اس کا امرود کھانے کو دل چاہا اسے پتا تھا کہ اس موسم میں امرود نہی ملتے لیکن اس نے پھر بھی طلاحہ کو امرود لانے کا میسج کیا 

اس کے میسج پر اس نے اسے کال کی 

تم نے ناشتہ کیا پہلا سوال کیا گیا 

جی کر لیا طلحہ میرا امرود کھانے کو دل کر رہا ہے 

اس موسم میں امرود نہی ہوتے تم جانتی ہو 

مجھے نہی پتا مجھے امرود ہی چاہییں اس نے ضد کی

ٹھیک ہے اس نے ہامی بھری اس نے سوچا کہ وہ گھر جا کر اسے بولے گا کہ نہی ملے  

❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ نمازپڑھ کر مروہ کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر قبرستان سے نکلا تھا کہ ایک وجود دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس نے اس کالی چادر میں مکمل طور ہر چھپے وجود کو تعجب سے اس جگہ دیکھا ناجانے کیا سوچ اس کے دماغ میں آئی کہ وہ اس وجود کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا اور اس کا کندھا ہلایا 

اس وجود کے جسم میں جنمبش ہوئی اور اس نے اپنی ڈری سہمی ہرنی آنکھیں اٹھا کر ہلانے والے کو دیکھا تو وہ خوف سے سمٹ گئی اس نے اپنے گرد بازؤں کا گھیرا تنگ کر دیا 

ایک لڑکی کو یہاں اس سنسان قبرستان کے باہر دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی

کون یو تم اور یہاں کیا کر رہی ہو اس کے سوال ہر وہ خاموش رہی

میں تم سے پوچھ رہا ہوں کون ہو تم اس بار اس نے سخت لہجے میں پوچھا تو اس نے دوبارہ اپنی ہرنی سہمی آنکھوں سے اسے دیکھا 

میرا نام بتول ہے اس نے اپنا نام بتایا 

تو یہاں کیا کر رہی ہو کیا تمہیں نہی معلوم کہ آج کل کہ حالات کیسے ہیں کیسے کیسے درندے باہر گھوم رہے ہیں اس نے سختی سے کہا

ان درندوں سے بچنے بچتے تو یہاں پہنچی ہوں اس نے روتے آہستہ آواز سے بتایا

کیا مطلب پوری بات بتاؤ مجھے  اس کے رونے پر اس نے نرمی سے کہا 

میری ماں کا کچھ دن پہلے انتقال ہوا ہے میرا چچا زاد  مجھے اکیلا اور بے بس جان کر میری عزت کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا اسی لیے کل رات میں وہاں سے بھاگ آئی

اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم جھوٹ نہی بول رہی

اس نے اپنے دونوں پاؤں آگے کیے جو کہ لہو لہان تھے شائد وہ ننگے پیر ہی بھاگی تھی 

اس کے  پاؤں کے زخم دیکھ کر اسے اس پر رحم آیا

کیا تمہارا کوئی اور  رشتہ دار نہی ہے  جس کے پاس تم مخفوظ رہ سکو 

نہی اس نے نہ میں سر یلایا 

میں گاؤں سے ہوں اور میرے سارے رشتہ دار وہیں ہیں 

اس کی بات پر اس نے لب بھینچے وہ اسے ایسے اکیلا چھوڑ کر نہی جا سکتا تھا  اور نہ ہی اسے گھر لے جاسکتا تھا وہ ایک درندے سے بچ کر یہاں پہنچی تھی اور اس دنیا میں تو ہزاروں ایسے درندے چلتے پھر رہے تھے اپنے شکار کی تلاش میں

ایک فیصلے پر پہنچ کر اس نے اس کے آگے اپنا ہاتھ کیا اس نے تعجب سے اپنے سامنے ہھیلی اس چوڑی ہتھیلی کو دیکھا 

دیکھو تم مجھ پر یقین کر سکتی ہو اس کا خوف بھانپ کر اس نے کہا

وہ یہاں تو نہی رہ سکتی تھی اس لیے اللہ کا نام لے 

کر اس نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اٹھنا چاہا لیکن پیروں پر وزن پڑنے سے وہاں سے خون رسنا شروع ہو گیا اور درد کی وجہ سے اس کے منہ سے سسکی نکلی اس کے پیروں سے خون رستا دیکھ کر اس نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا تو وہ خوف سے مچلنے لگی 

دیکھو ڈرو مت تمہارے پیروں سے خون نکل رہا تھا اگر تم چلتی تو زخم مزید خراب ہو جاتے اور میری گاڑی تھوڑے سے فاصلے پر ہے اس کی وضاحت پر وہ چپ ہو گئی 

اسے گاڑی میں بٹھا کر  اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر کی طرف موڑ دی 

اسے جب ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک ویران بوسیدہ حال کمرے میں پاپا کلوروفام سے اس کا سر چکرا رہا تھا اس نے چلانا چاہا کسی کو اپنی مدد کے لیے بلانا چاہا کہ اس کی آواز اس کے اندر ہی رہ گئی اس کے منہ پر زور سے کپڑا باندھا گیا تھا جس سے اس کی آواز دب گئی تھی لیکن وہ پھر بھی ہمت نہ ہارتی خود کو رسیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی 

رابیل کو ڈھونڈتے ہوۓ ایک گھنٹا ہونے کو تھا لیکن ابھی تک انہیں ناکامی ہی ہوئی تھی عنایہ کا بھی انہیں کوئی سراغ نہ ملا تھا جس سے وہ اس تک پہنچ پاتے ہر جگہ انہوں نے ناکا بندی لگائی ہوئی تھی ہر گاڑی کی چیکنگ ہو رہی تھی لیکن سب ناکام 

مجھے لگتا ہے یہ ہمیں اس کے گھر والوں کو انفارم کر دینا چاہیے ایسے انہیں ان کی بیٹی سے لا علم رکھنا سہی نہی ہے علی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مشورہ دیا 

نہی ابھی نہی ابھی مجھے خود اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرنی ہے اگر میں ناکام ہوتا ہوں تو انہیں بتا دوں گا میں اور ڈی آئی جی سر کا بھی کہنا ہے کہ ابھی انہیں لاعلم رکھنا ہی بہتر ہے 

ہمم لیکن ہم ساری ایسی جگہوں پر دیکھ چکے ہیں جہاں ان کے ہونے کا خدشہ تھا ساری گاڑیاں چیک کی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک ہمیں ایک بھی سراغ نہی ملا جس سے ہم ان تک پہنچ سکیں 

امم ناکہ بندی کا کوئی فائدہ نہی ہے کیونکہ وہ جہاں اسے رکھنا چاہتے تھے وہ اسے وہاں پہنچا چکے ہوں گے اور فوٹیج میں بھی وہ اپنی گاڑی میں جاتی دکھائی دی ہے اور اس کی گاڑی بھی نہی ملی اس سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ پہلے ہی پلینگ کر چکے تھے اب ہمیں رانا ہاشم سے ہی کچھ معلوم ہو سکتا ہے ہہ وہ لوگ کیوں اس کی رہائی چاہتے ہیں وہ لوگ اس کے لیے اتنا رسک لے رہے ہیں تو یقیناً وہ لوگ اس کے وفا دار ہوں گے یا پھر ان کا کچھ مقصد 

ہمم

وہ خود کو رسیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ زور دار جھٹکے سے دروازہ کھلا تھا 

عنایہ اسی لڑکے کے ساتھ کھڑی اسے مسکرا کر دیکھ رہی تھی انہیں دیکھ کر اس نے کچھ کہنا چاہا تو وہ اس کے پاس آئی اور اس کے منہ سے کپڑا ہٹایا 

مجھے کیوں کیڈنیپ کیا ہے کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا اس نے اپنا قصور جاننا چاہا 

تم نے نہی لیکن تمہارے اس عاشق نے تو بگاڑا ہے آج اگر رانا ہاشم باہر ہوتا تو وہ ہیرے ہمارے پاس ہوتے لیکن اس انسپکٹر نے سب خراب کر دیا اب وہ تم سے پیار کرتا ہے تو تمہارے لیے اس رانا ہاشم کو تو چھوڑ ہی سکتا ہے چلو اب تمہارے عاشق کو تمہارا دیدار کرواتے ہیں بے چارہ اداس ہو گیا ہو گا 

اس کے موبائل پر پھر وہی نمبر جگمگایا 

اس نے فوراً کال پک کی

ایک گھنٹا ہو چکا ہے اور تم نے ابھی تک رانا ہاشم کو ہمارے حوالے نہی کیا تو پھر ایک ڈیمو تو بنتا ہے کہتے اس نے موبائل کا کیمرہ رابیل کی طرف کیا اور ایک ہاتھ گرم راڈ اس کے بازو پر لگایا جس سے رابیل کی چیخیں نکل گئیں 

یہ دیکھ کر فرہاد نے ضبط سے آنکھیں میچیں اس کا دل کیا وہ ابھی ان کا سر کچل دے  

جبکہ دوسری طرف اسے ان کا قہقہہ سنائی دیا 

بس ایک دفع میرے ہاتھ لگ جاؤ پھر میں تمہیں اسی دنیا میں دوزخ کی سیر کرواؤں گا 

سیر بھی کرا لینا لیکن پہلے ہمیں ڈھونڈ تو لو اور یہ تو ابھی صرف ایک ڈیمو تھا جتنے گھنٹے ہمیں انتظار کرواؤ گے اتنے ہی زخم اسے اپنے جسم پر برداشت کرنے پڑیں گے اب یہ تم پر ہے  کہ  تم اپنی محبت کو چنتے ہو کہ وردی کو 

کال ٹریس ہوئی اس نے  علی سے پوچھا جس نے نہ میں سر ہلایا وہ ایک پرائیوٹ نمر تھا ٹریس کرنا مشکل تھا 

میری بات مان لو اور اس کے گھر والوں کو بتا دو 

ہمم اس نے مصطفی صاحب کو کال کی

مصطفی صاحب جو ایک میٹنگ میں بزی تھے کہ  اپنے سیکرٹری کی مداخلت پر وہ ایسکیوز کرتے میٹینگ روم سے باہر آۓ 

سر انسپکٹر فرہاد کی کال ہے 

ہمم دو سر معزرت کے آپ کو ڈسٹرب کیا لیکن کیا آپ اس وقت اپنے بیٹے کے ساتھ پولیس سٹیشن آ سکتے ہیں 

جی لیکن حیریت کس سلسلے میں مروہ والا کیس تو سالو ہو چکا ہے انہیں لگا شائد وہ پچھلے کیس کے لیے بلا رہا ہے

جی سر وہ حل ہو چکا ہے آپ پولیس سٹیشن تشریف لائیں میں آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا کال بند کر کے انہوں نے عاجل کو کال کی 

عاجل جو اس کے جا نے کے بعد سے وہیں بیٹھا ہوا تھا کمرے سے آتی موبائل کی آوازپر وہ بے دلی سے کمرے میں گیا 

جی ڈیڈ پولیس سٹیشن پہنچو کیوں اس نے بل ڈال کر پوچھا مجھے خود نہی معلوم انسپکٹر فرہاد نے بلایا ہے باقی کی تفصیل وہیں جا کر پتا چلے گی 

مصطفی صاحب سب سےمعزرت کرتے کل میٹنگ کرنے کا کہتے آفس سے چلے گئے

مصطفی صاحب اور عاجل کی گاڑیاں ساتھ ساتھ پولیس سٹیشن کے اندر داخل ہوئیں

بیٹھیے سر اس نے انہیں اندر آتے کہا

سر آپکی بیٹی کو پھر سے کیڈنیپ کیا گیا ہے اسے رانا ہاشم کو چھڑوانے کے لیے مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے 

یہ خبر ان دونوں پر بم کی طرح گری 

لیکن اسے کیوں اس کا اس سے کیا تعلق  عاجل نے ضبط سے سرد آواز میں پوچھا 

فرہاد کو پتا تھا کہ یہ سوال ضرور اٹھایا جاۓ گا اسلیے وہ پہلے سے ہی خود تیار کر چکا تھا سچ بتانے کے لیے 

مس رابیل مجھ سے محبت کرتی تھیں اور اکثر وہ میرے آس پاس ہی پائی جاتی تھیں میں نے ان کو کافی غصے سے بھی منع کیا لیکن وہ بعض نہ آئیں اور وہ خود ان لوگوں کہ نظر میں آ گئیں ان لوگوں کو لگتا ہے کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اس لیے اب وہ لوگ مجھے بلیک میل کر رہے ہیں کہ میں رانا ہاشم کو چھوڑ دوں نہی تو وہ لوگ رابیل کو مار ڈالیں گے 

کیا بکواس ہے یہ اگر میری بہن کو ایک خراش بھی آئی تو ان کے ساتھ ساتھ میں تمہیں بھی نہی چھوڑوں گا اس نے اس کے گریبان کو پکڑ کر چلا کر کہا 

اس کے گریبان پکڑنے ہر فرہاد بھی طیش میں آیا اور اس کے منہ پر مکہ مارا 

ان دونوں کو آپس میں ہاتھا پائی کرتے دیکھ کر مصطفی صاحب نے چھڑوایا 

ابھی یہ وقت ایک دوسرے کو بلیم کرنے کا یا مار دھار کا نہی ہے میری بچی ان ظالموں کے شکنجے میں ہے اور تم دونوں کو لڑائی کی پڑی ہے 

ان کے کہنے پر دونوں نے ایک دوسرے کا گریبان چھوڑا 

کوئی ایسی چیز رابیل کے پاس ہو جس سے ان کا پتا لگایا جا سکتا ہو کیونکہ جس نمبر سے کال آ رہی ہے وہاایک پرائیوٹ نمبر ہے 

ایک منٹ رابیل کے ہاتھ میں ایک گھڑی ہے جس میں میں جی پی ایس فکس کیا گیا ہے اس سے اس کی لوکیشن کو ٹریس کیا جا سکتا ہے عاجل نے یاد آنے پر بتایا کچھ دن پہلے جب وہ کیڈنیپ ہوئی تھی تب عاجل نے اس کی خفاظت کے لیے ایک گھڑی اسے لا کر دی تھی اس میں ٹریکر تھا جو کہ اس کے موبائل سے کنیکٹڈ تھا 

تو پھر آپ اس کی لوکیشن چیک کریں فرہاد نے بے تابی سے کہا مصطفی صاحب نے اس کی بے تابی کو گہری نظروں سے دیکھا تھا 

عاجل نے موبائل آن کر کے لوکیشن چیک کی تو رابیل کی لوکیشن جنگل کے پاس شو ہو رہی تھی  جو کہ یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا 

فرہاد اپنی ٹیم کے ساتھ جبکہ عاجل اور مصطفی ایک گاڑی میں روانہ ہوۓ

ایک گھنٹےکے بعد وہ لوگ اس جگہ موجود تھے لیکن وہاں ایسی کوئی بھی جگہ نہی دکھ رہی تھی جہاں اسے رکھا جاتا

وہ لوگ آس پاس ایسے ہی دیکھ رہے تھےکہ فرہاد کو اپنے موبائل پر ایک ویڈیو موصول ہوئی اسی نمبر سے اس نے ویڈیو آن کی تو وہی آدمی دوبارہ راڈ اس کے دوسرے بازو پر لگا رہا تھا اور رابیل کی چیخیں عروج پر تھیں

رابیل کی چیخوں پر عاجل مصطفی اور فریاد نے مٹھیاں بھینچی تھیں تینوں کی آنکھیں ضبط سے لہو چھلکانے لگی تھیں 

فرہاد نے ویڈیو کو غور سے دیکھا تو رابیل کے پیچھے ایک کھڑکی تھی جہاں سے پانی نظر آ رہا تھا یعنی وہ لوگ ایسی جگہ تھے جہاں چشمہ تھا 

فرہاد نے اپنی ٹیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک کو جنگل کے ایک طرف جبکہ دوسری کو دوسری سمت بھیجا اور خود عاجل اورمصطفی کے ساتھ سڑک کے دوسری طرف موجود جنگل میں گیا 

وہ لوگ اختیاط سے چاروں طرف دیکھتے ہوۓ جا رہے تھے کہ انہیں رابیل کی چیخیں سنائی دیں وہ لوگ جلدی جلدی آواز کی سمت دوڑنے لگے

کچھ دور انہیں ایک جھونپڑی دکھائی دی جس کے ارد گرد کچھ آدمی کھڑے پہرہ دے رہے تھے عاجل صدا کا جزباتی جزبات میں آ کر بنا کسی ہتھیار کے ان کی طرف جانے لگا کہ فرہاد نے اسے روکا اور اسے پسٹل تھمائی

اب وہ لوگ احتیاط سے اس جھونپڑی کی طرف بڑھ رہے تھے پیچھے کی طرف سے جا کر عاجل نے ایک کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی گردن کو مڑوڑا تو وہ تڑپنے لگا عاجل نے اسے زمین پر پھینکا اور آگے بڑھا اسی طرح فرہاد نے دوسرے آدمی کے  سر کی پچھلی سائڈ پر گن مار کر اسے بے ہوش کر دیا اور اندر جانے سے پہلے اپنی ٹیم کو میسج کر دیا 

باہر جتنے بھی آدمی تھے انہیں بے ہوش کر کے وہ لوگ اندر داخل ہوۓ سامنے ہی دو کمرے تھے وہ   اس کمرے میں داخل ہوۓ جہاں سے رابی کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں 

سامنے کا منظر دیکھ کر عاجل کی آنکھوں میں ضبط کے باوجود نمی آ گئی اس نے بپھرے شیر کی طرح آگے بڑھ کر اس آدمی کو پیچھے دھکا دیا اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر اس نے وہی گرم راڈ اس کے جسم پر لگایا تو وہ چیخ اٹھا عاجل نے جس طرح وہ اس کی بہن کی چیخوں پر کان بند کر کے اسے زخم دے رہا تھا ویسے ہی اس نے بھی اپنے کان بند کر لیے

ان کی ٹیم بھی وہاں پہنچ چکی تھی علی نے عنایہ کو پکڑ کر لیڈی کانسٹیبل کے حوالے کیا فرہاد نے جلدی سے آگے بڑھ کر رابیل کو رسیوں سے آزاد کیا اس کے ددھیا بازو پر راڈ کے نشان چھپ گئے 

مصطفی صاحب تو اپنی لاڈو پلی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ہی سکتے میں تھے انہوں نے آگے بڑھ کر فرہاد سے رابیل کو لے کر گلے لگایا اور اس کے چہرے کو جا بجا چوما اتنی تکلیف برداشت کرتے اس کی برداشت اب انہیں دیکھ کر ختم ہوئی تھی اور وہ لہرا کر ان کی باہوں میں بے ہوش ہو گئی

فرہاد نے عاجل کو جو اسے آج مار ہی دینا چاہتا تھا پکڑ کر اس آدمی سے پیچھے کیا اور اسے بھی پولیس سٹیشن لے جانے کو کہا 

عاجل رابی بے ہوش ہو گئی ہے 

عاجل نے راڈ کو وہیں پھینکا اور اسے باہوں میں اٹھاۓ باہر کی جانب بھاگا 

تم بھی جاؤ ان کے ساتھ ان دونوں کو میں دیکھ لیتا ہوں علی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو اس نے تشکرانہ نظروں سے اسے دیکھا 

ڈاکٹر نے اس کی بینڈج وغیرہ کر دی تھی زخم کافی گہرے تھے عاجل کو تو اس کے زخم دیکھ کر رہ رہ کر ان لوگوں پر غصہ آ رہا تھا 

فرہاد اسے دیکھنے ہے لیے روم میں داخل ہوا تو وہ انکھیں موندیں لیٹی ہوئی تھی اس نے اسے پکارا تو اس نے اپنی آنکھیں آہستہ سے کھولیں 

کیسی ہو ؟ اس نے اس کے درد بھرے چہرے کو دیکھتے فکرمندی سے استفسار کیا 

ٹھیک ہوں اس کا اپنے لیے فکرمند ہونا اسے اچھا لگ رہا تھا جبکہ اس کے زخموں پر درد اس کے دل میں ہو رہا تھا 

تم فکر مت کرو جنہوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے انہیں ان کے کیے کی سزا ضرور ملے گی اس نے سر ہلایا 

ہاسپٹل سے واپسی پر اس نے اس آدمی کو خوب مارا اور اسی طرح مارا جس طرح اس نے رابیل کو ازیت دی تھی عنایہ پر تو وہ ہاتھ نہی اٹھا سکتا تھا لیکن لیڈی کانسٹیبل کو اس نے اس کی اچھی خاطر مدارت کرنے کو کہا تھا 

وہ گھر آئی تو نور اس کے پٹیوں میں جھکڑے بازؤں کو دیکھتی نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی 

کیسے ہوا یہ انہوں نے اس کے بازؤں کو دیکھتے نم لہجے میں پوچھا 

بس زرا سا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا اس کی بجاۓ جواب مصطفی صاحب نے دیا تھا اور اسے اس کے کمرے میں لاۓ تھے پیچھے ہی وہ بھی آئیں

زیادہ چوٹ تو نہی آئی درد تو نہی ہو رہا زیادہ نور نے اسکے ساتھ بیٹھتے کہا

نہی ڈاکٹر نے درد کا انجیکشن لگا دیا تھا 

عاجل بھی وہیں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ آہلہ اس کے لیے سوپ بنا کر لائی اسے دیکھ کر جہاں عاجل کو دن کا نظر اور اس کے کہے الفاظ یاد آۓ تھے وہیں اس نے اس کی سرخی مائل نیلی آنکھوں سے نظریں چرائی تھیں اسے جتنا عاجل  برا لگتا تھا اتنی ہی اس کی اوشن بلو آنکھیں اور اس میں رہنے والی سرخی اپنی طرف متوجہ کرتی تھی

وہ اسے خود سوپ پلانے لگی تھی کہ نور اس سے سوپ لے کر رابی کو خود پلانے لگیں تو آہلہ اس کی دوری سائیڈ آ کر بیٹھ گئی وہ باخوبی اس کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی اور اسے کوفت بھی ہو رہی تھی اسی کوفت سے بچنے کے لیے وہ اسے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت دیتی باہر چلی گئی

❣❣❣❣❣❣❣

وہ اسے لے کر گھر میں داخل ہوا تو سب کی نظریں اس کی طرف اٹھتی اس کے ساتھ اس کے سہارے کھڑی لڑکی پر جا ٹھہری

سب کی نظریں خود پر پا کر بتول سر جھکا گئی 

یہ کون ہے سب سے پہلا سوال رفعت بیگم کی طرف سے آیا تھا جو خدشے ان کا دماغ کھڑے کر رہا تھا وہ ان کو جھٹلانا چاہتی تھیں

ان کے سوال پر وہ اسے لے کر لاؤنج میں آیا اور اسے صوفے پر بٹھا کر وہ ان کو جواب دینے کے لیے مڑا

مام یہ بتول ہے پھر اس نے انہیں بتایا جو اسے بتول نے بتایا تھا 

سچائی جان کر ان کے دل سے سارے خدشے دور ہو گئے تھے اب انہیں اس کے لیے برا لگ رہا تھا سب سے حیران کن منظر تو یہ تھا کہ شمع بیگم کوئی بھی سوال کرنے کی بجاۓ اس کے پاس بیٹھتی اس کا ماتھا چوم گئی تھیں انہیں اس میں اپنی مروہ دکھ رہی تھی 

رفعت بیگم نے شکیلہ خالہ سے گرم پانی اور روئی منگوائی وہ اس کے زخم صاف کرنے لگیں کہ شمع نے ان سے لے کر خود کیا اور اسے لے کر اپنے کمرے میں چلی گئیں

جہاں سب کو  اس لڑکی کہ کہانی سن کر دکھ ہوا تھا وہیں آج اتنے دنوں بعد شمع بیگم کے نارمل انداز پر انہیں خوشی ہوئی تھی رفعت بیگم نے اس کے لیے ناشتہ ٹرے میں رکھا اور ساتھ میڈیسن رکھ کر شمع بیگم کے کمرے میں گئیں تو بتول ان کے گلے لگے رو رہی تھی 

شمع بیگم نے اسے چپ کروا کر ناشتہ کروایا اورنیند کی گولی کھلا کر سلا دیا

بہت دکھ ہوا اس کی کہانی سن کر رفعت بیگم نے بات شروع کی 

ہاں مجھے اس میں مروہ دکھ رہی ہے میری مروہ انہوں نے روتے کہا 

بس کرو شمع اس طرح اسکو تکلیف ہو گی تم اس کے لیے دعا کیا کرو کہ اللہ اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے اس کے درجات بلند فرماۓ  آمین

بہت اچھا کیا تم نے جو اسے گھر لے آۓ ساجد صاحب نے اس کے فیصلے کو سراہا تو وہ سر ہلاتا تیار ہونے کمرے میں چلا گیا 

اس واقعی کو گزرے کافی دن ہو گئے تھے اب رابیل کے زخم بھی کافی حد تک مندمل ہو چکے تھے رانا ہاشم عنایہ اور اس کا ساتھی بھی اپنے کیے کی سزا جیل میں بھگت رہے تھے وہ یونیورسٹی نہی جا رہی تھی 

چاہ کر بھی اس کا دل فرہاد کی طرف سے بدگمان نہی یو پایا تھا اس کا دماغ اسے اس سے بدگمانی پر اتارتا تو اس جا دل اس کے حق میں جواب دیتا وہ الجھ کر رہ گئی تھی 

کس سوچ میں ہے میرا بیٹا مصطفہ صاحب نے اسے کھوۓ کھوۓ دیکھ کر ہوچھا وہ اس کا حال پوچھنے آۓ تھے 

کچھ نہی بابا بس ایسے ہی اس نے مسکرا کر جواب  دیا

سہی اب بازو کیسا ہے  انہوں نے متفکر سے اس کے بازو کو دیکھتے استفسار کیا 

بہت بہتر ہے بابا دو تین دن تک بلکل سہی ہو جائیں گے اس نے اپنے بازو کو دیکھتے کہا

ہممم میں آپکے بابا ہونے  سے پہلے آپ کا دوست ہوں نہ انہوں نے تصدیق شاہی 

جی بابا اس نے ان کے یوں اس طرح پوچھنے پر الجھن سے ہاں میں سر ہلایا

تو بیٹا میں ابھی جو بھی پوچھوں گا آپ مجھے اس کا سہی سہی جواب دیں گی میں اس وقت آپکا بابا نہی بلکہ دوست ہوں

جی بابا پوچھیے جو پوچھنا ہے آپکو 

رابی کیا تم انسپکٹر فرہاد سے محبت کرتی ہو اس نےناس نام پر الجھ کر انہیں دیکھا

کیا ہوا اس کے یوں الجھ کر دیکھنے پر انہوں نے پوچھا

بابا ہماری یونی میں ای لڑکا ہے فرہاد میں اس سے محبت کرتی ہوں لیکن وہ کوئی انسپکٹر نہی بلکہ وہ رکی اور انہیں دیکھا

وہ غنڈہ ہے اس نے سر جھکا کر بتایا 

انہیں تو فرہاد نے سچ بتایا تھا اس لیے انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا جو اس بات سے لاعلم تھی 

اچھا تو وہ غنڈہ ہے انہوںنے سنجیدگی سے کہا جبکہ اندر سے وہ اپنی بیٹی کی لاعلمی پر مسکرا رہے تھے

جی اس نے اب کی بار بھی سر جھکا اقرار کیا

اس کی کوئی تصویر انہوں نے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر پوچھا ان کی بیٹی بولڈ تھی لیکن اس وقت وہ سر جھکاۓ بتا رہی تھی

اس نے اپنے موبائل میں چپکے سے اس کی لی گئی تصویروں میں سے ایک تصویر انہیں دکھائی

پکانا یہ غنڈہ ہے انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا 

جی بابا اچھا چلو میرا والا فرہاد بھی دیکھ لو ہو سکتا ہے وہ زیادہ پیارا ہو انہوں نے شرارت سے کہا

بابا پیار میں کوئی آپشن نہی ہوتا 

جو بھی ہے لیکن ایک دفع دیکھ لو انہوں نے اس کے سامنے زبردستی موبائل کیا تو سامنے فرہاد کو پولیس کی یونیفارم میں دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ ہوا وہ کبھی اس تصویر کو دیکھتی تو کبھی اپنے موبائل میں موجود تصویر کو 

بابا یہ اسنے تصویر پر انگلی رکھ کر ان کی طرف دیکھا

زیادہ پیارا ہے نہ تمہارے والے سے انہوں نے پھر شرارت سے کہا

بابا یہ یونی والا فرہاد ہے یہ اس یونیفام میں کیا کر رہا ہے اس نے اس کی تصویر کو دیکھتے پوچھا

پھر انہوں نے اسے سب بتا دیا جو اس دن فرہاد نے انہیں بتایا تھا 

مطلب کہ اس دن اس نے مجھے کیڈنیپ نہی کیا تھا بلکہ بچایا تھا اس نے پھنسی سی آواز میں کہا

جی بیٹا

اف خدایا بابا میں اس سے اتنے دن ناراض رہی وہ بھی اس چیز کے لیے جو اس نے کی ہی نہی اس نے کچھ افسوس سے کہا لیکن اسے خوشی بھی ہوئی تھی کہ وہ صرف ایک غلط فہمی تھی

آپ سوری کر لینا اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے اپنی بیٹی کے لیے مانگ لوں کیا کہتی ہو تم 

آئی لو یو بابا اس نے خوشی سے چہکتے کہا تو وہ اس کا سرچوم کر کمرے سے چلے گئے تھے 

اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ناچے گاۓ لیکن اف یہ بازو اس نے انہیں دیکھا اورمنہ بنایا یعنی وہ اپنی خوشی سیلیبریٹ نہی کر سکتی تھی

❣❣❣❣❣❣❣❣❣

وہ کلب میں بیٹھا اپنی نیلی آنکھیں دانس فلور پر جماۓ ناجانے کیا سوچ رہا تھا ڈانس فلور پر ڈانس کرتی لڑکیاں بار بار مڑ کر اس حسین شخص کو دیکھ رہی تھیں جو ان سب سے بے نیاز اپنی سوچوں کے تانے بن رہا تھا 

صارم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا رو اس نے اپنی آنکھیں اس کی طرف اٹھائیں اس کی نیلی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر صارم نے متفکر سے اس کا چہرہ دیکھا اسے یہ سرخی کسی غصے کی نہی بلکہ اس کے اندر ہوتی جنگ کی علامت لگ رہی تھی وہ اس کا دوست تھا بچپن کا ساتھی تھا اسے اس سے بھی زیادہ جانتا تھا 

کیا ہوا عاجل کچھ نہی کہہ کر اس نے شراب اپنے حلق میں اندیلی اب مجھ سے بھی چھپاؤ گے اس نے اسے سب بتا دیا 

ہمم تو تو کیا اب بھی صرف اپنے لیے انہیں پانا چاہتا ہے یا پھر اپنے  کیے پر شرمندہ ہے وہ اسے اچھے سے جانتا  تھا اس لیے اس نے یہ نہ کہا کہ تو نے اس کے ساتھ غلط کیا ہے 

پتا نہی لیکن میں اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں مجھے نہی پتا کب کیسے لیکن مجھے اس سے محبت ہو گئی اسےکسی کے ساتھ دیکھنا مجھے گنوارا نہی وہ ہنس کر کسی سے بات کرے تو مجھے نا گوار گزرتا ہے لیکن وہ کہتی ہے کہ وہ موت کو ترجیح دے گی مجھ پر اسے موت قبول ہے لیکن میں نہی اس نے ضبط سے اپنی نیلی آنکھیں شراب کے بھرے گلاس پر ٹکا کر کہا

تو تو ان سے معافی مانگ لے وہ عورت ہیں بڑا ظرف رکھتی ہیں تجھے معاف کر دیں گی پھر تو کچھ وقت دے انہیں اور اللہ سے انہیں اپنے لیے مانگ لے وہ تجھے نامراد نہی لوٹائیں گے  اس کی ضبط سے سرخ آنکھوں پر اس نے اسے مشورہ دیا 

اللہ سے کیسے مانگو 

دعا سے سجدے میں گر کر اللہ سے انہیں اپنے لیے مانگ لے وہ خودبخود ان کے دل میں تیرے لیے گنجائش پیدا کر دیں گے  

ہمم لیکن میں تو کافی عرصے سے اس کے در پر نہی گیا کیا وہ میری دعا قبول کرے گا کہیں وہ بھی تو مجھے اسکی طرح دھتکار تونہی دے گا 

وہ غفور ہے اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے دیکھ تو نے اتنے عرصے سے اس کے آگے سجدہ نہی کیا اسے یاد نہی کیا تو کیا اس نے تجھے رزق نہی دیا یا پھر اس نے تیری آسائشیں کم کر دی ہیں اسنے  ایسا کچھ نہی کیا تجھے سب کچھ عطا کرتا رہا وہ تجھ سے ناراض نہی ہے اور نہ ہی تجھے دھتکارے گا  وہ تو انتظار میں ہے کہ تو کب اس کے آگے جھکتا ہے اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا 

ہمم چل اب چل یہاں سے یہ حرام شے وہ زات پسند نہی کرتی اسے کھینچ کر وہ اسے اس بے حیائی سے باہر لے گیا 

گھر آکر اس نے شاور لیا اور فریش ہو کر بیڈ پر بیٹھ گیا کہ اسے صارم کی کہی باتیں یاد آئیں اس مے کافی عرصے سے نماز ادا نہی کی تھی اسلیے اسنے اپنی غلطیوں کو نکالنے کے لیے یوٹیوب سے نماز کا طریقہ دیکھا اور وضو کرنے چلا گیا 

وضو کر کے اس نے جانماز ڈھونڈا جو کے اسے کمرے میں کہیں نہ ملا ہوتا تو ملتا وہ وہ مایوسی سے بیٹھ گیا کہ اس کے دل نے اسے ملامت کیا اس نے کبرڈ سے چادر نکالی اور بچھا کر نماز ادا کرنے لگا 

نماز اداکر کے اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ تو اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اتنے سال بعد اپنے رب سے ہم کلام ہوتے اس نے سب سے پہلے اس زات کی تعریف کی اور پھر اپنے لیے آہلہ کو مانگا ہاتھ منہ پر پھیر کر اس نے چادر اپنی جگہ پر رکھی اور سونے کے لیے لیٹ گیا بے شک آج پرسکون نیند اس کا انتظار کر رہی تھی

اس دن کے بعد سے وہ ناشتہ کمرے میں ہی کرتی تھی اس کی کوشش ہوتی کہ وہ اس کا سامنا کم ہی کرے لیکن آج مصطفی صاحب نے خود اسے جا کر ناشتے کے لیے بلایا تھا اس لیے وہ منع نہ کر سکی وہ ناشتے کی ٹیبل پر آئی تو اس کو ناشتہ کرتے دیکھ کر وہ منہ موڑ گئی 

ڈیڈمجھے بھی آج سے آفس جوائن کرنا ہے اس نے سب پر بم پھوڑا  سب کھانا چھوڑ کر اسے دیکھنے لگے یہ ان کے لیے کسی معجزے سے کم نہی تھا کہ وہ خود آفس جانے کا کہہ رہا ہے 

کیا کہا تم نے نور نے حیرانگی سے کہا انہیں لگا شائد انہوں نے غلط سنا ہے سب کو یہی لگ رہا تھا 

بھائی رات کو زیادہ پی تھی کیا 

نہی میرا آفس ہے مجھے ہی دیکھنا ہے تو سوچا آج سے ہی کیوں نہی اس نے بے نیازی سے کہا وہ جانتا تھا کہ سب کے لیے شاکنگ ہے لیکن وہ بے نیاز بنا ساتھ ساتھ ناشتہ کرنے لگا 

ہمم اچھی بات ہے کس کا آفس جوائن کرنا ہے ماں کا کہ باپ کا مصطفی صاحب نے نارمل پوچھا

یہ کیا بات کی آپ نے مصطفی میرا اور آپ کا کیا الگ الگ ہے نور نے زرا ناراضگی سے کہا

ارے نہی بیگم دل پر نہ لیں میں تو اس لیے پوچھ رہا تھا کہ دونوں اس کے ہیں تو کس والے کو اپنی آمد کا شرف بخش رہے ہیں کیونکہ مجھے تو میرے ایمپلائز بہت عزیز ہیں اور آپ ان کے مزاج سے باخوبی واقف ہیں 

ہاہاہا نہی ڈیڈ آپ بے فکر رہیں میں آپ کے ایمپلائز کو نہی کھاؤں گا میں تو صرف ایک ہی انسان کو کھاؤں گا وہ بھی پورے حق سے پہلی بات اس نے قہقہہ لگا کر ہنس کر کی جبکہ دوسری اس نے معنی حیزی سے آہلہ کو دیکھ کر کی 

وہ جو پہلی دفع اسے قہقہہ لگاتے دیکھ کر رہی تھی اس کی معنی حیز بات پر لب بھینچ کر رہ گئی

میں خوب سمجھ رہا ہوں تمہاری بات کو انہوں نے اسے آہلہ کو دیکھتے دیکھ لیا تھا اور اس کی بات کے پیچھے چھپا معنی بھی وہ سمجھ چکے تھے 

ان کی تو دل کی خواہش تھی کہ وہ ان کے گھر کی بہو بنے لیکن عاجل کے تیور ہی درست نہی تھے لیکن اب اس کی معنی خیزی پر ان کے دل میں امید پیدا ہوئی تھی 

چلیں ڈیڈ آج مام کے آفس کو شرف بخشتے ہیں کل آپکے کو اس نے ناشتہ سے ہاتھ اٹھاتے کہا 

تم کیا ایسے جاؤ گے آفس انہوں نے اسے بلیک پینٹ شرٹ اور ہم رنگ جیکٹ میں ملطوس جامے لیے کھڑے یوتے دیکھ کر کچھ اچھنبے سے سوال کیا

جی ڈیڈ کہتے وہ باہر جانے کے لیے مڑا 

لیکن تم چینج کر لیتے مصطفی صاحب نے اسے ٹوکا 

ڈیڈ وہ میرا آفس ہے اور میں ایسا ہی ہوں کہتے وہ ہاتھ میں کیز گھماتا باہر چلا گیا جبکہ مصطفی صاحب بھی اس کی ہٹ ڈھرمی پر اسے کوستے ورکرز کے لیے دعا گو تھے 

❣❣❣❣❣❣❣

صوفیہ پریگنینسی کی وجہ سے دن بدن موڈی اور چرچری ہوتی جا رہی تھی سب اس کا بہت خیال رکھ رہے تھے لیکن وہ اپنا خود کوئی خیال نہی رکھ رہی تھی کھانے پر اس کی یہی ضد ہوتی کہ یہ نہی کھانا وہ نہی کھانا 

ابھی صبح کہ بات تھی کہ اس نے ضد کی کہ اسے آئس کریم کھانی ہے صبح کے چھ بج رہے تھے  بھلا اس وقت وہ آئس کریم کہاں سے لاتا لیکن پھر اس کی ناراضگی کی خاطر وہ لینے چلا گیا اور اب پتا نہی کہاں سے نو بجے آئس کریم لایا تھا 

کیا ندیدوں کی طرح دیکھ رہے ہیں یہ میری آئسکریم ہے میں نہی دوں گی اگر کھانی ہے تو خود جا کر اپنی لے آئیں 

اس کی بات پر وہ بھی میدان میں آیا

کیا کہا کپ میں جا کر اپنی خود لے کر آؤں تو محترمہ یہ بھی میں ہی لے کر آیا ہوں اور مجھے پتا ہے میں کہاں کہاں کی خاک چھان کر یہ لایا ہوں اور بجاۓ میرا شکریہ کرنے کہ تم مجھے باتیں سنا رہی ہو 

تو کوئی احسان کیا ہے آپنے مجھ پر یہ آپکا بے بی ہی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ آئس کریم کھانی ہے اس نے سارا لبہ بے بی پر گرا دیا اگر وہ اس وقت اس دنیا میں موجود ہوتا تو ضرور اپنی ماں کی اس چالاکی پر اسے ایوارڈ دیتا 

جی جی میں تو جیسے جانتا نہی ہوں آپکا تو کچھ دل نہی کرتا کھانے کو یہ ساری فرمائشیں کبھی امرود کبھی کیری تو کبھی کچھ یہ بھی میرا بے بی ہی کرتا ہے ہے نہ 

وہ باتوں باتوں میں اس سے آئس کریم لے چکا تھا اور اب مزے سے کھا رہا تھا جب کہ وہ اسےاپنی آئسکریم کھاتے دیکھ نہی بلکہ گھور رہی تھی اس نے جھپٹ کر آئسکریم واپس لی اور اس کی پہنچ سے دور ہوئی 

یہ میری ہے یہ میری تیری کیا ہوتا ہے یہ ہماری ہے اس نے اس سے آئسکریم لی نہی یہ میری ہے  میری ہے وہ اس سے پیچھے ہوئی طلحہ بھی اس سے آئس کریم لینے کے لیے اس پہ جھپٹا  اب سٹویشن یہ تھی کہ دونوں آیسکریم آئسکریم کھیلتے خود آئسکریم بن چکے تھے صوفیہ نے رونی صورت سے طلحہ کو دیکھا لیکن اس کے بالوں میں لگی آئسکریم کو دیکھ کر وہ ہنسنے لگی اسے ہنستا دیکھ کر اس نے اسے اپنے گھیرے میں لیا اور ایک ہاتھ اپنے بالوں میں ڈال کر اس کی طرف بڑھایا

نو نو نو طلحہ پلیز اس نے اس کا بڑھتا ہاتھ اپنی طرف دیکھ کر نہ میں سر ہلانے کے ساتھ اس کی پناہوں سے نکلنا چاہا لیکن  طلحہ نے اسے کس کے پکڑا اور اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود آئسکریم سے بھرا ہاتھ اسکے گال پر لگایا اور اسی طرح دوسرے گال پر اب ہنسنے کی باری طلحہ کہ تھی اس کے ہنسنے پر صوفیہ نے اسے دھکا دیا اور ناراض ہو کر واش روم میں منہ دھونے چلی گئی

واش روم کے اندر بھی اسے اس کا قہقہہ سنائی دیا 

اس نے غصے سے بند دروازے کو دیکھا جیسے یہاں طلحہ ہو لیکن پھر شیشے میں خود کو دیکھ کر خود بھی مسکرا دی 

یار دروازہ کھولو اتنی پیاری لگ رہی تھی تم قسم سے یہ روپ تمہارا سب سے بیسٹ ہے اسنے دروازہ بجاتے متبسم سے کہا

جاۓ یہاں سے طلحہ ورنہ میں خون پی جاؤں گی سارا آپکا ٹھیک ہے پی جانا لیکن ابھی تو باہر آؤ مجھے میری چیزیں دو مجھے آفس جانا ہے پہلے ہی تمہارے چکر میں لیٹ ہو گیا ہوں اب کہ اس نے سنجیدگی سے کہا تو وہ بھی باہر آئی اور اسے اس کی چیزیں نکال کر دیں اور تیاری میں مدد دی 

چلو اب مجھے ایک اچھی سی کس دو تاکہ میرا دن بہت اچھا گزرے نہی ہر گز نہی پہلے جو آپنے میرے ساتھ کیا ہے کیا وہ کافی نہی اس نے اسے آنکھیں دکھائیں 

دینی تو پڑے گی اس نے اسے گھیرے میں لیا 

چھوڑیں لیٹ ہو رہا ہے آپکو نہی کوئی دیر نہی ہو رہی جب تک تم مجھے کس نہی کرو گی میں نہی چھوڑوں گا اچھا ٹھیک ہے اس نے ہار مانی اور اس کے گال پر کس کی اس نے بھی اس کے ماتھے پر کس کی اور خداخافظ کہتا چلا گیا

دیکھا اماں جی کیسے آپکا پوتا جی خضوری کرتا ہے اپنی بیوی کی بانو بیگم نے اسے سیڑھیاں اتعتے دیکھ کر شرارت سے کہا تو وہ اپنے بالوں میںیاتھ پھیر کر رہ گیا 

تو آپکی بہو ہے ہی اتنی پیاری کہ اس کی جی خضوری کو دل کرتا ہے وہ بھی کہاں کسی سے کم تھا

ماشاءاللہ اللہ تم دونوں کو یونہی ہنستا بستا رکھے اوت جلد اس گھر میں کھلکھاریاں گونجے آمین دادی نے اسے دیکھ کر دعا دی تو وہ ان سے پیار لیتا ماں سر چوم کر باہر چلا گیا

اس کی زندگی میں جو ویرانی صبا کے جانے کے بعد سے تھی اب وہ ختم ہو گئی تھی بلکہ اس کی جگہ خوشیوںنے لے لی تھی اور بے بی کی خوشخبری نے تو ان کی زندگی کو چار چاند لگا دیے تھے اس کی زندگی مزید خوبصورت ہو گئی تھی 

عمارت کے سامنے گاڑی رکی تو گارڈ نے سرعت سے اس کا دروازہ کھولا تو وہ اپنی پوری آن بان شان سے گاڑی سے نکلا وہ کبھی بھی اس آفس میں نہی آیا تھا مصطفی صاحب کے آفس میں وہ کبھی کبھی چلا جاتا تھا اس لیے وہاں کے ایمپلائز کو اپنے اس سر کا پتا تھا 

وہ جونہی عمارت میں داخل ہوا تو سبھی ورکرز اپنی اپنی خوشگپیوں میں مصروف تھے یہ دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے 

واٹ از دس گوئینگ آن اس کی بھاری غصیلی آواز پر سب جو اپنی اپنی خوش گپیوں میں آنے والے سے خبر مصروف تھے انہوں نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو ایک خوبصورت سا نوجوان لڑکا انہیں غصے سے دیکھ رہا تھا انہوں نے کبھی اسے نہی دیکھا تھا اس لیے وہ سب خیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے 

کون ہو تم اور اتنا غصہ کس بات کا ہم جو بھی کریں تمہیں کیا اس سے ایک ورکر نے اس کے اتنے رعب پر کچھ ناگواری سے کہا 

یو آر فائرڈ اور میں کون ہوں یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہی ہے وہ بے نیازی سے اسے فائرڈ کرتا سب کی طرف ایک غصیلی نظر ڈال کر کیبن میں چلا گیا  کیبن کے بارے میں وہ پہلے ہی نور سے پوچھ چکا تھا 

وہ سب لوگ ہونقوں کی طرح اس لڑکے کو حق سے آفس جاتے دیکھ رہے تھے اور جس لڑکے کو اس نے فائرڈ کیا تھا وہ تو باقاعدہ اپنی آنکھوں کو بڑا کر کے اس کی پشت کو جاتا دیکھ رہا تھا جو اسے یہاں سے دفع ہونے کا کہہ کر بڑے مزے سے ان کی نور میڈم کے آفس میں جا رہا تھا 

یار میم نور نے کہیں یہ آفس سیل تو نہی کر دیا ایک لڑکی نے باآواز کہا

مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کیونکہ جس رعب سے وہ گیا ہے مجھے تو وہ اس آفس کا نیا باس لگ رہا ہے جواب ایک لڑکے نے دیا 

اگر ایسا ہے تو میم کو ہمیں بتانا چاہیے تھا اور سرمد یار کیا ضرورت تھی تمہیں بولنے کی پہلے والی لڑکی نے اس لڑکے کو کہا اور ساتھ ہی سرمد کو بھی جھڑکا جو اپنی زبان کی وجہ سے ان اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا

گائز گائز بی اٹینشن اتنے میں سارہ جو نور کی اسسٹنٹ تھی  نے آکر سب کو متوجہ کیا 

سارہ میم کیا آپکو ابھی وہ لڑکی کچھ کہتی کہ سارہ نے اس کہ بات کاٹی 

مس ہادیہ پہلے آپ میری بات سن لیں اس کے بعد آپکی بھی سن لی جاۓ گی کیونکہ میری بات یہاں زیادہ اہمیت رکھتی ہے نہ کہ آپکی سارہ نے زرا ناگوری سے کہا اور اپنی اہمیت بھی جتلائی 

اس کے اس طرح جتلانے پر وہاں سب نے ناک بھوں چرہائی وہ تھی ہی ایسی سب کو اپنے سے کم تر سمجنے والی

ہمم آج سے اس آفس کو میم نور کے بیٹے عاجل گیلانی چلائیں گے اور وہ کسی بھی وقت یہاں پہنچتے ہوں گے اس لیے سب اپنے اپنے کام میں لگ جاؤ جس کو اپنی نوکری بہت پیاری ہے وہ کیونکہ میم نے بتایا ہے کہ وہ بہت غصے والے ہیں اس لیے ہمیں اپنا بچاؤ خود کرنا ہے کم آن ہری اپ 

یعنی وہ لڑکا ہمارا باس اور نور میم کا بیٹا تھا ہادیہ نے تیز آواز میں کہا حالت تو سب کی ہی ٹائٹ ہو گئی تھی 

کیا مطلب سارہ نے ناسمجھی سے پوچھا 

سرمد نے اسے بتایا 

لیکن ایسے کیسے ہو سکتا ہے انہیں نکلے تو ابھی پانچ منٹ ہوۓ ہیں اب اسے کیا پتا تھا کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے کا شوقین ہے 

پلیز میم سارہ آپ ان سے بات کریں کہ مجھے نوکری سے مت نکالیں سرمد نے ریکویسٹ کی 

دیکھو اس میں میں کچھ نہی کر سکتی اس نے ہری جھنڈی دکھائی 

لیکن میں ایک دفع کوشش کرتی ہوں آگے تمہاری قسمت 

اگر مجھے ڈسکس کر لیا ہو تو کیا آپ سب کام لرنا پسند کریں گے کیونکہ مجھے فارغ لوگ پسند نہی وہ ناجانے کب سے ان کے پیچھے کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا 

اپنے پیچھے پھر سے وہی آواز کو سنتے سارے اپنی سانس روک گئے 

اور مسٹر اس نے سرمد کی طرف اشارہ کیا

سرمد سر واٹ ایور آۓ فائرڈیو سو وائی آڑ یو ہئیر گیٹ لاسٹ اور آپ سب مجھے کام کرتے نظر آئیں اور مس سارہ کون ہیں

می سر کم تو مائی آفس اسے کہہ کر وہ چلا گیا 

اس کے جانے کے بعد سب نے اپنی روکی ہوئی سانس خارج کی 

مے آئی کم ان سارہ نے ناک  کیا 

یس اس نے اپنی بھاری آواز میں کہا

جو جو پراجیکٹس چل رہے ہیں اور جن کے ساتھ چل رہے ہیں مجھے ان سب کی ڈیٹیلز پانچ منٹ میں اپنے سامنے چاہیے اس نے اسے دیکھتے رعب سے سرد آواز میں کہا

سارہ تو اس کی وجاہت میں کھو گئی تھی اسے لگا کہ سامنے اس کی خوابوں کا شہزادہ بیٹھا ہے وہ تو صرف اسے دیکھ رہی تھی اس نے کیا کہا کیا نہی اسے نہی معلوم تھا وہ تو بس اسے دیکھے جا رہی تھی 

مس سارہ کیا آپ بھی فائر ہونا چاہتی ہیں اس نے جب اسے اپنی جگہ سے ہلتے نہ دیکھا تو سر آواز میں پوچھا 

ن۔۔۔نو سر وہ کہتی جلدی سے فائلز لینے چلی گئی

کام کر کے اب وہ تھک چکا تھا اس کا دل اب اس کے دیدار کے لیے مچل رہا تھا اس نے اپنے دل کی سنتے اسے کال ملائی جو حسب توقع کاٹ دی گئی 

صبح اس کے آفس جانے  کی بات پر اسے بھی باقیوں کی طرح حیرانی ہوئی تھی لیکن اس کی پھر زومعنی بات پر وہ غصے سے اس حیرانی کو بھی جھٹک گئی

رابی نے آج یونی جانے کی ضد کی تھی مصطفی صاحب سے لیکن انہوں نے اس کی ضد کے آگے ہار نہ مانی وہ چاہتے تھے یہ وہ پہلے تندرست ہو جاۓ پھر جاۓ رابی کا موڈ ان کی بات پر خراب ہو گیا وہ تو فرہاد کو دیکھنے کے لیے جانا چاہتی تھی ہاسپٹل کے بعد سے اس نے اسے نہی دیکھا تھا اور نہ ہی وہ اس سے ملنے یا حیریت دریافت کرنے آیا تھا 

مصطفی صاحب تو عاجل کے ساتھ ہی آفس کے لیے نکل گئے تھے کچھ دیر بعد نور بھی این جی او کے لیے نکل گئیں اب گھرمیں صرف رابیل اور وہ خود تھی رابیل کا موڈ اتنے دنوں سے گھر رہ کر چر چڑا ہو گیا اور پھر صبح یونی نہ جانے کی وجہ سے بھی اس کا موڈ آف تھا تو اس نے سوچا کہ کچھ دیر اس سے گپ شپ لگا لے تاکہ اس کا موڈ بھی اچھا ہو جاۓ اور اس کا اپنا بھی ٹائم گزر جاۓ گا 

وہ اور رابیل باتیں کر رہی تھیں کہ اسے عاجل کی کال آئی نام تو رابیل بھی دیکھ چکی تھی وہ ان کے رشتے کی سچائی سے واقف تھی اس لیے یہ کال حیرانی والی بات تھی لیکن اس نے اپنی حیرانی کو الفاظ نہ دیے آہلہ نے بنا دیر کیے کال کٹ کر دی اور دوبارہ اس سے باتیں کرنے لگی

کال کٹ کیے ابھی ایک منٹ بھی نہ ہوا تھا کہ ملازمہ فون لے کر کمرے میں داخل ہوئی

میم یہ سر عاجل کی کال ہے وہ آپسے بات کرنا چاہتے ہیں ملازمہ نے مودب سے عاجل کا پیغام دینے کے ساتھ موبائل آہلہ کی طرف کیا تو وہ سرد تاثرات سے فون پکڑ گئی اور کان سے لگایا 

اس کے فون کاٹنے پر وہ غصہ ہونے کہ بجاۓ مسکرایا اسے پتا تھا کہ ناراض تو وہ پہلے ہی اس سے تھی لیکن صبح کہی جانے والی زومعنی جملے پر بھی اسے غصہ ہو گا اس لیے اسنے اسے کال کرنے کی بجاۓ گھر کے نمبر پر کال کی 

اس کی سانس کو فون پر محسوس کرتے وہ مبہم سا مسکرایا لیکن  پھر سرد آواز میں اس سے گویا ہوا

مجھے بھوک لگی ہے اس لیے گھر سے کچھ بنوا کر یا خود بنا کر آفس لے کر آؤ اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا 

وہ رابیل کے سامنے تھی اس لیے اس کی فرمائش پر اس نے دل میں گالیوں سے نوازتے  اس نے صرف اتنا کہا 

جی میں بھجوا  دیتی ہوں کہہ کر وہ فون رکھنے لگی کہ اس کہ تیز آواز اس کے کان کے پردے ہلا گئی 

اگر تم نہ آئی اور کھانا کسی ڈرائیور یا ملازمہ کے ہاتھ آیا تو یاد رکھنا آج کا دن اس ڈرائیور اور ملازمہ کا یہاں نوکری کا آخری دن ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ تم نہی چاہو گی کہ تمہاری وجہ سے کسی کے بچے اور بیوی مشکل میں پڑیں اس لیے شرافت سے کھانا لے کر پہنچو اسے حکم دےکر اس نے خود ہی فون کٹ کر دیا 

اس کے تحکمکانہ لہجے پر اس نے نفرت سے بند فون کو دیکھا 

کیا ہوا کیا کہہ رہے تھے بھائی اس نے انجان بنتے ہوۓ کہا جبکہ فون سے آتی تیز آواز پر اسے بات کا موضوع پتا چل گیا تھا اور اسے کچھ دال میں کالا لگ رہا تھا 

کچھ نہی اس نے جھوٹی مسکراہٹ سجا کر کہا اب وہ اس کے بھائی کا غصہ اس پر تو نہی اتار سکتی تھی اسلیے دو تین اس سے باتیں کر کے اس نے اجازت لی اور کچن میں آکر کک کو کھانا بنانے کو کہا 

کک نے جلدی سے کھانا بنا کر اسے پیک کر کے دیا کیونکہ عاجل اسے بھی  فون کر کے ہدایت سے چکا تھا اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ عاجل کچھ کہتا اور نہ ہوتا سبھی اس کے غصے سے واقف تھے

وہ اب عمارت کے سامنے شیش و پنج میں مبتلا کھڑی  تھی وہ اندر نہی جانا چاہتی تھی لیکن پھر اس کی دھمکی یاد آتے ہی وہ اپنے دل پر جبر کرتی عمارت کے اندر چلی گئی 

اس نے اس شاندار عمارت کو دیکھ کر دل میں سراہا اور ریسیپشن پر کھڑی لڑکی سے عاجل کا پوچھا ریسیپشنسٹ نے تو مسکرا کر اسے بتایا لیکن سارہ جو ادھر ہی کسی کام سے کھڑی تھی  آہلہ کو مشرقی لباس میں دیکھ کر اس نے استہزائہ اسے دیکھا 

آہلہ اس لڑکی کو مسکرا کر تھینکس کہتی آفس جانے لگی تھی کہ کسی کہ اچانک رستے میں سامنے آنے پر وہ رک گئی اس نے سامبے دیکھا تو ایک بولڈ سی لڑکی اسے سر سے پاؤں تک دیکھ رہی تھی اس اس کا دیکھنا ناگوار گزرا

کون ہو اور کیوں سر سے ملنا ہے تمہیں اس لڑکی نے ناگواری سے پوچھا اسے آہلہ کی ڈریسنگ سے کہیں سے بھی وہ عاجل کی دوست یا جی ایف نہی لگی تھی 

تمہیں اس سے کیا کہ میں کون ہوں اور کیا کرنے آئی ہوں اس نے بھی پلٹ کر سوال کے بدلے سوال کیا وہ اس کی نظر میں اپنے لیے تحقیر پن دیکھ چکی تھی  

ہمم مطلب سر کی جی ایف ہو لیکن تم تو خوبصورت نہی ہو اور سر تو اتنے ہینڈسم ہیں ان کے لیے جی ایف بھی ان کی جیسی ہونی چاہیے جیسے کہ میں آہلہ کے ایٹیٹیوڈ سے جواب دینے پر وہ یہی اندازہ لگا پائی کہ وہ اس کی جی ایف ہے

آہلہ کے لیے جی ایف کسی گالی سے کم نہ تھی ابھی وہ اسے ٹکا سا جواب دیتی کہ پیچھے سے عاجل کی سرد آواز پر نہ صرف ان دونوں نے بلکہ سب ورکرز نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا تھا جو چہرے پر سرخی لیے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا 

اسے کال کرنے کے بعد وہ فتح یابی سے مسکرا رہا تھا اسے پورا یقین تھا کہ اب وہ ضرور آۓ گی اس نے اپنے رب سے اسے مانگنا شروع کیا تھا لیکن وہ اس سے بلکل کنارہ کر کے اسے خود سے دور نہی کر سکتا تھا اب اس کا کسی کام میں دل نہی لگ رہا تھا جب پتا تھا کہ محبوب نے آنا ہے تو اس کی نظریں کام سے بھٹک بھٹک کر لیپ ٹاپ پر جا رہی تھیں جہاں پر پورا آفس نظر آ رہا تھا اسے اندر آتے دیکھ کر اسکی آنکھوں اور دل میں ٹھنڈک ہوئی تھی لیکن سارہ کا اسے راستے میں روکنا اسے ناگوار گزرا تھا اس لیے وہ اپنا کام چھوڑ کر اسے لینے کے لیے خود باہر آیا تھا لیکن سارہ کی آخری بات سن کر اس چہرہ خطر ناک حد تک سرخ ہوا تھا 

تم ہوتی کون ہو میری محبت میری زندگی کو بد صورت کہنے والی کبھی اپنی شکل دیکھی ہے آئینے میں اس نے سارہ کے سامنے آکر غصے سے سرد آواز میں کہا 

باقی ورکرز جو سمجھ رہے تھے کہ یہ غصہ اس لڑکی کے لیے ہو گا لیکن اپنے سر کے جلال کا رخ سارہ کی طرف دیکھ کر وہ بھی متجسس سے ان دونوں کو دیکھنے لگے 

جبکہ آہلہ ناجانے کیوں سب کے سامنے اس کے میری محبت کہنے پر سرخ ہو گئی 

جانتی ہو میں دنیا کا خوش قسمت انسان ہوں پتا ہے کیوں کیونکہ میرا دل اس کے نام سے دھڑکتا ہے میرا دل اسکی چاہ کرتا ہے اور رہی بات اس کے رنگ کی تو اس کا دل صاف ہے اس کا اخلاق اعلی ہے اور تم نے کہا کہ تمہیں میری جی ایف ہونا چاہیے

وہ ہنسا 

پتا ہے اگر تم میری جی ایف ہوتی تو میں دنیا کا سب سے بد قسمت انسان ہوتا پتا ہے کیوں کیونکہ تم مجھے اللہ سے مزید دور کرتی لیکن اس کی محبت نے مجھے اللہ کے نزدیک کر دیا 

اور رہی بات کہ یہ کون ہے تو سب کان کھول کر سن لیں یہ میری ہونے والی بیوی ہے بہت جلد ہم شادی جیسے رشتے میں بندھنے والے ہیں اس لیے اب اگر کسی نے اس کی طرف کوئی کمنٹ پاس کیا تو وہ نوکری سے تو جاۓ گا ہی ساتھ ہی اس دنیا سے کوچ کرنے کو بھی تیار رہے اس کے سرخ چہرے اور آنکھوں کو دیکھ کر سب ہی ڈر رہے تھے ہر کسی کو اپنی جان اور نوکری عزیز تھی 

اور تم نکلو یہاں سے اب اگر تمہارے قدم بھی اس عمارت کی طرف بڑھتے دکھے تو جن ٹانگوں پر چل کر آؤ گی میں انہی سے تمہیں محروم کر دوں گا اس نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا اور بغیر کسی کی بھی پرواہ کیے وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے آفس لے آیا 

چھوڑو میرا ہاتھ آفس میں آکر اس نے اسے ہاتھ چھوڑنے کا کہا تو اس نے بغیر کچھ کہے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور جلدی سے پانی کا گلاس پیا تاکہ وہ اپنا غصہ کم کر سکے جو اسے اس وقت آیا ہوا تھا آہلہ خود چل کر اس کے آفس آئی تھی وہ نہی چاپتا تھا کہ دوسروں کی وجہ سے اسکا یہ مومنٹ خراب ہو 

تم نے باہر یہ کیوں کہا کہ ہم شادی کرنے والے ہیں کیا میں نے تمہیں ایسا کہا نہی نہ تو پھر 

آہلہ عاجل یہ بات یاد رکھو اور زہن میں بٹھالو کہ آنا  تو تمہیں میرے پاس ہے پھر چاہے دو دن بعد یا چار سال بعد اس نے اسے بازو سے پکڑ کر کہا 

میں ہر گز بھی تم سے شادی نہی کروں گی اس نے منہ موڑتے کہا کیونکہ اس کی گرم جھلساتی سانسیں اسکی سانسوں کے ساتھ رقص کرتیں اس کی دل کی دھڑکن بڑھا رہی تھیں اور ان دھڑکنوں میں اسے عاجل کی صدا آ رہی تھی لیکن وہ اس صدا پر کان دھرے بغیر رخ موڑ کر تڑح کر جواب دے چکی تھی

یہ تو وقت بتاۓ گا آہلہ ڈارلنگ اس نے آنکھ ونک کر کے کہا

خبردار اگر میرے لیے ایسے فضول الفاظ منہ سے نکالے اس کے ڈارلنگ کہنے پر اسے تپ چڑھی

ٹھیک ہے جانم نہی کہتا اس نے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھتے کہا جبکہ اس کے جانم لفظ سے آہلہ نے گھور کر اسے دیکھا

گھورنا بند کرو اور کھانا کھاؤ میرے ساتھ اس نے ایک نیا آرڈر اسے دیا 

تم نے کھانا پہنچانے کو کہا تھا یہ نہی کہا تھا کہ ساتھ بیٹھ کر کھانا ہے اسلیے میں چلی تم انجواۓ کرو کھانا اسے اپنی طرف سے انکار کر کے وہ دروازے کی طرف بڑھی تھی کہ اس کے مضبوط ہاتھوں نے اس کا ہاتھ ہینڈل تک پہنچنے سے پہلے ہی  اپنے ہاتھ میں لے لیا 

اپنی بات کی نفی تو اسے پسند ہی نہی تھی اور پھر جب وہ کہہ چکا تھا کہ اسے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا ہے تو مطلب کھانا ہے 

چھوڑو میرا ہاتھ اس کی بات کو نظر انداز کر کے اس نے اسے آفس میں موجود صوفے پر بٹھایا  اسنے اٹھنا چاہا کہ اس نے اسے پکڑ کر دوبارہ بٹھایا اور آنکھوں سے وارننگ دی اور ٹیفن کھولا 

کک نے اس کے آرڈر کے مطابق شامی کباب اور بریانی بنائی تھی اس نے اسے سرو کرنے

کا کہنے کی بجاۓ اس نے خود  ایک پلیٹ میں بریانی ڈالی اور اپنے اور اس کے درمیان رکھی اس کے ایسا کرنے پر آہلہ نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا 

ہم دونوں نے ایک پلیٹ میں ہی کھانا ہے اور نو مور ایسکیوز کہتے اس نے اس کے ہاتھ میں چمچ پکڑایا اور خود بھی کھانے لگا آہلہ تو اسے حیرانی و پریشانی سے دیکھ رہی تھی اسے عجیب لگ رہا تھا یوں ایک پلیٹ میں کھانا 

اگر تم نے اب کھانا شروع نہ کیا تو جو چمچ میں نے علیحدہ علیحدہ کیے ہیں وہ بھی ایک کر دوں گا اسنے اسےایسے بیٹھے دیکھ کر کہا تو آہلہ نے جلدی سے بریانی کا چمچ منہ میں ڈالا کہ کہیں وہ سچ میں ایسی اوچھی حرکت نہ کر دے 

مشکل ہی اس نے اس کے ساتھ بریانی شئیر کر کے کھائی تھی کہ اس نے ایک شامی کباب لے کر اس کے دو حصے کیے ایک اس  کی طرف بڑھایا جب اس نے اسے نہ پکڑا تو اس نے خود وہ ٹکڑا اسکے منہ کی طرف کیا اور اسے منہ کھولنے کا کہا 

میں کھا لیتی ہوں لیکن اس کی اگلی بات پر  پچھتائی کہ کیوں نہ اس کے ہاتھ سے ٹکڑا لیا 

نہی اب میں کھلا رہا ہوں اسلیے منہ کھولو نہی تو میرے پاس اور بھی طریقے ہیں لیکن تمہیں کچھ خاص پسند نہی آئیں گے اس کے زومعنی کہنے پر وہ جھر جھری لیتی جلدی سے اس کے ہاتھ سے شامی کباب کھا گئی اسے کھلا کر اس نے خود بھی کھایا 

میں چلتی ہوں رابی گھر میں اکیلی ہے بور ہو رہی ہو گی اس نے جسنے کے پر تولے کیونکہ وہ کھانا کے بعد سے اسے ہی دیکھ رہا تھا جس سے وہ کنفیوز ہو رہی تھی اور زیاہ ڈر تو اسے اپنے دل کی صدا سے لگ رہا تھا جو اس کے دیکھنے پر اچھل اچھل کر باہر آنے کو تھا 

ہمم وہ بھی اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتا مسکرا کر اسے جانے کی اجازت دے گیا وہ اچھے سے اس کی حالت کو سمجھ رہا تھا وہ اپنی سحر انگیز پرسنالٹی کا جادو اس پر چڑھتے دیکھ کر مبہم سا مسکرایا

وہ اس سے اتنی جلدی جانے کی اجازت دینے پر شکر کرتی بلڈنگ سے نکل کر گاڑی میں بیٹھی اس نے غیر ارادتاً نظر اوپر بلڈنگ پر دوڑائی تو دھک سے رہ گئی وہ ہونٹوں میں سیگریٹ دباۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے پر اس نے ہونٹوں میں سیگریٹ دباۓ ہی اسے سمائل پاس کی وہ تو خفت زدہ ہوتی ڈرائور کو چلنے کا بولنے لگی 

اس کے خفت زدہ چہرے کو وہاں پر کھڑا دیکھتا وہ جی جان سے مسکرایا

⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

اس کے جانے کے بعد وہ بھی بور ہونے لگی تو اس نے موبائل اٹھا کر گیلری اوپن کی اور فرہاد کی تصویریں دیکھنے لگی اس نے اس کی یونیفارم والی پکچر پر زوم کیا  یہ تصویر اس نے مصطفی صاحب سے لی تھی 

کیوں ہو تم اتنے پیارے یا پھر میرے دل کو لگتے ہو اس نے تصویر سے پوچھا

میں ہوں ہی پیارا جواب آیا 

وہ ہنسی تم تو میرے حواسوں پر اتنا سوار ہو گئے ہو کہ اب تمہاری تصویریں بھی بولنے لگی ہیں

تو مت کرو سوار میرے بس میں نہی اور اب تو بابا بھی تم سے بات کرنے والے ہیں میرے اور تمہارے بارے میں تو پھر کیوں نہ کروں سوار  

اگر میں نے انکار کر دیا تو اب وہ اس کے سامنے آگیا ہاہاہا اب تو تم میرے سامنے بھی آگئے ہو

وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ یہ سب اس کا خیال ہے اس نے اسے چھونے کے لیے محسوس کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا اس کے چہرے سے ہاتھ مس ہوتے ہی اس نے کرنٹ سے اپنا ہاتھ کھینچا تھاوہ جو اسے اپنا خیال تصور کر رہی تھی اس کے واقعی یہاں ہونے پر اس نے اسے خوشگواریت سے دیکھا 

کیا بیٹھنے کو نہی کہو گی 

ہا۔۔۔ہاں بیٹھو نہ پلیز اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا 

کیسی طبعیت ہے اب تمہاری 

اچھی ہے اب تو اور بھی اچھی ہو گئی ہے 

ہمم تم نے بتایا نہی کہ اگر میں انکار کر دوں تو 

پہلے تو تم نے کہا تھا کہ تم غنڈے ہو اس لیے ہم ایک نہی ہو سکتے تو اب ایسا کیوں کہہ رہے ہو 

یہ چھوڑو تم بتاؤ اگر میں نے اب بھی انکار کر دیا تو

تھوڑے وقفے کے بعد وہ بولی 

تو میں پیچھے ہٹ جاؤں گی کبھی بھی تمہارے رستے میں نہی آؤںگی کیونکہ میں جان گئی ہوں کہ محبت زبرستی نہی کروائی جاتی 

ہمم سہی تم نے میرے لیے آسانی کر دی کیوں میں انکار ہی کرتا اسنے اس کا دل توڑا 

وہ ہی جانتی تھی کہ اس نے کس طرح سے یہ الفاظ کہے تھے اسے امید تھی کہ وہ اب کی بار ہاں کر دے گا لیکن وہ غلط ثابت ہوئی تھی اس کی آنکھوں میں نمی جمع ہوئی جسے اس نے مہارت سے پیچھے دھکیلا 

سوری میں آپ سے چاۓ پانی کا پوچھنا بھول گئی کیا لیں گے آپ چاۓ یا کافی 

کچھ نہی میں اب چلوں گا بس تمہاری عیادت کرنے آیا تھا اپنا خیال رکھنا 

وہ اس کا دل توڑ کر اسے اپنا خیال رکھنے کا کہہ رہا تھا 

اس کے جاتے ہی وہ اوندھی بیڈپر گری تھی اور ہچکیوں سے رونے لگی  تھی 

جب سے باقر یہاں شفٹ ہوا تھا تب سے آمنہ کے تیور بدلے ہوۓ تھے جس طرح وہ فون پر چہچہا کر سب سے بات کرتی تھی اب ویسا بلکل بھی نہ تھا نہ تو وہ اریج بیگم کے ساتھ بیٹھتی تھی اور نہ ہی فاریہ کے ساتھ مل کر باتیں کرتی تھی اگر کوئی کام ہوتا تو وہ کر کے کمرے میں بند ہو جاتی تنگ آکر اریج بیگم نے ایک دن باقر سے اس بابت پوچھ ہی لیا جس پر اس نے انہیں سب بتا دیا کہ وہ یہاں نہی اپنے والدین کے پاس باہر رہنا چاہتی تھی

ارہج بیگم کو آمنہ کی سوچ پر بہت دکھ ہوا وہ تو پہلے ہی باقر سے دور رہی تھیں اور وہ اب پھر سے اسے دور لے کر جانا چاہتی تھی  

آج اریج بیگم نے صوفیہ لوگوں کی دعوت رکھی تھی باقر بھی ان سے ملنا چاہتا تھا اس لیے اریج بیگم کو یہی مناسب لگا 

وہ تیار ہو کر خود کو شیشے میں دیکھ کر شرما رپی تھی منگنی کے بعد وہ آج پہلی دفع اس کے روبرو ہونے جا رہی تھی ایک فطری جھجھک تھی جو اسے علی سے آ رہی تھی وہ کبھی اپنا ڈوپٹہ سر پر اوڑھتی تو تو کبھی کندھوں پر پھیلا لیتی اسے سمجھ نہی آ رہی تھی کہ کیسے وہ ڈوپٹہ اوڑھے تھک ہار کر اس نے کندھوں پر ڈوپٹہ پھیلا لیا وہ کم ہی ڈوپٹہ سر پر لیتی تھی  

تم ابھی تک تیار ہو رہی ہو نیچے وہ لوگ آ گئے ہیں جلدی چلو اچھا تھوڑی لگتا ہے کہ سسرال والے آۓ ہوں اور بہو رانی ہی غائب ہو ان کے کہنے پر اس کا دل دھڑکا 

جی ماما بس آنے والی تھی میں ہاں جلدی آؤ تمہیں پتا بھی ہے تمہاری بھابی کے تیور کچھ اچھے نہی ہیں اس نے سر ہلایا تو وہ مطمئن ہوتی باہر چلی گئیں ان کے ویلکم کے لیے جب وہ نیچے آئی تو ملازمہ  ریفریشمنٹ رکھ رہی تھی اس نے جھجھکتے ہوۓ سب کو سلام کیا اور چور نظروں سے علی کو دیکھا جو باقر کے ساتھ بیٹھا اس کے سوالات کا جواب دے رہا تھا اس کے دیکھنے پر اس نے بھی سمائل پاس کی  تو وہ اسے آنکھیں دکھاتی دادی اور سب بڑوں سے پیار لے کر صوفیہ کے پاس بیٹھ گئی

کیسی ہو صوفی بہت زبردست ہوں الحمدللہ بس کبھی کبھی تمہاری بھتیجی پلس بھانجی بہت تنگ کرتی ہے اس نے اپنے وجود میں پنپتی چھوٹی سی وجود کی شکایت لگائی تو فاریہ ہنسی 

ابھی تو وہ اس دنیا میں آئی بھی نہی اور تم نے ابھی سے تنگ ہونا شروع ہو گئی

بچو ہنس لو کھل کر ہنسو جب تمہاری باری آۓ گی نہ تب پتا چلے گا کہ کیا حالت یوتی ہے اس کے ہنسبے پر اس نے منہ بسورا 

اچھا ناراض مت ہو میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی 

بھائی صاحب ہم اب بچوں کی شادی چاہتے ہیں اکمل صاحب نے افضال صاحب سے کہا

لیکن بھائی صاحب اتبی جلدی

اریج بیگم تو ان کی بات پر خوش ہو گئی تھیں وہ خود بھی چاہتی تھیں کہ اب وہ اپنے گھر کی ہو جاۓ 

کوئی جلدی نہی ہے افضال صاحب ایک نہ ایک دن تو اس نے اپنا پیا گھر سدھارنا ہے نہ تو پھر تاخیر کس بات کی اریج بیگم نے رسانیت سے کہا

 شادی کے زکر پر علی نےپر شوق نظروں سے فاریہ کو دیکھا جو ایک تو اپنی شادی کے زکر پر اوپر سے اس کی نظروں پر شرما رہی تھی  

بھابی بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں بھائی صاحب ہم ماہپارہ اور رضا کی شادی کرنا چاپتے ہیں اور سب کا یہی خیال ہے کہ ان کے ساتھ علی کی بھی کر دی جاۓ

اریج بیگم نے ان کو آنکھوں سے ہاں کہنے کا اشارہ کیا

جیسا آپ سب لوگ مناسب سمجھیں 

ان کی بات ہر سب کے اندر خوشی کی لہر پھیل گئی رضا اور علی جہاں ان دونوں کو اب پر شوق نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہیں ماہپارہ اور صوفیہ کی حالت دیکھنے لائق تھی 

ماما میں صوفیہ اور فاریہ کو کمرے میں لے جاتی ہوں صوفی تھک گئی ہو گی نہ اس نے جانے کے پر تولے سب نے اسے دیکھا تو اس نے وضاحت کی 

ہاں لے جاؤ اندر بچی تھک گئی ہو گی 

پھوپھو میں بھی ثاقب نے کہا 

ہاں چلو تم بھی چیمپ اسے اٹھا کر وہ ان دونوں کو لے کمرے میں آ گئی

تو پھر میرے خیال سے دو ہفتے بعد جو جمع آ رہا ہے تب رکھ لیتے ہیں بارات کا دن مبارک دن ہے دادی نے اپنی راۓ دی جو سب کو پسند آئی 

جیسے آپ کہیں اماں جی افضال صاحب نے احترام سے کہا 

باتوں باتوں میں خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا اور  علی لوگ اپنے گھر کو روانہ ہوۓ

باقر فاریہ کی شادی بعد تو ہم لوگ جا سکتے ہیں نہ بابا پاس ہم انکل آنٹی ہو بھی لے جائیں گے اس نے اپنی پرانی بات دہرائی

دیکھو ابھی چپ رہو  شادی کے بعد میں ماما بابا سے بات کروں گا ٹھیک ہے تب تک تم اپنا رویہ بھی ان سے سہی رکھو وہ تنگ آ چکا تھا اس کی روز کی ایک ہی بات سے اس لیے اس نے اسے ٹالا اس کا کوئی ارادہ نہی تھا اپنا ملک چھوڑ کر جانے کا

ٹھیک ہے وہ تو اتنے میں ہی خوش ہو گئی تھی کہ وہ ان سے بات کرے گا 

💕💕💕💕💕

گھر آ کر اس میں اتنی ہمت نہی تھی کہ وہ عاجل کے کمرے میں جاتی اس وقت وہ خود ہی الجھی ہوئی تھی وہ یہ بات مان چکی تھی کہ جب وہ اس کے قریب آیا تھا تو اس کے اندر ایک شور برپہ ہوا ہوا تھا اس کا  دل دھک دھک کے ساتھ اس کی صدا بھی لگا رہا تھا وہ اپنے دل کی صدا سے ڈر گئی تھی ایک طرف اس نے اسے کہا تھا کہ وہ ہرگز بھی اس سے شادی نہی کرے گی تو دوسری طرف اس کا اپنا دل ہی اس سے دغا کرنے کو تھا 

وہ یہ بات نہی بھول ہا رہی تھی کہ سب کچھ اس کے ساتھ کرنے والا وہی ہے اس شخص نے اسے بے گھر کروایا 

دوپہر کی اس کی باتیں اور حرکات سے اس کا دل  تو اس وقت نہی کر رہا تھا کہ وہ اس کا سامنا کرے لیکن وہ مصطفی صاحب کو بھی باراض نہی کرنا چاہتی تھی اس لیے وہ ڈائنگ ٹیبل پر آگئی وہ سر جھکاۓ اپنا کھانا کھا رہی تھی اس نے ایک نظر اٹھا کر بھی اسے  نہی دیکھا تھا جبکہ وہ خود پر اس کہ تپش محسوس کرتی دل کو چپ کروا رہی تھی جو اس کی زرا سی توجہ پر ہی اس کے حق میں بول رہا تھا کہ اسے ایک موقع تو دے جبکہ دماغ اسے اس کے حق میں جانے سے روک رہا تھا 

تم نے جاتے ہی دو ایمپلائز کو فائرڈ کر دیا چلو سرمد کو تو تم نے کیا لیکن سارہ کو کیوں کیا اسے سامنے دیکھ کر انہیں سارہ کی کال یاد آئی

جس نے آپ سے چغلی لگائی ہے کیا اس نے نہی بتایا کہ کیوں نکالا میں نے اسے اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ٹیبل پر دونوں ہاتھ باہم جوڑ کر رکھتے سرد آواز میں کہا 

بتایا تو اس نے مجھے بہت کچھ ہے کہ کس کی وجہ سے تم نے اسے نکالا ہے لیکن میں تمہارے منہ سے سننا چاپتی ہوں انہوں نے چبتے لہجے میں آہلہ کو دیکھتے کہا 

جو بھی بات ہے وہ آپ لوگ کھانے کے بعد ڈسکس کر  لیجیے گا مصطفی صاحب نے کہا

نہی بابا اب تو بات ابھی ہو گی اور کیا سننا چاپتی ہیں آپ مصطفی صاحب سے کہہ کر اس نے اپنا رخ ان کی طرف کیا 

چلیں میں ہی بتادیتا ہوں تو سنیں اسے میں نے اس لیے نکالا کہ وہ مجھے بدصورت کہہ رہی تھی 

اس نے تمہیں نہی اس لڑکی کو کہا تھا اور تمہاری تو یہ بیوی ہے تو پھر تم نے یہ کیوں کہا کہ تم اس سے شادی کرنے والے انہوں نے دوپہر سے مچلتا سوال بھی کر ڈالا جو انہیں الجھا رہا تھا 

پہلی بات کہ آہلہ میری محبت ہے میری زندگی ہے جان ہے میری تو اسے بدصورت کہنا مجھے بدصورت کہنا ہے اور دوسری بات اور سب سے اہم بات کہ یہ میری بیوی نہی ہے میں نے اس سے بدلہ لینے کہ لیے جھوٹ بولا تھا اور وہ سارے ثبوت بھی جھوٹے تھے اور یہ بات بابا بھی جانتے ہیں کیوں بابا 

اس کے کہنے پر مصطفی صاحب گھبراۓ

ہاہاہا آپ کو کیا لگا تھا کہ مجھے نہی پتا چلے گا کہ آپ اس رشتے کی حقیقت سے واقف ہیں 

اور میں بہت جلد اس سے شادی کرنے والا ہوں اس میں چاہے کسی کی مرضی ہو یا نہ ہو 

مطلب کہ یہ بنا کسی رشتے کہ تمہارے ساتھ ایک کمرے میں رہتی رہی ہے زرا شرم نہ آئی لڑکی تمہیں

ایک نامحرم کے ساتھ اتنی دیر ایک کمرے میں رہتے ہوۓ اب ان کی توپوں کا رخ آہلہ کی طرف تھا 

ماما اس کی طرف جانے کی ضرورت نہی ہے اور اس کی شرم و حیا کا گواہ میں ہوں اور یہ میرے ساتھ کمرے میں نہی رہتی رہی یہ دوسرے کمرے میں رہتی تھی جو میرے کمرے کے ساتھ ہے اور آپ اسے جتنی جلدی از ا بہو ایکسیپٹ کر لیں اتنا ہی اچھا ہو گا نہی تو میں اسے لے کر یہاں سے چلا جاؤں گا اس نے آخر میں دھمکی دی 

عا۔۔۔عاجل انہوں نے لڑکھرا کر کہا

تھنک آباؤٹ اٹ مام وہ کہتا وہاں سے چلا گیا

جبکہ پیچھے وہ مجرموں کہ طرح سر جھکاۓ کھڑی رہ گئی

نور تو اب تک شاک میں تھیں کہ ان کا بیٹا اس لڑکی کے لیے ان سے بھرڑ رہا تھا مصطفی صاحب میں کسی صورت بھی اس لڑکی کو قبول نہی کروں گی اور آپ آپ کو سب پتا تھا آپ نے بھی مجھ سے چھپایا مھھے بتانا گنوارا نہ کیا وہ اس وقت کمرے میں تھے اور وہ سخت نالاں تھیں مصطفی اور عاجل سے 

اس میں کوئی حرج نہی ہے نور اور تم بھی اب اس بات کو بھول جاؤ تم نے کہا تھا کہ تمہیں اب اس گھر میں قدم نہی رکھنا میں نے تب بھی تمہارا ساتھ دیا حالانکہ اس میں غلطی ان کی بھی نہی تھی جنہیں تم آج تک قصور وار ٹھہراتی آئی ہو یہ سب قسمت میں ہونا لکھا تھا 

آپ اب مجھے کہہ رہیں کہ میں غلط ہوں

یہاں  آپ غلط ہیں نور آپ ایک پڑھی لکھی سوشل وومن میں ہیں کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس میں ماجد یا پھر  زکیہ کی کوئی غلطی تھی چلیں مان لیں آپ کہ ان کی غلطی تھی بھی تو کیا اس میں اس بچی کا کوئی عمل دخل ہے جسے آپ اور آپکی بہن نفرت کی آگ میں خود بھی جھلس رہی ہیں اور اسے بھی جھلسا رہی ہیں اور ہمارا اسلام بھی کسی کی غلطی کی سزا کسی کو دینے کی تلقین نہی کرتا قیامت کے دن آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گی کہ آپ نے ایک بے گناہ معصوم لڑکی کو ناکردہ گناہ کی سزا دی ہے سوچیے گا اس بارے میں آج آپ کے پاس وقت ہے یہ نہ ہوکہ بعد میں  آپ کے پاس نہ تو وقت ہو اور نہ بیٹا انہیں سوچوں کی گہرائیوں میں ڈالے وہ خود پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے جبکہ وہ اپنا احتساب کرنے لگیں

💕💕💕💕💕

صبح روشن ہوئی اور سب کے لیے خوشیوں  کی نوید لے کر آئی 

نماز پڑھ کر آہلہ نے اپنے لیے معمول کی طرح آسانیاں مانگیں نماز پڑھ کر اس نے موبائل پر سورہ یسین کی تلاوت سنی اور شاور لینے واش روم چلی گئی 

عاجل نے بھی نماز ادا کر کے اپنے لیے آہلہ کو مانگا 

رابیل نے حاجت کے نوافل ادا کر کے فرہاد کے دل میں اپنے لیے محبت کے پیدا ہونے کی دعا مانگی وہ ابھی بھی امید کا دامن نہی چھوڑ رہی تھی 

وہ شاور لے کر باہر آئی تو نور بیگم کو اپنے کمرے میں پاکر وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوئی اسے لگا کہ وہ کل رات کے واقعی کی وجہ سے اسے باتیں سنانے آئی ہوں گی 

کیا میں اتنی بری ہوں کہ تم مجھ سے بات بھی کرنا گنوارا نہی کر سکتی اسے لگا کہ وہ شائد طنز کر رہی ہیں لیکن ان کے چہرے ہر ایسا کچھ بھی نہی تھا بلکہ آج ان کے چہرے پر نرم تاثر تھا جو کہ پہلے اس کے لیے نہی ہوا کرتا تھا 

وہ شرمندہ ہوئی 

نہی آنٹی ایسی بات نہی ہے آپ پہلے کبھی آئی نہی اس لیے اس وقت اسے جو سمجھ آیا اس نے بول دیا 

میں سالوں سے ایک بات کو لے کر تمہارے لیے اور تمہارے ماں باپ کے لیے دل میں نفرت رکھتی آئی ہوں لیکن میں بھی کیا کرتی میرا بھائی تھا وہ میں کیسے اسے بھول کر ان سب سے خوشی سے پیش آتی احتشام کی یاد پر ان کی آنکھوں میں نمی آئی 

آہلہ نے آگے بڑھ کر انہیں حوصلہ دیا 

لیکن اللہ کا شکر ہے جس نے اتنے سالوں بعد مجھ سے ناراض ہو کر مجھ سے ہدایت نہی چھینی بلکہ مجھے یہ احساس دلایا کہ میں غلط تھی اس لیے میں تم سے معافی مانگتی ہوں انہوں نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے 

ارے آنٹی کیا کر رہی ہیں آپ میری ماما کی طرح ہیں اور پھر آپ تو ان کی دوست ہیں اس لیے ایسامت کریں میرے دل میں آپکے کے لیے نہ پہلے کچھ برا تھا نہ اب ہے اور یوں مجھ سے معافی مانگ کر مجھے گنہگار مت کریں اس نے ان کے ہاتھ پکڑے 

انہوں نے اس کا ماتھا چوما 

تم بہت اچھی ہو اور میرے عاجل کے لیے تم سے بڑھ کر کوئی لڑکی ہو ہی نہی سکتی ان اس بات پر وہ نظریں جھکا گئی

چلو تم بھی تیار ہو جاؤ تب تک میں بھی تیار ہو جاتی ہوں آج رات کو آپا کی طرف چلیں گے میں آج 

ساری  غلط فہمیاں دور کرنا چاپتی ہوں 

اس نے صرف سر ہلایا 

ناشتے کی ٹیبل پر نور نے سب کو بتایا کہ وہ لوگ آج رات کو ساجد صاحب کی طرف جانے والے ہیں 

عاجل کا ارادہ آج اسے مزار پر لے جانے کا تھاجہاں پر اسے عشق کی دعا دی گئی تھی وہ چاپتا تھا کی ایک دفع وہاں جا کر اپنی محبت کی دعا کرے  لیکن اسے آج یہ ممکن نہ لگا 

💕💕💕💕💕

اسے یہاں آۓ دس دن ہونے کو تھے لیکن یہاں سب سے اسے اپنائیت ہی ملی تھی وہ گاؤں کی سادہ سی لڑکی تھی تھی جس سے قسمت نے اس کے ماں باپ کو چھین کر دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے پر مجبور کر دیا تھا اس نے پھر بھی نا شکری نہی کی تھی اگر اس کا چچا زاد اس کے ساتھ وہ اوچھی حرکت نہ کرتا وہ کبھی  بھی یوں چار دیواری سے باہر نہ نکلتی 

اسے سب ہی اچھے لگے تھے شمع بیگم نے تو اسے بلکل اپنی بیٹی بنا کر رکھا تھا اسے ان کی بیٹی لے بارے میں سن کر افسوس ہوا تھا وہ بھی تو ماں باپ کی محبت کے لیے ترسی ہوئی تھی اسلیے اس نے انہیں بلکل ایک بیٹی کے طرح بن کر دکھایا وہ ان کے سارے کام خود کرتی تھی شہروز سے بھی اسے کوئی خطرہ نہی لگا تھا وہ جب بھی اس سے بات کرتا تھا اس کی نظروں میں اس کے لیے احترام ہوتا تھا اس لیے وہ بھی احترام کے بدلے اسے احترام اور عزت دیتی تھی 

وہ کچن میں شمع بیگم کے لیے دودھ گرم کر رہی تھی کہ رفعت بیگم کچن میں داخل ہو کر شکیلہ کو ہدایت دینے لگیں

کوئی آ رہا ہے کیا اس نے جھجھکتے ہوۓ پوچھا کیونکہ وہ چاہے اس کے ساتھ بلکل ایک گھر کے فرد کی طرح پیش آ رہے تھے لیکن تھی تو وہ پرائی نہ 

ہاں میری چھوٹی بہن ہے نور وہ اور اس کی فیملی آ رہی ہے اور میرے دیور کی بیٹی آہلہ اس کی بہو بھی ہے 

اسنے سمجھ کر سر ہلایا 

دودھ کو ابال آ چکا تھا اس نے گلاس میں دودھ ڈالا اور کچن سے نکل گئی تھوڑی دیر بعد وہ دودھ کا خالی گلاس لے کر آئی 

خالہ لائیں میں بھی آپکے ساتھ کام کرواتی ہوں 

نہی بٹیا آپ رہنے دو میں کر دیتی ہوں 

نہی خالہ آپ بتائیں مجھے ویسے بھی میں فارغ ہی ہوں 

چلو یہ مٹر چھیل دو انہوں نے اسکے آگے مٹر رکھی اور خود باقی کا کام کرنے لگیں

آہلہ بھی تمہاری طرح ہی تھی میرے منع کرنے کے باوجود میرے ساتھ کام کرواتی تھی 

کیا وہ بہت اچھی تھیں اس نے عام سا سوال کیا

بہت اچھی اخلاق کی بہت اعلی بس قسمت نے بہت دکھ  دیے ہیں اسے ماں باپ کے پیار سے بچپن سے محروم رہی اور پھر وہ رک گئیں

پھر کیا خالہ 

کچھ نہی کام زیادہ ہے اور ٹائم کم ہے انہوں نے ٹالا

💕💕💕💕💕💕

مصطفی صاحب آفس میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ ان لے سیکرٹری نے انسپکٹر فرہاد کے آنے کا بتایا تو انہوں  نے اسے اندر بھیجنے کا کہا

اسلام علیکم انہوں نے دیکھا وہ اس وقت سول کپڑوں میں تھا 

وعلیکم سلام بیٹھو چاۓ لو گے کہ کافی انہوں نے انٹرکام اٹھا کر کہا 

نہی کچھ بھی نہی سر میں یہاں آپسے ضروری بات کرنے آیا ہوں ہمم بولو سر میرے عالدین حیات نہی ہیں ورنہ وہ یہ بات آپ سے کرتے اس نے تمہید باندھی 

سر میں آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں میں آپ کو گرانٹی دیتا ہوں کہ میں اسے ہمیشہ خوش رکھوں گا 

ہمم میںبھی تم سے یہہ باتنکرنے کے لیے تمہارے ہاں آنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے میری بیٹی کی خوشی بہت عزیز ہے بہر حال تم نے پہلے ہاتھ مانگ لیا مجھے اچھا لگا انہوں نے خوشی سے کہا 

تو میں ہاں سمجھوں بلکل سمجھو شکریہ سر لیکن میں چاپتا ہوں کہ یپ بات رابیل سے چھپائی جاۓ ابھی یعنی آپ اسے یہی بتائیں گے کہ میں نے رشتے سے انکار کر دیا 

تم میرے بیٹی کو تکلیف دینا چاہتے ہو تم جانتے ہو وہ کتنی ہرٹ ہو گی انہوں نے آئی برو اچکا کر کہا

جانتا ہوں لیکن میں اسے سرپرائز دینا چاپتا ہوں شافی بھی میں جلد ہی کرنا چاہوں گا کیونکہ اب مزید اکیلے رہنے کا میرا کوئی ارادہ نہی ہے اس نے آخر میں شرارت سے کہا 

شرم نہہ آتی ہونے والے سسر کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہوۓ انہوں نے اسے شرم دلانی چاہی 

سسر سے کیسی شرم وہ ہنسا 

تمہاتے اس سرپرائز کے چکر میں میری بیٹی آدھی ہو جاۓ گی ڈونٹ وری سسر جی میں شادی کے بعد اسے پوری کر دوں گا 

ہاہاہاہا ٹھیک ہے چلیں اب میں چلتا ہوں مجھے ابھی ڈی آئی جی کے پاس بھی جانا ہے ان سے مصاحفہ کر لے وہ چلا گیا 

مصطفہ صاحب نے اپنے بچوں کی خوشیوں کی دعا کی

اسے آج صبح سے بے چینی لگی ہوئی تھی اس کا دل انجانے حدشات سے ڈر رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ آج آہل اگر وہاں گئی تو واپس نہی آۓ گی اور وہ ایسا ہونے نہی دینا چاہتا تھا دوسرا دھڑکا اسے نور بیگم کی طرف سے بھی تھا کہ سچائی تو وہ جان گئی تھیں کہیں وہ ساجد صاحب کو سب بتا نہ دیں اور پھر ایسی صورتحال میں اسے چھوڑنا پڑتا 

نہی بلکل بھی نہی میں کسی و بھی اسے خود سے چھیننے نہی دوں گا اگر سب کو پتاچل بھی گیا تو میںان سے آہلہ کو مانگ لوں گا لیکن اسے خود سے ور نہی جانے دوں گا اس نے خود سے کہا 

وہ کیوں تمہیں اسے سونپیں گے تم نے کونسا اس کے ساتھ اچھا کیا ہے صرف دکھ اور تکلیفیں ہی تو دی ہیں اور شہروز بھی تو ہے وہ آہلہ کو اسے بھی تو دے سکتے ہیں وہ تم سے کہی گنا اچھا ہے اور یقیناً اس کے لیے اچھا ہمسفر بھی ثابت ہو گا  اس کے دماغ نے کہا

نہی اس نے خود اے انکار کیا تھا کہ وہ اس سے شادی نہی کرے گی اس نے دماغ کی دلیل کو رد کیا

انکار اس نے تمہیں بھی  تو کیا ہے  پھر تم کس آس میں بیٹھے ہو اور جتنی بدتمیزی تم ساجد صاحب سے کر چکے ہو وہ کبھی بھی تمہارے حق میں فیصلہ نہی کریں گے اور پھر شہروز تو ان کا اپنا بیٹا ہے دماغ نے ایک بار پھر اس کی بات کو رد کیا

نہی وہ چلایا یہ تو شکر کہ آفس روم ساؤنڈ پروف تھا نہی تو ورکرز اپنے نئے سر کو اس طرح دیکھتے مزید خوفزدہ ہو جاتے 

وہ صرف میری ہے صرف میری اسے مجھ سے کوئی بھی نہی چھین سکتا کوئی بھی نہی وہ خود بھی نہی میںخود کو بھی ختم کر لوں گا اور اسے بھی اگر وہ مجھے نہ ملی لیکن میں اسے کسی اور کا بھی نہی ہونے دوں گا جو عاجل کی ہے وہ اس کی ہے اور کسی کی نہی 

اس نے ٹیبل پر پڑا سارا سامان نیچے گرا دیا اور نیچے بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگا 

ٹوں ٹوں انٹرکام بجا 

بولو سر کوئی صارم نامی آدمی آپ سے ملنا چاپتے ہیں اور وہ آپکو اپنا دوست کہہ رہے ہیں سیکٹری نے ڈرتے ہوۓ کہا کہ کہیں وہ اس بات پر غصہ ہی نہ کر جاۓ کیونکہ وہ آتے ہی اس کے قصے سن چکی تھی 

ہمم بھیج دو اسے اندر انٹر کام رکھ کر وہ سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر خود کو ریلیکس کرنے لگا

بڈی میں تو یہ سن کر ہی حیران ہو گیا کہ تم نے آفس جوائن کر لیا مجھے تو انکل کی بات پر یقین نہی آ رہا تھا اس لیے میں خود اپنی آنکھوں کو یقین دلانے کے لیے یہاں ٹپک پڑا وہ اندر داخل ہوتے ہی اسے سامنے بیٹھا دیکھ کر شروع ہوگیا چونکا تو وہ اس کی آنکھوں کو دیکھ کر 

عاجل تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے نہ اس نے فکرمندی سے اس کی آنکھوں کی سرخی کو دیکھتے پوچھا 

ہاں ٹھیک ہوں اس نے کہتے سیگریٹ جلا کر لبوں میں دبایا 

لگ نہی رہے شئر کر لو ہو سکتا ہے کچھ مدد ہو جاۓ 

یہ سرخی تب ہی ختم ہو گی جب وہ میرے پاس مکمل طور پر میری بن کر ہو گی اس سے پہلے یہ سرخی نہی ختم ہو سکتی 

کہا تم آہلہ کی آئی مین بھابی کہ وجہ سے ڈسٹرب ہو اس کی گھوری بھی پر اس نے آہلہ کہ بجاۓ بھابی کہا

ہممم تو یار تم کیوں اتنی ٹینشن لے رہے ہو سب اللہ پر چھوڑ دو وہ سب بہتر کر دے گا انشاءاللہ بھا ی تمہاری ہی قسمت میں ہوں گی اس نے اسے تسلی دی 

پتا نہی صارم مجھے بے چینی ہو رہی ہی جیسے وہ شہروز اسے مجھ سے چھین لے گا اور رات کو ماما کو بھی پتا چل گیا ہے سب اور وہ آج رات ساجد انکل کی طرف جا رہی ہیں تو یقیناً یہ بات بھی وہاں کھلے گی تب کیا ہو گا یہی بات مجھے ہولا رہی ہے یقیناً  بات جا نے کے بعد وہ لوگ اسے کبھی بھی ہمارے ساتھ آنے نہی دیں گے اور تو جا تا ہے اسے دیکھے بغیر نہی رہ سکتا 

تو ایک کام کر عاجل ایک دفع مزار پر سے ہو آ مجھے یقین ہے تیری ساری بے چینی ختم ہو جاۓ گی اس نے مشورہ دیا 

جانا تو میں بھی چاہتا تھا لیکن آہلہ کے ساتھ 

تو ابھی تو ہو آ جب منت پوری ہو جاۓ گی بھابی کو بھی ساتھ لے جانا 

ہمم اسکی بات اس کے دل کو لگی تھی 

وہسے بڑا ہی بے مروت ہے کب سے میرے ساتھ باتیں بگاڑے جا رہا ہے اور اتنا نہی کیا کہ دوست پہلی دفع تیرے آفس آیا ہے کوئی چاۓ وغیرہ ہی پوچھ لے اسے کچھ ریلیکس ہوتے دیکھ کر اس نے شکوہ کیا 

اچھا بتا کیا لے گا کچھ بھی لیکن اگر پزا ہو جاۓ تو بیسٹ ہے اس نے انٹرکام پر ایک عدد پزا آرڈر کیا 

تھوڑی دیر تک پزا خاضر تھا صارم پزا سے انصاف کر کے اٹھا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ گیا 

تو کہاں اسے اٹھتا دیکھ کر اسنے اس سے پوچھا 

مزار اس نے یک لفظی جواب دیا اور باہر چلا گیا 

سیکرٹری کو ہدایت دے کر وہ گاڑی میں بیٹھ کر مزار کی طرف روانہ ہوا

❣❣❣❣❣❣❣

مزار کی سیڑھیوں کو چڑھتے اس دن کو یاد کر رہا تھاجب وہ پہلی دفع یہاں آیا تھا آیا نہی بلکہ لایا گیا تھا تب وہ ایک گھمنڈی شخص تھا جسے پیار محبت وغیرہ پر کوئی یقین نہی تھا 

سب کچھ ویسا ہی تھا اگر کچھ تبدیلی تھی تو وہ اس میں تھی وہ یہاں آج اپنی محبت کو مانگنے آیا تھا ایک عاشق بن کر سیڑھیاں چڑھ کر وہ صحن میں آیا تو اسی گلو کار کی آواز اس کی سمعاتوں سے ٹکڑائی لیکن آج اس کا ایک ایک لفظ اسے سمجھ آ رہا تھا اس کء اندر ایک سرور جگا رہا تھا اسنے اپنے اتد گرد دیکگا تو اس کی طرح کچھ عاشق اپنی محبتوں کی منت مانگنے آۓ ہوۓ تھے اس نے مسکراتی نظر سب ہر ڈالی اور پھر اندر مزار کی طرف بڑھا اس کے ایک ایک قدم میں آج محبت کی جھلک تھی اس نے اپنی محبت کی تکمیل اس کی محرم بننے کی دعا کی اور اس درخت کے پاس گیا جس پر صارم کے دھاگا باندھنے پر اس  نے اس کا مزاق بنایا تھا لیکن قسمت نے آج اس کے ساتھ مزاق کیا تھا کہ دوسروں کا مزاق بنانے والا آج خود یہاں دھاگا باندھ رہا تھا یہاں منت مانگ کر اس نے اس درویش کے لیے نظر دوڑائی تو وہ اسے اسی درخت کے نیچے بیٹھے دکھے انہوں نے آج بھی وہی لباس پہنا ہوا تھا وہ آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھ رہے تھے وہ دونواز ان لے پاس بیٹھ گیا تو وہ مسکراۓ

تو عشق سے انکاری کو بھی آج عشق یہاں لے ہی آئی اسکی موجودگی کو محسوس کرتے انہوں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

زندگی نے بازی ہہ ایسی پلٹی کپ مجھے یہاں آنا پڑا 

کیا تمہیں واقعی عشق ہو گیا ہے ؟؟ درویش نے استفسار کیا 

اس کے بغیر میں خود کو ادھورا سمجھتا ہوں اسے نہ دیکھوں تو دل کو بے چینی سی شروع ہو جاتی ہے کسی ے ساتھ اس کا بولنا ہنسنا میرے اندر تک کو جھلسا دیتا ہے اس نے اپنی  کیفیت بتائی

جانتے ہو محبت کیا ہے ؟ محبت ایک آزمائش ہے تمہیں ابھی مجازی محبت ہوئی ہے ابھی حقیقی محبت تو باقی ہے 

حقیقی محبت اس نے ناسمجھی سے پوچھا 

اپنے رب سے محبت جانتے ہو یہ جو مجازی محبت ہوتی ہے انسان کے لیے آزمائش ہوتی ہے اس کے دل کی اس کے عزم کی اس کی مستقل مزاجی کی وہ رب پہلے انسان کے دل میں مزاجی محبت ڈالتا ہے پگر اسے آزماتا ہے پھر اسے کندن بناتا اور پھر جب  انسان کا دل گداز ہو جاتا ہے نرم ہو جاتا تو وہ اس کے دل میں اپنے لیے محبت ڈال دیتا ہے 

جس طرح سونے کو جلا کر اس میں چمک ہیدا کی جاتی ہے اسی طرح وہ رب بھی انسان کے دل میں محبت پیدا کر کے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں جلا کر اپنی محبت کے قابل بناتا ہے 

عاشق کو چار معجزوں  سے غرض ہوتی ہے 

پہلی وصل یار دوسری نظر یار تیسری کرم یار اور چھوتھی قرب یار 

لیکن جانتے ہو عشق کیسا ہونا چاہیے ؟ 

عشق تو ایسا ہونا چاہیے کہ محبوب سامنے ہو  اور اسے چھونے کی تو کیا دیکھنے کہ بھی جرات نہ ہو 

وہ جو ان کی بات غور سے سن رہا تھا ان کی اس بات پر بولا

جس سے محبت کی جاۓ اسے  دیکھنے کامحسوس کرنے کا ہر عاشق کا دل کرتا ہے 

جب عشق روح سے کیا جاۓ تو محبوب کو نہ تو دیکھنے کی  یا نہ چھونے کی چاہ ہوتی ہے ہاں جن لوگوں کو ہوس ہوتی ہے ان لوگوں کے لیے صرف اگلے کا جسم معنی رکھتا ہے انہیں نہ تو چہرے سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ رنگ روپ سے 

اسے اپنا جواب مل گیا تھا 

وہ مجھ سے محبت نہی کرتی ایسا اس کا کہنا ہے 

تمہیں ابھی بہت سے مراحل سے گزرنا  ہےابھی تم اس سونے کی طرح ہو جسے کندن بننے کے لیے مشکل مراحل سے گزرنا ہے  اس کی بے رخی برداشت کرنی ہے اس کا دل جیتبا ہے اور پھر اس فل کو جیت کر اسے وہ مام بخشنا ہے کہ اسے تم سے کہ گئی محبت اور اگر تم ناکام ہو گئے تو سمجھ لینا کہ وہ تمہاری تھی ہی نہی محبت میں ملن ہونا ضروتی نہہ بلکہ عشق تو لازوال ہوتا ہے جن لوگوں کو ان کی محبت مل جاتی ہے وہ قسمت ہوتی ہے اور جن کو نہی ملتی ان کا عشق لازوال ہوتا ہے کبھی نہ ختم ہونے والا

درویش کی باتیں سن کر اس کا دل ایک دفع کانپا تھا وہ تو اس کی ایک منٹ کی دوری بھی برداشت کرمے کے حق میں نہی تھا 

ظہر کی ازان کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تو وہ اس نے صدق دل سے اپنے ملن کی دعا کی درویش بھی اپنے رب کے بلانے پر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے ہے لیے وضو بنانے گیا تو ان کی تقلید میں اس نے بھی وضو کیا اور ان کی امامت میں نماز ادا کی 

کہیں عشق سجدے میں گر گیا

کہیں عشق سجدے سے پھر گیا

کہیں وشق درس وفا بنا

کہیں عشق حسن ادا بنا

کہیں عشق نے سانپ سے ڈسوا دیا

کہیں عشق نے نماز کو قضا کیا

کہیں عشق سیف جدا بنا

کہیں عشق شیر خدا بنا

کہیں عشق طور پر دیدا ہے 

کہیں عشق زبح کو تیار ہے

کہیں عشق نے بہکا دیا

کہیں عشق نے شاہ مصر بنا دیا

کہیں عشق آنکھوں کا نور ہے 

کہیں عشق کوہ طور ہے 

کہیں عشق تو ہی تو ہے 

کہیں عشق اللہ ھو ہے

❣❣❣❣❣❣

رابیل اپنے دکھ کو سائڈ پر رکھ کر جانے لے لیے تیار ہو گئی ان لوگوں نے ڈنر کے وقت جانا تھا لیکن اب ٹائم کافی ہو چکا تھا سب ہی تیار تھے بس عاجل کا ویٹ ہو رہا تھا 

پتا نہی کہاں رہ گیا بتاہا بھی تھا کہ جلدی آجانا آج خالہ کی طرف جانا ہے لیکن یہ کسی کی سنے تو تب نہ بس اپنی کرتا رہتا ہے نور نے سخت خفگی سے کہا انہیں رفعت کا دو دفع فون آ چکا تھا 

ریلیکس رہیں آپ میں نے فون کیا تھا وہ بس آ رہا  ہے ضروری میٹینگ تھی جس کہ وجہ سے وہ لیٹ ہو گیا اب آ رہا ہے انہوں نے انہیں ریلیکس کیا 

چلیں مام اس نے ہال میں انٹر ہوتے کہا 

شکر ہے تم آ گئےجاؤ جلدی سے کپڑے چینج کر کے آؤ پھر چلتے ہیں پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے آپا بھی ناراض ہو رہی ہیں اسے دیکھ انہوں نے تحمل سے کہا جانتی تھی اگر زرا انہوں نے رعب سے کہا تو اس نے ضد میں نہی جانا 

بس پانچ منٹ میں میں آتا ہوں اس نے ایک نظر آہلہ کو دیکھ کر کہا جس نے کالے رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی اور اسی رنگ کا حجاب کیا ہوا تھا وہ مسمرائز ہو گیا تھا 

اس کی نظر وہ خود پر پڑتی دیکھ چکی تھی لیکن اس مے خود کو بے نیاز ظاہر کیا 

وہ واقعی پانچ منٹ میں دوبارہ ہال میں موجود تھا آہلہ نے دیکھا اس نے بھی بلیک ہی پہنا تھا اسے دیکھ لر وہ بے اختیار ہی جھینپ گئی یعنی وہ اس کے ساتھ میچنگ کر کے آیا تھا

اہم اہم بھائی حیریت ہے نہ کہ بلیک بلیک اس نے آہلہ اور پھر اس کے کپڑوں کو دیکھ کر شرارت سے آنکھیں مٹکا کر کہا

اب تم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ محبوب کے رنگ میں رنگنے کا بھی اپنا ہی لطف ہے وہ اسے اس کی محبت یعنی فرہاد کی طرف اشارہ کر رہا تھا جبکہ اس کی بات پر وہ تلخی سے مسکرائی 

چلو اب تم لوگ باتیں بعد میں کر لینا آلریڈی کافی لیٹ ہو چکا ہے 

میں انکل کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں اس نے عاجل کو اپنے لیے فرنٹ ڈور کھولتے دیکھ کر منمنا کر کہا 

ارے کیوں دو لوورز کے درمیان ہڈی بننا چاہ رہی ہو تم ہمارے ساتھ بیٹھو دیکھنا کتنا مزہ آۓ گا رستے میں رابیل نے کہا

بیٹا آپ بیٹھ نہی رہیں مصطفی صاحب نے گاڑی سے اتر کر پوچھا 

کچھ نہی ڈیڈ آپ جائیں ہم لوگ آ رہے ہیں عاجل نے کہا تو وہ سر ہلا کر چلے گئے

رابی تم آگے آ جاؤ اسے پیچھنے بیٹھنے دو اس مے نارمل کہا جبکہ وہ دونوں اس کے نارمل سا کہنے پر حیرت سے دیکھنے لگیں

کیا اب ایسے کیا دیکھ رہی ہو اگر میں ضد نہی کر تہا تو تم لوگوں پگر بھی سکون نہی ہے اگر اب تم دونوں نہ بیٹھی تو پھر دیکھنا اس نے ان دونوں کو دھمکی دی تو وہ دونوں جلدی سے بیٹھ گئیں

گاڑی میں بیٹھ کر اس نے مرر آہلہ پر سیٹ کیا اور گاڑی سٹارٹ کی 

میں تمہارے لیے خود کو نرم بھی رکھ سکتا ہوں بشرطیکہ تمہیں میرا ہونا ہو گا پورے کا پورا اور تم وہاں جا رہی ہو تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہی ہے کہ تم اپنے اس کزن سے باتیں بگاڑو یا پھر ہنسو کیونکہ پھر مجھے وہی عاجل بننے میں دیر نہی لگے گی اس نے اسے مرر میں دیکھتے ڈائریکٹلی کہا تو وہ رابیل کے سامنے اس کے اتنا حق سے کہنے پر بس اسے گھور کر رہ گئی 

گاڑی پورچ میں روکی تو وہ لوگ گاڑی سے نکلے اس نے ایک دفع پھر اسے تنبہہ کی آنکھوں سے تو وہ پیر پٹخ کر اندر بڑھ گئی

مصطفی صاحب کی گاڑی بھی ان کے پیچھے ہی گھر میں داخل ہوئی 

سب نے ان کا بھر پور استقبال کیا کرتے بھی کیونکہ آج کتنے عرصے بعد نور نے اس گھر میں قدم رکھا تھا 

شہروز نے بھی مسکرا کر آہلہ کا حال پوچھا تھا یہ دیکھ کر عاجل کے سفید چہرے پر سرخی پھیل گئی تھی بتول نے غور سے اس کے چہرے کی سرخی کو دیکھا تھا اور پھر آہلہ اور شہروز کو جو مسکرا کر ایک دوسرے کا حال پوچھ رہے تھے اس کی اتنی پوزیسو نیس پر بتول نے مسکراہٹ چھپائی تھی 

آہلہ سے فارغ ہو کر شہروز نے مصاحفے کے لیے عاجل کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا جسے عاجل نے کس کر پکڑا تھا کہ شہروز نے اس کی طرف دیکھا جو چہرے پر مسکراہٹ جبکہ ہاتھ پر پکڑ سخت کیے اسے دیکھ رہا تھا شہروز نے ناسمجھی سے اس کی اس حرکت کو دیکھا تھا 

شمع اور رفعت نے بھی اس سے خوش اخلاقی سے اس کا حال احوال پوچھا تھا

چونکہ ڈنر کا وقت تھا اور کھانا بھی ریڈی تھا تو سب نے پہلے ڈنر کیا اور پھر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے جبکہ  لڑکیاں برتن سمیٹنے لگیں رابیل برتن تو نہی لیکن بتول اور آہلہ کو کمپنی ضرور دے رہی تھی 

آپ کے ہسبنڈ تو کافی پوزیسو ہیں آپکے بارے میں بتول نے چاۓ کا پانی چڑھاتے پیچھے مڑ کر آہلہ کو کہا تو اس نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا 

نہی ایسا کچھ نہی ہے اس نے بمشکل مسکرا کر کہا

ارے نہی ایسا ہی ہے میں نے خود دیکھا تھا جب آپ شہروزجی سے بات کر رہی تھیں نہ تو ان کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا تھا اس نے مصروف انداز میں بتایا آہلہ اس کی بات پر چپ رہی 

آپا میں نے زکیہ ماجد کو معاف کر دیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ بھی پرانی باتوں کو بھول کر  اس بچی کے ساتھ اپنے سلوک کو بہتر کر لیں نور نے بلند آواز میں کہا

نور بلکل ٹھیک کہہ رہی آپا وہ لوگ تو من و مٹی تلے جا سوۓ ہیں اب اس سب کا کوئی فائدہ نہی ہے بلکہ اس بچی لے ساتھ برا سلوک کر لے ہم خود ہی اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں مصطفی صاحب نے بھی حصہ ڈالا

آپ بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی صاحب میں بھی نفرت میں اس بچی کے ساتھ اتنا برا کرتی آئی ہوں کہ اللہ نے اس کی سزا لے طور پر مجھ سے میری بچی چھین لی انہوں نے گلو گیر لہجے میں کہا

لیکن میں خوش ہوں کہ اللہ نے مجھ سے ایک بیٹہ چھین کر مجھے دوسری سے نواز دیا انہوں نے چاۓ لاتی بتول کو دیکھ کر نم آنکھوں سے مسکراتے کہا

تو جواباً وہ بھی ان کے اتنے پیار پر مسکرائی 

انہوں نے اس کے پیچھے آتی آہلہ کو دیکھا تو اٹھ کر وہ اس کے سامنے آئیں اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگیں 

پھوپھو یہ کیا کر رہی ہیں اس نے ان کے ہاتھ پکڑے 

مجھے بھی معاف کر دو میں نے بھی تمہارے ساتھ کچھ کم نہی کیا رفعت بیگم نے بھی معافی مانگی تو مصطفی اور ساجد نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا 

آپ لوگ مجھے خوامخواہ شرمندہ کر رہے ہیں وہ واقع آج سب کے معافی مانگنے کی وجہ سے شرمندہ ہو رہی تھی اس کے ایسا کہنے پر رفعت اور شمع نے باری باری اس کا ماتھا چوما

چلیں اب سب یہ چاۓ پی کر بتائیں کیسی ہے کیونکہ یہ چاۓ ہماری رابیل نے بنائی ہے کیونکہ اس نے اس میں پتی ڈالی ہے بس اس نے ہنس کر بتایا تو سبھی ہنس دیے

اب سب جب یہاں ہیں تو میرے خیال سے اس موضوع پر بھی بات کر لینی چاہیے مصطفی صاحب نے سنجہدگی سے کہا 

جی بولیں بھائی صاحب 

میں بہت شرمندہ ہوں کہ عاجل کی وجہ سے آپ سب کو اتنی مشکل اٹھانی پڑی انہوں نے تمہید باندھی آہلہ سانس روکے انہیں سن رہی تھی عاجل کو اپنا ڈر سہی لگنے لگا 

مصطفی جو ہونا تھا وہ ہو گیا اب اس سب کا کیا فائدہ دونوں بچے خوش ہیں ہمیں اور کیا چاپیے 

بھائی صاحب دراصل بات یہ ہے کہ آہلہ عاجل کی بیوی نہی ہے وہ سارے ثبوت جھوٹے تھے عاجل نے یپ سب بدلہ لینے کے لیے کیا تھا میں بہت شرمندہ ہوں 

ہر کوئی شاک سے انہیں دیکھ رہا تھا

یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بھائی صاحب رفعت بیگم نے شاک سے نکل کر کہا

میں شرمندہ ہوں بھابی لیکن یہی سچ ہے آپ تو جانتی ہیں کہ نئے خون میں کتنا جوش ہوتا ہے وہ انجام کی پرواہ کیے بغیر سب کر گزرتے ہیں پھر چاہے ان کے عمل سے کسی کی زندگی میں طوفان ہی کیوں نہ آۓ انہوں نے شرمندگی سے ان سے کہا اور پھر عاجل کو دیکھا جس کے چہرے پر زرا بھی شرمندگی نہی دکھائی  دے رہی تھی اس کے اتنے نارمل انداز پر انہوں نے دانت پیسے 

شہروز نے بھی اس کی طرف دیکھا کہ شائد اس کے چہرے پر اسے ہلکی سی ندامت دکھے لیکن وہ ناکام ہوا کتنا بے حس تھا وہ شخص 

بتول نے بھی خوبرو سرخ و سفید رنگت اور نیلی آنکھوں والے شہزادے کو دیکھا جسے دیکھ کر یہ بلکل بھی اسے نہی لگا تھا کہ اس قدر پستی شخصیت کا مالک ہو گا کہ بدلے کے لیے کسی کی بہن بیٹی کی عزت تک کو اچھال دے گا تھؤڑی دیر پہلے اسے جو آہلہ کی قسمت پر رشک ہو رہا تھا اب اسے اس سے ہمدردی ہو رہی تھی 

مجھے بلکل سمجھ نہی آ رہی کہ میں کیا کروں ایک طرف اگر بیوی کا بھانجا ہے تو دوسری طرف میری بھتیجی ہے جس کے ساتھ انجانے میں میں بھی بہت غلط کر گیا ہوں ساجد صاحب نے شرمندگی سے جھکے سر سے کہا ان میں اتنی ہمت نہی ہو رہی تھی ہہ وہ آہلہ سے نظر بھی ملا پاتے انہیں سب یاد آ رہا تھا کہ کیسے وہ اپنی بے گناہی دیتے ہوۓ رو رہی تھی لیکن انہوں نے بے حسی کی چادر لپیٹتے ہوۓاسے اس کے گھر سے جانے کا کہا تھا 

چاچو میں نے اسے بھی معاف کر دیا ہے آپ بھی اسے معاف کر دیں غلطی میری بھی تھی مجھے بھی ایسے جزباتی ہو کر تھپڑ نہی مارنا چاہیے تھا اس نے سر جھکا کر کہا 

جب سب اس کے ساتھ سہی ہونے جا رہا تھا تو وہ نہی چاہتی کہ اس وجہ سے پھر رشتوں میں دراڑ آ جاۓ وہ شروع سے ہی محبتوں سے محروم رہی تو جب آج اسے وہ ساری محبتیں مل رہی تھی تو وہ انہیں کسی نام نہاد نفرت یا بدلے کی آگ نہی کرنا چاپتی تھی 

ہمم جب تم نے معاف کر دیا  تو پھر میرا کوئی اعتراض کرنا بنتا نہی اگر آج ماجد اور زکیہ زندہ ہوتے تو اپنی بیٹی کی اتنی سمجھداری پر ان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا انہوں نے اٹھ کر اس کے سر پر دست شفقت سے ہاتھ رکھا 

شہروز کو تو اس عاجل کی اتنی آسانی سے معافی ملنے پر ہی ہول اٹھ رہے تھے 

ویسے کیا عاجل کو سب کے سامنے آہلہ سے معافی نہی مانگنی چاہیے آفٹر آل اس نے سب کے سامنے ہی نکاح نامہ دکھایا تھا تو معافی بھی تو سب کے سامنے ہی مانگنی چاہیے نہ اس نے دل جلانے والی مسکراہٹ سے عاجل کی طرف دیکھ کر کہا 

اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا عاجل نے اس کی طرف بھی دل جلانے والی مسکراہٹ پھینکی 

یہ میرا اور آہلہ کا معاملہ ہے تم اس سے دور رہو اس نے صوفے کہ بیک سے ٹیک لگاتے اسے جلایا

یہ تمہارا اور اب اس کا معاملہ نہی ہے سچ سب کے سامنے ہے شہروز نے بھی جتایا 

یہ معاملہ اب بھی اس کا اور میرا ہے اور میں کسی کو اجازت نہی دیتا کہ وہ میری زاتیات میں گھسے اس لیے تم اس معاملے سے دور ہی رہو تو اچھا ہے 

اس نے بھی غصے سے کہا 

عاجل مصطفی صاحب نے تنبہہ کی

ماحول کو گرم ہوتا دیکھ کر شمع بیگم نے دوسری بات شروع کی 

بتول کو میں نے بلکل مروہ کی طرح ہی سمجھا ہے اور اس نے بھی مجھے اتنا ہی مان دیا ہے ایک بیٹی تو میں پہلے ہی کھو چکی ہو دوسری اللہ نے مجھے بن مانگے ہی عطا کر دی ہے تو میں نہی چاہتی کہ اسے خود سے دور کروں انہوں نے ہاتھ مسلتے بے چینی سے کہا 

اسلیے میری یہ دلی خواہش ہے کہ مروہ نہی تو بتول شہروز کی دلہن بن کر ہمیشہ کے لیے اس گھر میں رہ جاۓ اپنی خواہش کا اظہار کر کے وہ چپ ہو گئیں

ان کے مطالبے پر بتول اور شہروز نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا تھا ان کی آنکھیں چار ہوئی تھیں بے ساختہ بتول کا دل دھڑکا تھا جب کہ شہروز سپاٹ انداز سے بیٹھا تھا 

بھابی میں نے صرف اپنی خواہش بتائی ہے آگے آپ لوگوں کی مرضی ہے شہروز آپکا بیٹا ہے آپ کو اس کی زندگی کے فیصلے کرنے کا پورا حق ہے ان کی طرف سے خاموشی پر انہوں نے کہا

یہ تم نے کیا بات کر دی شمع وہ اگر میرا بیٹا ہے تو تمہارا بھی ہے میں نے اسے جنم دیا ہے تو پالا تم نے بھی ہے اس پر جتنا میرا حق ہے اتنا ہی تمہارا بھی ہے انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر مان سے کہا

 تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائیں 

آہلہ کو بھی بتول کی سادگی بھائی تھی بے شک وہ شہروز کے لیے اچھی بیوی اور اس گھر کے لیے اچھی بہو ثابت ہو سکتی تھی اس نے شہروز کی طرف دیکھا جو سپاٹ سے انداز میں بیٹھا زمین کو گھور رہا تھا وہ جانتی تھی وہ کس کشمکش میں ہو گا لیکن کبھی نہ کبھی تو اسے آگے بڑھنا تھا تو پھر اب کیوں نہی اور پھر بتول بھی اتنی اچھی تھی دنیا کی چالاکیوں سے دور

وہ شہروز کی طرف ہی دیکھ رہی تھی جو چہرہ جھکاۓ اپنے تاثرات کو چھپا رہا تھا شہروز نے بھی نظریں یونہی اٹھائیں تو اس کی نظروں سے ملتے ہی اس کی آنکھوں میں موجود پیغام کو پڑھ کر وہ تلخی سے مسکرایا 

عاجل کا تو سارا دھیان ہی اپنی آہلہ پر تھا شمع بیگم کی خواہش پر اسے دلی سکون ملا تھا چلو رقیب رستے سے ہٹ رہا ہے لیکن شہروز اور آہلہ کہ آنکھوں کے زریعے ہونے والی گفتگو پر اسے تو پتنگے ہی لگ گئیں اور پھر آگ پر جلتی کا کام اس کی مسکراہٹ نے کیا وہ غصے سے مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا آنکھیں الگ غصے کی داستان سنا رہی تھیں

شہروز کے تلخی سے مسکرانے پر اس نے اپنا رخ دوسری طرف کیا تو عاجل کی آنکھوں کی سرخی نے اسے ڈرا دیا لیکن اسنے ایسے ظاہر کیا جیسے اس نے دیکھا ہی نہی 

مجھے کچھ وقت چاہیے سوچنے کے لیے شہروز نے ضبط سے کہا اس کے لیے اتنا آسان کہاں تھا اس کی جگہ کسی اور کو دینا

جب کہ اس کی طرف سے تسلی بخش جواب پر سب نے خوشی سے ایک دوسرے کو دیکھا  

چلیں پھر ہمیں اجازت دیں کافی وقت ہو گیا ہے مصطفی صاحب نے گھڑی پر بارہ دیکھ کر کہا کیونکہ واقعی کافی دیر ہو گئی تھی

مصطفی آج رات یہی رک جاتے اتنے عرصے بعد تو نور نے اس گھر کو رونق بخشی ہے 

ضرور آپا پھر کبھی لیکن آج کافی دیر ہو گئی ہے کل مجھے کراچی بھی جانا ہے اور اس کی پیکنگ بھی ابھی کرنی ہے اس لیے معزرت ہم انشاءاللہ جلد ہی چکر لگائیں گے آپ سے ایک قیمتی چیز جو مانگنی ہے انہوں نے انہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا 

ضرور کیوں نہی آپ کا اپنا گھر ہے جب مرضی آئیں ساجد صاحب نے ان کی بات کو سمجھ کر بھی نظر انداز کرتے کہا  

رابیل اور نور بھی سب سے مل کر ان کی تقلید میں اٹھیں

تم نے کیا انویٹیشن لے کر چلنا ہے اسے ان کے ساتھ نہ چلتا دیکھ کر اس نے بنا اپنے غصے کو دباۓ غصے سے کہا

آہلہ نے تو ہڑبڑا کر اس کے غصے کو دیکھا اسے اس کی دماغی حالت پر کبھی کبھی شبہ ہوتا تھا بھلا اب جب سب کچھ کلئر ہو چکا تھا اس کی پارسائی ثابت ہو چکی تھی تو وہ کیوں اس کے ساتھ جاتی 

اب وہ تمہارے ساتھ نہی جاۓ گی اسی گھر میں رہے گی شہروز نے بھی اس کے غصے پر ناگواری سے کہا اسے اس سے الگ قسم کی چڑ شروع ہو گئی تھی اگر وہ ان کے بیچ نہ آتا تو آج اس کے لیے کسی اور کا نا سوچا جا رہا ہوتا 

کیا مطلب اس نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا 

عاجل اب وہ ہمارے ساتھ نہی جا سکتی اس کا تم سے کوئی رشتہ نہی ہے جو وہ ہمارے ساتھ چلے گی مصطفی صاحب نے اپنے سر پھرے بیٹے کو سمجھایا 

اگر رشتے کی بات ہے تو میں ابھی اس سے رشتہ بنانے کو تیار ہوں لیکن یہ جاۓ گی ہمارے ساتھ ہی اس نے بھی اٹل ضدی لہجے میں کہا 

اس کی ضد پر تو اب آہلہ کو بھی اچھا خاصا غصہ آیا تھا وہ مانتی تھی کہ اس کا اپنا دل بھی اسکی زرا سی توجہ یا مہربانی پر ہمک ہمک کر اس کی طرف جاتا تھا لیکن سب کہ سامنے اس کی ضد نے اسے غصہ دلا دیا تھا اس لیے وہ بھی غصے سے گویا ہوئی 

مجھے نہی بنانا تم جیسے سر پھرے سے کوئی بھی رشتہ اس لیے مزید تماشا مت بناؤ اور جاؤ یہاں سے 

اس کے کہنے پر وہ بھی بنا کچھ کہے ایک قہر بھری نظر شہروز پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا تھا 

نور اور مصطفی بھی معزرت کرتے چلے گئے

❣❣❣❣❣❣❣❣

گھر آ  کر اس نے اپنے کمرے کا سارا سامان تہس نہس کر دیا تھا اس کا بس نہی چل رہا تھا کہ وہ اسے یہاں لے آۓ

اسے جتنی خوشی شہروز کا فیصلہ سن کر ہوئی تھی اتنا ہی اشتعال اسے ان کی نگاہوں سے ہوتی گفتگو سے آیا تھا اور پھر وہ اس کے ساتھ بھی نہی آئی تھی اسے رہ رہ کر یہ بات جلا رہی تھی کہ وہ دونوں ایک چھت کے نیچے ہوں گے 

اسی جلن کو کم کرنے کے لیے اس نے سیگریٹ جلایا اور ہونٹوں میں دبا کر وہ آسمان پر موجود چاند کو دیکھنے لگا 

اسے لگا تھا کہ دھوے کہ ساتھ اس کی جلن بھی ہوا میں تحیل ہو جاۓ گی لیکن بے سود اس کی جلن کم ہونے کا نام ہی نہی لے رہی تھی اس نے سیگریٹ کو بجھا کر موبائل اٹھایا اور اسے کال ملائی

ان کے جانے کے بعد آہلہ نے شکرانے کے نوافل اداکیے کہ اللہ نے اس کی پارسائی سب پر ثابت کر دی تھی آج وہ بہت خوش تھی اسے وہ محبتیں جن کو برسوں سے ترستی آئی تھی اب ملنے والی تھیں اس نے اپنے ماں باپ کی تصویر سے بھی ڈھیروں باتیں کی تھیں 

وہ ابھی بستر پر دراز ہوئی تھی کہ عاجل کا غصہ اسے یاد آیا تھا بیک وقت اسے یاد کر کے اسے غصہ اور پیار بھی آیا تھا وہ جانتی تھی کہ اسے غصہ اس کے اور شہروز کے ایک دوسرے کو دیکھنے پر تھا اور پھر اس کے ناجانے پر بھی اس کا دماغ گھوم گیا تھا اس کا سرخ چہرہ یاد کر کے بےساختہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی 

اس نے سنا تھا کہ جہاں نفرت حد سے سوا ہو وہیں محبت بھی اپنے پنجے گاڑھتی ہے اسے اس بات سے سخت اختلاف رہا تھا لیکن اب اپنے دل کی دوا ڈول پر اسے وہ بات بلکل بحق جانب لگ رہی تھی ان کے درمیان بھی تو نفرت کا رشتہ تھا جو ناجانے کب محبت میں بدل گیا 

وہ محبتوں سے محروم لڑکی تھی اب اسے یہ احساس ہی کہ کوئی اسے بےحد چاہتا ہے اس ہوا میں اڑا رہا تھا البتہ اس کا اظہار اس نے اپنے عمل سے کسی کو بھی نہی ہونے دیا تھا 

سچ ہی کسی نے کہا ہے کہ چاہے جانے کا احساس ہی پر لطف ہوتا ہے 

وہ مسلسل اسے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کا موبائل بجا وہ کہتے ہیں نہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے 

اس کا نمبر دیکھ کر اس کا دل معمول سے زیادہ دھڑکا تھا اپنے بے لگام ہوتے دل سے ڈر کر اس نے کال کاٹ دی تھی وہ اگر اس وقت اس سے بات کرتی تو یقیناً وہ اس کے لہجے سے اس کی محبت کو جان جاتا اور وہ نہی چاہتی تھی کہ وہ ابھی جانے وہ کیا کوئی بھی جانے 

دوسری طرف اس کے کال کاٹنے پر اس نے فون کو سخت گھوری سے نوازا تھا جتنی جلدی بیل کے بجنے پر اس نے کال کاٹی تھی اتنا تو وہ جان گیا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے  اور یہی بات اسے مزید اشتعال میں ڈال گئی تھی 

اس نے اسے کال کرنے کی بجاۓ ایک وائس میسج چھوڑا تھا 

جتنا اگنور کرنا ہے کر لو صرف کچھ دن ہے تمہارے پاس ان کے ساتھ رہنے کے لیے پھر میں تمہیں ان سب سے بہت دور لے جاؤں گا جہاں صرف تم اور میں ہوں گے اور پھر میں تم سے تمہاری ہر بے اعتنائی کا سود سمیت بدلہ لوں گا اور تم چاہ کر بھی مجھے نہی روک پاؤ گی اس کا مسکراتا لہجہ اس کی سماعتوں سے تکڑایا تو وہ حیرت زدہ سی موبائل کو دیھنے لگی لیکن اس کی پوری بات سن کر اس کا مطلب سمجھ کر اس کی ڈھڑکنیں ساکت ہو کر اس کے کان میں ڈھرکتی اس کو سرخ ہونے پر مجبور کر گئی تھیں اس  نے موبائل کو وہی بیڈ پر رکھا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی 

اپنی دھرکنوں کو معمول پر لانے اور اس کی باتوں کا اثر خود پر سے زائل کرنے کے لیے وہ ڈوپٹہ اوڑھ کر باہر لان میں آ گئی 

ہر سو اندھیرے نے اپنے پر پھیلاۓ ہوۓ تھے وہ یہاں آئی تو اس کی باتوں کا اثر زائل کرنے کے لیے تھی لیکن اسکی باتیں ابھی بھی اس کے کان میں گونجتی اس کے دل کی رفتار کو تیز کر رہی تھیں اس نے بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا تو اسے اپنا دل اپنے ہاتھ میں دھڑکتا محسوس ہوا وہ اپنی دھڑکنوں میں اس کے نام کو محسوس کر رہی تھی کہ دفعتاً کسی کے کھنگارنے پر اپنے دل کے مقام سے ہاتھ ہٹاتی مڑی تو پیچھے شہروز کھڑا اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا

بتول بے شک ایک اچھی لڑکی تھی سادہ سی سادہ دل کی مالک لیکن اسکے لیے کسی اور کو  وہ مقام دینا بہت مشکل تھا جو اس نے آہلہ کو دیا تھا بے شک وہ اسکے مقدر میں نہی تھی لیکن اس کے دل میں تو تھی وہ اسی کشمکش میں بیڈ پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ آیا کرے تو کیا جب کچھ بھی 

اسے سمجھ نہ آیا تو وہ سیگریٹ لے کر کھڑکی کے پاس گیا لیکن نیچے چاند کی روشنی میں آہلہ کے چہرے کو دیکھتے وہ سیگریٹ کو وہی پھینکتا نیچے گیا تھا 

آپ یہاں آہلہ نے اس کی نظروں سے خائف ہوتے کہا

ہاں تم نے اتنا مشکل کام جو کہہ دیا ہے تو بس اسی وجہ سے نیند نہی آ رہی تھی اسنے اس کے چہرے کو دیکھ کر کہا

آہلہ نے اپنی نظریں چاند پر مرکوز کر لیں 

جانتے ہیں وہ رب ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے ہمارے اچھے برے کہ بارے میں اس سے بہتر کوئی نہی جانتا ہم اپنے لیے کسی شخص کو منتحب کر کے ڈٹ جاتے ہیں اور پھر اگر وہ شخص ہماری قسمت میں نہ ہو تو اسے اپنی زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں اس نے سانس لی  

شہروز نے دیکھا وہ ابھی بھی چاند کو ہی دیکھ رہی تھی

لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ رب الکائنات ہے جو چیز ہم نہی جانتے وہ جانتا اس کی حکمت صرف وہی جانتا ہے اگر وہ شخص ہماری قسمت میں نہی لکھا اس نے تو یقیناً اس رب العالمین نے ہمارے لیے اس سے اچھا شخص لکھا ہو گا لیکن ہم  اس کے نادان بندے ہیں جو اس کی حکمت پر صبر کرنے کی بجاۓ اپنی زندگیوں کو اندھیروں کی نزر کر دیتے ہیں 

میرا یہ سب کہنا کا مقصد صرف یہ ہے کہ میں شائد آپ کے لیے بہترین نہی تھی اسی لیے اس زات نے میرے اقرار سے پہلے ہی ہمارے درمیان کسی تیسرے کو بھیج دیا اللہ نے آپکو ایک ایسی لڑکی کے لیے منتحب کیا ہے جو آپ کا ساتھ پا کر خود کو مکمل تصور کرے گی اس لیے اپنی زندگی کو کسی سیراب کے پیچھے مت برباد کریں اور بتول کا ہاتھ تھام کر ایک حسین زندگی کی شروعات کریں

اور تمہیں شائد اس سر پھرے کے لیے اللہ نے منتخب کر لیا ہے اس نے آہلہ کے چہرے کو بغور دیکھتے کہا 

نہی تو  ایسا کچھ نہی ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں اس نے پہلے لڑکھڑا کر پھر سنمبھل کر کہا 

تم خود کو دھوکا دے رہی ہو آہلہ جبکہ تم خود بھی جانتی ہو کہ  تمہارا دل اب تمہارا نہی رہا تم جتنا بھی دوسروں کے سامنے اس کے سامنے یہ پریٹینڈ کرو کہ تمہیں اس کی زات سے فرق نہی پڑتا لیکن تم جانتی ہو کہ تمہیں پڑتا ہے ابھی کچھ دیر پہلے جب میں اوپر کھڑا تھا تو تم دل پر ہاتھ رکھ کر کچھ محسوس کر رہی تھی اب یہ مت کہنا کہ یہاں بھی میں غلط ہوں اس نے اسکی بولتی بند کروادی 

میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں از آ کزن از آ دوست تمہاری خوشی مجھے اپنی خوشی سے بھی زیادہ عزیز ہے  اگر تمہاری خوشی اسی شخص میں ہے تو میں اس سر پھرے پاگل شخص کو بھی برداشت کرنے کو تیار ہوں آخر میں اس نے اپنے دل کی حالت کے برعکس شرارت سے کہا جبکہ یہ وہی جانتا تھا کہ اس نے کس دل سے اپنی محبت کے لیے یہ الفاظ کہے تھے 

اس کی اندرونی حالت تو وہ بھی اس کی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی لیکن وہ اس کی ہمت کو نہی توڑنا چاہتی تھی اس لیے وہ بھی مسکرا دی

تو پھر آپ کل ہی اپنی رضا مندی سب گھر والوں کو بتا دیں اس نے اس سے کہا 

ہمم اس نے سر ہلایا تو وہ دونوں ہی چاند کو دیکھنے لگے 

آہلہ کے دل میں شہروز کے لیے درد تھا لیکن وہ خوش بھی تھی اس کے لیے وہ پر امید تھی کہ بتول اس کے دل سے اس کی محبت کو مٹا دے گی اور وہاں اپنی محبت کا مرہم رکھ کر اس کی زندگی کو دوبارہ پھول کی طرح مہکا دے گی 

❣❣❣❣❣❣

شمع بیگم تو دوائی کھا کر کب کی سو چکی تھیں لیکن اس کی آنکھوں سے نیند آج دور تھی اس نے شہروز کو بھی بھی اس نظریے سے نہی دیکھا تھا ان کا کم ہی ٹکڑاؤ ہوتا تھا لیکن پھر بھی وہ اس سے احترام اور نرم خو لہجے میں ہی مخاطب ہوتا تھا 

آج ان کے رشتے کی بات چلی تھی تو وہ دل بھی نئے طرز سے دھڑک رہا تھا وہ تصور میں ہی اس کے ہر ہر انداز کو محسوس کر رہی تھی اس نے کافی دفع اپنے دل کو ڈپٹا بھی کہ ابھی اس نے جواب نہی دیا لیکن یہ دل اس کی سن ہی کب رہا تھا 

اپنے دل کی ہٹ دھرمی پر وہ ہی اس سے ہار کر اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی

❣❣❣❣❣❣ 

علی اور فاریہ دونوں کے گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں اب تو آمنہ بھی بڑھ چڑھ کر تیاری میں حصہ لے رہی تھی 

آج علی صوفیہ ماہپارہ اور رضا کو اپنی شادی کا جوڑا لینے بازار جانا تھا دن تو ابھی کافی تھے لیکن علی کو کچھ کام تھا جس کہ وجہ سے وہ شادی سے ایک دن پہلے ہی گھر واپس آ سکتا تھا وہ فاریہ کو اپنے پسندیدہ جوڑے میں دیکھنا چاپتا تھا اس لیے اسے یہی وقت مناسب لگا

صوفی تم بھی چلو تمہاری شاپنگ بھی ہو جاۓ گی علی نے اسے آفر کی 

مجھے پتا ہے کہ تم اوپر اوپر سے کہہ رہے ہو ورنہ تو دل سے دعا کر رہے ہو کہ منع ہی کر دے اس لیے تم بے فکر ہو کر جاؤ میں کباب میں ہڈی نہی بننا چاہتی وہ بھی دو دو کپلز کے درمیان 

ہاہاہا یار صوفی ایسا کچھ بھی نہی ہے اور تم کیوں ہڈی کا رول پلے کرو گی تم اپنے ہبی کو بھی ساتھ لے چلو ہمیں تو کوئی اعتراض نہی ہے 

نہی نہ وہ آج بزی ہیں اس لیے میرے ساتھ نہی چل سکتے اور اکیلے انہوں نے مجھے جانے نہی دینا اس نے برا سا منہ بنایا ورنہ اس کا خود کا دل تھا کہ وہ ان کے ساتھ جاۓ شاپنگ پر

اب ہم کیا کر سکتے ہیں جب تمہارا مجازی خدا ہی تمہیں اجازت نہی دے رہا اکیلے جانے کی ہمارے ساتھ 

کیا باتیں ہو رہی ہیں اور تم نے کیوں منہ بنایا ہوا ہے 

کچھ نہی صوفیہ نے بھی برا سا منہ بنا کر جواب دیا 

کچھ تو ہے اس نے اشارے سے ان سے پوچھا 

یار اس کا دل ہے ہمارے ساتھ جانے کا شاپنگ پر تم تو فری نہی ہو اسے ہی ہمارے ساتھ بھیج دو فریش بھی ہو جاۓ گی اور شاپنگ بھی رضا نے بہن کا منہ دیکھ کر اس سے کہا

تمہیں پتا تو ہے کہ یہ اپنا بلکل بھی خیال نہی رکھتی بلکل بچی بنی ہوئی ہے آجکل اس لیے میں اسے اکیلے نہی جانے دے رہا وہ بھی تو سہی ہی کہہ رہا تھا اس حالت میں اسے اپنا زیادہ خیال رکھنا چاہیے تھا جبکہ وہ اتنی ہی لا پرواہ ہو گئی تھی خود سے وہ بھی اسی کی فکر میں اسے نہی جانے دے رہا تھا کہ ایسی حالت میں وہ اتنا چلے گی وہ خود اس کے ساتھ یوتا وہ وقتاً فوقتاً اسے کچھ کھلاتا پلاتا 

وہ اکیلی کیسے ہوئی ہم چار لوگ اس کے ساتھ ہوں گے 

پتا ہے مجھے جو تم لوگ اس کے ساتھ ہو گے نہ خود تو تم دونوں نے اپنی ہونے والی بیویوں کے نکھرے اٹھا رہے ہونا ہے اور میری بیوی بے چاری چل چل کر تھک جاۓ گی اس لیے میں اسے خود شاپنگ کروا دوں گا کل تم لوگ جاؤ 

ان کے جانے پر وہ منہ بسور کر رہ گئی

اس طرح منہ تو مت بناؤ زیادہ پیاری لگتی ہو اور پھر مجھے زیادہ والا پیار آتا ہے اور اس وقت ہم لاؤنج میں ہیں اور اگر میں نے تمہارے اس پیارے سے فیس پر کوئی پیاری سی جسارت کر دی تو تم نے ہی مجھ سے ناراض ہونا ہے اس لیے اپبا منہ ٹھیک کرو اسکے موڈ کو دیکھ کر اس نے جان بوجھ اسے چھیڑا اور اس کی توقع کے مطابق سرخ پڑتی اسے گھور کر وہاں سے جا چکی تھی

فاریہ کو لے کر وہ تینوں مال آ چکے تھے اور اب براڈل ڈریس دیکھ رہے تھے ماہپارہ اور رضا نے تو جلدی ہی ڈریس پسند کر لیا تھا مشکل تو فاریہ اور علی کو بنی ہوئی تھی 

جو ڈریس علی کو پسند آتا وہ فاریہ ریجیکٹ کر دیتی اور جو فاریہ کو آتا پسند اسے علی کر دیتا اب تو سیلز بواۓ بھی ان کے چوہے بلی کے کھیل سے تنگ آ گیا تھا 

چلو یہاں سے چلتے ہیں یہاں کوئی ڈھنگ کا برائڈل ڈریس ہی نہی ہے فاریہ نے اتنے پیارے پیارے ڈریسز کو یونہی دو لفظوں میں بے مول کر دیا 

چپ کر کے بیٹھی رہو یہی کب سے جو میں پسند کر رہا ہوں اسے ریجیکٹ کیے جا رہی ہو اب چپ کر کے جو میں پسند کروں گا وہی ڈن ہو گا علی نے زرا رعب سے کہا 

کیوں ہاں جب پہننا میں نے ہے تو پھر پسند تمہاری کیوں اس نے باقاعدہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو کر کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح کہا

اس کے یوں اٹھنے پر سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے علی نے ہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ سیٹ پر بٹھایا اور سیلزز بواۓ براؤں کلر کا لہنگا دکھانے کو کہا 

کیونکہ پہننا تم نے میرے لیے ہے دیکھنا تمہیں میں نے ہے تو پھر ڈریس بھی تو میری پسند کا ہونا چاہیے اس لیے چپ کر کے اب اس ڈریس کو دیکھو اور ڈن کرو کیونکہ مجھے تو یہ بہت پسند آیا ہے 

براؤن کلر کا لہنگا اسے بھی پسند آیا تھا اس لیے اس نے بھی بنا چوں چراں کے ڈن کر دیا تھا 

شکر ہے تم دونوں کو بھی کچھ پسند آیا ورنہ مجھے لگ رہا تھا کہ آج ہمیں اللہ سے کہہ کر تم دونوں کے لیے ڈریس تیار کروانا پڑے گا رضا نے ہنس کر کہا 

اسی نک چڑی کو کچھ پسند نہی آ رہا اس نے فاریہ کو تپایہ

اچھا تو میں نک چڑی تو تم کیا ہو زکوٹا جن 

اچھا یار اب تم لوگ جھگڑنا مت شروع کر دینا بھوک لگی ہے علی بھائی کچھ کھلا ہی دیں

اے لڑکی میرے ہبی ٹو بی کے پاس اتنے پیسے نہی ہیں وہ صرف مجھے کھلائیں گے تم اپنے ہونے والے مجازی خدا سے کہو کہ تمہیں اپنی کمائی سے کھلاۓ وہ سب کچھ بھول کر اب ایک سگھڑ بیوی بن گئی تھی 

ہاہاہا بھابی آپ فکر مت کریں میں اپنی بیوی کو اپنے پیسوں سے ہی کھلاؤں گا 

چلیں ہاں ہاں چلو یہ ہو سکتا تھا کہ بھلا کھانے کی بات ہو اور فاریہ منع کرے نیور ایور

علی میرے بھائی مجھے لگ رہا ہے کہ شادی کے بعد تیرا بہت برا حال ہونے والا ہے بھابی کے ہاتھوں اس نے اس کے کان میں زرا پیچھے ہو کر سر گوشی کی

لگ تو مجھے بھی ایسا ہی رہا ہے اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ishqam Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Ishqam written by  Bisma Abdulrehman . Ishqam by Bisma Abdulrehman  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages