Tumhara Hun Main Aur Tum Meri By Faryal khan Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Tumhara Hun Main Aur Tum Meri By Faryal khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Tumhara Hun Main Aur Tum Meri
Writer Name: Faryal khan
Category: Complete Novel
جدید طرز کے خوبصورت بیڈ روم میں زیرو پاور کا نائٹ بلب جل رہا تھا اور بیڈ کے دونوں اطراف سائیڈ لیمپس آن تھے جن سے کمرے میں مدھم خواب ناک روشنی ہو رہی تھی۔
بیڈ کے سرہانے اور پیرہانے پر خوبصورت پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی جب کہ بیڈ کی چادر پر بھی بےشمار سرخ گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں، اور بیڈ کے وسط میں امبرین گھبرائی ہوئی سی بیٹھی تھی۔
اس نے سرخ ریشم کی گھیردار فراک پہنی ہوئی تھی جس کی آستینیں فل ہونے کے باعث چوڑیاں پہننے کی زحمت نہیں کی گئی تھی اور جیولری کے نام پر صرف اس نے بڑے بڑے سلور کے جھمکے پہنے ہوئے تھے۔
ہمیشہ چوٹی میں قید رہنے والے لمبے سیاہ بالوں کی چند لٹیں پکڑ کر گدی پر چھوٹا سا کیچر لگایا ہوا تھا اور باقی بال آبشار کی مانند پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔
سوٹ کا ہمرنگ جالیدار دوپٹہ کندھے پر لٹکا کر اس کا ایک پچھلا سرا سر پر اوڑھے بیٹھی وہ مضطرب انداز میں اپنی گود میں دھرے مہندی کے بغیر کورے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔
اس گندمی رنگت کی حامل پرکشش لڑکی کے چہرے پر نئی نویلی دلہنوں والا شرمیلاپن یا خوشی نہیں تھی بلکہ ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی۔ گویا ابھی یہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہتی ہو!
تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور ساحل اندر آیا جس کی آمد کا سوچ سوچ کر ہی اِس پر یہ گھبراہٹ طاری تھی۔
اس نے سیاہ رنگ کا کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا جس میں اس کا کسرتی جسم اور دراز قد مزید نمایاں تھا۔ جب کہ کھڑے نین نقش والے چہرے پر سلیقے سے تراشی ہلکی ہلکی شیو نے بھی اسے کافی جاذب نظر بنا دیا تھا مگر وہ تو اسے دیکھتے ہی نظریں جھکا گئی تھی۔
وہ پاس آنے کے بعد بیڈ پر اس کے نزدیک ہی بیٹھ گیا۔
امبرین نے خود میں مزید سمٹنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی کیونکہ وہ پہلے ہی بہت سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔
”مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔“ وہ گھمبیر انداز میں گویا ہوا تو اس کی دھڑکن مزید منتشر ہوگئی۔
”یہ شادی میں نے صرف اپنے بچوں کیلئے کی ہے، اب سے تم بس ان کی ماں ہو، تمہاری ضروریات میں پوری کردیا کروں گا مگر اس سے زیادہ اور کسی چیز کی امید مت رکھنا مجھ سے، ہم دونوں ہسبیبڈ وائف دنیا کے سامنے ہوں گے لیکن درحقیقت تم صرف میرے بچوں کی ماں رہو گی۔“ اس کے سنجیدگی سے کہنے پر بےساختہ وہ بھی نظر اٹھائے اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔
پل بھر میں ساری گھبراہٹ غائب ہوگئی تھی اور اس کی جگہ اب صرف حیرانی تھی۔۔۔۔۔بےانتہا حیرانی۔۔۔۔۔!
وہ بھی سنجیدگی سے براہ راست اسے دیکھ رہا تھا اور اپنی بات کے نتیجے میں اس کے چہرے پر در آنے والی حیرت بخوبی بھانپ گیا تھا۔
دونوں یک ٹک ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
کمرے میں گہرا سکوت طاری ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
اور پھر اگلے ہی پل اس سکوت کو ساحل کے بےساختہ قہقہے نے توڑا۔
وہ ہاتھ کی مٹھی بنائے، مٹھی کو منہ کے نزدیک کیے ہنس رہا تھا اور وہ اُسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو!
”یا تو تم فلمیں بہت دیکھتی ہو یا پھر تم نے بہت زیادہ ٹپیکل ناولز پڑھ رکھے ہیں۔“ اپنی ہنسی کو قابو کرتے ہوئے وہ دوبارہ گویا ہوا۔
”آپ۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔
”کہہ نہیں رہا۔۔۔۔کر رہا ہوں۔۔۔۔مذاق۔۔۔۔میں مذاق کر رہا تھا۔“ اس نے نارمل ہوتے ہوئے وضاحت کی۔ مگر اس کی ناسمجھی ہنوز قائم تھی۔
”بھلے ہی یہ میری دوسری شادی ہے مگر یہ مت سمجھنا کہ میں اپنے دونوں بچوں کی ذمہ داری تم پر ڈال کر تم سے لاپرواہ ہوجاؤں گا۔“ ساحل نے کہتے ہوئے اس کا نرم و نازک کورا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا تو پہلی بار اس کا لمس پا کر اسے ایک انوکھا احساس ہوا۔
”تم میرے لئے پہلی، دوسری نہیں۔۔۔۔بس بیوی ہو۔۔۔۔میری بیوی۔۔۔۔جس سے مجھے بےانتہا محبت کرنی ہے۔“ اس نے محبت پاش انداز میں کہتے ہوئے اس کا نازک ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا۔
اس کے لبوں کا دہکتا لمس امبرین سے برداشت نہ ہوا تو بےساختہ اس نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
ساحل کی پہلی بات سے امبرین کی جو گھبراہٹ غائب ہوکر حیرت میں بدلی تھی اب حیرت کے زائل ہونے پر وہ دوبارہ چہرے پر در آئی جسے اُس نے بھی واضح محسوس کیا۔
”کیا ہوا؟ کوئی پرابلم ہے؟“ ساحل نے متعجب ہوکر نرمی سے استفسار کیا۔ وہ دوبارہ اپنی انگلیاں مڑوڑنے لگی تھی۔
”مجھے۔۔۔۔مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔“ اس نے نظریں جھکا کر آہستہ سے کہا۔
”ہاں ضرور، تم چینج کرکے ایزی ہوجاؤ!“ اسے لگا وہ تھک گئی ہے اسی لئے تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہے۔
”نہیں۔۔۔میرا مطلب اس۔۔۔۔اس رشتے کو پوری طرح قبول کرکے قائم کرنے کیلئے مجھے تھوڑا۔۔۔۔۔تھوڑا وقت چاہیے۔“ اس نے نظریں جھکائے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے اصل مدعہ بتایا۔
اب وہ بھی تھوڑا سنجیدہ ہوا۔ کیونکہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ وہ کس نوعیت کا وقت مانگ رہی تھی؟
”کتنا وقت چاہیے؟“ اس نے بنا کسی ضد بحث کے سادگی سے پوچھا۔
فوری طور پر وہ سمجھ نہیں پائی کہ کیا جواب دے؟
”ایک۔۔۔۔۔ہف۔۔۔۔۔ایک مہینے تک کا!“ تھوڑا گڑبڑا کر بلآخر اس نے فیصلہ کرلیا۔
مگر وہ یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ اب وہ کیا رد عمل دے گا؟ کیونکہ وہ چپ چاپ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
حالانکہ وہ یہ سوال بھی پوچھ سکتا تھا کہ تمہیں وقت کیوں چاہیے؟ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ اسے مزید غیر آرام دہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”ٹھیک ہے!“ بلآخر وہ بھی نتیجے پر پہنچا۔
”لیکن ایک بات۔۔۔۔!“ ابھی وہ مطمئن بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ مزید بول پڑا۔
”میں صوفے پر نہیں یہیں بیڈ پر سوؤں گا، اور تم بھی، ٹھیک ہے!“ اس نے صاف لفظوں میں باور کرواتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔
امبرین کو لگا اس کی پریشان ٹل کر بھی نہیں ٹلی!
”بےفکر رہو صرف سوؤں گا، جگاؤں گا نہیں۔“ اسے شش و پنج کا شکار پا کر اس نے معنی خیزی سے تسلی کرائی تو اس کا مفہوم بھانپ کر وہ بےساختہ جھینپ گئی۔
وہ اپنے ہی عالیشان گھر کے، خوبصورت بیڈ روم میں، اپنی نئی نویلی دلہن سے، اپنے ہی بیڈ پر سونے کی ڈیل کر رہا تھا!
”میں بھلا کون ہوتی ہوں آپ کو کوئی اجازت دینے والی یا کسی چیز سے روکنے والی!“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے گول مول جواب دیا۔
”تو مطلب میں جو چاہوں وہ کرسکتا ہوں؟“ اس کے معنی خیز سوال پر امبرین نے دوبارہ اپنی حیرت زدہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”میرا مطلب میں یہاں سو سکتا ہوں؟“ اس کی حالت کے پیش نظر ساحل نے اپنی معنی خیزی چھوڑ کر وضاحت کی۔
”جی!“ یک لفظی جواب دے کر اس نے نظریں جھکالیں۔
یہ اٹھتی، جھکتی پلکیں اسے کتنا بےقرار کر رہی تھیں یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔
”میں چینج کرلوں؟“ امبرین نے یوں ہی اجازت چاہی۔
”شیور!“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اجازت دی تو وہ بیڈ سے اتر گئی۔
اس کی فراک کے ساتھ چند گلاب کی پتیاں بھی بیڈ سے سفید سنگ مرمر کے فرش پر آئیں۔
وه تیزی سے باتھ روم میں چلی گئی جب کہ وہ اس کی بھولی سی گھبراہٹ پر محض مسکرا کر رہ گیا۔
باتھ روم میں آنے کے بعد دروازہ بند کرکے وہ اِس طرح اُس سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی تھی گویا اس کے پیچھے کوئی شیر پڑا ہو جس سے بچنے کیلئے وہ کئی میل دوڑ کر آکے اب چھپ گئی ہے۔
اتنا بڑا اور خوبصورت باتھ روم اُس نے اِس گھر میں آکے پہلی بار دیکھا تھا ورنہ اس سے قبل تو وہ بس ٹی وی میں ہی یہ آسائشیں دیکھا کرتی تھی۔
یہ آسائشیں۔۔۔۔۔شادی جیسا خوبصورت رشتہ۔۔۔۔۔ایک محبت کرنے والا شوہر۔۔۔۔۔۔یہ سب کبھی اس کی اولین خواہشات ہوا کرتی تھیں۔ لیکن تب اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ خواہشات پوری ہوں گی اور ایسے پوری ہوں گی کہ اس پل خوش ہونے کے بجائے وہ ایسی گھبرائی ہوئی ہوگی!
جب ساحل نے اس سے کہا تھا کہ یہ شادی اس نے صرف اپنے بچوں کیلئے کی ہے تو درحقیقت وہ اسے اپنے لئے غنیمت لگا تھا اور وہ یہ سوچ کر حیران رہ گئی تھی کہ اس کا راستہ اتنی آسانی سے آسان ہوگیا ہے!
لیکن ساحل کی اگلی بات نے در حقیقت اسے پریشان کردیا تھا اور وہ دل میں سوچنے لگی تھی کہ کاش ساحل نے وہ سب مذاق میں نہ کہا ہوتا، وہ سب حقیقت ہوتا تو اس کی مشکل آسان ہوجاتی۔
لیکن وہ مشکل ہی کیا جو آسان ہوجائے!
اور ابھی تو اسے ایسی بہت سی مشکلات دیکھنی تھیں!
ابتداء عشق ہے، روتا ہے کیا؟
آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا؟
میر تقی میر
*****************************************
دو ماہ پہلے
صبح طلوع ہوتے ہی معمول کی افراتفری شروع ہوگئی تھی۔
اس کانچ کے سے عالیشان آفس میں بھی تمام ورکرز پہنچنے کے بعد اپنی اپنی جگہ سنبھال رہے تھے جس کے سامنے بلیک کلر کی لینڈ کروزر آکر رکی تھی۔
گارڈ نے جلدی سے آگے آکر پچھلی نشست کا دروازہ کھولا تو سیاہ قیمتی جوتوں میں مقید ایک پیر زمین پر آیا اور پھر گہرے نیلے ٹو پیس میں خوبرو سا ساحل مجتبیٰ گاڑی سے باہر آگیا۔
گارڈ نے فوراً اسے سلیوٹ کیا جس کا وه سرہلا کر جواب دیتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
دروازے سے لے کر چوتھی منزل پر بنے اپنے آفس میں آنے تک اس نے سب کے سلام اور مارننگ وش کا سر کی جنبش کے ساتھ خوش اخلاقی سے جواب دیا۔
”باس تو کافی ہینڈسم ہیں!“ ساحل کے جانے کے بعد ایک لڑکی نے واپس اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے دوسری سے کہا۔
آج جاب پر اس کا پہلا دن تھا اور اس کا انٹرویو کیونکہ مینیجر نے لیا تھا اسی لئے کمپنی کے مالک ساحل مجتبیٰ سے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
”ہاں مگر وہ دو چھے سالہ جڑواں بچوں کے باپ ہیں۔“ دوسری لڑکی نے اس کی امیدوں پر اوس گرائی۔
”تو کیا ہوا؟ اب ان کی وائف تو نہیں ہیں نا!“ پاس والی ڈیکس پر موجود ایک تیسری لڑکی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”کیا ہوا ان کی وائف کو؟“ پہلی لڑکی تجسس کے مارے اس کی جانب متوجہ ہوگئی۔
”تین سال پہلے ان کا طلاق ہوگیا ہے، اب ان کی وائف اسی سے شادی کرچکی ہیں جو طلاق کی وجہ بنا تھا۔“ اس لڑکی نے آس پاس دیکھتے ہوئے رازداری سے بتایا کہ کہیں کوئی سن نہ لے!
”اتنے ہینڈسم اور امیر آدمی کو کیوں چھوڑ دیا بھلا انہوں نے؟“ اسے کافی حیرت ہوئی۔
”جس کیلئے چھوڑا ہے وہ ساحل سر سے بھی زیادہ امیر ہے۔“ اس نے گویا وجہ بتائی۔ جو جان کر در حقیقت اسے تعجب ہوا۔
”تو تین سال میں انہوں نے دوسری شادی کیوں نہیں کی؟“ اسے مزید جاننے کا تجسس ہوا۔
”پتا نہیں! ہوسکتا ہے اپنے بچوں کی وجہ سے نہیں کی ہو کہ نہ جانے سوتیلی ماں کیسا سلوک کرے!“ اس نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے آخر میں اندازہ بھی لگا ڈالا۔
”سر کا بائیو ڈیٹا کھنگالنے سے فرصت مل گئی ہو تو کام پر دھیان دے لو! ایسا نہ ہو کہ تجسس کی وجہ سے نوکری چلی جائے!“ اس دوسری لڑکی نے تیزی سے کیبورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے ان دونوں کو ٹوکا تو وہ بھی سنجیدگی سے اپنے اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگئیں۔
*****************************************
ساحل اپنے جدید طرز کے خوبصورت آفس روم میں داخل ہوا تو وہاں پہلے سے ہی دو لوگ موجود ملے۔
ایک ادھیڑ عمر شخص ٹیبل کے گرد دو میں سے ایک کرسی پر بیٹھا تھا جب کہ دوسرا جوان شخص ہاتھ باندھے شرمسار سا کھڑا تھا گویا اس سے کوئی جرم ہوگیا ہو اور اب سزا سنائی جائے گی۔
”گڈ مارننگ سر!“ ساحل کو دیکھتے ہی وہ آدمی بھی کرسی پر سے اٹھا۔
”گڈ مارننگ!“ وہ انہیں جواب دیتا ایک سرسری نظر اس جوان پر ڈال کر اپنی سنگل کرسی پر بیٹھ گیا۔
”تو بتائیے شیخ صاحب! کیا صورت حال ہے؟“ ساحل بظاہر سادہ انداز میں مخاطب ہوا تھا مگر صاف ظاہر تھا کہ وہ سارا معاملہ بھانپ گیا ہے لیکن پھر بھی تفصیل سننا چاہتا ہے۔
”آپ کا شک بالکل صحیح تھا سر! پچھلے مہینے پانچ لاکھ کا گھپلا نوید راجپوت نے ہی کیا تھا، یہ رہی آڈیٹ ڈیٹیلز!“ انہوں نے کہتے ہوئے اپنے سامنے میز پر رکھی نیلی فائل سے ایک کاغذ نکال کر ساحل کی جانب بڑھایا۔
ساحل اسے لے کر پڑھنے لگا۔ جب کہ پاس کھڑا نوید مزید شرمندہ ہوگیا۔
”سر پلیز مجھے معا۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ عاجزی سے منت کرنے ہی لگا تھا کہ ساحل نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروا دیا۔
”جب میں کچھ پوچھوں تب بولنا!“ ساحل نے سنجیدگی سے تنبیہہ کی تو وہ ڈر کر خاموش ہوگیا۔
وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر دوبارہ بغور کاغذ پر درج تفصیلات پڑھنے لگا۔ اس کے کھڑے نین نقش والے وجیہہ چہرے کے تاثرات بےحد سنجیدہ تھے جس سے یہ اندازہ لگا پانا مشکل تھا کہ جانے وہ کیا سزا سنائے گا؟
”تمہیں ہر مہینے وقت پر تنخواہ ملتی ہے نوید؟“ ساحل وہ کاغذ کانچ کی میز پر رکھتے ہوئے گویا ہوا۔
”یس سر!“
”کتنی تنخواہ ہے تمہاری؟“
”ستر ہزار!“ آہستگی سے جواب آیا۔
”ہر مہینے ستر ہزار یعنی سال کے آٹھ لاکھ چالیس ہزار!“ ساحل کے حساب پر وہ کچھ نہ بولا۔
”گھر اپنا ہے یا رینٹ کا؟“
”اپنا ہے۔“
”فیملی میں کون کون ہے؟“
”وائف اور ایک دس سال کا بیٹا۔“
”گاڑی ہے تمہارے پاس؟“
”جی۔۔۔۔کمپنی کی طرف سے ہی ملی ہوئی ہے۔“
یہ سب باتیں ساحر جانتا تھا لیکن پھر بھی پوچھ رہا تھا۔ اور کیوں پوچھ رہا تھا یہ پوچھنے کی ہمت دونوں میں سے کوئی نہیں کرسکتا تھا۔
”میں اب بھی سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ تمہاری ایسی کیا مجبوری رہی ہوگی جو تمہیں پانچ لاکھ کا گھپلا کرنا پڑا!“ ساحل نے مصنوعی انداز میں ذہن پر زور دیتے ہوئے اس پر طنز مارا۔ وہ مزید نادم ہوا۔
”آئی ایم سوری سر! مجھے سے غلطی ہوگئی۔“ وہ شرمندہ ہوا۔
”میں وعدہ کرتا ہوں کہ وہ پیسے میں واپس لوٹا دوں گا، بس آپ مجھے فائر مت کیجئے گا پلیز!“ اس نے مزید کہتے ہوئے منت کی۔
”بات پیسوں کی نہیں ہے، پانچ لاکھ کا نقصان ہونے سے میں غریب نہیں ہوجاؤں گا، اتنی رقم تو میں اپنے بچوں کے سر سے وار کر خیرات میں دے دوں، بات بھروسے کی ہے۔“ وہ کہتے ہوئے پشت سے ٹیک ہٹا کر سیدھا ہوا۔
”بےایمانی چاہے ایک روپے کی ہوئی ہو یا ایک ارب کی، بھروسہ دونوں صورتوں میں ٹوٹتا ہے، اور تم نے بھی میرا بھروسہ توڑا ہے، جو تمہارے رقم واپس کر دینے سے لوٹ کر نہیں آجائے گا۔“ اس کی باتوں سے نوید کو کچھ مثبت آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
”ٹک ٹک ٹک!“ تب ہی کانچ کے دروازے پر نزاکت سے دستک ہوئی۔
”کم اِن!“ ساحل کے اجازت دینے پر آفس ڈریس اپ میں ایک لڑکی نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
”سر میٹنگ اسٹارٹ ہونے والی ہے۔“ لڑکی نے مہذب انداز میں اطلاع دی۔
”آرہا ہوں۔“ اس کا جواب ملتے ہی وہ سرہلا کر واپس چلی گئی۔
ساحل دوسرا نوید کی جانب متوجہ ہوا۔
”سر پلیز آپ مجھے ایک چانس اور دے دیجئے اس بار میں آپ کو شکایات کا موقع بالکل نہیں دوں گا، آئی پرامس!“ اس نے جلدی سے التجا کی۔
”جاب کے پہلے دن بھی تم نے یہ ہی کہا تھا!“ اس نے استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ یاد دلایا۔
”میں نے تمہیں جاب دے کر موقع دیا تھا آگے سے مخلصی دکھانے کے بجائے اپنے ظرف کے مطابق تم نے مجھے دھوکہ دے دیا، لہٰذا تمہیں دوسرا موقع دینے سے بہتر ہے میں کسی اور کو یہ چانس دے دوں!“ ساحل اسے فارغ کرنے کا عندیہ دے چکا تھا۔
جب کہ اس پورے عرصے میں شیخ صاحب بالکل چپ رہے اور آگے بھی رہنے والے تھے کہ ساحل کے سامنے بلاوجہ کوئی نہیں بولتا تھا۔
”سر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ میرے بعد جو آئے گا وہ آپ کے ساتھ مخلص ہوگا اور آپ کو دھوکہ نہیں دے گا؟“ وہ ضبط کے باوجود بھی تھوڑی سخت ٹون میں کہہ گیا۔
”گارنٹی تو ہماری اگلی سانس کی بھی کوئی نہیں ہے، تو کیا ہم سانس لینا چھوڑ دیں!“ ساحل کے ترکی بہ ترکی سوال پر وہ لاجواب ہوگیا۔
”آئی ایم رئیلی سوری سر! میرا وہ مطلب نہیں تھا، میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ نیتوں کے حال چہروں پر نہیں لکھے ہوتے، کسی نئے شخص کو موقع دینے کے بجائے آپ پلیز مجھے ایک موقع اور دے دیں۔“ اس نے واپس پرانی ٹون میں آکر معذرت کرتے ہوئے پھر وہ ہی بات دہرائی۔
”ہوسکتا ہے کہ تمہارے بعد جو آئے وہ تم سے بھی زیادہ دھوکے باز ہو! اگر ایسا ہوا تو میں اسے بھی نکال کر پھر کسی تیسرے کو موقع دوں گا، وہ بھی دھوکے باز نکلا تو چوتھے کو، پھر پانچوے کو، میں اپنی طرف سے سب کو موقع دوں گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ کبھی نا کبھی تو مجھے کوئی مخلص ملے گا!“ خلافِ توقع وہ اس کی بات کا جواب دینے لگا۔
”لیکن اگر میں نے بار بار ایک ہی دھوکے باز کو موقع دیا یا ایک دھوکے باز کی وجہ سے باقی سب پر بھی شک کیا تو ممکن ہے کہ میں مخلص شخص سے محروم رہ جاؤں! جو میں نہیں چاہتا، لہٰذا تم اپنی جگہ خالی کرو، اس کیلئے کئی امیدوار لائن میں کھڑے ہیں۔“ ساحل بات سمیٹتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”سر پلیز ایسا مت کریں، سر پلیز!“ وہ گڑگڑانے لگا۔
”اس کا ریزگنیشن لیٹر اسے دے دیجئے گا شیخ صاحب، اور جب میں میٹنگ سے واپس آؤں تو یہ مجھے یہاں نظر نہیں آنا چاہئے۔“ ساحل نے سنجیدگی سے حکم دیا۔ اس کی بات نے نوید کے پیروں تلے زمین کھینچ لی تھی۔
”یس سر! اور پیسے واپس کرنے کیلئے کب تک کا ٹائم دینا ہے اسے؟“ شیخ صاحب بھی فرمابرداری سے کھڑے ہوگئے۔
”مجھے نہیں چاہیے وہ پیسے واپس، سمجھیں میں نے اپنے بچوں کا صدقہ دے دیا۔“ وہ بےنیازی سے کہہ کر باہر کی جانب بڑھا گیا جب کہ نوید پیچھے سے اسے دہائیاں دیتا رہ گیا۔
*****************************************
شہرِ قائد میں تلملاتا ہوا سورج عروج سے نیچے آگیا تھا۔ فضا میں کچھ دیر قبل ہی اذانِ عصر کی پُرکیف صدائیں گونجی تھیں اور اب شام کا موسم کافی سہانا ہو رہا تھا۔
خوبصورت بنگلے میں بنے وسیع سر سبز لان میں چھے سالہ دو جڑواں بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ جن میں سے ایک لڑکی تھی اور ایک لڑکا۔
ذرا فاصلے پر ہلکے گلابی رنگ کا شلوار قمیض پہنے بزرگ عصمت خاتون کرسی پر بیٹھی تھیں اور تسبیح پڑھتے ہوئے بچوں کو ہی دیکھ رہی تھیں۔
تب ہی لوہے کا بڑا سا داخلی دروازہ کھلا اور بلیک لینڈ کروزر انداز داخل ہوئی۔
”پاپا آگئے!“ دونوں بچے بال چھوڑ کر یک زبان کہتے اس طرف بھاگے۔
”مائر۔۔۔منزہ۔۔۔بیٹا سنبھل کر!“ خاتون نے دونوں بچوں کو آواز لگائی۔
ساحل جیسے ہی پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر باہر آیا تو دونوں کو اپنی جانب آتا دیکھ اس نے بھی نیچے بیٹھتے ہوئے بانہیں کھول دیں اور وہ دونوں آکر اس میں سما گئے۔
”کیسے ہیں میرے جگر کے ٹکڑے!“ ساحل نے باری باری دونوں کا گال چوما۔
”ٹھیک ہیں، آپ میری بین ٹین والی کار لائے؟“ مائر نے بےتابی سے پوچھا۔
”اور میری نیو ڈول؟“ منزہ نے بھی معصومیت سے سوال کیا۔
”نہیں میں نہیں لایا۔“ اس کی بات پر دونوں کے چہرے بجھ گئے۔
”بلکہ آج آپ دونوں میرے ساتھ چلو گے اور جو لینا چاہو لے لینا۔“ ساحل کی اگلی بات پر دونوں دوبارہ کھل اٹھے۔
”سچی پاپا!“ دونوں کو یقین نہیں آیا۔
”مچی!“ اس نے دونوں کو خود میں بھینچتے ہوئے جواب دیا۔
”بچوں ابھی ابھی تمہارے پاپا آفس سے تھک کر آئے ہیں نا! انہیں اندر آکے فریش تو ہونے دو۔“ عصمت خاتون بھی کہتی ہوئی ان لوگوں کے پاس آگئی تھیں۔
”السلام علیکم خالہ!“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! جیتے رہو!“ انہوں نے خوشدلی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”جاؤ بیٹا جا کر فریش ہوجاؤ میں تمہارے لئے چائے بنواتی ہوں، یہ لوگ تو تمہیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔“ انہوں نے ان ننھے شریروں پر اپنائیت بھرا طنز کیا۔
”نہیں خالہ چائے نہ بنوائیں، میں فریش ہوکر بچوں کو لے کر باہر جا رہا ہوں، کافی دن ہوگئے ہیں کہیں گئے ہوئے، آپ چل رہی ہیں ہمارے ساتھ؟“ اس نے کہتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں بیٹا میں کہاں آؤں گی تم لوگوں کے ساتھ، تم لوگ جاؤ گھوم پھر کر آؤ۔“ انہوں نے سہولت سے منع کیا۔
”ٹھیک ہے، مائر، منزہ! جاؤ آپ لوگ بھی جلدی سے ریڈی ہوجاؤ۔“ ساحل بچوں سے مخاطب ہوا تو وہ خوشی خوشی اندر بھاگ گئے۔
ساحل بھی مسکراتا ہوا ان کے پیچھے جانے لگا۔
”اچھا ساحل بیٹا ایک بات سنو!“ انہوں نے اچانک پکارا۔
”جی؟“ وہ رک کر پلٹا۔
”تم سے ایک بات کرنی ہے۔“ وہ چند قدم آگے آئیں۔
”جی بولیں!“ وہ ہمہ تن گوش تھا۔
وہ کچھ پل خاموش رہ کر اندر ہی اندر کچھ سوچتی رہیں اور پھر کسی فیصلے پر پہنچ کر گویا ہوئیں۔
”باہر زیادہ کچھ کھلا پلا مت دینا انہیں اور نہ خود کھانا ورنہ گھر آکے پھر تم لوگ کھانا نہیں کھاؤ گے، آج میں نے تمہاری پسند کا کھانا بنوایا ہے، وہ ہی کھانا۔“ انہوں نے بات بدل دی تھی۔ یہ وہ بات نہیں تھی جو در حقیقت وہ کرنا چاہتی تھیں۔
”بنوایا ہے مطلب؟ نئی ملازمہ آگئی؟“ وہ نتیجے پر پہنچا۔
”ہاں آج صبح ہی آئی ہے، اور کھانا بھی اچھا بنایا ہے، تمہیں بھی ضرور پسند آئے گا۔“ انہوں نے اضافی جواب دیا۔
”چلیں یہ تو اچھا ہوگیا، اور بےفکر رہیں ہم سب واپس آکر ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔“ وہ انہیں تسلی کروا کر اندر چلا گیا۔
جب کہ وہ وہیں کھڑی فیصلہ کر چکی تھیں کہ اس کے واپس آنے کے بعد اس سے وہ بات کریں گی جو فی الحال انہوں نے بدل دی تھی۔
*****************************************
آج کافی دن بعد ساحل اپنے بچوں کے ساتھ کہیں باہر آیا تھا اسی لئے وہ اور بچے دونوں بےحد خوش تھے۔
ساحل نے پہلے انہیں مال کے پلے لینڈ میں کافی سارے جھولے جھلائے، ان کی شرارتوں کو موبائل کے کیمرے میں قید کیا اور پھر بہت سے کھلونے خریدنے کے بعد اب اس کا واپسی کا ارادہ تھا۔
”پاپا آئس کریم کھانی ہے۔“ مائر نے ضد کی۔
”ہاں مجھے بھی!“ منزہ نے بھی اس کی تقلید کی۔
”نہیں بیٹا! دادی نے کہا تھا کہ گھر آکے سب ساتھ کھانا کھائیں گے، آئس کریم کھا لو گے تو کھانا نہیں کھایا جائے گا۔“ اس نے پیار سے منع کیا۔
”ہم کھانا بھی کھا لیں گے لیکن آئس کریم کھلا دیں نا!“ مائر نے اس کی بات مان کر اپنی منوانی چاہی۔
”پلیز پاپا!“ دونوں نے جہاں بھر کی معصومیت چہرے پر سجائے یک زبان منت کی۔
”اچھا ٹھیک ہے، آؤ!“ بلآخر اسے ہار ماننی پڑی اور دونوں خوشی خوشی اس کے ساتھ چل دیے۔
ساحل نے بچوں کو فوڈ کورڈ میں ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے لگے دو ڈبل صوفوں میں سے ایک پر بٹھایا اور خود آئس کریم لینے چلا گیا۔
”ٹو مینگو آئس کریم پلیز!“ اس نے کاؤنٹر پر آکے اپنا آرڈر بتایا جسے آدمی سرہلا کر تیار کرنے لگا۔
کاؤنٹر پر رش نہیں تھا بس ساحل کے آنے سے قبل دو ماڈرن سی لڑکیاں وہاں کھڑی اپنے آرڈر کا انتظار کر رہی تھیں اور اس کی گھمبیر مردانہ آواز سے متوجہ ہونے کے باعث اب دونوں نظروں سے اس کا پوسٹ مارٹم کرنے لگیں۔
ساحل نے لائٹ گرے جینز کے ساتھ وائٹ پلین ٹی شرٹ اور اس کے اوپر اسکن کلر کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ پیروں میں سفید قیمتی جوتے تھے، بلیک سن گلاسسز شرٹ میں اٹکے ہوئے تھے، اور اس کے پاس سے آتی ایک آعلیٰ قسم کے پرفیوم کی مہک نے سانسیں معطر کردی تھیں۔
پہننے اوڑھنے کا یہ ڈھنگ دراز قد، مضبوط جسامت اور وجیہہ چہرے والے ساحل کو اتنا جاذب نظر بنائے رکھتا تھا کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا تھا۔ اور خاص طور پر مخالف جنس تو اس کے سحر میں گرفتار سی ہوجاتی تھی جیسے یہ دونوں لڑکیاں ہونے لگی تھیں۔
مگر وہ ہمیشہ کی طرح سب سے بےنیازی، دونوں ہاتھ پینٹ کو جیبوں میں پھنسائے، آس پاس دیکھتا اپنے آرڈر کا انتظار کر رہا تھا۔
”سر! یور آرڈر!“ آدمی نے کہتے ہوئے ایک ٹرے کاؤنٹر پر رکھی جس میں مینگو آئس کریم سے بھرے دو خوبصورت کانچ کے گلاس رکھے ہوئے تھے۔
ساحل نے پینٹ کی پچھلی جیب سے والٹ نکال کر اسے پیسے دیے اور والٹ رکھ کر وہ ٹرے اٹھانے ہی لگا تھا کہ لڑکی نے ایسے ٹرے اٹھا کر اسے پکڑا دی گویا وہ بہت دور ہو اور ساحل کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچے گا۔
لڑکی نے مسکراتے ہوئے ٹرے اسے دی تھی جسے ساحل نے متعجب ہونے کے باوجود بنا کچھ بولے چپ چاپ تھام لیا۔
”پاپا!“ تب ہی منزہ بھاگتی ہوئی آکر اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔
اس کے ”پاپا“ کہنے پر لڑکی نے حیرت سے پہلے ننھی بچی کو دیکھا اور پھر خوبرو سے ساحل کو۔ اور اسی پل ”چھن“ سے کوئی شیشہ ٹوٹا۔
سب نے چونک کر آواز کے تعاقب میں دیکھا تو معلوم ہوا کاؤنٹر کی دوسری جانب ایک ورکر سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا تھا۔ اور کیا ٹائمنگ پر گرا تھا! ایسا ہی ایک خوش فہمی کا شیشہ یہاں بھی ٹوٹا تھا۔
”آپ یہاں کیوں آگئی بیٹا! میں آرہا تھا نا! چلو اب!“ ساحل منزہ سے کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا جب کہ یہ لڑکیاں اتنے ہینڈسم بندے کے شادی شدہ نکل آنے پر بجھا دل لے کر رہ گئیں۔
ایسا نہیں تھا کہ ساحل لڑکی کے انداز و اطوار سمجھا نہیں تھا۔ اپنی جانب اٹھنے والی ہر نظر وہ بخوبی سمجھتا تھا بس ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔
لیکن ابھی جو کچھ بھی ہوا اس سے لاشعوری طور پر ساحل خود بھی کافی محظوظ ہوا۔
آئس کریم ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ خود ایک ڈبل صوفے پر بیٹھ گیا تھا جب کہ مائر اور منزہ مقابل والے ڈبل صوفے پر بیٹھے اپنی اپنی آئس کریم کھانے لگے۔
”آپ آئس کریم نہیں کھا رہے پاپا؟“ منزہ نے پوچھا۔
”نہیں بیٹا، آپ کھاؤ!“ اس نے نرمی سے منع کیا۔
”ایک کھا لیں!“ منزہ نے آئس کریم سے بھرا چمچہ اس کی جانب بڑھایا تو اپنی بیٹی کی محبت کو وہ انکار نہ کرسکا اور کھا لیا۔
”ایک میری بھی!“ مائر بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
ساحل نے اس کے ہاتھ سے بھی کھالی۔
”چلو اب آپ لوگ جلدی سے فنش کرو پھر گھر چلنا، دادی ڈنر کیلئے ویٹ کر رہی ہوں گی۔“ اس نے ٹیبل پر رکھے ٹشو باکس سے ایک سفید ٹشو لے کر اپنا منہ صاف کیا۔
وہ دونوں پوری رغبت سے آئس کریم کھانے لگے۔
”ہائے ساحل!“ ایک نہایت ماڈرن سی لڑکی کہتی ہوئی اس کی جانب آئی۔ جس نے تنگ جینز شرٹ پہن کر اسٹیپ کٹنگ بال کھلے چھوڑے ہوئے تھے اور بازو پر پرس لٹکایا ہوا تھا۔
”ہائے نمرہ!“ یہ ساحل کے ایک بہت اچھے اور پرانے کلائینٹ کی کزن تھی۔
”آؤٹنگ پر آئے تھے؟ اور یہ کیوٹیز کیسے ہیں؟“ اس نے کہتے ہوئے اپنے سرخ نیل پالش سے رنگے لمبے ناخون والی انگلیوں سے باری باری دونوں بچوں کا گال کھینچا جو انہیں بےحد ناگوار گزرا۔
”ہاں کافی ٹائم ہوگیا تھا بچوں کے ساتھ باہر گئے ہوئے، آج خاص کام نہیں تھا تو سوچا تھوڑی آؤٹنگ ہوجائے!“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”آئی سی۔۔۔۔۔میں بھی شاپنگ پر آئی تھی۔“ وہ کہتے ہوئے خود ہی ساحل کے برابر کافی نزدیک بیٹھ گیا۔ حلانکہ ساحل نے اسے کوئی پیشکش نہیں کی تھی۔
”تو کرلی شاپنگ؟“ وہ خود ہی سرک کر تھوڑا فاصلے پر ہوا۔
”نہیں، کوئی لیٹیسٹ کلیکشن ہی نہیں ہے کہیں، سب وہ ہی آؤٹ ڈیٹیڈ چیزیں ہیں۔“ اس نے اداِ بےنیازی سے جواب دیا۔
ساحل نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
”خیر تم سناؤ! شادی وادی کا کوئی موڈ بنا!“ نمرہ نے معنی خیزی سے یوں پوچھا گویا دونوں میں کتنا گہرا یارانہ ہو!
جب کہ اس لڑکی کا اپنے باپ سے یوں بےتلکف ہونا مائر اور منزہ کو ناگوار گزر رہا تھا۔
دونوں بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔نظروں میں کوئی اشارہ کیا اور پھر منزہ اپنا گلاس لے کر، اپنی جگہ پر سے اٹھ کر ساحل اور نمرہ کے بیچ میں آ بیٹھی۔
”ارے بےبی! آپ یہاں کیوں آگئیں!“ نمرہ نے کوفت سے ٹوکا۔
”مجھے میرے پاپا کے پاس بیٹھنا ہے۔“ وہ روکھا سا جواب دے کر ساحل سے چپک گئی۔
”بٹ آپ وہاں ٹھیک ہی تو بیٹھے تھے بیٹا!“ وہ بمشکل خود کو کچھ سخت بولنے سے باز رکھے ہوئے تھی ورنہ اس بچی کی حرکت پر اسے غصہ تو بہت آیا تھا۔
”رہنے دو نمرہ! یہ یہاں بھی ٹھیک ہے۔“ ساحل نے اپنی بیٹی کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اسے مزید شہ دی تو اندر ہی اندر نمرہ کا خون کھول گیا مگر بظاہر وہ مسکرا دی۔
منزہ اپنے باپ سے چپک کر بیٹھی مزے سے آئس کریم کھا رہی تھی اور وہ دونوں ہلکی پھلکی باتیں کر رہے تھے۔
تب ہی مائر نے آئس کریم ختم کرنے کے بعد بظاہر ٹشو باکس کی جانب ٹشو اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا لیکن چالاکی سے ٹیبل پر رکھا گلدان گرا دیا جس کے اندر موجود پانی سیدھا نمرہ کی گود میں آکر گرا۔
”اوہ مائی گاڈ! یہ کیا کِیا!“ وہ بری طرح جھنجھلا گئی تھی۔ ساحل بھی چونکا۔
”سوری آنٹی!“ مائر نے جہاں بھر کی معصومیت چہرے پر سجائی۔
”آنٹی ٹشو لے لیں ٹشو!“ منزہ نے بھی فوراً بظاہر اس کی مدد کو آگے آنا چاہا۔
وہ ہاتھ بڑھا کر ٹشو کا باکس اپنے پاس کھینچنے لگی تو دوسرا ہاتھ لگنے کی وجہ سے اس کا آئس کریم والا گلاس پورا کا پورا نمرہ کی گود میں گر گیا جس میں بچی تھوڑی سی آئس کریم نے اس کے کپڑے داغدار کر دیے تھے۔
”واٹ دا ہیل!“ نمرہ بری طرح سٹپٹائی۔
”اوہ ہو! سوری آنٹی!“ وہ بھی بھولپن سے بولی۔
نمرہ کا دل تو چاہ رہا تھا کہ وہ ہی گلدان اور آئس کریم کا گلاس اٹھا کر ان معصوم شکل مگر شیطانی دماغ والے دونوں جڑواں بچوں کے سر پہ مار دے جو اپنے باپ کے آس پاس کسی کو نہیں بھٹکنے دیتے تھے مگر ساحل کی موجودگی کے باعث ضبط کر گئی۔
”نمرہ تم واش روم میں جا کر یہ صاف کرلو۔“ ساحل نے سادگی سے مشورہ دیا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے نمرہ نے شعلہ بار نگاہوں سے ان ننھی آفتوں کو گھورا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئی۔
”پاپا گھر چلیں؟ دادی انتظار کر رہی ہوں گی!“ مائر نے بھولپن سے یاد دلایا۔
”ہاں بیٹا چلو!“ ساحل کھڑا ہوکر صوفے پر سے شاپنگ بیگز اٹھانے لگا جب کہ یہ دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کو دیکھ کر فاتحانہ انداز میں مسکرا دیے۔
*****************************************
یہ لوگ گھر آئے تو عصمت خاتون نے کھانا لگوا دیا تھا۔ بچے انہیں اپنی شاپنگ دکھانا چاہ رہے تھے مگر انہوں نے سارے کام ملتوی کرتے ہوئے پہلے انہیں کھانا کھانے کا کہا کہ ان سب میں الجھ کر پھر نہ یہ لوگ جلدی کھانا کھائیں گے اور نہ سوئیں گے۔
”پاپا میرا کھانا فنش ہوگیا، اب میں اپنے روم میں جاؤں؟“ منزہ نے دونوں ہاتھوں سے پکڑا پانی کا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
”میرا بھی!“ مائر بھی بولا۔
”آپ گڈ نائٹ کس دینے آئیں گے نا پاپا!“ منزہ نے بھولپن سے پوچھا۔
”جی میری جان، آپ دونوں کمرے میں چلو میں وہیں آرہا ہوں۔“ اس نے پیار سے جواب دیا تو دونوں کرسی سے اتر کر ڈائینگ روم سے باہر بھاگ گئے۔
اب وہاں صرف عصمت خاتون اور ساحل رہ گئے تھے۔ یہ دونوں بھی کھانا کھا چکے تھے۔
”اس نئی ملازمہ نے کھانا اچھا بنایا تھا۔“ ساحل نے نیپکین سے منہ صاف کرتے ہوئے تعریف کی۔
”ہاں، ذائقہ ہے اس کے ہاتھ میں!“ انہوں نے بھی بظاہر تائید کی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ اس سے ایک ضروری بات کرنے کیلئے الفاظ ترتیب دے رہی تھیں۔
”ساحل بیٹا، تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“ بلآخر انہوں نے شروعات کی۔
”میں بس پانچ منٹ میں ان دونوں کو گڈ نائٹ کہہ کر آیا خالہ! پھر تفصیل سے بات کرتا ہوں۔“ وہ کہتا ہوا اٹھ کر باہر کی جانب بڑھا۔ عصمت خاتون سر ہلا کر رہ گئیں۔
*****************************************
کھانے کے بعد اب دونوں بچے اپنے مشترکہ کمرے میں آگئے تھے جہاں منزہ کا گلابی رنگ کا سنگل بیڈ اور مائر کا نیلے رنگ کا سنگل بیڈ، دونوں قریب ہی لگے ہوئے تھے۔
منزہ کے بیڈ کے پیچھے والی دیوار پر ڈزنی کی شہزادیاں بنی ہوئی تھیں جب کہ مائر کے بیڈ کے پیچھے سوپر ہیروز کی تصویر لگی ہوئی تھی۔
ساحل منزہ کے بیڈ پر ایسے بیٹھا ہوا تھا کہ وہ دونوں بیڈز کے درمیان میں تھا۔
”چلو اب سوجاؤ دونوں، مستی نہیں کرنا۔“ ساحل نے دونوں کو کمبل اوڑھایا اور اٹھ کر جانے لگا۔
”پاپا!“ منزہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
”جی میری جان؟“ وہ واپس بیٹھ گیا۔
”ممی کی طرح آپ بھی ہمیں چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گے نا!“ منزہ نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا۔
ساحل کو بیک وقت اپنے بچوں پر ترس و پیار آیا۔
”نہیں میری جان، میں کبھی آپ لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔“ ساحل نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے مائر کیلئے دوسرا بازو پھیلایا جو بستر پر لیٹا انہیں ہی دیکھ رہا تھا اور وہ بھی فوراً آکر اس سے لپٹ گیا۔
”اور پاپا اگر کسی نے ہمیں آپ سے الگ کرنے کی کوشش کی تو؟“ مائر بھی دل کا خدشہ زبان پر لایا۔
”تو میں اس کی یہ کوشش کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔“ اس کی پُریقین تسلی دونوں کو مطمئن کر گئی۔
”اب ذرا مجھے ایک بات بتاؤ!“ ساحل نے ان دونوں کو خود سے الگ کیا۔
”آپ دونوں نے جان بوجھ کر نمرہ آنٹی کو تنگ کیا تھا نا!“ ساحل نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا تو دونوں یوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے گویا چوری پکڑی گئی ہو!
پھر دونوں نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”کیوں؟“ اس نے سادگی سے پوچھا۔
”کیونکہ وہ ہمیں بالکل اچھی نہیں لگتی۔“ منزہ نے جھٹ سے جواب دیا۔
”اور ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ ہمارے سوا کوئی آپ کے کلوز آئے۔“ مائر نے بھی وجہ بتائی۔
کچھ کہنے کے بجائے وہ چپ چاپ اپنے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب کہ بچوں کو لگ رہا تھا کہ ساحل اس بات پر غصہ کرے گا!
”اچھا کیا! مجھے بھی وہ پسند نہیں ہے۔“ ساحل نے معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے دونوں کے گال کھینچے تو وہ کھل اٹھے۔
”لیکن، لیکن۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ آپ دونوں اسی طرح سب کو ہمیشہ تنگ کرتے رہو، یہ بری بات ہوتی ہے، ٹھیک ہے نا!“ اس نے نرمی سے تنبیہہ کی۔
”ہم سب کو تنگ تھوڑی کرتے ہیں پاپا، ہم تو صرف ان کو تنگ کرتے ہیں جو آپ کے کلوز ہمیں اچھے نہیں لگتے۔“ منزہ معصومیت سے کہہ گئی۔
اپنے بچوں کی اس حد درجہ پازیسونیس کو دیکھتے ہوئے فی الحال ساحل کو ان پر بےساختہ ایسے پیار آیا کہ وہ چاہ کر بھی زیادہ کچھ سمجھا نہیں سکا اور مسکرا دیا۔
”میرے سب سے زیادہ کلوز بس آپ دونوں ہو، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔“ ساحل نے کہتے ہوئے دونوں کو خود سے لگایا۔ جب کہ وہ دونوں بھی اپنے باپ کی آغوش میں محفوظ محسوس کرنے لگے۔
”چلو اب سوجاؤ جلدی سے۔“ ساحل نے انہیں واپس بستر پر لٹایا۔ کمبل اوڑھایا اور ”گڈ نائٹ“ کس دے کر نائٹ بلب آن کرتا کمرے سے باہر آگیا۔
کمرے کا دروازہ بند کرکے وہ سیڑھیاں اترنے کے بعد جیسے ہی نیچے آیا تو سیڑھیوں کے عقب سے اس طرف آتی اجنبی لڑکی کو دیکھ کر تعجب خیزی سے رک گیا۔ جب کہ لڑکی بھی اسے دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔
لڑکی نے گہرے نیلے رنگ کا سادہ سا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ لمبے سیاہ بالوں کی چوٹی پشت پر جھول رہی تھی جب کہ مناسب قد کاٹھ کے ساتھ گندمی رنگت کی حامل وہ ایک بھولی سی پُرکشش لڑکی تھی۔
”تم کون؟“ ساحل نے ناسمجھی سے آنکھیں سکیڑیں۔
”میں۔۔۔۔میں۔۔۔۔وہ!“ لڑکی کافی نروس ہو رہی تھی۔
”اچھا! تم ہو وہ نئی ملازمہ جو کھانا بنانے کیلئے آئی ہے!“ وہ خود ہی نتیجے پر پہنچا۔
”ساحل!“ لڑکی کے کچھ کہنے سے قبل ہی عصمت خاتون کہتی ہوئی آئیں تو دونوں ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”مجھے تم سے بات کرنی ہے بیٹا!“
”جی میں آپ کے پاس ہی آرہا تھا۔“
”تم جاؤ!“ عصمت خاتون نے لڑکی کو کہا تو وہ ایسے وہاں سے گئی گویا اسی اجازت کے انتظار میں ہو!
”یہ ہے وہ نئی ملازمہ! دکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک لگ رہی ہے تو پھر ایسی ملازمت کس مجبوری میں کر رہی ہے یہ؟“ اس کے جاتے ہی ساحل نے کہا۔
”مجھے تم سے اسی کے بارے میں بات کرنی ہے۔“ وہ اصل مدعے پر آئیں۔
”کیا بات کرنی ہے؟“ ساحل خاصا متعجب تھا۔
*****************************************
”اس لڑکی کا نام امبرین ہے، والدین کی اکلوتی بیٹی ہے، اس کا باپ ڈرائیور تھا جس کی آدھی تنخواہ تو اپنی بیوی کے علاج میں ہی چلی جاتی تھی، جیسے تیسے اس کی زندگی کی گاڑی چل رہی تھی مگر پہلے ماں بیماری سے چل پڑی اور پھر اچانک روڈ ایکسیڈینٹ میں اس کے باپ کا بھی انتقال ہوگیا، گھر کا کرایا دینا، کھانے پینے کی ضروریات، سب بہت مشکل ہوگیا، کچھ پڑھی لکھی ہے وہ مگر کوئی مناسب نوکری بھی نہیں مل رہی، سونے پر سہاگہ مالک مکان نے کرایا نہ دینے پر گھر خالی کروا دیا اور سامان بھی ضبط کرلیا کیونکہ کافی مہینے کا کرایا چڑھا ہوا تھا، ایسے وقت میں کوئی دوست رشتے دار بھی کہاں کام آتا ہے؟ بس سمجھو ہر طرف سے مصیبت میں گِھر گئی تھی بیچاری!“ عصمت خاتون نے افسردہ انداز میں اس کی کہانی سنائی۔
”وہ سب تو ٹھیک ہے خالہ! لیکن یہ آپ کو کہاں اور کیسے ملی؟“ یہ سوال ساحل کو زیادہ الجھا رہا تھا۔
دونوں ساحل کے کمرے میں رکھے دو سنگل صوفوں پر بیٹھے تھے۔
”آج دوپہر کو جب میں ڈرائیور کے ساتھ فاروق کے یہاں سے واپس آرہی تھی تو اچانک ہی یہ ہماری گاڑی کے سامنے آگئی تھی، وہ تو اچھا ہوا کہ ڈرائیور نے بر وقت بریک لگا لیا اور وہ بچ گئی، جب میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ خودکشی کرنا چاہ رہی تھی، نہ رہنے کو چھت ہے نہ کھانے کو روٹی، روزگار کیلئے کہیں جاتی ہے تو لوگ اپنی ہوس پوری کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، ایسے میں بھلا وہ کیسے جیتی؟ اسی لئے زندگی ختم کر رہی تھی، مجھے اس پر بہت ترس آیا تو میں اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی۔“ انہوں نے تفصیلی وضاحت کی۔
”تو مطلب یہ وہ نئی ملازمہ نہیں ہے!“ وہ پُرسوچ انداز سے نتیجے پر پہنچا۔
”نہیں، وہ تو دوسری لڑکی ہے امینہ، مگر یہ یعنی امبرین کہہ رہی تھی کہ اگر میں اسے گھر میں پناہ دے دوں تو وہ کوئی بھی کام چپ چاپ کرلے گی، شارخ اور فاروق کے یہاں تو پہلے ہی ملازمین ہیں، ہمیں بھی ملازمہ کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی لیکن اسے انکار کرنے کو میرا دل نہیں مانا اسی لئے میں اسے گھر لے آئی۔“ ان کے لہجے میں اس کیلئے ہےپناہ ترس تھا۔
”وہ بتا رہی تھی کہ اس نے سرکاری کالج میں پڑھائی کی ہے، اور تمیز تہذیب والی بھی لگی تو میں نے سوچا کہ اور کچھ نہیں تو بچوں کی دیکھ بھال ہی کرلے گی، میں بوڑھی جان بھاگ بھاگ کر بچوں کے کام نہیں کر پاتی ہوں، وہ جوان ہے تو ہوسکتا ہے بچے اس سے گھل مل جائیں!“ انہوں نے اپنے خیالات ساحل کے سامنے رکھے۔
وہ بھی بغور ساری صورت حال پر سوچ رہا تھا۔
”اگر تم ہاں کرتے ہو تو میں اسے رکھ لیتی ہوں، سرونٹ کواٹر میں رہ لے گی، تم ماہانہ کچھ تنخواہ باندھ دینا جس سے اس کا گزر بسر ہوتا رہے!“ اسے خاموش پا کر وہ مزید بولیں۔
”ٹھیک ہے، رکھ لیں، اور تنخواہ جو آپ کو مناسب لگے وہ طے کرکے مجھے بتا دیجئے گا۔“ ساحل نے اثبات میں سر ہلا کر گرین سگنل دیا تو عصمت خاتون کو لڑکی کیلئے اطمینان ہوگیا۔
”ٹھیک ہے بیٹا، میں ابھی اسے بتا دیتی ہوں، بیچاری دوپہر سے پریشان تھی کہ پتا نہیں تم اجازت دو گے یا نہیں؟ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ یہاں کا مالک میرا بھانجا ہے اور جو فیصلہ وہ کرے گا وہ ہی آخری ہوگا۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”میں نے آپ کو پہلے بھی کہا ہے خالہ کہ آپ کیلئے میں آپ کا بھانجا نہیں بیٹا ہوں، بالکل ویسے جیسے شارخ اور فاروق بھائی ہیں۔“ وہ بھی کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”میری اور فروا کی طلاق کے بعد میرے صرف ایک بار کہنے پر آپ اپنا گھر، اپنے بیٹے بہو، پوتا پوتی چھوڑ کر میرے اور بچوں کیلئے یہاں رہنے آگئیں یہ آپ کا احسان ہے ورنہ سارا دن آفس میں مجھے یہ ہی فکر رہتی کہ نہ جانے میرے بچے ملازموں کے رحم و کرم پر کیسے ہوں گے؟“ دراز قد ساحل ان کے مقابل کھڑا ان کا مشکور تھا۔
”چل پاگل! خالہ بھی تو ماں جیسی ہوتی ہے، اور ماں بھلا بچوں پر کوئی احسان تھوڑی کرتی ہے!“ انہوں نے اپنائیت سے اسے چپت لگائی۔
”ماں بچوں سے اجازت بھی نہیں مانگتی بس حکم دیتی ہے۔“ اس نے بھی محبت سے ان کا گال چھوا۔
ساحل کی اس قدر اپنائیت اور فرمابرداری پر وہ مسکرادیں اور انہیں اپنی مرحوم بہن کی قسمت پر بےساختہ رشک آیا جنہیں ساحل جیسا بیٹا ملا!
”چلو اب تم بھی آرام کرلو، میں امبرین کو کہتی ہوں کہ سرونٹ کواٹر میں اپنا کمرہ سیٹ کرلے۔“ وہ بات سمیٹ کر جانے لگیں۔
”خالہ!“ اس نے پکارا تو وہ رک کر پلٹیں۔
”اس لڑکی کو ذرا یہاں بھیجیں، کچھ بات کرنی ہے۔“ ساحل نے سادگی سے کہا تو وہ سر ہلا کر کمرے سے چلی گئیں۔
وہ بھی جیکٹ کی جیب سے اپنا موبائل نکال کر سائیڈ ٹیبل کی جانب آیا اور اسے چارج پر لگانے لگا۔
”ٹک ٹک ٹک!“ تھوڑی دیر بعد ہی ادھ کھلے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
”آجاؤ!“ وہ اجازت دیتا کمرے کے وسط میں آ کھڑا ہوا اور نظریں دروازے پر ہی رکھیں۔
دروازہ دھکیلتے ہوئے وہ لڑکی جھجھکتے ہوئے اندر آنے کے بعد داخلی حصے پر ہی رک گئی۔
اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور وہ اپنے گہرے نیلے سوٹ کے ساتھ سینے پر اوڑھے ہمرنگ دوپٹے کا کونا ہاتھ میں لئے مڑوڑ رہی تھی۔
”خالہ نے تمہیں بتا ہی دیا ہوگا کہ تم یہاں رہ سکتی!“ ساحل نے تائیدی انداز میں بات شروع کی۔
”جی۔۔۔۔بہت شکریہ آپ کا۔“ ہلکے سے جواب آیا۔
”کتنا پڑھی ہوئی ہو تم؟“
”ایف اے کیا ہے۔۔۔۔سرکاری کالج سے۔“ نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں۔
”گڈ! اب جب کہ تم یہاں رہو گی تو تمہاری ذمہ داری میرے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے، صبح ان کے اٹھنے کے بعد انہیں اسکول کیلئے تیار کرنا، ان کا بیگ ریڈی کرنا، ان کے اسکول سے آنے کے بعد کھانے پینے کا خیال رکھنا، ہوم ورک چیک کرنا، ٹیوٹر جب پڑھانے آئے تو اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا کہ وہ کوئی کوتاہی تو نہیں کر رہا! اور ان سب کے علاوہ بچوں کی دوسری چھوٹی موٹی ضرورتوں کا خیال رکھنا اور ضرورت پڑے تو مجھے انفارم کرنا، ٹھیک ہے!“ ساحل نے دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے سنجیدگی سے اسے کام سمجھایا۔
اس نے فرمابرداری سے سر ہلایا۔
”اور تم چاہو تو میں تمہارے مالک مکان سے بات کرکے تمہیں تمہارا ضبط ہوا سامان وغیرہ واپس دلا سکتا ہوں، اپنے مالک مکان کے بارے میں ڈیٹیلز خالہ کو بتا دینا میں ان سے پوچھ لوں گا۔“ ساحل نے اس نازک جان لڑکی پر ترس کھاتے ہوئے اخلاقیت کے ناطے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔
”نہیں، بہت شکریہ مگر وہ کچھ خاص سامان نہیں تھا، آپ بس ہر مہینے مجھے مناسب تنخواہ دے دیجئے گا، آپ کی مہربانی ہوگی۔“ اس نے پل بھر کو نظر اٹھا کر عاجزی سے انکار کرتے ہوئے واپس پلکیں جھکا لیں۔
وہ تھوڑا متعجب ہوا کہ کیسی عجیب لڑکی ہے! لیکن یہ ساحل کا مسلہ نہیں تھا۔ اس نے تو بول کر انسانیت کا فرض پورا کردیا تھا۔
”ٹھیک ہے، جیسی تمہاری مرضی!“ اس نے بھی مزید اصرار کرنے کے بجائے بات ختم کردی۔
اسے لگا جو بات کرنے کیلئے ساحل نے اسے بلايا تھا وہ کرچکا ہے اسی لئے وہ چپ چاپ جانے کیلئے پلٹی۔
”سنو امرین!“ اس کے پکارنے پر وہ رک کر پلٹی۔
”میرا نام امرین نہیں امبرین ہے۔“ اس نے دھیرے سے تصحیح۔
”ہاں وہ ہی، بس ایک بات یاد رکھنا تم!“ وہ نام پر خاص توجہ نہ دیتے ہوئے اپنی بات پر آیا۔
”کبھی بھی میرے ساتھ بےایمانی کرکے مجھے ڈبل کراس مت کرنا، کچھ چاہیے ہو۔۔۔۔۔کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے کہہ دینا میں مدد کر دوں گا، لیکن کسی قسم کی دغا بازی نہیں کرنا، دغا باز لوگ مجھے بالکل پسند نہیں ہیں، آئی سمجھ!“ ساحل نے سینے پر سے ہاتھ کھول کر چند قدم آگے آتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے باور کرایا کہ پل بھر کو وہ تھوڑا سہم گئی۔
”جی سمجھ گئی!“ اس نے فوراً فرمابرداری دکھائی۔
”اب میں جاؤں؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے اجازت چاہی تو ساحل نے ”ہوں“ کہہ کر اجازت دے دی۔
وہ فوری طور پر ایسے کمرے سے باہر نکلی جیسے قید سے رہا ہوگئی ہو! جب کہ ساحل محض اسے دیکھ کر رہ گیا۔
*****************************************
”پلان سکسیسفل سر! لڑکی ساحل کے گھر پہنچ گئی ہے۔“ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا وہ شخص کسی سے فون پر گفتگو کر رہا تھا۔
”نہیں سر! اسے بالکل شک نہیں ہوگا کہ وہ لڑکی کس خاص مقصد کے تحت وہاں آئی ہے؟ اور جب تک اسے پتا چلے گا تب تک وہ اپنا کام کر چکی ہوگی۔“ کسی بات کے جواب میں اس نے تسلی کرائی تھی۔ جب کہ اس کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔
ایک نیا سویرا پھر سے نکل آیا تھا جس کے بعد سب لوگ بیدار ہوکر اپنے بستروں سے نکلنے لگے تھے۔
عصمت خاتون نے حسب معمول دونوں بچوں کو اسکول جانے کیلئے جگا دیا تھا اور اب دونوں ان کی نگرانی میں تیار ہو رہے تھے۔
”دادی! آپ پونی ٹھیک سے نہیں بناتی، اسکول میں لوز ہوجاتی ہے۔“ مُنزہ نے شکوہ کیا جو اسکول یونیفارم کی گرے کلر کی فراک پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی۔
”اب بیٹا میرے بوڑھے ہاتھوں میں جتنی جان ہے اتنا کام کر دیتی ہوں میں!“ انہوں نے اس کے سلکی بالوں میں برش کرتے ہوئے جواب دیا۔
مائر بھی پاس کھڑا اپنے یونیفارم کی سفید شرٹ کے بٹن لگا رہا تھا۔
”کیا میں آپ کی پونی بنا دوں؟“ تب ہی وہاں ایک میٹھی سی نئی آواز ابھری۔
تینوں نے چونک کر دیکھا تو امبرین پاس کھڑی تھی۔
”آپ کون؟“ دونوں بچے اسے دیکھ کر حیران ہوئے کیونکہ کل ان کا اس سے سامنا نہیں ہوا تھا۔
”بس یوں سمجھیں کہ میں آپ کی نئی دوست ہوں، آپ دونوں مجھ سے دوستی کرو گے؟“ اس نے خوش اخلاقی سے کہتے ہوئے مصحافے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
اس کا ہاتھ تھامنے کے بجائے دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
چہرے پر نرم تاثر لئے عصمت خاتون چپ چاپ یہ سب دیکھنے لگیں۔
”ہم اسٹرینجر سے فرینڈشپ نہیں کرتے۔“ مائر نے لیا دیا سا جواب دیا۔
”یہ تو اچھی بات ہے، کسی بھی اسٹرینجر سے جلدی فرینڈشپ نہیں کرنی چاہئے، آپ دونوں تو بہت جینیس ہو!“ امبرین نے برا مانے بنا سراہا۔
”لیکن کیا آپ اس اسٹرینجر کو ایک چانس نہیں دو گے؟ اگر میں آپ کو اچھی لگوں تو مجھ سے فرینڈ شپ کرلینا، ورنہ مت کرنا، ٹھیک ہے؟“ اس نے مزید کہتے ہوئے بیچ کی راہ نکالی تو دونوں سوچ میں پڑگئے۔
عصمت خاتون نے بھی امبرین کو اپنے انداز میں سب ہینڈل کرنے دیا۔
”ٹھیک ہے۔“ دونوں نے نتیجے پر پہنچ کر یک زبان فیصلہ سنایا۔ جس سے عصمت خاتون اور امبرین کو مثبت امید ملی۔
”تھینک یو! تو اب اسی خوشی میں آپ کی پونی بنا دوں میں؟“ اس نے سلیقے سے منزہ سے اجازت چاہی۔
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
امبرین اس کے پونی بنانے لگی۔
”آپ کے بال تو بہت پیارے ماشاءاللہ!“ امبرین نے اس کے کندھے سے نیچے آتے سیاہ ریشمی بالوں کی تعریف کی۔
”دیکھو! ٹھیک بنی ہے؟“ پونی بنا کر امبرین نے اس کی رائے مانگی تو منزہ شیشے میں بغور خود کو دیکھنے لگی۔
اس کے بال اونچی سی نفیس پونی میں بےحد خوبصورت لگ رہے تھے۔
”ٹھیک ہے!“ اس نے سر ہلا کر گرین سگنل دیا۔
امبرین مسکرا دی۔
”آپ کی ٹائی باندھ دوں میں؟“ اب وہ مائر کی جانب متوجہ ہوئی جو گرے ٹائی پہننے لگا تھا۔
”تھینکس! بٹ مجھے باندھنا آتی ہے۔“ اس نے صاف انکار کردیا۔
حلانکہ وہ زیادہ نفاست سے ٹائی نہیں باندھ سکا تھا لیکن امبرین نے بھی پہلے ہی روز ضد بحث کرنے سے گریز کیا۔
پھر دونوں بچے عصمت خاتون کے ساتھ نیچے ڈائینگ روم میں چلے گئے اور امبرین بھی ان کے اسکول بیگ لے کر نیچے آگئی۔
ساحل، عصمت خاتون، مائر اور منزہ نے حسب معمول ایک ساتھ ناشتہ کیا، جب کہ امبرین نے ملازمہ کے ساتھ کچن میں ناشتہ کرنے کو ہی ترجیح دی کہ وہ ان کے گھر کی فرد نہیں تھی۔
ناشتے کے بعد ساحل آفس روانہ ہوگیا اور بچوں کی بھی اسکول بس انہیں پک اپ کرکے لے گئی۔
جس کے بعد امبرین عصمت خاتون سے بچوں کی چھوٹی بڑی پسند ناپسند پوچھ کر اسے نوٹ کرنے بیٹھ گئی۔
*****************************************
ساحل ایک اہم میٹنگ کیلئے اس وقت اپنے کچھ امپلائز کے ہمراہ ایک عالیشان فائیو اسٹار ہوٹل میں آیا ہوا تھا۔
کافی دیر جاری رہنے کے بعد اب میٹنگ اختتام پذیر ہوئی تھی جس کے بعد وہ لوگ باہر جانے لگے تھے۔
تب ہی سامنے سے آتے شخص کو دیکھ کر ساحل کے تیزی سے اٹھتے قدم مدھم ہوئے اور چہرے پر ایک ناگوار رنگ ابھرا۔
”ارے! ساحل صاحب، آپ یہاں!“ سامنے سے آنے والا شخص بھی خوشگوار حیرت سے کہتا اس کے مقابل رکا۔ اس کے ساتھ ہی غالباً اس کے چند امپلائز تھے۔
بادامی کلر کا تھری پیس پہنے وہ شخص جوان ساحل کے مقابلے عمر رسیده تھا۔ لگ بھگ پینتالیس یا پچاس سال کا۔ چہرے پر سیاہ و سفید فرینچ شیو تھی اور سر کے سیاہ و سفید بال بھی نفاست سے سیٹ کیے ہوئے تھے۔
دونوں کے قد کاٹھ میں کوئی خاص فرق نہیں تھا بلکہ ساحل اس سے زیادہ خوبرو تھا، لیکن ایک چیز میں وہ ساحل سے آگے تھا، اور وہ تھی دولت! اگر ساحل کروڑپتی تھا تو وہ ارب پتی تھا۔
”آپ سے بات کر رہا ہوں میں!“ ساحل کو خاموش پا کر وہ دوبارہ بولا۔
”مگر مجھے تم سے بات کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، بہتر ہے میرا وقت برباد نہ کرو!“ اس کی خوش مزاجی کے برعکس ساحل نہایت سختی سے بولا۔
”لوگ ترستے ہیں ظفر کرمانی سے بات کرنے کیلئے، اور ایک آپ ہیں کہ آپ کے مزاج ہی نہیں ملتے۔“ کرمانی پر اس کی سختی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”لوگ تو اکثر غصے میں قتل بھی کر دیتے ہیں، تو میں بھی کردوں!“ اس نے بنا لگی لپٹی کے طنز مارا۔
کرمانی کا قہقہہ بےساختہ تھا۔
”لگتا ہے ابھی تک غصہ ہو!“ اس کا ہلکا پھلکا انداز چبھتا ہوا تھا۔
”خیر میں تو بس یہ کہنے کیلئے رکا تھا کہ دو مہینے بعد ہاشمی گروپس جو اربوں کا پراجیکٹ لانچ کرنے جا رہے ہیں اسے لینے کیلئے سب ہی بہت پرجوش ہیں، میں نے سنا ہے کہ تم بھی خوب تیاری کر رہے ہو تو سوچا گڈ لک کہہ دوں۔“ اس نے بےنیازی سے وجہ بتائی جس میں ساحل کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
”گڈ لک! اور سنبھل کر رہنا، ایسا نہ ہو کہ پہلے میں تمہاری بیوی لے گیا، اب یہ پراجیکٹ بھی لے جاؤں اور تم کچھ نہ کر سکو۔“ اس نے ذرا قریب آکر کمینی سی سرگوشی کی۔
دونوں کے امپلائز آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے جب کہ نہایت سنجیدہ تاثر کے ساتھ کھڑے ساحل نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
کرمانی زخموں پر نمک چھڑکنے کے بعد کمینگی سے ہنستا اس کے پاس سے گزر کر جانے لگا۔
”بات سن کرمانی!“ ساحل کی سپاٹ آواز پر وہ رک کر پلٹا۔
اسے ساحل کا سب کے سامنے یوں پکارنا ناگوار گزرا تھا۔
”یہ پراجیکٹ کوئی بےوفا عورت نہیں ہے کہ جسے تو اپنی دولت کا سبز باغ دکھائے گا اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر تیرے پاس چلی آئے گی، اسی لئے اس بار سنبھل کر رہنے کی ضرورت تجھے ہے، دوسروں کا چھین کر کھانے والے!“ ساحل نے اس کے مقابل کھڑے ہوکر، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بےخوف و خطر کہا اور اپنے املائیز کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
سب کے سامنے ہوئی اس تذلیل پر کرمانی بیچ و تاب کھا کر رہ گیا تھا۔
وہ یہاں رکا تھا کہ ساحل پر وار کر سکے مگر اس کے سنار والے سو وار پر ساحل کا ایک لوہار والا وار بھاری ثابت ہوا تھا۔
*****************************************
سیاہ لینڈ کروزر پوری رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ اور اتنی ہی تیزی سے پچھلی نشست پر بیٹھے ساحل کے ذہن میں سوچوں کی آندھیاں گردش کر رہی تھیں۔
وہ ایک ٹھہری ہوئی شخصیت کا حامل ٹھنڈے مزاج کا شخص تھا اسی لئے بر وقت اپنے بےپناہ غصے کو قابو کرکے تماشوں سے بچ جاتا تھا، لیکن تھا تو وہ بھی انسان!
ایک ایسا انسان جس کی بیوی نے اس کی والہانہ محبت پر بےشمار دولت کو ترجیح دی تھی۔
اسے یاد تھا کہ فروا نے کبھی اس کی محبت کا جواب اتنی محبت سے نہیں دیا تھا جتنا وہ مستحق تھا۔ اور نہ ہی کبھی کسی بات پر اس نے اظہار تشکر کیا تھا۔ بلکہ وہ تو اور کے بعد بھی اور کی خواں رہی تھی۔
*****************************************
فلیش بیک
”پتا ہے مسز شمس کی پارٹی میں جب ہم پہلی بار ملے تھے نا میں نے تب ہی سوچ لیا تھا کہ تمہیں ہی اپنی دلہن بنا کر اس گھر میں لاؤں گا، اور دیکھو، میں لے آیا۔“ آف وائٹ شیروانی میں تیار ساحل کی خوشی دیدنی تھی۔
وہ اس وقت پھولوں سے سجی سیج پر اپنی حسین دلہن کے سامنے بیٹھا تھا جس کے حسن کو زیور اور میک اپ نے ایسے چار چاند لگا دیے تھے کہ نظر ہٹائے نہیں ہٹ رہی تھی۔
”اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں، بلکہ تمہیں تو میرا شکر گزار ہونا چاہئے کہ میں نے تمہارا رشتہ قبول کیا، ورنہ ایک سے ایک اعلی رشتے لائن میں لگے ہوئے تھے۔“ فروا نے اسی اداِ بےنیازی سے جواب دیا جو اکثر حسن والوں کا خاصا ہوتی ہے۔
”بالکل میں تمہارا شکر گزار ہوں اور تفصیل سے شکریہ کہنے کیلئے بہت بےقرار بھی ہوں۔“ وہ معنی خیزی سے کہتے ہوئے قریب جھکا۔
”پہلے میری منہ دکھائی!“ فروا نے اسے پرے کرتے ہوئے ہتھیلی آگے کی۔
ساحل نے سائیڈ ٹیبل کی دراز کھول کر اس سے ایک سرخ مخملی ڈبہ نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
فروا نے ڈبہ کھول کر دیکھا تو اس میں جدید طرز کے دو نہایت ہی خوبصورت سونے کے کنگن تھے جن پر اصلی ہیرے لگے ہوئے تھے۔
”میں پہناؤں؟“ ساحل نے بڑے چاؤ سے پوچھا۔
”یہ کیا! صرف کنگن!“ فروا کی امیدوں پر اوس گر گئی۔
”ہاں کیوں! تمہیں پسند نہیں آئے؟“ وہ متعجب ہوا۔
”ٹھیک ہیں لیکن میں سب کو کیا بتاؤں گی کہ میرے شوہر نے مجھے منہ دکھائی میں بس کنگن دیے!“ اس کا انداز نروٹھا سا تھا۔
”پہلی رات کا تحفہ لوگوں کو بتانے کیلئے اہم نہیں ہوتا ہے فروا۔“ اس نے نرمی سے سمجھایا۔
”میرے لئے ہوتا ہے، تم مجھے کوئی اچھا سا قیمتی ڈائمنڈ سیٹ نہیں دے سکتے تھے!“ اس کے برعکس وہ تنک کر بولی۔
”اب مجھے تمہاری پسند ناپسند اتنی کہاں معلوم تھی! لیکن تم پریشان نہ ہو، ہم کل ہی جیولر کے پاس چلیں گے اور وہاں تم جو چاہو خرید لینا، ٹھیک ہے!“ اس نے منٹوں میں مسلہ حل کرکے بات ہوا میں اڑائی۔
”پکا!“ فروا نے آئبرو اچکائی۔
”بالکل پکا میری جان!“ ساحل نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا۔
*****************************************
حال
”صاحب! صاحب!“ کھڑکی پر ہوئی دستک کے باعث ساحل یکدم ماضی سے چونک کر حال میں واپس آیا۔
گاڑی سگنل پر رکی ہوئی تھی۔ اس نے بٹن دبا کر کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا۔
”صاحب اپنی بیوی کیلئے یہ گجرے لے لو صاحب، صبح سے بالکل بِکری نہیں ہوئی ہے۔“ کمسن لڑکے نے جلدی سے یوں منت کی گویا دوبارہ بولنے کا موقع نہیں ملے گا۔
”لاؤ دو!“ کوئی انکار، تکرار کرنے کے بجائے ساحل نے مثبت جواب دیا تو لڑکے نے کِھل کر جلدی سے دو گجرے اس کی جانب بڑھا دیے۔
ساحل نے گجرے لے کر سیٹ پر رکھے اور کوٹ کی جیب سے والٹ نکال کر ایک پانچ سو نوٹ اس کی جانب بڑھا دیا۔
”کھُلے نہیں ہیں صاحب میرے پاس!“ بچے کو مایوسی ہوئی۔
”میں نے مانگے ہی کب ہیں؟ رکھ لو!“ اس کے سادہ سے جواب پر لڑکے کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی۔
”شکریہ صاحب! اللہ آپ کو اور دے!“ وہ پر مسرت انداز میں کہہ کر چلا گیا۔
ساحل نے مسکرا کر دوبارہ کھڑکی کا شیشہ اوپر کردیا جس سے باہر کا شور باہر ہی رہ گیا۔
ڈرائیور چپ چاپ بیک ویو مرمر سے یہ سب دیکھ رہا تھا مگر وہ ملازم تھا اسی لئے پوچھنے کی جرت نہیں کرسکتا تھا کہ آپ کی تو بیوی ہی نہیں ہے تو پھر آپ نے یہ گجرے کیوں خریدے؟
”تمہاری شادی کو کتنے سال ہوگئے ہیں اشتیاق؟“ ساحل نے سیٹ پر سے گجرے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ہی کوئی پندرہ، سولہ سال!“ اس نے فوراً جواب دیا۔
”تحفے دیتے ہو اپنی بیوی کو؟“ اگلا سوال مزید حیران کن تھا۔
”ہم غریب لوگ ہیں صاحب! خرچے ہی اتنے ہوتے ہیں کہ یہ تحفے کے چونچلوں کیلئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔“ اس نے جھجھکتے ہوئے اپنے حالات بتائے۔
”تحفے کا مطلب قیمتی زیور یا کپڑے نہیں ہوتا، خلوص سے دی گئی ہر چیز تحفہ ہوتی ہے۔“ ساحل نے گجروں کو انگلی میں گھماتے ہوئے کہا جن کی خوشبو اس کی سانسوں میں سما رہی تھی۔
”جو وفا شعار عورت ہوتی ہے نا وہ اپنے شوہر کی طرف سے دی گئی معمولی سے معمولی چیز کی بھی قدر کرتی ہے اور اسے پا کر کھل اٹھتی ہے، لہٰذا اسے کچھ نہ کچھ تحفے میں دیتے رہا کرو پھر بےشک وہ ایک پھول ہی کیوں نا ہو! کیونکہ تم خوش نصیب ہو کہ تمہاری بیوی ان حالات میں بھی اب تک تم سے وفا نبھا رہی ہے۔“ اس کا انداز سادہ تھا مگر بات بہت گہری تھی۔
”یہ لو، یہ اپنی بیوی کو دے دینا اپنی طرف سے، خوش ہوجائے گی۔“ ساحل نے گجرے اس کی جانب بڑھائے جنہیں اس نے ”جی اچھا“ کہہ کر لیتے ہوئے ڈیش بورڈ پر رکھ دیا اور اسی پل سگنل کھلنے کے باعث گاڑی آگے بڑھا دی۔
مگر آج پھر وہ ہی سوال اس کے ذہن میں اٹھا تھا کہ ایک عورت سے زخم کھانے کے بعد بھی ساحل اب تک روایتی مردوں کی طرح عورت ذات سے بدظن کیوں نہیں ہوا تھا؟ اور کیوں آج بھی وہ ہر وفا شعار عورت کی عزت کرتا تھا؟
*****************************************
”ٹو ونس آر ٹو، ٹو ٹوز آر فور، ٹو تھریز آر۔۔۔۔۔۔“
پڑھ پڑھ کر کاپی پر ٹیبل لکھتی مُنزہ پھر اٹکی۔
”ٹو تھریز آر سکس، آپ کو پہلے بھی بتایا تھا منزہ لیکن آپ بار بار بھول جاتی ہیں۔“ درمیانی عمر کے ٹیوٹر نے ٹوکا جو ٹائم پورا ہونے کے بعد اب اپنا سامان بیگ میں رکھ رہے تھے۔
”سوری سر! میں پھر یاد کرتی ہوں۔“ وہ دھیرے سے کہہ کر دوبارہ بک میں لکھا ٹیبل دیکھنے لگی۔
دونوں بچے اس وقت لیونگ روم میں بیٹھے ٹیوٹر کی نگرانی میں ہوم ورک کر رہے تھے۔ جب کہ امبرین بھی ایک سنگل صوفے پر چپ چاپ بیٹھی ٹیوٹر کی نگرانی کر رہی تھی کہ وہ ٹھیک سے پڑھا رہا ہے یا نہیں!
”مائر! بیٹا آپ کے پاپا گھر پر ہیں؟“ ٹیوٹر کے کہنے پر جہاں سبق یاد کرتے مائر نے اس کی جانب دیکھا وہیں منزہ بھی چونک گئی۔
”سر میں یاد کر رہی ہوں، آپ پلیز میری شکایات تو نہ کریں!“ منزہ نے گھبرا کر ٹوکا۔
”ارے آپ کی شکایات نہیں کرنی کچھ ضروری بات کرنی ہے۔“ انہوں نے تصحیح کی تو منزہ کی سانس بحال ہوئی۔
”سر ان کے پاپا شام کو گھر آتے ہیں، آپ کو کوئی ضروری بات کرنی ہے تو میں ان کی دادی کو بلا دیتی ہوں۔“ امبرین نے گفتگو میں حصہ لیا۔
”جی پلیز بلا دیں۔“ انہیں یہ راہ بہتر لگی تو امبرین اثبات پر سر ہلا کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد عصمت خاتون کے ہمراہ واپس آئی۔
”السلام علیکم!“ وہ اپنی جگہ پر سے کھڑے ہوئے۔
”وعلیکم السلام! جی کہیے؟“ انہوں نے بلاوے کی وجہ جاننی چاہی۔
”دراصل میڈم میں لاہور شفٹ ہو رہا ہوں، وہاں مجھے ایک اچھی جاب آفر ہوئی ہے، اسی لئے اب میں مزید بچوں کو پڑھانے نہیں آسکوں گا۔“ انہوں نے عاجزی سے مدعہ بیان کیا۔ جسے سن کر مائر اور منزہ کے چہروں پر شریر سی خوشی امڈ آئی۔
”اوہ! تو یہ بات آپ کو پہلے بتانی چاہیے تھی نا تا کہ ہم دوسرے ٹیوٹر کا انتظام کرلیتے۔“ وہ تھوڑی متفکر ہوئیں۔
”جی میڈم! دراصل جہاں میں نے اپلائی کر رکھا تھا وہاں سے اتنی جلدی ہاں میں جواب آنے کی امید نہیں تھی، آج صبح ہی ان کی طرف سے میل آئی ہے تو آپ کو بتا دیا، کچھ دنوں تک مجھے وہاں جانا ہے تو اب میں کل سے نہیں آؤں گا۔“ انہوں نے وضاحت کی تو عصمت خاتون سوچ میں پڑ گئیں۔
”ٹھیک ہے، آپ جا سکتے ہیں اور فیس وغیرہ کے جو بھی معاملات ہوں ان کے فادر سے فون پر ڈسکس کر لیجئے گا، ٹھیک ہے نا آنٹی!“ بلآخر امبرین ہی بول پڑی۔
”ہاں ٹھیک ہے۔“ انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔
”اوکے! بہت شکریہ!“ انہوں نے کہتے ہوئے صوفے پر سے اپنا بیگ اٹھا کر کندھے پر لٹکایا اور باہر کی جانب بڑھ گئے۔
”بتاؤ ذرا! اب دوسرا ٹیوٹر کہاں سے ڈھونڈیں گے اتنی جلدی!“ عصمت خاتون کو فکر ہوئی۔
”اگر آپ برا نہ مانیں تو کچھ دن میں پڑھا کر دیکھوں بچوں کو؟“ امبرین کی بات پر اطمینان سے پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے مائر اور منزہ سیدھے ہوگئے۔
ابھی تو انہوں نے ٹیوٹر سے جان چھوٹنے کا ٹھیک طرح جشن بھی نہیں منایا تھا کہ امبرین یہ بیڑا اٹھانے کو تیار ہوگئی تھی۔
”تم پڑھا لو گی؟“
”جی بہت آرام سے، بلکہ میں نے دیکھا کہ یہ ٹیوٹر بچوں کو سمجھانے کے بجائے رٹا لگوا رہے تھے تب ہی تو میں نے انہیں آسانی سے جانے دیا۔“ اس کے فوری جواب پر وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
”دادی کچھ دنوں بعد پاپا دوسرا ٹیوٹر لگا دیں گے نا!“ مائر نے مداخلت کی کہ کہیں وہ امبرین کی بات سے اتفاق نہ کرلیں!
”ہاں تو جب تک نیا ٹیوٹر نہیں آتا میں تب تک پڑھا لیتی ہوں۔“ امبرین نے اطمینان سے بیچ کی راہ نکالی۔
”ہاں یہ صحیح ہے، دوسرا ٹیوٹر ملنے میں بھی تو تھوڑا وقت لگے گا نا! تب تک تم پڑھا لو ان دونوں کو۔“ انہیں یہ بات مناسب لگی۔ جب کہ مائر اور منزہ کا منہ لٹک گیا۔
*****************************************
”دیکھو! ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ چیزوں کو اگر رٹنے کے بجائے سمجھا جائے تو وہ آسانی سے یاد ہوجاتی ہیں۔“ کہے کے مطابق امبرین اگلے روز انہیں پڑھانے بیٹھ گئی تھی جسے دونوں شکلوں پر بارہ بجائے سن رہے تھے۔
دونوں نے کل ساحل کے سامنے بھی یہ عرضی رکھی تھی کہ انہیں امبرین سے نہیں پڑھنا کوئی نیا ٹیوٹر لگا دیں اور وجہ یہ تھی کہ نئے ٹیوٹر کے آنے تک کچھ دن یہ لوگ ہوم ورک سے آزاد ہوکر انجوئے کرنا چاہتے تھے لیکن جب ساحل نے بھی عصمت خاتون کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں فی الحال امبرین سے پڑھنے کا حکم دیا تو ان کی آخری امید پر بھی اوس گر گئی۔
”اب جیسے کہ یہ ٹو کا ٹیبل ہے، اسے رٹنے کے بجائے آج ہم سمجھتے ہیں کہ ایکچل میں یہ کیا ہے؟“ اس نے میز پر کھلی کتاب کو دیکھا۔
”بیسیکلی یہ جو ٹیبلز ہوتے ہیں یہ کسی بھی نمبر کو جلدی پلس کرنے کیلئے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اگر منزہ کے پاس دو روپے ہیں، مائر کے پاس دو روپے ہیں، اور میرے پاس بھی دو روپے ہیں تو ہم سب کے پاس ٹوٹل کتنے ہوئے؟“ اس نے منزہ سے سوال کیا۔
”چھے روپے!“ منزہ نے گن کر جواب دیا۔
”بالکل، اور ہم ٹوٹل کتنے لوگ ہیں؟“
"تین!“
”تو اس کا مطلب ہوا کہ اگر آپ ٹو کو تھری ٹائم پلس کرو گی تو آنسر ہوگا سکس، جیسے کہ ہم کہتے ہیں کہ ٹو تھریز آر سکس!“ امبرین نے اس سوال کا جواب سمجھایا جسے رٹنے میں منزہ کل اٹکی تھی۔
منزہ کے تاثر بھی بتا رہے تھے کہ اسے بات سمجھ میں آرہی ہے۔
”ٹیبل لکھنے کا آسان طریقہ ہے کہ آپ جس نمبر کا ٹیبل لکھ رہے ہو اسے آنسر سے پلس کرتے جاؤ، جیسے کہ ٹو تھریز آر سکس آپ کے پاس آنسر آیا، اب اگر آپ اس سکس میں دوبارہ ٹو پلس کرو تو کتنے ہوں گے؟“ اس نے کاپی منزہ کے سامنے کرتے ہوئے پوچھا۔
”سکس پلس ٹو۔۔۔۔ایٹ!“ اس نے سوچ کر جواب دیا۔
”گڈ! تو لکھو ٹو فورز آر ایٹ۔۔۔۔پھر ایٹ کو ٹو سے پلس کرو۔“ امبرین کے کہنے پر منزہ نے ویسا ہی کیا اور بہت جلد وہ یہ پلس والا میتھڈ سمجھ گئی جس کے باعث اس نے منٹوں میں ٹیبل لکھ لیا۔
”دیکھا! کتنی آسانی سے لکھ لیا نا آپ نے۔“ امبرین نے سراہا۔
”جی یہ تو بہت ایزی تھا۔“ وہ بھی اپنے کارنامے پر خوش ہوگئی تھی۔
”آپ بھی سمجھ گئے مائر؟“ اس نے چپ چاپ بیٹھے مائر سے پوچھا جو سمجھ تو گیا تھا لیکن ہنوز خاموش تھا۔
”مجھے ٹو کا ٹیبل پہلے سے ہی یاد ہے۔“ منزہ کے برعکس مائر اب تک سرد مہری کے خول سے باہر نہیں آیا تھا۔
”اوکے! تو چلو میں آپ کو اردو سمجھا دیتی ہوں۔“ وہ بھی ہار ماننے والی نہیں تھی۔
*****************************************
رات کے قریب ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔
سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو چکے تھے اسی لئے پورے گھر میں مدھم لائٹس آن تھیں اور خاصا سناٹا ہو رہا تھا۔
ساحل سونے کے بجائے اس وقت بھی کام میں مصروف تھا۔
وہ اپنے کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور سامنے ٹیبل پر رکھے لیپ ٹاپ پر تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا۔ جب کہ ٹیبل پر چند فائلز بھی بکھری ہوئی تھیں۔
اس نے پل بھر کو ہاتھ روک کر بیلو فاؤنٹن پین اٹھایا اور نزدیک کھلی فائل پر کچھ لکھ کر پین اس کھلی فائل پر ہی چھوڑ کے وہ دوبارہ لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوا۔
ابھی وہ یہ کام کر رہا تھا کہ نزدیک رکھا اس کا موبائل رنگ ہوا۔
اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو پتا چلا مینیجر کی کال آرہی تھی۔
”جی شیخ صاحب!“ اس نے موبائل کان سے لگایا۔
”جی میں اس وقت ہاشمی گروپس والے پراجیکٹ پر ہی کام کر رہا ہوں، آپ بتائیں جو کام آپ کو دیا تھا وہ کر لیا؟“ اس نے مصروف انداز میں جواب دے کر پوچھا۔
دوسری جانب غالباً شیخ صاحب کو اس کی آواز ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہی تھی۔
”ہیلو! میری آواز آرہی ہے آپ کو؟“ اس نے ذرا بلند آواز کہا۔
”ایک منٹ رکیں میں باہر جاتا ہوں شاید نیٹ ورک پرابلم ہے۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھا اور سب کچھ یوں ہی چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
قریب پانچ منٹ بعد وہ کمرے میں واپس آیا اور اپنی سابقہ جگہ پر بیٹھ کر دوبارہ کام میں مشغول ہوگیا۔
کام کے دوران ساحل نے پھر کچھ لکھنے کیلئے جب فائل پر سے پین اٹھانا چاہا تو دیکھا سیاہ رنگ کا وہ فاؤنٹن پین کھلی فائل پر ہونے کے بجائے ٹیبل پر رکھا ہے۔
وہ پل بھر کو متعجب ہوکر ذہن پر زور دینے لگا کہ وہ پین کہاں چھوڑ کر گیا تھا؟
ذہن نے اسے یاد دلایا کہ اس نے پین فائل پر چھوڑا تھا مگر اس وقت نظروں کے سامنے وہ پین فائل کے بجائے میز پر رکھا تھا۔
آخر یہ پین خودبخود وہاں سے یہاں کیسے آگیا؟
کیا اس کے پیچھے کوئی کمرے میں آیا تھا جس نے یہ چھیڑ خانی کی؟
لیکن کون آیا ہوگا اور کیوں؟
تھوڑی دیر وہ یوں ہی پرسوچ سا غور کرتا رہا پھر یہ سوچ کر سر جھٹکتے ہوئے دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا کہ شاید کام کے دوران اسے ٹھیک سے یاد ہی نہیں رہا ہوگا کہ در حقیقت اس نے پین کہاں رکھ چھوڑا تھا؟
*****************************************
کچھ دنوں میں ہی امبرین نے اپنی پوری جان لگا دی تھی بچوں کا دل جیتنے کیلئے۔ منزہ کے رد عمل میں تھوڑی بہت لچک آگئی تھی لیکن مائر ہنوز سرد مہری کے خول سے باہر نہیں آنا چاہ رہا تھا۔
لیکن امبرین بھی اس کے سرد رویے کو نظر انداز کرکے پوری شدت سے کوشش کرتی رہی۔
ہوم ورک کی ذمہ داری وہ لے چکی تھی اب ساتھ ہی ساتھ انہیں صبح اسکول کیلئے جگانا، ان کی پسند کا ناشتہ بنانا، واپس آنے پر ان کے کپڑے بدلوانا، کھانا کھلانا، ہوم ورک کروانا، اسکول ڈائری چیک کرنا، اور اگلے روز کیلئے بیگ ریڈی کرکے رکھنے والے کام بھی وہ خوش اسلوبی سے کر رہی تھی جس سے عصمت خاتون بےحد مطمئن تھیں۔ جب کہ ساحل تو پہلے ہی آفس کے معاملات میں بےتحاشا مصروف تھا اس لئے عصمت خاتون کی زبانی ساری صورت حال جان کر اسے بھی بچوں کی جانب سے اطمینان ہوگیا تھا۔
”چلو بیٹا جلدی ناشتہ کرو پھر اسکول بس آجائے گی تو جلدی جلدی کرو گے۔“ عصمت خاتون نے ناشتے سے کھیلتی منزہ کو ٹوکا۔
ضروری میٹنگ ہونے کے باعث ساحل آج خلاف معمول بنا ناشتہ کیے ہی کافی جلدی آفس چلا گیا تھا اسی لئے امبرین بھی ان لوگوں کے ساتھ ناشتے کی میز پر موجود تھی ورنہ ساحل کی موجودگی میں وہ کافی جھجھکتی تھی۔
”ناشتہ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا دادی!“ اس نے بےزار شکل بنائی۔
”تھوڑا سا تو کھا لو بیٹا ورنہ اسکول میں لنچ سے پہلے ہی بھوک لگ جائے گی۔“ انہوں نے پیار سے پچکارا مگر اس کے تاثر جوں کے توں تھے۔
تب ہی امبرین کے ذہن میں ایک کوندا لپکا۔
”میں ابھی آپ کیلئے ایک مزے کی چیز بنا کر لاتی ہوں۔“ وہ پرجوشی سے کہتے ہوئے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی جس پر دونوں بچوں نے خاص توجہ نہیں دی۔
تھوڑی ہی دیر بعد امبرین ہاتھ میں پلیٹ لئے واپس آئی۔
”یہ لو، یہ ٹرائی کرکے دیکھو۔“ اس نے پلیٹ منزہ کے آگے رکھی جس میں فرائی انڈا تھا۔
”یہ کیا ہے؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
”یہ میٹھا انڈا ہے، کھا کر دیکھو بہت ٹیسٹی ہوتا ہے۔“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کھانے کیلئے اکسایا۔
منزہ نے ناسمجھی کے عالم میں کانٹے کی مدد سے تھوڑا سا انڈا چکھا تو اس کی زبان کو یہ ذائقہ بہت پسند آیا۔
”یہ تو سچ میں بہت ٹیسٹی!“ اس کی آنکھیں خوشی سے پھیل گئیں۔
اس کے رد عمل پر امبرین بھی مسکرائی۔
”مائر تم بھی ٹیسٹ کرو!“ منزہ نے اسے پیشکش کی۔
”نو تھینکس!“ اس نے روکھا سا جواب دے کر دودھ کا گلاس لبوں سے لگا لیا۔
”یہ بہت ٹیسٹی ہے، مجھے لنچ میں بھی یہ ہی چاہیے۔“ منزہ نے بےساختہ فرمائش کی۔
”ضرور! میں ابھی آپ کے لنچ باکس میں یہ بنا کر رکھ دیتی ہوں۔“ امبرین خوش دلی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
*****************************************
لنچ بریک ہونے کی وجہ سے یونی فارم پہنے سارے ننھے منے بچے اس وقت پلے ایریا میں لگے جھولوں پر کھیل رہے تھے تو کچھ لنچ کھانے میں مصروف تھے۔
مائر اور منزہ بھی ایک گول گول گھومنے والے جھولے پر بیٹھے تھے اور بیچ میں لگی اس کی اسٹیرنگ نما ہینڈل سے دونوں جھولا گھما رہے تھے۔
”تم امبرین سے زیادہ بات نہیں کیا کرو منزہ!“ مائر سنجیدگی سے گویا ہوا۔ وہ احتراماً بھی امبرین کو آنٹی نہیں بولتا تھا۔
”لیکن کیوں؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”کیونکہ وہ بھی باقی سب کی طرح ہمارے پاپا کو ہم سے دور کرنے آئی ہے۔“ اس کے انداز میں ناگواری تھی۔
”مگر وہ تو پاپا سے ملتی ہی نہیں ہیں اور اچھی بھی ہیں، ہمیں بنا ڈانٹیں ہوم ورک کرواتی ہیں، اور اتنے مزے مزے کی چیزیں بھی بنا کر دیتی ہیں۔“ وہ لاشعوری طور پر اس کی حمایت کرنے لگی۔
”وہ ایسا اس لیے کرتی ہے تا کہ پاپا کو لگے کہ وہ بہت اچھی ہے اور پاپا اسے اپنے ساتھ رکھ لیں!“ مائر کے کا ننھا سا دماغ پوری طرح منفی سوچوں سے بھرا ہوا تھا۔
”او! تو اب ہم کیا کریں؟“ منزہ کو بھی فکر ہوئی۔
”میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔“ مائر رازداری سے گویا ہوا۔
*****************************************
مائر اور منزہ نے اسکول سے واپس آنے کے بعد عصمت خاتون اور امبرین کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر حسب معمول سب تھوڑی دیر آرام کرنے کی نیت سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔
اور یہ ہی موقع مائر اور منزہ کیلئے غنیمت تھا۔
دونوں چپکے سے اپنے کمرے سے باہر نکلے اور سیدھا کچن میں آئے۔
مائر نے کرسی پر چڑھ کر کیبنٹ سے کوكنگ آئل کی بوتل اتاری اور اسے لے کر دونوں کچن سے باہر آگئے۔
بوتل کا ڈھکن کھول کر کچن سے تھوڑا فاصلے پر داخلی حصے پہ مائر نے تھوڑا سا تیل سفید ماربل کے فرش پر گرا دیا اور پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے شریر انداز میں مسکرائے۔
”جاؤ، اب تم سرونٹ کواٹر سے اُسے بلا کر لاؤ!“ مائر کے کہنے پر منزہ اثبات میں سر ہلا کر باہر بھاگی جب کہ مائر بھی تیل کی بوتل کچن کاؤنٹر پر رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔
منزہ پلان کے مطابق بھاگتی ہوئی سرونٹ کواٹر کی جانب آئی اور امبرین کے دروازے پر دستک دی۔
وہ اپنے سنگل بیڈ پر لیٹی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ دستک ہونے پر اس نے کتاب رکھی اور سینے پر دوپٹہ اوڑھتے ہوئے دروازہ کھولا۔
”منزہ آپ! کیا ہوا کچھ چاہیے؟“ اس نے نرمی سے پوچھا۔
”جی، مجھے میٹھا انڈاہ کھانا ہے، میٹھا انڈا بنا دیں۔“ منصوبے کے مطابق اس نے جھوٹی فرمائش کی۔
”اس وقت! لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو آپ نے سب کے ساتھ کھانا کھایا ہے نا بیٹا!“ اس نے متعجب ہوکر یاد دلایا۔
”ہاں لیکن میرا میٹھا انڈا کھانے کا دل چاہ رہا ہے، آپ کچن میں جا کر بنا دیں نا!“ اس نے پھر اصرار کیا۔
”اچھا ٹھیک ہے، چلو!“ بلآخر وہ ہار مانتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑی۔
حلانکہ منزہ کی یہ اچانک فرمائش نہایت ہی عجیب تھی لیکن وہ ان کے حکم کی غلام تھی اسی لئے چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کرسکی۔
منزہ کے پیچھے جیسے ہی وہ ہال میں داخل ہوئی تو اچانک اسے ایک چیخ سنائی دی۔
وہ گھبرا کر برق رفتاری سے آواز کے تعاقب میں آئی تو دیکھا عصمت خاتون کچن کے داخلی پر گریں درد سے كراه رہی ہیں۔
*****************************************
امبرین نے ساحل کو فون کرنے کے ساتھ ہی ایمبولینس کو بھی کال کردی تھی اور تھوڑی دیر بعد ہی عصمت خاتون کو ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
ساحل ہسپتال میں تھا جب کہ باقی سب یعنی مائر، منزہ، امبرین، کھانا بنانے والی امینہ اور باہر کے چھوٹے موٹے کام کرنے والا کرم داد متفکر سے ہال میں جمع تھے کہ پتا نہیں عصمت خاتون کی حالت کیسی ہوگی؟
تب ہی باہر ساحل کی گاڑی رکنے کی آواز آئی اور چند لمحوں بعد ساحل بہت تیزی سے اندر آیا جسے دیکھ کر سب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوگئے۔
”خالہ کیسی ہیں صاحب؟“ کرم داد نے سب کی ترجمانی کی۔
کوئی جواب دینے کے بجائے وہ سیدھا کچن کی جانب گیا اور اس جگہ کا معائنہ کرنے لگا جہاں عصمت خاتون گری تھیں کیونکہ انہوں نے ہی اسے بتایا تھا کہ کچن کے پاس کسی چکناہٹ پر پیر پھسلنے سے وہ گری ہیں۔
اسے وہاں تیل کی چکنائی بہت واضح مل گئی جس کے بعد وہ دوبارہ ہال میں آیا۔
”کچن کے پاس تیل کس نے گرایا تھا؟“ اس نے سخت انداز میں سب سے پوچھا۔
مائر اور منزہ اندر ہی اندر ڈر گئے جب کہ باقی سب ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”میں نے کچھ پوچھا ہے۔“ وہ زور سے دھاڑا تو سب ہل گئے۔
”ہم نے نہیں گرایا صاحب۔۔۔۔ہم۔۔۔۔ہم بھلا وہاں تیل کیوں گرائیں گے؟“ امینہ نے گھبرا کر کہا۔
”ہاں صاحب، میں تو سامان پہنچانے کے سوا کچن میں جاتا ہی نہیں۔“ کرم داد نے بھی اپنی صفائی دی۔
”تو تیل خودبخود کچن سے نکل کر وہاں گر گیا؟“ ساحل کے طنزیہ انداز پر سب خاموش ہوگئے۔
”تم لوگ ایسے اپنی غلطی نہیں مانو گے۔“ وہ گویا نتیجے پر پہنچا۔
”میں ابھی کے ابھی تم دونوں کو نوکری سے نکال رہا ہوں، کل سے یہاں نظر نہیں آنا۔“ اس کی بات پر کرم داد اور امینہ پر بجلی گر گئی۔
”نہیں صاحب ایسا مت کریں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، نوکری نہیں رہی تو ان کا پیٹ کیسے پالوں گا؟“ کرم داد نے عاجزی سے منت کی۔
”صاحب میرے کو بھی اس نوکری کی بہت ضرورت ہے، میری ماں بیمار ہے، خدا کیلئے یہ ظلم نہ کریں!“ امینہ نے بھی باقاعدہ ہاتھ جوڑ لئے۔
”اگر چاہتے ہو کہ نوکری سے ہاتھ نہ دھونا پڑے تو سیدھی طرح اپنی غلطی مان لو!“ اس نے آخری موقع دیا۔
دونوں شش و پنج کا شکار تھے کہ جو غلطی کی ہی نہیں اسے کیسے مان لیں؟
”وہاں تیل مجھ سے گرا تھا۔“ تب ہی امبرین کی آواز پر سب نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
”میں نے تیل صاف کردیا تھا لیکن پھر بھی فرش پر چکنائی رہ گئی اور یہ سب ہوگیا، سوری!“ جو غلطی اس نے کی ہی نہیں تھی وہ نظر جھکا کر مان لی۔
وہ سمجھ گئی تھی کہ وہاں تیل کس نے گرایا ہے؟ لیکن ساحل یہ سچ کبھی نہیں مانتا اور خواہ مخواہ ان دونوں بےقصوروں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑتا اسی لئے یہ قصور اس نے اپنے سر لے لیا۔
”سوری۔۔۔۔۔! تمہیں پتا ہے تمہاری اس چھوٹی سی لاپرواہی سے آج کتنا بڑا نقصان ہوسکتا تھا! خالہ بزرگ ہیں، ان کی کوئی ہڈی ٹوٹ سکتی تھی، اور اگر خدانخواستہ ان کی جگہ آج مائر یا منزہ گر جاتے، انہیں کچھ ہوجاتا تو تب بھی تم یہ ہی کہتی! سوری!“ ساحل غصے کے عالم میں زور سے چلایا تو وہ بری طرح سہم گئی اور کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”اب تک تمہاری کارکردگی دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ تم ایک سلیقہ شعار سمجھدار لڑکی ہو لیکن تمہاری آج کی اس لاپرواہی نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اپنے بچوں کی ذمہ داری تمہیں دے کر کہیں میں نے کوئی غلطی تو نہیں کردی!“ امبرین کی ایک نہ کردہ غلطی نے اس کی ساری اچھائیوں پر پانی پھیر دیا تھا۔
”اپنی غیر موجودگی میں اپنے بچوں کو میں تم جیسی غیر ذمہ دار لڑکی کے بھروسے نہیں چھوڑ سکتا، اسی لئے بہتر ہوگا کہ اب تم اس گھر سے دور رہو، آئی سمجھ!“ اس نے نتیجے پر پہنچ کر حتمیٰ فیصلہ سنا دیا۔
وہ کچھ نہ بولی بس تواتر سے بہتے اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔
مائر اور منزہ در حقیقت امبرین کو گرا کر اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے گو کہ منصوبہ تھوڑا الٹ پلٹ ہوگیا تھا لیکن آخر کار ان کی جان امبرین سے چھوٹ رہی تھی جس پر خوش ہونے کے بجائے نہ جانے کیوں دونوں افسردہ ہوگئے۔
*****************************************
کوئی زیادہ سنجیدہ چوٹ نہ ہونے کے باعث شام کو ہی عصمت خاتون گھر آگئی تھیں جن کی تیمارداری کیلئے ان کے بیٹے اور بہو بھی گھر آئے تھے۔
ساحل ان کے سامنے کافی شرمندہ ہوا لیکن عصمت خاتون نے بات آئی گئی کردی تھی۔
ان کے کھانے پینے کا خیال امینہ رکھ رہی تھی جب کہ بچے اور ساحل بھی سارا وقت ان کے پاس ہی رہے۔ البتہ امبرین انہیں کہیں نظر نہیں آئی۔
”یہ امبرین کہاں ہے؟ جب سے میں آئی ہوں تب سے نظر ہی نہیں آئی۔“ بلآخر انہوں نے پوچھ لیا۔
”سرونٹ کواٹر میں ہے، اسے میں نے منع کیا ہے گھر میں آنے سے۔“ ان کے پیر دباتے ساحل نے بتایا۔
”کیا! لیکن کیوں؟“ وہ حیران ہوئیں۔
جواب میں ساحل نے پوری تفصیل ان کے گوشے گزر کردی۔
”بیٹا صرف اتنی سی بات کیلئے تم نے اتنی بڑی سزا دے دی اسے! جانتے تو ہو کہ بیچاری کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، ایسے میں بھلا کہاں جائے گی وہ اور کہاں سے کمائے گی؟“ انہیں در حقیقت فکر لاحق ہوئی۔
”سرونٹ کواٹر سے نہیں نکالا ہے اسے، وہیں رہے گی وہ، بس یہاں گھر میں نہیں آئے گی، باقی رہی جاب تو میں اپنی فیکڑی میں کوئی کام دے دوں گا اسے۔“ اس نے تصحیح کی۔
”اور ایسا کرنا ضروری تھا تا کہ باقی ملازمین بھی کوئی کوتاہی کرنے سے پہلے سوچیں اور ذمہ داری سے اپنا کام کریں۔“ اس نے اسی سنجیدگی سے مزید وضاحت کی۔
وہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
*****************************************
”مائر!“ منزہ نے پکارا۔
”بولو!“ دونوں اپنے اپنے سنگل بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔
”شاید امبرین آنٹی کو پتا چل گیا تھا کہ تیل ہم نے پھینکا تھا انہیں گرانے کیلئے لیکن انہوں نے پھر بھی پاپا کو کیوں نہیں بتایا؟“ اس نے سادگی سے سوال اٹھایا۔
”کیونکہ اسے لگا ہوگا کہ پاپا اس کی بات کا یقین نہیں کریں گے۔“ مائر سنجیدگی سے نتیجے پر پہنچا۔
”اب وہ ہمارے کام نہیں کریں گی، پاپا نے انہیں منع کردیا ہے۔“ منزہ اداس ہوگئی۔
مائر نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور ساحل اندر آیا۔
”ابھی تک سوئے نہیں تم دونوں!“ وہ نرمی سے کہتا ہوا آکر منزہ کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”گڈ نائٹ کِس کا ویٹ کر رہے تھے۔“ منزہ کے جواب پر وہ مسکرا دیا۔
”پاپا! دادی ٹھیک تو ہوجائیں گی نا!“ مائر نے فکر مندی سے سوال کیا۔
”وہ اب بھی ٹھیک ہیں بیٹا، بس تھوڑا سا درد ہے وہ بھی جلدی ٹھیک ہوجائے گا، ڈونٹ وری!“ اس نے تسلی کرائی۔
”چلو اب آپ دونوں بھی سوجاؤ۔“ ساحل نے بات مکمل کرکے دونوں کو باری باری ”گڈ نائٹ کس“ دیا اور پھر اٹھ کر جانے لگا۔
”پاپا!“ مائر کے پکارنے پر وہ رک گیا۔
”آپ کو کچھ بتانا ہے۔“ وہ اپنے بستر پر اٹھ بیٹھا۔
”بولو بیٹا!“ ساحل اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”فرش پر تیل ہم دونوں نے پھینکا تھا تا کہ امبرین وہاں سے گر جائے۔“ اس نے دھیرے سے اعتراف کیا تو ساحل دنگ رہ گیا۔
”کیا۔۔۔لیکن کیوں؟“ وہ سخت بےیقینی کے عالم میں تھا۔
”کیونکہ ہمیں لگا تھا کہ وہ آپ کو دکھانے کیلئے اچھی بنتی ہے تا کہ آپ اسے اپنے ساتھ رکھ لیں اور ہمیں بھول جائیں۔“ منزہ نے بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے وجہ بتائی تو اس کی حیرت عروج پر پہنچ گئی۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے ننھے بچے اسے لے کر اس حد تک حساس ہوگئے ہیں کہ بنا سر پیر کی ایسی الٹی سیدھی چال بازیاں کرنے لگے ہیں جن کا نتیجہ کیا آئے گا یہ خود انہیں بھی نہیں پتا بس کسی بھی طرح اپنے باپ سے سب کو دور رکھنا ان کا نصب العین بن گیا تھا۔
”لیکن امبرین آنٹی باقی سب کے جیسی نہیں ہیں، وہ اچھی ہیں، آپ پلیز انہیں گھر سے مت نکالیں، ہم ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔“ مائر کے انداز میں پہلی بار امبرین کیلئے عزت جھلکی تھی۔
”ہاں پاپا! وہ بہت اچھی ہیں، انہوں نے آپ سے ہماری شکایات بھی نہیں کی، ہم پرامس کرتے ہیں کہ پھر کسی کو تنگ نہیں کریں گے بس آپ انہیں مت جانے دیں۔“ منزہ نے بھی منت کی۔ جب کہ وہ تو اپنی جگہ پر ششدر رہ گیا تھا۔
*****************************************
”تمہیں کیا ضرورت تھی خواہ مخواہ یہ الزام اپنے سر لینی کی؟ اب ساحل تمہیں گھر سے نکال باہر کرے گا پھر ہمارے کام کا کیا؟ اسی لئے بھیجا تھا تمہیں وہاں کہ دوسروں کے الزام اپنے سر لیتی پھرو!“ فون پر کوئی بری طرح برہم ہو رہا تھا جسے امبرین چپ چاپ سنے جا رہی تھی۔
”ٹک ٹک ٹک!“ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
”دروازے پر کوئی ہے، میں بعد میں بات کرتی ہوں۔“ اس نے جلدی سے کہہ کر لائن ڈسکنیکٹ کی اور آکر دروازہ کھولا۔
دوسری جانب ساحل کھڑا تھا جسے دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی۔
”آپ!“
”کچھ بات کرنی ہے تم سے۔“ ساحل کے کہنے پر وہ کنارے پہ ہوگئی تو ساحل اندر آگیا۔
وہ ذہنی طور پر تیار تھی کہ یقیناً ساحل اسے یہاں سے جانے کا پروانہ تھمانے آیا ہے۔
”تمہیں پتا تھا کہ فرش پر تیل بچوں نے گرایا ہے؟“ بنا کسی تہمید کے توقع کے برعکس بات سن کر امبرین نے یک دم سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”بچے مجھے سب بتا چکے ہیں۔“ اس کی حیران کن سوالیہ نظریں بھانپ کر ساحل نے وضاحت کی۔
”جی پتا تھا۔“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیسے پتا چلا؟“
”ہم سب نے دوپہر کا کھانا ایک ساتھ کھایا تھا اور امینہ میرے ساتھ ہی کچن صاف کرکے سرونٹ کواٹر میں آئی تھی، پھر تھوڑی ہی دیر بعد منزہ اچانک آکر ضد کرنے لگی کہ اسے انڈا کھانا ہے، مجھے تھوڑا عجیب لگا لیکن میں اس کے ساتھ چل پڑی اور جب ہال میں پہنچی تو آنٹی وہاں گر گئی تھیں، کوكنگ آئل کی بوتل بھی کچن کاؤنٹر پر رکھی ملی جو امینہ نے میرے سامنے کیبنٹ میں رکھی تھی، اور کچن میں موجود ٹیبل کی ایک کرسی بھی اپنی جگہ پر ہونے کے بجائے کیبنٹ کے نیچے تھی، مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یقیناً اپنی ننھی عقل استعمال کرتے ہوئے بچوں نے یہ سب مجھے چوٹ پہنچانے کیلئے کیا تھا مگر سب الٹ ہوگیا، مجھے پتا ہے کہ بچے مجھے خاص پسند نہیں کرتے ہیں پھر بھی میں ان کا دل جیتنے کی پوری کوشش کر رہی تھی، لیکن میں کامیاب نہیں ہوسکی۔“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے آخر میں اپنی ہار تسلیم کی۔
وہ بغور اسے سنتا گیا۔
جہاں وہ اس کی باریک بینی پر حیران تھا۔ وہیں اپنے بچوں کی ان عجیب و غریب حرکات پر متفکر بھی ہوگیا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرے بچے ایسی حرکتیں کرنے لگے ہیں!“ وہ گویا ہوا تو اس کے انداز میں بےبس سی فکر تھی۔
”ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے؟ محض اتنی سی عمر میں اگر وہ یہ سب کر رہے ہیں تو بڑے ہوکر کیا کریں گے؟ میری تو سمجھ سے باہر ہے کہ آخر وہ ایسے کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ مجھ سے کہاں کمی رہ گئی ہے!“ وہ سارا غصہ بھول بھال کر اس وقت اپنے بچوں کیلئے بےحد پریشان تھا جسے امبرین بھی بخوبی سمجھ گئی۔
”غلطی آپ کی یا بچوں کی نہیں ہے، دراصل جس طرح کے حالات ان پر گزرے ہیں، یعنی ننھی عمر میں والدین کو جدا ہوتے دیکھنا اس چیز نے ان کے ننھے ذہنوں کو ایسا متاثر کیا ہے کہ وہ عمر سے زیادہ بڑی حرکتیں کرنے لگے ہیں، صرف اس ڈر سے کہ کہیں وہ ماں کی طرح اپنے باپ کو بھی نہ کھو دیں!“ وہ رسان سے گویا ہوئی۔
ساحل بھی بغور اسے سننے لگا۔
”مجھے زیادہ علم نہیں ہے مگر جتنا میں نے پڑھا ہے اس سے یہ ہی جانا ہے کہ ماہرِ نفسیات کہتے ہیں بروکن فیملی کے بچے اکثر حد سے زیادہ حساس اور وقت سے پہلے بڑے ہوجاتے ہیں، اور ان کا علاج صرف پیار اور بھرپور توجہ ہے، ڈانٹ ڈپٹ سے معاملہ اور بگڑ سکتا ہے۔“ وہ مزید کہتے ہوئے سدباب کی جانب آئی۔
”میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہوں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ پیار و توجہ دے سکوں، لیکن پھر بھی ایسا ہوگیا!“ بتاتے ہوئے آخر میں ساحل کے انداز میں تاسف چھلکا۔
”یہ آپ کے پیار و توجہ کا ہی نتیجہ ہے کہ مائر اور منزہ اب بھی باقی بچوں سے بہت بہتر ہیں ورنہ اس طرح کے کیس میں اکثر بچے بہت زیادہ بدتمیز اور چڑچڑے بھی ہوجاتے ہیں۔“ اس نے ایک مثبت پہلو اجاگر کرکے ساحل کو حوصلہ دینا چاہا۔
”جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں تو وہ دونوں بس اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی آپ کو ان سے الگ نہ کردے! آپ اگر وقتاً فوقتاً ان سے اس بات کا اظہار کرتے رہیں کہ آپ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور کسی صورت انہیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے تو آہستہ آہستہ وہ بدل سکتے ہیں، اور۔۔۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے دانستہ طور پر رک گئی۔
”اور کیا؟“ اسے بغور سنتے ساحل کو آگے جاننے کا تجسس ہوا۔
”اور اگر انہیں باپ کی شفقت کے ساتھ ماں کی محبت بھی مل جائے تو ان کی شخصیت مزید نکھر سکتی ہے۔“ اس نے نظریں جھکا کر بات مکمل کی۔
اس کا اشارہ ساحل کی دوسری شادی کی جانب تھا لیکن کہیں وہ برا نہ مان جائے یہ سوچ کر وہ تھوڑا ہچکچا گئی تھی۔
ساحل نے اس کی ساری باتیں بغور سنی تھیں اور اب بھی تاثر سنجیدہ ہی تھے۔
”تیل بچوں نے گرایا تھا یہ بات سارے دلائل کے ساتھ اس وقت مجھے بتانے کے بجائے تم نے سارا قصور اپنے سر کیوں لے لیا؟“ ساحل نے اسی سنجیدگی سے اچانک دوسرا سوال اٹھایا۔
”کیونکہ مجھے پتا تھا کہ دلائل کے باوجود بھی آپ یقین نہیں کریں گے کہ یہ سب آپ کے بچوں نے کیا ہے، اور اگر میں قبول نہ کرتی تو خواہ مخواہ بیچارے کرم داد اور امینہ کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا۔“ اس نے سادگی سے وجہ بتائی۔
”اور اب جو تمہیں نوکری کھونی پڑی اس کا کیا؟“ اس نے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کوئی جواب دینے کے بجائے وہ چاپ چاپ نظریں جھکائے انگلیاں مڑوڑتی رہی۔
اسے یقین نہ آیا کہ بھلا آج کے دور میں بھی کوئی ایسا انسان ہے جو کسی دوسرے کو بچانے کیلئے اپنا نقصان کرلے!
”ویل! کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ تم یہاں سے نہ جاؤ!“ اس نے خود ہی خاموشی کو توڑا تو امبرین نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔
ساحل نے ایک کنارے پر ہوتے ہوئے اشارہ کیا تو امبرین نے دیکھا دروازے پر منزہ اور مائر کھڑے تھے۔
*****************************************
”ہم امبرین آنٹی سے سوری کرتے ہیں کہ انہیں ہماری وجہ سے ڈانٹ پڑی اور ساتھ میں پرامس کرتے ہیں کہ دوبارہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔“ مائر اور منزہ نے یک زبان کہا۔
مائر، منزہ، امبرین، ساحل، عصمت خاتون، امینہ اور کرم داد سمیت سب لوگ اس وقت ساحل کے بلاوے پر ہال میں موجود تھے جہاں دونوں بچوں نے اپنی غلطی قبول کرکے معافی مانگی کیونکہ ان ہی سب کے سامنے ساحل نے امبرن کو بےجا سزا سنائی تھی اسی لئے ساحل کے مطابق تلافی بھی سب کے سامنے ہی ہونی چاہئے تھی۔
”سوری امبرین آنٹی!“ دونوں یک زبان بولے۔
”کوئی بات نہیں بیٹا۔“ اس نے خوشدلی سے درگزر کردیا۔ عصمت خاتون بھی اس مثبت تبدیلی پر بہت خوش تھیں۔
”کل ناحق تمہیں ڈانٹنے کیلئے سوری!“ ساحل نے بھی ظرف بڑا کرکے اس سے برملا معذرت کی جو کہ امبرین کیلئے کافی حیران کن تھی۔
”کوئی بات نہیں۔“ وہ دھیرے سے بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”چلو اب تم دونوں جلدی سے جا کر اسکول کیلئے تیار ہو اور باقی سب بھی اپنا کام کریں۔“ ساحل نے بات سمیٹی۔
جس کے بعد سب وہاں سے چلے گئے مگر امبرین ساحل کے یوں معذرت کرنے پر کافی دیر تک حیرت کے زیر اثر رہی۔
وہ ایسا ہی تھا۔ باتوں کو انا کا مسلہ نہیں بناتا تھا اور جہاں وہ خود کچھ ناحق کرجاتا تھا تو اسے قبول کرکے اس کی تلافی کرنے میں جھجھکتا نہیں تھا۔
کیونکہ وہ کوئی عام روایتی مرد نہیں تھا۔۔۔۔
وہ ساحل تھا۔۔۔
*****************************************
منزہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی پونی باندھ رہی تھی تب ہی امبرین نے اس کے ہاتھ سے برش لے لیا۔
دونوں نے مسکرا کر شیشے میں نظر آتے ایک دوسرے کے عکس کو دیکھا اور پھر امبرین نے اس کی پیاری سی پونی باندھ دی۔
”کچھ ہیلپ کروں میں آپ کی؟“ امبرین نے مائر سے پوچھا جو اپنی ٹائی باندھ رہا تھا۔
اس کی بات پر مائر نے سر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے یعنی اس نے ٹائی باندھنے کی اجازت دے دی تھی۔
امبرین نے خوشی خوشی بہت نفاست سے اس کی ٹائی باندھی اور پھر ان کے اسکول بیگز لے کر ان کے ہمراہ وہ نیچے آگئی۔
”مجھے میٹھا انڈا کھانا ہے امبرین آنٹی۔“ منزہ نے ڈائینگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے امبرین سے فرمائش کی جو نزدیک کھڑی اس کے گلاس میں دودھ نکال رہی تھی۔
ساحل اور عصمت خاتون پہلے ہی وہاں موجود تھے۔
”مجھے بھی!“ مائر بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
”یہ میٹھا انڈا کیا ہوتا ہے؟“ سنگل کرسی پر بیٹھا ساحل متعجب ہوا۔
”امبرین آنٹی بناتی ہیں، بہت مزے کا ہوتا ہے پاپا۔“ منزہ نے چہک کر بتایا۔
”اچھا! پھر تو میں بھی کھانا چاہوں گا آپ کی امرین آنٹی کی یہ اسپیشل ریسیپی!“ وہ بھی بچوں کے ساتھ بچہ بن گیا۔
”امرین نہیں پاپا امبرین آنٹی!“ منزہ نے اپنا ننھا ہاتھ ماتھے پر مارتے ہوئے تصحیح کی۔
”اوکے سوری! تو امبرین آپ ہم تینوں کیلئے میٹھا انڈا بنا کر لے آئیں۔“ ساحل کے حکم پر وہ اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ہی تینوں کے سامنے میٹھا انڈا حاضر تھا جو پہلی بار چکھتے ہی ساحل کو بھی بہت پسند آیا۔
آج معمول کے برعکس سب نے بہت خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا تھا جب کہ امبرین کے ساتھ بچوں کا بےتکلف دوستانہ تعلق دیکھ کر ساحل بھی آج بےحد مطمئن ہوگیا تھا۔
*****************************************
دیکھتے ہی دیکھتے امبرین کچھ عرصے میں مائر اور منزہ کی بہت اچھی دوست بن گئی تھی۔
وہ بہت پیار سے سمجھا کر ان کا ہوم ورک کرواتی تھی اسی لئے انہوں نے دوبارہ کوئی ٹیوٹر نہیں ہائر کیا اور امبرین سے پڑھنے کو ہی ترجیح دی۔
وہ ان کیلئے مزے مزے کے کھانے بناتی تھی، ان کے ساتھ کھیلتی تھی، اکثر انہیں قریبی پارک لے جاتی تھی اور ویک اینڈ پر یہ لوگ کارٹون موویز بھی دیکھا کرتے تھے۔
غرض ان دونوں کی زندگی میں جو ایک خلا تھا وہ امبرین نے بہت پیار سے پُر کردیا تھا جس کا اثر ان کے مزاج پر بھی پڑا تھا اور اب دونوں خواہ مخواہ کسی سے چڑ کر اسے تنگ نہیں کرتے تھے۔
اب بس ایک خلا باقی تھا۔۔۔۔
ساحل کی حیات میں شریک حیات کا خلا۔۔۔۔۔۔۔!
شام کے سہانے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ساحل اس وقت عصمت خاتون کے ساتھ لان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا جب کہ بچے فاصلے پر امبرین کے ساتھ چِہکتے ہوئے ریکٹ کھیل رہے تھے۔
”امبرین کے آنے سے کتنا بدلاؤ آگیا ہے نا بچوں کی زندگی میں! پہلے کیسے مرجھائے سے گھومتے رہتے تھے، سب کو تنگ کرنے کیلئے الٹی سیدھی حرکتیں کرتے تھے، اور اب دیکھو ماشاءاللہ! ہنسنا کھیلنا ہی ختم نہیں ہوتا اور کوئی شیطانی بھی نہیں کرتے۔“ چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے عصمت خاتون نے تجزیہ کیا جن کی نظریں بچوں پر ہی تھیں۔
”ہممم! ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ! دراصل میں چاہ کر بھی بچوں کو اتنا وقت و توجہ نہیں دے پا رہا تھا جو ان کی ضرورت تھی تب ہی ان کے ننھے دماغ میں نیگیٹیوٹی بڑھنے لگی تھی بٹ تھینکس ٹو امبرین کہ اس نے بچوں کو سنبھال لیا، بہت اچھی لڑکی ہے یہ، ماہرِ نفسیات ٹھیک کہتے ہیں کہ بچوں کا علاج صرف بھرپور پیار اور توجہ ہے۔“ ان کے مقابل والی کرسی پر بیٹھے ساحل نے بھی اضافی جواب کے ساتھ تائید کی جس کی نگاہوں کا مرکز بچے ہی تھے۔
”بچوں کی زندگی میں تو مسکراہٹیں آگئیں، اب تم نے اپنی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟“ انہوں نے کہتے ہوئے ساحل کو دیکھا۔
”میرے بچوں کی مسکراہٹیں ہی میری زندگی ہے۔“ اس کی محبت پاش نظریں ہنوز بچوں پر تھیں۔
”مجھے پتا ہے، لیکن اولاد کے علاوہ بھی زندگی میں ایک خانہ ہوتا ہے جسے شریک حیات ہی پُر کرسکتا ہے۔“ وہ آہستہ آہستہ مدعے پر آنے لگیں۔
ان کی بات پر وہ سیدھا ہوکر بیٹھا اور چائے کا خالی کپ سامنے میز پر رکھا۔
”آپ کی بات ٹھیک ہے خالہ، اور میں نے کبھی شریک حیات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ہے، لیکن اب بات میرے اکیلے کی نہیں ہے، اب بات میرے بچوں کی بھی ہے۔“ وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
”مجھے بس اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرا وہ نیا رشتہ میرے بچوں کو سوتیلے پن کی آنچ میں جھلسا نہ دے!“ وہ دل کا خدشہ زبان پر لایا۔
”تو بیٹا ہم دیکھ بھال کر سارے معاملات طے کریں گے نا!“ انہوں نے بھی اپنا کپ میز پر رکھا۔
”کس چیز کی دیکھ بھال کریں گی خالہ؟ کیا نیتوں کے حال چہروں پر لکھے ہوتے ہیں؟ فروا کا چہرہ بھی تو خوبصورت تھا نا جس سے متاثر ہوکر میں نے اسے اپنی زندگی میں شامل کیا! بلکہ وہ تو سگی ماں تھی ان کی، مگر اپنے تین سالہ ننھے جڑواں بچوں کو چھوڑ، وہ اس ارب پتی کرمانی کی تیسری بیوی بننے چلی گئی۔“ ناچاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں کرب اور تلخی چھلکی۔
جسے محسوس کرکے وہ بھی افسردہ ہوگئیں کہ انہوں نے بھی تو اپنی آنکھوں سے اس کا گھر ٹوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔
”تمہاری بات ٹھیک ہے بیٹا، لیکن ساری عورتیں تو فروا کے جیسی بےوفا نہیں ہوتیں نا!“ انہوں نے رسان سے سمجھانا چاہا۔
”بالکل! میں جانتا ہوں کہ ساری عورتیں اس جیسی نہیں ہوتیں، میرے دل میں اب بھی عورت کیلئے وہ ہی عزت ہے، میں بھی چاہتا ہوں کہ میری بیوی ہو جو گھر واپسی پر میری منتظر ہو، جس کے ساتھ میں اپنے دکھ سکھ بانٹ سکوں، سکون سے کچھ وقت گزار کر تھکن اتار سکوں، لیکن۔۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکا۔
”لیکن کیا بیٹا؟“ انہوں نے جاننا چاہا۔
”لیکن بس میں یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ کہیں میری یہ چاہت میرے بچوں کو بھاری نہ پڑ جائے!“ اس نے کہتے ہوئے اپنے معصوم بچوں کی جانب دیکھا جو ہر فکر سے آزاد ہنستے ہوئے کھیل رہے تھے۔
”اگر آنے والی صرف میری بیوی ہوئی اور میرے بچوں کی ماں نہیں بن سکی تو کیا یہ میرے معصوم بچوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی؟“ اس نے عاجزی سے سوال اٹھایا۔
انہوں نے بےساختہ ایک گہری سانس لی۔
”تو اس کا مطلب ہے تم ساری عمر ایسی خالی خالی زندگی گزارو گے، دوسری شادی کرکے اپنا گھر نہیں بساؤ گے؟“ وہ بےبسی سے گویا نتیجے پر پہنچیں۔
”نہیں، میں دوسری شادی کروں گا، ضرور کروں گا، لیکن اس سے جو میری بیوی بننے سے پہلے میرے بچوں کی ماں بن کر انہیں اپنائے!“ اس نے تصحیح کرتے ہوئے اپنا ارادہ بتایا۔
اس کی اس عجیب اور کافی حد تک مشکل شرط پر عصمت خاتون اسے یوں دیکھنے لگیں گویا کہہ رہی ہوں کہ تم نے بہت زیادہ مانگ لیا ہے بیٹا!
تب ہی ساحل کے موبائل پر کسی کی کال آنے لگی جسے سننے کیلئے وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔
جب کہ عصمت خاتون پرسوچ سی بچوں کو دیکھنے لگیں جو امبرین کے ساتھ کھیلتے ہوئے بےحد خوش تھے۔
*****************************************
”اللہ پاک کو ایسے لوگ سب سے زیادہ پسند ہوتے ہیں جو دوسروں سے حسنِ اخلاق سے پیش آتے ہیں۔“ امبرین نے کتاب میں درج سطر پڑھی۔
”یہ حسن اخلاق کیا ہوتا ہے؟“ منزہ نے ناسمجھی سے پوچھا۔
رات کے اس وقت سونے سے قبل امبرین بچوں کے کمرے میں موجود منزہ کے بیڈ پر بیٹھی انہیں خاص بچوں کی تربیت کیلئے لکھی گئی ایک کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی جسے دونوں اپنے اپنے بستر میں لیٹے توجہ سے سن رہے تھے۔
”حسنِ اخلاق مطلب اچھا بیہیو کرنا، سمائل کے ساتھ سب سے بات کرنا، پیار سے جواب دینا۔“ اس نے آسان لفظوں میں سمجھایا۔
”میں تو اسکول میں سب سے حسن کے اخلاق سے پیش آتا ہوں۔“ مائر نے فوراً خود کو کلین چٹ دی۔
”حسن کے اخلاق نہیں بیٹا حسنِ اخلاق!“ امبرین نے ہنستے ہوئے تصحیح کی۔
”ہاں وہ ہی، اسکول میں جب کوئی مجھ سے پنسل یا ایریزر مانگتا ہے تو میں دے دیتا ہوں، اور بورڈ صاف کرنے میں مس کی ہیلپ کرتا ہوں، اور سب سے سمائل سے بات کرتا ہوں۔“ اس نے اپنے ننھے منے عظیم کارنامے گنوائے۔
”اچھا! لیکن کل جب منزہ نے آپ سے پانی مانگا تھا تب تو آپ نے اسے پانی نہیں دیا تھا اور کہا تھا کہ خود جا کر پی لو۔“ امبرین نے دلچسپی سے یاد دلاتے ہوئے کتاب بند کی۔
”ہاں، اور اسکول میں جب میں نے اس سے کہا تھا کہ تھوڑی سی چپس مجھے بھی دے دو تو اس نے مجھے نہیں دی تھی اور اپنے دوست عالیان کو دے دی تھی۔“ امبرین کی شہ پر منزہ بھی فوراً اپنے دکھڑے لے کر میدان میں آگئی تھی۔
”ہاں یہ تو میری بہن ہے نا اور بہن بھائی تو لڑتے رہتے ہیں، ان سے تھوڑی حسن کے اخلاق کرنا ہوتا ہے!“ اس نے سادگی سے دلیل دیتے ہوئے پھر لفظ غلط کہا تو وہ بےساختہ ہنس دی۔
”ایسا نہیں ہے بیٹا، آپ کو پتا ہے یہ جو حسنِ اخلاق ہوتا ہے نا! یعنی گڈ بیہیو، یہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے ہی کرنا چاہئے۔“ وہ رسان سے سمجھانے لگی۔
”آپ کا بھائی بہن آپ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو اسے بنا ناک من بنائے دے دینا، اس کا چھوٹا موٹا کام کرنا، اس کی بات کا پیار سے جواب دینا، اس سے اپنی چیزیں شیئر کرنا، گھر کے بڑوں سے بدتمیزی نہ کرنا بلکہ ادب سے ان کی بات ماننا، چھوٹوں سے پیار کرنا، یہ سب حسنِ اخلاق ہوتا ہے اور یہ اللہ کو بہت پسند ہے، اتنا پسند ہے کہ پھر اس کے بدلے وہ آپ کو انعام بھی دیتا ہے۔“ اس نے حسنِ اخلاق کے وہ حقیقی معنی بتائے جن سے بچے تو کیا آج کل بڑے بھی ناآشنا تھے اور اسی کے چلتے گھروں میں تناؤ اور رنجشیں جنم لینی لگی تھیں۔
”ہیں! کیا انعام دیتے ہیں؟“ دونوں کی آنکھیں یکدم چمک اٹھیں۔
”بہت کچھ، جیسے کہ جس کا حسن اخلاق اچھا ہوتا ہے اسے دنیا میں سب کی طرف سے عزت اور محبت ملتی ہے اور پھر جب ہم نیکسٹ لیول پر جاتے ہیں جسے آخرت کہتے ہیں وہاں اللہ پاک ایسے لوگوں کو جنت میں بھیجتا ہے۔“
”یہ جنت کیا ہوتی ہے؟“
”جنت ایک بہت خوبصورت جگہ ہے، جہاں سب کے اپنے محل ہوں گے، جس کا جو کھانے کا جی چاہے گا وہ اسی وقت حاضر ہوجائے گا، وہاں کوئی سیڈنس نہیں ہوگی صرف ہیپینس ہوگی۔“ اس نے مختصر لفظوں میں نقشہ کھینچا۔
”اگر رات میں پیزا کھانے کا دل چاہے تو پیزا بھی آجائے گا؟“ منزہ نے معصومیت سے پوچھا۔
”اور وہاں صبح اٹھ کر اسکول تو نہیں جانا پڑے گا؟“ مائر کا حال بھی کچھ الگ نہ تھا۔
”جی، وہاں آپ کا جو دل چاہے گا وہ ہوگا اور جو نہیں چاہے گا وہ نہیں ہوگا اور کوئی آپ سے زبردستی وہ کام کرنے کو نہیں کہے گا جو آپ نہیں کرنا چاہتے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے تائید کی۔
”لیکن اس سے پہلے آپ کو یہاں دنیا میں کچھ ایسے کام کرنے ہوں گے جو شاید ابھی آپ کو کرنا اچھا نہ لگے! لیکن جب اینڈ پر ان کا رزلٹ ملے گا تو آپ خوش ہوجاؤ گے۔“ وہ اسی طرح مزید بولی۔
اس کی باتیں سن کر دونوں مبہوت ہوگئے تھے۔
”کیا ہو رہا ہے؟“ ساحل ہلکے پھلکے انداز میں پوچھتا اندر آیا تو تینوں اس کی آواز پر چونکے۔
ہمیشہ کی طرح امبرین فوراً وہاں سے چلی گئی جب کہ ساحل مائر کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”آپ کو پتا ہے پاپا امبرین آنٹی بتا رہی تھیں کہ ایک جگہ ہوتی ہے جنت، وہاں سب کچھ بہت اچھا ہوتا ہے اور وہاں ہم جو چاہتے ہیں ہمیں مل جاتا ہے۔“ مائر نے پرجوشی سے بتایا۔
”اور وہاں جانے کیلئے گڈ بیہیو کرنا ہوتا ہے تب ہی اللہ پاک وہاں بھیجتے ہیں، اور اب ہم بھی گڈ بیہیو کریں گے تا کہ اللہ پاک ہمیں بھی وہاں بھیج دے!“ منزہ نے بھی اسی انداز میں مزید بتایا۔
”آپ بھی ہمارے ساتھ جنت میں چلیں گے نا پاپا!“ مائر نے پوچھا۔
”میں تو ابھی بھی اپنی جنت میں ہی ہوں میری جان!“ ساحل نے محبت پاش جواب دیتے ہوئے باری باری دونوں کا ماتھا چوما۔
*****************************************
”ٹک ٹک ٹک!“ کمرے کے دروازے پر نزاکت سے دستک ہوئی۔
”آجاؤ!“ صوفے پر لیپ ٹاپ لئے بیٹھے ساحل نے اجازت دی جو بچوں کو گڈ نائٹ کہہ کر آنے کے بعد اب کچھ ضروری کام کر رہا تھا۔
امبرین آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر آئی جس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی اور ٹرے پر کافی سے بھرا سفید مگ رکھا ہوا تھا۔
”آپ کی کافی!“ اس نے نزدیک آکر ٹرے ٹیبل پر رکھی۔
”ارے تم کیوں لے آئی! میں نے تو امینہ سے کافی کا کہا تھا۔“ وہ نظریں اٹھاتے ہوئے متعجب ہوا۔
”اس کی طبیعت تھوڑی بوجھل ہو رہی تھی تو میں نے ہی اس سے کہا کہ وہ آرام کرلے میں بنا دیتی ہوں۔“ اس نے ٹیبل پر کھلی فائلوں کا جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا، شکریہ کافی کیلئے۔“ وہ سادگی سے کہہ کر دوبارہ لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوگیا۔
امبرین کا بھی اب مزید یہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں بچا تھا سو وہ بھی جانے کیلئے پلٹی۔
”سنو امبرین!“ اچانک ساحل کے پکارنے پر وہ رک کر پلٹی۔
”بچوں کو اتنے اچھے سے سنبھالنے کیلئے تمہارا شکریہ!“ اس کے انداز میں پرخلوص تشکر تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں، یہ تو میری ذمہ داری ہے!“ وہ شرمندہ ہوئی۔
”تب ہی تو، تم بچوں کو محض ذمہ داری سمجھ کر سر سے نہیں اتارتی بلکہ دل سے نبھا رہی ہو اور اس بات کا ثبوت خود بچوں کا تمہیں قبول کرنا ہے، سیانے کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، شاید بچے تمہارے دلی خلوص کو پہچان گئے ہیں اسی لئے ان کا دل بھی تم سے مل گیا ہے۔“ اس کے سادہ انداز پر وہ سمجھ نہ پائی کہ کیا جواب دے!
”بس ایک چھوٹی سی گزارش ہے تم سے۔“
”جی؟“
”کبھی میرے بچوں کا دل مت توڑنا!“ اس کی عاجزی امبرین کو اندر تک ہلا گئی۔
”تمہیں کوئی بھی ضرورت ہو، کچھ بھی چاہیے ہو مجھ سے کہہ دینے، اگر تم چاہو تو میں تمہاری تنخواہ بھی بڑھا دوں گا، بس تم بچوں کے ساتھ ایسے ہی پیار سے رہنا کہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔“ اس کے انداز میں حکم نہیں التجا تھی جس کے آگے وہ لاجواب ہوگئی تھی۔
امبرین نے بمشکل اثبات میں سرہلا کر اسے جواب دیا اور پھر کمرے سے نکلنے کے بعد تیزی سے سرونٹ کواٹر میں آگئی۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے دروازہ بند کیا اور اس کی پشت سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔
”بس ایک چھوٹی سی گزارش ہے تم سے، کبھی میرے بچوں کا دل مت توڑنا!“
اس کے مضطرب ذہن میں پھر ساحل کی عاجزانہ آواز گونجی جس نے اس کی مشکل کو بےحد مشکل بنا دیا۔
وہ بےبسی سی لب بھینچ کر رہ گئی۔
*****************************************
نیا دن طلوع ہونے کے بعد حسب معمول سب رواں دواں تھا۔
مائر اور منزہ بریک ٹائم ہونے کے باعث اسکول کے پلے گراؤنڈ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھے ڈرائنگ بنا رہے تھے۔
”کسی کے پاس ریڈ کلر پنسل ہے؟“ تب ہی ایک بچی نے سر اٹھا کر پوچھا۔
”ہاں، میرے پاس ہے۔“ مائر اور منزہ نے بیک وقت پیشکش کی۔
”تم میری پنسل لے لو کرن!“ منزہ نے کہا۔
”نہیں تم میری پنسل لو کرن!“ مائر نے بھی ضد کی۔
”بھئی مجھے حسن کے اخلاق کرنا ہے نا!“ منزہ چڑ کر مائر سے بولی۔
”مجھے بھی کرنا ہے تا کہ اللہ پاک مجھے بھی جنت میں بھیج دیں۔“ وہ بھی دوبدو تھا۔
دونوں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کرن کو کلر پنسل دے کر حسنِ اخلاق کا نمونہ پیش کرنا چاہ رہے تھے۔ جب کہ باقی بچے تعجب سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
”یہ حسن کے اخلاق کیا ہوتا ہے؟“ ایک بچے نے سب کی ترجمانی کی۔
”امبرین آنٹی نے کہا ہے کہ حسن کے اخلاق مطلب گڈ بیہیو کرنا، سب کی ہیلپ کرنا، اور جو ایسا کرتا ہے اللہ پاک اسے بہت سارے انعام دیتے ہیں۔“ مائر نے اپنے تئیں وضاحت کی۔
”یہ امبرین آنٹی کون ہیں جو تمہیں اتنا سب بتاتی ہیں؟“
”وہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں، وہ بہت اچھی ہیں، وہ میٹھا انڈا انہوں نے ہی بنایا تھا جو اس دن ہم نے تم لوگوں کو کھلایا تھا لنچ میں!“ منزہ نے محبت پاش انداز میں بتایا۔
”ہم ان سے بولیں گے کہ جب اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہوگی نا تو وہ بھی آئیں پاپا کے ساتھ پھر ہم انہیں تم لوگوں سے ملوائیں گے اور وہ تمہیں بتائیں گی کہ حسن کے اخلاق کیا ہوتا ہے؟“ مائر نے لمحوں میں معاملہ ترتیب دیا۔
”پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں تو ممی پاپا آتے ہیں، آنٹی تھوڑی آتی ہیں۔“ کرن نے تصحیح کی۔
”تم نیو ہو نا کرن تمہیں نہیں پتا کہ ان کی مما نہیں ہیں۔“ فائز نامی ایک بچے نے علم میں اضافہ کیا۔
”کیوں نہیں ہیں؟ مما تو سب کی ہوتی ہیں۔“ وہ حیران ہوئی۔
”میری ممی بتاتی ہیں کہ ان کی مما انہیں چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہیں کیونکہ یہ گندے بچے تھے۔“ فائز نے تضحیک آمیز انداز میں بتایا تو باقی سب بھی ان دونوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنسنے لگے۔
مائر اور منزہ کا ننھا سا دل اس ذلت پر سہم گیا جو ابھی ٹھیک سے ذلت کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا۔
”ہم گندے بچے نہیں ہیں۔“ منزہ نے روہانسی ہوکر نفی کی۔
”اچھا! تو پھر تمہاری مما تمہیں چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟“ فائز نے ترکی بہ ترکی چبھتا ہوا سوال کیا تو وہ لاجواب ہوکر مائر کی جانب دیکھنے لگی۔
مائر نے دیکھا منزہ کا معصوم چہرہ سہم کر بجھ گیا ہے اور آنکھوں میں بھی آنسو جمع ہونے لگے ہیں۔
خود اس کی حالت بھی ایسی ہی تھی مگر اس پر غصہ حاوی ہونے لگا تھا۔ مائر کو اپنے اور اپنی بہن کے اوپر ہنستے یہ بچے سخت زہر لگ رہے تھے۔
”اور دیکھنا تمہارے پاپا اور امبرین آنٹی بھی تم لوگوں کو تمہاری مما کی طرح چھوڑ کر چلے جائیں گے کیونکہ تم لوگ گندے بچے ہو!“ فائز نے مزید کہا تو سب اور زور سے ہنسنے لگے۔
منزہ کے رونے میں اور مائر کے غصے میں شدت آنے لگی تھی۔
یکدم مائر اپنی جگہ سے اٹھا اور اس بچے کو زور سے پیچھے دھکا دے دیا۔
اس کا سر بری طرح دیوار سے ٹکرایا اور اگلے ہی پل اس سے خون نکلنے لگا جسے دیکھ کر ننھے بچوں میں کہرام مچ گیا۔
*****************************************
پرنسپل کے آفس میں اس وقت آفس ڈریس اپ میں ساحل اور فائز کے والدین موجود تھے جسے مائر نے دھکا دیا تھا۔
ادھیڑ عمر پرنسپل سنجیدہ تاثر کے ساتھ اپنی سنگل چیئر پر براجمان تھیں جب کہ باقی تینوں ان کے مقابل بیٹھے ہوئے تھے۔
”آپ نے بلايا میڈم؟“ تب ہی پیون نے روم میں داخل ہوکر ادب سے پوچھا جسے ابھی ابھی انہوں نے گھنٹی بجا کر بلایا تھا۔
”ہاں، ان دونوں بچوں کو اندر لے کر آؤ۔“ پرنسپل میڈم کے حکم پر وہ فرمابرداری سے سر ہلا کر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد یونیفارم پہنے وہ دونوں بچے اندر آئے جن میں سے ایک کے سر پر اب پٹی بندھی ہوئی تھی۔
”ہائے میرا بچہ!“ وہ فیشن ایبل سے عورت فوراً اٹھ کر اپنے بچے کی جانب لپکی۔
مائر چپ چاپ ایک جگہ کھڑا تھا۔
”یہ دیکھیں مسڑ ساحل! یہ کیا ہے آپ کے بیٹے نے۔“ پرنسپل میڈم نے دھیان دلایا۔
ساحل کی نظریں تو پہلے ہی بچوں پر تھیں اور جب اس نے براہ راست مائر کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گیا۔
”وہ تو شکر ہے کہ کوئی میجر چوٹ نہیں ہے، لیکن اگر خدانخواستہ کوئی بڑا نقصان ہوجاتا تو کون ذمہ دار ہوتا؟“ میڈم نے مزید کہتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”پتا نہیں میرے معصوم بچے سے کیا دشمنی ہے اس لڑکے کی، پہلے بھی اس نے میرے فائز پر جوس پھینک کر اس کی شرٹ گندی کردی تھی، اور آج تو سر ہی پھاڑ ڈالا!“ عورت نے بچے کو خود سے لگاتے ہوئے مائر کو لتاڑا۔
”سر نہیں پھٹا ہے، میڈم نے بتایا نا کہ معمولی سی چوٹ ہے، اور بچوں میں ایسی چھوٹی موٹی لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔“ عورت کے برعکس کرسی پر بیٹھے اس کے شوہر نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔
”رہنے دیں بس چھوٹی موٹی لڑائی!“ وہ اپنے شوہر سے متفق نہیں تھی۔
اب تک خاموش بیٹھا ساحل اپنی جگہ پر سے اٹھا۔
آہستہ سے چل کر آکے مائر کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے بازو تھامے۔
”صرف وجہ بتا دو بیٹا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟“ ساحل نے بہت تحمل سے استفسار کیا۔
عورت کو اس کی یہ نرمی ایک آنکھ نہ بھائی۔
”ارے ایسے بچوں سے یوں نرمی سے بات تھوڑی کرتے ہیں، ذرا سختی سے ڈانٹ کر۔۔۔۔۔۔۔“
”مجھے پتا ہے کہ مجھے اپنے بیٹے سے کیسے بات کرنی ہے؟ آپ بیچ میں نہ بولیں!“ ساحل نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے اسے ٹوکا تو وہ منہ بنا کر چپ ہوگئی۔
وہ نہ ہی ناجائز بولتا تھا اور نہ سنتا تھا۔
”بتاؤ بیٹا؟ ایسی کیا بات ہوئی جو آپ نے فائز کو اتنی زور سے دھکا دیا؟“ اس نے پھر دریافت کیا۔
”اس نے کہا تھا کہ ہم گندے بچے ہیں اسی لئے ہماری مما ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور یہ سب کے ساتھ مل کر ہم پر ہنس رہا تھا، منزہ رونے لگی تھی، مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے دھکا دے دیا۔“ اس نے نظریں جھکا کر بھرائی ہوئی آواز میں بتایا تو ساحل کے دل پر یکدم زور دار گھونسا پڑا۔
یعنی اب اس کے معصوم بچوں پر بھی طنز و تضحیک کے تیر چلنا شروع ہوگئے تھے!
”آپ کو کیسے پتا کہ مائر کی مما اسے چھوڑ کر چلی گئی ہیں؟“ ساحل نے گردن فائز کی جانب موڑی۔
”ممی نے بتایا تھا۔“ وہ اپنی ماں کی جانب دیکھتے ہوئے بڑبڑایا جو اس صورت حال پر سٹپٹا گئی تھی۔
ساحل نے بھی سر اٹھا کر ایک کٹیلی نظر اُس عورت پر ڈالی۔
”یہ کوئی بات ہے بچوں سے کرنے والی مسز سہیل!“ اب وہ اس کے مقابل کھڑا باز پرس کر رہا تھا۔
اس کا شوہر بھی اٹھ کر ان لوگوں کی جانب آگیا۔
”آپ اپنے بیٹے کی خطرناک حرکت پر پردہ ڈالنے کیلئے بات گھمائیں مت!“ عورت نے خود کو بچانے کیلئے توپ کا رخ موڑنا چاہا۔
”میں پردہ نہیں ڈال رہا ہوں بلکہ جس وجہ سے اس نے یہ خطرناک حرکت کی اس پر سے پردہ اٹھانا چاہ رہا ہوں۔“ اس نے سختی سے تصحیح کی۔
”دیکھیے مسڑ ساحل! جو ہونا تھا سو ہوگیا، اپنے بیٹے کی طرف سے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں، بچہ ہے، غلطی ہوگئی اس سے۔“ سہیل نے معاملہ سمیٹنا چاہا۔
”بات بچے کی نہیں ہے مسڑ سہیل! بلکہ آپ کے بیٹے کی تو غلطی تھی بھی نہیں، اصل قصور وار تو اس کی ماں ہے جو بچے کے معصوم ذہن میں ایسی منفی باتیں ڈال رہی ہے، بچے تو وہ ہی سیکھتے ہیں جو والدین کو کرتے دیکھتے ہیں، اور اپنے جاننے والوں میں جب ان جیسے لوگ چٹخارے لے کر کسی کے پرسنل معاملات ڈسکس کریں گے تو یہ سب تو ہوگا۔“ وہ غصے سے پھٹ پڑا تھا کہ اب لوگوں کی چھلنی کرنے والی باتیں اس کے بچوں تک آنے لگی تھیں۔
”مسڑ ساحل! پلیز کام ڈاؤن!“ میڈم نے بھی مداخلت کی جسے ساحل کسی خاطر میں نہیں لایا۔
”بہت شوق ہے نا آپ کو دوسروں کے ذاتی معاملات جاننے کا تو سن لیجئے کہ میری بیوی مجھے چھوڑ کر گئی کیونکہ اسے کوئی مجھ سے بہتر مل گیا تھا، اس میں میرے معصوم بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے، میرے بچے ہر لحاظ سے بہت اچھے ہیں اور میری جان ہیں ،اگر دوبارہ کسی نے ان کا دل دکھایا یا انہیں تنگ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!“ اس نے انگلی اٹھا کر دونوں میاں بیوی کو تنبیہہ کی۔
ساحل کی آخری بات نے مائر کے دل میں اپنے باپ کیلئے موجود عزت و مان کو اور بڑھا دیا۔
وہ ایک ٹھہری ہوئی طبیعت کا حامل شخص ضرور تھا لیکن ضرورت پڑنے پر اسے اپنے آپ کو اور اپنوں کو بچانا بھی بہت اچھے سے آتا تھا کہ کبھی کبھی کچھ نہ بولنا بھی سامنے والے کو شہ دے دیتا ہے۔
”آپ بھی سن لیں میڈم اور سب کو وارن کر دیجئے گا کہ دوبارہ میرے بچوں کو کوئی اس حوالے سے تنگ نہ کرے! اگر ایسا ہوا تو انہیں تو میں اس اسکول سے ہٹاؤں گا ہی لیکن ساتھ ہی اس اسکول پر ایسا کیس کروں گا کہ سوچ ہے آپ کی۔“ وہ اسی درشتی کے ساتھ پرنسپل سے بولا اور پھر مائر کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔
پیچھے سب یوں ہکابکا رہ گئے جیسے کسی طوفان کے گزرنے کے بعد سناٹے میں آجاتے ہیں۔
*****************************************
”ارے! آپ لوگ اتنی جلدی آگئے اسکول سے؟“ غیرمتوقع طور پر وقت سے پہلے بچوں کو گھر آتا دیکھ ہال میں موجود امبرین حیران ہوئی۔
اور جب اس کی نظر ان کے پیچھے آتے ساحل پر پڑی تو حیرانی مزید بڑھ گئی کہ وہ تو اس وقت آفس میں ہوتا ہے تو پھر بچوں کے ہمراہ کیسے؟
امبرین کو کوئی جواب دینے کے بجائے دونوں بچے سیدھا اوپر کی جانب بھاگ گئے جس سے اسے مزید تشویش ہوئی۔
تب ہی ساحل اس کے مقابل آکر رکا جس کے ہاتھ میں دونوں کے اسکول بیگز تھے۔
”بچوں کو میں گھر لایا ہوں۔“ ابھی وہ ساحل سے سوال کرنے کیلئے الفاظ جمع کر رہی تھی کہ وہ خود ہی گویا ہوا۔
”لیکن کیوں؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟“ اسے فکر ہوئی۔
ساحل نے متوازن انداز میں اسے سارا ماجرا بتایا جسے سن کر اس کی حیران سی پریشانی تاسف میں بدل گئی۔
”میں ایک بہت امپورٹنٹ میٹنگ چھوڑ کر کال آنے پر ان کے اسکول گیا تھا، اسی لئے فی الحال میں آفس جا رہا ہوں، تم بچوں کے پاس جاؤ اور ان کا خیال رکھنا۔“ ساحل نے کہتے ہوئے اسکول بیگز اس کی جانب بڑھائے۔
”جی، آپ بےفکر رہیں میں بچوں کا پورا خیال رکھوں گی۔“ اس نے بیگز لیتے ہوئے یقین دہانی کرائی۔
*****************************************
امبرین بچوں کے کمرے میں آئی تو دونوں لٹکے منہ کے ساتھ ملے۔
منزہ اپنے بیڈ پر بیٹھی جوتے موزے اتار رہی تھی جب کہ مائر جوں کا توں اپنے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا۔
امبرین نے ان کے بیگز جگہ پر رکھے اور خود جا کر مائر کے برابر میں بیٹھ گئی۔
”پتا ہے اچھا ہوا آپ لوگ آج جلدی آگئے، میں نے ابھی ابھی پاستا ریڈی کرکے رکھا ہے آپ لوگوں کیلئے، جلدی سے چینج کرلو پھر مل کر کھاتے ہیں۔“ کوئی سوال جواب کرنے کے بجائے وہ ہشاش بشاش انداز میں گویا ہوئی۔
”ہمیں بھوک نہیں ہے۔“ جوتے اتار چکی منزہ نے بجھا سا جواب دیا۔ جب کہ مائر خاموش تھا۔
”ارے کیوں بھوک نہیں ہے، مجھے تو بہت زور سے بھوک لگ رہی ہے، اور ایک بار جب آپ لوگ اسے اسمیل کرو گے تو آپ کو بھی بھوک لگ جائے گی۔“ وہ اسی طرح دوبارہ بولی مگر اس بار دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
وہ دونوں بچوں کی اندرونی کیفیت جانتی تھی مگر اسے کرید کر انہیں مزید دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”ہم گندے بچے ہیں کیا امبرین آنٹی؟“ منزہ نے خود ہی سوال اٹھا لیا۔
”نہیں میری جان، آپ تو بہت اچھے بچے ہو!“ امبرین نے کہتے ہوئے منزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔
اب اس کے دائیں پہلو میں مائر بیٹھا تھا اور بائیں پہلو میں منزہ!
”تو پھر ہماری مما ہمیں چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟“ منزہ نے روہانسی ہوکر پوچھا۔
کوئی جواب دینے سے قبل امبرین نے ان دونوں کے گرد بازو حمائل کرکے انہیں خود سے لگایا۔
”آپ کو یاد ہے نا ابھی کچھ دن پہلے آپ کا فیورٹ شارپنر ٹوٹ گیا تھا؟“ بجائے جواب دینے کے اس نے سوال کیا تو منزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
”پھر آپ نے نیو شارپنر نکال کر یوز کیا تو آپ کو پتا چلا کہ یہ تو پہلے والے سے بھی زیادہ اچھا ہے، ہے نا!“ اس کے تائیدی انداز پر منزہ نے سر ہلایا۔
”اسی طرح ہماری زندگی میں بھی کچھ چیزیں یا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں، ہمارے فیورٹ ہوتے ہیں لیکن اچانک وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا گم ہوجاتے ہیں، پتا ہے کیوں؟“ اس نے بتاتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
”کیوں؟“ اب مائر کی خاموشی ٹوٹی۔
”کیونکہ وہ ہمارے لئے اُتنے اچھے نہیں ہوتے جتنے وہ ہمیں اچھے لگ رہے ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ پاک انہیں ہم سے دور کر دیتا ہے تا کہ ہمیں وہ دے سکے جو ہمارے لئے اُس سے بھی زیادہ اچھا ہو!“ اس نے رسان سے سمجھایا۔
”تو مطلب اب ہمیں اچھی والی مما ملیں گی؟“ منزہ نے پُراشتیاق انداز میں پوچھا۔
”بالکل! اگر آپ ایسے ہی اچھے بچے رہو، اچھا بیہیو کرتے رہو اور اللہ پاک سے دعا کرو تو وہ آپ کو اچھی والی مما دے گا جو آپ سے بہت پیار کریں گی۔“ اس کی بھرپور تائید پر دونوں کھل اٹھے۔
”مطلب ہم حسن کے اخلاق کے انعام میں اللہ پاک سے اچھی والی مما مانگ سکتے ہیں؟“ مائر نے اپنے خیال کو الفاظ دیے۔
”ہاں بالکل مانگ سکتے ہو۔“ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن ایک شرط ہے۔“
”کیسی شرط؟“ دونوں نے یک زبان پوچھا۔
”اب اگر کوئی دوبارہ آپ لوگوں کو تنگ کرے تو آپ رو گے نہیں اور نہ ہی لڑو گے، بس سمپل اس کی بات کو ایسے اگنور کرو گے جیسے آپ کی نظر میں اس کی کوئی امپورٹنس ہی نہیں ہے، کیونکہ جب ہم لوگوں کی نیگیٹیو باتوں کو اگنور کرتے ہیں تو ان کی ویلیو زیرو ہوجاتی ہے، اور جب ویلیو زیرو ہوجاتی ہے تو وہ ہم پر اثر بھی نہیں کرتی، تو نیکسٹ ٹائم کیا کرو گے آپ لوگ؟“ اس نے سمجھاتے ہوئے پوچھا۔
”اگنور!“ دونوں نے پرجوشی سے یک زبان جواب دیا۔
”شاباش!“ امبرین نے دونوں کو کس کر خود میں بھینچا۔
”چلو اب اسی خوشی میں دونوں جلدی سے چینج کرکے فریش ہوجاؤ پھر ہم مل کر پاستا کھاتے ہیں۔“ اس نے موضوع بدلا تو دونوں خوشی خوشی فریش ہونے چلے گئے۔
جب کہ ادھ کھلے دروازے سے انہیں دیکھتا ساحل بھی مطمئن ہوکر اب واقعی وہاں سے چلا گیا جسے اس وقت میٹنگ سے زیادہ اپنے بچوں کی فکر تھی۔
*****************************************
ساحل آج ضروری کام نمٹا کر جلدی گھر آگیا تھا اور عصمت خاتون سمیت بچوں کو باہر ڈنر کیلئے لے کر جا رہا تھا تب ہی بچوں نے امبرین کو بھی ساتھ لے جانے کی ضد کی۔
پہلے تو وہ ہچکچاتے ہوئے انکار کرتی رہی لیکن پھر عصمت خاتون اور ساحل کے کہنے پر ان کے ساتھ چلی گئی۔
سب نے بہت خوشگوار ماحول میں ڈنر کیا اور ڈنر کے وقت جب ویٹر ان کا آرڈر سرو کرکے جانے لگا تو دونوں بچوں نے یک زبان اسے شکریہ ادا کیا۔
”تھینک یو انکل!“ دونوں کے یک زبان کہنے پر ناصرف یہ لوگ بلکہ خود ویٹر بھی حیران رہ گیا کہ پہلی بار اس کے کام پر کسی نے شکریہ ادا کیا تھا۔
”ویلکم بیٹا!“ وہ مسکرا کر جواب دیتا واپس چلا گیا۔
”یہ کب اور کہاں سیکھا؟“ ساحل نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا۔
”امبرین آنٹی کہتی ہیں کہ جو لوگ سب سے گڈ بیہیو کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں انعام دیتے ہیں، اسی لئے ہم بھی سب سے گڈ بیہیو کر رہے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انعام دیں۔“ مائر نے وضاحت کی۔
امبرین دونوں بچوں کی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگی۔
”گڈ! تو آپ لوگوں کو کیا انعام چاہیے اللہ تعالیٰ سے؟“ ساحل نے دلچسپی سے پوچھا۔ اسے اپنے بچوں میں یہ مثبت تبدیلی اچھی لگی تھی۔
”ہمیں ایک اچھی سی مما چاہیے۔“ منزہ نے معصومیت سے بتایا۔
اس کی بات پر جہاں ساحل تھوڑا حیران ہوا وہیں عصمت خاتون نے بھی جتاتی ہوئی نظروں سے ساحل کو دیکھا گویا کہہ رہی ہوں کہ اب تو میری بات پر سنجیدہ ہوجاؤ!
*****************************************
ایک ساتھ کافی اچھا وقت گزار کر اب یہ لوگ گھر واپس آگئے تھے اور حسب معمول ساحل بچوں کے پاس بیٹھا تھا جو سونے کی تیاری کرچکے تھے۔
”پاپا آپ ہم سے ناراض تو نہیں ہیں نا؟“ مائر نے دوبارہ تصدیق چاہی۔
”نہیں، نہ میں آپ لوگوں سے کبھی ناراض ہوں گا اور نہ کبھی آپ کو چھوڑ کر جاؤں گا۔“ اس نے محبت سے یقین دہانی کرائی۔
”چلو اب سوجاؤ، گڈ نائٹ!“ اس نے کہہ کر باری باری دونوں کا ماتھا چوما اور پھر نائٹ بلب آن کرکے کمرے کی لائٹس آف کرتا وہ وہاں سے چلا گیا۔
عصمت خاتون اس سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتی تھیں اسی لئے انہوں نے اسے اپنے کمرے میں بلايا تھا اور اب وہ بات سننے کے ارادے سے ان کے پاس آیا تھا۔
”بچے سوگئے؟“ اپنے بیڈ پر سرہانے سے ٹیک لگائے بیٹھی عصمت خاتون نے پوچھا۔
”جی نیندوں میں ہی تھے۔“ ساحل نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
”امبرین نے بتایا مجھے صبح جو کچھ بھی اسکول میں ہوا۔“ انہوں نے بات شروع کی۔
”جی اسی لئے بچوں کو تھوڑی دیر آؤٹنگ پر لے کر گیا تھا کہ کہیں وہ کسی تناؤ کا شکار نہ ہوجائیں!“ اس نے دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کیے۔
”یہ آؤٹنگ اس مسلے کا مستقل حل نہیں ہے ساحل، انہیں ایک ماں کی ضرورت ہے، اور آج تو خود انہوں نے تمہارے سامنے اس بات کا اعتراف بھی کیا۔“ وہ اصل مدعے پر آنے لگیں۔
”جی میں جانتا ہوں، لیکن سوال یہ ہے نا کہ ایسی عورت کہاں سے لاؤں جو میری بیوی کی ذمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ انہیں ماں کی بےلوث محبت بھی دے!“ اس نے بےبسی سے سوال کیا۔
”اگر ایسی کوئی مل گئی تو کیا تم اس سے شادی کرو گے؟“ انہوں نے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کریدا۔
”بالکل!“ فوری طور پر یک لفظی جواب آیا۔
”ایسی ایک لڑکی ہے میری نظر میں، لیکن۔۔۔۔۔“ انہوں نے بات ادھوری چھوڑی۔
”لیکن کیا؟“ اس نے آنکھیں سکیڑیں۔
”لیکن وہ تمہارے اسٹیٹس کی نہیں ہے۔“ انہوں نے بات مکمل کی۔
”اپنے اسٹیٹس کی لڑکی سے شادی کرکے دیکھ تو چکا ہوں!“ وہ استہزائیہ انداز میں خود پر ہی ہنسا۔
”ہاں لیکن ہوسکتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں!“ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا۔
”لوگ بھلا کب باتیں نہیں بناتے ہیں؟ اور میرے لئے لوگوں اور اسٹیٹس سے زیادہ میرے بچے اہم ہیں، آپ بتائیں کون ہے وہ؟“ اب وہ بھی سنجیدہ تھا۔
”امبرین!“ ان کے ایک لفظی جواب نے ساحل کی سنجیدگی کو حیرانی میں بدل کر اسے اپنی جگہ ساکت کردیا۔
*****************************************
ایک نیا سویرا پھر سے جلوہ افروز ہوچکا تھا اور معمول کی افرتفری بھی جاری تھی۔
”سر جیسا آپ نے کہا تھا کہ ہاشمی گروپس سے وہ پراجیکٹ لینے کیلئے ہمیں بالکل نیا اور یونیک آئیڈیا پیش کرنا ہوگا، تو اس حوالے سے یہ کچھ پائنٹس میں نے بھی کلیکٹ کیے تھے، آپ ایک نظر دیکھیے۔“ شیخ صاحب پورے انہماک سے کچھ کاغذات ٹیبل پر پھیلائے بیٹھے تھے۔
مگر ٹیبل کی دوسری جانب اپنی سنگل کرسی پر بیٹھے ساحل کی محض نظریں بظاہر ان کاغذات پر تھیں۔ در حقیقت اس کا دھیان عصمت خاتون کی اس بات پر اٹکا ہوا تھا جو انہوں نے کل رات کہی تھی اور وہ بھی تمام شب اسی بارے میں سوچتا رہا تھا۔
”سر!“ شیخ صاحب نے اس کی توجہ نہ پا کر پکارا تو وہ یکدم چونکا۔
”میں آپ سے بات کر رہا ہوں سر! سب ٹھیک تو ہے نا!“ انہیں تشویش ہوئی۔
”جی، ہاں تو کیا کہہ رہے تھے آپ؟“ ساحل سارے خیالات جھٹکتے ہوئے مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ ہوگیا۔
*****************************************
”آپ نے بلايا دادی؟“ منزہ کے ہمراہ آئے مائر نے کمرے کا دروازہ کھول کر پوچھا۔
”ہاں بیٹا، یہاں آؤ میرے پاس!“ بیڈ پر بیٹھی عصمت خاتون نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا تو دونوں ان کی جانب آگئے۔
دونوں تھوڑی دیر قبل ہی اسکول سے لوٹے تھے جب عصمت خاتون نے امبرین کے ذریعے انہیں اپنے کمرے میں بلوایا۔
دونوں بیڈ پر چڑھ کر ان کے دائیں، بائیں بیٹھ گئے۔
”اسکول میں دن کیسا رہا؟“ انہوں نے نرمی سے استفسار کیا۔
”اچھا تھا!“ مائر نے جواب دیا۔
”اچھا بیٹا، اب میں آپ لوگوں سے جو بھی پوچھوں وہ سچی سچی بتانا، ٹھیک ہے؟“ انہوں نے دونوں کے گرد بازو حمائل کیے۔
دونوں نے فرمابرداری سے سر ہلایا۔
”امبرین آنٹی آپ کو کیسی لگتی ہیں؟“ انہوں نے کریدنا شروع کیا۔
”بہت اچھی!“ یک زبان جواب آیا۔
”اور اگر وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں تو آپ کو کیسا لگے گا؟“
”بہت اچھا!“
”اچھا اگر وہ آپ کی مما بن کر ہمیشہ ساتھ رہیں تو!“ انہوں نے اصل سوال کر ڈالا جسے سن کر دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”کیا سچ میں ایسا ہوسکتا ہے دادی؟“ منزہ نے سر اٹھا کر بےیقینی سے پوچھا۔
”بالکل ہوسکتا ہے، اگر آپ لوگ چاہو!“ وہ مسکرائیں۔
”ہاں ہم بالکل چاہتے ہیں۔“ مائر بھی فوراً بولا۔
”انہیں ہماری مما بنانے کیلئے کیا کرنا ہوگا دادی؟“ منزہ نے بےتابی سے سوال کیا۔
”بس انہیں آپ کے پاپا کی دلہن بنانا ہوگا اور وہ آپ کی مما بن جائیں گی۔“ انہوں نے سہولت سے حل بتایا۔
”تو انہیں جلدی سے پاپا کی دلہن بنا دیں نا دادی پلیز!“ دونوں پرجوشی سے ان کی منت کرنے لگے تو وہ بےساختہ مسکرا دیں۔
”لیکن آپ لوگوں کو تو اچھا ہی نہیں لگتا کہ آپ کے سوا کوئی اور آپ کے پاپا کے کلوز آئے!“ انہوں نے جان بوجھ کر کریدا۔
”وہ تو گندے لوگوں کا کلوز آنا اچھا نہیں لگتا، امبرین آنٹی تو بہت اچھی ہیں، وہ پاپا کو ہم سے الگ نہیں کرتی۔“ مائر کے انداز میں بیک وقت محبت و مان تھا۔
ان کی باتوں نے عصمت خاتون کو اب مکمل طور پر مطمئن کردیا تھا۔ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ صحیح سمت جا رہی ہیں۔
”اچھا ٹھیک ہے، اب آپ دونوں جاؤ اور امبرین کو میرے پاس بھیجو، لیکن کچھ بتانا نہیں، میں خود بات کروں گی۔“ یہ کام تو ہوگیا تھا اب بس آخری مرحلہ باقی تھا۔
”ہم ابھی بھیجتے ہیں۔“ دونوں پھرتی دکھاتے ہوئے بیڈ سے اتر کر باہر بھاگے۔
جب کہ عصمت خاتون مسکراتے ہوئے سوچ رہی تھیں کہ اب ساحل کسی صورت انکار نہیں کرسکتا۔
*****************************************
باہر سورج غروب ہوگیا تھا اسی لئے گھر کے اندر عالیشان لائٹس روشن کردی گئی تھیں۔
خوبصورت ڈرائینگ روم میں موجود امبرین قد آدم کھڑکی کے پاس کھڑی باہر لان میں دیکھ رہی تھی۔
وہ کافی مضطرب لگ رہی تھی جیسے کسی بات کو لے کر گھبراہٹ کا شکار ہو!
تب ہی امبرین کو اسی قیمتی پرفیوم کی مہک محسوس ہوئی جو اس گھر میں صرف ایک ہی انسان استعمال کرتا تھا۔
وہ منتشر ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ پلٹی تو دیکھا ساحل بھی ڈرائینگ روم میں آچکا ہے۔
”بیٹھو!“ ساحل نے اشارہ کیا تو وہ ایک سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔
وہ خود بھی ایک ڈبل صوفے پر آگے ہوکر بیٹھ گیا۔
”خالہ تم سے ساری بات کر چکی ہوں گی؟“ ساحل نے تائیدی انداز میں بھاری خاموشی کو توڑا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”تو کیا تم اس شادی کیلئے راضی ہو؟“ اس نے ٹٹولنا چاہا۔
”کیا آپ راضی ہیں؟“ جواب دینے کے بجائے اس نے دھیرے سے الٹا سوال کیا۔
”ہاں، میرے بچوں کو ایک مخلص ماں اور مجھے ایک بیوی مل رہی ہے تو میں بھلا کیوں راضی نہیں ہوں گا؟“ اس کا جواب سادہ مگر گول مول تھا۔
”کیونکہ میں آپ کی حیثیت کے برابر نہیں ہوں نا!“ وہ نظریں جھکائے انگلیاں مڑوڑنے لگی۔
”میرے لئے حیثیت سے زیادہ انسان اہم ہوتا ہے۔“ اس نے بہت سلیقے سے یہ نقطہ مٹا دیا تھا۔
وہ خاموش ہوگئی۔
”اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو بتا دو، تم پر کوئی زور زبردستی نہیں کی جائے گی، تمہیں پورا حق ہے اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا!“ ساحل نے خود ہی اسے سہولت دی۔
”مجھے ایک مضبوط سائبان مل رہا ہے تو مجھے بھلا کیا اعتراض ہوگا؟“ اس کا سادگی بھرا انداز بھی گول مول تھا۔
”یہ ہی کہ اس سائبان کے ساتھ دو بچوں کی ذمہ داری بھی ہے، جب کہ ہر لڑکی کے کچھ خواب ہوتے ہیں۔“ اس نے سلیقے سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”جن کی زندگی ہی ایک بھیانک حقیقت ہو وہ ایسے خواب نہیں سجاتے۔“ جھکی پلکوں کے ساتھ کہتے ہوئے اس کے انداز میں بےحد تھکن اور کرب تھا۔
کچھ دیر کیلئے دونوں کے مابین خاموشی چھاگئی۔
غالباً اب اور کوئی سوال نہیں تھا! یا تھا بھی تو پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔
”ٹھیک ہے، تو پھر اس جمعے کو سادگی سے ہمارا نکاح ہے، تمہارے خاندان میں کوئی ہے جسے تم بلانا چاہو؟“ ساحل سیدھا اصل بات پر آگیا۔
”نہیں، میرا کوئی نہیں ہے۔“ وہ ہی افسردہ سا جواب آیا جس کے آگے وہ مزید کچھ نہیں پوچھ سکا۔
*****************************************
ساحل کیلئے پہلی ترجیح اس کے بچے تھے اور جب بچوں نے ہی امبرین کیلئے قبولیت کا عندیہ دے دیا تھا تو انکار کا کوئی جواز ہی نہیں بچتا تھا۔
ساحل خود بھی امبرین کا دوستانہ رویہ بچوں کے ساتھ دیکھ چکا تھا اسی لئے امبرین سے دوٹوک بات کرنے کے بعد وہ بھی مان گیا۔
جب کہ امبرین چاہ کر بھی انکار نہیں کرسکی تھی کیونکہ ایسا کرنا ہی تو اس کی مجبوری تھا۔
”میں نے شادی کیلئے ہاں کردی ہے۔“ امبرین نے بجھے ہوئے انداز سے فون پر کسی کو اطلاع دی تھی جسے سن کر دوسری جانب موجود فریق بےحد خوش ہوا تھا اور اسے اپنی منزل اور قریب نظر آنے لگی تھی۔
گو کہ نکاح بےحد سادگی سے تھا لیکن عصمت خاتون پھر بھی امبرین کو زبردستی خریداری کیلئے لے گئی تھیں جہاں نکاح والے دن پہننے کیلئے سوٹ لیا اور ساتھ ہی کچھ ایسے جوڑے بھی دلائے جو ایک نئی نویلی دلہن پر جچتے ہیں۔
بچوں کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ شاپنگ ہو یا مستقبل کی منصوبہ بندیاں! وہ ہر کام میں نہایت پرجوشی سے پیش پیش تھے۔ اور انہیں خوش دیکھ کر ساحل بھی مطمئن تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں بعد نکاح کا روز آ پہنچا اور چند گواہوں کی موجودگی میں وہ امبرین سے مسز ساحل مجتبیٰ ہوگئی۔
*****************************************
جدید طرز کے خوبصورت بیڈ روم میں زیرو پاور کا نائٹ بلب جل رہا تھا اور بیڈ کے دونوں اطراف سائیڈ لیمپس آن تھے جن سے کمرے میں مدھم خواب ناک روشنی ہو رہی تھی۔
بیڈ کے سرہانے اور پیرہانے پر خوبصورت پھولوں سے سجاوٹ کی گئی تھی جب کہ بیڈ کی چادر پر بھی بےشمار سرخ گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں، اور بیڈ کے وسط میں امبرین بیٹھی تھی۔
اس نے سرخ ریشم کی گھیردار فراک پہنی ہوئی تھی جس کی آستینیں فل ہونے کے باعث چوڑیاں پہننے کی زحمت نہیں کی گئی تھی اور جیولری کے نام پر صرف اس نے بڑے بڑے سلور کے جھمکے پہنے ہوئے تھے۔
سوٹ کا ہمرنگ جالیدار دوپٹہ کندھے پر لٹکا کر اس کا ایک پچھلا سرا سر پر اوڑھے بیٹھی وہ بظاہر بچوں سے باتوں میں مصروف تھی لیکن اندر سے بےحد مضطرب تھی۔
”آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔“ منزہ نے کوئی تیسری بار تعریف کی۔
”تھینک یو! آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہو!“ امبرین نے پیار سے اس کا گال چھوا جس نے گلابی فراک زیب تن کی ہوئی تھی۔
”اور میں؟“ سفید کرتا پاجامہ پہنے مائر بھی بھلا کہاں پیچھے رہنے والا تھا!
”آپ بھی بالکل شہزادے لگ رہو ہو!“ امبرین نے اپنے بنا مہندی والے کورے ہاتھ سے اس کا گال کھینچا۔
”ارے بچوں تم لوگ ابھی تک اپنے کمرے میں نہیں گئے۔“ عصمت خاتون حیرانی سے کہتی وہاں آئیں۔
”ہمیں اپنی مما سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں دادی!“ منزہ نے منہ بسورا۔
”اور پاپا نے کہا ہے کہ کل ہم اسکول سے چھٹی کرسکتے ہیں۔“ مائر بھی جھٹ بولا۔
”ہاں تو مما کون سا کہیں بھاگی جا رہی ہیں؟ کل کرلینا ڈھیر ساری باتیں، ابھی جا کر سو اور مما کو بھی آرام کرنے دو شاباش!“ انہوں نے بیڈ کے نزدیک رک کر کہا۔
”بچوں کو یہیں رہنے دیں نا!“ وہ ناچاہتے ہوئے بھی کہہ گئی۔
”ارے! پاگل ہوگئی ہو!“ وہ یوں بولیں گویا انہیں اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا ہو!
”چلو بچوں جلدی سے آجاؤ، ابھی جلدی سوگے تب ہی تو صبح جلدی اٹھ کر اپنی مما سے ڈھیر ساری باتیں کرسکو گے نا! چلو شاباش!“ انہوں نے پھر نرمی سے پچکارا تو اب کی بار دونوں کو بیڈ سے اترنا پڑا۔
وہ اسے گڈ نائٹ کہتے ہوئے عصمت خاتون کے ہمراہ وہاں سے چلے گئے۔ اب بس وہ وہاں اکیلی رہ گئی تھی۔
اس کے پرکشش چہرے پر نئی نویلی دلہنوں والا شرمیلاپن یا خوشی نہیں تھی بلکہ ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی۔ گویا ابھی یہاں سے اٹھ کر بھاگنا چاہتی ہو!
تھوڑی دیر بعد دوبارہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ساحل اندر آیا جس کی آمد کا سوچ سوچ کر ہی اِس پر یہ گھبراہٹ طاری تھی۔
اس نے سیاہ رنگ کا کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا جس میں اس کا کسرتی جسم اور دراز قد مزید نمایاں تھا۔ جب کہ کھڑے نین نقش والے چہرے پر سلیقے سے تراشی ہلکی ہلکی شیو نے بھی اسے کافی جاذب نظر بنا دیا تھا مگر وہ تو اسے دیکھتے ہی نظریں جھکا گئی تھی۔
وہ پاس آنے بعد بیڈ پر اس کے نزدیک ہی بیٹھ گیا۔
امبرین نے خود میں مزید سمٹنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی کیونکہ وہ پہلے ہی بہت سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔
”تم سے کچھ کہنا ہے۔“ وہ گھمبیر انداز میں گویا ہوا تو اس کی دھڑکن مزید منتشر ہوگئی۔
”یہ شادی میں نے صرف اپنے بچوں کیلئے کی ہے، اب سے تم بس ان کی ماں ہو، تمہاری ضروریات میں پوری کردیا کروں گا مگر اس سے زیادہ اور کسی چیز کی امید مت رکھنا مجھ سے، ہم دونوں ہسبیبڈ وائف دنیا کے سامنے ہوں گے لیکن درحقیقت تم صرف میرے بچوں کی ماں رہو گی۔“ اس کے سنجیدگی سے کہنے پر بےساختہ وہ بھی نظر اٹھائے اسے حیرت سے دیکھنے لگی۔
پل بھر میں ساری گھبراہٹ غائب ہوگئی تھی اور اس کی جگہ اب صرف حیرانی تھی۔۔۔۔۔بےانتہا حیرانی۔۔۔۔۔!
وہ بھی سنجیدگی سے براہ راست اسے دیکھ رہا تھا اور اپنی بات کے نتیجے میں اس کے چہرے پر در آنے والی حیرت بخوبی بھانپ گیا تھا۔
دونوں یک ٹک ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
کمرے میں گہرا سکوت طاری ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
اور پھر اگلے ہی پل اس سکوت کو ساحل کے بےساختہ قہقہے نے توڑا۔
وہ ہاتھ کی مٹھی بنائے، مٹھی کو منہ کے نزدیک کیے ہنس رہا تھا اور وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو!
”یا تو تم فلمیں بہت دیکھتی ہو یا پھر تم نے بہت زیادہ ٹپیکل ناولز پڑھ رکھے ہیں۔“ اپنی ہنسی کو قابو کرتے ہوئے وہ دوبارہ گویا ہوا۔
”آپ۔۔۔۔آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔
”کہہ نہیں رہا۔۔۔۔کر رہا ہوں۔۔۔۔مذاق۔۔۔۔میں مذاق کر رہا تھا۔“ اس نے نارمل ہوتے ہوئے وضاحت کی۔ مگر اس کی ناسمجھی ہنوز قائم تھی۔
”بھلے ہی یہ میری دوسری شادی ہے مگر یہ مت سمجھنا کہ میں اپنے دونوں بچوں کی ذمہ داری تم پر ڈال کر تم سے لاپرواہ ہوجاؤں گا۔“ ساحل نے کہتے ہوئے اس کا نرم و نازک کورا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا تو پہلی بار اس کا لمس پا کر اسے ایک انوکھا احساس ہوا۔
”تم میرے لئے پہلی، دوسری نہیں۔۔۔۔بس بیوی ہو۔۔۔۔میری بیوی۔۔۔۔جس سے مجھے بےانتہا محبت کرنی ہے۔“ اس نے محبت پاش انداز میں کہتے ہوئے اس کا نازک ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا۔
اس کے لبوں کا دہکتا لمس امبرین سے برداشت نہ ہوا تو بےساختہ اس نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
ساحل کی پہلی بات سے امبرین کی جو گھبراہٹ غائب ہوکر حیرت میں بدلی تھی اب حیرت کے زائل ہونے پر وہ دوبارہ چہرے پر در آئی جسے ساحل نے بھی واضح محسوس کیا۔
”کیا ہوا؟ کوئی پرابلم ہے؟“ اس نے متعجب ہوکر نرمی سے استفسار کیا۔ وہ دوبارہ اپنی انگلیاں مڑوڑنے لگی تھی۔
”مجھے۔۔۔۔مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔“ اس نے نظریں جھکا کر آہستہ سے کہا۔
”ہاں ضرور، تم چینج کرکے ایزی ہوجاؤ!“ اسے لگا وہ تھک گئی ہے اسی لئے تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہے۔
”نہیں۔۔۔میرا مطلب اس۔۔۔۔اس رشتے کو پوری طرح قبول کرکے قائم کرنے کیلئے مجھے تھوڑا۔۔۔۔۔تھوڑا وقت چاہیے۔“ اس نے نظریں جھکائے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے اصل مدعہ بتایا۔
اب وہ بھی تھوڑا سنجیدہ ہوا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کس نوعیت کا وقت مانگ رہی ہے؟
”کتنا وقت چاہیے؟“ اس نے بنا کسی ضد بحث کے سادگی سے پوچھا۔ فوری طور پر وہ سمجھ نہیں پائی کہ کیا جواب دے؟
”ایک۔۔۔۔۔ہف۔۔۔۔۔ایک مہینے تک کا!“ تھوڑا گڑبڑا کر بلآخر اس نے فیصلہ کرلیا۔
مگر وہ یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ اب وہ کیا رد عمل دے گا؟ کیونکہ وہ چپ چاپ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے!“ بلآخر وہ بھی نتیجے پر پہنچا۔
”لیکن ایک بات۔۔۔۔“ ابھی وہ مطمئن بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ مزید بول پڑا۔
”میں صوفے پر نہیں یہیں بیڈ پر سوؤں گا، اور تم بھی، ٹھیک ہے!“ اس نے صاف لفظوں میں باور کرواتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔
امبرین کو لگا اس کی پریشان ٹل کر بھی نہیں ٹلی!
”بےفکر رہو صرف سوؤں گا، جگاؤں گا نہیں۔“ اسے شش و پنج کا شکار پا کر اس نے معنی خیزی سے تسلی کرائی تو اس کا مفہوم بھانپ کر وہ بےساختہ جھینپ گئی۔
وہ اپنے ہی عالیشان گھر کے، خوبصورت بیڈ روم میں، اپنی نئی نویلی دلہن سے، اپنے ہی بیڈ پر سونے کی ڈیل کر رہا تھا!
”میں بھلا کون ہوتی ہوں آپ کو کوئی اجازت دینے والی یا کسی چیز سے روکنے والی!“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے گول مول جواب دیا۔
”تو مطلب میں جو چاہوں وہ کرسکتا ہوں؟“ اس کے معنی خیز سوال پر امبرین نے دوبارہ اپنی حیرت زدہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”میرا مطلب میں یہاں سو سکتا ہوں؟“ اس کی حالت کے پیش نظر ساحل نے اپنی معنی خیزی چھوڑ کر وضاحت کی۔
”جی!“ یک لفظی جواب دے کر اس نے نظریں جھکالیں۔
یہ اٹھتی، جھکتی پلکیں اسے کتنا بےقرار کر رہی تھیں یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔
”میں چینج کرلوں؟“ امبرین نے یوں ہی اجازت چاہی۔
”شیور!“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اجازت دی تو وہ بیڈ سے اتر گئی۔
اس کی فراک کے ساتھ چند گلاب کی پتیاں بھی بیڈ سے سفید سنگ مرمر کے فرش پر آئیں۔
وه تیزی سے باتھ روم میں چلی گئی جب کہ وہ اس کی بھولی سی گھبراہٹ پر محض مسکرا کر رہ گیا۔
باتھ روم میں آنے کے بعد دروازہ بند کرکے وہ ایسے اس سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی تھی گویا اس کے پیچھے کوئی شیر پڑا ہو جس سے بچنے کیلئے وہ کئی میل دوڑ کر آکے اب چھپ گئی ہے۔
اتنا بڑا اور خوبصورت باتھ روم اُس نے اِس گھر میں آکے پہلی بار دیکھا تھا ورنہ اس سے قبل تو وہ بس ٹی وی میں ہی یہ آسائشیں دیکھا کرتی تھی۔
یہ آسائشیں۔۔۔۔۔شادی جیسا خوبصورت رشتہ۔۔۔۔۔ایک محبت کرنے والا شوہر۔۔۔۔۔۔یہ سب کبھی اس کی اولین خواہشات ہوا کرتی تھیں۔ لیکن تب اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ خواہشات پوری ہوں گی اور ایسے پوری ہوں گی کہ اس پل خوش ہونے کے بجائے وہ ایسی گھبرائی ہوئی ہوگی!
جب ساحل نے اس سے کہا تھا کہ یہ شادی اس نے صرف اپنے بچوں کیلئے کی ہے تو درحقیقت وہ اسے اپنے لئے غنیمت لگا تھا اور وہ یہ سوچ کر حیران رہ گئی تھی کہ اس کا راستہ اتنی آسانی سے آسان ہوگیا ہے!
لیکن ساحل کی اگلی بات نے در حقیقت اسے پریشان کردیا تھا اور وہ دل میں سوچنے لگی تھی کہ کاش ساحل نے وہ سب مذاق میں نہ کہا ہوتا، وہ سب حقیقت ہوتا تو اس کی مشکل آسان ہوجاتی۔
لیکن وہ مشکل ہی کیا جو آسان ہوجائے!
اور ابھی تو اسے ایسی بہت سی مشکلات دیکھنی تھیں!
ابتداء عشق ہے، روتا ہے کیا؟
آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا؟
میر تقی میر
*****************************************
کافی دیر بعد جب امبرین ایک سادہ سا سوٹ پہن کر باہر آئی تو ساحل کو ہنوز ویسے ہی بیڈ پر بیٹھا پایا جو شاید اس کا منتظر تھا۔
باہر آتے ہی ساحل سے نظریں ٹکرانے پر وہ خاصی نروس ہوگئی۔
”آپ۔۔۔آپ بھی چینج کرلیں۔“ امبرین کو اسے ٹرخانے کا یہ ہی ایک راستہ نظر آیا۔
”ہاں جا رہا ہوں لیکن پہلے ایک ضروری کام تو پورا کرلوں۔“
”کیسا کام؟“
”یہاں آؤ، بتاتا ہوں۔“ اس نے کچھ ایسے پیار سے فرمائش کی کہ وہ مزید کھٹک گئی۔
لیکن وہ وہیں کھڑی بھی نہیں رہ سکتی تھی اسی لئے مجبوراً سست روی سے چل کر اس کی جانب آگئی۔
ساحل نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے سامنے بیڈ پر بٹھا لیا۔
”یہ تمہارے لئے۔“ اس نے ایک لمبا سا سرخ مخملی ڈبا اسے دیا۔
امبرین نے چپ چاپ ڈبہ لے کر کھولا تو اس میں ایک بےحد نازک سا ڈائمنڈ پینڈنٹ ملا۔
”کیسا ہے؟“
”بہت اچھا۔“
”میں پہنا دوں؟“ اس نے چاؤ سے پوچھا۔
”جی؟“ اس نے یکدم نظریں اٹھائیں۔
”تھینکس!“ وہ کہہ کر باکس میں سے لاکٹ نکالنے لگا۔
وہ سوالیہ انداز میں کہے گئے ”جی“ کو اجازت سمجھ کر اسے لاکٹ پہنانے لگا۔
لاکٹ پہناتے ہوئے وہ کافی قریب آگیا تھا۔ گردن پر محسوس ہوتا ہاتھوں کا لمس اور سانسوں میں اترتی پرفیوم کی مہک امبرین کے حواس منجمند کر رہی تھی۔
”تمہارے گلے کی زینت بن کر تو یہ اور خوبصورت لگ رہا ہے۔“ وہ اتنے ہی قریب رہ کر گویا ہوا۔
”اسے کبھی اتارنا مت!“ آنکھوں میں جذبات لیے وہ لو دیتے لہجے میں فرمائش کرتا اپنی قربت سے اس کی حالت بری کر رہا تھا۔
اس نے بمشکل اثبات میں سر ہلایا۔
وہ چند لمحے یوں ہی قریب سے اسے دیکھتا رہا جس کی جھکی پلکیں اور لرزتے لب ایک عجیب کشش لئے اسے اپنی جانب کھینچ رہے تھے مگر فی الحال وہ ایک وعدے کی زنجیر میں بندھا ہوا تھا اسی لئے مزید آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔
”مجھے پتا نہیں تھا کہ تم اتنی ظالم نکلو گی۔“ وہ اس کی لٹ پیچھے کرتے ہوئے معنی خیزی سے کہتا چینج کرنے چلا گیا۔
جب کہ وہ اپنا تنفس سنبھالنے لگی جو اس کے اتنے قریب آنے پر بری طرح بگڑ گیا تھا۔
اسے نہیں اندازہ تھا کہ سنجیدہ مزاج کا ساحل شادی ہوتے ہی نہایت رومانٹک شوہر بن جائے گا!
اسے لگا تھا کہ ساحل ہمیشہ سے اس کے ساتھ جیسا لیا دیا رہتا آیا تھا شادی کے بعد بھی ویسا ہی ہوگا کیونکہ اس شادی کی بنیادی وجہ تو اس کے بچے تھے۔
لیکن اس کی توقع کے برعکس ساحل بالکل اس نوجوان کی طرح برتاؤ کر رہا تھا جو بہت چاؤ سے شادی کرتا ہے اور رشتہ ازدواج کو لے کر اس کے دل میں ڈھیر ساری خواہشات ہوتی ہیں۔
دل میں خواہشات کا ہونا عجیب نہیں ہے لیکن ایک ایسے مرد کا اتنا والہانہ پن دکھانا اسے تھوڑا عجیب لگ رہا تھا جو پہلے ہی ایک عورت سے دھوکہ کھا چکا تھا!
ان ہی سب سوچوں میں گم وہ پیر کے پاس رکھا کمبل اوڑھ کر چت لیٹ گئی تھی کیونکہ جو ہونا تھا سو ہوگیا تھا۔ اب وہ ساری رات یوں ہی بیٹھے بیٹھے تو نہیں گزار سکتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ساحل بھی ٹی شرٹ و ٹراؤزر میں باہر آیا اور کمرے کا نائٹ بلب بند کرتے ہوئے بیڈ پر لیٹ گیا۔
اب کمرے میں بس دو سائیڈ لیمپس کی ہی بےحد مدھم روشنی تھی۔
”تمہیں اندھیرے سے کوئی پرابلم تو نہیں ہے نا! کیونکہ مجھے زیادہ روشنی میں نیند نہیں آتی۔“ اس نے بھی لیٹ کر کمبل اوڑھتے ہوئے پوچھا۔
”کوئی پرابلم نہیں ہے۔“ مختصر جواب ملا۔
”تو پھر کوئی اور پرابلم جو تمہیں تنگ کر رہی ہو؟“ ساحل نے اس کی جانب کروٹ لیتے ہوئے سادگی سے ٹٹولا۔
”نہیں، میں بس تھک گئی ہوں اسی لئے آرام کرنا چاہتی ہوں۔“ اس نے بات ختم کرنی چاہی۔
”ضرور، تم سوجاؤ آرام سے۔“ اس نے سہولت سے اجازت دی۔
کچھ دیر دونوں کے بیچ خاموش حائل ہوگئی۔
”ایک بات پوچھوں؟“ اب کی بار امبرین نے پہل کی۔
”پوچھو!“ وہ ہمہ تن گوش تھا۔
”آپ کو مجھ پر۔۔۔۔مجھ پر غصہ نہیں آرہا؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے وہ سوال پوچھ لیا جو ذہن میں کلبلا رہا تھا۔
”مجھے غصہ کیوں آئے گا؟“ وہ انجان بنا۔
”کیونکہ میں نے۔۔۔۔میں نے۔۔۔۔۔۔“ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے وضاحت کرے؟
”ہاں تم نے کیا؟“ وہ بےحد محظوظ ہو رہا تھا۔۔۔۔اور وہ نروس!
”میں نے آپ کو آپ کے شریعی حق سے دور رکھا ہے!“ بلآخر اس نے کہہ دیا۔
”میں زبردستی حق وصول کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، مجھے اپنا حق پورے حق سے لینا پسند ہے، چھیننا یا مانگنا میرا شیوہ نہیں ہے۔“ گھمبیرتا سے کہتے ہوئے وہ پھر اس کے دل کے تار چھیڑ گیا تھا۔
”ابھی تک تم نے صرف مائر اور منزہ کے پاپا کو دیکھا تھا، آج سے تم شوہر کے حیثیت سے ساحل کا ایک نیا روپ دیکھنے کیلئے تیار رہو جانم! آہستہ آہستہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا کہ ساحل باقی مردوں جیسا نہیں ہے۔“ وہ گھمبیر انداز میں کہتا اسے مبہوت کر گیا تھا۔
”اب آرام سے سوجاؤ، گڈ نائٹ!“ اس نے مزید کہہ کر دوسری جانب کروٹ لے لی۔
وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوئی اس کی چوڑی پشت کو دیکھتی رہ گئی جس نے اس پر حیرانی کے نئے در کھول دیے تھے۔
اس کے دل میں بیک وقت ساحل کیلئے عزت بھی بڑھی تھی اور سوالات بھی کہ بھلا دھوکہ کھانے کے بعد بھی کوئی اتنا مثبت رہ سکتا ہے؟ اتنی جلدی محبت کرسکتا ہے؟
اور ان سوالات کے جوابات ساحل ہی اسے مستقبل میں دینے والا تھا۔
ایک نیا روشن سویرا زمین پر اتر چکا تھا۔
لیکن کانچ کی کھڑکی پر لٹکے دبیز پردوں نے روشنی کو اندر آنے سے روکتے ہوئے اب بھی کمرے میں تاریکی قائم رکھی ہوئی تھی اور مزید سونے پر سہاگہ اے سی کی ٹھنڈک نے کردیا تھا۔
کمبل اوڑھے دائیں کروٹ پر سوئی امبرین نے سیدھے ہوتے ہوئے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو پہلے اس کا ذہن سمجھ نہیں پایا کہ وہ کہاں ہے؟ لیکن تھوڑی دیر تک اسے سب یاد آگیا۔
اس نے سرعت سے گردن موڑ کر اپنے پہلو میں دیکھا، شکن آلوده بستر پر ساحل موجود نہیں تھا۔
تب ہی کسی نے سامنے والی کھڑکی کے پردے سمیٹ دیے جس کے باعث تیز کرنیں کمرے میں ڈوری چلی آئیں۔
یکدم ہوئی اس روشنی کے باعث امبرین نے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا کہ وہ ساحل تھا جو اب اسی کی جانب آرہا تھا۔
”گڈ مارننگ!“ وہ نزدیک رک کر خوشدلی سے بولا جو جینز کے ساتھ ڈارک بیلو شرٹ پہنے ابھی ابھی نہا کر آیا تھا۔
”گڈ مارننگ!“ دھیرے سے جواب آیا۔
”چلو جلدی سے فریش ہوکر باہر آجاؤ، یقیناً بچے تمہارے لئے اتاؤلے ہو رہے ہوں گے اور خالہ نے بہت مشکل سے انہیں روکا ہوا ہوگا کہ ہمیں ڈسٹرب نہ کریں!“ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
اس کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتی بستر پر سے اٹھی اور فریش ہونے باتھ روم میں چلی گئی۔
ساحل بھی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے گیلے بال بنانے لگا۔
باتھ روم میں آکر امبرین شیشے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور بغور خود کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی اندرونی کیفیت محسوس کرنے لگی کہ کہیں ساحل نے رات بھر میں اس کی گہری نیند کا کوئی فائدہ تو نہیں اٹھایا؟
حلانکہ یہ شک نہایت ہی بےتكا تھا کیونکہ اگر کچھ ہوا ہوتا تو وہ اتنے آرام سے سوتی نہ رہتی! لیکن یہ خرافاتی دماغ بھی بھلا کہاں چین لینے دیتا ہے؟
جب وہ اپنی جانب سے مکمل طور پر مطمئن ہوئی تو ایک گہری سانس لے کر خود اپنی عقل پر ماتم کرکے رہ گئی!
*****************************************
”پتا ہے ہم اتنی دیر سے دادی کو بول رہے تھے کہ ہمیں مما کے پاس جانے دیں مگر انہوں نے ہمیں آپ کے پاس آنے نہیں دیا۔“ منزہ نے چہرے پر جہاں بھر کی مسکینیت سجاتے ہوئے بتایا۔
”او! چلو کوئی بات نہیں، میں خود آگئی نا آپ کے پاس۔“ امبرین نے پیار سے جواب دیا اور مائر کے گلاس میں دودھ نکالنے لگی۔
”السلام علیکم!“ ساحل بھی اپنی مخصوص سنگل کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
”وعلیکم السلام! یہ کیا؟ تم آج بھی آفس جا رہے ہو؟“ عصمت خاتون نے جواب دیتے ہوئے تعجب سے اسے دیکھا جو آفس ڈریس اپ میں تیار تھا۔
”جی خالہ! آج کل کام تھوڑا زیادہ ہے اسی لئے میں بلاوجہ چھٹی نہیں کرسکتا۔“ اس نے جواب دیتے ہوئے اپنے گلاس میں جوس نکالا۔
”وجہ ہے تو، کل تمہاری شادی ہوئی ہے، گھر میں رہو، بیوی کے ساتھ وقت گزارو۔“ انہوں نے سادگی سے دھیان دلایا۔
”ہاں، ویسے کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں، مجھے زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے۔“ ساحل نے گلاس اٹھاتے ہوئے ان کی بات سے مبہم اتفاق کیا۔
”نہیں!“ امبرین کے یکدم کہنے پر سب نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
”میرا مطلب کہ۔۔۔۔کہ خواہ مخواہ چھٹی کرکے کام میں حرج کرنے کا کیا فائدہ؟ میں گھر میں ہی تو ہوں کون سا کہیں جا رہی ہوں!“ اس نے جلدی سے خود کو نارمل کرتے ہوئے وضاحت کی۔
”ہاں یہ بھی ٹھیک ہے، میری بیوی گھر پر ہی تو ہے، اور میں واپس آکر سارا وقت اس کے ساتھ گزار سکتا ہوں۔“ اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا۔ جب کہ شوخ نظریں ہنوز نروس سی امبرین پر ہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد ناشتے سے فارغ ہوکر ساحل آفس روانہ ہوگیا۔ بچے بھی ڈائینگ روم سے نکل گئے جب کہ امبرین امینہ کے ساتھ ٹیبل سمیٹنے لگی۔
”بات سنو امبرین؟“ عصمت خاتون کے پکارنے پر وہ جگ لے جاتے ہوئے رک کر پلٹی۔
”تم نئی نویلی دلہن ہو، تھوڑا سج سنور کر رہا کرو، وہ جو شاپنگ کے دوران تمہیں اتنے سارے کپڑے زیور دلائے ہیں وہ ان ہی دنوں پہننے کے ہوتے ہیں۔“ انہوں نے کرسی پر سے اٹھتے ہوئے اسے ٹوکا جو ابھی بھی سادہ سا لان کا سوٹ پہنے، بالوں کی چوٹی بنائے ہر قسم کی جیولری سے عاری تھی۔
”جی، اب سے خیال رکھوں گی۔“ اس نے آہستہ سے کہتے ہوئے سرہلا دیا۔
*****************************************
چند دن مزید گزر گئے جس میں کوئی قابل ذکر بات نہ ہوئی سوائے اس کے کہ ساحل کے قریب آنے پر امبرین کی دھڑکنوں میں طلاطم مچ جاتا تھا جس سے وہ بےحد محظوظ ہوتا تھا۔
جب وہ گھر پر ہوتا تھا تو ہر وقت اسے اپنے پرشوخ نظروں کے حصار میں رکھتا تھا اور جب وہ نہیں ہوتا تھا تو بچے اس کے آس پاس منڈلاتے رہتے تھے۔ المختصر اسے ابھی تک ایسی تنہائی میسر نہیں آئی تھی جب وہ ساحل کے کمرے کا معائنہ کرسکے!
لیکن خوش قسمتی سے آج اسے موقع مل گیا جب مائر اور منزہ اپنی فرینڈ کی برتھ ڈے پارٹی میں گئے ہوئے تھے۔
عصمت خاتون عصر کی نماز کے بعد طویل تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں اور ساحل ابھی تک آفس سے لوٹا نہیں تھا۔
وہ باریکی سے کمرے کی ہر چیز کا جائزہ لینے لگی۔
سب سے پہلے اس نے باتھ روم کی سب الماریاں کھنگالیں مگر وہاں کچھ کام کی چیز نہ ملی۔
پھر وہ کمرے میں موجود الماری کی جانب آئی۔ یہاں بھی کچھ خاص نہ ملا لیکن ایک خانے میں اسے ایک سیاہ رنگ کا ڈیجیٹل سیف لاکر ملا!
وہ انہماک سے اس پر ہاتھ پھیر کر اس کا جائزہ لینے لگی۔ یقیناً اس کے اندر کچھ قیمتی تھا! مگر وہ اسے نہیں کھول سکتی تھی۔
”اسے کھولنے کیلئے چار ڈیجڈ کا پاسورڈ اِنٹر کرنا پڑتا ہے۔“ اچانک ابھری گھمبیر آواز سے اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
وہ چونک کر پلٹی تو دیکھا ساحل اس کے بےحد قریب کھڑا تھا۔
”میں۔۔۔۔میں بس دیکھ رہی تھی۔“ اس نے گڑبڑا کر وضاحت کرنی چاہی۔
کچھ کہنے کے بجائے ساحل نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی شہادت کی انگلی سے لاکر کے بٹن دبانے لگا۔
”9091 یہ پاسورڈ ہے۔“ اس نے ڈائل کرتے ہوئے ساتھ بتایا بھی اور پھر لاک گھما کر لاکر کا دروازہ کھول دیا۔
اندر کچھ فائلز اور کاغذات موجود تھے لیکن ان پر توجہ دینے کے بجائے امبرین فی الحال سکتے میں تھی جس کا ہاتھ ابھی تک ساحل کی گرفت میں تھا اور پشت اس کے سینے سے مس ہو رہی تھی۔
”یہ گھر اور بزنس کے سارے امپارٹنٹ ڈاکومنٹس ہیں۔“ اس نے خود ہی ان کی بابت بتایا۔
”آپ نے اپنا سیکرٹ مجھے کیوں بتایا؟“ وہ بےیقینی کے عالم میں گردن موڑے پوچھ بیٹھی۔
”کیونکہ میں بھی تو تمہارا ہی ہوں، اسی لئے اب سے میرے سارے سیکرٹس بھی تمہارے، اور تمہیں ہم دونوں کو سنبھال کر رکھنا ہے۔“ ساحل نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے آہستہ سے اپنے لب اس کے کندھے پر رکھے تو وہ بری طرح مچل کر یکدم اس سے دور رہی۔
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
”کمرے کا دروازہ کھلا ہے کوئی۔۔۔کوئی آجائے گا۔“ اس نے دھیرے سے اپنے رد عمل کی وضاحت کی۔
”آپ فریش ہوکر آجائیں، میں چائے بنواتی ہوں۔“ وہ جلدی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ ساحل محض اسے دیکھ کر رہ گیا۔
*****************************************
حسب معمول سونے سے قبل امبرین بچوں کے کمرے میں موجود تھی اور انہیں تربیتی کتاب سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور اقوال پڑھ کر سنا رہی تھی۔ جسے دونوں اپنے اپنے بستر میں لیٹے سن رہے تھے۔
”اور اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جو لوگ سچائی اور ایمانداری کی راہ پر چلتے ہیں اللہ بھی انہیں پسند کرتا ہے اور لوگ بھی۔“ ان الفاظ کے ساتھ امبرین نے کسی کہانی کا اختتام کیا۔
”اچھا اب مجھے کون بتائے گا کہ ہمارے پیارے نبی حضور ﷺ کی سچائی اور ایمانداری کو دیکھتے ہوئے لوگ انہیں کس لقب سے پکارتے تھے؟ میں نے پچھلے ہفتے بتایا تھا نا!“ اس نے کتاب بند کرتے ہوئے پوچھا۔
”میں!“ دونوں نے پھرتی سے ہاتھ کھڑا کیا۔
”چلو منزہ آپ بتاؤ!“ وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”لوگ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔“ اس نے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔
”شاباش! اب مائر آپ بتاؤ کہ صادق اور امین کا مطلب کیا ہوتا ہے؟“ وہ مائر کی جانب آیا۔
”صادق کا مطلب سچا اور امین کا مطلب امانت رکھنے والا، ایماندار!“ اس نے بھی جھٹ سے امبرین کا بتایا ہوا جواب دیا۔
”ویری گڈ!“ وہ بھی ان کی کارکردگی پر خوش ہوئی۔
”ہمیں بھی صادق اور امین بننا چاہیے اور ہم بن بھی سکتے ہیں، پتا ہے کیسے؟“ اب وہ انہیں ایک نئی بات سکھانے لگی۔
”کیسے؟“ دونوں نے جاننا چاہا۔
”وہ ایسے کہ سب سے پہلے ہم سچ بولیں، سچ کس طرح بول سکتے ہیں؟ جیسے کھیلتے ہوئے کوئی چیز آپ سے ٹوٹ گئی تو سچ بتانا، کوئی ایسی شرارت کردی جس کے بعد ڈانٹ پڑنے کا ڈر ہو تب بھی جھوٹ نہ بولنا بلکہ سچ کہنا، اور امانت ہم اس طرح رکھ سکتے ہیں جیسے کہ منزہ نے اپنے چپس مائر کو پکڑا کر کہا کہ تم تھوڑی دیر یہ رکھو میں ابھی آتی ہوں، اب جب تک منزہ واپس نہیں آجاتی مائر اس میں سے ایک چپس بھی نہیں کھائے گا کیونکہ وہ منزہ کی امانت ہے جو اس نے مائر کے پاس رکھوائی ہے، البتہ وہ منزہ سے اجازت لے کر کھا سکتا ہے، اسی طرح اگر منزہ کو مائر کا کلر باکس چاہیے تو وہ مائر سے پوچھ کر لے گی اور بہت سنبھال کر استعمال کرے گی کہ کہیں وہ خراب نہ ہوجائیں کیونکہ وہ مائر کی امانت ہے۔“ اس نے مثالوں سے سمجھایا۔
”جب ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں ان چیزوں کا خیال رکھنے لگتے ہیں نا تو پھر یہ ہماری عادت بن جاتی ہیں، اور اچھی باتیں جب عادت بن جائیں تو انسان بھی خودبخود اچھا انسان بن جاتا ہے، سمجھ گئے نا!“ اس نے آخر میں تائید چاہی تو دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا سمجھا رہی ہو؟“ ساحل بھی کہتا ہوا وہاں آیا اور مائر کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”مما ہمیں سمجھا رہی تھیں کہ کس طرح سچ بولنا چاہیے اور کسی کی چیز کا خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ وہ امانت ہوتی ہے۔“ مائر نے جواب دیا۔
”اچھا! تو پھر سمجھ گئے آپ لوگ؟“ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔
”بالکل!“ یک زبان جواب آیا۔
مائر اور منزہ کے سنگل بیڈ بےحد نزدیک رکھے ہوئے تھے۔ اسی لئے مائر کے بیڈ پر بیٹھے ساحل کا گھٹنا منزہ کے بیڈ پر بیٹھی امبرین سے ٹکرا رہا تھا جس سے بچنے کیلئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیونکہ ویسے بھی ساحل کی آمد کے بعد وہ فرار کیلئے پر تولنے لگی تھی۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے، چلو اب آپ لوگ بھی سوجاؤ، گڈ نائٹ!“ ساحل بھی کہتے ہوئے اٹھا اور باری باری دونوں کا ماتھا چوما۔
”اور جو میں نے آیت الکرسی یاد کروائی ہے وہ بھی پڑھ کر سونا دونوں، اس نے نہ ڈر لگتا ہے اور نہ ہارر ڈریمز آتے ہیں۔“ امبرین نے بھی رک کر ممتا بھری اپنائیت سے تاکید کی۔
غیر ارادی طور پر ان بچوں سے اس کا بہت جلد نہایت گہرا رشتہ بن گیا تھا کہ وہ بالکل ایک ماں کی طرح ان کی فکر کرتی تھی۔
”جی مما پڑھ لیں گے، اور پاپا! آپ مما کو بھی گڈ نائٹ کس دیا کریں وہ بتا رہی تھیں کل انہوں نے بہت ہارر ڈریم دیکھا۔“ منزہ کے اچانک کہنے پر امبرین ششدر رہ گئی۔
”ہاں مما، آپ کو پتا ہے جب پاپا گڈ نائٹ کس کرتے ہیں تو بھی ہارر ڈریمز نہیں آتے۔“ مائر بھی جھٹ سے بولا۔
ان دونوں کی باتوں نے امبرین کے چہرے کی ہوائیاں اڑا دی تھیں۔ جب کہ ساحل اس کے تاثرات بھانپتے ہوئے اندر ہی اندر محظوظ ہو رہا تھا۔
”ڈونٹ وری بیٹا، مما میرے ساتھ ہی تو سوتی ہیں، میں انہیں وہاں ”گڈ نائٹ کس“ دے دوں گا۔“ وہ مخاطب بچوں سے تھا مگر اس کی معنی خیز نظریں امبرین پر تھیں۔
”ابھی آپ لوگ بھی سوجاؤ شاباش!“ وہ انہیں کہہ کر مسکراتا ہوا کمرے سے چلا گیا جب کہ امبرین تو اپنی جگہ پر یہ سوچ کر ہی منجمند ہوگئی تھی کہ اگر واقعی اس نے ”گڈ نائٹ کس“ دے دی تو؟
*****************************************
کچھ دیر بعد بمشکل خود کو نارمل کرتے ہوئے جب امبرین نیم اندھیرے کمرے میں آئی تو ساحل بستر پر کمبل اوڑھے لیٹا موبائل میں مصروف ملا۔
وہ سیدھا باتھ روم گئی اور چینج کرکے خود بھی آہستہ سے اپنے بستر پر سیدھی لیٹ گئی۔
اے سی کی ٹھنڈک والے اس کمرے میں دو لوگوں کی موجودگی کے باوجود گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی جو امبرین کو کچھ زیادہ ہی بھاری لگ رہی تھی اور وہ ہی اسے توڑنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
”نیند نہیں آرہی؟ گڈ نائٹ کس دوں؟“ ساحل نے یک ٹک اسے چھت کو تکتا پا کر موبائل چلاتے ہوئے ہی پوچھا۔
امبرین نے پہلے چونک کر اس کی جانب گردن موڑی جو ہنوز موبائل میں مصروف تھا۔ اور پھر کوئی جواب دیے بنا اس نے ساحل کی جانب پشت کرکے کروٹ لے لی۔
ساحل نے محظوظ ہوکر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر خود بھی کروٹ لے کر آنکھیں بند کرلیں۔
*****************************************
شام کا موسم بہت سہانا ہو رہا تھا۔
امبرین کے ہاتھ میں ایک کانچ کا باکس تھا اور اس باکس میں ایک سفید موتی تھا جسے وہ محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے سر سبز گھانس پر چل رہی تھی۔
اچانک کسی چیز سے اس کا پیر ٹکرایا اور وہ منہ کے بل زمین پر گری۔
باکس گھانس پر دور جا گرا۔
اچانک سہانا موسم خطرناک زرد موسم میں بدل گیا۔
اس نے جلدی سے اٹھ کر وہ کانچ کا باکس اٹھانا چاہا مگر اس کے پہنچنے سے قبل ہی سیاہ لباس میں آئے کچھ لوگوں نے وہ باکس اٹھا لیا۔
وہ ہاتھ بڑھا کر بےتابی سے باکس مانگنے لگی۔
ان لوگوں نے نفی میں سر ہلا کر ایک طرف اشارہ کیا۔
امبرین نے ان کے تعاقب میں دیکھا تو دور ایک خوبصورت سفید کبوتر بیٹھا ہوا تھا۔
امبرین نے دوبارہ ان لوگوں کی جانب دیکھا تو وہ اشارے سے کہنے لگے کہ پہلے وہ کبوتر ہمیں لا کر دو پھر ہم تمہارا موتی واپس کریں گے۔
وہ کبوتر پکڑنے اس کی جانب بڑھی مگر جیسے ہی وہ کبوتر کے نزدیک پہنچی تو کبوتر اڑ گیا۔
اس نے پلٹ کر بےبسی سے ان سیاہ لباس والوں کو دیکھا۔
انہوں نے غصے سے وہ کانچ کا باکس زمین پر پھینکا تو ناصرف کانچ زور دار آواز کے ساتھ بکھر گیا بلکہ وہ موتی بھی ٹوٹ گیا۔
”نہیں!“ امبرین دلخراشی سے چلاتی اٹھ بیٹھی۔
اس کی آواز پر ساحل بھی ہڑبڑا کر بیدار ہوا اور فوراً اپنی طرف کا سائیڈ لیمپ آن کیا۔
”کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو؟“ وہ اس کے نزدیک آیا۔
”نہیں۔۔۔انہوں نے۔۔۔۔انہوں نے میرا موتی توڑ دیا۔“ وہ کافی حواس باختہ تھی۔
”کن لوگوں نے؟ اور کون سا موتی؟ تم نے کوئی خواب دیکھا ہے۔“ ساحل نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
اس ڈری ہوئی کیفیت میں جب اسے ایک ہمدرد سہارا میسر آیا تو وہ بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے سینے سے لگ گئی۔
ساحل نے بھی مزید کچھ کہنے یا سننے کے بجائے اس کا سر سہلا کر اسے پرسکون کرتے ہوئے اس کے گرد بازو لپیٹ کر اسے خود میں بھینچ لیا۔
*****************************************
کھڑکی کا دبیز پردہ سونے سے قبل سیدھا نہ کرنے کا نتیجہ تھا کہ سورج کی کرنیں زمین پر اترتے ہی کانچ کی کھڑکی پار کر، وہاں چلی آئی تھیں جہاں امبرین ساحل کی آغوش میں بےخبر سو رہی تھی۔
وہ ایسے ہی نہ جانے کتنی دیر مزید سوتی رہتی اگر روشنی کے احساس پر اس کی آنکھ نہ کھلتی!
آہستہ آہستہ بیدار ہونے پر جب اس نے دیکھا کہ وہ ساحل سے لپٹ کر سوئی ہوئی ہے تو اگلے ہی پل وہ سرعت الگ ہوگئی۔
ساحل ابھی تک گہری نیند میں تھا۔
وہ حیران سی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے سوچنے لگی کہ بھلا ایسا کیسے ہوگیا؟ وہ دونوں تو بہت فاصلہ رکھ کر سوتے تھے تو پھر اتنے قریب کیسے آگئے؟
تب ہی اسے یاد آیا کہ وہ آدھی رات کو ڈر کر اٹھی تھی جس کے بعد سہم کر ساحل کی آغوش میں ہی نہ جانے کب سوگئی پتا ہی نہیں چلا؟
اپنی اس بےاختیاری پر اسے شدید ملال ہوا اور خود کو جی بھر کر کوستے ہوئے وہ باتھ روم میں چلی گئی۔
جب کہ ساحل ہنوز سوتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ شاور لے کر، سر پر سفید تولیہ لپیٹے باہر آئی تو ساحل بیدار ہوچکا تھا۔
”گڈ مارننگ، اب کیسی ہو تم؟“ وہ پوچھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھا۔
”ٹھیک ہوں۔“ آہستگی سے جواب آیا۔
”رات کو شاید کوئی برا خواب دیکھ کر ڈر گئی تھی تم، آیت الکرسی پڑھ کر نہیں سوئی تھی!“ وہ کہتے ہوئے بیڈ پر سے اٹھا۔
”بھول گئی تھی۔“ اس نے نظریں جھکائیں۔
”منزہ ٹھیک کہہ رہی تھی، تمہیں بھی گڈ نائٹ کس دے دینی چاہیے تھی۔“ وہ معنی خیزی سے کہتا قریب آیا تو اس نے یکدم حیرت زدہ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
اف! یہ اٹھتی جھکتی پلکیں۔۔۔۔۔۔وہ بس آہ بھر کر رہ گیا۔
وہ مسکراتا ہوا باتھ روم چلا گیا جب کہ وہ خود کو نارمل کرتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آگئی۔
پہلے اس نے بال تولیے سے آزاد کرکے سکھائے اور پھر تھوڑا ہار سنگھار کرنے لگی کیونکہ بقول عصمت خاتون کے وہ ایک نئی نویلی دلہن تھی۔اور دلہنوں کو تھوڑا سج سنور کر رہنا چاہئے سو کچھ دنوں سے اب وہ اپنے حلیے کا خاص خیال رکھنے لگی تھی۔
شیفون کے سی گرین سوٹ کی مناسبت سے اس نے کانوں میں سلور کے نازک سے ایئر رنگز پہنے جب کہ گلے میں ساحل کا دیا نازک سا ڈائمنڈ لاکٹ تو پہلے ہی موجود تھا۔
لمبے سیاہ بال سکھانے کیلئے پشت پر کھلے چھوڑ کر وہ ہاتھوں میں اسٹیل کی چوڑیاں پہننے لگی۔
تب تک ساحل بھی تولیے سے بال رگڑتا باہر آگیا تھا۔
ایک نظر امبرین کو دیکھنے کے بعد اس نے حسب عادت تولیہ صوفے پر پھینکا اور اپنی سفید شرٹ کے بٹن لگاتے ہوئے وہ آفس جانے کیلئے تیار ہونے لگا۔
”سنو امرین!“ گردن کے گرد سرخ ٹائی لٹکائے یکدم کسی خیال کے تحت وہ پکارتا ہوا اس کی جانب آیا۔
”میرا نام امرین نہیں امبرین ہے۔“ اس نے گردن موڑ کر آہستہ سے تصحیح کی جو اب اپنے آدھے بالوں میں کیچر لگا رہی تھی۔
”ایک تو تمہارا نام بہت مشکل ہے، زبان پر ہی نہیں آتا۔“ ساحل نے کہتے ہوئے عقب سے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لیا۔ اس کی قربت پر وہ پھر سے گھبرا گئی اور دھڑکنوں میں طلاطم مچا۔
کبھی کبھی وہ اس بات کو سوچ کر الجھ سی جاتی تھی کہ بھلا اپنی دوسری بیوی پر کوئی اتنا والہانہ پن کیسے لٹا سکتا ہے؟
”اگر میں تمہیں جانم کہوں تو چلے گا!“ ساحل نے ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکاتے ہوئے، شیشے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھ کر شوخی بھرے لاڈ سے کہا تو وہ بےساختہ شرم سے گلابی ہوگئی۔
”میرے خیال سے میں کہہ سکتا ہوں کیونکہ تم بیوی ہو میری۔“ وہ خود ہی نتیجے پر پہنچ گیا۔
”ہاں تو جانم میں کہہ رہا تھا کہ ذرا میری ٹائی تو باندھ دو۔“ ساحل نے یکدم اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔
وہ تعجب خیز نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”اب یہ مت کہنا کہ تمہیں ٹائی باندھنا نہیں آتی، میں نے تمہیں مائر کو ٹائی باندھتے دیکھا ہے، اور تم کافی اچھی ٹائی باندھتی ہو۔“ ساحل نے دونوں ہاتھ اس کی کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے پہلے ہی وہ بنیاد گرادی جس پر وہ اپنے بہانے کا بت کھڑا کرسکتی تھی۔
”تھوڑا۔۔۔۔تھوڑا دور ہوں۔۔۔ایسے میرا ہاتھ نہیں چلے گا۔“ اس نے پلکیں جھکائیں بمشکل کہا کیونکہ ساحل کی حد درجہ قربت اس کے حواس منجمند کردیا کرتی تھی۔
”بس۔۔۔؟ اس سے زیادہ دور نہیں ہونا چاہتا تم سے۔“ وہ اپنا گھیرا تھوڑا ڈھیلا کرکے دو قدم پیچھے ہوا مگر ہاتھ اب بھی اس کی کمر پر تھے اور لہجہ گھمبیر تھا۔
وہ کچھ نہیں بولی اور نظریں ملائے بنا ٹائی باندھنے لگی۔
اس کے ہاتھوں کی مبہم کپکپاہٹ وہ اچھی طرح بھانپ رہا تھا۔ جب کہ یہ جھکی ہوئی لرزتی پلکیں تو ویسے ہی ہر وقت اس کا امتحان لیتی تھی۔
اب بھی سارے حق رکھتے ہوئے اتنے نزدیک ہونے کے باعث دل میں بےساختہ شدید خواہش اٹھی کہ ایک بار تو لبوں سے ان جھکی ہوئی آنکھوں کو چھو لیا جائے!
لیکن فی الحال اس نے یہ خواہش دبا لی۔
بمشکل ٹائی باندھتی امبرین اس کی پُرحدت نظروں سے پزل ہوکر سوچ رہی تھی کہ بول دے میرے آنے سے پہلے بھی تو آپ خود ہی ٹائی باندھ کر آفس جاتے تھے ناں! تو اب یہ کیا شوق اٹھ گیا ہے؟ لیکن وہ ایسا کہنے کی جرت نہیں کرسکتی تھی۔
”ان کی پہلی بیوی بھی ان ہی چھچھوری حرکتوں سے تنگ ہوکر گئی ہوگی!“ اس نے کوفت سے دل میں سوچا۔
”نہیں میری پہلی بیوی اس وجہ سے تنگ ہوکر نہیں گئی تھی۔“ ساحل نے اطمینان سے جواب دیا تو وہ حیرت زدہ پھٹی پھٹی نظریں اٹھائے اسے دیکھنے لگی کہ اسے کیسے پتا چلا؟
”تم تو ایسے حیران ہو رہی ہو جیسے میں نے تمہاری سوچ بالکل صحیح پڑھ لی ہو! یہ ہی سوچ رہی تھی کیا؟“ اس کی حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے ساحل نے معنی خیزی سے پوچھا تو اس نے گڑبڑا کر نظریں جھکالیں کہ کہیں یہ شخص آنکھوں سے دل میں ہی نہ اتر جائے!
”ٹائی بندھ گئی!“ اس نے دھیرے سے اطلاع دیتے ہوئے موضوع بدلا۔
”مطلب اب ہم قریب آسکتے ہیں!“ ساحل نے کہتے ہوئے اسے دوبارہ اپنے قریب کرکے گھیرا تنگ کرلیا۔
مطلب اسے ٹائی سے کوئی غرض نہیں تھی اسے تو بس قریب آنا تھا۔
”آپ۔۔۔آپ لیٹ ہوجائیں گے۔“ وہ نظریں جھکائے ہوئے ہی تھوڑا کسمسائی۔
”روز تو وقت پر ہی جاتا ہوں یار، آج تھوڑی دیر سہی!“ اس کے معنی خیز ارادے آسانی سے ٹلنے والے نہیں لگ رہے تھے۔
”ایک بات تو بتاؤ، کیا تمہیں میرا قریب آنا اچھا نہیں لگتا؟“ اس نے سادگی سے استفسار کیا۔ گویا آج وہ اس سے بات کرنے کے موڈ میں تھا۔
”نہیں تو!“ وہ حصار میں رہ کر ہی پیچھے کی طرف الٹے قدم اٹھانے لگی۔
”کیا نہیں تو؟“ وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا تھا۔
”میرا مطلب۔۔۔مجھے۔۔۔مجھے بھلا کیوں اچھا نہیں لگے گا؟“ اسے الٹا سوال ہی ٹھیک لگا۔
”یہ تو تم ہی بتا سکتی ہو کہ کیوں اچھا نہیں لگتا؟“ اس نے بھی سوال کا رخ موڑ دیا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ وہ دیوار سے لگ چکی تھی۔
”اچھا! تو پھر میرے قریب آنے پر تم ایسے گھبرا کیوں جاتی ہو جیسے مجھ سے دور بھاگنا چاہتی ہو!“ اس نے صاف گوئی سے سوال کرتے ہوئے ایک ہاتھ دیوار پر ٹکا لیا جب کہ دوسرا بازو ہنوز کمر کے گرد حمائل تھا۔
وہ پلکیں جھکائے کشمکش کا شکار تھی کہ کیا جواب دے جو اسے مطمئن کرسکے!
”دراصل یہ سب بہت نیا ہے میرے لئے۔۔۔۔۔اسی لئے تھوڑا ٹائم لگے گا سب ایکسیپٹ کرکے ایڈجسٹ کرنے میں، ان سب کی عادت نہیں ہے ناں!“ اس نے بات گول مول کی۔
”تو عادت ڈال لو جانم! کیونکہ میں نے اپنی شادی شدہ زندگی کے حوالے سے بہت خواب دیکھے ہیں جو انفارچنیٹلی پہلی شادی میں تو پورے ہو نہیں پائے لیکن اب تمہارے ساتھ میں ان سب خوابوں کو جینا چاہتا ہوں، تم ساتھ دو گی ناں میرا؟“ جب وہ شدتِ جذبات سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا تو امبرین کی نظریں بےساختہ اس کی جانب اٹھ گئی تھیں اور بات کے اختتام پر جس لاڈ سے اس نے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا اس پر نہ جانے کیسے بےاختیاری میں امبرین نے سرہلا دیا۔
”تھینکس!“ ساحل نے مسکرا کر کہتے ہوئے آہستگی سے اس کا ماتھا چوم لیا اور یہ لمس اس کے پورے جسم میں بجلی بن کر دوڑا۔
”سوری تم سے اجازت لئے بنا کِس کرلیا۔“ وہ سادگی سے بولا۔
”ان چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے آپ کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔“ نظریں جھکائے وہ بےاختیار ہی کہہ گئی کیونکہ درحقیقت اسے بھی ساحل کی قربت اچھی لگنے لگی تھی۔
”سچ میں؟“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
اس نے جھکی پلکوں کے ہمراہ لبوں پر بےساختہ امڈتی شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔
ساحل نے کچھ کہنے کے بجائے دوبارہ اس کا ماتھا چوما۔
امبرین نے بےساختہ دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھتے ہوئے دلفریب خماری کے زیر اثر آنکھیں بند کرلیں۔
ساحل نے دونوں بازو اس کے گرد لپیٹ کر اسے خود سے بےانتہا قریب کر لیا تھا اور وہ بھی خودسپردگی کے اس مقام پر تھی کہ اگر وہ ہاتھ ہٹاتا تو وہ گر جاتی۔ یعنی وہ بھی پوری طرح اس کی بانہوں میں مدہوش ہوچکی تھی اور اس کے بالوں سے اٹھتی شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو ساحل پر بھی مدہوشی طاری کرنے لگی تھی۔
ساحل نے آہستہ سے اس کی جھکی پلکوں کو چوما، نرم رخسار کا بوسہ لیا اور پھر بےساختہ اس کے عنابی لب امبرین کے نازک لبوں کی جانب بڑھنے لگے۔
حسین اتفاق یہ تھا کہ دوسری جانب بھی ایسی ہی خواہش مچل رہی تھی۔
ماہِ پیکر
میں تیرے گلاب لبوں کو
چھونا چاہتا ہوں
میں تیری قربتوں کے چراغوں سے
لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں
تاکہ محسوس کر سکوں
خوشبو کو چُھونا کیسا لگتا ہے
تاکہ جان سکوں
میٹھی آگ میں سلگنا کیسا لگتا ہے
اس سے قبل کہ یہ لب ٹکرا کر ملن کا لطف چکھ پاتے کمرے کے دروازے پر ہوئی دستک نے یہ خوبصورت سحر توڑ دیا۔
امبرین نے تقریباً بند ہوچکی اپنی آنکھیں ایسی کھولیں جیسے وہ گہری نیند سے ہوش میں آگئی ہو اور ایسا ہی حال ساحل کا تھا۔
دونوں اب بھی ایک دوسرے کی بانہوں میں تھے اور نینوں کی ڈور آپس میں الجھ گئی تھی۔
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔
اب نینوں کے الجھے دهاگے ٹوٹے اور ساحل نے اپنے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا۔
وہ نظریں جھکا کر منتشر ہوتی دھڑکنوں کو بمشکل سنبھالتے ہوئے جلدی سے دروازہ کھولنے آئی۔
”ہم کب سے آپ کا ویٹ کر رہے ہیں مما! ہمیں اسکول کیلئے ریڈی کردیں۔“ دوسری جانب کھڑی منزہ نے معصومیت سے کہا جو کافی دیر راہ تکنے کے بعد اب اسے بلانے چلی آئی تھی۔
”آپ کے پاس ہی آرہی تھی بیٹا، چلو!“ وہ کہتے ہوئے اس کے ساتھ ہی چلی گئی۔
جب کہ ساحل بھی مسکراتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آگیا اور شیشے میں اپنی ٹائی کو دیکھتے ہوئے بال بنانے لگا جو بلاشبہ اس نے بہت نفیس انداز میں باندھی تھی۔
مگر ٹائی کی خوبصورتی سے زیادہ ان لمحات نے ایک عجیب سا سرور طاری کردیا تھا جو ابھی ابھی گزرے تھے اور اب وہ ان میں دوبارہ پوری شدت سے جینا چاہتا تھا۔
*****************************************
بچوں کو تیار کرنے کے بعد جب امبرین عصمت خاتون کے کمرے میں آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ان کے دو بیگز سامنے رکھے ہوئے تھے اور باقی سامان وہ غالباً اپنے پرس میں اکھٹا کر رہی تھیں۔
”یہ سب کیا ہے؟ آپ کہیں جا رہی ہیں کیا؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”ہاں، اپنے ٹھکانے پر واپس جا رہی ہوں۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟“ وہ اور الجھی۔
”مطلب ان کا کہنا ہے کہ اب تمہارا گھر سنبھالنے والی تو آگئی ہے اسی لئے اب مجھے چھٹی دو کہ اب مجھے اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔“ تب ہی ساحل بھی کہتا وہاں آیا۔ مطلب وہ ان سب کے بارے میں جانتا تھا۔
”لیکن ایسے کیسے اچانک جا سکتی ہیں آپ؟“ امبرین بےحد متفکر ہوگئی۔
”اچانک نہیں جا رہی بیٹا، یہ بات تو اول روز سے طے تھی۔“ وہ بھی کہتی ہوئیں ان کی جانب آئیں۔
”میں یہاں صرف اسی لئے آئی تھی کہ فروا کے جانے کے بعد ساحل کا اکیلے آفس اور بچوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، اور اس نے کہا تھا کہ جب تک اسے اپنے بچوں کیلئے مخلص ماں نہیں ملتی یہ دوسری شادی نہیں کرے گا، اب جب خیر سے تم آگئی ہو تو سمجھو یہ گھر مکمل ہوگیا ہے، اب تمہیں یہ گھر اور گھر والے سنبھالنے ہیں۔“ انہوں نے کہتے ہوئے یوں امبرین کے کندھے پر ہاتھ رکھا گویا کہہ رہی ہوں کہ اب اس گھر کی ذمہ داری تمہارے کندھوں پر ہے۔
”ٹھیک ہے کہ اب میں آگئی ہوں لیکن آپ کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم سب ساتھ مل کر بھی تو رہ سکتے ہیں نا! پھر مائر اور منزہ بھی تو اداس ہوجائیں گے آپ کے جانے سے۔“ وہ کچھ بھی کرکے انہیں روکنا چاہ رہی تھی۔
”مائر اور منزہ سے میری بات ہوگئی ہے، وہ ہر ہفتے آتے رہیں گے مجھ سے اور اپنے کزنز سے ملنے، اور میں بھی کبھی کبھی یہاں رہنے آجایا کروں گی۔“ انہوں نے سہولت سے یہ مسلہ بھی حل کردیا۔
”آپ کچھ بولیں ناں!“ کوئی راستہ نظر نہ آنے پر وہ ساحل کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔
”میں نے بولا تھا تب ہی یہ ایک ہفتہ مزید رک گئیں، ورنہ ان کا ارادہ ہمارے نکاح کے اگلے دن ہی جانے کا تھا۔“ ساحل نے سادگی سے انکشاف کیا۔
وہ لاجواب ہوکر بےبسی سے انہیں دیکھنے لگی۔
”تم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو بیٹا؟ میں آتی جاتی رہوں گی۔“ انہوں نے رسان سے تسلی دی۔
وہ کچھ نہ بولی۔
”چلیں ناشتہ کرلیتے ہیں پھر آپ کو ڈراپ کرتے ہوئے مجھے آفس بھی جانا ہے۔“ ساحل نے گفتگو سمیٹی۔
”ہاں، ذرا کرم داد کو بھیج دو سامان گاڑی میں رکھوانا ہے۔“ ان کے کہنے پر ساحل سر ہلا کر چلا گیا جب کہ وہ رسان سے امبرین کی جانب متوجہ ہوئی جو یہ سوچ رہی تھی کہ جو شخص اکثر ان کے سامنے اتنا معنی خیز ہوجاتا ہے وہ تنہائی میں کیا کچھ کرسکتا ہے اور کرے گا؟ اور اگر وہ کچھ کر گزرا تو کیا وہ اسے روک پائے گی؟
یہ خیال آتے ہی اس کے پورے وجود میں عجیب سی سرسراہٹ دوڑ گئی کیونکہ وہ خود بھی اکثر ساحل کی قربت میں بےاختیار ہوجاتی تھی جیسے ابھی کچھ دیر پہلے ہوگئی تھی۔ اور اگر یہ بےاختیاری بڑھ جاتی تو امبرین کبھی وہ سب نہیں کر پاتی جو کرنے کیلئے اسے یہاں بھیجا گیا تھا۔
*****************************************
عصمت خاتون کے جانے پر بچے بھی ذرا اداس ہوگئے تھے تو سب کا موڈ بدلنے کیلئے ساحل آج سب کو ڈنر کیلئے باہر لے آیا تھا۔
”پاپا کل ہمیں ہماری فرینڈ فاطمہ کے گھر جانا ہے پلیز!“ منزہ نے کھانا کھاتے ہوئے اچانک فرمائش کی۔
”آپ کی اسکول فرینڈ فاطمہ! ابھی کچھ دن پہلے ہی تو آپ دونوں اس کی برتھ ڈے پارٹی پر گئے تھے ناں بیٹا!“ ساحل نے بھی کھانے کھاتے ہوئے یاد کیا۔
”گئے تھے بٹ آج اس نے بتایا کہ کل اس کے گھر ایک چھوٹی سی پیاری سی بےبی سسٹر آئی ہے، اور ہمیں اسے دیکھنا ہے۔“ مائر نے وجہ بتائی۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں ڈرائیور کو کہہ دوں گا کہ آپ کو لے جائے۔“ وہ باآسانی رضا مند ہوگیا۔
”ویسے کیا ہم بھی اپنے گھر ایک کیوٹ سی بےبی سسٹر لاسکتے ہیں پاپا؟“ منزہ نے معصومیت سے سوال کیا تو اب تک خاموشی سے کھانا کھاتی امبرین چونکی۔
”بالکل لاسکتے ہیں۔“ ساحل کے ہاتھ پھر ایک شریر موقع آگیا تھا۔
”ہیں! تو جلدی سے لے آئیں نا!“ دونوں یکدم پرجوش ہوگئے۔
”میں اکیلے نہیں لاسکتا، اس کیلئے آپ کی مما کو بھی ساتھ جانا پڑے گا۔“ اس نے بہت ہوشیاری سے توپ کا رخ امبرین کی جانب کیا جو پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
”مما پلیز آپ چلی جائیں نا پاپا کے ساتھ۔۔۔۔اور ہمیں ایک کیوٹ سی بےبی سسٹر لا دیں، پلیز!“ دونوں نے اب اس کا دامن پکڑ لیا۔
”بیٹا بےبی ایسے نہیں آتے۔“ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے؟
”تو پھر کیسے آتے ہیں؟“ منزہ نے جھٹ سے سوال کیا۔
”جیسے آتے ہیں ویسے لے آئیں ناں!“ مائر بھی فوراً بولا۔
ان کی باتوں سے وہ مزید پزل ہوگئی۔ جب کہ ساحل تیلی لگانے کے بعد اب خاموش تماشائی بنا لطف اندوز ہو رہا تھا۔
”بیٹا ابھی آپ لوگ کھانا کھاؤ، میں نے بتایا تھا نا کہ کھانا کھاتے ہوئے بات نہیں کرتے، اللہ پاک کو پسند نہیں، ہم گھر چل کر بعد میں اس بارے میں بات کریں گے۔“ اسے اور کوئی حل نہ ملا تو اس نے بات ہی ختم کردی۔
بچے کھانے کی جانب متوجہ ہوگئے تھے جب کہ وہ خفگی سے ساحل کو گھور کر رہ گئی جو اس ساری صورت حال سے بےحد محظوظ ہوتے ہوئے مزے سے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔
*****************************************
خوشگوار ماحول میں ڈنر کرنے کے بعد اب وہ لوگ ریسٹورانٹ سے باہر آگئے تھے۔
مائر اور منزہ تو پہلے ہی گاڑی کی چابی لے کر پارکنگ لارڈ کی جانب بھاگ گئے تھے۔ یہ دونوں البتہ متوازن انداز سے چلتے ان کے پیچھے جا رہے تھے۔
”ویسے تم گھر جا کر بچوں کو بےبیز کے بارے میں کیا بتاؤ گی؟“ ساحل نے چلتے ہوئے جان بوجھ کر اسے چھیڑا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”اوہ ہو! زھے نصیب!“ امبرین کے کچھ کہنے سے قبل ہی ایک مردانہ آواز پر دونوں نے سامنے دیکھا۔
ظفر کرمانی اور ان کا بازو تھامے فروا ان کی جانب آچکے تھے۔
”زھے نصیب کہ آپ سے ملاقات ہوگئی ورنہ آپ تو اپنے دیدار کا شرف ہی نہیں بخشتے۔“ کرمانی ان کے مقابل رک کر گویا ہوا جس کا ساحل نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جب کہ گہرے سرخ رنگ کا بےحد چست لباس پہنے نک سک سے تیار فروا ساحل کے پہلو میں کھڑی امبرین کا سرتاپا جائزہ لینے لگی جس نے نفیس سا گہرا نیلا سوٹ پہنا ہوا تھا۔
”سنا تھا تم نے دوسری شادی کرلی ہے، تو یہ ہے تمہاری دوسری بیوی!“ فروا کا انداز تجزیہ کرتا ہوا تھا۔
”جب موو آن کرنے ہی لگے تھے تو ذرا سوچ سمجھ کر کرتے، اتنے بڑے سرکل میں تمہیں بس یہ ہی لڑکی ملی!“ اس کا انداز تضحیک آمیز تھا۔
”ہاں، اتنے بڑے سرکل میں بس یہ ہی وہ واحد لڑکی ملی مجھے جو میرے بچوں سے ان کی سگی ماں سے بھی زیادہ مخلص ہے۔“ ساحل نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اوہ! مطلب تم نے اسے اپنے شیطان بچوں کی آیا گری کرنے کیلئے رکھا ہے!“ وہ طنزیہ انداز سے نتیجے پر پہنچی۔
”نہیں، یہ آیا نہیں ربة البيت ہے۔“ ساحل کی بات پر تینوں کے چہروں پر ناسمجھی ابھری کیونکہ تینوں کیلئے یہ لفظ نیا تھا جو ابھی ساحل نے کہا۔
”اوہ سوری! تمہیں تو ربة البيت کا مطلب ہی نہیں پتا ہوگا، چلو میں ہی بتا دیتا ہوں۔“ اسے یکدم خیال آیا۔
”اس کا مطلب ہوتا ہے گھر کی ملکہ، عربی میں یہ نام ان عورتوں کو دیا گیا ہے جو وفاشعاری سے اپنے شوہر کی آبرو کی حفاظت کرتی ہیں اور گھر کو سنبھالتی ہیں۔“ اس نے امبرین کو دیکھتے ہوئے فخریہ انداز میں وضاحت کی۔
”مگر تمہارا تو وفا اور آبرو جیسے لفظوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے تو تمہیں کہاں پتا ہوگا ان سب کے بارے میں!“ اس نے طنزیہ انداز میں دوبارہ فروا کی جانب دیکھا۔
”زبان سنبھال کر!“ کرمانی نے ناگواری سے تنبیہہ کی۔ ایسا ہی تاثر فروا کا بھی تھا۔
”اس مشورے پر اگر آپ دونوں عمل کریں تو زیادہ بہتر ہے، کیونکہ ہم تو چپ چاپ اپنے راستے جا رہے تھے، آپ نے روک کر سوال کیا تو اب جواب سننے کی ہمت بھی رکھیے۔“ ساحل کا لہجہ ٹھہرا ہوا تھا مگر انداز تیکھا تھا۔
”اور اگر جواب سننے کی ہمت نہ ہو تو آئندہ بیچ راہ میں ٹوک کر اپنا اور ہمارا وقت برباد مت کیجئے گا۔“ اس نے اسی طرح مزید کہا اور پھر امبرین کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
جب کہ وہ دونوں وہیں کھڑے ناگواری سے انہیں دیکھ کر رہ گئے۔
*****************************************
گھر واپس آنے کے بعد امبرین نے بچوں کو چینج کروا کر بستر پر لٹا دیا تھا۔ حسب معمول ساحل انہیں ”گڈ نائٹ کس“ دے کر جا چکا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب بچوں کی آنکھوں میں نیند اترنے لگی تو امبرین بھی اپنے کمرے میں آگئی جہاں حسب توقع ساحل چینج کرکے بستر پر نیم دراز تھا۔
وہ بھی چینج کرنے کے بعد آہستہ سے اپنے بستر پر آ بیٹھی۔ ساحل اپنے ہاتھ میں چھوٹا سا کیلنڈر پکڑے ماركر سے اس پر کچھ نشان لگا رہا تھا۔
امبرین اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔
”کچھ کہنا ہے تو کہہ سکتی ہو۔“ اپنے کام میں مصروف ساحل اس کی بےچینی بھانپ گیا۔
”وہ دونوں جو ہمیں ریسٹورانٹ کے باہر ملے، وہ کون تھے؟“ اس نے بلآخر پوچھ ہی لیا۔
”میری ایکس وائف فروا اور اس کا موجودہ ہسبنڈ ظفر کرمانی۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”آپ نے ان کے سامنے مجھے۔۔۔۔مجھے ربة البيت کیوں کہا؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔
”کیوں! تمہیں اچھا نہیں لگا؟“ ساحل نے اس کی جانب دیکھا۔
”نہیں وہ بات نہیں ہے۔۔۔۔۔دراصل ابھی ہماری شادی کو صرف کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔اور آپ نے مجھے اتنا اونچا مقام دے دیا۔“ وہ نظریں جھکائے کمبل کی سلوٹوں سے کھیلنے لگی۔
اس کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہی ہو کہ میں اس مقام کے لائق نہیں ہوں۔
”جب میں نے تمہیں اپنے نکاح میں قبول کیا تھا نا تب ہی سے تم میرے لئے ربة البيت ہوگئی تھی، میرے گھر کی ملکہ، اور اب آہستہ آہستہ دل پر بھی قبضہ کر رہی ہو، آج نہیں تو کل تمہارے حصے میں یہ لقب آنا ہی تھا، تو آج ہی سہی!“ وہ مسکرا کر کہتا ہوا اس کی جانب جھکا تو وہ بھی بےاختیار اسے دیکھنے لگی۔
”ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے بادشاہت کب ملے گی؟“ اس نے دلچسپی سے سوال کیا۔
”آپ تو پہلے ہی اس گھر کے بادشاہ ہیں، یہ سب آپ کا ہی تو ہے۔“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے گویا دھیان دلایا۔
”اور تم؟“ اگلے سوال پر اس کی پلکیں خودبخود اٹھ گئیں۔
”کیا تم بھی میری ہو؟ اور تمہارا دل بھی میری سلطنت میں آتا ہے؟“ گہری نظریں اور گھبیر انداز اسے اپنے سحر میں جکڑ رہے تھے۔
”اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس وقت میں آپ کے پاس نہیں ہوتی۔“ اس نے نظریں پھیرتے ہوئے گول مول جواب دیا۔
”پاس ہوکر بھی تو اب تک دور ہی ہو تم!“ اس کے بےساختہ انداز میں عجیب سا شکوہ کرتی طلب تھی۔
”میں نے کہا ناں کہ مجھے بس تھوڑا وقت چاہیے، اور کوئی بات نہیں ہے۔“ اس نے دھیرے سے یاد دلایا۔
”مجھے یاد ہے، اور کہیں غلطی سے بھول نہ جاؤں اسی لئے یاد دہانی کرتا رہتا ہوں۔“ ساحل نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا کیلنڈر اس کی جانب کیا۔
کیلنڈر پر دو اکتوبر سے لے کر آج کی تاریخ تک سرخ مارکر سے کٹ کا نشان بنایا گیا تھا۔ جب کہ دو نومبر کے خانے پر اسی سرخ مارکر سے ایک چھوٹا سا دل بنایا ہوا تھا۔
”آپ دن گن رہے ہیں؟“ وہ حیرت سے نتیجے پر پہنچی۔
”ہاں، دیکھو دو اکتوبر کو ہماری شادی ہوئی تھی، تو اس حساب سے دو نومبر کو ایک مہینہ ہوجائے گا، تم نے ایک مہینے کا وقت مانگا تھا نا، آج سترہ دن ہوگئے ہیں، اب ٹوٹل چودہ دن باقی ہیں ہماری شادی مکمل ہونے میں۔“ اس نے مزے سے سارا حساب کتاب بتایا۔
جب کہ وہ حیرت زدہ نظروں سے اسے یوں دیکھ رہی تھی گویا اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو!
تنہائی میں وہ کہیں سے دو چھے سالہ جڑواں بچوں کا باپ اور ایک سنجیدہ بزنس مین نہیں لگتا تھا۔ بلکہ اس کی شوخیاں، شرارتیں اور نادانیاں کسی الہڑ نوجوان کے جیسی ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی امبرین کو شک گزرتا تھا کہ کہیں ساحل کو ملٹیپل پرسنیلٹی ڈساڈر جیسی تو کوئی بیماری نہیں تھی جس میں ایک انسان کے کئی روپ ہوتے ہیں؟
لیکن ایسا نہیں تھا۔
در حقیقت ساحل ان لوگوں میں سے تھا جو موقعے کی مناسبت سے خود کو اس رنگ میں ڈھال لیتے تھے جس کی اس وقت ضرورت ہوتی تھی۔
جیسے کہ آفس میں ایک سنجیدہ باس، بچوں کیلئے پُرشفیق باپ، خالہ کا فرمابردار بھانجا، اور بیوی کیلئے ایک رومانٹک شوہر!
”کہاں کھو گئی؟“ خود کو یک ٹک دیکھتا پا کر ساحل نے نظروں کے سامنے چٹکی بجائی۔
وہ بھی یکدم چونک کر جیسے ہوش میں آئی۔
”کچھ نہیں۔۔۔سوجائیں آپ، تھک گئے ہوں گے۔“ وہ ٹالنے والے انداز میں کہہ کر کمبل اوڑھتے ہوئے لیٹ گئی۔
اس نے بھی مزید کوئی بات کیے بغیر کیلنڈر اور مارکر سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا اور اپنے سائیڈ کا لمپ آف کرکے کمبل اوڑھ لیا۔
ایک تو مشکل سے میسر ہوتی ہیں خلوتیں
اوپر سے انہیں شوق ہے پارسا رہنے کا
*****************************************
اگلے روز ساحل حسب معمول آفس چلا گیا تھا جب کہ بچے بھی اسکول سے آنے کے بعد حسب منصوبہ ڈرائیور کے ہمراہ اپنی اسکول فرینڈ فاطمہ کے گھر چلے گئے تھے۔
ملازم سرونٹ کواٹر میں تھے اور امبرین گھر میں اکیلی تھی۔ یہ موقع اس کیلئے غنیمت تھا۔
اس نے بہت سوچ بچار کرنے کے بعد الماری کھولی اور شش و پنج کے عالم میں اس سیاہ لاکر کو دیکھنے لگی جس کا چار ہندسوں پر مشتمل کوڈ اب اسے معلوم تھا۔
اس کا انداز یوں تھا گویا اپنے عمل کو لے کر کشمکش کا شکار ہو!
کچھ دیر اسی کیفیت میں رہنے کے بعد بلآخر اس نے اپنا لرزتا ہوا دایاں ہاتھ اٹھایا اور شہادت کی انگلی سے آہستہ آہستہ نمبر ڈائل کرنے لگی۔
ہر نمبر پریس کرتے ہوئے اسے ساحل کا وہ لمس، وہ آواز، وہ سانسیں پوری شدت سے یاد آرہی تھیں جو اس روز ساحل کے کوڈ بتانے کے دوران اس نے محسوس کی تھی۔
کوڈ انٹر کرکے اس نے جیسے ہی لاک گھمایا۔۔۔۔۔۔۔۔
”امبرین بی بی!“ پکار پر اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور وہ سب یوں ہی چھوڑ کر بجلی کی سی تیزی سے پلٹی۔
دروازے پر امینہ کھڑی تھی۔
”کیا ہوا؟“ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
”صاحب کے نام کا کوریئر آیا ہے، آکر لے لیں۔“ اس نے سادگی سے اطلاع دی تو امبرین الماری بند کرکے باہر کی جانب بڑھ گئی۔
جب کہ چوری پکڑی جانے کے ڈر سے کانپنے والا اس کا دل کافی دیر تک ایسے دھڑکتا رہا جیسے ابھی پسلی توڑ کر باہر آئے گا اور سارا راز بتا دے گا!
*****************************************
دن ڈھلنے کے بعد رات نکل آئی تھی اور حسب معمول چاروں ڈنر کیلئے ڈائینگ ٹیبل پر اکھٹا تھے جہاں مائر اور منزہ اپنی فرینڈ فاطمہ کی بےبی سسٹر کی شان میں مسلسل زمین آسمان کے قلبے ملا رہے تھے۔
”وہ اتنی چھوٹی سی، اتنی سوفٹ سی تھی ناں پاپا بالکل ڈول جیسی۔“ منزہ نے بتایا۔
”نہیں، وہ ڈول سے بھی زیادہ پیاری تھی۔“ مائر نے تصحیح کی۔
”اچھا! اور اس پیاری سی چھوٹی سی ڈول کا نام کیا رکھا ان لوگوں نے؟“ ساحل نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا۔
”فلزہ!“ یک زبان جواب آیا۔
”اور پتا ہے پاپا اس کے ہاتھ اتنے چھوٹے چھوٹے سے تھے، اتنے چھوٹے۔“ منزہ نے انگوٹھا اور شہادت کی انگلی ملا کر بتایا۔
”بےبیز ایسے چھوٹے سے ہی ہوتے ہیں بیٹا۔“
”کیا آپ ہمارے لئے بھی ایسا چھوٹا سا بےبی نہیں لا سکتے پاپا؟“ مائر کی فرمائش پر نوالہ چباتی امبرین کا منہ بےساختہ ساکت ہوا۔
”کل بتایا تو تھا بیٹا کہ میں اکیلے نہیں لا سکتا۔“ ساحل کی رگِ مزاح دوبارہ پھڑک اٹھی تھی جس کا سیدھا ہدف امبرین تھی۔
”مما آپ نے کہا تھا کہ آپ بتائیں گی بےبیز کیسے آتے ہیں؟ آپ نے بتایا بھی نہیں اور آپ لے کر بھی نہیں آئیں۔“ مائر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ فوری طور پر کیا جواب دے!
”بتاؤ امبرین بےبیز کیسے آتے ہیں؟“ ساحل فل شرارت کے موڈ میں تھا۔
”دیکھو بیٹا۔۔۔۔۔“ اس نے بمشکل بولنے کیلئے لب کھولے۔
”سب بےبیز پہلے اللہ پاک کے پاس ہوتے ہیں، اور جب اللہ پاک کا آرڈر ہوتا ہے تو ایک اینجل آکر مما پاپا کو بےبی دے جاتا ہے۔“ ساحل کی موجودگی میں بہت مشکل سے اس نے جواب دینے کی کوشش کی۔
”تو آپ لوگ بھی اللہ پاک سے ہمارے لئے ایک بےبی مانگ لیں ناں!“ منزہ نے ضد نما فرمائش کی۔
امبرین کو اس وقت ساحل پر بےتحاشا غصہ آرہا تھا جو کل کی طرح خاموشی سے اس پر نظریں مرکوز کیے اس کی مشکل سے محظوظ ہو رہا تھا۔
”بتائیں مما آپ مانگ کر لائیں گی ناں ہمارے لئے چھوٹا سا بےبی۔“ مائر نے بھی پوچھا۔
”ہاں لے آئیں گے مگر ایک شرط پر!“ تب ہی ساحل گویا ہوا۔
”کیسی شرط؟“ دونوں نے یک زبان پوچھا۔
”نیکسٹ منتھ آپ لوگوں کے ٹیسٹ ہونے والے ہیں ناں اسکول میں! تو اگر آپ لوگ ٹیسٹ میں فرسٹ آؤ گے تو ہم آپ کیلئے بےبی لے آئیں گے ورنہ نہیں۔“ بلآخر ساحل کو امبرین پر ترس آگیا تھا۔
”پکا اگر ہم فرسٹ آئے تو آپ بےبی لائیں گے؟“ مائر نے تائید چاہی۔
”بالکل پکا!“
”پنکی پرامس کریں پاپا۔“ منزہ نے اپنے دائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی اس کی جانب بڑھائی۔
”پنکی پرامس میری جان!“ ساحل نے بھی اپنی چھوٹی انگلی سے اس کی ننھی انگلی پکڑ کر وعدہ کیا تو دونوں مطمئن ہوگئے۔ جب کہ امبرین نے بھی فی الحال مصیبت ٹلنے پر سکھ کی سانس لی۔
*****************************************
چند دن مزید سکون سے بنا کسی قابلِ ذکر بات کے گزر گئے۔ جب کہ معمول کی چھوٹی موٹی باتیں چلتی رہیں۔
آج بچے ساحل کے ہمراہ عصمت خاتون سے ملنے گئے ہوئے تھے۔
امبرین کیلئے یہ گولڈن چانس تھا جسے وہ کسی صورت مس نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس نے پہلے کمرے کا دروازہ لاک کیا اور پھر الماری کھول کر لاکر اوپن کرنے کے بعد اس میں سے سارے کاغذات نکال کر بیڈ پر بکھرائے۔
وہ مختلف فائلز کھول کھول کر سرسری طور پر پڑھ رہی تھی جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو!
تب ہی ایک سرخ فائل کو پڑھتے ہوئے وہ یوں چونکی گویا وہ مل گیا جس کی اسے تلاش تھی۔
اس نے فائل بیڈ پر رکھ کر اپنے موبائل میں اس کے پہلے صفحے کی تصویر لی اور ساتھ ہی وہ تصاویر کسی کو بھیج دی۔
”کیا یہ ہی وہ پیپرز ہیں؟“ امبرین نے ساتھ ہی ایک میسج بھی چھوڑا۔
پھر برق رفتاری سے سب کچھ واپس لاکر میں رکھ کر الماری بند کردی۔
اس کی دھڑکن ایسے چل رہی تھی گویا کئی میل دوڑ کر آئی ہو!
چند لمحے گہرے سانس لے کر اس نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی اور پھر دروازے کی جانب آئی تا کہ اسے کھول دے۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو دوسری جانب ساحل کو کھڑا دیکھ اس کی سانس سینے میں ہی اٹک گئی۔
”آ۔۔۔آپ!“ اس کے لبوں سے بےساختہ لڑکھڑاتے ہوئے نکلا۔
”ہاں میں، کیوں نہیں آنا چاہئے تھا؟“ اس نے سادگی سے پوچھا۔
”نہیں مجھے لگا کافی دن بعد بچے خالہ سے ملنے گئے ہیں تو دیر سے ہی واپس آئیں گے۔“ وہ بات بناتی ہوئی کنارے پر ہوئی۔ ساحل اندر آگیا۔
”ہاں بچوں کا تو آنے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا، ایک تو دادی سے اتنے دن بعد ملے دوسرا شارخ اور فاروق بھائی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں لگ گئے، اسی لئے میں نے سوچا کہ دونوں کو آج وہیں رہنے دوں۔“ اس نے کمرے کے وسط میں آتے ہوئے بتایا۔
”مطلب بچے آپ کے ساتھ واپس نہیں آئے ہیں؟“ وہ تعجب سے نتیجے پر پہنچیں۔
”نہیں، آج وہیں رک کر کل واپس آئیں گے۔“ اس نے اطمینان سے بم گرایا تو وہ دنگ رہ گئی۔
یعنی آج وہ دونوں گھر میں اکیلے تھے۔
”ایسے کیسے آپ نے بچوں کو وہاں چھوڑ دیا!“ اس کے بےساختہ کہنے پر ساحل نے تعجب خیز انداز میں اسے دیکھا۔
”میرا مطلب ان کے اسکول کا حرج ہوجائے گا۔“ اس نے جلدی سے بات بنائی۔
”کل سنڈے ہے۔“ وہ اطمینان سے کہتا آگے آیا تو امبرین لاجواب ہوگئی۔
در حقیقت وہ اس کے ساتھ تنہا ہونے کے خیال سے گھبرا گئی تھی۔ بچوں کی موجودگی میں تو اسے سہارا رہتا تھا کہ ہر وقت وہ آس پاس ہوتے تھے اور صبح صبح ان کے کمرے میں آ پہنچتے تھے اسی لئے ساحل تھوڑا لحاظ برت لیتا تھا، لیکن اب۔۔۔۔۔۔!
”اچھا۔۔۔۔۔میں چائے بنا دیتی ہوں آپ کیلئے۔“ اسے راہِ فرار ہی بہتر لگی فی الحال!
”میں نے کب کہا کہ مجھے چائے پینی ہے؟“ ساحل نے یکدم اس کی کلائی پکڑ لی۔
”آپ ہی تو کہتے ہوئے کہ شام کو گھر لوٹنے پر آپ کو چائے کی طلب ہوتی ہے!“ اس نے پلٹ کر آہستگی سے یاد دلایا۔
فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے ساحل نے اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ سیدھا اس کے سینے سے آ لگی۔
”طلب تو اور بھی بہت سی ہیں، ان کے بارے میں کبھی سوچا تم نے!“ وہ گھیرا تنگ کرتے ہوئے معنی خیزی سے بولا۔
اس کی بات پر، اس کی قربت کے احساس پر امبرین نے گھبرا کر پلکیں جھکا لیں۔
وہ بھی بجائے کچھ کہنے کے اسے دیکھنے لگا جو اس کی بانہوں میں سمٹی گھبرائی سی کھڑی تھی۔
جھکی پلکیں حیا کے مارے لرز رہی تھیں اور گدی پر لگے کیچر میں قید اس کے سیاہ بالوں کی کچھ لٹیں چہرے پر جھول رہی تھیں۔
”مجھے اس وقت کسی اور چیز کی طلب نہیں ہے سوائے اس کے کہ تم کچھ دیر میرے پاس رہو!“ اس نے گھمبیرتا سے کہتے ہوئے اس کی لٹ پیچھے کی تو وہ کسمسا گئی۔
”در۔۔۔۔دروازہ کھلا ہے۔۔۔امینہ۔۔۔۔آجائے گی۔“ وہ بمشکل کہہ پائی کیونکہ اُس کی پرحدت قربت نے اِس پر کپکپی طاری کردی تھی۔
”جاؤ دروازہ بند کرکے آجاؤ!“ ساحل نے اسے آزاد کرتے ہوئے کہا تو وہ حیرت زدہ سی اسے دیکھنے لگی۔
”میرا مطلب تھوڑی دیر ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں، اور کچھ نہیں تو ٹی وی ہی دیکھ لیتے ہیں۔“ اس کی حیرانی بھانپتے ہوئے ساحل نے سادگی سے وضاحت کی جس کا وہ کوئی جواب نہیں دے پائی۔
”جاؤ!“
اس نے دوبارہ اپنی بات پر زور دیا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ سست روی سے دروازہ بند کرنے آگے بڑھی۔
جب تک وہ دروازہ لاک کرکے واپس مڑی ساحل ڈبل صوفے پر بیٹھ چکا تھا اور ٹیبل پر رکھا ریموٹ اٹھا کر دیوار پر نصب ایل ای ڈی آن کردیا۔
”یہاں آؤ!“ ساحل نے اسے اپنے پاس بلایا۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی یہاں سے کہیں دور بھاگ جائے یا زور زور سے رونے لگے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی، سوائے حکم ماننے کے۔۔۔۔۔۔
وہ قریب پہنچی تو اُس نے اِس کا ہاتھ پکڑ کر اِسے اپنے پہلو میں بےحد نزدیک بٹھا لیا۔
”تم موویز دیکھتی ہو؟“ ساحل اس کے گرد بازو حمائل کرکے چینل سرچنگ کرنے لگا۔
”خاص شوق نہیں ہے۔“ دھیرے سے جواب ملا۔
”اچھا! تو پھر کس چیز کا شوق ہے؟ فارغ وقت میں کیا کرنا پسند ہے تمہیں؟“ وہ پوچھتے ہوئے ایک چینل پر رک گیا جہاں راحت فتح علی خان کا کوئی گیت آرہا تھا۔
”پہلے کتابیں پڑھا کرتی تھی لیکن اب سارا وقت بچوں کے ساتھ ہی مصروف رہتی ہوں۔“ وہ بھی اب قدرے ریلیکس ہونے لگی تھی۔
”یعنی بچوں کی وجہ سے تمہارا شوق ادھورا رہ گیا!“ اس کا انداز سادہ تھا۔
”نہیں نہیں، میرا کوئی شوق ادھورا نہیں ہے، بلکہ بچوں نے تو مجھے مکمل کردیا ہے، جتنی عزت و محبت وہ مجھے دیتے ہیں وہ میرے لئے بہت اہم ہے، اور مجھے بھی سارا وقت بس ان کے ساتھ رہنا اچھا لگتا ہے، وہ بہت اچھے ہیں اور مجھے بےحد عزیز ہیں۔“ اس کے انداز میں بےریا محبت تھی۔۔۔۔ممتا بھری محبت جو ساحل کو بھی اچھی لگی۔
”اچھا! اور ان کے پاپا کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟“ اس نے معنی خیزی سے کریدا۔
فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے گردن موڑ کر ساحل کی جانب دیکھا۔ وہ بھی اسے دیکھنے لگا۔
”آپ کو دیکھ کر مجھے بس ایک ہی خیال آتا ہے کہ نہ جانے وہ کیسے لوگ ہیں جو آپ جیسے اچھے انسان کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے کا سوچ لیتے ہیں!“ وہ بےساختہ رنجیدگی سے کہہ گئی۔
اس کی بات پر وہ دھیرے سے ہنسا۔
”میری امی کہا کرتی تھیں کہ ہر انسان اپنے عمل سے اپنا ظرف بتاتا ہے، جو کم ظرف لوگ ہوتے ہیں وہ کچھ بھی سوچ سکتے ہیں، کچھ بھی کرسکتے ہیں، کبھی بھی کسی کم ظرف سے زخم کھا کر ہمیں اپنا ظرف کم نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل کا جوابدہ ہوتا ہے۔“ اس نے توقع کے مطابق رسان سے جواب دیا۔
”آپ کی امی بھی یقیناً آپ کی طرح بہت اچھی ہوں گی!“ اس نے دلچسپی سے اندازہ لگایا۔
”نہیں، وہ مجھ سے بھی زیادہ اچھی تھیں، اور آج مجھ میں جو بھی اچھائی نظر آتی ہے وہ ان کی بدولت ہے۔“ اس کے انداز میں اپنی مرحوم ماں کیلئے بےپناہ محبت تھی۔
”وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ مرد معاشرے کا اہم ستون ہوتا ہے، اور اس مرد کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، اگر ہر ماں اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کرکے اپنی طرف سے معاشرے کو اچھا مرد فراہم کرے تو معاشرہ بہت اچھا ہوسکتا ہے!“ اس نے اپنی ماں سے سنا فلسفہ دہرایا۔
”لیکن اپنی طرف سے تو ہر ماں اچھی ہی تربیت کرتی ہے۔“ امبرین کی بات بھی غلط نہ تھی۔
”تربیت ہوتی کیا ہے؟“ اس نے جواب دینے کے بجائے سوال اٹھایا۔
”بچے کو صحیح غلط کی تمیز بتانا اور حالات کی اونچ نیچ سکھانا۔“ اس نے اندازاً جواب دیا۔
”بالکل! لیکن جانتی ہو آج کی ماں کی نظر میں تربیت کیا ہے؟“
”کیا ہے؟“
”بچے کو اچھے اسکول میں ایڈمیشن کرانا، انگلش بولنا سکھانا، بچہ تنگ کرے تو موبائل پکڑا دینا، ہر بات پر ”نو“ کہنا، زبردستی کھانا کھلانا، شرارت نہ کرنے دینا، شرارت کرنے پر چیخنا چلانا، دوسرے کزنز سے موازنہ کرکے اچھے مارکس لانے پر زور دینا، دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہ دینا، جس فیکلٹی میں پورے خاندان کے بچے پڑھ رہے ہوں زبردستی اس میں داخلہ دلانا، ڈگری کے بعد جاب کا پریشر ڈالنا، بیٹے کی شادی کے خواب دیکھنا، اپنی مرضی سے بیٹے کی شادی کروانا، شادی کے بعد بیٹے کو تاکید کرنا کہ بیوی کو سر پر نہ چڑھائے، پھر بات بات پر بیٹے سے اس کی بیوی کی شکایات کرنا اور بہو سے یہ سوچ کر لڑنا کہ کہیں بیٹا پوری طرح بیوی کی مٹھی میں نہ ہوجائے، اور ان سب جھمیلوں سے تنگ آکر جب مرد غصہ کرتا ہے یا الگ ہوتا ہے تو آخر میں الزام لگتا ہے کہ دیکھو ذرا! کیسا بےحس بیٹا ہے۔“
اس نے دھیرے دھیرے لفظوں کے آئینے میں معاشرے کا وہ پہلو دکھایا جو اصل میں بہت سے مسائل کی جڑ تھا۔
امبرین بھی مبہوت ہوکر اسے سنتی چلی گئی۔
”جانتی ہو میری ماں نے میری تربیت کیسے کی تھی؟“
”کیسے؟“ اسے جاننے کا تجسس ہوا۔
”ہم لوگ ہمیشہ سے بہت امیر کبیر نہیں رہے تھے، میرے ابو ایک سرکاری ٹیچر تھے جن کے انتقال کے بعد ان کی پینشن پر امی گزارا کرتی تھیں، عام بچوں کی طرح مجھے تین سال کی عمر میں ہی کسی انگلش میڈم اسکول میں داخل نہیں کروایا بلکہ پانچ سال تک انہوں نے گھر میں ہی مجھے ابتدائی تعلیم دی اور تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا سکھایا۔
جب اسکول میں ایڈمیشن کروا دیا تب بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ اتنے نمبر آنے چاہیے، بلکہ وہ روز مجھ سے پوچھتی تھیں کہ آج اسکول میں کیا نیا سیکھا؟ اور جس دن کچھ نہیں سیکھا ہوتا تھا اس دن وہ مجھے کچھ ایکسٹرا سکھاتی تھیں جس کا اثر خودبخود میرے رزلٹ پر پڑتا تھا۔
انہوں نے کبھی مجھے انگلش میں بات کرنے پر زور نہیں دیا یا انگلش کے وہ چند گھسے پٹے الفاظ نہیں سکھائے جو آج کل کی مائیں بچوں کو سکھا کر بہت پڑھا لکھا سمجھتی ہیں، انہوں نے مجھے سکھایا کہ ادب سے بات کیسے کرنی ہے؟ اجازت کیسے مانگنی ہے؟ تجویز کیسے پیش کرنی ہے؟ ضرورت کی چیز کیسے مانگنی ہے؟ چھوٹوں سے کیسے بولنا ہے؟ بڑوں سے کیسے بات کرنی ہے؟
جب کبھی میں انہیں تنگ کرتا تھا تو وہ مجھے ٹی وی کے آگے بٹھانے کے بجائے میرا دھیان بھٹکانے کیلئے مجھے بھی اپنے ساتھ گھر کے کاموں میں لگا لیتی تھیں کہ ایک کپڑا خود پکڑا اور ایک مجھے پکڑا کر کہتی تھیں کہ دیکھتے ہیں سب سے پہلے ڈسٹنگ کون کرتا ہے؟ سب سے پہلے کمرہ کون سمیٹتا ہے؟ اور میں کھیل کھیل میں ان کے ساتھ کام میں لگ کر اپنی ضد بھول جاتا تھا۔
انہوں نے کبھی مجھے زبردستی ناپسندیدہ چیز کھانے پر مجبور نہیں کیا، کبھی پنسل کلر سے گھر کی دیواروں پر نشان مارنے یا بال کھیلتے ہوئے کوئی چیز ٹوٹ جانے پر زور سے ڈانٹا نہیں بلکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لگا کر سارا نقصان سمیٹا کرتی تھیں اور ساتھ ساتھ پیار سے سمجھاتی بھی رہتی تھیں۔
انہوں نے کبھی مجھے نہیں کہا کہ میں بھی شارخ اور فاروق بھائی کی طرح اچھے نمبر لاؤں، بلکہ اگر کبھی میں اپنی کارکردگی پر اداس ہوتا تھا تو وہ مجھے سینے سے لگا کر کہتی تھیں کہ میرا بیٹا سب سے اچھا ہے اور وہ بہت کامیاب ہوگا۔
جب فیکلٹی سیلیکٹ کرنے کا ٹائم آیا تب بھی انہوں نے فیصلہ مجھ پر چھوڑتے ہوئے کہا کہ تمہیں جو پڑھنا ہے دل لگا کر پڑھو اور اپنا مستقبل بناؤ۔
پڑھائی پوری کرنے کے بعد میں نے جاب کی تلاش میں خوار ہوکر فیصلہ کیا کہ اپنا کوئی کاروبار کرلینا چاہئے مگر پیسے نہیں تھے، تو امی نے اپنی شادی کے وقت کا زیور اور کمیٹی کے کچھ پیسے میرے حوالے کرکے کہا کہ میں انہیں استعمال کرلوں، انہیں مجھ پر یقین ہے کہ میں ضرور کامیاب ہوں گا!
یہ ان کا یقین ہی تھا کہ ایک چھوٹے سے سیٹ اپ سے اسٹارٹ لینے کے بعد کڑی محنت کرکے آج میں کروڑ پتی بزنس مینز کی لسٹ میں ہوں، مگر یہ دکھ مجھے ہمیشہ رہے گا کہ میری یہ کامیابی دیکھنے کیلئے اب میری ماں میرے ساتھ نہیں ہے۔“
کسی داستان کی مانند سب بتاتے ہوئے آخر میں اس کا لہجہ بھر آیا اور آنکھیں نم ہوگئیں۔
امبرین بھی اس کے ساتھ ہی اس کے ماضی میں کھو گئی تھی۔
ساحل کی شخصیت کے راز کھل گئے تھے کہ وہ اتنی مثبت شخصیت کا حامل کیسے ہے؟ کیونکہ اس کی بنیاد مضبوط تھی جو ظاہر ہے اس کی ماں کی سلجھی ہوئی تربیت کا نتیجہ تھی۔ ایسے ہی تو ماں کی گود کو بچے کی پہلی درگاہ نہیں کہا جاتا ناں!
اور اب آخر میں اس کے لہجے کا درد محسوس کرکے وہ بھی افسردہ ہوگئی۔
”وہ بھلے ہی آج دنیا میں موجود نہیں ہیں مگر یہ مقام ان کی دعاؤں اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے جس پر آج آپ موجود ہیں، اور ان شاءاللہ ایسے ہی رہیں گے کیونکہ آپ اپنی ماں کی تربیت بھولے نہیں ہیں۔“ امبرین نے دلجوئی کرتے ہوئے آہستہ سے اس کی نم آنکھیں صاف کیں۔
ساحل کو محسوس ہوا کہ اب وہ اکیلا نہیں ہے۔ دکھ سکھ بانٹنے والا جو ساتھی اسے چاہیے تھا وہ مل گیا ہے۔
”پتا ہے آج اگر امی زندہ ہوتیں تو تمہیں میری بیوی کے روپ میں دیکھ کر بہت خوش ہوتیں۔“ وہ اب کافی سنبھل چکا تھا۔ ”تمہارا انداز بھی ان کے جیسا ہے، جب تم اکثر بچوں کو دین و دنیا کی چھوٹی بڑی باتیں اور حالات کو ڈیل کرنا سکھاتی ہو تو مجھے بےساختہ ان کی یاد آجاتی ہے۔“ اس نے برملا اعتراف کیا۔
”نہیں، مجھ ناچیز کا مقابلہ اتنی عظیم ہستی سے نہ کریں، میں تو ان کی قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہوں۔“ وہ نظریں جھکاتے ہوئے اپنے آپ میں شرمندہ ہوئی کیونکہ وہ اپنا سچ جو جانتی تھی۔
”تم قدموں کی دھول نہیں بلکہ میری ربة البيت ہو، اور جانتی ہو عورت کے اس مقام کے بارے میں بھی مجھے امی نے بتایا تھا۔“ ساحل نے آہستہ سے اس کی لٹ پیچھے کی۔
”جب کبھی وہ میری شادی کا ذکر چھیڑتی تھیں تو ایک بات کہا کرتی تھیں کہ میں جب بھی شادی کروں گا تو اپنی بیوی کی قدر و عزت کروں، اس سے محبت کروں اور اس کا خیال رکھوں کہ وہ میرے لئے سب کچھ چھوڑ کر آئے گی تو بدلے میں مجھے بھی اس کا سب کچھ بننا ہے، وہ کہتی تھیں اگر مرد کسی عورت کو خود سے ہمیشہ کیلئے باندھ کر رکھنا چاہتا ہے تو صرف ایک کام کرے، اسے عزت دے، اس کی خواہشات کا احترام کرے، اگر عورت وفادار ہوگی تو اس کے بدلے ایک روز اپنا سب کچھ تمہیں خوشی خوشی سونپ دے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اسے تم سے دور نہیں کر پائے گی۔“ اس نے اپنی ماں کا فلسفہ دہرایا۔
”جب میں نے فروا سے شادی کی تو اسی فلسفے پر عمل کیا، اسے عزت دی، ہر خواہش کا احترام کیا مگر اس کی خواہشات کی فہرست بڑھتی چلی گئی، اسے اور کے بعد بھی اور چاہیے تھا، میں اسے عزت کی زنجیر سے باندهنا چاہ رہا تھا مگر وہ دولت کی چمک پر کھنچتے ہوئے ساری زنجیریں توڑ کر مجھ سے دور چلی گئی۔
جس روز میری اور فروا کی علیحدگی ہوئی تھی اس دن میں بہت رنجیده تھا، اسی شب میں نے خواب میں امی کو دیکھا، وہ خواب میں بھی وہ ہی بات دہرا رہی تھیں کہ بیٹا جو ہاتھ سے چلا جائے اس پر غم نہیں کرتے، اللہ اور دے گا بس تم کسی کم ظرف سے دھوکہ کھا کر مخلصوں کیلئے اپنا در بند نہ کرنا، ان کی بات نے مجھے ایک نئی سمت دکھا دی جس پر چل کر پہلے مجھے سکون ملا اور پھر تم!“ اس نے بات مکمل کرکے آخر میں امبرین کی جانب گردن موڑی۔
”جب شادی کی پہلی رات تم نے مجھ سے وقت مانگا تھا تو میں تھوڑا حیران ہوا تھا، لیکن پھر سوچنے پر سمجھ آیا کہ تمہارا بیک گراؤنڈ، تمہاری کیفیت مجھ سے کافی الگ رہی ہے اسی لئے شاید تمہیں واقعی اس وقت تھوڑے اسپیس کی ضرورت ہو! اسی لئے امی کی بات پر عمل کرتے ہوئے میں نے یہ سوچ کر تمہاری خواہش کا احترام کرلیا کہ بس کچھ دنوں کی تو بات ہے، اگر اس وقت میں تمہاری بات نہ رکھتے ہوئے زور زبردستی کرتا تو اپنا حق تو وصول کرلیتا لیکن تمہاری نظروں میں اپنی عزت ہمیشہ کیلئے کھو دیتا، امی کہتی تھیں کہ شادی کی پہلی رات اکثر اگلی پوری زندگی کا فیصلہ کر دیتی ہے، اور میں نہیں چاہتا تھا کہ پوری زندگی کیلئے تمہاری نظروں میں میرا مقام گر جائے اسی لئے آئندہ زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے فی الحال صبر کرلیا، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تم میرے اتنے قریب ہو۔“ ساحل نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر لبوں سے لگایا۔
وہ تو پہلے ہی اس کی باتیں سن کر مبہوت ہوچکی تھی اب لمس پا کر رہے سہے ہوش کھونے لگی۔
مزید سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ کمرے میں آن ایل ای ڈی پر اسی پل ایک نہایت رومانوی گیت شروع ہوا جس کی خوبصورت دھن ماحول پر فسوں پھونکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”اتنی دیر سے بس میں ہی بولے جا رہا ہوں، اب تم بھی کچھ کہہ دو!“ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں موضوع بدلا۔
”کیا کہوں؟“ دھیرے سے سوال آیا۔
”کچھ بھی!“ ساحل نے کہتے ہوئے اس کے بال کیچر سے آزاد کیے۔ جن سے آتی شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو اسے مدہوش کرنے لگی تھی۔
”لبوں کو لبوں پہ سجاؤ“
”کیا ہو تم مجھے اب بتاؤ“
”توڑ دو، خود کو تم“
”بانہوں میں“
”میری بانہوں میں“
”میری بانہوں میں“
گیت کے رومانوی بول سن کر امبرین تھوڑا پزل ہوئی تھی جب کہ ساحل تو سب سے بےنیاز بس اس کی ہوش ربا قربت میں کھویا ہوا تھا۔
”تم اپنے بال کھلے رکھا کرو ناں! اچھے لگتے ہیں۔“ وہ گہری سانس لے کر فرمائشی انداز میں کہتا اس کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔
جواباً وہ کچھ نہ کہہ پائی۔ اپنے ریشمی بالوں میں حرکت کرتی ساحل کی انگلیاں اسے عجیب سا سرور بخش رہی تھیں۔
”میں نے تو تمہیں اپنے بارے میں سب بتا دیا، چلو اب تم بتاؤ۔“
”کیا بتاؤں؟“
”یہ ہی کہ تم مجھ سے گھبرا کر بھاگتی کیوں ہو؟ کیا میں تمہیں پسند نہیں؟“ اس نے سادگی سے کریدا۔
”ایسا نہیں ہے۔“ وہ ہی ہمیشہ والا جواب ملا۔
”تو پھر کیسا ہے جانم؟“ ساحل نے اس کے کندھے پر سر رکھ لیا۔ امبرین کی دهڑکنوں میں طلاطم مچا اور سانسیں تیز چلنے لگیں۔
”تیرے احساسوں میں“
”بھیگے لمحاتوں میں“
”مجھ کو ڈوبا تشنگی سی ہے“
تیری اداؤں سے دلکش خطاؤں سے“
”ان لمحوں میں زندگی سی ہے“
”حیا کو ذرا بھول جاؤ“
”میری ہی طرح پیش آؤ“
”کھو بھی دو خود کو تم“
”راتوں میں“
”میری راتوں میں“
”لبوں کو لبوں پہ سجاؤ“
”کیا ہو تم مجھے اب بتاؤ“
اس نے انگلیوں کی مدد سے امبرین کا ریشمی دوپٹہ کندھے پر سے سرکا کر ہٹایا اور اگلے ہی پل اپنے لب اس کے کندھے پر رکھے جو اسے دہکتے ہوئے محسوس ہوئے۔
امبرین اس کے لبوں سے بےساختہ سسکاری نکالی اور اس نے ساحل کی شرٹ پکڑ لی۔
”میں سمجھتا ہوں کہ تمہیں جسمانی تعلقات قبول کرنے کیلئے تھوڑا وقت چاہیے لیکن تعلق صرف جسم کا تو نہیں ہوتا! کچھ جذبات بھی تو ہوتے ہیں، کچھ خواہشیں ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارا جائے!“ وہ اس کے بےحد قریب گھمبیرتا سے کہتا دھیرے دھیرے اس کے کندھے اور گردن پر اپنے لمس چھوڑ رہا تھا اور امبرین کے وجود سے اٹھتی بھینی سی خوشبو اس کی سانسوں میں اتار کر اسے مزید بہکا رہی تھی۔
ایسا ہی کچھ بہکا بہکا حال امبرین کا بھی تھا جو کوئی مزاحمت نہیں کر رہی تھی بلکہ اسے رگ و پے میں ایک عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا۔
”پتا ہے فروا نے بھی کبھی میری محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا، بلکہ اکثر وہ میرے قریب آنے سے چڑ جایا کرتی تھی اور تم گھبرا جاتی ہو، کیا میں اتنا برا ہوں کہ کوئی عورت مجھے اپنے نزدیک برداشت نہیں کر پاتی یا مجھ سے محبت نہیں کرتی؟“ وہ تاسف سے پوچھنے لگا۔
اس کے انداز میں عجیب سا شکوہ اور کسک تھی۔ جو امبرین کو بالکل اچھی نہیں لگی۔
”نہیں، آپ بہت اچھے ہیں۔“ وہ بےساختہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ گئی۔
”آپ اتنے اچھے ہیں کہ آپ محبت کے نہیں عشق کرنے کے لائق ہیں۔“ وہ پوری طرح بےاختیار ہوچکی تھی۔
”سچ میں؟ تو کیا تم مجھ سے عشق کرتی ہو؟“ وہ پوچھتے ہوئے اس کے بےحد نزدیک ہوا۔
دونوں کے درمیان فاصلہ اتنا کم تھا کہ وہ ایک دوسرے کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر رہے تھے۔ وجود سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو اور جذبات انہیں خمار سے چور کرکے مدہوش کرچکے تھے۔
”کرنا تو نہیں چاہتی تھی، مگر ہونے لگا ہے۔“ وہ بےساختہ انگوٹھے سے ساحل کا نچلا عنابی لب سہلانے لگی جو اُس کیلئے نہایت پرکیف احساس تھا۔
قربت کے خمار میں چور ساحل کو اتنا ہوش نہیں تھا کہ وہ امبرین کی باتوں کی گہرائیوں کو محسوس کرکے خطرہ بھانپ پاتا۔
”کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی؟ کس نے روکا ہے تمہیں مجھ سے عشق کرنے سے؟“ ساحل نے بھی نرمی سے اپنا انگوٹھا اس کے گلابی لپ اسٹک والے نچلے لب پر پھیرا۔
وہ جواب دینے کے بجائے پوری طرح بےاختیار ہوکر اس کی جانب بڑھی، ساحل نے مزید اسے خود میں بھینچا اور اگلے ہی پل ان کی سانسیں نے ایک دوسرے کو چھو لیا۔
”تیرے جذباتوں میں“
”مہکی سی سانسوں میں“
”یہ جو مہک صندلی سی ہے“
”دل کی پناہوں میں“
”بکھری سی آہوں میں“
”سونے کی خواہش جگی سی ہے“
”چہرے سے چہرہ چھپاؤ“
”سینے کی دھڑکن سناؤ“
”دیکھ لو خود کو تم“
”آنکھوں میں“
”میری آنکھوں میں“
”لبوں کو لبوں پہ سجاؤ“
”کیا ہو تم مجھے اب بتاؤ“
ایسا لگا تھا جیسے برسوں سے ادھوری کسی تشنگی کو آج سیراب ہونے کا خوبصورت موقع ملا ہے جسے دونوں ہی نہ گنوانے کی کوشش میں ہوش گنوا بیٹھے تھے۔
اس سے قبل کہ دونوں اس دو طرفہ آگ میں پوری طرح سلگ کر واپس نہ آنے کیلئے گم ہوتے، کمرے کی فضا میں بکھرا رومانوی گیت ختم ہوا اور ساحل کے موبائل کی رنگ ٹون نے انہیں سفر کے آغاز میں ہی روک کر واپس حقیقت میں کھینچ لیا۔
تیز ٹون کان میں پڑتے ہی امبرین جھٹکے سے ہوش میں آتے ہوئے اس سے الگ ہوئی اور اس کی گرفت ساحل کی شرٹ پر ڈھیلی ہوگئی۔
وہ بھی ناسمجھی کے عالم میں تھا کہ ابھی تو اس کی تشنگی مٹی بھی نہیں تھی اور جام چھین لیا گیا تھا۔
دونوں چونک کر اس دلفریب سحر سے باہر آتے ہوئے ایک دوسرے کی بانہوں سے الگ ہوگئے تھے۔
یوں تو دونوں کی سانسیں ہی بےترتیب تھیں لیکن امبرین کا تنفس ایسے بگڑا تھا گویا سینے میں طوفان برپا ہو!
وہ اس سے نظریں بھی نہیں ملا پا رہی تھی جس کا موبائل مسلسل بج رہا تھا اور اب مجبوراً اسے موبائل کی جانب متوجہ ہونا پڑا تھا۔
ساحل نے بےدلی سے موبائل نکال کر دیکھا تو پتا چلا اس کے مینیجر کی کال تھی۔
اس کے دوسری جانب متوجہ ہونے پر وہ بھی فوری طور پر اپنا دوپٹہ سنبھالتی اٹھ کر باہر جانے لگی تھی کہ ساحل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”رات کو ڈنر ہم باہر کریں گے، ریڈی رہنا۔“ اس نے ہدایت دے کر ہاتھ چھوڑا تو وہ تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ اس نے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگایا۔
”جی شیخ صاحب؟“
*****************************************
کمرے سے نکل کر امبرین سیدھا گیسٹ روم کے واش روم میں آئی تھی اور دونوں ہاتھوں سے واش بیسن تھامے کھڑی گہری گہری سانس لے رہی تھی۔
اس نے شیشے میں نظر آتا اپنا عکس دیکھا۔
اس کے سیاہ بال کیچر سے آزاد ہوکر کاندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ دوپٹہ بےترتیب سا کندھے پر لٹک رہا تھا اور ہونٹ۔۔۔۔۔۔۔
ان پر لگی ہلکی گلابی لپ اسٹک کی نفاست تھوڑی بگڑ گئی تھی۔
اس نے بےساختہ کپکپاتی انگلیاں اپنے لب پر پھیریں جس پر ابھی تک اس کا دہکتا ہوا لمس زندہ تھا۔
صرف لب ہی نہیں اسے اپنی گردن، کندھوں، زلفوں، سانسوں اور کمر پہ بلکہ جسم کے ہر حصے پر ساحل کا لمس اور پرحدت سانسیں محسوس ہو رہی تھیں جو اسے ایک اندیکھی آگ میں جلا رہی تھیں۔
”تم قدموں کی دھول نہیں بلکہ میری ربة البيت ہو۔“
اس کے ذہن میں ساحل کی محبت پاش آواز گونجی اور ساتھ ہی اتنی شدت سے دل بھر آیا کہ آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے۔
”آئی ایم سوری ساحل۔۔۔۔آئی ایم سوری!“
وہ شدت سے روتے ہوئے خودکلامی کرتی چلی گئی۔
*****************************************
اپنے قول کے مطابق ساحل امبرین کے ہمراہ باہر آگیا تھا۔
شام کو جو خوبصورت حادثہ ان کے درمیان ہوا تھا دونوں ہی جلد اس کے اثر سے باہر آکر نارمل ہوگئے تھے کہ وہ ایسی بھی کوئی بات نہیں تھی جو ایک دوسرے سے نظریں نہ ملا پاتے!
محض چند مختصر لمحوں کیلئے سانسیں ہی تو محسوس کی تھیں ورنہ ہجر کی دیوار تو اب بھی درمیان حائل تھی جسے ساحل اپنی محبت سے زیر کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا اور امبرین ہاں، نہیں کی کیفیت میں الجھ سی جاتی تھی۔
دونوں نے پہلے باہر ڈنر کیا اور اب سمندر کنارے آہستہ آہستہ چہل قدمی کر رہے تھے۔
وہ لوگ پانی سے دور تھے اسے لئے سینڈلز اور جوتے اتارنے نہیں پڑے تھے۔
یہ کیونکہ اکتوبر کا وسط تھا تو ہوائیں کچھ زیادہ ہی تیز اور سرد محسوس ہو رہی تھیں جن میں امبرین کی کتھئی شال اور کیچر میں قید سیاہ بال سنبھالے نہیں سنبھل رہے تھے۔
”کتنا سکون ہوتا ہے نا ساحل کی تنہائی میں!“ ساحل نے آس پاس دیکھتے ہوئے تجزیہ کیا جہاں فی الحال ان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
”ہممم! آپ کا مزاج بھی شاید اسی لئے پُرسکون ہے کیونکہ آپ پر آپ کے نام کا اثر ہے۔“ خلاف توقع امبرین نے بھی دلچسپی سے جواب دیا تو وہ خوشگوار حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”اچھا! تمہیں لگتا ہے کہ میں ایک پُرسکون انسان ہوں؟“ اس کا یوں جواب دینا ساحل کو اچھا لگا تھا اسی لئے وہ مزید بات بڑھانے لگا۔
”ہاں، آپ کافی کول مائنڈیڈ انسان ہیں، اور سچ کہوں تو میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں آپ جتنا کول مائنڈ اور پازٹیو تھنكنگ والا انسان نہیں دیکھا، جو طلاق کے بعد دو بچوں کے ساتھ بھی اتنا خوش اور زندہ دل ہے۔“ وہ اپنی دھن میں بےساختہ کہہ گئی لیکن بات کے اختتام پر اسے خود ہی احساس ہوا کہ اس نے آخری جملا غلط کہہ دیا ہے۔
”آئی ایم سوری! طلاق والی بات سے میرا وہ مطلب نہیں تھا۔“ اس نے گھبرا کر دھیرے سے وضاحت کرنی چاہی۔
”کوئی بات نہیں، تم نے کچھ غلط نہیں کہا۔“ اس نے سہولت سے کہا تو امبرین کی جان میں جان آئی۔ ورنہ اسے لگا تھا کہ وہ کچھ غلط کہہ بیٹھی ہے۔
”اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ کی طلاق کیوں ہوئی تھی؟“ اس کے دوستانہ رویے سے تھوڑی ہمت آنے پر امبرین نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔
ساحل نے ساتھ چلتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔
”نہیں میرا مطلب آپ جیسا شوہر تو کسی کا بھی آئیڈیل ہوسکتا ہے تو پھر فروا نے آپ کو کیوں۔۔۔۔۔۔“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔
”کیونکہ اس کا آئیڈیل ایک ارب پتی شخص تھا، اور میں ارب پتی نہیں ہوں اسی لئے۔“ ساحل نے مسکراہٹ کے ساتھ سادہ سا جواب دیا۔
امبرین کو اس سے بےساختہ ہمدردی محسوس ہوئی۔ جب کہ امبرین کے یوں دلچسپی لینے پر ساحل کا بھی بےاختیار دل کیا کہ وہ اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دے!
اور اس نے ایسا ہی کیا۔
”میں نے پہلی بار فروا کو ایک بزنس پارٹی میں دیکھا تھا، وہ اپنی مدر کے ساتھ وہاں آئی ہوئی تھی، مجھے وہ بہت اچھی لگی تھی، میں نے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا اس کی فیملی بس ماں پر ہی مشتمل تھی، پیرنٹس کی طلاق ہوچکی تھی اور بہن بھائی کوئی تھا نہیں، وہ اکلوتی تھی اور ماں ایک بزنس وومین تھیں، بس پھر میں نے بنا دیر کیے خالہ کو رشتے کی بات کرنے کیلئے ان کے گھر بھیج دیا کیونکہ والدین کے گزر جانے کے بعد خالہ ہی میری واحد سرپرست تھیں، وہ میرا رشتہ لے کر گئیں تو تھوڑی بات چیت کے بعد ان لوگوں نے ہاں کردی اور یوں فروا میری بیوی بن کر میرے گھر آگئی۔“ وہ دھیرے دھیرے اپنی آپ بیتی سنانے لگا۔
”جتنا میں خوش تھا اس سے زیادہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن اکثر میں کامیاب نہیں ہوپاتا تھا، پھر شادی کے ایک مہینے بعد مجھے دنیا کی سب سے بڑی خوشخبری ملی کہ میں پاپا بننے والا ہوں۔“ اس کے انداز میں اب بھی وہ ہی خوشی تھی جو اس نے چھے سال پہلے اس لمحے میں محسوس کی تھی۔
”فروا کیلئے یہ پریگنینسی بہت جلدی تھی اسی لئے وہ اسے نہیں رکھنا چاہتی تھی مگر میرے بےتحاشا اصرار پر وہ مان گئی اور پھر مائر اور منزہ ہماری زندگی میں بہار بن کر آئے، مگر اس کا کہنا تھا کہ جڑواں بچے سنبھالنا اس کے بس کی بات نہیں ہے تو یہ ذمہ داری ایک آیا کو دے دی گئی، دن بھر وہ بچوں کا خیال رکھتی تھی اور آفس سے واپس آنے کے بعد میں بچوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا، یوں ہی تین سال گزر گئے۔“
”جس وقت میری فروا سے شادی ہوئی تھی تب میرے حالات اچھے ضرور تھے مگر میں اتنا سیٹلڈ نہیں تھا جتنا آج ہوں، میں فروا کی شاہانہ خواہشات جانتا تھا اسی لئے دن رات محنت کرتا تھا کہ انہیں پورا کرنے کے قابل بن سکوں، میں نے کچھ بزنس سیٹ اپ ڈالے ہوئے تھے مگر وہ اتنے اچھے گرو نہیں کر رہے تھے، میں مشکل سے ایک لکھ پتی انسان تھا جس پر مارکیٹ کا کافی قرض تھا۔
تب ہی بزنس سرکل میں ایک نیا نام ابھرا۔۔۔۔ظفر کرمانی۔۔۔۔۔وہ ایک ارب پتی آدمی تھا، ایک پارٹی میں اس کی ملاقات مجھ سے اور فروا سے بھی ہوئی، اور میرے پیٹھ پیچھے کب ان کی ملاقاتوں کے سلسلے بڑھے مجھے پتا ہی نہیں چلا، خبر تو تب ہوئی جب فروا نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا کیونکہ کرمانی نے اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اسے شادی کی پیشکش کی تھی، میں آسمان چھونے میں اتنا مصروف تھا کہ کسی نے میرے پیروں تلے زمین ہی کھینچ ڈالی اور میں منہ کے بل ایسے گرا کہ ٹوٹ گیا۔“ اس کے انداز میں درد چھلکا۔۔۔۔مان ٹوٹ جانے کا درد۔۔۔۔۔!
وہ ہی شخص میرے لشکر سے بغاوت کر گیا
جیت کر سلطنت جس کے نام کرنی تھی
”میں نے اسے پیار سے، تکرار سے ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کرچکی تھی اسی لئے زبردستی اسے باندھے رکھنے کے بجائے طلاق دے کر آزاد کردیا، میں بکھر گیا تھا، مگر اپنے تین سالہ ننھے بچوں کیلئے مجھے خود کو سنبھالنا تھا، پھر خالہ بھی اس کڑے وقت میں اپنا گھر چھوڑ کر میرے پاس آگئیں تو مجھے کچھ سہارا ہوا، اور میری امی کی نصیحت کے جو چلا جائے اس پر غم نہ کرنا، اللہ اور دے گا۔“
”بچوں کی ذمہ داری خالہ نے اٹھا لی تھی جس کے بعد میں نے بھی اپنی ساری توجہ اپنے ڈوبتے ابھرتے کاروبار میں لگا دی اور خدا کا کرنا ایسے ہوا کہ میں کچھ ہی وقت میں کامیاب ہوکر کروڑ پتی کی لسٹ میں آگیا، اور پرانی زندگی اور اس سے جڑی یادوں کو ایسے بھول گیا جیسے وہ تھیں ہی نہیں، میرے لئے سب کچھ میرے بچے ہوگئے اور ان کیلئے میں ان کی پوری دنیا۔“
دونوں ایک جگہ رک گئے تھے۔
ساحل دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے سامنے سمندر میں اٹھتی لہروں کو دیکھ رہا تھا اور امبرین سر اٹھائے ساحل کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر لاحاصل کا غم نہیں بلکہ حاصل کا اطمینان تھا۔
”آپ بہت آعلیٰ ظرف انسان ہیں جو اتنا بڑا دھوکہ کھانے کے بعد بھی اب تک اتنے مثبت ہیں کہ اتنے چاؤ سے دوسری شادی کرکے دل سے نبھا رہے ہیں، آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یقیناً عورت ذات سے ہی بدظن ہوچکا ہوتا۔“ امبرین خود کو برملا اعتراف کرنے سے روک نہیں پائی۔
ساحل گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
”چلو! کم از کم تو مانتی تو ہو کہ میں نے بہت چاؤ سے شادی کی ہے اور اسے دل سے نبھا رہا ہوں!“ وہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
امبرین نے شرمندگی کے مارے بےساختہ پلکیں جھکالیں۔
”پتا ہے امی کہتی تھیں اگر ایک کم ظرف انسان ہماری اچھائی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمیں دغا دے کر چلا جائے، تو اس وجہ سے ساری دنیا سے بدظن ہوجانا کوئی عقل مندی نہیں ہے! ہوسکتا ہے اللہ نے اس کے بعد ہی ہمارے لئے کوئی مخلص لکھا ہو اور ہم ایک غلط شخص کے غصے میں صحیح شخص پر راہیں بند کرکے اس سے محروم رہ جائیں! بس یہ سوچ کر میں نے کسی بدظنی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دی۔“ وہ مسکرا کر جواب دیتے ہوئے اسے دنیا کا سب سے عظیم انسان لگا جسے وہ بےساختہ دیکھے چلی گئی۔
”اگر کبھی میں نے بھی آپ کو دھوکہ دے دیا تو یقیناً آپ کا اعتبار محبت اور عورت ذات سے اٹھ جائے گا نا!“ وہ بےساختہ کہہ گئی۔
اس کی بات کا فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ یوں مسکرایا جیسے کوئی بڑا کسی بچے کی نادانی پر مسکراتا ہے۔
”نہیں، میں پھر محبت کروں گا کیونکہ اگر پہلی محبت غلط شخص سے کرلی ہو تو صحیح شخص کیلئے محبت کو دوسرا موقع دینا چاہئے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”اور اگر دوسرا شخص بھی غلط نکل آئے؟“ انداز بےساختہ تھا۔
”تو پھر تیسرے شخص کو موقع دینا چاہئے، وہ بھی غلط نکل آئے تو چوتھے شخص کو، کیونکہ غلط شخص ہے۔۔۔۔محبت نہیں۔۔۔۔محبت تو معصوم ہوتی ہے، اور محبت کرتے رہنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔“ اس کی مسکراہٹ گہری ہوکر مزید دلکش ہوگئی۔
جس نے اسے پل بھر کیلئے لاجواب کردیا۔
کیا تھا آخر وہ انسان؟ انسان تھا بھی یا نہیں؟ یا انسان کے روپ میں فرشتہ تھا جو اتنا بڑا دل اور دل میں بےپناہ محبت رکھتا تھا!
”چلو اب واپس چلتے ہیں، کافی دیر ہوگئی ہے۔“ ساحل نے بات سمیٹتے ہوئے جانے کیلئے قدم بڑھائے۔
مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔
”اگر کبھی سچ میں، میں نے آپ کو دھوکہ دے دیا تو؟“ اس نے ساحل کی چوڑی پشت کو دیکھتے ہوئے پھر سوال کیا۔
وہ رک کر اس کی جانب پلٹا جو جواب کی منتظر سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی اور تیز ہوائیں دونوں کو چھو کر گزرتی جا رہی تھیں۔
”اگر تم بھی مجھے دھوکہ دے گئی تو پھر میں کسی اور کو موقع دوں گا، اس نے بھی دھوکہ دیا تو پھر کوئی اور۔۔۔۔پھر کوئی اور۔۔۔۔۔کیونکہ میرے اندر محبت کا سمندر ہے اور سمندر سے چاہے کوئی کتنا بھی پانی کیوں نہ لے جائے وہ کبھی خشک نہیں ہوتا، وہ لوگ جو ایک دھوکے پر ہی دنیا سے بدظن ہوجاتے ہیں ان کے پاس محبت کا سمندر نہیں بس ایک بوند ہوتی ہے، اور میں کوئی عام انسان نہیں ہوں، میں ساحل ہوں!“ اس نے براہ راست آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا اور پلٹ کر دوبارہ قدم اٹھا لئے۔
وہ بس اس انسان کو دیکھ کر رہ گئی جو سمجھ میں نہ آتے ہوئے بھی ہر بار دل چھو جاتا تھا۔
*****************************************
دونوں گھر آنے کے بعد چینج کرکے بستر پر لیٹ گئے تھے۔ ساحل تو ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے تھوڑی دیر میں ہی سو گیا تھا۔ لیکن امبرین کو بہت دیر گزر جانے کے بعد بھی نیند نہیں آرہی تھی۔
”میں آسمان چھونے میں اتنا مصروف تھا کہ کسی نے میرے پیروں تلے زمین ہی کھینچ ڈالی اور میں منہ کے بل ایسے گرا کہ ٹوٹ گیا۔“ اسے ساحل کی کہی بات یاد آئی تو وہ بےساختہ سائیڈ لیمپ کی مدھم روشنی میں اس کی جانب دیکھنے لگی جو سیدھا لیٹا سو رہا تھا۔
اس کے کھڑے نین نقش والے وجیہہ چہرے پر بےحد اطمینان تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہیں؟ اس نے بھلا کب نفرت یا حسد میں کسی سے کچھ چھینا تھا؟ وہ تو بس دینا اور محبت کرنا جانتا تھا۔۔۔۔بےلوث محبت۔۔۔۔۔!
”وہ لوگ جو ایک دھوکے پر ہی دنیا سے بدظن ہوجاتے ہیں ان کے پاس محبت کا سمندر نہیں بس ایک بوند ہوتی ہے، اور میں کوئی عام انسان نہیں ہوں، میں ساحل ہوں!“ اس کی کہی ایک اور پرامید بات یاد آئی۔
یہ بات تو طے تھی کہ ساحل نے دوسری شادی پورے دل سے کی تھی اگر ایسا اس نے صرف بچوں کیلئے کیا ہوتا تو وہ کبھی امبرین کی اتنی پرواہ نہ کرتا!
اور اگر امبرین کی جوانی کی ہوس میں کی ہوتی تو اتنے دن گزر جانے کے باوجود سارے حقوق کے ساتھ بھی وہ قریب رہ کر دور نہ ہوتا بلکہ زور زبردستی اپنا حق وصول چکا ہوتا۔
یہ سب سوچتے ہوئے وہ بےاختیاری کے عالم میں اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
وہ باآسانی ساحل کے اس دل کی دھڑکن سن سکتی تھی جو شیشے کی طرح صاف اور سب سے مخلص تھا لیکن اس کی مخلصی کے بدلے اسے کیا ملتا تھا؟ صرف دھوکہ!
جو پہلے فروا نے دیا اور اب وہ دے رہی تھی۔
اپنے کوتک یاد کرکے بےساختہ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور اسے خود سے بےحد نفرت ہوئی جو ساحل جیسے انسان کو دغا دے رہی تھی۔
وہ کتنی عزت و محبت دیتا تھا اسے، حتیٰ کے اپنے ارمان دبا کر ساحل نے اس کی خواہش کا احترام کرلیا تھا اور سارے حقوق ہوتے ہوئے بھی وہ اب تک حد سے آگے نہیں بڑھا تھا۔ لیکن وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس حد تجاویز کر رہی تھی جو دھوکے بازی سے جا کر ملتی تھی۔
اس کے تواتر سے گرتے آنسوں ساحل کا سینہ بھیگونے لگے تھے اور سسکیاں ضبط کرنے کی کوشش میں چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔
بلآخر اس کے ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا اور وہ بری طرح سسک پڑی جس کے باعث ساحل بھی کسمسا کر بیدار ہوا۔
”امبرین! کیا ہوا؟“ وہ اٹھ کر بیٹھا مگر وہ اس سے الگ نہ ہوئی۔
”کیا پھر کوئی برا خواب دیکھ لیا؟“ وہ فکر مندی سے اس کا سر سہلانے لگا۔
”آئی ایم سوری!“ وہ اس کی ٹی شرٹ دبوچے رو رہی تھی۔
”سوری؟ لیکن کس لئے؟“ وہ کچھ سمجھا نہیں۔
امبرین کچھ کہنے کے بجائے بس ہچکیوں سے روتی رہی تو ساحل کو لگا وہ پھر کوئی برا خواب دیکھ کر ڈر گئی ہے۔
”ریلیکس امبرین، کچھ نہیں ہوا ہے۔“ ساحل نے اسے خود سے الگ کرکے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔
آہستہ آہستہ اس کے رونے میں کمی آنے لگی۔
”لو پانی پیو۔“ اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کی بوتل اٹھا کر اسے دی۔
اس نے بوتل منہ سے لگا کر دو گھونٹ حلق میں اتارے اور پھر بوتل واپس کردی جسے اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”اب بہتر محسوس ہو رہا ہے؟“ اس نے آنسوں صاف کیے۔
امبرین نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔
”چلو اب لیٹ جاؤ۔“ اس نے بستر کی جانب اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ لیٹ گئی۔ اور وہ بھی اسے کمبل اوڑھا کر لیٹنے لگا۔
”سنیں!“ امبرین نے پکارا۔
”بولو!“ وہ لیٹ چکا تھا۔
”ایک گڈ نائٹ کس دے سکتے ہیں؟“ اس کی سادگی بھری فرمائش پر ساحل نے تعجب سے چونک کر اسے دیکھا کیونکہ یہ ایک نہایت غیرمتوقع بات تھی۔
وہ پرامید نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”دے سکتا ہوں لیکن تمہیں پسند نہیں آیا تو؟“ اس نے بھی معنی خیز انداز میں سوال اٹھایا۔
”آجائے گا۔“ یعنی وہ اسے اجازت دے رہی تھی جو ساحل کیلئے بہت خوشگوار بات تھی۔
وہ ذرا سا اٹھ کر اس کے قریب آیا اور اپنے نرم لبوں سے بہت آہستگی کے ساتھ اس کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا۔
سرشاری کا احساس اس کی روح تک میں ڈور گیا جس کے باعث بےساختہ امبرین نے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرلئے۔
وہ ماتھا چوم کر بھی ہنوز اس کے چہرے پر جھکا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی پُرحدت سانسیں امبرین کا چہرہ چھو رہی تھیں۔
”جو وقت تم نے مانگا تھا کیا وہ پورا ہوگیا ہے؟“ وہ گھمیرتا سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اب خود پر جبر کرنا مشکل ہو رہا ہو!
اس کے سوال پر امبرین کا نرم تاثر یوں سنجیدگی میں بدلا گویا وہ یکدم ہوش میں آئی ہو۔
جب کہ ساحل مدہوش ہوکر اس کے لبوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔
”ساحل نہیں!“ اس نے اچانک گھبرا کر کہا تو وہ جو بےحد قریب آچکا تھا وہیں رک گیا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
”اب میں ٹھیک ہوں۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ سوجائیں۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
جس کا در حقیقت مطلب تھا کہ وہ کچھ دیر کیلئے بہک گئی تھی لیکن اب وہ ہوش میں آگئی ہے لہٰذا وہ اس سے دور ہوجائے۔ جس سے ساحل کے دہکتے جذباتوں پر یکدم اوس گر گئی۔
”اب میں ٹھیک نہیں ہوں۔“ اس کے بھاری لہجے میں بیک وقت جذبات کی شدت اور ان کے ادھورے رہ جانے کی خلش تھی۔ جسے امبرین نے بھی بخوبی محسوس کیا۔
وہ اس پر سے ہٹ کر بیڈ سے اترنے لگا۔
”کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ امبرین نے تعجب سے پوچھا۔
”پتا نہیں!“ وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
”لیکن ابھی اگر یہاں رکا تو اپنا وعدہ اور تمہارا مان توڑ بیٹھوں گا۔“ اس نے پلٹ کر ایک نظر امبرین کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر بڑے بڑے قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ جسے وہ دیکھ کر رہ گئی۔
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہہ دیتے ہو، آج نہیں
*****************************************
ایک نیا سویرا زمین پر جلوہ افروز ہوگیا تھا۔ لیکن آج کیونکہ اتوار تھا تو آج کسی کو بھی کہیں جانے کی جلدی نہیں تھی۔
امبرین نیند سے بیدار ہوئی تو ساحل کو اپنے پہلو سے غیر حاضر پایا۔
اسے گزری شب کا قصہ یاد آیا تو وہ خود سے ہی شرمندہ ہوگئی۔
نہ جانے کل رات اسے کیا ہوگیا تھا؟ وہ کیوں اتنی بےاختیار ہونے لگی تھی کہ جس سے دور رہنے کیلئے اس نے وقت مانگا تھا کل شب خود ہی اس سے اپنے ماتھے پر بوسے کی فرمائش کر بیٹھی تھی؟
ساحل نے بہت خوبصورتی سے اس کی فرمائش پوری کی تھی لیکن جب ساحل اپنی خواہش پوری کرنے لگا تو یکدم جیسے وہ اس بےاختیاری کی کیفیت سے ہوش میں آگئی تھی اور ایک بار پھر اس کے حقوق پر پابندی لگا دی تھی۔
اس نے چپ چاپ یہ پابندی قبول کی تھی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
امبرین کو در حقیقت خود بھی کافی برا لگا تھا۔ وہ کافی دیر تک اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی تھی تا کہ اپنے رویے پر اس سے معذرت کرلے۔ مگر اس کے انتظار میں کب نیند اس پر مہربان ہوگئی؟ پتا ہی نہیں چلا!
وہ خود پر سے کمبل ہٹاتی ہوئی بیڈ سے اتر کر فریش ہونے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہوکر باتھ روم سے باہر نکلی اور معمول کا ہار سنگھار کرکے کمرے سے باہر چلی آئی۔
اسے در حقیقت ساحل کی فکر ہو رہی تھی کہ وہ کہاں ہے؟
سب جگہ دیکھنے کے بعد وہ اسٹڈی روم میں آئی تو وہ اسے سیدھا صوفے پر سوتا ہوا ملا!
اسے اس طرح دیکھ کر بےساختہ امبرین کا دل پسیچ گیا۔
وہ اپنے ہی گھر میں محض اس لئے درگور ہوگیا تھا کہ اپنی بیوی کا مان رکھ سکے!
امبرین کے اندر سے بےساختہ آواز آئی کہ تم اس انسان کے ساتھ بہت غلط کر رہی ہو!
وہ اس آواز پر گھبرا گئی اور اس سے نظریں چراتے ہوئے ساحل کو جگانے کیلئے آگے آئی۔
ہر طرح کے جذبات سے عاری اس کا دلکش چہرہ نیند میں بےحد پرسکون تھا۔
وہ صوفے پر بچی ذرا سی جگہ پر بیٹھ گئی۔
”ساحل!“ اس نے دھیرے سے پکارا۔ مگر کوئی اثر نہ ہوا۔
”ساحل!“ اب کی بار اس نے آہستگی سے بازو بھی ہلایا تو وہ ناسمجھی کے عالم میں بیدار ہوکر اسے دیکھنے لگا۔
”صبح ہوگئی ہے، اٹھ کر فریش ہوجائیں۔“ اس کے دھیان دلانے پر ساحل کو بھی صورت حال کا اندازہ ہوا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
وہ بھی وہیں بیٹھی ہوئی تھی اور دونوں کے درمیان فاصلہ کافی کم تھا۔
”آئی ایم سوری۔۔۔۔میری وجہ سے آپ بےآرام ہوگئے۔“ وہ نظریں جھکائے شرمندہ سے بولی۔
”تو آرام دے کر اپنی غلطی کا ازالہ کردو نا!“ اس کے گھمبیرتا سے کہنے پر امبرین نے پلکیں اٹھا کر حیرانی سے اسے دیکھا۔
دونوں کے سیاہ نینوں کی ڈور آپس میں الجھ گئی تھی۔
اور اس سے پہلے کہ ساحل کے سیاہ نین دوبارہ اس پر سحر طاری کرتے ہوئے اسے بےاختیار کرتے اس نے فوری طور پر پلکیں جھکا کر خود کو سحر میں جکڑنے سے بچا لیا۔
”میں ناشتہ بنانے جا رہی ہوں، آپ فریش ہوکر ڈائینگ روم میں آجائیں۔“ وہ کہتی کھڑی ہوئی اور وہاں سے جانے لگی۔
”سنو!“ یکدم ساحل نے اس کی کلائی پکڑ لی۔
وہ رک کر پلٹی۔ دل بہت بےترتیبی سے دھڑک رہا تھا کہ جانے اب وہ کیا کہے گا؟
”میرے لئے میٹھا انڈا بنا دینا۔“ اس نے ہاتھ چھوڑتے ہوئے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ سادگی سے فرمائش کی تو امبرین کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
وہ اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ وہ وہیں بیٹھا مبہم مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
*****************************************
شام تک ساحل خود جا کر بچوں کو بھی عصمت خاتون کے گھر سے لے آیا تھا جس کے بعد ایسا لگا جیسے گھر کی رونق لوٹ آئی ہے۔
دونوں جب سے آئے تھے بس وہیں کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا رہے تھے کہ انہوں نے وہاں اپنے کزنز کے ساتھ کیا کچھ کیا؟
اور یہ دونوں سارا وقت پوری توجہ سے ان کی بات سنتے رہے کیونکہ دونوں کی ہی جان جو بستی تھی ان ننھے طوطوں میں۔
”پتا ہے پاپا دادی نے کل ہمیں آپ کی کالج کی وہ فوٹو بھی دکھائی وہ جس میں آپ کے پاس گیٹار بھی تھا!“ مائر نے پرجوشی سے بتایا۔
”ارے! خالہ کے پاس ابھی تک وہ تصوریں ہیں!“ ساحل کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
”جی، اور شارخ تایا نے بتایا کہ آپ کالج ٹائم پر بہت اچھا گیٹار بجاتے تھے، سچ میں پاپا؟“ منزہ نے بھی بتاتے ہوئے تائید چاہی۔
چاروں ڈنر کے بعد اب ہال میں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
”ہاں، اور ایک مزے کی بات بتاؤں؟“ اس نے برملا اعتراف کرتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
”بتائیں بتائیں!“ دونوں کو اشتیاق ہوا۔ جب کہ امبرین بھی دلچسپی سے ساری بات چیت سن رہی تھی۔
”میرے پاس اب بھی وہ گیٹار صحیح سلامت موجود ہے۔“ اس نے محظوظ ہوتے ہوئے انکشاف کیا۔
”سچی پاپا!“ دونوں کی آنکھیں خوشگوار حیرت سے پھیل گئیں۔
”مچی پاپا کی جان!“ وہ مسکرایا۔
”ہمیں بجا کر دکھائیں نا پلیز!“ دونوں نے شدت سے فرمائش کی۔
”رکو، ابھی لے کر آتا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے صوفے پر سے اٹھ کر اندر کی جانب چلا گیا۔ جب کہ بچوں کی بےتابی عروج پر تھی۔
”آپ کو گیٹار بجانا آتا ہے مما؟“ مائر نے پوچھا۔
”نہیں بیٹا!“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”کوئی بات نہیں ابھی دیکھیے گا پاپا آپ کو گیٹار بجا کر سنائیں گے۔“ منزہ پرجوشی سے بولی تو دونوں کی بےتابی پر وہ مسکرادی۔
تھوڑی دیر بعد ساحل واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں سیاہ گیٹار تھا۔
”واؤ!“ دونوں کے لبوں سے بےساختہ نکلا۔
ساحل ڈبل صوفے پر بیٹھ گیا جب کہ مائر اور منزہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آگئے۔
منزہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی جب کہ مائر صوفے کی پشت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
”واؤ! اصلی گیٹار!“ دونوں نے بےیقینی کے عالم میں گیٹار کو ہاتھ لگایا۔
”یہ بجا کر دکھائیں نا پاپا!“ منزہ نے فرمائش کی۔
ساحل نے گیٹار کے تار چھیڑے تو اس سے ایک خوبصورت دھن برآمد ہوئی جس کا مطلب تھا کہ وہ سُروں کی معلومات رکھتا تھا۔
”واؤ!“ دونوں بچے خوش ہوکر بےساختہ تالیاں بجانے لگے۔ جب کہ ان دونوں کو خوش دیکھ کر ساحل اور امبرین کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
”اب کوئی سانگ بھی سنائیں نا پاپا!“ مائر نے فرمائش کی۔
”پاپا وہ والا۔۔۔وہ والا سانگ جو ہم مل کر گاتے ہیں۔“ منزہ اچانک پورے جوش سے بولی۔
”ٹھیک ہے، پھر ابھی بھی آپ لوگ میرے ساتھ گانا، اوکے!“
”اوکے!“
ساحل کے کہنے پر دونوں نے فوری حامی بھری۔ جب کہ امبرین کو لگا یہ خاص لمحات اتنی جلدی ختم نہیں ہونی چاہئے اسی لئے انہیں قید کرنے کیلئے اس نے فوراً اپنے موبائل کا بیک كیمرہ آن کیا اور ان تینوں کو ایک خوبصورت یاد کے طور پر ویڈیو کی صورت محفوظ کرنے لگی۔
”اکیلے ہم، اکیلے تم“
”جو ہم تم سنگ ہیں تو پھر کیا غم“
ساحل نے گیٹار بجاتے ہوئے گانا شروع کیا۔
”تو میرا دل، تو میری جان“ ساحل نے گایا۔
”او! آئی لو یو ڈیڈی“ دونوں نے یک زبان ساتھ دیا۔
”تو معصوم، تو شیطان“ وہ مسکرایا۔
”بٹ یو لو می ڈیڈی“
دونوں گاتے ہوئے اس سے لپٹ گئے اور یہ خوبصورت لمحے ہمیشہ کیلئے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوگئے۔
*****************************************
”پتا ہے کل رات ہم نے آپ کی اسٹوری اور پاپا کا گڈ نائٹ کس بہت مس کیا۔“ منزہ نے بتایا جو اپنے بستر پر لیٹ چکی تھی۔
”ہم نے بھی آپ دونوں کو بہت مس کیا میری جان۔“ امبرین نے باری باری دونوں کا کمبل درست کرتے ہوئے محبت پاش جواب دیا۔
”اسٹوری بھی سن لی، پاپا نے گڈ نائٹ کس بھی دے دیا، اب اچھے بچوں کی طرح جلدی سے سوجاؤ دونوں، اوکے!“ اس نے دونوں کو تاکید کی۔
”اوکے مما، گڈ نائٹ مما!“ دونوں نے یک زبان جواب دیا۔
پھر امبرین لائٹ آف کرکے نائٹ بلب آن کرنے کے بعد کمرے کا دروازہ بند کرتی وہاں سے چلی گئی۔
وہ اپنے کمرے میں آئی تو آج خلاف معمول ساحل بستر پر نہیں تھا اور وہ گیٹار وہیں صوفے پر رکھا ہوا تھا جس کے ساتھ تھوڑی دیر پہلے یہ لوگ ہال میں ہنس کھیل رہے تھے۔
امبرین نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد بےاختیار ہی گیٹار اٹھا کر ایسے پکڑ لیا جیسے بجانے کیلئے پکڑتے ہیں۔
گو کہ وہ گیٹار بجانا نہیں جانتی تھی مگر ہمیشہ ٹی وی پر نظر آنے والی چیز کو براہ راست محسوس کرکے دیکھ رہی تھی کہ کیسا لگتا ہے؟
”تمہیں گیٹار بجانا آتا ہے۔“ عقب سے بےحد قریب ابھری ساحل کی آواز پر وہ چونک گئی لیکن پوری طرح پلٹ نہیں سکی کیونکہ ساحل بےحد نزدیک بیٹھ کر پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔
”نہیں، میں تو بس دیکھ رہی تھی۔“ اس نے دھیرے سے بتایا۔
وہ گیٹار پر سے ہاتھ ہٹا کر اسے چھوڑنا چاہ رہی تھی مگر ساحل نے اس کے ہاتھ سمیت ہی گیٹار پکڑ لیا تھا۔
”پتا ہے آخری بار میں نے یہ گیٹار اپنی اور فروا کی شادی کی پہلی سالگرہ پر بجايا تھا، مگر اسے یہ سب پسند نہیں آیا تو پھر اس گیٹار کا ٹھکانہ اسٹور روم بن گیا۔“ وہ اس کے کندھے پر ٹھوڑی ٹکائے خود ہی بتانے لگا جسے امبرین نے خاموشی سے سنا کیونکہ ساحل کی قربت اس کے حواس منتشر کردیا کرتی تھی۔
اب تک امبرین کی نظروں میں ایک بات کی تصدیق تو ہوگئی تھی کہ اس نے فروا سے زیادہ بدبخت عورت نہیں دیکھی تھی جس نے اتنا چاہنے والے مخلص شخص کی قدر نہیں کی اور بنا کسی مجبوری کے اسے یوں چھوڑ کر چلی گئی۔
”تمہیں پسند ہے گیٹار اور سنگنگ؟“ ساحل نے یوں ہی پوچھ لیا۔
”نہیں!“ یک لفظی جواب آیا۔
”ہاں لیکن جب آپ گا رہے تھے تو اچھا لگ رہا تھا۔“ امبرین کی اگلی بات نے اسے خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔
تب ہی سامنے کھلی کھڑکی سے ایک ٹھنڈا ہوا کا جھونکا اندر آیا اور انہیں چھو کر گزرتے ہوئے مزید سرشار کر گیا۔
”دوبارہ گاؤں؟ تمہارے لئے؟“ اس نے کان کے قریب گھمبیر سرگوشی کی۔
امبرین نے اثبات میں سر ہلایا اور اس نے گیٹار کے تار چھیڑ دیے جس سے برآمد ہوئی خوبصورت دھن نے ماحول پر فسوں پھونک دیا۔
"بنایا ہے میں نے تجھے اپنا ساقی“
”رہیں کس طرح پھر میرے ہوش باقی“
گیت کے رومانوی بول اور اس کی پُرتپش سانسیں امبرین کے جسم و روح کو چھو کر پُرکیف سی آگ میں جھلسا رہی تھیں۔
”نظر یوں بہکنے لگی ہے کہ جیسے“
”میرے سامنے کوئی جام آرہا ہے“
”سنبھالا ہے میں نے بہت اپنے دل کو“
”زبان پہ تیرا پھر بھی نام آرہا ہے“
”سنبھالا ہے میں نے بہت اپنے دل کو“
خمار آلود گھمبیر آواز میں وه گیت سنا کر خاموش ہوگیا تھا۔
امبرین نے آہستہ سے گردن موڑ کر اسے دیکھا تو وہ جو پہلے ہی بہت قریب تھا اب اتنا قریب ہوگیا کہ ناک اور لبوں کے بیچ بس معمولی سا فاصلہ رہ گیا۔
”بہت خوبصورت!“ اس نے نہایت آہستگی سے تعریف کی۔
”بدلے میں کوئی انعام ہی دے دو۔“ اتنی ہی آہستگی کے ساتھ معنی خیز فرمائش آئی۔
فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ آہستہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ساحل بھی گیٹار صوفے پر رکھتے ہوئے اس کے مقابل کھڑا ہوا۔
”بس آج ایک دن اور صبر کرلیں، کل آپ کو سارے انعامات و جوابات ایک ساتھ مل جائیں گے۔“ امبرین نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھے۔
”لیکن کل دو نومبر نہیں ہے، یعنی ابھی ایک مہینہ پورا نہیں ہوا ہے۔“ ساحل نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے پہلے ہی یاد دلایا اس سے قبل کہ وہ اس کے ارمان جگا کر ان پر اوس گرائے!
"جانتی ہوں، لیکن اب میں اس کیلئے تیار ہوں جس کیلئے وقت مانگا تھا۔“ اس کے سادہ سے لہجے میں بہت کچھ پوشیدہ تھا۔
”سچ میں؟ مجھے فی الحال ٹالنے کیلئے تو ایسا نہیں کہہ رہی ہو؟“ اسے اب بھی پوری طرح یقین نہیں آیا تھا۔
”سچ میں، کل آپ کا انتظار ختم ہوجائے گا۔“ جواب سادہ مگر گہرا تھا۔
”اگر ایسا ہے تو جہاں اتنے روز انتظار کیا وہاں ایک روز اور سہی کہ محبت میں زبردستی نہیں مرضی اچھی لگتی ہے۔“ اس نے معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ نہ بولی۔
ساحل آہستگی سے اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر چینج کرنے چلا گیا جب کہ وہ وہیں کھڑی حتمیٰ فیصلہ کرچکی تھی کہ اب اسے کیا کرنا ہے؟
*****************************************
چمکتی ہوئی صبح مشرقی پہاڑوں کے عقب سے نمودار ہوچکی تھی۔ اور آج ساحل کو یہ صبح کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگی کیونکہ آج اسے اپنے صبر کا پھل جو ملنے والا تھا۔
حسب معمول امبرین اس کی ٹائی باندھ رہی تھی اور وہ اسے بازؤں کے حصار میں لیے پُرمسرت انداز میں باتیں کر رہا تھا۔
”اور آج کھانے میں کچھ اہتمام نہ کرنا ہم ڈنر باہر کریں گے، ٹھیک ہے نا!“ کسی بات کے اختتام پر ساحل نے ہدایت دی تو اس نے اثبات میں سرہلا دیا۔
”اور سب سے ضروری بات!“ اسے اچانک یاد آیا۔
”میری الماری میں تمہیں ایک شاپنگ بیگ مل جائے گا، اس میں ایک ساڑھی ہے، وہ میں نے خاص تمہارے لئے لی تھی کہ دو نومبر کو تم سے فرمائش کروں گا اسے پہننے کی، لیکن خوش قسمتی وہ وقت جلدی آگیا تو میں چاہتا ہوں کہ آج رات تم وہ ہی ساڑھی پہنو!“ اس نے مسکراتے ہوئے اپنی خواہش بتائی۔
امبرین ٹائی باندھ چکی تھی۔
”پہنو گی نا؟“ ساحل نے ایک ہاتھ سے اس کی لٹ نرمی سے پیچھے کرتے ہوئے دوسرے بازو سے اسے خود میں بھینچا۔
”پہن لوں گی، آپ بےفکر رہیں۔“ امبرین کے دھیرے سے اقرار نے اسے مطمئن کردیا۔
”تھینکس! شام کو ملتے ہیں۔“ ساحل نے کہہ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور پھر کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گیا۔
جب کہ وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی جس کے ماتھے اور کمر پر اب تک ساحل کا لمس زندہ تھا۔
*****************************************
ساحل بہت ہی خوشگوار موڈ میں آفس آیا تھا۔
اسی خوشگواری سے جب وہ سب کی مارننگ وشز کا جواب دیتے ہوئے بلآخر اپنے روم میں پہنچا تو وہاں پہلے سے ہی شیخ صاحب موجود ملے۔
”ارے شیخ صاحب آپ یہاں؟ سب خیریت ہے؟“ وہ کہتے ہوئے آکر اپنی سنگل کرسی پر بیٹھا۔
”نہیں سر، کچھ بھی خیریت نہیں ہے۔“ ٹیبل کی دوسری جانب اس کے مقابل بیٹھے وہ بےحد پریشان لگ رہے تھے۔
”کیا ہوا؟“ وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
”سر جس آئیڈیا پر ہم لوگ کب سے کام کر رہے تھے وہ ہی آئیڈیا کرمانی نے ہاشمی گروپس کو پرپوز کردیا ہے جو وہ ایکسپٹ کرچکے ہیں۔“ انہوں نے بتایا نہیں تھا بم گرایا تھا جسے سن کر ساحل ششدر رہ گیا۔
”کیا؟ ہمارا آئیڈیا اسے کیسے پتا چلا گیا؟ اور پراجیکٹ تو کل لانچ ہونے والا ہے، تو ابھی کیسے ہاشمی گروپس نے کوئی پرپوزل ایکسیپٹ کرلیا؟“ وہ سخت حیرت کی لپیٹ میں تھا۔
”سر یہ سب کچھ اندر دا ٹیبل ہوا ہے، وہ کرمانی بہت تیز نکلا، اس نے ناصرف ہمارا آئیڈیا چرایا بلکہ پہلے ہی ہاشمی گروپس سے ڈیل کرلی ہے کہ کل وہ اسی کا آئیڈیا ایکسیپٹ کریں گے اور کرنا بنتا بھی ہے کہ اس کا آئیڈیا یونیک ہوگا، اب کل پراجیکٹ کی آفیشل لانچنگ بس دنیا دکھاوے کو ایک خانہ پوری ہے، در حقیقت وہ پراجیکٹ کرمانی ہم سے چھین چکا ہے، جو آئیڈیا ہم پرپوز کرنے والے تھے وہ ہی آئیڈیا چرا کر!“ انہوں نے تلخی سے وہ حقائق بتائے جو انہیں اپنے زرائع سے معلوم ہوئے تھے۔
یہ خبر سچ میں بہت خطرناک حد تک بری تھی۔
”لیکن اسے ہمارے آئیڈیا کی بھنک لگی کیسے؟“ ساحل نے زچ ہوکر سوال اٹھایا۔
”سر یقیناً آفس کے کسی ورکر نے ہم سے دغا بازی کی ہے، کسی کو خرید لیا ہوگا اس کرمانی نے!“ انہوں نے ممکنہ خیال ظاہر کیا۔
”آفس میں تو کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ ایکچل میں ہم کیا آئیڈیا پیش کرنے والے ہیں؟ اس بار پوری احتیاط کرتے ہوئے میں نے گھر میں ہی ساری پریزنٹیشن ریڈی کی تھی، آفس میں صرف آپ جانتے تھے کہ میں کام کر رہا ہوں لیکن کیا کام کر رہا ہوں یہ تو ٹھیک سے آپ کو بھی نہیں معلوم تھا تو پھر کیسے؟“ اس نے تلملاتے ہوئے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔
”کسی امپلائی کا آپ کے گھر آنا جانا ہے کیا سر؟ ہوسکتا ہے کسی نے کام کے بہانے گھر آکے، آپ سے نظر بچا کر آپ کے لاکر سے وہ پریزنٹیشن پیپرز نکال لئے ہوں!“ انہوں نے شک کے تحت پوچھا۔
ساحل بھی چونک کر پرسوچ انداز میں انہیں دیکھتے ہوئے ان کی بات پر غور کرنے لگا۔
”نہیں میرے گھر کوئی نہیں آیا تھا، لیکن اگر کوئی آیا بھی تو ڈرائینگ روم تک ہی آیا ہے، میرے لاکر تک رسائی ممکن نہیں تھی، اس بار آئیڈیا چرانا ناممکن تھا۔“ وہ نفی کرتے ہوئے بےچینی کے عالم میں اپنی کرسی سے اٹھ کر ٹہلنے لگا۔
وہ اس وقت سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پوری دنیا کو تہس نہس کردے!
”کہیں آپ نے تو کسی سے انجانے میں کوئی ذکر نہیں کیا ہمارے آئیڈیا کے بارے میں؟“ ساحل نے اچانک خیال آنے پر پوچھا۔
”نہیں سر! میں بھلا کیوں بتاؤں گا؟ اول تو مجھے اس کے بارے میں مکمل کچھ بھی پتا نہیں تھا اور دوسرا میرے لئے تو خود یہ پراجیکٹ ملنا بہت ضروری تھا کہ اس کے بعد میری پرموشن ہونے والی تھی، اسی کے آسرے پر ہم نے مارکیٹ سے اچھا خاصا لون لے رکھا ہے۔“ انہوں نے فکرمند عاجزی سے صفائی دی۔ اور بات مکمل کرتے ہی وہ خود بھی کسی خیال پر کھٹکے۔
”سر! یہ پراجیکٹ تو گیا، اب ہم وہ لون کیسے چکائیں گے جس کے بدلے آپ کا گھر گروی ہے!“ شیخ صاحب کے کہنے پر ساحل بھی چونک کر ایک جگہ رکا۔
”اگر ہم نے وقت پر لون ادا نہ کیا تو آپ کا گھر۔۔۔۔۔“ انہوں نے مزید کہتے ہوئے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔
ساحل نے فتح کے بہت قریب آکر شکست کھائی تھی۔ اس فتح کے قریب جس کی تیاری وہ کب سے کر رہا تھا۔ جس پر اس کی زندگی کا اہم موڑ آنے والا تھا۔
اور افسوس یہ تھا کہ یہ شکست کسی کی دغا بازی کے بدولت اس کے حصے میں آئی تھی۔
وہ دغاباز کون تھا اس کا اسے ابھی علم نہیں تھا۔ لیکن وہ طے کرچکا تھا کہ یہ دغابازی کرنے والے کو وہ کسی صورت نہیں بخشے گا۔
”گڈ لک! اور سنبھل کر رہنا، ایسا نہ ہو کہ پہلے میں تمہاری بیوی لے گیا، اب یہ پراجیکٹ بھی لے جاؤں اور تم کچھ نہ کر سکو۔“ اسے کرمانی کی وہ کمینی سی سرگوشی یاد آئی۔
ضبط کے مارے ساحل نے اتنی بری طرح جبڑے بھینچے ہوئے تھے کہ اس کی کنپٹی کی رگ نمایاں ہونے لگی تھی اور اتنا غصہ اسے شازو نادر ہی آتا تھا۔
بلآخر اس کے ضبط کا باندھ ٹوٹا اور اس نے ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ اٹھا کر پوری قوت سے سامنے دیوار پر نصب خوبصورت شیشے پر مارا جو زور دار آواز کے ہاتھ کئی ٹکڑوں میں ٹوٹ کے بکھر گیا۔۔۔۔۔۔بالکل اس کے اعتبار کی طرح!
*****************************************
امبرین اس وقت قبلہ رو جائے نماز بچھائے بیٹھی مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی۔
نماز مکمل کرکے جب اس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو نہ جانے کیوں پھر سے دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ ہمیشہ سے نماز کی پابند رہی تھی لیکن حالیہ کچھ دنوں میں نماز پڑھتے ہوئے اس کی کیفیت ایسی ہوتی تھی جیسے اسے اللہ کے سامنے شرمندگی ہو رہی ہو!
اور ہوتی بھی کیوں نہیں؟ اپنے مخلص شوہر کے ساتھ بےوفائی کرنا گناہ ہی تو تھا جو وہ مسلسل کیے جا رہی تھی۔
لیکن اب وہ ان سب سے تھک چکی تھی اسی لئے آج اس نے دل و دماغ کی اس جنگ سے آزادی پانے کا حتمیٰ فیصلہ کرلیا تھا۔
”مما!“ اچانک مائر اور منزہ پکارتے ہوئے آئے تو اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کرلیے۔
”مما، پاپا آگئے، وہ کہہ رہے ہیں کہ جلدی سے تیار ہوجاؤ ہم باہر جا رہے ہیں۔“ منزہ نے قریب رک کر بتایا۔
”ٹھیک ہے، آپ لوگ اپنے کمرے میں چلو میں ابھی آکر آپ لوگوں کو تیار کرتی ہوں۔“ اس نے نرمی سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، جلدی آئیے گا۔“ مائر نے بےتابی سے کہا اور دونوں خوشی خوشی اپنے کمرے میں بھاگ گئے۔
امبرین نے کھڑے ہوکر جائے نماز تہہ کی، اسے اپنی جگہ پر رکھا اور سر پر بندھا دوپٹہ کھولتے ہوئے اچھی طرح چہرہ صاف کیا کہ کہیں ساحل اسے دیکھ کر کھٹک نہ جائے!
وہ بچوں کے پاس جانے ہی لگی تھی کہ ساحل کمرے میں آگیا جو امبرین کی گلابی ہوتی ناک اور آنکھیں دیکھ کر چونکا۔
”السلام علیکم!“ اس نے دھیرے سے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! کیا ہوا؟“ وہ جواب دیتا اس کی جانب آیا۔
”کچھ بھی تو نہیں ہوا۔“ وہ انجان بنی۔
”تمہاری آنکھیں اور ناک ایسے گلابی ہو رہی ہیں جیسے تم روئی ہو!“ ساحل نے مقابل کھڑے ہوکر بغور اسے دیکھا۔
”نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے امی ابو کی یاد آگئی تھی، بس اسی لئے۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے بات بنائی۔
”والدین دنیا سے جا کر بھی ہمیشہ اولاد کے دل میں زندہ رہتے ہیں اور انہیں اچھا نہیں لگتا کہ ان کی اولاد انہیں سوچ کر اداس ہو! بلکہ انہیں یاد ہی کرنا ہے تو اچھے لفظوں میں یاد کرو۔“ ساحل نے نرمی سے کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔ اس نے محض اثبات میں سرہلایا۔
ساحل کی یہ حد درجہ محبت محسوس کرتے ہوئے امبرین کا دل پھر شرمندگی کے مارے بھر آنے لگا۔
”بچے میرا انتظار کر رہے ہوں گے! میں جا کر انہیں تیار کردیتی ہوں۔“ اس نے موضوع بدلتے ہوئے فرار چاہی۔
”ہاں، انہیں تیار کردو اور پھر خود بھی اچھے سے تیار ہوجاؤ، وہ ہی ساڑھی پہن کر!“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
امبرین نے سر ہلایا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ ساحل خود بھی چینج کرنے چلا گیا۔
بےشک اسے کاروبار میں بہت بڑا دھچکا لگا تھا جس کے چلتے ممکن تھا کہ آنے والے دنوں میں اسے اپنا یہ گھر بھی گنوانا پڑتا! لیکن وہ کل کی فکر میں آج میسر آنے والی خوشی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے آنے والے کل کی ساری فکریں پس پشت ڈال کر اس نے آج کو بھرپور طریقے سے جینے کا فیصلہ کیا۔
*****************************************
بچے ریڈی ہوکر گاڑی کی پچھلی نشست پر آچکے تھے اور ساحل بھی کار کے باہر امبرین کا انتظار کر رہا تھا جو بچوں کو تیار کرنے کے بعد کچھ دیر کی مہلت مانگ کر اب خود تیار ہو رہی تھی۔
بلیک جینز کے ساتھ براؤن ٹی شرٹ اور اس کے اوپر لیدر کی بلیک جیکٹ پہنے ساحل دونوں بازو سینے پر باندھے، کار سے ٹیک لگائے اس کا منتظر تھا۔
تب ہی وہ آتی ہوئی نظر آئی جسے دیکھ کر لگا کر فضا میں جلترنگ سی بج اٹھی ہے۔
شیفون کی میرون ساڑھی میں چار انچ کی ہیل پہنے وہ سہج سہج کر چلتی اسی جانب آرہی تھی۔
ساڑھی بےحد سادہ تھی جس کے بلاؤز کی فل آستینیں کلائیوں پر آکے چپک رہی تھیں۔
کانوں میں سلور کے ننھے سے ایئر رنگ آویزاں تھے جب کہ شادی کی پہلی رات دیا گیا ڈائمنڈ لاکٹ تو ہمیشہ ہی اس کے گلے کی زینت ہوتا تھا۔
سیدھے سیاہ بال پشت پر کھلے چھوڑے، سلیقے سے کیے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ کافی دلکش لگ رہی تھی۔
”چلیں؟“ اس نے قریب رک کر کہا تو ساحل یکدم ہوش میں آیا جو اسے دیکھ کر مبہوت ہوگیا تھا۔
”واؤ مما! بیوٹیفل!“ ایک ساتھ کھڑکی پر جھولتے مائر اور منزہ نے تعریف کی تو وہ مسکرادی۔
”ہاں، تم سچ میں بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔“ ساحل نے بھی گھمبیر انداز میں کہا۔
”تھینکس! اب چلیں؟“ اس نے دھیرے سے دھیان دلایا۔
پھر وہ گھوم کر فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھی جب کہ ساحل نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی جس کے بعد گاڑی کے پہیے حرکت میں آکر انہیں ان کی منزل کی جانب لے گئے۔
*****************************************
کافی خوشگوار ماحول میں باہر ڈنر کرنے کے بعد لانگ ڈرائیو کرتے ہوئے یہ لوگ قریب گیارہ بجے تک گھر واپس آگئے تھے۔
امبرین سیدھا بچوں کے ساتھ ان کے کمرے میں آئی تھی تا کہ انہیں چینج کروا کر سونے کیلئے لٹا دے۔
ساحل حسب معمول انہیں ”گڈ نائٹ کس“ دے کر جا چکا تھا اور جب بچے غنودگی میں جانے لگے تو امبرین بھی بےترتیبی سے دھڑکتے دل کے ہمراہ اپنے کمرے میں آگئی۔
ساحل کمرے میں کہیں نظر نہیں آیا لیکن کمرے کی لائٹس آف تھیں اور نائٹ بلب و سائیڈ لیمپ کی مدھم روشنی نے ماحول کافی سحر انگیز بنایا ہوا تھا۔
ابھی وہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ پیچھے سے ساحل نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لیا۔
وہ جو پوری طرح خود کو سنبھال بھی نہیں پائی تھی اس کی دھڑکنیں مزید منتشر ہوگئیں۔
امبرین کی زلفوں سے آتی شیمپو کی مہک اور جسم سے اٹھتی بھینی بھینی پرفیوم کی خوشبو نے اس پر مدہوشی طاری کرنا شروع کردی تھی۔
ساحل نے ضبط کا پہلا سرا چھوڑتے ہوئے اس کے بال پیچھے سے ایک کنارے پر کیے اور کندھے پر اپنے لب رکھے جو جذبات کی شدت سے دہک رہے تھے۔
وہ بےساختہ آنکھیں میچھتے ہوئے سانس روک بیٹھی۔
یہ ہی عمل اس نے کان کی لو پر دہرایا تو امبرین کا ضبط جواب دے گیا اور وہ بےچین ہوکر اس کی جانب گھومی۔
”مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“ اس نے فکرمندی کے عالم میں کہا۔
”باتیں بہت ہوچکی ہیں۔۔۔آج باتیں نہیں۔۔۔۔صرف محبت کرنی ہے۔“ اس کا گھمبیر لہجہ خمار سے چور تھا۔
وہ اسے مزید خود میں بھینچتے ہوئے اپنے لب اس کے لبوں کے اتنے پاس لے آیا کہ امبرین نے اس کی تپتی سانسیں چہرے پر محسوس کیں۔
”جو میں کہنا چاہتی ہوں وہ سن کر شاید آپ کی محبت نفرت میں بدل جائے!“ اس کے رنجیدگی سے کہنے پر ساحل نے چہرہ پیچھے کرتے ہوئے چونک کر اسے دیکھا۔
ساحل کی آنکھوں میں تعجب خیز سوال تھا اور امبرین کی آنکھوں میں بیک وقت ڈر، شرمندگی اور رنج تھا۔
”تم نے کہا تھا کہ آج مجھے اجازت ہے!“ اس کا عجیب سا انداز کچھ جتانا چاہ رہا تھا۔
”ہاں ہے، لیکن میری بات سننے کے بعد، اس کے بعد آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔میری جان بھی لے سکتے ہیں۔۔۔۔میں کچھ نہیں کہوں گی۔“ اس نے اسی رنجیدگی کے ساتھ ترکی بہ ترکی جواب دیا تو ساحل کی مدہوشی زائل ہوکر سنجیدگی میں بدل گئی۔
اس کا انداز ایسا نہیں تھا جسے نظر انداز کیا جاتا۔
”کیا کہنا ہے تمہیں؟“ بلآخر اس نے بھی جاننا چاہا۔
چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد امبرین نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے سنگل صوفے پر بٹھا کر خود اس کے پیروں سے لگ کر زمین پر بیٹھ گئی۔
وہ اس وقت اتنا الجھا ہوا تھا کہ اسے نیچے بیٹھنے سے ٹوک بھی نہ پایا۔
”میں یہاں خود نہیں آئی، کسی نے جان بوجھ کر ایک خاص مقصد کے تحت مجھے یہاں بھیجا ہے۔“ اس نے بنا کسی تہمید کے اپنا سچ کھول کر رکھ دیا۔
وہ ششدر رہ گیا۔
”سر یقیناً کسی نے ہم سے دغا بازی کی ہے، کسی کو خرید لیا ہوگا اس کرمانی نے!“ اسے بےساختہ شیخ صاحب کی بات یاد آئی۔
اسی پل اس کے ذہن میں کوندا لپکا۔۔۔۔۔
کڑی سے کڑی ملی۔۔۔۔
اور پوری تصویر واضح ہوگئی!
مطلب امبرین ظفر کرمانی کا بھیجا گیا وہ مہرہ تھی جسے اس نے بڑی چالاکی سے ساحل کے خلاف استعمال کرتے ہوئے مات دے ڈالی تھی!
”کس نے بھیجا ہے تمہیں؟“ وہ سب سمجھتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھا۔
”آپ کی خالہ اور ان کے بیٹوں نے، تا کہ میں آپ کی جائیداد میں سے ان کا بھی حصہ نکال سکوں۔“ اصل انکشاف تو اب ہوا تھا۔
اس رخ پر پلٹا ہے قصہ، جس کا امکان تھا ہی نہیں
تیر اس طرف سے آیا ہے جہاں میرا دھیان تھا ہی نہیں
فریال خان
ساحل کو لگا کہیں بہت زور دار دھماکہ ہوا ہے جس کی خطرناک گونج سے اس کے کانوں کے پردے پھٹ گئے ہیں اور اب بس چاروں طرف سائیں سائیں کی آواز آرہی ہے۔
”آپ کی خالہ کا کہنا تھا کہ آپ نے بہت کچھ بنا رکھا ہے جس پر ان کا بھی حق ہے کیونکہ انہوں نے کافی عرصہ اپنے گھر سے دور رہ کر آپ کے گھر اور بچوں کا سنبھالا ہے، اگر آپ اپنی پسند کی کسی لڑکی سے شادی کرتے تو وہ کبھی ان لوگوں کو آپ کی پراپرٹی سے حصہ نہیں لینے دیتی بلکہ مکھن میں سے بال کی طرح ان لوگوں کو آپ کی زندگی سے نکال باہر کرتی، اسی لئے انہوں نے مجھے بھیجا تا کہ میں آپ کی بیوی بن کر، ان لوگوں کے اشاروں پر چل سکوں، اپنی جھوٹی محبت سے آپ کو لبھا کر اس قدر آپ کو اپنی مٹھی میں کرلوں کہ میرا ہر لفظ آپ کیلئے حرفِ آخر ہو، مگر میں ایسا نہیں کرسکی۔“ اس نے خود ہی وضاحت کرنا شروع کی کیونکہ ساحل تو حیرت کے مارے اپنی جگہ ساکت ہوگیا تھا۔
”میری امی کا تو بہت پہلے انتقال ہوگیا تھا، ابو آپ کی خالہ کے گھر کافی عرصے سے ڈرائیور تھے، جب ابو بھی چل بسے تو میرے اور میرے ہم عمر بھائی بلال کیلئے گزر بسر مشکل ہوگیا، کیونکہ نہ گھر اپنا تھا اور نہ ڈھنگ کا روزگار، میرا بھائی ایک کرائے کی ٹیکسی چلاتا تھا جس سے تھوڑا بہت آسرا ہوجاتا تھا، اسی دوران ایک رات میرے بھائی کی ٹیکسی سے ایک بندے کا ایکسیڈینٹ ہوگیا، وہ پولیس کے ڈر سے وہاں سے بھاگ آیا، لیکن پولیس نے ایکسیڈینٹ کرنے والے کی تلاش شروع کردی کیونکہ مرنے والا کوئی لینڈ لارڈ تھا، آج نہیں تو کل پولیس میرے بھائی تک پہنچ ہی جائے گی یہ سوچ کر ہم بہت پریشان ہوگئے، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟
تب ہی ایک ہلکی سی امید کے تحت میں ابو کے مالکان کے پاس مدد مانگنے گئی کہ وہ بڑے لوگ ہیں شاید کچھ مدد کردیں!
سارا مسلہ سن کر شارخ بھائی نے کہا کہ وہ مجھے رہنے کیلئے ٹھکانہ بھی دے دیں گے اور میرے بھائی کو بھی دبئی بھجوادیں گے جہاں پولیس اسے نہیں پکڑ پائے گی، لیکن بدلے میں جو وہ کہیں گے مجھے کرنا ہوگا، میں مجبور تھی اسی لئے مان گئی۔
کہے کے مطابق انہوں نے جلد میرے بھائی کو دبئی بھجوا دیا اور مجھے اپنے سرونٹ کواٹر میں رہائش دے دی، مجھے لگا شاید وہ لوگ مجھ سے گھر کے کام کاج کروائیں گے اور تنخواہ بھی نہیں دیں گے۔ انہوں نے میرے بھائی کو باہر بھیجا تھا تو یہ سوچ کر میں ایسے کام کرنے کو بھی ذہنی طور پر تیار ہوگئی کہ میری خیر ہے، کم از کم میرے بھائی کا مستقبل تو بن جائے گا! چھت اور دو وقت کا کھانا تو مجھے مل ہی گیا تھا، لیکن وہ لوگ مجھ سے کچھ اور ہی چاہتے تھے۔
ایک روز جب آپ کی خالہ یہاں سے وہاں رہنے گئی ہوئی تھیں تو مجھے ان کے سامنے حاضر کرکے شارخ بھائی نے بتایا کہ میں انہیں اس کام کیلئے بالکل ٹھیک لگ رہی ہوں، ان کی بات سن کر میں ڈر گئی کہ نہ جانے یہ لوگ مجھ سے کون سا کام کروانا چاہتے ہیں؟
تب ان لوگوں نے بتایا کہ مجھے آپ کے گھر آنا ہے، آپ کے بچوں کا دل جیت کر پہلے ان کی ماں پھر آپ کی بیوی بننا ہے، اور آہستہ آہستہ آپ کی برین واشنگ کرکے آپ کو اس نہج پر لانا ہے کہ آپ بخوشی اپنی دو میں سے ایک فیکٹری ان کے نام کرنے کو تیار ہوجائیں، لیکن شادی کے بعد آپ کو اپنی مٹھی میں کرنا تو دور میں تو آپ سے بات بھی نہیں کر پائی، خالہ جان بوجھ کر واپس اپنے گھر گئی تھیں اور مجھے سختی سے حکم دے کر گئی تھیں کہ تنہائی کا فائدہ اٹھا کر آپ کو اپنی جھوٹی محبت اور ہوش ربا اداؤں سے لبھا کر مٹھی میں کروں۔“
*****************************************
فلیش بیک
”تم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہو بیٹا؟ میں آتی جاتی رہوں گی۔“ انہوں نے رسان سے تسلی دی۔ وہ کچھ نہ بولی۔
”چلیں ناشتہ کرلیتے ہیں پھر آپ کو ڈراپ کرتے ہوئے مجھے آفس بھی جانا ہے۔“ ساحل نے گفتگو سمیٹی۔
”ہاں، ذرا کرم داد کو بھیج دو سامان گاڑی میں رکھوانا ہے۔“ ان کے کہنے پر ساحل سر ہلا کر چلا گیا جب کہ وہ رسان سے امبرین کی جانب متوجہ ہوئیں۔
”بات سنو لڑکی! بہت ہوگیا یہ نئی نویلی دلہنوں کی طرح شرمانا گھبرانا، جس مقصد کیلئے ہم تمہیں یہاں لائے ہیں اس پر کام شروع کرو اب! ساحل پر اپنی جوانی کا ایسا جادو چلاؤ کہ جو تم بولو وہ سب بخوشی کرے وہ!“ عصمت خاتون دھیمی آواز مگر سخت انداز میں مخاطب تھیں جس سے وہ مزید سہم گئی۔
”آپ لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں، ساحل جیسے شخص کو دھوکہ دے کر لوٹنا غلط ہے، آپ کو جو چاہیے آپ ان سے مانگ لیں وہ آپ کو دے دیں گے، وہ بہت اچھے ہیں۔“ اس نے لجاجت سے سمجھانا چاہا۔
”ہم کوئی بھیکاری نہیں ہیں جو اس کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگیں۔“
”دھوکے سے چھیننا بھیک مانگنے سے زیادہ گری ہوئی حرکت ہے۔“ وہ بےساختہ کہہ گئی۔
”زبان چلا رہی ہے مجھ سے، بہت پر نکل آئے ہیں چند دن اس کی سنگت میں رہ کر!“ انہوں نے یکدم اس کا بازو دبوچا تو وہ سسک اٹھی۔
”اگر تیرے دماغ میں یہ چل رہا ہے کہ تو ساحل کی بیوی ہے اور تو اسے سب بتا کر بچ نکلے گی تو تیری غلط فہمی ہے، پہلی بات تو یہ کہ ساحل کو دھوکے باز لوگوں سے نفرت ہے، اگر تو نے منہ کھولا تو ہم سے تو وہ تعلق ختم کرے گا مگر تجھے بھی طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دے گا، اور صرف اتنا ہی نہیں شارخ کے صرف ایک اشارے پر تیرے بھائی کو پاکستان بلا کر پولیس کے حوالے کردیا جائے گا جس کے بعد پولیس اس کا کیا حشر کرے گی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ ان کی دھمکی سے اس کے پورے وجود میں خوف کی سرسراہٹ دوڑ گئی۔
”اگر اپنی اور اپنے بھائی کی سلامتی چاہتی ہے تو چپ چاپ ملکہ بن کر اس گھر میں رہتی رہ، خود بھی عیش کر اور ہمیں بھی عیش کروا، آئی سمجھ!“ انہوں نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا تو وہ بےبسی سے آنسو پی کر رہ گئی۔
*****************************************
حال
”میں لاکھ دھمکیوں کے باوجود بھی ان کے کہنے کے مطابق نہیں چل پا رہی تھی، میں جانتی تھی کہ آپ تو پہلے ہی مجھے دل و جان سے قبول کرچکے ہیں اگر میں بھی آپ کی طرح والہانہ پن دکھاؤں تو آپ پوری طرح میری مٹھی میں ہوسکتے ہیں، مگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہ غلط ہوتا، آپ کے جذبات سچے تھے جن سے کھیلنے کو میرا ضمیر نہیں مان رہا تھا۔
شارخ بھائی فون پر مجھ سے پل پل کی خبر لیتے تھے، میں نے سوچا ان لوگوں سے جھوٹ کہہ دیتی ہوں کہ میں نے آپ سے بات کی ہے مگر آپ نہیں مانے، اور اسی طرح جب تک ممکن ہوگا ان کو ٹالتی رہوں گی، لیکن شارخ بھائی نے نیا حکم دیا کہ فیکٹری کے اصل پیپیرز اور آپ کے انگوٹھے کا نشان چرا کر ان لوگوں تک پہنچا دوں جس کے بعد میرا کام یہاں ختم ہوجائے گا اور وہ مجھے بھی میرے بھائی کے پاس بھیج دیں گے، شاید ان لوگوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جو سوچ کر وہ مجھے اس گھر میں لائے تھے میں اس پر کھری نہیں اتری۔
یہ سب سن کر میں بہت گھبرا گئی اور صاف انکار کیا کہ میں ایسا نہیں کرسکتی، تو انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو وہ میرے بھائی کو واپس لاکر پولیس کے حوالے کردیں گے، میں بہت ڈر گئی تھی اور اپنے بھائی کو بچانا چاہتی تھی اسی لئے مجبوراً ایسا کرنے کیلئے راضی ہوگئی لیکن بخدا میں نے اب تک پیپرز انہیں نہیں دیے ہیں صرف تصدیق کیلئے ان کی تصویر بھیجی تھی، اگلے تین دنوں میں مجھے ہر حال میں وہ اصلی پیپرز اور آپ کے انگوٹھے کا نشان ان تک پہنچانا تھا لیکن اب میں ایسا نہیں کروں گی، اب میں آپ کو اور دھوکہ نہیں دوں گی۔“
دھیرے دھیرے سب بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔ جب کہ ساحل کو لگا جیسے اس کے سارے احساس مرگئے ہیں۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اب کون سی ایسی آستین رہ گئی ہے جس سے سانپ نہ نکلیں ہوں؟
پہلی محبت یک طرفہ۔۔۔۔پہلی شادی بےوفا۔۔۔۔۔کاروبار میں ایمانداری نہیں۔۔۔۔۔ماں جیسا رشتہ چال باز۔۔۔۔۔اور اب دوسری محبت میں بھی دھوکہ!
ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے نصیب کے کاغذ پر ترتیب سے بس دھوکے کھانا ہی لکھا تھا۔
”اب یہ سب بتانے کی وجہ؟“ کافی دیر بعد وہ گویا ہوا تو اس کا بھاری لہجہ ہر جذبات سے عاری تھا۔
”کیونکہ اب میں اپنے ضمیر سے لڑتے لڑتے تھک گئی تھی جو ہر لمحہ مجھے ملامت کر رہا تھا کہ میں آپ جیسے انسان کو دھوکہ دے کر ٹھیک نہیں کر رہی ہوں۔“ وہ بھیگے لہجے میں وضاحت کرنے لگی۔
”شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک یہ سوچ کر میں نے آپ کو اپنے قریب آنے سے روکا ہوا تھا کہ شاید اس وجہ سے آپ غصے میں آکر مجھے طلاق دے دیں اور میں دھوکے بازی کا یہ کھیل کھیلنے سے بچ جاؤں، مگر غصہ کرنا تو دور آپ میری ہر بات کا احترام کرتے چلے گئے جس نے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میرے دل میں آپ کیلئے عزت اور اپنی لئے ملامت بڑھا دی، جس کے بعد اب آخری راستہ یہ ہی تھا کہ میں آپ کو سب سچ بتا دوں!“ اس کی لرزتی آواز میں کرب گھلنے لگا۔
”اب آپ یا وہ لوگ میرے ساتھ جو سلوک کریں گے میں سہہ لوں گی، کم از کم وہ ضمیر کی اس ملامت سے تو بہتر ہوگا!“ اس کے لہجے میں درد بڑھنے لگا۔
وہ اب بھی کچھ نہ بولا۔
”آپ نے مجھے ربة البيت کہا تھا نا! نہیں ہوں میں اس مقدس لفظ کے لائق۔۔۔۔نہیں ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے آخر میں ہچکیوں سے رو پڑی۔
ساحل ہر قسم کے جذبات سے عاری سکتے کی کیفیت میں بیٹھا تھا اور اس کے پیروں کے پاس بیٹھی امبرین اس کے گھٹنے پر سر رکھے روئے جا رہی تھی جس کی ہچکیاں مدھم روشنی میں ڈوبے کمرے کی خاموش فضا میں گونج رہی تھیں۔
کہنے کو وہ اس کی مجرم تھی لیکن در حقیقت دونوں کا درد سانجھا تھا کہ محبت کا جام ان کے لبوں سے لگا کر قسمت نے اسے واپس لیتے ہوئے انہیں پیاسا ہی چھوڑ دیا تھا۔
ساحل نے دھیرے سے اس کا سر پیچھے کرتے ہوئے اپنا گھٹنا ہٹایا تو وہ بھی سر اٹھا کر بھیگی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی کہ نہ جانے اب وہ کیا سزا سنائے گا؟
کچھ بھی کہنے کے بجائے وہ صوفے پر سے اٹھا اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا کمرے سے باہر چلا گیا۔
جب کہ وہ بےبسی سے وہیں بیٹھی رہ گئی جس کے آنسوؤں میں دوبارہ شدت آنے لگی تھی۔
جلتی رہی ہے آگ بجھانے کے بعد بھی
برہم رہے مزاج منانے کے بعد بھی
قربت میں اور بڑھ گئی ہیں دل کی دوریاں
ایک تشنگی رہی تجھے پانے کے بعد بھی
انتخاب
*****************************************
قیامت خیز رات بہت سے انکشافات کی آندھی چلا کر بلآخر گزر گئی تھی۔
اس آندھی کے زد میں آنے والے رات بھر ایسے سوالوں کے بیچ الجھتے رہے جن کا جواب معلوم ہوتے ہوئے بھی دل کو مطمئن نہیں کر پا رہا تھا۔
کمرہ پوری طرح سورج کی روشنی سے منور ہوگیا تھا جہاں امبرین فرش پر بیٹھی، صوفے سے سرٹکائے روتے ہوئے جانے کب سوگئی اسے پتا ہی نہیں چلا!
ہوش میں تو وہ تب آئی جب مائر اور منزہ اسے پکارتے ہوئے آئے۔
وہ ہڑبڑا کر آنکھیں کھولتی سیدھی ہوئی تو دیکھا نائٹ سوٹ میں مائر اور منزہ اس کے پاس کھڑے ہیں۔
”کیا ہوا مما؟ آپ یہاں کیوں سو رہی ہیں؟“ مائر نے سوال کیا۔
”کچھ نہیں بیٹا! بس آپ کے پاپا سے باتیں کرتے ہوئے کب نیند آگئی پتا ہی نہیں چلا۔“ اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے بات بنائی۔
رات بھر رونے کے باعث نہ صرف اس کی آواز بھاری ہوگئی تھی بلکہ آنکھیں بھی سوجھی ہوئی ہو رہی تھیں۔
”آج آپ نے ہمیں اسکول کیلئے جگایا نہیں مما، ہم لیٹ ہوجائیں گے۔“ منزہ کے کہنے پر اس نے بھی بےساختہ گھڑی کی جانب دیکھا تو پتا چلا صبح کے سوا سات بج چکے ہیں۔
”میری آنکھ نہیں کھلی بیٹا، چلو آپ لوگ جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم پہنو، میں امینہ کو ناشتے کا کہہ کر آپ کے پاس آتی ہوں۔“ اس نے جلدی سے ہدایت دی تو دونوں سرہلا کر واپس بھاگ گئے جب کہ وہ بھی فوری طور پر ساڑھی چینج کرنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ باتھ روم کی جانب بڑھی ہی تھی کہ باتھ روم کا دروازہ کھلا اور ساحل باہر آیا جسے کا تھکن زدہ چہرہ دیکھ کر وہ اپنی جگہ رک گئی۔
ساحل پوری رات اسٹڈی روم میں بیٹھا سیگریٹ پھونکتا رہا تھا اور صبح جب وہ کمرے میں واپس آیا تب امبرین اسے صوفے پر سر ٹکائے سوتی ہوئی ملی جسے نظر انداز کرکے وہ فریش ہونے چلا گیا تھا۔
لیکن اب اس کی سوجھی ہوئی گلابی آنکھیں اور رویا رویا چہرہ دیکھ کر ساحل کو ایک لمحے کیلئے اس پر ترس آیا۔
وہ پوری رات یہ ہی سوچتا رہا تھا کہ امبرین کو ایسی کیا سزا سنائے جو انصاف پر مبنی ہو!
”بچوں نے آکر جگایا مجھے، انہیں اسکول سے دیر ہو رہی ہے۔“ کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کو تکتے رہنے کے بعد بلآخر امبرین نے نظریں جھکاتے ہوئے وضاحتی انداز میں خاموشی توڑی۔
کچھ کہنے کے بجائے ساحل باتھ روم کے راستے سے ہٹ گیا جس کا مطلب تھا کہ وہ فریش ہونے جا سکتی ہے۔
وہ فوری طور پر آگے بڑھی تھی جب اچانک ساحل کی پکار نے اس کے قدم روک لئے۔
”سنو!“
”جی؟“
”جب تک میں نہ کہوں تب تک نہ تم کچھ کرو گی اور نہ کچھ کہو گی، آئی سمجھ!“ اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔
یعنی ابھی اس نے کوئی حتمیٰ فیصلہ نہ سناتے ہوئے جو جیسے چل رہا تھا اسے ویسے چلنے دیا۔
”جی سمجھ گئی۔“ اس نے دھیرے سے جواب دے کر باتھ روم میں جا کر دروازہ بند کرلیا۔
ساحل بھی آفس جانے کیلئے پرسوچ انداز میں تیار ہونے لگا۔
اس وقت امبرین کے معاملے سے زیادہ اس کیلئے اپنا ڈوبتا ہوا کاروبار بچانا اور یہ پتا لگانا اہم تھا کہ اگر امبرین نے کرمانی کی مدد نہیں کی ہے تو پھر ایسا کون کرسکتا ہے؟
*****************************************
اس عالیشان ہوٹل میں منقعد میٹنگ میں آج وہ اربوں روپے کا پراجیکٹ لانچ ہونے جا رہا تھا جو جس کسی کو بھی ملتا تو اس کی قسمت یکسر بدل کر رکھ دیتا۔ اسے فرش سے عرش پر پہنچا دیتا۔
کامیابی کے عرش پر پہنچنے کیلئے سارے امیدوار پوری تیاری کے ساتھ نہایت پرجوش اور تھوڑے نروس سے اس وقت میٹنگ ہال میں جمع ہو رہے تھے۔
ساحل کے مینیجر شیخ صاحب اور آسیسٹنٹ زحرف بھی میٹنگ روم میں جا چکے تھے جب کہ کال پر بات کرنے کیلئے باہر رکا ساحل بھی اب نہایت سنجیدہ انداز میں میٹنگ ہال کی جانب جا رہا تھا۔
اسی میٹنگ ہال کی جانب جو آج اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا تھا کہ تھوڑی دیر بعد وہاں سے باہر آنے والا ساحل عرش کی بلندیوں پر ہوگا یا فرش کی گہرائیوں میں۔
قیمتی سیاہ جوتوں میں قید ساحل کے متوازن انداز میں اٹھتے قدم اچانک ایک ہشاش بشاش پکار پر رکے۔
”ارے ساحل صاحب! آپ یہاں!“ آواز پہچان کر وہ ناگواری سے پلٹا تو کرمانی کو اپنی طرف آتا پایا۔
”آپ کو نہیں لگتا کہ ایک ہی آئیڈیا پیش کرنے کیلئے دو لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ مقابل رک کر مصنوعی غور و فکر سے بولا تھا لیکن درحقیقت وہ کیا جتانا چاہ رہا تھا یہ ساحل بخوبی سمجھ گیا تھا۔
”خیر کوئی نہیں، دل کی تسلی کیلئے کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بیسٹ آف لک!“ اگلے ہی پل کرمانی اس کا کندھا تھپک کر آگے بڑھ گیا۔
وہ ضبط سے جبڑے بھینچیں وہیں کھڑا رہا۔
”اور ہاں ایک ضروری بات!“ اچانک کرمانی جاتے ہوئے رک کر پلٹا۔
”گھر میں ملازمہ ذرا دیکھ بھال کر رکھا کرو یار!“ اس نے بظاہر ایک سادہ سا مشورہ دیا تھا مگر اس کی کمینی مسکراہٹ ساحل پر بہت کچھ اشکار کر گئی تھی۔
کرمانی وہاں سے چلا گیا تھا لیکن ساحل حیرت زدہ سا وہیں کھڑا رہ کر حقیقت کی اس تصویر پر غور کرنے لگا جو پزل کے سارے ٹکڑے ملنے پر اب مکمل ہوکر سب کے چہرے بےنقاب کر گئی تھی۔
یہ شہرِ طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے یا ابلیس
انتخاب
*****************************************
کافی دیر جاری رہ کر اختتام پذیر ہوئی میٹنگ کے بعد سنجیدہ تاثرات کے ساتھ ساحل کا رخ عصمت خاتون کے گھر کی جانب تھا کہ جب سارے باب کھل ہی گئے ہیں تو اس قصے کو بھی ختم کر دینا چاہئے تھا۔
وہ گاڑی سے اتر کر سیدھا اندر آیا جہاں سب گھر والے لنچ کیلئے ڈائینگ روم میں اکھٹا ہو رہے تھے۔ کیونکہ شارخ اور فاروق لنچ ٹائم میں آفس سے گھر آکر سب کے ساتھ ہی کھانا کھاتے تھے۔
”ارے ساحل بیٹا تم!“ اسے اچانک دیکھ سنگل کرسی پر بیٹھی عصمت خاتون کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
”صحیح ٹائم پر آئے ہو، آجاؤ ہمارے ساتھ کھانا کھا لو۔“ فاروق نے اسے بھی پیشکش کی۔
”کھانے کی کوشش تو آپ لوگوں نے کی ہے مجھے، اپنی چال بازیوں سے۔“ وہ تلخی سے گویا ہوا تو عصمت خاتون سمیت شارخ، فاروق اور ان دونوں کی بیگمات بھی حیرت سے اسے دیکھنے لگیں۔
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو!“ شارخ انجان بنا۔
”یہ ہی چاہیے تھا نا آپ لوگوں کو جس کیلئے آپ لوگوں نے میرے ساتھ اتنی بڑی چال چلی!“ ان کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل ڈائینگ ٹیبل پر پھینکی۔
وہ لوگ حیرت زدہ سے نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ یقیناً امبرین نے اس کے آگے منہ کھول دیا ہے اور اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
”دیکھو ساحل! جیسا تم سمجھ رہے ہو ویسا نہیں ہے، اس امبرین نے سراسر جھوٹ بولا ہے تم سے۔“ شارخ نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے صفائی دینی چاہی۔
باقی سب بھی حقیقت کھلنے پر سٹپٹا گئے تھے کیونکہ سب ہی اس سازش کا حصہ تھے۔
”میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں کہ امبرین نے مجھے کچھ بتایا ہے، اور اگر آپ لوگوں نے کچھ نہیں کیا تو آپ کو کیسے پتا کہ امبرین نے مجھے کچھ بتایا ہے؟“ ساحل نے تیکھے انداز میں سوال اٹھایا تو اسے شدت سے اپنی بےوقوفی کا احساس ہوا۔
وہ اس کے شک کی خود تصدیق کر چکا تھا جس کے بعد اب کسی صفائی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
”آپ سگی خالہ ہیں میری، خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے، اور کوئی ماں بھلا ایسی چال بازی کرتی ہے کیا اپنے بچوں کے ساتھ؟“ وہ غم و غصے کے عالم میں عصمت خاتون سے مخاطب ہوا تو وہ بےساختہ نظریں چرا گئیں۔
”میں ہمیشہ یہ سوچ کر خود پر رشک کرتا تھا کہ میری ماں نہیں ہے تو کیا ہوا؟ ماں جیسی خالہ ہیں جنہوں نے میری طلاق کے بعد میرے گھر اور بچوں کو سنبھالا اور مجھ سے بھی ماؤں سی محبت کرتی ہیں، میں کیسے ان کی اس محبت کا بدلہ چکاؤں گا؟ مگر مجھے کیا پتا تھا کہ میری ماں تو اپنی ساری خدمات کا سود سمیت معاوضہ وصول کرنے کا پلان بنائے بیٹھی ہے۔“ تلخی سے کہتے ہوئے اس کے انداز میں بےپناہ دکھ تھا۔
اس کے پیٹھ پیچھے چال بازی کرنے والے اس کے سامنے مجرم بنے چپ چاپ بیٹھے تھے۔
”اگر آپ کو میری پراپرٹی میں اپنے بچوں کیلئے حصہ چاہیے بھی تھا تو مجھ سے کہہ کر مانگ لیتی، میں کبھی منع نہیں کرتا، لیکن یہ چال بازیاں کرکے کم از کم مجھ سے ماں جیسا مقدس رشتہ تو نہ چھینتی!“ اس کے انداز میں غصے سے زیادہ غم چھلک رہا تھا۔
”بیٹا میری بات تو سنو!“ انہوں نے لاغر انداز میں کچھ کہنا چاہا۔
”کہنے سننے کیلئے کچھ چھوڑا ہی کہاں ہے آپ لوگوں نے؟“ اس کی افسردہ بات نے انہیں لاجواب کردیا۔
”یہ میری کُل دو میں سے ایک فیکٹری کے کاغذات ہیں جن پر میں نے سائن کر دیے ہیں، یوں سمجھیں کہ آپ کو اپنے بچوں کا صدقہ دے رہا ہوں، آپ لوگوں کو جو چاہیے تھا مل گیا، اب خدا کیلئے اس لڑکی کو بھی بخش دیں اور مجھے اور میرے بچوں کو بھی سکون سے جینے دیں، آپ لوگوں کا بہت احسان ہوگا!“ اس نے درشت تلخی سے کہتے ہوئے آخر میں باقاعدہ ہاتھ جوڑے اور بنا مزید کوئی بات کہے سنے وہاں سے چلا گیا۔
جو حاصل کرنے کیلئے ان لوگوں نے اتنی چال بازی کی تھی اسے یوں بھیک میں دے کر ساحل ان کی حیثیت دو کوڑی سے بھی بدتر کر گیا تھا۔
یہ لوگ جیت کر بھی ہار گئے تھے۔ اور وہ سب ہار کر بھی ٹوٹا نہیں تھا۔ ہاں بس زخمی ضرور ہوا تھا کیونکہ اس بار ڈسنے والے اپنے تھے۔۔۔۔۔۔بہت اپنے!
جس سِکے کیلئے گھونپا گیا خنجر میری پیٹھ میں
میں دے آیا ہوں وہ ہی سِکہ آج انہیں بھیک میں
فریال خان
*****************************************
ساحل بہت تیزی کے ساتھ عصمت خاتون کے گھر سے نکل کر اپنی کار میں سوار ہونے کے بعد ایسے وہاں سے روانہ ہوا تھا گویا اگر ایک لمحہ بھی اور ركتا تو سارے لحاظ بھول کر کچھ سخت کر جاتا! اور لاکھ غصے و اختلافات کے باوجود بھی لحاظ کا دامن نہ چھوڑنا ساحل کی شخصیت کا خاصا تھا۔
مضبوطی سے اسٹیئرنگ تھام کر ڈرائیو کرتے ساحل کی نگاہیں سامنے روڈ پر تھیں لیکن اس کا ذہن یہاں نہیں تھا۔
وہ جانے والی شے پر افسوس کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔۔۔۔
وہ ایک جگہ رک کر ماتم منانے والوں میں سے بھی نہیں تھا۔۔۔
مگر وہ تھا تو ایک جذبات سے بھرپور انسان۔۔۔۔
ایک ایسا انسان جسے ہر قدم پر دھوکے ہی ملے تھے۔۔۔۔
محبت۔۔۔۔شادی۔۔۔۔کاروبار۔۔۔۔دوست۔۔۔۔رشتے۔۔۔۔۔
کوئی ایک خانہ ایسا نہیں بچا تھا جہاں سے اسے دھوکے بازی کی ڈس نہ ملی ہو! اسے اپنی اچھائی کا جواب اب تک اتنے اچھے سے نہیں ملا تھا جتنا وہ مستحق تھا۔
یہ ہی سب سوچتے ہوئے بےساختہ ایک آنسو اس کی بائیں آنکھ سے ٹوٹ کر گال پر پھسلا!
اس کے سنجیدہ چہرے پر کرب تھا۔۔۔
اپنوں سے دھوکہ کھانے کا کرب!
اس نے دائیں ہاتھ کی پشت سے اپنا آنسو رگڑ کر صاف کیا اور اس طرح ایک گہری سانس لی جیسے گر کر دوبارہ کھڑے ہونے کی تیاری کر رہا ہو!
کچھ دیر کی ڈرائیو کے بعد وہ اپنے گھر پہنچ گیا تھا۔
وہ اندر داخل ہوکر سیدھا اپنے کمرے میں آیا اور گرنے کے سے انداز میں ڈبل صوفے پر بیٹھ گیا۔
وہ پشت سے سرٹکائے، آنکھیں موندے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دے رہا تھا کہ یہ ہی زندگی ہے۔ کتنے بھی دھوکے کھا لو، کتنا بھی گر جاؤ، کتنا بھی ٹوٹ جاؤ، کتنا بھی تھک جاؤ، بےدلی سے ہی سہی آگے کا سوچنا پڑتا ہے، آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
”پاپا!“ مائر اور منزہ کی آواز پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔
ساحل کی گاڑی کی آواز سن کر دونوں بھاگتے ہوئے آئے تھے اور خلاف معمول اس کے جلدی گھر آنے پر خوش ہوگئے ہیں۔
”آج آپ جلدی آگئے پاپا!“ دونوں صوفے پر چڑھ کر اس کے دائیں، بائیں بیٹھ گئے تھے۔
”جی، آپ لوگوں کی یاد آرہی تھی لئے میں جلدی آگیا۔“ ساحل نے دونوں کو اپنی بانہوں میں لے کر خود میں بھینچا۔
”آپ رو رہے ہیں پاپا؟“ منزہ نے اپنا ننھا ہاتھ اس کی پرنم گلابی آنکھ پر پھیرا۔
”نہیں بیٹا! میں نہیں رو رہا۔“ ساحل نے انہیں پریشان نہ کرنے کے خیال سے جھوٹ کہا۔
”نہیں، آپ کی آئز پنک ہو رہی ہیں اور نوز بھی۔“ منزہ نے نفی میں سرہلاتے ہوئے اس کی ناک پر اپنی ننھی انگلی رکھی تو اس کی باریک بینی پر وہ متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔
”پاپا بتائیں نا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کسی نے آپ کو ڈانٹا ہے؟ یا چوٹ لگی ہے؟“ مائر بھی فکر مند ہوا۔
”نہ کسی نے ڈانٹا ہے اور نہ چوٹ لگی ہے، بس تھوڑی سی پرابلم ہوگئی ہے۔“ ان کے اصرار کے آگے بلآخر اس نے گھٹنے ٹیکنے کا فیصلہ کیا۔
”کیسی پرابلم؟“ یک زبان سوال آیا۔
”جیسے آپ کے اسکول میں ہوتا ہے نا کہ جو بچہ سب سے اچھا پیپر دیتا ہے اس کی پوزیشن آتی ہے، اسے ٹرافی دی جاتی ہے، ویسے ہی ہمارے آفس میں بھی ایک کامپیٹیشن ہوتا ہے جس میں جیتنے والے کو پرائز ملتا ہے، لیکن جو ہار جاتا ہے اسے کچھ نہیں ملتا، میں وہ کامپیٹیشن ہار گیا ہوں بیٹا، جس کی وجہ سے اب میں آپ کو نیو ٹوئز نہیں لا کر دے سکوں گا! نہ ونڈرلینڈ میں گھمانے لے جا سکوں گا، اور ہمیں یہ بڑا سا گھر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے گھر میں جانا ہوگا!“ وہ آسان لفظوں میں آنے والے تنگ حالات کیلئے انہیں پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کرنے لگا کہ آج نہیں تو کل انہیں کسی نا کسی طرح صورت حال سے آگاہ کرنا ہی تھا۔
”تو کوئی بات نہیں پاپا، ہمارے پاس بہت سارے ٹوئز ہیں، اور ونڈرلینڈ بھی اب ہمیں اچھا نہیں لگتا۔“ مائر نے جلدی سے باپ کی دلجوئی کرنے کیلئے غلط بیانی سے کام لیا۔
”ہاں، اور اس گھر میں بھی ہم بور ہوگئے ہیں، نیو گھر میں جائیں گے تو مزہ آئے گا۔“ منزہ نے بھی اس کی تائید کی۔
”اور مما کہتی ہیں کہ فیل ہونے پر روتے نہیں ہیں بلکہ خود سے پرامس کرتے ہیں کہ نیکسٹ ٹائم ہم اور محنت کرکے فرسٹ آئیں گے، آپ بھی نیکسٹ ٹائم ضرور جیتیں گے!“ مائر نے امبرین کی بات دہراتے ہوئے اسے حوصلہ دینا چاہا۔
ان کی معصوم باتوں پر وہ بےساختہ مسکرایا۔
”ہمیں نیو ٹوئز نہیں چاہیے پاپا اور نہ ونڈرلینڈ جانا ہے، بس آپ روئیں نہیں۔“ دونوں کہتے ہوئے اس کے گلے لگے تو اس کا دل اتنی شدت سے بھر آیا کہ آنکھیں دوبارہ چھلک پڑیں۔
ساحل نے ان دونوں کو کسی قیمتی اثاثے کی مانند دیوانہ وار چومتے ہوئے کس کر خود میں بھینچ لیا۔
اس کی اولاد ہی دنیا میں وہ ہستی تھی جس نے اب تک اسے دھوکہ نہیں دیا تھا اور ہر حال میں اس سے اس جیسی ہی بےلوث محبت کی تھی۔
اپنے بچوں کو آغوش میں لئے ہوئے اسے لگا کہ وہ کچھ نہیں ہارا ہے۔ دنیا کی سب سے قیمتی شے تو اب بھی اس کی بانہوں میں تھی، اس کے پاس تھی اور اب ان ہی کیلئے اسے دوبارہ حالات سے لڑنا تھا۔
میں لڑکھڑاتا ہوں تو فوراً بڑھ کر تھام لیتی ہے
محبت میری اولاد کی مجھے گرنے نہیں دیتی ہے
فریال خان
*****************************************
امبرین کافی مشکل سے ہمت جمع کرکے کمرے میں آئی تھی کہ اب وہ ساحل سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔
اب بھی وہ پورا دن گزرنے کے باوجود اس کے سامنے نہ آتی اگر ساحل نے منزہ کے ذریعے اسے بلاوا نہ بھیجا ہوتا!
اس کو یقین تھا کہ اسے وہ سزا سنانے کیلئے بلایا ہے جو کل سکتے میں ہونے کے باعث ملتوی کردی تھی۔
وہ کمرے میں آئی تو ساحل کھڑکی کے پاس کھڑا باہر لان میں باہر دیکھتا ہوا ملا۔
”آپ نے بلايا!“ امبرین کے دھیرے سے کہنے پر وہ اس کی طرف پلٹا۔
”دوپہر سے کہاں غائب ہو تم؟“ وہ پوری طرح کی جانب گھوما۔
”آپ سے نظر ملانے کی ہمت نہیں تھی اسی لئے سامنے نہیں آئی۔“ اس نے نظریں جھکائے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
وہ اسے دیکھتا چند قدم آگے آکر اس کے مقابل کھڑا ہوا۔
”اور ہمت کیوں نہیں تھی؟“ اس نے نگاہیں چہرے پر ہی مرکوز رکھیں۔
”کیونکہ آپ کے خلوص کے بدلے اتنا بڑا دھوکہ جو دیتی رہی آپ کو!“ وہ مزید نادم ہوئی۔
وہ فوری طور پر کچھ کہنے کے بجائے اسے دیکھتا چلا گیا کہ کن لوگوں کی صف میں کھڑا کرے اسے؟ دغاباز دوستوں کی یا مخلص دشمنوں کی؟
”کل ایک انکشاف تم نے مجھ پر کیا تھا، آج ایک انکشاف میں تم پر کروں!“ اس کے انداز پر امبرین کھٹکی۔
”جی؟“ اس کا انداز سوالیہ تھا۔
”میں پچھلے کچھ ماہ سے ایک پراجیکٹ حاصل کرنے کیلئے ایک آئیڈیا پر کام کر رہا تھا، لیکن وہ پراجیکٹ میرے ہاتھ سے نکل گیا کیونکہ کرمانی نے مجھ سے پہلے میرا ہی آئیڈیا چرا کر پراجیکٹ اونر کو پیش کردیا۔“ وہ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے متوازن انداز میں اسے بتانے لگا۔
”کون کرمانی؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”میری ایکس وائف کا کرنٹ ہسبنڈ اور میرا سب سے بڑا دشمن، اس نے بہت ہوشیاری سے اپنا ایک مہرہ میرے گھر بھیجا جس نے میری ناک کے نیچے سے پریزنٹیشن پیپرز چرا کر اسے دے دیے، اور جانتی ہو کرمانی کا مہرہ کون تھا؟“ اس نے انکشاف کرنے سے قبل تجسس پھیلایا۔
”کون؟“
”امینہ!“ جواب سن کر وہ دنگ رہ گئی۔ یہ بات واقعی کسی غیرمتوقع انکشاف سے کم نہیں تھی۔
”امینہ! وہ تو آج صبح ہی ارجنٹ چھٹی لے کر اپنے گھر گئی ہے کہہ رہی تھی دو دن تک آجائے گی!“ اس نے حیرت سے بتایا۔
”اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گی، کیونکہ جس کام کیلئے اسے بھیجا گیا تھا وہ اس نے کردیا ہے، کرمانی کو ڈاکومینٹس پہنچا دیے ہیں۔“ اس نے علم میں اضافہ کیا۔
”لیکن ڈاکومینٹس تو لاکر میں تھے جس کا پاسورڈ ہمارے علاوہ کسی کو نہیں معلوم تو اس نے کیسے ڈاکومینٹس نکال لیے؟“ وہ الجھی۔
”ظاہر ہے جب وہ پیپرز چرانے کے ارادے سے آئی تھی تو لاکر کھولنے کی ٹیکنیکس بھی سیکھ کر آئی ہوگی جو موقع ملتے ہی وہ عمل میں لے آئی۔“ ساحل نتیجے پر پہنچا جو کہ بالکل درست تھا۔
یہ سب جان کر امبرین ندامت کی پستی میں مزید دھنستی چلی گئی کہ ایک طرف وہ اسے دھوکہ دیتی رہی اور دوسری طرف سے اس کے دشمن اس پر گھات لگائے بیٹھے تھے۔
ہر طرف سے بیچارے کو بس دھوکہ، نقصان اور چال بازی ہی ملی تھی۔
”خیر! یہ سب میرا ہیڈک ہے تمہارا ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو سیدھا اس پائنٹ پر آتے ہیں جس کیلئے میں نے تمہیں بلایا ہے۔“ اس نے موضوع بدلہ تو امبرین کو لگا اب سزا سننے کا وقت آگیا ہے۔
”میں نے جو بھی کیا ایک مجبوری کے تحت کیا، لیکن پھر بھی آپ مجھے جو سزا دیں گے مجھے منظور ہے۔“ وہ پہلے ہی دل کڑا کرکے ذہنی طور پر تیار تھی۔
”کیا سزا دوں میں تمہیں؟“ اس نے اچانک الٹا سوال کرکے امبرین کو ٹٹولنا چاہا۔
”جو میرے جرم کے حساب سے آپ کو مناسب لگے!“ وہ فیصلے کی تلوار کے آگے سر جھکائے کھڑی تھی۔
”اگر تمہیں طلاق دے کر گھر سے نکالتا ہوں تو بچوں کو کیا جواب دوں گا کہ تم کیوں چلی گئی؟ کیونکہ وہ تو تمہیں دل و جان سے اپنی ماں مان کر تم سے محبت کرنے لگے ہیں۔“ ساحل کی بات پر وہ شرمندہ ہوکر لاجواب ہوگئی۔
”لیکن خیر ہے، وہ میرے بچے ہیں، اور اتنے کمزور نہیں ہیں کہ ایک دھوکہ کھا کر ٹوٹ جائیں، اچھا ہے ابھی سے انہیں دھوکے باز دنیا کی عادت پڑ جائے گی تو بڑے ہونے پر وہ ان چیزوں کا زیادہ اثر نہیں لیں گے۔“ سادہ ہونے کے باوجود ساحل کا انداز امبرین کے دل میں تیر کی طرح چبھ رہا تھا۔
”میں فیکٹری کی فائل خالہ کو دے آیا ہوں، اب وہ لوگ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے، تم جہاں چاہو جا سکتی ہو، جو چاہو کرسکتی ہو، میری طرف سے تم آزاد ہو!“ اس کی بات پر امبرین نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”آپ نے فائل انہیں کیوں دے دی؟ اسی لئے تو میں نے آپ کو سب بتایا تھا تا کہ آپ اپنا کاروبار بچا سکیں!“ وہ سخت حیران تھی۔
”میری امی اکثر کہا کرتی تھیں کہ جس چیز پر کسی کی بری نیت لگ جائے اِسے اپنا صدقہ سمجھ کر اُسے ہی دے دیا کرو، اللہ ہمیں اس سے بہتر دے دیتا ہے، تو میں نے اپنے بچوں کا صدقہ سمجھ کر انہیں وہ دے دیا جسے انہوں نے رشتوں سے زیادہ اہمیت دی، میرے بچوں کے نصیب سے اللہ مجھے اور دے دے گا۔“ اس کا اطمینان قابلِ دید تھا جو امبرین کیلئے سخت حیرت کا مقام تھا۔
”اب تمہیں جہاں جانا ہو ایک ہفتے کے اندر چلی جانا کیونکہ ایک ہفتے کے اندر مجھے یہ گھر چھوڑنا ہے، تم مزید یہاں نہیں رہ پاؤ گی۔“ ساحل نے بات بدلی تو امبرین کی حیرت بھی تعجب میں بدل گئی۔
”کیا مطلب؟“
”مطلب میں نے مارکیٹ سے اس امید پر کافی لون لیا ہوا تھا کہ ہاشمی گروپس کا پراجیکٹ مجھے ملے گا تو میں اسے چُکا دوں گا، لیکن پراجیکٹ کرمانی لے گیا ہے تو اب لون ریکور کرنے کیلئے فرنیچر سمیت میرا یہ گھر اور آخری بچی فیکٹری بینک نے ضبط کرلی ہے، کیونکہ یہ دونوں چیزیں بینک کے پاس مارگج تھیں، اسی لئے اب مجھے ایک ہفتے میں یہ گھر خالی کرنا ہے۔“ ساحل نے اپنے دیوالیہ ہونے کی اطلاع اتنے آرام سے دی تھی گویا گھر کا کوئی شو پیس گر کر ٹوٹنے کا بتا رہا ہو!
امبرین کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔
مطلب ساحل کے پیروں تلے صرف رشتوں کی زمین نہیں کھسکی تھی بلکہ سر سے چھت بھی چھن گئی تھی۔ مگر وہ اب بھی ہار کر گرا نہیں تھا بلکہ اطمینان سے دوبارہ چلنے کیلئے تیار کھڑا تھا۔
ساحل نے ٹیبل کی جانب آکر اس پر سے ایک لفافہ اٹھایا اور وہ لے کر دوبارہ اس کی جانب آیا۔
”یہ تمہارے لئے۔“
”یہ کیا ہے؟“ اس نے ناسمجھی سے لفافہ تھاما۔
”تمہارا اپائینمنٹ لیٹر! میرے دوست کا ایک اسکول ہے وہاں پر میں نے تمہاری جاب کی بات کرلی ہے، سیلری پیکج اچھا ہے، تمہارا گزارا آرام سے ہوجائے گا، اور ساتھ ہی ایک گرلز ہاسٹل کی ڈیٹیلز بھی ہیں اس لفافے میں، اگر تم وہاں رہنا چاہو تو رہ سکتی ہو ورنہ کہیں اور رینٹ پر کوئی گھر دیکھ لینا، جیسا تمہیں ٹھیک لگے!“ ساحل اسے پے در پے اتنے حیرانی کے جھٹکے دیے جا رہا تھا کہ وہ ڈھنگ سے حیران بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے سنبھل نہیں پا رہی تھی کہ ساحل اس پر ایک اور حیرت کا نیا پہاڑ توڑ دیتا تھا۔
”میں ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ دیکھ چکا ہوں اپنے اور بچوں کیلئے، کچھ دنوں میں وہاں شفٹ ہوجاؤں گا، تم بھی اپنا سامان سمیٹ کر جہاں جانا ہو چلی جانا مگر ایڈریس دے کر جانا تا کہ میں تمہیں طلاق کے پیپرز بھجوا دوں، بچوں سے کہنا کہ تمہاری امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسی لئے تم ان کے پاس رکنے جا رہی ہو، آگے انہیں میں سنبھال لوں گا۔“ اس نے سنجیدگی سے مزید کہہ کر اپنی بات مکمل کی اور پھر اس کا جواب سنے بنا خود ہی کمرے سے باہر جانے کیلئے قدم اٹھائے۔
”سنیں!“ امبرین کی پکار پر وہ رکا مگر پلٹا نہیں۔
”اتنے بڑے دھوکے کے بعد بھی آپ میری اتنی مدد کیوں کر رہے ہیں؟“ وہ اس کی چوڑی پشت کو دیکھتے ہوئے پوچھ بیٹھی۔
”کیونکہ ہر انسان وہ ہی کرتا ہے جو اس کی فطرت ہوتی ہے، دھوکہ دینا تم لوگوں کی فطرت ہے اور مدد کرنا میری، تم لوگوں کی وجہ سے میں اپنی فطرت نہ ہی بدل سکتا ہوں اور نہ بدلوں گا۔“ اس نے اسی طرح سنجیدگی سے جواب دیا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
وہ اپنی جگہ پر ہی ساکت کھڑی رہ کر ساحل کے بارے میں سوچتی گئی کہ آخر کیا تھا وہ شخص؟
پہلی بیوی وفادار نہیں، دوسری بیوی دھوکے باز نکلی تھی، رشتے داروں نے لالچ میں اسے لوٹنا چاہا تھا اور وہ لٹ کر آگیا تھا، کاروبار تباہ ہوگیا تھا، گھر ضبط ہوگیا تھا لیکن پھر بھی اس شخص کے ماتھے پر ایک شکن اور زبان پر ایک شکوہ نہیں تھا۔
نہ وہ کسی پر چیخا چلایا، نہ رویا پیٹا، نہ غصہ کیا، نہ سوال پوچھے، نہ حساب مانگا بس اتنی سی بات کہہ کر سب در گزر کردیا کہ ”اللہ اور دے گا“
*****************************************
اگلی صبح نمودار ہوئی تو لوگ آہستہ آہستہ اپنے بستروں سے نکل کر اپنے اپنے کاموں میں جانے کی تیاری کرنے لگے۔
ساحل بھی آفس جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا کیونکہ بھلے ہی کاروبار ڈوب گیا تھا مگر اب آہستہ آہستہ سارے معاملات بھی تو سمیٹنے تھے۔
تب ہی آہستہ سے دروازہ کھول کر امبرین اندر آئی جو فی الحال الگ کمرے میں رہ رہی تھی۔
”ناشتہ لگ گیا ہے، آجائیں۔“ اس نے دھیرے سے اطلاع دی۔
”آرہا ہوں۔“ اس نے بنا پلٹے جواب دیا۔
وہ واپس جانے کے بجائے وہیں کھڑی رہی گویا کچھ کہنا چاہ رہی ہو! کل پوری رات وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی بلکہ اسی کشمش میں تھی کہ اب اسے کیا کرنا چاہئے؟
اور بلآخر وہ حتمیٰ فیصلہ کرچکی تھی۔
”سنیں! آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ بلآخر اس نے ہمت کرکے لب کھولے۔
”بولو!“ ساحل نے گھڑی پہنتے ہوئے اجازت دی۔
”کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟“ اس کے سوال پر ساحل چونک کر پلٹا۔
”میرے ساتھ کہاں رہو گی تم؟ میں تو خود یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔“ اس نے گویا یاد دلایا۔
”جہاں جا رہے ہیں وہیں رہ لوں گی۔“ جھٹ سے جواب آیا۔
”شاید تم میری کل والی بات ٹھیک طرح سمجھی نہیں۔“ وہ کہتا ہوا اس کی جانب آیا۔
”میں پھر بتا رہا ہوں کہ اب میں کروڑ پتی ساحل مجتبیٰ نہیں ہوں، میرا بزنس ڈوب گیا ہے، یہ عالیشان گھر ضبط ہوگیا ہے، ایک گاڑی بچی ہے جو جلد یا دیر مجھے بیچنی پڑے گی، اب میں ایک چھوٹے سے رینٹ کے فلیٹ میں رہ کر، اپنے بکھرے ہوئے کاروبار کے تنکے سمیٹ کر سب دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش کروں گا جس میں کامیاب ہونے میں کتنے سال لگیں یہ مجھے خود بھی نہیں پتا، ایسے میں تم بھلا میرے ساتھ کیسے اور کیوں رہو گی؟“ اس نے سنجیدگی سے دوبارہ سب یاد دلاتے ہوئے سوال کیا۔
”کیونکہ شریک حیات کا فرض صرف سکھ میں ہی نہیں دکھ بھی شریک ہونا ہوتا ہے۔“
”شریک حیات پر تو وفاداری بھی فرض ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟“ اس کا طنز وہ بخوبی سمجھ گئی۔
”یہ آپ سے وفاداری ہی تو نبھائی تھی کہ آپ کو سب سچ بتا دیا، میں مانتی ہوں کہ میں نے آپ کے ساتھ اتنے وقت دھوکے بازی کی، جھوٹ بولا مگر دھوکہ دیا تو نہیں نا اور وقت رہتے آپ کو سب بتا دیا! اور ایسا میں نے اسی لئے کیا کیونکہ آپ سے اور بچوں سے بےوفائی کرنے کو میرا دل نہیں مانا، ہاں یہ شادی دھوکہ تھی مگر بچوں سے میری محبت سچی ہے، آپ کیلئے میرے دل میں عزت و محبت ہے اور رہے گی، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس عالیشان گھر میں رہیں یا چھوٹے سے فلیٹ میں، مجھے بس آپ لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔“ خلاف معمول آج وہ عاجزی سے لیکن بنا گھبرائے بول رہی تھی کہ اب اس کے دل میں چور نہیں تھا صرف اس کے سچے جذبات تھے۔
”میرے ساتھ رہنا ہے! تمہیں تو میرا قریب آنا بھی پسند نہیں تھا، مجھ سے دور بھاگتی تھی اور اب ساتھ رہنے کی باتیں کر رہی ہو!“ بات نکلی تو ناچاہتے ہوئے بھی اس کی زبان پر شکوہ آگیا۔
”مجھے آپ کا قریب آنا کبھی ناپسند نہیں تھا، میں بس یہ سوچ کر گھبراتی تھی کہ آپ میرے نہیں ہیں، اور اگر مجھے آپ سے محبت ہوگئی تو وہ وقت میرے لئے بہت تکلیف دہ ہوگا جب آپ پر میری حقیقت کھلے گی اور آپ مجھ سے نفرت کرکے مجھے خود سے دور کریں گے، بس اسی لئے کوشش کرتی تھی کہ جو میرا ہے ہی نہیں اس کی عادت نہ ڈالوں۔“ اس نے نظریں جھکا کر دھیرے سے حالِ دل بتایا۔
”اور اگلے شخص کی جذبات جائیں بھاڑ میں!“ اس کی بات مکمل ہوتے ہی وہ تلخی سے کہہ گیا۔
وہ جواباً کچھ نہ بولی بس چپ چاپ سر جھکائے کھڑی رہی کیونکہ غلطی واقعی اس کی تھی اور ساحل اس وقت حق پر تھا۔
”خیر! اب گزری باتیں یاد کرنا فضول ہے، میں نے بتایا تھا نا کہ میں ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد کسی نئے شخص کو تو دوبارہ موقع دے سکتا ہوں لیکن اسی دھوکے باز کو دوبارہ موقع نہیں دیتا!“ ساحل نے خود ہی بات بدلتے ہوئے سنجیدگی سے یاد دلایا۔
”میں نے آپ کو دھوکہ نہیں دیا ساحل، دھوکہ تب ہوتا جب میں ان کی بات مان لیتی، میں نے تو وقت رہتے آپ کو سب بتا دیا، مجھے اتنی سخت سزا دینا بےبنیاد ہے۔“ ساری رات غور و فکر کرنے کے بعد اب اس کی سوچ کی سمت بہت واضح تھی۔ جب کہ اس دوران وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا۔
”تمہیں سزا دینے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں بنتا اسی لئے تو جانے کیلئے آزاد کر رہا ہوں کہ جہاں جانا ہے چلی جاؤ۔“ اس کا انداز سپاٹ تھا۔
”آپ سے دور جانا کسی بھیانک سزا سے کم نہیں ہے۔“ وہ تڑپ کر ترکی بہ ترکی کہہ گئی۔
ساحل کیلئے اس کی یہ بےچینی، یہ تڑپ بہت نئی اور غیرمتوقع تھی جس نے اسے پگھلانے سے زیادہ مزید برہم کردیا تھا کہ جب وہ اس کا شدت سے طلبگار تھا تب اسے بوند بوند ترسایا گیا۔ اور اب جب اس کا دل بری طرح ٹوٹ گیا تھا تو اسے محبت کا جام پیش کیا جا رہا تھا۔
”ابھی تک تم نے میری اینجل سائیڈ دیکھی ہے، میرا ڈیول روپ تم برداشت نہیں کرپاؤ گی اسی لئے بہتر ہے کہ میری نظروں سے دور چلی جاؤ اس سے پہلے کہ میں واقعی تمہیں وہ سزا دینے پر اتر آؤں جو تم برداشت نہیں کرسکو گی۔“ یکدم ساحل اسے دونوں بازؤں سے دبوچ کر دانت پیستے ہوئے پھنکارا تو وہ درد سے سسک اٹھی۔
”آپ مجھے جو سزا دیں گے مجھے منظور ہے سوائے آپ سے اور بچوں سے دور جانے کے، آپ امیر ہوں یا غریب، اینجل ہوں یا ڈیول مجھے سب قبول ہے، میں آپ کے بنا نہیں رہ سکتی ساحل!“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہنوز بنا ڈگمگائے اپنی بات پر قائم تھی۔
وہ دونوں بےحد نزدیک کھڑے یک ٹک ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھے جا رہے تھے۔
ساحل کی سیاہ آنکھوں میں بےحد سنجیدگی اور طیش تھا جب کہ امبرین کی آنکھوں میں آج کوئی ڈر یا خوف نہیں صرف ایک مضبوط ضد تھی کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اسے چھوڑ کر نہیں جائے گی۔
”آپ کو اتنا وقت خود سے دور رکھنے کا جو جرم میں نے کیا ہے اس کے بدلے خود سے اور بچوں سے الگ کرنے کے سوا مجھے جو چاہیں سزا دیں لیں، مجھے منظور ہے۔“ وہ عاجزی سے گویا ہوئی۔
”تو اس کے علاوہ اب کوئی سزا باقی ہی کہاں رہ گئی؟“ اس نے طنز مارا۔
”اب آپ میرے لئے وہ دیوانے سے ساحل نہیں رہے اس سے بڑھ کر میرے لئے سزا اور کیا ہوگی!“ اس کے انداز میں کچھ بہت قیمتی کھو دینے کا دکھ تھا۔
”ٹھیک ہے، تو تمہاری سزا یہ ہی ہے کہ آج سے تم صرف میرے بچوں کی آیا ہو! اس کے سوا نہ تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ تم میرے کسی معاملے میں کچھ بولو گی، آئی سمجھ؟“ ساحل نے نتیجے پر پہنچتے ہوئے اسے جھٹکے سے چھوڑا۔
گو کہ یہ بات بھی بہت دلسوز تھی کہ ساحل نے اسے ربة البيت کے مقام سے اتار کر اس کی حیثیت ایک آیا کی سی کردی تھی لیکن یہاں غنیمت یہ تھی کہ وہ اس کے ساتھ رہ سکتی تھی۔
”منظور ہے لیکن آپ مجھے ان سب کے باوجود بھی کبھی طلاق نہیں دیں گے۔“ وہ آج بالکل ہی نئی امبرین بنی ہوئی تھی جس کے اندر سے سارے ڈر خوف نکل گئے تھے۔
”نہیں دوں گا، لیکن تم میری تیسری شادی کے آڑے نہیں آؤ گی!“ اس نے بھی آگے سے شرط رکھ دی جو اس کے دل میں بہت زور سے چبھی۔
”ٹھیک ہے۔“ اس نے دل پر پتھر رکھ کر فی الحال مان لیا۔
”اب سے ہم صرف مائر اور منزہ کیلئے ان کے مما پاپا بن کر ایک چھت کے نیچے رہیں گے، تم میری نظر میں بیوی کا مقام کھو چکی ہو لہٰذا مجھ سے شوہر والی کوئی امید مت رکھنا، اور اس بار میں مذاق بالکل نہیں کر رہا۔“ ساحل نے خطرناک سنجیدگی کے عالم میں انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے آخری جملے پر خاصا زور دے کر بات ختم کی اور تیزی کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
وہ وہیں کھڑی رہ گئی تھی جس کے ہاتھ اس کی اپنی کوتکوں کی وجہ سے خالی رہ گئے تھے لیکن یہ برا تجربہ اس کے دل سے بہت سے ڈر اور خدشے نکال کر اسے ایک عجیب بہادری دے گیا تھا۔۔۔۔۔۔سچ پر ہونے کی بہادری!
*****************************************
زندگی کے نشیب و فراز سے انجان بچوں نے امبرین کے ہمراہ خوشی خوشی نئے گھر جانے کیلئے اپنا سامان پیک کیا تھا۔
ساحل نے امبرین کو نہ سزا دی تھی، نہ معاف کیا تھا بس کنارہ کشی اختیار کرلی تھی جو امبرین کیلئے کسی سزا سے کم نہیں تھی۔
اب وہ واقعی بس بچوں کیلئے یہاں تھی کیونکہ ربة البيت کا جو مقام ساحل نے اسے دینا چاہا تھا وہ خود اس نے اپنے ہاتھوں گنوا دیا تھا لہٰذا اس نے بھی چپ چاپ اپنی موجودہ حیثیت قبول کرلی، اس نیت کے ساتھ کہ وقت کے ساتھ وہ ساحل کے دل پر جمی برہمی کی گرد کو اپنی محبت سے صاف کرلے گی۔
چند دنوں میں ہی ضرورت کا سارا سامان سمیٹ کر اب اس گھر کو الوداع کہنے کا وقت آگیا تھا۔
گھر کا قیمتی فرنیچر بھی گھر کے ساتھ ہی مارگج تھا اسی لئے کپڑے اور چند ضروری اشیاء کے سوا ان کے پاس کچھ خاص سامان نہیں تھا۔
ساحل نے پلٹ کر ایک آخری الوداعی نظر اس گھر پر ڈالی۔ اور تب ہی اس کے ذہن میں اس کی مرحوم ماں کی آواز گونجی۔
”جو چلا جائے اس پر غم نہیں کرتے بیٹا بلکہ صبر کرتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ اور دے گا۔“
یہ اس کی ماں کی ہی مثبت سوچ تھی جو ساحل کو ایسے کڑے وقتوں میں سنبھال لیتی تھی جیسے ابھی اداسی کے دلدل میں گرنے سے تھام لیا تھا۔
اس نے ایک گہری سانس لے کر رب پر دوبارہ توکل مضبوط کیا اور آکر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا جس کی پچھلی نشست پر پہلے ہی بچے امبرین کے ہمراہ تھے اور تمام حالات سے بےخبر کھلکھلاتے ہوئے امبرین کے ساتھ نئے گھر کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھے۔
باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کرکے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کرکے
سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجامِ خلوص
پھر اسی جرمِ محبت کو دوبارہ کرکے
دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا
اور کچھ روز تیرے ساتھ گزارا کرکے
انتخاب
*****************************************
ایک مڈل کلاس علاقے میں واقع آٹھ منزلہ یہ عمارت صاف ستھری اور کشادہ تھی جس کی چھٹی منزل اب ان لوگوں کی رہائش گاہ تھی۔
ساحل نے پاس موجود چابی سے گھر کا دروازہ کھولا تو مائر اور منزہ پرجوشی سے بھاگ کر اندر آئے اور پورے فلیٹ کا جائزہ لینے لگے۔ ساحل اور امبرین بھی سامان کے ساتھ ان کے پیچھے ہی اندر آئے۔
یہ تین کمروں اور لاؤنج پر مشتمل ایک صاف ستھرا کشادہ فلیٹ تھا جو ان کے سابق گھر جیسا شاندار نہیں تھا لیکن سر چھپانے کو مناسب چھت ہونا بھی بہت بڑی غنیمت ہوتی ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ جب کہ ضرورت کا فرنیچر ساحل یہاں پہلے ہی بھیجوا چکا تھا۔
سارے کمروں کا جائزہ لینے کے بعد اب دونوں بچے لاؤنج سے متصل بالکونی میں آگئے تھے جہاں سے مین روڈ نظر آتا تھا۔
”واؤ! کتنا بیوٹیفل ویو ہے۔“ دونوں بچوں نے ریلنگ سے نیچے جھانکتے ہوئے کہا۔ اتنی اونچائی سے نیچے دیکھنے کا یہ تجربہ ان کیلئے کافی نیا اور انوکھا تھا۔
”بچوں سنبھال کر!“ امبرین بھی فوری ان کے پیچھے لپکی۔
ساحل بیگز ایک جگہ پر رکھنے لگا۔
”ہم یہاں کتنے دن تک رہیں گے پاپا؟“ منزہ نے واپس لاؤنج میں آتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں بیٹا، لیکن ابھی کچھ ٹائم یہیں رہیں گے۔“ اس نے گول مول جواب دیا۔
”یس! پھر تو ہم روز گیلری میں بیٹھ کر پڑھائی کریں گے، ٹھیک ہے نا مما!“ مائر پرجوشی سے بولا تو امبرین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
امبرین کو لگا تھا کہ عالیشان گھر چھوڑ کر یہاں آنے کے بعد بچے اداس ہوں گے مگر انہوں نے اس گھر کے چھوٹے ہونے کا کوئی شکوہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تو نئی جگہ آنے پر بےحد خوش تھے۔
یہ ساحل کے خون اور تربیت کا اثر تھا کہ اس کے بچے بھی اس کی طرح چلی جانے والی چیزوں پر تا دیر ماتم کرنے والوں میں سے نہیں تھے بلکہ وہ بھی ساحل کی طرح بس آج اور ابھی میں جیتے تھے، گزرے کل کو بھلا دیتے تھے اور آنے والے کل پر یقین رکھتے تھے کہ وہ بھی اچھا ہی ہوگا۔
اور ایک وہ تھی جو ہر وقت اپنی قسمت پر افسردہ رہتی تھی مگر ان ننھے بچوں کی کھلکھلاہٹ اور ساحل کے در گزر نے اسے بہت اچھے سے سمجھا دیا تھا کہ آج اور ابھی میں جینا کیا ہوتا ہے؟
*****************************************
پورا دن مل کر ان لوگوں نے کمرے اس حد تک سیٹ کرلیے تھے کہ رات کو وہاں آرام کرلیا جائے اور کچن کیونکہ ابھی ڈھنگ سے استعمال کے قابل نہیں تھا تو ساحل باہر سے کھانا لے آیا تھا۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر تک بچے سوگئے تھے۔
لاؤنج میں ابھی بھی سامان پھیلا ہوا تھا جسے آہستہ آہستہ سمیٹنا تھا۔
بچوں کے کمرے سے نکل کر امبرین بالکونی کی طرف آئی تو دیکھا ساحل وہاں کھڑا ہے جس کی چوڑی پشت امبرین کی جانب تھی۔
ساتھ ہی اسے سیگریٹ کی مخصوص بو محسوس ہوئی اور قریب آنے پر اس نے دیکھا کہ ساحل واقعی سیگریٹ پی رہا تھا۔
”آپ سیگریٹ بھی پیتے ہیں!“ وہ اس کے برابر کھڑی تعجب سے بولی۔
”ہاں تو!“ لیا دیا سوال آیا۔
”نہیں، بس آپ کو کبھی سیگریٹ پیتے دیکھا نہیں اور نہ آپ نے کبھی بتایا اسی لئے تھوڑی حیرت ہوئی۔“ اس نے دھیرے سے وضاحت کی۔
”بتایا تو تم نے بھی نہیں تھا کہ تم دھوکہ دیتی ہو لیکن دے دیا نا!“ اس نے پھر چھتا ہوا طنز مارا تو وہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگئی کہ اس وقت کوئی بھی بحث فضول تھی۔
رات کا وقت ہونے کے باعث چھٹی منزل سے نیچے نظر آتا چوڑا روڈ بالکل سنسان ہو رہا تھا اور اس کے کنارے جلتی پیلی اسٹریٹ لائٹس نے شب کا مخصوص ماحول طاری کر رکھا تھا۔
اکتوبر کا اختتام ہونے کے باعث وہ ہوائیں کچھ زیادہ ہی سرد ہو رہی تھیں جو وقفے وقفے سے انہیں چھو کر گزرتی رہیں۔
”بچے سوگئے؟“ ساحل نے سوال کیا۔
”جی، آپ بھی سوجائیں پھر صبح جلدی اٹھ کر آپ کو انہیں اسکول چھوڑنے جانا ہے کیونکہ اسکول بس کو ابھی نیا ایڈریس نہیں دیا ہے، کل انہیں اسکول چھوڑ کر آپ ایڈریس بھی لکھوا دیجئے گا۔“ اس نے اضافی جواب دیا۔
”میں بچوں کو اسکول سے ہٹا رہا ہوں۔“ ہنوز روڈ پر نظریں مرکوز رکھے اس نے سیگریٹ کا کش لیا۔
”کیوں؟“ وہ حیران ہوئی۔
”کیونکہ فی الحال میرے لئے فیس افورڈ کرنا مشکل ہے، اسی لئے جب تک حالات بہتر نہیں ہوجاتے میں انہیں کسی دوسرے ایورج اسکول میں ایڈمیشن کروا دوں گا۔“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”لیکن اس سے ان کی پڑھائی متاثر ہوگی، وہ تسلسل ٹوٹ جائے گا جو یہاں بن گیا ہے۔“ وہ متفکر ہوئی۔
”تو اور میں کیا کروں؟ نیا مہینہ شروع ہوتے ہی مجھے ان کی فیس دینی ہے مگر میرا بجٹ آؤٹ ہو رہا ہے۔“ اس نے الجھ کر امبرین کی جانب گردن موڑی۔
وہ بھی متفکر سی سوچ میں پڑ گئی۔
اپنے سابقہ اسٹیٹس کے مطابق جس اسکول میں بچے پڑھ رہے تھے اس کی فیس واقعی کافی زیادہ تھی کہ ان حالات میں اسے افورڈ کرنا مشکل تھا۔
اچانک امبرین کے ذہن میں ایک کوندا لپکا اور اس نے اپنے گلے میں پہنا وہ خالص ڈائمنڈ پینڈنٹ اتارا جو ساحل نے شادی کی رات اسے دیا تھا۔
”اس سے فیس کا مسلہ حل ہوسکتا ہے۔“ اس نے چین سے پکڑ کر پینڈنٹ ساحل کی جانب بڑھایا جسے وہ تعجب خیزی سے دیکھنے لگا۔
”اور اگلے مہینے کیا کریں گے؟“ ساحل نے وہ تھامے بنا سوال اٹھایا۔
”جو جاب آپ نے میرے لئے ڈھونڈی تھی میں وہ جوائن کرلوں گی، بچوں کی فیس کی ذمہ داری میں سنبھال لوں گی اور آپ گھر کے دوسرے خرچے دیکھ لیجئے گا اس طرح ہم مل کر سب مینج کرلیں گے۔“ اس نے لمحوں میں معاملہ ترتیب دے ڈالا۔
وہ ہنوز اسے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ ایک فروا تھی! جو ساحل کے لکھ پتی ہونے کے باوجود اسے اور اپنے سگے بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
اور ایک یہ ہے جس کا نہ بچوں سے کوئی سگا رشتہ ہے اور نہ اب ساحل کی نظروں میں اس کی وہ قدر و عزت تھی لیکن وہ پھر بھی کنگال ہوچکے ساحل کو چھوڑ کر جانے کے بجائے اس کے ساتھ کھڑی اسے سہارا دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں جو دل سے بنتے ہیں، دل سے محسوس ہوتے ہوئے اور دل سے ہی نبھائے جاتے ہیں۔
”یو نو واٹ! میں نے آج تک تم جیسی بیوقوف لڑکی نہیں دیکھی جس کے ہاتھ میں جاب کا اپائیٹمنٹ لیٹر تھا مگر تم نے اچھی خاصی انڈیپینڈنٹ لائف ٹھکرا کر ایک کنگال شخص کے ساتھ رہ کر اس کے بچے پالنے کا فیصلہ کیا۔“ ساحل بنا کسی لگی لپٹی کے دل کی بات زبان پر لے آیا۔
”میں بیوقوف سہی لیکن آپ جیسے دل کے غنی شخص کو چھوڑ کر فروا کی طرح بدبخت نہیں بننا چاہتی تھی۔“ وہ بھی ترکی بہ ترکی اطمینان سے جواب دیتی اسے لاجواب کر گئی۔
ساحل کو ابھی تک یقین نہیں آیا تھا کہ یہ وہ ہی لڑکی ہے جو اس کے سامنے ٹھیک سے پلکیں بھی نہیں اٹھا پاتی تھی اور قریب جانے پر گھبراہٹ کے مارے اس کی سانسوں میں طوفان برپا ہوجاتا تھا!
”اب لے لیجئے، یہ آپ کی ہی امانت ہے۔“ امبرین کا ہاتھ ابھی تک اٹھا ہوا تھا جس میں پینڈنٹ لٹک رہا تھا۔
ساحل نے اس کے ہاتھ سے پینڈنٹ لے لیا۔
”تمہاری ذمہ داری گھر میں رہ کر بچوں کو سنبھالنے کی ہے لہٰذا تم بس اسے ہی نبھاؤ، مزید کوئی بیوقوفی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، باقی معاملات میں خود دیکھ لوں گا۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا جس کا در حقیقت مفہوم تھا کہ تمہیں نوکری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ساحل وہاں سے چلا گیا جب کہ وہ وہیں کھڑی رہی۔
محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ہوتے ہیں
خفا ہوں جن سے ان ہی کے خیال ہوتے ہیں
محسن نقوی
*****************************************
زندگی کیا ہے؟
کبھی عرش کی بلندیاں تو کبھی فرش کی گہرائیاں۔۔۔۔۔۔
یہ ایک جملا ہی پوری طرح زندگی کے خدوخال واضح کر دیتا ہے۔
ہر عروج کو زوال آتا ہے، ہر زوال عروج دیکھتا ہے۔
وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں، اور ان بدلتی رتوں میں جو رشتہ ان کے زیر اثر رنگ نہ بدلے بس وہ ہی آپ کا مخلص ہوتا ہے۔
شاید قدرت نے اسی لئے ہر انسان کی زندگی میں عروج و زوال کے معاملات رکھیں ہیں تا کہ زوال پر پتا چلے کہ اس کے ساتھی کیسے ہیں اور عروج میں معلوم ہو کہ وہ خود کیسا ہے؟
زندگی کی گاڑی سست روی سے ایک ناہموار سڑک پر چلنے لگی تھی جسے بس چلاتے رہنا تھا کیونکہ اگر تھک کر رک جاتے تو یہ ناہموار راستہ کبھی پار کرکے اس سے نکل نہیں پاتے۔
یہ چھوٹا سا فلیٹ ایک ہفتے میں ہی ان لوگوں نے اپنے مطابق سیٹ کرلیا تھا۔
بچے امبرین کے ساتھ اپنی دنیا میں مگن تھے اور ساحل اپنی اجڑی ہوئی دنیا کو دوبارہ آباد کرنے میں اتنا منہک تھا کہ صبح سویرے گھر سے نکلا وہ رات دیر تک لوٹتا تھا جب اکثر بچے بھی سوچکے ہوتے تھے۔
جب کہ ساتھ ہی ساتھ امبرین کی ساحل کو منانے کی چھوٹی موٹی کوششیں بھی جاری و ساری تھی۔
”معاف کرنے والوں کو اللہ پاک بہت پسند کرتا ہے، کیونکہ اللہ سے معافی کی امید تو سارے بندے رکھتے ہیں لیکن بہت کم بندے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی باری میں اللہ کے بندوں کو معاف کر دیتے ہیں اسی لئے اللہ کو اپنے وہ خاص بندے بہت پسند ہوتے ہیں۔“ امبرین حسب معمول سونے سے قبل بچوں کو کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی۔
دو الگ سنگل بیڈ ہونے کے بجائے مائر اور منزہ ایک سادے سے ڈبل بیڈ پر کمبل اوڑھے لیٹے تھے اور امبرین ان کے نزدیک ہی بیٹھی تھی۔
”معاف کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے مما؟ ہم کسی کو کیسے معاف کرسکتے ہیں؟“ ہمیشہ کی طرح دونوں نے سوال اٹھایا۔
”معاف کرنے کی بہت ساری کیٹیگریز ہوتی ہیں لیکن جو سب سے بیسک ہے وہ یہ ہے کہ جو برا ایکٹ سامنے والے نے آپ کے ساتھ کیا بدلے میں آپ اس کے ساتھ اتنا برا ایکٹ نہیں کرو گے، یہ ہی معاف کرنا ہوتا ہے۔“ اس نے آسان لفظوں میں سمجھایا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟ اس نے ہمارے ساتھ برا ایکٹ کیا تو ہم کیوں نا کریں!“ مائر کو یہ منطق سمجھ نہ آئی۔
امبرین کو اندازہ ہوا کہ انہیں یہ اہم بات بہت تحمل سے آسان انداز میں سمجھانی ہوگی!
”اچھا میں آپ کو ایک ایگزیمپل دیتی ہوں، فرض کرو ایک ٹیبل پر دو گلاس رکھے ہیں، ایک میں گندا پانی ہے اور ایک میں صاف پانی ہے، اب اگر یہ دونوں گلاس گریں گے تو کیا ہوگا؟“ وہ دوسرے طریقے سے سمجھانے لگی۔
”تو ان کا پانی باہر آجائے گا۔“ جھٹ سے جواب آیا۔
”صحیح! کون سے گلاس سے گندا پانی باہر آئے گا اور کون سے گلاس سے صاف؟“ اس نے پھر سوال کیا۔
”ظاہر ہے جس کے اندر صاف پانی تھا اس سے صاف پانی باہر آئے گا اور گندے پانی والے گلاس کے اندر سے گندا پانی باہر آئے گا۔“ مائر نے سیدھا سادہ درست جواب دیا۔
”ایگزیکلی! بالکل ایسے ہی ہم سب انسان بھی ایک گلاس کی طرح ہوتے ہیں، اور اچھے یا برے ایکٹ صاف اور گندے پانی کی طرح ہمارے اندر ہوتے ہیں، جب کبھی یہ پانی باہر گرنے کی نوبت آتی ہے تو ہر شخص کے اندر جیسا ایکٹ ہوتا ہے وہ باہر آتا ہے، کچھ لوگوں کا ایکٹ گندے پانی کی طرح ہوتا ہے تو وہ جھوٹ بولتے ہیں، غصہ کرتے ہیں، چیٹ کرتے ہیں، لڑائی کرتے ہیں، اور جن لوگوں کا ایکٹ صاف پانی کی طرح ہوتا ہے وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، سب سے پیار سے پیش آتے ہیں، بلاوجہ غصہ نہیں کرتے، ایماندار، وفادار ہوتے ہیں اور لڑنے یا بدلہ لینے کے بجائے وہ معاف کر دیتے ہیں، اسی لئے اگر کوئی آپ کے ساتھ برا ایکٹ کرتا ہے تو آپ اپنے اچھے ایکٹ کی وجہ سے اسے معاف کردو نہ کہ بدلہ لینے کے چکر میں اسی کی طرح برے بن جاؤ!“ اس نے نہایت سہل انداز میں اپنی بات سمجھا دی تھی جسے دونوں بغور سنتے گئے۔
”اچھا ایک اور مزے کی بات بتاؤں! ہم سب ہی اپنے ایکٹ کے پانی کو خود سے صاف اور گندا کرسکتے ہیں۔“ وہ اچانک مزید گویا ہوئی۔
”وہ کیسے؟“ دونوں کو تجسس ہوا۔
”وہ ایسے کہ اگر کسی شخص کے ایکٹ کا پانی صاف ہے لیکن وہ مسلسل چیٹ کر رہا ہے، لڑ رہا ہے تو یہ پانی گندا ہوجاتا ہے، اور اگر کسی کا پانی گندا ہے مگر وہ ایمانداری سے رہنے کی کوشش کرتا ہے اور سب کو معاف کر دیتا ہے تو اس کا پانی بالکل صاف ہوسکتا ہے، اسی لئے اللہ پاک معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے کہ اس سے ان کا دل صاف رہتا ہے۔“ اس نے ایک اور سوال حل کیا جو کافی حد تک دونوں کی سمجھ میں آگیا۔
”تو اب اگر کوئی آپ کے ساتھ برا ایکٹ کرے تو آپ کیا کرو گے؟“ اس نے ٹٹولا۔
”معاف کردیں گے۔“ یک زبان جواب ملا۔
”شاباش!“ وہ بھی خوش ہوئی کہ بچے ایک اہم بات سمجھ گئے ہیں۔
”چلو اب دونوں سوجاؤ، پھر صبح اسکول جانا ہے نا!“ وہ کتاب لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”مما! ایک بات پوچھیں!“ منزہ نے پکارا۔
”پوچھو بیٹا!“
”کیا آپ اور پاپا ایک دوسرے سے کٹی ہیں؟“ اس کا غیرمتوقع سوال امبرین کو حیران کر گیا۔
”نہیں بیٹا، ایسا نہیں ہے، بٹ آپ نے کیوں پوچھا؟“ اس نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”ایسے ہی، ہمیں لگا شاید آپ لوگ کٹی ہیں اسی لئے زیادہ بات نہیں کرتے اور الگ الگ روم میں سوتے ہیں، پہلے آپ لوگ ساتھ سوتے تھے نا!“ اب کی بار مائر نے وضاحتی جواب دیا۔
بچے بھی ان کے رشتے میں آیا کھنچاؤ بھانپ گئے تھے اور پہلے آپس میں بات چیت کرنے کے بعد بلآخر سیدھا امبرین سے ہی پوچھ لیا تھا۔
”کٹی نہیں ہیں، بس میں نے آپ کے پاپا کی ایک امپورٹنٹ چیز توڑ دی تھی اسی لئے وہ مجھ سے تھوڑے ناراض ہیں۔“ وہ بھی بےبس انداز میں کہتی واپس بیڈ پر بیٹھ گئی کہ دل پر بڑھتے بوجھ کو اب کوئی سننے والا چاہیے تھا۔
”تو آپ پاپا سے سوری بول دیں نا! وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔“ منزہ نے جھٹ مشورہ دیا۔
”بولا ہے، لیکن وہ پھر بھی ناراض ہیں۔“ وہ تاسف سے کہتی کتاب کی جلد پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
مائر اور منزہ بھی کچھ دیر خاموش ہوکر متفکر سے سوچ میں پڑ گئے۔
”آئیڈیا!“ مائر کے اچانک کہنے پر وہ متعجب سی اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
*****************************************
کمرے کی لائٹ آف تھی بس مدھم نائٹ بلب جل رہا تھا جہاں ساحل بیڈ پر نیم دراز موبائل میں مصروف تھا۔ تب ہی کمرے کے بند دروازے پر دستک ہوئی۔
”آجاؤ!“ اس نے یوں ہی مصروف انداز میں اجازت دی۔
دروازے کا ہینڈل گھوما اور دوسری طرف سے مائر، منزہ اور امبرین اپنا اپنا تكیہ پکڑ کر سینے سے لگائے اندر داخل ہوئے۔
”کیا ہوا بیٹا؟“ انہیں اس طرح آتا دیکھ وہ بھی حیران ہوا۔
”ہمیں آپ کے اور مما کے ساتھ سونا ہے پاپا!“ منزہ نے جواب دیا اور ساتھ ہی دونوں بیڈ پر چڑھ گئے۔ جب کہ امبرین پاس ہی کھڑی رہی۔
”لیکن آپ لوگ تو پہلے بھی الگ سوتے تھے نا!“ ساحل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا سوال کرے اور کیا جواب دے!
”سوتے تھے پر کیا ہم آج آپ کے ساتھ نہیں سو سکتے پاپا؟“ مائر نے جہاں بھر کی معصومیت چہرے پر سجا کر نہایت ایموشنل انداز میں پوچھا۔
”بالکل سو سکتے ہو میری جان، آجاؤ!“ حسب توقع ساحل بنا کسی حجت کے مان گیا کہ اپنے بچوں کی بات بھلا وہ کیسے ٹال سکتا تھا!
”آجائیں مما!“ دونوں نے خوش ہوکر امبرین کی جانب یوں دیکھا گویا کہہ رہے ہوں کہ آجائیں مما! پلان سکسیسفل!
بچوں کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے ساحل نے اس سے کچھ نہیں کہا اور تھوڑا سرک کر مائر و منزہ کیلئے جگہ بنا دی۔
ساحل کے ساتھ مائر لیٹا، مائر کے برابر میں منزہ اور اس کے ساتھ امبرین لیٹ گئی۔
”کتنا مزہ آرہا ہے نا! ہم روز ایسے ہی سوئیں گے!“ مائر چہک کر بولا۔
”ابھی تو سوجاؤ پہلے، پھر صبح اسکول کیلئے اٹھنا ہے نا!“ ساحل نے نرمی کے ساتھ اس کے ماتھے پر سے بال پیچھے کیے۔
دونوں اسی طرح ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے تھوڑی دیر تک سوگئے تھے۔ جب کہ یہ لوگ ہنوز جاگ رہے تھے۔
ساحل نے اپنا بازو ان دونوں کو اوپر رکھا ہوا تھا۔ امبرین نے بھی آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ لیا۔
ساحل نے اس کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں امید و التجا کے بےشمار جگنو لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو اب مان بھی جائیں نا!
ساحل نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکالا اور دوسری جانب کروٹ لے لی۔ جب کہ وہ بجھے دل کے ساتھ محض اس کی پشت دیکھ کر رہ گئی۔
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں ہے
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں ہے
تڑپ رہے ہیں زبان پر کئی سوال مگر
میرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں ہے
گزر رہے ہیں عجب مراحل سے دید و دل
سحر کی آس تو ہے، زندگی کی آس نہیں ہے
کبھی کبھی جو تیرے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کے تصور بھی میرے پاس نہیں ہے
ناصر کاظمی
*****************************************
اگلے دن اتوار ہونے کی وجہ سے ساحل آفس نہیں گیا تھا لیکن گھر پر ہوتے ہوئے بھی وہ نہایت مصروف ہوتا تھا جیسے ابھی لیپ ٹاپ آن کیے صوفے پر کئی فائلز لئے بیٹھا تھا۔
”پاپا! چلیں نا گیٹار بجاتے ہیں۔“ مائر اور منزہ پھر ایک منصوبے کے تحت اس کے سر پر آ کھڑے ہوئے۔
”ابھی میں بہت بزی ہوں میری جان، ابھی نہیں بجا سکتا۔“ ویسے ہی مصروف جواب آیا۔
”تھوڑی دیر کیلئے آجائیں نا پاپا!“ منزہ نے اصرار کیا۔
”اچھے بچے ضد نہیں کرتے بیٹا، میں جب میں فری ہوں گا تو آپ جو بولو گے وه کروں گا لیکن ابھی نہیں کرسکتا۔“ اس نے لیپ ٹاپ پر سے نظر اٹھا کر متوازن انداز میں ایسے جواب دیا کہ اب مزید اصرار کی گنجائش ہی ختم ہوگئی۔
مائر اور منزہ نے ایک دوسرے کو یوں دیکھا گویا نظروں میں مشورہ کر رہے ہوں کہ اب کیا کریں؟
”اچھا کیا ہم آپ کا گیٹار لے جائیں بجانے کیلئے؟“ مائر نے اچانک نئی اجازت مانگی۔
ساحل نے پل بھر کو اسے یوں دیکھا گویا کہہ رہا ہو کہ تمہیں گیٹار بجانا آتا بھی ہے؟
”ٹھیک ہے، لے جاؤ!“ فی الحال دونوں کو ٹالنے کیلئے اس نے اجازت دے دی۔
دونوں خوشی خوشی اس کی الماری کی جانب بھاگے۔ اس میں سے گیٹار نکالا جس کا نچلا حصہ مائر نے پکڑا جب کہ اوپری پتلا حصہ جسے فریڈ بورڈ کہتے ہیں وہ منزہ نے تھاما یعنی آسان لفظوں میں کہیں تو انہوں نے گیٹار کو ایسے پکڑا ہوا تھا جیسے دو لوگ ایک انسانی لاش کو ہاتھوں اور پیروں سے پکڑتے ہیں۔
دونوں اسی طرح گیٹار لئے باہر کی جانب بڑھے۔
”تھینک یو پاپا!“ اسی طرح ساحل کے پاس سے گزرتے ہوئے دونوں نے شکریہ ادا کیا تو وہ تعجب سے ان کی حرکات و سکنات دیکھ کر رہ گیا جو اس کیے سر پہ سے گزر گئی تھیں۔
دونوں گیٹار لے کر لاؤنج میں آئے جہاں ڈبل صوفے پر امبرین بیٹھی رات کا کھانا بنانے کیلئے چاول صاف کر رہی تھی۔
لاؤنج میں وہ صوفہ کچھ اس طرح رکھا تھا کہ وہاں سے امبرین ساحل کو اور ساحل امبرین کو باآسانی دیکھ سکتا تھا۔
”مما! چلیں گیٹار بجاتے ہیں۔“ مائر نے گیٹار صوفے پر رکھتے ہوئے فرمائش کی جو امبرین کیلئے بھی غیرمتوقع تھی۔
”مجھے گیٹار بجانا نہیں آتا بیٹا۔“ اس نے چاول صاف کرتا اپنا ہاتھ روک کر جواب دیا۔
”اچھا تو ہم بجا لیتے ہیں آپ گانا گا لیں!“ منزہ نے دوسری تجویز پیش کی۔
”مجھے گانا بھی نہیں آتا۔“ اس نے بےبسی سے کہتے ہوئے کندھے اچکائے۔
”پاپا کو منانے کیلئے گا لینے نا!“ مائر نے سرگوشی میں کہتے ہوئے آنکھوں سے ساحل کی جانب اشارہ کیا۔
امبرین نے اس کے تعاقب میں دیکھا تو ساحل ہنوز کام میں منہک ملا۔
”مگر مجھے نہیں آتا نا بیٹا!“ اس کی مشکل بھی جوں کی توں تھی۔
”پاپا کے پاس ٹائم نہیں ہے اور آپ مان نہیں رہی ہیں، کوئی ہم سے پیار نہیں کرتا۔“ دونوں نے چہرے پر معصومیت سجا کر ایموشنل بلیک میلنگ کی۔
”اچھا لاؤ، کوشش کرتی ہوں۔“ بلآخر اس نے گود میں دهری چاول کی ٹرے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہار مانی تو دونوں کا چہرہ کھل اٹھا۔
امبرین نے گیٹار بجانے کے انداز سے پکڑ لیا اور دونوں اس کے سامنے بطور آڈینس بیٹھ گئے۔
اسے گیٹار بجانا نہیں آتا تھا مگر دھیرے دھیرے اس کے تار چھیڑنے پر ایک بےترتیب دھن برآمد ہو ہی گئی۔
چند لمحے یہ بےترتیب دھن بجا کر جب اس کا تھوڑا حوصلہ بحال ہوا تو گیت کے بول بھی بےاختیار لبوں پر چلے آئے۔
”کیسے کہیں کیا ہے ستم“
”سوچتے ہیں اب یہ ہم“
”کوئی کیسے کہے“
”وہ ہیں یا نہیں ہمارے؟“
اس کے گانے پر ساحل نے بھی بےساختہ چونک کر اس کی جانب دیکھا جو آنکھوں میں بےپناہ اَن کہی التجائیں لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”کرتے تو ہیں ساتھ سفر“
”فاصلے ہیں پھر بھی مگر“
”جیسے ملتے نہیں کسی دریا کے دو کنارے“
گو کہ اسے سروں کی پہچان نہیں تھی مگر گیت کے بول اس طرح اس کے جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے کہ انہوں نے باقی ہر کمی کو پس پشت ڈال دیا۔
”پاس ہیں پھر بھی پاس نہیں“
”ہم کو یہ غم راس نہیں“
”شیشے کی اک دیوار ہے جیسے درمیان“
”کہنے کو جشنِ بہاراں ہے“
”عشق یہ دیکھ کے حیراں ہے“
”پھول سے خوشبو خفا خفا ہے گلشن میں“
”چھپا ہے کوئی رنج فضا کی چلمن میں“
پورے دل سے گاتے ہوئے اس کی نظریں ساحل پر ہی تھیں جیسے وہ اس سے بات کر رہی ہو۔ اور ساحل کی سماعت سے بھی اس کی غمگین التجائی آواز صاف ٹکرا رہی تھی۔
وہ صوفے پر سے اٹھا تو امبرین کی آنکھوں میں امید کا ننھا دیا جل اٹھا کہ شاید وہ اس کے پاس آرہا ہے۔
لیکن اگلے ہی پل ساحل نے کمرے کا دروازہ بند کردیا جس کے باعث اس کی آنکھوں میں جلتا امید کا ننھا دیا دکھ سے بجھ گیا اور وہ بچوں کی تالیوں کا جواب بھی نہیں دے پائی جو وہ گیت مکمل ہونے پر اسے داد دینے کیلئے بجا رہے تھے۔
*****************************************
مائر اور منزہ کی ننھی منی کوششیں اور امبرین کی کہی ان کہیں فریادیں ہنوز جاری و ساری تھیں مگر ساحل کا دل تو مانو اس کی جانب سے پتھر ہوگیا تھا کہ پگھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
لیکن وہ بھی آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی اور خود سے عہد کر چکی تھی کہ آخری سانس تک یہ کوشش جاری رکھے گی۔
امبرین حسب معمول ساحل کے کمرے کی ڈسٹنگ کر رہی تھی اور وہ خود اس وقت نہا رہا تھا۔
وہ سائیڈ ٹیبل پر بکھرا سامان ترتیب سے رکھ رہی تھی تب ہی وہاں رکھا ساحل کا موبائل گنگنا اٹھا۔
وہ موبائل کی جانب متوجہ ہوئی اور اسے اٹھا کر دیکھا۔
اسکرین پر کسی لڑکی زحرف کا نام آرہا تھا۔
ابھی وہ شش و پنج کے عالم میں کھڑی تھی کہ یکدم اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا گیا۔
اس نے چونک کر دیکھا تو وہ ساحل تھا جو بنا شرٹ کے صرف جینز پہنے کھڑا تھا۔ سفید تولیہ گردن کے گرد لٹکایا ہوا تھا، بال گیلے ہو رہے تھے اور مضبوط جسم پر کہیں کہیں پانی کی بوندیں بھی موجود تھیں۔
”اب کیا جاسوسی کر رہی تھی تم یہاں؟“ وہ کاٹ دار انداز میں گویا ہوا۔
”ڈسٹنگ کر رہی تھی۔“ اس نے دکھ سے جواب دیا۔
”کرلی؟ اب جاؤ!“ اس نے بنا لحاظ کیے باہر کا راستہ دکھایا۔
”یہ زحرف کون ہے؟“ اس نے ساحل کے رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا۔
”تمہارا جاننا ضروری نہیں ہے، جاؤ یہاں سے۔“ انداز ویسا ہی بےلچک تھا۔
وہ چند لمحے دکھ و بےبسی سے اسے دیکھتی رہی پھر غم و غصے سے بھرتا دل لے کر وہاں سے چلی گئی۔
جب کہ ساحل نے بھی مسلسل رنگ ہوتا اپنا موبائل کال ریسیو کرکے کان سے لگایا۔
*****************************************
چھوٹی بڑی باتوں کے درمیان کب دن ڈھلا پتا ہی نہیں چلا اور رات نکل آئی۔ حسب معمول ڈنر کرکے سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تھے۔
ساحل اپنے بیڈ پر گہری نیند میں تھا جب کسی نے اسے جگایا۔
”ساحل اٹھیں!“ کندھا ہلانے پر اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں۔
نائٹ بلب کی روشنی میں اس نے امبرین کو پاس کھڑا پایا۔
”کیا ہوا؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
”منزہ کو بخار ہو رہا ہے، دوائی لا دیں۔“ اس نے متفکر ہوکر کہا تو اگلے ہی پل ساحل کی نیند بھی اڑ گئی اور وہ بھی تشویش زدہ سا اس کے ساتھ بچوں کے کمرے میں آیا۔
منزہ بیڈ پر کمبل اوڑھے لیٹی تھی اور مائر اس کے نزدیک بیٹھا تھا۔
”کیا ہوا میری جان!“ ساحل نے نزدیک بیٹھ کر اسے اپنی بانہوں میں لیا۔
”کچھ نہیں ہوا پاپا!“ وہ کافی حد تک ہوش میں تھی۔
”کیسے کچھ نہیں ہوا! دیکھو بخار ہو رہا ہے۔“ ساحل نے اس کے گرم ماتھے پر ہاتھ رکھا جو ہلکا ہلکا تپ رہا تھا کیونکہ بخار کی نوعیت شدید نہیں تھی۔
”میں نے تھرمامیٹر سے چیک کیا تھا، بخار زیادہ نہیں ہے لیکن اس سے پہلے کہ زیادہ ہو آپ میڈیکل سے دوائی لا دیں۔“ امبرین بھی پریشان سی پاس ہی کھڑی تھی۔
”اسے ڈاکٹر کے پاس ہی لے چلتے ہیں۔“ ساحل کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔
”میں بھی چلوں پاپا!“ مائر نے پوچھا۔
”ہاں بیٹا، آپ کو گھر پر اکیلا تھوڑی چھوڑیں گے۔“ ساحل نے پیار سے جواب دیا۔
*****************************************
اتنی مشکلات میں ایک غنیمت یہ تھی کہ ساحل کی گاڑی ابھی تک اس کے پاس تھی، ابھی اسے بیچنے کی نوبت نہیں آئی تھی اسی لئے انہیں سفر میں آسانی ہوتی تھی۔
پچھلی نشست پر امبرین منزہ کو خود سے لگائے بیٹھی تھی جب کہ مائر ساحل کے ساتھ آگے فرنٹ سیٹ پر تھا۔
ماہِ نومبر کا آغاز ہوگیا تھا اسی لئے رات کے وقت سردی زور پکڑ لیتی تھی جس کے باعث اکثر سڑکوں پر سناٹا ہوجایا کرتا تھا۔
”فکر کی کوئی بات نہیں ہے، معمولی سا موسمی بخار ہے، جو انجیکشن ابھی انہیں دیا ہے ان شاءاللہ اس سے صبح تک ہی بخار بالکل اتر جائے گا، ساتھ ہی اگر ٹھنڈے پانی کی پٹی بھی رکھیں تو اور اچھا ہے۔“ ادھیڑ عمر ڈاکٹر نے معائنے کے بعد تسلی کرائی۔
یہ ایک قریبی پرائیویٹ کلینک تھا جہاں سے ان لوگوں نے منزہ کا چیک اپ کروایا۔ اور ڈاکٹر کی بات سے اب دونوں کافی حد تک مطمئن ہوگئے تھے۔
دوائی لے کر وہ لوگ واپس جانے لگے تو راستے میں فوڈ اسٹریٹ آئی جہاں سردی کی مناسبت سے سوپ وغیرہ کے اسٹال لگے ہوئے تھے اور کافی لوگ اس سے لطف اندوز ہونے کیلئے وہاں رک گئے تھے جس سے ایک پُررونق سما بندھ گیا تھا۔
”پاپا! سوپ پینا ہے۔“ مائر نے اسٹال دیکھ کر سوپ پینے کی ضد پکڑلی جسے پورا کرتے ہوئے ساحل نے گاڑی وہاں روکی اور سب کیلئے ہی گاڑی میں سوپ منگوا لیا۔
ساحل اور مائر گاڑی میں آگے بیٹھے سوپ پی رہے تھے جب کہ امبرین خود سوپ پینے کے ساتھ ساتھ منزہ کو بھی پلا رہی تھی۔
سوپ پی کر بل دینے کے بعد ساحل نے جیسے ہی گاڑی اسٹارٹ کرنے کیلئے چابی گھمائی تو ایک چہکتی ہوئی آواز نے اس کی توجہ کھینچ لی۔
”ساحل سر!“ ایک لڑکی خوشگوار حیرت سے کہتی ہوئی قریب آئی جس کی جانب باقی سب بھی متوجہ تھے۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“ ساحل بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
”اپنی فیملی کے ساتھ سوپ پیتے ہوئے ونٹر وائبز انجوئے کرنے آئی ہوں، آپ بھی یقیناً اسی لئے آئے ہوں گے نا اپنی فیملی کے ساتھ!“ وہ لڑکی کافی چلبلی سی معلوم ہو رہی تھی۔
”ہاں، یہ میری فیملی ہے، میرا بیٹا مائر، بیٹی منزہ اور ان کی مما امبرین!“ ساحل نے سب کا تعارف کرایا۔
جب کہ امبرین کو اپنی بیوی کہنے کے بجائے بچوں کی مما کہہ کر تعارف کروانا امبرین کے دل میں چبھا۔
”ہائے لٹل چمپ!“ لڑکی نے سوئیٹر کی جیب سے اپنا ہاتھ نکال کر کھڑکی سے اندر کرکے مائر کی جانب بڑھایا جسے اس نے سرد مہری سے تھام لیا کیونکہ اس لڑکی کا ساحل سے بات کرنا اسے کچھ خاص اچھا نہیں لگا۔
”آپ کے پاپا بہت باتیں کرتے ہیں آپ لوگوں کے بارے میں۔“ اس کی گرم جوشی کا مائر نے کوئی خاص جواب نہیں دیا۔
”ہائے میم! ہاؤ آر یو!“ اب اس نے پچھلی نشست پر امبرین سے مصحافہ کیا۔
”آئی ایم زحرف! پہلے صرف ساحل سر کی آسیسٹنٹ تھی اور اب۔۔۔۔۔“
”اور اب بہت اچھی دوست بھی ہیں جو ہر مشکل وقت میں بہت ہی اچھے مشوروں سمیت ایمانداری سے ساتھ بھی دیتی ہیں۔“ ابھی اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ساحل رخ موڑ کر بول پڑا جس کے جواب میں زحرف مسکرائی۔
امبرین جو اس کا ہاتھ تھام کر خوشدلی سے جواب دینے لگی تھی اس کا نام سن کر کھٹکی!
زحرف! یہ وہ ہی نام تھا جو آج کل ساحل کے موبائل پر کچھ زیادہ ہی جگمگانے لگا تھا اور اب جس طرح ساحل نے اس کا تعارف کروایا تھا وہ بھی امبرین کو رقابت کے تیر کی طرح چبھا۔
اس نے کچھ کہے بنا خاموشی سے زحرف کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”آپ کو کیا ہوا پرنسیس؟“ زحرف نے امبرین سے لپٹ کر بیٹھی سست سی منزہ کا گال چھوا۔
”ہلکا سا بخار ہو رہا ہے، چیک اپ کیلئے ہی باہر آئے تھے۔“ ساحل نے بتایا۔
”اوہ! موسم چینج ہوا ہے نا اسی کا اثر ہوگا، گیٹ ویل سون بےبی!“ وہ سادگی سے بولی۔
”پاپا! سوسو آرہی ہے، جلدی گھر چلیں۔“ اس لڑکی سے پیچھا چھڑانے کیلئے مائر نے جھوٹی وجہ بتا کر مداخلت کی۔
”میں چلتا ہوں زحرف! کل آفس میں ملتے ہیں۔“ ساحل نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
”شیور سر! بائے!“ وہ بھی مسکرا کر کہتی چند قدم پیچھے ہوئی جس کے بعد ساحل نے کار آگے بڑھا دی۔
*****************************************
ساحل منزہ کو گود میں اٹھائے کمرے میں آیا اور بستر پر لٹا کر کمبل اوڑھا دیا۔ مائر بھی ساتھ ہی اپنے بستر میں گھس کر بیٹھ گیا تھا۔
امبرین ایک ٹھنڈے پانی کا پیالا اور چھوٹا سا سفید تولیے کا ٹکڑا لئے کمرے میں آئی اور بیڈ پر منزہ کے بےحد قریب سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ جب کہ ساحل منزہ کے پیروں کے پاس بیٹھا تھا۔
”تم جا کر سوجاؤ، بچوں کے پاس میں ہوں۔“ اسے منزہ کے ماتھے پر گیلی پٹی رکھتے دیکھ ساحل نے سادہ انداز میں کہا۔
”میں بچوں کی ماں کی حیثیت سے ہی اس گھر میں ہوں، اور تو میرا کوئی مقام ہے نہیں تو کم از کم میرا ہی یہ فرض مجھے سکون سے نبھانے دیں۔“ امبرین کا روکھا سا جواب بہت کچھ جتا رہا تھا جسے ساحل بخوبی سمجھ گیا۔
وہ مزید کچھ نہیں بولا اور وہاں سے اٹھ کر مائر کے برابر میں لیٹ گیا۔ یعنی وہ بھی پوری رات ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنے والا تھا۔
مائر ساحل سے لپٹ کر باتیں کرتے ہوئے جلد ہی سوگیا جب کہ امبرین بخار اترنے تک سوتی ہوئی منزہ کے ماتھے پر پٹی رکھتی رہی اور ساحل چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
کافی دیر سب ایسے ہی چلتا رہا۔ تب ہی ساحل اٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھا۔
”لاؤ اب تھوڑی دیر میں پٹی رکھ دیتا ہوں، تم آرام کرلو۔“ اس نے نرمی سے کہتے ہوئے ہاتھ آگے کیا۔
”نہیں شکریہ! آپ جا کر سوئیں پھر صبح آپ کو آفس بھی جانا ہے جہاں کوئی آپ کا منتظر ہوگا۔“ انداز مصروف اور سپاٹ تھا۔
وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ امبرین کا اشارہ زحرف کی جانب ہے مگر اس نے کوئی تصدیق یا تردید کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
”تم مجھے چھوڑ کر جا کے اپنی مرضی کی ایک انڈیپینڈنٹ لائف کیوں نہیں شروع کرتی؟“ اس کا انداز سادہ مگر سنجیدہ تھا۔
امبرین نے پل بھر کو ہاتھ روک کر اس کی جانب گردن موڑی۔
دونوں کے سیاہ نینوں کی ڈور آپس میں الجھ گئی اور درمیان میں گہری خاموش حائل تھی۔
”رات بہت ہوگئی ہے، سوجائیں!“ ہزار باتیں ہوتے ہوئے بھی وہ بس اتنا کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پیالا لے کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
وہ سیدھا کچن میں آئی تھی تا کہ پیالے کا گرم ہوچکا پانی پھینک کر اس میں دوبارہ ٹھنڈا پانی ڈال سکے۔
ذہن میں چلتی بےشمار سوچوں کے سنگ اس نے سنک میں پانی پھینکا ہی تھا کہ یکدم ساحل نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب موڑا جو اس کے پیچھے چلا آیا تھا۔
پیالا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر سنک میں ہی گر گیا تھا۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اتنے نزدیک کھڑے تھے گویا آج سارے فاصلے ہمیشہ کیلئے مٹا دیں گے۔
”ناراض ہو مجھ سے؟“ ساحل نے نرمی سے کہتے ہوئے اسے خود سے بےحد قریب کیا۔
”آپ کو کون سا کوئی فرق پڑتا ہے میرے ناراض ہونے سے یا منتیں کرنے سے!“ اس نے بھی خفگی سے طنز مارا۔
”کس نے کہا کہ مجھے فرق نہیں پڑتا، بالکل پڑتا ہے، اور اب میں تمہیں مزید ایسے دکھی نہیں دیکھ سکتا۔“ اس نے دونوں ہاتھوں سے امبرین کا چہرہ تھاما۔
”سب سے زیادہ دکھی آپ نے ہی کیا ہے مجھے ایک نا کردہ جرم کی سزا دے کر!“ امبرین نے اپنے چہرے کے گرد آئے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے دکھ سے شکوہ کیا۔
”جانتا ہوں، مگر وہ سب ایک وقتی غصہ تھا، اب مجھے اندازہ ہوگیا کہ تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو اور۔۔۔۔“ وہ شدت جذبات سے چور انداز میں کہتا رکا۔
”اور کیا؟“ اس نے بےتابی سے جاننا چاہا۔
”اور میں بھی سچ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں جانم، آئی لو یو!“ اس کے دیوانہ وار انداز میں شدید تڑپ تھی۔
ایسے ہی جذبات کا سیلاب امبرین کے اندر بھی امڈ رہا تھا جس پر کوئی باندھ نہ لگاتے ہوئے امبرین نے پوری طرح اس سے لپٹ کر خود کو اس کے حوالے کردیا۔
دونوں کے تشنہ لب بےحد قریب آگئے تھے اور چہرے کو چھوتی سانسیں آپس میں الجھنے لگی تھیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔!
سر ڈھلکنے کے باعث امبرین کی آنکھ کھل گئی۔
وہ منزہ کے سر پر پٹی رکھتے ہوئے بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگائے کب سوگئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔
مائر، منزہ اور ساحل تینوں بیڈ پر لیٹے بےخبر سو رہے تھے۔
یعنی تھوڑی دیر قبل جو کچھ بھی ہوا وہ سراسر امبرین کا خواب تھا۔ یا یہ کہنا زیادہ بہتر تھا کہ اس کی شدید تر خواہش تھی جو پوری نہ ہونے کے باعث اس کے حواس پر چھانے لگی تھی۔
اس خوبصورت خواب کے ٹوٹنے پر وہ بجھے دل کے ساتھ حقیقت میں لوٹ آئی۔
اس نے منزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بخار بہت حد تک کم ہوچکا تھا جو کہ کافی تسلی بخش بات تھی۔
گھڑی کی جانب دیکھا تو رات کے سوا تین بجنے کی خبر ہوئی۔ مطلب ابھی صبح ہونے میں وقت تھا۔
امبرین نے کھڑے ہوکر کمرے کی لائٹ بند کرکے نائٹ بلب جلایا اور خود بھی لیٹنے سے قبل ساحل کے پاس آئی جو بنا کمبل کے بےخبر سو رہا تھا۔
اسے کمبل اوڑھا کر ماتھے پر آئے بال پیچھے کرتے ہوئے آہستگی سے وہاں بوسہ دے کر وہ خود بھی منزہ کے برابر میں لیٹ گئی۔
جب تک نیند سے اس کی آنکھیں بند نہیں ہوئیں نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں وہ اس شخص کو دیکھتی گئی جس سے بیک وقت اسے محبت بھی تھی، اس کی بےرخی پر غصہ بھی آتا تھا، اور اسے چھوڑ کر جانے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جب کچھ مطلبی لوگوں کیلئے اس نے ساحل کی قربت جھیلی تھی تو اب خود ساحل کیلئے وہ اس کی اتنی بےرخی تو جھیل ہی سکتی تھی جو ساحل کا حق تھی!
لفظی محبت تو سب کرتے ہیں مگر حقیقی محبت وہ ہوتی ہے جو سختیاں جھیل کر بھی اپنی جگہ قائم رہے۔
محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ہوتے ہیں
خفا ہوں جن سے ان ہی کے خیال ہوتے ہیں
مچلتے رہتے ہیں ذہنوں میں وسوسوں کی طرح
حسین لوگ بھی جان کا وبال ہوتے ہیں
تیری طرح میں دل کے زخم چھپاؤں کیسے
کہ تیرے پاس تو لفظوں کے جال ہوتے ہیں
بس ایک تو ہی سبب تو نہیں اداسی کا
طرح طرح کے دلوں کو ملال ہوتے ہیں
سیاہ رات میں جلتے ہیں جگنوؤں کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں
محسن نقوی
پچھلی قسط کی جھلک 👇
”میں بھی سچ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں جانم، آئی لو یو!“ اس کے دیوانہ وار انداز میں شدید تڑپ تھی۔
ایسے ہی جذبات کا سیلاب امبرین کے اندر بھی امڈ رہا تھا جس پر کوئی باندھ نہ لگاتے ہوئے امبرین نے پوری طرح اس سے لپٹ کر خود کو اس کے حوالے کردیا۔
دونوں کے تشنہ لب بےحد قریب آگئے تھے اور چہرے کو چھوتی سانسیں آپس میں الجھنے لگی تھیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔!
سر ڈھلکنے کے باعث امبرین کی آنکھ کھل گئی۔
وہ منزہ کے سر پر پٹی رکھتے ہوئے بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگائے کب سوگئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔
مائر، منزہ اور ساحل تینوں بیڈ پر لیٹے بےخبر سو رہے تھے۔
یعنی تھوڑی دیر قبل جو کچھ بھی ہوا وہ سراسر امبرین کا خواب تھا۔ یا یہ کہنا زیادہ بہتر تھا کہ اس کی شدید تر خواہش تھی جو پوری نہ ہونے کے باعث اس کے حواس پر چھانے لگی تھی۔
اس خوبصورت خواب کے ٹوٹنے پر وہ بجھے دل کے ساتھ حقیقت میں لوٹ آئی۔
اس نے منزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بخار بہت حد تک کم ہوچکا تھا جو کہ کافی تسلی بخش بات تھی۔
گھڑی کی جانب دیکھا تو رات کے سوا تین بجنے کی خبر ہوئی۔ مطلب ابھی صبح ہونے میں وقت تھا۔
امبرین نے کھڑے ہوکر کمرے کی لائٹ بند کرکے نائٹ بلب جلایا اور خود بھی لیٹنے سے قبل ساحل کے پاس آئی جو بنا کمبل کے بےخبر سو رہا تھا۔
اسے کمبل اوڑھا کر ماتھے پر آئے بال پیچھے کرتے ہوئے آہستگی سے وہاں بوسہ دے کر وہ خود بھی منزہ کے برابر میں لیٹ گئی۔
جب تک نیند سے اس کی آنکھیں بند نہیں ہوئیں نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں وہ اس شخص کو دیکھتی گئی جس سے بیک وقت اسے محبت بھی تھی، اس کی بےرخی پر غصہ بھی آتا تھا، اور اسے چھوڑ کر جانے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جب کچھ مطلبی لوگوں کیلئے اس نے ساحل کی قربت جھیلی تھی تو اب خود ساحل کیلئے وہ اس کی اتنی بےرخی تو جھیل ہی سکتی تھی جو ساحل کا حق تھی!
لفظی محبت تو سب کرتے ہیں مگر حقیقی محبت وہ ہوتی ہے جو سختیاں جھیل کر بھی اپنی جگہ قائم رہے۔
محبتوں میں کچھ ایسے بھی حال ہوتے ہیں
خفا ہوں جن سے ان ہی کے خیال ہوتے ہیں
اب آگے 👇
*****************************************
دو روز میں ہی منزہ کا بخار بالکل اتر گیا تھا اور وہ پہلے جیسی چست ہوگئی تھی۔ جسے دیکھ کر امبرین اور ساحل نے شکر کی سانس لی تھی۔ جب کہ معمول کی سرگرمیاں بھی ہنوز جاری و ساری تھیں۔
ساحل نہا رہا تھا جب امبرین نے اس کی ڈارک بیلو شرٹ استری کرکے لا کر بیڈ پر رکھی جو پہن کر آج وہ آفس جانے والا تھا۔
وہ سلیقے سے شرٹ رکھ کر جانے لگی تھی کہ اچانک کسی خیال کے تحت رک کر پلٹی۔
کسی شریر خیال کے آتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
وہ دوبارہ شرٹ کی جانب آئی اور بہت صفائی سے اس کا اوپری بٹن کھینچ کر نکال دیا۔
یہ کاروائی مکمل کرکے وہ تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ساحل صرف پینٹ پہنے، تولیہ گردن کے گرد لٹکائے باتھ روم سے باہر آیا۔
پہلے تولیے سے بال رگڑے اور پھر بدن صاف کرکے حسب عادت تولیہ بیڈ پر پھینک کر شرٹ اٹھا لی۔
”سنیں!“ امبرین نے دوبارہ کمرے میں آکر پکارا۔
”بولو!“ وہ شیشے میں دیکھ کر شرٹ کے بٹن لگانے لگا۔
”ناشتہ بن گیا ہے، آجائیں!“ وہ کہتی ہوئی جان بوجھ کر آگے آئی۔
”آرہا ہوں!“ سپاٹ جواب آیا۔
وہ جانے کے بجائے وہیں کھڑی رہی۔
”آپ کی ٹائی باندھ دوں؟“ اس نے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر شیشے میں نظر آتے اس کے عکس کو پیشکش کی۔
”میں ٹائی نہیں پہن رہا۔“ اس نے بات کی جڑ ہی کاٹ دی۔
نیچے سے اوپر کی طرف بٹن بند کرتے ہوئے جب ساحل اوپری بٹن پر آیا تو یہ دیکھ کر چونک گیا کہ وہ بٹن ٹوٹا ہوا تھا۔
”کیا ہوا؟“ اس کے تاثر بدلنے پر امبرین نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
”بٹن ٹوٹا ہوا ہے۔“ وہ کہہ کر دوبارہ شرٹ کے باقی بٹن کھولنے لگا۔
”ارے یہ کیا کر رہے ہیں؟“
”شرٹ اتار رہا ہوں۔“
”کیوں؟“
”تا کہ دوسری شرٹ پہن سکوں۔“
”مگر دوسری کوئی شرٹ ابھی استری نہیں ہے۔“ اس نے بہانہ بنایا۔
”تو استری کردو!“
”اس میں ٹائم لگے گا، اس کے بجائے میں آپ کی شرٹ کا بٹن لگا دیتی ہوں نا!“ اس نے کہتے ہوئے برق رفتاری کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل کی دراز سے سوئی دھاگہ نکالا۔
ساحل کچھ کہے بنا شرٹ اسے دینے کیلئے اتارنے لگا تو اس نے پھر ٹوک دیا۔
”شرٹ اتارنے کی ضرورت نہیں ہے، میں ایسے ہی لگا دوں گی۔“
”کوئی ضرورت نہیں ہے ایکسٹرا ایفیشینسی دکھانے کی، اس پر جلدی بٹن لگا کر دو مجھے۔“ اس نے شرٹ اتار کر اسے پکڑاتے ہوئے امبرین کے منصوبے پر بالکل ویسی اوس گرا دی جیسی اکثر وہ اس کے ارمانوں پر گرا دیا کرتی تھی۔
*****************************************
کام زیادہ ہونے کے باعث اکثر ساحل رات دیر تک جاگتا رہتا تھا جیسے ابھی جاگ رہا تھا۔
تب ہی پیاس کا احساس ہونے پر وہ پانی پینے کیلئے کمرے سے باہر آیا۔
پانی پی کر کچن سے واپس جاتے ہوئے اس نے سوچا کہ ایک نظر بچوں کو دیکھ لے۔ اسی خیال کے تحت اس نے آہستہ سے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا تو نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں مائر اور منزہ بیڈ پر امبرین کے دائیں، بائیں سوتے ہوئے ملے۔ غالباً وه ان سے باتیں کرتے ہوئے ان ہی کے ساتھ سوگئی تھی۔
وہ ان لوگوں کے پاس آیا اور بےترتیب سا کمبل ٹھیک سے انہیں اوڑھا دیا۔ تینوں ایک ساتھ لپٹ کر سوئے بےحد پیارے لگ رہے تھے جنہیں وہ بےساختہ دیکھتا گیا۔
اس نے جھک کر باری باری مائر اور منزہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور پلٹ کر جانے ہی لگا تھا کہ اس کی آہنی کلائی ایک نازک گرفت میں آگئی۔
وہ چونک کر پلٹا تو امبرین اس کا ہاتھ پکڑے اسے ہی دیکھتی ہوئی ملی۔
”مجھ پر بھی یہ مہربانی کردیں!“ اس کے دھیمے لہجے میں بےریا فرمائش تھی۔
”مہربانیاں دل سے کی جاتی ہیں، اور ٹوٹے ہوئے دل اکثر پہلے جیسے مہربان نہیں رہ پاتے۔“ ساحل نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے افسردہ سا جواب دیا اور وہاں سے چلا گیا۔
جب کہ وہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
*****************************************
”پتا ہے پاپا کل ہم رات میں اتنی دیر آپ کا ویٹ کرتے رہے بٹ آپ اتنا لیٹ گھر آئے کہ ہم سوگئے تھے۔“ مائر نے معصومیت سے شکوہ کیا۔
”ہاں، اور اب آپ گڈ نائٹ کس بھی بہت زیادہ مس کرنے لگے ہیں۔“ منزہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔
”سوری میری جان، ایکچلی آج کل تھوڑا کام زیادہ ہے نا اسی لیٹ ہوجاتا ہوں، لیکن یہ بس تھوڑے دنوں کی بات ہے، اس کے بعد میں پہلے کی طرح جلدی گھر آیا کروں گا، پرامس!“ ساحل نے پیار سے جواب دیا۔
چاروں حسب معمول کچن میں موجود فور سیٹر ٹیبل کے گرد بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔
یونیفارم پہنے بیٹھے مائر اور منزہ ساحل سے پچھلے دن کی بابت بات کرنے میں مصروف تھے جب کہ امبرین اور ساحل اب ضروری بات چیت کے علاوہ ایک دوسرے سے کم ہی ہمکلام ہوتے تھے۔
”اچھا ہمیں آپ کو ایک اور امپورٹنٹ بات بھی بتانی ہے پاپا!“ مائر کو اچانک یاد آیا۔
”جی بولو!“
”فاطمہ لوگ نیکسٹ ویک اپنے فارم ہاؤس پہ ونٹر ویکشن ٹرپ پر جا رہا ہے اور اس نے ہمیں بھی انوائٹ کیا ہے، ہمیں ان کے ساتھ جانا ہے۔“
”لیکن بیٹا کیا ضرورت ہے ٹھنڈے موسم میں کہیں جانے کی وہ بھی ہمارے بنا؟ وہاں آپ کا خیال کون رکھے گا؟ کہیں بیمار پڑ گئے تو!“ امبرین کو فکر ہوئی۔
”مما ہم پہلے بھی فاطمہ کی فیملی کے ساتھ پکنک پر جا چکے ہیں، اس کے مما پاپا بھی آپ لوگوں کی طرح بہت اچھے ہیں اور صرف ایک دن کی بات ہے۔“ منزہ نے بھی زور دیا۔
”آپ کی مما ٹھیک کہہ رہی ہیں، مجھے بھی فکر رہے گی آپ لوگوں کی۔“ ساحل نے بھی امبرین سے اتفاق کیا۔
”بٹ ہم سمر ویکیشن پر بھی تو گئے تھے نا ان کے ساتھ پاپا!“ مائر نے یاد دلایا۔
”اس کی بات اور ہے، ابھی موسم ٹھنڈا ہے، کہیں بیمار پڑ گئے تو!“ ساحل نے منع کرنے کی وجہ بتائی۔
دونوں کچھ کہنے کے بجائے منہ لٹکا کر خفگی سے انہیں دیکھنے لگے۔
”ٹھیک ہے ہم نہیں جا رہے، پھر آپ ہمیں ایک بےبی سسٹر لا کر دیں۔“ مائر اچانک نئی فرمائش بیچ میں لے آیا۔
”ہاں، آپ نے کہا تھا کہ جب ہم ٹیسٹ میں فرسٹ آئیں گے تو آپ بےبی لا کر دیں گے مگر آپ لوگ نہیں لائے۔“ منزہ بھی فوراً اس کی حمایت میں بولی۔
ان کی بات پر دونوں حیران ہوئے۔
”یہ آپ دونوں کیسے بات کر رہے ہو؟“ ساحل نے سنجیدگی سے ٹوکا۔
”ساحل!“ امبرین نے دھیرے سے پکارا کہ کہیں وہ بچوں پر غصہ نہ کر جائے۔
”آپ ہماری کوئی تو وش پوری کریں نا! یا تو بےبی لا دیں یا پکنک پر جانے دیں!“ مائر نے منہ بسور کر ضد کی اور ایسا ہی حال منزہ کا بھی تھا۔
ساحل کے سنجیدہ تاثر بتا رہے تھے کہ وہ بہت مشکل سے خود کو کوئی سختی دکھانے سے باز رکھے ہوئے تھا۔ امبرین بھی اسی بات سے ڈر رہی تھی کہ کہیں وہ کاروباری معاملات کا غصہ بچوں پر نہ نکال بیٹھے!
”اچھا ٹھیک ہے!“ اگلے ہی پل گہری سانس کے ساتھ ٹھہرا ہوا جواب آیا۔
”پہلے میں خود فاطمہ کے پاپا سے بات کروں گا، پکنک کی ساری ڈیٹیلز لوں گا، پھر بتاؤں گا کہ آپ کو جانا ہے یا نہیں؟“ ساحل حسب عادت چند لمحوں میں ہی اندر ہی اندر غصے پر قابو کر چکا تھا۔
”سچی پاپا! تھینک یو!“ دونوں یکدم خوشی سے کھل کر اپنی جگہ سے اٹھے اور ساحل سے لپٹ گئے۔
امبرین نے بھی شکر کی سانس لی کہ اس نے دوسرے معاملات کا غصہ خواہ مخواہ بچوں پر نہیں نکالا اور انہیں تحمل سے ڈیل کیا۔
وہ ایسا ہی تھا۔۔۔۔
عموماً تو وہ غصہ ضبط کر جاتا تھا لیکن جب نکالتا بھی تھا تو صحیح جگہ، صحیح وقت اور صحیح شخص پر نکالتا تھا۔
خواہ مخواہ کسی دوسرے کو اس عتاب کا نشانہ نہیں بناتا تھا۔
*****************************************
چند دن مزید ایسے ہی گزر گئے جن میں کوئی قابلِ ذکر بات نہ ہوئی سوائے اس کے کہ ساحل نے فاطمہ کے پاپا عدیل کی یقین دہانی سے مطمئن ہونے کے بعد انہیں پکنک پر جانے کی اجازت دے دی تھی جسے سن کر دونوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور انہیں خوش دیکھ کر ساحل اور امبرین بھی خوش تھے۔
ساحل اکثر دیر سے گھر لوٹتا تھا تو بچے سوجاتا کرتے تھے بس امبرین اس کے انتظار میں جاگتی رہتی تھی۔
ابھی بھی حسب معمول بچوں کے سونے کے بعد امبرین لاؤنج کی لائٹ بند کیے ڈبل صوفے پر بیٹھی ساحل کی منتظر تھی اور سامنے کھلی گیلری سے آتی ٹھنڈی ہوا اور چاند کی روشنی نے ماحول پر فسوں طاری کر رکھا تھا۔
وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکائے ان لمحات میں کھوئی ہوئی تھی جب ساحل اس کے قریب آنے کیلئے بےتاب ہوا کرتا تھا اور وہ اپنے دل کے چور سے گھبرانے کے باعث ساحل سے دور بھاگنے کی کوشش میں رہتی تھی۔
اور اب دونوں اتنے دور ہوگئے تھے کہ فاصلے سمیٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
”ایک بات پوچھوں؟“ ساحل نے کہتے ہوئے اس کے بال کیچر سے آزاد کیے تھے۔ جن سے آتی شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو اسے مدہوش کرنے لگی تھی۔
امبرین نے سر کو اثبات میں چنبش دی تھی۔
”تم مجھ سے گھبرا کر بھاگتی کیوں ہو؟ کیا میں تمہیں پسند نہیں؟ یا یہ شادی تم نے زبردستی کی ہے؟“ وہ اس کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا تھا۔
”ایسا نہیں ہے۔“
”تو پھر کیسا ہے جانم؟“ ساحل نے اس کے کندھے پر سر رکھ لیا تھا۔ امبرین کی دهڑکنوں میں طلاطم مچا تھا۔
”ٹھیک ہے تمہیں جسمانی تعلقات قبول کرنے کیلئے تھوڑا وقت چاہیے لیکن تعلق صرف جسم کا تو نہیں ہوتا! کچھ جذبات بھی تو ہوتے ہیں، کچھ خواہشیں ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارا جائے!“ وہ اس کے کندھے پر سر رکھے گھمبیرتا سے کہتے ہوئے اس کے وجود سے اٹھتی بھینی سی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتار رہا تھا۔
جب کہ اپنے کندھے اور گردن پر محسوس ہوتی اس کی پُرتپش سانسوں نے اسے بےچین کرکے دھڑکن منتشر کردی تھیں۔
اپنے کندھے پر اس کے لبوں کا لمس یاد آتے ہی اس کے پورے وجود میں سرسراہٹ دوڑ گئی اور عین اسی پل دروازے پر ہوئی آہٹ نے اس کا فسوں توڑ کر اسے ہوش دلایا۔
ساحل آگیا تھا جسے دیکھ کر وہ بھی اپنی جگہ پر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”السلام علیکم!“
”وعلیکم السلام!“ سادہ سا جواب ملا۔
”آپ فریش ہوکر آجائیں، میں کھانا گرم کرتی ہوں۔“
”مجھے بھوک نہیں ہے، بچوں نے کھانا کھا لیا؟“ اس نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔
”جی، وہ کھانا کھا کر سوگئے ہیں، آپ بھی صبح کا ناشتہ کرکے گھر سے نکلے ہوئے ہیں کچھ تھوڑا بہت کھا لیجئے۔“ اس نے جواب دے کر فکرمندی سے اصرار کیا۔ وہ کافی تھکن زدہ لگ رہا تھا۔
”دل نہیں چاہ رہا، بس اسٹرانگ سی چائے بنا دو۔“ اس نے بےدلی کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
امبرین کا دل پل بھر کو پسیچ گیا۔
ایک وہ ساحل تھا جو ہشاش بشاش سا پرشوخ ہوا کرتا تھا۔
اور ایک یہ ساحل تھا جو اپنا بکھرا ہوا آشیانہ تنکا تنکا کرکے سمیٹنے میں دن رات ہلکان تھا۔
وہ ابھی بھی مایوس یا ناامید نہیں تھا بس تھوڑا تھک گیا تھا۔
اور باہمت لوگوں کی یہ ہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی مایوس ہوکر ایک جگہ رکتے نہیں ہیں، سست روی سے ہی سہی مگر چلتے جاتے ہیں اور ایک روز مشکل کی اس ناہموار سڑک کو پار کرکے کامیابی کی منزل کو پا لیتے ہیں۔
*****************************************
امبرین چائے لے کر ساحل کے کمرے میں آئی تو وہ چینج کرکے بیڈ پر چت لیٹا ملا جس نے دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔
اس نے قریب آکر چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور خود آہستہ سے اس کے نزدیک بیڈ پر بیٹھ گئی۔
وہ اس کی موجودگی محسوس کر چکا تھا لیکن پھر بھی کوئی توجہ دیے بنا آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔
”آپ کا سر دبا دوں؟“ اس نے آہستگی سے پوچھا۔
”نہیں، مجھے ہاتھ مت لگاؤ، میرے لمس سے تو ویسے بھی تم گھبراتی ہو!“ بند آنکھوں سنگ ہی طنزیہ جواب آیا جو سیدھا اس کے دل پر لگا۔
”آپ ایک ہی بار مجھ سے جی بھر کر کیوں نہیں لڑ لیتے؟ جتنا کوسنا ہے، جتنے طنز مارنے ہیں سب ایک بار ہی کرلیجئے، یہ روز روز قطرہ قطرہ کرکے تو طنز کا زہر نہ پلائیں!“ وہ بھی ناچاہتے ہوئے روہانسی ہوکر شکوہ زبان پر لے ہی آئی۔
اس کی بات پر ساحل نے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور یکدم اٹھ بیٹھا۔
”اور جو تم مجھے میرے حقوق کیلئے قطرہ قطرہ ترساتی رہی تھی اس کا کیا؟“ وہ بھی اس کا بازو پکڑ کر دوبدو ہوا۔
”اس کیلئے معافی مانگ تو چکی ہوں اور بتایا تھا آپ کو کہ میں بس یہ سوچ کر گھبراتی تھی آپ میرے نہیں ہیں، ورنہ بھلا کون سی عورت اپنے شوہر کی قربت سے گھبراتی ہے؟ وہ بھی ایسا شوہر جو اس سے والہانہ محبت کرتا ہو!“ اس نے گھبرائے بنا تاسف سے جواب دیا۔
”تب تم یہ سوچ کر گھبراتی تھی کہ میں تمہارا نہیں ہوں، تو اب کیا سوچ کر رات کی تنہائی میں میرے کمرے میں موجود ہو؟“ اس نے چبھتے ہوئے انداز میں سوال کیا۔
”اپنے شوہر کے پاس آنے کیلئے مجھے کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ خود بھی اندر ہی اندر اس کی قربت کیلئے ترس رہی تھی اسی لئے گڑبڑائے بنا بےاختیاری کے عالم میں کہہ گئی۔
وہ چند لمحے یوں ہی اسے دیکھتا رہا اور پھر اچانک اسے پیٹھ کے بل بیڈ پر دھکیل کر خود بھی اس کے اوپر جھک گیا۔
دونوں کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا اور پرتپش سانسوں نے تو ایک دوسرے کے چہرے کو چھونا شروع کردیا تھا۔
”تم نے اب تک میرا لحاظ دیکھا ہے، اگر میں اپنی پر آگیا تو میری زبردستی جھیل نہیں پاؤ گی۔“ اس کی گھمبیر آواز کان سے ہوکر سیدھا روح میں اترتی محسوس ہوئی۔
”میں جانتی ہوں کہ آپ زبردستی نہیں کریں گے، اور آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، میں پورے حق سے آپ کو آپ کا حق دینے کیلئے تیار ہوں۔“ اس نے بھی دونوں ہاتھوں سے اپنے اوپر جھکے ساحل کو تھامتے ہوئے پُرفسوں انداز میں وہ ہی جواب دیا جسے سننے کیلئے ایک وقت پر وہ دن گِنا کرتا تھا۔
”سچ میں؟“ ساحل نے سرگوشی نما انداز میں تائید چاہی۔
”بالکل سچ!“ وہ بہکنے کیلئے پوری طرح تیار تھی۔
وہ اس کے مزید قریب ہونے لگا۔ امبرین کے ہاتھ اس کے بال سہلانے لگے تھے اور سانسیں مزید جلتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
وہ اس کے لبوں تک اپنے لب لا کر چند انچ کی دوری پر رک گیا۔
”ایک بات کہوں؟“
”کہیں!“ وہ تشنگی میں بےچین ہو رہی تھی۔
”اب مجھے تم سے یہ حق وصولنے کی طلب نہیں رہی۔“ ساحل کی اگلی بات نے یکدم اسے خمار سے جھنجھوڑ کر ہوش میں لاپٹخا۔
”میں تیسری شادی کر رہا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے اس پر سے ہٹ گیا۔ ساحل کی سانسوں میں اب تک اس کی زلفوں کی بھینی بھینی خوشبو بسی ہوئی تھی۔
وہ بھی اسے دیکھتے ہوئے ششدر سے اٹھ بیٹھی۔
”کیا کہا آپ نے؟“ امبرین کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔
”میں اپنی ایک بہت پرانی اور وفادار امپلائی زُحرف سے تیسری شادی کر رہا ہوں۔“ وہ اضافی جواب دہراتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ساحل کی پشت اس کی جانب تھی۔
امبرین کو لگا اس پر بہت زور سے آسمانی بجلی گری ہے اور اسے بھسم کر گئی ہے۔
”لیکن آپ ایسا۔۔۔۔ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟“ وہ بھی حواس باختہ سی کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کیا مطلب کیسے کرسکتا ہوں؟ ضرورت کے تحت مزید نکاح کرنے کا حق رکھتا ہوں میں!“ وہ بھی اس کی جانب پلٹا۔
”جس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے میں نے تم سے نکاح کیا تھا وہ تو تم پوری کر نہیں سکی تو اب کوئی تو راستہ چاہیے نا مجھے!“ اس کے کٹیلے انداز میں عجیب سی چبھن تھی جو تیر کی طرح امبرین کے دل میں چبھی۔
”ہاں میں مانتی ہوں کہ میں نے پہلے آپ کو روکا تھا، لیکن اب آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے، میں پوری طرح صرف آپ کی ہوں، آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔“ وہ ساحل کو کھو دینے کے خوف سے اتنی پاگل ہو رہی تھی کہ سینے پر سے دوپٹہ اتار کر بیڈ پر پھینک دیا جس کے بعد اب اس کے جسم کے خدوخال کافی واضح ہوگئے تھے۔
نزاکت لئے آنکھوں میں وہ دیکھنا ان کا توبہ
الہی ہم انہیں دیکھیں یا ان کا دیکھنا دیکھیں
انتخاب
اس کے جسم پر نظر پڑتے ہی ساحل نے کچھ کہنے کے بجائے رخ موڑ کر پشت اس کی جانب کرلی۔
”میں آپ کے کسی عمل پر کچھ نہیں کہوں گی، کسی بات سے نہیں روکوں گی لیکن پلیز مجھ پر ایسا ظلم نہ کریں، میں آپ کو کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔“ وہ پیچھے سے اس کے گرد دونوں بازو لپیٹ کر اس کی پشت پر سر ٹکائے رونے لگی۔
”لیکن تم نے تو کہا تھا کہ میں بس تمہیں اپنے اور بچوں کے ساتھ رکھ لوں، پھر بھلے میں تیسری شادی بھی کرلوں تو تم کچھ نہیں کہو گی!“ ساحل نے یوں ہی کھڑے رہ کر یاد دلایا۔
”ہاں کہا تھا لیکن اب جب گزری ہے تو سمجھ آیا ہے کہ میں سہہ نہیں پاؤں گی، جتنی محبت کا دعویٰ کبھی آپ مجھ سے کیا کرتے تھے اس سے بھی زیادہ محبت مجھے آپ سے ہوگئی ہے، آپ کو کھونا میں برداشت نہیں کر پاؤں گی، پلیز مجھ پر یہ ظلم نہ کریں۔“ اس نے شکستہ انداز میں بلآخر اعترافِ محبت کرتے ہوئے پھر منت کی۔
ساحل نے آہستہ سے اس کے ہاتھ ہٹائے اور اس کی جانب پلٹا۔
وہ بھی بھیگی آنکھوں کے سنگ سر اٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ابھی تو میں نے تمہیں پوری بات بھی نہیں بتائی اور تمہاری یہ حالت ہوگئی۔“ اس کا انداز جذبات سے عاری تھا۔
”کون سی پوری بات؟“ وہ کھٹکی۔
”میں نے سوچا تھا کہ میں زحرف سے شادی کرکے اپنی ازدواجی زندگی میں آگے بڑھ جاؤں گا اور تم بچوں کے ساتھ بطور کیئر ٹیکر ہی رہتی رہنا، لیکن۔۔۔۔۔۔“
اس نے کہتے ہوئے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔
”لیکن کیا؟“ کسی انہونی کے احساس سے اس کا دل بیٹھنے لگا۔
”لیکن زحرف اس کیلئے راضی نہیں ہے، وہ چاہتی ہے کہ میں تمہیں طلاق دے کر اپنے گھر اور زندگی سے ہمیشہ کیلئے الگ کردوں۔“ اس نے سنجیدگی سے بات مکمل کی۔
امبرین کو لگا یکدم اس کے سر سے آسمان اور پیروں تلے زمین کھینچ لی گئی ہے اور اب وہ بس لاوارث سی ہوا میں ملحق ہے جو کسی بھی وقت پاتال کی گہرائیوں میں گر کر فنا ہوجائے گی۔
”اور میں اس کی بات ٹال نہیں سکتا، اسی لئے تمہیں یہاں سے جانا ہوگا۔“ اس کی کیفیت سے بےخبر ساحل نے اپنی بات مکمل کی۔
”آپ۔۔۔آپ مجھے بچوں سے بھی الگ کر رہے ہیں؟“ وہ ابھی تک سکتے میں تھی۔
”ہاں، زحرف کا کہنا ہے کہ اب تم پر مزید بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں، مجھے تو تم دھوکہ دے چکی ہو کیا پتا مستقبل میں بچوں کو بھی کوئی نقصان پہنچا دو!“ اس نے بنا لحاظ کیے اس کے دل پر صاف گوئی کی چھری چلائی۔
”ساحل!“ اس کے لبوں سے دکھ بھری سرگوشی نکلی۔ جب کہ آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔
”آپ کو لگتا ہے کہ میں بچوں کے ساتھ ایسا کروں گی؟“ اپنی پرخلوص ممتا پر الزام لگتے ہی وہ تڑپ گئی۔
”لگتا تو یہ بھی تھا کہ میرے ساتھ دھوکہ نہیں کرو گی، لیکن کر گئی نا!“ اس نے ترکی بہ ترکی طنز مارا۔
”نہیں، میں نے آپ کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا، ہاں میں اس نیت سے آپ کے گھر آئی تھی لیکن میں نے آپ کے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں کیا، بلکہ میں نے تو وقت رہتے ہی آپ کو سب بتا دیا تھا، دھوکہ تب ہوتا جب میں آپ کو بنا بتائے ان کی بات مانتی جاتی اور کاغذات ان کے حوالے کردیتی۔“ اس نے بھی پوری دلیل سے اپنا دفاع کیا جس میں کچھ غلط نہ تھا۔
”اگر تم اتنی ہی مخلص تھی تو اول روز مجھے سب بتا دیتی، اتنا لمبا کھیل نہ کھیلتی، اور بات کاغذات کی نہیں جذبات کی ہے، میرے پرخلوص جذبات کے ساتھ تو دھوکہ کیا تھا نا تم نے!“ اس نے تلخی سے شکوہ کیا۔
”ہاں لیکن اب میں معافی مانگ رہی ہوں اور ہر ممکن ازالہ کرنے کیلئے بھی تیار ہوں، پلیز مجھ پر ایسا ظلم نہ کریں۔“ وہ بھی جھٹ سے بولی۔
”اب نہ تو مجھے تمہاری طلب ہے اور نہ تمہارے ازالہ کرنے کی ضرورت، بہتر ہوگا کہ تم بھی فروا کی طرح میری زندگی سے چلی جاؤ تا کہ میں کسی اور کے ساتھ ایک نئی اور پرسکون زندگی شروع کرسکوں۔“ اس کا دل امبرین کی جانب سے پتھر ہوچکا تھا۔
”میں کہاں جاؤں گی؟ اور اگر کوئی ٹھکانہ ہوتا بھی تو میں آپ کو اور بچوں کو چھوڑ کر نہیں جاتی، پلیز مجھے خود سے اور بچوں سے دور نہ کریں ساحل پلیز!“ وہ دونوں ہاتھوں سے اس کی شرٹ دبوچے منت کرنے لگی۔
”آپ تو اتنے سنگ دل نہیں تھے، آپ تو ایک اچھے انسان تھے جو سب سے محبت کرتے تھے۔“
”اور اس محبت کے بدلے مجھے ہمیشہ کیا ملا؟ صرف دھوکہ؟“ اس کے انداز میں کرب تھا۔
”لیکن آپ ہی تو کہتے تھے نا کہ ایک دھوکہ کھانے پر وہ لوگ بدظن ہوتے ہیں جن کے پاس محبت کی صرف ایک بوند ہوتی ہے مگر آپ تو محبت کا سمندر ہیں، تو کیا یہ سمندر مجھے سیراب نہیں کرسکتا؟“ اس نے خیال آنے پر یکدم یاد دلا کر پوچھا۔
”بالکل میرے پاس سمندر ہے مگر وہ میں ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد دوبارہ اسی دھوکے باز کو سیراب کرنے میں خرچ نہیں کروں گا، جیسے فروا کے بعد تمہیں موقع دیا تھا ایسے ہی اب تمہیں آزما لینے کے بعد کسی اور کی باری ہے۔“ اس نے سہولت سے اپنا فلسفہ واضح کیا جس میں اس کیلئے امید کی کوئی کرن نہیں تھی۔
”ساحل پلیز!“ وہ روتے ہوئے بےبسی کی انتہا پر تھی۔ اور ساحل بےحسی کی۔
”اچھا آپ کو تیسری شادی کرنی ہے نا تو کرلیں، میں کچھ نہیں بولوں گی لیکن مجھے خود سے اور بچوں سے الگ نہ کریں، میں چپ چاپ ایک کونے میں رہ لوں گی اور بچوں کے سہارے ہی پوری زندگی گزار لوں گی بس آپ مجھے ان سے الگ نہ کریں۔“ کوئی راستے نہ ہوتے ہوئے بلآخر اس نے گھٹنے ٹیک دیے۔
”نہیں، میں زحرف سے وعدہ کرچکا ہوں کہ تمہیں طلاق دے کر ہی اس سے شادی کروں گا، اور تمہیں تمہارے بھائی کے پاس دبئی بھیجنے کا انتظام بھی میں کرچکا ہوں، کل بچے پکنک پر جا رہے ہیں، ان سے آخری بار چپ چاپ مل لینا اور ان کے جانے کے بعد تم بھی یہاں سے چلی جانا۔“ وہ حتمیٰ فیصلہ کیے بیٹھے تھا۔
”اور جب بچے واپس آکر میرا پوچھیں گے تب انہیں کیا کہیں گے آپ؟“
”وہ سب میں نے ترتیب دے رکھا ہے کہ مجھے کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے، تم بس اتنا سمجھ لو کہ کل اس گھر میں تمہارا آخری دن ہے۔“ اس نے امبرین کے ہاتھ اپنی شرٹ سے ہٹاتے ہوئے حتمی انداز میں بات ختم کی۔ جب کہ وہ تو اپنی جگہ سن ہوگئی۔
ساحل نے بیڈ پر سے اس کا نیلا دوپٹہ اٹھا کر اس کے سینے پر پھیلایا اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر نکالنے کے بعد دروازہ بند کردیا۔
کچھ دیر پتھرائی ہوئی نظروں سے سفید بند دروازے کو دیکھتے رہنے کے بعد وہ ٹرانس کی کیفیت میں مرے مرے قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں آگئی۔
دروازہ بند کرنے کے بعد وہ اس سے پشت ٹکا کر وہیں فرش پر بیٹھی اور دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
وہ برستی آنکھوں کے سنگ سوچ رہی تھی کہ کیا اس کا جرم واقعی اتنا سنگین تھا جس کی اتنی بڑی سزا مل رہی ہے؟
محبت کے جام سے بھرا پیمانہ محض اس کے لبوں سے چھوا کر واپس کھینچ لیا گیا تھا اور شدید طلب ہونے کے باوجود وہ پیاسی رہ گئی تھی۔۔۔۔
بےمراد رہ گئی تھی۔۔۔
بےآس رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
پہلے چھیڑ دیتا ہے میرے دل کے سب ہی تاروں کو
پھر مجھے وجد میں لاتا ہے اور تشنہ چھوڑ جاتا ہے وہ
انتخاب
*****************************************
نیا دن پھر سے نکل آیا تھا جو کسی کیلئے بہت خوش کن تھا تو کسی کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا۔
مائر اور منزہ خوشی خوشی امبرین کے ساتھ اپنے اپنے بیگ پیک میں ضرورت کا وہ سامان رکھ رہے تھے جو پکنک پر چاہیے تھا۔ جب کہ امبرین بجھے دل کے ساتھ ان کی مدد کروا رہی تھی۔
”بس بس مما! اتنے سوئیٹر نہیں لے کر جانے۔“ مائر نے ٹوکا۔
”رکھ لو نا بیٹا! کیا پتا وہاں سردی لگے آپ کو!“ بیڈ پر بیٹھی امبرین نے اصرار کیا۔
”نہیں مما! آنٹی نے کہا تھا ایک سوئیٹر پہن کر آنا اور ایک رکھ کر لانا بس!“ منزہ نے بھی بتایا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔“ وہ بھی مان گئی۔
”ناشتہ اچھے سے کرلیا نا آپ لوگوں نے؟ اور بھوک تو نہیں لگ رہی؟ کچھ اور بھی بنا کر دے دوں راستے میں کھانے کیلئے؟“ اسے نئی فکر لاحق ہوئی۔
”جی مما ناشتہ کرلیا تھا اور بھوک نہیں ہے۔“ مائر نے تسلی کرائی۔
”اور جو اتنا سارا میٹھا انڈا آپ نے بنا کر دیا ہے نا وہ ہم فاطمہ کو بھی کھلائیں گے، پتا ہے ہمارے سب فرینڈز کو بھی بہت پسند ہے آپ کے ہاتھ کا میٹھا انڈا۔“ منزہ نے بھی چمکتی آنکھوں کے ساتھ بتایا۔
امبرین کا دل چاہا ک ان دونوں کے معصوم چہروں کو بس دیکھتی چلی جائے کہ اب دوبارہ ان کا دیدار نصیب نہیں ہونا تھا۔
”ادھر آؤ!“ امبرین نے دونوں کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس کیا اور اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
”اپنا بہت خیال رکھنا آپ دونوں، ایک دوسرے سے بالکل نہیں لڑنا، کوئی کچھ بولے تو رونا بالکل نہیں، اپنی طرف سے سب سے اچھا بیہیو کرنا۔“ وہ بےساختہ انہیں تاکید کرنے لگی۔
”جی مما ہمیں یاد ہے۔“ یک زبان جواب آیا۔
”مجھے آپ دونوں کی بہت یاد آئے گی میری جان!“ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور ساتھ ہی اس کی آنکھ سے آنسو پھسلا۔
”ارے ہم کل واپس آجائیں گے مما ڈونٹ وری!“ صورت حال سے بےخبر مائر نے تسلی دلائی۔
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ کل جب یہ لوگ واپس لوٹیں گے تو وہ یہاں سے ہمیشہ کیلئے جا چکی ہوگی۔
اس کے رونے میں شدت آنے لگی، اس کی ممتا بری طرح بلک رہی تھی جس پر ضبط کرنے کے باعث اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔
امبرین نے دونوں کو خود میں کس کر بھینچا اور دیوانہ وار چومنے لگی جو کہ ان دونوں کیلئے بھی بہت حیران کن تھا۔
”اپنا بہت خیال رکھنا میرے بچوں۔“ اس نے بمشکل کہتے ہوئے انہیں خود سے الگ کیا۔
”آپ رو کیوں رہی ہیں مما؟“ منزہ نے فکر مند ہوکر اپنے ننھے ہاتھ سے اس کا آنسو صاف کیا۔
”ایسے ہی، آپ لوگ دور جا رہے ہو نا! آپ کی یاد آئے گی اسی لئے۔“ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
”اگر آپ کو اچھا نہیں لگ رہا تو ہم پکنک پر نہیں جاتے مما!“ مائر نے بھی اس کے دوسرے گال سے آنسو صاف کیا۔
”ہاں ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جاتے، مگر آپ روئے نہیں۔“ منزہ بھی روہانسی ہوگئی۔
دونوں اسے ایسے دیکھ کر خاصے متفکر ہوگئے تھے کیونکہ جیسے امبرین کے دل میں ان کیلئے ممتا بھری محبت تھی ایسے ہی ان کے ننھے دل بھی امبرین کو اپنی ماں کا مقام دے چکے تھے۔
”نہیں میری جان، آپ لوگ جاؤ، انجوئے کرو، میں تو بس ایسے ہی۔“ اس نے کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا۔
”ایک شرط پر جائیں گے، پرامس کریں آپ روئیں گی نہیں!“ مائر نے وعدہ لینا چاہا۔
”نہیں روؤں گی، پرامس!“
”پنکی پرامس؟“ منزہ نے اپنی سب سے چھوٹی انگلی آگے کی۔
”پنکی پرامس میری جان!“ امبرین نے بھی اپنی چھوٹی انگلی سے اس کی انگلی پکڑ لی۔
”چلیں بچوں؟“ تب ہی ساحل کمرے میں آیا۔
تینوں اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
”پاپا! دیکھیں مما ہمارے جانے سے رو رہی ہیں، آپ ان کا خیال رکھیے گا، ٹھیک ہے نا!“ منزہ جلدی سے بھاگ کر ساحل کے پاس آئی۔
اس کی بات پر ساحل نے امبرین کی جانب دیکھا جو رویا ہوا چہرہ لیے اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی تھی۔
”چلو بیٹا آپ کی فرینڈ آپ کا ویٹ کر رہی ہوگی۔“ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ساحل بچوں سے گویا ہوا۔
بچوں نے اپنا اپنا بیگ پیک کندھوں پر لیا اور امبرین سے گلے مل کر، اسے بوسہ دے کر دونوں کمرے سے باہر نکل گئے جنہیں وہ چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائے چھلنی ہوتے دل کے ساتھ دیکھ کر رہ گئی۔
”میرے واپس آنے تک اپنا سامان تیار رکھنا۔“ بچوں کے کمرے سے نکلتے ہی ساحل نے سنجیدگی سے تاکید کی اور اس کا جواب سنے بنا وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔
یکایک اسے خیال آیا کہ بےحد مثبت سوچ کا حامل، ٹھنڈا مزاج اور نرم دل رکھنے والا ساحل اچانک اتنا سنگ دل کیسے ہوگیا؟
”تمہاری اپنی دیری کی وجہ سے جو تم نے سچ بتانے میں کی۔“
اگلے ہی پل اس کے ضمیر نے اسے جواب دے کر لاجواب کردیا اور وہ مرے مرے قدموں سے اپنا سامان باندھنے چل پڑی۔
اپنے سامان کو باندھتے ہوئے اس سوچ میں ہوں
جو کہیں کے نہیں رہتے، وہ کہاں جاتے ہیں؟
انتخاب
*****************************************
بچوں کو ڈراپ کرنے کے بعد ساحل آفس چلا گیا تھا اور اب جب وہ واپس گھر لوٹا تو سورج غروب ہوکر اپنے ساتھ ساری روشنی لے جا چکا تھا اور پیچھے صرف اندھیرا رہ گیا تھا۔
ساحل نے پہلے ڈور بیل بجائی مگر جب کافی دیر تک جواب نہیں آیا تو جیکیٹ کی جیب میں موجود ڈوبلیکیٹ چابی سے دروازہ کھول کر وہ اندر آیا۔
کوئی لائٹ آن نہ ہونے کے باعث پورا فلیٹ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا جو کافی تعجب خیز تھا۔
”امبرین!“ اس نے پکارتے ہوئے لاؤنج کی لائٹ آن کی تو پل بھر میں وہاں روشنی ہوگئی۔
”امبرین!“ وہ آواز دیتا آگے آیا مگر کہیں سے کوئی جواب یا آہٹ نہیں سنائی دے رہی تھی۔ ہر طرف بس ایسا سناٹا چھایا ہوا جیسے یہاں کوئی ذی روح موجود ہی نہ ہو!
وہ تشویش زدہ سا اس کے کمرے میں آیا۔ وہاں بھی اندھیرا ہو رہا تھا۔
کمرے کی لائٹ آن کرکے اس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی۔ امبرین تو وہاں کہیں نہیں ملی مگر ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر ایک سفید کاغذ ٹیپ کی مدد سے چپکا ہوا نظر آیا۔
اس کا دل کسی انہونی کے احساس سے ڈوب کر ابھرا۔
وہ فوری طور پر اس طرف آیا اور وہ کاغذ اتار کر پڑھنے لگا۔
”جب کسی پر ہماری لاکھ مِنتوں، صفائیوں اور فریاد کا اثر نہ ہو رہا ہو تو کیا کرنا چاہئے؟
عقل مندی کے تقاضے تو کہتے ہیں کہ اس سے فوری طور پر کنارہ کشی کرلینی چاہئے مگر کسی سیانے نے کہا ہے کہ یہ عشق کا عین عقل کے عین کو کھا جاتا ہے، تب ہی تو انسان عشق میں ایسی ایسی بیوقوفیاں کرجاتا ہے جو کوئی عقل مند سوچے بھی نہ!
میں نے بھی بےتحاشا بےوقوفیاں کیں، جن میں سرِفہرست تھی آپ سے معافی کی امید رکھنا۔
میرے دل میں کہیں نا کہیں ایک یقین تھا کہ آپ میرے ساتھ جو کر رہے ہیں دل سے نہیں وقتی غصے سے مجبور ہوکر کر رہے ہیں، ایک دن آپ کا یہ غصہ اتر جائے گا اور وہ پرانا والا ساحل واپس لوٹ آئے گا مگر میں بھول گئی تھی کہ لوٹ کر تو کھوئے ہوئے لوگ آتے ہیں نا! آپ تو بدل گئے ہیں!
مجھے نہیں پتا کہ اپنی محبت کا، اپنے خلوص کا یقین کس طرح دلایا جاتا ہے؟ مگر یہ میری محبت ہی تھی جس کی وجہ سے میں اب تک آپ کی بےرخی جھیل رہی تھی۔
لیکن جب آپ کی خوشی مجھ سے دور ہونے میں ہی ہے تو میں آپ پر اور اپنی عزتِ نفس پر مزید ظلم نہیں کروں گی۔
جس طرح اچانک میں آپ کی زندگی میں چلی آئی تھی ویسے ہی جا رہی ہوں، کہاں جاؤں گی؟ یہ مجھے خود بھی نہیں معلوم، لیکن شاید اب میرا چلے جانا ہی بہتر ہے، میری دعا ہے کہ زُحرف کے ساتھ آپ کو وہ ساری خوشیاں نصیب ہوں جو میں نہیں دے پائی اور وہ آپ کا اور بچوں کا مجھ سے بھی زیادہ اچھے سے خیال رکھے، اللہ حافظ!“
”آپ کی رَبَةّ البَيِت۔۔۔۔جو اب میں نہیں رہی!“
خط پڑھتے ہوئے اس کا دل ڈوبنے لگا تھا اور خط مکمل ہوتے ہی اسے لگا اس کے پیروں سے جان نکل رہی ہے، وہ مزید کھڑا نہیں رہ پائے گا۔ اس نے خود کو سہارا دینے کیلئے بےساختہ ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگائی تو ہاتھ لگنے کے باعث کنارے پر رکھی پرفیوم کی بوتل گر کر چکنا چور ہوگئی۔۔۔۔۔
بالکل ان دونوں کے رشتے کی طرح۔۔۔۔۔۔
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
جمال احسانی
اس کے ماؤف ہوتے ذہن میں بےساختہ امبرین کی سب یادیں جھلملا اٹھیں جیسے
اس کا شرما کر گھبرانا۔۔۔۔۔۔
بچوں کیلئے بےلوث محبت۔۔۔۔
اسے منانے کیلئے کی گئی معصوم چال بازیاں۔۔۔
اور اس کے آگے ہاتھ جوڑے بلکتی ہوئی فریادیں۔۔۔۔
”نہیں!“ اس کے لبوں سے بےساختہ سرگوشی نکلی۔
اگلے ہی پل اس نے کاغذ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور جیکٹ کی جیب سے موبائل نکال کر اس کا نمبر ڈائل کیا۔ بیل جا رہی تھی مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہی تھی۔
اسی طرح موبائل کان سے لگائے وہ عجلت میں گھر سے باہر نکلا کہ اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تو نہیں رہ سکتا تھا۔
مسلسل اسے کال کرتے ہوئے وہ تیز تیز سیڑھیاں اترتا نیچے جانے لگا۔ قدموں سے زیادہ تیز اس کی دھڑکنیں چل رہی تھیں۔
اسی طرح موبائل کان سے لگائے وہ بلڈنگ کے باہر کھڑی اپنی گاڑی کی جانب آیا کہ پورے شہر میں کہیں نا کہیں سے اسے ڈھونڈ ہی لائے گا!
ابھی اس نے گاڑی کے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ دوسری جانب سے کال ریسیو ہوگئی۔
”ہیلو!“ یہ سپاٹ آواز بھی اس کی سماعت کیلئے امرت سے کم نہیں تھی۔
”امبرین کہاں ہو تم؟“ اس نے بےتابی کو الفاظ دیے۔
”وہیں جہاں آپ چاہتے تھے کہ میں چلی جاؤں، آپ کی زندگی سے بہت دور!“ انداز ویسا ہی سپاٹ تھا۔
”نہیں، میں ایسا کبھی نہیں چاہتا تھا، پلیز واپس آجاؤ، بلکہ تم کہاں ہو؟ بتاؤ میں تمہیں لینے آرہا ہوں؟“ اس کی دوری میں وہ پاگل ہوا جا رہا تھا۔
”کیوں لینے آئیں گے؟ تا کہ واپس آکر میں آپ کی تیسری شادی دیکھ سکوں اور دن رات آپ کی بےرخی سہتی رہوں؟“ انداز میں کرب و کاٹ ایک ساتھ تھی۔
”نہیں، تا کہ تمہارے ساتھ وہ زندگی شروع کرسکوں جس کیلئے ہم دونوں کب سے ترس رہے ہیں۔“ اس کے لہجے کی بےبسی اور تڑپ پل بھر کو اسے لاجواب کر گئی۔
”ترسایا تو آپ نے ہے مجھے پل پل اپنی محبت کیلئے!“ اس کے لہجے میں بھی کسک تھی۔
”ایسا کرنا میری ضرورت تھی، میں اپنے ہر عمل کی نا صرف وضاحت کروں گا بلکہ اس کا پورا پورا ازالہ بھی کردوں گا بس پلیز تم واپس آجاؤ امبرین پلیز!“ وہ اس کیلئے بری طرح تڑپ رہا تھا۔ دوسری جانب خاموشی چھا گئی۔
”اگر تم واپس نہیں آئی تو اس بار مائر اور مُنزہ صرف اپنی ماں کو ہی نہیں بلکہ شاید باپ کو بھی کھو دیں گے!“ وہ ٹوٹے ہوئے انداز میں مزید گویا ہوا تو دوسری جانب جمی سرد مہری کی برف پر احساس کی ضرب لگی۔
”پلیز امبرین واپس آجاؤ پلیز!“ اس کی بھرائی ہوئی آواز کانپ رہی تھی اور آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔
”پیچھے پلٹ کر اوپر دیکھیں!“ امبرین نے اچانک ہی ایک غیرمتوقع بات کی۔
ساحل نے فوری طور پر پلٹ کر اوپر دیکھا تو آٹھ منزلہ اس بلڈنگ کی چھت پر، یعنی یہاں سے بہت دور اسے وہ کھڑی نظر آئی جو باؤنڈری سے نیچے ہی جھانک رہی تھی، اس کے خدوخال واضح نہیں تھے مگر وہ ایک نظر میں اسے پہچان گیا تھا کہ وہ اس کی امبرین ہی ہے جس کے عقب میں نظر آتے سیاہ آسمان کے سینے پر پورا چاند چمک رہا تھا۔
اس نے موبائل جیکٹ کی جیب میں رکھا اور اپنے چاند کو چھونے کی چاہ میں فوری طور پر بلڈنگ کے اندر آکر اوپر کی طرف بھاگا۔
برق رفتاری سے سیڑھیوں پر دوڑتے ہوئے اس نے منٹوں میں آٹھ منازل طے کرلئے اور بلآخر چھت پر پہنچ کر اس کے قدموں کو لگام لگی۔
وہ پھولتی سانسوں کے درمیان، آنکھوں میں محبت لئے اسے دیکھتا ہوا چھت کے داخلی حصے پر کھڑا تھا اور وہ اس کی دی ہوئی وہی سرخ ساڑھی پہنے باؤنڈری کے پاس کھڑی سپاٹ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
دونوں کے درمیان حائل کئی گز کے فاصلے سے تیز سرد ہوا گزر رہی تھی اور چاند نے اپنی چاندنی ہر سو بکھیر کر ایک خوبصورت فسوں پھونک رکھا تھا۔
وہ یہ فاصلہ مٹاتے ہوئے اس کی جانب آیا اور قریب پہنچ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
امبرین نے اس کی تیز دھڑکن بہت واضح محسوس کی جو سیڑھی چڑھنے سے زیادہ اسے کھونے کے خوف سے بےترتیب ہوگئی تھیں۔
”تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی۔“ وہ اسے خود میں بھینچتے ہوئے بولا۔
”بس کریں یہ جھوٹا ناٹک!“ امبرین نے اسے دھکیل کر خود سے دور کیا۔ وہ پیچھے ہوکر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں بھلا جھوٹ کیوں بولوں گا؟“ اس نے حیرت سے سوال اٹھایا۔
”یہ تو آپ ہی بتا سکتے ہیں، اور اگر یہ جھوٹ نہیں ہے تو پھر وہ سب کیا تھا جو اتنا عرصہ آپ میرے ساتھ کرتے رہے؟“ وہ آج عاجز محبوبہ نہیں بلکہ حساب کتاب پر اتری زخمی عورت بنی ہوئی تھی۔
”یہ ہی سب تو بتانے والا تھا آج تمہیں مگر تم تو یہاں میری موت کا سامان تیار کیے ہوئے تھی۔“
”آپ مجھے آج میرے بھائی کے پاس دبئی بھیجنے والے تھے!“ اس نے طنزیہ انداز میں تصحیح کرتے ہوئے یاد دلایا۔
”تمہارے پاس پاسپورٹ ہے؟“ ساحل نے اچانک سوال کیا۔
”نہیں!“
”اور کامن سینس؟“ اگلے سوال پر وہ مزید متعجب ہوئی۔
”وہ بھی نہیں ہے شاید، کیونکہ اگر ہوتی تو تمہاری سمجھ میں آجاتا کہ بنا پاسپورٹ کے وزیر اعظم بھی ملک سے باہر نہیں جا سکتا تو میں تمہیں کیسے بھیج سکتا ہوں!“ وہ اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے خود ہی مزید بولا تو وہ سخت الجھن کا شکار ہوگئی۔
”تو پھر آپ نے مجھے سامان پیک کرنے کا کیوں کہا تھا؟ کہاں لے جانے والے تھے مجھے؟“ اس نے الجھ کر پوچھا۔
”بتاتا ہوں، آؤ میرے ساتھ!“ ساحل نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
”مجھے کہیں نہیں جانا، آپ جائیں جا کر تیسری، چوتھی جتنی دل چاہے شادیاں کریں۔“ امبرین نے خفگی سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ یہ خفگی اس کا حق تھی۔
”تمہیں مائر اور منزہ کی قسم، چلو میرے ساتھ، پھر جتنا چاہو لڑتی رہنا۔“ اب کی بار ساحل نے بات ہی ایسی کردی کہ اس کی ساری مزاحمت دم توڑ گئی۔
*****************************************
شہر کی پرشور افراتفری دیکھتے ہوئے بلآخر گاڑی ایک پوش علاقے میں داخل ہوئی جہاں بےحد سکون تھا اور کافی فاصلے سے مگر ایک ترتیب کے ساتھ نہایت عالیشان بنگلے بنے ہوئے تھے۔
سست روی سے چلتی ان کی گاڑی جب ایسے ہی ایک بنگلے کے پاس پہنچی تو چوکیدار نے ادب سے سیلوٹ کرتے ہوئے لوہے کا بڑا سا دروازہ کھول دیا جس سے کار اندر آگئی۔
کار پورچ میں کار روکنے کے بعد ساحل ڈرائیونگ سیٹ سے اتر گیا جب کہ امبرین حیران سی سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”باہر آؤ!“ ساحل نے فرنٹ سیٹ کا گیٹ کھولا تو وہ اسی کیفیت میں باہر آگئی۔
”ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ اور یہ کس کا گھر ہے؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”آؤ میرے ساتھ!“ وہ اس کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھ گیا۔
وہ بھی پرتجسس سی اس کے ساتھ آئی۔
اندر سے یہ عالیشان گھر دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی۔ یہ گھر نہیں بلکہ شاید کوئی محل تھا۔
اِنٹیریر ڈیزائن ہو یا قیمتی فرنیچر ہر چیز اپنے آپ میں عالیشان تھی۔
”یہ کس کا گھر ہے؟“ وہ حیران سی آس پاس کا جائزہ لے رہی تھی۔
”یہ ہمارا گھر ہے۔“ ساحل کے انداز میں وہ ہی پرانی والی نرمی واپس آگئی تھی۔ وہ چونک کر اس کی جانب پلٹی۔
”ہمارا مطلب؟“
”ہمارا مطلب میں۔۔۔تم۔۔۔مائر۔۔۔مُنزہ اور ہمارے ہونے والے بچوں کا گھر! اور میں آج تمہیں یہیں لانے والا تھا کہ اب سے ہم یہیں رہیں گے۔“ اس نے تفصیل سے جواب دیا جو اس کی حیرت مزید بڑھا گیا۔
”یہ۔۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کو تو بزنس میں خاصا لاس ہوا تھا نا! تو پھر یہ سب کیسے؟“ وہ بری طرح الجھ گئی۔
وہ دھیرے سے مسکرایا۔
”ساحل جتنا بےوقوف لگتا ہے اتنا ہے نہیں جانم!“ اس نے معنی خیز شوخی سے کہتے ہوئے اس کی لٹ پیچھے کی۔
اس کی الجھن جوں کی توں تھی جسے سلجھانے کیلئے بلآخر وہ تفصیل سے گویا ہوا۔
*****************************************
فلیش بیک
”آپ کو نہیں لگتا کہ ایک ہی آئیڈیا پیش کرنے کیلئے دو لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ مقابل رک کر مصنوعی غور و فکر سے بولا تھا لیکن درحقیقت وہ کیا جتانا چاہ رہا تھا یہ ساحل بخوبی سمجھ گیا تھا۔
”خیر کوئی نہیں، دل کی تسلی کیلئے کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بیسٹ آف لک!“ کرمانی نے اس کا کندھا تھپکا۔
”اور ہاں ایک ضروری بات! گھر میں ملازمہ ذرا دیکھ بھال کر رکھا کرو یار!“ اس کی کمینی مسکراہٹ ساحل پر بہت کچھ اشکار کر گئی تھی۔
اس حیران کن انکشاف سے سنبھلنے کے بعد بلآخر ساحل میٹنگ ہال میں آگیا۔
یہ ایک جدید طرز کا نہایت وسیع کمرہ تھا جس کے وسط میں لمبی سی ٹیبل رکھی تھی، ٹیبل کے گرد کرسیوں پر تمام کاروباری حضرات بیٹھے ہوئے تھے جب کہ سامنے ہی ایک بڑی سی سفید اسکرین بھی موجود تھی۔
ساحل بھی اپنے کوٹ کا بٹن کھولتے ہوئے ایک کرسی پر آکے بیٹھ گیا جس کے دائیں، بائیں پہلے ہی شیخ صاحب اور زحرف بیٹھے ہوئے تھے۔
ہاشمی گروپس کے نمائندے نے کھڑے ہوکر سب کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور سب کو اپنے اپنے آئیڈیاز پیش کرنے کی اجازت دیتے ہوئے میٹنگ کا باقاعدہ آغاز کردیا۔
باری باری سب کھڑے ہوکر اپنے نادر خیالات پیش کرتے گئے جنہیں بارعب شخصیت کے حامل مسٹر ہاشمی بغور سن رہے تھے اور انہیں اس میں اپنے پراجیکٹ کیلئے کچھ بھی نیا یا فائدے مند نہیں لگا کیونکہ اسی طرز پر تو وہ لوگ اب تک کام کرتے آرہے تھے اور اب انہیں ایک بالکل انوکھا آئیڈیا چاہیے تھا۔
سب کے بعد کرمانی کی باری آئی تو وہ مغرور انداز میں اپنی جگہ پر کھڑا ہوا اور میپ میز پر رکھ کر لفظ بہ لفظ ساحل سے چرایا ہوا آئیڈیا پیش کرنے لگا جسے ساحل چپ چاپ سنتا رہا۔ جب کہ مسٹر ہاشمی کے تاثر بتا رہے تھے کہ انہیں کچھ نیا نظر آیا ہے۔
کرمانی کے ہر انداز سے ایسا غرور جھلک رہا تھا جیسے وہ جیت چکا ہو اور اب بس دنیاوی رسم پوری کرنے کیلئے سب کے سامنے اعلان ہونا باقی ہے۔
کرمانی کے بات مکمل کرنے پر کئی لوگوں نے اسے سراہتے ہوئے تالیاں بجائیں جن میں مسٹر ہاشمی کا رائٹ ہینڈ یعنی ان کا بڑا بیٹا بھی شامل تھا جس سے کرمانی انڈر دا ٹیبل پہلے ہی ساری ڈیل کرکے بیٹھا ہوا تھا۔
سب اپنا اپنا آئیڈیا پیش کرچکے تھے۔ اب بس ساحل رہ گیا تھا۔
”مسٹر ساحل مجتبیٰ! یور آئیڈیا پلیز!“ نمائندے نے اسے مخاطب کیا۔
”آئی تھینک ہمیں آلریڈی ایک بہتر آئیڈیا مل چکا ہے، اب مزید کسی پریزنٹیشن کی ضرورت نہیں ہے۔“ مسٹر ہاشمی کے بڑے بیٹے نے خیال ظاہر کیا تو کرمانی کی کمینی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
”سمجھدار انسان بہتر نہیں بہترین چنتا ہے، گو ہیڈ مسٹر ساحل!“ مسٹر ہاشمی کی ٹھہری ہوئی بارعب آواز ان کی شخصیت کے عین مطابق تھی۔
ان کی جانب سے گرین سگنل ملنے پر ساحل اپنے کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے کرسی پر سے اٹھا۔
”میں بلاوجہ کا تعارف دینے میں آپ لوگوں کا قیمتی وقت ضائع نہیں کروں گا، آپ سب نے جو آئیڈیاز پیش کیے وہ بہت زبردست تھے، اسپیشلی مسڑ کرمانی کا آئیڈیا!“ وہ بہت ٹھہرے ہوئے مطمئن انداز میں گویا تھا۔
”میں بھی اپنا ایک چھوٹا سا آئیڈیا پیش کرنے لگا ہوں جو شاید آپ کے کام آجائے!“ ساحل نے بات جاری رکھتے ہوئے زُحرف کی جانب دیکھا تو اس نے ایک یو ایس بی ساحل کی جانب بڑھائی جسے لے کر وہ پراجیکٹر کی طرف آیا اور یو ایس بی اس میں کنیکٹ کرتے ہی سفید اسکرین پر ایک تھری ڈی اینیمیشن ویڈیو ابھر آئی۔
”ہم سب جانتے ہیں کہ اس بار ہاشمی گروپس اسپیشلی بچوں کیلئے ہاسپٹل بنانے جا رہے ہیں، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس شہر میں پہلے سے کافی چائلڈ ہاسپٹلز موجود ہیں، ایسے میں ہاشمی گروپس کا ہاسپٹل الگ کیسے لگے گا؟ اگر ہم اسے کچھ اس طرح بنائیں۔“ اس نے اسکرین کی جانب اشارہ کیا جس پر سب کی نظریں تھیں۔
اسکرین پر ہاسپٹل کا تھری ڈی ڈیزائن چل رہا تھا جس میں نظر آتا خوبصورت رنگوں سے مزئین ہاسپٹل پہلی نظر میں ہی بہت اچھا لگ رہا تھا۔
”ہمارا ہاسپٹل عام ہاسپٹلز کی طرح وائٹ نہیں ہوگا بلکہ ہم اسے کچھ اس طرح کلرفل رکھیں گے، سیڑھیاں اور فرش ہموار ضرور ہوں گے کہ اس پر باآسانی اسٹریچر اور وہیل چیئر چل سکے مگر جس طرح کے مسٹر کرمانی نے بتائے اتنے چکنے ماربل کے نہیں ہوں گے کہ اس پر بچے پھسل کر گر سکتے ہیں، ایم آئی رائٹ مسٹر کرمانی؟“ (میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا مسٹر کرمانی) ساحل نے بڑی مہارت سے اپنے ہی آئیڈیا میں وہ نقص نکالا جو اس نے ان چوروں کیلئے جان بوجھ کر چھوڑا تھا کیونکہ کرمانی نے جو آئیڈیا پیش کیا تھا وہ درحقیقت ساحل کا ہی تو تھا۔
”یس، ایبسولوٹلی رائٹ!“ (جی، بالکل درست) مرتا کیا نہ کرتا کے تحت اسے ہامی بھرنی پڑی جب کہ اندر ہی اندر اسے آگ لگ گئی تھی۔
”یہاں دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ اس بار ہمارا ٹارگٹ بڑے بڑے بزنس مین نہیں بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے پیارے بچے ہیں جن میں ہر انسان کی جان بستی ہے، جب انسان کی اولاد خوش ہوتی ہے تو وہ بھی خوش رہتا ہے اسی لئے ہمارا ہاسپٹل ایک کانچ کی سی عالیشان بلڈنگ نہیں ہوگا کیونکہ وہ بچوں کیلئے بور ہوگی، بلکہ رنگوں سے بھرپور ایک ایسی عمارت ہوگی جہاں بچے کو رہنا سزا نہیں لگے گا، دیواروں پر انگلش پویمز کی جگہ چھوٹی چھوٹی احادیث اور اقوال زریں آسان لفظوں میں کنسٹرکشن کے فائنل اسٹیج پر پینٹ کی جائیں گی تا کہ بچہ ساتھ ساتھ اچھی باتیں بھی سیکھ سکے، جیسے کہ اگر ہم سب کے ساتھ گڈ بی ہیو کریں تو بدلے میں اللہ پاک ہمیں انعام دیتا ہے، اور اس طرح کی مزید باتیں۔“ ساحل نے سب کے برعکس بچوں کے نظریے سے سوچ کر کچھ ایسے اپنا آئیڈیا ڈیزائن کیا تھا جس پر کسی کا دھیان ہی نہیں گیا تھا اور سب کانچ سی عالیشان عمارت بنانے کا منصوبہ لئے بیٹھے تھے جس میں کچھ نیا نہیں تھا۔
اسی طرح مزید چھوٹی بڑی تفصیلات بتاتے ہوئے ساحل اپنا آئیڈیا بتاتا رہا جس سے ناصرف مسٹر ہاشمی متاثر ہوئے بلکہ کرمانی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔
جب ساحل خاموش ہوا تو سب لوگ اس کی تعریف میں تالیاں بجا رہے تھے اور ان تالیوں میں اس بار مسٹر ہاشمی کے دونوں ہاتھ بھی شامل تھے جو کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
”ایک شارٹ بریک کے بعد ہم آپ کو اپنا حتمیٰ فیصلہ سناتے ہیں جینٹلمین! تھینک یو سو مچ!“ ہاشمی گروپ کے نمائندے نے مسٹر ہاشمی کے حکم پر اطلاع دی تو سب لوگ اٹھ کر میٹنگ ہال سے باہر جانے لگے۔
ساحل بھی مطمئن سا زُحرف اور شیخ صاحب کے ساتھ بات چیت کرتا باہر آگیا تھا جب شیخ صاحب ایکسکیوز کرتے ہوئے باتھ روم چلے گئے۔
ان کی حالت کافی گھبرائی ہوئی ہو رہی تھی جیسے ٹینشن سے بی پی ہائی ہو رہا ہو!
وہ جیسے ہی باتھ روم میں آئے تو کسی نے ان کا گریبان پکڑ کر انہیں دیوار سے لگا دیا۔
”یہ کیا غداری کی ہے تو نے میرے ساتھ!“ وہ غصے سے پاگل ہوتا کرمانی تھا۔ جب کہ ان دونوں کے سوا باتھ روم میں کوئی اور نہ تھا۔
”میں نے کوئی غداری نہیں کی ہے میرا یقین کریں!“ انہوں نے بمشکل صفائی دینی چاہی۔
”میں نے یہ آئیڈیا چرانے کیلئے تجھے تیری منہ مانگی قیمت دی تھی اور پھر بھی ساحل مجھ سے بازی لے گیا، یہ غداری نہیں تو اور کیا ہے؟ ساحل اچانک پہلے والے آئیڈیا سے زیادہ بہترین آئیڈیا کیسے لے آیا؟ وہ بھی اتنی جلدی؟“ وہ دانت پیس کر غرایا۔
”کیونکہ درحقیقت یہ ہی اوریجنل آئیڈیا تھا۔“ وہاں ابھری ایک مطمئن آواز پر دونوں نے چونک کر گردن موڑی۔
ساحل دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے بند دروازے کے سامنے اطمینان سے کھڑا تھا۔
اسے دیکھ کر جہاں کرمانی حیران ہوا وہیں پول کھلنے پر شیخ صاحب کی بھی ہوائیاں اڑ گئیں۔
”سیانے اکثر ایک کہاوت بیان کرتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور، میں نے اسی کہاوت کو اپنی اسٹریٹرجی بنا لیا۔“ وہ اسی طرح کہتا آگے آیا۔
کرمانی شیخ صاحب کا گریبان چھوڑ کر پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھا۔
”یعنی میں نے تم لوگوں کیلئے ایک الگ ایوریج آئیڈیا ریڈی کرکے رکھا اور اصل امپارٹنٹ آئیڈیا پر میں بنا کسی کو کچھ بتائے خاموشی سے کام کرتا رہا، مجھے شک نہ سہی تو کسی پر یقین بھی نہیں تھا اسی لئے آفس میں بھی کسی کو اصل آئیڈیا کی بھنک نہیں لگنے دی، تو نے شیخ صاحب کو خریدا، انہوں نے امینہ کو میرے گھر بھیجا اور اتنی لمبی چوڑی پلاننگ کے بعد جو آئیڈیا امینہ نے تم لوگوں کو چرا کر دیا وہ فیک تھا۔“ وہ ان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے مزے سے اصل بات بتانے لگا جو یہ لوگ ہکابکا سے سن رہے تھے۔
”انسان جتنی محنت دوسروں کو پیچھے لانے میں کرتا ہے نا اگر اس کی آدھی بھی ایمانداری کے ساتھ خود کو آگے لانے کیلئے کرلے تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے!“ اس نے ایک جگہ رک کر دونوں پر طنز مارا۔
”سر۔۔۔۔میری۔۔۔۔میری بات سنیں پلیز۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔“
شیخ صاحب نے گھبراہٹ کے عالم میں کچھ کہنا چاہا تھا کہ ساحل نے ہاتھ اٹھا کر انہیں خاموش کروا دیا۔
”آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کی اصلیت میں کل ہی سمجھ گیا تھا جب آپ نے مجھے یہ پراجیکٹ چوری ہونے کی اتنی پکی اطلاع دی تھی اور خیال ظاہر کیا تھا کہ کہیں کسی آفس ورکر نے تو میری الماری کے لاکر سے وہ آئیڈیا نہیں چرا لیا؟ میں اسی وقت کھٹکا تھا کہ آپ کو کیسے پتا آئیڈیا کی پریزنٹیشن میرے الماری کے لاکر میں ہے؟ جو ظاہر ہے امینہ نے ڈھونڈ کر آپ کو بتایا ہوگا اور بےدھیانی میں آپ وہ بات مجھ سے کہہ گئے، جھوٹ کا یہ ہی مسلہ ہے کہ اسے سنبھال کر رکھنے کیلئے ہوش و حواس بڑے چوکنا رکھنے پڑے ہیں، جب کہ سچ تو مدہوشی میں بھی یاد رہتا ہے۔“ ساحل کی سادے انداز میں کہی طنزیہ بات کے جواب میں شیخ صاحب کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا تو وہ نظریں چرا کر شرمندہ ہوگئے۔
”خیر! آپ کا ریزیگنیشن لیٹر کل تک آپ کو مل جائے گا، اب آپ کے بجائے زُحرف میری مینیجر ہے، آپ جس کے تلوے چاٹ رہے تھے اسی کے آفس میں کوئی نوکری ڈھونڈ لیجئے گا، اگر اس کا آفس قرض داروں سے بچ پاتا ہے تو!“ اس نے ان کا حساب کلئیر کرکے آخر میں ایک جتاتی ہوئی طنزیہ نظر کرمانی پر ڈالی اور پھر باتھ روم کا لاکڈ دروازہ کھول کر وہاں سے نکل گیا۔
ساحل اپنی حاضر دماغی کے باعث کرمانی کی جیتی ہوئی بازی اس کی بند مٹھی کھول کر، اس سے چھین کر لے گیا تھا اور وہ اپنی حاسد فطرت کے باعث خالی ہاتھ رہ گیا تھا۔
*****************************************
ساحل کو مسٹر ہاشمی نے ذاتی طور پر اپنے کمرے میں بلایا تھا اور دونوں اس وقت دو سنگل صوفوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کہ مسٹر ہاشمی کا پرسنل سیکٹری بھی ان کے صوفے کے عقب میں ادب سے کھڑا تھا۔
”آپ کا آئیڈیا مجھے بہت پسند آیا ہے مسٹر ساحل، بٹ ایک پرابلم ہے۔“ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے سنجیدگی سے گویا تھے۔
”کیسی پرابلم سر؟“ صوفے پر آگے ہوکر بیٹھے ساحل نے جاننا چاہا۔
”میرے بیٹے نے بتایا ہے کہ آپ پر ملک گروپس کا کافی لون ہے۔“ ان کا انداز ایسا تھا جیسا تائید چاہ رہے ہوں!
”جی سر، یہ بات سچ ہے، اور میں اسی لئے چاہتا تھا کہ آپ کا یہ پراجیکٹ مجھے ملے تا کہ میری فائینینشل پوزیشن اسٹرونگ ہوسکے اور آپ کو بھی فائدہ ہو!“ اس نے مہذب انداز میں صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن میرے بیٹے کی بات بھی قابلِ غور ہے کہ ملک گروپس ہمارے سب سے بڑے حریف ہیں، اور ہماری ریپوٹیشن کیلئے یہ بالکل اچھا نہیں ہے کہ ہمارا یہ قیمتی پراجیکٹ ہمارے ایک حریف کے قرض دار کے پاس جائے!“ ان کے انداز سے ساحل کو ایک ایسی انہونی کا خدشہ ہوا جس کیلئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔
”آپ کا آئیڈیا بہت اچھا ہے مگر ہم صرف اس وجہ سے اسے ایکسیپٹ نہیں کرسکتے اور ہمیں مسٹر کرمانی کے آئیڈیا کے ساتھ جانا پڑے گا۔“ یہ بات کہتے ہوئے ان کا انداز بھی ایسا تھا جیسے یہ آئیڈیا چھوڑنے پر انہیں بھی افسوس ہو رہا ہو!
در حقیقت یہ ان کے بیٹے کی ہی برین واشنگ کا نتیجہ تھا کیونکہ وہ پس پردہ کرمانی سے ہوئی ڈیل جو بچانا چاہتا تھا اسی لئے بڑی چالاکی سے اپنے باپ کو الجھا دیا تھا۔
”سر اگر میں کچھ ہی دنوں میں ملک گروپس کا قرض ادا کردوں تو؟“ ساحل کے اچانک کہنے پر وہ بھی حیران ہوئے۔
”یہ کیسے پاسیبل ہے؟“ انہوں نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”سر میں اپنا گھر بیچ کر ان کا قرض اتار دوں گا۔“ اس نے لمحوں میں اتنا بڑا فیصلہ کیا تھا۔
”یہ اوور کانفیڈنس ہونے کا وقت نہیں ہے مسٹر ساحل! سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجئے۔“ انہیں ساحل کا یہ عمل جذباتی لگا۔
”سوچ سمجھ کر ہی میں اس فیصلے پر پہنچا ہوں سر کہ قسمت بار بار موقعے نہیں دیتی، کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے، اور میں اوور کانفیڈنس نہیں ہوں بلکہ مجھے اللہ پر پورا یقین ہے کہ اس کی دی ہوئی قابلیت سے آپ کا پراجیکٹ سکسیسفلی پورا کرکے میں اس سے اچھا گھر لے لوں گا ان شاءاللہ!“ اس کے انداز میں بلا کا اعتماد تھا جس سے وہ متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پائے۔
”میں نے سنا تھا کہ قسمت ان ہی کا ساتھ دیتی ہے جنہیں خود پر یقین ہوتا ہے، آج دیکھ بھی لیا!“ انہوں نے مسکراتے ہوئے رشک سے اسے سراہا۔
****************************************
حال
ساحل ہال میں رکھے ایک خوبصورت سنگل صوفے پر ایک جیتے ہوئے بادشاہ کی مانند اطمینان سے بیٹھ چکا تھا اور امبرین حیران سی رعایا کے جیسی ہکابکا اس کے سامنے کھڑی سب سن رہی تھی۔
اصل پس منظر بتانے کے بعد وہ کچھ مزید تفصیلات کی وضاحت کرنے کیلئے گویا ہوا۔
”جس دن سے مارکیٹ میں ہاشمی گروپس کا پراجیکٹ اناؤنس ہوا تھا اس دن سے مجھے یقین تھا کہ کرمانی مجھے چکما دینے کیلئے ہر حد تک جائے گا اسی لئے میں نے اپنی اسٹریٹرجی بنا لی تھی، میں آفس میں اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ وہ ہی فیک آئیڈیا ڈسکس کرتا رہا اور جو اصل آئیڈیا تھا اس پر خاموشی سے گھر میں کام کیا۔
اس فیک آئیڈیا کی تھوڑی بہت تفصیلات آفس میں صرف میرے مینجر شیخ صاحب جانتے تھے مگر یہ انہیں بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ آئیڈیا اصل نہیں ہے۔
مجھے شک تھا کہ کرمانی ضرور بڑی چالاکی کے ساتھ کسی کو میرے گھر میں گھسانے کی کوشش کرے گا، تب ہی بہت ڈرمائی انداز میں تمہاری انٹری ہوئی، میں سمجھ گیا کہ یقیناً تم کرمانی کا بھیجا گیا مہرہ ہو!
تمہارے بارے میں جب میں نے معلومات حاصل کی تو پتا چلا کہ والدین ہیں نہیں ایک بھائی تھا جو اچانک بیرون ملک چلا گیا ہے، اور تم نے کسی بھائی کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا تھا تو شک کی تصدیق ہونے لگی کہ کچھ تو گڑبڑ ہے!
میں نے تمہیں بچوں کی دیکھ بھال کے بہانے گھر میں رہنے دیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کرمانی کو اس کا پلان کامیاب ہوتا نظر آئے اور وہ اسی خوش فہمی میں اطمینان سے بیٹھا رہے۔
سب کچھ اچھے سے بھی زیادہ اچھا چل رہا تھا کہ تمہارے آنے سے بچے بہت بدل گئے تھے، تب ہی خالہ نے تم سے شادی کی بات چھیڑ دی، میں نے سوچا اسی وقت انہیں سب بتا دوں کہ تم کسی مقصد سے یہاں آئی ہو لیکن پھر بچوں کی بےپناہ خوشی نے مجھے روک لیا۔
فروا کے جانے کے بعد زندگی میں پہلی بار میں نے اپنے بچوں کو اتنا خوش دیکھا تھا جتنا خوش وہ فروا کے ساتھ بھی نہیں تھے۔ پھر تمہارا رویہ بھی ان کے ساتھ بہت پیارا اور مخلص تھا جو یہ ظاہر کرتا تھا کہ تم کوئی بری لڑکی نہیں ہو! یقیناً کرمانی تمہاری کوئی مجبوری کیش کرکے تم سے زبردستی یہ سب کروا رہا ہے۔
میں نے بہت سوچا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ رسک لے کر دیکھا جائے!
پہلی شادی بھی تو بہت مان و محبت سے کی تھی میں نے مگر اس سے نہ مجھے محبت ملی اور نہ میرے بچوں کو ممتا۔
اس کے بعد دل میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا تھا کہ نہ جانے کبھی میرے بچے ممتا کی محبت محسوس کر پائیں گے یا نہیں؟
میرے لئے لڑکیوں کی کمی نہیں تھی، لیکن میرے بچے! انہیں کوئی دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں تھا لیکن تمہارے انداز میں ان کیلئے محبت دِکھی۔
میں نے اس سوچ کے ساتھ تم سے شادی کرلی کہ پوری عزت و محبت سے تمہیں جیتنے کی کوشش کروں گا۔
کرمانی نے دولت کے ذریعے مجھ سے میری بیوی چھینی تھی میں نے محبت کے زور پر اس کا مہرہ اپنی طرف کرنے کی ٹھان لی!
مجھے یقین تھا کہ تم ایک اچھی لڑکی ہو جو اندر سے ڈری ہوئی اور مجبور ہے۔ میں اپنی طرف سے تمہیں اتنا تحافظ دینا چاہتا تھا کہ تمہیں کسی سے ڈر کر اس کے اشاروں پر نہ چلنا پڑے! میں نے اور بچوں نے تمہیں پورے دل سے قبول کیا تھا اور میں چاہتا تھا کہ تم بھی اپنا دل میرے آگے کھول دو۔
میں تم سے واضح بات کرسکتا تھا لیکن اس میں ایک خدشہ تھا کہ تمہارے بدلنے سے کرمانی ہوشیار ہوکر کوئی اور چال چل سکتا تھا، لہٰذا میں نے پراجیکٹ لانچ ہونے تک سب کو سب کے حال پر چھوڑے رکھا۔
تمہیں جان بوجھ کر اس لاکر کا پاسورڈ بتایا جس میں فیک آئیڈیا کی فائل تھی تا کہ تم وہ کرمانی تک پہنچا دو اور وہ جیت کی خوشی میں آوور کانفیڈینس ہوکر باریکی سے سوچنا سمجھنا بند کردے!
مجھے یقین تھا کہ تم سچ قبول کرکے اپنی غلطی کی معافی مانگو گی اور میں تمہیں معاف کردوں گا اور یقین دلاؤں گا کہ اب تمہیں کسی سے ڈرنے کی یا کسی کے اشاروں پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مگر اس رات صحیح معنوں میں مجھ پر بجلی گری جب مجھے پتا چلا کہ تم نے تو اب تک وہ وار کیا ہی نہیں ہے جس کیلئے تمہیں بھیجا گیا تھا۔ اور جب بھیجنے والوں کا انکشاف ہوا تو میری دنیا ہی ہل گئی۔
میں باہر والوں سے بچنے کیلئے اپنے گھر کے سامنے حفاظتی باندھ باندھے بیٹھا تھا مگر پیچھے سے میرے گھر والوں نے ہی میری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
سوچی سمجھی سازش میں ایک غیر متوقع بات یہ ہوئی کہ میرے دونوں حریفوں کے دونوں مہرے ایک ساتھ ہی مجھے مات دینے میدان میں آگئے اور میں اصل مہرے کو پہچان نہیں پایا، یعنی تم اور امینہ ایک ہی دن گھر آگئی۔ اگر خالہ کے کہنے پر تم نہ آتی تو یقیناً امینہ میرے شک کے دائرے میں ہوتی مگر وہ تمہاری آڑ کی وجہ سے میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
جس رات تم نے مجھ پر انکشاف کیا تب میں کھٹکا کہ اگر تم نے آئیڈیا نہیں چرایا تو وہ کرمانی تک پہنچا کیسے؟ لیکن اگلی صبح خود کرمانی نے جیت کی خوشی میں مجھے اشارہ دے دیا کہ امینہ اس کا مہرہ تھی۔
میں کوئی بدمزگی کرنے کے بجائے سیدھا میٹنگ روم میں گیا اور وہاں اپنا اصل آئیڈیا پیش کیا جسے سن کر نہ صرف کرمانی ہل گیا بلکہ ہاشمی گروپس کو بھی یہ آئیڈیا بہت پسند آیا اور انہوں نے پراجیکٹ مجھے دے دیا، کرمانی جیت کے قریب آکر منہ کے بل گرا تھا۔
اس وقت میں نے اپنی جیت کا کوئی جشن نہیں منایا اور فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے اپنی آستینوں سے سانپ نکالے جائیں۔
میرے پاس اب اربوں کا پراجیکٹ تھا اسی لئے وہ فیکٹری میں اپنے بچوں کا صدقہ سمجھ کر شارخ بھائی کے منہ پر مار آیا کہ اب دوبارہ وہ لوگ میری دولت کے لالچ میں کوئی چال بازی نہ کریں یا تمہیں اور تمہارے بھائی کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں!“ وہ دھیرے دھیرے مزید باتیں واضح کرتا گیا اور وہ حیرت زدہ سی سنتی گئی۔
”یعنی آپ اتنے وقت سے جان بوجھ کر بےوقوف بننے کا ناٹک کر رہے تھے؟ آپ کو اول روز سے سب پتا تھا!“ کافی دیر بعد وہ گویا ہوئی تو اس کے لہجے میں بےپناہ حیرانی تھی۔
”اور نہیں تو کیا، اس گیم کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے جس میں سب کو لگے کہ وہ ہمیں بےوقوف بنا رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ خود ہمارے ہاتھوں بےوقوف بن رہے ہوں!“ وہ مزے سے کہتے ہوئے اٹھ کر اس کی جانب آیا۔
”تو یعنی آپ کے کنگال ہونے والی بات بھی جھوٹی تھی؟ اور وہ جو اتنا عرصہ آپ مجھ سے ناراض رہے وہ بھی ناٹک تھا!“ آہستہ آہستہ اس کی سمجھ میں سارا کھیل آگیا تھا۔
”ہاں بھی اور نہیں بھی!“ گول مول جواب ملا۔
”کنگال ہونے والی بات اس طرح سے سچی تھی کہ مجھے گھر بیچنا پڑا تھا لیکن میں اتنا بھی کنگال نہیں ہوا تھا کہ بچوں کی فیس تک نہ افورڈ کر پاتا! وہ تو بس میں تمہیں آزما رہا تھا۔“ اس نے معنی خیزی سے انکشاف کیا۔
”اتنی خطرناک آزمائش!“ وہ حیرت کے صدمے میں تھی۔
ساحل چند لمحے اسے نرم نظروں سے دیکھتے رہنے کے بعد اسی نرمی سے گویا ہوا۔
”میں زندگی میں اتنی بار دھوکہ کھا چکا تھا کہ اس بار میری شدید خواہش تھی میرے ساتھ کوئی دھوکے بازی نہ ہو! اسی لئے تمہیں فوری طور پر معاف کرنے کے بجائے میں نے تمہیں آزمانے کا فیصلہ کیا اور تم سے جھوٹ کہا کہ میرا دیوالیہ ہوگیا ہے، گھر تو ویسے بھی بدلنا تھا لیکن تمہیں پرکھنے کیلئے میں جان بوجھ کر اس چھوٹے سے فلیٹ میں رہا، تم سے تلخ برتاؤ کیا، جھوٹ کہا کہ بچوں کی فیس دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں، اور پتا ہے آخر میں کیا ہوا؟“ اس نے اعتراف کرتے ہوئے تجسس پھیلایا۔
”کیا ہوا؟“ اس نے مبہوت انداز میں پوچھا۔
”تم میری آزمائش پر پوری اتری!“ وہ مسکراتے ہوئے بات مکمل کرکے اسے مزید حیران کر گیا۔
”تم نے ثابت کردیا کہ تمہیں بزنس مین ساحل مجتبیٰ سے نہیں صرف ساحل اور اس کے بچوں سے غرض ہے، اسی لئے اب تمہاری آزمائش ختم! میرے برے وقت میں میرا برا رویہ جھیل کر بھی تم میرے ساتھ رہی اسی لئے اب سے میرا اچھا وقت، میری محبت اور میں صرف تمہارا ہوں۔“ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر مزے سے اعلان کیا۔
”یعنی سب کچھ جانتے بوجھتے آپ مجھے تنگ کر رہے تھے!“ وہ ابھی تک شاک کے عالم میں تھی۔
”ہاں، تم نے بھی تو مجھے تنگ کیا اور اتنے دن خود سے دور رکھا۔“
”لیکن میں نے بعد میں معافی مانگ لی تھی اور کل رات کتنی منتیں کی تھیں آپ کی!“ حیرانی زائل ہونے پر وہ بھی پرانے شکوے اٹھا لائی۔
”کل رات جب تم دل و جان سے اپنا آپ مجھے سونپنے کیلئے تیار کھڑی تھی تو کس مشکل سے میں نے خود پر قابو رکھا تھا یہ میں ہی جانتا ہوں۔“ ساحل قریب آکر اسی گھمبیر انداز سے گویا ہوا جو ہمیشہ اس کے دل کے تار چھیڑ دیتا تھا۔
”دل تو چاہ رہا تھا کہ کل ہی تمہیں کس کر گلے لگاؤں اور سب بتا دوں، پوری شدت سے اپنے سارے حق وصول کروں لیکن پھر سوچا جہاں اتنے دن صبر کیا وہاں ایک دن اور سہی!“ اس کے انداز میں عجیب سی شدت تھی۔
”اور آپ نے جو کیا اس کے بدلے اب میں آپ سے ناراض ہوجاؤں تو!“ وہ نروٹھےپن سے بولی۔
”نہیں ہوسکتی!“ اس کے انداز میں یقین تھا۔
”آپ کو اتنا یقین کیسے ہے؟“ اس نے محتاط ہوکر کریدا۔
”کیونکہ اگر تم مجھ سے واقعی ناراض ہوتی تو یہ ساڑھی پہن کر بلڈنگ کی چھت پر میرا انتظار نہ کر رہی ہوتی! میری طرح تمہیں بھی یقین تھا کہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور جو میرا ظاہری غصہ تھا اسے دور کرنے کیلئے تمہارا اصل پلان یہ حسن کے جلوے بکھیر کر مجھ شریف انسان کو بہکانا تھا، ہے نا!“ وہ مزے سے نتیجے پر پہنچا جو کہ درست تھا۔
”جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے، میں سچ میں آپ سے ناراض تھی اور ناراض ہوں۔“ اس نے چوری پکڑے جانے کے باوجود مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے نروٹھے پن سے دونوں بازو سینے پر باندھ لیے۔
”ٹھیک ہے، ہوتی رہو ناراض، میں بھی زبردستی منا لوں گا، کیونکہ میں اچھا ہوں مگر اتنا اچھا نہیں ہوں کہ ہر بار رعایت دے دوں!“ گھمبیر دھمکی معنی خیز تھی۔ جس کے ساتھ ہی ساحل نے جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔
جواباً امبرین نے بھی دونوں ہاتھ اس کے گردن کے گرد حمائل کر لئے کہ اب گزری باتیں دہرا کر مزید گلے شکوے کرکے وہ یہ خوبصورت رشتہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ اسے شکایاتوں سے زیادہ اپنا رشتہ عزیز تھا۔
اس کی بانہوں میں آتے ہی عجب سانحہ ہوا
ہر لفظ شکوے، شکایات نے خودکشی کرلی
انتخاب
وہ خوبصورت کشادہ سنگ مرمر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگیا۔
کمرے کا دروازہ کھول کر وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا تو امبرین کو خوشگوار حیرت ہوئی۔
مدھم روشنی میں ڈوبا یہ بیڈ روم بلاشبہ نہایت عالیشان تھا۔
كنگ سائز بیڈ پر چاروں طرف سفید موسکیٹو نیٹ لٹک رہا تھا اور چادر پر بےشمار گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔
ساحل نے آگے آکر آہستہ سے اسے بیڈ پر بٹھا دیا۔
دونوں اب سفید نیٹ کے ہالے میں بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
اس نے اپنی جیکٹ کی جیب سے وہ ہی ڈائمنڈ پینڈنٹ نکالا جو شادی کی پہلی رات تحفے میں دیا تھا اور پھر امبرین نے بچوں کی فیس کیلئے یہ اس کے حوالے کردیا تھا۔
”اب آخری بار پیار سے کہہ رہا ہوں کہ اسے دوبارہ مت اتارنا۔“ ساحل نے محبت بھری دھمکی کے ساتھ وہ پینڈنٹ اس کے گلے کی زینت بنا دیا۔
”میری جان کے بدلے بھی اگر کوئی مجھ سے یہ مانگے تب بھی نہیں اتاروں گی۔“ اس نے بھی محبت پاش انداز میں کہتے ہوئے پینڈنٹ پر ہاتھ پھیرا۔
”لیکن آج جان نہیں اجازت چاہیے۔“ امبرین کے بال کیچر سے آزاد کرتے ہوئے اس کے انداز بہکنے لگے تھے۔
”اب تم پھر سے یہ مت کہہ دینا کہ اس گھر میں ایڈجسٹ ہونے کیلئے تمہیں تھوڑا وقت چاہیے۔“ اگلے ہی پل ساحل نے مصنوعی فکر سے کہا تو وہ بھی ہنس دی۔
”میں نے کہا نا میں بس یہ سوچ کر آپ کے قریب آنے سے ڈرتی تھی کہ آپ میرے نہیں ہیں۔“ اس نے دھیرے سے وضاحت کی۔
”اب تو یقین آگیا کہ تمہارا ہوں میں؟“ ساحل نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔ اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”اور تم میری؟“ انداز سوالیہ تھا۔
”دل و جان سے۔“ جواباً امبرین نے بھی دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما اور دونوں نے اپنی پیشانی آپس میں جوڑ لی۔
بلآخر آج دونوں طرف سے اقرار مکمل ہوگیا تھا۔
”اچھا وہ زُحرف سے تیسری شادی والی بات؟ وہ بھی جھوٹ تھی نا!“ ایک آخری خدشہ اب بھی باقی تھا جس سے وہ کافی محظوظ ہوا۔
”ہاں تھی تو، لیکن اگر تم نے دوبارہ تنگ کیا تو اس بارے میں سنجیدگی سے سو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ اسے دوبارہ ستاتے ہوئے کہنے لگا تھا کہ یکدم امبرین نے اپنے لبوں سے اس کے سارے شکوے ایک ساتھ مٹا کر اسے خاموش کر دیا۔
اسی طرح وہ آہستہ سے تكیے پر لیٹ گئی اور ساحل نے خود کو ضبط کے سارے بندھنوں سے آزاد کرتے ہوئے اپنی شدتیں لٹانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو کب سے تشنگی کی قید میں تھا لیکن آج تمام شب بارش بن کر برستے ہوئے انہیں سیراب کرنے والا تھا۔
تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
رہا ہوں بہت ناشاد کہ شاد کروں گا تجھ کو
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
جون ایلیاء
*****************************************
ایک حسین روشن صبح مسکراتے ہوئے زمین پر اتر آئی تھی جس نے کمرے کی بند کھڑکی سے اندر جھانکنا چاہا لیکن کھڑکی پر لٹکے بھاری پردوں نے یہ کوشش ناکام بناتے ہوئے اس کمرے میں ہنوز نیم اندھیرا قائم رکھا جہاں سفید نیٹ کے ہالے میں بیڈ پر دو نفوس دنیا سے بےخبر ایک دوسرے کی بانہوں میں سمائے گہری نیند میں تھے۔
اندازہ لگا پانا مشکل تھا کہ ان کے چہرے پر چھایا سکون نیند کی وجہ سے ہے یا ایک دوسرے کی قربت کی وجہ سے؟
امبرین ساحل کے شرٹ سے عاری سینے پر سر رکھے سو رہی تھی جب آہستہ آہستہ ان کی نیند ٹوٹنا شروع ہوئی۔
آنکھیں کھلنے پر جب اسے احساس ہوا کہ وہ کہاں ہے تو بےساختہ دل میں پھر سے ڈھیروں اطمینان اتر آیا۔
اس نے سر اٹھا کر ساحل کو دیکھا جو ہنوز نیند میں تھا۔
مگر امبرین کو لگ رہا تھا کہ شاید وہ نیند میں ہے اور کوئی حسین خواب دیکھ رہی ہے جو اچانک آنکھ کھلنے پر ٹوٹ جائے گا!
لیکن پھر اسے گزری شب یاد آئی، اس شب میں لٹایا گیا والہانہ پن یاد آیا، جس کی ایک ایک شدت، ایک ایک لمس گواہ تھا کہ یہ سب خواب نہیں حقیقت ہے۔۔۔۔خوبصورت حقیقت!
سب سوچتے ہوئے اس کے لبوں پر مبہم مسکراہٹ ابھری اور اس نے بےساختہ ساحل کا ماتھا چوم لیا۔
مگر صرف اتنے سے من نہ بھرا تو یہ ہی عمل نہایت محبت کے ساتھ بند آنکھوں، ناک اور دونوں گالوں پر بھی دہرایا۔
”اب اتنا سب کر لیا ہے تو ایک مہربانی یہاں بھی کردو۔“ ساحل نے آنکھیں کھولتے ہوئے شہادت کی انگلی لبوں پر رکھی۔ مطلب وہ بھی بیدار ہوچکا تھا۔
”نہیں، یہ مہربانیاں بار بار نہیں کرتے، عادت خراب ہوجاتی ہے۔“ اس کے اوپر جھکی امبرین کی مسکراہٹ بھی گہری ہوئی۔
”چلو ٹھیک ہے تم میری عادت مت خراب کرو۔“ وہ باآسانی مان گیا۔
”لیکن میں تو تمہاری عادت خراب کرسکتا ہوں نا!“ اگلے ہی پل ساحل نے یکدم اسے پیچھے کرکے بیڈ پر دھکیلا اور خود بھی اس کے اوپر جھکتے ہوئے سر کے اوپر تک کمبل کھینچ لیا۔
*****************************************
فریش ہونے کے بعد ساحل نہایت خوشگوار موڈ میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا آفس جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا۔
وہ شرٹ کے کف بند کرنے کے بعد اب گلے کے گرد ٹائی باندھ رہا تھا۔
”میں ٹائی باندھ دوں؟“ تب ہی امبرین نے شرارتاً اس کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے شیشے میں دیکھا۔
”نیکی اور پوچھ پوچھ!“ وہ بھی فوراً مسکراتے ہوئے اس کی جانب پلٹا تو وہ بخوشی اس کی ٹائی باندھنے لگی۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگائے تقریباً اس پر بیٹھ گیا تھا اسی لئے اس کا قد امبرین کے بالکل برابر آگیا اور حسب سابق ساحل نے دونوں بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کر لئے تھے۔
امبرین نے بھی نہا کر فیروزی رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا جس میں اس کا روپ آج بےحد نکھرا نکھرا لگ رہا تھا، بالکل نئی نویلی دلہن کے جیسا۔ اور روپ تو نکھرنا ہی تھا کہ اب صحیح معنوں میں اس کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا تھا جس میں کوئی دھوکہ یا چال بازی نہیں تھی، صرف محبت تھی۔۔۔۔بےلوث محبت!
”بندھ گئی ٹائی!“ اس نے آخر میں اطلاع دی۔
”اتنی جلدی بندھ گئی!“ ساحل نے ایک نظر سر نیچے کرکے ٹائی کو دیکھا اور پھر اگلے ہی پل دونوں ہاتھوں سے ٹائی کھول دی۔
وہ تھوڑا متعجب ہوئی۔
”چلو دوبارہ باندھو!“ اس نے شوخی سے فرمائش کی۔
”اچھا! مطلب آپ بار بار ٹائی کھولتے رہیں اور میں باندھتی رہوں!“ وہ بھی اس کی شرارت سمجھ گئی تھی۔
”ہاں، میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایسے ہی تمہیں بانہوں میں لئے کھڑا رہوں، تم اپنے نازک ہاتھوں سے میری ٹائی باندھو، تب تک میں تمہیں جی بھر دیکھتا جاؤں، جب تم ٹائی باندھ دو تو میں اس میں کوئی نقص نکال کر، اسے کھول کر پھر سے تمہیں ٹائی باندھنے کا کہوں، تم پھر ٹائی باندھوں، میں تمہیں دیکھ کر اپنی آنکھیں سیراب کرتا رہوں، وقت کا پہیے بس اسی مدار پر گھومتا جائے، اور تم میری بانہوں سے کبھی دور نہ ہو!“ وہ خوابناک گھمبیر انداز میں بولتا گیا جسے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ سنتے ہوئے امبرین نے دوبارہ اس کی ٹائی باندھ دی۔
”مجھے پاس رکھنے کیلئے آپ کو ٹائی کا بہانہ لینے کی ضرورت نہیں ہے، آپ بس حکم کریں، میں ساری زندگی یوں ہی آپ کی بانہوں میں خوشی خوشی گزار دوں گی۔“ اس نے دونوں ہاتھ ساحل کے کندھوں پر رکھتے ہوئے محبت پاش جواب دیا۔
”سچی!“ اس نے امبرین کو پوری طرح خود میں بھینچا۔
”مچی!“ رومانوی سی سرگوشی میں جواب ملا۔
ساحل نے اس کے جسم کی خوشبو میں مدہوش ہوتے ہوئے اس کی گردن چومی تو جواباً امبرین نے بھی اس کو دونوں بازؤں میں بھینچ لیا۔
انہیں ایک دوسرے کی قربت میں ایسا سکون ملتا تھا کہ وہ چاہ کر بھی لفظوں میں اسے بیان نہیں کرسکتے تھے۔
یہ وہ ہی سکون تھا جو ساحل فروا سے چاہتا تھا مگر وہاں سے اسے یہ نصیب نہیں ہوا تھا۔
امبرین کی محرومیوں بھری زندگی میں ساحل کا وجود کسی مسیحا سے کم نہ تھا جس نے اسے فرش کی گہرائی سے اٹھا کر عرش کی بلندی پر بٹھاتے ہوئے اپنے گھر اور دل کی ملکہ بنا دیا تھا۔۔۔۔ربة البيت بنا دیا تھا۔
دونوں نہ جانے اور کتنی دیر یوں ہی ایک دوسرے میں گم رہتے اگر ڈور بیل کی آواز اس سحر میں خلل نہ ڈالتی!
”یہاں کون آگیا؟“ وہ متعجب ہوئی۔
”شاید بچے آئے ہوں گے! میں نے عدیل کو ایڈریس بھیجا تھا کہ وہ انہیں یہاں ڈراپ کرتا ہوا چلا جائے!“ ساحل نے اندازاً بتایا۔
”بچے!“ ان کی آمد کا سن کر امبرین پرمسرت سی فوراً باہر کی جانب لپکی۔ وہ بھی مسکراتا ہوا اس کے پیچھے گیا۔
امبرین نے دروازہ کھولا تو دوسری جانب حسب توقع مائر اور منزہ اپنا بیگ پیک پہنے کھڑے ملے۔
”ہم آگئے مما!“ دونوں یک زبان چہک کر بولے۔
”مما کی جان!“ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے دونوں کو خود میں بھینچ لیا۔
”ہم نے کہا تھا نا کہ ہم جلدی آجائیں گے!“ مائر نے یاد دلایا۔
”آپ ایسے ہی اتنی سیڈ ہوگئی تھیں۔“ منزہ بھی پیار سے بولی۔
”میں ڈر گئی تھی بیٹا! مجھے لگا میں آپ لوگوں کو دوبارہ نہیں دیکھ پاؤں گی۔“ وہ دل کا خدشہ زبان پر لائی جو لاکھ لاکھ شکر تھا کہ اب ٹل گیا تھا۔
تب ہی ساحل بھی ان لوگوں کے پاس آکر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔
”پاپا! یہ ہے ہمارا وہ نیو گھر جس کے بارے میں آپ نے بتایا تھا؟ اور اب ہم یہیں رہیں گے؟“ دونوں امبرین سے الگ ہوتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
”جی، اچھا لگا آپ لوگوں کو؟“ اس نے تائید کرتے ہوئے پوچھا۔
”بہت اچھا ہے، تھینک یو!“ اب دونوں اس سے لپٹ گئے تو اس نے بھی مسکراتے ہوئے اپنی کائنات کو کس کر بانہوں میں بھینچ لیا۔
امبرین بیڈ روم میں آئی تو نیم اندھیرے کمرے میں نائٹ بلب آن ملا مگر ساحل کمرے میں نظر نہیں آیا۔ بالکونی کا سلائڈ ڈور کھلا ہوا تھا تو وہ بھی اس طرف چلی آئی۔
ساحل دونوں ہاتھ ریلینگ پر رکھے نیچے نظر آتے سر سبز وسیع لان کو دیکھ رہا تھا جو پورے چاند کی چاندنی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب کہ موسم سرما ہونے کے باعث ہوائیں بھی بےحد سرد تھیں۔
”یہاں کیا کر رہے ہیں آپ؟“ امبرین کی آواز پر وہ اس طرف پلٹا جو اس کے قریب آچکی تھی۔
”تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔“ ساحل نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر مزید قریب کیا اور ریلینگ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
”کیوں انتظار کر رہے تھے؟“ اس نے بھی دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھے۔
”پوچھنے کیلئے کہ کیا تم مجھ سے ناراض ہو!“ اس نے دونوں بازو کمر کے گرد حمائل کرلئے تھے۔
”نہیں، میں بھلا آپ سے کیوں ناراض ہوں گی!“ انداز سادہ تھا۔
”جو کچھ دوپہر میں ہوا اس کی وجہ سے! اگر تم چیخ چلا کر مجھ سے لڑنا چاہو تو لڑ سکتی ہو!“ اس کی دھیمی سی پیشکش پر وہ بےساختہ ہنس دی۔
”خلاف معمول بات ہوجانے پر چیخنا، چِلانا، لڑنا، جھگڑنا غصہ کرنا شعور سے خالی لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے، اور آپ کی امبرین اتنی بےوقوف نہیں ہے جانِ من!“ اس کے ٹھہرے ہوئے انداز میں عجیب سا سکون تھا۔
دوسروں کو لاجواب کر دینے والا ساحل آج خود لاجواب ہوگیا تھا۔ وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتا گیا جس کے ہونے سے اسے اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Tumhara Hun Main Aur Tum Meri Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tumhara Hun Main Aur Tum Meri written by Faryal khan .Tumhara Hun Main Aur Tum Meri by Faryal khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment