Aatish E Junoon Novel By S Merwa Mirza Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday, 16 December 2024

Aatish E Junoon Novel By S Merwa Mirza Complete Romantic Novel

Aatish E Junoon Novel By S Merwa Mirza Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Aatish E Junoon Novel By S Merwa Mirza Complete Romantic Novel 

Novel Name:  Aatish E Junoon 

Writer Name:S Merwa Mirza  

Category: Complete Novel

"خانم! اگر کسی کو بھنک بھی پڑی تو قیامت آجائے گی۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا یوں سب سے چھپ کر ان سے ملنے پر، اللہ سائیں خیر کریں مجھے تو آج موسم کے تیور ہی دہلا رہے ہیں"

اونچے نیچے کچے راستے کو عبور کرتیں ہوئیں وہ دو پختون لڑکیاں تھیں جنہوں نے خوبصورت سی چادروں کے سنگ اپنے خوبصورت سراپے، اور پرکشش چہرے ڈھانپ رکھے تھے، ان میں سے ایک نے قدرے سہمے ہوئے ، اک نگاہ ابر آلود سیاہ آسمان پر ڈالے اپنا ڈر بیان کیا مگر دوسری چادر میں چھپا وہ دمکتا چہرہ زرا منظر عام پر آیا جسکی گہری سیاہ آنکھوں میں گلالئی کی بات نے کچھ لمحہ اضطراب لایا۔

بڑی بڑی خوبصورت چندر مکھی آنکھیں، سرخیوں میں ڈوبا سفید رنگ اور چہرے پر اتر آتا قربت کو سوچتے ہی گلال، اسکے حسن کو گہنا گیا تھا۔

بانکی ، سجیلی سی، سادہ اور گم گو مگر نہایت دلربا۔

"کچھ نہیں ہوتا گلالئی، حویلی میں سب سو چکے تھے۔ اگر میں نہ آتی تو وہ خود بنا انجام کی پرواہ کیے حویلی آجاتا ، اور پھر جو قیامت آتی اسے روکنا مشکل تھا"

اس لڑکی کی آواز میں کوئی ڈر نہ تھا البتہ کسی خاص کے ذکر پر اس خانم کہلاتی لڑکی کی دھڑکنوں کا شور دم بدم تیز ہوا، لگ بھگ تیس قدموں کے فاصلے پر کوئی مشوک آدمی، سیاہ چادر گرد اوڑھ کر، خود کو مکمل ڈھکے، ان حویلی کی معزز عورتوں کا پیچھا کرنے میں لگا آہستہ آہستہ انکی طرح آگے بڑھ رہا تھا۔

اسکی آنکھوں میں صاف صاف جنون ، وہشت اور خمار ہلکورے لیتا دیکھائی دیا۔

گلالئی کچھ دور جاتے ہی ، تیز تر آندھی کے جھونکوں پر اپنی چادر سختی سے بھینچتی رک گئی تو جیسے اس دوسری لڑکی نے اپنے خوبصورت چہرے پر ڈالا نقاب ہٹائے رک جاتی گلالئی کو حیرت و اداسی سے نظر بھر کر دیکھا جو تیز تیز سانس لیتی اس نخریلے موسم کی فتنہ انگیزیوں سے بہت خوفزدہ ہو چکی تھی۔

"خانم! پچھلی بار بھی مجھے آپکے ساتھ دیکھ کر وہ میری جان لینے پر اتر آئے تھے۔ میں یہیں رک کر پہرہ دیتی ہوں، آپ ان سے اندر اکیلے ملنے جائیں۔ مجھے ناں، ان سے بہت ڈر لگتا ہے"

خوف سے اپنی انگلیوں کو چٹخاتی گلالئی ، پختون لہجے مگر اردو زبان میں بات کر رہی تھی مگر اسکے اندر جس ہستی کا خوف سرائیت کیا ہوا تھا، اشنال عزیز کی آنکھیں سوچ کر ہی مسکرا سی دیں۔

اس شخص کو تو اشنال عزیز کا سایہ بھی اپنے روبرو قبول نہ تھا پھر یہ تو اشنال کی پیاری سہیلی اور خاض خادمہ تھی۔

"تم کیا جانو گلالئی، ڈر تو مجھے بھی اس سے بہت لگتا ہے مگر وہ جس طرح میری حفاظت کرتا ہے، اشنال اسکی شدتوں پر لپک پڑتی ہے۔ ٹھیک ہے تم رکو میں آتی ہوں، کچھ بھی خطرہ محسوس ہوا تو میری فکر کیے بنا بھاگ جانا"

رک کر پلٹ کر اس شخص کا ذکر کرتی اشنال ، اسکے ذکر پر ہی دل رکتا محسوس کر رہی تھی، پھر ساتھ ہی سہمی اور ڈری سی گلالئی کا سرد پڑتا ہاتھ جکڑے، اسے ہدایت دیتی وہ دوبارہ سے اپنی چادر کا کونا، چہرے پر ڈالے اس جانب لپکی جہاں لگ بھگ کئی درخت ایک ساتھ کچی سڑک پر جھکے کھڑے تھے اور بالکل ساتھ حویلی کی ماند دیوار تعمیر تھی۔

آہستہ آہستہ تیز ہوا کے جھونکے تیز ہوتے تو سانسوں تک ٹھنڈک کا احساس اتر جاتا، اندھیرا بڑھ رہا تھا مگر علاقے کی سرحدوں پر نسب ہوئے روشنی کے بلب اکثر و بیشتر یہاں اجالا کرنے میں کامیاب نظر آتے۔

اشنال محتاط سی اپنے قدم بڑھائے جیسے ہی زرا درختوں کے جھنڈ اور لاتعداد جھاڑیاں عبور کرتی آگے بڑھی، سانس رک جانے پر تھمی کیونکہ وہ ہمیشہ کی طرح اسکی کلائی پر مدھم سی گرفت جماتا اسے اپنی سمت کھینچ گیا۔

اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا اٹھی مگر پھر اس بے تاب دھڑکنوں کے مسکن سینے سے جا لگنے پر اشنال عزیز، ہر درد، ڈر، بے سکونی اور تھکن سے ناطہ توڑ بیٹھی۔

جانے کتنے لمحے اسے اپنا بے ترتیب سانس بحال کرنے میں لگے، اور وہ اسکے سامنے بظاہر مغرور دیکھائی دیتا شخص ، گہری سیاہ تابناک آنکھیں رکھتا تھا، اشنال عزیز کی دنیا تہہ و بالا کر دینے کو کافی تھیں، بلا کا پرکشش، جسکی کھڑی ناک پر اک کچھاو ہمہ وقت رہتا، جبڑے دن کے بیشتر لمحوں میں بھینچے اور ماتھا شکنوں سے بھرا رہتا، چہرے پر مناسب حد سے پھیلی سیاہ بیرڈ، سیاہ ہلکی مونچھ جس تلے فی الحال اس کے دیر سے آنے پر بھینچ جاتے لب جاذبیت اور عاجزی سے یکسر بے نیاز تھے۔

اشنال کے دل کی دھڑکنیں، مزید سست پڑیں جب وہ ہاتھ بڑھا کر پوری بے باکی سے اسکے چہرے پر گرا نقاب ہٹا رہا تھا، بے اختیار وہ اسکا ہاتھ جکڑ بیٹھی۔

"مجھ تک پہنچنے میں اک لمحہ بھی دیر نہ لگایا کریں اشنال، کتنی بار عاجزی سے سمجھاوں صنم! آپ ہر بار اس شخص کے ضبط سے کھیلتی ہیں۔ اور یہ آپکے سامنے عاجزی اوڑھ لیتا میثم آپ کو ہمیشہ معاف کر دیتا ہے"

اپنے رخساروں پر پھیلتی اس شخص کی حدت اوڑھتی سانسوں کا لمس ہو یا بنا چھو کر ہر احساس تک اترنے کا ہنر، وہ ماہر تھا، وہ اشنال عزیز کو اسکی جگہ دینے میں کبھی پیچھے نہ ہٹا تھا۔

جانے اس شخص کے لہجے میں کیسی ٹھنڈک تھی کہ وہ مضبوط اعصاب والی تک اسکی اور لپکنے لگتی، محبت کا تو علم نہیں، وہ اسے دیکھ کر سانس ضرور لینے لگی تھی،اسے بھی اپنی کربناک زندگی کا واحد سکھ اشنال لگتی جسے کسی نے میثم کے ساتھ کی زیادتیوں کے بدلے تلافی بنائے سونپا تھا۔

"سرداروں کی بیٹی سے محبت کرنا گھاٹے کا سودا ہے میثم، سردار بھی وہ جو تمہاری جان کے دشمن ہیں۔ پھر بھی تمہاری ایک آواز پر اشنال چلی آئی ہے، اسی پر شکر کرو۔ اگر کسی کو ہمارے یوں ملنے کی خبر ہو گئی تو ملنا دور، تم میری شکل دیکھنے کو ترس جاو گے"

وہ اسکے جلتے سینے پر اپنی ٹھنڈی ہتھیلی جمائے، بولی بھی ایسے سرد منجمد لفظ کہ کچھ پل وہ بھی اشنال کے ایسے ستم پر سراپا دکھ بن گیا، پھر جیسے اپنا ہاتھ میکانکی طور پر اٹھائے، اس نے اشنال کا نرم حدت اوڑھتا رخسار چھونا چاہا مگر وہ اسکا ہاتھ ایک بار پھر جکڑ گئی، اک لمحہ میثم ضرار چوہدری کو سانس آنا رکا۔

وہیں درخت کی اوٹ سے جڑھ کر کھڑی گلالئی خوف سے سامنے پھیلے اندھیرے اور مہیب سناٹے کو دیکھ کر حلق تر کر رہی تھی جبکہ وہ سیاہ چادر اوڑھ کر ان کے پیچھے آتا شخص ، آخر کار معاملے کی تہہ تک پہنچ ہی گیا تھا۔

اس نے اپنی پتلون میں دبایا چھوٹا سا فون نکالے، کوئی نمبر ملاتے ہوئے کان سے لگایا اور ناجانے کیا کہا کہ دوسری سمت، وہ 'خانم حویلی' میں کھڑا اسکا آدمی تیزی سے اندر کی جانب لپک گیا۔

"میثم کو برے وقت سے مت ڈرائیں اشنال، میثم خود بہت سوں کا برا وقت ہے۔ آپ صرف مجھ پر توجہ دیں، کیسی گزارتی ہیں میرے بغیر اپنے لمحے"

بنا حالات کی سنگینی کا کوئی اثر لیے وہ الٹا جذب اور خمار میں مبتلا ہوا، اسکی بے داغ پیشانی جسارت کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں کے شدت بھرے لمس سے مہکائی تو اک پل وہ اسکے حصار میں بے بسی اور حیا کی ملی جلی کیفیت میں لپٹی اشنال نے اپنی آنکھیں سختی سے میچ لیں، وہ جانتی تھی کہ وہ اسکے قریب اتنے سے پے اکتفا نہیں کرے گا، اس شخص کی نگاہوں میں جو وارفتگی تھی وہ اب اشنال کے کانپتے ہونٹوں پر مرکوز تھی۔

"تمہیں شدت سے یاد کرتے ہوئے گزرتے ہیں، بابا سائیں کو کہو ناں میثم کہ وہ ہمارے رشتے کو عیاں کرنے کے حالات سازگار کریں۔ حویلی میں سب آئے دن میری شادی کی بات کر رہے ہیں، میں کیسے یہ سب باتیں برداشت کیا کروں جبکہ اشنال تو بہت پہلے سے تمہارے اختیار میں دے دی گئی ہے"

وہ اول جملہ تو بے بس ہوئے کہہ بیٹھی مگر پھر کہاں تاب تھی کہ وہ ان ادھوری ملاقاتوں میں میثم کی جانب سے پوری جان لینے کے ظلم سہتی تبھی اسکی مضبوط باہوں میں سمٹ کر خوف سے سسکنے لگی، البتہ میثم کو اسکا چہرہ چھپا لینا اس قدر ناگوار گزرا کہ وہ جبڑے بھینچ کر اپنا چہرہ اسکے خوشبو دار بندھے بالوں کی اور کیے اس خوشبو کو اپنے اندر اتارتے ہی اسے کمر سے پکڑتا حصارے اپنے سینے سے لگا گیا جو خود تمام تر دکھ کے افسردہ سا مسکرا دی، اس شخص کا الٹی جانب نسب دل جب ٹھیک اشنال کے دل سے ملتا تو وہ خود محبت کی شدت بھری صداوں لر کانپ اٹھتی۔

"مجھ سے پوچھیں کہ آپ سے دور رہنا کتنا اذیت ناک ہے صنم، لیکن بابا سائیں نے اسی وقت مجھے کہہ دیا تھا کہ وہ مجھے اشنال دینے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اشنال عزیز ، صرف میثم ضرار چوہدری کی ہے، یہ مجھے خود ثابت کرنا ہے۔ مجھے تھوڑا وقت اور دے دیں، خود پر چلتے اس کیس کا کوئی رخ تعین کر لوں پھر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے دشمنوں کے گھر سے اپنی اس قیمتی دولت کو اٹھا لے جاوں گا "

خود میں قربت کے خوف سے دبک جاتی اشنال کو دونوں پہلووں سے تھامے روبرو لائے، وہ اسے جامع وضاحت سونپتا تب مسکرایا جب وہ خمار بھری اداس آنکھیں میثم پر پڑ کر اسکا کام تمام کرنے لگیں جبکہ میثم کی آنکھوں میں اتر آتی شدت بھری چاہ پر اشنال عزیز کی سانسیں، آپس میں ہی گڈ مڈ ہونے لگیں۔

"تب تک میرے سکون میں کمی کی جرت نہیں اشنال، آپ اچھے سے جانتی ہیں  کہ میرے پاس اس وقت آپ کی محبت کو گہرائی سے محسوس کرنے کے سوا کوئی آسانی نہیں"

گہری نظریں اشنال کے پیوست ہونٹوں پر دوڑائے وہ جس شدت بھرے استحقاق سے نزدیک ہوتا یہ جان لیوا شرگوشیاں کر رہا تھا، ان کے باعث اشنال کے چہرے کے رنگ بدل اٹھے، وہ بنا اس شخص کی کسی پیش رفت کے ہی اپنا سانس سینے میں اٹکتا محسوس کرتی اسکی اور رحم طلب ہو کر دیکھنے لگی اور وہ کیا بتاتا کہ اس لڑکی کی یہ نظریں اسے مزید مائل کر دیتی ہیں۔

"تم سمجھتے کیوں نہیں میثم، اپنی عادت ڈال کر مجھے تکلیف دیتے ہو۔ میں ہر لمحہ اپنے آس پاس تمہیں ڈھونڈتی ہوں، تمہارے یہ محبت اور شدت بھرے تقاضے مجھے پہروں رلاتے ہیں"

اس شخص کی سانس ابھی رخسار تک ہی تھی کہ وہ اسکے گال پر لب رکھنے پر ہی تڑپ کر پیچھے سرکی، جبکہ وہ خفا آنکھیں اشنال کی بے بسی پر ڈالتا اسے مزید قریب کرنے کے بجائے خود ہوا۔

"تو روز حویلی آجایا کروں کیا؟ اپنی بیوی کو محبت دینے"

بہت کم وہ اسے اصل رشتے کی جان لیوا ڈور سے باندھ کر پکارتا تھا، مگر جب بھی بلاتا وہ اپنے آنسو نہ روک پاتی۔

"آگ کا دریا ہے ہم دو کے بیچ، جسے جلے بنا پار کرنا ہے تم نے میثم۔ مجھے اپنی بیوی کا وہ رتبہ دو جسکی میں حق دار ہوں۔ نہیں چاہتی کہ تم سے دور رہ کر تمہاری حسرت کرتے ہی مر جا۔۔۔۔"

وہ اپنے مخصوص انداز میں یہ جو روح میں شگاف ڈالتی دھمکی دیے بول پڑی، وہ کب بے اختیار اپنا ہاتھ اس لڑکی کے نرم ہونٹوں پر رکھ گیا کہ اشنال کا پورا وجود لرز کر رہ گیا، وہ اپنی آنکھوں کی قوت کے سنگ اسے تنبیہہ سونپتا، ساتھ ہی اسکی بھیگی آنکھیں چومنے لگا جنکی نمی ، میثم کی زبان پر نمکینی کے سنگ گھل سی گئی تو وہ اپنی زبان کو اس نمکینی سے نجات دلانے کا  بے باک ارادہ کیے اسکی بے ترتیب ، سانسوں کی روانی جس خماری سے تکنے لگا، اشنال نے کانپتے ہونٹ میچ کر اسکی نظروں کی آنچ سے ڈر کر گرفت جھٹک کر رخ بدلا۔

مگر وہ ہنوز اس ظالم کے حصار میں مقید تھی، اب بس اسے میثم کا دل اپنی پشت سے لگا دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا اور اسکی خوشبو پورے وجود پر لپٹتی ہوئی۔

"ایک بار میری دسترس میں آگئیں آپ تو ایسے فرار کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا اشنال، ابھی آپ پر سجتا ہے کہ آپ میرا خوب صبر آزمائیں۔ پر یہ مت بھولیے گا کہ آپ پر، آپکے دل پر ، روح پر، اور آپکی ہر سانس پر تاحیات کے لیے صرف میثم ضرار چوہدری کا حق رہے گا۔ فی امان اللہ"

وہ اسکے کانپتے وجود کو اک بار شدت سے حصارتا، اسکے کان کی لو چھوئے جو آخری الوداعی شرگوشیاں کر رہا تھا ان پر اشنال کو لگا روح جسم سے نکلنے لگی ہے، وہ اسے یونہی بے قرار چھوڑتا، اسکی قربت کی آگ سے دہک اٹھتی گال سے نرمی کے سنگ اپنی گال رگڑتا ، خود سے آزاد کیے چند لمحوں میں عقب کی جانب بڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مہیب سناٹے میں گم گیا مگر اشنال عزیز پر اسکے اوجھل ہو جاتے ہی اسکی کمی اور حسرت پھر سے اتری تو وہ آنسو مٹانے کو، ہتھیلی گال سے رگڑ کر واپس خود کے وجود کی تمام راعنائیاں سمیٹ کر چادر سے منہ ڈھانپتی ہوئی جب تک واپس گلالئی کی جانب آئی، قیامت برپا ہو چکی تھی۔

سامنے بڑی سی سیاہ گاڑی کھڑی تھی اور اس میں سے باہر نکلتے آشنا مگر آنکھوں میں ہیبت ناکی اور حقارت بھر کر دیکھتے لوگوں کو دیکھ کر اشنال عزیز کے وجود تلے سے زمین سرک گئی۔

وہیں عقب سے چہرے پر نجاست اوڑھ کر باہر نکلتا علیم مجتبی اپنے کھلے کرتے کے بٹن جس گندی نظروں کو اچانک خوفزدہ نظروں میں بدلتا سرعت سے بند کرتا نکلا، سازش کامیاب ہوئی۔ سامنے کھڑے نفرت اور غضبناک تیور دیکھاتے خان مشارب زمان نے بنا کسی کو صفائی کی کوئی مہلت دیے اپنے پاس کھڑے آدمی سے گن باقعدہ جھپٹ کر لی اور اسکی چھ کی چھ گولیاں علیم مجتبی کے سینے میں گاڑ دیں۔

گویا لمحہ لگا اور دل دہلاتی قیامت برپا ہو گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے، میثم ضرار چوہدری کی اشنال پر آسمان ٹوٹ گرا۔

                          ..____________________..

دو دن گزر چکے تھے اس قیامت کو برپا ہوئے، پنچائیت سج چکی تھی۔ خوف اور دہشت ایسا تھا کہ علاقے کے لوگ آج کے اس خونخوار فیصلے سے پناہ مانگے سسک رہے تھے۔

سردار خان فیروز خاقان اور سردار شمشیر یوسف زئی کی سرپرستی میں مدعا پیش کیا گیا تھا، کئی لوگ اس خونخوار فیصلے کے منتظر الگ الگ مجمعوں کی صورت کھڑے تھے۔

"قصور وار سرداروں کی بیٹی بھی تھی مگر قتل ہوا صرف میرے بھائی کا، ہمیں انصاف چاہیے۔ خون کا بدلا یا تو خون ہو یا پھر ہمیں حویلی کی لڑکی دے کر معاوضہ دیا جائے ورنہ میں اس قتل پر سکون سے نہیں بیٹھوں گا اور موقع ملتے ہی مشارب زمان کی بوٹی بوٹی کر ڈالوں دوں گا"

مقتول علیم مجتبی کا بڑا بھائی شہیر مجتبی، آنکھوں میں لپکتی آگ سے شعلے بھرتا یہ صور پھونک کر سبھی کو اپنی جگہ پتھر کر چکا تھا، جبکہ اک طرف منشی سانول مجتبی اور اماں کوثر، سسکتے بلکتے اپنے چھوٹے بیٹے کے قتل کا انصاف چاہنے کھڑے تھے۔

حویلی کے پشتنی ملازمین ہونے کے ناطے سرداروں پر کٹھن وقت تھا کہ اگر وہ فیصلہ انصاف سے نہ کرتے تو پورے علاقے کا ان پر سے اعتماد اٹھ جاتا اور اگر انصاف پر آتے تو حویلی کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے۔

سردار خان فیروز خاقان، بے بسی اور اذیت میں مبتلا اس شردبار نگاہوں سے اپنا تقاضا کرتے اور حقارت سے تکتے نوجوان، جوشیلے شہیر مجتبی کی جانب بے بسی سے دیکھ رہے تھے جو آج یہاں نئی تاریخ رقم کرنے والا تھا۔

"دیکھو شہیر، حویلی کی لڑکی کو تمہارے حوالے کرنا ہمارے لیے مرنے سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔ تم اس قتل کے بدلے جتنی چاہے رقم اور حاکمیت لے لو لیکن ایسا تقاضا نہ کرو جو اس علاقے کی بنیادیں ہلا دے"

دادا سائیں کو یوں اس دو ٹکے کے نوکر کے آگے جھکتا دیکھ کر اس گرے آنکھوں میں اشتعال اور جلن بھر کر گھورتے مشارب زمان کے اندر آگ لگ گئی۔

"اسکا وہ (گالی) بھائی، ورغلایا اس نے حویلی کی لڑکی کو ۔ میرا بس چلتا تو اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتا۔ اور اگر تم نے بھی حویلی کی لڑکی پر گندی نظر رکھی ناں شہیر تو اگلی باری تمہاری ہوگی نالی کے گندے کیڑے"

وہ جو بابا سائیں کے مجبور کرنے پر پنچائیت میں خاضری دینے آیا تھا، اپنی جگہ سے بھوکے شیر کی مانند اس منحوس شہیر کی اور لپک کر غرایا، یہ تو بروقت خان زمان خاقان اور خان عزیز خاقان نے اسے جکڑا ورنہ آج وہ شہیر مجبتبی کی بوٹیاں تک نوچ ڈالتا۔

"لیکن جرگے کی ناموس کا احترام کرنا ہر چھوٹے اور بڑے پر فرض ہے سردار خاقان، یا تو اس معاملے کا حل مشارب زمان کی موت ہے یا پھر یہی حل ہے کہ حویلی کی لڑکی کو شہیر مجتبی کے تقاضے کے مطابق اسکے گھر ونی کیا جائے"

سبھی معاملات پر گہرے مشاہدے کے بعد دوسرے سر پنچ ، سردار شمشیر ہوسف زئی نے اپنی حتمی رائے دے کر ناصرف پورے مجمعے پر سکتہ طاری کیا بلکہ اپنے یار کی ایسی سنگدلی پر سردار خان فیروز خاقان بھی تکلیف اور اذیت سے اسکی جانب دیکھنے لگے جو ایک انصاف پسند سرپنچ تھے جبکہ شہیر مجتبی کی آنکھوں میں لپکتی ہوس اور خباثت اسکے گندے باطن کی خبر صاف صاف دے رہی تھی۔

البتہ مشارب زمان کا بس نہ چلا وہ اس نجاست بھرے شہیر اور اسکے پورے خاندان کو جہنم واصل کر دیتا۔

"لیکن اس بچی کو بنا کسی تحقیق کہ میں کیسے ان خونی روایات کی بھینٹ چڑھا سکتا ہوں شمشیر۔۔۔۔"

سردار خاقان رحم طلب، منت بھرے لہجے میں سردار شمشیر کی جانب دیکھ کر التجاء پر اترے مگر اس سے پہلے شہیر مجتبی کے غنڈے موالی ساتھی، طیش و غضب میں مشارب زمان پر جھپٹتے، سردار خاقان کی بارعب دھاڑ پر وہ سب منہ ماری کرتے تھمے البتہ پوری پنچائیت کے خاضریں کو سانپ سونگھ گیا۔

" اگر کسی نے بھی میرے پوتے مشارب زمان کا بال بھی بیکا کرنے کی جرت کی تو اپنا عبرت ناک انجام پہلے ہی سوچ لے۔ شہیر اپنے ان پالتو کتوں کو سمجھا لے ورنہ تجھ سمیت انہیں کاٹ ڈالوں گا، ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا سمجھا"

انکی ہیبت ناک دھاڑ اور سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر ڈرتی تو شہیر جیسے کی جوتی بھی نہیں تھی مگر وہ احتیاط کے طور پر اپنے ان لوگوں کو اشارے سے پرسکون کرنے لگا جنکے ہاتھ میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور چاقو تھے اور آنکھوں میں بدلے کی آگ۔

"ایک جرم چھپانے اور دبانے کے لیے اب آپ میرا کام تمام کریں گے سردار خاقان! لیکن بھولیں مت یہ پورا علاقہ جانتا ہے کہ آپ دو سردار صرف انصاف پسند ہیں۔ اگر اس بار فیصلہ غلط ہو گیا تو آپکی ہی عزت مٹی میں مل جائے گی، آپکے پختون وقار کو نہ صرف ٹھیس پہنچے گی بلکہ یہ پورا علاقہ اپنے سرداران کو بے یقین نفرت بھری نظروں سے دیکھے گا"

شہیر کے لہجے میں اس وقت جو غرور تھا وہ ہر ایک کو پچھاڑ کر رکھ چکا تھا جبکہ سردار خاقان کا لرزتا جسم انکے عزیز بیٹوں کی نظروں سے مخفی نہ تھا جو خود آج بے بسی کی مورت بنے کھڑے تھے، دونوں کی جان سینے میں اٹکی سانس کی طرح جسم سے نکلنے کو بے تاب تھی۔

ایک کی بیٹی کی عزت اور جان داو پر تھی تو دوسرے کا بیٹا موت کے دہانے پر، شہیر بجلی کی طرح کڑکتی ہوئی دھاڑ کے سنگ بولتا، توقف کے لیے رکا تو سب نے اسے ہراساں نظروں سے دیکھا۔

"رہی بات عورت ذات کی تو وہ بھلے سردار کی بیٹی ہو یا کسی غریب کسان کی، اپنے باپ اور بھائی کی جان بچانے کے لیے صدیوں سے بلی چڑھتی آرہی ہے۔ فیصلہ آج ہی ہوگا ورنہ آپ دیکھتے رہ جائیں گے اور میں آپکے اس جذباتی اتھرے قاتل پوتے کی کیسے چپ چاپ قبر بنا ڈالوں گا"

شہیر مجتبی کی خشونت بھری سخت آواز اپنی پوری تابناکی سے گونجی تھی جبکہ دونوں سرپنچ، تمام سرداران اور قافی صاحب وقت ضائع کیے بنا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔

شہیر مجتبی کا ہنستا مکرو چہرہ، مشارب زمان کے تن من میں آگ بھڑکا چکا تھا۔

ابھی وہ آگ تو باقی تھی جو شہیر مجتبی کے جسم کو تب لگتی جب یہ خبر میثم ضرار چوہدری تک پہنچتی۔

                           ..____________________..

اسے پچھلے دو دن سے بھوکا پیاسا حویلی کے سب سے تاریک گڑھے نما تہہ خانے میں ڈال رکھا تھا، گلالئی پر تو باقاعدہ حویلی کی خونخوار اور جلاد ملازماوں نے لاٹھیوں سے تشدد کیا تھا جو اشنال کے ساتھ منہ کالا کرنے کے جرم میں ساتھی ثابت ہوئی تھی۔

"یہ تو خان زادی ہیں تبھی انہیں انکے شایان شان سزا دی جائے گی، پہلے تو بگھت مر جانی گلالئی، کیڑے پڑیں تجھے۔ تجھ پر فرض تھا اس علیم موے اور اسکے بیچ کا تعلق ، اپنا فرض سمجھ کر سبکو بتاتی۔ تیری کھال ادھیر دوں گی بد ذات"

وہ وحشی سیاہ کپڑوں میں ملبوس دندہ صفت دو فردوسیہ اور زینیہ نامی عورتیں، بے دردی سے اشنال کے سامنے گلالئی کو پیٹتی رہیں مگر اشنال زندہ لاش بنی یہ سب آنسو ہوتی آنکھوں سے تکنے پر مجبور تھی کیونکہ گلالئی نے اسے اپنی قسم دی تھی کہ بھلے یہ لوگ اسے مار بھی دیں تب بھی وہ اپنا منہ نہیں کھولے گی۔

"بس کردو، تم سب کو ترس نہیں آتا اس معصوم جان پر۔ جو کہنا ہے مجھے کہو ، چھوڑ دو گلالئی کو"

لیکن دو دن کے اس طویل تشدد کے بعد جب خود اشنال کچھ ہوش میں آئی تو جیسے جن زادی کی طرح ان وحشی عورتوں کو کاٹ کھانے لپکی، سبکو گلالئی سے پرے دھکے دیتی وہ اس جان سے پیاری سہیلی کی ڈھال بنی تو وہ دونوں بھدی شکلوں والی عورتیں نجس قہقے لگاتی ہنس پڑیں۔

جبکہ انکی ہنستی ، گندی شکلوں پر اشنال کو مزید نفرت محسوس ہوئی کہ دل تک اوب گیا، وہ اس وقت رو بھی نہیں سکتی تھی، نہ چینخ کر کسی سے فریاد کر سکتی تھی۔

"تجھے بھی کہیں گے خان زادی، بس زرا پنچائیت کا فیصلہ آ لے۔ سنا ہے وہ شہیر نامی بندہ تجھے ونی مانگ رہا ہے، ابے دونوں بھائیوں کی نظر تھی کیا تجھ پر دلربا، حسن ہی تیرا ایسا قاتلانہ ہے تو وہ دو بھی کیا کرتے۔ کچھ ہی دیر میں تیری اوقات طے ہو جائے گی پھر تیرا یہ ارمان بھی پورا کر دیں گے پیاری"

وہ عورتیں نہیں، جذبوں کی سوداگر تھیں جنکی ایسی واہیات سوچ، اشنال کی آنکھوں میں جلن بھر گئی پھر شہیر کا نام سنتے ہی اشنال عزیز کے تن بدن میں گویا آگ بھڑک اٹھی تھی۔

سارا کھیل لمحوں میں اسے سمجھ آیا۔

وہ آہیں اور کرلاہٹیں گھوٹتی گلالئی کو خود میں سموئے، حقارت سے ان دو عورتوں پر غرائی تو وہ اس کا بھرم تکتی استہزایہ سا ہنسے کچھ دیر کو تہہ خانے سے باہر نکل گئیں ۔

"خ۔۔خانم! ب۔۔بہت۔۔د۔۔درد ہو ۔۔رہا ہے"

گلالئی کا سر اشنال کی گود میں تھا اور وہ اس قدر اذیت میں تھی کہ جسم میں اٹھتی تکلیف پر سسک پڑی۔

"بس میری جان، گلالئی صبر رکھو میری پیاری سہیلی۔ تمہیں کچھ نہیں ہونے دے گی تمہاری خانم۔ ایک بار میثم کو اس سب کی خبر ہو لینے دو، وہ ان سب کے زندہ کلیجے چپا جائے گا۔ اس سب کے پیچھے شہیر ہے گلالئی، تم جانتی ہو ناں شہیر ، میثم کے دشمنوں میں ایک ہے"

گویا امید سی اشنال کے اندر ڈوبتی زندگی بحال کر گئی تھی ، مگر گلالئی پر ہوا تشدد اس نازک سی بے جان لڑکی کی جان ختم کرتا جا رہا تھا اور یہ دیکھنا اشنال کے لیے کرب کا مقام تھا۔

مگر اسکی تمام تر ہمت آج ختم کر دی گئی تھی۔

دروازہ دھمک اور غراتی ہوئی دھاڑ سے کھلا تو وہی دو جلادن عورتیں اس بار دو خان زادیوں کے ہمراہ اندر آئیں جن میں ایک عورت کے چہرے پر حقارت جبکہ دوسری کے چہرے پر اذیت تھی۔

خدیجہ خانم، جو کہ اس بدنصیب جنم جلی ونی ہو جاتی اشنال کی ماں تھی، کرب و اذیت سے اسکا دل پھٹا جا رہا تھا، دوسری حقارت کے رنگ سجا کر اپنے بیٹے پر موت کی طرح گرتی اشنال کو تکتی فرخانہ خانم جسکا بس نہ چلا وہ اشنال عزیز کو زندہ اسی جگہ گاڑ دیتی۔

اشنال نے اک کرب بھری، منت بھری نظر اپنی ماں پر ڈالی جو صدا کی مجبور اور بے بس عورت صرف اپنے آنسو ہی پی پائی البتہ فرخانہ خانم نے ان دو عورتوں کو نفرت بھری نگاہوں سے اشارہ کیا جو پھر سے سسکتی ہوئی گلالئی کی ڈھال بنتی اشنال کی جانب بڑھیں۔

گلالئی کو گھسیٹ کر پرے کرتے ہی اشنال کو جکڑ کر اٹھاتیں کھڑا کیے وہ اسے فرخانہ، اس حویلی کی بڑی بہو کے روبرو کھڑا کر چکی تھیں۔

"تیرے جیسے گند کی یہی اوقات تھی کہ تو شہیر جیسے کسی منحوس کے متھے لگتی اشنال، گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے تجھے زرا خیال نہ آیا کہ تو سردار خاقان کی پوتی اور سردار عزیز خاقان کی بیٹی ہے، عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو اپنے ساتھ اپنے خاندان کی عزت بھی لے جاتی ہے۔

تو اس حویلی کی بیٹی ہے صرف اس لیے تجھے زندہ زمین میں گاڑنے کا ظلم نہ ہو سکا ہم سے، گل خانم خزیں تو تیری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتیں۔ یہ تیری ماں بھی تیرے کرتوتوں پر بے بس ہو چکی ہے، آج شام پورے علاقے کے سامنے تیرا شہیر سے ونی نکاح ہوگا اور تو ہمیشہ کے لیے یہاں سے دفع ہو جائے گی۔ یہ مت سمجھنا کہ ونی ہو کر تو ہمارے مشارب زمان کی جان بچا کر کوئی احسان کر رہی ہے، بلکہ تو زندہ ہے یہ صرف اسکی وجہ سے۔ لے جاو اسے اور نکاح کے لیے تیار کرو۔ اور اسکی گلالئی کو یہیں مرنے سڑنے دو"

فرعونیت بھرا لہجہ ہو کر بھی اس عورت کے الفاظ میں اذیت اور تکلیف تھی اور حالات ہی ایسے تھے کہ خود خدیجہ خانم بے بسی اور اذیت سے اشنال پر سے نظریں ہٹا چکی تھیں، وہ تو بس قربان کر دی گئی تھی۔

بنا تحقیق کیے اسے پائمال کیا جا رہا تھا پھر جیسے گلالئی کے لیے اک آخری التجاء کیے وہ ہاتھ باندھ کر فرخانہ کے روبرو رو دی۔

"مجھے تو آپ سب نے زندہ درگور کر ہی دیا ہے مگر منت کرتی ہوں کہ میری گلالئی کی جان بخش دیں، اللہ کا واسطہ ہے اتنا ظلم مت کریں اس پر"

اس لڑکی کے خود کے لیے کوئی رحم نہ مانگنے پر وہ دونوں عورتیں اذیت سے بھریں پھر جیسے فرخانہ نے زمین پر سسکتی، چینخیں دبا دبا کر روتی گلالئی کو دیکھا اور دونوں جلاد ملازماوں میں سے ایک کو، اسے بنا کوئی آنچ پہنچائے طبیبہ کے پاس لے جانے کا حکم دیا۔

"تم اپنے کرتوتوں کے باعث ہوئی ہو زندہ درگور، یہاں سے دفعان ہونے کے بعد اگر تم نے گلالئی سے ملنے کی یا اسکے ذریعے حویلی کے حالات جاننے کی کوشش کی تو اسی دن کو گلالئی کا آخری دن بنا دوں گی۔ نکاح کی چیزیں یہیں لے آو فردوسیہ! اسکا کفن پہنا دو اسے اور تم خدیجہ خانم! آخری بار اپنی کوکھ سے جنی اس بیٹی سے مل سکتی ہو، اگر دوبارہ میں نے کبھی اس گندی اولاد کے لیے تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھے ناں تو بھول جاوں گی کہ تم سے جٹھانی کے علاوہ بہن کا بھی رشتہ ہے میرا"

فرخانہ ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے دھاڑ رہی تھیں اور اپنی سیاہ چادر جو انہوں نے اپنے گرد اوڑھ رکھی تھی ، جو شانوں سے ڈھلک گئی تھی، لہرا کر خود پر اوڑھتیں وہ اک خون آشام نظر اپنے پہلو میں کھڑی مجبور اور رندھے چہرے والی خدیجہ پر ڈالتے، اس دوسری جلادن کے ساتھ ہی اس تہہ خانے کے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

جبکہ پیچھے صرف تکلیف رہ گئی۔

وہ بلبلاتی ہوئی ماں کے پاس آنا چاہتی تھی مگر خدیجہ نے ہاتھ اٹھائے گریز کا اشارہ کیے، اشنال کی تکلیف کو مزید بڑھا دیا تھا۔

"ا۔۔۔اماں"

وہ ماں کی اور لپکی سسکی تو خدیجہ خانم کی آنکھوں میں بھی سرخائی گھلی۔

"مر گئی ہیں آپ کی اماں اشنال، مار دیا ہے آپ نے ہمیں۔ کتنا مان تھا ہمیں آپ پر، سگی نہ ہو کر بھی ہم نے آپ کو اپنے جگر کا گوشہ بنائے رکھا۔ اس دن کے لیے کہ آپ ہمارے اور اپنے بابا کے سر میں خاک ڈال دیتیں، کتنے ارمانوں کے ساتھ ہم دونوں نے ساری دنیا سے چھپا کر آپکو آپکی محبت، میثم کے سپرد کیا تھا، ان گندی خونخوار روایات کو جانتے بوجھتے بھی آپ سے اپنی خفاظت تک نہ ہو سکی۔ وہ مر جائے گا، آپ تو مار دی گئی ہیں مگر وہ مر جائے گا اشنال"

ان کرلاتی نگاہوں نے جہاں اشنال کی سانس جکڑی وہیں وہ یہ باتیں مجبورا سرگوشیوں میں کیے روتی سسکتیں ہوئیں اشنال کو پکڑے جنجھوڑ گئیں جو پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

"م۔۔مجھے حویلی سے بھگا د۔۔یں اماں سائیں، میں میثم کے ن۔۔نکاح میں ہوں۔۔۔۔ آپ اور بابا س۔۔سائیں مجھے جانتے بوجھتے اس گڑھے میں کیسے دھکیل سکتے ہیں۔ میں بے ق۔۔قصور ہوں اماں"

وہ بھی جیسے ایک آخری التجاء کیے تڑپی مگر خدیجہ نے سخت سرخ ہوتی نگاہ اشنال پر ڈالی اور اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھا۔

"خبردار اگر آپ نے یہ سچ منہ سے نکالا، اپنے بابا کی رہی سہی موت چاہتی ہیں تو بے شک بتا دیں سبکو۔ لیکن ایک بات اپنے ذہن میں بٹھا لیں اشنال کہ آپکو واقعی زندہ دفن ہونا پڑے گا، ہماری محبت کو ہمارے لیے ہی ناسور مت بنائیے گا۔ اگر یہ سچائی سامنے آئی تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ وہ قتل و غارت جو وقتی تھما ہے، اس سچ پر پھر سے شروع ہو جائے گا اور آپکے دادا سائیں اپنی بندوق کی پہلی گولی ضرار اور عزیز خان کے سینے میں اتاریں گے۔ ہمارا کیا، ہم تو آپکی زندہ درگوری پر ہی مر گئے ہیں۔ یہ نکاح نہیں ہوگا سو ابھی جو ہو رہا ہے اسے ہونے دیجئے گا، بعد میں اگر آپکی اس ماں کے اندر ہمت آئی تو ہم کوشش کریں گے آپکو شہیر جیسے درندے سے بچانے کی"

وہ جو سگی ماں نہ ہو کر بھی اشنال کا بچاو کر رہی تھیں، خود آخری جملوں پر تڑپ کر نزدیک آئے، اشنال کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے رو دیں اور وہ ! اسکی تو اس گریہ و زاری سے ہچکی بندھ گئی۔

بے اختیار وہ خدیجہ کے سینے سے جا لگی، اسکا پورا وجود رونے سے لرز رہا تھا۔

"و۔۔وہ شہیر درندہ ہے اماں، وہ ضرار سے اشنال چھین لے گا۔ مجھے بچا لینا اماں، جس دن ضرار کی امانت کو کسی نے چھونے کی بھی کوشش کی اسی دن زہر کھا لوں گی۔ اور وہ ! وہ آگ لگا دے گا پوری دنیا کو"

ملال کسی صورت کم نہ ہوا تو وہ پھر سے اذیت سے رونے لگی، جبکہ دروازے پر ہوتی دستک پر وہ حقارتی تاثرات والی قدوسیہ بڑا سا سنہری تھال لیے اندر وارد ہوئی تو دونوں ماں بیٹیوں کے راز و نیاز پر مشکوک سی قریب جا کر کھڑی ہوئی۔

خدیجہ نے آنکھوں ہی آنکھوں سے اشنال کو اک آخری ہمت بھری نظر اٹھائے دیکھا اور اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئیں باہر نکل گئیں۔

البتہ اس منحوس شکل والی قدوسیہ کو دیکھ کر اشنال نے بھی گہرا سانس کھینچتے ہوئے اس سے وہ ڈھانپا ہوا تھال نہ صرف جھپٹ لیا بلکہ یہاں سے دفع ہونے کا اشارہ کیا جس پر وہ پیڑ پٹختی، دندناتی ہوئی تہہ خانے سے باہر نکل گئی۔

اسکے جاتے ہی اشنال کی آنکھوں سے نمی بہہ کر گرم رخساروں پر اتری تو ہاتھوں سے پھسل کر وہ تھال زمین پر گر گیا اور اس میں رکھے سفید ہلکے پھلکے کام والے زرنگاری نکاح کے جوڑے اور چند زیورات کو دیکھتی اشنال وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر ڈھے گئی۔

وہ تو صرف میثم ضرار چوہدری کی ہے پھر کیسے کسی اور کے لیے سجے، یہ سوچ ہی اسکی روح نوچ رہی تھی اور سانسیں سسکیوں کی صورت میثم کا نام لیتی ہوئیں اس مجبور خان زادی کے ہونٹوں سے خارج ہوئے ماحول سوگوار کر رہی تھیں۔

                           ..____________________..

وہ اپنے دھیان میں کچی زمین کو، مسلسل مٹی نرم کیے گڑھا کھودنے میں مصروف تھا، چہرے اور ماتھے پر اس معتدل موسم کے باوجود پسینے کی ننھی منھی بوندیں، اسکے طویل تر محنت کرنے کی ترجمان چہرے پر ابھرتیں اور پھر اسکے محنت کش وجود میں گم ہو جاتیں۔

دور آسمان کی جانب چمکتا حدت زدہ سورج اب نارنجی رنگ میں تبدیل ہو رہا تھا اور آہستہ آہستہ دھوپ میں موجود تپش اور تیزی زائل ہو رہی تھی۔

پھر اچانک تیزی سے آسمان پر مغرب کی جانب سے سیاہ بادل آنے لگے، اور دیکھتے ہی دیکھتے تاحد نگاہ موجود کچی زمین پر ان ابر آلود بادلوں نے سایہ کر دیا۔

"زندگی بھی اس منافق موسم جیسی ہے، کب جلائے اور کب جلے پر مرہم رکھ دے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ جب بھی اپنے کسی دشمن کے لیے قبر کھودتا ہوں، اس آسمان کو بھی برسنا یاد آجاتا ہے مجھے میری اوقات یاد دلانا کہ نہیں ابھی تو قاتل بننے کے لائق نہیں ہوا میثم"

کرخت لہجے میں خود کلامی کرتا جبڑے بھینچتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں پکڑا وہ کھدائی کرتا آلہ بری طرح کئی قدم کے فاصلے پر پھینکتا وہ اک سرسری سی نگاہ سبزے سے بھری زمین پر کچھ انچ کے فاصلے پر چرتے ہوئے اپنے گھوڑے کو تکتا پیچھے کو مڑا تو وہ سیاہ آنکھیں جنکی سفیدی سرخ رنگ چھلکانے لگی تھی،  سامنے بگھدڑ مچا کر اسکی جانب آتے کسی آشنا پر جا مرکوز ہوئی۔

وہی مغرور شخص، مگر آج وہ جاذبیت اوڑھ کر مسکراتے ہونٹ ، بھینچے تھے، بھاگ کر اپنی جانب آتے اس خبر رساں کو دیکھ کر میثم ضرار چوہدری کی آنکھوں میں بھی زہریلا پن عود آیا تھا۔

اونچے نیچے پہاڑی راستے پر یکدم ڈھلتی ابر آلود سایہ کرتی دوپہر میں لگ بھگ چالیس سال کے آس پاس کا وہ سادہ لوح آدمی ، سفید شلوار قمیص کے سنگ کندھے پر روائیتی حجاب بے ترتیب انداز سے ڈالے، پشاوری چپل پیروں میں گھسیٹے سر پٹ دوڑتا ہوا میثم کی طرف آ رہا تھا،  اسکا انداز بے تاب و پریشان تھا۔

اگلے چند مزید لمحوں بعد وہ آخر کار  تمام فاصلہ عبور کرتا ہی آنکھوں کی سیدھ میں 'سبون' نامی سیاہ گھوڑے کی پشت سہلاتے اس دھانسو، سپید چہرے والے تک پہنچا جو کمال بے مروتی سے اپنی توجہ پہلے ہی ہٹا چکا تھا ، پھر اپنے پیچھے دھول اڑاتے قدموں کی دمک سنے اچنبھے سے گردن اکڑائی اور سر تا پا بغور اس ہانپ اٹھتے آدمی پر نگاہ ڈالی۔

لوگ کہتے تھے اسکی یہ نظر قہر تھی، تباہ کر دینے والی۔

وہ اس علاقے کا جانا مانا زمین دار تھا، جسے بنا کسی قسم کی سرداری کے ہی اس پورے علاقے کی حاکمیت میسر تھی مگر پھر بھی اپنی منصوعی عاجزی کے باعث اسے ایک عام انسان کی طرح اس علاقے میں رہنے کی عادت تھی، وہ اکثر و بیشتر ڈیرے پر رہتا، اسطبل میں سو جاتا، زندگی کے بہت سے رنگ بنا دیکھے ہی اسے بیزار کر چکے تھے۔

"خیر ہے جبل زاد، کسی نے بندوق میں ڈال کر تجھے فائر کیا ہے؟ کیا قیامت آگئی ہے بول"

ماتھے پر ناگواری کے سنگ چند بل ڈالتا وہ سبون سے نظر ہٹائے قدرے ترش لہجے میں اس کے نزدیک آتے بولا جس پر جبل زاد اپنے قدموں کی مٹی چھوڑتا ہوا خوفزدہ نگاہوں سے سامنے کھڑے انسان کے روح جسم سے کھینچ لیتے سرد تاثرات پر اپنی پھول جاتی سانس تیزی سے خارج کرنے لگا۔

"سائیں! س۔۔۔سائیں خانم، شہیر مجبتبی کے گھر ونی ہو گئیں "

جبل زاد کی کانپتی آواز، اسے گہری قبر سے ابھرتی سنائی دی تھی، اصل قیامت تو اب آئی تھی۔

کیا بکواس کر رہا ہے تُو جبل زاد؟"

اپنے نرم لہجے کو بھاڑ میں جھونکتا وہ پھنکارتی آواز کے سنگ دھاڑتا ہوا جبل زاد کا گریبان جکڑے قریب آیا، اسکے چہرے پر اس سوال کو کرتے ایسی وہشت تھی کہ جبل زاد کا دل اسکے سینے میں ہی پھڑپھڑا اٹھا۔

"س۔۔سائیں سچ ہے، ابھی خبر آئی ہے۔ آج شام ساری پنچائیت کے سامنے خانم ، اس شہیر مجتبی کے گھر ونی کر دی جائیں گی۔ اس روز۔۔۔۔"

حلق تر کرتا جبل زاد، آج اس کے ہاتھوں مر بھی جاتا تو اسے پرواہ نہ تھی، وہ سسکتی ، ڈوبتی آواز جان بوجھ کر روکتا ہوا آخری جملہ ادھورا چھوڑ چکا تھا کیونکہ ضرار میثم چوہدری کی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا۔

یکدم تیز آندھی چلنے لگی تھی، سیاہ ہیبت ناک تاریکی دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر پھیلی اور وہ خود کو اس بھری دنیا کا واحد بے بس سمجھتا ہوا لڑکھڑاتا ہوا جبل زاد کے گریبان کو چھوڑتا دور ہٹا۔

"اس روز شہیر نے جال بچھا رکھا تھا سائیں، گندی چال چلی اس نے خانم اور اس موئے علیم کا نام جوڑ کر، مشارب زمان نے اسکے چھوٹے بھائی کو عزت کے نام پر بنا کچھ سوچے پوری چھ گولیاں مارے قتل کر دیا اور شہیر نے بھری پنچائیت میں اپنے بھائی کے خون کا بدلا، خانم کے ونی ہونے کی صورت مانگا اور خانوں نے بنا سوچے سمجھے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے"

جبل زاد کی بھیگی ، رندھی آواز یوں تھی جیسے وہ پگھلا سیسہ ہو اور میثم کے کانوں میں ڈالا جا رہا ہو، ناجانے وہ کس قدر ضبط کر رہا تھا کہ اسکا چہرہ دیکھتے ہی دیکھتے بھیانک حد تک سرخ ہو گیا۔

"بس جبل زاد بس! "

اس سے مزید یہ اذیت ناک سچائی برداشت نہ ہوئی۔

"ان خانوں کی تو غیرت ہی مر گئی ہے ، لیکن غضب تو مجھے عزیز خان پر آرہا ہے، یہ فیصلہ مانتے ہوئے مرا کیوں نہیں، بد ذات کہیں کا۔ فورا حویلی پہنچ اور گاڑی نکال، ابھی چلنا ہے۔

ان خانوں کو غیرت دلانے کا وقت ہوا چاہتا ہے"

اپنے دل اور جسم میں بھڑکتے ہوئے شعلوں پر قابو پاتا وہ غائبانہ حقارت اور نفرت کے سنگ زہر میں بجھے لفظ اگلتا ہوا جبل زاد کی جانب مڑا اور اسے حکم سونپتے ہی حویلی روانہ ہونے کا کہا مگر جبل زاد تاسف کے سنگ کچھ کہنے کا طلب گار تھا۔

"سائیں! شہیر کا کیا کرنا ہے"

جبل زاد کی آواز یہ سوال کرتے حلق میں ہی دھسنی ہوئی تھی اور میثم، بڑی دقت سے اپنا اشتعال دبائے ہوئے تھا۔

"اس کو اپنے طریقے سے زندہ آگ لگاوں گا جبل زاد! تاکہ وہ سوتے ہوئے بھی میرے ہولناک غضب کو یاد کیے ڈر کر اٹھ جایا کرے۔ فی الحال صنم کے علاوہ کچھ پلے نہیں پڑ رہا اس لیے دوڑ حویلی شاباش"

اسکے تپتے، سلگتے الفاظ سن کر وہ فرمابرداری سے حویلی کی اور دوڑا جبکہ خود، تیز ہوا کے سخت جھونکوں سے اپنے بکھرے بالوں میں اضطرابی انداز سے انگلیاں پھیرتا وہ خود کی جانب متوجہ گھوڑے کی اور لپکا۔

"اک عمر بیت گئی جلتے جلتے، راکھ تُو اب بھی نہیں ہوا میثم!

چل تیرے راکھ ہونے کی گھڑی بھی آ ہی گئی، آپ پر میثم کی اک اک سانس قربان ہے صنم، آرہا ہوں میں"

ہلکی ہلکی تپش اگلتی بوندیں جب اس جلتے وجود پر برسیں تو وہ اپنے زہر کا خود ہی تریاق بنانے کے ارادے بناتا لمحہ لگائے سبون نامی اس خوبصورت سیاہ چمکدار گھوڑے پر سوار ہوا۔

دیکھتے ہی دیکھتے میثم ضرار چوہدری، اس سر پٹ بھاگتے دوڑتے گھوڑے کی پشت پر سوار سا، اس طوفانی دوپہر میں گم ہو گیا۔

"نہ مجھ سے پوچھو لذت، خانمان برباد(اجڑا ہوا) رہنے کی

نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

نہیں بیگانگی اچھی، رفیقِ راہِ منزل سے

ٹھہر جا اے شرر! ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں"

                                ..____________________..

مسلسل دو دن کی بھوک پیاس کے باعث اشنال کی حالت ناساز ہو رہی تھی، اس نے خود ہی ہر شے خود پر حرام کر لی تھی۔

آنکھیں درد سے ابل رہیں تھیں تو جسم یوں تھا جیسے من چاہا نشہ کسی نے ہاتھوں سے تاحیات کے لیے نوچا جا چکا ہو اور اس اذیت کو مسلسل کر دیا گیا ہو۔

وہ بے بسی سے آنکھیں موند گئی۔

وہ پاس نہیں تھا مگر پھر بھی اشنال کے آنکھیں بند کرتے ہی حواسوں میں اتر آیا، لگ بھگ ڈھائی سال پہلے کی بات تھی جب عزیز خان کو اس عزیز جان کی آخری وصیت ملی تھی، وہ وصیت جسے اس شخص نے پہروں آنکھوں سے لگائے آنسو بہائے تھے۔

اس وصیت کے مطابق اس نے اشنال کو میثم کے سپرد کرنے کا فیصلہ لیا، چونکہ یہ فیصلہ کسی کی نظروں میں لانے کا مطلب دونوں خاندانوں کے بیچ خون کی ہولی کھیلنے کے جیسا تھا تبھی اس چھپے فیصلے کی خبر چند افراد کو کی گئی۔

جن میں چوہدری عالم بزدار، عزیز خان، انکی پہلی بیوی خدیجہ خانم، زونین اور میثم کا خاص ساتھی جبل زاد جبکہ اشنال کی سہیلی گلالئی شامل تھے۔

اس روز بھی انتہا کا خوبصورت موسم تھا، سردیوں کی شدت بھری رات تھی جب 'بزدار حویلی' کے صرف ایک کمرے کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔

ان دو کا نکاح خود عالم بزدار نے پڑھوایا تھا، اور نکاح کے بعد ان دونوں کو صرف ایک نصیحت کی تھی۔

"تم دو کا یہ نکاح ، ان دو خاندانوں کی جدی پشتی دشمنی کا خاتمہ بننا چاہیے، وہ سچائی جو اب تک دونوں خاندانوں کے کئی لوگوں سے چھپی ہے، اس طرح سامنے مت لانا کہ قیامت برپا ہو جائے۔ اور سب سے اہم بات، روایات کی سختی اٹل ہے سو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا۔ تم دونوں کی زندگی اس فیصلے کے بعد خطرے میں جا چکی ہے، تم اپنی خفاظت کرنا اشنال اور تم میثم، اپنے ساتھ اس لڑکی کی بھی جو اب آخری سانس تک تمہارے نام لگ گئی ہے"

چوہدری عالم بزدار کی نصیحت پر اس خوبرو ، روح اور جسم کے ہر احساس جگا دیتے شخص نے رخ گمائے اک بے خود نگاہ، نکاح کے سفید زرنگاری جوڑے میں دمکتی ، دھڑکتی اشنال پر ڈالی جو اس قدر بے باک تھی کہ وہ سب کے بیچ ہو کر بھی اس شخص کی شدتوں پر کانپ اٹھی البتہ باقی تمام شریک راز داروں نے دونوں کو گلے لگائے مبارک دی۔

تب وہ اسکے جانے سے پہلے دادا جان کے خضور کتنی دیر تک ضد لگائے بیٹھا رہا کہ اسے صرف دس منٹ اشنال سے ملنے کی اجازت سونپی جائے، تب گلالئی، زونین اور اشنال ، چھپ کر دروازے کی اوٹ سے اس بے تاب روپ بدل لیتے میثم کو دیکھے شرمیلی شرمیلی شرارت پر اتری تھیں، ان دونوں نے مل کر اشنال عزیز کی دھڑکنیں سست کیں اور پھر جب عالم بزدار نے اپنے اصولوں کو اپنے عزیز جان پوتے کے لیے اک طرف رکھے، عزیز خان اور خدیجہ خانم تک اپنے پوتے کی خواہش پہنچائی تو وہ بخوشی مان گئے۔

میثم کو ہمیشہ سے اشنال کے ساتھ سایہ بن کر رہتی لڑکیاں زہر لگتی تھیں، زونین کو تو وہ پہلے ہی سوتیلی اور ناپسند بہن مے باعث جھڑکتا رہتا جبکہ اس روز پہلی بار بچاری گلالئی کو اس بندے نے ڈانٹا۔

کیونکہ وہ شرارت پر اتری، اشنال کو میثم کے پاس اکیلا چھوڑ نہیں رہی تھی۔

اور یوں گلالئی کافی اداس ہو کر سیڑھیاں پھلانگے نیچے گئی تو اشنال نے اک نظر روٹھ کر بھاگتے ہوئے نیچے جاتی اپنی پیاری سہیلی کو دیکھا اور پھر آو دیکھا نہ تاو، اپنی نازکی کی پرواہ کیے بنا وہ سامنے کھڑے، سانسیں ، وجود کے اندر ہی دفن کرتے تیوروں والے میثم کے روبرو آنکھیں نکالتی بگھڑی۔

"زرا سا حق مل گیا ہے تو یہ مت سمجھنا کہ تم ان کو دکھ پہنچانے لگو جنکا مجھ پر اولین حق ہے"

وہ اسکی شدت بھرے تقاضوں سے اٹی خطرناک سیاہ آنکھوں میں بے باکی سے اپنی آنکھیں ڈالے یہ تک بھول گئی کہ وہ اسکے اس قدر نزدیک آگئی ہے کہ وہ اب پورے حق سے سارے پچھلے بدلے چکا سکتا ہے۔

"اب آپ پر اولین حق صرف میثم ضرار چوہدری کا ہے صنم! دیکھاوں"

وہ جو اس پر گلالئی کے باعث غصہ تھی، اس بندے کے عاجزی و استحقاق سے حصار لینے پر اپنا چلتا دل بند، اور رواں سانس، سینے میں گھٹتا ہوا محسوس کرنے لگی۔

جیسے ہی وہ اپنے مسکراتے ہونٹوں کو اشنال کی سرخ رنگ اوڑھتی گال تک لایا، وہ یکدم حاوی ہوتے اس شخص سے سہم کر پرے سرکی مگر وہ اسے کوئی مہلت دیے بنا ایک ہی جھٹکے سے اپنے سینے میں اس طرح بسا گیا کہ وہ جو مزاحمت کے لیے بے قرار تھی، اپنے دل سے جڑھ کر دھڑکتے اس ظالم کے دل کی آواز کے آگے ہر شے بھول گئی۔

وہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے میثم کے الٹی طرف نسب دل کو حیرت، خوشی، حیا اور ہلکی پھلکی اداسی کے سنگ دریافت کیا۔

"ا۔۔الٹا دل، تبھی میں کہوں اتنی الٹی کھوپڑی کیوں ہے تمہاری"

وہ اسکا ظالمانہ تشدد بھولے، اسکے حصار میں دھڑکتی،اس خوبصورت انکشاف پر ہنس پڑی اور وہ جو کب سے اسکی مسکراہٹ کے عیاں نہ ہونے کی دعا میں تھا، لمحے میں تسخیر ہو گیا۔

اسکا دل چاہا وہ اشنال کی سانسوں کی خوشبو محسوس کرے اور اس لذت کو دریافت کرے کہ محبوب عورت کا لمس کس قدر جان لیوا ہوتا ہے ۔

"آپ ہمیں سیدھا کر دیں اشنال"

حصار بڑھاتا وہ اپنی بے قرار آنکھیں، ان سجے نقوش پر دوڑاتا جو جذب سے بھری سرگوسی کیے بولا اس پر اشنال کے ہونٹ پھر مسکرا کر گستاخ ہو گئے۔

اور اپنے مسکرانے پر اس شخص کی وارفتہ نگاہ، اشنال کے اندر تک خوف اتار گئی۔

"تب کروں گی جب سکون دو گے مجھے، وہ خوبصورت دن جب پوری دنیا کے سامنے میں تمہارا ہاتھ تھام کر مسیز میثم ضرار چوہدری کہلاوں گی۔ تب تک دور رہ لو گے؟"

وہ بچپن کی چاہت تھی اسکی، اتنا وقت دور رہا تھا اور یہ ظالم مزید دوری کا سوال جس عاجزی سے کر رہی تھی، وہ خاموش آنکھیں اختجاج کرتیں بہت پیاری لگیں۔

"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب بھی میرے جذبوں کا سمندر دیکھنے کو ٹالنے کی کوشش کریں گی صنم تو نقصان ہو جائے گا۔ میں تو آج کے بعد سانس بھی تب لوں گا جب مجھے میسر ہوا میں آپکی سانسوں کی خوشبو محسوس ہوگی"

وہ جو خاصی پرسکون تھی، اس شخص کی بے باک گفتگو پر دہل اٹھی، جی چاہا اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دے اور اس لمحے اس دھڑکتی ہوئی حسینہ نے کیا بھی یہی ، لیکن آنکھوں پر ہاتھ رکھنے سے وہ اسکے جذبات پر کب بند باندھ پائی تھی، وہ اسکے اپنی آنکھوں پر جمے ہاتھ کو جکڑ کر ہٹاتا، لمحوں میں زرا قریب آیا تو اشنال کی جان اسکے وجود سے سرکی۔

"آپ میثم کا عشق ہیں صنم! آپ کے سوا اب دوسرا کوئی سکھ ، دوسری کوئی راحت اور دوسری کوئی عورت مجھ پر حلال نہیں رہیں گے۔ میں کبھی آپ سے اپنی محبت کا روائتی اظہار نہیں کروں گا بلکہ میں آخری سانس تک آپکا محافظ رہوں گا"

اس کی بھاری گھمبیر سرگوشیوں پر اشنال کو لگا اسکا درد گھٹ گیا ہو، وہ لمحہ بھر بھلے نیند کی آغوش میں اتری تھی مگر اسے اپنے ہونٹوں پر کسی کی مسیحائی سانس کا لمس بالکل حقیقی محسوس ہوا، اپنے دہکتے گالوں پر اس شخص کے ہونٹوں کا ٹھنڈا بوسہ جان ڈال گیا، اسکی جلتی آنکھوں پر جب میثم کی شدت بھری مہریں خوابناک سی محسوس ہوئیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔

وہ یہاں کہیں نہیں تھا تو جیسے سارا سکون لمحوں میں رخصت ہو گیا۔

"کہا ہے ناں فردوسیہ! دفع ہو جاو یہاں سے۔ اگر اب بھی تم نہ گئی تو دادا سائیں کو شکائیت کر دوں گی"

تہہ خانے کے ایک سیاہ کونے میں دبک کر آنسو بہاتی اشنال کے لیے مدافعتی انداز اپنا کر اس نجس جلادن پر غراتی لڑکی ماڈرن سی وضع رکھتی، نین نقش تیکھے تھے مگر خوبصورتی میں وہ ان خانوں کی اولادوں سے کم نہ تھی بلکہ وہ سردار شمشیر یوسف زئی کی لاڈلی پوتی وریشہ یوسف زئی تھی جسکے دل میں یہ فیصلہ سن کر ویسی ہی آگ بھڑکی تھی جیسی باقی سب کے دلوں میں۔

"گندی عورت"

فردوسیہ کو منہ ہی منہ میں ناگواری سے بڑبڑاتا اور تہہ خانے سے باہر جاتا دیکھ کر وریشہ نے قدرے غصے سے اسے لقب نوازا اور مڑ کر لپکتی ہوئی اشنال کے پاس آکر بیٹھی جو رو رو کر نڈھال ہو چکی تھی، اسکی آنکھیں اذیت سے سوجھ چکی تھیں۔

"اشنال! میری جان۔ ادھر دیکھو میری طرف"

زرا ہمت کیے وریشہ نے اپنے نرم ہاتھوں میں اسکا سوگوار چہرہ لینا چاہا ہی تھا کہ وہ بے دردی سے اسکے ہاتھ جھٹک گئی۔

"نہیں دیکھنا مجھے کسی کی طرف، خدا کا واسطہ ہے یہاں سے چلی جاو وری، ابھی میں کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی"

اذیت اور تکلیف سے وہ پھٹی تو وریشہ نے بھی مایوس کن سی نگاہ اسکے سوگوار وجود پر ڈالی جو نکاح کا وہ زرنگاری سفید جوڑا تو پہن چکی تھی مگر بکھرے بال اور آنسووں سے رندھے چہرے پر وہ کچھ لگانے نہیں دے رہی تھی نہ جوڑے کا بھاری دوپٹہ اوڑھنے کی اجازت سونپ رہی تھی۔

زیوارت تو اس نے پہلے ہی اپنا طوق جانتے ہوئے بری طرح دور پٹخ دیے تھے۔

"خود کو مزید اذیت کیوں دے رہی ہو اشنال، جب پتا ہے روایات اور سرداروں کے فیصلے نہیں بدلیں گے تو یہ سوگ چھوڑ دو۔ فرخانہ خانم نے مجھے سختی سے کہا ہے کہ تمہیں تھوڑا تیار کر دوں۔ نکاح خواں آتے ہوں گے۔ تمہیں یوں اجڑا ہوا دیکھ کر میرا دل جل رہا ہے"

لہجے میں تیرگی لیے وہ اسکے چہرے پر پھیلتے آنسو جذب کرتے قدرے افسردہ تھی، وہ ہمدرد بنی چلی آئی تھی مگر اشنال ہمدرد کے روپ میں صرف میثم کو جانتی تھی۔

اسکے علاوہ ہر شخص اسکا مجرم تھا۔

"اور میں تو پوری جل گئی وری، آگ لگ گئی مجھے۔ مت کرو میری ہمدردی اور فکر۔ زندہ درگور کی گئی ہوں یہ بات نکاح خواں بھی جانتے ہوں گے۔ یہ کفن پہن لیا ہے، یہی کافی ہے۔ اپنی خانم کو جا کر کہہ دو کہ مردہ تیار ہے، جوش و خروش سے آکر اسے دفنا دیں اور فاتخہ بھی پڑھ لیں"

اشنال کے زہر میں بجھے الفاظ پر خود وریشہ کو لگا، اسکا دل کٹ سا گیا ہو۔

تبھی دروازہ کھلنے کی آہٹ پر چند ملازمائیں، اسے باہر لے جانے آچکی تھیں۔

ان سب کو اپنی جانب آتا دیکھ کر اشنال کو لگا، موت اسکے قریب آرہی ہو۔

خود وریشہ بھی اسکا خوبصورت سفید اور سلور دوپٹہ اس کے اجڑے وجود پر زبردستی ڈال کر لپیٹے ، ان ملازماوں کے آگے بڑھتے ہی قطعیت کے سنگ ان پر برہم ہوئی جیسے کہہ رہی ہو کہ خبردار اگر کسی نے اشنال عزیز کو ہاتھ تک لگایا۔

"زنان خانے میں لے کر جانا ہے انھیں وری بی بی، گل خزیں خانم اس سے آخری ملاقات کرنا چاہتی ہیں"

ان دو عورتوں میں سے جب ایک نے یہ الفاظ کہے، وہ اشنال کو نشتروں کی طرح چبھے۔

اسکا کلیجہ چیڑ گئے۔

دادی سائیں آخری امید تھیں اسکی مگر وہ جانتی تھی آج وہ سب کے لیے ایک سی قابل نفرت بن چکی ہے۔

"تم لوگ جاو، میں لے کر آتی ہوں اشنال کو"

ان دونوں کو خفگی اور تیز لہجے کے سنگ واپس باہر روانہ کرتی وریشہ پلٹی تو اشنال کو اس نکاح کے جوڑے میں اجڑ کر بھی سجتا دیکھے اپنی آنکھیں بھرا بیٹھی۔

نہ جانے کس احساس کے تحت وہ اس اجڑی دلہن کے قریب آئی اور روتی ہوئی اشنال سے لپٹ گئی۔

"م۔۔مجھے معاف کر دینا اشنال، میں تمہارے لیے کچھ نہ کر سکی لیکن وعدہ کرتی ہوں اگر اللہ نے مجھے موقع دیا تو میں تم سے زیادتی کرنے والے اس منحوس شہیر کو جان سے ضرور مار ڈالوں گی"

دفتا اپنی سہیلی کو یوں زندہ قبر میں دفن ہوتا دیکھے اسکا ضبط جواب دیا تھا اور وہ وری کی بات پر اذیت سے مسکرا دی۔

یہ فریضہ تو بہت سوں کو نبھانے کی بیقراری تھی۔

ایک اور سہی۔

"وری! مجھے مزید کرب زدہ مت کرو رو کر پیاری بہن، دادی سائیں کے پاس لے چلو۔ کیا پتا انھیں مجھ پر ترس آجائے"

بے بسی اور خود ترسی کا شکار، وہ اس خود سے گلے لگی وریشہ کو خود سے الگ کرتی، کرچیوں میں بٹ جاتی آواز کے سنگ مدھم سا بولی جس پر وریشہ بھی اپنے چہرے پر حدت پہنچاتی نمی، ہتھیلی کی پشت سے ، بے دردی کے سنگ رگڑے، اشنال کا آگ کی طرح تپتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مقید کرتی اس خبس زدہ تاریک تہہ خانے سے باہر نکل گئی۔

                           ..____________________..

یکدم آندھی تیز ہو جانے اور موسلا دھار برستی بارش کے باعث جبل زاد تو گھر پہلے ہی پہنچ گیا البتہ وہ پورا بھیگ گیا، قدرت بھی جانتی تھی گر اسکی آگ مدھم نہ ہوئی وہ تو سب بھسم کر دے گا۔

"بزدار حویلی" اپنی وضع، شان و شوکت میں انتہائی عروج رکھتی تھی، کئی کنال رقبے پر بچھا یہ گھر ، کسی کے لیے مکان، کسی کے لیے سرائے اور کسی کے لیے زندان تھا۔

جنگلی علاقے کے عین وسط میں تعمیر ہوئی بزدار حویلی، جو اس وقت دن کے وقت قہر ناک بارش میں ڈوبی مزید ہیبت ناک لگ رہی تھی، پھر ابتدائی پورچ میں روانگی کے لیے تین سیاہ بڑی گاڑیاں تیار کھڑی تھیں۔

سبون کو اسطبل میں اپنے لوگوں کے سپرد کرتا وہ سر تا پا بھیگ چکا تھا، حویلی کے مرکزی دروازے سے اندر آتے ہی جبل زاد کو بیس منٹ کے انتظار کا اشارہ کیے وہ تیزی سے تاحد نگاہ پھیلی یہ بڑی سی راہداری عبور کرتا اندر چلا گیا جو داخلی دروازے تک پھیلی تھی۔

اسکے قدم تیزی سے راستہ طے کر رہے تھے،اشنال خانم، کے ونی ہو جانے کی خبر اس حویلی تک بھی پہنچ چکی تھی تبھی جیسے ہی میثم اندر داخل ہوا، کوئی دڑا ، سہما سا نسوانی وجود لپک کر اسکی اور بڑھا اور اسکی راہ کی دیوار بن گیا۔

"لالہ سائیں، یہ کیا سن رہے ہیں ہم، کہہ دیں یہ جھوٹ ہے"

نیلے آبگینوں میں دنیا جہاں کا درد سمو لیتی زونین ، جس طرح اس اجڑے شخص کا ہاتھ تھامتے سسکی، وہ چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہ کر پایا۔

"ابھی میری نظروں سے دور ہو جاو زونی کیونکہ تمہیں بھی اس سب میں رگڑ دوں گا۔ اگر کچھ کر سکتی ہو تو اپنے چہیتے مشارب زمان کی زندگی مانگ لو، کیونکہ وہ بھی میرے ہاتھوں سے زیادہ دن تک بچ نہیں سکے گا"

ایک تو وہ پہلے ہی بیزار اور کٹا ہوا تھا پھر جب جب اس لڑکی کو دیکھتا، اسکی آنکھوں میں دنیا جہاں کی نفرت کا ابال سمٹ آتا۔

"اس وقت تو ہم سے نفرت مت جتائیں لالہ، ہم آپ سے زیادہ کرب زدہ ہیں"

وہ جیسے اسکے رویے پر ٹوٹ سی گئی اور وہ بے دردی سے اپنا ہاتھ زونین کے نازک ہاتھ سے چھڑواتا ہوا، غصے اور حقارت سے غرایا۔

"تو پھر دور رہو اپنے کرب سمیت مجھ سے، کسی کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا فی الحال"

وہ اس کانپتی ہوئی ، تیز تیز سانس لیتی لڑکی کو دیکھتا بڑبڑاتا ہوا اسکی نظروں سے اوجھل ہوا تو وہ زونین کو لگا، جسم و جان میں اس دھتکار نے ایسا درد سرائیت کیا ہے جو روح تک کو نوچنے لگا ہو۔

آنکھوں میں کرچیاں سمیٹتی وہ وہاں سے تیزی کے سنگ بھاگی۔

ہاں یہاں میثم سنگدل تھا مگر وہ عورت جو زونین کی سگی جبکہ میثم کی سوتیلی ماں تھی، میثم ضرار چوہدری کا ایک ایسا نقصان کر کے گئی تھی جسکے باعث وہ اسکے لیے واجب القتل ٹھہرا دی گئی، تبھی تو زونین اور اسی عورت کے بیٹے سرمد چوہدری کو دیکھتے ہی میثم کا وہ زخم ہرا ہو جاتا جو اسکے سینے پر دہکتا تھا۔

وہاں سے میثم کا رخ ، چوہدری بزدار عالم کے کمرے کی جانب تھا، جو پہلے ہی جبل زاد سے میثم کی آمد کی خبر پائے، آرام دہ صوفے پر بیٹھے اسکے منتظر تھے۔

دروازہ کھولتا ہوا وہ اندر آیا، اسکو نزدیک بپھری موج بن کر آتا دیکھتے بزدار عالم، جھٹکے سے اپنی آرام دہ کرسی چھوڑ کر اٹھ چکے تھے، انکی آنکھوں میں انتہا کی سرد مہری تھی۔

"چلیں میرے ساتھ اور ان خانوں کو بتائیں ساری سچائی، بتائیں کہ اشنال عزیز میرے نکاح میں ہے۔ آج بھی اگر آپ خون خرابے کا سوچ کر چپ رہ گئے تو میں خود یہ رکا ہوا خون خرابہ واپس شروع کر آوں گا دادا سائیں۔ سن رہے ہیں آپ؟ وہ میری اشنال کو ونی چڑھانے کی جرت بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ "

آنکھوں میں اسکی جنون جبکہ لہجے میں لہو ٹپکا مگر مقابل وہ نفیس خدوخال والے پرکشش سے عالم بزدار گہرا سانس بھرے میثم کی تباہ کاریاں تکتے، تاسف سے بھر گئے۔

"تو پھر مشارب زمان مار دیا جائے گا، تم کیا چاہتے ہو میثم! کہ انکا جوان مرے اور بدلے میں وہ خونخوار خان مجھ سے میرا آخری سہارہ چھین لے جائیں ۔ میں تمہارا دل اجڑنے پر ہرگز خوش نہیں مگر میں تمہیں موت کے منہ میں نہیں دوں گا"

دادا سائیں کے کٹیلے، بے یقین لفظوں نے میثم کو پتھر کر دیا تھا، وہ تکلیف کے دہانے پر کھڑے ، بھینچی ابرو سمیت اسکا دل اجاڑنے کا اشارہ دے رہے تھے اور میثم کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔

"بھاڑ میں گیا میثم اور بھاڑ میں گیا آپکا ہر وارث، اگر اشنال پر آنچ آئی تو جو آگ میثم سب کی زندگیوں کو لگائے گا وہ بجھائے نہ بجھے گی"

بے یقینی اور مقابل کی سفاکی پر وہ بلبلا اٹھا، تکلیف سماعت پر ہتھوڑے برسا رہی تھی اور عالم بزدار مجبور اور بے بس بنے، میثم کو سرد آنکھوں میں سموئے کھڑے تھے۔

"عقل سے کام لو بددماغ، خدا کے لیے مجھے اس بڑھاپے میں اب اور کوئی اذیت بھرا دکھ نہ دے بیٹھنا۔ پہلے ہی تمہارے دادا سائیں کے سینے پر کئی ناگہانی موتوں کے کرب ، ناسور کی طرح گڑھے ہیں اور رستے ہیں۔ کیا کروں گا اگر تمہیں وہ لوگ سچائی جاننے کے بعد قتل کروانے پر تل گئے، جب میرے اختیار میں تھا تو میں نے تمہیں تمہاری سانسیں سونپی تھیں ناں؟ بولو میثم؟"

وہ بے یقین سا دادا کا بچارا، رندھا اور مجبور چہرہ دیکھتا بمشکل سینے سے سانس گھسیٹ کر انکی جانب بڑھتے نزدیک ہوا تو دل چاہا دادا سائیں کو جنجھوڑ ڈالے۔

اور وہ میثم کی نظریں سیدھی اپنے جگر کو کاٹتی ہوئی محسوس کر رہے تھے ۔

"یہ کیسی مہربانی تھی دادا سائیں کہ بے اختیاری آتے ہی آپ میثم سے وہی سانسیں چھیننا چاہ رہے ہیں، کیا مانگا تھا میں نے اپنی اس سفاک زندگی سے؟ صرف اشنال عزیز! اور اس دنیا سے یہ بھی نہ دیکھا گیا۔ آپ تو میرے زازدان ہیں ، مجھ پر کیسے یہ ظلم ڈھا سکتے ہیں"

دادا جان کی سرخ ہوتی آنکھوں میں اپنی وحشت بھری آنکھیں گاڑتا وہ انکا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر تڑپ اٹھا اور وہ یوں تھے جیسے میثم کی التجائیں انھیں کند چھری سے زبخ کر رہی ہوں۔

"میں کیا کروں میثم، میرے ہاتھ تو میری اپنی اولاد نے کئی سال پہلے خالی کر دیے تھے، میرے پاس تمہاری اور زونین کی زندگی بچانے کا یہی واحد حل  بچا ہے۔ اگر تم دونوں میں سے کسی پر خراش بھی آئی تو یاد رکھنا اس خبر سے پہلے تم دونوں کو چوہدری عالم بزدار کی موت کی خبر ملے گی"

مجبوری، بے بسی، کرب، الم، آہ و بقا، کیا کیا نہ تھا انکے شفیق مگر بھاری لہجے میں کہ صاف آواز سلوٹوں کے پڑ جانے سے لرز اٹھی، یہی نہیں دروازے کی اوٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی وہ نیلی آنکھوں والی زونین تک حویلی کے در و دیوار پر اترے پھر سے بے بسی کے دنوں پر سراپا درد بن گئی۔

اسے لگا جیسے اسکا وجود ہی اس حویلی پر ٹوٹتی قیامتوں کا باعث ہے، لیکن وہ بھی کیا کرتی، کہاں لے جاتی اپنا غیر ضروری جسم، کہاں جا کر اپنی دبائی اور روکی سانسیں خارج کرتی کہ اس کے لیے اسکی ماں نے اس پوری دنیا کو تہہ خانہ بنا دیا تھا۔

میثم نے اک آخری بے بس کرلاتی نگاہ، دادا کی جانب ڈالی اور اپنے ٹوٹے اور بکھرے وجود کو خود ہی سمیٹتا گہرا سانس بھرتا ان سے کچھ فاصلہ اختیار کیے کھڑا ہوا۔

اسکی آنکھوں میں صاف صاف بغاوت اتری ہوئی تھی۔

"موت کا اصل حق دار تو پھر مشارب زمان ہوا دادا سائیں، لیکن ناں ناں! وہ موت نہیں جسے دنیا موت کہتی ہے۔ اب میثم ضرار چوہدری خود کے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کو زندہ سلامت رہنے والی موت دے گا۔ بہت ڈرتے ہیں ناں آپ اپنے وارثوں پر آئی خراشوں سے، نہیں لگیں گی وعدہ۔ پر اب آپ کو میثم اپنا رازدان نہیں رکھے گا۔

کیونکہ اس خاندان کی جڑوں میں ہے کہ جسے اپنے زخم کی جگہ بتا دو، اسے اسی جگہ ہمیں ایک اور زخم دینے کی لت لگ جاتی ہے"

اسکا سپید پڑتا چہرہ ہر احساس سے عاری مگر لہجہ فیصلہ کن تھا، چوہدری عالم بزدار کو لگا انکے سینے میں درد کی لہر اٹھی ہو۔

"میں جانتا ہوں اب یہ سب کیسے ٹھیک کرنا ہے، جارہا ہوں۔ آپکو آپکی مجبوری اور چپ مبارک"

وہ اپنا حتمی فیصلہ سناتا، مزید کئی قدم کا فاصلہ بنا گیا۔ عالم بزدار کو دھند کے پار میثم کا چہرہ دھندلاتا محسوس ہوا تو انہوں نے دکھ سے اپنی آنکھیں مسلیں مگر وہ سکتہ طاری کرتا انکے کمرے سے جا چکا تھا۔

زونین پہلے ہی دروازے کی اوٹ سے ہٹ چکی تھی، اماں فضیلہ کی گود میں سر رکھے وہ ٹھہری آنکھیں لیے بھی رو رہی تھی اور وہ شفیق دکھی خاتون کبھی زونی کا سرد پڑتا ہاتھ چومتیں تو کبھی اسکی پیشانی۔

مگر درد تھا کہ اپنا دائرہ بڑھاتا ہی چلا گیا۔

باہر اندھا دھند تیز بارش اور اندر میثم اپنے کمرے کی اور لپک گیا، کبرڈ سے ہینگ سیاہ شلور قمیص نکالتے ہی کپڑے بدلنے واش روم میں گھسا۔

شاور کی گرتی ٹھنڈی پھواریں اسے جسم و جان سے دھواں اٹھاتی محسوس ہو رہی تھیں، اسکے بے داغ جسم پر گرہن کی صورت چمکتا گولی کا نشان ٹھیک اسکے سینے پر درج تھا جو اب سیاہی مائل ہو گیا تھا۔

یہ گولی اسے مار نہ سکی تھی کیونکہ کم بخت مارنے والا جانتا نہیں تھا کہ میثم ضرار چوہدری کا دل الٹی جانب نسب ہے۔

گہرے گہرے سانس بھرتا وہ اپنے بار بار رک جاتے دل کو تقویت دے رہا تھا۔

ہاتھوں سے صنم، ریت کی مانند پھسل رہی تھی۔

لگ بھگ دس منٹ کی اس ضبط آزما ، خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتا وہ نہا کر باہر نکلا۔

اپنے گیلے بال ٹاول سے خشک کیے، اپنی سرخ آنکھیں آئینے میں دیکھیں تو خود پر ہی نفرت آنے لگی۔

جبل زاد، پرستی دوپہر میں چھتری لے کر گاڑی کے پاس کھڑا ہنوز اسکا منتظر تھا۔

پیروں میں پشاوری چپل پہنے، اپنے پر وقار سراپے سے بیزار سا منہ موڑے، خود پر کلون چھڑکتے چھڑکتے جیسے میثم کا دل کٹا تو بے دلی سے واپس ڈریسنگ پر اس بوتل کو پٹختا وہ بیڈ پر رکھے اپنے فون، والٹ کو اٹھاتا اک پل دوبارہ رکا۔

"اگر آج آپ مجھ سے کھو گئیں اشنال تو دنیا کو بھی میثم ضرار چوہدری دوبارہ کبھی دیکھائی نہیں دے گا"

وہ بھلے بہت بہادر تھا، بچپن سے زندگی سے جنگ لڑ کر بڑا ہوا تھا، اسکے اعصاب ، کسی عام انسان سے دگنی مضبوطی رکھتے تھے، اسکے اندر عام انسان سے زیادہ برداشت تھی مگر اشنال کے لیے وہ تڑپتا ہوا وہ دل بن جاتا تھا جس پر کئی زخم لگائے، مرہم کے بنا ہی ناسور بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو۔

خود سے عہد باندھتا وہ وقت ضائع کیے بنا ، اجڑ جانے کے باوجود سج دھج کر اپنے جنازے پر نکلا تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا اس پر ماتم جچتا ہی نہیں۔

باہر پہنچا تو جبل زاد پہلے ہی اسکو بے قرار نگاہوں سے تکتا منتظر کھڑا تھا، طوفانی بارش زرا دیر تھم تو گئی تھی مگر آسمان زردیوں میں اب بھی ڈھلا ہوا تھا۔

یوں لگتا تھا جلد یا بدیر یہی پیلا آسمان ، سرخ ہونے والا ہے۔

"دیوانوں نے اس دنیا میں

درد کا نام ، دوا رکھا ہے!"

                            ..____________________..

اسے کسی مجرم کی طرح اس حویلی کی بڑی سردارنی کے روبرو پیش کیا گیا تھا جو بڑے سے آرام دہ صوفے پر ، سفید اور جامنی رنگ کے نفیس غرارے میں ملبوس چہرے پر سختی سجائے بیٹھی تھیں، پھر سر پر دوپٹہ اور وجود کے گرد انہوں نے بھی سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی۔

پہلی نگاہ ہی انکی اشنال کے اندر تک زخم دے گئی، اردگرد حویلی کی خاص ملازمائیں، اور انکی دونوں بہوویں بھی کھڑی تھیں۔

جبکہ اک کونے کی جانب رنجیدہ چہرے والی اماں کوثر بھی کھڑی تھیں جنکے ہاتھ میں سرخ چنری تھی۔

یہ زنان خانہ تھا اور یہاں حویلی کے مردوں کو بھی کم و بیش آنے کی اجازت ملتی تھی، گل خزیں خانم کے چہرے پر نہ ختم ہونے والی افسردگی اور اس فیصلے کے باعث، دل میں تکلیف کی سرد لہریں پھوٹ رہی تھیں۔

جب سے یہ خونی فیصلہ آیا تھا، وہ ایک طرح صدمے میں مبتلا تھیں۔

"کوئی آخری خواہش؟"

اس قدر اجنبیت بھرے سوال کی امید اسے کم ازکم دادی سائیں کی جانب سے نہ تھی، گویا ساری امیدیں ہی جھٹکے سے بکھر گئی ہوں۔

"جب آپ نے بھی مجھے قصور وار مان لیا ہے دادی سائیں تو میں کیا آپ پر اپنی آخری خواہش کا بوجھ ڈالوں"

وہ ٹوٹی امید لیے بولی، ہاں اسکے لہجے میں ہلکورے لیتی حسرت نے اس عورت پر بوجھ ضرور لادا تھا۔

"قصور وار تو ہم ہیں بچے، جو اپنے خاندان کی عورتوں اور بچیوں پر اندھا اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ "

گل خزیں خانم نے یہ جملہ کہتے ہوئے ناگواری کے سنگ اک نظر خدیجہ خانم کو دیکھا، انکی اس نظر میں موجود نفرت ، نہ تو خود خدیجہ سے چھپی تھی نہ دم ہارتی اشنال سے۔

"ہمیں کیا ملتا ہے، آنکھوں میں جھونکی دھول کے سوا۔ ونی ہو رہی ہے تو اپنے معزز خاندان کا سارا نام اسی چوکھٹ پر رکھ جانا۔ آج کے بعد ہمارا تجھ سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا"

ان کہے ملال میں مبتلا وہ دل جلاتی ہوئیں ، سرد آہ بھرے ایک بار پھر خاموش ہوئیں، اشنال نے نزدیک آئے انکے قدموں میں بیٹھے، بس اک تڑپتی نگاہ ڈالے ہی دیکھا اور دادی سائیں کا ہاتھ عقیدت سے تھامے وہ ان سے اپنی جلتی آنکھیں جوڑ گئی۔

دل تو انکا بھی نرم پڑا اور آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔

جبکہ خدیجہ کا تو سانس گھٹ گیا۔

"جا رے بے فیض!  جاتے جاتے تو نے میرے دل پر جو چوٹ دی ہے میں اسے آخری سانس تک معاف نہیں کروں گی اشنال۔ آج ہی تو اپنی دادی سائیں کے لیے مر جائے گی"

انکی اس بات پر اشنال نے خوفزدہ آنکھیں اٹھائے جس طرح دیکھا، وہ جان بوجھ کر اپنا ہاتھ چھڑواتے ہی چہرہ بھی ناپسندیدگی سے موڑ گئیں۔

اور انکی یہ سنگ دلی، وریشہ کو سب سے زیادہ دکھ پہنچا چکی تھی۔

"ا۔۔ایسا تو مت کہیں، کتنی منتوں سے مانگی تھی آپ نے اشنال۔ میرے پاس ایک در تو کھلا رہنے دیں دادی سائیں، جس جہنم میں آپ سب مجھے جھونک رہے ہیں، وہاں خبس سے سانس لینی مشکل ہو گئی تو میں کہاں جاوں گی۔ مجھے کم ازکم اپنے دل سے خارج نہ کریں"

وہ خاتون ، اشنال کی نظروں کے انداز سے تڑپیں تو وہیں اس کا لہجہ، سردارنی کا دل چیڑ گیا۔

وہ چاہتی تھیں ہاتھ بڑھائیں اور اسکے سر پر شفقت کا سایہ کر دیں مگر نجانے کس احساس نے انھیں اس رحم سے روک دیا۔

اسے یوں لگا پوری دنیا نے اس سے منہ موڑ لیا ہو۔

"کاش میں تیرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دے سکتی اشنال مگر تو نے اپنے حصے کی ساری دعائیں خود جلا دی ہیں۔ شہیر کے ساتھ شرافت سے اپنی باقی زندگی گزارنا، یہ کوثر تیرا رکھے گی"

ناراضگی سے وہ اشنال کو کہے اپنی چادر خود کے گرد سختی سے بھینچے، پاس سر جھکا کر مودب سی کھڑی اماں کوثر کو دیکھتے ہی وہاں سے چلی گئیں جبکہ اشنال، ہر امید ٹوٹ جانے پر وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔

وہیں دروازے کی اوٹ میں کھڑا مشارب زمان، اسکی آنکھوں سے بہتی تکلیف پر افسوس میں تھا۔

اس نے کب سوچا تھا کہ اشنال اسکی خاطر کبھی یوں زندہ درگور کر دی جائے گی۔

مشارب زمان اور ولی زمان دونوں بھائیوں کی زندگی میں بہن کی جو کمی تھی وہ اس منتوں مرادوں سے مانگی گئی اشنال نے پوری کی تھی، وہ اسکے یوں اجڑنے پر اپنا دل بھی خالی ہوتا محسوس کر رہا تھا۔

ابھی تو ولی زمان کو اس قیامت کی خبر ہی نہیں دی گئی تھی، وہ ہوتا تو شاید اشنال کو ایسے بے بس نہ چھوڑتا۔

اس حویلی کے وہ تھے ہی کتنے وارث، صرف تین۔

بڑے بیٹے زمان خان اور فرخانہ خانم کی دو اولایں، ولی اور مشارب جبکہ چھوٹے بیٹے، عزیز زمان کی ایک ہی پری، اشنال۔ لیکن اشنال نے خدیجہ کی کوکھ سے نہیں بلکہ عزیز خان کی دوسری بیوی، نورے کی کوکھ سے جنم لیا تھا، لیکن وہ تھی کہاں؟

کیا اس کے پیچھے چھپی تھی اس خونخوار حویلی کی قیامت۔

آخر ایسی کونسی وجہ تھی کہ انا، خود غرضی اور دشمنی کی انتہا لیے ان دو چوہدریوں اور خانزادوں کے خاندانوں نے ایک دوسرے کے کئی وارث تہہ خاک پہنچا دیے تھے۔

یہ نفرت اب اگلی نسل تک منتقل ہو چکی تھی جسکا پھل بھگتنے کی باری اب کے کئی بے گناہوں پر آ چکی تھی۔

                           ..____________________..

"دس سال کا تھا جب تو نے پہلی بار مجھے ایک دوڑ میں ہرایا تھا، لیکن کئی سال بیت جانے کے بعد بھی میرے اندر اس پہلی ہار کی اذیت مدھم نہیں ہوئی، آج جا کر زرا سکون ملا ہے۔ میثم ضرار چوہدری کی سب سے بڑی کمزوری، اسکے سب سے طاقتور دشمن کے پاس آگئی ہے۔  اب روایت بدلے گی عزیزم! اب ہار جیت کا سلسلہ ختم کیونکہ میں نے ایک ہی وار سے تیرا غرور، تیری زندگی اور تیری ساری خوشی ختم کر دی"

فتخ اسکی گہری رنگ بدلتی شاطر اور مکرو آنکھوں سے ٹپک رہی تھی، من ہی من میں شہیر مجتبی اپنی جیت پر جشن اور اپنے سامنے بڑے بڑے سرداران کو بے بس ہو جاتا دیکھ کر مسرور سی خوشی میں سر مست تھا۔

میثم پر یہ پیٹھ پیچھے کے وار اسکی فطرت تھے، مگر اس بار تو بازی بڑی مہارت سے شہیر نے جھپٹ لی تھی۔

حویلی کے مردان خانے میں کئی معززین اس ونی کے نکاح کا عینی شاہد بننے جمع ہو چکے تھے، سردار خاقان اور شمیشر دونوں کے چہروں پر زردی چھائی تھی، ہر احساس سے عاری وہ صرف اپنے فیصلے کی تکمیل کے منتظر تھے۔

وہیں دروازے کی اوٹ میں کھڑا زمان خان، باہر دیوار کی اوٹ میں لگے بڑے سے درخت کے سائے میں کھڑے عزئز خان کو دیکھ کر رنجیدہ ہو رہا تھا۔

اسکا بس چلتا تو کبھی اپنے بھائی کی آنکھیں نم نہ ہونے دیتا مگر بات اس وقت اسکے بیٹے کی تھی اور لڑکی بھی وہی ونی ہونی تھی جو اس قتل کی وجہ بنی تھی۔

کسی کال پر عزیز خان نے اپنی سرخ ہوتی نم آنکھیں رگڑیں اور اک بے قرار تڑپتی نگاہ مردان خانے کے دروازے میں کھڑے زمان خان پر ڈالتا، وہ اہم کال سننے حویلی کے پچھلے احاطے کی جانب بڑھا۔

وہ کال اٹھاتے وقت عزیز خان کے ہاتھ کپکپائے تھے۔

کیونکہ کال کرنے والا، یہیں سے اسکی جان نکال سکتا تھا۔

"ایک موت وہ ہوتی ہے جو قدرتی آتی ہے، اور ایک عزت دار لوگوں کو انکی غیرت کے مر جانے پر آتی ہے۔ پوری حویلی کے درندے تو ناواقف تھے عزیز خان، پر آپ تو جانتے ہیں وہ منکوحہ ہے میری۔ اس شہیر کا بندوبست تو میں بڑے سکون سے بعد میں کروں گا، پہلے آپ بتائیں کہ میرے آنے کا انتظار کریں گے یا پھر۔۔۔۔"

فون کے پار اسکی پھنکارتی مگر نہایت عاجز و مسکین دھمکی پر عزیز خان کے چہرے پر خوف کی لہریں اتریں جبکہ دور بیٹھ کر بھی وہ کسی پر بھی اپنی دہشت طاری کر سکتا تھا، اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑا۔

"طلاق کے کاغذ تیار ہیں، حویلی کی خفیہ پچھلی سمت بنی بیٹھک میں آکر دستخط کر دینا۔ تمہاری وجہ سے میری بیٹی کا کردار تو داغ دار ہو گیا، میں نہیں چاہتا وہ نکاح پر نکاح کر کے بے گناہ ہی جہنمی بنا دی جائے۔ اور اگر تم نے یہاں قدم بھی رکھنے کی کوشش کی تو یہاں اس وقت جتنے زخمی درندے گھوم رہے ہیں سب مل کر تمہیں باآسانی کسی کو خبر ہوئے بنا زندہ زمین میں گاڑ دیں گے"

عزئز خان نے فون کی سہولت کے باعث ہمت کیے یہ بھیانک گستاخی کر تو دی تھی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے میثم ضرار چوہدری کے غضب کو للکار لیا ہے۔

میثم کا تمسخرانہ قہقہہ گویا، عزیز خان کو سر تا پا ڈر سے لرزا گیا۔

اسے میثم کے ہنسنے سے خوف آیا، اور اسی خوف کے باعث اسکے چہرے پر پسینے کی ننھی منھی بوندیں نمودار ہوئیں۔

"واہ تجھ جیسی چیونٹی کے بھی پر نکل آئے بدذات، تو اس قابل ہی نہیں کہ میثم تیری عزت کرے۔ اب تو دیکھ کہ اشنال کو میرے سپرد کرنے کو میں تیری زندگی بھر کی سب سے بڑی غلطی کیسے بناتا ہوں۔ انجوائے کرو تم سب ونی کا یہ نکاح پر اس سپولے شہیر کی دلہن کا دوپٹہ اٹھا کر چہرہ لازمی دیکھ لینا، ممکن ہے وہ تمہارے انہی خونخوار پھرتے درندوں میں سے کسی کی لاش کا منہ ہو"

اس غصے سے تپے، تنتناتے شیر کی دھاڑ نے عزیز خان کے ہاتھوں کے توتے چڑیاں اڑا دیے، اک سنسنی سی تھی جو عزیز خان کے پورے وجود میں پھیلی اور وہ تب دہشت سے کپکپایا جب میثم، یہ صور پھونکنے کے بعد کال بند کر چکا تھا، اور اس قدر خطرناک سچویشن میں بھی وہ دیوانہ، میسنی سی مسکراہٹ دباتا اس وقت لمحے پاگل کر چکا تھا۔

اشنال کو بچانے کی ترکیب اسکے شاطر دماغ میں آچکی تھی اور یہ آسانی اسکے سارے کرب سمیٹ کر رکھ گئی۔

جبل زاد کو گاڑی تیزی سے چلانے کا حکم اس نے اس بار مسکراتے ہوئے بڑی عاجزی سے دیا تھا اور خود جبل زاد بھی اپنے سائیں کی مسکراہٹ دیکھ کر اتنا ضرور جان چکا تھا کہ موقع پرسکون ہونے کا ہے۔

                              ..____________________..

وریشہ ہمیشہ سے اپنے الگ مزاج کی طرح پیشہ بھی منفرد چن کر اس علاقے کی عوام کو سہولت دینے کی قائل تھی، اس میں اسکے دادا سائیں بھرپور مددگار رہے تھے۔

وہ ڈاکٹر تو بن چکی تھی مگر کچھ ماہ تک اسکی ہاوس جاب شروع ہونی تھی جسکے بعد وہ کچھ سال شہر ہی رہنے کا فیصلہ لے چکی تھی۔

اشنال، گلالئی کو حویلی کی طبیبہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی تھی تبھی اس نے وری کو ایک بار خود گلالئی کو دیکھ کر آنے کی تاکید کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ اسکے جانے کے بعد اسکی گلالئی کا دھیان رکھے۔

گلالئی کو اسکے چھوٹے سے کمرے میں ، علاج اور دواوں کے سنگ رکھا گیا تھا، وریشہ نے کمرے میں داخل ہوتے دستک دی تو خضوراں نامی طبیبہ، وری کو دیکھ کر ادب سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی جگہ وریشہ کے بیٹھنے کے لیے خالی کی۔

وریشہ کا تو گلالئی کی حالت دیکھ کر ہی دل اداس اور ان فضول جلادن عورتوں پر غضب بڑھ گیا تھا۔

وری کے آنے سے پہلے خضوراں، اسے ٹھنڈی پٹیاں ہی کر رہی تھی کیونکہ دو دن مسلسل تشدد کے باعث وہ نازک جان، بخار سے آدھی ہو گئی تھی۔

"میں گلالئی کو خود دیکھوں گی طبیبہ خضوراں، اسکی دیکھ بھال میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ اور اگر اسکی طبعیت علاج کے باوجود بہتر نہ ہوئی تو میں آپ سے بڑی سختی سے اسکا حساب لوں گی"

لہجہ سخت مگر گلالئی کی آہستہ آہستہ کھلتی آنکھوں کے بعد نرم کر لیتی وریشہ، پیار سے اسکا ہاتھ جکڑ گئی جبکہ خضوراں اس بار زرا دبی لگی۔

وریشہ کی اس حویلی میں بالکل اشنال عزیز جیسی ہی جگہ تھی،سردار شمیشر اور خاقان دونوں بہت گہرے یار تھے اور آگے سے انکے بچے بھی ایک ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے۔

اب جو ونی کا فیصلہ ہوا تھا اس نے ان دو یاروں کی یاری پر کس حد تک اثر کیا تھا یہ وقت جلد بتانے والا تھا مگر وریشہ اپنا فرض نبھانے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔

اشنال جانتی تھی کہ وہ گلالئی کے لیے صرف وری پر بھروسہ کر سکتی ہے اور وریشہ پورے دل سے اشنال کی دی یہ ذمہ داری نبھانا چاہتی تھی۔

گلالئی کی تکلیف ، جسم کے درد کی تو تھی ہی نہیں، اسے تو اپنی خانم کا غم رلائے جا رہا تھا، مزید بیمار کر رہا تھا۔

"خ۔۔خانم۔۔۔۔"

وہ جس طرح اشنال کا پوچھتی سسک پڑی، خود وریشہ افسردہ و بوجھل دل محسوس کرتی، اپنا ہاتھ گلالئی کی تپتی پیشانی سے لگائے اسے خاموش تسلی سونپنے لگی۔

"فکر مت کرو اشنال کی، اللہ سائیں ہیں ناں گل۔ تم بس اپنا دھیان رکھو۔ جانتی ہو ناں کہ وہ تم سے کتنا پیار کرتی ہے۔تم ٹھیک نہیں ہوگی تو اسکی دوبارہ ڈھال کیسے بنو گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں، تمہیں ٹھیک ہوتے ہی سب سے چھپا کر اشنال کے پاس پہنچا دوں گی کیونکہ نہ تم اسکے بنا رہ سکتی ہو نہ وہ گل کے بنا"

اپنے مخصوص مہربان لہجے میں ڈھیر سی مٹھاس بھرتی وہ اسے تسلی اور دلاسا بہم پہنچائے تب دمک دار آواز پر ہڑبڑا گئی جب کمرے کا دروازہ پوری قوت سے کھول کر اندر آتا مشارب زمان نظر آیا۔

اس سے پہلے کہ وہ گلالئی تک پہنچتا، وریشہ اسکی راہ کی دیوار بنی ، وہ ناگواری کے سنگ وری کی مداخلت پر جبڑے بھینچ گیا۔

"مجھے اس سے پوچھنے دیں کہ اشنال کس خبیث سے ملنے گئی تھی، ہٹیں پیچھے وری"

کرخت لہجے میں کہتا وہ تلملایا تو وریشہ نے پوری قوت لگائے اسے سینے پر ہاتھ رکھ کر گلالئی سے پرے دھکیلا اور وری کی یہ حرکت اس کو آگ سا دہکا چکی تھی۔

"اوہ بڑی جلدی نہیں یاد آگیا آپکو مشارب زمان صاحب کہ ایک مرحلہ تحقیق کا بھی ہوا کرتا ہے، لیکن آپ اور یہ سرداری سے جڑا ہر فرد تو بس تحقیق کا یہ مرحلہ صرف اپنے لیے علیحدہ کیے ہوئے ہے، عورت کے لیے تو یہاں بس سزا صادر کی جاتی ہے ، یہ تحقیق آپکو تب کرنی چاہیے تھی جب وہ مویا علیم گندی چال چل رہا تھا۔ اب نہ تو آپ کو کچھ پوچھنے کا حق ہے نہ آپ اس لائق ہیں کہ آپکو کوئی بھی سچ پتا چلے"

بنا ڈرے، بنا اس شخص کی خونخوار نظروں سے دبے وہ سچ بات کہنے میں آج بھی آگے نکل گئی تھی، اور مشارب زمان اسکی ہمت اور بدزبانی دونوں پر ششدر تھا۔

وہ یوں تھی جیسے کسی نے اگر گلالئی کو ہاتھ بھی لگایا تو وہ اسکے ہاتھ توڑ ڈالے گی۔

"اپنی زبان کو لگام دیجئے وریشہ، ورنہ میں بھول جاوں گا کہ آپ شمیشر یوسف زئی کی پوتی ہیں۔ ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے بہتر ہے آپ جا کر اپنی دوست کی دل جوئی کریں، نکلیں شاباش۔ مجھے میرا کام مت سیکھائیں"

لہجہ پٹھان، مگر زبان خالص اردو، پھر لہجہ انتہا کی سختی کی حد تک جاندار رکھے بولتا وہ کوئی انتہا کا خوبصورت مرد تھا ، سفید کرکٹے کاٹن کے سوٹ پر، بے ترتیب انداز سے لی سیاہ چادر، جسکی آنکھیں بھیانک گرے، سبز مائل کا ملا جلا تاثر دیتں اور چہرہ سفیدیوں اور سرخیوں میں گھلا تھا، مگر اس وقت وہ جس سے مخاطب تھا اور وہ خود، سنجیدگی کے علاوہ اپنی اپنی طرز کی حقارت میں مبتلا تھے۔

اسکے تلخ اور متنفر لہجے سے وہ برہم اور بپھر گئی تھی۔

"ایک نمبر کے بے حس انسان ہیں آپ، ہٹ جائیں پیچھے۔ خبردار جو آپ نے پہلے سے نڈھال گل کو مزید اپنے غضب سے ڈرانے کی کوشش بھی کی"

وہ کسی صورت ، مشارب کو گل کے قریب بھٹکنے بھی نہ دے رہی تھی، اسکا غصہ خوبخو اپنے دادا پر تھا یہ سب جانتے تھے مگر سامنے بھی اپنی ایک دھاڑ سے سکتہ طاری کر دینے والا مشارب تھا۔

ان دو کو اس درجہ غصے اور اشتعال سے بحث کرتا دیکھ کر گلالئی کی تو جان ، جسم سے سرک رہی تھی۔ جبکہ خضوراں الگ سہمی دیوار سے لگی کھڑی تھی۔

"دوبارہ میرے راستے میں آنے کی جرت مت کیجئے گا وریشہ، لحاظ کر رہا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سر پر چڑھ کر ناچیں گی۔۔۔اور تم گلالئی، جلد یا بدیر سب سچ سچ اگلوا لوں گا تم سے"

دونوں پر باری باری اپنی غضبناک آنکھیں مرکوز کرتا وہ جس طرح طوفان بنے آیا، ویسے ہی آندھی کا روپ بدلتا ہوا ناصرف اس کمرے کا دروازہ کھولے باہر نکل گیا بلکہ باقاعدہ پٹخ کر گیا۔

"دماغ میں آگ بھری ہے کیا اس بندے کے، ایک تو غلطی بھی خود کی پھنے خان بن کر اور اب آگئے ہیں تحقیق کرنے۔ بندہ پوچھے کہ جب چھ گولیاں اس شخص کے سینے میں ٹھوکی تھیں تب دماغ گھاس چرنے گیا تھا۔ فضول جذباتی وڈیرے، ایک آنکھ نہیں بھاتے مجھے یہ سب۔ تبھی تو وہشت ہوتی ہے اب اس ماحول سے"

بڑی مشکل سے وری اپنی بڑی بڑی پھیلی آنکھیں بہتر کرتی، کوفت اور غصے سے بڑبڑائی کہ ناچاہتے ہوئے بھی گلالئی کو اسکے باعث ڈھارس سی مل گئی۔

وہ ایسی ہی تھی، غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کے لیے پیچھے نہ رہتی۔

"اور تم گل، خبردار جو ان موصوف کے فضول سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ یہ جو مرضی کر لیں، تم اپنی خانم کے ساتھ مر کر بھی غداری مت کرنا۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے سمجھی اور جو سچ ہے وہ میں بھی کبھی تم سے پوچھنے کی کوشش نہیں کروں گی"

اس سہمی سی نڈھال گل کو بھی وریشہ نے اپنے مخصوص مضبوط اور سخت انداز میں چند تاکیدیں سونپیں جبکہ اسکی آخری بات ناچاہتے ہوئے بھی گلالئی کی آنکھوں میں نمی بھر لائی۔

وری اسکے پاس نزدیک ہو کر بیٹھی اور گلالئی کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباو ڈالا جو اب مشکور و ممنون سی وری کی شکرگزار تھی۔

"وقت آنے پر خانم خود آپکو سچ بتا دیں گی وری بی بی"

اپنی ڈبڈبائی آنکھیں موندتی گلالئی کی یہ آواز بالکل سرگوشی کی مانند تھی جو وریشہ کو بہت مشکل سے سنائی دے سکی۔

وہ نیند میں جا چکی تھی تو وریشہ بھی خضوراں کو اسکی دیکھ بھال کرنے کا کہے خود بھی اداس سی کمرے سے باہر نکل گئی۔

                          ..____________________..

"آپ سمجھ گئے ہیں ناں ؟ اول تو میں اس نکاح کی نوبت نہیں آنے دوں گا لیکن اگر یہ درندہ صفت لوگ کبھی بھی اس ونی کے ناجائز نکاح کو کروانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو آپ سمجھ گئے ہیں کہ کیا کرنا ہے آپکو"

جبل زاد، کھلی گاڑی کے باہر چوکس کھڑا تھا جبکہ اندر کسی بزرگ سے آدمی کی جانب متوجہ ہو کر میثم اسے ہدایت سونپ رہا تھا۔

اس گاڑی کے علاوہ بھی پیچھے میثم ضرار کے آدمیوں کی دو گاڑیاں تھیں، زمین داری کے حوالے سے ایک تنازعہ زمین کو لے کر میثم کے کچھ عدالتی امور اور کیس چل رہے تھے جنکے باعث آئے دن وہ لوگ اس پر حملہ کروانے کو تیار رہتے تھے تبھی دادا جان کے اصرار پر علاقے کی حدود سے باہر نکلتے ہوئے اسکے ساتھ لگ بھگ یہ تمام لوگ موجود رہتے تھے۔

"میں سمجھ گیا ہوں سائیں، آپ بے فکر رہیں۔ اس علاقے میں ونی کا ہر نکاح وہ مجھی سے پڑھواتے ہیں اس لیے یہ نکاح جب بھی ہوا، میرے ہی ہاتھوں پڑھوایا جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے سچائی بتا کر ایک بڑے گناہ سے بچا لیا۔ میں آپکا تابعدار ہوں"

وہ نورانی شکل و صورت والا بزرگ بھی میثم کو عزت اور ادب سے پکارتا، اسکی تاکید کو حکم کا درجہ دیتے اسے مطمئین کر رہا تھا مگر سامنے کوئی عام شخص نہیں بلکہ میثم ضرار چوہدری تھا۔

اب جب اس مولوی کو اس نے اپنا اتنا بڑا راز تھما دیا تھا تو وہ اسے بنا گارنٹی کے کیسے بخش سکتا تھا۔

"اچھی بات ہے کہ گناہ اور ثواب کا بھرپور خیال رکھتے ہیں آپ بزرگو! لیکن ایک بات بتا دوں کہ میثم کو دھوکہ دینے والوں کو اس پوری دنیا میں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملتی"

اس بار وہ ابرو اچکاتا، ماتھے پر لاتعداد شکنیں لائے جس طرز سے اس بزرگ کو بہت عاجزی سے دھمکا گیا، اسکے چہرے کی ہوائیاں اڑیں۔

باہر کھڑا جبل زاد، ہلکے سے متبسم چہرے کے سنگ اپنے سائیں کی چال بازی سے اس بزرگ کے رنگ اڑنے پر مخظوظ ہوا۔

"آپ مجھ پر اعتبار کریں سائیں، مر جاوں گا لیکن یہ راز اپنے سائے تک کو نہ بتاوں گا"

وہ زرا ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے منمنائے جبکہ ایسی باتوں اور ایسے کھوکھلے دعووں پر کم ازکم وہ یقین نہیں کرتا تھا۔

"کیا گارنٹی ہے بزرگو؟"

نہایت پرسکون ہو کر مقابل خوف اور دہشت پھیلانا تو کوئی میثم ضرار چوہدری سے سیکھتا۔

کچھ پل کہ لیے اس مولوی کی زبان گنگ سی ہوئی۔

"سائیں۔۔میں مسکین سا بھلا کیا گارنٹی دے سکتا ہوں آپکو"

اس بندے نے باقاعدہ رونے جیسی صورت بنائے التجاء کی جس پر میثم نے کچھ دیر سوچ بچار کی پھر باہر کھڑے جبل زاد کو اشارہ کیا جو فوری اندر جھانکتا، اپنا موبائیل نکالے اس پر کوئی تصویر کھول کر اس بزرگ کو تھما گیا جسکو دیکھنے کہ بعد مولوی صاحب نے تھوگ نگلے حلق تر کیا۔

رحم طلب نگاہیں میثم پر ڈالیں۔

"یہ آپکا اکلوتا بیٹا ہی ہے ناں بزرگو، شہر رہتا ہے اپنے دو بچوں اور بیوی کے ساتھ۔ پتا بھی نہیں چلے گا اور خبر آئے گی کہ آپکے سارے بچے ایک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے"

بڑی کمینی سنجیدگی لیے وہ بڑے ہی لطف اندوز ہوتے ہوئے اس مولوی کا سارا خاندان اسکے سامنے لے آیا جسکی آنکھوں میں خوف سے نمی اور میثم کی دہشت سے پورے وجود میں کپکپی چھا گئی۔

"سائیں۔ سائیں رحم کریں"

وہ ساتھ ہی بلکنے لگا البتہ میثم کو اسکا رونا پیٹنا نہیں بلکہ صرف وفاداری چاہیے تھی اور اسکے نزدیک وفاداری بھی اجکل کے زمانے میں ہر جگہ سے نہیں ملتی تھی۔

"رحم ہی رحم ہے بزرگو، بس اس راز کو اپنے سینے میں دفن کر لیں۔ جب تک یہ راز آپکے سینے میں دفن رہے گا تب تک آپ سمیت آپکا پورا خاندان جیے گا"

اب وہ بزرگ راز تو کیا، جان بھی دینے کو تیار تھے، میثم نے ایک مسکراتی نظر اپنے سب سے عزئز ساتھی جبل زاد پر ڈالی جو بڑے ادب کے ساتھ اس بزرگ کو گاڑی سے نکلنے میں مدد دیتا، اسے اسکی منزل تک روانہ ہونے کا اشارہ کر رہا تھا۔

اس وقت میثم، خانوں کے علاقے میں موجود تھا اور حویلی کچھ ہی فاصلے پر موجود تھی مگر حویلی جانے سے پہلے اسے اپنے ہاتھوں کی گرمی اور خارش کا توڑ کرنا تھا۔

جبل زاد واپس آکر اگلی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا، موسم اب بھی بادلوں کے باعث ابر آلود تھا مگر جیسے جیسے دوپہر ڈھل رہی تھی، شام ہوتے ہی فضا میں خنکی شامل ہو رہی تھی۔

"اس پر ایک آدمی لگا دینا اس علاقے کا جو اس پر نظر رکھے، ہے تو یہ سادہ سا بزرگ پر کب شیطان بن جائے کچھ خبر نہیں"

اپنے ہر کام میں وہ سو فیصد احتیاط برتنے والا شخص تھا، جبل زاد اسکی ہر بات کو حکم کا درجہ دیتا تھا۔

"جو حکم سائیں! اب انتظار کرنا ہے یا حویلی چلیں؟"

فرمابرداری سے حکم کی تعمیل کی یقین دہانی کرواتے ہی جبل زاد نے اردگرد محتاط نگاہ دوڑائے استفسار کیا تو میثم پیچھے پرسکون ہو کر بیٹھا اپنا فون نکالے کسی نمبر کو تلاش رہا تھا۔

"جبل زاد! جب تیرے سائیں بہت زیادہ غصہ ہو جائیں یا پھر بڑی تکلیف سے گزرے ہوں تو وہ کیا کرتے ہیں زرا بتا؟"

توجہ ہنوز فون کی جانب دیے وہ جس آنچ دیتے انداز میں بولا، جبل زاد کی مسکراہٹ اس موسم کی طرح غضب مچاتی اسکے ہونٹوں پر بکھر گئی۔

"شہر میں تو جم خانوں میں لگی تمام پنچنگ مشینوں کی سختی آتی ہے پر علاقے میں دشمنوں کے منہ سیکے جاتے ہیں"

تھوڑی وجاہت، سائیں کے اس وفادار میں بھی تھی، مسکرایا تو لگا جیسے خوبصورتی بس اسی علاقے کے لوگوں میں بٹ گئی ہو۔

جبکہ جبل زاد کے درست جواب پر کتنی ہی دیر وہ پیچھے بیٹھا ہنستا رہا، یہاں تک کہ ہنستے ہنستے اس خونی شیر کی آنکھوں میں وہشت اتر آئی۔

"چل پھر، کام پر لگ جا پیارے جبل زاد۔ میرا دل چاہ رہا ہے اسے تھوڑی سی سزا دینے کا۔ لیکن دھیان رکھنا، اسکی وہاں غیر موجودگی محسوس نہ ہو کسی کو۔ ان خانوں اور انکے پالتو کتوں کی سونگنے کی حس بڑی تیز ہے۔ غلطی سے بھی میری مہک آگئی انھیں تو مرچیں لگ جائیں گی"

ہنوز دل جلاتا، آگ لگاتا، حشر برپا کرتا انداز اور اسکی بات کو حکم کا درجہ دیتا جبل زاد، اپنی جان ہتھیلی پر رکھے گاڑی کا دروازہ کھولتا باہر نکلا۔

ٹھیک اسی وقت مردان خانے میں چوڑا ہو کر بیٹھا شہیر مجتبی، جسکے منہ پر وہ تاثر تھا کہ جیسے دشمنوں کی فوج کو ابھی ٹھڈے اور لاتیں مار کر بیٹھا ہو، اپنی قمیص کی جیب میں تھرتھراتے فون پر متوجہ ہوا۔

فون نکالا تو اس پر ایک چھوٹا سا میسج تھا۔

ناجانے اس میسج میں کیا تھا کہ وہ اپنے چار پانچ لفنگے یاروں کی سمت اٹھ کر بڑھا، اور انہیں بتایا کہ وہ مولوی صاحب کو دیکھنے جا رہا ہے تو کوئی پوچھے تو سبکو یہی بتائیں۔

جبکہ خود وہ چہرے پر حقارت سی سجاتا، مردان خانے کے پچھلے دروازے سے باہر نکلا۔

اتفاق کی بات تھی کہ اس وقت آس پاس کوئی نہ تھا نہ کسی نے شہیر مجتبی کو حویلی سے نکلتے دیکھا۔

"تیرے چکر جس خرافہ سے چل رہے ہیں ناں وہ آرہی ہے حویلی تیری شادی کے بینڈ میں تجھے ہی بجانے"

وہ دوبارہ اس عجیب و غریب پیغام کو پڑھتا، گہرا سانس کھینچے اس سے پہلے اردگرد اک بھرپور نگاہ ڈالتا، کب تیز ترین گاڑی آئی، اور بنا اس پھنے خان کو مہلت دیے بنا دھکا دیے اندر بیٹھاتی ، تیزی سے وہاں سے غائب ہوئی۔

لگ بھگ پورے دس منٹ بعد وہی گاڑی واپس حویلی کے دروازے تک آئی اور اس میں بیٹھے آدمی نے، زخمی، خون میں لت پت ہوئے ، ہوش و حواس سے بیگانے شہیر کو  دھکا دیے حویلی کے داخلی دروازے میں پھینکا اور شوں کیے گاڑی بھگا لے گیا۔

اور اتفاق تو دیکھیے کہ اسی وقت وہ مولوی حویلی کے باہر پہنچا، زخمی دلہے کو دیکھتے ہی اس نے حلق کے بل چلانا شروع کر دیا۔

کچھ ہی دیر میں ہر طرف بھگڈر مچی، زخمی، دم ہارتے شہیر مجتبی کو کئی لوگ اٹھا کر اندر بڑھے، وہ اس قدر بری طرح پیٹا گیا تھا کہ اسکی حالت دیکھ کر ہر کوئی سکتے میں آگیا۔

منشی سانول ، پہلے چھوٹے بیٹے کی موت اور اب شہیر کی ایسی روح کھینچتی حالت پر تکلیف سے سسکنے لگا، اماں کوثر کی حالت بھی مختلف نہ تھی۔

فوری طور پر اس سپولے کے لیے علاقے کے طبیب کے ساتھ ساتھ وریشہ کی خدمات لی گئیں جسکا دل یہی کیا کہ اس آدھے مرے ہوئے کو زہر کا انجکشن لگا دے اور اشنال کی جان بخشی کروا لے مگر وہ سب سرداران، حویلی کے لوگوں اور بہت سے معززین کے آگے جواب دہ تھی۔

اور پھر توقع کے عین مطابق ، زخموں اور خراشوں کے علاوہ سخت قسم کے تشدد کے باعث وہ ایک دو دن تو لمبی نیند میں رہنے والا تھا سو پنچائتی لوگوں نے آج کے لیے یہ نکاح ملتوی کر دیا۔

اشنال تک جب اس سب کی خبر پہنچی تو غائبانہ ہی اس شخص کی ایک بار پھر خفاظت کر لینے پر اسکی سوجھی اور متورم آنکھیں مسکرا دیں۔

وہ جانتی تھی وہ جلد یا بدیر اس تک ضرور پہنچے گا تبھی جب خدیجہ اسے اسکے کمرے میں چھوڑ کر گئیں تو فورا سے بیشتر خود پر اوڑھے اس نجس جوڑے کو اتارنے اور تازہ دم ہونے بڑھ گئی۔

البتہ اسے کمرے میں بند کر دیا گیا تھا اور شہیر کے بہتر ہو جانے تک پنچائیت کا یہی فیصلہ تھا کہ ونی ہوئی لڑکی کو اسکے کمرے میں نظر بند کیا جائے۔

                            ..____________________..

"ہمیں دادا سائیں اپنے پاس لے تو آئے مگر ہم اپنی جگہ لالہ کے دل میں مر کر بھی نہیں بنا پائیں گے"

آئینے کے روبرو بوجھل ہو کر فضیلہ اماں سے بال بنواتی زونی، کرب اور دکھ سے سسکی تھی اور جب بھی وہ نازک پری یوں بے بس اور نڈھال ہو جاتی تو اسکا دل چاہتا وہ زندہ قبر میں جا دفن ہو۔

اشنال عزیز کے بعد اس خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی زونین تھی، نیلی آنکھوں والی جن میں ہمہ وقت دھتکارے ہونے کے باعث رہتی نمی بعض اوقات زونین کو کمزور سا ، ڈبو اور سہما پیش کرتی، اور کبھی اس کی کھلکھلاتی ہنسی سے اس پورے علاقے کی سنہری خوشبودار صبح تک رقابت باندھ لیتی۔

وہ لمبی  ، بانکی اور حیادار تھی۔

مگر اسکی قسمت سیاہ تھی کیونکہ اس پر ایک باغی اور بدکردار عورت کی بیٹی ہونے کا داغ لگا تھا، نہ صرف بدکردار بلکہ خراب عورت، جس نے دو خاندانوں کو دیمک لگا دی، جذبوں کی سوداگر۔

یہی تو وہ زخم تھا جو حویلی کے سب سے بڑے پوتے میثم کے ساتھ ساتھ عالم بزدار کے کلیجے پر بھی لگا تھا کہ بخت چوہدری نے ایسی عورت کو چنا، ایسی عورت سے اپنی دو اولادیں جنوائیں جو انکے سروں میں خاک ڈال گئی، زندہ مار گئی۔

مگر بزدار عالم اتنے سنگدل نہ تھے کہ اپنی بے قصور پوتی کو اسکی ماں کے کیے کی سزا دیتے ، انہوں نے تو اسے اپنے سب سے لاڈلے بیٹے بخت کی اولاد سمجھ کر  قبول کر لیا مگر میثم نے اس لڑکی کو اسکی ماں کے باعث قبول نہ کیا جسکی وجہ سے اسکے بابا منوں مٹی جا دفن ہوئے، اسکی سگی ماں مر گئی۔

اللہ نے زونین کو تین در عطا کیے تھے ، یہ بزدار حویلی جو اسکے بابا کے بعد دادا سائیں کے سائے کے سنگ اسکی پہلی امان تھی مگر یہاں اسکو ضرار لالہ سے نفرت ہی اتنی مل جاتی تھی کہ دادا سائیں کی محبت اس تلے دب جاتی۔

دوسرا در "خانم حویلی" اسکی نانی کا گھر، مگر ستم کہ وہاں بھی اس بے ضرر سی زونی کو نفرت کرنے والا مشارب زمان رہتا تھا اور کئی لوگ مزید۔

پھر تیسرا در اسکی ماں کا وہ گھر جہاں اس عورت نے اب جسم کا بازار سجا لیا تھا، یہی نہیں کنزا نامی وہ عورت اپنے بیٹے سرمد چوہدری کے ساتھ کوٹھا چلاتی تھی۔

ناجانے وہ اس سب میں کیسے پڑی۔

اتنے بڑے خان خاندان کی خانزادی ، اتنے بڑے چوہدری خاندان کی بہو، آج اس ابتر جگہ موجود تھی جہاں لڑکیاں دھندے چلاتیں اور وہ اس کوٹھے کی ماہرانی بن کر پیسہ بٹورتی۔

فضیلہ اماں جو اسکی اور میثم دونوں کی مشترکہ بوا تھیں، ہمیشہ زونی کو اپنے ددھیال میں قدم جمانے کی ہدایت کرتیں کہ وہ سب سے زیادہ یہاں محفوظ ہے مگر وہ بھی کیا کرتی، جب ضرار اس سے بے قصور ہو کر بھی نفرت جتاتا تو وہ ٹوٹ جاتی۔

گل  خزیں خانم یعنی اپنی نانی کے پاس بھی وہ جانے سے خوف کھاتی کیونکہ جس انسان کو اس نے بچپن سے اپنے دل میں بسایا تھا، وہ جب اس پر اسکی ماں کنزا کے باعث نفرت بھری نگاہ ڈالتا تو وہ اتنے ٹکڑوں میں بٹتی کہ پھر اس سے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔

"اللہ نے تیرے نصیب میں بھی بہت سکھ لکھے ہیں پتری، کیوں دل چھوٹا کرتی ہے۔ ایک ناں ایک دن میثم پتر کو احساس ہو جائے گا کہ جو کچھ ہوا اس میں تیرا کوئی قصور نہیں۔ تُو تو بہت بھاگوں والی ہے، تو اللہ کا تخفہ ہے پتر"

اسکے لمبے بال پیار سے سنوارتیں اماں فضیلہ، جب اسے تسلی دیتیں تو خود رو پڑتیں، سچ تو یہ تھا کہ ان سے بھی زونین سے ہوتی زیادتیاں برداشت نہ ہوتی تھیں۔

پھر خانم حویلی میں بھی اسکا ایک نانی کے سوا تھا ہی کون؟ باقی سب نے تو کنزا کو جیسے مرا سمجھ لیا تھا ویسے اسکے دونوں بچوں کو بھی مردار مان لیا تھا مگر گل خزیں خانم کیا کرتیں کہ زونی انکے کلیجے کا حصہ تھی، انھیں اپنی اکلوتی بیٹی کنزا سے جتنی بھی نفرت کیوں نہ ہو جاتی، وہ زونین کو اپنی جان کا ٹکڑا سمجھتی تھیں۔

اکثر وہ چھپ چھپ کر نانی کو فون کیا کرتی اور آج بھی اسکا دل چاہا وہ انکی آواز سنے ورنہ اسے لگ رہا تھا کہ لالہ کی دھتکار اور یہ تکلیف اسکی جان لے جائے گی۔

"ام۔۔۔ماں! ہماری نانی سے بات کروا دیں۔ ہمیں لگتا ہے اگر ہم نے ابھی ان سے بات نہ کی تو ہم مر جائیں گے"

اس ہچکیاں بھرتی زونین نے مڑ کر اماں فضیلہ سے جب یہ روتے تڑپتے گزارش کی تو خود اس خاتون کا کلیجہ بھی کٹ گیا۔

"ناں میری سوہنی دھی، ایسے نہ رویا کر ۔ میرا کلیجہ کٹ جاتا ہے۔ میں کرواتی ہوں تیری بات خزیں سے۔ وہ تو خود تیری آواز سننے کو بے تاب رہتی ہیں"

خانم اور اماں فصیلہ دونوں بچپن کی ہم جائیاں بھی تھیں اور گل خزیں خانم خان کو اسکے زونی کے پاس ہونے نے ہی کچھ سکون بخش رکھا تھا۔

اسے اپنے سینے میں سموئے وہ زونی کو رونے سے روکتے اسکی ہمت بڑھاتی بولیں اور ساتھ ہی بیڈ کے ساتھ پڑے میز پر رکھا لینڈ لائن فون اٹھائے وہ بیٹھتے ہی کوئی نمبر ملانے لگیں۔

زونی نے اپنے چہرے پر اترے تمام آنسو بہت حوصلے سے مٹائے اور پھر سانس روک کر وہ اماں فضیلہ کو دیکھنے لگی جو اسے ریسور پکڑائے، ماتھا چومنے لگیں جس سے زونین کے بلکتے تڑپتے دل کو کچھ راحت ملی اور اٹھ کر نماز ادا کرنے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

زونی نے اپنی دھڑکنیں روکے، اس پار بجتی گھنٹیوں کو سنا، دل بری طرح بکھرا تھا مگر وہ جانتی تھی نانی جب پیار سے بلائیں گی تو وہ پھر سے خود میں ہمت بھر لے گی۔

جیسے جیسے بیل جا رہی تھی، اسکا دل مزید بھر رہا تھا۔

اور حویلی میں اس وقت سب ، ایک ہی بڑے کمرے کی جانب موجود تھے جہاں اس وقت شہیر کو لایا گیا اور طبیب فرقان صاحب اور وریشہ اسکی ابتدائی مرہم پٹیوں میں مصروف تھے۔

گل خزیں خانم خان خود بھی ایک بار جا کر شہیر کی خیریت دریافت کرنے فرخانہ کے ساتھ اسی کمرے کی طرف بڑھ چکی تھیں جبکہ شہیر پر ہوتے اس حملے میں کون ملوث ہو سکتا ہے، گھر کے مرد خضرات، مردان خانے میں بیٹھے اس پر سوچ بچار کر رہے تھے۔

شام ڈھلنے کو آگئی تھی،ونی کا فیصلہ وقتی تو ٹل گیا تھا مگر مشارب زمان اپنے جذباتی عمل کی ہر صورت تلافی کرنے کے چکروں میں ایک بار پھر گلالئی کے کمرے کی جانب جا رہا تھا جب حویلی کے مرکزی حال میں بجتے فون نے اسکے تیزی سے بڑھتے قدم سست کیے۔

چہرے پر آجکل مسلسل رہتا غصہ اور بھینچے خدوخال کے سنگ وہ ناگواری سے پلٹا اور فاصلہ طے کرتا بجتے فون تک آیا۔

وہ اب تک سانس روکے کسی ہمدرد کے دلاسے کی خواہش مند تڑپ رہی تھی۔

فون اٹھانے کی دیر تھی کہ وہ بنا کچھ کہے بھی اس شخص کی پہچان میں آگئی، روکی سانسوں والی اس دنیا میں صرف زونین چوہدری ہی تو تھی۔

وہ جو پہلے ہی ذہنی دباو کا شکار تھا، اس لڑکی کی مدھم مدھم سسکتی آہیں سن کر مزید بھڑک سا گیا۔

"ن۔۔۔نانو، "

روکی ہوئی سانس بڑی مشکل سے اس نے نانو کو پکار کر خارج کی تو اک لمحہ مشارب زمان کو لگا کسی نے اسکا سالم دل نگل لیا ہو۔

"ہم۔۔ہم آپکو ب۔۔بہت یاد کر رہے تھے، پل۔۔پلیز ہم سے ایک بار مل جائیں ۔ ل۔لالہ ہمیں قبول نہیں کر پا رہے، کرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ہم پورے ناقابل قبول سے جو ہیں۔ مگر ہم مزید ی۔۔یہ سکت سے زیادہ نفرتیں نہیں سہہ پا رہے۔ آ۔۔آپ مل جائیں ناں نانو، یا ہمیں بتائیں وہ جگہ جہاں ہم آپ سے چند لمحے گلے لگ سکیں۔ آپ ملیں گی ناں نانو ہم سے"

وہ کھڑے کھڑے اس لڑکی کی تکلیف دریافت کیے فنا ہو گیا تھا، دنیا جہاں کا سارا کرب ملا کر دیکھ لیا جائے پھر بھی زونین کے لفظوں کی اذیت، اسکی آواز کا بار بار آنسووں میں ڈوبنا، اسکی حسرت، اسکا نانو کے لیے یوں ترسنا جیسے پل میں مشارب زمان کی ساری نفرت جھاگ بنا گیا۔

وہ ایک ہی پل میں فنا ہو گیا تھا، خود پر افسوس کیا ان سارے لمحوں کے لیے جو اس مظلوم سے نفرت کرنے میں گزار بیٹھا تھا۔

"وہ مصروف ہیں، بعد میں کال کر لیجئے گا زونی"

بہت مدت بعد اس شخص کے میٹھے لہجے کی پھوار نے زونین کے دل پر لگی حسرت کی آگ بجھائی تھی، اسکا دل مزید کرچی ہوا۔

ناچاہتے ہوئے بھی قدرت نے اسے مشارب زمان کے روبرو کمزور کر ڈالا تھا، اسکے بھرم توڑ دیے تھے ورنہ وہ تو ہمیشہ اس کی نفرت سہتی آئی تھی۔

"جی"

اپنی آواز کو ہر ممکنہ لرزنے سے بچاتی وہ اس سے پہلے کپکپاتی ہوئی فون رکھ دیتی، کسی کے مرہمی لہجے نے اسکا ہاتھ تو کیا پھر سے سانس روک دیا۔

"آپ سے جتنی بھی نفرت سہی مگر روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا نہ کسی کی حسرت کرتے ہوئے۔ خود کو سنبھالنا سیکھیں زونین، اینڈ آئی ایم سوری لیڈی۔ سمجھ جائیں کہ کیوں معافی مانگی۔ فی امان اللہ "

وہ جو سسکیاں اور کراہٹیں گھونٹے صرف اسکی آواز سے ہی جی اٹھی تھی، جب مشارب نے معافی مانگی تو کئی آنسو زونی کی نیلی آنکھوں سے بہہ کر رخساروں پر پھیل گئے۔

وہ فون رکھ چکا تھا مگر زونین کے اختیار میں اپنے آنسو نہ رہے، اسے اپنے اللہ سے شکوہ تھا کہ کیوں اسکی تکلیف مشارب کے آگے اتنے سالوں بعد عیاں کر دی گئی، وہ جڑتی کیا، اسے تو آج مشارب نے مزید برا توڑ دیا تھا۔

اتنا برا کہ اسکے سوا اب زونین کو کوئی بھی جوڑنے والا نہ بچا تھا۔

ہچکیاں بھرتی وہ وہیں دہری ہو کر لیٹی، آنکھوں سے بہتا سیل رواں اب تکیے میں جذب ہو رہا تھا اور اسکی ساری اذیت، اسکے معصوم سہمے دل میں۔۔۔

                           ..____________________..

حویلی کے مہمان خانے کی حدود میں بنا پہلا کمرہ جس میں اس وقت بستر پر شہیر مجتبی ہوش و حواس سے بیگانہ پڑا تھا جبکہ اماں کوثر اور منشی سانول روتی ، بھیگی آنکھوں سے سنگ پل پل اسکی عافیت مانگ رہے تھے۔

قریب ہی بیڈ پر بیٹھی وریشہ، اسکا معائنہ کرنے میں مصروف تھی جبکہ طبیب صاحب ، اسکی زخموں پر لگانے کے لیے ملم کی تیاری میں مصروف زمین پر اپنا جڑی بوٹیوں کا تھیلا لیے کوٹنے میں مصروف تھے۔

وریشہ اسکے زخموں کو پیشہ وارنہ ہو کر جانچ رہی تھی، یہ الگ بات تھی کہ اسکا دل یہی کر رہا تھا کہ اس بندے کو دیکھے بھی ناں۔

شہیر کا چہرہ دیکھ کر اسے رہ رہ کر غضب چڑھ رہا تھا، پھر اسکے عام مردوں سے لمبے غنڈوں جیسے بال تو اسے مزید کوفت دلا رہے تھے۔

"میرا بس نہیں چل رہا ورنہ تمہیں لمبے کومے میں پہنچا دیتی شہیر مجتبی، شکل سے تو کتنے معصوم لگتے ہو تم۔ لیکن تمہارے اندر عورت ذات کے لیے کس قدر تلخی اور زہر بھرا ہے یہ سب جان چکے ہیں۔ اللہ نے تمہیں بہن نہیں دی شاید اس لیے تم نے اشنال کو ونی مانگنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچا۔ اللہ تم جیسے بے حس ناجانے زمین پر کیوں بھیجتا ہے جن کے دلوں میں ہم جیسی صنف نازک کا احترام ہی نہیں ہوتا"

احتیاط کے سنگ وہ اسکے بظاہر خوبصورت چہرے پر ہلکے پھلکے پڑے نیل جانچ رہی تھی، اس وقت وہ بندہ ہر قسم کی کمینگی اور شیطانیت سے پاک تھا تبھی وری کو اسکا اصل چہرہ دیکھائی دے رہا تھا۔

بظاہر وہ خانوں کے ملازمین کی اولاد تھا مگر پرکشش اور جاذبیت میں تھوڑا بہت ان جیسا کمال رکھتا ہی تھا، اسکی بند آنکھیں ٹھہرے سکوت میں مبتلا تھیں، اور وریشہ یوسف زئی کو چہرے پڑھنے میں بہت مہارت تھی۔

ایسے ویسوں کے تو وہ پوری دلچسپی سے پڑھتی تھی۔

اب وہ اسکا ایک مضبوط ہاتھ پھر کلائی، انگلیوں کی زرا زرا پوروں سے چھو کر نبض دیکھ رہی تھی، احتیاط برقرار تھی کیونکہ یہ اسکی ذات کا حصہ اور پھر عورت ذات کے ناطے اسکی ذمہ داری تھی۔

سردار شمشیر یوسف زئی اور سردار خاقان بھی کچھ وقت پہلے ہی اسکی حالت دیکھ کر گئے تھے، گل خزیں خانم بھی وری سے اسکی حالت دریافت کرنے کے بعد بوجھل سا دل لیے دو ملازماوں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب چلی گئی تھیں۔

"کسی نے اچھی بھلی ٹکا کر نفرت دیکھائی ہے جو تم اس حال پر پہنچے ہو شودے انسان، اور نفرت کا ایسا اظہار کسی جی دار نے ہی کیا ہے۔ جس نے ہڈی توڑے بنا تمہاری بتی گل کر ڈالی"

وہ من ہی من میں اسکا سر تا پیر جائزہ لیے، مارنے والے کی مہارت کو سراہتی تبصرے بھی کر رہی تھی پھر جیسے نظر اس نیم جان کے والدین پر پڑی تو اسے لگا ان معصوم اور بچاروں کا کوئی قصور نہیں سو انھیں تسلی دینی چاہیے۔

بچارے اپنا ایک بیٹا تو گنوا چکے تھے، اب اس دوسرے کو موت کے منہ میں جاتا دیکھنا ان کے لیے کس قدر کربناک تھا یہ وریشہ اچھے سے جانتی تھی۔

"پریشان نہ ہوں اماں کوثر، آپ بھی تسلی رکھیں سانول بابا۔ زیادہ گہری چوٹیں نہیں ہیں بس صدمہ زیادہ ہے۔تشدد کرنے والے کا سارا فوکس اسے صدمے اور جھٹکے دینے پر تھا،  جلد ہوش میں آجائے گا آپکا (کمینہ) بیٹا"

ان دو کی تڑپتی حالت کے بیش نظر وہ کمینہ کا لفظ، جبرا دل میں ہی دبا گئی ورنہ جو غضب اسے چڑھا تھا وہ اسکے جبر سے صاف جھلک رہا تھا۔

جبکہ وریشہ کی دی تسلی ان دونوں بوڑھے ماں باپ کی سرخ آنکھوں سے بہتے آنسو تو روک گئی پر انکی تکلیف ویسی ہی ہری تھی۔

طبیب صاحب اپنا بنایا لیپ بھی اس مریض پر اپلائے کر رہے تھے، انکا دعوی تھا کہ اسکے نیل صبح تک مدھم ہو جائیں گے۔

وہ طبیب صاحب کو رات بھر مریض کی دیکھ بھال کا کام سونپتی خود بھی تھک ہار چکی تھی، اک آخری نگاہ جاتے جاتے گلالئی پر بھی ڈالی، مشارب تو اسکے بعد سے اپنے کمرے میں بند تھا۔ اسے زونین سے بات کر کے یاد ہی نہ رہا کہ اس نے گلالئی سے تفتیش کرنئ ہے۔

وہ چاہتی تھی جاتے ہوئے اشنال سے مل کر جائے مگر سر درد اور آنکھیں آج کے اس دنگا فساد دن پر اس درجہ درد میں تھیں کہ وہ کل صبح میں اشنال سے ملاقات کا ارادہ باندھتی ہوئی واپس اپنی حویلی چلی گئی جو خانم حویلی سے چند قدموں ہی کے فاصلے پر تعمیر تھی۔

وہیں جبل زاد کو وہیں سے واپس روانہ کیے وہ خود ہاتھوں کی گرمی کا من پسند توڑ کیے آگ کا دریا عبور کرنے کی ٹھان چکا تھا۔

جبل زاد کی پٹھانوں والی ٹوپی پہن کر، اسکی بھوری چادر گلے میں ڈالے وہ زرا خلیہ بدلتا ہوا جب گاڑی سے نکلا تو جبل زاد پریشانی اور فکر مندی سے اسکی راہ میں حائل ہو گیا جس پر میثم ضرار چوہدری کے ہونٹوں پر جاندار قہقہہ پھیلا۔

"دشمن کی حویلی میں آپکو بنا کسی ہتھیار، اور آدمی کے میں کیسے جانے دوں سائیں۔ کم ازکم یہ گن لے جائیں"

وہ بہت زیادہ بیقرار تھا، میثم نے اک نگاہ سلونی کہر میں گم ہوتی اس ملن کی رات پر ڈالی اور جبل زاد کے کندھے پر اپنے ہاتھ کی تھپک رسید کی۔

"دشمن کی حویلی وہ بعد میں ہے جبل زاد، پہلے میری صنم کی جائے پناہ ہے۔ تُو سمجھ آج میثم کا ہتھیار بھی وہ ہوگی اور محافظ بھی"

اس الٹی کھوپڑی والے کی ہر بات ہی جبل زاد کی ناقص عقل میں بہت دیر سے سماتی، وہ جبل زاد کی حیرت اور ناسمجھی پر مخصوص جان لیوا مسکرایا۔

"آپکی اکثر باتیں مجھے سمجھ نہیں آتیں سائیں، جا رہے ہیں پر رابطے میں رہیے گا۔ عالم سائیں کئی بار کال کروا چکے ہیں۔ انھیں کیا کہوں؟"

وہ فکر مند سا اسکی پرسکون مسکراہٹ تکتا بولا تو میثم نے ایک بار پھر لاپرواہی سے سر جھٹکا۔

"انھیں خود کہہ دوں گا جو ضروری ہوا، تُو نکل اس پلٹون کو لے کر واپس علاقے ۔ میں دشمن کی حویلی سے ہو کر کافی جگہوں سے پھرتا پھراتا واپس آوں گا۔ میرے پیچھے کا کام دیکھ لینا"

اپنے خطرناک اردوں کی اطلاع نہایت عاجزی سے دیے وہ جبل زاد سے مخالف کچے راستے پر چل پڑا اور جبل زاد نے اسے افسردہ نگاہوں کے سنگ اپنے دل دہلاتے سفر پر جاتے دیکھا۔

اپنی آنکھیں موند کر آیت الکرسی کا ورد کیا اور اپنے سائیں کی جانب دیکھے پھونک دیا، اسے یہ کرنے سے سکون رہتا کہ اسکے سائیں جبل زاد کی حفاظت کے حصار میں ہیں۔

میثم کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی جبل زاد نہ صرف پیچھے کھڑی گاڑیوں میں بیٹھے آدمیوں کو اشارہ کیے پلٹا بلکہ اگلے ہی لمحے خود بھی گاڑی کا دروازہ کھولے اندر سوار ہوا۔

اک آخری نظر اس نے میثم کے راستے کی اور ڈالی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تینوں سیاہ بڑی گاڑیاں واپسی کے سفر کے لیے روانہ ہو گئیں۔

رات ہو رہی تھی اور موسم کی دلربا ادائیں پھر سے شروع ہونے لگیں، ہلکی ہلکی بوندیں گر کر رات کی خنک لہر کو بڑھاوا دے چکی تھیں۔

                          ..____________________..

خود پر سے ہر ماتم اتارتی وہ نیلی کُرتی کے ساتھ سفید ٹراوزر پہن کر باہر آئی تو نگاہ آئینے میں اپنے رو رو کر سوگوار ہو جاتے چہرے پر ڈالتی وہ پھر سے اداس ہو گئی۔

آج تو یہ قیامت ٹل گئی کل کا کیا؟ اسکے چہرے پر سرخی اتری تھی، جسم بھی گرم ہو گیا تھا، دو دن خود کے ساتھ اس نے جو ظلم کیا ابھی تو میثم نے اس سے اس کا بھی حساب لینا تھا۔

وہ جانتی تھی وہ اسکے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے مگر قسمت واقعی اس شخص کو اشنال کے لیے بار بار جان لیوا آزما رہی تھی۔

گہرا سانس بھرے اشنال نے خود کو تقویت دینے کی کوشش کی اور گھٹن سی محسوس ہونے پر اپنے کمرے کی کھڑکیوں پر پرے پردے بھی ہٹا دیے اور انکے سب پٹ بھی کھول دیے۔

ٹھنڈی ہوا کے تر جھونکے جب اسکے چہرے سے ٹکرائے اور نمی اوڑھتی ہوا نے جب اسکی بوجھل سانس مہک دار کی تو وہ اپنے ہاتھ کھول کر ان بارش کے ننھے ننھے قطروں کو اپنی ہتھیلوں میں جمع کرتی اپنی آنکھیں بند کر گئی۔

ایک رات کی ہی سہی پر یہ آزادی اسے ، جبر اور اذیت سے تبھی نکال لائی کیونکہ یہ سب میثم کے باعث ہوا تھا۔

وہ کہتا ہی نہیں وہ سچ میں اشنال عزیز کا محافظ تھا۔

وہ آنکھیں یونہی موندے ہوئے، ہوا کی شر انگیزیوں سے ہمکلام تھی جب اس پر بند کر دیا گیا دروازہ بے آواز کھلا اور اگلے ہی لمحے میثم نہ صرف اندر داخل ہوا بلکہ فورا سے بیشتر خود کو اس عزیز لڑکی کا قیدی بنائے، دروازے کو لاک کر دیا۔

اور وہ دو دن تکلیف میں رہ کر کھلی تازہ اور سرد ہواوں کے جھونکوں کے لمس محسوس کرنے میں اتنی محو تھی کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی، کوئی سچ میں اسکے وجود میں بچ چکی جان لینے آگیا ہے۔

وہ اسے موسم کو تکتی ہوئی بھائی، بارش کی ننھی بوندوں کو اپنی سفید روئی جیسی ہتھیلوں میں جمع کرتے خفیف سا مسکرائی تو وہ مائل ہوا۔

کمرہ پہلے ہی فسوں خیز مدھم روشنی میں نہایا ہوا تھا، اوپر سے میثم ضرار چوہدری کے لیے اشنال کی موجودگی سے بڑھ کر دوسرا کوئی نشہ اہم نہ تھا، اور پھر باہر سے آتی ٹھنڈی ہوا ان دونوں کے وجود گدگدا رہی تھی۔

وہ جو محو ہو گئی تھی، جانے کیا ہوا کہ تیزی سے اسکی بند آنکھیں کھلیں، پھیلی ہوئی بازو سمٹیں تو ہتھیلوں میں جمع کی ساری بوندیں، اسکے سرخ لہو چھلکاتے پاوں کو تر کر گئیں۔

یہ سارے شافی منظر وہ اسکے عقب میں کھڑا دیکھ رہا تھا، اپنے سر پر لی ٹوپی اک طرف رکھے صوفے کی اور اچھالتا ، وہ اپنی چادر بھی وہیں بیڈ کے کنارے رکھتا نزدیک ہوا۔

اشنال کی سانسوں تک اسکی خوشبو پہنچی، وہ اسکے بھیگے بالوں کو تکتا مزید قریب آیا اور اپنی بازو اشنال کے ناصرف وجود کے گرد حائل کیں بلکہ اس لڑکی کے سہم کر لرز جانے پر وہ اسے جھٹکے سے پلٹا کر روبرو لایا۔

وہ اسے یہاں، اپنے بے حد قریب دیکھ کر بدحواس ہوتی پہلے مسکرائی اور پھر ساتھ ہی ہچکیاں بھر کر روتی اسکے گلے جا لگی، اس شخص کی خوشبو ، حصار لینا، اشنال کو لگا مرتے مرتے اسکے بے جان وجود میں جان ڈال دی گئی ہو۔

دونوں کی آنکھیں اس قربت کے لمحے بند تھیں، بس شدت حاوی تھی جس کے سنگ ان دونوں نے ایک دوسرے کو خود میں بسانے کی حد تک ہاہوں کا حصہ بنایا تھا۔

کتنی دیر وہ روتی رہی کہ آنسووں کا شمار ہی نہ رہا، جانے کتنا رو بیٹھنے کے بعد وہ اسکی جان بخشی پر راضی سا روبرو ہوا تو اشنال نے اسکے سینے پر اپنی ہتھیلوں کو جمائے بمشکل سانس گھسیٹی۔

"م۔۔میثم، آئی مس یو۔۔۔۔ "

اس شخص کو تو سب بھول چکا تھا،اشنال کے اسے اتنے شدید قریب کر لینے نے جیسے اس دیوانے کی تمام سوئی حسیں جگا دیں، وہ اسکو موجود پا کر کھکھلاتی یا روتی، سمجھ سے باہر تھا۔

"آپ مجھے یاد کریں اور میں نہ آوں، ایسے بھی حالات نہیں صنم۔ رو رو کر آپ نے کیا حالت کر دی خود کی۔ کیا میثم ضرار چوہدری کی خفاظت پر شک تھا؟"

وہ سب بھول کر پہلے تو اس حدت کا جواب چاہتا تھا جو اس اسیر زادی نے گلے لگا کر میثم کی رگ رگ میں اتار دی تھی، پھر ان من پسند آنکھوں کی سرخی جسے دیکھ کر وہ ان میں صرف اپنی موجودگی کے باعث حیا کے رنگ بھرنے پر بےقرار ہونے لگا۔

وہ سر تا پیر اسکے حصار میں دھڑکتی، اپنے کانپتے وجود پر قابو پائے ناجانے کیا سوچ کر نفی میں سر ہلا گئی البتہ اسکی بے قرار، تشنہ، تڑپتی آنکھیں میثم کے چہرے پر جمی تھیں اور اس مضبوط اعصاب والے کو جنجھوڑ رہی تھیں۔

"تم پر یقین ہی تو میری زندگی ہے، تکلیف تو مجھے ان سب نے دی جن پر بہت مان تھا مجھے ۔ ایسا کبھی مت کہنا کہ مجھے تمہاری خفاظت پر شک ہے، "

آنکھوں میں سب کے رویے کی کاٹ بھرتی وہ آخر میں اپنی دو انگلیوں کی نرم پوروں کو میثم کے مدھم گلابی رنگ اوڑھتے ہونٹوں سے جوڑ کر اس شخص کا ایمان ڈگمگا رہی تھی، یہیں بس تھوڑا کی اس لڑکی نے، وہ تو آج میثم کا بہت صبر آزمانے والی تھی۔

"یہ جو اشنال عزیز جی رہی ہے، سانس لے رہی ہے، تمہارے سامنے مسکرا رہی ہے اسکی وجہ تم ہو میثم ۔ میرا سارا قرار، میرا سارا سکون ، میری وہ چھاوں جو مجھے احساس نہیں ہونے دیتی کہ میں کس تپتے صحرا میں کھڑی ہوں"

اقرار کرتی وہ دنیا کی سب سے حسین عورت تھی، جو میثم پر جان تک فدا تھی، وہ اسکے اسی ہاتھ کو جکڑتا ہوا اسکی انگلی کی اک اک پور پر اپنے لب رکھتا ہوا جب ہتھیلی چومتا ہوا نظر اشنال کی آنکھوں پر ڈالتے مسکرایا تو وہ سب کچھ یہیں ہار گئی۔

"تپش آپ پر صرف میرے پیار کی پڑے گی، اور کسی کا خیال بھی اپنے چھوٹے دماغ میں نہ لائیں۔ جب تک زندہ ہوں آپکا ہوں صنم، آپ کے لیے ہوں۔ جس دن خفاظت کو نہ پہنچا اس دن سمجھ جائیے گا کہ مر۔۔۔۔"

ناجانے وہ اتنا عزئز کیوں تھا اسے کہ وہ اسکے مر جانے کا خیال ہی وجود سے زندگی ختم کرتا محسوس کیے پھر سے اسکے ہونٹوں پر اپنی انگلیاں رکھ چکی تھی، وہ اسے ساتھ صرف جینا چاہتی تھی۔

"ایسی باتیں مت کرو میثم، جانتے بھی ہو کتنی کمزور پڑ رہی ہوں"

وہ کسی صورت اس کی ایسی باتوں پر صبر نہ کر سکتی تھی اور وہ اسکی کمر پر ہاتھ رکھتا نزدیک کیے، پلوں میں ساری اداسی سمیٹ گیا۔

"میرے ہوتے ہوئے کمزور، اجازت دیں تو اپنی تھوڑی مضبوطی آپ میں بھر دوں صنم"

چہرے کے بالکل قریں ، اشنال کے نرم گلابی زرا سے نیم وا ہونٹوں پر گہری نگاہیں ثبت کیے وہ یہ سوال بے باکی سے اسکی خوبصورت اور دنیا جہاں کی سب سے خاص آنکھوں میں دیکھتے کر گیا، یہ الگ بات تھی کہ اشنال کو اپنے ہونٹوں پر اسکی تازہ سانسیں بکھرتی ہوئی محسوس ہو کر بے اختیار پہلے ہی کر چکی تھیں۔

وہ ہمیشہ اسکی جانب بڑھنے سے گریز کرتی تھی، کیونکہ اپنے اور میثم کے رشتے کی نوعیت اور شدت سے خوف کھاتی تھی۔

"اگر آج وہ کمینہ مجھ پر حاکم بن جاتا میثم، مجھے تم سے چھین لیتا تو میں زہر کھا لیتی"

اس کی بے تابیوں سے گھرائے وہ بات تو بدل گئی مگر میثم تھا وہ، اتنی جلدی اسے بات بدلنے نہیں دے سکتا تھا۔

"کیا یہ خوف تھا کہ کوئی غیر چھو لیتا آپکو ؟"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر پوچھ رہا تھا جو فورا آنکھوں میں آتے آنسووں کے سنگ بے بسی سے سر ہلاتی ہوئی اسے اپنی جانب مائل کر گئی۔

"ان ہونٹوں کی ہنسی ہو یا کوئی جان لیوا لمس، سبکا حق دار صرف میثم ضرار چوہدری ہے صنم، گر کسی اور نے ان کے قریب بھی آنا چاہا تو میثم اس نامراد کے منہ میں انگارے بھر دے گا۔۔۔ رہی بات آپکو چھونے کی"

انگوٹھے کی نرم پور مگر شدت کے سنگ وہ اس کے رخسار پر لکیر بناتی آنسو نامی شے جس بے باکی سے مٹاتا اسکے ہونٹوں کو اسی گیلی پور سے چھوئے بولا ، وہ سانس روکے میثم کی بے اختیاری پر اور اپنی بے بسی پر مزید سسک اٹھی۔

"جس نے ایسی جرت کی اسے زندہ آپکے سامنے آگ نہ لگائی تو میرا نام میثم ضرار چوہدری نہیں۔ سو آپ ڈرنا چھوڑ دیں، آپکو آخری سانس تک جس شخص کے ہاتھ چھوئیں گے،  وہ یہی ہوں گے، یہی بھرے ہوئے ہاتھ صنم جن میں آپ لکھی ہیں۔۔۔ یہی ہونٹ آپکی سانسیں چنیں گے، آپکی جبین پر مہر چاہت رکھیں گے، آپکے خدوخال سنواریں گے جن پر آپکے نام کی مسکراہٹ ہے، یہیں باہیں آپکا وجود حصاریں گی جن میں آپکا قرار ہے"

وہ اسکے لفظی تابناک لمس پر ہی سر تا پیر کپکا اٹھی تھی تو جب وہ اسکی ڈولتی دھڑکنوں کی سمت بڑھا، بے ترتیب سانسوں کو ترتیب دینے قریب آیا تو وہ حیا و بے بسی کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا اسے روکنے لگی، جانتی تھی اس وقت مزاحمت بیکار ہے مگر پھر بھی اسے محسوس ہوا کہ آج وہ سانس لیتے لیتے واقعی سانس چھوڑ دے گی۔

باہر گرتی کہر ناک بوندیں بھی اس شخص کے تقاضوں کی طرح بڑھ رہی تھیں، جان لیوا ہو رہی تھیں۔

پھر آہستہ آہستہ اس شخص کے خود میں ڈھال لینے کے انداز، وہ خود سے آتی میثم کی خوشبو آنکھیں موندے محسوس کر رہی تھی، جو اسکے وجود سے لپٹ اور سانسوں میں گھل رہی تھی۔

دونوں کی آنکھوں میں اس وقت ایک دوسرے کے لیے مچلتے ہوئے ، بے باک احساسات تھے۔

وقت کی لگا میثم کے ہاتھ میں تھی تو اختیار کا دھاگہ اشنال عزیز کے پاس، اپنے رخساروں پر ان شدت بھرے ہونٹوں کی مہروں کے لمس سانسوں تک اپنی حدت بکھیرنے لگے تھے، مگر جب بات اس شخص کے استحقاق بھرے تقاضوں کو پورا کرنے پر آئی، تو اپنے ہونٹوں اور ناک تک بکھرتی گرم میثم کی سانسوں نے جیسے اسکا سانس سینے میں جکڑ دیا تھا۔

مزاحمت کیسے کرتی، جب وہ اسکے لیے جان کی پرواہ نہیں کرتا تھا تو آج اشنال نے بھی اپنے اختیار میں آتی ہر نوازش میثم پر کر دی۔

وہ اسکی شاہانہ اجازت کے بعد نزدیک آیا، بے ترتیب سانسوں کو ترتیب دینے کی کوشش میں وہ تب مخصوص حشر برپا کرتا مسکرا دیا جب اس ہنر باز سے بھی ترتیبی جیسا کچھ نہ ہو سکا، یہ تو معاملہ دل ، روح اور جان کے پار اترنے پر چلا آیا تھا، اس پر سجتا تھا اشنال عزیز کا حاکم ہونا۔

اس پر سجتا تھا جب وہ اشنال عزیز سے اپنا دل ملا لیتا، جسم و جان کی حدتیں بدل لیتا، اور چپکے سے اس لڑکی کے اندر اپنا آپ اتار دیتا۔

وہ مہکتی ، دھڑکتی، اسکی گرفت میں مدھم مدھم سانسیں بھرتی رہی، آج پہلی بار ہوا تھا کہ وہ چاہتی ہی نہ تھی کہ آج کسی بات کی مہلت ملے۔

"روک لیں صنم! خود پر کھلی دسترس دے کر تو آپ مجھے مار ڈالیں گی"

کان کی اور زرا جھک کر وہ اسے ہنوز اپنی بازووں میں بھرے سرگوشی میں خوفزدہ کرتا خود سے بے خود ہو اٹھا مگر وہ لڑکی تو آج خود مزاحمت پر راضی نہ تھی پھر بھی اس شخص کی سرگوشی سن کر اسکے مزید گہرے گلابی ہو جاتے ہونٹ، دلکش مسکراہٹ سے مسکرائے۔

"مجھے روکنے کی ضرورت نہیں آج، تم خود سمجھدار ہو۔ مجھے قبل از وقت زحمت سے دوچار کہاں کر سکو گے"

بنا یہ سوچے کہ وہ اسکا دیوانہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جنونی مرد بھی ہے، وہ یہ دل دہلاتا یقین دلاتی اسکے حصار میں ہی گہرے سانس بھرے بولی اور جناب کی آنکھوں میں اسی لمحے جذباتیت اور طوفانیت عود آئی۔

"آپ روبرو ہوں تو عقل کے سارے در بند ہو جاتے ہیں صنم، اگر یہ کہا جائے کہ آپکی قربت، میثم ضرار چوہدری کے دماغ پر پردہ گرا دیتی ہے تو غلط نہ ہوگا"

وہی ازلی عاجز لہجہ، جو دل کے سات پردوں تک اتر جاتا، وہی اس شخص کے خود میں مبتلا کرنے کے ، دل دھڑکانے کے، سانس سینے میں جکڑ دینے کے ارادے جنکے آگے وہ خود بند باندھنا ہی نہ چاہتا تھا۔

وہ کھلکھلائی تھی، اور میثم نے اسے روبرو لائے اسکی مسکراہٹ بڑی گہرائی سے دیکھی، جن ہونٹوں پر اس نے بےقراری تحریر کی تھی، جن سانسوں کو سست کر دیا تھا، وہ مل کر جب ہنسی یا قہقہہ ایجاد کرتے تو میثم کا دل چاہتا وہ لمحہ لگائے بنا اس لڑکی کو تسخیر کر لے۔

ایسا تسخیر کرے کہ وہ اس میں اس سے زیادہ بس جائے۔

"مت مسکرائیں اشنال، کم ازکم ابھی نہیں"

اسکی مسکراہٹ لمحے میں غائب ہوئی تھی، اور خود اشنال نے اسکی آنکھوں میں خوفزدہ ہوئے دیکھا اور پھر لرز کر نگاہیں جھکا لیں۔

"کیسے آئے ہو میثم؟ کیا اماں نے مدد کی؟"

اسے خود بھی لگا کہ بات بدلنا ہی مناسب ہے، جبکہ اس بار اس نے اشنال کو بات آسانی سے بدلنے بھی دے دی۔

خدیجہ خانم سے اسے ہمیشہ دلی محبت تھی، تبھی اشنال کے پوچھنے پر وہ مدھم سا مسکرایا۔

نگاہیں اشنال کے بے قرار چہرے پر جمی تھیں۔

"ہاں ، اور التجاء بھی کہ تمہیں چھپا کر کہیں لے جاوں۔ مگر ایسا کیا تو تم جانتی ہو گل خزیں خانم اس عورت کو اس بار واقعی موت کی سزا سنائیں گی۔ انکی نظر میں خدیجہ خانم کا تو ابھی پہلا گناہ نہیں دھلا، میں نے تسلی دی تھی کہ انکی اس اداس بیٹی کو تھوڑی ہمت ضرور دے کر جاوں گا"

وہ لمحہ بھر سنجیدہ ہوا، اسکی پیشانی پر بل اتر آئے اور خود اشنال کی آنکھوں میں سرخائی گھلی مگر اختتام جس طرح میثم نے اسکی گال پر لب رکھے دباو دیتے ہوئے کیا، وہ تمام تر دکھ کے افسردہ سا مسکرا دی۔

"اور بابا؟"

اس بار وہ جس کا ذکر کر بیٹھی اس پر میثم کا مسکراتا چہرہ، حقارت سے بھرا۔

اسکا عزیز خان سے حساب ابھی باقی تھا۔

اسکی ناپسندیدگی اور ناگواری ، اشنال کو ڈرا سا گئی۔

"خارج ہو گیا وہ میثم کی گڈ بک سے ، ڈرپوک آدمی۔ جس سے اپنی بیوی کی حفاظت نہ ہو سکی تھی اس سے بیٹی کی حفاظت کی امید لگا کر میں نے اور دادا جان نے ہی کوئی خطا کر دی ہے لیکن اس غلطی کو سدھار لوں گا۔ اس حویلی میں دو کے بجائے اب ہمارے حق میں صرف ایک ووٹ بچ چکا ہے وہ بھی عورت ذات کا۔ معاملہ پہلے سے زیادہ سنگین ہے تو مجھے محنت بھی زیادہ کرنی پڑے گی"

اول جس طرح میثم نے اپنی نفرت کے اظہار پر بندھ باندھے، بہت جبر کے ساتھ اشنال کو دیکھ کر کہا وہ خود درد سے بھر سی گئی اور پھر جیسے حالات کی سختی اور سنگینی بتاتا وہ خود سنجیدہ اور فکر مند ہوا تو اشنال کا دل تو سینے میں ہی پھڑپھڑا گیا۔

"میثم"

وہ خوف کو بنا چھپاتی جب اسے پکاری تو میثم کا دل دھڑک سا اٹھا۔

"کہیں صنم! ایسے پکار کر کونسا بدلا لے رہی ہیں"

اس سے اشنال کا دکھ بھرا چہرہ برداشت نہ تھا، وہ بھی تب جب اسکے چاروں سو میثم ضرار چوہدری کا حصار موجود ہو۔

"اگر کبھی وقت نے ہمیں الگ کر دیا؟ یا ہم دونوں کی محبتوں پر کوئی قہر توڑ دیا گیآ؟ ہمیں ایک دوسرے کے لیے انتہائی برا بنا دیا گیا؟"

وہ سوال نہیں، میثم کے سینے پر وار تھے جو وہ بہت تکلیف کے سنگ کر بیٹھی جبکہ جناب تہلکہ خیز مسکرائے اور پھر اشنال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے، اپنے چہرے کے نزدیک کیے سانس بھری۔

"آپ مجھ سے نفرت بھی کرنے لگ جائیں اشنال تب بھی میں آپکا اپنی طرز کا محافظ ہی رہوں گا ، اب جب آپ میری حفاظت پر یقین کرتی ہیں تو بدلے میں میثم کی سانسیں بڑھتی ہیں لیکن ایسا وقت آیا جب آپ میری خفاظت سے بدذن ہو گئیں تو فرق بس اتنا ہوگا کہ آپکا بے یقین ہونا ہر پل میری جان لے گا۔ اور میری جان جاتی ہوئی کب میرے صنم سے دیکھی جائے گی، ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔سنیں!"

وہ ان جان لیوا سانسوں کا لمس محسوس کرتی یا اسکے لفظوں کی حدت اپنے اندر انڈیلتی مگر اس وقت وہ بس اسکی آنکھوں میں جھانک کر 'سنیں' کہے ایسا اسم پھونک گیا تھا کہ وہ حرکت تک کی رودار نہ رہی تھی۔

دم سادھ لیا گیا تھا۔ لرزتی پلکوں تلے کھلی آنکھیں، میثم کے ہونٹوں پر مرکوز تھیں۔

"آپ میری رہیں یا نہ رہیں اشنال عزیز، کسی اور کو آپ تک پہنچنے نہیں دوں گا۔ یہاں تک کہ میثم ضرار چوہدری جب تک اس دنیا میں موجود رہے گا، اسکے ہوش و حواس باقی رہیں گے، آپ کے سائے تک پر کوئی سیاہی لگنے نہیں دے گا۔ وہ سیاہی کسی تہمت کی ہو یا کسی ناپاک سائے کی، میری یہ بات اپنے دل کی تہہ تک لکھ لیں"

مضبوط اور سرسراتا ہوا انداز جس میں شدت اور جنون شامل تھا، وہ تو اسکے لفظوں کے سحر سے نہ نکلی کہ دل تک اتراتا ہوا وہ پھر سے اس پر حاوی ہوا، اس بار نہ تو اشنال سے اسکے جان لے جاتے اقدامات کو روکا گیا نہ وہ کچھ دیر اس لڑکی کی کوئی مزاحمت چاہتا تھا۔

یکدم باہر برستی بوندوں نے تیز بارش کا روپ دھارا وہیں وہ بھی کچھ لمحے اردگرد کو فراموش کرتا، اسے بتانے میں مصروف ہوا کہ وہ اس لڑکی کے معاملے میں برستی بارش سے زیادہ طوفانی اور جنونی ہے۔

اسے اشنال کے یہ بے جا، فضول خدشے کچھ برہم بھی کر گئے تھے جسکا اظہار وہ اپنے مخصوص اور جسم سے جان نکالتے طریقوں سے اچھے سے کرنا جانتا تھا۔

                           ..____________________..

وہ چاہ کر بھی اپنے آپ کو ایک بار پھر زونین کی قید سے چھڑوا نہ پا رہا تھا، سیاہ اور کتھئی رنگ میں ڈوبا اسکا آسائشی کھلا کمرہ اس وقت خبس سے بھرا محسوس ہو رہا تھا، اسے گھٹن محسوس ہوئی تو اپنی ٹی شرٹ کے کھلے گلے میں جھانکتی گردن تک مسلنے لگا، پھر جیسے گہری گہری سانسیں بھر کر خود کو بہتر کرنے لگا۔

لیکن سانس کی بندیش زور پکڑنے لگی، وہ بلبلاتا ہوا یہاں وہاں نظریں گمانے لگا، اسکی سانس تیزی سے اسکے سینے میں جکڑی تو باقاعدہ تڑپتے ہوئے وہ سائیڈ میز تک آیا،ایک کانپتے ہاتھ سے ڈرا کھولا، دوسرے سے اپنا جان نوچتا سینہ تھپکا۔

فورا سے بیشتر سانس بہتر کرنے کو اپنا انہیلر نکالا اور بیڈ کے کنارے ٹک کر اس نے جلد جلد اپنی سرکتی سانسوں کا ناطہ، ان منصوعی سانسوں سے جوڑا۔

جب بھی اسے وہ لڑکی یاد آتی، یہ توانا مضبوط اعصاب کا مالک ، سانسوں کا محتاج ہونے لگتا تھا۔

کافی لمحے سرک گئے، مشارب زمان کا وہ سرخ و سفید چہرہ جو کچھ دیر پہلے زرد ہو گیا تھا، حالت کچھ سازگار ہونے پر واپس بحال ہوا مگر اسکی سبزی مائل گرے آنکھوں کی سفیدی دیکھتے ہی دیکھتے لال ہو گئی۔

زونی کی تڑپتی آواز جسم و جان تک کاٹ رہی تھی پھر جیسے لاشعور میں چند ماہ پہلے کی وہ رات لہرائی جب گل جزیں خانم نے اس نے بہت مان کے سنگ زونین کی حفاظت مانگی تھی، یہ سمجھ کر کہ وہ انکا جان وارنے والا پوتا کم، بیٹا زیادہ ہے اور اس دادی کی التجاء ہرگز نہ ٹالے گا۔

چند ماہ پہلے جب گل خزیں خانم خان اپنی نواسی کو اس حویلی سب کی مخالفت کے باوجود لائی تھیں تو انکو اپنے دونوں پوتوں سے بڑی امیدیں تھیں کہ کوئی ایک زونی کو اپنا کر انکے کلیجے کو ٹھنڈا کرے گا مگر جس طرح ولی زمان شروع سے دادی سائیں کا ہم مزاج ہونے کے باعث زونی کو اول سے ہی بہن کا درجہ دیتا آیا تھا تو خانم کی ساری امیدیں مشارب سے جڑھ گئی تھیں۔

انکی سوچ یہ تھی کہ اگر مشارب مان جاتا ہے تو وہ ان دو کے نکاح کے ساتھ سب پر زونی کو قبول کرنے کا اصرار کریں گیں، چونکہ سردار خاقان کی زوجہ اور باقی سب کے ساتھ حویلی کی بڑی سردارنی ہونے کے باعث انکا حویلی میں حکم چلتا تھا اور وہ پریقین تھیں کہ ایک مشارب کے مان جاتے ہی وہ زونی کی اس حویلی میں اور اس حویلی کے ہر فرد کے دل میں جگہ بنوا لیں گی مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔

مشارب نے انکا آدھا ادھورا حکم جبرا مانے، اپنی من مانی کیے انکی کئی امیدیں پاش پاش کر دیں تو مجبورا انھیں زونی کو 'خانم حویلی' سے اور خود سے دور کرنا پڑا۔

اس معصوم کا وجود وہاں نانی کے سوا کسی نے برداشت نہ کیا، مشارب زمان نے تو چاہ کر بھی نہ کیا۔

تب دادی سائیں کی التجاء پر وہ آپے سے باہر آگیا تھا اور پہلی بار تہذیب کے دائرے سے بھی خارج ہوا۔

"واٹ؟ زونین سے مر کر بھی نکاح نہیں کروں گا۔ نہ ہی آپ مجھے میرے خوابوں سے روکیں دادی سائیں۔ اگر آپ ضدی ہیں تو مت بھولیں کہ مشارب زمان بھی منہ زور اتھرا گھوڑا ہے، اس لیے پاس رکھا ہے آپ نے من مانی کر کے اس کو کہ وقت پڑتے مجھ پر تھوپ سکیں۔ وہ بھلے آپکی نواسی ہے، مگر اسکی ماں ایک بے ادب، باغی، شر انگیز اور وحشی عورت ہے، جس نے اپنی من مانی کیے نہ صرف یہاں سے بھاگ کر ہماری عزت دو کوڑی کی بلکہ اپنے اس شوہر سے بھی وفا نہ کر سکی اور وہاں سے بھی بھاگ نکلی۔ بھاگی ہوئی اس عورت کی بیٹی ہے وہ جس کے مقدر میں اس پروردگار نے تاعمر بھاگنا لکھ کر اسکی دائمی زلت پر مہر لگا دی۔

ایسی عورت کی بیٹی کبھی مشارب کی زندگی میں شامل نہیں ہوگی اور اس گستاخی کے لیے میں پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔۔

اب آپ فیصلہ خود کر لیں اماں سائیں کہ آپکو زونین کی موت سے حفاظت کرنی ہے یا زندہ آپکے روبرے کھڑے پوتے مشارب زمان کی خوشی سلامت رکھنی ہے"

اس شخص کی نرم مزاجی کے برعکس ، زبان سے نازل ہوتا زہر کھڑے کھڑے اس وقت گل خزیں پر تو اس کمرے کی چھت گرا ہی چکا تھا، ساتھ میں وہ نازک ، گم صم سی دم روک کر دروازے کی اوٹ میں کھڑی لڑکی کا سانس اس ستم پر سسکی کی صورت خارج ہوا تھا۔

جبکہ اندر گل خزیں خانم کا ہاتھ ہوا میں بلند ہو کر شدت سے مشارب زمان کی بدزبانی کی سزا دے کر سناٹا پھیلا گیا، یہ الگ بات کہ خانم کو لگا وہ اپنے ہی کلیجے کو چیڑ بیٹھی ہوں۔

"دفع ہو جاو میری نظروں سے دور مشارب زمان، سردار بننے کے لیے سب سے پہلے تمہیں اسکے اداب سیکھنے ہوں گے ۔ جو انسان عورت کی عزت نہیں کرتا وہ میری نظر میں مرد ہی نہیں۔ کل ہی تمہارا زونین سے نکاح ہے اور اسکے بعد تم جہاں مرضی جاو میری بلا سے، لیکن تمہارا مقدر صرف میری زونی بنے گی اس پر جتنا چینخنا ہے، چلانا ہے، یا مرنا ہے، بخوشی کرو لیکن اگر تم نے کل یہ نکاح نہ کیا تو تم اپنی دادی کا مرا ہوا منہ دیکھو گے۔ میں زونی کے لیے کسی بھی حد تک جاوں گی سمجھ گئے ہو تم"

دادی سائیں کا پہلے تھپڑ مارنا اور پھر تلخ اور متنفر انداز میں مشارب زمان کی مردانگی کو للکارنا ایسا قہر ناک تھا کہ اس شخص کی آنکھوں میں نفرت کا ابال امڈ آیا، یہ الگ بات کہ اس مضبوط عورت کی آنکھیں بھی تکلیف سے اٹ گئیں۔

اور دروازے کی اوٹ میں کھڑا وہ سسکتا بلکتا وجود، دم دینے لگا۔

کیا وہ خود پر لگے اس داغ کے باعث مشارب زمان کے لیے قابل نفرت ٹھہرا دی گئی ہے، وہ اذیت سے اٹا چہرہ منظر عام پر آیا تو ان نیلی آنکھوں میں اس گریہ و زاری تھی۔

وہ بلا کی خوبصورت تھی، اتنی کہ حدیں ختم ہو جاتیں۔

علاقے کے لوگ کہتے سنائی دیتے تھے کہ دن بدن خانم کی زونی پر اللہ حسن کی سوغات اتارتا جا رہا ہے، وہ گلابی مومی گڑیا، جسکا مقدر اسکی ماں کا حوالہ نوچ گیا، جسکا دل اسکی ماں کی بغاوت کھا گئی تھی۔

وہ کنزا سے کہیں درجہ حسین تھی، جبکہ کنزا اپنے دور میں حسیناوں کی ملکہ کہلایا کرتی تھی۔

"یہ مت بھولیں کہ اسکی ماں نے ہم سبکی عزت روندی تھی اور اب تک روند رہی ہے، اگر مجھے مستقبل میں سردار بنا دیا گیا تو پہلا فیصلہ میں اس عورت کی بیٹی زونین سے اس نکاح کو ختم کرنے کا ہی کروں گا اماں سائیں۔ ابھی تو آپ مجھے مجبور کر رہی ہیں، لیکن میں اس تھپڑ کا بدلا شاندار انصاف کے ساتھ لوں گا"

آنکھوں میں لپکتے آگ کے شعلوں پر قابو پاتا وہ صرف اس موضوع پر ہر لحاظ بالائے طاق رکھ کر خانم کی بے ادبی کر گزرتا تھا۔

وہ خانم کو دادی کے بجائے اماں سائیں بلاتا تھا کیونکہ اس نے اپنی بچپن سے نازک طبعیت کے باعث لوگوں اور ہجوم سے دور ، آبائی گاوں میں زندگی بسر کی تھی پھر پڑھائی کے لیے شہر گیا تو خانم اسکے ساتھ رہیں، وہاں اسکے پاس صرف دادی سائیں تھیں، یہاں تک کہ مشارب نے بچپن میں پہلا لفظ بھی دادی کہا تھا، کیونکہ وہ مشارب زمان کی تب سے ماں بنی تھیں جب پہلی بار انکے اس لاڈلے پوتے کا سانس رک گیا تھا، وہ تب سے اسے اپنے سینے میں چھپا گئیں، اسکی حساس طبعیت کے باعث وہ اس سے زیادہ اٹیچ رہیں اور وہ بھی ایسا بچہ تھا جسے اپنے پاس ہر وقت کسی انسان کی ضرورت رہتی، کب اسکا دل چلتا چلتا بند ہو جاتا کچھ خبر نہ رہتی تبھی پھر گل خزیں خانم اسے خود سے دور ہونے نہ دیتیں اور یوں بچپن سے ہی فرخانہ کے بجائے دادی کو ہی ماں سمجھنے لگا اور اب تک سمجھتا آیا تھا۔

اس روز وہ اسی پیاری ماں کی بے ادبی کر گیا تھا، وہ انکو اذیت میں جلتا چھوڑے جبڑے بھینچتا باہر نکلا ہی کہ مدھم آواز برپا کرتی پازیبوں کے ساتھ اوٹ میں ہو جاتی زونین کو چھپا دیکھ کر مشارب نے پہلے تو گہرا سانس کھینچا اور پھر اسے بے دردی سے بازو سے گھسیٹے باہر لائے تب زرا تھم گیا جب پہلی بار زونین کی نم آنکھیں دیکھ بیٹھا تھا۔

وہ اسکے سامنے اس سے پہلے کبھی نہیں روئی تھی، وہ صرف تنہا رونے کی عادی تھی، اسے لوگوں کی ہمدردیاں بوجھ لگیتیں تبھی وہ اپنے دکھ اپنی ذات میں سمیٹ کر رکھتی تھی۔ اس روز پہلی بار وہ اسے روتے دیکھ کر پگھلا تھا۔

کیا وہ روتی بھی ہے؟ یہ پہلا خیال تھا جس نے آتے ہی مشارب کی اس گرفت کو ڈھیلا کیا جو کچھ قبل از وقت پہلے زونین کی بازو میں دھنس گئی تھی۔

وہ اس مضبوط لڑکی کے اس وقت کانپتے وجود پر نگاہ ڈالتا چہرے پر سختی لے آیا جو خود بھی ہتھیلی سے آنکھیں رگڑے اب ناگواری سے اپنی بازو چھڑوانے کی مزاحمت کر رہی تھی۔

"نفرت نہیں کرتا تھا آپ سے مگر جو فیصلہ خانم کر رہی ہیں اسکے بعد ضرور کروں گا،  آپکو دیکھ کر مجھے وہ عورت یاد آتی ہے۔ جس سے نفرت کرتا ہے مشارب زمان ، جس نے ہمارے بھرے گھر کو دیمک لگائی اور جاتے جاتے آپ جیسی جلن کو ہمارے سینوں پر چھوڑ گئی"

وہ جس نے ہر سانس کے ساتھ اس سنگدل کی محبت دل میں دھڑکائی تھی وہ اسے صاف صاف لفظوں میں اچھوت ثابت کرتا اسے تکلیف سے دیکھ رہا تھا، اور وہ سانس لینا بھول چکی تھی۔

اپنی زندگی سے بس یہ انسان ہی تو مانگا تھا، جو اس سے پناہ مانگ رہا تھا، سبکی اور اہانت کا احسان زونین کے چہرے پر دہک رہا تھا، پر وہ خود کو کمزور پڑنے نہیں دے سکتی تھی۔

"آپ ہماری تذلیل نہیں کریں مشارب"

ضبط سے اپنی بازو اس پتھر بنے شخص کی بازو سے آزاد کرواتی وہ ٹھہری آواز میں حکم تو دے رہی تھی مگر مشارب کا دل کاٹ سا گئی۔

وہ کب ایسا تھا کہ کسی کی تذلیل کرتا، اس عورت نے جاتے جاتے مشارب زمان کے ذہن کو ٹھیس ہی اتنی دی کہ وہ اس سے جڑی ہر شے کو صرف حقارت دے پاتا۔

وہ اپنی دادی کو کنزا کے لیے تڑپتا، روتا، سسکتا دیکھ کر بڑا ہوا تھا، اور دادی کے آنسو مشارب کا سینہ مزید کاٹ ڈالتے تھے۔

"آپ خود منع کر دیں پھر خانم کو، مجھ سے آپکو یہی ملے گا زونین۔ میرے خواب ہیں کچھ، مجھے اس علاقے کی یہ گندی روایات بدلنی ہیں۔ میں سرداری اور دادی کی نواسی میں الجھنا نہیں چاہتا۔ خانم آپکی بات نہیں ٹالتیں آپ کہیں جا کر"

اس درجہ سنگدلی پر وہ کیسے اتر سکتا تھا، زونین کی ڈوبتی سانس احتجاج کرتی تڑپ کر رہ گئی اور وہ سب جان بوجھ کر فرار کرنے پر تھا۔

"زونین مر کر بھی ایسا نہیں کریں گی، ہم تو آپکو چاہتے ہیں سو ہم یہ کفران نعمت نہیں کریں گے۔ ہم آپکو چاہتے ضرور ہیں مشارب لیکن ہم آپ سے آخری سانس تک کچھ نہیں چاہیں گے"

وہ اذیت سے سسکی تھی،  اس سے مشارب کا ایسا لہجہ کب برداشت تھا، وہ تو اسے دیکھ کر جیتی تھی پھر کیسے جا کر اپنی مدھم چلتی سانسوں کے تار بھی توڑ آتی۔

لاکھ خود کو مضبوط کرتی مگر اس شخص کی خوشبو جب دامن سے لپٹ جاتی تو وہ بکھر جاتی، اسے خود سے بہت دور کھڑا مشارب مار ڈالتا۔

"میں یہاں سے ایک بار گیا تو کبھی واپس نہیں آوں گا ، آپ پچھتائیں گی۔ آپ تک آنا تو بہت دور کی بات ہوگی، میرے ضبط کا امتحان مت بنیں زونین"

وہ جانتا جو تھا کہ محبوب ہے تبھی اپنے نہ ہونے سے اس نے اس لڑکی کی جان لینی چاہی تھی پر وہ تلخی سے ہنس دی، ہاں اس پیچ اسکی گال پر آنسو اترا اور یہ ناجانے کیسا بے اختیار لمحہ تھا کہ مشارب نے بے ارادہ ہی اپنا دائیاں ہاتھ اٹھا کر اس کی نرم گال پر اتر کر لکیر بناتے آنسو کے نیچے انگلی رکھی تو وہ نمی مشارب کی انگلی کی پور میں جذب ہوئی اور اس شخص کو نفرت میں بھی آنسو چنتا دیکھ کر زونین کا دل سینے میں پھڑپھڑا کر رہ گیا۔

"ہمیں پتا ہے ہم ایسے ہیں ہی نہیں کہ کوئی ہمارے لیے واپس آئے، یا ہم تک آئے"

وہ سسکی بھرے ہنسی تو مشارب زمان کا سینہ بھاری ہونے لگا، اسکا دل چاہا وہ خوامخواہ ہی اس لڑکی کو قریب جا کر تسخیر کر لے، وہ دور ہوتی تو نفرت پر اکساتی، وہ مشارب کے روبرو آجاتی تو وہ اس وقت بھی بے اختیار کر دیا جاتا تھا۔

"ایک آنسو تو چن لیا، جو کئی سالوں سے ہماری آنکھوں سے بہاتے آئے ہیں اور آگے بہائیں گے انہی کے صدقے میں ہمیں اپنا نام دے دیں مشارب۔ ہم جیسی لڑکیاں جنکی مائیں خراب ہوں، انھیں آپ جیسے مضبوط مرد کا فقط نام ہی کافی ہوتا ہے۔ زمانے کی تہمتیں ممکن ہے ہمارے ساتھ جڑے مشارب زمان کے نام سے کچھ دھل جائیں"

اس کی سرد آواز میں سمندر کی طرح کا سکوت تھا، جبکہ لہجہ بلکتا ہوا، ترستا ہوا، جو مشارب سے برداشت نہ ہو رہا تھا۔

"آپ کو نہ تو روتا دیکھ سکتا ہوں نہ کسی حسرت میں لیکن میں آپ کو مکمل قبول نہیں کر سکوں گا زونین، اگر آپ میرا فقط نام ملنے سے پھر پہلے جیسی مضبوط ہو جائیں تو دے دوں گا لیکن اسکے بعد آپکو یہاں سے ہمیشہ کے لیے جانا ہوگا۔ آپکی قربت میری تکلیف بڑھانے کی کوشش کرتی ہے"

وہ اسکے سامنے بکھرا اور ٹوٹا ہوا سا بولا، جیسے ناجانے کتنا بے بس ہو، اور وہ اس شخص کے ترس کھانے پر ریزہ ریزہ ہوئی۔

اسکی نظر زونی کے نازک پیروں پر گئی تو جیسے تکلیف نے حقارت کا روپ دھارا۔

"پیروں میں پہنی یہ خرافاتی چیزیں پہلی فرصت میں اتار دیں لیڈی، ایسی کوئی چیز خود سے مت جوڑا کریں جو مجھے آپ میں اس عورت کی جھلک دیکھائے"

زرا سا فاصلہ بنائے وہ اس لڑکی کی تڑپ پر اپنے آپ کا مائل ہوتا وجود اس سے دور لے گیا تھا اور پھر انگوٹھے کی پور سے زونین کی آنکھ سے بہتی متواتر نمی باری بارئ جذب کیے یہ سلگتی سی ہدایت کرتا مضبوط قدموں کے ساتھ مڑ گیا اور وہ اس محبت نامی مجبوری میں خود کو اس شخص کے روبرو قید کروا بیٹھی، اسے جاتا دیکھ کر فورا سے بیشتر سسکتی، روتی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی البتہ اسکا آنچل وہیں اسی جگہ گرا اور پڑا رہ گیا جہاں کچھ دیر پہلے مشارب زمان کھڑا تھا۔

وہ اس روز واپس آیا تھا، اس نے زونین کا وہ آنچل اٹھا کر اپنے پاس رکھا تھا۔

اس وقت جب وہ ان ماضی کے جھروکوں سے باہر نکلا تو اسکے ہاتھ میں زونین کے سر کی چھاوں تھی، جسے وہ ہونٹوں کے قریب لایا، لانا نہیں چاہتا تھا۔

تب اس نے دادی سائیں کی دی دھمکی کا اثر لیے نکاح تو کیا تھا مگر اسے اس گھر سے چلے جانے کا حکم سنائے صرف نام دے کر تاعمر کے لیے دھتکار دیا تھا، صرف وہ نام جس پر وہ سمجھ نہ پائی تھی کہ موت اور زندگی کے جس دوراہے پر وہ کھڑی ہے، وہاں سے زندگی قریب پڑتی ہے یا موت؟ وہ بھی انا پرست نکلی اور مشارب کے ایک بار دھتکارنے پر صرف نام کا وہ تعلق جو اس شخص نے اسی وقت بے وقعت کر دیا، اٹھا کر نانی کا در ہمیشہ کے لیے چھوڑ آئی۔

گل خزیں خانم آج بھی مشارب سے خفا تھیں، انکے سینے میں آج بھی اس پوتے کی یہ زیادتی، کانٹے سی چبھتی تھی۔ لیکن وہ جی رہا تھا، سفاک بن کر۔

اور آج وہ جس اذیت میں مبتلا تھا، لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہی مشارب ہے، یہ تو بکھرا ہوا شخص تھا جسے زونین کو ٹھکرانے کی سزا اس صورت ملی کے وہ اسکا اسیر ہوتا چلا گیا، مخص اک جھٹلائے ہوئے نکاح کی کشش نے اسے سر تا پیر پچھاڑ ڈالا۔

آج جب بہت ماہ بعد اس لڑکی کی وہی سسکیاں سنائی دیں تو وہ تمام تر بے حسی کے بکھر سا گیا تھا، لیکن اسکے خالی ہاتھوں میں فی الحال بس زونی کی یہی ادنی نشانی تھی جس میں اسکی خوشبو اس قدر رچی تھی کہ وہ انہیلر کھو جانے پر اسے سونگھ کر بھی اپنی سانسیں بحال کر لیتا تھا۔

اک بے بس آنسو اس بھیگی رات میں اسکی بے بس محبت کا گواہ بن کر مشارب زمان کی ایک آنکھ سے ٹپکا اور بڑھی سیاہ بیرڈ میں دفن ہو گیا۔

وہ سب بھول گیا، اسکے دوپٹے کو جکڑے ہی سر گرائے لیٹ کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگا۔

کیونکہ اسکی انا اسے جھکنے نہیں دے سکتی تھی، تبھی اس نے سہولت کے سنگ اپنا ٹوٹنا چنا تھا۔

                            ..____________________..

"فون ملاو زرا جبل کو اور پوچھو کہاں ہے ضرار، اس لڑکے نے مجھے پریشان کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے"

جب سے شہیر پر حملے اور اشنال خانم کے ونی نکاح کے آج کے لیے متلوی ہونے کی خبر بزدار حویلی پہنچی تھی تب سے عالم بزدار مسلسل اضطراب اور بے چینی کا شکار یہاں وہاں ٹہل رہے تھے جبکہ زونین انکے کہنے کے مطابق جبل لالہ کو کال ملا رہی تھی۔

اماں فضیلہ بھی کچھ فاصلے پر کھڑیں مسلسل بے تاب دیکھائی دے رہی تھیں۔

جبل زاد حویلی سے ابھی کچھ فاصلے پر تھا جب حویلی سے آتے فون پر زرا مودب ہوئے کال ریسو کرتا، فون کان سے لگا گیا۔

"جی حکم کیجئے"

جبل زاد کی ادب اور احترام سے بھرپور آواز بلند ہوئی تو جیسے زونین کو بھی ضرار کی خیریت پتا چلنے کی امید نے بہتر کیا۔

"جبل لالہ! دادا سائیں پوچھ رہے ہیں کہ ضرار لالہ کہاں ہیں۔ کیا آپکو پتا ہے؟"

فکر سے چور آواز لیے زونی اس سے پوچھ رہی تھی مگر اس سے پہلے جبل جواب دیتا، زونی کے ہاتھ سے خود چوہدری عالم نے فون لے کر کان کے لگایا۔

انھیں اپنے پوتے کی اس وقت جان ، موت کے منہ میں محسوس ہو رہی تھی۔

"جبل زاد، کہاں ہے وہ خرافاتی دماغ والا ؟ جلدی سے بتاو مجھے۔ اسکے دونوں نمبر نہیں لگ رہے۔ شہیر کو اسی نے زخمی کیا ہے؟ غلطی سے بھی یہ مت کہنا کہ وہ خانوں کی حویلی گیا ہے"

وہ جو گاڑی کی رفتار دانستہ آہستہ کر چکا تھا، کانوں میں پڑتی سخت اور ڈری ہوئی رعب دار آواز پر سنجیدہ ہوا، عالم صاحب کا اس وقت پارہ بہت ہائی تھا۔

جبل زاد یہی سوچ رہا تھا کہ اب سچ کیسے بتائے، اور جھوٹ وہ بول ہی نہیں سکتا تھا۔

"بڑے سائیں! وہ کہہ رہے تھے اپنی حفاظت کر لیں گے، آپ پریشان نہ ہوں۔ میں آپکو انکا نمبر بھیجتا ہوں"

ہچکچاتا ہوا جبل زاد جو بولا اس پر بزدار عالم کی آنکھوں میں پہلے تو میثم کے حویلی ہونے پر خوف اترا اور پھر اس بندے کا ایک اور نمبر بدلنا گویا انکے اندر باہر آتش دہکا گیا۔

انکا بس جلتا تو جا کر میثم کی گردن مڑور دیتے۔

"لاٹ صاحب نے پھر سے نمبر بدل لیا، اف میرے اللہ میں اس لڑکے کا کیا کروں۔ اور تم نے اسے اکیلے موت کے منہ میں بھیج دیا جبل زاد"

اول تو وہ دل پر ہاتھ رکھے ہول اٹھے اور پھر ہمیشہ کی طرح جبل زاد کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر فضیلہ اماں نے بھی رحم طلب ہو کر عالم بزدار کے غصیل چہرے کو دیکھا اور اپنے اکلوتے جبل زاد کی عافیت مانگی۔

البتہ زونین تو پہلے ہی ڈری ، دم سادھے ہوئے دادا جان کا غصہ دیکھ اور سہہ رہی تھی، جبکہ اسکی ساری دعائیں میثم کے لیے تھیں، اور خود وہ ستم گر نہیں جانتا تھا کہ اسے کچھ دعائیں تو زونین کی بھی لگتی ہیں۔

"بڑے سائیں گستاخی معاف مگر وہ کہاں کسی کی سنتے ہیں، میں نے کہا تھا مگر انکا اصرار تھا کہ وہ اپنی خفاظت خود کر لیں گے"

جبل زاد نے ہر ممکنہ انکی تسلی تو کروائی مگر وہ اس وقت اسقدر دہنی دباو میں تھے کہ انھیں میثم سے زیادہ غضب، جبل زاد پر چڑھ رہا تھا۔

اسے نمبر بھیجنے کا کہتے وہ ناگواریت سے رابطہ منقطع کر گئے البتہ انکا چہرہ اس قدر سرخ ہو رہا تھا کہ خود زونین اور اماں فضیلہ کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کچھ بولتیں۔

کچھ دیر بعد فون کی میسج ٹون ابھری جس پر عالم بزدار نے لپکتے ہوئے فون کا میسج کارنر اوپن کیا اور وہاں جبل زاد کے بھیجے نمبر پر کال ملائی۔

میثم کا فون صوفے کے کنارے دھنسا تھا جبکہ خود موصوف ، لاڈ اٹھوانے میں مصروف عمل، اپنا سر اشنال کی گود میں رکھے اس لڑکی کے سرخیوں میں ڈھل جاتے من پسند چہرے پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے جو اسے دیکھتے ہوئے بار بار شرمگیں سا مسکرا کر اسکی مزید تقاضے کرتی آنکھوں پر اپنی ہتھیلوں کو جما دیتی۔

فون کی دبی دبی ٹون پر ناگواری کی شکنیں میثم کے ماتھے پر ابھریں وہیں وہ میثم کے فون پر لگی خوفناک سی ڈراونی ٹیون پر الگ خوفزدہ ہو گئی جس پر وہ اک مست سا قہقہہ لگائے اسے تکتا نہ صرف اٹھا بلکہ صوفے کے کنارے دھنس جاتا فون اٹھائے اس پر آتے نمبر کو مطمئین اور دل جلی سی مسکراہٹ کے سنگ تکتا فون کان سے لگائے واپس اسی جگہ آیا اور بے تکلفی کی ساری حدیں پار کرتا ایک بار پھر اپنا سر اشنال کی سمٹ کر دہری کی ٹانگوں پر رکھے، انھیں آرام دہ تکیہ بنائے لیٹ گیا اور ایک ہاتھ اشنال کے ہاتھ میں شدت سے جکڑ لیا۔

وہ اس بندے کی حرکتوں پر کان کی لو تک سرخ پڑی جسے کال کے دوران بھی سکون چھو نہ پا رہا تھا۔

"کہاں ہو میرے سر کے درد؟"

کال لگتے ہی چوہدری بزدار عالم کی تنتناتی، دہشت زدہ دھاڑ پر وہاں زونی اور فضیلہ اماں ضرور سہم اٹھے مگر مجال ہو جو اس ٹیڑی ڈھیٹ ہڈی کی پلک بھی اس غڑغراہٹ پر ہلی ہو۔

"اپنے صنم کے پہلو میں ہوں دادا سائیں"

اس قدر ہٹ دھرمی اور بے شرمی سے جواب دیتا وہ ناصرف اشنال کے چہرے کا رنگ اڑا گیا، بلکہ بزدار صاحب بھی اس منہ پھٹ پوتے کی نازل ہوئی بات پر خفت کے مارے سرخ ہو گئے، اس بار سہی انکا دل چاہا اس اولاد کی اولاد کا کچومر بنا دیں۔

"کوئی غیرت نامی شے باقی ہے تم میں؟ وہاں کر کیا رہے ہو تم۔ اگر کسی کو خبر ہوئی ناں تمہارے وہاں ہونے کی تمہاری لاش بھی نہیں ملے گی۔ ضرار کیوں تم مجھے مارنے پر تلے ہو ، فورا نکلو اور واپس پہنچو۔ میرا دل کس قدر خوف سے پھڑپھڑا رہا ہے، کچھ احساس ہے تمہیں؟"

اپنی خفت خود ہی چھپاتے وہ الٹا اس پر پھٹ پڑے، ہاں انکی غرانے کی نوعیت اب منت بھری ہو گئی جبکہ دوسری سمت اشنال اسے پرے دھکیلتی ناصرف دور ہوئی بلکہ فورا سے بیشتر اس بندے کی پہنچ سے دور ہوئی جس پر وہ اسے فون پر مصروف ہونے کے باعث بس گھور ہی سکا۔

"خبر ہی تو کروانی ہے دادا سائیں، گارنٹی دیتا ہوں کہ ایک خراش نہیں آئے گی مجھے مگر میں مشارب زمان سے ایک ملاقات کر کے ہی آوں گا۔ میں مزید چھپ چھپ کر بور ہو چکا ہوں، زندگی میں اس قدر یکسانیت مجھ سے برداشت نہیں۔ آپ نیند ، شوگر بی پی سب کی میڈیسن یاد سے لے لیجئے گا۔ اور پلیز بار بار مجھے تنگ مت کیجئے گا کیونکہ مجھے اپنے اور صنم کے بیچ ہوا کا گزر بھی قبول نہیں، آپ تو پھر میرے بھاری بھرکم پیارے سے دادا جان ہیں"

اپنے کسی لفظ پر اسے شرم تو دور، شرم جیسا بھی کچھ محسوس نہیں تھا خاص کر دادا سائیں کے روبرو۔

وہ خود بچارے پانی پانی ہو کر لاحول پڑے غصے سے اس درجہ بے باک زبان والی اولاد پر برہم ہوتے فون کاٹ گئے جبکہ میثم مزے سے پورے بیڈ پر چوڑے ہو کر قہقہہ لگاتا اس وقت اشنال کو زہر لگا تبھی وہ بنا سوچے بیڈ پر رکھے چار کے چار تکیے اٹھا کر اس شوخے پر برسانے ہی لگ گئی۔

"یہ کیا تھا میثم۔ت۔۔تمہیں زرا شرم نہیں آتی، کیا سوچ رہے ہوں گے دادا سائیں۔ اللہ اللہ کس قدر بے شرم ہو گئے ہو تم"

وہ اس پر ننھا منھا تشدد برقرار رکھتی، دہک اٹھتی گالوں کے سنگ ڈپٹتی ہوئی اتنی حسین لگی کہ میثم کا دل چاہا ہی نہ اسکے یہ نازک وار روکتا، الٹا وہ اسکے چہرے پر اتر آتے رنگوں پر فدا ہوتا گیا۔

"یہی سوچ رہے ہوں گے کہ بخت چوہدری تو بہت رنگین مزاج تھا، پر اسکی یہ پہلی اولاد ایسی نیک پروین کیوں نکل آئی"

زیر لب مسکراہٹ دباتا وہ اس درجہ معصومیت سے بولا کہ خود جو کچھ پل پہلے اسکے الفاظ کی معنی خیزی سے دل تک رکتا محسوس کر رہی تھی، اب بے اختیار گرویدہ کرتا ہوا مسکرا دی۔

جناب بھی اسکی نازک کلائی تھامے پلوں میں اس فاصلہ بنا کر دور جاتی صنم کو خود کے پہلو میں بسا گئے۔

"اور جو تم مشارب لالہ سے ملاقات کا کہہ رہے ہو؟ پاگل ہو گئے ہو ۔ وہ تمہیں دیکھتے ہی مار ڈالیں گے۔ اور پھر دادا سائیں، بابا اور تایا جان۔ ان سب کی نظروں میں آو گے تو تمہاری حالت بگھاڑ دیں گے۔ کیا کرنا چاہتے ہو تم میثم، کیوں تم مجھ پر اس حویلی کے ہر دروازے کو بند کرنا چاہتے ہو"

ایک فکر ہٹی تو وہ اسکے اگلے دل دہلاتے انکشافات پر ڈوبتی آواز کے سنگ بولتی ، شکوہ کناں ہوئی۔

"ان سبکو ہمارے نکاح کا علم نہیں، اسکا تو ہے ناں کہ آپ میثم کی محبت ہیں۔ بس اس خونی ونی کے فیصلے پر جو لڑکی کے عاشق کا ری ایکش ہونا چاہیے وہ دیکھاوں گا۔ بھروسہ کیوں نہیں رکھتیں اشنال؟ میرا اولین حق ہے کہ میں مشارب کو اسکی غلطی بتاوں ، وہ اس حویلی کا خون ہے بس تبھی اب تک زندہ ہے ورنہ اسکے جذباتی پن کی وجہ سے آپ پر یہ وقتی قیامت جو ٹوٹی ہے اسکی سزا میں میثم اسے صرف موت دیتا"

وہ جو میثم پر آنچ آنے کے خوف سے ہی کانپنے لگی تھی، بڑے سلیقے اور سہولت سے اس دلبر کی باتوں کی ناصرف قائل ہوئی بلکہ جس طرح وہ اسکے لیے آواز بلند کرنے پر اور سب کے سامنے آنے کے لیے بےقرار ہو رہا تھا، وہ زرا سا جھکی اور اسکی پیشانی سے اپنے نرم ہونٹوں کو جوڑا۔

یہ میثم کی من پسند عورت کا ، محبت جتانے کا انداز تھا۔

ساری تھکن تو وہ پہلے ہی دور بھگا چکا تھا، اب تو جسم و جان پر چھائے سرور کا توڑ باقی تھا۔

"شہیر کو کیسے حویلی سے نکلوا کر پیٹا تم نے؟ اٹھ کر بیٹھو اور بتاو مجھے۔ اور اسے مسئلہ کیا ہے تم سے کمینہ فضول آدمی "

اس کے دل دہلاتے تیور بھانپ کر وہ فورا اسکے چہرے پر سے واپس پیچھے ہوئی اور بازو سے جکڑ کر بیٹھنے کا اصرار کیے اتنے سارے سوال کر دیے۔

وہ اٹھ بیٹھا مگر جس طرح اس نے اپنے ہاتھوں کی گرمی کا توڑ کیا تھا، وہ سوچ کر ہی اسکی خوفناک آنکھیں استہزاء سے بھریں، اشنال اسے کہیں کھویا پائے خود بھی تھوڑی بے قرار تھی۔

شہیر کو من پسند طریقے سے پیٹنے کا سرور گویا میثم ضرار چوہدری کے انگ انگ میں مچل اٹھا۔

اس وقت جب جبل زاد نے بڑی مہارت سے شہیر مجتبی کو حویلی کے باہر سے دبوچ کر گاڑی میں ڈالا تو وہ ایک دو منٹ کا جتنا بھی فاصلہ تھا اس بیچ جبل زاد کو ہر ممکنہ جان سے مارنے کی کوشش میں اندر پھڑپھڑاتا رہا، جبکہ جبل زاد کے دو آدمی نہایت سہولت سے اس زیر لب غیر مناسب گالیاں اور الفاظ بکتے شہیر کی سرخ بھبھول ہوتی صورت دیکھ کر اسے مزے سے دو منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی روکتا ہوا، پچھلی سمت آیا اور اسے گریبان سے گھسیٹ کر نہ صرف باہر نکلا بلکہ اگلے ہی لمحے اپنی چٹانی بازو سے جکڑے زور دار دھکا دیے اسے  کچی زمین کی اس بری طرح پھینکا کہ وہ توازن برقرار نہ رکھتے گرا تو سہی مگر جب کسی کے پیروں میں خود کو گرا پایا تو ناک کے نتھنے پھیلاتا جھٹکے سے اٹھا۔

اپنے سامنے میثم ضرار چوہدری کو سالم، زندہ کھڑے دیکھ کر شہیر کے سارے جسم میں آگ لگا گئی، سونے پر سہاگہ کہ جس طرح وہ جلتی ہوئی آنکھوں اور ہنستے چہرے سے شہیر کا دھول ہو جاتا چہرہ دیکھ کر مخظوظ ہوا جبکہ شہیر کی حیرت کو ناگواری اور ناگواری کو غصے اور وہشت میں بدلنے میں چند لمحے لگے اس پر شہیر نے بنا کسی شے کی پرواہ کیے میثم کی جان لینے کی خاطر اس پر جھپٹنے کی کوشش کی مگر سامنے خود پر حملے کے لیے پہلے سے محتاط ہو جاتا ضرار تھا۔

وہ آنکھیں جو طنزیہ مسکرا رہی تھیں، سرخ غضبناک حد تک ہوتی ہوئیں نفرت سے بھریں۔

"حرام زادے۔۔۔۔!"

شہیر نے جبڑے بھینچ کر کہتے ہی اسکا منہ نوچنا چاہا جب وہ اپنی شعلہ باز نگاہوں سے گھورتا ہوا، بنا سنبھلنے کی مہلت دیے، اسکے ہاتھ میں باآسانی آجاتے بالوں کو مٹھی میں جکڑے، اسکا حقارت سے بھینچا چہرہ اپنی جانب کیے اتنی بے رحمی سے اپنے قریب کر گیا کہ وہ اتنا ہٹا کٹا شہیر اس جھٹکے پر اسکے منہ سے بے اختیار دلخراش کراہ نکلی۔

"سیم ٹو یو بڈی، ویسے یہ بال تو نے اسی لیے رکھے ہیں تاکے مجھ سے باآسانی زلیل سا پٹ سکے، جب پتا بھی ہے کہ تو آخری سانس تک ضرار سے صرف ہارے گا پھر اپنی یہ بے کار زندگی ہر بار میرے ہاتھوں ضائع کروانے کیوں آجاتا ہے۔ تیرے اس گندے خون سے اپنے خوبصورت ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا ، دشمنی کے بھی کچھ اصول ہیں، دشمن برابری کا ہونا چاہیے"

بنا شہیر کے کرب و درد کا احساس کیے وہ دوسرے ہاتھ سے اسکی گردن دبوچتا مست سا بول رہا تھا اور تب بھی شہیر اسے لہو چھلکاتی آنکھوں سے تکتا دھکے دیے مزاحمت کر رہا تھا۔

"ت۔۔تجھے ایسی ہار دوں گا ضرار کہ تو نہ م۔۔مروں میں شمار رہے گا نہ زندوں میں، دیکھنا تجھے ایسا بے بس بناوں گا کہ تو زندگی کی بددعا مانگے گا مگر تیری سانسیں پل پل بڑھیں گی، یہ شہیر کا و۔۔وعدہ ہے"

اس زرا زرا ہکلاتے ہوئے شہیر نے جو لفظی گستاخی کی اس پر اس ٹھہرے سمندر سے سکوت کو نجانے کیا ہوا کہ اگلے ہی لمحے ضرار نے اپنی پوری قوت لگائے اسکے منہ پر اس زور سے گھونسا دیا کہ وہ بلبلاتا ہوا، درد کی شدت سے سسکتا کئی قدم دور زمین پر جا گرا۔

"اور پھر تو مجھے ایسی ہار دے کر کیا میرے ہاتھوں زندہ بچے گا، تیری نظر بھی اگر اس لڑکی پر پڑی تو یہ گندی آنکھیں نوچ لے گا ضرار، کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ اس احساس محرومی سے نکل آ مگر تجھے تو ہر وہ چیز چاہیے جو میرے پاس ہے۔ کتنی بار تیری منحوس عقل میں ڈالا ہے کہ جو زندگی ضرار نے جی ہے اسکا ایک دن بھی تجھ جیسا نہیں گزار سکتا۔ پھر تیری موٹی عقل۔۔۔۔۔۔"

ضرار کے اشتعال امڈتے لہجے کو دیکھ کر وہ جو یہ بکواس کر بیٹھا تھا اب زمین پر باقاعدہ رینگتا ہوا مدد طلب نظروں سے پیچھے کھڑے جبل زاد کو دیکھنے لگا جس پر جبل زاد نے منصوعی درد دیتے تاثرات کے سنگ اسکے منہ پر برستے اگلے مکے کو انجوائے کیا۔

ضرار کے دو واروں سے ہی شہیر کی ساری دیدہ دلیری جھاگ بن چکی تھی اور ضرار اس کی اور جھک کر اسے گریبان سے پکڑتا پھر سے اسکے قدموں پر کھڑا کروا چکا تھا۔

"جتنا مارنا ہے مار لے، تو بھلے آج ی۔۔یہ نکاح ٹال بھی لے لیکن حویلی والے اپنے لاڈلے مشارب زمان کی جان بخشی کے لیے تیری اس پیاری محبوبہ کو ہر صورت واریں گے۔ وہ میرے ساتھ ونی ہو چکی ہے، تجھے ثابت کر کے دیکھاوں گا کہ تجھ سے تیری سانسیں بھی سہولت سے چھین سکتا ہے شہیر مجتبی۔ میں اسے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیے تیرے سامنے پھینکوں گا اور پھر بتاوں گا کہ شہیر مجتبی کون ہے۔ تو پچھتائے گا ضرار، یہ جو آج تو نے مجھ پر ہاتھ اٹھا لیے ناں، اس کے لیے اب تجھے اس جگہ لا کر ماروں گا کہ تجھے پانی تک نہ ملے گا۔ تیری وجہ سے وہ مری تھی، علیم بھی مرا، اب تو بھی مرے گا جب اشنال عزیز کے کم ازکم وجود پر میری حاکمیت ہوگی"

زہر میں بجھائے شہیر کے الفاظ، اسے عاجز شیر کو آگ لگا گئے تھے، شہیر کے سارے لفظ اسکی ہستی تہس نہس کر رہے تھے۔

اپنے اشتعال پر لاکھ بند باندھے مگر ضرار اس پر جن زادے کی طرح ٹوٹ پڑا، زمین پر سسکتے شہیر کو ٹھڈے، لاتیں اور ناجانے کیا کیا رسید کیے جب اسے بدذبانی کی بھرپور سزا دی تو بیٹھتا ہوا ایک بار پھر اسکے بے جان ہوتے وجود پر اک ناگوار نگاہ ڈالے وہ اسکا گریبان دبوچ چکا تھا۔

"اس بیوقوف نے خود کو تیری ناجائز حسرت میں ختم کیا، محبت کرتی تھی تجھ سے اور تو نے اسکی محبت کا سودا کیا، جو الزام لگایا تھا مجھ پر، سارے علاقے کے لوگوں نے تھو تھو کی تھی تجھ پر کیونکہ سب جانتے تھے کہ میثم ضرار چوہدری کے دل پر اس دنیا کی صرف ایک عورت کا راج ہے اور وہ ہے اشنال عزیز۔ ، ویسے یہ کر کے تو نے اپنی مردانگی پر سہی کالک لگائی تھی بے غیرت شخص، یہ غیرت تب کہلاتی اگر تو اس خود پر فدا لڑکی کو یا عزت دیتا یا اپنی فطرت کے باعث اسکے بڑھتے قدم اسی وقت روک دیتا ، لیکن تجھے تو ضرار کو ہمیشہ سے اذیت دینی پسند ہے اور اس کے لیے تو نے پہلے اس معصوم کا استعمال کیا اور پھر اپنا بھائی بھی داو پر لگا دیا، تیرے یہ دو گناہ کبھی نہیں دھلیں گے شہیر مجتبی بھلے تو پھر سے پیدا ہو کر آجا، تیری ہٹ دھرمی قائم ہے تو پھر مرتا رہ اسی اذیت میں تاعمر۔ اگر تو یہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے تو میثم ضرار چوہدری بھی آج عہد کرتا ہے کہ تیرے ہر وار کا دگنا زہریلا جواب دے گا"

ضبط اور برداشت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ضرار نے سینہ ٹھوک کر اس کی دھندلائی بصارت اور بے جان سماعت میں آخری زہر اتارا اور بری طرح اس شخص کو دھکا دیے زمین پر پٹخا جس پر شہیر کا رہا سہا ہوش بھی ختم ہوا مگر اتنا ضرور تھا کہ اس بے جان وجود کے چہرے پر کرب امڈ آیا۔

ضرار نے دکھ، اذیت اور ناجانے کس طرز کی تکلیف دباتے ہوئے اپنا منہ ہی اس سوداگر سے پھیر لیا۔

"پھینک آ اسے وہیں جبل زاد، اسے جائز مار کر بھی سالا اپنا ہی دل دکھتا ہے، منحوس انسان۔ اپنے ہاتھوں سے اپنا سب تباہ کر دیا اس نے، یہ حسد خدا کسی دشمن کے سینے میں بھی نہ سلگائے"

اس مضبوط شیر کے لہجے میں تکلیف تھی تو جبل زاد بھی ویسا ہی تاثر دے رہا تھا، دو آدمیوں کو اشارہ کیا جو بے ہوش ہو جاتے شہیر کو نہ صرف اسی گاڑی میں اٹھا کر لے گئے بلکہ واپس گاڑی حویلی کی سمت بڑھ گئی۔

اسے حویلی کے باہر پھینکتے ضرار کے لوگ جب تک واپس آئے تھے، ضرار اسی طرح تکلیف سے رخ موڑے کھڑا رہا اور جبل زاد اپنے سائیں کی خاموشی کا بھرپور ادب کرتا خاموشی سے کھڑا رہا۔

وہ تمام منظر یاد کیے ضرار کا اس وقت بھی موڈ بری طرح بگھڑ چکا تھا البتہ اشنال کو پہلی بار اس دشمنی کی حقیقت جان کر انتہائی صدمہ لاحق ہوا۔

ایک اس خبیث کے بعد اس منحوس یاری سے میرا اعتبار اٹھ گیا، وہ پہلا تھا جس نے مجھے بتایا کہ وفاداری کو ہر ایرے غیرے میں نہیں تلاشا جاتا ضرار چوہدری، میں کیا کرتا کہ میرا مقدر ہی ایسا تھا کہ مجھے اسے ہمیشہ ہرا کر اپنا بچاو کرنا پڑا۔

وہ بہت محبت کرتی تھی اس سے ہیر نام تھا اسکا، بہت زیادہ۔ مگر وہ نہیں کرتا تھا، ان دنوں یونیورسٹی میں ہمارے پولٹیکل گینگ کے ساتھ اسکے لوگوں کی بہت شدید لڑائی ہوئی۔ میں ان دنوں علاقے میں تھا، میرے ہی ایک ساتھی کو اس جانور نے صرف مجھے اشتعال دلانے کے لیے اس قدر زخمی کر دیا کہ وہ دس دن کومہ جبکہ تین دن موت اور زندگی کی کشمکش میں پڑا رہا۔ بچ تو گیا لیکن پھر میرے واپس جاتے ہی شہیر دوبارہ میرے منہ لگنے آگیا تو بس مجھے بھی جتنا غصہ تھا، نکال دیا۔"

ماضی کی کربناک یادیں اسکے خوبصورت چہرے پر حقارت کے ساتھ دکھ بھی سمیٹ لائیں اور اشنال، خود افسردہ سی میثم کے لہجے کے اتار چڑھاو جانچتی ہوئی اسکا ہاتھ جکڑے مزید سننے کو بے قرار ہوئی۔

"اس نے اس زلت کا بدلا میرے کردار پر انگلیاں اٹھا کر لیا، ہیر کے ساتھ مجھے جوڑ کر۔ حتی کہ اس درندہ صفت وحشی نے اس معصوم ہیر سے قسم تک اٹھوائی کہ ضرار نے اس سے بدسلوکی کرنے کی کوشش کی۔ اور آپ جانتی ہیں اشنال، اس نے ہیر کو کہا کہ اگر وہ ضرار پر یہ تہمت لگائے گی تبھی وہ اسے اپنائے گا۔ میرا کردار الحمد اللہ ایسا مضبوط تو تھا ہی کہ نہ وہاں کسی نے اسکی بکواس سازش میں آنا مناسب سمجھا نہ میرے علاقے کا کوئی فرد یہ مان سکا کہ میثم ضرار چوہدری نے کسی کی بیٹی ، بہن پر ایسی نظر ڈالی ہے۔ الٹا وہ پھر شکست کھائے بری طرح ہارا مگر مجھے بدنام کرنے کی اس سازش کے بیچ وہ کمینہ اس ہیر کو رسوا کر گیا، جب اس لڑکی کو سمجھ آئی کہ اس نے کس سوداگر سے دل جوڑا ہے تو وہ یہ برداشت نہ کر سکی۔ زلت و رسوائی کے علاوہ شہیر مجبتبی کی اس گھناونی سازش سے دلبرداشتہ ہوئے اس پیاری ہیر نے ہمارے ہی ڈیپارٹمنٹ سے چھلانگ لگا کر جان دے دی"

وہ یہ سب بتاتے ہوئے ان کہے ملال میں مبتلا تھا، اور اشنال کے دل میں شہیر کے لیے نفرت مزید بڑھی۔

"وہ ایک خط چھوڑ کر گئی جس میں ضرار چوہدری کی بے گناہی اور شہیر کی حقیقت کا ثبوت تھا، ویسے تو اس ثبوت کی کسی کو ضرورت نہیں تھی مگر پھر بھی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسے کئی دن نوٹس بورڈ پر لگایا اور پھر تمام یونی اور علاقے تک کے معززین لوگوں کو جمع کر کے مجھ سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ شہیر مجتبی کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا"

اس زخمی شیر کے چہرے پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی جبکہ اس ناپسند حوالے کے باعث جبڑے بھینچے جا چکے تھے اور اشنال نے گہرا سا سانس بھرے یہ سب سن کر دل کو بوجھل محسوس کیا۔

لیکن اس سب کے باوجود اسے جو بات راحت دے گئی وہ یہ کہ میثم ضرار چوہدری جیسا مضبوط کردار کا شخص اسے سونپا گیا ہے، ساری دنیا کو چھوڑ کر اس خوبصورت دل کی مکیں وہ بنی۔

اتنی سنگین صورت حال میں جب وہ بے ارادہ نگاہ موڑ بیٹھا تو اشنال کی آنکھوں میں الگ سا رشک جبکہ اسکے ہونٹوں پر اداس سی مسکراہٹ نے اس شیر جیسے سینے والے کو بچھاڑ ڈالا۔

"مسکرانے کے لیے کیا وجہ ملی آپکو اشنال، یہ سب تو خاصا تکلیف دہ تھا؟"

وہ اپنے بے خود جذبات پر بندھ باندھتا، اسکی اور لپکنے پر جبر کرتا دیکھائی بھی دیا تو وہ اسکے سوال پر، زرا اسکے نزدیک سرکتی ہوئی اسکی حائل کی بازو میں سمٹ گئی، پھر گہرا سا سانس بھرے میثم کی طرف دیکھنے لگی۔

"صرف ایک وجہ، کہ تم میرے ہو"

وہ دلربا تھی اور قریب تھی، ستم یہ کہ میثم کو کسی بھی لمحہ اپنا اختیار اس کے لیے چھوڑنا پڑ جاتا۔

"آپکو سکون ملتا ہے؟ جب آپکا دل آپکو یہ کہتا کہ ہے میثم ضرار چوہدری آپکا ہے؟"

وہ زرا قریب ہوا، پھر سے وہ اسکی گرم سانسوں کے پھیلتے حصار میں اپنا چہرہ محسوس کرتی اسکے جذب سے پوچھے دو دلفریب سوالوں کے جواب میں اسکی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکائے آنکھیں موند گئی۔

"بہت ملتا ہے"

وہ بے اختیار کہہ بیٹھی مگر لمحہ لگا اور وہ اسے کمر میں ہاتھ ڈالے اپنی سمت جھٹکا دیے جس طرح خوبصورتی کے سنگ بوجھل سانسیں جوڑتا خود کو دیکھنے پر اکسا گیا، وہ ان بے باک اور پر تپش نظروں سے گھبرائے ، آنکھیں پھیلائے، گہرے سانس کھینچتی اپنا آپ چھڑوانے لگی۔

"میثم۔۔اب بس کرو ناں، میری ہمت کو مت آزماو"

وہ اسکی شدید، بے جان کرتی نزدیکی سے نڈھال ہو گئی تھی، وہ کسی بھی لمحے اسکے حواسوں کو اڑا سکتا تھا اور اس وقت وہ کسی قسم کی جان لیوا قربت کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

"میں تو گہرے مراسم بنانے کا سوچ رہا ہوں اور آپ ہیں کہ مجھے خود سے دور کر رہی ہیں، ایسے موقعے روز تھوڑی ملیں گے صنم"

اسکی زومعنی سرگوشی کے سنگ جب مسکراتے ہونٹ ،کان کی لو سے مس ہوتے ہوئے اسکی گردن کی سمت بڑھے تو وہ اسکے تیور اور ارادے بھانپ کر سر تا پیر کانپی مگر اس وقت وہ اسکے بس میں تھی تو دل منافق ہو کر مزاحمتیں ترک کرنے کی چینخ پکار کرتا ہوا اسے بے بس کر رہا تھا اور وہ بھی مسرور سا تشنگی مٹانے کے لیے اس نرم گداز شہہ رگ پر اپنے ہونٹوں کی شدتیں تحریر کرتا پھر سے چہرے کی سمت آیا تو خود ان پلکیں تھرتھراتی ، سانس روک لیتی اشنال کو بنا آنکھیں جھپکائے تکنے لگا اور اسکی نظروں کی تپش ، اس لڑکی کے جسم و جان تک حرارت بن کر اتر جاتی تھی۔

وہ ہمت کیے اس سے نظریں ملا پائی تو ان بے باک سیاہ  آنکھوں میں ہلکورے لیتی جنون اور شر انگیزیوں کے ارادوں نے اشنال کے پورے جسم میں برقی لہر دوڑائی۔

"میثم، نہیں کرو ناں پلیز۔ کیا جواب دوں گی میں سبکو؟"

وہ جو اسے بڑے آرام سے تکیے پر سر رکھوا کر پرسکون کرتا اس کے چہرے کی اور جھک کر جبین چومتا ہوا اپنے ارادوں کو تکمیل دینے نکل پڑا تھا، اشنال نے اسکے سینے پر ہتھیلوں کا نرم دباو برقرار رکھتے ہوئے چہروں کے بیچ فاصلہ بناتے ہوئے سہم کر خدشہ کہا تو وہ ایک بار پھر شر انگیز مسکرایا۔

اور اسکی مسکراہٹ نے صنم کو لمحے میں جھرجھری بخشی۔

"آپ کو میثم کی کوالٹیز پر شبہ نہیں ہونا چاہیے اشنال، کوئی جواب تو تب دینا پڑے گا جب کوئی رزلٹ آئے گا۔ اور جب تک میثم نہیں چائے گا ایسا ناممکن ہے ۔

زیادہ جان نہیں لوں گا آپکی مگر اتنی ضرور لینا چاہتا ہوں جتنی آپ یوں میرے قریب آکر میرے لیے سر تا پا جان لیوا ہونے لگتی ہیں"

پرفسوں ، دل تک تپش پہنچاتے معنی خیز لفظ ، اپنے مخصوص سرسراتے انداز میں کہتا وہ اشنال کے بے قرار دل اور وجود کا سکون میں ڈھلنا دیکھ کر یوں مسکرایا جیسے آج سب فنا کر دے گا اور وہ نا چاہ کر بھی اسکے روبرو کوئی اعتراض نہ کر پائی۔

وہ واقعی اس پر اپنی موجودگی سے کوئی اسم محبت پھونک دیتا تھا۔

ظالم کہیں کا۔۔۔۔

                             ..____________________..

اگلی سحر کے گہرے سائے چار سو پھیلے ہوئے تھے، بڑے سے آرام دہ تحت پر نیم دراز لیٹی وہ کوئی بلا کی پرکشش عورت تھی جسکے ہاتھ اس عمر میں بھی مرمریں اور چہرہ اب تک شکنوں سے پاک تھا۔

اور جسم کی بناوٹ و دلکشی بھی تراشی ہوئی ، سونے اور ہیرے کے زیورات سے سجی ہوئی کنو بائی۔

اسکے ہاتھ میں کوئی تصویر تھی، جسے اس عورت کی نیلی آنکھیں حسرت سے دیکھنے میں محو تھیں۔

"ہے کنو، ری کنو کدھر ہے جان من"

مردانہ بھاری اور رعب دار آواز حویلی کے داخلی دروازے کی سمت سے گونجی تو تیزی سے باہری برآمدے میں  مرچیں پھیلاتی مالنی، اس ہیبت ناک آدمی کی آواز پر ڈری اور صحن میں لگے پلرر کے پیچھے چھپ گئی۔

وہ حسب توقع گہرے سیاہ قمیص شلوار میں لپٹا ہوا  ، مست و خمار آلود نظروں سے ادھر ادھر بہت سی حسن کی دکان لڑکیوں کو خباثت سے تکتا ہوا اندر کی جانب بڑھ رہا تھا جو سب ہی اس آدمی کے آتے ہی اپنے اپنے منہ پھیر لیتی تھیں۔

"آگیا منحوسیت کی دکان، پھر سے اماں جانی سے گالیاں کھائے گا اور بے وجہ پیٹے گا، حرام حور"

باہر اپنے اپنے کام میں مگن لڑکیوں میں سے ایک نے ناک سکوڑے تبصرہ دیا تو سبھی من ہی من میں اس آدمی کو کوسنے لگیں اور پھر جلد ہی کوئی کپڑے دھونے میں لگ گئی، کوئی اچار بنا کر مرتبان بھرنے میں، کوئی دوپٹے رنگنے میں تو کوئی ایک کونے پر درزن بنی بیٹھی چھک چھک مشین چلائے کپڑے سینے لگی۔

جبکہ وہ جو اندر آیا، اس دلکش عورت نے پہلے ہی خوفزدہ ہوئے وہ تصویر اپنے گاو تکیے تلے چھپا دی اور ساتھ اپنا فرشی حقہ پکڑ کر نزدیک کیے پینے لگی االبتہ اس طلال نامی آدمی کی آنکھوں میں ہی کنو بائی کا غصہ اور دل لوٹتی حقارت تکتے سرور آیا تو وہ بے تکلف سا ٹھیک اسکے پاس جا بیٹھا۔

"میں نے کہا سلام کنو جان، کیسی ہیں۔۔ یہ باہر کیا چل رہا ہے؟ کیا دھندا نہیں کر رہیں یہ سب جو ماسیاں بنا رکھا انکو صبح صبح"

کنزا کے ہاتھ سے وہ حقہ لے کر اک سوٹا بھرتا ہی وہ اصل مدعے پر ناگواری کے سنگ آیا تو نہ صرف کنزا نے اسکی موجودگی پر جبڑے بھینچے بلکہ وہ ساتھ ہی اٹھتے ہی تحت سے اتری، اسکے پیر زمین پر پڑنے سے پہلے ہی وہ خباثت بھرا آدمی فورا سے بیشتر اسکے قدموں میں بیٹھا اور اپنا ہاتھ کنزا کے نازک سے پیروں تلے رکھا۔

وہ اس کے یوں کرنے پر اندر تک سلگی پر ظاہر نہ کیا۔

"ناں کنو جان، میلے کیوں کرتی ہیں پاوں۔ ہمارے یہ ہاتھ ہیں ناں۔ یہ بتائیں اس کام کا کیا ہوا؟ آپ کے ساتھ شرافت کا مظاہرہ اور کتنا کروں، دل دکھے گا جب آپ پر جانور بن کر ظلم کروں گا"

وہ ساتھ ہی چہرہ اٹھائے، کمینگی کے سنگ آنکھوں میں وہشت اور معنی خیزی لیے جانے کیا پوچھ رہا تھا کہ کنزا کو لگا کسی نے اسکے سالم دل کو کاٹ کر ٹکڑے کر دیا ہو۔

"میں نے اس دوزخ کو قبول کرتے ہی تجھے بتا دیا تھا طلال کے ایسی مانگ مجھ سے کرنے کی جرت بھی مت کرنا، میں تیری جان نکال لوں گی۔ اپنی یہ منحوس شکل لے کر دفع ہو جا یہاں سے اور کتنی قیمت وصول کرے گا تو میری، اگر تیری یہ گندی نظر بھول کر بھی میری پاکیزہ بیٹی پر گئی تو تجھے وہاں گاڑوں گی جہاں سے تیرا نشان بھی نہیں ملے گا"

وہ سر تا پیر نازک سی عورت، نفرت اور اشتعال میں ناصرف بپھری بلکہ زمین پر بیٹھے اس طلال نامی آدمی کا گریبان دبوچ گئی مگر وہ آگے سے مکرو سا ہنستا ہوا اس عورت کے اندر تک خوف اتار گیا۔

"ہاہا پاکیزہ، ہاہاہاہا۔ تیری بیٹی پاکیزہ، ہوگی۔۔ہوگی۔۔۔کب انکار کیا ہے کنو جان مگر تیرا حوالہ اسے کتنی دیر پاکیزہ رہنے دے گا۔ کوٹھے کا کام بہت مندا پڑ گیا ہے، گاہک اب اک نئی کنو بائی چاہیے ہیں جو اس کوٹھے کو اپنی موجودگی سے پھر آگ لگا دے۔ تیرا وہ سرمد تو کسی کام کا نہیں، سارا دن نشہ، جوا، شراب اور دنگے فساد کرتا ہے۔ اسے لڑکیوں کو ٹریپ کرنے والے دھندے کا گرو بنایا تھا تو سالا دو بار پولیس کے ہتھے چڑھ کر آپن کا کڑوڑوں کا نقصان کر گیا۔ اب تو جان ہے میری ، تجھ سے حساب تھوڑی لوں گا پر دیکھ تیری وہ بیٹی ہمارے دن پھیر دے گی،  ویسے بھی وہ نا تو تیرے ماں باپ کو قبول ہے نہ تیرے سسرالیوں کو۔ بخت کی موت کے بعد تیرے دونوں بچوں پر تیرا ہی حق ہے، مان جا اور لے آ اسے یہاں"

اس وحشی آدمی کا لفظ لفظ کنزا پر دہشت اتار چکا تھا اور وہ خوفزدہ ہوتی اسے کسی جن زادی کی طرح ہیٹنے لگی مگر دو تھپڑوں پر ہی طلال کے اندر کا حرام خور جاگا اور وہ اٹھتے ہی کنزا کو بالوں سے جکڑتا ہوا دیوار سے پٹخ گیا۔

اسکی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا جبکہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی مالنی کا سانس تھم گیا۔

"اپنے ہاتھ سنبھال لے کنو ، ورنہ میرا سب کچھ چلنے لگے گا پھر تیری ہی جان نکلے گی۔ میری بات اپنی اس کھوپڑی میں بٹھا لے۔ تو ابھی بھی میرے بیس کڑور کی قرض دار ہے اور جب تک یہ قرض پورا نہیں ہوتا، میں تجھے ہر لمحہ موت دوں گا۔ تیرا یہ جسم اب مزید مجھے برداشت نہیں کر سکتا میری رانی سو اب مجھے وہ لا کر دے جو اس کوٹھے کو تو آباد کرے گی ہی ساتھ طلال کی جوانی بھی لوٹا دے گی۔ اس ہیرے کو اپنے سگوں کے پاس چھپا کر جو تو آئی تھی ناں، مجھے تب بھی بڑا غضب چڑھا۔ اپنا وہ ناکارہ بیٹا لے آئی، لو بھلا کوٹھے پر ان لونڈوں کا کیا کام۔ اصل پیس تو وہ زونی ہے، تجھ سے کہیں حسین بائی بنے گی وہ۔ جلد لے آ اسے شرافت سے ورنہ اگر میں اسے اپنے طریقے سے لایا تو اسکے حس کو پہلے خود چکھنا پڑے گا۔ سمجھ گئی ہے کنو یا پھر تجھے اپنی دوسری زبان میں سمجھاوں؟"

وہ نجاست بھرے لفظ ، صور کی مانند کنزا پر پھونکتا ساتھ ساتھ اسکے چہرے پر بے خود ہوتا خباثت سے ہاتھ پھیر رہا تھا اور اسکے سرور میں ہوتا اضافہ، اسکے غصے پر حاوی ہوا مگر کنزا کی آنکھوں میں سیلن زدہ نمی اتر چکی تھی۔

اپنے آپ کو برباد کر کے اس نے زونی کی زندگی اور عزت تو تب بچا لی تھی مگر اب جیسے زونی پر پڑتے اس گندے سائے کے خیال نے ہی اس عورت کی آنکھوں کے آگے اندھیرا پھیلا دیا۔

"مت کر طلال، مجھے مزید کتنا مجبور کرے گا۔ میں نے اپنی ساری جوانی تیرے قرض چکانے میں گلا دی اس لیے کہ میری بچی اس غلاظت سے بچ جائے ۔ اس پر گندی نظر مت رکھ، ایسا نہ ہو کنو بائی کے ہاتھوں ہی تیرا قتل ہو جائے"

وہ اس درندے کے روبرو بے بس و مجبور ہوئے سسکی وہیں اسے خود پر سے پرے دھکا دیتی آخر تک غرائی مگر جب جب وہ عورت اسے خود سے دور کرتی، اس آدمی کا نشہ تھا کہ بڑھتا ہی چلا جاتا۔

اسکی آنکھوں میں ہلکورے لیتی وہشت ، کنزا کے جسم و جان کو کپکپا رہی تھی۔

"ہاہا گھر سے بھاگی ہوئی عورتوں کو انکے محبت کرنے والے شوہر بھی ایک دن دھتکار دیتے ہیں کنو، تو اسکی جیتی جاگتی مثال ہے۔ بخت نے تجھے اس کوٹھے پر پچاس ہزار میں بیچا تھا، وہ نشے میں ہو کر بھی یہ نیک کام کر کے دنیا کو تجھ جیسی عورتوں کی عبرت دیکھا گیا، وہ قرض سود سمیت ، تیرے کئی سال سے چکانے کے باوجود بھی تیری انہی ہڈ حرام اور گلی جلی باتوں کے باعث بیس کڑور تک جا پہنچا ہے۔ لہذا اب تیرے فرار کی کوئی راہ نہیں، تیری نجات صرف تیری حسین بیٹی زونین ہے۔ کل روانہ ہو جا سسر کے پاس اور جو پلین بتایا تھا اس پر عمل درآمد کر۔ بس ایک بار اسے ساتھ لے آ پھر تو اور سرمد میرے ہر قرض سے بری ہو۔ پھر میں جانوں اور وہ حسینہ"

وہ کھڑے کھڑے کنزا کی سماعت پر ہتھوڑے برساتا، اسکے جبڑوں کو اپنے آہنی ہاتھ میں جکڑ کر بنا اس عورت کے بلک بلک کر رونے کے ، تضخیک اور نفرت کے سنگ غرایا اور اپنی زندگی برباد کرنے والی وہ خود تھی سو رونا اور چینخنا بے سود تھا۔

نہ ہی طلال کو اس عورت کے آنسو متاثر کرتے تھے۔

"خدا کے لیے ط۔۔طلال، رحم کر"

وہ اس فرعون کے آگے پھوٹ پھوٹ کر سسکتی اسکے قدموں میں گری تھی اور وہ مونچھ کو تاو دیتا کمینگی سے اپنے پیر کنزا کے ہاتھ سے پرے چھڑواتا مسکرایا۔

"کبھی نہیں ، اور ہاں وہی بات جو ہمیشہ کہتا ہوں آج بھی جاتے جاتے کہوں گا۔ اگر مجھے مارنے کی کوشش بھی کرے گی تو میرے لوگ تم تینوں ماں بچوں کی بوٹیاں کر ڈالیں گے اور اگر تو نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تو تیری دونوں اولادیں تاعمر جہنم میں جلیں گی۔ لہذا تیرے پاس آخری حل یہی ہے کہ اپنے آپ پر اور جوانی کی سیج چڑھتے سرمد پر رحم کھا اور زونین کے بدلے اپنی نجات پا لے۔ کل تیری روانگی کی خبر نہ ملی مجھے تو میں خود لے آوں گا اس پیاری سی لڑکی کو"

وہ آدمی جسکے لہجے میں حاکمیت تھی اور وہ واقعی اس علاقے کا جانا مانا ڈان یعنی ناسور سمجھا جاتا تھا، وہ اسکے حسن سے غیر مہذبانہ سی چھیڑ خانی کرتا اسے روتا بلکتا چھوڑے جس طرح آیا اسی طرح دندناتا ہوا اس بدنام حویلی کے در و دیوار پار کرتا باہر نکل گیا جبکہ مالنی نے دوڑ کر اندر پہنچے فرش پر کرب اور اذیت سے ہچکیاں بھرتی کنزا کو سنبھالنا چاہا مگر اس معصوم سی آنکھوں والی لڑکی کی آنکھیں تو خود سوگوار ہو چکی تھی۔

                             ..____________________..

"اس قدر بے سکون اور فتنہ خیز زندگی میں، اس گزری پرسکون رات کی مہربانی ادھار ہے مجھ پر صنم، شاہانہ بدلا چکاوں گا جب مکمل میری دسترس میں آئیں گی۔ اتنے کم پر گزراہ مشکل تھا لیکن کر لیا، صنم جو ہیں ، آپ پر سجتا ہے میثم ضرار چوہدری کو خود کے لیے بے قرار رکھنا۔

آپکے سنگ شدید قربتیں میری خواہش اور آرزو بن گئی ہیں، بنا آپ سے ملے جا رہا ہوں لیکن آپکے جسم و جان پر اپنا آپ اتنا تو تحریر کر دیا ہے، کہ اب آپکو میثم ہر لمحہ اپنے ساتھ محسوس ہوگا"

جذب سے اس شوخ جذبوں والی بوجھل حسینہ پر جھک کر سرگوشی کیے وہ اسکی ناک، آنکھیں اور ٹھوڑی لبوں سے بہت احتاط سے مس کرتا زرا فاصلہ بنائے تب مسرور ہو گیا جب اسکی سوتے میں مدھم مدھم سانسیں ، چپکے سے اپنے اندر اتارتے ہوئے وہ اسے خبر بھی نہ ہونے دے سکا تھا۔

اسکے لیے اشنال عزیز کا سکون سر آنکھوں پر تھا۔

"واللہ جب میرے اختیار میں آئیں گی تو خود کو کیسے سنبھالوں گا۔ میثم کا واحد سکون آپکی مضبوط باہیں ہیں یار جن میں دنیا جہاں کا تحفظ ہے، راحت ہے۔ آپ ایسی ہیں کہ آپکے لیے آخری سانس تک مجھے آزمایا جائے تو وہ بھی کم ہے"

وہ تب بھی پرسکون نیند میں مبتلا رہی جب وہ جاتے جاتے بھی اس پر اپنی محبت کی برسات کرتا، مبہم مسکراہٹ سمیت بڑا جان لیوا مسکرایا۔

گو اس وقت اتنا وقت ساتھ گزارنے کے بعد دور ہونا مشکل تھا مگر اپنے اصولوں اور ذمہ داریوں کے بارے وہ کبھی چوکا نہ تھا، اپنی باہوں کے حصار میں اک الوداعی جذب سے بھر کر اسکی پیشانی چومے وہ اٹھا، اپنا وہی فون سائلنٹ کیے اشنال کے تکیے کے نیچے رکھ دیا۔

یہ فون اور نمبر وہ لایا ہی اس لڑکی کے لیے تھا تاکہ کم ازکم رابطہ بحال ہو سکے۔

اپنے سلوٹوں بھرے کپڑوں پر اک نگاہ ڈالتا وہ جاتے جاتے آئینے میں نگاہ ڈالے رکا، اپنی کارستانیاں یاد آئیں تو جناب کے ہونٹوں پر تہلکہ خیز مسکراہٹ مچلی۔

بس اس سے زیادہ وہ اس سوئے بے خبر دلکش سراپے کو نہ دیکھ سکا اور جس طرح پوری شان سے کمرے میں آیا ویسے ہی اسی چابی سے ان لاک کرتا، اپنی قیمص کی سلوٹیں جھاڑتا ہوا، چادر مخصوص روائیتی مگر اخیر جچتے انداز میں لیتا وہ باہر نکل گیا۔

جبکہ اپنے پیچھے اشنال عزیز کے چاروں سو وہ اپنی موجودگی اور خوشبو چھوڑ گیا تھا۔

جو اس لڑکی کا حوصلہ بننے والی تھی۔

                           ..____________________..

"جاگتے ہی پہلی فرصت میں مجھ سے رابطہ کرو وری، میرے کچھ لوگ بتا رہے ہیں کہ حویلی کے حوالے سے کچھ مشکوک افواہیں سنائی دی ہیں۔ صرف تم ہی مجھے اصل حقائق بتا سکتی ہو۔ رات کو اہم کام آگیا تو واپسی پر دیر ہوگی تھی، کال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ حویلی میں کوئی بھی میرا فون نہیں اٹھا رہا، مجھے تمہاری کال کا انتظار رہے گا"

بڑے سے کشادہ ائیر کنڈشنر آفس نما کمرے میں ، باس رولنگ چئیر پر وہ سول لباس میں لپٹا ہوا، لگ بھگ چونتیس سالا خوبرو دھانسو قسم کا نوجوان بیٹھا تھا جو اپنے فون پر مصروف میسج لکھنے کے بعد بھینچے خدوخال کے سنگ اس جائزہ لیتی نگاہ ڈالتا ہوا ارسال کر چکا تھا۔

چہرے پر بلا کی سنجیدگی جبکہ خاندانی خانوں کے حسن سے مالا مال سرخ و سفید رنگت، فرق بس اتنا تھا کہ ولی زمان کی آنکھیں، عقابی حصلت اور عادت، خونخوار قسم کی تھی۔

ساتھ ہی آفس کے اندر داخل ہوتا پولیس کی ودری میں لپٹا اہل کار تیزی سے سلوٹ ٹھوکتا ہوا اندر داخل ہوا۔

"ہاں کہو "

بھاری مردانہ ، مگر سخت آواز ابھری تھی۔

"سرکار، سرمد چوہدری آیا ہے۔ لوزامات کے سنگ"

وہ اہل کار جس بندے کی آمد کے بارے میں بتا رہا تھا اس پر ولی زمان کی آنکھوں میں انجانی سی ناپسندیدگی اور خفگی ابھری وہیں چہرے پر سنگلاخ چٹان سی سختی سجاتا وہ فون سامنے میز پر پٹختا اٹھ کر کھڑا ہوا۔

"گھنٹہ انتظار کروا اس نامراد کو پھر بھیجنا اندر، تب تک میں تھوڑی آنکھ لگا لوں"

شعلہ باز نظروں اور سرد مہر لہجے میں وہ اپنی تھکن سے اٹی آنکھیں انگلیوں سے دباتا،  اپنی بات کہتا، ساتھ ہی اپنی بارعب دھاک بٹھاتا ہوا پچھلی سمت بنے دروازے سے باہر نکل گیا اور اہل کار بھی فرمابرداری سے باہر نکلا تو سامنے اپنے سات آٹھ خبیثوں کے ساتھ نوابی انداز میں کرسی پر بیٹھا، ٹانگ پر ٹانگ جما کر اس آتے ہوئے اہل کار کو اپنی خشمگیں نگاہوں سے گھورتا ہوا سرمد چوہدری نجاست آمیز مسکرایا۔

"سرکار مصروف ہیں، گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا"

اس وردی میں موجود، سرمد چوہدری کے بقول، قانون کا چھلڑ اسے انتظار کروانے کی کوفت دیتا ہوا واپس جا چکا تھا جبکہ سرمد چوہدری کی نیلی آنکھیں اگلے ہی پل عجیب سے ہتک کے احساس سے سرخ ہونے لگیں۔

یہ پہلی بار نہ تھا، انسپیکڑ ولی زمان، سرمد چوہدری جیسوں کو انکی اوقات پر رکھنا خوب جانتا تھا۔

اور وہ عیاش، اور نجس دیکھائی دیتا سرمد بھی کیا کرتا، یہ معاملہ ہی ایسا تھا کہ اسے اپنے غضب کو اپنے سے بڑے سر پھرے ڈان کے آگے دبانا پڑ جاتا تھا۔

وہ بڑی سہولت سے مٹھیاں بھینچ کر اس انتظار کو ضبط سے کاٹنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔

                            ..____________________..

خانم حویلی کے تمام افراد آٹھ بجے ہی ناشتے کی میز پر آچکے تھے، گو کل کا دن اور گزری رات سبھی کے لیے صبر آزما رہی تھی مگر اس وقت سبکے چہروں پر بظاہر سکون دیکھائی دے رہا تھا۔

حویلی کی ملازمائیں ناشتہ لگوانے کے بعد اپنے اپنے چہروں پر چادروں کے کونے ڈالے اک طرف کھڑی ہو چکی تھیں جبکہ بڑی شاہی کرسی ابھی خالی تھی جسکا مطلب تھا سب گل خزیں خانم کے منتظر تھے۔

"مشارب! طبعیت ٹھیک ہے تمہاری؟"

سپاٹ تاثرات کے سنگ بے حس و حرکت بیٹھے مشارب پر پہلی نظر ہی سردار خاقان کی گئی تبھی وہ اسکی جانب فکر سے دیکھتے استفسار کرتے اسے اپنی سمت متوجہ کر چکے تھے۔

"کیسے ہو سکتی ہے دادا سائیں، کل جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اب تو مجھے بھی لگ رہا ہے کہ جو نظر آیا تھا وہ صرف آنکھوں کا دھوکہ تھا۔ قصور وار تو کوئی اور تھا"

اسکے سرد پن میں کچھ اسکی پشیمانی بھی شامل تھی اور مشارب نے جس شبہ کا ذکر کیا اس پر عزیز خان، زمان خان اور سردار خاقان تینوں کے چہروں پر ایک جیسی حقارت امڈی، فرخانہ بھی غصہ دباتی دیکھائی دیں۔

البتہ خدیجہ خانم، سبکے اشتعال امڈتے انداز پر خوفزدہ ہوئیں۔

"کیا کہنا چاہتے ہو تم مشارب؟ کھل کر کہو"

اس بار زمان خان نے تندہی سے استفسار کیا، انکا افشار خون یہ سوال کرتے چہرے پر سرخی چھلکا گیا تھا۔

"یہی کہ بہت بڑی سازش رچی گئی تھی، میں مانتا ہوں مجھ سے جذباتی طور پر علیم کا قتل ہوا ہے لیکن جب سے یہ سب ہوا میرے دماغ شدید اذیت سے دوچار ہے، اور پھر میری اس کوتاہی کی سزا اشنال کو ملی، پلیز آپ سب لوگ مجھے کچھ دن تحقیق کے لیے دیں تب تک یہ ونی نکاح روک دیں"

رات بھر سوچ و بچار نے مشارب پر بہت سارے پردے چاک کیے تھے، خاص کڑی شہیر کی دھلائی تھی اور اسکے نزدیک ایسا صرف وہی کر سکتا تھا جبکہ سردار خاقان سمیت انکے دونوں سپوت بھی کسی گہری سوچ میں مبتلا نظر آئے۔

جبکہ عزیز خان اور خدیجہ خانم کی آنکھوں میں ان کہا سا خوف صاف دیکھائی دے رہا تھا مگر فرخانہ ، مشارب کی تمام باتوں پر برہم اور بے قرار نظر آئیں۔

"کس پر شک ہے تم کو مشارب زمان؟"

دادا سائیں کی غصے سے لبریز آواز سوالیہ ہوئے گونجی تو سب ہی دادا جان کے امڈتے غضب پر زرا دبے دیکھائی دیے۔

جبکہ داخلی دروازے کی جانب سے بلند ہوتا عجیب سا شور ان سبکی توجہ کھینچ گیا، دروازے پر کھڑے دو ملازم، ناجانے کس سے منہ ماری کرتے دیکھائی دیے کہ اگلے ہی لمحے دونوں کے جبڑے اس بری طرح سینکے گئے کہ ایک تو ساتھ دروازے سے پٹخ کر فرش پر گرتے ہی دلخراش چینخا اور دوسرا بھی میثم ضرار چوہدری کے ایک ہی خونخوار تماچے سے کئی قدم دور جا کر لہرایا اور ساتھ ہی حویلی کے باقی آدمیوں نے کچھ باہر اور کچھ اندرونی جانب سے اپنی اپنی بندوقیں میثم پر تان لیں۔

ایک لمحے تو اندر بیٹھے حویلی کے تمام لوگوں پر اس شیر کی آمد پر سکتا طاری ہوا جو اس خطرناک صورت حال میں بھی سلگتی مسکراہٹ کے سنگ دروازے میں سینہ تانے کھڑا تھا۔

"یہ کیا لینے آیا ہے یہاں، ہمت تو دیکھیں زرا اس کی؟"

فرخانہ کی سخت ناپسندیدگی ظاہر کرتی آواز گونجی تو مشارب زمان جو پہلے ہی بیقرار سا بیٹھا تھا، جھٹکے سے اٹھ کر داخلی گیٹ کی جانب لپکا اور نفرت چھلکاتی نظروں کے سنگ میثم کا ہنستا آگ لگاتا چہرہ دیکھتا اسکی اور لپکتے ہی گریبان سے پکڑ لیا۔

جبکہ ان دو کے بیچ متوقع ہوتی ہاتھا پائی پر سردار خاقان نے اپنے تمام لوگوں کو گن نیچے کرنے کا اشارہ سونپتے ہی خود اٹھتے ہوئے اپنا رخ اس جانب کیا تو باقی اہل خانہ بھی خوفزدہ سی شکلیں لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ہمیت کیسے کی تم نے اس حویلی میں قدم رکھنے کی ، آج نہیں چھوڑوں گا تمہیں"

مشارب ایک بار پھر آگ کی طرح بھڑکتا ہوا اس سے پہلے خود پر اختیار کھوتا اس کے ہنستے چہرے پر مکا جڑتا، الٹا میثم نے ایک ہی جھٹکے سے اپنی بازو گما کر مشارب زمان کی گردن دبوچی جس پر ہر کوئی اک لمحہ اسکی آنکھوں کی آگ دیکھ کر تھما۔

حویلی کے محافظ آگے بڑھے مگر میثم کی ایک ہی نظر ان سبکے قدم منجمد کرنے کو کافی تھی الٹا وہ جس طرح مشارب کی گردن دبوچے اسے تکلیف دے رہا تھا، حویلی کے کسی فرد میں اتنی جرت نہ تھی کہ وہ کوئی مزاحمت کرتے۔

"سوال نہیں پسند مجھے، تب تو بالکل نہیں جب میں خود تم لوگوں سے جواب لینے آوں۔ اپنے ان پالتو کتوں کو باہر چلتا کرو ورنہ آج تم سب کا یہ آدھی ادھوری سانسوں والا لاڈلہ اس دنیا سے کٹ جائے گا"

سبکی آنکھوں میں میثم کی دھاڑ نے خوف بھرا وہیں اسکی دھمکی کا زور آور اثر تھا کہ خود زمان خان نے سبھی محافظوں کو حویلی سے باہر جانے کا اشارہ کیے قریب آکر مشارب کو اس درندے سے چھڑوانا چاہا تو میثم کے غرانے پر زمان خان کے قدم وہیں تھمے۔

الٹا مشارب کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر میثم کا دل زرا پگھلا، اب وہ اتنا بھی بے رحم نہیں تھا کہ نام کی بہن کا سہاگ اجاڑ دیتا تبھی دانستہ اس اتھرے مشارب کی گردن پر گرفت مدھم کی مگر وہ دیکھ سبکو یوں رہا تھا جیسے کھڑے کھڑے سبکی جان لے جائے گا۔

"چھوڑ دو مشارب کو میثم، تم اپنی موت کا سامان بنا رہے ہو ، ایسا نہ ہو بخت کی طرح تمہیں بھی سردار خاقان اپنے ہاتھوں میں مسل دے"

اس زخمی شیر کو کسی صورت بھی مشارب پر رحم کھاتا نہ دیکھ کر اس بار سردار خاقان کی آواز گونجی تھی اور میثم نے اپنے دو نمبر باپ کے قاتل کو بڑے زہریلے انداز میں دیکھا ساتھ ہی مشارب زمان کو دھکا دیے بری طرح سامنے تڑپتے ہوئے زمان خان کی جانب دھکا دیا جو کتنی دیر تک گہرے گہرے سانس بھرتا میثم کو لہو چھلکاتی نظروں سے دیکھتا رہا۔

فرخانہ خانم اور خدیجہ خانم تو یوں تھیں جیسے جسم سے جان سرک گئی ہو۔

"صرف بخت واحد تھا جسکا خون میں نے تم خانوں پر معاف کیا تھا، جانتے ہو کیوں۔ کیونکہ میرا باپ خود میرا مجرم تھا ورنہ اس دنیا کی کوئی طاقت اس شخص کو تمہارے ہاتھوں مرنے نہیں دے سکتی تھی۔ میں نے پھر صبر کیا کہ چلو وہ آدمی تم سب کا بھی گناہ گار تھا ،یہ خون معاف کر دیتا ہوں۔

جدی پشتی دشمنی ختم ہو جائے گی مگر نہیں تم لوگوں کی فطرت میں ہی پیٹھ پیچھے وار لکھا ہے،

تم لوگوں نے میرے سب سے خاص پیارے کو چھین لیا، چوہدری ہاشم کو چھینا تم سب نے میثم سے ، بدلے کے چکر میں تمہارا فرازم خان مارا گیا۔۔۔۔  اب شاید تم لوگ مشارب زمان اور میثم ضرار کی موتیں چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں"

وہ کھڑے کھڑے ان سب پر اس حویلی کی چھت گرا چکا تھا، ہر کوئی پتھر بنا کھڑا میثم کے گرج دار لہجے کے رعب تلے دبا اسکی نفرت بھری آنکھیں دیکھ کر دہشت کا شکار تھا۔

خانوں کے کسی فرد میں اس وقت اتنی جرت نہ تھی کہ وہ آگے بڑھ کر میثم کو آنچ بھی دیتے۔

"اپنی بکواس بند کر اور دفع ہو جا یہاں سے، فرازم خان کی موت کا بدلا ابھی باقی ہے اور وہ تیری جان لے کر ہی پورا ہوگا، حساب ابھی برابر نہیں۔ بزدار عالم جیسے بزدل کے اس آخری وارث کی ترس کھائے جان بخش رہے ہیں آج لیکن اگر دوبارہ تو نے اس حویلی میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی تو تیرے ٹکڑے کر دے جائیں گے۔ یہ مت بھولنا کہ ہم ابھی بھی پانچ مرد زندہ ہیں اور تیرے پاس تیرا ایک غموں سے چور دادا رہ گیا ہے"

نفرت کی انتہا کے سنگ خاقان خان اس پر زہر سے اٹے الفاظ انڈلیتے ہوئے اس زور دار انداز سے دھاڑے کہ خود ہر فرد سہم گیا مگر آفرین تھا وہ میثم کے جسکی آنکھوں میں وہ تاثر تھا جو دشمنوں کے قلعے میں گھس جانے والے شیر کا ہوا کرتا ہے۔

ایسا ترس، میثم چوہدری اپنی جوتی کی نوک پر رکھتا تھا۔

ان پانچ مردوں کا غرور دیکھ کر اسے ہنسی آئی، پہلی نظر ہی عزیز خان پر گئی تو خود عزیز خان کو لگا وہ بندہ اسکے اندر تک جھانکتا ہوا اس پر ہنس رہا ہے۔

پھر مشارب زمان جسکی نفرت چھلکاتی آنکھیں دیکھ کر میثم کو ویسے ہی ہنسی آئی، بچارا اسکی گرفت سے ابھی ہی تو مرتے مرتے بچا تھا۔

پھر جب میثم نے خنجر جیسی نظر اپنے باپ کے قاتل پر ڈالی تو وہ نظر سردار خاقان کے سینے تک زخم اتارتی چلی گئی۔

"دادا والا مزاق کر کے آپ نے میری عاجزی بھاڑ میں جھونک دی دشمن دادا جی، سب کہتے ہیں میثم تُو عاجز اور مہربان ہی جچتا ہے۔ پر سبکو کیا پتا کہ شیر کو جنگل کا حکمران بنے رہنے کے لیے اپنی اچھی خصلت پرے کیے بہت سے چالاک گیدڑوں کا سینا چیڑنا پڑتا ہے، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ جنگل ہر ایرے غیرے کا ہے"

اسکے اندر بھی غیرت اور گرمی تھی جو کم ازکم بزدار عالم کے خلاف بولتے ہر فرد کو دن میں تارے دیکھا سکتی تھی، یہاں میثم نے بڑی عاجزی کے سنگ اپنے لفظوں کے تماچے رسید کیے اور وہیں باہر ہوتی اندھا دھند فائرنگ پر تمام سرداران کے چہروں پر خوف اور جسم پر کپکپی چھائی۔

سائیں کا وفادار جبل زاد، بیس رکنی ٹیم بنائے، پوری حویلی کو اگلے دو منٹ کے اندر اندر گھیر چکا تھا، خانوں کے چار پانچ مخافظ اس دنگے کے دوران زخمی ہو چکے تھے مگر جبل زاد نے سبکو محتاط رہنے کا پہلے ہی حکم دیا تھا اور یہ بھی کہ خان کا کوئی پالتو کتا جان سے نہیں جانا چاہیے، جو زخمی ہوئے وہ بھی کچھ زیادہ پھرتی دیکھا رہے تھے جبکہ باقی تو سہمے ہوئے ڈر کر اپنی اپنی بندوقیں پہلے ہی گرا گئے۔

سبکی آنکھوں میں اپنے ہونے کا خوف دیکھنا، میثم ضرار چویدری کو ہمیشہ سرور بخشتا تھا۔

"اگر ہمارے کسی آدمی کا بال بھی بیکا ہوا تو تیری قبر اسی حویلی میں بنا دیں گے میثم"

اس بار عزیز خان دھاڑا تھا جبکہ میثم پہلے تو بڑا متاثر ہوا پھر اس بکری نما خان کی دھاڑ پر وہ کتنی ہی دیر پاگلوں کی طرح ہنستا چلا گیا، اسکی ہنسی ان سب خانوں پر دہشت طاری کر چکی تھی۔

"چچ چچ عزیز خان، میرا ہنسنے کا موڈ نہیں تھا پر بڑا کھوچل ہے تو۔ اس انٹینس ماحول میں بھی مجھے ہنسا دیا۔ "

وہ ٹھٹھے اور شغل میں ہنستا ان سبکو مزید آگ لگا رہا تھا اور تینوں سرداران سمیت مشارب کا بھی بس نہ چلا کہ اسکی نجس ہنسی نوچ ڈالے۔

"کیا چاہتا ہے تو میثم؟ بول کیوں اپنی موت کو للکار رہا ہے؟"

اسے کسی صورت دبتے نہ پا کر اس بار زمان خان نے مدعے کی بات کی اور ان سب میں اسے یہی بندہ تھوڑا سیانا لگا تبھی تو جناب سحر انگیز سی مسکراہٹ دیتے زرا قدم بڑھائے بے تکلفی سے نزدیک آئے۔

سیاہ وہی لباس اور پھر گلے میں ڈالی بے ترتیب چادر اس پر غضب کی جچتی، باوقار، لمبا ، چوڑا وہ ہر موں سے اپنی شخصیت کی دھاک بیٹھاتا دیکھائی دیتا تھا۔

علاقے کے بڑے بڑے لوگ اسکے آگے جھکتے تھے تو کیوں نہ عاجزی کے باوجود وہ سر اٹھائے جینے والا جی دار ہوتا۔

اسی دوران جبل زاد بھی حویلی کے اندر اپنی گن لیے ہمیشہ کی طرح اپنے سائیں کا سایہ بننے پہنچ آیا تو میثم نے اک عزیز جان نگاہ اپنے اس وفادار جبل زاد پر ڈالی جسے اللہ بروقت میثم کی خفاظت کرنے کا حکم سونپ دیتا تھا اور وہ بنا بتائے ہمیشہ ضرار کے پاس چلا آتا۔

جبل زاد کا سینہ ، اپنی سائیں کی ایسی رشک آمیز نظروں سے چوڑا ہو جاتا۔

"یہ زرا سیانا لگا مجھے، شکل سے ہی عقل والا لگتا ہے زمان خان اور اسکا بڑا بیٹا وہ طوفانی تھانیدار ورنہ باقی سب تو گٹوں میں عقل لیے بیٹھے ہیں یہاں، چلو پھر ناشتہ کرتے ہیں اور آپس کے معاملات طے کرتے ہیں۔"

وہ یوں بولا جیسا اپنے باپ کے گھر ہو اور وہ سب خطرناک خان زادے اور زادیاں اسکے ملازم، جبکہ جو بھیانک ماحول تھا اس وقت ہر کوئی اسکی انگلیوں پر ناچ رہا تھا، جبل زاد اس سب کو مخظوظ ہوئے دیکھتا اب ضرار کے ساتھ ہی چلتا گل خزیں خانم کی کرسی پر اسکے براجمان ہوتے ہی سایا بن کر کھڑا ہوا جبکہ اس حویلی کی سردارنی کی جگہ پر جس دھڑلے سے میثم آکر بیٹھا تھا، وہ سب ہی تلملائے۔

مگر وہاں پرواہ کسے تھی، وہ تو آیا ہی ان سبکو پیچ و تاب سے گزارنے، آگ لگانے اور بتانے کہ اسے عاجز سمجھنے والے کسی گماں میں نہ رہیں کہ اسکے اندر ایک دہکتا ہوا آتش فشاں بھی موجود ہے۔

اشنال کو جاتے ہوئے اس نے جو غائبانہ تسلی دی تھی اس پر وہ گہری پرسکون نیند میں اب تک ڈوبی تھی، اسکے خواب میثم کی قربتوں نے مزید خوبصورت اور پرامید کر دیے تھے۔

گل خزیں خانم خان، حویلی کے نچلا حصے کی جانب متوجہ، بالائی زینوں سے کچھ فاصلے پر اپنی دو ملازماوں کے ساتھ کھڑیں کافی دیر سے نیچے ہوتا تماشا دیکھ رہی تھیں جبکہ وہ خاصی پرسکون دیکھائی دیں۔

"میرے ضبط کا امتحان مت لو میثم، جو بکواس کرنی ہے کرو اور نکلو یہاں سے۔ ایسا نہ ہو یہی آدھی سانسوں والا تمہاری پوری سانسیں ختم کر دے"

اسے گل خزیں خانم کی جگہ آکر بیٹھتا دیکھ کر مشارب کو پھر سے آگ لگی اور وہ ساتھ ہی آکر بیٹھے اسکی اور انگلی دیکھ کر غرایا، باقی سب ویسے ہی کھڑے تھے اور سبکے چہروں پر پتھریلی حقارت درج تھی۔

"مجھے زیب نہیں دیتا مشارب زمان کہ میں تمہارے اندر کی اس ادھوری سانس والی کمی کا مزاق اڑاوں مگر مجبور ہو جاتا ہوں، کیوں اپنی زندگی ختم کرنے کے اسباب بنا کر محترم سردار خاقان کا ایک مزید وارث کم کرنے پر تلے ہو۔ تمہاری جرت بھی کیسے ہوئی کہ تم میری اشنال پر ایسی گندی الزام تراشی اور بہتان کی یقین دہانی کیے بنا اس سب میں کودے۔ تمہاری جذباتیت اس معصوم اور پاکیزہ لڑکی کو جہنم میں جھونک گئی۔ بلکہ تم سب لوگ ، کیا سمجھا تھا کہ تم میثم کی محبت کو یوں بے عزت کر کے ونی کرو گے اور وہ چپ چاپ تم لوگوں کی گندی روایات کو تسلیم کرے گا"

وہ جس بے خوفی اور حقارت سے پہلے آنکھیں نکال کر گھورتے مشارب پر بگھڑا اور پھر سب خانوں کی مٹی پلید کی تو اس بار مشارب آپے سے پھر باہر آتا اٹھ کر اسکا گریبان دبوچ چکا تھا۔

ایک بار پھر مشارب کے لیے وہاں سب کا دل پھڑپھڑایا۔

"خبردار جو اپنی گندی زبان سے تم نے اشنال کا نام بھی لیا، تمہاری محبت بننے سے لاکھ درجے بہتر یہی ہے کہ وہ کسی شہیر جیسے کے ساتھ ونی ہو جائے۔ مجھے جو اپنے کیے پر افسوس تھا وہ بھی تمہاری اس درجہ ہڈ ہرامی پر ختم ہوا چاہتا ہے۔ پہلے مجبوری تھی مگر قسم کھاتا ہوں اب ضد میں تمہاری اشنال کو تم سے اتنا دور کر دوں گا کہ تمہاری سوچ ہے"

مشارب کے چہرے پر خون چھلکا تو وہیں میثم کو گلا گھٹنے کا زرا احساس ہوا جس پر وہ اسکے ہاتھوں کو ایک ہی جھٹکے سے دبوچ کر پرے دھکیلتا اٹھ کھڑا ہوا۔

دونوں کی نفرت بھری آنکھیں ، حشر برپا کر رہی تھیں۔

"پھر تو تمہاری رہی سہی آدھی سانس بھی چلی جائے گی تیل لینے، ان سب سے مشورہ کر لو کہ پانچ کے بجائے یہ چار وارثوں کے سنگ سجیں گے یا نہیں"

اسکا یہ ہیبت ناک مزاق ، جبل زاد کو ضرور مسکراہٹ دے چکا تھا البتہ باقی سب پر قہر سا ٹوٹا۔

"بس بہت ہو گیا ، ہمیں مجبور مت سمجھنا میثم، اس سب کا حساب تو تم چکاو گے۔ فی الحال اپنی سانسوں کی فکر کرو کیونکہ تمہیں کچھ ہوا تو وہ بزدل بزدار عالم تو ویسے ہی مر جائے گا"

پھر سے سردار خاقان خان، جبڑے بھینچ کر رعب سے دھاڑے تھے مگر انھیں اور انکی ان سوکھی دھمکیوں کو وہ اپنی پشاوری چپل کے کونے پر رکھے کک مار چکا تھا اسکی توجہ ہنوز خود پر جمی ان سرخ سبزی مائل آنکھوں کی جانب تھیں۔

وہ جانتا تھا مشارب زمان کو بس اسکی ایک بار ٹھکائی کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اسے اچھا جانتا تھا اور میثم کی گڈ بک میں بہت کم لوگ اچھوں کی فہرست میں موجود تھے۔

"وقت بتائے گا کہ اصل بزدل ہے کون،میرے جاننے والے کسی سیانے نے کہا تھا کہ عورت کے پیچھے چھپنے والا مرد ، ناچنے گانے والی بدنام عورت سے بھی بدتر ہے۔ اب تم خود سوچنا مشارب زمان کے تم نے اپنی موت سے بچنے لیے جو اشنال کو ونی ہونے دے دیا، وہ عورت کے پیچھے چھپنا ہی تھا یا کوئی دوسری نئی کہاوت میثم ضرار چوہدری کو ایجاد کرنی پڑے گی"

اپنے سلگتے، مخصوص سرد انداز میں وہ یہ لفظ کوڑوں کی طرح مشارب زمان کو کہہ کر اسکی ہستی فنا تو کر ہی گیا ساتھ میں خانوں کو سانپ بھی سونگھ چکا تھا۔

"رہی بات جو آپ بزدار عالم کو بزدل کہہ رہے ہیں محترم دشمن دادا جی تو ایک بات اپنی نقطے جیسی عقل میں اچھے سے گھسا لیں، وہ ایسا شیر مرد ہے جس نے میثم ضرار چوہدری کی پرورش اور تربیت کی ہے ، یہ کھڑا ہے اس شخص کا عکس، بزدار عالم ، جس نے اپنے ایک گناہ گار بیٹے کو تمہارے یعنی اپنے دشمن کے سامنے پیش کر کے سزا کا حکم دیا تھا ، اور دوسرے بے گناہ کے تم لوگوں کے ہاتھ قتل ہو جانے پر حوصلہ کیا، جس نے اپنے دو بیٹوں کی موت کو بھلا کر میثم ضرار چوہدری کی موجودگی پر صبر کیے زندگی کو جھیلا ہے، جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کئی بار اپنا گھر اجڑتے دیکھا۔ جس نے بخت اور کنزا کی ایک اولاد کو سینے سے لگائے قبول کیا اور دوسرے کے لیے غائبانہ حفاظتیں ترتیب دیں۔ وہی شخص جسکا دل، اس آسمان و زمین سے کہیں درجہ وسیع ہے اور تم جیسے اس کے پیروں کی خاک بھی نہیں"

وہ اپنے مضبوط لہجے میں بولتا ہوا ان سب کی بولتی بند کروا چکا تھا، اس نے ایک بار پھر سینہ ٹھوک کر سب پر اپنی دہشت طاری کی اور اپنے دادا کی پہچان کروائی۔

"اور تم سب اپنے کان کھول کر میری آخری وارننگ سن لو، اشنال عزیز صرف میثم ضرار چوہدری کی ملکیت ہے۔ اگر کسی نے بھی اس کے بارے میں کوئی غلط فیصلہ کیا تو اس انسان کی جنگ مجھ سے ہوگی۔

میں مارتا نہیں ہوں، میں دشمن کو بری موت مرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر دیتا ہوں۔ باہر نکل کر کسی سے بھی پوچھ لینا، سب جانتے ہیں کہ جب میثم یاری نبھاتا ہے تو یاروں کو وار کے لیے اپنا سینہ پیش کرتا ہے مگر جب دشمنی نبھاتا ہے تو سامنے والے کی روح کانپ اٹھتی ہے"

لب و لہجے میں محسوس کن سختی اور حقارت لیے وہ ایک ایک کر کے سبکی شکلوں کو دیکھتا دھاڑا تھا، اسکا انداز حاکمانہ اور لفظ لفظ تیر کی طرح سینے کے پار ہو رہا تھا۔

وہ سبکو اپنے خوف سے ڈراتا ہوا میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھائے دو تین گھونٹ بھرتا باقی کا زرا فاصلے پر کھولتے ہوئے مشارب کے منہ پر گراتا پلٹا جس نے بڑی دقت سے اسکی اس حرکت پر اپنی مٹھیاں بھینچی۔

گردن کی رگیں تنیں تو چہرہ سرخ بھبھول ہوا۔

"زیادہ غصہ ٹھیک نہیں تیرے لیے، دل پھٹ گیا تو میری سوتیلی بہن بیوہ ہو جائے گی۔ لاکھ وہ بری لگے پر دل کے معاملوں میں میثم تو دشمن کے لیے بھی بڑا نرم مزاج اور مہربان ہے۔۔۔اب آپ لوگ ناشتہ کر سکتے ہیں۔ پھر ملیں گے"

کمینی سی مخصوص دل جلاتی مسکراہٹ دیتا وہ سب کو آگ لگاتا جس طرح دن دہاڑے حویلی گھسا ویسے ہی جبل زاد کے ہمراہ اپنے لفظوں کے تماچے مارتا ہوا باہر نکلا۔

پوری حویلی کے ڈرے سہمے مخافظوں کو دیکھ کر اسنے جبل زاد کی پیٹھ، شاباشی سے تھپکی اور اپنے پروقار انداز میں اپنی گاڑی کی سمت بڑھتا اندر سوار ہوا۔

کچھ ہی دیر میں یکے بعد دیگرے وہ تینوں گاڑیاں خانم حویلی کی حدود سے پوری شان سے نکلیں تو وہیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے جھانکتی خمار آلود آنکھوں والی اشنال عزیز نے دل دھڑکاتی مسکراہٹ دیے پار دیکھا تو جناب گاڑی کے سیشے کو گراتے ہوئے صنم کا آنکھوں ہی آنکھوں سے جان لیوا دیدار کرتے نظر آئے۔

یہاں تک کہ خود جبل زاد نے مسکراتے ہوئے اپنی نظریں ان دو پر سے ادب کے سنگ ہٹا لیں۔

وہ اوجھل ہوا تو اشنال عزیز نے اسکے ساتھ ہی اپنا دل، اور دعائیں رخصت کر دیں۔

وہیں اس شیر کے جانے کے بعد ابھی تک حویلی کے لوگوں پر سکتہ طاری تھا۔

گل خانم خزیں اب تک وہیں موجود تھیں۔

"ڈرتے نہیں ہیں اس کل کے آئے میثم سے، خان ہیں ہم خان۔ وہی کریں گے جو ہماری روایات کہیں گی۔ آج تو یہ گھس کر رعب جما گیا، آئیدہ اس علاقے میں بھی نظر آیا تو بھون ڈالو کافر کو، منحوس مارا۔ ہماری ہی حویلی گھس کر ہماری ہی بچی پر ملکیت جتانے والا ہوتا کون ہے یہ؟"

سب کو سہما، رندھے چہروں کے ساتھ اس کچھ قبل پہلے ہوتی واردات سے پریشان دیکھ کر سردار خاقان حلق کے بل دھاڑے تھے۔

"اشنال عزیز کا حاکم"

نسوانی ، بھاری اور تنتناتی آواز حویلی کے در و دیوار میں ہیبت ناکی اور زہر کے سنگ گونجی تھی، سب نے بیک وقت حیرت اور نفرت کی ملی جلی کیفیت کے سنگ اپنی دو ملازماوں کے سنگ اپنی پوری آن بان کے سنگ سیڑھیاں اترتی گل خانم خزیں کو دیکھا تو یہ انکشاف کھڑے کھڑے ہر فرد کے پیروں تلے سے زمین سرکا گیا۔۔۔۔

اصل قیامت تو اب برپا ہوئی تھی۔

سب کے جسموں میں سنسنی اور اذیت دوڑتی ہوئی گل خزیں خانم کی اٹھی آنکھوں سے چھپی ہوئی نہیں تھی، جبکہ عزیز خان اور خدیجہ خانم کے چہرے یوں زرد پڑے جیسے کسی نے کھڑے کھڑے انکے جسموں سے روح نکال لی ہو۔

"کیا مطلب تھا اس بات کا سردارنی؟"

ناپسندیدہ لہجے میں برہم ہوتے ہوئے سردار خاقان نے استفسار کیا، مشارب زمان، زمان خان، فرخانہ خانم تک دم سادھ لیتے بڑی سردارنی کے چہرے پر جمع ہوتی نفرت دیکھ رہے تھے۔

"یہی کہ بنا کسی حق کے یہ غیرت دار دادے کا غیرت مند پوتا اتنا وبال نہیں مچا سکتا، ضرور ہماری پیٹھ پیچھے پھر وار کیا گیا ہے سردار سائیں۔ پھر سے ہماری آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے، پھر سے تاریخ دہرانے کا خطرناک کھیل کھیلا گیا ہے"

گل خزیں خانم کے لفظ زہر میں بجھے ہوئے جبکہ انکی نظریں عزیز خان اور خدیجہ پر جس تابناکی سے مرکوز تھیں، وہ دو کھڑے کھڑے ان میں ہلکورے لیتی حقارت سے زمین میں دفن ہو گئے۔

یہی نہیں، باقی سب نے بھی بگھڑے تاثرات کے سنگ چہروں کو موڑے ان دو کٹہرے میں کھڑے مجرموں کو دیکھا جن کو اپنے دلوں پر سبکی سوالیہ نظریں جمی پا کر آرے چلتے ہوئے محسوس ہوئے۔

سردار خاقان کی تحقیق طلب نظریں، اس سرد مہری سے عزیز خان پر تھیں کہ انھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا دشوار لگا۔

"کیا کہہ رہی ہیں سردارنی؟ کیا کچھ ایسا ہے جو تم میاں بیوی سب سے چھپا رہے ہو"

تیوری چڑھائے، سخت لہجے میں اس بار سردار خاقان لپک کر ان دو تک آئے اور پوچھا جس پر عزیز خان کی تکلیف بھری ، تاسف سے اٹی نظریں ہی یہ بتانے کو کافی تھیں کہ وہ مجرم ہے۔

جبکہ خدیجہ خانم کا تو خوف سے پورا جسم کپکپا اٹھا۔

اس سچ کے کھلنے کے بعد ان دو کا انجام کیا ہونا تھا، یہ سوچ ہی روح کھینچنے سی تھی۔

"بابا س۔۔۔۔"

عزیز خان نے خوفزدہ ہو کر منمنانا چاہا اور اس بولنے کی کوشش میں انکے ہونٹ کپکپا اٹھے مگر سردار خاقان کی دبنگ دھاڑ نے اسے صرف ہاں یا ناں میں جواب کی تنبیہہ کی۔

مشارب زمان، زمان خان اور فرخانہ خانم کے علاوہ اب گل خزیں خانم کی نفرت بھری نگاہیں بھی ان مجرموں پر ثبت ہو چکی تھیں۔

"اگر اس بار تم نے کوئی کوتاہی کی ہوئی تو اپنے ان ہاتھوں سے تم دو کی جان لے گا سردار خاقان، جلدی بولو۔ ایسا کونسا حق ہے اس میثم کے پاس کے وہ ہم کو دن دہاڑے زلیل و رسوا کر گیا اور ہم اسقدر بے بس تھے کہ اسکا بال بھی بیکا نہ کر سکے"

بابا سائیں کے زہر خند لہجے میں سخت غصہ اور اشتعال تھا، عزیز خان نے اک بیچاری اور بے بس نگاہ، رندے چہرے والی خدیجہ پر ڈالی جو انھیں رحم طلب نظروں سے دیکھتیں ہوئیں مکر جانے کا اشارہ کر رہی تھیں مگر عزیز خان کو اپنی موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی جس سے فرار ناممکن تھا۔

"یہ کیا بولیں گے؟ان مجرموں کو معاف کرنے سے پہلے میں نے کہا تھا کہ یہ رسک مت لیں۔ گھر کا بیدی ہی ڈنکا ڈھاتا ہے، ضرور کوئی بڑی سچائی ہے جو یہ دونوں چھپائے بیٹھے ہیں۔ وہ جس طرح اشنال پر حاکمیت جتا کر گیا ہے، خدا نخواستہ اگر میں جو سوچ رہی ہوں وہ درست ہوا تو پھر سے دونوں خاندانوں میں موت کی ہولی کھیلی جائے گی"

جلا بھنا، دل جلا ڈالتا فرخانہ خانم کا انداز ان دو پر مزید ستم جبکہ سبکی نظروں کی تنفر قدرے بڑھ گیا۔

"بولیں چاچو سائیں، کیا چھپا رہے ہیں۔ خدا کے لیے چپ مت رہیں"

اس ساری صورت حال میں جسکا دل سب سے زیادہ پھڑپھڑایا ، وہ مشارب تھا تبھی نزدیک آتا وہ سخت دلبرداشتہ ہو کر عزئز خان کو جنجھوڑ رہا تھا۔

"بولے گا یا تیرے سینے کو ابھی بھون ڈالوں نامراد، بول"

وہ جسے آسان زبان سمجھ نہ آئی، اس بار سردار خاقان کے عتاب کا شکار ہوا، وہ انکا گریبان جکڑتے ، اس خاموش ، اندر ہی اندر بلکتے باپ کے اعصاب پر بجلی گرا چکے تھے۔

"ن۔۔۔نکاح میں ہے اشنال اسکے"

سسکتے ہوئے عزیز خان کی اس قبر سے بلند ہوتی ہوک نے وہاں کھڑے تمام افراد کی چلتی کائنات ساکت کی، خدیجہ خانم تو اپنا دل تھام کر وہیں زمین پر گرتے ہوئے بیٹھیں، آنسو تواتر انکے چہرے پر پھیلتے ہوئے کرب بڑھاتے گئے جبکہ سردار خاقان کا زور دار تماچہ عزیز خان کو اس گستاخی کی سزا دیے ہوا میں اٹھ کر اس کے چہرے پر نشان چھوڑ چکا تھا۔

فرخانہ اور زمان خان کے چہروں پر زردی کھنڈی تھی جبکہ مشارب کرسی کا سہارا لیے بیٹھتا اس ہولناک انکشاف پر ہستی سمیت ہل گیا۔

البتہ گل خزیں خانم کی آنکھوں میں لپکتے ہوئے آگ کے شعلے جل اٹھے۔

"گستاخ عزیز خان، یہ کرنے سے پہلے تم تینوں زندہ زمین میں دفن کیوں نہ ہوئے۔ تمہاری یہ ہمت کے تم نے اس خاندان کی عزت، دشمنوں کے ہاتھ میں تھما دی"

سردار خان کی پھنکارتی آواز، فلک بوس کی دیواروں تک کو لرزا چکی تھی، سبکی آنکھوں میں جیسے نفرت کا ابال امڈ چکا تھا۔

"ب۔بابا سائیں میری بات تو سنیں، آپ مجھے بھلے جان سے مار دیں مگر مم۔۔میری بیوی اور بچی کو کچھ مت کہیے گا۔ خدا کے لیے کوئی ظلم مت کیجئے گا ورنہ اس بار زمین ضرور کانپ اٹھے گی۔ میری جان لے لیں مگر اشنال کو ضرار کے پاس جانے دیں۔ میں آپکے پیر پڑتا ہوں بابا سائیں"

اس مردہ ہمت والے باپ نے ڈوبنے سے پہلے ہاتھ پیر چلائے تھے، التجاء کیے گڑگڑایا تھا کہ کسی طرح اسکی ناکارہ جان لے کر اسکی بیٹی کی زندگی بخش دی جائے۔ خدیجہ خانم کی سسکیاں بھی بلند ہو رہی تھیں مگر سردار خاقان نے نہ تو اپنی اس مجرم اولاد پر اس بار ترس کھایا نہ رحم بلکہ اسکا گریبان پھر سے جکڑ کر اپنی خونخوار آنکھوں سے دیکھتے پھنکارے۔

"آج کے بعد تو مر گیا ہے میرے لیے عزیر خان، اپنے ہی باپ کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے تو نے۔ اور تم دونوں میاں بیوی کے اس کیے کرائے کی سزا تمہاری وہ باغی اولاد سہے گی۔ یعنی اس روز موت کا حقدار علیم نہیں بلکہ یہ حرام زادہ میثم تھا۔ اب دیکھنا، تیری اس بیٹی کی زندگی کو کیسے جہنم بنا کر تجھے تاعمر کے لیے اپنے خاندان سے بغاوت کی سزا دیتا ہوں۔"

تضخیک اور عزت کے چیتھڑے اڑاتا وہ جابر باپ، فرعون بنا دھاڑا کہ اسکی آواز میں ہلکورے لیتی وہشت نے وہاں موجود ہر فرد کا سینہ خاکستر کیا جبکہ عزئز خان سسکتا، بلکتا بابا سے رحم مانگتا زارو قطار رویا مگر وہ سنگدل وڈیرا، اسے پرے دھکیلتا ہوا واپس پلٹا اور مشارب زمان کو دیکھنے لگا جسکی خود ہستی فنا تھی۔

"اٹھ مشارب ، ان نکاح کو ختم کرنا ہے۔ تم دو قانونی کاغذات بنواو تب تک میں خود میثم ضرار چوہدری کی کمزوری پر ہاتھ ڈالتا ہوں۔ اشنال کا نکاح معین وقت پر ہی ہوگا اور اس سے پہلے اسکی اور میثم کی یہ رشتہ داری بھاڑ میں جھونکنی ہے۔ اور ان دو زلیلوں کو انکے کمرے میں نظر بند کر دو تب تک جب تک انکی وہ بیٹی، ونی ہو کر شہیر مجتبی کے ساتھ رخصت نہیں ہو جاتی۔ اب میں بتاوں گا اس کل کے آئے میثم اور اسکے دادے کو کہ خان اب اپنی غلطیاں بڑے اچھے سے سنوارنا جان چکے ہیں"

بنا عزئز خان اور خدیجہ کی آہوں، سسکیوں اور منتوں کی پرواہ کیے بنا سردار خاقان کے حکم پر دو ملازم عزئز جبکہ وہی قدوسیہ اور فردوسیہ نامی جلادنیں، تڑپتی سسکتی، اپنی بیٹی کی نجات کے لیے روتی خدیجہ کو گھسیٹے ہوئے وہاں سے لے جا چکے تھے جبکہ دادا کے حکم پر مشارب مجبورا بابا کے ساتھ طلاق کے کاغذات کے معاملات دیکھنے نکلا جبکہ سردار خاقان کی نظریں ، سردارنی سے ملیں تو انکی سرد مہری میں کچھ کمی آئی۔

"اگر وہ حویلی اس دھڑلے سے آیا تھا تو ضرور اشنال سے بھی ملا ہوگا، آپ اپنی تسلی کروائیں خانم تاکہ ہم انجانے میں کسی گناہ کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ طلاق کے لیے اسکی کوکھ خالی ہونی ضروری ہے، اور انکے بیچ کوئی رشتہ بھی بنا ہوا نہیں ہونا چاہیے ورنہ یہ ونی کا نکاح لیٹ ہو جائے گا۔ اپنا فریضہ نبھائیں سردارنی"

سخت انداز مگر اپنی زوجہ کے روبرو نرم سا انداز اپنائے سردار خاقان نے کھلے ڈھلے الفاظ میں جو کہا اس پر فرخانہ اور گل خزیں خانم دونوں کے چہروں پر تکلیف کے آثار ابھرے تھے۔

ایسی تکلیف جو انگ انگ میں شرارے بھر چکی تھی۔

وہ فرخانہ کو ساتھ لیے ، اپنے تنتنے اور غرور کے سنگ اشنال کے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھیں۔

طبیبہ خضوراں کو بھی اجلت میں بلوایا گیا تھا جو پیغام ملتے ہی گلالئی کو ناشتہ خود کرنے کا کہتیں خود اپنا تھیلا لیے اسکے کمرے سے نکل گئیں۔

                           ..____________________..

رات دیر تک حالات و واقعات پرکھنے اور دادا جان سے معاملے کی سنگینی پر بات کرتی وہ کافی لیٹ سوئی تھی تبھی اسکی آنکھ بھی کمرے میں داخل ہوتی سورج کی کرنوں کے حدت پہنچاتے تیوروں پر لچھ دیر سے کھلی۔

اک نظر اردگرد کا ،نیند میں ڈوبی خمار آلود نظروں سے جائزہ لیتی وہ اٹھ بیٹھی، اپنے بکھرے بال میسی جوڑے کی شکل میں سمیٹے اور سائیڈ میز پر پڑا اپنا فون اٹھا کر آنے والے اہم پیغامات اور مس کالز دیکھتی ہوئی ولی زمان کے خاص پیغام پر اپنے سکرولنگ کرتے ہاتھ کو روکتی اسکو اوپن کیے پڑھنے لگی۔

جسکا خدشہ تھا وہی ہوا، معاملہ آخر ولی زمان تک پہنچ چکا تھا جو بالکل بھی خیریت کی علامت نہ تھی۔

"اب حویلی میں ایک نیا وبال مچے گا، اللہ سائیں پلیز ولی زمان کے غصے سے حویلی والوں کو بچائیے گا۔ چلو وری، سچ بتانا ہی پڑے گا"

ان اعصاب شکن حالات میں وہ کوئی سچ ، کم ازکم ولی سے نہیں چھپا سکتی تھی تبھی تازہ دم ہو کر پہلی فرصت میں ولی کو تمام حالات سے واقف کرنے کا ارادہ باندھتی وہ فریش ہونے واش روم میں بند ہو گئی۔

دوسری طرف ساری رات منشی سانول اور اماں کوثر، تکلیف کی سرحدیں عبور کرتے شہیر کے سرہانے بیٹھے رہے تھے، ان دونوں مسکینوں کی آنکھیں بھی متورم اور سوجھ چکی تھیں، حکیم صاحب کے لگائے گئے مرہمی لیپ سے واقعی شہیر کے چہرے پر واضح ہوتے نشانات مدھم ہو گئے تھے مگر تشدد کے علاوہ وہ ذہنی دباو کا شکار تھا جسکے باعث اسکے تیز ترین بخار ہو گیا اور تبھی حکیم صاحب نے ٹھنڈی پٹیاں کرنے کی خاص تاکید کی تھی۔

ابھی تک وہ ہوش میں نہیں آیا تھا مگر اسکے چہرے پر چھلکتا ہوا درد اس نیم جان حالت میں بھی عیاں تھا۔

وہیں تیسری جانب اپنے کمرے میں فرخانہ خانم اور دادی سائیں کو طبیبہ خضوراں کے ساتھ داخل ہوتا دیکھ کر وہ جو ابھی نہا کر تازہ دم ہوئے باہر نکلی، ان دو کی نظریں جس طرح اسکے نم نم وجود پر حقارت سے گڑھ کر روح تک اتریں وہ خود خوف سا محسوس کرتی ان کے نزدیک ہوئی۔

گل خزیں خانم نے سر تا پیر اشنال کو دیکھتے ساتھ ہی اسکی بازو جکڑتے ہوئے لہرا کر سنگار میز کے ساتھ پٹخا تو لمحے میں اشنال کو لگا دادی سائیں اسکی جان نکالنے لگی ہیں۔

"کونسے نشان مٹانے کے لیے صبح صبح نہائی ہے؟ وہ آیا تھا ناں۔ کیا ہوا ہے تیرے اور اسکے بیچ۔۔۔ جو لڑکی کل تک مرنے والی تھی آج اسکے چہرے پر گھلتی ہوئی سرخیاں کیوں ہیں؟"

دادی سائیں کا یوں تضخیک سے یہ سب پوچھنا اشنال کا خون کھولا گیا، سبکی اور اہانت الگ اور میثم کی موجودگی کے بارے انکا استفسار اسکی ٹانگیں کپکپا گیا۔

"د۔۔دادی۔۔۔کیا کہہ رہی ہیں؟"

وہ آنکھوں میں تاسف لیے ملتیجانہ ہوئے سسکی تو گل خزیں خانم کی گرفت اسکی نازک بازو کے اندر دھنس گئی۔

"جو پوچھا ہے وہ بتا ورنہ ابھی خضوراں ، سارا سچ سامنے نکال باہر کرے گی۔ اگر اپنی تذلیل نہیں چاہتی اشنال تو بتا کہ تم دو کے بیچ کوئی تعلق بنا ہے یا نہیں؟ جھوٹ بولا تو کھڑے کھڑے تیری گردن مڑور دوں گی"

بنا اشنال کی آنکھوں میں اذیت جمع ہوتی محسوس کیے وہ دادی ستم گر بنی اسکی اور جھک کر دانت پیسے پوچھ رہی تھی اور اشنال کا دل چاہا کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔

کئی آنسو اس بے بس بنی اشنال کی آنکھوں سے بہتے ہوئے اسکے چہرے کی ساری خوشی دھندلانے لگی۔

"بولے گی یا تار تار کرواوں تیری عزت؟"

گل خزیں خانم اس بار اس سسکتی اشنال کا منہ کھلوانے کے لیے جبڑے بھینچ گئیں تھیں جس پر وہ تکلیف سے بلبلا اٹھی۔

"ن۔۔نہیں ہوا کچھ دادی، ایسا ظلم مت کرنا میرے ساتھ۔ اور اگر آپ سب اسکی آمد کے بارے جان ہی چکے ہیں تو یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ شوہر ہے وہ میرا، کچھ ہو بھی جاتا تو کوئی گناہ نہیں تھا"

وہ دادی کو جواب دیتی ہمت دیکھائے جو بول بیٹھی اس پر گل خزیں خانم کی آنکھوں میں پہلے خون اترا پھر وہ اشنال کی اس درجہ ہڈ حرامی اور بے باکی پر دھکا دیے بیڈ کی جانب دھکیل گئیں اور وہ حلق تر کیے اس عورت کے اس روپ پر سراپا تکلیف بنے سسکی۔

"اچھا ہے کہ نہیں ہوا، ورنہ تیری چمڑی ادھیڑ دیتی آج ۔ اور وہ تیرا شوہر تھا اب نہیں رہے گا۔ جلد تجھ جیسی کو طلاق بھیجے گا۔ تو اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کر اپنے عاشق سے نکاح کر آئی، ہماری عزت کو ان نیچ دشمنوں کے آگے ننگا کر دیا ، تیری عبرت تو اب یہ دادی طے کرے گی۔

خضوراں، آگے بڑھ اور تسلی کر"

اس وقت اشنال کو لگا کسی نے واقعی اسے موت کے منہ میں دھکیلا ہو، وہ دادی کی اس سفاکی پر لاکھ تڑپی، قسمیں اٹھائیں مگر خضوراں کو جو کہا گیا وہ مسکین عورت ناچاہ کر بھی اسکی پابند تھی۔

کمرے سے باہر جاتی اشنال کی دلخراش چینخوں پر وہ اذیت سے دوچار، زندہ مر جاتے ماں باپ بلبلاتے ہوئے تڑپے، دروازہ پیٹ پیٹ کر رحم مانگا مگر ان فرعونوں نے کوئی خدا کا خوف نہ کھایا۔

اشنال کی روتی سرخ ہوتی آنکھیں تھم گئی تھیں، جو اسکے ساتھ گل خزیں خانم نے کروا دیا تھا اس پر وہ ویسے ہی آدھی مر گئی، اسکی دلخراش نظریں اس دادی کو بالکل بھی متاثر نہ کر سکیں الٹا خضوراں کی جانب سے ملتے اچھے اور متوقع جواب پر گل خزیں خانم نے سر تفاخر سے بلند کیے روتی بلکتی، اپنا آپ اپنے دوپٹے سے چھپاتی اشنال کو کدورت بھری نظروں سے دیکھا۔

یہ جو ظلم آج ہو گیا تھا اس پر ستم گر سی فرخانہ خانم بھی سر تا پیر کانپ گئی تھی۔

"تلاشی لے اسکے کمرے کی فرخانہ، وہ ضرور اسے رابطے کا کوئی سامان دے کر گیا ہوگا۔ جلدی"

اس وقت گل خزیں خانم متوحش حال میں سر پھری سی ہوئیں اور فرخانہ خانم نے اس بھیانک ٹرانس سے نکلتے ہی اردگرد چھان پین کی اور حسب توقع اشنال کے تکیے تلے رکھا وہ سمارٹ فون جسکا خود اشنال کو بھی علم نہ تھا، انکے ہاتھ لگا اور گل خزیں نے وہ فون اپنے قبضے میں لیتے ہی زرا نزدیک آئے خود پر پتھر نظر گاڑ کر اپنے ساتھ ہوتے ظلم کا خاموش ماتم مناتی اشنال کو دیکھا۔

"اب تجھے پتا چلے گا اشنال کہ جیتے جی مرنا کسے کہتے ہیں ، جب تک تیرا اور اسکا تعلق ختم ہو کر نیا اور ہماری روایات کے مطابق تعلق شہیر سے استوار نہیں ہوتا تب تک جتنا رونا ہے رو لے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ خان جتنے نرم دل ہیں، دشمنی کے معاملے میں اتنے ہی چیڑ پھاڑ دینے والے درندے ہیں۔ ارے جن خانوں نے اپنی اولاد کو جیتے جی مردہ سمجھ لیا تھا، وہ ایک اور خون کی قربانی پر مریں گے نہیں۔ بڑی محبت کی تھی میں نے تجھ سے، کنزا کے بعد تجھے اپنا لخت جگر مانا تھا پر تو نے بھی اسی کی طرح میرا سینہ چیڑا ہے۔ زلالت تیرا مقدر ہے بدبخت"

نفرت چھلکاتے سردارنی کے لہجے میں کھارا پن تھا، اشنال کی آنکھیں پتھر ہونے کے باوجود سرخائی کے سنگ گھلتی ہوئیں دھندلا رہی تھیں۔

اسے جیتے جی اپنا آپ ہوا میں منتشر محسوس ہو رہا تھا۔

"اس سے پہلے کہ آپ مجھے زندہ اس قبر میں دفن کریں، میں اپنی جان خود لے لوں گی۔ میثم کے سوا کوئی اشنال عزیز پر حاکم نہیں بن سکے گا، یہ بات آپ بھی اپنے دماغ میں بٹھا لیں۔ جس نے بھی میرے قریب آنے کی کوشش کی اسکی جان خود لوں گی"

مر تو وہ ویسے بھی گئی تھی تو دل نے کہا کہ اب بغاوت کھلے عام ہونی چاہیے اور اسکی اس بدزبانی پر گل خزیں خانم پہلے تو لہو چھلکاتی غضبناک آنکھوں سے گھوریں اور ساتھ ہی خانم کو رسیاں لانے کا اشارہ کیا۔

اشنال یوں تھی جیسے کسی نے اسکا دل کاٹ دیا ہو۔

"بس پھر میں بھی تیری دادی ہوں، دیکھتی ہوں کہ تو میرے اجازت کے بنا مرتی بھی کیسے ہے۔ تجھے مرنے کیسے دے سکتی ہوں، تو ہماری روایات کی بھینٹ چڑھتا مہرہ بنے گی اب۔ یہی تیری سزا ہے"

بنا اشنال کی تڑپتی، سسکتی ، روتی آہوں پر دھیان دیے، گل خزیں خانم نے ایک بار پھر اپنے دل پر خود قہر ڈھایا، اشنال عزیز کے ہاتھ پیر باندھے اور ساتھ ہی اسکے چیخنے چلانے پر بند باندھنے کو منہ میں کپڑا ٹھوس گئیں۔

یہ سب ظلم اس طبیبہ خضوراں اور فرخانہ خانم کی آنکھیں سرخ کر چکا تھا مگر اس حویلی کے یہ خونخوار قانون آج تک کوئی بدل نہ سکا تھا، جو عورت اپنے اصولوں کے لیے اپنی اولاد کی زندگی درندوں کے سپرد کرنے کا سبب بنی تھی، وہ کیسے اپنی گناہ گار پوتی پر رحم کھاتی۔

یہ کرنا انکی انا پر کاری وار تھا۔

گل خزیں خانم، اشنال عزیز کو بلکتا تڑپتا چھوڑے کمرے سے نکل گئیں اور فرخانہ کا کلیجہ ایک بار ضرور کٹا مگر وہ اپنا بھاری دل اور آنکھوں میں بکھری کرچیاں سمیٹے وہاں سے باہر نکل گئیں اور پھر خضوراں بھی روتی آنکھیں رگڑتی کمرے سے باہر نکلی تو کچھ ہی دیر میں اشنال نے کمرہ لاک ہونے کی آواز سنی تو اسے لگا وہ واقعی زندہ قبر میں گاڑ دی گئی ہے۔

اسکی آنکھوں میں موت اتر چکی تھی، اس ظلم پر آسمان کو گر پڑنا چاہیے تھا یا کم ازکم اسکی آبرو سلامت رہنے کو زمین دو ٹکڑوں میں بٹ جانی چاہیے تھی مگر کچھ نہ ہوا۔

میثم ضرار چوہدری کے دل پر دشمن اس بار ٹھیک نشانے پر وار کر گئے تھے خدا خیر کرے۔

پھر چوتھی جانب طلاق کے کاغذات بنوانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیونکہ قدوسیہ کو عزیز خان کے کمرے سے بنے بنائے کاغذات مل چکے تھے۔

یہ چیز ان فرعونوں کا کام مزید آسان کر چکی تھی۔

                               ..____________________..

وہ جو صوفے پر نیم دراز، منہ پر اپنی ہی جیکٹ دیے آنکھ لگانے کا شغل فرما رہا تھا، اخیر چنگارتی ٹون پر سخت بری طرح متذبذب ہوا، ناگواری کے سنگ چہرے پر رکھی جیکٹ ہٹائے، صوفے کی بازو پر پڑا فون اٹھائے اس پر لکھے وریشہ یوسف زئی کے نام کو دیکھتا، سیکنڈوں میں اٹھ بیٹھا۔

ولی زمان کی آنکھوں کی ساری نیک بھک سے اڑی۔

وہ بھی دادا جان کے ناشتہ کرتے ہی نکلنے کے بعد فرصت سے فون لیتی کمرے میں آئی اور ولی کا نمبر ملایا، اسے حویلی سے بلاوا آچکا تھا کیونکہ شہیر کی طبعیت قدرے ناساز بتائی گئی تھی۔

تبھی بس وہ ولی کو تمام حقائق بتانے کے بعد تیار ہو کر خانم حویلی ہی نکلنے والی تھی۔

"اسلام و علیکم وری، کیسی ہیں؟"

بےقراری سے فون اٹھائے، بھاری ، نیند کی خماری میں ڈوبی تھکی سی آواز سے وہ اندازہ لگا چکی تھی کہ ولی زمان اس وقت اخیر کے تھکے ہوئے ہیں۔

"وعلیکم اسلام، میں ٹھیک ہوں مگر حویلی میں واقعی کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ولی زمان خان"

جواب میں وہ مقابل کی پریشانی کا اضافہ سموئے بولی جس پر اک لمحہ ولی کے ماتھے پر شکنوں کا جال امڈا، تو اس تک پہنچی افواہیں واقعی درست نکلی تھیں۔

"کیا ہوا ہے تفصیل بتائیں مجھے"

جبڑے بھینچ کر بظاہر نرمی ظاہر کیے سوال کیا گیا تھا اور وریشہ کی بے کلی مزید بڑھی۔

"مشارب زمان نے علیم مجتبی کو قتل کر دیا ہے اور اس نے بدلے میں اسکے بڑے بھائی شہیر نے اشنال کو ونی مانگ لیا۔ دراصل وہ لوگ اشنال پر بدکاری کا الزام لگا کر اسے اس سب میں گھسیٹ رہے ہیں خاناں، لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ اشنال کا کردار آئینے کی مانند شفاف اور پاکیزہ ہے، اسکے دل میں صرف میثم ضرار چوہدری ہے۔ تو پھر بھلا اسے کیا پڑی تھی علیم سے چھپ کر ملنے کی، مجھے تو یہ سب شہیر مجتبی کی سازش لگ رہی ہے۔ نہیں جانتی اس سب کے پیچھے کیا وجہ ہوگی لیکن ایک ریکوسٹ ہے کہ اگر آپ کا آنا پاسیبل ہے تو آکر اس دنگے فساد کو روک لیں"

وریشہ کی تمام باتیں ہی ولی زمان کی آنکھوں میں خون چھلکا گئی تھیں،علاقہ، حویلی اور انکی خونی روایات اول دن سے ولی زمان کو زہر لگتی تھیں، تبھی تو وہ پڑھائی کے بعد واپس علاقے گیا ہی نہیں، اسے لگتا تھا اگر وہ اس فرسودہ لوگوں میں لوٹ گیا تو اسکے اندر جو حق اور سچ کا ساتھ دینے والی لگن ہے اسے گرہن لگ جائے گا۔

اسکی خانم حویلی کے ہر فرد سے برہمی تھی، مگر اشنال عزیز کو اس نے اپنے بچوں کی طرح ہاتھوں میں کھلایا تھا، اور آج جب اسی پر یہ عذاب اترا تو اسے لگا جیسے اس بے حویلی کی روایات کو کچلنے کے بجائے وہاں سے بھاگ کر کوئی بہت بڑا گناہ کر دیا ہے۔

"خان آپ سن رہے ہیں ناں، میں اکیلی کچھ نہیں کر پائی اشنال کے لیے کیونکہ یہاں ہر فرد بے بس ہے۔ آپ آئیں گے تو شاید مجھے مزید حوصلہ مل جائے۔ اگر اشنال بے گناہ اس سب کی بھینٹ چڑھ گئی تو تاعمر اسے بچا نہ سکنے کی جلن نہ مجھے سکون سے جینے دے گی نہ آپکو۔

پھر جو اسکے دل میں اپنی محبت سے بچھڑنے کا ملال، خلاء بن کر رہ جائے گا اسکا کیا ہوگا۔ آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے اس تکلیف کو"

وہ جو ولی زمان کی خاموشی سے ڈری تھی، وہ وریشہ کی آخری بات پر کانپ سا اٹھا تھا  ، اک تکلیف کا نیا سا چہرہ ولی زمان خان کی آنکھوں میں سرخائی گھسیٹ لایا تھا جبکہ مضبوط سی وری کی آواز بھی سلوٹوں کی زد میں کانپی۔

"ٹھیک کہہ رہی ہیں ، یہ تکلیف تو آخری سانس تک ہمارا سینہ جکڑے رکھتی ہے۔ میں آتا ہوں، کوشش کیے بنا اس بار ہار نہیں مانوں گا"

وہ بھلے بہت کرب میں تھا مگر اسکی اس تسلی نے وریشہ کا کٹا ہوا دل سہلا دیا، وہ افسردہ سا مسکرائی اور ساتھ ہی رابطہ توڑ دیا۔

دونوں کے چہروں پر ایک سا ملال تھا۔

پھر جیسے ولی زمان تمام تر اذیت کو خود پر سے اتارتا اٹھ کھڑا ہوا، سرمد چوہدری سے ملاقات کا تہہہ باندھتا وہ سیدھا اپنے مین آفس روم کی سمت بڑھا اور ساتھ ہی اپنے اہل کار کو اشارہ کیا کہ وہ اسے اندر بھیجے۔

اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھے ولی زمان کے چہرے پر اس وقت اسکے جسم کا سارا لہو سمٹا تھا، آنکھیں خود پر قابو پانے کے باوجود قہر برسانے کی مانند زہریلی تھیں۔

اپنے ازلی مغرورانہ انداز میں اندر داخل ہوتے سرمد چوہدری کے ساتھ اسکا ایک غنڈے خلیے اور خبیث شکل والا آدمی تھا جسکے ہاتھ میں خاکی بریف کیس تھا اور ولی زمان کی زیرک آنکھوں سے ان دو کی اندر تشریف آوری مخفی نہ تھی۔

"انتظار نہیں کرتا سرمد چوہدری کسی کا مگر تمہارے نخرے اٹھانے پڑتے ہیں، کیا کروں تم سے بڑا گہرا رشتہ جو جڑا ہے"

کرسی سنبھال کر اپنے ازلی سلگاتے انداز سے کہتا وہ ناصرف بیٹھا بلکہ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے آدمی کو اشارہ کیا جس پر وہ بریف کیس میز پر رکھتے ہی کھول چکا تھا، اس میں موجود رقم دیکھ کر ولی زمان کے ماتھے پر پڑے بلوں میں اضافہ ہوا۔

"کتنی بار بتاوں کے رشتہ داری جوڑنے کی جرت نہ کیا کر، تجھے صرف زونی کی وجہ سے چھوٹ ملتی ہے ورنہ جیسا تو خن___ بن گیا ہے، عنقریب تجھے واجب القتل بنا دوں گا۔ تیرے جیسے بیٹے کے ہوتے ہوئے، تیری ماں اور بہن جس طرح کی اذیت بھری زندگی جی رہے ہیں۔ غیرت کھا اور شرم سے ڈوب مر۔۔۔۔"

ولی زمان نے اس بریف کیس کو واپس بند کیے، سامنے کھڑے اہل کار کی جانب دیکھتا ساتھ ہی جبڑے بھینچتا اچٹتی نگاہوں میں سرمد کے چہرے کو مرکوز کیے سلگا اور سرمد کا نجس قہقہہ گویا اس پورے آفس روم میں کھنکا وہیں اہل کار وہ بریف کیس لیے ، ولی کے اشارے پر باہر نکل چکا تھا۔

"ہمارے دھندے میں ماں بہن کی صرف گالی چلتی ہے عزیزم، نہ کوئی سگا ہے نہ پرایا۔ یہ سیٹھ طلال نے بھجوائے ہیں، امید ہے اب دوبارہ آپ حویلی والوں کو زحمت نہیں دیں گے۔ شریف نہ سہی، شریف لوگوں کی شرافت کا بھرم قائم رکھنے والیاں وہاں رہتی ہیں۔  آپ کے لوگوں کی بار بار مداخلت ہمارے دھندے کو خراب کر رہی ہے، کسی کا رزق یوں روکنا بڑا گناہ ہوتا ہے"

وہ سر تا پیر بگھڑا ہوا نوجوان تھا جسے دیکھ کر زمان خان کو شدید دکھ ہوتا تھا، وہ بہت کوشش کر چکا تھا کہ سرمد کو سیدھے راستے پر لائے مگر اس کے دماغ میں زمانے کی گندگی اس حد تک رچ بس گئی تھی کہ وہ جس ماحول میں پچھلے پندرہ سالوں سے رہ رہ رہا تھا اسی جیسا سفاک اور بے غیرت ہو گیا تھا۔

یہ پیسہ سیٹھ طلال ، ہر ماہ پولیس کے لوگوں کو بھجواتا تھا تاکہ اسکا کوٹھہ ان وردی والوں کی مداخلت کے بنا چل سکے مگر ایسا ابھی تک ناممکن تھا۔

جب سے ولی زمان کی اس شیر پوسٹنگ ہوئی تھی تب سے وہ طلال کے لیے خاصا سر درد بن چکا تھا۔

کورٹ کی جانب سے کوٹھا بند کرنے کے کئی نوٹس اور پھر کئی ریٹ جو طلال کے اس کوٹھے کی آڑ میں دوسرے دھندے چلانے کے باعث آئے دن پڑتے تھے۔

یہ پیسہ جو طلال کی طرف سے ہر ماہ آتا تھا، پہلے تو اسکے بچاو کے لیے استعمال ہوتا تھا مگر ولی زمان جب سے یہاں آیا تھا، وہ اسی پیسے سے طلال سیٹھ کی نیندیں بہت شاہانہ غارت کرتا تھا۔

کئی بار تو سرمد کو حوالات کی سیر کروائے ٹھکائی لگوا چکا تھا مگر ایک حد تک ہی ولی ان معاملات میں خود مختار تھا کیونکہ طلال جیسی طاقتوں کے پیچھے اکثر و بیشتر ایسے بڑے منسٹروں اور بظاہر نامور معززین کا ہاتھ ہوا کرتا ہے جنکی راتیں اکثر انہی کوٹھوں میں گزرتی تھیں۔

سو ایسے معزز لوگ ہرگز بھی اپنے سکون خانوں پر آتی آنچ برداشت نہیں کرتے تھے۔

ولی زمان سے پچھلے انسپیکڑ کی بھی اسی وجہ سے سندھ کے کسی صحرائی علاقے میں ٹرانسفر ہو گئی تھی تبھی ولی زمان اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا تھا۔

بظاہر وہ انکا بھیجا پیسہ بھی قبول کر لیتا اور انکی جڑوں میں زہر بھرنا بھی نہ چھوڑتا۔

"اور کوئی بکواس؟"

نہایت پرسکون ہو کر تضخیک کی گئی جس پر سرمد چوہدری نہ صرف تلملاتا ہوا اٹھا بلکہ اپنی قمیص کا پلا متنفر انداز میں جھاڑتا ہوا اپنی دھاڑی کھجائے شر انگیزی سے مسکرایا۔

"کبھی سیدھے منہ بات کر کے دیکھیے گا، اچھا لگے گا۔ رب راکھا، اور جاتے جاتے وہی جو ہر بار کہتا ہوں۔ کبھی آئیے ناں ہماری رنگین حویلی۔ آپکی یہ سخت مزاجی بڑے اچھے سے خوش مزاجی میں بدل ڈالیں گے سڑی سرکار"

مست اور مضحکہ خیز یہ پیشکش کرتا سرمد تو جس طرح آیا ویسے چلا گیا البتہ اسکے جانے کے کئی منٹس بعد تک ولی زمان کی آنکھوں میں خون اترا رہا۔

"یا مالک مجھے صبر دے"

اس وقت ولی زمان کی حالت خاصی ابتر تھی، غصہ اور تکلیف ایک جیسی تھی مگر سب سے بڑھ کر اپنی بے بسی پر برہمی، کچھ ہی دیر میں وہ اندر آتے اہل کار کے سلوٹ پر متوجہ ہوا۔

"آج میری گھر روانگی ہے کریم بخش، میری غیر موجودگی میں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا اور کنو بائی کی حویلی پر خاص اور تگڑی نظر، کوئی معمولی سی ہلچل بھی ہوئی تو مجھے فورا خبر کرنا۔ اور یہ جو خبیث پیسہ دے کر گیا ہے اسے قانونی خزانے میں رکھوا دے، واپسی پر آکر سوچتا ہوں کہ اس بار سیٹھ طلال کو کہاں زخم دینا ہے"

دقتوں سے اپنے منتشر دھیان کو سمیٹے ہوئے ولی زمان خان، اس اہل کار کو اردگرد گہرائی سے نظر رکھنے کی تاکید کرتا خود بھی گہرا سا سانس بھرتا آفس روم سے نکل گیا۔

                           .._____________________..

پورے بستر پر کتابیں پھیلائے بیٹھی وہ خود تو کہیں اور ہی بیدار تھی، ناجانے کیوں مگر نانو کا اب تک کال نہ کرنا اسکے دل کو ڈرا سا رہا تھا۔

اپنی مرمریں ہتھیلی پر کالی پینسل سے وہ کافی دیر سے کچھ لکھنے میں محو تھی، اسکی نیلی آنکھوں میں ہمیشہ ہی درد دیکھائی دیتا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ پینسل اک طرف رکھے، بس ہتھیلی کو دیکھنے میں گم ہوئی، اسکی درد میں ڈوبی آنکھیں بہت مختصر سا مسکرائیں۔

ہتھیلی منظر عام پر آئی تو وہاں 'مشارب' لکھا تھا، یہ نام جو اس نے اپنی پوری زندگی کے دکھوں پر حاوی کیا تھا۔

اسے یاد تھا کہ نکاح والی رات اشنال نے اسکی ہتھیلی پر مہندی سے بالکل ایسا ہی مشارب لکھا تھا، اور وہ مہندی بڑی طرح خراب ہو جانے کے باوجود گہرا رنگ چھوڑ کر گئی تھی۔

وہ ماضی اسے دردناک ہو کر بھی جان سے پیارا تھا۔

"مت لکھیں یہ نام اشنال،ہم اس نام کو اپنی ہتھیلی پر نہیں سجانا چاہتے۔انکے دل سے نکالے ہوئے ہم، جتنا بھی گہرا رنگ پا لیں،انکے لیے قبول و منظور تھوڑی کہلائیں گے۔ کل ہم چلے جائیں گے، وعدے کے مطابق"

اس پورے سجے کمرے میں ہر رنگ تھا سوائے نکاح کی دلہن کی آنکھوں میں پھیلی خوشی کے رنگ کے سوا، وہ دونوں بہت پیاری لگ رہی تھیں مگر ایک جیسی اداس اور اس روز بھی وہ اتفاقا باہر سے گزرتا ہوا یہ سن چکا تھا، اسکا دل ایک بار پھر زونین کے لیے بیقرار ہوا اور اس وقت مشارب کی سب سے بڑی تکلیف ہی یہی تھی۔

گل خزیں خانم کی ضد کے باعث کچھ دیر پہلے ہی انکا نکاح ہوا تھا اور صبح زونی کی واپس بزدار حویلی روانگی تھی مگر اشنال اسکے سونے ہاتھ دیکھ کر یونہی مہندی اٹھا لائی مگر زونی کی بات پر وہ بہت زیادہ افسردہ ہو گئی تھی۔

"ایک دن آئے گا زونی، جب مشارب لالہ کے وقتی بے حس بن جاتے دل پر تمہارے نام کا اور احساس کا راج ہوگا۔ جو جتنا تڑپاتا ہے وہ اتنا تڑپتا بھی ہے"

اشنال سے اسکی اتری صورت اور مرجھایا گلاب چہرہ سہا نہ گیا تو وہ اسکی ٹھوری پکڑے چہرہ اٹھائے دیکھتی اچھے کی امید دلانے لگی مگر اشنال کے آخری جملے پر زونین نے آنکھیں آنسووں سے بھر کر اشنال کی سمت دیکھا تھا۔

"اللہ نہ کریں کے کبھی وہ تڑپیں، ہم تو دعا کرتے ہیں کہ جتنے ہم آج انکے لیے فضول ہیں، آخری دم تک رہیں۔ ہمیں وہ اپنا نام دے کر ویسے بھی اپنا قرض دار کر چکے ہیں۔ اب اس سے زیادہ امید لگا کر ہم خود غرضی کریں گے۔ آپ بس یہ دعا کریں کے ہمیں اللہ اس نام کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کی ہمت دیں۔ ہم اپنے ماضی اور ذات کے حوالوں سے خوفزدہ ہیں"

وہ اس کی باتوں سے جتنی دکھی ہوئی اس سے زیادہ کرب مشارب زمان نے محسوس کیا تھا، وہ چاہتا تھا اس لڑکی کو کم ازکم اس عجیب سے احسان مند جذبوں سے نکالے مگر تب وہ الگ طرح کا شخص تھا، فیصلوں میں پتھر۔ انا پرست، بہت مضبوط۔

تھا تو وہ اب بھی ایسا مگر اب اسکے اندر زونین کی حسرت ، اسکے اپنے آپ سے زیادہ موجود تھی۔

ان دو کی نظریں دانستہ ملیں تو اندر تک حشر جگا گئی تھیں، وہ اسکی ہتھیلی میں سجا اپنا نام دیکھ کر برہمئ کے سنگ وہاں سے چلا گیا تھا اور تب زونین نے تہیہ کیا کہ وہ زندگی میں کبھی بھی اس شخص کا نام اپنی ہتھیلی میں درج نہیں کرے گی۔

لیکن آج اس نے سیاہی سے وہ نام تحریر کیا تھا۔

پھر جیسے واپس خیالوں سے لوٹتے ہی وہ رنجیدہ ہوئے اپنی ہتھیلی رگڑ کر وہ لکھا نام مٹانے لگی۔

سیاہی تو وہ خود کو جانتی تھی پھر وہ سیاہ سے یہ نام لکھنے کی گستاخی کیسے کر گئی۔

ابھی وہ اسی خود ساختہ کشمکش میں تھی کہ باہر سے آتی عجیب سی آوازوں پر وہ اٹھی اور کمرے سے باہر نکلی مگر جب تک باہر آئی، وہ عجیب سا شور تھم چکا تھا، اسکی نظریں دادا سائیں کے کمرے کی جانب تھیں اور پھر دل کو عجیب سی بے چینی لاحق ہونے پر وہ انکے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

                          ..____________________..

حویلی سے واپسی پر شہر کا ایک چکر لگانا اہم تھا، کیس ہیرنگ میں شمولیت اور اپنے وکیل کو ثبوت پکڑاتے ہی ظہر کی نماز ضرار اور جبل زاد نے راستے میں ہی چھوٹی سے سڑک کنارے بنی مسجد میں ادا کی۔

زمینی تنازعہ اتنا نہیں تھا جتنا ضرار چوہدری کے مخالفین اس معاملے کو لٹکا رہے تھے، انکا مقصد ضرار کو تھانے کچھڑی کے معاملات میں تا دم آخر الجھائے رکھنا تھا۔

واپس علاقے کی طرف سفر میں تیز نخریلی دھوپ نے بھی نرمی اوڑھ لی تھی، اک ڈھابے پر رک کر چائے پیتے ہوئے بھی ضرار انہی معاملات کے متعلق جبل زاد سے گفتگو کرتا رہا اور پھر جبل زاد کی ہی درخواست پر حویلی جانے اور چوہدری بزدار عالم کی خفگی اور برہمی کا توڑ کرنے پر قائل ہوتا وہ بہت ساری مختلف سوچوں کا شکار تھا۔

جبل زاد ہمیشہ کی طرح ڈرائیونگ کرتا ہوا سامنے متوجہ تھا جبکہ پچھلی سیٹ پر خاصے پرسکون انداز میں بیٹھا ضرار، اپنی ساری توجہ باہر لگائے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔

"کیا آپ کی طرف سے کی گئی آجکی انکی زلت قیامت نہیں لائے گی سائیں؟ وہ بہت شاطر ہیں۔ غلطی سے بھی اگر انھیں آپکے اور خانم کے رشتے کا علم ہو گیا تو وہ ایک بار پھر اپنی درندگی پر اتر آئیں گے"

اس سارے واقعے کے بعد جبل زاد کچھ پرسکون نہ تھا، جبکہ سکون تو ضرار کے چار سو بھی نہ تھا، مگر کیا کرتا، کب تک ان خانوں کے بے جا ستم برداشت کرتا۔ فرازم کی موت کا بدلا وہ خان میثم سے لے چکے تھے، یہ الگ بات کے اسکا دل اس وار سے بچ نکلا تھا۔

مگر میثم کے بچ جانے نے گویا ان لوگوں کے اندر اس دشمنی کی آنچ بڑھانے کے ساتھ ساتھ شکست کا بھی لاوا شامل کر دیا۔

"تجھے کیا لگتا ہے جبل زاد کہ میں انجام سوچے بنا قدم اٹھاتا ہوں؟ میں تو دادا سائیں کی وجہ سے ان درندہ صفت خانوں کو یوں آدھا ادھورا نوچنے پر مجبور ہو گیا ورنہ آج ان میں سے کسی کی سانس باقی نہ رہتی۔ میں اپنے لیے یا اپنی زندگی کے لیے بالکل نہیں ڈرتا، اگر میرے لیے میری زندگی سے بھی کوئی اہم ہے تو وہ اشنال، دادا سائیں ہیں۔ جو میرے جسم کے ان حصوں پر وار کرے گا اسے میری طرف سے بھیانک موت کا تحفہ ملے گا"

وہ بھلے ایک جیت رقم کر کے آیا تھا مگر اسکے لہجے میں تھکن اور دکھ تھا، ایسے کرب جنکا اسے اس چھوٹی عمر سے سامنا کرنا پڑا جب لوگوں سے سنا کہ اسکا باپ ایک رنگین مزاج عاشق اور بدبخت جواری ہے۔

اسے جواری باپ کا بیٹا نہیں کہلانا تھا، اسے غیرت دار دادا کا پوتا اور دل کے قرار جیسے چچا ہاشم چوہدری کا بھتیجا کہلانے کے لیے اپنی زندگی کے بتیس سال خرچ کرنے پڑے تھے، بنا ہنسے، بنا روئے وہ اپنا بچپن کاٹ کر بڑا ہوا تھا، پھر اس زمانے نے بھی اسے ہمیشہ دبانے کی کوشش کی تھی۔

ایک واحد دوست، ہاشم چوھدری جسے چھین لیا گیا تو ضرار چوہدری نے اس دنیا کے آگے ڈٹ کر انتقام لینے کی شروعات کی تھی۔

وہ عاجزی کا پیکر، اندر تک آتش فشاں بن گیا۔

"جبکہ تیرا بڑا سہارہ ہے ضرار چوہدری کو، تجھے کبھی حصہ نہیں سمجھا بلکہ اپنا سایہ سمجھا ہے۔ تو ہی بتا جبل زاد کہ زندگی اتنی مشکل کیوں ہے، میں ایک طرف سے سلجھاتا ہوں تو کمبخت دوسری سمت سے الجھ جاتی ہے"

وہ جو اداس تھا، سائیں کے اگلے جملے نے جیسے جبل زاد کی زندگی کے دن بڑھائے تھے، وہ اسکا بچپن سے محافظ رہا تھا، جب اماں فضیلہ نے اپنے سر کے سائیں کی وفات کے بعد اپنا اکلوتا جبل زاد بھی میثم کے لیے وقف کر دیا یہ کہہ کر کے جیسے انکا شوہر ہاشم چوہدری کی حفاظت کرتے کرتے ساتھ جان دے کر مرا تھا ویسے یہ جبل زاد بھی اس پہاڑ کی طرح میثم کی ہمت بنے گا جو اپنی بستی کے لیے سب سے اونچا اور مضبوط ہوتا ہے۔

"مشکلات انہی کے حصے آتی ہیں سائیں جو انھیں برداشت کرنے کا جگرا رکھتے ہوں، آپ نے جبل زاد کو اپنا سایہ کہا ہے تو پریشان نہ ہوں۔ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گا"

وہ ضرار کا دل مضبوط کرنے میں ماہر سا جبل زاد آج بھی بازی لے گیا تو تھکی سی مسکراہٹ اس پیچھے بیٹھے شخص کے ہونٹوں پر آئی پر یوں نوچی گئی جیسے یکدم کسی نے میثم ضرار چوہدری کا سینہ کاٹ ڈالا ہو۔

"جبل! گاڑی روک"

ضرار کی دبی سی آواز پر جبل نے فورا سے بیشتر گاڑی روکی تو ضرار کے سینہ مسلتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکلنے پر جبل زاد بھی خوفزدہ اور پریشان سا باہر نکلا۔

ضرار اس پرفضا ہو جاتی شام میں بھی یوں زرد پڑ گیا جیسے واقعی اسکے لیے اس فضا میں آکسیجن ختم کر دی گئی ہو۔

"س۔۔سائیں۔ خیر ہے ناں۔۔۔کیا ہوا"

اسے یوں اذیت سے گہرے سانس بھرتا دیکھ کر جبل زاد کے ہاتھ پیر بھی پھولے مگر وہ جو اشنال پر ہوتے ظلم کی غائبانہ شدت محسوس کیے نڈھال ہو گیا تھا، جبل زاد کا کندھا تھامے خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

اسکا چہرہ ان کہی تکلیف سے اٹا تھا جبکہ سانسیں غیر ہموار۔

"جبل زاد، ایسا محسوس ہوا ہے جیسے کسی نے میرے دل کو مٹھی میں لے کر کچل ڈالا ہو۔ فون لا اپنا۔ جلدی کر"

گہرے گہرے سانس بھرے وہ جس تکلیف سے بولا، خود جبل زاد کا دل پھڑپھڑا اٹھا البتہ وہ فوری ضرار کے کہنے کے مطابق واپس گاڑی کی سمت گیا اور اپنا فون نکال کر واپس آتے ہی ضرار کو پکڑایا۔

"اشنال کا نمبر ڈائیل کر، فورا"

خود ضرار کی حالت عجیب تھی کہ اس سے فون پکڑا نہ گیا تبھی یہ بھی جبل زاد کو کہا۔

اس نے فرمابرداری کے سنگ اس نمبر پر کال ملائی مگر کئی گھنٹیاں بجنے کے باوجود کوئی جواب نہ آیا۔

جواب آتا بھی کیسے، وہ بجتا ہوا فون، سردارنی کے روبرو اسکے بستر پر پڑا تھا اور خود گل خزیں خانم مسلسل حرکت کرتی کرسی پر بیٹھیں ٹیک لگائے گہرے گہرے سانس بھر رہی تھیں۔

جبل زاد کی آنکھوں میں اتری مایوسی پر جیسے ضرار کا دل مزید گھٹ گیا۔

"سائیں سب ٹھیک ہوگا، پریشان نہ ہوں۔ حویلی چلیں۔ آپکی طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی"

جبل زاد اسکے چہرے پر پھیلتی تکلیف پر خوفزدہ ہوئے مشورہ دیتے بولا مگر ضرار ، اسکا دل اس بری طرح جو کانپا تھا وہ یونہی ہرگز نہ تھا۔

ایسا صرف تب ہوتا تھا جب میثم ضرار چوہدری کے دل میں رہتا کوئی فرد ، جان لیوا عذاب میں مبتلا ہوتا تھا۔

جبل زاد کے اصرار پر وہ حویلی جانے پر تو مان گیا تھا مگر وہاں پہنچ کر جو قیامت اس پر اتری اس نے ضرار کی ہستی ہلا دی تھی۔

پوری حویلئ چھان ماری گئی تھی مگر چوہدری بزدار عالم کا کہیں بھی کوئی نام و نشان نہ تھا۔

                            ..____________________..

حویلی پہنچ کر تمام حالات و واقعات جان کر وریشہ کا تو سر گھوم گیا، پہلی فرصت میں وہ گل خزیں خانم سے اس سبکا حساب مانگنے انکے کمرے میں پہنچی جو اپنی اسی کرسی پر اب تک براجمان تھیں اور فرخانہ کچھ فاصلے پر کھڑی، سردارنی کی ہدایات غور سے سننے اور ان پر باریک بینی سے عمل درآمد کرنے کا وعدہ کر رہی تھی جب جھٹکے سے اس بڑے کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر آتی غصے سے بھری وریشہ کو دیکھتے ہی ان دونوں کی زبانیں بند ہوئئں۔

"آپ لوگ انسان ہیں یا نہیں؟ کیا ظلم کر رہے ہیں ان تینوں سے ساتھ۔ مجھے تو لگا تھا صرف ملازماوں پر آپ کا قہر ٹوٹتا ہے، مگر آپ تو اپنے بچوں تک پر رحم نہیں کھاتے۔ جب یہ بات کھل چکی ہے کہ نہ تو اشنال کا کردار برا ہے نہ اسکے کسی کے ساتھ ناجائز تعلق تھے بلکہ وہ ایک خوبصورت رشتے میں موجود ہے پھر بھی آپ لوگ چند فرسودہ روایات کے نام پر ان تینوں کو اپنے اصولوں پر قربان کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے دادی سائیں، اللہ قہر توڑیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے باز آجائیں"

شکست خوردہ تاثرات کے سنگ وہ آنکھیں نکالتی تشویش زدہ سی اس دھڑلے سے انکے فیصلوں پر اعتراض اٹھا گئی کہ گل خزیں کے ساتھ ساتھ فرخانہ بھی اسکی ہمت پر بگھڑتی دیکھائی دیں۔

جبکہ وریشہ آج کسی قسم کے رحم کے موڈ میں نہ تھی۔

"اب تم بتاو گی ہمیں کہ ہم کیسا فیصلہ لیں اور کیسا نہیں، اپنی حد میں رہو وری ایسا نہ ہو تمہارے حق میں بھی کوئی دردناک فیصلہ سنا دیا جائے"

وریشہ کی اس درجہ جرت ان دونوں کو سلگا گئی تھی جبکہ وریشہ تلخی سے ہنس کر دو قدم قریب ہوئی اور ان دونوں فی الوقت سوداگر بنی عورتوں پر افسوس بھری نگاہ ثبت کی۔

"میرے حق میں آپ سب نے بہت پہلے دردناک فیصلہ سنا دیا تھا، ولی زمان کے دل سے وریشہ یوسف زئی کو نوچ کر نکالا تھا۔ میں تو اس راستے پر تھی ہی نہیں تو سمجھ نہیں پائی تھی کہ آپ کی سفاکی کتنی بے رحم ہے لیکن ولی زمان کا دل جیتے جی مر گیا اس سے مجھے اندازہ لگا لینا چاہیے تھا کہ آپ لوگ تو جدی پشتی محبت کے دشمن ہیں۔ حالانکہ کسی کو اسکی محبت سونپ دینا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے"

وہ بھی جیسے مجبور پھٹ پڑی، کہنا کب چاہتی تھی پر ان لوگوں کی آئے دن بڑھتی سفاکیت اس سے برداشت نہ تھی۔

"تم جیسی بدزبان بہو نہیں چاہیے تھی مجھے سمجھی، جسے بڑوں سے بات کی تمیز ہی نہیں۔ جس کے لیے تمہیں حویلی بلایا ہے صرف اسی پر دھیان دو۔ ہمارے معاملات میں گھسنے کی کوشش نہیں"

وریشہ کے یوں کھلے عام آئینہ دیکھانے پر فرخانہ خانم بھی ناپسندیدگی سے میدان میں اتریں جبکہ اس سے زیادہ وہ ان غیر ضروری ، بددماغوں کے منہ نہیں لگ سکتی تھی۔

"ایک دن آپ سب پچھتائیں گے یہ بات اپنے سیاہ دلوں اور سٹکے دماغوں میں گھسا لیں، اب ولی زمان کے آگے جواب دیجئے گا آپ سب۔ کیونکہ اس بار آپ نے انکی منہ بھولی بہن کو اذیت دی ہے"

اپنے لہجے میں ان دو عورتوں کے لیے جی بھر کر نفرت سموتی وریشہ، جسکا حوالہ دھاڑ کر دیتی اس کمرے سے بپھری موج بنے نکلی تھی، وہ دو حیرت اور بے یقینی کا مجسمہ بن گئیں۔

جبکہ فرخانہ خانم کی آنکھوں میں اتنے سالوں بعد ولی کی واپسی نے جیسے بے شمار تکلیف بھر دی ہو۔

جبکہ خود وریشہ ، اس بے بسی سے بہت افسردہ تھی۔

پہلے گلالئی کے کمرے میں گئی تو اسے قدرے بہتر دیکھ کر وریشہ کو کچھ تسلی ہوئی مگر گلالئی تک بھی حویلی میں چلتے معاملات پہنچ چکے تھے لہذا وہ بہت زیادہ پریشان تھی۔

"ہم اپنی پوری کوشش کریں گے گل، اسے تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔ نجانے اس سے میرا کیا رشتہ ہے کہ جب بھی اسے دیکھتی ہوں ایسا لگتا ہے وہ میرے ہی جسم کا حصہ ہو۔ اور اب جب وہ اس درجہ تکلیف میں ہے تو میرا دل اس کے لیے بہت پریشان ہے۔ اگر ہم یہ قیامت روک نہ پائے تو تم تیار رہنا کیونکہ تم اشنال کے ساتھ ہی ونی ہو کر جاو گی ۔ اور ہمیشہ اسکی شہیر سے حفاظت کرو گی"

گلالئی کے چہرے پر پھیلتے لاتعداد آنسووں کو نرمی سے اپنی ہتھیلی پر چنتی وریشہ اسے حالات کی سنگنی کے مطابق تیار کر رہی تھی یہ الگ بات تھی کہ گلالئی کا رونا، وری سے دیکھنا مشکل تھا۔

"میں ہمیشہ خ۔۔خانم کی خفاظت کروں گی وری بی بی،"

وہ سسک کر بولی تو وریشہ نے اسے تسلی دینے کو خود سے لگایا، گلالئی کو ہر دم چوکس رہنے کا کہتی خود وہ اس ناسور شہیر کو دیکھنے اس کمرے میں آئی جہاں وہ ہوش میں نہ صرف آچکا تھا بلکہ درد کرتے جسم کے باوجود لیٹنے کے بجائے اٹھ کر بیٹھا، آگ کی طرح دہک رہا تھا اور پاس کھڑے منشی سانول اور اماں کوثر کے چہروں پر اسکے عتاب کے باعث خوف اور اذیت درج تھی۔

وریشہ کی آمد پر وہ تینوں متوجہ ہوئے جبکہ شہیر مجبتبی کی جانب وہ لڑکی جس طرح دیکھتے نزدیک آئی، اک لمحہ تو وہ بھینچی صورت اور الجھے بالوں والا شہیر تک کانپا۔

"اماں کوثر، منشی بابا۔ کچھ دیر اکیلا چھوڑ دیں۔ آپکے بیٹے کا آخری معائنہ کرنا ہے"

وریشہ کے اندر اس وقت شہیر نامی اس آدمی کے لیے صرف نفرت تھی اور جس طرح وہ سرد مہری سے بنا ان دو مسکینوں کو دیکھتی بولی، وہ فوری فرمابرداری سے سر ہلاتے باہر نکلے البتہ شہیر ضرور خود پر جمی وریشہ یوسف زئی کی روح تک کھاٹ کھاتی نظروں سے متذبذب ہوا۔

وہ ان دونوں سے کمرے سے باہر نکلتے ہی زرا مضبوط قدموں کو بڑھائے عین اس بیڈ کی دائیں جانب پیر زمین پر لٹکا کر دونوں ہاتھوں میں بیڈ کی چادر بھینچ کر بیٹھے شہیر کے نزدیک آئی۔

"ٹھیک ہوں میں، کسی معائنے کی ضرورت نہیں"

خود پر جمی اس عورت زاد کی متنفر نظر جیسے اس سے برداشت نہ تھی تبھی وہ آنکھیں چراتا ہوا لڑکھڑاتا اٹھا مگر وریشہ نے اسکی بازو پوری قوت سے کھینچے اپنی جانب رخ موڑا اور اس لڑکی کی اس درجہ ہمت پر شہیر کی آنکھوں میں شعلے لپکے۔

"اشنال کی جگہ مجھ سے نکاح کر لو شہیر، میں وعدہ کرتی ہوں تمہیں اسکی طرح نفرت اور دھتکار نہیں دوں گی۔ اسے ضرار کا رہنے دو کیونکہ وہ دونوں نکاح میں ہیں، اور نکاح کا مطلب کچھ نہ ہو کر بھی بہت ساری نزدیکیوں، قربتوں اور محبتوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ شاید وہ بہت بار ایک دوسرے کے قریب آئے ہوں، تم تو شاید کچھ اور سوچ کر یہ نکاح کرنے والے تھے ناں مگر دیکھو وہ تو سر تا پیر ضرار کی پہلے ہی ہے۔ تمہیں کیا دے گی، زلت، دھتکار، اور نفرت۔۔۔۔۔ تم یہ ضد چھوڑ دو تو ہم یہ پارنٹر شپ کرتے ہیں، مجھے دیکھو! کیا کم ہوں اشنال سے، بہت فائدے ملیں گے تمہیں"

اپنے اندر کا غصہ، نفرت اور اذیت سب دباتی وہ بڑے پرسکون انداز میں یہ ساری باتیں سمجھاتے ہوئے شہیر کے تباہ کن تاثرات دیکھ رہی تھی جسے نہ اپنے کانوں پر یقین تھا ناں آنکھوں پر۔

پھر وریشہ یوسف زئی کی آنکھوں میں امڈتی بے باکی اور چمک جس نے شہیر مجتبی جیسے کو ایک لمحے میں فنا کر دیا تھا۔

"کیا بکواس کر رہی ہیں"

اپنے آپ پر قابو پائے وہ جیسے اپنی بے چینی چھپانے کو دھاڑا اور ایک لمحہ تو وریشہ کو لگا کاش وہ کھڑے کھڑے اسکا خون کر سکتی۔

"بکواس ترین انسان کے ساتھ وریشہ یوسف زئی بھی بکواس ہی کر سکتی ہے، حویلی والے میرے اندر کی درندہ صفت لڑکی کو جانتے ہیں تبھی مجھ سے خار کھاتے ہیں ، تم یہ مت سمجھنا کہ اشنال پر حاکم بن کر اپنی فتح پر مہر لگا لو گے۔ تمہیں اشنال کے آگے یہ لڑکی ڈھال بنی ہر قدم پر ملے گی۔ جب ہماری وہ بار بار اتفاقیہ ملاقاتیں ہوں گی تو تم بھی کہو گے کہ اس بیزار اور دھتکارتی بیوی کو گولا مار کر کیوں ناں میں اس وریشہ کا سوچ لوں۔ سالا تھوڑا سکون تو ملے۔۔ سو میں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیے پہلے ہی تمہیں آفر کر دی ہے"

وہ کھڑے کھڑے شہیر مجتبی کے اعصابوں پر قہر برپا کرتی خود انتہائی پرسکون تھی، اسکے اندر کی شیرنی کو یہ حویلی والے للکار کر بڑی غلطی کر بیٹھے تھے جبکہ شہیر اس لڑکی کی یہ باتیں سن کر سر تا پیر خوف اور غصے سے لرزا۔

یقینا پوری دنیا میں اس جیسی دوسری لڑکی نہیں تھی۔

"اور ہاں اگر تم یہ آفر ابھی لیتے ہو تو میں اس نکاح میں آکر تمہاری ساری آگ بجھا دوں گی جو تمہیں چین نہیں لینے دے رہی، امم میرا مطلب تھا اچھی بیوی بنوں گی اور اگر یہ آفر تم نے اپنی شکست فاش کے بعد لینی چاہی تو میں خود ، انہی ہاتھوں سے تمہارا قتل کیے اس علاقے کی پہلی وہ لڑکی بن کر فخر محسوس کروں گی جسنکے اپنے شوہر کا قتل کیا ہوگا"

وہ جو اپنے کھلے الفاظ سے شہیر کی ہستی فنا کر گئی، آدھا جملہ کہے فورا سے مطلب سمجھاتی ہوئی آخر تک جس طرح سرخ ہوتی آنکھوں سے شہیر کی جان لے گئی، وہ ہر شے بھولے تھم گیا تھا۔

یہ کیسی لڑکی تھی؟ اسے لگا اسکا دماغ پھٹ جائے گا یا پھر اس لڑکی کی باتیں اسے ابھی پاگل کر دیں گی۔

"ڈرتا نہیں ہوں تم سے، اگر میں نے تمہاری یہ ساری باتیں حویلی والوں کو بتا دیں تو خوامخواہ ماری جاو گی۔ اب سمجھ آئی ہے کہ کیوں ولی زمان سے تمہیں چھینا گیا تھا۔ تم تو معصومیت اور نزاکت کے بھیس میں چھپا شر ہو، خدا کی پناہ۔ بھلا تم جیسی فتنہ انگیز لڑکی کو وہ خان اپنی بہو کیسے بنا لیتے۔ شکر ہے تمہاری سچائی میرے سامنے کھلی ورنہ آج سے پہلے تو میں تمہیں بہت شریف اور سیدھا سمجھتا تھا"

اپنے آپ پر قابو پانے میں وہ بھی ماہر تھا، سلگتی سیاہ آنکھیں اس بار اس نے بھی وریشہ کی بھوری آنکھوں میں ڈالے، اسکی ذات کی دھجیاں بکھیریں مگر وریشی پہلے تو ہنسی اور پھر پوری قوت لگائے شہیر کے منہ پر تماچہ دے مارا۔

اور اس پر شہیر کے اندر کی آگ نے زور پکڑا۔

وہ جوابا اس لڑکی کے چہرے پر اپنے بھاری ہاتھ کے تماچے کو دیتا دیتا رک گیا۔

ناجانے کس احساس کے تحت فورا اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔

"میرے کردار کی دھجیاں اڑانے کی بھی اوقات نہیں تمہاری نامرد کہیں کے، تم جیسا شخص صرف کردار کشی کر سکتا ہے، وریشہ یوسف زئی کو تمہاری جانب سے اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ بالکل نہیں چاہیے، لعنت بھیجتی ہوں ۔ یہ تھپڑ تمہیں ہر بار پڑے گا تب تب جب تم نے اشنال عزیز کو چھونے کی جرت بھی کرو گے۔ اب تو میں بھی چاہتی ہوں کے وہ تمہارے نکاح میں جائے اور وریشہ ہر لمحہ اسکی حفاظت کرنے کے ساتھ تمہیں تمہاری اوقات یاد دلائے۔

اور ہاں ایک دن تم پر اور تمہارے حواسوں پر یہی شر انگیز وریشہ یوسف زئی سوار ہوگئی لیکن تمہاری سزا صرف حسرتیں بنیں گی۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا۔

آج تمہیں بددعا دیتی ہوں کے تم سسک سسک کر مرو گے، اور تمہاری آخری خواہش وریشہ ہوگی جو ادھوری رہ جائے گی۔

جب اس دنیا میں سب کچھ "تقسیم" ہو گا تو تمہارے حصے میں فقط "زلت" اور "پچھتاوے" ہی آئیں گے شہیر مجتبی۔

محبت کا احترام نہ کرنے والوں پر رزق بھی بند ہو جاتا ہے، پھر وہ رزق سکون کی صورت ہو، آسان نکلتی سانس کی صورت یا پھر زندگی کی صورت"

آنکھوں میں انتہا کی نفرت بھرے وہ چند لفظوں کے سنگ اس مضبوط، جابر اور سنگدل کے دل کو کاٹ کر چلی بھی گئی اور وہ پہلی بار اپنی زندگی میں دہل اٹھا تھا۔

بے چینی کے سنگ اس لڑکی کے اوجھل ہونے کو دیکھا، لپک کر دروازے تک بھی گیا ، پر ناجانے کیا ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہیر مجتبی کے دل سے اذیت رسنے لگی۔

یہ بددعا اسے محسوس ہوا بالکل نہ ٹلے گی، کیونکہ وہ تو بدعاوں کے لائق تھا۔

وہ تو اسے اپنی جانب سے مار گئی تھی مگر سچ یہ تھا کہ زندگی میں پہلی بار شہیر مجتبی کی پتھر آنکھوں میں سرخائی گھلی تھی۔

دل اپنے مرکز سے ہٹ گیا اور اسے محسوس ہوا یہ پوری دنیا اسکے لیے سوگوار مے کدہ بن گیا ہو۔

"جب اس دنیا میں سب کچھ "تقسیم" ہو گا تو تمہارے حصے میں فقط "زلت" اور "پچھتاوے" ہی آئیں گے شہیر مجتبی۔"

اسکے اندر توڑ پھوڑ کرتی ہوئی وہ اسکے ہر منظر سے نکل گئی، مگر حقیقت میں ہر طرف رچ بس گئی۔

                              ..____________________..

زونی سے پوچھ گچھ کے دوران پتا چلا کے جب وہ کچھ شور اور آوزیں سن کر دادا جان کے کمرے میں گئی تو کمرہ بالکل خالی تھا مگر بیڈ پر رکھی وہ سفید کاغذ پر قیامت برپا کرتی تحریر اسے تو کیا حویلی پوری کو سوگوار کر گئی۔

ساتھ وہ طلاق کے کاغذات جنھیں پہلے ہی عزیز خان نے بنوا کر میثم کے دل کو اجاڑنے کی ترکیب بنا رکھی تھی۔

اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس نے زونین کی جانب سے وہ کاغذ تھاما، پوری حویلی کے تمام لوگ ایک ساتھ جمع تھے، جبکہ جبل زاد بھی اذیت میں مبتلا تھا اور فضیلہ اماں، روتی تڑپتی زونین کو سنبھالے خود بھی آبدیدہ کھڑی تھیں۔

اور میثم ضرار چویدری سے تو کسی نے اسکی سانسیں چھین لی تھیں۔

"تیرے پاس تیرا دادا واحد رہ گیا تھا ، دیکھ اسے بھی لے اڑا سردار خاقان۔ اب اگر تو اپنے اس غیرت مند دادے کا غیرت والا پوتا ہے تو یہ بھیجے طلاق کے کاغذات سائن کر دے۔ اور اگر تو اپنے بزدل دادے کا بزدل پوتا ہے تو بھلے ان کاغذات کو پھاڑ کر اپنے دادا کی قبر بنا دے اور پھر بڑے آرام سے اس پر اپنی سیج سجانا۔ تو نے میرے جگر کے ٹکرے فرازم خان کو قتل کیا تھا میثم، میں نے تیرے سینے پر گولی ٹھوک کر بتائا تھا کہ بدلا ناگزیز ہے۔ تو بچ نکلا مگر اب جو میں بنا بندوق چلائے تیرا سینہ چیڑوں گا اس سے ہماری روایات بھی سرخرو ہوں گی اور آخر کار کئی سالوں کے انتظار کے بعد فرازم خان کی موت کا بدلا بھی چکایا جائے گا۔

تیرے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے، اگر ایک گھنٹے میں یہ کاغذات تیری آمادگی کے ساتھ مجھے موصول نہ ہوئے تو اپنے دادے کا مرا ہوا منہ دیکھے گا۔

سردار خاقان خان"

وہ لفظ لفظ میثم ضرار چوہدری کے اندر کچوکے لگاتا گیا، اس دنیا میں جس قدر نفرت ایجاد ہوئی وہ ساری اس صفحے پر انڈیلی گئی تھی۔

وہ جس طرح اسے پڑھ کر سانس کھینچتا ہوا لڑکھڑایا تھا، جبل زاد نے اسکے ہاتھ سے گرتے اس کاغذ کو دیکھتے ہی لپک کر ضرار کو اپنے مضبوط بازووں میں جکڑا۔

ضرار کو یوں دیکھ کر زونی اور فضیلہ اماں کی تو جان نکل گئی۔

وہ بہت بری طرح توڑا گیا تھا، اسے سالم زمین میں دفنانے کے بعد لوگ کیسے امید کرتے کہ اسے ٹھیک سانس آتی۔

"س۔۔سائیں، سنبھالیں خود کو۔ "

جبل زاد کی آواز خود رندی تھی پر وہ کیا کرتا جسکا کلیجہ چیڑ دیا گیا تھا۔

"کیسے سنبھالوں، وہ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ کیا انھیں علم نہیں کہ کسی کو ایسی موت دینا ، قیامت بلانے کے وسیلے بناتا ہے۔ م۔۔میں کیسے اسے چھوڑ دوں جسے چھوڑنا زندگی سے دست برداری ہے۔ وہ جسے اپنی حفاظت کے وعدوں میں جکڑ کر آیا تھا، وہ تو میثم کے پیچھے ہٹے اس قدم پر مر جائے گی۔ لیکن میں۔۔۔۔دادا کو قربان کر کے بھی جی نہیں سکتا۔

نہیں، یہ تکلیف میں برداشت نہیں کر سکتا۔ جبل زاد! میں یہ اذیت سہنے کے لائق نہیں۔ میں کہاں جاوں، میں کہاں جاوں کے میرا دل بند ہو رہا ہے"

وہ رگ رگ میں اتر جاتی بے بسی پر اذیت سے چلا اٹھا تھا، اپنے بالوں کو نوچتا ہوا لڑھک کر صوفے کا کنارہ سنبھالے، اور جب اس نے جبل زاد کو تکلیف میں پکارا تو خود اس وفادار کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

جبکہ ضرار لالہ کی ایسی تابناک تکلیف ، زونین کا کلیجہ کاٹ رہی تھی۔

"س۔۔سائیں۔۔۔۔ایسے ہمت نہ ہاریں"

وہ بہت ہمت کرتا ہوا اسکے قدموں میں بیٹھے بولا، آواز بہت بے بسی سے نم ہوئی مگر ضرار چوہدری کا یہ اتنا چھوٹا نقصان نہ تھا جس پر وہ صبر کر لیتا۔

"ہمت ختم جبل زاد، مخص اک بخت کی اولاد ہونا اتنا بڑا جرم تھا کہ مجھ سے اس ناکردہ جرم کے عوض میرا صنم چھین لیا گیا۔ اگر میں نے اپنے دادا سائیں کو مرنے دیا، تو میں دوسرا سانس نہیں لے پاوں گا۔ لیکن جبل زاد وہ مر گئی تو کیا مجھے دوسرا سانس آ سکے گا؟ بتا جبل زاد۔۔۔۔ مجھے کوئی تو تسلی دے یار"

وہ اس وقت ذہنی رو بھٹک جانے پر پاگل جیسی باتیں کرتا ان تینوں کے حوصلے بھی آزما رہا تھا، اسکی آنکھوں میں یہ دشمنی پھر سے کرب آمیز آنسو اور سرخیاں سمیٹ لائی تھی۔

اسکی تکلیف ان سب سے دیکھنی محال تھی۔

اور جبل زاد کا اپنا دل کٹا جب اسکے سائیں اس سے بس اک تسلی کے طلب گار تھے، ایسی تسلی جو ضرار چوہدری کی نبض سے اچکی جا چکی زندگی واپس تھما دیتی۔

"میں ابھی اس شہیر کے ٹکڑے کر آتا ہوں، حرام زادہ۔ سب کچھ اسکی وجہ سے ہوا۔ آپکی آنکھوں میں آنسو لانے والا میرے ہاتھوں ہی مرے گا۔ آپ کمزور نہیں ہیں کہ دشمنوں کی گھناونی سازش سے خوف کھا جائیں۔ بس سائیں، حوصلہ کریں۔ یہ جبل زاد آپکے ایک حکم پر پوری دنیا کو آگ لگا دے گا"

وہ جسے سانس نہ آرہی تھی، اس وفادار ساتھی کی ہمت بندھانے پر اپنی سرخ آنکھیں جس بے بسی سے جبل پر ڈال گیا اور اس وفادار کا کلیجہ اور کاٹ گئیں۔

"یہ جنگ میری ہے جبل زاد، اس جنگ میں اب میں اپنے کسی عزیز کو قربان ہونے نہیں دوں گا۔ لا کاغذات۔۔۔۔ فی الحال بھجوا دینا اس مردود کو"

اپنے دل پر رکھی سل محسوس کرتا وہ جو بولا، زونین اماں فضیلہ اور جبل زاد تینوں کے چہروں پر سفیدی اتر چکی تھی، اس سب کے برعکس کچھ ایسا بھی تھا کہ وہ اپنی اذیت میں کمی کو تین گواہ بنا چکا تھا پھر اسکے اس ٹوٹے انداز پر جبل زاد تڑپا۔

"س۔۔سائیں۔۔خانم؟"

جبل زاد نے دکھ سے جیسے اپنا سوال ہی ادھورا چھوڑا۔

یہ ساعت میثم ضرار چوہدری کو منحوس لگی۔

"تیری خانم اب ضرار چوہدری کے رب کے حوالے جبل زاد! جلدی کر کاغذات پکڑا۔ دادا سائیں پہلے ہی بیمار ہیں۔ وہ حرام زادہ انھیں ذہنی ٹارچر دے کر ہی مار ڈالے گا۔ اٹھ دے مجھے"

بنا کسی احساس کے وہ ربورٹ بنا یہ حکم صادر کیے اپنی مضبوط آواز کی سلوٹ دبا نہ سکا اور جبل زاد بھی اپنی بھیگی آنکھیں رگڑتا اٹھا اور سامنے میز پر رکھے موت نامے کو اٹھائے میثم کی جانب بڑھایا۔

"زندگی بس آپکے ساتھ تک تھی صنم! میثم تو آج مر گیا۔

وعدہ کرتا ہوں جس طرح آپ سب کے سامنے مجھ سے بے رحمی کے سنگ چھینی گئی ہیں ویسے ہی آپکو اس بے رحم دنیا سے واپس چھین لوں گا۔ تب تک میثم ضرار چوہدری سے آپکی جڑی محبت ممکن ہے نفرت میں بدل جائے۔ جو شخص بیچ منجھدار آپکو چھوڑ رہا ہے، اس پر آپکی لعنت بھی پڑے تو سر آنکھوں پر ۔"

اپنے بلکتے دل کو سمجھاتا ہوا وہ کچھ لمحے یونہی صرف کر گیا، پھر جیسے اسکی تڑپتی ہوئی آنکھیں اٹھیں اور ان تین افراد پر باری باری گئیں، کچھ ہوا تھا اس لمحے۔ نا جانے کیسا اقرار، کیسی گواہی جو اس اذیت میں ڈوبے ان تین افراد نے دل و جان سے دی تھی۔

دل کو پتھر بنائے کچھ دیر بعد وہ اس موت نامے پر کچھ لکھ رہا تھا، صنم سے جھوٹی ہی سہی پر دستبرداری کیسا دکھ تھا یہ صرف وہی شیر جان سکتا تھا۔

اس دنیا کی کوئی طاقت نہ تھی جو اسکے کرب کا اندازہ لگا سکتی۔

جبل زاد کی آنکھوں سے نمی بہتی گئی، اسکا سینہ پھٹ گیا جبکہ روتی سسکتی زونی زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ، منہ پر ہاتھ رکھے اپنی چینخیں دباتی رہ گئی اور فضیلہ اماں خود یہ ظلم اور بربریت دیکھ کر نڈھال تھیں۔

خود سے اشنال عزیز کو علیحدہ کرتے ہی درد کی لہر اسکے پورے وجود میں لہرا کر پھیلی۔

ایک جیسی قیامت اس پر اور صنم پر ایک ہی شدت سے اتری تھی۔

"وہ اتنی آسانی سے مجھ سے چھین لی گئی، کہ میثم ضرار چوہدری کو شان سے تڑپنے کی مہلت ہی نہ ملی جبل زاد۔ یہ مجھے زیب کہاں دیتا تھا کہ میں اسے یوں چھوڑ دیتا"

اسکی ڈوبتی ابھری آواز ان تینوں کا کلیجہ نوچ گئی اور آنسو تھے کہ ضرار کی حالت پر بے قابو ہوتے گئے۔

"آپ انھیں پھر سے دل کا قرار بنا لینا سائیں"

جبل زاد نے گھٹی آواز میں جیسے امید دلانی چاہی اور کرب کے باوجود دل چیڑتا ہوا مسکرا دیا۔

"دل سے تھوڑی علیحدہ کیا ہے صنم کو تو یہاں واپسی کیسی، یہ دل تو صرف اشنال عزیز کا مسکن رہے گا۔ مشکل تو اس لڑکی کے بنا زندگی گزارنا ہو جائے گا۔

اب جا اور یہ بھجوا دے ان ناسوروں کو۔ اور دادا کی خبر ملتے ہی اطلاع کر۔ بھاگ جبل زاد! جلدی کر"

ضبط اور برداشت کی تمام حدیں پار کرتا وہ جبل زاد کو حکم سناتا، اپنے بھاری قدم کے کر ان سبکی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

جبل زاد فورا وہ کاغذات لیتا اک درد بھری نگاہ اماں سائیں اور تکلیف سے آدھی ہوتی زونی پر ڈالے حویلی سے باہر نکلا تو وہ جو رو رہی تھی، اپنے ننھایال کے ایسے ستم پر لرز اٹھی۔

اسے لگا جیسے ایک دن اس سے مشارب زمان کو بھی وہ لوگ یونہی چھین لیں گے۔

"بس کر میری دھی، کیوں رو رو کر میرا بھی کلیجہ چیڑ رہی ہے۔ صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں پتر"

اس روتی کانپتی زونین کو بمشکل اٹھا کر اوپر صوفے پر بیٹھائے وہ اسکے چہرے پر پل پل کرب میں اضافہ کرتے آنسو رگڑے تسلی دینے لگیں مگر وہ بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔

"ا۔۔ماں۔ وہ لوگ م۔۔ہم سے م۔۔مشارب کو بھی چھینی لیں گے۔ ہم ت۔۔تو واقعی مر جائیں گے ۔ کیا کریں گے ہم اگر ہم سے مشارب کا نام لے لیا گیا۔ ہم ان سب سے دور چلے جائیں گے۔۔۔۔۔ہم نہ ددھیال رہیں گے نہ ننھیال۔۔ہم کسی بھی جگہ چلے جائیں گے ، ہم نہیں رہیں گے اماں۔۔۔۔ ہ۔۔ہم میں ضرار لالہ جتنا حوصلہ نہیں۔۔۔۔ ہم مما کے پاس چلے جائیں گے، ان۔۔سے کہیں گے ہمیں چھپا لیں۔۔۔ ہم سچ میں چلے جائیں گے۔۔۔ ہم کو سب سے ڈر لگ رہا ہے اماں۔۔۔ ہم کسی کو ن۔۔نہیں ملیں گے۔ پ۔۔پھر کوئی ہم سے ہمارے مشارب کا ن۔۔نام نہیں چھین سکے گا"

زار و قطار ہچکیاں بھر کر زونی کی اذیت بھری حالت پر فضیلہ اماں کی آنکھیں پھٹ گئیں وہ اسے لاکھ روکتی رہیں پر وہ اس سب سے جیسے یکدم پاگل ہو گئی تھی تبھی اپنا آپ اماں فضیلہ تک سے وحشی بنی چھڑواتی وہ اٹھ کر اندر بھاگی البتہ اسکے یہ جنونی ارادے جان کر اماں فضیلہ کا دل ضرور سوکھے پتے سا پھڑپھڑا اٹھا۔

وہیں وہ مردہ قدم اٹھائے جو وہاں سے فرار ہو گیا تھا، اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے خود پر اس دروازے کو بند کر دیا تھا، اسکے اندر اذیت کی انتہا بھری ہوئی تھی، بار بار حلق تر کرنے کی نوبت آرہی تھی تو وہیں الٹی جانب نسب سست ہوتے دل پر اپنے مضبوط ہاتھ کی ہتھیلی سہلانی پڑتی۔

وہ بمشکل اپنا مسمار ہوتا وجود لڑکھا پایا، بیڈ کے ایک آخری کنارے بیٹھ کر گہرے سانس بھرتے ہوئے اس کمرے کی اجڑی تاریکی دیکھی۔

"میں کس کو آواز دوں اب۔

خدا کو؟ جس نے مجھے انسانوں میں چھوڑ دیا۔

یا انسان کو؟ جس نے مجھے خدا کے آسرے پہ رکھ دیا۔"

اسکی آواز میں کھارا پن تھا، شکوہ تھا، اپنی اس درجہ بے بسی اور اذیت پر ملال تھا۔

"میں کیسے رہوں گا آپکے بنا اشنال؟ کچھ سمجھ نہیں آرہی۔"

اپنے بالوں میں انگلیاں پھنساتا وہ ہاتھوں میں سر گرائے بہت کرب سے بول پایا تھا، اسکی ہر سوچ اس وقت مفلوج تھی۔

وہ ضبط کا دامن تھامے، اپنی آنکھوں کی نمی اندر چھپائے، خود سے سوال کر رہا تھا۔

سیاہ جوڑا، جس میں وہ بن ٹھن کر نکلا تھا اب تو ماتمی سوگوار دیکھائی دیا۔ بکھرے سے بال، سرخ اداس آنکھیں اور چہرے پر نئے نئے خسارے کے باعث ویرانگی کے سائے۔

پھر جیسے درد حدوں سے بڑھا تو وہ حلق کے بل چینخا تھا، جیسے اب بھی یہ درد سینے سے نہ نکلتا تو اسکی جان لے جاتا۔ وہ تکلید اس قدر ظالم تھی کے بزدار حویلی کے در و دیوار کانپ اٹھے تھے۔

"ن۔۔نہیں کریں میرے ساتھ، میں نے ایسا کوئی گناہ نہیں کیا کے مجھے ایسا آزما رہے ہیں۔ میں تو محبت کی تھی، خالص محبت ۔ وہ محبت جو آج سے پہلے آپکے کسی بندے نے نہیں کی ہوگی۔۔۔۔ اس لڑکی کے سارے دکھ میرے دامن میں ڈال دیں، لیکن اسے مجھ تک واپس پہنچا دیں۔ میں کیا کروں گا اسکے بغیر، مجھے ایسا برا مت آزمائیں کے محبت پر لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے۔ مجھے ایسے درد سے مت گزاریے گا جسکے باعث میری آہیں زمین و آسمان کو ہلا ڈالیں۔ اس لڑکی کو میرے لیے اپنی امان میں رکھیے، اس سے زیادہ مجھ میں سکت نہیں۔۔۔۔۔ میں اس لڑکی کی نفرت بھی سہہ لوں گا مگر اس پر شہیر جیسے کی نگاہ بھی نہ پڑے، وہ صرف میرے لیے ہے۔ اسے میرے لیے ہی علیحدہ رکھیے گا۔ آپکے سوا اب میرا اس بے بسی میں کوئی مددگار نہیں، کوئی نہیں بچا جو مجھے تسلی دے۔ آپ دیں مجھے تاکہ میں خود کو سنبھال سکوں۔۔۔۔ مجھے ہمت دیں"

وہ چاہتا تھا اپنی حالت بحال کرے، اس کرب سے نجات پائے جو اسکے حواسوں اور دل پر بھاری بوجھ لادے ہوئے تھا اور شاید یہی میثم ضرار چوہدری کی آزمائش کی حد تھی۔

اور آزمائشوں پر وہ شیر پورا اترا تھا تبھی اسکا ایک آخری امتحان منفرد سی آسانی کے سنگ لینے کا فیصلہ، آسمان کے پار ہو چکا تھا۔

اشنال عزیز صرف اسکی تھی مگر اسے ابھی عشق کا دریا ، ڈوب کر عبور کرنا تھا۔

کیونکہ بڑے لوگوں کی آزمائشیں بھی بڑی ہوا کرتی ہیں۔

                           ..____________________..

شام ہوتے ہی ولی زمان خان کی حویلی آمد پر سبکو سکتہ طاری تھا، آتے ہی پہلے تو اس نے عزیز خان اور خدیجہ خانم کو اس درد ناک قید سے رہائی دی اور جب خانم گل خزیں خان نے اس سے اس جرت پر سوال کیا تو وہ بھی جیسے برسوں کے لاوے کو اپنے دل پر سے نوچ کر نکالنے کا تہہہ کر بیٹھا۔

مشارب اور سردار خاقان موجود نہ تھے البتہ باقی سب کو وہ مجرموں کی طرح کٹہرے میں کھڑا کرتا، روح نکال دیتی آنکھیں سب پر گاڑے کھڑا تھا۔

جبکہ وریشہ تو شہیر کی بکواس کے بعد ہی اشنال کے کمرے میں گھس چکی تھی، اسے ناصرف ان بے رحم رسیوں سے نجات دی بلکہ تب سے اب تک اسکے ساتھ، اسکے کرب کے سنگ اذیت میں ڈوبی تھی ، اس دنیا میں کسی مائی کے لال میں جرت نہ تھی کہ وہ وریشہ یوسف زئی کی آنکھوں میں آنسو لاتا مگر شہیر جیسے کی نفرت اور اپنی عزیز اشنال کی محبت دونوں ہی اسے رلا رہے تھے۔

مگر ولی زمان کے آنے کی خبر پر وہ خود بھی اپنے آنسو پونچھ گئی اور اشنال کو بھی سختی سے رونے اور تڑپنے سے روکا۔

"ایک اولاد کا سینہ چیڑا، کافی نہ تھا ؟ کہ اشنال کو بھی اسکی محبت سے جدا کرنے پر تلے ہیں ۔ تب معاملہ ولی زمان خان نے ادب و احترام میں خود دبا دیا لیکن اس بار آپ سب نے اپنی حدیں عبور کر لی ہیں۔ کس قانون میں لکھا ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کا فیصلہ کر کے واجب القتل ہو جاتے ہیں۔ حالت دیکھی ہے آپ نے ان دو کی۔ مجھے تو خود پر شرم آرہی ہے کہ میں آپ جیسوں کا خون ہوں۔ لعنت ہے مجھ پر جو میں اتنے سال دور رہ کر آپکی اس درندگی بڑھنے کا منتظر رہا۔ دیکھتا ہوں کہ کون اشنال یا اسکے ماں باپ پر ظلم ڈھاتا ہے"

بنا کوئی لحاظ بالائے طاق رکھتا وہ پوری قوت سے چینخا تھا، اسکی گھن گرج دار آواز میں پھنکارتی بغاوت پر اسے زمان خان، فرخانہ خان اور سردارنی کی عتاب ذدہ نفرت چھلکاتی نظروں کا سامنا تھا جبکہ عزئز خان اور خدیجہ قابل رحم حال تک آچکے تھے۔

"اپنی بکواس بند کر لے، تو قانون کا ایک چھوٹا سا حصہ بن کر ہمیں مت سیکھا یہ کتابی باتیں ۔ نہ تو تیرا شہری قانون یہاں لاگو ہوتا ہے نہ کبھی ہوگا۔ ہہ علاقہ ہمارا ہے اور یہاں فیصلے بھی ہمارے ہوتے ہیں"

گل خزیں خانم کی چنکارتی ، کاٹ کھاتی دھمکی بلند ہوئی جس پر ولی زمان کی آنکھیں لہو رنگ ہوئیں۔

"نہیں، اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک اور دل اجڑنے نہیں دوں گا۔ آپ جیسوں کی منافقت پر اب تو مجھے افسوس باقی رہ گیا ہے۔ آپ لوگوں سے نہ تو محبت کرتے دل برداشت ہیں نہ ہی اپنی حاکمیت کے بیچ آتا فرد۔ کیا ہو جاتا اگر کنزا پھوپھو کی محبت کو آپ سب تسلیم کر لیتے۔ وہ گھر سے بھاگنے پر آپ کی ہٹ دھرمی کے باعث مجبور ہوئیں اور پھر انکی خراب قسمت کے مقدر پھوٹا بھی تو بخت چوہدری جیسے حرام خور سے۔ آپ سبکی نفرتیں کھا گئیں کنزا کو، اسے کنو بائی بننے پر مجبور کر گئیں تاکہ وہ عورت کسی طرح اپنی بیٹی کی عزت اور زندگی بچا لے۔ خدا جب قہر توڑے گا تو آپ سب اس کی لپیٹ میں آتے پہلے افراد ہوں گے"

اپنی مردانگی دیکھاتا ہوا وہ ان سبکو پچھاڑ چکا تھا اور اسکی دھاڑوں پر داخلی دروازے کی سمت سے اندر آتے سردار خاقان خان اور انکے سنگ آتے مشارب کے چہروں پر بھی ناپسندیدگی سی ابھری۔

جبکہ پلٹ کر اندر کی جانب آتے دادا سائیں کو بھی ولی زمان کی قہر آلود نظروں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ مشارب پر اسکی آنکھیں بڑی تکلیف سے جا جمی جیسے کہہ رہا ہو کہ مشارب زمان! مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی۔

"زیادہ تتا ہونے کی ضرورت نہیں تجھے خانوں کے گرم خون، ٹھنڈا ہو جا۔ میثم نے طلاق کے کاغذات پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس عزیز کو بھی ان طلاق کے کاغذات کو بروقت بنوانے پر معاف کرتا ہوں۔ آج ہی مشارب شہر جا کر اس طلاق کی تصدیق کروا دے گا اور کل بھری پنچائیت کے سامنے ونی کا نکاح کر کے ہم اپنی روایات کا پاس کریں گے۔ جا مشارب، روانگی پکڑ"

بنا کسی کی پرواہ کیے بنا، سردار خاقان خان نے وہ قانونی دستاویزات لہرا کر سبھی کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ آگ کھولا دی جبکہ عزیز خان کی آنکھیں اس پر بھی سوگوار تھیں۔

خدیجہ خانم کی تو ہچکیاں بند گئیں اور پھر مشارب اور ولی کے علاوہ ہر کسی کے چہرے پر مطمئین رنگ ابھر آئے۔

مشارب نے خود پر جمی بھائی کی نظریں نظر انداز کیے دادا سے وہ طلاق کے کاغذات لیے اور وہیں سے واپس باہر نکل گیا۔

"یہ ظلم اور بربریت مت کریں، خدا کے قہر سے ڈریں دادا سائیں"

ولی زمان نے بہت دکھ سے وارن کرنا چاہا تو آگے سے سردار خاقان فرعونیت کے نشے میں لپٹے نجس سا قہقہہ لگاتے چل کر اس سلگتے ہوئے ، بہت سالوں بعد لوٹ آتے پوتے کی جانب لپکے۔

"آج تجھے تیرا دل اجاڑنے کی وجہ بتاتا ہوں ولی، یہ سچ چھپانا بے کار ہے۔ بتانا پڑے گا کہ تیرے لیے وریشہ کو کیوں قبول نہیں کیا تھا۔

یہ سچ اس حویلی میں تیرے ماں باپ کو بھی نہیں پتا"

یکدم ہی جیسے سردار خاقان کی اس بات پر سب کے سانس سینوں میں جکڑے تھے اور صرف گل خزیں خانم کے چہرے پر سکون تھا۔

"ایسا کونسا سچ ہے،"

ولی کی بھاری آواز تک لرز گئی تھی۔

"بظاہر میرے اور شیمشیر چوہدری کے بیچ دوستی کے تعلق استوار ہیں جو اب زرا پھیکے پڑ گئے جب سے اس نے پنچائیت میں میرا ساتھ نہ دیا مگر برسوں پہلے کچھ ایسا بھی ہوا تھا جسکے باعث ہم آپس میں رشتہ جوڑنے کے روا دار نہ رہے تھے"

سردار خاقان کی آنکھوں میں عجیب سی تپش پر ولی کا دل بیقرار ہوا، سبکے چہروں پر رزدی کھنڈی تھی۔

"عزیز خان نے بھی یہ بد بخت محبت کی تھی، نورے سے۔ شیمشر یوسف زئی کے اکلوتے بیٹے مدثر یوسف زئی کی بیوی تھی۔ ایک ٹریفک حادثے میں شمیشر کا اکلوتا بیٹا مر گیا اور اپنے پیچھے نورے اور اسکی کوکھ میں پلتی چند ماہ کی وریشہ چھوڑ گیا۔ جس نے کچھ ہی ماہ بعد جنم لیا مگر اب عزیز خان کی محبوبہ تو اکیلی ہو گئی تھی اور خدیجہ خانم تھی بھی بانجھ ۔ بس پھر باہمی مشاورت کے سنگ عزیز خان کا دوسرا نکاح نورے سے کروایا گیا جسکے بعد پہلے ہی سال اشنال نے جنم لیا پر وہ اسے جنم دیتے ہی مر گئی۔

سبکو یہی پتا تھا کہ اشنال کو خدیجہ نے پیدا کیا، یہ بات اگر حویلی سے نکلتی کہ خانوں کی بہو بانجھ ہے اور عزیز خان کا دوسرا نکاح کروایا گیا تو خاصی عجیب لگتی، خانوں پر لوگ جملے کستے۔ اور وہ نورے حقیقت میں ایک طوائف تھی جیسے مدثر یوسف زئی اس سچ کو بتائے بنا بیاہ لایا اور یہ کہا کہ وہ یتیم اور مسکین تھی، بس یہ حقیقت مجھے اور شمشیر کو اسکی موت کے بعد ہی پتا چلی۔ پھر ہم دونوں یاروں نے سوچ لیا کہ ان دونوں لڑکیوں یعنی بہنوں کی شادیاں کہیں باہر کر کے یہ طوائف زادی کا خون اپنے گھروں سے باہر نکال دیں گے۔ شمیشر کو وریشہ عزیز تھی کیونکہ اسکے اکلوتے بیٹے کا بھی خون تھی ، لیکن ہمارے لیے نہیں تھی اور پھر اس پر تیرا دل آگیا بس تجھے اسکی سزا دی گئی۔ جبکہ اشنال جسے عزیز کا خون ہونے کے ناطے ہم نے کافی حد تک قبول کر لیا تھا، آخر کار اس نے بھی نیچ حرکت کیے بتا دیا کہ وہ اس معزز خاندان کے لائق نہیں۔ اب چونکہ وہ عزیز خان کا بھی خون ہے تو دشمنوں کے حوالے تو ہم مر کے بھی نہ کریں گے، شہیر اس کے لیے بالکل مناسب ہے۔

امید ہے اب تجھے مزید ہم خانوں کی سفاکی کا یقین ہو گیا ہوگا لہذا غلطی سے بھی ہمارے فیصلوں کے بیچ ٹانگ مت اڑانا۔

ہم ٹانگ اڑانے والے کی زندگی چھین لیتے ہیں"

کھڑے کھڑے ان سب پر حویلی کی چھت آن گری تھی، اشنال اور وریشہ دونوں کی ماں ایک تھی، یہ بات تو زمان خان اور خدیجہ خانم کی ہستی بھی ہلا گئی جبکہ اپنے دل کو اس بے رحمی سے اجاڑتے اس سفاک دادا کی جانب دیکھتا ولی زمان سمجھ نہ پایا کہ نفرت کی کونسی قسم ہو جو وہ ان سے کرتا۔

یہ لوگ تو سر پھرے اور جانور تھے، وہ جھرجھری لے بیٹھا۔

اسے ان سبکے چہروں سے خوف آیا۔

البتہ عزیز خان اور خدیجہ خانم کے ہمیشہ سہمے رہنے کی وجہ یہ ہوگی اس نے کبھی نہ سوچا تھا۔

وہ اپنا دماغ معاوف ہوتا محسوس کیے ان سب پر حقارت بھری نظر ڈالتا وہاں سے سیدھا اشنال کے کمرے کی طرف بڑھا تھا جبکہ حویلی پر چھایا جمود سرداران کے لیے ہٹ چکا تھا، کل پوری آن بان کے سنگ وہ اشنال کو شہیر کے سپرد کرنے کے بارے متحرک تھے جبکہ عزیز خان اور خدیجہ خانم کی ہر بھیگی ، تڑپتی سانس، اپنی اشنال کے لیے دعا گو تھی۔

                           ..___________________

وہ تیزی سے دادا سائیں کے کمرے کی جانب آیا جو بہت برے حال میں پہنچے ہوئے، تڑپ کر میثم کو پکار رہے تھے۔

جبل زاد پہلے ہی علاقے کے ڈاکٹر کو بلوا چکا تھا، جو اذیت انکی وجہ سے انکے ضرار پر ڈھے چکی تھی اس نے چوہدری بزدار عالم کی سانسیں بھی سینے میں اٹکا دیں۔

کمرے میں داخل ہوا ہی کہ دادا جان کا اکھڑتا سانس اسکے قدموں کی مزید تھکن بڑھا گیا۔

"ض۔۔صرار۔۔۔۔م۔۔۔مجھے معاف"

ڈاکٹر انکا بی پی اور شوگر چیک کرتا خاصے پریشان تاثر میں تھا جب وہ لپک کر ناصرف احساس جرم میں مبتلا دادا سائیں تک آیا بلکہ انکے پاس بیٹھے ہی انکا اپنی جانب اٹھا کپکپاتا ہاتھ تھام گیا۔ فصیلہ اماں، پہلے ہی بڑے سائیں کے لیے پرہیزی کھانا بنانے جا چکی تھیں جبکہ جبل زاد بھی کچھ فاصلے پر کھڑا چہرے پر تکلیف لیے تھا۔

"آپ کے لیے تو ضرار کی جان بھی قربان ہے، معافی مانگ کر کیوں میرے کٹے دل پر نمک چھڑک رہے ہیں"

وہ سرخائی گھلی پتھر آنکھوں سے دادا کی نمی اور کرب میں ڈوبی آنکھوں میں جھانک کر سینہ چیڑ رہا تھا اور وہ بوڑھے دادا اپنے باعث ضرار کا سینہ اجڑنے پر بستر سے آلگے تھے۔

وہ اپنے دو لوگوں سے ساتھ اسطبل تھے جب سردار خاقان کے کارندوں نے ان دو آدمیوں کو ہاتھ پائی کے دوران شدید زخمی کرتے ہوئے چوہدری بزدار عالم کو گھسیٹ کر لے گئے اور پھر انہی کا ایک کارندہ حویلی گھس کر وہ کاغذات رکھتا ہوا جاتے جاتے دو تین آدمیوں کو پھڑکا گیا۔

اور حویلی میں آتی اس منحوس قیامت نے ہر دل دہلا دیا تھا۔

"میں تمہارے د۔۔دل کو آباد نہ رکھ سکا ضرار، میں بہت بدقسمت ہوں ۔ مجھے اپنی زندگی دے کر تمہارا دل آباد کرنے کی مہلت دے دیتے۔ میں اب جی ک۔۔کر کیا کروں۔ تمہارا اجڑا ہوا دل تمہارے دادا سائیں کی جان لے رہا ہے"

وہ اس کا آگ کی طرح تپتا ہاتھ تھامے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور وہ بڑے جبر سے انکا ہاتھ تھپتھپا کر تسلی دینے کے کرب نام شغل کرتا اس وقت جبل زاد کی آنکھوں میں بھی آنسو لایا۔

"ڈاکٹر! میرے دادا سائیں کو کچھ ہوا تو تیری گردن مڑور دوں گا۔ انکی تکلیف دور کر ابھی، انکی تکلیف ضرار کو ریزہ ریزہ کر ڈالے گی"

وہ اس وقت ہر احساس سے عاری دیکھائی دیا اور اسے یوں دیکھ کر دادا سائیں نے اپنا احتجاج بھی بس آنسو پینے سے کیا اور وہ اپنی درد کرتی آنکھیں مسلتا ہوا وہیں دادا کے سینے پر سر رکھے لیٹ گیا۔

کئی آنسو چوہدری بزدار عالم کی آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہوئے اور ضرار چوہدری کی آنکھوں سے نکل کر انکے سینے میں۔

"انھیں بے سکونی سے دور رکھنا ہوگا سائیں، ٹنشن انکے لیے ٹھیک نہیں۔ کم ازکم آپ حوصلہ رکھیں"

کچھ فاصلے پر کھڑا وہ علاقے کا معزز اور قابل ڈاکٹر بھی ان دادا پوتے کے دکھ میں شریک سا افسردہ تھا جبکہ جبل زاد نے گہرا سانس بھرے ڈاکٹر کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔

"میں آپکو دکھ دیتا ہوں ناں دادا سائیں، میری خوشیاں، میرے غم سب ہی آپکو رلاتے ہیں۔ میں اب آپکو کوئی تکلیف نہیں دوں گا لیکن اگر آپ نے ضرار چوہدری کو اس بھری دنیا میں تنہا کرنے کا خیال بھی سوچا تو بہت سخت ناراض ہو جاوں گا"

گہری ہوتی رات کے ساتھ وہ بھی ڈوب رہا تھا اور اپنے سینے پر سر رکھ کر اذیت دباتے ضرار کے گرد وہ بوڑھا'شفیق دادا بس اپنی بازووں کو ہی پھیلا سکا، ان سے بولا تو شاید جا ہی نہ سکتا تھا۔

"تکلیف تو تب بھی اتنی ہی ہوئی تھی جب ہاشم چاچو مرے تھے، میرا آدھا دل مرا تھا۔ پر آج پورا مر گیا۔ اگ۔۔گر آپ نے بھی بستر پکڑ لیا یا مجھے تنہا کر گئے تو میں کیسے جیوں گا۔ مجھے اپنی لڑائی لڑنی ہے دادا سائیں، مجھے میرا صنم واپس چھیننا ہے۔ مجھے مزید اپنا دکھ نہ دیں، کہ اس وقت میں بہت کمزور پڑ چکا ہوں"

مرنے والا جانتا تھا کہ وہ مر رہا ہے پر ستم کہ موت بھی راحت نہ تھی، اور چوہدری بزدار عالم نے اپنا ڈوبتا دل سنبھالنے کی بہت کوشش کی، وہ ضرار کا آخری سہارہ تھے تبھی جانتے تھے کہ انکی زندگی، انکے پوتے کے لیے کتنی اہم ہے۔

"میں کیسے صبر کروں، میں تمہارے اور اپنے کس کس دکھ پر صبر کروں ضرار"

بھیگی ڈوبتی ابھرتی آواز ابھری تو وہ بلکتے بچے کا روپ دھار لیتا ضرار، جیسے پھر سے ہمت تھامے مضبوط ہوا، اپنا سر دادا کے سینے سے اٹھائے انکی نقاہت سے اٹی صورت اور سرخ ہو کر سوجھ جاتی آنکھیں دیکھیں پھر جھکا، اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا تو وہ مزید تکلیف میں اٹے۔

"کرنا ہوگا، کیونکہ آپ شیر ہیں۔ میں ہوں آپکے ساتھ۔ آپ کو رازدان کے منسب سے ہٹایا مجھ نامراد نے اور دیکھیں سب بگھاڑ دیا۔ میں وہ گندے لفظ واپس لیتا ہوں، آپ ہی میرے رازدان ہیں۔ میں آپکو کھو نہیں سکتا دادا سائیں ، میں سب ٹھیک کر دوں گا۔ میں آپکو اپنی کمزوری نہیں رہنے دوں گا بس مجھ سے وعدہ کریں آپ ضرار کو اس بے رحم دنیا کے بیچ کبھی تنہا نہیں کریں گے"

اپنی تکلیف دباتا وہ اس وقت صرف دادا جان کے لیے ڈرا تھا، وہ اسکی ہمت تھے اور ان پر آئی آنچ ضرار کو مزید توڑ رہی تھی۔

انکا بس چلتا تو اپنی سانسیں ادھار دے آتے پر اپنے اس پوتے کی اذیتیں ختم کر دیتے مگر وہ اس میں بھی بے بس تھے۔

"نہیں کروں گا، تم پر تمہارے دادا کی ہر سانس قربان۔ لیکن میں اس گلٹ سے نہیں نکل پاوں گا کہ میری وجہ سے تمہیں اشنال کو چھوڑنا پڑا۔ وہ لوگ درندے ہیں، وہ روح کپکپا دینے والے جانور ہیں۔ کیسے بدبخت ہیں کہ مجھے ہی تمہارا مجرم بنا دیا۔ میرے پ ۔پاس تو تمہیں دینے کو تسلی بھی نہیں بچی"

دادا جان کی اذیت اور خود پر برہمی بجا تھی مگر وہ انھیں اس ذہنی انتشار سے جلد نکالنا چاہتا تھا۔

"واپس پا لوں گا اس زندگی جیسی عزیز لڑکی کو، قسم کھاتا ہوں کہ انکو اس درجہ بے بس کروں گا کہ وہ خود مجھے اشنال عزیز دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ابھی مجھے سکون چاہیے دادا تاکہ میرے اندر کا کرب ہلکا ہو۔ مجھے آپکا ٹھیک ہونا چاہیے، پلیز"

میثم ضرار چوہدری کی ہر بات پتھر پر لکیر ہوتی تھی یہ انکو بھی علم تھا مگر وہ اسکی آخری حسرت زدہ خواہش پر پھر سے آبدیدہ ہوئے، نہ صرف روئے بلکے ایک بار پھر اپنی بازووں کو کھولے اس عزیز پوتے کو اپنے سینے میں سمونا چاہا جس نے اس وقت یہی عافیت جانے پھر سے اپنا سر دادا کے سینے پر رکھ دیا۔

جبل زاد ڈاکٹر سے بات کیے اس سے ادویات وغیرہ کے کر جب واپس آیا تو ایک بار پھر اس بندہ بشر کی اذیت نے اس وفادار کا دل تڑپا دیا تھا۔

                           ..____________________..

سردار خاقان نے اس سے زبردستی طلاق کے کاغذات پر انگوٹھا لگوایا تھا، وہ تب سے بہت تکلیف میں تھی۔

وریشہ اسے سنبھالنے میں ناکام تھی، اشنال کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بھری دنیا میں تنہا کر دی گئی ہے۔

"ضرار لالہ ہرگز نہیں چھوڑیں گے تمہیں، مت رو اشنال۔ میرا دل تمہیں یوں دیکھ کر بہت رنجیدہ ہو رہا ہے"

وہ جو اشنال کی دبی ہچکیوں پر اسے تسلی دے رہی تھی، کیا جانتی کہ اشنال پر تو بہت بڑی قیامت توڑ دی گئی ہے۔

"ا۔۔اور اگر اسے مجبور کر دیا گیا وری؟ یہ لوگ میری جان تو لے چکے ہیں، یہ اسے بھی مار دیں گ۔۔گے"

وہ اپنے ہوش میں نہیں تھی، جبکہ اسکی یہ کیفیت وریشہ کی جان پر بن رہی تھی تبھی دروازہ کھلنے پر ولی زمان کی آمد پر جہاں وریشہ کی آنکھوں میں تاسف امڈا وہیں وہ ولی کو دیکھ کر مزید رو دی جو اک نگاہ وریشہ یوسف زئی پر ڈالتا ہوا بھاری قدم اٹھائے اس روتی، ابتر حال تک پہنچ آتی اشنال تک آیا اور پاس بیٹھتے ہی اسکے دونوں ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیے۔

وہ خود پور پور زخمی اور بے بسی سے بھرا ہوا تھا، خود وریشہ کا دل انھیں دیکھ کر دکھا۔

"میں نہیں جانتا اشنال کے تمہیں کونسے لفظ کہہ کر تسلی دوں لیکن تمہارے یہ آنسو مجھے بہت تکلیف دے رہے ہیں، رونا بند کرو۔ تم کمزور نہیں ہو، چلو شاباش"

اسے مضبوط بنانا ضروری تھا تاکہ اسے اگلی قیامت خیز خبر بتاتا مگر وہ تو بالکل ٹوٹی بکھری ہوئی تھی، اسکے آنسو اسکے بس سے باہر تھے۔

اور وہ ولی زمان خان کے تمہد باندھ کر تسلی دینے پر مزید خوفزدہ ہوئی، یہ تسلی بلاوجہ نہ تھی۔

اسکے بعد اشنال عزیز کے دل پر قہر ٹوٹنا طے تھا۔

"م۔۔میں کمزور کر دی گئی لالہ، میرے اندر موجود زندگی کی خواہش دم توڑ چکی ہے۔ یہ م۔۔مت کہیے گا کہ اس نے بھی م۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔ یہ ک۔۔کبھی مت کہیے گا"

وہ ولی کا ہاتھ جکڑتی، لمحہ بھر اپنے آنسو روکے، وہی گیلی بے رنگ ہو جاتی آنکھیں اسکے تباہ شدہ تاثرات والے سوگوار چہرے پر ڈالے سسکی تھی اور یہ وریشہ تک کی آنکھیں بھیگا گیا۔

اور ولی! اسے تو اشنال کی حالت دیکھ کر یہ ڈر تک لاحق ہوا کہیں وہ یہ سچائی جان کر واقعی نہ مر جائے۔

"سب سے پہلے تو یہ جان لو کے تمہارے لالہ ساتھ ہیں، یہ وریشہ بھی ہیں۔ بھلے کچھ بھی ہو جائے تم اس سے بدگمان نہ ہونا جسے یقینا اس سب کے لیے مجبور کیا گیا ہوگا۔ امتحان سمجھ لو اسے، کڑا امتحان۔ ایسی دھوپ سمجھ لو جو جھلسا دیتی ہے"

ولی کی باتوں سے اشنال کو خوف ہوا تو وریشہ بھی جیسے اسکی بات کا مفہوم جانے تڑپ سی اٹھی۔

"ن۔۔نہیں لالہ، وہ مر سکتا ہے لیکن مجھے چھوڑ ن۔۔نہیں سکتا۔ بولیں ناں کے اس نے مجھے نہیں چھوڑا۔ اس نے مجھے چ۔۔چھوڑ دیا تو میں کہیں کی ن۔نہیں رہوں گی۔۔۔اسے کہیں اشنال کو ایسی موت سے مت گزارے"

وہ ہچکیوں کی زد میں کانپتی ، تڑپتی ولی زمان کا گریبان پکڑ کر چینخی تو اسکی اس جذباتی کیفیت سے وریشہ اور ولی دونوں کا دل کٹ گیا۔

"بس میرا بچہ، روتے نہیں۔ "

زرا قریب ہوئے وہ اسے خود کا کمزور سا سہارہ دے کر سمیٹ تو لینا چاہتا تھا پر وہ جس طرح پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اس پر اس آدھے ادھورے دل والے ولی زمان خان کی تکلیف بھی دگنی ہو گئی۔

نگاہ جب بے اختیار کھڑی وریشہ پر گئی تو مزید درد بھری ہوئی، وہ لڑکی جو اس سے بے گناہ چھین لی گئی تھی، ولی زمان کو اپنے اس خسارے پر بہت پچھاوا تھا۔

وریشہ یوسف زئی جو رلانے والوں میں سے تھی، آج وہ اشنال کے لیے جس طرح رو دی ، ولی شاہ کا سینہ درد سے بلک اٹھا تھا۔

"تو واقعی چ۔۔چھوڑ دیا اس نے مجھے، بیچ منجھدار چھوڑنے والا نہیں تھا وہ۔۔۔۔ میں زندہ نہیں رہنا چاہتی اب لالہ۔ میں صرف اسکی اشنال تھی، پلیز لالہ م ۔مجھے اس زندگی کی قید سے آزاد کروا دیں۔ مجھے کوئی عزت کے نام پر اب قتل کر دے تو میں ا۔۔اف تک نہیں کروں گی۔۔۔۔ میں مر جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ اشنال اسکی نہیں ت۔۔تو کسی کی نہیں۔۔۔۔وہ تو م۔۔محافظ تھا۔

یہ ک ۔کیسی حفاظت کی تم نے می۔۔۔مثم۔۔۔۔ اب ت۔۔تم نہیں سن رہے میری سسکیاں۔۔۔ میری اذیت ۔۔۔م۔۔معاف نہیں کروں گی تمہیں اس گ۔۔گناہ پر۔ ک۔۔کہ تم نے چپ چاپ مجھے چھوڑ دیا"

وہ اس وقت بہت بری حالت میں تھی، اسکی چینخیں، سسکیاں اور دھاڑیں ، مضبوط سے مضبوط دل کو بھی بھینچ رہی تھیں۔

"ششش! بس بچے بس۔۔۔۔ مریں گے وہ جنہوں نے یہ سفاک ظلم ڈھایا۔ خبردار جو تم نے خود کو آنچ بھی دی، تمہارے لالہ تمہیں اس پر کبھی نہیں بخشیں گے۔ یہ صرف وقتی نکاح ہوگا، رخصتی نہیں ہونے دوں گا بھروسہ رکھو۔ کوئی تمہاری اجازت کے بنا تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔ مجھ پر بھروسہ رکھو، یوں رو کر دل مت دکھاو "

وہ اسے بالکل اپنے بچوں کی طرح دلاسہ دیتا خود بھی کرب کی آخری حد کو چھو رہا تھا مگر وہ کیسے صبر کرتی جس نے اپنا سب ہار دیا تھا۔

"ا۔۔اب کچھ بھی ہوتا رہے، اب اشنال کے پاس اسکا میثم تو نہیں رہا ناں۔۔۔ ا۔۔اس نے مجھے چھوڑ دیا لالہ۔ اس نے اپنا ہ۔۔ہر وعدہ توڑ دیا۔ م۔۔میں سچ میں ن۔۔نہیں جی سکتی۔ میرے د۔۔ماغ کی کوئی نس پھٹ جائے گی۔۔۔۔ب۔۔بہت تکلیف ہو رہی ہے"

اس رو رو کر ہلکان ہوتی کانپتی ہوئی اشنال کا آخری جملہ ولی زمان تک کی آنکھوں کے کنارے بھیگو گیا جبکہ وریشہ گہرا سا سانس بھرتی چہرہ موڑ گئی اور اسکی ان آنکھوں میں جو درد کا دائرہ تھا وہ ولی زمان کی نظروں سے مخفی نہ تھا۔

"اسے کوئی سکون کا انجیکشن دے دیں وری، کم ہیر"

اپنے عقب سے ابھرتی ولی کی بھاری آواز پر وہ بہت تحمل کے سنگ اپنے آنسو پیتی واپس پلٹی۔

"اور اگر اس پر اثر نہ کیا؟"

وریشہ کا سوال بہت قہر ناک تھا۔

مگر ولی زمان کی رحم طلب نظروں سے جواب پائے وہ اس تکیے سے گال جوڑ کر ڈھے جاتی، مدھم مدھم بمشکل سانس کھینچتی اشنال کی طرف بڑھی اور اسے اس وقتی اذیت سے نکالنے کے لیے سکون آور دوا کا انجیکشن دیا۔

وہ دونوں ہی اشنال کے تڑپتے وجود کو آہستہ آہستہ پرسکون ہوتا دیکھ رہے تھے جو اسکے باوجود تکلیف میں تھی اور اس سے پہلے وریشہ یہ سب نہ دیکھ پانے کے باعث دلبرداشتہ ہو کر اپنے باقی آنسو کہیں اور نکال کر زور زور سے چینخنے جاتی، ولی نے اسکی کلائی تھامے خود اٹھتے ہی اس فرار کرتی وریشہ کا مزید امتحان لیا۔

"اگر آپ ہی ایسے ہمت ہار گئیں تو آپکی بہن جیسی اس دوست کو حوصلہ کون دے گا وری، ہمیں اس وقت اسکی ذہنی اور جسمانی تکلیف میں کمی کرنی ہے۔ اور پھر آپکے آنسو تو سیدھے ولی زمان خان کے دل پر گرتے ہیں"

وہ ہنوز اسکی کلائی تھامے اپنے نزدیک کھڑا کرتا، اسکی چرائی آنکھیں دیکھ کر مدھم سا بولا مگر ولی زمان کے لہجے میں ہلکورے لیتی بے پناہ محبت اور اس آخری جملے پر وہ خود کو مضبوط کرتی اپنا چہرہ اور آنکھیں دونوں اٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔

اک آنسو پھر سے وریشہ کی آنکھ سے بہہ کر اسکی گال پر لکیر بنانے نکلا جسے اس بار ولی زمان نے پورے استحقاق سے اپنی انگلی کی نرم پور میں جذب کیا تھا۔

"م۔۔مجھے لگتا تھا میں بہت سٹرونگ ہوں، اپنے حق کے لیے لڑنا جانتی ہوں۔ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ میں دوسروں کو قائل کر سکتی ہوں لیکن ان وڈیروں کے آگے میری تو ساری صلاحتیں دم توڑ گئیں۔ اتنی تکلیف کبھی نہیں ہوئی ، قیامت اس پر ٹوٹی ہے لیکن دل میرا تکلیف میں ہے۔ اس نے جس طرح کہا ناں۔۔کہ اسے بہت تکلیف ہو رہی ہے، سوری میں اپنے آنسو نہیں روک سکی۔ بہت سارے آپکی موجودگی کے باعث آنکھوں میں دبا بھی لیے، کیونکہ جانتی ہوں میرے آنسو آپکے دل پر کیا قیامت ڈھاتے ہیں"

وہ اس وقت جس طرح بکھری ہوئی تھی، ولی زمان پر بڑا مشکل وقت تھا کہ دل چاہتا سمیٹے پر حق ہی نہ تھا پاس کے دھڑکنوں سے افضل اس لڑکی کو سینے سے لگا لیتا، کسی ایسے انسان کو درد میں مبتلا دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے جو آپ کی سانس جیسا قیمتی ہو۔

اور جب وریشہ اسے کبھی یہ احساس دلاتی کہ اسے ولی زمان کی محبت اپنی سر آنکھوں تک عزیز ہے تو وہ اپنے دل پر ڈھایا جاتا اپنوں کا ستم بھول جاتا۔

پھر جیسے یہ لڑکی اشنال کے لیے ذہنی اذیت کا شکار تھی تو کیسے نہ ہوتی، وہ دونوں ایک ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئیں تھیں، انکے دلوں اور انکی روحوں کی کشش فطری تھی۔

"میں ضرار سے ملنے جا رہا ہوں، اول تو وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے ہے ہی نہیں دوسرا اشنال کے لیے وہ مر سکنے والا شخص اسے کیسے مار گیا یہ جاننا اہم ہے۔ یہ بھی کے وہ آگے کیا سوچ رہا ہے۔ باقی یہ ونی نکاح بھلے ہو جائے، رخصتی نہیں ہونے دوں گا یہ میرا وعدہ ہے۔ میں اشنال کو اپنے ساتھ لے جاوں گا، آپ بھی چلیے گا۔ ویسے بھی آپکی وہاں ہاوس جاب شروع ہو رہی ہے۔ ہم مل کر اسے سنبھال لیں گے۔۔۔"

ولی کی تمام باتیں اور ڈھارس نے وریشہ کی ہمت بندھائی تھی ، وہ اسکی جانب سے یہ فیور پائے مشکور سا مسکرائی۔

"تب تک آپ اشنال کے پاس ہی رہیے گا، اور رونا نہیں۔ آپکی مسکراہٹ بھی آپکے پیشے کی طرح بہت سے لوگوں کی مسیحا ہے وری۔ پرامس ود می؟"

وہ اسکی دونوں گالوں پر نرمی سے اپنے ہاتھوں کی پوریں سہلاتا، تمام نمی جذب کیے اپنا مضبوط ہاتھ وعدہ چاہنے کے سنگ پھیلائے بولا تو ناچاہتے ہوئے بھی وریشہ نے اس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا جو اسکے نزدیک مقدر والیوں کے آگے یوں پھیلا کرتا تھا۔

جب وریشہ یوسف زئی نے اپنا ہاتھ، بلاجھک ولی زمان کے ہاتھ میں دیا تو اسے حفاظت کا احساس گھیر گیا جبکہ اس دکھے دل والے کو راحت ملی۔

وہ اس بار ولی کی خود پر جمی نظروں سے دانستہ گھبرا کر اپنی نظریں جھکا گئی تو جناب نے بھی اس خوبصورت دل والی کا ہاتھ آزاد کیے اپنے سحر کو اس پر سے واپس اٹھایا۔

اک نظر وہ بے سدھ ہو جاتی اشنال پر ڈالتا، ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلا تو اندر ہی کی جانب آتے عزیز خان اور خدیجہ خانم کو تسلی بھری نگاہ سونپی جو دو اندر آکر اپنی نیم جان بچی کی حالت دیکھ کر مزید سوگوار ہو گئے۔

                             ..____________________..

کسی بے حس پتھر کی طرح وہ اجڑا بیٹھا اپنی گن کی میگزین نکالے ان میں گولیاں بھر رہا تھا جب جبل زاد اسکے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت طلب کیے ضرار کے سر کی اجازتی جنبیش پر اندر داخل ہوا۔

میثم کو یوں تھک ہار کر بکھرا ہوا محسوس کیے جبل زاد نے زرا قدموں کا فاصلہ بڑھایا اور ٹھیک اسکے سر پر آن کھڑا ہوا۔

وہ کچھ دیر پہلے ہی دادا کے نیند میں اترنے کے بعد کمرے میں آیا تھا۔

"سائیں؟"

جبل زاد نے آہستگی سے پکارا تو ضرار نے سر کی خفیف سی جنبیش دیے جواب دیا اور وہ بالکل جبل زاد کی جانب ہی متوجہ تھا۔

"کچھ کھائیں گے؟ "

جبل زاد کے متوقع سوال پر ضرار نے سر اٹھائے اس خود کی فکر میں آدھے ہوتے جبل زاد کو تلخ نظروں سے دیکھا جس پر وہ افسردہ ہوئے نظر جھکا گیا۔

"کھا سکتا تو زہر کو ترجیح دیتا، لیکن مجھ جیسے تو مر بھی سہولت سے نہیں سکتے جبل زاد۔ وہ بہت رو رہی ہے، اسکی چینخیں، اسکی سسکیاں یہاں میرے سینے پر ناچ رہی ہیں، اسکے آنسو میرے دل پر بوند بوند تیزاب کی مانند گر رہے ہیں، اسکی آہیں، میرے کانوں میں قہر بن کر سنائی دے رہی ہیں اور اس یکدم ٹوٹتے وعدوں، بہت سے مانوں اور امیدوں کے باعث اسکی بددعائیں میرے پورے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ اس کے بعد کیا میرے اندر بھوک پیاس کی طلب باقی رہ سکتی ہے؟"

اس وقت جبل زاد کو اسکی دھیمی مگر آتش فشان کے لاوے کی طرح دہکتی آواز میں وہ وہشت محسوس ہوئی کہ اسے خوفزدہ کر گئی، وہ ضرار کے لیے پریشان تھا کہ اس سب میں اسکے سائیں کو کچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گا۔

"تکلیف کو سہنے کے لیے ہمت چاہیے سائیں، اور ہمت کے لیے کھانا پینا ہوگا۔ بنا یہ سوچے کہ طلب ہے یا نہیں۔ آپ کمزور پڑ گئے تو آپ سے جڑا ہر فرد ہار جائے گا۔ خانم ہار جائیں گی، یہ وقتی قیامت انھیں آپ سے دور کر سکتی ہے لیکن آپ دونوں کے دل تو ایک جان ہیں، یہ امید کہ آپ اشنال خانم کے دل سے کبھی نہیں نکل سکتے، میرے خیال میں ہمت کر کے اٹھ کھڑا ہونے کے لیے کافی ہے"

جبل زاد نے اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور تسلیوں سے اس پور پور اشنال عزیز کی غائبانہ تکلیف محسوس کرتے شیر کو سمیٹنا چاہا تھا اور وہ ان موہوم امیدوں کو ابھی اپنا مرہم نہیں بنا پا رہا تھا۔

بلکہ ابھی جو گھاو میثم ضرار چوہدری کے سینے پر لگا تھا اسے دنیا جہاں کے سارے مرہم مل کر بھی سہلا نہیں سکتے تھے۔

ضرار نے تمام گولیاں بندوق میں بھریں اور ہمت جتاتا اٹھ کھڑا ہوا، اپنے سامنے کھڑے جبل زاد کا دائیاں رخسار تلخ مسکراہٹ کے سنگ تھپتھپایا۔

"تم اسے تسلی دے رہے ہو جبل زاد، جس پر تسلی بے اثر ہو چکی ہے۔ اس لڑکی پر حق کھویا ہے میثم ضرار چوہدری نے، یعنی اسے دنیا کے سامنے اپنا کہنے کا اختیار کھویا ہے۔ کسی ایسے کے لیے اسے چھوڑ دیا جو دنیا کا بدترین شخص ہے، وہ اسکی ہو جائے گی اور شہیر مجتبی مجھے آخر کار شکست دے کر سرخرو ہو جائے گا۔ یاروں کو وار کے لیے سینہ سونپنے پر ملال ہوگا مجھے، کہ اس نے میرے سینے کی آڑ میں وہاں دبے دل پر وار کر ڈالا۔

لیکن میثم وعدہ خلاف، بے یقین، قابل نفرت اور برا محافظ بن کر رہ جائے گا۔ تم اس تکلیف کو کیسے سمجھ سکتے ہو جبل زاد کہ یہ تکلیف تو دنیا کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک پہلی اور آخری بار کسی پر اتری ہے۔ اور وہ میثم ضرار چوہدری ہے"

اسکے مسکراتے انداز میں یکدم تکلیف امڈی تو چہرے کے ہر خدوخال پر اجڑا پن حاوی ہوا اور وہ آنکھیں جہنم کی مانند سلگ اٹھیں اور جبل زاد نے اپنا دل کچلتا ہوا محسوس کیا۔

"مہمان آئے ہیں سرکار"

اسی بیچ دروازے کی جانب آتا ملازم مودب ہو کر کسی کے آنے کی اطلاع سونپتا ہوا واپس جا چکا تھا اور ضرار، اک نظر بے بس سے جبل زاد پر ڈالتا وہ گن وہیں ریک پر پٹختا ہوا ملازم کے بتانے پر جب مہمان خانے کی جانب آیا تو وہاں پشت کر کے کھڑے ولی زمان خان کو دیکھ کر میثم نے اپنے غصے اور نفرت کو ہر ممکنہ دبائے اپنی آہٹ دے کر اس کو متوجہ کیا۔

جبکہ ولی زمان، مڑا، اسکی آنکھوں نے اشنال عزیز کے اجڑنے کی تکلیف سہولت سے اس زخمی شیر کی آنکھوں میں دیکھ لی۔

"ملازموں کو علم نہیں کہ یہ مہمان بھی دشمنوں کے گھر کا ہے، اب تم آہی گئے ہو ولی زمان تو تمہیں چوہدریوں کی مہمان نوازی برداشت کرنی ہی پڑے گی"

وہ اپنے چہرے کی ہر تباہ کاری دبا بھی لیتا پر اسکے لہجے کی ہوک اور آنکھوں کی ویرانی نے ولی زمان پر سارے راز کھول دیے۔

"کاش مجھے بھی تم نے اور اشنال نے اس نکاح کا گواہ بنایا ہوتا ، مجھے علاقے کی گندی روایات سے ڈر کر بھاگ جانے کی اتنی بڑی سزا ملی کے مجھے میری  بہن کے بسنے کی خبر، عین اجڑتے وقت ملی۔ اپنے لیے کچھ نہ کر سکنے والا ولی زمان شاید تم دو کے لیے بغاوت کر گزرتا"

ولی کے لہجے میں تکلیف سی تھی اور اسکی اس تکلیف نے ضرار کا سینہ بھی دہکایا۔

"تم ایک آخری احساس مند دل ہو ان درندوں میں، تمہیں اس سب کے بیچ لا کر قربان نہیں کیا گیا مجھ سے۔ ہر انسان کی اپنی ایک ذاتی جنگ بھی ہوتی ہے ولی جس میں چاہ کر بھی کسی کی مدد یا مداخلت نہیں برداشت کی جا سکتی۔۔ ویسے بھی پرانے خوف دلوں سے کہاں نکلتے ہیں، جو اپنے لیے سٹینڈ نہیں لے پاتے، انکے آس پاس والے انھیں مدد کے لیے نہیں پکارا کرتے"

وہ دو قدم بڑھائے ولی کے نزدیک آیا اور اسکا جلا ہوا لہجہ ولی زمان کے دل پر بڑا گہرا زخم چھوڑ کر گیا تھا۔

"ایسی کونسی مجبوری تھی کہ تم نے اسے اس آسانی سے خود سے نجات دے دی؟"

ولی تمام درد پرے کرتا اس بار مدعے پر آیا اور اسکے لہجے کی ناگواری پر ضرار چوہدری نے جبڑے بھینچ لیے۔

"اپنی مجبوریاں بے آبرو نہیں کرتا میثم ضرار چوہدری"

اسکے سخت لفظ ولی کو کاٹ سا گئے۔

"اور جو محبت بے آبرو ہوئی اسکا کیا؟"

وہ اس کی بے حسی پر پھٹ پڑا۔

"اس محبت کو بے لباس تمہارے سگوں نے کیا، تم یہ سوال ان سے کیوں نہیں پوچھتے"

وہ ظالم اور سفاک بن کر اسے اسکی اوقات پر لایا تو ولی نے جن نظروں سے میثم کی آنکھیں دیکھیں وہ دل کاٹ دینے سی تھیں۔

"یہ سوال کرنا تمہارا فرض ہے"

ولی زمان کا لہجہ اکسانے سا تھا۔

"میں نے یہ سوال کرنے کی شروعات بھی کی تو بہت بڑی قیامت آئے گی"

وہ اسے زہریلے لفظوں کے سنگ دیکھ کر تنبیہہ کر رہا تھا اور اسکی پھنکارتی آواز وہشت میں ڈوب گئی۔

"اور وہ جو فی الحال قیامت سے گزر رہی ہے، جسے سکون کے انجکشن بھی سکون نہیں بخش رہے؟ اسکا کیا ہوگا میثم ضرار چوہدری؟"

اس بار ولی زمان خان نے اسکے دل پر وار کیا تھا اور کئی لمحے ضرار بولنے کے قابل نہ رہا۔

"تم جا سکتے ہو ولی زمان، ورنہ ایسا نہ ہو جو شخص تمہیں قربان کرنے سے ڈرتا تھا آج وہی اس بے رحمی پر تمہارا قتل کر دے"

وہ اذیت سے بات ختم کرتا رخ موڑ چکا تھا اور ولی کے چہرے پر تکلیف اتر آئی۔

وہ جس میثم کو جانتا تھا، وہ ہرگز یہ شخص نہ تھا۔

یہ تو کوئی پتھر تھا جسکے سینے سے دل واقعی نکال لیا گیا ہو، اور دل کے بنا جسم کسی احساس کے زیر اثر باقی نہیں رہتا۔

"تم مجھے مارو یا خود کو میثم، محبت نہیں مرے گی۔ نہ میری نہ تمہاری۔ ہو سکے تو اسکے بچاو کی ترکیب جلدی ڈھونڈ لینا ، وہ دم دیتی اذیت سے گزر رہی ہے۔ وہ کسی اور کے نام لگتے ہی مر سکتی ہے، اور وہ مر گئی تو تمہارے ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔ تاعمر سکتے بلکتے رہو گے تب بھی یہ اذیت پیچھا نہ چھوڑے گی"

اپنے بے رحم لفظوں سے وہ میثم کا پہلے سے تکلیف میں دبا دل، مزید جہنم میں جھونک کر دلبرداشتہ سا وہاں سے چلا گیا اور وہ جو پتھر تھا، چٹخنے لگا۔

کیا وہ جا کر سب کو زندہ زمین میں دفن کیے اس لڑکی کو بچا سکتا ہے، لیکن وہ کاغذات، ان پر غائب دماغی سے کیے اشنال عزیز سے دستبرداری کے دستخط، جیسے یکدم اسے ہوش سا لوٹا۔

یوں جیسے وہ کسی قسم کے سکتے یا صدمے سے بہت دیر بعد نکلا ہو۔

کئی حقیقتیں، اذیت کا روپ دھارتی ہوئیں میثم ضرار چوہدری پر اتری تھیں اور اسے سر تا پیر خاکستر کر گئیں۔

وہ فورا سے بیشتر اپنے کمرے کی اور واپس لپکا، اپنی دونوں گنز لیں اور جبل زاد کو فورا سے بیشتر گاڑی تیار کرنے کا حکم دیا مگر اس سفر میں اس نے جبل زاد کو اپنے ساتھ لے جانے کا رسک نہ لیا بلکہ اس وفادار کے ایک بار پھر لاکھ اصرار کے باوجود اسے یہیں حویلی، دادا کا محافظ بنائے نکل گیا۔

اب تک اشنال عزیز اسکی تھی لہذا ایک آخری کوشش کیے بنا وہ اپنی قبر بننے نہیں دے سکتا تھا۔

                         ..____________________..

رات نو تک شہر پہنچتے ہی اپنے وکیل سے رابطہ کیے وہ اسکے بلانے پر اس وقت ہی اسکے آفس نکل گیا تھا کیونکہ اسکا کہنا تھا کہ کل عدالتی کاروائی سے پہلے وہ یہ کاغذات ایک بار دیکھنا چاہتا ہے۔

وکیل بڑے غور و فکر کرتے انداز کے سنگ اپنے ہاتھ میں پکڑی وہ فائیل اور اس میں رکھے کاغذات کو پچھلے دس منٹس سے دیکھ رہا تھا اور پھر اک اچٹتی نظر سامنے بھینچے خدوخال والے، عضب اور غصہ دبا کر بیٹھے مشارب زمان خان پر اور دوبارہ سے نظر ان عجیب و غریب کاغذات پر ڈالی۔

"آپ پانچ منٹ ویٹ کریں مشارب خان، میں ایک ضروری کال کر کے آتا ہوں"

اپنے پروفیشنل انداز میں وہ معذرت کرتا، مشارب کی رضا مندی ملتے ہی اٹھا اور اپنا فون لیے آفس سے باہر نکل گیا۔

اس وکیل کی آنکھوں میں انجانی سی بے تابی تھی پھر وہ زرا کوریڈرور عبور کرتا بالکونی کی سمت آیا اور اجلت کے سنگ اپنے فون پر کوئی نمبر ملانے لگا۔

لگ بھگ چار عدد گھنٹیوں کے بعد کسی نے سیاہ ملگجی اندھیرے میں کسمسا کر وہ وحشی ٹون کے سنگ بجتا فون اٹھایا تو یکدم ماحول پر سکتہ سا چھا گیا۔

"سر! وہی ہوا جسکا ڈر تھا اب مجھے یہ بتائیں کے آگے کیا کرنا ہے"

وکیل نے بڑی بے چینی کے سنگ کچھ پراسراری سے کام لیتے ہوئے اس جانب کے سوگوار سناٹے کو چیڑ ڈالا تھا۔

"وہی جو طے ہوا تھا، جو آگ اسکے سینے پر لگی ہے اسے یکدم بجھا دیا تو وہ واقعی مر جائے گا، بہت آہستہ آہستہ، تحمل سے اسکے اندر کے جنون کی آتش ہلکی کی جائے گی۔ ہم ایک لمبا کھیل کھیلیں گے جو اس زخمی شیر کی رہی سہی تمام چھپی صلاحتیں باہر نکالے گا۔ پھر جب اسکی جیت ہوگی تو انعام کی صورت اسے اسکا صنم اور یار دونوں ملیں گے۔ آزمائش شرط ہے ورنہ ہم ان روایات کو کبھی ختم نہیں کر پائیں گے، وہی ہے جو یہ وحشی قانون بدلے گا"

اس مہیب سناٹے میں کسی کی بارعب آواز گونجی تھی، اس آواز کا چہرہ بنانا مشکل تھا کیونکہ وہ چہرہ اندھیرے کے پیچھے رہنے کے لیے تھا۔

وکیل کے چہرے پر جو کچھ دیر پہلے بے قراری تھی وہ اب سکون میں بدل گئی۔

"مطلب سب ویسا ہی ہوگا اور اس زخمی شیر سے اسکا سکون وقتی طور پر لے لیا جائے گا، جو آگ کئی سال پہلے دشمنوں نے اسکے دل کو لگائی تھی، وہ یہی آگ اب انکی رگ رگ میں لگائے گا ۔ اور بنا اس آگ میں جلے، وہ نہیں جان سکتا کہ یہ آتش کس نوعیت کی ہے، زخم یا ناسور کی نوعیت جانچنے کے بعد ہی علاج ممکن ہوا کرتے ہیں۔ اب تم اپنا کام کرو اور مشارب زمان خان کو مطمئین کر کے واپس بھجواو۔ باقی میں خود دیکھوں گا"

ایک بار پھر وہ آواز بلند ہوئی جس میں ان کہا سا درد، ان کہی تکلیف اور ہلکورے لیتی نفرت موجود تھی۔ ایسی نفرت جو کسی زخمی شیر ہی کے جگر میں پل سکتی ہے۔

"جی ٹھیک ہے، عزئز خان کو کیا کہنا ہے ؟"

وکیل نے ایک بار پھر استفسار کیا تو اس جانب نیم روشنی جلائی گئی، وہ اب بھی پشت کیے، سیاہی ہوتی رات سے ہمکلام ، گلش ونڈو سے باہر جھانکتا ہوا کوئی توانا اور مضبوط سا انسان تھا۔

"عزئز خان ہمارا بہت بڑا مددگار رہا ہے، لہذا اسے خفیہ طور پر معاملے کی حقیقت پہنچا دینا۔ کمزور دل ہے اسکا، میں نہیں چاہتا کہ میرا وہ دوست ، بیٹی کے دکھ سے مر جائے۔ باقی کل ونی کے اس نقلی نکاح  میں، خفیہ طور پر میں خود بھی شرکت کروں گا"

وہ آدمی اب مسکرا رہا تھا، گھنی سیاہ مونچھ تلے اسکے نیم بھورے ہونٹ مسکرائے تھے، زہر خند مسکراہٹ جبکہ وکیل بھی اسکی بات سمجھ کر فون بند کرتا واپس اپنے آفس کی جانب بڑھ چکا تھا۔

وہ اندھیرے میں کھڑا وجود اب بھی پتھر کی طرح ساکن تھا۔

"میں آج تک اسی آگ میں جل رہا ہوں میثم! لیکن میرا سانس سانس گواہ ہے کہ یہی آگ مجھے اب تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا کی کوئی طاقت تم سے تمہارا صنم نہیں چھین سکتی، لیکن تمہیں مزید باہمت بننا ہوگا، تمہیں مزید ٹوٹ کر جڑنا ہوگا۔ کیونکہ اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف عشق نہیں ہوتا لاڈلے، اس گندی دنیا کی اپنی استطاعت کے مطابق ہمیں کچھ گندگی بھی دور کرنی پڑتی ہے۔ میں جلد آوں گا تمہارے پاس مگر تب تک تمہیں اس آزمائش سے گزر کر اس پر پورا اترنا ہوگا"

وہ بھاری آواز یکدم محبت اور مٹھاس سے بھر گئی تھی، پھر جیسے اس شخص نے اسی مدھم روشنی میں اپنے کسرتی بازو آگے کیے جن پر اب بھی جلے ہوئے زخموں کے نشان موجود تھے، اب بھی اس قیامت کے آثار اس کے جسم پر ثبت تھے۔

وہ جو زندہ جلایا گیا تھا، اب انکو جلانے والا تھا جو اسکے مجرم تھے۔

                           ..____________________..

عزیز خان اور خدیجہ خانم کی موجودگی میں کچھ دیر وریشہ بھی گلالئی کو دیکھنے گئی تھی۔

اسکے زخم بہتر تھے مگر وریشہ اسکی مکمل صحت یافی چاہتی تھی تاکہ گلالئی اتنی باہمت ضرور ہو جائے کے اشنال کی حفاظت کر سکے۔

جبکہ عزیز خان اور خدیجہ خانم دونوں ہی سوگوار سے اشنال عزیز کی اس حالت پر سراپا اذیت میں مبتلا تھے۔

سردار خاقان اور گل خزیں خانم کے علاوہ زمان خان اور فرخانہ بھی ان اپنے حق میں ہو جاتے حالات پر پرسکون سے تھے، ان سبکو یقین ہو چکا تھا کہ میثم کو ہرا دیا گیا ہے تبھی وہ سب اپنے اپنے کمروں میں ایک پرسکون نیند لینے جا چکے تھے۔

یہ الگ بات ہے کہ سکون ان چاروں کے سینے سے رخصت ہو چکا تھا۔

خدیجہ خانم، بھیگی متورم آنکھیں رگڑتیں ہوئیں، اشنال کے سرہانے بیٹھیں اسکے بال سہلا رہی تھیں، وہ صبح سے بھوکی پیاسی تھی، اسکی نڈھال طبعیت پر وریشہ اسے دو ڈرپس لگا چکی تھی، مگر اسکا کہنا تھا کہ اس وقت اسے سکون کا انجکشن دینا ہی ٹھیک ہے۔

وہ جس تکلیف میں تھی ویسی تکلیف اسکے ماں باپ کو ہو رہی تھی۔

عزیز خان، دیوار کے ساتھ لگے، کچھ حوصلے میں دیکھائی دیتے کھڑے تھے جنکی ملال زدہ نظریں بیٹی اور بیوی پر تھیں۔

"طلاق کے کاغذات اور انکی حقیقت، اگر یہ سچ کھل گیا تو میری بچی واقعی اجاڑ دی جائے گی۔ یا اللہ تو سب جانتا ہے، کوئی بہترین وسیلہ بنا دے کہ یہ درندہ صفت نظام بھی ختم ہو جائے اور میری اشنال بھی تاعمر اپنے ضرار کی رہے"

عزیز خان کا دل شدت سے خوف کھا رہا تھا اور پھر یکدم جیسے کسی میسج ٹون پر عزیز خان متوجہ ہوئے۔

اک نظر خدیجہ اور بے سدھ کروٹ پر سوئی اشنال پر ڈالے انہوں نے وہ میسج اوپن کیا۔

"سب کچھ اندر کنٹرول ہے، کل اس نکاح کے بارے بھی سب انتظام پہلے ہی ہو گیا تھا جو ہمارے حق میں فائدہ بن جائے گا۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ احسان چکانے کی باری انکی ہے عزیز خان، اور وہ اپنی جان بچانے والے کی جان اپنے طریقے سے بڑے شاہانہ بچائیں گے"

یہ میسج جانے کسکا تھا پر یوں لگا عزیز خان کے اندر انکی جان واپس لوٹ گئی ہو۔

دشمنی تو بہت نبھائی گئی تھی، جان کے بدلے جان لی گئی مگر اس بار زندگی بچانے کے بدلے کوئی انکی زندگی بچا چکا تھا۔

لیکن جنکی زندگی بچائی گئی تھی ان دونوں کو اس سب سے بے خبر رکھنا بھی انکی وقتی مجبوری تھی، جس خاندان سے وہ تعلق رکھتے تھے وہاں درندے آباد تھے سو وقتی تکلیف سہنا مجبوری تھی۔

عزیز خان کسی آہٹ پر متوجہ ہوئے اور چلتے ہوئے اشنال کے روم کی بالکونی کی سمت آئے جہاں سے خانم حویلی کا پچھلا حصہ اور صحن دیکھائی دیتا جبکہ ایک دروازہ بڑی گاڑیوں کے لیے یہاں بھی بنایا گیا تھا جبکہ ساتھ سایہ دار چھت تھی جہاں دو گاڑیاں ہمہ وقت کھڑی رہتیں۔

اس طرف رات کے وقت کوئی محافظ موجود نہ ہوتا تھا کیونکہ یہاں کے دروازے کو اندر اور باہر دونوں طرف سے لاک کیا جاتا۔

جبکہ اس دروازے کے پار کچی سڑک تھی اور ساتھ تاحد نگاہ پھیلی زمینیں، مگر اس کچی سڑک پر کھڑی سیاہ گاڑی دیکھ کر عزیز خان فورا سے بیشتر وہیں بالکونی سے جڑی ملحقہ سیڑھیوں سے نیچے اترا، اردگرد محتاط نظریں گاڑتا ہوا وہ دروازے تک پہنچا اور ہمیشہ کی طرح ساتھ رکھے بہت بڑے گملے کے نیچے رکھی چابی اٹھا کر پہلے اندر کا لاک کھولا پھر اس چابی کو دروازے کے نیچے بنے ہول سے باہر پھینکا۔

باہر کا دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ وہ طوفان بنا اندر آتے ہی عزیز خان کا گریبان دبوچتا اسے لوہے کے دروازے سے پٹخ گیا۔

اس کے باعث ہوتے شور پر دوسری جانب پھرتے دو محافظ جب تک وہاں آئے، وہ دونوں ہی غائب ہو گئے۔

یہاں تک کے اندر والے لاک کو بھی لگا دیا گیا۔

حویلی کے وہ دونوں ہی تیز سونگھ رکھتے وفادار کتے اپنی اچھی بھلی تسلی کیے جب واپس مڑے تو گاڑیوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھے وہ دو ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھتے دیکھتے الجھے، میثم ضرار چوہدری نے اسے گریبان سے جکڑے پوری قوت سے گاڑی کے بونٹ پر پٹخا جبکہ عزیز خان کو لگا آج یہ الٹی کھوپڑی والا اسکی جان لے لے گا۔

"تیرے جیسے باپ سے بہتر تھا وہ یتیم ہوتی عزیز خان، کیسے ہونے دیا تونے یہ سب۔ کیسے ؟ آج پہلے تیری جان لوں گا پھر تیرے اس خبیث باپ کی جس نے مجھ جیسی آگ سے پنگاہ لے کر اپنی موت بلائی ہے"

میثم کی آنکھوں میں اس وقت آگ لپک رہی تھی اور وہ عزئز خان کو بنا کوئی مہلت دیتا آہستہ اور پست آواز سے دھاڑتے ہی اس پر مکے، گھونسے اور اپنا تمام غضب اتارنے لگا، عزیز خان اسکے غیض و غضب سے چند واروں پر ہی ہلکان ہو گیا مگر انکی دبی دبی کسی بات نے جیسے میثم ضرار کے اندر کا طوفان لمحے میں جکڑا۔

ط۔۔طلاق نامہ جعلی تھا ضرار"

عزیز خان کی حلق میں دھنسی سسکی پر جیسے میثم ضرار چوہدری پتھر کی طرح جامد ہوا، یوں لگا جیسے اس نے کچھ غلط سنا ہو۔

عزیز خان کے گریبان پر جکڑے اس زخمی شیر کے ہاتھ بھی اس انکشاف پر ڈھیلے پڑے جو اس جن زاد سے پناہ ملتے ہی زرا فاصلے پر ہو کر اپنی گردن مسل کر تیز تیز سانس لینے لگے، اگر وہ یہ نہ بتاتے تو آج ضرار انکی جان لے لیتا۔

"کیا؟ جعلی تھا؟ کیا بکواس کر رہا ہے عزیز خان"

کھولتے دماغ کے سنگ وہ سر جھٹکتا ایک بار پھر پوری قوت سے اپنی دونوں ہاتھوں میں عزیز کا گریبان دبوچتا اس کی روح فنا کر دینے کے ارادوں پر پست سا دھاڑا جبکہ عزیز خان کی آنکھوں میں گھلتی سرخائی پر جیسے ضرار کو ہوش آیا۔

"ہ۔۔ہاں۔۔ کیونکہ مجھے پتا ہے وہ اس پوری دنیا میں صرف تمہارے لیے بنی ہے، وہ تم سے الگ ہوتے ہی مر جاتی سو میں نے یہ ستم وقتی اس لیے ڈھایا تاکہ تم دو کے رشتے کو بچا سکوں۔ اگر وہ سب یہ سچائی جان گئے کہ طلاق نہیں ہوئی نہ ہی ونی کا نکاح ہوگا تو تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنی بڑی قیامت آئے گی۔ ان درندہ صفت لوگوں سے تم دو کی زندگی بچانے کے لیے اس باپ نے یہ بے رحمی کر دی"

عزیز خان کی آواز آنسووں نے نگلی وہیں ضرار کو لگا آسمان اس پر آن گرا ہے، اسکی آنکھوں میں تکلیف کی انتہائی بھیانک سرخی چھلکی تھی۔

"ت۔تم مجھے بھلے معاف مت کرنا نہ اشنال سچائی جاننے کے بعد کرے گی مگر مجھ مجبور کے پاس تم دو کی عافیت کا یہی راستہ تھا، یہ سچائی صرف ہم دو کے بیچ رہے گی ضرار جب تک ہم ان گندی روایات کو جڑ سے اکھاڑ نہ لیں۔ ت۔۔تمہیں اس لیے بتا دیا کہ تم خود کو بے بس سمجھ کر ہار نہ جاو۔۔۔۔ اب تم اس باپ کا پردہ رکھنا میں تم سے التجاء کرتا ہوں"

وہ شفیق باپ، اپنی بیٹی کی رہی سہی سانسیں مانگتا سسک رہا تھا اور ضرار کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے سر تا پیر جلے جسم کو کسی نے یکدم ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا ہو، جو لاکھ سکون دے پر جسم کو پگھلا دیتا ہے۔

اسے اپنی پوری کائنات ہچکولے کھاتی محسوس ہو رہی تھی۔

"تم اکیلے تو یہ سب پلین نہیں بنا سکتے تھے عزیز، سچ بتاو کس نے مدد کی ہے تمہاری؟ اور وہ جو مشارب گیا ہے شہر تصدیق کروانے۔ نقلی طلاق نامہ ہوا تو وکیل اسے بتا دے گا، پھر کیا ہوگا"

ہنوز وہ سخت استفہامیہ نگاہوں سے عزیز خان کے بھیگے، رندے چہرے کو مرکوز کیے لہو چھلکاتے لہجے سے پوچھ رہا تھا۔

"وہ سب نہیں بتا سکتا، مجھے تو تمہیں یہ بھی بتانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ جو بھی کوئی ہے مناسب وقت پر سامنے آجائے گا۔ لیکن میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ تم کچھ بھی ایسا ظاہر مت کرنا جیسے تمہیں اس نقلی طلاق نامے اور نقلی ونی نکاح کا علم ہے۔ یہ میں نے صرف اپنی بیٹی کے لیے کیا، کہ اسکا سکون اس سے دور نہ ہو۔ وہ بہت ذہنی دباو میں چلی گئی ہے، مجھے تو ڈر ہے کہ اسکے جاگتے ہی ہم سبکا نیا امتحان نہ شروع ہو جائے۔ اس معصوم کے دل نے اب تک صرف محبت کرنا سیکھی تھی، ایسا نہ ہو وہ محبت بھلا کر اپنے آپ سمیت سب سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جائے"

وہ باپ اپنے خدشات بتاتا ہوا ضرار کی ہستی بھی ہلا گیا جسے ابھی غائبانہ ہی ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ نکاح بھلے سلامت ہو مگر وہ اشنال عزیز کے دل سے خارج کر دیا گیا ہے، عجیب سا درد اسکے وجود میں پھیلتا گیا، اس نے سرد مہر نظروں سے منت کرتے عزیز خان کو دیکھتے ہی ناگواری سے اسکا گریبان چھوڑ دیا۔

"میں نے اسے زندگی کی سب سے بڑی تکلیف دی ہے، جسکا ازالہ میں آخری سانس تک کروں گا۔ لیکن اسے خود سے دور ہونے نہیں دوں گا، وہ جو سزا دے گی وہ قبول کروں گا"

ضرار کی آواز بھاری اور مضبوط ہونے کے باوجود کھاری ہوئی اور عزیز خان زرا چہرے پر پھیل جاتی درد بھری لہروں سے نڈھال سا ہوا بھی مسکرایا تو ضرار کو اپنی جذباتیت پر جی بھر کر غصہ آیا۔

وہ اتنا پتھر کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنے ہی مددگار کو اذیتیں دینے لگا ہے۔

یہ سب وقتی صنم چھن جانے کی تباہ کاری تھی۔

"اور یہ راز؟"

عزیز خان کی آواز یہ سوال کیے پھر سے سسکی بنی تو ضرار نے پہلے تو اسکے گریبان پر پڑ جاتی سلوٹیں سپاٹ چہرے کے سنگ ہٹائیں پھر اک خاموش معذرت آمیز نگاہ عزیز خان کے تڑپتے چہرے کی اور ڈالی۔

"تمہارا احسان ضرور چکاوں گا عزیز خان، مجھے ملنا ہے اس سے"

ضرار کی آواز نرم مگر آخری سوال پر تڑپ اسکی آنکھوں سے چھلکی۔

"وہ ہوش میں نہیں ہے ضرار"

عزیز خان نے بھیگی آواز اور افسردہ آنکھوں کے سنگ جو کہا اس پر ضرار نے بمشکل گہرا سا سانس خارج کیا، اسکے سینے پر بوجھ بڑھ سا رہا تھا۔

"پھر بھی ملوں گا ، ایسا کیا ظلم کیا ہے تم سب نے اس پر کے وہ ہوش کھو بیٹھی؟"

ضرار کا اصرار اور پھر ناگواری سے کیا سوال ناچاہتے ہوئے بھی عزیز خان کی آنکھیں دھندلا گیا۔

"ایسا ظلم جسکی تلافی اس پوری دنیا میں صرف تم کر سکتے ہو، ایسا زخم جسکا مرہم تمہارے پاس ہے۔ مل تو لو مگر خدا کے لیے چپ چاپ واپس چلے جانا، مجھے یا اسے کسی مشکل سے دوچار مت کرنا۔ کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے کہ تم آئے ہو"

عزیز خان نے اسکی جانب دیکھ کر درد بھری گزارش کی اور واپس سیڑھیوں کی طرف بڑھے جو اشنال کے کمرے کی بالکونی تک جاتیں تھیں، وہ بھی سینے پر جمتی، سانسیں خارج کرتا پیچھے ہی بھاری قدموں سے بڑھا۔

کیا اسکے دستخط، بھلے جھوٹے طلاق نامے پر ہی کیوں نہ ہوں، اسے اشنال سے دور کر دیں گے؟ وہ زندگی میں بہت کم بار ڈرا تھا مگر آج اس لڑکی کے روبرو خود کو مجرم محسوس اسکے جسم میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔

عزیز خان کمرے میں پہنچے تو خدیجہ رو رو کر آدھی ہوئے سسک سسک کر اشنال کی پیشانی سے پیشانی ٹکائے اس پر جھکی تھیں جب عزیز خان نے اسے شانوں سے تھامے اٹھایا۔

"پریشان نہ ہوں خدیجہ، آئیں کچھ دیر ہم کھلی فضا میں چہل قدمی کرتے ہیں۔ اسے اس وقت آپکے آنسو تکلیف دے رہے ہوں گے۔ آجائیں"

اس تڑپتی، روتی ماں کو کہاں قرار آنا تھا، مگر وہ عزئز خان کے ساتھ لگانے پر اک تڑپتی نگاہ اشنال پر ڈالے انکے ساتھ ہی دروازے کی اور بڑھیں اور ان دو کے جاتے ہی وہ جو بالکونی میں کھڑا تھا، ہمت جتاتا اندر آیا۔

وہ اس پر پہلی نگاہ ڈالتے ہی تڑپ اٹھا تھا، وہ بالکل بیمار سی لگ رہی تھی، یوں بند آنکھیں کیے جیسے وہ اب میثم ضرار کے لیے نفرت سے بھر جائیں گی۔

وہ اندر آیا اور چند قدم بڑھا کر دروازے کو لاک کیا، پھر جیسے وہیں سے پلٹ کر اپنی وجہ سے موت کے منہ میں جاتی اس لڑکی کو سانس بھر کر دیکھا۔

اک بے آواز سا آنسو اس کی آنکھ سے ٹپک کر بیرڈ میں دفن ہوا، وہ قریب آیا، نزدیک آتے ہی اس بے جان وجود پر سر تا پیر نگاہ دوڑائی اور پھر اسکے پاس ہی بیٹھا، اسکے سینے پر رکھا بے جان ہاتھ اپنے ہاتھوں میں مقید کرتے ہی اسکی آنکھوں کے دبائے سارے آنسو بے اختیار ہوئے۔

"کس منہ سے معافی مانگوں گا آپ سے اشنال، اس بار اللہ نے تو میرے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی لیکن میں نے خود کے ساتھ ظلم کر دیا۔ میں آپکا مجرم ہوں ، مجھے اپنی محبت سے محروم مت کریں"

اسکے گرم دہکتے نازک ہاتھ کی ہتھیلی پر اپنے ہونٹوں کی چھاپ لگاتا وہ اسکی متورم سوجھی آنکھوں کی اور جھکتا ہوا وہاں بھی اپنی موجودگی کی دستک دے رہا تھا مگر اس لڑکی کی اذیت اب ان موہوم مرہموں سے بہت آگے جا چکی تھی۔

وہ بہت اذیت کے سنگ اس لڑکی کی آنکھوں کو شدت سے چومتا، اک اک نقش پر بے قراری ثبت کرتا، ان آہستہ آہستہ سانس خارج کرتے ہونٹوں پر معذرت آمیز ہوتا جھکا۔

وہ تکلیف میں تھی اس کا پتا اسکی بے ترتیب سانسوں اور سست پڑتی دھڑکنوں سے ہو چکا تھا، مگر وہ اسکی پکار پر چاہ کر بھی آج زندگی کی اور آنے والی نہ تھی۔

اس نے تو خود پر اترتی قیامت کو رگ رگ میں اتار کر یہ تسلیم کر لیا تھا کہ وہ شخص اسکا نہیں رہا، پھر وہ کیسے یقین کرتی کہ یہ اس کو ملتی شدتیں، سچی ہیں۔

"مجھ سے چھین کر آپکو واپس لوٹا دیا گیا، آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ میں آپکے پاس ہوں۔ میں آپکی اور اپنی تکلیف کم کرنے آیا ہوں م۔۔مگر آپکی یہ بے خبری مجھے کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ آپکو اس حال تک میری محبت لے آئی، لیکن اب میں دعوے نہیں کروں گا بلکہ سچ میں آپکی حفاظت کر کے دیکھاوں گا۔ پلیز مجھ پر اپنی یہ آنکھیں بند نہ رکھیں"

وہ جس قدر اذیت میں تھا، اسے سانس بھی صرف اس لڑکی کی سانس چلتی محسوس کیے آرہا تھا مگر وہ ہرگز اسے قرار دینے پر آمادہ نہ تھی۔

اسے وقتی سکون دینے والوں نے اندر ہی اندر اذیت سے باندھ دیا تھا۔

وہ اسے سن نہیں رہی تھی اور یہ بڑا درد بھرا مقام تھا، وہ اسکے اوپر جھکا اور اپنا سر اشنال کے سینے پر رکھ گیا، اسکے کان سہولت سے اس لڑکی کی دھڑکنیں سن رہے تھے جو اذیت سے چینخ رہی تھیں۔

"مجھے میثم کہہ کر بلائیں صنم، مجھے یوں تنہا تو مت کریں۔ آپکی یہ بے رخی مجھے مار ڈالے گی، مجھے ایک بار پکاریں ، ایک بار دیکھیں میں آپکی ساری تکلیف خود میں سمیٹ لوں گا"

وہ اس بے جان پر اپنے وجود کا بوجھ ڈالے ، سخت تکلیف سے سرگوشیاں کر رہا تھا، اس لڑکی کا ایک بے جان ہاتھ اب تک میثم کے ہاتھ میں مقید تھا جن کی پوروں سے جلن ، میثم کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی وہیں دونوں کے جسم اور دل بھی جیسے اپنی اپنی تکلیف تبدیل کرنے لگے، حدتیں بدلنے لگے۔

وہ اس پر سے اپنا وجود اٹھا لیتا اسکی تپش اگلتی جبین پر جھکا، کئی لفظ لمس بنا کر کہے مگر وہ کسی ان کہے کرب میں بے جان سے بے جان ہوتی گئی۔

"م۔۔۔۔میثم"

وہ واپس اٹھ بیٹھا تو اس لڑکی کے موہوم آواز کے سنگ سرسراتے ہونٹ دیکھ کر اور اپنے ہاتھ میں مضبوط ہوتی اس لڑکی کے ہاتھ کی تپش دیتی گرفت نے جیسے اس جلتے سینے کو منجمد کیا۔

وہ آنکھیں بند کیے اسکا نام لے کر سسکتی چلی گئی، اور وہ یہ سب دیکھنے کے لیے ناجانے ہمت کہاں سے لایا۔

وہ ہونٹ جن پر خوشی اور مسکراہٹ جچتی تھی، آج سسکیوں کی صورت ان پر میثم کا نام تھا، وہ جھک کر انکی ساری سرگوشیاں اپنے لبوں سے سنتا اسکے چہرے کے ہر ہر خدوخال پر چھایا ، اپنے ہونے کا پتا دیے شدتیں پہنچانے لگا مگر وہ جلد ہی جیسے اسکے ان سارے لمس سے خوفزدہ ہوتی دھڑکنیں سست کر گئی، پھر اپنی اٹکتی سانسوں کو کسی کے اختیار میں جاتا محسوس کیے اسکی طبعیت بگھڑنے لگی اور جب ان بہت سا رو چکی آنکھوں نے سکون آوار اداوایات کے اثر کو کھویا تو وہ آہستہ آہستہ کھلیں۔

وہ میثم تھا؟ نہیں وہ میثم نہیں ہو سکتا۔

خود پر جھکتے اس ناقبول ہو جاتے شخص کو وہ پہلے تو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی اور جب وہ اسکے ہونٹوں کی سسکیاں گھونٹنے قریب ہوا تو وہ اسے نفرت چھلکاتی آنکھوں سے دیکھتے ہی خود پر سے پرے دھکیلتی اٹھ بیٹھی۔

اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا اور میثم ضرار چوہدری اس ایک لمحے کی دھتکار سے ہی فنا ہو گیا۔

"ت۔۔تم میثم نہیں ہو، تم مجھے اسکی شکل میں آکر ڈرا رہے ہو۔ وہ۔۔۔وہ مم۔۔میرا نہیں رہا، اس نے مجھے طلاق دی ہے۔۔۔ا۔۔اس نے مجھے خود سے نوچ دیا۔ وہ مجھے م۔۔مار چکا ہے تو ت۔۔تم اسکی شکل میں آکر مجھے زندہ کرنے ک۔۔کی کوشش کر رہے۔۔۔۔د۔۔دور ہو جاو۔۔۔اگر تم نے م۔۔مجھے ہاتھ بھی لگایا تو۔۔۔۔تو میں۔۔۔۔۔۔۔"

یکدم ہی وہ جن زادی کی طرح اسکے سینے پر مکے برساتی اسے اذیت سے دوچار کیے، جیسے اپنا آپ ختم کرنے کے لیے کچھ ڈھونڈتی ہوئی سائیڈ میز پر فروٹس بکٹ کے ساتھ پڑی چھڑی اٹھائے چینخی تو وہ جو اسکی حالت سے ہی خوف کھا گیا تھا، بنا سوچے ہی اس سے وہ چھری چھینے لگا تو بے دھیانی اور اشنال کے کھینچنے کے باعث وہ میثم کی بازو پر بہت بری طرح دھنس گئی اور اس شخص کو اس زخم کی جلن تک محسوس نہ ہوئی، بس اشنال کی حالت ہی مار گئی۔

مگر وہ ضرور ضرار کی لہو لہان ہوتی بازو دیکھ کر کانپ گئی، ضرار نے اسکے ہاتھ سے وہ چھڑی لیے نیچے پھینکی اور وہ جو صدمے میں لپٹی اپنا اک ہاتھ بڑھا کر اسکی بازو سے نکلتے خون کو چھو رہی تھی، اسے کھینچتے ہی سینے میں بھینچ ڈالا۔

"جان مت لیں، میں مر جاوں گا اشنال۔ مجھے مار دیں اس گناہ پر لیکن خود کو تکلیف نہ دیں۔ نہیں ہوئیں آپ مجھ سے دور، آپ میری تھیں، ہیں اور رہیں گی"

وہ جو اسکے سینے لگ کر تھم گئی تھی جب دل کے ساتھ جڑتے دل نے کچھ بھی حرام اور ناجائز نہ ہونے ثبوت دیا تو کئی آنسو اس نڈھال کی آنکھوں سے رستے گئے مگر ناجانے کیا ہوا کے وہ پاگل سی ہونے لگی، وہ اس کی گرفت سے نکلنے کو اسکا وجود پرے جھٹکنے لگی مگر وہ اسے مزید خود میں بساتا گیا۔

"ن۔۔نہیں۔ اب نہیں۔ اب تم نے مجھے ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ آزمائش ص۔۔صرف ایک بار ہوتی ہے میثم۔۔۔ اگر تم دوبارہ میرے قریب آئے تو قسم کھاتی ہوں اپنی جان ل۔۔لے لوں گی یا تمہاری۔۔۔۔ تم نے مجھے چھوڑ دیا، ت۔۔تم نے مجھے اکیلا کیا۔۔۔۔ اب مجھے ک۔۔کوئی ثبوت نہیں چاہیے۔۔۔تم نے مجھے جیتے جی مارا ہے میں بھی تمہیں جیتے جی ماروں گی۔۔۔۔۔ تم نے مجھے خود سے نجات دے دی، اب ساری دنیا بھی کہے کہ میں تمہاری ہوں تو نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔چ۔۔چھوڑ دو مجھے ، مجھ پر رحم ک ۔۔کرو۔۔۔۔۔۔مجھ پر م۔۔میری سانسیں تنگ نہ کرو"

وہ اسکی پشت پر زور زور سے ہاتھ مارتی اس سے نجات کو پھڑپھڑائی تو وہیں اسکے لفظ میثم کے اندر انگارے بھر گئے، وہ اسے آزاد کیے زرا فاصلہ بنا پایا تو اسکی سرخ ہوتی آنکھوں سے اس لڑکی نے نفرت سے منہ پھیرا۔

وہ اسے دھکے دیتی خود سے دور کرتی اپنے ہوش و حواس سے نکل گئی۔

میثم کی بازو پر کئی انچ کا گہرا اور لمبا زخم ہوا تھا جس سے اسکی گرے قمیص کی بازو بھی سرخ ہو چکی تھی مگر وہ تو اپنے دل میں اٹھتی اس تکلیف سے مر رہا تھا جو اس لڑکی کی بدگمانی سے ہوک بن بن اٹھ رہی تھی۔

"مارنا چاہتی ہیں مجھے، یہاں دیکھیں اشنال"

وہ اسکا پھیرا چہرہ ہاتھوں میں بھرے روبرو کرتا بڑے ضبط سے بولا، اسکی آواز میں اذیت بلک رہی تھی اور وہ بری طرح روتی ہوئی ان ہاتھوں کو ہٹانے میں لگی گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔

"ت۔۔تم نے مجھے مارا ہے، تم نے محبت کو مارا ہے ۔ آج کے بعد میری زبان پر تمہارا نام نہیں آئے گا یہی تمہاری سزا ہے۔ تمہاری وجہ سے اشنال سے اسکا سب چھینا گیا۔ م۔۔میں اپنے قاتل کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ اب ساری دنیا ب۔۔بھی کہے کہ تم میرے ہو، اشنال اس دنیا کو آگ لگا دے گی۔۔۔۔۔نفرت کروں گی میں۔۔۔تم سے۔ تم نے مجھے طلاق دی، تم نے مجھے دل سے خارج ک۔۔کیا۔۔۔۔ "

وہ بمشکل سانس گھسیٹی اس پہلے سے کرب میں گرے شخص کو مزید تکلیف دیتی رہی، اسکی آنکھیں پتھر کی طرح تھیں، دل پر اس لڑکی کے دکھ کہرام مچا رہے تھے۔

اور میثم کو لگا اگر وہ بولا تو اسکی آواز کانپ اٹھے گی۔

"ن۔۔نہیں کریں یار"

وہ اسکا پھر سے پھیرا چہرہ اپنی جانب موڑے تڑپ سا اٹھا مگر وہ وحشی بنی اسکا ہاتھ بری طرح جھٹک گئی۔

"چلے جاو،۔۔مجھ س۔۔سے اتنے ہی دور جتنے میرے دل سے چلے گ۔۔گئے۔ اشنال ع۔۔زیز تمہاری نہیں رہی، ت۔۔تم نے یہ تک نہ سوچا کے یہ لڑکی م۔۔مر جائے گی، اب س۔۔چ میں مروں گی ا۔۔اور تم میری موت د۔۔یکھو گے ۔ تم نے محبت مار دی، ت۔۔تم نے م ۔مجھے ک۔۔کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔آئی ہیٹ یو۔۔۔۔۔چلے جاو۔ ت۔۔تمہاری شکل ب۔۔بھی نہیں دیکھنی۔۔۔حر ۔رام ہو گیا تم پر ت۔۔۔تمہارا صنم۔۔۔۔چلے جاو۔۔۔ "

وہ اسکی اور تکتی ہچکیوں کی زد میں آتی بار بار سانس رکنے پر تکلیف کا شکار ہوتے بولتی گئی اور ضرار چوہدری اپنے سامنے اپنئ قبر کی تیاری دیکھتا رہا۔

"ا۔۔ایک بار مجھے سن تو لیں یار، صرف ایک بار مجھے صفائی کا م۔۔۔۔"

وہ بھی جیسے اسی طرح سسک اٹھا، مضبوط پہاڑ سا میثم ریزہ ریزہ ہو گیا تھا۔

"م۔۔جھ پر تمہاری باتیں سننا بھی حرام، تم اگر نہ گئے تو اگلا زخم خود کے سینے پر لگاوں گی۔ دل نکال دوں گی اپنا، چلے جاو خدا۔۔۔کے۔ لیے"

وہ سخت بے بس اور اذیت میں تھی کہ اسکا انداز تلخ اور لہجہ متنفر تھا، پھر مقابل کا مضبوط دل بھی بلک اٹھا، وہ کرلاتی نگاہ اس لڑکی پر ڈالتا اسکے چہرے کے ہر نقش پر تشنہ نگاہ دوڑائے بس ان نظروں سے بکھرتا گیا جو اسکے صنم کی اس پر دردناکی سے جمی تھیں۔

"اشنال! آپ مجھ سے نفرت کریں تب بھی قبول ہے لیکن خود کو ایک آنچ بھی دی تو اچھا نہیں ہوگا، مجھ پر میری ہی سانسیں مشکل کرنا چاہتی ہیں۔ تو ٹھیک ہے مگر یاد رکھیے گا آپکے دل کو کچھ ہوا اس سے پہلے ہی میرا دل رک جائے گا۔ پہاڑ جیسا میثم جس نے کبھی کسی دکھ پر آنسو نہ بہائے تھے وہ آپکے لیے تڑپنے اور چینخنے پر آپہنچا ہے۔ مجھ سے میرا سکون مت لیں، مجھے قریب آنے دیں۔ مجھے مرہم بننے دیں میری جان، پلیز"

وہ اسکے بلکتے تڑپتے اور ٹوٹتے وجود کو سمیٹنے کی شدت میں ہلکان سا اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے جو بولا اس پر وہ اک لمحہ ٹھہر سی گئی تھی، مگر پھر جیسے خود پر ممنوع ہوئے اس شخص کو بری طرح پرے دھکیلتی وہ جھٹکے سے اٹھی، اور دروازے کی اور خوف کھائے لپکی تو ضرار نے بنا وقت ضائع کیے اسکی کلائی جکڑے دوسرا بازو گرد حصار کر اسے اس جنونی کیفیت سے نکالنے کو بازووں میں بھرا مگر وہ اس شخص کے سینے لگاتے ہی بلک بلک کر روئی، پست سا چینخی، یہ میثم نے کیا کر دیا تھا؟

وہ یوں تھی جیسے اسے واقعی کوئی زندہ زمین میں گاڑ گیا ہو۔

"میرے قریب آکر ت۔۔تم مجھے مزید زخمی کر رہے ہو، اب تم تڑپو یا سسکو مگر میں تو تم سے دور چلی گئی۔ہ۔۔ ہمارے رشتے میں صرف سوچنا ہی کافی ہے، اور تم نے مجھے طلاق دے دی۔۔۔ہاں دی۔۔اب گناہ بن گئی میرے لیے تمہاری محبت۔۔۔اب ت۔۔تم جہاں جہاں ہاتھ لگاو گے وہاں۔۔۔سے آگ نکلے گی۔۔۔۔ اب ت۔۔تم درد بن گئے میرا،۔۔۔م۔۔مجھے تکلیف ہو ر۔۔رہی ہے۔۔۔مجھ پر رحم کرو۔۔۔۔"

وہ اس سے نجات کو گڑگڑائی تو ضرار یکدم ہوش میں آیا، اسے لگا جیسے یہ سب کچھ واقعی اس لڑکی کے دماغ پر اثر کر گیا ہے، وہ بار بار طلاق کا کہہ کر میثم ضرار چویدری کو پچھاڑ رہی تھی۔

"ششش! سنیں صنم۔ نہیں ہوئی طلاق۔ آپ میری ہی ہیں، ہوش میں آئیں"

وہ اسکا چہرہ ہاتھوں میں تھامے، یقین دلاتے ہوئے جب شدت بھری من مانی کے سنگ اپنی سانسوں سے اس لڑکی کی بے جان سانسیں بحال کرنے لگا تو وہ ایک بار پھر سانس رک جانے پر تڑپتی ہوئی اسے خود سے پرے دھکیل گئی۔

"ن۔۔نہیں آوں گی، کبھی نہیں آوں گی۔ ہو گئی طلاق۔۔۔اب مت آنا پ ۔۔پاس۔۔۔مجھے درد مت د ۔دو ناں۔۔مجھ سے سانس نہیں لیا جا رہا۔۔۔۔جاو!چلے جاو۔۔۔۔چلے جاو"

وہ بول نہیں اس شخص کو احساس جرم میں مبتلا کرتی چینخ رہی تھی اور اب واقعی ضرار کو لگا اگر وہ مزید یہاں رکا تو اسکا دل پھٹ جائے گا۔

"ٹھیک ہے جا رہا ہوں مگر وعدہ کریں خود کو تکلیف نہیں دیں گی، جو کیا میں نے کیا تو مجھے مار بھی دیں تو اف نہیں کروں گا۔ مگر خود کے ساتھ۔۔۔۔"

وہ بولتے بولتے آواز بھاری ہونے پر خاموش ہوا تو وہ بھی گرتی سنبھلتی بیڈ پر جا بیٹھی، کئی آنسو اسکی آنکھیں دھندلا گئے۔

"ن۔۔نہیں کرتی وعدہ تم سے، وعدہ خلاف ہو تم۔۔۔۔۔ جب بھی موقع ملا میں خود کو ختم کروں گی اور تم پر سے اپنے بوجھ کو ہٹا دوں گی۔ ی۔۔یہ دنیا ختم ہو جاتی پ۔۔پر تم مجھے ن۔۔نہ چھوڑتے۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو، آئی ہیٹ یو۔۔۔نفرت کروں گی تم سے۔۔۔۔۔ تم نے مجھے مار دیا، تم میری زبان سے اپنا نام سننے کو ترسو گے ۔۔۔ اب اشنال مر بھی رہی ہوئی تو تمہیں آواز نہیں دے گی۔۔۔۔۔۔"

وہ کانپتی سسکتی ہوئی اس شخص کو موت دے رہی تھی جو ناجانے کیسے اپنے قدموں پر کھڑا تھا، پھر جیسے زمین پر پڑی اس چھری کو جھک کر اٹھائے وہ اک نظر وہیں گر کر گال تکیے سے جوڑے ڈھے جاتی ، ہچکیوں کی زد میں کانپتی لڑکی پر ڈالتا بالکونی کی سمت بڑھ گیا۔

سانس کے لیے ملتی ہوا یکدم رک گئی تھی، اسی چھری کو اپنی ہتھیلی میں جکڑے وہ اس درد کو بھی محسوس نہ کر پایا جو اسکے ہاتھ کے کٹنے سے ہوا۔

درد ہر حد سے گزر چکا تھا۔

اسکا دل چاہا کاش اس دھتکار سے پہلے اسکی بدبخت زندگی حادثا چلی جاتی۔

چھری میثم کے لہو لہان ہاتھ سے چھوٹ کر سیڑھیوں سے گری اور وہ وہاں بالکونی کی ریلنگ کو تھامے بمشکل سینہ سہلائے کھڑا ہو سکا۔

جبکہ اندر وہ اس دکھ سے سدھ بدھ بھلا بیٹھی تھی، کراہیں گھونٹ کر، سانس دبائے، بے حس و حرکت پڑی دم دے رہی تھی اور میثم ضرار چوہدری کی تو جان جا چکی تھی۔

ناجانے کس طرح وہ حویلی سے نکل کر گاڑی تک پہنچ سکا تھا اور پھر تھوڑی دور تک ہی فاصلہ طے کیے گاڑی روکتا ہوا، اپنا رکتا سانس بحال کرنے وہ باہر نکل آیا۔

دور دور تک مہیب سناٹا تھا۔

فضا میں اسکے ساتھ ہی کسی نے اذیت سے دھاڑیں ماریں جو اس رات کو سوگوار ترین رات کا خطاب دے گئیں۔

وہ وہیں گاڑی کے ساتھ لگا ، کچی زمین پر بیٹھتا گیا ، اسکی آنکھیں اجڑ چکی تھیں۔

صنم کے دل سے خارج ہو جانا تو موت سے بڑی اذیت تھی اور وہ شخص یہ دکھ ہرگز برداشت کرنے کے قابل نہ تھا۔

"اسے دیکھ کر لگا کہ تو نے واقعی مار دیا میثم، خود کو بھی اور اپنے صنم کو بھی"

سر ہاتھوں میں گرائے وہ جس طرح بولا، یوں لگا کوئی اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ہار آیا ہو۔

"پھر معافی بھی تو غلطیوں کی ہوتی ہے میثم ضرار چوہدری، تُو نے تو اسے اذیت دی ہے جسکا بدلا صرف مکافات عمل ہوگا"

وہ بہت زیادہ بکھرا ہوا تھا، پوری دنیا کا تہی دامن شخص جسکے پاس اک صنم تھا اور وہ بھی چھین لیا گیا۔

اسکا تو اک عمر کا نقصان ہو گیا تھا۔

"میں نے سفر میں پہلے دن سے تمہاری کشتی میں سوراخ دیکھا تھا ، مگر میں نے تمہارے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا، یہ سوچ کر کے محبت معجزے کرتی ہے لیکن میں غلط تھی"

آسمان کی وسعت تک آج تکلیف ناچی تھی، ان دو کی محبت پر وقتی طور پر سیاہ بد نصیبی کا گھنا بادل چھا گیا تھا۔

                              ..____________________..

وکیل کے دفتر سے رات گیارہ تک فارغ ہوتا وہ کسی ہوٹل رات سٹے کے لیے ارادہ کیے ہوئے ڈرائیونگ کر رہا تھا مگر اسکے اعصاب پر جو بھاری بوجھ تھا اس نے مشارب کو بے قرار کر دیا تھا۔

عجیب خبس کا احساس ہونے پر وہ سڑک کنارے گاڑی روکتا باہر نکل آیا، سبز آنکھیں عجیب سے درد میں تھیں۔

وہیں زونی بھی اس قیامت سے آدھی ہوئے بے حال ہو گئی تھی۔ قسمت نے ان دو کے لیے بھی مشکل راستے چنے تھے۔

فصیلہ اماں سے زونی کی ہچکیوں اور تکلیفوں کو سہنا مشکل تھا، وہ گل خزیں خانم پر بہت غصہ تھیں۔

دل چاہ رہا تھا اس سفاک عورت سے لڑیں، جھگڑیں مگر التجاء کریں کے وہ محبت کرنے والوں پر یوں ایک بار پھر قہر نہ ڈھائے۔

وہ زونی کا سر اپنی گود میں رکھے اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتیں، اپنی شفیق پوروں سے اسکا درد چن رہی تھیں، آج کی رات کاٹے نہ کٹ رہی تھی۔

پھر مشارب زمان خان جسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دو محبت کرنے والوں کو جدا کرنے میں اس نے جو حصہ ڈالا ہے وہ اسکی آدھی ادھوری سانسوں کو بھی ختم کر دے گا۔

"محبت بھی اک بددعا دیتی ہے ، اس کی بددعا رد نہیں ہوتی۔تیرا ارمانوں سے بھرپور دل، قحط زدہ ہو جائے گا. محبت میں تڑپنے والوں کا مزاق اڑایا، جا تیرا بھی مزاق بنے۔ رلانے والوں میں شامل ہوا، جا تو بھی رلایا جائے۔۔۔ جدائی کے فیصلوں میں تیری ہاں شامل ہے تو جا تجھے بھی جدائی کا دکھ دیکھنا پڑے"

وہ جسے سانس بمشکل آرہا تھا، سڑک کنارے گزرتے ایک فقیر کے منہ سے یہ سب سن کر مشارب زمان پر سیاہ بادلوں سے اٹا آسمان ٹوٹ گرا، وہ شیدائی فقیر تو اپنے آپ سے ہمکلام تھا مگر مشارب کو لگا یہ ساری بددعائیں وہ اسے تھما گیا ہو۔

"سنیں بابا!"

وہ تڑپ کر اس راہ چلتے فقیر کی طرف لپک کر پکارا تو اس نے یوں ناگواری سے مشارب کو دیکھا کہ وہ نظر اسکے سینے میں گڑھ گئی۔

"سن تُو! سن تُو! جو کہا غور سے سن۔ بڑی آزمائش ہوگی تیری، تباہ ہو جائے گا۔ تُو نے بڑی اونچی غلطی کی ہے، تُو نے ظلم کیا ہے، اللہ سب دیکھتا ہے ۔ اسکا مقبول بننے تک تجھے ٹھوکریں کھانی ہیں۔ جا چلا جا، بابے کی نظر میں نہ آویں دوبارہ ۔۔۔۔ جا چلا جا، میرے راستے سے ہٹ جا بے فیضا!"

اس بزرگ نے اسکی تڑپ دیکھنے کے باوجود صلواتیں سنائے، مشارب کے چوڑے سینے پر ہاتھ رکھے پرے دھکیلا اور تیز تیز وہ بابا اس ویران سڑک کے دوسرے کنارے جا گم ہوا۔

اور یہ صرف اشارہ تھا، مشارب زمان کی آزمائش کا۔

وہ بہت بے قرار ہو چکا تھا، دل چاہا کہیں بیٹھ کر چیبخنے لگے مگر بے بسی اسے صبر سے باندھ رہی تھی وہیں دوسری جانب گہرے سکوت میں چیڑتی ہوئی شکوہ کناں تلخیاں بلند ہوئیں۔

"تم نے قہر ڈھا دیا گل خزیں، خدا کیسے بخشے گا۔ تم یہ کرنے سے پہلے یہ تک بھول گئی کہ خود بھی عورت ہو۔ ایسا نہ ہو تمہارے یہ گناہ، اس معصوم جان پر عذاب بن کر اتر آئیں۔ میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا لیکن اب مجھ سے ایسی امید مت رکھنا۔ آج سے تم میری کچھ نہیں لگتی، تم جیسی سنگدل عورت میری کچھ نہیں لگتی۔ اب میں زونی کی حفاظت تمہارے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے کروں گی۔ تم نے میرے ضرار اور اشنال پر جو قہر ڈھایا اس پر اللہ تمہیں ہرگز معاف نہ کرے گا، تم نے جو اذیتیں دیں ہیں وہ لوٹیں گیں خانم! وہ دہرا عذاب بن کر لوٹیں گی"

اماں فضیلہ کی نفرت بھری دھتکار اور حقارت، فون بند ہونے بعد تک گل خزیں خانم پر کوڑے برساتی رہی، وہ عورت عجیب سے کرب میں تھی۔

اسکے ہاتھ کانپ سے رہے تھے، جو ظلم اس نے ڈھا دیے تھے اب خوفزدہ تھی کہ ایک بار پھر اسکے گناہوں کی سزا اسکی زونی کو ملے گی۔

اماں فضیلہ رابطہ توڑنے کے بعد تک روتی رہیں، انھیں گل خزیں خانم کی سفاکی دلبرداشتہ کر چکی تھی۔

پھر وہیں وریشہ یوسف زئی کی لگائی آگ میں جلتا ہوا شہیر مجتبی جسے نہ بیٹھے قرار رہا نہ لیٹے، ایک ایسی آگ بھڑک اٹھی جس نے اس پتھر دل درندے کے اندر اذیت بڑھا دی۔

یہ رات تو ہر کسی پر قیامت کی طرح اتری ہوئی تھی۔

وہیں تیسری جانب وریشہ کے دروازہ کھٹکھٹانے پر وہ جو رو رو کر تھک گئی، بھاری قدموں سے دروازے تک آئی اور کھولا جس پر وریشہ اسکے پاس آتے ہی شدت سے گلے لگا گئی۔

اشنال کے روم کا دروازہ لاک ہونے پر وہ لڑکی ڈر گئی تھی تبھی اشنال کو ٹھیک دیکھ کر تسلی تو ملی مگر وریشہ یوسف زئی کی جان تب نکلی جب فرش پر لاتعداد خون کے قطرے پڑے تھے، یہی نہیں اشنال کی قمیص اور چہرے پر بھی میثم کا خون جگہ جگہ اپنا ثبوت چھوڑ گیا۔

"ا۔۔اشنال! یہ سب ۔۔۔یہ خون کہاں سے آیا! ت۔۔تم ٹھیک ہو ناں؟"

وریشہ نے خوفزدہ نگاہوں سے اتنے سارے خون کو دیکھتے ہوئے اشنال کی نیم مردہ سا چہرہ ہاتھوں میں بھرے پوچھا تو وہ اسے ہاتھ پرے کرتی واپس بستر تک جا کر ویسی ہی لیٹ گئی، بس اب اسکی سسکیاں تھم گئیں۔

وریشہ نے بے اختیار قدم بالکونی کی جانب بڑھائے وہ وہاں بھی خون کے بے شمار قطرے اور نشانات اسے دہلا گئے۔

"وہ آیا تھا ہماری محبت کی قبر پر پھول چڑھانے،سرخ پھول تو تھے نہیں اس لیے اپنا خون چڑھا گیا"

وریشہ نے عقب سے آتی اشنال کی مردہ سی آواز پر سہم کر مڑتے دیکھا، اسے اشنال کی ایسی بے حس حالت سے خوف سا آیا۔

وہ اس جانب آس سے دیکھنے لگی جہاں تاحد نگاہ پھیلی سیاہی تھی، پھر نیچے سیڑھیوں کے آغاز میں پڑی خون آلود چھری نے وریشہ کا دل لرزایا۔

"ض۔۔ضرار لالہ آئے تھے؟ لیکن اب کیوں؟"

وریشہ کی آواز میں ٹوٹا کانچ تھا اور اشنال عزیز کا دل چاہا وہ اذیت سے قہقہے لگانے لگے۔

"پلیز وری مجھے اکیلا چھوڑ دو، مجھے یہ ہلکی روشنی بھی کاٹ رہی ہے اسے بجھا دو۔ میں کچھ نہیں کروں گی خود کے ساتھ لیکن پلیز مجھے کم از کم ایک رات کا سوگ منا لینے دو۔ کل کے بعد کسی کو اشنال کی آنکھیں روتی دیکھائی نہیں دیں گی"

اس لڑکی کی منت سن کر وریشہ کو دکھ نے گھیرا، وہ کمرے میں آئی، ٹشو باکس سے چند ٹشو نکالے اور ان سے فرش پر بکھرا وہ خون صاف کرتی ہوئی اس بے جان لڑکی تک آئی جو بمشکل سانس گھسیٹ رہی تھی۔

"بہت زیادہ خون نکلا انکا، کیا ہوا تھا اشنال۔ مجھے خوف آرہا ہے؟"

وریشہ نے اسکے ملائم بال سہلائے پوچھا تو وہ بنا کوئی جواب دیے سختی سے اپنی آنکھیں موند گئی جیسے اس کے اندر تمام تر ہمت ختم ہو گئی ہو۔

وریشہ بے بس سی نظر اشنال پر ڈالے، وہ ٹشو وہیں سائیڈ میز پر رکھتی ، اس مدھم روشنی کو بند کیے کمرے سے باہر نکلی تو آگے سے ولی زمان خان کو آتا دیکھ کر اس نے اپنے چہرے کا کرب دبایا۔

"ٹھیک ہے وہ؟"

ولی کا بے تابی سے پہلا سوال ہی یہی تھا اور وریشہ گہرا سانس لیے بس سر ہلا سکی، اسکا دل حویلی سے کہیں بھاگ جانے پر تھا مگر وہ چاہ کر بھی آج یہاں سے جا کر اشنال کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔

"اور آپ؟"

وہ جو گہری آنکھیں رکھتا تھا، وریشہ کی اذیت بھانپتا ٹھوڑی سے پکڑتا ہوا اسکا چہرہ اپنی سمت موڑے پوچھ بیٹھا تو بہت دقت سے وریشہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتی نمی دبائی۔

"تھک گئی ہیں کیا؟ چاہیں تو آرام کر لیں۔ میں ہوں اسکے پاس۔۔۔"

وہ آنکھوں میں ملال اور دکھ لیے بس اسے دیکھ ہی پائی، لفظ تو سارے کھو گئے تبھی وہ وریشہ کی حالت سمجھتا ہوا اسے نرمی سے تاکید کرتا بولا۔

"آرام نہیں آرہا، نہ دل چاہ رہا ہے۔ میں اسکے پاس ہی رہنا چاہتی ہوں، آپ سو جائیں کچھ دیر۔ مشکل دن تھا"

خود پر قابو کیے وہ رسان سے منع کرتی اس سے پہلے واپس جاتی، ولی نے اسکی دونوں بازو جکڑ کر اپنے روبرو ساکن کیا، وہ آج سے پہلے اسے کبھی یوں بے جھجھک چھوتا نہیں تھا، وہ تو اسے دیکھتا بھی نہیں تھا مگر آج ولی زمان کے ہر انداز میں جان لیوا لپک موجود تھی۔

"مجھ سے شادی کریں گی وری؟"

اپنے دونوں ہاتھ کی نرم گرم ہتھیلیاں، اس ہلکان لڑکی کی گالوں سے جوڑ کر وہ جو یہ بے اختیار کہہ بیٹھا، کتنی ہی دیر وریشہ یوسف زئی کو اسکے لہجے کی ٹھنڈک، لمس کی شدت، اور آنکھوں کی لپکتی بے پناہ چاہت پر اپنا آپ خلاء میں تیرتا محسوس ہوا۔

وہ سر تا پیر کانپ اٹھی۔

وہ نہ تو مسکرا رہا تھا نہ سنجیدہ تھا، وہ اگلے ہی لمحے بہت زیادہ تکلیف میں تھا کہ جیسے یہ لڑکی نہ ملی تو وہ مر جائے گا اور وریشہ اسکی پھر سے موت بننے پر مجبور کر دی گئی تھی۔

وریشہ یوسف زئی نے بنا سوچے سفاکیت سے ناں کر دی، دل پر پتھر رکھے وہ اس شخص کے نرم ہاتھوں کو بے دردی سے اپنے چہرے سے جھٹک گئی۔

ایک لمحہ لگا اور ولی زمان خان کی جان اسکے وجود سے سرکنے لگی۔

"نہیں، آپکی خود سے جڑی محبت کا احترام آخری سانس تک کروں گی لیکن میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی ولی زمان خان ۔ آئی ایم سوری"

آنکھوں میں کرچیاں سے سمیٹے وہ اسکا دامن اور ساتھ بے دردی سے جھٹک کر بھاگ گئی، اور وہ اس لڑکی کے انکار پر اذیت سے دوچار کتنی ہی دیر کھڑا، اسکے گم ہو جاتے وجود کو ہی تلاشتا رہ گیا۔

                            ..____________________..

جبل زاد کی آنکھیں دہکتے انگارے سی ہو رہی تھیں، جب وہ بڑے ضبط سے اسطبل میں زمین پر اجڑے حال کو آ کر بیٹھے میثم کے زخموں کو جانچ رہا تھا۔

اتنے گہرے زخم کے لہو اسکے ہر سمت پھیل گیا، اب وہ اپنے جسم میں گردش کرتے خون کا کیا کرتا، اب تو اسے دھتکار دیا گیا تھا۔

"خانم اتنی سنگدل تو نہیں تھیں"

جبل زاد نے اسکے ہاتھ پر سفید پٹی باندھتے ہوئے یہ گستاخی کی جس پر ضرار نے اذیت سے مسکرا کر آب و ہوا سوگوار کر دی۔

"بن گئی وہ جبل زاد، مجھے خود سے جس طرح دور کرتی چینخ رہی تھی، میں زندہ کیسے بچا سمجھ سے باہر ہے۔ اب اسے کیسے یقین دلاوں گا کہ وہ اب بھی میری ہے، وہ تو پاگل ہو گئی۔ وہ اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہے"

یہ بتاتے ہوئے میثم ضرار چوہدری کی آنکھوں میں سرخی جمع ہونے لگی جو ضبط کی گواہ تھی۔

"لیکن آپ اپنے ہوش گنوانے کی غلطی مت کریں خدا کے لیے سائیں ، میں کیسے دیکھوں آپکو اس درجہ اذیت میں"

بازو پر وہ پہلے ہی بینڈیج لگا چکا تھا مگر خون اب تک اسکے زخموں سے ابل ابل کر وہ سفید پٹی لال کر رہا تھا، اسکے جسم میں دوڑتے لہو میں بھی اذیت شامل ہو چکی تھی۔

"دیکھنا تو ہوگا جبل زاد، جب تک وہ اذیت میں رہے گی تب تک خود پر بھی سکون حرام رکھوں گا"

اس کی سرخ آنکھیں مسلسل اذیت سے گزرنے کی خبر دے رہی تھیں اور لہجہ تپش اگلتا ہوا جس پر جبل زاد بھی نزدیک آتا اسکے ساتھ ہی کچی زمین پر بیٹھ گیا۔

"آپ کہیں تو میں جا کر خانم سے بات کروں، ممکن ہے وہ ابھی صدمے میں ہوں۔ جب اس سب سے نکلیں گی اور جانیں گی کہ وہ آپ سے کبھی علیحدہ نہیں ہوئیں نہ ہوں گی تو مجھے یقین ہے معاف کر دیں گی"

وہ اپنے سائیں کی یہ حالت دیکھنے سے خوف کھائے یہ سہولت دیتا بول رہا تھا اور میثم ضرار چوہدری کے دامن کو پکڑ لیتے درد ناک خیالات اسے مارنے پر تلے تھے۔

"ہم دو کا رشتہ کاغذی تو کہیں بعد میں جا کر بنا تھا جبل زاد، دل پہلے جڑے تھے۔ اور اس نے اس بار بھی دل پہلے الگ کیا، اسے پرواہ نہیں اب دنیا داری کے جو بھی کاغذ دستخط ہوں۔ اس نے تو تسلیم کر لیا کہ میں اسے خود سے الگ کر چکا ہوں"

اسکے مضبوط لہجے میں کھارا پن تھا، اور جبل زاد کو لگا دل سکڑنے لگا ہو۔

وہ دونوں اس گہری سیاہ رات میں اجڑے ہوئے دو بنجارے تھے، آج تو سبون بھی سر گرائے میثم کے دکھ میں برابر کا شریک نظر آرہا تھا۔

"تو آپ انکو بتا دینا اپنی مجبوری، دادا سائیں کو کیسے مرنے دیتے۔ وہ سمجھ جائیں گی سائیں، ایک بار انکے روبرو اپنی مجبوری بے آبرو کر کے دیکھیں۔ کیا چوہدری بزدار عالم کی تمام عمر کی محبت اور آپ کی خفاظت کا اتنا صلہ بھی نہیں تھا کہ آپ انکی جان بچانے کو ترجیخ دیتے، ایک طرف کنواں تھا اور دوسری جانب کھائی، وہ سمجھ جائیں گی "

جبل زاد نے اس مایوس ہوتے شخص کو روشنی کی کرن دیکھائی تھی پر وہ اپنے پھٹے دل کا کیا کرتا جو غائبانہ اشنال عزیز کی نفرت محسوس کیے پھڑپھڑا رہا تھا۔

"جس حال میں اسے میثم نے پہنچا دیا جبل زاد! وہ کچھ نہیں سمجھے گی۔ تو جا حویلی، مجھے یہیں چھوڑ دے۔ مجھے اپنے خساروں پر ماتم منانے دے، جا جبل زاد"

وہ یکدم ہی بپھر گیا، اپنے اردگرد کسی کی بھی موجودگی گورا نہ تھی اور جبل زاد بھی بس اسکی تکلیف کم ہونے کی دعا ہی کر سکتا تھا۔

وہ اسے اس ملال میں بخوشی تڑپنے کے لیے چھوڑتا ہوا اسطبل سے چلا گیا اور وہاں قہر ناک تکلیف پھیل گئی۔

وہیں دوسری جانب وہ روانگی کے لیے بھرے دل سے تیار ہو تو گئی تھی پر آنسو کنزا کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر اسکی گالوں کو جلا رہے تھے، نازک آنکھوں والی مالنی نے بھی کرب دباتے ہوئے کنزا کے شانوں کے گرد چادر پھیلائی۔

وہ منہ اندھیرے ہی نکل جانے والی تھی کیونکہ بزدار عالم کی چوکھٹ پر زونی کی بھیک مانگنے سے پہلے اسے کسی اور کے در پر بھی جانا تھا، اس انسان کے پاس جسکی دی عزت، کنزا نے دھتکار کر اپنے نصیب میں تاعمر کی دربدری اور زلت لکھ لی تھی۔

                          ..____________________..

تُو نے بڑا ستایا ہے مجھے، جا تُو بھی ستایا جائے گا

ھائے! بڑا رلایا ہے مجھے ، جا تُو بھی رلایا جائے گا۔

گزری رات سبھی پر تابناکی اتارتی گزر چکی تھی، ایک بار پھر سحر ڈھلتے ہی پوری شان سے پنچائیت سج چکی تھی، وہ سب بس مشارب زمان خان کے منتظر تھے تاکہ اس طلاق کے ہوتے ہی اپنی روایات کی بھینٹ وہ ایک اور معصوم لڑکی چڑھا دیتے۔

وکیل نے بنا کورٹ کو داخل کیے ہی اس جعلی طلاق نامے کو بظاہر رجسٹر کیے اس طلاق نامے کی دو کاپیاں مشارب زمان کے سپرد کیں جبکہ رات ساری وہ بہت سے کرب سے گزرا تھا، ان طلاق کے دو ایک جیسے کاغذات کو تھامتے وقت مشارب زمان کے ہاتھ کپکپائے تھے۔

وہ انھیں لیتا ہوا واپسی کے لیے روانہ ہو چکا تھا وہیں کوئی اور بھی تھا جو اس ونی کے جھوٹے نکاح میں سج دھج کر شریک ہونے والا تھا۔

اسکا کمرہ شاہی طرز کا تھا، تاحد نگاہ اس عجیب و غریب شخص کے شوق اور پسند عیاں تھے، جگہ جگہ الگ الگ طرز کی پینٹنگز، ایسی نایاب تصاویریں جن پر کڑوڑوں کی بولیاں لگتی تھیں مگر ہر تصویر میں ایک ہی آدھا چہرہ، نیلی آنکھ۔۔۔۔۔۔

ہر تصویر کے کنارے پر ایچ بی کے دو لفظ کنندہ تھے جیسے وہ ان دو حرفوں کو بڑی رغبت سے اپنے ہر شہکار کے نیچے لکھتا تھا۔

وہاں وقت تھم جاتا، وہ تیار تھا، خود پر بے دریغ پرفیوم کا چھڑکاو کرتے ہی سیاہ ہڈی سے اپنا آدھا چہرہ ڈھانپے وہ منظر عام پر آیا۔

تبھی اسکے کمرے کے دروازے پر مانوس سی دستک ہوئی، اور پھر اجازت ملتے ہی باہر سے ایک عمر رسیدہ سا ملازم ہاتھ باندھے اندر آیا۔

"سرکار! وہ آئی ہیں"

وہ آدمی جانے کس کے آنے کی خبر دے رہا تھا کہ اس آدھے ڈھکے چہرے والے نے فورا سے بیشتر بیڈ کے سائیڈ میز سے لائٹر اور سگریٹ اٹھایا، پھر سگریٹ سلگا کر اپنے بھورے ہونٹوں کے بیچ تڑپ کر دبا دیا۔

ساتھ میں اس کھڑے ملازم کو جانے کیا اشارہ کیا کہ وہ اسی احترام کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔

اک سلگتی سی مسکراہٹ ان سگریٹ کے عادی بھورے مائل ہوتے ہونٹوں پر آئی اور معدوم ہوئی۔

وہ کمرے سے نکل کر وہ شاہانہ راہداری عبور کرتا ایک دوسرے تاریک کمرے کی طرف بڑھا اور پھر دروازے کا ہنڈل گما کر اس نے اپنے قدم اندر بڑھائے تو کنزا بے قراری سے پلٹی، وہ شخص اب تک اپنا چہرہ ڈھکے ہوئے تھا ، کنو بائی اسی پر خوش تھی کہ اسے ملنے کے لائق سمجھا گیا ہے۔

"تو تم آہی گئی میرے در پر ؟ کنزا خانم کہوں، سفاک سوداگرنی کہوں یا کنو بائی کہہ کر بلاوں تمہیں؟"

وہ آتے ہی اس عورت پر جان لیوا قہر ڈھاتا نزدیک آیا تو کنزا نے بمشکل سانس لیتے ہوئے اس شخص کے چھپائے چہرے کو دیکھا، اسکے ہونٹوں پر مضحکہ خیزی وہ باآسانی دیکھ سکتی تھی۔

"ایک ماں کہو ابھی، اور میری مدد کرو"

وہ جیسے گڑگڑائی اور اسکی اس گریہ زاری پر اس شخص نے اپنے ایک ہاتھ کی مٹھی بھینچی اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کا کش لگاتا، اپنا رخ اس ناپسند عورت سے موڑ گیا۔

"کتنے میں بیچنے آئی ہو اسے؟"

گہرے اندھیرے میں ڈوبا کمرہ جہاں بھاری آواز میں کڑے تیوروں سا استفسار ابھرا اور اس شخص کے ہاتھ میں دھواں چھوڑتا سگریٹ بنا طلب کے جل رہا تھا جس سے اٹھتا دھواں کمرے کی خبس میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔

"بیس کڑور میں"

اگلے ہی پل اسکی سسکتی ہوئی سرگوشی ہوا میں گونجی اور تحلیل ہوئی۔

"وجہ؟"

وہ آدمی اپنا اگلا سوال کیے ہنوز سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔

"اپنی رہائی اور اسکی حفاظت"

اس بار اس کنو بائی نے خود کو بکھرنے سے بچاتے ہوئے سمیٹا تو مضبوطی آواز میں بھی سمٹی مگر دھواں اڑاتے اس شخص نے متکبر ہوئے سر زرا اونچا کیا۔

"تم نے عزت کا ہاتھ جھٹک کر زلت چنی تھی کنزا، اور اپنی ہی اولاد کو جہنم میں دھکیل دیا، آج تمہیں اسی در کا فقیر بنا دیکھ کر میری آگ قدرے ٹھنڈی ہو گئی ہے"

اس بھاری آواز والے نے سخت لہجے میں آئینہ دیکھانا چاہا جس پر اس عورت کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے، وہ جانتی تھی اسکی موت بھی اسکی اولاد کے حق میں صرف زلت ہے تبھی تو زندگی چنی تھی۔

اسے بے بس اور مجبور بھانپتا وہ خود ہی گہرا سانس بھر گیا جیسے کچھ سفاک سا یاد آ گیا ہو۔

"اور مجھ سے کی زیادتیوں کا بدلہ؟"

وہ سفاکیت پر اترا ، اس عورت کو لگا لمحے میں رہی سہی سانس لینے کو ہوا بھی رک گئی ہو۔

"یہ بیس کڑور دے دو پہلے ، قرض نہ چکایا تو وہ طلال، میری اور میرے بچوں کی بوٹی بوٹی نوچ لے گا اور مرنے بھی نہیں دے گا، تم اس پیسے کے بدلے پیسے کے علاوہ جو مانگو میں اب دینے کو تیار ہوں، لیکن زونی تمہارے پاس تب تک امانت ہوگی جب تک میں تمہارا قرض نہ چکا دوں"

وہ بکاو عورت تھی اس سے ایسی غیر شائستہ پیشکش متوقع تھی تبھی تو اس سیاہ ہڈی میں آدھا منہ چھپا کر پشت کیے کھڑا شخص مسکرایا، اسکے سیاہ ہلکی ہلکی مونچوں تلے مسکراتے بھورے ہونٹوں پر استہزایہ رنگ تھا۔

جنھیں عزت راس نہ ہو ان پر زلت ہی جچتی تھی یہ اسکا ماننا تھا۔

"جب سے دوسری زندگی ملی ہے، خود پر صرف دشمن کا خون حلال رکھتا ہوں ، جس چیز کو کسی غیر کی نگاہ بھی چھو جائے وہ میرے لیے تاعمر ممنوع اور حرام ہو جاتی ہے۔ پیسہ نہیں دے سکتی تم لیکن تم میرے ایک اہم کام آسکتی ہو۔ رہی بات زونی کی تو عزت ہے وہ میری۔۔۔مل جائے گا پیسہ"

نخوت سے ہنکارہ بھرے وہ بھاری آواز، اپنے دھاک بیٹھائے جیسے ہی خاموش ہوئی، وہ شخص پلٹا اور اس عورت سے ملاقات کی قیمت اپنے والٹ سے نکالے چند نیلے کڑکتے نوٹوں کی صورت اسکی اور اچھالتا اسے اسکی اوقات یاد دلانا نہ بھولا اور پھر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ وہ عورت کانپتی ٹانگوں کے ساتھ خوفزدہ سی ہو کر اس مرد سے ملی تضخیک پر ٹکڑے ٹکڑے ہوئی،اسکے پورے جسم میں خوف سا دوڑا تھا، وہ کانپ رہی تھی۔ پھر ان فرش پر گرے نوٹوں پر حقارت سے نظر ڈالتی وہ اپنا رعنائیوں سے بھرا وجود چادر میں چھپاتی، کرب زدہ سی خود بھی اس کمرے سے باہر نکل گئی۔

                          ..____________________..

ساری رات لگا کر رونے پر بھی اسکا دکھ کم نہ ہوا جو اس نے ولی زمان خان کا ہاتھ جھٹک کر اپنے مقدر میں خسارہ لکھا، وہ پھر سے مضبوط ہو گئی۔

ملازماوں کو کسی شے کو ہاتھ نہ لگانے کا حکم دیتی وہ اشنال کے لیے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر اسکے کمرے میں لائی۔

قدوسیہ جلادن کچھ دیر پہلے ہی نکاح کا وہی جوڑا اور زیوارت رکھ گئی تھی، جبکہ اشنال تکیے پر سر رکھے کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے پتھر بنی لیٹی تھی۔

وریشہ نے اسکے کمرے کا اجڑا سناٹا اور اندھیرا ہٹانے کو کھڑکیوں پر ڈالے پردے ہٹائے اور بالکونی کا دروازہ بھی کھول دیا، صبح کی ٹھنڈی ہوا کمرے میں آئی تو جیسے خبس کم ہوا ساتھ ہی درختوں پر بیٹھے چہچہاتے چرند پرند حمد و ثناہ میں مصروف تھے۔

"اٹھو اشنال، کچھ کھا لو۔ چلو شاباش"

وہ اسکے ملائم بال سہلاتی پیار سے پچکاری تو حیرت کا جھٹکا وری کو تب لگا جب وہ ایک ہی بار کہنے پر نا صرف اٹھی بلکہ وریشہ کی بات بھی مان گئی، اس کے چہرے پر لگا میثم کا خون غائب تھا شاید وہ صبح ہی نہا چکی تھی۔

وریشہ اپنی اداسی ختم کیے اسکے پاس بیٹھی اور پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر وہ اشنال کو کھلاتی رہی، اور اشنال بے حس بنی چپ چاپ اسکے ہاتھوں سے ناشتہ کرتی رہی۔

وریشہ کا دل دہل رہا تھا ، وہ لڑکی واقعی شاید سارا رو بیٹھی تھی، اسکے دماغ کو اس سب نے بہت متاثر کیا تھا۔

"اب بتاو ضرار لالہ کیوں آئے تھے؟"

ناشتے کی ٹرے اٹھا کر میز پر رکھتی وریشہ اسکے پاس آکر بیٹھی اور جو پوچھا اس پر اشنال نے اسے اجنبیت بھری نظروں سے یوں دیکھا جیسے وہ یہ نام پہلی بار سن رہی ہو۔

"کون ضرار؟"

وہ پتھر بنی بولی تو وریشہ کا دل کٹا۔

"شہیر کو جانتی ہوں اب جس سے کچھ دیر میں میرا ونی نکاح ہے، تم بھی مجھے ایسے کسی کا نام لے کر پریشان مت کرنا۔ میں آج زندہ زمین میں دفن ہونے والی ہوں، مشارب لالہ کی زندگی بچا کر کوئی ایک نیکی کر لوں گی۔ بس اب یہی میری زندگی رہ گئی ہے"

اس لڑکی کے ہر احساس سے عاری لفظ، وریشہ کے ہر احساس کو اکھاڑ تو گئے ہی مگر دروازے میں کھڑے عزیز خان نے بھی جیسے اپنی بچی کی حالت دیکھے اپنا سینہ جکڑا۔

"صرف نکاح ہوگا، رخصتی نہیں ہوگی۔ تم نکاح کے بعد بھی یہیں رہو گی اشنال"

وریشہ نے اسکا ہاتھ جکڑتے جیسے تسلی دی تو بے حسی اور بے دردی سے اپنا ہاتھ چھڑوا گئی۔

"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اب، وہ میرا حاکم ہوگا جو مرضی کرے۔ مجھے زندہ اسکے گھر دفن کرنا ہے یا یہیں اسی کمرے میں میرا مقبرہ بنے گا یہ تم سبکی چوائز ہے، میں مر چکی ہوں یہ سب سے بڑا سچ ہے"

وہ وریشہ کی جان لیتی ہوئی، وہ بیڈ پر رکھا نکاح کا جوڑا ہاتھ لگائے چھو رہی تھی اور عزیز خان پر گویا آسمان گر پڑا۔

وریشہ اسکے بعد کچھ بول ہی نہ سکی، گل خزیں خانم اور فرخانہ خانم کے حکم پر اس نے اشنال کو تیار کرنا تھا۔

جبکہ عزیز خان ، اپنے کمرے میں آتے ہی میثم کا نمبر ملا چکے تھے، وہ اس وقت دادا جان کے پاس تھا، انھیں ناشتہ کروائے، دوا دیے آرام کا مشورہ تھمائے، بجتے فون پر عزیز خان کا نام دیکھتا، جبل زاد کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتا، دادا سائیں کے کمرے سے باہر نکلا۔

"تم نے اسے نہیں بتایا کہ طلاق نامہ جعلی تھا؟ بولو ضرار؟"

فون لگتے ہی عزیز خان کا ٹوٹے لہجے میں کیا سوال، اس کے چہرے پر بھی تشویش لے آیا۔

"بتایا تھا مگر وہ مانی ہی نہیں، کہتی ہے اسے دنیاوی رسم و رواج کی پرواہ نہیں۔ میں نے دستخط کر دیے بس اس نے قبول کر لیے۔ شادی کی طلاق نہ سہی اس نے محبت کی طلاق دے دی میثم ضرار چوہدری کو"

وہ سیاہ میں ایک بار پھر اپنے سحر بکھیرتا ہوا دیکھائی دے رہا تھا پر آنکھیں لافانی اجڑا پن سمیٹ چکی تھیں۔

"وہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہے ضرار، مجھے لگتا ہے اگر وہ اسی حالت میں رہی تو پاگل ہو جائے گی۔ تم کچھ کرو خدا کے لیے۔ یہ نہ ہو وہ جس طرح اس طلاق کو سچ مانے بیٹھی ہے، اس مردود شہیر سے نکاح کو بھی سچ مان بیٹھے۔ اسکی ذہنی حالت مجھے اچھی نہیں لگ رہی"

وہ سسکتا ہوا باپ التجاء کر اٹھا تو جیسے ضرار کو بھی لگا سینے میں ٹھیس سی اٹھی ہے، رات بھی اسے اشنال کو دیکھ کر شبہ گزرا تھا جیسے وہ یہ سب جان بوجھ کر نہیں بلکہ بے بس ہو کر کر رہی تھی اور اب عزیز خان کے بتانے پر وہ مزید پریشان ہو چکا تھا۔

"ٹھیک ہے کچھ کرتے ہیں، یہ نقلی ونی نکاح ہونے دیں میں اسے لے کر شہر نکلتا ہوں۔ اسکا دماغی معائنہ ضروری ہے ، اسے میرے ساتھ بجھوانے کا انتظام آپکو کرنا ہوگا عزیز خان "

سپاٹ انداز میں وہ اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتا جو بولا اس پر عزیز خان دقت سے سانس کھینچے بیڈ کے کنارے لڑھک کر بیٹھے۔

"م۔۔میں کوشش کروں گا، اور ہاں ولی زمان اور وریشہ کے دباو پر اسکی رخصتی بھی روک دی گئی ان ظالم سرداروں نے کیونکہ اشنال کی خراب طبعیت کا بہانہ بنایا گیا ہے۔ اور وہ لوگ ولی زمان کی یہ بات ٹال کر کوئی وبال کھڑا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ وارث ہے انکا۔ یہ ہمارے لیے پلس پوائیٹ ہو جائے گا"

عزئز خان کی آواز میں تاسف کے ساتھ ساتھ امید بھی موجزن تھی اور ضرار کے جلتے سینے کو جیسے کچھ لمحے کی راحت ملی۔

"ٹھیک ہے مجھے ابڈیٹ دیتے رہیے گا اور رات کو حویلی کے باہر انتظار کروں گا، امید ہے آپ اس بار بھی مدد کریں گے"

لہجہ ہر درجہ مدھم رکھے وہ عزیز خان سے ایک اور مدد چاہتا فون بند کر گیا البتہ اسکے سینے میں بھڑکتی آگ زور پکڑ چکی تھی۔

                            ..____________________..

"اس بار آپ انکار نہ کرتیں وری، میں آپکے لیے دنیا سے لڑ جاتا یار۔ ایسا کیا ہے جس نے آپکو اس درجہ تکلیف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ آپ سانسیں ہیں ولی زمان خان کی ، آپکے بنا کیسے جی پاوں گا"

آئینے کے روبرو کھڑا وہ گرے سوٹ میں لپٹا ہوا بھلے جتنا خوبرو اور پرکشش ہوتا، رات سے اب تک وریشہ کے انکار نے اسے جن انگاروں پر گھسیٹا تھا، اسکی آنکھیں ضرور اجڑی تھیں۔

مردان خانے میں علاقے کے معززین جمع ہونے شروع ہو چکے تھے اور بابا سائیں نے اسے بھی پہنچنے کی تاکید کی جس پر وہ ابھی نہا کر تازہ دم ہوتا، سج دھج کر بھی سوگوار سا خود کو دیکھ رہا تھا۔

ایک طرف بہن اجڑ گئی تھی اور وہ اسکی تکلیف کی کمی کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکا کہ رخصتی روکوا دی مگر پھر اپنا دل بھی مزید اجاڑ بیٹھا۔

اسے یقین تھا وری اسکے بڑھے قدم کو کبھی پیچھے نہ دھکیلے گی مگر اب تو اس نے بھی ولی زمان خان کا دل توڑ دیا تھا سو وہ خود کو سنبھال نہ پا رہا تھا۔

فرخانہ خانم اور خدیجہ خانم دونوں باورچی خانے میں تھیں، تمام علاقے میں آج شاہی پکوان تقسیم کیے جانے تھے جنکی تیاری بڑے بڑے چولہوں پر رکھے دیگی دیگچوں میں ہو رہی تھی۔

خدیجہ تو سوگوار سی تھیں البتہ فرخانہ خانم ضرور ہر کام کو بڑے سلیقے سے دیکھ رہی تھیں۔

جبکہ وریشہ بھی حکم کے مطابق اشنال کو تیار کرتی، ناشتے کے برتن رکھنے کچن میں آئی تو باہر نکلتے ہوئے زمان خان کو دیکھے رکی جو شاید اجلت میں ولی کو بلانے ہی جا رہے تھے۔

"وری بچے، کسی کو بھیجوا دیں اور ولی کو کہلوائیں کے مردان خانے میں سب منتظر ہیں"

زمان خان، نرمی سے وریشہ کو کہتے واپس پلٹے تو وریشہ کو ولی زمان کے کمرے میں خود جاتا دیکھ کر فرخانہ خانم کے تن من میں شرارے پھوٹے، اس حویلی میں کسی عورت کی جرت نہ تھی کہ وہ یوں کسی نامحرم کے کمرے تک جائے اور وریشہ کی اس جرت پر وہ سر تا پیر سلگ اٹھیں۔

وہ اس لڑکی کو ولی کے اردگرد منڈلاتا ہوا برداشت نہیں کر پا رہی تھیں تبھی سوچ بیٹھی تھیں کہ جلد گل خزیں خانم کو کہہ کر اس وریشہ کا انتظام کروائیں تاکہ اس سے کم ازکم ولی کی جان چھوٹے۔

اس عورت کا یوں انتقامی ہو کر سوچنا، اس حویلی کی گندی فطرت تھی جو انکی رگوں تک اتری ہوئی تھی۔

جبکہ کسی کو اسکے کمرے سے بلانا، وریشہ یوسف زئی کے لیے ایک غیر معمولی بات تھی سو وہ خود آئی، رات جو اس نے ولی کا دل توڑا، وہ معذرت بھی کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ ایسی نہیں تھی کہ کسی کو یوں تکلیف دیتی۔

کمرے کے نیم وا دروازے پر دستک دیتی وہ اندر داخل ہوئی تو ولی کو میز پر سے اپنا فون اٹھا کر جیب میں رکھتا دیکھتی وہ وہیں رکی جو اسکی موجودگی جان تو گیا مگر رخ موڑے بنا ہی اپنی آنکھوں کی تباہ کاری ضبط کرتا کھڑا ہوا۔

وہ اسکی پشت تکتی زرا قریب ہوئی، وہ اس سے ناراض تھا یہ ولی زمان خان کے چہرہ پھیر کر کھڑا ہونے سے عیاں تھا۔

"آپکو مردان خانے میں بلایا جا رہا ہے"

وہ بات کرنے کے لیے پہلے مدعے پر ہی آئی جبکہ وہ مڑا اور اسکے پاس سے گزرتے ہوئے لمحہ بھر رکا۔

"اور؟"

وریشہ نے چونک کر گردن گمائی تو وہ اسے ہی تلخی سے دیکھتا کمزور کر رہا تھا، وہ جتنی ہمت لے کر آئی تھی سب اس کے آگے ریت کی دیوار بن گئی۔

وہ ولی زمان کی سرخ گوشوں والی آنکھوں سے سہمی جس میں آج حد درجہ ناراضگی سمٹی تھی۔

"اور یہ کہ دل توڑنے کی معافی چاہتی ہوں"

وہ ہمت کیے بولی تو ولی زمان خان کی بے باک باز پرس کرتی نظریں وریشہ کے اندر تک اتریں۔

"اپنا آپ مجھے دیں گی دل توڑنے کی تلافی میں؟ اس سے کم پر تو یہ دل نہیں جڑے گا اب"

وہ اسکے اس جان لیوا تقاضے پر سن ہو کر رہ گئی۔

"نہیں، مجھے کسی اور سے شادی کرنی ہے سو آپ سے کرنی ناممکن ہے"

ہوش میں آتے ہی جیسے اس نے ولی زمان کے دل پر کوڑا برسایا، اسکا دل چاہا اس لڑکی کو بے رحمی سے جنجھوڑ ڈالے۔

"ٹھیک ہے کریں، جس سے کرنی ہے کریں۔ ناکردہ گناہ کی سزا پہلے بھی جھیلی ہے اب بھی سہہ سکتا ہوں۔ اتنا حوصلہ ہے ابھی مجھ میں۔ پھر میرے قریب آنا چھوڑ دیں، فاصلہ اختیار کریں ورنہ کچھ کر بیٹھوں گا جس پر آپ اور وہ دونوں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے"

نفرت کی انتہا اس غائبانہ شخص کے لیے جتاتا وہ جو کہہ کر وہاں سے گیا، اس پر وریشہ کا پورا جسم کپکپا کر رہ گیا۔

اسے پہلی بار لگا جیسے اسکا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہو۔

وہ فورا گھبرا کر اسکی خوشبو میں لپٹے جان نکالتے اس کمرے سے باہر نکلی، ہوش و حواس گم تھے۔

تبھی یہ بے خبری اچانک اس پہاڑ سے ٹکرانے کی وجہ بنی جس نے بہت شدت بھرے حصار میں وریشہ کا گرتا وجود سنبھال لیا تھا۔

شہیر مجتبی کی آنکھوں میں لپکتی آتش اور بے باک گرفت جس میں یکدم تشنگی بڑھی تو وہ اپنی کمر کے گرد اسکے چٹانی ہاتھ کی گرفت بڑھنے پر ہوش میں آتے ہی دھکا دیتی خود سے پڑے دھکیل گئی مگر یہ جو اس بندے نے کر دیا تھا اس پر وریشہ یوسف زئی کا پورا وجود برف بن گیا۔

کیسا سلگاتا ہوا لمس تھا اس بد بخت کا کہ وہ اپنے روح تک اترتی جلن محسوس کر سکتی تھی۔

"کسی کی حسرت خود پر حلال رکھتا ہی نہیں ہوں وریشہ یوسف زئی، بڑی بھڑکیں مار کر گئی تھی کہ مجھے بددعا سے مارو گی، مگر تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہے مر تو تم جاو گی جب میں تمہارے قریب آوں گا"

وہ اسکے سر تا پیر لرزش زدہ وجود پر چوٹ کیے ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہو کر وریشہ کی جان نکال چکا تھا جو خود نہ سمجھ پائی کے اس پر اس منحوس نے پھونکا کیا ہے۔

سارا اعتماد گل ہوا، مگر وہ اس پر کیسے کھول دیتی کہ وہ اسکے کہے سے دب گئی ہے۔

"اپنی بکواس بند کرو سمجھے، تمہیں قریب کیوں آنے دوں گی ؟ تم نے کونسا آفر قبول کی تھی۔ اب دفع رہنا ورنہ آج تو مجھے چھونے کی جرت کر لی آئیندہ کی تو تمہارے یہی ہاتھ جلا دوں گی"

اپنی حالت بہتر کرتی وہ کاٹ کھاتی ہوئی شہیر کی استہزایہ جنونیت بھری آنکھوں میں جھانک کر غرائی مگر وہ تو یوں تھا جیسے اس کے ہاتھ وریشہ یوسف زئی کی ناجانے کونسی کمزوری آن لگی ہو۔

"آفر قبول کی ہے لیکن زرا اپنے طریقے سے، سہی کہا تھا تم نے وہ اشنال تو ضرار کی محبت اور منکوحہ رہ چکی ہے، سب کچھ۔۔ بہت بار ممکن ہے دونوں نے حدیں بھی پار کی ہوں سو میں کیوں اس کسی اور کی اترن جیسی لڑکی کے لیے تم جیسا ان چکھا حسن چھوڑ دوں"

شہیر کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا جنون، اس قدر شدت بھرا تھا کہ وریشہ کے ہاتھوں میں نمی چھوٹ پڑی، وہ اسکے الفاظ کی سنگینی پر تلملائی جو آگے سے بڑا پرسکون تھا۔

"کیا مطلب تھا اس بکواس کا؟ صاف صاف کہو"

وہ گہرا سا سانس لیتی اسکی ان معنی خیز نظروں اور باتوں سے زچ ہوتی پست سا چلائی تو جیسے مقابل ان سیاہ آنکھوں کا سرور بڑھا۔

"یہی کہ میں یہ ونی نکاح تو کروں گا کیونکہ ضرار سے حساب چکانا ہے مگر اس لڑکی کو ہاتھ بھی نہیں لگاوں گا اور اسکے لیے میری شرط تم ہو۔ اپنا آپ مجھے دے دو اور بچا لو اپنی سہیلی کی زندگی جو میرے چھونے سے ہی گل ہو جائے گی، میں ضرار سے بدلا لینے کے بعد اشنال کو خود ہی چھوڑ دوں گا۔ ایک آفر تم نے کی تھی اب دوسری میں نے کی ہے"

بے حس اور سفاک بنے وہ زرا قریب ہوا اور اپنا سانس عیاشی کی مانند اس تھم جاتی لڑکی کے چہرے کے قریں خارج کرتا، جلاتی مسکراتی آنکھوں سے وریشہ کی تہس نہس ہستی کھوجنے لگا جس پر واقعی چھت گر چکی تھی، وہ کئی لمحے کچھ بولنے کے لائق نہ رہی۔

"ت۔۔تمہارا دماغ چل گیا ہے کیا منحوس "

ہوش میں لوٹتے ہی وہ اسکا گریبان جکڑے پست سا چلائی، اسکا بس نہ چلا وہ اس سوداگر کو جلتی بھٹی میں جھونک ڈالتی، وریشہ کے جسم کا سارا لہو اسکے چہرے پر چھلک آیا تھا اور ناجانے کیوں شہیر کو اسکی نفرت بھی گرویدہ کر رہی تھی۔

"ایسا ہی سمجھ لو، ورنہ تم کہاں تک میری ہوس سے اشنال عزیز کو بچاتی پھرو گی۔یہ ڈیل کرو تو آسانی رہے گی۔ تم مجھے اپنا آپ دے کر اپنی بہن جیسی اشنال کو بہت بڑے کرب سے بچا سکتی ہو، کیونکہ اسے میں نے ایک بار اپنا بنا لیا تو اشنال عزیز کی موت طے ہے، اور شاید ضرار کی بھی۔ نکاح کر لو مجھ سے، کیونکہ تم جیسی اتھری گھوڑی کو آخری سانس تک جھیلنا چاہتا ہوں"

وہ جو اسکی تپش زدہ سانس کے پھیلاو سے اپنا چہرہ جھلستا محسوس کر رہی تھی، اس شخص کے اگلے مطالبے پر بمشکل ساتھ موجود دیوار کو تھام پائی تھی، آنکھوں میں سرخائی گھل چکی تھی اور شہیر مجتبی نے گویا پاسہ ہی پلٹ دیا ہو۔

"کل شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس،اور ہمارے اس نکاح کو خفیہ رکھنا ہے اور یہ تم سوچو گی کہ تم نے کیسے بنا اپنے پیارے دادا سائیں کو میرا نام بتائے اس نکاح کی اجازت لینی ہے ، تم جیسی ماڈرن لڑکی یہ ٹاسک پورا کر لے گی۔ کل شام چھ بجے مجھے تمہارے حتمی جواب کا انتظار ہوگا۔ اسکے بعد آتی قیامت کی ذمہ دار تم ہوگی وریشہ یوسف زئی"

اک اک حرف سے وہ وریشہ کو جلاتا ہوا، تفاخر سے اس سہمی بے جان لڑکی پر اپنی جنون خیز نگاہ ڈالتا بڑے تنتنے کے ساتھ وہاں سے مردان خانے کی جانب گیا تھا، وہ تو اپنی جگہ پر ہی جم چکی تھی۔

نفرت سے اسکی آنکھوں میں لہو چھلک آیا، کیا وہ شخص اسکی پہلی اور آخری سزا بننے والا تھا، وریشہ کو لگا وہ دوسرا سانس نہیں لے سکے گی، جانے کس طرح خود کو سنبھالتی ہوئی وہ واپس اشنال کے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔

چونکہ ضرار اور اشنال کے نکاح کی خبر سرداران کو پنچائیت کے سامنے رکھنی پڑی تھی تبھی یہ حقیقت اب پورا علاقہ جان چکا تھا، شہیر مجتبی سمیت۔

اور اب اسے اشنال سے نکاح کر کے زیادہ خوشی تھی، پہلے سے بڑی چوٹ لگانے نکلا تھا۔

جبکہ پنچائتی تمام لوگ مشارب زمان کے آنے کے منتظر تھے تاکہ طلاق کی تصدیق ہوتے ہی وہ اپنی روایات کا پاس کرتے ہوئے یہ ونی نکاح کروائیں۔

اس ونی کے نکاح میں شریک ہونے کوئی خاص بھی آیا تھا، علاقے کے معززین اور سردارن کی نظروں سے اوجھل ہو کر بھی وہ اس کھیل کو دیکھنے ان دشمنوں کے بیچ آ کر بیٹھا تھا، اسکا چہرہ اب بھوری چادر سے ڈھکا تھا اور سیاہ وحشی دو آنکھیں اس نقاب سے جھانک رہی تھیں جن میں زمانے بھر کی حقارت امڈ رہی تھی۔

اور پھر اپنی ہمت بحال رکھتا وہ بھی پہنچ آیا، نقلی طلاق نامے کے ساتھ، مشارب زمان کا یہ کارنامہ بھلے اسکے باپ دادا کے آگے بڑا معرکہ تھا مگر وہ کس اذیت میں تھا اسکا اندازہ صرف اسے تھا۔

جسے لگ رہا تھا کہ قربان اشنال نہیں، وہ ہونے والا ہے۔

اس بزرگ فقیر کی بددعائیں اسے کھا جانے والی ہیں۔

نکاح کے لیے اسی مولوی کو بلوایا گیا جسے عزیز خان نے ایک بار پھر نقلی نکاح کے بارے بریف کر دیا تھا، جبکہ نکاح ہوتے وقت اشنال وہاں موجود ہو کر بھی نہ تھی، جب اس سے شہیر مجتبی کو قبول کرنے کا پوچھا گیا تو وہ پتھر بنی رہی پھر جیسے فرخانہ خانم نے سب سے آنکھ بچاتے ہوئے اسکا سر قدوسیہ سے ہلوایا اور یوں یہ نقلی نکاح ہو گیا۔

وہ تو ذہنی بیمار ہو چکی تھی لہذا اسے یہی علم تھا کہ اسے ضرار نے طلاق دی ہے اور اب وہ شہیر مجتبی کے نکاح میں جا چکی ہے جبکہ ایسا کچھ نہ تھا۔

وہ ازل سے میثم کی تھی اور آخری سانس تک اسے چوہدری میثم ضرار کا ہی رہنا تھا لیکن اشنال عزیز کی ذہنی ابتری ممکن تھا سبکا کڑا امتحان بننے کو تھی۔

                         ..____________________..

"خبردار جو تم نے ذونین کو واپس مانگنے کی جرت بھی کی کنزا، زونی صرف چوہدری عالم بزدار کی بچی ہے اور میں اسے کسی قمیت پر تم جیسی خودغرض عورت کے سپرد نہیں کروں گا۔ جاو چلی جاو اپنی اسی دنیا میں جہاں سے آئی ہو"

اول تو وہ اس عورت کی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کسی بھی وقت آجانے پر اپنی ناساز طبعیت بھاڑ میں جھونکے غرائے دوسرا وہ جو زونی مانگنے کی خواہش کر رہی تھی اس پر تو انکے اندر آگ بھڑک گئی جبکہ مجرم بن کر انکے روبرو کھڑی کنزا، جسکے چہرے پر اس اہانت اور سبکی سے تکلیف پھیل چکی تھی۔

جبکہ وسیع اس کمرے میں کھڑے اکا دکا ملازم تک آج چوہدری بزدار عالم کے عتاب سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔

"لیکن میں اسکی ماں ہوں، جنم دیا ہے میں نے اسے، آپ کیسے ایک ماں کو اسکی بیٹی سے الگ کر سکتے ہیں سائیں"

وہ عورت اس درجہ تضخیک کے باوجود تڑپ کر سسکی جبکہ اس پژمردہ وجود کو دیکھ کر بزدار عالم سلگ اٹھے تھے۔

"یہ ممتا اس وقت کہاں تھی جب تمہیں زلت کی زندگی سے انہی بچوں کا واسطہ دے کر بچانے کے لیے عزت کی چادر پہنانی چاہی تھی ہاشم نے، لیکن تم جسے کوٹھے کی لت لگ گئی تھی، کیسے ایک مرد پر صبر کرتی۔"

نفرت نے جیسے یکدم اذیت کا روپ دھارا تو کنزا بھی سسکنے لگی۔

"بخت کے گناہ تھے جو تم نے جھیلے تبھی ترس آتا تھا تم پر کنزا، مجھے بھی اور اسے بھی، لیکن تم نے سب ٹھکرا کر اس طلال نامی حرامی کو فوقیت دی، میں نے بخت کے بعد اپنا ہاشم بھی تمہارے پیچھے گنوا دیا، پوتا سرمد تمہارے ساتھ بھیجا کیونکہ وہ دودھ پیتا بچہ تھا اور تم نے اسکے اندر زہر بھر دیا۔ اب کیا زونی کو کھاو گی تم؟ تمہیں ماں ہونے کے ناطے مہینے میں ایک بار زونی سے ملنے کی اجازت دی لیکن تم تو بزدار عالم کے سر پر ناچنا چاہتی ہو ۔ اگر تم نے دوبارہ زونی کو مجھ سے مانگنے کی جرت کی تو قسم کھاتا ہوں اسکی شکل دیکھنے کے لیے بھی ترس جاو گی"

وہ ماضی کی تلخ اور کرب بھری یادوں کو کوڑے بنا کر کنزا کو مارتے ہوئے طیش میں آئے غضبناک ہو گئے جبکہ انکے اٹھ کھڑا ہونے پر کنزا بھی بھیگی آنکھیں لیے بے یقینی سے اس درجہ نفرت اگلتے بزدار عالم کو تاسف سے دیکھتے سہم سی گئی۔

"مجھ پر رحم کریں سائیں، مجھے اسکی ضرورت ہے۔ میرے پاس میرا کوئی اپنا نہیں بچا، سرمد تک نہیں، مجھے کچھ وقت کے لیے ہی سہی پر زونی دے دیں۔ کینسر نے میرے جسم کو دیمک بن کر چاٹنا شروع کر دیا ہے، میں موت سے پہلے اپنی بچی کچی زندگی زونی کے ساتھ جینا چاہتی ہوں سائیں، آپکو اپنے بچوں کا واسطہ"

بزدار عالم کا تلخ اور منتفر لہجہ دیکھ کر اس عورت کے ذہن میں فقط یہی طلال کی سوجھائی جھوٹی اور مکرو چال ہی آسکی کیونکہ وہ چوہدری بزدار عالم کے دل کی اس کمزوری سے اچھے سے واقف جو تھی۔

جبکہ چوہدری بزدار عالم اسکی ظاہری تکلیف اور مگر مچھ کے آنسو دیکھ کر اک پل ساکت و خاموش ہوئے، کنزا کے آنسو بے لگام ہو کر اسکے چہرے کو بھیگا رہے تھے جبکہ بزدار عالم اس عورت کا چہرہ کراہت کے سنگ تکتے ، نقاہت زدہ چال چلتے عین کنزا کے روبرو کھڑے ہوئے۔

کنزا نے حراساں ہوئے بزدار عالم کے بھینچے چہرے کو دیکھا۔

"ابھی دفع ہو جاو یہاں سے، میں سوچوں گا۔ اگر میرا دل مانا تو ہی تمہیں یہ آسانی ملے گی۔ ورنہ جس موزی کینسر جیسی خصلت تمہاری ہے کنزا، اسکے آگے تو دنیا بھر کی وبائیں حقیر ٹھہر جائیں۔ تم جیسی خودغرض عورت اتنی آسانی سے نہیں مرتی"

وہ جو اپنے آنسووں سے بزدار عالم کا دل نرم ہونے کا یقین کیے بیٹھی تھی، اس زہر میں بجھے جواب پر اسکے دل میں شعلے جل اٹھے۔

بزدار عالم کی اچٹتی نظروں میں مرکوز کنزا، دل ہی دل میں پیچ و تاب کھائے مجبور اور رندھا چہرہ موڑے پلٹ گئی جبکہ پلٹتے ہی اس عورت کی آنکھوں میں جلن پھیل گئی، بزدار عالم بھی اس سے منہ موڑ چکے تھے تبھی کنزا بھی کچھ دیر اپنا غصہ پیتی رہی اور پھر تیز تیز قدموں سے اس عالیشان کمرے سے باہر نکل گئی۔

"نامراد کہیں کی، مجھ سے میری سانسیں مانگنے آئی تھی۔۔۔۔"

اس عورت کے جاتے ہی بزدار عالم پلٹ کر سخت مشتعل ہوئے غرائے جبکہ کنزا کو دادا سائیں کے کمرے سے باہر نکلتا دیکھتی زونین جو فصیلہ اماں کے ساتھ کچھ کپڑے اٹھائے کمرے کے باہر سے گزر رہی تھی، یکدم قدم روک کر دم سادھے اپنی اور رحم طلب اور محبت سے بھری نظروں سے دیکھتی کنزا کو تکنے لگی۔

وہ تڑپتی ہوئی بھاگ کر اس سنگدل عورت تک پہنچ آئی جو زونی کو حسن کو رشک سے تکتی روہانسی ہوئے اس سے پہلے اپنا ہاتھ اس کی روئی سی گال تھامنے کو بڑھاتی، زونی نے تکلیف کے سنگ فورا سے بیشتر کنزا کا ہاتھ جکڑ لیا۔

"م۔۔مما!"

وہ کنزا کو دیکھ کر تڑپ اٹھی تھی، جس حال میں وہ تھی اسے لگ رہا تھا اب وہ صرف ماں کی آغوش میں ہی مخفوظ ہے۔

جبکہ کنزا سارا ڈرامہ اور ناٹک بھلائے، تڑپ کر زونی کی روتی بلکتی آنکھیں دیکھے اسکا کرب زدہ چہرہ ہاتھوں میں تھام گئی۔

"ہمیں اپنے ساتھ لے جائیں، ہمیں دور لے جائیں ی۔۔یہاں سے۔ ہ۔۔ہم مر جائیں گے۔ و۔۔وہ نانو ہم سے مشارب کو چ۔۔چھین لیں گی مما۔ ہم مشارب ک ۔کے بنا مر جائیں گے۔ مما ہم کو۔۔۔چھوڑ کر ن۔۔نی جانا مما"

وہ تڑپتی سسکتی گویا کنزا سے لپٹ چکی تھی اور خود فضیلہ اماں پریشان و ساکت تھیں جبکہ اپنے کمرے کے باہر سے زونی کی سسکیاں سن کر بزدار عالم بھی باہر آئے تو زونی کو بری طرح کنزا سے لپٹ کر روتا دیکھ کر اپنی جگہ پتھر بن گئے۔

"کیا چل رہا ہے پھر سے دونوں فسادی خاندانوں میں؟ کیا حال کر دیا ہے آپ نے میری معصوم بچی کا، اب میں دیکھتی ہوں اسے کون میرے ساتھ جانے سے روکتا ہے ۔ جاو اپنا سامان پیک کرو زونی، تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔۔۔جاو میرا بچہ"

گویا زونین کا تڑپنا دیکھ کر وہ بے حس عورت بھی تڑپی اور اسکے اندر کی ازلی بغاوت جاگی جس پر اس بار بزدار عالم بھی کچھ نہ کر سکے ۔

زونین کو انہوں نے اور دادا نے ڈھیر سمجھایا مگر وہ کسی طرح اس سب سے دور جانا چاہتی تھی، مشارب سے جدا ہونے کا خوف اسکی رگ رگ میں اتر چکا تھا اور ضرار بھی کسی اہم کام کے لیے حویلی سے نکلا تھا ورنہ اس کنزا کی جرت نہ ہوتی وہ زونین کو اس حویلی سے لے جاتی۔

کنزا جن زادی کی طرح دھاڑتی، نڈھال سے بزدار عالم کے کسی حکم کی پرواہ کیے بنا اسے اپنے ساتھ لے گئی اور چوہدری بزدار عالم اپنا کٹا دل تھامتے رہ گئے، جبکہ خود اماں فضیلہ بھی بہت پریشان تھیں، انہوں نے کنزا کے آنے کی اور زونی کو لے جانے کی خبر جبل زاد کو دی تاکہ وہ ضرار کو بتائے اور جب یہ خبر ضرار تک پہنچی تو اس کا خون کھول گیا، اور اسکے غصے سے لگ رہا تھا آج وہ عورت ضرار کے ہاتھوں سے اپنے اس ایک اور گناہ پر ضرور ماری جانے والی ہے۔

جھوٹے نکاح کے اس روح نوچتے عذاب کو سہنے کے بعد وریشہ اسے واپس کمرے میں لائی جس سے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا، وہ اسکے سر سے سلور کام داری دوپٹہ نکال کر پرے پھینکتی خود اسکے پاس ہی اسکے دونوں ہاتھ جکڑے بیٹھی۔

نیلے اور گلابی سادہ سے جوڑے میں خود وریشہ یوسف زئی بھی ہزار ہا حسن کے باوجود بوجھل لگ رہی تھی، اسکا چندن رنگ پھر تیکھے نقوش اور بڑی بڑی آنکھیں اسکے منفرد حسن کے اولین لوازمات تھے، وہ سادہ بھی جان لیوا ہوتے سجتی پھر جب وری کی آنکھیں سوگوار ہوں تو اسکا حسن مزید دہک اٹھتا۔

جبکہ اشنال عزیز تو اس پورے خاندان کی سب سے پیاری لڑکی تھی مگر قسمت نے اسکے پیارے ہونے کا زرا لحاظ نہ کیا۔

وریشہ کا دل بہت اذیت میں تھا اور جب اس نے اشنال کو بمشکل سانس گھسیٹے ہوئے، نہ رونے کے عہد پر بمشکل ڈٹے دیکھا تو اسے واقعی ایسا لگا کہ اگر شہیر نے اسے چھو بھی لیا تو اس لڑکی کی یہ اٹکتی سانس بند ہو جائے گی۔

لیکن وہ خود کیا کرے گی ؟ شہیر جیسے کے اختیار میں آکر وہ اپنی موت کو جو دعوت دے رہی تھی اس سے اسکا دل خوف کھا رہا تھا پھر ولی زمان خان کے دل پر ایسا گہرا وار اسے جیتے جی مارنے لگتا۔

"ٹھیک ہو ناں اشنال؟"

وریشہ اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں دباتی ہوئی بمشکل بولی جس پر اشنال نے نفی میں گردن ہلائی۔

"د۔۔دم گھٹ رہا ہے وری"

وہ اس جسم کاٹتے جوڑے سے بری طرح اذیت میں لپٹی سسکی تو خود وریشہ اٹھی اور اشنال کی کبرڈ کی جانب بڑھی۔

کھولی تو سامنے اشنال عزیز کے حسین وجود پر سجتے بے شمار لباس لہرا رہے تھے مگر وری نے سنپل سا بلیک اینڈ ییلو سادہ سا جوڑا باہر نکالا اور لیے اشنال کی جانب آئی۔

"اٹھو! فریش ہو کر کپڑے بدل لو۔ تب تک میں تمہارے لیے کھانا لاتی ہوں۔ آجاو میری جان ہمت کرو"

وریشہ اسکا ہاتھ جکڑ کر اس نڈھال سی اشنال کو سہارا دے کر اٹھاتی ساتھ اسے کپڑے تھمائے فریش ہونے کے لیے بھیجتی خود بھی کمرے سے نکلی۔

اشنال نے کپڑے لیے اور واش روم میں گھس گئی۔

وہیں کپڑے سنک پر رکھتی وہ خود آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی شاور تک آئی اور اسے کھول کر وہیں گیلے فرش پر جا بیٹھی۔

چند لمحوں میں اسکا پورا جلتا وجود، ٹھنڈی شاور کی بوندوں سے بھیگ گیا۔

مگر اس لڑکی کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں، نہ رونے کے سارے عہد اس نے ہچکیوں سے آہیں بھر بھر کر توڑے تھے۔

وہ اتنا شدید روئی کہ منظر سوگوار ہوئے، کیا بتاتی کے رونا تو بس لوگوں کے سامنے روکا تھا، اکیلے میں تو اسے میثم ضرار چوہدری سے بچھرنے کے ماتم کرنے تھے۔

وہ واقعی ذہنی طور پر بیمار ہو گئی تھی اور اسے اس وقت یہ یقین تھا کہ اسکو قدرت نے میثم سے چھین کر شہیر کا کر دیا۔

وہ اپنے آپ سے نفرت جتاتی چینخ رہی تھی، اسکا بس نہ چلا وہ خود کو کہیں جا کر دفن کر دیتی۔

یہ ٹھنڈی پھواریں اسکے جلتے وجود کو اور آگ لگا رہی تھی، اسکے دل کو اذیت دیتا یہ سکون اسے کاٹ رہا تھا۔

اسے تو میثم کی محبت کی عادت تھی، اس شخص کی شدتوں میں بھیگنے کا پتا تھا، اس شخص کی خفاظت کے حصار میں سکون کا علم تھا اور آج وہ گریہ و زاری کرتی لڑکی خود کو انجانے میں ہی ان سب سکھوں سے دستبردار کیے بیٹھی تھی۔

اسکا دکھ بہت بڑا تھا، اس کا مان، اعتبار اور اعتماد ٹوٹا تھا جس نے اشنال عزیز کو پاگل کر دیا۔

جبکہ دوسری جانب عزیز خان سے خدیجہ کی سسکیاں برداشت نہ تھیں تبھی وہ اپنی راز دار بیوی کو بھی سچ بتا چکے تھے۔

"ہم آج اشنال کو لے کر شہر نکلیں گے، ضرار نے اسکے مینٹل چیک آپ کا انتظام کروا لیا ہے۔ بابا سائیں اور اماں سائیں کو میں یہ کہوں گا کہ اشنال کی طبعیت خراب ہے سو ہم اسے شہر لے جا کر ایک بار ڈاکٹر کو دیکھانا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے میں قائل کر لوں گا۔ ضرار ہمارے ساتھ ہی ہوگا، وہ اشنال کو سچائی بتانے کی ایک اور کوشش کرنا چاہتا ہے۔ اب خدا کے لیے خدیجہ میں آپکو روتا ہوا نہ دیکھوں"

اپنے پاس بیٹھی سوگوار سی خدیجہ خانم کو دی جاتی تسلی ہی وجہ تھی کہ وہ تڑپتی عورت کچھ پرسکون ہوئی اور پھر آنسو پونجھتی ہوئیں وہ عزئز خان کے سینے جا لگیں۔

"اسے جنم نہیں دیا مگر ایسا لگتا ہے وہ میری ہی کوکھ سے جنم لے کر پیدا ہوئی ہے سائیں، تبھی تو اسکی تکلیف میرے آنسو خشک نہیں ہونے دے رہی۔ میں اللہ کی تاعمر شکر گزار رہوں گی کہ اس نے میری اشنال پر یہ رحم کیا کہ اسے ضرار سے جدا نہ ہونے دیا۔ وہ اگر جھوٹ پر موت کے قریب آگئی ہے سائیں تو اگر خدانخواستہ یہ سچ ہوتا تو۔۔۔۔۔"

رندے چہرے اور بھیگی آواز میں قہر ناک سی تکلیف کے زہر اثر بولتیں خدیجہ آخری جملے پر خود تکلیف سے خاموش ہوئیں، آنسو پل پل انکے چہرے پر اترتے گئے اور عزیز خان نے بھی گرفت مضبوط کیے اس نڈھال عورت کو حوصلہ پہنچایا۔

"اچھا اچھا بولیں خدیجہ خانم، اب کچھ برا نہیں ہوگا۔ وہ اسے جلد یا بدیر اس صدمے سے نکال لے گا۔ بس آپ تیار رہیے گا رات ہمیں نکلنا ہے۔ میں بھی موقع دیکھتے ہی بابا سائیں سے اجازت لیتا ہوں کیونکہ اشنال کی ابتر حالت آج سب نے دیکھ لی ہے اور کوئی ہمارے جانے پر اعتراض نہیں کرے گا، ابھی وہ لوگ اپنے جشن میں مصروف ہیں میں بھی جاتا ہوں"

اپنی جانب سے خدیجہ کو مطمئین کرتے عزیز خان، انکے تمام آنسو پونجھے، جبین چومتے ہوئے اک تسلی آمیز نگاہ ڈالتے کمرے سے نکلے تو وہ ماں بھی یوں ہوئی جیسے اسکے بلکتے دل کو کچھ قرار ملا ہو۔

                          ..____________________..

"اس عورت کی ہمت کیسے ہوئی زونین کو لے کر جانے کی، کہاں تھے حویلی کے سب محافظ"

حویلی میں داخل ہوتے ہی وہ جیسے اس سب پر تلملاتا ہوا دھاڑا، چوہدری بزدار عالم دل تھامے ہوئے وہیں باہر لوئنگ ایریا میں بیٹھے تھے جبکہ فضیلہ اماں کی آنکھوں میں بھی ضرار کے غصے اور حقارت کے باعث پریشانی امڈی، اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ حویلی سے زونین کو لے جاتی اس عورت کا خون کر ڈالتا۔

"وہ ہرگز اسے نہ لے کر جاتی اگر زونی خود نہ راضی ہوتی، اس سب سے وہ بہت ڈر گئی تھی اور اسی کا کنزا نے فائدہ اٹھایا۔ اسے ڈر ہے کہیں گل خزیں اسے بھی مشارب سے الگ نہ کر دے"

چوہدری بزدار کی مضطرب حالت بھانپ کر خود فضیلہ اماں نے معاملے کی نزاکت بھانپے اطلاع دی جس پر میثم ضرار چوہدری نے لہو چھلکاتی آنکھیں کیے غائبانہ ہی اس مشارب کو زیر لب کئی صلواتیں سنائی۔

"ٹھیک ہے پھر وہی خوار ہو اب اس کے لیے، میرے اپنے سو مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ بیٹھتا نہیں اور دوسرا منہ اٹھائے کھڑا ہو جاتا۔ جبل زاد! فون ملا مشارب کو اور بتا اسے کہ کنزا لے گئی اسکی منکوحہ کو، اگر مرد کا بچہ ہے تو باپ دادے کے گہوارے سے نکلے اور جا کر واپس لائے اپنی عزت ان منحوسوں سے"

غصہ اور برداشت بھی ایک حد رکھتی تھی مگر آج میثم ضرار چوہدری بپھرا ریچھ بنا دھاڑا جبکہ اسکی اس تاکید پر جبل زاد فورا سے بیشتر فون لیے باہر نکلا اور ضرار نے اپنے ماتھے پر پڑے بلوں کو تب مدھم کیا جب دادا سائیں کی خود پر دردناک نظر گڑھی دیکھی۔

"کیوں مشارب کی جان خطرے میں جھونک رہے ہو ضرار، ایک طرف سے بچا ہے وہ تم اسے دوسرئ طرف پھنسا دو"

دادا کو اس خود غرض مشارب کے لیے مدافعتی انداز اپنائے دیکھ کر ضرار کے تن من میں آگ دہکی اور اسکی ناراضگی اور شکوے سے بھری سرد مہر نظریں ، عالم بزدار کو بتانے کے لیے کافی تھیں کہ وہ بعض اوقات واقعی اسکے سینے پر خنجر کھونپ دیتے ہیں۔

"بڑی فکر ہو رہی ہے اس ادھوری سانس والے کی آپکو، اس سارے فساد کی اصل جڑ وہی ہے۔ میرے سامنے اگر کوئی مشارب کی طرفداری کرے تو دل جل اٹھتا ہے۔ اسے صرف زونین کی وجہ سے برداشت کر رہا ہوں ، اسے کچھ ہوا تو وہ مر جائے گی ورنہ ایک گولی کی مار ہے وہ بے فیض کہیں کا"

جوابا ضرار کے پتھریلے تاثرات اور جل جلا کر جتائے اعتراضات پر دادا سائیں کی کن پٹیاں تنی، وہ ضرار کے جلتے لہجے سے دکھی سے ہوئے۔

"ہمم، مجھے میرے کمرے میں لے جاو۔ یہ لڑکا تو بس میرا خون اور دل ہی جلا سکتا ہے"

وہ پہلے ہی زونین کے اس عورت کے ساتھ چلے جانے پر کرب میں تھے اور رہی سہی کسر ضرار کے پرتپش لہجے نے پوری کی، وہ ملازم سے کہتے ہوئے بنا ضرار کی بھینچی صورت تکتے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو وہ بھی تاسف سے دادا سائیں کی اس ناراضگی پر سلگ اٹھا۔

وہیں دوسری جانب اپنے آپ کو اذیت سے نکالنے کو وہ سب کے بیچ سے پہلے ہی اٹھ آیا تھا، اسے لگا آسمان و زمین اس کی بے بسی پر قہقہے لگا رہے ہیں۔

ونی کے اس جھوٹے نکاح پر پورے علاقے میں سرداروں اور پنچائیت کی واہ واہ ہو رہی تھی، علاقے کا یہ شاندار انصاف گویا تمام لوگوں کی تسلی کا باعث بنا کہ اب انصاف کے لیے غریب اور امیر کا فرق نہیں بچا جبکہ خود دونوں سرداران بھی اپنے اس عمل کے بعد علاقے کی عوام کی نظروں میں مزید نیک اور اچھے بن چکے تھے۔

حویلی والوں کی بیٹی ونی ہونا، علاقے کے تمام لوگوں کے لیے عبرت کے ساتھ ساتھ خوشی اور راحت کا سبب تھا کیونکہ جیسے بے حس حکمران ہوں ویسی ہی نالائق عوام ہوتی ہے۔

وہ اشنال عزیز کا کبھی سامنا نہیں کر سکتا تھا، ولی اس کے سب میں سے اٹھ کر چلے آنے پر پیچھے بھی آیا مگر مشارب زمان خان نے خود کو اپنے کمرے میں قید کر لیا تھا۔

وہ چند دستکیں دیتا مایوس واپس لوٹ گیا تھا ویسے بھی اسکی اپنی تکلیف اتنی بڑی تھی کہ اس سب درد و الم میں وہ نہ تو مشارب زمان کو اس سب کے لیے قصوروار ٹھہرا سکتا تھا نہ اسکی اذیت میں کمی کر سکتا تھا۔

اپنا سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا وہ مشکل مشکل سانس کھینچنے میں لگا تھا، جو ظلم اسکے ہاتھوں سرزد ہوا اس نے آہستہ آہستہ مشارب زمان کی جان لینی شروع کر دی تھی۔

اسکے سیاہ، تاریک اور خبس سے بھرے کمرے میں یکدم تیز سی کال ٹون گونجی جس پر وہ اپنا تنکا تنکا بکھرتا وجود دقتوں سے سنبھالتا ہوا پاس ہی پڑے فون کی جانب دیکھنے لگا جس پر آتی کال سے اسے اس وقت وہشت سی ہوئی۔

جبل زاد نے اسے ضرار کے نمبر سے کال کی تھی اور تبھی اسکے وجود میں اسکا نام دیکھ کر ہی اذیت دوڑنے لگی۔

تین چار بار کال آئی اور بند ہوئی اور وہ سرخ ہوتی آنکھیں اور درد کرتی کن پٹی دباتا گہرے گہرے سانس بھرتا گیا مگر پھر چوتھی بار کال آنے پر مشارب نے اپنا سینہ ایک ہاتھ سے مسلتے ہوئے بڑی مشکل سے فون پک کیا۔

"مشارب خان! میں جبل زاد بول رہا ہوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے کنزا صاحبہ آئیں تھیں اور زونین کو اپنے ساتھ لے گئیں۔ وہ بہت ڈری ہوئی تھی اور اس نے سب کو چھوڑ کر اپنی ماں کے ساتھ جانے کو ترجیح دی۔ اب آپ سوچ لیں کے اپنی بیوی کو کیسے بچانا ہے، خدا خافظ"

ضرار کی تاکید کے مطابق جبل زاد اس پر قیامت ڈھاتا ساتھ ہی رابطہ توڑ چکا تھا اور مشارب زمان کا دل جو رہا سہا دھڑک رہا تھا، اسے لگا اس قیامت خیز خبر پر بند ہو گیا ہے۔

تو گویا فقیر کی ساری بددعائیں اسی کے لیے تھی، خوف کی سنگینی اسکی رگ رگ میں لہرائی اور وہ بنا اپنے اٹکتے سانس اور بند ہوتے دل کی پرواہ کیے بنا زونین کو اس عورت کے سائے سے بچانے نکل پڑا، اسے اجلت میں باہر کی سمت جاتا دیکھ کر باورچی خانے کا کام سمیٹواتیں فرخانہ بھی فکر مندی سے باہر نکل کر اس کے روبرو آئیں مگر وہ بھینچے چہرے اور سرخ آنکھوں والا ، ماں کو راہ سے پرے کرتا دیکھتے ہی دیکھتے راہداری پار کر گیا، کچھ دیر میں اسکی گاڑی بہت تیزی سے حویلی سے باہر نکلی تھی۔

دوسری طرف جبل زاد جب یہ اطلاع دے کر واپس باہر پھیلے وسیع و عریض لان میں آیا تو آگے ضرار کو کسی سے فون پر بات کرتے دیکھ کر کچھ فاصلے پر جا کر رک گیا۔

"مطلب وہ اسے کوٹھے پر نہیں لے کر گئی، اگر لے کر جاتی ناں تو زندہ نہ بچتی۔۔"

ضرار کسی سے فون پر مخاطب تھا، اسکے لہجے میں کنزا کے لیے نفرت چھلکی جبکہ دوسری جانب اسی کا ایک آدمی تھا جو کوٹھے کے اردگرد ہی موجود تھا، کنزا وہاں کچھ دیر پہلے ہی لوٹی تھی مگر اکیلی اور تبھی اس نے ضرار کو یہ خبر پہنچانا مناسب سمجھا۔

"ٹھیک ہے تم اپنی نظر رکھنا اردگرد، میں دیکھتا ہوں ۔ یہ کونسا نیا ٹھکانہ ملا ہے اس کو جہاں یہ زونی کو اس بے خوفی سے چھوڑ آئی ہے، پتا کرنا پڑے گا"

پریشانی اب قدرے کم تو ہو گئی تھی مگر اب ضرار چوہدری کی چھٹی حس اسے کسی اور نئے پراسرار معاملے کی خبر سنا رہی تھی، فون بند کیے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا مڑا تو نظر جبل زاد پر پڑی۔

"سائیں! بتا دیا ہے مشارب خان کو"

جبل زاد نے مودب ہوئے اطلاع دی تو ضرار کی آنکھوں میں اس شخص کے لیے جی بھر کر حقارت امڈی۔

"اچھا ہے، اب تڑپے وہ بھی۔ اسے بھی پتا چلے کہ محبت کے معاملے میں ہوتی آزمائش کس قدر جان لیوا ہوتی ہے۔ یہ زونی جہاں پر بھی ہے مخفوظ ہے مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کنزا کو اتنے سالوں بعد ایسا کونسا شریف در مل گیا جہاں وہ اپنی بیٹی کو بنا کسی خوف چھوڑ آئی ہے۔ جبل زاد! معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے اس بار"

ضرار کو رہ رہ کر تشویش ہو رہی تھی، وہ اس سارے معاملے سے خاصا الجھا تھا اور خود جبل زاد بھی اب اپنے سائیں کی درست فکر پر کسی گہری سوچ میں اترا۔

"سائیں مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے، کوئی تو جھول ضرور ہے۔ پھر وہ چھپا ہوا شخص بھی دماغ گما رہا جسکا آپ نے ذکر کیا۔ ایسا کون ہو سکتا ہے جو آپکی اور عزیز خان کی مدد ایک ساتھ کر رہا ہے۔ کافی کچھ ہم سے چھپا ہوا ہے"

اپنے دماغ میں اٹھتے سوالوں پر جبل زاد بھی کچھ الجھا تھا اور اب کے ضرار کے شاطر دماغ نے اسے اس معاملے کو کریدنے کی ترغیب کی تھی۔

"جبل زاد! سب سامنے آجائے گا۔ فی الحال تم میری بات غور سے سنو۔ میری آج رات میں روانگی ہے اور کل یا پرسوں تک واپسی ہوگی اور اس بیچ تم پیچھے اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھنا۔ اشنال کا دماغی معائنہ ضروری ہے اور جیسی اسکی حالت تھی مجھے لگتا ہے جسمانی معائنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ میں نے کل کی آپائنٹمنٹ لے لی ہے اسکی اب بس یہ عزیز اسے حویلی سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے پھر ہی مجھے کچھ سکون ملے گا"

اپنے لہجے کو ہر ممکنہ بہتر رکھتا ہوا بھی وہ کرب امڈتا ہوا دبا نہ سکا جو اسکی آنکھوں میں اشنال کی حالت سوچ کر امڈا تھا اور جبل زاد اسکا رازدان تھا اور اسکے رازوں کو سینے میں دفن رکھتا تھا مگر ضرار کو اکیلے جانے پر وہ کچھ بے قرار ہوا۔

"سائیں! مجھے اپنے ساتھ لے جائیں ۔ مجھے آپکی بہت فکر رہتی ہے"

اس وفادار کی فکر و پریشانی پر ضرار نے تھکی سی مسکراہٹ کے سنگ اسکا کندھا تھپکایا مگر جبل زاد کو ہرگز قرار نہ تھا۔

"تجھے بھی ساتھ لے گیا تو دادا سائیں تو شرطیہ شک ہوگا کہ ضرور پوتا پھر خرافاتی منصوبہ بندیوں میں لگا ہے، پہلے ہی میرا زخمی ہاتھ دیکھ کر مجھے موٹی موٹی آنکھوں سے گھور رہے تھے جو بمشکل کور کیا، بیمار ہو کر کچھ زیادہ روٹھی جاسوس محبوبہ بن جاتے ہیں تبھی کہا ہے کہ یہیں رک کر انکو حوصلہ فراہم کرو ، ہم دونوں کو بیک وقت غائب دیکھ کر انہوں نے ویسے ہی اپنا بی پی شوٹ کر لینا"

دانستہ ہلکے پھلکے انداز میں وہ جبل زاد کی اتری پریشان صورت دیکھتا جو بولا اس پر وہ بھی مسکرا دیا اور رات کی تیاری اسے ابھی سے کرنی تھی لہذا جبل زاد کی پیٹھ تھپکاتا وہ اپنا اجڑا خلیہ درست کرنے واپس حویلی کے اندر بڑھا۔

اک نظر جا کر روٹھی محبوبہ پر ڈالنے وہ دادا سائیں کے کمرے میں آیا تو جناب نے منہ پھیر کر نظر انداز کیا جس پر ناچاہتے ہوئے وہ آفت خیز ہنستا ہوا کچن کی اور آیا جہاں فضیلہ اماں رات کے کھانے کی تیاری کروا رہی تھیں۔

کئی دن سے اس سے ڈھنگ سے کچھ کھایا پیا ہی نہ تھا اور اس وقت ضرار کو بھوک سی محسوس ہوئی۔

ضرار کو باورچی خانے میں آتا دیکھ کر فضیلہ اماں قربان سی نگاہ ڈالے مڑیں اور اپنے اس دوسرے بچے کی اور چلی آئیں جو حالات کی سنگینی کے باعث بہت زیادہ پس رہا تھا۔

"جی میرا بچہ، کچھ چاہیے تھا؟"

فضیلہ اماں کی محبت اور شفقت پر وہ بھی محبت سے مسکرایا اور جیسے دماغ پر زور ڈالا کہ وہ کیا کھانا چاہتا ہے۔

"کچھ ایسا بنا دیں جس سے بھوک باقی بھی رہے اور توانائی بھی پوری ہو جائے، اب میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر دیکھتا ہوں آپ نے میری پہیلی بوجھی یا نہیں"

وہ آج بھی بچپن کی طرح ویسے ہی پراسرار انداز سے اپنی پسند بتاتا ہلکی پھلکی سی شرارت پر اترا تو وہ ماں ، بچے کی کھوئی مسکراہٹ لوٹ آنے پر پرسکون ہوئی کیونکہ جب ضرار مسکراتا تھا تو سمجھنا چاہیے ستے پاسے خیر تبھی تو فضیلہ اماں کی سست دھڑکنیں بھی رواں ہوئیں۔

"اماں قربان جائیں تمہاری اس مسکراہٹ پر ضرار، میں ضرور بوجھوں گی۔ جاو تم نہا کر تازہ دم ہو جاو"

اسکا چہرہ تھامے، صبیح پیشانی کو ممتا بھری الفت سے چومتیں وہ محبتوں کی حدیں نچھاور کرتیں بولیں تو وہ بھی انھیں ہمیشہ کی طرح گھوٹ دیتی گرفت میں لیتا، انکی پرخلوص دعاوں سے اپنا خالی دامن بھرتا کچن سے باہر نکلا۔

پورے وجود پر جو تھکن اور بیزاری تھی وہ رات صنم سے ملاقات کی خوشی نے مدھم کی تھی مگر وہ کہیں اندر سے خوفزدہ بھی تھا۔

اگر اشنال کی ذہنی حالت کل جیسی ہوئی تو وہ کیا کرے گا؟ کمرے تک پہنچتے ہوئے وہ انہی کرب زدہ سوچوں میں ڈوبا تھا۔

پھر جیسے آئینے کے سامنے آکر اپنا سر تا پیر جائزہ لیا، وہ انتہائی خوب رو کشش کا مالک تھا، اسکی گہری سیاہ آنکھیں ہمہ وقت اک شدت سے بھری رہتیں، اس میں بظاہر کوئی کمی نہ تھی مگر دل کی جگہ آگ بھڑک رہی تھی، صنم کو دسترس سے وقتی دور دیکھنا اس کے لیے جان لیوا تھا۔

وہ پھر سے اشنال کی اس حالت کو سوچ رہا تھا، پھر اپنا ہاتھ اٹھا کر اس پر لگے زخم کو دیکھنے لگا، کیا وہ اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ اسے ضرار کے کسی زخم نے کوئی اثر نہ کیا۔

ایک بار تو اس کا مضبوط دل سینے میں پھڑپھڑا گیا تھا، وہ آنے والے وقت کی ستم ظریفی سے خوفزدہ تھا۔

لیکن اس نے سوچ لیا تھا وہ آج کی پوری رات لگا دے گا مگر اشنال کو تمام اذیت سے باہر نکالے گا، اسے بتائے گا کہ وہ اب بھی اسکی ہے۔

یہی اچھے خیالات سوچتا وہ تازہ دم ہونے کا ارادہ کیے کبرڈ کی جانب بڑھا، آج کچھ ہٹ کر پہننے کا دل تھا تبھی بلیک پینٹ اور بلیک ہی ٹی شرٹ نکالے پلٹا، ساتھ ڈارک براون جیکٹ۔

اور پھر کچھ سوچتا ہوا نہانے بڑھ گیا۔

                            ..____________________..

"یہاں تم ان سب سنگدلوں سے مخفوظ ہو زونی، یہ جسکا گھر ہے وہ بہت نیک انسان ہے۔ نہ تو ڈرنا ہے نہ خوفزدہ ہونا ہے۔ میں جلد تم سے ملنے آوں گی تب تک تم یہاں آرام سے رہو، یہ مالنی تمہارے ساتھ رہے گی اور تمہارا خیال رکھے گی"

وہ کب سے حراساں نظروں سے اس شاندار کمرے کو دیکھ رہی تھی جہاں کنزا اسے چھوڑ گئی تھی، ماں کی پلو سے باندھی ہدایت اسکے کانوں میں گونج رہی تھی، پھر اپنے پاس کھڑی وہ نازک سی کم عمر سی مالنی نامی خادمہ جسکا ساتھ زونین کو اس نئی اجنبی جگہ کچھ راحت دے رہا تھا پھر مالنی تھی بھی اتنی ہنس مکھ اور پیاری کے وہ کبھی زونین سے موسم کی باتیں کرتی، کبھی اسکی پسند پوچھتی کبھی اسکی پیاری سی نیلی آنکھوں کی تعریف کرنے لگتی۔

جبکہ زونین نے اس گھر میں آتے ہوئے جابجا نیلی آنکھ والے آدھے چہرے کی پینٹنگز بھی دیکھی تھیں وہ اس لیے بھی حیران سی تھی۔

اس گھر میں عجیب سے تحفظ کا احساس زونی کو بہت شدت سے ہو رہا تھا، گھر میں صرف تین ملازمائیں تھیں اور فی الحال کوئی مرد ملازم اس نے گھر کے اندر نہیں دیکھا تھا البتہ باہر بڑے سے پورچ کی جانب اور کھلے باغیچے میں جابجا محافظ ضرور کھڑے دیکھے تھے۔

"آپ کو پتا ہے مالنی کہ مما ہمیں کس کے پاس لائی ہیں؟"

زونی بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف آئی اور پردہ ہٹا کر تا حد نگاہ پھیلے اس بنگلے پر چھائی نارنجی شام دیکھتے بے تاب ہوئی جس پر مالنی بھی لپک کر بی بی سرکار کے قریب چلی آئی۔

"یہ تو نہیں پتا کہ وہ کون ہیں مگر بڑے سے قد والا کوئی پراسرار بندہ ہے، اس نے چہرہ ڈھک رکھا تھا۔ وہ کنزا مما سے کہہ رہا تھا کہ اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت کروں گا میں ان دو کی، پہلی بار کسی مرد کی جانب سے خوف محسوس نہیں ہوا ورنہ ہم نے اپنے اردگرد ہر مرد کی آنکھ سے ٹپکتی صرف ہوس دیکھی ہے"

مالنی جو خوبصورت اور کم عمر سی لڑکی تھی، پہلے تو بڑے رشک سے اس انسان کا خلیہ یاد کرتے بتانے لگی پھر جیسے اسکے لہجے میں تکلیف امڈی تو زونین پلٹ کر اسے خوفزدہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

"ک۔۔کیا آپ بھی اس گندی جگہ رہی ہیں مالنی؟ "

زونین کا یہ سوال مالنی کی آنکھوں میں عجیب سا درد جگا گیا۔

"رہی ہوں پر کنزا مما نے مجھے دھندے پر بیٹھنے نہیں دیا بلکہ پڑھایا، وہ مجھے سرمد سائیں کے لیے پسند کرتی ہیں پر وہ تو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ پورے کوٹھے کی کسی لڑکی کو نہیں چھوڑتے اور مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ مما کی بہت خواہش تھی کہ سرمد چوہدری اس غلاظت سے نکلیں اور مجھے بھی نکال لے جائیں مگر ہمارا مقدر یہی گندگی ہے بی بی سرکار۔ اب جب انہوں نے مجھے آپکی خادمہ بنایا ہے تو لگتا ہے میں اس گندی دوزخ سے نکل کر جنت میں آ گئی ہوں"

مالنی نے جس ضبط سے اپنی درد بھری کہانی سنا کر سمیٹی اس پر زونین کی آنکھیں آنسووں سے بھر آئیں، یہ سوچ کر کہ یہ معصوم سی لڑکی اسکے بدکردار بھائی کو دل دیے بیٹھی ہے، وہ اسے پکڑ کر تکلیف کے سنگ خود میں سمو گئی۔

وہ دونوں پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کے دکھوں سے آشنا ہو کر سہیلیاں سی بن گئیں۔

"سرمد لالہ کو ہماری کوئی دعا نہیں لگتی مالنی، وہ اس دلدل میں بہت اندر تک دھنس گئے ہیں۔ ہم دعا کریں گے کہ آپکا دل انکی طلب سے آزاد ہو کر آپکے وجود کی طرح پاک ہو جائے۔ وہ ہمارے بھائی ہو کر بھی ہمارے لیے بالکل پیارے نہیں کیونکہ انہوں نے نہ ہمارے لیے کچھ کیا نہ مما کے لیے۔ اگر ہماری زندگی سلامت رہی تو ہم آپکے لیے کوئی بہترین انسان ضرور تلاشیں گے"

وہ بہت پیار سے اپنی تکلیف دبائے، مالنی کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے جب یہ سب کہہ رہی تھی، دروازے کی اوٹ میں کھڑا وہی آدھے ڈھکے چہرے والا شخص اس کی بات سن کر خوبصورت سا مسکرایا، اسکے بھورے ہونٹوں پر پرسکون تبسم تھا۔

اسے زونین کی اچھی اور پاکیزہ سوچ جان کر عجیب سی راحت ملی تھی۔

پاس سے گزرتی ملازمہ کو ان دو لڑکیوں کی ہر ضرروت کا خیال رکھنے کی تاکید کرتا وہ وہیں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تو اندر وہ دو نئی نئی سہیلیاں بھی اک دوجے کو دیکھ کر مسکرائیں مگر زونین کا دل عجیب سی تکلیف کا شکار تھا۔

مشارب زمان خان پہلی بار ان بدنام گلیوں میں آ نکلا تھا، زونین کی تلاش نے اسے دربدر کرنا شروع کر دیا تھا۔

ان گلیوں میں بسے بدنام لوگ تعجیب سے اس معزز، شریف خان زادے اور اگلے متوقع سردار کو بھٹکتا دیکھ رہے تھے جو کنو بائی کے کوٹھے کا پتہ پوچھتا ہوا اذیت اور بے قراری کا شکار تھا، اپنے مرتبے کو بھاڑ میں جھونکتا ہوا اس لڑکی تک پہنچنے کے لیے جان سے گزر رہا تھا۔

بدنام گلیوں کے مرد اور عورتیں ، چہہ مگوئیوں میں مصروف تھے، دھندے پر لگی حسین عورتیں اس خوبرو مرد کے اس کوٹھے میں آنے پر ٹھنڈی آہیں بھر رہی تھیں کہ جسکی تلاش نے اس خان زادے کو طوائفوں کے محلے پہنچا دیا وہ خوش نصیب عورت وہ ہوں۔

مگر کوئی مشارب زمان سے پوچھتا کہ اسکی جان کیسے اسکے وجود سے سرک رہی تھی۔

کیسے اسکا درد اسکی رگوں سے خون نچوڑ رہا تھا اور پھر آخر کار اس بھٹکے خان زادے کو کنو کی رنگین حویلی کا پتا تھما دیا گیا۔

                            ..____________________..

خانم حویلی سے واپس اپنی حویلی آتے وقت وریشہ، انہی کربناک سوچوں میں ڈوبی تھی، دادا سائیں کچھ دیر پہلے ہی آئے تھے اور اب اپنے کمرے میں کچھ اہم زمینی کاغذات کا مطالعہ کر رہے تھے جب وہ گلاس وال کے پاس کھڑی اندر جھانکتی متذبذب تھی۔

جب ولی زمان کا دل توڑ ہی چکی تھی تو اسکا دل اشنال کے لیے مر مٹنے کے جذبات سے بھر گیا تھا، جانے یہ کیسی کشش تھی کہ اس سے اشنال کی حالت دیکھنا دشوار تھا، وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ جو کرنے جا رہی ہے وہ اسکی زندگی برباد کرے گا مگر اسکے پاس چوائز نہیں تھی۔

شمشیر یوسف زئی نے اپنی پوتی کو ہمیشہ کھلی آزادی سونپی تھی، اس آزادی میں کچھ انکی محبت شامل تھی اور کچھ لاپرواہی اس کے ساتھ ساتھ انھیں اتنے سال وریشہ یوسف زئی کی پرورش کرنے کا مان بھی تھا کہ وہ کبھی بھی اپنے دادا کا سر شرم سے جھکا نہیں سکتی۔

اور آج وہ جس تکلیف میں تھی اس نے وریشہ کے اندر باہر کہرام مچا رکھا تھا۔

ونی نکاح کے اس تماشے کو ختم کرنے کے بعد شمشیر یوسف زئی بھی قدرے پرسکون دیکھائی دے رہے تھے، انکی نظر اپنی لائبریری میں نسب شیشے کی دیوار سے پار کھڑی سوچوں کے سمندر میں ڈوبی وریشہ پر گئی تو وہ کچھ حیران ہوئے پھر اپنے میز پر رکھی پینسل بجائی تو وہ اپنی درد کرتی سوچوں سے نہ صرف باہر آئی بلکہ حلق تر کرتی ، مسکراتے ہوئے دادا جان کو دیکھتی اندر چلی گئی۔

وہ اسے تھکا ہوا اور نڈھال دیکھ کر خود بھی تھوڑے افسردہ تھے، جو کچھ پچھلے دنوں ہوا تھا اس میں وریشہ قدرے متاثر ہوئی تھی اور وہ وریشہ کی اتری صورت دیکھ کر یہی سوچ رہے تھے۔

"کیا بات ہے بچہ؟ تھک گئ ہو، باہر کیوں کھڑی تھی، کچھ کہنا ہے آپ نے؟"

دادا جان کا شفیق اور فکر بھرا انداز اسے ہمت دے چکا تھا تبھی وہ انکے پاس ہی آکر بیٹھی۔

"جو کچھ پچھلے دنوں ہوا وہ تھکا گیا دادا سائیں، پر کل چلی جاوں گی واپس تو ممکن ہے یہ ساری بیزارئیت بھی دور ہو جائے"

وہ قدرے بیزاری سے جو بولی اس پر شمشیر یوسف زئی نے اسکے چلے جانے کے ذکر پر زرا سنجیدگی اختیار کیے دیکھا تو وری بھی جیسے مکمل طور پر متوجہ ہوئی۔

"دراصل ہاوس جاب شروع ہو رہی ہے ، پر ہر ویک اینڈ آپکے ساتھ گزاروں گی پکا"

وہ یکدم ہی انکا ہاتھ تھامے مسکرا کر بولی تو بدلے میں دادا سائیں کے چہرے پر بھی پھیلی سنجیدگی بھی کم ہوئی۔

"چلو اچھی بات ہے، ڈاکٹری ایک پیارا پیشہ ہے۔ جلد آپ اس علاقے کے لوگوں کی مسیحا بنیں ،یہی خواہش ہے"

دادا کی جانب سے ملتی حوصلہ افزائی آج بھی اسے بہت ہمت دے گئی تبھی وہ کچھ ہمت مزید کرتی پہلی بار ان سے جھوٹ بولنے والی تھی۔

"ایک اور بھی بات کہنی ہے، مجھے امید ہے آپ میری بات تحمل سے سنیں گے"

وریشہ زرا رخ بدلے مکمل دادا جان کی جانب رخ کیے بیٹھی اور تمہید باندھنے پر دادا سائیں ضرور کچھ متفکر لگے۔

"ہاں کہیں بچہ"

وہ اسکی بے چینی کا سبب جاننے کو بے تاب تھے۔

"ولی زمان والے معاملے کی تو آپکو خبر ہے کہ آپ نے کہا تھا وہاں میری شادی ناممکن ہے تبھی میں نے اپنے ایک کولیگ کے بارے سنجیدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جو کافی ٹائم سے مجھ سے شادی کا خواہ ہاں تھا۔ ماں باپ نہیں ہیں اکیلا ہی ہے۔ دوسرا میرے ساتھ ہی ہوگا تو اسکی خواہش تھی کہ ہم جاب سٹارٹ ہونے سے پہلے نکاح کر لیں۔ مطلب رخصتی نہیں جسٹ رسم کے طور پر نکاح۔ ابھی کسی کو ہم بتائیں گے بھی نہیں، ساتھ کام کرنے سے ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع بھی ملے گا اور بیچ میں نکاح ہوگا تو آپکو بھی تسلی ہوگی اور میرا بھی کسی میل ڈاکٹر کے ساتھ کام کرنا آسان ہو جائے گا"

وہ یہ تمام جھوٹ بہت مشکل سے بول سکی تھی جبکہ شمیشر یوسف زئی پہلے تو اسکی تمام باتیں غور سے سن کر خفیف سے برہم لگے مگر پھر وریشہ کے چہرے کی بے چینی اور پریشانی دیکھ کر وہ اپنی خفگی ضبط کر گئے۔

جبکہ وریشہ کا دل دادا سائیں کی چپ سے کانپ سا اٹھا۔

"کون ہے لڑکا؟ کیسا ہے۔ خاندان کیسا ہے۔ اور آپ خوش رہ لیں گی اسکے ساتھ؟"

دادا سائیں کا توقع کے برعکس الگ استفسار جیسے وریشہ کا سکڑا ہوا دل بحال کر گیا ورنہ تو وہ بہت خوفزدہ ہو گئی تھی۔

"بہت اچھا ہے دادا سائیں، خاندان بھی معزز ہے۔ لڑکا شریف اور پڑھا لکھا ہے"

یہ بتاتے ہوئے وریشہ کو دل جل کر خاک ہوئے کرلایا اور یوں لگا اس منحوس کو شریف اور پڑھا لکھا کہہ کر وہ اپنی زبان جلا بیٹھی ہو مگر جس پر اعتمادی کا وری نے مظاہرہ کیا، دادا سائیں کیا کوئی بھی جال میں پھنس جاتا۔

وہ گویا ساری کشتیاں جلا کر نکلی تھی، اسے اپنی رتی برابر پرواہ نہ تھی۔

"ہمم، ٹھیک ہے اگر آپکو پسند ہے تو آپ یہ رسمی نکاح کر لیں"

کچھ دیر سوچنے کے بعد شمشیر یوسف زئی نے اجازت دی جس پر وریشہ نے سہم کر دادا سائیں کو پھر سے زمینی کاغذات میں مصروف ہوتے دیکھا۔

"آپ شریک ہوں گے دادا سائیں؟ نکاح ہم شہر جا کر ہی کریں گے"

یہ پوچھتے ہوئے وریشہ کا سانس رکا تھا جبکہ شمشیر یوسف زئی نے لحظہ بھر نظر اپنے کاروباری امور سے ہٹا کر وری کو دیکھا۔

"میرا بچہ مجھے تو یہاں موجود رہنا ہے، کچھ مزید جرگے ہیں پھر یہ زمینی معاملات۔ آپ دونوں کو میری دعائیں پہنچ جائیں گی۔ ہاں اسے بعد میں مجھ سے ایک بار ملوا دیجئے گا تاکہ تسلی ہو جائے۔ یقینا آپکا انتحاب بہترین ہی ہوگا مجھے بھروسہ ہے آپ پر"

دادا سائیں نے اسکی اور یقین بھری محبت سے اٹی نظریں ڈالے جو کہا اس پر وریشہ کو لگا وہ زمین میں گڑھ سی گئی ہے۔

وہ دادا سائیں کے یقین اور اعتماد کو بری طرح توڑنے والی ہے یہ سوچ کر ہی اسکی مضبوط آنکھوں میں پانی اکھٹا ہوا اور وہ جبرا مسکراتی، دادا جان سے ایک بار لپٹ کر انھیں انکے کام کے ساتھ مصروف سی چھوڑے جب باہر آئی تو تکلیف نے اسکے پورے وجود کو لرزا دیا۔

زندگی نے اسے کس مقام پر لا کھڑا کیا تھا؟

وہ کمرے تک پہنچی اور وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھے سسکتی چلی گئی، کبھی نہ سوچا تھا کہ ولی زمان خان کے علاوہ کسی مرد کا سوچے گی مگر اشنال عزیز کی اپنی جانب سے جان بچانے کے لیے اس لڑکی نے بنا سوچے سمجھے اپنا آپ داو پر لگا دیا تھا۔

اس سب معاملات کے چھپنے کے باعث بہت سی حقائق دبے ہی رہ گئے تھے، اور بہت ساری سچائیاں یقینا تب کھلنے والی تھیں جب وریشہ یوسف زئی مکمل طور پر شہیر مجتبی جیسے مکرو کی کی گھناونی چال میں پھنس جاتی۔

شہیر نے ایک جانب سے دھوکہ کھا لیا ہو مگر وہ وریشہ کے معاملے میں جیت گیا تھا، اپنے کمرے میں مزے سے لیٹا وہ اس نکاح کو بالکل فراموش کیے صرف وریشہ یوسف زئی کو جنون بھرے خمار کے سنگ سوچ رہا تھا، بہت مدت بعد اس سنگدل اور سفاک شخص کی آنکھیں ایسی چمک لیے ہوئے مسکرا رہی تھیں جو فنا کر سکنے کی اہلیت رکھتی تھی۔

اسے وریشہ کی بدعائیں تو لگنی ہی تھیں مگر اپنے وقت پر، کیونکہ مقدر کے بھیانک کھیل ابھی باقی تھے۔

جبکہ ولی زمان خان پر تو اسکی ہر آتی جاتی سانس تنگ ہو گئی تھی، وریشہ نے اسکے ساتھ اور اپنے ساتھ ایک سا ظلم ڈھا لیا تھا۔

                             ..____________________..

"ہمم، اب یہ نئے چونچلے شروع ہو گئے۔ ایسی کونسی بیماری لگ گئی بھئی جسکا علاج شہر جا کر ہی ہو سکے گا؟"

سردار خاقان کی بارعب جلتی ہوئی آواز حویکی کے در و دیوار میں گونجی تھی جبکہ انکی خشونت بھری نگاہیں ، سامنے تکلیف دبا کر کھڑے عزیز خان پر جمی تھیں۔

گل خزیں خانم کچھ دیر پہلے ہی دل و جان کے عجیب سے درد کے باعث قدوسیہ اور فردوسیہ کے ساتھ اپنے کمرے میں گئی تھیں جبکہ فرخانہ، بابا سائیں اور زمان خان کو شام کی چائے سرو کروائے خود بھی کچھ پریشان تھیں کیونکہ مشارب جب سے گیا تھا انکی فکر اسی طرف تھی۔

"سب جانتے بوجھتے ہوئے یہ سوال نہ کریں بابا سائیں، خضوراں نے سب بتا دیا ہے مجھے کہ آپ اور اماں سائیں نے میری بچی پر کونسا قہر توڑا ہے۔ وہ ضرار سے الگ کر دی گئی ، اس سے اسکا اعتماد آپ نے مل کر نوچ لیا، اسے بے آبرو کیا۔ پھر بھی آپ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایسی کونسی بیماری لگی ہے"

جب وہ خدیجہ کو تسلی دینے کے بعد گلالئی کی طبعیت پوچھنے اسکے کمرے میں گئے تو اپنی تکلیف خضوراں سے دبائی نہ گئی اور اس نے روتے ہوئے یہ ایک اور اذیت بھرا سچ عزیز خان کو بتا کر اس باپ پر مزید قیامت اتار دی اور اب عزیز خان کو سمجھ آئی کہ اشنال کی ذہنی ابتری کی اصل وجہ اسکے ساتھ کی گئی یہ حرکت ہے جسے وہ برداشت نہیں کر پائی۔

اور وہ یہ بات ضرار تک کو نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ اگر یہ سچ اس کو پتا چلتا تو وہ سارے وعدے بھاڑ میں جھونک کر ان دو فرعونوں کو زندہ زمین میں گاڑنے پہنچ آتا جنہوں نے میثم کی اشنال کے ساتھ یہ بیہودہ بدسلوکی کروائی تھی۔

جب عزیز خان نے تڑپتے ہوئے اپنے سنگدل باپ کو یہ آئینہ دیکھایا تو ایک لمحے سردار خاقان نے بھی اپنی نظریں شرمندگی سے چرائیں۔

"دیکھ ناہنجار! وہ ضروری تھا۔ اس خضوراں کے تو پیٹ میں کچھ ٹکتا نہیں۔ بد بخت عورت"

اپنی غلطی اور اپنے گناہ پر شرم کھانے کے بجائے وہ الٹا خضوراں پر حقارت سے بگھڑے جبکہ عزیز خان کی آنکھوں میں سرخائی گھل آئی۔

"اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکے اور اماں سائیں کے اس ظلم کو میں سب سے سامنے بے آبرو نہ کروں تو خدا کا واسطہ ہے ہمیں اجازت دیں کہ اسے شہر لے جا کر دیکھا آئیں۔ اسے کچھ ہوا تو کسی کو نہیں بخشوں گا"

آج پہلی بار عزیز خان کے لب و لہجے میں بغاوت تھی جو آج پہلی بار ہی انکی بیٹی کی ڈھال بھی بنی، سردار خاقان اب اتنے بیوقوف نہ تھے کہ یہ رسوائی سر لیتے تبھی اجازت دینے میں ہی عافیت سمجھی کیونکہ یہ اجازت ان فرعونوں نے اپنا گناہ چھپانے کو دی تھی اور عزیز خان کو اس وقت دنیا بھر میں صرف اپنی بچی کا سکون پیارا تھا، وہ اپنے فرعون صفت باپ کے ساتھ بھائی بھابھی پر بھی ویسے قہر ناک نگاہ ڈالتے، اجازت لیے وہاں سے چلے گئے کیونکہ اشنال کی طبعیت کو کے کر ایک منٹ کی بھی دیری انھیں برداشت نہ تھی۔

وہاں سے اشنال کے کمرے کی جانب جاتے ہی انہوں نے ضرار کو اجازت ملنے کی خبر پہنچا دی جو اسی وقت کھانے کی میز پر آیا تھا، آج زرا اسکی لک ولائتی تھی اور یوں وہ مزید جان لیوا ہوئے جچتا۔

صنم سے ملاقات کا یقین ملتے ہی جیسے دل کو کچھ ڈھارس ملی پھر کھانے کی میز پر اسکا پسندیدہ بکرے کا نمکین کالی مرچ والا گوشت بھی فضیلہ اماں نے سہی بوجھ کر تیار کر لیا تھا جس پر وہ ہمیشہ کی طرح انکے جھڑیوں سے بھرے ہاتھ عقیدت سے چومتا ہوا مسکراتے ہی کرسی سنبھالے بیٹھا اور وہ کھانا پوری رغبت سے کھایا جبکہ کھانے کے بعد خود میں ہمت و حوصلہ واپس استوار کیے وہ اپنے سب سے وفادار جبل زاد پر اپنی تمام ذمہ داریاں ڈالتا ہوا خود دشمن کی حویلی کی جانب روانہ ہوگیا۔

                             ..____________________..

کہاں سے لائی ہے یہ پیسہ؟ کس کڑور پتی کے ساتھ دن رات گزار کے آئی ہے کنو!"

اپنے چار اکاونٹس میں بیس کڑور کی مکمل رقم ملتے ہی وہ شام ہی اسکی حویلی پہنچا تھا، حیرت سے آنکھیں پھٹی تھیں اور یقین نہ آرہا تھا کہ وہ فقیر عورت اسے اسکا سارا قرض تھما چکی ہے، وہ تو اس سے زونی کی امید لیے بیٹھا تھا مگر کنو بائی نے تو اسکے حواس ہی اتنی بڑی رقم تھما کر گل کر دیے تھے۔

وہ اسکے پاس ہی زمین پر بیٹھا، کنزا کے روئی کے گالوں جیسے پیر بار بار چومتا ہوا طنز اور کدورت سے پوچھ رہا تھا اور کنزا کا بس نہ چلا وہ طلال نامی اس آدمی کے یہی ہونٹ جلا ڈالے۔

"تجھے اپنے قرض سے مطلب ہونا چاہیے سیٹھ طلال، اب تیری قرض دار نہیں رہی ہوں لہذا مجھے یا میرے بچوں کو اپنی ملکیت سمجھنے کی غلطی مت کرنا۔ اور اب اس کوٹھے پر میرا راج ہے، نہ تو اب تیری غلام رہی ہوں نہ مجھ پر یہ فرض رہا کہ تیرے جیسے مردار کی ہوس پوری کرتی پھروں"

قرض لوٹاتے ہی پرانی کنو بائی جاگ گئی تھی جس میں تنتنا اور غرور تھا جبکہ نیچے قالین پر بیٹھا طلال پہلے تو بڑا متاثر ہوا پھر نجس سا قہقہہ لگاتا ناصرف ہنسا بلکہ اٹھ کر تحت پر کنزا کے پاس ہی بیٹھا اور آنکھوں میں خمار اور نشہ سا بھرے باقاعدہ کنزا کے چہرے کی طرف جھک آیا جس نے حقارت بھری نظروں سے اسکی ٹپکتی رال دیکھتے ہی پرے دھکیلنا چاہا مگر وہ اس سے ہر طرح مضبوط اور توانا تھا، کنزا کی ننھی منھی مزاحمت ہر ممکنہ اپنے چٹانی جسم کے اندر ہی دباتا وہ اسکے غصے سے سرخ ہوتے رخساروں پر بہکتے ہوئے ہونٹ مس کرتا کرتا اسکی خونخوار آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑ گیا۔

"کسی بھول میں مت رہنا ڈارلنگ، اب جب تیری بیٹی نہیں آئی تو میری ہوس تجھے ہی سہنی ہوگی۔ رہی بات قرض کی تو دل بھی تو لوٹا تھا تُو نے سیٹھ طلال کا، وہ قرض تو باقی ہے جان۔ اس کوٹھے کی رانی ہے تُو کنو، ناراض نہ ہوا کر۔۔۔ اس پیسے سے لاکھ حسین لے آوں گا پر جو نشہ تیری قربت کا ہے اس کے آگے تو بیس کڑور بھی بے کار ہیں۔۔۔۔۔۔"

وہ جس طرح اسکے وجود کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیے ، کنزا کی روح چھلنی کرتا اسکے خدوخال پر اپنے غلیظ ہونٹوں سے شدت بھرے مظاہرے کرتا بولا، وہ اب مزید اس شخص کی کوئی من مانی نہیں سہہ سکتی تھی تبھی پوری قوت لگائے اسے خود سے پرے دھکا دیتی خود بھی تحت سے اتر کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

کنزا کی آنکھوں میں لپکتی آگ کے شعلے تھے۔

"حرام زادے چھوڑ دے مجھے اور اپنی اوقات میں واپس آجا سمجھے۔ اگر اب تُو نے مجھے ہاتھ بھی لگایا تو تیرے اس گندے جسم کو آگ لگا دے گی کنو بائی۔ دفع ہو جا، اب تیرے سارے ناپاک ارادوں کو مٹی میں ملاوں گی۔ دفع ہوتا ہے یا ساری کوٹھے کی لڑکیوں سے پٹواوں تجھے۔ نکل حرام خور، بدذات، نکل کتے کہیں کے۔۔۔۔"

وہ کسی جن زادی کی طرح اپنی جوتی اتار کر بنا سیٹھ طلال کے کسی بھی انتقامی وار کی پرواہ کیے بنا اس پر دھاڑے اسے کمرے سے تو کیا حویلی کے آخری دروازے تک سے باہر نکال کر دروازہ بند کیے پلٹی تو کنو بائی کے غضب سے کوٹھے کی تمام لڑکیاں سہمئ ہوئیں دیکھائی دیں۔

"آج مما کسی کا قتل کر ڈالیں گی"

مجمعے میں کھڑی ایک نہایت حسین سی لڑکی ڈری سہمی سی دوسری لڑکی کے کان میں گھس کر بولی جس پر وہ بھی حراساں ہوئی البتہ کنو کی توجہ اب ان ساری لڑکیوں کی طرف تھی جو خوفزدہ نظروں سے کنو بائی کی آنکھوں کا عتاب دیکھ رہی تھیں۔

"آج کے بعد تم سب میں سے کوئی بھی اس حرام زادے کا بستر نہیں سجائے گی اور یہ بات اپنی عقلوں میں بٹھا لو، دھندے سے زیادہ رقص و موسیقی پر دھیان لگاو۔ ان کمینوں کی ہوس تو نہیں ختم ہونی لیکن ہم سب کیوں اپنے اصلی ہنر کو دیمک لگائیں۔ سمجھ گئیں ہیں سب؟"

سخت غصے میں لپٹ کر وہ ان ساری لڑکیوں کو حکم سناتی اس سے پہلے واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھتی، کنو بائی کی رنگین حویلی کے دروازے پر ایک بار پھر دستک دی گئی۔

کنو سمیت ہر لڑکی کا دھیان دروازے کی سمت مڑا تھا۔

کوئی دروازہ توڑ دینے کی حد تک اسے پیٹتا ہوا، پیروں سے ٹھڈے تک مار رہا تھا اور اس پر ان تمام لڑکیوں سمیت کنو بائی کی آنکھیں جل اٹھیں، کس مائی کے لال کی اتنی ہمت تھی کہ وہ کنو بائی کی رنگین حویلی میں ایسی بے ادب دستک دے۔

باہر کھڑا مشارب زمان، جسکا عتاب اور دروازے پر کیا گیا تشدد اردگرد گلی سے گزرتا ہر فرد حیرت سے دیکھ رہا تھا جبکہ گلی کے کونے میں چھپ کر کھڑا وہ کچھ دیر پہلے کنو سے بے عزت ہو کر باہر نکلا سیٹھ طلال بھی مشکوک نظروں کے سنگ اپنی بھدی مونچھ کو تاو دیتے ہوئے اس جوشیلے جوان کے دروازے پر ٹوٹ برسنے کو ملاحظہ کر رہا ہے۔

"کس کی موت آئی ہے؟"

لپک کر دروازہ کھولتی کنزا تب تھم کر رہ گئی جب سامنے آگ کی طرح دہکتی ہری آنکھوں والا وہ زخمی شیر کھڑا نظر آیا جسکی آنکھوں کی نفرت نے کنزا سمیت اندر کھڑی ہر حسن کی ملکہ پر سکوت پھیلا دیا۔

وہ ہر لحاظ بالائے طاق رکھتا، راہ میں کھڑی کنزا کو پرے ہٹاتا اندر آیا، اسکے دو آدمی وہیں باہر ہی رک گئے تھے جبکہ اس کوٹھے پر آئے اب تک کے سب سے خوبرو، پرکشش اور جان نکال دینے کی حد تک پیارے مرد کو دیکھ کر تمام لڑکیاں اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا کر اپنی چینخ روک پائیں ماسوا اس ایک لڑکی کے جسکا دل مشارب زمان خان کی سرخائی گھلی ہری آنکھوں سے ایک ہی وار سے کٹ گیا۔

نازلی تھی وہ، کنو بائی کا دائیاں ہاتھ اور اس کوٹھے کی دوسری حسین طوائف، رقاصہ اور وہ اپنی حسین سریلی آواز کے جادو سے بھی سامنے والے کا دل زیر کرنے میں ماہر تھی۔

"کہاں ہے میری بیوی؟ کہاں چھپا کر رکھا ہے تم نے اسے کنو بائی۔ اگر اسے ایک خراش بھی آئی تو میں تم سمیت تمہارا یہ پورا نجس خانہ جلا ڈالوں گا۔ کہاں ہے میری زونین"

واپس پلٹے ہی وہ اپنے سامنے مسکراتا جلاتا چہرہ دیکھ کر حلق کے بل دھاڑا جبکہ اس کی اس دھاڑ میں دبے تقاضے پر نازلی نامی اس لڑکی نے سہم کر اپنا سینہ جکڑا، وہ تو کسی اور کے عشق کا جلا ہوا پروانہ تھا۔

کسی اور کی مے سے بھرا پیمانہ تھا، بھلا اس پیمانے میں مزید مے کی کیسی طلب، وہ تو چھلک جاتا۔

البتہ کنزا اس شخص کے ایسے خونخوار تقاضے اور انداز پر خاصی متاثر ہوئی۔

"تمہاری زونین؟ ہاہا چلو دیر سے سہی پر خیال تو آیا کہ کبھی اپنایا تھا تم نے اسے۔ لیکن اپنی کم ظرفی بھی یاد ہوگی، میری بیٹی کے جذبات کی بے حرمتی کیے اپنے نام کا لالی پاپ تھما کر جو سفاکی کیے اسے خود سے دور پٹخ دیا تھا اسکا حساب کون دے گا لاڈلے بھیجتے؟"

کنزا کی مسکراتی آنکھوں میں نفرت تھی اور وہ نفرت بڑے سلیقے سے مشارب پر انڈیلتی اسکے قریب آئی تھی، دونوں ایک دوسرے کو نفرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور تمام لڑکیوں سمیت وہ نازلی تک دم سادھے ان دو کی زہر خند باتیں سن رہی تھی۔

"اپنی اس گندی زبان سے کوئی رشتہ جوڑنے کی کوشش بھی مت کرنا ، اور وہ میری کس قدر ہے یہ مجھے دنیا کے سامنے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسے ملتی مشارب خان کی دوری کا سبب اسکی تم جیسی سوداگر ماں ہے۔ مجھے بتاو کہاں ہے وہ ورنہ انجام کی ذمہ دار تم ہوگی"

وہ اس عورت کو تضحیک کے سنگ پکارتا اس کی جان لینے کے در پر اترا بول نہیں غرا رہا تھا مگر کنزا نے بھی سوچ رکھا تھا کہ اس شخص کو تا دم آخر ستائے گی، اپنی بیٹی کے لائق وہ اس خودغرض کو نہیں سمجھتی تھی پھر کیسے اس انسان کے ہاتھ زونی تھما دیتی جس نے اپنی محبت کو کوئی گناہ بنا کر اپنے اندر دبا رکھا ہو۔

"نہیں بتاوں گی نہ کبھی تمہیں اس تک پہنچنے دوں گی یہ آج اپنے اس نجس خانے کی قسم اٹھا کر کہتی ہوں، اگر تمہیں خود پر اتنا یقین ہے مشارب خان تو جا کر بھری دنیا میں ڈھونڈ لو اسے۔ جب تک میں زندہ ہوں، اسے تم جیسے خود غرض، بزدل اور سفاک شخص سے ہر ممکنہ بچاوں گی۔ اس نے محبت کی ہے تم سے بس اس کے صدقے تمہیں اپنی حویلی سے زندہ باہر جانے کی اجازت دے رہی ہوں ، دوبارہ اسکا پتا پوچھنے کم ازکم کنو بائی کے پاس آنے کی غلطی مت کرنا کیونکہ میں اسے صرف تم سے دور کرنے کا باعث بنوں گی۔وقت کو ہاشم اور کنزا کی کہانی دہرانے نہیں دوں گی جس سفاک نے مجھے بخت جیسے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جیتے جی مار دیا تھا۔ "

کنو کی خشونت بھری، لرزا طاری کرتی آواز پوری رنگین حویلی میں اپنے دبدبے اور حقارت کے سنگ گونجی تھی اور مشارب زمان خان پر اسکی رہی سہی سانس تنگ ہوئی۔

وہ عورت کیسے اس پر یہ اتنا بڑا قہر توڑ سکتی ہے۔

"اپنے ساتھ ہوتے ظلم کا بدلا تم مجھ سے لو گی کنو بائی؟"

وہ جیسے تکلیف اور غصے سے بپھرا تو کنو بھی دلخراش سا قہقہہ لگائے دل چیڑ گئی۔

"ہر اس شخص سے لوں گی جو میرے بچوں کے ساتھ برا کرے گا، اب نکلو یہاں سے۔ تمہیں ایک طوائف خانہ دھتکار رہا ہے، تو سوچ لینا تم نے محبت کی بے حرمتی کیے اپنے قد کو کس قدر پست کر لیا ہے خان زادے۔ چلے جاو، زونین تو کیا تمہیں اسکا سایہ تک نہیں ملے گا"

قطعی ناگواریت سے بھرے عتاب کو اس بے بس پر اتارتی کنزا اسے باہر کا راستہ دیکھا رہی تھی اور نازلی کا دل تھا کہ پھٹا جا رہا تھا، وہ کنزا مما کی سنگدلی پر بہت دکھی تھی۔

جبکہ مشارب زمان خان مزئد رک کر اپنے آپ کی مزید تذلیل برداشت نہیں کر سکتا تھا تبھی خود کو مضبوط بناتا وہ اس عورت پر کاٹتی نگاہ ثبت کرتا نہ صرف باہر نکلا بلکے رنگین حویلی کے دروازے کو بری طرح پٹخ کر گیا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی اسکے دونوں آدمی بھی سوار ہوئے اور کچھ لمحوں میں اسکی گاڑی ان بدنام گلیوں سے نکلتی چلی گئی۔

البتہ حویلی کے اندر ہر کسی پر عجیب سی سوگواری چھا گئی، خاص کر نازلی نامی اس طوائف پر اور خود کنزا پر جس نے دلبرداشتہ ہو کر اپنے قدم کمرے کی جانب موڑ لیے تھے۔

باہر گلی کے نکڑ پر کھڑا سیٹھ طلال بھی اس شور شرابے کے بعد خاصا مشکوک ہو چکا تھا اور بنا معاملے کی حقیقت جانے تو اس خبیث کو سکون آنے والا نہ تھا۔

                           ..____________________..

"آپ لوگ ریڈی رہیں میں ایک اہم کام نمٹا کر پہنچ رہا ہوں، اسے یہ مت بتائیے گا کہ میں بھی ساتھ جا رہا ہوں۔ میں آپکی گاڑی کو فالو کروں گا"

اپنی گاڑی کو علاقے کی بڑی مسجد کے باہر کھڑا کیے وہ کان سے لگائے فون کے پار متوجہ ہو کر سنتے عزیز خان سے مخاطب تھا جو خدیجہ کو ابھی ہی اشنال کو تیار کروانے کا کہہ کر باہر لان میں آئے تھے۔

پیچھے بلند ہوتی مغرب کی اذانیں بھانپ کر عزیز خان جان گئے تھے کہ وہ مسجد کے آس پاس ہے۔

"تم مسجد ہو؟"

عزیز خان نے استفسار پر ضرار نے اک نظر مسجد پر ڈالی اور پھر عزیز خان کے استفسار پر گہرا سانس بھر گیا۔

"ہاں، اپنے کچھ شکوک و شبہات دور کرنے ہیں۔ دستخط تو میں نے بھی اس نقلی طلاق نامے پر غلط کیے تھے اور یہ سوچ کر کیے تھے کہ نہ تو میں نے اشنال کو طلاق دی ہے اور نہ طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہوں اور یہ طلاق نامہ محض فرضی اور جھوٹا ہے، اور اتفاق دیکھو وہ سچ میں جعلی نکلا پھر بھی میں اپنے اور اشنال کے تعلق کو رتی برابر بھی مشکوک نہیں کرنا چاہتا عزیز خان اس لیے ایک بار اپنی تسلی کرنا چاہتا ہوں۔ تم یہ بتاو کہ تم نے دو گواہ لیے تھے جعلی نکاح نامہ بنواتے وقت؟"

وہ وہیں گاڑی کے پاس رک کر ہی لہجے کو حد درجہ افسردہ کیے جو بولا اس پر عزیز خان کے دل کو اس قدر سکون ملا کہ جسکی کوئی حد نہ تھی، یعنی قدرت بھی ان دو کو ایک ساتھ جڑے رہنے کے وسیلے بنا رہی تھی۔

"ہاں بالکل دو گواہ ہیں اس جعلی طلاق نامے کے، اور اشنال اور شہیر کا نکاح اس مولوی نے پڑھایا ہی نہیں وہ بس ان سفاک درندوں کو دیکھانے کا ایک ڈرامہ تھا۔ ویسے بھی اشنال اس وقت صدمے میں تھی اور اس نے رضا مندی بھی نہیں دی"

عزیز خان کا لہجہ بھی جیسے ہر قسم کے بوجھ سے آزاد تھا اور میثم ضرار چوہدری کا دل بھی سکون سے بھر گیا۔

اس روز جب وہ دل چیڑتا طلاق نامہ اس نے سائن کیا تھا تو تب ہی طلاق نامے پر طلاق کے اقرار(، (مثلًا: میں طلاق دیتاہوں، میں طلاق دیتاہوں، میں طلاق دیتاہوں) کو موجود نہ پائے اسے شک سا ہو چکا تھا کہ طلاق نامے میں کوئی گڑبڑ ہے پھر اشنال کا لگا انگوٹھا اسکے اندر کی ساری سوئی حسیں جگا گیا جسکے بعد اس نے بظاہر تو وہ سائن کر دیے لیکن حقیقت میں اس نے اس طلاق کی کوئی رضا مندی نہیں دی تھی، وہ ان معاملات میں بہت اچھے سے سمجھ بوجھ رکھتا تھا مگر ایک بار کسی معلم سے وہ دل کی تسکین چاہتا تھا تاکہ بھول کر بھی اسکا اور اشنال کا ساتھ کسی گناہ میں شریک نہ ہو۔

"بہت خوب عزیز خان، تمہارا یہ احسان آخری سانس تک مجھ پر قرض ہے۔ ٹھیک ہے تم لوگ نکلو میں تم لوگوں کی لوکیشن فالو کر کے پہنچتا ہوں"

ممنون و مشکور ہوتے ہوئے ضرار نے کال بند کی اور گہرا سا سانس بھرے وہ مسجد کے اندر داخل ہوا، پہلے تو مغرب کی باجماعت نماز ادا کی پھر مسجد ہی کے کسی معلم کی تلاش میں وہ فیروز عالم تک پہنچا جنھیں پہلے ہی ضرار کی تشریف آوری کا مقصد بتا دیا گیا تھا، ضرار کو دو لوگ سیدھا انکے حجرے میں لے گئے۔

کمرہ نہایت سادہ اور کسی عبادت گزار نیک ہستی کا معلوم ہوتا تھا جہاں قدم رکھتے ہی اسکے دل کو قرار آیا۔

فیروز عالم صاحب نے شفقت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر اپنے دائیں طرف بچھے درے پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا جس پر ضرار انکے پاس ہی براجمان ہوا۔

وہ بنا جانے بھی ضرار کے چہرے کی بے تابیاں بھانپ گئے تبھی پرنور سی مسکراہٹ دے کر اس جوشیلے جوان کا مسئلہ دریافت کرنے کا اشارہ دینے لگے۔

"ایک مشکل لایا ہوں محترم، امید ہے آپ میری بہترین رہنمائی کریں گے"

وہ کچھ مضطرب سا ہوا تو مقابل بیٹھے بزرگ کے شفیق چہرے پر بھی اب زرا سنجیدگی آئی۔

"جی بچے کہیے کیا مسئلہ درپیش ہے"

وہ بزرگ نرم اور تشفی بھرا انداز اپنائے ضرار کو کہنے کی ہمت سونپ گئے۔

"میں نے اپنی بیوی کے گھر والوں کی طرف سے آئے طلاق کے جعلی کاغذات پر  دستخط کیے، مجھے مجبور کیا گیا تھا۔ نہ تو طلاق نامہ میری طرف سے بنایا گیا تھا نہ میری اس طلاق کو دینے کی نیت تھی، میں نے وہ دستخط بھی غلط کیے تھے، دوسرا میری بیوی سے اس طلاق نامے پر لیے دستخط انگوٹھے کی صورت تھے جو زبردستی لگوایا گیا۔ اسکے علاوہ میری بیوی کے باپ نے جو جعلی طلاق نامہ بنوایا اس میں اس نے دو گواہان کو شامل کیا تھا کہ یہ طلاق نامہ جعلی ہے  اور یہ سب جان بچانے اور فساد برپا ہونے سے روکنے کے لیے کیا گیا جبکہ نکاح نامے پر (میں طلاق دیتاہوں، میں طلاق دیتاہوں، میں طلاق دیتاہوں) جیسے کوئی الفاظ درج نہ تھے۔

تو میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ طلاق ہو گئی یا نہیں؟"

بڑے حوصلے اور سکون کے ساتھ ضرار نے یہ تمام مسئلہ سامنے بیٹھے معلم کے گوش گزار کیا جسے سن کر پہلے تو وہ اخیر سنجیدہ ہوئے پھر اگلے ہی لمحے انکے چہرے پر بلا کا اطمینان اتر آیا۔

"اگر انہوں نے طلاق نامہ تیار کراتے وقت دو گواہ بنا لیے تھے کہ میں یہ جعلی طلاق نامہ تیار کروا رہا ہوں اور میرا مقصد صرف دو لوگوں کی جان بچانا ہے اور حقیقی طلاق ہونا مقصد نہیں تو اس طلاق نامہ کی وجہ سے آپکی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی میرے بچے۔ جبکہ اگر دو گواہان نہ لیے گئے ہوں تو جعلی طلاق نامہ بھی اصلی کہلاتا ہے۔

جبکہ اگر طلاق نامے پر طلاق کا اقرار ہی درج نہ ہو تو پھر ہوش میں بھی دستخط کیے جائیں یا مجبوری کے باعث بھی ، تب بھی یہ طلاق نہیں ہوگی"

ان بزرگ کی یہ تصدیق گویا ضرار کو بے انتہا سکون بخش گئی تھی، اک پل تو اللہ پاک کی جانب سے ملتی ان آسانیوں پر اسکی مضبوط آنکھیں تک دھندلا گئیں، کس خوبصورتی سے اللہ نے اسکی اشنال کو اسکا ہی بنائے رکھا تھا حالانکہ یہ طوفان تو مضبوط سے مضبوط جڑوں والے پیڑ تک اکھاڑ سکتا تھا۔

"اور میں نے بھی یہی نیت کیے وہ جھوٹے سائن کیے تھے، میرا دل گواہ تھا کہ مجھ سے یوں اتنی آسانی سے وہ چھینی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ ہمارا تعلق روح سے جڑا تھا"

وہ اپنی تکلیف کو ان بزرگ کے آگے بھی دبا نہ سکا جو اچھے سے اس بچے کی تڑپ سے باخبر ہو گئے تھے۔

"جی میرے بچے، یہ سب آپ پر اللہ کا خاص کرم ہوا ہے ورنہ یہ معاملہ خاصا پیچیدہ تھا، اگر آپ مان لیتے اور نیت کر لیتے تو اپنی محبت کھو بیٹھتے۔

جعلی طلاق نامے پر دستخط کرتے وقت اگر دو گواہوں کے سامنے اس بات کو صراحت کے ساتھ ذکر کر دیا جائے کہ میں نے اپنی بیوی کو نہ تو طلاق دی ہے اور نہ طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہوں اور یہ طلاق نامہ محض فرضی اور جھوٹا ہے، اگر اس طرح کر لیا جائے، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ کیا آپ نے اپنی طرف سے بھی دو گواہ رکھے تھے؟"

ضرار کو کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ مزید بولے تو جیسے اسکی آنکھوں کے سامنے اس روز کا وہ دردناک منظر لہرایا جب اس نے جبل زاد ، اماں فضیلہ اور زونین کے سامنے اس کاغذات پر کچھ لکھنے سے پہلے نظر اٹھائے تینوں کو خاموش نظروں سے دیکھا تھا، یعنی اس نے ان تینوں کو اپنا گواہ بنایا تھا جنکی خبر ان دونوں ماں بیٹے کو بھی تھی اور زونی کو بھی پھر بھی وہ مقام اس وقت جس اذیت کا تھا، انکی تکلیف اس مطابق لافانی تھی، بدلے میں جبل زاد، زونی اور اماں فضیلہ نے اسکی اپنی جانب سے طلاق نہ دینے کی نیت کی گواہی دل و جان سے تسلیم بھی کی تھی۔

وہ واپس ان خیالات سے نکلا تو جیسے خود پر جمی فیروز عالم کی نگاہوں کو دیکھتا مدھم سا سر ہلا گیا۔

"یہ بھی کیا تھا میں نے، اس وقت میں اپنے ہوش میں نہیں تھا۔ میں نے جو بھی کیا وہ اللہ نے کروایا مجھ سے کیونکہ وہ جانتے تھے کم ازکم وہ مجھ سے چھین لی گئی تو واقعی مر جاوں گا۔ تبھی میری سانس چلتی رہی محترم، چلتی اس لیے رہی کیونکہ اشنال مجھ سے دراصل چھینی ہی نہیں گئی تھی"

وہ سمجھ نہ پایا کہ یہ خوشی کے سنگ مسکرانے کا مقام ہے یا شکر گزاری میں تادیر آنسو بہانے کا، اتنے بڑے طوفان سے گزرنے کے بعد بھی یہ انکی روحوں کا مضبوط رشتہ تھا کہ وہ دو شرعی طور پر ، اور قانونی طور پر بھی میاں بیوی تھے۔

فیروز عالم صاحب کے چہرے پر بھی مسکراہٹ اور دل میں عجیب سی خوشی کی تسکین امڈی۔

"بہت شکریہ محترم، امید ہے آپ میرے رازدان رہیں گے"

یکدم جیسے صنم کا خیال آتے ہی وہ اپنا اطمینان لوٹتا ہوا ان سے مصافحہ کیے اجازت طلب کرتا اٹھا تو وہ جیسے انکی پکار پر بے قراری سے پلٹا۔

"میری دعا ہے اس بچے سے اسکا صنم کبھی دور نہ ہو، اور اس راز کی حفاظت پورے دل سے کروں گا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا عجیب مگر دلفریب معاملہ پہلی بار دیکھا ہے کہ دو روحوں کی اس خوبصورتی سے جان بچائی گئی ہو"

وہ بہت رشک میں مبتلا تھے اور میثم ضرار چوہدری کا دل خوشی سے جھوم سا گیا، تو وہ ایسی منفرد محبت کرنے میں کامیاب ٹھہرا تھا جس پر اسکا اللہ بے انتہا راضی ہو گیا ہے۔

اک آنسو اس مسکراتی آنکھ سے اس شکر میں بہا اور وہ آنکھوں میں ڈھیر سی مشکوری بھر کر فیروز عالم صاحب پر اک نگاہ ڈالے انکے حجرے سے نکل گیا۔

باہر آیا تو اسکا دل ہر بوجھ سے اور سانس ہر رکاوٹ سے پاک تھی، وہ اسکی تھی وہ ہر طرح سے مکمل اسکی تھی یہ خوشی ، یہ سکون اسکے لیے زندگی بھر کا سرمایہ بن چکا تھا۔

                           ..____________________..

وہ ہرگز جانے پر آمادہ نہ تھی مگر اماں کے اصرار پر بھرے دل سے تیار ہوئی، جب اسکے اندر ہی اتنی اذیت تھی تو وہ کیسے نہ اشنال عزیز کے دل، دماغ اور پورے وجود کو لپیٹ میں نہ لیتی، بہرحال عزیز خان کے ہمت دیکھانے کا اثر تھا کہ تینوں ہی حویلی سے مغرب کے بعد ہی روانہ ہو گئے، وہ بالکل بوجھل سی تھی، اسے اپنے اردگرد کا کوئی ہوش نہ تھا۔

وہیں اشنال کے ڈاکٹر سے معائنے پر ولی زمان بھی متفق تھا ، جس طرح کی اشنال بے حس اور ربورٹ بن گئی تھی اسے عزیز خان کے اس فیصلے کو جان کر کچھ راحت نصیب ہوئی۔

وہ بھی جیسے کل واپسی کا ارادہ باندھ چکا تھا، یہاں مزید رہنے سے بہتر تھا وہ اپنے رکے کام جا کر بحال کرتا، اوپر سے فرخانہ نے جب مشارب کے ابھی تک نہ لوٹنے اور اسکا پتا کرنے کی درخواست کی تو وہ کچھ دیر حویلی سے باہر نکل آیا۔

کوٹھے کے اردگرد موجود اپنے لوگوں سے اسے مشارب زمان کے وہاں جانے اور دھنگا فساد کرنے کی خبر ملی تو جیسے اسکا دماغ چکرا گیا۔

پھر جب تصدیق کے لیے اس نے ضرار سے رابطہ کیا تو ساری صورت حال معلوم ہوئی۔

وہ گاڑی لیے مشارب کے پیچھے نکل گیا، اس کی سانس کسی بھی وقت رک جاتی تھی اور کم ازکم اسکے اس طرح زونی کی تلاش میں نکلنے سے ولی کو اتنا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ لڑکی، مشارب کے لیے اہم ہے۔

وہ مشارب کے فون پر لگتار کال کر رہا تھا مگر اس جانب مسلسل بیلز جانے کے باوجود کسی نے فون اٹھانے کی نہ زحمت کی نہ ولی زمان جان کی اذیت کم ہوئی۔

وہ ان بدنام گلیوں سے سنسان گلیوں میں پہنچ چکا تھا، اسکی طبعیت بہت بگھڑ چکی تھی، کئی بار دونوں گارڈز اسے واپس گھر چلنے کے کہہ چکے تھے مگر وہ ان دونوں کو سختی سے خاموش ہو کر اک طرف کھڑا کرنے کا حکم دیتے دھاڑ اٹھتا، اور وہ کہاں ہے یہ بھی حویلی والوں تک پہنچانے سے منع کر رکھا تھا۔

تبھی ولی کی کال نہ اسکے دونوں آدمی اٹھا رہے تھے نہ وہ خود جسکا دل گھڑی کی سوئی کی مانند سست پڑا تھا، شام سے رات ڈھل آئی اور اسے زونی کی کوئی خبر نہ مل رہی تھی پھر اس بدذات عورت کی جانب سے ملتی تذلیل الگ مشارب کا لہو جلا رہی تھی۔

اسکی تکلیف زونی سے بھی کہاں چھپی تھی، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے دل پر بوجھ سا دھرا ہے، کسی کی تکلیف بوند بوند اسکے سہمے دل پر گر رہی تھی، پھر جیسے مشارب کا خیال آتا بھی تو وہ جھٹک دیتی، یہ سوچ کر کہ بھلا اس سنگدل کو کیا فرق پڑے گا کے زونی کہاں گئی،زونی کے بقول تو اس شخص نے تو کبھی اسے چاہا نہ تھا، لیکن وہ کیا جانتی اس پوری دنیا میں وہ جس کے لیے سب سے پیاری تھی وہ مشارب زمان خان تھا۔

وہ خود کا دھیان بٹانے کو پہلے مالنی سے باتیں کرتی رہی پھر وضو کرنے بڑھ گئی۔

"ک۔۔کہاں ہیں لیڈی؟ کبھی نہیں سوچا تھا آپ سے جڑی م۔۔محبت مجھے اس درجہ دربدر کر دے گی۔ یہ میری س۔۔سزا ہے، آپ کی محبت کو آپ سمیت ٹ۔۔ٹھکرانے کی سزا ہے۔ لیکن آپ تو محبت کرتی آئی ہیں اس کم ظرف سے، آپکے د۔دل تک میری تکلیف پہنچ رہی ہے۔ مم۔۔مجھے بتائیں میں آپکو کہاں ڈھونڈوں۔میری سزا یہ ہے کہ اس دنیا کا سب سے بڑا بے بس بنا دیا گیا مجھے، پلیز لیڈی مجھے اپنی خبر دیں ورنہ مر جاوں گا"

گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا، وہ ڈوبتی ابھرتی سانسوں کے بیچ زونین کو پکار رہا تھا جسکا دل رہ رہ کر مشارب کے گرد اپنی دعائیں غائبانہ بھیج رہا تھا تبھی تو آج اس درجہ تکلیف کے باوجود مشارب زمان خان کو انہیلر کی ضرورت نہ پڑی تھی، جیسے ہی تکلیف بڑھتی، اس لڑکی کی مانگی گئی کئی دعاوں میں سے ایک چپکے سے اس سنگدل کو جا لگتی مگر اسکے باوجود وہ بہت تکلیف میں تھا۔

درد اسکی رگوں کو چاٹ رہا تھا، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کہاں جائے، کہاں جائے کہ اسے زونی ملے، اور وہ اس لڑکی کو ساری انا پرے کیے یہ بتائے کہ وہ اس کے بنا بالکل جی نہیں سکتا۔

آسمان گہری ساہی میں ڈوبا ہوا فی الحال اسکی اذیت میں شریک تھا مگر ممکن ہے اس جلتے دل والے اور ادھوری سانس والے کا قرار جلد اس تک پہنچا دیا جاتا۔

وہیں دوسری جانب ضرار نے عزیز خان کی گاڑی تک رسائی پا لی تھی، شہر تک وہ اسی طرح اس گاڑی کا تعاقب کرتے ہی رہنے والا تھا۔

عزیز خان نے وہاں اپنے ہی گھر میں جا کر دو دن رہنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جو بہت سالوں پہلے انہوں نے نورے کے لیے خریدا تھا، جبکہ اس گھر کا ایڈریس وہ پہلے ہی ضرار کو سینڈ کر چکے تھے۔

جبکہ آجکی رات وریشہ یوسف زئی پر قیامت سے زیادہ بھاری تھی، وہ نیند کی کئی گولیاں کھانے کے باوجود بھی اپنے ساتھ کی اس سفاکی پر سو نہ پا رہی تھی اور شہیر مجبتی جسے جیت کے خمار میں ڈوب کر آج بہت پرسکون نیند آنے والی تھی۔

                         ..____________________..

"ارے واہ! کیا شاندار میز سجائی گئی ہے ہمارے لیے۔ ہو نا ہو یہ بندہ بڑا لاجواب ہے بھئی جو ہمارے پہلی شب ہی اتنی رئیسانہ دعوت کر رہا ہے"

اندر روم میں زونی عشاء کی نماز ادا کر رہی تھی تبھی مالنی زرا جاسوس بنی کمرے سے نکلی تو رات کے کھانے کی تیاری عروج پر پہنچ کر ختم ہو چکی تھی جبکہ  ڈھیر سارے لزیز پکوانوں سے سجی وہ کتھئی رنگ کی میز جس پر شیشے کا اوپروی حصہ سفید نقش نگاری سے سجا تھا، دیکھ کر مالنی بے ساختہ سراہ اٹھی، ہر ڈش بہت مناسب اور تھوڑی مقدار میں بنوائی گئی تھی جبکہ ڈائنگ میز سے اٹھتی رغبت اور بھوک بڑھاتی خوشبو اس شوخ اور چنچل مالنی کے ناک تک گھس گئی۔

پورا گھر بہت ہی لگژری تھا، نیا نکور دمکتا فرنیچر الگ شان سے دمک رہا تھا وہیں دیواروں پر سجتی نیلی آنکھ کے شہکار الگ خوبصورتی پھیلانے کا سبب تھے پھر ہر کونے سے نفاست اور صفائی چھلک رہی تھی جو یہاں کے رہنے والے کی نفیس شخصیت ظاہر کر رہی تھی۔

دو ملازماوں نے اختتامی لوزامات ترتیب سے رکھتے ہوئے پانی کا جگ اور گلاس رکھے اور اک طرف کھڑی ہو گئیں۔

"سنیں! آپکے صاحب بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے کیا؟ وہ کیا ہے ناں مجھے شدید تجسس ہو رہا ان کو دیکھنے کا بھی اور ان سے ملنے کا بھی"

اپنے پاس ہی کھڑی سنجیدہ سی ملازمہ کی طرف مڑے، مالنی نے بڑی حسرت سے پوچھا جس پر وہ دونوں پہلے سنجیدگی چھوڑ کر ایک دوسرے کی جانب دیکھتے مسکرائیں پھر اس چنچل سی مالنی کی چمکتی آنکھوں کو دیکھنے لگیں۔

"کھانا وہ ہمیشہ اپنے کمرے میں کھاتے ہیں مگر وہ آپ دونوں سے کچھ دیر ملاقات ضرور کریں گے۔ جہاں تک انکو دیکھنے کی بات ہے تو آج تک ہم نے انھیں نہیں دیکھا تو تم یا تمہاری بی بی سرکار کیسے دیکھ سکتی ہے"

انہی دو ملازماوں میں سے ایک کے اس عجیب سے انکشاف پر مالنی کا پورا منہ کھل گیا جبکہ حیرت سے آنکھیں بھی پھٹ گئیں۔

"ہیں! مطلب واقعی نہیں دیکھا۔ تم لوگوں کے پیٹ میں درد نہیں ہوا کبھی اس تجسس کے مارے؟"

مالنی نے منہ کے عجیب عجیب زاویے بنا کر مزید پوچھا جس پر وہ دونوں اس شوخ سی چنچل لڑکی کی حیرانگی پر پھر سے مسکرا دیں۔

"وہ یا تو آدھا چہرہ ڈھک کر رکھتے ہیں یا پھر کالا ماسک پہنتے ہیں۔ ہم ملازم لوگ ہیں، کبھی جرت نہیں کی سرکار سائیں کے سامنے ایسا تجسس بیان کرنے کی۔ تم سے بھی گزارش ہے کہ ایسا کچھ اوٹ پٹانگ نہ کرنا جس پر وہ غصہ ہو کر تم دونوں کو گھر سے چلتا کر دیں"

اس بار اس ایک ملازمہ نے خاصے ناگوار لہجے میں مالنی کو سمجھایا تھا پر مالنی کے پیٹ میں تو شدید درد ابھی سے شروع ہو گیا تھا۔

"ایسے کیسے چلتا کریں گے بھئی، مما چھوڑ کر گئی ہیں ہمیں انکے پاس۔ کوئی مزاق تھوڑی ہے۔ میں تو ضرور کوئی ایسا پنگاہ کروں گی جس سے انکی منہ دیکھائی ہو"

اس آفت لڑکی کی نیک منصوبہ بندی جہاں ان دو عورتوں کو دھچکا لگا گئی وہیں مکمل سیاہ میں، چہرے پر کالا ہی ماسک پہن کر اسی سمت آتا وہ پراسرار آدمی تھم کر رک چکا تھا، ان دو ملازماوں کے ساتھ کھڑی لڑکی پر اک بھرپور نگاہ ڈالی گئی، وہ نیلی سلک کی قمیص اور ہری پٹیالہ شلوار میں لپٹی بانکی اور سجیلی سی تھی پھر بالوں میں کس کے باندھا رنگین پراندہ، یہی نہیں نازک سے پیروں میں اخیر جچتا کھسہ، پھر سب سے بڑی بات اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی اتنی لمبی زبان۔

وہ سیاہ آنکھیں یوں تھیں جیسے برہم ہوئی ہوں۔

"سائیں سرکار !"

وہ دونوں بے اختیار ہی نظر اس آدمی پر ڈالے خوفزدہ ہو کر پکاریں تو مالنی بھی چونک کر مڑی، وہ ڈیشنگ سا آدمی بنا ان تین سے مخاطب ہوئے ، مغروری مے سنگ ، اپنی پروقار چال چلتا ہوا آکر ڈائنگ کی پہلی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکا تھا اور اسکے منہ پر آج ماسک ہونے کے باعث اسکا تھوڑا بہت حسن پوری بے باکی سے جھلک رہا تھا جبکہ وہ دو ملازمائیں تو یوں تھیں جیسے انکے ہاتھ پیر پھول گئے ہوں البتہ مالنی صاحبہ اپنی جگہ جمی کی جمی رہ گئیں۔

محترمہ کا تو آنکھیں دیکھ کر ہی کام تمام ہوتا لگ رہا تھا۔

"زونین کو بلائیے مالنی، آکر کھانا کھا لیں"

اپنے سامنے میز پر رکھے نیوز پیر پر سرسری سی نگاہ ڈالتا وہ بھاری لہجے میں بنا دیکھے جس سے مخاطب ہوا اس نے گویا سنا ہی نہ تھا، اور مالنی کے نادیدوں کی طرح اس بندے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر ساتھ کھڑی ملازمہ نے کوفت بھرا ٹہوکا مالنی کو دے مارا جس پر وہ ہوش میں آئی۔

اس بندے کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ لڑکی خوامخواہ ہی فدا ہوئی جبکہ پھر اس بندے کی بریم آنکھیں اسے وہیں کھڑا دیکھے اس پر اٹھیں تو مالنی فورا سے بیشتر کمرے کی طرف دوڑی۔

کمرے تک پہنچتے اسکا سانس پھول گیا تھا، کمرہ کھولا تو حسن کی ملکہ نماز مکمل کیے جائے نماز تے کر کے رکھتی، مالنی کو گولی کی طرح اندر آتا دیکھ کر گھبرائی سی اسکی اور لپکی جسکا سانس اوپر نیچے تھا۔

"سب خیریت ہے ناں مالنی، آپ کا سانس کیوں پھولا ہے"

زونی اسکا زرد رنگ دیکھ کر خوفزدہ ہوئی۔

"و۔۔وہ بندہ، بی بی سرکار وہ تو بڑا ڈیشنگ ہے۔ آنکھوں سے میری جان نکال لی۔ ب۔۔بلا رہے ہیں وہ کھانے پر"

زونی جسے ناجانے لمحے میں کیا کیا برا خیال چھو گیا، مالنی کے اس انکشاف پر وہ یکدم مسکرا اٹھی۔

"ہاہا مالنی آپ نے تو ہماری جان نکال لی تھی، کیا انہوں نے چہرے پر سے نقاب ہٹا دیا ہے جو آپکی سانسیں انکے دیدار سے ہل گئیں؟"

مسکراتی ہوئی وہ نیلی آنکھیں، دنیا تسخیر کر سکتی تھیں اور وہ مالنی کی بدولت بہت دن بعد یوں کھل کر مسکرائی تھی، بچاری مالنی تو حواس ہی کھو بیٹھی تھی۔

"ناں بی بی سرکار! نقاب ہٹا تو کمبخت مالنی کا دل ہل جائے گا۔ پردہ ہی رہنے دیں۔ اچھا ناں چلیں باقی باتیں بعد میں"

وہ جس ٹھنڈی آہیں بھرتے لہجے میں بولی ، زونی ہنسی اور پھر جس طرح مالنی اسکا کومل ملائم ہاتھ جکڑتی باہر نکلی، خود زونین کو اب تجسس ہوا کہ وہ بھی تو دیکھے، ایسی کونسی آنکھیں مالنی نے دریافت کی ہیں۔

وہ دونوں جب تک آئیں، وہاں ویسی ہی خاموشی چھائی تھی۔ خود زونی کو آتا دیکھ کر ان سیاہ آنکھوں میں عجیب سا تقدس جاگا جسے خود زونین نے بھی محسوس کیا۔

وہ ان دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیے خود بھی ہاتھ میں پکڑا نیوز پکڑ واپس میز پر رکھ چکا تھا ، مالنی صاحبہ تو اب اسے دیکھ دیکھ نڈھال ہو رہی تھی البتہ زونین نے بڑے پرسکون انداز میں اس ماسک والے انسان کو دیکھتے ہوئے کرسی سنبھالی۔

"آپ دونوں میرے پاس مس کنزا کی امانت ہیں، میری کوشش ہوگی آپ دو کو یہاں کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف کا سامنا نہ ہو۔ یہاں ہر ضرورت کی چیز موجود ہے، باہر جانا ہو تو ڈائیور کے ساتھ جائیے گا اور گارڈز کی رینج میں رہیے گا۔ باقی مجھے آپ دونوں اپنا ایک سرپرست سمجھیں، نام میں کچھ رکھا نہیں سو آپ مجھے ایچ بی کے اس کوڈ نیم کے سنگ مخاطب کر سکتی ہیں۔ پورا گھر آپ لوگوں کے لیے کھلا ہے سوائے چند جگہوں کے جہاں جانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ ویسے بھی میرا نہیں خیال کے آپ اس بھول بھلیوں جیسے بنگلے کی سیر کرنے کا اور یہاں کہیں کھو جانے کا رسک لیں گی۔ کبھی کبھی آپ سے میری ملاقات ہو جایا کرے گی، ادر وائز آپ دو ایک دوسرے کو سب سے بہترین کمپنی فراہم کریں گی۔ کھانا کھائیے، جو کھانا ہو وہ آپ ان دو عورتوں کو بتا دیا کریں، ناشتہ، لنچ ، ڈنر سب آپکی چوائز کا بن جائے گا۔ کوئی سوال؟"

نہایت نرم، شفیق اور سنجیدہ لہجہ جبکہ سحر انگیز انداز جس سے مالنی تو فلیٹ ہوئی ہی، زونی کو بھی اس انسان کا مخاطب کرنے کا انداز اور نرمی سے بات سمجھانے کا طریقہ بہت پیارا لگا۔

وہ دونوں کی طرف باری باری دیکھتا تب ماتھے پر لاتعداد بل لے آیا جب مالنی صاحبہ فرصت سے کہنی میز سے ٹیکے، اپنی ہتھیلی پر ٹھوڑی جما کر اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی اور دو ملازمائیں کھڑیں دانت دباتی دیکھائی دیں جبکہ مالنی کو اس درجہ گہرائی سے اس بندے کو دیکھنے پر زونی کے جب ان سیاہ آنکھوں میں امڈتی خفگی دیکھی تو نرمی سے مالنی کا بازو ہلایا جس پر وہ واپس ہوش میں آتے ہی مسکین سا مسکرائی جبکہ زونی نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔

"جی وہ میرا ایک سوال تھا ماسک والے سر پرست"

بڑی ہمت جمع کیے مالنی نے یہ گستاخی کی اور سب کو اک لمحہ سانپ سا سونگھا، خود بھی وہ اس عجیب سے لقب پر ماتھے پر بڑے بل نہ چھپا سکا۔

"فرمائیں"

اسکے فرمائیں سے صرف بیزاری ٹپکی پر مالنی تو بھئی منہ دیکھائی کروا کر ہی سانس لینے والی تھی۔

"کیا ہمیں آپ اپنا پیارا سا منہ نہیں دیکھائیں گے، ہمارا دیکھ لیا اور خود دیکھا نہیں رہے، بھئی یہ تو چیٹنگ ہے ناں"

وہ اس سامنے والے کے رعب تلے ہرگز نہ دبتے ہوئے جو بولی اس پر اک لمحہ ماحول پر سناٹا سا چھایا جبکہ زونی کو بھی اب مالنی کی فکر ہوئی کیونکہ وہ بندہ کچھ غصے میں لگ رہا تھا۔

"کچھ جگہوں کے علاوہ کچھ معاملات بھی ہیں جن سے آپ دو کوسوں دور رہیں گی، انہی معاملات میں اس چہرے کا دیدار بھی شامل ہے۔ انڈرسٹینڈ؟ ناو انجوائے یور فوڈ"

وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بڑے سخت لہجے میں اپنے الفاظ کو ہر درجہ نرم رکھے کہتا ہوا، اسی سحر انگیزی سے وہاں سے گیا جیسے آیا تھا جبکہ مالنی صاحبہ تو اسے جاتا دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر گئیں۔

"ہائے بی بی سرکار! یہ بندہ تو مار ڈالے گا مالنی کو"

اسے حسرت سے جاتا دیکھتی مالنی، جس طرح آہیں بھرتی بولی، زونی نے اسکی اس بے خودی پر بس مسکراہٹ دیتے ہوئے اپنے لیے پلیٹ میں تھوڑی سی بریانی ڈالی جبکہ مالنی کی تو بھوک پیاس وہ ظالم ساتھ لے گیا تھا خدا خیر کرے۔

                           ..____________________..

مشارب کے فون کی لوکیش ٹریس کروا کے ولی اس تک پہنچ تو گیا تھا مگر مشارب زمان کی حالت اور بے بسی اسے بری طرح توڑ گئی، اور شاید آج مشارب کی اذیت دیکھ کر ولی زمان پر بھی یہ آشکار ہو گیا تھا کہ اس بے حس نے جس لڑکی کو اپنے نکاح میں لا کر، خود سے دور کر دیا تھا، وہ اس دوری کے باوجود ، لہو کی مانند مشارب زمان کے اندر دوڑنے لگی ہے۔

وہ کچھ نہ بولا، بس چپ چاپ ، گاڑی کے ساتھ لگ کر کھڑے اس اجڑے مشارب کے ساتھ آکر کھڑا ہو گیا، رات کی گہرائی بڑھتی جا رہی تھی اور اسکے ساتھ ہی وہ بکھرتی، ٹوٹتی سانسوں والا بھی ڈوب رہا تھا، اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پوری کائنات مل کر اسے زونین سے الگ کرنے پر لگ گئی ہے، اسے بدعائیں راس آگئی ہیں اور جب یہ خیال آتا کہ وہ بنا اپنے جذبات کو زونی تک پہنچائے ہی مر جائے گا تو رہی سہی سانس بھی اسکی سینے میں جکڑے جا رہی تھی۔

"تکلیف ہو رہی ہے مشارب زمان؟"

ولی زمان کے سنگدلی سے کیے استفسار پر اس شخص نے یوں چہرہ موڑے اسے دیکھا جیسے یہ سوال اسے بہت اذیت دے گیا ہو، جبکہ مشارب کی آنکھیں سیدھی خنجر کی طرح ولی زمان کے آر پار ہوئیں۔

"نہیں، بہت سکون مل رہا ہے در در کی خاک چھان کر"

وہ جیسے لالہ کی اس سفاکی پر اسے کاٹ کھانے کو دوڑا تو ولی زمان کی آنکھوں میں تلخ سی کاٹ دار مسکراہٹ ابھری جیسے وہ مشارب کے پھٹ پڑنے پر ہنس دینا چاہتا ہو۔

"تو کسی نے تم پر اس در در کی خاک چھاننے کو زبردستی لاگو تو نہیں کیا، تم نے اپنے دامن میں خود ہی یہ سارے کرب سمیٹے ہیں۔ پھر بھی تم باز نہ آئے مشارب اور تم نے اشنال کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کروا دیا۔ اسکے بعد تم سمجھ رہے ہو کہ تمہیں تمہاری تڑپ کا حل بس چند آنسو بہانے پر ہی تھما دیا جائے گا۔ بہت بڑی بھول میں ہو لاڈلے"

آج ولی کے لہجے میں بہت سی کڑواہٹ تھی پھر سب سے زیادہ تو ٹوٹے مان کی کرچیاں تھیں جو وہ مشارب کی ذات میں گاڑتا ہوا خود بھی کسی انجانی آگ میں جل رہا تھا جبکہ دل تو اس پھٹ پڑتے سنگدل کا بھی دھڑک کر رکا۔

"آپ یہاں میری اذیت بڑھانے آئے ہیں تو براہ مہربانی چلے جائیں، میرے اندر مزید کسی کرب ناک بوجھ کو سہنے کی اس وقت کوئی ہمت نہیں"

ہر احساس سے عاری ہوتا وہ جلتے سلگتے لہجے میں ولی سے منت کر اٹھا جسکا دل تو مشارب زمان کی جذباتی کیفیت سے ہی کٹ گیا تھا۔

"گھر میں سب پریشان ہیں، واپس چلو۔ زونی جہاں بھی ہوگی خیریت سے ہوگی۔ کنزا اب اتنی بھی سفاک نہیں ہیں کہ اپنی بیٹی کو کوٹھے پر بیٹھا دیں۔ یقینا وہ کسی محفوظ جگہ ہی موجود ہوگی اور یہ مت بھولنا کہ وہ جو کنزا سے ساتھ گئی ہے ناں اسکی وجہ بھی تم ہو"

وہ برہم و ناراض سا ہو کر بھی اسکے کرب ہلکے کرتا آخر تک ناچاہتے ہوئے بھی تلخ ہوتا بڑھا گیا تو مشارب نے اسکی سمت جھٹکے سے چہرہ کیے، تابناک آنکھیں گاڑے دیکھا جو اسے مسلسل کسی مجرم کی طرح کوڑے مار رہا تھا۔

"میری وجہ سے؟"

مشارب کی آواز حیرت اور تکلیف سے بھاری ہوئی تو خود ولی زمان نے بھی چند قدم موڑے، رخ بدل کر اس تڑپتے بھائی کی اور دیکھا۔

"ہاں مشارب، جو کچھ ضرار اور اشنال کے ساتھ ان سنگدلوں نے کیا اس پر زونی خوفزدہ ہو گئی تھی۔ میری ضرار سے بات ہوئی تھی، زونی کہہ رہی تھی کہ اگر وہ یہاں رہی تو وہ سب لوگ اس سے مشارب بھی چھین لیں گے، تبھی جب کنزا آئیں تو وہ انکے ساتھ ضد کیے گئی، تم سے دور چلی گئی صرف اس لیے کہ یہ سب لوگ اسے تم سے، تمہارے نام سے اور تم سے پورے حق سے محبت کرنے سے محروم نہ کر دیں"

ولی کے اس انکشاف نے تو مشارب کا دل مزید بوجھل کر دیا، اس لڑکی کی تڑپ کا تو وہ پہلے بھی گواہ تھا، پھر یہ سب جان کر اسکا احساس جرم کئی گنا بڑھ گیا۔

اور شاید یہ تابوت میں لگا آخری کیل ثابت ہوا تھا، پورے وجود میں پھیلتا کرب، مشارب زمان کو چٹکیاں کاٹنے لگا تھا، ہری آنکھیں جو کچھ دیر پہلے افسردہ تھیں، ان میں سرخائی سی گھلنے لگی۔

"کیا میرے گناہوں کے بدلے وہ م۔مجھ سے چھین لی گئی ہے لالہ؟"

اسکی آواز رنجیدہ اور لہجہ کھارا تھا، ولی زمان خان نے اک آزردہ نگاہ اس شخص پر ڈالی جس نے خوامخواہ ہی خود پر قہر ڈھا کر اپنے سکون کو غارت کر لیا تھا۔

"کیا پتا، جو ظلم تم نے اشنال کے ساتھ کیا وہ تو ناقابل معافی ہے مشارب۔ اسے ہم نے اپنی بہن کہا ہی نہیں بنایا بھی تھا یار، اور آج وہ ہر احساس سے کٹی ہوئی ایک زندہ لاش بن گئی ہے۔ تم نے محبت خود بھی کر رکھی تھی، کاش تم ضرار اور اشنال کے ساتھ یہ ظلم کرنے والوں میں شریک نہ ہوتے۔ میں تمہارے کون کونسے گناہ کو نظر انداز کروں کے میرے پاس فی الحال تمہارے لیے کوئی ہمدردی نہیں"

آج ولی زمان بھی سنگدلی پر اترا ہوا تھا، اسکا دل بھرا ہوا تھا، اذیت ہر ہر موں سے جھلک رہی تھی اور پھر یہ کہنے کے بعد اسکی برداشت جواب دے چکی تھی تبھی وہ گہرا سا سانس بھرتا، مشارب کو اس احساس جرم کی آگ میں یونہی جلتا چھوڑے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا مگر جانے سے پہلے اسکے دونوں گارڈز کو اس کی حالت دیکھتے رہنے کی تاکید کر کے گیا۔

مشارب زمان وہیں اس آگ میں جلتا کھڑا رہ گیا، اسکے پیروں تلے سے زمین سرکی تو وہیں بیٹھتا چلا گیا، اجڑی ذات والا، سیاہ رات، کرب کے الم سہتا ہوا بے جان ہو رہا تھا اور اسکی تکلیف نے پھر سے زونین کے دل کو کاٹا۔

وہ اضطرابی انداز سے کمرے میں چکر لگا رہی تھی، بار بار یوں محسوس ہوتا جیسے دل کو درد سے آن لگے ہوں۔

مالنی کمرے میں آئی تو وہ کافی پریشان سی تھی، اور کچھ دیر پہلے کسی کال کو سننے ہی باہر گئی تھی۔

"آپکو ایک حیرت کی بات بتاوں بی بی سرکار! کوٹھے پر بڑا وبال مچا ہے آج"

مالنی بنا زونی کی بے تاب کیفیت بھانپے، اپنی ہی ترنگ میں یہ سب بتاتی قریب چلی آئی اور ان نیلی سہمی آنکھوں میں اور ڈر گھسیٹ لائی۔

"ک۔کیوں؟ سب خیریت ہے ناں مالنی۔ کیسا وبال"

زونی اسکی جانب تکتی بے قراری سے پوچھنے لگی تو خوف سے لب کپکپائے۔

"پہلے تو مما نے اس سیٹھ طلال کی اچھی خاصی درگت بنائے حویلی سے نکالا پھر اچانک وہ آئے، آپکا پتا پوچھنے۔ حویلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی"

مالنی نے ہچکچاتے ہوئے جو بتایا اس پر زونی نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھتے ہی اپنا دل تھاما، یہ مالنی کیا کہہ رہی تھی؟

"ک۔کون آئے مالنی؟ پلیز ٹھیک سے بتائیے، ہماری جان تو مت نکالیں۔ اور آپکو یہ سب کس نے بتایا؟"

وہ تڑپ کر بولی، دل تو پہلے ہی اسکا عجیب سے درد میں تھا اب تو سکڑ کر رہ گیا۔

"نازلی نے، وہ کوٹھے پر میری سہیلی ہے ناں۔ اس نے کہا کہ وہ بہت تکلیف میں تھے، جیسے زونین انکو نہ ملی تو مر جائیں گے۔ وہ مما سے آپ کا پوچھنے آئے تھے، پر مما نے بری طرح انکو ڈانٹ کر واپس بھیج دیا کہ وہ ایسے خود غرض اور سفاک خان زادے کو اپنی زونی کسی قیمت پر نہیں دیں گی"

مالنی کے یہ سب اٹک اٹک اور دکھی ہو کر بتانے پر زونی کی آنکھوں میں تکلیف سی اتر آئی، وہ بمشکل بیڈ کا سہارا لیے بیٹھی، مالنی خود اسکی حالت دیکھ کر پریشان سی ہوئے اپنی بی بی سرکار کے قدموں میں جا بیٹھی۔

"مطلب ہمارے دل کو جو انجانا سا درد تھا وہ انکی تکلیف کا اشارہ تھا، مگر وہ کیوں تڑپ رہے ہیں۔ ہم ک۔۔کونسا انکے لیے کبھی پیارے رہے جو وہ ہ۔۔ہمیں ڈھونڈنے کے لیے ا۔۔اس گندی جگہ چلے گئے"

بیٹھتے ہی جیسے زونی کی آواز میں آنسو گھلے وہیں وہ نیلی آنکھیں عجیب سا درد لیے سرخ ہونے لگیں جبکہ خود مالنی کا دل اسے روتے دیکھ کر ڈوبنے لگا۔

"آپکے اور انکے بیچ نکاح کا رشتہ ہے بی بی سرکار! میری اماں کہا کرتی تھیں یہ رشتہ کانٹوں کو پھول بنا سکتا ہے۔ کیا پتا انکے دل کے کانٹے بھی پھول بن گئے ہوں، آپ محبت کرتی ہیں ناں ان سے؟"

مالنی کو یہ سب نازلی نے بتایا تھا، نکاح کا بھی اور اس لڑکی سے اس خان زادے کی اذیت دیکھنے نہ ہوئی تھی تبھی سب سے چھپ کر اس نے مشارب کی تڑپ کو زونی تک پہنچایا۔

مالنی اپنے مرمریں ملائم ہاتھ کی ہتھیلی کے سنگ زونی کی گداز گالوں پر اترتے آنسو پونجھتی جو پوچھ رہی تھی اس پر زونی نے سرخ ہوتی ڈبڈبائی آنکھوں سے مالنی کو دیکھا۔

"ہم تو ان کے لیے ہی س۔۔سانس لیتے ہیں مالنی، لیکن ہم کیسے مان لیں کے کہ انکے دل کے کانٹے پھول بن گئے، وہ تو ہمارے وجود سے نفرت کرتے ہیں۔ ہماری التجاوں، سسکیوں، اور آہوں کا بھرم رکھتے ہوئے ترس کھا کر ہمیں اپنا نام دینے والے، بھلا ہم۔ہمارے ہونے نہ ہونے پر کیوں ت۔۔تڑپیں گے۔ شاید وہ اس لیے آئے تھے کہ انھیں ڈر تھا ہم کوٹھے جا کر انکے نام کا تقدس پائمال نہ کر دیں۔ اسکے علاوہ اور ک۔۔کچھ ممکن نہیں"

وہ خود ساختہ اذیت میں ڈوبی زونی، آنکھوں میں آنسو دباتی جو سسک سسک کر بولی اس نے مالنی کا دل بھی سوگوار کیا۔

"کیا پتا معاملہ کچھ اور ہو بی بی سرکار!"

وہ اسکے نازک ہاتھ دباتی حسرت سے بولی تو اس حسرت جیسی کئی حسرتیں زونی کی آنکھوں میں مچل گئیں۔

"ن۔۔نہیں، ہم انھیں پکار کر مزید اپنی عزت نفس مجروع نہیں کریں گے مالنی۔ وہ ہمیں دکھ اور آنسو دینے کے عادی ہیں مگر ہم انکی طرف سے ملی زرا سی اذیت سے مر جائیں گے۔ کوٹھے پر انکو ہم نہیں ملے تو یقینا انکا دل پرسکون ہو گیا ہوگا"

بھلے وہ دل تک بہت افسردہ تھی مگر اسکا نازک دل ہرگز اپنے آپ کو اس بے حس کے روبرو چھوٹا کرنے پر آمادہ نہ تھا، اور مالنی بنا زونین کی رضا کے کیسے اسکی خبر اسکے خان زادے کو پہنچا دیتی۔

وہ وہیں زونی کے ہاتھ جکڑے اسکے قدموں میں بیٹھی رہی، حتی کہ کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز زونین کی آنکھیں جھپکیں تو گرم گرم آنسو گر کر مالنی کے ہاتھوں پر جا پہنچے، اس چنچل لڑکی کا دل تو زونی کی دھندلائی آنکھوں اور ضبط کے باعث ہی کٹ کر رہ گیا۔

"خود کو نہ کریں افسردہ، ایک بار انھیں پکار کر دیکھ لیں بی بی سرکار! کیا پتا آپ کا اس بار پہل کرنا، آپ دو کے رشتے کی خوبصورت شروعات بن جائے"

کچھ دیر تو مالنی خاموشی کے سنگ زونی کی تکلیف دیکھتی رہی پھر جب رہا نہ گیا تو اپنا ہاتھ بڑھا کر زرا اٹھتی وہ زونین کے آنسو پونجھ کر مسکراتے لہجے میں اس ڈوبتی زندگی والی کو امید کی کرن تھما گئی۔

"کیسا رشتہ مالنی! وہ ہمیں کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ایک تو نانو نے ہمیں ان سے زبردستی باندھا، دوسرا ہماری گزارش پر وہ ہمیں اپنا نام دے بیٹھے، تیسرا ہمارے ساتھ کنزا مما کا جو حوالہ جڑا ہے وہ انکے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ایسے میں جب ہم انکے لیے اس قدر ناپسند ہیں تو بھلا ہمارے لاکھ بار پکارنے سے بھی انکا پتھر دل نہیں پگھلے گا"

مالنی کی حسرت زدہ آنکھیں تکتی زونی، جس طرح زنجیدہ اور غم زدہ ہو کر بولی، اک کرب تھا جس کے باعث اسکی خوبصورت آواز ڈوب سی گئی۔

پھر پل پل چہرے پر بڑھتا درد کا دائرہ، جیسے گلاب کی اک اک پتی الگ الگ کر کے مسلی جا رہی ہو۔

"ایک کوشش کر لیں، بھلے مجھے آپ آج ملی ہوں لیکن لگتا ہے مالنی کے دل کا آپکے دل سے ازل کا رشتہ ہے۔ سب کہتے ہیں میرے اندازے بہت ٹھیک نکلتے ہیں، آپ بھی مالنی کے اس ایک ادنی اندازے پر یقین کر لیں کہ وہ ضرور پریشان ہیں آپکے لیے، اگر میرا اندازہ غلط نکلا تو آپ میرا بھلے گلا دبا دینا"

ناجانے کیوں مگر مالنی کا یقین دیکھ کر زونی کا دل بھی عجیب سی الجھن میں مبتلا ہوا، وہ بہت سچے دل سے زونی کو قائل کر رہی تھی۔

"اور اگر وہ ہماری عزت نفس پھر سے مجروع کر گئے مالنی؟ تو ہم اپنا بکھرا ہوا دل نہیں سمیٹ سکیں گے"

دل میں جو ڈر تھے وہ زونین کی زبان پر بھی مچل اٹھے تھے، جبکہ مالنی کا دل گواہی دے رہا تھا کہ اسکے روبرو قدرت نے لافانی محبت کے عکس بکھیرے تھے۔

"اب آپکے پاس یہ پاگل اور سر پھری سی بندی ہے ، اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں اور باتوں سے میں نہ صرف آپکی آنکھوں کے سارے آنسو ختم کر دوں گی بلکہ اس کبھی نہ مسکراتے چہرے پر قہقہے تک بکھیر ڈالوں گی۔ سو آپ اس بات کی فکر نہ کریں کہ آپکا دل کون سمیٹے گا، ہی ہی میں بذات خود اچھی کوالٹی کی الفی بناوں گی بی بی سرکار"

اس انتہائی تکلیف دہ صورت حال میں مالنی کی ہنسی بکھیرتی ادنی سی کوشش جیسے اس ہلکان نیلی والی زونی کے چہرے پر بھی افسردہ سی مسکان سمیٹ لائی۔

"مالنی! آپ بہت پیاری ہیں۔ سچ کہوں تو آپکے ساتھ ہونے سے مجھ میں ازل سے بیٹھے ڈر اور خوف کہیں دور چلے گئے۔ پلیز آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیے گا۔ اور مجھے بی بی سرکار کے بجائے آپ آپی یا باجی کہیں گی تو مجھے بہت اچھا لگے گا"

اس پیاری سی زندگی کے وجود کو ثابت کرتی مالنی کی مسکراتی آنکھیں تکتی زونی، اسکی گال سہلا کر جو محبت بھرے الفاظ کہہ رہی تھی وہ مالنی کو بھی دلبرداشتہ سے کر گئے، کبھی کبھی قدرت بھی ہمارے درد کم کرنے کو ہمارے لیے مالنی جیسے وسیلے بناتی ہے، جو واقعی کسی انعام سے کم نہیں ہوتے۔

"کیا آپی یار، کبھی نہ رونے والی مالنی کو سینٹی کر دیا۔۔۔ "

اپنی آنکھ میں اتر آتے آنسو ہنس کر رگڑتی وہ بہت ہی پیاری لگی تبھی تو زونی بھی اسکا آنسو پونجھے مسکرائی۔

"اچھا یہ سب چھوڑیں، آپ کے پاس اپنے سائیں کا نمبر ہے؟"

یکدم جیسے کچھ یاد آنے پر وہ اسکے قدموں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ہمارے بیگ میں پڑی ڈائری میں ہے، اگر بدلا نہ ہوا انہوں نے تو وہی ہے۔ لیکن ہمارے پاس تو فون ہی نہیں مالنی"

کچھ دور میز پر پڑے اپنے بیگ کی طرف اشارہ کرتی زونی ساتھ ہی افسردہ ہوئی مگر مالنی کی آنکھوں میں شرارت سی اتری۔

"لو دسو! فون میرے پاس جو ہے، وہ بھی سمارٹ فون۔ مما نے دلایا تھا،مما کی غیر موجودگی میں ساری رنگین حویلی میں موجود لڑکیوں کی شکایتیں مما کو لگانا میرا ہی تو کام تھا۔ ہاہا میں لے آوں نکال کر ڈائری؟"

وہ ہنس مکھ سی پھدکتی ہوئی اپنے کارنامے بتاتی بیگ تک پہنچی مگر کھولنے سے پہلے اس نے زونی سے اجازت لی۔

"جی لیں آئیں"

زونی نے مدھم سی آواز میں اجازت دی تو اگلے ہی لمحے وہ اسکے بیگ سے وہ چھوٹی سی ڈائری نکالے، اپنا فون لیتی واپس زونی تک آئی جسکا دل بہت بری طرح کپکپا رہا تھا۔

"میں آپکو کال ملا کر دیتی، آپ ہمت رکھ کے بات کیجئے گا۔ تب تک زرا میں نہا آتی۔ وہ کیا ہے ناں روز نیا نیکور جوڑا پہننے کی عادت ہے مالنی کو اور سجنے سنورنے کی بھی، یہ والا جوڑا انہوں نے بھی دیکھ لیا سو آتے جاتے ٹکر وکر ہو گئی تو مجھے اس نئے جوڑے میں دیکھ کر بندے پر اچھا امپریشن پڑے گا۔۔۔۔ سمجھا کریں"

آنکھ ونگ کرتی وہ پٹر پٹر باتوں کی مشین لڑکی اسے نمبر ملا کر دیتی پہلے سے نکال کر رکھا اپنا پیلا اور نیلا خوبصورت سا جوڑا اٹھاتی، جاتے جاتے گدگداتی مسکراہٹ کے سنگ سہمے حواسوں والی زونی کو دیکھتے ہی نہانے گھس گئی جبکہ زونین کا دل بہت شدت سے دھڑکا۔

وہ جو فون کو خود سے پرے پھینکے وہیں گاڑی کے ساتھ نیچے سڑک پر اجڑا ہوا بیٹھا تھا، ایک بار پھر اس دماغ میں ہتھوڑے کی طرح بجتی ٹون پر اپنے ماتم سے نکلا۔

"فون اٹھا کر دو"

بھاری آواز ابھرنے پر گاڑی سے کچھ فاصلے پر کھڑے اس کے دو آدمیوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر گاڑی کے اندر رکھا فون اٹھایا اور سڑک پر بیٹھے مشارب کی جانب بڑھایا جس نے ناگواریت بھرے انداز میں فون لیتے ہی اسے اور اسکے ساتھی کو واپس حویلی جانے کا اشارہ کیا، وہ اپنی تکلیف میں کسی کو بھی شریک کرنا نہیں چاہتا تھا۔

وہ دو بھی مجبورا اسے اس سنسان سڑک اکیلا چھوڑتے کچھ دور جا کھڑے ہوئے تاکہ وہاں سے وہ اس نڈھال خان زادے پر نگاہ رکھ سکیں۔

فون پر آتا نمبر ان نان تھا، تبھی مشارب نے گہرا سا سانس بھرے اس کال کو پک کیے فون کان سے لگایا، وہ لڑکی جسے اسکی تھکی اور نڈھال سانسوں کا لمس فون لگتے ہی ارسال ہو گیا، یوں محسوس کر رہی تھی کہ جیسے بات نہ کر سکے گی اور دم توڑ دے گی۔

"ہم ٹھیک ہیں ، آپ ہمارے لیے پریشان مت ہوں مشارب زمان خان"

بہت ہمت کیے وہ یہ بنا توڑے جملہ بول سکی مگر لہجے کی حسرت نہ چھپا سکی، اس جانب تو جیسے زندگی لوٹ آئی تھی، وہ اسکی نام سے پکارنے پر تڑپ اٹھا تھا۔

یوں لگا جیسے کسی کو مرتے مرتے چند ادھار سانسیں تھما دی گئی تھیں۔

"اوہ لیڈی ! کہاں ہیں آپ یار۔ میں کب سے آپکو ڈھونڈ رہا ہوں۔ کہاں چلی گئی ہیں ۔ مجھے بتائیں میں ابھی آپکو لے کر جاتا ہوں۔"

وہ تکلیف اور اذیت کی انتہاوں پر تھا اور اسکا اندازہ اسکی بھاری آواز میں پڑتی سلوٹوں اور لہجے میں رچی بسی تڑپ سے ہی زونی لگا چکی تھی تبھی تو پھر سے اسکی آنکھیں بھر آئیں۔

کیا وہ واقعی اسکے لیے تکلیف میں ہے، یہ سوچ کر ہی زونی کی دھڑکنیں جمنے لگیں۔

"ہم نہیں ملیں گے آپکو، نہ ہی آپ ہماری تلاش میں خود کو تکلیف دیں۔ آپکے نام کے تقدس کو پائمال نہیں کریں گے ہم ، اتنا تو بھروسہ آپ کر ہی سکتے ہیں۔ ہم بہت د۔۔دور چلے جائیں گے، جہاں نہ آ۔۔آپکو ہمارے ہونے کی اذیت جھیلنی پڑے گی نہ کوئی ہم سے آ۔۔آپکا نام چ۔۔چھین پائے گا"

وہ لاکھ خود کو مضبوط کرتی مگر وہ اپنی تکلیف دبانے پر ہرگز قادر نہ تھی اور مشارب زمان سے اسکی زندگی آہستہ آہستہ بہت اذیت سے چھینی جا رہی تھی۔

اس شخص سے دوسرا سانس لینا مشکل تھا۔

زونین کو لگتا تھا جیسے ضرار لالہ نے انتہائی تکلیف، بدحواسی اور مجبوری کے باوجود اسے، اماں فضیلہ اور جبل زاد لالہ کو اس دن اشنال کو طلاق نہ دینے کا گواہ بنایا تھا، تب جب اسے ایک فیصد بھی یقین نہ تھا کہ اب کوئی صنم سے جڑے رہنے کی صورت بچی ہے، وہ صرف ضرار ہی کر سکتا ہے لیکن اگر یہی اذیت مشارب پر گزری تو وہ بہت آسانی سے اسے خود سے جدا کر ڈالے گا۔

"کیوں نہیں ملیں گی ؟ نہ کریں۔ پلیز نہ کریں۔ ایسا مت کریں زونین، مجھے اپنا پتا بتا دیں۔ میں اپنی ہر غلطی کی تلافی کروں گا۔ لیکن خدارا مجھے بتا دیں آپ کہاں ہیں۔ مجھے اس تکلیف سے نکال دیں یار، میں ابھی آپکے پاس آوں گا"

وہ جیسے خود سے بے خود ہوتا اپنا سینہ مسلتا، بہت دقت سے بس زونی کے لیے تڑپ رہا تھا اور خود زونی تکلیف کے ساتھ ساتھ حیرت میں تھی کہ یہ مشارب زمان خان کو ہوا کیا ہے۔

"آپ ہمیں چھوڑ دیں گے ، ہم نہیں بتا رہے۔ ہمیں پ۔۔پتا ہے آپ ہمیں بھی نانو کے مجب۔۔بور کرنے پر چھوڑ دیں گے، ن۔۔نانو ظالم ب۔۔بن گئی ہیں۔ وہ ہ۔۔ہم سے بھی ہم۔ہماری سانسیں چھین لیں گی"

وہ یکدم ہی مشارب کے دل نرم کرتے، لپکتی جان لیوا تپش سے بھرے لفظوں کے باعث سسک پڑی ، اور اسکی ہچکیاں مشارب کو کہیں کا نہ چھوڑ رہی تھیں۔

"میں مر کر بھی آپکو نہیں چھوڑوں گا لیڈی، ٹیل می کہاں ہیں۔ اگر آپ چاہتی ہیں مشارب زمان زندہ رہے تو مجھے بتائیں ، مجھے ایسی سزا مت دیں "

وہ اسکی تکلیف پر خود بھی اذیت میں تھا، اور وہ ہرگز اس شخص کو اپنا پتا نہیں دے سکتی تھی۔

"ہم جہاں بھی ہیں ٹ۔ٹھیک ہیں، آپ سے مل نہیں سکتے مشارب۔ ہمارے اندر اتنی ہمت نہیں ہے"

اپنے آپ کو بہتر کرتی جیسے وہ بہت بے بس تھی اور وہ تہی دامن شخص پھر سے مرہم سے دور کر دیا گیا۔

"تو آپ چاہتی ہیں کہ مر جاوں؟"

سفاکی سے وہ سوال کیے زونی کی جان لینے پر اتر آیا تھا جو اس خیال سے ہی کانپ اٹھی تھی۔

"اگر آدھے گھنٹے تک آپ نے مجھے اپنا ایڈریس نہ بھیجا زونی تو آپ کو دیا اپنا نام، میں خود چھین لوں گا۔ میری زندگی پہلے ہی سزا بن چکی ہے، ایک آپ واحد جزا بچی ہیں جسکے چھن جانے کے بعد میرے لیے صرف مرنا آسان ہوگا۔ فیصلہ آپکے ہاتھ ہے"

وہ اذیت کی انتہا پر پہنچا یہ سنگدل بنے کہہ کر رابطہ توڑ چکا تھا اور زونی کو لگا اسکے پورے وجود، دل اور دماغ کو کسی نے بری طرح کچل ڈالا ہو۔

                         ..____________________..

رات کے گیارہ بج چکے تھے، وہ دس منٹ پہلے ہی گھر پہنچے تھے، وہی گھر جہاں عزیز خان نے اپنی زندگی کے خوبصورت دن نورے کے ساتھ گزارے اور پھر یہیں ان دو کی تکمیل کا خوبصورت سا حصہ بن کر اشنال عزیز نے جنم لیا۔

وہ بابا اور مما کے کمرے میں اپنے گرد اوڑھی چادر اتار کر صوفے پر رکھتی، سوگوار سی دیوار پر نسب بابا اور مما کی واحد تصویر کی جانب لپکی تو آنکھیں خوامخواہ ہی آنسووں سے بھرتی گئیں۔

عزیز خان ، انکے کھانے کے لیے کچھ سامان لینے ابھی باہر نکلے تھے جبکہ خدیجہ بھی باقی کمروں کی ہلکی پھلکی صفائی میں آتے ہی لگ گئیں، چونکہ یہ گھر عزیز خان ہر مہینے صاف کروا دیتے تھے تبھی بظاہر ہر طرف نفاست اور صفائی جھلک رہی تھی مگر پھر بھی خواتین کے اندر صاف کمروں کو ایک بار پھر صاف کرنے کے جراثیم پائے جاتے ہیں تبھی وہ اپنے کام میں لگ چکی تھیں۔

البتہ وہ حواس کھو بیٹھی لڑکی، بس اپنی ماں سے ہمکلام تھی، ضرار کی گاڑی اسی وقت گھر کے اندر داخل ہوئی، جسکے لیے جاتے جاتے عزیز خان ہی دروازہ کھول کر گئے تھے، وہ گھر بظاہر اتنا بڑا نہیں تھا مگر شہری آبادی سے کچھ دور ہونے کے ناطے خاصی پرسکون جگہ تعمیر تھا اور ہر سہولت سے بھرا تھا، گاڑی اس چھوٹے سے دو گاڑیوں کی جگہ رکھتے پورچ میں کھڑی کرتا وہ اپنے پروقار انداز میں باہر نکلا۔

چہرے پر فی الحال سنجیدگی اور خدوخال بھینچے تھے جبکہ اک نظر اس گھر پر ڈالتے ہوئے، گہرا سانس بھرے وہ اپنے صنم کو منانے ایک بار پھر اس تک جانے کا سوچ کر کچھ پرسکون ہوا۔

وہ اب تک ابتدائی حصے کی جانب بنے پہلے کمرے میں کھڑی ہنوز اس تصویر پر ابھرتے اپنی ماں کے چہرے کو حسرت بھری آنکھیں لیے، ہاتھ بڑھا کر چھو رہی تھی۔

"میں نے شہیر مجتبی سے نکاح کی کوئی رضا مندی نہیں دی تھی، یہ آپ جانتی ہیں ناں۔ میرا اللہ بھی جانتا ہے کہ ایسا میرے لیے موت تھا لیکن دنیا نے تو مجھے اس نجس کا بنا دیا ناں، میرے اوپر شہیر کے گھر ونی ہو چکی لڑکی کا ٹیگ لگ گیا جسکا مالک وہ ہے اب ۔ جسے اسکے بھائی کی جان بجانے کے عوض بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

لیکن میرے لیے سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ میں میثم کی نہیں رہی۔ اور دوبارہ اس کا ہونے کے لیے مجھے مرنا ہوگا اور دوبارہ پیدا ہونا پڑے گا، جو ناممکن ہے۔

دعا کریں میں آپکے پاس آجاوں مما، یہ دنیا مجھ پر ت۔۔تنگ ہو گئی ہے۔ وہ میرا نہیں رہا، میں اسکی نہیں رہی۔ پلیز م۔۔مجھے اپنے پاس بلا لیں"

وہ جو بروقت صنم کی تکلیف دور کرنے پہنچ آیا تھا، اس لڑکی کی تڑپ کر سسکیاں گھونٹنے کے سنگ کی گئی التجاء پر وہیں اس کمرے کے  دروازے میں ہی جم گیا، سوجھی آنکھیں، بکھرے بال، اذیت سے بھرا چہرہ، میثم ضرار چوہدری کے دل کو اسے دیکھ کر دھکا سا لگا۔

وہ اشنال کے منہ سے صرف آخری جملے سن سکا تھا، وہ اس کنڈیشن میں تھی کہ آہستہ آہستہ اسکا دماغ مفلوج ہو رہا تھا، اور جلد یا بدیر وہ شہیر کے حوالے سے ذہنی ابتری کا شکار ہو رہی تھی جو خطرناک تھا۔

وہ یہ بھی مان رہی تھی کہ اس نے اسے قبول نہیں کیا اور ساتھ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ وہ اب اسکا مالک ہے۔

"اس نے ا۔۔اپنا ہر وعدہ توڑ دیا، اس نے برا آز۔۔زمایا مجھے مما۔ "

وہ پھر سے ٹوٹتی بکھرتی آواز سے اس بے جان تصویر سے ہمکلام تھی، مگر وہ مزید اسے اس اذیت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔

جھٹکے سے اندر داخل ہوا اور اسے دونوں بازو سے تھامے روبرو لایا جسکی سرخ متورم آنکھوں میں پانی جمع تھا، ایک بار پھر اپنے مجرم کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ تکلیف سے بھری، جس نے لپکتے ہی ان بھیگی آنکھوں کے سارے آنسو اپنے ہونٹوں سے چنے اور ہونٹوں کی ساری سسکیاں گھوٹ دیں مگر وہ یکدم ہوش میں آتی اسکے اس اچانک حاوی ہوتے استحقاق بھرے سحر سے نکلتی، اسکے ہاتھ بری طرح جھٹکتی دیوار سے جا لگی۔

"کیسے توڑ سکتا تھا آپ سے کیے وعدے، نہیں چھوڑا میں نے آپکو اشنال۔ دستخط کرتے وقت ہی یہ نیت کی تھی کہ نہ تو آپکو چھوڑوں گا نہ چھوڑ رہا ہوں۔ اوپر سے وہ طلاق نامہ بھی جعلی نکلا۔ اور پھر آپکا شہیر سے نکاح بھی نہیں ہوا میری جان، آپ میری ہیں۔ صرف میثم کی"

وہ اس خود سے خوفزدہ ہوتی اشنال کا چہرہ آگے بڑھ مر ہاتھوں میں بھرے بنا مہلت دیے ہی جو سب بولا، وہ کتنے ہی لمحے اجنبیت بھری سفاک آنکھیں میثم پر ڈالے اسے دیکھتی رہی، لیکن اس وقت اسکا دماغ اسکے بس میں نہ تھا، وہ سمجھ ہی نہ پائی کہ اس نے کہا کیا ہے۔

"ج۔۔جھوٹ بول کر تم م۔۔مجھے گناہ کی طرف بلا رہے ہو، بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں تم نے م۔۔مجھے چھوڑ دیا ہے۔ میرا دل کہتا ہے تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔ن۔۔نہیں ہاتھ نہیں لگاو گناہ ہوگا۔۔۔۔م۔۔میں شہیر کی ہوگئی اب۔۔۔تمہاری نہیں رہی، مجھے اسطرح مت چھ۔۔چھونا پلیز ، نہ چھونا۔۔۔"

وہ اسکے ہاتھوں کو بری طرح پرے جھٹکتی اسے کسی اچھوت کی مانند پرے دھکیلتی ہوئی رندی کرب زدہ آواز سے التجاء کیے جو بولی اس پر ضرار نے اس لڑکی کی حالت دیکھتے ہی سینے پر جمی سانس بمشکل کھینچی۔

"اس کی ایسی اوقات نہیں کے وہ آپکے سائے تک کا حاکم بنے، اول تو نہ ہی مولوی نے نکاح اصلی پڑھوایا نہ آپ نے رضا مندی دی جسکی پوری خبر ہے مجھے اشنال۔ جبکہ وہ درندہ صفت سرداران اس قدر اپنی جیت کے نشے میں دھت تھے کہ انھیں یہ تک خیال نہیں آیا کہ سائن بھی صرف شہیر سے لیے گئے اور آپکی جگہ مولوی صاحب نے خود سائن کیے۔ اسکے علاوہ جو ہمارا جعلی طلاق نامہ ہے اس پر بھی میرے دستخط غلط تھے، صرف ایک کراس جیسا سائن بنایا تھا میں نے ، اور وہ بھی وکیل نے اسکی کاپیاں بنانے سے پہلے ٹھیک سے سائن جیسا کچھ کر کے بہتر کیا تاکہ ان منحوسوں کو شک نہ ہو کہ طلاق نامے میں کوئی گڑبڑ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس سے بھی گھٹیا چال چلتے ہم دو کی طلاق کروانے کے لیے جو انہوں نے ابھی چلی"

وہ اسے پھر سے تھام کر بنا رکے یہ سارے سچ بتاتا گیا مگر اشنال عزیز کے دماغ نے کچھ بھی قبول نہ کیا، بلکہ وہ اسے یوں دردناک نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے صرف اسکے ہلتے ہونٹ نظر آئے ہوں جبکہ اس شخص کی آواز سماعت نے کب کی ممنوع کر دی ہو۔

اس روز جب ضرار نے وہ کاغذات بھجھوائے تو وہ بیوقوف سردار خاقان اتنے مست تھے کہ اک نظر انہوں نے ان کاغذات کو کھول کر پڑھنا تک گوارا نہ کیا، سرسری سی نکاہ ڈالے وہ ضرار کے دستخط کا یقین ملتے ہی اس لفافے میں بند طلاق نامہ، مشارب کے حوالے تھما چکے تھے جو خود ذہنی طور پر تب مفلوج تھا کہ اس نے بھی وہ کاغذات کھول کر دیکھنے کی زحمت نہ کی۔

لیکن وکیل نے تمام معاملہ بروقت سنبھال لیا کیونکہ وہ خود بھی اس جعلی طلاق نامے کا گواہ تھا۔

اس نے ضرار کا لگایا وہ کراس، خود ہی اسکے نام کی صورت ترتیب دیا اور یوں منصوعی تصدیق کے بعد اسکی دو فوٹو کاپیاں اپنے انداز میں ترتیب دیے مشارب کے حوالے کر دیں۔

اس سارے معاملے میں ضرار کی کوئی غیبی مدد کی گئی تھی ورنہ اتنے سارے اتفاقات ناممکن تھے۔

"چ۔۔چھوڑ دو مجھے، م۔۔میں شہیر کی ہوں اب۔ وہ اب مجھے نوچے، زندہ جلائے یا میری جان لے، میں نے اقرار کیا ہو یا نہیں پر میں بھینٹ چڑھا دی گئی ہوں۔ تمہارا کوئی لفظ حقیقت نہیں بدلے گا۔ ت۔۔تم جو بھی بول رہے، میرے سر میں شدید درد اٹھ رہا۔۔۔ت۔۔تم مجھے پھر سے زندہ مارنے آئے ہو ناں۔۔۔۔پلیز م۔۔مجھے ایسے مت دیکھو، مت ہاتھ لگاو"

وہ اسکے قریب آنے کو بھانپ کر حلق کے بل چینخی تو خدیجہ خانم بھی اسکی سسکیاں بلند ہوتی سن کر وہاں دوڑیں مگر اسے ضرار کے ساتھ دیکھ کر وہ وہیں دروازے کے پار رک گئیں، بس انکی آنکھیں ضرور نم ہوئیں جب وہ شخص اپنی پوری ہمت لگائے، اشنال کی تکلیف کم کرنے کی کوششوں میں لگا تھا۔

"اگر ایک بار آپ نے دوبارہ کہا کہ آپ شہیر کی ہیں تو جان لے لوں گا سمجھیں ۔۔۔۔۔ میرا کوئی لفظ آپکے نزدیک سننے کے لائق بھی نہیں رہا کیا؟، مجھے صفائی پیش کرنے کا موقع تو دیں اشنال۔ میں آپکو اس خود ساختہ اذیت سے نکالنے آیا ہوں"

وہ اسکو اپنے آپ سے دور ہوتا دیکھتا ، دونوں ہاتھوں سے پکڑے جھٹکا دیتے اس بار اسکی لہو رنگ آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑتا سختی سے بولا تو وہ تھم تو گئی پر اسکی سرخ آنکھیں اور عجیب سی حالت ضرار کا دل کاٹ کر رکھ گئی۔

"تم میرے نہیں رہے، تم نے مجھے چھوڑ دیا۔ اس د۔۔نیا کے رحم و کرم پر جو اب تمہاری اشنال کو نوچ چکی ہے اور نوچ کھائے گی۔ ن۔۔نہیں سمجھ آرہی مم۔۔مجھے تمہاری کوئی بات۔ جب تم بول رہے ہوتے ہو تو میرے کانوں میں ب۔۔بہت سارا شور ہونے لگتا ہے۔۔۔۔ت۔۔تمہاری آواز س۔سنائی نہیں دیتی۔۔۔ت۔۔تم مجھے چھوڑ دو، مجھے درد مت دو پلیز۔ میں پ۔پہلے ہی بہت تکلیف میں ہوں"

وہ اسے پرے دھکیلتی جس طرح بے بسی سے چینخ رہی تھی، اس بار تو واقعی ضرار کا دل کانپ گیا، وہ لڑکی عجیب پاگل پن کر رہی تھی، اس شیر جیسے سینے والے کا دل گویا کسی نے کچل دیا تھا۔

وہ اپنے کانوں پر زور زور سے ہاتھ مارتی عجیب حرکتیں کرتی چلا رہی تھی اور ضرار نے اسے پکڑ کر خود میں پوری شدت سے بسایا تو وہ لمحہ اس لڑکی کی اذیت میں موہوم سی کمی لایا۔

"مت سنیں مجھے یار، پر میرا دل۔۔۔وہ تو آپکے دل سے جھوٹ نہیں بولتا۔ اسکی سنیں صنم! آپکی یہ حالت مجھے بہت اذیت دے رہی ہے۔ کیا ہوا ہے آپکو؟ بتائیں کس نے نوچا ہے آپکو۔ کسی نے ایسی اذیت دی ہے جو آپ یوں پاگل ہو رہی ہیں۔ مجھے کچھ تو بتائیں میری جان، میں آپکو اس بے بسی میں نہیں د۔۔دیکھ پا رہا"

وہ اسے خود میں بسائے جس طرح خود بھی اپنے آنسو نہ روک سکا، خدیجہ تک دلبرداشتہ سی وہاں سے چلی گئیں مگر اشنال کے بے جان پڑتے وجود میں اسکی جان، دل سے دل ملا کر بھی لوٹ نہ پائی۔

"پلیز اشنال! کیوں آپ میری کوئی بات سننے پر راضی نہیں۔ میں آپکی ساری تکلیف مٹا دوں گا، مجھے بتائیں کیا ہوا ہے آپکو؟ مجھ سے اپنا آپ مت چھپائیں۔ اگر آپکی حالت میری وجہ سے ہوتی تو آپ مجھے کم از کم سنتیں تو۔ لیکن آپ نے تو خود کو جیتے جی مار رکھا ہے۔ مجھے بتائیں میری جان، یہاں دیکھیں میثم ہوں آپکا۔ بولیں؟"

وہ جو اب بے آواز ہچکیاں بھرتی، اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی تھی، اس شخص کے تڑپ کر روبرو کرنے اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر پوچھنے پر بس اسے دیکھ ہی سکی۔

لیکن وہ کچھ بول نہ پائی، ضرار کا سینہ تو اسکی حسرت بھری آنکھیں خود پر جمی پائے ہی کٹ گیا۔

اس مخمل سے چہرے کا دکھ جیسے پھول کی ہر پتی کرب سے پھڑپھڑاتی ہو یا پھر کوئی زندگی دھیرے دھیرے مرجھا رہی ہو۔

"بولیں صنم! اتنا بے بس نہ کریں مجھے۔ بتائیں ایسی کونسی تکلیف ہے جس نے آپکو مجھ تک سے بذزن کیا، حالانکہ ہم دونوں کے دل ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا اب تک ہونے کا یقین دلا رہے ہیں، بتائیں مجھے ؟"

وہ اسکی حالت کے پیش نظر اس بار تاسف بھرے استفسار کرتا اسکے تمام آنسووں کو اپنی انگلیوں کی پوروں پر چن رہا تھا جس سے سانس لینا آہستہ آہستہ مشکل ہو رہا تھا۔

"ن۔۔نہیں بتاوں گی۔ جس نے میری زندگی پوری ایک تکلیف بنا دی میں اسے اپنی کوئی تکلیف ن۔۔نہیں بتاوں گی۔ یہ ب۔۔بھی نہیں بتاوں گی کہ اشنال مر رہی ہے، یہ ب۔۔بھی نہیں بتاوں گی کے اسے بہت تکلیف ہے"

وہ جس طرح اس سے سب چھپا کر سب بتا بھی رہی تھی، ضرار کو اپنا آپ ٹکڑے ٹکڑے ہوتا محسوس ہوا، وہ کیسے اس ابتر حال تک آگئی تھی؟ وہ سمجھ نہ پایا کے ایسا کیا کرے کہ اشنال کے یہ بہتے آنسو روک لے جو اسکے دل پر تیزاب کی طرح گر کر سب جھلسا رہے تھے۔

"میں بہت برا ہوں، آپ مجھ سے نفرت بھی کر سکتی ہیں۔ لیکن مجھے خود سے لاعلم مت رکھیں۔ میں اب بھی آپکا میثم ہوں صنم، لیکن آپ کیوں میری اشنال نہیں لگ رہیں۔ سب بتا تو دیا ہے، پھر کیوں ایسا بول رہی ہیں۔ کہاں تکلیف ہے، مجھے بتائیں ۔ ایسے مت دیکھیں یار، جان نکال رہی ہیں میری"

اس دور ہوتی لڑکی کو کھینچ کر اپنے قریب کرتا، وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جس طرح بے بس بنا التجاء کر اٹھا، اس پر بھی اشنال کی درد بھری نگاہ نرم نہ ہوئی۔

"پلیز میرے قریب مت آو"

میثم نے اسکی دونوں آنکھیں اپنے ہونٹوں سے چھوئیں تو وہ چہرے پر پھیلتی میثم کی حدت پہنچاتی سانس سے خوفزدہ ہوئی اور اسکے پھر سے سانسیں اپنے اختیار میںے کر بے بس کر دینے کے ارادے بھانپ کر اسکے سینے پر دونوں ہتھیلیوں کا دباو ڈالتی منہ موڑ گئی تو ضرار نے اسکی مزاحمت پرے کرتے اس بار اسے دونوں ہاتھوں سے اسکی بازووں کو تھامے، دیوار سے لاک کیا، وہ اسکے یوں بار بار پرے جھٹکنے پر عاجز آ چکا تھا۔

"کیا چاہتی ہیں آپ؟ کیوں میرے صبر کا امتحان لے رہی ہیں۔ چینخیں چلائیں مگر یہ مت کریں یار۔ کہاں ہے آپکا ہوش، کہاں ہیں آپکے حواس؟ بولیں۔ آپکو میری تکلیف نظر نہیں آرہی جو مجھے خود سے دور جھٹک رہی ہیں۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے آپ میری جان لے کر بھی ایسی ہی بے حس رہیں گی؟ کیوں اشنال؟ "

وہ اسکے چہرے کے روبرو چہرہ لائے، جن شدت بھرے الفاظ کے سنگ اشنال کو اسکی سنگدلی کا بتا رہا تھا، وہ ساکت سی تھی، پھر سے ذہن میں بہت سا شور اٹھا تھا، وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اسے بس یہ یقین تھا کہ یہ شخص اسکا نہیں اور یہ معاملہ ضرار جیسے مضبوط کو بہت بری طرح توڑ رہا تھا۔

"کیونکہ اب مم۔مجھے کسی کی تکلیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تم نے مجھے گنوا دیا ہے اب میں تمہیں کبھی نہیں ملوں گی۔ اور ہاں تمہاری جان لے کر بھی مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ یہ سب اذیتیں تو کچھ بھی نہیں اب، سن لیا تم نے۔۔۔اب میرے قریب مت آو کیونکہ میں شہیر کی ہوں۔ وہ قریب آئے گا میرے  بس، اور ک ۔کوئی مجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔۔۔چھ۔۔چھوڑ دو مجھے۔ مجھے تکلیف ہ۔۔ہو رہی ہے تمہارے ہاتھ ل۔۔لگانے سے"

یکدم ہی وہ غصے اور حقارت سے بھر سی گئی ، اپنے تمام آنسو بھلے گھوٹ لیے پر اکھڑی سانسوں پر اختیار نہ تھا تبھی گہرے گہرے سانس لیتی، تنفس بحال کیے وہ آنکھوں میں شدید نفرت بھرے اسکے خود سے دور کرتی اونچا اونچا چینخی اور میثم ضرار چوہدری کی گردش کرتی حیات تھم گئی۔

کیونکہ اس ستم کے بعد وہ ہوش میں نہیں رہ پائی تھی اور ضرار کی بازووں میں جھول کر رہ گئی، جو بمشکل اسکے بے جان ہوتے وجود کو حواس یکجا کیے تھام پایا تھا۔

لیکن آنکھوں کے آگے تو اسکی بھی اندھیرا چھا چکا تھا، قیامت ابھی باقی تھی۔

میثم ضرار چوہدری کی اصل آزمائش تو اب شروع کی گئی تھی جب اسکے صنم کے حواس سلب کیے، اسکے لاشعور سے میثم سے جڑا سب سے پیارا تعلق فراموش کر دیا گیا تھا۔

                       ..____________________..

دونوں دم سادھے مقابل ٹھہری ہوئی سرد نگاہوں سے خوفزدہ تھیں، جن میں نہایت غصہ صاف صاف جھلک رہا تھا۔

زونی کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ کس اذیت میں ہے مگر مالنی پر اسے زیادہ غصہ اور عتاب تھا۔

"نہایت ہی غلط حرکت کی ہے آپ دونوں نے، آپ لوگوں نے شاید سنا نہیں تھا کہ امانت ہیں آپ دونوں ، پھر ؟ بیوقوف سی اس مالنی کے کہے میں آکر آپ نے اس مشارب کو کال کر لی، حد ہوتی ہے زونین "

ایچ بی کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا، زونی تو بہت شرمندہ تھی مگر مجال ہو جو رات کے اس پہر بھی مالنی کی خاضر جوابی والا فنکشن سلو ہوا ہو۔

"اوہ ہیلو ماسک والے سرپرست! اس میں ایسی کونسی غلط بات ہے۔ آپکو شاید پتا نہیں کہ بیوی اور شوہر کا تعلق کتنا خاص ہے۔ شوہر پکارے اور بیوی اسکی پکار پر نہ لپکے تو اللہ سائیں گناہ دیتے ہیں۔ آپکی بیوی نہیں ہوگی ناں تبھی پتا نہیں اس کا، اور مالنی بیوقوف نہیں ہے یہ بھی سن لیں"

بنا معاملے کی نزاکت کا خیال کرتی مالنی، الٹا اس غصیلے ایچ بی پر چڑھ دوڑی جس نے صاف صاف ناگواریت سے مالنی کی یہ بد زبانی برداشت کی، زونی تو پہلے ہی سہمی اور بے جان سی بمشکل کھڑی تھی۔

"آپ اپنی زبان کو لگام دیں گی مالنی؟"

دانت پیس کر وہ ناصرف اٹھ کھڑا ہوا بلکہ مالنی کی سمت دیکھ کر بولتے ہی ساتھ کھڑی زونی کی جانب متوجہ ہوا جو خود یہ کر کے بہت زیادہ افسردہ تھی۔

"شوخا کھڑوس"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی مالنی تب مسکین سی بتیسی نکال گئی جب اس نے ایچ بی نے خونخوار آنکھیں ایک بار پھر وارننگ کی صورت اس پر جمائیں۔

"بولیں زونی؟ کیا وہ انسان اس لائق تھا کہ آپ اسے اتنی جلدی یہ آسانی دے دیتیں۔ میں مانتا ہوں عورت کا دل اپنے پسندیدہ مرد کے لیے نرم ہوتا ہے لیکن ایک نصیحت کروں گا، من پسند شخص کو جب ہم مکمل میسر آجاتے ہیں تو وہ ہماری بے قدری پر اتر آتا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ آپ واقعی اس سے ملنا چاہتی ہیں؟"

لہجہ ہر ممکنہ سخت رکھے وہ اس بار مرجھائے چہرے والی زونی سے مخاطب تھا جسکے حلق میں آنسووں کا گولا سا پھسنا تھا کہ بولنا مشکل ہوا۔

"بڑی انفارمیشن ہے انھیں عورت اور مرد کی، اماں اماں والی فیلنگ کیوں آرہی ہے ان سے مالنی۔ یا رحم، میرا کرش ایسا صوفیانہ اور بابے جیسی سوچ رکھنے والا۔۔۔نہیں! ایسے بندے تو رومینس بھی بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتے ہیں۔ ہائے او ربا میں تے گئی"

ان دونوں کو آپس میں مصروف دیکھ کر مالنی نے الگ ہی صدمے سے اپنا ہول اٹھتا دل تھاما جبکہ وہ دونوں ہی خاصے سنجیدہ تھے۔

"وہ بہت تکلیف میں تھے، سوری ہم سے انکی تکلیف برداشت نہیں ہو رہی ۔ ہم جانتے ہیں ہم مما کو دھوکہ دے گئے کیونکہ وہ ہمیں ہرگز ان سے ملنے نہیں دیتیں۔ لیکن ہم کیا کرتے ، ہمارا دل بوجھل ہو رہا تھا"

بہت ہمت کرتی وہ ان سیاہ ، برہم اور ناراض آنکھوں میں دیکھ کر رندھی آواز اور بھیگے لہجے میں بول پائی تھی جب کہ اس ماسک والے آدمی کی آنکھوں میں عجیب سی تکلیف امڈی۔

"بہت مایوس کیا ہے آپ نے مجھے زونین، میں آپکو ایک سٹرونگ لڑکی سمجھ رہا تھا۔ بہرحال جب اس نے مرنے کی دھمکی دے کر آپ کو جذباتی طور پر قائل کر ہی لیا ہے تو اس کو کال کریں، وہ یہاں آسکتا ہے مگر صرف دس منٹ کے لیے۔ مجھے یہ ایشورٹی بھی چاہیے کہ وہ بار بار یہاں آکر میری بے چینی نہیں بڑھائے گا۔ اسے بتا دیجیے گا کہ آپ ٹھیک بھی ہیں محفوظ بھی ہیں اس لیے بار بار آپکو تنگ کرنے کی زحمت نہ کرے"

ہنوز سرد لہجے میں اپنے مخصوص بھاری انداز کے سنگ وہ یہ اجازت دیتے ہوئے کچھ خوش نہ تھا اور مالنی نے اس بندے کے ایٹیوڈ کو دیکھ کر منہ بسورا۔

دو محبت کرنے والوں کے بیچ یہ آدمی ظالم سماج بن کر اسے اس وقت تھوڑا تھوڑا زہریلا لگا پر کرش ہونے کے ناطے وہ دلیر بچی ضبط کر گئی۔

زونی نے اک بوجھل نگاہ، خود پر جمی ان آنکھوں پر ڈالی اور سر ہلاتے کمرے سے نکلی البتہ ایچ بی کا پارہ تب ہائی ہوا جب مالنی اسے ہی خشمگیں نگاہوں میں لیے گھورتی نظر آئی۔

"کیا مسئلہ ہے آپکو مالنی؟"

نہایت کٹھور پن سے وہ اسکی نظروں سے چڑتا بولا جو ناراض آنکھیں ان سیاہ آنکھوں میں گاڑے زرا قریب ہوئی۔

"آپکا یہ ماسک، قسم سے بات کا سواد ہی نہیں آتا۔ ایسا لگتا کسی ایلین سے باتیں کر رہے ہیں جسکا ناک اور منہ ہے ہی نہیں بس کچا چبا جانے والی آنکھیں ہیں"

نہاہت ہی جھنجھلاہٹ کا شکار وہ جو بڑبڑائی، کئی لمحے ایچ بی کا دماغ سنسناتا رہا، وہ اس لڑکی سے ایک ہی دن میں ناک تک عاجز آگیا۔

"نکلو یہاں سے، دوبارہ ایسی کوئی فضول بات کی تم نے تو میرے غضب کو دیکھو گی"

وہ نہایت صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی غرایا مگر مالنی نے آگے سے گز بھر لمبی زبان نکال کر اسکا مزید امتحان لیا۔

"آپکی بھی کوئی بیوی ہو اور اس سے بھی آپکو صرف دس منٹ ملنے کی اجازت ملے پھر ہی مجھے سکون ملے گا، اور آپ اپنا غضب پاس رکھیں کیونکہ مالنی کے پاس اپنا بہت ہے۔۔ہنہ!"

ناک سکوڑے، اپنے کھلے نم نم بال نزاکت سے جھٹک کر بچارے ماسک والے سرپرست کو جہاں کا تہاں چھوڑے وہ تفاخر سے گردن اکڑاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

"یا اللہ! کیا چیز ہے یہ لڑکی؟"

گویا اس آفت کے جاتے ہی ایچ بی اپنا سر تھامے کرسی پر لڑھک چکا تھا، مالنی صاحبہ تو اسے رات میں سورج اور دن میں یقینا تارے دیکھانے والی تھیں۔

                               ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"دماغ کی ساری رگیں درد کرتی ہیں، پر مجال ہے کوئی ایک بھی پھٹ کر میرا کام آسان کر جائے"

زندگی نے اسے بہت زیادہ آزما لیا تھا، وہ معصوم ہو کر بھی دکھوں کے ملبے تلے آن دبی تھی۔

عزئز خان آتے ہوئے ڈاکٹر کو ساتھ لائے تھے، جبکہ اشنال کے یوں بے جان ہوتے وجود کو دیکھ کر ضرار بہت زیادہ خوفزدہ تھا وہیں عزیز خان اور خدیجہ کی سانسیں بھی سست پڑی ہوئی تھیں۔

"یہ بہت زیادہ ذہنی دباو کا شکار ہے، جس ابتری میں یہ ہے، مجھے تو حیرت ہے اسکے دماغ کی نسیں کیسے سلامت ہیں۔ آپ جلد از جلد اسے کسی دماغی ڈاکٹر کو دیکھائیں، اسکی حالت ہر لمحہ بگھڑتی جا رہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے دنیا کے تمام دکھ اس بچی نے اپنے ذہن اور دل سے لگا رکھے ہیں، اگر آپ سب انکی زندگی چاہتے ہیں تو بالکل دیر مت کیجئے گا"

رہی سہی کسر ڈاکٹر نے پوری کر دی، ان تینوں کے پیروں تلے سے ایک ساتھ زمین نکلی تھی جبکہ میثم سے اسکے صنم کی یہ حالت سہنی دشوار ہو رہی تھی۔

عزیز خان ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے گئے تو وہ اسکے پاس ہی سانس کھینچتا بیٹھا، اسکے بے جان پڑتے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں مقید کیے، نظریں اسکے بجھ جاتے چہرے کی سمت ڈالیں۔

"ایسی بھی کونسی تکلیف آن لگی ہے آپکو کہ میں تک مرہم نہیں بن رہا، یہ کیسا امتحان ہے۔ اشنال اپنے میثم کو کیسے فراموش کر سکتی ہے۔ یا اللہ مجھے ہمت دیں کہ میں اس لڑکی کے دکھ مٹا سکوں"

وہ اس پیاری اشنال کی درد میں ڈوبی آنکھیں تکتا عجیب سے کرب میں ڈوبا خود کلامی کر رہا تھا اور خدیجہ خانم ذرا نزدیک آئیں اور ضرار کے چہرے کے ساتھ ہتھیلی جوڑے اسکے درد میں شریک ہوئیں۔

"اسے کبھی تنہا مت چھوڑنا ضرار، ہم زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ تم ہمیشہ اسکی ڈھال رہنا، وعدہ کرو مجھ سے"

وہ جو بکھرا ہوا تھا، اس ماں کے آس سے لیے وعدے پر مزید بوجھل ہوا مگر خدیجہ خانم کو اپنی زندگی کی کوئی گارنٹی نہ تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ اگر انھیں کچھ ہو بھی گیا تو انکی اشنال کے پاس کم ازکم اسکا ضرار ضرور موجود ہو۔

اندر کی جانب آتے عزیز خان تک ان دو کی جانب دیکھ کر رنجیدہ سے ہوتے وہیں دروازے میں رک گئے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

"یہ بھی کوئی لینے والا وعدہ ہے خانم، یہ لڑکی ضرار کی سانسیں ہے پلیز ایسا کہہ کر میرے دل کو مزید بھاری مت کریں۔ جیسی اسکی حالت ہے، میں تو چاہتا ہوں اسے ایک لمحے بھی خود سے دور نہ رہنے دوں۔ لیکن ایک لمبی جنگ لڑنی باقی ہے، ان درندوں سے میں اشنال کے دماغ کو مفلوج کرنے کا بہت برا بدلا لوں گا"

اول تو وہ مضبوط ہونے کے باوجود اپنے لہجے کی توڑ پھوڑ چھپا نہ سکا اور پھر جیسے ان وحشیوں پر حقارت سی محسوس کرتا سلگا تبھی عزیز خان بھی اندر داخل ہوئے۔

"عزیز خان! کیا ایسا کچھ ہے جو تم ابھی بھی مجھ سے چھپا رہے ہو؟ اگر تم نے اشنال سے جڑا کوئی بھی معاملہ مجھ سے چھپایا تو میں تمہارے احسان کو بھول جاوں گا"

ضرار کا دل کسی صورت بھی اس پر آمادہ نہ تھا کہ اشنال کی یہ حالت بغیر کسی وجہ کے ہے، آدھا سبب وہ ہو سکتا تھا پر مکمل نہیں تبھی اس نے رندھے چہرے والے اس باپ سے تلخی بھرے انداز میں استفسار کیا جو اک نظر اشنال پر ڈالتے، تکلیف سے بھر گئے۔

"اگر میں نے اشنال کے ساتھ ہوتے ظلم کی خبر ضرار کو دے دی تو سب ختم ہو جائے گا، یہ حویلی والوں کو جان سے مارنے چلا جائے گا اور اس وقت وہ لوگ ان دو کے خون کے پیاسے ہوئے ہیں۔ نہیں عزیز خان! مناسب وقت تک تمہیں یہ سچائی چھپانی ہوگی۔ اگر ضرار کو وہ لوگ مارنے میں کامیاب ہو گئے تو میری بیٹی کو واپس زندگی کی طرف کون لائے گا"

اس وقت وہ باپ بہت سے خدشوں اور واہموں میں گھرا تھا اور ایک ایسا باپ تھا جسکے لیے اشنال کی زندگی بہت قیمتی تھی، وہ یہ بھول گیا تھا کہ ضرار کو پہلے ہی اشنال کے ساتھ ہوتی زیادتی کے بارے شک لاحق ہو چکے ہیں۔

"نہیں ایسا کچھ نہیں ، بس تمہارے جھوٹے دستخط کر دینے والی جو خبر اسے دی گئی ، وہی اسکی دماغی حالت بگھاڑ گئی۔ مجھے یقین ہے تم جلد یا بدیر اشنال کو واپس زندگی کی طرف لے آو گے"

عزیز خان کے جذبات سے عاری لفظ، ہرگز بھی ضرار کو مطمئین نہ کر سکے تھے، وہ اچٹتی نگاہیں ڈالتا عزیز خان کی چرائی آنکھیں اچھے سے بھانپ چکا تھا۔

"وہ تو لے آوں گا مگر میرے علاوہ اگر کوئی اس لڑکی کی ذہنی اذیت کا سبب بنا ہوا تو آپ دونوں سن لیں، اسے بہت بری موت دوں گا۔ رہی بات میری، اگر واقعی یہ میری وجہ سے اس حالت کو پہنچی ہیں تو میری ہی یقین دہانی سے یہ بہتر ہوں گی۔"

اپنی طرف سے وہ بڑی شدت پسند وارننگ دے کر اپنے قہر سے ان دونوں کو ڈرا چکا تھا جبکہ ان دونوں کی خاموشی محسوس کیے وہ واپس اشنال کی جانب متوجہ ہوا۔

"کافی رات ہو گئی ہے، آپ دونوں جا کر آرام کریں۔ میں ہوں یہاں۔ صبح سات بجے نکلنا ہے ہمیں۔ نو بجے انکی ڈاکٹر سے آپائنٹمنٹ ہے۔ شب بخیر"

وہ قطعیت بھرے لہجے میں بنا دیکھے ہی بولا، جیسے اس وقت اسے اس لڑکی کے علاوہ کسی کی موجودگی برداشت نہ ہو، عزیز خان بھی افسردہ سے سر ہلاتے، خدیجہ خانم کے گرد بازو حائل کیے کمرے سے لیے چلے گئے۔

"بہت برا ہوں ، میری وجہ سے آپ اتنی تکلیف میں چلی گئیں۔ کاش اس وقت آپکو بھی اعتماد میں لے لیتا تو ممکن ہے مجھ سے آپکا بھروسہ نہ چھینا جاتا"

وہ تھکے نڈھال لہجے میں اسکے نازک سے ہاتھ اپنے ہونٹوں سے چومتا اسکی تپش اگلتی جبین پر جھکے ہوئے سرگوشیاں کرنے لگا، وہ اس وقت بھی گہرے سانس بھر رہی تھی اور اسکے پورے وجود پر اک کرب سا حاوی تھا۔

"آپ پر میثم کا خون بھی معاف ہے، جان لے لیں میری صنم۔ لیکن ایک بار مجھے م۔۔میثم کہہ کر پکاریں۔ جانتی ہیں جب آپ مجھے اس نام سے پکارتی ہیں اشنال تو میں عجیب سا سکون محسوس کرتا ہوں۔ اور پھر آپکے ان ہونٹوں پر یہ نام سجتا بھی تو ہے، آپ کیوں مجھے خود کے لیے تڑپا رہی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ میثم کی آپ سے محبت کوئی عام نہیں پھر تکلیف کیسے عام ہو سکتی ہے؟"

وہ بہت بوجھل تھا، اسکے نرم گالوں سے ہونٹ مس کیے، اسکے بکھرتے بال سمیٹ کر انکی خوشبو اپنے اندر اتارتا ہوا وہ واپس اٹھا اور اسکی ہتھیلی ہونٹوں سے جوڑی جبکہ ضرار کی نظریں اس مخمل چہرے پر تھیں۔

"میں سب ٹھیک کر دوں گا، میرے ہوتے ہوئے آپکو کوئی تکلیف چھو کر نہیں گزرے گی۔ مجھ سے اپنے دکھ علیحدہ مت کریں اشنال، مجھ سے دور مت جائیں، ہر لمحہ آپ مجھ سے کوسوں دور جا رہی ہیں اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا"

وہ مسلسل اسے پکارتا ہوا، اسکی ہتھیلی کی پوروں پر لب رکھتا ، بار بار ان سوگوار بند آنکھوں کو دیکھتا جو میثم کی جان لے رہی تھیں۔

گلے میں غم کا پھندا سا بڑھ رہا تھا اور جب تادیر وہ اس پر اپنی آنکھیں بند کیے رہی تو ضرار کو لگا سینہ گھٹنے لگا ہے تبھی وہ اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کھولنے کے لیے جانے ہی لگا جب اسکے ہاتھ کی انگلیوں کو اشنال کے مضبوط ہاتھ نے اس بے خبری میں بھی جکڑ لیا۔

وہ ہوش سے زیادہ بے خبری میں اب اس شخص کی زیادہ تھی، تکلیف کے باوجود میثم نے اسکے ہاتھ کی طرف دیکھا پھر ان سرسراتے بے آواز ہلتے ہونٹوں کو جو میثم پکارنے کی کوشش میں تھے۔

اک تکلیف بھرا آنسو ضرار کی آنکھ سے پھسلا جسے اس نے بے دردی سے رگڑے واپس بیٹھتے ہی اس بے جان لڑکی کے ماتھے پر جھکتے ہی شدت بھری مہر لگائی پر اس شخص کے بے قابو ہوتے آنسو، اشنال عزیز کے چہرے کی حدت اور بڑھا گئے۔

"م۔۔میثم۔۔۔"

وہ قریب سے اسکی سسکیوں کو باآسانی سن پایا جو اسکے لیے تڑپ رہی تھی، اور جب ہونٹوں نے میثم کہا تو وہ تمام ہمت کے ضبط ہار سا گیا۔

"جی میثم کی جان، پاس ہوں۔"

ان اٹکتی سانسوں پر نرمی سے اختیار پائے، اس چہرے پر پھیلتے کرب کو ختم کرتا وہ اسکے نرم ہونٹوں کی ساری سرگوشیاں اپنے سکون کو واپس لانے کے لیے توجہ سے سن رہا تھا، جو یوں تھی کہ یہ ملتے مسیحائی لمس اسکی اذیت میں کمی کر رہے ہوں۔

"اگر آپ اب بھی مجھے نہ پکارتیں تو واقعی کچھ ہو جاتا مجھے، بے خبری میں ہی سہی مجھے یہ تو سکون ملا کہ آپ میری ہی ہیں۔ میں آ۔۔آپکی ہر تکلیف دور کر دوں گا، پلیز ٹھیک ہو جائیں"

وہ اتنا باہمت ہو کر بھی اس لڑکی کے لیے بکھرا ہوا معلوم ہوا، اس کا بس نہ چل رہا تھا اپنے سکون کا آخری قطرہ تک وہ اس لڑکی کے تڑپتے وجود میں اتار دیتا، تاکہ کسی طرح وہ اس صدمے سے باہر نکلتی۔

"م۔۔میثم۔۔۔ آئی م۔۔مس یو"

وہ ایک بار پھر بند آنکھوں سے سسک پڑی، اور وہ اسکے لرزش زدہ وجود کو آہستگی سے اٹھائے خود میں بسا گیا اور وہ بھی جیسے اسکی گرفت میں مقید ہو کر گہرے سکون میں اتر گئی۔

"کیوں جان لے رہی ہیں اس بے جان کی؟ "

وہ اسکی آغوش میں گہرے گہرے سانس بھرتی عجیب سے سکون میں تھی مگر وہ نہیں تھا، خود کو اس لڑکی کی سمت مائل ہونے سے روکنے کے جتن کرتا ہوا وہ بس ہو رہا تھا۔

وہ ناصرف خود وہیں ٹھیک سے لیٹا بلکہ ویسے ہی اشنال کو بھی اپنی بازووں میں مقید سا خود میں بسائے رکھا جو ایک بار پھر اس تکلیف سے نکل کر بے سدھ ہو چکی تھی مگر میثم کے جلتے دل کو کچھ لمحے کی راحت ضرور مل گئی، اسے اپنی سانسوں، دھڑکنوں کے قریں کرتا جیسے اگلے ہی پل وہ اپنی جلتی آنکھیں بھی موند گیا۔

گہرا سکوت ان دونوں تڑپتے دلوں پر رات کی آسانی بن کر قطرہ قطرہ گرنے لگا اور یہ قربت بھرے لمحے سرکنے لگے ۔

                             ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

گل خزیں خانم انگاروں پر لپٹنا شروع ہو چکی تھیں، زونی کا یوں غائب ہونا اس عورت کے اندر اذیت اور تکلیف بھر رہا تھا، وہ کسی پہلو پر پرسکون نہ تھیں۔

پھر جب بیٹھے بیٹھے اشنال کے ساتھ کی زیادتی یاد آتی تو اس عورت کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔

پھر جیسے مکافات عمل کا ڈر اس عورت کی جان لینے لگا تھا۔

ولی نے بھلے کوٹھے پر زونی کے نہ ہونے کی تسلی ان تک پہنچا دی تھی مگر وہ عورت بالکل سکون میں نہ تھی، اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اور ہونٹ بے آواز پھڑپھڑا رہے تھے۔

اس پر قہر کا بدلہ رب نے بڑی جلدی اتارنا شروع دیا تھا، یہی نہیں سردار خاقان خان کی نیندیں بھی غارت ہو چکی تھیں، کروٹیں بدلتے ہوئے اپنے دماغ کے شور کے باعث سونا حرام ہو رہا تھا۔

پھر اپنے کمرے میں بستر پر مخالف کروٹوں پر سوئے وہ دو بے حس زمان خان اور فرخانہ خانم، ظلم کا ساتھ دینے والے ظالم بھی کانٹوں پر رینگ رہے تھے، کسی اولاد کا دل سکھی نہ تھا۔

ولی زمان کے دل کا خالی پن جہاں زمان خان کو کاٹ رہا تھا وہیں مشارب کی یکدم سامنے آتی اذیت نے فرخانہ خانم کا سکون تباہ کر دیا تھا۔

پھر اس روز اشنال کے ساتھ جو ظلم گل خزیں نے کروایا اس کی بھی وہ عورت چشم دید گواہ تھی۔

وہ کیسے ایک عورت ہو کر اس ظلم پر چپ رہی؟ اب پچھتاوا کاٹ رہا تھا۔

اور اشنال کے ساتھ ہوئے اس ظلم پر چپ رہنے پر اس عورت کو اسکی اولاد کی اذیت دیکھائے یہ بتایا جانا تھا کہ کسی کی اولاد پر خاموشی سے قہر ٹوٹتے دیکھنا کیسا جان لیوا ہے۔

سچ کہتے ہیں کہ جو مظلوم کی آہیں اور بدعائیں ہیں ناں یہ بستر تک پیچھا کرتی ہیں، نیندوں میں سوراخ کر دیتی ہیں اور شاید یہاں بھی ایسا ہی تھا، ان سب پر آہستہ آہستہ انکے کیے کا بدلا اتر رہا تھا۔

کیونکہ اذیت کا بدلہ صرف دل دہلاتا ہوا مکافات ہوتا ہے۔

وہیں گہری رات کے اس پل ولی زمان، سیاہ آسمان تلے خنکی بھری رات کی پرواہ کیے بنا لان میں بیٹھا تھا اور اپنے کمرے کی بالکونی میں آ نکلتی گہرے گہرے سانس بھرتی، زبردستی کی نیند سے فرار کرتی وریشہ سے یہ رات کاٹنی مشکل ہو رہی تھی۔

وہ ولی کو دیکھ کر وہیں رک گئی جو خود سے بیگانہ ہو کر کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں پتھر کیے بیٹھا تھا۔

وہ دونوں حویلیاں ایک ساتھ تعمیر تھیں تو زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔

"شہیر مجتبی! تمہارے برے دن شروع۔ اس کھیل میں وریشہ کی جان بھی چلی گئی تو اب پرواہ نہیں لیکن تمہاری وجہ سے اس شخص کی جو دنیا اجڑے گی اسکا حساب میں تم سے ایسا لوں گی کہ تمہاری روح کانپ اٹھے گی۔ کل تم سے نکاح کرتے وقت میں ولی زمان کی خود سے محبت اور دادا سائیں کا خود پر موجود اعتبار ختم کر کے صرف تمہاری موت بن کر تمہیں ملوں گی۔ اب میرے پاس پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں۔ بہت سوں کی تم جیسے شر سے حفاظت کے لیے وریشہ کو اپنا آپ قربان کرنا پڑے گا لیکن اس سب کے باوجود مجھے ولی زمان کی تکلیف کمزور کرتی رہے گی جس میں میرا مددگار صرف اللہ ہے ۔ اور آپ سن رہے ہیں ؟ مجھے کمزور مت ہونے دیجئے گا نہ اس سفر میں میرے قدم ڈگمگانے دیجئے گا"

اپنے آپ کو چند ضبط آزما گھنٹے لگا کر مضبوط کرتی وہ پھر سے اپنے عہد پر ڈٹ چکی تھی جبکہ کچھ دیر اس ویران سے شخص کو دیکھتی وہ واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی جبکہ ولی زمان پر یہ سرد رات ویسے ہی برابر قہر اتارتی رہی۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

مشارب زمان کو اس نے مالنی کے ذریعے لوکیش بھیج دی اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اپنی گاڑی لیے عین اس شاندار بنگلے کے سامنے پہنچ چکا تھا، گاڑی کھولے باہر نکلتا وہ اک نظر اس عالیشان بنگلے پر ڈالتا اندر بڑھا۔

دروازے پر کھڑے دو سیکورٹی گارڈز نے مشارب زمان کی پہلے تلاشی لی اور اس سے اسکی گن بھی لیتے ہوئے اندر جانے کی اجازت دی۔

سامنے ہی تاحد نگاہ پھیلے وسیع پورچ کے ساتھ ملحقہ مین بنگلے تک جاتی طویل راہداری تھی اور وہیں ایک طرف بڑا سا شاہی باغ۔

ایک گارڈ مشارب کو اپنے ساتھ لیے اندر بڑھ رہا تھا مگر اس بڑے سے بنگلے کے ابتدائی تاحد نگاہ پھیلے انٹرنس پر ہی چار عدد لوگوں کے بیچ کھڑے اس سیاہ ماسک والے آدمی نے ان آنے والے دونوں لوگوں کا راستہ کاٹا۔

وہ سیاہ آنکھیں، عجیب سی ناپسندیدگی کے سنگ اس شخص پر مرکوز تھیں جو اس جگہ آکر پہلے ہی خاصا حیران اور حیرت زدہ تھا، پھر زونی یہاں کیوں تھی؟ یہ آدمی کون تھا؟ بہت سے سوال اسکا دماغ جکڑ چکے تھے۔

"کون ہو تم؟ اور زونی تمہارے پاس کیوں ہے۔ ؟"

جلتی ہری آنکھیں اس شخص کی آنکھوں میں گاڑے وہ پھنکار اٹھا مگر مقابل جیسے اس دھاڑ پر الٹا ان آنکھوں میں عجیب سی کدورت امڈی۔

"اسکا والی وارث ہوں، تمہارے لیے اتنا جاننا ہی کافی ہے۔ دس منٹ ہیں تمہارے پاس، صرف اس لڑکی کی تکلیف دیکھ کر تم پر یہ احسان کر رہا ہوں ورنہ تم اس قابل نہیں تھے۔ اس سے مل سکتے ہو اور پھر تم یہاں کا پتا ایسے بھول جانا جیسے تم کبھی یہاں آئے ہی نہیں تھے۔ اور اگر تم نے میری بے چینی کا سبب بننے کی کوشش کی تو اس لڑکی کو کسی اور محفوظ جگہ پہنچانے میں مجھے کوئی زحمت نہیں ہوگی۔ اسے مہمان خانے کا راستہ بتاو "

اکھڑے اور تضحیک لٹاتے لہجے میں وہ اپنی بات واضح کرتا وہاں سے چلا گیا اور مشارب نے بڑی مشکل سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر اس آدمی کا رعب برداشت کیا، حالانکہ اسکی آنکھیں ابل سی آئیں۔

اسکے ساتھ کھڑا آدمی اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کیے آگے بڑھا تو چار و ناچار مشارب کو بھی اسکی پیروی کیے اسکے پیچھے جانا پڑا۔

بڑا سا آسائشی کمرہ جہاں دو طرح کا دمکتا صوفہ سیٹ نسب تھا جبکہ درمیان میں خوبصورت بنارسی میز جن پر رات کے اس پل بھی للی کے تازہ پھول واسئز میں سجے تھے، سفید دیواروں پر سنہری وال کرافٹ جبکہ درمیان میں جھولتا سنہری ہی فانوس اور کمرے کی ایک دیوار شیشے کی جس سے باہر شاہی باغ کا نظارہ کرنا لطف انگیز منظر تھا۔

وہ آدمی اسے چھوڑ کر واپس باہر نکلا تو مشارب نے گھٹن سے ہونے پر اپنی سیاہ شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے، کوٹ تک اتار کر صوفے پر رکھا، اس سے اس ماسک والے کی زونی پر حاکمیت ہرگز برداشت نہ ہو رہی تھی، اسکے سارے سوالوں کا جواب اب صرف زونین ہی دے سکتی تھی۔

وہیں وہ اپنے ملازموں کو دس منٹ تک انھیں ہرگز تنگ نہ کرنے کی تاکید کرتا واپس اپنے روم کی طرف جا چکا تھا اور مالنی صاحبہ ، سہمی سی زونی کا باقاعدہ ہاتھ جکڑے اسے مہمان خانے کی جانب لائی۔

"دس منٹ کیا آپ پورا گھنٹہ ملیں، باہر آپکی باڈی گارڈ کھڑی ہے۔ اگر اس ماسکو نے دو پریمیوں کے بیچ دس منٹ کے بعد کودنے کی کوشش کی تو آج مالنی اس پر اپنے جن زادی کے ٹیلنٹ کو آزمائے گی پھر اسکے ہاتھ سے قربان بھی ہو گئی تو پرواہ نہیں آفٹر آل میرا کرش ہے۔ اب گہرا سا سانس لیں اور اندر جائیں"

اپنے سامنے زونی کو کھڑا کیے وہ اسکے سرد پڑتے ہاتھوں کو دباتی پھر اسکی دہکتی گالوں سے اپنے ٹھنڈے ہاتھ جوڑے کسی بڑی اماں کی طرح سمجھاتی بجھاتی ساتھ میں جو اس ماسک والے کے لیے بولی، اگر بچارا سن لیتا تو غش کھا کر ہی مر جاتا۔

البتہ مالنی کا یہ سب کہنا زونی کی حالت قدرے سنوار گیا، وائیٹ شارٹ فراک کے ساتھ نیلا تنگ پاجامہ پہنے، گلے میں دوپٹہ ڈالے، کھلے بالوں کے سنگ اپنی نیلی آنکھوں میں بہت سے بے قراری بھر لیتی زونی تو آج مشارب کی چند لمحوں میں ہی جان لینے والی لگ رہی تھی۔

"مالنی! اگر وہ قریب آنا چاہتے ہوئے۔ سنیں ہم تو بے ہوش ہو جائیں گے۔ جیسے وہ تڑپ رہے تھے، ہمیں ان کے سامنے جاتے ہوئے بہت ڈر لگ رہا ہے"

مالنی کا ہاتھ شدت سے جکڑتی وہ اس شخص کی قربت سے نڈھال ہوئے سہمی تو مالنی کی ہنسی شرارت بن کر اسکے چہرے پر جھول آئی۔

"اہمم اہمم! پھر تو فلمی سین ہو جائے گا۔ لیکن آپی بے ہوش نہ ہوئیے گا یار ورنہ وہ ماسک والا سرپرست میری واقعی جان لے جائے گا کہ بیوقوف مالنی سب تمہاری وجہ سے ہوا۔ آتے ہی میرے سر کا عذاب بن گئی ہو۔۔فلاں فلاں"

ڈرامائی انداز میں وہ سہم کر خود زونی کا خوف کہیں دور کرتے اسے بھی ہنسا گئی جبکہ گہرا سانس بھرے زونی نے اپنے اندر ہمت جمع کی اور پھر اک متذبذب نظر وہ مالنی کے بیسٹ ویشز دیتے پوز کو تکتی حلق سے تھوک نگلتی اندر چلی گئی۔

وہ جو نہایت بے قرار سا گلاس وال پر دونوں ہاتھ رکھے عجیب سی گھٹن میں مبتلا تھا، آہٹ پر جھٹکے سے مڑا تو اپنے سامنے زونین کو دیکھ کر اس کے جلتے دل کو تسکین ملی۔

بنا کسی جھجک کے وہ اسکی سمت آیا اور اسکے بازو سے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا گیا، یہ اس قدر اچانک تھا کہ خود زونین کو لگا ایک ہی لمحے میں اس ظالم نے اسکی جان نکال لی ہو، وہ کٹی شاخ کی مانند اس مضبوط سینے سے جا لگی اور ان محفوظ پناہوں میں سمٹ کر رہ گئی کہ بیچ میں ہوا تک کے گزر کی جگہ نہ رہی۔

وہ اسے جس شدت بھرے حصار میں لیے اپنے وجود کی گہرائی تک بسائے، اسکی موجودگی کا سکون اپنے اندر اتار رہا تھا، یہ لمحہ زونین کی سانس رک سی گئی۔

اس شخص کی تڑپ، بازووں کی بڑھتی گرفت سے زونی باآسانی جان سکتی تھی، پھر جیسے وجود سے لپٹی دونوں کی خوشبو، دونوں ہی کی دھڑکنیں مدھم کر چکی تھیں۔

"آپ نے میری جان نکال دی تھی زونی، کیوں کیا میرے ساتھ ایسا"

وہ اسے خود میں مزید شدت سے بسائے ہی یہ درد بھری سرگوشی کر اٹھا اور زونی کی آنکھیں جو ٹھہر سی گئی تھیں ان میں اس شخص کے گلے لگانے کی حسرت پوری ہونے پر بھی نمی ابھر آئی، پھر سانس بھی سسکی کی صورت نکلی جس پر وہ اسکے سحر سے باہر نکلتے ہی اسے خود سے پرے دھکیل گئی۔

"ہم نے کچھ نہیں کیا، جو کیا آپ نے کیا۔ آپ تو ہمارے وجود تک سے نفرت کرتے تھے پھر ہمیں ہماری اجازت کے بنا گلے لگانے کی ہمت کیسے کی۔ ہمیں ایسی مختصر وقتی نوازش سے مزید تکلیف دینا چاہتے ہیں، یہ جانتے بوجھتے کہ آپ سے ہی ہماری حسرت برداشت نہیں۔ آپکا یوں ہمارے لیے بے قرار ہونا ، ہمارے اندر آپ ہی کی حسرت جگا دے گا مشارب سو پلیز ہم سے دور رہ کر بات کریں"

وہ جو اسکے قریب کرنے پر بہت زیادہ بکھر گئی تھی، اس شخص پر کوئی رحم نہ کھاتی تڑپی جو ایک بار پھر زونی کے قریب آیا، جو خوفزدہ اور شاکی بھیگی نگاہیں لیے سر تا پا مشارب زمان کے دل میں اتر رہی تھی۔

"بہت دور رہ چکا ہوں، جبراً بھی اور اپنی انا کے ہاتھوں بھی لیکن اب نہیں رہ پا رہا نہ رہ سکوں گا۔ میں آپ کو خود سے دور کرتے کرتے ، اپنا سارا سکون غارت کر بیٹھا ہوں لیڈی۔ میرے پاس کوئی راحت نہیں بچی، میں نے آپ پر اور آپکی محبت پر جو قہر ڈھایا تھا، دیکھیں اسی قہر نے مجھے جلا کر راکھ کر دیا ہے"

وہ خود سے بے خود ہوتا، زونی کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے مضبوط آواز کو کرچیوں میں تقسیم کیے بولا، کہ اسکی آواز ڈوبتی ابھرتی ہوئی سیدھی زونی کے دل کو دہلا گئی۔

"ہم نہیں مانتے، آ۔۔آپ ہمیں کسی فریب میں ڈال رہے ہیں۔ آپ کو تو ہم سے کوئی سروکار نہیں تھا، آ۔۔آپ نے تو ہمیں صرف نام دیا تھا اور شرط رکھی تھی کہ ہم آپ سے اور آپکے گھر سے دور چلے جائیں۔ پھر بھلا اتنا دور چ۔۔چلے جانے کے بعد ہم آپکے دل کے قریب کیسے آسکتے ہیں؟"

وہ کسی صورت بھی مشارب کے کہے لفظوں پر یقین نہیں کر پا رہی تھی، مگر وہ اسے بنا یقین دلائے آج کہیں جانے والا نہ تھا۔

"آپ میرے گھر سے اور مجھ سے دور چلی گئیں مگر دل سے نہیں جا سکیں لیڈی، وہاں مسکن بنا کر بیٹھ گئیں۔ پلیز مجھے ان بے یقین نظروں سے مت دیکھیں، آپکو یوں قریب سے جی بھر کر دیکھنے کی حسرت کیسے کیسے کرب سے گزار گئی مجھے، آپکو تو اسکی خبر بھی نہیں ہو سکتی"

وہ اسے دھچکے پر دھچکا دیتا جب اسکے بازو کو نرمی سے پکڑتے ہوئے اپنے حصار میں لینے لگا تو وہ یکدم اسکی لپکتی کیفیت پر دو قدم دور ہوئی۔

"دور نہیں جائیں زونی، پاس رہیں خدا کے لیے"

اس بار وہ جس طرح تڑپ کر خود اسکے نزدیک آیا، وہ چاہ کر بھی اس ظالم سے دور نہ ہو سکی۔

"ڈر گیا تھا، بہت ڈر گیا تھا کہ آپ کو کبھی دیکھ نہیں پاوں گا۔۔۔۔ آپکو خود کے لیے بہت رلایا ہے میں نے، معاف کر دیں ، مجھ سے دور مت ہوں"

وہ جو اسکے حصار میں سب فراموش کر گئی تھی، جب اس شخص کی اپنے چہرے کی اور بھٹکی پیاسی نگاہیں دیکھیں تو سر تا پیر لرز گئی۔

اپنی خوبصورت آنکھوں میں وہ زونی کے لیے شدت بھری جنون خیزی دیکھ کر اپنے دل کو بھی اس ستم گر کے لیے مائل ہوتا محسوس کر رہی تھی۔

"ہم کبھی آ۔۔آپکے قریب تھے ہی کب مشارب! جو آپ ہمیں دور نہ جانے کا حکم سنا رہے ہیں۔ ہم نے تو ہمیشہ آپ سے محبت کی ہے، یہا۔۔یہاں تک کہ اظہار کر کے آپکے آگے بے آبرو ہوئے آپ سے آپکا نام تک التجاء کیے مانگ بیٹھے تھے، لیکن آپ نے ہمیں واقعی صرف رلایا ہے۔ آپ بھلے ہم سے دور رہیں، ہم اف تک نہیں کریں گے مگر ک۔۔کبھی کچھ بھی ہوجائے آپ ہ۔۔ہم کو دیا اپنا نام واپس مت لینا"

وہ جو اسکے چہرے پر اپنی نگاہیں جماتا، انگلیوں کی پوروں کی جلن، زونی کے چہرے کے خدوخال کی ٹھنڈک سے مٹاتا ہوا اسکے ہونٹوں پر نظریں جمائے کچھ بے خود ہونے کو لپکا ہی تھا، کہ وہ تڑپتی ہوئی اسے ہر جان نکالتے ستم سے روکتی ہوئی جو ٹھہر ٹھہر کر بولے مشارب کی دھڑکن تھما گئی اس پر کتنی ہی دیر وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔

سبز آنکھوں کے کنارے سرخائی سی جمع ہونے لگی تھی، اس لڑکی پر حسرت جچتی ہی نہیں تھی پھر بھلے وہ مشارب زمان خان ہی کی کیوں نہ ہو۔

وہ خود کو بہت مشکل سے اس لڑکی کی ہر تکلیف ختم کر دینے سے روکے، بس خاموشی سے زونی کی آنکھوں سے بہتے آنسو چنتا رہا۔

دونوں کی سانسیں ہی دقت سے دل کی فصیل پار کر رہی تھیں، دونوں کے دل بہت پرسوز تھے۔

"مشارب زمان خان آپکو اپنی جان دے کر وہ واپس نہ لے تو نام کیا چیز ہے، روئیں گی نہیں آپ۔ اب تو بالکل نہیں، آپکی یہ خوشبو بہت مس کی لیڈی، بے حد"

وہ جیسے ہر تکلیف سے نکلا تو اسکے اس انکشاف پر وہ بھی جیسے افسردہ سا مسکرا دی۔

"مگر ہماری خوشبو کا نشہ تو آپ نے کبھی کیا ہی نہیں پھر مس کیوں کیا؟"

وہ یہ معصوم سوال کر کے مشارب کے دل کو اسکے مرکز سے ہلا بیٹھی تھی، وہ ان سوال کرتے ہونٹوں کی ساری سرخی اپنے استحقاق بھرے اقدام سے مدھم کرتا جب اس منجمد ہوتی سانسوں والی کی بند آنکھیں دیکھنے زرا فاصلہ بنا پایا تو جو مسکراہٹ اس جلتے سینے اور ادھوری سانسوں والے کے چہرے پر اتری وہ کسی کو بھی فنا کر سکتی تھی۔

"آج تک صرف آپ کی خوشبو کا نشہ ہی تو کیا ہے لیڈی، پر اب سے آپکی ان مہکتی سانسوں کا کروں گا جس سے ممکن ہے میرا ہر درد ختم ہو جائے"

وہ جو مشارب کے شدت بھرے لمس سے تھرا اٹھی تھی جب کان کی اور جھک کر کی اس ظالم کی یہ سرگوشی سنائی دی تو اس نے سختی سے اپنے ہاتھوں میں مقید مشارب کی شرٹ بھینچ لی۔

اسکا دل اب تک مشارب کے اسی لمحے قید کرتے فسوں میں لپٹا دھڑک رہا تھا۔

"بہت برے ہ۔۔ہیں آپ، ای۔۔یسے کون جان لیتا ہے"

وہ اسکے سینے میں چہرہ چھپاتی ساتھ ہی اس اتنا سارا قریب کر لینے پر ہچکیوں سے روتی گئی اور وہ مسکراتا ہوا اسے خود میں بسائے اسکے یہ نازک سے شکوے مخظوظ ہو کر سنتا رہا۔

"جان لی نہیں، آپ کی جو بہت پہلے نکالی تھی وہ واپس آپکے وجود میں ڈال دی ہے۔ اب بتائیں کہ آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ اور وہ آدمی کون ہے۔ میں آپکو اب خود سے دور نہیں رکھ سکتا، میرے ساتھ حویلی چلیں"

کچھ دیر اسکی اس بے خود تکلیف کو کمر سہلائے کم کرتا رہا پھر جیسے ان بھیگی پلکوں والی خوبصورت آنکھیں باری باری لبوں سے چھوتا وہ سنجیدگی کے سنگ استفسار کرنے لگا جس پر وہ بھی سہم سی گئی۔

"ن۔۔نہیں۔ نانو کچھ بھی کر گزریں گی ہمیں حویلی نہیں جانا۔ نہ ہی مما ہمیں آپکے ساتھ جانے کی اجازت دیں گی، وہ جو ہیں وہ مما ہی کے جاننے والے ہیں۔ مما نے ہمیں اور مالنی یعنی ہماری کئیر ٹیکر کو ان کے پاس امانت رکھوایا ہے۔ ہم یہاں بالکل مخفوظ ہیں پلیز ہمیں ان گندے لوگوں میں نہیں جانا۔ اور م۔ما ناراض ہو جائیں گی۔ پلیز"

وہ یکدم حویلی کا نام سن کر ہی کانپ اٹھی اور جس طرح وہ تکلیف کے سنگ منت سماجت کرتی ہوئی التجاء کر رہی تھی، مشارب کے ماتھے پر بھی بل سے پڑے۔

"اور میری ناراضگی؟ آپ میرے پاس نہ آئیں تو میں ناراض ہو سکتا ہوں لیڈی۔ وہ آدمی تو مجھے دوبارہ یہاں گھسنے نہیں دے گا، پھر میں اپنئ ڈوبتی ادھوری سانسیں بحال کرنے کے لیے آپکی سانسیں کہاں تلاش کروں گا؟"

مشارب کے لہجے میں اک تکلیف اور حسرت تھی مگر زونی چاہ کر بھی اسکی اس سے زیادہ مسیحائی نہیں کر سکتی تھی۔

"ہم مجبور ہیں ن۔ناں، مما کو اگر پتا چلا کہ ہم آپ سے ملے تو وہ ناجانے ہم سے کیا سلوک کریں۔ ہم آپکے لیے کچھ نہیں کر سکتے ابھی، جب تک مما کا آپکے لیے غصہ ختم نہیں ہوتا ہم آپکے پاس نہیں آسکتے"

وہ اسے بہت بے بس اور مجبور لگی تھی مگر وہ کیا کرتا کہ زندگی اس پر برے طریقے سے تنگ کر دی گئی تھی۔

"اس عورت کے لیے آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں گی زونی؟ دیکھ نہیں رہیں کہ مجھے آپکی کتنی ضرورت ہے"

وہ بھی جیسے اسے امتحان سے دوچار کرتا شکوہ کیے بری طرح آزما رہا تھا مگر وہ بے اختیار تھی۔

"ہم۔۔یں بھی ہے مگر وہ ہماری مما ہیں، جیسی بھی ہیں۔ ہم نے انکی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ وہ ہماری جان بھی لے سکتی ہیں، اور اماں کہتی ہیں ماں جیسی بھی ہو بچوں کی تو ج۔جنت ہوتی ہے۔ ہم کیسے ان سے بغاوت کر لیں جنہوں نے اس وقت ہمیں اپنے ساتھ ہونے کی تسلی دی جس وقت ہم مکمل ٹوٹ چکے تھے"

زونی کی آواز کانپی تو وہیں وہ اس شخص کے روبرو بے بسی بنی نظریں جھکا گئی۔

"یعنی آپ کہنا چاہتی ہیں کہ وہ آپکے لیے مشارب زمان سے اہم ہو گئی، ٹھیک ہے۔ پہلے اپنی تڑپ آپ سے چھپا کر جی رہا تھا اب آپکو بتا کر بھی جی لوں گا۔ یہی سمجھ لوں گا کہ آپ نے دور رہنے کا فیصلہ لے کر مجھے میرے کیے کی سزا دی ہے"

وہ یکدم ہی بکھرے ہوئے ناراض لہجے میں کہتا اس سے پہلے اپنا کوٹ اٹھائے اس کمرے سے نکلتا، وہ لپک کر اسکی اور بڑھی اور مشارب کا ہاتھ اپنے دونوں نازک ہاتھوں سے جکڑ گئی۔

وہ اس لڑکی کے زنجیر کرنے پر واپس پلٹا تو زونی کی آنسووں سے بھری آنکھیں دیکھتا وہ کوٹ وہیں پھینکتا ایک بار پھر اسے پکڑ کر سینے سے لگا گیا۔

اس بار اس لڑکی نے بھی پوری شدت سے اپنی گرفت میں اس شخص کو لے کر اسکا سکون اسے سونپا تھا۔

"ہم آپکو کوئی سزا نہیں دے سکتے، ایسا مت کہیں۔ لیکن ہم آپکو ابھی کوئی آسانی بھی نہیں دے سکتے"

وہ اسے بہت بھرے دل سے بول رہی تھی اور وہ اسے روبرو لاتے ہی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھنے لگا۔

"تو آپ تک پہنچنے کے لیے مجھے اس ناپسند عورت کی منتیں کرنی پڑیں گی کہ وہ مجھے زونی سونپ دے، یہی چاہتی ہیں آپ؟"

یہ ستم تو اس خان زادے کی انا پر قہر تھا وہ کچھ نہ بولئ بس نزدیک آتے ہی اسکے دل کی جگہ پر اپنے ہونٹ رکھے بے بس مگر جان لیوا سا جواب دیتی سر اسکے سینے سے ٹکا گئی۔

"سوری، منتیں نہیں کرنی بس انکے دل کو نرم ہونے دیں۔ ہم مما سے بات کریں گے پرامس"

وہ جو یہ ستم ڈھا کر اسکے مضبوط سینے میں چھپ گئی تھی، مشارب نے جھٹکے سے اسے واپس روبرو لایا جسکی آنکھوں میں انجانا سا خوف امڈا۔

وہ مشارب کی نگاہوں کی بدلتے بے باک لمس سے جلد سہم کر اپنے خوبصورت ہونٹوں کو بھینچ کر اس شخص کی ساکت حیات میں ایسا بھنور چھوڑ چکی تھی جسکا انجام وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اس قدر قہر ناک ہوگا۔

"ٹھیک ہے لیڈی، آپ یہ ستم بھی کر لیں۔ لیکن اسکے بعد آپ خود کو مشارب زمان خان کے روبرو ہمت سے آنے کے لیے اچھے سے تیار کر لیجئے گا۔ کیونکہ ان مہکتی ہوئی سانسوں کا نشہ بہت بری طرح راس آکر میری عادت بننے والا ہے"

اپنے مضبوط انداز میں یہ معنی خیز، دل و روح اپنے اختیار میں لیتے لفظوں کے سنگ وہ زونی کے کانپتے وجود پر نگاہ ڈالتا دو قدم پیچھے ہٹا۔

ان شدت بھری نگاہوں کے لمس سے وہ بوکھلائی تھی، وہ ملاقات کو یہیں ختم کرنے کے لیے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے روبرو کرتا، اس لڑکی کی حیا اور تکلیف کی ملی جلی کیفیت سے بھیگی آنکھیں تکتا، وارفتگی سے ایک بھرپور نگاہ ڈالے اسکے انتہائی نزدیک ٹھہرتے ہوئے ماتھے کو لبوں سے چھوئے دور ہوا، اپنا صوفے پر رکھا کوٹ اٹھا کر بازو پر رکھا اور زونی پر اک محبت بھری مگر افسردہ نگاہ ڈالتا وہ دروازے کی سمت بڑھا اور کمرے سے نکل گیا۔

اور وہ جو اس اچانک سے قریب آجاتے مشارب زمان کے سحر میں اب تک ڈوبی تھی، وہیں بے جان سی ہو کر صوفے پر بیٹھی۔

لرزتے ہوئے ہاتھ کو اٹھائے اس نے اپنے چہرے کے اس اس نقش کو عقیدت سے چھوا جسے وہ ظالم ہونٹوں سے چھو کر اپنے لیے بےقرار چھوڑ گیا تھا۔

عجیب سا سکون، الگ سی سرشاری تھی جو زونین کے پورے وجود میں اترتی چلی گئی۔

اگلی پرنور سحر آہستہ آہستہ زمین زادوں پر پھیل رہی تھی، درختوں پر بیٹھے پرندے حمد و ثناہ میں مصروف تھے وہیں صبح کی دھیمی دھیمی لو، کمرے کی کھڑکی پر گرے پردوں سے اندر جھانک رہی تھی، وہ اسے بے خبری میں ہی سہی ساری رات اپنی آغوش کے پرسکون لمس سونپتا رہا تھا جسے اس ٹوٹی ہوئی لڑکی نے بے خبری میں قبول کیا مگر وہ یہ بھول گیا تھا کہ اگر اسکی یہ قریب تر رہ کر رات گزارنے کی گستاخی اس لڑکی کو معلوم ہوئی تو وہ قہر ڈھا دے گی۔

کسی مانوس سے احساس تلے، اپنے چہرے کی جانب پھیلتی گرم سانسوں کو محسوس کیے، اشنال نے اپنی درد کرتی آنکھیں کھولیں تو خود کو کسی کی شدت بھری گرفت میں محسوس کیا، اس سے پہلے کہ وہ اپنے حواس بیدار کیے خود کو اس اپنی طرف سے ممنوع ہو جاتے حصار سے الگ کرتی، اس لڑکی کے جسم میں پیدا ہوتی مزاحمتی حرکت پر ضرار کی بھی آنکھ کھلی۔

توجہ پوری خاضر کیے اس نے اشنال کو اپنے حصار میں لینا ہی چاہا تو وہ اسکے ہاتھ جھٹک گئی، جس پر ضرار نے تکلیف کے سنگ وہ سوجھی ، سرخی میں ڈوبی آنکھیں خود پر سفاکی سے جمی پائے رہے سہے تمام احساسات بیدار کیے۔

"دور مت جائیں صنم، یہاں آئیں"

وہ جیسے اسکے دور سرکنے پر بے قرار ہوتا اپنا ہاتھ اسکی اور بڑھائے بولا مگر وہ تو یوں تھی جیسے ہوش میں آتے ہی وحشی ہونے لگی ہے۔

اس سے پہلے وہ اسکے دور ہونے پر سنبھلتا، اشنال نہ صرف اسکی بازو جھٹک کر نا صرف ایک جسٹ اٹھی بلکہ خونخوار آنکھوں سے تکتی اس پر بیڈ کے تکیے اٹھائے پھینکتی چینخنے لگی۔

"ت۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے اتنے قریب آنے کی، مجھے چھونے کی۔ کہا تھا ناں کہ حرام ہو گیا ہے تم پر تمہارا صنم، لیکن تم نے مجھے گناہ گار کیا۔ نہیں چھوڑوں گی تمہیں بے حس، سنگدل، سفاک انسان"

وہ یکدم ہی کسی جن زادی کی طرح ضرار کی کسی بات کو تسلیم نہ کرتی حلق کے بل چلائی اور جیسے وہ خود بھی اس اچانک افتاد پر بوکھلاتے سمجھ نہ پایا کہ اس لڑکی کو ہوا کیا ہے۔

وہ بے قابو ہوتی اردگرد کچھ تلاشتی ہوئی ڈریسنگ تک پہنچی اور اس پر پڑی ضرار کی گن اٹھائے مڑ کر کٹھور بنی اس گن کو لوڈ کرتی ضرار پر تان گئی جسکے سارے ہوش لمحے میں اڑے، وہ تو اشنال کی ایسی جنونی حالت پر ہی سکتے میں جا چکا تھا۔

"ن۔۔نہیں میری جان، چھوڑ دیں اسے۔ یہاں دیں مجھے۔ میں نے کچھ نہیں کیا، ریلکس ہو جائیں"

وہ اپنے ڈوبتے، تڑپتے دل کے ساتھ اس لڑکی کو بہلانے کی کوشش میں قریب آنے کی کوشش میں تھا پر اس لڑکی پر تو جیسے خون سوار تھا۔

پھر جیسے اپنے تمام حواس یکجا کرتا وہ بیڈ سے اٹھا اور لمحے میں اس تک پہنچے اشنال کے ہاتھوں میں جکڑی گن لینی چاہی مگر وہ مسلسل چینخی، دھاڑتی اس کو پرے جھٹکتی ٹریگر پر ہاتھ جماتی اپنے ہوش کھو چکی تھی، شور سن کر عزیز خان اور خدیجہ خانم بھی کمرے تک پہنچے مگر گولی کی جان لیوا آواز بلند ہو کر ان چاروں کے چہرے پر سفیدی لا چکی تھی۔

ضرار نے اس سے گن تو چھین لی پر گولی ضرار کی بازو کو زرا سا چھو کر سیدھی سامنے والی دیوار میں جا دھنسی اور ضرار نے بے اختیار اپنی گن پرے پھینکتے ہی اپنی بازو جکڑی جہاں سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تھا۔

خود اس اچانک ہوتے فساد پر دروازے میں کھڑے دونوں نفوس پتھر کے مجسمے بن گئے جبکہ اشنال یہ کر کے خود سسکی روکنے کی خاطر منہ پر ہاتھ رکھ چکی تھی جبکہ اسکی سرخ بھیگی آنکھیں ضرار کے درد دیتے تاثر سے سجے چہرے سے ہوتی لہو لہان بازو پر تھی، مگر ضرار اپنی بازو سے نکلتے خون کو بھلائے، اسے پکڑ کر خود میں سموئے اسے اس جنونی کیفیت سے نکالنے کو خوفزدہ ہوئے بھینچ گیا جو اپنے ہاتھوں یہ کر بیٹھنے پر خود بھی ضرار کے سینے میں دبکی، ہچکیاں بھر بھر کر رونے لگی۔

خود عزیز خان اندر دوڑے، جبکہ خدیجہ بھی سرخ ہوتی آنکھوں سے ضرار اور اشنال کو تکتیں قریب آئیں جو روتے ہوئے بھی، سینے پر مکے برساتی اسے بری طرح پرے دھکیل رہی تھی۔

"شش! بس۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔ روئیں مت اشنال"

وہ اپنا خوف اور درد بھلائے، اس لڑکی کی سسکیوں پر تڑپا تھا جو اسے بری طرح پرے دھکیلتی خدیخہ خانم کے سینے میں جا چھپی جبکہ خود عزیز خان نے ضرار کی جانب تکلیف کے سنگ دیکھا۔

وہ تینوں ہی اس لڑکی کے وحشی پن پر خوف زدہ تھے جو آج ضرار کو واقعی مارنے والی تھی۔

اس نے اپنے بازو پر جکڑی ہتھیلی ہٹا کر سامنے کی تو وہ خون سے سرخ تھی پھر اک جگر پاش نظر خدیجہ خانم کی آغوش میں اکھڑے اکھڑے سانس بھرتی اشنال کو جس نے واقعی بے حسی کی حد کر دی تھی۔

"بس بچہ، کیا ہوگیا۔ ایسے کیوں کر رہی ہو میری جان۔۔آو ہم باہر چلیں۔ پرسکون ہو جاو۔ شاباش"

وہ ماں بھی جیسے اشنال کی جان نکالتی پرسوز حالت نہ دیکھ پائی تبھی اسے ساتھ لگاتی، اسکے آنسو پونجھتی باہر نکل گئیں جبکہ انکے باہر جاتے ہی عزیز خان نے قریب لپکتے اس کی زخمی بازو پر اشنال کا ہی دوپٹہ پھاڑے باندھا جسکی آنکھوں میں سرخی گھل چکی تھی۔

دل تو جیسے ہزار ٹکڑوں میں بٹ کر سینے میں بکھر گیا تھا، اشنال کی حالت اس مضبوط اعصاب والے کو ریزہ ریزہ کر گئی تھی۔

"حوصلہ کرو ضرار! "

وہ خود اتنی ہمت نہ کر پائے کہ نظر اٹھا کر اس شیر کی بھیگی آنکھیں دیکھ پاتے تبھی کانپتی آواز کے سنگ جس طرح بولے، ضرار نے انکے ہاتھ سے اپنی بازو بے دردی سے چھڑوائی۔

"اب حوصلے کی ہمت نہیں ہے عزیز خان، انھیں جلدی ریڈی کروائیں۔ میں ہوسپٹل پہنچتا ہوں، آپ بھی فوری پہنچیں۔ ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ لڑکی ہر طرح سے میری جان لینے پر اتر آئی ہے، اور یہ دیکھنا م۔۔میرے لیے بہت اذیت ناک ہے۔ جلدی پہنچیے گا"

اپنی مضبوط آواز کو کرچیوں میں تقسیم کرتا وہ رکا نہیں، فرش پر گری گن، اور صوفے پر رکھی اپنی جیکٹ اٹھاتا وہ دلبرداشتہ سے کمرے سے نکل گیا اور اسکے جاتے ہی عزیز خان کی آنکھیں تیزاب جیسے آنسووں سے بھر گئیں۔

اشنال کی حالت ان تینوں کو زندہ مار رہی تھی اور یہ بہت کربناک تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ایک نئی صبح زمین زادوں پر اتر چکی تھی، گہری سیاہ تاریک اور بھیانک رات بسر ہو چکی تھی۔

وریشہ صبح صبح حویلی آئی تھی کیونکہ جانے سے پہلے وہ گلالئی کو اشنال کی حفاظت سونپنا چاہتی تھی۔

"میں جا رہی ہوں گل، اب تم کافی بہتر ہو اس لیے اشنال کے ساتھ سائے کی طرح رہنا۔ اسکا پورا دھیان رکھنا باقی اسے اس منحوس شہیر سے بچانا میرا کام ہے"

وہ جب گلالئی کے پاس آئی تو وہ قدرے بہتر ہوجاتی فرخانہ کے حکم پر ملازمہ کے ساتھ مل کر صبح کا ناشتہ بنا رہی تھی جب وری اسکا ہاتھ پکڑے باہر حویلی کے باغ کی طرف لائی، وریشہ کے جانے کا سن کر گلالئی کی بھی آنکھیں بوجھل ہوئیں۔

"میں اپنی جان سے بڑھ کر انکی دیکھ بھال کروں گی، آپ بالکل فکر مت کریں"

گلالئی کی جانب سے یہ تسلی ملنا وریشہ کو ان کشیدہ حالات میں قدرے پرسکون کر گیا۔

"گڈ، اپنا بھی دھیان رکھنا اور ان فسادی وڈیروں سے اور انکی چالوں سے بچ کر رہنا۔ اب تم جاو، اللہ حافظ"

وہ گلالئی کو گلے لگا کر ملتی، چند تاکیدیں سونپتی ہوئی اسکے جانے کے بعد کچھ لمحے وہیں کھڑی رہی اور پھر جیسے کسی ناپسند چہرے نے اسکی آنکھوں کا منظر بدلا، وہ گہری براون شرٹ اور جینز میں ، اپنے بالوں کی بھدی اور وریشہ کو ایک آنکھ نہ بھاتی پونی کیے، جلتی سلگتی مسکراہٹ لیے مناسب فاصلے پر آکر کھڑا ہوا، اپنے ساتھ آتے دونوں حویلی کے ملازموں کو اندر جانے کا حکم دیتا اس لڑکی کی نفرت اور حقارت تکتا مخظوظ ہوا جبکہ تمام توجہ اس بے باک لڑکی کی جانب مبذول کی جو مکمل سفید میں اس پرنور صبح کا ویسے ہی نور لگ رہی تھی مگر ان نورانی آمنے سامنے میں وریشہ کی نفرت چھلکاتی آنکھیں اور بھینچی صورت نے شہیر مجتبی کو عجیب سا سرور بخشا۔

"آہاں! صبح صبح تمہارا دیدار ہو گیا۔ لگتا ہے آج میرا لکی ڈے ہونے والا ہے"

اسکا تیز آنچ دیتا بے خود، بہت کچھ جتاتا لہجہ بمشکل برداشت کرتی وری اپنے امڈتے اشتعال پر ہر ممکنہ قابو پاتی مدعے کی جانب آئی۔

"بکواس نہیں، میں نکاح کے لیے تیار ہوں۔ اپنا نمبر دو، اس پر اپنے اپارٹمنٹ کا ایڈریس بھیج دوں گی۔ اپنے گواہ اور قاضی کو لے آنا۔ نکاح آج دن میں ہو تو زیادہ مناسب ہے"

اول تو وہ بڑے تحمل سے اس کی بات ضبط کر پائی پھر جیسے اس شیطان کو جتاتی نفرت انگیز نظروں سے سلگاتی جو بولی، شہیر کے چہرے پر حیرت انگیز مسکراہٹ پھیل گئی۔

"تم نے تو شام تک کا انتظار بھی نہیں کیا۔ آئی لائک اٹ۔ لکھو نمبر، دل پر لکھ لو شاباش"

وہ اسکے کرخت چہرے اور کرخت لہجے دونوں کو بمشکل برداشت کرتی اپنے فون پر اسکا لکھوایا نمبر لکھنے لگی پھر ساتھ ہی مس کال دی جس پر شہیر کی جینز کی پاکٹ میں دبا فون چنگارتی ٹیون کے سنگ تھرا اٹھا۔

"تم تو مجھ سے بھی فاسٹ نکلی بے باک لڑکی؟ کیا اتنی جلدی ہے میرا ہونے کی"

وہ جو اس فضول سے مزید کوئی بات نہ کرنے کا تہیہ کرتی جانے کو لپکی، شہیر کے آگ لگاتے جملے پر ناصرف واپس پلٹی بلکہ تابناک آنکھیں شہیر پر گاڑے اسکے چہرے کے نزدیک ہوئی، وہ یوں تھی جیسے ان آنکھوں کی آگ سے ہی شہیر کا جسم جلا دے گی۔

"ایسا ہی سمجھ لو، گند کو جتنی جلدی صاف کیا جائے اتنا بہتر ہوتا ہے۔ وقت پر پہنچ جانا، ورنہ ایسا نہ ہو تمہاری کی گئی دیر، میرا ارادہ بدل دے۔ اب ہٹو نحوست کی دکان"

وہ بے خوفی اور بہادری سے اس شہیر کو آگ لگاتی، ساتھ ہی اسکی نفرت کے باعث سرخ آنکھوں میں استہزایہ ہوئے تکتی اسے بری طرح اپنی راہ سے پرے کرتی دیکھتے ہی دیکھتے حویلی کا دروازہ پار کر گئی اور وہ وہیں جبڑے بھینچتا رہ گیا۔

"بہت زبان چل رہی ہے تمہاری وری ڈارلنگ، آج ہی تمہاری یہ زبان ہمیشہ کے لیے بند نہ کر دی تو کہنا۔ دیکھ لوں گا تمہیں بھی اور تمہارے اس غرور کو بھی"

وہ اسکے اوجھل ہونے پر انتقامی سا ہوئے تلملایا اور پھر جیسے اسکی خوفناک سیاہ آنکھوں میں اک خونخوار سا جنون ہلکورے لینے لگا، کچھ دیر وہیں کھڑا رہنے کے بعد وہ خود بھی حویلی کی اندرونی جانب بڑھ گیا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"یہ مالنی اور زونی کہاں ہیں؟ آپ جانتی بھی ہیں کہ سیٹھ طلال کے ساتھ پنگاہ لے کر آپ نے کتنی سنگین خطا کر دی ہے"

رات جانے کتنی لیٹ وہ حویلی آیا تھا وہ بھی نشے میں دھت پھر اسے ہر رات کوئی لڑکی چاہیے ہوتی جو ساری رات اسکی وحشت سہتی رہتی تبھی تو اسکے منہ پر پھٹکار تھی، وہ بدکاری ، جوئے اور یہاں تک شراب نوشی کا اخیر دلدادہ بن چکا تھا اور کنو بائی اس کی عبرت پر کبھی کبھی تمام سنگدلی کے کانپ اٹھتی تھی۔

اسے نہا کر وہیں باہر دالان میں لگے تحت کی جانب آتا دیکھ کر پہلے ہی کنزا نے لہو آشام نگاہ ثبت کی تو اسکے بیٹھتے ہی کیے استفسار پر تو کنزا کو آگ لگ گئی۔

"میری سب سے بڑی خطا تیرے جیسا منحوس پیدا کرنا تھی، خوبخو اپنے کمینے باپ پر گیا ہے مردود۔ اپنی اس منحوس زبان سے اب نہ مالنی کا نام لینا نہ زونین کا۔ وہ جہاں بھی ہیں کم ازکم ہر شر سے دور ہیں۔ تیرے جیسا جوان بیٹا ہونے کے باوجود میں اپنے کرموں کو پیٹ رہی ہوں، اس سے بڑی میری بدقسمتی کیا ہوگی۔

رہی بات اس حرام زادے طلال کی ، تو تلوے چاٹ اسکے اور کر اسکی چاکری۔ مجھ سے اب اسے لعنت ہی ملے گی"

کنزا جو رات بھر بہت بے سکون رہی تھی، زرا آکر سکون لینے کو نازلی سے اپنا من پسند حلوہ پری بنوایا اور کھانے ہی بیٹھی تھی مگر اس سرمد کو دیکھ کر اور اسکے سوال پر اسکی ساری بھوک مر گئی۔

الٹا وہ بھی اماں کے کاٹ کھانے پر ڈھٹائی سے اسکی چھوڑی حلوہ پوڑیاں ٹھوسنے لگا۔

"اف اتنی گرمی! ہوا کیا ہے جو کاٹ کھا رہی ہے کنو بائی۔ اب جب مجھے اس کوٹھے پر لائی تھی تب سوچتی ناں میرے بارے میں۔ میں نے جو اپنے اردگرد دیکھا ویسا ہی بن گیا اور اب سدھر کر کرنا بھی کیا ہے، پہلو میں ایک عورت ہو حسین سی، ہاتھ میں شراب  ہو، جوئے کی بازی چل رہی ہو۔ یہی تو آپن کی عیاشی بھری زندگی ہے"

بنا کنزا کی کسی ملامت کا اثر لیے وہ پھر سے اردگرد صبح کی نرم دھوپ میں اپنے اپنے کام نمٹاتی حسین حسین لڑکیوں کو خباثت سے دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر رہا تھا تبھی کنزا نے اپنا کھسہ اتار کر سیدھا اس منحوس کی جانب پھینکا جو اسکے کندھے سے زرا سا مس ہوئے زمین پر جا گرا تھا۔

"انہی حرکتوں کی وجہ سے بہت بری موت مرے گا کسی دن، کچھ انسان کی اپنی عقل بھی ہوتی ہے پر تیرے دماغ میں تو بھوسا بھرا ہے بلکہ گندا گوبر۔ اٹھ دفع ہو جا، تیری شکل دیکھ کر ہی غضب چڑھتا ہے"

کنزا کا عتاب حدوں کو چھوا تو وہ بھی منہ بسورتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، نظروں کا مرکز کمرے کے باہر سے اندر جاتی نازلی تھی اور سرمد کی نجس نظریں بتا رہی تھیں کہ ماں سے بے عزت ہونے کا غصہ اب وہ بس اس لڑکی کے حسن کے گھونٹ بھر کر ہی کم کر سکتا تھا۔

"لیکن مجھے کوئی اثر نہیں ہوتا، آپن کا مرنا جینا یہی کوٹھا ہے، یہی حسن سے لدی پریاں ہیں جنکی باہوں میں آخری سانس لے گا سرمد۔۔۔ تو جل جل کر کالی ہو جا، کوٹھے کا کام ٹھپ کروا دے بس"

بنا کنزا کی حقارت کی پرواہ کرتا وہ بڑے عیاش پن سے یہ کہتا اسی کمرے کی طرف بڑھا جہاں کچھ دیر پہلے نازلی گئی تھی۔

وہ کنزا مما کے تمام کپڑے استری کیے انکی الماری میں ہینگ کر رہی تھی، اپنا بھی کیونکہ ہر رات اسکے رقص کی محفل ہوتی تھی اور کنزا نے اسے آج بھی رات کے لیے سب سے اچھا جوڑا نکال کر استری کرنے کی تاکید کی تھی۔

وہ اپنے ہی دھیان میں کپڑے استری کرتی ہوئی کچھ گنگنا رہی تھی جب سرمد، آنکھوں میں غلاظت اور سرور سا بھرے پردہ ہٹائے اندر آیا، وہ تب بھی اپنے کام میں مگن رہی مگر جیسے ہی سرمد نے اسکے پشت سے تھامنا چاہا وہ بمشکل حلق سے نکلتی چینخ روکے خوفزدہ ہوتی پلٹی۔

جبکہ اسکے یوں ڈرنے پر سرمد چوہدری کا دل بہک اٹھا۔

"کیا چیز ہے تو نازلی! اتنی لذت آمیز کہ دل تجھے دیکھنے سے بھرتا ہی نہیں۔  دل چاہتا ہے میری ایک شب تو بھی سجا کبھی ، باقیوں کا پتا نہیں، تیرے فقط آس پاس ہی عجیب سا قرار ، انگ انگ چڑھ جاتا ہے، اس منحوس شخص کے علاوہ بھی کبھی کسی کی رات سجا، تجھے خوش کر دوں گا"

وہ جس طرح اسکی اور لپکتا ہوا اسے استری میز سے لاک کرتا، نزدیک ہوا تو اسکے ہاتھ نازلی کی گردن کو چھونے لگے، اسکی نرم نازک جلد کی ملائمٹ محسوس کرنے لگے، جبکہ پیلے رنگ کے لباس میں دہکتی وہ مومی گڑیا،آنکھیں سختی سے میچے خوف سے پھڑپھڑا رہئ تھی، اور جب جب وہ اسکے قریب آنے پر خوف کھاتی، سرمد چوہدری کا نشہ تھا کہ بڑھنے لگتا۔

"م۔۔مجھے چھوڑ دیں پلیز، میں کسی کی ہوس مٹانے کا سامان ن۔۔نہیں ہوں۔۔۔وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا اگر تم نے م۔۔مجھ پر گندی نظر ڈالی"

وہ جو اسکی گالوں کو چھو کر خمار میں مبتلا ہو رہا تھا، نازلی کے سسکنے اور اپنی جانب سے ناجانے کس کا نام لے کر ڈرانے پر شر انگیز مسکراتا ہوا کچھ دور ہوا۔

"تبھی تو، کسی کی امانت شدہ عورت کو چھونے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ایسا کیا ہے اس میں کہ تو اسکے علاوہ کسی کے ساتھ شب نہیں گزارتی، طوائف پر کسی ایک کے لیے پابند ہونا نہیں جچتا اور پھر وہ تجھے چھوتا بھی نہیں، کیا فائدہ۔ تیرے حسن پر کالک لگا کر چلا جاتا ہے سالا"

وہ لپکتی ہوس کے سنگ نازلی کے گداز حسن پر تفصیلی نگاہ گاڑے جو بولا، ناچاہتے ہوئے بھی نازلی کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔

کسی مانوس سی آواز نے اسکے کانوں میں دستک دی۔

"جب تک تمہیں کسی سے اور کسی کو تم سے محبت نہیں ہو جاتی نازلی، تمہیں اس کوٹھے پر جسم فروشی سے بچاوں گا۔ نہیں جانتا ایسا کیوں کروں گا مگر دل کو عجیب سی خوشی ہوگی۔ یا شاید اس طرح میرے کسی گناہ کی تلافی ہو جائے"

وہ آواز سرد اور ناراضگی بھری ہو کر بھی نازلی کے دل کو ڈھارس دے گئی، ناجانے وہ کون تھا مگر جو بھی تھا اس کا ہاتھ نازلی نامی اس لڑکی پر ضرور موجود تھا جسکی خبر پورے کوٹھے کو تھی۔

"اس سے آپکو مطلب نہیں ہونا چاہیے، ہٹیں پیچھے۔ اگر آپ نے دوبارہ میرے قریب آنے کی کوشش کی تو مما کو شکائیت لگاوں گی۔ وہ خود آپکو حویلی سے دھکے دے کر نکلوائیں گی"

وہ ڈھارس دیتا لہجہ یاد آتے ہی نازلی میں ہمت سی بھری اور وہ بری طرح اس خود پر حاوی ہوتے سرمد چوہدری کو پیچھے دھکیلتی ہوئی تیز تیز قدموں سے اپنا رکا سانس بحال کرتی کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ سرمد چوہدری کو ہمیشہ کی طرح اس منحوس کی وجہ سے اس لڑکی کی دھتکار ملی۔

کوٹھے کی کوئی لڑکی نہیں تھی جسے اس نے چھوڑا تھا سوائے مالنی اور نازلی کے۔

مالنی کی حفاظت کنو بائی نے آج تک خود کی جبکہ نازلی کی وہ کرتا آیا تھا، پچھلے کئی سالوں سے۔

سرمد چوہدری کی آنکھوں میں ہتک کے احساس نے انگارے سلگا دیے تھے اور وہ مٹھیاں بھینچتا خود بھی اس دھتکار پر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکلتا ہوا، ساتھ ہی حویلی سے بھی نکل گیا اور کنزا نے افسوس اور تکلیف کے سنگ اپنی اولاد کی ابتر حالت پر اپنا سر پیٹ لیا۔

                     ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ضرار کی پٹی نرس نے کر دی تھی اور زخم معمولی ہونے کے باعث اسے بس تین وقت پین کلر کھانے کی تاکید کی جسکے بعد وہ اجڑا سا دل لیے ہوسپٹل روانہ ہو گیا، جبل زاد سے اسکا اس بیچ مسلسل رابطہ تھا، اور دادا سائیں کل سے اب تک اس سے ضرار کا کئی بار پوچھ چکے تھے۔

تبھی اس نے رات تک واپس آنے کی خبر دیے کال کاٹی اور ڈرائیونگ کرتا اپنے دوست داود ہاشمی کے ہوسپٹل پہنچا جسکے پاس اشنال کی آج آپائنٹمنٹ تھی۔

وہ پہلے پہنچ کر اشنال کی تمام ہسٹری پہلے ہی اسے بتا چکا تھا، جس کو جاننے کے بعد خود داود ہاشمی خاصا متفکر دیکھائی دیا۔

آدھے گھنٹے تک وہ بھی بابا اور اماں کے بہت اصرار کے بعد ہوسپٹل پہنچ آئی مگر اس بار ضرار نے اسکے سامنے جانے کی غلطی نہ کی۔

اشنال کو وہ سپیشل روم میں لے گیا جہاں اسکے ساتھ ایک سائکیٹرس لڑکی بھی موجود تھی جبکہ دوسری نرس تھی۔

ایک دو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد اشنال کو انہوں نے سپیشل روم میں ایڈمنٹ کروا دیا اور خود چار گھنٹے کے انتظار کے بعد رپورٹس کے سنگ اپنے آفس میں آیا جہاں میثم ضرار چوہدری دم دیتی اذیت سے گزرتا ہوا اشنال کے وحشی رویے سوچ سوچ تکلیف میں ڈوب رہا تھا۔

"کیسی حالت ہے انکے دماغ کی داود؟"

وہ اندر داخل ہوتے داود کے چہرے پر پھیلی پریشانی دیکھ کر مزید دل ڈوبتا محسوس کر رہا تھا اور اسکی پریشانی اسکے سوال میں بھی امڈی۔

"بہت بری، ان فیکٹ انتہائی بری۔ وہ dissociative amnesia کا شکار ہو چکی ہیں ضرار۔ جس کی بنیادی علامت ماضی کے واقعات یا ذاتی معلومات کو یاد رکھنے میں اچانک ناکامی ہے۔  اس عارضے میں مبتلا کچھ لوگ الجھن کا شکار ہو سکتے ہیں اور ڈپریشن  یا کئی مزید خطرناک نفسیاتی امراض کا شکار تک ہو سکتے ہیں۔ یہ سب بہت بڑے دھچکے یا صدمے کے باعث ہوا ہے، اور ایسے پیشنٹ ڈپریشن میں اس درجہ اتر جاتے ہیں کہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں"

ڈاکٹر داود ہاشمی تمام حقائق بہت صاف گوئی سے بتا رہا تھا اور ضرار کو ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے سماعت میں کوئی ہتھوڑے برسا رہا ہو، صبح اسکی حالت دیکھ کر وہ بھی کچھ ایسی ہی امید کر رہا تھا۔

"اور اسکا علا۔۔لاج؟"

وہ چاہ کر بھی آواز کو ٹوٹنے سے بچا نہ سکا جس پر داود ہاشمی بھی بوجھل ہوا۔

"جیسا کے تم نے بتایا کہ تمہارے طلاق نامے پر دستخط کرنے کی خبر ہی وہ دھچکا تھا تو اسکا صرف ایک حل ہے، وہ اسی چیز کو اپنے ذہن میں سوار کر چکی ہے اور باقی سب اسے بھول چکا ہے۔ جب تک شہیر اسکو اسکے سامنے طلاق نہیں دیتا ، اور تم دوبارہ اس سے نکاح نہیں کر لیتے، وہ تمہیں قریب نہیں آنے دے گی۔ یعنی اس کا دماغ یہ مان چکا ہے کہ تم نے اسے چھوڑ دیا اور وہ شہیر کی منکوحہ بن گئی۔ دواوں کے علاج سے اسکا ڈپریشن کم کیا جا سکتا ہے مگر تمہیں لے کر اسکی وحشی حالت صرف اسی صورت سنور سکتی ہے۔ اسکے علاوہ اسے بہت ساری مارل سپورٹ کی ضرورت ہے ضرار، اسکا دھیان بھٹکانے کی ضرورت ہے۔ اسے کسی چیز یا کام میں مصروف کرنا ہوگا تاکہ وہ اس کنڈیشن سے باہر نکلے"

داود ہاشمی نے تمام حقائق سے ضرار کو پروفیشنلی اور دوستانہ دونوں طرح آگاہ کیا تھا اور اسکا تو یہ سب سن کر دماغ پھٹنے لگا۔

آخر یہ کیسی آزمائش تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی، وہ اٹھ کر کھڑا ہوا، اضطرابی انداز میں گہرے گہرے سانس بھرتا بالوں میں ہاتھ پھیرے کمرے میں چکر کاٹنے لگا، ایک ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں سے سر کی ابھر آتی درد کرتی رگیں دبائیں جبکہ داود ہاشمی بھی دلسوز سی نظر ضرار پر ڈالے اسکی مشکل میں آسانی کی دعا کرتا دیکھائی دیا۔

"ہمت کرنی ہوگی ضرار، اسے ابھی ہی تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ میں جانتا ہوں یہ سہنا مشکل ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں۔ تمہیں کچھ بھی کر کے شہیر کو قائل کرنا ہوگا کے وہ اس تماشے کو ختم کرے، پھر تم دوبارہ نکاح کر لینا تاکہ وہ اس مینٹل ڈس آرڈر سے باآسانی نکلے اور یہ بھی یاد رکھنا کہ وہ خود کو شہیر کے نکاح میں موجود پا کر سراسر اذیت میں رہے گی سو جو کرنا ہے جلدی کرنا"

ملال اور کرب کسی نوکیلے کانٹے کی صورت ضرار کے وجود کو کاٹ رہا تھا جبکہ گہری سانس بھرتا وہ خود کو تقویت دینے کی ناکام کوشش کرتا واپس کرسی تک آیا اور دونوں ہاتھ کرسی کی پشت پر ٹیکے جھکا۔

"ایسا کیسے ممکن ہوگا، وہ منحوس اتنی آسانی سے یہ تماشا ختم نہیں کرے گا"

ناجانے وہ کتنا ضبط کر رہا تھا کہ چہرہ لال بھبھوکہ ہوئے جا رہا تھا اور اسکی بات پر داود ہاشمی کو بھی تشویش ہوئی۔

"مجھے ایک اور بھی شک ہے، اشنال کے ساتھ کچھ اور بھی ایسا ضرور ہوا ہے جس نے اسکے دماغ کو دھچکا دیا ہے۔ یا شاید کوئی ایسا نازک معاملہ ہے جس سے تمہیں بے خبر رکھا جا رہا ہے"

وہ جس کے دماغ کی رگیں پہلے ہی پھٹنے کے قریب تھیں، داود کے اس شبہ پر بے یقین نظروں سے اسے دیکھنے لگا، اب تک اشنال کی حالت پر بھرپور نظر ثانی کرنے کے بعد جیسے دماغ بھی داود ہاشمی کے خدشے کی تائید کرتا سنسنا اٹھا۔

"پہلے مجھے شک تھا ، لیکن آج جس طرح اس لڑکی نے مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی ہے اسکے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ معاملہ واقعی نہایت سنگین ہے"

ضرار کا دل شدت سے بے قرار تھا، تکلیف تھی کہ ہر لمحہ وجود کے ریشے نوچ اور کاٹ رہی تھی، ضرار کی بات سن کر داود ہاشمی بھی اپنی نشت چھوڑے اٹھ کر اس بپھرے زخمی شیر کی سمت آیا۔

اسے پکڑ کر اپنے روبرو ٹھہرا کر دونوں کندھوں سے تھامے اسکی جلتی آنکھوں میں اپنی تشفی بھری آنکھیں ڈالیں۔

"تو پہلے تم پر فرض ہے کہ اسکی حالت کے ذمہ دار معاملے کو تلاشو، باقی اسے کچھ دن حویلی سے دور رکھو یہی مشورہ دوں گا۔ کم ازکم تب تک جب تک اسکا ڈپریشن ختم نہ ہو جائے"

داود نے نرمی سے اسے معاملے کی نزاکت بھانپنے اور تمام حقائق جاننے کی جانب راغب کرتے ہوئے اشنال کی ذہنی ابتری کے لیے ایک بہتر ماحول کی بھی تاکید کی جس پر ضرار نے غائب دماغی سے سر ہلایا اور اک سرد سی نگاہ وہ داود پر ڈالتا اسکے آفس سے نکل گیا۔

خدیجہ اندر روم میں اشنال کے ساتھ تھیں جبکہ روم کے باہر اضطرابی انداز سے چکر کاٹتے عزیز خان کی جان تب نکلی جب وہ غراتا ہوا نہ صرف اسکی طرف آیا بلکہ اگلے ہی لمحے عزیز خان کو گریبان سے جکڑتا ہوا کوریڈور میں ہی لہرا کر دائیں دیوار سے پٹخ گیا۔

اپنے زخموں کی پرواہ کیے بنا آج وہ خونی آنکھیں لیے عزیز خان کے سارے احسانات بھاڑ میں جھونکتا اسے خوفزدہ کر چکا تھا۔

"کہا تھا ناں کہ اشنال سے متعلق کوئی بھی معاملہ مجھ سے چھپانے کی کوشش بھی مت کرنا عزیز خان، پھر تم نے ایسی جرت کیوں کی؟"

لہجہ اذیت زدہ مگر غصے سے لبریز تھا جبکہ اسکی چٹانی گرفت اس قدر جان لیوا تھی کہ عزیز کو لگا حلق گھٹ گیا ہو۔

"ض۔۔۔ضرار"

اپنی گردن پر دبتے ضرار کے ہاتھ پر عزیز خان کی جان نکلی ہی کہ وہ کانپتے لفظ بکھیرتا سسکا وہیں ضرار نے خون آشام نگاہوں سے اسے گھورتے ہی گردن کے گرد جمی گرفت مدھم کی۔

"مجھے صرف سچ سننا ہے عزیز خان، ایسا کیا ہوا ہے اشنال کے ساتھ؟ اگر تم نے مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کی یا جھوٹ بولا تو آج میرے ہاتھوں مر جاو گے"

اپنے مخصوص پر تنفر انداز میں وہ بولا نہیں، تنبیہی غرایا تھا جبکہ عزیز خان کو بھی اب اپنی راہ نجات صرف اسی میں محسوس ہوئی کہ وہ ضرار کو ساری حقیقت بتا دیتا۔

اور عزیز خان سے ملتی یہ سچائی اس شیر نے اپنی زندگی کی تمام ہمت جمع کیے سنی تھی، اسکی آنکھیں عزیز خان کے لفظوں پر جہنم کی طرح سلگ اٹھی تھیں، جسم دہک کر انگارہ ہو گیا تھا۔

اپنی پوری قوت سے وہ عزیز خان کو پرے دھکیلتا حلق سے بل دھاڑا کہ ہوسپٹل کا سارا سٹاف تک اسکی اس پھنکارتی آواز پر سہما، سب ہی اس کا بے قابو ہوتا اشتعال دیکھ رہے تھے جسکا بس نہ چلا وہ پوری دنیا کو آگ لگا دیتا۔

"گل خزیں خانم! تم تو گئی منحوس عورت۔ تمہیں خون کے آنسو نہ رلایا تو میرا نام بھی میثم ضرار چوہدری نہیں۔ جس زبان سے تم نے اشنال کے ساتھ یہ زیادتی کرنے کا حکم دیا تھا اسی زبان سے سسکیاں نکلواوں گا، تم اب اتنا ہی تڑپو گی جس قدر میں چاہوں گا"

اسکی آنکھوں میں انتقام اپنی پوری وحشت سے ہلکورے لے رہا تھا، یوں لگ رہا تھا وہ آج گل خزیں خانم کی سانسیں روک دے گا۔

وہیں سہما ہوا تکلیف میں ڈوبا عزیز خان بھی اذیت سے بلک رہا تھا جسے ایک بار پھر ضرار کی خونخوار نظروں کا سامنا ہوا تو وہ سہم کر دم سادھ گیا۔

"میری اب تمام باتیں اپنی موٹی عقل میں اچھے سے سمو لینا عزیز خان، آج یہ لوگ اشنال کو یہیں رکھیں گے کچھ ضروری ٹریٹمنٹ کے لیے جبکہ کل تم دونوں میاں بیوی اسے واپس اسی گھر لے جانا۔ حویلی سے اسے کچھ دن دور رکھنا ہے ۔ باقی میں واپس جا رہا ہوں، سب سے پہلے گل خزیں خانم کا حساب ہوگا پھر تمہارے باقی رشتہ داروں کی باری آئے گی"

اپنی محسوس کن حقارت کی تمازت بکھیرتا وہ عزیز خان کو تمام احکامات سونپتا ہی بنا اشنال سے ملے ہی بپھری موج بنا ہوسپٹل سے باہر نکل گیا جبکہ عزیز خان کا پورا وجود ڈر سے کپکپا رہا تھا، جس طرح ضرار گیا تھا، ضرور کوئی بڑی قیامت طے تھی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وریشہ کا گھر دو بیڈ رومز پر مشتمل تھا اور وہ پڑھائی کے بعد کچھ ماہ یہیں مقیم رہی تھی، اور حسب توقع اسکے پہنچنے کے ایک گھنٹے تک شہیر مجتبی اس پر اپنی گندی چال کی کامیابی کا جھنڈا گاڑنے پہنچ آیا تھا، جسکے ہمراہ نکاح خواں اور چند اپنے جیسے خبیث یار دوست تھے جنھیں وہ اپنی طرف سے گواہ بنا کر لایا تھا۔

یہاں تک کہ اس نے اپنے اس نکاح کی خبر نہ اماں کوثر کو دی نہ سانول مجتبئ کو، جس طرح اس نے وریشہ کو رازداری برقرار رکھنے کی ہدایت کی تھی ویسے ہی وہ بھی اکیلا ہی یہ معرکہ سرانجام دینے آیا تھا۔

اسکی آنکھوں میں امڈتا جیت کا نشہ ہو یا پل پل بڑھتی خماری، وریشہ یوسف زئی کو نہ تو اس کی شکل میں دلچسپی تھی نہ وہ اس سارے کھیل سے اس وقت کسی قسم کے احساسات کا شکار تھی۔

نہ تو وہ شہیر کے لیے سجی نہ اس نے کوئی تیاری کی، سنبھل سی ہاف وائیٹ ٹاپ اور جینز میں لپٹی وریشہ بس نکاح کے وقت اس نے سر کو اپنے حجاب سے ڈھانپ لیا۔

نکاح خواں نے اسکی اور شہیر کی باہمی رضامندی کے بعد گواہان سے اس نکاح کی گواہی لیتے ہوئے نکاح کی تصدیق کر دی۔

یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب اسے لگا کہ اس نے اپنی زندگی ، ایک دلدل میں دھنس کر ختم کر لی ہے، وہ جسے نکاح خواں نکاح کے بعد گلے لگاتے ہوئے مل رہے تھے، جب نگاہ اٹھائے اس نے شہیر کی آنکھوں کا استہزایہ رنگ دیکھا تو وریشہ کو لگا اسکا سانس اسکے اندر ہی گھٹنے لگا ہو۔

مزید ان سب کی آپس میں مسکراہٹ اور خوشی تبدیل ہوتی اس سے دیکھی نہ گئی تبھی وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی، اپنے بیڈروم کی جانب آئی اور بیڈ پر رکھے سٹمیپ پیر پر نگاہ ڈالے وہیں رک گئی۔

شہیر نے نکاح خواں کے ساتھ اپنے یار بیلیوں کو رخصت کیا اور خود اک نظر اپنے فی الحال دمکتے سراپے پر ڈالتا وہ لاونچ کی دیوار پر نسب آئینے کے سامنے رکا۔

سیاہ ٹائیٹ شرٹ پر کھلی گرے شرٹ اور بلو ڈینم کے سنگ چہرے کی شیطانیت پھر بالوں کا وہی پونی اسٹائیل جو اس پر بھلے جتنا جچتا ، اسکے باطل کی گندگی کے باعث اسکی آنکھوں کا سیاہ عکس تمام وجاہت کو دیمک لگا دیتی۔

بڑے مغرور تاثر کے سنگ وہ وریشہ یوسف زئی کے کمرے کی جانب بڑھا، اسکی چال میں عجیب سا تنتنا تھا۔

وہ جو بیڈ پر رکھے قانونی دستاویزات کو پکڑے سفاک بنی کھڑی تھی، اس شخص کی آمد کو اسکی مخصوص پرفیوم سے بھانپے فورا سے بیشتر پلٹی جو آج آنکھوں میں جو جان لیوا شدت لیے اسکے قریب آرہا تھا وہ وریشہ کو اندر تک جھلسا گئی۔

"ان کاغذات پر دستخط کرو، تم اس بات کا اقرار کرو گے کہ تم اشنال عزیز سے نہ تو کوئی تعلق بناو گے ناں ہی اسکو ہاتھ لگانے تک کی جرت کرو گے۔ میں تمہارے لفظوں پر اعتبار نہیں کرتی، تم جیسے منحوس اور منافق لوگ وعدے سے اور اپنی زبان سے کب پھر جائیں کچھ خبر نہیں۔ میں نے اپنا آپ قربان کیا ہے سو مجھے ایشورٹی چاہیے"

اس سے پہلے کہ وہ کمینا شخص اس لڑکی کی جانب لپکتا، وری نے ناپسند لہجے میں وہ کاغذات اسکی جانب بڑھاتے ہوئے اپنی حقارت اور نفرت لٹائی مگر وہ پہلے تو وہ کاغذات لے کر بڑے متجسس انداز میں انکو دیکھ رہا تھا مگر پھر اسکے چہرے پر اگلے ہی لمحے شر انگیز مسکراہٹ اتری۔

شہیر نے وہ کاغذات اسی لمحے دو حصوں میں بانٹے ہوئے پھاڑ دیے جس پر وریشہ نے خونخوار آنکھوں سے اسے دیکھا جسکا مسکراتا چہرہ اس لڑکی کو آگ لگا گیا۔

"نہ تو شہیر مجتبی وعدے سے مکرتا ہے نہ اپنی زبان سے، کہہ دیا تو کہہ دیا ڈارلنگ ۔ تم جیسی عورت کے ہوتے ہوئے مجھے کیا باولے کتے نے کاٹا ہے جو اس یوزڈ مینٹل کیس کو ہاتھ لگاتا پھروں"

وہ جو کچھ فاصلے پر کھڑا تھا، جھٹکے سے وریشہ کا ہاتھ پکڑے نہ صرف اسے اپنے حصار میں بھر گیا بلکہ بنا وریشہ کو مزاحمت کی مہلت دیتا وہ اسکی کمر کے گرد بھی اپنے ہاتھ سے گرفت اس حد تک سنگین کر گیا کہ وہ اسکے نزدیک چلی آتی تھمی، دونوں کے چہروں میں فقط چند انچ کا فاصلہ تھا جبکہ ایک طرف لپکتی کیفیت کا لمس تھا تو دوسری طرف اس لڑکی کی آنکھوں میں یکدم منجمد ہوتی حقارت۔

اس شخص کی آنکھوں میں اس لمحہ کوئی وحشت کیوں نہ تھی، وہ لڑکی جس نے اپنا آپ دوستی پر وارا تھا، اس شخص کے پہلے لمحے ہی بے حواس کرنے پر اندر تک کرچی ہوئی۔

"تمہیں اندازہ نہیں شہیر مجتبی! کہ تم نے مجھ جیسی عورت کو پا کر کیسا وبال سر لیا ہے۔ بہت خوش ہو رہے ہو، وریشہ یوسف زئی کو اپنی ملکیت بنا کر، تم پر تمہاری سانس تک تنگ کر دوں گی۔ یہ مت سمجھنا کہ تم جیت گئے ہو، تم نے میری صورت اپنے مقدر کی سب سے بڑی شکست چنی ہے، مختصر کے اپنی موت متعین کی ہے"

نہ تو وہ اسکی قربت میں خوفزدہ تھی نہ بوکھلائی بلکہ اسکے قریب تر موجود ہو کر بھی وہ آنکھوں میں جلن بھر کر اسے بے خوفی سے دیکھ کر بولی، اور اس لڑکی کے وجود میں زرا بھی لرزش محسوس نہ کرتا شہیر بھی اس بار اسکے کہے لفظوں کی کڑواہٹ پر سنجیدہ تھا۔

"اگر میری ہار اتنی خوبصورت ہے تو مجھے جیت کی ضرورت ہی نہیں، اور اگر موت بھی تمہارے جیسی ہو تو کون کمبخت جینا چاہے گا۔ سو مجھے یہ سوکھی دھمکیاں مت دو، زرا اپنی بے باکی کا مظاہرہ کرو تاکہ تمہارا شوہر تم سے خوش ہو کر سارا غصہ تھوک دے"

وہ اسکے شکنوں سے بھرے ماتھے پر نگاہ دوڑاتا، جب وری کی آنکھوں میں جھانک کر پھر اسکے نرم ہونٹوں پر بے خود نگاہ ثبت کرتا یہ معنی خیز سی سرگوشیاں کرنے لگا تو وہ حقارت کے سنگ اسکی ناقابل قبول سانس ، اپنی سانس تک ارسال محسوس کیے اسے ایک ہی جھٹکے سے پرے کرتی دور قدم دور ہٹی اور اک لمحہ تو وہ بہکا ہوا سفاک بھی تھما، گردش کرتی لہو کی لہریں منجمد ہوئیں۔

"نکاح ہو گیا، اب اپنے وجود سمیت اپنا یہ ناپسند چہرہ لو اور گم کرو خود کو۔ تمہاری اوقات نہیں ہے کہ تم وریشہ یوسف زئی کو اسکی مرضی کی بنا چھو بھی سکو۔ اور میں تمہیں اپنے گھر کا مہمان بنانے کی ہرگز شوقین نہیں، سمجھ گئے"

آنکھوں میں خفگی اور جان لیوا سی تپش بھرے وہ پھنکارتی آواز میں اس شخص کو بتاتے غرائی تھی مگر شہیر کا بے ڈھنگا قہقہ مانو اک لمحہ تو وری کے اندر تک خوف اتار گیا۔

وہ ہنستا ہوا وہیں بیڈ پر نوابی انداز میں دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھے زرا نیم دراز ہوئے بیٹھا اور اپنی مسکراتی آنکھوں سے اس دھتکارتی لڑکی کا سر تا پیر جائزہ لیا۔

وہ روح تک اتری شہیر کی نظر، وری کو کاٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔

"نکاح ہوا ہے، ابھی ہی تو تمہیں چھونے کا حق ملا ہے ڈارلنگ اور تمہاری اجازت تو بالکل  نہیں چاہیے ۔ ویسے بھی تمہیں مجھ سے بچا بھی کون سکتا ہے آج"

وہ جس حاکمیت بھرے لہجے میں وریشہ کی جانب نظریں گاڑے بولا، اسے اک لمحہ واقعی شہیر کی آنکھوں میں امڈتی بے خودی پر خوف سا محسوس ہوا۔

وہ کٹیلی اور نفرت انگیز نظروں سے شہیر کی نظروں کا بے خود لمس محسوس کیے اس سے پہلے اسکی باتوں کو بے کار ترین ثابت کرتی، وہاں سے جاتی، لمحہ لگا اور وہ اسکے قریب پہنچ کر اسکا راستہ روک چکا تھا۔

باہر ڈھلتی دوپہر اب آہستہ آہستہ ملگجی شام سے مل رہی تھی اور موسم بھی کچھ ابر آلود سا تھا۔

"تمہیں خود سے بچانے کے لیے میں ہی کافی ہوں دی منحوس مارے شہیر مجتبی، دوبارہ یوں میرے سامنے آئے تو تمہارا منہ نوچ لوں گی۔ ہٹو پیچھے مجھے بھوک لگی ہے"

دل میں اس ناپسند نزدیکی کے باعث بہت کٹیلی اور بے رحم لہر اتری تبھی وہ بے اختیار اسکو پرے ہٹانے کو اپنی ہتھیلی اسکے چوڑے سینے سے لگا کر ہٹانے ہی لگی تھی جب وہ اپنا مضبوط ہاتھ، وریشہ کے ہاتھ پر رکھے اسکا فرار ناکام کر گیا۔

"اب تمہارے ہر منظر میں یہی منحوس مارا ہے وریشہ، یہ جو تم بار بار بھرم دیکھا رہی ہو، میری کوشش ہے یہ قائم رہیں، لیکن بار بار ایک ہی خوش فہمی دہراو گی تو تمہارے یہی بھرم فرش پر بکھرے ملیں گے"

اس بار وہ اپنی اس مسلسل تضخیک پر سلگ اٹھا تھا جسکی شدت پسندی اسکے لفظوں سے بھی چھلکی تھی اور وریشہ اسے ہنوز کاٹ کھاتی نظروں سے دیکھ کر زچ کرنے میں لگی تھی۔

"اپنا یہ منہ سنبھال کر بات کرنا دوبارہ، مجھے نہیں پتا آج سے پہلے تمہارا کس قسم کی لڑکیوں سے پالا پڑا ہے لیکن وریشہ ان سب سے بالکل الگ ہے۔ نہ تو میں تمہاری حاکمیت میں آوں گی نہ تمہاری دسترس میں۔ پیاسے ہی مرو گے تم جو میری اولین چاہ ہے۔ تمہیں صرف زبان سے قبول کیا ہے، میرے دل پر تمہارا داخلہ تاحیات ممنوع ہو چکا ہے۔ اور دوبارہ مجھ تک آنے سے پہلے یہ میرے کہے الفاظ ذہن میں لا کر یاد کر لینا"

اپنے کمزور پڑتے لہجے کو مضبوط بناتی وہ ساتھ مسلسل اسکے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی جو اک آنچ بھی شہیر کے ہاتھ سے نہ سرک پایا۔

اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا اسکے ہاتھ میں آگ منتقل ہو رہی ہے جبکہ اپنے اردگرد پھیلی تپش سے وریشہ کا سانس اسکے سینے میں دبنے لگا۔

"تمہارے فضول سے دل پر حاکمیت کا ارمان ہے بھی نہیں مجھے، میں تو صرف اپنی ہوس پوری کروں گا ڈارلنگ، اس ان چھوئے حسن کی تسخیر میری پیاس بجھا دے گی سو تمہارا کوئی ارمان یا تمہاری کوئی چاہت کم ازکم میں تو پوری ہونے نہیں دوں گا۔ تم اپنے عہد سے پیچھے ہٹو گی تو یہی منحوس بندہ بڑی شان سے تمہیں تمہارے کہے لفظ یاد دلائے گا۔ شہیر مجتبی نہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے ہے نہ کسی کو پیچھے ہٹنے کی اجازت دیتا ہے"

اسکے پرتپش الفاظ اور شدت بھری دھمکی پر وریشہ کی تمام ہمت ٹوٹنے لگی تھی، پھر جس طرح وہ اسکے چہرے کے روبرو چہرہ لاتا، اپنی غضبناک آنکھوں کو وریشہ کی جلتی آنکھوں میں بے باکی سے گاڑے، اسکے چہرے کے تپش اگلتے خدوخال کی جانب اپنی سلگتی سانسیں بکھیرتا اسکی جان نکال رہا تھا، وریشہ کے اپنے کہے الفاظ اپنا ہی وجود کاٹنے لگے پھر ہوس کا سن کر وریشہ کے اندر کی آگ ، شعلے بن کر اسکی آنکھوں میں سمٹی۔

"رہی بات منہ سنبھالنے کی، وہ تو ناممکن ہے اب وریشہ یوسف زئی۔ کچھ کھا لو تاکہ اس منہ کے کھلنے کے بعد کی تمام کاروائی تمہارا نازک وجود باآسانی سہہ سکے۔ کچھ ہے گھر میں یا اپنے ان خوبصورت ہاتھوں سے اپنے اور میرے لیے کچھ تیکھا سا بنانے والی ہو؟"

اول تو وہ جس بے باکی سے وریشہ پر قہر ڈھاتا اسکا ہاتھ آزاد کیے پیچھے ہٹا، وہ سر تا پیر ان شر انگیز لفظوں کی آگ سے جل اٹھی، دل یہی چاہا کہ ان کی آنکھیں نوچ ڈالے جو اسکے اندر تک کا پورسٹ مارٹم کر رہی ہیں۔

اور کھلانے کے لیے وریشہ کے پاس اس شخص کے لیے ذہر کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا۔

"زہر ہی کھلاوں گی تمہیں بے شرم آدمی، مرو اور جا کر کچھ لاو باہر سے۔ تمہارے لیے کچھ بناتی ہے میری جوتی۔۔۔۔ کمینہ منحوس"

پوری قوت لگاتی وہ غصے اور شرم سے سرخ پڑتے چہرے کی راعنائی اور حقارت دباتی، غراتی ہوئی اسے باقاعدہ دو قدم پیچھے تک دھکا دیتی تیز تیز قدم اٹھاتی واش روم میں گھسی جبکہ اس عجیب و غریب سے ٹاکڑے کے بعد وہ سفاک بھی یوں مسکرایا کہ اسکی مسکراہٹ نے وقتی ہی سہی پر سب فنا کیا۔

کچھ دیر وہ وہیں کھڑا کسی سحر میں لپٹا رہا پھر کمرے سے باہر نکل آیا، لاونچ کی جانب رکھے میز پر پڑا اپنا والٹ اٹھاتا ، منہ ہی منہ میں کچھ گنگناتا ہوا  سیدھا گھر سے باہر نکل گیا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سیاں جی سے کیا مل لیں، انکی تو خماریاں ہی نہیں جا رہیں۔ اف آپی جان اب اٹھ بھی جائیں شام چڑھ آئی۔ میں بور ہو رہی قسمے"

صبح سے شام ڈھل آئی تھی اور زونی صاحبہ تھیں کہ زندگی بھر کی نیندیں آج ہی پوری کرنے پر لگی تھیں جبکہ منہ کے بگھڑے زاویے بناتی مالنی کوئی ساتویں بار اس خمار آلود خواب میں کھوئی حسینہ کو جگانے آئی تھی۔

"مت کریں مالنی، سونے دیں ناں۔ بس ایک گھنٹہ اور"

زرا کسمساتے ہوئے زونی نے اسکے ہاتھوں سے کمفرٹر چھینے واپس سر تک اوڑھے بھاری ملائم آواز میں لاڈ سے شکوہ کیا تو مالنی کی آنکھوں میں بھی شرارت اتر آئی۔

"کیا آپی ! میں بہت بور ہو رہی۔ ایک تو وہ ماسکو بھی صبح سے غائب ہے ورنہ بندی اسی سے کوئی پنگاہ کر لیتی، تھوڑا بہت گھر بھی سارا دیکھ لیا میں نے پورا دن۔ پر وہ نہیں تو سواد ہی نہیں آرہا۔ اس سے سینگ لڑانے کا دل کر رہا۔۔۔اٹھیں ناں"

شرارت جیسے یکدم ہی ایچ بی کے گھر نہ ہونے پر افسردگی بنی جبکہ زونی صاحبہ تو ٹس سے مس نہ ہوئیں وہیں گاڑی کے ہارن پر وہ آفت جھٹکے سے دوڑ کر کھڑکی تک آئی اور ایچ بی کی گاڑی اس بنگلے میں داخل ہوتا دیکھ کر خوشی سے اچھل ہی پڑی۔

"اوہ تیری خیر! شیطان کا کچھ لگتا ہے یہ میرا کرش۔ نام لیا اور خاضر! چل مالنی، اس کا جینا مزید حرام کرتے ہیں۔ ہی ہی میں آرہی ہوں ماسک والے سرپرست۔۔۔ اللہ جی پلیز پلیز میری اس سے ٹکڑ کروا دینا، یا پھر اسکی گھڑی میں میرا دوپٹہ پھنسوا دینا یا پھر یہ بھی نامنظور ہے تو اسکی منہ دیکھائی کروا دیں پلیز پلیز پلیز"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ اک نظر آئینے کے روبرو ہوتی خود پر پرفیوم چھڑکے، کھلے آپشار کی مانند کمر پر گرتے بالوں کو نزاکت سے پرے جھٹکتی خود ہی اپنی خواہشوں پر ہنستی ہوئی کمرے سے نکلی، وہ جو بڑے سنجیدہ انداز میں اپنے دو لوگوں کے سنگ حویلی کی طرف آرہا تھا، کیا جانتا کہ آج مالنی کے ہاتھوں کسی نئی قید میں آزاد ہونے والا ہے۔

ایک ایسی قید جسے اس نے ان نیلی آنکھوں والی کے بعد سے حرام کر دیا تھا۔

ٹھیک ہے، تم اپنی نظر رکھنا ان پر۔ کوئی چیز ہم سے چھوٹنی نہیں چاہیے"

چہرے پر ازلی سیاہ ماسک جبکہ سر تا پا سیاہی اوڑھے وہ خوبرو اور پرکشش لگتا تھا، پھر اسکا چھلکتا سفید رنگ ، شخصیت کا سحر سبھی ہی اضافی تھا، سیاہ آنکھیں ثانوی کردار کی طرح رعب میں اضافہ کرتیں۔

اپنے ہی دھیان میں وہ تمام گارڈز کو گھر کے باہر ہی چھوڑے اکیلا ہی کسی فون کال پر مصروف سا اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا وہیں مالنی بھی اپنی اور اپنی موجودگی کی دل فریب راعنائیاں بکھیرتی ہوئی اسکے کمرے ہی کی طرف بڑھ رہی تھی، دنکو دو ملازموں کی جاسوسی کرتے ہوئے اسے ایچ بی کے کمرے کا معلوم ہوا تھا جو اتفاق سے اسکے اور زونی کے کمرے سے تھوڑا ہی دور سیدھے دو کوریڈور عبور کرنے پر موجود تھا۔

"چل مالنی! اسکے کمرے میں جا کر چھپتی ہوں اور واوو کر کے اسکا دم نکالوں گی۔ میں بھی تو دیکھوں یہ ڈرانے والا ماسکو، خود ڈر کر کیسا لگے گا"

دبے پیر ایچ بی کے کمرے کا دروازہ کھولتی وہ اندر جھانک کر بڑبڑاتے ہی پوری اندر گھسی ، گدگداتی ہنسی ہونٹوں کے نرم کناروں میں دباتی فورا سے پہلے سامنے باہر حویلی کے باغ کی جانب کھلتی بالکونی کے دروازے کے پیچھے جا چھپی۔

جبکہ بھاری قدموں کی پل پل قریب آتی دمک پر وہ دم سادھے ایک آنکھ دروازے سے نکالتی متبسم چہرے کے ساتھ کمرے کے دروازے پر نظر جما چکی تھی جو دروازے تک پہنچا اور ڈور ناب گماتا سرد تاثرات کے سنگ اندر آیا اور اس سے پہلے اپنے چہرے پر لگایا ماسک بے دردی سے اتار پھینک کر مالنی کا دل دہلاتا، مانوس سے نسوانی پرفیوم کی خوشبو ناک کے نتھنوں میں گھسنے پر وہ ماسک واپس چڑھا گیا، ناگواری کے سنگ اسکے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔

اسکی سیاہ آنکھیں پورے گمرے میں مشکوک ہوئے گھوم رہی تھیں اور پھر بالکونی کے دروازے کے پیچھے سے زرا سا باہر لہراتا آنچل دیکھتے ہی ایچ بی کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا۔

"واووو!"

اس سے پہلے وہ اس لڑکی کی واقعی اپنی غصب سے جا کر جان نکالتا، وہ اچھل کر باہر نکلے پورئ قوت سے چلائی مگر ایچ بی کو ایک انچ بھی ڈر کر ادھر ادھر نہ ہوتا دیکھ کر مالنی نے بیچاری سی مسکراہٹ لیے وہ سیاہ آنکھیں دیکھ کر حلق سے تھوک نگلا جو اس پر غضبناک ہو کر جمی تھیں۔

"آپ تو ڈرے ہی نہیں ماسک والے س۔۔سرپرست، چلیں میں چلتی ہوں پھر۔۔۔ پلیز دروازے سے ہٹ جائیں دائیں جانب تھوڑا"

دروازے کی اوٹ سے نکلتی دروازہ آپس میں ہلکے سے جوڑ کر بند کرتی وہ معصومیت کے سنگ اسکے غصے کو بھانپتی منمنائی جبکہ اپنی جانب پل پل بڑھتے ایچ بی کے قدم گویا مالنی کے اندر تک کپکپاہٹ اتار گئے، جو لگ رہا تھا آج اس لڑکی کی جان لے کر رہے گا۔

"کس کی اجازت سے آئی ہو تم میرے کمرے میں؟ تمہاری اتنی ہمت"

سخت جان لیوا جھاڑتا انداز الگ مالنی کے ہاتھ پیر پھلا رہا تھا اور اس بندے کی پل پل آگے بڑھتے ہوئے مالنی کی دھڑکنیں مدھم کرنا الگ وبال تھا۔

وہ سہم کر پیچھے ہٹی تو بالکونی کے دروازے تک آتی راستہ بند ہونے پر خوفزدہ ہوئی۔

"و۔۔وہ سچی میں بھول کے آئی، جانا میں نے کباڑ خانے ۔میرا مطلب سٹور روم میں تھا، ت۔۔تو وہ یہاں پ۔پہنچ گئی۔"

خوفزدہ نظروں کے سنگ وہ بمشکل منہ سنبھالتی تب دو قدم پیچھے ہوئی جب بالکونی کا آپس میں یونہی جوڑ کر بند کیا دروازہ اچانک کھلا، بمشکل گرنے سے بچتی بچاتی وہ سیدھی ریلنگ سے جا لگی جو بہت چھوٹی چھوٹی تھی، مالنی کی آدھی ٹانگوں تک، اور اس اچانک کے پیچھے لگتے دھکے سے وہ توازن برقرار نہ رکھتے اس سے پہلے نیچے گرتی، اسکی چینخ پر ایچ بی نے فورا سے بیشتر اس لڑکی کی جانب لپکتے ہوئے اسکا ہوا میں بلند ہاتھ بروقت اپنی انگلیوں میں لیے جکڑا جس کے باعث مس مالنی ہوا میں آدھی معلق سی ہوئے حلق کے پل چینخنے لگی جبکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ایچ بی کا ہاتھ بھی جکڑا جو اس عجیب سے بے اختیار ملتے لمس پر دل تک کوئی چنگاری اترتی محسوس کیے تھم گیا۔

وہ جو اول لمحے کی بے اختیاری میں اسے بچا چکا تھا، یکدم ہی اپنی نظریں اسکے اور اپنے جکڑے ہاتھ پر سے ہٹا گیا، گرنے کے خوف سے وہ چلا رہی تھی اور اسکے ماتھے پر مالنی کی ہیبت ناک چینخوں سے واپس بل پڑے۔

"آہ مر گئی۔۔۔اوہ ایچ بی۔۔مم۔مجھے کھینچو اوپر۔ پل۔۔پلیز میں دوبارہ اس کمرے میں نہیں آوں گی۔۔

میرے چھوٹے چھوٹے ماں باپ ہیں اور ب۔۔بڑے بڑے بچے، پلیز پلیز۔۔

۔اللہ جی م۔۔مجھے بچا لیں۔۔۔ادھر سے میں گری تو کرچی کرچی ہو جانا۔۔۔اوئی اماں۔۔بچا لو۔۔۔"

وہ جو اس لڑکی پر رحم کھانے کا ارادہ کیے بیٹھا تھا، یہ سب گل فشانیاں سن کر واقعی اسے یہاں سے پھینک کر کرچی کرچی ہوتا دیکھنے کا ارادہ بنانے لگا، جو آتے ہی اسکی پرسکون زندگی کو درہم برہم کر چکی تھی۔

وہ مسلسل اسکے مضبوط ہاتھ کو جکڑے نیچے دیکھتی چینخ رہی تھی اور ایچ بی پتھر بنا اسکی یہ کان میں اترتی چینخیں سن کر مخظوظ ہو رہا تھا۔

شور سن کر حویلی کے کئی ملازم تک نیچے جمع ہو گئے۔

"دوبارہ تم میرے آس پاس بھی بھٹکی تو یہیں سے تمہیں نیچے دھکا دوں گا۔ ٹھیک ہے؟"

مسلسل جب وہ چینخ چینخ کر رونے والی ہوئی تو ایچ بی نے ایک ہی جھٹکے سے اس ہوا میں معلق ہوتی مالنی کو کھینچ کر واپس سیدھا کرتے ہی اپنے بالکل نزدیک لاک کرتے ہی ہر احساس سے عاری ہوئے سفاکی سے دھمکی تو دے دی مگر وہ ان شرارت سے بھری آنکھوں میں اتر آتا خوف دیکھ کر اک لمحہ ٹھٹھکا کیونکہ وہ سوں سوں کر کے اپنی آنکھیں رگڑتی فرمابرداری سے سر ہلاتی ہنوز اسکا ہاتھ جکڑے، اسکی ٹھہری آنکھوں میں بے باکی اور عجیب سی اپنائیت سے جھانک رہی تھی۔

"پلیز کوئی اور جگہ کر لیں ماسک والے سرپرست، یہ بہت اونچی ہے میرا تو سر الٹ گیا توبہ، دیکھیں دماغ کا پانی آنکھوں میں آگیا ویسے مالنی کی بلا بھی نہیں رو سکتی۔ کم ازکم مرنے سے بچ جاوں اتنا خیال کر لیجئے گا۔ وہ کیا ہے ناں سب کہتے مالنی تُو ایک ہی پیس ہے۔۔۔ باقی مجھے بچانے کے لیے تھینک یو"

وہ اسکی تمام تر برہمی کے باوجود ہنوز پٹر پٹر کرتی آخر تک مشکور و منمون ہو کر مسکراتی اس سے پہلے اسکا ہاتھ اپنی لانبی انگلیوں کے پر تپش لمس سے آزاد کرتی وہاں سے جاتی، نہ صرف اسکا دوپٹہ ایچ بی کی گھڑی سے الجھا بلکہ اس سفاک کے غائب دماغی سے ہاتھ جھٹکنے پر وہ لہراتی ہوئی سیدھی جناب کی مضبوط پناہوں میں آن بسی، بس یہی لمحہ اس شخص کے ٹھہرے وجود میں اک نئی سی حرکت ہوئی تھی، دل اچانک رک گیا تھا، یہ قربت کچھ نیا سا احساس بخشتی ان دونوں کو ہی ہر پس و پیش سے غافل کرنے کی حد تک جان لیوا ہوئی۔

دونوں کے چہرے بہت قریب تھے جبکہ بے اختیار دونوں کی سہم جاتی آنکھیں بھی ہمکلام ہو بیٹھیں، مزید کئی حادثات بھی ہو گئے، جو دل سے دل کی فصیل تک ہی محدود رہے۔

ایک لمحہ تو دونوں ہی اس قربت پر تھرا سے اٹھے، جناب عجیب سی گھبراہٹ کے سنگ مالنی کو گرنے سے بچا چکے تھے البتہ وہ آفت کی پرکالہ اسی پوز میں مقید شرمگیں سا مسکراتی، ایچ بی کا دماغ سنسناہٹ سے بھر گئی۔

"آج کچھ اور مانگتی تو وہ بھی مل جاتا، اب چہرہ بھی دیکھا دیں پلیز!"

مالنی کے مسکرا کر کہنے پر وہ ہوش میں لوٹتے ہی اسے اپنے قدموں پر کھڑا کرواتا ، خود سے آزادی بخشتا دو قدم دور ہٹا جبکہ مالنی کا اسے دیکھنا، ایچ بی کے دماغ کو جنجھوڑ رہا تھا، وہ تیزی سے وہاں سے اندر گیا اور خود کو فورا سے بیشتر ملحقہ سٹڈی روم میں قید کیا اور سختی ٹلنے پر اس آفت نے فکرمندی کے سنگ سٹڈی کے دروازے کو حسرت سے بند ہوتے دیکھا اور خود بھی بگھڑا سانس بحال کرتی اس خوبصورت کمرے میں چلی آئی۔۔

"لگتا ہے شرما گیا یہ ممی ڈیڈی ربورٹ، ہائے اور ربا کرش کا ٹچ اندر تک بجلی بھر گیا ہے۔ اف آج تو مالنی خوشی سے ناچے گی۔امم ہے کیوٹ یہ ماسکو، مالنی کا تم پر دل گیا ہے سچ میں اور آج تو کچھ سنجیدگی سے آگیا ہے۔۔۔۔ اف چل بھاگ جا مالنی ورنہ جتنا غصہ تو نے اسے چڑھا دیا، اگلی بار یہ تجھے اٹھا کر نیچے پھینکے گا"

کچھ لمحے عجیب خمار میں لپٹی وہ اس کمرے کی ہر طرف پھیلی الگ سی خوشبو اپنے اندر اتارتی رہی اور پھر سٹڈی کے بند دروازے پر ہتھیلی سہلاتی، من ہی من میں مسکراتی وہ اسکے کمرے سے نکل گئی۔

مگر جاتے جاتے، وہ اس جانی مانی پرفیوم کی خوشبو بکھیر گئی جس سے ایچ بی نفرت کرتا تھا۔

لیکن وہی خوشبو جب اسے خود سے آئی تو دل پر لگی گرہ بہت مدت بعد کھل سی گئی، عجیب سا اضطراب تھا جس نے ایچ بی کو حصار لیا تھا، بہت سنگینی کے سنگ اور بہت مدت کے بعد۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"بہت اچھا فیصلہ لیا ہے، میں خود بھی یہی سوچ رہا تھا کہ وہ کچھ دن اس جگہ سے دور رہے۔ میں بھی آج واپس آرہا ہوں، آتے وقت گلالئی کو ساتھ لاوں گا تاکہ وہ اشنال کے ساتھ رہے۔ پریشان مت ہوں، وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی"

ولئ زمان فون پر عزیز خان سے ہی مخاطب تھا جبکے اسکی باتوں سے حویلی کے باغ میں شام کی چائے پیتے تمام افراد کے کان کھڑے ہو چکے تھے جبکہ ناپسندیدگی اور ناگواری سے کئی چہروں کے تاثرات بگھڑ چکے تھے۔

گل خزیں خانم اپنے کمرے میں تھیں اور مشارب دن سے ان سے ایک ہی بعث پر اپنی ضد منوانے پر لگا تھا جبکہ باہر زمان خان اور سردار خاقان براجمان تھے جنکی آنکھوں میں ولی کے فون بند کر کے انہی کی جانب پلٹنے پر سرد مہری اتر آئی۔

"تم کون ہوتے ہو حویلی کے فیصلے کرنے والے، کس کی اجازت سے وہ عزیز وہاں رکا ہے۔ اب یہ کونسی نئی نوٹنکی شروع ہو چکی ہے۔ ونی ہوئی ہے وہ ، قتل نہیں کیا اسکا جو یہ ماتم ہمارے سینوں پر منانے کی ہر کوئی تیاری کر رہا ہے۔ اس شہیر کو کہو اب سنبھالے اپنی بیوی"

سردار خاقان کی رعب دار، نفرت چھلکاتی آواز بلند ہوئی تو ولی زمان عین انکے روبرو آکر کھڑا انکے چہرے پر اک افسوس بھری نگاہ ڈالتا ، گویا اس سردار کو آگ ہی لگا گیا۔

جبکہ خود زمان خان نے اسکے انداز میں بغاوت محسوس کی۔

"اس شہیر کی ایسی اوقات نہیں ہے کہ وہ اشنال کو ہاتھ بھی لگائے، اور میں اسی حویلی کا وارث ہوں دادا سائیں۔ جب تک اشنال کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہو جاتی وہ وہیں رہے گی اور اگر کسی نے اس بار میرے فیصلے کے آگے دیوار بننے کی جرت کی تو وہ دیوار مسمسار کرنے میں مجھے لمحہ نہیں لگے گا۔ آپ نے اپنی فرسودہ روایات کی بھینٹ اسے چڑھا کر علاقے کی واہ واہ سمیٹ لی ہے، آپکا اختیار یہاں پر ختم ہوتا ہے"

وہ اپنا لہجہ ہر ممکنہ تمیز کے دائرے میں رکھ کر بھی باپ دادا کے دلوں کو سلگا چکا تھا، زمان خان نے اٹھ کر ولی کا گریبان جکڑے اس بے ادبی پر خونخوار ہوئے گھورا مگر وہ بنا ان دو کے عتاب کی پرواہ کیے بنا بابا کے اپنے گریبان پر جمے ہاتھ چھڑواتا دونوں پر اک اک حقارت بھری نظر ڈالتا اندر چلا گیا۔

بڑی مشکل سے سردار خاقان نے جبڑے بھینچ کر، سامنے بڑا میز اشتعال میں آتے ہی الٹ کر اپنا غصب دبایا اور جو روح فنا کرتی نظر زمان خان پر ڈالی وہ کاٹ کھانے کی سی تھی۔

اور حسب توقع فرخانہ خانم جو پہلے ہی باہر ہوتے دھنگے سے خوفزدہ سی دروازے میں کھڑی تھیں، بپھری موج بن کر اندر آتے ولی کی بازو جکڑے اسے روک تو گئیں مگر اس نے جبڑے بھینچ کر ماں کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔

"کتنے سال بعد تو تم لوٹے تھے ولی، کیوں پھر سے اس ماں کو اپنی جدائی دینا چاہتے ہو۔ اشنال کے لیے جو تم سب سے ٹکر لے رہے ہو، یہ قیامت برپا کرے گا۔ میں تمہاری منت کرتی ہوں کہ مت جاو واپس، سرداری سنبھال کر یہیں اپنے فرض نبھاو"

وہ جو اذیت اور تکلیف کے سنگ ولی کی راہ روکے سسک پڑیں، نہ تو اس کا دل نرم ہوا نہ وہ یہاں سے جانے کا فیصلہ بدل سکا۔

"کاش آپ سب نے میرے کئی سال بعد لوٹنے کا ہی بھرم رکھا ہوتا اماں سائیں، میں یہاں آکر خود کو ذہنی بیمار سا محسوس کر رہا ہوں۔ مشارب سے کل تک مجھے کوئی امید نہیں تھی لیکن جو آگ اسکے سینے پر لگ گئی ہے، اب وہی اس حویلی کے ناسور قوانین اور علاقے کی گندی روایات بدلے گا۔ اگر اب بھی اس نے اپنے کیے گناہوں کا کفارہ ادا نہ کیا تو میں سمجھوں گا میرا کوئی بھائی تھا ہی نہیں۔ "

وہ انتہائی خفا اور اذیت ذدہ ہو کر خود فرخانہ خانم کا دل پر تڑپا گیا، جس عورت کو اسکی اولاد کی جانب سے تکالیف ملنی طے تھیں۔

"اس سرداری پر میں دو حرف بھیجتا ہوں، جو انسانوں کو زندہ لاشیں بنا دیتی ہے اور سرداروں کو فرعون ۔ اشنال کے لیے نہ تو میرے پاس حویلی والوں کے لیے کوئی رحم ہے نا رعایت۔ اب جو بھی قیامت آجائے، ولی زمان خان کی جوتی کو بھی پرواہ نہیں۔ جس قدر غیر انسانی سلوک آپ سب نے اپنی سگی اولادوں سے کر دیا ہے، اگر بغاوت نہ کی تو وہ کئی نسلوں تک زہر کی صورت اترتا رہے گا۔ آپ سے درخواست ہے، ہمارے بیچ ماں بیٹے کے رشتے کی فطری محبت قائم رہنے دیں اماں سائیں، مجھے روک کر یا اس سرداری کے لیے مجبور کر کے آپ میرا دل خود کے لیے بھی پتھر کر لیں گی"

وہ نہ تو رحم کھانا چاہتا تھا نہ مزید یہاں رک کر اپنے دل کو زنگ لگانے کی ہمت رکھتا تھا۔

فرخانہ خانم کی آنکھوں کا گھیراو کرتی سرخی، انکی گریہ و زاری کا ثبوت تھی جیسے بڑی دقت سے وہ فراموش کرتا وہاں سے گیا، سیدھا گلالئی کی طرف اور اسے ساتھ چلنے کے لیے تیاری پکڑنے کی تاکید کیے وہ خود بھی روانگی کے لیے تیار ہونے اپنے کمرے کی سمت بڑھ گیا۔

جبکہ دوسری جانب گل خزیں خانم کی سرخ ہوتی آنکھیں عجیب سے کرب میں تھیں اور منہ پھیر کر کھڑا مشارب کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے کمر کیے کھڑا تھا۔

"وہ یہاں ہرگز نہیں آسکتی، تمہارے دادا مر جائیں گے مگر زونین کو یہاں آنے کی اور تمہاری بیوی کی حیثیت سے رہنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے"

دادی سائیں کا دن سے اب تک ایک ہی جواب، مشارب کے اندر کڑواہٹ بھر چکا تھا۔

اسے پہلی بار دادی کی منافقت کاٹ کھاتی محسوس ہوئی۔

"اوہ! کیا بات ہے اماں سائیں۔ جب میری مرضی کے خلاف آپ نے مجھے اس لڑکی سے نکاح کا حکم دیا تھا، تب بھی تو سب کی مخالفت کے باوجود آپ اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی تھیں۔ پھر اب دادا سائیں کی جانب سے آپکے اندر پھیلا ڈر مجھے پاگل کر رہا ہے"

تمیز کا دامن ہر ممکنہ تھامے بھی وہ اپنی آواز تیز اور تلخ ہونے سے روک نہ سکا اور گل خزیں کے چہرے پر ملال جبکہ وجود کے اندر تک اذیت دوڑنے لگی۔

سردار خاقان کی کچھ وقت پہلے کہی بات کوڑے کی طرح گل خزیں خانم کی سماعت میں برسی۔

"اگر کنزا کی بیٹی اس گھر میں مشارب کی بیوی کی حیثیت سے آئی تو سردار خاقان آپکو سارے علاقے کے سامنے  طلاق دے  گا پیاری گل خزیں خانم ۔ اپنی نواسی کی خواہش کے لیے بھلے آپ یہ نکاح کروا رہی ہیں مگر مشارب کی اولاد وہ لڑکی جنم نہیں دے گی، میں بخت کا گندا خون اپنے خاندان میں شامل ہونے نہیں دوں گا۔ ارے جس سردار نے اپنی ہی اولاد کو اچھوت بنا کر دھتکار دیا، وہ یہ زہر ہرگز خوشی خوشی نہیں پیے گا۔ اور یہ بات آپ جلد مشارب خان کے دماغ میں گھسا دیں، ایسا نہ ہو وہ اس لڑکی سے کوئی جذباتی وابستگی بنا بیٹھے"

آج بھی سردار خاقان کی وہ دھمکی، گل خزیں کا وجود چاٹ گئی تھی، جبکہ مشارب، سرخ ہوتی غضبناک آنکھوں سے دادی سائیں کی چپ محسوس کیے تلملا رہا تھا۔

"بس کہہ دیا وہ نہیں آئے گی تو نہیں آئے گی، نہ ہی تم اس سے اپنے دل کو جوڑنے کی خطاء کرنا مشارب زمان۔ اگر تم نے ایسی کوئی جرت کی تو جس طرح اشنال سے اس ضرار کو الگ کیا ویسے ہی میں تم دو کے بیچ کا یہ نکاح بھی ختم کروا دوں گی"

بہت دیر ضبط کے بعد جیسے وہ اپنا ٹوٹتا ہوا وجود تھامے اٹھ کھڑی ہوئیں اور مشارب پر غرائیں جو ایسی نظروں سے دادی سائیں کو دیکھتا قریب آیا کہ وہ نظریں اس عورت کا کلیجہ چپا گئیں۔

"مجھے اپنی آنکھوں پر اور کانوں پر یقین نہیں آرہا اماں سائیں، آپ نہایت سنگدل عورت ہیں آج مشارب زمان کو بھی یہ حقیت پتا چل گئی۔ اور ایک میں بد بخت تھا کہ آپکی تکلیفیں خود پر حاوی کیے جیتا آیا، کنزا کی بیٹی کو اسکی ماں کے گناہوں کی سزا دیے خود سے دور کرتا آیا۔ آپ کا یہ سیاہ روپ تو میرے سامنے اب کھلا ہے، اور یہاں۔۔۔میرے سینے پر آگ لگا گیا"

ناجانے کتنی تکلیف تھی جس سے وہ ہری آنکھیں سرخ اور چہرہ تاریک پڑا، جبکہ گل خزیں بڑے ضبط سے یہ سب سننے پر مجبور تھی۔

"میرا دل تو زونین سے جڑھ چکا ہے، آپ کر سکتی ہیں الگ تو شوق سے کریں۔ لیکن ایک بات اپنے دماغ میں بٹھا لیں کے میں اشنال کی طرح زندہ لاش نہیں بنوں گا، بلکہ جو مجھے زونین سے الگ کرے گا میں اسے خود اپنے ہاتھوں سے ماروں گا۔ میری اولاد تو وہی جنم دیں گی ورنہ مجھے اپنا آخری وارث ہی سمجھیے گا"

اسکے لب و لہجے سے صاف صاف نفرت چھلکی جو گل خزیں خانم کی عبرت بن گئی تھی ، وہ اپنے مضبوط لہجے میں باور کیے حقائق واضح کرتا نہ صرف انکے کمرے سے طوفان بنے نکلا بلکہ دروازہ تک بری طرح پٹخ کر گیا جبکہ اسکے جاتے ہی گل خزیں خانم کانپتی ٹانگوں کے سنگ کرسی سنبھالے بیٹھ پائیں، پورے وجود میں کانٹے بھر گئے تھے اور آنکھوں میں خوف و ہراس۔

رہی سہی کسر بجتے لینڈ لائن نے پوری کی، وہ خوفزدہ سی ہو کر اٹھیں اور بجتے فون تک پہنچ کر اسکے اٹھا کر کان سے لگایا۔

"اگر ایک گھنٹے تک تم قبرستان کے قریب گری دیوار کے پاس نہ پہنچیں گل خزیں خانم، تو حویلی کے بیچ و بیچ اپنے لاڈلے مشارب زمان کی لاش پڑی دیکھنے کے لیے تیار رہنا"

آگ کی طرح تپتی، شعلے اگلی دھمکاتی آواز، انکے کانوں میں صور پھونکنے کے بعد خاموش ہوئی وہیں فون کا ریسور گل خزیں کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا گرا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کھانا لاکر کچن میں رکھتا وہ اسی منہ ہی منہ میں گنگناتی ٹون کے سنگ اس لڑکی کو ڈھونڈتا کمرے میں آیا تو وریشہ وہاں نہ تھی، ماتھے پر ناگواری سے لکیریں جبکہ اس لڑکی کی غیر موجودگی پر اپنا سکون لمحے میں غارت ہوتا محسوس کیے وہ چند لمحوں میں سارا گھر چھان مارتا جب چھت کی طرف بڑھا تو ریلنگ سے جڑھ کر کھڑی سامنے ڈوبتے سورج کو دیکھنے میں گم تھی۔

اس لڑکی کو دیکھتے ہی شہیر مجتبی کی آنکھوں میں عجیب سی تسلی اور خوشی امڈی، شام چار سو بکھری ہوئی تھی جبکہ وریشہ یوسف زئی کی آنکھوں میں نارنجی پڑتے ڈوبتے سورج کی روشنی وہ قریب آکر رکتا بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔

"تمہیں کیا لگا تم سے ڈر کر بھاگ گئی ہوں؟ "

بنا دیکھے ہی وہ سپاٹ لہجے میں بولی جس پر وہ اسکے موڑے چہرے کے باعث تاثرات تو نہ دیکھ پایا البتہ لفظوں کی غصیلی شدت ضرور محسوس کرتا اپنی کمر ریلنگ سے جوڑے، بڑے غور سے اس لڑکی کا ہر احساس سے عاری چہرہ دیکھنے لگا۔

"بھاگنے والی چیز نہیں ہو تم، کھانا لے آیا ہوں۔ چلو کھاتے ہیں، میں نہیں چاہتا ہماری حسین سے رات میں تمہیں یہ فضول کی بھوک دوبارہ ستائے"

اول لمحے کی بے اختیاری کے بعد وہ لاپرواہی سے بولتا نظریں پھیر چکا تھا البتہ شہیر کے ذومعنی انداز سے اس لڑکی کے اعصاب ضرور چٹخے۔

"کونسی رات؟"

وہ جھٹکے سے مڑ کر اپنے لہجے کو ہر ممکنہ مضبوط کرتی بولی جس پر شہیر نے اس حسینہ کی اس درجہ معصومیت پر عجیب سی سرشاری محسوس کرتے ہوئے اپنا اک ہاتھ بڑھا کر ہوا کے جھونکے سے اسکے ماتھے پر جھول آتی لٹ انگلی پر لپیٹی، جبکے وریشہ کو اسکا یہ کرنا مزید سلگا گیا۔

"وہی جسکا سودا ہوا تھا، اور رات نہیں راتیں۔ بڑی جلدی بھول گئی ہو، لٹس گو۔۔۔ "

اپنے لہجے کی پرزور شدت ہر ممکنہ دباتا وہ اسکا ہاتھ پکڑے اس سے پہلے نیچے کی جانب جاتا، وہ اپنا ہاتھ کھینچتی اسے بھی رکنے پر مجبور کر گئی۔

"دیکھو میرے کچھ فزیکل ایشوز ہیں سو پہلے وہ سن لو"

خود کو ہر ممکنہ مضبوط بناتی وہ اسے اپنے روبرو رکتا اور ابرو اچکا کر گھورتا دیکھ کر اس عجیب و غریب بات پر جھنجھلایا۔

"اب یہ کیا ڈرامہ ہے تمہارا؟"

وہ خاصا زچ ہوئے غرایا تھا جبکہ وریشہ نے من ہی من میں اسکی بسوری شکل پر کئی لعنتیں ارسال کیں پر اپنے لہجے اور انداز کو ہرگز ڈگمگانے نہ دیا۔

"ڈرامہ نہیں ہے، اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی تعلق بنانے کی کوشش کی بس ایک ہی رات تمہیں یہ عیاشی ملے گی۔ کیونکہ ناپسند اور ناگوار ٹچ سے مجھے سخت فزیکل الرجی ہے، تم سے تو شدید نفرت بھی ہے۔  سو اگر تم نے اپنی کسی بھی خواہش کی تکمیل میری مرضی کے بنا کرنی چاہی تو نقصان تمہارا ہی ہوگا"

اپنے دماغ کو کام لاتی وہ جو بھی بولی اس پر وہ سفاک پہلے تو عجیب سی نظروں سے سر تا پیر وریشہ کو دیکھنے لگا پھر دونوں بازو سے پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے اپنے نزدیک کیا، وریشہ نے حلق تر کرتے ہوئے یہ نزدیکی برداشت کی، اسکی پرتپش سانس تک سلگتا لمس وریشہ کے پورے چہرے تک بکھیر کر یہ بتا گئی کہ اسے یہ بات کس قدر چبھی ہے۔

"اچھا! تو کیا نام اس بیماری کا ڈاکٹر وریشہ یوسف زئی جو نہ تو آج تک میں نے سنی نہ دیکھی"

وہ اسکے تلخ ہو کر استفسار کرنے پر خود بھی لمحہ بھر بوکھلائی مگر جلد ہی دماغ نے ساتھ دیا۔

"ہیفی فوبیا نام کا ایشو ہے مجھے، تم جیسے جاہل کو کہاں پتا ہوگا ایسی بیماریوں کا جس نے زندگی میں دوسروں کے حق پر جھپٹنا اور انکا حق چھیننے پر ہی توجہ دی ہے"

وہ اسکی جلتی آنکھوں میں جھانک کر جو کچھ اسکو آگ لگانے کو بولی، وہ الٹا وریشہ کے بتانے پر متاثر کن تاثر دیتا اسے پکڑ کر مزید نزدیک لایا اور بڑے غور سے وریشہ کے چہرے پر پھیلتی گھبراہٹ دیکھی، جس نے اپنے نرم ہونٹ سختی سے بھینچ کر ناگواری سے اپنا چہرہ تک شہیر کی جانب سے پھیرا جسے اس نے استحقاق بھرے انداز کے سنگ ٹھوڑی سے پکڑے واپس اپنے چہرے کے روبرو کیا۔

وریشہ کو لگا جیسے دل عجیب سی گھٹن کا شکار ہو رہا ہو اور سانس سینے میں ہی جکڑ رہی ہو۔

"ہاں بالکل، ایسا ہی کیا ہے میں نے اور اس بار بھی اپنے حق کو چھیننے پر ہی توجہ دوں گا"

بنا وریشہ کی آنکھوں میں جمع ہوتی نفرت کی پرواہ کیے بنا وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر جتا رہا تھا۔

"تمہارے اندر کوئی عزت نفس نامی چیز نہیں ہے؟ تم ایک ایسی عورت کو تسخیر کرنا چاہتے ہو جو تم سے نفرت کرتی ہے، یک طرفہ تو محبت بھی تکلیف دیتی ہے، پھر یک طرفہ، زبردستی بنایا ازواجی تعلق تمہاری مردانگی پر کیسے ٹھیس نہیں پہنچائے گا؟"

خفت، اس ناپسند نزدیکی کی اذیت کے شدید غلبے کے باعث وری کی آواز بوجھل ہوئی البتہ شہیر کے دل پر کھنچاو پڑا تھا۔

"بہت تیز دماغ چلتا ہے تمہارا وری ڈارلنگ، جذباتی وار کر کے اپنا بچاو کرنا چاہتی ہو۔ یو نو واٹ؟ تم جیسی دماغی اور جسمانی طور پر بہادر لڑکی ہی اپنے لیے چاہتا تھا۔ جس سے میرا ٹکر کا مقابلہ ہو ، وہ مجھے سسک سسک کر مارنا چاہتی ہو اور میں سانس سانس اپنی زندگی بڑھا کر اسے آخری سانس تک زچ کرتا رہوں"

مسکراتے، سلگتے انداز میں وہ ناجانے کیا کچھ اس پر پھونک گیا کہ جب وہ قریب آکر اسکی آنکھوں کی اور ہلکی سی پھونک مارتا، ان بند ہوتی آنکھوں سے نظر ہٹاتا بے باکی سے اس غصے اور تکلیف کے رنگوں سے سرخ ہوتا گال اپنے شدت بھرے ہونٹوں کے لمس سے چھوتے ہوئے واپس پیچھے ہٹا تو وہ نفرت کے سنگ پھنکارتی، لمحوں میں اسے پرے دھکیلتی غرائی جبکہ نکل تو وہ ہرگز نہ پائی کہ یہ حصار اسکی سوچ سے بڑھ کر سخت اور شدت بھرا تھا۔

"رہی بات تمہاری الرجی یا فوبیا کی تو، اتنی جلدی تم سے کوئی ازواجی رشتہ آپن نہیں بنانے والا۔ شکل سے خاصا بہکا ہوا لگتا ہوگا شہیر مجتبی، پر اپنی من پسند عورت کے لیے بڑا صابر نکلنے والا ہے۔ اور تم بھولنا مت، تمہیں تکلیف دینے کے لیے ہی تمہاری زندگی میں آیا ہوں سو جس دن میرا دماغ پھر گیا تو تمہاری کوئی چالاکی مجھے روک نہیں پائے گی"

وہ اسکی گرفت مسلسل جھٹکتی ہوئی ، آنکھوں میں جلن لیے اسکی یہ بکواس برداشت کر رہی تھی مگر پھر جیسے وہ خود ہی اسے آزاد کرتا دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

جبکہ اسکے اشارے پر وہ اسکے ساتھ کوفت اور اذیت بھرے غصے کو دباتی نیچے تو آئی مگر جیسے ہی وہ لاونچ میں داخل ہوئے، وریشہ نے فورا سے بیشتر اسے دھکا دیے پیچھے دھکیلا۔

"کس سستی مووی کے ڈائلاگ ہیں یہ منحوس مارے؟ مجھے متاثر کرنا چاہتے ہو۔ہاہا مجھ پر یہ احسان کرنے کی جرت مت کرنا، تمہیں تمہاری اوقات میں رکھنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔ مجھے یہ سب بہانے کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی جب تم اس دنیا سے ہی غائب ہو جاو گے۔ قسم اٹھائی تھی میں نے کہ تمہیں مار ڈالوں گی۔ تو تمہاری گندی قربت سہنے سے پہلے ہی میں تمہارا کام تمام کر دیتی ہوں"

وہ جو اس اچانک لگتے دھکے سے دو قدم پیچھے ہوا تھا، تب پتھرا کر رہ گیا جب ساتھ ہی پڑے ریک کے دراز میں چھپائی گن، پھرتی سے نکالتی ہوئی وہ سیدھی شہیر کے سینے کی جانب تان کر حلق کے بل چینخی اور گن پر پکڑ پر مضبوط کی۔

"بہادر عورت پسند ہے، لیکن اتنی بھی نہیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنا سہاگ اجاڑ دے"

اسکے چہرے پر تکلیف دہ مسکراہٹ بکھری تو وریشہ کو لگا اس کم بخت کا مسکرانا ہی ہاتھوں میں لرزش لے آیا ہو۔

"تم جیسے سہاگ اجڑنے کے لیے ہی بنتے ہیں شہیر مجتبی، میں نے تم سے نکاح کرتے ہی اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔ اب تمہیں مار کر ناصرف سبکو تم جیسے شر سے نجات دلواوں گی بلکہ خوشی خوشی اپنے اس جرم کا اقرار کیے خود کو قانون کے حوالے کر دوں گی۔ بہت پہلے ہی اپنا آپ ولی زمان خان کے لیے امانت رکھ دیا تھا، اگر وہ میری قسمت میں نہیں تو میں تم جیسی نحوست کو بھی خود پر حرام کرنے والی ہوں"

وہ نا صرف جنونی ہو گئی تھی بلکہ اسکے سر پر خون سوار تھا، شہیر کی قربت اسکا جسم جلا رہی تھی اور اسکے اندر موجود تمام ہمت اول دن ہی ختم ہو گئی۔

جبکہ ولی زمان خان کا ذکر شہیر مجتبی کی آنکھوں میں خونخوار سرخی اتار لایا۔

"مار دو مگر میری ہو کر کسی غیر کا نام اپنی زبان پر لانے کی جرت مت کرنا وریشہ۔ تمہیں بے شک کسی بھی محبت نامی جذبے سے یکسر بے نیاز ہوئے ضد میں اپنایا ہے مگر یہ کسی اور کا ذکر مجھے اتنی ہی آگ لگائے گا جتنی ایک شوہر کو اسکی بیوی کے منہ سے اپنے یار کے ذکر پر لگتی ہے"

نہ تو اسے گن خود پر جمی ہونے کا خوف تھا نہ اسکا کہ وہ کسی بھی لمحے مر سکتا ہے، اسے جس تکلیف نے آگ لگائی اسکا ادراک وریشہ یوسف زئی کی کائنات بھی ساکت کر گیا۔

"بیوی نہیں ہے وریشہ تمہاری، تم ایک جانور ہو۔ تمہاری محبت بننے سے اچھا ہے میں اپنی جان خود لے لوں۔ اور ابھی تو شروعات ہے شہیر مجتبی، تم زندہ رہے تو یہ ولی زمان خان کا ذکر اٹھتے بیٹھے تمہیں آگ لگاتا رہے گا۔ تو بہتر یہی ہے کہ مر کر ہم سبکی زندگیوں کو آسان کر دو۔ سانول بابا اور اماں کوثر کا یہ دوسرا وارث بھی مر جائے گا آج، کاش تم نے ایک بار انکا سوچا ہوتا۔ لیکن اب کوئی مہلت باقی نہیں، مرنے کے لیے تیار ہو جاو منحوس شہیر "

وہ کسی جن زادی کی طرح ، اس قہر ناک شام کا سارا غضب اوڑھتی گن کے گرد ڈھیلی پڑتی گرفت مضبوط کرتی اس سے پہلے گن چلاتی، وہ ایک قدم نزدیک بڑھتا اپنا ہاتھ بڑھا گیا۔

"نہیں ہو پائے گا، لاو گن دو۔ کسی کو جان سے مارنے کے لیے انتہائی نفرت چاہیے، تم اتنی نفرت نہیں کر سکتی ابھی مجھ سے"

وہ اسکی جنونیت بھری آواز میں بے یقینی والا سہما پن تھا اور نفرت کے باوجود بڑی نرمی اور تحمل کا مظاہرہ کرتا اس سے پہلے اسکی طرف مزید بڑھتا، گولی سیدھی شہیر کا سینہ چھلنی کرتی اسکے فولادی جسم میں جا دھنسی۔

وریشہ کے ہاتھوں سے جہاں خوف اور تکلیف کے مارے گن چھوٹ کر فرش پر گری وہیں شہیر نے بے اختیار اپنے سینے پر بکھرتے خون پر ہاتھ جکڑا، جبکہ اسکی آنکھیں سینے میں اترتی اس آگ کا یقین لیے وریشہ کی پتھرائی آنکھوں میں اذیت سے جا اتریں۔

"ہو گیا، تم اسی لائق تھے۔ خ۔۔ختم ہو گیا یہ نکاح کا کھیل۔ میں تم سے انتہائی نفرت کرنے میں کامیاب ہو گئی شہیر مجتبی۔ تم نے مجھے برباد کیا تو میں نے تم پر یہ سانس سانس کا سفر ختم کر دیا"

اسے وریشہ کی پھنکارتی، دہشت ذدہ آواز بہت دور سے آتی سنائی دی تھی جبکہ اسے بے جان ہو کر گرنے سے پہلے اس نے اپنی دھندلائی آنکھوں کا آخری عکس وریشہ یوسف زئی کا چہرہ بناتے ہی خود کو گرنے کے لیے فراغ دلی سے آزاد چھوڑا۔

وہ خوف کھاتی دور قدم دور ہٹی تو شہیر نے زمین پر گرتے ہی چند بے ترتیب سانسیں لیتے ہی ہوش گنوا دیا جبکہ وہ جو اپنی ساری نفرت اس سفاک کے سینے میں گاڑ کر اپنی طرف سے کھیل سمیٹ گئی تھی، وہیں قدموں کے بل بیٹھتے ہی اس شخص کے بے جان ہو جاتے وجود کو پھٹی ٹھہری ہوئی بصارت میں لیتی اک نئے تماشے کے شروع ہونے پر سر تا پیر کانپ اٹھی۔

کیونکہ ایک نئی تکلیف اس نے شہیر کو تکلیف دے کر دریافت کی تھی، جو اسکی نفرت پر بھیانک حد تک حاوی ہو چکی تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

حویلی سے بہت مشکل سے وہ قدوسیہ اور فردوسیہ کے ساتھ زارداری سے نکلتیں ٹھیک ایک گھنٹے تک قریبی سنسان قبرستان پہنچ چکی تھیں، خوف و ہراس ان تینوں کی شکلوں پر درج تھا جبکہ شام سے رات کی تاریکی میں بدلتا ماحول عجیب سی سنسنی پورے وجود میں اتار رہا تھا۔

یکدم عقب سے چینخیں دبنے کی آواز آئی تو گل خزیں سہم کر پلٹی تو قدوسیہ اور فردوسیہ کو دو بھاری بھرکم سانڈ جیسے آدمی گردن سے دبوچے انکا منہ بند کیے جکڑ چکے تھے، گل خزیں نے خشک حلق تر کیے اپنے خوف کو دباتے جب واپس گردن پلٹی تو سامنے ضرار کو دیکھ کر اسکا رنگ سفید ہوا۔

"ت۔۔تم! کیوں بلایا ہے تم نے مجھے یہاں۔ اور اپنے ان لوگوں سے کہو کے چھوڑ دیں میری خاص خادماوں کو"

اس زخمی شیر کو دیکھ کر اس سفاک عورت نے حلق میں اٹکی سانس خارج کیے خود کو مضبوط کرتے دھمکاتا لہجہ اپنایا ہی تھا کہ میثم ضرار چوہدری، اپنے چہرے کی حقارت دباتا قریب بڑھتے ہوئے اس عورت کو اسی گری دیوار کے سنگ لگاتے ہی اپنی گن نکالتا گل خزیں خانم کی کن پٹی سے جوڑ گیا جسکے منہ سے صدمے کے باعث چینخ نکلتے نکلتے بچی۔

"آپکی اوقات بتانے بلایا ہے ظالم خانم! رہی بات آپکی ان خادماوں کی تو چھوڑ دیں گے ، یہی تو آپکی مرہم پٹی کریں گی۔ اب بتائیں پہلے آپکی زبان کاٹوں یا آپکے خرافاتی دماغ کی بتی گل کروں؟"

بڑی تمیز کے سنگ وہ گل خزیں کے چہرے کی لٹھے کی مانند سفید پڑتی رنگت سے مخظوظ ہوتا بولا جبکہ وہ ضرار کی آنکھوں میں ابلتی نفرت سے اپنا آپ یوں بھی جلتا محسوس کر رہی تھیں۔

"د۔۔دیکھو تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو بچے، اگر سردار خاقان کو علم ہوا تمہاری اس گستاخی کا تو وہ تمہارے اس بار ٹھیک الٹے دل پر گولی ماریں گے۔ "

اب بھی جیسے اس عورت کو یقین تھا کہ وہ ضرار جیسے انسان کو ان سرداروں کے نام سے ڈرا سکتی ہے، مگر ضرار ضرور اسکے بھرم دیکھ کر ہنسا۔

"نہیں خانم! انھیں صرف آپکی ایک دو رات کہیں باہر گزار کے آنے کی خبر دوں گا۔ پھر جب واپس حویلی جائیں گی تو وہ غیرت مند سردار آپ کے ساتھ بھی وہی کروائے گا تصدئق کے لیے جو اس نے اشنال کے ساتھ کروایا کہ کہیں کوئی نابننے والا تعلق تو نہیں بن گیا۔۔چچ چچ۔ بھئی اس عمر میں بھی اتنی خوبصورت بیوی ہے انکی، چہرے پر جھریاں تک نہیں، بس نحوست اور سنگدلی درج ہے، دو راتیں باہر گزار آئی تو وہ تو فطری شک میں مبتلا ہو جائیں گے"

اسکے ہنسنے پر جہاں گل خزیں خانم کا دل سوکھے پتے سا پھڑپھڑایا وہیں میثم ضرار کی اگلی تمام گفتگو نے جیسے اس عورت کو سر تا پیر آگ لگائی۔

"نیچ انسان، میں تمہیں مار ڈالوں گی"

اس عورت کے تلملانے میں تکلیف اور خوف شامل تھا جبکہ میثم ضرار چوہدری کو ان لوگوں نے پہلے ہی بہت ہلکا لے لیا تھا مگر اب وہ سب پر قہر بن کر ٹوٹنے والا تھا۔

"ماروں گا تو اب میں، وہ بھی تم جیسوں کو تڑپا تڑپا کر۔ تم نے اشنال کے ساتھ جو ظلم کروایا ہے گل خزیں خانم، اس کے لیے نہ تمہیں اُس جہاں رب بخشے گا نہ اِس جہاں میثم ضرار چوہدری۔ دل تو یہ تھا میرا کہ اپنے کسی خونخوار ہوس سے بھرے آدمی کو تم پر دو راتوں کے لیے چھوڑ کر حقیقی میلا کروا کے اس کمینے خاقان تک بھیجتا مگر میری تربیت آڑے آگئی۔ پھر تم عزیز کی ماں ہو سو بس تمہیں دو راتیں قید دینے پر ہی صبر کر رہا ہوں اور اسے ضرار کے انتقام کی شروعات سمجھنا۔ ابھی تو تمہیں اس گناہ پر بہت تڑپاوں گا کہ تم خود اپنی موت مانگو گی۔ لے جاو انکو عزت سے، اور دو دن بعد انھیں خود پتا چلے گا کہ کسی کی عزت پر حرف لانے کی کم سے کم میثم ضرار چوہدری کیا سزا دیتا ہے"

قدوسیہ اور فردوسیہ کو وہ دو آدمی پہلے ہی گھسیٹ کر گاڑیوں میں دھکے دے کر بیٹھا چکے تھے جبکہ میثم کا حکم ملتے ہی دو مزید آدمی اس چینختی، دھاڑیں مارتی، سسکتی گل خزیں خانم کے منہ میں کپڑا ٹھوستے اسے بڑی عزت سے گاڑی کی سمت لے کر گئے اور میثم ضرار چوہدری کی آنکھیں جہنم کی طرح سلگ گئیں۔

اسکا داود اور عزیز سے مسلسل رابطہ تھا، جبکہ میثم کے نہ مل کر آنے کے باعث اشنال کی بگھڑتی طبعیت قدرے بحال ہو گئی تھی اور فی الحال وہ بھی دو دن زرا انتقام لینے کی طرف ہی بھرپور توجہ دینے کے حق میں تھا۔

اس نے اپنے دو آدمی شہیر کے پیچھے بھی لگا رکھے تھے جن سے اسے شہیر کے شہر جانے کی اطلاع ملی تھی اور وہ کچھ مطمئین تھا کیونکہ اس خبیث کے شہر بھی کئی دھندے تھے جنکی ضرار کو مکمل خبر تھی، جبکہ اشنال کے لیے ولی اور گلالئی کی روانگی کا بھی اسے کچھ دیر پہلے ایک آدمی کے ذریعے علم ہو چکا تھا۔

اشنال کے ساتھ گلالئی کی موجودگی، ضرار کو اسکی فکر سے کچھ پرسکون کر چکی تھی جبکے مسلسل بازو میں اٹھتے درد اور آج کے اذیت ناک دن کے زہر کو کم کرنے وہ اب سیدھا واپس بزدار حویلی جانے والا تھا کیونکہ دادا سائیں اسکا پوچھ پوچھ کر بھوک ہڑتال کیے بیٹھے تھے سو اسکے لیے واپسی کا ایک چکر لگانا ضروری تھا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مما ہم تو ٹھیک ہیں پر آپ مالنی کی خبر لیں زرا۔ یہ ہمیں ایچ بی کے سامنے شرمندہ کروانے پر تلی ہیں۔ انکو سمجھائیں پلیز"

وہ جو اٹھ کر تازہ دم ہوتی اس مچتے وبال سے خاصی گھبرا گئی تھی، اس سے پہلے مالنی کو اسکے کارنامے پر ڈانٹتی، اسی لمحے مالنی کے فون پر کنزا کی کال آئی جس نے کال لگتے ہی زونی کی خیریت پوچھی۔

کوٹھے کو سجایا گیا تھا، کیونکہ ہر رات کی طرح آج بھی نازلی کے رقص کی مخفل تھی تبھی کنزا کچھ دیر اندر کے ہنگامے سے باہر صحن کی جانب نکل آئی۔

"کیا کر دیا ہے مالنی نے، کیوں شرمندہ ہو گی تم ایچ بی کے سامنے؟"

کنزا نے عجیب سی ناگواری سے استفسار کیا جس پر معصوم بنی آنکھیں پٹپٹاتی مالنی کو زونی نے گھورا اور گہرا سانس بھرے فون کان سے ہٹاتے ہی سپیکڑ پر ڈالا۔

"مما وہ ناں میرا ان پر دل آگیا ہے، آپی تبھی غصہ ہو رہی ہیں"

مالنی کے صاف گوئی سے بتانے پر دوسری جانب کنزا کے چہرے پر عجیب سی بےقراری اور ساتھ میں بیزارئیت بھی ابھری۔

"تمہارا دل تو ہے ہی فضول ، فضولیات پر ہی آتا ہے۔ ایسا کونسا تیس مار خان ہے وہ کہ تم اپنا دل ایک دن بھی سنبھال نہیں سکی مالنی"

کنزا ، توقع کے برعکس مالنی پر برس پڑی جبکہ خود زونی بھی مما کی ڈانٹ پر کچھ بوجھل ہوئی، اسکا مقصد مالنی کو مما کی اس درجہ سخت ڈانٹ پڑوانا نہیں تھا۔

"مما وہ جادوگر ہے، بس میں تو پوری نہیں سنبھل سکی، دل کیا چیز ہے"

زونی کی افسردگی دیکھ کر وہ اسکے دونوں ہاتھ پیار سے دباتی آنکھ مار کر جو بولی اس پر کنزا نے وہیں باہر لگے تحت پر بیٹھتے ہی اپنا سر تھاما۔

"یا میرے خدا! اس لڑکی کو ہدایت دیں۔ وہ اس قابل نہیں کہ اس پر تمہارا معصوم اور پاکیزہ دل فدا ہو۔ سمجھ گئی، اپنے دماغ میں آتی یہ خرفاتی سوچیں پہلی فرصت میں جھٹک دو۔ تم دو وہاں میری امانت ہو اسکا خود بھی دھیان رکھنا۔ میرے پاس فی الحال تم کی حفاظت کا کوئی دوسرا در نہیں سو مجھے بے بس کرنے کی نہ ہمت کرنا دونوں نہ کوشش۔۔ کل خود آوں گی اور اس ایچ بی کو خود اسکی اوقات یاد دلاوں گی"

وہ بہت غصے اور حقارت کے سنگ فون کو سپیکڑ پر بھانپتی دونوں کو ہی خاموش وارننگ دیتی فون بند کر چکی تھی البتہ کنزا کی آخری بات پر تو مالنی کا شرارت بھرا چہرہ بھی خوفزدہ تاثر سے سج گیا جبکہ زونی کو ایسا لگا جیسا مما کو مشارب کے آنے کی خبر ہو گئی ہے۔

"مما کو ہم دونوں نے ناراض کر دیا مالنی، اب کیا ہوگا"

زونین تو جیسے خوف سے ہی کانپی البتہ مالنی نے جلدی سے چہرے پر سجے خوف کو ختم کرتے ہی مسکرا کر زونی کے دونوں ہاتھ جکڑے بیٹھایا اور خود اسکے قدموں میں بیٹھی۔

"آپی آپ پریشان نہ ہوں، مما آپکے اور میرے لیے ایک سی ٹچی ہیں۔ وہ آئیں تو میں انکی ناراضگی مٹا لوں گی آپکو ابھی مالنی کے لاڈ نہیں پتا۔ رہی بات ایچ بی کی تو انکی خیر نہیں یہ تو صاف پتا چل رہا ہے۔ ہائے میرا ماسکو، اپنی ہونے والی جلالی ساس سے پہلی بار بے عزت ہوتا کیسا لگے گا میرا تو یہ سوچ سوچ حلق سوکھ رہا"

اتنی خطرناک سچویشن میں بھی مالنی کی بات ، زونی کو تمام ڈر کے ہنسا گئی البتہ خود بھی مالنی اپنی بتیسی دیکھانے لگی۔

"اف مالنی! آپ کیسے اتنی کول رہ لیتی ہیں۔ ہمارے تو ہاتھ پیر پھول رہے ہیں"

زونی اسکی مسکراہٹ دیکھے خاصی معصومیت سے منمنائی جبکہ وہاں تو آج جسم و جان تک عجیب سی نشاط انگیزی رچی بسی تھی۔

"ہاہا یہ میرا سب سے بڑا ٹیلنٹ ہے، جلد آپکو بھی سیکھا دے گی یہ بندی۔ پہلے تو جا کر چینج کریں تاکہ نیچے جا کر کچھ پیٹ پوجا کی جائے، قسم سے پیٹ میں کھوتے گھوڑے دوڑ رہے"

وہ فورا سے بیشتر نزاکت سے اپنے بات جھٹکتی اٹھی جبکہ زونین کی نیلی آنکھیں تو اس لڑکی کے ساتھ سے ہی اب ہر دم مسکرانے لگی تھیں، الٹا اسکی مثال پر زونی بھی اپنی ہنسی نہ روک پائی اور اٹھ کر چینج کرنے بڑھی البتہ مالنی کے شیطانی دماغ میں ابھی بھی دیدار والا ماجرہ ہی گھوم رہا تھا۔

اسکا بس نہ چل رہا تھا ورنہ ایچ بی کو باندھ کر اسکے منہ سے ماسک اتار دیتی، ویسے یہ خیال بھی برا نہ تھا۔

اگلے ہی لمحے اسکے دماغ کا گھنٹہ بج اٹھا تھا۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

گلالئی اور ولی زمان رات بارہ تک داود ہاشمی کے ہوسپٹل پہنچ چکے تھے، دونوں سیدھا کوریڈور کی سمت ہی بڑھے جہاں عزیز خان پہلے ہی منتظر تھے۔

دونوں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان دو کی جانب لپکے۔

"کیسی ہے اشنال اب؟"

والی زمان نے فکر مندی سے پوچھا جبکہ گلالئی کی بے تابی بھانپتے ہوئے عزیز خان نے اسے اندر کمرے کی جانب جانے کا اشارہ کیا جس پر وہ جلدی سے اپنے گرد اوڑھی چادر سمیٹتی اندر بڑھی۔

"بہتر ہے اب، گلالئی کو تم لے آئے اسکے لیے شکریہ ولی۔ وہ اسکے ساتھ بہت اٹیچ ہے۔ اس وقت اشنال کو سب سے زیادہ گلالئی کی ہی ضرورت تھی "

عزیز خان کا لہجہ مشکوری اور تاسف سے اٹا تھا جبکہ ولی زمان ، اس باپ کی شکستہ سی حالت دیکھ کر دل تک بوجھل ہوا۔

دونوں کندھوں سے جکڑ کر ایک تسلی آمیز نگاہ ان رحم طلب ، بے بس آنکھوں پر ڈالی۔

"بالکل بھی کسی چیز کی فکر مت کریں چاچو، میں جب تک زندہ ہوں اشنال کو خود شہیر سے بچاوں گا۔ آپ لوگ کل گھر پہنچیں تو میں رات میں چکر لگاوں گا۔ ابھی مجھے اجازت دیں"

شاید وہ کچھ اجلت میں تھا تبھی اپنے ہونے کی بھرپور تسلی بہم پہنچاتا وہ عزیز خان کی اجازت ملتے ہی ، روم کے دروازے میں نسب شیشے سے ہی اک نظر اشنال پر ڈالتا واپسی کے لیے مڑ گیا جبکہ اندر خدیجہ خانم سے تمام سچائی سننے کے بعد، گلالئی نم بھری آنکھوں میں بے حد تکلیف بھرے اشنال کے سرہانے بیٹھی اسکا بے جان ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگائے اسکی اتنی بڑی اذیت پر سراپا دکھ بن گئی۔

جبکہ اندر داخل ہوتے عزیز خان کا دل بھی بوجھل ہوا۔

"میں آگئی خانم! اب آپ س۔۔سے دور جاوں تو اللہ سائیں کریں کے مر جاوں۔ آپکی ہر تکلیف مجھے ل۔۔لگ جائے۔ آپ گلالئی کی زندگی ہیں"

تکلیف کے سنگ وہ بکھرتی، ٹوٹتی سرگوشیاں کرتی اشنال کی بند آنکھوں کو تکتی اسکی پرتپش پیشانی سہلا رہی تھی  ، خدیجہ خانم اور عزیز خان بھی جیسے پل پل اشنال کی عافیت مانگتے ہوئے بھرائی آنکھوں سے ان دو کو دیکھ رہے تھے۔

وہیں ضرار کے لوگ قدوسیہ، فردوسیہ اور گل خزیں خانم کو اپنے علاقے لا کر ایک سنسنان کی بند حویلی کے زندان میں چھوڑ کر جا چکے تھے، تینوں کو الگ الگ جگہ رسیوں اور زنجیروں سے باندھا تھا جبکہ ان تینوں کی مزاحمت، دھاڑوں سے بچنے کو انھیں کلوروفارم سونگھا دیا گیا تاکہ انکی آہ و پکار نہ سنائی دے سکے۔

مہیب سناٹے، گرد و غباد اور بے بسی میں پڑیں وہ تینوں ہی حویلی سے غائب ہیں، یقینا جب یہ سچائی کل صبح سبکو پتا چلتی تو تب آتی میثم ضرار چوہدری کی طے کردہ ہیبت ناک قیامت۔

خود وہ حویلی پہنچ کر تمام درد و اذیت کے سیدھا دادا سائیں ہی کے کمرے کی جانب بڑھا، جبل زاد کو اس نے تمام معاملات سے پہلے ہی آگاہ کر رکھا تھا۔

"کہاں تھے تم ضرار؟"

اماں فضیلہ نے جلدی جلدی ضرار کے لیے کھانا بنایا جبکہ بزدار صاحب کا پہلے ہی پرہیزی کھانا تیار تھا جسے جبل زاد ٹرے میں سجاتا وہیں سائیں کے حکم پر کمرے میں لایا۔

ضرار لاکھ خود کو بہتر پیش کرتا مگر اسکی آنکھوں میں گھلی ہوئی سرخائی بھانپ کر دادا سائیں کا سینہ تڑپ اٹھا تبھی جب وہ سوپ کا پہلا چمچ بھر کر دادا سائیں کی جانب بڑھا رہا تھا تو وہ ناراضگی کے سنگ اسکا ہاتھ پکڑے استفسار کرنے لگے۔

"ایک مہم پر تھا دادا سائیں، آپ پلیز اب یہ کاکا پٹاکہ بننا چھوڑ دیں یار۔ کھولیں منہ، کتنی بار کہا ہے کھانے پر غصہ مت نکالا کریں۔ آپ نے دوا لینی ہوتی ہے، منہ بسور کر جو آپ یہ بھوک ہڑتال کرتے ہیں، اس سے آپکا سارا نظام ہل جاتا ہے"

تمام تر بیزاری اور کوفت کے باوجود وہ خود کو ہلکے پھلکے انداز پر قائل کرتا ہوا صاف صاف جبر میں لپٹا دیکھائی دے رہا تھا جس پر بزدار عالم نے وہ سوپ سے بھرا چمچا تو پی لیا مگر انکی دردناک نظریں ہنوز تھکے ہوئے ضرار کی جانب جمی تھیں۔

"یہ لڑکا مجھے کچھ نہیں بتاتا، یا اللہ میں کیا کروں"

جذباتی ہوتے وہ ہاتھ اٹھا کر دہائی دیتے کرب زدہ ہوئے تو جہاں ضرار نے منصوعی خفگی سے دادا جان کا ڈرامہ ملاحظہ کیا وہیں جبل زاد کے بھی ہلکے سے دانت نکلے۔

"جبل زاد! انھیں کھانا کھلا کر دوا دے دینا۔ میں ابھی اس قدر تھکا ہوں کہ لگ رہا ہے یہیں گر پڑوں گا۔ آپ سے تفصیلی ملاقات صبح ناشتے پر ہوگی ڈرامے باز دادا سائیں۔ فی الحال شب بخیر"

سوپ کا پیالہ اٹھ کر جبل زاد کو تھماتا وہ دادا سائیں کی غصے سے گمائی آنکھیں، جلتی سلگتی مسکراہٹ کے سنگ تکتا کمرے سے نکل گیا جبکہ جبل زاد کے ہاتھ سے وہ پوری شرافت سے سوپ پینے لگے کیونکہ بھوک تو اب ان سے بھی برداشت نہ تھی اور خود جبل زاد نے بھی بھرپور محبت سے یہ فریضہ سرانجام دیا۔

بزدار عالم کو دوائیں کھلا کر وہ انھیں سونے کا کہے خود بھی ضرار کی خبر گیری کے لیے اسکے کمرے کی جانب بڑھا البتہ بزدار عالم نے نیند کی طلب محسوس نہ کرتے ہوئے سائیڈ میز پر رکھی فوٹو فریم اٹھا کر اپنے سامنے کی تو لمحوں میں انکی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس فوٹو فریم میں تین افراد تھے، لگ بھگ چودہ سالہ وہ خوبصورت اور پرکشش سا لڑکا یقینا ضرار تھا، جو سبون جیسے ہی گھوڑے پر سوار تھا جبکہ گھوڑے کی گردن میں ڈالی گئی رسی ایک نہایت حسین اور خوبرو نوجوان کے ہاتھ میں تھی جس نے مسکرا کر کرسی کی جانب بیٹھے نوعمر لگتے بزدار عالم کو مسکراہٹ پاس کرتے ہوئے شرارت بھرا پوز بنا رکھا تھا۔

بزدار عالم نے اس فوٹو فریم میں دیکھائی دیتے اس خاص چہرے کو چوما، دل تو مزید بلکنے لگا تھا۔

"ہاشم! بابا کی جان۔ تمہارا غم شیر جیسے بزدار عالم کو کھا گیا بچے۔ بخت تو تھا ہی کوئلہ اور عبرتناک موت کے لائق اور اسکی سزا بھی میں نے بحیثیت باپ خود طے کی مگر تم تو ہیرا تھے میرا، میری ہمت"

وہ باپ اپنے لائق اور ذہین بچے کو یاد کرتا آبدیدہ ہوا تو جیسے اس تصویر کو ویسے ہی اپنے سینے سے لگا لیا اور آنکھیں موند لیں۔

وہیں جب تک جبل زاد، ضرار کے کمرے میں پہنچا وہ تازہ دم ہوئے وائیٹ ویسٹ اور ٹروازر پہنے ، ٹاول سے بال آہستہ آہستہ رگڑتا باہر نکل رہا تھا اور اسکی پہلے سے زخمی بازو پر مزید گہرا زخم دیکھ کر وہ پریشانی سے اندر لپکا۔

"سائیں! "

جبل زاد کی بے یقین سہمے پن والی پکار پر ضرار اپنی بازو پر بندھی دونوں پٹیاں کھولتا ہوا پلٹا تو اک دلخراش سا جگر چیرتا تبسم اسکے چہرے پر حاوی ہوا تھا۔

"صنم کے دیے زخم بھی بڑے عزیز ہیں مجھے جبل زاد! فکر مند مت ہو ، ایسے کئی زخم بھی مجھے اس لڑکی تک پہنچنے کے لیے کھانے پڑے تو خوشی خوشی کھاوں گا مگر مجھے اس سب کھیل تماشے میں صرف ایک فکر ستائے جا رہی ہے"

جبل زاد نے آگے بڑھ کر خود فسٹ ایڈ باکس سے کاٹن اور زخم صاف کرنے والی دوا نکالی اور ضرار کے بیٹھتے ہی وہ اسکی ڈریسنگ کرتا ، ضرار ہی کی لرز جاتی آواز پر آنکھیں اٹھائے متوجہ ہوا جو کسی گہرے درد دیتے خیال اور اذیت سے گزرتا ہوا کچھ لمحے خاموش ہو چکا تھا۔

"وہ کیا سائیں؟"

جبل زاد کا استفسار دکھ بھرا تھا تبھی تو ضرار اسکا کندھا تھپکاتے مسکرایا اور پھر یکدم مسکراہٹ ختم کر ڈالی۔

"یہی کہ مجھے اس لڑکی کے دماغی حالات درست کرنے کے لیے منصوعی نفرت نہ کرنی پڑ جائے، دیکھو ناں کہ جو کچھ وہ میرے ساتھ کر رہی ہے، وہ تو یہی سمجھ رہی ہے کہ اس سب کے بعد یہی ضرار اس سے ایک دن عاجز آجائے گا، نفرت کرے گا۔ اگر سب نارمل کرنا پڑا تو یہ نفرت بھی لازمی ہوگی اور میں تو اس لڑکی سے اکھڑے لہجے میں بات تک نہیں کر سکتا"

ضرار کی یہ ساری الجھن سن کر خود جبل زاد حیرت زدہ دیکھائی دیا، پھر جیسے ضرار کے ہاتھ کے زخم کو کچھ بہتر محسوس کیے بس بازو پر ہی ڈریسنگ کیے وہ فسٹ ایڈ باکس واپس اپنی جگہ رکھتا ضرار کی جانب پلٹا۔

"سائیں! کچھ بیماریوں کا علاج زہر سے بھی ہوتا ہے۔ وقت پڑنے پر اگر اس جدائی جیسے ناسور کا علاج بھی منصوعی نفرت سے کر کے زہر کا توڑ کرنا پڑا تو اللہ سائیں کو پھر سے گواہ بنا کر بسم اللہ کیجئے گا۔ اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہے۔ جیسے آپکی انھیں آخری سانس تک نہ چھوڑنے کی نیت ہی نے آپکو خانم سے جدا ہو کر بھی جدا ہونے نہیں دیا، تو محبت کی نیت رکھتے ہوئے مصلحت کے طور پر نفرت کرنا بھی جائز ہے"

ایک یہ جبل زاد اور اسکی ڈھارس بندھاتی باتیں نہ ہوتیں تو وہ کہاں جاتا، عجیب سا سکون تھا جو جبل زاد کے جواب نے اسکے اندر اتارا۔

"جبل زاد! جب بھی مجھے اللہ سائیں اپنی بارگاہ میں بلاتے ہیں تو میں تیرے ساتھ کا شکر لازمی ادا کرتا ہوں۔ میری کانٹوں سے بھری زندگی اور ذات میں تیری باتیں مہکار بھر دیتی ہیں"

وہ اسکی امید افزائی پر متاثر کن ہوئے سراہ اٹھا تو جبل زاد کا سینہ بھی فخر سے تن جاتا۔

"یہ میری خوش بختی ہے سائیں! کہ میں آپکی زندگی کا اتنا اہم حصہ ہوں۔ بتائیں کیا کھائیں گے؟ جبل زاد خود بنائے گا"

وہ بھی جیسے ضرار کی جانب سے ملتی محبت پر سارا خلوص ہی لٹا گیا اور ضرار فی الحال کسی شے کی کوئی طلب نہیں رکھتا تھا سوائے کچھ گھنٹوں کی نیند کے۔

"صبح تمہارے ہاتھ کا بنا پہاڑی ناشتہ کروں گا، ابھی تکلیف میں کمی صرف نیند کر سکتی ہے جبل زاد"

وہ اپنی تھکن عیاں کرتا وہیں تکیہ کھینچے لیٹا تو جبل زاد بھی فرمابرداری سے کمرے کی مین لائٹ آف کیے، کمرے سے نہ صرف باہر نکلا بلکے جاتے ہوئے دروازہ بھی بند کر گیا۔

ضرار کی آنکھیں عجیب سے بوجھ میں اترتی چلی گئیں، سینے کے الٹی جانب نسب دل پر ہتھیلی جکڑی تو یوں لگا وہ کانپ رہا ہو۔

اشنال کی حالت اسکے سکون کو غارت کر رہی تھی پھر وہ کیسے پرسکون نیند لے سکتا تھا۔

"آپ پہلو میں آئیں گی اشنال تبھی سکون آئے گا، اب آپکے سامنے تبھی آوں گا جب آپ سے ہوئی زیادتی کا بدلہ وہ گل خزیں خانم چکا چکی ہوگی۔ آپکی ہر تکلیف کا بدلہ مجھ پر فرض ہے، آپ کے ساتھ زیادتی کرنے والا ہر فرد جنہم کی طرح تپتی بھٹی سے گزرے گا یہ وعدہ ہے"

وہ بہت تکلیف میں تھا، اشنال سے دور رہنا انتہائی تکلیف دہ تھا مگر اس لڑکی کی زندگی بچانے کے لیے فی الحال اسے یہ کرب آمیز دوری سہنی تھی۔

وہیں وہ لڑکی بھی تمام تر پاگل پن اور بے گانگی کے نیند اور دواوں کے غلبے میں صرف میثم کو پکار رہی تھی، وہی تھا جو اسکے جلتے دل کو راحت دیتا، وہی تھا جو اسکے تڑپتے وجود کی ٹھنڈک بنتا، وہی تھا جو اس بے سکون روح والی کے اندر اپنی محبت، توجہ اور موجودگی سے سکون اتارتا۔

وہ ہوش میں اس سے جتنی دور تھی، بے ہوشی اسے میثم کے اتنا قریب لے جاتی، کیونکہ خرابی اسکے دماغ میں تھی ، اس لڑکی کا دل ازل سے ابد تک میثم ضرار چوہدری کے نام پر دھڑکنا تھا، اسکی سانسیں، اسی شخص کے ہونے سے رواں تھیں، اور اسکی ہر تڑپ کا وہ بے خبری میں ہی ازالہ کرنے کا فیصلہ لے چکا تھا، شاید اسی طرح وہ پاگل لڑکی، اسکی قربت میں جینے کی سمت لوٹ آتی۔

نیند تو ناممکن تھی پر جلتی آنکھوں کو آرام سا دینے کو وہ کل اشنال کو خود جا کر دیکھنے کی نیت کرتا، اپنی درد دیتی آنکھیں بند کر چکا تھا۔

وہیں رات مالنی اور زونی ڈنر پر اکیلی ہی تھیں، ملازمہ سے پتا چلا کہ ایچ بی اس کے بعد اپنے کمرے سے نہیں نکلا اور یہ نئی سی فکر ان دونوں کو ہی پریشان کر چکی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

گھڑی کا ہندسہ صبح کے ساڑھے تین بجانے کے قریب تھا، وہ دم سادھے اس کے پاس بیٹھی، اسکی بے جان سانسیں آہستہ آہستہ بحال محسوس کرتی دل کو ڈوبتا ابھرتا محسوس کر رہی تھی۔

وہ وہیں زمین پر بے سدھ پڑا تھا، اردگرد سفید کئی کپڑے خون آلود ہو کر اک جگہ جمع تھے اور شیشے سے بھرا پانی کا ایک باول جو سرخ رنگ میں بدل چکا تھا وہیں فرش پر خون آلود گولی جسے اس نے تمام تر نفرت کے باوجود اس ناپسند سینے سے نکال باہر کیا تھا۔

شہیر ہوش و حواس سے بیگانہ تھا، مگر تکلیف اسکے جسم پر شدت سے اتری ہوئی تھی۔

اسکے برہنہ سینے پر بنے گولی کے زخم پر جراحی کا فرض نبھاہے وہ پٹی باندھ چکی تھی البتہ اس قدر سرد رات سے سحر تک کے سفر میں بھی شہیر کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اور گاہے بگاہے چٹانی وجود میں لرزش پیدا ہونے لگتی جو اس پر ٹوٹے ظلم کے باعث تھی۔

اس سفاک کا جسم تپ کا انگارہ بن چکا تھا تبھی ایک دوسرے باول میں ٹھنڈا پانی رکھے وہ اس میں سفید پٹی بگھو بگھو کر اسکی پیشانی سے جوڑتی تو کبھی اسکی گردن اور سینے پر اس ٹھنڈے لمس سے اس آگ کا توڑ کرتی۔

اس ساری مشقت میں اس لڑکی کے اپنے کپڑوں پر شہیر کے خون کے کئی دھبے لگ چکے تھے، مگر وہ پھر بھی تمام توجہ اس ناپسند شخص کو پچھلے کئی گھنٹوں سے دینے میں مصروف تھی کہ اب تھکن اور تکلیف کی زیادتی سے اسکی آنکھیں سرخ ہونے لگیں۔

"آج تم مر جاتے تو کہانی ختم ہو جاتی شہیر، لیکن میں نے جو اک عمر لگا کر مسیحائی کا ہنر سیکھا اس پر تو کالک لگ جاتی۔ میں تمہیں مرتا ہوا نہیں دیکھ سکی، وریشہ یوسف زئی اپنی وجہ سے کسی کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی"

وہ اسکی بند آنکھیں تاسف سے تکتی، اسکی آہستہ آہستہ ہوش کی جانب راغب ہوتی حالت بھانپ کر فورا سے پہلے اپنے ہوش میں لوٹے اس سے پہلے وہ تمام خون آلود کپڑے اور باول اٹھاتی، شہیر نے اسکی کلائی پر سختی سے پکڑ بناتے ہی اسے آہستگی سے اپنے زخمی وجود میں سمو لیا۔

اس اچانک افتاد پر وہ سنبھل نہ پائی اور خود بھی اس شخص کے اپنی کمر کے گرد بازو لاک کرنے پر گہرا سا سانس کھینچے اس سے پہلے سر اٹھا کر اسکے چہرے کو دیکھ پاتی، وہ اسکے سر پر دوسرے ہاتھ سے دباو ڈالتا واپس خود میں بسائے وریشہ کی گردن میں چہرہ دباتا سانس بھرتا رہا ، یہاں تک کہ اسے لگا مزید وہ اسکے اس قدر قریب رہی تو وہ اسے جلا کر خاکستر کر دے گا۔

گردن پر شہیر کے گرم ہونٹوں کی گہری چھاپ پر وہ پورا زور لگاتی اسکی بازووں سے نکلی مگر بس اتنا فاصلہ کے وہ اس پر اب جھکی تھی جبکہ شہیر کی بازو ہنوز اس لڑکی کی نازک کمر حصارے ہوئے تھیں۔

"زخمی ہونے کا ایڈوانٹیج لے کر فری ہونے کی کوشش کرو گے تو دوسری طرف ٹھیک دل پر گولی ماروں گی، چھوڑو مجھے۔ درد ہو جائے گا شہیر"

وہ تمام تر نفرت کے بھی جس طرح اسے دھمکاتی ہوئی اسکا نام لے کر مزاحمت کرتی دبی سے چلائی، اس بار وہ خمار اور نقاہٹ کی ملی جلی کیفیت میں ڈوبا شہیر ٹھیک اسکے ہونٹوں کی جانب زرا سر اٹھا ہی پایا کہ وریشہ نے فورا سے بیشر واپس گھبرا کر اپنا چہرہ اسکی گردن میں چھپایا جس پر اس شخص کی آنکھیں چمکیں جبکہ گرفت واپس مضبوط کرتے ہی وہ غضب ناک مسکرایا۔

"کہا تھا کسی کو جان سے مارنے کے لیے بڑی نفرت چاہیے وری، تم کیسے نفرت کر سکتی ہو۔ بچا لیا تم نے ایک بیکار زندگی کو اور تم جانتی ہو، مجھے بچا کر تم نے اپنا مزید بڑا نقصان کیا ہے۔ تمہارے ہاتھ سے مرنے میں بھی اک عجیب سا خمار محسوس کیا، پہلی بار اور شاید آخری بار"

وہ اسے اپنے وجود میں بسائے جو یہ سب سرگوشیوں میں کہتا گیا اس نے وریشہ کی سانس بے ترتیب کی، بمشکل اپنے ہاتھ کمر تک لے جاتی وہ شہیر کے ہاتھ کھولتی نہ صرف اس پر سے اٹھی بلکہ ٹھیک ہو کر بیٹھتے ہی اس شخص کی تڑپتی، تشنہ ، بے قرار نظریں خود پر محسوس کیے صوفے پر سے کشن اٹھا کر مزید شہیر کے سر کے نیچے رکھتی بنا کوئی جواب دیے پھر سے اٹھ جاتی مگر وہ اسکی کلائی جکڑے اسے واپس بیٹھا چکا تھا۔

"تمہاری ان فضولیات میں کوئی دلچسپی نہیں مجھے ، نفرت کی بات مت کرنا کیونکہ وہ اتنی ہے کہ ہر پیمانہ بیکار جائے۔ بیمار ہو تو سر پر چڑھنے کی کوشش مت کرو، ایسا نہ ہو کہ میں تمہاری جان بچا کر پچھتانے لگ جاوں"

وہ اس پر اب بھی بے رحم بن کر چلائی مگر شہیر مجتبی تو عجیب سے بے خود جذبات ک شکار اسے جن تپش پہنچاتے انداز سے دیکھ رہا تھا اسکا لپکتا لمس وریشہ کی سانس گھوٹنے کو کافی تھا۔

"نفرت کو محبت میں بدل دوں گا"

ناجانے وہ ہوش میں تھا یا کسی سستے نشے میں کہ اسکی یہ غیر متوقع پیشن گوئی وریشہ کے دل کو جکڑ گئی، وہ حقارت سے اس کا ہاتھ چھڑواتی مچلی مگر اسکی مزاحمت کم ازکم شہیر مجبتی کے آگے اب ہر لمحہ بیکار رہنے والی تھی۔

"تم سے محبت کرنے سے بہتر ہے میں اپنا خاتمہ کر دوں"

وہ بھی سارے حساب چکاتی سلگی مگر شہیر کی جان لیوا مسکراہٹ وریشہ کے جسم کو عجیب سا گدگدا گئی۔

"محبت کے بعد انسان ختم ہی تو ہو جاتا ہے وری"

وہ اپنے لفظوں کی شدت سے وریشہ کو برا آزماتا اٹھ کر بیٹھنا چاہتا تھا پر گولی کے زخم پر سلے مرہم کے باعث اٹھتے درد پر کراہتا ہوا واپس لیٹا تو وہ بھی جیسے اسکی تکلیف تکتی ہوش میں لوٹی۔

"اٹھ کر اندر چلو، مجھ سے تمہارا بوجھ اٹھایا نہیں گیا اس لیے یہیں سارا ٹریٹمنٹ کر دیا۔ لیکن اب اگر تم میں تھوڑی چلنے کی ہمت ہے تو میں سہارا دیتی، آو روم میں کمفرٹیبل ہو کر لیٹو"

وہ ساری خفگی بھلائے جس طرح اسکی فکر میں ہلکان اٹھ کر اپنا ہاتھ بڑھاتی بولی، کئی لمحے تو وہ وارفتگی سے ہی اس لڑکی کی آنکھیں دیکھتا رہا پھر جیسے اپنا مضبوط ہاتھ سرشار ہو کر وریشہ کے نازک ہاتھ میں دیتے ہی اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھتا بمشکل کھڑا ہو پایا تو اس لڑکی نے پوری ہمت لگائے اسے جکڑا جبکہ اس لڑکی کا کمزور سہارا بھی بڑا مضبوط تھا یہ شہیر کے دل نے تسلیم کیا۔

وہ اسے کسی قیمتی منظر کی طرح دیکھتا ہوا روم تک آیا جس نے اسکا ہاتھ جکڑے ہی تکیے درست کرتے ہوئے رکھے اور شہیر کو ہنوز اپنا کمزور سا سہارہ دیتے ہوئے آہستگی سے بٹھایا اور ساتھ ہی وہ اسے کھڑے تکیوں سے ٹیک لگواتی تب تھمی جب خود کو سر تا پا اس کوجے کی نظروں کے حصار میں محسوس کیا۔

"کچھ کھاو گے؟"

وہ اسکی نظروں کے ارتکاز سے گھبراتی فورا سے بیشتر سیدھی کھڑی ہوتے ہی رسان سے پوچھنے لگی جس پر شہیر نے نفی میں گردن ہلاتے ہی وریشہ کی نرم ہتھیلی جکڑ لی۔

جبکہ اس شخص کے بار بار چھونے پر وہ عجیب سی کمزور پڑتی بوکھلا سی رہی تھی پھر جن نظروں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا وہ بہت ہی خطرناک تھیں۔

"ہاتھ چھوڑو"

جھنجھلا کر وہ شہیر کے اسکے ہاتھ کو انگلیوں کے بیچ انگلیاں ڈال کر جکڑنے پر سٹپٹائی مگر اس بازی گر نے جھٹکا لگائے اسے کھینچ کر اپنے پہلو میں بساتے ہی کام تمام کیا۔

"کیا ہے اب"

وہ اسکی ان حرکتوں پر اسکی اس درجہ تکلیف کے باوجود پرشوق سی آنکھیں دیکھ کر بھڑکی جبکہ اس لڑکی کی جھنجھلاہٹ، شہیر کو لطف دے رہی تھی۔

"کیوں بچایا ہے مجھے؟ بولو وریشہ"

وہ اسکا ہاتھ زرا سا کھینچ کر نزدیک کیے یکدم ہی سنجیدہ ہوا اور وریشہ نے اسکی گہری سیاہ آنکھیں دیکھ کر جیسے ہر جواب کو ذہن سے فراموش ہوتے محسوس کیا۔

ناجانے کیا تھا اس سفاک کی آنکھوں میں جو دل جکڑ لیتا تھا۔

"انسانیت کے ناطے، اور میں دوبارہ بھی جانور بن سکتی ہوں شہیر مجتبی سو مجھے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے قریب لانے کی کوشش مت کرو۔ میں تمہارے قریب نہیں آنا چاہتی نہ ہی تمہیں قبول کرنا چاہتی ہوں"

وہ اس کے حصار سے نکلنے کو پھڑپھڑائی مگر گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ وہ اس سے دور ہونے کے چکروں میں اس کے مزید قریب ہو گئی۔

"انسانیت کے ناطے ہی قریب آجاو"

وہ شخص مختصر بات کہہ کر ہی وریشہ کی طویل باتیں رد کرتا اسکی آنکھوں میں بے باکی سے جھانک رہا تھا جہاں بیزارگی اور نفرت کے باوجود اک اور بھی جذبہ موجود تھا۔

"پلیز شہیر، تمہیں اس وقت آرام کی ضرورت ہے۔ اس پر بعث ہم کل کریں گے۔ مجھے بھی نیند آرہی ہے۔ تمہاری تیمارداری کر کر کے جان آدھی ہو گئی۔ چھوڑو مجھے"

اپنے آپ کو لاکھ سنبھالتی وہ لہجہ سخت کرتی ہٹنے کو مچلی مگر وہ اسے ہنوز لاک کرتا خود پر جھکا گیا۔

اسکی آنکھوں کی بے خودی سے وریشہ کو خوف سا آیا۔

"ٹھیک ہے پھر یہیں سو جاو، نو سیپرٹ روم۔ جتنی بھی نفرت کیوں نہ ہو لیکن میں تمہیں اسکی اجازت نہیں دوں گا کہ تم مجھ سے الگ رہو"

اس شخص کے لہجے میں عجیب سی حاکمیت تھی جس پر وریشہ کا دماغ گھوما، دل تو یہی کیا کہ اسکا گلا دبا دے پر ناجانے کس احساس تلے وہ یہ کرنے سے خود کو روک گئی۔

"مجھے تم پر اعتبار نہیں، کیا بھروسہ تم کسی بھی وقت وعدہ خلافی کر گزرو۔ تمہارے ساتھ ایک روم شئیر کرنا ناممکن ہے"

وہ ناچاہتے ہوئے بھی فطری جھجک اور ڈر چھپا نہ سکی جس پر وہ بے اختیار ہوتا وریشہ کی گال لبوں سے اتفاقا مس کیے مسکرایا کیونکہ اس لڑکی کے بروقت منہ موڑنے پر بری طرح نشانہ چوک چکا تھا اور خود وہ اسکے بے باک اور شدت بھرے سانسیں روک دینے کے بھیانک ارادے بھانپتی گھبرا کر اسکے سلامت سینے پر مکا دیتی اس پر سے ہٹ کر اٹھی۔

"اچھا مجھے خود کو وعدے کی پاسداری کرنے والا، اپنی زبان پر پورا اترنے والا اور مضبوط کردار کا مالک بننا پڑے گا؟ یہ مجھ جیسے کے لیے کافی کڑھی شرائط نہیں ہیں؟"

اس لڑکی کے تمام تر فرار کی راہیں مسدود کیے وہ ہنوز اسے خود میں مبتلا کیے گھمبیر لہجے میں مسکایا تو وریشہ دبک کر سرکتی ہوئی اسکے ہاتھوں کے بے باک لمس سمیٹ کر اسکے پہلو سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"بھاڑ میں جاو تم، نہ تو مجھے تم جیسی بگھڑی چیز کو سدھارنے کا شوق ہے نا ارمان جو میں شرائط باندھتی پھروں۔ یہ جو میری وقتی ہمدردی اور ترس کی وجہ سے ادھار کی سانسیں مل گئی ہیں انکو غنمیت جانتے ہوئے جیسے ہی چلنے کے لائق ہو جاو، یہاں سے چلے جانا۔ اور دوبارہ میرے قریب آنے کی جرت مت کرنا، تمہاری زخمی ہونے کا لحاظ کر رہی ہوں، اسکا یہ مطلب نہیں تم وریشہ یوسف زئی کے سر پر چڑھ کر ناچو گے"

گہری رات اور اس شخص کے آرام کے پیش نظر وہ پست آواز میں سختی اور تلخی کے سنگ انگلی ہوا میں لہراتی وارن کرتی تب تھمی جب وہ آگے سے ڈھیٹ بنا مسکرا کر وریشہ کے غصے پر اوس ڈال چکا تھا۔

"تمہاری بچائی ہوئی یہ سانسیں، تمہارے لیے ہی قربان ہوں گی تو احسان چکا دوں گا زیادہ پھیلو مت۔ باقی ابھی تم جانتی ہی کہاں ہو وریشہ یوسف زئی کے جس رشتے میں تم نے مجھے خود سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتے ہوئے باندھ لیا ہے اس میں اک زبان لمس کی ہوا کرتی ہے، ہر بار میں اسی زبان سے تمہارا غصہ اتاروں گا۔ اب چینخو مت سر پر کھڑی ہو کر، سونے دو"

ایک تو اسکا مسکراتا چہرہ اندر تک وریشہ کے آتش دہکا گیا پھر اس سفاک سنگدل کے لفظی ہیر پھیر اور حدت اگلتے ، روح جکڑتے لمس الگ وریشہ کی جان پر بن رہے تھے، اسکی مسکراتی آنکھیں بند ہوئیں تو وہ بھی سر جھٹکتی اپنا تکیہ اٹھائے صوفے کی جانب لپکی اور بے دردی سے تکیہ اک کنارے رکھتی ہی اس منحوس کو اک کدورت بھری نظر میں سموتی، گہرا سا سانس بھرے لیٹ گئی۔

یکدم ہی عجیب سے احساس نے دل کو جکڑا تھا، اس شخص کی اس کمرے میں موجودگی تمام نفرت، غصے اور انتقامی جذبات کے عجیب سا دل سہلاتی محسوس ہوئی۔

وہ تو درد اور خمار کے شدید غلبے میں دبا نیند میں اتر چکا تھا مگر وریشہ یوسف زئی نے گردن موڑے اسکو دیکھا تو جیسے عجیب سی بےقراری پورے وجود میں اتر گئی۔

وہ اتنے سے وقت میں یہ تو مان گئی کہ یہ شخص باتوں میں اسے ہرا تو سکتا  ہے پر وریشہ کو اس لمس کی زبان سے بہت سا ٹف ٹائم دینے والا ہے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اگلی صبح زمین زادوں پر ابر کے سنگ اتری تھی، بارشوں کا لمبا سلسلہ گویا سیاہ تاریک آسمان کے ملگجی سویرے سے ثابت ہو رہا تھا، نیا دن نئی امیدوں اور نئے عذابوں کے سنگ اپنی باہیں پھیلاتا حاوی ہو چکا تھا

گلالئی کے آجانے نے جیسے اشنال کے اندر ڈوبتی زندگی اجال دی تھی، خود گلالئی اس پر ٹوٹتی تمام قیامتوں کے بارے جان کر اپنی تمام تر توجہ اور موجودگی کچھ عرصہ صرف اشنال کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔

وہیں خانم حویلی میں گل خزیں خانم کی انکی دونوں خاص ملازماوں کے سنگ گمشدگی نے حویلی کی بنیادیں ہلا دیں۔

سردار خاقان کی دبنگ جلالی دھاڑ نے تمام لائن میں کھڑے ملازمین کی جانیں ہلکان کر رکھی تھیں، دوسری طرف باقی سب بھی پورے علاقے میں ان تینوں کی تلاش کے لیے نکل چکے تھے۔

مشارب اور خود زمان خان تک اپنے کئی لوگوں کے ساتھ تلاش میں نکل چکے تھے جبکہ فرخانہ خانم کا تو رو رو کر برا حال تھا، تکلیف سے زیادہ خوف تھا کہ ایسا کونسا ان سے بڑا فرعون پیدا ہو گیا جس نے سردار کی بیوی کو غائب کرنے کی جرت کی تھی۔

"تم سب لوگ مرے ہوئے تھے کیا جب وہ تینوں حویلی سے باہر نکلے؟ اگر خانم کا بال بھی بیکا ہوا تو میں تم سب کو کھڑے کھڑے موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔ بھونکو! کسی نے کچھ دیکھا؟"

تمام حویلی کے مخافظ ، سردار خاقان کے غصب سے تھرتھر کانپتے ہوئے مریل وجود لیے کھڑے تھے جسکی آنکھیں سرخ آشام جبکہ پورے وجود کا لہو آنکھوں میں چھلکا تھا۔

سردار خاقان کا بس نہ چلا وہ ان سب سر جھکا کر شرمندہ کھڑے ملازموں کو یہیں زمین میں گاڑ دیتے۔

"سردار! سردارنی صاحبہ رات کو قدوسیہ اور فردوسیہ کے ساتھ ر۔۔ازداری سے نکلی تھیں۔ میں پانی پینے کورٹر کی ج۔۔جانب گیا تو انکو نکلتے دیکھا پر جب ت۔۔تک میں واپس آیا وہ سب غائب ہو چکے تھے"

ایک مریل سا عمر رسیدہ محافظ لرزتی زبان اور کانپتے جسم کے ساتھ بولنے کی کوشش کرتا قریب آیا تو سردار خاقان نے اسکی گردن اپنے بھاری مضبوط ہاتھ میں لیے اس درجہ دبائی کے اس مسکین کے حلق سے دلخراش چینخ نکل گئی۔

"تو اس وقت ہی تو نے مجھے آکر کیوں نہیں بتایا بد بخت، نامراد۔ تجھے پتا نہیں دشمن دار لوگ ہیں، وہ لوگ ہماری عورتوں پر نظر رکھ کر بیٹھے درندے ہیں۔ اگر خانم کو کچھ ہوا یا وہ رات تک حویلی نہ لوٹیں تو پہلے میں تیرے منہ میں گولی ٹھوکوں گا۔ جب یہ زبان بروقت بول نہیں سکتی تو اسکے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔دفع ہو جا میری نظروں کے سامنے سے"

بمشکل اپنا اشتعال ضبط کرتے وہ حلق کے بل غراتے اس مسکین کو بری طرح زمین پر دھکا دیتے گہری گہری سانس بھرتے پورے لان میں چکر کاٹ رہے تھے۔

مشارب اور زمان خان کے کسی آدمی کو صبح سے اب تک گل خزیں خانم کا کوئی سراغ نہ مل سکا تھا۔

جبکہ اس اتنی بڑی گستاخی کی ہمت انکے کسی عام دشمن میں ہوتی ایسا بھی ناممکن تھا۔

مٹھیاں بھینچتے وہ مسلسل پھنکار رہے تھے، سردار خاقان کو آگ لگانے والا خود ٹوٹی پھوٹی نیند لے کر بیدار ہوتا ہوا حسب وعدہ جبل زاد کے ہاتھ کا بنا پہاڑی ناشتہ آج باہر ہلکی ہلکی کن من برساتے ابر آلود آسمان تلے، کشادہ سر سبز لان میں کرنے والا تھا جہاں سے بلند و بالا پہاڑ اور اونچی نیچی گھاٹیوں کا دلفریب منظر اسے ہمیشہ پرسکون کرتا۔

ناشتے میں حسب توقع دیسی گھی کے پراٹھے، ساتھ تین طرح کے آملیٹ جبکہ سفید چنوں کا دیسی مرغ کے ساتھ بھنا ہوا سالن موجود تھا، میٹھے میں اخروٹ اور خوبانی کا علاقائی بڑے شہید میں رچا بسا مرکب جو یہاں کے لوگ ناشتے میں خاصی رغبت سے نوش کرتے تھے پھر لکڑی کی میز کے درمیان میں وہیں کھلے صحن سے اتارے گئے سفید گلاب جو ہمیشہ ہی جبل زاد کے بنائے ناشتے کا حصہ ہوتے۔

وہ تازہ دم ہوئے، بلیک ٹراوز اور وائیٹ ٹی شرٹ میں اپنی شخصیت کے سحر بکھیرتا جب پچھلے احاطے کی جانب بڑھا تو دادا سائیں کو مسکرا کر جبل زاد کی حوصلہ افزائی کو اسکی پیٹھ تھپکتا دیکھ کر وہ بھی اس خوبصورت صبح سے لطف اٹھانے کو بھوک بڑھاتی رنگین میز پر نگاہ ڈالتا کرسی گھسیٹ کر بیٹھا۔

اماں فضیلہ اسی وقت چائے اور تازہ سیب کے جوس کے سنگ وہیں چلی آئیں تو جبل زاد نے آگے بڑھ کر والدہ سے ٹرے لیتے ہی میز پر رکھی جبکہ چاروں نے ایک ساتھ بیٹھ کر یہ مزے دار ناشتہ کیا، دادا سائیں کے لیے اس نے پہلے ہی اماں فضیلہ سے ڈرائے فروٹس کی مناسب مقدار ڈلو کر پرہیزی دلیہ بنوایا تھا جسے بزدار عالم صاحب نے خاصے منہ بسور کر ہی کھایا۔

"تمہارے کیس کا کیا بنا ضرار؟"

ناشتہ کرتے ہوئے جیسے دادا سائیں نے کچھ یاد آنے پر استفسار کیا۔

"کل آخری پیشی ہو گئی امید ہے، ان خبیثوں نے ہماری جس زمین پر قبضہ کیا تھا وہ ایک قاضی کے پرانے کھاتے میں آپکے نام لگی درج تھی جسکی خبر مجھے بھی کل ہوئی سو کل کی پیشی میں یہ ثبوت اور اس قاضی کی گواہی کے بعد قبضہ چھوٹ جائے گا"

وہ جیسے بے فکر سا لہجہ اپنائے بتاتے ہی اردگرد کی خوبصورتی میں منہمک ہوا۔

"اور زونی کی کوئی خبر؟"

اس بار بزدار عالم کا لہجہ اداس تھا۔

"آج اسی کی خبر لینے جا رہا ہوں، میرے لوگ کنزا کے پیچھے ہی ہیں۔ اس نے زونین کو جہاں بھی رکھا ہے آج کل میں پتا چل جائے گا، اور دادا سائیں خدا کے لیے میرے پیچھے بچے مت بن جائیے گا۔ میں ہر وقت آپکے پاس نہیں رہ سکتا، کتنے مہینے ہو گئے اپنا کام تک نہیں دیکھا، سب ورکرز پر چھوڑ رکھا ہے۔ زرا مجھے اپنے پروں سے نکلنے کی اجازت دیں تاکہ میں ہر چیز پورے دھیان سے دیکھ سکوں"

وہ زونین کے حوالے سے بالکل بے خبر نہ تھا اسے جان کر فضیلہ اماں اور بزدار عالم دونوں کو عجیب سے طمانیت ملی تھی جبکہ وہ بھی ضرار کو بے جا تنگ کرنے پر زرا پشیمان ہوئے مگر ضرار انکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں جکڑے اس بے سبب سی پشیمانی سے نکال لایا۔

"مانتا ہوں میں بہت ستاتا ہوں تمہیں لیکن تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں بچے، تم میرا واحد سہارہ ہو"

وہ بھی جیسے اذیت کی انتہا پر تھے جبکہ ضرار کو اپنے الفاظ کی شدت، دادا کی شرمندگی دیکھ کر خود ہی بری سی لگی۔

"جانتا ہوں یار، نجانے کس کس کا آخری سہارہ ہے میثم ضرار چوہدری۔ بے فکر رہیں، اللہ سائیں اتنے سارے لوگوں کو بے سہارہ نہیں چھوڑ سکتے۔ اب آپ جبل زاد کے ساتھ اندر جائیں کیونکہ بارش تیز ہو رہی ہے۔ بس اپنا دھیان رکھیں، میں نے حویلی کے محافظ بڑھا دیے ہیں، آج جبل زاد میرے ساتھ جائے گا۔ "

یکدم ہی سیاہ ہوتے بادلوں سے گرتی پھواریں تیزی اختیار کر گئیں تو وہ جبل زاد کو اشارہ کیے ساتھ ہی اٹھ کر دادا سائیں کے قریب آکر رکا اور انکا چہرہ تھامے بولا جس پر وہ تشفی بھری نظر ضرار پر ڈالے سر ہلا گئے۔

ان دونوں کو اندر کی جانب جاتا دیکھ کر ضرار نے گہری سانس کھینچے رخ موڑا تو اماں فضیلہ کچھ پڑھنے میں مصروف تھیں، وہ تمام تر اداسی کے مسکرایا تو اماں فضیلہ نے اپنی بند آنکھیں کھول کر وہ زبانی دہرائی خفاظت کی صورتیں ضرار پر پھونکیں تو وہ اس ماں کی محبت کا صلہ دینے کی ادنی کوشش میں انھیں خود میں آہستگی سے سمو گیا۔

"ماں کے لمس سے ناآشنا رہ جاتا اگر آپ میری دوسری ماں نہ بنتی فضیلہ اماں، آپکو میرے لیے یونہی دعائیں کرنی ہیں کہ جلد وہ حقیقی دعا جیسی لڑکی میرے پاس آجائے۔ اور یہ بھی کہ میں اسکی ہر تکلیف کا ازالہ کر پاوں، اسے ساری دنیا سے بظاہر چھین کر، اسکے دل میں واپس بس جاوں۔ وہ تکلیف میں رہے گی جب تک مجھے اجنبی مانتی رہے گی"

وہ تھکن اور دکھ سے بولتا گیا یہاں تک کہ اسکی آنکھیں بوجھل ہوئیں جبکہ اماں فضیلہ نے الگ ہوتے ہی اسکا چہرہ تھامے آسودگی سے پیشانی چومی تو اسکے جلتے بلکتے دل کو قرار سا آیا۔

"بہت جلد تم دونوں کی یہ آزمائش ختم ہوگی میرے بچے، ماں ہر سانس کے ساتھ تمہارے لیے دعا گو ہے۔ جاو خیر سے، دعا ہے اچھی خبریں لے کر لوٹو"

اس ماں نے اپنے بچے کے دامن کے ساتھ ساری دعائیں باندھ دی تھی اور ضرار کو یقین تھا اب جلد وہ ساری سیاہی کو اجال دے گا۔

تیز ہوتی بارش کے سبب وہ دونوں ایک ساتھ اندر کی جانب بڑھے جبکہ دو ملازم، میز پر پڑے برتن سمیٹنے لگ گئے۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ہمم، ٹھیک ہے اسے دیکھ لوں گا میں کہ کونسی آگ لگی ہے اس کو۔ تم پریشان مت ہو"

ہلکی ہلکی سرد ہوا جو باہر چلتی تیز خنک ہوا کے باعث کھلی کھڑکیوں کے پٹ سے اندر جھانکتی ہوئی بے خبر سوئی وریشہ کے چہرے تک گدگداہٹ پہنچا رہی تھی، یکدم کانوں میں پڑتی شہیر کی غصیل سی آواز پڑنے پر مندی مندی آنکھیں کھولے جاگی اور سر گما کر بیڈ کے کنارے شرٹ پہننے کے جتن کرتا شہیر نظر آیا جو کسی سے فون پر مخاطب تھا۔

"کہا ہے ناں، میں اسے دیکھ لوں گا تم بالکل بھی خوفزدہ مت ہو"

شہیر کی دوبارہ آواز آنے پر وہ تمام احساسات بیدار کرتی اسے دیکھتی ناصرف اٹھی بلکہ مدد کی نیت کو اسکی جانب بڑھی جس پر شہیر نے کال بند کرتے فون سامنے بیڈ کی جانب اچھالتے ہی آنکھوں میں عجیب سا سرور بھرے رخ وریشہ کی جانب پھیرا جو گلابی آنکھیں لے کر دیکھتی اسے ویسے ہی مائل کر رہی تھی، جبکہ اسکی سوئی تو شہیر کے کال کرنے کی جانب اٹکی تھی کہ ایسا کون تھا جسے وہ بڑے مضبوط انداز میں تسلی پہنچا رہا تھا۔

"تم جیسی بلا بھی کسی کا خوف مٹا سکتی ہے؟ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی"

وریشہ اسکی بازو احتیاط کے سنگ شرٹ میں گھساتی، اسکے چوڑے سینے پر سے نادانستہ نظر چراتی اس کال کے بارے اپنا تجسس چھپا نہ پائی جبکہ شہیر مجتبی نے اس لڑکی کی قربت غنمیت جانتے ہی دونوں بازو گرد حائل کیے حصارا۔

"مجھے جاننے کے لیے تھوڑا پاس آنا پڑتا ہے"

وہ جو اسکی شرٹ کے بٹن بند نہ کر پاتی ہوئی اسکے حصار میں نزدیک ہو کر لاک ہو گئی، شہیر کے کان کی اور جھک کر کہے جملے پر سلگ کر پرے سرکی۔

"مجھے نہیں جاننا، مدد کرنے دو شرافت سے"

رعب جھاڑ کر وہ اسکے شرٹ کے تمام کھلے بٹن بند کرتی تب گھوری جب اس عجیب سے سحر میں جکڑے شخص کا ہاتھ پھر سے گستاخیوں پر اترتا محسوس ہوا۔

"تمہیں آرام کی ضرورت ہے، ایک دن مزید تمہیں برداشت کر لوں گی اس لیے ابھی کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے"

اپنی کمر پر اسکی بندھی بازو پوری قوت سے کھولتی وہ واپس صوفے کی جانب پلٹی اور اپنا اٹھایا تکیہ واپس رکھتی مسلسل شہیر کو دیکھنے سے گریز برتتی رہی جو درد کے باوجود جیکٹ چڑھاتا، اپنا فون اٹھا کر اس لڑکی کے منع کرنے کے باوجود کہیں جانے کی تیاری میں تھا۔

"اچھی بات ہے ، مجھے برداشت کرنے کی عادت ڈال ہی لو تو اچھا ہے۔ لیکن ابھی میں رک نہیں سکتا، اتنا بیکار نہیں ہوں، کام دھندے والا آدمی ہوں۔ اور میں تمہاری ڈاکٹری کے بیچ بھی نہیں آنا چاہتا، آج تمہاری ہاوس جاب کا پہلا دن ہے، رات بہت اچھا ایکسپیرئنس تو بندہ تمہیں سینہ پھڑوا کر دے چکا ہے، امید ہے بہت سوں کی جان اسی طرح بچانے کا سبب بنو گی"

ایک بار پھر اپنے لہجے کی پختگی اور مضبوطی کے سنگ وہ وریشہ یوسف زئی پر اپنی شخصیت کا اک سب سے چھپایا منفرد رنگ چڑھاتا اسکی ٹھہری آنکھیں تکتا نزدیک آیا تو وہ یکدم ہوش میں آتی دو قدم پیچھے سرکی مگر وہ مزید نزدیک آتا اسے ڈریسنگ سے لاک کر چکا تھا۔

"کیا کام کرتے ہو تم دھنگے فساد کے علاوہ؟"

وہ اسکے سینے پر ہتھیلی جماتی مزید آگے آنے سے روکتی تندہی سے بولی جس پر شہیر مجتبی کے ہونٹ خمار آلود سی مسکراہٹ کے سنگ پھیلے۔

"میرے کار نامے میری موت کے بعد سامنے آئیں گے، مطلب نہایت ہی بکواس کام کرتا ہوں جو جیتے جی بتانے کے لائق نہیں۔ بائے دا وے سینے پر زخم دے کر تم نے شہیر مجتبی کے سوئے ہوئے دل کو جگا دیا ہے، ہر پل اپنی خیر مانگتی رہنا"

اپنی طرز کا نہایت ہی کمینہ آدمی تھا وہ، تبھی تو اس درجہ ڈھٹائی سے اپنے دھندے چھپا گیا کہ خود وریشہ اسکے اگلے جذب سے اٹے اور ہوش ڈگمگاتے جملوں کی تپش اور نظروں کی وارفتگی سے دہل اٹھی۔

زرا نزدیک آتا وہ اسکی بدحواس آنکھیں جلتی مسکراہٹ سے تکتا اسکی گال شدت بھری مہر سے دہکاتا دو قدم دور ہٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے وریشہ یوسف زئی پر ناجانے کیا پھونکتا ہوا اسکی دسترس سے باہر نکل گیا۔

کئی لمحے وہ بنا کوئی حرکت کیے وہیں تھمی رہی پھر جیسے جسم میں اس شدت بھرے اقدام نے جھرجھری لائی تو وہ کانپ اٹھی۔

مڑ کر اپنا سرخ ہوتا چہرہ آئینے میں دیکھا تو اپنے کپڑوں کے علاوہ گردن پر شہیر کے خون کے جم چکے نشان اسے حقیقت میں پٹخ گئے۔

وہ رات اسکے خون لگے کپڑوں میں ہی سو گئی تھی، عجیب سی کراہت محسوس ہوئی تو وہ تیزی سے کپڑے بدلنے واپس روم میں گھسی۔

پر اب وہ اس لمس کی زبان کا کیا کرتی جو وریشہ یوسف زئی کی نیندیں حرام، اور سکون غارت کرنے والی تھی۔

دوسری جانب کچھ گھنٹے کی نیند لے کر وہ واپس دوبارہ تھانے پہنچ چکا تھا اور آتے ہی طلال سیٹھ کی کچھ مشکوک حرکات کی خبر ولی زمان خان کا غضب دہکا گئی، جو پیسہ سرمد دے کر گیا تھا اسے وہ آتے ہی کام پر لگوا چکا تھا ساتھ سیٹھ طلال کو تھانے گھسیٹ کر لانے کے احکامات بھی جاری کیے۔

وہیں وریشہ کی کل ہی واپس آجانے کی خبر اسے پہلے ہی تھی اور وہ چاہتا تھا ہوسپٹل جا کر تمام پچھلی برہمی اور تکلیف بھلائے ایک دوست کے ناطے اسے بیسٹ وشیز دے کر آئے تبھی اپنے تمام لوگوں کو ایکٹیو کیے وہ ایک گھنٹے کا کہے اپنے کیبن سے نکل کر روانہ ہو گیا۔

اسے ابھی گل خزیں خانم کی گمشدگی کی اطلاع نہیں دی گئی تھی، فی الحال وہ سب لوگ اپنے تئیں علاقے کی مٹی تک کھودتے انکی تلاش میں مصروف عمل دیکھائی دے رہے تھے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

 وقت آکر میری نیند خراب کی تم نے، وجہ جان سکتا ہوں؟"

اسی مدھم تاریکی میں ڈوبے کمرے کے آرام دہ صوفے پر وہ بنا ماسک کے عین کنزا کے روبرو بیٹھا متنفر اور بیزار لہجے میں استفسار کر رہا تھا جسکا چہرہ چھپا تھا مگر باہر آہستہ آہستہ گرتی بوندیں ، بند کھڑکیوں کے کواڑوں پر گر کر عجیب سا فسوں پھیلا رہی تھیں، کنزا کے چہرے پر ناگواری وہ آتے ہی بھانپ چکا تھا۔

"مالنی؟ تمہاری اتنی جرت کے تم اس کے قریب جانے کی کوششوں میں اسے خود پر فدا کر رہے ہو۔ تمہیں آسان زبان میں سمجھانے آئی ہوں کہ میری دونوں امانتوں سے کوسوں دور رہنا۔ ورنہ جس قیامت کو دبائے بیٹھے ہو اسے لمحہ لگا کر حشر کی طرح برپا کر دوں گی"

وہ اسکے چہرے پر اپنی تپتی آنکھیں گاڑ کر متنفر لہجے میں ایچ بی پر اپنے اندر کا زہر اگل گئی جبکہ اس پراسرار شخص کے بھورے سگریٹ کے عادی ہونٹ آج کچھ مدھم گلابی رنگ اوڑھے ہوئے ، فتنہ انگیز مسکرائے تھے کیونکہ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اس نے ایک بھی سگریٹ نہیں پیا تھا۔

"کونسی امانت ؟ تم نے تو اپنی بیٹی کو بیس کڑور میں بیچا ہے۔ رہی بات مالنی کی وہ تو فری سرپرائز ثابت ہوئی اس سودے کے ساتھ۔ تمہیں میرے مالنی کے قریب ہونے پر مین مسئلہ کیا ہے کنو بائی"

عجیب تمسخر اڑاتا انداز لیے وہ کنزا کی دکھتی رگ دباتا مخظوظ ہوا جس نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ دبایا۔

"یہی مسئلہ ہے کہ تم اسکے لائق نہیں، بلکہ تم تو کسی عورت کے لائق نہیں۔ بہت چھوٹی تھی وہ جب ماں باپ مر گئے، تب سے پالا ہے اسے۔ اسکی اہمیت زونی کے برابر کی ہے، اور مالنی کے معصوم دل میں ہرگز میں تم جیسے شیطان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دوں گی۔ اپنی عمر دیکھو اور حرکتیں۔ شرم تو نہیں آئی تمہیں اس لڑکی پر اپنے سحر پھونکتے ہوئے"

کنزا کی تمام باتیں ناجانے اتنی مزاخیہ تھیں یا کسی اور معاملے نے اس شخص کو قہقہے لگانے پر اکسایا، کتنی ہی دیر وہ بھاری مست قہقہے اس تاریک کمرے میں گھونجتے رہے اور کنزا نے بہت ضبط سے اس شخص کی جانب سے ملتی تضخیک برداشت کی۔

"ہاہاہا! او مائی گارڈ۔ تو تم مانتی ہو آج بھی میرا سحر میری ذات سے چھلکتا ہے۔ یہ سن کر تو بڑا مزہ آیا کنزا ، اب خدا نے حسن ہی اتنا دے رکھا ہے کہ بنا دیکھے لڑکیاں مر مٹتی ہیں تو اس میں میرا کیا قصور۔ تمہیں جلن ہو رہی ہے تو بات کرو؟"

وہ ہرگز سنجیدہ نہ تھا جبکہ اسکا ہنستا مکرو چہرہ اس وقت کنزا کے تن من میں آگ لگا چکا تھا، وہ اسکی آخری بات پر تمام غصہ ضبط کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"جلن کے زمانے گزر گئے ،اب کنزا صرف خود سے ناانصافی کرنے والوں کو جلاتی ہے۔ تم جانتے ہو تمہاری طرف سے ملتی تضخیک ہمیشہ کیوں برداشت کرتی آئی ہوں، کیونکہ میرے دل نے ابھی بھی تم سے اس درجہ نفرت نہیں کی جس کے لائق تم تھے۔ ادھر ادھر کی ہانکنے سے بہتر یہ ہے کہ تم اپنی یہ مکرو چال سمیٹ لو، جلد تمہیں تمہارا قرض لوٹا کر میں ان دونوں کو لے جاوں گی۔ تب تک اپنی گندی نظریں مالنی پر ڈالنے کی جرت مت کرنا"

وہ جیسے ہمت کرتی اس بیٹھے شخص پر پھٹ پڑی جبکہ ایچ بی نے بھی اپنے ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں گھسائے اٹھ کر کھڑا ہوتے ہی کنزا کی جانب اپنے قدم بڑھائے جسکی اب تک پشت واضح تھی۔

"پہلے تو میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ اپنی نظریں سمیٹ کر رکھوں پر اب تو یہ کھیل کھیلنے کا بہت مزہ آئے گا۔ تمہاری وہ مالنی خود مجھ پر فدا ہے، یہ چہرہ دیکھا کر اسے رہا سہا اپنے بس میں کر لوں گا۔ پھر تم واپس جلو گی کنزا، اتنا جلو گی جتنا تم نے مجھے جلایا۔ اور جب تک میں قرض واپس لینا نہیں چاہوں گا تم چکا نہیں سکتی، میرے کردار کی مضبوطی جانتی ہوگی تم لیکن میرے اندر کا شیطان ضرور تمہاری نیندیں حرام کرنے والا ہے۔ اب جاو اور ان دونوں کی طرف سے لاپرواہ ہو جاو۔ کیونکہ بہت مدت بعد میرا مردہ دل کسی نے زندہ کر دیا ہے، تمہیں تو پتا ہوگا میں کیسی بھیانک محبت کرتا ہوں کنزا"

اک اک لفظ میں جنون اور شدت بھرے وہ یہ روح شگاف جملے اس عورت کے اندر تک اتارتا آگ لگاتا زرا جھک کر میز پر رکھا ماسک اپنے چہرے پر چڑھتا پلٹا تو اسکی بہت دیر سے اوجھل آنکھیں سرخ خونی ہو کر روشنی میں چمکیں جو روح کپکپا دینے کی حد تک بھیانک تھیں۔

میز پر اس عورت کی ملاقات کی قمیت بھی رکھی گئی تھی جبکہ وہ کنزا کی مزید کوئی بات سنے بنا کمرے سے باہر جا چکا تھا اور کنزا نے تکلیف کے سنگ اک نظر ان پیسوں پر ڈالتے ہی گہرا سانس بھرا اور خود بھی کمرے سے باہر نکلی۔

مالنی اور زونی پہلے ہی دم سادھے باہر سٹنگ ایریا کی جانب ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھیں، کنزا کے بپھری موج بن کر وہیں آنے پر دونوں نے سہمی نگاہوں سے اک دوجے کی جانب دیکھا۔

"مما!"

زونی اس کے پریشان چہرے کو تکتی قریب آئی تو کنزا نے تابناک تاثر پر جبرا مسکراہٹ اوڑھے اسکی گال سہلائے رخ موڑ کر سہمی اور گھبرائی مالنی کو ابرو اچکائے گھورا جو آگے سے مسکین منہ بنا کر ساتھ ہی کنزا سے لپٹ گئی۔

"سوری مما، آپ میرے کان کھینچ لیں، مرغی بنا لیں، باہر بارش میں کھڑا کر دیں مگر یوں مت دیکھیں۔ نہ یہ کہیے گا کہ ایچ بی کو فراموش کروں۔ قسمے مما پتا نہیں کیا جادو کیا اس نے کہ میرا دل لپک لپک کر اسکی طرف جا رہا ہے۔ شولی مما جانی"

ساتھ لپٹ کر وہ جو لاڈلی بنی بولی اس پر ناچاہتے ہوئے بھی کنزا کا غصہ جھاگ بن گیا، وہ دونوں کو خود میں سموتی بس اپنی قسمت پر ہی ماتم کر سکی۔

"وہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہے مالنی، تکلیف دے گا۔ میں اسے جانتی ہوں بچے، زونین! تم ہی سمجھاو اسے کہ بعض اوقات ایسا زہر بھی پینا پڑتا ہے۔ جس طرح مشارب خان جیسا خودغرض تمہارے لائق نہیں ویسے یہ ایچ بی اسکے قابل نہیں ہے"

کنزا کے لہجے میں حسرت اور تکلیف تھی مگر زونین کیا کہتی کہ وہ تو خود مما کو دھوکہ دے چکی تھی، عجیب سی بے چینی محسوس کرتی وہ الگ ہوتی مما کو دیکھنے لگی جس میں حسرت شامل تھی۔

یکدم ہی کنزا ان دونوں کو اداس دیکھ کر سلگ اٹھی۔

"تم دونوں پر بہت اعتبار ہے مجھے، اس بات کو یاد رکھنا۔ اگر میرا دل دکھانے کی کوشش کرو گی تو میں بھی سنگدل کنو بائی بن کر تم دونوں کے دل اجاڑ دوں گی۔ اب اسے تم دونوں ایک ماں کی نصیحت سمجھو یا کنو بائی کی سفاک وارننگ۔ جا رہی ہوں، مجھے میرے اس فیصلے پر شرمندہ مت کرنا کہ میں نے تم دو کو یہاں آزاد چھوڑا ہے"

اس کے لہجے میں ہلکورے لیتی، ایچ بی کے لیے نفرت وہ دونوں محسوس کر رہی تھیں مگر جس طرح کنزا ان دونوں کے دل اجاڑنے کی سنگدل دھمکی دے کر گئی تھی ، مالنی اور زونین دونوں کا دل سکڑ کر رہ گیا۔

"ایسا کونسا ادھار لیا ہے اس ایچ بی کے بچے نے مما سے جو یہ اتنی خار کھاتی ہیں یار، اوپر سے آپکے سائیں کو بھی مما کمال سلیقے سے رگڑ گئیں آہا آہا۔ ہن کی ہوسی ، میرے نکے نکے بچے تو راہ میں ہی رہ گئے۔ اور ماسکو کا دیدار! اف میں انکو دیکھے بنا ہی کوچ کر جاوں گی کیا، ھائے او ربا! پلیز پلیز پلیز مما کے دل کو نرمی عطا کریں یہ تو ہیر رانجھے والی قیدو بن رہی ہیں۔۔ یہ ظالم سماج ہمیں اپنے رانجھوں سے دور کرنے پر تل گیا، ہائے ہائے ہائے"

اپنا دل جکڑتی وہ بنا زونین کی پریشان صورت تکتی اپنی ہی دہائیاں دینا شروع ہو چکی تھی جبکہ وہ جو واقعی زرد چہرہ لیے اسی جانب دیکھ رہی تھی جہاں کنزا گئی، یکدم جھٹکے سے اپنے مقدر کوستی مالنی کو دیکھ کر تھم ہی تو گئی کیونکہ عقب کی جانب کھڑے ایچ بی کو دیکھ کر وہ یوں تھی جیسے اس نے کوئی جن دیکھ لیا ہو البتہ وہ ضرور خود کے مقدر کوستی مالنی کے منہ سے کچھ قبل سارے انکشافات، حسرتیں سماعت فرما چکا تھا۔

زونین نے ساری پریشانی بھول کر حلق تر کرتی خوفزدہ نظروں سے مالنی کو اشارہ بھی کیا مگر وہ منہ بسورے بس آہیں بھرنے میں مصروف تھی۔

گلا کھنکھارنے کی آواز پر اس نے عجیب سی نظر زونین پر ڈالی۔

"یہ آپی کو کیا ہو گیا، مردوں کی طرح کیوں کھانس رہیں ہیں"

اپنی غائب دماغی کے سنگ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ زونی کے اشارے پر پوری آنکھیں کھولے جھٹکے سے سر گما گئی جبکہ پیچھے کھڑے ایچ بی کو دیکھتے ہی مالنی ڈر کے مارے اٹھ کھڑی ہوئی اور باقاعدہ حراساں ہوئے ایچ بی کی اندر تک اترتی خونخوار آنکھیں دیکھیں۔

"کیا کرو گی میرا چہرہ دیکھ کر؟ "

وہ اسکے پتھر کا مجسمہ بنا دیکھ کر تندہی سے پوچھتے بولا جس سے صدمے میں غرق ہو کر کچھ بولا ہی نہ گیا البتہ رنگت بدلتے چہرے پر سجے عنابی نرم ہونٹ ضرور ہلکلائے پر بولے بنا مالنی کیسے رہتی۔

"منت مانگی تھی جی کہ کھڑوس دیو جی کی شکل دیکھوں تو دس فقیروں کو کھانا کھلاوں گی، پر جی مجھے پتا ہے آپکے منہ پر پمپلز جی ہیں تبھی شرم جی آتی منہ دیکھاتے ہوئے، آئی کین انڈرسٹینڈ جی۔ ٹھیک ہے جی ماسک والے سر پرست جی، میں جی اب کوئی بک بک نہیں کروں گی جی۔۔۔۔ چلیں جی آپی جی ہم نے مووی جی دیکھنی تھی ناں، روم جی میں چلتے ہیں"

بدحواسی اور بے خودی میں وہ جو یہ جی کی گردان الاپتی تیزی سے ایچ بی کی نظروں سے پھدکتی، گم صم سی زونین کا ہاتھ پکڑے کمرے کی طرف بھاگی۔

"اوف!"

وہ زچ ہوتا غرا اٹھا تھا، اس جی کی گردان سے زونین کا سر چکرایا ہو یا نہیں، بچارے ایچ بی نے درد اٹھنے کے باعث اپنی کن پٹی ضرور انگلیوں سے بھینچ ڈالی تھی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ڈاکٹر وری! آپ سے ملنے ولی زمان آئے ہیں؟"

وہ گزری رات کی ہر تھکن خود پر سے اتارتی کچھ دیر پہلے ہی ہوسپٹل پہنچی تھی، کچھ دیر میں تمام ڈاکٹرز نے مل کر اسے چھوٹی سی گڈ لک پارٹی دینی تھی تبھی وہ اپنے کیبن میں آئی۔

سفید لمبی کرتی تلے ٹائیٹ وائیٹ پینسل ٹراوز اور وائیٹ کوٹ جیسے اس نے اتار کر رولنگ چئیر پر لٹکاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا ستھیتھوسکوپ میز پر رکے دروازہ ناک ہونے پر توجہ باہر مبذول کی تو ولی زمان کی متوقع آمد نے اسکے اندر پھر سے اذیت سی دوڑا دی۔

"بھیج دیں"

دقت سے جواب دیتی وہ کرسی پرے کرتی باہر نکل کر میز تک آئی اور ٹیک لگا کر آنے والے انسان کی منتظر ہوئی جو سنجیدہ چہرے اور ہمیشہ کے گریس فل خلیے میں ہاتھوں میں سفید اور جامنی پھولوں کا گلدستہ تھامے اندر داخل ہوا تو دونوں کی نظریں بے اختیار ملیں۔

وریشہ کی نظر اسکے ہاتھوں میں مہکتے خوبصورت پھولوں پر گئی تو وہ تمام اداسی کے افسردہ سی مسکرا دی۔

"دور رہنے کا کہا تھا پر آپ تو لاتعلق ہو کر رہ گئیں، مانا میں تلخ ہو گیا تھا مگر آپ سے جو دل کا تعلق ہے وہ آپکے خاص دنوں کو مزید خاص بنانے پر ہمیشہ مچلتا رہے گا وری۔ گڈ لک فار این ادھر جرنی آف یور لائف"

مضبوط، بااثر اور جذب سے آٹے لہجے میں وہ بہت کچھ جتاتا ہوا وہ پھول وریشہ کی جانب بڑھا رہا تھا جسے اس لڑکی نے بوجھل دل سے تھام کر انکی سوندھی سوندھی خوشبو اپنے اندر اتارتے ہی مسکارے سے سجی خوبصورت آنکھیں اٹھا کر ولی زمان خان کی جانب دیکھا۔

"تھینک یو، میری زندگی کا ہر نیا سفر آپکی موجودگی سے مزید اچھا ہوتا ہے ولی زمان خان، رہی بات دوری کی تو جو میں کر بیٹھی ہوں اس میں دوری ضروری شے ہے"

وہ اپنی زندگی کا اتنا بڑا سچ کم ازکم ولی سے چھپا نہیں سکتی تھی جو شخص بچپن سے اسے چاہتا آیا تھا، خود سے محبت کرنے والوں کو قطرہ قطرہ مارنا کفر کے برابر ہوا کرتا ہے اور وہ کم ازکم ولی کو سولی پر لٹکانا ہرگز نہیں چاہتی تھی۔

وہ وریشہ کی دل دہلاتی بات پر دل کو سینے میں جکڑتا محسوس کر رہا تھا۔

"ایسا کیا کر دیا آپ نے وری؟"

وہ اسکی زرد صورت بغور تکتا، اپنی مضبوط آواز کو لرزنے سے بچا نہ پایا تھا۔

"شادی"

وہ یہ لفظ کوڑے کی طرح ولی زمان خان کے اعصاب پر گراتی خود بھی آنکھوں میں سرخی سمیٹ لائی جو بے یقین نظروں سے اسے دیکھتا وریشہ کو کندھوں سے جکڑ چکا تھا، ولی کی تکلیف وریشہ کے اندر تک اتر چکی تھی۔

"کیا کہا آپ نے؟"

وہ اپنے ٹکڑے ہوتے دل کو بمشکل سمیٹتا بول پایا مگر اسکی بھاری آواز کا درد ، وریشہ کی آنکھ میں دھندلاہٹ لے آیا۔

"شادی کر لی ہے میں نے اپنے ایک کولیگ کے ساتھ، دادا کی اج۔۔جازت سے کی ہے اور آپ وعدہ کریں جب تک وقت آنے پر میں خود اس انسان کو پبلک نہ کر دوں، آپ اسکی کھوج لگانے کی کوشش نہیں کریں گے کہ وہ کون ہے"

وہ سفاک بن کر یہ ظلم توڑتی ساتھ کس بے رحمی سے اذیت کو مسلسل کرتی وعدہ مانگ رہی تھی کہ ولی نے اسے ایک بار تو غصے اور اذیت سے جنجھوڑ ڈالا۔

"مجھے جس دن علم ہوگیا اسکا، انہی ہاتھوں سے مرے گا وہ انسان۔ آپکا یہ کرتے ہوئے دل نہیں کانپا وری، ہاں یہ اچھا کیا آپ نے کہ کند چھری سے قطرہ قطرہ مارنے کے بجائے ایک بار ہی مجھے قربان کر دیا۔ میں آپکو سنگدل نہیں سمجھتا تھا، میں نے تو نرم دل اور مہربان سی وریشہ یوسف زئی کو چاہا تھا، یہ لڑکی تو بس جان لینا جانتی ہے۔ اچھا نہیں کیا آپ نے مجھے رقابت کی آگ میں جھونک کر وریشہ، یہ آپ نے بہت ظلم کر دیا۔ بہت بڑا ظلم"

وہ اسکے چہرے کو دیکھ کر تکلیف دباتا یکدم ہی اذیت سے اسے آزاد کرتا ناصرف کئی قدم پیچھے ہٹا بلکہ جگر تک زخم لگاتی اسکی آنکھیں وریشہ کی آنکھیں بھی بھگو گئیں۔

"میں مجبور تھی، پلیز وعدہ کریں ولی۔ ایسے مت کریں پلیز، آپ مجھے مزید تکلیف دے رہے ہیں "

وہ بھی جیسے سسک اٹھی پر ولی اس لمحہ اتنا بڑا قہر خود پر برداشت کیے سنگدل ہو رہا تھا۔

"آپکی ہر تکلیف اپنی بنا لیتا ولی، کاش ایک بار آپ نے اپنی مجبوری مجھے بتائی ہوتی وریشہ۔ جو زخم آپ نے میرے دل پر لگایا ہے اب یہ سانس رکنے کے ساتھ ہی ناسور کی طرح میری قبر کا حصہ بنے گا۔ کیا اس انسان سے محبت کرتی ہیں؟ بس اتنا بتا دیں، ولی ہر وعدہ کرے گا"

وہ اس وقت اپنے حواس میں نہ تھا، ملال کسی نوکیلے کانٹے کی طرح وجود میں اذیت پھیلا رہا تھا۔

"کیا پتا کرنی پڑ جائے"

وہ دردناکی اور حسرت سے کہتی اسکے قریب آئی تو ولی نے اس کے قریب آتے ہی اپنے قدم اجنبیت کے سنگ پیچھے ہٹائے، اور یہ لمحہ وریشہ جیسی مضبوط لڑکی کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہوا۔

"نجانے مجھ سے کونسا بدلہ لیا آپ نے وری، میرے علاوہ کسی سے محبت کرنے کا فیصلہ تک کر بیٹھی ہیں۔ مجھ جیسے بزدل سے آپکا چھن جانا ہی میری آخری سزا ٹھہرا۔ آپکو اب اپنی شکل نہیں دیکھاوں گا، کبھی نہیں دیکھاوں گا۔ آپ نبھائیں شادی، کریں محبت۔ مر گیا آج سے ولی زمان خان، سنیا، مر گیا ولی زمان"

جانے کس طرح وہ یہ اذیت انڈیلتا اپنی آنکھیں رگڑتا اسکے کیبن سے نکلا کہ خود وریشہ نے بمشکل لڑکھڑاتے ہوئے کرسی کی پشت تھامی، اسکا دل یوں تھا جیسے ولی زمان کی تکلیف اسے کچل گئی ہو۔

اس نے ولی کی آنکھ میں پہلی بار آنسو دیکھے وہ بھی انکا سبب وہ بنی مگر اس وقت گہرے گہرے سانس بھر کر اپنی زندگی کی سختی پر صبر کے گھونٹ بھرنے کے سوا اس کے پاس کچھ اختیار نہ بچا۔

پر آنسو بے اختیار ضرور تھے جنھیں اس نے ولی کی محبت پر فراح دلی سے بہایا تھا۔

جبکہ ولی زمان خان پتھر بنا گاڑی کھولے اس میں بیٹھتے ہی جبرا قائم رکھتا اپنی گاڑی چلا چکا تھا، مرے ہوئے لوگ نہ تو روتے ہیں نہ چینختے ہیں تبھی اس نے بھی اپنی تکلیف کا بھرم رکھ لیا تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

یہ ایک ہنگامے اور شور سے بھرا ہوا کلب تھا جہاں دن کے وقت کچھ افرتفری مچاتے لوفر ناچتے پھدکتے ہوئے سنوکر کی گیم لگاتے ہوٹنگ میں لگے تھے، باہر موسم ابر آلود تھا مگر اندر وہ پورا نجی کلب تیز چبھتی روشنیوں میں نہایا ہوا تھا تبھی بھاری بوٹوں کی دمک کے داخلی دروازے کی جانب بلند ہونے پر ڈی جے نے تیز ترین چلتا میوزک بند کرتے ہی خوف سے جھرجھری لی کیونکہ اندر آنے والا شخص جسکی تلاش میں یہاں آیا تھا، وہ سب سہم چکے تھے کہ ضرور کسی کی موت یا موت جیسی حالت وہ لازمی کرے گا۔

دو تین سنوکر ٹیبل چھوڑ کر چوتھے والے پر گیم گرمائے سرمد چوہدری نشے میں دھت سا کچھ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا حالات کی سنگینی سے بے خبر تھا، وہ بھاری قدم لمحہ بہ لمحہ قریب آرہے تھے، اس آدمی کے پیچھے آتے چار غنڈے بھی ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے کلب کے فرش سے گھسیٹتے ہوئے اپنی خونخوار شکلوں کے ساتھ پل پل سرمد چوہدری کے قریب جا رہے تھے ، ہر کسی کو سانپ سونگھ چکا تھا، ماحول میں عجیب سی سنسنی پھیلی وہیں وہ آدمی سرمد چوہدری کا گریبان جکڑتا اسے لہرا کر روبرو کرتا اسکے نشے میں ہونے پر جبڑے بھینچتا ہوا زور دار تماچہ اسکے منہ پر مارے لمحہ لگاتے ہی سرمد چوہدری پر چائے اگلے پچھلے تمام نشے اتار چکا تھا۔

مگر اس مارنے والے نے اسے لڑکھڑا کر گرنے بھی نہ دیا بلکہ اپنا ہاتھ اسکی گردن پر اس بری طرح دبایا کہ سرمد چوہدری کے جسم کا سارا لہو اسکے سفید چہرے پر چھلک کر سرخ کر گیا۔

"دوبارہ اگر تم نے اپنی حد پھلانگنے کی کوشش کی سرمد تو اگلی بار تمہیں زندہ نہیں رہنے دوں گا۔ اسے میری آخری وارننگ سمجھنا، اگر مجھے دوبارہ تمہاری شکائیت ملی تو تمہارے پورے سنوکر کلب کا سٹاف تمہاری بوٹی بوٹی ہوتے جسم کو سمیٹتا ہوا دیکھائی دے گا۔ سمجھ گئے"

اس نجس کے منہ پر در پے مکے رسید کیے خود اس مارنے والے نے درد سا محسوس کرتے اسے گریبان سے پکڑے بری طرح پیچھے دھکیلا اور ایک روح فنا کرتی نظر پورے سٹاف پر ڈالی جو سب ہی شہیر مجتبی کے اس روپ سے تھر تھر کانپتے دیکھائی دیے۔

وہ جس طرح وہاں آیا، اپنے چار عدد غنڈوں کے ساتھ اسی دبدبے کے سنگ کلب سے نکل گیا پر فرش پر ہچکیاں سسکیاں گھونٹے سرمد نے ضرور نفرت سے دھاڑ کر ہر طرف سکتہ پھیلایا، وہ یوں تھا جیسے شہیر کا خون پی جائے گا مگر فی الحال اسکے چند مکے ہی سرمد کو بے ہوش کر چکے تھے۔

وہیں حویلی میں لگی آگ پوری شدت سے بھڑک چکی تھی، مشارب زمان اور زمان خان مایوس سے حویلی لوٹے تو جیسے عزت پر یہ کاری وار ان سب سرداروں کو خون سکھانے لگا، خود اشنال کو گھر گلالئی کے سپرد کیے عزیز خان بھی واپس لوٹ چکے تھے اور آتے ہی جب اس قیامت کی خبر ملی تو سیدھا اپنے کمرے میں آکر ضرار کو فون ملایا جو اس وقت گاڑی کی پچھلی جانب بیٹھا پہلے ہی کسی اہم کال پر مصروف تھا۔

"بہت خوب ، تو آخر کنزا کے اس ٹھکانے کی خبر مل ہی گئی۔ دیکھنا پڑے گا ایسا کون ہے اس بنگلے میں جس کے پاس وہ اپنی بیٹی بلاخوف چھوڑ آئی ہے۔ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے، اب اس بنگلے پر میرے آنے تک نظر رکھنا۔ میں جلد اس شریف زادے سے ملنا چاہوں گا"

ضرار کا وہ بندہ جو کنزا کی جاسوسی کر رہا تھا، آخر کار اسکا پیچھا کرنے میں کامیاب ٹھہرا اور اس نے ایچ بی کے گھر کا مکمل ایڈریس ضرار کو ارسال کرتے ہی اپنی جانب سے اس بندے کی لی معلومات بھی گوش گزار کیں۔

"سر میں نے پتا لگوایا ہے، وہ مشہور مصور ایچ بی کا بنگلہ ہے، پچھلے دس سالوں سے اسکی بنائی ایک جیسی منفرد اور نایاب تصویریں کئی کڑور مالیت میں بکتی ہیں، وہ بہت منجھا ہوا آرٹسٹ ہے، ایک جیسی پینٹنگ وہ سو مختلف طریقے سے بنانے کا ہنر رکھتا ہے"

ضرار کا آدمی اس وقت ایچ بی کی بڑی سی حویلی سے کچھ فاصلے پر گاڑی میں موجود تھا اور اسکی یہ تمام معلومات ضرار کے ماتھے پر شکنیں لا چکی تھی۔

"آہاں! یہ ٹیلنٹ کچھ جانا مانا لگ رہا ہے۔ ٹھیک ہے تم نظر رکھو۔ اور کوئی ابڈیٹ؟"

ضرار کی چھٹی حس اسے کسی نئے معاملے کی کہانی سناتی معلوم ہو رہی تھی، ضرار نے سر جھٹک کر مزید استفسار کیا۔

"ایک اور خبر ملی ہے، شہیر نے سرمد کے کلب جا کر کچھ دیر پہلے اسکی کراری پھینٹی لگائی ہے۔ معاملہ اس بار بھی وہی ہے سر"

مقابل وہ آدمی جو خبر دے چکا تھا اس پر ضرار کے ماتھے پر ناگواری سے بل پڑے۔

"ایک تو کنزا کی دونوں اولادیں ہی میرا جینا حرام کرنے پر تلی رہتی ہیں، باقی یہ شہیر تو ہے ہی میرا  سر درد!

یہ سرمد اور شہیر۔خبیث ہیں دونوں، لڑ لڑ کر ہی مریں گے کمینے۔ میں یہ ایچ بی کا معاملہ دیکھ لوں پھر خبر لیتا ہوں دونوں کی اور اس معاملے کی بھی جو کئی سال سے میری الجھن بنا ہے"

ضرار نے چند مزید جملے کہہ کر فون کاٹ دیا، عجیب سی بیزاری وجود پر اتری مگر پھر صنم تک پہنچنے کا سوچتے ہی اسکے دل کے موسم کے ساتھ حقیقی موسم بھی بدل گیا۔

وہ عزیز خان کی آتی کال، جان بوجھ کر کاٹتا فون سائلنٹ کرتا آگے بیٹھے جبل زاد کے حوالے کرتا باہر پل پل تیز ہوتی بارش دیکھنے لگا۔

یہ بارش اسکی اور صنم کی زندگی کا اہم حصہ جو رہی تھی، اس نے اشنال کو پہلی بار اسی طرح پہاڑوں پر گرتی بارش میں مورنی کی طرح پنکھ پھیلائے ، ناچتے ، جھومتے ہی تو دیکھا تھا۔

جب جوانی کی سیج پر قدم رکھتے ہی اس نے پہلی بار  ہاشم بزدار کے سنگ دشمنوں کے علاقے میں قدم رکھا، وہ اسے اسکی ہی ہم عمر گلالئی کے ساتھ خانم حویلی سے کچھ دور کھلے سرسبز میدان میں دیکھائی دی تھی، بھیگتی ہوئی، ہر فکر کے آزاد سات رنگوں کا مرکب بن کر جھومتی ہوئی، ضرار نے اسی لمحے اس لڑکی کو اپنے دل کا صنم چنا، ایسا ہی صنم تھی جسکی انگڑائی توبہ شکن، جسکا حسن دل کا قرار، جسکی مسکراہٹ، روح کا رزق، جسکی صاف شفاف پاکیزگی بھری ذات، میثم ضرار چوہدری کا عشق ٹھہری، دشمن کی بیٹی، پھر سوتیلی ماں کے گھر والوں میں سے صنم چن بیٹھنے پر بڑے عذاب تھے جو کم سنی سے ہی اس مضبوط دل والے پر اترے تھے۔

بہت کچھ کھو بیٹھنے کے باوجود اک سلامت تھا تو عشق، اک قائم تھی تو تڑپ، اک باقی تھی تو آتش جنون۔ وہ ان خوبصورت یادوں سے باہر نکلا تو گاڑی تب تک اسی گھر کے باہر رک چکی تھی۔

وہیں دوسری جانب، بارش ہوتے ہی گلالئی ، اسکی تمام اداسی دور بھگائے اسے ہاتھ سے پکڑتی خوبصورت سے جل تھل ہوتے باغیچے کی سمت لائی جو بالکل بھی بھیگنا نہیں چاہتی تھی مگر جیسے ہی وہ نم ، ٹھنڈی پھوار کا لمس اشنال کے وجود کو چھوا، وہ سرخ سوجھی آنکھوں والی مسکرا کر آنکھیں آسمان کی جانب اٹھا گئی۔

گلالئی ، کھلکھلاتے ہوئے اشنال کے ہاتھ تھامے گول گول گھومتی ہوئی خود بھی بھیگی ساتھ اس نے اشنال کے تمام دکھ درد سمیٹ کر اسے واپس زندگی کی سمت لا کھڑا کیا۔

باغیچے کی دائیں جانب بنے سٹنگ ایریا میں بیٹھیں خدیجہ مسکرا کر ان دو پگلیوں کو بھیگتا دیکھ کر جی سی اٹھیں، خود اشنال کا کچھ حد تک نارمل ہو کر پہلے کی طرح بارش سے اپنے عشق کا اظہار اس ماں کا کلیجہ ٹھاڑ گیا۔

آسمان آہستہ آہستہ سیاہ بادلوں کی لپیٹ میں جا رہا تھا وہیں ان دو کو بارش میں مصروف دیکھتیں خدیخہ، گھر کی بیرونی طرف ہوتی ہلچل پر چھاتا اٹھاٹیں دروازے کی جانب بڑھیں اور پھر دروازہ کھولتے ہی ضرار کی گاڑی اندر داخل ہوئی۔

گاڑی سے پھرتی کے سنگ نکلتا جبل زاد فورا سے پہلے خود کھلے گیڈ کی جانب بڑھا اور بند کیا اور جب واپس مڑا تو ضرار بھی گاڑی کھولے باہر نکلتا، لان کی جانب مسکرا مسکرا کر گلالئی کا ہاتھ تھام کر بھیگتی اشنال کو دیکھ کر تھم گیا۔

جبکہ خود جبل زاد نے احتراما نظر پھیر لی کیونکہ ان دو کی جانب صرف ضرار کی ںظریں ہی جچ رہی تھیں اور خدیخہ خانم تو ضرار کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر ہی جی اٹھیں۔

وہ ان دو حسینوں کو اس شغل سے نہ روکتے ہوئے خدیخہ خانم کے ساتھ ہی گھر کے اندر داخل ہوئے کیونکہ ضرار زخمی تھا اور بارش میں یوں کھڑے رہنا اسکے زخموں کے لیے مضر تھا۔

خدیخہ دونوں کو اندر لیے بڑھیں اور پھر بارش کی مناسبت سے پکوڑے بنانے کچن جا گھسیں البتہ ضرار نے اٹھ کر سٹنگ ایریا کی جانب بنے گلاس ڈور کا دروازہ زرا سا کھولے سامنے دیکھا جہاں وہ نازک سی نڈھال پری، سارے غم بھلائے گلالئی کے ساتھ ہنس رہی تھی۔

وہ بار بار اپنی ہتھیلوں کو بارش کے قطروں سے بھرتی پھر گلالئی پر پھینکتی ، یہ کر کے وہ کتنی دیر ہنستی رہی، اور آفرین تھی گلالئی کے اشنال کو آتے ہی اسکی مسکراہٹ تھمانے میں کامیاب ٹھہری۔

ضرار کو جتنی خوشی اشنال کی مسکراہٹ دیکھ کر تھی اتنی ہی شفقت اسکی آنکھوں میں آج گلالئی کے لیے تھی جس سے وہ ہمیشہ اشنال کا سایہ بنے رہنے پر چڑتا اور خار کھاتا تھا۔

تیز آندھی کے جھکڑ گاہے بگاہے اس برستی بارش سے ملتے تو وہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد بادل چمک کر ماحول پر فسوں طاری کرتے۔

جبل زاد کافی پرسکون مسکراہٹ کے سنگ ضرار کو باہر کی جانب متوجہ دیکھتا زرا قریب آیا، اک متبرک سی نگاہ جس میں بے شمار عزت تھی، ان دو لڑکیوں پر ڈالتا وہ زرا عقب کی جانب آن جما۔

"آگر آپ چاہیں تو تھوڑی بد پرہیزی کر سکتے ہیں بارش میں بھیگ کر، یوں دور سے خانم کو دیکھتے رہیں گے تو مجھے بے تابی ہونے لگے گی۔ ایسے موقعے روز کہاں ملتے ہیں"

اپنے پیچھے شرارتی سی سرگوشی بلند ہونے پر ضرار نہ صرف پلٹا بلکہ جبل زاد کے حسین سے مشورے کو بھی سراہ اٹھا مگر دل میں ڈر بھی تھا کہ کہیں اسے دیکھتے ہی اس لڑکی کی مسکراہٹ روٹھ گئی تو وہ کیا کرے گا۔

"مگر وہ ہنستی ہوئی زیادہ پیاری لگ رہی ہیں، میں قریب چلا گیا تو وہ روٹھی ، روتی، بدگمان ہوئی آنکھیں اس حسین موسم کو سوگوار کر دیں گی جبل زاد اور میرے دل کو بھی۔ ورنہ کون اتنے بڑے دل کا مالک ہے جو صنم سے چند قدموں کی دوری کے سکھ کو لوٹنے کے برعکس صبر کا پلو پکڑ کر بیٹھ جائے"

وہ عجیب سے دکھ میں مبتلا تھا، مگر جبل زاد کیسے برداشت کرتا کہ اسکے سائیں پر کوئی حسرت اترتی۔

وہ شخص تو خود حسرتوں کی حسرت تھا۔

اور اسی لمحے گلالئی کی نظر بے ساختہ لان کی جانب کھلتے سٹنگ روم کے دروازے میں پڑی جہاں ضرار کو کھڑا دیکھ کر وہ پہلے حیرت زدہ ہوئی پھر مسکرا کر بھیگی ہتھیلوں کو اپنے گرم چہرے سے جوڑ کر آسمان کی جانب تکتی اشنال کو دیکھتی اسکی طرف لپکی۔

"میں ابھی آتی ہوں خانم، بی بی سائیں سے پوچھ کر آتی کہ پکوڑے کب بنائیں گی۔ تب تک آپ مجھ پر پھینکنے کے لیے ڈھیر سا پانی جمع کریں"

بارش میں بھیگنے کے باعث چہرے پر چپک جاتے بال ہٹاتی گلالئی، اسے رسان سے کہتی اپنی چادر اچھے سے گرد لپیٹی ضرار کی جانب بڑھی تو وہیں اشنال بھی کچھ تھکن سی محسوس کرتی وہیں گیلی گھاس پر جا بیٹھی، اب فرق اتنا تھا کہ اسکی نظریں خاموشی کے سنگ بھیگتے گلاب کے پھولوں پر جمی تھی جو تیز بارش کے جھونکوں سے وہیں گھاس پر بکھر رہے تھے۔

وہیں گلالئی کی سمجھ داری کا اس وقت جبل زاد تو قائل ہوا ہی ساتھ ضرار نے بھی اپنی جانب آتی مکمل بھیگی گلالئی کو دیکھا جو بس مسکراتی ہوئی ان دو کے پاس سے گزر کر اندر چلی گئی۔

"ویسے آپ خامخواہ ان گلالئی نامی خاتون سے خار کھاتے تھے سائیں ، دیکھیں آپ کے لیے راستہ صاف کیے وہ بتا کر گئیں ہیں کہ محبت کرنے والوں کی مددگار ہیں۔ اب وقت ضائع نہ کریں، میں جا کر خدیخہ خانم کی کوکنگ شوکنگ میں مدد کرواتا ہوں، آپ یہ حسین لمحے انجوائے کریں۔ مگر پانچ منٹ سے زیادہ مت بھیگیے گا، پھر آپکو الرجی کے انجیکشن لگیں گے پہلے بتائے دیتا ہوں"

ان دو محبت نشینوں کے پاس آکر سنجیدہ، آدم بیزار سے پہاڑوں کے سخت جان باسی، جبل زاد میں بھی شوخی اتر آئی جس پر ضرار ناچاہتے ہوئے بھی غضبناک مسکرا اٹھا، جبل زاد جاتے ہوئے باقاعدہ آنکھ دبا کر گیا اور کبھی کبھی جبل زاد کا ایسا موڈ بھی ضرار کو ہشاش بشاش کر دیتا تھا۔

ضرار نے رخ موڑے اس گھاس پوش بھیگتی زمین پر خاموشی سے بیٹھی اشنال کو دیکھا اور پھر اک رحم طلب نظر ہر شے فنا کرتے طوفاتی، ملگجی موسم کی جانب اور اپنے قدم اشنال کی جانب بڑھائے۔

وہیں کپڑے بدلنے کے لیے کمرے کی جانب جاتی گلالئی کا گیلے پیر مزید نرم ہو جانے سے پیر کچن سے باہر نکلتے پھسلا تو بے اختیار کسی مضبوط ہاتھ نے اسکے ٹھنڈے ہاتھ کو جکڑ کر اسے گرنے سے بچایا جو اس سہما دیتے آمنے سامنے پر سنبھل کر رخ موڑے، فکر مند سے جبل زاد کو دیکھنے لگی جس نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا۔

"دھیان سے چلیں گلالئی ، ابھی گر جاتیں تو گہری چوٹ لگ سکتی تھی۔ جوتے پہنیں، ایسے موسم میں اختیاط کرنی چاہیے، قدم لڑکھراتے ہوئے دیر نہیں لگاتے"

بڑی خوبصورتی سے اپنے جملے کی دو رنگی وضاحت پیش کیے وہ اگلے ہی لمحے اسکے سنبھل جانے پر اسکا گلابی پرتا ہاتھ آزاد کیے، اک سرسری مگر گلالئی کے دل کو دھڑکاتی نظر ڈالتا کچن کی جانب بڑھ چکا تھا مگر جیسے گلالئی نے اڑے حواس کے سنگ مسکراہٹ دیتے اپنے ہاتھ پر کچھ قبل پہلے جکڑتے ہاتھ کا لمس سوچتے ہوئے اپنے قدم بڑھائے وہیں کچن میں داخل ہوتا جبل زاد بھی اپنی بھیگی ہتھیلی کھول کر اس میں جذب ہوتی نمی دیکھنے لگا ، تہلکہ مچاتی متبسم کرن نے اسکے گھنی مونچھوں تکے پھیلے جاندار ہونٹوں کو عاشقانہ ہو کر چھوا۔

پر جلد ہی وہ اس جادوئی سحر کو خود پر سے جھٹکتا خدیخہ خانم کی مدد کرنے لپکا جو اسے وہیں آکر اپنے ساتھ مصروف ہوتا دیکھ کر شفقت کے سنگ مسکرا دیں۔

لان میں قدم رکھتے ہی وہ مکمل بھیگتا ہوا کسی ٹرانس میں لپٹا اس تک پہنچا جو مانوس سی خوشبو ان برستی بوندوں کے سنگ مل کر عجیب سا احساس گدگداتی ہوئی اسکی سانسوں میں شامل ہوئی جس پر وہ اپنے گہرے خیالات جھٹکی ، چہرے اور ماتھے پر چپک جاتے بال ہٹاتی مڑی تو سامنے ضرار کو دیکھتے ہی اسکے سرد تاثرات بڑھے، وہ لمحہ صرف کرتی اٹھ کر اس قریب آتے شخص سے پرے سرکی جبکہ اس لڑکی کا یہ گریز اس شخص کی جان لے گیا۔

"ت۔۔تم، پھر آگئے۔ سمجھ نہیں آتی تمہیں کہ میں نہیں دیکھنا چاہتی تمہاری شکل۔ بچ گئے ناں، اب سچ میں مار دوں گی بتا رہی ہوں۔د۔۔دور ہٹو"

وہ جو بارش میں بھیگ کر اب کانپتی ہوئی جامنی پڑتے ہونٹ اور سرخ گوشوں والی بھیگی آنکھیں لیے یونہی عجیب سا نشہ اس موسم میں گھول چکی تھی، جیسے ہی بھاگنے لگی، ضرار نے ناصرف اسے پکڑ کر اپنے قریب کیا بلکہ اسکے سرد پڑتے وجود کو بنا لمحہ سرکائے خود میں شدت سے سمو گیا ، اک لمحہ تو وہ اس گرفت میں بے حرکت ہو کر رہ گئی۔

"جتنی بار مجھے ماریں گی، اتنی بار قریب آکر آپکو بتاوں گا کہ کتنی بری ہیں آپ۔ بھاگنا بہت آسان لگ رہا ہے، یقین کریں میری جان، سچائی تسلیم کرنا اس سے بھی آسان ہے۔ نہ تو آپ مجھ سے جدا ہیں نہ کبھی ہوئی ہیں صنم، کیسے دور چلا جاوں۔ کیسے خود پر اپنی سانسیں تنگ کر دوں"

وہ اسکے بھیگے وجود کو خود میں شدت سے بساتا اسکی تمام مزاحمت خود میں سموئے جن جان لیوا سرگوشیوں سے اشنال کے وجود کی تکلیف بڑھا رہا تھا، اس لڑکی کی سمجھنے بوجھنے کی ہر صلاحیت ہی زنگ آلود سی تھی پھر وہ کیسے سنتی وہ لفظ جو اسکا شعور سننا ہی نہیں چاہتا تھا۔

تیز ہوتی بارش پل پل ان دو کو خود میں گم کر رہی تھی اور خود ضرار نے محسوس کیا وہ مزاحمت ترک کر کے بے جان سی ہو گئی ہے۔

"تم جھوٹے ہو، تم چاہتے ہو میں مر جاوں ۔ میرے قریب آکر تم م۔مجھے اپنی حسرت سے مار دینا چاہتے ہو۔ م۔۔میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ شہیر میرا حاکم ہے، تم یہ حق ک۔۔کھو چکے ہو ناں تو مجھ سے دور رہو۔ دیکھو میں ت۔۔تمہاری منت کرتے کرتے تھک گئی ۔ م۔۔مجھ میں ہمت نہیں، تمہیں پھر سے تکلیف دے کر دور کرنے کی، ت۔۔تم مجھ پر میری رہی سہی زندگی تنگ مت کرو"

وہ ہچکیوں کی زد میں کانپتی ہوئی اسکے سینے میں سمٹ کر جو کچھ بولی، ضرار کی آنکھیں کرب ناک سرخی میں لپٹ گئیں، یوں لگا اس لڑکی کے یہ لفظ میثم کو کھڑے کھڑے بھسم کر گئے ہوں۔

"آپ جانتی ہیں آپ یوں کر کے میری جان لینے لگتی ہیں یار، ایک بار مجھ پر بھروسہ کریں۔ صرف ایک بار ، وہ آپکا حاکم نہیں ہے اشنال۔ آپ تو میثم کے دل کی واحد ملکہ ہیں جس پر کسی ماں کے لال کی کبھی حکمرانی نہیں ہوگی ، یہاں دیکھیں۔ میری آنکھوں میں جھوٹ لکھا ہے کیا، یہ تڑپ جھوٹی ہے ؟ دماغ کو ایک طرف کر کے صرف ایک بار دل سے مجھے دیکھیں"

وہ جیسے آہستہ آہستہ اسکے اختیار میں لوٹ رہی تھی اور یہی لمحہ تھا جب وہ اسے اپنے ہونے کا یقین دلاتا، وہ اسکا پل پل سرخیوں میں ڈھلتا بھیگتا چہرہ دیکھ کر اسکی بہت سے کرب دبا کر سوجھ جاتی آنکھیں جذب سے تکتا جو بھی بولا، وہ پھر سے سن نہ پائی بس اسے میثم کے پاس اپنی تکلیفوں سے نجات کا لمحہ مسیر آیا تو وہ سانس تک روک لیتی ٹھہر گئی۔

"تم نے مجھے کھو دیا ہے، یہی سچ ہے۔ مجھے بار بار آکر مجبور مت کرو تم۔ ایسا نہ ہو مجھے تم سے ن۔۔نفرت ہو جائے۔ اپنے کردار پر آنچ نہیں سہہ سکتی اور ت۔۔تم بار بار مجھے چھوتے ہو، قریب کر لیتے ہو۔ بولا ہے ناں اب ت۔۔تم پر تمہارا صنم حلال نہیں رہا۔ دیکھو میں بہت تکلیف میں ہوں، تم جب میرے سامنے آتے ہو تو درد برداشت سے ب۔۔باہر ہونے لگتا ہے۔ م۔۔میں کمزور نہیں رہنا چاہتی، میں رو رو کر تھک گئی ہوں۔ پلیز مجھ پر رحم کرو۔۔۔۔بھ۔۔بھول جاو مجھے۔ اب میں کبھی بھی تمہیں نہیں ملوں گی"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر کانپتی لرزتی آواز دباتی، سسکیوں کے سنگ ضرار کا برا امتحان لیتی ہوئی جو آخری جملے کہہ کر حد پھلانگ چکی تھی اس نے ضرار کے ناجانے کس کس حوصلے کا ضبط توڑا تھا۔

"دوبارہ اگر آپ نے اس زبان سے یہ ناقابل برداشت لفظ ادا کیے تو ساری نرمی بھول جاوں گا اشنال، کیسے بھولوں اپنے ہی جسم میں بسی روح کو اور کیوں نہیں ملیں گی آپ؟ آپ صرف میری ہیں یہ بات اپنے دماغ میں گھسا لیں"

وہ اسکے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب واپس لاک کرتا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سخت لہجے میں جو بولا اس پر پھر سے اشنال کا دماغ درد کر اٹھا، وہ اسکے جامنی پڑتے کپکپاتے ہونٹوں کی جانب تکتا اس سے پہلے شدت بھرے حق دار ستم کر کے اسکی عقل ٹھکانے لگاتا، وہ چہرے پر پھیلتی میثم کی دہکتی سانسیں محسوس ہوتے ہی اسکا چہرہ پرے جھٹک گئی۔

"تم بہت ہی برے ہو، تم نے کیوں چھوڑا پھر مجھے ہاں۔۔۔ اپنی اور میری زندگی جہنم بنا کر تم مجھ پر حاکمیت جتا رہے ہو۔ یو نو واٹ؟ جلد تمہارے اس وحشی روپ سے نفرت ہو جائے گی مجھے۔ نہیں ہوں تمہاری تم کیوں نہیں سمجھ رہے، دیکھو تمہارے پیچھے ہیرے جیسی اشنال عزیز پائمال ہو کر رہ گئی ہے، اب تو ب۔۔بخش دو مجھے"

وہ اسکے سینے پر مکے برساتی چینخی پر اسکا ہاتھ ضرار کی بازو پر لگنے کی دیر تھی کے زخم سے خون رستا ہوا اسکی گرے شرٹ خون آلود کر گیا پھر بارش کے باعث وہ خون جلد ہی اسکی شرٹ تک پھیلا اور اشنال نے خوفزدہ نظروں کے سنگ خون کو دیکھا جسکی ضرار نے پرواہ کیے بنا رخ موڑا مگر اشنال کے بازو جکڑنے پر وہ واپس پلٹا۔

"تمہارا خون نکل رہا ہے، درد محسوس نہیں ہو رہا کیا؟"

وہ اسکی بازو پکڑ کر یوں فکر سے چلائی جیسے یہ زخم اس نے نہیں کسی اور نے دیا ہو تبھی تو وہ دلخراشی کے سنگ اپنی بازو اسکے ہاتھ سے جھٹک کر چھڑوا گیا۔

"جو درد آپ میرے دل کو دیتی جا رہی ہیں ان کے آگے یہ تو نہایت کم تکلیفیں ہیں۔ چھوڑ دیں، اگر آپ خود کو واقعی مجھ سے علیحدہ مان چکی ہیں تو میرے درد پر تڑپنے کی ہمت مت کیجئے گا"

وہ برداشت ختم ہونے پر اسکے ہاتھ جھٹکتا ہوا اس سے پہلے اندر کی سمت جاتا، وہ دوڑ کر ناجانے کس احساس کے تحت اسکی راہ میں حائل ہوئی، اسکی بیقرار نظر ضرار کے آر پار ہوئی۔

ضرار نے اسکی تڑپ دیکھ کر عجیب سی نظروں سے اس لڑکی کے دھوپ چھاوں جیسے دماغی تیور دیکھے۔

"ت۔۔تم رک جاو، پلیز۔ میں دور رہ کر بھی تمہیں مرہم لگا د۔۔دوں گی۔ پلیز ایسے ناراض ہو کر مت جاو، د۔دیکھو خون پھیل رہا ہے۔ ک۔۔کچھ ہو جائے گا تمہیں"

وہ لاکھ پاگل ہو جاتی پر اپنے دل میں اس شخص کی محبت کے جہاں کا کیا کرتی جو  اسکا کل تھا، خود ضرار کو اک لمحہ لگا وہ بالکل ٹھیک ہو گئی ہے پر دور رہ کر مرہم والی بات پر وہ خفیف سا ضرور سلگا۔

"تو آپ مانتی ہیں کہ آپ اب بھی میری بیوی ہیں، میری اشنال ہیں؟"

وہ اسے جکڑتا جیسے خوفزدہ ہوئے چہرے پر نگاہیں ٹکائے بولا ، دل کانپ رہا تھا کہ اگر اس لڑکی نے پھر انکار کر دیا تو وہ برداشت کیسے کرے گا۔

"ن۔نہیں تو، مم میں تو اسکی ہوں ، تم سے اللہ نے مجھے واپس لے لیا تھا، شہیر ہے ناں وہ گندا سا اسے دے دیا۔۔۔۔ پلیز یہ سب ابھی چھوڑو ناں۔ دیکھو خون پھیل رہا ہے، پلیز چلو اندر۔"

وہ عجیب بہکی بہکی باتیں کرتی خود ضرار کا دماغ بھی گما چکی تھی جو گہرا سانس بھرتا بس اس لڑکی کی تڑپ ہی دیکھتا رہ گیا جو اسکا ہاتھ بھی یوں اجنبیوں کی طرح پکڑ رہی تھی جیسے وہ اسکا کچھ بھی نہ لگتا ہو۔

تیرے موسم بہت اندر تک آئے

کھلے رہتے تھے دروازے ہمارے

اگر ہم پر یقین آتا نہیں تم کو

کہیں لگوا لو انگوٹھے ہمارے"

وہ جتنی بھی بیگانی ہو جاتی، وہ تو جانتا تھا وہ اسکی ہے تاعمر اسکی ہی رہنے والی ہے۔

“Give me a few days of peace in your arms. I need it terribly. I’m ragged, worn, exhausted. After that I can face the world.”

دل نے بے تاب ہوئے گزارش کی تھی، سچ کہتے ہیں  کہمن پسند شخص کے ہاتھ میں شفا کے ساتھ ساتھ اُداس کر جانے کا اختیار بھی ہوتا ہے اور وہ ظالم اس اختیار کا بھر پور استعمال بھی کر گزرتا ہے۔

بھیگا دلفریب موسم چاہتا تھا اک دلکش خطاء ہو جائے، پر ابھی اسکے اعصاب پر پرانی خطائیں وبائے جان بنی ہوئی تھیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سر! سیٹھ طلال کو لے آئے ہیں"

وہ جو ہاتھوں کو جینز کی جیبوں میں دے کر پتھر بنا کھڑا، کھڑکی کی جانب تیز آندھی اور ہواوں کی زد میں دل اور روح کے اندر تک بھی گرا تھا، عقب سے بلند ہوتی آواز پر وہ اپنی درد دیتی سوچوں سے نکلا اور پلٹا، چہرے پر قیامت گزر چکنے کے آثار مدھم ہو چکے تھے۔

"بھیجو اسے اندر"

ولی نے اہل کار کو تاکید کیے خود بھی کرسی سنبھالی جبکہ اپنی تمام تر توجہ اسکی روم کے دروازے کی جانب تھی جہاں سے اگلے چند سیکنڈز بعد دو اہل کار، سیٹھ طلال کو جکڑے اندر لائے جسکی آنکھوں میں عجیب سی کراہت اور ناگواری نے ولی کا غصہ ویسے ہی دہکا دیا۔

"بڑی غلطی کر دی آپ نے ولی صاحب، ہر مہینے آپکا منہ بند کرنے کی قیمت اس لیے نہیں چکاتا کہ آپ من مرضی کرتے پھریں اور جب دل چاہا مجھے بے عزت کیے یہاں گھسیٹ لائیں"

سیٹھ طلال کی آگ لگاتی ڈھٹائی پر ولی زمان نے اسکی نحوست بھری شکل بمشکل دیکھ کر برداشت کی اور پھر اپنی جگہ سے ناصرف اٹھا بلکہ جبڑے بھینچتا، اس متنفر زہریلی نظروں سے خود کی جانب دیکھتے طلال کے عین روبرو آکر جما۔

"تیری کوئی عزت ہے؟ ہوتی تو نظر بھی آتی۔ یہ زونین والا کیا معاملہ ہے۔ سنا ہے تیری گندی نظریں اس پر جبکہ مشکوک ذرائع مشارب زمان کی کھوج میں مصروف ہیں۔ کیا چل رہا ہے تیری گوبر بھرے دماغ میں۔ سرمد کو دلدل تک دھنسا کر تجھے چین نہیں آیا جو تو اب کنزا کی دوسری اولاد کے پیچھے پڑا ہے"

ہر ممکنہ حقارت دبانے کے باوجود ولی کی نفرت اسکے لہجے میں اتری وہیں طلال کی تو لمحہ بھر سٹی گم ہوئی، اسے صدمہ سا لگا کہ آخر ولی کو اندر کی خبریں کیسے پتا چلیں۔

"اوہ بڑے پہنچے ہوئے جاسوس رکھتے ہیں محترم ولی صاحب لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ کنزا میرے بیس کڑور کی مقروض تھی اور اس نے اپنی ہی اولاد یعنی زونی کو کسی کڑور پتی کے ہاتھ بیس کڑور میں بیچ کر میرا قرض چکا دیا۔ بڑی ہمدردی ہے آپکو اپنی طوائف پھپھی سے، اس روز جب مشارب کوٹھے پر آیا تھا تو کنزا نے اسکی وہ مٹی پلید کی کے ساری بدنام گلیاں ایک خان زادے کی ایسی زلالت کبھی فراموش نہیں کریں گی۔ میں بس ان معاملات کی کھوج میں تھا کہ کنزا کا اس کڑور پتی سے کیا تعلق ہے اور زونین کا اس خان زادے سے"

طلال کی لگائی آگ گویا اس پہلے سے جلے دل والے کی ہستی جنجھوڑ چکا تھا، اسے یاد رہا تو بس اتنا کہ کنزا نے زونی کا سودا کیا ہے۔

ولی آپے سے باہر ہوتا اس منحوس کا گریبان جکڑتا پھنکار اٹھا۔

"مشارب کی عزت ہے زونی، اور دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں کہ وہ زونین کا سودا ہونے دے۔ کنزا نے اگر واقعی یہ دردندگی دیکھائی ہے تو اب میرے پاس اس عورت کے لیے کوئی رحم نہیں جبکہ تجھے تیری اوقات یاد دلانا ضروری ہے۔ اگر دوبارہ تو ان سارے معاملات میں ٹانگ اڑاتا نظر آیا طلال، تو تیرے سارے سیاہ دھندے سامنے لے آوں گا پھر تیری موت اور عبرت انہی ولی زمان خان کے ہاتھ کی لکیروں میں لکھی جائے گی۔۔۔اسے دو دن حوالات کی سیر کرواو تاکہ اسے میری نصیحت اچھے سے زبانی یاد ہو جائے"

اپنے اندر بڑھتی نفرت، آتش اور حقارت کے سنگ وہ لمحے میں طلال کی سانس گھوٹتا اسے پچھے دھکا دیے دو اہل کاروں کی طرف دھکیلتا جو آخری حکم دے چکا تھا اس پر طلال کی آنکھیں جہنم کی مانند سلگ اٹھیں۔

"مجھ سے پنگاہ مہنگا پڑے گا ولی زمان یاد رکھنا"

دو اہل کاروں کے گھسیٹ کر لے جانے کے باوجود وہ زیر لب خرافات بکتا ، ولی کو دھمکاتا گیا اور ولی نے اس منحوس کے جاتے ہی میز پر رکھی ہر شے گویا فرش بوش کر دی۔

اسکا بس نہیں چل رہا تھا ابھی جا کر کنزا سے اس سفاکی کا حساب مانگے مگر وہ خود یہ سب کر کے مشارب کو مزید زنگ لگنے نہیں دے سکتا تھا، اب وقت آگیا تھا کہ مشارب اپنی عزت کو اس ڈائن سے خود بچاتا۔

فورا سے بیشتر فون اٹھا کر مشارب کا نمبر ملایا جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی الجھا بکھرا کمرے میں آیا تھا۔

ولی کی آتی کال دیکھ کر مشارب نے بےقراری سے کال ریسو کی۔

"لالہ! دادی سائیں نہیں مل رہیں، وہ کل سے غائب ہیں۔ قدوسیہ اور فردوسیہ سمیت"

وہ جو کافی اذیت میں تھا، ولی کو کال لگتے ہی تڑپ کر بتاتا گویا اسے بھی اک لمحہ فکر مند کر گیا مگر پھر جیسے تمام باتیں جھٹک دیں۔

"اس حویلی اور حویلی کے تمام معاملات چھوڑ کر تم فی الحال یہ سنو جو میں بتانے والا ہوں۔ کنزا نے پھر سے اپنی درندگی دیکھائی ہے اور زونی کو کسی کڑور پٹی کے آگے بیس کڑور میں بیچ آئی ۔ فورا سے بیشتر وہاں پہنچو اور اپنی عزت کو بچاو۔ میرے یہاں کے گھر کی دوسری چابی ہے تمہارے پاس، اسے یہیں لے کر آنا"

ولی کے منہ سے یہ انکشاف تو گویا مشارب کے تن من میں آگ بھڑکا گئے، اسے کنزا سے کسی اچھے کی امید تھی بھی نہیں۔

"منحوس عورت، اب نہیں بچے گی۔

پر داد۔۔۔"

وہ جیسے ضبط کی انتہاوں پر پہنچا بھی دادی کے لیے فکر مند تھا پر ولی نے اسکی بار درشتی سے کاٹی۔

"دادی جہاں ہوں گی ٹھیک ہوں گی، تمہیں پتا ہے وہ پہلے بھی علاقے کی سیر و تفریح اور اپنی سہیلوں سے ملنے ملانے اپنی دو منحوس ماریوں کے ساتھ غائب ہو جاتی تھیں اس لیے کل تک اگر وہ واپس نہ آئیں تو میں خود آکر دیکھتا ہوں یہ معاملہ۔ تم پر اس وقت زونی کی حفاظت فرض ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرو تو اس بار دادی سائیں یا کسی کی بھی وجہ سے تم زونی کو تکلیف مت دینا۔ پتا لگواو اس آدمی کا اور فورا اپنے آدمیوں کو لے کر پہنچو اور اگر ضرورت پڑی تو اس منحوس کو ٹھوک دینا جس کے آگے کنزا نے یہ سودا کیا ہے"

تندہی اور سختی سے ولی اسکی تمام وہاں کی فکریں خود پر لیتا اسے اس وقت جو فریضہ سونپ چکا تھا، مشارب نے فرمابرداری سے اسے پورا کرنے کی ہامی بھرتے ہی کال کاٹی۔ اس آدمی کا پتا اسے پہلے ہی معلوم تھا سو وہ جو ابھی ہی دادی کی تلاش سے واپس آیا تھا، دوبارہ اپنے آٹھ لوگ لیے بظاہر دادی کی تلاش جبکہ اصل میں زونی کو اس شخص کے سائے سے نجات دلانے پورے دبنگ انداز سے حویلی سے روانہ ہوا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

یار کو دیدہ خوں بار سے اوجھل کر کے

مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے

یعنی ترکیب کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے

اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے

جل اٹھیں روح کے گھاو تو چھڑک دیتی ہوں

چاندنی میں تیری یادوں کی مہک حل کر کے

دل و مجذوب مغنی، کہ جلا دیتا ہے

ایک ہی آہ سے ہر خواب کو جل تھل کر کے

جانب شہر فقیروں کی طرح گوہ گراں

پھینک دیتا ہے بخارات کو بادل کر کے

"بابا جان کے کپڑے لا کر دیتی، تم پلیز وہ پہن کر پہلے چینج کر لو۔ بہت خون بہہ گیا"

وہ اسکو کمرے میں لے کر آتی خود فکر مندی سے کہہ کر پلٹی ہی تھی کے ضرار نے اسکا برف کی طرح ٹھنڈا ہاتھ جکڑے روبرو کیا اور فکر سے چور ہوئی بھرپور نگاہ ثبت کی۔

"آپ جا کر چینج کر لیں پہلے اشنال، بعد میں مجھے لا دیجئے گا۔ میں یہ کال سن لوں"

اسے نرم سی تاکید کرتا خود وہ فون پر آتی کال دیکھ کر باہر بالکونی کی جانب نکل گیا تو خود اشنال بھی اک نظر خود پر ڈالتی، کبرڈ کی جانب بڑھی اور سادہ سی شلوار قمیص لیتی واش روم میں جا گھسی۔

بارش رک تو گئی تھی پر دن کے چار بجے ہی یوں لگ رہا تھا جیسے سارے شہر پر سیاہ رات چھا گئی ہو، آسمان پر مغرب کی جانب سے سیاہ بادلوں کے جمگھٹے جوق در جوق چلے آرہے تھے۔

ضرار نے اپنے خاص آدمی کی آتی کال پک کیے فون کان سے لگایا۔

"سرکار! گل خزیں کو سانپ کاٹ گیا تھا۔ زہر نکال دیا ہے پر سچی والی بیہوش ہو گئی ہیں"

وہ جو آگے ہی خاصا تپا تھا، اس نئی بسوڑی پر اسکے ماتھے پر بل پڑے۔

"ایک تو اس سانپ کو بھی ابھی ہی زہر ڈانلوڈ کروانا تھا اس خزیں بی بی سے"

جس کوفت سے ضرار نے جواب دیا، دوسری جانب اس سنسان جگہ کھڑا اسکا آدمی بھی مسکرا دیا البتہ وہ ایک دوسرے آدمی کے ساتھ گل خزیں خانم کے پاس ہی کھڑے تھے۔

"ٹھیک ہے تھوڑی دیکھ بھال کر دو، اتنی جلدی اسے موت نہیں آنی چاہیے۔ بہت سے ظلم اور بہت سی ناانصافیوں کے بدکت بدلہ باقی ہیں اور دشمن کی حویلی کا کیا احوال ہے؟"

ضرار نے کن پٹی مسلتے ہوئے کہتے ہی حویلی کا حال دریافت کیا۔

"سرکار! آگ لگ چکی ہے دشمن کے پورے علاقے میں۔ ہر طرف خانوں کے پالتو کتے انکی تلاش میں باولے ہوتے پھر رہے ہیں۔ اور سردار خاقان تو اس درجہ اذیت اور بے بسی میں مبتلا ہے کہ آپکی سوچ ہے"

یہ خبر ضرار کو کچھ سکون دے چکی تھی کیونکہ اصل فساد کی جڑ یہ خاقان تھا جس نے سب کا جینا حرام کر رکھا تھا۔

"بہت خوب، آج رات جب پھر سے یہ عورت اس حویلی سے باہر رہے گی تو آئے گا اصل مزہ۔ اب اسے صبح تک ہوش میں لاو اور موقع ملتے ہی منہ اندھیرے تینوں کو حویلی کے باہر پھینک آنا اور جو پیغام میں نے ساتھ رکھنے کے لیے دیا تھا وہ بھی ساتھ ہی پہنچانا۔ دھیان رکھنا، کسی کو تم لوگوں کی بھنک تک نہ پڑے۔ انھیں لگے کہ ان تینوں کو زمین نے دو راتوں کے لیے نگلا تھا اور اب اگل دیا"

اپنے لہجے میں شدت پسندی وہ تمام تر لحاظ کے بھی دبا نہ سکا اور اسکا آدمی فرمابرداری سے کال کاٹتے ہی گل خزیں خانم کی تیمارداری میں اپنے دوسرے ساتھی کے سنگ مصروف ہونے بڑھا۔

"ناجانے اس عورت نے ہمارے سائیں کے دل پر کیسا گہرا وار کیا کہ وہ اسے اس درجہ بے بس کرنے پر مجبور ہو گئے ورنہ میثم ضرار چوہدری تو اپنے جانی دشمنوں تک کو ہدایت کی دعا دینے والا شخص ہے"

اس عورت کو بے حال دیکھ کر ضرار کا وہ آدمی افسوس سے اس عورت کی بے بسی تکتا ہی رہ گیا، عجیب سا درد تھا جو اس کے لہجے میں گھل آیا۔

وہیں ضرار بھی واپس روم میں آیا تو آئینے میں پوری آدھی شرٹ خون آلود دیکھتے ہی اس نے شرٹ کے بٹنز کھولے اور بہت احتیاط سے زخمی بازو گیلی شرٹ سے نکالی ، جو بھیگ جانے کے باعث چپک نہ پائی اور بآسانی جسم سے علیحدہ ہو گئی۔

اک نظر آئینے میں دیکھتا وہ بازو کے زخم پر بندھی پٹی بھی اتارنے لگا، اسی وقت واش روم کا دروازہ کھول کر اشنال باہر آئی تو اسکی خون آلود شرٹ زمین پر پڑی دیکھ کر اسکی سفید ویسٹ کو بھی سرخ ہوتا دیکھتی اپنے ہاتھ سے ہوتے اس ظلم پر تکلیف سے بھر گئی۔

وہ آہٹ پر پلٹا تو پرپل اور وائیٹ میں نم نم روپ میں، دہکتے حسن کی ملکہ ، بھرائی آنکھوں سے اسکے جان لیوا زخم کو دیکھ کر آدھی ہو رہی تھی جب ضرار نے مسکرا کر محترمہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔

"ت۔۔تم پاس نہ آتے تو مم۔۔میں نہ مارتی ناں۔ د۔۔دیکھو کتنا سارا خون نکل گیا"

بمشکل رونا روک کر بھی وہ آواز کو بھرنے سے روک نہ پائی اور اس سے پہلے وہ یونہی اسے قریب کر لیتا ، دروازے پر دستک بھانپ کر احتیاط رکا۔

اجازت ملنے پر گلالئی اندر آئی جس کے ہاتھ میں ضرار کے لیے بلیک ٹراوز اور وائیٹ شرٹ تھی جبکہ ٹاول اور فسٹ ایڈ باکس بھی جو اسکے زخم کی مرہم پٹی کے لیے تھا۔

"بی بی سرکار نے آپکے لیے یہ کپڑے بجھوائے ہیں ضرار سائیں، اور آپ اپنے یہ گیلے کپڑے اتار کر باہر بجھوا دیجئے گا۔ میں دھو دوں گی اور رات تک سوکھ بھی جائیں گے"

گلالئی خود بھی کپڑے بدل کر واپس اپنے اصلی دل موہ لیتے روپ میں آتی، وہ کپڑے بیڈ کی جانب رکھے مسکرا کر دونوں کو دیکھتی باہر نکل گئی اور جاتے ہوئے دروازہ بھی بند کر گئی۔

"رات تک کسے چاہیں کپڑے، خاصی بھولی ہے آپکی گلالئی۔ میں تو آج یہیں ہوں اپنی بیوی کے ساتھ"

وہ جو اب تک اسکے زخم پر نظریں جمائے، روتو سی شکل لیے کھڑی تھی، یکدم ضرار کے بازو حائل کر کے حصار کر قریب کرنے پر بوکھلائی، نظریں اٹھا کر اسے یوں دیکھا کہ وہ آنکھیں خنجر کی طرح ضرار کے سینے میں جا دھنسیں۔

"تم دوبارہ مجھے بیوی بول کر تک۔۔تکلیف دے رہے ہو، دیکھو پلیز جاو اور بدلو کپڑے۔ مم۔۔میں تمہارے زخم کی ڈریسنگ کر دوں گی"

اپنی ہتھیلی اسکے سینے سے لگا کر فاصلہ بناتی وہ بار بار دو سرکتی ہوئی بے جان ہو رہی تھی اور ضرار نے بہت تحمل سے کب سے اسکا فرار برداشت کر لیا مگر اسکی ناراضگی کا گہرا اور شدید اثر تھا کہ وہ اسے کمر کے گرد بازو سختی سے حائل کیے ناصرف اپنے قریب لایا بلکہ اسکی تمام تر مزاحمت کے وہ مہکتی، بھیگی ہوئی سانسیں اپنے شدت پسند اختیار میں تب تک لیے رکھیں جب تک اس لڑکی کی تمام مزاحمت تھم نہ گئی اور مدھم سانس رک نہ گئی۔

وہ فاصلہ بنا کر اسکے بے جان پڑتے وجود کو سنبھالے دیکھنا چاہتا تھا پر وہ اس اقدام کو برداشت نہ کر پائی تھی اس کے سینے میں چھپ کر اپنا رک جاتا سانس بحال کرنے لگی، وہ یوں تھی جیسے اسکے جسم میں موجود جان اس ظالم نے نکال لی ہو۔

"کردار کا تو میثم بھی بہت مضبوط ہے، بنا کسی حق کے آپکو ہاتھ بھی نہ لگاتا۔ لیکن آپ ہیں کہ مجھے سمجھ ہی نہیں رہیں، میں چینج کر کے آتا ہوں تب تک آپ محسوس کریں کے میری شدت پسند یہ حرکت آپکو سکون دے کر گئی ہے یا تکلیف"

وہ یوں تھی جیسے کسی نشے یا خماری میں مبتلا ہو گئی ہو، اسکا دل سست پڑا وہیں اسکی نیم وا بھیگی آنکھوں میں جھانک کر وہ آنچ دیتے معنی خیز دل دھڑکاتے لہجے میں بولا، اور اسے آزاد کرتا اسکو اپنے قدموں پر کھڑا کرواتا ، کپڑے لیے واش روم میں گھسا، وہ ویسے ہی ہچکیاں بھرتی ہوئی بیڈ کے کنارے آ ٹکی۔

دل تو مان گیا تھا کہ اس شخص کی قربت صرف سکون ہے مگر دماغ تو وحشی ہو گیا تھا، وہ کہہ رہا تھا یہ لمس ناجائز ہے، جلا دو ہر وہ انگ جسے یہ فریبی چھوتا ہے، خاکستر کر دو ہر وہ خدوخال جسے اس ظالم کے مسیحائی ہونٹ تسخیر کرتے ہیں۔

وہ دھندلائی آنکھوں کے سنگ زمین کو گھورتی ، بس آنسو ہی بہاتی رہی۔

کون جان سکتا تھا اس لڑکی کی اذیت جو نیم پاگل تھی، جسکی جان اپنے ہی دل اور دماغ کی جنگ سے جاتی جا رہی تھی۔

"پلیز م۔۔۔جھے معاف کردیں اللہ جی۔۔۔ اسے کہیں م۔۔مجھے ایسے ن۔۔نہ تڑپائے۔ وہ مم۔۔۔مجھے سمجھتا ہی نہیں، اسے پتا ہی نہیں۔ دیکھیں ناں سب نے مجھے اس گندے شہیر کا کیا تھا، مجھے یاد ہے اس نے مجھ پر حاکمیت پائی تھی۔۔۔م۔۔مجھ سے میثم تو لے لیا تھا، پ۔۔پھر یہ کیوں قریب ۔۔آتا ہے۔۔۔۔دیکھیں مم۔۔مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ ایسے ت۔۔تو اشنال مر ج۔۔جائے گی۔۔۔ وہ م۔۔میرا ہے تو ایسا ک ۔کیوں لگتا ہے وہ میرا نہیں۔۔۔ میں تو چھن گئی تھی۔۔۔۔۔اسے سمجھائیں ن۔۔ناں مجھے تکلیف نہ دے۔۔۔۔ "

اس گریہ و زاری نے اس نڈھال پری کا وجود تک لرزا دیا تھا، ناجانے کیسی آزمائش تھی اسکی کے اسے اپنا میثم ، اپنا نہیں لگتا تھا۔

اس طرح تو شاید وہ مزید پاگل ہو جاتی۔

ناجانے کتنی دیر وہ یونہی اللہ سے دردناک ہو کر شکوے کرتی رہی کہ خود ضرار بھی تازہ دم ہوئے، زخم کو قدرے صاف اور خشک کرتا ، ٹاول سے بال رگڑتا اک نظر بیٹھ کر خود ہی سے شکوے کرتی اشنال پر ڈالتا قریب آرکا جو جھٹکے سے سر اٹھاتی خود بھی کھڑی ہو گئی جبکہ اسے وہ سوچنے کے لیے چھوڑ کر گیا تھا اور اسے رونے کے شغل میں مصروف ہو کر آنکھیں سرخ کرنے پر ضرار کی آنکھوں میں صاف برہمی امڈ آئی۔

اس عزیز ، پیاری لڑکی کے چہرے پر ہنوز حزن و ملال کے رنگ تھے۔

"رونے کا نہیں کہا تھا، رو رو کر تھکی نہیں ہیں ابھی تک۔ ہر لمحہ مجھے برا آزما رہی ہیں صنم! آپکے یہ آنسو میرے سینے پر تکلیف دے کر گرتے ہیں۔ اب اگر دوبارہ میں نے آپکی یہ دنیا جہاں کی خوبصورت آنکھیں گیلی دیکھیں تو آپکی سوچ ہے کہ آپکو کتنا قریب کر لوں گا۔ پھر نہ تو آپکی یہ حلال حرام والی رٹ سنوں گا نہ یہ کہ میرا قریب آنا آپکے دماغ کو کتنی اذیت دیتا ہے"

اس کی تمام افسردگی و اداسی کے باوجود وہ اسے خاصے صاف لفظوں میں دھمکی دے رہا تھا اور شاید یہ میثم کی نظروں میں ہمکتی بے خودی تھی کہ وہ فورا سے بیشتر اپنی آنسو آنسو ہوتی آنکھیں معصومیت سے رگڑ گئی ، یعنی اسے میثم کی قربت کا اس درجہ خوف تھا کہ وہ نہ تھمنے والے آنسو بھی حوصلہ کیے روک گئی اور یہ لمحہ بھی میثم کے دل کو دکھ دے گیا، وہ جانتا تھا یہ لڑکی سخت ذہنی اذیت کا شکار ہے اور جان بوجھ کر اسے نہیں دھتکارتی مگر وہ کیا کرتا کہ چاہ کر بھی اشنال کو تڑپتا، روتا اور اپنے لیے اندر ہی اندر ترس کر گھٹتا نہیں دیکھ پا رہا تھا تبھی اسکی تمام میٹنل پیچیدگی کے وہ اسکے قریب آجاتا۔

"ت۔۔تم بیٹھو میں ڈریسنگ کرتی، دیکھو پھر سے خون نکلنے لگے گا"

وہ عزیز خان کے کپڑوں میں جچ رہا تھا کیونکہ وہ اس کو اچھے سے پورے آئے، البتہ ایک بازو وہ پہلے ہی فولڈ کیے ہی باہر نکلا تھا جس پر گولی کا زخم بہت بری طرح خراب دیکھائی دے رہا تھا جبکہ اس لڑکی کا دیا پہلا زخم قدرے مندمل تھا۔

اشنال فورا سے اسے بازو سے ہلکا سا پکڑ کر بیٹھاتی خود فسٹ اینڈ باکس کھول کر اسکے دائیں جانب کھڑی ہوئی جبکہ وہ بس اسے دیکھتا ہی رہا۔

زخم مکمل صاف کیے وہ دوا لگاتی جب تک ڈریسنگ مکمل کرتی فارغ ہوئی، ضرار نے اسکے دور ہونے سے پہلے ہی اسکا مرمریں ہاتھ جکڑے اپنے روبرو کھڑا کیا۔

"اگر میرے زخموں پر مرہم ان ہاتھوں سے لگے تو تاعمر ایسے خوش بخت زخم میرے سر آنکھوں پر۔ کیا کچھ وقت کے لیے آپ یہ بھول سکتی ہیں کہ آپ پر شہیر حاکم ہے؟"

وہ چاہتا تھا کچھ لمحے اشنال کے ساتھ سے حسین بنا کر اپنا بھی بوجھل دل پرسکون کرے اور اس لڑکی کے ساتھ جو گل خزیں خانم نے ظلم کروایا اسکا بھی کچھ مرہم بنے تبھی اس لڑکی کی ذہنی حالت دیکھتا ہوا اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلوں کو لبوں سے لگائے بولا جس نے پھر سے بھری آنکھیں میثم پر ڈالے نفی میں گردن ہلائے اپنے ہاتھ چھڑوانے چاہے۔

"ن۔۔نہیں۔ اللہ سائیں گناہ دیں گے"

وہ جانے کتنی بے بس تھی کہ اسکی آواز، دبائے ہوئے آنسو نگل گئے۔

اور میثم ضرار چوہدری اپنے صنم کو اس درجہ بے بس نہیں دیکھ پا رہا تھا۔

"ٹھیک ہے ایک سوال کا جواب دیں پھر؟"

وہ خود بھی اٹھ کر اسے نرم سا حصارے جیسے کچھ جاننے پر آمادہ تھا ، اشنال نے یوں دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کے کونسا سوال۔

"اگر شہیر آپکو سب کے سامنے طلاق دے، اور میں پھر سے آپ سے نکاح کروں۔ تب آپ ٹھیک ہو جائیں گی؟ مجھے قریب آنے دیں گی؟ میری تڑپ مٹائیں گی؟ میری اور اپنی بے بسی کا توڑ کریں گی؟ بتائیں میری جان"

داود ہاشمی کی باتیں اپنے ذہن میں رکھتا ہوا وہ یہ سوال ضروری جان رہا تھا تاکہ اس لڑکی کے ذہن کی ابتری جانچ سکے اور وہی ہوا جسکی ضرار کو امید تھی، وہ تڑپتی ہوئی اقرار میں ڈوبی آنکھیں اسے بنا کچھ کہے ہی جواب دے چکی تھیں۔

"و۔۔وہ مجھے کیسے چھوڑے گا ، وہ بہت گندا ہے وہ تم سے مجھے چھین ۔ اور اگر اس نے مجھے ہاتھ بھی لگایا ناں تو مم۔۔میں زہر کھا لوں گی۔۔۔۔ بنا کوئی تعلق بنائے کیا وہ مجھے واپس تم تک پہنچا دے گا؟"

اس لڑکی کی تکلیف اور حسرت دونوں نے مل کر اس زخمی شیر کی آنکھیں سرخ کر دیں، وہ جلد از جلد اشنال کو اس اذیت سے نکالنے کا فیصلہ لے چکا تھا۔

"آپ کو میثم کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ، آپ تو صرف میری بہار ہیں۔ آپ صرف میری ہیں صنم۔ تمام فکریں بھول جائیں"

ناجانے کس درد کا بوجھ بھاری تھا کہ وہ اسے آہستگی سے خود میں سموتا اسکے سر پر بوسہ دے گیا مگر وہ اس پر بھی بے چین ہو کر اسکی گرفت جھٹک گئی، مطلب وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسکے پاس آئے۔

"ٹھیک ہے جب تک میری قربت آپکے مطابق  آپکے لیے جائز نہیں ہو جاتی اور میں یہ شہیر نامی کانٹا پوری طرح ہمارے بیچ سے نکال نہیں دیتا تب تک میں حد میں رہوں گا۔ ہم دوست رہیں گے اور آپ خود کو مجھ سے دور نہیں کریں گی۔ نہ روئیں گی، پرامس ود می"

اس لڑکی کی دماغی حالت کا تقاضا تھا کہ وہ اسے اسکی طرح ہی ہینڈل کرتا۔

"تم جھوٹے ہو، دوست ایسا نہیں کرتے جو تم نے ابھی کیا اور پہلے کیا"

وہ گویا اس کا صرف دوست ہونا سرے سے تسلیم ہی نہ کر سکی اور تمام تر اذیت کے میثم کا دل چاہا وہ مسکرا دے۔

"وہ تو آپ نے مجھے ستایا ہی اتنا تھا کہ میں بے بس ہو گیا، آپ سمجھ لیں ہم ذرا ماڈرن والے دوست ہیں۔ یہ سب ہمارے بیچ چلتا ہے"

وہ تمام تر افسردگی کے مسکراتا ہوا شرارت پر اترا تو اشنال گویا اس درجہ کھلی قسم کی دوستی پر سر تا پیر لرزی۔

"ن۔۔نہیں، اللہ سائیں ایسے ناراض ہوتے"

اسکی ہنوز وہی رٹ اس بار میثم کو خفا نہ کر پائی بلکہ وہ اشنال کے کچھ بہلنے پر ہی پرسکون ہوا۔

"میں سفارش کروا کے انکی آپکے لیے ناراضگی ہٹا دوں گا، آگے سے خود پر کنڑول رکھوں گا مگر آپ اپنا وعدہ نبھائیں گی۔ ٹھیک ہے"

اسے اشنال کے ذہنی سکون کی بہت پرواہ تھی تبھی وہ اسے پہلے ذہنی پیچیدگی سے نکالنا چاہتا تھا۔

"ت۔۔تم سچ کہہ رہے ہو؟"

وہ لڑکی اب تک بے اعتبار تھی، اسکی آواز میں خوف تھا، میثم نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر محبت بھری نظروں سے دیکھا۔

"جی میری جان، بالکل سچ"

وہ اسکی ہر طرح پیاری اشنال تھی اور آج میثم کو قرار سا ملا جیسے اللہ نے اسے بہت بڑی آسانی تھما دی ہو۔

"ہمم ٹھیک ہے میں تم پر تھوڑا سا یقین کر لوں گی پر میں تم سے ناراض ہوں تم نے مجھے اس گندے شہیر کے لیے چھوڑ دیا،  تم ویسا پاس مت آنا پلیز۔ "

پھر سے جیسے ان آنکھوں میں ساون لہرایا تو میثم نے اسکی آنکھوں کے تمام آنسو سمیٹ لیے۔

تبھی گلالئی دوبارہ دستک دیے اندر آئی اور دونوں کو خدیجہ خانم کا پیغام دیا کہ کھانا تیار تھا، گلالئی اسے ساتھ لے کر گئی جبکہ کچھ ضروری ابڈیٹس کے لیے ایک کال کر کے آنے کا کہتا میثم بھی ایک ضروری کال کرنے کے بعد کمرے سے باہر نکل گیا۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

دونوں کی مووی تو بیچ میں رہ گئی تھی کیونکہ مالنی اور زونی دونوں ہی اس وقت ذہنی طور پر الجھی تھیں۔ کبھی ایک اٹھ کر اضطراب کے مارے کمرے میں چکر کاٹنے لگتی تو کبھی دوسری۔

رہی سہی کسر شام میں ہوتے نئے تماشے نے پوری کر دی، اس وقت ایچ بی حویلی کی پچھلی طرف بنے گالف گراونڈ میں اپنے پسندیدہ کھیل میں مصروف تھا جب حویلی کے باہر سخت فائرنگ سنائی دی جو اس سمیت مالنی اور زونی کو بھی ہلا گئی۔

ایچ بی کے تمام مخافظ ان باہر سے گولیاں برساتے لوگوں کو بروقت جوابی فائرز مار رہے تھے مگر ایچ بی کا حکم تھا کہ پتا لگوایا جائے کہ معاملہ کیا ہے اور یہ لوگ کیوں اسکے گھر پر بے دریغ فائرنگ کر رہے ہیں۔

تبھی ثالثی کے فرائض نبھانے جب ایچ بی کا ایک آدمی باہر نکلا تو مشارب زمان اور اسکے آدمی اسے پیچھے دھکیل کر دو مکے رسید کیے ڈھیر کرتے بپھری موجیں بنے اندر داخل ہوئے۔

خود مالنی اور زونی سہم کر کھڑکی کے پار چھپیں باہر ہوتا یہ فساد دیکھ رہی تھیں۔

جب تک مشارب زمان اپنے آدمیوں کے ساتھ اندر آیا، خود ایچ بی بھی دس مخافظوں کے بیچ و بیچ داخلی دروازے تک پہنچا اور مشارب زمان کی یہ حرکت اسے شدید ناگوار گزری۔

لیکن کچھ اور بھی تھا ایسا جس پر ایچ بی کا غصہ لمحے میں جھاگ بنا۔

"خیریت ہے ؟ غنڈے موالیوں کی طرح تم نے ایک عزت دار انسان کے گھر داخل ہونے کی جرت کیسے کی؟"

دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے پر گنز تانے پھنکار رہے تھے جبکہ ایچ بی نے خود کو آنکھوں سے ہی بھسم کر ڈالتے مشارب زمان کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر برہمی سے استفسار کیا۔

"عزت دار! لعنت بھیجتا ہوں میں تمہاری ایسی عزت پر۔ جیسی کنزا ویسے تم۔ تمہارے آگے وہ میری بیوی کو بیچنے کی جرت کیسے کر گئی، اسکا حساب تو بعد میں چکتا کروں گا پہلے تم سے نمٹ لوں۔ اگر اپنی زندگی عزیز ہے تو چپ چاپ زونین میرے حوالے کرو۔ ورنہ یہیں تمہارے مخافظوں کے بیچ تمہاری قبر بنا دوں گا"

غصے اور تکلیف نے مشارب کو زخمی شیر کی طرح دھاڑنے پر مجبور کیا تھا، وہ جس طرح انگلی ہوا میں لہرا کر بنا لہجہ ڈگمگائے ایچ بی پر چڑھ دوڑا، خود ایچ بی کو یہ انقلاب دیکھ کر عجیب سی ہنسی ہنسنی پڑی اور وہ مشارب کے عتاب پر مزید نمک چھڑک گئی۔

"اوہ ہو، تو ایک مدت سے باپ دادا کی گود میں بیٹھا اور دادی کا دم ہارتا لاڈلہ جاگ ہی اٹھا، مجھے تمہارا زونین کے لیے یوں بنا خوف ایچ بی کی بھیانک حویلی چلے آنا بہت متاثر کر گیا۔ دیر آئے درست آئے۔ پر زرا تمیز کا دامن تھام کر بات کرو گے تو مجھے مزید اچھا لگے گا"

مشارب کی بدتہذیبی کے برعکس وہ خاصے پرسکون انداز میں مخاطب تھا اور اس وقت مشارب زمان خان کسی طرح کے سکون سے واقف نہ تھا۔

"تمہاری پسند گئی بھاڑ میں ایچ بی یا جو بھی نام ہے تمہارا، زونین کو حوالے کرو۔ تمہارا بیس کڑور میں چکاوں گا ۔ جلدی کرو۔ فورا بلاو باہر انھیں"

وہ گویا جن زادے کی طرح تپا اور غرایا تبھی ایچ بی نے مڑ کر اپنے دو لوگوں کی جانب اشارہ کیا جو کچھ دیر تک ڈری سہمی سی مالنی اور زونی کو لیے باہر آیا جبکہ زونین، مشارب کو یوں خونخوار ہوتا دیکھ کر مزید خوف کھا گئی۔

اس نے مالنی کا ہاتھ سختی سے جکڑ رکھا تھا جبکہ مالنی خاصی ریلکس دیکھائی دی، مشارب کی ہیرو انٹری پر تو اسکے خیالات بڑے نیک سے تھے۔

اس سے پہلے مشارب، زونی کی جانب بڑھتا۔ ایچ بی نے اس جوشیلے خان زادے کا بازو پکڑے اسے روکا تو خود زونی بھی حراساں ہوتی دم سادھ گئی۔

"ایک پیسہ نہیں چاہیے کیونکہ یہ لڑکیاں میری عزت ہیں ۔ اپنی بیوی کو لے کر جا سکتے ہو لیکن ایک گارنٹی دو، اس لڑکی کو خانم حویلی لے کر نہیں جاو گے بس تبھی تمہیں تمہاری آسانی بخشوں گا"

وہ آدمی بہت اثر و رسوخ والا اور مشارب سے ہر درجہ مرتبے ، دولت اور طاقت میں دگنا تھا مگر ناجانے کیوں مشارب کو اس شخص کی اپنی بھی یہی خواہش محسوس ہو رہی تھی جیسے زونی، اس کے ساتھ ہی جائے۔

مشارب نے کینہ توز نظریں ڈالتے ہی اپنا بازو اسکے ہاتھ سے جھٹکے سے چھڑوایا اور مالنی کے پیچھے سہمی دبک کر چھپی زونی کا ہاتھ جکڑے اپنی جانب کیا۔

"یہ تمہارا سر درد نہیں، میں بہتر جانتا ہوں کہ میری بیوی کہاں سیو ہیں۔ چلیں زونین۔۔۔گاڑی میں چل کر ویٹ کریں میرا۔۔۔لے کر جاو انھیں"

اول وہ کدورت بھری خفگی کے سنگ ماسک میں لپٹے ایچ بی کی جانب کہتا بولا پھر ڈری سی زونی کو اپنے دو آدمیوں کے سنگ باہر بجھوایا جو پلٹ کر مالنی کے لیے رک گئی۔

"مالنی"

زونی کی آواز سسک کر نکلی تو ایچ بی نے رخ موڑ کر اس سب سچویش کو کسی مووی کی طرح انجوائے کرتی مالنی کو دیکھا۔

"آپی آپ انجوائے کرنا یار، میں آپکے اور آپکے سیاں جی کے بیچ کباب کی ہڈی نہیں بننا چاہتی۔ مجھے بعد میں لے جائیے گا آپی کے سائیں جی"

خود کو ایچ بی کی بے قرار نظروں میں مرکوز پائے ناجانے کس احساس تلے وہ شیر کی گھپا میں تن تنہا رکنے کا فیصلہ لے بیٹھی جس پر خود زونی روہانسی ہوئی اور جیسے اک رحم طلب نظر اس نے ماسک میں چھپے چہرے سے جھانکتی ان مہربان آنکھوں پر ڈالی جس نے خاموشی سے مالنی کی خفاظت کا یقین سونپا تو زونی اک محبت بھری نگاہ مالنی پر ڈالتی مشارب کے ساتھ ہی باہر نکل گئی جبکہ ان سب کے جاتے ہی جب ایچ بی پلٹا تو خود کو اس آفت کی نظروں میں مرکوز پائے کچھ بیقرار ہوا۔

"کیا فائدہ آپکے پاس سو رکنی محافظوں کی فوج کا، ہماری آپی کے ہیرو خان زادے آئے آٹھ نو بندوں کے ساتھ اور ڈنکے کی چوٹ پر اپنی زونی لے گئے اور آپ منہ کھولے دیکھتے رہ گئے۔ اس دن تو بڑی بھڑکیں مار رہے تھے کہ یہ کر دوں گا وہ کروں گا۔ اب کیا ہوا؟"

بنا اس چیز کا خوف کیے کہ وہ اب اس شخص کے پاس اکیلی ہے، وہ اپنے مزاج کے مطابق ہی اس کی طاقت کا مزاق اڑاتی خشمگیں نظروں سے گھوری۔

"تم نے اپنی بک بک پھر شروع کر لی، اگر میری مرضی شامل نہ ہوتی تو میں دیکھتا وہ کل کا بچہ کیسے میری امانت میں موجود زونی کو ہاتھ بھی لگا پاتا۔ جتنی عقل ہے اتنی ہی دوڑایا کرو، کسی دن استطاعت سے زیادہ دماغ چلا لیا تو میٹل ہو جاو گی"

آج تو ایچ بی بھی لڑاکا عورتوں کی طرح سینگ لڑانے چڑھ دوڑا جبکہ مالنی کا اب واقعی منہ کھل چکا تھا۔

"م۔مطلب آپ خود چاہتے تھے کہ زونی آپی انکے ساتھ جائیں؟"

صدمے سے مالنی کے نرم کھلے ہونٹ سرسرائے تو ایچ بی نے بیچ کا فاصلہ کم کیے اسکے بہکاتے نقوش سے ہر مکنہ نظر بچاتے اسکی متجسس آنکھوں میں دیکھا۔

"بالکل، کیونکہ مشارب زمان خان جو مدت سے غفلت میں پڑا تھا، آج جاگ گیا ہے جو میرے لیے تسلی کا سبب بنا۔ دو محبت کرنے والوں کو الگ کرنا مجھے زیب نہیں دیتا، سمجھی یا سر سے گزر گیا سب"

وہ جب قریب آکر یہ سب واضح کر رہا تھا تو مالنی اسکی آنکھوں میں بے باکی سے جھانک کر اسے کمزور کر رہی تھی تبھی آخری جملہ اس نے خود کو سنبھالنے کے لیے جان بوجھ کر خفگی سے کہا۔

"اور مما؟ وہ تو میری اور آپی کی جان لینے کے ساتھ آپکا بھی مڈر کر دیں گی۔ اگر آپی کے سائیں مجھے لینے نہ آئے تو مجھے تو واپس کوٹھے پر جانا پڑے گا، میں اکیلی جا کر پھر مما کو کیا جواب دوں گی ماسک والے سرپرست۔ آپ نے تو مالنی کو مشکل میں پھنسا دیا۔ اچھا بھلا میرا یہاں دل لگ گیا تھا اب واپس جانا پڑے گا"

اس بار وہ سچ میں آنسو آنسو ہوتی آنکھوں سے منمائی کہ اک لمحہ اسکی واپسی کا خیال ہی ایچ بی کا دل دہلا گیا۔

"جب تک کنزا اس سب سے بے خبر ہے تم یہاں رہ سکتی ہو، بعد میں بھی اگر تمہاری واپس کے لیے مرضی شامل نہ ہوئی تو کوئی تمہیں کوٹھے پر نہیں لے جا سکتا"

اپنے لہجے کو حد درجہ نرم رکھتا وہ اس سے پہلے یہ کہہ کر پلٹ جاتا، مالنی نے حیرت سے اچھل کر اس کا ہاتھ جکڑے جس طرز سے جھٹکا دیے سامنے کیا، ایک لمحے تو ایچ بی کا دماغ گھوما ، دل یہی کیا کے دو لگائے اس بے وقوف کے کان کے نیچے۔

اچھے بھلے بندے کا سارا نظام ہلا دینے کی طاقت اس بانکی میں آئی کہاں سے تھی، اصل تجسس ایچ بی کو یہ درپیش تھا۔

"ک۔۔کیا سچی؟ آپ مجھے اپنے اس گھر میں ایویں ہی رکھ لیں گے۔ مطلب میں تو زونی آپی کے ساتھ آئی تھی، دیکھیں ماسکو! پلیز مجھے ہارٹ اٹیک مت دیں۔ سچی بول رہے ہیں یا دل رکھ رہے ہیں"

وہ اسکا ہاتھ جکڑتی، پھول جاتے سانس سے اسے دیکھتی بولتی ہی چلی گئی اور وہ گہرا سانس بھرتا اس کی بے قراری ہی دیکھتا رہ گیا۔

"دل رکھنے کی عادت نہیں ہے مجھے مالنی، ایک تمہارے یہاں رہنے سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں سو ہاتھ چھوڑو اور اندر جاو"

بادل یکدم ہلکی ہلکی کن من برسانے لگے تھے اور بارش کی بوندیں کچھ مالنی کے چہرے اور کچھ ایچ بی کی شرٹ پر آویزاں ہو کر اپنے عنقریب جل تھل ہونے کا پیام دے رہی تھیں تبھی وہ اسے نرمی سے بہلاتا اندر جانے کی تاکید کی۔

مگر وہ تو واقعی ایموشنل سی ہو گئی تھی۔

"اکیلی رہ کر بور ہو جاوں گی، کیا آپکو پہلے کی طرح تنگ کر سکتی ہوں جب تک یہاں ہوں؟"

ڈبڈبائی آنکھوں کو شرارت سمیت پھیلاتی وہ جس طرح بولی، ناچاہتے ہوئے بھی ایچ بی کے خدوخال مسکراہٹ میں ڈھلے، یہ الگ بات کہ اس ساحر کی مسکراہٹ ماسک کے باعث مالنی کی جان لینے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

"پتا نہیں کیا چیز ہو تم، کر لینا اب گم کرو شکل"

خود بھی جیسے اس بیوقوف مالنی کے آگے وہ اپنے سخت خول سے نکلا تو محترمہ مسکرا کر ایچ بی کا دل جکڑتی ہوئیں شرافت کا مظاہرہ کیے اسکا ہاتھ چھوڑتی اندر کی جانب بھاگی۔

عجیب سا حصار تھا جس میں وہ لمحہ بہ لمحہ، تمام تر دل کی مزاحمت کے بھی مالنی کے سحر میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا پھر جب مدتوں بعد دل کا موسم اچھا ہوا تو یہ برستی ہوئی بوندیں بھی اسکے جلتے دل کو راحت بخشنے لگیں۔

وہیں مشارب کے اس درجہ جنونی رویے پر زونی بہت سہم گئی تھی، مشارب نے اپنے تمام لوگوں کو واپس حویلی کی جانب بھجوائے خود گاڑی ولی زمان خان کے ذاتی گھر کی جانب بگھائی جو ڈیفینس میں موجود تھا اور ولی کم ہی وہاں جاتا تھا، اسکا فرض اور ذمہ داریاں ہی اتنی سنگین تھیں کہ اسے آرام و سکون کے لیے نیند بھی اکثر و بیشتر اپنے تھانے میں ہی پوری کرنے کا موقع ملتا۔

سارا رستہ وہ مشارب کی چپ سے خوفزدہ ہی ہوتی رہی، ایسا لگ رہا تھا وہ اسے ہی اگلے پل ڈانٹ دے گا، لیکن تکلیف زیادہ تھی کہ مشکل کی گھڑی جس ماں کا ساتھ چنا اس نے بھی پیسے کے لیے بیچ دیا، لیکن اس سب کے باوجود کنزا نے جس شخص کے آگے اسے بیچا وہ زونی کو اپنا سچا محافظ لگا، اب تک ورنہ وہ کیسے مالنی کو اس کی خفاظت میں تنہا چھوڑ آتی۔

لیکن اس سب کے بعد بھی اسے جو چیز دہلا رہی تھی وہ مشارب کی خاموشی تھی۔

"حویلی نہیں جائیں گے ہم "

بہت ہمت کیے وہ بول سکی تھی، اوپر سے باہر شام ہوتے ہی مزید خوفزدہ موسم پھیل گیا تھا۔

"آپکو حویلی لے کر بھی نہیں جا رہا لیڈی، ریلکس رہیں"

نرمی سے دھیان ڈرائیونگ پر ہی دیے وہ زونی کی فکر ہٹاتا ازلی جانیوا انداز میں بولا تو اسکے پھڑپھڑاتے دل کو کچھ ڈھارس ملی۔

"آپ ناراض ہیں ہم سے؟"

کچھ دیر بعد وہ پھر سے اپنے ہاتھ ایک دوسرے میں دے کر مڑورتی، ان پر تشدد کررتی مدھم سی بولی تو مشارب نے ایک ہاتھ اسکی جانب بڑھائے اپنی چوڑی ہتھیلی پھیلائی تو زونی نے بلاجھجک سکون سا محسوس کرتے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا جسے وہ فورا جکڑ گیا، پھر اپنے ہونٹوں سے لگائے چوما، گدگداتا لمس زونی کے افسردہ دل کی بہار لوٹا گیا۔

"آپ سے ناراض ہو کر مرنا تھوڑی ہے لیڈی، لیکن ڈرا ہوا ضرور ہوں۔ جب یہ خبر ملی ناں کہ اس عورت نے اپنی اوقات دیکھائی ہے تو آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کیا حالت ہو گئی تھی۔ اب آپکو خود سے دور نہیں ہونے دوں گا، جہاں رہوں گا آپ میری بیوی کی حیثیت سے میرے ساتھ رہیں گی"

وہ سرسری سہی پر بھرپور نگاہ ڈال کر گویا ہوا اور اسکے الفاظ کی شدت پر زونی کا دل کانپ اٹھا، ہر وقت ساتھ رہنے کے لیے وہ کہاں تیار تھی، وہ تو اب تک پہلے لمس کے خمار سے بھی نہیں نکل پائی تھی اور یہ شخص مزید قریب آنے کی تیاریاں کیے بیٹھا تھا۔

"ولی لالہ کا گھر ہے یہاں، ہم کچھ دن وہیں رہیں گے۔ پھر حویلی کا ماحول آپکے لیے سازگار کرتے ہی میں آپکو وہاں لے کر جاوں گا جو آپکی اصل جگہ ہے"

اس لڑکی کو خاموش بھانپے وہ مزید بولا، ولی لالہ کی موجودگی کا جان کر اسکا سست پڑتا دل کچھ ہمت جتا پایا۔

"ولئ لالہ ہمارے ساتھ رہیں گے؟ پھر تو مالنی کو بھی لے آئیے گا پلیز۔ ہمیں انکی بہت فکر رہے گی"

تسلی ملی تو وہ بمشکل بولی مگر مشارب کے چہرے پر پھیلی معنی خیز مسکراہٹ زونی کی سانس روکنے کو کافی تھی۔

"ولی لالہ نہیں ہوں گے، اور واپس حویلی جانے سے پہلے آپکی مالنی آپکو دے کر جاوں گا اس لیے پریشان مت ہوں"

دل دہلانے اور حوصلہ دینے کا کام ایک ساتھ کرتا وہ خاصی ہوشیاری سے اپنے الفاظ کے روح دہلاتے لمس سے زونی کے دل کے تار ہلا چکا تھا جو اسکے بعد گھبرا کر چہرہ موڑ لیتی بظاہر باہر کے مناظر دیکھنے لگی پر قربت کے خوف کے باعث اس لڑکی کے نازک وجود میں اٹھتی لرزش، مشارب زمان خان کی زیرک نگاہوں سے ہرگز اوجھل نہ تھی۔

باقی کا سفر خوبصورت سی معنی خیز خاموشی کی نظر ہوا اور موسم کے دلفریب ہوائی ٹھنڈے جھونکے، دلوں کو گدگداتے رہے۔

مشارب کو دادی سائیں کی بھی بہت پریشانی تھی مگر ولی نے اسکی ذمہ داری خود پر لیے اسے فی الحال کافی پرسکون کر دیا تھا جو ضروری بھی تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

تو یہ تمام دھندے چھوڑ کر ایک طرف کیوں نہیں ہو جاتا شہیر، کبھی اچھا بن جاتا ہے کبھی برا"

یہ ایک خستہ حال آٹے اور چینی کے گودام کا منظر تھا جس کے ایک بوسیدہ سے کمرے میں سنوکر ٹیبل کے گرد شہیر اور اسکا اسی جیسا بکھرے عجیب خلیے والا دوست گیم لگا رہے تھے، اس لڑکے کے استفسار پر شہیر مجتبی کی آنکھوں میں عجیب سی سفاکانہ اذیت امڈی۔

"وقت کا تقاضا میرے یار، اچھا میں ہوں نہیں اور برا رہتے رہتے تھک جاتا ہوں"

سرخ گیند کو سفید سے بلکل پرفیکٹ نشانہ باندھتا وہ خاصے لاپرواہ انداز سے بولا تھا مگر تبھی اسکا کچھ فاصلے پر رکھے لکڑی کے میز پر پڑا فون بجا تو وہ دوسرے لڑکے کو واپس آنے کا اشارہ کرتا فون کی جانب بڑھا جہاں عریشہ یوسف زئی کا نام پوری آب و تاب سے جگمگا رہا تھا۔

عجیب سا سرور اسکی درد کرتی ذات میں اترا اور اس وحشی کی مسکراہٹ دیکھ کر اسکا یار بھی سمجھ گیا کہ فون اسی خاص لڑکی کا ہے۔

شہیر اس کمرے سے نکلتا باہر گودام کی طرف آیا اور آہستگی سے کرسی گھسیٹے بیٹھا، درد اسکے پورے وجود کو بری طرح جکڑے ہوئے تھا۔

"بڑی بات ہے، بڑے بڑے لوگ کال کر رہے ہیں"

وہ جو کچھ دیر پہلے گھر لوٹی، فریش ہونے سے پہلے اس نے اس لفنڈر کی خبر لینی چاہی جو صبح سے سینہ سلوائے غائب تھا۔

"کہاں ہو شہیر؟"

کال لگتے ہی اس لڑکی نے بے قراری سے پوچھا۔

"اتنی فکر، خیریت ہے۔ مس کر رہی ہو اپنے پیارے شوہر کو؟"

عجیب سے کرب دباتا وہ یونہی پوچھ بیٹھا جبکہ وہ سلگ اٹھی۔

"بکواس نہیں، مجھے تمہارے زخم کی فکر ہو رہی ہے۔ ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے۔ ہو کہاں، تمہیں آرام کی ضرورت ہے"

وہ تمام تر برہمی کے بھی فطری فکر ہٹا نہ سکی اور شہیر مجتبی ایسی خوش فہمیوں پر خوش ہونا چاہتا تھا۔

"ٹھیک ہوں زخم سمیت، تم بتاو دن کیسا رہا؟"

مختصر جواب اور سوال کرتا وہ وریشہ کی الجھن بڑھا گیا تھا، کیا بتاتی کے سارا دن کرب کی نظر ہوا۔

"بس ٹھیک تھا۔ تم آو گے آج۔۔۔ ؟"

بیزاری لیے وہ بھی جیسے جان سے اتارتی بولی مگر اس بار اس سوال نے شہیر کو عجیب سی راحت دی۔

"بول دو مس کر رہی ہو تو آجاوں گا"

ہمیشہ کی طرح الٹا جواب جو وریشہ کو مزید غصہ دلا چکا تھا۔

"مس کرتی ہے تمہیں میری جوتی، میں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ پتا نہیں اس شہر میں تمہارے پاس کوئی رہنے کا ٹھکانہ ہے یا نہیں اور میں گھر کا دروازہ لاک کر کے سونے لگی ہوں، مروتا پوچھا بس"

صفائی وہ خود کو دے رہی تھی کیونکہ شہیر کو اسکا جواب مل چکا تھا۔

"مروتا پوچھنے کا شکریہ لیکن میں نہیں آوں گا، اس جہاں کے مالک کی زمین مجھ جیسے وحشیوں اور منحوسوں کے لیے بھی بہت وسیع ہے"

ناچاہتے ہوئے بھی وہ موجودہ دردناک موڈ کا اثر اپنے سخت ہوتے لہجے میں لانے سے روک نہ سکا اور وریشہ اسکے الفاظ میں چھپا درد محسوس کرتی کال تو بند کر گئی مگر اسکا دھیان اسی کمبخت کی طرف لگا رہا۔

جبکہ شہیر کو کال آف کر کے فون میز پر رکھتا دیکھ کر اسکا دوست کاشف ، سنوکر کا ڈنڈا اٹھائے وہیں لپک آیا۔

"میری مان تو وریشہ یوسف زئی کو اپنی ہدایت بنا لے، جیک پاٹ لگا ہے تیرا۔ ماں باپ کو بھی کوئی سکھ پہنچا دے، ان لفڑوں میں تیری جان چلی گئی تو تیرے ماں باپ دکھ برداشت نہیں کر سکیں گے"

کاشف کی سرزنش نرم تھی پر ناجانے کیوں شہیر ٹھیک نہیں تھا۔

"یار وہ لڑکی میری عافیت نہیں، میری عبرت بن کر آئی ہے۔ میرا دل مجھے اچھے احساسات نہیں پہنچا رہا۔ اس روز ضرار کی تمام نفرت ایک طرف مگر وہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی کہ کم ازکم میں نے جو ہیر اور اپنے بھائی کی زندگی اس حسد کے پیچھے ضائع کر دی، مخص ضرار کو نیچا دیکھانے کے لیے۔

یہ دو گناہ اگر میں دوبارہ پیدا ہو جاوں تب بھی نہیں دھلیں گے کہ میں ان دونوں کی موت کا سبب ہوں اور تیسرا گناہ جو میں اشنال کو برباد کر کے میثم کی اذیت بنانے کا کرنے والا تھا اس سے مجھے وریشہ نے روک لیا۔ لیکن میں نے اسکے اپنی زندگی میں آتے ہی خود کو عجیب سا بے قرار محسوس کیا ہے، ایسا لگتا ہے سب کچھ اس لڑکی نے ہوا کے جھونکے کی طرح ہلا دیا ہو"

شہیر کی اذیت اس وقت کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا ، خود کاشف کے چہرے پر عجیب سی پریشانی عودی۔

"تو نے بہت سے نیک کام بھی تو کیے ہوں گے، اللہ خیر کریں گے۔ اتنا سینٹی نہ ہو۔ ایک تو شادی کرتے ہی بیوی سے سیدھا سینہ پھڑوا بیٹھا ہے اوپر سے سرمدے کی دھلائی بھی کر آیا۔ تیری مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی"

کاشف اسکا دھیان بٹانے کو لاپرواہی اور ہلکے پھلکے لہجے میں گویا ہوا پر شہیر دلخراش سا مسکرا دیا۔

"مخص ایک نازلی کے سر پر ہاتھ رکھ لینے سے میرے ہاتھوں ہوئے دو قتل بخشے نہیں جا سکتے کاشف، پھر اب جب ضرار کا سوچ رہا ہوں تو شاید میں نے سب سے زیادہ تو اسکا نقصان کیا۔ کسی کا اعتبار توڑنا ، کسی کا بھروسہ ریزہ کرنا تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔"

اس بار کاشف نے اس شہیر کے یہ بدلے طور دیکھ کر ایسی عجیب سی نظروں سے دیکھا جیسے واقعی اسکا دماغ پھر گیا ہو۔

"مجھے تو تیری باتیں سن کر خوف آرہا ہے شہیرے، لگتا ہے وہ لڑکی واقعی تیری عبرت بن کر آئی ہے"

کاشف ڈرا اور سہما ہوا تھا جبکہ شہیر ہر احساس سے عاری۔

"دیکھا! ایگری کر رہا ہے تو بھی۔ اسکی آنکھوں میں دیکھا ہے میں نے ، وہاں اک آتش فشاں ہے۔ وہ مجھے جلا کر راکھ کر دے گی"

شہیر کے جملے خوف ہراس پھیلا رہے تھے اور کاشف نے سنوکر کی سٹیک وہیں رکھتے ہی شہیر کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا۔

"لگتا ہے زخم تیرے دماغ پر لگ گیا ہے، عجیب بہکی باتیں کر رہا ہے۔ اٹھ شاباش شیدے کے ڈھابے سے طاقت ور سی یخنی اور کھانا کھلاتا ہوں سارا زخم چھٹکیوں میں بھر جائے گا، پھر میرے ساتھ ہی گھر چل، آج پرانے یار سارے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ خوب رونق میلا کریں گے ۔ چل شاباش۔ "

کاشف اسکو اس حالت میں اکیلا چھوڑنے کا اب تو بالکل رسک نہیں لے سکتا تھا تبھی زبردستی ساتھ لے کر گیا اور شہیر تمام تر بیزاری کے بھی اسکے ساتھ جانے پر رضا مند ہو گیا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ضرور تو نے ہی کوئی بے غیرتی کی ہوگی تبھی پٹا ہے، تیری حرکتیں ہی مکے کھانے والی ہیں پر مجال ہے جو تجھے پڑتے لتر زرا بھی تیرے اندر کوئی شرم و حیا بھر سکیں"

سرمد کی بے حال طبعیت ایک طرف اور وہ جو کب سے شہیر مجتبی کو خرافات بکتا نیم جان آہیں بھر رہا تھا وہ ایک طرف، کنزا جانتی تھی کہ ضرور اس سرمد نے ہی کچھ کیا ہوگا ورنہ بلاوجہ شہیر اسکی دھلائی ہر گز نہیں کر سکتا تھا۔

نازلی دم سادھے دروازے میں کھڑی تھی اور کنزا مما کو اور بستر پر مردے کی طرح پڑے سرمد چوہدری کو دیکھ رہی تھی۔

"نازلی نے شکائیت کی، بس اتنا ہی تو کہا تھا کہ میرے ساتھ رات گزار اور اس نے بتا دیا اس کتے کو۔ ایک بار مجھے ٹھیک ہونے دیں، قسم کھاتا ہوں کہ اس شہیر کا قصہ ہی ختم کر دوں گا۔ آیا بڑا نازلی کا دوسرا ابا"

گویا سرمد کے منہ سے یہ سب سن کر کنزا کا خون کھول گیا، نظر پھیرے وہ اک نظر سہمی سی نازلی پر ڈالے پھر سے سرمد پر نظریں مرکوز کر چکی تھی۔

"بالکل ٹھیک کیا ہے اس نے، وہ نازلی کے ہر ماہ کئی ہزار دیتا ہے سمجھا۔ دوبارہ اگر تو نے یہ زلیل حرکت کی تو میں خود شہیر پر تیرا خون حلال کر دوں گی۔ مجھے مجبور مت کر سرمد کے تیرا اس حویلی داخلہ ممنوع کر دوں"

سخت اشتعال دباتی کنزا بنا سرمد کی تکلیف کی پرواہ کیے بنا باہر نکلی تو نازلی کو اپنے ساتھ کمرے میں آنے کی تاکید کی جو مما کے پیچھے ہی انکے کمرے کی جانب ڈری ڈری لپکی۔

"دیکھ نازلی بچے! اگر وہ محبت وحبت کرتا ہے تو اسے کہہ بیاہ کر تجھے لے جائے اور اس گند سے نکال لے۔ سرمد جیسوں سے تیری حفاظت وہ محض تجھے اپنے لیے علیحدہ کر کے رکھ لینے سے نہیں کر سکتا۔ میں جانتی ہوں تو دائیاں بازو ہے پر تجھے اور مالنی کو اپنی بیٹیاں سمجھ کر پالا ہے اور میری خواہش ہے تم دونوں کی زندگی کنو بائی کی طرح زلت نہ بنے۔ شہیر قدرے اچھا انسان ہے، عورت کی عزت کرنا جانتا ہے۔  میرے خیال میں اسے اب تیرے بارے سوچنا چاہیے، ایسے تو یہ دو آپس میں لڑتے لڑتے مر کھپ جائیں گے۔ جیسا بھی ہے، سرمد اولاد ہے میری۔ اسے تکلیف ہو تو فطری آنچ میرے کلیجے تک پہنچتی ہے"

کنزا کا لہجہ تاسف اور دکھ سے بھرا تو نازلی بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی مما کے قدموں میں آکر بیٹھی، اور اس دکھی سی عورت کا ہاتھ جکڑ گئی۔

"مما وہ مجھ سے پیار نہیں کرتے نہ میرے دل میں انکے لیے ایسے جذبات ہیں، وہ مجھے عزت سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہمارے بیچ کی عزت کسی لین دین جیسے رشتے سے مجروع ہو جائے گی، وہ تو اس انتظار میں ہیں کہ کب نازلی کی زندگی میں ایک پرخلوص مرد آئے اور وہ اسکو مجھے سونپ کر بری الزمہ ہو کر اپنا ہاتھ مجھ سے اٹھا لیں۔ "

نازلی کا لہجہ درد بھرا تھا تو کنزا بھی کئی لمحے بس نازلی کو ہی دیکھتی رہ گئی، بھلا اس گند میں پرخلوص مرد کہاں آتے تھے، یہاں تو صرف ہوس کے پجاریوں کی آمد متوقع تھی۔

"میرے بچے! یہ جسم فروشی کا اڈا ہے، یہاں خلوص صرف مزاحیہ شے سمجھی جاتی ہے۔ کوئی پرخلوص نہیں آتا، اسی انتظار میں تجھ جیسی پاکیزہ لڑکیاں بھی بازار نجس کے سیاہ سائے میں لپٹ کر رہ جاتی ہیں"

کنزا کے الفاظ میں بہت تکلیف چھپی تھی اور خود نازلی کا گلاب چہرہ مرجھا سا گیا۔

"پر آپکو تو پرخلوص شخص ملا تھا، پھر آپ نے اس گندگی سے نکلنے کے بجائے یہیں رہنے کو کیوں فوقیت دی؟"

یہ سوال کنزا کو کاٹ دیتا تھا، جس طرح آج اسکی آنکھوں میں سرخائی گھل آئی۔

"تم سب کے لیے، میں نے خود زلت چنی تاکہ تم سبکو ان بدنام گلیوں میں ہوتے ظلم سے بچا سکوں۔ ان درندوں سے خفاظت کر سکوں جو ہوس تو بجھاتے تھے پر تم جیسوں کو دوبارہ کسی اور کے لائق نہیں چھوڑتے تھے۔ میرے یہاں آنے سے پہلے ہر دوسرے دن کسی طوائف کا جنازہ اٹھتا تھا اور میرے آنے کے بعد سے اب تک ناجانے ایسی کئی وحشیوں کے ارمانوں کا جنازہ ہر روز نکلتا ہے۔ پھر طلال نے مجھ سے زبردستی نکاح کیا، اول دن سے ہی مجھے زونی کے نام سے بلیک میل کیا۔ میں اس پرخلوص کا ہاتھ کیسے تھام لیتی کہ میرے پاس اسکے خلوص کے بدلے اجڑا ہوا جسم اور پھٹا ہوا دل ہی باقی تھا"

کنزا کی آنکھوں میں لہو اتر آیا تو وہیں نازلی کی خوبصورت آنکھیں بھی بھیگ گئیں، وہ وہیں کنزا کی گود میں سر رکھ گئی۔

"لیکن وہ سب لوگ آپکو مجرم سمجھتے ہیں، حتی کہ وہ پرخلوص شخص بھی جس نے سچ میں آپ سے محبت کی، وہ آپکے لیے جلتی آگ میں کود کر بھی بچ نکلا۔ جس روح نے آخری حد تک عشق کی آتش اپنے اندر اتار لی ہو اسے یہ ظاہری آگ کہاں جلا سکتی ہے۔ کیا پتا اگر وہ سب لوگ اپکے اندر کی اچھائی جان لیں تو آپکو معاف کر دیں"

جس زندگی کو کنزا نے جیا تھا وہ ایسی خوش فہمیاں پالنے کے موقعے ہی نہیں دیتی تھی تبھی تو نازلی کی ان معصوم باتوں پر کنزا نے خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر سمجھا کیونکہ وہ کوئی جواب نہیں رکھتی تھی، گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی تاعمر بھاگتی ہی رہتی ہے اور کنزا آج بھی بھاگ رہی تھی، خود سے، اپنے ہاتھوں سرزد ہوئے گناہوں کے بدلے سے۔۔۔۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کھانا دونوں نے آتے وقت ریسٹورنٹ سے کھایا جبکہ مشارب اسکے لیے چھ سات اپنی پسند کے ڈریسیز اور کافی ضرورت کی اشیاء بھی خرید چکا تھا اور زونی کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی اس نے اسے ہر وہ چیز دلائی جسکی اسکے مطابق اسکی عزیز بیوی کو ضرورت تھی۔

اسکے بعد وہ سیدھا گھر ہی آئے۔

ولی زمان خان کا چوکیدار جسے پہلے ہی ولی نے ان دو کی آمد کی اطلاع دے دی تھی، گاڑی کا ہارن سنتے ہی دروازہ کھولنے لپکا تو ساتھ ہی مشارب کی گاڑی گھر کے پورچ کی جانب داخل ہوئی۔

مشارب کے باہر نکلتے ہی چوکیدار مودب ہو کر سلام کرتا واپس اپنی نشت کی جانب چلا گیا جبکہ موسم کی شر انگیزیوں پر اک سرسری سی نگاہ ڈالتا مشارب، مڑ کر زونی کی جانب کا دروازہ کھولے اسکے باہر آتے ہی راستہ دیتا ایک طرف ہوا۔

"یہ چابیاں ہیں، آپ ان لاک کریں گھر۔ تب تک میں لالہ کی کال سن کر آتا ہوں، باقی سامان بھی لے کر آتا ہوں"

اپنی جیکٹ کی جیب سے کیز پیڈ نکال کر گھبرائی سی زونی کی جانب بڑھاتا خود وہ بجتے فون کی جانب متوجہ ہوا، زونی نے اس سے چابی اور اک نظر لان کی جانب جاتے مشارب پر ڈالتی اندر بڑھی۔

مرکزی دروازہ ان لاک کیے زونی اندر  داخل ہوئی،

ہلکی ہلکی روشیاں پہلے سے پورے گھر میں ملگجی سی کیفیت برپا کیے ہوئے تھیں، مگر زونی نے ڈور بند کرتے ہی ہلکی روشنی میں باآسانی مین سوئچ تک پہنچ کر لائیٹ آن کی جس سے پورا لاونچ ہلکی گلابی اور نیلی آنکھوں کو سکون بخشتی روشنی سے جگمگا اٹھا۔

وہ بے سر و ساماں سی یہاں آکر بوکھلائی محسوس ہوئی، وہ اس خوبصورت سے گھر کو دیکھ رہی تھی جو ولی نے بہت نفیس انداز میں بنوایا اور سجایا تھا۔

گھر میں ہر طرف صفائی تھی اور ہر چیز کا اپنی مقررہ جگہ پر ہونا گویا ولی زمان خان کی نفاست پسند شخصیت کا عکاس معلوم ہو رہا تھا۔

وہیں سٹنگ ایریا کی جانب نسب بڑی بڑی کھڑکیاں ، مدھم روشنی میں پورے لان کا منظر دیکھا رہی تھیں، لاونچ میں سیاہ دمکتا فرنیچر جبکہ سفید دیواروں پر خوبصورت وال کرافٹ، وہیں نیچے سامنے دیکھائی دیتے دو بیڈ رومز اور اوپن کچن تھا جبکہ سڑھیاں بتا رہی تھیں کہ گھر کا آدھا حصہ اوپر موجود ہے،

وہ یونہی دم سادھ کر کھڑی گھر ہی دیکھتی رہی کہ تمام شاپنگ بیگز کے سنگ وہ اندر آیا اور اک چرائی سی نگاہ باہر لان میں گرتی بوندوں کو تکتی زونی پر ڈالی جو اس کے آنے پر اپنی جگہ سے ہلی تک نہ تھی، مشارب نے فون پر آتے کچھ پیغامات دیکھ کر فون واپس جینز کی جیب میں رکھا اور عقب کی جانب بڑھتا اس بے دھیانی میں گم صم ہو کر کھڑی زونی کے گرد حصار بناتا اسے آہستگی کے سنگ اپنے وجود کی پناہوں میں حصار گیا جو سر تا پا دھڑک اٹھتی اسکے اس درجہ بے باکی سے نزدیک کرنے پر کچھ بے قرار ہوئی، جسم سے سرد سی لہریں نکلیں جیسے اس شخص کی قربت آنچ دیتا شعلہ ہو اور وہ موم جو پگھل جانے والی ہو۔

"آپ ٹھیک ہیں لیڈی؟ "

اپنے سحر میں گرفتار کر کے اس قدر قریب کرتا وہ ظالم بے قراری کی وجہ پوچھتا ہوا زونی کا دل دھڑکا گیا، جو ناجانے کس طرح خود کو اس شخص کی خوشبو سے مدہوش ہونے سے روکے ہوئے تھی۔

"ہ۔۔ہم ٹھیک ہیں، لیکن آپ ہمیں اتنی جلدی میں لائے کہ ہم اپنا بیگ تک نہیں لا پائے"

وہ خود کو سنبھالتی جیسے اپنی بے سرو سامانی پر فکر سے آدھی ہوئی تو مشارب اسکی اس درجہ حساسیت پر مسکرا دیا۔

"بیگ کیا کرنا تھا آپ نے لیڈی، جس چیز کی ضرورت تھی آئی تھنک سب دلا دی ہیں میں نے پھر بھی کچھ چاہیے تو بتا دیجئے گا مل جائے گی، اس کے علاوہ اور کوئی پریشانی؟"

وہ اسکی گردن کی جانب چہرہ کیے خود زونی کو اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کر گیا جو مشارب کی بندھی بازووں میں شامل ہوتی شدت پر رحم طلب سی ہوئے سر پھیر کر اسے دیکھنے لگی۔

اس لڑکی کی نیلی آنکھیں ہمیشہ مشارب کو گرویدہ کرتی تھیں پر آج تو بس اپنی جانب مائل کر رہی تھیں، حیا اور ڈر کی ملی جلی کیفیت کا اثر تھا کہ زونی نے فورا سے بیشتر نفی میں گردن ہلاتے ہی چہرہ واپس سیدھا کیا البتہ اسکی دھڑکن بڑھ رہی تھی یہ مشارب کو اندازہ تھا۔

"ہمیں لگتا ہے ہم نے آپکو اتنی جلدی معاف کر کے اپنا ہی نقصان کر لیا"

وہ جو اسکو خود میں بسائے بے خود اور مدہوش سا ہر فکر بھلانے کے ارادوں میں تھا، زونی کی مدھم سی آواز اور مخملی لہجے میں کی اس بات پر نہ صرف ہوش میں آیا بلکہ اس لڑکی کی اس بات کے پیچھے موجود وجہ نے ان خوبصورت ہری آنکھوں کو جگمگا دیا۔

"آہاں، آپکو میرا قریب آنا نقصان لگ رہا ہے۔ وضاحت کریں تاکہ آپکے نقصان کی بھرپائی کی جا سکے"

اپنی ناک شرارت کے سنگ وہ زونی کی پہلے سے دہکتی گال سے رب کرتا مزید سنسناہٹ پھیلا گیا اور وہ خود ہی پریشان تھی کہ کہیں دل کا شور ، دل کی خوشی کا راز ہی نہ کھول بیٹھے۔

"مما کو پتا چلا تو وہ ہمیں مار ڈالیں گی، وہ آپکو بھی نقصان دیں گی۔ ہم پھر آپ سے بچھڑ جائیں گے۔ ہم سے آپکا نام سب واپس۔۔۔۔۔"

ناجانے کیوں پر ڈر نے اس خوبصورت لمحے کو گرہن لگایا تو وہ خوفزدہ ہوتی اس سے پہلے آخری جملہ مکمل کرتی، مشارب نے اسے اسی حصار میں مقید رکھتے ہی اپنے روبرو سامنے کیا اور ان نرم ہونٹوں پر سجے عنابی رنگ کو اپنی پر زور بے خودی سے مدھم کرتے ہی اپنے گلے لگا لیا اور وہ سچ میں اس جان لیوا شخص کے بے رحم ستم پر اسکے وجود میں سمٹتی گہرے گہرے سانس بھرتی رہ گئی۔

"جب آپ میرے پاس ہوں تو کسی اور کا ذکر یا کسی فضول سے ڈر کو اپنے قریب بھی مت آنے دیا کریں۔ کس میں جرت نہیں کہ وہ آپ سے میرا نام لے سکے،اب تو آپ میری بیوی کی حیثیت سے میرے پاس آچکی ہیں لیڈی، آپکو اپنے اس قدر قریب کر لوں گا کہ پھر ایسے خدشے آپکو چھو بھی نہیں سکیں گے"

وہ جو پہلے ہی ستم سے نکل نہ سکی کہ مشارب کی اگلی دل دھڑکاتی بات نے زونی کو سر تا پا لرزایا، وہ الگ ہوتی مشارب کے ان ارادوں پر خوفزدہ ہوئی مگر وہاں تو ایسی مسکراہٹ تھی جو سب فنا کر گئی۔

"ایسے مت دیکھیں زونی، آپکی آنکھیں مشارب زمان خان کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں"

خود پر جمی وہ بے قرار آنکھیں کب اس شخص سے برداشت تھیں اور وہ اسکے آنچ دیتے الفاظ کا ہمکتا لمس تھا کہ فورا سے نظریں جھکا گئی۔

"آئیں روم دیکھاتا ہوں"

اس لڑکی کی جھجھک اور فطری خوف بھانپتا وہ خود ہی بنا کوئی اور جان لیوا تقاضا کرتا اسکا ہاتھ پکڑتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا، زونین کے دل کو اس شخص کا ہر انداز ڈھارس دے رہا تھا، وہ اوپر پہنچے تو پہلے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے مشارب نے ڈور ناب گمائے اسکے ساتھ اندر آیا تو پرسکون، خوبصورت سا کمرہ اپنے آرام کے سنگ انکا منتظر ملا۔

"ہمیں ریسٹ نہیں کرنا، ہم آپ سے باتیں کرنا چاہتے ہیں"

اس کمرے کی پرفسوں فضا بھانپ کر وہ جھٹکے سے پلٹی اور خود کو اپنی ہری آنکھوں کے حصار میں لے کر پرسکون سے مشارب کی جانب پلٹی جو اس پیشکش پر خاصا متاثر کن مسکرایا۔

"باتوں باتوں میں کچھ ہو گیا تو؟"

مشارب اسکے دونوں ہاتھ تھامے روبرو کرتا خاصے سنجیدہ انداز میں یہ معنی خیز خدشہ جس طرح کہہ بیٹھا،  گھبراہٹ زونی کے ہر موں سے شدت کے سنگ چھلک اٹھی۔

"پھر ہم بارش دیکھ لیں"

وہ فورا خواہش کا انداز و مزاج بدل کر باہر پل پل تیز ہوتی بارش کی جانب دیکھتی بولی تو مشارب اسکا ہاتھ پکڑتا کھڑکی کی جانب لایا۔

"اور بندہ کیا دیکھے؟"

اسے باہر محویت سے تکتا پائے وہ اسکے کان کی اور جھک کر شرارت آمیز سرگوشی کیے زونی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھیر گیا۔

"آپ بھی بارش دیکھیں، اوہ ہماری مالنی سے بات کروا دیں پلیز، ہمیں انکی بہت فکر ہو رہی"

مشارب کو کسی اور ہی موڈ میں ڈوبتا محسوس کیے  زونی نے اسکے چہرے کو دیکھتے نرمی سے فرمائش کی جس پر مشارب سر ہلاتا مسکرایا، ناصرف اسکو آزاد کیا بلکہ تمام توجہ زونین پر دیے اسکے گرد بازو حائل کیے اپنے قریب کھڑا کیا، اور مشارب کی اس جان لیوا حرکت اور یکدم بدلتے نگاہوں کے بے باک لمس سے وہ گھبرائی ہوئی اپنی آنکھیں بمشکل اٹھا کر اسے دیکھ پائی۔

"اور میری فکر، وہ بھی تھوڑی کر لیں۔ پاس آہی گئی ہیں تو تھوڑا احساس دلائیں کے پاس ہیں"

جناب کے مضبوط لہجے کا لمس ، زونین کو کمزور کر گیا، اسی لمحے سے تو وہ خوفزدہ تھی کہ آج تو تیسری ہوا بھی بیچ میں حائل نہیں ہو سکتی تھی۔

"ہمارا آپکے پاس ہونا بذات خود احساسات کا پورا جہاں ہے"

ہمت جتاتی وہ ان آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی، جبکہ مشارب زمان کے لیے اس وقت اس لڑکی کا پاس ہونا ہی راحت تھی۔

"ایک بات تو بتائیں؟ اب تک مجھ سے ویسی ہی محبت کرتی ہیں یا میری سنگدلی نے اس محبت میں کمی کی؟"

اس چہرے کی راعنائی آنکھوں سے تسخیر کرتا وہ اس سوال کے من پسند جواب پر کیا کچھ کر گزرے گا، یہ زونی کو اسکی نظروں کے لپکتے ارتکاز سے محسوس ہوا تو وہ رحم طلب نظریں ان بے تاب آنکھوں پر جما گئی، مشارب کے ہاتھ اسکی کمر پر آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے اس لڑکی کی دھڑکن ویسے ہی سست کر چکے تھے۔

"جواب دیں زونی، میں نے جتنی خطائیں کر دی ہیں، آپکا میرے لیے ویسا ہی دھڑکتا دل مجھے خوفزدہ کر رہا ہے۔ ایک بار ان ہونٹوں سے اقرار کریں گی تو مجھے سکون مل جائے گا"

وہ جو پہلے ہی اس قربت میں دم ہارتی جا رہی تھی، ان نگاہوں نے نرم ہونٹوں کو مرکوز کیے جب آنکھیں دیکھیں تو وہ دم سادھ گئی۔

اس شخص کے تقاضے جان پر بن سکتے تھے۔

"ہم آپ سے جڑی محبت میں کمی کبھی نہیں کر سکتے، اب تو ہرگز نہیں"

اور پھر اس لڑکی کا یہی من پسند جواب ہی تو مشارب زمان خان کے جذبات کا سمندر بے قابو کر گیا، وہ ان سانسوں کی تسخیر کا جان لیوا سلسلہ ناجانے کتنی دیر تک بے خودی کے باعث طویل کر گزرا کے باہر کڑکتی تیز بجلی نے اس استحقاق میں خلل ڈالا، وہ زونی کی بے حال سانسیں اور پھر سے مدھم گلابی ہونٹ دیکھ کر جس طرح مسکرایا، خود زونی حیا کے بار سے پلکیں جھکاتی اس کے سینے میں جا سمائی، کتنی دیر وہ زونی کی مرکز سے ہٹ جاتی دھڑکنیں محسوس کرتا رہا۔

"اپکی خوشبو کم جان لیوا تھی لیڈی مگر واللہ یہ مہکتی سانسیں تو مار ڈالیں گی۔ آئی تھنک مجھے اپنے تمام انہیلر اب ڈسٹ بن میں پھینک دینے چاہیں"

اس درجہ بے باک گفتگو پر زونی کے گال تک دہک اٹھے پر وہ اسے تمام تر شرم و حیا کے بھی روبرو لایا، وہ سرخ چہرہ لطف کو بڑھا گیا تھا۔

"ہم دعا کریں گے آپکا دل اب کبھی نہ رکے"

وہ یہ بولتے ہوئے افسردہ تھی، اس شخص کی بند ہوتی دھڑکن اور رک جاتی سانس زونین کے لیے جیتے جی موت کا منظر تھی۔

"آپ میرے پاس رہیں گی تو نہیں رکے گا، آپ دور جائیں گی تو رک جائے گا"

جذبوں سے چور مگر دل دھڑکاتا جان لیوا انداز، وہ لاکھ خود کو سنبھالتی مگر دل چاہا وہ اسے پھر سے قریب کر کے دور کرنا بھول جائے اور وہ انہی لمحوں کو اپنے تمام دکھوں کا ازالہ بنا لے۔

"مالنی؟"

وہ اسے ان شدت بھرے لمحات میں محو ہوتا محسوس کیے آہستگی سے احتجاج کرتی مشارب کو بھی جیسے مسکراہٹ دے گئی۔

"جی لیڈی، بھولنے کہاں دیں گی آپ مالنی کو۔ یہ لیں فون اور کر لیں بات"

اپنے جذبات کے اظہار کے بیچ مالنی نامی ذکر وہ چار و ناچار برداشت کرتا جس معصومیت بھری برہمی سے کہتا اسے فون پکڑا رہا تھا، زونین کی مسکراہٹ نے مشارب کا دل جکڑا پر وہ ہمت کرتا اسے مالنی سے بات کرنے کے لیے ریلکس چھوڑتا خود کمرے سے نکل گیا جبکہ صبح ہی مالنی نے اسے اپنا نمبر یاد کروایا، زونی نے فورا سے بیشتر ڈائل کرتے ہی فون کان سے لگا لیا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

خانم حویلی میں سوگ اور اذیت سے بھری ایک اور رات اتر آئی تھی، ہر کوئی سردار خاقان کی دہکتی آنکھیں اور جلتے خونخوار غصب سے پناہ مانگ رہا تھا۔

خود شمیشر یوسف زئی بھی صبح سے خانم حویلی ہی موجود تھے۔

عزیز خان کی کسی کال کا ضرار نے کوئی جواب نہ دیا مگر پھر رات نو بجے کے قریب ضرار کا انھیں ایک میسج ریسو ہوا۔

"مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں بس یہ ایک ایسی سیکھ ہے جو پیدا ہوتے ہی میثم ضرار چوہدری کے پلو سے باندھی گئی تھی۔ لیکن جو جرم تمہاری ماں نے کیا ہے اسکی سزا یہی تھی جو کل اسے ملے گی عزیز خان، وہ جہاں بھی ہے ٹھیک ہے لہذا بار بار مجھے کال کر کے تنگ مت کرو۔ اور کل جو قیامت آئے گی تم اسے چپ چاپ پورے صبر سے برداشت کرو گے، اور کوئی چارہ نہیں۔ رہی بات اشنال کی، انکی تکلیف کا بدلہ لینے کے لیے اب میں ہر حد سے گزر جاوں گا اور دشمن دیکھ لیں گے میثم کی عاجزی کے اندر چھپا آتش فشاں"

یہ میسج پڑھ کر عزیز خان کے رونگٹے کھڑے ہونا فطری تھا جبکہ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ سردار خاقان کے بھیجے لوگوں کے کھوجی گل خزیں خانم کا بھلے سراغ نہ ڈھونڈ سکے ہوں مگر دشمن کے علاقے کی جانب جاتے کھرے ضرور ڈھونڈ لیے گئے تھے۔

نیند یا سکون تو آج حویلی کے کسی فرد کو نصیب نہ تھا البتہ سردار خاقان کی قہر ناک خاموشی بتا رہی تھی کہ ایک بار پھر وہ سفاک شخص کوئی ایسی قیامت برپا کرنے والا ہے جو روحیں کپکا دے گی، وہ بظاہر خاموش تھا مگر اسکی آنکھیں جنہم کی طرح سلگ رہی تھیں۔

وہیں ولی زمان خان، اپنے تئیں دادی سائیں کی تلاش میں بھیجے لوگوں سے مسلسل رابطے میں تھا، مگر فی الحال کہیں سے بھی سراغ نہیں مل سکا تھا۔

وریشہ نے جان بوجھ کر مین گیڈ پر لاک نہ لگایا، کیونکہ نیند تو اسے چھو کر بھی نہیں گزر رہی تھی۔

شہیر مجتبی کا انتظار بہرحال اسے تھا، کیوں تھا یہ وہ خود سمجھنے سے بھی قاصر تھی۔

جبکہ میثم نے آج کی بھیگی برستی رات، صنم کے اردگرد رہنے اور اسکی سنگت میں گزارنے کا فیصلہ لیا تھا۔

وہ سب ہی لیٹ ٹائیٹ باغیچے کی جانب بیٹھے تھے، گلالئی بار بار کچھ ایسا کہہ رہی تھی کہ اشنال سمٹا سا سہی پر مسکرا دیتی، پھر جبل زاد بھی بہت دنوں بعد اپنے سائیں کی آنکھیں اپنی ازلی پرکشش چمک سے جگمگاتی دیکھ کر پرسکون تھا اور خدیخہ خانم نیند آنے کے باوجود سب بچوں کے ساتھ بیٹھیں، ایک تو انکو کمپنی دے رہی تھیں دوسرا رات کے اس پہر ٹھنڈے لمس پہنچاتی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔

"جبل زاد! بہت دن ہو گئے تم نے اپنی آواز میں کوئی گیت نہیں سنایا۔ آج موسم بھی ایسا ہے، زرا اپنی آواز کا جادو تو بکھیرو"

سب مسکراتے مسکراتے تب تھم سے گئے جب ضرار کی اس غیر متوقع فرمائش پر سب نے بچارے بوکھلا جاتے جبل زاد کی جانب امید بھری اور حیرت انگیز نظروں سے دیکھا، کبھی کبھی سروں سے چھیڑ خانی کا اسے ذوق ضرور تھا پر یوں خدیخہ صاحبہ، اشنال اور خاص کر گلالئی کے سامنے گنگنانا اسے تمام تر اعتماد کے گھبراہٹ دے گیا اور وہ گھبرایا ہوا خاصا پیارا لگا جب رحم طلب نگاہ اس نے چپکے سے ضرار کی جانب ڈالی۔

جو فرصت سے اپنے روبرو بیٹھی، مہکتی ہوئی، مسکراتی آنکھوں والی اشنال عزیز کی جانب متوجہ تھا۔

"بہت خوب! ہمارے جبل زاد گا بھی لیتے ہیں، پھر تو آج مقابلہ ہونا چاہیے۔ پہلے جبل بیٹا کچھ سنائے پھر ہم ضرار کی دبنگ آواز میں بھی کوئی اچھا سا گیت سنیں گے، کیوں لڑکیو؟! جاو گل اندر سے عزیز صاحب کا رباب لاو، پہاڑوں کا باسی ہے جبل زاد، اسے تو ضرور بجانا آتا ہوگا "

گویا اس پرجوش ماحول میں خدیخہ خانم کی سفارش نے بچارے ضرار کو بھی مفت میں رگڑا جس پر گلالئی اور اشنال دونوں ہی مسکرا کر تائید کرتی نظر آئیں اور گلالئی اک مسکراتی نظر جبل زاد پر ڈالے فورا سے بیشتر فرمابرداری سے اٹھ کر اندر بھاگی، یہ الگ بات جا کر واپس آنے تک ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں اس پر گر چکی تھیں۔

"یہ بہت اچھا رباب بجاتا اور گاتا بھی ہے پر ہم زرا اچھا سننے کے شوقین ہیں خانم، اگر میں نے یہاں گانا شروع کیا تو اول یہ موسم ایسا حسین نہ رہے گا دوسرا آپ سبکے کانوں کا تو اللہ ہی مالک ہوگا"

جبل زاد پر بڑی چالاکی سے سارا ملبہ گراتا جس بیچارگی اور خفت زدہ انداز میں وہ اپنی خوبصورت آواز کو انڈراسٹیمیٹ کر گیا اس پر سب ہنسنے سوائے اشنال کے جو بس اسکی گہری سیاہ آنکھوں کو ہی دم سادھے دیکھ رہی تھی۔

"ہاہا یہ تو جان چھڑوانے والی بات ہوئی برخوردار چلو اسے ادھار کرتے، چلیے جبل زاد! اپنی خوبصورت آواز کا سحر بکھیریے"

گویا خانم بھی آج بچوں کے ساتھ بچی بنی انھیں چھیڑ رہی تھیں، گلالئی کی مسکراتی آنکھیں اور خدیجہ خانم کی شفقت بھری نظریں گویا جبل زاد کی ہمت تھیں باقی وہ دو دیوانے تو ایک دوسرے میں ہی محو تھے۔

یکدم جیسے جبل زاد کے ماہر ہاتھوں نے رباب کے درد بھرے، دل تک جکڑ لیتے سر بکھیرے تو یوں لگا آسمان سے گرتی باولی بوندیں تک ٹھہر کر اس کی آواز کا لمس لوٹنے چلی آئی ہوں۔

"محبت دھند میں لپٹی ہوئی وادی کا موسم ہے

محبت دھند میں لپٹی ہوئی وادی کا موسم ہے

چمکتی ہے تو سورج ہے

برستی ہے تو رم جھم ہے

چمکتی ہے تو سورج ہے

برستی ہے تو رم جھم ہے"

سچ میں وہ دل جکڑ چکا تھا، اپنی مدھر ، بھاری مگر سریلی آواز جس میں جذب تھا جس کے سنگ وہ رباب کے تار چھیڑتا موحول پر فسوں پھیلا گیا، البتہ اشنال کی آنکھوں میں اب دکھ تھا اور وہ ضرار کو بنا کہے بھی بہت سے دل کے دکھ بتا رہی تھی جسے وہ دل سے سن رہا تھا۔

"محبت نام ہے کتنے مسلسل امتحانوں کا

محبت نام ہے کتنے مسلسل امتحانوں کا

محبت کر نہیں سکتا کے جس میں حوصلہ کم ہے"

محبت سے یکسر بیزار رہنے والا شخص محبت کو کیسے اس خوبصورتی سے بیاں کر سکتا ہے بھلا، اسکی آواز سن کر گلالئی کے دل کی بے تاب دھڑکنیں اسی سوچ میں گم تھیں۔

"محبت کرنے والوں کو سدا مسکان ملتی ہے

محبت کرنے والوں کو سدا مسکان ملتی ہے

محبت کرنے والوں کی ذرا سی آنکھ بھی نم ہے"

ان لفظوں کا درد اور پھر رباب کے دلسوز لمس گویا ان دونوں کے دل کو تڑپا گئے، اشنال کی آنکھوں میں پھر سے نمی اتری، جسے ضرار نے آنکھوں کے زور آور اشارے سے اندر ہی سمیٹ لینے کی جو دھمکی دی اس پر وہ روتی روتی ہی مسکا دی البتہ باقی دو لیڈیز تو جبل زاد کی آواز میں کھوئی ہوئی تھیں۔

"محبت زندگی میں زندگی کا ایک نغمہ ہے

محبت زندگی میں زندگی کا ایک نغمہ ہے

مگر یہ موت کی دہلیز پر صدیوں کا ماتم ہے۔۔

محبت دھند میں لپٹی ہوئی وادی کا موسم ہے"

سحر جاری تھا پر اب لفظ نہیں، جذبات گفتگو کر رہے تھے، جبل زاد اس قدر کھویا تھا کہ جب اس حصار سے نکلا تو بے اختیار آنکھیں خود کو مرکز بنا کر فرصت سے تکتی گلالئی سے جا ملیں تو وہ فورا نظر جھکا گئی جبکہ خدیخہ خانم کی سراہتی ہوئی نظریں یہ بتانے کو کافی تھیں کہ جبل زاد نے محفل لوٹ لی ہے۔

"محبت نہیں کر پایا یہ جوان پر ناجانے اس نے اپنے اسی گیت سے کس کس کو محبت کرنے کی جانب راغب کیا، بھئی بہت خوب عزیزم! دعا ہے جلد محبت نامی جزا تمہیں بھی اسکے اجر کی صورت ملے"

رباب کے سر تھمے تو جیسے ضرار صاحب بھی اس ٹرانس سے نکل کر جو عجیب و غریب دعا دے گئے اس پر جبل نے منہ بگھاڑے اپنے سائیں کو یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو مجھے معاف ہی رکھیں، میں پہاڑوں کا باسی ہی بھلا ہوں۔

خدا کی پناہ! یہ محبت جزا کہاں تھی اسکی نگاہ میں۔

یہ محبت تو بلا تھی، وہ جس طرح محبت نامی اس دعا سے بے چین تھا یہ گلالئی اور خدیخہ خانم کی نظروں سے اوجھل ہرگز نہ تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مالنی! آپ سچ بول رہی ہیں ناں۔ اگر آپکو وہاں رہنے میں اچھا محسوس نہیں ہو رہا تو ہم ابھی آپکو واپس بلوا لیتے ہیں"

وہ جو کچن میں گھس کر رات کے اس وقت وہاں موجود لوازمات سے کچھ بے وقت بھوک مٹانے کے لیے کچھ بنانے میں گم تھی، زونی کے کوئی چوتھی بار ایک ہی بات پوچھنے پر ہنستی ہوئی پلٹی۔

"آپی یار، اچھا محسوس نہ ہو آپن کے دشمنوں کو۔ میں تو ماسکو کی منہ دیکھائی کروانے کے لیے میدان میں کھلی اور آزاد ہوں سمجھا کریں۔ ایک تو وہ ہاٹ لونڈا پگھل بھی جائے تو اسکے منہ پر چڑھا نقاب انکے تاثرات دیکھنے نہیں دیتا مجھ مسکین کو سو میں نے سوچ لیا، انکے ہاتھ پیر باندھ کر انکا منہ دیکھنا ہے بس"

آلو کے چپس آئل میں ڈالتی وہ فرصت سے اپنی نیک پلاننگ سے جتنا زونی کا دل دہلا چکی تھی اتنا ایچ بی کے چودہ طبق بھی روشن ہوئے جو پانی پینے کی نیت سے اپنے سٹڈی روم سے سیدھا کچن ہی کی طرف چلا آیا تھا، پر اس آفت کو سن کر وہ وہیں رک گیا۔

"اف مالنی! آپ انکو سچ میں غضب چڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔ کوئی وجہ ہوگی انکے اس ماسک کے پیچھے۔ پلیز انکو تنگ نہ کریں، پہلے ہی وہ ہم دونوں کی وجہ سے اس سب میں پھنس گئے ہیں"

زونی نے سہم کر جیسے اس لڑکی کی منصوبہ بندی سے دہل اٹھتے، نرمی سے سمجھانا چاہا۔

"وجہ جو بھی ہو، وہ مجھے تنگ کرنے کی کھلی چھوٹ دے چکے ہیں آپی۔ اب چوں کریں یا چاں، میں چالو ہو گئی آں۔ یاد کریں گا وہ ماسکو بھی کہ کوئی مالنی آئی تھی زندگی میں۔ سچ بتاوں تو آج جس طرح اس بندے نے آپکو آپکے سائیں کے ساتھ جانے کی اجازت دی ناں، میرا دل تو مزید لٹ کے لے گیا۔ اور بس میرا ناں بڑا ارمان ہے، میں انکو دیکھوں۔ اس لیے آپ بس میری پھرتیاں دیکھیں اور مزے کریں اپنے ان کے ساتھ ، رہی بات اس ماسکو کے بچے کی ، اسے مالنی سیدھا اور بےنقاب دونوں کر کے ہی رہے گی"

یہ لڑکی تو بچارے ایچ بی کے پیچھے ہاتھ دھو کر ہی پڑ چکی تھی، زونی نے تو مسکراتے ہوئے مطمئین ہو کر کال کاٹ دی پر وہ جو کانوں سے دھواں اٹھنے پر شرافت سے وہاں سے گم ہونے کے چکروں میں تھا، مالنی کے پکارنے پر رک تو گیا مگر پلٹا نہیں کیونکہ جناب کی حالت اس وقت اس لڑکی نے بگھاڑ دی تھی۔

"چھپ چھپ کر باتیں سن رہے ہیں، چلیں اچھا ہے سن لیا اب زرا ذہنی طور پر تیار رہیے گا، میں آپکی منہ دیکھائی کروانے پر بضد ہو گئی ہوں"

وہ جو جانے کو بیقرار تھا، مالنی کی بات سن کر ناصرف مڑا بلکہ انہی ماسک سے جھانکتی سیاہ آنکھوں سے مالنی کو گھورا۔

"منہ صرف میں اپنی بیوی کو دیکھاوں گا، ہر کسی کی ایسی ویلیو نہیں کہ وہ ایچ بی کو دیکھ سکے۔ تم بھی یہ بات اپنی کھوپڑی میں بٹھا لو"

نہاہت مغرور ہو کر جو وہ جواب دے کر اپنی طرف سے مالنی پر رعب جما گیا، الٹا اس لڑکی کے بے دم ہو کر ہنسنے پر ایچ بی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"ہاہا اتنے سالوں تک بیوی نہ ملی تو اب کس نے گھاس ڈالنی سرپرست جی، میری مانیں تو مجھ جیسی دور دور والی فین پر ہی گزارہ کر لیں۔ اچھا کتنے سال کے ہوں گے آپ پلیز یہ تو بتا دیں تاکہ میں جاننے والی آنٹیوں میں آپکا جوڑ تلاش کر سکوں"

چولہا بند کرتی، تمام چپس پلیٹ میں نکالتی وہ لپک کر ایچ بی کے روبرو آکر جمی اور جس طرح اسکا مزاق اڑاتی ہنسی، یہ اس جوان سے برداشت نہ ہوا۔

پلیٹ اسکے ہاتھوں سے باقاعدہ چھین کر شیلف پر رکھتا وہ ناصرف اسکی بازو دبوچ گیا بلکہ اگلے ہی لمحے مالنی کو اسی ریک سے لگاتے لاک کیا جو اس اچانک ایچ بی میں امڈتے عمران ہاشمی کو بھانپ کر دم سادھ کر رہ گئی پر اس بندے کی یہ تنتناتی جرت مالنی کو اش اش کر اٹھنے پر ضرور مجبور کر گئی۔

"تمہیں کیا لگتا ہے بڈھا ہے ایچ بی جو تم آنٹیوں کو تلاشو گی میرے لیے؟"

لڑنے کے لیے پنجے تیز کرتا وہ بے باکی سے اس لڑکی کی شوخ آنکھوں میں جھانکا جہاں رتی برابر ایچ بی کے اسقدر قریب آنے کا ڈر نہ تھا۔

"کیوں، آپکو مجھ جیسی چاہیے؟"

بنا اس سے دبے وہ الٹا تپش دیتے لہجے میں اس بندے کا ضبط آزما بیٹھی۔

"تم جیسی کیوں چاہیے ہوگی مجھے، اپنے دماغ کی لسی کروانی ہے کیا میں نے؟"

گویا وہ اپنی میچور عمر کا لحاظ کیے بنا اس لڑکی کے چرانے پر چڑا جس پر مالنی کے کلیجے کو ضرور ٹھنڈ پڑی، بس وہ اسکا ہاتھ چھوڑتا تو وہ چھبٹ کر اس ماسک کو ضرور اتارنے کا سوچتی من ہی من میں مسکا کر ایچ بی کا پارہ مزید چڑھا رہی تھی۔

"کیونکہ میرے جیسی اس دنیا میں دوسری کوئی نہیں، کھو کر پچھتائیں گے۔ بتائیں ناں کیا ایج ہے آپکی ماسکو، چار پانچ سال گھٹا لیں بے شک"

بنا اس شخص کے غضب کی پرواہ کیے بنا وہ پرشوق ہوتی اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولی جبکہ اسکی نظریں اس ماسک پر جمی تھیں کہ بس نہ چل رہا ہو ورنہ اتار پڑیں کرتی۔

"لڑکی نہیں ہوں جو اپنی عمر چھپاوں، الحمد اللہ فورٹی ایٹ ایچ ہے۔ لیکن تم بھلے ایک بھی ہو اس دنیا میں تب بھی نو چانس، منہ تو میں تمہیں نہیں دیکھانے والا۔ کیونکہ اگر یہ ماسک ہٹا ناں بیوقوف مالنی، تو پھر جو قیامت تم پر ٹوٹے گی وہ تمہیں بالکل انجوائے موڈ میں رہنے نہیں دے گی۔ اب تمہاری سزا یہ ہے کہ، یہ تمہاری بنائی عجیب و غریب اور مسکین سے پکوڑوں یا چپسوں کے قبیلے سے تعلق رکھتی چیز سے بھری پلیٹ ایچ بی کھائے گا، اور تم کھاو گی وہی غضب جو تمہیں اس کے بعد مجھ پر چڑھے گا۔ ناو گو ٹو یور روم۔۔۔آئی بڑی ایچ بی کو دیکھنے والی"

جھٹکے سے فاصلہ بناتا وہ اک اک لفظ چبا چبا کر ادا کیے بے تکلفی سے ناصرف وہ مالنی کی محنت کا شہکار اٹھاتا باہر لپکا بلکہ مالنی کے منہ بسور کر منہ ہی منہ میں کوسنے کی پرواہ کیے بنا بچاری کا دل دہلاتا یہ جا وہ جا۔

"شوخا ماسکو! دیکھنا بچو صبح تمہارے ساتھ اب مالنی کیا کرتی ہے۔ اللہ کرے تمہیں یہ چپس کھا کر موشن لگ جائیں فری والے پھر ڈاکٹر تمہیں دو دن صرف کچھری کھانے کی تاکید کرے۔ تب مجھے ٹھنڈ پڑے گی جب بار بار تمہارے پیٹ میں وٹ پڑے گا۔۔۔پلیز پلیز اللہ جی اسے موشن لگوا دیں تاکہ دوبارہ یہ میرے حق کو سلب کرنے کا سوچنے سے پہلے بھی لاکھ بار سوچے۔۔۔آمین"

من ہی من میں سلگتی وہ اس نادیدے کو خوبصورت سی بددعا دیے خود بھی پیر پٹخ کر کچن سے نکل گئی جبکہ اب اس شوخے کو سنجیدگی سے سیدھا کرنے کا وہ دبنگ فیصلہ بھی لے چکی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

جبل زاد کو ضرار کے ہی ایک ضروری کام کے باعث اسکے بعد جانا پڑا، وہ گاڑی لیے سیدھا شہیر کے گودام تک پہنچا مگر وہاں شہیر موجود نہ تھا پھر ایک آدمی سے اس ڈھابے کا پتا ملا جہاں وہ یار بیلوں کے ساتھ موجود تھا، ضرار کی گاڑی رکتی دیکھتے ہی وہ اپنے یاروں کے بیچ سے اٹھ کر چہرے پر مسخور کن طنزیہ مسکراہٹ سجاتا چلتا ہوا اس طرف آیا جہاں جبل زاد گاڑی سے نکل کر اسی کی طرف بپھری موج بنا بڑھ رہا تھا۔

"خیر ہے، ضرار نے اپنے پیارے جبل زاد کو کاہے میرے پیچھے اتنی رات خوار کر رکھا ہے؟"

شہیر اسے دیکھتے ہی تمسخرانہ انداز میں زچ کرتے بولا جبکہ جبل زاد نے اک برہم نظر ڈالتے یہ غیر مناسب تیور برداشت کرتے ہی مدعے کی بات کی۔

"کیا قیمت لو گے اس ونی نکاح کے خاتمے کی اور اس تماشے کو ختم کرنے کی، یہ پھوٹو؟"

جبل زاد کا چہرہ سپاٹ جبکہ انداز پتھریلا تھا جبکہ اسکی اس متوقع پیشکش پر شہیر کے اندر کا سفاک دوبارہ جاگ اٹھا۔

"میں نے یہ تماشا اتنی جلدی سمیٹنے کے لیے تو نہیں لگایا تھا، اسے کہہ دینا یہ آخری بازی شہیر نے ہر کشتی جلا کر لگائی ہے، اس سے پہلے میں اسکی پیاری اشنال کے ساتھ سہاگ رات منا لوں، اپنی بل سے باہر نکل آئے اور دیکھائے کتنا دم ہے اس جوشیلے آتش فشاں میں۔

کچھ ضروری کام نہ ہوتے تو اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر یہاں نہ آتا، میں نے لاپرواہی کیا دیکھا دی، وہ تو مجھے کمزور ہی سمجھ بیٹھا"

جبل زاد نے مٹھیاں بھینچ کر اسکی بکواس سنی جو آگے سے فتخمدانہ جلاتا تبسم لیے اسے زچ کر رہا تھا، وہ بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اٹھنے سے روک سکا تھا ورنہ دل یہی چاہ رہا تھا اس زبان دراز کا منہ نوچ لے۔

"اتنا اڑ بچے جتنی اوقات ہے، ایسا نہ ہو تجھے اس تماشے کے بدلے زلت والی موت ملے۔ سائیں ہمیشہ تجھ جیسی منحوس شے پر اپنا غضب اتارنے سے پہلے ترس کھاتے ہیں، لیکن تو اس لائق ہے ہی نہیں کہ تجھ پر رحم کیا جائے۔ اب اپنے دن گننے شروع کر لے کیونکہ تیری گندی نظر تک اول خانم پر وہ پڑنے نہ دیں گے، لیکن تو نے جو گندے ارادے بنا رکھے ہیں اب انکا بدلہ وہ تجھ سے تیری طرح وحشی بن کر لیں گے"

اپنا غصہ ہر ممکنہ دباتا جبل زاد، اسکی غلیظ سوچ پر دو حرف بھیجتا جس طرح آیا اس کے برعکس طوفان بنا وہ واپس گاڑی کی جانب بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاڑی لیے شہیر کی انہی شر انگیز نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

"وہ مجھے مار نہیں سکتا، اپنے رقیب کو مارنے کی بزدلی کرنے سے بہتر وہ مجھ سے یہ لڑائی لڑ کر جیتنے کو ترجیح دے گا۔ آخر کار بہادر آدمی ہے۔

وہ مجھے اس تماشے کو ختم کرنے کے لیے کچھ ویسا ہی مجبور کرے گا جیسا میں نے اس تماشے کو برپا کرتے وقت اسے کیا۔ دیکھتے ہیں میثم ضرار چوہدری، تم مجھ سے اپنا صنم کیسے واپس لیتے ہو، میری زندگی میں آدھی بوریت تو ضرار صاحب کی انٹری ختم کر دیتی ہے۔۔ہاہا"

عجیب سی کمینگی تھی اور الگ سا سرور تھا جو خود کلامی کرتے ہوئے اس کے چہرے پر جھول چکا تھا، ذہن تو وریشہ کی جانب تھا تبھی یاروں کی مزید تھوڑی سنگت کے بعد وہ اس بند دروازے کا یقین لینے کا فیصلہ کرتا مسکراتا ہوا واپس اندر بڑھ گیا۔

وہیں دوسری جانب جب تک مشارب واپس روم میں آیا، محترمہ صوفے پر بیٹھی ہی نیند میں گم ہو چکی تھیں، وہ مدھم سرشار آنکھوں ڈھیر چاہت سے بھرتا اس تک پہنچا، ہاتھ بڑھا کر غفلت میں ڈوبے وہ دلکش خدوخال انگلیوں کی نرم پوریں مس کیے چھوئے، اک راحت تھی جو مشارب زمان کے اندر تک اتری، صرف اس وجہ سے کہ وہ لڑکی اسکے پاس آچکی تھی، جھک کر اس روشن جبین پر بکھری بالوں کی ریشمی لٹیں پرے کرتا وہ اسکی دونوں آنکھیں چومتا پھر سے ان مدھم سانسوں کی نرمی اور تپش اپنے چہرے پر پھیلتی محسوس کرتا مسکرا دیا، ایک ہی دن میں اتنے مظالم ڈھانے کے وہ خود بھی حق میں کہاں تھا، پھر دادی کی ٹنشن بھی اسقدر تھی کہ چاہ کے بھی وہ اس لڑکی کے ساتھ نشاط انگیز لمحے نہ بنا سکتا تھا۔ان نیم وا ہونٹوں کو نرمی سے انگوٹھے کی پور سے چھو کر ملاتا وہ اس لڑکی کے سوتے میں ہو کر بھی مزید بہکانے پر خود کو مضبوط کرتا، زونین کی نیند میں خلل ڈالے بنا کمرے کی مین لائیٹ آف کرتا ، دروازہ واپس بند کیے کمرے سے باہر نکل گیا۔

بارش مکمل طور پر رک چکی تھی مگر باہر ٹھنڈے لان میں بیٹھنا قدرے فرحت بخش تھا۔

ویسے بھی دادی سائیں جب تک مل نہ جاتیں اسے ہرگز سکون آنے والا نہ تھا، وہ عورت جتنی بھی سفاک ہو جاتی مگر اس نے مشارب زمان کو ہمیشہ ایک ماں کی طرح محبت دی تھی۔

وہ مسلسل اپنے لوگوں سے رابطے میں تھا۔

وہیں تیسری جانب کمرے میں واپس آئے وہ اسکو اپنے پاس صوفے پر بیٹھائے اسکا بار بار تھک کر سر ٹکا دینا محسوس کیے جان چکا تھا کہ موسم کی شر انگیزیاں اور کچھ اسکے ستم اس نڈھال جان پر سختی اتار لائے ہیں، ہلکا سا فیور بھی تھا جسکی وجہ سے اشنال کا پورا وجود تپ رہا تھا مگر وہ ہرگز اس شخص کی موجودگی میں سونا نہیں چاہتی تھی، اسے ڈر تھا وہ اسکے سونے کا فائدہ اٹھا کر پھر سے قریب آجائے گا۔

"تھک گئیں ہیں، اتنا بھیگ لیا ہے کہ فیور کروا لیا۔ اور بندہ ناچیز کو حق بھی نہیں دے رہیں کہ آپکی اور آپکے اس تکلیف میں ڈوبے وجود کی راحت بن سکوں"

ضرار نے اسکا سر اپنے کندھے پر محسوس کیے آہستگی سے بازو اسکے گرد حائل کیے اشنال کو پکارا جو آنکھیں موندے، اسکا بازو جکڑے ساتھ ہی لگی بیٹھی تھی مگر ضرار نے اس الفاظ کی شدت پر اسکی خشک آنکھوں میں دکھ سمٹ آیا، جس طرح اس نے نظر اٹھا کر ضرار کو دیکھا، یہ وہی تھا جو صبر کر گیا ورنہ ان نظروں کے جواب میں وہ اسے ہرگز بخشنے پر آمادہ نہ تھا۔

"راحت نہیں رہے تم میری، بار بار نہیں ستاو مجھے۔ تم نے مجھے کیوں چھوڑا میثم؟"

خفیف سا نفی میں سر ہلاتی وہ اسکی تڑپ پر کملا کر نظریں جھکا گئی اور ساتھ ہی آنکھیں اٹھا کر دوبارہ میثم ضرار چوہدری کو دیکھتے روہانسی ہوئی جو اسکی نرم رخسار ہلکے سے اپنے انگوٹھے کی پور سے سہلاتا اسکی آنکھوں میں جذب اور محبت سے جھانک رہا تھا۔

"چھوڑا ہوتا تو آپ اس وقت میرے پاس ہوتیں؟ خود سوچیں۔ میں نے اپنا ہر کام ایک طرف کر کے یہ لمحے آپکے لیے وقف کیے میں میری جان۔ آپ تو میثم کی روح ہیں، میری روح میرے پاس ہے تبھی تو میں زندہ ہوں"

وہ اسکے بے قرار تڑپتے لہجے کے برعکس محبت کا ہر رنگ لہجے میں سمو لیتا اسکی خود پر جمی خوبصورت آنکھیں دیکھ کر یقین دلا رہا تھا مگر وہ کیا کرتی کے دل کی تکلیف ، دماغ کی شریانوں تک پھیلی تھی۔

"لیکن میں زندہ نہیں، ان لوگوں نے م۔۔میرے ساتھ۔۔۔"

وہ اذیت جب یاد آئی تو اشنال عزیز کی آنکھیں بھر گئیں مگر وہ اسکے نرم ہونٹوں پر انگلی رکھے اسے اس جملے کو مکمل کرنے سے جس طرح روک چکا تھا، وہ میثم کے پھر سے دوستی کے حصار سے نکلنے پر کانپتی ہوئی بوکھلائی۔

"شش! کچھ کہنے کی ضرورت نہیں نہ ہی وہ سب سوچنے کی کوشش آپ نے دوبارہ کرنی ہے اشنال۔ آپ اسے ایک برا خواب سمجھ کر بھول جائیں۔ میں سب جانتا ہوں، سو کبھی آپ سے اس متعلق کوئی سوال نہیں کروں گا۔ جب آپ پوری میثم کی ہیں تو کیسے سوچ لیا کہ میثم اس حوالے سے آپ کی پاکیزہ ذات پر کوئی شبہ باندھے گا۔ کبھی نہیں، اس ساری اذیت سے خود کو جلدی نکالیں کیونکہ آپ سے دور رہنا میرے لیے بہت مشکل ہے"

وہ اسکی تمام گھبراہٹ پر اپنی شدت پسندی اور خفاظتی حصار کا جادو پھونکتا، اسکی ہتھیلی کو اپنے دل سے لگا کر یقین دلاتے مضبوط انداز میں اشنال کو ہر فکر سے آزاد کر گیا، وہ بھلے اب تک دماغی بیمار تھی پر اس شخص پر پھر سے اعتبار کا دل بناتی وہ خود سے لڑ رہی تھی، میثم کے آخری الفاظ، اشنال کے دل تک تپش پہنچاتے اترے تھے۔

"ت۔۔تم مجھے اللہ سائیں سے واپس مانگ لو ناں جلدی، مم میں تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں"

اس تکلیف دباتے انداز پر میثم نے اسے نظر بھر کر دیکھا، سب حق ہونے کے باوجود وہ لڑکی بکسی و بے بسی کی ہر حد عبور کیے اس کے لیے تڑپ رہی تھی اور وہ کچھ کرسکنے پر قادر نہ تھا۔

"پاس ہوں آپکے صنم، فیل کرواوں آپکو، دوستی بھول جائیں پھر کچھ دیر"

وہ اسکے چہرے کے دلکش خدوخال پر نظریں جمائے جس آنچ دیتے معنی خیز لہجے میں بولتا ہوا اسکے ہونٹوں کی نرمی اور اکھڑ جاتی سانسیں محسوس کرتا اسکی سہمی آنکھوں میں جھانک کر بولا، وہ اسکا بازو چھوڑتی گھبرا کر دور سرکی اور خود میثم اسکے پھر سے فرار کر اٹھنے پر اسکی کلائی تھامے نظر اٹھائے ابرو اچکا کر دیکھنے لگا۔

"مم۔۔مجھے نیند آرہی ہے، جانے دو۔ ت۔۔تم اب میرے پاس مت آنا۔ "

وہ اس سے دور بھاگتی اپنا ہاتھ چھڑواتی منمنائی جبکہ میثم نے اسکا ہاتھ جکڑے واپس بیٹھاتے ہی اپنی بازو گرد باندھ کر حصار لیا۔

"کہا تھا ناں کے دور نہیں جائیں گی، پرامسس توڑا ہے اب آپکی سزا ہے کہ کچھ دیر میثم بھولنے والا ہے کہ ہم دوست بنے ہیں"

استحقاق بھرا انداز لیے وہ اسکو جکڑتا اس سے پہلے اپنے آپ میں گم کر لیتا، میثم کا بجتا فون اسے متوجہ کر گیا جبکہ اشنال بھی اسکے سینے میں منہ چھپائے اسکے روح تک اترتے ارادے جان کر خوفزدہ ہوئی سمٹ گئی تو میثم نے مسکرا کر اک نگاہ اسکے چھپنے پر ڈالی اور فون کان سے لگا لیا۔

"ہنہ تم اپنی کالز سن لو، ہر وقت کالز سنتے رہتے ہو"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ ناراض ہو کر مزید سمٹی تو میثم نے غضبناک مسکراہٹ کے سنگ اک نظر اسے اور اسکی برہمی کو دیکھا جو پاس آنے نہیں دے رہی تھی اور دور ہونے والے اسباب پر بھی بگھڑ رہی تھی اور پھر کال کی جانب توجہ موڑی۔

"سر یہاں دو مشکوک لوگ دیکھے گئے ہیں، ہم نے پیچھا کیا انکا مگر وہ کمبخت بھاگ نکلے۔ مجھے خدشہ ہے کہ کسی نے ہمارا سراغ ڈھونڈ لیا ہے"

میثم کے آدمی کی جانب سے یہ ملتی یہ خبر اسکے چہرے پر تشویش لے آئی، یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

"ہمم، مطلب اسے مجھ پر شک ہونے والا ہے۔ احتیاطی تدابیر کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ تم لوگ اپنا کام مکمل کر کے انڈر گراونڈ ہو جانا اور پیچھے کوئی سراغ مت چھوڑنا۔ باقی میں خود دیکھ لوں گا۔ دیکھتے ہی اب یہ فرعون کس گرے درجے تک جاتا ہے"

دانستہ آہستہ آواز کے سنگ وہ جواب دیتا بھی اپنے لہجے کی تیز نفرت چھپا نہ سکا۔

"سرکار! آپ جانتے ہیں ناں سردار خاقان انسان نہیں ہے درندہ ہے، اس لیے احتیاط کیجئے گا۔ ہم بس تین چار گھنٹے تک اپنا کام مکمل کر کے واپس آجائیں گے۔ آپکو کام ہوتے ہی پیغام بھیج دوں گا"

مقابل وہ آدمی کچھ خوفزدہ تھا، سردار خاقان ایسا بدبخت شخص تھا کہ میثم کی آنکھوں میں اسکے ذکر پر ہی حقارت امڈ چکی تھی۔

"میری ہر طرف گہری نظر ہے، پیغام کا انتظار رہے گا"

خود میں دبکی اشنال کی مدھم مدھم گرم سانسیں سینے پر پھیلتی محسوس کیے وہ تمام تر فکر کے بھی کال بند کرتے مسکرایا کیونکہ وہ، ناراضگی، ڈر اور نیند کے شدید غلبے میں لپٹی ، بخار کے اثر اور دوا کی غنودگی کے باعث وہیں اسکے سینے سےگی ہی نیند میں اتر چکی تھی۔

ان بے خواب آنکھوں کو اس آغوش میں پرسکون نیند لیتے دیکھنا میثم کے لیے باعث آسودگی تھا، وہ اسکی جبین پر نرم سی ہونٹوں کی مہر لگاتا ، اس لڑکی کے نیند میں اتر جانے کے باوجود محبت بھری شدتیں لٹاتے لٹاتے خود ہی ان مدھم سانسوں اور بے تاب دھڑکنوں پر رحم کھاتا کچھ دیر کے لیے سر صوفے کی پشت سے لگاتا آنکھیں موند گیا۔

کل کا دن ہرگز آسان نہیں تھا اسکی میثم ضرار چوہدری کو خبر تھی مگر اس وقت اشنال کے قریب وہ اپنی ہر فکر اور پریشانی بھول جانا چاہتا تھا اور صرف اس لڑکی کو اپنے قریب محسوس کرنا چاہتا تھا۔

وہیں پھر وہ جس نے فیصلہ کیا تھا، اس فیصلے کی تکمیل اس بنجارے کے قدموں کو اسی مکان کی جانب گامزن کر چکی تھی۔

گھڑی کی سوئیاں دو کے ہندسے کو عبور کر چکی تھیں مگر وریشہ یوسف زئی کی آنکھیں کسی قسم کی نیند سے یکسر بے نیاز بس کسی انتظار میں مبتلا تھیں۔

"کیوں کر رہی ہوں میں اس خبیث کا انتظار آخر؟ میرے دل میں اسکے لیے ہمدردی کیوں آرہی ہے۔ آپ جانتے ہیں اللہ سائیں! اس کھیل میں نہ تو میں شہیر سے ہمدردی افورڈ کر سکتی ہوں نہ ہی محبت۔ لیکن وہ شخص ناجانے کیوں بار بار میرے دماغ پر سوار ہو رہا ہے"

وہ ریمورٹ پکڑ کر بنا آواز ہی ٹی وی لگائے چینل بدلتی ہوئی خاصی جھنجھلاہٹ سے سوچ رہی تھی، دل و دماغ میں عجیب سی وحشت تھی جو بلند ہو رہی تھی، پھر وہ یہ بھی کہاں بھولی تھی کہ شہیر مجبتی نے اسکی سب سے پیاری اشنال کو برباد کرنے کے پلین بنا رکھے تھے، یہی نہیں وہ اشنال کے ساتھ ہوتے سفاک ظلم کا سبب تھا۔

دماغ اسے نفرت پر اکساتا تو دل کہتا کہ اس انسان کو اتنا بڑا زخم دے کر بچانے والی وریشہ ہرگز اس سے نفرت نہیں کر پائے گی۔

وہ انہی دماغ مفلوج کرتی سوچوں میں منہمک تھی جب بیرونی دروازے پر ہوتی کھٹ پٹ پر وہ فورا سے بیشتر ریمورٹ وہیں رکھتی دراز پر رکھی اپنی گن احتیاط کے طور پر اٹھاتی باہر لپکی تو شہیر کو دروازہ کھلا دیکھ کر اندر آتے دیکھ کر وہ گن وہیں رکھتی غصے سے تنتناتی اس کی جانب لپکی جو اس لڑکی کے اتنی رات دروازہ کھلا چھوڑنے پر خود بھی غضبناک ہوا۔

"دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ اتنی رات دروازہ کھول کر بیٹھی ہو۔ کوئی اونچ نیچ ہو جاتی تو کیا ہوتا، حالات دیکھے ہیں تم نے شہر کے۔ اکیلی لڑکیوں کے لیے بند دروازے تک سیو نہیں ہیں اور ایک یہ ہے بہادر وریشہ جو آدھی رات درندوں کے لیے دروازہ کھولے بیٹھی ہے۔ کیا سمجھتی ہو خود کو، ٹارزن کی اولاد ہو؟"

بنا وریشہ کی ایک بھی سنے وہ دروازہ لاک کرتا ناصرف برہمی سے اس تک آیا بلکہ اسکی جلا کر راکھ کرتی آنکھوں کی پرواہ کیے بنا اس پر پھٹ پڑا، آخری جملہ اس نے باقاعدہ وریشہ کی بازو دبوچ کی اپنی جانب کھینچتے، اسکی سرد آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ادا کیا جو وریشہ کے تن بدن میں انگارے بھر گیا۔

"خود تو تم نے اپنے آپ کو ہی ٹارزن سمجھ رکھا ہے، کہاں دفع تھے صبح سے اس زخمی حالت میں۔ زرا بھی خیال نہیں کہ میں کتنی پریشان ہوں۔ تمہارے بقول تو بڑی وسیع زمین تھی پھر کیوں آئے ہو؟ بولو"

بنا اسکے غضب کی پرواہ کیے وہ الٹا اس پر چڑھ دوڑی جو بس یونہی دل کے کہنے میں مروتا پوچھی گئی آفر دیکھنے چلا آیا تھا کہ کیا وہ لڑکی واقعی اس پر اپنے دل کے دروازے کی طرح گھر کا دروازہ بھی بند کر چکی ہے اور وہ یہی سوچ کر آیا تھا کہ بند دروازہ بس ہاتھ لگا کر واپس آجائے گا مگر وہ تو دبانے سے ہی کھل گیا اور اسے وریشہ کی لاپرواہی عتاب چڑھا چکی تھی۔

"تمہاری یہ زرا سی عقل دیکھتے ہوئے ہی چلا آیا تھا اور آکر اندازہ ہو رہا ہے کس قدر بددماغ لڑکی ہو تم"

شہیر نے جبڑے بھینچ کر، سرخ ڈوروں سے بھری وریشہ کی ناراض آنکھیں اور اسکے بگھڑے چہرے کو دیکھا۔

"ہاں خود تو جیسے تمہارے اس دماغ میں آئن سٹائن والی خصوصیات بھری پڑی ہیں، اب نکلو میرے گھر سے اور وہیں رہو جہاں دروازہ بند ہونے پر تم جاتے"

وہ جو سارا دن اذیت اور وحشت سے پہلے ہی باولی ہو گئی تھی، باقاعدہ اسکے زخمی ہونے کو فراموش کیے سینے پر دباو دیتی دھکا دیے غرائی۔

شہیر جو اس اچانک حملے کے لیے بالکل تیار نہ تھا، زرا دو قدم ہی پیچھے سرک پایا مگر وہ لڑکی اسکے زخم پر بری طرح درد پہنچا چکی تھی، شہیر نے زخم پر ہاتھ جکڑنے اور تکلیف سے چہرے کے تاثرات بدلنے پر وہ ہوش میں آئی، اسے اپنی یہ بے حس حرکت مزید افسردہ و بوجھل کر گئی۔

"یار! اتنا غصہ کیوں ہو رہی ہو۔ چلا جاتا ہوں، پر تم تو مجھے سیدھا اوپر پہنچانے کے چکروں میں ہو خونخوار بیوی"

بمشکل وہیں لاونچ میں پڑے صوفے پر خود کو لڑھکاتا ہوا وہ گہرا سا سانس کھینچ کر اس اٹھتے درد کو بڑی مہارت سے ضبط کیے بھی باز نہ آیا اور جس طرح تپش دیتی مسکراتی آنکھیں اس نے وریشہ پر ڈالے یہ طنز کیا، وہ دل ہی دل میں شدید زنجیدہ ہوتی خود کو ہر ممکنہ اس شخص سے دور رہنے پر اکساتی ، عجیب سے انتشار کا شکار تھی۔

"تمہاری وجہ سے میں نے ولی زمان خان کو آج رلا بھی دیا منحوس انسان، تم مر ہی جاو تو اچھا ہے۔ یا میرے خدا یہ میں نے خود کو کس عذاب میں ڈال لیا ہے"

سانس سا رکنے پر وہ خود بھی سہم جاتے دل کو سہلاتی وہیں ساتھ ہی آکر بیٹھی جبکہ وہ جو خاصے زچ کرتے متبسم چہرے کے سنگ اس لڑکی کی جلن ملاحظہ کر رہا تھا، اس غیر لے ذکر نے گویا اسکی تمام مسکراہٹ ہٹھیا لی۔

عجیب سی کاٹ تھی جو شہیر نے اپنے اندر تک محسوس کی تھی۔

"ولی زمان خان کا نام دوبارہ تمہاری زبان پر نہ آئے وریشہ"

نہایت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ یہ تنبیہہ کر رہا تھا اور وری نے نظریں اٹھائے چہرہ پھیر کر اسے یوں دیکھا جیسے اسکا دل اسکے سینے سے نوچ کر نکال لینا چاہتی ہو۔

"یہی ذکر تمہاری زندگی کی قیمت ہے، جس سفاک دنیا نے ان سے وریشہ یوسف زئی چھینی تھی ناں تم اسی گندی دنیا کا بہت بڑا حصہ بن چکے ہو۔ میں نے تو ہر چیز پر صبر کیا ہے، سب کچھ داو پر لگا دیا۔ تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا اور یہ تکلیف مجھے نوچ رہی ہے۔ تم کیوں برا کر کے بھی فائدے میں ہو، کیوں شہیر مجتبی؟"

اس لڑکی کی آنکھوں میں امڈتی نفرت اور یہ سوال دونوں ہی زہر میں بجھے تھے کہ اک لمحہ لگا اور شہیر مجتبی کا سارا غصہ جھاگ بن گیا، بس آنکھیں جلنے لگیں ، ان میں ریت سے چبھنے لگی تھی۔

"تو تم یہ چاہتی ہو میں بھی نقصان اٹھاوں؟"

وہ رخ زرا موڑ کر ان اندر تک جھانکتی آنکھوں سے ہمکلام ہوئے اس سکون سے سوال کر گیا کہ کتنے ہی لمحے وریشہ یوسف زئی کچھ بول ہی نہ سکی۔

"تم فی الحال خود کو میرا نقصان سمجھ کر اپنا دل ٹھنڈا کر لو، تم وہ واحد نہیں ہو وریشہ یوسف زئی جس نے مجھے بددعا دی ہے، اس لیے تسلی رکھو، جلد یا بدیر مجھے وہ ساری بددعائیں لگیں گی۔ میں بھی اپنے کیے کے بدلے نقصانات اٹھاوں گا"

وہ وریشہ کے دماغ پر ہتھوڑے برساتا خود جس طرح فخریہ مسکرایا، اس لڑکی کو لگا وہ اس شخص کو سزا دینے کے چکروں میں اپنی سزا تعین کر بیٹھی ہے۔

"لیکن جب تک میری رسی دراز ہے تب تک تو سکون سے جینے دو لڑکی، زخم پر زخم دینے سے بہت تکلیف ہوتی ہے، جان بچا ہی دی ہے تو بار بار جان لے کر اپنا ثواب ضایع مت کرو"

وہ جو اسے کٹیلی اور نفرت انگیز نظروں سے دیکھ رہی تھی، شہیر کے لڑکھڑاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہونے پر دل بند سا محسوس کرتی خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"جا رہا ہوں، دروازہ بند کر لو۔ اپنے دل کے دروازے کی طرح"

وہ حتی المقدور کوشش میں تھا کہ اپنا دامن اس آگ جیسی لڑکی سے بچاتا رہے مگر ناجانے کیا ہوا کہ وہ شہیر کے جانے کا سن کر بے اختیار ہی اسکا مضبوط ہاتھ جکڑ کر واپس موڑ گئی، اور یہ جھٹکا خود اس دامن بچا کر بھاگتے شخص کے لیے جان لیوا رہا، یوں لگا اس لڑکی کی آگ انہی ہاتھ کی پوروں میں اتر کر ہر شے جلا گئی ہو۔

"تمہاری باتیں، تمہارا لہجہ اور ایک ایک لفظ خرافاتی ہے، شر ہے، سنا تم نے منحوس مارے، کیا کالا علم پڑھ کر پھونک رہے ہو مجھ پر بولو۔ کہ تمام تر نفرت کے بھی تمہارا اوجھل ہونا مجھے تکلیف پہنچا رہا ہے۔ تم یہ مظلوم بن کر کیا ثابت کر رہے ہو، کہ بہت ظلم ہوا ہے تم پر۔ تمہیں احساس ہے کہ تم نے کتنے گناہ کیے ہیں، پھر تم جیسے سفاک ، درندہ صفت انسان پر ایسی مظلومیت ہرگز زیب نہیں دیتی۔ میرا دماغ تم نے دو دنوں میں ہی پاگل کر دیا، ہو کیا چیز تم؟"

وہ جو بے اختیار اسکا ہاتھ تھام کر خطاء کر گئی تھی، فورا سے بیشتر اپنی غلطی پر پردہ ڈالے، ہاتھ چھوڑتی اسکے گریبان جکڑ کر حلق کے پل چینخی مگر شہیر مجتبی کا سارا دھیان تو اس ایک جملے نے جکڑ لیا تھا جو اس شخص کو سرور بخش کر ہر تکلیف سے آزاد کر گیا۔

جبکہ جان لیوا سے اس شخص کا سحر وہ جتنا جھٹک دیتی، وہ اسکے حق میں ہرگز برا نہیں تھا تبھی تو وہ بے اختیار اس سفاک کے لیے اذیت میں مبتلا تھی۔

"میرا اوجھل ہونا تمہیں تکلیف دے گا؟"

وہ اسکے تمام بقیہ جملے رد کرتا بس اسکی کمر کے گرد شدت سے بازو جکڑتا جو پوچھ رہا تھا، وریشہ کے ناصرف ہاتھ اسکے گریبان پر ڈھیلے پڑے بلکہ وہ گہرے سانس بھرتی اسکی گرفت سے نکلنے کو مچلی مگر وہ اسکے مزید سختی سے جکڑتا، خفیف سا پریشان کیے خود کی جانب دیکھنے پر مجبور کر چکا تھا۔

وہ جو کچھ کہہ بیٹھی تھی اب اس سے مکرنا ممکن بھی نہ تھا۔

"چھوڑو مجھے، تمہارے کسی سوال کے جواب کو دینے کی پابند نہیں ہے وریشہ"

وہ لاکھ ٹالنے کو غصے بھری بے بسی سے بولی مگر اسکے چہرے پر بکھرتے رنگ، آنکھ میں اتر آتا خاموش سلگتا، بلکتا ہوا جوش کھاتا بے بس سا اقرار شہیر مجبتی سے چھپا ہرگز نہ تھا۔

"تمہیں ایسا لگتا ہوگا، لیکن تم پابند ہو۔ اس لمحے میں تمہارا حاکم ہوں وریشہ یوسف زئی"

شہیر کے لہجے میں اترتی من مانی نے وریشہ نے وجود کو آخری تہہ تک لرزایا تھا مگر وہ خود کو ہنوز اس سے ہرگز دبا ہوا نہ دیکھاتی مسلسل اپنے آپ کو آزاد کروانے کی کوششوں میں تھی۔

"دیکھو یہ رعب کسی اور ایری غیری پر جمانا، تم مجھے جانتے نہیں ہو کہ کتنی ظالم لڑکی ہوں۔ مجھے صرف تمہارے زخمی ہونے کی فکر ہے، زخم ٹھیک ہو جائے تو بھلے جنہم چلے جانا میری بلا سے۔ میرا دل حساس ہے وہ دشمن کی تکلیف پر بھی نرم پڑ جاتا ہے، کسی خوش فہمی کو پالنے کی ضرورت نہیں"

اس لڑکی کے کھٹور پن پر شہیر نے اسکے تاثرات پڑھنے کی پوری کوشش کی مگر اول لمحے کی بے اختیاری کے بعد وہاں پھر سے پتھریلا پن نمایاں ہو چکا تھا۔

"یہ تم دوسری بار کسی اور کا طعنہ دے چکی ہو مجھے، کیا سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے، وحشی، سفاک، درندہ تک تو ٹھیک پر ہوس کا مارا نہیں ہوں جو یہاں وہاں منہ مارتا پھروں۔ تم وہ پہلی لڑکی ہو جسے چھوا شہیر نے، یقین کرنا ہے تو کرو ورنہ میری بھی جوتی کو پرواہ نہیں کہ تم میرے بارے کیا سوچتی ہو "

یہ واحد معاملہ تھا جس میں وہ کورے سفید کاغذ جیسا شفاف تھا تبھی وری کی اس پر کالک لگانے کی کوشش اسے طیش دلا چکی تھی، وہ اسے آزاد کرتا ایک بار پھر رکا کیونکہ وہ لڑکی چاہتی ہی نہیں تھی کہ اسے شہیر کے قہر سے نجات ملے۔

"مجھے تو تم نے اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے ہی قبول کیا تھا، یاد ہے یا ایک ہی دن میں بھول گئے۔ پھر اگر میں تم جیسے وحشی کی توجہ اپنی طرف نہ پھیرتی تو اشنال اب تک تمہاری درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہوتی"

مقابل کے پرتپش لفظ اور پتھریلے تاثرات بھانپتے ہی شہیر مجتبی کی کن پٹیاں تن گئیں، وہ ناصرف پلٹا بلکہ اس لڑکی کے دونوں بازو جکڑ کر اپنے روبرو پتھر کی طرح کھڑا کیے خود وریشہ کو لمحہ بھر منجمد کر دیا۔

"جن معاملات کی تمہیں خبر نہیں ان میں ٹانگ مت اڑاو وری بی بی، میں آج کے بعد تمہارے آگے کوئی وضاحت نہیں دوں گا سمجھی۔ رہی بات تمہاری، تم نے ابھی مجھے زخم ہی اتنا گہرا دے دیا ہے کہ تمہیں منہ لگانے کو دل راضی نہیں۔ مانا تمہارے آنے کے بعد تھوڑا مظلوم محسوس کر رہا ہوں پر مجھے ہلکا لینے کی جرت بھی مت کرنا۔ تمہارے جیسی ظالم پھلچھری تو پھونک سے بجھا دے گا شہیر مجتبی، سو اپنی نازک جان اور پہلے سے اڑے حواسوں پر رحم کھا لو۔ ابھی تو میرا اوجھل ہونا تکلیف دے رہا ہے ناں وریشہ یوسف زئی کو، میں نے کچھ کر دیا تو پھر ہر وقت میری خوشبو جب تم سے آئے گی پھر میرا سامنا اور غیر موجودگی دونوں ہی تمہارا درد بن جائیں گے۔ اپنی اوقات مت بھولنا دوبارہ، تمہارے آگے کسی وجہ سے جھک رہا ہوں تو گرا ہوا مت سمجھ لینا نہ یہ امید کرنا کہ تمہارے قدموں میں بیٹھ کر تمہارے پیر چوموں گا۔"

مقابل کی حد درجہ نفرت اور تضخیک اس سے برداشت نہ ہوئی تبھی وہ تمام لحاظ بالائے طاق رکھتا نہ صرف اسے پرے جھٹک گیا بلکہ بنا وریشہ کو اک نظر دیکھے وہ تمام جسم کی تکلیف کے باوجود باہر کی جانب بڑھا اور دروازہ کھولتے ہی پٹخ کر گھر سے نکل گیا جبکہ وہ لڑکی پھٹی آنکھوں اور جسم و جان میں پھیلتے خوف سے وہیں کانپتی ٹانگوں کے سنگ بیٹھ گئی۔

اس قدر سبکی اور اہانت کا احساس ہوا کہ وریشہ کی آنکھیں جہنم کی طرح سلگ اٹھیں۔

وہ مٹھیاں بھینچ کر ضبط کرتی رہ گئی، مگر جو وہ کمینہ کر گیا تھا اسکے بعد تو رہا سہا آرام بھی اس لڑکی پر حرام ہو چکا تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

سردار خاقان کے تمام لوگوں کو کھوجی کے ذریعے گل خزیں خانم اور انکی دونوں ملازماوں کے حویلی سے قبرستان تک قدموں کے نشان ملے اور مزید تحقیق پر پتا چلا کہ وہاں کچھ نشان ایسے تھے جو کسی کو گھسیٹ کر لے جاتے ہوئے دیکھا رہے تھے اور پھر کچا راستہ ہونے کے باعث وہاں سے شروع ہوتے گاڑی کے ٹائیرز کے نشانات بھانپ کر ہی انکو دشمن کے علاقے تک کے کھرے ملے تھے، وہ گاڑی کے نشانات ضرار کے علاقے تک جا کر ختم ہوئے تھے اور پھر آگے سے دوبارہ کچے راستے پر گرے خشک پتوں پر تین نفوس کو گھسیٹا گیا تھا، وہ دو مشکوک لوگ وہی تھے جو ان نشانات کے پیچھے اس جگہ تک تو پہنچ آئے مگر پھر ڈر کر بھاگ نکلے۔

سحر پھیلتے ہی ضرار نے دونوں آدمیوں نے پوری احتیاط کے سنگ گل خزیں خانم اور دونوں ملازماوں کو ایک دوسرا راستہ اختیار کیے خانم حویلی تک پہنچایا کیونکہ جس راستے پر سردار خاقان کے لوگوں کو نشانات ملے تھے وہاں اس نے اپنے کئی لوگ چھوڑ دیے تھے اور حکم دیا تھا کہ کسی کو دیکھتے ہی اسے بھون ڈالیں مگر ضرار نے اپنی طرح اپنے لوگ بھی خاصر دماغ چن رکھے تھے سو کامیابی کے سنگ منہ اندھیرے وہ ان تینوں بیہوش وجودوں کو خانم حویلی کے دروازے پر پھینکتے واپس علاقے کی جانب جانے کے بجائے ایک تیسرے سرحدی علاقے کی جانب چلے گئے تاکہ اگر خانم حویلی سے کوئی انکا پیچھا کرے بھی تو ان لوگوں کا ٹھکانہ میثم ضرار چوہدری کی زمین نہ نکلے۔

فجر کی نماز پڑھنے کے لیے جاتا حویلی کا چوکیدار جب باہر نکلا تو دروازے پر ان تین کو بے جان پڑا دیکھ کر وہ اونچا اونچا کوکنے لگا، پھر گل خزیں خانم کی بازو کے نیچے پھڑپھڑاتا کاغذ اپنے کانپتے ہاتھوں سے نکال کر اٹھاتا وہ خوف و ہراس کے سنگ دھاڑتا جب تک اندر پہنچا، شور سن کر کئی محافظ جمع ہو چکے تھے۔

وہ لوگ باہر نکلے تو خانم سمیت انکی دونوں ملازمائیں وہاں بے سدھ پڑی تھیں، فورا سے بیشتر وہ سب باری باری تینوں کو اٹھاتے اندر لائے، تب تک حویلی کی اندرونی جانب سے سرادر خاقان بھی پھنکارتے ہوئے باہر آئے، قدوسیہ اور فردوسیہ کو ان مخافظوں نے پانی وغیرہ کے چھپکے مارے ہوش دلا دیا البتہ گل خزیں خانم کو بے جان سا دیکھ کر اس فرعون کا اک بار تو دل لرزا، محافظوں کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیے وہ خود آگے آئے اور ہوش و حواس سے بیگانی گل خزیں خانم کو بازووں میں اٹھاتے اندر کی جانب بڑھے، جبکہ محافظ قدوسیہ اور فردوسیہ سے ان دو دنوں کے بارے پوچھ گچھ میں لگ گئے۔

سردار خاقان کو اندر آتا دیکھ کر اور کمرے کی جانب بڑھتا پائے، عزیز خان، زمان خان، اور فرخانہ خانم بھی پریشانی کے سنگ پیچھے ہی دوڑے۔

جب تک وہ تینوں کمرے میں پہنچے، سردار خاقان اس عورت کو بستر پر لٹا چکے تھے اور نفرت بھری نظروں سے اندر آتے ان تینوں کو دیکھتے ہی دروازے کی جانب آئے۔

ساتھ ہی باہر کھڑے چوکیدار کو اندر آنے کا اشارہ کیا جس کے ہاتھ میں وہ کاغذ تھا۔

عزیز خان، زمان خان اور فرخانہ خانم تینوں ہی تڑپتے ہوئے بے سدھ سی گل خزیں خانم تک پہنچے اور وہیں سردار خاقان نے وہ کاغذ تنفر سے جھپٹ کر اپنے روبرو کیا۔

"اماں سائیں، کیا ہوگیا انکو۔ میں ابھی خضوراں کو بلا کر لاتی، اللہ سائیں خیر کیجئے گا"

فرخانہ، ہاتھ پیر پھولنے پر باہر کی جانب دوڑ گئیں۔

"میں تو حیران رہ گیا خاقان، اس بڑھاپے میں بھی اتنی حسین بیوی لیے پھر رہا تھا تو کمینے، بچاری چودہ سال کی تھی جب تیرے آگے ونی ہو کر ڈالی گئی کہ لیجئے خبیث خاقان جی، نوچ کھائیے ونی کے نام پر اسکو، تجھ جیسے خبیث، پکی عمر والے کو تو تیس کی نہ ملتی، ہک ہاہ! بچاری گل خزیں۔ چلو میں نے بھی دل کا ارمان پورا کر لیا، دو دن اچھے سے تیری بیوی کی خاطر تواضع کر کے۔ پر جاتے جاتے سانپ ڈنگ گیا اسے، تیرے ساتھ رہ رہ کر جو زہر اس میں جمع ہو گیا، وہ سارا نکال کر لے گیا بہادر ناگ۔ ممکن ہے اب جب یہ جاگے گی تو کم زہریلی گل خزیں خانم ہو گی۔ چلو اب مزے کرو، میں تمہارا ایک رقیب ہی ہوں۔ ڈھونڈنے مت نکل پڑتا یار، میرے جیسے ہر ہر قدم پر کھڑے ہیں"

وہ مست، آگ لگا کر بھسم کرتا پیغام پڑھتے ہی سردار خاقان کے تن من میں شرارے دوڑ اٹھے، اک نظر وہ بے سدھ پڑی خانم جبکہ پھر کمرے میں داخل ہوتی فرخانہ اور خضوراں پر ڈالتے حلق کے بل اس وحشت ناک انداز میں دھاڑے کہ ایک لمحہ جو جہاں تھا وہیں پتھر کی طرح جما رہ گیا۔

"خضوراں کے علاوہ سب دفع ہوں یہاں سے، فورا"

سردار خاقان کی پھنکارتی آواز پر وہ تینوں ہی بے یقین نظروں سے انکی جانب دیکھنے لگے مگر پھر سرد نگاہوں کی شدت ایسی منہ زور تھی کہ وہ تینوں ہی ایک ایک کر کے اذیت دباتے کمرے سے باہر نکل گئے مگر ہر کوئی اپنی جگہ درد اور تکلیف میں تھا۔

خضوراں خود تھرتھر کانپتی ہوئی سردار کے غضب سے پناہ مانگ رہی تھی، تیز روشنی کا اثر تھا یا سردار خاقان کی انتہائی اونچی آواز کا کہ نیم بہوش سی گل خزیں خانم جسم میں اٹھتے سانپ کے کانٹنے کے درد سے بلکتی ہوئی کراہتی جاگنے لگیں مگر جو آواز اس عورت کے احساسات بیدار ہوتے ہی اسکے کان میں پڑی وہ واقعی جسم و جان پر اترتا قہر ناک صور ہی تھا۔

"تم جانتی ہو خضوراں کے دو راتیں کہیں اور گزار آتی عورت کا پہلا معائنہ کونسا ہوتا ہے، انکا زخم بعد میں دیکھنا پہلے وہ کرو جو ضروری ہے۔ تب تک زرا میں یہ پتا لگواوں کے ایسا کرنے کی جرت کس مائی کے لال نے کی ہے، کس نے سردار خاقان کا غضب للکارا ہے"

وہ اپنے مخصوص پرتنفر انداز میں دھاڑتے بنا گل خزیں خانم نے سسک اٹھنے کی پرواہ کیے بنا خضوارں نامی اس سہمی طبیبہ پر موت اتارتے پلٹے تو گل خزیں کی التجاوں اور سسکیوں پر اسی حقارت سے بھینچے چہرے کے سنگ پلٹے۔

"آ۔۔آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے ، کم ازکم م۔۔مجھ سے پوچھ تو لیں۔ خدارا یہ ظلم مت کیجئے گا سائیں"

اپنی بازو پر بنے سانپ کے کاٹے کا زخم ایک ہاتھ سے جکڑ کر کراہتی ہوئی وہ اٹھ بیٹھیں مگر وہ شخص خونخوار نظریں اس عورت کی گریہ و زاری کرتی آنکھوں پر ڈالتا دو قدم قریب آیا۔

"تم دو لمحے بھی میری نظروں سے اوجھل ہوتی تو یہ تو ضرور کرواتا، تم تو دو راتیں دور رہ کر آئی ہو خزیں بی بی۔ باقی تفتیش تم سے بعد میں کروں گا، پہلے تمہارے حوالے سے دل پر لگی آگ ٹھنڈی کر لوں"

اک اک لفظ وحشت سے ادا کیے وہ بنا گل خزیں خانم کی کوئی بات سنے باہر نکل گئے جبکہ اس عورت نے سہم کر خضوراں کو یوں دیکھا جیسے وہ کوئی طبیبہ نہیں بلکہ جان نکالنے والی ڈائن ہو۔

"خضوراں ، دفع ہو جاو یہاں سے"

بہت ہمت کیے وہ خوفزدہ عورت بول پائی تھی اور اس سے پہلے خضوراں، خانم کے خود پر برس اٹھنے پر ڈر کر باہر نکلتی، دروازے میں واپس آکر کھڑے ہوتے سردار خاقان کو دیکھ کر گل خزیں خانم سمیت بھاگ کر باہر جاتی خضوراں کی جان بھی جسم سے سرکی۔

"س۔۔سائیں ایسا مت کریں میرے ساتھ، وہ تو چاہتا ہی یہی تھا۔ اللہ کا واسطہ ہے۔ وہ یہ سب اشنال کے ساتھ ہوئے ظلم کی وجہ سے کر رہا ہے۔ اسی نے اٹھوایا مجھے، م۔۔مجھے اپنی خانم کو رسوا نہ کریں۔۔عزیز ضرور ضرار سے م۔۔ملا ہوا ہے، یہ سچائی ضرار کو اسی نے بتائی ہوگی"

واپس اس فرعون صفت آدمی کو اندر آتا دیکھ کر وہ روتی ہوئی سسکنے لگیں مگر انکی ہر بات نظر انداز کیے اس شخص نے جس روح فنا کرتی نظروں سے خضوراں پر نگاہ ڈالی وہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ واپس مڑی۔

کمرے کے باہر کھڑے وہ تینوں بھی اندر سے آتی چینخوں پر صبر و ہمت کے پیکر بنے تھے کیونکہ سردار خاقان کے آگے آج تک کسی  نے بولنے کی ہمت نہ کی تھی۔

خضوراں نے مجبورا اور زبردستی مطلوبہ تصدئق کرتے ہی سردار کے حکم ملتے ہی اپنا تھیلا اٹھایا اور اشارتا نظر ملاتی وہ تیزی سے باہر نکلی، جبکہ گل خزیں خانم نفرت بھری سرخ آشام بھیگی نگاہوں سے پاس آکر بیٹھتے اس منحوس شخص کو دیکھ رہی تھی جس نے آخر کار اسے ایک طبیبہ کے ساتھ ساتھ اولاد تک کے سامنے زلیل و خوار کر دیا تھا۔

"مجھے پتا ہے ایسی بے باک حرکت وہی حرام زادہ کر سکتا ہے جسکی عبرت کا پورا انتظام پہلے ہی کر چکا ہوں، اسے بتاوں گا اب کہ سردار خاقان چیز کیا ہے۔

پر اسکے آدمیوں پر تو بھروسہ نہیں کر سکتا تھا میری پیاری خانم ، ہوسکتا ہے کسی کا ایمان ڈگمگا جاتا تمہارا حسن دیکھ کر۔ میں کیسے برداشت کر لوں کے کوئی میرے سوا تمہیں ہاتھ بھی لگائے، اب مطمئین ہو گیا ہوں۔ تم بنی ہی سردار خاقان کے لیے ہو، جس دن کسی اور نے تمہیں ہاتھ بھی لگا لیا، اسی دن اپنی گن کی ساری گولیاں میں تمہارے گندے ہو جاتے جسم میں اتار دوں گا۔ جتنا نرم آپکے لیے ہوں اتنا وحشی بھی ہوں جانم۔"

اس شخص کے لہجے میں شر اور سرور امڈا تو گل خزیں کو لگا کوئی انھیں کند چھری سے جگہ جگہ کاٹ رہا ہو۔

"لیکن ضرار کیسے جانتا ہے کہ آپ ونی ہو کر آئی تھیں؟ کیسے؟ کہیں ایسا تو نہیں خانم کہ بزدار عالم نے رقابت کی آگ میں جلتے ہوئے اپنے پوتے کو میرا یہ راز تھما دیا ہے۔ محبت کرتا ناں وہ آپ سے، اور آپکو چھین لیا خاقان خان نے۔ وہ دن تھا اور آج کا دن، یہ جنگ تھم ہی نہیں سکی۔ جو ٹھہراو ہاشم کو زندہ آگ میں جلانے کے بعد ان دو خاندانوں کے بیچ ہوتے قتل و غارت میں آیا تھا اب پھر شروع ہوگا کیونکہ اس ضرار نے یہ چنگاری خود بھڑکائی ہے۔

محبت میں تو وہ اپنے دادے اور چاچے سے بھی دس ہاتھ آگے نکلا، اشنال کے ساتھ ہوئی زیادتی کا بدلہ خوب چکایا اس نے۔۔۔ہاہاہا ایسے شاطر دشمن بہت پسند ہیں، آپ دیکھیے گا کیسے میں اسکے الٹے دل کی بتی گل کروں گا، کہ اسے آخری سانس لینے کی مہلت بھی نصیب نہیں ہوگی"

وہ عورت جس پر اللہ نے بہت شدت سے مکافات عمل اتارا تھا، یوں تھی کہ مر گئی ہو مگر آخری سانس کمبخت سینے میں اٹک گئی ہو، اور جس طرح وہ فرعون صفت شخص کمینگی کے سنگ وہ تمام باتیں کیے گل خزیں کا چہرہ چھو رہا تھا، وہ ہچکیاں بھرتیں اسکے گندے ہاتھ پرے سرکا کر پیچھے دبک رہی تھیں، پورا جسم ہی زہریلا کر کے یہ شخص اس عمر میں انکی بزرگی تک کا احترام نہ کر سکا تھا، جبکہ خانم کو یوں ڈرتا، دبک کر پیچھے سرکتا محسوس کیے وہ سر اٹھائے اٹھ کھڑا ہوا۔

اسکی نظر خانم کے کلیجے کو پھاڑ کھا رہی تھی۔

"خدا تمہیں غرق کرے گا خ۔۔خاقان، عبرتناک موت مرو گے"

نفرت کے سنگ وہ اسکے شیطانیت سے بھرے چہرے کی جانب دیکھتے پست سے غرائیں تو جوابا وہ مست قہقہہ لگاتے مڑ گیا، اس شخص پر تو گل خزیں خانم کا دل اب تھوکنے پر بھی آمادہ نہ تھا، سب جانتے بوجھتے بھی اس نے گل خزیں خانم کو زلیل کیا تھا اور وہ یہ عورت ہرگز برداشت نہ کر پائی۔

"پہلے اپنے دشمنوں کو تو موت کی گھاٹ اتار لوں، اب آپ آرام کریں۔ میری پیاری خانم۔ اب یہ دشمنی ضرار کی موت کے بعد ہمیشہ کے لیے اختتام پذیر ہو جائے گی ہیپی اینڈنگ ہو جائے گی، وہ بزدار تو اسی پر پھڑک پھڑک کر مرے گا۔ ہاہاہا واہ رے بخت، تو نے ضرار جیسا بیٹا پیدا کر کے واحد نیک کام کیا۔ کوئی تو نکلا اس بزدل بزدار کے خاندان میں سردار خاقان کے مقابلے کا۔۔۔۔ ورنہ ایک عزت کے نام پر قتل ہو گیا دوسرا محبت کے نام پر بھسم ہو گیا۔ اب یہ آخری ہے، جس نے سردار خاقان خان کو بھسم بھی کرنے کی جرت کی اور چند سال پہلے قتل کی کوشش بھی کی تھی ۔۔۔بہت مزہ آئے گا اس آگ کو بجھانے میں"

لہجہ کڑک جبکہ انداز میں فرعونیت بھرتا وہ آدمی کہہ کر وہاں سے تو چلا گیا پھر گل خزیں خانم پر اس کمرے کی چھت گر چکی تھی۔

آج انھیں احساس ہوا تھا کہ جو ظلم انہوں نے مظلوم اور بے قصور اشنال سے کیا تھا اس ظلم کا بدلہ ایک تو اللہ اسی دنیا میں لیتا ہے دوسرا کئی گنا بڑھا کر اسکی شدت کو گناہ گار پر اتارتا ہے تاکہ اسکی روح کانپ اٹھے۔

وہ اب جتنا سسکتیں، روتیں مگر اب توبہ کا وقت بیت گیا تھا، اب زہر انکے جسم سے روح تک پھیل چکا تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سر آپکی دو دن بعد پانچویں اور آخری سرجری ہے، مسٹر خیام نے مجھے کہا تھا کہ آپکو ریمائنڈر دے دوں۔ اسکے بعد آپ ہمیشہ کے لیے اس ماسک سے نجات پا لیں گے"

صبح سے پیٹ میں کچھ گڑبڑ تھی تبھی وہ اہم کانفرنس اور ایگزیبیشن چھوڑے روم میں ہی موجود تھا، اسکا مینجر اہم پیغامات کے سنگ ناشتے کے وقت خاضر ہوا اور اسکے ناشتے کے نام پر صرف چائے پیتا دیکھ کر مزید بتاتے بولا جس نے لحاف ہٹا کر مگ سائیڈ میز پر رکھتے ہی گھٹن سی محسوس ہوتے ہی کھڑکیوں پر گرے پردے ہٹا دیے۔

"کتنا آسان ہے چہرے کے داغ ان پلاسٹک سرجریوں سے مٹانا ، لیکن اتنا ہی مشکل ہے دل اور روح پر لگے داغ مدھم کرنا کہ ان کمبحتوں کی تو سرجری بھی ممکن نہیں۔تو یعنی دو دن بعد میرا چہرہ واپس اپنی پہلی حالت میں آنا شروع ہو جائے گا اور دشمن سے انتقام لینے کی شروعات ہو جائے گی"

ایچ بی کے لہجے کی یاسیت اس نصیر نامی مینجر نے بھی محسوس کیے سر اثبات میں ہلایا جبکہ خود ایچ بی کی آنکھیں شعلہ بن اٹھی تھیں۔

"بالکل ہاشم سر  ، آپ کو اپنی فیملی سے مزید دور رہنا بھی نہیں پڑے گا۔ مسٹر خیام تو ہمیشہ سے آپکو جلی بازو بھی ریکور کر لینے کی تاکید کرتے آئے ہیں مگر آپ نے صرف چہرے کی سرجری ہی کروانے کی ہامی بھری۔ حالانکہ اب تو جلے کا جسم پر بڑے سے بڑا نشان بھی بہت آسانی سے چند سرجریرز کے بعد مٹایا جا سکتا ہے"

وہ آدمی مصالحت آمیز انداز اپناتا اسے اسکے نام سے پکار چکا تھا جس پر وہ رخ موڑ کر اسے خفگی اور سرد پن سے گھورنے لگا۔

"دیواریں بھی کان رکھتی ہیں، یہاں تو جو مالنی نامی مصیبت اپنے سر پر لے لی میں نے اسکی تو سونگنے کی حس بھی بہت تیز ہے لہذا یہ نام مت لو ورنہ وہ میرے دیدار کی ضد چھوڑ کر اس نام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائے گی۔ خدا کی پناہ اس لڑکی سے!

اور یہ جلی بازو مجھے میرے انتقام کو یاد دلاتی ہیں نصیر جو میں ہرگز بھولنا نہیں چاہتا۔ اب جاو اور اور اس ظالم درد کی کوئی دوا لا کر دو، اس لڑکی نے پتا نہیں کونسی کمپنی کا سستا جمال گوٹا ملایا تھا ان پکوڑوں میں جس نے اثر بھی آدھا کیا، جیسے ہی واش روم کے دروازے تک پہنچتا ہوں، درد واپس ٹھیک ہو جاتا ہے۔"

نہایت غصے و برہمی سے وہ جو بیچارگی ظاہر کرتے لہجے میں بولا اس پر نصیر کے دانت بھی خفیف سے نکلے مگر اس سے پہلے وہ ایچ بی کے بھیانک غضب کا شکار ہوتا، شرافت کے سنگ کمرے سے باہر نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

جبکہ پیٹ میں واقعی اس قدر درد اٹھا کہ وہ ایک بار پھر واش روم کے دروازے تک پہنچتے ہی غصے سے رکا، پیٹ پر ہاتھ رکھے بڑبڑاتے ہوئے اس لڑکی کو چند کوسنے دیتے ہی جناب نے اپنے قدم واپس موڑے کیونکہ وٹ والی دعا قبول جبکہ موشن والی برے طریقے سے رد ہوگئی تھی۔

پیٹ کا درد بھی اسے اس لیے ہوا کیونکہ سٹمک پرابلم کی وجہ سے وہ آئیلی چیزیں نہیں کھاتا تھا اور کل رات تو ضد میں اس نے مالنی کے بنائے وہ سارے چپس کھا ڈالے تھے اور اب معدے اور پیٹ کے درد نے بچارے ایچ بی کی حالت بگھاڑ دی تھی۔

                     ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

واہ چیونٹی کے بھی پر نکل آئے ہیں۔اسے ابھی پتا ہی نہیں کہ اس کھیل کا اس سے زیادہ مزہ مجھے آنے والا ہے جبل زاد! اچھی بات ہے، مریل سے خریف تو مجھے بھی پسند نہیں۔ خیر گاڑی تیار ہے؟"

ڈریسنگ کے سامنے کھڑا وہ اپنے کپڑے واپس پہن کر شرٹ کے بٹن بند کرتا جبل زاد کی لائی خبروں پر لطف لیتا آخری سوال پر رکا تو جبل زاد نے فوری اثبات میں سر ہلایا۔

آج اسکے زمینی کیس کی آخری ہیرنگ تھی جبکہ اسکے بعد ایچ بی کی خبر گیری کا ارادہ بنائے وہ اس شخص سے ملنے والا تھا جس کے ہاں زونین موجود رہی تھی، جبل زاد نے مشارب کے وہاں آنے اور زونین کو ساتھ لے جانے کی بھی خبر ضرار کو پہنچا دی تھی اور یہ پہلا موقع تھا جب میثم ضرار چوہدری کو مشارب زمان کے بھوسے بھرے دماغ میں ڈورتی ہوئی نایاب عقل نظر آئی تھی۔

"جی سائیں! بالکل تیار ہے"

جبل زاد کے پھرتیلے جواب پر ضرار نے خوشگوار سی مسکراہٹ کے سنگ رخ بدلا تو نگاہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آتی اشنال پر مرکوز ہو کر بے خود ہوئی تو جبل زاد بھی اپنے سائیں کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرتا مودب سا اجازت لیے کمرے سے نکل گیا اور وہ جو اسے ناشتے کے لیے بلانے آئی تھی، اسے نک سک تیار ہوتا دیکھ کر اپنی آنکھوں میں اتر آتی اداسی نہ چھپا سکی۔

"تم جا رہے ہو؟"

خود کی جانب مرکوز ان آنکھوں کی ٹھنڈک محسوس کرتا وہ اشنال کے سوال پر چند قدم اٹھاتا عین اس گھبرائی سی لڑکی کے روبرو آیا جو اسکے جواب کی منتظر دم سادھے ہوئے روبرو کھڑی دھڑک رہی تھی۔

"جی، آپ دوستی سے آگے بڑھنے نہیں دیتیں اور پرامس بھی توڑ لیتی ہیں۔ بس میں خفا ہو گیا ہوں اور سوچا ہے مریخ یا کسی اور سیارے پر شفٹ ہو جاوں"

اسکی متبسم سی سنجیدگی پر بھی اشنال افسردہ ہوئی، مگر یہ سچ تھا وہ اسکی ناراضگی والی بات پر خود دو قدم اٹھاتی اسکے قریب آئی تو میثم کو لگا صنم کی قربت نے جسم میں سرشاری پھونک ڈالی ہو۔

"تم مزاق کر رہے ہو ناں؟"

وہ افسردہ آنکھیں لیے معصومیت سے یقین دہانی کرتی اسکی جذبات لٹاتی آنکھوں میں جھانک کر بولی تو ضرار نے قربت کا فائدہ اٹھاتے ہی اسے کمر سے جکڑے اپنے نزدیک کیا جو اس اچانک لگتے جھٹکے پر اس سے ٹکڑاتے ٹکراتے بچی۔

سانسوں میں اترتی اس شخص کی مدہوش کن خوشبو سے فرار کرنا ناممکن تھا، کتنے دن بعد تو کل وہ دو ایک پرسکون نیند لے کر جاگے تھے، اب اس سکون کا اثر تھا کے دونوں کے دلوں کو چین میسر تھا مگر اشنال اسکے پھر سے کہیں جانے پر بوجھل ہو رہی تھی۔

"مزاق تو آپ کر رہی ہیں صنم! ہر حق ہونے کے باوجود مجھے میرے سکون سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ میں جانتا ہوں آپکا دل آپکو میثم کے ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر دماغ پر تکلیف کا گہرا اثر آپکو اس چیز پر یقین کرنے نہیں دیتا کہ آپ میری ہیں۔ مگر یہ جو چند گھنٹے میں نے آپکے ساتھ گزارے ہیں، آپ ان کے بارے میں پرسکون ہو کر سوچئے گا، اگر آپکے دل نے یہ گواہی دی کہ میثم اب بھی آپکا ہے تو میرے پاس آنے میں ایک لمحہ بھی مت لگائیے گا"

وہ میثم کے حرکت کرتے ہونٹوں پر نظر جمائے سن تو سب رہی تھی پر یوں تھی جیسے وہ سارے لفظ بے آواز سے ہوں، یہ اس لڑکی کا قصور نہیں تھا، انسانی دماغ بھی ایک مشین کی طرح کام کرتا ہے، ایک بار اگر خرابی آجائے تو مکمل علاج سے پہلے یہ امید لگانا کہ مشین ٹھیک سے کام کرے گی، سراسر بیوقوفی تھی۔

وہ اپنے ہاتھوں کے ٹھنڈے لمس اس لڑکی کی رخساروں تک پہنچاتا جب اسکی رخسار ، اپنے ہونٹوں کی مردانہ شدت بھری مہر سے گلنار کر گیا وہ تب اس سحر سے ہانپ اٹھتی باہر آئی اور اپنی گال بھی رگڑ دی اور میثم کے اس پر گھورنے کی دیر تھی کہ محترمہ کی آنکھوں کے کنارے سرخ ہو گئے۔

"ت۔۔تم پھر وہی کر رہے، مم۔۔میں نہیں بولتی"

وہ اسکے سینے پر دباو ڈالتی نکلنے کو مچلی مگر جناب نے بھی ساری نرمی ایک طرف کیے باقاعدہ اس بانکی نازک کو خود میں شدت سے بھینچ ڈالا۔

"م۔۔میثم"

شدت اس لڑکی کے لیے ناقابل برداشت ہوئی تو وہ درد سے اٹی آواز میں چینخی مگر وہ ہنوز جان نکالتا اسکی گردن میں چہرہ چھپائے اس مچلتی ، مزاحمت کرتی لڑکی کا ہر فرار رد کر چکا تھا جسکی دھڑکنیں ان منہ زور شدتوں پر اپنی ڈگر بھلانے لگیں اور اسکا سانس تک میثم کے جان لیوا گستاخیوں سے پھولنے لگا۔

"آپ چاہتی ہیں میں جلاد بن کر اپنے حق وصول کروں ہے ناں، مجھے تو فکر ہو گئی ہے کہیں میرا صنم دو سال کی کاکی ہی نہ بن جائے"

وہ ہرگز سنجیدہ نہ تھا اور جس طرح وہ اپنی گال، اسکی گال سے رب کرتا منہ بگھاڑ کر بولا، ناچاہتے ہوئے بھی اشنال ، چہرے پر ہوتی بیرڈ کی گدگداتی چبھن اور اسکی بات پر تمام گھبراہٹ کے مسکرائی۔

"تم ہوگے کاکا، ہٹو پیچھے۔ کیسے چپکو دوست ہو، میں سبکو بتاوں گی کہ تم مجھے ایسے قریب کر لیتے ہو"

وہ من ہی من میں مسکاتی مگر برابر گھبراتی اس کی گرفت سے سارا زور لگاتی نکلی تو مگر میثم نے ہنوز پرشوق متجسس نگاہوں سے محترمہ کی آخری دھمکی ملاحظہ فرماتے ہی اسکا بوکھلانا دیکھا جو یہ کہہ کر خود ہی آنکھیں جھکا گئی۔

"کیسے قریب آتا ہوں؟ کیا بتائیں گی۔ پہلے مجھے بتائیں تاکہ آپکی ٹرینگ ہو جائے"

معنی خیز، دل دہلاتا اس شخص کا انداز، اشنال کو لرزا گیا، وہ یوں تھی جیسے مزید چند لمحے اس حصار میں رہی تو یہیں سانس لیتی لیتی سانس چھوڑ دے گی یا دم توڑ دے گی۔

"ت۔۔تم ہو ہی بے شرم۔ ک۔کیسے کیسے سوال پوچھتے ہو"

پھر سے معصوم سا شکوہ کرتی وہ منمنائی تو میثم ناچاہتے ہوئے بھی اپنا بلند ہوتا قہقہہ نہ دبا سکا۔

"یہ دماغی فتور جب سے آپکو لاحق ہوا ہے، مجھے لگتا ہے آپ مجھے ایک بار پھر اپنے عشق میں گرفتار کر لیں گی۔ اپنی ان معصوم باتوں سے آپ میرے اندر کا شوہر بے وقت جگانا چھوڑ دیں کیونکہ ایک بار وہ جاگ گیا تو آپکو منہ سے سمجھانے کے تمام ارادے ایک طرف کیے میں صرف کر دیکھانے کی زبان استعمال کیے آپکا دماغ ٹھکانے لگاوں گا"

قہقہ رک تو گیا مگر اس شخص کی باتیں اور انکے لپکتے لمس اشنال کو کان کی لو تک سرخ کر گئے۔

وہ خفت سے سرخ پڑتی اسے دھکا دیتی پیچھے ہٹی اور رخ موڑ گئی مگر جناب لمحہ صرف کیے اسے حصار کر اپنی باہوں کا قیدی بنا گئے اور ناجانے وہ کیسا اسم پھونکتا کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس قربت کی اسیر ہو جاتی۔

میثم نے اپنی گرفت مزید مضبوط نہ کی کیونکہ تشنگی بڑھ رہی تھی اور یہ لڑکی اس تشنگی کو ختم کرنے کے دور دور تک کسی موڈ میں نہ تھی۔

"مس کریں گی؟"

نرم سی بازووں کی گرفت، اور پھر وہ اسکے دونوں ہاتھ جکڑ کر اشنال کے پیٹ پر ہی باندھ چکا تھا، ضرار نے اسکی کان کی لو سے ہونٹوں کو مس کیے گھمبیر سی سوالیہ سرگوشی کی جس پر ان دہکتے لبوں کی نرمی گال سے گردن کی جانب سرائیت کرتی محسوس ہوئی تو اس بے خود قربت نے اشنال کے حواس جنجھوڑ دیے۔

"مت کرو ناں، اللہ سائیں گناہ لکھ دیں گے۔ کو۔۔کوئی دعا قبول نہیں ہوگی پھر، مم۔۔مجھے چھوڑ دو"

ہوش لوٹتے ہی وہ سسک کر گڑگڑائی تو میثم نے گرفت سے آزاد کرتے ہی اسکو پلٹا کر اپنے روبرو کیا جسکی پلکیں بھیگ چکی تھیں۔

"آپ خود دعا جیسی ہیں یار، نہ کیا کریں یہ دل جلاتی بات۔ ٹھیک ہے جا رہا ہوں، پر میں چاہتا ہوں آپ مجھے مس کریں۔ بہت جلد آپکو یہاں سے بہت دور لے جاوں گا، جہاں صرف آپ کے سکھ موجود ہوں گے۔ مجھ پر اعتبار ہے ناں اشنال؟"

ان دنیا جہاں کی خوبصورت آنکھوں میں جھانکتا ہوا وہ اس سہمے دل سے ہمکلام تھا، تمام تر تکلیف کے بھی وہ سر ہلاتی میثم کا ڈوبتا دل بحال کر گئی تھی۔

"مس کریں گی؟"

میثم نے اسکی گال سے ہتھیلی جوڑ کر اپنا سوال دہرایا تو وہ اس بار پورے دل سے سر کو اثبات میں ہلا چکی تھی۔

"مس کروں گی پر دور رہ کر پیار کرنے والے میثم کو، قریب آکر درد دیتے میثم کو میں بالکل مس نہیں کروں گی"

منہ پر دنیا جہاں کی حیا اور خفگی سجائے وہ ان ہوش ڈگمگاتی نظروں سے اپنی آنکھیں جس جان لیوا ادا سے چرا گئی، وہ بندہ بس جبر ہی کرتا رہ گیا۔

اب ایسی عزیز لڑکی سے وہ کیسے دور جاتا جو اسے دور جانے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی تھی، بے اختیار ہی وہ ایک بار پھر خود پر جبر نہ کرتے ہوئے ان مدھم گلابی ہونٹوں کی بہار چرا گیا مگر مختصر جان لیوا یہ لمحہ اس لڑکی نے برداشت بھلے کیا ہو پر زور دار مکا وہ میثم کے سینے پر مارتی حیا اور تکلیف سے اٹے غصیل تاثرات دباتی کمرے سے ضرور بھاگی تھی جبکہ تہلکہ مچاتا تبسم میثم ضرار نے انہی محبوب پرست ہونٹوں پر سج کر ماحول معطر کر گیا۔

اپنا فون اٹھاتا وہ انہی مسکراتی آنکھوں کے سنگ خوشی تسخیر کرتا خود بھی کمرے سے نکل گیا۔

جبل زاد اور اس نے ہلکا سا خدیخہ خانم کے اصرار پر ناشتہ کیا اور اسکے بعد وہ اپنے کام کے لیے نکل گئا۔

وہیں ناشتے کے بعد وریشہ کی سرپرائز آمد نے جہاں خدیخہ خانم کو خوشی دی وہیں خود اشنال بھی وریشہ کے آنے پر کھل سی اٹھی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ناشتہ دونوں نے گھر سے دور ایک چھوٹے سے کیفے میں کیا تھا جبکہ واپسی پر آتے ہوئے مشارب نے اپنا ارادہ جب زونی کو بتایا تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی۔

وہ دس منٹ پہلے گھر پہنچے تھے مگر مشارب کے دو تین بار اصرار کرنے کے باوجود وہ ہنوز اپنے موقف پر پہاڑ کی طرح ڈٹی تھی۔

"لسن ٹو می لیڈی، کم ہیر۔ یہ اداسی فورا سے بھگائیں اور میری بات تحمل سے سنیں"

روٹھ کر پرے سرکتی زونین کو پہلووں سے تھام کر وہ روبرو لائے نرمی سے بولا جسکی نیلی آنکھیں درد میں مبتلا سیدھی مشارب کے دل کو زخم دے رہی تھیں۔

"آپ ہمیں مجبور مت کریں پلیز، ہمیں خوف آتا ہے وہاں جانے سے۔ مشارب ہم آپکے ساتھ کہیں بھی رہ سکتے ہیں مگر خانم حویلی میں نہیں"

آنسووں کی آمیزیش میں ڈوبی التجائیں کرتی وہ اپنی دونوں ہتھیلوں کو اسکے چوڑے سینے سے جوڑتی سسکی تو مشارب نے اسے نرمی سے خود میں سمو لیا، کچھ دیر وہ اس کانپتی، سہم جاتی لڑکی کی کمر سہلاتا رہا مگر وہ حویلی کے نام سے بہت زیادہ خوفزدہ تھی، اور باقاعدہ کانپ رہی تھی۔

"دیکھیں زونی، آپکی جگہ وہ حویلی ہے۔ اور خوفزدہ کیوں ہیں یار، میں آپکے ساتھ ہوں۔ میرے ہوتے ہوئے آپکو کوئی چھو بھی نہیں سکتا، جانا ضروری ہے، دراصل دو دن سے گل خزیں خانم لاپتہ تھیں، آج ہی صبح ملی ہیں اور ماں بتا رہی تھیں انکی طبعیت اچھی نہیں ہے۔ آپ سے اور مجھ سے انھیں جتنے بھی شکوے ہوں مگر آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتیں کہ وہ اس پوری دنیا میں ہم دونوں سے محبت کرتی ہیں، اور انہوں نے ہی تو مجھے یہ اتنی پیاری زونی دی ہے"

وہ اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے یہ یقین دلاتا ساتھ میں جو یہ سچائی بتا گیا، اس پر وہ تمام خوف کے باوجود نانو کے لیے بے قرار ہو گئی۔

اپنا ہاتھ مشارب کے ہاتھ پر رکھتی وہ بمشکل اپنے آنسو روک کر سانس بھر سکی۔

"ا۔۔اگر نانو نے آپ کو ہم سے واپس ل۔لے لیا تو ہم مر جائیں گے"

تڑپ تو وہ بھی اٹھی تھی پر جس طرح اس نے ان لوگوں کے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے تھے وہ مشارب کے لیے بہت حساس ہو گئی تھی۔

"مریں آپکے دشمن، ایسے جملے مت بولا کریں زونی۔ بی بریو، اب آپ سے مشارب کو موت بھی جدا نہیں کر سکتی۔ آپ میری زندگی ہیں لیڈی اور میں کیسے کسی کو اس زندگی کو لینے کی اجازت دے سکتا ہوں۔ یہاں میں نہیں رہ سکتا، وہاں کے معاملات بہت پیچیدہ ہیں اور میں اب کسی صورت آپکو اپنے سائے سے نکالنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ آپ آج مشارب زمان خان کی بیوی کی حیثیت سے وہاں جائیں گی اور میں آپکی حفاظت کروں گا۔ مجھ پر بھروسہ کریں"

وہ اس قدر مضبوط لہجے اور جذب سے یقین دلا رہا تھا کہ زونی کا دل چاہا وہ جی جان سے بھروسہ کر لے مگر خانم حویلی کا نام سنتے ہی اسکے پورے جسم میں درد کی لہریں سی اٹھنے لگی تھیں۔

"ہم آپ پر ب۔۔بھروسہ کر رہے ہیں مشارب پر ہمیں اکیلا مت کیجئے گا۔ اور نانو ٹھیک ہیں ناں؟"

وہ بڑے جبر سے مانی مگر اسکی گل خزیں کے لیے فکر بھانپ کر مشارب کو اس لڑکی پر پیار سا آیا۔

"آپکو اکیلا کبھی نہیں کروں گا ، باقی آپکی نانو بہتر ہیں لیکن شاید کوئی گہرا صدمہ لگا ہے جو جا کر ہی پتا چلے گا۔ اور جو کوئی اس کے پیچھے تھا وہ معاملہ بھی مجھے جا کر دیکھنا ہے، ایسا نہ ہو پھر سے کوئی ہنگامہ برپا ہو جائے"

وہ خود بھی اس معاملے کو لے کر عجیب سے انتشار کا شکار تھا ، زونی نے مان جاتے سر ہلایا تو جناب بھی سنجیدگی پرے کرتے ان مہکتے ، ہوش ڈگمگاتے خدوخال کی جانب پرشوق نگاہیں ٹکا گئے۔

"اگر مما کو پتا چلا ہم خانم حویلی آپکے ساتھ چلے گئے تو وہ سب سے بڑا ہنگامہ برپا کریں گی، ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے"

ان نظروں کا جان لیوا لمس محسوس کرتی وہ فورا سے بیشتر اسکے سینے لگتی پھر سے کانپتی آواز میں سسک اٹھی مگر جناب نے تو گویا اس فرار کرتی بیکار کوشش کو نوٹس ہی نہ کیا ، جان تو زونین کی تب نکلی جب اسے گردن پر مشارب کے ہونٹوں کی شدت اور شیو کی چھبن محسوس ہو کر گدگداتی ہوئی مچلا سا گئی۔

وہ سر تا پیر اس جسارت پر کانپی اور اسکا لرزش زدہ وجود گویا مشارب زمان خان کے سرور کو بڑھاوا دے گیا۔

"آپکی مما کو بھی دیکھ لوں گا اور اسکے برپا کیے ہنگامے کو بھی، آپ بس خود کو صرف میرے خیالوں میں بزی رکھیں لیڈی۔ میں نہیں چاہتا اب ہمارے بیچ کسی قسم کا کھنچاؤ یا دوری برقرار رہے، پہلے ہی کتنا سارا خوبصورت وقت میں نے گنوا دیا، سو آپ خود کو میری طرف سے کسی بھی پیش رفت کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھیں"

کان کی اور جذب سے کی دل دہلاتی سرگوشی میں اس قدر معنی خیز شدت ہلکورے لے رہی تھی کہ زونی کا دل، دھڑکنوں میں ہی الجھ کر رہ گیا۔

"ہمیں سمجھ نہیں آئی آپ کیا کہہ رہے ہیں"

خفت سے گلابی ہوتا چہرہ لیے وہ دانستہ انجان بنی تو مشارب نے شوخ مسکراہٹ کے سنگ اس خود میں سمٹ سمٹ کر سانسیں بحال کرتی لڑکی کو دیکھا۔

"کوئی بات نہیں، میں ان ناسمجھ لیڈی کو اچھے سے خود سمجھانا چاہوں گا۔ مجھے دلی خوشی ملے گی"

وہ لاکھ اسکے اس خوشمنا جملے پر مسکراہٹ دباتی مگر حیا اور قربت کا اثر تھا کہ اسکا چہرہ گلال رنگ میں تبدیل ہو کر مشارب کا دل بھی اپنی گرفت میں لے گیا۔

"ویسے کل رات تو آپ نے خاصا بڑا نو لفٹ کا بورڈ نیند کی صورت ارگرد لگائے مجھے چلتا کیا تھا پر آج کی رات کل کا حساب بھی چکانا پڑے گا اور یہ خوبصورت پل ہم وہیں بنائیں گے جو آپکے شایان شان جگہ ہے۔ باقی آپ جہاں بھی رہیں گی مشارب زمان خان کے دل کی ملکہ ہی کہلائیں گی"

ان شر انگیزیوں کو سہنے کی کہاں اس نازک میں سکت تھی، وہ اسکے لفظی تقاضے ہی جان آدھی کرتے محسوس کر رہی تھی تو اس شخص کے رات کے لیے بنتے ارادے تو انگ انگ تک خوف اتار چکے تھے۔

"ہمیں آپکی محبت پر کوئی شک نہیں پر اتنی جلدی آپ ہ۔۔ہماری جان مت لیں، ہم دل کو مضبوط کرتے رہ جائیں گے"

فطری حیا اور ہچکچاہٹ کے سنگ وہ بنا ان آنکھوں میں جھانک کر بولی جبکہ وہ اسے حصار میں مقید کرتا ان جھکی آنکھوں کی اور بے اختیار لپکا اور پربہار سے لمس عنایت کرتا بے خودی سے وہ گلاب جیسی نازک پنکھڑیاں اپنی گال سے لاڈ کے سنگ جوڑیں تو زونی نے شرمگیں بوکھلائی مسکراہٹ دیتے ہی اسکی بیرڈ کے احتتامی کنارے تک میسر آتی گال پر اپنے نرم ہونٹوں کا دباو ڈالے بوسہ دیا جس پر مشارب کی آنکھوں میں رسیلی سی چمک اتری۔

"لیڈی! یہ توفیق اللہ آپکو خود بھی دے۔ آپکا ہی ہوں، پیار کرتی ہیں جانتا ہوں لیکن اب سے آپکو اس پیار کا عملی اظہار دے کر میرے سکون میں پل پل اضافہ کرنا ہے ٹھیک ہے، باقی رہی آپکی خوشبو کی طلب، وہ تو آپکے قریب آتے ہی مٹ گئی، جبکہ ان مہکتی سانسوں کا نشہ میری اچھی طبعیت کے لیے ضروری ہے" 

وہ جانتا تھا وہ شدتوں میں اس لڑکی کے نازک وجود کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے مگر کیا کرتا، وہ اتنی مشکل سے میسر آئی تھی کہ اسکا بس چلتا تو اک لمحہ اسے خود سے الگ نہ کرتا، جبکہ وہ لمبی گھنی سیاہ، شرم سے جھکی پلکیں لے کر مشارب کی نظروں کے بے باک لمس سہتی دھڑک رہی تھی۔

وہ اسکی ٹھوڑی جکڑتا چہرہ اوپر اٹھائے مسکرایا تو محترمہ نے پھر سے ان آنکھوں کو نہ دیکھنے کی ہمت کرتے دھڑکنیں زیر محسوس کیے، لب دبا کر اسے دیکھتے ہی خود کو مشارب زمان کے مضبوط وجود میں سمیٹ لیا۔

"بہت دن آپکی قربت کی حسرت میں ناشاد رہا ہوں زونی، اب آپ جب دسترس میں آئی ہیں تو لگتا ہے یہ ادھوری سانس والا پوری سانس لے کر جینے لگا ہے"

وہ جو نرم روح جھنجھوڑتی گرفت میں سانس لے رہی تھی، ان جذباتیت بھرے الفاظ نے اسکے اندر باہر فسوں خیزی طاری کی، یہ یکدم بوجھل سانسوں کا زیر و بم جب ماحول پر بھاری پڑا تو وہ اس سے دور ہونے کو مچلنے لگی۔

"ہم جانتے ہیں"

وہ سانس کھینچ کر بولی اور پھر جس طرح اس نے سانس خارج کیا، حدت نے مشارب خان کا سینہ جکڑا، وہ اسے خود میں بسائے ، دور کرنا بھول چکا تھا، جو گناہ اسکے ہاتھوں سرزد ہو گئے تھے وہ شدت سے دعا گو تھا کہ انکے کسی بھی بدلے میں کم ازکم اسے اس لڑکی کے لیے مزید کسی حسرت اور تڑپ سے نہ آزمایا جائے۔

وہیں دوسری جانب وریشہ یہاں اپنا الجھا ہوا اور اذیت سے اٹا دماغ ریلکس کرنے آئی تھی مگر یہاں آکر تو اسکی اذیت تب مزید بڑھی جب خدیجہ خانم نے اسے بھی تمام سچائی بتا کر اشنال کی ذہنی ابتری کی خبر دی۔

وہ یہ سچائی سن کر تھم کر رہ گئی، یعنی ضرار لالہ نے اپنے صنم کو اس درندے سے ناصرف بچا لیا تھا بلکہ شہیر کو اتنا بڑا دھوکہ دینے میں بھی کامیاب ہو چکے تھے۔

وہ مزید تکلیف میں اتر گئی، اگر اسے اس سبکی پہلے خبر ہو جاتی تو وہ ہرگز اپنی زندگی برباد نہ کرتی۔

"کاش یہ سب مجھے پہلے پتا چل جاتا، اوہ اشنال ، میں تمہارے لیے خوش ہوں یا اپنے لیے ماتم کروں۔ اوف میرے اللہ! یہ میں نے جذباتی پن میں کیا کر دیا۔ اشنال کو تو ضرار لالہ نے بچا لیا اس منحوس سے، پر وریشہ یوسف زئی کو کون بچائے گا۔ کیا مجھے ولی سے بات کرنی چاہیے؟"

گلالئی اور اشنال کو باہر لان کی طرف چہل قدمی کرتا دیکھ کر وہ بھی ساتھ ہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی کرب ناک سوچوں میں ڈوبی تھی، ولی ہی آخری نجات کا ذریعہ دیکھائی دے رہا تھا، اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سچائی جاننے کے بعد نہ تو اسکے دادا اسے اس غلطی پر معاف کریں گے نہ ہی ولی زمان بخشے گا۔

وہ کچھ دیر اشنال اور گلالئی کے ساتھ واک کرتی رہی پھر ہوسپٹل پہنچنے کا بہانہ کرتی وہاں سے نکل گئی۔

کچھ دو گھنٹے کے قریب اس نے غائب دماغی سے چند مریض دیکھے اور پھر گھٹن سی محسوس ہونے پر وہ ہوسپٹل کے لان میں چلی آئی۔

اسکی آنکھیں وحشت سے بھری تھیں۔

"یعنی تم صرف میری عبرت بن کر آئے تھے شہیر، مجھے خوف آرہا ہے اگر میں مزید تمہارے نکاح میں رہی تو ت۔۔تم سے محبت کر بیٹھوں گی اور یہ جو محبت ہوگی یہ عام محبت تو کہیں سے نہیں ہوگی۔ میں مر جانا پسند کروں گی مگر تمہیں دی بدعائیں واپس نہیں لے سکتی، تمہیں ترسا ترسا کر مارنے کا جو عہد لیا تھا اس پر جمے رہنا میری مجبوری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تم نے میرا تو کوئی نقصان نہیں کیا پھر میں کیوں تمہیں تکلیف پہنچانے کے سارے اختیار اپنے ہاتھ میں رکھوں۔ تمہیں تو خود دھوکا دے کر غائبانہ سزا دے دی ضرار لالہ نے، شکر ہے کہ اشنال اب بھی انکے نکاح میں ہے اور وہ آگے بھی اسکی تم سے خفاظت کریں گے لیکن اب میں کہاں جاوں، میری خفاظت تم سے کون کرے گا بدبخت انسان۔۔۔۔ "

وہ خود سے جنگ لڑتی کبھی وحشی ہو کر چینخی تو کبھی بے آواز سسک کر اپنی نم ہوتی آنکھیں رگڑنے لگتی اور تکلیف صرف اسی پر نہ تھی، وہ بھی آوارہ گردیاں کرتا، زخمی جسم گھسیٹا اسی لڑکی کے بارے سوچ رہا تھا جس نے اسے اب حقیقی تکلیف پہنچائی تھی۔

"یا اللہ مجھے کوئی راہ دیکھائیں، میں یوں بے بس اور بے کس سی تو کہیں کی نہیں رہوں گی۔ مجھے ولی زمان کو سب بتانا ہوگا، وہی ہیں امید کی آخری کرن"

کہیں بھی کوئی امید کی راہ دیکھائی نہ دی تو وریشہ نے ولی زمان خان کو ہی اس مشکل وقت پکارا ، وہ فون نکال کر سانس کھینچ کر وہ بڑی ہمت جمع کیے اس انسان کا نمبر ملا چکی تھی جو اس وقت تھانے میں ہی موجود تھا اور اپنے لوگوں سے کچھ اہم معاملات ڈسکس کر رہا تھا جب میز پر پڑے اسکے فون پر وریشہ یوسف زئی کا نام جگمگایا۔

دل کی دھڑکن بڑھنے لگی تھی، تبھی وہ تمام اہل کاروں کو باہر جانے کا اشارہ کیے خود تمام تر تکلیف کے بھی اسکی کال اٹھا کر فون کان سے لگا گیا۔

"کہیں وریشہ؟"

سپاٹ مگر فکر سے بھرا انداز جو ناچاہتے ہوئے بھی وریشہ کے دل کو غمگین کر گیا۔

"مجھے تو لگا تھا آپ میرا نمبر تک ڈیلیڈ کر چکے ہوں گے"

عجیب سی تکلیف تھی جس میں وہ مبتلا تھی اور ولی زمان خان تلخی سے مسکرا دیا، کیا جانتی وہ لڑکی کے وہ پوری اس کے دل پر تحریر تھی۔

"شکل نہ دیکھانے کا عہد کیا ہے، وہ بھی تکلیف حد سے بڑھی تھی اس لیے، لیکن کمظرف یا بے حس نہیں ہوں جو آپکی دھتکار پر دل میں موجود آپکا محبت سے تراشا ہوا عکس نوچ ڈالوں گا۔ آپ میری نہیں رہیں اور ولی زمان خان اس دنیا میں کسی کا سگا نہیں رہا۔ یہ بتائیں ایسا کیا معاملہ پیش آگیا جو مجھے پکارنے پر مجبور ہو گئی ہیں"

وہ تمام تر اپنی تکلیف بھلائے جس طرح وری کے لہجے کی تڑپ بھانپ گیا تھا، وہ لڑکی واقعی خود کو نہ سنبھالتی رو دی اور جب اسکے آنسو گرے تو ولی زمان خان کی دھڑکن سست ہو گئی۔

"وریشہ! بتائیں کیا ہوا ہے۔ رو کر آپ مجھے بہت برا ستا رہی ہیں۔ ایک تو میری نہیں رہیں دوسرا کسی اور کی ہو کر بھی خوش نہیں تو اس پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا۔ ٹیل می واٹ ہیپن؟"

اس بار اس شخص کا انداز جنون خیز اور اذیت سے بھرا تھا اور یہ وہ واحد شخص کے جس کے آگے وہ بنا کسی خوف کے اپنے سارے آنسو بہا سکتی تھی۔

"م۔۔مجھے اپنا دوست بنا رہنے دیں ولی، مجھ سے ولی زمان جیسا ہمدرد مت چھینیں کہ میں خود کو بہت اکیلا فیل کر رہی ہوں، پلیز آئی نینڈ یو۔ میں جتنا بھی برا کر گزروں، آپ کبھی مجھ سے ناراض م۔۔مت ہوئیے گا۔ پلیز ولی، آپ ابھی آسکتے ہیں؟ بس ت۔۔تھوڑی دیر۔۔۔۔ "

وہ مضبوط اور حوصلے والی وریشہ یوسف زئی یوں ہچکیوں کی زد میں رو رہی تھی اور ولی کو ایسا لگ رہا تھا جیسے دماغ پر کوئی ہتھوڑے برسا رہا ہو۔

وہ لڑکی تو جان مانگتی تب بھی ولی جان اسکی ہتھیلی پر جا رکھتا۔

"کہاں ہیں آپ؟ بتائیں میں آتا ہوں"

اپنا دہل اٹھتا دل سنبھالتا وہ نرمی سے استفسار کرنے لگا مگر وریشہ نے چہرے پر پھیلتی آنسووں کی نمی رگڑتے ہی کال کاٹی اور ساتھ ہی ہوسپٹل کا ایڈریس اور لوکیشن اسے سینڈ کر دی۔

وہ ہوسپٹل تھی اور ولی زمان نے نہ تو اس وقت اپنی تکلیف کا سوچا نہ اس لڑکی کے خود پر ڈھائے ستم کا، بس اٹھ کر اس کی تڑپتی پکار پر چل پڑا۔

محبت کرنے والوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ بدلہ لیں، اور وہ لڑکی تو سانسوں کی طرح اسکے وجود کا حصہ تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ہاہا، او مائی گارڈ۔ آج تو لگتا ہنس ہنس کر میرے گردے فیل ہوجانے۔ جلدی جلدی یہ کچھڑی دے کر آتی اور ماسکو کے جلے زخموں پر چھڑکنے کے لیے نمک دانی بھی رکھ لیتی۔۔چل مالنی اب اس کھڑوس کی جان نکالنے کے لیے ریڈی ہو جا"

جب سے نصیر جاتے ہوئے باورچن کو ہلکے پھلکی کوئی غذا بنانے کا بول کر دوا لینے گیا تھا تب سے مالنی نے دونوں عورتوں کو اپنا کمرہ صاف کروانے پر لگائے کچن خود سنبھال لیا تھا، ایک طرف اس نے بکرے کے گوشت کی نمکین یخنی بنائی جبکہ دوسرئ طرف مزیدار سی کچھڑی اور ان دونوں کو باولز میں الگ الگ ڈالتی وہ ٹرے سجا رہی تھی۔

چونکہ سوپ میں نمک کم رکھا تھا تبھی اس نے نمک دانی بھی ساتھ ٹرے پر سجائی اور اپنی بے قابو ہنسی دانتوں کے اندر ہی دباتی وہ گلابی رنگ کے خوبصورت جوڑے پر کالی اور گلابی چنری گلے میں رول کر کے ڈالتی آج بال بھی کس کے باندھنے کے بجائے ہلکی سی پونی میں مقید کر رکھے تھے، پیروں میں اسکے سرخ لہو چھلکاتے پیروں سے بھی نازک دو سڑیپ والی فلیٹ جوتی جبکہ چہرہ یوں تو ہر قسم کے میک آوور سے خالی تھا مگر مسکارہ اور کاجل تو ان رنگ بدلتی چمکتی آنکھوں کا ضروری حصہ ہوتا، پھر نرم ہونٹوں پر لگا چمکیلا گلابی ہی لپ بام، خوشبووں میں لپٹی، شرارت پر آمادہ سی وہ ٹرے لیے ایچ بی کے روم کی جانب بڑھی جو فریش ہو چکا تھا اور اپنے سٹڈی روم میں کچھ اہم فائلز کی ورق گردانی میں مصروف تھا، فل بازو والی ہمیشہ پہنی جاتی سیاہ شرٹ اور بلیک ہی ٹائیٹ جینز جبکہ ایپس شیپس چھپانے کو وہ ٹائیٹ شرٹ کے اوپر بھی کھلی شرٹ یا جیکٹ پہنتا تھا۔

وہ دبے پیر روم میں آئی تو ایچ بی کو کہیں نہ پائے وہ ٹرے میز پر رکھتی اپنے بال نزاکت سے جھٹک کر ڈریسنگ کی جانب بڑھی، جہاں رنگ برنگے برینڈ پرفیومز اور باڈی سپرے رکھے گئے تھے، اور بھی کئی کریمز تھیں جنکے اتنے لمبے نام تھے کہ مالنی نے پڑھنے کا تکلف ہی نہ کیا۔

"تو اتنے سارے ٹیچک بیچک کرتے ہو تم ماسکو تبھی گورے نشور ہو، یہ کریم وہ کریم۔۔۔ گوری چٹی تو مالنی بھی ہے، بلکہ تم سے تو ہزار گنا پیاری ہوں۔۔ہنہ"

ڈریسنگ پر اتنے سارے فیس اور باڈی پراڈکٹس دیکھ کر وہ جو بولتی پلٹی، جناب سٹڈی کا دروازہ کھولے ناصرف باہر آئے بلکہ گھور کر اس کمرے کو ابا جی کا گھر سمجھ کر دنددناتی لڑکی کو دیکھنے لگا جو دوبارہ سے قہقہہ لگاتی دو لمحوں میں ٹھیک ایچ بی کے روبرو آن جمی۔

"تشریف آوری کا مقصد پھوٹو اور نکلو"

نہایت غصے سے وہ اس پر بگھڑا کیونکہ اسکی ہنسی ایچ بی کو آگ لگا چکی تھی۔

"ہاہا رکیں، صبر کریں۔۔ہاہا میرا ہاسا تو کنٹرول ہونے دیں۔ وہ ناں میں موشن اور وٹ کا علاج بتانے آئی تھی ساتھ دیکھیں بنا آپکے کہے بھی پرہیزی کھانے بنا لائی۔ چلیں ادھر آئیں شاباش"

بنا اسکے غصے کی پرواہ کرتی وہ اسکا ہاتھ جکڑے باقاعدہ گھسیٹ کر صوفے کے قریب لائی اور دونوں ہاتھوں کے زور سے دھکا لگائے اس نے ایچ بی کو باقاعدہ صوفے پر پٹخا جس کا یہ سب دیکھ کر دماغ ہی گھوم گیا۔

وہ اس لڑکی کی جرت پر مجسمہ بنا اسکی تمام حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا جو بڑے سلیقے سے سوپ کا باول اسکے سامنے رکھ کر سپون سیٹ کرتی خود بھی جس بے تکلفی سے ساتھ بیٹھٹی، ایچ بی باقاعدہ سہم کر زرا دور سرک کر بیٹھا۔

"کھا تھوڑی جاوں گی، ڈر کاہے رہے ہیں ماسکو"

اٹھ کر وہ زرا بنایا فاصلہ مٹاتی وہ آنکھیں پٹپٹاتی پھر اوپر جڑھی جبکہ اس بار وہ غصے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"چیز کیا ہو تم، اٹھو وہاں بیٹھو۔ خبردار جو مجھے ٹچ بھی کیا دوبارہ"

وہ اس لڑکی سے جس طرح خوف کھاتا بڑبڑایا، مالنی نے بہت مشکل سے ہنسی روکی اور اٹھ کر جھٹکے سے اس آدمی کا دم نکالتی سامنے جا جمی۔

"لڑکیوں کو ایسے ڈرتے ہوئے بہت دیکھا ہے، ہاہا آپ نے تو حد کر دی ماسکو۔ میں کوئی فلم کا ولن ہوں جو اس نازک حسینہ کی عزت لوٹ لوں گا۔ کم آن بڈی۔۔آئیں بیٹھیں، میں پکا اب بیچ میں فاصلہ بنا کر بیٹھوں گی۔۔۔چلیں میں سامنے بیٹھ جاتی، اب خوش"

اس لڑکی کی اس درجہ بے باک اور کھلی ڈھلی گفتگو سن کر ایچ بی کے ماتھے پر نمی سی چمکی مگر وہ اپنا خوف دباتا ، خود کو پراعتماد ظاہر کرتا واپس بیٹھا مگر بچارے نے دوبارہ اس آفت کو دیکھنے کی غلطی نہ کی۔

"مجھے نہیں کھانا یہ سب، اور تم براہ مہربانی میرے کمرے میں آنے سے تھوڑا گریز کیا کرو"

ناگواری سے ان اپنے مطابق بدمزہ دونوں کھانوں پر نظر ڈالتا وہ آخری جملہ اسکی جانب دیکھ کر بولا مگر مالنی صاحبہ نے تو جہاز بنا کر سر سے گزار دیا۔

"آپکے کمرے میں مارشل لاء نہیں لگا جو گریز کروں، اب آپ نے مجھے تنگ کرنے کی اجازت دی ہے تو بھگتیں۔ خیر کیا بہت سخت درد ہے؟ پلیز تھوڑا سا کھا لیں دیکھیے گا کیسے درد بھاگے گا۔ مجھے پتا ہوتا کہ آپکے اندر کا نظام اتنا نازک ہے تو بددعاوں پر ہتھ ہولا رکھتی"

پٹر پٹر کرتی وہ ایچ بی جیسے پراعتماد تک کو بوکھلانے پر مجبور کرتی آخر تک کچھ شرمندہ سی ہوئی۔

"تم نے مجھے بددعا دی؟"

وہ ابرو اچکا کر گھورتا مالنی کی زبان بھی لمحہ بھر بند کروا گیا۔

"جی موشن والی اور اخیر قسم کے وٹ کی، پر یہاں تو بندہ زیادہ ہی ہل گیا ہی ہی۔۔پر آپ کی بھی غلطی ہے بھئی، کس نے کہا تھا سارے چپس چٹ کر جائیں"

مسکین شکل بناتی وہ اعتراف کے ساتھ ساتھ سارا ملبہ بھی دوبدو ہوتی اسی پر ڈال گئی جو بس اس لڑکی پر اک نظر ہی ڈالتا رہ گیا۔

"نکلو یہاں سے، فضول بک بک نہیں سن سکتا مزید تمہاری اور یہ جو گھول کر لائی ہو اسے بھی اٹھاو شاباش۔ پہلے میرا معدہ ہل گیا، کیا بھروسہ تمہارا کہ تم نے زہر ہی نہ ملا دیا ہو"

ایچ بی کو اس قدر بدگمان دیکھ کر مالنی کو واقعی دکھ ہوا اور وہ جس طرح اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک بار پھر اسکے پاس آکر بیٹھی، بچارے کو پرے سرکنے کی مہلت ہی نہ ملی کیونکہ وہ سوپ سے بھرا سپون بھر کر اس سے پہلے اسکے منہ پر لگا ماسک ہٹاتی، ایچ بی نے اسکا بے لگام ہاتھ نہ صرف جکڑا بلکے اسی کی کمر پے لے جا کر باندھتے اس شدت سے مڑورا کہ اک پل تو وہ بھی اس شدت پسندی پر درد سے گھبرا گئی۔

"دوبارہ اگر تم نے اس ماسک کو ہٹانے کی جرت کی تو بتا رہا ہوں، تمہاری زندگی کا چراغ گل کر دوں گا"

وہ درد محسوس کرنے کے باوجود ایچ بی کی سیاہ آنکھیں دیکھتی ڈھٹائی سے مسکرائی تھی جسے پھر سے اس سنگین حالت میں کوئی نیا شگوفہ یاد آچکا تھا۔

"بڑے آئے چراغ گل کرنے والے، چراغ تو آپکے گل ہوجاتے مجھے دیکھتے ہی ماسکو، بلکہ موم بتیاں، قمقمے سب۔۔۔ بس ماسک ہی تو ہٹا رہی تھی تاکہ آپکو اپنے ہاتھوں سے کچھ کھلا سکوں اور الٹا آپ ایک نازک حسینہ کی بازو توڑنے پر اتر آئے ہیں، سو روڈ"

آنکھوں میں جوشیلا سا سرور بھرتی وہ اس سے بلکل ڈرے بنا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جتا گئی جس پر وہ ناصرف اسکی کلائی آزاد کر گیا بلکہ فورا سے فاصلہ اختیار کیے اٹھ کھڑا ہوا۔

"تمہیں کہا تھا یہ ماسک صرف ایچ بی کی بیوی اتار سکتی ہے لیکن تمہاری عقل تو گٹوں میں ہے، ایک بات سو بار سمجھاوں گا تب پلے پڑے گی۔ ویسے ایک بات بتاو؟ تمہیں مجھ سے زرا بھی ڈر نہیں لگتا؟ "

اپنے غصے اور اضطراب کو بیک وقت دباتا وہ اس کو ڈانٹا ہوا آخری سوال خاصے تجسس سے پوچھ رہا تھا جس پر دی گریٹ مالنی صاحبہ مسکاتی ہوئیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"ڈر؟ وہ بھی آپ سے۔ اتنے کیوٹ سے ماسکو سے کون ڈر سکتا ہے۔ ہاہا کچھ دیر پہلے بھیگی بلی تو آپ بنے تھے، ویسے ایک بات کہوں"

وہ لڑکی مسلسل اس بندے کا امتحان لیتی جا رہی تھی اور ایچ بی خود پر بہت کنٹرول رکھے اسکی نظریں برداشت کر رہا تھا جو سیدھی دل جکڑ رہی تھیں۔

"فرماو"

غصے سے وہ احسان جتاتا بولا تو مالنی نے دو قدم مزید اسکی جانب بڑھائے بیچ کا فاصلہ کم کیا تو ایچ بی اسکے تیور بھانپ کر پھر سے کچھ مشکوک ہوا۔

"آپکے لیے آنٹی والا آپشن بیسٹ رہے گا، یار آپ اتنے نازک مزاج ہیں کہ تھوڑا سا پیار کر کے بھی تھک جایا کریں گے، سو میرے جیسی کوئی لڑکی ہوئی تو اپنے شوہر سے اس قدر کنجوسی سے ملتا پیار تو واپس اسی پر وار دے گی کہ جا بابا معاف کر۔۔۔ یہ پیار تو ہی جیب میں رکھ لے۔۔۔۔ سو یہ جو آپ نے بیوی والی شرط رکھ دی ہے ناں دیدار کے لیے، میں اس بارے سنجیدہ ہونے لگی ہوں۔ آج سے آنٹی ڈھونڈنے کا کام شروع"

اس شخص کی روح تک اترتی تیز نظر کی پرواہ کیے بنا وہ یہ الفاظ کہتی ، اسکے دماغ کی چولیں تک ہلاتی بیچ کا فاصلہ بنا کر ہنسنے لگی جبکہ وہ جو کافی دیر سے اپنے غصے کو دبا رہا تھا، اس لڑکی کے دکھتی رگ دبا دینے پر اسکا گلا دبانے کو اسکی اور لپکتے غرایا پر پھر ناجانے کس احساس کے تحت وہ اسکی جانب بڑھایا ہاتھ مٹھی بنا کر بھینچ گیا۔

"مالنی! تم میرے صبر کا امتحان لینا بند کرو گی یا میں تمہیں اس گھر رکنے کی جو پیشکش کر بیٹھا ہوں اس پر اپنا سر پیٹ ڈالوں؟"

دانت نکوس کر وہ غرایا تو سہی پر مقابل وہ ہنس کر مزید اسے آگ لگا گئی۔

"جی سر پیٹ لیں ماسکو، وہ کیا ہے ناں۔ آپکی زندگی اجیرن کرنے آئی میں بھلے کسی کی مرضی سے تھی پر جاوں گی اپنی مرضی سے۔۔۔ہاہا جب آپ یوں چڑتے ہیں تو کلیجے تک ٹھنڈ اترتی ہے۔"

وہ ہنوز ہنستی ہوئی اس بندے کو ناک تک عاجز کرتی زچ کر چکی تھی جو مٹھیاں بھینچ کر ناجانے کس قدر ضبط کر رہا تھا کہ ماتھے اور گردن تک کی رگیں تنی تبھی تو مالنی نے فورا سے پہلے شرافت سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔

"ہاہا اوکے اوکے میں جا رہی ہوں لیکن پلیز یہ سب کھا لیجئے گا، اور دو دن تک کوئی الٹی سیدھی چیز بھی نہیں کھانی ورنہ آنٹی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا"

اسکو بہت تنگ کرنے کے بعد وہ خود ہی بچارے پر ترس کھاتی آخر میں پھر سے گدگداتی ہنسی بکھیرے فورا سے پہلے کمرے سے بھاگ گئی اور ایچ بی بالوں میں مارے اضطراب ہاتھ پھیرتا، گہرا سانس کھینچے وییں صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔

"کیا چیز ہے یہ لڑکی؟ یا میرے خدا ! مجھے اس سے بچا لیں۔ میری ہی مت مری تھی جو اسے گھر رہنے کی پیشکش کر دی، اوپر سے تنگ کرنے کا لائسنس بھی تھما دیا۔ واہ ہاشم بزدار واہ، تمہیں تو اس کارنامے پر آسکر دینا پڑے گا۔۔۔۔"

گہرے گہرے سانس بھرتا وہ اپنے ہی کرموں کو کوس اٹھا جبکہ اسکی پتلی حالت بتا رہی تھی کہ جلد یا بدیر یہ لڑکی اسے واقعی کہیں کا چھوڑنے والی نہ تھی۔

"لیکن ایک منٹ! اس نے مجھے کچھ زیادہ ہی نازک مزاج سمجھ لیا ہے، جو بھی ہو جائے بیوقوف مالنی، تمہاری یہ غلط فہمی تو اب میں دور کر کے ہی رہوں گا۔ بھلے اس کے لیے مجھے تم سے شا۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، کیا بکواس آئیڈیا سوچ رہا ہوں، میرے منہ میں خاک۔ اس سے شادی کرنا اور خودکشی کر کے مرنا ایک سا ہے، اور ابھی میں مرنا افورڈ نہیں کر سکتا"

یکدم ہی اس لڑکی نے جو اسکی مردانگی اور نازک مزاجی پر طنز کر دیا تھا، وہ یاد آتے ہی ایچ بی انتقامی جذبات میں سرشار کچھ کہتے کہتے خود ہی لاحول پڑتا خود کی سرزنش کر گزرا، جبکہ ابھی اس نے وہ دو باول دیکھے ہی تھے کہ دروازے پر ہوتی دستک پر وہ متوجہ ہوا تو نصیر دوا کے ساتھ ساتھ ایک خاص پیغام کے ساتھ اندر آیا۔

"آپ یقین نہیں کریں گے جناب پر لاونچ میں ضرار بیٹھا ہے، وہ آپ سے ملنے آیا ہے"

نصیر کی دی اس خبر پر ہاشم جھٹکے سے سر اٹھاتا ساتھ ہی اس حیرت انگیز خبر پر اٹھ کھڑا ہوا۔

"کیا؟"

اسکے اس ایک لفظی جملے میں حیرت کے سمندر موجزن تھا جبکہ نصیر نے یقین مستحکم دلاتے معصومیت سے اپنے کندھے اچکائے تو ہاشم کی آنکھوں میں اس بار تکلیف سی اتر آئی، وہ اسے کچھ دیر تک آنے کا کہتا نصیر کو کمرے سے جانے کا اشارہ کیے خود اپنی کن پٹی انگلیوں کی پوروں سے دبانے لگا، کیونکہ ضرار کی یہاں آمد وہ ہرگز امید نہیں کر رہا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄

اس وقت کمرے میں صرف عزیز خان اور سردار خاقان موجود تھے اور قبر کی سی قہر ناک خاموشی کا راج تھا، سردار خاقان اپنی آرام دہ کرسی پر رعونت کے سنگ براجمان تھے جبکہ عزیز خان کسی مجرم کی طرح بابا سائیں کی عداوت، غصے اور نفرت کی وجہ سے روبرو غمگین سے کھڑے تھے۔

"تمہیں پتا ہے عزیز خان! سردار خاقان کو دھوکہ دینے والی اسکی اولاد ہو ، اسکے سر میں خاک ڈالنے والا اسکا خون ہو تو وہ کیا عبرتناک سزا دیتا ہے"

سردار خاقان کی پھنکارتی آواز پر عزیز خان نے اپنا جھکا چہرہ اٹھائے تکلیف سے دیکھا جو حقارت سے عزیز خان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

"میں نے جو کچھ کیا اپنی اولاد کے لیے کیا بابا سائیں"

عزیز خان کا لہجہ تیز مگر تکلیف میں گندھا ہوا تھا اور اسکے اس جواب نے اس فرعون صفت انسان کے ماتھے پر ناگواری کے سنگ بل ڈال دیے۔

"واہ! اپنی اولاد کے لیے تم نے اپنے ہی باپ کو زلیل کروایا۔ تمہاری ماں کو وہ حرام زادہ اٹھوا لے گیا، اسکی وجہ سے میں نے اپنی پیاری بیوی کی تزلیل کر دی۔ لیکن تم نے یہ کر کے بتا دیا کہ تم بھی کوئی حرام خون ہی ہو عزئز"

کڑوے اور تضخیک لٹاتے الفاظ جب عزیز خان پر انڈیلے تو وہ تڑپ کر اس زیادتی پر اس باپ کو لہو چھلکاتی آنکھوں سے دیکھنے لگے جو اسکے سامنے اسکی ماں کی زلالت کے بعد اب اسی پیاری خانم کو گالی دے رہا تھا۔

"بس بابا سائیں! اس سے آگے ایک لفظ بھی اگر آپ نے کہا تو میں بھول جاوں گا کہ میرا اور آپکا ادب کا رشتہ ہے"

عزیز خان کی غیرت جاگی وہیں وہ تلخ ہوتے حلق کے بل چلائے جبکہ خاقان خان اس سے سو درجے اونچا غضبناک ہو کر دھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔

چند لمحوں کے لیے کمرے میں پھر سے اذیت ناک سناٹا چھایا۔

"ادب گیا بھاڑ میں، ایک غلطی کنزا نے کی تھی اور اسے جو میں نے سزا دی تھی وہ تم بھولے نہیں ہوگے نا یہ پورا علاقہ سردار خاقان کے اس انصاف کو کبھی فراموش کر پائے گا، اب ایک غلطی تم نے کر دی ہے عزیز خان۔ دیکھنا اب پوری دنیا اس سزا کو یاد رکھے گی جو میں تمہیں دوں گا"

وہ دہشت طاری کرتے سہم جاتے عزئز خان کے قریب آئے اور اسکے گریبان کو جکڑ کر جھٹکا دیتے پھنکارے جسکی آنکھوں میں لہو اتر چکا تھا۔

"مار دیں گے؟ اور آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کنزا خانم کو جیتے جی مارا تھا اور عزیز خان کو سچ میں مار دیں۔ میں خود اس موت جیسی، مانگ مانگ کر سسکتی زندگی سے تنگ آچکا ہوں۔ میری اشنال اور خدیخہ خانم دونوں اب ضرار کی حفاظت میں ہیں سو مجھے اپنی موت کا کوئی ڈر نہیں۔ نہ میں آپ کی کسی دی سزا سے خوفزدہ ہوں۔ سمجھے آپ"

آج اس شخص کے اندر موجود سارا کرب پھٹ کر باہر نکلا تھا، وہ آبدیدہ تھے، اذیت میں تھے اور عزیز خان کی اس بغاوت نے سردار خاقان کے اندر شعلے جلا دیے۔

"ہاہا تجھے ماروں گا پر تیری موت تیرے ان تین پیاروں کی سزا بنا دوں گا، تو نے سردار خاقان کی عزت اور غیرت کو للکارا ہے عزیز خان، تیری موت کو ہی اب اس دشمنی کے آگے رکھنے والا آخری پتھر بناوں گا۔ اس ضرار سے جو انتقام اب میں لوں گا اس میں وہ قطرہ قطرہ تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے گا۔ دیکھتا جا عزیز خان اب اپنے باپ کا اصلی اور بھیانک روپ"

عزیز خان کو نفرت تو آج اس باپ سے محسوس ہوئی تھی مگر ڈر بھی لگا کیونکہ وہ باپ کسی بھی نیچ حرکت پر اتر سکتا تھا۔

عزیز خان کی سرخائی گھلی آنکھوں میں خوف کی لہر پوری قوت سے بیدار ہوئی۔

"اگر آپ نے ضرار یا اشنال کو آنچ بھی دی بابا سائیں تو میں وہ کچھ کر گزروں گا جسکی آپکو توقع نہیں ہوگی"

عزیز خان نے خود کو مضبوط کرتے دھمکانا چاہا پر سردار خاقان کا خبیث قہقہہ پورے کمرے میں گونج کر اس سسکتے تڑپتے شخص کے اندر خوف و ہراس اتار گیا۔

"کئی سالوں پہلے میں نے جب بخت کا سینہ چیڑا تھا تب بھی اتنا سکون نہ ملا جتنا ہاشم اور ضرار کو اذیت دے کر آیا، ایک تو جل گیا تھا مگر دوسرے کو اب جلاوں گا۔ میں اب بزدار عالم کی نسلیں مٹا دوں گا، اور اگر مجھے اس سب میں اپنے خون کو بھی داو پر لگانا پڑا تو پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اور تم جیسا گندا خون تو ضائع ہی ہوجائے یہی بہتر ہے"

وہ فرعون شخص، اپنی کمینگی اور سفاکی پر اترتا خود عزیز خان کو بھی اس دردناک ماضی میں جھونک گیا۔

ماضی۔۔۔۔۔

یہ لگ بھگ کئی سالوں پہلے کا قصہ تھا جب دو سرحدی علاقوں کے بیچ زمینی معاملات پر اکثر و بیشتر لڑائی جھگڑے رہتے تھے مگر معاملہ کبھی اس سنگینی تک نہ آتا کہ بات مشترکہ جرگے تک جاتی۔

زمینی معاملات میں چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہر دو خریف علاقے کی شان سمجھے جاتے مگر مسئلہ تب ہوتا جب بات عزت دار لوگوں کی عورتوں پر آتی یا پھر کوئی جھگڑا بڑھ کر قتل تک نوبت پہنچتی۔

لیکن پھر بہت سے واقعات تیزی سے رونما ہوئے اور ایک انصاف پرست سردار شدید علالت میں گرفتار ہوگیا اور علاقے کی سرداری ، سردار جمشید خان نے اپنے اکلوتے بیٹے خاقان کے سپرد کیے اس دنیا سے رخصت لے لی یعبی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

خاقان! سردار جمشید خان کا اکلوتا بیٹا، مزاجاً اوباش، بدنیت، بگھڑا اور عیاش آدمی تھا اور اس کے بارے یہ مشہور تھا کہ وہ گندی ذہینت کے ساتھ ساتھ حاکمیت اور عورت پرستی کا دل دادہ تھا۔

شراب، جوا، عیش و عشرت اور خواب غفلت میں پڑا نالائق جیسے باپ کی طرف سے جدی پشتی سرداری پلیٹ میں تھما کر دی گئی، جس میں سردار بننے کی کوئی خوبی موجود نہ تھی، الٹا وہ اس علاقے کے لیے زہر قاتل بننے والا خبیث شخص تھا۔

زمینی معاملات میں اسکا ٹاکرہ اکثر و بیشتر دوسرے خریف علاقے کے بزدار عالم سے ہوتا رہتا، جو اس علاقے کے معزز زمین دار اور رئیس خاندان سے تعلق رکھنے والے چوہدری واحد عالم کے اکلوتے صاحبزادے تھے۔ نیک خصلت اور محنتی انسان جنہوں نے بابا کی زمین داری سے دستبرداری اور وفات کے بعد سے پورے علاقے کی بھاگ دوڑ سنبھال رکھی تھی۔

چوہدری واحد اپنی وفات سے پہلے بزدار عالم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈال کر گئے تھے، چودہ سالہ گل خزیں کی جو انکے مرحوم اکلوتے یار کی انکے پاس آخری نشانی تھی۔

"میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں بزدار، میں چاہتا ہوں میری موت کے بعد میرا نیک نام تو آگے لے کر چلے اور یہ جو یتیم مسکین نمانی ہے اسکا بوجھ بھی میں تجھ پر ڈالتا ہوں پتر کے اب میرے اور تیرے سوا اسکا کوئی نہیں۔ سو اسکے بالغ ہوتے ہی تو اس سے نکاح کر لینا اور عزت کی زندگی گزارنا۔ دشمنی میں کچھ نہیں رکھا پتر، تیرے باپ دادا نے جو عزت کمائی ہے اب اسکو تجھے ہی سنبھالنا ہے"

بستر مرگ پر پڑے واحد عالم چوہدری نے نقاہت بھری سوز زدہ آواز میں جاتے جاتے بزدار عالم کو اپنی آخری خواہش میں باندھا تھا۔ انکے پاس چودہ سال کی گل خزیں ، انکے بابا واحد چوہدری مرنے سے پہلے یہ کہہ کر چھوڑ کر گئے کہ وہ انکے جگری یار کی نشانی ہے اور اب سے وہ بزدار عالم کی امانت ہے۔ اور خود بزدار عالم نے بابا کی خواہش کو حکم کا درجہ دیا اور سوچ لیا کہ وہ خزیں کے بالغ ہوتے ہی اس سے نکاح کر لے گا مگر اس چودہ سالہ حسین سی گل خزیں کا حسن اور معصومیت، پاکیزی کے رنگوں سمیت ایک دن دوسرے علاقے کے سردار خاقان کی گندی نظروں میں آگیا۔

وہ چودہ سال کی لڑکی گویا چند دیداروں کے بعد ہی سردار کی ضد، جنون، طلب اور خوشی بن گئی۔

کئی بار وہ گل خزیں کا راستہ روک کر اسے حراساں کرتا رہا، جس پر وہ پہلے تو خوف کے مارے چپ رہی مگر پھر اس نے خاقان نامی اس سردار کی شکائیت، بزدار سے کر دی جسے وہ ناسمجھ لڑکی اس وقت بھی سائیں کہہ کر بلایا کرتی تھی۔

"مم۔۔مجھے وہ گندی نظروں سے دیکھتے ہیں سائیں، لیکن کل تو انہوں نے میرا ہاتھ تک پکڑ لیا۔ خدارا مجھے ان سے بچا لیں"

سخت کانپتی، کپکپاتی سی اس خوبصورت مگر بدحواس سی خزیں نے گھر لوٹتے ہی جب یہ خبر بزدار عالم کو بتائی تو اس بندے کا تو خون کھول گیا۔

بزدار نے معاملے کی خبر پائی تو وہ آپے سے باہر آگیا، جتنا بھی متحمل اور پرسکون مزاج آدمی کیوں نہ ہوتا، وہ ہرگز خاقان کی یہ نیچ حرکت برداشت نہ کر پایا۔

اسکے تن من میں آگ جل اٹھی۔

"اگر تم نے دوبارہ آنکھ اٹھا کر بھی اس لڑکی کو دیکھا خاقان تو میں بھول جاوں گا کہ تم اس علاقے کے سردار ہو، وہ بزدار عالم کی عزت ہے اور اگر تم نے اپنی گندی نظر ڈالنے کی یا اسے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو میں تمہاری جانے لوں گا"

وہ اسی غضب اور غصے میں لپٹا اپنے چند لوگوں کو لیے خاقان کی حویلی پہنچا اور اسے اپنی طرف سے سب سے پہلے آسان زبان میں سمجھایا کے وہ گل خزیں سے دور رہے مگر وہ عیاش، کمینہ خاقان اس بزدار کی اس ہمت اور گستاخی کو اپنی انا کا مسئلہ بنا گیا(یعنی کسی حاکم سردار کے آگے آج تک کسی نے ایسی ہمت نہیں کی تھی)اور سوچ لیا کہ وہ جلد اس لڑکی کو بزدار عالم سے واقعی چھین لے گا۔

بس پھر اگلے کئی دن تک جان بوجھ کر سردار خاقان کے لوگ شرارتاً ، فساد ڈلوانے کے واسطے، دونوں علاقوں کے بیچ بدمزگی پھیلانے کے باعث ، بزدار کے زمینی معاملات میں گھسنے لگے، آئے دن سردار خاقان کے کمینے لوگ، بزدار عالم کے لوگوں کو پیٹ ڈالتے اور بات اس قدر جاتی کے دنگے فساد ہونے لگتے، مگر خاقان کچی گولیاں کھیلنے کے حق میں ہرگز نہ تھا، اسے بڑا ہاتھ مارنا تھا سو بڑا فساد برپا کرنے کی تیاری کی گئی۔

"نئی زمین جہاں گندم کاشت کی گئی ہے، اگلی پچھلی زمینوں سمیت جلا ڈالو۔ بڑا فساد مچنا چاہیے"

سردار خاقان اپنی کمینگی پر اترا اور اپنے لوگوں کو حکم سونپا جبکہ بزدار عالم کی کئی ایکٹر زمین جل کر راکھ ہوئی اور کئی لاکھ کا نقصان ہوا اور یہ فساد خاقان کی سوچ سے بھی بڑھ گیا کہ بزدار عالم کے ہاتھوں سردار خاقان کا قتل کرتے ہوئے غلطی سے اسکا خبیث سا سب سے خاص آدمی کمو مارا گیا۔

ان دنوں کمو ایک نمبر کا زلیل اور خبیث آدمی مانا جاتا تھا مگر بہرحال قتل تو ہو گیا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے سردار خاقان کو مارنے کی عالم بزدار کی یہ کوشش مسئلہ بن گئی، اور حتمی فیصلہ کرنے کے لیے جرگہ بیٹھ گیا۔

"چونکہ عالم بزدار کی نیت سردار خاقان کا قتل تھی اور اس میں انکا آدمی کمو مارا گیا سو جرگہ یہ فیصلہ سناتا ہے کہ چویدری بزدار عالم کی خفاظت میں موجود گل خزیں اس قتل کا بدلا چکاتی ہوئی کمو کے بڑے بھائی کے گھر ونی ہوگی اور خانم حویلی کی نوکرانی بن کر ساری عمر گزارے گی"

سب سرداران اور دونوں علاقوں کے معززین نے اس کمو آدمی کی موت کے بدلے گل خزیں کو خانم حویلی ونی کر دیا ، جبکہ حقیقت میں وہ ونی ، اسی مرنے والے کے بڑے بڈھے گھوسٹ علیل بھائی کے ساتھ ہوئی تھی مگر اس فیصلے کے دو دن بعد ہی وہ بڈھا آدمی مرا ہوا اپنے حجرے سے ملا اور یوں ونی کا نکاح گل خزیں کا ہوا مگر کمو کے بھائی سے نہیں بلکہ سردار خاقان سے۔

کیونکہ یہ فیصلہ سردار خاقان نے پینچائیت کو اپنی طرف کر کے خود کروایا اور یہ سارا فساد ہی اس خبیث نے گل خزیں خانم کو پانے کے لیے اور عالم بزدار کو زندہ درگور کرنے کے لیے برپا کیا تھا۔

یہ سب بزدار عالم کو بہت تکلیف سے گزار گیا، گویا یہ اتنا بڑا غم انکے اندر شگاف ڈال گیا، کیونکہ بھلے گل خزیں چھوٹی اور ناسمجھ تھی مگر بزدار عالم نے اسے شروع سے ہی اپنی مستقبل کی بیوی کے حیثت سے دیکھا تھا اور محبت کرنے لگے تھے اور وہ گل خزیں سے ایک فطری انس رکھنے لگے تھے مگر خاقان نے اس لڑکی کو بڑی چالاکی سے ان سے چھین لیا۔

وہ بہت لڑے، آواز اٹھائی مگر کسی نے انکی کوئی بات نہ سنی، اس دن بزدار عالم اس قدر تکلیف سے گزرے کے انہوں نے اس لڑکی کے لیے مزید جنگ لڑنے کی ہمت ہی چھوڑ دی اور خاقان سے اس سفاکی کا کوئی بدلہ نہ لیا کیونکہ دونوں علاقوں کے تمام معززین کو خاقان نے اپنی طرف کر لیا تھا اور کوئی بھی بزدار عالم کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔

بظاہر تو خاقان نے گل خزیں خانم کو اس رقیب سے چھین لیا پر جلد ہی اس درندے، گل خزیں پر حاکم بن جاتے سفاک پر یہ حقیقت کھلی کے جس لڑکی کو وہ جنون کی حد تک عشق کر بیٹھا ہے اور زبردستی اپنا بھی بنا چکا ہے، وہ اس سے نفرت کرتی تھی اور اسکے کم سن دل میں بھی صرف محافظ اور محبت کی صورت میں بزدار عالم موجود تھا۔

تو گویا اول دن سے ہی رقابت کی آگ نے سردار خاقان کو سلگا دیا اور اس دن شروع ہوئی خون کی ہولی!

اس حادثے نے بزدار عالم کو بہت توڑ دیا تھا، نہ تو وہ بابا کا بنایا نام بچا سکے تھے نہ اس لڑکی کی حفاظت کر پائے تھے جو انکی چاہت اور عزت تھے۔

دلبرداشتہ ہوئے کچھ وقت کے لیے بزدار بھی علاقے کی بھاگ دوڑ اپنے لوگوں کے سپرد کرتے ملک سے باہر چلا گیا،

اور خاقان خان اس رقابت میں جلنے کے باوجود گل خزیں کو خانم کی حیثیت دے کر اس پر قابض ہو گیا۔

وقت گزرنے لگا اور اس خونخوار قیامت کو چار سال بیت گئے۔

چار سال بعد عالم بزدار کی علاقے میں واپسی ہوئی تب وہ اکیلا واپس نہیں آیا تھا بلکہ اسکے ساتھ وردہ نامی ایک لڑکی اور گود میں دو سال کا بخت موجود تھا، وہ کرسچن تھی مگر بزدار عالم سے نکاح کے وقت مسلمان ہو گئی تھی یعنی یہ ملک بدری ہی بزدار عالم کی رکی زندگی کو واپس رواں کرنے کا سبب بنی۔

وردہ ایک بہت سگھڑ، معاملہ فہم اور سمجھدار لڑکی تھی جس نے بزدار عالم کے دل میں خزیں کی محبت ہونے کے باوجود اسے قبول کیا اور اپنا مذہب تک بدل کر ساتھ علاقے آگئی۔

اس وقت تک گل خزیں کی کم عمری کی پرواہ کیے بنا بھی سردار خاقان اس کلی کو مسل چکا تھا اور زمان خان کی پیدائش ہو چکی تھی جبکہ دوسرا فرازم خان گل خزیں کی کی کوکھ میں تھا۔

کم سنی میں ہی وہ لڑکی تکلیفوں کا پہاڑ اٹھائے خود بھی کچھ بے حس بن گئی، اسے بزدار عالم نے خاقان سے بچایا نہیں تھا اور یہ دکھ اس عورت کا اندر نگل گیا، وہ ہر احساس سے عاری صرف سردار خاقان کی ہوس مٹانے کا سامان بن کر رہ گئی۔

بظاہر تو دن گزرتے رہے پر بزدار عالم کے اندر کی تکلیف کم نہ ہوئی، گل خزیں کو چپ چاپ درندے کے آگے ڈلتا دیکھنا اور بھاگ جانا اسکے اندر پچھتاوے کی آگ دہکاتا رہا، وہ اپنے بابا کی آخری خواہش پوری نہ کر سکا اور اپنی محبت کے چھن جانے پر اندر سے خالی ہوگیا تب بھی وردہ نے اپنی تمام تر محبت بزدار عالم پر نچھاور کیے انھیں ہر قدم پر سمیٹا۔

پھر دن گزرنے لگے مگر بزدار عالم کی اپنے علاقے واپسی ، اس پرانی دشمنی میں اک نیا سنگ میل ثابت ہوا، خاقان آئے دن بزدار کی ٹو میں لگا رہتا کیونکہ اس نے گل خزیں پر کبھی اعتبار کیا ہی نہ تھا، اسے ہمیشہ یہ وسوے رہتے کہ ضرور یہ دو عاشق ملتے ہیں۔

گل خزیں اول دن ہی اپنے دل میں بزدار عالم کے بسے ہونے کا اعتراف کر کے خود کو پہلے دن ہی سردار خاقان کی آنکھوں میں ناپسند سی کر چکی تھیں پر وہ لڑکی سردار خاقان کی ضد تھی تبھی وہ اس سچائی کے بعد بھی اس پر حاکم رہا۔

اور پھر خیر سے گل خزیں نے صرف آٹھارہ سال کی عمر میں دوسرا بیٹا فرازم خان پیدا کیا اور بظاہر تو وہ دل پتھر کیے جیتی رہی پر اس نے کبھی سردار خاقان سے محبت نہ کی نہ کر پائی، وہ صرف اسے وحشی درندہ مانتی تھی، بے شک سردار خاقان نے اس ونی شدہ عورت کو خانم حویلی کی سردارنی کا منسب دے دیا تھا پر وہ عورت تو اول دن سے اندر سے مری ہوئی تھی سو اس قبر کو جتنا بھی سجایا جاتا، اس میں زندگی کی رمک بیدار ہونا ناممکن تھا۔

پھر مزید دن گزرے اور ایک بار پھر گل خزیں امید سے ہو گئیں اور اس بار وہ حمل کے دوران اول دن سے بہت زیادہ تکلیف کا شکار رہیں تب جب انکو پتا بھی نہ تھا کہ وہ پھر سے امید سے ہیں۔

اول دن ہی انکے لیے تکلیف دہ تھے کیونکہ انکی کوکھ میں ایک نہیں، دو بچے پروان چڑھنے والے تھے مگر چونکہ وہ پہلے ہی دو بچے پیدا کر چکی تھیں لہذا جسم کی کمزوری اور خون کی کمی کے باعث انھیں پہلے مہینے سے نہایت ہیبت ناک تکالیف لاحق ہو گئیں۔

انہی اول دنوں سردار خاقان، اپنے لوگوں کے ساتھ لمبے شکار پر دور پار کے صحرائی علاقوں کی جانب نکلا تھا اور پیچھے سے گل خزیں موت کے دہانے پر پہنچ گئی ، تکلیف جب حد سے گزری تو وہ خود دو ملازماووں کے سنگ علاقے کے ہی ہسپتال میں پہنچی مگر اتفاقا اس روز انکی ملاقات بہت سالوں بعد بزدار عالم سے ہوئی۔

اپنی گل خزیں کو مریل، کمزور اور اذیت میں ڈوبا دیکھنا بزدار عالم کے دل کو چیڑ کر رکھ گیا تھا، لاغر وجود، دلکشی ماند، آنکھوں کے گرد حلقے، سوجھی آنکھیں، اجڑا حال!

وہ اتنی بیمار تھی کہ بزدار عالم کا دل نہ مانا کے اسے واپس خانم حویلی بھیجتا تبھی وہ ڈاکٹر سے اسکو ڈسچارج کروانے کے بعد اسکی دونوں ملازماوں سمیت ، اپنے ساتھ اپنے گھر یعنی بزدار حویلی لے گیا۔

ڈاکٹر کی جانب سے جب اسے اس ابتر حال میں گل خزیں کے امید سے ہونے کی خبر ملی تو وہ خاقان کی سفاکی پر نفرت سے بھر گیا اور تبھی اس نے گل کے کسی اصرار کو قبول نہ کیا۔

گل خزیں نے اسکی بہت منتیں کیں کہ سردار اسے مار دے گا اسے مت ساتھ لے جائے مگر بزدار عالم نے اس وقت اسکی ایک بھی نہ سنی اور اپنے ہمراہ لے گیا۔

وہ لڑکی یقینا اگر یہ بچہ جنم دیتی تو بزدار کو خدشہ تھا کہ مر جائے گی لہذا وہ اس چیز کا فیصلہ گھر جا کر کرنے کا عہد لیتے گل خزیں کو اپنے ساتھ لے گئے۔

وردہ اور انہوں نے ایک ہفتہ گل خزیں کی خوب دیکھ بھال کی کہ وہ کافی بہتر ہو گئی، وہ اسے کہتے رہے، قائل کرتے رہے کہ وہ یہ بچہ گرا دے مگر وہ نہ مانی۔

"جی کر کروں گی بھی کیا، اس بچے کو جنم دے کر مر گئی تو کم ازکم اس زندگی سے حلال طریقے سے خلاصی تو ملے گی، گرا دیا بچہ تو ایک اور اذیت میرے دکھوں میں شمار ہو جائے گی۔ مجھے مرا ہی رہنے دیں، اب جینے کی کوئی ہمت میرے اندر باقی نہیں"

اس لڑکی کا ایک ہی جواب تھا جو بزدار عالم کا سینہ زخمی کرتا رہا۔

ہفتے بعد جب خاقان کو شکار سے واپسی پر، گل خزیں کی بزدار حویلی موجود ہونے کی خبر ملی تو وہ نتھنے پھلا کر شکاری ریچھ کی طرح اپنے کئی لوگوں کے ساتھ بزدار حویلی پہنچا اور بزدار عالم کے کئی لوگ مار ڈالے اور گل خزیں کو بھی اس نے اس سنگین غلطی پر پیٹ ڈالا، اور گھسیٹ کر اس مسکین عورت کو وہ واپس خانم حویلی لایا، اسکی قسمت تب بھی ظالم تھی کہ اس مار پیٹ میں نہ گل خزیں کو کچھ ہو سکا نہ اسکی کوکھ میں پلتی جانوں کو۔

بہت خون خرابہ ہوا مگر زیادہ جانی نقصان نہ ہوا اور خاقان زبانی کلامی بزدار کو دھمکیاں دیتا ، زہر اگلتا، گل خزیں کو واپس لے لایا۔

کچھ دن بعد اس مار پیٹ کے باعث ہوجاتے سخت بخار سے گل خزیں کی طبعیت بگھڑی تو طبیبہ سے پتا چلا وہ امید سے ہے، لیکن خاقان کی گندی ذہنیت میں گل خزیں کا وہاں یعنی اپنے میکے ہفتہ گزار کر آنا ایسا جم گیا کہ اسے شک ہوا کے یہ اولاد اسکی نہیں بلکہ بزدار کی ہے۔

(وہ جیسا خود تھا ویسا گھٹیا اس نے اپنی پاکیزہ اور مظلوم بیوی کے بارے خیال سوچا تھا)۔

وہ دن تھا اور ان بچوں کی پیدائش کا دن، خاقان نے اسی زہر کو اپنے دماغ میں پالا۔ گل خزین نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا، بہت پیاری نیلی آنکھوں والی کنزا خانم اور بھوری آنکھوں والا عزیز خان۔

اول دن سے خاقان نے ان دو جڑواں بچوں سے گریز ہی برتا، بھلے وہ جانتا تھا کہ گل خزیں جیسی پرہیز گار لڑکی ایسا گناہ نہیں کر سکتی لیکن اس آدمی کی سوچ ہی غلیظ تھی اور بزدار کا خیال آتے ہی وہ کمینگی اور گندگی پر اتر آتا تبھی یہ شبہ ساری زندگی اسکے دماغ سے نہ نکلا۔

وقت پھر پر لگا کر اڑنے لگا، دونوں علاقوں میں بظاہر ہلکی پھلکی دشمنی چلتی رہی پر اگلے کئی سالوں تک بڑا کوئی مزید فساد یا حادثہ نہ ہوا۔

بزدار کی وفا شعار بیوی وردہ، ہاشم بزدار یعنی انکا دوسرا بیٹا جنم دے کر خالق حقیقی سے جا ملی۔

یہ دکھ انکے لیے بڑا تھا مگر فضیلہ بیٹی کی صورت انکو اپنے بچوں کے سر کی چھاوں ملی جو انکے خاص ساتھی کی کم عمر سی زوجہ تھیی، جہاں بخت نک چڑھا اور اماں فضیلہ سے خار کھاتے جیتا آیا وہیں ہاشم تو پلا ہی انکی گود میں تھا سو وہ اس دوسری ماں کے قریب رہا۔

جہاں بزدار عالم اپنے دونوں بیٹوں کے ماں باپ دونوں بن کر مصروف ہوئے گئے وہیں کئی سال اسی طرح امن و سکون کے سنگ گزر گئے۔

گل خزیں اپنے چاروں بچوں کے ساتھ ہمت کیے جینے لگیں، ہر طرف امن و سکون تھا، لیکن پھر جب سب بچے جوان ہوئے تو پرانی دشمنی نے پھر سے سر اٹھا لیا۔

جہاں بخت نیچ اور عیاش طبعیت کا مرد بنا تھا وہیں فرازم بھی خوبخو خاقان کا پرتو نکل آیا تھا، ایک نمبر کا اوباش اور خبیث۔

اور انہی دو گندے انڈوں نے دو خاندانوں کی بنیاد تک ہلا دی تھی۔

دو دشمن علاقوں کی دشمنی ایک بار پھر تب دہکی جب بخت کی زمینوں کو دن دیہاڑے فرازم نے جلن میں آکر آگ لگوا دی، یہی نہیں وہ بخت کی پسند کی لڑکی کا ریپ کیے قتل کر آیا، چونکہ وہ لڑکی ایک غریب کمہار کی بیٹی تھی سو سردار خاقان نے اپنے بیٹے کے یہ کرتوت چھپا لیے پر اس لڑکی کی موت کا بدلہ لینے اور اپنے نقصان کی بھرپائی کے لیے بخت نے اسی فرازم کی بہن کو اپنی محبت کے چکر میں پھنسایا، کنزا اصل میں بچپن سے ہاشم سے محبت کرتی تھی اور بخت اس سے ہاشم بن کر خط لکھا کرتا کیونکہ ہاشم ایک نمبر کا پڑھاکو اور کام سے کام رکھنے والا سیدھا سادھا نوجوان تھا جسے نہ تو باپ بھائی کے جاگیردار ہونے میں دلچسپی تھی نہ علاقے کی حاکیمت کا شوق، نہ عشق معاشوقی کا جنون، وہ پڑھنے کے علاوہ مصوری کا شوقین تھا۔

اور پھر اصل خون ریزی تب شروع ہوئی جب کنزا خانم نے ہاشم کے کہنے(جو اصل میں بخت کی چال تھی، اس نے خط میں اسے گھر سے بھاگ کر آجانے کا کہا تھا کیونکہ دونوں خاندان ایک دوسرے کے دشمن تھے اور رشتہ داری مخص خام خیالی تھی) سو کنزا جس پر جوانی اور محبت کا گہرا اثر حاوی تھا وہ خط میں ہاشم بزدار کے بلانے پر اپنا گھر چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں خانم حویلی کو رہا سہا بھسم کرتی ماں بھاپ کی عزت روندھتی ہوئی بھاگ نکلی لیکن جب وہاں خانم حویلی پہنچی اور نکاح کا وقت آیا تو اسکی روح تب نکلی جب نکاح میں اس سے ہاشم بزدار کے بجائے بخت بزدار کا پوچھا گیا۔

"آپکا نکاح چوہدری بزدار  عالم کے بڑے صاحبزادے بخت بزدار سے ، سکہ رائج الوقت ایک لاکھ حق مہر کے کیا جاتا ہے، یہ نکاح قبول ہے؟"

تب کنزا پر پہلی بار کپکپی اتری تھی، وہ اس دھوکے پر اندر تک مردہ ہوئی، ہاشم بخت کا گریبان جکڑ کر کتنی دیر وہ اس پر چینخی مگر وہ تو اس سب سے یکسر لاعلم تھا تبھی اس وقت اس نے کنزا کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر حویلی ہی چھوڑ دی اور شہر چلا گیا۔

خیر کنزا کا خانم حویلی سے فرار اسکی زندگی کا سب سے بڑا خسارہ تھا، فرازم کو تب سمجھ آئی کے اس نے کیا گناہ کر دیا ہے جب وہ بخت اس دشمنی میں بہت چالاکی سے اسکی بہن مو گھسیٹ لایا بلکہ اس بہن کو تاعمر اذیت دینے کا پلین بھی بنایا۔

لیکن تب تک اسکی معصوم بہن چوہدری بخت کی بیوی بن گئی تھی جو اسے ہر رات پیٹتا، شراب پی کر آتا تب اس پر اپنی وحشت نازل کرتا اور جوئے میں کچھ ہار آتا تو تب بھی کنزا کی روح چھیلتا۔

بخت کی پہلی بیوی نائمہ ، وردہ کے خاندان کی تھی جو وردہ کی طرح مسلمان ہوئی اور اس وقت اس میں سے بخت کی ایک اولاد یعنی ضرار تھا مگر وہ عورت بخت کی دوسری شادی کا سن کر ضرار کو لے کر ناراضگی اور تکلیف میں علیحدہ ہو گئی، اور خود شروع میں بزدار عالم نے بھی اپنی خاندانی بہو اور پوتے کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔

اس طرح ہاشم کے بعد ضرار کی پرورش کا موقع بھی فضیلہ کو ملا کیونکہ خود نائمہ تو بخت کی بے وفائی کے غم میں اور اس سے نفرت میں ہی ہلکان رہ کر سارا دن اپنا خون جلاتی رہا کرتی اور یوں فضیلہ اپنے اکلوتے بیٹے جبل زاد کے ساتھ ساتھ ضرار کی بھی ماں اول دن سے بنی رہیں۔

کنزا پر آہستہ آہستہ بخت کی گندی ذہنیت اور اپنے بھائی فرازم کی ساری کارستانی اور گناہ کھلے تو اسے تب سچائی معلوم ہوئی کہ ہاشم  تو اس سب معاملے میں اول دن سے بے قصور تھا جسے وہ اپنی بربادی کا سبب سمجھتی رہی تھی اور یہ اذیت کے جسے ہمیشہ سے چاہا وہ تو جانتا تک نہ تھا کہ کنزا اس سے محبت کرتی تھی اور بخت نے اسے چال میں پھنسایا، مخص فرازم سے بدلہ لینے کے لیے۔

لیکن یہ سچائی تب کھلی جب کنزا مکمل طور پر بخت کی درندگی میں پھنس کر برباد ہو چکی تھی۔ اس نے بخت کو دو بچے دیے، بڑی زونین فاطمہ اور چھوٹا سرمد چوہدری مگر بخت اپنی نیچ حرکتوں سے باز نہ آیا اور ایک دن اپنی اسی بیوی کو طوائف کے کوٹھے پر پچاس لاکھ میں فروخت کر آیا، کیونکہ کنزا خوبصورتی میں خانوں کے خاندان کی سب سے پیاری اور پرکشش لڑکی تھی سو کوٹھے والوں نے لڑکی کا سودا ہاتھوں ہاتھ لیا۔

لیکن یہ کہانی یہیں ختم نہ ہوئی، جب سردار خاقان کو یہ ساری سچائی معلوم ہوئی تو اس نے سوچ لیا کہ بخت کو زندہ زمین میں گاڑنے کے ساتھ ساتھ وہ کنزا کو بھی ختم کر کے اس بدنامی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ پا لے گا، خانوں کی اکلوتی بیٹی ایک طوائف بن کر تو ویسے ہی ان کی حویلی اور ان پر حرام ہو گئی تھی۔

ہاشم انہی دنوں ، کنزا کے کوٹھے پر فروخت ہونے سے کچھ ماہ پہلے تب کئی سالوں بعد واپس لوٹ کر علاقے آیا تھا، اپنی تعلیم مکمل کر کے ، تب تک بزدار عالم نے اپنی بہو نائمہ(ضرار کی ماں) کو قائل کر لیا کہ وہ سب مل کر بزدار حویلی ہی رہیں لیکن نائمہ اس شرط پر رہنے پر راضی ہوئی کے وہ بخت سے طلاق لے کر صرف حویلی میں ضرار کی ماں اور بزدار عالم کی بیٹی بن کر رہے گی کیونکہ وہ اتنے بڑے دل کی مالک نہ تھی کے بخت جیسے درندے، ہرجائی اور بےوفا کے ساتھ مزید کوئی رشتہ باقی رکھتی، اور یوں بزدار عالم کے زور زبردستی کرنے پر نائمہ اور بخت کی طلاق ہو گئی، اور بابا کے اسی فیصلے کی وحشت تھی جو آتش بنی اور وہ اپنی وحشت بچاری کنزا پر نکالتا، اس بار ہاشم لوٹا تو وہ سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ عقل و شعور والا انسان بن کر آیا تھا، جب اس نے بخت بھائی کو درندوں کی طرح کنزا پر ظلم کرتے دیکھا تو اسکا دل اس عورت کے لیے بہت افسردہ ہوا، اسکی خواہش تھی کے وہ بچاری کنزا کو اس وحشی سے نجات دلائے، لیکن ہاشم اس بیچ کنزا کے لیے کچھ جذباتی وابستگی بنا بیٹھا، وہ ظلم اور اذیت میں سسکتی روتی عورت جسکے دل میں وہ تھا اور تمام بخت چوہدری کی سچائی کھلنے کے بعد ہاشم نے فیصلہ لیا کے وہ کنزا کو اس سب سے بچا کر خود اپنائے گا اور وہ عورت جو پہلے بھائی کی درندگی سے بخت تک پہنچی اور بخت کی درندگی اسے موت کے منہ میں جھونک رہی تھی، اسے بچا کر وہ اسے اپنا نام دے کر اسکی محبت کا صلہ دے گا مگر ہاشم کے کوئی حتمی فیصلہ لینے سے پہلے ہی بخت، اپنی بیوی کو ناصرف طلاق دے چکا تھا بلکہ وہ اسے ایک دن کوٹھے پر بیچ آیا۔

جب تک بخت کی یہ واہیات حرکت دونوں خاندانوں تک پہنچی، کنزا کو وہ بازار نجس اپنی گندگی میں ڈبو چکا تھا اور یہی نہیں وہاں کی بائی کا اکلوتا بیٹا طلال جس نے پہلے ہی دن کنزا سے زبردستی نکاح کروا کے اسے واپس جانے کے لائق بھی نہ چھوڑا۔

ہاشم اسکے پیچھے کوٹھے پہنچا، لیکن دردناک سچائیاں اسکا دل نوچنے کو تیار کھڑی تھیں۔

وہ جس نے ایک عمر ہاشم بزدار کی محبت میں سانسیں بھری تھیں، اس نے ہاشم کا ہاتھ جھٹک کر کوٹھا چن لیا کیونکہ اس جگہ کو ہی شاید وہ اب راس تھی اور اسکا اپنا بھائی جب اسکی بربادی کا سبب تھا اور اپنا باپ خون کا پیاسا تھا تو اس نے ہاشم بزدار جیسے مخلص کو بھی جھٹک دیا۔

بخت کی اس درندگی کی سزا چوہدری بزدار عالم نے خود چنی اور اس اپنے ہی خون کو گریبان سے گھسیٹ کر لے گئے اور خاقان کے قدموں میں پھینکا جنکہ خود صرف یہ شرط رکھی کہ فرازم خان کی موت کا اختیار انھیں دیا جائے کیونکہ وہ زانی اور قاتل تھا جبکہ بزدار عالم اپنے ہنستے بستے گھر کی تباہی بھی ان دو وحشیوں کو مانتے تھے۔

سردار خاقان نے بخت کو اسکے باپ کے سامنے سینے میں چھ کی چھ گولیاں گاڑ کر صفحہ ہستی سے ہٹایا اور کنزا پر تاعمر خانم حویلی کو ممنوع کیا جبکہ خود اس منحوس باپ نے نے فرازم خان کو خفیہ طریقے سے روپوش کروا کر بگھا دیا تاکہ بزدار عالم اسکی جان نہ لے سکے۔

لیکن قدرت کو تو کچھ اور منظور تھا، ہاشم اس سب میں مزید چپ نہ رہ سکا اور فرازم خان کو مارنے کا ارادہ کیے اس نے ایک پلین بنایا ، فرازم خان اصل مجرم تھا اور ہاشم اسکی وجہ سے کنزا کو بچا نہ پایا تھا تبھی انتقام کی آگ نے ہاشم کو سفاک بنا ڈالا۔

لیکن ایک چال خاقان خان نے بھی چلی، ایک پرانی حویلی میں آگ لگائے اس نے ہاشم کو بلایا اور کہا کہ اندر کنزا ہے، اور وہ نہیں چاہتا کہ اسکی بیٹی زلت کی زندگی جی کر اسکی عزت خراب کرے، اور ہاشم بنا سوچے کنزا کو بچانے اس جلتی حویلی میں داخل ہو گیا ، لیکن وہاں تو کنزا تھی ہی نہیں۔

وہ آگ کی لپیٹ میں آکر جل گیا اور خاقان کے بقول مر بھی گیا لیکن اسے اس دن اس جلتی آگ سے خاقان خان کے سب سے چھوٹے بیٹے عزیز خان سے بچا لیا، اسکی دو بازو اور چہرہ جھلس گیا تھا مگر عزیز خان نے اسکی ناصرف جان بچائی بلکہ اپنے اعتبار کے لوگوں کے ساتھ مل کر اسے شہر علاج کے لیے بھیجوا دیا مگر دو سال ہاشم کومہ میں رہا اور اسکا خوبصورت چہرہ جس بری طرح جھلسا اسکے لیے اسے کئی سال کا عرصہ درکار تھا تاکہ کئی جدید سرجریاں کر کے اسکے چہرے کو ٹھیک کیا جاتا، چونکہ ہاشم بزدار کی موت نے دونوں خاندانوں کے بیچ کے قتل و غارت کو وقتی طور پر تھما دیا تبھی عزیز خان نے باہکی امن و سکون کی خاطر ہاشم کو ان سب سے تب تک چھپنے کا مشورہ دیا جب تک وہ خودمختار ہو کر اور اس جلے کے اثرات سے نکل کر بلکل ٹھیک نہیں ہو جاتا۔

لیکن ہاشم اسکے باوجود پس پردہ رہ کر ہر طرف گہری نظر رکھتا رہا تھا، فرازم کی موت ویسے تو حادثاتی تھی مگر اسکی موت کا الزام بخت اور نائمہ کی اولاد ضرار پر ڈالا گیا کیونکہ اپنے پیارے چاچو کی موت کا انتقام لینا اس جوانی کی سیج پر قدم رکھتے جوشیلے جوان کا واحد مقصد تھا۔

فرازم نے جتنے گناہ کیے تھے اسکی ایسی ہی عبرت ناک موت ہوتی جیسی اسکی ہوئی، وہ علاقے کی گہری خومخوار نہر میں ڈوب کر مرا اور جس دن اسکی لاش ملی، اسی دن خاقان خان نے ضرار کو جا کر گولی مار دی کیونکہ کچھ خاقان کے حمائتی پھنکار ڈالنے والے اور دونوں خاندانوں کی دشمنی کو مزید ہوا دینے والے لوگوں نے یہ افواء پھیلائی کے فرازم خان کو نہر میں دھکا دینے والا میثم ضرار چوہدری تھا جبکہ اس دن ضرار واقعی دادا کی گن اٹھا کر نہر تک فرازم خان کے پیچھے دوڑا تھا مگر فرازام جسے گہرے پانی سے ڈر لگتا تھا، نہر کے کنارے ہوئی پھسلن سے پیر پھسلنے پر نہر میں جا گرا جبکہ ضرار نے نہ تو اسے بچایا نہ کسی کو اس ڈوبتے فرازم کی مدد کے لیے بھیجا۔

ضرار کا دل الٹی جانب ہونے کے باعث اس پر چلتی خاقان خان کی گولی اسے موت تک تو لے گئی مگر بروقت اسے عزیز خان اور انکے لوگ شہر ہوسپٹل لے کر پہنچ گئے اور وہاں اس زندگی ہارتے ضرار کو اسکے چچا ہاشم بزدار نے اپنا نایاب خون دے کر بچایا ، عالم بزدار تو زندہ درگور ہو گئے، شاید اپنے سب بچوں کی موت کے بعد وہ ضرار کی موت پر خود بھی کسی پنکھے سے لٹک جاتے مگر اس عزیز پوتے کا واپس زندگی کی طرف آنا انکو جینے کی ہمت دے گیا لیکن ضرار کا بچ جانا خاقان خان کی ضرور ذہنی اذیت بنا۔

ضرار کچھ دنوں بعد جب بہتر ہو کر واپس بزدار حویلی آیا تو اسکے اندر خاقان خان کو ختم کرنے کی آگ اس قدر دہکی تھی کہ اسکے دادا خوف کھا گئے، انہوں نے اپنی قسم دے کر ضرار کو اس بدلے کو چھوڑ دینے پر مجبور کیا کیونکہ انکے پاس کھونے کو کچھ نہ رہا تھا۔

نائمہ ان سارے حالات میں بہت بیمار رہنے لگی تھی، اسکی زندگی بھی بخت نے زہریلی کر دی تھی، اول تو وہ تھا ہی خبیث آدمی جسے وردہ چوہدری یعنی خالہ کی آخری خواہش پر اس نے قبول کیا مگر پھر جس دن وہ کنزا کو بیاہ لایا اسکے بعد تو نائمہ نے اس شخص پر تھوکنا بھی پسند نہ کیا، وہ خودار عورت تھی، لیکن حساس بھی تھی، بخت کے گندے اور سیاہ اعمال اس عورت کو بستر مرگ تک پہنچا گئے پھر جب جب نائمہ، کنزا کے بچوں کو دیکھتی وہ مزید تکلیف محسوس کرتی۔ چونکہ سرمد کو کنزا چند ہفتوں بعد ہی اپنے ساتھ کوٹھے لے گئی تھی مگر کچھ سال کے بعد کنزا نے سرمد کو واپس بزدار حویلی بھجوا دیا، زونی کو تو اس نے پہلے ہی بزدار عالم کی حفاظت میں دے دیا یہ کہہ کر کے وہ خود تمام گندگی اپنے وجود کی تہہ تک اتار لے گی لیکن اسکی بیٹی کو وہ اپنے پروں سے کبھی نہ نکالیں۔

بزدار عالم نے واقعی زونی اور ضرار دونوں کو خاص محبت اور پیار دے کر پالا تھا، وہ سرمد کو بھی اپنے پروں میں چھپانا چاہتے تھے مگر وہ بچہ جس ماحول میں اپنی زندگی کے پہلے پانچ سال گزار آیا تھا، اسے بزدار حویلی اور یہاں کا سکون اور پاکیزی قبول ہی نہ تھی اور وہ یوں کچھ ماہ بعد ہی واپس کنزا کے پاس چلا گیا اور اسی دنیا میں کھو گیا جو اسکی ماں کی بدنصیبی کے باعث اسکا بھی مقدر بن گئی۔

نائمہ کی اچانک موت نے پھر سے بزدار حویلی کی بنیادیں ہلا دیں، اس عورت کو بخت سے وابستگی مار گئی اور تب سے ضرار کے دل میں کنزا ، بخت اور انکی اولاد کے لیے کوئی نرمی نہ بچی۔ کنزا نے جب ہاشم کو ٹھکرایا تبھی ہی ضرار کو اس عورت سے وابستہ ہمدردی ختم ہو گئی اور نفرت بن گئی، اسے اس وقت کنزا ناشکری لگی، وہ سوچتا تھا کہ اگر کنزا ہاشم کا ہاتھ تھام لیتی تو وہ اسے اس دلدل سے بچانے کو بلکل ویسے آگ میں کود جاتے جیسے اس خاقان کی جھوٹی افواہ پر کود گئے اور اپنی زندگی گنوا دی۔

لیکن اس تمام نفرت کے باوجود، ضرار کے دل میں ان سبکی فکر قائم رہی، وہ سرمد پر نظر رکھواتا آیا تھا، وہ زونی کی تمام ضروریات اکثر فضیلہ اماں سے پوچھتا رہتا، وہ انھیں براہ راست بلاتا نہیں تھا پر جیسے بھی تھے وہ اسکے بہن بھائی تھے مگر ضرار اپنے اصولوں پر قائم رہنے والا انسان تھا جسکا بچپن ان نفرتوں کے بیچ کب جوانی کی سیج پھلانگ گیا کہ حالات کی تلخیاں اور زہر اسکے اندر تک اتر گئے۔

پھر عشق بھی تو ایسا ہو گیا جس نے ضرار کے تمام اصول ہلا ڈالے۔

وہ لڑکی اشنال عزیز اسی خاقان کی پوتی تھی جسے میثم نے اپنا صنم چنا، لیکن اس سے بڑھ کر وہ رحم دل اور خاقان کی کسی برائی کو خود میں نہ سمو کر دنیا میں آتے عزیز خان کی بیٹی تھی تبھی ضرار نے عشق کی تکمیل کا سفر دشمن حویلی کی لڑکی سے نکاح کر لے شروع کیا۔

مگر اسکے اندر کی آگ اب تک جواں تھی، زندگی کے کئی سال گزارنے کے باوجود سینے پر ہاشم بزدار کی موت کا بدلہ اب تک ادھورا سلگ رہا تھا اور وہ صرف خاقان کی موت بجھا سکتی تھی۔

لیکن اب خاقان خان اخیر درندگی پر اتر چکا تھا، وہ ضرار نامی یہ آخری چراغ بجھانے کے لیے کنزا کے بعد اب عزیز خان کو قربان کرنے والا تھا۔

عزیز خان کمرے سے جا چکے تھے اور سردار خاقان کی آنکھوں میں انتقام کی آگ ہلکورے لیتی جل اٹھی تھی۔

جو بتا رہی تھی کہ پرسوں پہلے شروع ہوتی نفرت کی یہ کہانی جلد انجام تک پہنچنے والی ہے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کچھ دیر رو کر وہ اپنی وحشت اور کرب سے خاطر خواہ دل ہلکا کر چکی تھی، دل پر لدے بوجھے اچانک سے تب ہلکے ہوئے جب اسکا فون شہیر کے نام سے گونج اٹھا، ابھی تک ولی پہنچا نہیں تھا اور وریشہ یوسف زئی نے خوف کے سنگ اک نظر اس آتی کال پر ڈالی، وہ لاکھ کوشش کے باوجود اسکی آتی کال فراموش نہ کر پا رہی تھی، سوچ، ذہن اور حتی کہ وہ اس لڑکی کے حواس بھی زنجیر کر چکا تھا۔

"کہو اور کونسی بکواس رہ گئی ہے جو کال کی ہمت کی ہے"

وہیں بینچ پر بیٹھی وہ فون کان سے لگاتی سرد مہری کے سنگ بڑبڑائی جبکہ مقابل وہ سڑک کنارے ہلکی دھوپ میں چلتا چلتا فٹ پاتھ کے راستے پر جا بیٹھا۔

"میں جانتا ہوں رات کچھ زیادہ بکواس کر گیا مگر تم نے بات ہی ایسی کی تھی جو میرا دل زخمی کر گئی، لیکن تم نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ وہ کونسی وجہ ہے جو میں تمہارے آگے جھک رہا ہوں"

وہ سنجیدہ تھا اور اس کم بخت کی سنجیدگی ہی تو وریشہ کا دل دبوچ لیتی تھی۔

"مجھے وہ وجہ جاننے کا کوئی اشتیاق نہیں اور نہ اب میں تم سے مزید کوئی کاغذی تعلق تک افورڈ کر سکتی ہوں۔ اشنال کے بچاو کے لیے میں ضرور کوئی اور ترکیب ڈھونڈ لوں گی"

اس لڑکی کا یہ فیصلہ شہیر مجبتی کی زندگی میں بھونچال لایا تھا، وہ جانتا تھا اس لڑکی کو اس کا حق ہے مگر اتنی جلدی بھلا کون جدا ہوا ہے اس دنیا میں، حتی کہ پیدا ہونے والا نومود بچہ بھی محبت بھرے لمس پانے کے بعد ہی قبر نشین ہوا کرتا ہے۔

"کہا ہے ناں بکواس کر گیا تھا، تم یہ بات دوبارہ مت کرنا کہ تم الگ ہو جاو گی"

وہ بڑے ضبط سے آواز کو نرم رکھے بول پایا تھا اور وریشہ کا دل ہمیشہ اسکے روبرو عجیب کیفیت میں ڈوب جاتا کہ وہ جکڑ لی جاتی۔

"میں تمہیں چھوڑ دوں گی شہیر مجتبی"

اس بار وریشہ کے لہجے میں اذیت دوڑی اور شہیر کی آنکھوں میں غضب دہکا۔

"لیکن میں تمہیں اتنی آسانی سے سب چھوڑنے نہیں دوں گا یاد رکھنا، رات کو گھر آوں گا۔ ہم اس پر بیٹھ کر بات کریں گے اور دوبارہ اگر تم نے ایسی مانگ یا خواہش کی وریشہ تو یاد رکھنا تمہاری بددعا، حسرت بن کر رہ جائے گی۔ اور تم تاعمر ترستی رہ جاو گی مجھے پسپا دیکھنے کے لیے"

اپنے الفاظ کا پر اثر لمس بکھیرتا وہ اس لڑکی کو پھر سے اپنے اختیار میں کیے کال کاٹ چکا تھا مگر وریشہ کے ہاتھ کی طرح اسکا دل بھی کانپا، رہی سہی کسر نظر اٹھانے پر کچھ فاصلے سے قریب آتے ولی زمان خان پر پڑ کر پوری ہوئی جو اذیت کی بھٹی سے گزرنے کے باوجود اس لڑکی کی پکار پر ہر زیادتی بھولے نہ صرف اسکے قریب آیا بلکہ اک دلخراش نظر ڈالتے ہی وہ وریشہ کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔

دونوں کی نظریں سامنے کسی غیر دل چسپ مرئی نقطے پر جمی تھیں، وہ اسے یوں کمزور دیکھ نہیں پا رہا تھا اور وہ دعا کر رہی تھی کہ ولی اسکی طرف نہ دیکھے۔

"بتائیں، کیا پریشانی ہے۔ کیوں آپکی کبھی نہ رونے والی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں وری؟"

بنا دیکھے ہی وہ شخص اسکی اندر تک الجھی کیفیت بھانپتا اس سے اصولی سوال کر رہا تھا۔

"مجھے آپکی کمی محسوس ہو رہی تھی، آپ خفا ہو گئے ہیں اور مجھے ایسا لگا میرے سر سے کسی نے چادر اتار دی ہو"

وہ بہت کرب سے بولی اور ولی زمان خان سرد نظریں چہرہ پھیر کر اس لڑکی پر ڈال کر اسے مزید بوجھل کر گیا۔

"فضول بولیں تو جان لے لوں گا، میرے صبر کا امتحان مت لیں وریشہ ۔ کیا دکھ ہے آپکو، مانا اپنے دکھ ابھی ٹھیک سے سمیٹ نہیں پایا ولی لیکن آپکے سن کر شاید آپکے دل کا بوجھ ہلکا کر دوں"

اول جملہ وہ رعب سے حق جماتا بولا جبکہ آخری جملوں میں اس شخص کی تکلیف عیاں ہوتی گئی اور وریشہ نے اس کو یوں دیکھا جیسے وہ واقعی اسکے بنا بہت بے بس ہو کر رہ گئی ہو۔

"ایک غلطی کر دی ہے ولی زمان خان لیکن بے بس اتنی ہوں کے نہ تو آپکو اس غلطی کا نام بتا سکتی ہوں نہ اس غلطی کو سدھار سکتی ہوں۔ جب ایک طرف کھائی ہو اور دوسری طرف کنواں تو کیا چننا چاہیے؟"

وہ عجیب بولائی سی تھی اور ولی زمان نے اسکا یہ دل چیڑتا سوال سن کر واپس چہرہ سامنے کسی غیر مرئی نقطے کی جانب موڑے نظروں میں خلش سی بھر لی۔

وہ دم سادھ کر ولی کا چہرہ دیکھتی اسکے جواب کی منتظر تھی۔

"تب انسان کے پاس کوئی اختیار نہیں بچتا وری، تب ہم مر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن"

وہ یہ جواب دے کر واپس اسکی جانب دیکھتے رکا۔

جسکا لہجہ ہی نہیں، آنکھیں بھی افسردہ تھیں۔

"لیکن؟"

وہ تاسف کے سنگ اسکی آنکھوں میں جھانک کر اسکے جملہ مکمل کرنے کی طلب گار تھی۔

"لیکن میں نہیں دیکھ سکتا آپکو اس درجہ بے بسی میں، آپ نے مجھے جتنی تکلیف دی میں اسی لمحے آپ کو معاف کرتا ہوں لیکن مجھے مزید امتحان میں نہ ڈالیں۔ مجھے بتائیں وری ، کیا اذیت آپکو کھا رہی ہے۔ ایسے تو نہ آزمائیں مجھے"

کچھ کہتے کہتے وہ رکا، وریشہ کی زرد آنکھیں بغور دیکھ کر اس سے منت کرتے لہجے میں سیدھی سیدھی جان مانگ بیٹھا، یہ دن کتنا کربناک تھا کہ جس شخص کی حسرت میں وہ سر تا پیر دھڑکتی آئی ، آج وہی اس سے رحم کا طالب تھا۔

جبکہ ولی کا اسکے سارے ظلم بس وریشہ کی تھوڑی اداسی دیکھ کر معاف کر دینا ناچاہتے ہوئے بھی اس لڑکی کی آنکھوں میں خسارے کی نمی سمیٹ لایا۔

"ایک وعدہ چاہیے آپ سے، کبھی مجھے میرے حال پر نہیں چھوڑیں گے۔ مجھے اپنی دعاوں سے بے دخل نہیں کریں گے۔ مجھے بھولیں گے بھی نہیں، اور کبھی جب مجھے آپکی ضرورت ہوگی تو آپ ہر کام چھوڑ کر مجھے سننے آئیں گے۔ بس یہ کر دیں، مجھے ولی زمان خان کا بس ایک وعدہ چاہیے"

کرب سے گزر کر کبھی آنسو ضبط کرتی، کبھی مسکراتی، کبھی روداری سے تکلیف دباتی وہ صرف ایک وعدے پر اتر آئی اور کتنی ہی ساعتیں آئیں اور گزر گئیں مگر ولی زمان خان کے پاس اتنا حوصلہ نہ تھا کہ وہ اسے جواب دیتا۔

کئی لمحے ایک بار پھر خاموشی کی نظر ہوئے۔

"دیتا ہوں وعدہ، پر ایک وعدہ آپ بھی کریں"

بہت دیر بعد جب دل مضبوط ہوا تو وہ واپس خود کو یکجا کرتا اک چھوٹی سی خواہش کہہ بیٹھا اور وریشہ نے گہرا سانس کھینچتے ہی اپنا چہرہ اس مضبوط اعصاب والے کی جانب پھیرا جسے وہ لڑکی آخری حد تک آزمانے کا عہد لے بیٹھی تھی۔

"بنا جانے بھی کیا وعدہ، جانتی ہوں ولی زمان کبھی وریشہ یوسف زئی کو کسی مشکل سے دوچار نہیں کریں گے۔"

وہ بنا وعدہ سنے ہی مان گئی اور تمام تر تکلیف کے ولی زمان خان کے خوبصورت چہرے پر راحت آمیز مسکراہٹ اتری۔

"تو پھر ٹھیک ہے اس وعدے پر سے پردہ وقت پر اٹھاوں گا"

وہ مسکرایا تو وریشہ کے دل کو بھی ڈھارس سی ملی۔

"ٹھیک ہے، ناراض تو نہیں ہیں مجھ سے؟"

وہ بھی تمام دکھ سے نکل آئی، اسکے سوال میں جو تڑپ تھی وہ ولی کو عزئز تھی۔

وہ نفی میں گردن ہلا کر وریشہ کے دل کے سارے بوجھ اتار گیا۔

"دعا کریے گا میرے لیے "

وہ اسے پھر سے پکار کر بولی تو وہ بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔

"جس دن آپکے لیے دعا نہ مانگوں، لگتا ہے میں نے خود کے لیے نہیں مانگی"

وہ یہ جملہ ادا کرتے ہوئے عجیب سے سکھ میں مبتلا تھا اور وہ تھکا سا سہی پر مسکرائی۔

"لنچ کریں گے میرے ساتھ"

وہ پھر سے پیکش کرتی اسکی گہری آنکھوں میں جھانکی۔

"اگر شرط میں آپکو اپنی مرضی سے دیکھنا اور سوچنا درج ہے تو ضرور کروں گا"

وہ عقیدت اور محبت کے جذبات سے اب بھی سرشار تھا جب وہ لڑکی اسکی بالکل نہ تھی اور کسی اور کی ہو چکی تھی۔

اک لمحہ وریشہ کی آنکھیں خالی سی ہوئیں مگر پھر وہ مسکرا کر اٹھی تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ اس سے اتنی محبت کرتا تھا کہ دل کے سارے ہی موسم اس لڑکی کے نام کر چکا تھا۔

اور وہ جانتی تھی اس محبت کے بدلے میں محبت کرے یا نا کرے مگر اتنا احساس ضرور خود پر واجب کر لے گی کہ وہ شخص ہنستا ہنستا کبھی نہ روئے۔

اور وہ وریشہ یوسف زئی کے روبرو کھڑا مسکرا رہا تھا۔

وہ اسکے ساتھ کچھ دیر رہ کر پرسکون ہو جائے گی اسکا اسے اندازہ تھا تبھی تو یہ وقت اس نے صرف ولی زمان خان کے لیے وقف کیا۔

"اب تم جاؤ

تا کہ میں آنکھیں بند کروں

اور تمہیں بلا لوں

وہاں جہاں میں کھلی ہوئی آنکھوں سے

تمہیں بلا نہیں سکتا۔"

اس نے آج اک نئی راہ چنی تھی، عہد باندھ کر جینے کی، اپنے وعدے سے اس لڑکی کو آخری سانس تک بے خبر رکھنے کا فیصلہ کیے وہ خود کو بھول گیا تھا۔

جبکہ سچائی وہ ایک بار پھر اس سے چھپا گئی، اسے ناچاہتے ہوئے بھی رات کا انتظار تھا، بھلے آج کی رات اسکی آخری رات ہی کیوں نہ ہوتی۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

فون کی بیل پر ضرار اپنی سوچوں کے بھنور سے نکلا کیونکہ وہ ایچ بی کے مہمان خانے میں کھڑا، وہاں لگی بڑی سی شہکار پینٹنگ پر نظریں جمائے متجسس تھا، فائنلی عدالت نے اسکی زمین کا قبضہ چھڑوا کر اسکی ملکیت تسلیم کر لی تھی اور ایک بڑا بوجھ سر سے اتر گیا مگر وہ یہاں آنے سے پہلے جبل زاد کو کچھ اہم کام سونپ کر آیا تھا اور ابھی جبل زاد ہی کی کال نے اسکی گہری سوچیں منتشر کیں۔

"ہاں کہو جبل زاد!"

فون کان سے لگاتے وہ نظریں ہنوز اس نیلی آنکھوں والی پینٹنگ پر مرکوز رکھے بولا تو دوسری جانب جبل زاد کسی کال آپریٹر کے دفتر میں موجود اسے کال کر رہا تھا۔

"سائیں! میں نے عزیز خان اور انکے وکیل دونوں کی کال لسٹ چیک کروائی ہے، دونوں کو ایک ہی وی آئی پی نمبر سے کالز آتی رہی ہیں۔ یہی نہیں اسکے علاوہ بھی ایک نمبر ایسا ملا ہے جسے ان دونوں نے بارہا ملایا ہے۔ میں نے وہ نمبر آپکو بھیج دیا ہے، وی آئی پی نمبر کے بارے یہاں سے کوئی معلومات نہیں ملیں لیکن یقینا وہ جو بھی انسان ہے وہ خاصا طاقت ور اور رئیس ہے۔ مجھے شک ہے کہ وہ چھپا ہوا انسان یقینا وہی ایچ بی ہے جہاں آپ گئے ہیں"

جبل زاد کی جانب سے یہ سب سن کر میثم ضرار چوہدری کی آنکھوں میں عجیب سی راحت امڈ آئی، اسے اس آدمی کے بارے پہلے ہی شک تھا اور پھر کنزا کی اس معاملے میں اس دیدہ دلیری سے شمولیت نے ویسے بھی ضرار کی چھٹی حس ایکٹیویٹ کر دی تھی۔

"بہت خوب، تو کہانی میں وقت ہوا چاہتا ہے ایک نئے جھٹکے کا۔ اب تم دوسرا کام کرو جبل زاد! میری سرمد اور شہیر سے ملاقات ارینج کرواو۔ میں یہاں سے نکل کر ان دونوں سے ملنا چاہتا ہوں"

پرسرور لہجے اور پھر یکدم سنجیدہ انداز میں وہ جبل زاد پر اگلی ذمہ داری ڈالتا فون کاٹتا ہوا پھر سے شر انگیز نظریں اس شہکار پر ٹکا چکا تھا۔

ضرار کی نظر اس تصویر کے کنارے پر لکھے دو حروف ایچ اور بی پر پڑے تو دماغ میں یکددم جھماکہ سا ہوا۔

"ایک دن آپ بہت بڑے مصور بنیں گے بڈی، کیونکہ آپکے ہاتھ ماہر اور محنتی ہیں، لیکن آپ ہر تصویر کے نیچے کیا لکھا کریں گے ؟ اکثر مصور تو اپنے نام کا یونیک ورژن لکھ دیتے ہیں ناں"

شعور کے گہرے ربط جڑے تو اسکی سماعت میں ان اچھے دنوں کی آواز سرسرائی، تب وہ اکثر و بیشتر ہاشم کے ساتھ بیٹھ کر انھیں ایک ہی چیز کے الگ الگ انداز سے ڈرا کرنے کو دیکھتا بعض دفعہ حیرت کے سمندر میں اتر جایا کرتا تھا اور ایک دن اس نے تصویر بناتے ہاشم سے یہ سوال کیا جس پر وہ مسکرا کر پلٹا تھا۔

"ہاشم بزدار! یہی جو میری شناخت ہے لاڈلے۔ بھلا ایک یہی نام تو انسان کی واحد اپنی ذاتی شے ہے"

اس وقت ہاشم نے محبت اور شفقت کے سنگ جو جواب ضرار کو دیا تھا، سننے میں وہ ایچ بی ویسا دماغ سنسنا نہ پایا جتنا وہ لکھے ہوئے دو حرف ضرار کے دماغ کو ہلا گئے۔

"ایچ بی! ہاشم بزدار؟۔۔۔۔ بڈی"

بے یقینی اور ادراک کی شدید تکلیف دہ لہر نے ضرار کی آنکھیں ٹھہرا دیں، مگر پھر جیسے عقب کی جانب بلند ہوتی آہٹ پر وہ اپنے چہرے کے ارے رنگ بحال کرتا اور تابناک سایہ مدھم کرتا پلٹا تو سامنے ایچ بی مکمل سیاہ میں، چہرے پر وہی کالا ماسک پہنے اپنے دو گارڈز کے ہمراہ اسکے روبرو کھڑا سیاہ آنکھوں کو ہر ممکنہ تلخ رکھے میثم ضرار چوہدری کو دیکھنے میں مصروف تھا۔

"کون ہو تم؟ اور یہاں آنے کی زحمت کیسے کی؟"

دل کو لاکھ جبر کی مصیبت سے دوچار کرتا ہاشم، ایک دم کیسے اس پر عیاں کر دیتا تبھی لہجہ اجنبیت بھرا کیے استفسار کرنے لگا مگر ان سیاہ جانی پہچانی آنکھوں کے بعد اس جان دار، زورآور آواز نے ضرار کے دل کو اک مہربان سی ڈھارس بخشی۔

"میرا بھی یہی سوال ہے مسٹر ایچ بی؟ ایسی کونسی رشتہ داری ہے تمہاری کنزا سے کہ وہ اپنی بیٹی کو ایک محفوظ پناہ گاہ سے نکال کر تمہارے اس سونے کے پنجرے میں چھوڑ کر گئی تھی۔ آہا، جانتا ہوں وہ آدھی سانسوں والا جوش دیکھا کر زونین کو لے گیا لیکن تم ہوتے کون ہو اس عورت کے مددگار، اور ایسی کونسی پیاری ہستی ہو تم کے کنزا کو اپنی بیٹی یہاں چھوڑتے زرا بھی ڈر نہیں لگا"

ضرار ہر ممکنہ اپنا لہجہ سخت اور برہم کیے بنا کوئی شناسائی کا تاثر چھوڑے سپاٹ سے انداز میں استفسار کرتا عین ایچ بی کی آنکھوں میں جھانک کر اک اک لفظ بولا جبکہ ہاشم اسکی ہر معاملے سے واقفیت پر متاثر ہوا، یہ لڑکا آج بھی ویسا ہی جاسوس تھا جیسے بچپن میں تھا، اک راحت تھی جو ہاشم کو دل تک اترتی محسوس ہوئی۔

"تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا ، اٹس پرسنل۔ ویسے بھی کنزا سے ہی کیوں نہیں پوچھ لیا تم نے؟ میں تو کئی لوگوں کو حفاظت دیتا ہوں، اب کیا ہر ایک کے سگے اٹھ کر مجھ سے اس کا حساب مانگیں گے۔ یہ تو ہرگز برداشت نہیں کروں گا"

لہجے میں تندہی بھرے ہاشم بڑے ضبط سے خود کو اس بے حسی پر قائم رکھے ہوئے تھا کیونکہ ابھی ضرار کے سامنے خود کو ظاہر کرنا اسے مناسب نہیں لگا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ عزیز خان نے اسے طلاق والی اصلیت پہلے ہی بتا کر ایک مشکوک آدمی کے بارے بھی بتا کر خبردار کر دیا ہے اور پھر جس چیز کے پیچھے ضرار صاحب پڑ جائیں اسکی تو خیر رہتی ہی نہیں تھی۔

"اوہ! تو تم سب کے باپ ہو جو حفاظتی اقدامات بانٹتے پھر رہے ہو۔ سیدھی طرح بتاو کیا گیم چل رہی ہے بیچ کی، ایسا نہ ہو تمہاری منہ دیکھائی کے ساتھ ساتھ تمہارا پورا نام بھی یہاں بکھرا ہوا زمین پر پڑا ملے"

ناچاہتے ہوئے بھی ضرار کو لہجہ سخت کرنا پڑا اور ہاشم بہت مشکل سے اپنی مسکراتی آنکھیں سنجیدہ رکھ پایا، ایک دل تو یہی چاہا اس ہیرو گیری دیکھاتے لاڈلے کے کان کے نیچے دو رکھے پر دونوں ہی اپنی اپنی طرف سے نوٹنکی کی دکان چلانے میں گم تھے۔

"جب ہر معاملے کی تمہیں خبر ہے تو اسکی کیوں نہیں ہوئی؟ میں نے تو سنا تھا میثم ضرار چوہدری قبر میں دفن ہوئے راز بھی باہر نکال لاتا ہے۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے تھا کنزا کی ہر چال کا، آفٹر آل تم جیسا جی دار انسان ناپسند اور پسندیدہ دونوں طرح کے لوگوں کی پوری خبر رکھنا پسند کرتا ہے"

اس بار ہاشم کے لہجے کی نرمی نے ضرار کے ماتھے پر بھی بے شمار بل ڈالے، وہ قریب آیا تو ایچ بی کے دونوں گارڈز نے اس پر احتیاط کے طور پر گنز تانی جنھیں ایچ بی نے اشارہ کیے اس سے روکا اور ساتھ ہی کمرے سے باہر روانہ کر دیا۔

جبکہ ضرار اس پر جبڑے بھینچتا تلملا اٹھا، مزید ڈرامہ اس سے برداشت نہ ہوا۔

"یہ صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے اگر مجھ سے معاملہ چھپانے والا کوئی مجھ سے بھی ایک درجہ آگے کا شاطر ہو۔ اور کم ازکم کنزا اتنی چالاک نہیں کہ میری ناک تلے کچھ کر گزرے اور مجھے خبر نہ ہو، ویسے کنزا سے مجھے اچھے کی امید تو ہرگز نہیں ہے لیکن تم مجھے اپنی باتوں سے الجھا رہے ہو۔ "

وہ پراعتمادی سے بنا آواز کو توڑے یہ سب جواب دے کر ہاشم کو لاجواب کر چکا تھا، اسے ضرار کی بندے کو سر تا پیر کرید کر رکھ دینے کی خوبیوں کا پتا تھا مگر وہ اتنے سالوں بعد بھی اسے لمحے میں اپنے سامنے آکر پہچان لے گا یہ سراسر حیرت کا جھٹکا تھا۔

"میرا کام ہی الجھانا ہے"

وہ زچ کرتی مسکراتی آنکھیں ضرار کو اب بے چین کر چکی تھیں۔

"وجہ؟"

سپاٹ جواب ترکی بہ ترکی آیا۔

"بس شوق کہہ لو"

ہاشم کی آنکھوں میں اک سلگاتی ، تنگ کرتی، غصہبدلاتی چمک تھی اور میثم ضرار چوہدری دو قدم مزید اسکے نزدیک آکر ٹھیک اپنی برہم آنکھیں ان آنکھوں میں ڈال گیا۔

"پھر میرے بھی کچھ شوق ہیں مسٹر ایچ بی، کہ میں اپنے سامنے آتے ہر مشکوک انسان کا آنکھوں سے ہی اندر تک کا پوسٹ مارٹم کرنا پسند کرتا ہوں۔ کیوں کھیلا یہ سفاک کھیل آپ نے؟"

تلخی اور تکلیف کے علاوہ اتنے سال ہاشم کا چھپ کر رہنے کا یہ کھیل ضرار کے اندر آگ لگا گیا اور وہ اسے اتنی جلدی بے نقاب کر دے گا، یہ اس نے بھی ہرگز نہ سوچا تھا۔

دونوں کی سیاہ آنکھیں ایک جیسے ملال اور رنج سے بھر سی گئیں۔

کھڑے کھڑے ان دونوں پر جانے کتنی ہیبت ناک سچائیاں اور حقیقتیں کھلیں، ہاشم نے اپنے چہرے پر لگایا وہ سیاہ ماسک بھی جھٹکے سے اتار دیا۔

اسکے دنیا جہاں کے خوبصورت آدھے چہرے پر اب بھی چھوٹا سا جلے کا نشان باقی تھا مگر گہرے زخم ان سچائیوں نے ضرار کے دل پر چھوڑے جو اسے ہاشم سے پتا چلیں۔

ایک کے بعد ایک انکشاف نے میثم ضرار چوہدری کی ہستی تہس نہس کر ڈالی۔

"تم تو آج بھی مجھ سے دو ہاتھ آگے کے ماہر نکلے لاڈلے!وہ کیا ہے کہ کچھ زخم تھے جو چھپانے کے لیے تھے، کچھ راز تھے جو مٹانے کے لیے تھے"

وہ مسکراتا اسکی گال تھپکاتا اذیت سے بولا جبکہ ضرار کی آنکھیں غصے اور دکھ سے بھر گئیں اور وہ بے رحم بنا ہاشم کا وہ ہاتھ جھٹک کر سلگ اٹھا۔

"بہت برے ہیں آپ ہاشم بزدار، جانتے ہیں دادا سائیں کتنا تڑپے ہیں آپکے لیے اور میں؟ میں نے آپ کے جانے کے بعد خود کو کس قدر اکیلا اور کمزور محسوس کیا تھا۔ کیوں اتنے سال دور رہے آپ ؟ آپکو ہماری تکلیف، ہمارا دکھ کیوں واپس نہ لا سکا؟ میں نہیں سنوں گا کچھ سوائے اسکے کے آپکو چھپنے کی کیا ضرورت تھی؟"

وہ نہ تو اسکے گلے لگا نہ اسے لگنے دیا بلکہ وہ اسکے دونوں شانے جکڑتا حلق کے بل چلایا کہ اسکی آنکھیں تک سرخ ہو گئیں جبکہ خود ہاشم اسکی اس جذباتی کیفیت سے دل کٹتا محسوس کر رہا تھا۔

"چھپ کر تمہیں مینٹلی پروٹیکٹ کرنا تھا، دشمن کمینا تھا ہمارا لاڈلے سو تھوڑی کمینگی ہم پر بھی لازم تھی۔ اور میں نہیں چاہتا تھا میرا بگھڑا چہرہ تم دو کے دکھ مزید بڑھا دیتا یا مجھے تم دو کی کمزوری بنا ڈالتا، پھر خود سوچو اگر میں تمہارے سر پر ہوتا تو آج تم وہ شیر جیسے میثم ضرار چوہدری نہ ہوتے جو اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو کر بنے ہو، جسکی عقابی نظر سے کوئی معاملہ زیادہ دیر اوجھل نہیں رہ سکتا۔ تم تو پھر بس صنم کے دیوانے ہی بن کر رہ جاتے"

وہ اسکے ہر سوال اور اعتراض کا جواب دے چکا تھا اور ضرار نے اسے یوں دیکھا جیسے بولنا بھی نہ چاہتا ہو اور اسکا آخری جملہ ضرار کے طیش کو ویسے ہی بڑھایا گیا جسے ضرار نے بڑے ضبط سے کم کیا۔

"کس نے بچایا آپکو؟"

وہ نروٹھا سا اسکا پھر سے اپنی جانب بڑھنا بھانپ کر ، سفاکی سے ہاشم کے ہاتھ بری طرح جھٹک کر تلخی سے سوال کرتا بولا تو ہاشم نے اسے ابرو اچکائے گھورا پر ضرار بلکل بھی نہ پگھلا۔

"عزیز خان نے"

یہ نام سنتے ہی ضرار کا سارا غصہ جھاگ بنے ، پشیمانی اور صدمے کا روپ دھار گیا۔

"یار! یہ بندہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ان چھپے نیک اعمال کی وجہ سے میری عزت کے لائق ہے یا بزدلی کی وجہ سے زلت کے۔ میں نے کتنا زلیل کر دیا یار، اب جب تک معافی نہیں مانگوں گا، سکون نہیں ملے گا۔ اور آپ! آپ سے تو بات بھی نہیں کرنی میں نے۔۔۔۔۔"

دل سا ہول اٹھنے پر ضرار نے خود کو صوفے پر لڑھکایا جبکہ اسکی بڑبڑاہٹ پر ہاشم نے مسکراتے ہوئے ساتھ ہی بیٹھ کر اک مسکراتی نظر لاڈلے پر ڈالی جو ابھی اتنا غصے میں تھا کہ پرسوں بعد ملے بڈی سے گلے تک نہ ملا تھا۔

"ان ساری خاندانی تلخیوں نے تم پر بھی گہرا اثر چھوڑا ہے بے فیض لڑکے! اتنے سالوں بعد ملا ہوں مگر جھوٹے منہ گلے بھی نہیں لگایا اور کاٹ کھانے پر اتر آئے ہو۔

، صنم کے علاوہ کسی پر بھی بنا سوچے چڑھ دوڑتے ہو۔ میں تو اب بھی سامنے نہ آتا، کم ازکم تب تک جب تک تم دوست اور دشمن کی ٹھیک پہچان نہیں سیکھ جاتے۔ لیکن تمہارا یہاں پہنچ جانا مزید مجھے چھپا رہنے نہیں دے سکا۔ "

وہ بظاہر عام سے لہجے میں بولا ہو مگر ہاشم بزدار کا ہنستا چہرہ اور شکووں کی لسٹ ، ضرور ضرار کا خون کھولا چکے تھے۔

"کچھ ٹھنڈا پلوائیں اور میرے غصے کو کم کریں پھر سوچتا ہے میثم ضرار چوہدری کے آپکو اتنے سال چھپا رہنے پر گلے لگانا ہے یا کچھ خوبصورت القابات سے نوازنے کے بعد ناراضگی ہٹنے تک ستانا ہے۔۔آئے بڑے مجھے فیض سیکھانے والے"

نخرے دیکھاتا وہ منہ بسور کر کہتا منہ ہی منہ میں بلکل بچوں کی طرح منہ پھیرتے بڑبڑایا جبکہ تمام تر اداسی اور تکلیف کے ہاشم بزدار کا جان دار قہقہہ ، ضرار صاحب کے بھرم دیکھ کر کمرے میں گونج اٹھا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"تم سمجھ گئے ہو ناں؟ کل یہ کام ہو جانا چاہیے۔ بس اس تماشے کو مزید لمبا نہیں کرنا چاہتا"

سردار خاقان، حقارت سی آنکھوں میں بسائے کسی سے فون پر مصروف تھا، دوسری جانب سے فرمابرداری کا مظاہرہ کیا گیا تبھی اس نے کال کاٹی اور ساتھ ہی گاڑی کے ہارن کی آواز پر خاقان خان نے سوالیہ نظر اندر کی جانب آتے محافظ کی سمت ڈالی جو نزدیک آکر ہاتھ باندھتا مودب سا آکر رک چکا تھا۔

"کون آیا ہے؟"

سردار خاقان نے ناگواری سے سوال کیا مگر اس سے پہلے وہ محافظ جواب دیتا، حویلی میں داخل ہوتے مشارب زمان خان کو دیکھ کر جہاں اس شخص کے ماتھے پر پڑے بل ہٹے وہیں اسکے ہاتھ میں دبا زونین کا ہاتھ دیکھتے ہی اس فرعون شخص کے اندر تک آگ لگی۔

مخافظ کو بری طرح پیچھے دھکا دیتا وہ اپنی جانب آتے مشارب کی اور لپکا جس نے سہمی اور ڈری سی زونی کا ہاتھ مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا۔

"تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اس لڑکی کو خانم حویلی لانے کی؟"

وہ مشارب کو گھورتا، آگ اگلتا دھاڑا اور شور کی آواز پر مردان خانے میں بیٹھے زمان خان اور عزیز خان بھی وہیں دوڑے جبکہ فرخانہ جو اندر گل خزیں کے کمرے میں انکے پاس تھیں، وہ بھی جیسے دھاڑ سن کر خوفزدہ سی ہوئیں۔

"جا کر دیکھو فرخانہ، اب اس مردود کو کیا تکلیف ہوئی ہے"

گل خزیں کے کہنے پر فرخانہ فرمابرداری سے خود بھی قدوسیہ کو سوپ کا پیالہ تھماتی ، اپنے گرد چادر لپیٹتیں باہر نکلیں تو وہیں کمرے سے باہر آتے ہی تھم کر رہ گئیں، مشارب کو سردار خاقان کے روبرو آنکھوں میں بغاوت لے کر کھڑا دیکھنا اس عورت کے اندر تک ڈر اتار گیا۔

"یہ لڑکی کوئی عام لڑکی نہیں ہے ، یہ مشارب زمان خان کی بیوی ہے لہذا اسکے بارے ایسا سوال آپکا ہرگز برداشت نہیں کروں گا دادا سائیں۔ اب سے زونین یہیں اس حویلی کی بہو کی حیثیت سے میرے ساتھ رہیں گی اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو ابھی بولے، اسکا اعتراض بہت سلیقے سے اقرار میں بدل دوں گا"

لہجہ سخت مگر انداز تمیز کے دائرے میں سمیٹ کر رکھتا وہ جس بے خوفی سے خاقان خان کا جواب دے رہا تھا، اک لمحہ تو پوری حویلی پر سناٹا چھا گیا۔

زمان خان اور فرخانہ خانم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جبکہ عزیز خان صاف صاف خوفزدہ تھے، وہ خاقان خان کی دھمکی سے پہلے ہی ڈرے تھے اور اب جو گستاخی مشارب نے کر دی تھی وہ تو اس حویلی کی پھر سے بنیادیں ہلا دینے والی تھی۔

"گستاخ! مردود! تیری یہ ہمت کے تونے میرے فیصلے کے آگے کھڑا ہونے کی جرت کی۔ نہ تو آخری سانس تک کنزا کے لیے اس حویلی کے دروازے کھلیں گے نہ ہی اسکی اور کتے بخت کی اولاد کے لیے۔ مجھ سے پنگاہ لینے کی کوشش مت کر، اسے جہاں سے لایا ہے وہیں چھوڑ آ ورنہ تجھے اس حرکت کی بہت مہنگی قیمت چکانی پڑے گی"

بنا کوئی لحاظ رکھتا خاقان خان، لہرا کر جبڑے بھینچتا جس طرح مشارب زمان کا گریبان دبوچ چکا تھا، زونی کا ہاتھ جھٹکے سے مشارب کے ہاتھ سے چھوٹ گیا جبکہ مشارب ، دادا سائیں کے اس رویے پر اندر تک نفرت اور تلخی سے بھرتا نہ صرف ایک جھٹکے سے انکے جکڑے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹک گیا بلکہ آنکھوں میں خوف بھر کر آنسو روک لیتی زونی کا واپس ہاتھ جکڑتا دو قدم دور ہوا۔

زمان خان اور عزیز خان کے چہرے کا رنگ ایک ساتھ سفید پڑا جبکہ فرخانہ کی تو ٹانگیں تک کانپ اٹھیں۔

"اب مشارب زمان ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہے دادا سائیں، اچھا ہے آپکی اصلیت تو میرے سامنے آئی۔ کس قدر گند بھرا ہے آپکے دماغ میں اپنی ہی اولاد کے لیے، آج کھل کر سامنے آگیا۔ مجھے تو شک ہے کہ گل خزیں خانم کے یکدم دل بدلنے کے پیچھے بھی آپ ہی کی کوئی کارستانی ہے۔

میں تو اماں سائیں کی تکالیف کی وجہ کنزا نامی عورت کو گناہ گار سمجھتا آیا تھا تبھی اس لڑکی سے دانستہ دوری اختیار کی تھی۔ لیکن یہ کسی کتاب میں درج نہیں کہ ماں کے کیے کی سزا اسکی اولاد کو دی جائے، اس لیے سب کان کھول کر سن لیں۔

اب مشارب زمان اپنی تمام غلطیاں سدھارے گا، کسی معصوم کو ناکردہ گناہ کی سزا ہونے نہیں دوں گا۔

میری وجہ سے جو کچھ اشنال کے ساتھ ہوا اب میں اسکی بھی تلافی کروں گا اور کوئی اگر اس بیچ میری راہ کی دیوار بنا تو ریزہ ریزہ ہو جائے گا"

ہمت جب کی ہی تھی تو وہ فیصلہ لے چکا تھا کہ آخری دم تک اب اپنے گناہوں کے کفارے ادا کرے گا۔

جبکہ مشارب یہ بدزبانی، خاقان خان کے جسم کا سارا لہو اسکے چہرے پر چھلکا چکی تھی۔

"اپنی زبان کو لگام دیجئے مشارب زمان، آپ بھول رہے ہیں کہ آپ کس کے آگے کھڑے ہیں۔ اگر کسی نے بابا سائیں کے ساتھ اس لہجے میں بات کی تو میں اسے اسکی اوقات یاد دلانے میں لمحہ بھی نہیں لگاوں گا"

کافی دیر سے یہ منہ ماری دیکھتے زمان خان بھی بھڑک اٹھے ، مشارب کا یہ باغی لہجہ انھیں کاٹ گیا تھا پھر وہ خاقان کی واحد وہ اولاد تھا جسے اپنے فرعون باپ کی کسی بھی اصلیت سے ہرگز کوئی واقفیت نہ تھی۔

"آپ اپنے بابا سائیں کا لہجہ نہیں دیکھ رہے بابا؟یہ کیسے ناانصاف ہو رہے ہیں۔ میرے ہر جذباتی عمل میں میری پیٹھ تھپکانے والے سردار خاقان خان، مجھے اس اچھے عمل پر سراہنا تو دور، نوچ کھانے کے ارادے کیے بیٹھے ہیں۔ اور زونین کو میرے نکاح میں شامل کرنے والی ہستی اماں سائیں کی ہے اور انکے اعتراض کو نہ صرف میں نے سنا بلکہ حتمی طور پر بتا دیا تھا کہ اب وہ بھی مجھ سے اس لڑکی کو الگ نہیں کر سکتیں۔"

مشارب کے تلملا کر دیے جواب پر زمان خان کے ماتھے کی رگیں تن چکی تھیں جبکہ سردار خاقان کو ایسی آگ لگ چکی تھی جو بجھائے نہ بجھنے والی تھی۔

وہ زونین کو نفرت بھری نظروں سے دیکھ کر اس لڑکی کا دل پہلے ہی خاکستر کر چکے تھے لیکن اسے سہارہ تھا تو بس ہاتھ میں موجود مشارب زمان کے مضبوط ہاتھ کا جو اس لڑکی کے لیے ان سب بے حسوں کے آگے پہاڑ کی طرح جم گیا تھا۔

"بہت بڑی غلطی کر رہا ہے تو مشارب زمان، اسکا انجام تیرے اندر کی ساری اکڑ نکال باہر کرے گا۔ مجھے مجبور مت کر کے میں اپنے ہی خون کو بہانے پر اتر آوں"

ایک بار پھر سلگتی آنکھوں اور زہریلے لہجے کے سنگ خاقان خان نے اپنی نفرت انڈیلی جس پر مشارب مضحکہ خیزی سے ہنس کر ان سب سہمے ہووں پر نگاہ دوڑاتا بنا کوئی جواب دیے زونی کا ہاتھ ہنوز تھامے ہی گل خزیں کے کمرے کی طرف بڑھا جبکہ پیچھے اسکی یہ حرکت سردار خاقان کی ذہنی رو بھٹکا گئی، پوری قوت لگائے اس سفاک درندے نے ہاتھ ہوا میں بلند کیے ملحقہ میز پر پڑا واس زمین بوس کر دیا، اور روح فنا کرتی نظر بے بس بن کر کھڑے زمان خان پر ڈالی۔

"تم سب نے مل کر مجھے جلانے کا منصوبہ بنایا ہے؟ کیا تم لوگوں سے اپنی اولادیں قابو نہیں ہو سکتیں۔ ایسی زبان دراز اور باغی اولاد کا سر کچلنا تم لوگوں پر اول دن ہی فرض تھا ، لیکن کوئی بات نہیں۔ اب اس زہر کو خاقان خان خود نکالے گا۔۔۔۔دفع ہو جاو تم دونوں، جب تک میرا غصہ ٹھنڈا نہ ہو، شکلیں نہ دیکھانا اپنی۔ "

سردار خاقان کی پھنکارتی وحشت زدہ دھاڑ سنتے وہ دونوں بھی وہاں سے چلے گئے اور خود وہ فرعون نما شخص تابوت میں آخری کیل گاڑنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

وہیں، مشارب اور زونی کو ایک ساتھ کمرے میں آتا دیکھ کر گل خزیں کا تڑپتا ہوا دل مچل اٹھا، ملازمہ باول کا پیالا لیتی اسی وقت کمرے سے نکلی اور خود زونی تمام خوف بھلاتی دوڑ کر نانو کی پھیلائی باہوں میں جا سمٹی، اور گل خزیں نے بازووں میں بھر کر اس پیاری زونی کو سینے میں بسایا پھر چہرہ ہاتھوں میں بھر کر ماتھا چوما تو جیسے دونوں کے بلکتے دل کو قرار ملا وہیں مشارب بھی یہ جذباتی ملن دیکھتا افسردہ سا ہوا، اندر آتیں فرخانہ بھی ٹھہری سرخ بصارت کے سنگ یہ ملن دیکھتیں بمشکل ہی اپنے آنسو روک پائیں تو انکو روتا دیکھ کر مشارب نے بازو گرد پھیلائے فرخانہ کو اپنے ساتھ لگایا۔

"ن۔۔نانو! کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔۔آپ ٹھیک ہیں ناں"

اسے گل خزیں خانم بالکل بھی ٹھیک نہ لگیں، وہ بہت زیادہ مرجھائی تھیں اور جس طرح زونی تڑپ کر ان سے پوچھ رہی تھی، اس وقتی سنگدل بن جاتی عورت کا دل لمحے میں موم ہوا، آنکھیں نمی سے بھر سی گئیں۔

"تمہیں دیکھ لیا ہے، اب بالکل ٹھیک ہو گئی ہوں۔ نانو کی جان، میرا بچہ"

وہ اسے خود سے لگاتیں کرب زدہ آواز میں بولیں، خاقان خان کی وہ خود بھی اب مزید کوئی بات ماننے کے حق میں نہ تھیں اور اب بھلے وہ فرعون انکو طلاق بھی دے دیتا تو یہ گل خزیں کے لیے نجات تھی۔

لیکن کم ازکم اب وہ زونی یا مشارب کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کر سکتی تھیں۔

"آپ بھی ہمیں م۔۔مشارب سے الگ کر دینا چاہتی ہیں؟ بولیں نانو۔ اگر آپ بھی یہی چاہتی ہیں تو ہم سچ میں ی۔۔یہاں ایک لمحہ بھی نہیں رکیں گے۔ آپ نے ہمیں مشارب دیے ت۔۔تھے ناں۔ ہم سے انکو صرف آ۔۔آپ لے سکتی ہیں، ہمیں ب۔۔بہت ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپ بھی سب کی طرح ایسا نہ چاہنے لگیں۔۔۔جیسے نانا جان ہمارا وجود تک برداشت نہیں کر رہے، کیا آپ بھی۔۔۔۔"

بنا گل خزیں کی خراب طبعیت جانے وہ بس اس وقت اپنی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتی تھی، جس نانی نے اسے ہمیشہ سینے سے لگا کر رکھا تھا، کیا سنی سنائی بات کی طرح وہ واقعی ظالم ہو چکی تھیں یا اب بھی انکے دل میں زونین کی محبت باقی تھی۔

خود زونین یہ سوال اسے اور مشارب کے علاوہ فرخانہ خانم کو بھی اذیت میں جھونک گیا اور پھر وہیں آتے  عزیز خان کی آنکھیں بھی تاسف سے بھر سی گئی تھیں، زمان تو دلبرداشتہ سے حویلی سے ہی باہر نکل گئے تھے، انکے بقول انکی دونوں اولادوں نے انکا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔

"نہیں زونی بچہ، مانا کچھ وقت کے لیے میں پتھر دل بن گئی اور اشنال کے ساتھ زیادتیوں کے ساتھ ساتھ میں تمہارے اور مشارب کے ساتھ بھی ظلم کرنے کا سوچ بیٹھی تھی لیکن اس وقت معاملہ اس قدر نہیں بگھڑا تھا جیسا اب بگھڑ گیا۔ جو کچھ میں نے اشنال اور ضرار کے ساتھ کیا اسکی سزا اللہ مجھے دے چکا ہے لیکن اس فرعون بن جاتے انسان کے ہر لحاظ اور مان مٹی میں ملا دینے کے بعد کم از کم میں تم دونوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہونے دوں گی بھلے اس کے لیے وہ شخص مجھے کتنا ہی مزید زلیل کیوں نہ کر دے۔ سردار خاقان کو تم دو تک پہنچنے کے لیے گل خزیں خانم کی لاش پر سے گزرنا پڑے گا۔ تم دونوں کی جو تکلیف میری وجہ سے بڑھی اس کے لیے مجھے معاف کر دو۔۔۔"

جو کچھ اس عورت کے ساتھ اس شخص نے کیا تھا اسکے بعد تو خانم اس پر تھوکنا بھی نہیں چاہتی تھی، اور پھر اللہ کی بے آواز لاٹھی نے جس طرح گل خزیں کو اشنال کی تکلیف کا احساس دلایا، اس جھٹکے نے اس عورت کے اندر کا سارا زہر واقعی نگل لیا تھا۔

میثم ضرار چوہدری نے بڑی چن کر سزا تجویز کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا گل خزیں خانم کے اندر کا زہر مکمل تبھی نکلے گا جب اس پر سردار خاقان کی آخری حد تک گندگی کھل کر سامنے آئے گی، یہ گل خزیں خانم، ضرار کے مطابق زہریلی ضرور تھی پر کم، اور اب اس عورت کے اندر کا تمام زہر اصل مجرم کے لیے تھا۔

وہ طلاق سے اس لیے ڈری تھیں کہ اس عمر میں وہ یہ بدنامی برداشت نہیں کر سکتی تھیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ خاقان کے ساتھ مجبورا ہی سہی پر جینے لگی تھیں، وہ شخص کم ازکم جتنا بھی جابر کیوں نہ تھا، اس نے خانم کو ہمیشہ عزت سے پکارا تھا، لیکن یہ آخری درندگی دیکھا کر اس شخص نے اپنی خانم کو دی عزت، اسے زلیل کر کے خود ہی غارت کر دی تھی۔

ضرار کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا جس نے اشنال کی زیادتی کا بدلہ بھی لیا، خاقان کو گل خزیں کے روبرو بے نقاب بھی کیا اور گل خزیں کے زہر کو کم کیے اس نے اپنی سوتیلی بہن کا ایک طرح گھر بھی آباد کر دیا۔

باقی مشارب زمان خان اسے پہلے بھی برا نہیں لگتا تھا بس وہ جذباتی تھا، ہر چیز میں دماغ کے بجائے دل سے سوچنے والا آدمی تھا جبکہ زونین ہی اس انسان کو دماغ سے سوچنے پر اکسانے کا ذریعہ ثابت ہوئی تھی۔

زونین کی آنکھیں آنسووں سے بھر سی گئی تھیں جب نانو نے اس کے دل کے سارے خوف، سینے سے لگا کر مٹائے اور دوسری طرف بازو کھولے مشارب کو بھی اپنے پاس بلایا۔

وہ ان سے ناراض تھا پر بس اسی ایک بات کو مان جانے پر تمام ناراضگی بھلا گیا۔

خود فرخانہ خانم کا دل پر بھر سا آیا لیکن اصل تکلیف گل خزیں خانم کی آنکھوں میں تب لہرائی جب نظر دروازے کے پاس کھڑے عزیز خان پر پڑی اور اس بچے کی آنکھوں میں تکلیف سے لہراتا سوال اس ماں کا کلیجہ کاٹ گیا۔

فرخانہ کو کہہ کر زونی کو کمرے میں بجھوائے وہ مشارب کو بھی کمرے سے جانے کا اشارہ کرتیں خود عزئز خان کے کمرے میں آنے پر اسے مجرمانہ ہو کر تکنے لگیں، بے اختیاری میں وہ عزیز خان کا نام بول کر اس سب سے پیارے بیٹے کی سختی وجود میں لا چکی تھیں۔

"آپ نے مجھے سردار خاقان خان جیسے بھوکے بھیریے کے آگے پھینک کر اچھا نہیں کیا اماں سائیں، ماں تو سب بچوں کی ایک جتنی ہوتی ہے لیکن آپ تو ساری زندگی صرف زمان اور فرازم کی ماں بنی رہیں۔۔ جو دشمنی بابا سائیں نے مجھ سے اور کنزا سے چکائی ، آپ نے اسی بے حسی سے انکا بارہا ساتھ دیا۔۔ اب اگر میں مرا تو میری موت پر آپ ایک آنسو بھی بہانے کی کوشش مت کریے گا"

ناجانے کیوں آج پہلی بار اس صابر بچے نے دردناک شکوہ کیا اور گل خزیں تڑپتی ہوئیں بس سر ہی جھکا پائیں۔

"کچھ نہیں کرے گا وہ شخص، میں بھلا کیوں کروں گی ایسا بچے۔ میرے لیے میری چاروں اولادیں عزیز رہی ہیں۔ میں نام نہ بھی لیتی تو اشنال کے ساتھ جو کچھ ہوا اسکی خبر صرف تمہیں ہی تھی۔ ادھر آو میرے پاس"

وہ عورت بہت مشکل سے اپنے آنسو روکتی سسکی جبکہ عزیز خان پاس آکر بیٹھ تو گئے پر چہرہ پھیرے ہی رکھا۔

"مجھے اور کنزا کو کس چیز کی سزا دی گئی میں آج تک نہیں سمجھا، ہم دو کے ساتھ بابا سائیں نے جتنی ناانصافیاں کرنی تھیں کر لیں لیکن ہم دونوں کی اولادوں کے ساتھ اگر آپ دونوں نے کچھ بھی برا کرنے کی کوشش کی تو میں اس سے بھی آگے جاوں گا۔ وہ باپ جس نے آج تک گلے نہیں لگایا، وہ مار بھی دے تو کیا ہو جائے گا، لیکن افسوس تو مرنے کے بعد بھی صرف اس بات کا رہے گا اماں سائیں کہ اس شخص کی خاطر، اسکی خوشنودی کے لیے، اس سے ڈرتے ہوئے آپ نے بھی مجھے اور کنزا کو وہ محبت نہ دی جسکے ہم مستحق تھے۔ نہ ہم دونوں کے لیے کبھی آپ نے اس شخص کے آگے آواز اٹھائی، وہ تو شک میں ہمیں اچھوت مانتے آئے مگر آپ تو جانتی ہیں ہم آپکا اور اسی خاقان کا خون ہیں۔۔۔پھر ایک ماں کی محبت میں فرق کیوں آیا؟ کیوں آپ نے زمان خان کی اولاد کی طرح میری اور کنزا کی اولاد کے لیے اپنی محبت کو اس طرح ظاہر نہ کیا جیسا کرنا چاہیے تھا؟"

بہت مدت بعد وہ تکلیف سے پھٹ پڑے تھے، تمام عمر سہتے سہتے دل پر بنی محرمیوں کے ناسور آج اتنے دکھ رہے تھے کہ انکی آنکھوں کے تمام آنسو خزیں کے دل پر گر کر اذیت بڑھا رہے تھے۔

"تم کیا جانو عزیز خان! گل خزیں خانم ہونا کتنا مشکل رہا ہے ، ہر روز تمہاری ماں پاگل ہو جاتی تھی اور ہر روز اسے ٹھیک بھی ہونا پڑتا تھا۔ جب میں تمہیں اور کنزا کو پیار کرتی تھی تو وہ شخص مجھ پر اور میرے کردار پر نئے سرے سے کیچڑ اچھالتا تھا۔ اس سب سچائی کا علم میرے سب بچوں میں صرف تمہیں اسی لیے کرایا تھا میں نے کہ تم مجھے کبھی غلط نہ سمجھو۔ ہاں جو کچھ اشنال کے ساتھ میں نے اس شخص کے کہنے پر کیا تھا، اس وقت میرے اندر لمحہ بھر خدا کا ہر خوف نکل گیا۔۔۔ حالانکہ یہ زیادتی کرتے ہی مجھ پر کپکپی اتر آئی، اور دیکھو اللہ نے تمہاری ماں کے اس گناہ کی سزا کیسی دردناک دی۔۔۔۔ میں تو ضرار کی شکر گزار ہوں کے اس نے مجھے اس سزا کا احساس دلائے ہاں اور ناں کی اذیت سے نکال دیا ہے۔۔۔۔ تم کہو تو میں اشنال کے پیر پڑ کر اس کی معافی مانگوں گی ، لیکن تم مجھ سے خفا نہ ہو"

ماں کے آنسو ، عزیز خان کے سینے کو جلا رہے تھے پر اشنال کے دماغ کی حالت اس باپ کو رحم سے روک رہی تھی۔

"وہ آپکے ظلم کی وجہ سے آدھی پاگل ہو چکی ہے، آپ تو ٹھیک ہو جاتی تھیں پر وہ تو ہر دن ٹھیک بھی نہیں ہوگی۔۔۔ ضرار تو اپنے صنم کے آگے خود کو بھول جاتا ہے اماں سائیں تو آپ پر رحم کیسے کھاتا جس نے اشنال کے دماغ کو جھسلا دیا، اس نے جو کیا اپنی طرف سے بھی بہت بے بس ہو کر ہی کیا ہوگا کیونکہ آپ سب کے اس کے پاس کوئی چوائز نہیں چھوڑی تھی۔ آپ نے ضرار سے اس لیے نفرت نبھائی کے وہ آپکے بقول اس ہرجائی بزدار کا پوتا ہے، آپکی بیٹی کی زندگی برباد کرنے والے بخت کا بیٹا ہے لیکن کاش آپ اس سے صرف یہ سوچ کر محبت کر لیتیں کے وہ آپکی پوتی اشنال کا سب کچھ ہے۔۔۔ لیکن نہیں، آپ نے نفرت اور جنگ کا ساتھ دیا۔ میں سب جاننے کے باوجود آپکو معاف نہیں کر سکتا، اس کے لیے ہرگز نہیں جو آپ نے اشنال کے ساتھ کیا۔۔۔۔"

وہ عورت لاکھ صفائیاں دیتی پر ابھی عزیز خان بہت دلبرداشتہ تھے تبھی ماں کا ہاتھ چھڑوائے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"نفرت تو مجھے آج بھی ہے اس ہرجائی سے جس نے مجھے عزت بنا کر ، بہت آسانی سے نیلامی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اور جب مجھے اس سے جڑی نفرت یاد آتی ہے تو میرے اندر صرف انتقام دوڑتا ہے۔ اور تبھی میں ضرار سے چاہ کر بھی محبت نہیں کر پاتی"

وہ پھر سے ماں کی سسکتی پکار پر رکے اور جگر پاش نظریں گل خزیں خانم پر ڈالتے مڑے۔

"آپ کو آج تک یہ سمجھ ہی نہ آسکی اماں سائیں! کے کون آپکی محبت کا مستحق تھا اور کون نفرت کا، کون سفاکی کا حقدار تھا اور کون رحم کا۔ گڈمڈ کر دیا آپ نے سب، لیکن اب اپنی اولاد کے لیے میں ہرگز بزدلی نہیں دیکھاوں گا۔ میں اشنال عزیز کو اپنی طرح زیادتیوں کا شکار ہونے نہیں دوں گا۔ یہ بات آپ اپنے دماغ میں بھی بٹھا لیں اور سردار خاقان کو بھی خبردار کر دیجئے گا۔ اجازت چاہتا ہوں"

اول جملے کرب سے ادا کیے وہ تیز لہجے میں جتاتے ہوئے کمرے سے نکل گئے البتہ گل خزیں خانم کے چہرے پر دنیا جہاں کی تھکن اتر آئی۔

دوپہر ڈھلی تو چاشنی کا ملگجا سا نارنجی سویرا شام کا دامن پکڑے زمین زادوں پر اترنے لگا، موسم دن بدن خوبصورتی اور اسیری کی جانب گامزن تھا، ٹھنڈا اور کبھی پیارا۔

"خانم! کیا کر رہی ہیں؟"

گلالئی باہر لان میں آئی تو اشنال کو لان میں سے بہت سے پھول توڑ کر گلدستہ بناتا دیکھتی وہ خوشگوار سی مسکراہٹ لیے پاس ہی آکر بیٹھی۔

"وہ میرا نیا دوست بنا ہے ناں گل، تو میں نے اسکے لیے بکے بنانا ہے۔ اسے کونسا رنگ پسند تھا گلالئی؟ مجھے تو یاد ہی نہیں آتا"

وہ گلابی، سفید، سرخ اور پیلے گلابوں کو لمبی ٹہنیوں سمیت جوڑتی عجیب بے قراری سے گلالئی کی جانب دیکھتی بولی۔

"آپ کے اردگرد کا ہر رنگ انکا پسندیدہ ہے خانم"

گلالئی کے خوبصورت جواب پر وہ بوکھلائی سی اشنال دھیما سا مسکرائی مگر جلد اسکی آنکھیں خالی ہو گئیں۔

"تم کو پتا ہے گلالئی، میرا دل چاہتا ہے میں یہاں سے دور چلی جاوں۔ کل ہم کہیں گھومنے چلیں؟ تم چلو گی میرے ساتھ۔ میں یہاں رہی تو وہ پھر آجائے گا، میں نہیں چاہتی اللہ سائیں مجھ سے ناراض ہوں۔ تمہیں پتا ہے گل کچھ دن سے میں دعا ہی نہیں مانگ پا رہی، مجھے سب بھولتا جا رہا ہے۔۔ میں اسے مس کر رہی پر بتانا نہیں چاہتی ورنہ وہ پھر آجائے گا پاس"

اشنال کی ادھوری ، الجھی باتیں گل کو بہت افسردہ کر رہی تھیں، وہ اسے ایک ایک پھول تھمانے لگی تو اشنال نے دس کے قریب ان پھولوں کو یکجا کیا پھر انکی خوشبو سونگنے لگی۔

"آپ کو واقعی برا لگتا ہے انکا قریب آنا؟ وہ تو آپ سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتے ہیں خانم۔ آپ ایسے کیوں سوچتی ہیں کہ اللہ سائیں خفا ہوں گے۔ یہ بھی تو ممکن ہے آپکے حصے کی ساری دعائیں آپکے اسی نئے دوست نے مانگ لی ہوں"

گلالئی بھی اسکی دماغی حالت کے پیش نظر اسے ویسے ہی ہینڈل کر رہی تھی جیسا اسے ضرار جاتے ہوئے سمجھا کر گیا تھا کہ وہ اسے آہستہ آہستہ حقیقت بتائے۔

"وہ میرا تھوڑی ہے، میں تو شہیر کی ہوں۔ پھر وہ مجھے کیسے چھو سکتا ہے۔ کیا شہیر مر گیا ہے گلالئی؟ کیا میثم نے اسے مار دیا؟"

وہ پھر سے بولتی بولتی یکدم بوجھل ہوئے استفسار کرنے لگی تو خود گلالئی کے چہرے کا رنگ بدلا۔

اشنال واقعی ذہنی طور پر بیمار تھی اور بہت مشکل سفر تھا اس لڑکی کا سچائی تسلیم کرنے کی سمت گامزن کرنا۔

"زیادتی اور ظلم کرنے والے ایک دن ضرور مریں گے، آپ شہیر کا نہ سوچا کریں۔ آپ بس میثم سائیں کا سوچیں۔ یہ بتائیں آپکو انکے ساتھ کل وقت گزار کر اچھا لگا یا برا؟"

گلالئی اسکا دھیان، شہئر سے یکسر ہٹاتی اسکی الجھی ذات میں کچھ سلجھاو اتارنے کی طلب گار تھی کیونکہ اشنال کو ایسا دیکھنا اسکے لیے بھی تکلیف دہ تھا۔

"سچ بتاوں یا جھوٹ گل؟"

وہ اسکی طرف دیکھ کر مرجھا سی گئی تو گلالئی نے اسکی گال سے ہتھیلی جوڑے سر ہلاتے مسکراتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

"سچ بتائیں"

گل کے پوچھنے پر اشنال کی آنکھوں میں چمک سی اتری۔

"سچ یہ ہے کہ اسکے پاس واقعی اشنال عزیز کا سکون رکھا ہے مگر۔۔۔"

وہ بتاتی بتاتی آخر تک حسرت سے گلالئی کو دیکھنے لگی جو بہت پیار سے اشنال کا ہاتھ عقیدت سے چومتی اسکی بات کاٹ گئی۔

"بس خانم، یہیں تک سوچیں ۔ آپکی ہر تکلیف بہت جلد وہ مٹا دیں گے۔ آپکو شہیر سے واپس لے لیں گے۔ آپ اب اتنا ہی سوچنے کا وعدہ کریں۔ انھیں میسج بھیجیں کہ آپ انکو مس کر رہی ہیں، باقی گناہ ثواب چھوڑ دیں"

گلالئی کی مسکاتی آنکھیں دیکھ کر اس ڈوبتے حوصلے والی نے پہلے تو حراساں ہوئے دیکھا پھر گلالئی کا تھمایا فون وہ جھجھک کر تھام گئی جو ضرار جاتے ہوئے گلالئی کو دے کر گیا تھا کہ اسے وہ اشنال کی ہر گھنٹے کی خبر دیتی رہے۔

"میں نے کہا کے مس کر رہی ہوں تو وہ واپس آجائے گا ناں گلالئی"

وہ لڑکی اسکی قربت کے خوف سے کانپ اٹھی جبکہ گلالئی نے بہت مشکل سے اپنی مسکراہٹ دباتے اشنال کے گرد اپنے بازو پھیلا کر باندھے۔

"چلیں پھر ہم مل کر انھیں آج ستانے کا پلین بناتے، آپ رات گیارہ یا بارہ بجے میسج کرنا تب وہ بلکل نہیں آپائیں گے۔ آپکے دل کی بات بھی ان تک پہنچ جائے گی اور آپکو انکی نزدیکی بھی برداشت نہیں کرنی پڑے گی"

گل کا خیال ، اشنال کے ہونٹوں کو حیرت سے پھیلا گیا وہیں اسکے اڑے اڑے رنگ والے چہرے پر گلالئی کے چہرے کی شرارت دیکھتے ہوئے مسکراہٹ اتری۔

"وہ پھر بھی آگیا تو تم مجھے اس سے بچا لو گی ناں گل؟"

مسکراہٹ پر پھر سے اس شخص کا سحر، قربت اور بھاری پڑ جانے کا اثر اک خوف اتار لایا اور گلالئی کو اس وقت اشنال پر بے حد پیار آیا۔

"ہاہا ٹھیک ہے پیاری خانم! میں وعدہ کرتی ہوں کے کباب میں بڑے والا ہڈا بن جاوں گی۔۔۔۔اب خوش۔ کریں گی ناں انکو میسج؟"

گلالئی کی ہنستی کھکھلاتی چہک پر اشنال بھی بوکھلا کر سر تو ہلا گئی پر دل جو ڈر رہا تھا وہ گلالئی کی دی تسلی کے باوجود ویسا رہا کیونکہ طوفان جیسا ضرار، بچاری نازک گلالئی سے کہاں روکنا ممکن تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سائیں! نہ تو شہیر آج گودام آیا نہ ہی سرمد کلب آیا ہے، دونوں کے بارے تفتیش کروائی ہے۔ سرمد ٹھکائی کی وجہ سے بخار ہو جانے پر نہیں آیا جبکہ شہیر کچھ مشکوک حرکتوں میں نظر آرہا ہے۔ اب بتائیں کیا کرنا ہے؟"

فون پر جبل زاد تازہ صورت حال سے آگاہ کیے اسے اب نئی پسوری میں پھنسا چکا تھا کیونکہ شہیر کی ہر مشکوک حرکت زیادہ تر ضرار کا سر درد ہی بنتی تھی۔

"ٹھیک ہے آج رہنے دو ملاقات، تم ایسا کرو شہیر کا پتا لگواو کہاں رہ رہا ہے اور آجکل کن کاموں میں مصروف ہے جو وہ خانوں کے علاقے فساد خانہ کھولے یہاں نکل آیا، کہیں اشنال کے پیچھے تو نہیں؟ خبر کرو فوری۔ مجھے پہلے ہی اسکا وہاں کے پنگوں سے نکل کر یکدم یہاں چلے آنا کچھ ہضم نہیں ہوا تھا"

ایک بار پھر پرسکون ماحول دیکھ کر ضرار کو کھٹکا ہوا جبکہ ہاشم متاثر کن مسکراہٹ دباتا اس لڑکے کی باتیں سن کر مخظوظ ہو رہا تھا جسے یہاں بیٹھ کر بھی چین نہ تھا اور وہ مسلسل جبل زاد سے رابطے میں تھا۔

"ٹھیک ہے سائیں میں پتا کرواتے ہی آپکو خبر کرتا ہوں"

جبل زاد کہتے ہی فون رکھ چکا تھا جبکہ ضرار نے فون بند کیے سائیڈ پر صوفے کی جانب اچھالتے ہی اک خفا نظر ہاشم جبکہ اک نظر میز پر سجے بہت سے لوازمات کی جانب ڈالی، گویا شام ہو گئی تھی پر کھانا تیار کروا لیا تھا بڈی نے اپنے نخریلے لاڈلے کے لیے۔

"صرف ٹھنڈا ہی کافی ہے، اس تکلف کو کر کے آپ میرا دل اپنے لیے نرم نہیں کر سکتے ہاشم بزدار۔ یہ بتائیں کے کنزا کو کیسے پتا چلا آپکا؟ وہ عورت اب بھی آپکے لیے اتنی اہم ہے کہ آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر ہم سب سے چھپائے اسے دی۔۔۔ اس عورت نے آپکا دل توڑا تھا ، آپکا ہاتھ جھٹک کر آپکے سائے کو دھتکارا تھا۔ اور پھر وہ آگ، اس میں بھی تو آپ اسی کی وجہ سے کودے۔۔۔؟"

بہت سے سوال تھے جو میثم کے دماغ کو گما اور سلگا رہے تھے اور ہاشم اسکی جلد بازیوں پر نالاں سا منہ بسورے بیٹھا تھا جسکا بس نہ چلا ہاشم کو جھنجھوڑ کر ایک ہی بار سارے جواب جان لیتا۔

"غلط۔۔اس آگ میں میں اپنی وجہ سے کودا تھا کیونکہ کب اس عورت سے ہمدردی کرتے کرتے مجھے محبت ہوئی پتا ہی نہیں چلا۔ اور اسکے لیے میرا دل پتھر تو آج بھی نہ ہوتا مگر جو اذیت اس نے مجھے دی، وہ مجھے اکساتی ہے کہ میں اس عورت کی نا کوئی عزت کروں نہ اسے اپنی محبت ہونے کے ناطے کوئی آسانی دوں۔۔۔۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ اسے میرے زندہ ہونے کا پتا کیسے چلا، میری اسکے لیے محبت کیسے نفرت میں بدلی، اور یہ میں تمہیں فرصت سے سناوں گا۔ ابھی تو تمہاری ناراضگی دور کرنا چاہتا ہوں"

شاید کچھ ایسا بھی تھا جو اب بھی ہر نظر سے اوجھل تھا، ہاشم کے آخری جملے کی تڑپ نے میثم کو بھی تمام تلخی مدھم کرنے پر مجبور کیا تھا۔

"ضرار کی ناراضگی پہاڑوں تک میں شگاف ڈال دیتی ہے ہاشم بزدار، کیونکہ میں نے یہ ناراضگی زمانے کی سنگدلی سے سیکھی ہے۔ ان آنسووں کا کیا ہاں! جو آپکے بابا کی آنکھوں سے آج بھی آپکی موت پر جاری ہیں۔ ایک گناہ گار بیٹے کو اس بہادر نے خود موت کے منہ میں جا پھینکا، اف تک نہ کی اور اس دوسرے کو دیکھو! زندہ ہو کر موت کا دکھ دیے یہاں عیش کر رہا ہے۔"

ضرار کے تمام دل چیڑتے شکوے بجا تھے اور ہاشم اسکی ناراضگی کی شدت بھی بخوبی جانتا تھا مگر کچھ تو اسکے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا جو یہ جبر کرنے پر مجبور تھا۔

"کونسا عیش! پاگل ہو کیا؟"

عیش والی بات پر ہاشم بھی سلگ سا اٹھا۔

"یہ سونے کا پنجرہ، کئی سالوں کی کامیابی۔ میری ناراضگی کو گولی ماریں۔ چلیں واپس، دادا سائیں اب بہت بیمار رہنے لگے ہیں، انھیں انکا بیٹا ملے گا تو وہ جی اٹھیں گے۔ اگر انہوں نے آپکو اس ستم پر معاف کر دیا تو میں بھی دل بڑا کر کے معاف کر دوں گا"

ضرار کا اشارہ اس شان و شوکت کی جانب تھا مگر جیسے پھر اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسے بھی ساتھ چلنے کا اصرار کرنے لگا جس نے خود بھی اٹھ کر کھڑا ہوتے اس جذباتی بھتیجے کو محبوب نظروں میں سمو کر دیکھا۔

"دو دن بعد آخری سرجری ہے، آجاوں گا۔ میں نہیں چاہتا انھیں اس چہرے پر کوئی ماضی کی جلتی آگ دیکھائی دے اور انکے زخم ہرے ہوں۔ رہی بات تمہاری ناراضگی کی، اب ہاشم بزدار کا دل کسی قسم کا شگاف برداشت نہیں کر سکتا یار۔ گلے لگو تاکہ مجھے بھی کچھ راحت ملے"

وہ گویا سارا لائحہ عمل پہلے ہی ترتیب دے چکا تھا، ضرار نے اسکے لہجے کی یاس اور حسرت شدت سے محسوس کرتے دل کو بوجھل پایا تو اک لمحہ سارے شکوے اور گلے ہٹاتا وہ ان پھیلی بازووں کو دیکھنے لگا، ناچاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھ کے کنارے سرخ ہونے لگے۔

"لیکن یہ مت سمجھیے گا کہ معاف کیا ہے"

مضبوط آواز میں اتری لرزش چھپا نہ پاتا وہ اس گرفت میں جا سمٹا جن بازووں نے اسے اک عمر ہمت سونپی تھی، جبکہ ہاشم بزدار نے اس اتھرے، نخریلے لاڈلے کو بھینچ کر یہ ثابت کیا کہ جناب آج بھی ضرار سے طاقت میں تگڑے تھے۔

"او یار مار دیا مجھے ظالم، او ہیلو۔۔ہتھ ہولا رکھیں۔ ابھی میرا پراپر ویاہ ہونا باقی ہے، ٹوٹی پسلیوں والا میثم تو میری صنم نے بھی رجیکٹ کر دینا ہے"

تمام تر جذباتیت وہ فوری پرے کھساتا ، دھڑلے سے بڑبڑایا جبکہ ہاشم نے قہقہہ لگائے ایک بار پھر گھوٹتے ہی جناب کو آزاد کیا جسکا منہ اب تک ٹیڑھا ہی تھا۔

"کیوں ٹھنڈی حسرت بھری شکائیت کر رہے ہو، میری لے لینا پسلیاں شودے کہیں کے"

ہاشم بھی اسکے سامنے جوانی کی طرح لڑنے والا بڈی بن کر چڑاتا ہوا اس بار ضرار کو بھی ہلکی پھلکی مسکراہٹ دے گیا۔

"آپکی پسلیاں تڑوانے والی بھی الگ سے لے آوں گا نہ ترسیں، جو آپکے دانت اور جوڑ بھی سیکے گی۔ ہنہ"

منہ بناتا وہ یہ نیک ارادہ کہے واپس بیٹھا جبکہ دونوں بیک وقت دروازے پر ہوتی دستک پر چوکس ہوئے اور جس طرح ہاشم نے واپس چہرے پر ماسک چڑھایا، ضرار سارا غصہ بھلائے دلچسپی سے اندر آتی اہم ہستی کی جانب متوجہ ہوا جو اجازت ملتے ہی مسکراتی ہوئی اندر آچکی تھی۔

"اہمم اہمم"

ضرار کے زچ کرتے ہوئے کھانسنے پر وہ دونوں ہی بے چین تھے، جبکہ مالنی صاحبہ کافی دیر سے اس تجسس میں تھیں کہ کب سے ایسا کون آیا بیٹھا ہے جس سے ماسکو کے مزاکرات ہی ختم نہیں ہو رہے۔

"کیا کام ہے مالنی؟"

ہاشم نے سنجیدگی سے استفسار کیا جس پر وہ اک نظر بظاہر فون پر بزی ہو جاتے مگر کان وہیں عورتوں کی طرح لگاتے ضرار کو دیکھتی زرا چلتی ہوئی ہاشم کے روبرو آئی۔

"وہ میں آپکی طبعیت پوچھنے آئی تھی ماسکو، آپکے مینجر نے بتایا کہ آپ نے کچھ کھایا نہیں اور کب سے یہاں ہیں، دیکھیں شام اتر آئی۔ سنیں! ایسے تو وٹ۔۔۔۔میرا مطلب سٹمک پین ٹھیک نہیں ہوگا۔ ان موصوف کو جلدی فارغ کریں ورنہ پھر مجھے مت کہیے گا کچھ جب میں انکے سامنے شروع ہوئی"

وہ بظاہر آہستہ آواز میں صرف ہاشم سے سرگوشی کیے بولی اور زبان تک بمشکل سلپ ہونے سے روک پائی مگر ضرار کی شوخ زیرک نظریں انہی پر جمی تھیں، لڑکی کا ہاشم بزدار کے گھر ہونا اسکی چھٹی حس گرما چکا تھا۔

"اول تو یہاں میری اجازت کے بنا جو تم آئی ہو اسکا حساب تم سے آکر لیتا ہوں دوسرا تمہاری کسی قسم کی تیمارداری کی ضرورت نہیں۔ جاو فورا۔۔۔۔"

بنا ضرار کی موجودگی کا لحاظ کرتا وہ اس پر بگھڑا جبکہ ضرار صاحب کے دماغ نے ترغیب دی کہ بچہ فون چھوڑ کر یہ سامنے چلتی فلم انجوائے کر۔

"سنیں! آپ جو بھی ہیں ۔ ماسکو کی طبعیت ہلی ہوئی سو پلیز جلدی یہ مزاکرات ختم کر دیں۔ یہ تو ہیں ہی کھڑوس صرف غصہ کرتے ہیں لیکن مجھے ناں انکی بہت فکر ہے۔۔۔پلیز بھائی، جلدی چلے جانا کیونکہ میں چاہتی یہ مجھ سے حساب جلدی لیں۔۔۔۔"

بنا ایچ بی کی کسی ڈپٹ کا لحاظ کرتی وہ ڈائریکٹ ضرار سے مخاطب ہوئی تھی جو بچارے ہاشم کے ماتھے پر امڈتی گھبراہٹ کی نمی دیکھ کر ویسے ہی فرمابرداری سے سر ہلا گیا اور مالنی کے جاتے ہی ہاشم نے مٹھیاں بھینچ کر واپس آتے بیٹھتے ہی ضرار کی خود پر مشکوک نظر دیکھتے حلق تر کیا۔

"یہ کیا کول سین ہے بڈی؟ کہیں شادی وادی تو نہیں کر لی میرے بنا ہی۔۔۔۔سچی اگر ایسا ہے تو بس ڈبل ناراضگی"

ضرار کے خشمگیں نظروں سے گھورنے پر ہاشم نے ماسک اتارتے ہی سیدھا مکا بنائے ضرار کے کندھے پر رسید کیا جو آگے سے دانت نکالتا چچا جان کی حالت مزید پتلی کر رہا تھا۔

"اس سے شادی کر کے میں نے خود کا نام دنیا کے پاگلوں کی لسٹ میں شامل نہیں کروانا۔ یہ زونی کے ساتھ بھیجی تھی کنزا نے یہاں۔۔۔ اور تم ناں اپنی یہ رشتہ کروانے والی مائیوں جیسی سونگھ سنبھال ہی لو تو اچھا ہے۔ ٹوٹے دانتوں والا میثم بھی تمہاری صنم نے ریجیکٹ کر دینا ہے"

خفت سے بڑبڑاتا ہاشم اس وقت واقعی ضرار کو اتنا کیوٹ لگا کہ اسکا سچ میں دل چاہا کہ بچارے مظلوم چچا کو بخش دے پر اب ہی تو گن گن کر بدلے لینے کی صورت اسکے ہاتھ لگی تھی اور ضرار صاحب اس موقعے سے کیسے نہ فائدہ اٹھاتے۔

کمرے میں اس بار ضرار کا قہقہہ گونجا تھا، اپنی تمام تر دلکشی کے سنگ۔

جبکہ بھوک اسے واقعی اتنی لگی تھی کے جناب نے نزاکت سے ناک بھوں چچا کی جانب سے چڑھائے فائنلی پیٹ پوجا کرنے کی طرف دھیان مبذول کر ہی لیا۔

"طبعیت کیوں خراب ہے آپکی؟ بڑھاپے کے سائن تو نہیں"

ایک بار پھر جیسے اس آگ کے گولے نے زبان پر کھجلی ہوتے چڑاتا سوال کیا جبکہ ہاشم اس ایک اور سکون تباہ کرتے لاڈلے کو بس دیکھ کر رہ گیا، البتہ ضرار کی ہنسی ضرور بہت دن بعد اسکی شخصیت کے ہر رنگ کے سنگ منظر حسین کر چکی تھی۔

"بوڑھے ہوگے تم اور تمہارے پیدا ہونے والے سارے بچے، یا میرے اللہ مجھے صبر دیں"

ہاشم صاحب جتنے بھی بارعب ہوجاتے، لگ یہی رہا تھا کہ لاڈلے کے آگے اکثر و بیشتر زچ اور تنگ ہی ہوتے نظر آبے والے ہیں۔

"ہاہا چلو کسی نے مجھے باپ بننے کی دعا تو دی، بوڑھے تو بھئی سب نے ہو جانا ایک دن۔۔اب لگتا ہے عنقریب باپ بننا ہی پڑے گا ورنہ دی گریٹ ہاشم بزدار صاحب کی دعا رائگاں چلی جائے گی"

ضرار کا گدگداتا جواب او بار ہاشم کی آنکھوں میں بھی مسکان بھر لایا۔

"بہت ہی ڈیش ہو گئے ہو تم لاڈلے، پہلے جو رائیتہ پھیلا ہے اسے سمیٹو بعد میں فرصت سے باپ بننا"

بھتیجا سیر تو چچا صاحب سوا سیر تھے اور اس تجویز پر تو ضرار بھی پہلی بار سہی پر جناب کی تائید کرتا مسکرایا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اتنا سب کچھ ہوگیا اور مجھے کچھ خبر ہی نہیں، کس قدر سفاک نکلے سردار خاقان۔ مجھے تو شرم آرہی ہے خود پر کہ آج تک انکے اشاروں پر کیوں چلتا آیا۔ لعنت ہے میری عقل پر"

عزیز خان کچھ افسردہ سے لان میں تھے تبھی مشارب بھی باقی کے معاملات جاننے اور دل کا بوجھ اتارنے کو ان سے معافی مانگنے وہیں آگیا، لیکن عزیز خان سے اسے جو حقائق پتا چلے وہ مشارب کے نازک دل میں گویا مزید اذیت اتار گئے، اشنال کے ساتھ ہوتے ظلم سے لے کر وہ اسے ضرار کی حرکت تک کا بتا چکے تھے جبکہ اس نے جو آج بغاوت کی اس میں پہلی بار عزیز خان نے اسکی پیٹھ تھپکائی تھی۔

بہت ہوگیا تھا بزدلی کے سنگ جینا، جب موت ہی اٹل تھی تو اب عزیز خان ، سردار خاقان کا مزید کوئی ظلم برداشت نہیں کر سکتے تھے اور اشنال کے حوالے سے انہوں نے مشارب سے اپنی ناراضگی بھی اسی شرط پر ہٹائی کے وہ اب سے اپنے دماغ سے سوچے گا نہ کے دل سے، اور جلد ازجلد وہ اسے یہاں کا نیا سردار بنانا چاہتے تھے تاکہ پورے علاقے کو سردار خاقان خان کی حاکمیت سے نجات مل سکے۔

"تمہاری آنکھیں کھل گئی ہیں مشارب، اب تم پر فرض ہے کہ تم اپنی تمام غلطیوں کی تلافی کرو۔ ولی نے تو اول دن سے سرداری سے دستبرداری لے لی ہے لیکن تم سے مجھے بہت امید ہے۔ ابھی زمان لالہ بابا کی اصلیت سے ناواقف ہیں سو وہ اس بیچ تمہاری راہ کی رکاوٹ بنیں گے کہ سردار خاقان خان کے جیتے جی انکا کوئی وارث سرپنج کی کرسی نہیں سنبھال سکتا۔ مگر تمہیں یہاں کا حاکم سردار بننا ہوگا، ہمیں اب مزید ان روایات کو ختم کرنا ہے تاکہ کل کو کسی بیٹی، بہو یا بہن کی عزت کو یہ سرداران یوں نہ رول سکیں۔ جب تم جیسا پڑھا لکھا اور باشعور انسان یہاں کی سرداری سنبھالے گا تو تمام فیصلے حقیقی انصاف پر ہونے لگیں گے"

عزیز خان کا یکدم اسے سرداری کی جانب متوجہ کرنا خود مشارب کے لیے حیرت انگیز تھا مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ سرداری بنا سردار خاقان کی موت کے وہ نہیں پا سکتا، اس شخص نے تو اپنے دونوں بیٹوں تک کو پنچائیت کا سربراہ بننے نہیں دیا تھا اور پھر مشارب نے تو کر بھی بغاوت دی تھی۔

"میں تو اس سرداری سے پہلے ہی بھاگتا ہوں چچا سائیں، آپ مجھے کہاں پھنسا رہے ہیں"

مشارب نے الجھن آمیز انداز میں جیسے انکار کرنا چاہا مگر عزیز خان نے اسکو شانوں سے جکڑ کر خود کی جانب متوجہ کیا۔

"تم ہی میری آخری امید ہو، اسی شرط پر میں تمہیں معاف کروں گا مشارب۔ ورنہ جو ظلم تمہاری وجہ سے میری بیٹی کے ساتھ ہوا اسے میں قیامت تک معاف نہیں کروں گا۔ فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے"

عزئز خان ہر ممکنہ اسے قائل کرنا چاہتے تھے تبھی یہ سخت الفاظ کہنے پر مجبور ہوئے اور مشارب کو ذہنی دباو میں مبتلا کیے وہاں سے چلے گئے۔

وہ بھی کچھ دیر وہیں ڈھلتی شام کے وقت، لان میں لگی کرسی سنبھالے کافی دیر سوچ بچار کرتا رہا اور پھر اٹھ کر واپس اندر آیا۔

فرخانہ خانم نے زونی کو مشارب کے کمرے میں ہی لایا تھا، وہ عورت اب نہیں چاہتی تھی کہ جیسے ولی ان سے دور ہوا، مشارب بھی ہو جائے۔

ایک بیٹے کی زندگی اور دل اجاڑنے میں وہ شریک تھیں جنکا انھیں بہت دکھ تھا مگر وہ چاہ کر بھی زونی کے لیے دل میں مزید کوئی جلن نہیں رکھ پائی تھیں۔

وہ تب سے کمرے میں ہی تھی، نانو کے دل کا بدلنا اسے راحت بھلے بخش گیا ہو پر وہ سردار خاقان خان کے ارادوں سے بہت خوفزدہ تھی، پھر کنزا کا بھی ڈر تھا کہ اگر اسے پتا چلا تو ناجانے کونسی قیامت اتر آئے۔

دروازہ کھلنے کی آہٹ پر وہ جو کھڑکی کے ساتھ لگ کر سوچوں کے امبار لگائے محو تھی، چونک کر پلٹی تو مشارب کو آتا دیکھتے ہی وہ بے قراری سے اسکی جانب لپکی، جسکا تمام تکلیف کے باوجود اس لڑکی کے قریب آنے پر دل سکون سے بھر گیا۔

"آپکا ایسا پھیکا ویلکم نہیں چاہتا تھا زونین، مجھے لگا تھا دادا سائیں میرا ساتھ دیں گے پر یہ تو معاملہ ہی الٹا نکل آیا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ انکے علاوہ اب ہر کوئی جلد میرے ساتھ ہو جائے گا، بابا کو جلد قائل کروں گا کیونکہ وہ ابھی دادا سائیں کی اصلیت سے ناواقف ہیں۔ آپکو بلکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں آپکے آگے کھڑا ہوں لیڈی اور یہ بات کبھی مت بھولیے گا"

وہ اسکی اتری صورت دیکھ کر اس اداس لڑکی کے گرد نازک سا حصار باندھتے نرم لہجے میں تسلی دیتا اس وقت واقعی ایک سردار ہی لگ رہا تھا، جسکے اندر کی ہر اچھائی بہت جلد جھٹکے سے سامنے آرہی تھیں۔

اور جب مشارب نے یہ سب کہا تو الگ سی ڈھارس تھی جس نے زونی کا وجود، دل اور دماغ تک اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

"ہمیں پتا ہے، ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ بس ہم اپنے دماغ کو سوچنے سے روک نہیں پاتے اور تبھی ہمارے دل کو وسوے اور خوف گھیرے رکھتے ہیں"

وہ اسکی باہوں کے گھیرے میں بظاہر بہت پرسکون تھی مگر اسکی اس بات پر مشارب نے زرا بازووں کی گرفت میں شدت ملائی تو زونی کا دل اچانک ہی دھڑکنیں تیز کر بیٹھا۔

"اس جگہ بھی خوف گھیریں تو بہت فکر کی بات ہے، حالانکہ یہاں میرے پاس آکر تو آپکو دنیا بھول جانی چاہیے زونی"

وہ یکدم ہی مخمور لہجے پر اترتا، اس لڑکی کے دل سے چھیڑ خانی کر بیٹھا، جو مشارب زمان خان کے وجود سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو میں ویسے ہی سارے حواس کھو رہی تھی۔

"دنیا بھول جاتی ہے، یہ الگ بات کہ ہم خود کو یاد دلانے کے جتن کرتے ہیں"

اسکے حصار میں اتنی راحت تھی کہ وہ سمجھ ہی نہ پائی کے اسکے ہونٹوں نے کیسا راز کھول دیا ہے، مشارب کے ہونٹ غضبناک تبسم کے سنگ پھیلے جبکہ زونی کو اپنی گال کی جانب پھیلتی پرتپش سانسیں محسوس ہوتے ہی خود کو اس خمار سے نکالنا پڑا، ورنہ وہ اسکی پھر سے جان لے لیتا۔

"سنیں! بار بار آپ ہمارے اتنے قریب آتے رہے تو کچھ ہو جائے گا ہمیں مشارب"

وہ حراساں، رحم طلب ہوتی اسکے حصار سے نکلی جو اسکے فرار کی تمام راہیں مسدود کرتا اسکو بازووں سے جکڑتا خطرناک مسکرایا، کیونکہ ان آنکھوں میں لپکتی شدتوں کے دل نشین لمس تھے۔

"کیا ہوجائے گا لیڈی؟ زیادہ سے زیادہ آپ دنیا یاد رکھنے کے جتن کرنے میں ناکام ہو جائیں گی اور بس"

وہ اتنی بڑی بات اس قدر شوخ لہجے میں باآسانی کہہ گیا کہ زونی اسکی نظروں کے حصار میں سر تا پا دم سادھ کر رہ گئی۔

"بس؟ اس کے آگے بھی ہے کچھ کیا؟"

وہ گھبرا کر سوال کر گئی اور اسکی بوکھلاہٹ نے مشارب کی ہارٹ بیٹ مس کی، وہ خود حیران تھا کہ اکثر و بیشتر سینے میں بے جان پڑا رہنے والا دل یکدم اتنا باہمت کیسے ہو گیا ہے، یہ لڑکی واقعی اسکی شفاء ہی تو تھی تبھی وہ اسکے پاس آتے ہی تمام دکھ، تکالیف، سوچیں، اہم معاملات، نرمیاں اور اجازتیں رد کر دیتا تھا۔

"اس کے بعد ہی تو سب کچھ ہے لیڈی، آپ تو قطرے کو سمندر سمجھ کر بیٹھی ہیں"

اسکی معنی خیز درستگی، زونی کے اندر تک کپکپی اتار گئی، جو اسکے پھر سے وجود و جان پر حاوی ہوتے ارادے دیکھ کر خود میں ہی حیا اور بے بسی سے سمٹنے لگی کہ وہ شخص اپنی ہری آنکھوں کے زاویوں میں خمار اور بے خودی بھر لایا تھا۔

"جنھیں قطرے کی بھی امید نہ ہو، انکے لیے سمندر تو جان لیوا ہی ہوگا ناں"

وہ تمام تر قربت کے بھی جواب دینا نہ بھولی، جبکہ اسکے اس من پسند جواب نے مشارب زمان کے دل کو اک سرشار روح بخشی تھی۔

"لیکن جان جانی ضروری بھی تو ہے، معلوم ہونا چاہیے جان کیسے جاتی ہے۔ ویسے بھی میں زرا کمزور دل کا مالک ہوں، آپکو مجھ سے اس طرح ڈرنا نہیں چاہیے۔ "

اول جملے اسی مبہوت ہوتے انداز میں ادا کرتا وہ جس طرح آخر میں مسکینی سی چہرے پر سجائے مسکرایا، وہ نیلی آنکھوں والی بھی اس قربت میں مچل کر چھنپا سا مسکائی۔

"کمزور دل والے، محبت میں بہت پر زور ہوتے ہیں۔ یہ ہم نے پڑھا تھا مگر آپ کے ساتھ چند لمحے گزارنے کے بعد ہی ہمیں اس جملے کی سچائی نظر آگئی ہے"

زرا ہمت ملی تو محترمہ بھی مخمور سا اترائیں جبکہ مشارب زمان نے اسے ایز آ کمپلیمنٹ لیا۔

پر وہ مسکرایا بھی غضبناک کیونکہ ابھی تو اس شخص نے قطرہ تک نثار نہ کیا تھا اپنی منہ زور چاہت کا اور محترمہ ابھی سے شدتوں کی قائل دیکھائی دے رہی تھیں۔

"آپ فزیکلی پرزور ہونے کا کہے مجھے چڑا تو نہیں رہیں ناں زونی؟"

منصوعی خفگی کے سنگ ایک ابرو اچکا کر وہ جو بولا اس پر زونی کی ہنسی جلترنگ سی بنی پر ان ہری آنکھوں کا مرکز اپنے ہنستے ہونٹ اور گلال گال دیکھ کر وہ فوری ہنسی دبا گئی۔

"نو، مینٹلی بھی آپکی محبت ہم سے تو پرزور ہی ہے"

وہ فورا گھبرا کر اپنی بات سمجھاتی اسکی نظروں کے ارتکاز پر دھڑکی جبکہ مشارب کو نئی شرارت سوجھی۔

"بھی سے مراد فزیکلی بھی ہے یعنی"

وہ بے باکی سے شرارت پر اترا تو ان حیا میں ڈوبی آنکھوں نے جھک کر ماحول شر انگیز کر دیا۔

"مشارب! آپ باتوں سے ہی ہماری جان لیں گے"

وہ جھکی نظریں رکھتی ہی شکوہ کرتی منمنائی تو اس شخص کے ہونٹوں نے ان سرخ پڑتی گالوں کو شدت سے چوم لیا جس پر وہ چھوئی موئی بنی مسکرا کر مشارب زمان کو مزید پر اکسا چکی تھی۔

"جی نہیں لیڈی، میں باتوں کے علاوہ بھی آپکی جان لینے میں چند ایکسرسائز کے بعد ماہر ہو گیا ہوں۔ دیکھنا چاہیں گی؟"

وہ اس درجہ کھلی ڈھلی معنی خیزی پر کان کی لو تک سرخ پڑتی اس سے پہلے دور جاتی، وہ اسکے سارے حواسوں کو شدید غلبے کے زیر اثر لیتا خود میں مبتلا کیے اپنا ماہر ہونا دیکھا گیا جسکے بعد زونین کو واقعی یہی محسوس ہوا کہ سانس لیتے لیتے وہ سانس چھوڑ دے گی۔

مگر وہ تو زندگی بڑھاتا تھا، اپنی بھی اور یوں سانسوں پر سانسوں کی خوشبو چڑھا کر زونین کی بھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"جی دادا سائیں! میں اسکے ساتھ جلدی آوں گی۔ آپ اپنا دھیان رکھیے گا"

وہ اس وقت کچن میں تھی اور اوون چل رہا تھا جس میں وہ لزانیہ بیک کر رہی تھی جبکہ دوسری جانب سردار شمشیر یوسف زئی کے چہرے پر اطمینان سا تھا۔

"ٹھیک ہے میرا بچہ، مجھے انتظار رہے گا آپ دو کا۔ خوش رہو"

وہ اسے محبت میں چور ہوتے دعائیں دے کر کال بند کر چکے تھے پر ورئشہ کا دل دادا کا اعتبار توڑ کر ہرگز پرسکون نہ تھا۔

بہت دن بعد اسکا کچھ مزیدار کھانے کا موڈ بنا تھا تبھی وہ کچن میں کافی دیر سے موجود تھی، لنچ ولی کے ساتھ کر کے اسکا دماغ قدرے ریلکس ہو گیا تھا مگر کہیں دل کے نہاں خانے میں ڈنر پر شہیر مجتبی کا انتظار آج پہلے سے زیادہ درج تھا۔

جب سے اسے یہ پتا چلا کہ اسکا اور اشنال کا کوئی نکاح تک نہیں ہوا تب سے عورت ذاد نامی فطرت آڑے آکر اس انسان پر اکیلے مالک ہونے کا غرور بھی اسے لاحق کروا رہی تھی، پھر یہ سکھ بھی کے شہیر تو اصل میں بہت معصوم ہے جسے اپنے ساتھ ہوتے دھوکے کا علم تک نہیں۔

جبکہ وہ لڑکی ابھی شہیر کے باقی گناہوں سے بھی بے خبر تھی تبھی دل نے آج کی رات تحمل سے اس منحوس کو سننے کی ترغیب دی تھی۔

"اس گنوار کو کہاں پتا ہوگا لذانیہ کیا بلا ہے، کچھ آسان بنا لیتی وریشہ۔ بائے دا وے وہ یہاں کرتا کیا ہوگا؟ آج پوچھ کے رہوں گی اسکا کام۔ یہ نہ ہو قاتل غنڈا نکلے"

اوون پر اک نظر ڈالتی وہ خود ہی سے ہمکلام باہر لاونچ کی سمت آئی تو وہیں سے دروازے کی ڈور بیل بجنے پر وریشہ نے حراساں ہوئے دروازے کو دیکھا، اور پھر اپنے چہرے کا تمام فطری ڈر ہٹاتی وہ باہر کی جانب لپکی۔

آج اس نے ہرگز دروازہ کھلا چھوڑنے کی غلطی نہیں کی تھی۔

وریشہ نے دروازہ کھولا تو سامنے حسب توقع سیاہ شرٹ، جینز جبکہ میرون کھلی شرٹ کے سنگ ، پیروں میں جاگرز پہنے، چمکا دھمکا ہوا ، لمبے بالوں کی پونی بنائے، بھینچے چہرے کے سنگ وہ نوابی انداز میں دائیان دیوار سے لگا کھڑا تھا جب وریشہ نے اسکا سر تا پا جائزہ لیتے ہی منصوعی خفگی چہرے پر سجائے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

"خیر ہے، راہوں میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی کیا جو دوسری بیل پر ہی دروازہ کھول دیا"

دروازہ لاک کرتا وہ وریشہ کے پیچھے ہی اندر آتے سلگتے طنزیہ انداز میں بولا جو لاونچ تک پہنچتی ہنوز بے نیاز تاثر دیتی، سینے پر ہاتھ لپیٹ کر مڑی اور اسکو دیکھنے لگی۔

گھر کے عام سے خلیے میں ڈھیلی شرٹ اور پاجامے کے سنگ وریشہ نے کھلے بالوں کا میسی سا جوڑا بنا رکھا تھا جبکہ وہ یوں بھی چندن خدوخال اور تیکھے نین نقش کے سنگ آفت تھی یہ جھٹلانا ممکن نہ تھا۔

"جس دن آنکھیں بچھائیں اس دن پہلی بیل سے پہلے ہی دروازہ کھلے گا، اور ایسا کم ازکم تم جیسے کے لیے تو وریشہ یوسف زئی کبھی نہیں کرے گی"

پھنکارتی ہوئی وہ شہیر سے بولی جو زچ کرتی مسکراتی صورت کے سنگ قہقہہ لگاتا پرسکون انداز میں صوفے پر بیٹھا۔

"میرے لیے یقینا وریشہ یوسف زئی کچھ الگ کرے گی، ایم آئی رائیٹ؟"

وہ اسکی دکھتی رگ دباتا شر انگیز مسکرایا تو وہ لمحہ بھر تلملائی پر پھر اپنا غصہ دبا گئی۔

"تمہیں گولی ماری۔ اب بھی کچھ الگ کا شوق نہیں اترا"

وہ منہ بگھاڑ کر بولی جیسے بہت تنگ و بیزار ہو البتہ شہیر کو وہ یوں پھاڑ کھاتی زیادہ گرویدہ کرتی۔

"وہ تو نفرت میں کچھ الگ کیا تھا، محبت میں بھی تو کچھ الگ کرو گی ناں"

اس شخص کا ہر ہر لفظ وریشہ کو فقط جکڑتا تھا، اک پل تو اسے لگا وہ جواب نہ دے سکے گی مگر اسے اس آدمی کے روبرو کمزور نہیں پڑنا تھا۔

"تم سے محبت کیوں کروں گی؟ میں تو تم سے جان چھڑوانے کے چکروں میں ہوں۔ تم انہی خوش فہمیوں میں ہی مر جانا"

نزاکت اور غرور کے سنگ وہ ناک چڑھاتی اس پر واضح کرتی اس سے پہلے سامنے جا کر سنگل صوفے پر بیٹھتی، شہیر نے صوفے سے ٹیک چھوڑتے جلدی سے اسکی ہتھیلی جکڑتے جھٹکا دیا جس پر وہ توازن برقرار نہ رکھتی گرتے ہوئے اسکے پہلو نشین ہو کر بیٹھی اور اس شاطر نے موقع ملتے ہی اپنی بازو گما کر وریشہ کے گرد حائل کیے لاک کی جو اس آدمی کی اس درجہ گستاخ حرکت پر خونخوار ہو کر گھوری۔

"تم مجھ سے محبت کرو گی وریشہ، اور میں تمہیں مجبور کروں گا۔ چلو ڈیل کرتے ہیں ایک؟ تم مجھ سے محبت کرنے کا وعدہ کرو اور میں مر کر تمہاری ہمیشہ کے لیے جان چھوڑ دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ میرا دل بھی خوش اور تمہارا بھی۔"

وریشہ کو اس شخص کے قریب پھر سے وہی آگ جلتی محسوس ہوئی جسکی تپش اس لڑکی کے وجود کی تہہ کر اتری جبکہ شہیر کے ہلتے ہونٹوں اور سماعت میں پڑتے اس عجیب و غریب تقاضے پر وہ ساکن سی ہوئی، دھڑکنیں تو اسکے اس قدر قریب آکر پہلے ہی فراموش ہو گئیں تھیں۔

"ی۔۔یہ کیا بکواس ہے؟"

وہ جسکے حواس سلب ہو گئے تھے، ہوش میں آتے ہی وہ اس کی گرفت جھٹکتی مچلی مگر وہ اسے اسکی سوچ سے زیادہ قریب لاتا اسکے ہونٹوں کے قرین سانس بھر گیا جسکی حدت سے وریشہ کا اپنا سانس سینے میں گھٹا، اس شخص کے ہاتھ چٹانی قوت کے مالک تھے تبھی تو وہ اس جان لیوا نزدیکی کو فاصلہ نہ دے پا رہی تھی۔

"میرا مرنا بکواس ہے یا تمہارا محبت کرنا؟"

وہ جو اسکے سحر میں تھی، اس سوال پر اپنے وجود کو جلتا محسوس کرنے لگی۔

"دو۔۔دونوں"

وہ یکدم بولی جس جواب کی تو شہیر مجبتی کو بھی توقع نہ تھی، یوں لگا جیسے دل کو زندگی بھر کی خوشی مل گئی ہو۔

"سیریسلی؟ دونوں۔۔۔آر یو شیور؟"

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا گرفت لمحہ بہ لمحہ شدید کرتا شوخ لہجے میں یقین مانگ رہا تھا اور وہ یوں تھی جیسے زبان رہن جبکہ پورا وجود سارا جل چکنے کے بعد منجمد ہو گیا ہو۔

"م۔۔میرا مطلب تھا جس نے تمہیں مار کر بچا لیا ہو وہ بھلا تمہاری موت پر کیوں راضی ہوگی۔ میرے پیشے کی توہین ہے اور محبت تم سے کرنا تو میرے نزدیک دنیا کا بکواس ترین کام ہے۔۔۔چھ۔چھوڑو مجھے۔۔اگر تم نے غلطی سے بھی کوئی کمینی حرکت کی شہیر تو میں تمہارا آج واقعی قتل کردوں گی"

اپنے ڈر پر بمشکل وہ پراعتمادی حاوی کرتی مسلسل اسکی مسکراتی آنکھوں سے کانپتی ہوئی بولی جبکہ جس طرح وہ اسے بے بس کر چکا تھا، وہ اسکے کچھ بے باک عمل امید کر رہی تھی تبھی آخر تک وارننگ دیتی غرائی۔

"قتل کرو گی پھر بچاو گی، پھر جان لو گی، پھر بچاو گی۔۔۔ وہ جان کب لو گی جسکے بعد مجھے بچانا تم سے ہو نہ پائے گا؟"

اس چہرے کی نازکی پر نظریں گماتا وہ پھر سے اسکی آنکھوں میں جھانکا جہاں اسکی قربت کا خوف شدت سے درج تھا جبکہ وریشہ اسکے ایسے سفاک سوال پر وقتی مزاحمت ترک کر گئی۔

"مرنا چاہتے ہو تو کہیں سے ڈوب مرو ناں یا اونچی بلڈنگ سے چھلانگ لگا دو ، کیوں مجھ پر اپنے قتل کو واجب کرنے پر تل گئے ہو منحوس مارے"

وہ اس بار سخت غصے سے چینخی تھی اور اسکو یوں چڑتا دیکھ کر شہیر کو بہت مزہ آرہا تھا۔

"عشق کرنا چاہیے بھلے وہ تُمہیں مار ڈالے ، ویسے بھی جلد یا بدیر ساری چیزیں ہی جان لیوا ہو جاتی ہیں ، تاہم محبوب کے ہاتھوں مرنا باعثِ اعزاز ہوتا ہے"

وہ شخص ایک بار پھر اسے دماغی تسخیر کر رہا تھا جو اسکے یکدم عشقیہ انداز بھانپ کر مزید آگ بگولا ہوئی اور پوری قوت لگاتی جھٹکے سے خود کو چھڑواتی جن زادی کی طرح الٹا اسکی جانب چڑھے گریبان دبوچ گئی جو اس اچانک افتاد پر کچھ بوکھلایا۔

"یہ دو دنوں میں وریشہ تمہاری محبوب کیسے بن گئی منحوس انسان، تم عشق کرنے کی جرت تو کرو، آگ لگا دوں گی تمہیں تمہارے عشق سمیت، چونا لگانا ہے تو کسی اور کو لگاو۔ میں تمہاری ان چِپڑی چُپڑی باتوں میں نہیں آوں گی"

وہ جیسے اس بندے کے منہ سے محبت وحبت کے ذکر پر بھڑک اٹھی، جتنا غصہ اسے آیا تھا یہ تو شہیر نے بھی امید نہ کیا تھا۔

"چونا ؟ آگے ہی چٹی ہو، اور چونا لگا کے کیا کرنا ہے میں نے۔ آئی تھنک تمہارے اندر ایک جنگجو بھی ہے، ہر وقت کاٹنے مارنے پر تیار رہتی ہو۔ باقی میرا گریبان پکڑ کر قریب آنے کے بار بار بہانے نہ ڈھونڈا کرو بیوی، تم ویسے بھی آسکتی ہو"

وہ جو نہایت سنجیدہ اور غصے میں تھی، شہیر کے مستے سے زچ کرتے آگ لگاتے جواب پر بمشکل خود کو اسکا گلا دبانے سے روک پائی تھی جبکہ اس نے ہاتھ اسکی گردن پر جما لیے۔

"تمہارے قریب آتی ہے میری جوتی"

سخت غصب دباتی وہ غرائی تھی جبکہ شہیر اسے اصل موضوع سے یکسر ہٹائے بڑی مہارت سے خود میں الجھا کر سرشار سا ہوا۔

"دیکھو میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی تیسرے کو برداشت نہیں کر سکتا پھر بھلے وہ تمہاری جوتی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔"

وہ مسلسل اسکی ہمت سے کھیل رہا تھا اور وریشہ نے بپھرے سانڈ کی طرح آنکھیں نکالے جبڑے بھینچے اس منحوس کا مسکراتا چہرہ دیکھا۔

"تم۔۔! تم ہو ہی منحوس"

وہ ناصرف عاجز آتی اٹھ کھڑی ہوئی بلکہ ہاتھ کا لعنت بنایا اشارہ شہیر کے منہ کی طرف کرتی پیر پٹخ کر کچن لپکی جبکہ پیچھے شہیر کا جان دار قہقہہ گونج اٹھا۔

"بھوک لگی ہے بیوی، کم ازکم آج تو کھانا کھلا دو۔ باقی رات پوری پڑی ہے لڑنے کے لیے، جلدی لانا۔ پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں"

وہ جانتا تھا غلط کر رہا ہے پر اپنے بے فضول سی زندگی کو وہ کچھ دن ہی سہی اس لڑکی کے ساتھ کے سنگ انمول بنانے کا فیصلہ کر کے آیا تھا، خود سے وریشہ یوسف زئی کے پرفیوم کی مہک محسوس کرتے جیسے اسے عجیب سا سکون ہوا، جبکہ وہ لاکھ برہم تھی مگر اپنی بنائی ڈش وہ اسے سرو کرنے کی تیاری کرنے لگی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"آئی مس یو میثم"

وہ ناجانے کتنی بار بے یقینی سے ئہ میسج پڑھ چکا تھا مگر ہر بار اسے لگتا یہ آنکھوں کا دھوکہ ہے۔

تبھی بڈی سے اجازت لیتا وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتا نکلا، ہاشم اسکی اس اجلت کی وجہ تو نہیں جانتا تھا پر اندازہ تھا کے ضرار کے گولی کے فائیر کی طرح جانے کے پیچھے اسکا صنم ہی ہوگا۔

"اوئے! بات تو سنو بے لگام گھوڑے۔ تم نے تو کہا تھا آج رکو گے"

ہاشم اسکو گاڑی کی طرف بڑھتا دیکھ کر آنکھیں نکال کر گھورتا بولا جسکی آنکھیں عجیب سے خمار سے بھری اگلے ہی لمحے شرارت سے بھریں۔

"سوری ہاشم صاحب! اب وہ زمانے گئے جب آپ  میری گرل فرینڈ ہوتے تھے اور میں آپکی کوجی تصویریں سراہ سراہ کر بڑے صبر سے پوری پوری رات بنتی دیکھتا تھا۔ بھئی اب میں بیوی والا ہوں  ، سمجھ جائیں اس قدر اجلت کی کیا وجہ ہوگی۔ رہی بات آپکے ساتھ رہنے کی تو سرجری ہوتے ہی بزدار حویلی واپسی کا ٹکٹ کٹائیں ورنہ مجھے بھول جائیں"

آفت ناک نخریلی مسکراہٹ سجاتا وہ کہتے ہی آنکھ دبائے گاڑی میں سوار ہوا جبکہ ہاشم نے لاڈلے کی پھرتیاں دیکھے سر تھام لیا۔

"یہی وجہ تھی میں دور رہا، پتا جو تھا صنم کا دیوانہ ہے یہ کھوتا کہیں کا۔۔اوکے سی یو کوجے۔۔"

اول جملہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہاشم، ہنس کر اسے ہاتھ ہلاتا بولا جو کان پتلے ہونے کی کوالٹی کے باعث اسکے پہلے پروئے لفظ بھی سن چکا تھا تبھی اس نے منہ بسورا۔

"اسکا الگ لیول پر بدلا لوں گا جو آپ نے مجھے کھوتا اور کوجا کہہ کر زمین کی تہہ ہلائی ہے۔ہاشم صاحب! یاد رکھیے گا، آپ بھی پلیز دوا دارو کریں  اور جا کر اس لڑکی سے حساب لیں۔ ہم چلے صنم کی باہوں میں۔۔۔بائے بائے"

گاڑی کا شیشہ چڑھتے چڑھتے بھی وہ اتنی باتیں پٹر پٹر بولتا ہاشم کو ہقا بقا چھوڑتا گاڑی بھگا لے گیا جبکہ مالنی کا خیال آتے ہی جناب نے منہ پر ماسک واپس چڑھاتے ہی تیزی سے اپنے قدم اندر بڑھائے۔

وہ مین حویلی کے لاونچ میں مزے سے صوفے پر لیٹی کارٹون نیٹورک پر کوئی بے سرے سے کارٹون دیکھتی لوٹ پوٹ ہو رہی تھی جب ہاشم بزدار اس تک پہنچا۔

پہلے تو اس نے حیرت سے نظر ٹی وی کی جانب کی جہاں تین آفت کیڑوں والے کارٹون لگے تھے، انھیں دیکھتے ہی ہاشم کا موڈ بگھڑا اور وہ جو ہنس ہنس کر دہری ہو رہی تھی، خود کو ہاشم بزدار کی غصیل، خشمگیں سیاہ آنکھوں کی زد میں دیکھتے ہی ہنسی کا بٹن آف کرتی منہ ترچھا کیے مسکین سا مسکرائی کیونکہ ایچ بی اسے کڑھے تیوروں سے دیکھ رہا تھا۔

"ماسکو! ماسکو یہ والے کارٹون دیکھیں ناں میرے ساتھ۔ ہاہا قسم سے دنیا جہاں کی ساری شراتیں یہ تین پیارے کیڑے کرتے ہیں۔ میں تو سوچ رہی ان سے کلاسیز لوں، آپکے ناک میں دم کرنے کے لیے۔۔۔۔اوہ سچ یاد آیا آپ نے کچھ کھایا؟ ویسے وہ جو ہنڈسم سا آدمی تھا وہ کون تھا؟ پر میں نے تو انکو بھائی بول دیا۔۔۔تیرا بیڑا غرق جائے مالنی سب کو بھائی بنا لے، تیرا دلہا تو ایسے نہیں ملنا۔۔۔۔چلیں کوئی نہیں، اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔۔۔کال پڑ بھی گیا لونڈوں کا تو یہ ماسکو ہے ناں"

ایک تو ان کوجے کیڑوں کو خوبصورت کہنے پر ہاشم کا ویسے ہی دماغ گھوما دوسرا اس لڑکی کی نان سٹاپ چلتی زبان سے ہاشم بزدار کو لگا دماغ میں پٹاکے پھوٹ گئے ہوں جبکہ اسکے زہریلا سا شرما کر آخری جملہ ادا کرنے پر ہاشم بزدار جہاں کا تہاں رہ گیا، پر مجال ہو جو اس لڑکی کی زبان، اداوں اور بے باک ارادوں میں کوئی نرمی آئی ہو۔

تمہارا دماغ درست ہے مالنی! پاگل واگل تو نہیں ہو۔ یہاں عقل کی جگہ بوسہ بھرا ہے کیا۔ مطلب عام لڑکیوں جیسی نہ تم میں کوئی حرکت ہے نا بات۔ نزاکت، شرم، لحاظ اور ڈر۔۔۔کچھ بھی نہیں۔ تم مجھے بہت عاجز کر رہی ہو، ایسا نہ ہو میں تمہیں اٹھا کر باہر پھینکوا دوں"

وہ اس درجہ غصے سے دھاڑا کے اسکی کنپٹی کی رگیں تک بھیانک حد تک تن گئیں جبکہ مالنی صاحبہ منہ کھولے آگ نکالتے ڈریگن کو خوفزدہ ہوئے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی، ہاشم کی رعب دار دھاڑ پر دونوں ملازمائیں تک کانپتی ٹانگوں کے سنگ دوڑی باہر آئیں مگر ہاشم کی ایک ہی سرد گھوری پر دونوں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوئیں۔

"ماسکو! دیکھیں آپ یوں چلائیں مت۔ میں تو آپکے لیے فکر مند تھی اور مجھے پتا ہے آپکی گنوائی خوبیوں میں سے میرے پاس کچھ نہیں پر میں ناک میں بہت اچھا دم کرتی۔ کم ازکم میری یہ کوالٹی تو انڈر اسٹمیٹ نہ کریں"

معصومیت منہ پر سجاتی وہ لپک کر جان لینے کو اس سے پہلے اسکے نزدیک جاتی، وہ ہاتھ ہوا میں بلند کرتا گریز کا شدت بھرا اشارہ کیے اسے قریب آنے سے سختی سے روک چکا تھا۔

"آج تو وہاں میرا بھتیجا بیٹھا تھا تبھی تمہاری جان بخش رہا ہوں لیکن ہر ایرے غیرے کے سامنے تم منہ اٹھا کر مہمان خانے آجاو گی تو میرے غضب سے تمہیں تمہاری وہ ماں بھی بچا نہیں سکے گی، اور میری فکر کرنے کا کہا کس نے ہے تمہیں؟"

اپنے لہجے کو ترش کرتا وہ بدلحاضی اور سفاکی پر اترتا آج اس یقین میں تھا کہ اس لڑکی کو اس تضخیک اور سبکی پر رونا لازمی آئے گا پر وہاں تو محترمہ مالنی ، اس انکشاف پر حیرتوں کے سمندر میں گر چکی تھیں۔

"ہیں! بھتیجا؟ اللہ اللہ اتنا بڑا بھتیجا بھی ہے آپکا۔۔۔۔ ہائے او ربا آپ تو واقعی انکل نکلے ماسکو۔۔۔اچھا سنیں ناں، سوری۔۔۔۔میں آئیندہ ایسا نہیں کروں گی۔ آپ یہی چاہتے ہیں ناں کہ مالنی کو آپ کے سوا کوئی نہ دیکھے تو بس آج پرامس"

اول تو وہ جس طرح منہ پر ہاتھ رکھتی جوش سے نکلتی چینخ دباتی اچھلی، اس پر ہاشم کا دل چاہا کسی دیوار سے جا کر ٹکریں مارے اور مالنی کے آخری جملوں کی تمازت نے ہاشم بزدار کے دماغ کی چولیں ہلائیں، دل لرزایا تبھی وہ غصہ دبا نہ سکا اور بری طرح غراتا ہوا اس دماغ کو سن کر دیتی لڑکی کی بازو اس شدت سے جکڑ گیا کہ اک پل تو وہ اسکے مضبوط ہاتھ کو کلائی میں دھنستا محسوس کیے درد سے بدحواس سی ہوگئی۔

"اپنا یہ پرامس رکھو اپنے پاس بیوقوف مالنی، میری برداشت ختم ہو رہی ہے ۔ اگر میرا غصہ حدوں سے تجاوز کر گیا تو بہت پچھتاو گی۔ مجھے مجبور مت کرو کے میں کوئی انتہائی قدم اٹھا لوں"

اس لڑکی کے درد دیتے تاثرات اگلتے چہرے پر کڑی نظر ڈالے وہ اسے بری طرح ڈانٹتا ، بچاری کو واقعی افسردہ کر چکا تھا۔

"ٹھیک ہے میں واپس چلی جاتی ہوں"

زرا کلائی پر گرفت ڈھیلی پڑی ہی کہ وہ ناراضگی جتاتی پلٹنے لگی مگر ہاشم نے ڈھیلی گرفت واپس جکڑی جس کے باعث وہ لہراتی ہوئی پلٹ کر پھر سے اس کے روبرو ہوئی مگر اب اسکی آنکھیں اداس اور شاکی تھیں۔

"واپس جانے کا نہیں کہا"

وہ بے اختیار گھبرا کر بول تو گیا مگر جب اپنی بے خود حرکت کا احساس ہوا تو فورا سے بیشتر اسکی بازو آزاد کرتا وہ دو قدم پیچھے ہٹا۔

"منتیں مت کریں اب ، نہیں جاتی کہیں لیکن آپکو تنگ کیے بنا مجھے تو اب سکون نہیں آتا ماسکو۔ ہاں وہ گیسٹ روم میں آکر میں نے غلط کیا لیکن آپکے لیے کیا بھئی، مجھے برا لگا کہ آپ خود کو اگنور کر کے اپنے مہمان کو وقت دے رہے تھے۔ پتا ہوتا کہ آپکا بھتیجا ہے تو سچی میں نہ آتی۔ اچھا ناں پلیز اپنا یہ گھورنے کا بٹن آف کریں، کچھ کچھ ہو رہا ہے مجھے"

اول تو وہ اس زبان کو آتی موت پر پچھتایا پھر اللہ گواہ تھا کہ کون ایک بار رکنے پر اس قدر انسلٹ کے باوجود رکتا ہے، پھر جیسے وہ اسکے روبرو بنا لفظ پرکھے اور سوچے بول دیتی تھی وہ ہاشم تک کے کانوں سے دھواں نکال دیتے مگر اس لڑکی کو فرق تک نہ پڑتا۔

"دس از یور لاسٹ وارننگ مالنی"

اپنے غصے کو ہر ممکنہ دباتا وہ اس لڑکی کی معصومیت پر پھر پگھل گیا جو واقعی دل کی بہت صاف تھی، ہاں جس کھلے ڈھلے ماحول میں وہ رہی تھی اس ماحول کا اثر اس لڑکی کی بے تکلفی میں جھلکتا تھا۔

"اچھا تو اگر میں باز نہ آئی تو آپ مجھے گھر سے نکال دیں گے؟"

اسے ہاشم کے لاسٹ وارننگ دینے کے بعد اک نئے تجسس نے گھیرا تبھی وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر آنکھیں پٹپٹاتی پوچھنے لگی جس پر مقابل کی نظروں کی سرد مہری بھی کچھ زائل ہوئی۔

"نہیں! اپنی زندگی میں پراپر طریقے سے گھساوں گا تمہیں تاکہ تمہاری ساری حسرتیں پوری کر سکوں۔

یہ جو میرے ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے کی عادت ہو گئی ہے تمہیں، اسکا یہی حل ہے۔

پھر موت ہی تمہیں ایچ بی کے چنگل سے نجات دے گی۔ سمجھی"

بظاہر وہ اپنے مزاج سے ہٹ کر دہشت پھیلاتا ، اپنی طرف سے مالنی کو ڈراتا ہوا باآواز بلند بولا تھا مگر مالنی کے تاثرات دیکھ کر خود ہی ہاشم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا کیونکہ وہ شرمگیں مسکراہٹ اپنے نرم ہونٹوں میں دباتی نزدیک ہوتی ہاشم کا سارا اعتماد گل کر چکی تھی۔

"سچی ماسکو! پھر تو میں آپکا ماسک بھی اتار پاوں گی۔۔۔یاھو۔۔ بلے بلے۔۔او شاوا شاوا۔۔۔دم دھڑک دم دم دھڑک۔۔۔دم دم دھڑک"

یکدم ہی اس نمونی کے منہ سے ہی ڈھول بجا اٹھنے پر ہاشم نے دماغ سن ہونے پر زور دار گرج دار دھاڑ بلند کی جس کی گونج پوری حویلی میں بلند ہوتی ہر آواز کو اپنے اندر دفن کر گئی۔

اک لمحہ تو مالنی بھی ڈر کر دو فٹ پیچھے جاتی سیدھی صوفے پر گری۔

جبکہ یکدم خود کی جانب جھکتے ماسکو کو دیکھ کر اسکی ساری شرارت لمحے میں گل ہوئی۔

"اب تم نہیں بچو گی مجھ سے، بلاتا ہوں میں تمہاری چہیتی ماں کو اور کئی کڑور کی قرض کی اس کے آگے قیمت رکھتا ہوں تمہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں تمہاری یہ قینچی کی طرح پٹر پٹر کرتی زبان کیسے چلتی ہے۔ ویٹ اینڈ واچ مالنی صاحبہ۔ تم نے مجھے بہت ہلکا لے لیا تھا، اب بھلے اپنا نام مجھے پاگلوں کے بجائے نمونوں کی لسٹ میں بھی کیوں نہ لکھوانا پڑا، تمہیں سبق سیکھانے کے لیے سب کروں گا۔ تب تک اگر تم مجھے پھدکتی ہوئی یہاں وہاں نظر آئی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا"

اپنی دہشت سے واقعی مالنی کے چودہ طبق روشن کرتا وہ اسکی سہمی پھٹی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے کہتے ہی پھنکارتا ہوا واپس اٹھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے گیا جبکہ مالنی کو ایچ بی کے ہاتھوں مرتے مرتے بچتا دیکھتیں وہ دونوں ملازمائیں بھی خوفزدہ ہوتیں ایچ بی کے جاتے ہی اس صوفے پر سیدھی ہو کر بیٹھتی مالنی تک پہنچیں جسکے چہرے کے سارے رنگ وہ شوخا ساتھ لے جا چکا تھا۔

"تم ٹھیک ہو؟ کہا بھی تھا کوئی پنگاہ مت لینا۔ اب تم ہمارے صاحب کے غصب سے نہیں بچو گی"

ان میں سے ایک عورت نے گویا کوستے ہوئے تیلی لگانی چاہی مگر مالنی اٹھ کر ان دونوں کو گھورنے لگی۔

"ہنہ! اب تمہارے ماسکو صاحب مالنی کے غضب سے نہیں بچپیں گے۔ سنو! "

ناجانے اب خرافاتی دماغ والی کو کیا سوجھی کے وہ تفاخر سے کہتی ان دونوں ہقا بقا عورتوں کو رازداری سے کان قریب لانے کا اشارہ کرتی غضبناک مسکرائی۔

"تمہارے سائیں کو مجھ سے سچے والا عشق ہو گیا۔ ہاہا بچارا۔ چلو شاباش شادی کی تیاریوں پر لگو تم دونوں۔ مجھے ابھی سے اپنی مالکن سمجھنا۔۔۔۔ ایچ بی کی شادی ہے سو دھوم دھام سے ہونی چاہیے۔۔۔۔چلو شاباش"

ان دونوں کے چہرے لٹھے کی مانند سفید پڑ چکے تھے جبکہ گلے میں ڈالا دوپٹہ ہوا کی زد پر لہراتی مالنی صاحبہ اپنا حکم صادر کرتے ہی نزاکت سے ناک چڑھاتی وہاں سے گزر کر جا چکی تھیں اور ٹھیک اوپر سیڑھیوں سے ملحقہ کوریڈور پر کھڑے ہاشم بزدار پر چھت گر چکی تھی، بلکہ بچارے کی کائنات تک ہچکولے کھاتی رہ گئی۔

دل اسکا یہی کیا یہیں بیٹھ کر سر پیٹ لے پر اب تو وہ خود اپنی ساری آسانیوں کے گلے کاٹ بیٹھا تھا۔

خدا خیر کرے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سردار! وہ حویلی سے نکل چکے ہیں"

فون پر خاقان کا اہم ساتھی اطلاع دے رہا تھا جبکہ سردار خاقان کی آنکھوں میں انتقام اور سزا کی شدت درج تھی۔

"ٹھیک ہے جو کہا تھا وہ کرو، کل صبح دونوں علاقوں میں اسکی موت کی اطلاع اور اسکے قاتل کا نام جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیلا دینا۔ یہاں تمہارا کام ختم ہو جائے گا"

نیم تاریکی میں ڈوبے کمرے میں موجود وہ فرعون آدمی اپنا اگلا حکم سونپے درشتی سے کال کاٹ چکا تھا۔

جبکہ سردار خاقان کا وہ آدمی حکم کی تعمیل کرتے ہی اپنی گاڑی درختوں کے جھنڈ سے نکالے تیز رفتاری کے سنگ اندھیرے میں سیدھی سڑک پر گامزن بڑی سی سیاہ گاڑی کا پیچھا کرنا شروع ہوا۔

"کل صبح اسکا چیک اپ ہے تو میں چاہتا ہوں اسے خود لے کر جاوں، فکر مت کریں خدیخہ۔ اپنا علاقہ ہے، سو رات کا سفر کسی نقصان کی وجہ نہیں بنے گا"

عزیز خان، پرسکون انداز میں گاڑی چلاتے ڈرائیور کو اک نظر دیکھتے ، باہر بدلتے مناظر پر نگاہ کیے فون پر مخاطب تھے اور جب سے انہوں نے خدیخہ کو وہاں آنے کا اس وقت بتایا، وہ کافی پریشان ہو گئی تھیں۔

"اپنا اب کچھ بھی نہیں رہا سائیں، گارڈز ساتھ ہیں آپکے؟"

دوسری جانب کچن میں گلالئی اور اشنال کو اکھٹے مل کر ڈنڑ بناتا دیکھتیں خود خدیخہ خانم نے باہر لاونچ تک آتے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

"بس ڈرائیور ہے، فکر مند نہ ہوں۔ دو گھنٹے تک پہنچتا ہوں پھر بات کرتے ہیں"

سرسری سا بتاتے وہ کال کاٹ چکے تھے وہیں آگے بیٹھا ڈرائیور ایک لمحہ فکرمندی سے فرنٹ مرر سے یکدم پریشان ہو جاتے عزیز خان کو دیکھنے لگا۔

"خدیخہ ٹھیک کہہ رہی تھیں، میں نے گارڈز کے بنا ہی سفر کرنے کا سوچ لیا، بابا سائیں پہلے ہی میری جان کے دشمن بنے ہیں۔ یا اللہ میرے بچوں کی حفاظت کرنا"

ہر طرف عجیب سی یاسیت محسوس ہونے پر عزیز خان کا دل سوکھے پتے کی مانند لرزا ، تبھی وہ دعا گو ہوئے مگر ابھی دس منٹ کا فاصلہ ہی طے ہوا تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی نے عزیز خان کی گاڑی کے آگے آکر راستہ روکا۔

عزیز خان کا دل سہم اٹھا، خود آگے بیٹھا ڈرائیور بھی خوفزدہ دیکھائی دیتا پیچھے مڑا جیسے عزیز خان سے آگے کیا کرنے کا پوچھ رہا ہو۔

"یہ کون ہے نعیم ؟ گاڑی روکنا مت۔۔کوشش کرو ایک طرف سے نکال کر بھگاو"

پیچھے بیٹھے عزیز خان نے آگے بیٹھے ڈرائیور کو ڈر ہر ممکنہ دباتے تاکید کی مگر اسی لمحے اس رکی گاڑی سے ایک توانا قد کا مالک آدمی ہاتھ میں گن لیتا باہر نکلا، اسکے چہرے پر سیاہ ماسک تھا۔

اور بنا وہ کوئی مہلت دیتا اسی گن کو زور دار طریقے سے گاڑی کے شیشے پر مارتا اگلے ہی لمحے ڈرائیور پر گن تانے، ایک ہاتھ سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولے عزیز خان کو گریبان سے پکڑتا باہر لایا۔

"ک۔۔کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو مجھ سے"

عزیز خان اپنی پرواہ کیے بنا ڈرائیور پر اسکی تنی گن دیکھ کر اسکی جانب حراساں ہو کر دیکھتے چلائے جسکی آنکھوں میں اگلے ہی لمحے کمینگی اتر آئی۔

"میثم ضرار چوہدری ہوں، اور تمہاری موت چاہتا ہوں عزیز خان"

وہ ماسک والا آدمی جو در حقیقت سردار خاقان کا بھیجا کارندہ تھا، یہ کہتے ہی زور دار مکا عزیز خان کے منہ پر مارتا اگلے ہی پل اسے زمین پر پٹخ گیا جسکے باعث عزیز خان گرتے ہی ہوش سے بیگانے ہوئے جبکہ ڈرائیور حلق تر کرتا اس آدمی کو وحشیوں کی طرح عزیز خان کو گولی مارتے دیکھتا فورا سے پہلے وہاں سے بھاگا حالانکہ وہ گولی اس نے زمین پر ماری نہ کے عزیز کو، جبکہ اسی ماسک والے نے ہنستے ہوئے اپنی گن آسمان کی جانب کیے دو فائیر مزید کیے پر وہ ڈرائیور ان گولیوں کی آواز سے مزید دلبرداشتہ ہوئے اپنی جان بچا کر تب تک وہاں سے بھاگ نکلا۔

"ہاہا جاو جاو، حویلی جا کر بتاو کے عزیز خان کو ضرار نے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔۔سردار کو خبر کر دوں زرا"

وہ آدمی اپنے چہرے پر لگایا ماسک نوچ کر اتارتا ، خبیث شکل پر قہقہے لگاتا ساتھ ہی اپنی جینز کی جیب سے اپنا فون نکالنے لگا۔

اسی اندھیرے کمرے میں فون کی چنگارتی ٹون سنائی دی تھی۔

سردار خاقان، سگار کا کش لگاتا شر انگیز مسکرا کر وہ کال پک کرتے ہی فون کان سے لگا گیا۔

"سردار سائیں! کام ہو گیا ہے ۔ ڈرائیور نے مجھے یعنی جھوٹے ضرار کو عزیز خان کا قتل کرتے دیکھ لیا ہے اور اسکے مطابق عزیز خان بھی مر گیا۔ صبح تو کیا ، رات و رات اس قتل کی خبر دونوں علاقوں میں آگ کی طرح پھیل جائے گی"

وہ آدمی بہت شاطر الذہن ہو کر اپنے کام کی تکمیل کرتا سردار خاقان کا موڈ خوشگوار کر گیا۔

ایک تیر سے کئی نشانے لگاتا خاقان، سر مست سے قہقہوں میں لپٹ گیا، اسکی آواز میں کاٹ کھاتی وحشت تھی۔

"بہت خوب، اب اپنا ایک ناکارہ سا آدمی لے اور اسے مار۔ پھر اسے پورا جلا دینا۔ عزیز خان کے ہاتھ سے اسکی دونوں انگوٹھیاں اتار کر یاد سے اس آدمی کو پہنا دینا تاکہ سب کو یہی لگے کہ ضرار نے عزیز خان کا قتل کرنے کے بعد اپنا یہ گناہ چھپانے کے لیے اسکو جلا دیا۔ عزیز خان کا فون، باقی بھی ہر چیز کھوجیوں کو اسی جلے آدمی کے ساتھ ملنی چاہیے۔ میں صبح اٹھوں تو مجھے یہ آگ ہر طرف دہکی ہوئی دیکھائی دینی چاہیے جبکہ عزیز خان کو پرانی خانم حویلی کے تہہ خانے میں ڈال دے، دو آدمی پہرے پر لگا دے، وقت آنے پر اور اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد ہی اس ناہنجار اور گستاخ کو آزادی دی جائے گی"

متنفر اور مغرور انداز میں وہ یہ تمام ہدایات سونپتا مقابل سے بھرپور فرمابرداری کا یقین پاتے ہی کال کاٹ گیا۔

"اب لگے گی اصل آگ جب تیرا صنم اپنے باپ کا قاتل کہہ کر تیرے کلیجے سے تیرا دل نکالے گا۔ باقی اس اشنال سے اب کوئی لینا دینا نہیں۔ مرے اس شہیر کے ساتھ۔ لیکن میں تجھے ہر طرف سے زلیل و رسوا کر دوں گا میثم ضرار چوہدری۔ مجھے پتا ہے تیری موت بھی مارنے سے نہیں، صرف تجھے تیرے صنم کے دل سے نکالنے پر دی جا سکتی ہے۔ بالکل تیرے دادے کی طرح جیسے اسے میں نے خزیں چھین کر مارا تھا۔۔۔۔ہاہا عاشقوں کے جنازے ہیں بھئی، اٹھنے چاہیں زرا دھوم دھام سے۔۔۔۔

ہاہاہاہاہا"

آنکھوں میں وحشت ، نفرت، حقارت سموتا وہ درندگی کی ہر حد پار کرنے پر اتر چکا تھا اور دشمن یہ چال زور آور ہی اتنی تھی کہ لگ رہا تھا میثم اور اسکا صنم ایک بار پھر بری طرح جدا ہونے والے ہیں۔

کتنی دیر تک وہ جیت کے خمار میں لپٹا پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتا رہا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"شہیر کے بارے میں تم نے جو کچھ بتایا وہ تو میرا دماغ گما گیا جبل زاد! خیر اس پر ہم کل آرام سے بات کرتے ہیں ابھی میں تھوڑا وقت اشنال کو دینا چاہتا ہوں، صبح واپس ساتھ نکلیں گے۔ تب تک تم باقی معاملہ دریافت کرنے کی کوشش کرو"

ضرار کی گاڑی ، عزیز خان کے گھر کے باہر رک چکی تھی جبکہ جبل زاد سے وہ فون پر مخاطب تھا اور شہیر کے بارے ملتی کچھ عجیب و غریب افواہیں ضرار کو خاصا بے چین کر چکی تھیں۔

"جی سائیں! میں آپکو جلدی تمام معاملہ بتاتا ہوں۔ "

جبل زاد نے کہتے ہی کال بند کر دی جبکہ خود ضرار نے پہلے ہی فون پر اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی جسے اتفاق سے گلالئی نے ہی پڑھا اور وہ ڈنڑ کے بعد اشنال کو جان بوجھ کر وارڈرب سیٹ کرنے پر لگاتی اسے اسکے خوبصورت سے ڈریس ٹرائے کروا رہی تھی ساتھ اسکا میسج پر ضرار سے رابطہ تھا۔

"بلیک چوز کرنا گل، اور جلدی باہر لاو انھیں"

گلالئی نے اشنال کی وارڈرب کھولے بلیک اینڈ سلور لیسز والا بہت سنپل سا کرتی شلوار والا ڈریس نکالے ساتھ میں میسج پر اوکے کا اشارہ دیتے ہی وہ ڈریس اشنال کو تھمایا جو اب تیسرا جوڑا بدلنے پر منہ بگھاڑ گئی جبکہ ضرار کی آتی کال پر گلالئی نے فورا سے فون سپیکر پر ڈال دیا ، چونکہ فون سائیلنٹ تھا تبھی اشنال کو کال آنے کی خبر بھی نہ ہوئی۔

"بس ناں گل، میں تھک گئی۔ سب اچھے ہیں پر مجھے اچھا نہیں لگتا اب کچھ۔۔اور اسے دیکھو وہ میسج کے باوجود آیا ہی نہیں"

اشنال بے دردری سے اس سے لیا جوڑا بیڈ کی جانب پھینکتی اس درجہ دکھ سے آخری جملہ بولے بیٹھی کہ ناصرف گلالئی مسکرائی بلکہ گاڑی میں پرسکون ہو کر بیٹھے ضرار صاحب کے ہونٹوں پر بھی تہلکہ خیز متبسم لمس بیدار ہوا۔

"لو جی، اتنی رات بھلا وہ کیسے آ سکتے ہیں۔ آپ نے میسج ابھی کیا ہے ناں؟"

گلالئی اس سب میں بہت سلیقے سے ضرار کا ساتھ دے رہی تھی اور وہ اشنال کا اسے نو بجے ہی بھیجا میسج پہلے ہی دیکھ چکی تھی لیکن ضرار کی فرمائش پر یہ سب وہ اشنال کے ہونٹوں سے نکلوا رہی تھی۔

"مم۔۔میں نے تو جلدی کر دیا تھا گل۔ وہ مجھے مس نہیں کر رہا ناں، تبھی نہیں آیا۔ مم۔میں نہیں بولوں گی۔ اس سے ناراض ہو جاوں گی"

وہ یکدم بکھری سی لگی تبھی تو گلالئی ہر چیز چھوڑتی فکر مند سی اسکے قدموں میں بیٹھی اور اسکے دونوں ہاتھ جکڑ لیے جبکہ میثم کا دل بھی وہ ظالم لڑکی اک لمحہ روک بیٹھی۔

"اور اگر وہ آگئے تو آپ انکے قریب آنے سے ڈر جائیں گی۔ پھر سے وہ سب گناہ ثواب سوچیں گی۔ تو اچھا ہے ناں خانم کے وہ نہیں آئے"

گلالئی اسکی ڈوبتی آنکھیں دیکھ کر نرمی سے بولتی گئی جس پر اشنال نے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑ کر گہرا سانس بھرا۔

گاڑی میں بیٹھا میثم ، اس بار عجیب سے کرب میں مبتلا تھا، وہ لڑکی اسکی ہو کر بھی اسکے لیے یوں تڑپ رہی تھی اور اب تو ایک لمحہ بھی اس سے صنم کا یہ درد برداشت نہ ہوا۔

"ہ۔۔ہاں یہ بھی تو سچ ہے گل، پر میں کیا کروں ک۔۔کے میرا دل اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مجھے اللہ سائیں کس آزمائش میں ڈال چکے ہیں۔ وہ میرا نہیں ہے ناں گل، تو پھر اسکو اللہ سائیں ادھر سے ادھر سے، دل سے، ادھر دماغ سے۔۔۔۔مجھ سے ، میری ہر دھڑکن سے، نکال کیوں نہیں رہے"

وہ یکدم ہی ہچکیاں بھر کر سسکتی کبھی دل کے مقام پر انگلی رکھتی، کبھی نبض پر، کبھی کنپٹی پر اور مزید ضرار سن نہ سکا اور کال کاٹتے ہی گاڑی کا دروازہ کھولتا وہ اندر بڑھا۔

گلالئی نے زرا سا اٹھ کر اس لڑکی کو اس جنونی کیفیت سے نکالتے ہوئے بازو پھیلائے خود میں سمیٹا تو جیسے اشنال عزیز کی یہ تکلیف گلالئی کے رونگٹے تک کھڑے کر گئی۔

"بس خانم! جان لے رہی ہیں۔ بس بس ایسے تو وہ روئیں جنکے پاس انکے ضرار سائیں نہ ہوں۔ شش۔۔ایک آنسو بھی بہایا تو آپکے وہ میرا گلا دبا دیں گے"

وہ اسے لاڈ سے پچکارتی خود بھی اپنی آنکھوں کی نمی چھپا نہ سکی جبکہ خدیخہ خانم سے ضرار کی ملاقات وہیں پورچ میں ہی ہو چکی تھی جو اضطرابی انداز میں چکر کاٹتی دیکھائی دے رہی تھیں۔

"خیریت ہے خانم! اس وقت یہاں ؟ پریشان لگ رہی ہیں؟"

وہ اندر جاتے جاتے فکر مند سا رکا اور انکی طرف مڑا جو اسکو دیکھ کر اپنے چہرے پر آتی پریشانی دبا گئیں۔

"ارے نہیں، وہ سائیں آرہے ہیں تو انہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں بھی اسی وقت آنا تھا۔ بس پریشان ہوں کے رات کا سفر ہے"

وہ ضرار کی تشویش بھانپے اسے بتانے لگیں جو خود عزیز خان کے آنے کا سن کر اپنا معافی مانگنے والا فیصلہ یاد کرنے لگا۔

"کہیں تو اپنے آدمی بھیجوں پیچھے؟"

وہ مروتا پوچھ رہا تھا مگر خدیجہ نے مسکرا کر نفی میں سر ہلائے اسکا چہرہ تھاما۔

"اب اتنے بھی بچے نہیں وہ ،ویسے اچھا کیا تم آگئے۔ میری مانو تو کچھ دیر اشنال کو باہر لے جاو۔ اندر پڑے پڑے وہ مزید نڈھال ہو جائے گی"

وہ فورا سے فطری ڈر ہٹاتے یہ بہترین سا مشورہ تھماتیں بولیں جو ضرار کو بھی مناسب لگا۔

"ٹھیک ہے، آپ بھی آجائیں اندر اور اطمینان رکھیں۔ اچھا ہے جاتے جاتے عزئز خان سے مل لوں گا۔ کچھ کام تھا"

وہ انکو ساتھ ہی لیتا اندر بڑھا جبکہ انکی اجازت پر وہ سیدھا اشنال ہی کے کمرے کی طرف بڑھا جسکے سرد پڑتے ہاتھ ہنوز گلالئی نے تھام رکھے تھے اور اشنال کے گرتے آنسو اسکے ہاتھوں کو جلا رہے تھے۔

بے اختیار ہی ان قدموں کی آہٹ اپنے روم کے دروازے پر محسوس کرتی وہ سرخ ہوتی بھیگی آنکھیں اٹھا کر دیکھنے لگی جہاں وہ خاصے ناامید تاثرات کے سنگ دروازے میں جم کر کھڑا اسے دیکھنے میں محو تھا البتہ گلالئی نے فورا سے بیشتر اٹھ کر ضرار کو دیکھتے ہی دونوں لوو برڈز کو پرائیویسی دیتے ہی اپنی ساری اداسی اک طرف کرتے باہر کی راہ لی جبکہ اسکے جاتے ہی وہ چلتا ہوا عین ان خوبصورت آنکھوں میں جھانکتا ہوا اس اڑے حواسوں والی کے قریب آیا اور اپنے دونوں ہاتھ اسکی جانب پھیلائے جنکو اشنال نے بنا سوچے روتے ہوئے جکڑا اور ضرار نے اسے کھڑا کرتے ہی اپنے حصار میں لیا اور خود میں سمو لیا۔

نہ تو آج اس نے میثم کے قریب آنے پر حصار لیتی اسکی ظالم خوشبو کے ڈر سے مزاحمت کی نہ وہ اسے دور کر پائی کہ وہ بھلے سانسوں، دھڑکنوں اور یہاں تک ہر اختیار پر قابض ہو جاتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھ اسکی کمر تک لے جاتے باندھ کر اسکی اپنے ہر سو کمی کا اظہار ان انمول آنسووں سے کرنے لگی۔

"مس کیا مجھے پر اتنا سارا رو کر میرے سکون کو نقطہ کر دیا میری جان، مان جائیں آپ صرف میری ہیں۔ آپکی ہر تکلیف میری ہے اشنال! بہت جلد آپکو اس پوری دنیا کے سامنے اپنا بناوں گا، صرف آپکے یقین کے لیے جو آپکے ساتھ ہوتے ظلم نے آپ سے چھین لیا۔ آپ دھڑکتی ہیں میرے اندر صنم، آپکی ذہنی بہتری کے لیے مجھے مرنا بھی پڑا یا کسی کو مارنا بھی پڑا تو خوشی خوشی کر گزروں گا"

وہ اسکا رو رو کر حدت پکڑ لیتا چہرہ تھامے اسکی بے داغ پیشانی کو اپنے ہونٹوں کی نرم شدت سے سکون بخشتا اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے جو کچھ بول بیٹھا تھا وہ ابھی تو نہیں مگر عنقریب اس دیوانے کا بہت بڑا امتحان بننے والا تھا، وہ اسکی سچی آنکھوں کو دیکھ کر ہر گناہ اور ثواب آج خود بھی بھول رہی تھی، ناجانے یہ کیسا کمزور لمحہ تھا کہ اسکا سارا اختیار میثم ضرار چوہدری کے سپرد ہونے لگا۔

"سچ یہی ہے کہ م۔۔مجھ سے تمہارے بنا ایک لمحہ بھی رہا نہیں جاتا م۔۔میثم۔۔مجھے جلدی اپنے پاس لے جاو۔۔۔۔پلیز"

وہ اسکے روبرو ٹوٹی بکھری حالت میں رحم کی طلب گار تھی اور اشنال کی یہ التجاء میثم کی آنکھوں کے کنارے سرخ کر گئی۔

"اگر آپ نے مزید یوں رو کر کوئی اور بات کی تو میں بہت مجبور ہو جاوں گا میری جان، تھوڑا رحم آپ بھی مجھ پر کھائیں۔ ریڈی ہوں، ہم گھومنے چلتے ہیں۔ ساری رات صرف آپکی، اور آپ صرف میثم کی"

خود کو بہت مشکل سے اس لڑکی پر قربان ہو جانے سے روکتا وہ اسکے سر پر بوسہ دیتا ، اسکے نازک مرمریں ہاتھوں کو چومتا اس نازک ٹرانس کو توڑ گیا تھا، ورنہ جو حالت اس وقت میثم کے صنم کی تھی، اسے ایسا لگا جیسے وہ صرف باہمی نزدیکیوں سے ہی سنبھلے گی مگر ضرار جانتا تھا وہ بھلے وقتی اس کے آگے کمزور ہو گئی ہے لیکن اگر وہ اشنال کی اس ذہنی حالت کے سنگ بنائی حدود سے آگے بڑھ گیا تو یقینا ان دو کے رشتے کو یہ وصل بلکل تباہ کر دے گا۔

"یہیں رہو ناں میثم"

وہ سسکتی ہوئی اسکے گریبان پر ہاتھ جکڑتی بہت تکلیف سے بولی مگر ضرار خود پر ہر ممکنہ اختیار رکھتا اسے ان سنی کرتا آزاد کیے بیڈ پر پڑا اسکا وہی خوبصورت ڈریس اٹھائے پلٹا جو میثم کے اگنور کرنے پر پھر سے آنسو سے آنکھوں میں بھر لائی۔

"یہیں رہا تو آپ مجھے کہیں کا نہیں چھوڑیں گی، سوری صنم! ساری زندگی آپکی جانب سے گناہ ثواب کے فضول اور خوامخواہ لیکچر نہیں سن سکتا۔ اس لیے مجھے کچھ دن دیں تاکہ میں یہ شہیر نامی چیپڑ کلوز کر کے آپکا پہلے دماغ لائن پر لاوں ، پھر بہت تفصیلا آپ سے آپکے تمام مظالم کے بدلے لوں گا۔۔۔اب میں مزید کوئی بات نہ سنوں۔ جائیں چینج کریں"

خود کا دامن اس دل کی مکیں کے نرم ہاتھوں سے جبرا چھڑواتا وہ اسے زرا سخت لہجے میں ڈانتا ہوا ڈریس تھمائے باقاعدہ چینجنگ روم کی طرف دھکیلتے بولا جس نے آنکھوں میں جمع ہوتے سارے آنسو دباتے ہوئے اپنا رخ نہ بدلا اور بھرے دل کے سنگ کپڑے بدلنے چلی گئی۔

"یہ تمہاری کیسی بے بسی ہے ضرار ؟ نجانے ایسا کونسا گناہ ہوا ہے مجھ سے کہ مجھے اس لڑکی کے لیے یعنی اپنی ہی بیوی کے لیے اس درجہ سنگین آزمایا جا رہا ہے۔۔۔۔میری مدد کریں، اس لڑکی کی بے بسی اور تکلیف تو مجھے مار دے گی میرے مالک"

وہ سانس کھینچتا اسکے اوجھل ہوتے ہی بیڈ کی جانب بیٹھتے ہی اپنا سر ہاتھوں میں گرا گیا، پورے وجود میں اذیت ڈور رہی تھی، آج وہ لڑکی اسکی قربت چاہتی تھی مگر وہ مجبور تھا کہ اسے سنگدل بننا پڑا۔

اشنال کے لیے وہ اب مزید دن ضائع نہیں کر سکتا تھا، جلد از جلد اسے یہ ونی کا تماشہ ختم کرنا تھا مگر ابھی تو آگ کا دریا باقی تھا جس میں ڈوب کر اسے اسکے صنم تک کا راستہ ملنا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

رات کے دس بجے کا وقت تھا اور ہر طرف وہشت اور خبس کا بسیرا تھا۔

یہ ایک بڑا سا خفیہ گودام تھا جہاں لگ بھگ آدھے رقبے پر کباڑ خانہ پھیلا تھا اور ایک طرف بڑے بڑے دو عدد ٹرک آکر رکے تھے، مین دروازہ تاحد نگاہ کھلے گراونڈ کے بعد بنایا گیا تھا۔

ایک دوسری طرف مویشیوں کا باڑا تھا جہاں کئی غنڈے موالی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف عمل دیکھائی دے رہے تھے۔

"مال تو پہنچ گیا ہے مگر یہ تم لوگوں کا باس کہاں ہے؟"

ٹرک کا اگلا دروازہ کھولتا ایک سیاہ فام آدمی اردو بولتا چھلانگ مارے باہر نکلا جسکے ماتھے پر ناگواری سے بل پڑے تھے اور اپنے رعب و دبدبے کے باعث اردگرد جمع ہوتے سیٹھ طلال کے لوگوں سے پوچھنے لگا۔

"جیل میں"

نیلی قمیص اور نیلی ہی شرٹ پہنے آدمی نے منہ بگھاڑے جواب دیا تو اس سیاہ فام آدمی کے چہرے پر حقارت سے بکھری۔

"سالہ یہ ایماندار آفیسر ہمارے حلق کی ہڈی ہی بن گیا ہے اسکا کچھ کرنا پڑے گا، اور دوسرا اسکا وفادار کتا؟ کدھر ہے وہ؟"

اس سیاہ چہرے والے گونی نامی آدمی نے داڑھی کھجاتے دھاڑ کر اگلا سوال کیا جس پر وہ آدمی ایک دوسرے کی طرف خوف سے دیکھنے لگے۔

"اس پر سیٹھ طلال کو کچھ شبہ تھا تبھی انکوائری تک اسے دھندے سے باہر کر دیا گیا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ وہ مال کی مخبری کرنے میں ملوث ہے۔ جب سے اسے رکھا ہے، کروڑوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں"

وہ آدمی جلدی جلدی جواب دے رہا تھا اور خود گونی کے منہ پر چھائی نحوست میں اسکی آنکھوں کی ہیبت ناکی نے اضافہ کیا۔

"ٹھیک ہے، لوڈ کروا لو مال۔۔اس بار پانچ بڑے شہروں کی حسین سوغاتیں لائی گئی ہیں اور طلال کو کہنا کچھ بھی کر کے کنو بائی سے صلح کرے ورنہ سارے دھندے چوپٹ ہو جائیں گے ، اس عورت کے بہت دور دور تک تعلقات ہیں، پر اس حرام زادے کو پیسے کی ہوس ایسی مرچی لگاتی ہے کہ سب خراب کر دیتا ہے، اچھا ہے اس بار وہ انسپیکٹر اچھی پریڈ کرے زلیل کی۔ اور یہ بھی کہہ دینا اسے کہ خالی کتے جمع نہ کرے، انکی وفاداری بھی پرکھا کرے۔ دو دن بعد آتا ہوں۔۔۔۔ مال تیار رکھنا"

وہ سیاہ فام آدمی تیکھے، زہریلے الفاظ میں کہتا ہوا اندر کمرے کی طرف بڑھ چکا تھا جبکہ سیٹھ طلال کے تمام لوگ ان ٹرکوں کی جانب لپک چکے تھے۔

بڑے بڑے ٹرک جن میں بظاہر کپاس لادی گئی تھی لیکن درحقیقت ایک ٹرک معصوم، کم سن، باندی لڑکیوں سے بھرا تھا جبکہ دوسرا دیار کی قیمتی لکڑی سے۔

اس گونی نامی آدمی کا تعلق ٹمبر معافیا سے تھا۔

وہ لگ بھگ بیس کے قریب سہمی، ڈری اور حراساں لڑکیاں تھیں جبکے ہاتھ پیر باندھے گئے تھے اور منہ بھی بند کیا گیا تھا ، وہ تمام لوگ گونی کی ہدایت کے مطابق دونوں ٹرکوں کا مال لوڈ کروانے میں مصروف ہو چکے تھے۔

ان لوگوں کی ہوس بھری گندی نظروں سے وہ سب لڑکیاں خوف سے کانپ رہی تھیں وہیں دوسری طرف ولی اپنا فون کان سے لگاتا اسی لمحے آفس پہنچا تھا۔

"ملنا ہے مجھے تم سے، ارجنٹ"

وہ کسی کمر کر کے کھڑے آدمی سے مخاطب تھا جسکا چہرہ چھپا تھا اور آس پاس بھی اندھیرا تھا کہ اسے پہچان پانا مشکل ہوا۔

"مل تو لوں پر خاندانی معاملات پر ایک لفظ نہ کہنا چاہتا ہوں نہ سننا، صرف کام کی بات کرنی ہے تو آجاوں گا"

وہ جو اسکے اپنے لیے کھانا لگا کر ویٹ کر رہی تھی، شہیر کے گھر سے باہر نکل کر گلی میں جا کر کھڑا ہونے اور کسی سے مخاطب ہونے پر مزید مشکوک ہوئی، کھڑکی کا پردہ ہٹائے وہ شہیر کی جانب دیکھ رہی تھی۔

ولی کے ماتھے پر اسکے لہجے کی گرمی سے شکنیں نمودار ہوئیں۔

"تمہیں اپنے خاندان میں گھسنے دوں گا تو تم بات کرنے کے قابل ہوگے منحوس، وہ معاملہ فی الحال سائیڈ پر رہنے دو ایسا نہ ہو تمہاری زندگی میرے غصے کی بھینٹ چڑھ جائے، میرا دماغ مت گماو اور سیدھی طرح بھونکو کے کب ملو گے"

ولی کا عتاب گویا آسمان کو چھوا مگر شہیر مجتبی کی آنکھوں میں ضرور مضحکہ خیزی اتری۔

یہ دن بھی آنا تھا کہ اپنا زبردستی کا باس ہی رقیب بن گیا تھا۔

"معاملہ کیا ہے ؟ کیوں گرم توے پر بیٹھے ہو انسپیکٹر"

شہیر نے اس بار زرا کوفت سے سوال کیا۔

"کیا تجھ پر طلال کو کوئی شک ہوا ہے؟ جلدی بول شہیر"

اس بار ولی کی آواز اسکے کانوں کو سرسرا کر رکھ چکی تھی تبھی شہیر نے زرا سا فون کو اس ڈھار پر کان سے دور کیا اور پھر واپس لگایا۔

"نہیں تو، کیوں"

وہ انجان بننے کی کوشش میں ولی کو مزید اشتعال چڑھا چکا تھا۔

"اگر شک نہیں تو آج والے مال کی تو نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ طلال میرے پاس ہے تو مجھے لگا تھا سارا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہوگا۔ دیکھ شہیر مجھے سیدھی طرح بتا کیا ہوا ہے؟"

ولی کے ماتھے پر اس آدمی کی غلط بیانی پر پڑے بل گہرے ہوئے جبکہ وہ بہت مشکل سے اپنا غصہ روکے بیٹھا تھا۔

"ٹھیک ہے سیدھی طرح سننا ہے تو سن انسپیکٹر! پچھلی مخبری پر جو تو نے طلال اور گونی کا سارا مال اپنے قبضے میں لیا تھا، اس کے بدلے لاکھوں نہیں کڑوروں کا نقصان ہوا۔ سارا انتظام میرے ہاتھ میں تھا تبھی طلال کو مجھ پر شک ہوا اور اس نے اس بار مجھے لاعلم رکھا۔ مجھے پتا تو تھا مال کا مگر ایک پرسنل سبب کے باعث سے میں نے تجھے جان بوجھ کر نہیں بتایا۔ اب وہ پرسنل ایشو، پرسنل ہی رہے تو اچھا ہوگا۔۔۔تیرے لیے بھی اور میرے لیے بھی"

شہیر کا انداز عجیب انتقامی سا تھا اور ولی کیا جانتا کہ وہ منحوس یکدم اسکے مجبورا ہائیر کیے طلال نامی منحوس کے پیچھے چھوڑے جاسوس سے رقیب بن گیا ہے۔

ولی کو زاتی وجہ اشنال ہی کی سمجھ آئی تھی تبھی وہ جبڑے بھینچ کر رہ گیا۔

"دیکھ شہیر، پرسنل معاملات ایک طرف ہی رہنے دے ورنہ اگر میں ذاتیات کو مجروح کرنے کا حساب چکانے پر آیا ناں تو تیرے سارے کالے دھندے باہر نکال لاوں گا، مجھے ہر خبر دینا تیری چوائز نہیں، مجبوری ہے سمجھا۔ اگر تو نے مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کی تو تیری موت انہی ہاتھوں سے لکھی جائے گی۔

۔ اشنال کی تجھ جیسی سیاہی سے حفاظت کرنا اسکا بھائی جانتا ہے لہذا یہ والے معاملات بند ہی رہنے دے۔ کل طلال کو چھوڑ دوں گا، دفع ہو کر پہلی فرصت میں اسکا شک دور کر۔۔۔اگر تیری وجہ سے میری سالوں کی محنت برباد ہوئی تو میں تجھے اس جگہ گاڑوں گا جہاں تیرے ماں باپ کو تیری ایک ہڈی بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔باقی اشنال کا تجھ سے نکاح بہت جلد ختم ہوگا یہ اپنے دماغ میں لکھ لے"

آپے سے باہر نکلتا ولی بڑے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے کال کاٹ چکا تھا جبکہ شہئر مجتبی کا دل چاہا وہ خوب جی بھر کر ہنسے۔

"چچ چچ بچارا اشنال کا بھائی ولی، ہاہا تو اپنی بہن کو تو مجھ سے بچا لے گا ولی زمان خان، پر تجھے تو پتا ہی نہیں میں تیری پیاری وری کو تیرے ناک تلے نکال کر لے اڑا ہوں۔دل لگی کی دل لگی اور تیری مجھ پر زور زبردستی کی حاکمیت کا انتقام بھی لگے ہاتھوں لے لیا۔۔ تجھے یہ تب پتا چلے گا منحوس انسان جب وریشہ یوسف زئی کے دل میں شہیر مجتبی بس چکا ہوگا۔ ایک تیر سے دو دو نشانے لگائے ہیں میں نے۔۔۔۔ہاہا"

اگلے ہی لمحے وہ بے دم ہو کر ہنستا ہوا آنکھوں میں ایسی چمک بھر لایا جو لمحوں میں کسی کو بھی فنا کر سکتی تھی۔

وریشہ اس سارا وقت شہیر کی مشکوک مسکراہٹ دیکھتی رہی اور جب وہ اندر کی طرف آیا تو وہ بھی کھڑکی سے ہٹ کر واپس ڈائنگ تک آکر بیٹھی۔

شہیر نے دروازہ کھولے اندر قدم بڑھائے تو خود کو گھورتی وریشہ کو دیکھ کر اس نے اسی زہریلے انداز میں مسکراتے ہوئے دوسری کرسی گھسیٹ کر سنبھالی۔

"ایسا کون تھا کال پر کے تمہیں مجھ سے چھپ کر باہر جانا پڑا؟"

وریشہ اسکی یکدم پرسکون ہوتی آنکھیں دیکھ کر کڑواہٹ سے بولی جبکہ شہیر نے کچھ دیر تو اسکے سوال کو یکسر نظر انداز کیا پھر پلیٹ میں اپنے لیے تھوڑا سا لزانیہ نکالنے لگا۔

وریشہ نے اسکی چپ پر بمشکل خود کو غصہ ہونے سے روکا جبکہ وہ پہلی بائیٹ لگاتا متاثر کن ہوا جیسے اس چیز کا زائقہ اسے اچھا لگا ہو۔

"واہ! بڑی ماہر ہو تم کھانے پکانے میں۔ اچھا ہے، ایسی ہی بیوی چاہتا تھا"

وہ اسکے سوال کو بری طرح نظر انداز کرتا سراہتے ہوئے بولا تو وریشہ نے میز پر زور سے اپنا ہاتھ مارے دانت نکواس کر شہیر کی شکل دیکھی۔

"جو پوچھا ہے وہ بتاو، اگر تم نے دوبارہ میری کسی بات کو ٹالا تو بہت برا ہوگا"

وہ بپھر کر اس پر چینخی تھی جو اسکے ضبط کا برا امتحان لے رہا تھا۔

"میرے لیچڑ افسر کا فون تھا، جسکے ہاں ملازم ہوں۔ اس کمینے نے مجھے میری ہی ایک کمزوری پر بلیک میل کیے مجبور کر کے اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اب جب میں کوئی کام کرنے سے منع کروں یا بگھاڑ دوں تو اسے آگ لگ جاتی ہے۔ بس وہی لگی آگ پھونکوں سے بجھا رہا تھا"

شہیر کے لہجے کی نفرت اسکے الفاظ سے باآسانی جھلک رہی تھی اور وریشہ کو اسکا انداز عجیب دل کاٹتا ہوا محسوس ہوا۔

یوں تھا جیسے شہیر کے لہجے میں جی بھر کر نفرت بھری ہوئی ہو۔

"ایسا کونسا کام کرتے ہو تم؟"

وریشہ نے اسکی جنگلی دیکھائی دیتی آنکھوں میں بے باکی سے جھانکتے سوال کیا جس پر وہ یوں ہنسا جیسے بہت مخظوظ ہوا ہو۔

"قتل کی سپاریاں لیتا ہوں۔۔۔اب خوش"

وہ اسے مستے انداز میں جواب دیے وریشہ کو زچ کرتا واپس کھانا شروع کر چکا تھا اور وہ یوں تھی جیسے کسی نے اسکے وجود سے لہو کا آخری قطرہ تک نکال لیا ہو۔

"قاتل ہو یعنی"

وہ اسکے مزاق کو بھی سنجیدہ لیتی خوفزدہ نظروں سے شہیر کو دیکھتی بولی جبکہ اس بندے کا دل تک جکڑ لیتا قہقہہ بھانپ کر اسکا دل واقعی اسکی منحوس شکل نوچ لینے کو کیا۔

"تم کیوں پیلی پڑ رہی ہو ڈارلنگ، تم نے خود بھی تو شہیر مجتبی کو مارا ہے سو تم بھی قاتل ہوئی۔ رہی بات اس شہیر کی تو یہ تو تمہارا دیوانہ ہے جو اس وحشی کی موت کے بعد وجود میں آیا"

اول جس طرح وہ وریشہ کی زرد پڑتی صورت کا مزاق اڑاتا بولا، وہیں اس نے اختتام خاصے زہریلے خمار پر کیا جس پر وریشہ کو لگا وجود کی آخری تہہ تک کپکپاہٹ اتری ہو۔

"کھاو اور نکلو یہاں سے، تمہاری مزید کوئی بکواس نہیں سننی مجھے۔ اور اب ہمارے بیچ بیٹھ کر بات کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی"

انجانا سا خوف محسوس کرتی وہ ہر ممکنہ لہجے کو سخت رکھتی کہہ کر بھوک مر جاتی محسوس کیے اٹھ گئی جبکہ وہ بھی مزید کسی شے کی طلب یکسر چھوڑتا ناصرف اٹھا بلکہ استحاق بھرے انداز کے سنگ اس نے وریشہ یوسف زئی کا ہاتھ جکڑے اپنی طرف دھکیلا تو وہ اسکے پرزور جھٹکے پر اسکے روبرو ہوئی مگر خوف کو جلد اس نے حقارت میں تبدیل کیا جو اس آدمی کے حاوی ہو جاتے ارادوں کو دیکھ کر وریشہ کی رگ رگ میں دوڑ رہا تھا۔

"ٹھیک ہے بیٹھ کر بات نہیں کرتے، کھڑے کھڑے کر لیتے ہیں۔ بھوک تو میری بھی مر گئی ہے، اب تو کچھ اور ہی کرنے کا دل چاہ رہا ہے بیوی۔ تمہارا نفرت جتاتا انداز مجھے مائل کر رہا ہے،ایسا کرتے ہیں آج تم ساری نفرت جتا دو اور میں سارے کا سارا مائل ہو جاتا ہوں"

اس شخص کا یکدم قریب آ کر یہ گھمبیر سرگوشیاں کرنا، وریشہ کے سر میں دھماکے کر گیا، وہ جتنی بھی باہمت ہو جاتی، وہ جانتی تھی اس شخص کے سامنے اسکی ہر مزاحمت بیکار ہے مگر پھر بھی دل پر پتھر رکھتی وہ اپنا ہاتھ اٹھائے اس سے پہلے اسکے منہ پر مارتی، وہ پہلے ہی ایسے عمل کو امید کر رہا تھا تبھی وریشہ کا ہاتھ بروقت جکڑ گیا۔

خوف کی خفیف سی لہر نے وریشہ کی روح تک لرزائی۔

اچھی بیویاں، شوہروں پر ہاتھ نہیں اٹھاتیں۔ تم تو ہو بھی محبوب ترین لڑکی، محبت میں تھپڑ کھا بھی لیتا لیکن وہ کیا ہے ناں میرے اندر کچھ زیادہ ہی اکڑ ہے جو محبوب عورت کے روبرو بھی تھوڑی بہت قائم رہتی ہے۔ اس لیے تمہیں نہ آج اس بدتمیزی کی اجازت دے رہا ہوں نہ اپنی آخری سانس تک دوں گا۔ انڈرسٹینڈ وریشہ یوسف زئی"

عجیب سی پھنکار اور وحشت تھی جس کے آگے وریشہ کی تمام ہمت نقطہ ہو رہی تھی، آج وہ اسے تسخیر کر دینے کے نشے میں سر مست آنکھوں میں خمار آلود دلکشی لیے پل پل قریں ہونا چاہتا تھا اور ان بے باک آنکھوں کی گستاخیوں سے وہ اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں صاف صاف محسوس کر رہی تھی، دل بری طرح اپنے مرکز سے ہٹ چکا تھا۔

"تم یہاں سے چلے جاو، میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی"

ڈر کو ہر ممکنہ اپنے اندر ہی سمیٹ کر وہ اسے نرم پڑتا دیکھ کر خود بھی آسان سی زبان میں قائل کر رہی تھی جبکہ وہ جس نے صرف ہاتھ پکڑا تھا، اس گریز اور تضخیک پر وہ اسکی کمر جکڑتا اسے ایک بار پھر مضبوط قید کا اسیر اور لمس کی زبان کا تسخیر بنانے والا تھا۔

"مطلب ڈم ڈم لائیٹ والا رومانس چاہتی ہے میری بیوی جس میں ایک دوسرے کا چہرہ نظر نہ آئے، آئی انڈرسٹینڈ۔ تم نہیں چاہتی کے تمہارا ، میری نزدیکی اور باہمی قربت سے سرخ ہوتا چہرہ میری نظروں میں آئے دی گریٹ وریشہ صاحبہ جو بہت مضبوط اور ہارٹ لیس سی ہے وہ کیسے چاہے گی اسکی کمزور پرتی حالت پر شہیر مجتبی جیسا لفنگا یہ جادوگرد آنکھیں دیکھ کر مر مٹے۔۔۔ایم آئی رائیٹ؟"

بنا اس لڑکی کی نڈھال پڑتی دھڑکنوں پر رحم کھاتا وہ مسلسل اسکی جان لینے کے ارادے باندھتا پورے استحقاق کے سنگ وارفتگی بڑھائے دیکھتا چڑا رہا تھا جو مزاحمت کرنے کے باوجود مزید اس کمبخت کے قریب ہو رہی تھی۔

سانسیں، دھڑکنیں، خواہشات گڈ مڈ ہونے لگیں مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔

"بلکل! مجھ پر مر مٹنے والے کی بھی کوئی کلاس ہونی چاہیے اور تمہاری کیا ہے، تھرڈ کلاس۔ لفنگے تو ہو تم اور دیکھو تم نے بھی مانا۔

اور تمہارے آگے میں جس دن سرخ پڑی ناں اس دن خود کہیں دفن ہو جاوں گی جا کر شرمندگی سے۔۔۔۔بھول کر بھی اپنی حد پار مت کرنا سستی فلم کے ٹھرکی عاشق!"

وہ بنا اسکے فتخمدانہ خمار آلود تاثرات کی پرواہ کیے بنا اس پر دھاڑی جبکہ وہ آگے سے دانتوں کی نمائش میں مصروف آنکھوں کی لپکی کشش سے مزید وریشہ کی ہستی تہس نہس کر رہا تھا۔

"ہاہا تم ڈرتی ہو بیوی، میرے قریب آنے سے کہیں تمہیں مجھ سے محبت نہ ہو جائے۔ دیکھو میرے نام کا ڈر تمہاری آنکھوں سے دیکھائی دیتا ہے۔ لیکن تم نے جو بے باکیاں دیکھائے مجھے اپنی زندگی میں آنے کی خود دعوت دی تھی میں چاہتا ہوں انھیں تفصیلا دیکھنا اور محسوس کرنا۔ تم مت کرنا محبت، مجھے کرنے دو کیونکہ تم جب جب مجھے نفرت سے دیکھو گی میرا دل تمہیں خود میں گھول لینے پر بے قرار ہوتا رہے گا"

وہ اسکے روبرو سانس روکے ، ان فضولیات اور بے باک طرز گفتگو پر لمبا سا سانس کھینچتی پھر سے بوکھلا کر روکی مزاحمت جاری کرتی اسکے چوڑے سینے پر دباو ڈالنے لگی۔

جبکہ شہیر اک اک لفظ وریشہ کے اندر تک اذیت کے بجائے آج دہشت اتار چکا تھا۔

"ن۔۔نہیں شہیر! دور ہو جاو۔ میں تمہیں اتنا گرا ہوا نہیں سمجھتی سو یہ مان مت توڑنا"

اسکے پل پل قریب آنے کے ارادے جان کر وہ بے اختیار زبان پھسلنے پر بوکھلائی، جبکہ شہیر نے آنکھوں میں پل پل بڑھتا خمار اک مرکز پر رکتے ہی واپس پلٹا کہ صرف وہ ان آنکھوں کے ارتکاز سے ہی اپنا چہرہ جھلستا محسوس کرنے لگی۔

"مان توڑنے کی مجھے بچپن سے عادت ہے لیکن پتا نہیں کیوں تمہارا توڑنے پر دل کو کچھ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ایک وعدہ کرنا پڑے گا تمہیں مجھ سے بچنے کے لیے"

اسکا لہجہ یکدم بدلا تھا، وہ خوفزدہ سی اسکے اگلے اقدامات کی سختی سے تکلیف میں ڈوبی تھی یکدم چہرے کی تکلیف بحال کرتی وہ اسکی معنی خیز آنکھیں دیکھنے لگی۔

"کیسا وعدہ؟"

وہ اپنی جان کی خلاصی کے لیے اس وقت ہر وعدے پر تیار تھی اور یہ جان کر شہیر کو عجیب سی راحت میسر آئی۔

"یہی کہ تم میرے چاہنے سے پہلے اس نکاح سے آزاد ہونے کی کوشش یا خواہش نہیں کرو گی، میں تمہیں کچھ عرصہ اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوں۔ اگر تم یہ وعدہ کرتی ہو تو میں تمہارے قریب نہیں آوں گا"

وہ اسکے اس مضحکہ خیز وعدے پر عجیب سی نظروں کے سنگ اسے یوں دیکھنے لگی جیسے اسکا دماغ واغ پھر گیا ہو۔

"اور تم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو؟ "

وہ جیسے سرے سے اس سفاک شخص سے بدگمان تھی تبھی وریشہ نے فورا اس مہربانی کے پیچھے چھپی وجہ جاننے کو تلخ ہوتے استفسار کیا۔

"کوئی خاص وجہ نہیں بس میری خوشی سمجھ لو، ورنہ آج ہی تم پر اپنا آپ تحریر کیے میں ویسے بھی تمہیں آخری سانس تک کے لیے اپنا پابند کر سکنے پر قادر ہوں"

اسکے لہجے میں شدت جبکہ الفاظ سے استحقاق چھلکا جو وریشہ کو ویسے ہی کمزور سا کر گیا لیکن وہ جذباتی سی وریشہ اس سفاک کی اس پیچھے چال سے ناواقف تھی، زندگی بھر جیتنے کا نشہ پالنے والا شہیر مجتبی پہلی بار ہارنا چاہتا تھا، اس لڑکی کے آگے جو وہ جانتا تھا اسکی عبرت بننے والی ہے۔

"ٹھیک ہے وعدہ کرتی ہوں، اب دور ہٹو"

وہ تیزی سے اسکی گرفت سے نکلنے کو مچلتی اس کو پرے دھکیل گئی مگر وہ اسے پرزور گرفت میں بساتا اسکی گال پر اپنے دہکتے ہونٹوں کی شدت دھر کر اسے لمحے میں جلا کر راکھ کرنا نہ بھولا جس پر وریشہ نے خونخوار آنکھوں سے اسکا ہنستا چہرہ دیکھا جو بڑے مزے سے وریشہ سے فاصلہ بناتا دراخلی دروازے کی جانب بڑھا۔

"اب انتظار کرنا اس قیامت کا، اگلی بار تم بنا میری ایک بھی دستک سنے میرے لیے دروازہ کھولو گی وریشہ یوسف زئی"

آنکھوں میں دلکش خمار بھرتا وہ دل ہی دل میں اس لڑکی پر اسم محبت پھونکتا اسکی جانب ہاتھ ہلاتا دیکھتے ہی دیکھتے گھر سے نکل گیا جبکہ وریشہ یوسف زئی نے ٹرانس کی سی کیفیت سے جھٹکے سے نکل کر اپنی گال کو ہاتھ بڑھائے چھوا تو اب تک اس شدت پسندی کے باعث حاوی ہوتی حدت برقرار تھی۔

آج وہ وریشہ یوسف زئی پر خود کو پھونک کر گیا تھا کیونکہ شہیر مجتبی جیسا دو نمبر آدمی، واقعی اس لڑکی کی جانب لپک پڑا تھا۔

دل کی ساری بے اختیاریوں اور شدتوں سمیت۔۔۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اچھے تصورات کی نیلی ٹھندی میٹھی گھاس پہ سونے والی وہ لڑکی یکدم ہی اسکے دور جا بسنے پر بوکھلا گئی تھی، جب جب حال اور ماضی گڈمڈ ہوتا اسکے ذہن میں اذیت ناچتی، تکلیف گھومتی، اور درد سر لگا کر گیت گاتا۔

"یہاں آئیں، کہاں گم ہیں۔ اتنی دیر ڈریس چینج کرنے میں کون لگاتا ہے"

وہ بولائی سی آہستہ قدم اٹھاتی باہر آئی تو اپنی جگہ سے اٹھتا میثم اسکی کھوئی آنکھیں دیکھتا قریب چلا آیا جو پھر سے اپنے دماغ میں بھری تلخ حقیقت کی کھڑکی بڑے زور دار جھٹکے سے کھول چکی تھی۔

"تم برے ہو میثم، تم نے میرا ہر موسم تاریک کر دیا۔ ت۔۔تمہیں پتا ہے اندر سب ہنس رہے تھے"

وہ یوں بدحواس سی بولی کے اول تو میثم سر تا پیر گھوم گیا مگر پھر وہ خود ہی اس کی آنکھوں میں اپنی اذیت سے بھری آنکھیں گاڑے قریب آئی۔

"ہمارے لمحے، لمس، شدتیں، اور مم۔۔محبت کے سارے حرف"

وہ تلخ ہوتی ایک بار پھر ذہنی رو بھٹک جانے پر خود سے بے خود ہوئی اور اس لڑکی کے لہجے کی تیز دھوپ کی ظالم کرنیں میثم کا وجود جھلسانے لگیں۔

"پاگل ہو گئی ہیں کیا اشنال؟"

وہ اسے پہلووں سے تھامے سخت لہجے میں بولا جو آگے سے اذیت سے سر ہلاتی میثم کا دل مزید کاٹ کر رکھ گئی۔

"ہاں! وہ سب بھی مجھے پاگل کہہ رہے تھے۔ تم مجھ سے بہت دور چلے گیے م۔یثم اور مم۔۔میں پاگل ہو گئی۔ تم نے مجھے چھوڑ دیا، اور تم نے مجھے واپس پانے کے لیے کچھ بھی ن۔۔نہیں کیا۔۔۔۔تم سچ میں اب مجھے مار دینا چاہتے ہو ناں؟"

وہ یکدم ہی بے قابو ہوتی اس پہلے سے دکھ کی بھٹی میں جلتے میثم سے یہ سارے شکوے کرتی رونے لگی، کمرے میں اسکی سسکیاں ابھرنے لگی تھیں۔

وہ جسے غم گسار سمجھتی تھی وہ اسکے غم کی تمازت سے خود جل گیا تھا۔

"میں آپکو واپس پانے کی کوشش تو تب کروں ناں صنم کہ اگر آپ کو واقعی کسی نے مجھ سے چھینا ہو، کیوں کر رہی ہیں میرے ساتھ ایسا ظلم۔ آپ چاہتی ہیں آپکے میثم کا حوصلہ جواب دے جائے؟"

وہ اسے آہستگی سے خود میں سمیٹے حصار میں لیے اسکے سر پر بوسہ دیتا جتنے بھی حوصلے سے بول لیتا، آواز کی لرزش تو کبھی نہ چھپتی۔

"ناں۔۔۔"

وہ اسکے حصار میں لپٹی بہت آہستگی سے بولی تھی جبکے میثم اسکے کھلے بال سہلاتا واپس سامنے لایا جسکی آنکھیں سرخائی گھل جانے پر کانچ کی معلوم ہو رہی تھیں۔

"آپ میری بیوی ہیں، نہ تو ہماری طلاق ہوئی نہ آپکا شہیر سے نکاح۔۔۔۔اور یہ حقیقت سب کے سامنے مجھے اسی طرح لانی ہے جیسے یہ ونی کا جھوٹا فیصلہ ہوا تھا۔ مجھے بس چند دن دے دیں، میں ایک بار آپکو پورے حق سے اپنے پاس لے جاوں پھر آپکی ہر تکلیف دور کر دوں گا۔ میں جانتا ہوں میری جان! آپ لاعلمی اور ذہنی اذیت کے بوجھ سے بہت ہلکان ہیں اور میں آپ سے صرف جبر کے چند دن مزید مانگتا ہوں"

وہ اسکے دہکتے گالوں کے سنگ ہتھیلوں کو جوڑتا اسکی خود پر جمی ویران آنکھوں میں جھانک کر تاسف کے سنگ ہمکلام تھا جسے کچھ بھی سنائی دینا بند ہو گیا، رہ گئی تو وہ دوری جس پر اسے میثم کھڑا دیکھائی دے رہا تھا۔

"دیں گی چند دن؟"

اسکو خاموش دیکھ کر میثم  نے اپنا مطالبہ نرمی سے دہرایا جس پر وہ غائب دماغی سے سر ہلا گئی۔

"آپکو چھو کر گزرتی مہکتی ہوا میں سانس لیتا ہوں صنم! آپکے آنسووں کی حدت بکھیرتی ہوا کے حبس میں یہی سانس گھٹ جاتا ہے۔ مجھ پر اپنا یقین قائم رکھیں، رکھیں گی ناں؟"

گھمبیر بوجھل لہجہ لیے میثم نے اسکی یکدم جھک جاتی آنکھوں کو اپنے چہرے پر مرکوز کرنے کو اسکا چہرہ اوپر اٹھایا تو اس بار بھی وہ بنا سوال جانے ہی سر ہلا گئی۔

"اب دوبارہ خود کو یہ بیکار تکلیف دیں گی تو خود کے ساتھ بہت برا کروں گا، جب آپ خود کو مجھ سے الگ کہتی ہیں ، سمجھتی ہیں اشنال تو یہ پہاڑ سا میثم ریزہ ریزہ ہونے لگتا ہے۔ مجھے اتنا برا مت توڑیں کے جڑنے کے قابل نہ رہ سکوں"

وہ پھر سے کمزور پڑتے لہجے کو لاکھ مضبوط کر رہا تھا مگر ناجانے بار بار آواز ڈوب جاتی۔

"س۔۔سوری، تم ایسے پریشان مت ہو"

وہ یکدم ہی حواس بحال کرتی اپنے ملائم ہاتھوں کی پوروں سے اس بڑے گہرے امتحان میں گرے میثم کا چہرہ تھامے ہلکان سی ہوئے بولی۔

"آپ کرتی ہیں پریشان یار، جان نکال کر رکھ دیتی ہیں"

وہ بھی شکوہ ہونٹوں پر مچلنے سے روک نہ سکا۔

"جب جب تمہیں خود سے دور محسوس کرتی ہوں ناں میثم تو مجھے لگتا ہے سب ختم ہو گیا، ایک لمحہ بھی م۔۔مشکل ہے۔۔ بہت مشکل ہے"

وہ دھندلائی آنکھیں ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے رگڑ گئی جبکہ جس طرح اس نے یہ جملے ادا کیے، انداز ایسا تھا جیسے جان دینے لگی ہے۔

"جانتا ہوں صنم! سب جانتا ہوں۔ پلیز یہ ٹاپک کلوز کریں، ورنہ آپکی یہ تکلیف مجھ سے کچھ کروا بیٹھے گی۔۔۔ بیٹھیں یہاں اور آواز بھی نہ آئے اب"

اسکی ہر بات مان کر بھی رد کرتا وہ اسے بیٹھاتا خود واپس پلٹا اور کبرڈ کے نچلے خانے میں رکھی مختلف ہیلز میں سے بلیک کلاسی ہیل لیے وہ اس بولائی دیوانی کی جانب آیا جسکے نازک خالی پیر اس نے بہت پیار سے ان ہیلز میں قید کیے۔

"تھوڑا سا لپ سٹک شیڈ لائیٹ کریں ، کم ہیر۔۔۔ یہ سمجھیں کہ آپکی میرے ساتھ پہلی ڈیٹ ہے۔ اور پہلی ڈیٹ میں اتنا ڈراک شیڈ ویسے تو چل جاتا ہے لیکن ساتھ اگر آپکا شوہر ہوگا تو زرا نقصان ہو جائے گا"

ہاتھ بڑھا کر اٹھاتا وہ اس زندگی سے اکتائی لڑکی کو سنگار میز تک لایا ، اسے آئینے کے سامنے کھڑا کیے خود اسے حصار کر اسکے کندھے سے مسکراتے ہوئے ٹھوڑی ٹیک لی جو گم سم سی صرف میثم کو دیکھنے میں محو تھی۔

"تم تو دوست تھے ناں میثم، اب کیا بوائے فرینڈ بن گئے ہو؟"

سامنے رکھے ٹشو باکس سے ٹشو لے کر اپنے بالائی لب کو رگڑتی وہ پھر سے ازلی معصومیت سے سوال کر گئی جس پر میثم نے بے بس سی مسکراہٹ اپنے دانتوں تلے دبا لی۔

اس لڑکی کو باقی دنیا کا ہر معاملہ از بر تھا سوائے اس کے کہ وہ لڑکی اسکی بیوی اب تک ہے۔

بچارا اس پر کوفت سے اس وقت تلملا ہی سکا۔

"مجھ سے زیادہ فاسٹ تو آپ چل رہی ہیں، کل تک تو دوست بھی منظور نہیں تھا اور اب سیدھا بوائے فرینڈ۔۔۔کتنی تیز ہیں آپ صنم، محترمہ کا دماغ گھوما ضرور ہے پر اپنے مطلب کے لیے خوب چل رہا ہے"

گرفت زرا سی مضبوط کرتا وہ اپنی بیرڈ والی گال اشنال کی گال سے رب کرتا جو منہ ہی منہ میں اسے گھور کر بڑبڑایا وہ تمام تر لاعملی اور غائب دماغی کے بھی اس گدگداتے لمس پر مسکائی۔

"م۔۔میں نے بس پوچھا ہے، اتنا لائیٹ ٹھیک ہے شیڈ۔۔۔اور بال ۔۔۔وہ کھلے چھوڑ دوں میثم؟"

اول جملہ جتا کر کہتی وہ ساتھ معصومیت سے میثم کے جذبات سے کھیلتی اسکی جانب پلٹ کر پوچھنے لگی جس پر وہ وہ اسکے کھلے بال کچھ کمر پر جبکہ کچھ کندھوں پر پھیلاتا اسکے ہونٹوں کے مدھم پڑتے رنگ سے دانستہ نظر بجاتا سر ہلا گیا یعنی مطلب تھا ہاں۔

"اب چلیں یا کوئی اور آگ لگانی باقی ہے میری جان؟ آپ کے ساتھ میرا لانگ ڈرائیونگ کا پلین آپ نے اس معصومیت میں ہی تباہ کر دینا ہے اشنال"

نہایت جبر سے وہ خود کو بے خود ہونے سے روکتا خاصے مسکین انداز میں بولا جو یوں مسکرائی جیسے کچھ دیر پہلے اسکے اندر کی چڑئیل روئی ہو۔

"چلو! لیکن دور ہی رہنا۔ تم مجھے مس نہیں کرتے تو میں بھی پاس آنے نہیں دوں گی۔ تم لیٹ آئے تھے ناں، بدلہ لوں گی"

گویا اس لڑکی کا یکدم جان لینا اور پھر اگلے ہی لمحے نارمل ہو جانا ضرار کی تفشیش لمحہ بہ لمحہ بڑھا چکا تھا۔

"بدلہ تو وہ ہوگا جو آپکے حواس اور یاداشت لوٹنے پر میثم آپ سے لے گا صنم! بڑا رول رہی ہیں۔مستقبل میں خیر نہیں آپکی"

اسکی معصوم سی دھمکی پر وہ مسکراتا من ہی من میں بھیانک منصوبہ بندیاں کیے ،محترمہ کو باہر کا راستہ دیتا خود بھی اسکے باہر نکلتے ہی پیچھے ہی باہر نکل گیا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"کس کی اجازت سے تم نے یہ خیانت کی منحوس انسان، تمہیں اب میں بتاوں گی کہ کنو بائی سے الجھنے کی کیا سزا ہے۔ مجھے لگا تھا تمہارے اندر زرا سی انسانیت باقی ہے مگر تم تو ہو ہی حیوان۔ فورا سے پہلے مالنی کو بلاو۔۔میں زونی کو تو لے آوں گی لیکن مالنی پر تمہارا سایہ تک پڑنے نہیں دوں گی"

وہ جو زونی اور مالنی سے ملنے ایک بار پھر ایچ بی کے گھر آئی تھی، زونی کا خانم حویلی جانے کا سن کر اسکے تن من میں آگ دہک اٹھی جبکہ وہ حلق کے بل دھاڑتی پرسکون سے بیٹھے ہاشم پر چلائی جسکے گویا کان پر جوں تک نہ رینگی۔

"تمہاری دونوں لاڈلیاں اپنی اپنی ٹھیک جگہ موجود ہیں لہذا دوبارہ ان دو پر اپنی بلاوجہ کی حاکمیت جتانے کی کوشش بھی مت کرنا۔ زونین پر میرا اختیار ہے اور اسی اختیار کو استعمال میں لاتے ہوئے میں نے اسے مشارب کے ساتھ بھیج دیا۔ رہی بات مالنی کی تو میں اسے اجازت نہیں دوں گا کے وہ تمہارے ساتھ جائے"

کنزا کے کاٹ کھاتے پھنکارتے انداز کے برعکس ہاشم خاصا پرسکون اور سنجیدہ تھا اور اسکی یہ باتیں گویا کنزا کے تلووں لگیں اور سر پر بجھیں۔

"تم مالنی کو اجازت دینے والے ہوتے کون ہو ؟ ہاں۔ اوقات کیا ہے تمہاری۔؟"

وہ زہر میں بجھے الفاظ انڈیلتی اس کی باز پرس کرنے پر اتری جبکہ ہاشم نے بڑے تحمل سے یہ سوال سنا اور اٹھ کر کھڑا ہوتے ہی عین کنزا کے روبرو آن جما۔

"میں آج سے اسکا سب کچھ ہوں، تمہیں اپنی شادی پر جلد انوائیٹ کروں گا۔ امید ہے تم اس تقریب میں شامل ہو کر مجھے مزید خاک ضرور کرو گی۔ رہی بات مالنی کی تو تمہاری وہ بیٹی مکمل طور پر مجھ پر فدا ہو چکی ہے۔ اچھا ہے تمہاری طرح وہ ہر ایرے غیرے کا بستر اور رات سجانے سے بچ جائے گی، تمہاری طرح جذبوں اور رشتوں کی سوداگر نہیں بنے گی"

وہ آنکھوں میں نفرت سی سمیٹ لیتا کنزا کو ایک بار پھر جلا کر راکھ کر رہا تھا جس نے بہت مشکل سے اپنا اٹھتا ہاتھ روکا۔

"ہاہا بہت خوب! یہ نشتر رہ گیا تھا ، اچھا کیا مار دیا۔ کم ازکم کنو بائی اس محبت نامی خرافات سے پوری بے یقین تو ہو گئی۔

باقی تمہیں یہ کھیل بہت مہنگا پڑے گا ہاشم۔ زونین کو مشارب سے اور مالنی کو تم سے دور کرنے کی اب میں آخری سانس تک جدوجہد کروں گی بھلے وہ دونوں برباد ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ اور تم جانتے ہو کنو بائی جیسی سفاک عورت جب کسی معاملے کے پیچھے پڑ جائے تو کسی کو سکھ کا سانس نہیں آتا۔

بچا لینا جتنا بچا سکتے ہو، اب تمہیں میں تمہاری ہر بدزبانی کی تفصیلا سزا دوں گی جو ناجانے کیوں اب دے نہ پائی تھی"

کنزا کی آنکھوں میں ہیبت ناک سرخی اور اسکا لہجہ استہزاء بکھیرتا ہاشم کو متفکر ضرور کر چکا تھا مگر وہ اس عورت کی ہر رگ سے واقف ہونے کے علاوہ اسکا ہر طرح کا ذہر زائل کرنا سیکھ چکا تھا۔

"ٹھیک ہے، جو کرنا ہے کرو۔ تمہیں بھی دیکھ لوں گا اور تمہاری منصوبہ بندی بھی خاک میں ملاوں گا۔ اب جا سکتی ہو تم، جب تک مالنی اور اپنے نکاح پر انوائیٹ نہ کروں تب تک یہاں کا رخ کرنے کی ہرگز زحمت مت کرنا"

وہ بھی جیسے حساب بے باک کرتا تلخ اور متنفر ہوا اور کنزا اسکی آنکھوں میں پنپتی بغاوت پر دو حرف بھیجتی پیر پٹخ کر کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ اسکے جانے کے بعد ہاشم نے خود کو واپس کرسی پر لڑھکایا۔

"کبھی اس محبت کو تمہارے لیے دکھ نہ بناتا کنزا لیکن تم نے میرے دل پر ایسے ایسے گہرے قہر ڈھائے ہیں کہ مجھے یقین ہے تمہارے مرنے پر ہاشم بزدار کی زبان پر مغفرت کی دعا تک نہ آئے گی۔ آدھا تمہیں تمہارے باپ، بھائی اور شوہر نے برباد کیا لیکن آدھا تم نے خود کو اپنے ہاتھوں سے کر لیا"

وہ تمام تر نفرت کے بھی تکلیف میں تھا، ماضی دردناک تھا۔

اس بھڑکتی آگ میں جلنے کے علاوہ بھی تو اس عورت نے اسے جلایا تھا، مجبورا، ضد میں، بددماغی میں، پاگل پن میں، نہ کیا تو فقط اس نے ہاشم بزدار کا اعتبار نہ کیا۔

یہ زیادہ لمبی کہانی نہ تھی، لگ بھگ آٹھ سال پہلے کی بات تھی جب کنزا کو ہاشم کی موت کی خبر کے دو سال بعد عزیز خان کے توسط سے اسکی زندگی بچ جانے کی خبر ملی۔

عزیز ہمیشہ سے کنزا سے رابطے میں رہے تھے، وہ اسے اپنی بزدلی کے باعث بھلے اس کوٹھے جیسی غلاظت سے نکال نہ سکے ہوں مگر ہمیشہ کنزا کی خیریت پوچھتے رہے تھے، مگر کنزا کا انھیں کچھ خاطر خواہ جواب نہ ملتا، وہ جس طرح اجڑی تھی، اسے لوگوں کی نرمی اور محبت بھی دوغلا پن لگتا، اسے بھی عزیز خان سے نہ کوئی امید تھی نہ اس نے کبھی بچاو کے لیے اس بھائی سے مدد مانگ کر اسے مصیبت میں پھنسایا تھا۔

لیکن ہاشم کی موت نے کنزا کو بہت حد تک بے حس بنا دیا تھا، وہ زندہ تھا اور وہ جانتی تھی اگر اس نے اسکی زندگی سے کوئی بھی فیض پانے کی کوشش کی تو اسکا باپ اس سمیت اگلی بار ہاشم کو اپنے ہاتھوں سے جلائے گا۔

ہاشم دو سال بعد واپس کنزا کی سمت لوٹا، جس نے اسکا ہاتھ تھامنے سے انکار کیا تھا وہ ایک بار پھر اس کی چوکھٹ پر اسے بتانے گیا کہ وہ اب بھی اسکے سر کی چھاوں بننے پر راضی ہے مگر کنزا تب تک دھندا اور مافیا کوئین بن چکی تھی، جس کے اندر صرف کاروباری وصف تھے اور ہاشم اسکی جان کسی صورت نہ بخش رہا تھا۔

وہ کیسے برداشت کرتا کہ اسکی محبت یوں بے مول ہوتی۔

تبھی اس نے ہاشم کے دل میں اپنے لیے موجود رہی سہی محبت ختم کرنے کے لیے ایک گھناونا کھیل کھیلا۔

اپنے ہی ایک کوٹھے کی لڑکی کو اس نے ہاشم کے پیچھے لگایا جو رازداری سے اسکے گھر پہنچی ، اسکے کھانے میں ملازم پہلے ہی ایک نشہ آوار دوا ملا چکی تھی جسکے باعث اس لڑکی نے ہاشم کی غفلت کا فائدہ اٹھائے قربت اختیار کرنی چاہی مگر اسی وقت کنزا نے ان دونوں کو گھر جا کر ڈرامہ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا، اور ہاشم کو زلیل کر کے آئی کے وہ اس سے محبت نہیں کرتا ورنہ کسی اور کی طرف نہ لپکتا۔

لیکن ہاشم اس سب سے بالکل بے خبر تھا، کنزا نے اسے دھمکایا کہ اگر وہ اب بھی باز نہ آیا تو وہ اسکا نیا نیا بنا نام برباد کر دے گی جو ایچ بی کے نام سے بہت تیزی سے مقبول ہو رہا تھا۔

ہاشم بے قصور تھا تبھی اس نے اپنے تئیں اسی اپنے گھر میں پائی جاتی لڑکی کو تلاش کرنا شروع کروایا یہ جاننے کے لیے کہ وہ کس کے کہنے پر اس کے کمرے تک پہنچی۔

چونکہ باقی سب کے لیے تو ہاشم مرا تھا تبھی یہ چال کسی دشمن کی ہوتی، یہ بھی اسکا دماغ ماننے پر راضی نہ تھا۔

بس ہاشم نے اسی دن سے اس لڑکی کی تلاش شروع کی اور پانچ ماہ کی طویل تلاش کے بعد آخر کار اسے وہ لڑکی ایک دن کسی مال میں نظر آئی اور ہاشم نے اسکا پیچھا کیے اسے پکڑا اور دھمکایا کہ اگر وہ اسے سچ نہیں بتائے گی تو وہ اس پر حراسمٹ کا کیس کروا دے گا۔

اس لڑکی نے خوفزدہ ہوئے کنزا کی تمام چال بے نقاب کر دی، کہ کنزا شادی جیسے کسی بندھن اور محبت جیسی کسی زنجیر کو ہاشم کے سنگ باندھنا نہیں چاہتی تھی تبھی اس نے ہاشم سے جان چھڑوانے کے لیے یہ اتنا بڑا جال بچھایا۔

وہ دن تھا اور آج کا دن، اس شخص نے خود کو واپس کنزا کی حسرت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر فرق یہ تھا کہ اس سفاک حرکت کے بعد وہ ہاشم بزدار کے دل سے گر گئی، ہمیشہ کے لیے نفرت کے قابل بن کر رہ گئی اور ہاشم بزدار نے اسے ہر ہر سامنے پر کنو بائی کی اوقات یاد دلائی۔

یہاں قصور کنزا کا بھی نہ تھا، وہ جس ماحول کا حصہ بن گئی تھی اسکا سمجھ بوجھ سے ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔

ایسی عورت جو باپ ، بھائی اور شوہر کی درندگی کا شکار ہو کر زمانے کی ٹھوکروں پر آن گری تھی، اسے کسی مرد پر بھروسہ نہیں رہا تھا تبھی اس نے خود کے ساتھ سب سے مخلص ہوتے ہاشم بزدار تک کو خود سے نفرت پر اکسا دیا۔

وقت کے ساتھ ایچ بی طاقتور ہوتا گیا اور کنزا بھی کنو بائی بن کر کئی دھندے چلانے لگی، اس نے محبت کا ہاتھ جھٹک کر وہ زندگی چنی تھی جو اسکے مطابق اسکی بقا تھی۔

شریفانہ زندگی گزار کر وہ کرتی بھی کیا، تمام عمر اسکے بقول اسے اسے ایک کوٹھے والی کا لقب ہی سننا تھا، اس نے سرے سے محبت پر اعتبار ہی نہ کیا، اس نے ہاشم کو ایک موقع تک نہ دیا ، جو شخص اسکے لیے آگ میں کودا تھا، وہ گر اسکا ہاتھ تھام لیتی تو وہ اس پر لگے ہر داغ کو بھی ضرور مٹا دیتا لیکن ہاشم کو اصل تکلیف تو اسی بات کی تھی کہ اس ظالم عورت نے ہر دروازہ بند کر دیا تھا۔

آج اس عورت کی ساری سفاکیاں ایک ایک کر کے اسے یاد آئیں تو نفرت بڑھ گئی، اسکے بقول کنزا ایک ایسی عورت تھی جسکا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا تھا۔

اس عورت نے اسی مہربان ہاشم بزدار کے کردار پر بات لائی تھی اور یہاں آکر چوہدری ہاشم بزدار نے اپنے دل پر اس عورت کو ممنوع کیا تھا۔

تاحیات کے لیے ممنوع۔

"سر آپکی فلائیٹ کا وقت ہو گیا"

اندھیرے میں بیٹھے اس شخص کو کسی مانوس آواز نے واپس حقیقت میں لایا اور وہ بیزارئیت کے سنگ اٹھا اور گہرا سانس بھرتا اس کمرے سے باہر نکل گیا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ہم نہیں جائیں گے ، نانا جان ہمیں دیکھنا تک پسند نہیں کرتے اور آپ۔۔۔"

وہ ایک گھنٹے تک کسی کام سے باہر گیا تھا تبھی واپس آتے ہی زونی کو اپنے ساتھ ڈنر کے لیے نیچے لایا، وہ سڑھیوں پر ہی رک جاتی ڈائنگ پر براجمان خاقان خان کو دیکھتی مشارب کا ہاتھ کھینچتے گھبرائی بولی جو جوابا سرد آنکھوں سے اسے دیکھتا رکا۔

"اب آپ مجھے ہلکا لے رہی ہیں لیڈی، ساتھ ہوں آپکے۔ جسکو آپکے وہاں ہونے سے مسئلہ ہوا وہ خود جا کر اپنا کھانا روم میں منگوا لے گا۔ آئیے"

رعب اور نرمی کے سنگ وہ ہنوز اسکا ہاتھ پکڑتا ڈائنگ تک پہنچا جہاں ان دونوں کو دیکھ کر خاقان خان اور زمان خان نے کدورت بھری نگاہ ڈالی مگر مشارب انکی نظروں کو یکسر نظر انداز کرتا ناصرف کرسی گھسیٹ کر زونی کے لیے جگہ بنائی بلکہ ساتھ ہی وہ خود بھی کرسی سنبھالے بیٹھا۔

اسکی یہ حرکت اک پل وہاں سکتہ طاری کر چکی تھی۔

"میرا کھانا میرے کمرے میں لے آو ؟"

مشارب اور زونی پر بے رحم نظر ڈالتے ہی خاقان خان اپنی جگہ سے اٹھتا ، کچھ فاصلے پر کھڑی ملازمہ سے مخاطب ہوا جبکہ بابا کے کھانا یوں چھوڑ کر جانے پر زمان خان نے غصے سے بھری نظر مشارب کی ڈھیٹائی پر ڈالی اور اٹھا۔

"بابا سائیں، آپکو جانے کی ضرورت نہیں۔ اٹھیں مشارب، اور لے جائیں اس لڑکی کو۔ اگر آپکی اور اس لڑکی کی وجہ سے بابا سائیں کو بے چینی لاحق ہوئی یا وہ کسی تکلیف سے گزرے تو کھڑے کھڑے ہم آپکو اس حویلی سے باہر نکال دیں گے"

زمان خان کا اکھڑے لہجے میں مشارب کو کہنا اسے اب بھی متاثر نہ کر سکا جبکہ فرخانہ خانم اب پھر سے یہاں تماشہ لگنے کے خوف سے پریشان ہوئیں۔

"لیکن یہ حویلی تو میرے نام ہے بابا سائیں، اس خانم حویلی کی سردارنی نے بہت پہلے میرے نام لگا دیا ہے۔ سو اگر کسی کو جانے کا بہت اشتیاق ہے تو وہ رہا راستہ۔ لیکن میں اور زونین نہ تو اپنا کوئی حق چھوڑیں گے نہ اپنی جگہ۔ آپکے بابا سائیں کی بے چینی تو اب لگتا ہے طویل ہونے والی ہے، کیوں سردار خاقان خان؟"

وہ اس کشیدگی بھری سچویشن میں اس درجہ استہزایہ ہوئے بولا کہ ایک لمحہ تو سبھی پر مشارب کے لفظ سناٹا اتار گئے جبکہ خود زونی حیرت سے چہرہ پھیرے مشارب کو اس بے باکی پر دیکھنے لگی۔

سردار خاقان اس وقت اچھے موڈ میں تھا تبھی مشارب پر صرف ایک کینہ توز  نظر ہی ڈال پایا جبکہ اسکے بعد اس نے اپنے سامنے شرمندہ ہوئے کھڑے زمان خان پر نظر ڈالی جو اس شخص کو زمین میں گاڑھ گئی۔

"مجھے مشارب سے کوئی گلہ نہیں، پر تم نے اسکی یہ تربیت کر کے اپنا مقام میری نظروں میں گرا دیا ہے زمان خان۔ میں چاہتا تھا اپنے علاقے کا اگلا سرپنچ تمہیں بناوں پر اب وصیت میں کسی فقیر کا نام لکھ جاوں گا پر اپنی کسی اولاد کو یہ سرداری نہیں دوں گا۔ تم سب لوگوں نے میرے نام کو کالک لگائی ہے، افسوس ہے تم لوگوں کی منحوس شکلوں پر۔

اور تم مشارب ! زیادہ اڑنا تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں بچے، لہذا آئیندہ اپنی زبان میرے آگے چلانے سے پہلے یہ سوچ لینا کے تمہاری اس نام نہاد بیوی کا تمہارے علاوہ اب اور کوئی محافظ نہیں بچا۔"

اول زہریلے لہجے میں کہتا خاقان ، زمان خان پر برسا جبکہ پھر عجیب سی طنزیہ روش اختیار کیے وہ مشارب زمان خان کی جانب پلٹ کر غرایا جس پر خوف کی لہر زونین کی آنکھوں میں بیدار ہوئی جبکہ مشارب نے بہت مشکل سے جبڑے بھینچ کر دادا سائیں کی یہ دھمکی سنی۔

اس سے پہلے کہ وہ اٹھ کر اس فرعون صفت کی کوئی بے ادبی کر گزرتا، حویلی کے داخلی دروازے کی جانب بلند ہوتے شور پر وہ سب اس جانب متوجہ ہوئے۔

جہاں حویلی کا چوکیدار، ہانپتا ہوا نعیم نامی حراساں ہو کر ساتھ آتے عزئز خان کے ڈرائیور کے سنگ اجازت ملتے ہی اندر دوڑے۔

سب ہی اپنی اپنی جگہ چھوڑے اٹھ چکے تھے اور اپنا منصوبہ اس قدر جلدی پورا ہونے پر خاقان خان کی آنکھوں میں چمک اتری

"کیا ہوا ہے نعیم؟ سب خیریت ہے؟"

نعیم کو اتنے سرد موسم میں پسینے میں شرابور اور خوف سے کپکپاہٹ میں لپٹا دیکھتے زمان خان فورا سے اسکی جانب لپکے جسکی آنکھوں کی پتلیاں اپنی جگہ ٹھہری ہوئی تھیں۔

"ن۔۔نہیں چھوٹے سردار! وہ ع۔۔عزیز خان کو ضرار نے قتل کر دیا۔۔۔مم۔۔میں بہت مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگا"

اس کے منہ سے نکلنے کو بے تاب الفاظ ان قہر ناک انکشاف کے سنگ نکلیں گے یہ وہاں کھڑے کسی فرد نے نہ سوچا تھا جبکہ خاقان خان منصوعی تکلیف کے سنگ کسی زخمی درندے کی طرح لپک کر اس ڈرائیور کا گریبان دبوچ گیا ، باقی سبکے پیروں تلے سے تو زمین ایک ساتھ سرک چکی تھی، سب کے چہرے لٹھے کی مانند سفید پڑ گئے۔

"کیا بکواس کر رہا ہے کمبخت؟"

سردار خاقان کی آواز حویلی کے در و دیوار میں پھنکار کر گونجی مگر وہ روتا سسکتا اس قتل کا واحد گواہ خوف سے کانپتا ہوا اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔

خود فرخانہ خانم نے بمشکل کرسی کا سہارہ لیا، زمان خان نے بے ساختہ سینہ جکڑا جبکہ زونی نے بے اختیار مشارب کی بازو تھامی جو خود زونی کی جانب تسلی آمیز نظر ڈالتا خود بھی اس روتے ڈرے ڈرائیور تک پہنچا۔

اسے اسکی بات پر رتی برابر یقین نہ تھا۔

"کیا بکواس کر رہے ہیں آپ؟ ضرار ایسا کیوں کرے گا بھلا۔ تم نے نشہ کیا ہے کیا"

مشارب نے اسکی جانب دیکھ کر دماغ گھوم جانے پر پوچھا مگر وہ ہنوز ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھا کہ ضرار نے عزیز خان کا قتل کیا ہے۔

خاقان خان نے اپنے کئی لوگ اس ڈرائیور کی بتائی جگہ پر بھیجے ساتھ ہی اپنے لوگوں کو ضرار کی تلاش پر لگایا کے وہ جہاں بھی ہے اسے گھسیٹ کر لایا جائے۔

خود ضرار دوسری جانب اشنال کو کچھ دیر گمائے واپس ڈراپ کرتا جبل زاد کی بتائی اہم معلومات پر وہیں سے واپس نکل گیا اور خود خدیخہ خانم نے بھی اسکا چلے جانا تعجب سے نوٹ کیا۔

جبل زاد کو شہیر اور وریشہ کے نکاح کی خبر ملی تھی تبھی ضرار اجلت میں نکلا مگر شاید یہی اسکی زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔

وہیں کنزا سے ملاقات کے فورا بعد ہاشم کی فلائیٹ تھی، آخری سرجری کے لیے اسے اوٹ آف کنٹری جانا تھا، اپنے لوگوں کو وہ محترک تو کر کے گیا تھا مگر اسے زرا اندازہ نہ تھا کہ خاقان خان اس بار اسکے سب سے اہم حصے پر وار کرے گا۔

عزیز خان کی تلاش میں جاتے کھوجی، اور کئی لوگوں کو صبح سحر تک عزیز خان کی گاڑی کا سراغ مل چکا تھا، اور پھر کھرے دیکھتے ہوئے کھوجیوں کو اسی کھائی کے پاس ایک جلی ہوئی لاش ملی۔

جس کے ہاتھ میں آدھی جل چکی انگوٹھیاں عزیز خان کی تھیں جبکہ اسکے پاس آدھا جلا عزیز خان کا فون بھی ملا۔

جلد از جلد عزیز خان کی لاش کو حویلی پہنچایا گیا، پورے علاقے میں یہ خبر صبح تک واقعی جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔

وہیں جب یہ خبر بزدار حویلی پہنچی تو بزدار عالم کا تو دل کانپ گیا، ضرار ایسی حرکت نہیں کر سکتا تھا تبھی وہ بہت خوفزدہ تھے کیونکہ یہ صاف صاف انکے پوتے کے خلاف چلی گئی چال تھی۔

ضرار کو فون ملوائے مگر اسکا نمبر مسلسل ان ریچ ایبل تھا۔

خدیخہ خانم، اشنال اور گلالئی تک قتل کی خبر ابھی نہیں پہنچی تھی مگر خانم حویلی سے ایک ڈرائیور انکو صبح صبح لینے پہنچا یہ کہہ کر کے جانا بہت اہم ہے اور وہ تینوں ہی واپسی کے لیے اسکے ساتھ روانہ ہو گئے، عزیز خان کے رات نہ پہنچنے پر ویسے ہی خدیخہ خانم بہت تکلیف اور خوف کا شکار تھیں۔

وہیں خود کے خلاف چلتی سازش سے بے خبر وہ سیدھا شہیر کے گودام آیا تھا جہاں جبل زاد اسکے گردن سے دبوچتا ہوا باہر نکال کر لایا۔

ضرار نے آو دیکھا نہ تاو، کھینچ کر شہیر کے منہ پر تماچا رسید کیا جبکہ اسے گرنے بھی نہ دیا۔

"کیا کرتا پھر رہا ہے تو خبیث! کیسے کیا تو نے وریشہ سے نکاح؟ بول"

ضرار یوں تھا جیسے آج شہیر کی یہیں قبر کھود دینا چاہتا ہو۔

"ہاہا! کیوں تجھے اس معاملے میں بھی تکلیف ہے کیا۔"

شہیر کا تپا دینے والا چہرہ گویا ضرار کو جبڑے بھینچنے پر مجبور کر گیا تبھی اس نے ایک بار پھر اس منحوس کو پیٹ ڈالا۔

"جو پوچھا ہے وہ بتا شہیر، تیرے اندر غیرت باقی ہے یا سب مر گئی؟ ولی کو اگر تیری اس کمینی حرکت کا پتا چلا تو وہ تیری پہلے یہی گندی ہنسی گل کرے گا۔ سچ بتا وہ اتنی سمجھدار لڑکی تیرے جیسے دھوکے باز کے کہنے میں کیسے آئی؟ زبردستی نکاح کیا ہے؟"

ضرار کا دماغ اس وقت آتش فشاں بنا تھا جبکہ شہیر کا ہنستا چہرہ مانو اسے اور آگ لگا گیا۔

"جیسے بھی نکاح کیا ہو، تو دور رہ ورنہ اپنے صنم کے اجڑنے پر ماتم بھی نہیں کر سکے گا۔ مجھے حیرت ہے کہ یہاں آکر مجھ سے اشنال کے لیے لڑنے کے بجائے تو وریشہ کے لیے لڑ رہا ہے۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تو نے واقعی اشنال عزیز کے لیے دل چھوڑ دیا ہے"

شہیر کی لگائی بجھائی گویا ضرار کی رگوں میں شرارے دوڑا گئی تھی، وہ اسے اس بار زور دار طریقے سے دیوار سے پٹختے ہی اپنا ہاتھ اسکی گردن پر اس بری طرح دبا گیا کہ شہیر کو سانس لینے میں وقتی دقت پیش آنے لگی اور اسکا چہرہ سرخ پڑا۔

"تیری اوقات نہیں کہ تو اشنال عزیز کا نام بھی لے سکے، بہت جلد تجھے بتاوں گا اپنی خاموشی کی وجہ۔ لیکن اس سے پہلے مجھے سن"

ضرار اسکی منحوس ہنسی دیکھ کر لب و لہجے میں محسوس کن سختی شامل کرتا اسے وارننگ دیتے ہوئے لمحہ بھر رکا۔

"جی جی حکم کریں رقیب صاحب"

وہ جلتے پر نمک چھڑکتا ڈھیٹ بنا جس پر ضرار نے اسکی گردن کے گرد لپیٹا ہاتھ مزید جکڑا۔

"ہیر کو تیری سفاکی اور خودغرضی کھا گئی شہیر، جو تیری سرمد کے ساتھ ان بن ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ نازلی کو عنقریب تیری حفاظت کھا جائے گی جبکہ تو نے جو یہ تیسری راہ چنی ہے وریشہ والی اسے تیری عبرت کھائے گی۔ کچھ غیرت کھا لے شہیر مجتبی! مجھے ہرانے کے چکروں میں ایسا نہ ہو ایک دن تجھے شکست فاش ہو جائے۔ ابھی بھی وقت ہے ، ونی کے اس تماشے کو ختم کر، میں تجھ سے اپنی دشمنی یہیں ختم کر دوں گا۔ اور اگر تو وریشہ کے لیے سنجیدہ ہے تو انسان بن، وعدہ کرتا ہوں تیری مدد کروں گا"

بہت تحمل کے سنگ ضرار نے اسے پیشکش کی تھی، مگر شہیر مجبتی کسی کو یہ حق نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اسکی سزا تجویز کرے۔

اور پھر کم ازکم وہ اس انسان سے مدد نہیں لے سکتا تھا جسے ہر ہر موڑ پر اس نے سانپ کی طرح ڈسا تھا۔

"ولی نے میری واحد نیکی کو استعمال کیے مجھے اپنا غلام بنایا تھا ضرار چوہدری، تبھی سوچ لیا تھا یہ پہلی اور آخری نیکی ہے میری۔ عمر گزری ہے جرائم میں، سالی یہ شرافت تو آپن کو راس ہی نہیں۔ اور تم نے مجھے پہلے ہی بہت بار ہرا دیا ہے، مجھے اب کسی ہار کی پرواہ نہیں۔ اب میں اس سے اور تم سے شاہانہ انتقام لوں گا۔ تم دونوں کی زندگی اب شہیر کے ہاتھ میں رہے گی، رہی بات اس تیسرے راستے کی ضرار چوہدری! تو یہ واحد معاملہ ہے جس میں مجھے نہ کسی دوست کی مداخلت چاہیے نا دشمن کی۔ وہ لڑکی میں نے اپنے لیے اپنی بنائی ہے، ہاں لگے ہاتھوں ایک اور پرانا حساب چکتا ہوگا، اسکی اضافی خوشی ہے"

وہ جتنا بھی جانور بن جاتا مگر اسکے وحشی الفاظ کے اندر اسکی وریشہ کے لیے الگ سی تڑپ تو آج ضرار نے بھی محسوس کی تھی، تبھی تو اسکا مضبوط دل کانپا۔۔

"تو آخر کار تجھے ہیر کی بددعا لگ ہی گئی شہیر؟"

ضرار نے ناصرف اسکے گریبان کو چھوڑا بلکہ افسوس بھری نگاہ اس پر ڈالتا جھٹکے سے پرے دھکیلتا دو قدم دور ہوا جس نے تیزی سے آنکھیں اٹھائے ضرار کو دیکھا۔

"بددعا؟"

وہ یوں بولا جیسے پوچھ رہا ہو کہ کیا اس نے بھی بددعا دی تھی۔

"ہاں! جس درندگی کے ساتھ تم نے اسکا دل اجاڑا تھا، یہی وریشہ تمہارا اجاڑے گی تبھی حساب برابر ہوگا۔ پھر کبھی یہ مت بھولنا کہ مجھے اور میری اشنال کو الگ کرنے کے لیے تم نے اپنے بھائی کو بے دردی سے مشارب زمان جیسے جذباتی کے ہاتھوں مروا دیا۔ چلو مانا وہ کوئی نیک پارسا نہ تھا، تم سے دو نمبر آگے کا خبیث اور گھٹیا آدمی تھا مگر محبت اپنے ساتھ مزاق کرنے والے کو بڑا برا درماندہ و عاجر کرتی ہے۔ میں نے تو تم پر اپنا خون بھی معاف کیا تھا شہیر لیکن جب جب بات میرے دل کی آئے گی تو میرے دل سے تمہارے دل کے اجڑنے کی ہی بددعا نکلے گی۔۔۔۔۔"

ضرار کے ہاتھ ایک بار پھر اسکو پیٹ کر کپکپا اٹھے تھے جبکہ کانپا تو شہیر کا دل بھی تھا کہ ضرار کا ایک ایک لفظ اسکے اندر تیر کی طرح گڑھ گیا تھا۔

"چلو جبل زاد! اس کے دل پر قفل لگا دیا گیا ہے جو بدہدائیتوں پر لگتا ہے۔ اب اسے صرف محبت ہی عاجز کرے گی۔۔میرا اور اسکا حساب جلد یا بدیر اب پنچائیت میں ہی ہوگا جب اس سے میں اسی کے طریقے سے اپنا صنم آفیشیلی واپس چھین لوں گا۔۔۔۔تم مجھے ہرا کر خوش ہو لو، کہ میری از سر نو پہلی جیت عنقریب ہے"

وہ دل برا ہونے پر اس سے منہ پھیرتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑے جبل زاد سے کہتا باہر نکلا جبکہ شہیر کی بھینچی صورت پر سرسری سی نگاہ ڈالتا جبل زاد بھی سائیں کے حکم پر پیچھے ہی لپک گیا۔

"اس کے دل پر قفل لگا دیا گیا ہے جو بد ہدائیتوں پر لگتا ہے۔ اب اسے صرف محبت ہی عاجز کرے گی"

جبکہ شہیر مجتبی کے ذہن کے گنبد میں ضرار کے کہے لفظوں کی بازگشت کوڑے برساتی گونجنے لگی، اسکے دماغ کی شریانیں سکڑنے پھیلنے لگیں اور دل کے نہاں خانے سے درد سا نمودار ہوا تھا جو اسکی آنکھوں میں ویرانا سمیٹ لایا۔

"آپ نے اسے اس محبت سے روکا کیوں نہیں سائیں، ولی بھائی کی چاہت ہیں وریشہ بہن"

گاڑی تک پہنچتے جبل زاد نے تڑپ کر ضرار سے اس مہربانی کی وجہ پوچھی جس نے تمام تر کڑواہٹ اپنے اندر اتارتے رخ بدل کر جبل زاد کا کندھا جکڑا، ہلکی ہلکی سحر چاروں سوں پھیل چکی تھی پر ہر طرف اک حبس پھیلا تھا۔

"جبل زاد! محبت خواہ صحرا کی تپتی دوپہروں میں وجود میں آئے یا یخ بستہ میدانوں میں۔ ٹھٹھرتے سرد موسموں میں برف زاروں پر برف کی صورت گرے یا خبس اگلتی شاموں میں، رئیس کے دل میں پیدا ہو یا غریب کے دل میں، فقیر کرے یا چاہے بادشاہ کرے، خوبرو دلکش انسان کرے یا بدصورت، میلا شخص کر بیٹھے، کوئی بدکردار کرے یا کوئی نیکوکار کر بیٹھے، محبت محبت ہی رہتی ہے۔ اس کی نوعیت میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اس بے خود دریا کو روکنا ممکن نہیں کہ اسکا پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے"

ضرار کے تکلیف دہ انداز میں دیے جواب نے ماحول پر گھمبیر سناٹا پھیلا دیا تھا، جبل زاد کا دل اپنے سائیں کی بات پر اک سکون سے بھر گیا تھا۔

لیکن اب باری تھی اگلی قیامت کی، شاید ضرار پر آتی آخری آزمائش کا وقت ہوا چاہتا تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اگر تمہیں میری تربیت کا حق ادا کرنا ہے تو اس ایچ بی کو چھوڑ کر واپس آجاو مالنی"

پہلی وائس ریکارڈنگ آن کرنے پر کنزا کی آواز گونجتی ہوئی اسکے کانوں میں سنسنائی۔

"زونی اور تم دونوں میری امانت تھیں، تم اسکے پاس مت رہنا ، آجاو واپس میرا بچہ میں تمہیں معاف کر دوں گی۔ وہ تمہیں بھی کہیں کا نہیں چھوڑے گا"

ایک دوسری وائس ریکارڈنگ آن کرنے پر پھر سے کنزا کی آواز گونجی اور مالنی کا چہرہ زرد پڑ گیا۔

"کیا! وہ بنا ملے اور بتائے چلے گئے؟ ناٹ فئیر ماسکو"

صبح آٹھ بجے اسکی گہری نیند سے آنکھ کھلی تو عجیب سی گھٹن پر وہ کمرے سے باہر نکلی، انہی دو ملازماوں میں سے ایک کچن میں کھڑی ناشتہ بنانے میں مصروف تھی جب مالنی نے دل گھبرانے کے باعث اس سے ماسکو کا پوچھا جس پر اسے پتا چلا کہ وہ رات کی فلائیٹ سے امریکہ چلا گیا ہے۔

حیرت سے زیادہ اسے دکھ تھا، پھر کنزا کی ڈھیر ساری مس کالز پر وہ ڈری تھی کہ ممکن ہے مما کو اسکی اور زونی کی بغاوت معلوم ہو گئی تبھی وہ یہ بات ماسکو کو بتانا چاہتی تھی مگر اسے کہیں غائب ہو جاتا پائے وہ اترے چہرے کے ساتھ بولائی سی اپنے کمرے میں جانے کے بجائے ہاشم کے کمرے کی طرف بے ارادہ بڑھی۔

"کیا آپ مجھ سے دور بھاگ گئے ماسکو؟ کل تک شاید میں نے کم عقلی اور بیوقوفی کی ساری حدیں پار کر دیں لیکن رات پوری لگا کر میں نے جب اپنے رویے کو سوچا تو مجھے لگا میں آپ پر بہت برا بوجھ بن گئی ہوں۔ میں سوچ چکی تھی کہ آج واپس چلی جاوں گی مگر"

وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی مانوس سی خوشبو ہر سو بکھری محسوس کرتی اسکے کمرے کو اس نظر دیکھتی سٹڈی روم کی جانب بڑھی اور دروازے پر ہاتھ ہی رکھنے کی دیر تھی کہ وہ کھل گیا۔

مالنی نے اپنے قدم اس الگ سے کمرے کی جانب بڑھائے تو ٹھنڈک اور آسودگی کا احساس اسکے وجود کو منجمد کرتا گھیر گیا کیونکہ جانے سے پہلے وہ اے سی آف کرنا بھول گیا تھا۔

"اب آپکی واپسی کا انتظار کرنا پڑے گا ، لیکن آپ آجائیں تو میں اب تک اپنے بے باک و بے تکلف رویے کی معافی مانگ کر ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلی جاوں گی۔ میں مما کو تکلیف نہیں دے سکتی، انہوں نے میری پرورش اور حفاظت کی ہے میں انھیں دھوکہ نہیں دے سکتی۔ مجھے پتا ہے کل ماسکو نے بھی وہ سب غصے میں کہا ورنہ کون مالنی جیسی بدزبان لڑکی کو اپنی بیوی بنا سکتا ہے جسکا بچپن، کم عمری، اور شباب تک کوٹھے میں گزرا ہو۔ "

کنزا کی اس نے بھلے کالز نہ لی ہوں پر وائس میسج سنے جس میں اس عورت نے مالنی کو ذہنی دباو کاشتکار بنانے کی بھرپور کوشش کی تھی اور ہاشم بزدار اس سے یکسر لاعلم تھا۔

مگر پھر جیسے وہ اس مدھم حصار سے جان چھڑوا کر نکلتی، اسکا لہراتا دوپٹا سٹڈی میز سے اٹکا وہیں ٹیبل پر پڑی کتھئی رنگ کی ڈائری جھٹکے سے زمین پر گری اور اتفاقا ہاشم بزدار کا لکھا آخری صفحہ کھل کر سامنے آیا۔

مالنی نے تجسس کے سنگ جھک کر وہ ڈائری اٹھائی تو اور اس سے پہلے وہ اسے بند کر کے واپس رکھتی، اس صفحے پر لکھا اپنا نام دیکھ کر اسکے ہاتھ رکے۔

آنکھیں پھیل کر اس لکھی تحریر پر جا جمیں۔

"جمال زادی!

وہ جس کو دیکھا تو میری بنجر نگاہ میں ایک خواب نے ایسے آنکھ کھولی

کہ جیسے صدیوں سے زرد جنگل میں کوئی شے سبز ہو گئی ہو

عجیب لڑکی ہے جس کو کہنے اور سوچنے کی سمجھ نہیں ہے

پناہ خدا کی!

اسے تو یہ بھی بتانا پڑتا ہے چپ رہو،

زبان سی لو، حدیں بناو، سر نہ کھاو، نہ ہوش گنواو،

نظر جھکاو، یوں نہ دل ستاو،

میرے دل سے فاصلوں پر بسی رہو، کہ اس اندھیر نگری کے پاس جانا ضیاع بنے گا۔

مگر پریشان اس لیے ہوں کہ

وہ بے نیازی کی آخری حد پہ جا کھڑی ہے

اسے خبر ہی نہیں کہ وہ میرا 'عشق' بننے کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔

اسے خبر ہی نہیں کہ جب میں یہاں نہیں بھی ہوں گا

میرے دل کی الجھن ، اسکے دل میں نقش قدم بنا کر بتائے گی کہ وہاں سے کوئی گزر چکا ہے

اسے خبر ہی نہیں کہ کون اسکو چاہتا ہے.."

نظم مکمل تھی اور اس صفحے کے اک کنارے مالنی کا نام بہت مدھم طریقے سے لکھا گیا تھا جو اس نے بارہا مٹانے کی کوشش بھی کی تھی، مالنی کے چہرے کا رنگ اڑا تو وہ بمشکل کرسی کا سہارا لیے بیٹھ پائی۔

"یا میرے خدا! یہ ماسکو تو گیا کام سے۔۔۔۔ اللہ اللہ مالنی تو نے ایک شاعر سے پنگاہ لے لیا۔۔۔ اب تو یہ تجھے اپنی نظموں میں پرو پرو کر مارے گا۔ مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے تم سے، جسکے لکھے لفظ کپکپاہٹ دے گئے، اسکا لفظی اور عملی اظہار تو جان لیوا ہوگا۔۔۔۔"

وہ کاغذ کانپتے ہاتھوں کے سنگ واپس اسی ڈائری میں رکھ کر بند کرتی اپنا خوف سے سرخ پڑتا چہرہ ہاتھوں میں بھر گئی، پورے وجود میں درد کی لہریں اتر رہی تھیں۔

"مجھے جلد از جلد یہاں سے نکلنا ہوگا، ہاں۔ اس کے بعد تو میں یہاں رہنے کا رسک نہیں لے سکتی۔۔۔چل مالنی، اپنی زندگی چاہتی ہے تو بھاگ جا اس جادوگر کے اس پنجرے سے ورنہ وہ واقعی تجھے قیدی بنا لے گا۔۔۔۔"

تیز تیز سانس لیتی وہ ہانپ اٹھتی فورا سے پہلے اٹھی اور جانے کی تیاری پکڑنے کو بھاگ کر اپنے کمرے کی طرف گئی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

خانم حویلی میں صف ماتم بچھ چکا تھا، عزیز خان کی نقلی جلی لاش حویلی کے بیچ و بیچ کفن میں لپیٹ کر میت بنائے رکھی گئی تھی اور ہر کوئی آنکھوں میں اذیت لیے اس حادثے پر سن و ساکت کھڑا تھا۔

ضرار کی تلاش میں خاقان خان کے کارندے بھوکے کتوں کی طرح جگہ جگہ پھنکار رہے تھے۔

زمان خان، مشارب خان ، گل خزیں خانم، فرخانہ، زونین ، اک طرح صدمے کی سی کیفیت میں مبتلا تھے، کسی کا دماغ ان دونوں حقائق پر یقین کرنے پر آمادہ نہ تھا۔

اور پھر خدیخہ خانم، اشنال اور گلالئی کی آمد پر جیسے سبھی کا غم مزید تازہ ہوا۔

خدیخہ خانم تو عزئز خان کی موت کا سن کر بمشکل کھڑی رہ پائیں اور گلالئی نے بہت مشکل سے اس نڈھال بلکتی تڑپتی، آہ و بکا کرتی عورت کو سنبھالا جبکہ اشنال پتھر کی طرح ہر احساس سے عاری آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس میت تک پہنچی جسے بس دفانے کے لیے کچھ دیر میں لے جایا جانے والا تھا۔

سردار خاقان نے ہی سبکو جلدی دفانے پر قائل کیا تاکہ ولی کے آنے سے پہلے اس نقلی آدمی کو عزیز بنا کر قبر نشین کر دیا جائے کیونکہ اگر وہ آجاتا اور بات پورسٹ مارٹم تک پہنچتی تو یقینا سارا معاملہ کھل کر سامنے آجاتا۔

نہ تو اسے لگنے والی گولی جس گن سے نکلی وہ ضرار کی تھی نہ وہ آدمی عزیز خان تھا، سردار خاقان ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا۔

اشنال کو قریب آتا دیکھتی زونی خود اسکی جانب بڑھی کیونکہ وہ بالکل ٹھیک نہ تھی مگر اشنال نے اسکو بری طرح پیچھے دھکیلا اور وہ وہیں میت کے ساتھ کانپتی ٹانگوں کے سنگ جا بیٹھی۔

جسے سب نے عزیز خان بتایا تھا، وہ یوں تھی جیسے سر سے کسی نے رہا سہا سایہ چھین لیا ہو۔

"ب۔۔بابا سائیں! ی۔۔یہ سب کہہ رہے ہیں آپ مر گئے ہیں اور آپکو م۔۔میثم نے مارا۔۔۔۔ نہیں۔۔بھلا میرے بابا کیسے مر سکتے ہیں۔ وہ۔۔وہ میثم کیسے مار سکتا ہے میرے بابا کو۔۔۔۔تم سب جھوٹ بول رہے ہو ناں۔ تم سب لوگ بھی مجھے اس سے جدا کرنا چاہتے ہو"

دردناک ہچکیوں کی زد میں اس لڑکی کا وجود لرزا تھا اور اسکی تکلیف پر فرد کو سر تا پا، ذہنی اور قلبی توڑ چکی تھی جبکہ خاقان خان کی آنکھوں میں خفیف سی حقارت پوری آن بان سے چمکی۔

گل خزیں خانم پر تو قیامت اتری تھی، اس عورت کا تو دل درد میں تھا کہ عزیز خان کی موت اسے جیتے جی مار گئی تھی اور سماعت میں اس بچے کی ناراضگی بھری باتیں ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں۔

"یہی سچ ہے اشنال ، تمہارے باپ کا قاتل ہے وہ اور آج ہی اسکا کام ختم کر کے میں اپنی اولاد کے خون کا بدلہ لوں گا"

سردار خاقان کی آواز پھنکار کر گونجی جس پر باقی سب سمیت اشنال نے سرخ سوجھی آنکھیں اٹھا کر دادا کی طرف دیکھا، وہ یہی سوچ رہی تھی کہ یہ دادا کے منہ سے کیسے گندے لفظ نکل رہے ہیں۔

سسکیاں لمحہ بہ لمحہ ماتم بن کر بلند ہو رہی تھیں اور سبکو روتا دیکھ کر اشنال کے اندر باہر درد اٹھ رہے تھے۔

"لیکن وہ ایسا کیوں کرے گا؟ میرا دل اس پر یقین نہیں کر رہا۔ دادا سائیں! ولی لالہ کو آنے دیں۔ بنا مکمل تفتیش کے چچا جان کی تدفین مت کروائیں۔ ہو سکتا ہے نعیم کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو"

تمام ثبوت، کھرے اور نعیم کی گواہی کے بعد بھی جیسے مشارب کا دل ضرار کی جانب سے اس درجہ حیوانیت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا، اور سب سے بڑی وجہ وہ کل ہی تو اسے ضرار کے ساتھ ہونے کا بتا چکے تھے، پھر یہ بھی بتایا کہ گل خزیں خانم کے ساتھ ضرار نے کیا کروایا اور کس وجہ سے کروایا۔

"نعیم کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، اور تم سب دیکھ لو کے میرے بچے کی میت کس قدر بری حالت میں ہے۔ میں نہیں چاہتا وہ خونی انسپیکٹر میرے معصوم بچے کو چیڑ پھاڑ کر رکھ دے۔ ضرار نے اسے جلا کر ویسے بھی بہت اذیت دے دی ہے اس لیے میں مزید اس پر تفتیش کی نہ اجازت دیتا ہوں نہ موقع"

مشارب کے اعتراض پر خاقان خان نے بروقت مضبوط لہجے میں خشونت بھری سخت آواز میں دھاڑ کر جتایا جبکہ اشنال کے دماغ میں ضرار کو قاتل اور درندہ کہے جانے پر اذیت پھوٹنے لگی، وہ اس میت کو ہاتھ بڑھا کر چھو رہی تھی، اگر وہ بابا تھے تو بابا کا لمس بھی انکے ساتھ مر گیا تھا کیا؟ وہ سر تا پیر کانپی۔

دل نے بتا دیا پر دماغ کا کیا کرتی جسے ان ظالموں نے مسل کر رکھ دیا تھا۔

ہر کسی کو بظاہر خاقان خان کی بات درست لگ رہی تھی مگر گھر کے علاوہ علاقے کا بھی کوئی فرد ضرار پر لگے اس الزام پر پرسکون نہ تھا۔

یقین تو سبکو تب آتا اگر وہ میثم ضرار چوہدری سے ناواقف ہوتے، مگر اشنال پر تو قہر ٹوٹ گیا تھا۔

وہ نفرت جو کچھ لمحوں کے لیے اس شخص سے مدھم کی، وہ از سر نو دہک اٹھی۔

"بات تو سردار خاقان کی بھی درست ہے، مزید تفتیش کر کے ہم میت کی پائمالی نہیں کر سکتے۔ وہ پورا خاندان ہی ایسا خونخوار ہے، عزیز خان بھی کسی بزدلی یا غلطی کے باعث انکا نشانہ بن گیا۔ اب ہمیں عزیز خان کے لیے مغفرت کی دعا جبکہ اسکے قاتل کو کڑی سے کڑی سزا دینی چاہیے۔ سزا کے لیے ثبوت اور چشم دید گواہ چاہیے ہوتا ہے جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ یہ قتل اور عزیز خان کو جلانے کی حیوانیت عالم بزدار کے پوتے میثم ضرار چوہدری نے ہی کی ہے"

سبکی الگ الگ رائے سننے کے بعد سردار شمشر یوسف زئی نے بھی افسردہ اور بوجھل دل کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔

اسکے بعد دوبارہ نعیم کو سب کے سامنے لایا گیا جس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا قتل کا احوال بیان کیا، وقت بھی بتایا جو ٹھیک ثابت کر رہا تھا کہ میثم ، عزیز خان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی یہ سب سرانجام دے آیا تھا، روتی سسکتیں غم سے نڈھال ہوتیں خدیخہ خانم تک کی آنکھوں میں نفرت کا ابال امڈا، میثم کا کہا وہ ہر لفظ منافقت سا محسوس ہوا تبھی تو انکی اور اشنال کی جان ایک ساتھ جسموں سے سرکی مگر گلالئی صدمے میں تھی، اسکی خانم کی حالت پہلے ہی اتنی بری تھی کہ یہ جھٹکا اس لڑکی کو جیتے جی مارنے آگیا۔

"تو تم میرے پاس دیر سے اس لیے آئے تھے میثم کے تم نے میرے بابا کو مارنا تھا، کتنے جھوٹے ہو ت۔۔تم۔۔قاتل ، درندے۔ پہلے مجھے گناہ کروائے پاس کیا اور اب۔۔۔اب تم نے مجھ سے میرے بابا چ۔۔چھین لیے۔ میں نے اگر سبکو یہ بتایا کہ اپنے بابا کے قاتل کے ساتھ تھی کل تو ہر کوئی مجھے بھی میرے بابا کے ساتھ ہی قبر میں اتار دے گا۔اتار دینا چاہیے سبکو مجھے بھی کسی قبر میں۔۔۔ہاں مروں گی میں پر تمہیں مار کر۔۔۔۔ مر تو تب ہی گئی تھی جب تم نے مجھے چ۔۔چھوڑا۔۔۔ اس شہیر کے لیے۔۔۔۔قسم اٹھاتی ہوں اب تمہیں اپنے ہاتھوں سے اس جرم کی سزا دوں گی۔۔۔اور تمہیں سزا سنانے کے بعد تمہارے سامنے تمہارا صنم اپنی جان لے گا۔۔۔۔

نہیں اشنال رونا نہیں، تب رونا جب وہ مرے گا"

ہر کوئی تکلیف میں تھا مگر اشنال عزیز کی نیم مردہ حالت سبکو کاٹ گئی جو اسی طرح مردہ وجود گھسیٹتی، اٹھی اور رسہ کی ہر چیز ٹھوکر پر رکھتی جا کر بچھی ہوئی سفید دری کے ایک کونے پر جا بیٹھی اور حراساں نظروں سے وہ اس میت کو دیکھنے لگی۔

اور پھر کچھ ہی لمحوں بعد جنازے کے لیے میت کو لے جایا جانے لگا، سسکیوں، دھاڑوں اور آنسووں کا ریلہ بہہ نکلا، خانم حویلی ماتم کدہ بنی، عزیز خان کی میت لے جائی گئی مگر اشنال کی ٹھہری ہوئی آنکھیں بھیگ نہ پائیں۔

اسے ہر کوئی روتا ہوا ڈرا رہا تھا، گل خزیں سینہ مسل مسل کر کرلاتیں ہوئیں اسکے وحشت میں ڈال رہی تھیں، خدیخہ کی سسکیاں ، اشنال کی روح کو زخم دے رہی تھیں، ہر کسی کی آنکھ نم تھی، پورے علاقے کی عورتیں قرآن خوانی میں مصروف اس ناگہانی قتل پر گاہے بگاہے تبصرے کرتی دیکھائی دیتیں تو کبھی ان سب کی تکلیف دیکھ کر ہاتھ ملنے لگتیں۔

زونی نے نانو کو سنبھال رکھا تھا پر آنسو تو اسکے بھی رواں تھے، ضرار لالہ ایسا نہیں کر سکتے تھے اور یہ اسکا ایمان تھا مگر حالات ہر سمت سے ضرار کو مجرم بنا چکے تھے پھر وہ دادا سائیں کا سوچ سوچ کر دکھی تھی کہ بزدار حویلی میں اس وقت کیسا ماتم چھایا ہوگا۔

گلالئی نے خدیخہ کو خود میں بسائے تسلیاں دینے کا کام سنبھالا مگر اشنال نے کسی کو خود کے قریب آنے نہ دیا، وہ سبکو اپنی جانب ہمدردی اور تکلیف سے دیکھتا پاتی ان سب سے خوف کھاتی اٹھی اور بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی، یہاں تک کے دروازہ تک بند کر دیا۔

اسکا دل کوئی کند چھری سے کاٹ رہا تھا، روتیں اجڑ جاتیں خدیخہ نے خود کو سنبھالے گلالئی کو اس کے پیچھے بھیجا مگر وہ کافی دیر دستکیں دیتی مایوس واپس لوٹ گئی

"بابا مر گئے، مما کے بعد آپ بھی مر گ۔گئے۔۔۔۔ تم بھی مر جاو گے میثم، تو میں بھی مروں گی۔ ساری تکلیفیں ختم ہو جائیں گی۔۔۔ہاہا۔۔۔ سکون آ۔۔جائے گا۔ یہ جو جگہ جگ۔گہ درد ہوتا ہے ناں۔۔۔یہ سب ختم ہو جائے گا۔ ہاہاہا۔۔۔میں بھی آپکے قاتل کو مار کر آپکے پاس آجاوں گی پیارے بابا! پھر ناں میں! آپ! اور مما مل کر رہیں گے۔۔۔۔۔"

وہیں دروازے کے ساتھ لگی وہ ناجانے کتنی دیر چینخ چینخ کر روئی مگر پھر پاگلوں کی طرح خلاووں کو گھورتی کبھی رونے لگی تو کبھی ہنسنے۔

"میثم کو مار دوں گی، اس نے میرے بابا کو آگ لگائی۔۔۔ میں اسے آگ لگاوں گی۔۔۔۔وہ کون ہوتا ہے میرے بابا کو ایسی م۔۔موت دینے والا۔۔۔۔ اللہ سائیں تمہیں جہنم میں ڈالیں گے۔۔۔تم جلو گے بچو۔۔۔ دیکھنا، میرے بابا سو گئے ہیں۔۔۔سب انکو وہاں چھوڑنے گئے ہیں جہاں مما سو رہیں ہیں۔۔۔رات کو جب سب سو جائیں گے تو میں جاوں گی۔ آپ دونوں کو جگاوں گی پھر ہم سیر پر جائیں گے۔۔۔۔نہیں اشنال! روتے تھوڑی ہیں۔۔۔۔ میں جلدی چلی جاوں گی۔۔۔۔ میں آجاوں گی بابا، آپ ڈرنا مت"

وہ تڑپتی، آہیں بھرتی وہیں فرش پر دہری ہوتی ، ہوش و حواس بالکل چھوڑ دیتی خود سے کہتی وہیں لیٹ گئی۔

اور ماحول تھا کہ اسکی تکلیف اور اذیت سے جھلس گیا، ناجانے کیوں اس ظلم پر نہ آسمان گرا نہ زمین کانپی ۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"یہ آج سروس کا ایشو ہے کیا؟ پتا نہیں کس کس کی مس کال لگی ہے۔۔۔کوئی جلسہ وغیرہ ہے؟"

کچھ دیر ذہن کو سکون دینے وہ فیکٹری گیا، کام کو اچھے سے مانٹیر کیے وہ دادا سائیں کے علاوہ ناجانے کس کس کی مس کال دیکھ کر متفکر ہوا۔

"جی سائیں، سیاسی۔۔ کیا ہوا سب خیر ہے۔ کہیں تو بزدار حویلی چکر لگا آئیں"

جبل زاد نے جوابا فکر مندی سے استفسار کیا، اتنے سارے اپنے لوگوں کی بھی ڈھیر مس کالز تھیں جو زیادہ پریشانی کا سبب تھیں۔

"میرا خیال ہے جانا چاہیے، کوئی گڑبڑ لگ رہی ہے۔ گاڑی نکالو جا کر"

فون کی سکرین سکرال کرتے مشارب کی مس کال دیکھ کر ضرار کے دماغ میں سنسناہٹ ہوئی، معاملہ اب واقعی سنگین تھا اور ساتھ ہی اسکا فون زرا سگنل بحال ہونے پر بجا وہیں جبل زاد اسکی ہدایت پر فرمابرداری سے آفس سے نکل گیا۔

"جی فراز صاحب! کہیے خیریت ہے؟"

یہ عزیز خان کے گھر کا چوکیدار تھا جسکی غیر متوقع کال پر ضرار اٹھ کر اضطرابی انداز میں آفس میں چکر کاٹنے لگا۔

"جی وہ خانم حویلی سے ڈرائیور آیا تھا سحر کے وقت، کوئی ایمرجنسی تھی جسکی وجہ سے وہ تینوں واپس خانم حویلی چلے گئے ہیں ۔ عزیز بھائی کا فون بند تھا تو میں نے سوچا آپکو خبر دوں کیونکہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میرا فون نہ لگے تو ضرار کو کوئی بھی خبر پہنچانی ہوئی تو دے دینا"

مقابل ملتی عجیب سی خبر پر ضرار نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے کن پٹی مسلی۔

"مطلب رات عزیز خان نہیں آئے تھے؟"

پریشانی سے استفسار کیا گیا۔

"نہیں آئے، مجھے بھی تبھی تعجب تھا۔ وہ سب کیوں گئے اگر آپکو خبر ملے تو مجھے بھی بتائیے گا"

فراز صاحب نے یہ کہہ کر تو ضرار کو مزید فکر مند کر دیا۔

"ٹھیک ہے فراز صاحب، بہت شکریہ"

ضرار نے جب تک کال کاٹی، جبل زاد واپس آچکا تھا۔

گاڑی اس نے باہر نکال لی تھی مگر اندر آتے ہی وہ سائیں کے چہرے کی الجھن دیکھ کر فکر مند سا قریب چلا آیا۔

"سائیں! آپ شہیر والے معاملے کے لیے پریشان ہیں یا کوئی اور معاملہ ہے؟"

جبل زاد نے نرمی سے دریافت کیا۔

"نہیں جبل زاد! میرا دل کہہ رہا ہے کہ کچھ بہت برا ہوا ہے۔ عزیز خان اپنے گھر نہیں پہنچا رات، اور تو اور وہ سب بھی واپس چلے گئے۔ اور یہ میرے لوگوں کی اتنی مس کالز۔۔۔ہو نہ ہو خاقان خان چال چل گیا ہے"

اذیت کی گہری پرچھائی لمحے میں میثم کے چہرے پر پھیلی جبکہ رنگ تو جبل زاد کے چہرے کا بھی اڑا۔

"سائیں! اماں کی کال آرہی ہے؟"

اسی لمحے جبل زاد کی آواز میثم کو بہت دور سے آتی سنائی دی جس پر وہ اپنے وسوسوں سے اٹے ذہن کو جھٹکتق متوجہ ہوا اور اس نے فوری کال اٹھانے کا کہا۔

"جی اماں جان! سب خیریت ہے؟"

جبل زاد نے فورا سے بیشتر فون کان سے لگایا اور میثم بھی خفیف سی خوفزدہ آنکھیں جبل زاد پر ٹکا گیا اور پھر اس جانب جو انکشافات ہوئے اس پر جبل زاد کے چہرے کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑا۔

"کیا! یہ کیا کہہ رہی ہیں"

بے اختیار ہی جبل زاد کے منہ سے لفظ بکھرے اور ضرار کو یقین سا ہوا جیسے واقعی کچھ بہت برا ہو گیا ہے۔

"یا میرے خدا! لعنت ہو اس خاقان پر۔۔۔۔آپ پلیز پریشان نہ ہوں۔ کہا ہے ناں پرسکون ہو جائیں اور میری کال کا انتظار کریں"

اس جانب اماں فضلیہ ہچکیوں کے سنگ روئے جا رہی تھیں تبھی وہ انکی ہمت بندھاتا کال بند کرتے ہی ضرار کی جانب لپکا۔

"کیا ہوا ہے جبل زاد!"

ضرار کا دل انہونی کے خوف میں پھڑپھڑایا تھا۔

"سائیں! عزیز خان کا قتل ہو گیا ہے اور دونوں علاقوں میں یہ بات پھیلی ہے کہ قتل آپ نے کیا ہے۔ عزیز خان کے ڈرائیور نعیم نے خود اپنی آنکھوں سے آپکو عزیز خان کا قتل کرتے دیکھا۔ میت خانم حویلی میں پہنچ چکی ہے، ہمارا جانا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ وہ خان کتوں کی طرح آپکی تلاش شروع کر چکے ہوں گے"

جبل زاد نے یہ سب خود بھی بہت کرب سے بتایا اور میثم ضرار چوہدری کی آنکھوں میں شدت سے نفرت کا ابال امڈا۔

"تو اسے پتا چل گیا تھا کہ اسکی خانم کو میں نے اٹھوایا اور بچارے عزیز خان کی مجھ سے ملی بھگت بے نقاب ہو گئی۔ اپنی اولاد کو خود مارنے والا جگرا اس جیسے بزدل میں نہیں جبل زاد! عزیز خان زندہ ہے اور یہ سب اس منحوس بڈے نے اپنی غیرت پر آتی آنچ کا بدلا لیا ہے۔۔۔مجھے افسوس بس اس بات کا ہے کہ وہ سردار کے نام پر کالک ہے۔۔ آگے اس حویلی میں میرے دشمن کم تھے کہ اس منحوس نے اور بنا دیے۔۔۔۔ سالا گندی چالیں چلنے والا بزدل مردود"

یہ تمام حقائق سننے کے بعد ضرار کا سکون بھلے تباہ ہو چکا تھا پر وہ جس طرح عزیز خان کے زندہ ہونے پر پرامید تھا، خود جبل زاد کا ڈوبتا دل بحال سا ہوا۔

"پر سائیں سب ثبوت اور گواہ آپکے خلاف ہیں، اگر آپکے بقول واقعی عزیز خان زندہ ہوئے تو اب تک اس جلی لاش کو دفنا دیا گیا ہوگا۔ اور مجھے پوری امید ہے اس سب کی ابھی تک ولی زمان کو بھی خبر نہیں کی گئی ہوگی"

ایک پریشانی مدھم ہوئی تو جبل زاد کا دل نئے اضطراب پر بے چین ہوا اور ضرار نے خود کو کرسی کی جانب گمائے، سنبھالتے ہی بیٹھ کر گہری سانس لی۔

"ظاہر ہے جبل زاد! وہ ایسی چالیں چلنے میں بڑا ماہر ہے۔ تو وقت آگیا ہے کہ خاقان خان کی قبر کھودی جائے مگر مجھے تکلیف صرف اس بات کی ہے کہ اس کے بعد اشنال تو میرا منہ دیکھنے کی روادار تک نہیں رہیں گی اور جب تک بے گناہی ثابت کروں گا، ناجانے ان کے دل میں بدگمانی کس درجہ گہری بس چکی ہو۔ اگر یہ آزمائش ہے تو واللہ بڑی صبر آزما ہونے والی ہے"

ضرار کو فکر بس اشنال کی تھی کیونکہ چالیں الٹنی تو وہ بچپن سے سیکھتا آیا تھا مگر اس بار اسکو دشمن نے بڑے نشانے پر وار کیے گھائل کیا۔

"سائیں پھر میرے لیے کیا حکم ہے؟"

جبل زاد کا بس چلتا تو اپنی جان فدا کر دیتا اور اب سچ میں ضرار کو اسی شیر کی ضرورت آن پڑی تھی۔

"تم ولی کے پاس جاو، اسے ساری صورت حال بتانا۔ جلد از جلد ہمیں عزیز خان کو ڈھونڈنا ہے۔ باقی خود پر لگے الزامات کو میں خود مٹاوں گا۔ میں واپس جا رہا ہوں جبل زاد! مجھے وہاں ان سب دشمنوں کا سامنا کر کے یہ جنگ لڑنی ہے۔ تم یہاں ولی کے ساتھ رہو گے، اس سارے معاملے میں اسے تمام حقائق بتاو گے سوائے وریشہ اور شہیر کے نکاح کے سچ کے۔ وہ ابھی ہمارے پاس راز ہے۔ ولی کو اس تکلیف سے ہر ممکنہ بچانا ہے"

کچھ دیر بعد سوچنے سمجھنے کی معاوف ہوتی صلاحیت کو کام پر لگاتا ضرار فیصلہ کن ہوتا اٹھ کھڑا ہوا مگر اسکا ان حالات میں ان وحشیوں کے بیچ جانا جبل زاد کو ڈرا چکا تھا۔

"سائیں! آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ بڈھا منحوس کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ مجھے ساتھ لے جائیں"

جبل زاد نے اپنے ڈر کو لفظوں میں پروئے سہم کر کہا جس پر ضرار تھکا سا مسکراتے قریب آیا اور جبل زاد کا کندھا تھپکانے لگا۔

"نہیں جبل زاد! اسکا مین ٹارگٹ اشنال کے دل میں میرے لیے نفرت پیدا کرنا ہے جو اس نے اب تک کر دی ہوگی۔ وہ جتنی چالیں چل لے، آخر میں میری ہی کھودی گئی قبر میں دفن ہوگا۔ اڑنے دے اسے، دو چار دن ہی باقی ہیں۔ مجھے مارنے کی غلطی نہیں کرے گا، اسے پتا ہے میثم ضرار چوہدری اسکی کھوکھلی پھونکوں سے نہیں بجھ سکتا۔ باقی مسٹر ہاشم جہاں بھی ہوں گے، اس بار انکا ایک ہاتھ میثم پر ہوگا سو مجھے اشنال عزیز کو اس اذیت سے جلد نکالنا ہے۔ سرمد سے میں اب نہیں ملوں گا ، اب ہم صرف تماشا دیکھیں گے۔۔۔۔"

ضرار کو اس سچویشن میں بھی اس قدر مضبوط دیکھ کر جبل زاد کا سینہ بھی فخر سے چوڑا ہوا جبکہ وہ صرف اشنال کے معاملے میں جان ہارتا تھا جبکہ باقی ہر آزمائش میثم ضرار کے ہاتھوں کی میل تھی۔

اور اس بار اسکا ہاشم پر اندھا اعتبار بھی غلط نہ تھا، وہ بھلے ملک سے باہر تھا مگر یہ تمام خبریں اسے پہنچ چکی تھیں۔

اسے سرجری کے لیے ایک دن پہلے ایڈمنٹ ہونا تھا اور چونکہ آپائئنٹمنٹ کینسل نہیں ہو سکتی تھی تبھی اسے یہ آخری سرجری سیشن ہر صورت کروانا تھا۔

"ٹھیک ہے، ضرار کی ہر پل حفاظت کرنا تم سب کی اولین ذمہ داری ہے، اس خاقان کے گناہوں کا گڑھا بھر چکا ہے، اب صرف وہ اپنے کیے کا پھل بھگتے گا، میں اسے مزید کوئی درندگی دیکھانے نہیں دوں گا۔ عزیز خان کی تلاش جاری رکھواو کیونکہ وہ زندہ بھی ہے اور سلامت بھی کیونکہ ہر باپ بزدار عالم نہیں ہوتا جو اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حوصلہ رکھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس دوست کے احسان کا بدلہ چکایا جائے۔ میں ایک ہفتے تک واپس آجاوں گا اور مجھے ایک ہفتے تک عزیز کی خبر بھی چاہیے اور ضرار کی مکمل حفاظت بھی"

وہ اس وقت ہوسپٹل میں وی آئی پی روم میں ایڈمٹ تھا اور اس وقت کھڑی کے پردے ہٹا کر کھڑا کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے اپنے لوگوں کو بریف کر رہا تھا جو فرمابرداری سے ہاشم بزدار کے احکامات پر چوکس ہو چکے تھے۔

وہیں مالنی اسکی حویلی چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر چکی تھی، نئی نئی محبت کا خمار اس نے ماں کی پرورش کے آگے قربان کر دیا تھا۔

مگر وہ اس حویلی سے ایک انچ بھی باہر قدم بڑھا نہیں سکتی تھی کیونکہ ہاشم اپنے لوگوں پر اس لڑکی کی ذمہ داری ڈال کر گیا تھا۔

جبل زاد کو ولی کی طرف روانہ کیے خود بھی ضرار نے واپسی کا رخ کیا، زندگی کی یہ آخری جنگ اسے آخری سانس تک بھی لڑنی پڑتی وہ کر گزرتا کیونکہ یہی اسکا کندن بننے کا عمل تھا۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اپنے سنسان گودام سے شہیر مجتبی کو شام چار بجے لگ بھگ بیس تیس سرمد کے لوگوں کے گروہ نے مار پیٹ نوازتے ہوئے اٹھوایا، حکم کے مطابق وہ غنڈے موالی لوگ اسے سیاہ بڑی سی گاڑی میں ڈالے سنسان علاقے کی طرف لے گئے۔

جہاں اسے ایک بدبودار، بند، حبس زدہ کوارٹر میں لا کر پھینکا گیا، شہیر کے سر سے نکلتا خون اسکی کن پٹی پر جم چکا تھا جبکہ ان بیس لوگوں کا ایک ساتھ حملہ کرنے کے باعث اسکا ایک گال اور نچلا ہونٹ بھی پھٹ گیا اور چونکہ تازہ تازہ گولی کا زخم بھی اسکے سینے پر تھا جسکا ادراک ان مارنے پیٹنے والوں کو بعد میں ہوا مگر وہ اپنی سفاکانہ کاروائی پوری کرتے ہی اسے اس سیاہ بند کوٹھری میں قید کیے چلے گئے۔

وہ دم دیتی اذیت سے گزرتا وہاں بے سدھ پڑا تھا مگر ممکن تھا کئی دن اسکا اب کوئی پرسان حال نہ ہوتا وہیں دوسری جانب وہ کئی گھنٹوں کی نیم بے ہوشی کے بعد ہوش میں آچکے تھے وہ بھی دو خبیث شکلوں والے آدمیوں کی آپس میں گھسر پھسر پر اور انکی باتیں سننے کے بعد عزیز خان کے حقیقی رونگٹے کھڑے ہوئے۔

"ضرار کو جان سے نہیں ماریں گے سردار، اسے بس زلت ہی اتنی دے دی ہے کہ ساری زندگی منہ چھپاتا رہے گا۔ عزیز خان کا قتل اس پر ثابت ہو چکا ہے، دونوں علاقوں کے سرداروں نے اسے مجرم ثابت کر دیا، اب وہ سمجھے گا کہ سردار خاقان سے پنگاہ لینے والے کی کیا سزا ہے"

ان میں سے ایک آدمی منتفر ہو کر بولا جبکہ دوسرا اسکی بات کے جواب میں داڑھی کھجائے شاطرانہ ہنسا۔

"ویسے اب سرداروں کو چاہیے اسکی سزائے موت طے کریں، بہن تو اسکی پہلے ہی سردار کے گھر کی بہو ہے تو ونی کا تو کوئی چانس نہیں، قصاص ہی مناسب ہے۔ اس خبیث نے خانم کو اغوا کیا ، موت تو بنتی ہے اسکی"

دوسرے والے نے بھی حقارت کے سنگ لقمے دیے جبکہ ضرار پر آتی اتنی بڑی مصیبت کا ادراک عزیز خان کی روح کپکپا گیا۔

"یا اللہ! اس بچے کی حفاظت کرنا۔ ان ظالموں نے اسے میرا ہی قاتل ثابت کر دیا۔ سردار خاقان خان، تم جیسے وحشی کو اتنی آسان موت نہیں ملے گی۔ مجھے یہاں سے کسی بھی طرح نکلنا ہوگا، میری اشنال! یا اللہ وہ یہ سب کیسے برداشت کرے گی۔ میری خدیخہ!

میرے مالک مجھے میری عمر بھر کی بزدلی کی ایسی کڑی سزا نہ دیں۔ میرے بچوں کو اپنی امان رکھیں۔۔۔"

عزیز خان کا دل تڑپ کر چینخا مگر وہ خود ہل بھی نہ پا رہے تھے کیونکہ انکے ہاتھ پیر رسیوں سے نہیں بلکہ زنجیروں سے باندھے گئے تھے اور یہ جگہ پرانی خانم حویلی کا تاریک تہہ خانہ تھا جسے وہ پہچان گئے تھے اور یہاں سے آواز تک باہر نہیں جاتی تھی پھر وہ کیسے اس قید سے نکل پائیں گے۔

جتنی اللہ سے دعائیں مانگ سکتے تھے وہ مانگنے لگے، جو جو خفظ آیات آتیں تھیں انہوں نے سب پڑھ کر اپنے بچوں پر غائبانہ پھونک دیں مگر اذیت کا جیسے کوئی توڑ نہ رہا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

نقلی عزیز خان کا جنازہ اور تدفین ہو چکی تھی اور جرگہ سج چکا تھا جس میں سردار خاقان خان، سردار شمیشر یوسف ذئی نے عالم بزدار کو اپنے لوگ بھیج کر بلوایا جو چھ رکنی مخافظوں کے ساتھ جرگے میں شمولیت کے لیے پہنچ چکے تھے۔

سردار خاقان کچھ دیر کے لیے کسی خاص تعزیت کرتے مہمان سے ملنے اپنے کمرے میں موجود تھا جہاں اسکے سامنے ایک برقعے میں لپٹی عورت بیٹھی تھی جسکی صرف نیلی آنکھیں جھلک رہی تھیں۔

"میں مانتا ہوں تمہارے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی لیکن اگر تم میرے اس کام آجاو تو میں تمہیں تمہاری ماں سے ملنے کی اجازت دے دوں گا جس واحد سے تمہیں لگاو رہ گیا ہے۔ تمہیں اپنا خون سمجھ کر اتنا سا قبول کر لوں گا مگر تمہاری اولاد مجھے قبول نہیں کیونکہ وہ بخت کا گندا خون ہے۔ تم بھی تو مشارب سے اسے چھیننا چاہتی ہو سو ہم اگر اس کھیل کو مل کر کھیلیں تو ہم دونوں کا فائدہ ہوگا"

وہ سردار خاقان سے بیٹی نہیں کنو بائی بن کر ملنے آئی تھی، کنزا نے اپنے چہرے پر ڈالا نقاب جھٹکے سے ہٹایا تو اسکی آنکھوں کی تکلیف لمحے میں ابھر کر معدوم ہوئی۔

وہ یہاں آئی تو بھائی کی موت کا سن کر تھی پر زندگی کا ایک اور سبق پا چکی تھی، اپنا ہی باپ سودے بازی پر اتر آیا تھا۔

"آپ باپ کے نام پر دھبہ ہیں مجھے بہت پہلے سے پتا ہے، ابھی میرے بھائی کا کفن تک میلا نہیں ہوا اور آپ سودابازی پر واپس بحال ہوگئے، خیر کیا چاہتے ہیں مجھ سے کھل کر بتائیں؟"

اول جملہ وہ نفرت سے کہتی فورا مدعے پر آئی جو عزیز خان کو سبق سیکھانے کے بعد مشارب زمان سے اسکا سب چھیننے والا تھا۔

""مشارب کو منصوعی گندا کر دو کسی بھی لڑکی کے ساتھ جوڑ جاڑ کر ، تاکہ وہ زونی خود اسے چھوڑ دے۔ تم اس میں ماہر ہو کنزا، میں وعدہ کرتا ہوں زونین کی شادی دھوم دھام سے بہت عزت دار خاندان میں کروں گا۔ اور سرمد مو بھی نجاست بھری زندگی سے نکال کر اپنی خفاظت بخشوں گا۔ بس زونین مجھے اس خاندان میں منظور نہیں۔ مشارب اس کے لائق نہیں، وہ وقتی خمار اور پیار ہے جس کی بنا کر زونی کو اٹھا لایا۔ چار دن کا بھوت جب اترے گا پھر سے وہ تمہاری بیٹی کی ناقدری کرے گا۔ اور تم ایسا تو نہیں چاہوں گی کہ جیسا تم دنیا کی ٹھوکروں پر رہی ویسے تمہاری بیٹی بھی در در کی ہو جائے"

اپنے سفاک باپ کے منہ سے یہ سب سننا شاید اسے مار دینے کو کافی تھا اگر وہ زندہ ہوتی، اسے تو خانم حویلی کا ہر فرد ہی اب منحوسیت سے بھرا لگتا تھا، اپنے باپ سمیت۔

اور یہ سچ تھا کہ زونی، کنزا کی کمزوری تھی اور خاقان اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہا تھا۔

"ویسے اس خانم حویلی کی اوقات ہے بھی نہیں کہ یہاں میری بیٹی ایک دن بھی گزارے، ویسے اگر میں آپکی یہ آفر ٹھکرا دوں تو کس حد تک گریں گے بابا سائیں؟"

کنزا کے لہجے میں تضخیک تھی تبھی سردار خاقان کا ہلکا سا خون کھولا۔

"تو میں تم جیسی کسی اور سے یہ کام کروا لوں گا بچے، تم اپنی ہو سو اچھے سے سب کرو گی۔ ورنہ تم جیسی گھر سے بھاگ کر قبر کی دیواروں تک بھاگتی بائیوں کی اس شہر میں کمی نہیں ہے"

وہ باپ زہر اگلنا اب بھی نہ بھولا تھا اور کنزا جانتی تھی وہ شخص واقعی اس حد تک بھی گر سکتا ہے۔

جسے اپنے بیٹے کی موت پر کسی نے ایک آنسو بہاتے نہ دیکھا ہو، وہ اپنی اولاد سے ایسے سودے بھی کوئی گناہ نہیں سمجھتا تھا۔

"اور اگر آپکا وہ لاڈلہ پوتا، زونی کے چھوڑ جانے پر مر ور گیا؟ پھر"

وہ بڑے مخظوظ تاثرات کے سنگ سردار خاقان سے پوچھتی بولی جو خفیف سا اس غیر مناسب بات پر تلملایا۔

"پھر یہی سمجھوں گا کہ اپنے خاندان کے ناموس پر اسے وار دیا ہے، دل کا نازک ضرور ہے پر خون تو خانوں کا ہے، ایک عورت کے لیے تھوڑی مرے گا۔ غیرت ہوئی تو جیے گا، ویسے بھی میں نہیں چاہتا وہ سرداری کے لیے میرے سامنے آئے سو اسے اس غم میں مبتلا کیے میں اس طرف سے بھی ہٹانا چاہتا ہوں۔ جیسے پہلے تھا کاٹھ کا الو، ویسا ہی بن جائے۔ خس کم جہاں پاک"

وہ سفاک دادا یہ لفظ اپنے پوتے کے لیے ادا کر رہا تھا اور کنزا ایسے معاملات کے بعد کیونکر نارمل رہ پاتی، وہ تو پاگل اور وحشی پہلے سے تھی۔ جیسے سردار خاقان کے اندر کی غلاظت صاف دیکھائی دے رہی تھی پر مصلحتا ادب تھامے رہ گئی۔

وہ عزیز خان کی موت پر دکھی تھی مگر آئی وہ زونین کو لینے تھی مگر اس شخص نے تو سنگدلی کی ساری حدیں عبور کر کے کنزا تک کا دماغ گما دیا تھا۔

"کام تو ہو جائے گا مگر فرصت سے وقت نکال کر آپ اوپر کا ٹکٹ کروا لیں پلیز، سنا ہے آپ جیسا انسان جب کسی نیکوکاروں کی بستی میں آجائے تو وہ ساری تباہ کر دی جاتی ہے۔ آپکے بہحاف پر میں پورا پورا کام کروں گی بابا سائیں ، باقی اللہ نے عزیز لالہ کو پاس بلائے اس منحوس زندگی کی قید سے چھٹکارہ دے دیا، مجھے خوشی ہے کوئی ایک تو جلد اور آسان خلاصی پا گیا۔۔۔چلتی ہوں۔۔۔یہ موت موت کا کھیل سمیٹ لیں، میں زونی کو لینے آجاوں گی۔۔۔ "

وہ سفاکی سے بنا اس شخص کے غضب سے دبے چبا چنا کر لفظ انڈیلتی ، سردار خاقان کو سر تا پیر جھسلائے واپس اپنا چہرہ چھپاتی اس کمرے سے نکل گئی جبکہ جاتے جاتے اس نے چھپ کر سبکو دیکھا، زونی کو بھی جو اسکی ماں کو سنبھالنے میں ہلکان تھی اور ابھی ویسے بھی اسے زونین کو لے جانا مناسب نہ لگا۔

وہیں سردار خاقان، کنزا کی جانب سے ملتی تضخیک پر جبڑے بھینچتا، اٹھ کر میدان کی سمت بڑھا جہاں حسب توقع پنچائیت سج چکی تھی۔

"چونکہ سب ثبوت ضرار کے خلاف ہیں سو خون کے بدلے صرف خون ہی واحد حل ہے، چوہدری بزدار عالم! آپ اس پر کچھ کہنا چاہیں گے؟"

سردار شمیشر یوسف زئی نے زد زبان گردش کرتا فیصلہ سناتے ہوئے بوجھل اعصاب والے عالم بزدار سے استفسار کیا جو بھری پنچائیت میں حوصلے اور ہمت کو یکجا کیے اٹھ کھڑے ہوئے، دونوں علاقوں کے معززین اور اہم لوگ میدان میں جمع تھے۔

"میں اس قتل کی جانچ کا قانونی سلسلہ چاہتا ہوں، یعنی یہ کیس شہری عدالت لے جایا جائے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو کم ازکم اس قتل کی مکمل تفتیش کی جائے، جلی ہوئی لاش کے جو باقیات ہیں وہ فارنسک ڈاکٹرز کو بھیج کر یہ تسلی کی جائے کہ وہ واقعی عزیز خان کے ڈی این اے سے مشابہت کھا رہے ہیں۔ اور عزیز خان کو لگتی گولی ، ضرار کی گن سے نکلی ہے"

عالم بزدار کے رعب دار مطالبے پر ہر سمت چہہ مگوییاں ہونے لگیں جبکہ باقیات کا سن کر خاقان کو لگا سانس حلق میں آن اٹکا ہے اور اسکی یہ شکل بزدار عالم نے بڑے مخظوظ ہو کر دیکھی۔

ضرار انھیں پہنچنے سے پہلے لمبی کال کیے بریف کر چکا تھا۔

"مگر لاش تو دفن ہو چکی ہے، مردے کی بے حرمتی کی کوشش کرنا چاہتے ہیں آپ بزدار صاحب۔ کچھ خدا کا خوف کریں"

معززین میں سے ہی ایک نے درشتی سے اٹھ کر اس مطالبے کی تردید کی جبکہ باقی آدھا مجمعہ بھی تائید میں توبہ توبہ کر اٹھا جبکہ شمیشر یوسف زئی کو انکی بات غیر مناسب ہرگز نہ لگی۔

"اور جو بنا پکے ثبوت کے آپ میرے پوتے کے کردار کی بے حرمتی کر رہے ہیں؟ سب لوگ جانتے ہیں وہ کسی بے قصور کو آنچ بھی نہیں دے سکتا۔ اور عزیز خان ایک شریف بچہ ہے جسکی شرافت اور معصومیت کی سب گواہی دیتے ہیں۔ بھلا اسے میرا پوتا مار کر کیا پا لے گا"

عالم بزدار کی اس اعتراض پر جیسی انکے لہجے میں سختی تھی ویسی ہر خاص و عام کے چہرے پر چھا گئی۔

" آپ بھول رہے ہیں کہ فرازم خان کو مارنے والا بھی ضرار ہی تھا"

مجمعے سے ایک اور معاملے کو ہوا دیتا آدمی اٹھ کر دبی راکھ کرید گیا جبکہ خشونت بھری بزدار عالم کی سخت آواز اس الزام اور بہتان پر تنتنانے ہوئے گونجی۔

"میں تب بھی اپنے پوتے کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے آخری حد تک گیا تھا اور اب بھی جاوں گا، مجھے بزدل اور کمزور سمجھنے والے یہ سن لیں۔ فرازم کو اگر ضرار نے مارا بھی ہے تو وہ لعنتی اس لائق تھا اور کاش ضرار اسے واقعی مارتا مگر اس کے گناہوں کا گڑھا ہی اسے لے دوبا تھا۔ تب تو سردار خاقان نے میرے پوتے پر بنا ثبوت چڑھائی کیے اسے گولی مار دی تھی لیکن اس بار اسکے آگے اسکے دادا سائیں ہیں۔ یہ سینہ خاضر ہے لیکن جب تک قانونی طور پر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، کوئی میرے پوتے کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اور اگر کسی نے اس کے خلاف جانے کی جرت کی تو یہی بزدار عالم اب اپنے رہے سہے سارے انتقام لے بیٹھے گا"

آج واقعی بزدار عالم شیر کی طرح دھاڑ کر مجمعے پر اپنی دھاک بیٹھائے سبکو للکار اٹھے تھے اور واقعی ضرار کے اندر موجود ہمت اسی شخص کی بدولت تھی جس نے ہمیشہ معاف کرنے کو ترجیح دیتے دیتے اپنا بہت نقصان کیا تھا مگر اس بار وہ اپنے خاندان پر کوئی آنچ نہیں آنے دے سکتے تھے، موت تو برحق تھی اور اب وہ کفن باندھ کر اپنے پوتے کی خفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

تمام جرگے کے افراد پر سناٹا طاری تھا، دونوں سرداران سمیت تمام معزز افراد انکی مانگ پر سوچ بچار کرنے کے بارے آپس میں محو گفتگو تھے اور اپنی جیت کو یکدم ہار میں بدلتا دیکھ کر سردار خاقان خان کی رگوں میں شرارے دوڑ اٹھے تھے۔

تیز ترین روشنی کی درز نے اس بدبودار حبس زدہ کوٹیج میں روشنی کا وجود قائم کیا جب دروازہ کسی وحشی انسان نے زور دار طریقے سے کھولا، وہ جسے کرسی پر بیٹھائے ہاتھوں کو رسیوں سے باندھا گیا تھا، یوں تو نقاہت کے باعث ہلنے سے قاصر تھا مگر آنکھوں میں وہ تیز روشنی چبھنے پر اس نے بہت مشکل سے اپنے حواس یلکجا کیے خود کو سر اٹھانے پر قائل کیا مگر اگلے ہی لمحے درد سے وہ جبڑے بھینچ گیا کیونکہ اسکے بال کسی نے جانوروں جیسی ہاتھ کی گرفت میں دبوچ کر اسکا منہ اپنی جانب کیا۔

نیل زدہ چہرے پر خباثت اور فتخ درج کیے سرمد چوہدری اسکی بے بسی پر تمسخر اڑاتا ہنسا جس نے بڑی مشکل سے اپنے اندر باہر تکلیف کی شدتیں برداشت کیں۔

"بڑا مخافظ تھا تو نازلی کا، اب کیا کرے گا۔ تیری وہ نازلی آج میرے ساتھ رات گزارے گی۔ تجھے تب تک میں یہیں قید رکھوں گا جب تک ماموں نہ بنا دوں۔۔ ہاہاہاہاہا بچارا۔۔کہا تھا مجھ پر ہاتھ اٹھا کر تو نے اپنی موت للکاری ہے شہیر"

بے ڈھنگے قہقہے لگاتا وہ شیطان صفت سرمد، خباثت سے اس نڈھال شہیر کو آنکھ مارتا ہنسا جس نے اپنی بے بسی پر اس وقت صرف لعنت بھیجی، سرمد کی یہ جرت اسکے اندر باہر آتش دہکا گئی تھی پھر وہ اسے اذیت اور ذہنی کے ساتھ جسمانی ٹارچر دے رہا تھا۔

"م۔۔موت کسے آئے گی یہ وقت طے کرے گا سرمد، اور جہاں تک اس لڑکی کی حفاظت کا تعلق ہے تو وہ میں یہاں بیٹھ کر بھی کروں گا۔ تیری شکل سے صاف واضح ہے کہ تجھ پر پھٹکار اور لعنت تمام ہو گئی اب بس تجھ جیسا گند زمین میں دفن کرنا باقی ہے تاکہ اسکی بدبو باقی لوگوں کے لیے اذیت نہ بنے"

اپنے جسم سے اٹھتی درد کی ٹیسوں پر مکمل قابو پائے وہ سرمد کی نحوست پر زہریلے لفظ انڈیلتا اسے مشتعل کر چکا تھا جس نے زور دار مکا شہیر کے منہ پر جڑھا مگر وہ پھٹے ہونٹ سے دوبارہ خون رسنے کے باوجود بے دردی سے گھانستا ہوا، منہ میں جمع ہوتا تھوک اسی سرمد کے منہ پر اگلتا ہنسا۔

"یہ ہے تیری اوقات، تیرے جیسا بزدل مجھے باندھ کر ہی تشدد کر سکتا ہے۔ مرد کا بچہ ہے تو کھول میرے ہاتھ، پھر تیری مردانگی باہر نکالتا ہوں جو ابل ابل کر باہر آرہی ہے۔ ڈرتا ہے ناں، ہاہا۔۔ جن جن گناہوں میں تو لتھڑا ہوا ہے سرمد، ان سبکی سزا تیری موت ہی ہے۔۔۔ کھول میرے ہاتھ اور مجھے اس گند کا صفایہ کرنے دے۔۔۔جی کر کیا کرے گا لعنتی۔۔۔ہاہا تیرے منہ پر پھٹکار آچکی ہے۔۔۔ ایک گناہ گار تجھے گناہ گار کہہ رہا ہے، اور تجھے پتا ہے جب ایسی گواہی ملے تو زمین کی آخری تہہ بھی کانپ جاتی ہے"

سرمد کے منہ پر خون کے دھبے اسے ہنسا گئے وہیں سرمد پے در پے اسکو بری طرح پیٹتا ہوا مسلسل شہیر کے قہقوں سے خوفزدہ ہوئے ہاتھ روک گیا جسکا پور پور زخمی تھا پر اس سفاک نے آگ لگانی جاری رکھی۔

"تجھے لائیو سٹریمنگ دیکھاوں گا اپنی اور نازلی کی سہانی راتوں کی، ہاہاہا پھر تجھ پر آکر واپس تھوکوں گا۔ پھر تجھے بتاوں گا تیری اوقات۔ دیکھتے ہیں تجھ میں کتنی جان ہے، میرے دوبارہ واپس آنے تک زندہ رہنا۔ شرم سے مر نہ جانا کیونکہ اپنی حفاظت ناکام ہونے پر تجھ جیسے غیرت مند کو بہت موت پڑے گی۔۔۔ہاہا میں تو چلا نازلی کے ساتھ زندگی خوبصورت بنانے۔۔۔۔۔ہاہاہا آہ شہیر آہ "

اپنے اندر کی غلاظت وہ شہیر کے زخمی وجود کی پرواہ کیے بنا اس پر انڈیلتا کمینگی کی حدیں پار کرتا چہرے پر لگے لہو کے دھبے ہاتھ سے رگڑتا جس طرح آیا اسی فرعونیت سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اس سیاہ تاریک کاٹیج سے نکل گیا جبکہ شہیر نے گہرا سانس بھرتے خود کے وجود سے سرکتی جان پر زور سے آنکھیں موند لیں۔

مسلسل وہ اپنے ہاتھ ، رسیوں سے چھڑوانے کی تگ و دو میں تھا مگر جسم یوں درد سے سن تھا کہ اس سے اس وقت مزاحمت کرنا بھی مشکل تھی۔

"تجھے نہیں چھوڑوں گا سرمد، تو نے ساری حدیں پار کی ہیں۔ بہت سی ماوں بیٹیوں کو تیری نحوست سے بچانا ہوگا۔۔۔مجھے کچھ بھی کر کے یہاں سے نکلنا ہوگا۔ پر یہ تکلیف۔۔۔۔نہیں اس واحد نیکی کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتا کہ میرے میزان میں اسکے سوا کچھ اور نہیں۔۔۔۔"

وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتا آزاد کرنے کی کوشش میں تھا مگر زیادہ تکلیف اس لڑکی کے دیے زخم سے نکل رہی تھی جہاں تشدد کے باعث زخم ہرا ہو گیا تھا ، اسکی شرٹ لہو لہان تھی، چہرے پر خون پھیلا تھا اور زخمی تھا۔

وہ اس مشکل وقت میں اللہ کو بھی کیسے یاد کرتا کہ یہ ذکر تو اس نے سیکھا ہی نہ تھا، ان تعفن زدہ کاٹیج میں اسکا سانس مسلسل گھٹ رہا تھا۔

وہیں بستر پر نیند کی غرض سے لیٹی وریشہ بہت بے چین تھی، دن گزر گیا تھا، عام روٹین کی مانند مگر رات اس بدبخت کی یاد سمیٹ لائی، جب سے شہیر گیا تھا اسکا دھیان اسی سمت تھا مگر اس وقت اسکی بیقراری حد سے سوا تھی۔

کچھ دیر بیڈ پر کڑوٹیں بدلتی جب وہ تھکی تو اٹھ بیٹھی اور سائیڈ میز پر پڑا اپنا فون نکال کر اس نے شہیر کا نمبر ملایا۔

شہیر کا فون اسکی جینز میں دبا تھا جو اس کاٹیج میں لا کر پھینکنے والے لوگوں نے جاتے ہوئے نکال کر زمین پر پٹخ دیا تھا اور اپنی طرف سے اسکے بے کار ہونے کا یقین کرتے وہ باہر نکل گئے مگر شہیر کو فون بیل کی آواز نے جیسے اس تکلیف سے نکالے امید کی روشنی تھمائی۔

شہیر نے گردن گمائے اس ٹون کی پیروی کیے نظر پھیری تو گھاس پھوس کے ڈھیر میں آدھا دبا اسے اپنا فون دیکھائی دیا۔

ہمت کرتا وہ کرسی سمیت خود کو کھسکاتا ہوا اس گھاس پھوس کے ڈھیر تک پہنچا اور پاوں کے ساتھ اس نے اپنا فون اپنی طرف سرکایا جسکی سکرین ایک کنارے سے ٹوٹ چکی تھی مگر وریشہ کی آتی کال پر وہ درد و اذیت سے اٹا شخص جیسے ہر درد ہی بھول گیا۔

"یہ لڑکی! چین نہیں اسے"

عجیب سی سرشاری لیے وہ پیر کو جاگز سے آزاد کرتا بڑی مشکل سے پیر کو ساکس سے آزاد کیے انگوٹھے سے اس آتی کال کو سوائیپ کر گیا جس پر وریشہ نے مقابل آتی عجیب سی خاموشی کو محسوس کیا۔

"تمہیں کیسے پتا چلتا ہے کہ مجھے تکلیف ہے، پہنچ جاتی ہو مسیحائی کے لیے۔ کال کیوں کی ہے"

فون کو سپیکڑ پر اسکی انگوٹھے سے ڈالتا وہ زرا احتیاط سے ٹیک لگائے بیٹھا جسکی اکھڑی سانس مقابل دم سادھ کر سنتی وریشہ کے دل سے الجھی تھی۔

"کیا ہوا ہے؟"

وہ صرف اسکی آواز کا درد محسوس کرتی بے چین ہو اٹھی اور وہ دل جلا زخموں کی شدت بھری جلن کے باوجود دلخراش مسکرایا۔

"یاد آرہی ہو، یاد بھی تو دل کا زخم ہے اور زخم سے تکلیف نکلتی ہے۔ تمہیں کیا ہوا ہے یہ بتاو؟"

وہ مخظوظ ہوا تھا، اسکی آواز بہت بھاری اور لرزش میں تھی جس پر وریشہ پریشان ہو گئی۔

"میں سو نہیں پا رہی"

وریشہ نے سچائی تسلیم کی تھی اور وہ پھر سے مسکرایا۔

"اور میں سو نہیں سکتا"

وجہ بے خوابی کہاں تھی، وجہ تو جسم و جان کے ناسور تھے۔

"تم کہاں رہتے ہو، ابھی کہاں ہو؟"

اس لڑکی کی بے قرار آواز پھر سے اس فون سے بلند ہوئی اور شہیر کو یوں لگا تکلیف کو برداشت کرنے کی ہمت آہستہ آہستہ مدھم ہو رہی ہے اور وہ آنکھیں کھلی رکھ پانا مشکل جان رہا تھا۔

"ابھی؟ ابھی شاید جنت جیسی کسی جگہ پر ہوں۔ اس جگہ کی خوبی یہ ہے کہ یہاں تمہاری آواز گونج رہی ہے"

وہ تکلیف کے سنگ جو بولا، وہ لڑکی لاکھ دامن بچاتی پر اس شخص کا ہر انداز دھڑکنوں کو زنجیر کر لیتا تھا۔

"کبھی کبھی تم عجیب سے لگتے ہو، قابل ترس اور ہمدردی۔ دیکھو شہیر! میں تم سے نفرت نہیں کرنا چاہتی لیکن تمہارے ساتھ بندھ کر رہنا بھی مجھے قبول نہیں۔ تم نے کہا تھا تم کچھ وقت بعد چھوڑ دو گے تو ابھی یہ فیصلہ لو اور ہم جیسے ملے ویسے ہی الگ ہو جاتے ہیں۔ قریب تو تم آو گے نہیں وعدے کے مطابق تو پھر ہم فضول میں یہ رشتہ قائم نہیں رکھتے، غلطی اور بھول سمجھ کر ہم دونوں اسے فراموش کر دیں گے"

وہ تھوڑی افسردہ تھی کہ اسکا مزاج ایسا ہی تھا کہ وہ اپنی ذات سے کسی کو دکھ پہنچا کر سکون سے نہیں رہ سکتی تھی، اور پھر شہیر کے ساتھ ان چند دنوں میں ہی کشش کا تعلق اسکی جان پر بن رہا تھا، سامنے تو اسے اس پر غصہ آجاتا تھا تبھی وہ یہ بات فون پر کر رہی تھی اور وہ گہرا سا سانس کھینچنے مسلسل خود کی تکلیف کم کرنے پر لگا تھا۔

"تم سے نکاح میری زندگی کا پہلا اور آخری ٹھیک فیصلہ ہے وریشہ یوسف زئی، میں تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا تو تمہارا کیا جائے گا کہ کچھ دن میرے نکاح میں رہ لو۔۔۔ وعدے سے مکرتا نہیں ہوں، اور اگر ہوس ہوتی مجھ میں تمہارے وجود کی وری بی بی تو اب تک تم پوری میری ہو چکی ہوتی۔۔۔۔ لیکن تمہیں یوں مجھ سے محبت کرنی پڑتی، لیکن میں چاہتا ہوں تمہیں مجھ سے محبت ہو۔۔ تمہیں ہو جائے مجھ سے محبت، میں تمہیں چھوڑ دوں گا"

وہ یہ سب بہت مشکل سے بول رہا تھا اور وریشہ اسکی باتوں سے دماغ میں درد اٹھتا محسوس کر رہی تھی، یہ کیسا تقاضا تھا کہ محبت ہو جانے پر ہی وہ اسے چھوڑے گا۔

"فضول اور گھٹیا ہو تم، پتا بھی ہے کہ کیا مانگ رہے ہو۔ محبت ہو جائے اور تم چھوڑ دو گے۔ جی چاہ رہا ہے تمہارے سینے سے دل نکال لوں۔۔سفاک انسان"

وہ یکدم غصے سے بھڑکی تو وہ دھندلی آنکھوں سے اندھیرے کو تکتا مسکرایا۔

"وہ تو نکال لیا تم نے وری سائیں! شہیر مجتبی کا سینہ خالی ہو گیا ہے۔۔۔ ایک بات مانو گی وریشہ؟"

وہ اسے اس بات پر بالکل ٹھیک نہ لگا تبھی وہ لڑکی اضطراب کا شکار ہوئی۔

"نہیں مانو گی، مر جاو تم"

وہ تکلیف سے بڑبڑاتی اس سے پہلے آنکھیں عجیب گیلی سی ہونے پر کال کاٹتی، اس بد بخت کی اکھڑتی سانس کا لمس یکدم ہی وریشہ کا دل کپکپائے ہاتھ زنجیر کر گیا۔

"شہیر! تم ٹھیک ہو؟ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم ٹھیک نہیں۔ دیکھو ہماری دشمنی اپنی جگہ پر میرا دل بہت حساس ہے۔ ٹیل می، سب ٹھیک ہے ناں؟"

وہ ہرگز یہ ماننے پر راضی نہ تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ اس سفاک کی آواز ، وریشہ کا کلیجہ کھا رہی تھی۔

"ہمم، بہت مشکل، سفاک، مایوس کُن، دل شکن، اور سخت ہو تم وریشہ یوسف زئی۔ میں نے تو سنا تھا مسیحا کو اپنے مریض سے والہانہ محبت ہوتی ہے، مجھے تو لگتا ہے تم نے مجھ سے وہ انسانیت والی محبت بھی نہیں کرنی بیوی۔ چلو سو جاو، میں مزید تمہاری آواز کو گونجتا ہوا نہیں برداشت کر پا رہا۔۔۔۔ شب بخیر"

وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا پر سانس رک رہی تھی اور وہ محبت کے سوا اس لڑکی سے کچھ کیسے مانگتا کہ ہمدردی اور ترس تو اسے مزید مارتا۔

وہ اسی ٹچ سے کال کاٹ گیا اور وریشہ کو لگا اس نے دھڑکن کی ڈور کاٹ دی ہو، اس سے بات کر کے وہ لڑکی مزید پریشان ہو چکی تھی۔

شہیر نے دلخراشی سے قہقہہ لگایا ساتھ ہی ہمت کیے اس نے ایک دوسرا نمبر آن کیا، کچھ ہی لمحوں میں مقابل فون پک کیا گیا۔

"شہیر! کہاں پر ہے؟"

مقابل سے کاشف کی ابھرتی آواز اسے بہت دور سے آتی سنائی دی تھی۔

"م۔۔میں یہیں ہوں، کاشف! میری بات غور سے سن۔ نازلی کو خبردار کر، سرمد سے بچ کر رہے۔۔۔ اسے میرا میسج پہنچا فورا ، فون ٹوٹ گیا ہے اور سارے نمبر اڑ گئے۔ تیرا ہی یاد تھا"

اپنی پوری ہمت یکجا کیے وہ اسے یہ بریفنگ ہی دے پایا کہ اسکا فون مکمل طور پر بلینک ہو گیا جسکے باعث رابطہ کٹ چکا تھا مگر کاشف تک شہیر کا اہم پیغام پہنچ گیا تھا تبھی وہ پاوں سے فون کو کک مارتا واپس اس گھاس پھوس میں دباتا گہرے گہرے سانس بھرتا سر کرسی کی پشت سے ٹیک گیا اور اب درد اسکے ہوش و حواس کو مکمل طور پر نگلنے لگا تھا۔

آہستہ آہستہ اسکا تڑپتا وجود منجمد ہو گیا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سوری مس مالنی! سر کی اجازت کے بنا آپ ایک قدم بھی باہر نہیں نکالیں گی اور اب سے آپکا یہ فون"

وہ حویلی کے داخلی دروازے پر سوٹ کیس کے ساتھ کھڑی باہر جانے کی اجازت لینے آئی مگر سامنے کھڑے نصیر نے کھردرے لہجے میں جملہ ادھورا چھوڑے پہلے اسکے ہاتھ سے سہولت کے سنگ فون لیا اور مزید بولا۔

" میرے پاس رہے گا، جب تک وہ واپس نہیں آتے آپ یہیں مہمان رہیں گی"

نصیر اپنا فرض نبھاتا مقابل خوف و ہراس اتار گیا جسکا دل شدت سے کانپا۔

"دیکھیں مینجر بھائی، آپکو اللہ کا واسطہ مجھے جانے دیں۔ وہ ماسکو مجھے سالم نگل جائیں گے ۔ پلیز بھائی نہیں ہیں۔۔جانے دیں ناں"

خوف کو ہر ممکنہ دباتی وہ باقاعدہ منت سماجت پر اتری مگر نصیر کے تو گویا سر پر جوں تک نہ رینگی الٹا تو من ہی من میں مسکاتا معلوم ہوا۔

"سوری مس مالنی! ہم بہت امین لوگ ہیں، اپنے مالک کی امانت کی جان سے بڑھ کر حفاظت کرتے ہیں"

نصیر نے گویا لہجہ ہر ممکنہ بے بس بناتے صاف صاف ہری جھنڈی دیکھائی تو وہ منہ بسورتی پلٹی پھر ناجانے کیا ہوا کہ وہ جھٹکے سے واپس مڑی۔

"اچھا! آپ میری ان سے بات ہی کروا دیں۔ میں خود اجازت لے لوں گی پلیز"

اسکے جھکٹے سے مڑنے پر خود نصیر چونکا مگر پھر جیسے اس آپشن پر ایچ بی کے سنگدل مینجر کا دل پگھل سا گیا۔

"امم! اوکے بات کروا سکتا ہوں۔ ویٹ"

وہ رحم کھاتا جیسے مالنی کو کوئی نیک ہستی لگا اور پھر نصیر نے اپنا فون اپنی جیکٹ سے نکالا اور کوئی نمبر ملا کر مالنی کی طرف بڑھایا جو فون جکڑتی فورا کچھ فاصلے پر رکھے بینچ تک پہنچی وہیں نصیر نے ملازم کو مالنی کا بیگ واپس اندر پہنچانے کا اشارہ کیے واپس باہر قدم بڑھائے۔

مالنی اس سرد سی رات کھلے آسمان تلے بیٹھی اس جانب فون اٹھائے جانے کی منتظر تھی اور پھر ایچ بی نے انگلش نیوز پیر سے نظر ہٹائے اپنے فون کی جانب دیکھا اور نیوز پیر فولڈ کیے وہ صوفے پر آرام سے ٹیک لگاتا فون کان سے لگا گیا۔

"ماسکو! آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ پلیز مجھے یہاں سے جانے دیں۔ میں اپنی ہر بدتمیزی کی معافی مانگتی ہوں، م۔۔مجھے نہیں کرنی شادی وادی۔ وہ سب میں بنا سوچے کرتی رہی۔ پلیز مجھے جانے دیں ماسکو! میں یہاں نہیں رہ سکتی"

کال لگتے ہی ٹوٹتا لہجہ اور بھری ہوئی اس لڑکی کی آواز نے ایچ بی کے لبوں پر سرشار مسکراہٹ پھیلائی جو سگریٹ مکمل چھوڑ دینے پر پھر سے گلابی مائل ہو چکے تھے اور وہ تھا بھی یہاں خاصا مزے میں اور ریلکس لیکن جو تڑپ اس لڑکی کے الفاظ میں تھی وہ اسے زیادہ سکون بخش گئی۔

"لیکن مجھے کرنی ہے شادی، کتنا مزہ آئے گا اس رشتے کا۔ آئی ایم سو ایکسائٹڈ۔ ڈر رہی ہو؟ ڈرنے والی تو تم چیز ہی نہیں تھی پھر؟ اگر ایج کے ایشو کے حوالے سے تم پیچھے ہٹ رہی ہو تو اٹس جسٹ آ نمبر۔ تمہاری طرح یہ ایچ بی بھی خالص کنوارہ ہے۔۔سو چل کرو اور وہ کم محبت والا ایشو ہے اگر تو تب بھی مزے کرو کیونکہ ایچ بی کا دل تم سے زیادہ جوشیلا اور جوان ہے"

وہ اس لڑکی کی جان پر یہ دل دہلاتے جملے اتارتا اسے کان کی لو تک سرخ کر چکا تھا مگر وہ ڈر واقعی زیادہ رہی تھی اور اسے ایسا لگ رہا تھا وہ بس اس بندے کو اب دیکھتے ہی مر ور جائے گی اور وہ شوخا وہاں مسکراہٹ دبائے بیٹھا اس لڑکی کی سانسوں کا بے ترتیب ارتعاش سن رہا تھا۔

"س۔۔سوری ماسکو! ایسے مت کریں ناں۔۔۔پلیز"

وہ بمشکل رونے سے خود کو روک پائی تھی جبکہ مقابل بھی مسکراہٹ لمحوں میں غائب ہوئی۔

"تمہیں بھی وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا مالنی! اب جب کر بیٹھی ہو تو انجام کے لیے تیار رہو۔ اور ہاں تم اب بلاججھک میرا چہرہ بھی دیکھ پاو گی سو خوشی سے ناچو جو تمہارے پلینز تھے۔ نکاح کی تیاریاں کل سے حویلی میں شروع ہو جائیں گی اور بے فکر رہو تمہاری ماں کی اجازت اور شرکت کے بنا میں تم سے نکاح نہیں کرنے والا"

وہ واقعی ظالم بنا اس لڑکی کی نزاکت سے کھیل رہا تھا جو بہت مشکل سے آنسو روکے بیٹھی تھی۔

"ا۔۔اور میری اجازت؟"

وہ بھرے دل اور رندھی آواز سے منمنائی جبکہ ہاشم نے خفیف سا مسکرا کر ٹیک لگائے سانس کھینچی۔

"تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں بیوقوف مالنی ، تمہاری اب تک کی تمام بے باک حرکتیں مجھے اجازت پہلے ہی دے چکی ہیں۔ جتنا رونا ہے رو لو، کیونکہ میرے روبرو آتے ہی تمہاری ساری حسیں اوپر کوچ کر جانے والی ہیں۔ اب تیاریاں شروع کر دو، تمہیں ایچ بی کی بیوی بننا ہے، بہت پیاری بیوی۔۔۔گڈ نائیٹ"

لہجہ ہر ممکنہ جان لیوا رکھے وہ کال بند کر چکا تھا اور مالنی صاحبہ بھیگی بلی بنی تھر تھر کانپ رہی تھیں، اپنی حرکتیں اس درجہ جان کو آئیں گی یہ اس معصوم نے کب سوچا تھا تبھی سوں سوں کرتی ناک رگڑے وہ رونے کا واقعی شغل شروع کر چکی تھی جبکہ دوسری جانب ہاشم نے ہونٹوں پر تہلکہ مچاتی شوخ مسکراہٹ دبائئ تھی۔

"آہ مالنی آہ، اللہ تم پر رحم کرے۔۔۔ہاہاہاہا"

اخبار واپس پکڑ کر بے دم ہنستا ہاشم اس وقت ماحول پر سحر طاری کر چکا تھا، لگ رہا تھا وہ تو اپنی ایک مسکراہٹ سے ہی سب تباہ کرنے کے ارادے کیے بیٹھا ہے۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ہمم! ان لوگوں سے ایسی ہی درندگی کی امید تھی مجھے۔ تو یعنی ضرار اور اشنال کی طلاق نہیں ہوئی اور نہ ہی اسکا شہیر سے نکاح ہوا۔ ضرار اور عزیز چاچو کی تمام حکمت عملی قابل ستائش ہے اور میری بہن جیسی اشنال کی زندگی بچانے پر میرا فرض ہے میں ان دونوں کی مدد کروں"

جبل زاد سامنے کرسی پر براجمان تھا اور آخر کار انکے راز میں ولی زمان کو بھی شریک کر لیا گیا جسکے بعد اس تڑپتے سینے کا ایک دکھ مٹ گیا۔

یعنی اشنال محفوظ تھی اور ضرار کی اب تک حفاظت میں تھی یہ اسکے لیے گرم جھلساتی دھوپ میں چھاوں کا کونہ ثابت ہوا۔

"سائیں کو یقین ہے کہ عزیز خان زندہ ہیں اور خاقان خان نے ہی انھیں کہیں غائب کروایا ہے، ان سب نے آپکو بھی اس معاملے سے بے خبر رکھے تدفین کروا دی تاکہ معاملہ اسی طرح رہے جیسے انکا پلین ہے۔ ہمیں جو کرنا ہے جلدی کرنا ہوگا ولی لالہ! ورنہ وہ لوگ سائیں کو نقصان دینے کا ہر گندے سے گندا حربہ آزمائیں گے"

جبل زاد خاصا بے چین تھا اور چاہتا تھا ہر معاملہ اب ضرار کے مطابق ہو اور ولی پہلے ہی اپنے کانسٹیبل کو اندر آنے کا بلاوا بھیج چکا تھا جو اجازت ملتے ہی اندر آیا اور سلوٹ ٹھوکی۔

"ایک اہم کیس ہے منیر! ہمیں اپنے علاقے نکلنا ہے۔ ساتھ ہر طرح کا بندہ لو، فارنسک ٹیم کے بھی دو لوگ ساتھ رکھو اور تم سب لوگ جائے وقوع پر پہنچو۔یہ جبل زاد بھائی ہیں اور یہ تمہیں اس جلی لاش کے باقیات فراہم کریں گے۔ فارنسک ٹیم کو اپنے کام پر واپس بھجواتے ہی تم لوگ اپنے تئیں عزیز خان کی تلاش شروع کر دینا۔ کوئی بھی اہم ثبوت یا کڑی ملتے ہی تم لوگ مجھے باخبر کرنا، میں فجر تک پہنچ جاوں گا"

سنجیدہ انداز میں ولی نے اس آدمی کو تمام بریفنگ دیے روانہ کیا اور خود جبل زاد کو بھی اس نے ان لوگوں کے ہمراہ روانہ کر دیا جبکہ خود ولی کچھ سوچ بچار کرنے کے بعد اپنی دونوں گن اور فون لیتا خود بھی تھانے سے نکل گیا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اگر تم نے مجھے روکا گل تو میں تمہیں بھی مار دوں گی، پیچھے ہٹو۔ میں نے بابا کے پاس جانا ہے۔ چھوڑو ناں مجھے وہ آوازیں دے رہے ہیں"

دوپٹے سے بے نیاز کھڑی وہ کب سے گلالئی کے ہاتھوں سے خود کو چھڑوا رہی تھی، ہر کوئی اپنے اپنے ماتم میں تھا مگر گلالئی نے اپنی ساری توجہ اسکی جانب لگا رکھی تھی، وہ جب دوسری چابی سے اشنال کے کمرے میں آئی تو لڑکی بالکونی کی سیڑھیاں اترتی حویلی کی پچھلی طرف سے باہر نکل گئی تھی ، گلالئی نے اسکی باہر زمین پر پڑی چادر دیکھی تو وہ اسے اٹھاتی ڈر کر پیچھے ہی بھاگی اور اسکا بازو پکڑے بھاگنے سے روکا۔

"خانم! ایسے کیوں کر رہی ہیں۔ وہ قبر میں اتر گئے ہیں، کیسے بلا سکتے ہیں۔ خود کو سنبھالیں خدا کے لیے"

اس پاگل لڑکی کے گرد چادر اوڑھاتی وہ اسکا سرد پڑتا چہرہ تھامے سمجھاتی بولی مگر اشنال اسکے ہاتھ جھٹک کر لڑکھڑاتی ہوئی دوبارہ چلنے لگی، اسے اس وقت نہ رات کے اندھیرے کا خوف تھا نہ ننگے پیروں میں دھنستے پتھروں کی پرواہ بس وہ کسی طرح قبرستان جانا چاہتی تھی۔

گلالئی نے کانپتے دل کے ساتھ اک نظر پیچھے مہیب سناٹا دیکھا اور خود کے گرد بھی مضبوطی سے چادر جکڑتی وہ اشنال کے پیچھے چلنے لگی۔

"خانم! پیر۔۔۔آپکے پیروں سے خون نکل رہا ہے۔ آپ کیوں اتنی بے حس ہو گئی ہیں۔ رکیں"

ٹھوکر پر اشنال نے گرتے ہی فوری اٹھ کر بھاگنا شروع کیا تو گلالئی کا گویا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اس سے پہلے وہ اشنال کو پکڑنے پیچھے بھاگتی، کسی پہاڑ سینے سے وہ لڑکی نا صرف ٹکرائی بلکہ اگلے ہی لمحے گلالئی کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

سامنے میثم ضرار چوہدری تھا اور اسکو بری طرح پرے دھکیلتی اشنال کی جیسے ہی نظر اسکی صورت پر پڑی وہ پاگل دیوانی بھی یہیں تھم چکی تھی۔

"گلالئی! واپس جاو اور فجر کے وقت یہیں آکر اپنی خانم کو لے جانا"

اس سے پہلے کہ اشنال اس پر چینختی، ضرار نے اسے سہولت سے بازووں میں اٹھایا اور گلالئی کو سخت لفظوں میں تاکید کرتا تیزی سے واپس جنگلی راستے کی طرف بڑھ  گیا اور گلالئی یوں سفید پڑی جیسے اس نے واقعی کوئی جن دیکھا ہو، جھرجھری لیتی وہ ہوش میں لوٹتے ہی پیچھے بھاگی مگر تب تک اسے میثم ضرار تو کیا دور پار کہیں اسکا سایہ بھی دیکھائی نہ دیا۔

گلالئی کی گردن پر گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی اور وہ ڈرتی ہوئی واپس پلٹ کر بھاگ نکلی وہیں اس لڑکی کی چیخیں اس سے پہلے کسی کو خبر دیتیں وہ اسے اپنی گاڑی کے قریب جا کر ناصرف نیچے اتار چکا تھا بلکہ اگلے ہی لمحے اپنے ایک ہاتھ سے اس نے اشنال کا منہ بند کیا اور اس لڑکی کی چینخیں گویا اس کے اندر ہی دفن ہوئیں۔

وہ اسے نفرت بھری نظروں سے ہنوز تکتی جھلسا دینا چاہتی تھی جو بہت نرمی دیکھانے کے بعد اب صنم کا دماغ درست کرنے کا فیصلہ لے چکا تھا۔

"اگر آپ نے منہ کھولا یا آپکی آواز یہاں گونجی تو یہ رات آپکی آخری رات ہوگی اشنال عزیز اور آپکو میثم کی جان لینے کی مہلت بھی نہیں ملے گی"

اسکی حالت اور اک اک تکلیف گلالئی نے جب ضرار کو بتائی تو اس سے یہ برداشت نہ ہوا اور اس نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرتے گل کو پہلے اپنے بے قصور ہونے کا یقین دلایا اور پھر اسے ساتھ ملایا مگر اشنال کے یوں حویلی سے بھاگنے کی ضرار کو پوری امید تھی کہ وہ پاگل لڑکی قبرستان ضرور جائے گی تبھی اس نے گل کو اسکے پیچھے ہی رہنے کا کہا تھا۔

وہ سخت غصے میں تھا اور اشنال کی مسلسل بے حسی اس شخص کو بھی تھوڑا پاگل کر چکی تھی، ضرار نے اس لڑکی کی سرخ آنکھیں دیکھ کر اور اپنی دھمکی کی شدت سے اسکا لرزتا وجود محسوس کیے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور اسکا منہ آزاد کیا۔

"منحوس انسان، تمہاری اتنی ہمت کے تم نے میرے بابا کو مارنے کے بعد مجھے بھی کڈنیپ کر لیا۔ اب تم نہیں بچو گے"

بنا ضرار کا غصہ بھانپتی وہ سر پھری اس پر چلائی کہ اس کے جسم کا رہا سہا خون اسکے چہرے پر چھلک آیا جبکہ اب میثم کو اسکی بات پر تکلیف نہیں بلکہ عتاب چڑھا۔

"دل چاہ رہا ہے آپکو کسی کھائی میں دھکا دے دوں تاکہ ہوش آئے کہ کتنا برا کرتی جا رہی ہیں، بہت نرمی ہو گئی میری جان۔ اب آپ اس عاشق اور دیوانے کا اخیر ضبط بھی آزما چکی ہیں۔ مطلب کوئی کچھ بھی کہے گا اور آپ منہ اٹھا کر اسکی بات مان لیں گی۔ پوری دنیا کا سب سے گندا انسان بھی آجائے تو میری دی گریٹ اشنال صاحبہ فورا میثم کو مجرم مان کر کٹھہرے میں کھڑا کر دیں گی۔ "

وہ ساری نرمی بھاڑ میں جھونکتا اس لڑکی کی سنگدلی پر سخت لفظ کہتا احتجاج کر رہا تھا اور وہ مسلسل اسکے سینے پر مکے برساتی نجانے کونسے بدلے چکا رہی تھی۔

"تمہیں مارے بنا نہیں مروں گی سن لیا، ہاں تم پتا کیا ہو؟ تم منہ سے آگ نکالنے والے ڈریگن ہو۔ تم گرو کھائی میں، سب کو بتاوں گی بچو کہ تم نے مجھے کڈنیپ کیا۔ چھوڑ دو مجھے نہیں تو میں تمہارا یہ منہ نوچ لوں گی۔۔۔۔چھوڑو!"

کچھ دماغی فتور جبکہ کچھ تکلیف نے مل کر بھی اس لڑکی کو وحشی بنا دیا لیکن ضرار نے ایک چیز محسوس کی کہ وہ پاگل کے ساتھ ساتھ چند دنوں میں لڑاکو بھی ہو گئی ہے اور جناب نے اس انٹینس ماحول کے باوجود غصہ زائل کرتے ہی اس کھولتی بلا کو دیکھا جسکا بس نہ چلا وہ اسکے ناک پر ہی کاٹ دیتی۔

"ہاں بالکل سب کو بتائیے گا اور یہ بھی کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رات گزار کر آئی ہوں، بہت مزہ آئے گا"

وہ اپنے سرسراتے خوفناک جملوں سے اشنال کی چینخیں دبواتا اسکے چہرے پر بے یقینی اور خوف لایا اور جس طرح اس نے اشنال کے دونوں ہاتھ جکڑ کر اسی کی کمر پر باندھ کر لاک کیے، وہ اسکے نے خود ارادے بھانپ کر حراساں ہوئی۔

"تم میں شرم نہیں ہے، میرے بابا مرے ہیں۔ تم نے مارا اور تم یہ کیسی گندی باتیں کر رہے ہو۔

انکے قاتل کو صرف آگ لگا سکتی ہے اشنال عزیز!

تم سہی میں جہنمی ہو۔ چھوڑ دو مجھے۔ آج میں تمہارا خون پی جاوں گی، مجھے تم پر بہت غصہ ہے۔۔۔۔ "

وہ مسلسل اپنے ہاتھ چھڑواتی جن زادی کی طرح غرا رہی تھی اور وہ بڑے مزے سے اسکی پھنکارتی آواز اور سینے میں گڑھتی آنکھیں دیکھنے میں محو تھا۔

"جی بہت بے شرم ہوں، اب نہ تو کوئی صفائی دوں گا نہ آپ سے آسان اور نرم انداز میں بات کروں گا۔ میرے بے جا لاڈ نے آپکو سر چڑھا دیا اور اب میں اپنے طریقے سے آپکے سر کا بھوت اتاروں گا۔ مطلب حد ہوتی ہے سفاکی کی، اچھا ہوا آپکا دماغی توازن ہل گیا، مجھے پتا تو چل گیا کہ کتنی بے یقین ہیں آپ میثم کے لیے۔ آپ نے مجھ سے محبت کی ہوگی پر اعتبار نہیں کیا۔ کسی طوفان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ آپکے مجھ پر قائم اعتبار کو ڈگمگا دیتا۔ میں قاتل لگتا ہوں؟ میں! جس کے لیے تڑپ رہی تھیں۔۔۔۔ جس کے بنا ایک لمحہ رہنا دوبھر تھا۔۔۔۔۔بتائیں اشنال! میرے سوال کا جواب آپکو دینا ہوگا"

وہ اسکی خود پر ناراضگی سے جمی آنکھوں کو دیکھ کر مزاحمت میں کمی کرتی اسے دیکھنے لگی پھر اسکے ہلتے ہونٹوں نے جو لفظ ادا کیے وہ اس نے سنے مگر دل میں تکلیف اور دماغ میں وحشت بھری تھی، وہ کاٹ رہی تھی۔

ضرار کا لہجہ پہلی بار اس لڑکی کے لیے سخت ہوا تھا وہ بھی مصلحتا تاکہ وہ اپنا صنم تو واپس اپنا کر لیتا، دنیا کو تو وہ ویسے بھی جوتے کی نوک پر رکھنے والا آدمی تھا۔

"وہ سب جھوٹ بولا تھا میں نے، مجھے تمہارے پاس آنے پر تب بھی درد ہوا تھا۔ بہت سارا۔ تم نے کچھ پڑھ کے پھونکا ہوگا جادو ٹونے کرتے ہو، ہو ہی کمینے"

وہ آگے سے ڈھٹائی سے بولی اور ضرار نے بڑی مشکل سے خود کے غصے پر قابو پایا۔

"واہ واہ! اس پاگل پن میں جادو ٹونے کا بھی پتا ہے آپ کو صنم!

اب تو مجھے لگتا ہے آپ بالکل ٹھیک ہیں بس مجھے اذیت دے رہی ہیں خوامخواہ، یہ کوئی آزمائش لے رہی ہیں تو ابھی بتا دیں ورنہ میں نے ایک انچ بھی اپنا دامن آپ سے دور کیا تو آپکو دوسری سانس نہیں آئے گی اشنال"

اسکی عجیب گڈ مڈ حالت پر میثم کا دماغ پھڑپھڑایا، جبکہ جس طرح وہ اسکے سہمے چہرے پر آنکھیں ٹکائے سرد لہجے میں بولا، کچھ لمحے جبرا خاموشی کی نظر ہو گئے۔

"تم آکسیجن ہو کیا؟ تم تو زہر ہو جو سونگتے ہی بندہ مر جائے۔ دیکھنا میں تمہیں مار کر بابا کے پاس جاوں گی تو ہم وہاں جنت میں مل بیٹھ کر تمہیں آگ میں جلتا دیکھ کر انجوائے کریں گے"

اشنال کی اگلی گل فشانی پر وہ سر تا پیر گھوم گیا، دل یہی کیا ساتھ والے درخت سے ٹکریں مارنے لگے۔

"جنت جائیں گی آپ؟ جو سلوک اپنے شوہر سے کر رہی ہیں پتا نہیں جان بوجھ کر یا انجانے میں اس پر آپکو بھی جہنم میں میرے ساتھ والا اپارٹمنٹ ملے گا"

ایک ایک لفظ اسی کے بدحواس انداز میں ادا کرتا بچارا ضرار بھی آدھا پاگل ہی لگا اور وہ لڑکی مرجھائے چہرے کے سنگ اسکو گھورنے لگی۔

"مجھے درد ہو رہا ہے، تم میرے ہاتھ اور بازو توڑ دو گے کیا؟"

خود پر حاوی ہوتے شخص کا کٹا ہوا انداز کچھ دیر اسے بوجھل کرتا رہا پھر جیسے میثم نے اسکے دونوں ہاتھ اسکی کمر پر باندھے تھے، اسے ہاتھ سن ہوتے محسوس ہوئے تو وہ آنکھوں میں نمی لائے بولی۔

"کاش آپکو سارا توڑ کر دوبارہ فکس کر سکتا تاکہ دماغ کے ڈھیلے سکریو ٹائیٹ ہوتے، پتا نہیں کونسا جرم کر بیٹھا ہوں جو آپکی یہ حالت میرے صبر کا امتحان بن گئی ہے"

جناب نے منہ بسورے دل میں سوچا اور آہستگی سے اسے اپنے حصار سے آزاد کیا مگر آزادی ملتے ہی وہ اس کی پہنچ سے پھدک کر بھاگی مگر ضرار نے بروقت کلائی جکڑے اس بار زور سے جھکٹا دیا تو اشنال نے لہرا کر واپس جمتے خوفزدہ ہوتے اسے دیکھا جو جان نکال دینے کی حد تک خطرناک ہو چکا تھا۔

"کدھر بھاگنا چاہتی ہیں؟"

وہ تندہی سے اسکے کانپتے بھینچ لیے جاتے ہونٹ اور غصے و ڈر سے ملی آنکھیں دیکھتا بولا۔

"ت۔۔تم سے دور"

دماغی خلل میں صاف گوئی کا تو ثانی نہ تھا کوئی۔

"دور جانا چاہتی ہیں؟ ایک شرط ہے"

اسکی کلائی اپنی طرف کھینچتا وہ اسے درخت سے جوڑ کر کھڑا کیے زرا نزدیک آیا تو وہ اسکی قربت کے خوف سے پھر سے کانپی، آنکھوں میں تکلیف ہلکورے لینے لگی۔

"ک۔کونسی شرط"

پوچھتے سمے اسکے ہونٹ لرزے۔

"یہی کہ پھر آپکو کبھی اپنے قریب آنے نہیں دوں گا"

وہ چاہتا نہیں تھا پر یہ لڑکی اسے ظلم ڈھانے پر مجبور کر چکی تھی۔

"ت۔۔تو میں کون۔نسا قریب آنے کے لیے مری جا ر۔۔رہی ہوں۔۔۔ م۔۔میں تو خود مارنا چاہتی ہوں۔ تم ق۔۔اتل ہو تو میں پاگل تھوڑی ہوں جو تم۔۔تمہارے قریب آنا چاہوں گی۔۔۔بھاگنے دو وہ بابا بلا رہے ہیں۔۔۔پلیز۔۔۔"

وہ ڈری سہمی ہکلاتی بولی جبکہ اتنے غصے کے باوجود وہ بڑی مشکل سے پاگل والی بات پر اپنی مسکراہٹ روک پایا، اسے یہ لڑکی سخت ہونے ہی نہیں دے رہی تھی ورنہ سارے سکریو بذات خود ٹائیٹ کر دیتا۔

"مطلب آپکو شرط منظور ہے؟ آپ لاکھ تڑپیں گی، ترسیں گی پر میثم آپکو نہیں ملے گا۔ قبول ہے؟"

وہ پھر سے لہجہ تاریک کرتا اسے گھیر کر آہستگی سے حصار میں لیے اپنے لمس کا سحر پھونک کر یہ جواب مانگ رہا تھا جسکا چہرہ یکدم سفید اور آنکھیں دھندلانے لگی تھیں۔

"ہ۔۔ہاں۔۔۔۔نن۔۔نہیں۔۔۔ناں "

اول وہ غائب دماغی سے سر ہلاتی منمنائی مگر پھر اسے لڑکی کے وجود سے انکار کرتے ہی جان سرکنے لگی اور جب وہ اچانک جھول گئی اور میثم کے وجود میں سمٹی تو وہ بھی اسکے بے دم ہونے پر بوکھلایا۔

وہ ہوش سے بیگانی ہو چکی تھی جبکہ اک لمحہ تو لگا اس لڑکی کا سانس بند ہو گیا ہے۔

"اشنال! "

وہ اسے سنبھالتا بمشکل اسکی گال تھپکائے بولا مگر وہ اسکی نہ آواز سن پائی  نہ تکلیف دیکھ سکی۔

فوری اسے بازووں میں اٹھاتا وہ گاڑی کی جانب لپکا، احتیاط سے اسے پچھلی طرف لٹائے ضرار نے فورا گاڑی واپس علاقے کی جانب بھگائی اور اسکی اگلی منزل بزدار حویلی تھی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"نانو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مشارب، وہ بہت تکلیف میں ہیں۔ پلیز آپ انکے پاس ہی رہیے گا۔ ہم انکے لیے خود کچھ کھانے کو بنا کر لاتے ہیں"

مشارب خود بھی جرگے کے تمام لوگوں کے ساتھ تھا اور سبکی الگ الگ رائے جاننے میں لگا تھا، علاقے کے کئی معززین، سردار خاقان خان کے بجائے اب چوہدری بزدار عالم کی حمایت میں نظر آرہے تھے اور سب کا موقف یہی تھا کہ اگر بزدار عالم اس قتل کی قانونی تصدئق کرنا چاہ رہے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں مگر سردار خاقان کے اندر گویا اذیت سے چیونٹیاں رینگ رہی تھیں، وہ کیسے اجازت دیتا کہ اس سے تو اس فرعون صفت کا سارا کھیل ختم ہو جاتا اور ممکن تھا یہی پنچائیت اور علاقے کے معززین ہی اسے اس غلط الزام پر سرداری جیسے منسب سے ہٹوا دیتے سو اس نے سردار شمشیر یوسف زئی کو کچھ گھنٹوں کی مہلت لینے کے لیے قائل کیا۔

یوں جرگہ صبح سویر فجر کی نماز تک ملتوی ہوا اور فجر کے فورا بعد اس قتل کا فیصلہ قرار ہونا پایا، مشارب کو کچھ امید تھی کہ بزدار عالم کی یہ مانگ وقت کا تقاضا ہے تبھی وہ کچھ مطمئین سا ولی سے فون پر بات کیے اسے موجودہ تمام حالات و واقعات سے باخبر کرتا حویلی واپس آیا تو زونین اسے گل خزیں خانم کے کمرے سے نکلتی دیکھائی دی جو بہت فکر مند اور پریشان لگ رہی تھی۔

"آپ زحمت نہ کریں، باورچی میں ملازمائیں موجود ہیں۔ جو بھی بنوانا ہے انھیں بتائیں بن جائے گا۔ مجھے واپس جانا ہے، دیکھنے آیا تھا اماں سائیں کو"

وہ نرمی سے کہتا اسکے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوا جہاں گل خزیں بے جان سی بمشکل سانس گھسیٹیں مسلسل روئے جا رہی تھیں، مشارب انکے پاس ہی بیٹھا اور انکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیے چوما مگر اس عورت کی تکلیف اس بندے کا دل دہلانے کو کافی تھی۔

"تسلی رکھیں اماں سائیں، ہمت مت ہاریں۔ دعا کریں آپکا بیٹا زندہ ہو، اور اگر واقعی انکو کسی درندگی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے تو میں خود اس مجرم کو عبرتناک سزا دوں گا۔ آپکی طبعیت پہلے ہی ناساز ہے ، کم ازکم میرے اور زونی کے لیے آپکو ہمت رکھنی ہے"

وہ خود ان حالات سے افسردہ تھا مگر اس عورت کی تکلیف آج بھی مشارب زمان خان کے سینے کو جکڑ رہی تھی، زونی بھی تکلیف میں تھی، نانو کو دینے کے لیے اسکے پاس کوئی تسلی باقی نہ بچی تھی۔

"ہمت کیسے رکھوں، اس کو میں نے اس آگ میں دھکیلا ہے۔ اپنے ان بدبخت ہاتھوں سے۔ صبر کیسے آئے گا مشارب خان! صبر بڑا مشکل ہے"

بھاری رنجیدہ آواز گویا ڈوبتی ابھرتی محسوس ہوئی اور وہ بھی جیسے اس وقت تسلی آمیز کچھ نہیں کہہ پایا تھا، ولی ہی آخری امید تھا جو ایک اہم کام نمٹاتے ہی خانم حویلی آنے کی اسے خبر پہنچا چکا تھا۔

"پھر بھی اماں سائیں! حوصلہ تو کرنا ہوگا۔ یہ وقت گزر جائے گا، ہر ظالم کو اسکے ظلم کی قیمت چکانی ہوگی۔ مت روئیں، آپکو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا"

وہ خود کمزور پڑ رہا تھا تبھی دادی سائیں کے سینے سے لگتا ڈوبتی آواز میں بولا جو بس آنکھیں میچ لیتی پل پل کسی آتش کی زد میں تھیں اور زونی بھی اپنے آنسو روک نہ پائی۔

وہیں دوسری جانب کاشف نے شہیر کا پیغام نازلی تک تو پہنچا دیا مگر خود وہ اپنے چار پانچ لوگ لیے شہیر کی تلاش میں نکل چکا تھا، شہیر کے دونوں نمبر بند آرہے تھے اور وہ اپنے کسی ٹھکانے پر موجود نہ تھا۔

کاشف کے لوگوں نے سرمد کے کلب پر بھی چھاپا مارا مگر سرمد اور اسکے خاص چیلوں میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا۔

شہیر کی ڈوبتی آواز اسے بے سکون کر چکی تھی جبکہ اسکا یکدم فون بند ہو جانا بھی اسکے دوست کی نیند غارت کر چکا تھا اور وہ مسلسل اپنی پہنچ میں آتی ہر متوقع جگہ شہیر کو ڈھونڈنے میں لگا تھا مگر فی الحال اسکا سراغ کہیں نہ ملا۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"کہاں ہیں آپ دادا سائیں"

اپنے کمرے کی طرف آتا وہ فکر مندی سے فون پر اس جانب متوجہ تھا جہاں وہ آرام دہ صوفے پر براجمان سردار شمشیر یوسف زئی کے کہنے پر انکے مہمان خانے میں موجود تھے، جرگے نے کل فجر تک سوچنے کی مہلت لی تھی تبھی سردار شمیشر یوسف زئی نے انھیں اپنا مہمان خانہ دیا تھا صبح تک کے انتظار کا اور خود وہ خانم حویلی واپس جا چکے تھے جہاں سردار خاقان انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔

"یہیں ہوں پہلے یہ بتاو جو تم نے خزیں کے ساتھ کروایا وہ سچ ہے؟"

اس سے پہلے ضرار کمرہ کھولنے کو ڈور ناب گماتا، دادا کے غراتے استفسار پر میسنی مسکراہٹ کے سنگ پلٹ کر وہیں رینوں کے ساتھ لگی ریلنگ پر جھکا۔

"پہلے یہ بتائیں آپکو یہ اندر کی خبر دی کس نے؟"

ضرار کا لاپرواہی سے شرارت پر اترنا بزدار عالم کو طیش دلا گیا۔

"جس نے بھی دی ہو، شرم نہیں آئی دادی جیسی عورت کے ساتھ یہ کرواتے"

وہ یکدم بھڑکے اور وہ ہنوز غیر سنجیدہ تھا۔

"خیر ہے ناں؟ دشمن کی حویلی جاتے ہی دل کے ارمان تو نہیں مچل گئے سرکار۔ دشمن دادی ہے وہ۔ ویسے بھی زندہ سلامت حویلی پہنچا دیا تھا محترمہ کو، ابھی تو میں نے اشنال کے ساتھ اس بڈھی کے کیے ظلم کا اس سے سخت بدلا لینا تھا پر آپکی محبت ہونے کے ناطے بخش دیا۔ باقی وہ سانپ اپنا کوئی ادھار چکانے آیا ہوگا جس میں میرا کوئی قصور نہیں"

ضرار کا خفیف سا تلملانا اور منہ بگھاڑ کر آخری بات پر دامن بچانا گویا بزدار عالم کا افشار خون بہتر کر گیا۔

"بے ادب! تمہیں آکر مرغا بناوں گا زرا یہاں سے نمٹ لوں۔ جرگے کا فیصلہ صبح فجر کے بعد ہوگا اور میں یہاں سردار شمشر کے مہمان خانے میں ٹھہرا ہوں۔ محتاط رہنا اللہ حافظ"

اول جملہ وہ خفت سے اس بدزبان پوتے کو ڈپٹ کر کہتے پھر اپنے ٹھیک ہونے کا اطمینان بخشے کال کاٹ گئے تو ضرار نے بھی گہرا سا سانس لیے کمرے کا رخ کیا۔

دروازہ کھولا تو وہ بیڈ پر لیٹی تھی جسکا ڈرپ کی زد میں ڈوبا نازک ہاتھ اماں فضیلہ کے ہاتھ میں مقید تھا اور وہ اس پر قرآنی آیات پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔

وہ اسے سیدھا بزدار حویلی ہی لایا تھا، قریبی ڈاکٹر نے آکر اسکی حالت کے بیش نظر ڈرپس لگا دی اور اسے آرام کا کہا جبکہ یہ بھی تاکید کی کہ جب وہ جاگے تو اسے کچھ کھلا دیں کیونکہ کمزوری، اذیت ، تکلیف کی شدت نے مل کر اشنال کو بے ہوش کیا تھا۔

اماں فضلیہ نے اسکے لیے سوپ تیار کیا تھا مگر اب منتظر تھیں کہ وہ جاگے۔

ضرار وہیں دروازے سے لگ کر سینے پر ہاتھ لپیٹے کھڑا اشنال کی بند آنکھیں دیکھنے لگا جب بے اختیار فضیلہ اماں کی نظر اس بچے پر پڑی تو وہ فورا اشنال کے پہلو سے اٹھیں۔

"انھیں فجر تک خانم حویلی واپس پہنچانا ہے اماں فضیلہ، ہوش میں آجائیں گی ناں؟"

وہ ضرار کے سوال میں چھپی تڑپ پر افسردہ سی چل کر قریب آئیں اور اپنی شفیق ہتھیلی اسکی گال سے جوڑے تسلی آمیز مسکائیں۔

"ان شاء اللہ میرے بچے، تم اسکے پاس بیٹھو۔ جیسے ہی جاگے مجھے بتانا میں خود اسے کچھ کھلا پلا دوں گی۔ میں زرا عشاء کی نماز پڑھ لوں"

وہ رسانیت سے کہتیں کمرے سے نکلیں اور دروازہ بھی آگے کر گئیں جبکہ وہ پہلی بار اس لڑکی پر غصہ ہوا اور وہ اس حال تک پہنچ آئی۔

ضرار قدم بڑھاتا اسکے قریب آیا اور وہیں بیٹھا جہاں کچھ دیر پہلے اماں فضیلہ براجمان تھیں۔

"دیکھیے گا، ناراض ہو جاوں گا۔ پھر میثم ضرار چوہدری آپ سے کبھی منایا نہیں جائے گا۔ میں کیسے مان لوں کے آپکا دل آپکو میرے قاتل ہونے کا یقین دلا رہا ہے، میں کیسے مان لوں آپ مجھ سے بہت بری طرح بے یقین ہو چکی ہیں۔ ایسا کیسے ممکن ہے اشنال؟ کیا میری محبت، اتنی بے وقعت ہے؟"

اسکے یہ اپنے ہی لفظ اسکے اندر کا ہر احساس اکھاڑ گئے تھے، وہ یوں تھا جیسے کسی نے دل کچل دیا ہو۔

وہ اسکے وجود کو حصارے اسکے وحشی دل سے کان لگانے کو اس پر جھک گیا، دل تو صرف میثم پکار رہا تھا۔

"پلیز اشنال یا میرے قریب آجائیں یا مجھے مکمل خود سے دور کر دیں، آدھی ادھوری سانسیں لینا بہت مشکل ہے۔ "

وہ اس پر اپنا بوجھ ڈالے آنکھیں موند کر اسکی گردن میں چہرہ چھپائے بوجھل سرگوشیوں میں بولا جو پل پل گہرے سانس کھینچتی اسے سننے کے باوجود ان سنی کر رہی تھی۔

"پل۔۔لیز دور رہو میثم"

وہ بند آنکھوں سے ہی اس سے نجات کو سسکنے لگی تو ضرار نے بے خودی سے وہ مدھم سانسیں خود میں شدت سے کھینچ کر اتاریں اور اپنا ایک ہاتھ اس لڑکی کے سر کے نیچے رکھے زرا سا اٹھائے اسکو جکڑے خود میں سموئے حصار لیا جسکا پورا وجود ان بے رحم عنایات پر کانپ اٹھا تھا۔

"میں تو آج تک اپنے اور اپنے خاندان کے مجرم اس خاقان یرقان نامی گند کا خون نہ بہا سکا، میں کیسے عزیز خان کو مار دیتا جو ہاشم بزدار کے ساتھ میرا بھی بہت بار مسیحا بنا"

وہ اسکے کانوں سے لب جوڑتا بولا ، اس نے اشنال کو خود میں مقید کر رکھا تھا جو خواب کی سی نیم جان حالت میں ڈوبی اس کی قربت سے پرسکون ہوتی جا رہی تھی، جیسے وہ اس پر کچھ فدائی سا پھونک رہا ہو۔

آپ نے ٹھیک ہونا ہے اشنال یا میں اپنے طریقے سے کروں؟ یاد رکھیے گا سب ٹھیک تو میں کر لوں گا مگر پھر ہمارے بیچ کچھ ٹھیک نہیں رہے گا"

کچھ دیر وہ بالکل پرسکون سی اسکی آغوش میں سانس بھرتی رہی پھر جیسے خود ہی ہوش و حواس واپس لوٹتے اس نے میثم کے بازو جھٹک کر نکلنا چاہا جو اسکی بازو جکڑے وہیں لاک کرتا خاصے تلخ لہجے میں بولا۔

"مجھے کچھ ٹھیک نہیں کرنا"

وہ بے نیاز بنی تھی، اسکا لہجہ بھیگا ہوا مگر غصے سے لبریز تھا تبھی ضرار اسکی سنگدلی پر بل کھا کر رہ گیا۔

"یہ آپکا آخری فیصلہ ہے؟"

وہ اجنبیت سی انداز میں پروئے اسکی بے حس آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا جو سانس روکے اس کے اگلے جملے کی منتظر آنکھیں ناشناسائی کی گرد سے بھرے اسکے قریب اضطراری نگاہ ڈالے بیٹھی تھی۔

"تم بھی ساری دنیا جیسے ہو میثم، صرف رلاتے ہو"

اس کی بھرائی آواز اور معصومیت نے جھٹکے سے میثم ضرار چوہدری کی تنبیہہ مسترد کی۔

"آپ نے کوئی آپشن نہیں چھوڑا اشنال، مجھے جتنی تکلیف دے چکی ہیں اس کے بعد بھی آپکو اپنے قریب رکھا ہے تو صرف اس لیے کہ آپکو میثم دنیا جیسا نہ لگے۔ میرا دور چلے جانا آپکی تکلیف ہے، اور قریب آنا بھی آپکی اذیت ہے۔ پھر ہم سچ میں ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں، نہ آپ مجھے پکارنا نہ میں آپکو آواز دوں گا۔ اگر یہی چاہتی ہیں تو بتائیں، آپ کے لیے یہ بھی کر گزروں گا"

وہ خود پر قابو پائے کوئی آسان تدبیر کا خواہش مند تھا اور اسکے لہجے میں محسوس کن سختی تھی جسکے سوالوں اور اشنال کی منشاء کے مطابق فیصلے کی شدت اسکے ستم گر لہجے سے عیاں تھی تبھی تو وہ میثم کے لہجے کی اجنبیت اور تکلیف کے پردے میں چھپے بے تحاشا غصے کو بھانپ گئی، وہ نظریں جھکا کر اپنے ہاتھوں کو اس کے ہاتھوں میں جکڑا دیکھتی رہی اور پھر آہستگی سے اس نے اپنے ہاتھ میثم کے ہاتھ سے چھڑوا لیے۔

"مجھے واپس چھوڑ کر آو، اور میرے سامنے کبھی مت آنا۔ تم سے محبت کا ثبوت دوں گی، تم پر اپنے بابا کی موت معاف کر رہی ہوں لیکن میں اب تمہاری رہی سہی بھی نہیں رہی۔ میں تمہیں مار نہیں سکتی، میں تھک گئی ہوں ، مجھے ایک لمبی نیند سونا ہے۔ پلیز تم دوبارہ مت آنا میرے سامنے ورنہ پاگل پن میں اشنال عزیز کچھ بھی کر گزرے گی"

وہ نہ صرف اس پر صدیوں کی تھکن لادے بولی بلکہ میثم کی تکلیف سے بھری آنکھوں میں تکتی اٹھ کھڑی ہوئی، اسکے وجود میں اب بھی جان نہ تھی مگر اس شخص کے قریب مزید رہنا اس لڑکی کا صرف خسارہ تھا۔

"فائن، فجر سے پہلے چھوڑ آوں گا۔ فضیلہ اماں کو بھیجتا ہوں۔ کچھ کھا لیں تاکہ یہ سنگدل فیصلہ ہضم کر سکیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے گا اشنال عزیز! اب سب سے بڑی ناراضگی میثم کی آپ سے ہے۔ خود پر سارے الزام تو دھو لوں گا پر جو داغ آپ دے کر جائیں گی آج، وہ آپکا ہی امتحان بنے گا"

وہ بھی جیسے تمام ہمت ختم ہونے پر سفاکی سے اٹھ کھڑا ہوا، مزید خود کو اس لڑکی کے سامنے جسٹیفائے کرنا ناممکن تھا، میثم نے اسکی سرخائی گھلی آنکھیں دیکھ کر اپنے سخت ترین جملے ادا کیے اور گہرا سانس خارج کرتا پلٹا مگر اشنال نے اسکا ہاتھ ایک بار پھر بے اختیار تھاما جس پر میثم کے چہرے پر اسکے جسم کا سارا لہو چھلک آیا۔

"نہیں صنم! اب نہیں۔۔۔۔ اب آپکو اپنی شکل تبھی دیکھاوں گا جب میرے پاس آپ پر حاکمیت کا ہر اختیار ہوگا"

جبرا ہی سہی پر بے دردی سے اس لڑکی کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑواتا یہ ظالم حکم سناتا کہتے ہی کمرے سے نکل گیا اور وہ لڑکی سانس بھرتی بھرتی واپس گرنے کے انداز میں بیٹھی۔

اس نے اپنا ٹیسوں سے بھرا سر ہاتھوں میں جکڑا جیسے وہ اس اذیت کو مسل دینا چاہتی ہو۔ مگر سب کچھ ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل گیا تھا، اسے یوں لگا اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی کائنات اجاڑ دی ہے۔

فضیلہ اماں کچھ دیر تک ملازمہ کے ساتھ اسکے لیے سوپ اور کھانا لائیں جسے وہ ربوٹ بنی بس کھاتی رہی، اسکی آنکھیں مکمل رو چکنے کے بعد پتھر ہو چکی تھی، اور پتھر کبھی پگھلا نہیں کرتے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"خیریت ہے، تم یہاں کیسے آنکلے؟"

وہ سپاٹ چہرے کے سنگ نوابی انداز میں کنزا کے روبرو بیٹھا مشکوک نظروں سے ادھر ادھر کا جائزہ لے رہا تھا جب کنزا نے اسکے انداز میں دبی ناگواری محسوس کیے پوچھا۔

"سرمد کہاں ہے؟"

ولی زمان خان نے اسکے سوال کا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کیا۔

"یہیں ہے، کچھ کیا ہے اس نے؟"

کنزا صرف اس خاندان کا واحد ولی تھا جس کے روبرو اپنی تمام حقارت اور نفرت سمیٹ لیتی تھی۔

"نہیں، تھوڑا کام تھا۔ بلوا دیں زرا"

ولی کا انداز سرسری اور کام سے کام رکھنے والا تھا تبھی کنزا نے بھی مزید کچھ کریدنے کے بجائے کمرے سے جانا ہی مناسب سمجھا۔

کچھ دیر میں سرمد کمرے میں آیا مگر سامنے ولی کو دیکھ کر اسکے ہاتھ پیر کے طوطے چڑیاں سب اڑے، اس سے پہلے سرمد اس کے ڈر سے کمرے سے بھاگتا، وہ بروقت اپنی چٹانی بازو سے اسکی گریبان سے شرٹ جکڑتا گھسیٹ کر قریب لایا۔

"واہ! مجھے اس رنگین حویلی آنے کی آفر کی تھی تُو نے اب جب آگیا ہوں تو کمینگی دیکھا کر بھاگ رہا ہے۔ اتنی جلدی کیا ہے، رک "

ولی کا خشونت بھرا انداز سرمد کو اپنے گرد خطرے کی گھنٹیاں محسوس کروا رہا تھا اور اس وقت ولی کو دیکھ کر اس نجس کی حالت اچھے سے پتلی دیکھائی دے رہی تھی۔

"م۔۔میں بھاگ نہیں رہا، تمہارے لیے ٹھنڈے کا انتظام کرنے جا رہا تھا انسپیکٹر"

مسکین سی شکل بناتا وہ اسکے گھسیٹنے پر رک کر پلٹتے بولا جس پر ولی نے بروقت اس بار اسے روبرو کیے دونوں ہاتھوں سے اسکی شرٹ کے گریبان کو اپنے ہاتھوں کی چٹانی گرفت میں دبوچا۔

"اچھا! پر میں تو پہلے ہی بہت ٹھنڈا ہوں۔ مجھے تو کچھ ایسا کرنا ہے جس سے میرے ہاتھوں کی گرمی دہک اٹھے۔۔۔آجا باہر چل کر تفصیلا بات کرتے ہیں"

ولی کی معنی خیز دھمکاتی پیش رفت پر سرمد نے حراساں نظروں سے اسے دیکھا اور تھوک نگلے حلق تر کرتا ولی کی خوفناک گھوری پر شرافت سے اسکے ساتھ حویلی سے باہر آیا مگر گاڑی تک پہنچتے ہی ولی نے زور دار مکا اسکی گردن پر دیا اور دھکا دیتے ہی اسے کسی کی نظر میں لائے بنا گاڑی کی پچھلی طرف سیٹ پر پھینکا اور اس سے پہلے وہ دروازہ بند کرتا فرنٹ سیٹ سنبھالتا، حویلی کی بیرونی چھت پر کھڑی نازلی کی مشکور آنکھیں گویا ولی کا سارا غصہ اتار گئیں۔

اس نے سرمد سے بچاو کے لیے شہیر ہی کے ایک بار سمجھانے پر ولی کو مدد کے لیے پکارا تھا اور یہ کاشف بھائی کی جانب سے شہیر کی گمشدگی کی اطلاع بھی اس نے ولی تک پہنچائی جس پر وہ ایک تیر سے دو نشانے لگاتا بڑی شرافت سے اس منحوس کو یہاں سے لینے آیا تھا۔

ولی کی آنکھوں میں نازلی کے لیے عزت تھی، جیسے وہ ہر ماں ، بہن اور بیٹی کی کرتا تھا۔

اک نظر ڈالتا وہ اسی رفتار سے نظر ہٹائے گاڑی میں سوار ہوا اور پیچھے سیٹ پر کراہٹے ہوئے سرمد پر اک غضبناک نگاہ ڈالے اس نے گاڑی واپس تھانے کی جانب گمائی۔

تھانے پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کیبن میں گیا جبکہ اپنے دو لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ سرمد کو اسکی گاڑی سے نکال کر فورا کیبن میں لائیں۔

ولی نے بھینچی ابرو سمیت نظر اٹھائے دو اہل کاروں کے ساتھ اندر آتے سرمد کو دیکھا جسے ہوش دلاتے وہ لوگ گھسیٹ کر بے دردی سے ولی زمان خان کے روبرو کھڑا کر چکے تھے جسکی آنکھوں میں نفرت سے زیادہ اس سر پھرے انسپیکٹر کا خوف درج تھا۔

"کہاں ہے شہیر؟"

ولی نے پہلا سوال کیا جس پر سرمد کے کرخت چہرے پر تاریکی چھائی۔

"مجھے کیا پتا وہ کہاں ہے، ہو گا کسی مردہ خانے میں منحوس مارا"

سرمد کے انداز سے نفرت چھلکی پر اسکی ساری اکڑ تب جھاگ بنی جب ولی بڑے پرسکون انداز میں اپنی جگہ سے اٹھ کر اس نجاست کی دکان کی جانب آیا۔

"اس سے پہلے کہ تجھ جیسا گند کسی مردے خانے کے لائق بھی نہ رہے، بتا کہاں رکھا ہے تُو نے اسے۔ نازلی کی وجہ سے اس نے تجھے پیٹا اور اسی لڑکی کی وجہ سے تُو نے بدلے میں اسے غائب کروایا۔ اب اگر میں نے تجھے چھوڑ دیا تو تُو اپنے مردود باس سیٹھ طلال کے پاس جائے گا اور اسکا شہیر پر شبہ پکا کر دے گا۔ اس لیے جب تک سیٹھ طلال کا خاتمہ نہیں ہوتا تو جیل میں رہے گا، باقی تجھ سے شہیر کا پتا میرے جانباز جلاد نکلوا ہی لیں گے"

ولی کے پرسکون جملوں نے سرمد چوہدری پر کھڑے کھڑے اسکی دنیا الٹا دی جبکہ شہیر کا نمبر ٹریس بھی نہ ہو پا رہا تھا کیونکہ ایک تو وہ بہت کم وقت کے لیے آن ہوا تھا دوسرا اسکے بعد سے وہ بند تھا تبھی ولی کو اس منحوس کو اٹھانا پڑا تاکہ نازلی بھی بچ جائے اور سرمد بھی خوامخواہ کوئی بڑا محاز نہ کھول بیٹھے۔

"تم بہت غلط کر رہے ہو انسپیکٹر"

وہ دھمکاتی ٹون لیے غرایا جبکہ اسکی شکل پر صاف لکھا تھا کہ ولی کی ایک ہی دھاڑ سے اس نے گر پڑنا ہے اور ولی نے اسکی بات کو ان سنی کیے اہل کاروں کو اشارہ کیا کے وہ اس گند کو حوالات میں پٹخ دیں۔

خود وہ انکے کیبن سے نکلتے ہی کسی کال پر متوجہ ہوا۔

"سر فون ٹریس نہیں ہو رہا، وہ کچھ دیر پہلے جس جگہ آن ہوا تھا اسکی لوکیشن بھیج دی ہے میں نے آپکو۔ دیکھ لیں"

دوسری جانب ولی کا ہی آدمی اسے بریف کر رہا تھا جسکے بعد ولی نے فون کاٹا اور وہ میسج کی صورت آتی لوکیشن دیکھی جو کچھ دور جنگلی ایریا کی جانب تھی۔

ابھی اسے خانم حویلی نکلنا تھا تبھی یہ کام اپنے جونئیر کو دینے کے لیے اس نے فون کا ریسور اٹھائے اسے اندر بلایا جو ایک منٹ کے اندر اندر ولی کے کیبن میں داخل ہوا۔

"یہ لوکیشن بھیج رہا ہوں تمہارے نمبر پر، فورا تین چار لوگ لے کر پہنچو یہاں۔ اور شہیر مجھے زندہ سلامت چاہیے، ابھی اس سے بہت سے کام نکلوانے ہیں۔ باقی صبح ہوتے ہی سیٹھ طلال کو رہا کر دینا، آج نہیں کر سکا اس منحوس کو۔ میں علاقے کے حالات و واقعات دیکھنے جا رہا ہوں۔ شہیر کا معاملہ تمہارے سپرد ہے، مجھے کوئی کوتاہی اور ناکامی نہیں چاہیے۔۔۔فورا روانہ ہو جاو"

سنجیدہ انداز میں وہ تمام بریفنگ دیتا اسے روانہ کرتا خود بھی عزیز خان کی موت کا معمہ حل کرنے اپنے کبین سے باہر نکل گیا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

سحر کی نیم روشنی عالم جہاں پر پھیلنے لگی تھی، فجر کو ابھی وقت تھا مگر حسب وعدہ وہ اسے واپسی کے لیے لے آیا تھا، گلالئی پہلے ہی منہ اندھیرے اپنی خانم کی واپسی کے لیے اسی جگہ آکر کھڑی ہو چکی تھی جہاں آنے کا اسے ضرار نے کہا تھا۔

سارا رستہ ان دو کے بیچ اذیت ناک چپ حائل رہی تھی، نہ وہ بات کر رہی تھی نہ وہ عاجز آیا شخص بات کرنے کے حق میں تھا۔

"میثم"

جب اسے لگا کہ فاصلہ کم رہ گیا ہے تو وہ یہ خاموشی توڑ کر اس کی جانب دیکھتی پکاری جو یوں تھا جیسے اس نے صنم کی پکار اپنی سماعت پر ممنوع کر دی ہو۔

"اگر دوبارہ آپ نے مجھے پکارا تو آپکی جان لے لوں گا"

ڈرائیونگ پر دھیان دیے وہ پھاڑ کھاتے لہجے میں غرایا جس پر وہ گہرا سا سانس بھرتی آنکھوں کو ہر ممکنہ مضبوط کیے بھی اپنی بصارت دھندلی ہو جانے پر کھلی ونڈو سے باہر دیکھنے لگی جہاں مدھم مدھم روشنی اور سرد ہوا کے لمس پذیز جھونکے اس لڑکی کا چہرہ اور جھسلانے لگے۔

"مطلب تم مجھے شہیر کے حوالے کر رہے ہو؟"

وہ نم نم آنکھیں جھپکتی دل پر جانے کیسا بوجھ لیے باہر جھانکتی ہی بولی جبکہ میثم نے سامنے سے نظر ہٹائے خون آشام نگاہ اشنال پر ڈالی۔

"آپ اسی کے لائق ہیں، آپ نے تو اسے حاکم مان رکھا ہے تو کیا مسئلہ ہے۔ میثم اور اسکی محبت گئی بھاڑ میں، ایک قاتل کو منہ لگا کر آپ اپنی توھین کیسے کر سکتی ہیں۔ سو جیئیں مجھے مار کر، آپکو کیا پرواہ"

وہ یہ سب کرنے پر مجبور تھا کیونکہ اسکے بقول خود کو اس لڑکی سے وقتی دور کرنا ہی اب آخری حل بچا تھا جبکہ یہ بہت بڑا رسک تھا۔

"ک۔۔کیا تم نے مجھے واقعی چھوڑ دیا، رہا سہا بھی۔ م۔۔مطلب تم مجھے اس سے واپس نہیں لو گے اب؟ تم مجھے اس قید سے آزاد نہیں کرواو گے میثم؟"

وہ بھری ٹوٹی آواز میں اسکی جانب دیکھ کر سوال کر رہی تھی اور گلالئی کو درختوں کے پاس کھڑا دیکھ کر اور اشنال کا بے درد سوال سن کر وہ جبڑے بھینچتا گاڑی روک چکا تھا، آج ویسے بھی ماحول کے دامن میں عجیب بچھرنے کی بو سی شامل تھی۔

"آپ نے مجھے بھی پاگل کر دیا ہے اشنال ، اور پاگلوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کب کسے مار دیں اور کب کسے چھوڑ دیں بالکل آپکی طرح ۔ جائیں یار! وہ کھڑی ہے گلالئی۔ مجھے واپس جانا ہے، آپ سے مزید لڑنے یا بعث کرنے کی ہمت نہیں۔ میرے اپنے بہت مسائل ہیں جنھیں سلجھانا باقی ہے"

وہ منہ پھیرتا سخت سنگدلی کا مظاہرہ کرتا گاڑی ان لاک کیے بگھڑا جس نے میثم کا یہ بیزارئیت بھرا لہجہ اور انداز بہت دقت سے برداشت کیا۔

"تمہاری محبت ختم ہوگئی؟"

وہ پھر سے آواز کو ڈگمگانے سے روکتی پکاری جبکہ اسکے اس سوال پر گویا ضرار نے سٹیرنگ پر مٹھیاں بھینچ کر اپنے اندر کا غبار دبایا، وہ واقعی اشنال کے باعث خود ہی ذہنی دباو کا شکار ہو چکا تھا۔

"میری محبت تسلیم ہی کب کی ہے آپ نے اشنال عزیز، چلی جائیں فورا۔ اب آپکو اپنی شکل نہیں دیکھاوں گا۔ کریں جتنی نفرت کرنی ہے اور بنا دیں مجھے دنیا کے ہر مرے ہوئے کا قاتل لیکن جلد وہ وقت عنقرئب ہے جب میری جگہ آپ ہوں گی۔۔۔ پھر بتاوں گا محبت ختم ہوئی ہے یا باقی ہے"

زرا نزدیک ہوئے وہ اشنال کی طرف کا دروازہ زور لگائے کھولتا بنا اسکی خود پر جمی تڑپتی آنکھیں دیکھتا اس سے پہلے واپس ہٹتا، وہ اسکی بازو جکڑ گئی اور میثم نے اس بار بھی بے دردی سے اپنی بازو اشنال کے ہاتھ سے چھڑوائی۔

"می۔۔میثم"

وہ اسکے رویے سے بری طرح بکھری مگر وہ ہنوز سنگدل بنا رہا۔

"دور کیا ہے آپ نے خود کو مجھ سے صنم! اب دور جا کر دیکھاوں گا۔ لیکن جب یہ سارے الزام دھلیں گے پھر آپ کس طرح ہمارے بیچ سب ٹھیک کریں گی یہ ضرور سوچ لیجئے گا۔ آپ پاگل ہیں تو میثم ضرار چوہدری کی ضد بھی بنیادیں ہلا دینے کی حد تک بری ہے۔ جائیں اپنے گھر، اور اپنے باپ کے قاتل کو جی بھر کر بددعائیں دیں۔ جس لڑکی کا دل میرے لیے گواہ نہیں بن سکا، مجھے اس لڑکی کا بے یقین اور کمزور سا دل مزید اپنے پاس نہیں چاہیے۔۔۔ "

وہ اسکا دل دکھا کر بہت برا توڑ چکی تھی جبکہ اس بار میثم کے الفاظ، اسکا انداز اشنال عزیز کو جانے پر مجبور کر گیا اور وہ گاڑی سے نکلتی باقاعدہ دروازہ پٹخ کر گئی اور ضرار اسکی اس حرکت پر بڑی مشکل سے اپنا غصہ دبا سکا۔

اشنال کے بے دردی سے بھاگتے ہی گلالئی نے بھی تیز تیز قدم اٹھائے اس کا پیچھا کیا اور ان دونوں کے اوجھل ہوتے ہی وہ بھی گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کرتا لے گیا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"دیکھو خاقان! بات اس بار بزدار عالم کی ہرگز ٹالی جانے کے لائق نہیں۔ ایسے معاملات میں ہمیں جلد بازی سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگا۔ ایک ہفتہ ہی تو مانگ رہا ہے وہ، ساری تحقیق وہ خود کروانا چاہتا اور پھر ولی نے یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اور آسانی دے دی۔ یوں عزیز خان کی روح کو بھی سکون ملے گا کہ ہم نے اسکے سچے قاتل کو انجام پہنچایا۔ پھر پنچائیت پر لوگوں کا بھروسہ اور پختہ ہوگا کہ ہم لوگ صرف ثبوتوں اور گواہوں پر ہی نہیں، تحقیق کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ تم اس سب سے پریشان کیوں رہے ہو ؟ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا"

ولی زمان بھی حسب وعدہ فجر تک پہنچ چکا تھا اور ملتوی کی گئی پنچائیت ایک بار پھر سج چکی تھی مگر خاقان خان کے چہرے کی پیلی رنگت اور اسکی چڑ کو سردار شمیشر یوسف زئی بھی سمجھنے سے قاصر تھے تبھی وہ اپنے اندر پنپتے سوال کو پوچھ ہی بیٹھے جس پر خاقان کے اپنے چہرے پر درج گھبراہٹ لمحے میں دبائی۔

"میرے بچے کی تذلیل ہوگی شمشیر، وہ لوگ اسکی قبر کھودیں گے تو کیا عزیز خان کی روح کو سکون ملے گا؟"

اپنے خوف کو ہر ممکنہ دباتا وہ فرعونیت سے گرجا جبکہ شمیشر یوسف زئی نے مدھم سا مسکراتے ہوئے اس بپھرتے سردار کے کندھے جکڑے مگر وہ کیا بتاتا کہ منحوس مارا اپنی ہی لگائی آگ میں جل رہا ہے۔

"قبر کھودنے کی ضرورت نہیں ہے خاقان، کیونکہ جس جگہ اس کی لاش کو جلایا گیا وہاں سے ملتی راکھ اور باقیات سے ہی یہ سائنسی ٹیسٹ ہو جائیں گے۔ کیونکہ اس راکھ میں عزیز خان کی جلی جلد موجود ہوگی، اب تو تمہیں کوئی ٹنشن نہیں ہے؟"

سردار شمشر یوسف زئی کا اس بار سارا جھکاو بزدار عالم کی جانب تھا اور خاقان من ہی من میں پیچ و تاپ کھاتا اس وقت اس قدر اذیت میں تھا کہ کسی کو اپنے اندر کا قہر بتا بھی نہ سکتا تھا۔

قدرت بھی اپنی رسی بڑی خوبصورتی سے نہ صرف کھینچ رہی تھی بلکہ اسی خاقان کے گلے کا پھندا بنا رہی تھی، جبکہ ممکن تھا اس ایک ہفتے بعد ہی وہ رسی خاقان خان کی گردن پر جکڑی جاتی اور اسکی شہہ رگ کاٹ ڈالتی۔

"ہمم!"

سردار خاقان مجبورا سر ہلاتا پھنکارا تو سردار شمشیر نے ایک مشکوک سی نگاہ اس پر ڈالے اپنے قدم مردان خانے سے باہر نکالے کیونکہ سب ہی سرداران اور پنچائیت کی جانب سے فیصلے کے منتظر تھے۔

فجر کی نمازادا کرنے کے بعد دونوں علاقوں کے معززین دوبارہ جرگے کے میدان میں جمع ہو چکے تھے۔

سردار خاقان یوں تھا جیسے میثم نے اسے غائبانہ ہی ٹھڈے اور لاتیں دے ماری ہوں، اپنے ہی پھیلائے جال میں وہ سفاک بری طرح پھنس گیا تھا۔

یہ وہ کانٹا تھا جو اس نے منہ میں ڈال تو لیا پر اب نہ اگل سکتا تھا نہ نگل سکتا تھا۔

"اگر ایک ہفتے کے بعد سب کے سامنے سچائی کھل گئی تو میرا کیا ہوگا، نہیں! مجھے کچھ تو کرنا ہوگا۔ میں ان دادے پوتے کو جیتنے نہیں دے سکتا۔ اشنال تو بدزن ہو گئی اس سے مگر یہ بزدار عالم کا سویا دماغ بھی کمبخت ابھی جاگنا تھا۔ایسا لگتا ہے جیسے میرے سارے دشمن مل گئے ہیں۔۔۔۔ کیا کروں میں؟ "

یہاں وہاں وحشت سے چکر کاٹتا وہ اپنے بال نوچتا خود کلامی کر رہا تھا اور دروازے میں کھڑیں گل خزیں خانم اس منحوسیت کی دکان کی ساری گل فشانی سن چکی تھیں اور اس عورت کا سارا درد لمحوں میں حقارت بنا۔

"اگر عزیز خان کے زندہ ہونے کی خبر یہ مل کر نکال لائے تو میں تو برباد ہوں گا ساتھ میرے ہاتھ سے سرداری بھی جائے گی۔ مجھے اس ضرار کو جلد از جلد ختم کرنا ہوگا تاکہ اس بزدار عالم کو تحقیق کی ہوش ہی نہ رہے۔۔۔ہاں! جب ضرار مر جائے گا پھر سب میرے حق میں ہوگا۔۔۔ہاں۔ یہی کرنا پڑے گا"

وہ بڈھا یہ دل دہلاتی منصوبہ بندی کرتا ہی خود کو پرسکون کیے مردان خانے کے دوسرے دروازے سے باہر نکلا اور وہیں گل خزیں خانم نے عزیز خان کے زندہ ہونے پر پہلے اللہ کا شکر ادا کیا پھر آنکھوں میں نفرت کا ابال سمیٹ لائیں۔

"اب تجھ جیسی گندگی کو گل خزیں خانم خود صاف کرے گی خاقان خان، تو وہ ناگ ہے منحوس مارے جو اپنی اولاد کو سب سے پہلے ڈستا ہے۔ اب دیکھنا تیرے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ "

اپنے چہرے پر بکھرے درد کا گلا گھونٹتیں اور آنسو بے دردی سے رگڑے وہ وہاں سے چلی گئیں۔

وہیں تمام سرداران اور پنچائتی لوگ میدان میں جمع ہوئے، بزدار عالم بھی اپنے موقف پر ڈٹے فیصلے کو اپنے حق میں ہونے کے منتظر تھے۔

حویلی کے اندر بھی تمام خواتین آج کے اس فیصلے کی منتظر تھیں۔

"ہم نے کئی گھنٹے سوچ بچار کی ہے اور ہم سرداران اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ بزدار عالم اور ولی زمان کو ہم اس قتل کی تحقیق کے لیے سات دن کا وقت دے رہے ہیں۔ ان سات دنوں میں ضرار اپنے گھر یعنی بزدار حویلی نظر بند رہے گا اور اگر اسے گھر سے باہر دیکھا گیا تو اسکے قتل کرنے کا حکم سنایا جاتا ہے۔ ہفتے بعد تمام تحقیقات کی بنا پر ہم اس قصاص کا حتمی فیصلہ سنائیں گے تب تک دونوں حریفین میں کسی قسم کا دنگا فساد سختی سے ممنوع ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت میں پنچائیت سخت ترین فیصلے پر مجبور ہو جائے گی لہذا یہ ایک ہفتہ ہر طرف امن و امان رہنا چاہیے"

تمام پنچائیت کی باہمی صلاح کے بعد سرپنج سردار شمشیر یوسف زئی نے حتمی فیصلہ سنایا جس پر عالم بزدار اور ولی زمان کے علاوہ مشارب زمان کے چہروں پر بھی سکون اتر آیا البتہ بزدار عالم نے اس وقت خاقان خان کی شکل ضرور مخظوظ ہو کر دیکھی جہاں نحوست برس رہی تھی مگر اپنی ہار اپنے سامنے دیکھنے کے باوجود خاقان خان اب بھی انتقامی ہو رہا تھا۔

ہفتے کے اندر اندر اس نے میثم ضرار چوہدری کا خاتمہ کرنا تھا۔

ہر کوئی سردار شمشیر یوسف زئی کے فیصلے سے متفق تھا اور یوں اس کھیل کو بے نقاب کرنے کے لیے ہفتہ فراہم کر دیا گیا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اس سے پہلے کہ ولی کی تاکید پر اسکے لوگ سرمد کا بھرتا بنا کر شہیر کا پتا لگواتے، کاشف کے لوگ پہلے ہی اس جگہ پہنچ گئے جہاں شہیر کو رکھا گیا تھا۔

یقینا اگر کاشف بروقت نہ پہنچتا تو شہیر کی جان چلی جاتی۔

کاشف اسے اس گندے ڈربے نما کاٹیج سے نکالے سیدھا ہوسپٹل روانہ ہوا جہاں اس زخمی شہیر مجتبی کو سیدھا آئی سی یو روم میں لے جایا گیا تھا۔

کاشف نے ولی زمان خان کو شہیر کے مل جانے کی اطلاع پہنچا دی تھی تبھی اس نے سرمد پر تشدد رکوا دیا تھا اور کاشف سے وہ شہیر کی حالت کا وقفے وقفے سے پوچھ رہا تھا۔

ڈاکٹرز ابھی تک آئی سی یو روم سے باہر نہیں آئے تھے اور کاشف کی حالت خود بری تھی، یہ احساس ہی کہ اسکا یار موت کے پاس پہنچا تھا، اسکی رگوں میں سرمد کے لیے شرارے دوڑا رہا تھا۔

"ایک بار ٹھیک ہو جائے شہیر، خود تجھ جیسے بدذات کو قبر میں اتارے گا۔ کیا حال کر دیا ہے اس سفاک دنیا نے اسکا۔ یا اللہ، اسکی حفاظت کریں۔ ایسے اسے اسکے گناہوں کی ایک ساتھ سزا مت دیں"

آئی سی یو روم کے باہر اضطرابی انداز میں چکر کاٹتا کاشف ،سرمد کے لیے انتقامی جبکہ اندر زندگی اور موت کی جنگ لڑتے شہیر کے لیے دعا گو تھا۔

وہیں رات شہیر سے بات کرنے کے بعد صبح اسے دادا سائیں کو کال کر کے جب علاقے کی خبریں موصول ہوئیں تو وہ مزید اذیت میں اتر گئی، ہوسپٹل بھی وہ لیٹ ہی آئی تھی اور اس نے پیشنٹ بھی کم ہی دیکھے ، وہ اس وقت اپنے کیبن میں بیٹھی تھی جب اسکی ہیڈ ڈاکٹر نمرہ اسکے کمرے میں اجازت لیے داخل ہوئیں۔

"خیریت ہے نمرہ میم؟ آپ کچھ اپ سیٹ لگ رہی ہیں"

وریشہ نے اسکو آکر سامنے والی کرسی سنبھال کر بیٹھتے پریشانی سے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھا اور پوچھا۔

"ہمم، ابھی کچھ دیر پہلے ایک پیشنٹ لایا گیا ہے۔ بہت کریٹیکل سچویشن میں ہے۔ اسکے لیے بلڈ کا ارینج نہیں ہو رہا، دو تین بلڈ بنک سے رابطہ کیا ہے مگر کہیں سے بھی نہیں مل رہا"

ڈاکٹر نمرہ نے پریشانی کے عالم میں بتایا تو وہ بھی تھوڑی فکر مند ہوئی۔

"کونسا بلڈ گروپ ہے؟"

وریشہ نے استفسار کیا۔

"اے بی نیگیٹیو"

نمرہ نے بروقت بتایا تو وریشہ اپنی کرسی چھوڑتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"میرا اے بی نیگیٹو ہے، میں دے سکتی ہوں۔ پلیز ہمیں چلنا چاہیے"

وریشہ کی تڑپ پر جیسے نمرہ بھی حیران سی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"آر یو شیور، آپ دیں گی"

نمرہ میم نے یقین چاہنے کو دوبارہ پوچھا تو وریشہ نے سر ہلائے اقرار کیا جسکے بعد وہ ایک ساتھ کیبن سے نکلیں۔

وریشہ سیدھی آئی سی یو روم سے ملحقہ اس کمرے تک گئی جہاں نرس پہلے ہی اسکا بلڈ لینے کی تیاری کر چکی تھی، وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکا یہ خون کسے لگنا ہے مگر پھر بھی وریشہ کا دل یوں تھا جیسے کوئی آسمانی آشارہ پا چکا ہو کہ اسکی ، شہیر مجتبی کو پھر سے ضرورت ہے۔

وہ ہیلتھی تھی اور تبھی نرس نے اسکا بلڈ لیتے ہی ڈاکڑ روحان اور نمرہ میم کے پاس بھجوایا جو ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی اس پیشنٹ کو لگنے والا تھا۔

وریشہ کچھ دیر وہیں نرس کی ہدایت پر آرام دہ کرسی پر سر ٹکائے بیٹھی رہی، نمرہ میم نے اسی دوران اسکے لیے لنچ بھی وہیں بجھوا دیا ، مگر اسے آجکل کسی شے کی طلب نہ تھی تبھی تھوڑا سا کھائے وہ باقی واپس بھجواتی کمرے سے نکل آئی مگر آئی سی یو روم کے باہر دل نے چاہا اپنے قدم روک لے۔

وہ اس پیشنٹ کی حالت جاننا چاہتی تھی مگر اس وقت ڈاکٹرز اسکی زندگی بچانے کی تگ و دو میں تھے تبھی وہ بس بند دروازے کو ہاتھ لگاتی ہی واپس اپنے کیبن میں چلی آئی۔

دل کسی چیز پر آمادہ نہ تھا، عجیب سی بے چینی تھی جس نے وریشہ یوسف زئی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

لگ بھگ دو گھنٹے اس نے کچھ پیشنٹ دیکھے، ایک ہوسپٹل کا مکمل راونڈ لگایا اور طبعیت عجیب بوجھل ہونے پر وہ گھر چلی گئی، نرس نے اسے پیشنٹ کا بروقت بلڈ مل جانے کے باعث بچ جانے کا بتا دیا تھا اور شاید اسکی اندر باہر کی تکلیف کو اس نیکی نے قدرے نگل لیا۔

وہ گھر لوٹی تو شام اتر چکی تھی، عجیب سی تھکاوٹ محسوس کرتی وہ شاور لے کر آتے ہی روم کی لائیٹ آف کرتی سونے لیٹ گئی۔

وہیں شہیر مجتبی کو شام تک سٹیبل کنڈیشن میں لوٹتے ہی سپیشل کئیر روم میں ایڈمٹ کروا دیا گیا تھا جہاں اسے ایک ویک رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

زیادہ مسئلہ گولی کے زخم میں ہوتے انفیکشن سے ہوا تھا جس نے شہیر کی جان لینی چاہی کیونکہ اول تو اسکا گولی لگتے بہت خون ضائع ہو گیا تھا پھر جب سرمد کے لوگوں نے اس پر چڑھائی کی تو زخم پھر سے خون کے سنگ رستے رہے اور وہ کئی گھنٹے اس تکلیف کے ساتھ اس بند ڈربے میں رہا۔

کاشف کو اسکے شفٹ ہوتے ہی ملنے کی پرمیشن تو دے دی گئی تھی مگر شہیر ابھی دواوں کے زیر اثر تھا۔

"شہیر! میرا پیارا یار۔۔۔ اللہ اس ڈاکٹر کو سلامت رکھے جس نے تجھے اپنا خون دے کر بچایا۔ اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرتا"

وہ غنودگی میں ضرور تھا مگر کاشف کے اندر آتے ہی شہیر نے اپنے درد کرتی آنکھیں کھولیں تبھی تو وہ شکوہ کرتے سمے جذباتی ہوتا اپنی آنکھیں رگڑتا بولا۔

"اور اس ڈاکٹر کو ک۔۔کیا کہے گا جس نے سینہ چیڑا تھا؟"

شہیر ہرگز سنجیدہ نہ تھا بلکہ موت کے منہ سے نکلنے کے باوجود اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور کاشف کا خون کھول گیا۔

"اللہ تجھے اس سنگدل لڑکی سے چھین لے"

کاشف کی یہ بددعا سیدھی شہیر کا دل کاٹ کر گئی تبھی تو وہ پہنچ میں آتے کاشف کو زور دار مکا مارتے خود بھی درد سے کراہ اٹھا اور کاشف نے آگے سے اس عاشق کو دیکھا جو اسکا خون پینے کے ارادے بنائے بیٹھا تھا۔

"بکواس کرے گا تو منہ توڑ دوں گا تیرا"

شہیر نے غراتے ہوئے تنبیہہ کی مگر کاشف کے دل سے گویا اس وقت بس اس لڑکی اور سرمد کے لیے بری بری بددعائیں ہی نکل رہی تھیں۔

"اب اگر تُو نے سرمد کو کوئی رعایت دی تو میں خود اس حرام زادے کی قبر کھود آوں گا، اور دوسری بات کان کھول کر سن لے شہیر۔ اگر تُو نے دوبارہ اس لڑکی کے لیے نرم پڑنے کی کوشش کی تو میں برا پیش آوں گا۔ آج تو اسی زخم کے ناسور بننے پر مرنے والا تھا، وہ لڑکی ٹھیک کہا تھا تیری عبرت ہے۔ہمارے جسموں اور دلوں پر ناسور دینے والے لوگ ہماری محبت کے لائق نہیں ہوا کرتے پاگلا"

کاشف کا بس نہ چلا وہ اس وقت دنیا کو آگ لگا دیتا اور شہیر سے اس وقت بات کرنا مشکل تھا ورنہ وہ اسے بتاتا اس بکواس پر کے ایسی فضول گوئی پر کیا سزا بنتی ہے۔

"دفع ہو جا یہاں سے کاشف، چل۔ مزید دماغ خراب مت کر"

جبڑے بھینچ کر شہیر نے اسے وہاں سے سختی سے جانے کا کہا تھا جو شہیر پر ایک افسوس بھری نظر ڈالتا دلبرداشتہ سا کمرے سے نکل گیا اور دواوں کا گہرا اثر تھا کہ شہیر نے بھی اپنی درد کرتی آنکھیں واپس موند لیں۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں مما؟"

اس وقت کمرے میں کنزا اور نازلی موجود تھے جبکہ ناجانے کنزا نے ایسا کیا کہا جس پر نازلی کے چہرے پر سفیدی چھا چکی تھی۔

"وقت آگیا ہے تم اپنی اس ماں کے احسانات کا قرض چکاو نازلی، مالنی کی احسان فراموشی پہلے ہی میرا اندر کڑوا کر چکی ہے اور اگر تم نے بھی مجھ سے بغاوت کی تو دوبارہ مجھ جیسی عورت تم جیسی بے سہارہ لڑکیوں کا کبھی سائبان بننے کی غلطی نہیں کرے گی نہ کسی کی ماں بنے گی"

کنزا کا لہجہ تکلیف بھرا جبکہ انداز جذباتیت سے اٹا تھا اور وہ جس طرح مالنی کے بعد نازلی کو بھی ذہنی اذیت دے رہی تھی یہ انتہائی سفاکانہ تھا۔

نازلی کے ذہن کی سکرین پر وہ خوبصورت چہرہ یکدم بیدار ہوا، وہ تڑپ جو اس روز مشارب زمان خان کے چہرے پر تھی وہ نازلی کا دل مسل گئی۔

نازلی تڑپ کر کنزا کے قدموں میں بیٹھی اور روتے ہوئے اس عورت کا ہاتھ تھاما۔

"مما ایسا مت کریں، وہ زونین سے بہت محبت کرتے ہیں۔ میں نے انکی تڑپ دیکھی تھی ، آپ کیسے اپنے بابا سائیں کی باتوں میں آکر ان دو کی جان لے سکتی ہیں"

نازلی کا احتجاج گویا کنزا کو اور مشتعل کر چکا تھا۔

"وہ میری زونی کے قابل نہیں ہے ، اور تم وہ خلاء بنو گی نازلی جو ان دو کو الگ کرے گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں اس سب کے بعد میں خود تمہاری بہت اچھی جگہ شادی کروا کے اس گند سے نکلوا دوں گی لیکن جانے سے پہلے تمہیں یہ کرنا ہوگا"

کنزا اس وقت نہ تو اسے عورت لگی نہ ماں بلکہ وہ تو جذبوں کی سوداگر تھی اور نازلی اصل تکلیف تو یہ تھی کہ پہلی نظر میں جو شخص اسکے دل کو بھایا تھا، یہ عورت اسی شخص سے اسکا سب کچھ چھینے کا اسے حکم سنا رہی تھی۔

"مما! آپ ایسا ظلم م۔مت کریں۔ میری جان لے لیں پر مجھے دو محبت کرنے والوں کو الگ کرنے پر مجبور نہ کریں۔ میں کیسے اس کے بعد کسی ایسے کی آنکھوں میں دیکھ پاوں گی جسے مجھ سے محبت ہوئی۔ وہ انسان زونی کے بنا مر جائے گا پھر آپکی زونین کیسے جی سکتی ہے جس نے سانسوں کے ساتھ مشارب زمان خان کا نام اپنی دھڑکنوں میں پرویا ہے"

نازلی کی آنکھیں بھیگی تھیں تو لہجہ اذیت و غم سے کپکپاتا ہوا بکھرا مگر کنزا تو یوں تھی جیسے اسکی سدھ بدھ بالکل متاثر ہو چکی ہو، وہ غصے میں آتی اپنی جگہ سے اٹھی تو نازلی بھی سہم کر کھڑی ہو گئی۔

"اگر تم نے میری مدد نہ کی نازلی تو میں تمہیں کبھی اس احسان فراموشی پر معاف نہیں کروں گی، یہ مت بھولنا کہ پیدا کرنے سے زیادہ پالنے والے کا حق ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے اگر تم بھی مالنی کی طرح میری آج تک کی حفاظت اور محبت کو پیروں تلے روند کر اپنا کوئی راستہ چننا چاہتی ہو تو اجازت ہے۔ میں مروں یا جیوں، تمہیں پھر اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اسی دن کے لیے میں نے تم سب کی سرپرستی چنی تھی کہ وقت پڑنے پر تم سب مجھے زلیل کرو"

کنزا کا جذباتی ڈرامہ اس نازک دل والی نازلی کو خوفزدہ کر چکا تھا، جو بھی تھا وہ اسکی ماں بنی تھی اور ماں کی طرح اس نے نازلی پر اپنے پروں کی چھاوں کی جس پر نازلی کا دل بھلے پھٹ رہا تھا پر وہ کنزا کے اس ناٹک میں بری طرح پھنس گئی۔

"مم۔ما ایسا مت کہیں، آپ نہ ہوتیں تو ہمیں چیڑ پھاڑ کر یہ وحشی دنیا کھا چکی ہوتی۔ ٹھیک ہے آپ جیسا کہیں گی میں کروں گی۔ بھلے اس سنگدل اقدام میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے"

کرب و دکھ سے وہ یوں بولی جیسے اسکے لہجے میں کوئی بلک کر گڑگڑایا ہو اور کنزا کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی اور فوری معدوم ہوئی۔

وہ پلٹی اور نازلی کا رندھا چہرہ دیکھتی اسکے قریب آئی اور اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے پیشانی چومی۔

"تمہاری جان اتنی سستی نہیں کہ جانے دوں گی، ہمیشہ خوش رہو اور جلد تمہارا دل آباد ہو جائے"

وہ جذبوں کی سوداگر اسے پیار سونپتی کمرے سے نکلی تو وہیں نازلی اپنا سب ہار بیٹھتی سسکتی ہوئی وہیں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔

"آپ۔۔پکو کون بنائے مما کہ دل تو خدا کا گھر ہے، اسے توڑنے اور برباد کرنے والوں پر اہل دل موت واجب کر دیتے ہیں"

اپنی سسکیاں بلند ہونے سے روکتی وہ زاروقطار رو دی، کنزا کی سفاکی حد سے بڑھ چکی تھی اور اس عورت کو واقعی یہ علم نہیں تھا کہ دل اجاڑنے پر کیسے قہر ٹوٹتے ہیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اشنال!"

وہ گم سم سی بالکونی میں کھڑی تاحد نگاہ پھیلی شام دیکھنے میں گم تھی، سوگوار سی، تمام آنسو اپنی ذات سے ہمیشہ کی لیے ختم کیے، پتھر دل کر لیتی، میثم کو ناجانے کب تک کے لیے خفا کر بیٹھی تھی جسکے دل اور دماغ میں اب صرف وحشت اور نفرت باقی بچی تھی، اس شخص نے رہا سہا دامن چھڑوا کر اشنال عزیز کو تپتے صحرا میں لا کھڑا کیا تھا۔

عقب سے کسی نے اسکا نام پکارا تو وہ چونکی۔ اشنال نے گردن موڑے دیکھا تو دادی سائیں کو قریب آتا دیکھ کر وہ یکدم آنکھوں میں ڈر اور ناگواری سمیٹ لاتی دو قدم پیچھے ہٹی اور اسکا یوں کرنا گل خزیں خانم کو زندہ مار کر رکھ گیا۔

"د۔۔دور رہیں آپ، آپ بہت بری ہیں۔ خبردار اگر آپ نے میرے قریب آنے کی کوشش بھی کی"

وہ انکے پاس آنے پر سہم کر چینخی جیسے اس عورت کو دیکھتے ہی اسکے اندر انتقامی جذبے ابھر آئے ہوں ، جبکہ اس عورت کا تو پہلے ہی سینہ چھلنی تھا، اشنال کی حالت اور کر گئی۔

"ہاں، بہت بری ہوں۔ لیکن میں تم سے معافی مانگنے آئیں ہوں بچہ۔ میں نے جو تمہارے ساتھ کیا تھا اسکی ضرار نے دگنی سزا دی ہے مجھے۔ اگر وہ مجھے سزا نہ دیتا تو میں کبھی اس جرم کا احساس نہ کر پاتی۔ مجھے معاف کر دو اشنال کے میں نے تم سے تمہارا ضرار چھینا۔ تمہیں چپ چاپ اس شہیر کا ہونے دیا۔ میں بہت تکلیف میں ہوں، جب تک تم مجھے معاف نہیں کرتی، تمہاری دادی جنہم میں سلگیں گی۔ تمہارے میثم نے مجھے اس جرم کی کڑی سزا دی ہے، دیکھنا وہ تمہیں شہیر سے بھی واپس لے لے گا۔۔۔ میں مدد کروں گی اسکی، بس تم مجھے معاف کر دو"

اشنال کو لگا اسکا دماغ معاوف ہو گیا ہے، یہ دادی سائیں کیا کہہ رہی تھیں۔

خوف اور تکلیف کی شدید لہر نے اس لڑکی کا پورا وجود لرزایا، وہ کانپتی ٹانگوں کے سنگ اس عورت کے نزدیک آئی جو ہاتھ جوڑ کر بھیگی آنکھوں سے اشنال سے اپنے کیے کی معافی مانگ رہی تھی۔

"کیا واقعی میں شہیر کی ہوں؟ یہ سچ ہے کیا؟ وہ تو کہتا ہے میں اسک۔۔کی بیوی ہوں۔ اگر آپکو مجھ سے معافی چاہیے ناں دادی جان تو مجھے بتائیں ناں سچ سچ کے وہ کیوں کہتا ہے میں اسکی ہوں۔۔۔ حالانکہ ہر کوئی مجھے ش۔۔شہیر کا کہتا ہے۔ آپ، ساری حویلی والے، پوری دنیا۔۔ پھر بابا ک۔۔کو بھی تو اس نے مارا تھا، جلا دیا تھا۔۔۔۔آپ مجھے بتائیں ناں سچ کیا ہے؟ وہ کیوں مجھے تکلیف پ۔۔پر تکلیف دے رہا ہے؟"

وہ یوں روتی ہوئی گڑگڑائی جیسے سانس آخری ہو اور اس جواب نے ہی اسکے مردہ وجود میں سانس بھرنی ہو جبکہ گل خزیں پتھر کا مجسمہ ہی بنی رہ گئیں۔

وہ اشنال کی باتیں سن کر الجھ گئی تھیں۔

"تم پہلے اسکی بیوی تھی، اب شہیر کی ہو لیکن دیکھنا وہ تمہیں شہیر جیسے سے کیسے واپس لیتا ہے۔ وہ بہت طاقتور ہے ، وہ تمہارے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ میثم سے زبردستی دستخط کروائے تھے تمہارے دادا نے، جسکے بعد مشارب کی زندگی بپانے کے لیے علیم مجتبی کی موت کے بدلے تمہیں شہیر کے گھر ونی کیا گیا تھا۔۔۔۔ میں نے تم۔۔تمہارے ساتھ بہت برا کیا، تم نے تو اپنی ی۔۔یاداشت بھی کھو دی۔۔۔اللہ مجھے اس گناہ پر کیسے بخشے گا۔۔۔ یہاں آ میرا بچہ۔۔۔دادی کے سینے سے لگ"

ایک بار پھر اس لڑکی کی قسمت اس پر ستم ڈھا چکی تھی، جہاں ضرار کی ناراضگی، اسکی باتیں اسے بہتر کرنے کی سمت گامزن تھیں وہیں گل خزیں خانم کی لاعملی نے پھر سے اشنال کے ذہن میں وہ سب زہر بھر دیا جو اس لڑکی کی ذہنی اور قلبی موت تھا۔

وہ عنقریب مکمل پاگل ہو جانے والی تھی، یہ کیسی آزمائش تھی جو بڑھتی جا رہی تھی۔

گل خزیں نے اسے سینے سے لگائے اپنے آنسو بھی ضبط نہ کیے اور وہ بھی خوفزدہ سی پوری کانپ رہی تھی۔

"ن۔نہیں۔۔مجھے چھوڑ دیں۔۔۔پلیز آپ یہاں سے چلی جائیں۔ جائیں! مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔ مجھے کسی کو معاف نہیں کرنا۔ آپ سب درندے ہیں، جو مجھے مار دینا چاہتے ہیں۔۔۔چلی جائیں"

یکدم ہی وہ جن زادی کی طرح دھاڑتی گل خزیں کو جھٹک کر خود سے دور کرتی چینخی، جبکہ اسکی چینخ و پکار پر گلالئی بھاگ کر اسکے کمرے میں آئی تو گل خزیں خانم کو اپنے آنسو رگڑتا باہر نکلتا دیکھتی وہ دہلتے دل کے ساتھ اندر بڑھی جہاں وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بمشکل سانس گھسیٹ رہی تھی۔

"خانم! کیا ہوا ہے۔ یہ کیوں آئی تھیں"

گلالئی نے اسکا سرخی سے اٹا چہرہ ہاتھوں میں بھرے وہیں فرش پر اسکے قریب بیٹھتے پوچھا تو اشنال روتی ہوئی گلالئی کے ساتھ جا لگی، حتی کہ کچھ دیر رونے اور آہ و زاری کرنے پر اشنال کا پورا وجود لرز اٹھا۔

خود گلالئی کی آنکھیں بھیگیں مگر وہ اشنال کو سمیٹتی ہلکان ہو رہی تھی۔

"م۔۔میں نے بھی اسے کھو دیا گل۔۔۔ وہ مجھ س۔۔سے دور ہو گیا ، ہ۔۔ہمیشہ کے لیے۔ می۔۔میں نے اسے خفا کر دیا، اب وہ مجھے ش۔۔شہیر سے کبھی بچانے نہیں آئے گا، میں نے اسے اس سے زیادہ تکلیف دی ہے۔ حالانکہ ان سب نے اسے مجھ سے زبردستی دور کیا تھا،اور وہ ک۔۔کہتا رہا اس نے کوئی دستخط نہیں کیے، زبردستی ہی سہی پر میں تو اس سے چھین لی گئی ناں۔۔ آدھا جھوٹ کہتا رہا کہ م۔۔میں اب بھی اسکی ہوں، قریب آتا رہا، مجھے بے وقعت کرتا رہا۔۔۔ وہ میرا تھا،پر وہ مجھ سے چھین لیا گیا۔۔۔اور اب میں اسکی کبھی نہیں ہونے والی۔۔۔اس نے گناہ کیے ہیں گل، تم سن رہی ہو ناں۔۔۔اس نے بہت گناہ کیے ہیں۔ تم گواہ رہنا ، اشنال عزیز اسکی کبھی نہیں ہو گی۔۔۔۔ اب میں یونہی رہوں گی، ان سب سے دور چلی جاوں گی۔۔۔ میں صرف اشنال عزیز بن کر رہوں گی۔ نہ کوئی میثم نہ کوئی شہیر کے ان دونوں نے مل کر مجھے پاگل کیا ہے۔۔۔تم میرے ساتھ چلو گی ناں گل، ہم ان سب سے دور چلتے ہیں۔ ورنہ تمہاری خانم مر جائے گی، ہم تمہارے گاوں چلتے ہیں گل یا کسی بھی اونچے پہاڑ پر خیمہ لگا لیتے ہیں۔صرف میں اور تم"

وہ ٹوٹتی بکھرتی آواز میں گل کے ہاتھ جکڑتی منت کر رہی تھی اور گلالئی بے بسی سے اسے سنتی اسکی آخری تجویز پر بھیگی آنکھوں کے ساتھ ہی مسکائی۔

"ہم ضرور چلیں گے، آپ تیار ہوں۔۔ہم آج رات ہی نکل جاتے ہیں۔ کیونکہ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مجھے سب سے زیادہ آپ کا رازدان بننا چاہیے۔ کیونکہ میری خانم تو آپ ہیں۔ ہم سب بھول کر صرف ایک ساتھ جیئیں گے۔ اٹھیں چینج کریں اور اپنا سامان باندھیں۔۔۔آپکی گلالئی آپکو مرنے نہیں دے گی۔ ہم کسی کو نہیں ملیں گے، چلیں۔۔۔۔"

گلالئی نے بہت مشکل سے اپنے آنسو روکے اور اشنال کے تمام دکھ سمیٹ لیتی وہ اسکو بھیگا سہی پر مسکرانے پر اکسا گئی مگر اپنے پیچھے اسے خدیخہ خانم کا غم یاد آیا تو پھر سے وہ خوبصورت آنکھیں بھیگ گئیں۔

"اور اماں؟ انکا کیا ہوگا گل؟"

وہ بلک اٹھی۔

"انکو سنبھالنے والا جلد واپس آجائے گا"

گلالئی نے اسکے آنسو پونجھے جو کہا اس پر اشنال نے خالی خالی آنکھوں سے گل کو دیکھا جیسے وہ اسکی بات نہ سمجھی ہو۔

مگر وہ یوں بہل گئی جیسے اس وقت اس لڑکی کا دماغ کچھ سوچنے کی حالت میں ہی نہ تھا اور یوں رات و رات گلالئی اور اشنال بنا حویلی میں کسی کو بتائے ریلوے سٹیشن پہنچیں، اور پھر کچھ وقت کے انتظار کے بعد ان دو کی ایک نئی زندگی کا سفر اس ٹرین کے سنگ شروع ہوا، خانم حویلی کے کسی فرد کو انکے جانے کی خبر نہ تھی مگر گلالئی نے خدیخہ خانم کے لیے جاتے ہوئے ایک خط چھوڑا تھا لیکن اس خط میں اس نے اپنا اور اشنال کا پتا ہرگز درج نہ کیا کیونکہ گلالئی جانتی تھی اسکی خانم کی دماغی بہتری اب صرف یہی ہجرت ممکن کر سکتی ہے۔

یوں وہ خوبصورت آنکھوں والی پاگل دیکھتے ہی دیکھتے ہر سفاک رشتے سے دامن چھڑواتی پہاڑوں پر چلی گئی جہاں اسکی رک جاتی زندگی نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے، مورنی کی طرح ناچتے ہوئے اپنا آغاز کرنا تھا۔

ہمیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں بی بی سائیں، ہم جہاں جا رہی ہیں وہاں محفوظ بھی ہیں اور پرسکون بھی۔ عزیز خان زندہ ہیں اور جلد آپ کے پاس آجائیں گے۔ لیکن میں اپنی خانم کو تب تک واپس نہیں لاوں گی جب انکے اندر مرنے کی خواہش ماندھ پڑھ کر زندگی کی امنگ نہ بن جائے۔ عزیز خان واپس آکر آپکے سب سوالوں کا جواب دیں گے اور ضرار کے لیے آپکا بے یقین ہونا بھی آپکو افسردہ کرے گا۔ اگر میں اب خانم کو نہ لے کر جاتی تو وہ ایسی ابتر حالت پر پہنچ جاتیں کے پھر زندگی اور موت ایک جیسی ہو جاتی۔ پیدا ہوتے ہی خود کو میں نے خانم کی محافظ دیکھا تھا اور گلالئی اپنی آنکھوں کے سامنے انکو مرتا ہوا کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ 

وہ اب سب کچھ کریں گی جسکی انکا دل اب تک کرنے کی خواہشیں دباتا آیا ہے۔

فی امان اللہ"

فجر کے بعد خدیخہ خانم جب اشنال کے کمرے میں آئیں تو گلالئی کا لکھا خط گویا انکی اذیت کم کرنے کے بجائے اور بڑھا گیا، وہ خود بھی تو ضرار کو مجرم مان چکی تھیں اور اب افسردہ تھیں کہ جب عزیز خان لوٹیں گے تو وہ کیسے اپنے بدگمان ہو جانے کی صفائی پیش کریں گی کہ اس شخص کے بعد اشنال عزیز کی قلبی اور ذہنی حفاظت کا فریضہ خدیخہ خانم پر آتا تھا۔

گلالئی تو اسے لے کر کسی خواب نگر گئی تھی، وہ خواب نگر جو دل کو خواب دیکھانے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کو مزید دلکشی دریافت کرنے کی لگن لگاتا تھا۔

پہاڑوں، وادیوں کے بیچ و بیچ بنا لکڑی کے شہہ تیروں والا گلالئی کی نانی صبیحہ کا گھر ، جس کے داخلی دروازے سے قدرتی چشمہ بہہ کر پہاڑوں سے نکلتا تو دل چاہتا دنیا جہاں کی تکالیف، حسرتیں چھوڑ چھاڑ کر یہیں بیٹھ جایا جائے، آس پاس سے بلند ہوتی بانسری اور رباب کی مدھم لے پر رنگ برنگے پہاڑی پرندوں کی چہکار، تاحد نگاہ پھیلی برف زار پہاڑیاں جہاں دھند پھیلی تھی، وہ یہاں قدم رکھتے ہی خود سے ملی تھی، اس اشنال عزیز سے جسے اس نے بہت سالوں پہلے کھو دیا تھا، اسکے ساتھ اسکی گل تھی، اسے تپتی دوپہروں سے چرا کر بھیگے ابر آلود آسمان تلے پھیلے سبزہ زاروں میں ہم قدم ساتھ چلنے کی پیشکش کرتی اور وہ دونوں مسکرائیں جب نرم سبز گھاس نے انکے سفید روئی کے گالوں جیسے پاوں چومے، سر اٹھایا تو پہاڑوں کی زد سے نکلتا سفید سورج، ہاں سفید کے وہ اپنی تپش ان حسیناوں کے روبرو کسی آتش فشان کو ادھار دے آیا تھا۔

صبیحہ بیگم نے محبت سے باہیں پھیلائے استقبال کیا، وادی کا ہر پکوان چولہے پر چڑھا دیا کہ گھر کی دہلیز کو انکی گل کی خانم کے پیروں نے چھوا تھا۔

جبکہ مرنے کی خواہش تو اشنال عزیز نے پہاڑوں سے گرتی آبشاروں کو دیکھ کر ہی ختم کر دی، اسے بچپن سے پہاڑ پسند تھے، وہ کوہ پیما بننا چاہتی تھی، پر جس خاندان میں اس نے آنکھ کھولی تھی وہاں تو حبس اور گھٹن کے سوا کچھ نہ تھا، وہ پرندہ بن کر اڑنے کی شوقین تھی، پہاڑوں پر چڑھتے سانس پھول جانے پر اسے کسی ہم نوا ساتھی کے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل شرارت سے کھینچ کر دوڑنا تھا۔

برف کے تودوں پر چڑھتے چڑھتے اٹک جانے پر کسی کا پھیلا ہاتھ تھام کر سفر کو جاری رکھنا تھا۔

گلالئی کے نانا جان وھاج علیم بدر ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں کے جانے مانے اور من پسند کوہ پیما رہ چکے تھے اس کے علاوہ کوہ پیمائی سانس گھٹنے کے عارضے کے باعث چھوڑنے کے بعد وہ آجکل یہاں اور اردگرد کے خوبصورت علاقوں میں آتے سیاحوں کے منتظم فائز تھے جنہوں نے کئی ایسے پہاڑ سر کر رکھے تھے جن سے محبت واجب ہوتی ہے۔ ایسی وادیاں ، ایسی جھیلیں دیکھ رکھی تھیں جن تک پہنچنے کے لیے کئی گھنٹوں کا مشکل اور دشوار گزار گھاٹیوں اور پہاڑوں کو سر کرنے کا سفر کرنا پڑتا تھا۔

گلالئی جانتی تھی اشنال عزیز کا عشق یہی پہاڑ، یہی وادیاں اور یہیں جھیلیں تھیں جو مرتی ہوئی اشنال کے اندر زندگی بھر دے گا تبھی وہ اسے لے کر پہلے سیدھی یہاں آئی تھی۔

اور پھر وہ دودھ جیسے پانی والی بظاہر نیلی دیکھائی دیتی جھیل جہاں آکر مرتی زندگی بھی جی اٹھتی تھی، دراصل وہ نیلی تھی مگر درحقیقت اس سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں کا پانی میں جھلکنے والا عکس اسے دور سے ایسا دکھاتا ہے جیسے دودھ کی نہر بہہ رہی ہو اور ان دو حسیناوں کا دل انکو خیمہ لگا کر وہیں بسنے پر مجبور کر رہا تھا ، وہ یہاں کئی گھنٹوں کا پیدل دشوار سفر کر کے پہنچی تھیں اور دل اب واپس پیچھے مڑنے سے انکاری تھا کہ ان چراگاہوں اور ہرے نیلے سفید پانی نے اس لڑکی کو بتایا کہ ایک عشق اور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر وہ عشق اپنے شوق سے کرے، بہت سارے پہاڑ سر کرنے کا شوق۔

"تم سب ٹوٹے ہوئے دلوں پر واجب ہے کہ ایک مسیحائی عشق ایسا کرو جو تمہارے اندر بجھتی زندگی کے چراغ روشن کرے، وہ عشق بھلے ایک موجزن بپھرے دکھی سمندر سے کیوں نہ ہو، ایک ٹوٹے پہاڑ سے کیوں نہ ہو، ایک ضعیف بزرگ کی کاٹی گیلی لکڑی سے کیوں نہ ہو، ایک سر پٹ بھاگتے بیمار گھوڑے سے کیوں نہ ہو، ایک کاغذ کی ناپائیدار کشتی سے کیوں نہ ہو"

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

چھ دن ! چھ دن کم نہ تھے اپنی ہی حویلی میں نظر بند رہنے کو ، وہ جس کے اندر آگ دہکی تھی اس نے یہ دن کرب و اذیت کی بھٹی میں گزار کر کاٹے تھے، صنم سے کیا سلوک پہروں بولایا رکھتا رہا تھا پر بدگمانی نے جیسے ان دو کے رشتے کے بیچ گرہ لگا دی تھی، چہرے پر ہمیشہ رہنے والا دکھ تھا ، اس نے جان بوجھ کر اس بار صنم کی کوئی خبر نہ لی، عزیز خان کا سراغ تو اسے ہاشم کے لوگوں کی مدد کے ذریعے دوسرے دن ہی مل گیا تھا، نہ صرف ملا بلکہ ضرار نے پرانی خانم حویلی سے اس مسیحا کو نکال کر بزدار حویلی کا مہمان بنایا مگر قسم دے دی کہ جب تک وہ اپنے آپ کو اخیر حد تک اشنال کے آگے بے یقین نہیں کر لیتا وہ کسی کے سامنے نہیں آئیں گے اور عزیز خان ایک بار پھر میثم ضرار چوہدری کی عاجزی کی بھینٹ چڑھ گیا جو درحقیقت آتش فشان بن چکی تھی۔

وہ اس بار اشنال کو اسکے ستم کا پورا بدلا دینے پر بضد ہو گیا تھا، محبت میں سب سہا جا سکتا ہے پر اس سے صنم کی بے یقینی نہ سہی گئی اور اسے بھی بدگمانی کی مسند پر فائز کر گئی۔

خود بزدار عالم کا بھی یہی مشورہ تھا کہ وہ عزیز خان کو عین جرگے کے دن ہی پیش کریں گے، لیکن ضرار کچھ اور سوچ کر بیٹھا تھا کیونکہ جرگے کو اس بار وہ آگ لگا دینے کی تیاری کیے بیٹھا تھا۔

گلالئی کو اس نے جو فون دیا تھا وہ پچھلے چھ دنوں سے بند تھا، مطلب اذیت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

خانم حویلی والوں نے بھی اشنال اور گلالئی کے کہیں چلے جانے کو موجود حالات کے پیش نظر بہتر جانا، خود گل خزیں خانم نے اس روز جو اشنال کی الجھی باتیں سنی اور اذیت بھرا پاگل پن دیکھا تھا وہ بھی گلالئی کے اس اقدام پر کچھ پرسکون تھیں کیونکہ سب کے مطابق اگر وہ یہاں رہتی تو خود کے ساتھ کچھ کر گزرتی، پھر گلالئی کا اسکے ساتھ ہونا خدیخہ خانم کی بھی تسلی تھی۔

جبکہ دوسرے دن ہی پرانی حویلی سے جیسے کسی نے راتوں رات عزیز خان کو نکال کر سردار خاقان کے پانچ منحوس مارے جہنم واصل کر دیے تھے، وہ تو اذیت اور بے بسی سے قابل رحم حالت پر آچکا تھا۔

ولی زمان، جبل زاد، اور خود مشارب زمان تک پچھلے چھ دنوں سے تحقیقی ٹیم کا حصہ رہے تھے، اور اس جلی لاش کے ملتے باقیات کا باقاعدہ ٹیسٹ کروائے وہ لوگ حقیقت سامنے لا چکے تھے مگر اب تک کسی کو عزیز خان نہیں ملے تھے جسکی وجہ سے وہ سردار خاقان کی فرعونیت کا سوچ کر چپ تھے کہ آج آخری رات تھی کہ وہ عزیز خان کو ڈھونڈ کر کل جرگے میں سردار خاقان کی حاکمیت پاش پاش کریں لیکن عزیز خان ، ضرار کے پاس تھے۔

ولی اپنے تمام ذرائع استعمال لاتے ہوئے ہر ممکنہ حد تک انکی تلاش کر چکا تھا مگر کہیں سے بھی سراغ ملنا ناممکن لگ رہا تھا اور آج وہ خود اپنی ٹیم کے ساتھ کچھ اہم جگہوں پر عزیز خان کی تلاش کے لیے نکلنے کا سوچ چکا تھا۔

جبکہ کل جرگہ تھا اور گل خزیں بھی یہ ہفتہ کسی اہم منصوبہ بندی میں مصروف عمل رہیں تھیں اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات ہی وہ تمام باتیں مشارب اور ولی کو بتا کر سردار خاقان کے گرد مزید گھیرا تنگ کروائیں گی، زونی بھی یہ ہفتہ زیادہ تر نانو کے ساتھ ہی رہی، ضرار لالہ کے حوالے سے تحقیق کا آپشن اسکے بھی اطمینان کا باعث رہا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ بہت جلد اسکی اپنی ماں اسکا سکون غارت کرنے والی ہے۔

کنزا کی دھمکی اور جذباتیت پر اگلا پورا ہفتہ نازلی بہت ذہنی دباو میں رہی، ولی نے سرمد کو ہفتہ جیل میں ہی رکھا تاکہ شہیر ٹھیک ہوتے ہی پہلے اپنا فرض نبھائے پھر بھلے وہ دو منحوس لڑ لڑ کر مرتے، ولی کی جوتی کو بھی پرواہ نہ تھی۔

اسے بس اپنی لمبی ریاضت کا بدلہ یعنی سیٹھ طلال اور سیٹھ گونی کا خاتمہ چاہیے تھا اور اس فرض کے بعد شہیر اسکی حاکمیت سے آٹومیٹکلی نکل جاتا کیونکہ ان کے بیچ جو معاہدہ ہوا وہ اسی گند کے خاتمے تک کا تھا۔

شہیر یہ چھ دن سپیشل کئیر روم میں ہی رہا، جہاں کاشف نے اسکی بھرپور دیکھ بھال کی۔ اور خود ہوسپٹل کا سٹاف بہت اچھا تھا اور چھ دن کی پراپر کئیر نے شہیر کو ایک بار پھر واپس اپنے دھندوں پر بحال ہونے کی ہمت سونپ دی۔ اسکی پھٹی گال کا زخم اسکی سیاہ بیرڈ میں چھپ چکا تھا مگر ہونٹ کا کنارہ ہلکے سے زخم کے نشان سے اب تک سرخ تھا۔ باقی سینے پر ناسور بنتے زخم نے بھی بحالی کا سفر طے کر لیا تھا مگر اتفاق دیکھیے کہ ان چھے دنوں وریشہ معمول کے مطابق ہوسپٹل آتی بھی رہی اور اس ہیشنٹ کا روز احوال بھی ڈاکٹر نمرہ سے پوچھتی رہی، مگر اس کی ایک دن بھی اس مریض سے ملاقات نہ ہوسکی۔

خود کاشف نے کئی بار ڈاکٹر نمرہ سے اس نیک ڈاکٹر سے ملنے کا ذکر کیا مگر جب نمرہ میم نے اسکے سامنے ایک دو بار ذکر کیا تو وہ بے اختیار ٹالتی رہی، جیسے قدرت انکی ملاقات چاہتی ہی نہ ہو۔

مگر آج جب وریشہ صبح آئی تو ڈاکٹر نمرہ سے ہی اسے اس پیشنٹ کے آج ڈسچارج ہونے کی خبر ملی تو اس نے سوچا تھا کہ وہ آج اسکی تیمارداری کے لیے ضرور جائے گی۔

اسکی بیزارگی اور بے دلی کی وجہ ہفتے سے شہیر کے فون کا آف ہونا تھا، وہ دن میں کئی کئی بار اسکے بند نمبر پر کالز ملاتی اور پھر دل کو اسکے لیے دعا کرنے سے روک نہ پاتی۔

وہ سمجھ نہ پائی کے جس انسان کو اس نے بددعا میں اپنا نام دیا تھا، اسکا دل کیوں ہر لمحہ اسکے حصار میں رہتا ہے۔ وہ لاکھ دامن جھٹکتی رہی مگر دھیان اسکا شہیر مجتبی سے اک بار بھی نہ ہٹا، کئی بار باتوں باتوں میں وہ دادا جان تک سے اسکا پوچھتی رہی جس پر انہوں اسے شہیر کی کافی دونوں سے غیر خاضری کی خبر دی اور اشنال کے بھی گل کے ساتھ کہیں چلے جانے کا بتایا۔

لیکن وہ تب بھی بے چین رہی۔

پھر وہیں خاقان خان کے آدمی نے اسے صبح صبح خبر دی کہ بزدار حویلی میں اسکے آدمیوں نے عزیز خان کو دیکھا ہے اور یہ سننے کے بعد اسکے اندر کا انتقام گویا ٹھاٹیں مار اٹھا۔

"اب صرف ضرار نہیں، اب عزیز کی بھی حقیقی موت کا وقت ہوا چاہتا ہے، اس سے پہلے کہ کل تم لوگ بھری پنچائیت کے آگے مجھے زلیل کرو، میں تم سب کو جلا کر راکھ کر دوں گا"

اپنے چھ دن کے وحشی لاوے کو نکالنے کے ارادے باندھتا وہ آج بزدار حویلی کو خاکستر کرنے کے ارادے کر چکا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اب خاک ہونے کی باری اسکی ہے۔

ہاشم بزدار کل رات ہی اپنی آخری سرجری کے بعد اپنا چہرہ واپس پائے لوٹ چکا تھا اور ناجانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنی جلی بازووں کے ٹریٹمنٹ کی بھی اس بیچ ہامی بھر لی جس پر اسکا ڈاکٹر تک اس خوشگوار تبدیلی پر حیران ہوا مگر بدلا ہاشم کے سینے پر جلتی آگ میں ویسا ہی لپک رہا تھا مگر اب معاملہ کچھ دل لگی کا تھا۔

وہ واپس آتے ہی نکاح کی حویلی میں ہوتی تیاریوں پر زرا بوکھلایا، یوں تو یہ نکاح وہ خود بھی چاہتا تھا مگر اسکی زندگی کا یہ اہم فیصلہ اب کم ازکم بزدار عالم اور ضرار کے بنا کرنا ناممکن تھا مگر عین وقت پر کچھ ایسی مجبوری ہوئی کہ اسے یہ نکاح آج ہی کرنا پڑا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کنزا، جو آج جرگے کے فیصلے کے فورا بعد خانم حویلی سے اپنے کرائے کے کئی غنڈوں کے ساتھ مل کر دھاوا بولنے کے بعد اسے زبردستی واپس لانے راونہ ہوئی تھی، ہاشم بزدار کے انوائیٹ کرنے پر بے بس ہو کر رہ گئی۔

"دلہن کی ماں ہو تم اور اسکی سرپرست بھی۔ سو جلدی پہنچو۔ دیر مت کرنا کیونکہ ہم دونوں کو تمہاری بددعائیں چاہیے۔ تم میرا حکم ٹال نہیں سکتی کیونکہ تم اب میری بیس کڑور کی مقروض ہو"

وہ اسکی دھمکی پر ڈرائیور کو سیدھا اسکے گھر جانے کا اشارہ کرتی من ہی من میں پیچ و تاب کھاتی رہ گئی۔

نکاح تک ہاشم نے نہ ہی مالنی کو دیکھا نہ اس سے ملنے کی کوئی خواہش بیان کی، نکاح کا سنپل سا وائیٹ نیٹ کا فراک اور نیٹ کا یہ دوپٹہ تھا جو اس لڑکی نے اپنے دہکتے حسن کے سنگ زیب تن کیا۔

کنزا مجبورا یہ سب دیکھنے پر راضی تو ہوئی تھی پر وہ سوچ چکی تھی کہ ہاشم بزدار کو وہ اب کیسے اصل موت دے گی۔

نکاح ہونے تک مالنی صدمے میں ہی رہی، لیکن وہ نام اسکی سماعت میں اتر کر اس پر ایچ بی کا پہلا راز کھول کر عجیب سا سکون اتار گیا۔

نکاح کے بعد ایک بار پھر وہ اپنے خوبصورت چہرے پر زہریلی مسکراہٹ سجا کر پہلے سے زیادہ پر کشش ہوتا کنو بائی کی بے بی پر قہقہہ لگاتا مہمان خانے میں گیا۔

"تم نے یہ نکاح تو کر لیا ہاشم بزدار لیکن میں تم سے مالنی چھین کر رہوں گی۔ جب اسے بتاوں گی کہ تم نے مجھ سے محبت کرنے کے بعد میرے ساتھ کیا کیا تھا تو وہ تمہاری اس پیاری شکل پر دو حرف بھیج کر تمہیں چھوڑ جائے گی"

کنزا کا بس نہ چلا وہ اسکا ہنستا چہرہ نوچ لے اور الٹا ہاشم اسکی دھمکی پر مخظوظ ہوا۔

"ہاں اپنی مسکین سی مظلوم بھابھی کے لیے ناسمجھ سا ہاشم بہک گیا، دس سال بڑی عورت کو چاہ بیٹھا پر تم نے میرے کردار پر حرف لائے مجھے بتا دیا تھا کہ تم تو میری ہمدردی تک کے لائق نہ تھی۔ شوق سے بتانا تم اپنی پیاری مالنی کو کیونکہ جب تک تم اسے یہ سچائی بتاو گی تب تک ہاشم بزدار اسے اپنے بہت قریب کر چکا ہوگا۔ اب تم پوری جلو گی کنزا، سر سے پیر تک جلو گی"

وہ تمسخر اڑاتا الٹا اسے خاکستر کر گیا جسکے لہجے نے کنزا کو واقعی جلا دیا تھا۔

"میرے پاس وہ تصویریں ہیں جو اس لڑکی نے تمہارے ساتھ بنائی تھیں، وہ اپنی ماں کی بات مانے گی نا کہ تم جیسے بدکردار کی۔ ہاں وہ لڑکی میں نے بھیجی تھی تمہارے پیچھے لیکن دنیا تو تمہیں غلط سمجھے گی۔ اور دوبارہ اگر تم نے مجھے دھمکایا یا اپنے مقروض ہونے کے باعث بلیک میل کیا تو وہی تصویریں مالنی کو دیکھا دوں گی"

کنزا خود کو جتنا بھی شاطر سمجھ لیتی، ہاشم بزدار جیسے ماہر کھلاڑی سے اب وہ ہر ممکنہ کم تھی جو آل ریڈی جیکٹ کی جیب میں رکھے فون میں اس عورت کی خرافاتی دھمکیاں ریکارڈ کر رہا تھا۔

"اوکے تم ایسا کرنا مجھے بھیج دینا میں خود اسے دیکھا دوں گا، باقی جلنا اب تمہارا مقدر ہے۔ جلد تمہیں سفاک سی نانی بھی بناوں گا تاکہ تم اپنے کیے گناہوں پر خود ہی شرم سے ڈوب مرو کنو بائی۔ کاروباری عورت کسی کی محبوب نہیں رہتی کنزا، اپنی اولاد تک کی بھی نہیں۔۔اب جا سکتی ہو تم، تمہارا کام مالنی کے سرپرست ہونے کے باعث اس نکاح کی اجازت دیتے ہی ختم ہوا۔ اب میرا اور تمہارا رشتہ صرف اتنا ہے جتنا ایک مقروض کا قرض لینے والے سے ہوتا ہے"

وہ نفرت اچھالتا، اس عورت کو ایک آخری بار برے طریقے سے آئینہ دیکھائے تضخیک لٹاتا اس کی لٹھے کی مانند سفید پڑتی شکل کو نظر بھر کر دیکھنے تک کو نظر انداز کرتا کمرے سے نکل گیا اور وہ اپنا افشار ہوتا خون بحال کرتی پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی۔

ہاشم نے یہ نکاح جلدی میں صرف انتقام کو پورا کرنے کے لیے کیا تھا ورنہ وہ اپنی زندگی کی پہلی سچی خوشی بہت دھوم دھام سے منانے کے حق میں تھا، ان سب فسادات کے بعد وہ یہ بھی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا، اسکے لوگ پل پل اسے بزدار حویلی اور خانم حویلی کی معلومات دے رہے تھے اور وہ اپنے کمرے کے بجائے مالنی والے کمرے کی طرف قدم بڑھاتا شر انگیز سی مسکراہٹ دبائے واپس جیکٹ کی جیب سے ماسک نکال کر اپنے منہ پر لگا چکا تھا۔

مالنی تو اس وقت یوں تھی جیسے اسکے جسم کو کسی نے برف کی سل پر رکھ چھوڑا ہو اور وہ منجمد ہو گیا ہو، نیٹ کا دوپٹہ گلے سے اتار کر بے دلی سے بیڈ پر پھینکتی وہ گہرا سانس لیتی اس وقت کنزا کی وہ نظریں سوچ رہی تھی جو اب تک مالنی کے وجود میں گڑھی محسوس ہو رہی تھیں۔

یکدم بند دروازے کے ڈور ناب گھومنے پر وہ سب کچھ جھٹک کر اٹھی مگر پھر اگلے ہی لمحے ایچ بی کے اندر آنے پر اسکا سانس بے ترتیب ہو کر خارج ہوا جو اسکے یکدم ڈر اٹھنے کا ترجمان تھا۔

"تو میری بیوی اب تک اسی  کمرے میں چھپی بیٹھی ہے، لٹس گو ۔ اب یہ تمہاری جگہ نہیں"

بے تکلفی سے وہ قریب آتا بنا مالنی کے خوف اور ڈر کو دیکھے اسکا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں جکڑتا کمرے سے نکلا اور وہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اس ستم گر کے ساتھ چلتی ہوئی تب ٹھہری جب ہاشم نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اندر داخل ہوتے اسے بھی اندر کھینچا جو حواس بحال کرتی ہاشم کے دروازہ بند کرنے پر خوف زدہ ہوتی چند قدم پیچھے ہٹی جو ہاشم کو بالکل اچھا نہ لگا۔

"یہاں قریب آو اپنی جگہ پر!"

وہ اسکے قریب کھڑا مسلسل خوف کے مارے تھر تھر کانپتی مالنی کو مزید قریب آنے کا حکم دیتے بولا جو بمشکل حلق تر کرتی گہرا سانس کھینچے بس دو قدم بمشکل اسکے قریب آئی، لگ یہی رہا تھا کہ وہ لڑکی ابھی غش کھا کر زمین پر گر پڑے گی۔

"دیکھیں ماسکو! اگر آپکو دیکھ کر اور آپکے چہرے کے چمکاروں سے میری آنکھیں پھوٹ گئیں تو میں تو اندھی ہو جاوں گی۔ آپ پلیز ساری زندگی ناں یونہی ماسک پہننے رکھیں۔ وہ کیا ہے کے مجھے آپکو یونہی دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے"

اس ساحر کے ارادے، اسکی سیاہ گہری روح جکڑتی آنکھوں کا خمار، دل کش انداز اور فتخ مندی کا احساس گویا مالنی کی رہی سہی ہمت ختم کر چکا تبھی وہ معصومیت سے اسکے قریب آکر کھڑی ہچکچاتی بولی جبکہ اس شخص کی آنکھیں تو مالنی کے چہرے کے سجے نقوش کا طواف کرنے میں مصروف تھیں تبھی وہ مزید گھبرا رہی تھی۔

"تمہیں تو یہ چہرہ دیکھنے کا بہت شوق تھا اور مجھے بھی اب چھپانے کی کیا ضرورت ہے کہ اب تو جس رشتے میں تم میرے ساتھ بندھی ہو اس میں کوئی پردہ بیچ میں حائل نہیں رہنا چاہیے، اور پھر بنا ماسک اتارے میں اپنی بیوی سے کمفرٹیبلی مل نہیں پاوں گا سو اتار۔۔۔"

لہجہ بے باک رکھے وہ شرارت آمیزی پر اترتا اس سے پہلے خود ہی ماسک اتارتا، مالنی نے بے اختیار اسکا چہرے کی جانب جاتا ہاتھ جکڑا جس پر وہ مسکرایا، ایسی مسکراہٹ جو آگر ماسک میں نہ چھپی ہوتی تو اس لڑکی کو لمحہ لگائے تسخیر کر لیتی۔

"ملنا کیوں ہے ماسکو؟ رہنے دیں پلیز۔ اتنی سزا کافی تھی جو دے دی ہے"

وہ اپنی دھڑکنوں کو یکدم کانوں میں بج اٹھتا محسوس کرتی بوکھلائی اور سرگوشی میں بولی، کہ اب تو اس کی زہریلی آنکھیں دیکھنا بھی مالنی کے لیے محال تھیں۔

"ابھی سزا دی ہی کہاں ہے بیوقوف مالنی! ابھی تو سزا دینے کے لیے ایک سازگار ماحول بنا رہا ہوں"

اسکے لفظی بے باک لمس پر مالنی نے بے اختیار آنکھیں جھکا لیں جو اسکے کھلے خوشبو دار بالوں کو ہاتھ کی پوروں سے سہلائے بولا، اس شخص کے یوں کرنے پر وہ سہمی، پر اسکے کلون کی خوشبو اسکی سانسوں میں گھل کر اسے بھی بے چین کر رہی تھی اور ستم کے وہ یہاں سے ہر اختیار کے باوجود بھاگ بھی نہ سکتی تھی۔

"ایسا مت کری۔۔یں ماسکو! پلیز"

اسکا لپکتا انداز مالنی کو خوفزدہ کر رہا تھا تبھی وہ اس قید کی اسیری قبول کرنے سے پہلے ایک آخری بار رحم طلب نظر اٹھائے بولی، اسکی آنکھیں جبر و خوف کی زد میں تھیں اور یہ ہاشم بزدار کے دل کو بے خود کرنے کا سبب بن رہا تھا۔

"آج تم پر ترس نہیں آئے گا، جیسے تم نے مجھ جیسے آدم بیزار پر ترس نہیں کھایا اور مجھے ایک ایسی راہ پر ڈالا جہاں میں نے دوبارہ قدم رکھنا خود پر ممنوع کیا تھا۔ کیا وہ سب واقعی وقتی تھا، تمہاری میرے لیے بے باک کیفیت؟ وقت آنے پر تم تو میدان چھوڑ کر بھاگ رہی تھی۔ کیوں؟ "

وہ تو خوف سے دور جانے پر بضد تھی تبھی ہاشم نے ایک ہاتھ بڑھائے اسکی نازک کمر کے گرد بازو حائل کرتے ہی جھٹکے سے اسے قریب کیا جو ایسا سب بالکل امید نہ کر رہی تھی تبھی اس بے باک قربت پر اپنا بگھڑتا تنفس ہی درست کرتی رہ گئی، شرم، بے بسی ملی تو مالنی کا چہرہ سرخیوں میں ڈھلا مگر اس کے علاوہ ایک لفظ جہاں وہ لڑکی تمام خوف بھلا کر خفا ہوتی نظر آئی وہ ہاشم کا امتحان بنا۔

"د۔۔دوبارہ مطلب؟ آپ کی زندگی میں میرے علاوہ بھی کوئی آئی تھی ؟"

یہ سوال کرتے وقت مالنی نے اسکی شرٹ کا گریبان بے دردی سے اپنی مٹھی میں لیے کھینچا اور دوبارہ سے وہی پہلی لڑکی بلکہ شیرنی سی اس رقابت پر بیدار ہو کر ہاشم کے اندر باہر تہلکہ مچا گئی۔

"اٹس نن آف یور بزنس مالنی، کیونکہ زندگی میں تو بہت سے لوگ آتے ہیں پر زندگی میں گھستا کوئی کوئی ہے تمہاری طرح"

وہ اسکے عجیب اکھڑے سے جواب پر منہ بسور گئی، بھلا اس پر مطمئین ہوتی یا اور پریشان، سمجھ سے باہر تھا۔

"آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں زبردستی آپکی زندگی میں گھسی ہوں، بھاگنے دیتے پھر مجھے کیوں یہ شادی کی۔ اگر ساری زندگی آپ نے مجھے میری بے باکیوں پر طعنے ہی دینے تھے تو دل بڑا کر کے زندگی میں گھسنے کی کوشش کرتی اس فضول لڑکی کو معاف کر دیتے۔۔۔ "

وہ اسکا ہاتھ اپنی کمر پر سے ہٹاتی ناراض ہوتی دور ہوئی مگر ہنوز اس کے حصار میں رہی جبکہ وہ مخظوظ ہوتا یہ جان لیوا تیور دیکھنے میں گم تھا۔

"اور پھر زندگی میں زبردستی گھسنے والے، دل میں بھی زبردستی گھس پائیں ایسا ممکن نہیں ہوتا ماسکو۔ مجھے تو لگا تھا آپ مجھے اپنے قریب کر کے کوئی شایان شان سزا دیں گے پر آپ نے رقابت میں جھونک دیا۔ اچھی سزا چنی ہے ، مما نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ انسان تکلیف دے گا۔ انھیں ضرور پتا تھا آپکی زندگی میں آتی اس پہلی لڑکی کا تبھی وہ مجھے روک رہی ہیں۔۔۔ہٹیں پیچھے۔ نہیں دیکھنا مجھے آپکا چہرہ اب، آپ نے مجھے ہرٹ کیا ہے"

وہ یکدم ہی بپھری، جبکہ وہ بھی لمحہ بھر اس لڑکی کی جلن پر بوکھلایا، جانتا تھا کنزا جو دھمکی دے کر گئی ہے وہ اس پر عمل بھی کرے گی سو وہ مالنی کو پہلے ہی رقابت کی خبر دے گیا تاکہ اس لڑکی کے نازک دل کو وہ سفاک اپنی چال کے مطابق کا جھٹکا نہ دے سکے۔

"لیکن تم تو میرے دل میں پہلے گھسی تھی، زندگی میں تو آج آئی ہو"

وہ اسکی شدت پسندی کو یکسر نظر انداز کرتا معنی خیز لہجے میں کہتے اسکے بالوں میں ہاتھ پھنسائے اسکی جانب دیکھتے بولا جو ایچ بی کی دھڑکن کا شور اپنے وجود میں اترتا محسوس کر رہی تھی کیونکہ وہ اسے خود سے جوڑے کھڑا یہ اعتراف کر کے مالنی کا ہر اعتراض دور کر چکا تھا۔

"آپ مجھے بہلا رہے ہیں، میرا ٹوٹا دل جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں"

وہ آواز کو بھرنے سے روک نہ پائی مگر بے اختیار اس نے ہاشم کی آنکھیں دیکھتے ہی اپنا ہاتھ اسکے ماسک پر رکھا، وہ بے بس ہو رہی تھی، وہ شخص یہ وار کر کے اسکی ساری حسیں مفلوج کر چکا تھا۔

"ہاشم!"

وہ بے خود ہوتی اسکی خاموشی کے جواب میں اسکے ایک کان سے ماسک کی سٹرپ ہٹانے کی کوشش میں پکاری تو اس لڑکی کے ہونٹوں سے نکلتا اپنا نام اس شخص کو سرشار کر گیا، یہی نام تو تھا جس کو اس لڑکی نے دل و جان سے نکاح کے وقت قبول کیا تھا۔

"میں نہیں کر پا رہی یار، پلیز مجھ پر رحم کریں ماسکو"

وہ ہاتھ کانپنے پر پیچھے ہٹاتی یکدم اسکے سینے سے جا لپٹی جسکا ماسک ایک طرف سے سڑپ کان سے نکلنے پر ویسے ہی اتر چکا تھا مگر وہ پاگل اس شخص کے خود قریب جا بسی تھی اور ہاشم نے ماسک کو دوسرے کان سے نکالے کچھ دور اچھالتے ہی اپنا دوسرا بازو بھی اس لڑکی کے گرد حصار لیا اور اس وقت وہ آفت ناک مسکرایا، چہرے کا ہر داغ مٹ چکا تھا اور اس شخص کی دلکشی، اس من پسند گلے لگتی لڑکی نے بڑھا دی۔

بلاشبہ وہ اب بھی بہت خوبصورت خدوخال اور پرکشش وجود کا مالک تھا، خود کے لیے اس نے کبھی کوئی لاپرواہی نہیں برتی تھی، وہ بزدار عالم جیسا خوبرو تھا مگر ہاشم کی بڑھتی عمر کی پختگی نے اسکو مزید سوبر بنا دیا تھا۔

"لیکن ماسک تو اتر چکا ہے، اب یا تو ساری زندگی اسی حصار میں چھپی رہو بیوقوف مالنی یا پھر مجھے دیکھ کر اپنی اور میری مشکل آسان کر دو"

وہ جو اس گرفت میں آتے ہی سانس لینا بھول چکی تھی، کان کی لو سے جڑتے ہونٹوں سے نکلتی گرم سانس پر کانپی مگر وہ اس وقت جن بازووں کے حصار میں تھی، وہ سہولت سے اسکے لرزتے وجود پر قابو پا چکا تھا اور وہ اسکے کہے جملوں پر اسے مزید ٹائیٹ جکڑ کر ہاشم بزادر کو مزید جان لیوا بنا چکی تھی۔

"مجھے یہیں رہنا منظور ہے"

وہ ڈر کو ہر ممکنہ دباتی مدھم سی دبی آواز میں بولی تو ہاشم نے بمشکل چہرے پر پھیلتی مسکراہٹ دبائی۔

"یہاں رہ کر تو وہ کچھ بھی ہوگا جو ابھی میرا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، باقی تمہاری مرضی"

دل دہلانے میں تو اس خطرناک نے کوئی ڈگری لے رکھی تھی تبھی تو وہ جھٹ سے اسکے شدت بھرے حصار کو باندھتے ہی ناصرف اس سے دور ہوئی بلکہ آنکھیں سختی سے بھینچ لیتی وہ مڑ کر پلٹ گئی اور فرش پر گرا ماسک دیکھتے ہی مالنی نے بمشکل اپنا خشک پڑتا حلق تر کیا مگر یکدم ہاشم نے اپنی جیکٹ اتار کر بیڈ پر رکھتے ہی لپک کر اسے عقب سے حصار کر مالنی کی دھڑکنیں پلوں میں زیر کر دیں۔

"اف ماسکو! ک۔۔کیا کر رہے ہیں۔ دیکھ نہیں رہے میری جان نکل رہی ہے، مجھے پتا ہے یار آپ بہت پیارے ہوں گے پر م۔۔میں دیکھتے ہی سلپ ہو گئی تو؟ میرا مطلب۔۔۔۔"

وہ اس کے خوف سے ڈرتی ہوئی منمنائی مگر ہاشم نے ایک ہاتھ کی ہتھیلی اسکے منہ پر جمائے اسکی گال سے ساتھ اپنی گال رب کیے ہونٹ کان سے جوڑے جس پر وہ پھر سے کبوتر بنی آنکھیں بند کر گئی۔

"آج تم سلپ تو کیا مجھ پر گر بھی سکتی ہو، اگر اب بھی تم نے مجھے نہیں دیکھا تو پھر یاد رکھنا ترس جاو گی مجھے دیکھنے کے لیے"

وہ اسے پل پل مشکل سے دوچار کرتا بولا جو گال سے لگتی اسکی بیرڈ گال سے گدگداتی چبھن محسوس کرتی ساتھ اس کی دھمکی پر بدحواس ہو کر آنکھیں کھول گئی پر ڈر جیسے اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہا تھا اور اس سے پہلے وہ ہمت جمع کرتی وہیں سے چہرہ پھیر کر اس کو دیکھتی، ہاشم بیڈ پر پڑے اپنے فون کے بجنے پر نہ صرف اسے آزاد کرتا پلٹا بلکہ مالنی نے جب گردن موڑی وہ چہرہ پھیرے اپنا بجتا فون جیکٹ کی جیب سے نکال کر مڑے مڑے ہی کان سے لگا چکا تھا۔

"کوجا کہیں کا، اتنی مشکل سے پلٹی تھی اور اسے اس اہم منہ دیکھائی کے وقت کال سننے کی پڑی ہے"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ کوفت زدہ ہوئی مگر ہاشم کی فون پر بات سن کر وہ تھوڑی فکر مند ہو گئی۔

"ٹھیک ہے، میں پہنچ رہا ہوں۔ آج اسکا کھیل ہاشم بزدار ہی ختم کرے گا۔ ضرار  یا کسی اور کو آنچ بھی نہیں آنی چاہیے میرے پہنچنے تک"

وہ اپنے فون پر سختی سے مخاطب ہوتا بے دھیانی میں پلٹ کر اپنی بیڈ پر دھری جیکٹ تک لپکا تو وہیں مالنی اسکا چہرہ دیکھتی جہاں تھی وہیں کی وہیں تھم کر رہ گئی، شاید جس خوبصورتی کا اسے پتا تھا یہ شخص تو ان سب کو خاک کرتا کسی اونچی مسند پر فائز تھا۔

خود ہاشم بھی اس وقت کال پر بزی تھا تبھی مالنی کی ساری حسیں اوپر کوچ کرنے کا یہ منظر مس کر بیٹھا، وہ لڑکی تو برف کی بن چکی تھی جسکی آنکھیں ٹھہری ہوئیں اور نرم گلابی ہونٹ حیرت و صدمے سے کھل گئے تھے۔

"یہ۔۔۔یہ تو میرے خوابوں کے شہزادے کا بھی ابا نکلا ظالم کہیں کا۔۔

آہ مالنی تُو تو گئی ، یہ تو تجھے پکا مار دے گا، اس کالے ماسک تلے اس نے اپنا یہ قاتل حسن چھپا رکھا تھا"

اسے مسلسل فون پر مصروف دیکھنے کے ساتھ کہیں جانے کو تیار دیکھتی وہ صدمے سے بڑبڑاتی گئی جبکہ کال بند کرتا ہاشم تب ٹھٹکا جب مالنی صاحبہ اسکے چہرے کو دیکھ کر خود کومے میں جا چکی تھیں کہ ان سے ہاشم بزدار کے جلوے سہننا مشکل ہوا، انٹیس ماحول کے باوجود اسکے چہرے پر اپنی وجہ سے اڑے رنگ دیکھے مدھم سی مسکراہٹ پھیلی اور وہ جب قریب آکر اسکی کمر واپس کھینچ کر قریب کر گیا تب وہ لڑکی سر تا پیر لرز اٹھتی ہوش میں لوٹی۔

"ماروں گا تمہیں لیکن تھوڑا تھوڑا کر کے، ابھی مجھے جانا ہوگا۔ لکی ہو کہ زندگی کا ایک دن اور مل گیا۔ تمہاری ہمت کی داد دیتا ہوں کے مجھے دیکھ کر بیہوش نہیں ہوئی، ایسی ہی مضبوط اعصاب والی بیوی مجھے سوٹ کرے گی جس کے اندر ہاشم بزدار کو برداشت کرنے کی سکت موجود ہو۔ اور تمہاری معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ، آئی ایم ناٹ فورٹی ایٹ، آئی ایم جسٹ فورٹی ون۔ سو گبھرانا نہیں میں نے کوئی جوانی لوٹانے کے انجیکشن نہیں لگوائے میں ہوں ہی اب تک ہاٹ۔یہ میرا ذاتی حسن ہے۔۔۔سی یو سون بیوقوف مالنی"

وہ اسکی بے خود بڑبڑاہٹ سن چکا تھا تبھی بے باکی سے ان نیم وا کھلے ہونٹوں کو مخمور نظروں میں لیتا، ان دم سادھی دھڑکنوں کو بڑھائے، پہلی استحاق بھری گستاخی کرتا،اسکی پہلے سے دبی سانس روک دیتا وہ مالنی کے تمام ہوش سلب کرتا اک روح جکڑتی دلربا نظر آزادی بخشتے ہی اس بے وقت شدت بھری قربت سے کپکپا اٹھتی لڑکی کے لرزش زدہ وجود پر ڈالتا آنکھ ونگ کرتا دروازہ کھولے کمرے سے نکل گیا جبکہ محترم اپنی عمر بھی سچائی سے گوش گزار کر کے بچاری کو مزید حوصلہ تھما گئے اور مالنی گہرے گہرے سانس بھرتی نیم جان ہوتی وہیں بیڈ کا سہارہ لیے بیٹھ پائی، پورا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا، وہ مسلسل کانپ رہی تھی، جیسے وہ ظالم ایک ہی جھٹکے سے اسکی جان نکال کر لے گیا تھا، اپنا سرخ پڑتا چہرہ گرم ہتھیلوں سے دباتی وہ خود کو کمپوز کرنے لگی مگر لگ رہا تھا وہ ابھی جان دے بیٹھے گی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کاشف اسکا باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا تھا اور نرس کچھ دیر پہلے ہی شہیر کو اسکے کپڑے دے کر گئی تھی، جینز پہنے، وائیٹ ویسٹ میں اپنے کسرتی بازو چھلکاتا، سینے پر زخم کی جگہ ہاتھ رکھتا وہ باتھ روم سے نکلا اور بیڈ پر رکھی اپنی میرون شرٹ اٹھائی۔

وہیں اپنے تمام پیشنٹ دیکھنے کے بعد وہ آج اپنے ارادے کو تکمیل پہنچانے کو سپیشل کئیر روم کی جانب گامزن تھی، چہرہ ہر احساس سے عاری تھا۔

دروازے کے قریب پہنچے وریشہ نے آہستگی سے دبایا تو وہ کھلا مگر جیسے دونوں کی نظر بے اختیار ملی وہ دل کے کئی تار ہلا گئی۔

وریشہ کے چہرے کی رنگت لمحے میں بدلی وہیں وہ بھی اس دشمن جان کو یہاں دیکھ کر شرٹ پہننا بھول چکا تھا۔

آنکھوں میں اداسی بھرے وہ اندر آئی اور دروازہ بند کرتے ہی اس تھم چکے انسان تک پہنچی جسکی آنکھیں سراسر اسکی جان لے چکی تھیں۔

وہ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ سے شہیر کی شرٹ لینا چاہتی تھی مگر اس نے دل جلی مسکراہٹ کے سنگ ہاتھ پیچھے کر دیا۔

"تم نے کیوں نہیں بتایا کہ تم ٹھیک نہیں ہو، پلیز مے آئی؟"

وہ اول جملہ شکوے کی صورت ادا کرتی ایک بار پھر اس کے ہاتھ سے شرٹ لے چکی تھی جو بس اسے دیکھ ہی پایا، وعدے سے مکرنا تو اس شخص کو آتا ہی نہ تھا ورنہ اس سوال پر وہ عملی پیش رفت کر کے ظلم کا بدلہ چکاتا۔۔

"مر جانے والا کبھی آکر بتاتا ہے وریشہ کہ وہ مر گیا، یہ خبر تو اسکے لواحقین پھیلاتے ہیں۔ جب کہ میرا تو اس شہر میں کوئی نہیں ہے جو تم تک یہ خبر پہنچاتا"

وہ اسے بہت احتیاط سے شرٹ پہناتی اسے ان سفاک جملوں پر نظر اٹھائے اسے دیکھنے لگی جس کو بددعا دینے کے بجائے وہ کتنے دنوں سے دعائیں دینے لگی تھی۔

وریشہ کی تھکی ہوئی آنکھیں اسکے افسردہ دل کا حال کہہ چکی تھیں پر وہ اپنے عہد پر ڈٹا تھا کیسے پیچھے ہٹ جاتا۔

"میں تمہاری اس کاٹی گئی کال سے اب تک تمہارے لیے پریشان تھی شہیر، یہ سب کس نے کیا تمہارے ساتھ؟ اور ایسا کیا ہوا کہ تم پھر سے مرنے کے قریب پہنچ گئے"

وہ نہ تو اپنی اداسی چھپا سکی نہ اپنے ہاتھ کی انگشت شہادت کی نرم پور کو روک پائی جس نے شہیر کے زخمی ہونٹ کا کنارہ چھوا، وہ اسکی کلائی بروقت جکڑتا اسکے ہاتھ کو زرا فاصلے پر کیے مزاحمت پر اترا تو وریشہ نے اسکی برہم ہو جاتی وہی آنکھیں دیکھیں جو اتنے دن سے وریشہ نے شدت سے ڈھونڈی تھیں۔

"بہت سی بددعائیں ہیں، گاہے بگاہے لگتی رہتی ہیں مجھے۔ پر شاید تم نے کوئی دعا بھی بددعا کے ساتھ دے دی ہے غلطی سے جو مجھے مکمل مرنے نہیں دے رہی۔ ایک بات تو بتاو؟ تم اس ہوسپٹل میں تھی تو پچھلے چھ دن نظر کیوں نہیں آئی؟"

وہ اسکی کلائی کو آزاد کرتا اسکے سفید کوٹ کی جانب دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ وہ یہیں جاب کر رہی ہے تبھی تو شہیر کے سوال میں حیرت تھی۔

"کیونکہ میں اپنے کام سے کام رکھتی ہوں"

وہ اسکے اجتناب پر برا مناتی اپنے لہجے میں خفگی اتر آنے سے روک نہ سکی جو اسے جی بھر کر دیکھتا مسرور سا ہوا، ناجانے کیوں وہ لڑکی اسے بری کبھی لگتی ہی نہ تھی۔

"تو پھر مجھ جیسے بیکار اور لوفر کی ذاتیات میں کیوں گھس رہی ہو؟"

اسکا اشارہ وریشہ کے ہاتھوں کی جانب تھا جو شہیر کی شرٹس کے بٹن بند کرتی نظریں جھکائے کھڑی تھی۔

"کیوں کہ میں نے تم جیسے سفاک کو مس کیا"

وہ آخری بٹن بند کرتی اپنی بوجھل آنکھیں اٹھا کر شہیر کی آنکھوں میں ڈالے بولی جو ایسا سب سننے کی قطعا امید نہیں رکھتا تھا۔

"مجھے نہیں میری بکواسیات کو کیا ہوگا؟"

وہ دل جھٹکتا اس لڑکی کی درستگی کرتا وہیں بیڈ پر بیٹھا کیونکہ عجیب سا درد پھر سے زخم سے اس لڑکی کی موجودگی پر ہی نکلنے لگا اور وہ بھی اسکے قریب کھڑی بس اس جواب پر خالی آنکھیں لیے دیکھتی رہ گئی۔

پھر اس نے اپنی آنکھوں کو آزاد چھوڑا جن میں نمی بھرنے لگی اور وہ نفی میں گردن ہلائے پھر سے اسے لاجواب کر گئی۔

"ٹھیک ہوں میں، غنڈا گردی میں یہ سب چلتا ہے بیوی۔ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ان چند دنوں میں ہی وریشہ یوسف زئی کو اس بیمار سے انسانیت والی محبت ہو گئی ہے"

وہ اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے قریب کرتا اسکی کمزور پڑتی حالت کا بھرم رکھے، ان جھکی آنکھوں پر اپنی بے باک سی نظریں گاڑتا جو بولا اس پر وہ اسے دیکھتی گہرا سانس بھرتی اس سے پہلے اسکے ہاتھ جھٹک کر کمرے سے نکل جاتی ، وہ اٹھا اور اسکے ہاتھ نے وریشہ کا ہاتھ مضبوطی سے انگلیوں سمیت اپنے ہاتھ میں مقید کر لیا۔

"مجھے تم سے محبت کبھی نہیں ہو سکتی شہیر، پھر چاہے وہ انسانیت والی ہو یا پھر جنونیت والی"

وہ اسکے روکنے پر دل پر جبر کرتی رکی اور پلٹی، وہ اسے ہی آنکھوں کے راستے دل میں اتار رہا تھا مگر اس لڑکی کا اعتماد شہیر کو عجیب سی راحت بخش گیا۔

"اور اگر مجھے ہو گئی؟"

اسی ہاتھ سے اپنی طرف کھینچتا وہ بروقت اس لڑکی کی کمر میں بازو حائل کرتا ان مدھم پڑتی دھڑکنوں کو بغیر رکاوٹ محسوس کرتے سرگوشی میں بولا جس پر وریشہ نے ہمت کرتے اسکی آنکھوں میں اپنی بجھی بے آس آنکھیں ڈالیں۔

"تو یہ تمہارا مسئلہ ہوگا، تم مجھے خود سے باندھ کر اپنے ہی پریشان رکھ کر بدلا لینا چاہتے ہو کیونکہ میرا حساس دل میری کمزوری ہے اور تم یوں کر کے میری کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہو"

وہ کسی بھی طرح سچائی تسلیم نہیں کر رہی تھی اور شہیر کو اسکی الجھن بھی اس وقت سکون دے رہی تھی۔

"میں نے تمہیں خود سے صرف باندھا ہی تو ہے، خود میں مبتلا تھوڑا کیا ہے۔ تم چاہو تو یہ ہمارے بیچ کے دھاگے کھول کر جا سکتی ہو۔ بس محبت ہی تو شرط ہے، جس دن کہو گی محبت کر بیٹھی ہو اسی دن اپنا یہ ناقابل قبول وجود تمہاری زندگی سے لے کر نکل جاوں گا"

وہ اسکے حواس پھر سلپ کرتا اس لڑکی کی مدھم سانسیں اور انکی بے خود کرتی خوشبو میں سانس لیے یہ تقاضا کرتا پھر سے اسکے قریب آیا جو اسکے سینے پر ہتھیلوں کا دباو ڈالتی سانسوں کی شدت پکڑتی الجھن کے خدشوں سے گھبراتی ہونٹ بھینچ لیتی اسے شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہی تھی، ناجانے کیوں وہ اسے جھوٹا نہیں لگتا تھا، اپنے معاملے میں ہرگز نہیں۔

"یہ کیسی بے تکی شرط ہے، محبت ہو گئی تو میں تمہیں کیسے چھوڑ سکوں گی ؟"

وہ اسکی بات پر پھر سے تلملائی۔

"تو مت چھوڑو، کیا مجبوری ہے، کیا بے بسی ہے کہ چھوڑنے کے علاوہ تمہیں ہمارے بیچ کے مسائل کا دوسرا کوئی حل نہیں دیکھائی دے رہا"

وہ عجیب جنونی سا ہوا جبکہ وریشہ اسکو سمجھنے سے مکمل قاصر بے یقین نظریں ڈالتی کئی ثانیے بس دیکھتی رہ گئی۔

"ولی مجھ سے محبت کرتے ہیں، میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں اپنا دل انکے لیے سنبھال کر رکھوں۔ تم سمجھتے کیوں نہیں کہ زبردستی دل بسائے نہیں جا سکتے"

وہ پھر سے دماغ میں اذیت بھرنے پر اونچی آواز میں اس پر برسی جبکہ ولی زمان خان نامی کانٹا شہیر کے حلق میں تاعمر پھنسا رہنے کے لیے ہی تھا اور وہ یہ بات مانتا تھا۔

"تو پھر سنبھال لیا تم نے دل؟"

وہ زہر خند لہجے میں اپنے سوال کو کرتا وریشہ کی جان لمحے میں لے چکا تھا جس نے پھر سے غصے سے شہیر کو دیکھا۔

"یہ بعث فضول ہے، چلو گھر۔ میں تمہارا خود دھیان رکھوں گی"

وہ سر جھٹک گئی۔

"نہیں! اپنے احسان پاس رکھو وریشہ یوسف زئی"

وہ ان جان لیوا نظروں سے بچنے کو موضوع بدل چکی تھی مگر وہ تب ہقا بقا رہ گئی جب شہیر مجتبی نے برخستہ کہے ناصرف اسے آزاد کیا بلکہ بنا کچھ کہے سرد مہر نگاہ ڈالتا وہ اس روم کے دروازے کو کھولتا باہر نکل گیا اور وہ بھاگتی ہوئی باہر کوریڈور تک آئی مگر اس بندے نے قدموں کی رفتار کو ہر ممکنہ وریشہ سے دور لے جانے کو تیز کیا۔

وہ اوجھل ہوا ہی یوں کے وہ دل پھر سے اداس محسوس کرتی ہاف لیے خود بھی گھر چلی گئی، دل یہی چاہا کہیں سے کود کر جان دے دے، وہ سر تھامے صوفے پر بیٹھی تھی اور سر درد سے پھٹ رہا تھا مگر پھر ناجانے کس مانوس احساس کے تحت وہ دوڑتی ہوئی داخلی دروازے تک گئی اور جھٹکے سے کھولا تو سامنے اسی انداز میں ایک طرف کی دیوار سے لگ کر کھڑا شہیر مجتبی اس لڑکی کو اپنے سحر میں دیوانہ کر چکنے پر کامیاب ہوتا شر انگیز مسکراتا کھڑا تھا۔

بنا دستک دیے بھی وہ لڑکی اسکی موجودگی کا غائبانہ احساس کرتی دروازہ کھول کر خود بھی پتھر کی بن چکی تھی، یہ اس سے کیا ہو گیا؟ جبکہ فتخمدانہ تاثرات نے شہیر مجتبی کے چہرے پر اس وقت چمک لا دھری تھی، ایسی چمک جسکی تابناکی کسی کو بھی جلا کر راکھ کر سکنے کی ہمت رکھتی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

آج سب ختم ہو جائے گا، جس آگ میں سردار خاقان خان برسوں سے جل رہا ہے، آج تمہارے پورے خاندان کو خاکستر کرتے ہی میرے اندر کی آگ ہمیشہ کے لیے بجھ جائے گی"

گاڑی، سنسان سی کچی آبادی و علاقے کی سرحد سے پرے سڑک کے قریب روک کر باہر کسی کے انتظار میں پھنکارتا خاقان، اپنے اندر لگی آگ کا توڑ کرنے نکلا تھا مگر وہ جانتا نہیں تھا کہ وہ ساری آتش بہت پہلے لگا چکا ہے، اب اسی بزدار کے وارثوں کی باری تھی کہ وہ خاقان کی نس نس میں انتقام کا زہر رواں کر دیتے۔

دوپہر ڈھل چکی تھی پر موسم کے دامن میں عجیب یاسیت اور قنوطیت بھری پڑی تھی اور پھر متنفر تاثر دیتا خاقان، کسی آہٹ پر پلٹا جہاں سے اسکا سب سے اہم ساتھی رزاق خوف و دہشت سے دوڑتا، مٹی دھول اڑاتا ہانپتا ہوا عین سردار خاقان کے روبرو آکر کھڑا ہوا، یہ وہی خاص آدمی تھا جس نے کئی سال پہلے ہاشم بزدار کے لیے وہ آگ دہکائی تھی مگر اس وقت اسکی حالت یہ تھی کہ اسکا رنگ پھیکا جبکہ وجود کانپ رہا تھا تبھی خاقان بھی تشویش میں مبتلا ہوا۔

"کیا ہوا ہے رزاق، بزدار حویلی کو نظر آتش کرنے کا تمام انتظام ہو گیا کیا؟"

خاقان خان نے جبڑے بھینچ کر دریافت کیا مگر اسکی آنکھیں خوف سے ٹھہری تھیں جیسے اس نے کوئی جن دیکھ لیا ہو۔

"س۔۔سردار! و۔وہ۔۔۔وہ ہاشم"

وہ کانپتا ہوا جو نام لے رہا تھا اس پر خاقان کی رنگت بھی پیلی پڑی تبھی وہ غراتا ہوا رزاق کا گریبان اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے بیٹھا۔

"کیا کہنا چاہتا ہے؟ ہاشم کا نام کیوں لیا؟"

خاقان خان کے یہ نام سنتے ہی پسینے چھوٹ چکے تھے۔

"سردار! و۔۔وہ ہاشم نے پ۔۔پرانی خانم حویلی ک۔۔کو آگ لگا دی۔۔۔م۔۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔اسکی ر۔۔روح تھی سائیں، اس نے مجھے آتے دیکھا اور ماچس ج۔۔جلائی اور د۔۔دیکھتے ہی دیکھتے پوری حویلی د۔۔دھماکے سے پھٹ گئی۔۔۔سائیں"

اپنے آدمی کی اس درجہ مخدوش حالت دیکھنے اور یہ انکشافات سننے پر خاقان خان کے جسم کا سارا لہو چہرے پر جبکہ ڈر اسکی آنکھوں میں سمٹا، رزاق کو پرے دھکیلتا وہ درندہ صفت خود بھی اضطراری انداز میں اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا یہاں وہاں خوف و ہراس کے سنگ چکر کاٹنے لگا۔

"یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ حرام زادہ زندہ ہے، گھر کے کس بھیدی نے یہ لنکا ڈھایا۔ مطلب سب دشمن میرے خلاف اکھٹے ہو گئے۔۔۔ یہ۔۔یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، بزدار تو طاقتور ہو جائے گا۔ یعنی وہ کل مل کر مجھے تباہ کرنے والے ہیں۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہونے دے سکتا، وہ کیسے زندہ بچ سکتا ہے۔۔۔۔کیسے؟"

اس وقت سردار خاقان کتے کی طرح پھنکارتا یہاں وہاں دھاڑیں مارتا بے بسی سے چلا رہا تھا اور قدرت بڑی سہولت سے اسکے گلے کا طوق جان لیوا کر رہی تھی، رزاق تک خوفزدہ تھا کہ وقت اسکا سردار ایک خونی درندے سے کم نہ تھا۔

"سردار! ہم بزدار حویلی جلا تو دور انکے علاقے میں بھی نہیں گھس سکتے۔ جبکہ ضرار کو وہ لوگ فیصلے سے پہلے حویلی سے نکلنے نہیں دیں گے"

رزاق نے زرا ہمت جتاتے ہوئے بولنے کی جسارت کی جبکہ وہ جو ہیبت ناک درندہ تھا، اس طرح بے بس ہونے پر گاڑی کے بونٹ پر ہی مکے برسانے لگا جبکہ اسے یوں بندھا ہوا، عاجز و مجبور دیکھنے والی کچھ دور وہ آنکھ استہزاء لیے مسکرائی تھی۔

"تیری الٹی گنتی شروع ہوتی ہے خاقان، ابھی تو تجھے صرف بے بسی کی موت دے رہا ہوں لیکن عنقریب تجھے دردناک موت ملے گی۔ انتظار کرنا کیونکہ اس بار تو اکیلا اور ہماری طرف کئی مضبوط سینے ہیں۔ بہت مزہ آرہا ہے تجھے بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹکڑیں مارتے دیکھ کر، تجھے پاگل نہ کیا تو میرا نام ہاشم بزدار نہیں"

اس منحوس کی عبرت شروع ہو چکی تھی اور وہ اپنا پہلا بدلہ لیتے ہی اس پر دو حرف بھیجتا اس درخت کی اوٹ سے اوجھل ہوا کیونکہ اب اسکی اگلی منزل بزدار حویلی تھی جبکہ اس وقت سردار خاقان گھن کھایا ایسا زینہ بنا پھنکار رہا تھا جس کی مسماری قریب ہو۔

وہیں دوسری جانب مشارب کو گل خزیں نے تمام حقیقتں بتا کر گویا ہاں اور ناں کی اس اذیت سے نکال دیا، اسکے دل میں بھی اب خاقان خان کے لیے نفرت کے سوا کچھ نہ تھا جبکہ اسکی اولین کوشش اب اپنے باپ کو ہوش دلانے کی تھی جو سردار خاقان کی اصلیت سے ناواقف تھا۔

گل خزیں نے کوئی اچھا کام کیا ہو یا نہیں، اس نے مشارب کو ایک بہتر راہ دیکھا کر نیکی ضرور کی تھی۔

مشارب سوچ چکا تھا کہ کل جب سب کے سامنے خاقان خان کی اصلیت آئے گی تو زمان خان بھی غفلت سے جاگ جائیں گے لیکن سب سے اہم مسئلہ کنزا کی چپ تھی جو مشارب کو ہفتے بھر سے بے چین رکھے ہوئے تھی، ایسی عورت جو زونی کو لے جانے کے وقت پھاڑ کھاتی دھاڑ اٹھی تھی، وہ کیسے اتنے دنوں سے خاموش تھی؟ اور یہ خاموشی مشارب زمان خان کو طوفان سے پہلے والی خاموشی محسوس ہو رہی تھی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اسے پتا ہے وہ جیل سے نکل گیا تو میرے ہاتھوں مرے گا، یہ ولی بھی اپنی طرز کا واحد لیچڑ انسان ہے۔ پر کوئی نہیں، تُو نظر رکھ۔ جیسے ہی سرمد جیل سے نکلا اسے جھپٹ لے۔ بہت ہوگئی رعایت، اب اسے مزید ایک دن بھی جینے کی اجازت نہیں دوں گا۔"

فون پر وہ زہریلے ٹون کے سنگ کاشف سے مخاطب تھا جو اسکے اچانک غائب ہونے پر فکر مند ہو گیا تھا مگر شہیر نے مصلحتا جھوٹ کہہ کر اسے واپس گھر جانے کی اطلاع کی تھی اور سرمد پر بھی نظر رکھنے کا کہا، جس پر کاشف نے فرمابرداری سے جواب دیے کال کاٹ دی۔

حالانکہ کل خود بھی شہیر کا واپسی کا پلین تھا کیوں کہ اماں اور بابا سے ملنے کو اسکا ساری زندگی میں شاید پہلی بار دل چاہا اور پھر ضرار سے پنگے لینے پر بھی اسے اسکا دل اکسا رہا تھا۔

خود شہیر کافی دیر سے اس لڑکی کے غائب ہونے کو نوٹس کر رہا تھا جو اپنے صدمات سمیٹ لیتی خود کو اس کے سحر سے بچاتی مجبورا کچن میں گھسی تھی کیونکہ تیمارداری کی آفر جو کر بیٹھی تھی مگر آج وریشہ کو کچھ خود سے بھی خوف لاحق تھے۔

شہیر نے کچھ دیر سٹنگ ایریا میں دھرے آرام دہ صوفے پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھے بیٹھے ریمورٹ سے چند چینل بدلے مگر دلچسپی تو جیسے ہوا ہو گئی تھی۔

دھیان کچن کی جانب خود کو اسکی نظروں سے چھپا کر مصروف کرتی وریشہ کی جانب لگا تھا، وہ لڑکی اسکی جانب مائل ہو رہی تھی اور اس وقت شہیر مجتبی کے لیے یہ واحد سکھ تھا۔

وہ ریمورٹ سے فضول سا چینل آف کرتا، سینے پر بھاری ہاتھ کی ہتھیلی جماتا اٹھا اور چہرے پر شوخ سی مخمور مسکراہٹ سجائے وہ کچن کی طرف بڑھا جہاں وریشہ اسکے لیے کھانا بنانے کے اختتامی مراحل میں منہمک سی خود کے ظالم دلکش، مائل کرتے سراپے سے بے نیاز کاونڑ کے پاس کھڑی سیلڈ بنا رہی تھی۔

سر تا پیر اس پر نگاہ ڈالتا وہ اندر داخل ہوا اور وریشہ کی جان اسکے وجود سے تب سرکی جب وہ اسے بہت آرام سے گرد بازو باندھے شدت سے حصار گیا، وریشہ کے ہاتھ سے چھری چھوٹ کر کاونٹر پر گری جبکہ اس لڑکی کے وجود میں پہلی بار آتی ایسی جان لیوا لرزش نے شہیر مجتبی کو اسکے سارے وعدے بھول جانے پر اکسایا۔

پھر اس لڑکی نے مزاحمت بھی نہ کی، سختی سے آنکھیں موندتی وہ اسکے جسم سے اٹھتی انوکھی سے خوشبو محسوس کر رہی تھی، اسے خود پر غصہ تھا کہ وہ کیسے اپنے ہی ارادوں سے پھر سکتی ہے۔

اور جس طرح بنا دستک دیے اس نے آج شہیر کے لیے دروازہ کھولا، وہ اس کو بتانے کو کافی تھا کہ محبت سے زیادہ بری تو عادتیں ہوتی ہیں، محبت کے اظہار سے جان لیوا تو لمس کی زبان ہوتی ہے۔

"مجھے بالکل کسی چیز کی طلب نہیں ہے بیوی، کیوں اپنے ہاتھوں کو زحمت دے رہی ہو کب سے۔ میں تو یونہی چلا آیا، سوچا تھوڑی سی زندگی والوں پر روٹھ کر جانا جچتا نہیں۔ اگر تم سے ناراض ہو کر چلا جاتا اور پھر سے موت کی کوئی بددعا مجھے گھیر لیتی تو تمہاری محبت بننے کی حسرت تو مجھے قبر میں بھی چین لینے نہ دیتی"

وہ اسکے بند مسی جوڑے میں مقید بالوں کو منہ کے سنگ کیچڑ نکال کر زمین پر پھینکے جھٹکے سے کھولتا، اس لڑکی کی پہلے سے سست پڑتی دھڑکنوں کو بڑھاتا ان ریشمی خوشبودار لٹوں کی خوشبو اپنے اندر اتارتا گھمبیر، جذبوں سے اٹی آواز میں بولا مگر وہ اسکی ان بے خود سرگوشیوں میں چھپی بے حسی پر اس گھڑی کا سکھ محسوس نہ کرتی ہوئی پلٹی اور اسے خود سے پرے دھکیلا جو یکدم ہوش میں لوٹا، اسے وریشہ کا کم ازکم اب ایسا فرار سمجھ نہ آیا۔

"میں تمہیں کہوں گی اگر کے مرنے کی بات مت کرنا تو تم اتنے سفاک انسان ہو کہ ہر سانس کے ساتھ مجھے میری دی بددعا یاد دلاو گے۔ تم مجھے ذہنی اذیت مت دو، دیکھو میں اب منٹلی اتنی بھی مضبوط نہیں ہوں جتنی تم نے مجھے سمجھ رکھا ہے"

وہ یکدم چڑچڑی سی ہوئی جیسے عجیب اذیت و بے بسی کا حصار اسے اپنی گرفت میں لے رہا تھا اور شہیر نے واپس قدم بڑھائے نہ صرف بیچ کا غیر ضروری فاصلہ کاٹا بلکہ دونوں ہاتھ اسکے دائیں بائیں کاونٹر پر رکھتا وہ اس کو لاک کیے اسکے چہرے پر جھک آیا جو ہنوز اتنی قربت کے باوجود اسے کڑواہٹ سے دیکھ رہی تھی۔

"تو پھر کیوں کھیلا یہ کھیل، جب جانتی تھی کہ جیت نہیں پاو گی تو کیوں آئی میری زندگی میں وریشہ یوسف زئی، کیوں چیلنج کیا تم نے شہیر مجتبی کی مردانگی کو۔ اچھا بھلا درندہ بنتے بنتے تمہاری وجہ سے سالی انسانیت سے لگاو ہونے لگا ہے۔ ایسی کونسی لڑکی ہوگی جو اپنی دوست کے لیے اس حد تک چلی جائے، کیا ہو تم؟ انسان یا فرشہ! کوئی اپنے لیے جہنم کیسے چن سکتا ہے۔ حالانکہ جب میں نے تمہیں نکاح کے لیے مجبور کیا تو تمہارے پاس جان سے جانے کا آپشن بھی تھا۔ لیکن تم نے وہ چھوڑ کر میرے ساتھ نکاح کا عذاب سر لیا۔۔۔۔وائے؟"

وہ سنجیدہ تھا، اس نے وریشہ کو پچھاڑ ڈالا، واقعی جان سے جانا تب شہیر کی بیوی بننے سے قدرے بہتر آپشن تھا پھر اس نے کیوں یہ بے بسی چنی؟ کس احساس کے تحت وہ یہ کر گزری۔

پھر جیسے اشنال کے لیے اپنی محبت سوچی تو دل میں صرف اس لڑکی کے لیے جان سے گزرنے کے جذبات ہی ملے، کیسے نہ ملتے، وہ دونوں نورے کی کوکھ سے جو پیدا ہوئی تھیں۔

شہیر کی آنکھیں خفا ہو کر وریشہ کی آنکھوں میں اتری ہوئی تھیں اور اس لڑکی کے پاس اسکے کسی سوال کا جواب نہ تھا، وہ اسکے بھینچے ہونٹوں کو ، ناراض چرائی آنکھوں کو اور دہکتے گالوں کو تکتا تمام تر تلخی کے مزید جھکنے لگا تو جیسے اسکے خود میں مبتلا کرنے کے ارادے بھانپ کر کانپ اٹھی۔۔

"پلیز دور ہٹو۔۔مجھے کچھ نہیں کہنا"

وہ پہلے اسے دھکیل چکی تھی تبھی اسکے زخم کا احساس کیے اس بار صرف اس نے اسکے سینے پر ہتھیلی جوڑے بے بسی سے سمجھانا چاہا مگر وہ کاونٹر سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا وریشہ کی کمر پر جکڑے اسے اپنے سینے سے لگا گیا جو بمشکل اس سے ٹکراتے بچی اور چہروں کے بیچ زرا سا فاصلہ بنا سکی۔

"لیکن مجھے تو سب سننا ہے وریشہ، میں بھلے غنڈا موالی اور قاتل بھی ہوں، میں نے اک عمر حسد میں گزاری ہے، حاسد بھی ہوں لیکن میں نے کسی عورت کے لیے کبھی دل کو لپکتا ہوا محسوس نہیں کیا نہ قدم کسی کی جانب بڑھنے دیے، کہ تم سے پہلے تک اس سفاک سینے کا دروازہ زنگ آلود تھا۔ لیکن تم زبردستی یہاں گھسنے کی کوشش میں لگی ہو، جب تم مجھ سے سرے سے محبت کرنا ہی نہیں چاہتی تو میرے دل کا دروازہ تمہیں ویسے ہی زنگ آلود کر دینا چاہیے۔۔۔۔ دل پر ادھوری چاہ کا درد، اور من پسند عورت کی حسرت مجھ جیسے کی ویسے ہی موت ہے"

وہ تپش دیتے الفاظ کہتا رہا اور وہ چپ چاپ اسکی چہرے کی اور بکھرتی حدت بھری سانس کا لمس یوں سہتی رہی جیسے کسی نے اسکا کچھ قریبی کھویا اثاثہ بہت وقت بعد واپس تھما دیا ہو، چاہ کر بھی شہیر کا کوئی لفظ اسکا ذہن جھٹلاتا نہیں تھا، چاہ کر بھی اس سے اسکا دل سنبھل نہ پا رہا تھا۔

اور وہ تھا ہی سفاک، اس کی محبت بھی کانٹوں جیسی تھی، تن بدن زخمی کرنے والی، لیکن اخیر حد تک اپنا عادی بنا دینے والی۔

"ش۔۔شہیر پلیز ، دور رہا کرو مجھ سے۔ مجھے تمہاری یہ باتیں نہیں سننی۔ میں تھک گئی ہوں تمہاری وحشی باتوں سے، تمہارے سفاک لہجے سے، تمہاری جان لیوا آ۔۔آنکھوں سے۔۔۔پلیز شہیر تم چلے جاو"

شروع تو اس لڑکی نے اذیت سے چینختے کیا پر اختتام آنسو دبا کر آنکھیں سرخ کرنے اور انہی آنکھوں کو بے بسی سے جھکانے پر کیا، شہیر نے اسے یوں کمزور دیکھ کر وہ فاصلہ مٹاتے ہی سارے وعدے توڑتے ہی اسکی تھکی سانسیں اپنے شدت بھرے بے خود عمل سے تسخیر کرتے ہی اسے بے خودی کے عالم میں بنا اس لڑکی کا چہرہ دیکھے خود میں شدت سے سمو لیا کہ اس لڑکی کا مدھم سینے میں جمتا سانس تک اس استحقاق پر رک کر گیا۔

ماحول پر یکدم معنی خیز خمار سا چھا گیا تھا، دونوں کی آہستہ چلتی سانس کی آواز کا فسوں تک اس ذومعنی خاموشی میں کسی جلترنگ کی طرح گونجنے لگا تھا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ایک ہفتہ نظر بند رہ کر چڑچڑا سا ہو گیا ہے، کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ پتا نہیں اسکے خرافاتی دماغ میں اب کونسی کچھڑی پک رہی ہے، میں تو بہت پریشان ہوں عزیز خان"

اس وقت وہ باہر موسم کی اثر آفرینی کے سنگ ہلکی پھلکی خنک ہوا میان شام کی چائے پینے میں مصروف تھے جب بزدار عالم نے اپنی تشویش ظاہر کی، پچھلے چھ دنوں سے ضرار نے خود کو زیادہ تر کمرے میں ہی بند رکھا تھا، جبل زاد کے علاوہ وہ کسی سے زیادہ ملا بھی نہیں تھا اور اب وہ اسکا کل جرگے میں عزیز خان کو سامنے نہ لانے کا فیصلہ وہ سن کر مزید متذبذب اور ذہنی دباو کا شکار ہو گئے تھے۔

"وہ اشنال کو سزا دینا چاہتا ہے، تاکہ وہ تب تک اسے میرا قاتل سمجھتی رہے جب تک وہ یہ شہیر کا قصہ نہ سمیٹ لے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اشنال یہ سب جان بوجھ کر نہیں کرتی رہی، ان ظالموں نے اس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے"

عزیز خان کے لہجے میں مقدور بھر افسوس اور تلخی عودی جس پر بزدار عالم نے تاسف سے عزیز خان کا رندھا چہرہ دیکھا۔

"لیکن وہ کہتا ہے محبت سب ہو سکتی ہے لیکن بے یقین نہیں، اور ضرار کی اس بات میں دم ہے۔ اشنال نے خود کو زمانے کی زد پر خود بے رحمی سے چھوڑ دیا، وہ سب کی باتوں کا یقین کرتی رہی سوائے ضرار کی۔ تبھی وہ رنجیدہ ہو کر ضد پر آگیا ہے"

بزدار عالم کی توجیہہ بھی قابل قبول تھی پر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ عجیب بے بسی کے عالم میں مبتلا تھے۔

"تبھی تو میں کہہ رہا ہوں بزدار صاحب کہ اسے کہیں کل مجھے سبکے سامنے پیش ہونے دے تاکہ اشنال بھی اس اذیت سے نکل سکے۔ ایسے تو وہ اشنال کے دل میں اپنے لیے مزید کڑواہٹ پیدا کر لے گا۔ وہ میری بیٹی کی محبت پر سب جان کر بھی شک کر رہا ہے۔ اسے پتا تو ہے وہ ذہنی بیماری کا شکار ہے، آپ اسے سمجھائیں کے مزید کوئی انتشار پھیلانے کی کوشش نہ کرے"

عزیز خان کی آواز مضبوط ہو کر بھی بے بسی کے بوجھ تلے دبی پر عین ان دو کے سر پر آکر کھڑا ہوتا وہ بھینچی ابرو والا الجھا بکھرا ضرار ضرور انکی ساری گفتگو پر ناگواری سے ان دو کو دیکھنے لگا۔

وہ باہر جبل زاد کے انتظار میں آیا تھا کیونکہ کہ ہفتے کی بے حسی توڑنے کے بعد اسے اشنال کی خیریت مطلوب تھی جو صرف جبل زاد ہی لا سکتا تھا۔

"کل آپ پیش نہیں ہوں گے اور مجھے اس معاملے میں عاجز ہی رہنے دیں عزیز خان کیونکہ میں اپنی کرنی پر آیا تو نہ جانے کس کس کو خون کے آنسو رونا پڑے گا۔ میں نے آپکی بیٹی کی حالت ہی کے پیش نظر کم سزا دی ہے انھیں، آپ دونوں یا دنیا کا کوئی بھی فرد میثم ضرار چوہدری کی تکلیف نہ سمجھ سکتا ہے نہ سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ کل صرف اس لاش کی اصلیت سامنے آئے گی جبکہ عزیز خان کہاں ہیں یہ سچائی صرف میری منشاء اور مرضی کے بعد سامنے آئے گی اور نہ تو اس پر میں بعث سنوں گا نہ کسی کی تکرار"

اپنا حتمی فیصلہ ، کڑوے لہجے میں وہ ان دونوں پر واضح کرتا خود داخلی پورچ کی سمت بڑھا جہاں ڈرائیور نے دروازہ کھولا تھا اور جبل زاد گاڑی لیے اندر داخل ہوا۔

اس کو جاتا دیکھ کر بزدار عالم اور عزیز خان دونوں نے بے بسی سے اک دوجے کی طرف دیکھا۔

جبل زاد گاڑی سے اتر کر سیدھا سامنے کھڑے ضرار تک پہنچا جو صرف جواب کا منتظر تھا۔

"آپکا شک درست تھا سائیں، خانم پچھلے چھ دنوں سے حویلی سے غائب ہیں۔ گلالئی بھی انکے ساتھ ہی کہیں گئی ہیں۔ حویلی میں کسی کو نہیں پتا کہ وہ دونوں کہاں ہیں بس یہ علم ہوا ہے کہ جہاں بھی ہیں خیر و عافیت سے ہیں"

جبل زاد نے تمام حقائق صاف گوئی سے بیان کیے جس پر ضرار نے ہاتھ کی پوروں سے اپنی کن پٹی سہلائی۔

"گلالئی نے مجھے انفارم کیوں نہیں کیا؟ یہ لڑکی میری نرمی کا ناجائز فائدہ کیسے اٹھا سکتی ہے۔ اب کون بتائے گا کہ وہ کہاں چلی گئیں،

اشنال عزیز! آپ چاہتی ہی نہیں ہیں کہ میرا دل آپکے لیے نرم پڑے،"

وہ بے بسی سے گاڑی پر ہی مکا برساتا گویا اپنے اندر کا غبار نکال گیا اور جبل زاد نے پریشانی کے سنگ ضرار کی یہ بکھری حالت دیکھی۔

"سائیں! آپ پرسکون رہیں۔ گلالئی انکے ساتھ ہیں تو وہ جہاں ہوں گی پرسکون ہوں گی۔ آپ نے دیکھا تھا ناں اس دن جب وہ گلالئی کے ساتھ سب بھول کر بارش میں بھیگی تھیں۔ آپ اپنے دل کو جبراً اس لڑکی کے لیے سخت نہ کریں جو آپکی سانسوں جیسی اہم ہے۔ آپ جانتے تو ہیں وہ ذہنی بیماری کا شکار ہیں، اور یہ ذہنی عارضے کب انسان کو یکجا رہنے دیتے ہیں۔ انسان تنکا تنکا بکھر جاتا ہے تو یقین بچارا بھی پھڑپھڑاتا ہوا ذہن کے کسی کونے سے جا لگتا ہے"

جبل زاد نے ایک بار پھر اس بدحواس زخمی شیر کی دل جوئی کرنی چاہی تھی پر ضرار کی ذہنی رو اس وقت ایسی بھٹکی تھی کہ اسے ہر چیز بے رنگ اور ہر مٹھاس بے ذائقہ لگ رہی تھی، یہ کرب ناک تھا کہ وہ سب جان بوجھ کر خود کو اس ضد سے ہٹا نہ پا رہا تھا۔

"مجھ سے اچھی تو پھر گلالئی ہوئی، جس پر اس لڑکی کو یقین ہے۔ کیا ہوتا جبل زاد! اگر وہ مجھ پر بھی یقین کر لیتیں۔ میں نہیں مانوں گا ایسے کسی پاگل پن کو جس نے اس لڑکی کو میثم بھلا دیا، وہ مجھے جان بوجھ کر تکلیف دے رہی ہیں۔ وہ مجھ پر یقین کرنا چاہتی ہی نہیں ہیں"

ضرار کا دماغ اس وقت کچھ سوچنے سمجھنے کے لائق نہ تھا اور جبل زاد نے زرا نزدیک بڑھ کر اسکے دونوں کندھے بردرانہ انس کے سنگ تھامے۔

"اب آپ زیادتی کر رہے ہیں سائیں، اگر دیکھا جائے تو اس وقت خانم کا ہر منظر سے غائب ہونا ہم سبکے کے لیے اور خود انکی ذہنی بہتری کے لیے ضروری ہے۔ وہ صرف آپکی ہیں، میں جانتا ہوں آپ انکو کھو دینے کے خوف سے اذیت میں ہیں کہ آپ جیسا حقیقت پسند آدمی خوابوں سے بہت دور آباد رہتا ہے۔ میں ہوں آپکے ساتھ، خود کو پریشان مت کریں۔ وقت آنے دیں، خانم نے آپکو انجانے میں جتنے دکھ دیے ہیں، میں یقین سے کہتا ہوں کہ ٹھیک ہوتے ہی وہ آپکے قدموں میں بیٹھ جائیں گی۔ آپ یہ کبھی مت بھولیے گا کہ آپ نے ان سے پہلے محبت کی تھی، پہلے پیچھے ہٹنے کا آپکو بلکل حق نہیں ہے"

آج وہ اسکا وفادار نہیں بلکہ جگری دوست بن کر اسے ٹھیک راہ دیکھا رہا تھا، مگر اک بے قراری تھی جس نے میثم کا وجود جکڑ لیا، کیا بتاتا کہ صرف اسی ایک واحد معاملے میں وہ بہت کمزور ہے۔

وہ چاہ کر بھی صنم سے دوری پر صبر نہیں کر سکتا۔

ایک دوسری گاڑی کے ہارن نے ان دو کی توجہ منتشر کی، اور اگلے ہی لمحے سیاہ بڑی گاڑی، ڈرائیور کے دروازہ کھولتے ہی بزدار حویلی کے تاحد نگاہ پھیلے وسیع پورچ میں داخل ہوئی جس پر جبل زاد اور ضرسر دونوں نے حیرت سے دیکھا اور پھر اگلے ہی لمحے گاڑی کا دروازہ کھول کر نکلتا ہاشم بزدار، تب مسکرا دیا جب نظر راہوں میں آنکھیں بچھا کر کھڑے لاڈلے پر پڑی۔

اس وقت ضرار کو اسی کوجے کی ضرورت تھی جو اپنی زندگی کی ایک اور سرحد پار کرنے ناجانے کتنے سالوں بعد اس جنت میں واپس آیا تھا۔

قدم اس دہلیز پر رکھتے ہی اک سکون، اور راحت نے ہاشم بزدار کا وجود حصار لیا۔

"خوش آمدید ہاشم بھائی، آپکو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی یقین کریں۔"

جبل زاد ہی لپک کر ہاشم سے گلے ملتا بولا جس پر ہاشم نے اسے زور دار جپھی دیے ساتھ ہی نظر اس روٹھے، ناراض دیکھائی دیے اپنے لاڈلے پر ڈالی۔

"مجھے بھی بے حد خوشی ہوئی میرے عزیز، لگتا ہے جنت میں آگیا ہوں پر یہ بسوری شکل اور جلادی تیوروں والے جن کا جنت میں کیا کام؟"

ہاشم نے محبت سے جبل زاد کو دیکھا اور پھر مسکراہٹ دباتا وہ ضرار کی شکل پر چھائی بے زاری بھانپے شرارت پر اترا جس پر جبل زاد خفیف سا مسکراتا نظر آیا جبکہ ضرار نے ابرو اچکاتے ہوئے ہاشم کی مسکراہٹ دیکھی اور ہاشم جان گیا کہ لاڈلے صاحب پہلے کاٹ کھائیں گے پھر گلے لگائیں گے۔

"طنز کر لیں آپ بھی، نہیں آپ بھی سلگا لیں۔ اور اس دنیا کے پاس کام ہی کیا ہے"

ہاشم کا تکا درست لگا کہ ضرار صاحب پھاڑ کھاتے بولے اور وہ دونوں ہی میسنی مسکان دباتے اس وقت ضرار کو زہر لگے۔

اس سے پہلے ضرار برا منا کر جاتا، ہاشم نے اسکی بازو کھینچ کر اپنی طرف کرتے ہی زور دار طریقے سے خود میں بھینچ ڈالا، اور شاید گلے لگتے ہی وہ اپنے لاڈلے کی ہر تکلیف بھانپ گیا تبھی اسکا چہرہ بوجھل ہوا۔

"میں دنیا نہیں ہوں لاڈلے، میں تو میثم ضرار چوہدری کی پہلی گرل فرینڈ ہوں۔ ہاہا کوجا، سچی ایسے سڑے منہ والا ضرار تو بالکل اچھا نہیں۔۔۔چئیر اپ لاڈلے، میں ہوں ناں۔ صنم سے جدائی کا روگ لگا کر اپنی خوبصورت شکل پر افسردگی کیوں سجا رکھی ہے، سب انڈر کنٹرول ہے"

اسکا چہرہ تھپکاتا وہ اسے زندگی کی جانب لانے کی سعی کر رہا تھا مگر جناب ابھی ہر شے سے بیزار تھے تبھی بس ہٹ دھرمی سے سر ہی جھٹک سکے جبکہ ہاشم کی بے اختیار نظر لان میں بیٹھے بابا جان پر گئی جو اپنے دھیان میں عزیز خان سے کسی سنجیدہ گفتگو میں مصروف تھے اور ہاشم کی آنکھوں میں امڈ آتی تڑپ ضرار اور جبل زاد دونوں نے محسوس کی۔

"میرے بابا! میرے بہادر بابا۔۔۔۔ وہ برداشت تو کر لیں گے ناں ضرار؟ مجھے زندہ دیکھ کر انکی ساری تکلیفوں کا ازالہ ہوگا یا نہیں؟"

ہاشم کی آنکھوں میں سرخائی جب کے آواز میں تڑپ گھلی تبھی ضرار بھی اپنے سڑے خول سے نکلا۔

"آجکل تو ٹارزن بنے پھر رہے ہیں دادا سائیں، مجھے لگتا ہے اللہ نے آپکے دھرتی پر ہنوز بوجھ ہونے کے سگنل پہنچا دیے ہوں گے۔ اور مجھے دوبارہ کوجا کہا تو آپکی یہ خوبصورت ناک پھوڑ دوں گا"

ضرار کے اطلاع بہم پہنچانے کے ساتھ ہی کوجا پر غرا اٹھنے پر ہاشم بھی دکھ پرے کرتا مسکرا دیا، اس ٹیڑھی کھیر کا کوئی علاج نہ تھا تبھی وہ اس باپ کی جانب بڑھا جسے کئی سالوں کی جدائی دے کر اب اپنے ہونے کا یقین بخشنا تھا، ہاشم کے پیر ایک بار تو ضرور کانپے مگر وہ ضرار اور جبل زاد کے باعث بھرپور ہمت کے سنگ اس جانب بڑھا اور ان تینوں کو اس جانب آتا دیکھتے سامنے کی طرف براجمان عزیز خان کی سنجیدگی بھی لمحوں میں زائل ہوئی، جبکہ ہاشم کو بلکل ٹھیک دیکھ کر اس مسیحا کی آنکھوں میں خوشی کی لہر اتر آئی اور جس طرح ہاشم نے عزیز خان کو دیکھا، وہ ایسی متبرک نظر تھی جیسے دونوں نے ایک دوسرے پر کیا احسان آفاقی خوبصورتی کے سنگ اتار کر اپنا اپنا دامن پاک کیا تھا۔

جبکہ عزیز خان کو عقب کی جانب خوشگوار انداز سے تکتا پاتے بزدار عالم بھی کچھ حیرت میں ڈوبے جبکہ نظر یکدم پلٹ کر وہ واپس کر گئے مگر پھر جیسے جھٹکے سے وہ چائے کا کپ میز پر رکھتے اٹھ کھڑے ہوئے۔

انکی آنکھیں اسی چہرے پر جم کر رہ گئیں، وہ انکا ہاشم کیسے ہو سکتا ہے؟ اسے تو کھو دیا تھا۔

دونوں باپ بیٹے کی آنکھوں میں تکلیف کا جہاں اتر آیا،اور وہ کیسے مزید رونے دیتا ان آنکھوں کو جن میں پہلے ہی اپنی جدائی سے وہ بصارت کمزور کر چکا تھا۔

"بابا سائیں"

ہاشم نے انکو تڑپ کر پکارا تو جیسے اس ضعیف وجود میں تب زندگی دوڑی جب ہاشم بزدار نے بنا وقت ضائع کیے انکو گلے لگا لیا، کتنی دیر تو بزدار عالم ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں منجمد رہے جبکہ ان دو کا جذباتی ملن عزیز خان اور جبل زاد کی آنکھیں سرخ کر گیا البتہ ضرار صرف خوش تھا۔

ایسے گھڑیاں جب بچھڑے ہوئے ملتے ہوں، اس کے نزدیک آنسو بہانے کی نہیں، شکر بجا لانے کی ہوتی ہیں۔

وہ باپ زارو قطار رویا، کہ شام کا یہ منظر تک بوجھل ہو گیا، ہاشم نے انکو خود سے الگ کرتے ہی انکے تمام آنسو چن لیے جو اب تک ہاں اور ناں کی کیفیت میں دلگیر حد تک بکھرے محسوس ہوئے۔

"ہ۔۔ہاشم! تم کیسے۔۔۔یہ سب؟"

وہ اپنی تکلیف اور حیرت کے سنگ زبان لڑکھڑانے سے روک نہ پائے اور وہ انکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے انکی جبین چومتا مسکرایا اور پھر عزیز خان کی جانب بڑھ کر اس انسان سے بھی گلے ملا۔

" یہ ہیں وہ مسیحا بابا سائیں جنہوں نے آپکے ہاشم کو بچایا۔ مت روئیں، اب آپ مزید مضبوط ہو گئے ہیں۔ میری جان قربان جائے، اتنے سال دور رہنے کے لیے معاف کر دیں۔ اب میں اس خاندان یا اسکے کسی فرد کے ساتھ کوئی ناانصافی ہونے نہیں دوں گا۔ اب جیت حق اور سچ کی ہوگی اور ہر ظالم اپنے کیے کا انجام بھگتے گا"

گویا بزدار عالم کا دل عزیز خان کے لیے مزید شفقت سے بھر گیا پھر جب ضرار نے عزیز خان کا پتا لگنے کی خبر ڈسکلوز کی کے عزیز خان کا سراغ بھی ہاشم نے لگوایا تو گویا عزیز خان بھی اس جہنم سے نجات ملنے پر ہاشم کے شکر گزار ہوئے مگر اس وقت جو بات اہم تھی وہ سردار خاقان کی جانب سے آخری انتقامی وار تھا اور ہاشم اپنے لوگوں کو پہلے ہی خبردار کر چکا تھا۔

آج خاقان خان اگر کوئی بھی زلیل حرکت کرتا تو وہ سب سوچ چکے تھے کہ اپنے اپنے مزاج کی نرمی ایک طرف کیے وہ اس سفاک درندے کا مل کر انجام لکھیں گے۔

اور انہی معاملات پر غور و فکر کرنے وہ سب ایک ساتھ حویلی کی اندرونی جانب بڑھ گئے

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

گہری شام کا وقت اور جنگل اس وقت پورا ڈھلتی شام اور ابر آلود بادلوں کی لپیٹ میں گرا سنسنی پھیلا رہا تھا، پانچ چھ لوگوں کے بھاری بوٹوں کی دمک یوں اس خاموشی میں گونج رہی تھی کہ دل خوفزدہ ہو جاتا۔

وہیں بڑے سے بوہڑ کے درخت کے پیچھے شکاری انداز میں دبکا کوئی نسوانی وجود ہاتھ میں گن تھامے اچھی موٹی تازی مرغابی پر نشانہ باندھے پشت کیے کھڑا تھا۔

"بے فکر رہیں، وہ عنقریب میرے جال میں ضرور پھنسے گا۔ پر سنیں سر! اس بار پیسہ میری مرضی کا ہوگا کیونکہ بڑا تگڑا شیر شکار کرنے والی ہوں۔ وہ کیا ہے کہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ میرا واحد سہارہ میں خود ہوں سو آخری خواہش پوری ہونے تک مرنا افورڈ نہیں کر سکتی اور مجھے ٹریٹمنٹ کے لیے ساٹھ لاکھ چاہیں"

وہ لڑکی ائیر فون پر کسی سے مخاطب تھی جو اندھیرے میں منہ پھیر کر کھڑا اپنے آدمی کو کوئی اشارہ کر رہا تھا جس نے اسکے حکم پر ساٹھ لاکھ کی رقم بریف کیس میں ڈال کر اسکے سامنے رکھی۔

"میری پیاری! تمہارا ساٹھ لاکھ تیار ہے۔ ویسے بھی تم ہمارے بہت کام آتی ہو سو تم کو مرنے نہیں دیں گے۔ شکار ہم تک پہنچاو، اور اپنی زندگی کی قیمت لے جاو۔ جب تک اپنے مرحوم بھائی کی طرح میرے لیے کام کرتی رہو گی، تمہاری زندگی کے دن بڑھتے رہیں گے ونیزے"

دوسری جانب گونی نامی وہ آدمی جو سیٹھ گونی کے نام سے ٹمبر مافیا کے علاوہ بھی کئی جرائم میں ڈان سمجھا جاتا تھا، لہجہ مٹھاس سے بھرتا مگر زہریلا کیے بولا تو اس لڑکی نے فورا سے جبڑے بھینچ کر کال کاٹتے اس پر لعنت بھیجتے ہوئے ساتھ اپنی گن کا نشانہ واپس درخت پر بیٹھے اس پرندے پر باندھا۔

اس نازک لڑکی کے کندھوں پر اس بار بڑا بھاری بوجھ لادا گیا تھا کے اس شخص پر ہی نشانہ لگا دیا جو اس لڑکی کی آخری خواہش بذات خود تھا

اسکی سیاہ آنکھ ٹھیک نشانے پر جمی تھی اور پھر تیز آواز گونجنے پر وہ پرندہ اس گولی کے لگتے ہی پھڑپھڑایا اور ٹھیک نیچے سے گزرتے پانچ چھے آدمیوں کے آگے چلتے لیڈر پر گرا۔

ایک لمحہ تو گولی کی آواز اور سر پر گرتے اس زخمی پرندے کو دیکھ کر ولی زمان خان بوکھلایا مگر پھر سچویشن سمجھتے ہی اسکے ماتھے پر ناگواری کے سنگ لاتعداد بل پڑے، اس جنگل میں شکار کرنا منع تھا اور آئے دن کئی لوگوں کو ولی کے لوگ اس قسم کی سفاکی پر اریسٹ کرتے تھے، وہ زخمی مرغابی جھک کر اٹھائے اس نے سامنے درخت کی اوٹ میں چھپے کسی وجود کو دیکھا اور اپنے آدمیوں کو اس جانب جا کر اس خلاف ورزی کرنے والے کو پکڑ کر لانے کا اشارہ کیا۔

وہ لوگ حکم کی تعمیل کو پیچھے لپکے مگر درخت کی اوٹ سے باہر نکلتی ایک لڑکی کو دیکھ کر ولی سمیت وہ سب بھی حیرت زدہ ہوئے جو سیاہ ٹائیٹ پر ڈھیلا ڈالا سفید کرتا پہنے، بالوں کی منڈیاں بنائے، میک آپ اور نسوانی اسیسریز سے بے نیاز ، پیروں میں لوفرز پہنے ، گن پر اپنے نازک ہاتھوں کی پکڑ جماتی، اس پولیس کے لوگوں کو خونخوار گھور کر ہاتھ نہ لگانے کی تنبیہہ کرتی خود ہی اس جاندار اور رعب دار انسپیکٹر کے سامنے چلی آئی جس نے اس گہری آنکھوں والی نازک سی مگر گھورتی لڑکی کو سر تا پا نظر ڈالے خفگی سے دیکھا۔

وہ اسے نہیں جانتا تھا مگر وہ لڑکی اس پوری دنیا میں صرف ولی زمان خان کو جانتی تھی اور یہ ایک لمبی کہانی تھی۔

"کون ہیں آپ؟"

ولی نے کھردرے پن سے اسکی خود پر جمی پرشوق آنکھیں بھانپے استفسار کیا جس پر وہ اک نظر ان چار اہل کاروں پر ڈالتی دو قدم ولی کے نزدیک آئی۔

"شکارن"

وہ آنکھیں چھوٹی کرتی رزاداری سے بولی جبکہ ولی کے ماتھے پر مزید بل پڑے۔

"آپکو علم نہیں ہے کہ یہاں شکار کرنا قانون کے خلاف ہے، اس کی خلاف ورزی پر کیا سزا ہے؟ جانتی ہیں؟"

ولی کا انداز پھر سے سخت تھا اور وہ آگے سے جب مسکرائی تو اسکی گال کا گڑھا گہرا جبکہ خوبصورت سی آنکھوں کے نیچے مدھم سے حلقے واضح ہوئے اور صرف آنکھوں سے وہ روشن تھی باقی اسکے چہرے پر اک تھکن درج تھی جو ولی نے بھی محسوس کی۔

"جانتی ہوں، جیل کی سلاخیں اور جرمانہ بہت سا"

وہ بنا کسی خوف کے بولی تھی جبکہ ولی اسکی عجیب ٹون پر چونکا۔

"اسکے باوجود آپ نے یہ سب کیا، وجہ جان سکتا ہوں؟"

ولی نے ایک آخری بار اس جرم کی وجہ دریافت کرنی چاہی تھی مگر وہ اپنی گن اسکے اہل کار کی طرف بڑھاتی اپنے دونوں ہاتھ ولی کے سامنے پھیلائے اسے فنا کر دیتی نظروں سے دیکھ کر مزید مشکوک کر گئی۔

"اپنا کام کریں، لگائیں ہتھکڑی اور ڈال دیں جیل میں"

وہ پھر سے بنا پلکیں چھپکائے بولی تھی اور ولی کی پوسٹ مارٹم کرتی آنکھیں یوں اس پر گڑھی تھیں کہ وہ خود لمحہ بھر بوکھلائی کہ کہیں یہ تیز سونگھ رکھتا انسپیکٹر اسکی چال بھانپ نہ جائے۔

"آخری وارننگ دے رہا ہوں عورت زاد ہونے کے ناطے، دوبارہ اس کی مہلت نہیں دوں گا کہ آپ ولی زمان خان کو اسکا کام بتائیں۔۔۔جائیں یہاں سے"

وہ پہلی بار کسی کو رعایت دے رہا تھا جبکہ اسکے سامنے کھڑی وہ لڑکی یوں سفید پڑی جیسے اسکا پلین بری طرح ناکام ہوتا اسکے جسم کا خون نچور گیا۔

بنا آخری خواہش کے وہ مر جاتی تو مٹ جاتی، اسے تو امر ہونا تھا۔

"دیکھ لیں ، ایسا نہ ہو آپکی مجھے دی رعایت آپ پر ہی بھاری پڑ جائے"

اسکا لہجہ اکساتا ہوا تھا تبھی ولی نے واپس مڑ کر اک غصیل نگاہ اس لڑکی پر ڈالی۔

"کیا مطلب تھا اس بات کا؟"

ولی نے بھینچے چہرے سے دوبارہ استفہامیہ ہوتے پوچھا جس پر وہ مدھم سا مسکرائی۔

"یہی کہ اب تو میں ضد میں شکار کرنے آپکے راستے میں آوں گی، وہ کیا ہے کہ بچپن سے عادت ہے۔ جس چیز سے مجھے منع کیا جائے میں وہی کرتی ہوں"

اس لڑکی کا انداز عام لڑکیوں سے یکسر الگ تھا اور ولی اسکی ہمت پر متاثر ہوا جو صاف لفظوں میں آگے بھی اصول توڑنے کے ارادے بتا رہی تھی۔

"بچپن سے ایک عادت مجھے بھی ہے، جسے ایک بار نرمی کے سنگ رعایت دیتا ہوں، اسے دوسری بار غلطی کرنے پر کڑی سزا بھی سناتا ہوں۔ ہٹیں میرے راستے سے"

وہ اس سے اکھڑے لہجے میں کہتا جانے کو پلٹا مگر وہ پھر سے اسکے راستے میں آئی جبکہ ولی کے تمام لوگ اس لڑکی کی اس جرت پر خوفزدہ ہوئے کیونکہ وہ ولی کے عتاب سے بخوبی واقف تھے۔

"خوب! یعنی جلدی ملیں گے ، مجھے دیکھنے کا اشتیاق رہے گا کہ آپ دوسری بار غلطی پر کس حد تک کڑی سزا سنائیں گے"

وہ یوں مسکرائی جیسے اس ساری دنیا کی خوشیاں اور راحتیں اسکے دامن میں سمٹی ہوں اور پھر واپس اپنی کچی زمین پر اہل کار لی پھینکی گن اٹھاتی، اپنا شکار اہل کار کے ہاتھ سے لیتی وہ ولی زمان خان جیسے انسان کو لاجواب کرتی تیزی سے گھنے جنگل کی سمت دوڑ گئی جبکہ وہ ایسی کسی ملاقات کی زندگی بھر امید نہ رکھتا تھا تبھی اس اچانک عجیب سے حادثے پر الجھ کر رہ گیا۔

فی الحال عزیز خان کی تلاش اہم تھی تبھی وہ اپنے لوگوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کرتا خود بھی سر جھٹکتا انکے پیچھے لپک گیا۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ کمرے میں آیا تو زونی حیرت اور پریشانی کے سنگ اسکی جانب لپکی جسکا چہرہ مالنی سے بات کیے سفید پڑ چکا تھا، ہاشم کے حویلی سے جاتے ہی وہ اسکے مینجر سے اپنا فون واپس لے آئی اور پہلی فرصت میں خود کے ساتھ ہوتی واردات کی خبر اس نے زونی کو دی جس پر زونی کی حالت بگھڑ سی گئی تھی۔

"کیا ہوا آپکو لیڈی؟ یہ چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہے؟"

مشارب نے اندر داخل ہوتے ہی اسے آہستگی سے حصار میں لیا اور اپنے گرم ہاتھوں میں اسکا ٹھنڈا پرتا چہرہ بھرے فکر سے پوچھا۔

"وہ۔۔وہ مالنی۔۔ایچ بی نے ہماری مالنی سے نکاح کر لیا مشارب، مما کے خلاف جا کر۔ مطلب سمجھ رہے ہیں کہ وہ بھی آپکی طرح مما سے بغاوت کر چکے ہیں۔ مالنی تو بہت اپ سیٹ تھیں، اب مما نہ ہمیں چھوڑیں گی نہ مالنی کو۔۔۔۔ "

زرد پڑتی زونی کے ہونٹوں سے بکھرتے لفظ اور اسکے سہمے دل سے امڈتی فکروں پر مشارب بھی خاصا حیرت زدہ ہو چکا تھا، مالنی اور ایچ بی کا نکاح اسکے لیے بھی زونی جتنا ہی غیر یقین تھا۔

"عجیب ہے یہ بات، خیر وہ کافی طاقتور آدمی ہے اس لیے مالنی کی حفاظت کر سکتا ہے اور اگر نکاح کیا ہے تو آئی ہوپ وہ اسے نبھائے گا کیونکہ وہ برا آدمی نہیں ہے۔ اور آپ کس خوشی میں حواس کھو رہی ہیں، آپ کے ساتھ آپکا یہ بندا نہیں ہے کیا۔ اف زونی چھوٹی چھوٹی باتوں پر حواس باختہ ہونا چھوڑ دیں، آپ اس علاقے کے اگلے متوقع سردار کی زوجہ ہیں، بی بریو لیڈی"

خود مشارب بھی یہ بات مانتا تھا کہ اس روز اگر ایچ بی چاہتا تو وہ زونی کو اس کے ساتھ آنے سے باآسانی روک دیتا لیکن اس بندے نے مشارب کو فیور دیا تھا۔

جبکہ اس نیلی آنکھوں والی لڑکی کی اداسی نے جناب کو برہم کیا تو وہ اسکی نرم گالوں پر ہتھیلوں سے دباو ڈالتا مضبوط ہونے کا سختی سے حکم صادر کیے خود تو اختتام تک مسکرایا، ساتھ وہ خانم حویلی کی بہت چند دنوں میں ہی بیٹی بن جاتی زونی بھی اڑے اڑے حواس سمیت مسکائی۔

"ہمیں ہماری مالنی بہت پیاری ہیں مشارب، وہ زندگی سے بھرا جھونکا ہیں۔ ہم ان سے ملنے جانا چاہتے ہیں، وہ واقعی بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ ایک تو وہ ایچ بی انکا کرش بھی تھا، وللہ وہ اب تو بچارے ایچ بی کی شامت لے آئیں گی"

زونی کی مسکراہٹ پھر سے فکر بنی اور جس طرح وہ مشارب کے سامنے مالنی کی زبان میں کرش کہہ بیٹھیں، جناب کی شوخ آنکھیں دیکھ کر جلدی جلدی اپنے منہ کو بریک لگایا پر مشارب اسے بازو سے جکڑ کر اپنے نزدیک کرتا اس لڑکی کو ویسے ہی دھڑکا گیا۔

"اگر تو ایچ بی بھی اس محبت نامی واردات میں انوالو ہے تو پھر آپکی مالنی گئی کام سے کیونکہ دونوں طرف جب یہ آتش برابر کی دہکی ہو تو بس پھر انتہا ہو جاتی ہے یو نو وآٹ آئی مین لیڈی۔ رہی بات ملنے کی تو آپکی سفاک ماں کی چپ ٹوٹ لینے دیں پھر ہی حویلی سے نکلنے کا سوچیے گا۔ میں نہیں چاہتا ہماری زندگی اس عورت کی وجہ سے پھر سے کسی امتحان کی زد میں آئے"

وہ خاصے نرم اور جذبات گرماتے انداز میں شوخ ہوتا اختتام سنجیدگی پر کیے بہت پیار سے زونی کے گلے لگ گیا جو اسکے یوں ڈر سا دبانے کو شدت سے محسوس کرتی خود بھی اسکی کمر پر ہاتھ باندھتی مسکرا دی۔

"ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں"

زونی کے اقرار پر وہ پرسکون ہوتا روبرو ہوا اور اپنی قربت سے گلابی رنگ اوڑھتا وہ من پسند چہرہ دیکھا جو ہمیشہ مشارب کا دل گداز کیے بے خود کرتا، پھر اس لڑکی کا دل ہو یا وجود، اسکی نرمی اور حدت مشارب زمان کو اپنی جانب راغب کرتی تھی۔

"بہت کچھ سوچا تھا مگر کچھ نہیں ہو سکا، ایک رات بھی آپکی آغوش میں سکون سے آنا نصیب نہیں ہوا ابھی تک مگر امید ہے کل سے سب ایک مدار میں آنا شروع ہوگا پھر آپ سے بھی مشارب زمان خان اپنے تقاضے بڑھانے شروع کرے گا، تب تک موج کر لیں لیڈی۔ بائے دا وے مصروف سے سردار کی بیوی ہونا اچھا ہے یا برا؟"

وہ اسکی آنکھیں، نرم ہونٹوں پر جگمگاتی مسکراہٹ اور خوشی دیکھتا اپنے ارمان دبائے بھی دبا نہ سکا جبکہ وہ اسکے سوال پر ایک بار پھر مشارب کے قریب کی گئی، دل تو اک لمحہ زونی کا بھی رکا۔

"امم اچھا، ہم دن بدن خود کو مضبوط بنا رہے ہیں، آپ کے تقاضے آپکی مدھم گستاخیوں کی طرح ہم جیسی نازک سے سہنا ممکن نہیں تھے اگر یہ کچھ وقت نہ ملتا"

وہ حیا کی زیادتی سے آنکھیں جھکاتی بولی تھی جبکہ مشارب نے اسکی ٹھوڑی پر ہاتھ کی پکڑ جمائے اسکا چہرہ اوپر اٹھائے ناک سے ناک رب کیے ساتھ ہی نرم گال چوم لی جس پر وہ گلال ہوتی چھوئی موئی بنتی سمٹ گئی۔

"اہمم اہمم تو کیسے تقاضے کروں گا میں؟ کوئی آئیڈیا سوچ کر مضبوط کر رہی ہیں یا ایویں۔ مطلب ایسا نہ ہو ناں پہلی فرمائش پر ہی میری بیوی صدمے سے بہوش ہو جائیں"

وہ اس کی مسکراہٹ دیکھتا لمحے میں شرارت پر اترتا آخر تک بے خود ہوا تو وہ زرا سی بوکھلائی۔

"وہ سب ہمیں نہیں پتا"

وہ سر جھٹک کر اس دل، روح اور جسم جکڑتے حصار سے بھاگنے کو مچلی مگر مشارب نے اسے عقب سے جکڑتے ہی فرار کی راہیں مسدود کیے اپنے ہونٹوں کی شدت بھری مہر زونی کی شہہ رگ پر چھوڑی اور وہ لڑکی گواہ تھی کہ اس بندے کا نرم سے نرم لمس بھی اخیر شدت بھرا ہوتا کہ مٹھاس بھرا درد زونی کے انگ انگ میں گھل جاتا۔

"سیمنٹ کھانا شروع کریں لیڈی بس اسی صورت میرے مقابل قائم رہتی مضبوطی پائیں گی"

وہ اسکو قربت کی شدت سے کانپتا محسوس کیے گدگداتی ہنسی لیے جو بولا اس پر جھٹ سے زونی نے میچی آنکھیں کھولیں اور حیرت و صدمے سے واپس پلٹی جو آگے سے مسکراتا ہوا لمحے میں زونی کو بھی ہنسا گیا۔

"واقعی کھانے مت لگ جائیے گا فرمابرداری میں، مجھے آپکی نزاکت سے ہی پہلا عشق ہے۔ دوسرا عشق آپکی مہکتی سانسوں سے"

اول جملہ شرارت سے ادا کیے وہ مضبوطی سے اس من پسند نشے کو سانسوں میں تحلیل کرتا بے قابو ہوا کہ زونین کی دھڑکنیں اس ساحر کے پہلی تمام شدتوں سے ماوراء ہونے پر سینے پر جکڑ کر رہ گئیں۔

یہ جان لیوا سلسلہ تو تب ٹوٹا جب چبھتے شوروغل کی آواز نے اس ہوش ربا مخمل سے لمحے کا ارتکاز بری طرح جنجھوڑتے توڑا اور اگلے ہی لمحے یوں محسوس ہوا جیسے خانم حویلی کے باہر سے کسی نے لگتار کئی ہوائی فائر کیے ہوں۔

یکدم پھیلتی سنسنی اور دہشت کے باعث زونی اور مشارب دونوں کے چہروں پر پریشانی عود آئی۔

ہوائی فائرز کی گن گرج پر مشارب اسے یہیں کمرے میں رہنے کی ہدایت کرتا خود جب تک ہڑبڑاہٹ اور پریشانی کے سنگ نیچے مین ہال میں پہنچا، حویلی کے مخافظ بھی جوائی کاروائی کیے ہر طرف سے حویلی کو خفاظتی گھیر چکے تھے جبکہ ہوائی فائرنگ کی آواز پر حویلی کے تمام افراد بھی باہر نکل آئے، زمان خان تو باقاعدہ اپنی گن لیے باہر کی جانپ لپکے مگر یوں رہا تھا جیسے وہ فائرنگ کرنے والے سب کچھ ختم کرنے آئے تھے، گولیوں کے دو طرفہ یلغار نے ماحول تک وحشت خیز کیے تھرا دیا تھا۔

غصے اور غضب کے سنگ مشارب زمان اور زمان خان دونوں کی آنکھیں سرخ ہوئیں وہیں ماتھے پر پسینہ چمکا، البتہ چہروں پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی چھا گئی۔

"یہ کون ہو سکتا ہے؟یہ حویلی باپ کی جاگیر سمجھ رکھی ہے دشمنوں نے کہ جب چاہا گولیاں برسائیں گے۔ جا کر دیکھو نواز! کون منحوس ہے یہ جس نے خانم حویلی پر حملہ کرنے کی جرت کی"

زمان خان، ہاتھ میں گن پکڑ کر اپنے خاص آدمی کی جانب دیکھتے اشتعال آمیزی سے دبنگ آواز میں بولے اور خود مشارب بھی باہر ہوتی اندھا دھند فائرنگ پر وہیں چلی آتیں دادی اور والدہ کو واپس انکے کمروں میں بھیج چکا تھا کیونکہ خطرہ چاروں طرف اس ڈھلتی شام میں پھیلا جبکہ خود وہ داخلی دروازے میں ہی کھڑا بابا کے عتاب کے سنگ خود بھی اس جرت کرنے والے پر غضبناک ہو رہا تھا۔

حویلی کے تمام ملازم تک اس ہولناک کیفیت میں سہمے ہوئے اندر ہی دبکے تھے جبکہ زونی بھی دروازے کے ساتھ لگی کانوں پر ہاتھ رکھے سانس لینے کی بمشکل کوشش کرتی ان آوازوں کو نا سن پانے کی کوشش میں خود کو ہلکان کر رہی تھی، اسے یوںگ رہا تھا جیسے اسکے جسم سے کسی نے آہستہ آہستہ جان نکال دی ہو۔

"کون ہو سکتا ہے یہ؟ کہیں کنزا تو نہیں"

مشارب خود لگتار اندھا دھند حملوں پر تشویش میں تھا اور ساتھ ہی جب وہ بے دھیانی میں سامنے چلتے تماشے کو دیکھتا بڑبڑایا تو ساتھ کھڑے زمان خان نے یوں ناگواریت سے اسکو دیکھا کہ وہ نظر مشارب کے سینے تک گڑھ گئی اور سینہ لہو لہان ہوا۔

"اگر یہ کنزا ہوئی تو اس حویلی میں آج اسکا بھی خون بہے گا اور آپکا بھی، نہ تو آپ زونی کو یہاں لانے کی ناقابل معافی خطاء کرتے نا وہ کنزا ایسی زلیل حرکت کرتی۔ اپنی زندگی کی دعا مانگ لیں مشارب خان کیونکہ اب آپ اپنے باپ کا آخیر صبر آزما چکے ہیں"

ناگواری اور بھینچے جبڑوں کے سنگ تلملا اٹھتے وہ مشارب کو تنبیہی انداز میں باور کرواتے خود ہی گن جکڑے باہر نکلے تو وہ بھی لمحہ بھر تو تھم سا گیا پھر افسوس کے سنگ سرد سانس کھینچتا بابا کے پیچھے ہی باہر نکلا۔

جبکہ باہر میدان جنگ سج چکا تھا، حویلی کے کئی محافظ لوگ بری طرح زخمی ہو چکے تھے جبکہ باہر موجود غنڈے موالیوں کی یلغار اب حویلی کے باہر کے مرکزی دروازے کو پٹخ رہی تھی، ہر طرف بگھڈر مچی تھی اور باہر آکر مشارب اور زمان خان دونوں کی آنکھیں پتھر بن کر رہ گئیں۔

"سائیں! سائیں باہر کنزا خانم آئی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ جب تک انکی بیٹی انکے حوالے نہیں کی جاتی، وہ اور انکے لوگ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سرکار ہمارے کئی لوگ بہت بری طرح زخمی ہو چکے ہیں۔ اب انکی بات سننے کے سوا کوئی چارہ نہیں"

نواز نامی وہ آدمی ہانپتا ہوا دوڑ کر واپس قریب آیا اور اسکی بات سن کر اس سے پہلے مشارب جبڑے بھینچتا ہوا اس عورت کی بذات خود اس تقاضے پر جان لینے باہر بڑھتا، زمان خان نے پوری قوت لگائے مشارب کی بازو کھینچی اور دو لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اسے جکڑ لیں۔

"ن۔۔نہیں بابا"

مشارب نے بے یقین دردناک نظر بابا پر ڈالی جنکی آنکھوں میں صاف صاف آتش تھی، دو کیا چھ مخافظوں نے حکم پر بپھرے مشارب کو جکڑا جو حلق کے بل دھاڑتا ہوا خود کو ان منحوسوں سے چھڑوانے پر لگا تھا مگر زمان خان نے اپنی گن کی نلی یکدم دھاڑتے مشارب پر تانی جس پر ہر کوئی اپنی جگہ تھم گیا۔

"بابا میرے ساتھ یہ مت کریں، بابا ایسا ظلم مت کریں۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔بابا میری بات سنیں! آپ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں"

وہ بے دردی سے ان ہٹے کٹے مسٹنڈوں سے خود کو چھڑواتا مسلسل چینخ رہا تھا مگر زمان خان چاہ کر بھی ترس نہیں کھا سکتے تھے کیونکہ اس بدنصیب پر بھی سردار خاقان کا سیاہ سایا آن پڑا تھا۔

"مجھے اپنی اولاد کا قاتل بننے پر مجبور مت کریں مشارب زمان خان، مجھے آپکے ساتھ یہ کرنا ہوگا تاکہ آپکو بابا سائیں سے بغاوت کی سزا دی جا سکے۔ انکو کمرے میں لے جاو اور جب تک میں اس کنزا کا حساب باک نہ کر لوں یہ وہیں رہیں گے اور تم دونوں جا کر زونین کو لے کر آو۔ خانم حویلی میں اب مزید کوئی گند نہیں رہے گا، بابا سائیں کے خلاف جاتا ہر فرد زمان خان کا بھی دشمن ہے اور یہ بات ہر کوئی کان کھول کر سن لے"

وہ سرخ آشام آنکھوں سے اس قہر کو برپا کرتے بابا سائیں کو اذیت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جو اسکی جان اس بری طرح اسکے جسم سے نکال کر اسے جلاد محافظوں کے سپرد کر چکے تھے، وہ اکیلا دو تین کو مکوں اور تھپڑوں سے پچھاڑ بھی گیا مگر زمان خان ہی کے اشارے پر ایک پھرتیلے آدمی نے نجانے مشارب کے گلے کی کونسی رگ دبائی کہ وہ مزاحمت کرتا زخمی شیر یکدم ہر تکلیف اور اذیت سے دامن چھوڑتا ہوش گنوا بیٹھا۔

اور وہ لوگ اسے گھسیٹے ہوئے زمان خان کے حکم پر اندر لے گئے۔

گل خزیں خانم اور فرخانہ بھی اس تماشے پر باہر نکلیں اور زمان خان کی سفاکی پر ان دو کے چہرے بھی لٹھے کی مانند سفید پڑے۔

"یہ کیا کر رہے ہو زمان خان؟ اپنی اولاد کے ساتھ ایسا سفاک سلوک۔۔۔۔"

گل خزیں کی پھنکارتی آواز اپنی ہیبت ناکی سے لرزرتے ہوئے گونجی جبکہ زمان خان نے ان سنی کیے اسی نواز نامی آدمی کی طرف رخ کیا، خود فرخانہ اپنے شوہر کا یہ بھیانک روپ دیکھ کر صدمے میں مبتلا ہو چکی تھی۔

انکا چہرہ یوں تھا جیسے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا تھا۔

"جا کر کنزا کو لے کر آو"

زمان خان نے بھینچے خدوخال کے سنگ حکم کیا مگر گل خزیں اسکی بازو پکڑے اپنے روبرو کرتیں اسکے منہ پر زور دار تماچہ مار گئیں جس پر ایک لمحے ماحول پر سکتہ طاری ہوا، خود فرخانہ خانم نے چینخ دباتے اپنے منہ پر ہاتھ جکڑا اور پھٹی آنکھوں سے وہ گل خزیں کا جاہ و جلال اور زمان خان کی وحشی جبر کی گئی غصے کی لہر دیکھ کر کانپ اٹھیں۔۔

"کس نے اختیار دیا ہے تمہیں بد بخت زمان، کیسے کر سکتے ہو تم۔ مشارب مر جائے گا، تم کیسے منحوس باپ نکلے ہو کمبخت، جس فرعون باپ کی شہ پر یہ کر رہے ہو جب تمہیں کل اسکا اصلی چہرہ دیکھنے کو ملے گا تو ٹکڑیں مار کر چینخو گے۔۔۔۔خبردار اگر تم نے میری زونی کو اس کنزا کے حوالے کیا"

گل خزیں گویا بپھری زخمی شیرنی بنی زمان خان پر برسیں مگر وہ اس تھپڑ کو تحمل سے سہن کرتے ہی دو قدم پیچھے ہٹے، انکی آنکھوں میں اس باپ کی محبت نے باقی سب کے لیے حقارت بھر دی تھی۔

"ایسی ضدی اولاد مر ہی جائے تو بہتر ہے، بابا سائیں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا سمجھیں آپ۔ اندر جائیں اس سے پہلے کہ آپکا سب سے تمیز دار زمان خان، سارا لحاظ بالائے طاق رکھے آپکو بھی آپکے کمرے میں بند کروا دے۔۔۔ جائیں آپ بھی فرخانہ۔۔۔۔ کوئی نظر نہ آئے مجھے، آج جو اس بیچ آیا اسکی موت میرے ہاتھوں ہوگی"

گویا زمان خان کا تو رنگ ڈھنگ ہی کسی زہریلے ناگ سا ہوا اور جب واقعی اسکے کہنے پر کئی پھنکارتے آدمی ان دو عورتوں کی جانب بڑھے تو گل خزیں اور فرخانہ دونوں کی آنکھوں میں اس اذیت نے نمی بھر دی۔

"ی۔۔یہ پاگل ہو گیا ہے فرخانہ، یہ اپنی اولاد کی موت چاہ رہا ہے۔ یا اللہ یہ دن دیکھانے سے پہلے مجھے موت دے دیتا "

گل خزیں اپنا سینہ پیٹتیں اونچا اونچا بلکنے لگیں جبکہ روتی ہوئیں یکدم آنسو روک کر کھڑیں فرخانہ نے بمشکل انکو گرنے سے سنبھالا اور خود اک جگر پاش نظر پتھر بن جاتے زمان پر ڈالتیں وہ آنسو بہا کر ماتم مناتیں گل خزیں کو لیے اندر بڑھیں تو دو آدمی زبردستی زونین کا ہاتھ پکڑے اسے باہر لا رہے تھے اور گل خزیں نے فرخانہ کا ہاتھ جھٹکے لپک کر دو دو تماچے ان دونوں کے منہ پر دے مارے اور زونی کو پکڑے اپنے سینے میں چھپایا جو خوف اور ڈر سے تھر تھر کانپتی نانو سے لپٹ گئی۔

وہ دونوں ہی ان تماچوں پر پھنکارتے ہوئے اپنی اپنی گال پکڑے ہی رہ گئے جنکو گل خزیں نے کاٹ کھاتی نظروں سے دیکھا۔

"ہاتھ کاٹ دوں گی تم دو کے، اگر تم دونوں نے میری زونی کو چھونے کی بھی کوشش کی۔ لعنت ہو تم سب پر"

گل خزیں کا بس نہ چلا ان دو کے منہ نوچ لیتیں مگر وہ حکم کے غلام تھے، زبردستی اس روتی چینختی زونی کو گل خزیں سے دور کرتے ان دو عورتوں کی کسی تکلیف کی پرواہ کیے دوسرے لوگوں کے سپرد کیے وہ باہر آئے جہاں آنکھوں میں فتخ بھر کر کھڑی کنزا شیطانیت سے مسکائی پھر نفرت جتاتی زمان خان کی آنکھیں دیکھتی وہ خود اندر بڑھی اور ان دونوں آدمیوں سے روتی تڑپتی زونی کا ہاتھ لیتی واپس باہر آئی جس نے کنزا کو حراساں نظروں سے دیکھتے ہی اپنا ہاتھ چھڑوانا شروع کر دیا۔

"دیکھ لو، تمہارا مشارب تمہیں بچانے تک نہیں آیا زونی۔ یہ سب لوگ درندے ہیں میری بچی۔ یہ دیکھ رہی ہو بظاہر تمہارے سب سے اچھے ، فساد سے دور رہنے والے ماموں ہیں مگر اصل میں یہ بھی خانوں کے خاندان کا چھپا درندہ بن کر سامنے آئے۔ تم صرف اپنی مما کی بیٹی ہو میری جان، لیکن تم یہ بات نہیں سمجھی اور چلی آئی اس بزدل مشارب کے ساتھ۔۔۔۔"

روتی تڑپتی خوف سے زرا زرا کانپتی زونی کو خود میں بساتی کنزا ساتھ اسکے دماغ میں زیر بھی بھر رہی تھی اور واقعی زونی نے اپنی سرخ بھیگی آنکھیں موڑے مشارب کو ڈھونڈنا چاہا مگر سامنے صرف جبڑے بھینچ کر کھڑا زمان خان دیکھائی دیا۔

نانو کی چینخیں تو ان ظالموں نے دبوا دی تھیں۔

"م۔۔مما ہم نہیں جانا چاہیے۔مما ہم م۔۔مشارب کے بنا نہیں جی سکتے۔۔۔وہ۔۔وہ آئیں گے۔۔۔مما وہ ہمارے بنا مر جائیں گے ہمہیں مت لے کر جائیں"

وہ منت کرتی ہچکیوں کی زد میں آتی اس سفاک عورت سے رحم کی طالب تھی مگر کنزا اس کی کسی بات کو سننے کے موڈ میں نہ تھی۔

"تم اس کے بنا نہیں مرو گی میری جان، مما ہیں ناں۔۔ ششش رونا بند کرو اور جا کر گاڑی میں بیٹھو۔ ماں ہوں تمہاری زونی، چلو میرا بچہ"

وہ اس معصوم کو پچکارتی ہوئی سخت الفاظ میں بولی جس پر زونی نے کرب کے سنگ اپنی سسکیاں تو گھوٹ لیں پر دل تو اس دہلیز کو چھوڑتے ٹکڑے ہوا، وہ کنزا کے زبردستی اسے دو لوگوں کے ساتھ روانہ کرنے پر چلی تو گئی پر ہر قدم پر اس لڑکی نے گردن موڑ کر اس آس پر دیکھا کہ ابھی مشارب اسے آکر بچا لے گا اور ہر بار وہ بری طرح روئی۔

"شکریہ لالہ! اوپس سفاک لالہ۔ مجھے تو لگا تھا آپکے ہوتے میں زونی کو لے جا نہیں سکوں گی پر آفرین ہے اس خاقان خان کے درندہ صفت خون کے اثر پر، ہاہاہا۔۔ اب میری ماں کو تسلی دے کر اپنے بے ادب رویے کی معافی مانگ لیجئے گا اور اپنے بیٹے کو دس بیس انہیلیر بھی خرید دیجئے گا کیونکہ اب وہ زونی کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جائے گا۔۔۔بائے"

ظلم و بربریت کی حدیں پار کرواتی وہ نجس سا قہقہہ لگاتی پلٹی اور واپسی کے لیے بڑھی مگر زمان خان نے خون آشام نگاہ ڈالتے ہی اپنی گن اس عورت کی پشت پر تانی۔

"تم مرو گی کنزا، کیونکہ اس حویلی کی ہر بربادی نے تمہارے بھاگنے سے جنم لیا تھا"

وہ کدورت بھرے لہجے اور کینہ توز نظروں سے دیکھ کر کہتے ہی اپنی گن کے ٹریگر پر پکڑ جما چکے تھے مگر اس سے پہلے وہ کنزا پر گولی چلاتے، ایک اڑتی ہوئی گولی نے زمان خان کے سینے کو لمحوں میں چیڑ ڈالا، لہو کے بے درد چھینٹے نواز کے علاوہ انکے کئی لوگوں تک پہنچے اور خود انکا سفید کرتا دیکھتے ہی دیکھتے سرخ ہو گیا۔

کنزا نے ہنس کر عقب میں بلند ہوتی اپنے ہی ایک آدمی کے ہاتھ سے چلی اس گولی کی آواز سنی اور قدم تیز کرتی وہ حویلی سے باہر نکل گئی مگر اس طرف کہرام مچ چکا تھا، لنزا کے اس آدمی زمان خان کو صرف اس لیے شوٹ کیا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ کنزا کی جانے جاتا تبھی تو کنزا کے چہرے پر درد بھری مسکراہٹ تھی۔

زمان خان کے ہاتھ سے گن فرش پر گر چکی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ وہیں بے جان ہوتے زمین بوس ہو گئے۔

"الوداع! کنزا تو پہلے ہی مر چکی تھی، اب مرنے کی باری اسکے مجرموں کی ہے"

اپنی گاڑی میں بیٹھتے سمے کنزا نے حویلی کے کھلے دروازے سے تاحد نگاہ گرتے زمان خان کو دیکھ کر کہا جسکے گرد اسکے لوگ گرتے ہی جمع ہو چکے تھے ، اک بے بس آنسو اسکی آنکھ سے بھی ٹپکا مگر وہ سفاکیت کی حدیں عبور کرتی، بے دردی سے وہ آنکھیں رگڑتی اپنی گاڑی میں سوار ہو کر چلی گئی۔

خانم حویلی اس طرح تھی جیسے کسی نے اس کی روح نکال لی گئی ہو۔

اور ابھی تو ایک جان اور جانی تھی، مشارب زمان خان کی جب اسے علم ہوتا کہ اسکے بابا سائیں اسے مار کر خود بھی موت کے دہانے پہنچ گئے ہیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ کب سے خود کو واش روم میں بند کیے گہرے گہرے سانس بھرتی خود کو تقویت دینے کے باوجود رونے میں لگی تھی کہ اب تو آنکھیں سوجھ گئیں، شہیر کو قریب آنے سے بری طرح روک دیتی وہ اس خمار آلود خاموشی کے گلے تو اسی وقت کاٹ آئی تھی، جس شخص کو بددعا دی اسے کیسے اپنی پہلے سے رکی سانسوں پر دسترس دے سکتی ہے وہ، وہ کیسے اس شخص کو اپنی دھڑکنیں بڑھانے کا اختیار دے سکتی تھی جو اسکی بددعا میں شامل تھا۔

اور وہ اس وقت سے باہر بیٹھا، اس لڑکی کی اصل چاہت کھوجنے میں بیزار منہ بنا کر مصروف تھا، قبل از وقت اس ایک لمحے کا قرار، اسے ابھی سے عمر بھر اس لڑکی کا فرار دیکھائی دے رہا تھا۔

"وریشہ! اوکے فائن میں تمہارے قریب نہیں آوں گا مگر خود پر یہ دروازہ بند مت کرو۔ اگر تم کہو گی تو میں ابھی چلا بھی جاوں گا مگر میری بات سن لو۔ خود کو خوامخواہ تکلیف مت دو۔ میں مانتا ہوں قریب آکر اپنا وعدہ توڑ چکا ہوں اور اب تم بھی میری کسی بات کو ماننے کی روادار نہیں۔ پلیز اوپن دا ڈور"

وہ کچھ سوچتا ہوا جھٹکے سے اٹھا، واش روم کے دروازے کے پاس کھڑا معذرت پیش کرتا تھکے لہجے میں بولا مگر وہ اندر نل کھولے مسلسل چہرے پر پانی کے چھپکے مارتی مشکل مشکل انداز سے سانس لیتی اور خارج کرتی اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا رہی تھی۔

"تم ہو ہی منحوس، چلے جاو ورنہ تمہارا گلا دبا دوں گی"

وہ بہت مشکل سے بول سکی بلکہ باقاعدہ غرائی اور وہ بیزار سی شکل بناتا یہاں وہاں چکر کاٹنے لگا۔

"جب تک دروازہ نہیں کھولو گی، میں ہلوں گا بھی نہیں۔ کم آن وریشہ! بچوں کی طرح کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو۔"

وہ گویا اسکی اس درجہ حساسیت پر کوفت سے بڑبڑایا اور وریشہ نے خود کو ہر ممکنہ مضبوط کیے ٹشو باکس سے چند ٹشو نکالے اور اپنا گیلا چہرہ خشک کرتی چہرے پر واپس سختی اور ناگواری سجاتی دروازے تک آئی اور کھول کر باہر نکلی تو شہیر بھی جھٹکے سے پلٹا مگر وہ کسی جن زادی کی طرح اس پر چڑھ دوڑتی اسکا گریبان جکڑ کر پھنکاری اور وہ خفیف سا تلملایا۔

"میں بچوں کی طرح ری ایکٹ کر رہی، اور تم جو تھرڈ کلاس ہیرو بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ چیپ انسان، لڑکی زرا نرم کیا پڑی تم نے سوچا جان تک فدا ہو گئی ہے تو قریب جانے کی دعوت مل گئی۔۔۔ شکل ہے تمہاری ایسی کہ وریشہ جیسئ تم کو ملے۔ اور میں نے اتنے کونسے گناہ کیے جو مجھے تم جیسا لوفر ملا"

وہ اس طرح پھنکارتی بولی کہ اسکے غم و غصے کے باوجود شہیر کی آنکھوں نے مسکراہٹ دبانے کے سائن شو کیے وریشہ کو اور چڑایا۔

"میرے اتنے سے قریب آنے پر پیاری ہو گئی ہو سیریسلی، تھوڑی اور آجاتی تو مس ولڈ بن جاتی"

وہ اسکا سرخیوں میں گھلا چہرہ دیکھ کر اس لڑکی کے سارے سوال رد کرتا اسکے سرخ رو ہونے پر چوٹ کیے پھر سے اسے حصارنے کی کوشش میں تھا جو اسکا گریبان چھوڑتی برے طریقے سے اسکے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹا گئی۔

"شہیر! تم مجھے بہت برا آزما رہے ہو منحوس کمینے۔ نکل جاو میرے گھر سے، اب اپنی شکل کبھی مت دیکھانا۔ جو بھی پھونکتے ہو اب اسکی کی کاٹ کے لیے تعویز بنواوں گی دیکھنا تم۔ تمہیں کوئی چڑئیل یا جن اٹھا لے جائے، میری تو جان چھوٹے۔ ویسے بھی شکل اور خلیے دونوں سے انہی کے خاندان کے لگتے ہو"

وہ گویا سارا ہوش گنواتی جو منہ میں آرہا تھا پاگل ہوتی چڑتے ہوئے برہم ہو کر بولتی گئی اور یہ آخری جملے پر تو شہیر اپنی مسکراہٹ واقعی نہ روک سکا۔

"سوچ لو، اب گیا تو تمہارے بلانے پر بھی نہیں آوں گا۔ اور ہاں یہ جن چڑیل سب میرے ہی خاندان کے ہیں تبھی تو میرا دل تم پر آیا۔ ڈائن پر"

اول جملہ وہ جان لیوا دھمکاتے لہجے میں جبکہ آخری اسے زچ کرنے کو بولا جو ڈائن کہنے پر ہتھے سے اکھڑی۔

"تم نے مجھے ڈائن کہا؟ خود کیا ہو خون چوسنے والی جونک"

غصے سے وریشہ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور وہ کمینہ تھا کہ برابر آگ لگانے میں لگا تھا۔

"قسم سے میں سب ہو سکتا ہوں پر جونک نہیں، جو مجھے ایک بار خود سے دور کرے اس کے قریب بھی نہیں بھٹکتا۔ ہاں تمہارے لیے کبھی کبھی جونک بننے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں"

وہ مسلسل اسکی رگوں میں شرارے دوڑاتا بولا جو اب جبڑے بھینچتی اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکی گردن دبوچ گئی اور باقاعدہ اسکا ہنستا چہرہ دانت نکوس کر دیکھ سکی۔

"تم۔۔! تم ناقابل علاج ہو سمجھے۔۔۔ نکلو۔۔ابھی کے ابھی نکلو۔ تمہیں دوبارہ گھر بلاتی ہے میری جوتی"

گردن دباتی ساتھ ہی وہ اسے باقاعدہ دھکیل کر کمرے سے باہر نکالتی اس بچارے کو احتجاج بھی نہ کرنے دے رہی تھی پر جوتی والی بات پر وہ اسکے دھکوں کے آگے چٹان بن کر رکتے مڑا جو سیخ پا ہوتی اسے ہی گھور رہی تھی جیسے اسکا سالم کلیجہ نگل جانا چاہتی ہو۔

"یار بیوی! پھر جوتی۔۔ہماری لوو سٹوری میں سے یہ جوتی جائے گی بھی یا نہیں؟"

وہ منصوعی خفا ہوتا منہ بسورے بولا مگر وہ اسکی نوٹنکی پر آگ بگولا ہو چکی تھی۔

"نہیں کیونکہ اسی جوتی کو برسا کر میں یہ لوو سٹوری ہلاک کروں گی۔۔نکلو سستے عاشق"

وہ جن زادی بنی اتنی قوت سے دھکیل کر بچارے کو نکال رہی تھی کہ وہ آدھا تو اسکے جاندار دھکوں سے ہلا ، پھر جب اس نے ڈرامہ کرتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ جکڑا تو وریشہ بھی اس ستم کو روکتی یکدم ہوش میں آئی۔

"لڑکی! تم کیسی ظالم ہو ۔ کون ایسے اپنے زخمی شوہر کو دھکے دیتا ہے۔ ایسا کیا کر دیا میں نے، دیکھو اب تو اتنا درد اٹھ گیا ہے کہ مجھ سے چلا جانا محال ہے۔ اب سزا ہے کہ مجھے یہیں رکھو گی، میں یہیں رہوں گا بس"

اس لڑکی کو یکدم اپنے عمل پر پشیمان اور اسکے درد پر پریشان دیکھتا وہ مظلومیت کے سنگ شکوہ کیے آخر تک ڈھیٹ بنا جس پر وہ پریشانی بھولتی اس کی اندر تک گڑھتی آنکھیں دیکھنے لگی جہاں بالکل سچا سا درد تھا۔

"شہیر! تمہیں آخری وارننگ دے رہی ہوں"

وہ انگلی ہوا میں اٹھاتی اسے بڑے ضبط سے دھمکاتی بولی جو بڑے بے تکلف انداز میں اسکی انگلی پکڑ کر پیچھے ہٹاتا بازو سے اسکو حصار لیتا قریب کر گیا کہ اس لڑکی کا دھمکانا اسے ہرگز پسند نہ آیا۔

"میں جانتا ہوں تمہاری ہر وارننگ آخری ہوتی ہے ڈارلنگ پر مجھے تمہارا انگلی دیکھانا بلکل پسند نہیں آیا، تمہارے لیے ہر درد سہہ سکتا ہوں، مر سکتا ہوں، مٹ سکتا ہوں وریشہ اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ جا رہا ہوں اور اگر اب تمہاری بے بسی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پھر سے تم نے فرار کی راہ چن کر یو ٹرن لیا تو اگلی بار تمہارے انگ انگ میں شہیر مجتبی کی موجودگی بہت تفصیل سے گھلے گی یاد رکھنا اور اس میں میں تمہاری مرضی نہیں پوچھوں گا۔ سو اب جب مجھے خود سے دور کر رہی ہو تو دور رہنے کا حوصلہ بھی خود میں قائم رکھنا۔ اول تو اب کچھ مہینے میں بہت مصروف رہوں گا لیکن اسکے باوجود تم نے مجھے بلانے کی جرت کی تو سہاگ رات کے لیے بھی تیاری کر کے رکھنا"

اک اک لفظ وہ وریشہ پر قہر کی طرح نازل کیے اسکے خوف سے کانپتے ہونٹوں کی نرمی پر اس بار سختی بھرا استحقاق نازل کیے،ان سانسوں کو تادیر خود میں مبتلا رکھنے کے بعد جب اسکی رکتی سانسوں پر رحم کھانے پر آمادہ ہوا تو خود سے اور اپنے ہر لمس سے وہ اسے لمحے میں نجات دیتا دور ہوا اور سرد مہر نظر اس سب سے منجمد ہو چکی وریشہ یوسف زئی پر ڈالتا کمرے اور پھر گھر تک سے نکل گیا اور وہ لڑکی اس طرز کی خونخوار قربت پر پتھر کی بن چکی تھی، منہ میں ناگوار سی کڑواہٹ گھل آنے پر اسنے اس سنگدل کو بھی کڑواہٹ سے سوچا اور مان گئی کہ وہ ایک خون چوسنے والی جونک سے سر مار بیٹھی ہے اور اب وہ مر سکتی تھی پر آخری سانس تک خود کو اس منحوس کے آگے کمزور کرنے کی جرت نہیں کر سکتی تھی۔

                     ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"تو ہم کب جا رہے نانا جان؟"

رات کے لیے صبیحہ کھانا بنانے میں مصروف تھیں جبکہ گلالئی نانی جان کی مدد کرنے کچن میں ہی تھی اور اشنال اپنی نئی زندگی کے آغاز کے لیے بہت پرجوش تھی۔

وہ قہوے کا پیالہ واپس چھوٹے سے میز پر رکھتے، پیاری سی اشنال کی طرف متوجہ ہوئے جس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی اڑ کر چلی جاتی۔

"بس کل نکلنا ہے، چار مہینے کا ٹور ہے میرے بچے تم کیا واقعی اس سفر کے لیے تیار ہو۔ اس ٹور میں پاکستانی اور غیر ملکی کئی کوہ پیما شامل ہونے والے ہیں اور یہ ایک بڑا سفر ہوگا"

علیم بدر صاحب ، شفیق انداز میں آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اشنال کے لیے کچھ فکر مند بھی تھے کیونکہ گلالئی نے ان دونوں کو اشنال کی ذہنی حالت کا آتے ہی بتا دیا تھا اور وہ سب بھی جو اسکے ساتھ ہوا ۔

"میں بالکل تیار ہوں، اسکے بعد اشنال عزیز مر بھی گئی تو کم ازکم یہ خوشی ضرور ہوگی کے میں اپنا ان پہاڑوں سے وابستہ عشق پورا کر کے مری ہوں۔ یہ پہاڑ مجھے بے حس اور بیزار نظروں سے مزید نہیں دیکھیں گے"

ہفتے سے گلالئی اور اس جگہ کی سنگت نے اشنال کے ذہن و دل کو قدرے پرسکون کیا تھا مگر اس سنگدل کا اتنے دل سے لاتعلق ہونا اسے اس حال میں بھی پہروں بے قرار رکھے ہوئے تھا، جبکہ اشنال کی بات میں چھپا درد بھانپ کر علیم بدر صاحب نے اسکی گال سہلائے جیسے اداسی کو دور بھگایا۔

"ایسا نہیں کہتے بچے، زندگی بہت قیمتی شے ہے۔ اللہ نے ہمیں یہاں بھیجا ہے تو کسی مقصد کے تحت ہی بھیجا ہوگا۔ اور ویسے بھی جس انسان کو پہاڑوں سے عشق ہو وہ تو مر کر بھی نہیں مرتا، زندگی تمہارے لیے بھی خوبصورتی رائج کرے گی میرا بچہ۔ اس سفر کے بعد تم کم ازکم مرنے کی خواہش ضرور بھلا دو گی اور پھر کہتے ہیں ناں، پہاڑوں پر جانے کا ارادہ ہو تو اپنی ساری حسرتیں، دکھ، درد پیچھے چھوڑ جانے چاہیں"

وہ زندہ دل انسان تھے تبھی تو انکی باتیں سن کر اشنال اچھا محسوس کرتی تھی۔

"وہ مجھے ایک لمحہ اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا تھا، اور اب ہفتے سے کوئی خبر نہیں۔ آپ نے بھی تو محبت کی تھی صبیحہ نانو سے، کیا میری اتنی بڑی سزا بنتی تھی کہ اس نے مجھے واقعی میرے حال پر چھوڑ دیا نانا جان۔ میرے نیم پاگل ہونے کے باوجود اس ٹھیک ٹھاک انسان نے مجھے سمجھا نہیں۔۔ اور محبت اب بھی میری اسکی نظروں میں مشکوک ہوگی"

وہ یکدم بوجھل ہو گئی تھی اور اسکی یہ درد دیتی بات کچن سے باہر آتی گلالئی اور صبیحہ نے بھی سنی اور ویسے ہی اداس ہوئے جیسے اس بچی کی تکلیف سن کر علیم بدر صاحب کا دل بوجھل ہوا۔

جبکہ فون کو مسلسل بند رکھنے پر گلالئی کا دل احساس ندامت کا شکار ہوا، اپنی بے رحمی شدت سے دل کاٹ گئی۔

"وہ خانم! میں نے آتے ہی فون بند کر دیا تھا اور یہاں کا پتا کسی کے پاس نہیں۔ مجھے معاف کر دیں"

اس سے پہلے بدر صاحب کوئی معیاری تسلی دیتے، گل نے پشیمانی کے سنگ اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا تو سب نے ہی گل کو خفگی سے دیکھا، سوائے اشنال کے جو تلخی سے مسکرا دی۔

"اسے اپنے صنم تک پہنچنے کے لیے کسی پتے کی ضرورت نہیں تھی، اچھا کیا تم نے۔ ویسے بھی میں نہیں چاہتی اب کبھی دوبارہ واپس جاوں۔ میں یہیں رہنا چاہتی ہوں"

وہ میثم سے خفا تھی کیونکہ وہ بے وجہ اس سے خود کو دور کرنے کی خطاء کر بیٹھا تھا، اشنال کہہ کر اٹھی اور بے دلی سے کمرے کا رخ کر گئی جبکہ نانا اور نانی جان کی مایوس نظریں، اداس سی گلالئی کو اور پریشان کر گئیں۔

"تمہیں ان دو کے بیچ راستہ بننا ہے پتر، کس کرب میں ہوگا میثم۔ جاو فون آن کرو جا کر، وہ دونوں جتنی بھی ضد کر لیں، آخر تو ایک دوسرے کے ہیں۔ جاو میرا بچہ"

گلالئی کی شرمندگی دیکھتے ہوئے خود ہی بدر صاحب نے اسے پیار سے سمجھایا تو وہ فورا سر ہلاتی افسردہ سی اٹھ کر کمرے میں داخل ہوئی جہاں وہ نرم بستر پر بیٹھی اپنا سوٹ کیس پیک کرنے کا کام مکمل کر رہی تھی جب گلالئی کے اندر آنے پر اشنال نے بس سرسری سا اسے دیکھا اور نظر ہٹا لی۔

گلالئی نے فورا سے بیشتر لکڑی کی کبرڈ کھولی اور وہاں ریک پر رکھا فون فورا سے آن کرتی لپک کر بیٹھی اشنال تک آئی۔

"کیوں آن کیا ہے گ۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ اشنال پیکنگ چھوڑ کر گلالئی کو بری طرح ڈانٹ دیتی، دونوں کی نظر ایک ساتھ فون آن ہوتے ہی ضرار کی آتی کال پر پڑی جبکہ اشنال کے سارے لفظ دم توڑ سے گئے۔

خود گلالئی نے تڑپتی آنکھیں، ہر احساس سے عاری چہرے والی اشنال پر ڈالیں۔

"دیکھیں انکی تڑپ، پلیز خانم بات کر لیں۔ میں پہلے ہی فون بند رکھنے پر خود کو مجرم سا محسوس کر رہی ہوں"

ضرار کا نام مسلسل فون کی سکرین پر جگمگا رہا تھا اور ضرار جو کچھ دیر سب کو ساتھ بیٹھائے روم میں آیا، ایک اور کوشش کیے فون ملا چکا تھا اور ہفتے بعد فون آن محسوس کیے جیسے اسکی ضد لمحوں میں ریت کی دیوار سی مسمار ہوئی۔

"تم نے بہت اچھا کیا، میرا دماغ ابھی بھی اسے مجرم کی فہرست سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ پھر جب اس نے خود مجھے شہیر کے حوالے کر دیا تو اب اس کی کوئی تڑپ مجھے نہیں دیکھنی۔ اسے پتا بھی ہے ایک ایک لمحہ اسکے بنا قیامت ہے پھر بھی ہفتے سے وہ مجھے ڈھونڈ نہ سکا، وہ شہیر سے واپس کیا خاک لے گا۔ یونہی دن گزر جائیں گے گل، اور اب یہی میری زندگی ہے"

بے دردی سے فون پکڑ کر کال کاٹتی وہ گلالئی سے مخاطب تھی جبکہ دوسری سمت ضرار نے اس حرکت کو بڑے ضبط سے برداشت کیے دوبارہ نمبر ڈائل کیا۔

جس پر وہ دونوں ہی الگ الگ طرح کی اداسی کا شکار ہوئیں۔

"آپ کی کمی بذات خود اک بددعا ہے انکے لیے خانم"

گلالئی نے جیسے تاسف سے التجاء کی جس پر وہ اس نام کو دیکھتی بے درد بنی۔

"میں کیسے چاہ سکتی ہوں کہ میری آہیں، کسی بددعا کی طرح اسکے میزان عمل میں شامل ہوں مگر وہ مجھے برا آزما بیٹھا ہے، میں نے اس پوری دنیا کو چھوڑ کر اسے چنا تھا کیونکہ وہ اپنی من پسند عورت کی خفاظت کرنے والا مرد تھا، لیکن دیکھو اس نے چپ چاپ اشنال عزیز کی حفاظت سے دستبرداری لے لی"

وہ سب کچھ جو وقتی اذیت نے اسے کوڑوں کی طرح مارا تھا، وہ سب اسے یاد آگیا تھا، اسے یاد آگیا تھا کہ اس نے شہیر کو تو قبول کیا ہی نہ تھا لیکن اب وہ یہ سب جان بوجھ کر چھپانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔

گلالئی کی تکلیف بھی جیسے بڑھی اور اس ظالم کی بار بار کال بھی اشنال کو اس ٹرانس سے نکال لائی۔

"تم جاو گلالئی، اسے میں خود سمجھاتی ہوں۔ کھانا لگاو میں آتی ہوں"

آخر ہمت کرتی وہ گل کو کمرے سے روانہ کرتی خود کو ہمت دیتی کال اٹھائے فون کان سے لگا گئی جبکہ چہرے پر سختی بھی اوڑھ لی۔

"کہاں ہو تم گل؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی بنا مجھے انفارم کیے اشنال کو کہیں لے کر جانے کی؟ فورا بتاو کہاں ہو تم دونوں؟"

وہ جو ذہنی اذیت میں جل رہا تھا، پھاڑ کھاتے انداز میں کال لگتے ہی دھاڑا جبکہ وہ جو پتھر دل بنی تھی، یکدم آزردہ ہوئی اور چہرے پر دنیا جہاں کا غصہ سمیٹ لائی۔

"اشنال کو خود اسکے حال پر چھوڑا ہے تم نے، اب میرے ہر معاملے سے کوسوں دور رہو۔ کہاں گئی تمہاری محبت، حفاظت اور نرم دلی؟ تم جیسا سنگدل اب مجھے کبھی دیکھ نہیں پائے گا۔ اگر تم نے غلطی سے بھی میرے پیچھے آنے کی کوشش کی تو میں یہاں سے بھی کوچ کر جاوں گی"

وہ سخت لہجے کو ڈگمگانے سے ہر ممکنہ روکتی بولی جبکہ اسکا یہ انداز میثم کے لیے اسکی ضد میں اضافے کا سبب تھا۔

"فضول بولیں تو بہت برا پیش آوں گا اشنال عزیز، میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں، آپ کس خوشی میں روٹھی ہیں؟ حالانکہ آپکو مجھے منانا چاہیے، بے یقینی اور بے حسی ہمارے رشتے میں جائز نہ تھی پر آپ نے شروعات کی، مجھے بتائیں کہاں ہیں، ورنہ اس پوری دنیا کو گھنگال کر بھی مجھے آپکو ڈھونڈنا پڑا تو کر گزروں گا"

وہ باقاعدہ غرایا جیسے اس وقت وہ سامنے ہوتی تو وہ اسکی واقعی جان لے لیتا۔

"میں اب بھی تمہاری بیوی ہوں، میرا دل مان گیا لیکن تم اب سزا بھگتو گے میرے پاگل پن سے تنگ آنے کی۔ تم سے چند دنوں کی پاگل اشنال سنبھالی نہ گئی میثم اور یہ تکلیف مجھے کہیں پھر سے پاگل کر دے گی۔ اب جب تک تم واقعی مجھے سب کے سامنے شہیر سے واپس لے کر اپنا نہیں بناتے، میں تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دیکھاوں گی۔ تب تک جتنی نفرت کر سکتے ہو کر لو، میں بھی تو دیکھوں تم اپنی ضد میں کس حد تک جاو گے"

یہ سب وہ دل میں بولی تھی کیونکہ اشنال عزیز کو اسکا دوسرا عشق مسیحا بن کر سمیٹ گیا تھا، اسے میثم کی ہر اذیت یاد آچکی تھی مگر اس انسان کا چند کوششوں کے بعد پیچھے ہٹنا اشنال عزیز کو بہت برا توڑ گیا تھا اور وہ فیصلہ لے چکی تھی کہ جب تک سارے علاقے کے سامنے وہ ونی والے تماشے کا خاتمہ نہیں کرتا تب تک وہ اس سے دور رہے گی، اس سے زیادہ آسان سزا اسے میثم کے لیے سجھائی نہ دی۔

"تو پھر کر گزرو، اگر تم اس فون کی لوکیشن ٹریس کروا کر میرے پیچھے آئے بھی تو کل تک پہنچو گے اور کل تک اشنال عزیز اپنے دوسرے عشق کی تکمیل کے لیے روانہ ہو چکی ہوگی۔ اور میرا دوسرا عشق درحقیت میرا پہلا عشق ہے اور اسی عشق نے مجھے نئی زندگی بخشی ہے۔۔۔بائے"

وہ ضدی ہٹ دھرم ہوتی یہ انجانی سی رقابت اس زخمی شیر کے حواسوں پر نازل کرتی کال کاٹ گئی جبکہ ضرار نے گہرا سانس بھرتے کٹی کال دیکھی اور پھر وہ اس لڑکی کی الگ سی سلگاتی ٹون پر غصے کے بجائے سوچ بچار کرتا بیڈ کی جانب آئے بیٹھا۔

"تو آپ پہاڑ سر کرنے جا رہی ہیں، ہنہ۔۔یہ پہاڑ تو سر ہوا نہیں، ماہرانی وہ کریں گی۔ بھیجتا ہوں میں آپکو عشق کی تکمیل کے لیے۔۔۔ "

ضرار کے سوئے دماغ نے جیسے فورا سے بیشتر انگڑائی لیے پہیلی بوجھی جبکہ خود وہ کمرے سے نکلتا باہر آیا جہاں جبل زاد ، کچن سے ہی اماں فیصلہ سے کھانے وغیرہ کا پوچھنے کے بعد نکل رہا تھا، ضرار کو اجلت میں وہیں آتا دیکھ کر وہ بھی رک گیا۔

"جبل زاد! یہ نمبر ٹریس کراو کہ اس وقت میرا فون کہاں ہے اور اس جگہ جانے کی تیاری کرو۔ ہمیں جتنی جلدی ہو سکے نکلنا ہے۔ اب یہاں کے رائیتے ہاشم صاحب ہی سمیٹیں گے کیونکہ اب برابری کا کھیل کھیلنے کی باری میثم کی ہے اور اس بار کھیل پہاڑ سر کرنے جتنا مشکل ہے۔۔۔لگو کام پر فورا۔۔اور ہاں ولی بچارے کو عزیز خان والا معاملہ بتا اور سمجھا دینا، وہ ایویں مفت میں دنیا کے سارے جنگل چھان رہا ہے"

وہ جبل زاد کو غیر واضح ہدایات بخشے خود بھی لاونچ کی جانب تیزی سے بڑھا جہاں عزیز خان، عالم بزدار اور ہاشم کسی اہم سنجیدہ گفتگو میں مصروف تھے۔

وہ انکو اپنے اور مالنی کے نکاح کا بتا رہا تھا اور اس اجلت کے فیصلے کی وجہ بھی بتائی۔

"یہ فیصلہ مجھ خود کے لیے بھی مناسب لگا، لیکن پراپر سارے فنکشنز یہیں ہوں گے سو مجھے اس بے ادبی کے لیے معاف کر دیں بابا"

وہ اپنے فیصلے پر ان سب کو شریک نہ کرنے پر کچھ پشیمان تھا مگر وہ دونوں اسی پر بے حد خوش تھے کہ ہاشم کا دل پھر سے بسا ہے جبکہ ضرار نے خشونت بھری نظر چچا سائیں کی شکل پر ڈالی جو ہاشم کو خطرے کی گھنٹیاں سنا گئی۔

"شرم نہیں آئی آپکو ہاشم صاحب! یہاں میدان جنگ بنا ہوا سب اور آپکو شادی کی پڑی تھی۔ بس اب میں نے جو ناراضگی ہٹانے کا سوچا تھا وہ سب کینسل۔ دیکھ لیں دادا سائیں، اپنی بے فیض اولاد کو۔ لگائیں انکو چار پانچ، آپ الٹا خوش ہو رہے بچے کے کارنامے پر"

ضرار کی رنگ میں بھنگ ڈالتی انٹری اور اعتراض پر وہ تینوں ہی ایک سا ہنسے اور وہ اپنی دبنگ تلخی کے نوٹس میں نہ آنے پر بلبلا اٹھا۔

"تو کیا غلط کیا اس نے، ساری عمر کنزا کے پیچھے برباد کر دیتا۔ دیر سے ہی سہی پر شکر ہے اس پاگل نے اپنی خوشی کا سوچا اور مجھے تو مالنی سے ملنے کا اشتیاق ہو رہا ابھی سے جس نے اس زخمی دل میں اس جرت سے گھسنے کی ہمت کی۔ تم یہ پھاڑ کھاتی باتیں سمیٹ لو اور کل کے بارے سنجیدہ ہو کر ہمیں حتمی فیصلہ بتاو ۔۔۔آو عزیز ہم کمرے میں چلتے ہیں، اس بددماغ کو تو اب اس میں بھی اعتراض ہے کہ آسمان دن کے وقت نیلا اور رات کے وقت کالا کیوں ہوتا ہے"

ضرار صاحب جو پہلے ہی مسی صورت بنائے سلگتے جلتے کھڑے تھے، دادا جان کا برہمی سے لتاڑنا گویا دن میں تارے دیکھا گیا اور ان دو کے جاتے ہی ہاشم کی پھسلتی ہنسی پر ضرار نے غراتے ہوئے پلٹ کر سرد آنکھوں سے دیکھا اور صوفے کے تینوں کشن ایک ساتھ دانت نکالتے ہاشم کو دے مارے جو آگے سے آفت ناک بنا پیٹ پر ہاتھ رکھے اس میٹھی عزت افزائی پر ہنس رہا تھا۔

"ہاہا او میرے ربا! مطلب کراری ہو گئی۔ ہاہاہا۔۔ بس کرو لاڈلے، بپھرا بھینسا تم سے پیارا لگتا سچ میں"

وہ ابھی بھی باز نہ آیا جبکہ ضرار بھی خود ہی منہ بسورے ساتھ جا بیٹھا، بے عزتی سی تو جناب نے خود بھی گہری فیل کر لی تھی۔

"بہت ہی بے حس ہیں آپ یار، مطلب کون کرتا لاڈلے کے افسردہ دل کی فکر ہٹائے اپنی شادی۔۔۔ آپکو میرا کوئی احساس نہیں ہے جو اپنے چکر میں لگ گئے۔ یہاں میری جان سولی پر ٹنگی ہے اور ادھر آپ نے اپنا ٹانکا فٹ کیے رومینس شروع کر لیا"

اس بار ضرار کا انداز افسردہ اور شکوہ کناں تھا جبکہ ہاشم بھی تمام شرارت زائل کرتا سنجیدہ ہوا اور پکڑ کر برہم لاڈلے کو خود سے لگایا۔

"سچ میں رومینس کا ابھی تو پورا 'ر' بھی نہیں کیا لاڈلے، اور میں تمہارے لیے ہی آیا ہوں۔ دیکھو اشنال اور تمہارا معاملہ جتنا بھی سب کے بیچ آجائے وہ تم دونوں کا ذاتی ہے۔ میں تمہارے لیے اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ تمہاری ہر ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لوں اور تمہیں رانجھے کی طرح اپنی ہیر کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے فری چھوڑ دوں۔۔۔۔"

اس بار ہاشم کا لہجہ اور انداز دوستانہ تھا۔

"یہی چاہتا ہوں یار، اس یرقان خاقان کا معاملہ آپ دیکھیں۔ میں شہیر والا اور اشنال کا بھرپور توجہ سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس لڑکی کو اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گا مگر آپ تو جانتے ہیں اس کی فکر نہیں چھوڑ سکتا اور میں چاہتا ہوں جب تک اس شہیر کو بیچ سے نکال نہ لوں، میں اشنال کے آس پاس ہی رہوں"

ضرار کی حکمت عملی ہاشم کو پسند آئی تھی جبکہ ضرار کی ناراضگی اور سختی والی ضد اندر سے صرف اشنال کے لیے ہی اتنی کھوکھلی ہو سکتی تھی کیونکہ وہ بندہ اس لڑکی کے علاوہ ہر ایک کے لیے زہر قاتل تھا۔

"ٹھیک ہے، میں سنبھال لوں گا۔ تم اپنے اور اشنال کے معاملے کو دیکھو۔ پر یار ناراضگی ہٹا دو مجھ سے، مسکین سا چچا ہوں تمہارا، ترس نہیں آتا"

اول جملے مضبوط انداز میں ادا کیے ہاشم صاحب اپنے آپ کو مسکین پیش کرتے ہی ضرار کی بسوری شکل پر مسکراہٹ لے آئے اور ضرار نے ہاتھ کا مکا سا بنائے بڈی کے کندھے پر دے مارا، دونوں کی عمروں کا کم فرق ہی تھا کہ وہ چچا بھتیجے سے زیادہ دوست اور جگری یار لگتے تھے۔

"مسکین کا 'م' بھی نہیں ہیں آپ، اور مجھے آپ پر ترس کا 'ت' بھی نہیں آئے گا۔ مجھ سے چھوٹی لڑکی آپ نے میری چاچی بنا دی، اللہ پوچھے گا آپکو ہاشم صاحب۔۔۔ جو آپکی پھرتیاں ہیں مجھے جلد بزدار حویلی میں اسی سپیڈ سے آپ کی چھوٹی چھوٹی مخلوق پھرتی دیکھائی دے گی۔۔۔"

ایک تو وہ ہر وقت لڑتا ہی رہتا تھا پھر لڑاکا ساس کی طرح اسکے مزیدار طعنے گویا ہاشم کا قہقہہ بلند ہونے سے روک نہ سکے، اور خدا گواہ تھا اس سے پہلے تک مخلوق کے بارے ہاشم بزدار بلکل سنجیدہ نہ تھا۔

"ہاہا تم جیلس ہو جاو گے اپنے کزنز سے؟"

ہاشم اسکے کندھے سے اپنا بھاری کندھا سہلاتا مزید چڑاتا بولا جبکہ ضرار نے ناک چڑھائے ابرو اچکاتے گردن گمائے گھورا۔

"ان سبکو اٹھا کر پھینک آوں گا، خبردار جو آپ نے کسی کو میری جگہ دینے کی کوشش کی۔ اب ایک اہم کام سے جا رہا ہوں، آپ جا کر ان بابے نما مخلوق کو کمپنی دیں۔ مجھے روانگی کے لیے تیار ہونا ہے"

اول جملہ حق جماتے ادا کرتا وہ ساتھ ہی تیاری پکڑنے کو اٹھ کھڑا ہوا تو ہاشم نے حیرت سے اسکو دیکھا۔

"پر جا کہاں رہے ہو، وہ خاقان راہ میں ہی تمہارا خون پینے بیٹھا ہے؟"

ہاشم بھی فکر مندی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"پہاڑ سر کرنے، جبکہ اس خاقان یرقان کی ایسی کی تیسی۔ سامنے آیا تو بھرتا بنا دوں گا اسکا اور اسکے گندے منہ کا بھی اور یاد رہے کل عزیز خان کسی صورت جرگے میں پیش نہیں ہوں گے۔ یہ ذمہ داری آپکی ہے۔ گڈ بائے"

اول لاپرواہی سے آغاز کیے، خاقان کے لیے جی بھر کر نفرت انڈیلے انتقامی سا ہوتا وہ شر انگیز سی ذومعنی مسکراہٹ دبائے کہہ کر وہ واپس اپنے کمرے کی سمت بڑھا جبکہ ہاشم صاحب بھی اپنے فون کو بجتا محسوس کیے پلٹے تو اپنے ہی کسی آدمی کی کال پر اس نے فوری کال اٹھائے فون کان سے لگایا۔

"سر! ایک بری خبر ہے"

مقابل ہاشم کا ایک اہم آدمی تھا، ہاشم کے چہرے پر پریشانی بکھری۔

"ہمم کیا ہوا ہے؟"

ہاشم نے فوری استفسار کیا۔

"سر! زمان خان اس دنیا میں نہیں رہے"

یہ ہولناک خبر سنتے ہی اسے لگا جیسے کمرے کی چھت اس پر گر گئی ہے، اسکی آنکھوں میں حیرت اور تکلیف ایک ساتھ نمودار ہوئی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی کو جب جبل زاد نے عزیز خان والی خبر دی تب وہ بچارا رات کے وقت جنگل کے بیچ و بیچ تلاش میں گم تھا اور اتنے دنوں سے ضرار نے جو اسے خوار کیا اس پر اسکا افشار ہوتا خون کھول اٹھا۔

"اس پر ضرار کو بخشوں گا نہیں، کمینہ کہیں کا"

جبل زاد واقعی بے ساختہ اس بڑبڑاہٹ پر مسکرایا جب آگے سے اس اتھرے انسپیکٹر نے غصے سے کہہ کر ٹھک سے فون کاٹا اور ساتھ ہی اپنے لوگوں کو واپس تھانے روانہ ہونے کی تاکید کیے ساتھ شہیر کو فوری تھانے پہنچنے کا حکم دیے خود بھی واپس روانہ ہوا۔

جب تک ولی اپنے لوگوں کے ساتھ رات نو بجے تک تھانے پہنچا، شہیر پہلے ہی اسکے کیبن میں کرسی پر نوابی چتون تانے رئیس اور حاکم کی طرح براجمان تھا اور ولی کے آنے پر اس نے بس سلگاتی زہریلی مسکراہٹ دیے ولی کے بھینچے جبڑے دیکھے جو اپنی جیکٹ اتار کر کرسی کی پشت پر لٹائے اسے مشکوک نظروں میں لیتے ہی سامنے اپنی کرسی سنبھالے بیٹھا۔

"سرمد کو چھوڑ دے انسپیکٹر"

ولی کے بیٹھتے ہی شہیر نے بھی ٹھیک سے بیٹھتے دونوں ہاتھ میز پر جماتے اس کی اچٹتی نظروں کو نظر انداز کیے مانگ کی جس پر ولی کی نظروں میں برہمی دگنی ہوئی۔

"ہرگز نہیں پانچ چھ مہینے وہ میرے پاس ہی رہے گا، تُو پہلے اپنا فرض نبھا پھر میری طرف سے دونوں بھاڑ میں چلے جانا۔ تیرے پاس کم سے کم بس چار مہینے ہیں شہیر، اور ان چار مہینوں میں اگر تُو نے گونی اور طلال کے سارے راز اور کمزوریاں مجھے لا نہ دیں تو تجھے پتا ہے میں تجھے مار دوں گا۔ فی الحال سب چھوڑ کر دھندے پر لگ، جس دن تُو میرا کام مکمل کرے گا اسی دن تیرا مجرم تیرے حوالے کر دوں گا۔ اسے میری بلیک میلنگ سمجھ یا جو بھی پر اب تو مجبور ترین ہے"

پہلے نازلی کی حقیقت جان کر اس ولی نامی انسپیکٹر نے شہیر کی واحد نیکی کو کمزوری بنایا اور اب ولی کے پاس آپشن نہ تھا کیونکہ شہیر کے اندر وہ بغاوت محسوس کر رہا تھا تبھی اسکا شکار بڑی مہارت سے وہ چھین کر اسے پھر سے سیٹھ طلال کا اعتماد واپس پانے پر مجبور کر رہا تھا جبکہ شہیر کی آنکھوں میں مضحکہ خیزی شدت سے نمودار ہوئی۔

"بڑا کوئی شاطر ہے تو ولی، ہاہاہاہا مجھے دوبارہ بلیک میل کر رہا ہے۔ پر چل کر لے کیا یاد کرے گا، پر تیرے ساتھ جو میں کروں گا وہ تجھے آخری سانس تک نہیں بھولے گا یہ بھی اپنے دماغ کے کسی کونے میں بٹھا لے کیونکہ اس سب کا بدلا قرض ہے، تجھ سے سب کچھ چھین لوں گا۔

خیر مجھے تیری یہ منحوس شرط منظور ہے انسپیکٹر، چار مہینے کے اندر اندر میں تیرا یہ کام کر دوں گا اور پھر ہمارے بیچ یہ آقا، غلام والا کھیل ختم۔۔۔ میں ابھی سیدھا وہیں جاوں گا طلال کے پاس، پر تجھے اپنا شکار چھیننے پر کبھی نہیں بخشوں گا۔ سرمد کی موت میرے ان ہاتھوں میں لکھی ہے پر کوئی نہیں، چار مہینے گزرتے پتا بھی نہیں چلے گا۔ چلتا ہوں"

اک اک لفظ میں نفرت، انتقام اور وحشت بھرتا وہ ولی زمان کو زہریلے انداز میں دھمکاتا ہوا اٹھ کر اسکے کیبن سے باہر نکل گیا جبکہ ولی اسکی دھمکی پر سوچ میں ڈوب چکا تھا، اس منحوس سے کچھ بھی امید کی جا سکتی تھی۔

"ایسا کیا کرو گے تم شہیر مجتبی؟ ایسا ہے کیا میرے پاس جو تم چھینو گے۔ میرے پاس تو میری صرف وری تھیں جو پہلے ہی مقدر چھین چکا ہے۔ اب میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں اور تمہیں کیا پتا بد بخت انسان کے اس دنیا میں ایسے انسان سے جیتنا جسکے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو، تم جیسوں کے بس کی بات ہی نہیں۔ دیکھ لوں گا تمہیں بھی اور تمہاری اس دھمکی کو بھی"

ولی کی رنگ بدلتی آنکھیں جیسے تکلیف اور خالی پن کے باوجود نفرت کی آتش سے دہک گئیں اور پھر اسکی سوچوں میں ارتعاش تو آتی کال نے ڈالا اور پھر اپنے باپ کی ناگہانی موت کی خبر پر ولی زمان خان کی آنکھیں پتھرا سی گئیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

زمان خان کی ناگہانی موت نے ہر فرد کو سکتے میں مبتلا کیا تھا، خدیخہ خانم جو نیند کی دوا لیے سو رہی تھیں جب جاگیں تو خانم حویلی میں قیامت برپا ہو چکی تھی، مشارب زمان پر قہر ڈھاتا اسکا باپ بنا اپنے سفاک باپ کی سچائی جانے اس دنیا سے چلا گیا تھا، ممکن ہے بچارے زمان خان کو یی لعلمی اسکی کسی واحد نیکی کی بدولت بخشی گئی ہو کیونکہ اپنے پیارے باپ کی اصلیت ویسے بھی اسکی موت بن جاتی، سفید کفن میں لپٹا زمان خان جیسے اسکے باپ کے کیے گناہ نگل گئے، گل خزیں خانم کی آنکھ میں اذیت ہلکورے لے رہی تھی پر وہ خود کو ایک آنسو بہانے پر بھی آمادہ نہ کر پائیں، فرخانہ تو ہوش کھو بیٹھی تھیں، اجڑی ہوئی عورت جسکا سہاگ دیکھتے ہی دیکھتے اجڑ گیا۔

مشارن زمان ہوش میں آیا تو لگا اس پر اسکی سانس بند ہو گئی ہے، کاٹ کھاتی حقیقتیں اسکا کلیجہ نوچ گئی تھیں، وہ یقین کرنے کی حالت میں نہ تھا، کیسے ہوگیا یہ سب؟ کیسے زونی اس سے چھین کر وہ باپ اپنا سایہ اسکے سر سے اٹھائے بے موت مر گیا؟

اسے ہوش ہی نہ رہی کہ اس نے زونین کو بچانے جانا ہے، وہ تو ہر احساس سے عاری پتھر تھا جسکی ہر تکلیف اسکے سینے پر جم گئی تھی۔

خانم حویلی میں صف ماتم بچھ گیا مگر خاقان خان ہنوز گہری رات کے وقت راستے میں گاڑی روکے اپنے لوگوں کے ساتھ مخدوش حالت میں اور بپھرے ریچھ کی مانند ناک کے نتھنے پھیلا کر پھنکارتا میثم ضرار چوہدری کا منتظر تھا۔

کون اس سفاک، ظالم اور درندہ صفت کو بتاتا کہ اسکا واحد حمائتی بھی جل بسا، منوں مٹی تلے دفن ہونے کی تیاری پکڑ چکا ہے۔

جب یہ خبر ہاشم نے عزیز خان سمیت بزدار حویلی میں سبکو سنائی اور کنزا کے کارنامے گوش گزار کیے تو زمین تو انکے پیروں تلے سے بھی سرکی جبکہ عزیز خان نے دل پر پتھر رکھ کر خانم حویلی جانے سے خود انکار کیا۔

"میں چھپ کر جنازے میں شریک ہو جاوں گا ضرار، تم بے فکر رہو۔ سامنے نہیں آوں گا"

بھائی کی موت پر وہ پیارا نرم دل عزیز اپنے سارے آنسو پیتا بنا کھانے کی طلب محسوس کیے ضرار کی جانب دیکھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا جبکہ بزدار عالم ، ہاشم اور ضرار تینوں نے شدت سے اس شخص کی اذیت محسوس کی۔

جبل زاد نے فون ٹریس کر لیا تھا تبھی میثم اپنے جانے کا ارادہ ملتوی نہ کرتے ہوئے یہاں کے سارے معاملات بابا اور چچا پر ڈالے جبل زاد کے ساتھ اپنے نئے سفر پر روانہ ہو گیا اور ہاشم اور بزدار عالم دونوں نے یہ رات اس پیارے عزیز کے ساتھ رہ کر اسے مضبوط کرنے کا فیصلہ لیا۔چونکہ میثم جانتا تھا کہ اسکے حویلی سے نکلتے ہی خطرہ اسکے چار سو منڈلانے لگے گا تبھی علاقے سے باہر نکلنے تک وہ اپنے لوگوں اور مخافظوں سے ساتھ نکلا تھا، جبل زاد اس سفر میں اسکا ہمراہی تھا۔

گہری رات، سنسنی خیز وہشت اور مہیب سناٹے میں اسکی اور اسکے لوگوں کی گاڑی اپنے سفر پر گامزن تھی اور خاقان خان کے بزدار حویلی کے اردگرد موجود لوگوں نے اسے ضرار کے حویلی سے نکلنے کی اطلاع دیے گویا مایوسی سے نکال دیا۔

وہ راستے میں گھات لگائے اپنے کئی لوگوں کے سنگ ضرار کا منتظر تھا تاکہ اسے چھیڑ پھاڑ سکے۔

اور ضرار پہلے ہی اپنی خاقان نامی موت کو ٹالنے کی پوری تیاری کیے روانہ ہوا تھا۔

گھنے جنگلوں سے نکلتا یہ ہیبت ناک ڈراونا کچا راستہ جہاں دن کو بھی لوگ کم سے کم آنے کی جرت کرتے، رات کو تو وہ جان لیوا ہونے تک خوفزدہ کرنے لگتا۔

لیکن آج قدرت نے رسی کو گردن میں جکڑنے کا تہیہ کیا تھا۔

جبل زاد ہی ضرار کی گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور پیچھے بیٹھا سیاہ میں ملبوس بن ٹھن کر سفر پر گامزن ہوتا وہ ساحر ، اپنے ہاتھ میں ہوتی خارش پر شر انگیز سا مسکرایا، اسکی چھٹی حس نے اسکے ہاتھوں کی گرمی نکلنے کے سگنل پہنچا دیے تھے اور پھر یہی ہوا، جبل زاد نے جھٹکے سے آگے کچی سڑک پر پڑے درخت کے تنے کے باعث زور دار بریک لگائی اور ضرار کے لوگوں کی گاڑی جان بوجھ کر ہی کچھ فاصلے پر رک چکی تھی کیونکہ ضرار نے پہلے ہی انکو ایک مناسب فاصلے پر رہنے کی تاکید کی تھی۔

"سائیں! محتاط ہو جائیں۔ کوئی گڑبڑ ہے"

گاڑی کی ہیڈ لائیٹس آن تھیں تبھی وہ بڑا سا لکڑی کا تنا جبل زاد دیکھتے ہی بنا پیچھے مڑے اسے محتاط ہونے کا کہتے خود بھی اپنی گن نکال چکا تھا جبکہ پیچھے بیٹھے ضرار کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔

"خاقان خان! چلو جاتے جاتے ہاشم صاحب کی یہ والی ذمہ داری میں خود ہی نبھا جاتا ہوں۔ اب تم دیکھنا جبل زاد کے اپنے اس دشمن کو میں کتنی پیاری موت دیتا ہوں"

بنا کسی ہتھیار کے وہ جبل زاد کو کہتا ہی مست سا قہقہہ لگائے گاڑی سے نکلا اور اس سے پہلے جبل زاد بھی باہر آتا، ضرار کو اپنے پیچھے سے وارد ہوتے کسی آدمی کا احساس ہوا اور ضرار نے وہیں سے بازو گمائی جس پر اس آدمی کا جبڑا ہل گیا اور اسکے ہاتھ سے ڈنڈا تک کراہنے اور درد سے بلبلانے پر زمین پر چھوٹ گرا، وہیں جبل زاد پر بھی دوسرا آدمی حملہ آور ہوا جسے جبل زاد نے بھی سیدھا منہ پر مکا مارا، اس نجس آدمی کے منہ سے دلخراش چینخ نکل کر گھنے خاموش جنگل کو وحشت سے تھرا گئی۔

وہ دونوں ہی اگلے دو منٹ تک مزید حملہ آور ہوتے پلید چار آدمیوں کو ٹھکانے لگاتے یکدم کسی ہیبت ناک نجس قہقہے پر جھٹکے سے ہیڈ لائش کی جانب سیدھی کچی سڑک کی جانب دیکھنے کو مڑے جہاں آہستہ آہستہ کئی لوگوں کے ہیولے نمودار ہوئے اور پھر روشنی میں آتے ہی ان سب کے بھیانک خباثت سے بھرے چہرے واضح ہوئے۔

سامنے سردار خاقان خان اپنے آٹھ آدمیوں کے ہمراہ ہاتھ میں گن لیے سامنے آچکا تھا اور بظاہر ان دو کو دیکھ کر اسکی بے دم ہنسی نہ رک رہی تھی تبھی تو ضرار اور جبل زاد نے بھی بنا کسی خوف کے اس کے ساتھ ہنسنا شروع کیا۔

اور جب وہ دونوں بھی ہنسے تو سردار خاقان کی ہنسی لمحے میں غائب ہوتی خوف اور اشتعال کا روپ بدل گئی جبکہ ساتھ ہی اس نے اپنی گن ٹھیک میثم پر تانی۔

"بڑا ہنس رہا ہے بدذات! موت سامنے دیکھ کر بھیجا الٹ گیا ہے کیا۔ آج تیری موت تجھے یہاں لائی ہے، نکل ہی آیا تو آخر اپنے بل سے"

سردار خاقان کا لہجہ متنفر تھا مگر مقابل وہ دو اب بھی مسکرا رہے تھے اور یہ مسکراہٹ خاقان خان کی حالت پتلی کرنے کو کافی تھی۔

"بھیجا تو تیرا الٹے گا خاقان یرقان جب تجھے یہ پتا چلے گا کہ تیری نجوست تیرے بددماغ بیٹے زمان کو نگل گئی، اور تجھے پتا ہے تیری ہی بیٹی کنزا سبب بنی۔ اب تو کیا کرے گا، تیرا اکلوتا حمائتی بھی دنیا سے گیا، اب تجھے کل سب کے سامنے بے عزت ہونے سے کون بچائے گا"

ضرار اسکی تہس نہس ہستی پر یہ کوڑے برسا اٹھا تو جیسے خاقان خان کا لہو شراروں سے بھر گیا۔

"بکواس کر رہا ہے تُو کتے، میرا زمان خان نہیں مر سکتا۔ تُو فی الحال اپنی فکر کر، تیرے ساتھ تیرا یہ چمچا بھی مرے گا۔ بہت ہوگئی تم دو کی یاری اور وفاداری۔ اب باقی کی پلاننگ جہنم جا کر کرنا"

وہ یکدم مشتعلانہ ہو کر دھاڑ اٹھا اور اس سے پہلے وہ ضرار یا جبل زاد پر گولی چلاتا، تیز ترین گولیوں کی یلغار نے دیکھتے ہی دیکھتے خاقان خان کے سات لوگ موقعے پر ہلاک کر دیے جبکہ ایک ایک گولی خاقان خان اور اسکے واحد بچ چکے آدمی کے ہاتھ پر اس سنگدلی سے ماری گئی کے دونوں منحوسوں کے ہاتھ سے انکی گنز گریں اور ہاتھ پر درد اٹھنے پر وہ دونوں ہی بلبلا اٹھے اور یہی وہ لمحہ تھا جب ضرار نے اپنے لوگوں کو رک جانے کا اشارہ کیے لپک کر خاقان خان کا گریبان دبوچا اور جبل زاد نے خاقان خان کے واحد زندہ بچ چکے آدمی کی گھچی پکڑے اپنی طرف کیے پلوں میں گھونسا مارے ہوش سے بیکگانہ کیا اور ساتھ پیروں سے دونوں کی گنز کئی فٹ دور کک سے دے ماریں۔

سردار خاقان کو گریبان سے پکڑے ضرار نے اسکا سر بے دردی سے اپنی گاڑی کے بونٹ پر مارا جس پر خون کی لکیر خاقان خان کے ماتھے سے پھوٹی مگر وہ مسلسل اس وحشی ضرار سے مزاحمت کے سنگ اپنا آپ چھڑوانے پر گبدی گندی گالیاں دیے لگا تھا۔

"منحوس انسان، بلکہ میرے منہ میں خاک جو آپ جیسی نحوست کو انسان کہا۔ آپکو ماروں گا نہیں، بلکہ آپ جیسی گھٹیا ترین شے ہر زیادتی کا بدلہ چکا کر مرے گی۔ میں آپکی یہ خرافاتی زبان ناکارہ کروں گا، جلدی سے آگ جلاو میرے جوانو اور لکڑی سلگا کر اسے انگارہ بناو۔ اسکی یہ گندی زبان جلنی چاہیے جس سے اس نے میری صنم کے ساتھ وہ سب کروانے کا حکم دیا، میری بے بسی کے احکامات جاری کیے، میرے دادا سائیں کو اٹھوایا۔ جب آپ سے بولا نہیں جائے گا ناں دشمن دادا جی ، پھر جو بے بسی آپکے جسم میں اترے گی وہ دے گی مجھے راحت"

وہ اس وقت وحشی بنا صرف اس بڈھے پر کسی قہر کی طرح نازل ہوا اور حکم ملتے ہی اسکے دو آدمیوں نے ضرار کے کہنے پر آگ جلائی اور پھر وہیں سے لکڑی ڈھونڈ کر اسے جلایا، اس بیچ ضرار اسکو ہر بار کسی نہ کسی نازیبا گالی پر مکے کی سوغات دینا اور اس بڈھے کے منہ پر رنگ برنگے ڈئزائن ڈالنا نہ بھولا تھا اور پھر جب لکڑی جل کر انگارہ بنی تو ضرار نے اپنی آدمی سے وہ لکڑی لیے خاقان خان کو درخت سے بندھوایا، اسکا آدمی یہ سب دیکھ نہیں پا رہا تھا کیونکہ اسے جبل زاد نے ایک ہی مکے سے پہلے ہی بیہوش کر دیا تھا۔

اپنی طرف ہاتھ میں سلگتی انگارہ لکڑی تھام کر آتے ضرار کو دیکھ کر خاقان خان کو اپنی موت سامنے دیکھائی دی، وہ لاکھ دھاڑا مگر میثم نے اس پر کوئی رحم نے کھاتے ہوئے اسکا منہ جبڑے سے دبوچے کھولا وہ جلتی لکڑی اسکے منہ میں ڈالی اور خاقان خان کی فلک شگاف دھاڑیں سن کر بھی وہ زرا نہ پگھلا ، پورے دو منٹ اس نے وہ گرم تپتی آگ اس کے منہ میں رکھی اور پھر نکالتے ہی زمین پر لکڑی پٹختے ہی غرا کر خاقان خان کی نیم مردہ حالت تکتا اسکے زخمی منہ کو دیکھتا اسکی سرخ آنکھوں میں جھانکا۔

"بڑی آگ آگ کرتے ہیں آپ دشمن دادا جی، سوچا آپکو اس آگ کا ٹیسٹ چیک کرواوں۔ مزے کا تھا ناں، یہ ابھی شروعات ہے، جتنے جرم آپ نے کیے ہیں وہ اب ایک ایک کر کے آپکی نازک جان نکالیں گے۔ آپکے بولنے کی حس تو میں نے اللہ کے فضل و کرم سے چھین لی، اب سننے، دیکھنے، چھونے اور محسوس کرنے کی آپ کے گناہ چھینیں گے۔ مر گیا ہے آپکا زمان خان کم ازکم تھوڑی غیرت کھا لیں تاکہ ہارٹ اٹیک ہی آجائے آپکو۔۔۔۔اب ہم چلے، آپکا یہ واحد بیہوش آدمی جب جاگے گا تو آپکو پتا نہیں زندہ پائے گا یا مردہ مگر اب آپ کم ازکم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو پائیں گے اتنا مجھے اندازہ ہو گیا۔۔۔چلو جبل زاد، لمبا سفر ہے عزیزم! ان بڈھے دشمن دادا کو درخت سے جی بھر کر رومینس کر لینے دو"

وہ اپنے پیاروں کے ساتھ ظلم کرنے والوں پر دل دہلاتا قہر تھا یہ میثم ضرار چوہدری کو جاننے والا ہر فرد جانتا تھا اور بے جان سا خون آلود، آگ کو چکھ بیٹھنے والا سردار خاقان یوں تھا جیسے اس پر واقعی کسی نے اسکے کیے کا سارا پھل اتار دیا ہو، میثم اپنے لوگوں کو واپسی کا اشارہ دیتے ہی اک حقارت بھری نظر خاقان خان کے پژمردہ وجود پر ڈالتا اپنی شرٹ پر پڑتی سلوٹیں تفاخر سے ہٹاتا بڑی شان سے اپنی گاڑی میں سوار ہوا اور جبل زاد بھی سر گرا کر پھڑپھڑاتے درخت سے بندھے خاقان خان پر سرسری نظر ڈالتا ضرار کے ساتھ ہی گاڑی کی طرف لپکا اور دیکھتے ہی دیکھتے ضرار کی گاڑی اپنا رکا سفر وہیں سے بحال کر گئی مگر رات کی وحشت میں وہ فرعون تڑپتا، بلکتا اور سسکتا رہا مگر اب توبہ کا ہر دروازہ بند ہو گیا تھا اور عبرت ناک انجام پہنچ آیا تھا جس کو ٹالنا کم ازکم اب کسی زی روح کے بس کی بات نہ تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

شہیر وہاں سے سیدھا طلال کے گودام پہنچا تب تک ہلکی ہلکی سحر پھیلنے لگی تھی اور حسب توقع طلال انگاروں پر لوٹ رہا تھا، انسپیکٹر ولی زمان اسکے اور اسکے تمام لوگوں کے گلے کی ناقابل برداشت ہڈی بنتا جا رہا تھا اور جب تک یہ اس شہر کا تھانیدار تھا تب تک تو سیٹھ طلال اور سیٹھ گونی کے دھندے نہیں چل سکتے تھے۔

شہیر نے بڑی چالاکی اور مہارت کے سنگ چاپلوسی کیے دو تین گھنٹے کی خوشامدی کوشش کے بعد طلال کا اعتماد بحال ہوتے دیکھا تو وفاداری کا وار کیا، گونی نے اپنی چال اور انسپیکٹر زمان کو قابو کرنے کا ہتھیار بھی اسی وقت واضح کیا جس پر طلال کے زخمی منحوس چہرے پر شیطانیت آگئی مگر ان دونوں نے اس لڑکی والے معاملے کو شہیر سے اوجھل رکھا کیونکہ یہ حساس کام تھا اور اسکی خبر وہ کسی اپنے خاص آدمی تک کو دینے کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔

ولی، بابا کی تدفین تک علاقے پہنچ چکا تھا جہاں ہر طرف ماتم تھا، مشارب تو ایک طرح پتھر ہو چکا تھا، نہ اسکی آنکھ میں نمی ابھری نہ وجود میں لعرزش، عورتیں بین کرتی رہیں اور اسی بین کی نظر ساری رات ہوئی اور مارم ذدہ سحر چھا گئی، موسم کے دامن میں ٹھنڈک ہونے کے باوجود اک تلخی تھی۔

صبح آٹھ بجے زمان خان کو آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا تھا، اور ولی اور مشارب دونوں ہی اس ناگہانی کرب پر اندر تک ہل گئے تھے، خبر ملتے ہی وریشہ یوسف زئی بھی واپس آچکی تھی اور اسکے پیچھے اتنی ساری قیامتیں آچکی تھیں کہ اس لڑکی کے پاس کسی کو حوصلہ دینے کی نہ ہمت تھی نہ قوت، وہ دادا سائیں کی تاکید پر فرخانہ خانم کے ساتھ ہی تمام وقت رہی، جبکہ گل خزیں خانم اپنے بیٹے کی موت پر سارے آنسو بہا چکی تھیں، اب ان کے لیے کنزا واجب قتل ہو گئی تھی، کئی لوگ کنزا کی تلاش میں شہر کی جانب نکل گئے تھے مگر کنزا رات و رات پہلے کوٹھے پر گئی اور نازلی کو اپنی جگہ وہاں کا حاکم بناتی خود وہ زونین کو لیے اپنے ہی ایک ذاتی دو کمروں کے فلیٹ میں گئی، وہ دونوں بھی جب تک پہنچیں،اچھی بھلی صبح ہو چکی تھی۔

کنزا کا بے رحم دل نہ تو بھائی کی موت پر افسردہ تھا نہ زونی کی تڑپتی بلکتی سسکتی حالت پر پشیمان، بلکہ وہ تو باپ کے بیہاف پر فرعونیت کے سارے ریکارڈ توڑنے پر اتر آئی تھی۔

"تمہاری مالنی کو بھی جلد اسی جگہ لاوں گی، جب اسے یہ پتا چلے گا کہ اسکی زونی آپی کو اسکی ضرورت ہے تو وہ اس منحوس ایچ بی کو چھوڑ کر یہاں چلی آئے گی۔ اب تم دونوں کو یہیں رہنا ہے، مرنے تک"

روتی تڑپتی زونین کو اس گھر میں لائے وہ اس پر یہ سفاکانہ انداز سے قہر ڈھاتی نا صرف گھر سے نکل گئی بلکہ باہر سے دروازہ بھی لاک کر گئی۔

جب تک وہ اس بلڈنگ کے پارکنگ ایریا تک آئی، اس نے چہرے پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی سجائے اپنے بیگ سے اپنا فون نکالا مگر پھر ایچ بی کی مشکوک فطرت بھانپ کر وہ کچھ سوچتی فون واپس رکھتی قریبی دکان پر رکھے فون تک پہنچی اور دکان دار سے اجازت لیتی وہ مالنی کا نمبر ملائے چہرہ ڈھک کر ایک طرف ہو کر کھڑی ہوئی، اپنا نمبر وہ اب استعمال نہیں کر سکتی تھی تاکہ کوئی اسے ٹریس نہ کر پائے۔

وہ جو ایچ بی کے کل رات گھر نہ آنے پر اسی کے روم میں دروازہ لاک کیے مزے سے سوئی تھی، فون کی کانوں میں چبھتی ٹون نے اسکے احساسات بیدار کیے، وہ یکدم ہڑبڑا کر اٹھی۔

دیکھا تو فون بج رہا تھا، جسے وہ رات ہی نصیر سے لے آئی تھی مگر بہت کوشش کے باوجود اس نے ایچ بی کو کال کرنے کی غلطی نہ کی کیونکہ جس طرح وہ اسے ڈرا کر گیا تھا، وہ اسکا سامنا نہ کرنے کی رات سے دعائیں مانگ مانگ کر ہلکان تھی۔

فون کی سکرین پر ان نون نمبر دیکھتے ہی کنزا کا خیال آیا تبھی مالنی کی ساری نیند اسکی آنکھوں سے بھک سے اڑی اور اس نے اپنا کانپتا ہاتھ بڑھا کر فون پک کیا اور کان سے لگایا۔

"زونین میرے پاس واپس آچکی ہے مالنی، اسے زبردستی اس بزدل مشارب سے واپس لے آئی ہوں۔ وہ بہت تکلیف میں ہے اور میرا نہیں خیال کے تم زونی کو اس وقت اکیلا چھوڑ کر اس ایچ بی کے پاس رہنے کو پسند کرو گی۔ مجھے ایک گھنٹے تک تمہارا جواب چاہیے اور قریبی کیفے میں آجانا، اگر تم نے واپس آنے کا فیصلہ نہ کیا تو زونی یہاں گھٹ گھٹ کر مرے گی اور تم ساری زندگی اسکو بچا نہ سکنے کے گلٹ میں تڑپتی رہ جاو گی"

کنزا نے سفاکی سے اپنا زہریلا حکم سونپتے ہی کال کاٹ دی اور پیسے ادا کرتی فورا سے پہلے دکان سے نکلی جبکہ مالنی کا پورا جسم ایک بار تو کانپ سا گیا، زونی کے لیے وہ جان بھی دے سکتی تھی تو ہاشم کی اس حویلی سے نکلنا اس کے لیے کونسا ناممکن تھا۔

وہ اٹھی، واش روم کی جانب بڑھی۔ کچھ دیر تک فریش ہوتی کپڑے بدلے باہر نکلی، جلدی سے جانے کی تیاری پکڑی اور اپنا فون لیے وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔

اپنا بیگ لیا اور اس میں فون اور منی پرس ڈالتی وہ پیروں میں چپل اڑیستی اس سے پہلے کمرے سے نکلتی، بیگ میں رکھا فون بجا جس پر مالنی نے فورا سے پہلے فون نکالا تو ہاشم بزدار کی آتی کال نے اسکے پیروں تلے سے زمین سرکا دی۔

"اس ماسکو کو بھی ابھی کال کرنی تھی، فون آف کر دیتی ہوں"

فورا سے ہڑبڑاہٹ کے باوجود اپنے دماغ کو بروقت کام لاتی وہ فون آف کرنے کے بجائے کال ریسیو کر بیٹھی اور پھر اپنی عقل کو اکیس توپوں کی سلامی بھی بخشی۔

"مالنی! غلطی سے بھی حویلی سے نکلنے کی کوشش مت کرنا"

وہ پہلے ہی کنزا کا زونی کو لے جانے کا معاملہ جان چکا تھا تبھی اسے یقین واثق تھا کہ وہ بدبخت عورت اب مالنی کو بھی ٹریپ کرے گی جبکہ ہاشم کی دھمکی سنتے ہی مالنی نے حلق تر کیے اٹکی سی سانس بمشکل کھینچی۔

"وہ ماسکو! پلیز جانے دیں مجھے بہت ضروری کام ہے"

وہ باقاعدہ منت کرتی گڑگڑائی مگر اس طرف ہاشم کے ماتھے پر ناگواری سے بل اتر آئے۔

"میں سب جانتا ہوں تمہارے ضروری کام، بہت برا پیش آوں گا اگر تم نے میری بات رد کی"

وہ آگے سے سختی سے غرایا مگر اس وقت مالنی کو زونی کے سوا کوئی عزیز نہ تھا تبھی وہ ہاشم کی کسی دھمکاتی بات کو چنداں اہمیت نہ دیتی اسکے منہ پر فون کاٹ گئی اور وہ اس لڑکی کی بیوقوفی پر جبڑے بھینچ کر رہ گیا، مالنی نے فون سوئچ آف کر دیا تبھی مجبورا ہاشم کو نصیر کو باخبر کرنا پڑا، مالنی فون جکڑے

یکدم پیچھے کمرے کی جانب مڑی اور احتیاط کے طور پر فروٹ باسکٹ میں پڑی تیز دھار والی چھری اٹھا کر بیگ میں ڈالے تیزی سے باہر نکلی، اسے پیچھے بلکل نہیں دیکھنا تھا، کنزا قریبی کیفے میں اسکی منتظر تھی۔

جبکہ مالنی حویلی سے تو باہر نکل آئی مگر بیرونی دروازے کے پاس کھڑا نصیر اسے خشمگیں نظروں سے گھورتا راہ کی دیوار بنے کھڑا دیکھائی دیا تو وہ حلق تک کڑواہٹ محسوس کرتی منہ بسور گئی۔

مالنی نے خود کو شاباش دی کہ وہ چھری بھی ساتھ لائی تھی، آج جو بھی راہ میں آتا وہ لڑکی اسکا خاتمہ کر دینے کی حد تک پاگل ہو رہی تھی۔

"شرافت سے اندر چلی جائیں میم ورنہ مجبورا مجھے آپکے پیچھے بلیک کو لگانا پڑے گا"

نصیر نے اک خفگی بھری نگاہ مالنی پر ڈالی جو اسکی تنبیہی بات کا مفہوم سمجھنے کو غائب دماغی سے بے اختیار عجیب بھیانک سی غڑغڑاہٹ پر پلٹی تو کاٹ کھانے کو ایک آدمی کے ہاتھ سے رسی چھڑواتا سیاہ خونخوار کتا دیکھ کر مالنی نے بمشکل اپنی چینخ دبائی مگر پھر اس کتے کی رسی کو ایک آدمی کے ہاتھ میں جکڑا دیکھ کر اس نے ہمت کی اور بروقت اپنے بیگ سے چھری نکال کر نصیر کی طرف ڈرانے کو کی جو آگے سے اسکی اس حرکت پر منہ کے زاویے بگھاڑ گیا۔

"مالک کے لیے سینے پر گولیاں کھانے والے کو آپ اس چھری سے ڈرائیں گی اب؟ اندر چلی جائیں ورنہ ہاشم سر کے غضب سے نہ میں بچوں گا نہ آپ"

نصیر نے اسکی سوکھی ڈراوا دینے کی کوشش پر جلے جلے انداز میں جتایا جو حراساں ہوتی کبھی اس بلیک نامی ہیبت ناک غراتے کتے کو دیکھ رہی تھی کبھی سامنے کھڑے نصیر کو اور دماغ میں نجانے کیا سوجھی کے وہی چھری اس نے نصیر پر سے ہٹائے اپنا بیگ وہیں زمین پر پھینکے اپنی کلائی پر رکھ لی، ایک پل تو اسکی اس حرکت پر نصیر کے چہرے کا بھی رنگ فق ہوا البتہ کتے کی غڑغڑاہٹ بھی تیز ہوئی جس کے خوف سے ویسے ہی مالنی کو محسوس ہو رہا تھا اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا آرہا ہے۔

نصیر تیزی سے اسکی طرف بڑھا مگر وہ پاگل کی بچی اس چھری کو بدحواسی میں زرا سا دبا بیٹھی اور پھر کیا، تیز چھری نے اسکی کلائی پر گہرا کٹ چھوڑا اور اپنا زرا سا خون نکلتا دیکھتے ہی مالنی صاحبہ ہوش گنواتیں وہیں گر پڑیں جبکہ نصیر نے بروقت لپک کر اسکے سر کے نیچے ہاتھ رکھ لیا جو پٹخنے سے بچ گیا مگر اس لڑکی کی کلائی زخمی دیکھ کر بچارے نصیر کے ہاتھ پیر ضرور پھول گئے تھے۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

پہاڑوں کے دامن میں اسے پہنچنے تک واقعی اگلا دن چڑھ آیا، دوپہر ڈھلنے تک آگئی، شام کی سرمئی کرنوں نے وجود کو حدت دینی شروع کر دی۔ اک بار تو ان کھلی دلکش آپشاروں کے دامن میں چلتے ہوئے آوارہ پرندے کی طرح اس شخص نے بازو کھول کر لمبے لمبے سانس بھرے، اور جبل زاد تو تھا ہی پہاڑوں کا باسی۔

پہاڑوں کا سفر، کسی کی تلاش! یہ کیسا جنت نظیر سفر تھا کہ پیر ٹھنڈک چھکتے تو آنکھیں زائقے دریافت کرتی، ناک رنگ کھوجتا تو حواس خمسہ اس دلکشی کو جسم کے انگ انگ میں تحریر کرتا۔

وہ فون کی لوکیشن ٹریس کرتے پہاڑ پر بنے اس واحد صبیحہ صاحبہ کے گھر پہنچ تو گئے تھے مگر وہ الوداع کہنے کا موقع دیے بنا علیم بدر اور گلالئی کے ہمراہ اپنے کوہ پیمائی کے سفر پر روانہ ہو چکی تھی۔

صبیحہ نے دونوں بچوں کو دن کے کھانے تک روکا، جو کچھ گھر تھا سب ان دو پیاروں کے دسترخوان پر سجا دیا اور پھر ان سے ابتدائی ہوٹل کا پتہ لیتے وہ روانہ ہوئے۔

گاڑی تو یہاں سے آگے جانے سے انکاری تھی تبھی جبل زاد نے ایک مقامی بندے سے جیب کرائے پر لی اور وہ لوگ کوہ پیمائی کے سفر پر نکلے۔

اس ٹور کا ٹور آپریٹر علیم بدر صاحب کا جانشین پینتالیس سالہ رحمان ملک تھا، چونکہ سانس کی بیماری کے باعث وہ خود اس سفر پر نہیں جاسکتے تھے تبھی اپنی دونوں بیٹیوں کی خفاظت انہوں نے رحمان کے سپرد کی۔

ٹور آپریٹر دراصل کوہ پیما کے ساتھ جانے والے دیگر عملے کی انشورنس کراتا ہے جس میں باورچی، سامان اٹھانے والا اور راستہ دکھانے والا شامل ہوتے ہیں۔

یہ ٹور حکومت گلگت بلستان کے زیر اثر شروع کروایا جا رہا تھا اور کئی غیر ملکی لوگ بھی ماونٹ ایورسٹ، کے ٹو اور قراقرم کے کئی بلند پہاڑ سر کرنے کے حوصلے اور ولولے کے سنگ آج رات میں یہ سفر شروع کرنے والے تھے۔

تمام کینڈیڈیٹس مکمل ہو چکے تھے بس دو کی مزید گنجائش تھی اور پھر اتفاقا وہ دو کوہ پیما کوئی اور نہیں آخری وقت پہنچتے وہ دو جوشیلے جوان تھے ، دونوں نے اپنے آپ کو سٹوڈنٹ شو کرنے کو جینز شرٹ اور یہاں کی جسم جما دیتی سردی سے بچنے کو لیدر جیکٹ پہن رکھی تھی ،پیر گرم ساکس کے ساتھ شوز میں مقید جبکہ سر بھی گرم ٹوپیوں سے ڈھکے تھے جبکہ منہ پر دونوں کے سیاہ ماسک تھا اور دونوں نے ہی ان حسیناوں سے بچنے کو آنکھوں پر گلاسز چڑھا رکھے تھے، پھر انٹری ٹکٹ ملتے ہی دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں سے ایک دوسرے کو ہنس کر دیکھا کیونکہ کچھ فاصلے پر ہی وہ دو جانباز لڑکیاں بھی باقی تمام گروپ کے ساتھ مکمل کوہ پیما کے خلیے میں پیک شیک ہو کر کھڑی دیکھائی دے چکی تھی۔

"جبل زاد! چار مہینے تک ان دو کو پتا نہ چلے کہ ہم بھی ٹیم کا حصہ ہیں۔ مزہ آنے والا ہے "

جبل زاد جو پہلی بار پینٹ پہن کر خاصا بے چین تھا، ضرار کے کان میں گھس کر آفت ناک سرگوشی کرنے پر چہرہ واپس موڑے اس بار مسکینیت کے سنگ سائیں کے کان کی جانب جھکا۔

"سائیں منہ تو چھپا لیے ہیں تو سمجھیں چھپ جائیں گے پر میں اس پتلون کا کیا کروں، قسم سے آجکل کے لونڈے پتا نہیں کیسے یہ خرافاتی چیز پہن لیتے ہیں"

جبل زاد کی مسکین آواز اور دہائی پر ضرار نے اپنا قہقہہ بمشکل روکا۔

"ہاہا جبل زاد! تھوڑے ماڈرن ہو جاو تم بھی میرے پیارے۔ اور تم نے سنا نہیں جیسا دیس ویسا بھیس، چار ماہ جب ان پتلونوں میں پھنس کر رہو گے پھر تم نے انہی کا ہو جانا۔ یہ چھوڑو، ان دو کو دیکھو ٹریک سوٹ میں خود کو پتا نہیں کتنی ماہر کوہ پیما سمجھ کر اترا رہی ہیں"

اس وقت ضرار صاحب بھی بلکل سنجیدگی کے موڈ میں نہ تھے پھر جب جبل زاد نے سامنے دیکھا تو خدا گواہ تھا کہ وہ بندہ تو گلالئی پر ہی اٹک گیا، وہ لڑکی اسے کچھ الگ طرح گرویدہ کر رہی تھی جو اپنے گھنگھریالے بالوں کو کھلا چھوڑے ، ٹھنڈ کے باعث سر پر گرم اونی ٹوپی ارسائے، اشنال اور رحمان انکل کے ساتھ ہی کھڑی گرم گرم چائے پینے میں مصروف تھی، دونوں لڑکیاں پہاڑ سر کرنے کی مکمل تیاری میں تھیں۔

"سائیں! یہ سب تو ٹھیک ہے پر پہاڑ سر کرنا ان نازک لڑکیوں سے ہوگا کیسے ، خاص طور پر ڈیٹھ زون میں یہ نازک لڑکیاں کیسے سروائیو کریں گی؟ "

ایک فکر ہٹی تو جبل زاد ان بانکی سجیلی نازک لڑکیوں کو دیکھ کر نئی پریشانی میں مبتلا ہوا۔

"ہم کس لیے آئے ہیں میرے پیارے اور بھولے جبل زاد، گل کو تم سنبھالنا اور اپنی بیوی کے لیے یہ اتھرا بندہ کافی ہے"

ضرار بھی کرسی گھسیٹ کر کمر سیدھی کرنے کو بیٹھتے اور چائے سرو کرتے ساتھی سے مسکرا کر چائے کا کپ لیتا بولا جس پر جبل زاد بھی ماسک ہٹاتا پاس ہی رازداری سے آکر بیٹھا۔

"سائیں آپکی تو بیوی ہیں ناں، پر گلالئی تو میرے لیے غیر ہے۔ توبہ کریں میں اس خطرناک سفر میں انکو سنبھالنے کی حامی نہیں بھر سکتا"

ناجانے کیا سوچ کر بچارے جبل زاد کے پسینے چھوٹے اور ماسک کی سہولت ملتے ہی ضرار نے ہنس ہنس کر بچارے کو اور گبھراہٹ میں مبتلا کیا۔

"تم تو ایسے پریشان ہو رہے ہو جبل زاد! جیسے میں نے تمہیں گل کو منصوعی سانس دینے کا کہہ دیا ہو، یا اسکو گود میں اٹھا کر پہاڑ چڑھنے کی ذمہ داری دے دی ہو"

ضرار کی اس بے باک بات پر جبل زاد نے سرخ رو ہوتے اس گل فشانی کو سہا اور معصومیت بھری نظر ڈالی خو آگے سے ہنوز ہنس رہا تھا۔

"توبہ استغفار سائیں! اللہ کو مانیں، کیوں میرا دماغ اور دل ہلا رہے ہیں"

خفت کے مارے وہ واپس منہ پر ماسک چڑھائے باقاعدہ ضرار کی اس بات پر سیدھا ہو کر بیٹھے بوکھلایا۔

"ہاہا جبل زاد! کیا خیال ہے پہاڑ کے باسیوں کا پہاڑ پر ہی ٹانکا فٹ نہ کروا دیا جائے۔ پھر تم ہول اٹھتے ہوئے استغفار تو نہیں کرو گے ناں"

ضرار مسلسل اس کی حالت ٹائٹ کر رہا تھا جو اب رحم طلب ہوتا اسے اس ستم پر خوفزدہ ہوئے دیکھنے لگا۔

"سائیں! رحم کریں۔ آپکی طرح مضبوط دل کا مالک نہیں ہوں"

وہ یوں ڈرا ہوا لگا ہی اتنا پیارا کے ضرار کو مستیاں سوجھ رہی تھیں۔

"ہاہا ٹھیک ہے نہیں تنگ کرتا مگر گل تمہارے لیے اچھی لڑکی ہے ، تمہاری طرح پہاڑ کی باسی، چار مہینے بعد جب واپس جائیں گے تو میں تم سے اس بارے سنجیدگی سے جواب طلب کروں گا"

اس بار وہ بچارے بوکھلائے گھبرائے جبل زاد پر ترس کھاتا سنجیدگی اور محبت سے ساری توجہ چائے کو دیتے بولا اور اس پر جبل زاد نے بس نظر اٹھائے گلالئی کو دیکھا البتہ ضرار کا دل صنم کے آس پاس رہنے پر ہی شوخ اور تروتازہ ہو گیا تھا۔

ناراضگی اپنی جگہ پر یہ سفر اسکی اولین ترجیح میں شامل ہو چکا تھا۔

کچھ ہی دیر میں ان سب لگ بھگ بائیس کوہ پیماوں کا پہاڑ سر کرنے کی جانب سفر شروع ہونے والا تھا، ہر کوئی سفر کی تیاری میں لگا تھا مگر اشنال کا دل اسے شدت سے یہ احساس دلا رہا تھا کہ وہ پیارا مگر ظالم شخص اپنی خوشبو سمیت ضرور اسکے آس پاس کہیں موجود ہے۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کسی مانوس سے احساس تلے اسکی آنکھیں پٹ سے کھلیں تھیں، رات ہونے کو تھی اور وہ کئی گھنٹے نیم بیہوشی کے بعد جاگی تو اپنے پاس بیٹھے ہاشم کو دیکھ کر اسکے حلق سے چینخ نکلتے نکلتے بچی، جو نصیر کے اطلاع پہنچانے پر صرف دو گھنٹے کے لیے خود اس بیوقوف لڑکی کی عقل ٹھکانے واپس پہنچ آیا تھا، اپنی زخمی کلائی ہاشم کے ہاتھ میں محسوس کیے وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑواتی اٹھ بیٹھی جو ناراضگی اور غصے بھری آنکھیں مالنی پر ڈالے اسکے پاس ہی بیٹھا سرد مہری سے گھورا۔

"تمہیں زرا بھی احساس ہے کہ کس قدر بیوقوف ہو، اللہ نے کرم کیا کے بچت ہو گئی، اگر خدانخواستہ کچھ بڑا نقصان ہو جاتا تو میں کیا کرتا، تمہاری اس بددماغی اور لاپرواہی کی وجہ سے مجھے وہاں سجا میدان جنگ چھوڑ کر آنا پڑا۔ تم نے مجھے بہت تکلیف دی ہے مالنی، دماغ میں کیا واقعی بھوسہ بھرا ہے جو اس سفاک عورت کے ایک بار بلانے پر اٹھ کر دوڑ پڑی، یہ تک احساس نہ کیا کہ اب تم خود سے زیادہ ہاشم بزدار کی ملکیت ہو"

وہ جو اس وقت کلائی کٹنے سے زیادہ اس بلیک نامی کتے کے باعث بیہوش ہوئی تھی، کلائی میں اٹھتی ٹیس پر اور ہاشم کے ڈانٹنے پر آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر لائی، کیا بتاتی کہ زونی کو اس نے اپنی جان سے عزیز بنا لیا ہے اور وہ اس کے لیے مر بھی سکتی ہے۔

ہاشم کے غصے میں اسکے جذبات بھی موجزن تھے، جسکی مالنی پر آئی آنچ سے واقعی جان نکل گئی تھی۔ وہ اپنے لوگوں کو ہر وقت چوکس رہنے کا حکم دیتا کچھ دیر بابا سے اجازت لیے واپس آیا تھا کیونکہ اسے تھوڑا سا مان تھا کہ وہ مالنی کو تھوڑی عقل دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔

"میں نے تو بس ڈرانے کے لیے کیا، مجھے کیا پتا تھا کمبخت چھری اتنی تیز ہوگی۔ پھر وہ کت۔۔میرا مطلب بلیک، آپکے اس نصیر بواسیر نے مجھے اس سے ڈرایا۔ میں نازک سی لڑکی ڈر گئی ناں اور پتا ہی نہیں چلا کیسے میری کلائی کٹ گئی۔ اور سن لیں کہ میں اپنی زونی آپی کو اس وقت اکیلا مما کے پاس نہیں چھوڑ سکتی۔ پلیز مجھے جانے دیں"

روتی ہوئی بھی وہ مسلسل شکوہ کرتی ہلکلاتی ہوئی اس نصیر کو برا بھلا کہے گئی جبکہ زرا سا سیدھا ہو کر بیٹھتے ہی ہاشم نے اسکا وہ زخمی کلائی والا ہاتھ نرمی سے اپنے مضبوط ہاتھ میں جکڑ لیا جس کے سنگ اس آدمی کے میکانگی انداز پر مالنی کے اندر کرنٹ سا دوڑا۔

"تم کہیں نہیں جاو گی مالنی، زونی میری ذمہ داری ہے کیونکہ اسکا چچا ہوں میں۔ اسے میں جلد ڈھونڈ لوں گا مگر تم اپنا ایکسڑا تیز دماغ چلانا براہ مہربانی روک دو"

وہ ساری گھبراہٹ بھولے جیسے ہاشم کے کیے انکشاف پر ہی جم کر رہ گئی۔

"کیا؟ آپ زونی آپی کے چچا ہیں۔۔یا میرے اللہ۔ آپ نے مجھے میری زونی آپی کی چاچی بنا دیا۔ او میرے مالکا، یہ کیا کر دیا آپ نے ؟ اللہ اللہ اتنی سی عمر میں آپ نے مجھے چاچی بنا دیا"

دل پر ہاتھ رکھتی وہ صدمے سے پیلی پڑتی بڑبڑائی جبکہ ہاشم بہت مشکل سے اس وقت اپنی جان لیوا مسکراہٹ روک پایا، لیکن یہ سچ تھا کہ مالنی کو کچھ ہونے کا خوف اس مضبوط انسان کے اندر تک ڈر اتار گیا۔

"ہاں، یہی سچ ہے۔ باقی تفصیل تمہیں فراغت کے ساتھ بتاوں گا لیکن فی الحال مجھے کچھ دن اپنے آبائی گھر رہنا ہے اور تم دوبارہ میرے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرو گی۔ مجھے کم ازکم تمہارے حوالے سے سکون چاہیے، مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں، اور اس وقت تم پر اچھی بیوی ہونے کے ناطے یہ فرض ہے کہ میری مشکلات میں مزید اضافے کا سبب نہ بنو"

وہ اسے بہت نرمی سے سمجھا رہا تھا اور وہ بظاہر جتنی بھی اس بندے کے وقتی رعب اور پیار سے قائل ہو جاتی، بددماغ سوچ چکی تھی کہ زونی کو اب تو ہر صورت جا کر اپنے ساتھ سے حوصلہ دے گی پھر چاہے ہاشم اسے جو مرضی سزا دیتا۔

"اوکے جائیں آپ، میں کچھ نہیں کروں گی"

بظاہر مان جاتی وہ ہاشم کی خود پر جمی گہری روح تک اترتی نظروں کے ارتکاز سے گھبراتی فورا مانی مگر وہ اسکا جھکا چہرہ ہاتھ بڑھائے ٹھوڑی پر پکڑ جماتا اوپر اٹھائے اسے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا جو خود بھی اپنی چوری پکڑی جانے پر خفیف سا گھبرائی۔

"مجھے دھوکہ دینے والے لوگ زہر لگتے ہیں پھر چاہے وہ میرے کتنے بھی قریبی کیوں نہ ہوں، یہ بات اپنے ذہن سے کبھی مت نکالنا مالنی"

وہ جانتا تھا نظروں کے مفہوم، اک عمر گزاری تھی اس نے چہرے پڑھ کر تبھی اسے اس کم عمر سی لڑکی کے تیور دیکھ کر اسکے اندر تک کی ہٹ دھرم کیفیت معلوم ہو گئی تبھی تو وہ ہاشم کی اس تمہید پر لمحہ بھر سانس لینا بھول چکی تھی۔

"اب کیا بچی کی جان لیں گے، نہیں دیتی دھوکہ بس آپ جائیں اور دوبارہ دوڑے مت چلے آئیے گا۔ اتنی بھی حور پری نہیں ہوں جسکا نقصان آپکو آپکے سارے فرائض بھلا دے"

وہ محتاط تھی کہیں یہ بندہ پھر سے کچھ جان لیوا نہ کر گزرے تبھی وہ اسے چلتا کرنے کے چکروں میں اپنی فطری ججھک اور گھبراہٹ کو ہر ممکنہ دبائے بولی لیکن اسکی آواز میں امڈ آتی گھبراہٹ پر ہاشم بزدار کی آنکھوں میں فطری سا جنون لپکا جو اس لڑکی تک اتنی زحمت اٹھا کر آنے کے بعد بنا خالی ہاتھ جانے پر ہرگز آمادہ نہ تھا اور ہاشم کی نظروں کا پر حدت لمس اور اسکے چہرے کے قریب ہوتے اس جادوگر کی بے خود نظر خود پر محسوس کرتی مالنی کی ریڑھ کی ہڈی میں واضح سنسناہٹ بیدار ہوئی جبکہ اسکا پورا وجود کچھ گستاخ سا سہنے سے پہلے ہی شدت سے کانپ اٹھا

تمہارے اس کپکپاتے وجود کو دیکھ کر لگ رہا ہے پرانی مالنی فوت ہو چکی ہے"

وہ جس کی حالت پر ہاشم تمام تر خمار ہٹائے مسکرا دیا تھا، اس بات پر منہ پھلا کر برہمی سے اسکو دیکھنے لگی پھر اپنی گھبراہٹ چھپانے پر زور سے مکا ہاشم کی بازو پر دے مارا۔

"آپ مالنی ہوتے تو پوچھتی، اور میں ہاشم بزدار ہوتی تو تب لیتی آپکی جان اور فوت کرتی آپکو"

اپنے مخصوص معصومیت بھرا ہونے کے باوجود دبنگ انداز میں دھمکاتی بولی کے وہ اس لڑکی کے ناجانے کس احساس تلے سرخ پڑتے چہرے اور کانپتے وجود پر نظر ڈالتا زرا سا پیچھے ہٹے اسے کچھ لمحے بنا کسی بے خودی کے دیکھتا رہا۔

"لیکن میں نے تمہاری جان لی ہی نہیں، ابھی لے لوں کیا ؟"

اس شخص کی بے باک و پرتپش نظروں کی لپک اور شدت بھرے جملے کی سختی پر حیا اور بے بسی نے مل کر مالنی کی آنکھوں میں نمی سی بھری، پہلے ہی گرنے کے باعث اسے جگہ جگہ پین کلر کے باوجود درد تھا پھر کلائی پر کٹ کے باعث اسکی بازو پر بھی تھوڑی سوجن آگئی تھی اور یہ شخص جسم و جان پر قہر بننے کے ارادے بنائے اس لڑکی کی دھڑکنیں جامد کرنے پر اتر آیا۔

"ن۔نہیں، آپ جائیں۔ آپکو بہت کام ہوں گے۔ مجھے بھی سونا ہے"

وہ اچانک سلگتی بے حال کر دیتی اس شخص کی موجودگی اور قربت سے اس سے پہلے فرار کیے کروٹ بدل کر لیٹتی، ہاشم نے اسکی بے اختیار بازو نرمی سے جکڑے لیٹنے سے روکتے ہوئے اپنے نزدیک کیا۔

"مالنی! نکاح میں ہو تم میرے، جب بھی ہاشم بزدار تمہیں اپنے قریب کرنا چاہے، کبھی مزاحمت مت کرنا کہ اس جگہ آنے کے لیے ایک دنیا ترستی ہے، اور تمہیں یہ مقام بنا چاہے ملا ہے"

اسے مالنی کا دور ہونا نجانے کیوں اچھا نہ لگا تبھی تو وہ اسکے جملوں میں چھپی ناراضگی بھانپتی بے اختیار اپنی نرم ہتھیلی اسکی چہرے سے میکانکی انداز میں جوڑ گئی۔

"بنا چاہے تو مت کہیں ایچ بی، جب تک کوٹھے پر تھی مما کے نزدیک سرمد ہی پہلی چوائز تھا، انھیں لگتا تھا وہ کمینہ مجھے اس لیے چھوتا نہیں کیونکہ اسکا مجھ پر دل آگیا ہے، میں بھی اسی آس پر جیتی کہ چلو اسی بہانے وہ بھی یہ بدکاری ، گندگی اور خرافاتی زندگی چھوڑ دے گا پر اب سوچتی ہوں تو دل کانپ اٹھتا ہے کہ کیسے ایک زانی بدکردار کے لیے ہامی بھر گئی تھی۔ جس ماحول میں پلی بڑھی ہوں وہاں خوبصورت چہرے سے پسندیدگی، فطری لپک، چمکتی چیز کی کشش اور بے باک ماحول میری زندگی کا حصہ رہا لیکن کل سے اب تک عجیب سا حصار ہے جس نے مجھے اپنے آپ میں سمیٹ کر سختی سے یہ سمجھایا ہے کہ اس حصار سے مر کر بھی نہ نکلنا۔ بنا چاہت نہیں ملے آپ، مجھے سچ میں آپ کے قریب آنے کی خواہش تھی، آپکے دل کے قریب لیکن مجھے گلٹی فیل ہوتا ہے، آپ مجھ جیسی عام سی بتمیز لڑکی کو ڈیزرو نہیں کرتے تھے، میری بیوقوفیاں آپکے پیروں کی زنجیر بن گئیں ، اور یہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا"

وہ اس لیے اس کی قربت سے خائف تھی کہ وہ خود کو ہاشم کے قابل نہیں جان رہی تھی جبکہ اسکا سرمد کے بارے صاف دلی سے بتانا خود ہاشم کا دل ہلکا کر گیا، وہ لڑکی جیسی بھی تھی وہ نہ تو منافق تھی، نہ جھوٹی تھی، نہ چالاک۔ وہ معصوم تھی، صرف محبت کرنا اور کھل کر جینا جانتی تھی اور ہاشم بزدار اس سے ایک بار پھر محبت کرنے کا فیصلہ لے چکا تھا۔

"تمہارا دل آئینے کی طرح صاف ہے مالنی، بے حد شفاف۔ اور میں نے جس سفر کے آگے فل سٹاپ لگا کر اپنی زندگی سیاہ رنگ کی طرح کر لی تھی تم نے اس فل سٹاپ کو ہٹا کر میری زندگی میں بہت جلد رنگ بھر دیے۔ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اب تم میری بیوی ہو اور یہ سب سے بڑا سچ ہے۔ دوبارہ ایسا فضول مت سوچنا، تم جیسی بھی ہو بیوقوف مالنی، تم ایسی ہی مجھے بھائی ہو اور تمہیں ہمیشہ ایسا ہی رہنا ہے"

وہ اسے سنجیدگی بھری نرمی کے سنگ بہت پیار سے سمجھا گیا، اسکا وہی ہاتھ جکڑ کر ہونٹوں سے چھوا تو گدگداتے سے لمس پر مالنی نے گھبرا کر آنکھیں بند کیں، اور پھر اسے یوں محسوس ہوا کہ چہرے پر بکھری پر تپش سانس کا لمس ایسا زور آور ہے کہ اسکی سانس اسکے سینے میں جمنے لگی تھی۔

"مجھے معاف کر دینا ماسکو! مجھے جانا ہی ہوگا، میں نے زونی آپی کو آپ سے پہلے اپنا بنایا ہے، میں انھیں مر کر بھی نہیں چھوڑوں گی۔ مما پاگل ہو گئی ہیں، وہ میری زونی آپی کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہیں، اور میں یہاں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر آپکی محبت کے آگے بے بس ہو کر نہیں بیٹھ سکتی"

وہ اسکے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ جکڑے اسے جذب و محبت سے دیکھنے میں مصروف تھا جو خود سے عہد باندھتی جب آہستہ آہستہ اپنی بند آنکھیں کھول رہی تھی تو ہاشم نے اسکی وہی آنکھیں دیکھتے ہوئے قریب آئے ان لمس و زائقوں کا تقاضا کیا جو باہمی رضا مندی سے ہی انگ انگ میں گھل کر لذت بخش پاتے، وہ اسکے حواس سلب کرتی شر انگیزیوں پر بچ نکلنے کو راہ فکر تلاشتی اس کے حصار سے نکلنے لگی تو اس کے ہاتھوں میں موجود شدت بڑھی جو وجود کے دھاگوں اور دل کی دھڑکنوں سے خودبخود الجھنے لگی۔

اور وہ اس شخص کے بے باک خاموش تقاضے پر انگ انگ تر لرز اٹھی،قربت کی بے جا شدت کا سوچ کر ہی سانس اکھڑنے پر اس نے رحم طلب نظر مائل بہ کرم سے ہاشم بزدار پر ڈالی جو اسے خود میں مبتلا کرنے کے سارے گر جانتا تھا۔

اپنے پودے ہوش وحواس میں اس جان لیوا انداز میں اسقدر جلدی اسکی قربت کیلئے تشنگی ظاہر کردے گا ایسا تو اس بے باک و بے تکلف مالنی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔

وہ اسکی دھڑکنوں پر اختیار اور منجمد سانسوں پر دسترس پائے اسکے وجود کو اپنی چٹانی بازووں میں جکڑتا اس قدر شدت کے سنگ کمزور حواس پر حاوی ہوا کہ مالنی کو لگا اسے ابھی مار دے گا، مارا نہ بھی تو اپنی شدت بھری من مرضیوں کے آگے موم سا پگھلا دے گا اور پھر وہ خود اسے اپنے پاس سے دور ہونے نہ دے سکے گی۔

"ہ۔۔ہاشم خدا کے لیے رحم کریں"

وہ دل رکنے اور سانس سینے میں گھٹنے پر جب مرنے کے قریب پہنچتی گویا اسے خود سے پرے دھکیلتی زور سے چلاتی احتجاج کر اٹھی جبکہ وہ اسکے جملے پر ہی جان تک فدا کر اٹھا، کہ یہ لڑکی تو اسے ہر شے بھلا دینے پر اتر آئی تھی۔

"ا۔۔اتنی دیر سے بیوی ملی ہے تو کیا آپ ساری محرومی ایک ساتھ پوری کریں گے، جائیں یار مجھے ابھی مرنا نہیں ہے۔۔آ۔آپ بہت برے ہیں، اللہ سائیں مجھے اس جلاد سے بچانا، جو مجھ معصوم کو ابھی سالم نگل دینے والا تھا"

تیز تیز سانس لیتی وہ باقاعدہ اس پر مکے برساتی اٹھ کر بھاگنے کی تیاری میں تھی جب ہاشم نے تمام تر جان لیوا خمار خود پر سے ہٹائے اسکا ہاتھ جکڑے واپس بیٹھایا مگر وہ ہنوز اسے دیکھنے سے گریز کرتی ہلکا ہلکا کانپ رہی تھی۔

"محرومی تو آج تک ہاشم بزدار نے اپنے قریب بھٹکنے ہی نہیں دی۔ تم، جذبات اور احساسات کی کوئی حد نہیں ہوتی اور اسی شدت کی عادت ڈال لو، یہاں دیکھو میری طرف"

اپنے جذبوں کی کم سے کم شدت بھی وہ اس لڑکی پر پہاڑ جیسی محسوس کیے بھی معذرت کے قریب بھی نہ بھٹکا ہاں لہجے میں واپس نرمی ضرور شامل کر گیا اور وہ کیا بتاتی کے اسے نظر بھر کر اب دیکھنے کی غلطی نہیں کر سکتی تھی، وہ خود میں انگ انگ تک جکڑ لیتا تھا اور مالنی کم ازکم اس انسان کے ساتھ ابھی کسی گہرے مراسم کو افورڈ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اسے سب چھوڑ کر جانا تھا، اسے یہ بے رحم شدتیں کمزور کر سکتی تھیں اور وہ پاگل سمجھ ہی نہ سکی کے ہاشم کے دل پر زخم دینے کی جو ٹھان بیٹھی ہے وہ اسے بالکل معاف نہیں کرے گا۔

"ن۔۔نہیں، مجھے مت کہیں خود کو دیکھنے کے لیے۔ ایسا نہ ہو پھر آپ نظر چراتے پھریں، میں بہکی تو آپکو دنیا آخرت سب بھول جائے گی"

ہاشم کو دیکھنے سے خود کو جبرا روکتی گھبراتی ہوئی وہ بڑبڑاہٹ میں ناجانے کیا بول بیٹھی کہ اپنی بے باکی کے احساس ہوتے ہی اسکا دل بری طرح دھڑکا اور وہ ایسے جواب کو سن کر اک لمحہ تو خود بے خود مسکرا بیٹھا۔

"مجھے تم سے ایسے ہی جواب کی امید تھی"

وہ شوخ ہوتا اسکی جانب جھکے سرگوشی میں کہے ہر ممکنہ کوشش میں تھا کہ وہ بہکے مگر مالنی نے خود پر ہر طرح کا کنٹرول کیے ہاشم کو ہری جھنڈی دیکھائی۔

"پلیز ہاشم! جائیں ناں۔۔۔ پہلے ہی درد ہو رہا ہر جگہ اوپر سے آپ غلط وقت پر حواس اڑا رہے ہیں۔ رو دوں گی بتا رہی ہوں"

وہ عجیب سے دکھ کو بیان کرتی روہانسی ہوئی اور ہاشم اسکی بات پر کتنی دیر مسکراتا ہی رہ گیا۔

"بیوقوف مالنی! تمہارے رونے بھی اس پوری دنیا سے الگ ہیں، جان تو تم ہاشم بزدار کی لے لو گی۔ویسے درد کے لیے پین کلر دوں؟"

ہاشم نے اسکا چہرہ اوپر اٹھائے اول جملے زچ ہوتے ہوئے جبکہ آخری معنی خیزی سے ادا کیے سینے کی اندر سانسوں کی مہک اسکے چہرے پر بکھیری جس پر وہ پھر سے اسے پرے دھکیلتی اپنی بے تاب ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالنے لگی کہ جسم عجیب سا ٹوٹنے لگا ہو اور اس شخص کو اپنے بے درد جال میں جکڑ لینے پر ضد کر اٹھا ہو۔

"نو، مجھے درد پیارا ہے بس آپ جائیں"

چہرہ موڑ کر کہے وہ ہاشم کو واقعی اٹھ کھڑا ہونے پر اکسا چکی تھی اور جب وہ اٹھا تو مالنی نے بے قراری سے اسکا ہاتھ جکڑ کر اداسی بھری آنکھیں اوپر اٹھائیں۔

"ہاشم"

وہ اسکا نام لے کر ظالم کہیں کی اسکے جذبات کو مچل اٹھنے پر اکسا چکی تھی جس پر وہ خفگی سے اسے گھورا۔

"نام مت لیا کرو مالنی، بے وقت کچھ ہو جائے گا۔ آرام کرنا اور کوئی الٹی حرکت کرنے کا سوچا بھی تو یہ یاد رکھنا کہ ہاشم بزدار تمہاری جان اپنے طریقے سے بہت بری طرح نکالے گا۔ 

مجھے مجبور مت کرنا کہ اگلی خطاء پر میں تمہیں ہر لمحہ اپنی آنکھوں کے سامنے قید رکھنے پر مجبور ہو جاوں، اور تم جانتی ہو یہ قید نہ تو تمہارے نازک دل کے لیے اچھی ہے نہ اس کمزور وجود کے لیے، اللہ حافظ"

اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوائے وہ اسکی آس زدہ آنکھوں میں جھانکتا ، جھکا، مالنی کی جبین شدت بھرے استحقاق سے چومی، اور سختی بھری تنبیہہ کرتا وہ اس سے دور ہوا، میز پر رکھی اپنی جیکٹ اور فون لیا اور اس لڑکی پر نگاہ ڈالتے ہی وہ کمرے سے نکل گیا جبکہ مالنی نے اسکے جاتے ہی روح تک خوف سرائیت ہونے پر جھرجھری لی، چند لمحوں میں وہ اس لڑکی کا یہ خواس باختہ حال کر گیا تھا تو ہر لمحہ قید کا سوچ کر ہی اسکے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔

لیکن نجانے کیوں اس شخص سے اس لڑکی کی اس ملاقات کے بعد جان سی جڑھ گئی تھی تبھی وہ جانے کے فیصلے پر زیادہ اداس و افسردہ ہو گئی۔

وہ گیا تو خود مالنی بھی آرام و سکون کو پرے جھٹک کر جوتے پہنتی، اپنا فون لیے گھٹن سی محسوس ہونے پر باہر لان میں چلی گئی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"صرف تمہاری بے جا منت و سماجت کے بعد میں نے اس خبیث کو معاف کیا گونی وہ بھی اپنے مطلب کے لیے، میں تم دونوں کا ساتھ دوں گی مگر بدلے میں تم میری دونوں بیٹیوں کو پناہ دو گے، میرے پیچھے بھی میرے خاندان نے اپنے پالتو کتے چھوڑ دیے ہیں سو جب تک میں اپنا اور انکا باہر کے ملک انتظام نہیں کرواتی، تم لوگ مجھے گارنٹی دو کے کوئی ان دو کو کچھ مہینے ڈھونڈ نہیں سکے گا۔ میرا فائدہ کرو تو اپنا دھندا چلا سکو گے آسان سی شرط ہے"

اس وقت نیم تاریکی میں ڈوبا یہ ایک بند کمرہ تھا جہاں سیٹھ گونی سیاہ شکل پر اس سے سیاہ خباثت لیے باس رولنگ چئیر پر براجمان تھا جبکہ اسکے سامنے ایک کرسی پر کنزا جبکہ دوسری پر مونچھ کو تاو دیتا خباثت سے بھرا طلال بیٹھا تھا جسے گونی سیٹھ نے کنزا کے آنے سے پہلے ہی ڈپٹ کر مزید کوئی بکواس نہ کرنے پر سختی سے مجبور کر کے بیٹھایا تھا اور اس پر بھی اکسایا کہ وہ اپنے رویے کی کنزا سے معافی مانگے۔

کنزا کی مانگ سن کر خفیف سی ناگواری گونی سیٹھ کے چہرے پر بھی آئی مگر وہ بڑے تحمل سے غصے کو پی گیا کیونکہ اس وقت انھیں کنو بائی کے سہارے کی ضرورت تھی جو بڑے بڑے منسٹر جیب میں لیے بیٹھی تھی اور پھر ایسے کئی لوگ جو مافیا کے اس سیاہ دھندے میں مددگار رہتے ان سبھی کا کوٹھے پر آنا جانا تھا۔

"ٹھیک ہے بے فکر ہو جاو، تمہاری دونوں بیٹیاں سمجھو میری بیٹیاں۔ جلد ہی انکو ایک محفوظ مقام پر بھیجوا دیا جائے گا تم انکو یہاں لے آنا۔ بس تم ہم پر نظر کرم بنائے رکھو، جو لڑکیاں مال کی صورت آئی ہیں انھیں کوٹھے پر رکھ کر انکی تربیت کرو، اس بار بڑا ہاتھ مارنا ہے۔ اور اس بدبخت پر سے بھی اپنا غصہ ہٹا دو، جیسا بھی ہے شوہر ہے تمہارا "

گونی ایک شاطر، مگر معاملہ فہم آدمی تھا اور کنزا جانتی تھی وہ لوگ مطلب کے لیے اسکے پیر بھی دھو کر پی سکتے ہیں اور فی الحال زونین اور مالنی دونوں کو ہر ایک سے چھپانا اسکی اولین ترجیح تھی، مالنی دن کو نہیں آئی تھی تبھی کنزا نے فیصلہ کیا تھا وہ یہاں سے نکل کر ایک اور بار مالنی کا دماغ اپنی طرف مائل کرے گی کیونکہ وہ جانتی تھی مالنی ایک ایموشنل فول لڑکی ہے جسے اسکی کمزوری پر موت کی دہلیز پر بھی لایا جا سکتا ہے۔

کنزا نے حقارت بھری نظر گردن موڑ کر ساتھ بیٹھے اس منحوس پر ڈالی جس پر اسکا تھوکنے کا بھی دل نہ چاہتا تھا۔

"معذرت سیٹھ گونی، اس سے میرا اب کوئی واسطہ نہیں۔ میں تم پر یقین اور بھروسہ کیے یہاں آئی ہوں اور مجھے امید ہے تم جیسا آدمی جو دو نمبر کام بھی ایک نمبر طریقے سے کرنے والا ہے مجھے دھوکہ نہیں دے گا، اگر میری بیٹیوں پر گندی نظر ڈالنے کی جرت بھی کی تو تم دونوں ریت کی دیوار بن کر میرے ہاتھوں میں مسمار ہو کر رہ جاو گے۔ جلدی لاتی ہوں انھیں، اجازت"

طلال کی جانب اس عورت نے ایک بار پھر تضخیک کرتے ہوئے لعنت بھیجی جبکہ وہ دھمکا گونی کو بھی گئی جو سر ہلاتا بھرپور یقین دہانی کیے اسکے اس کمرے سے نکلتے ہی چہرے پر سختی لے آیا جبکہ طلال تو کتے کی طرح اس اہانت اور سبکی پر پھنکار اٹھا۔

"اسکی بیٹیاں ابھی تک کنواری ہیں یا شادی ہو گئی ہے؟"

کچھ سوچتے ہوئے جیسے اس سیاہ فام مافیا ڈان نے تلملاتے ہوئے طلال سے پوچھا۔

"ایک اسی کے خاندان میں بیاہی ہے اور دوسری کو ایچ بی نامی رئیس لے اڑا، کل ہی یہ خبریں ملی ہیں۔ لمبے لفڑے ہیں۔ خوامخواہ ان لڑکیوں کو پناہ دینے کے چکر میں تو اپنے گلے میں پھندا نہ ڈلوا لینا، دونوں کے شوہر بہت طاقتور اور تگڑے ہیں"

طلال نے جیسے اسکو تنبیہہ کی پر گونی کی آنکھوں کی وحشت کے ساتھ ساتھ شیطانیت عودی، ناجانے کیوں مگر اس معاملے میں اس نجس کی دلچسپی گہری ہو چکی تھی۔

جبکہ وہاں سے نکل کر کنزا نے ایک بار پھر ایک نجی دکان کا ہی فون استعمال کیے کال ملائی اور مالنی اس وقت گہری رات میں اکیلی لان میں بیٹھی تھی جب پاس رکھا فون بجا، وہ ہاشم کی ساری تاکیدیں اور تنبیہہ سوچ رہی تھی، مگر اسکا دل ہرگز یہاں بیٹھے رہنے پر آمادہ نہ تھا۔

کال آنے پر وہ خوفزدہ ہوئے چونکی اور پھر جیسے کسی مانوس سے احساس تلے آئے اس نے کال ریسو کی۔

"حویلی کے نزدیک والے کیفے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں، اگر تم نہ آئی مالنی تو میں خود کو اور زونی دونوں کو زہر دے دوں گی اور ہماری موت کی ذمہ دار تم ہوگی۔ پانچ منٹ کے اندر اندر کیسے بھی کر کے اس پنجرے سے باہر نکلو"

وہ عورت پھر سے مالنی کو دھمکا رہی تھی جو حراساں نظروں سے حویلی کے دروازے میں ڈیڑا ڈال کر بیٹھے بلیک کو دیکھنے لگی اور پھر کنزا کے فون کاٹنے پر مالنی نے جسم و جان میں اٹھتے درد کی پرواہ کیے بنا تاحد نگاہ نظر دوڑائی، حویلی کے گرد موجود چاردیواری زیادہ بڑی نہ تھی مگر جگہ جگہ محافظ کھڑے تھے اور وہ کسی طرح یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتی لان میں چکر کاٹتی ہوئی حویلی کی پچھلی طرف آئی، یہاں بھی پہرے دار بیٹھے تھے مگر اتفاق سے اسکی نظر کھڑے کھڑے دیوار سے ٹیک لگا کر سوتے آدمی پر پڑی۔

"کھڑے کھڑے کون سو سکتا ہے، ایسا نہ ہو میں جب دیوار پھلانگوں تو یہ مویا جاگ جائے"

مالنی نے احتیاط کے سنگ بڑبڑاتے ہوئے اس آدمی کے نزدیک جا کر کوفت سے کہا اور پھر ساتھ والی دیوار دیکھی۔

"اف میرے اللہ! یہاں سے بچ بھی گئی تو ہاشم مجھے زندہ زمین میں دفن کر دیں گے۔ ہر طرف موت ہی ہے، تو پھر میں کیوں ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھوں"

وہ اس دیوار پر آہستگی سے ہاتھ رکھتی جھمپ مارتی اوپر لٹکی جبکہ یوں لٹکنے پر اسے لگا کلائی کا زخم پھر سے پھٹ گیا ہو اور تبھی درد کے باعث اس نے بڑی مشکل سے اپنی سسکاری روکی۔

پر پھر ہمت جتاتی ایک اور جھمپ مارتی وہ کامیابی سے دیوار پر چڑھ گئی مگر اس بیچ اسکا فون وہیں اندر کی طرف گرا اور اس سے پہلے فون گرنے پر وہ سویا محافظ ہڑبڑایا، مالنی نے آنکھیں زور سے بند کیے باہر چھلانگ لگاتے ہی بنا پیچھے دیکھے دوڑنا شروع کر دیا اور وہ محافظ آہٹ اور پھر اس فون کو دیکھتے ہی اونچا اونچا چلانے لگا لیکن جب تک حویلی کے تمام لوگ بھاگ کر باہر پہنچے،تاحد نگاہ پھیلا مہیب سناٹا اور وحشی اندھیرا مالنی کو اپنے اندر نگل چکا تھا۔

نصیر بھی شور و غل پر جب تک ہانپتا ہوا داخلی گیڈ تک پہنچا تو آگے سے مالنی کے بھاگ جانے کی خبر جیسے اسکے جسم سے جان نکال دینے کے مترادف تھی، اسکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ چکا تھا کیونکہ اس لاپرواہی پر ہاشم اس سمیت سب محافظوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتا۔

جبکہ پانچ منٹ تک وہ دوڑ کر کیفے پہنچی تو راہ میں ہی کنزا نے اسے دیکھتے ہی منصوعی پیار سے گلے لگایا اور پھر اسے اس کارنامے پر شاباشی دیتی بنا اسکی تکلیف کا کوئی احساس کیے اپنے ساتھ اپنے اسی فلیٹ میں لے گئی، جہاں رو رو کر ہلکان ہو جاتی زونی کی جان میں جان تب آئی جب دروازہ کھلتے ہی مالنی اندر آئی اور دوڑ کر وہ دو بچھڑی روحوں کی طرح ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں، کنزا راستے سے کھانا بھی پیک کروا لائی تھی تبھی ان دو کا جذباتی ملن اکتاہٹ سے تکتی خود کچن کی طرف کھانا نکالنے بڑھ گئی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ہاشم کو رات سے اب صبح تک نصیر نے مالنی کے بھاگنے کی اطلاع نہیں دی تھی کیونکہ وہ رات سے اب تک پہلے اپنے تئیں اس پاگل بیوقوف لڑکی کی تلاش میں لگا تھا اور اب جب کہیں سے بھی مالنی کا سراغ نہ ملا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہاشم کو یہ سچائی بتا دے گا۔

وہیں تشدد کے کافی گھنٹوں کے بعد خاقان خان کی ادھ مری لاش اسکا زخمی آدمی ہوش بحال ہوتے ہی اگلی صبح واپس حویلی لایا تو رہی سہی مزید قیامت برپا ہوئی، جرگہ ملتوی نہین کیا گیا تھا اور حتمی فیصلہ ہونا تھا اور ولی کا بھی اصرار تھا کہ یہ معاملہ سمیٹا جائے اور وہ واپس نکلے۔

 سردار خاقان پر جس طرح بے رحمانہ تشدد ہوا تھا، وہ آدمی خوفزدہ ہوئے ضرار کا اس بار نام لینے کی غلطی نہ کر سکا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر اس نے ضرار کا نام لیا تو وہ اسے جو زندہ چھوڑ چکا ہے، اس خطاء پر خاقان سے برا حال کرے گا۔

سردار خاقان کی قابل رحم حالت پر کسی کو ترس نہ آیا مگر دنیا داری کے لیے علاقے کے اعلی سے اعلی حکیم کو بلوایا گیا، اس آدمی سے بھی تشویش کی گئی مگر اس کی بھی جیسے سردار خاقان کی طرح زبان گویا جل گئی۔

علاقے کے حکیم نے سردار خاقان کا معائنہ کیا اور حتمی نتائج لیے وہ کمرے سے باہر نکلا جہاں ولی، خدیخہ خانم، گل خزیں، وریشہ، سردار شمیشر یوسف زئی منتظر کھڑے تھے۔

"کیسی حالت ہے میرے یار کی؟"

پہلا سوال بے قراری سے سردار شمشیر نے ہی کیا کیونکہ وہ بھی انہی لوگوں میں شامل تھے جنھیں ابھی تک خاقان جیسے فرعون کی اصلیت معلوم نہ تھی، مشارب کہیں نظر نہیں آرہا تھا نہ فرخانہ خانم کیونکہ فرخانہ ماتم اور عدت میں تھیں جبکہ مشارب بنا کسی کو بتائے کچھ دیر پہلے ہی بپھری موج بنا حویلی سے اکیلا ہی اپنی گاڑی لیے نکلا تھا شاید قیامت برپا کرنے۔

"بہت بری، ایک تو ان پر تشدد بہت برا کیا گیا دوسرا زبان بلکل جل گئی ہے جسکے باعث ممکن ہے وہ اب کبھی بول نہ سکیں اور نجانے یہ خدا کی کیسی آزمائش ہے کہ ان پر بہت شدت سے فالج کا اٹیک ہوا ہے اور انکا جسم مفلوج ہو گیا"

حکیم نے افسردگی سے سچائی گوش گزار کی جس پر گل خزیں خانم اسے راہ سے ہٹاتیں اندر بڑھیں جبکہ خود شمیشر یوسف زئی اپنے سر کو تھامے وہیں کچھ فاصلے پر رکھے صوفے پر جا بیٹھے، انھیں خاقان کی ایسی حالت پر شدید دکھ تھا۔

پھر جرگے کے حتمی فیصلے کے لیے بھی لوگ بنا زمان خان کی موت کا خیال کیے پنچائیت کا میدان سجا کر حتمی جواب کے منتظر تھے اور ولی لگے ہاتھوں یہ سب بھی نمٹا کر ہی جانے والا تھا۔

"تو مل ہی گیا تجھے تیرے کرموں کا پھل، تیرے اس ناکارہ جسم کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ملی ہے خاقان خان، تو نے مجھے خود سے زبردستی باندھ کر جس طرح ناکارہ کیا تھا دیکھ قدرت نے کیسا مکافات عمل دیکھایا ہے۔ کل تک کتے کی طرح بھونکنے والا آج بے یارو مددگار پڑا ہے سسک بھی نہیں پا رہا، واہ میرے سوہنے مالکا، تیرا انصاف۔ مجھے میری کوتاہیوں پر تو نے میری اولاد کا دکھ دیا پر اسکے ساتھ جس نے یہ کیا وہ آج سے اس حویلی کی سردارنی گل خزیں خانم کا مسیحا ہے"

وہ روتی تڑپتی ماں جس نے ابھی چند گھنٹوں پہلے ہی اپنے لخت جگر کو زمین کے حوالے کیا، اپنا یہ دکھ اس فرعون کی عبرت دیکھ کر بھول گئی جو ابھی بری طرح تڑپتا ہوا سسک رہا تھا۔

"اچھا ہوا میرے زمان کو موت آگئی، تیری اصلیت تو اسے ویسے ہی مار دیتی۔ ابھی کچھ دیر تک تجھ سے یہ سرداری ڈنکے کی چوٹ پر چھینی جائے گی"

وہ عورت جن زادی کی طرح اس کے ناکارہ وجود کر کراہت بھری نظر ڈالتی دھاڑی۔

نفرت تھی کہ پل پل بڑھ رہی تھی، اور پھر حسب وعدہ ٹھیک ہفتے بعد پنچائیت اپنی پوری رعونت کے سنگ اسی سحر میں فجر کے فورا بعد سجائی گئی۔

چونکہ دونوں علاقوں کے فریقین زمان خان کی ناگہانی موت سے واقف تھے سو سب نے پہلے شمشر یوسف زئی اور ولی سے تعزیت کی اور سب باری باری آکر اپنی نشتوں پر براجمان ہو گئے۔

اور پھر ولی زمان خان نے اس قتل کی سائنسی تحقیق کے تمام دستاویزات جو اردو زبان میں لکھے گئے تھے، جرگے کے سامنے پیش کیے جس پر سر پنچ شمشیر یوسف زئی کی آنکھیں بھی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

ان کاغذات کے مطابق وہ جلی لاش عزیز کی نہیں تھی بلکہ سردار خاقان نے بہت ہوشیاری سے اس آدمی کو عزئز بنا کر میثم ضرار چوہدری پر بہتان لگایا تھا اور بہتان کی سزا تو وہ کمبخت پہلے ہی بگت چکا تھا، بزدار عالم آج بھی اکیلے ہی آئے تھے اور انکی آنکھوں میں جیت کی کوئی خوشی نہ تھی بلکہ بے موت مرتے زمان خان کے لیے دکھ تھا۔

سردار خاقان کی اصلیت جان کر دونوں علاقے کے لوگوں میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ چکی تھی، ہر کوئی خاموشی سے ان کاغذات کو پڑھتے سر پنچ صاحب کی جانب متوجہ تھے تاکہ وہ جلد اپنا حتمی فیصلہ سناتے۔

"سر پنچ صاحب! اگر بزدار عالم یہ سائنسی تحقیق نہ کرواتے تو سردار خاقان تو اب تک ضرار کی جان لے چکے ہوتے، آپ سے گزارش ہے آئیندہ بھی قتل کے معاملے میں پوری جانچ پڑتال کی جائے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب علاقے کے لوگ جرگے سے بدزن ہونے لگیں گے"

سر پر اونچا شملہ سجا کر بیٹھے ایک معزز نے اپنے غم و غصے کا اظہار برہمی کے سنگ کیا جبکہ ہر کوئی انکی تائید کرتا دیکھائی دیا۔

"آپکی رائے کو تسلیم کیا جاتا ہے قابل احترام بھائی، بنا تحقیق کے اب پنچائیت کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔ اور سردار خاقان خان کی اصلیت اور سفاکی دیکھتے ہوئے پنچائیت انکو سرداری سے برترف کرتی ہے۔، چونکہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ نامعلوم افراد نے ان پر حملہ کیے شدید تشدد کیا ہے اور وہ بہت بری حالت میں ہیں سو ہمیں زیب نہیں دے گا کہ اللہ کی لاٹھی سے پیٹے جاتے گناہ گنار کو ہم مزید کوئی سزا دیں۔ عزیز خان کی تلاش جاری رکھی جائے ، اور سرداری کے لیے میں جرگے کا سرپنچ علاقے کا اگلا سردار مشارب زمان کو بناتا ہوں، وہ فی الحال موجود نہیں ہیں، باپ اور بیوی کے غم نے بچے کو نڈھال کر دیا ہے مگر مجھے پورا یقین ہے وہ جلد اس صدمے سے نکل کر علاقے کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے۔ پنچائیت ولی زمان خان کا دلی شکریہ ادا کرتی ہے جس نے اس فیصلے کو سچائی کی جانب گامزن کروانے میں مدد کی۔ اور میثم ضرار چوہدری کو پنچائیت باعزت اس قتل کے الزام سے بری کرتی ہے اور انکے دادا بزدار عالم سے دلی معذرت کرتی ہے"

سردار شمیشر یوسف زئی نے تمام جرگے پر اپنی بارعب آواز کے سنگ اپنا فیصلہ واضح کیا اور ہر فرد انکے انسانی تقاضوں کو پورا کرتے بہترین فیصلے پر آسودہ نظر آیا، ولی زمان نے بھی رسانیت سے شکریہ قبول کیا جبکہ چوہدری عالم بزدار نے بھی دل بڑا کیے پنچائیت کی معذرت قبول کی۔

عزیز خان زندہ ہیں، یہ خبر دونوں علاقوں تک پھیلا دی جانے والی تھی اور یہ فیصلہ بہت سوں کے لیے سنگ میل ثابت ہونے والا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے

دامن میں وادی ہے

وادی میں ندی ہے

ندی میں بہتی ہوئی ناو ہی آئینہ ہے

اسی آئینے میں ہر اک شکل بکھری ہے

مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے

تو وہ پھر نہ ابھری

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں

اب آو کے کئی دنوں سے تم کو

بلاتے بلاتے میرے دل پے گہری تھکن چھا گئی ہے"

وہ لوگ اپنا کوہ پیمائی کا سفر کئی گھنٹوں پہلے سے شروع کر چکے تھے اور رات سے پیدل سفر کرتے اگلی صبح آچکی تھی مگر موسم نے جان لینے کی پہلے پڑاو پر ہی ٹھان لی تھی، ٹھٹھرتے سرد موسم میں محبت کا نیا سفر آغاز سے ہی انتہائی پیارا تھا۔

وہ سب لوگ پہاڑوں کے دامن میں کھڑے پہلے سفر پر گامزن ہونے سے پہلے ملگجی سحر کی نیم روشنی میں برف زاروں کی جانب دیکھ کر خوفزدہ ہوئے۔

"گل! یہ دو لوگ کب سے ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ مجھے تو خلیے سے ہی مشکوک لگ رہے ہیں"

اشنال نے عقب کی جانب اپنے اپنے ہاتھ ملتے ہاتھوں کو گرمی پہنچانے کی کوشوں میں منہمک ان دو پر نظر ڈالی اور پھر جھک کر اپنے شوز کے ٹسل بند کرتی گلالئی سے مخاطب ہوئی جس نے اپنا کام کرتے ہی اشنال سے اپنا بیگ لیے کندھوں پر ڈالے پیچھے دیکھا تو وہ دو ماسک اور عینک لگائے اپنے اپنے پہاڑ سر کرنے کے لیے یوز ہوتیں سٹک کھولتے ایک دوسرے کی جانب متوجہ تھے۔

"خانم! آپکا وہم ہوگا کیونکہ ہم سب ٹیم ہیں۔ کوئی کسی کے پیچھے ہے بھی تو پیچھا نہیں کر رہا بلکہ اپنا اپنا سفر طے کر رہا ہے۔ چلیں ہم بھی اپنے ماسک پہن لیتے ہیں، آگے آگے پہاڑ کی طرف بڑھتے دھند بڑھ جائے گی اور گرد سے آنکھوں کو انفیکشن اور گلے کو الرجی ہو سکتی ہے، آپکو پتا ہے ناں نانا جان نے سختی سے سمجھایا تھا کہ بھول کر بھی اس سفر کے بیچ بیمار نہیں پڑنا۔۔ جو زرا ڈھیلا پڑا سمجھو وہ اپنی جان سے گیا"

گلالئی نے ناک کی سیدھ میں سفر شروع کرتے ہی ساتھ چلتی اشنال کو بھی سمجھایا، وہ سب لوگ پہاڑ کی جانب بڑھنا شروع ہو چکے تھے اور جیسے جیسے وہ لوگ بلندی کی طرف بڑھ رہے تھے واقعی فضا میں گھٹن بھی اسی طرح بڑھ رہی تھی، اور پھر بڑا مسئلہ برف باری کا تھا جو گاہے بگاہے شروع ہو کر انکے سفر کو رات سے اب تک کئی جگہوں پر روک چکی تھی۔

"مجھے بہت مزہ آرہا ہے، وہ دیکھو گل بڑے بڑے پہاڑ ہمیں خوش آمدیدی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ویسے میں نے تمہیں بھی اس مشکل میں ساتھ پھنسا لیا۔ لیکن سچ یہی ہے کہ میں اکیلی کبھی اتنی ہمت نہ کر پاتی"

اپنے ہاتھ میں پکڑا آئس ہیمر اور آئس ایکس ایک ہاتھ میں پکڑتی وہ مسلسل اوپر کی طرف بڑھتی دور پار پھیلے پہاڑوں کو دیکھ کر مسکائی تو گلالئی نے بھی خانم کی خوشی دیکھتے ہوئے اس سرد ماحول میں بھی مسکرا کر ساتھ دیا حالانکہ گلالئی کے ہونٹ تو ابھی سے جامنی پڑ گئے تھے جبکہ دونوں کی گالوں پر بھی سرخی چھلک آئی تھی، جبکہ ماوٹینرنگ بوٹس سب نے ہی سفر کا آغاز کرتے ہی اپنے اپنے پیروں میں چڑھا لیے تھے جو بلندی کی جانب چڑھتی پہاڑ کی چڑھائی میں اچھے سے نسب ہو کر انھیں آگے بڑھنے میں مدد دے رہے تھے۔

جبکہ سب کوہ پیماوں نے اپنے اپنے گرم ٹریک سوٹس پر ہرنس نامی گیجیٹ باندھ کر ایک ایک کندھے پر رسی کا گھچا ڈال رکھا تھا، سب کے سروں پر خفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھنے کو ہیلمنٹس تھے، اور سب سے آگے مسٹر رحمان اپنی خفاظتی تین رکنی ٹیم کے ساتھ تھے اور اسی ٹیم کے باقی تین لوگ بائیس کوہ پیماوں کے سب سے پیچھے چل رہے تھے۔

کسی بھی ہنگامی یا حادثے کی صورت میں آپریٹر اور اسکی ٹیم کا بیس کیمپ سے رابطہ ہونے کے باعث ہر نقصان کو کنٹرول کرنا قدرے آسان ہو جاتا تھا۔

"زندگی میں یہ نہ کیا تو کچھ نہ کیا خانم! مجھے بھی پہاڑ پسند ہیں، پہاڑوں کے باسی پسند ہیں۔ مورے اور بابا سائیں کی موت کے بعد بس زندگی اک حفاظت اور ذمہ داری  بنی رہی تو میں نے کبھی خواب دیکھنے اور خواہش کرنا سیکھا ہی نہیں"

گلالئی نے ساتھ ہی چلتے ہوئے حسرت بھرے انداز میں کہا جسکی حسرت کسی بے تاب دل پر آتش بن کر دہکی تھی، اس اس پہاڑ کے دامن میں پروان چڑھتے شخص کا دل چاہا وہ لپک پڑے، حسرتوں کے نشان تک منہدم کر دے، ٹھٹھرے موسم میں اپنا اور اسکا الوہی سا احساس منجمد کر دے، کہ حسرتیں ان پہاڑ ذادیوں پر بھی کہاں جچتی تھیں جبکہ اشنال نے سرد سانس کھینچ کر اپنی اس پیاری گل کو دیکھا اور اپنا گلوو والا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا جسے گل نے مضبوطی سے تھاما۔

اس ہاتھ تھامنے کی حسرت میثم ضرار چوہدری کے وجود سے امر بیل کی طرح لپٹی، گل کو درمیان سے نکال کر جبل زاد کے سپرد کیے وہ خاصا انتقامی ہو کر اکیلا اور اکلوتا ہو کر اشنال عزیز پر تاعمر حاکمیت کے خواب سجا رہا تھا، اس لڑکی کی محبت کے جہاں کا اکلوتا وارث، کہ وہ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی تھامے تو بس اسکا ہاتھ، دیکھے تو بس اسکی آنکھیں، چاہے تو بس صرف اسکو جو اسکے لیے پروانہ بن سکتا تھا، جگنو بن سکتا تھا، فقیر بن سکتا تھا مگر وہ ظالم تھی، اور وہ پاگل سا کہ اسے اشنال عزیز کو چھوتی ہوا تک سے مخالفت رکھنے کا جنون تھا، کہ یہ آتش اسکے وجود کو جلا جلا کر خاکستر کر چکی تھی۔

"اب تم خواب بھی دیکھو اور خواہش کرنا بھی سیکھو، پہاڑ سر کرنے کے لیے بس ایک ہم نشین چاہیے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی سب سے اچھی ہم راہی بنیں گی، تمہیں پتا ہے گل میں ہر رات خواب میں خود کو اس طرح پہاڑ پر چڑھتا محسوس کرتی تھی، ان سانس روکتی سردی کی لہروں کو اپنی سانسوں میں اترتا محسوس کرتی تھی، میرا جنون تھا کہ کاش کبھی میں وہ بادلوں کی طرح آسمان میں گم ہو جاتے پہاڑ کے آخری کنارے پر کسی پرندے کی طرح اڑ کر چلی جاوں"

وہ اپنی آنکھوں میں اس خوبصورتی کو بھرے جو بھی بول رہی تھی، ان دو کے قدموں کا پیچھا کرتے وہ دو بھٹکے بنجارے خاموشی سے ان دو لڑکیوں کی خوابناک باتیں سن رہے تھے۔

"جبل زاد! اگر یہ لڑکیاں اس سفر سے زندہ سلامت واپس آکر کامیاب ہو گئیں اور واقعی کوہ پیما بن گئیں تو ہمارے گھروں کی ہانڈی روٹی کون کرے گا۔ ان دو کو تو ہر سال میں دو ٹورر کرنے ہوں گے۔ ہم غریب تو انکی حسرت میں ہی لٹ جائیں گے"

اپنے ساتھ مخویت سے سفر کرتے جبل زاد کے کان میں گھس کر بولتا ضرار بڑی گہری تشویش میں تھا تبھی تو جبل زاد بھی گلالئی اور اشنال کی باتوں سے توجہ ہٹائے رخ موڑ کر حیرت انگیز نظروں سے سائیں کی طرف متوجہ ہوا جو سائیں کم آج کل مسخرے زیادہ بنے تھے۔

"سائیں! ہم بھی نکل جایا کریں ہے چھپ چھپیتے جیسے اس بار آئے۔ ویسے خیر ہے ناں، وہ جلا سلگا سا میثم ضرار چوہدری کہاں گیا، آپ سے تو خوشی اور راضی بہ رضا ہونے کی خوشبو آرہی ہے۔ کیا آپ نے خانم کو معاف کر دیا"

جبل زاد نے سفر جاری رکھتے ہی رخ موڑے ابھی تک سب سے فریش نظر آتے کوہ پیما کی جانب دیکھے سوال کیا جس پر ضرار نے چند قدموں کے فاصلے پر گلالئی کا ہاتھ تھام کر چلتی اشنال عزیز کو دیکھا اور اسکی آنکھوں میں لمحہ بھر سرد مہری اتری۔

وہ دونوں ہی اندھیرے کے باعث اپنی اپنی گلاسیز اتار کر آگے شرٹ کے گریبان پر لٹکا چکے تھے، بس ہلمنٹ کے سنگ ماسک نے دونوں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے کہ کوئی پہچان نہ سکتا کہ وہ کون ہیں۔

"نہیں کیا معاف جبل زاد! وہ جو مجھے اپنے باپ کا قاتل سمجھ رہی ہیں اسکے لیے انکو اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گا۔ تم جانتے ہو میری ضد، ان پہاڑوں کو ریزہ کر سکتی ہے۔ وہ مجھ سے ضد لگانے پر راضی ہیں تو میں بھی سینہ تان کر آگے جم گیا ہوں۔ بس وہ میرا سب کچھ ہیں جبل زاد اور ایسی لڑکی کو اپنی آنکھوں سے ناراضگی اور ضد میں بھی دور رکھنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ یہاں سکون ہے، وہ میرے سامنے ہیں، اور ابھی اسی آسانی پر میثم اپنے رب کا شکر گزار ہے۔ جہاں تک میرے معاف کرنے کا تعلق ہے تو یہ بس اس لڑکی کے اختیار میں ہے، آج بھی اور میری آخری سانس تک بھی"

شائد اس سے خوبصورت جواب وہ دے سکتا بھی نہ تھا، جبل زاد نے مسکرا کر اپنے سائیں کو دیکھا جو یہاں ہر فکر سے آزاد ہو گئے تھے، وہ شخص جس نے کبھی خواب نہ دیکھا تھا، جس نے کبھی حقیقت سے نکل کر خواہشوں میں جانا مناسب نہ سمجھا تھا آج دیوانے کی طرح پہاڑوں کے چپے چپے تسخیر کرنے نکل آیا تھا، وجہ تھی تو آنکھوں کو تازگی بخشتا صنم کا دیدار، سانس لینے کے لیے صنم کی سانس سے مہکی ہوئی ہوائیں، محبوب کی موجودگی، یہ موسم، یہ تاریکی، یہ مہیب سناٹا، یہ برف کے تودوں کی گرنے کی روح کپکپاتی آواز، یہ پہاڑ کے دامن سے پھوٹتے کسی بے خود جھرنے کی گرنے کی آواز، اور یہ سب عشق والے ہی محسوس کر سکتے تھے۔

اسے بھی اب عشق کرنا تھا، اشنال کے ہر عشق سے۔

کوہ پیماوں کا سفر جاری رہا، جاری رہنے والا تھا۔ رات یونہی دن میں اور دن یونہی رات میں بدلنے والا تھا۔

کچھ دور آگے پہنچ کر رحمان صاحب نے تمام کوہ پیماوں کو ایک گھنٹے کے لیے رک جانے کا اشارہ کیا اور وہ لوگ وہاں اپنے اپنے خیمے لگانے میں مصروف ہوئے، یکدم پہاڑوں پر تیز برف باری کے ساتھ اسی شدت سے چلتی تیز ہوائیں چلنے لگیں تبھی گل اور اشنال بھی اپنے اپنے بیگ اتار کر نیچے رکھتیں ریلکس ہوئیں جبکہ خود اشنال سامنے ہی بنی چھوٹی سی گیلی پہاڑ کی ڈھلوان پر جا بیٹھی، اپنے اردگرد سے بے نیاز وہ چہرہ موڑ کر سامنے اگلے پڑاو کی مانند راہ بنتے اونچے پہاڑ کی جانب دیکھنے میں محو تھی، اور گلالئی ہوا کے باعث اڑتے خیمے کو رحمان صاحب کے ساتھ مدد کروا کر نسب کروانے میں لگی تھی جس میں فوری جبل زاد نے لپک کر انکی مدد کروائی۔

"بہت شکریہ آپکا"

گل نے مسکرا کر دیکھتے کہا مگر جبل زاد نے ساتھ ہی چہرے سے ماسک ہٹایا تو گل کی آنکھیں حیرت اور صدمے سے کھلیں اور اس سے پہلے وہ چینختی، جبل زاد نے اپنا ہاتھ اسکے منہ پر جمایا اور جبل کی یہ بے خود حرکت گلالئی کے جسم کا سارا لہو حیا اور خفت کے مارے اسکے چہرے پر چھلکا گئی۔

"سنیں گلالئی! چینخیں مت، پلیز خانم کو پتا نہ چلے کہ ہم دونوں بھی آئے ہیں، پہلے ہی فون بند کیے آپ نے ان دو کو بہت دن دور رہنے پر مجبور کیا لیکن اب نہیں، آپکو بتانے کو سائیں نے کہا ہے تاکہ اگر خانم کو ہم دو مشکوک لوگوں پر شک ہو بھی جائے تو آپ اس سفر میں انکا شک مٹاتی رہنا۔ ویسے بھی ہم صرف پہلے پڑاو تک آپ سبکے ساتھ ہیں، اسکے بعد ہم واپس چلے جائیں گے لیکن یہ کچھ دن کم ازکم آپ ہمیں یہ فیور دے سکتی ہیں"

جبل زاد نے واپس منہ ڈھک کر جیسے اس لڑکی کو سمجھایا، مگر وہ برہم و ناراض سی سر جھٹک کر پلٹی تو دوسرے مشکوک جاسوس کو اپنی خانم کے گرد منڈلا منڈلا کر سیلفی بناتے دیکھ کر اپنا سر تھام گئی۔

"آپ دونوں پٹ جائیں گے خانم سے، اللہ ہی بچائے اب ضرار سائیں کو"

خفت سے بڑبڑاتی وہ بنا آہٹ کرتی پیچھے ہی لپکی جبکہ وہ جو مزے سے پہاڑوں اور پشت کر کے گم سم بیٹھی اشنال کے ساتھ اسکی بے خبری کے سنگ تصویریں لے رہا تھا، منصوعی کھانسی کی آواز پر پلٹا تو گلالئی گھورتی ہوئی سامنے کھڑی دیکھائی دی جبکہ اسکے عقب میں جبل زاد سائیں کو انگوٹھے سے کام ہونے کا سائن دیتا خود باقیوں کی مدد میں لگ گیا۔

"تم سے حساب باقی تھا گل، لیکن تم نے اشنال سے ہمیشہ محبت کا دم بھرا ہے سو معاف کرتا ہوں۔ تین چار دن تک ہم واپس چلے جائیں گے اور اسکے بعد جیسے بھی کر کے تمہیں مجھ تک اس میڈم کی ہر خبر پہنچانی ہے"

وہ زرا سا اشنال سے دور ہوتا گل کو لیے ایک طرف آیا اور وہ اسکے حکم پر جیسے بل کھا کر رہ گئی، ان پہاڑوں میں وہ کیسے اسے پل پل کی خبر دے جہاں ابھی سے سبکے فون بند اور تمام سگنل ڈیڈ تھے۔

"ل۔۔لیکن کیسے، ہم چار ماہ تک اسی سفر میں ہیں، ہاں اتنا کر سکتی ہوں کے جب ہم کچھ ہفتوں بعد پہاڑوں سے اترا کریں گے تو میں کسی طرح آپکو پورے سفر کی ابڈیٹ دے دیا دوں گی، لیکن اللہ کا واسطہ ہے ابھی انکے سامنے مت جائیے گا، وہ ابھی مکمل ٹھیک نہیں ہوئیں۔ میڈیسن کھا رہی ہیں، لیکن کبھی بھی وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں سو پلیز انھیں تنگ مت کیجئے گا کم ازکم اس سفر کے دوران تو ہرگز نہیں"

گلالئی کی پیلی پڑتی رنگت اور منت سماجت پر ضرار نے نظر پھیرے اس گم صم لڑکی پر ڈالی جو اب تک وہیں بیٹھی ناجانے کن خلاوں میں گھور رہی تھی۔

"انھیں یہ تو بتا کر جاوں گا کہ وہ مجھ سے نفرت میں بھی دور نہیں ہو سکتیں،مجھ سے چھپنے کو یہ پوری دنیا انکے لیے بے حد ناکافی ہے، اور تم صرف اپنے کام پر دھیان دو گلالئی، میری بیوی سے زیادہ چپکنے کی کوشش مت کیا کرو کیونکہ انکے سائے تک سے چڑ ہے مجھے۔ اب جاو شاباش رحمان انکل کی چائے بنانے کے لیے آگ جلانے میں مدد کرو"

رعب کے سنگ وہ جتنا بھی ہارش بولا، سب کے باوجود گل اسکی آخری جھنجھلاہٹ پر سر ہلائے مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور جبل زاد بے سائیں کو اشنال کی جانب بڑھتا دیکھ مر سپنے دہل اٹھتے دل کو تھاما جبکہ یہ جناب بھی جیسے دوبارہ بیڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کو اپنی صنم کی جانب قدم بڑھا چکے تھے جو آنکھیں موند کر ٹھنڈی سرد ہوا کے جھونکوں کو اپنی سانسوں میں گھولنے کا شغل سر انجام دے رہی تھی اور وہ بنا آہٹ کیے اس کے ساتھ ہی آکر بیٹھا اور اس سے پہلے اشنال اپنے پاس آکر بیٹھتے فرد کا احساس کرتے ہوئے دبک اٹھتی، وہ اپنی بازو اس لڑکی کے نازک وجود کے گرد حصارے اسے ساتھ لگاتا بنا اسے خود کو دیکھنے کی مہلت دیتا اس نے اسکا سر اپنے سینے سے لگایا۔

یہ لمس، یہ سینے میں سانس جکڑ ڈالتی مانوس سی خوشبو، یہ استحقاق بھرا جان لیوا انداز اسکے لیے اس روح زمین پر صرف میثم ضرار چوہدری کا تھا تبھی تو وہ بنا اس بات کی تصدیق کیے کہ وہ واقعی وہی ہوگا، اسکے گرمائش پہنچاتے وجود میں آنسو بہاتی چھپ سی گئی۔

کہا تھا ناں اشنال عزیز کے آپ جہاں مرضی چلی جائیں، یہ پوری دنیا چھان ماروں گا۔ ابھی بھی آپ میثم ضرار چوہدری کی پہنچ سے ناواقف ہیں، تمام تر غصے، عداوت اور تلخی کے آپ میرے وجود سے آخری سانس تک انکاری نہیں ہو سکتیں"

دیوانگی میں ڈوبی اسکی گھمبیر آواز اشنال عزیز کے دل پر جابجا اپنے اثرات چھوڑ گئی، پھر لمحے میں اس لڑکی کے حواسوں پر حاوی ہوتا وہ اسکے سینے میں اترتے آنسووں سے خائف ہوا، اسے خود کی جانب دیکھنے پر مجبور کیے جبین پر نرم سے مہر لگائی پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس روتی بے بس لڑکی کی ٹھنڈی پڑتی متزلزل سانسوں کی خوشبو سہولت سے اپنے سلگتے وجود میں اتار کر اندر لگی آتش بجھانے کی سعی کی اور وہ یوں تھی جیسے چاہ کر بھی اسے اس بے خود لمحے خود سے، دھڑکنوں، سانسوں اور وجود کی ہر تھکن سے دور نہ کر پا رہی ہو، اسکے اندر مزاحمت کرنے کی ہمت یکدم ختم ہو گئی تھی اور وہ دنیا جہاں کی ہر لذت اور تکلیف بھول کر اسکی ہونٹوں کی سرگوشیوں میں محویت سے جاگزیں تھی، وہ اس لڑکی کے جامد پڑتے وجود پر رحم کھاتا اسے ہر لمس کی پرتپش شدت سے لمحوں میں آزادی تو بخش گیا پر اس جان لیوا بوند نے اسکے اندر تشنگی کے سمندر کو بپھری موج کر دیا تھا، اور پھر اس لڑکی کا ہر مزاحمت چھوڑ دینا اور یہ جان لیوا موسم میثم ضرار چوہدری کی وارفتگیوں میں اضافہ کا سبب بنا۔

وہ جو ابھی تک اسکے لفظوں کے حصار میں الجھی سہمی نگاہیں اس پر جمائے ہوئے تھی، جب وہ بےاختیار سا آنکھوں پر اپنے پرحدت ہونٹ رکھے الگ ہوا تو اس لڑکی کا اختیار بھی دم توڑ گیا کہ اس شخص کی گرفت میں گھائل کر ڈالتا جنون تھا۔

اپنی خوبصورت آنکھیں نم کیے میثم کو دیکھ رہی تھی جسکے کچھ قبل پہلے کی خود سردی اور تیز یخ بستہ ہواوں کی ملی بھگت کے باعث ہونٹ ہلکے سے گلابی جبکہ آنکھوں کے گوشے سرخ ہو رہے تھے، ہیلمٹ اس نے پہلے ہی اتار دیا تھا جبکہ ماسک بھی محبت بھرے بے بس تقاضے اور ستم کرتے سمے نیچے سرکایا۔

"آپ نے خود کو میرے نزدیک بہت برا بنا لیا ہے صنم! دنیا کیا کم تھی کہ آپ نے بھی مجھے ناکردہ گناہ کی سزا سنا دی۔ کیسے مانا کہ میں قاتل ہو سکتا ہوں۔ میں تو سمجھتا تھا ہوش رہیں نہ رہیں، آپ میری یونہی رہیں گی لیکن میں غلط نکلا۔ میں نے آپکو ہر ممکنہ سنبھالا ، کیا آپکو یاد نہیں۔ میں آپکے ناچاہتے ہوئے بھی قریب آتا رہا، کہ شاید میرے الفاظ جو سمجھا نہیں پا رہے وہ میرے کسی عمل سے آپکو سمجھ آجائے۔ کیا میں اتنا بیوقوف ہوں کے بنا کسی حق کے آپکے قریب آتا لیکن آپ نے خود کو بارہا میرے سامنے اس منحوس کا کہا۔ پھر سنی سنائی قتل کی کہانی پر اعتبار کیے بیٹھی ہیں، اور مجھے دیکھیں سزا کے بجائے آپکو خود میں مبتلا کیے بیٹھا ہوں"

ناجانے کیوں وہ یہ سب کہہ نہ پایا کہ اسے اب بھی یہی لگا جیسے وہ لڑکی اسکے کچھ کہنے پر اس سے دور چلی جائے گی، یہ لمس کے مہربان تعلق توڑ کر پھر سے اسکی سنگدل ضد کو ہوا دے گی، وہ پاگل ہی تو تھا جس سے ڈھنگ سے ناراضگی بھی جتائی نہ جا رہی تھی، اور اشنال عزیز کچھ لمحے بھول گئی کے اس نے ضد لگائی تھی، کونسی ضد؟ کہاں کی ضد؟ بھاڑ میں گئی ضد؟

وہ ایک دوسرے کو جب دیکھتے تو ضدیں پتا نہیں کہاں اوجھل ہو جاتیں، دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑوں پر ننھے ننھے برف کی بھبھول سے سراپے برسنے لگے، برف باری کے ساتھ تیز ہوا ٹھنڈک کے سنگ ان پر چھاوں کرتی چلی گئی، تمام کوہ پیما اپنے اپنے نصب کیے گئے خیموں میں دبکنے لگے، سردی سے دم گھٹنے لگا مگر وہ کھلے سیاہ آسمان تلے ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کے گھٹتے سانس کا علاج کیے سب بھول کر ساتھ ہی رہنے پر آمادہ تھے۔

وہ اسکے ہیلمٹ کو پہلے ہی اتار چکا تھا، اسکے برف سے ڈھکے بالوں میں انگلیاں پھیرتا اسے بھی بے خود کر رہا تھا جو اسکے قریب جانے کی چاہت کو دباتی ہوئی ہوش میں واپس آنے کی کوشش میں تھی۔

"ان دو کو بھی کہو اندر آ جائیں، برف باری کے ساتھ ٹھنڈی ہوا بھی ہے، بیمار ہو جائیں گے"

خیمے کے اندر چھوٹے سے جارجڈ بیٹری سے چلتے چولہے پر پانچ چھوٹے کپ قہوہ بنائے گلالئی ڈسپوزل گلاسیز میں ڈالتی ہوئی ان میں تھوڑا تھوڑا خشک دودھ ڈالے رحمان انکل کی ہدایت پر شرمگیں سا مسکرائی، اب کیا بتاتی کے یہ موسم تو ان دو کے لیے ہی جان لیوا ہوا ہے جبکہ جبل زاد بھی ساتھ ہی بیٹھا من ہی من میں گل کو مسکراتے دیکھ کر مسکایا۔

"ان دونوں کو یہ موسم پسند ہے، بے فکر رہیں رحمان بابا، میں انکو چائے دے کر آتی ہوں۔ اس موسم میں یہ دوا ہی ہے"

ایک بھاپ اڑاتا کپ جبل زاد جبکہ دوسرا رحمان بابا کے سپرد کرتی وہ اپنا بھی وہیں رکھتی دو کپ ہاتھ میں پکڑتی باہر نکلی اور کچھ قدموں کا فاصلہ طے کیے وہ بنا ان دو کو دیکھتے پشت کیے ہی گلا کھنکارے مسکائی تو وہ دونوں ہی اس کباب کی ہڈی کے محل ہونے پر اس حصار سے نکلے۔

اشنال فورا سے بیشتر اٹھ کھڑی ہوئی مگر ضرار نے اٹھتے ہی اسکی کلائی پکڑی اور گل سے چائے کا کپ لے کر بدحواس سی صنم کو تھمائے دوسرا خود پکڑا اور گلالئی کو گم ہونے کا اشارہ کیا جس پر وہ مسکراتی ہوئی، تیز ہوا سے اڑتے بال جماتی واپس خیمے تک آئی اور اندر گھس گئی، جہاں رحمان صاحب کسی رسالے کو کھول کر ٹانگیں سیدھی کیے پڑھنے میں منہمک تھے اور گلالئی نے خود پر جمی جبل زاد کی نظروں کی آنچ سے بچ بچاتے اپنا کپ اٹھایا اور باہر دیکھنے لگی جہاں پہاڑ پر لگا سبزہ برف سے ڈھک رہا تھا اور تیز ہوا کھلے خیمے کے اندر تک گھومتی ان تینوں کو سرد سا احساس بخش رہی تھی۔

"چھوڑو مجھے بے رحم شخص"

اس سے پہلے کہ وہ جان و روح تک اپنے اختیار میں کرتا وہ اسکے ارادوں سے خوف کھاتی اپنا ہاتھ چھڑوا کر واپس اسی جگہ بیٹھی تو ضرار نے بھی لمحہ ضائع کیے بنا ساتھ ہی جڑ کر بیٹھے اس لڑکی کو زچ کیا جو ہاتھوں کے دونوں گلووز اتار کر گود میں رکھتی دونوں ہاتھوں میں گرم کپ کو جکڑے خود کو ہمت دیتی سامنے دیکھنے لگی جہاں پہاڑوں کا لمبا سلسلہ دیکھائی دے رہا تھا۔

"ایسے موسم میں آپ کیسے پہاڑ سر کریں گی، جہاں تک مجھے یاد ہے آپکو تو گرمیوں میں بھی ٹھنڈے یخ پانی سے نہانے پر بخار ہوجاتا تھا"

چائے کا سیپ بھرتا وہ نارمل سے لہجے میں بولا مگر اشنال نے گردن موڑے اسے گھور کر ضرور دیکھا۔

"تمہاری بے حسی نے چند دنوں میں ہی پتھر دل اور بے رحم بنا دیا ہے، اب کسی موسم کی کوئی شدت مجھ پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہاں سے چلے جاو پلیز"

وہ اسکی موجودگی اپنے اردگرد نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ قریب آتے ہی اسے کمزور کر دیتا تھا اور اس لڑکی کا طنز سن کر میثم نے خود کو سراہا کہ آج وہ اپنے سارے شکوے اندر ہی دبا کر اچھا کر گیا۔

"پھر تو مجھے بھی سنگدل ہو جانا چاہیے"

وہ لاپرواہ بنا تلخ ہوا تو اشنال نے دل جلے انداز میں اسکی طرف دوبارہ دیکھا جسکے ہونٹ کچھ زیادہ ہی گلابی اور آنکھیں کچھ زیادہ ہی سرخ ہو رہی تھیں، وہ زیادہ ٹھنڈ برداشت نہیں کر سکتا تھا اور اشنال کچھ بھی کر کے اسے اس موسم سے اور اس سفر سے بچانے کے لیے سنگدل بننے پر اتری۔۔

"تم پہلے ہی سنگدل بن چکے ہو، میرے پیچھے آکر تم اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ تم پر میرے بابا کی موت کا الزام اب بھی ہے۔ تم نے ان لمحوں میں مجھے چھوڑا ہے جن میں مجھے تمہاری سب سی زیادہ ضرورت تھی میثم، میں چاہ کر بھی تمہاری طرف نہیں بڑھوں گی جب تک تم مجھے سب سے واپس نہیں لیتے۔ اور ویسے بھی یہ موسم تمہیں راس نہیں میثم، میں تم پر آنچ تمام تر ناراضگی کے بھی نہیں سہہ سکتی، نہیں چاہتی تم میرے پیچھے خوار ہو جاو، یہ موسم، یہ بے حس اشنال تمہیں مار دے گی"

وہ بھی اس بار اسے کہہ نہ سکی بس دل سا بھرنے پر چائے کا کپ وہیں رکھتی اٹھ کر جانے لگی تو ضرار اسکا یخ پڑتا سرد ہاتھ جکڑتا، دوسرے ہاتھ میں پکڑا کب وہیں نیچے برف پر رکھے ، اشنال کے برف پر گرے گلووز اٹھائے وہ خود بھی اٹھا اور اس لڑکی کی اجنبی آنکھیں دیکھنے قریب آیا۔

"سوچ لیں اشنال، میثم ضرار چوہدری نے اول کسی سے نفرت کی نہیں، جس دن کر بیٹھا اس دن قیامت برپا ہوگی"

وہ اسکی سرد مہر نظروں کی پرواہ کیے بنا سنگدلی سے تنبیہہ کرتے بولا، آواز میں جنون اور شدت ہمکی تھی۔

"یہ شوق بھی پورا کر لو، لیکن واپس چلے جاو۔ تمہارے ساتھ یہ آسان سا سفر میرے لیے بہت مشکل ہو جائے گا"

وہ بے رحم بنی جوابی کاٹ دار وار کیے بولی تو میثم نے اسکی ہاتھ کو اپنی طرف کھینچے اسے اپنے نزدیک لا کھڑا کیا، دل یہی کیا اس لڑکی کی جان لے جائے، دونوں ایک دوسرے کو بے یقین خفا نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

"یہ سب مجھے اذیت دینے کے لیے کر رہی ہیں؟ "

وہ اسکی دونوں بازو جکڑ کر غرایا، جیسے وہ لڑکی ہر بار اسکی برداشت سے کھیل جاتی تھی۔

"ہاں کیونکہ تمہاری محبت نے اشنال عزیز کو تماشا بنا دیا ہے، میں روتی ہوں تو اب تمہارے دل پر میرے آنسو نہیں گرتے، میں جب تمہیں پکارتی ہوں تو  تم میرے پاس نہیں پہنچ پاتے، جس دن میرے پکارنے پر میرے پاس آو گے تب مانو گی کہ تمہارے دل میں موجود اشنال عزیز کی محبت کو گرہن نہیں لگا۔ اور تم نے مجھے شہیر سے واپس نہیں لینا جو یہاں چلے آئے ہو، جا کر اپنے فرض نبھاو۔ میری مشکلات میں اضافہ مت کرو کے دل کو پتھر کرنے میں لہو لگتا ہے"

وہ اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑواتی اسکے سینے پر دباو ڈالتی اسے خود سے پرے دھکیلتی وہاں سے چلی گئی اور میثم ضرار چوہدری نے رخ موڑ کر ان بلندیوں کو سانس کھینچے دیکھا، روح جما دیتی ہوا کو سانس سے اندر گھسیٹا، وہ ان پہاڑوں جتنا بلند تھا کبھی پر یہ لڑکی اسے اسی کی نظروں میں گرا کر چلی گئی تھی۔

"آپ روتی ہیں تو اب بھی دل پر بے رحم برسات کا موسم چھا جاتا ہے لیکن اب میں برداشت کروں گا، اس زہر کو اپنی آخری سانس تک"

اسکا اس موسم کی شدت سے دم گھٹ سا رہا تھا، لیکن سانس کھینچ کر اس بے اپنا ٹوٹتا عہد انتقامی ہوئے واپس مضبوط کیا۔ یہ سچ تھا وہ سردی کی شدت اوائیڈ کرتا تھا اور یہاں وہ کسی صورت سروائیو نہیں کر سکتا تھا جسکا اسے بھی پتا تھا اور اسکے صنم کو بھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اوہ ہو! بچارا زمان خان اور عزیز خان۔ اتنا سب ہو گیا مجھے تو خانوں پر اترے اس قہر کی خبر ہی نہ ہوتی اگر میں واپس نہ آتا۔ لگتا ہے کوئی بڑی زیادتی ہوئی ہے انکے ہاتھوں جو تینوں سردار ایک ساتھ لڑھک گئے، عزیز خان بھی لاپتہ ہے سو نہ مردوں میں نا زندوں میں اور خاقان صاحب بھی مروں میں ہی شمار ہیں"

وہ کافی دنوں بعد واپس علاقے لوٹا تھا اور آتے ہی اماں کوثر اور منشی سانول سے علاقے میں ہوتی سنسنی خیز وارداتوں کو جان کر ہل چکا تھا۔

کوثر اسکے لیے کھانا لگا رہی تھیں ساتھ ساتھ وہ خانوں کے خاندان پر اترے قہر پر خوفزدہ بھی تھیں، جبکہ منشی سانول مجتبی بھی کسی گہری سوچ میں ڈوبے افسردہ سے پاس ہی کرسی پر براجمان تھے۔

"کسی کا عبرتناک انجام دیکھ خوشی نہیں مناتے شہیر، یہ مت بھول کہ ہم نے بھی علیم کو کھویا ہے، مشارب بھلے سردار بن جائے پر اسکے ہاتھ سے قتل تو ہوا اور اب اس کو اذیت میں دیکھ کر میرا دل ٹھنڈا ہوا ہے، خون جس کا بھی بہایا جائے، وہ ایک نہ ایک دن پلٹ کر وار ضرور کرتا ہے"

سانول مجتبی کے لہجے میں سرداروں کے لیے بغاوت اور نفرت تھی وہیں شہیر نے اک لمحہ اپنے باپ سے نظر چرائی، قتل بھلے مشارب نے کیا ہو لیکن سبب تو شہیر تھا اور یہ وہ گناہ تھا جو شہیر مجتبی کے سکون کا قاتل بننے والا تھا، جبکہ کوثر صاحبہ تو ایک بیٹے کی موت سہہ کر دوبارہ زندگی کی طرف آنے کی کوششوں میں تھیں مگر شہیر اس ماں سے بھی نظر ملانے کے قابل نہ تھا۔

آج پہلی بار اسے اپنے گناہ، اپنا ہی سانس گھوٹتے محسوس ہوئے تھے۔

"ہمم، تبھی میں کہوں ضرار نے کوئی پنگاہ نہیں کیا۔ تو وہ ہفتے سے اپنی حویلی میں نظر بند تھا، چلو اچھا ہے اسکی وہ اشنال بھی کہیں چلی گئی، میں بھی کچھ ماہ مصروف ہوں سو اس منحوس سے کوئی جنگ شروع کرنا نہیں چاہتا۔ "

اپنے احساس جرم کو وہ فوری خود پر سے ہٹاتا انتقامی ہوتا اٹھ کھڑا ہوا جبکہ اسکے بوڑھے ماں باپ اسکے ایسے ارادوں پر ہی پریشان دیکھائی دیے اور جب اس نے انکے پریشان چہرے دیکھے تو اسے شرمندگی نے گھیر لیا۔

"خدا کے لیے شہیر، تو ان سب ظالموں سے دور رہنا۔ تو واپس چلا جا پتر، میری مان تو اس بچی کو بھی اس ونی نکاح سے آزاد کر دے۔ سارئ زندگی تو نے ضرار سے حسد پالا ہے، حالانکہ ہم دونوں نے اپنے جسم کی کھلڑی تک خشک کروا لی تم دو کی پرورش کرتے کرتے اور کوشش کی کہ تم دو کی ہر خواہش پوری کریں لیکن ہم لوگوں کو کیا ملا، جوان بیٹے کی موت، اور دوسرے بیٹے پر ہمہ وقت لٹکتی ننگی تلوار ۔۔۔"

اس بار وہ سسکتی ہوئی ماں گڑگڑائی تھی اور شہیر کو لگا وہ اس ماں کی التجاء اور تکلیف پر زمین میں گڑھ گیا ہے، کیا وہ کبھی اپنے گناہوں کی تلافی کر سکے گا؟ ان دو بوڑھی آنکھوں میں کبھی مسکراہٹ لا پائے گا؟ آج پہلی بار ہی اسکے اندر کا انسان جاگا ، لیکن جو کچھ وہ کر چکا تھا، وہ اس سے ضرور اسکا کچھ بہت پیارا چھین کر ہی تلافی کا موقع دینے والا تھا۔

وہ ماں کو پشیمانی چھپاتا خود سے لگائے وقتی سا حوصلہ دیتا گھر سے نکلا اور حویلی کی طرف بڑھا، زمان خان نے اسے زمینی معاملات میں کئی ذمہ داریاں دے رکھی تھیں اور اسی ناطے وہ ولی کی آمد کا سن کر دل سے ہر کدورت وقتی طور پر نکالے اس سے تعزیت کرنے خانم حویلی کی طرف گیا۔

جبکہ وریشہ اور خدیخہ خانم دونوں ہی اذیت کی بھٹی سے گزرتی فرخانہ کو سنبھالنے میں لگی تھیں مگر اس عورت نے اس شخص کا جاتے جاتے جو روپ دیکھا وہ اسکی آنکھوں سے آنسو خشک ہونے نہ دے رہا تھا، جبکہ ولی بھی مشارب کے کہیں اکیلا نکل جانے پر واپسی کا ارادہ کچھ گھنٹوں کے لیے ملتوی کیے اسکی تلاش میں بھیجے لوگوں سے رابطے میں تھا، کیونکہ اسے یقین تھا کہ مشارب جس ذہنی دباو میں مبتلا ہے، اگر اسے کنزا مل گئی تو وہ اسکی قبر بنا کر ہی لوٹے گا۔

خود وریشہ کی بھی اس حادثے پر ولی سے بات نہ ہو پائی تھی نہ وہ سب کے بیچ تعزیت کر پائی تبھی وہ اسکو اپنے کمرے میں جاتا دیکھتی خود بھی پیچھے بڑھی وہیں حویلی کے داخلی دروازے سے شہیر مجتبی بھی اندر داخل ہوا مگر اپنے دو لوگوں کو سامنے سے آتا دیکھ کر وہ انکے پاس ہی رک کر باتوں میں مصروف ہو گیا۔

"جلد از جلد مشارب کو ڈھونڈو، وہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ضرور کنزا کی حویلی گیا ہوگا، جیسے ہی اسکی اطلاع ملے مجھے انفارم کرو"

وریشہ نے اسکے کھلے کمرے کے دروازے سے جھانکا تو وہ اضطراری انداز میں بیڈ کے پاس کھڑا فون پر کسی سے سختی سے مخاطب تھا اور وریشہ کو اس شخص کی تکلیف تب شدت سے محسوس ہوئی جب اسے ولی زمان خان اس پوری دنیا میں بلکل اکیلا لگا، جسکے سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی چلا گیا تھا، سینے میں چھپا لینے والی ماں تو ہوش کھو بیٹھی تھی، بھائی در در کی خاک چھاننے نکل گیا تھا۔

وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا بے اختیار مڑا تو وریشہ کو کھڑا دیکھ کر اس نے چہرے کی تابناکی ہر ممکنہ دبا لی اور اسکا یوں پریشانی سے خود کو وریشہ کے سامنے نکالنے کا ناٹک اس لڑکی کو شدت سے احساس جرم کا شکار کر گیا۔

"میں آجاوں؟"

وہ اجازت لیتی بولی تو ولی نے سر ہلائے مکمل مڑ کر اس لڑکی پر اپنی توجہ ڈالی جو خود بہت بوجھل سی لگ رہی تھی۔

"مجھے پتا ہے بابا کو کھونے کا دکھ کتنا ظالم ہے، ایسا لگتا ہے سر سے سایہ اور چھاوں تاعمر کے لیے ہٹ گئی ہو۔ بابا نہیں تھے تو دادا سائیں نے کبھی اس چھاوں میں کمی ہونے نہیں دی پر آپکے پاس تو دادا نامی چھاوں بھی نہیں رہی۔ اور آپ پر سب کی ذمہ داری آگئی ہے، اس لیے آپکو پہلے سے زیادہ مضبوط بننا ہوگا ولی"

وہ اپنے دکھوں کو محسوس کرتی جیسے ولی کے دکھ کا موازنہ کرتی اسکے قریب آتی ایک مناسب فاصلے پر رک گئی جس کی رنگ بدلتی آنکھیں آج صرف سرخ تھیں، وہ بہت بے بس تھی کہ جب اس شخص کو اسکی ضرورت تھی تو وہ کسی اور کی طرف مائل ہو چکی تھی، تاعمر شاید وریشہ یوسف اسی ہاں اور ناں کی اذیت ناک کیفیت میں ہی مبتلا رہنے والی تھی۔

اسکا دل وہ کمینہ اپنی طرف کھینچتا تو دماغ کہہ اٹھتا کہ نہیں وریشہ، تمہیں چاہنے کا اختیار تو صرف ولی زمان خان کے پاس ہے اور جب وہ ولی کا سوچتی تو دماغ پھر لڑنے لگتا کہ نہیں وریشہ! تم شہیر مجتبی کے نکاح میں ہو، اور جس کے نکاح میں ہوں صرف اسی سے محبت کرتے ہیں، صرف اسی کو محبت کرنے کا حق دیتے ہیں۔

سب سے زیادہ اذیت میں تو یہ لڑکی تھی جسے ہر طرف سے حالات مارنے پر تلے تھے۔

"نہیں وری، وہ کبھی میرے بابا بنے ہی نہیں۔ وہ صرف سردار خاقان کے مخلص بیٹے بنے رہے۔ اگر وہ میرے بابا سائیں بنتے تو آج آپ مجھ سے اتنی دور نہ ہوتیں۔ مجھے دکھ بس اتنا ہے کہ وہ بنا اپنے باپ کی اصلیت جانے چلے گئے جس باپ کے احکامات مان مان کر انہوں نے ولی زمان خان کا دل اجاڑا تھا۔ میرے دل سے انکے لیے  بددعا کبھی نہیں نکلی لیکن مجھے پتا ہے کسی کا دل اجاڑنے والا تادیر بسا ہوا نہیں رہ سکتا۔ وہ مجھے وریشہ یوسف زئی جیسا خسارہ دے گئے، سب سے بڑی تکلیف یہی ہے باقی ولی زمان کل بھی مضبوط تھا اور آج بھی ہے"

وہ جتنا خود کو کئی دن لگا کر ایک سیدھے راستے پر لائی تھی، اس شخص کی حسرت اسے بے دردی سے پھر بھٹکا گئی، وہ کیسے دیکھتی اس شخص کی حسرت، وہ کس سے جا کر پوچھتی کہ اسکا درحقیقت کون ہے؟ یہ دکھ تو وریشہ کو مارنا شروع تھا۔

وہ کس سے دور جائے؟ وہ کس کے قریب جائے؟

بہت مشکل سے آنکھوں میں جمع ہوتے آنسو روک پائی تھی اور بس ایک دوست ہونے کے ناطے اس نے ولی کے قریب بڑھ کر اسکا ہاتھ تھامنا چاہا مگر وہ بےدردی سے دو قدم پیچھے ہٹ گیا، اور وری نے ظالم نظر اٹھائے اس شخص کو اس سنگدلی پر دیکھا۔

"نہیں وریشہ، اس وقت میرے قریب آنے کی غلطی مت کریں۔ بابا سائیں کی موت کے ساتھ ساتھ آپکا غم بھی ہرا ہو چکا ہے جس کے باعث میں بھول جاوں گا آپ میری نہیں کسی اور کی ہو چکی ہیں۔ مجھے اس سنگدلی کے لیے معاف کر دیں، لیکن ولی آپکو کسی مشکل میں نہیں ڈال سکتا"

وہ سخت لہجے میں کہتا اس پر سے اپنی نظر بھی ہٹا گیا، بنا یہ سوچے کہ اس لڑکی پر کیا قیامت ٹوٹی تھی، وہ بھی مزید وہاں رکنے کے بجائے اپنی آنکھیں بے دردی سے رگڑتی کمرے سے نکل گئی اور اسی وقت شہیر سامنے کوریڈور عبور کرتا داخل ہوا جس نے وریشہ کو ولی کے کمرے سے نکلتا دیکھ کر اپنے غصے کو ہر ممکنہ لگام دیے اپنے قدم ولی زمان خان کے کمرے کی جانب بڑھائے۔

آہٹ پر وہ مڑا تو سامنے سیاہ قمیص شلوار میں ملبوس شہیر کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر ولی نے ناگوار نظر اس پر ڈالے اچٹتی نظروں سے لتاڑا جس نے فاصلہ ختم کیے عین ولی کے نزدیک آکر اپنے قدم روکے۔

"تم یہاں؟ تمہیں وہاں کام نہیں دے کر آیا تھا؟"

ولی اسکی آمد پر تلملاتے ہوئے دھاڑا اٹھا۔

"کام کر رہا ہوں یہاں بھی، تم بھول رہے ہو کہ یہاں میری ایک عدد ماں اور ایک باپ ہے جن کو اپنے آخری بچ چکے بیٹے سے ملنے کی تمنا رہتی ہے۔ وہ تو اتفاقا مجھے یہاں آکر ان قیامتوں کا پتا چلا تو سوچا جانے سے پہلے تم سے تعزیت کر جاوں۔ ہماری دشمنی اپنی جگہ پر کسی کو کھو دینے کا غم دشمن کا بھی ہمارے جیسا ہوتا ہے"

ولی کی خفگی کے بدلے وہ بھی جیسے برہم ہوتا اک اک لفظ چبا چپا کر بولا، ابھی تو وہ وریشہ کا اس کمرے سے نکلنا بڑے حوصلے سے برداشت کیے ہوئے تھا، گویا وریشہ یوسف زئی کے اندر اب بھی اس ولی کے لیے جذبے موجود ہونا اس شخص کے اندر آگ دہکا گئے تھے۔

"مجھے تمہاری کسی تعزیت کی ضرورت نہیں سمجھے، تمہیں یہ چند ماہ کی مہلت سیر سپاٹوں کے لیے نہیں دی ہے  ، تمہارے لیے ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ اس کیس میں ہر ایک ناکامی تمہیں تمہاری موت کے قریب لے کر جائے گی اس لیے اگر ملنا ملانا ہو گیا ہو تو پہلی فرصت میں واپس دفع ہو جاو"

ولی کا سارا عتاب گویا شہیر مجتبی پر پھٹا مگر شہیر کو اسکے ایسے لہجے کی عادت تھی تبھی وہ شر انگیز سا مسکرا کر ولی کا عتاب اور بڑھا گیا۔

"ٹھیک ہے سرکار دفع ہو جاتا ہوں پر ایک بات تو بتا انسپیکٹر؟"

وہ عجیب مست سے لہجے میں رازداری سی اوڑھے بولا تو ولی نے اسکی خبیث شکل بمشکل برداشت کیے جبڑے بھینچ لیے۔

"یہ میں نے وری بی بی کو نکلتے دیکھا ہے، کہیں ولن کے مرتے ہی تم دونوں کے جذبات پھر تو نہیں جاگ گئے۔ میرا مطلب تھا ابھی تم دو کی سٹوری میں بڑا ولن یعنی سردار خاقان باقی ہے۔۔۔سو میری مانیں تو اکیلے ملنے ملانے سے اختیاط کریں، کچھ ہو گیا تو قیامت آجائے گی"

وہ اپنی نفرت کو بڑی مہارت سے نصیحت کے ریپر میں لپیٹ گیا تھا جبکہ ولی نے لمحے میں مشتعل ہوتے اسکا گریبان اپنے ہاتھوں میں جکڑا۔

"اس معاملے سے تیرا کوئی تعلق نہیں شہیر، مجھے مجبور مت کر کے میں تیری ہر معاملے میں گھستی ٹانگیں ہی توڑ دوں۔ اس لڑکی کا نام بھی تیری زبان پر آئیندہ نہ آئے"

ولی کا بس نہ چلا وہ وریشہ کو اس طرح اسکے پسندیدہ دیے نام یعنی وری کے سنگ پکارتا، بڑے تحمل کا مظاہرہ کیے اس نے شہیر کی نجس مسکراہٹ برداشت کیے خود کو بپھرنے سے روکا اور شہیر جس کا دل اس جوشیلے انسپیکٹر کی دھمکی پر ویسے ہی شوخی سے مچل اٹھا تھا۔

"اوپس، میں آئیدہ سے اپنی زبان دھو کر انکا نام لیا کروں گا۔۔۔چچ چچ وہ لڑکی تو تیری کمزوری ہے ولی مجھے تو پتا ہی نہیں تھا اتنا سنگین عاشق ہے تو اسکا۔ سب نے اسے تجھ سے چھین لیا پھر بھی تو اس کا نام کسی اور کے منہ سے سن نہیں پا رہا۔ پھر سوچ اگر کسی اور نے اسے سر تا پیر اپنا بنا کر اپنے نام لگا لیا تو کیا کرے گا؟ مجھے لگتا ہے اس دکھ سے ہی تو مرے گا"

بنا اس بات کا احساس کیے کہ ولی زبان کس کرب سے گزر رہا ہے، وہ سفاک درندگی پر اترا اس کے زخمی دل کو مزید درد دے رہا تھا اور ولی نے خود کو بہت روکا مگر پھر جیسے اسکا ہاتھ شہیر کی گردن پر جا جما لیکن شہیر کی مسکراہٹ گویا ولی زمان خان کے دل کو نوچ گئی تبھی وہ اسے بے دردی سے زمین پر پٹخ گیا اور وہ کمینہ زمین پر گرنے کے باوجود پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا۔

"میں تجھے مار دوں گا شہیر اگر تو نے مزید کوئی بکواس کی، دفع ہو جا۔ مجھ سے پہلے تو مرے گا، تجھے اسکا حساب دینا ہوگا۔ نکل یہاں سے اٹھ۔۔۔دوبارہ اپنی منحوس شکل دیکھائی تو کھڑے کھڑے تیرے سینے میں اپنی گن کی ساری گولیاں اتار دوں گا"

ولی کا بس نہ چلا اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتا جبکہ ولی کو واقعی ہتھے سے اکھڑتا دیکھ کر خود ہی شہیر اٹھا اور اپنی قمیص کو جھاڑتے ہوئے ایک تمسخرانہ نگاہ کھولتے، سلگتے اور جلتے ولی زمان پر ڈالی جو اسکی جان لینے کی حد تک غضبناک ہو چکا تھا۔

"ہاہاہاہا چچ چچ مجھے تو سوچ کر ہی ہنسی آرہی اتھرے تھانیدار، تیرا بہت برا حال ہونے والا ہے"

من ہی من میں ہنستا ہوا وہ اپنے ہونٹ کے کنارے سے پھر سے نکلتا خون ہاتھ کی پشت سے صاف کیے ایک متنفر نظر ولی پر ڈالتا کمرے سے نکلا اور ولی نے گہرے سانس کھینچتے ہی کسی جن زادے کی طرح ڈریسنگ کی ہر چیز فرش پر دے ماری، اسکا دل چاہ رہا تھا وہ زور زور سے چینخے مگر جیسے برداشت کرنے کے سوا اسکے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

جبکہ دوسری جانب کنزا ٹھیک صبح کے گیارہ بجے مالنی اور زونی کو برقعوں میں ملبوس کیے سیٹھ گونی کے گودام پہنچی جہاں پہلے ہی ایک نسوانی وجود گونی کے سامنے والی کرسی پر براجمان تھا۔

"آو آو کنو، بیٹھو۔ بیٹھو پیاری بیٹیو!۔۔۔اس سے ملو تم سب یہ ہے ونیزے حسن، میں ان دونوں کے لیے اسی کا گھر مخفوظ ڈھونڈ سکا ہوں۔ میرے بہت وفادار ساتھی کی اکلوتی بہن ہے اور ایسا سمجھو میرا دائیاں ہاتھ ہے اور تم بھی اپنی بیٹیوں کے اس کے ساتھ رہنے پر مطمئین رہو گی۔ ڈرو مت میری بیٹیو! مجھے اپنا انکل سمجھو۔ تمہاری ماں ہمارے لیے گرو جیسی ہے،لہذا تم دو کو ونیزے کوئی تکلیف نہیں ہونے دے گی"

ونیزے حسن نے اپنی گہری سیاہ آنکھوں کو گما کر ان آتی تین خواتین کو دیکھا جو برقعوں میں ملبوس تھیں، دو اسکی ہم عمر پیاری سی لڑکیاں جبکے تیسری کنو تھی جسے وہ بخوبی جانتی تھی جبکہ سیٹھ گونی نے اپنا انداز اس قدر شیریں رکھا کہ کنزا تو مطمئین ہو ہی گئی ساتھ اسکے پیچھے دبکی مالنی اور زونین بھی تھوڑا حوصلہ کر گئیں۔

سیٹھ گونی کے اشارے پر اسکے لوگ جلدی سے تین کرسیاں لائے جن پر وہ تینوں بیٹھیں جبکہ کنو بائی نے ونیرے سے ہاتھ ملائے اس شکارن کو دیکھا جسکی آنکھیں اتنی بھیانک تھیں کہ یوں لگتا وہ کھڑے کھڑے کسی کا بھی پوسٹ مارٹم کر دیں گی۔

"بالکل، میں ان دو کی پوری خفاظت کرو گی سر۔ میرا گھر ان دونوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا۔ تو پھر ہمیں چلنا چاہیے، اس سے پہلے کہ ان کی تلاش کرنے والے ہمارے سفر کو مشکل بنا دیں۔ سفر لمبا ہے لہذا اجازت دیجئے"

وہ اپنی گن میز پر سے اٹھاتی جیکٹ میں رکھے اٹھ کر جب مالنی اور زونی کی طرف لپکی تو وہ دو مزید خوفزدہ ہوئیں مگر ناجانے کنزا انھیں رات سے اب تک کتنا ڈرا دھمکا چکی تھی کہ ایموشنل فول بنیں کنزا کے ایک بار گھورنے پر ہی ونیزے حسن کے ساتھ اپنے اپنے چہروں پر نقاب ڈالتیں اسکے ساتھ باہر نکل گئیں جس نے خود بھی اپنے راعنائی دیکھاتے وجود کو چادر میں چھپا لیا۔

ان تینوں کے نکلتے ہی سیٹھ گونی بھی آنکھوں میں شناسائی سی بھر گیا جبکہ کنو بائی سنجیدہ ہی رہی۔

"کل تم نے کہا تھا کہ تمہارا طلال سے کوئی تعلق نہیں تو ایک آفر کرنا چاہتا ہوں تمہیں "

آج طلال کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھائے وہ سیاہ فام سا خبیث بھی اپنی مطلب کی بات پر آیا تھا جبکہ کنزا کو اسکی انڈے کی طرح سفید خوفناک آنکھوں کے خمار کو دیکھ کر ہی سمجھ لگ گئی تھی کہ اس منحوس کی مانگ کیا ہو سکتی ہے۔

"کیسی آفر؟"

کنو بائی نے ناگواری ہر ممکنہ دباتے پوچھا جس پر وہ اپنا ہاتھ آہستہ سے میز پر رکھے کنزا کے سفید موتیوں سے دمکتے ہاتھوں تک لائے آنکھوں میں جذباتیت سی لائے چھونے لگا اور وہ اسکے اس طرح چھونے کے انداز سے ہی اسکی خواہش سمجھ چکی تھی۔

"نکاح کے بعد سے صرف طلال کا بستر سجاتی آئی ہوں، جیسا بھی ہے شوہر ہے۔ سو تیرے لیے جلد نمکین سا پیس بھیجوں گی آفٹر آل تو میری بیٹیوں کا محافظ بنا ہے، اپنی غلاظت فی الحال سمیٹ لے سیٹھ گونی، کیونکہ کنزا تجھ جیسوں کی اب صرف موت ہے، اپنی مردانگی کی سلامتی چاہتا ہے تو میرے بارے میں دوبارہ ایسا خیال بھی اپنے گندے دماغ میں نہ لانا۔۔۔چلتی ہوں۔۔۔۔"

اپنے تتنے اور غرور میں لپٹی وہ صاف صاف سیٹھ گونی کی کائنات اسی پر ڈھائے تضخیک لٹاتی نظریں اس پر ڈالتی اپنے منہ پر نقاب ڈالے اسکے اس گندے ڈربے سے نکل گئی جبکہ پیچھے وہ گندگی کا ڈھیر اس اہانت اور سبکی پر اپنی وہی سفید دانت نکوستا جبڑے بھینچتا رہ گیا، اسکی نیت بلکل صاف نہ تھی مگر اس نے جو ان لڑکیوں کو ونیزے حسن کے سپرد کر دیا تھا، بچارے نے اپنے ہی پیر پر کلہاڑی دے ماری تھی کیونکہ اس پوری دنیا میں سیٹھ گونی کی سب سے بڑی دشمن تو خود ونیزے حسن تھی جو زونی اور مالنی کو اپنے بڑی سے گاڑی کی پچھلی طرف بیٹھائے انکو ریلکس ہو کر برقعے اتارنے کا کہتی خود بھی اپنی چادر اتار کر گاڑی کے اندر پھینکتی اندر سوار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ونیزے کے سنگ ان دو لڑکیوں کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔

جبکہ دوسری طرف جب نصیر نے بے بس ہونے کی آخری سٹیج پر مالنی کے رات بھاگنے کی خبر ہاشم کو دی تو وہ پہلے تو اس درجہ لاپرواہی کا اپنے آدمیوں سے سرزد ہونے پر بے یقین ہوا اور پھر جیسے پوری قوت سے دھاڑا، حتی کہ اسکی اس دھاڑ پر عزیز خان اور عالم بزدار بھی لپک کر باہر لان کی جانب نکلے جہاں وہ متوخش حالت میں فون پر کسی کو جھاڑ رہا تھا۔

"اپنی زندگی چاہتے ہو نصیر تو اس لڑکی کو تلاش کرو، اگر مجھے رات تک اپنی بیوی نہ ملی تو اپنا انجام سوچ لینا۔ آگ لگا دے گا ہاشم بزادر اس پوری دنیا کو۔ منحوس انسان تم سے ایک لڑکی کی حفاظت نہیں ہو سکی، چوڑیاں پہنا دوں کیا تمہیں"

ہاشم کا غضب جہاں نصیر کا خون خشک کر گیا وہیں ہونق بنے عزئز خان اور بزدار عالم غیض و غضب کے سنگ دھاڑتے ہاشم کو دیکھ رہے تھے اور ان دونوں کا دل دہل اٹھا۔

"س۔۔سر۔ وہ دیوار پھلانگ کر بھاگی ہیں۔ پہرے دار کی کھڑے کھڑے آنکھ لگ گئی تھی مگر وہ جاگ گیا اور جب تک حویلی سے ہم سب نکلے وہ غائب ہو چکی تھیں ج۔۔جیسے زمین نگل گئی ہو"

ہاشم کے عتاب کے آگے جیسے نصیر نے منمنانے کی کوشش کی اور ہاشم اس لڑکی کے اس درجہ بری طرح دکھ پہنچانے اور دھوکہ دینے پر اذیت سے بھر گیا۔

"میں کچھ نہیں جانتا نصیر، چند گھنٹے ہیں تمہارے پاس۔۔۔جلدی ڈھونڈو اسے"

وہ آواز کو لڑکھڑانے سے ہر ممکنہ روکتا اسے سختی سے تنبیہہ کیے کال کاٹ گیا اور بے بسی سے حلق کے بل چلایا کہ خود عالم بزدار پریشانی سے اس بپھرے ہاشم تک پہنچے اور اسے جکڑنا چاہا مگر پھر جیسے اسکی آنکھیں اس باپ کو بھی خوفزدہ کر گئیں۔

"کنزا نے پھر وار کر دیا بابا سائیں، وہ مالنی کو لے گئی۔ اس عورت نے اس بار اپنی موت کو للکارا ہے۔ اپنے بھائی کو مارنے پر بھی اسے کوئی غیرت نہیں آئی۔ کیسے کر سکتی ہے وہ، وہ اتنی سنگدل کیسے ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں کے گھر اور دل کیسے اجاڑ سکتی ہے، میں پاگل ہو جاوں گا۔ اسکے یہ سفاک روپ دیکھ دیکھ کر میرے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی"

مدتوں کا غبار جیسے اس بکھرتے شخص نے نکالا تو خود بزدار عالم کی آنکھیں ہاشم کی حالت پر سرخ ہوئیں جبکہ عزیز خان کی تو بھیگ چکی تھیں۔

"سنبھالو خود کو، اپنی بیٹیوں کو وہ اس طرح مار نہیں سکتی ، میرا دل تو خود پھٹ رہا ہے۔ وہ صرف انتقام لیتی ہے، قسمت نے جو اسکے ساتھ کیا وہ ہر کسی کے ساتھ کرتی ہے۔ تم یوں خود کو تکلیف مت دو، مالنی اور زونی دونوں کو ہم ڈھونڈ لیں گے میرا بچہ، سنبھالو خود کو۔۔۔۔ یہ وقت عقل سے کام لینے کا ہے"

وہ خود افسردہ تھے پر ہاشم کی یہ بکھری حالت انھیں مزید کمزور کر گئی جبکہ وہ تو مالنی کی بیوقوفی پر اذیت میں تھا، وہ لڑکی اسے لاکھ سمجھانے کے باوجود اسکے دل پر وار کر کے گئی تھی اور وہ اس پر مالنی کو معاف نہیں کر سکتا تھا۔

بزدار عالم نے اسے پکڑ کر کرسی پر بیٹھایا تو عزیز خان نے جگ سے گلاس میں پانی ڈالے اسکی طرف بڑھایا مگر یہ آگ پانی سے بجھنے والی نہ تھی تبھی وہ بے دلی سے گلاس جھٹک گیا۔

"اسے کہا بھی تھا مجھے دھوکہ مت دینا بابا، لیکن اس لڑکی نے مجھے پھر بھی دھوکہ دیا۔ چلی گئی وہ اس سفاک کنزا کے پاس۔ میں کیا کروں اب بابا سائیں، وہ کنزا بہت ظالم ہے۔ وہ عورت کچھ بھی کر سکتی ہے، کاش میں اس بیوقوف مالنی کو اپنے ساتھ یہیں لے آتا۔ وہ کیسے کنزا کی باتوں میں آسکتی ہے، نہیں مالنی تم میرے ساتھ ایسا گھناونا مزاق نہیں کر سکتی"

ہاشم کی تو حالت ہی بگھڑ چکی تھی، اس کے دل میں اب صرف کنزا کی درندگی بھری موت کی خواہش باقی تھی۔

"ہاشم! سنبھالو خود کو بچے، وہ ان لڑکیوں کی ماں ہے اور وہ انھیں کسی بھی طرح اور کسی بھی جگہ سے مجبور کر سکتی تھی۔ بس دعا یہ کرو کے کنزا کی یہ سفاکی ان معصوم بچیوں کے ساتھ کوئی ظلم نہ کروا بیٹھے۔ حوصلہ رکھو، ہمت ہار جاو گے تو وہ عورت ایک بار پھر تمہیں توڑ دے گی۔ کیسی بدبخت ہے کہ اسے ہی سزا پر سزا دے رہی ہے جس نے اسکے لیے موت تک کو گلے لگایا تھا۔ آہ کنزا آہ، کاش تم اسی دن مر جاتی جس دن تمہیں بخت نے طلاق دی،اتنے سب فساد برپا تو نہ کرتی۔۔۔۔۔"

عزیز خان جنکا دل پہلے ہی پھٹا تھا وہ خود حوصلہ دیتے دیتے رو دیے، اور بزدار عالم کے پاس اس وقت کوئی تسلی نہ تھی، ضرار بھی نہیں تھا کہ وہ سب معاملات دیکھتا مگر انھیں کیا خبر کہ انکا پوتا بھی وقتی دل اجاڑ کر واپسی کی راہ چن چکا ہے۔

فی الحال تو اس اذیت سے نکلنے کی کوئی راہ دیکھائی نہ دے رہی تھی۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ سیدھا کنزا کی رنگین حویکی آیا تھا، ایک بار پھر ان بدنام گلیوں نے اس خان زادے کے مقدم قدموں کو بوسے دیے، اسکے ہاتھ میں آج گن تھی اور ساتھ میں کوئی محافظ نہ تھا اور آنکھیں جہنم کی طرح جل رہی تھیں۔

جبکہ وہیں اجڑی آنکھوں والی نازلی سفید کفن پہنے خود کو نیلام کرنے کے لیے سجا رہی تھی، کلائیوں میں گنگن، کانوں میں جھمکے، آنکھوں میں اجڑنے کی رضا لیے ماتمی رنگ، نرم ہونٹوں پر پھیلائی لالی۔

پیروں میں پازیبیں، سج دھج کر وہ اس خانے زادے کی منتظر سنہری گلاس میں گھولے گئے امرت میں سفید سفوف ملا رہی تھی اور ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں سے نمکین آنسو بھی اس امرت میں شامل ہو رہے تھے۔

آج سب طوائفوں اور دھندے کی عورتوں کو اس نے میلے پر بھیجوا تھا، خود وہ اکیلی تھی، ان قدموں کو دم سادھے سن رہی تھی جو پل پل اسکی دہلیز کی جانب آرہے تھے۔

اور پھر بادلوں کی اوٹ میں دنکا سورج، کسی حصار میں چھپ کر شام پھیلانے لگا تو حویلی کے دروازے پر جارحانہ دستکیں ہونے لگیں، کوئی دم دیتی اذیت سے گزرتا اس دروازے کو زونین کے نام کے سنگ پکارتا پیٹ رہا۔

"آہ نازلی! تمہاری نیلامی کا وقت ہوا چاہتا ہے"

پائیلوں کی جھنکار لیے وہ تیزی سے بے قرار قدم اٹھاتی باہر صحن تک آئی تو اسکے پیروں میں حرکت تھم گئی، حویلی کا دروازہ شدت بھری قوت کے سنگ دو پٹ میں تقسیم ہوتا کھلا اور سامنے سردار مشارب زمان خان کسی ہارے جواری کی طرح اس کی چوکھٹ پر آیا جسکے ہاتھ میں گن اور آنکھوں میں حقارت تھی۔

سامنے کھڑی سفید فرش بوس فراک اور چوڑی دار پاجامے میں دوپٹے سے بے نیاز کھڑی نازلی کا دل رک گیا ، اسکے ہار سنگار نے ماتم شروع کیا۔

وہ اندر آیا تو حویلی کا دروازہ کسی نے رازداری سے بند کر دیا، لیکن اسے تو خبر ہی نہ تھی کہ وہ کس چال کا شکار ہوا ہے۔

"کہاں ہے کنو بائی؟ بلاو اسے۔۔ کہاں چھپایا ہے اس نے میری زونین کو، بولو ورنہ تمہیں بھی مار دوں گا"

وہ سجی سنوری ہوش جھٹلا اور حواس بھلا دینے کی حد تک اس پرکشش لڑکی کو بنا دیکھے تضخیک لٹاتے دھاڑا جیسے وہ اس لڑکی پر نظر ڈالنے کے حق میں بھی نہ تھا اور یہیں سے نازلی کو اپنی وقعت کا اندازہ ہوا۔

"وہ تو چلی گئی ہیں، آپکی زونی کو وہاں چھوڑنے جہاں تک آپکی نہ آواز پہنچے گی ناں تکلیف خان زادے"

وہ اپنے قدموں کی مٹی چھوڑتی مشارب کی طرف بڑھی جس پر وہ اسکی طرف دیکھتا جبڑے بھینچ کر ساتھ ہی نفرت بھری نگاہ حویلی کے در و بام پر ڈال گیا۔

مکمل سیاہ میں لپٹا وہ اس وقت سر تا پیر کوئی بکھرا اجڑا ہوا جواری لگ رہا تھا۔

"ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں وہ میری زونین کو لے جائے، سنا تم نے۔ میری آواز اور میری تکلیف اس لڑکی تک ہر صورت پہنچ رہی ہے، اپنی اس غلیظ ماں کو کہہ دینا کہ اپنی زندگی کے دن گننے شروع کر دے کیونکہ جو نقصان اس نے میرا کیا ہے اس پر موت سے کم سزا بنتی ہی نہیں"

وہ خشونت بھری سخت آواز میں چلا اٹھا تھا جبکہ نازلی نے چند قدم مزید اس بکھرے، ٹوٹے، ریزہ ریزہ شخص کے قریب بڑھائے جو اس سے زیادہ کسی آسیب کو بھی قریب آنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

"موت تو ہو گئی ہے خان زادے! آپکی، وہ میری ماں ہیں جو وہ آپکو کبھی زونین کے قریب جانے نہیں دیں گی۔ آپ خود پر رحم کیوں نہیں کھاتے، آپکی تکلیف بہت بڑھ چکی ہے"

وہ مزید قریب آئی تو جیسے مشارب نے یکدم دل کی دھڑکن مدھم ہونے اور سانس گھٹنے پر لڑکھڑا کر پیچھے ہٹنا چاہا مگر نازلی نے اسکا مضبوط ہاتھ جکڑ کر اسے اک لمحہ قید سا کیا ، اور مشارب زمان کی اس غلط وقت سانس رکنے لگی۔

"ت۔۔تم دور رہو، ہٹو۔۔تم نے ہمت کیسے کی مجھے چھونے کی۔۔۔۔ تم سب ایک جیسی بازاری ہو۔۔۔دور۔۔۔۔"

وہ جسکا سانس رک رہا تھا، وہ نازلی کو باقاعدہ خود سے کسی اچھوت کی مانند پرے دھکا دیتا خود بھی اپنی سانس گھٹنے پر لڑکھڑایا اور بمشکل دیوار سا سہارا لے سکا مگر نازلی اس کے گرتے وجود کو سنبھالنے کو بے اختیار اپنے آنسو بے دردی سے رگڑتی بڑھی جو سانس نہیں لے پا رہا تھا۔

"ک۔کیا ہوا ہے آپکو؟ خان زادے؟۔۔۔۔کیا ہو رہا ہے"

نازلی جو سب بھول کر اسکی رکتی سانس پر آدھی ہوئی جسے معلوم نہ تھا کہ وہ استھمہ کا پیشنٹ ہے وہ اٹھ کر دوڑی اور وہی تیار کیا سکون کا پھیکا شربت جو اس نے کنزا کی ہدایت پر بنایا تھا لائی اور اس نے مشارب زمان کے منہ میں چند قطرے ڈالے، وہ بالکل ہوش میں تھا مگر اسکی رکتی سانس اس وقت نازلی تک کا دم گھوٹ رہی تھی۔

اس شخص کے گلابی ہونٹ یکدم نیلے پڑنے لگے تھے، پھر تیزی سے اسکی سانس لینے کی کوشش میں اسکا مضبوط جسم تک لرز اٹھا، جبکہ مشارب کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سینے کی جکڑن شدت پکڑتی اسکی جان لینے پر اتر رہی ہے پھر اس لڑکی کے باعث وہ دگنی اذیت میں تھا۔

وہ اسے اپنا کمزور سہارہ دے کر اٹھاتی اندر ائی اور بیڈ پر بیٹھائے وہی پانی پلانے لگی جسے مشارب نے پیا اور وہ بے جان سا ہوئے وہیں بیڈ پر گر گیا۔

اسکے بعد نجانے کیا ہوا کہ ایک گھنٹہ یونہی گزرا اور نازلی اپنے برہنہ کندھے کو واپس بازو پر چڑھاتی اجڑی ہوئی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر سے باہر نکلی اور پھر صحن میں ہی لگے تحت پر ایک سفید خط رکھتی وہ اپنے راعنائی بکھیرتے وجود کو چادر سے ڈھانپتی مردہ چال چلتی حویلی سے نکل گئی اور دروازہ بھی کھل چکا تھا

جبکہ کچھ دیر بعد حویلی میں کنزا داخل ہوئی، دروازہ بند کیا اور اسکی پہلی نظر اس پھڑپھڑاتے کاغذ پر گئی،

کنزا نے وہ خط نکالا اور وہیں تحت پر بیٹھ کر پڑھنے لگی۔

مما! کاش آپ نے مجھے یہاں آتے ہی جسم فروشی پر لگا دیا ہوتا ، مجھے سنبھال کر نہ رکھا ہوتا، کسی سفاک درندے کے آگے ڈال دیتیں پر مجھے یوں اس کے سامنے بے آبرو نہ کرتیں جو کسی اور کی محبت میں سر تا پیر ڈھانپا ہوا شخص تھا۔ اس لفافے میں پڑے فون میں آپکی مطلوبہ تصویریں اور نازلی کی نیلامی کی وڈیو ہے، میں نے آپکا کام مکمل کر دیا۔ وہ انسان آدھا مرا ہوا تھا اور آدھا اسے نازلی نے مار دیا۔ اب آپ یہ سب زونین کو دیکھا کر باآسانی اس لڑکی کو اس خان زادے سے آخری سانس کے جیسے چھین لیں گی جانتی ہوں۔ لیکن آپکو ایک بات بتاوں کہ اس طاقت ور بہکا دینے والے مشروب کو پینے کے باوجود اس خان زادے نے نازلی کو اپنا آپ چھونے بھی نہیں دیا، اپنی ایک تھکی سانس تک مجھ تک پہنچنے نہیں دی، آفرین اسکے امانت دار ہونے پر، آفرین ہے اسکے زونین کا ہونے پر، ان تصویروں کے لیے جو قربت اختیار کی وہ میں نے زبردستی اسکی غفلت میں کی کیونکہ وہ بار بار سانس رکنے پر بے ہوش ہو رہا تھا، وہ زونین کی محبت میں اب بھی سر تا پیر ڈھانپا ہوا ہے کہ میں اسکے جسم کو نہ برہنہ کر سکی نہ ایک بھی انگ دیکھنے کی جرت کر سکی، آپ تو کامیاب ہو گئیں لیکن ان دو کو زندہ درگور کرنے والی نازلی اب یہاں نہیں رہے گی۔ میں جا رہی ہوں، اپنا نیلام وجود لے کر بہت دور۔ اگر زندگی نے موقع دیا تو اپنے اس گناہ کی تلافی کرنے کی کوشش ضرور کروں گی تب تک آپکو آپکی یہ نجس جیت مبارک۔۔۔۔پالنے کا بہت بڑا تاوان لیا ہے آپ نے مجھ سے، خدا آپ جیسی ماں کسی دشمن کو بھی نہ دے۔

نازلی"

یہ حظ لکھتے ہوئے جانے وہ لڑکی کتنا روئی تھی کہ اس کاغذ میں اس لڑکی کے بے مراد آنسو جذب ہو گئے تھے جبکہ کنزا کا دل ایک بار بھی اس ظلم پر نہ کپکپایا بلکہ اسکی آنکھوں اس جیت پر نشہ چھایا، وہ اس خط کو اپنے بیگ میں سنبھالے وہ فون بھی اپنے قبضے میں لیتی اندر بڑھی جہاں مشارب زمان خان ہوش و حواس کھوئے نازلی کے ہی کمرے میں اسی کے بستر پر پڑا تھا، اسکے سیاہ کپڑوں پر ایک بھی سلوٹ نہ تھی ، لیکن کنزا کو جو چاہیے تھا وہ ان تصویروں میں اسے مل چکا تھا، اور وہ مشارب کو مارنے کا پورا پلین بناتی جس طرح آئی اسی طرح وہ جھوٹے ثبوت لے کر اپنی ہی حویلی سے نکل گئی تاکہ اسکی تلاش میں آتے بھوکے کتے جب تھک کر واپس چلے جائیں تو وہ واپس اس حویلی میں لوٹ آئے۔

ولی زمان خان کے لوگ جب حویلی پہنچے تو انھیں زندگی اور موت کی جنگ لڑتا مشارب زمان ملا، اسکی حالت بہت بگھڑ چکی تھی تبھی ولی کو خبر پہنچائے خود وہ اسے ہوسپٹل لے کر روانہ ہوئے۔

نہ تو مشارب کی سانس چل رہی نہ اسکا دل دھڑک رہا تھا، اور مشارب کی ایسی حالت کا سننتے ہی ولی بنا کسی کو انفارم کرتا واپس چلا گیا اور جب ہوسپٹل پہنچ کر اسے یہ خبر ملی کہ مشارب انکو کوٹھے سے ملا تھا، تو اسکے پیروں تلے سے حقیقی زمین نکل گئی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سیر کو ہمیشہ سوا سیر ٹکڑاتا ہے جبل زاد! اور یہ بات اب سمجھا ہوں۔ میں جا رہا ہوں، واپس"

وہ گویا اس سے زیادہ برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتا تھا اور پھر اب واپسی ناگزیر بھی تھی۔

"لیکن سائیں؟"

جبل زاد نے پریشانی کے سنگ اسکے فیصلے کو سن کر آہستگی سے اختجاج کرنا چاہا مگر ضرار سیدھا رحمان صاحب کی طرف بڑھا اور کچھ دیر بعد ان سے اس سفر کے لیے معذرت کرتا وہ اپنا بیگ کندھے پر ڈالے ہلمنٹ ہاتھ میں پکڑتا واپس جبل زاد تک آیا جسکا اب تک رنگ اڑا تھا۔

"دونوں کے اردگرد ہی رہنا، یہ چار ماہ وہ دونوں تمہاری خفاظت میں ہیں جبل زاد۔ مجھے لگا تھا میں رک پاوں گا لیکن یہاں کا دل جلا موسم مجھے ایک دن بھی راس نہیں آیا، نہ یہ لڑکی مجھے یہاں آسانی سے زندہ رہنے دے گی۔ اسکی سزا اب میں طے کر چکا ہوں۔ تم یہیں رہو گے۔ مجھے واپس جانا ہی ہوگا، خاقان خان کی عبرت تو طے کر آیا تھا مگر مجھے امید نہ تھی کہ یہ کنزا باپ سے بڑا حلق کا کانٹا بنے گی۔ اسے بھی شاید میثم ضرار چوہدری کے ہاتھوں ہی موت ملے گی۔ اپنا بھی دھیان رکھنا"

ضرار کی واپسی طے ہو چکی تھی اور فون کے سگنل کچھ لوٹے تو اسے دادا سائیں کا میسج بھی موصول ہوا جسکے بعد وہ یہاں رکنے اور اشنال عزئز سے مزید دل اور سر کھپانے کی ہمت یکجا نہ رکھ سکا دوسرا اسکے چہرے اور ہاتھوں پر یہاں کی وجود توڑ سردی کے باعث ریڈنس آچکی تھی اور اگر اس چیز کا بروقت علاج نہ ہوتا تو اسکی کئی ہاجینک ایشو شروع ہو جاتے جو اسے بچپن سے لاحق تھے۔

"سائیں آپ بھی اپنا دھیان رکھیے گا، میں ان دونوں کے ساتھ ہی رہوں گا مگر میرا دھیان آپکی طرف ہی لگا رہے گا"

جبل زاد کو اس سفر میں سائیں کے بغیر دلچسپی محسوس نہ ہوئی اور پھر ضرار کا وہ ہمیشہ سایہ بن کر رہا تھا تبھی اسے اکیلا بھیجنے پر وہ پریشان ہوا۔

البتہ یہاں آنے سے پہلے ان دونوں کا ارادہ چار ماہ سفر کا تھا اور پھر جب ضرار نے یہاں کا موسم دیکھا تو فیصلہ لیا کہ وہ چار دن بعد لوٹ جائیں گے مگر اب اسے ان نازک لڑکیوں کے لیے کوئی مضبوط محافظ بھی ضروری لگا تبھی اس نے جبل زاد کو سفر جاری رکھنے کا حکم دیا۔

"میری فکر مت کرو، میں وہاں کے معاملات دیکھوں گا جا کر کے اس کنزا کو اب کونسی آگ لگی ہے جو بجھائے نہیں بجھ رہی، مجھے نکلنا ہوگا لمبا سفر ہے"

جبل زاد کے کندھے تھپکاتا وہ اس سے اجازت لیتا واپسی کے لیے پلٹا مگر پھر نظر اس لڑکی تک گئی جو گلالئی کے ساتھ پشت کر کے کھڑی دو تین اور کوہ پیما لڑکیوں سے باتوں میں مصروف تھی، خود جبل زاد نے اداسی کے سنگ ضرار کی نظروں کا تعاقب کیا، چار ماہ اس لڑکی سے دور رہنا اسکے سائیں کے لیے آسان نہ تھا۔

"اب نہیں بخشوں گا اشنال عزیز، ہرگز نہیں بخشوں گا۔ آپکے ایک ایک ظلم کا سود سمیت بدلا لے گا میثم ضرار چوہدری، ویٹ اینڈ واچ"

انتقامی ہو کر اس لڑکی کو دیکھتا وہ ساتھ ہی جھمپ مارتا جبل زاد کو ہاتھ ہلاتا واپسی کے لیے پہاڑی کودتا مڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے میثم ضرار چوہدری ان پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتے ہوئے جبل زاد کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور بے اختیار اشنال عزیز پلٹی تو جبل زاد کو سامنے نچلے راستے کی جانب نظر جما کر دیکھتا پائے وہ افسردہ سا ہوئی۔

"مجھے معاف کر دینا، لیکن تمہاری کنڈیشن ایسی نہیں تھی میثم کے تم مزید ان موسمی سختیوں کو جھیل پاتے۔ مجھے پتا ہے اب تمہیں شرطیہ اس لڑکی سے نفرت ہو جائے گی، اور اچھا ہے مجھ جیسی پاگل سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی۔ جب سے اشنال عزئز تمہاری زندگی میں آئی ہے تم صرف آزمائے جا رہے ہو۔ آئی مس یو میثم، پر کیا کروں تمہیں اپنے قریب رہنے کی اجازت دے کر اپنے عہد ڈگمگا نہیں سکتی تھی"

وہ اسکے اوجھل ہو جانے کو سوچتی دل میں کہے اپنی اداسی بھری آنکھوں کو واپس اس موسم کی خوبصورتی کی سمت متوجہ کر چکی تھی مگر یہ وہ بھی جانتی تھی کہ اس شخص کے بنا ہر خاص موسم صرف عام سا موسم رہ جائے گا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کافی دیر وہ آوارہ گردی کرتا رہا، زمینوں پر ہی جاری کام کی نگرانی کے دوران ہی اس نے اپنے اندر کی وحشت دبائی اور وہ آگ بجھائی جو وریشہ یوسف زئی کو ولی زمان کے قریب دیکھ کر اسکے جسم کو جلا رہی تھی۔

پھر کچھ سوچ کر وہ واپس گھر گیا، ماں اور باپ سے لمبی اجازت طلب کیے شہر واپس جانے کا ارادہ باندھا مگر دل اس لڑکی کی عقل ٹھکانے لگائے بنا واپسی پر آمادہ نہ تھا تبھی وہ سیدھا یوسف زئی حویلی پہنچا، ملازم سے سردار شمیشر کا پوچھا جس سے اسے علم ہوا کہ وہ سردار خاقان کے پاس ہیں اور پھر اس نے وریشہ کو بلوایا۔

"حویلی کی عورتیں کب غیر مردوں سے ملی ہیں جو تم نے ان سے ملنے کی خواہش کہی شہیر مجتبی"

ملازم اسکے سوال پر سیخ پا ہوا جبکہ شہیر نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اٹھنے سے روکا اور جبڑے بھینچ لیے، یہ تو شور شرابہ سن کر خود ہی وریشہ نے مہمان خانے کا رخ کیا تو ملازم سے منہ ماری کرتے شہیر کو دیکھ کر ہی اسکے چہرے پر ناگواری عیاں ہوئی۔

"آپ جائیں یہاں سے"

وریشہ کو اندر آتا دیکھ کر ملازم مودب ہوا اور پھر اسکے کہنے کی دیر تھی کہ وہ فرمابرداری سے سر ہلاتا شہیر پر اک متنفر نظر ڈالے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ وریشہ نے ملازم کے جاتے ہی سارا لحاظ بالائے طاق رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے خود کی طرف بڑھتے شہیر کو ہاتھ کے اشارے سے وہیں رک جانے کا حکم صادر کیا۔

"قریب آنے کی جرت مت کرنا کیونکہ اس وقت تم سردار شمشیر یوسف زئی کی حویلی میں کھڑے ہو۔ نہ تو یہ دیواریں ہم دو کے رشتے سے مانوس ہیں نہ یہاں کی آب و ہوا۔ جو کہنا ہے کہو اور جاو یہاں سے"

گریز کا تاثر دیتیں وریشہ کی آنکھیں ہوں یا سختی صادر کرتے لفظ، وہ اس وقت اسکے حکم ماننے نہیں آیا تھا تبھی اسکے لفظوں میں چھپی تنبیہہ بھاڑ میں جھونکتا لمحے میں وریشہ کی کلائی جکڑتا اسکے سپنے قریب کر کے کھڑا کرتا خونخوار ہوا جو خود اسکے وحشی انداز پر بوکھلائی۔

"لیکن تم اور میں،  ہمارے بیچ کے رشتے سے بخوبی واقف ہیں سو باقی گئے بھاڑ میں، آج تو تمہیں ولی کے قریب برداشت کر لیا وریشہ یوسف زئی، اگلی بار تمہیں زبانی تنبیہہ نہیں کروں گا بلکہ عملی طور پر وضاحت پیش کروں گا کہ تم صرف مجھے دیکھنے اور سننے کی روادار ہو۔ جب تک میرے نکاح میں ہو، تم کسی اور کے سائے کے قریب بھی نہیں جا سکتی۔ یہ بات اپنی الٹی کھوپڑی میں بٹھا کر رکھنا۔ ہاں جب اس قید سے نکلو گی تو جہاں مرضی جانا، لیکن ابھی میری غیرت کو للکارنے کی کوشش بھی مت کرنا، کہا تھا پہلے بھی اور پھر کہہ رہا ہوں کے کسی وجہ سے جھک رہا ہوں تو مجھے اپنے قدموں میں گر پڑنے والا مت سمجھنا۔ اور اب اگر تم نے مجھے مزید سلگایا تو ولی کو بذات خود اپنی وری نامی ملکیت کی خبر دوں گا، پھر جب وہ سانس سانس کے ساتھ مرے گا تو تمہاری جان خود بخود نکل جائے گی"

وہ اسے جبڑے بھینچ کر تلملاتا ہوا یہ سب کہے گویا وریشہ کے دل میں اپنے لیے رہی سہی نرمی بھی خاکستر کر چکا تھا، اور ولی کے بارے سن کر وہ غراتی ہوئی اپنی بازو اسکی گرفت سے جھٹک گئی۔

"تم ایسا کچھ نہیں کرو گے سمجھے، میں خود تمہاری جان لے لوں گی شہیر۔ مجھے اس انسان کی نظروں میں مزید مت گرانا"

جو حالت اس نے ولی کی دیکھی تھی اسکے بعد یہ انکشاف اس انسان کی سیدھی سیدھی موت تھا تبھی وہ تمام تر غصے کے اس سے منت کر اٹھی۔

"اور تم بھی مجھے میری نظروں میں گرانا بند کرو، نہ تمہارے دادا یہ برداشت کر سکیں گے نہ تمہارا پیارا ولی۔ اس لیے آج کے بعد تم اگر اس کے سامنے بھی گئی تو انجام کے لیے تیار رہنا۔ مجھے شہیر مجتبی ہی رہنے دو بیوی، مجھے دوبارہ سے چیڑ پھاڑ ڈالتا درندہ مت بننے پر اکساو۔ کسی اور کے لیے التفات رکھتی عورت منظور نہیں ہے مجھے اور چند ماہ دے رہا ہوں تمہیں فیصلے کے لیے، اگر اس کے بعد بھی تم میرے لیے اپنے اندر محبت جگا نہ سکی تو مجبورا مجھے تمہارا حاکم بننا پڑے گا اور زبردستی تمہارے دل میں اپنی اور صرف اپنی محبت پیدا کرنی پڑے گی کیونکہ مجھ سے رہائی کی شرط صرف محبت ہے۔ فی امان اللہ "

اس لڑکی پر اسکی کائنات الٹاتا وہ یہ زہریلے الفاظ وریشہ کی سماعت پر برساتا جس طرح آیا ویسا ہی بپھری موج بنا مہمان خانے سے نکل گیا اور وریشہ یوسف زئی نے دم سادھے خود کو صوفے پر لڑھکایا۔

اس شخص کی باتیں، ولی کی حالت ، وریشہ کو خود کشی پر اکسا رہی تھیں خدا خیر کرے۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"آجاو، امید یے میرا غریب خانہ تم دونوں کو پسند آئے گا"

ونیزے حسن کا گھر زیادہ بڑا تو نہیں تھا مگر اس لائق ضرور تھا کہ وہ لڑکیاں وہاں سکون و اطمینان سے رہ سکتیں، جنکے دماغوں میں کنزا نے گزری رات جی بھر کر زہر بھر دیا تھا، گھر سڑک کنارے پر بنا تھا اور گھر کے ساتھ ہی چھوٹا سا لان جبکہ تین کمروں ، اٹیچ باتھ، ایک کچن اور ایک سٹور پر مشتمل یہ گھر ونیزے کے بھائی شیر علی کی ملکیت تھا جسکی قمیت لگ بھگ چالیس لاکھ کے قریب تھی، وہ انھیں سیٹھ گونی کے دلائے گھر کے بجائے یہاں لائی تھی تاکہ ان دو لڑکیوں کو اس منحوس سے بچا سکے۔

"گھر میں ہر ضرورت کی چیز موجود ہے، اس گلی میں خالا فرزانہ ہیں جو ہر صبح دس کے قریب آیا کریں گی اور آپ دونوں نے گھر کا جو سامان منگوانا ہوا ان سے منگوا لیجئے گا اور پیمنٹ میں خود کروں گی، گیس ، بجلی اور پانی کی بھی سہولت ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ میں کم و بیش ہی گھر آتی ہوں کیونکہ بھائی کی موت سے اب تک سیٹھ گونی کی طرف سے بھائی کو دی ساری ذمہ داریاں میں سنبھالتی ہوں۔ وہ مویا اس گھر تک نہیں پہنچ سکتا اور کنو بائی بھی صرف فون کر پائے گی، میں اسے بھی یہاں آنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ سو تم دونوں جتنے دن یہاں رہنا چاہتی ہو رہ سکتی ہو"

ونیزے نے ان دو کو کمفرٹیبلی ماحول فراہم کیے چند ہدایات سونپیں اور پھر ایک سیل فون زونین کی طرف بڑھایا جسے زونی نے مالنی کی جانب دیکھتے اسکے سر کے اشارے پر ونیزے سے لے لیا جس پر وہ ان دونوں کو دیکھ کر دھیمی سی مسکرائی۔

"اس فون میں صرف کنزا کا نمبر ہے، اور اس فون کا نمبر بھی بس کنزا کو دوں گی۔ جب تک تم دونوں میرے پاس ہو کوشش کرنا ان لوگوں سے رابطہ نہ کرو جن سے کنزا تم دو کو دور کر کے یہاں لائی ہے۔ ورنہ تم دونوں کے ساتھ ونیزے حسن بھی پھنس جائے گی۔ سفر لمبا تھا اس لیے تم دونوں تھک گئی ہوگی، دروازہ بند کر لو اور آرام کرو۔ اس گاوں میں کوئی گندا اور نجس آدمی نہیں رہتا، نہ لوگ دوسروں کے معاملوں میں ٹانگ اڑاتے ہیں اور ویسے بھی یہاں ونیزے حسن کی بہت عزت ہے سو سب میری مہمانوں کو تنگ کرنے سے گریز کریں گے"

وہ نرمی سے دونوں گھبرائی اور پریشان لڑکیوں کو ہدایت کرتی اسی اجلت میں گھر سے نکلی تو مالنی اسکے پیچھے ہی دروازہ بند کرنے لپکی جبکہ زونی بھی کمروں کو دیکھنے اندر بڑھی، سب بہت نفیس اور صاف ستھرا تھا جیسے ونیزے کی غیر موجودگی میں بھی اس چھوٹے سے گھر کی روز صفائی کی جاتی ہو۔

جبکہ خود مالنی ہاتھ میں پکڑا فون لیتی لان کی طرف جا بیٹھی، ہاشم کے بارے میں رات اسے کنزا نے جو بتایا وہ اسے ہاشم کو اپنی خبر دینے سے روک رہا تھا۔

رات کا منظر جیسے مالنی کی آنکھوں میں اترا۔

جب رات زونی ، مالنی کے آجانے پر بھی بہت دیر روتی روتی اسکی گود میں سر رکھے سو گئی تو کنزا کمرے میں داخل ہوئی، لوہا گرم تھا تبھی اس شاطر عورت نے سوچا کیوں ناں وہ مالنی کے دل میں ایچ بی کے لیے مزید زہر بھر دے تاکہ وہ لڑکی چاہ کر بھی ہاشم سے رابطہ کرنے کی روادار نہ رہے۔

کنزا کو ویسے ہی ہاشم کے مالنی سے نکاح کرنے پر آگ لگی تھی تبھی وہ آرام سے آکر اداس سی مالنی کے پاس آکر بیٹھی جو بوجھل انداز میں زونی کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔

"میں نے تمہیں کتنا روکا مالنی لیکن تم نے میری ایک نہ سنتے ہوئے اس ہاشم سے نکاح کر لیا، تم نے پوچھا نہیں کہ مما آپ مجھے ہاشم سے دور رہنے کا کہتی ہیں تو اسکے پیچھے وجہ کیا ہے؟"

کنزا یکدم چہرے پر مظلومیت سجا لائی اور اسکی بھری آنکھیں دیکھ کر مالنی نے بھی نظر اٹھائے اس دھوکے باز عورت کے منصوعی آنسو دیکھ کر دل اداس محسوس کیا۔

"ہو تو گئی ہوں دور، آپ نے زونی آپی کے لیے مجھے بلیک میل کیا۔ اگر آپ نے میری پرورش نہ کی ہوتی تو میں مر کر بھی ہاشم جیسے انسان کو یوں تکلیف بھرا دھوکہ نہ دیتی۔ میں آپکے لیے نہیں صرف زونی آپی کے لیے آئی ہوں کیونکہ یہ آپکے رحم و کرم پر رہتیں تو ضرور مر جاتیں۔ کم ازکم مجھے اپنے پاس محسوس کر کے انکی تکلیف تو کم ہوگی کہ یہ اکیلی آپکی درندگی کا شکار نہیں ہوئیں بلکہ مالنی بھی انکے ساتھ ہے"

ناچاہتے ہوئے بھی مالنی اپنی نفرت اور حقارت چھپا نہ سکی اور کنزا اسکے اندر بھی بغاوت محسوس کر رہی تھی تبھی ایک آخری وار کیے اس نے اس سے ہاشم کو رہا سہا بھی دور کرنے کی ٹھانی۔

"تمہارا بدگمان ہونا جائز ہے مالنی لیکن تمہیں اس ہاشم جیسے فراڈیے سے دور کرنے کے لیے میرے پاس اور کوئی چوائز نہ تھی"

کنزا نے پھر سے تکلیف کے سنگ مالنی کو ایموشنل بیلک میل کرنا چاہا اور وہ ہاشم کے لیے فراڈیے کا لفظ سن کر ہی کنزا پر جی بھر کر برہم ہوئی۔

"پلیز مما، وہ اب مالنی کی زندگی ہیں۔ ایسے گندے لفظ کم ازکم آپ انکے لیے میرے سامنے مت بولیں۔ پہلے ہی میں انکی نظروں میں گر چکی ہوں، آخری سانس تک بھی وہ مجھے اس ظلم پر نہ بخشیں تب بھی وہ حق پر ہوں گے"

مالنی کے اندر ہاشم کے لیے اس قدر سچی محبت دیکھ کر کنزا کے اندر شرارے دوڑ اٹھے۔

"آہ بیوقوف مالنی! تمہیں پتا ہے اس شخص کی زندگی میں پہلے بھی ایک عورت آئی تھی، وہ تو محبت کر چکا ہے، تمہیں پتا ہے وہ چہرہ کیوں چھپاتا تھا کیونکہ وہ اسی عورت کے لیے جلتی آگ میں کودا تھا۔ تم جاننا نہیں چاہو گی کے وہ عورت کون تھی؟"

کنزا نے بروقت وار کیے مالنی کے چہرے کے سارے رنگ فق کیے، وہ آنکھوں میں آنسو بہت مشکل سے سمیٹ پائی۔

"پلیز مما! مجھے مزید تکلیف مت دیں"

وہ ایسے ذکر پر ہی سسک اٹھی اور کنزا کی سفاکی کی تو حد ہی نہ رہی۔

"یہ تکلیف دینی اس تکلیف سے بچانے کے لیے ضروری ہے میری بچی جو تمہیں وہ شخص تاعمر دینے والا ہے۔ وہ عورت میں تھی مالنی، ہاں۔ کنزا تھی وہ تبھی تو وہ مجھ سے خار کھاتا تھا۔ یہی نہیں جس دن تم دو کا نکاح ہوا اس نے مجھے چیلنچ کیا کے جب تک میں تمہیں اسکی سچائی بتاتی ہوں، وہ تمہیں خود کے قریب کر لے گا۔ وہ صرف مجھے جلانے کے لیے تم سے نکاح کرنے پر اڑ گیا، کیونکہ میں نے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔

یہ وہی شخص ہے جسکی کہانی میں نے تمہیں اور نازلی کو سنائی تھی۔ سیٹھ طلال نے جب مجھ سے زبردستی نکاح کر کے مجھے جسم فروشی پر لگا دیا تھا تبھی میں نے اسکا ہاتھ جھٹک کر اپنے جیسی مجبور عورتوں کے سر کا سایہ بننا پسند کیا تھا، ایسی عورت بھلا ایک جوشیلے شہزادے کو کیا سکھ دیتی جو لٹ پٹ گئی ہو۔ لیکن اس نے میری جان نہ بخشی ، میرے مجبوری سے ہاتھ جھٹکنے کی سزا کسی اور لڑکی سے دن دہاڑے تعلق بنا کر دی، میرے پاس اب بھی اسکی اور اس لڑکی کی نازیبا تصویریں ہیں۔ وہ لڑکی تو بھاگ گئی لیکن اتنے سالوں بعد اس نے پھر سے مجھے جلانے کے لیے دوسرا وار تمہاری صورت کیا، اسے پتا جو تھا کہ تم میری بیٹی جیسی ہو۔ وہ ایسا ہے مالنی، تبھی تو کہتی تھی دور رہو اسے تم سے محبت جیسا کچھ نہیں ہے"

سفاکیت اور بربریت کی انتہا کرتی کنزا نے رو رو کر اپنی یہ جھوٹی کہانی سنا کر مالنی کے دماغ کو سن کر دیا، کتنے ہی لمحے وہ معصوم سی لڑکی کچھ بول ہی نہ سکی اور پھر کنزا نے اسے وہی تصویریں جو خود ہی ایک خرافہ لڑکی کو ہاشم کے پاس بھیج کر چالاکی سے بنوائیں، وہ دیکھائیں اور اندر ہی اندر وہ اپنے اس کارنامے پر خوش ہوئی کیونکہ مالنی کے دل پر اس نے ہاشم سے جڑی بدگمانیاں زہر کی طرح حصار دی تھیں۔

مالنی نے بے دردی سے ان تصویروں سے آنکھیں ہٹا کر گہرے گہرے سانس بھرتے خود کو مضبوط کیا مگر جو کچھ اسے بتایا گیا تھا وہ اس لڑکی کو پیچھے مڑ کر آواز دینے سے روک چکا تھا۔

کنزا اسکے آنسو دیکھتی اسے منصوعی محبت دیکھا کر خود سے لگا گئی جیسے وہ اسکی سب سے بڑی خیر خواہ ہو اور مالنی تو تھی ہی نازک دل کی مالک، بیوقوف سی لڑکی جسے جذبات میں آکر کوئی کچھ بھی کہہ کر منوا سکتا تھا لیکن کنزا کے اس وقتی وار نے اسے ہرٹ کر دیا تھا۔

ہاشم کے قریب آ کر جان لیتے لمحے اسکی حسرت بن کر رہ گئے اور کنزا بھی جیسے لوہا گرم محسوس کرتی ایک اور وار کر گئی۔

"تمہاری طرح میں نے زونی کو بھی ان بدبختوں سے بچایا ہے میری جان، وہ لوگ درندے ہیں مشارب زمان سمیت۔ اگر میں اپنے بھائی کو نہ مرواتی تو وہ مجھے مار دیتے اور میں نے ہمیشہ صرف اپنا دفاع کیا ہے اور یہی میں نے زونی کے ساتھ کیا۔ اب تم زونی کو اور خود کو سنبھال لو میرا بچہ۔ کچھ ماہ کی بات ہے پھر میں تم دو کو ان سب منحوسوں سے بہت دور لے جاوں گی۔ مما تم سب سے بہت پیار کرتی ہیں"

کنزا نے مظلومیت اوڑھے رکھی اور پھر وہ اپنے اندر کا سارا زہر انڈیل کر کمرے سے چلی گئی تھی اور اسکے جاتے ہی مالنی نے زارو قطار رو کر اپنے دل کا سارا غبار نکال دیا۔

وہ سب باتیں اب لان میں بیٹھی مالنی کو یاد آئیں تو اسکی آنکھیں بھر گئیں، وہ اب بھی یقین نہیں کر پا رہی تھی کہ اس شخص کے لمس جھوٹے اور فریبی تھے۔

اپنی بیوقوفی پر اسے رونا آرہا تھا مگر وہ زونی کے پکارنے پر فوری آنکھیں رگڑتی اٹھی تو سامنے اداس نیلی آنکھیں اسکی بھیگی آنکھوں کا حال جان گئیں۔

"آپ رو رہی تھیں مالنی؟ ہمیں رونے سے منع کیے خود آپ یہاں اکیلی اپنی تکلیف دبا رہی ہیں۔ ایسا مت کریں، ورنہ ہم جو مضبوط ہوئے ہیں، دوبارہ بکھر جائیں گے"

زونین کی آواز بھاری جبکہ آنکھیں سرخ ہوئیں تو مالنی نے آہستگی سے پکڑ کر زونی کو گلے لگایا، دونوں ہی اس وقت بہت بکھری ہوئی تھیں۔

"بکھریں ہمارے دشمن، خبردار جو آپ روئیں زونی آپی۔ میں سارا رو چکی ہوں بس یہ کمبخت چند آنسو آنکھ کے کسی گوشے میں اٹکے رہ گئے تھے انھیں بھی خود سے الگ کر دیا۔ اب ہم کسی تیسرے کو سوچ کر آنسو نہیں بہائیں گے، آپ بھی بھول جائیں اس بے حس کو جس نے چپ چاپ آپکو حویلی سے نکلنے دیا۔ بڑی بڑی باتیں کرنے والے اندر سے ایسے ہی کھوکھلے نکلتے ہیں، مجھے یہ ونیزے نامی لڑکی اچھی لگی ہے، سو جب تک یہ ہمارے ساتھ اچھی رہے گی ہم یہاں رہیں گے اور اگر کسی نے ہم دونوں کے ساتھ کوئی دھوکہ کرنے کی کوشش کی تو ہم بھاگ جائیں گے۔ اب اندر چلتے ہیں اور کچھ کھانے کو بناتے ہیں۔ قسم سے پیٹ میں چوہوں کی دوڑ لگی اوپر سے آپکی یہ مالنی پہلے ہی جوڑ جوڑ سے ہلی ہوئی ہے۔۔آجائیں"

مالنی اپنی آنکھیں رگڑ کر واپس اپنے پہلے انداز میں واپس آتی آخر تک نہ صرف خود ہنسی بلکہ زونین نے بھی افسردہ سا مسکرا کر اسکا ساتھ دیا اور وہ اندر بڑھ گئیں جبکہ مشارب کے ایک بار پھر بے حس بن جانے کو زونی بھی سارا رو چکی تھی، اسے یہی لگ رہا تھا شاید وہ شخص پھر سے کسی مجبوری کے تحت اس سے خود کو دور کر گیا مگر اسکے دل میں یہ بھی تکلیف موجزن تھی کہ جیسے مشارب زمان ٹھیک نہیں ہے، لیکن وہ کیا کرتی کے اس وقت اسکے پاس کوئی اختیار باقی نہ بچا تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"پلیز ڈاکٹر! مجھے بتائیں کے وہ کیسا ہے؟ اسکی حالت کیسی ہے؟"

کئی گھنٹوں کے سوہان روح انتظار کے بعد آخر ڈاکٹر آئی سی یو روم سے باہر نکلا تو ولی بے چینی کے سنگ لپک کر انکی طرف بڑھا، رات ہو چکی تھی مگر اذیت میں اب تک کمی نہ ہو پائی تھی، اس نے مشارب کی حالت کا کسی کو ابھی تک بتایا بھی نہ تھا۔

ڈاکٹر کے چہرے پر فکر کی پرچھائیاں صاف واضح تھیں۔

"ایک تو انھیں الکوحل سختی سے منع تھی اسکے باوجود لی ہے اور یہی زہر قاتل بن رہی ہے ولی صاحب۔ میں آپکو کوئی جھوٹی امید نہیں دینا چاہتا مگر جو اسکی حالت ہے وہ زندہ کیسے ہے یہ میرے لیے حیرت کا باعث ہے۔ اسکے دل کی دھڑکن ہم سبکی بہت کوششوں کے بعد بھی معمول پر نہیں آپارہی، منصوعی سانس پر ہے وہ، کب اسکی یہ کمزور سانس ٹوٹ جائے کچھ خبر نہیں۔ آپ ہر خبر کے لیے خود کو تیار رکھیں، اللہ آپکو ہمت دے۔ میں نے اپنی پوری زندگی ایسا کیس نہیں دیکھا، اس حالت میں اکثر لوگ موت گلے لگا لیتے ہیں لیکن شاید ابھی اسکی زندگی باقی ہے۔ حوصلہ کریں،اس وقت آپکے بھائی کو دعاوں کی شدید ضرورت ہے"

ڈاکٹر نے ڈھکے چھپے انداز کے بجائے ولی زمان کو ساری سچائی بالکل واضح بتائی اور ولی پر تو جیسے تکلیفوں کا پہاڑ ٹوٹ گرا تھا، ڈاکٹر اسکے کندھے کو تھپکاتا جا چکا تھا پر اس شخص کو صبر کیسے آتا یہ مشکل تھا۔

وہیں زونی اور مالنی کو اپنے گھر میں چھوڑ کر وہ سیدھی ریگولر چیک آپ کے لیے ہوسپٹل آئی تو اتفاقا ونیزے کے ڈاکٹر بھی اسی ہوسپٹل کے ڈاکٹر علی تھے مگر وہ کوریڈور عبور کرتی اپنے دھیان میں جب انکے آفس کی طرف بڑھ رہی تھی تو غیر ارادہ ہی اسکی نظر آئی سی یو روم کے باہر گہرے گہرے سانس کھینچ کر اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے کن پٹی دباتے ولی زمان خان پر پڑی تو وہ لڑکی گویا وہیں تھم کر رہ گئی۔

"انسپیکٹر ولی زمان خان، آپ یہاں کیوں ہیں؟ خدا خیر کرے"

وہ فکر مند سی وہیں ڈاکٹر علی کے کیبن کے پاس رک چکی تھی تبھی ڈاکٹر علی اپنے کیبن سے باہر نکلے تو ونیزے کو دیکھ کر انکے چہرے پر پیشہ وارنہ مسکراہٹ بکھر گئی۔

"ونیزے ! کیسی ہو بچے۔ طبعیت تو ٹھیک ہے ناں ، آج یہاں کیسے؟"

وہ اسکی آمد پر اگلے ہی لمحے متفکر ہوئے جبکہ وہ اداس سا مسکرا دی۔

"کیسی ہوں؟ میرے ڈاکٹر ہو کر آپ جب یہ سوال کرتے ہیں تو ہنسی آجاتی ہے۔ ایکچولی پیمنٹ دینے آئی تھی، آپ نے ٹھیک کہا تھا جب خواب ہی انسان نے صرف ایک سجایا ہو تو اسکی تعبیر پانے کے لیے موت سے لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میں آپریٹ کے لیے تیار ہوں لیکن مجھے دس فیصد بچنے کی گارنٹی چاہیے، چند دن چاہیں جو میرے خواب کی تعبیر سے روشن ہوں۔ کام سے پہلے ہی مالک نے ایڈوانس دے دیا ہے ساٹھ لاکھ، شاید اسے بھی میرے خواب پر ترس آگیا ہے، لیکن مجھے دو دن چاہیں تاکہ آپریشن سے پہلے میں ان پیسوں کا حق ادا کر دوں۔ ورنہ نہ بھی مرنا ہوا، ان منحوسوں کی ہائے مار ڈالے گی"

وہ زندگی سے اکتائی سی لڑکی ناامید و مایوس ہو رہی تھی پر ڈاکٹر علی اسکے اندر چند دن ہی کی سہی پر زندگی کی خواہش پر افسردہ سا مسکراتے اس سے وہ بیگ لے چکے تھے جو آج اسے سیٹھ گونی نے ایڈونس میں دے کر کام جلدی کرنے کی تاکید سونپی تھی اور یہ سب معاملہ وہ کنزا اور ان لڑکیوں کے آنے سے پہلے ہی سمیٹ چکی تھی۔

"ٹھیک ہے دو دن بعد آجانا، زندگی دینے والا اللہ ہے بچے، لیکن میری دعائیں تمہارے ساتھ اور تمہاری ہر بڑھتی سانس کے ساتھ رہیں گی"

وہ شفیق انداز میں مبتلا تھے اور پھر وہ پلٹے ہی جب ونیزے کی پکار پر واپس رکے۔

"کیا کوئی سیریس پیشنٹ ہے آئی سی یو روم میں؟"

ونیزے نے حیرت سی عیاں کیے پوچھا کیونکہ اکثر و بیشتر تو اس ہوسپٹل کا آئی سی یو روم ونیزے حسن کے نام سے پر رہتا تھا۔

"ہمم، تم سے بھی زیادہ۔ انسپیکٹر ولی زمان خان کا چھوٹا بھائی مشارب ، زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ چند گھنٹوں پہلے دونوں نے اپنے والد کو کھویا ہے۔ اللہ انکی مشکلات آسان کرے"

ڈاکٹر علی نے دکھی ہوئے بتایا اور وہ وہاں سے چلے گئے تو ونیزے نے بھی رخ موڑے ولی زمان خان کو دیکھا، اسے مشارب لکی لگا جسکے لیے تکلیف سہتا آئی سی یو روم کے باہر اسکا بھائی تو تھا اور وہ بھائی کے نہ ہونے پر مزید موت کے قریب جا پہنچتی تھی۔

"آئی تو شکارن بن کر تھی جسے آپکو شکار کرنا تھا پر آپ تو مجھے بے موت مار دیں گے ولی زمان خان، اب ایسی کونسی غلطی کرے ونیزے حسن کے آپ مجھے سخت سے سخت سزا دینے پر مجبور ہو جائیں"

وہ وہیں دیوار کی اوٹ میں چھپ کر ولی کو دیکھ کر خود سے کہے بوجھل ہوئی، وہ اپنی جہنم میں اکیلا جل رہا تھا اور وہ بھی اپنی دوزخ میں جلنے والی اکیلی جنگجو تھی۔

باہر نکل کر وہ کیفے ٹیریا کی جانب گئی، دو چائے کے کپ اور دو ہی سنپل سے سیڈویچ لیے اس نے گہرا سا سانس کھینچے اپنے قدم واپس بڑھائے اور تب تک ولی وہیں بیٹھا کسی سے کال پر مصروف تھا جب کسی نسوانی آواز کی آہٹ کرتے پکار پر اپنے دھیان سے نکلا اور سامنے کھڑی اس وہی سیاہ حلقوں کی زد میں ڈوبی آنکھوں کو دیکھ کر بدمزہ ہوا، لیکن ونیزے کے بے تکلفی سے پاس آکر بیٹھنے کے باوجود ولی اپنے دھیان میں ہی فون پر لگا رہا اور اپنی جگہ سے بھی اٹھ گیا۔

"وہ انسان جو اپنا سایہ تک نہیں دے رہا، دو دن میں کیسے تسخیر ہوگا ونیزے حسن۔ تم خالی ہاتھ ہی رہ جاو گی مسکین لڑکی، یہ تو کسی اور کے نام پر لٹ چکے ہیں، لٹے ہووں کو اپنا بنا کر انھیں مزید کون روندتا ہے۔ نہیں ظالم لڑکی، جاتے جاتے کیوں ضد پر اڑی ہو، کیوں ولی زمان خان کے خافظے میں زندہ رہنے کی خواہش تمہارے سر پر سوار ہے"

وہ اسے نظر انداز کیے فون پر مصروف رہا اور جان بوجھ کر کال لمبی کی جبکہ ونیزے اسی کی پشت تکتی تکتی اپنا سینڈوچ ختم کیے چائے بھی پی چکی تھی، جبکہ ولی کی چائے جو برف بن گئی اسے سرد نظر سے دیکھتی وہ اس درجہ نظر اندازی پر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"سنیں مغرور انسپیکٹر!"

وہ گلا کھنکارے جیسے اپنی موجودگی کی اطلاع دیے بولی جس پر ولی نے فون کان سے ہٹائے بریم سی نظر مڑ کر ونیزے پر ڈالی۔

"کہیں"

وہ یوں بولا جیسے احسان کر رہا ہو۔

"مرہم لگانے والوں کو، ہمدردی کرنے والوں کو، ساتھ نبھانے والوں کو، دو گھڑی اپنائیت دینے والوں کو، بنا کسی مطلب کے پاس آنے والوں کو دھتکارنے والوں کو زندگی کبھی دوسرا موقع نہیں دیتی۔ سوائے اس کے کہ دوسرا موقع دینے والا آپ کی بے حسی پر مڑ مٹے"

وہ پراسرار سی لڑکی یہ چند جملے کہہ کر ولی زمان خان کا دھیان اپنی سمت کھینچ چکی تھی جو کال بند کرتا اچٹتی نگاہوں میں اس لڑکی کو لیے گھورا۔

"کہنا کیا چاہتی ہیں آپ؟ اور کیوں آئی ہیں آپ یہ سب کرنے۔ آپکو کسی نے دعوت دی ہے کہ آکر ہمدردی، اپنائیت، اور اپنا ساتھ بانٹیں"

وہ خاصا بے حس ہوتا اسے ڈپٹے ہوئے غرایا جبکہ ونیزے نے اسکی سرخ ہوتی آنکھیں بڑی دلچسپی سے دیکھیں۔

"جسکو میرے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے اسکا پتا ایک پرندہ میرے کان میں چپکے سے بتا جاتا ہے، تبھی تو ایک شکارن دوسری ملاقات میں ایک مسیحا بن کر آپکے سامنے کھڑی ہے۔ بھلے پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتی ہوں پر پرندے جنگل کے سب راز بتا جاتے ہیں اور جانور ہر درندگی کا توڑ سیکھاتے ہیں۔ کچھ نہیں تو تھوڑی سی دوستی کر لیں۔ پولیس والے سے جان پہچان ہو گئی تو مجھ مسکین شکارن کے بھی عیش ہو جائیں گے"

وہ نہ تو ولی کے غضب سے دبی نہ اسکی خوفناک رنگ بدلتی آنکھوں سے سہمی بلکہ اس اجلت میں دوست بننے کی آفر کر گئی کہ ولی اسکی ہمت اور بے باکی پر حیرت کا مجسمہ بنا لیکن ونیزے کیا بتاتی کے اسکے پاس تو دن ہی دو ہیں، جو کرنا تھا انہی دو دنوں میں کرنا تھا۔

"آپکا دماغ تو نہیں چل گیا، کیا اول فول بک رہی ہیں۔ چلیں شاباش جائیں یہاں سے، دماغ خراب مت کریں۔ پولیس والے کی دشمنی اور دوستی دونوں ہی آپکی نازک جان کے لیے نقصان دہ ہے لہذا جا کر پرندوں اور جانوروں سے ہی سر کھپائیں"

وہ اسکی بتمیزی پر گویا خود بھی خالص روائیتی تھانیدار بنا جھاڑ گیا مگر وہ ولی کے تمیز کا آخری دامن بمشکل تھامے رکھنے پر ہنس کر اسے اور تپا گئی۔

"ان سے سر کھپایا تو آپکے چیلے مجھے اریسٹ کر لیں گے، میں پھر آپ کے تھانے پہنچ کر اس سے زیادہ آپکا سر کھاوں گی۔ تو اچھا ہے دوستی کر لیں، فائدے میں رہیں گے۔ میں آپکو تھوڑی درندگی بھی سیکھا دوں گی جو آپکو مجرموں کو سیدھا کرنے میں کام آئے گی دوسرا ہم مل بیٹھ کر آپکے بھائی کی صحت یابی کی دعا بھی کر لیں گے"

وہ لڑکی تو گویا ولی کے سر پر ناچنا چاہ رہی تھی تبھی وہ زچ ہوتا اس سے پہلے اسکا گلا دباتا وہ ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹی۔

"چلی جاو پاگل لڑکی، کیوں پریشان کر رہی ہو"

وہ غضبناک ہو اٹھا تبھی ونیزے نے سر گمائے اسکی توجہ چائے سینڈوچ کی طرف دلائی۔

"کیا پیسے لینے ہیں اسکے؟"

ولی نے برخستہ کہا جس پر ونیزے کا منہ بن گیا۔

"پیسے وار کر اپنے سر سے کسی مسجد میں دے دیجیے گا بلائیں ٹلیں گی جو آپ نے خود سے چمٹا لی ہیں، میں تو یہ کہہ رہی کہ پریشانی جتنی بھی ہو رزق سے دوری نہیں بنانی چاہیے۔ ٹھنڈی چائے ہے پر پی لیجئے گا سینڈوچ کے ساتھ، میں صبح تک آپکے اور آپکے بھائی کے لیے وٹامنز اور منرلز سے بھرا بریک فاسٹ لاوں گی۔ اللہ حافظ"

اول جملے منہ بسور کر کہتی وہ خود ہی سب سوچتی اور ڈیسائیڈ کرتی بنا ولی کی کوئی بات سنتی باہر کی طرف دوڑ گئی اور ولی صاحب اس لڑکی کی اس قدر جلد بازی اور جان نہ پہچان، میں تیرا مہمان والا انداز دیکھ کر اندر ہی اندر سلگ کر رہ گیا، مشارب کی حالت سے وہ جس قدر پریشان تھا اب اس لڑکی نما الجھن نے جیسے اس پریشانی کو کہیں دور جا ٹھہرایا۔

                     ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰

شہیر اگلی صبح تک واپس شہر آچکا تھا اور آتے ہی وہ سیٹھ طلال اور سیٹھ گونی کے دیے کاموں اور ذمہ داریوں میں مصروف ہو گیا، دیار کی قیمتی لکڑی سمگل کرنے سے لے کر ملک بھر سے اغوا کر کے لائی جاتی لڑکیوں کا پورا حساب ایک بار پھر شہیر مجتبی کے قبضے میں دیے سیٹھ طلال گویا اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار بیٹھا تھا۔

لیکن اصل جھٹکا تو شہیر مجتبی کو تب لگا جب نازلی اسکے گودام پر بے سر و ساماں سے اجڑی لٹی پٹی، اذیت و تکلیف کی انتہا میں ڈوبی پہنچی جسکی آنکھیں رو رو کر اس درجہ سوجھ چکی تھیں کہ شہیر اسے فوری اپنے آفس میں لائے کاشف کو اسکے لیے پانی لینے بھیجواتا خود کرسی گھسیٹ کر اس لڑکی کے سامنے ہی متفکر سا کرسی گھسیٹ کر بیٹھا جس کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا، اپنے ہاتھوں کیا گیا گناہ اسے کسی نوکیلے کانٹے سا جسم و جان میں اذیت دے رہا تھا۔

سرمد تو تھانے میں قید تھا پھر یہ لڑکی اس قدر اذیت میں کیوں تھی یہ شہیر کو بے قرار کر چکا تھا۔

"نازلی! مجھے بتاو کیا ہوا ہے۔ کیوں اتنا رو رہی ہو؟"

کاشف پانی لایا تو شہیر نے اس سے گلاس لے کر اسکی طرف بڑھایا جسے وہ لڑکی بس دو گھونٹ پی کر واپس دیے پھر سے ہچکیوں کی زد میں بری طرح بلکنے لگی جبکہ اب تو اسکی اس نیم جان حالت پر کاشف اور شہیر دونوں کو پریشانی لاحق ہوئی مگر پھر جیسے ہمت کیے نازلی نے اپنے ساتھ ہوتے اور اپنے ہاتھ سے ہوتے ظلم کی پوری داستان ان دو کو رندھے، ٹوٹے اور بکھرے لہجے میں ہمت کرتے سنا دی اور ان حقائق کو سننے کے بعد جس طرح کاشف کے چہرے پر سفیدی چھائی ویسے ہی شہیر کی بھی ہستی دہل اٹھی، چہرہ لٹھے کی مانند سفید جبکہ رگوں میں شرارے دوڑ اٹھے۔

"یہ کیا کہہ رہی ہو نازلی، یہ تم نے کیا کر دیا۔ اس منحوس کنو کی تو وہاں قبر بننی چاہیے جہاں کچرے اور غلاظت کا ملبہ دبا ہو۔ اتنی گندی عورت نہ پہلے دنیا میں آئی ہوگی نہ مزید آئے گی، ڈائن کہیں کی"

اول جملے وہ بے یقینی سے اس سہمی پشیمان نازلی کی طرف دیکھ کر ادا کرتا بولا جیسے اسے نازلی جیسی پاکیزہ کردار کی معصوم لڑکی سے ایسی سفاکی کر گزرنے کی امید نہ تھی ساتھ ہی غائبانہ ہی اس سوداگرنی کے لیے مغلظات بکنے لگا جس پر خود کاشف کی کن پٹیاں بھی مشتعل ہوئے تنی ہوئی تھیں اور اس پر نازلی کے آنسووں میں بھی شدت آئی تو شہیر کو اپنی سختی اور اس لڑکی کی بے بسی کا احساس نرم پڑنے پر اکسا گیا۔

"اچھا رونا تو بند کرو ، رو رو کر میرا دماغ مزید خراب مت کرو "

اس لڑکی کی گریہ و زاری بڑھنے پر جیسے وہ بیزارئیت سے اسے ڈپٹ کر غراتا ہوا اپنے کھلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کرسی سے اٹھ کر یہاں وہاں چکر کاٹنے لگا تو اس آنسو آنسو ہوتی نازلی نے بھی جیسے اپنے آنسو ڈر کر دبا لیے اور دم سادھے اس شخص کو دیکھا جسکا عمل اسے بھی ناراض کر گیا تھا۔

"یار وہ مشارب تو استھمہ کا پیشنٹ ہے، مر ور گیا تو کیا ہوگا۔ ولی پر ترس آرہا ہے قسم سے، اوپر سے میں بھی اسے تکلیف دے کر آیا ہوں"

کاشف جو اک نظر نازلی کو افسردگی سے دیکھتا خود بھی اٹھ کر پریشان سے شہیر تک آیا، اسکی زبان سے کسی پر ترس آنے کا سن کر ہی بوکھلایا، باقاعدہ شہیر کا بازو پکڑے اس نے سیدھا کیا جو واقعی ولی کو ہر طرف سے پستا دیکھ کر بہت جلد اپنے رویے پر پشیمان ہو رہا تھا۔

"ولی نے تیرے ساتھ کبھی اچھا نہیں کیا شہیر اس لیے اس پر رحم یا ترس کھانے کا سوچنا بھی مت، اور جو تو میرے منع کرنے کے باوجود اس ڈاکٹر سے ملا تھا، اور جب تو نے یہ بتایا کہ وہ لڑکی ولی کی طرف جھک رہی اسکے بعد تو ولی زمان مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رہا"

کاشف نے اسکے نرم پڑتے دل کو بے رحمی سے واپس سخت کیا مگر پھر یکدم ڈاکٹر کا خیال آتے ہی شہیر کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔

"بات سن! جس ڈاکٹر نے مجھے خون دیا تھا تجھے اسکا نام پتا معلوم ہے؟"

شہیر کو یکسر ہر معاملے سے الٹ سا سوال پوچھتا دیکھ کر خود کاشف بھی حیرت میں ڈوبا۔

"نہیں، کوئی فی میل ڈاکٹر تھی بس اتنا ہی پتا ہے۔ نام تو نہیں پتا"

کاشف نے سر کجھاتے ہوئے جیسے دماغ پر زور ڈالتے بتایا تبھی شہیر رخ موڑے پلٹا۔

"اچھا میری بات سن، ہوسپٹل جا اور جو میرے روم میں ڈاکٹر تھا ان سے پتا لگوا کے آ کہ شہیر مجتبی نامی پیشنٹ کو بلڈ کس نے دیا تھا۔ تو جا نازلی کو میں دیکھتا ہوں"

وہ اجلت کے سنگ کاشف کی بنا کوئی بات سنتا اسے کہتے ہی روانہ کرتا خود واپس رونے کا شغل سرانجام دیتی نازلی تک پہنچا اور واپس بیٹھا جو بچاری پرورش کا تاوان بھر کر اب جیتے جی مر رہی تھی۔

"نازلی!"

وہ اسے اپنے آنسو پائمال کرتا دیکھ کر نرمی سے پکارا تو نازلی نے اپنی سرخ ہوتی آنکھیں ہمت کیے اٹھائیں، وہ شہیر سے بھی شرمندہ تھی۔

"روتے نہیں ہیں، اپنی مجبوری پر تو قطعا نہیں۔ اچھا ہوا تم اس گندی حویلی کو چھوڑ آئی، کیونکہ ابھی تمہیں کنو سے خریدنے کے لیے میری جیب میں ایک پیسہ تک نہ تھا۔ وہ تمہارے پیچھے آنے کی غلطی نہیں کرے گی کیونکہ تم سے وہ اپنا کام نکلوا چکی ہے، اب تم کہاں رہو گی یہ میں بتاوں گا"

وہ اسے ایک دوست کی طرح نرمی سے سمجھا رہا تھا جسکے آنسو رکنے پر نہ آرہے تھے اور پھر اتنا برا کر گزرنے کے باوجود شہیر نے اسے دھتکارا نہ تھا یہ اس لڑکی کو اس شخص کے آگے مزید چھوٹا کر گیا۔

"میں آپ پر مزید بوجھ نہیں بننا چاہتی، بس یہ سب آپ سے کہنے چلی آئی تھی کیونکہ اگر یہ سب میرے دل پر بوجھ بنا رہتا تو شاید میری جان لے جاتا"

وہ خود کو ہر ممکنہ مضبوط کرتی بولی اور شہیر اسکے تکلفات پر برا سا منا گیا۔

"جان اتنی سستی نہیں ہے تمہاری، ہر گناہ کرنے والے کو ایک بار تلافی کا موقع ضرور ملتا ہے نازلی سو تم بھی اپنے اس موقعے کا انتظار کرو۔ باقی تم شہیر مجتبی پر کبھی بوجھ نہیں بن سکتی، تم میرے نامہ اعمال کی واحد نیکی ہو جسکی حفاظت میں مرتے دم تک کروں گا۔ آج سے کاشف میرے ساتھ یہیں گودام میں رہے گا اور تم اسکے گھر اسکی اماں کے ساتھ رہو گی کیونکہ ابھی میرے پاس اس شہر میں اپنا کوئی گھر نہیں۔ لیکن جلد انتظام کروا دوں گا۔ اور تب تک فضول میں آنسو مت بہانا، اللہ تمہاری مجبوری بھی جانتے ہیں اور وہ مشارب پر بھی اپنا کرم کریں گے"

تمام تر نرمی کے سنگ وہ نازلی کو پرامید کرتا ساتھ ہی خود بھی ٹھیک سے بیٹھا اور اسکی سوچیں اس وقت بہت سے معاملات میں الجھی تھیں۔

ایک گھنٹے تک کاشف واپس آیا تو تب تک وہ وہیں بیٹھا نازلی سے ہلکی پھلکی گفتگو کیے اسکا دھیان بٹا رہا تھا مگر کاشف کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے جھٹکے کے سنگ اٹھ کر برہم اور بسوری شکل والے کاشف تک پہنچا جسے لگتا تھا ڈاکٹر کا پتا معلوم ہو گیا تھا اور لگے ہاتھوں اس انکشاف پر سانپ بھی سونگھ گیا۔

"ہاں، کون تھی وہ ڈاکٹر؟"

کاشف کی مرجھائی صورت سے اسے کچھ کچھ اندازہ ہو چکا تھا مگر وہ مکمل یقین چاہتا تھا۔

"ڈاکٹر وریشہ یوسف زئی"

گویا یہ نام کاشف نے خفیف سی ناگواری کے سنگ ادا کیا جبکہ شہیر مجبتی کی آنکھوں میں لمحے میں تکلیف سی اتر آئی۔

"کیسی پاگل لڑکی ہے یار، پہلے خون چوستی ہے پھر جسم کی رگوں میں اتارتی ہے۔۔۔خیر میں نے بہت برے طریقے سے بات کی ان دونوں سے یہ جانتے بوجھتے کہ ان دو کے بیچ گھسنے والا تو تیسرا شہیر مجتبی ہے۔ تو بتا کاشف، نکلنا کسے چاہیے؟"

وہ تکلیف سے اٹا ہوا تھا اور کاشف کو تو اللہ موقع دیتا جھٹ سے اس کھوتے نے شہیر کو نکلنے کی ہدایت بخشی جس پر شہیر نے بمشکل اپنا مکا اس کوجی شکل والے پر برسنے سے روکا اور پھر نازلی والی ذمہ داری اس پر ڈالی، جو خوش دلی سے اسکی ہدایت پر نازلی کو لیے اپنے گھر گیا جہاں کاشف کی بس بوڑھی والدہ رہتی تھیں اور وہ اپنی اماں کو نازلی کے بارے سب سمجھا بھی آیا اور یوں گویا اس بوڑھی خاتون کو بیٹھے بیٹھائے بیٹی اور بات چیت کو ہم نوا سا ساتھی مل گیا اور نازلی کو بھی عزت دار چھت مل گئی لیکن شہیر مجتبی کے اندر ہوتی ٹوٹ پھوٹ شدت اختیار کر گئی۔

وہ اکیلا گودام میں بیٹھا کب سے اسی معاملے پر سوچ بچار کر رہا تھا اور پھر جلد ہی وہ حتمی نتیجے پر پہنچا۔

"اگر ان چند ماہ میں تمہیں مجھ سے محبت نہ بھی ہوئی وریشہ یوسف زئی تو میں تب بھی تمہیں چھوڑ دوں گا ، محبت کی شرط کو باہر نکال دوں گا، شہیر مجتبی سب ہو سکتا ہے پر احسان فراموش نہیں ، بس یہ چند ماہ تم جیسی اچھی لڑکی کی یہ لوفر آزمائش لے گا۔ اگر تب بھی تم خود کو مکمل میرا نہ بنا سکی تو ثابت ہو جائے گا کہ تیسرا شہیر مجتبی تھا اور اسے ہی اس بیچ سے نکلنا ہوگا"

اپنے دل کو بہت مشکل سے وہ بس اس لڑکی کے معاملے میں بڑا کر پایا تھا اور کبھی کبھی کسی من پسند قیدی کو ناپسند فیصلے کے لیے بااختیار کر دینے کا سکون، زندگی بھر کی کمائی نیکیوں سے زیادہ ہو جاتا ہے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

حسب توقع مشارب اور ولی کے لیے ان دونوں کے مطابق بریک فاسٹ بنائے وہ سیدھی صبح صبح ہوسٹل ٹپکی جسے دور سے ہی آتا دیکھ کر نیند اور تھکن سے سوجھی وہ رنگ بدلتی آنکھیں بیزار کے باوجود تکلیف لہر میں مبتلا ہوئیں۔

مشارب تو منصوعی سانس پر تھا سو اسے ابھی کچھ کھانے پینے کی پرمیشن نہ تھی اور ولی زمان کے حلق سے ان حالات میں کچھ اتر نہیں سکتا تھا لیکن اس لڑکی کی اتنی محنت اور ریاضت بھی وہ بیکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ رات ونیزے حسن کے جانے کے بعد ولی کی ملاقات ڈاکٹر علی سے ہوئی جو رات ولی کو وہیں تنہا بیٹھا دیکھ کر اسکے پاس چلے آئے، انھیں لگا ولی کی ہمت بندھانی چاہیے، اس بکھرتے شخص کو کوئی ہمت و بہادری کی مثال سنانی چاہیے اور پھر وہ باتوں ہی باتوں میں حوصلے اور ہمت کی مثال دینے کو اس لڑکی کا ذکر کر بیٹھے جو ولی پر بہت سی حقیقتیں کھولتا چلا گیا۔

وہ ابھی اس سے بہت دور فاصلے پر تھی اسکی سمت آرہی تھی اور ولی زمان خان کی سماعت میں میں ڈاکٹر علی کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔

"اسکا پہلا اور آخری خواب کوئی بہت معتبر سا انسان ہے جو اسکی پہنچ اور رسائی سے کوسوں دور آباد ہے، کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہی ہے ونیزے حسن، موت کے دہانے پر کھڑی اس انتظار میں کہ کوئی اسکی جھولی میں اسکی تعبیر کا سکہ خود بخود ڈال دے۔۔ پگلی کہیں کی، کئی سالوں سے اسکا مجھ سے رشتہ ہے مریض اور مسیحا کا اور وہ نام اس لڑکی نے اپنی زبان پر آج تک نہیں لایا، زندگی اس لڑکی کے وجود کو راس ہی نہیں تبھی تو وہ اس انسان کا نام کسی کے سامنے لینے سے گریز کرتی ہے، ایسی مضبوط اور بہادر لڑکی میں نے اپنے پورے کیرئیر میں نہیں دیکھی ولی زمان خان ۔میرا اس سے مسیحا اور مریض کا تعلق ہے ، اب تو اسکی سانسیں کب کم پڑتی ہیں مجھے خبر ہو جاتی ہے۔ بس ایک ہی خواہش ہے کاش مجھے وہ انسان  مل جائے، تو میں اس سے کہوں کے اس سفید پوش کو بنا خبر دیے تم اسکی بے مراد ذات میں اپنی چند عنایات ڈال دو"

جب تک ولی کے لاشعور میں ڈاکٹر علی کی آواز گونجتی رہی، وہ حلقوں کی زد میں مسکراتی کھلکھلاتی آنکھیں لیے ٹفن گماتی عین ولی زمان خان کے روبرو آن جمی جو اس لڑکی کی کہانی جان کر اپنے سارے دکھ لمحے میں بھول گیا تھا۔

جو لڑکی ساری دنیا میں صرف ایک شخص کے گرد محصور تھی وہ اگر ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑنے کے چکروں میں تھی تو یقینا وہ شخص ولی زمان خان ہی تھا اور یہ ادراک اس پر اذیت بن کر اترا، خود ونیزے بھی آگ اگلتے تھانیدار کی نرم پڑتی نظروں پر کچھ مشکوک ہوئی، سفید ٹائیٹ جینز پر گہری سبز ٹاپ پہنے ، بالوں کو ازلی کرل کیے، اسی جنگلی سے خلیے میں وہ خود پر ریسپرچ کرتی وہ رنگ بدلتی من پسند، عزیز، جان لیوا آنکھیں دیکھ کر اپنی ہتھیلی اسکے آگے ہلا گئی۔

"مغرور انسپیکٹر آپ کہاں کھو گئے، اتنی بھی بھیانک نہیں ہے ونیزے حسن جو آپکے رنگ اڑ گئے۔ خیر میں بریک فاسٹ لائی ہوں، سوری تھوڑی دیر ہوگئی مگر مجھ پھوہڑ سے بن ہی گیا، اینڈ یہ بتائیں آپکا بھائی کیسا ہے؟"

وہ ولی کی نظروں سے کچھ گھبراہٹ محسوس کرتی تیز تیز بولی مگر پھر تب حیران ہوئی جب ولی نے کرسی پر سمٹ کر بیٹھتے ہی ایک کرسی کے فاصلے پر اسے بیٹھنے کی جگہ دی گویا اس شکارن کے تو اس عنایت پر ہوش اڑے۔

"پہلے سے بہتر ہے، کیا بنا کر لائی ہو؟"

سرسری سا انداز لیے وہ ونیزے سے ٹفن لیتا دلچسپی عیاں کیے پوچھ رہا تھا جو تاسف ذدہ سی خوشی میں لپٹی اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھے بس اس شخص کی نرمی سے کیے سوال میں ہی کھو گئی، اسے یاد ہی نہ رہا کہ جواب دینا ہے۔

"مٹر قیمہ، ود پراٹھا۔ مجھے پسند ہے بائے دا وے، تھینک یو"

بیزارئیت کے باوجود وہ ونیزے کی چپ بھانپ کر بنا اسے دیکھے ہی ٹفن میں موجود کھانے کو دیکھ کر رغبت ظاہر کر گیا مگر اس وقت اسے بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی تبھی وہ ٹفن رسانیت سے واپس بند کرتا اپنے اور ونیزے کے بیچ والی کرسی پر رکھ گیا جو وارفتگی سے اس شخص کو دیکھنے میں گم تھی۔

"آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے ناں؟ مطلب شکارن سے ایسا نرمی والا سلوک، اچھے بچوں کی طرح شکریہ بھی ادا کر رہے ہیں۔۔م۔میرا مطلب بھنگ ونگ تو نہیں پی لی یا اداسی میں کوئی ایک آدھ پیک تو نہیں چڑھا لیا ناں؟"

وہ ولی سے ہرگز ایسے مہربان رویے کی امید نہیں کر رہی تھی تبھی تو حیرت اور بے یقینی کے سنگ سوال کرتے اسکی زبان تک لڑکھڑائی جبکہ پیک والی بات پر ولی نے اسے منصوعی گھوری سے نوازا جو آگے سے منہ پر شریفانہ مسکین سی ڈری مسکان لے آئی۔

"دوستی منظور ہے لیکن ایک شرط ہے، یہ انسپیکٹر تمہارے شکارن ہونے میں کوئی فائدہ نہیں ہونے دے گا۔ جس دن تم پکڑی گئی معصوم مخلوق کا شکار کرتے ہوئے اسی دن تمہیں میرے چیلے پکڑ لائیں گے اور تم میرا دماغ بھی نہیں کھا سکو گی کیونکہ میں تمہارے منہ پر ٹیپ لگا کر تمہیں رسیوں سے بندھوا دوں گا"

بنا کوئی تمہید باندھے وہ سخت لہجے میں ہی ہنوز دوستی کی آفر قبول کیے خاصے احسان جتاتے انداز میں بولا جبکہ ونیزے کے چہرے کی رہی سہی رونق تو اس بے یقین بات پر ہی اڑ گئی اور وہ باقاعدہ اٹھ کھڑی ہوئی، اسکے اڑے رنگ والا چہرہ اس بار ولی نے خفگی سے دیکھا جسے شاید اس پر کومے کا اٹیک آچکا تھا۔

"اب تو یقین ہو گیا کہ یہ انسپیکٹر پکا کچھ پی کر آیا ہے، مطلب آپ رات تک میرا گلا دبانے پر اترے تھے اور اب دوستی قبول کر لی۔۔۔دیکھیں میں اتنا بڑا شاک نہیں سہہ پاوں گی، مطلب آپ نے تو شکارن کی سٹی گم کر دی"

وہ سفید پڑتی جیسے ولی کے اس آسانی سے مان جانے پر خواس باختہ ہوتی بڑبڑائی تو وہ بھی اس لڑکی کو یقین دلانے کو اپنی نشت سے پراعتمادی اور اپنی شخصیت کے ہر سحر سمیت اٹھ کھڑا ہوا۔

"اپنی سزا سمجھ لو، کیونکہ مجھ زخمی شیر کو چھیڑ کر تم دوسری غلطی کر بیٹھی ہو اور دوسری بار غلطی پر میں سزا سنا چکا ہوں۔ اب جاو پاگل لڑکی، بریک فاسٹ کے ایک بار پھر شکریہ"

ہر ممکنہ سنجیدگی برقرار رکھے وہ اس بار نرمی لیے بولا اور ونیزے کے مرجھائے چہرے پر اتر آتی بہار پر گویا ولی زمان کو لگا عجیب سی دل کو راحت ملی، وہ مسکراتی ہوئی زندگی کے اثاثے کی مانند عزیز اس ملاقات کے سکھ سمیٹتی دیکھتے ہی دیکھتے چلی گئی اور اس لڑکی کے جاتے ہی ولی زمان خان کے چہرے پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی چھا گئی۔

"زخم پر مرہم نہیں چاہیے میرے مالک، نہ نعم البدل، صرف وریشہ چاہیں کے ایسے مرہم  سے زخموں کو ولی مزید ناسور بنا دے گا اور ایسے نعم البدل بنا سوچے رد کر دے گا۔

معاف کرنا ونیزے حسن، لیکن میں تمہاری محبت کے بدلے تمہیں محبت نہیں دے سکتا کہ ولی زمان خان کی تمام محبتیوں، شدتوں اور چاہتوں کی حق دار میری آخری سانس تک صرف وری رہیں گی لیکن میں تمہاری زندگی میں اپنی موجودگی کا تھوڑا سا حصہ ڈال کر تمہارے دامن کو بھی کچھ بھرنا ضرور چاہوں گا۔ لیکن سنیں! آپ سے کچھ کہنا ہے کہ ایسے کسی کے نازک دل میں کسی لٹ چکے شخص کے لیے محبت نہ ڈالا کریں میرے مولا، یہ صرف اذیت دیتا ہے"

اس نظروں سے اوجھل ہوتی بے مایا سی لڑکی کے لیے ایک ہمدرد بنا وہ اپنے بوجھل دل کو مزید افسردہ محسوس کر رہا تھا، لیکن وہ لڑکی تو آج ہواؤں میں تھی کہ اتنی خوشی تو اس کو پہلی بار نصیب ہوئی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

خاقان خان کی عبرت دیکھنے والے اس وقت کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے، گل خزیں خانم نے اسکی دیکھ بھال جو فقط ایک مجبوری تھی اسکے لیے قدوسیہ اور فردوسیہ کو ہی لگائا جو اس قابل تھیں جبکہ خود وہ فرخانہ کی دلجوئی کرنے میں مصروف نظر آرہی تھیں، خاقان خان اس قدر بے بس ہو چکا تھا کہ اسکی آنکھیں زرا سے ناکارہ گھنٹوں کو گزار کر ہی سوجھی لگنے لگی تھیں اور سردار شمیشر یوسف زئی تمام تر حقارت کے بھی اس منحوس کے پاس بیٹھے اپنے اور اسکے مشترکہ گناہوں پر سراپا دکھ بنے بیٹھے سوپ کا پیالہ تھامے اذیت کا سرچشمہ بنے تھے، سب سے بڑا گناہ تو ولی اور وریشہ کا دل اجاڑنے کا تھا اور جب سے خاقان کی یہ حالت ہوئی تھی ، سردار شیمشر کو اپنے گناہ بھی رہ رہ کر ستا رہے تھے۔

"کیا کر لیا تُو نے خاقان، خود کے ساتھ۔ تُو نے کتنے ظلم کیے اور مجھ سے بھی کروا دیے۔ کیا ہوا اگر وہ دو نورے کی کوکھ سے نکلی تھیں؟ تھیں تو ہمارے بیٹوں کا خون۔۔آہ خاقان آہ! تمہارے لیے میرے پاس کوئی رحم نہیں، میرے پاس تو اپنے لیے بھی اب صرف حقارت بچی ہے۔ اس سے پہلے کہ قدرت کی ڈھیلی چھوڑی گئی رسی میرا بھی یونہی گلا گھونٹ دے، مجھے اپنے غلط فیصلوں کی تلافی کرنی ہے۔ اللہ تیرے گناہ کیسے بخشے گا"

وہ اس سسکتے بلکتے اپنی ہی عبرت کے باعث جہنم میں جلتے خاقان خان کو سوپ پلاتے خود بھی اذیت میں تھے جب اس سوپ کا ہر قطرہ اس کے حلق میں اترنے کے بجائے اس شخص کے ٹیڑے منہ سے باہر نکلنے لگا اور اپنی بے بسی پر خاقان خان کی حالت کسی مردار جیسی تھی۔

مزید جیسے سردار شمشیر سے بھی اس کی عبرت نہ دیکھی گئی تبھی وہ سوپ کا پیالہ ساتھ ہی بت بن کر کھڑی ہو جاتی قدوسیہ کو تھمائے خود دلبرداشتہ سے اسکے کمرے سے نکلے اور سیدھا واپس اپنی حویلی کی طرف بڑھے مگر یہاں ایک اور قیامت انکی منتظر تھی۔

جن حالات کا وہ شکار تھی اسے صرف موت ہی راہ نجات لگی اور اس سے پہلے وہ پتھر بنی باورچی خانے میں کھڑی کھڑی اپنی نبض کاٹ ڈالتی، سردار شمیشر یوسف زئی بروقت دوڑ لگا کر اس تک پہنچے اور اسکے ہاتھ سے وہ چھری لیتے ہی فرش پر پٹخی جبکہ اس اچانک افتاد پر اور دادا جان کی نکلی جان بھانپ کر وہ چند لمحوں کے اندر اندر پھوٹ پھوٹ کر روتی انکے وجود میں کانپتی، سسکتی، ہچکیاں بھرتی، چینختی ہوئی چھپ گئی جو وریشہ یوسف زئی کی جانب سے ایسی بزدلانہ خودکشی کی کوشش پر سر تا پیر کانپ گئے پھر جس طرح وہ زارو قطار ہچکیاں بھر کر روئی، وہ اس پہلے سے احساس جرم میں ڈوبے دادا کو مزید اذیت سے دوچار کر گیا۔

انہوں نے فوری اس بچی سے کچھ نہ پوچھا بس اسے ساتھ لگائے باہر لائے اور اپنے کمرے میں لے گئے، پہلے خود آرام دہ صوفے پر بیٹھے اور اسے بھی بیٹھائے اپنے سینے لگائے رکھا تاکہ وہ مضبوط اور بہادر سی انکی پوتی اس خودکشی کے پیچھے چھپے کرب کو جی بھر کر بہا لے۔

"مجھ بوڑھے کے پاس صرف آپ ہی تو ہیں میرا بچہ، یہ کیا کرنے جا رہی تھیں۔ ایسا کیا ہوا جو کبھی نہ رونے والی میری بہادر پوتی اس قدر بے بس ہو گئی۔ یہاں دیکھیں دادا کی جان، نہیں ایسی کمزور نہیں ہیں آپ میرا بچہ، بتائیں کیا ہوا ہے؟"

گویا وہ وریشہ کی حالت پر کانپ اٹھے، اسکا آنسووں سے تر چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اس سے اسکی تکلیف دریافت کرنے لگے جو موت کو گلے لگا کر ہی سکون پا سکتی تھی۔

"آ۔۔آئی ایم سوری دادا سائیں، مجھے معاف کر دیں۔ پر آپکی یہ نالائق پوتی اس زندگی سے تنگ آگئی ہے، مجھے میری ہر آتی جاتی س۔سانس اذیت دے رہی ہے، میں مرنا چاہتی ہوں۔ مجھ سے مزید یہ تکلیف برداشت ن۔۔نہیں ہو رہی۔ پلیز د۔۔دادا سائیں مجھے مر جانے دیں، میں اس قابل ہوں ہی ن۔۔نہیں کہ کوئی میری زندگی بچائے"

وہ بہت کرب اور ذہنی دباو کا شکار مسلسل مایوسی کے گڑھے میں دبی سسکنے لگی اور سردار شمیشر یوسف زئی نے ایک بار پھر اسے خود میں سمو کر پرسکون کرنے کی ادنی کوشش کی، پھر اسکا کانپتا ہاتھ پکڑ کر شفقت سے چومنے لگے کہ خود انکی آنکھوں میں سرخائی سی گھل آئی۔

"بس بس، ختم کریں خود اذیتی۔ بتائیں دادا کی جان کیا دکھ آپکو زندگی سے دور کر رہا ہے۔ بولیں، نکاح سے خوش نہیں ہیں کیا؟ آپ نے تو ابھی مجھے اس انسان سے ملوانا بھی ہے۔ کیوں مجھ بوڑھے کا دل بند کرنے پر تلی ہیں، شئیر کریں میری جان، میں ہر ممکنہ آپکی تکلیف کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ یوں رو کر اپنے دادا کو پریشان نہ کریں"

وہ لاکھ مضبوط ہوتے پر اس بچی کا دکھ انکی آواز بھی رندھا رہا تھا اور وہ بھی دادا سائیں کو تکلیف پہنچانے کا یہ سوہان روح سلسلہ روکتی انکے سینے سے سر اٹھائے آنکھیں بے دردی سے گرم ہتھیلیوں کے سنگ رگڑتی روبرو ہو کر بیٹھی اور اسکی آنکھیں ہنوز بہتی رہیں۔

"میں نے بہت بڑی غلطی کر دی دادا سائیں، ولی کی تکلیف مم۔جھے کبھی سکون لینے نہیں دے گی۔ میں چند دنوں میں ہی اپنے ف۔فیصلے پر پچھتانے لگی ہوں، مجھے لگا تھا اپنے آپ کو ولی زمان خان کے جذبوں سے یوں باآسانی آزاد کر لوں گی۔ جب کسی اور کی ہو جاوں گی تو وہ شخص مجھے محبت کرنا چھوڑ دے گا، مجھ سے نفرت کرے گا، میری حسرت اسکی رگوں سے نکل جائے گی لیکن ایسا تو ک۔۔کبھی نہیں ہونے والا۔ اور پھر جسے ولی سے پیچھا چھڑوانے کو جلدی میں چن لیا ہے وہ بھی بے رحم نکلا ہے، میرے لیے نہ سہی میری زندگی کے لیے زہر قاتل ہے۔ م۔میں کیا کروں دادا سائیں کہ مجھے یہ دو طرفہ اذیت آہستہ آہستہ نگل رہی ہے۔ آئی ایم سوری مگر مجھ سے یہ دو سفر ایک ساتھ طے نہیں ہو پا رہے ، میں کیا کروں دادا سائیں؟ کہ زندگی بوجھ لگ رہی ہے۔ "

وہ ہر ممکنہ آنسو روکنے کی کوشش میں بھی بار بار سسک اٹھتی اور سردار شمیشر نے اس بچی کی اذیت دل میں زخم پہنچاتی محسوس کی تھی، اور جیسے وریشہ کے آنسو انکا احساس جرم کئی گنا بڑھا گئے۔

نہ وہ خاقان خان کے ساتھ مل کر ان دو کو الگ کرتے نہ انکی پوتی آج زندگی سے یوں بیزار ہوتی۔

"سب سے پہلے تو آپ یہ یاد رکھیں کہ آپ کون ہیں بچہ، آپ سردار شمشیر یوسف زئی کی اکلوتی وارث، انکی جانشین وریشہ یوسف زئی ہیں۔ کبھی نہ ہارنے والی، کبھی بے بسی کے قریب نہ بھٹکنے والی، کبھی مایوس نہ ہونے والی۔ آپ ولی اور اس انسان دونوں کو اپنے حواسوں سے اتار کر پھینک دیں، یہ معاملہ اللہ پر چھوڑیں وہی آپ کے لیے آپکے حق میں بہترین والا راستہ چنے گا لیکن کبھی دوبارہ آپکو اس درجہ بے بسی میں دیکھ لیا تو آپکے دادا سائیں کا چلتا دل رک جائے گا۔ میں تو پہلے ہی ناجانے کس کس احساس جرم میں مبتلا ہوں، آپکی یہ کمزور پڑتی حالت آپکے دادا سے برداشت کرنی آسان نہیں ہے۔ اب سے آپ صرف خود کا سوچیں، کس راہ پر جانا ہے اس بات کو چھوڑ دیں "

وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس آخری نشانی کو بھی کھو دیں ، جسے شاید اس پیارے دادا کا دل دکھانے کی سزا مل رہی تھی، انہوں نے تو وریشہ سے اس شخص کا ذکر بھی سرسری کیا اور وہ انکی محبت اور شفقت کے آگے مزید چھوٹی پڑ رہی تھی، اس نے دادا کو جو دھوکہ دیا تھا وہی دھوکہ وریشہ کی سزا بن رہا تھا۔

دادا سائیں کے سمجھانے پر بھی وہ آنسو بہا رہی تھی، کیا کرتی کے اپنا آپ اس درجہ بیکار محسوس ہو رہا تھا کہ اس تضخیک پر اسکی آنکھیں بھرتی چلی جا رہی تھیں۔

"خاقان خان کی عبرت کے بعد اور زمان خان کی ناگہانی موت کے بعد میں بہت متاثر ہوا، اپنے گناہ کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔اگر آپ نے نکاح کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو میں خود آپکو اب ولی کے سپرد کر کے اپنی غلطی اور اپنے گناہ کی تلافی کرتا مگر اللہ کے ہر فیصلے میں مصلحت ہوتی ہے۔ آپ بھی دیکھ لیں، انتظار کریں کہ اللہ نے آپکے اور اس بے رحم انسان کے اس تعلق میں کونسی مصلحت چھپائی ہے۔ تب تک آپکو اپنے دل اور دماغ کو ہر جنگ سے دور رکھنا ہے اور آپکی تکلیف مٹانے کے لیے آپکے دادا سائیں آج آپکو آپکی زندگی کا سب سے خوبصورت سچ بتائیں گے"

شاید دادا کی تمام باتیں وہ سمجھ رہی تھی پر دل کیسے یکدم بحال کر لیتی جو ڈوب رہا تھا پھر جیسے وہ دادا کے شفقت بھرے انداز پر آخر تک رونا بھول کر دم سادھ گئی، یہی سوچ رہی تھی کہ کیا اب بھی ان کشیدہ حالات میں بھی اسکی زندگی میں کچھ خوبصورت بچا ہے؟

جبکہ خاقان کی عبرت دیکھ کر سردار شیمشیر نے اسے اشنال اور اسکے بہن ہونے کی حقیقت بتانے کا فیصلہ لیا اور جس وجہ سے اسے اور ولی کو جدا کیا وہ سچائی انہوں نے اپنی پوتی کو بتا کر اپنا دل ہلکا کرنے کا فیصلہ لیا تاکہ کل کو اگر انکے گناہ انکو بھی بے زبان کر گئے تو اپنی پوتی کو اسکی زندگی کا اتنا بڑا سچ بتائے بنا ہی مر جائیں گے۔

"ایسا کیا سچ ہے دادا سائیں؟"

وہ روہانسی ہو کر بولی تو سردار شمشیر یوسف زئی مدھم سا مسکرائے اور اسکی گال پر جمع ہوتی نمی ہٹا گئے۔

"یہی کہ تم اور اشنال بہنیں ہو، نورے کی کوکھ سے جنم لیتیں دو پریاں۔ تمہارے بابا کی موت کے بعد عزئز خان نے نورے سے دوسرا عقد کیا جس کے بعد اشنال نے جنم لیا۔ ہاں میرا بچہ تم اکیلی نہیں ہو، وہ تمہاری دوست ہونے کے ساتھ ساتھ تمہاری بہن بھی ہے"

دادا سائیں کا یہ خوبصورت انکشاف بھی جیسے وریشہ کی بصارت دھندلا گیا، اب وہ سمجھی تھی کیوں اسکا دل اشنال عزیز کی تکلیف پر پھٹ جاتا تھا، کیوں اس لڑکی کا ایک ایک آنسو وریشہ کے دل پر سمندر بن کر موجزن ہو جاتا۔

اس سچ کی کڑواہٹ تھی یا خوشی پر دونوں دادا پوتی کی آنکھیں آبدیدہ تھیں، وہ واقعی سمجھ نہ پائی اب مسکرائے یا پہلے کی طرح روتی ہی چلی جائے۔

"نورے کو طوائف زادی ہونے کی سزا دی ہم سب سرداروں نے اور اسکی کوکھ سے جنم لیتی دونوں پریوں کی زندگی تاریک کر دی، مجھے پتا ہے ہمارا یہ گناہ ناقابل معافی ہے لیکن بار بار گناہ کی توبہ کی جائے تو اللہ سائیں بھی بخش دیتے ہیں۔ ہو سکے تو اپنے دادا کو معاف کر دینا، اور کبھی خود کو تنہا مت سمجھنا میرے بچے۔ اب سے ہر قدم پر میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ کل کو تم ولی کا انتخاب کرو یا اس بے رحم کا، اب یہ فیصلہ صرف میرے بچے کے پاس رہے گا۔ کسی اور کو یہ اختیار اب ہرگز نہیں ہوگا کہ وہ تمہارے دل سے کھیل سکے۔۔یہاں آو دادا کے پاس"

شاید یہ خوشی کے آنسو اپنی ماں کی ناقدری جان کر اذیت میں بدل جاتے پر اسکے دادا نے اسے بکھرنے سے بچا لیا تھا، اب تو وہ خود رو رہے تھے تبھی انہوں نے وریشہ کو بھی آنسو بہانے سے نہ روکا کہ جیسے زخموں کے کئی ٹانگے ادھڑ گئے تھے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

پہاڑوں پر سفر کے اسکے تمام مضبوط اور قوی ارادے ٹوٹ گئے تھے، وہ لوٹ چکا تھا، ڈیڑھ دن لگا کر واپس پہنچ آیا، جو جیپ کرائے پر لی تھی اسے واپس دے کر اس بندے سے اپنی گاڑی واپس لیتا وہ علیم بدر اور صبیحہ صاحبہ کے گھر ہوتا ہوا گیا، موسم کی سختیاں اسکے واپسی کے سفر کے ساتھ ساتھ ہلکی ہوتی گئیں، خبس بھری فضائیں خوش آمدید کرنے لگیں تو وہ دل جلا سا مسکرا اٹھا، اپنے لوگوں کو پہلے ہی کنزا کے پیچھے لگوا کر وہ اس کسی کے ہاتھ نہ آتی زہریلی ناگن کو اپنے ہی اس فلیٹ سے اٹھوا کر اپنے علاقے کے خونخوار سے سے زیر تعمیر بھیانک مکان میں لا کر بندھوا چکا تھا اور خود اس نے دو دن سے مالنی کی تلاش میں خوار ہوتے ہاشم صاحب کو سلگانے کے لیے پہلے اپنی لوکیشن بھیج کر جنگل بلوایا اور جب ہاشم اسکی واپسی پر اسکا میسج ملتے ہی پہنچا تو ضرار صاحب اپنی گاڑی سے لگ کر کھڑے تالیاں بجا کر اپنے ہونہار چچا جان کا استقبال کرتے نظر آئے کہ ایک لمحہ تو خود ہاشم ساری پریشانی، غصہ، عتاب، بے بسی، اذیت ایک طرف کرتا میثم کے لیے فکر مند ہوا کے کہیں پہاڑوں پر جا کر اسکے لاڈلے کا سر ور تو نہیں پھر گیا۔

"کیا ہے؟"

ہاشم نے منہ بسور کر قریب آتے ہی اسکی عجیب زچ کرتی نظریں دیکھتے خفگی سے سے کہا جس پر ضرار صاحب جو واپس سیاہ میں لپٹے چہرہ تھوڑا بہت سرخ جو واپسی پر انفیکشن کی میڈیسن لینے کے باعث قدرے بہتر تھا، اس پر جی بھر کر غصہ سمیٹتے قریب آئے۔

نظریں اچٹتی ہوئیں اور پوسٹ مارٹم کرنا مشکوک انداز۔

"مطلب اگر خدانخواستہ میثم مر گیا تو اس دنیا کے تو سارے کام ٹھپ ہو جائیں گے، لگا لیا نہ آپ نے اپنی جاسوسی کو زنگ اس عشق معشوقی میںگ کر ۔ مطلب میں اپنے پھیلے رائیتے آپ کے سپرد کر کے گیا اور آپ نے الٹا اپنی بیوی گما دی۔ واہ جی واہ! تالیاں آپکی ان خصوصیات کو۔ جب پتا تھا عقل میں ماشاء اللہ سے آئن سائن سے بھی دو ہاتھ آگے ہے مالنی چچی تو کیوں چھوڑ کر آئے اسے وہیں، بزدار حویلی لے آتے۔ پر نہ جی آپ نے کہا بھئی کنزا کے لیے سوغات بنا کر اپنی بیوی پیچھے چھوڑ آتا ہوں"

ایک تو وہ کنزا کو کئی گھنٹوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ خوار ہو چکا تھا دوسرا ابھی تک اسکے دی گریٹ چچا صاحب کوئی سراغ نہ لگا پائے یہ تو گویا اس بپھرے شیر کو اور تپا گیا جبکہ آج ہاشم بھی جانتا تھا کہ وہ اس بیوقوف مالنی کو وہاں چھوڑ کر آئے خود غلطی پر ہے تبھی اسے ضرار کی باتیں بالکل بجا لگیں۔

"یار میں نے سوچا تھا اسکو اسکے شایان شان طریقے سے بیوی بنا کر تمام رسموں اور ریتوں کے ساتھ بزدار حویلی لاوں گا پر مجھے کیا پتا تھا کنزا کی اس منحوسیت کا اور مالنی کی اس درجہ بددماغی کا"

ہاشم نے گویا اسکے غصے کو ہوا دینے کے بجائے بے بسی اور کوفت کے سنگ اپنی غلطی تسلیم کی۔

"ابھی تک آپ اس کنو کی ناگن فطرت نہیں سمجھے ہیں یار قسم سے بہت افسوس کی بات ہے، اڑتی چڑیا کے پر گن لینے والا ایچ بی مات کھا گیا تو ایک بار پھر اس منحوس کنزا سے۔ میرا دل چاہ رہا ہے اپنا سر پیٹ لوں، مجھے سکون تو راس ہی نہیں۔ نہ وہ شوخی لینے دیتی نہ یہ بدبخت حالات چاہتے کہ میثم بھی دو پل سکون کے گزار لے"

بچاڑے ضرار کی کوفت بھی برحق تھی پر ہاشم بھی کیا کرتا کے برا پھنسا تھا۔

"اچھا ناں غصہ تو مت کرو ، پہلے ہی پریشان ہوں۔ اب اپنے لوگوں کو کہو کے کنزا کو جلدی تلاش کریں۔ پتا نہیں اس نے زونی اور مالنی کو اب تک کہاں پہنچا دیا ہوگا"

ہاشم اسکے غصے کو دیکھ کر مسکین بنا مگر ضرار نے جیسے اپنی کوالٹیز کے انڈر اسٹمیٹ ہونے پر برا منایا اور ابرو اچکا کر مجنوں بنے چچا جان پر اک بھرپور سر تا پیر نگاہ ڈالی جو بکھرے الجھے لٹے شاعر زیادہ، ہاٹ ہنڈسم سے ہاشم بزدار کم لگ رہے تھے۔

"کنزا میرے ہتھے چڑھ چکی ہے، آپکی جاسوسی کو زنگ لگا ہوگا میری نہیں جناب۔ نہ میرا صنم میری جاسوسی کو زنگ لگنے دے گا، لفٹ کرائے گی وہ لڑکی تو مجھے کوئی زنگ زونگ لگیں گے ناں یار، مجھے لگتا ہے تاعمر میں غریب لفڑے ہی نمٹاتا رہ جاوں گا۔ کبھی اسکی بیٹی ڈھونڈو، کبھی اسکی بیوی ڈھونڈو۔ پتا نہیں مجھ پر کب ترس کھایا جائے گا"

خاصی مسکینیت کے سنگ وہ منہ بگھاڑ بگھاڑ کر بولا تو ہاشم نے اسکے کنزا کو بڑی مہارت سے دبوچ لینے پر متاثر کن نظروں سے دیکھے اس سڑے کریلے کا کندھا شاباشی سے تھپکایا جس پر وہ مزید چڑا۔

ایک تو مسلسل سفر، تین دن سے مجال تھی جو ایک منٹ آنکھ لگی ہو پھر سکن انفکشن کی تکلیف اسے سونے دیتی بھی نہ تھی جبکہ اب کنزا کو دبوچنے کے بعد بھی اسے دور دور تک سکون دیکھائی نہ دے رہا تھا کیونکہ اتنی جلدی تو کنزا اپنا منہ نہیں کھولنے والی تھی اور ضرار اپنے ایسی لیچڑ دشمنوں کی رگ رگ سے واقف تھا۔

مگر ایک نقصان ضرور ہوا تھا کہ کنزا ، ضرار اور اسکے لوگوں کے ہتھے لگنے سے پہلے ہی مشارب اور نازلی کی تصویریں، ونیزے کے فراہم کیے نمبر پر بھیج چکی تھی اور چونکہ فون اس وقت مالنی کے پاس تھا تبھی اس نے زونی کی مسکراہٹ دیکھتے ہوئے وہ اذیت اپنے تک ہی محدود کر لی اور فیصلہ کیا کہ وہ یہ تصویریں کبھی زونی کو دیکھا کر اسکی اذیت مزید نہیں بڑھائے گی لیکن اس نے وہ تصویریں صرف واٹس ایپ چیٹ سے ڈیلیٹ کیں جو گیلری میں مکمل طور پر سیو رہ گئیں اور یہ مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا۔

"مجھے پتا ہے مجھ سے کئی ہاتھ آگے کے جاسوس ہو تم لاڈلے، تمہیں ان سب معاملات کے بعد بذات خود بازار سے خرید کر ایوارڈ لا دوں گا اوکے۔

خیر کنزا بتا تو دے گی ناں کہ وہ دونوں کہاں ہیں؟"

ہاشم نے نلبھی گویا بچارے کے زخموں پر لاپرواہی سے نمک چھڑکا جیسے تھکے مسکین بھیتیجے کی اس وقت کوئی پرواہ ہی نہ ہو اور سب کچھ بیوی ہی ہو۔

"میری پھپھی کی بچی ہے ناں جو پلیٹ میں رکھ کر ان دو کا پتا دے گی، مجھے مزید نہ تپائیں ہاشم صاحب پہلے ہی نیند پوری نہ ہونے اور صنم سے زلیل و خوار ہونے پر مجھے تپ چڑھی ہے ایسا نہ ہو آپکی ان سوکھی کوالٹیز کو برداشت نہ کرتے ہوئے میں سارا غصہ آپ پر نکال بیٹھوں۔۔۔تشریف رکھیں گاڑی میں، پہنچاتا ہوں آپکو اس منحوس کے پاس"

اک اک لفظ بمشکل غصے کو برداشت کرتا چبا چپا کر بولتا وہ اس بار ہاشم کو اس انٹیس ماحول میں بھی مسکرانے پر اکسا گیا جس نے اک پیار بھری نظر اپنے ہونہار لاڈلے پر ڈالی اور گاڑی میں بیٹھا جبکہ وہ سیاہ میں لپٹے نخریلے سڑے جناب بھی منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے دوسری طرف آکر بیٹھتے ہی گاڑی اسٹارٹ کر گئے۔

"میرے دکھ کے ہوتے ہوئے اپنا گھر بسانے کی سزا ملی ہے آپکو بچو، آپکی مالنی کھو گئی، میثم ضرار چوہدی پر تو جیسے اس فنڈے کا کالا سایہ ہو گیا ہے کہ نہ خوشی راس ہے نہ خوشی کسی کو راس رہنے دیں گے"

اول جملے وہ بچوں کی طرح منہ پچکار کر معصومیت بھری ناراضگی سے کہتا آخر تک جیسے اپنے ہی کرموں کو پیٹ گیا اور ہاشم اسکی ننھی منی کوفت ہلکی پھلکی انجوائے کرتا بس مسکرا ہی سکا۔

"اب خیر سے اگلوا خود لیجئے گا اس بے سری عورت سے اپنی بیوی اور لاڈلی بھتیجی کا پتا یہ نہ ہو یہ بھی مجھ معصوم کے کندھوں پر ڈال دیں، کیونکہ آپکو وہاں پہنچاتے ہی میں گھر جاوں گا، صنم تو پتا نی کب ملے گی ، تکیے سے ہی لپٹ کر اپنی تھوڑی بہت پرسکون نیند پوری کر لوں گا اور کوئی آپشن نہیں مجھ غریب کے پاس۔ زندہ رہنے کے لیے نیند بہت ضروری ہے میرے عزیز"

گویا وہ اس وقت بپھرا ہوا زخمی شیر خاصی حسرت کا شکار تھا اور ہاشم اسکے انداز اور کوفت پر خود بھی پریشانی سے نکلتا محسوس ہوا لیکن بہرحال اسکا مالنی کے لیے اذیت بھرا غصہ اور کنزا کے لیے غضب بھرا عتاب اپنی پیک پر پہنچا ہوا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی جب ڈاکٹر سے مشارب کی بہتر ہوتی کنڈیشن کے بارے تفصیلی بات کرتا کمرے میں آیا تو مشارب بے دردی سے آکسیجن ماسک منہ سے ہٹائے، ہاتھ پر لگی ڈرپ کھینچ کر اتارتا اٹھنے کی کوشش میں تھا جب ولی نے لپک کر اس کو سہارہ دینا چاہا مگر وہ جیسے یہاں ایک لمحہ بھی مزید رہنے کا متحمل نہ تھا۔

سوجھی آنکھیں، بکھرے بال، اداس چہرہ، سلوٹ زدہ کانپتا ہوا دل، مفلوج دماغ، اپنے بھائی کی ایسی حالت دیکھ کر اسے دل کو دھکا سا لگا۔

"آرام سے مشارب، میرے بھائی تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے"

ولی نے پریشانی کے سنگ اسے سہارا دینے کی کوشش کرتے واپس بیڈ پر بٹھائے سمجھانے کی سعی کی مگر وہ جیسے اس قدر تکلیف میں تھا کہ یہاں بند کمرے میں اسے خبس اور گھٹن زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔

وہ کریہہ، دردناک ، خوفناک اور بھیانک منظر جیسے وقتی طور پر اسکی ابتر ہو جاتی حالت کے باعث کہیں پیچھے رہ گئے تھے، مگر اس اس حال میں بھی یہ یاد تھا کہ وہ زونین سے بچھڑ گیا ہے، وہ اسکا ہاتھ زور سے جکڑنے میں ناکام ہو گیا ہے، اسکے ذہن پر بہت سی دردناک پرچھائیوں کی چھاپ تھی جو سدھ بدھ بھلا رہی تھیں۔

"م۔۔میں یہاں نہیں رہ سکتا لالہ، م۔۔مجھے زونی کو ڈھونڈنا ہے۔ مجھے کیا ہوا تھا؟ میں تو کنزا کی جان لینے گیا تھا ت۔تو یہاں کیسے پہنچا"

وہ ولی کے ہاتھ جھٹکنے کی کوشش کے باوجود فی الحال سانس کے دوبارہ اکھڑنے پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتا وہیں بیٹا جبکہ ولی تو اسکے سوال پر ہی آزردہ ہو گیا۔

کناروں سے سرخ ہوتیں، سبز متورم آنکھیں لیے مشارب نے ولی زمان خان کے بگھڑے چہرے کو تاسف سے دیکھا۔

"کنزا ، ضرار کے ہتھے لگ چکی ہے۔ وہ جلد اس سے زونی کا پتا لگوا لے گا تم پرسکون رہو۔ تمہاری حالت ایسی نہیں ہے پلیز ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ"

دل میں مشارب کے کیے شک ابھی موجود تھا تبھی ولی کے اندر نہایت تند اور بے رحم لہر اتری جسے وہ دباتا نظر آیا اور کنزا کا ذکر ان کمزور سانسوں والے شخص کو آگاہی کا کوڑے برسا بیٹھا۔

ضرار نے بچارے ولی کو اس بار خوار ہونے سے بچا لیا تھا اور ہاشم بزدار کو وہ کنزا تک پہنچائے خود گھر پہنچتے ہی ولی کو اس عورت کے شکنجے میں پھنسنے کی خبر پہنچا چکا تھا کیونکہ مشارب والا معاملہ بھی اس کے لوگوں نے اسے بتا دیا تھا جبکہ یہ بھی کہ نازلی یہ سب کر کے شہیر کے پاسگئی تھی پر وہاں کہاں غائب ہوئی یہ اب تک معمہ بنا تھا جس نے بہت سوں کے ہاتھ باندھ دیے۔

لیکن ولی کی جانب سے ملتی تسلی کے باوجود مشارب کا گویا سارا لہو اسکے چہرے پر چھلک آیا، وہ جانے کتنی تکلیف سہہ رہا تھا کہ اسکا مضبوط جسم اس درد کی زیادتی پر اسے خود لمحہ بھر مفلوج سا محسوس ہوا۔

"لالہ، وہ عورت صرف موت کی مستحق ہے اس نے بابا سائیں کو مروا دیا، حالانکہ انکو سزا مجھے دینی تھی کیونکہ وہ مجھ سے جاتے جاتے میرا سب چھین کر لے گئے۔۔ بچنی نہیں چاہیے وہ عورت۔ ا۔۔اور آپ نے بتایا نہیں کہ میں یہاں کیسے پہنچا۔ وہ لڑکی وہاں کوٹھے پر۔۔"

لہجہ غم زدہ اور آواز اختتام تک پھٹ سی گئی تھی۔

یکدم ہی جیسے مشارب زمان کی آنکھوں کے آگے وہ منظر گھوم گئے تو اسکی زبان بے اختیار تکلیف کے باعث رکی جس پر وہی سرخ چہرہ سفید پڑا اور خود ولی بھی اس بار زخمی نظروں کو مشارب کے بے جان چہرے پر ڈالتا سامنے ہی صوفے پر بیٹھا۔

"لالہ ! اس نے مجھے۔۔۔۔کچھ پلایا تھا۔۔۔۔لیکن"

بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہو سکا، اسکی آواز بہت بھاری ہو رہی تھی اور اسکے خاموش ہونے پر ولی کے ماتھے پر ناگواری سے شکنیں جبکہ رنگ بدلتی آنکھوں میں اضطراب ہمکا۔

"کیا ہوا تھا تم دو کے بیچ؟ تم نازلی کے کمرے سے ملے تھے میرے لوگوں کو۔ مجھے سچ بتانا مشارب، کیونکہ ابھی تمہارے پچھلے گناہوں کی تلافی باقی ہے، کوئی نیا گناہ تو نہیں کر آئے۔۔۔اگر ایسا ہے تو اپنے ساتھ ساتھ تم نے زونین کو بھی جیتے جی مار دیا ہے"

خود ولی ان ذہن الجھاتے سوالات سے کب سے چھٹکارے کے لیے مشارب کا ہوش میں آنا چاہتا تھا اور خود مشارب کو بھی بس اسی لڑکی کا چہرہ اور اپنی پل پل کی مزاحمت یاد تھی، اسکے پورے وجود میں اذیت کی لہر دوڑ چکی تھی۔

ولی کا تھکے تھکے نڈھال لہجے میں کیا استفسار مزید مشارب کو افسردہ کرنے کا موجب بنا۔

"ن۔۔نہیں کیا کوئی گناہ، آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ مشارب زمان خان کسی غیر عورت کی طرف مائل ہوگا ۔ اس لڑکی نے مجھے جال میں پھنسایا ہے لالہ، یہ ضرور کنزا کی چال ہے۔ م۔۔مجھ سے زونین کو بدگمان ک۔۔کرنے کے لیے۔۔۔۔نہیں میں ایسا نہیں ہونے دے سکتا، مجھے اس لڑکی کو ڈھونڈنا ہوگا جس نے مجھے یہ ذہنی اذیت دی ہے"

وہ یکدم جیسے ذہن پر زور دیتا تمام تر ٹوٹتے وجود کی تابناکی اور رکتی سانس کے ستم کے اٹھ کھڑا ہوا، اور ولی کے پاس بھی اس وقت اپنے بھائی کی بات پر یقین کرنے کے سوا کوئی آپشن نہ تھا کیونکہ جو بھی تھا کم ازکم وہ مشارب کے کردار کے حوالے سے کبھی مشکوک نہیں ہوا نہ ہی اسے اب مشارب کی زونین کے لیے محبت پر کوئی شبہ باقی تھا پر جس طرح مشارب اسکے لوگوں کو ملا وہ خود بھی وقتی الجھ گیا تھا۔

"اگر تم نے واقعی کوئی گناہ نہیں کیا تو مجھ پر چھوڑ دو یہ معاملہ، تمہیں پنچائیت نے علاقے کا سردار بنا دیا ہے۔ یہاں سے جا کر علاقے کی بھاگ دوڑ سنبھالو، زونی کو ہم جلد یا بدیر ڈھونڈ لیں گے۔ اس وقت میں تمہیں مزید کسی تکلیف یا اذیت میں نہیں جھونک سکتا میرے بھائی، اماں سائیں کو ہم دونوں کی ضرورت ہے کم از کم ایک بیٹا تو انکے پاس ہو جو انکے دکھ میں شریک ہو، تم جاو واپس، کنزا اگر اس سازش میں بھی شریک ہے تو اسکی عبرت ہم سب مل کر طے کریں گے، مجھ پر بھروسہ رکھو"

ولی نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے یقین دلاتے لہجے میں سمجھایا اور سردار کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی مگر مشارب کی جان سولی پر ٹنگی تھی جب تک زونین نہ ملتی تو وہ کیسے آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔

"پلیز لالہ ایسا تو مت کہیں، میں جب تک زونین کو ڈھونڈ نہیں لیتا مجھے چین نہیں آئے گا۔ مجھے یہیں رہنے دیں"

وہ جیسے بے بسی سے منت کر اٹھا مگر ولی کی بات بھی بجا تھی کیونکہ سرداری کی کرسی یوں خالی چھوڑنا بھی کہیں کی عقل مندی نہیں تھی اور اگر مشارب یونہی اذیت میں مبتلا رہتا تو علاقے کے لوگوں کا اسکی غفلت اور بیماری سے دل میلا ہو جاتا اور وہ کسی اور کو سرداری کے لیے نامزد کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

"کہا ہے ناں مشارب سب یہاں کافی ہیں، وہاں بھی تمہاری ضرورت ہے اور تم کمزور نہیں ہو جو دل بند کر بیٹھتے ہو۔ حوصلہ رکھتے ہیں میرے بھائی، میں ڈاکٹر سے ڈسچارج کی بات کر کے آتا ہوں اور تم واپس جا رہے ہو۔ بالکل مطمئین رہو، زونی کو کچھ بھی ہونے نہیں دوں گا"

اپنی طرف سے وہ مشارب کی لاکھ ہمت بندھا لیتا مگر مشارب زمان خان کی تو جیسے دنیا اجڑی ہوئی تھی، یہ سوچ ہی کہ کہیں زونی اس سے بدگمان نہ ہو جائے، نوکیلے کانٹے کی طرح اسے زخمی کر رہی تھی، اذیت دے رہی تھی پر ولی کی بات بھی درست تھی کہ اسے ان حالات میں مزید مضبوط ہو کر اپنا دفاغ کرنا تھا نہ کے وہ رہی سہی ہمت بھی چھوڑ دیتا۔

وہ خود کو واپس بیڈ پر گرائے ہارے انداز میں دقتوں سے سانس کھینچتا اپنی قسمت پر افسردہ ہوئے بیٹھا جس نے اسے اسکے گناہوں کی ایک ساتھ سزا دے دی تھی۔

زونین سے دوری، وہ لڑکی جسے ابھی تو لڑ جھگڑ کر اپنا بنایا تھا، وہ کیسے دور ہو گئی تھی۔

کچھ دیر تک ولی ڈاکٹر کی جانب سے ڈسچارج کی پرمیشن تو لے آیا مگر ابھی مشارب بلکل ٹھیک نہ تھا سو ڈاکٹرز کی جانب سے بھرپور اختیاط کی تاکید کی گئی تھی خود ولی بھی مشارب کی وجہ سے پچھلے کئی گھنٹوں سے ہوسپٹل میں بندھ کر رہ گیا تھا۔

اپنے ہی ڈرائیور کے ساتھ وہ مشارب کو واپس بھیجواتے خود بھی تھانے نکل گیا۔

جہاں جاتے ہی اس نے شہیر کو ملنے کے لیے بلوایا، لیکن شہیر اس وقت اس اتھرے انسپیکٹر سے ملنے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا تبھی اس نے ولی کی نہ تو کالز اٹھائیں الٹا اپنا فون بھی سوئچ آف کر دیا۔

جبکہ مشارب کی تکلیف غائبانہ ہی سہی پر زونین تک پہنچ رہی تھی، وہ بے قرار تھی، اسکا دل پریشان تھا مگر وہ دونوں اپنی اپنی دنیا سے کٹ کر رہنے پر مجبور کر دی گئی تھیں۔

زونین تو اک عمر اس انسان کی حسرت میں جیتی آئی تھی سو دوبارہ سے اس حسرت کے ساتھ جینا اسکے لیے مشکل نہ تھا مگر وہ منظر اسکی آنکھوں سے ہٹاتے بھی نہ ہٹتا جب وہ بار بار مڑ کر اسے تلاش رہی تھی اور وہ اس تک پہنچنے میں ناکام ہوا تھا۔

خود مالنی بھی اپنا دل بڑا کیے نارمل تو ہو گئی تھی پر اس شخص کی عادت  ، محبت سے کئی درجے ظالم تھی۔

وہ اسکے یاد کرنا ، کنزا کی سفاکیت کے بعد بھی نہ چھوڑ سکی پر اسے اس وقت ہر شے سے لاتعلقی ہی اپنے ٹوٹے دل کا علاج لگی پھر جو نازلی اور مشارب کی تصویریں وہ دیکھ چکی تھی، محبت پر سے مالنی کا اعتبار اٹھنا فطری تھا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

پچھلے آدھے گھنٹے سے ہاشم لکڑی کی کرسی پر چوڑا ہو کر اس سنسان سے زیر تعمیر کمرے میں بیٹھا،کھلی ونڈروز کے ساتھ بنے سیمنٹ کے پلرر کے ساتھ رسیوں سے بندھی کنزا کی طرف اچٹتی سلگتی شعلہ باز آنکھیں گاڑے متنفر ہوئے دیکھ رہا تھا جسکے چہرے پر غلیظ زچ کرتی، اس شخص کو طیش دلاتی مسکراہٹ اک لمحہ بھی غائب نہ ہوئی تھی اور ہاشم یہی سوچ رہا تھا کہ یہ عورت کس ڈھیٹ مٹی کی بنی تھی جسے نہ شرم ہے، نہ حیا ہے، نہ ہی یہ احساس کے وہ اتنا گند پھیلا کر عورت نام پر دھبہ لگ چکی ہے۔

وہ مسکرا رہی تھی کہ چلو اسے قید کر کے اس شخص کو بھی اپنی بھڑاس نکالے کا موقع ملا، جبکہ وہ اسکی مکارانہ حرکتوں سے ناک تک عاجز آئے بھی تفتیش کا سلسلہ جاری رکھنے پر بضد تھا۔

اس شخص کی نفرت دور سے ہی کنزا کا وجود جلا رہی تھی پر وہ عورت جذبات کی سوداگر ہر آگ کی تپش سے بہت آگے نکل چکی تھی۔

"کہاں ہیں زونی اور مالنی، شرافت سے بتا دو ورنہ تم سے یہی نرم انسان جانوروں والا سلوک کر کے سچ اگلوائے گا۔ تھوڑا بہت جو تمہارا لحاظ کر رہا ہوں اسکا پردہ رہنے دو کنزا، موت تو تمہاری اب اٹل ہے کیونکہ درندہ صفت عورت سے اب تم قاتل بن چکی ہو، رینک بڑھ گیا ہے سو موت سے پہلے یہ اچھا کام کر دو تاکہ ایک آدھ آگ کا شعلہ تمہاری قبر سے کم ہو جائے"

اپنے آپ کو غضب سے روکتا وہ اس عورت سے آسان زبان میں پوچھ رہا تھا مگر وہ تو گویا یہاں آکر خوش ہی بہت تھی کہ نجس مسکراہٹ اسکے بظاہر خوبصورت چہرے پر چپک کر رہ گئی تھی۔

لیکن دل میں کہیں دھند چھا رہی تھی، اندھیرا ہو رہا تھا۔

وہ ہاشم کے پوچھنے پر زہریلا قہقہہ لگاتی ہنس کر اسکے عتاب کو ہوا دے گئی۔

"مجھے اپنی قبر سے ایک بھی آگ کا شعلہ کم نہیں کرنا، تم چاہے ساری زندگی یہاں بیٹھ کر مجھ سے ان دو کا پتا پوچھتے رہو تب بھی میں تمہیں نہیں بتاوں گی۔ جو کرنا ہے کر لو، تم مالنی تک کبھی نہیں پہنچ سکو گے، پہنچ بھی گئے تو دیکھنا وہ تمہیں دھتکار دے گی۔ تمہاری ساری اصلیت اسے بتا دی، ہاہا بچارا ہاشم بزدار، پھر سے محبت کرنے چلا تھا، لو کنزا نے تمہاری محبت کا م ہی جلا دیا۔۔۔۔مجھے ویسے بھی اب کوئی خاص کام نہیں ہیں باپر سو میں خوشی خوشی تمہاری مہمان بننے کو تیار ہوں"

لہجہ رسیلا اور ڈھیٹ رکھے وہ مزے لے لے کر ہاشم کے غضب کو للکار رہی تھی، اس عورت نے وہ ساری آگ سود سمیٹ لوٹائی تھی جو ہاشم نے مالنی سے نکاح کر کے اسے سونپی تھی، ہاشم اپنی جگہ سے صبر کا دامن تھامے اٹھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی گن نفرت کے سنگ کنزا کی گردن پر رکھی جو آگے سے بنا خوف اسکی گہری سیاہ آنکھوں میں بے باکی سے دیکھنے میں محو تھی۔

"تمہیں پتا نہیں ابھی کہ جو آگ تم نے خود اپنی زندگی میں بھری ہے وہ تمہاری عنقریب ہلاکت بنے گی کنزا، کیوں وقت برباد کر رہی ہو، فرصت سے تمہیں مر جانا چاہیے"

وہ اپنی نفرت چھپائے چھپا نہ سکا اور دبائے دبا نہ سکا تو اس تضخیک پر خفیف سا وہ بھی تلملائی۔

"تم نے بڑی جلدی دل بدل لیا، اپنی بیوی کی یاد میں اتنے غمناک ہو کے سانس نہیں آرہی۔۔چچ چچ۔۔۔"

وہ اسکی بے بسی پر پھر سے ہنسی جو دراصل ہاشم بزدار کی آخری رعایت تھی۔

"ہاں اسے اپنی سانس بنا لیا ہے ہاشم بزدار نے، یاد میں غمناک ہونا تو شان سے بنتا ہے۔

تم سے محبت میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کنزا، اور تم نے اس محبت کو اسقدر نفرت میں بدل دیا ہے کہ میں بنا سوچے اپنی گن کی تمام گولیاں تمہارے اس وجود میں اتار سکتا ہوں"

اول وہ ڈھیٹائی سے اس عورت کی تائید کرتا اسے خاکستر کرتا بولا اور پھر اذیت اور حقارت کے ملے جلے تاثر سے دوچار ہاشم کا لہجہ لمحہ بھر کنزا کے چہرے سے بھی مسکراہٹ غائب کر گیا، بھلا جو شخص اس کے لیے آگ میں کودا تھا، وہ کیا واقعی اسکی جان اس آسانی سے لے سکتا تھا؟ تکلیف جیسے یکدم اس عورت کا تجسس بنی۔

"تو اتار دو ناں، دیر کس بات کی ہے۔ موت سے کنزا کو ڈرانے والے بہت آئے اور گئے، مجھے مارو گے، جسے قسمت نے موت تو زندگی کے سفر کے پہلے پڑاو پر ہی پلیٹ میں رکھ کر دی تھی اور میں نے اٹھا کر نگل لی۔ موت سے ڈر نہیں لگتا اب، تمہارے آباد ہو کر خوش ہو جانے سے لگتا ہے ہاہاہا۔۔۔ وہ کیا کہا تھا نانی بناو گے، وہ  بیوقوف مالنی تمہیں منہ لگائے گی تو تم نانی بناو گے۔۔۔۔میں نے اس کے اندر اتنا زہر تو بھر دیا ہے کہ وہ تم جیسے کو دیکھنے سے پہلے ہزار بار سوچے گی"

اس عورت کی تمسخر اڑاتی سرد آواز میں سمندر کی طرح کا ہیبت ناک سکوت تھا جسکے اندر کئی طوفان پنپ رہے تھے جو قہر بن کر بہت سوں کو اپنے اندر نگل لینا چاہتے تھے اور ہاشم نے اسکی اس بدزبانی پر اسکے جبڑے دبوچ کر چہرہ اپنی جانب پھیرے قہر ناک نگاہ ڈالی کہ اس تکلیف پر وہ درد سے کراہ اٹھی پر پھر ہنس دی۔

"تمہارے سب ناپاک ارادے مٹی میں ملاوں گا، جسے محبت کی قدر نہیں وہ کیا جانے محبت میں کس قدر طاقت ہوتی ہے۔ تم مالنی کو بھلے مجھ سے نفرت کرنے پر بھی کیوں نہ اکسا لو کنزا بی بی، میرے قریب آتے ہی وہ لڑکی ہر بدگمانی کو خود سے نوچ کر پھینک دے گی۔ تمہیں کبھی محبت بھرا لمس ملا ہو تو تمہیں پتا ہوتا کہ ان معاملات میں منہ سے صفائی دینے کی نوبت نہیں آتی۔۔۔چچ چچ کنزا! تمہاری حسرتیں ہنسی دلا رہی ہیں، کس قدر تہی دامن عورت ہو چکی ہو تم۔ جن عورتوں کا سرپرست بننے کا بہانہ کر کے تم نے میرا ہاتھ جھٹکا تھا ان بچیوں سے بھی تو تم نے پرورش کا تاوان لے لیا ہے۔ سو تمہاری یہ نیکی بھی غارت ہوتی ہے، درحقیقت تم نے اپنے ساتھ ہوتی زیادتیوں کا سارا بدلہ مجھ سے لیا، کیونکہ تمہارا اختیار تب صرف ہاشم بزدار پر تھا"

وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اس عورت پر کہاں وار کرنا ہے اور واقعی کنزا کی آنکھوں میں ہاشم کے لفاظ انگارے سمیٹ لائے، اس کا بس نہ چلا وہ ہاشم کا گلا گھونٹ ڈالتی۔

"پرورش کی ہے میں نے، وہ میرے لیے جان بھی دے دیں تب بھی کم ہے۔ مالنی کو تم سے لاکھ درجے اچھے سے جانتی ہوں۔ وہ جتنی بے باک اور بے تکلف ہے اتنی بیوقوف اور حساس بھی ہے۔ تمہیں جتنا اسکے آگے گندا کیا ہے، وہ اس گند کو منہ نہیں لگائے گی۔ وہ خود دار لڑکی ہے، سو یہ لمس کی زبان ساری دھری کی دھری رہ جائے گی۔۔۔تم خالی ہاتھ رہو تبھی سکون ملے گا، تم بھی کسی کی حسرت میں مرو تبھی چین آئے گا"

کنزا کو ابھی بھی اپنے کیے پر نہ شرم تھی نہ غیرت اور ہاشم بہت مشکل سے اسکے ذہن و دل دہکاتے جملے جبڑے بھینچ کر برداشت کر رہا تھا، اگر مالنی اور زونی کا پتا نہ جاننا ہوتا تو وہ بلا تاخیر اس نجس عورت کا خاتمہ کر دیتا۔

"اب جتنی مالنی ، ہاشم بزدار کی ہے اتنی وہ لڑکی اپنی بھی نہیں اور یہ جلد ثابت کروں گا۔ میرے اور اسکے بیچ کی یہ جدائی بس اس کے مل جانے تک ہے، پھر میں تمہیں بتاوں گا کنزا کے ہاشم بزدار نے اصل دھواں دار محبت تو اب کی ہے۔

بہت شوق ہے تمہیں ہاشم کا مہمان بننے کا، مجھے خالی ہاتھ دیکھنے کا، مجھے اس لڑکی کی حسرت میں مرتا ہوا دیکھنے کا۔ اوکے فائن، میں میزبانی کرنے کے لیے تیار ہوں، دیکھتے ہیں تمہیں موت سے کب تک ڈر نہیں لگتا ، جب تک تم ان دونوں کا پتا نہیں بتاو گی، یہ مہمان نوازی تمہیں برداشت کرنی پڑے گی"

وہ اسکی زہریلی باتوں کا تریاق کرتا فاصلہ بنائے دور ہٹا اور اپنے الفاظ کی دہشت سے کنزا کا سفید پڑتا چہرہ مخظوظ ہو کر دیکھنے لگا۔

"جس بھی درجے تک گر جاو، مجھے پرواہ نہیں"

وہ خود کو مضبوط ثابت کرتی زہریلا قہقہہ لگاتی ہنسی جبکہ ہاشم بھی سلگتا ہوا مسکرا کر اس زیر تعمیر عمارت سے باہر نکلا جہاں اسکی گاڑی کے ساتھ اسکے چار پانچ لوگ کھڑے تھے۔

"چھوٹے موٹے کیڑے چھوڑ دو اس کمرے میں، ہفتے تک نہ کھانا دینا ہے اسے نہ پانی۔۔اسکے بعد ان کیڑوں کے زخموں کی آدھی دوا، آدھے کھانے کے ساتھ کیونکہ جب تک اسکے اندر مالنی اور زونی کا پتا راز کی طرح دفن رہے گا، اسے مکمل موت نہیں دے سکتے۔۔۔۔تب تک کوئی شکائیت نہ ملے، اور نہ یہ عورت یہاں سے بھاگنی چاہیے"

ہاشم نے اپنے لوگوں کو ہدایت دی اور خود وہ اس پوری جگہ کو اپنے اور ضرار کے لوگوں کی پہرہ داری کے سنگ سیکور کرتا بلڈنگ سے نکل گیا جبکہ کنزا کی آدھی موت کا وہ پورے شایان شان انداز سے بندوبست کر گیا تھا۔

پہلے ہفتے کیڑوں کے ڈنگ، دوسرے ہفتے سلگا کھولتا گرم پانی، تیسرے ہفتے طنز اور ملامت کے تیر، چوتھے ہفتے اس عورت کے گناہوں کی فہرست سنا کر اسے آئینہ دیکھانے کا فیصلہ۔

بھوک پیاس، بے بسی، اذیت، تکلیف، لاچاری، مجبوری، تنہائی، وہشت، خوف، سنسنی، کرب، زخم، درد۔۔۔

ہاشم بزدار کی سوچی گئی مہمان نوازی کی لسٹ خاصی طویل تھی، بہت طویل۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اس لڑکے کا دماغ الٹ گیا ہے کیا؟ عزیز خان اسے کہو میری نظروں سے دفع ہو جائے"

میثم صاحب نے حسب توقع بزدار حویلی آتے ہی سبکو نئی پسوڑی ڈال کر اپنے کمرے میں اکھٹا کیے نیا شوشا چھوڑے گویا اماں فضیلہ، عزیز خان اور دادا سائیں کو دہلا کر رکھ دیا جبکہ بزدار عالم تو باقاعدہ اس پر برہمی اور عتاب و خفگی سے بڑبڑاتے پھٹ پڑے مگر مجال ہو جو سب کے سامنے ڈھیٹ بن کر کھڑا میثم ضرار چوہدری ٹس سے مس ہوا ہو۔

الٹا اپنے ارادوں پر وہ مزید پتھر ہو کر جما کیونکہ ضد اسکی زچ کر ڈالتی ہیبت ناک بلا کا روپ دھار چکی تھی۔

"کیا کہہ رہے ہو ضرار، کیوں تم اتنے سنگدل بن گئے ہو۔ بھول گئے ہو کیا کہ کتنی محبت کرتے ہو"

خود بھی جیسے عزیز خان اس ناقابل مانگ پر پھڑپھڑا سے رہ گئے، دہلتے دل پر ہاتھ رکھے افسردہ اور پرنم آواز میں اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگے پر وہ تو سنگدلی کی حدیں عبور کیے کسی اونچے مغروریت کے مینار پر چڑھا بیٹھا تھا۔

"میں تو کچھ نہیں بھولا عزیز خان لیکن آپکی بیٹی ضرور سارے لحاظ اور مروت بھول چکی ہے، یہی میرا آخری فیصلہ ہے اور آپ سبکو میرے اس کھیل میں حصہ ڈالنا ہوگا ورنہ اگلی قیامت منصوعی نہیں حقیقت پر مبنی ہو کر آپ سب پر پوری شان سے اترے گی"

گویا آنکھیں بغاوت سے بھریں اور لہجہ آتش کو مات دیتا ہوا ہٹ دھرم تھا تبھی تو وہ تینوں ہی اسکی سفاکیت پر سن سے ہو چکے تھے۔

گویا سب کا لہو انکے چہروں پر جبکہ آنکھیں بے یقینی سے اٹ کر رحم طلب بنیں پر ضرار نے کچھ وقت کے لیے رحم نامی لفظ اپنی ڈکشنری سے اوٹ کر دیا تھا۔

نیند، تھکن اور بیزاری ماسوا تھی اور اوپر سے خوامخواہ کے ڈرامے بھی ان بوڑھی عوام کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے کرنے پڑھ رہے تھے تبھی وہ خاصا سلگا ہوا تھا۔

"میرے بچے، کیوں تم اس بچی کو خود سے مزید بدگمان کرنے پر تلے ہو۔ جب اسے پتا چلے گا تم پر سے عزیز خان کے قتل کا الزام ہٹ گیا ہے تو وہ ساری بدگمانی دور کیے تمہارے پاس آجائے گی۔ لیکن تم تو بے رحم بن گئے ہو، ایسا نہیں کرو بچے"

گویا نم آنکھوں والیں خوفزدہ اماں فضیلہ بھی اس بچے کے پاگل پنے پر برداشت کا دامن مزید نہ تھامے سکیں اور بول اٹھیں جبکہ وہ ان سب کو صرف حکم سنانے آیا تھا اور اس وقت اسے کسی کی تجویز منظور نہ تھی تبھی بیزاری سی دیکھائے منہ بسور گیا۔

"میں بے رحم ہوا ہوں؟ واہ کیا کہنے۔ بے رحم تو وہ ہوئیں ہیں جنھیں مجھے اذیت دے کر سکون ملنے لگا ہے، سچ بتا رہا ہوں اگر آپ سب نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں اپنی جان لے لوں گا۔ پھر آپ سب بیٹھ کر مجھے روتے رہنا"

جب گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلا تو ضرار کو لگا بس ایموشنل بیلک میلنگ ہی آخری حل بچا ہے اور واقعی کامیاب بھی ہوا، وہ جو پہلے ہی نوٹنکی کر رہا تھا، بچارے تینوں کے چہروں پر اپنی موت کے خوف سے سفیدی اترتی دیکھ کر اپنے آپ کو اس درجہ لاجواب ذرامے بازی پر سراہ اٹھا۔

"یا اللہ! یہ لڑکا میری جان لے کر رہے گا"

دادا سائیں نے تو باقاعدہ سینہ پیٹے اس جان کھاتے پوتے کو کوسا پر پرواہ کسے تھی، ضرار اب بھی اپنے موقف پر پہاڑ سا جما تھا۔

"بتائیں آپ سب، میری مدد کریں گے یا جاوں خودکشی کرنے۔۔۔۔میرے بنا آپکا کوئی کام نہیں ہوتا سو یہ پلیز لازمی سوچ لیجئے گا"

وہ گویا انکو تنبیہہ کرتا آخری بار پوچھ رہا تھا اور وہ سب مرتے کیا نہ کرتے کے مصادق اس سر پھرے کی بات ماننے کی ہامی بھر گئے اور سب کے چہروں کی اڑی ہوائیاں دیکھتا ضرار باقاعدہ سب سے باری باری ہاتھ ملائے وعدے کو پکا کرتا واپس مسکراتا ہوا تینوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

"گڈ ، ویری گڈ۔ مجھے پتا تھا اتنے اہم بندے کو آپ سب مفت میں ضائع ہونے نہیں دیں گے۔ تو اب آپ تینوں توجہ سے میری بات سنیں، اشنال عزیز جب پہاڑوں سے لوٹیں گیں تو ان تک پنچائیت کی یہ خبر کسی صورت پہنچنی نہیں چاہیے کہ مجھے عزیز خان کے قتل کے الزام سے باعزت بری کر دیا گیا ہے بلکہ ان تک یہ خبر پہنچنی چاہیے کہ عزیز خان کو ضرار نے ہی قتل کیا ہے اور پنچائیت نے اسے ثابت بھی کر دیا ہے۔ بس اتنا سا کام، باقی میں جانوں اور وہ لڑکی۔۔۔۔سمجھ گئے ہیں آپ سب؟"

بڑی کمینگی اور سفاکی کے سنگ وہ یہ ہدایات سونپتا ان تینوں خفگی اور برہمی کے شہکاروں سے مخاطب ہوا جنھیں اس وقت ضرار واقعی میں زہر لگ رہا تھا لیکن اب ضرار کی باری تھی صنم کو مزہ چکھانے کی اور وہ بچارے تینوں ہی اسکے آگے بے بس اور مجبور تھے۔

سب نے ہی سہم کر گردن ہلائی جس پر ضرار نے بمشکل اپنے ہونٹوں پر مسکراتا لمس دبایا کیونکہ اس وقت اس آفت کے پرکالے کو بڑی وی آئی پی فیلنگ آرہی تھی، جبکہ دادا سائیں کا تو اس چھچھورے کے ارادے جان کر دل اپنے مرکز سے ہل چکا تھا۔

"اور جب وہ لڑکی تم سے نفرت کرے گی، کیسے سہو گے اسکی نفرت؟"

اس بار اس خوفزدہ تین نفوس کے مجمعے سے عزیز خان کی تڑپتی ہوئی آواز سوال کے ساتھ بلند ہوئی۔

"انکی نفرت کی ایسی کی تیسی، آئیں بڑی نفرت کرنے والی۔ مجھے اور میری کوالٹیز کو اندراسٹمیٹ مت کریں سسر صاحب کیونکہ میثم جتنا زمین کے اوپر ہے اتنا ہی نیچے ہے۔۔۔اور کسی کا کوئی سوال؟"

فوری سسر صاحب کو لاجواب کیے وہ یوں بولا جیسے اس کھیل کے سائیڈ افیکٹس پہلے ہی سوچ کر بیٹھا ہو اور اسکا اطمینان تو اس بچاری مسکین بزرگ کمیونٹی کو سسکتے میں مبتلا کر چکا تھا۔

"میرا سوال یہ ہے کہ اپنی جوتی تمہیں مار سکتا ہوں چول انسان، خرافاتی دماغ پتا نہیں کہاں سے مل گیا اسے۔ او میرے اللہ اس بچی کی اس جن زاد سے خفاظت کر۔۔۔فضیلہ بچے میرا بی پی اسکی خوفناک باتیں سن کر ہائی ہو رہا ہے مجھے دوا دو۔۔۔۔آجاو عزیز باہر چلتے ہیں، ورنہ یہ لڑکا تمہیں بھی پاگل کر دے گا۔"

اول جملہ دادا جان نے بڑے شائستگی سے ادا کیا اور ساتھ ہی بچارے ہانپتے کانپتے اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ انکی باتیں سن کر سہمے سے عزئز خان اور فضیلہ بھی اس آفت کی دبائی مسکراہٹ دیکھ کر مسکرانا روک نہ پائے اور بزدار عالم کے ساتھ ہی باہر نکلے جبکہ انکو جاتا دیکھ کر میثم نے جاندار قہقہہ لگایا۔

آنکھوں میں فنا کر دیتی آگ تھی جبکہ بدلہ تو اب ناگزیر تھا۔

"اب آپکو مجھ سے کوئی بچا نہیں سکے گا صنم! محبت کر کے مجبور ہو گیا سو سچی سزا نہیں دے سکتا تو کیا ہوا، جھوٹی سزا تو پوری سچائی سے دے گا میثم ضرار چوہدری۔ کیونکہ آپکی ہر خطا معاف کر سکتا ہوں پر محبت پر بے اعتباری ناقابل معافی ہے۔۔۔۔ کہا تھا صنم ٹھیک ہو جائیں پر آپ نہ مانیں، اب جب میں بگھڑ گیا ہوں تو تماشا بھی ڈنکے کی چوٹ پر لگے گا"

گویا سایہ شرارت لمحوں میں غائب ہو کر انتقامی جذبات کا روپ دھار چکی تھی اور آنے والے وقت کا سوچ کر ہی جناب واپس خمار میں لپٹے اور اپنے ذہن و دل کی ہر تھکن بھگانے کو نہانے بڑھے کیونکہ نیند آج بہت سکون کی آنے والی تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کچھ ماہ بعد_____

یہ ایک ایسا جہاں تھا جہاں غم نہ تھا، مشقت نہ تھی، دھتکار نہ تھی، یہ خواب نگری تھی، جہاں بڑے بڑے بلند پہاڑ تھے جنکو محویت سے دیکھتی وہ خوبصورت آنکھیں، دل میں میثم سے جدائی کا غم پال کر بھی پھولوں، خوشبووں، تتلیوں، جگنوؤں، بہتے جھرنوں، سفید پوش پہاڑوں کی مدھر سرگوشیوں کے سنگ مسکرانے لگی تھیں، وہ اپنے چنے ہوئے رستے پر اندھا دھند بھاگنے لگی تھی، جہاں جہاں سانس رکتی تو میثم کا احساس منصوعی سانس فراہم کیے وجود کے اندر تک ہمت اور زندگی اتار دیتا، جہاں پیر تھکتے، وہ وہیں بیٹھ کر اس سنگدل کو سوچنے بیٹھ جاتی۔

سردی سے سن پڑتی سماعت، دھندا جاتی بصارت، اور گل ہوتے خواس خمسہ کی پرواہ کیے بنا وہ پہاڑ سر کرتی رہی، آگے بڑھتی رہی، عشق تکمیل دیتی رہی۔

"تم میرے بابا کو نہیں مار سکتے جانتی ہوں، جب واپس آوں گی تو تمہیں سب سچ بتاوں گی میثم۔ تمہیں ستانے کی ہر قیمت چکاوں گی"

وہ دل ہی دل میں سوچتی، عہد باندھتی پر اب تو میثم نے ضد لگا لی تھی، اب تو سزا واجب تھی۔

اور پھر پہاڑوں پر جبل زاد اور رحمان صاحب کی سنگت میں ان دو لڑکیوں کا دنوں اور مہنیوں پر محیط سفر جاری ہو چکا تھا، بھلے اشنال عزیز کے لیے میثم کے بنا پہاڑ سر کرنا مشکل تھا پر ایک عشق کی تکمیل کے لیے دوسرے کو نظر انداز کرتی وہ اسی پر خوش تھی کہ اس نے میثم ضرار چوہدری کے ہر ہر لفظ پر ایمان دوبارہ قائم کر لیا مگر وہ کیا جانتی کہ وہ شخص اب بخشنے اور نرم پڑنے کے سارے فیصلے رد کرتا حقیقی ضد پر اتر آیا ہے۔

اسکی ضد واقعی مضبوط پہاڑوں کو ریزہ کر دینے کی حد تک ظالم تھی۔

جبل زاد کا دھیان سائیں کی جانب ضرور رہتا تھا پر نظروں کے سامنے جب وہ ہوش ربا تھی تو دل کو پر لگنے لگے تھے، یہ محبت کی کیسی آسانی تھی کہ بنا منقطع کیے دل کو بھاتی اس پہاڑ زادی کا دیدار آنکھوں کے سامنے رقص کرتا، کبھی قدم رکتے تو وہ بلاجھک ہاتھ بڑھا دیتا اور وہ لجائی شرمائی سی سرخ گالوں اور ٹھٹھرتے موسم سے کانپتی لڑکی اسکا گرم جوش جذبے سے حدت پکڑتا ہاتھ تھام لیتی۔

وہ اسکی حیران متبسم آنکھوں میں جھانکتا، دیکھتا، پڑھتا اور دھک سے رہ جاتا، وہ تسلیم کرتا ہر سچ بے دھڑک اور بے خوفی سے اور وہ گلالئی نامی لڑکی لمحوں میں گلاب ہو جاتی۔

یہ دن گزر رہے تھے، ان دنوں نے گزر جانا تھا، اشنال عزیز اپنے پہلو کی ویرانی بھول کر جبل زاد اور گلالئی کو ساتھ دیکھنے کے خواب سجانے لگی تھی۔

وہ ایک ساتھ سجتے تو وہیں اشنال کو بھی بھا رہے تھے۔

وہیں شہیر نے ایک طرح سے ولی سے بلکل لاتعلق ہو کر صرف سیٹھ طلال اور سیٹھ گونی کی ماتحتی سنبھال لی اور وہ ولی کو بنا خبر دیے ان دو کے راز جمع کرنے لگا، ہر آتے ٹرک کی خبر ولی کے لوگوں تک پہنچانا ، مافیا میں شامل ملک کی نامور ہستوں کے نام ، بڑے بڑے مافیا گینگ سے وابستہ پراجکٹ سے جڑی ہر خبر صرف شہیر ہی ولی کے لوگوں تک پہنچا رہا تھا اور شہیر کو لگن سے کام کرتا دیکھ کر ولی نے بھی گویا اس پر سے نازلی والے معاملے کا غصہ وقتی طور پر اتار دیا۔

کیونکہ نازلی ، مشارب کی گناہ گار تھی اور زونین کے ملنے سے پہلے وہ نازلی کو ڈھونڈ کر اس معاملے کی تہہ تک جانا چاہتا تھا۔

شہیر نے وریشہ یوسف زئی کو اسکے حال پر اور خود کو اپنے حال پر چھوڑ دیا، اس آڑی ترچھی اڑی پتنگ کو بے رحم ہوا کی زد میں چھوڑ کر وہ اپنے لیے قدرت کے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا۔

خود ولی بھی مشارب زمان کو واپس بھیج کر اپنی ذمہ داریوں میں لگ گیا، اسکی زندگی کا نیا باب ونیزے حسن تھی جس کی دو دن بعد ہونے والی سنگین سرجری کامیاب تو ہو گئی تھی مگر اسکے پاس زندگی اب بھی دس فیصد تھی، لیکن اسکی ذات کے سارے چڑ مڑے پتے جھڑنے لگے تھے، زندگی نامی نئی کونپلیں اسکے وجود کی شاخوں پر کھلنے لگی تھیں۔

 جس دن ونیزے آپریشن کے بعد دو ہفتوں کی لمبی نیند کے بعد جاگی تو وہ اس شکارن کا کھڑوس دوست بن کر اسکے لیے رنگ برنگے پھول لایا، اس امید پر کہ شاید یہ رنگ، یہ خوشبو اس لڑکی کی بجھتی زندگی میں اضافہ لے آئیں، اور ولی زمان خان تو نرمی سے بات بھی کرتا تو اس پاگل شکارن کی زندگی کا ایک دن بڑھ جاتا۔

وہ نیم بیہوشی اور دواوں کے گہرے اثر میں غنودگی میں مبتلا اس دن مبتکا تھی پھر بھی اس دن ان قدموں کی آہٹ اسکے اندر زندگی بھر گئی جب ڈاکٹر علی کے ہمراہ وہ ڈم سکائے بلو شرٹ اور جینز میں ملبوس بازو پر اپنا گرے کوٹ ڈالے، پیروں میں برینڈ شوز پہنے، ایک ہاتھ میں گلدستہ تھامے خوشبووں میں بسا اس بیمار کی عیادت کو سج دھج کر آیا جس نے آہستگی سے اپنی سوجھی آنکھیں کھولیں اور کھولتے ہی دنیا جہاں سے پیارا مسکرائی، ڈاکٹر علی اسے چھوڑ کر واپس جا چکے تھے۔

"نئی زندگی مبارک شکارن"

وہ سنجیدگی سے اسکی طبعیت کا احساس کرتا قریب آیا اور وہ مہکتے پھول ونیزے حسن کے بیڈ سے جڑے چھوٹے سے سائیڈ میز پر پڑے واس میں سجا دیے۔

"نئی زندگی کے تھوڑے سے دن مبارک کہیں، اگر آپ یہاں آگئے ہیں تو میرا سیکرٹ بھی جان گئے ہوں گے"

وہ نقاہت سے بھرپور آواز میں خاصی مایوسی سے اسے اپنی حلقوں کی زد میں ڈوبی آنکھوں سے دیکھتی بولی اور ولی اس دن اک لمحہ سمجھ نہ پایا تھا کہ وہ کونسے والے سیکرٹ کی بات کر رہی ہے۔

اس کمزور اعصاب والی کو لگی جان لیوا بیماری کا یا اسکے دل کو لگے ولی زمان خان نامی عارضے کا۔

"یہ تو آج تک کسی کو پتا نہیں چل پایا کہ اسکے پاس موجود زندگی کے دن تھوڑے ہیں یا زیادہ، وہ تم نے سنا نہیں شکارن! کہ دل کی تسلی کو غالب خیال اچھا ہے۔ اب دوبارہ سے بھاگنے دوڑنے کا سیشن کب شروع ہوگا؟"

وہ اس لڑکی کا دل بہلانے کو مسکرایا تو ونیزے حسن کی ڈوبتی آنکھوں میں بھی مسکراہٹ کی بینائی چمکی۔

"میں زیادہ دیر بیمار نہیں رہ سکتی، جلدی بھاگنے لگوں گی۔ مجھے اپنی تیماردی کرتے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ "

وہ تھوڑی بوجھل تھی اور ولی نے منصوعی گھوری نوازتے اس کو دیکھا۔

"مطلب میں برا لگ رہا ہوں، اوکے فائن۔۔۔ اب تمہیں جو اس خونخوار انسپیکٹر نے تھوڑی بہت شکار میں رعایت دینے کا سوچا تھا وہ بھی کینسل۔۔۔اینڈ یور کائنڈ انفارمیشن میں تمہاری عیادت کے لیے نہیں بلکہ تمہیں چمٹتی بیماری کی تعزیت کرنے آیا تھا۔ بچاری ضائع ہو گئی ناں، تم جیسی شکارن کا خود شکار ہو گئی۔۔۔۔"

منصوعی برہمی جتاتا وہ لمحے میں نروٹھے پن سے بولا جبکہ اس پر واقعی موت کی جنگ لڑ کر تھوڑی سی زندگی کا ہاتھ تھام کر جی اٹھتی ونیزے کھلکھلاتی ہوئی ہنس دی اور وہ لمحہ زمان خان نے دعا کی تھی رب سے اس لڑکی کو ایسے کئی سچے قہقہے لگانے کی ڈھیڑ سی مہلت نصیب کرے۔

وہ اسے دن بدن اپنے معیار پر کھڑا رہے، حدیں برقرار رکھتا ہوا بھی اسے ہلکا پھلکا چھیڑنے لگا، تنگ کرتا، اسے مسکرانے پر مجبور کرنے لگا اور وہ موت کے سارے خوف بھول کر ہنسنے لگی، وہ لڑکی اچھی تھی، پیاری تھی، پھر ولی کا اسکے لیے چند دنوں کے لیے ہی دوست اور مسیحا بننا شاید ولی زمان خان پر اللہ پاک کا عائد کیا فرض تھا۔

زندگی میں ہم انسانوں پر اللہ کی جانب سے بہت سے فرض لاگو کیے جاتے ہیں، اور ولی بھی اس لڑکی کو ایسے ہی کسی فرض میں شمار کر چکا تھا، چند دنوں میں ہی وہ واقعی ہر تکلیف بھلا کر معمول پر لوٹ آئی، جان بوجھ کر ہنسنے والی، پہروں بے تکی باتیں کر کے انسپیکٹر ولی زمان خان کو بھنا دینے والی۔

وہ اسکی ہر بات سے تنگ آبھی جاتا، وہ اسکی بجھتی زندگی سے خوف کھا رہا تھا، تبھی تو وہ واپس شکارن بن کر میدان میں اتر آئی۔

بے وقت ولی زمان خان کے سر پر ٹپک پڑتی، اسے سنگدلی کے گر سیکھاتی اور وہ پہروں اسکی بنا سر پیر کی باتوں کو سنتا رہتا، صرف اس لیے کہ وہ اس لڑکی کی اکلوتی سماعت تھا۔

وہ چاہتا تھا مرنے سے پہلے وہ لڑکی ہر بات کہہ دے، ہر خواہش بیان کرے، ہر خواب کی تعبیر پا لے۔

بظاہر وہ لڑکی سیٹھ گونی کے نزدیک ولی زمان خان کو پھنسانے اور قابو کرنے میں دن بدن کامیاب ہو رہی تھی لیکن حقیقت میں ونیزے حسن تو ہر دنیاوی تجارت چھوڑ کر ولی زمان کے اردگرد رہ کر اپنی زندگی کے دن بڑھا رہی تھی۔

گل خزیں خانم نے حویلی کی سردارنی کا منسب واپس سنبھال لیا، علاقے کی عورتوں لے مسائل سننا اور انکا خدیخہ خانم کے ساتھ مل کر حل نکالنا ہی انکی ذمہ داری تھی جبکہ فرخانہ تو ان صدمات پر بلکل ساکت سی ہو گئی تھی۔

مشارب زمان خان نے ایک ہفتے بعد پوری پنچائیت کے سامنے سرداری کا خلف اٹھائے علاقے کی بھاگ دوڑ سنبھال لی اور پورے علاقے میں اسکے سردار بننے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی پر حقیقت میں وہ صرف باہر سے مضبوط ہوا تھا، اسکا دل تو ہر لمحہ زونین کی تلاش میں اذیت کا شکار تھا، ہر دن زونین کے مل جانے کی نئی امید جاگتی اور رات کے ساتھ ہی ٹوٹ کر اپنے نوکیلے ٹکڑے اس شخص کے جسم، دل اور سانسوں میں گاڑ جاتی۔

زونی اور مالنی کی زندگی بھی خاموشی سے گزر رہی تھی، ونیزے ہفتے بعد جا کر دونوں کے ساتھ ڈنر کرتی اور یوں ان تینوں کے بیچ جلد ہی دوستی کا تعلق استوار ہو گیا۔

لیکن ہاشم بزدار اور ضرار کی قید میں موجود کنزا نے کئی ہفتے ٹارچر سہنے کے باوجود انکو زچ کرنا نہ چھوڑا، وہ کسی بھی طرح ان دو کا پتا بتانے پر راضی نہ تھی، ہاشم ہر دو دن بعد آتا، وہی سب تکرار ہوتی اور پھر وہ کنزا کو نئی سزا دے کر واپس لوٹ جاتا۔

ہر کوئی زونی اور مالنی کی تلاش میں لگا تھا، ولی، ہاشم، ضرار اور ان دو کا پتا یا تو کنزا جانتی تھی یا ونیزے، کنزا ضد پر اڑی تھی اور ونیزے لاعملی کی مار کھا رہی تھی۔

وریشہ کی تکلیف دادا کے سمیٹ لینے پر بہت حد تک کم ہو گئی، بس اب اسے کسی روز لوٹ آتی اشنال کا انتظار تھا، وہ واپس ہاوس جاب پر چلی گئی، اپنا کام اسی لگن سے کرنا شروع کیا جو زندگی میں آتے بھونچال سے پہلے وریشہ یوسف زئی کا خاصہ تھا پر وہ ہر ویک اینڈ یوسف زئی حویلی واپس آتی، اس امید پر کہ اس بار اشنال آچکی ہوگی مگر وہ لڑکی تو گلالئی کے ساتھ ناجانے کون کون سئ دنیا تسخیر کرنے نکلی تھی۔

تین ماہ اسی مسافت کی نظر ہوئے اور پتا ہی نہ چلا، ان تین ماہ میں ایسا کوئی فرد نہ تھا جسے سکون میسر آیا ہو، ضرار تک مالنی اور زونی کی تلاش کرنے میں اول تک ناکام ہی ہوتا رہا کیونکہ نہ تو ان دو کا سراغ اسے کنزا کے کسی رابطے سے ملا تھا نہ ہی کنزا کی ہڈ حرامی پر وہ اس عورت کی جان لے پایا تھا۔۔

ان تین ماہ میں بظاہر تو کچھ نہیں بدلا تھا پر چھوٹے موٹے بہت سے بدلاو ضرور آئے تھے، شہیر اپنے کام کے اختتامی مراحل میں پہنچ چکا تھا ، جلد یا بدیر ولی زمان خان اس پورے مافیا نیٹکورٹ کی جڑ اکھاڑنے کے ارادوں میں تھا، جبکہ تین ماہ کے اس عرصے میں مشارب زمان خان نے خود کو ایک اچھا اور ذمہ دار سردار ثابت کیا، اس بیچ جو بھی قتل یا جرم کے معاملات سامنے آئے، اس نے سردار شمشیر یوسف زئی کی نگرانی میں بالکل درست فیصلہ لیا، علاقے کی بہبود کے لیے فلاخی کاموں کا آغاز کیا، علاقے میں ڈسپنسری کی افتتاح بھی اسی نے اپنے ہاتھوں سے کیا یہی نہیں عوام کا ہر چھوٹا بڑا مسئلہ وہ تمام الجھیں ایک طرف رکھ کر توجہ سے سنتا تھا اور پھر اسے حل کرنے کے لیے ایک مناسب قدم اٹھاتا۔

تین ماہ کے اندر اندر انصاف کی فضا کا قائم ہونا گویا سردار شمشیر یوسف زئی کو سرداری کے لیے مشارب کا نام لینے کی مصلحت پر قائل کر گیا۔

وہ بچہ بھلے اپنے باپ کو کھو چکا تھا، اسکی ماں بلکل خاموش ہو گئی تھی، بیوی لاپتہ تھی، دادا آپاہج ہو کر عبرت کا نشان بن گیا تھا مگر پھر بھی وہ ایک بہترین سردار بننے کی پوری کوشش میں تھا۔

اپنے تئیں بھی وہ زونی کی تلاش میں لگا تھا مگر کنزا کی طرف سے ہڈ حرامی کی اسے بھی خبریں موصول ہوتی رہتیں، وہ کئی بار ضرار کو اس عورت کے خاتمے کی تجویز بھی دے چکا تھا مگر ضرار نہیں چاہتا تھا کہ وہ سفاک عورت اتنی آسانی سے ماری جائے بلکہ درحقیقت یہ ٹارچر جو مصلحت کے طور پر لمبا ہو رہا تھا،ضرار کے بقول کنزا کے گناہوں کی تھوڑی سی سزا تھا۔

نہ تو ان تین ماہ میں کنزا نے ہار مانی نہ اسے نت نئی سزا سناتے ہاشم نے بس کی بلکہ وہ بھی ضد میں آئے ہر لحاظ بالائے طاق رکھ چکا تھا۔

سب سے زیادہ ذہنی دباو میں ضرار تھا کیونکہ ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا جس میں اسے ناکامی ہوتی مگر یہ واحد معاملہ تھا جو اس جیسے شاطر اور معاملہ فہم سے بھی سلجھ نہ پایا، آخری حل یہی تھا کہ کنزا کی طرح ہر انسانیت بھول کر اس سے جبرا اگلوا لیتا پر پھر تربیت بیچ میں آ جاتی تو وہ اپنی سفاکیت کی ذوز کم کر دیتا لیکن ایک دن بھی ایسا نہ گزرا تھا کہ ضرار چین سے بیٹھا ہو۔

تین ماہ انتظار کی سولی پر لٹکنے کے لیے کافی تھے، تین ماہ کی اس تلاش کے بعد آخر کار ضرار کے علم میں شہر کے بنک میں کنزا کا ایک پرانا لاکر آیا جبکہ اسے پورا یقین تھا کہ کنزا کا منہ ابھی تک بھلے نہ کھلا ہو، وہ بنک لاکر اسے زونی اور مالنی تک ضرور پہنچا دے گا اور ضرار کا یہ شک بلکل ٹھیک نکلا۔

وہ اسکا بیٹا بن کر بنک پہنچا اور بنک مینجر نے اسے لاکر تک باآسانی پہنچایا کیونکہ اس منیجر سے جبل زاد کی خاصی سلام دعا تھی جو کام آگئی ورنہ لاکر کی کے بنا اس بندے کی اولاد تک کو لاکر کھولنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔

ضرار نے جب اس لاکر کو کھلاوایا تو اس میں سے ایک فون اور چند زیورات برآمد ہوئے ، زیورات وہیں چھوڑتا وہ یہ اہم ثبوت لیے واپس آیا اور جب اس فون کی جانچ کی گئی تو اس فون میں پہلے تو مشارب اور زونی کے علاوہ ہاشم کو ٹریپ کرنے والی تصویریں ملیں جبکہ اسکے ساتھ ساتھ ونیزے حسن نامی نمبر ملا جس کی چیٹ سے اسے مالنی اور زونی کا سراغ ملا، اور بنا ہاشم کو بتائے وہ حویلی سے اپنے لوگوں کے ساتھ شہر نکل چکا تھا، اس ونیزے کا نمبر ٹریس کرنے کا اس نے پہلے ہی اپنے آدمی کو کہہ دیا تھا جس نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ضرار کو اس فون کی لوکیشن بھیج دی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

آپ سمجھ گئی ہیں ناں گلالئی؟"

وہ کچن میں گل کے سامنے اس سے مناسب فاصلے پر متفکر سا کھڑا تائید طلب ہوا جب گلالئی نے غائب دماغی اور اڑے حواس کے سنگ اسکے سوال کے جواب میں سر ہلایا۔

میرون گرم ویلوٹ کے سوٹ میں سوفٹی کے سنگ وہ یکدم ہی پہاڑوں کی روح جما دیتی ٹھنڈ سے بچنے کو پیک سی بھالو بنی ہوئی تھی، پھر جو کچھ جبل زاد نے بتایا اس پر تو اسکا دل بھی جسم کی طرح کانپنے لگا تھا۔

"ٹھیک سے بتائیں"

جبل زاد کو ابھی بھی اسکی غائب دماغی شدت سے محسوس ہوئی جبکہ وہ یقین مستحکم چاہ رہا تھا تبھی لب و لہجے میں پریشانی سی چھلکی۔

"جی میں سمجھ تو گئی ہوں لیکن ایک مسئلہ ہے، یہاں آنے سے پہلے میں جو خدیخہ خانم کے لیے خط چھوڑ کر آئی تھی اس میں نے یہ لکھا تھا کہ جلد عزئز خان واپس آجائیں گے۔ اور جب ہم کل واپس جائیں گے تو حویلی میں تو سب ہی ضرار سائیں کی بے گناہی جان چکے ہوں گے ناں، انکو کیسے ڈرامے میں شریک کریں گے؟"

بالوں کی لٹ جو اونی ٹوپی سے باہر جھانک رہی تھی، کان کے پیچھے اڑسائے وہ رک رک کر بولی جبکہ گلالئی کی الجھن سن کر جبل زاد بھی تھوڑی تشویش میں مبتلا ہوا، پہاڑوں پر ایک کوہ پیما کے ساتھ سنگین حادثے کے پیش نظر چار ماہ کے ٹرپ کو ہفتے دو ہفتے پہلے ہی مکمل کر لیا گیا تھا اور وہ سب لوگ کل ہی واپس صبیحہ صاحبہ اور علیم بدر صاحب کے گھر واپس آئے تھے اور اب کل صبح صبح واپس علاقے کے لیے روانگی بھی تھی۔

"خدیخہ خانم کو پہلے ہی عزیز خان اس میں شریک کر چکے ہیں، آپ بے فکر رہیں۔ باقی فرخانہ صاحبہ تو کچھ بولنا ہی چھوڑ چکی ہیں جبکہ مشارب زمان کو بھی خبر پہنچا دی گئی ہے وہ اپنی دادی کو بھی سنبھال لے گا، ۔ بس آپ نے اپنی خانم کے ساتھ رہنا ہے اس ڈرامے کے بیچ"

جبل زاد نے گویا سارا مسئلہ ہی حل کر دیا تبھی گل بھی کچھ پرسکون ہوئی، جبل زاد کے کچن سے نکلتے ہی وہ بھی برتنوں کا کام بعد میں کرنے کا تہیہ کرتی پہلے اپنے اور اشنال والے مشترک کمرے میں آئی جہاں اشنال عزیز دوپٹے سے بے نیاز، سردی سے بچنے والے گرم ٹراوز اور اونی لانگ جرسی کے کے سادہ خلیے میں لپٹی واپسی کے لیے سامان باندھ رہی تھی، گلالئی کو کمرے میں آتا دیکھ کر وہ خوشی سے مسکرا دی مگر پھر گل کے چہرے کی الجھن پر اشنال بھی فکر مند ہوئی۔

"کیا ہوا گل، ہوائیاں کیوں اڑی ہیں؟"

اشنال نے اپنی توجہ گل پر دیے استفسار کیا تو گلالئی ہچکچاتی ہوئی خانم کے پاس ہی آکر بیٹھی۔

"آپ واقعی واپسی کے لیے سنجیدہ ہیں خانم؟"

گل کا سوال سن کر اشنال کے چہرے پر مدھم سی مسکان دوڑی۔

"ہاں بالکل، میں خود کو ہر تکلیف سے آزاد کر چکی ہوں گل۔ یہاں سے واپس میں اس یقین سے جا رہی ہوں کہ میثم نے نہ تو میرے بابا کو قتل کیا ہوگا نہ وہ لاش میرے بابا کی ہوگی کیونکہ میرا دل کہتا ہے میرے بابا اب بھی زندہ ہیں۔ اس لیے وہاں جو بکھیڑے ہیں انھیں جا کر سمیٹنا ہے اور یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ میثم نے مجھے سب کے سامنے واپس لینے کی کتنی تیاری کی ہے۔ ہم یہاں کسی کو بتا کر نہیں آئے تھے سو کوئی پریشان ہو نا ہو، اماں ضرور ہوں گی۔ تم بھی تیاری کر لو، فجر کے وقت ہم جبل زاد کے ساتھ واپسی کے لیے روانہ ہو جائیں گے"

اشنال عزیز کی مسکراہٹ لمحوں میں آسودگی کا روپ دھار چکی تھی اور جو کچھ گل کو جبل زاد نے بتایا اسکے بعد تو گلالئی کا دل شدید کپکپا اٹھا تھا، وہ اس کھیل سے خوفزدہ نہیں تھی وہ اپنی خانم کی پھر سے بگھڑتی طبعیت سے حراساں تھی مگر کیا کرتی کہ اس وقت ضرار نے سبکو مجبور کر رکھا تھا اور وہ اپنے کھیل کو رچانے کے لیے سبکو تگنی کا ناچ کروانے کا تہیہ کیے بیٹھا تھا۔

"اللہ آپکی بات کو سچ بنا دے خانم، ان شاء اللہ۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی آپکے ٹھیک ہو جانے کی ہے۔ اب سبکی زندگی ایک مدار میں آجائے گی"

گل نے اسکا نرم ملائم ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور محبت اور پیار سے چوما تو اشنال نے بھی محبت بھری نگاہ گل کے چہرے پر ڈالے دل سے آمین کہا۔

جبکہ اسکے بعد خود بھی گلالئی اپنا سامان باندھنے اشنال کے ساتھ مصروف ہوگئی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"آج ونیزے آئیں گی؟"

وہ دونوں ہی کچن میں کھانا بنانے میں مگن تھیں جب زونی نے باہر سٹنگ ایریا کی جانب بیٹھی مالنی سے پوچھا جو رائیتے کے لیے سیلڈ بنا رہی تھی۔

"کیا پتا ، کہہ رہی تھیں کچھ کام نہ آگیا تو آوں گی۔۔۔ "

مالنی نے لاعلمی کا اظہار کیے لیا دیا سا جواب دیا تو ساتھ ہی اندر کچن شیلف پر پڑا فون بجا، کوئی ان نان نمبر تھا۔

"مالنی فون بج رہا ہے"

زونی نے بریانی کو دم لگاتے اس میڈم کو آگاہ کیا مگر وہ اب ایک ہی بار سلاد بنا کر ہی اٹھنے والی تھی۔

"آٹھا لیں آپی، کنزا مما ہی ہوں گی۔۔ویسے حیرت کی بات ہے تین ماہ ہو گئے نہ وہ آئیں نہ کال کی"

مالنی کی فکر سنتے ہوئے خود ہی زونی نے جب تک فون تک پہنچ کر کال دیکھی تو آن نان نمبر تھا تبھی وہ کال پک کرتی فون کان سے لگا تو گئی پر بولی کچھ ناں جبکہ ضرار نے فون کو ہنوز آن محسوس کرتے ہی فوری کال کاٹ دی تبھی زونی حیرت اور برہمی سے کٹی کال پر فون کان سے ہٹائے اسکی سکرین دیکھنے لگی جبکہ اتفاقا کہہ لینا چاہیے یا قدرت کا اک نیا امتحان، زونی کا ہاتھ غلطی سے گیلری آیکن پر جا لگا جس کے باعث کھلتی تصویریں یوں تو وہ مصروف ہونے کے باعث نظر انداز کر دیتی مگر مشارب زمان کو دیکھتے ہی اسکے ہاتھ ، آنکھوں کی مانند زنجیر ہوئے جبکہ مالنی ہنوز باہر کنزا کی اس قدر لمبی لاپرواہی کے بارے ہی سوچنے میں گم تھی۔

زونی نے وہ تصویریں بار بار سکرول کر کے دیکھیں مگر وہ ہیبت ناک حقیقت گویا ویسی ہی رہی، آنکھوں کو جلاتی رہی، دل تک اذیت پہنچاتی رہی، جسم و جان نوچ نوچ کر ان مناظر نے زونین کی آنکھیں تکلیف کے آنسووں سے دھندلا دیں، خود مالنی بھی زونی کا کوئی جواب نہ پائے خود ہی سلاد کی پلیٹ وہیں میز پر رکھے فکر مند ہوتی اندر آئی تو زونی کو فون پر اذیت و ملال میں لپٹ کر کچھ دیکھتے خود بھی ساکت ہوئی۔

گویا چلتی کائنات لمحے میں رک سی گئی۔

"ک۔۔کیا دیکھ رہی ہیں؟"

مالنی نے لپک کر زونی کے کانپتے ہاتھوں سے بوکھلاتے ہوئے فون لیا مگر جب اسکی نظر ان ڈیلیٹ کر دی گئی تصویروں پر پڑی تو خود مالنی کے چہرے پر سفیدی چھا گئی۔

"ی۔یہ تصویریں ، کیا ی۔۔یہ سچ ہے مالنی؟ آپ نے یہ ہم سے ک۔۔کیوں چھپایا۔ تو ی۔۔یہ وجہ تھی کہ وہ ہمیں بھول گ۔۔گئے۔ ک۔۔کیسے کر سکتے ہیں و۔۔وہ؟ آپ نے ی۔۔یہ سب ہم سے ک۔۔کیوں چھپایا؟"

وہ یکدم ہی مالنی کو اسکی سنگدلی پر روتی ہوئی چینخ کر بے بسی بھرے غصے سے ڈانٹنے لگی البتہ اسکی کانچ آنکھوں سے آنسو چھلکتے چکے گئے اور مالنی بمشکل زونی کو خود میں سمو پائی کہ اسکا دکھ بھی یونہی سمیٹ سکے مگر شاید یہ ناممکن تھا، وہ اپنی کم عقلی پر ماتم کرنے لگی۔

زونی کا سارا مان تو کرچیاں ہو ہی گیا تھا ، مالنی کا بھی احساس جرم جیسے زونین پر ٹوٹتی قیامت سے کئی گنا بڑھ گیا۔

"مجھے معاف کر دیں آپی، میں نے تو یہ ڈیلیٹ کر دی تھیں۔ مما نے بھیجی تھیں اسی وقت جب ہم یہاں آئے تھے، اور کہا تھا کہ یہ وجہ تھی کہ جو میں زونی کو ان سفاک لوگوں سے دور لے آئی۔ یہی نہیں ایچ بی کی زندگی میں بھی پہلے کوئی اور عورت آچکی ہے اور وہ کنزا مما ہیں۔۔۔ اور انکا پورا نام بھی ہاشم بزدار ہے"

اتنے سارے سچ جو مالنی اس قیامت کو روکنے کی خاطر چھپائے بیٹھی تھی وہ سب جب قطعی بوجھل اعصاب کے سنگ بتاتی چلی گئی تو وہ سب زونی کے کمزور پڑتے اعصاب پر قہرناک عذاب بن گئے۔

زونی نے بے یقینی کے سنگ مالنی سے الگ ہوتے ہی مالنی نے رندھے چہرے کو بھرائی آنکھوں سے دیکھا۔

ملال تھا کہ کسی نوکیلے خنجر کی طرح سینے میں گڑھ گیا تھا، سانس رک گئی تھی، دل کو شدت سے دھکا لگا تھا۔

جبکہ زونین سب بھول کر اس شناسا نام پر دل رکتا محسوس کرتی چونکی، بے دردی سے اپنی آنکھوں کے آنسو رگڑے۔

"ہاشم بزدار، و۔۔وہ تو مر گئے تھے۔۔۔"

یہ پوچھتے سمے زونی کی آواز ڈبڈبائی۔

"پتا نہیں تفصیل تو مجھے نہیں پتا لیکن وہ ہاشم بزدار ہی ہیں آپکے چچا سائیں، میں نے یہ سب آپکو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ مزید ٹوٹ جائیں گی۔ بس اسی لیے مشارب سائیں اور نازلی کی تصویروں کے ساتھ ساتھ میں نے ہاشم والی بات بھی نظر انداز کر دی۔ مجھے معاف کر دیں"

مالنی نے افسردہ ہوئے معذرت کی جبکہ اتنی ساری ہولناک سچائیاں زونی کو ضرور ہلا گئیں، وہ اپنا سر جکڑتی کچن سے باہر آئی اور خود کو صوفے پر دقت سے سانس کھینچتے ہوئے لڑھکایا جبکہ خود مالنی بھی بوجھل چہرے کے سنگ اسکے پاس ہی قدموں میں آ بیٹھی۔

"مطلب آپ ہماری چچی ہوئیں؟ اٹھیں یہاں سے۔۔۔۔ "

ہر شے بھول کر زونین جیسے اب اسکو قدموں میں بیٹھا دیکھ کر تڑپی اور اسے اٹھانا چاہا مگر مالنی نے بری طرح زونی کی خواہش کو رد کیا۔

"جب آپکے چچا اور میرے بیچ کچھ رہا ہی نہیں تو کسی نئے رشتے کی ضرورت ہی کیا ہے، آپ میری آپی تھیں اور وہی رہیں گی۔۔۔ آپ پلیز خود کو تکلیف مت دیں، بھول جائیں انھیں، شاید ہماری قسمت ہی ایسی تھی، ادھی ادھوری سی۔۔مجھے پتا ہے اپنے سائیں کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا آپکے لیے کتنا مشکل ہے مگر اب تو ہم دونوں بہادر ہو چکی ہیں سو ان تکلیفوں کا بھی سامنا کر لیں گی"

وہ ہاشم کے حوالے سے پکاری جانے پر برہم ہوتی واپس وہیں بیٹھی اور اس نے زونی کا ٹوٹتا حوصلہ بھی بندھایا مگر زونین کا دل تو ٹکڑے ہو گیا تھا، وہ تصویریں جس طرح بنائی گئی تھیں جن میں دونوں کا ایک دوسرے کی طرف جھکاو صاف دیکھائی دے سکتا تھا اور اس سے شاطر اور ذہین انسان بھی دھوکہ کھا سکتا تھا کیونکہ کنزا نے ان سب تصویروں کو اپنے مطابق مزید قربت واضع کرنے کو فوٹو شاپ کیا تھا جو دیکھتے ہی بہت کچھ کہہ رہا تھا اور پھر زونین تو تھی ہی نازک سے دل کی مالک، مشارب نے اس سے کیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا تھا۔

"وہ ہمیں بے شک پہلے کی طرح دھتکار لیتے، ہمیں اپنی حسرت سے مار لیتے، ہم سے اپنا نام چھین لیتے مالنی لیکن وہ کسی اور عورت کے ساتھ۔۔۔۔ ہمارا دل نہیں م۔۔مان رہا کیونکہ وہ ایسے تو ن۔۔نہیں تھے۔ یہ تکلیف ہم برداشت نہیں کر سکتے، وہ کیسے ہماری ج۔۔جگہ کسی اور کو د۔۔دے سکتے ہیں۔۔کوئی ک۔۔کیسے انکو چھ۔چھو بھی سکتا ہے۔۔۔۔۔"

زونین کی آنکھیں اہانت اور سبکی کے ساتھ ساتھ اس شخص کے ڈگمگانے کی اذیت پر بھیگنے لگیں اور پھر اسکی آواز میں اسکے ٹوٹے مان کی کرچیاں بھی عیاں تھیں جس پر مالنی بھی بوجھل و افسردہ ہوئی۔

"مجھے تو نازلی پر حیرت اور غصہ ہے، وہ سب جانتے ہوئے کہ اس خان زادے کے دل میں زونین ہے، کیسے خود کے قریب انکو آنے کی اجازت دے گئی تھی۔ حالانکہ بڑی پارسا بنتی پھرتی تھی، اس نے تو اپنے جسم کو ناپاک ہوا تک سے بچا کر رکھا ہوا تھا پھر۔۔۔۔ اللہ سائیں بہتر جانتے ہیں آپی، مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی کے یہ سب ہو کیا رہا ہے"

وہ زونی کے درد میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اسے خود بھی اب تک نازلی سے جڑے اس معاملے پر غصے سے زیادہ حیرت تھی۔

دروازے پر ہوتی سخت سی دستک پر جیسے وہ دونوں نڈھال سی پریاں یکدم چونکیں کیونکہ ایسی دستک تو صرف اجنبی دے سکتے تھے، اگر ونیزے ہوتی تو وہ تو دوسری چابی سے مین گیڈ کھول کر خود اندر آجاتی تبھی وہ دونوں ساری تکلیف وقتی طور پر پرے کرتیں ڈر کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"میں دیکھتی ہوں، آپ یہیں رکیں"

مالنی نے زونی کو وہیں رہنے کی تاکید کی جبکہ خود وہ محتاط سی صوفے پر اچھال کر پھینکا گیا باریک سا دوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھتی باہر نکلی اور وہ چھوٹا سا لان عبور کرتی دروازے تک آئی اور ڈور ہول سے باہر جھانکنے کی کوشش کی مگر سامنے ہاشم کے اسی بھتیجے کو دیکھ کر مالنی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔

"او تیری خیر! یہ تو چچا کا بھتیجا ہے ۔ اسے کیسے پتا چل گیا، یا اللہ اب کیا کروں"

مالنی بوکھلا کر اس سے پہلے بڑبڑاتے ہوئے واپس جانے میں ہی عافیت جانتی، دروازے پر ہوتی دستک اس بار زیادہ سخت ہوئی جس پر زونی بھی دروازے سے نکلتی باہر لان میں آئی تو مالنی کے اڑے رنگ دیکھ کر اسے بھی پریشانی نے گھیرا۔

"کیا ہوا ہے مالنی؟ کون آیا ہے؟"

زونی نے ڈرے سہمے انداز میں مالنی سے پوچھا جو لپک کر اسکی طرف بڑھی۔

"آپی یار ہاشم کا بھتیجا آیا ہے اب کیا کریں؟ "

مالنی کے بتانے پر زونی پہلے تو الجھے دل و دماغ کے باعث سمجھ نہ سکی اور پھر ضرار کا خیال آتے ہی وہ خود بیقراری سے دروازے کی طرف لپکی تو زونی نے دہل اٹھتے انداز میں دل تھامے پیچھے ہی دوڑ لگائی مگر تب تک زونی، دروازہ کھول چکی تھی۔

میثم ضرار چوہدری کی اچٹتی نگاہیں ، سرخ گوشوں والی ان نیلی آنکھوں سے ٹکرائیں تو جیسے نرمی کا حصار انکو گھیر گیا خود زونی کی آنکھیں لالہ کو دیکھ کر بھر سی گئیں۔

ضرار نے ایک نظر زونین اور ایک اسکے عقب میں ہونق بن کر کھڑی لائق فائق چچی پر ڈالی اور کھولتا ہوا بپھری موج بنا غصیل تیوروں کو چہرے پر سجائے اندر آیا۔

"کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تم دونوں کو لاپرواہ لڑکیو! پوری دنیا چھان ماری تھی۔ لیکن تم دونوں بے حس بن کر یہاں چھپی بیٹھی تھی۔ دل تو چاہ رہا ہے دونوں کو دو دو کھینچ کر لگاوں پر ایک سردارنی ہے اور دوسری چچی تبھی لحاظ کر رہا ہوں۔۔۔ اور اس ونیزے حسن کی تو الگ سے کلاس لینی ہے مجھے، پاگل کر کے رکھ دیا ہے تینوں نے"

زونی کی کلائی جکڑ کر اسے ڈانٹتا ساتھ وہ مالنی کو بھی لتاڑ گیا جو دونوں ہی سہمی ہوئیں اس بندے کے غضب کے آگے زبان رہن کر بیٹھی تھیں جبکہ گلی کے نکڑ پر اپنی سکوٹی سے اترتی ونیزے نے جب گھر کے سامنے کھڑی گاڑی اور لوگ دیکھے تو وہ احتیاطا وہیں چھپ کر کھڑی ہو گئی، جبکہ اسکے چہرے پر فکر کی شکنیں نمودار ہو چکی تھیں۔

"اوپس! لگتا ہے یہ وہی لوگ ہیں۔ پر انھیں یہاں کا پتا ملا تو کیسے ملا یار، یہ کنو بھی پتا نہیں کہاں مر گئی ہے، اف اب میں کیا کروں"

ونیزے نے پریشانی کے سنگ سامنے دیکھتے ہوئے خود کلامی کی جہاں ضرار ان دونوں کو بنا انکا سامان لینے کی اجازت دیتا گاڑی کی طرف بڑھنے کا حکم سونپتا خود بھی اگلی سیٹ پر سوار ہوا جبکہ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی گاڑی کے ساتھ ہی اسکے لوگوں کی گاڑی بھی روانہ ہوئی اور ونیزے بھی دیوار کی اوٹ سے نکلتی گھر کی طرف بڑھی جبکہ اسکی نظریں ان گاڑیوں ہی کی طرف تھیں۔

ضرار ان دونوں کو بنا انکے کسی اعتراض کو سنے سیدھا بزدار حویلی لے کر نکلا تھا جبکہ وہ دونوں واقعی اخیر حد تک ڈر چکی تھیں، ڈر سے زیادہ خوف تھا، حقارت بھی کہہ سکتے ہیں۔

نہ تو مالنی کے اندر ہاشم کا سامنا کرنے کی ہمت تھی نہ زونین، اس وقت مشارب کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں تھی مگر ضرار ان دونوں کی فی الحال کوئی بات سننے کے کسی موڈ میں نہ تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"لیکن بچہ! اشنال نے آگے ہی بہت اذیتیں جھیلی ہیں۔ ضرار آخر کرنا کیا چاہ رہا ہے؟"

گل خزیں خانم سے جب مشارب نے تمام معاملہ ڈسکس کیا تو گل خزیں جیسے تڑپ اٹھیں، اب وہ پہلے والی ظالم دادی تو رہی نہ تھیں جو اشنال پر ظلم کے پہاڑ توڑنے دیتیں سو ضرار والا معاملہ انھیں تکلیف پہنچا گیا۔

"اماں سائیں! یہ انکا ذاتی معاملہ ہے۔ دیکھیں اس نے مدد مانگی اور میں نے ہامی بھری ہے کیونکہ آپ جانتی ہیں اس حویلی کی مجرم کنزا اسکے قبضے میں ہے اور ہم تبھی اسے ضرار سے حاصل کر سکتے ہیں جب اسکی اس معاملے میں مدد کریں گے ورنہ وہ کنزا کو خود سزا دے گا، اور میں ایسا نہیں چاہتا۔

میں اپنے ان ہاتھوں سے اس عورت کی جان لوں گا۔ اور وہ جلد یا بدیر اشنال کو شہیر سے واپس بھی لے لے گا۔ یہ ونی نکاح ختم کروا دے گا، سو اتنی بڑی آسانی کے لیے ایک چھوٹی سی مشکل اور سہہ لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ "

گل خزیں کے تمام اعتراضات کے بدلے اس نے جامع تفصیل کے سنگ ضرار کے اگلے لائژہ عمل اور منصوبہ بندی سے بھی دادی کو لگے ہاتھوں آگاہ کیا جبکہ خود بھی وہ اب یہی چاہتا تھا کہ ضرار جلد یا بدیر شہیر سے اپنی محبت واپس لے تاکہ مشارب زمان خان کو بھی اس معاملے میں کچھ راحت نصیب ہو۔

"یہ تو ٹھیک ہے بچہ پر شہیر کیسے چھوڑے گا اشنال کو؟"

گل خزیں کے اس سوال میں تڑپ سی تھی اور وہ کیا جانتیں کہ ضرار کے لیے قدرت جلد وسیلہ بنانے والی ہے تاکہ وہ رہا سہا اپنا صنم واپس اپنی ملکیت بنا لے کیونکہ دونوں علاقوں کے لوگ اب بھی اس ونی نکاح کو ہی سچ مانتے تھے، اور اشنال کو شہیر کی منکوحہ سمجھتے تھے خود مشارب اور گل خزیں خانم سمیت اور تبھی ضرار کچھ لمبا کرنے کا پلین بنا رہا تھا۔

"یہ ضرار کا سر درد ہے اماں سائیں ہمارا نہیں، ہمیں خوامخواہ اس معاملے کو سوچنا نہیں چاہیے۔ اس پر اعتبار کر کے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے"

مشارب کا انداز اکھڑا سا ہوا جبکہ سمجھانے کی سعی اس نے بھرپور کی اور اس بار گل خزیں خانم کو بھی کچھ تسلی ملی مگر پھر سردار مشارب زمان خان کے بج اٹھتے فون نے دونوں دادی پوتے کی توجہ اپنی سمت مبذول کی کیونکہ میز پر پڑے فون پر ضرار کا نام لکھا تھا۔

مشارب نے اٹھ کر فون اٹھاتے ہی کال پک کیے فکر مندی سے کان سے لگایا جبکہ دوسری جانب سے ملتی غیر یقین خبر پر اس اکھڑے، سخت اور سنجیدہ مزاج سردار کی آنکھوں میں یکدم تکلیف اور سرخائی گھل گئی۔

"ٹھیک ہے"

وہ بھاری آواز کے سنگ کہتے ہی مڑا تو گل خزیں پہلے ہی بے قرار سی اٹھ کر کھڑی تھیں اور مشارب کی آنکھیں دیکھ کر اس دادی کا دل بھی انہونی کے خدشے سے ہول اٹھا۔

"ا۔۔ماں سائیں! زونی مل گئی ہیں۔۔۔"

وہ جیسے شادی مرگ کی سی کیفیت میں بتاتے ہی گل خزیں کے گلے لگا،آواز خوشی اور تکلیف کی ملی جلی کیفیت کے سنگ کانپی تھی، جبکہ وہ خود اس آسانی پر آبدیدہ ہو گئیں۔

اس خبر پر اللہ کا جتنا شکر بجا لاتیں کم تھا۔

"او میرے مالکا! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔۔میری بچی مل گئی، کہاں ہے وہ مشارب مجھے بھی لے کر چلو؟"

گویا نانی کی نواسی کے لیے تڑپ دیکھ کر خود مشارب بوجھل ہوا۔

"بزدار حویلی! مجھے جانا ہوگا۔۔۔ آپ یہیں رکیں میں انھیں لے کر آتا ہوں۔"

وہ تو کہہ کر چلا گیا پر بزدار نامی لفظ پر اس عورت کی آنکھیں مزید چھلک گئیں، وہ اب بھی بزدار عالم کے لیے بدگمان تھیں کہ اس شخص نے انکے بچاو کے لیے کچھ نہیں کیا تھا، لیکن شاید وہ وقت قریب تھا جب اس عورت کو آگہی کا ایک اور عذاب دے کر اسکے کچھ اور گناہوں کا بدلہ چکایا جاتا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

صبح سے موسم آبر آلود تھا اور وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری تھا تبھی کنزا کے ٹھنڈ سے مر کھپ جانے کا احساس کرتا وہ اس طوفانی موسم کے باوجود اپنے لوگوں تک پہنچا مگر یہاں آکر جو خبر ہاشم بزدار کو ملی وہ اسکی ہستی ہلا گئی۔

جب ونیزے وہاں سے سیٹھ گونی کے اڈے پر گئی تو اس نے کنزا کا باتوں باتوں میں پوچھا تو گونی سے اسے علم ہوا کے تین ماہ سے وہ انڈر گروانڈ ہے اور کسی دھندے میں بھی شریک نہیں تبھی وہ خود بھی کنزا کی تلاش میں لوگ لگوا چکا تھا جبکہ اسی کے ایک آدمی نے اسی وقت ونیزے کی موجودگی میں اسے اطلاع دی کے کنو بائی کو اسکے لوگوں نے جنگلی راستے کی سمت بھاگتے دیکھ کر پکڑ لیا ہے اور اسکی ناساز طبعیت کے باعث وہ لوگ اسے ہسپتال داخل کروا آئے ہیں۔

وہیں ہاشم نے اپنے تمام لوگوں کو اس کوتاہی پر لائن میں کھڑا کروائے سب سے باری باری تفتیش کی مگر کسی کو پتا نہ تھا کہ وہ عورت اتنی سخت رسیوں میں بندھی ہونے کے باوجود بھاگ کیسے گئی اور کسی نے اسے اس بلڈنگ سے نکلتے بھی نہ دیکھا۔

غیض و غضب کے باعث اسکی سفید رنگت لال ہوئی اور ماتھے کی رگ الگ پھڑکی۔

"لعنت ہو تم سب پر، کیسے بھاگ سکتی ہے وہ؟ تم سب لوگ مرے ہوئے تھے کیا؟ یا میرے خدا اتنی خطرناک عورت پھر سے بھاگ نکلی۔۔۔ اول تو اس میں اتنی جان تھی نہیں کے وہ خود بھاگتی، سچ سچ بتاو کس نے مدد کی ہے اسکی؟"

اول تو ہاشم خود بھی باہر تیز بارش میں کھڑا اس ٹھنڈ میں مکمل بھیگ چکا تھا اور پھر وہ دھاڑ کر اپنے سامنے ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے لوگوں پر اپنی دہشت اتارتا ان سب کو کپکپانے اور کانپنے پر مجبور کر رہا تھا۔

"میں پوچھ رہا ہوں کس نے مدد کی ہے اسکی؟"

سب کو منہ سی کر ہاشم کے غضب سے سہما دیکھ کر وہ حلق کے بل چلایا تھا تبھی ایک کانپتا ہوا لگ بھگ تیس سالا آدمی ڈرتا ہوا آگے آیا۔

"سائیں ! مم۔مجھے معاف کر دیں۔ وہ جب م۔میں اسے کھانا دینے گیا تو وہ مشکل مشکل سانس لے رہی تھی، مجھے لگا مر جائے گی تو بس اسکے ہاتھ کھول دیے تھے۔ سو۔۔سوچا تھا کھانا کھا لے تو باندھ دوں گا پ۔۔پر میں جب واپس اندر آیا تو اس نے مجھے گما کر ل۔۔لات مارے گرایا اور خود پچھلی طرف سے لڑکھڑاتی ہوئی بھاگ نکلی۔۔۔س۔۔سائیں میں نے پیچھا بھی کیا پ۔۔پر سڑک شروع ہوتے ہی کوئی گاڑی والا آدمی اسے لے گیا، جس کی گاڑی کے سامنے جا کر وہ گری تھی"

اس آدمی کے اس سنگین غلطی کے اعتراف پر اس سے پہلے ہاشم لپک کر اسکی گردن مڑورتا، اسکی جیکٹ میں دبا فون چنگاڑ اٹھا جسکے باعث وہ جبڑے بھینچتا اس آدمی کو پرے دھکا دیتا خود پیچھے لپک کر بارش سے بچنے کو بلڈنگ کے شیڈ کے نیچے جا کر ضرار کی آتی کال سننے کو فون کان سے لگا گیا۔

"ہاشم صاحب! آپکی مالنی مل گئی ہے۔ تشریف کا ٹوکرا لے آئیں بزدار حویلی"

ضرار کی اس بے یقین بات پر کتنے ہی لمحے تو وہ شخص کچھ بول نہ پایا، جس طرح وہ جان لیوا لڑکی کھو گئی تھی بلکل ویسے ہی اسکا اچانک ملنا خوشی اور تکلیف کی ملی جلی لہر کا باعث بنا، مگر یہ خوشی ہاشم بزدار کو تادیر راحت نہ پہنچا سکی، کنزا کی حرکت اسکی آنکھوں میں آگ لپکانے لگی۔

"ضرار! لیکن ایک مسئلہ ہو گیا، یہ منحوس کنزا بھاگ گئی ہے"

اس جانب سے ملتی خبر پر ضرار کا تو منہ تک کڑوا ہو گیا جو دونوں چہتیوں کو اولڈ کمونٹی کے سپرد کرتا خود اپنے کمرے میں آیا تھا، اب ہاشم صاحب کی لاڈلے کے ہاتھوں بلکل خیر نہ تھی اور یہ ہاشم کو بھی بجوبی پتا تھا۔

"کوئی کام ٹھیک بھی کر لیا کریں ہاشم صاحب، اس فتنہ ساز کو میں نے مشارب کے حوالے کرنا تھا اور اس کے بدلے مدد لینی تھی۔ اب گئی بھینس پانی میں۔ اف میرے بنا ایک تو اس دنیا میں کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی تو میں نانی یاد دلاتا ہوں جنہوں نے یہ کوتاہی دیکھائی، خیر آجائیں یار آپ میں کنزا کو دیکھ لیتا ہوں۔ پہلے اپنی بیوی سے مل لیں اور سنبھالیں اسے"

وہ شدید خفت زدہ ہوئے بڑبڑاتا بچارے چچا کو سنا کر جلدی واپس پہنچنے کی تاکید کیے فون کاٹ گیا اور اب تو ہاشم کو بھی لگا جیسے اسکی کوالٹیز ، لاڈلے کے آگے واقعی زنگ آلود ہو گئی ہیں۔

واپس مڑ کر سب پر ایک ایک قہر ناک نگاہ ڈالتا وہ قریب آکر کھڑا ہوا۔

"چوڑیاں پہن لو تم سب، ایک عورت نہیں سنبھالی گئی بدبختو!۔ سارا موڈ خراب کر دیا ہے منحوسوں نے۔ ہٹو پیچھے، جا کر اس کو تلاش کرو۔ اور اگر دو دن کے اندر اندر اسکا سراغ نہ ملا تو یہی ویرانہ تم سبکی قبریں بنے گا خاص کر تمہاری"

سب کو خشونت بھری سخت آواز میں ڈانٹتا وہ ان سب کو کام پر لگنے کی تاکید کرتا خود راہ سے پرے ہٹاتا، اس آدمی کو خصوصی تنبیہہ کیے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا جسکا اس دھمکی پر حلق پہلے ہی سوکھا تھا۔

"بیوقوف مالنی! اب تمہیں ہاشم بزدار سے کون بچائے گا"

گاڑی میں سوار ہوتا وہ آنکھوں میں جلن سی لیے اس لڑکی کی عقل ٹھکانے لگانے کے بھیانک ارادے بناتا دیکھائی دیا اور گاڑی بھگا لے گیا۔

وہیں سیٹھ گونی نے اپنے ملگجے بے ڈھنگے سویرے میں ڈوبے آفس میں چکر کاٹتے ہوئے رک کر کرسی پر متفکر انداز میں بیٹھی ونیزے کی سمت رخ کیا تو وہ بھی چوکس ہوتی متوجہ ہوئی۔

"ہوسپٹل جاو اور کنزا سے ملو، پوچھو اس سے کہاں تھی تین ماہ۔۔۔جو دوا دارو میں خرچہ ہو وہ کرو اور دوسرا اپنی ذمہ داری کے لیے تیار ہو جاو ونیزے حسن کیونکہ ولی زمان خان کا خاتمہ تمہارے ان مبارک ہاتھوں سے ہوگا ۔ مزید اس انسپیکٹر کی دخل اندازیاں سہنا ہمارے اور ہمارے دھندے کے لیے ناممکن ہو چکا ہے"

سیٹھ گونی نے اپنے مخصوص کاروباری انداز میں بات کا آغاز کرتے ہوئے اپنی سیاہ شکل پر حقارت سجائے پر تنفر انداز پر بات کا اختیام کیا۔

خود ونیزے بھی بظاہر اسکے حکم کی تابعداری میں کرسی سے اٹھی مگر رخ موڑتے ہی جیسے اسکی آنکھوں میں نفرت اور انتقام کی آگ پورے زور و شور سے جل اٹھی۔

"ولی زمان خان کی موت نہیں، تمہاری سیٹھ گونی"

دل کے شعلوں پر قابو پاتی وہ انتقامی ہو کر سوچتی اسکے آفس سے نکل گئی جبکہ سیٹھ گونی اب تک کنزا کی وہ تضخیک نہیں بھولا تھا اور کنزا کے مل جانے نے جیسے اسکے اندر کے بدلے کو بھی از سر نو دہکا دیا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی کے حکم پر اسکے اہل کار، تین ماہ کی مفتے میں جیل کی ہوا کھا کر آتش فشان بن جاتے سرمد کو گھسیٹے ہوئے اسکے کیبن میں لائے جسکی آنکھوں سے ٹپکتی وحشت خود ایک لمحہ پرسکون ہو کر کسی فائیل پر نظریں مرکوز رکھے ہوئے ولی زمان خان کو کھٹکی تبھی وہ اپنا کام چھوڑتا پرسکون انداز میں کرسی سے ٹیک لگا گیا اور اسکی مشکوک تیز نظر سرمد کا پوسٹ مارٹم کرنے لگی۔

"ہاں جی سرمد صاحب، کچھ اندر کی آگ ٹھنڈی ہوئی ہے یا مزید لتروں کی ضرورت ہے؟"

ولی اسکی شکل پر اگ آتی جنگلی مونچھ اور داڑھی پر سرسری سی نگاہ ڈالے اسکی سرخ وحشی آنکھوں میں جھانک کر مخظوظ انداز میں بولا جس پر سرمد نے پھنکار کر کاٹ کھاتے انداز میں خود کو اہل کاروں سے چھڑوائے اپنے دونوں ہاتھ میز پر مارے۔

"آگ تو اب میں لگاوں گا جو سب کو جلا دے گی، چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں نہ اس منحوس شہیر کو"

وہ اب بھی باز نہ آیا تھا بلکہ تین ماہ کی چھترول کے بعد تو اسکے اندر کی وحشت دگنی ہو چکی تھی۔

"شہیر کے ساتھ جو مرضی کر میری بلا سے پر نازلی کا پتا ڈھونڈ کر تجھے ضرور دینا ہوگا اور یہ تیری مجبوری ہے نا کہ چوائز۔۔۔وہ لڑکی اب میرے لیے بھی ایک مجرم ہے سو ہو سکتا ہے اگر تو اسے میرے پاس لائے تو میں ترس کھا کر تیرا اور اسکا نکاح کروا دوں جسکے لیے تو مرا جا رہا تھا، وہ بھی شریف زادی نہیں رہی کنزا کی چال کا مہرہ بن کر سو دونوں میرے لیے اب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہو۔۔۔۔پر یاد رہے پہلے میرا کام ہونا چاہیے"

ولی نے سرمد سے بلا تمہید اسکی آزادی کی قیمت مانگی تھی کیونکہ شہیر تو اسکی پہنچ سے نکل چکا تھا مگر مشارب زمان اور زونین کے لیے وہ نازلی تک ہر صورت پہنچنا چاہتا تھا اور اب تک شہیر نے اسے کہاں چھپایا تھا یہ ولی کے لوگ ڈھونڈ نہ سکے تھے۔

سرمد کی آنکھوں میں صرف شہیر کے لیے انتقام کی آگ تھی۔

"تو انسپکٹر صاحب رشوت دے رہے ہیں مجھے؟"

سرمد کی آنکھوں میں یکدم زہر اور زہریلا مسکراتا تاثر اترا تو ولی اسی کے انداز میں زہریلا سا مسکرا کر اپنی جگہ سے اٹھا اور عین سرمد چوہدری کے روبرو آن جما۔

"نہیں نہیں پیارے سرمد چوہدری، تیری آزادی کی قیمت بتا رہا ہوں۔ تیری غلیظ سونگھ اپنے مطلب کا مال زیادہ بہتر طریقے سے ڈھونڈ سکتی ہے، شہیر نے چھپایا ہے اسے اب جا کر تجھے ڈھونڈنا ہے۔ باقی تم دونوں مرو یا جیو مجھے کوئی پرواہ نہیں، ہاں تم دونوں کی موت سے پہلے ولی زمان خان اپنا مطلب تم دو کے حلق سے  جیسے بھی کر کے گھسیڑ کر نکال ہی لے گا۔۔۔"

ولی کے بھیانک لفظ گویا سرمد کو بھی نجس قہقہہ لگانے پر مجبور کر گئے اور ولی بھی اسکی نجاست بھری ہنسی میں برابر شریک ہو کر ہنسا۔

"اوہ! ہم سب جانوروں کے ساتھ ڈیل کرتے کرتے تھوڑی درندگی تجھ میں بھی آگئی ہے انسپیکٹر۔۔اچھی بات ہے، گند میں رہنے کے لیے تھوڑا سا گندا ہونا پڑتا ہے۔۔یہ صحت کے لیے اچھا ہے۔۔ تیرے اجلے دامن پر تھوڑی سی گندگی بلکل نظر بٹو لگے گی۔۔۔ہاہاہاہا۔۔چلتا ہوں۔۔پر ہاں وہ اپنی بات پر قائم رہنا "

خباثت سے آنکھ مارتا وہ غضب کو ایک طرف کرتا ولی کو بچھاڑ ڈالتا اہل کارواں کو باقاعدہ دھکے دیتا اسکے کیبن سے نکل گیا جبکہ ولی زمان خان کی آنکھوں میں اسکی باتیں لہو گھسیٹ لائیں۔

"سرکار! شہیر اسکے خون کا پیاسا ہوا ہے، وہ نازلی کو چھونے تو دور اسکی اس پر نظر پر پڑنے نہیں دے گا۔ خدا کا عذاب ہے کنو پر اسکی یہ اولاد"

سرمد کو کبین سے جاتا دیکھ کر ولی کا ہی ایک ماتحت غمگین لہجے میں افسوس کیے بولا جس پر ولی کو بھی تکلیف سی محسوس ہوئی۔

"بدبخت کہیں کا!تین ماہ کی چھترول نے بھی اسے کوئی ہدایت نہیں دی، آہ بخت بزدار آہ ، تیرا کیا کرایا تیری اولاد پر آنے والا ہے، اس نے نہیں بچنا اب ۔ ہم کسی کو کسی حد تک ہی اسکے گناہوں کے عذاب سے بچا سکتے ہیں مدثر خان، اور پھر تم نے سنا نہیں کہ کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو بڑی سہولت سے ہر خفاظتی مدار میں چھید کر دیتے ہیں۔ اور جی کر اس نے کرنا بھی کیا ہے، گند ہی پھیلائے گا۔ دیکھتے ہیں شہیر کو بھی اور اسے بھی"

ولی اس اہل کار سے مخاطب ہوتا واپس اپنی کرسی سنبھال گیا جبکہ مدثر خان نے بھی ولی کی بات کی تائید کیے سر ہلایا اور کبین سے باہر نکل گیا جبکہ اسکے جاتے ہی ولی نے بھی خود کو واپس کام کی طرف متوجہ کر لیا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"کافی دن بیت گئے ہیں"

وہ ٹرک لوڈ کروانے کا کام مکمل کرواتا جینز شرٹ پر باریک اونی جرسی پہنے، جاگرز میں پیر مقید کرتا، گلے اور کلائی میں غنڈوں کی طرح پینگلز ، بریسلٹس پہنے ، بالوں کی ازلی پونی بنائے، چہرے پر سنجدگی سجائے، رف سے خیلے میں لپٹا پلٹا تو سامنے کاشف کو کرسی گھسیٹ کر میز پر پیر جما کر بیٹھے رجسٹر پر حساب درج کرتا دیکھ کر وہ اسکے پاس ہی دوسری کرسی سنبھالے آکر بیٹھتے بولا جس پر اچنبھے کے سنگ کاشف نے نظر رجسٹر سے اٹھائے شہیر پر ڈالی۔

"ماہ کہہ ماہ، بھول بھال گئی ہوگی وہ تجھے۔ اب تو بھی میرے یہ ہاتھ دیکھ اور اس پر سے دھیان ہٹا لے۔ یہ مت بھول کے تم دو کے رشتے کا آغاز نفرت بنی تھی"

اسکی اداسی جیسے اب بھی کاشف کو چبھی تھی تبھی تو وہ گرم لہجے میں سلگتا ہوا اسے اس فریب سے باہر نکل آنے کی باقاعدہ رجسٹر پنسل چھوڑے ہاتھ باندھ لیتا تجویز دینے لگا۔

"میں بھی یہی سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہوں یار، کہ نفرت سے شروع ہونے والا تعلق نفرت پر ہی ختم ہو جائے تو اچھا ہوگا، ورنہ تکلیف بڑھ جائے گی"

وہ بہت افسردہ تھا، آواز میں بھی یاسیت تھی تبھی کاشف اپنا کام چھوڑتا ٹانگیں واپس زمین پر رکھے بھرپور توجہ اپنے یار کی جانب دے کر بیٹھا۔

"وہ تیرے ٹائپ کی نہیں ہے یار، تبھی میں تجھے کہتا آیا ہوں کے اسے چھوڑ دے۔

پر جس طرح اس نے بارہا تیری جان لے کر جان بچائی ہے اس کو سوچوں تو میں بھی الجھ جاتا ہوں کہ ایسا تو دشمن نہیں کرتے۔۔۔ کیا پتا وہ لڑکی کیا سوچتی ہوگی، ولی اسے چاہتا ہے اور یہ وہ جانتی ہے، تبھی وہ چاہ کر بھی اس بندے کی تکلیف کو سوچتے ہوئے تیرے ساتھ آگے نہیں بڑھ پائی اور اس نے ہر راستہ چھوڑ کر اپنی تیسری منزل یعنی لاتعلقی کو چن لیا"

ان تین ماہ میں کاشف کے خیالات سارے تو نہیں پر کافی بدل گئے تھے جبکہ شہیر کی اپنی زندگی ایک ہی نقطے پر رکی ہوئی تھی، وہ کاشف کی طرف تاسف کے سنگ دیکھنے لگا۔

"لیکن کسی کو بیچ راہ میں چھوڑنا بھی تو گناہ ہوتا ہے یار، اگر میرے چھوڑنے کے بعد بھی وہ محبت نامی سفر سے لاتعلق رہی تو ساری زندگی میں اسکی زندگی سے محبت نامی جذبے کے ختم ہو جانے کی وجہ خود کو سمجھوں گا"

شہیر کا دماغ الجھا تو اسکی زبان پر بھی وہ بے بسی سمٹ آئی۔

"گناہ ثواب کا سوچنے لگے تو جی لیا ہم نے اس سفاک زندگی کو میرے یار، تو بھی اس کشمکش سے نکل آ"

کاشف خود لاجواب ہو گیا تھا تبھی آئیں بائیں شائیں کیے ٹال گیا۔

"جس چیز کی چاہت شدت پکڑ لے وہ چیز اتنی دور ہو جاتی ہے میرے یار کہ جتنا ساتواں آسمان، خلاء میں جتنی دور تک اڑ لوں، پہلے آسمان کو بھی نہیں چھو سکوں گا، وہ تو ساتواں آسمان ہے، جسکا بس مثالوں میں ذکر سنا ہے۔

نہ میں اتنا قیمتی ہوں نہ وہ اتنی فراغ دل کے مجھے میری تاریک زمین سے اٹھا کر اپنے زرخیز آسمان پر لے جائے"

وہ کہہ نہ سکا پر اسکی آنکھیں سرخ سی ہوئیں اور زبان کو خاموشی کا حکم مل چکا تھا۔

"خالی بستیاں ، ویرانی اور طغیانی پسند ہے مجھے پر محبت دل سے خارج ہو جائے تو یہ سب بیماریاں دل کو آن لگتی ہیں اور پھر میں ان سے اپنی پسندیدگی مزید برقرار نہیں رکھ پاوں گا"

وہ بے اختیار بولا تھا، کاشف نے اسکی خالی آنکھوں کو دیکھا مگر تادیر دیکھ نہ سکا کیونکہ اہم فون کال نے اس سلسلے کو منقطع کر دیا۔

"ہاں بول رشید"

فون پر شاید کاشف کا ہی کوئی اہم آدمی تھا جس نے اسے سرمد کے رہا ہو جانے کی خبر دینے کے لیے کال ملائی تھی۔

"ابے نہ کر ؟ سچی۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے بہت شکریہ"

خود کاشف کی پرجوشی دیکھ کر شہیر بھی منتشر سوچوں کے حصار سے سر جھٹک کر باہر آیا اور کاشف کو دیکھا جسکے چہرے پر چٹ پٹے تاثرات درج تھے۔

"خیر ہے؟"

شہیر نے دو بدو استفسار کیا۔

"خیر ہی خیر ہے میرے عزیز، سرمد رہا ہو گیا ہے۔۔مطلب سمجھ رہا ہے۔۔۔ خرام زادے کو میں خود مزہ چکھاوں گا تجھ پر ہاتھ اٹھانے کی جرت بھی کیسے کی تھی اس زمینی غلیظ کیڑے نے"

کاشف جیسے جوش کے سنگ آخر تک خفیف سا تلملایا مگر شہیر نے کاشف کو گھورا۔

"خبردار! یہ میرا شکار ہے اور اس منحوس کی عبرت صرف شہیر مجتبی ہی طے کرے گا۔ کاشف! اس معاملے سے دور رہنا تو۔۔۔۔مجھے نکلنا ہوگا۔۔۔ نازلی کا پتا کسی صورت ان کتے بلیوں کو نہیں لگنا چاہیے۔۔۔ سرمد کے معاملے کی وجہ سے میرے ہاتھ بندھے تھے، ورنہ اب تک اس ضرار کو اچھی خاصی مرچیں لگا چکا ہوتا۔سرمد کا معاملہ نمٹاتے ہی میں اک چکر واپس علاقے کا لگاوں گا تاکہ وہاں کے حالات دیکھ سکوں کہ وہ اشنال واپس آئی ہے یا نہیں۔۔۔میں نکلتا ہوں تم سنبھال لینا پیچھے"

اس معاملے نے گویا شہیر کی تمام سوئی حسیں جگا دی تھیں اور کاشف کو تو اس نے اعتراض دور کسی بات کرنے کا موقع بھی نہ دیا اور اپنی جیکٹ کرسی کی پشت سے نکالتا وہ تیزی کے سنگ گودام سے باہر نکل گیا۔

"ایک تو یہ آدمی سنتا بہت کم ہے"

اسکے جاتے ہی کاشف نے کوفت سے بڑبڑاتے ہوئے اپنا سر تھام لیا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مے آئی کم ان؟"

وہ ابھی اپنے پیشنٹس کو دیکھنے سے فری ہوئی تھی جب ڈور پر دستک دیتا پیون اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا جس پر وریشہ نے رسان سے سر ہلائا جسکے ہاتھ میں بہت ہی خوبصورت بکے تھا اور وریشہ ان پھولوں کو دیکھ کر خوشگوار سی حیرت میں مبتلا اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"یہ کیا ہے اجمعل بھائی؟"

وریشہ نے حیرت عیاں کی جس پر وہ اس بکٹ کو وریشہ کی طرف بڑھاتے مسکرائے۔

"بچے یہ آپکے لیے کوئی ہوسپٹل کے گیڈ پر دے کر گیا ہے، میم نمرہ نے کہا ہے اتفاق سے ڈاکٹر وریشہ کی برتھ ڈے کا علم ہو گیا(جو ان سب نے وریشہ کے لیے آتا تحفہ دیکھ کر خود کو یاد دلایا) سو رات میں انہوں نے اور ڈاکٹر روحان نے چھوٹی سی یہیں ہوسپٹل میں آپکے لیے برتھ ڈے پاڑٹی رکھی ہے۔ یہ والے پھول کون دے کر گیا یہ آپ خود دیکھ لیں کیونکہ نام کسی نے نہیں دیکھا"

وہ اپنی پیشہ وارنہ مسکراہٹ کے سنگ اسے حیرت میں ڈالے خود کمرے سے نکل گئے جبکہ وریشہ کافی لمحے تو وہ خوبصورت سفید اور جامنی، سبز پتوں کے حصار میں مہکتے پھول دیکھتی رہی، چونکہ اسکی اصل برتھ ڈے آج تھی جبکہ آئی ڈی کارڈ پر تین دن آگے درج تھی اور سبکو وہی دن پتا تھا سوائے نمرہ میم کے جو اسے پھول بھجواتیں بھی تو خود آکر دیتیں مگر وہ اب حیران اس لیے تھی کہ یہ دن اسکے دادا سائیں کے علاوہ یہاں تو کسی کو پتا نہیں تھا۔

"حیرت ہے"

پھول میز پر رکھتی وریشہ نے  ساتھ ہی اس کی گرفت میں دبکا چھوٹا سا کارڈ نکالا اور کھول کر دیکھنے لگی۔

"بہت دن ہو گئے، ڈر ہے تم واقعی میں اس لوفر پر دو حرف بھیج کر کسی پرانے بوسیدہ عہد کی طرح بھول ہی نہ جاو بیوی۔ یونہی دل چاہا تمہیں پھول بھیج کر تمہارے دن کو خراب کروں، اس کے لیے پیشگی معذرت۔

ان کے ساتھ جو مرضی کرنا بس پھینکنا مت، یہ دیکھنے میں تمہاری طرح مہربان اور خوبصورت ہیں"

اس تحریر کو پڑھتے ہی وریشہ یوسف زئی کی آنکھیں بوجھل ہو گئیں، کیا یہ واقعی اتفاق تھا یا اس شخص کو وریشہ کے اس دن کی اہمیت غائبانہ محسوس ہو گئی تھی۔

وہ جس نے شہیر اور ولی دونوں کو چھوڑ کر ایک تیسرا راستہ چنا تھا وہ ان پھولوں پر پھر سے دل ہار رہی تھی، وہ کارڈ وہیں میز پر رکھتے وریشہ نے ہاتھوں نے حسرت سے ان پھولوں کو چھوا۔

"انکی جگہ تم آتے تو شاید دن خراب نہ ہوتا"

اس نے بے اختیار ان پھولوں کی خوشبو ناک کے قریب لے جاتے، آنکھیں جذب و اداسی سے موند کر سونگھتے ہوئے سوچا، پھر پھیکا سا مسکرا دی۔

لیکن اس لڑکی کی آنکھیں ضرور اس ظالم کی اس آدھی عنایت پر ویران سی ہو چکی تھیں۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میری بچیاں میرے پاس آگئیں، اس کنزا نے تو اندھیر نگری مچا رکھی ہے خدا کی پناہ" بزدار عالم کی شفیق آغوش میں ایک طرف حالات و ظلمات کے اثر سے سہمی سی زونی دبکی تھی جبکہ دوسری جانب ان نئے لوگوں کی محبت سے فطری ہچکچاہٹ، اور اس دشمن جان کی نظروں کے سخت اور جان لیوا لمس کے خوف کا شکار سی مالنی بیٹھی تھی اور بزدار عالم نے دونوں لخت جگروں کو خود سے لگا رکھا تھا، انکے لہجے میں ان دو کے لیے محبت کا جہاں اور کنزا کے لیے حقارت کی انتہا موجود تھی جبکہ فضیلہ اماں اور عزئز خان بھی پرسکون ہوتے دلوں اور مسکراتی آنکھوں سے سامنے ہی براجمان کب سے یہ جذباتی ملن دیکھ رہے تھے۔

"میری زونی، دادا قربان جائیں۔ ٹھیک ہے ناں میرا بچہ"

زونین کے تو آنسو ہی نہیں رک رہے تھے، اس شفقت بھرے حصار سے نکل کر وہ واقعی چلچلاتی دھوپ میں چلی گئی تھی اور آج اس بات کی اسے بہت تکلیف تھی، یہ ملال کسی نوکیلے کانٹے کی طرح اسکو زخم دے رہا تھا، وہ دادا سائیں کا کمزور مگر لمس میں شفقت کی شدت سے بھرا ہاتھ چوم کر بھیگی آنکھوں سے بھلے واپس اس چھاوں میں پہنچ آنے پر مسکرا رہی تھی پر بزدار عالم نے اسکی اس بھیگی مسکان میں دبی اذیت بھانپ کر تڑپتے ہوئے اسکی پیشانی چومی جبکہ پھر دوسری جانب پہلو نشین اس پیاری سی نازک مالنی کو دیکھنے لگے جو خود بھی افسردہ اور بوجھل ہوئی بیٹھی تھی۔

"اور تم مالنی! میرے ہاشم کا سب کچھ۔ میری بیٹی بابا تم پر بھی قربان جائیں۔ اب ہم سے دور مت جانا نہ میرے ہاشم سے الگ ہونا"

اور وہ اس وقت جتنے بھی ذہنی دباو میں تھی، وہ بزدار عالم کے لہجے میں چھپی حسرت اور تکلیف پر چاہ کر بھی یہ نہ کہہ سکی کے وہ تو ہاشم سے بہت دور ہو چکی ہے، بس دل پر رکھا بوجھ ان انمول محبتوں کے آگے بہت بڑھ سا گیا۔

ضرار صاحب تروتازہ سے نکھرے، حسن کے چمکارے مارتے جب تک ٹھنڈ کا توڑ کرتے فل بلیک آرام دہ ٹریک سوٹ میں ملبوس ہو کر باہر آئے تو ماحول گرمانے کو جہاں دو سٹنگ ایریا کی جانب دو ہیٹر جل رہے تھے وہیں دادا سائیں کی ان چنی کاکیوں کو ابھی تک کی جاتی لاڈیاں تو گویا اسکے اندر جیلسی کا کیڑا جگا گئیں اور گرما بھی گئیں جسکی نظر میں یہ دو کم ازکم کسی لاڈ کی مستحق نہیں بلکہ دگنی سزا کی حق دار تھیں۔۔

"دادا سائیں ویسے بڑی افسوس کی بات ہے، ایسی غلطی میں نے کی ہوتی تو ابھی تک آپ میری تشریف سیک رہے ہوتے، کتنا کھلا تضاد ہے۔ ان دونوں کی تو دھلائی ہونی چاہیے، کتنے مضبوط شیروں کو ان دو نے تگنی کا ناچ کروا دیا اور سنیں کچھ لاڈ انکے کھسموں کے لیے بھی رہنے دیں جو بچارے تین ماہ سے ان دو چڑیلوں کے پیچھے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے رل رہے ہیں، آپ تو ان دو زہریلی کاکیوں کو واقعی جگر کا گوشہ بنائے ساتھ چپکا کر ہی بیٹھ گئے ہیں"

سب کے بیچ آکر نوابی انداز سے بیٹھتا وہ زبان پر ہوتی کھجلی پر منہ بسورتا جلے بھنے انداز میں بولے ہی چلا گیا جہاں اسکی گل فشانیاں جہاں فضیلہ اماں اور عزیز خان کو مسکرانے پر اکسا گئیں وہیں دادا جان کی سرد گھوریاں جو چماٹ سے زیادہ سخت لگیں اور دونوں لڑکیوں کا زہریلی کاکیوں کے لقب پر سوجھا ہوا منہ اور اڑی ہوائیاں قابل دید تھیں۔

"تم ناں میرے سامنے اپنی یہ لمبی چونچ سمیٹ کر رکھا کرو، آگے ہی تم پر بڑی تپ چڑھی ہے۔ تم نے ایسا کونسا کام کیا ہے جو تم پر پھولوں کے ہار چڑھاوں، دل دہلانے، فساد خانہ کھولنے اور من مرضیاں کرنے کے سوا کرتے کیا ہو تم دادا کا سینہ سلگانے کے لیے"

گویا دادا جان تو گرم توے پر بیٹھے تھے اور الٹا میثم بھی انکی کوفت پر بمشکل ہنستا لمس اپنے ہونٹوں میں دبا پایا کیونکہ دادا سائیں کی ڈانٹ اسکے لیے درباری سوغات سے کم نہ تھی جبکہ مالنی اس بے لگام زبان والے بھیتیجے کو دیکھ کر یہی سوچ رہی تھی کے کتنا بے باک قسم کا آدمی ہے، پر ابھی تو جو بے باکی اسے ہاشم نے دیکھانی تھی اسکا تو سوچ کر ہی مالنی کا رنگ سفید پڑ رہا تھا، پورا وجود اس کا سامنا کرنے کا لمحہ سوچ سوچ کر ابھی سے ہی ہولے ہولے لرز رہا تھا۔

"یہ ہوتی ہے باہر کے نڈر شیروں کی گھر میں عزت، دو ٹکے کی۔ کوئی نہیں جناب، ہم بھی ڈھیٹ ہیں۔ آپ ہماری شان میں قصدیے پڑھتے نہ تھکیں اور ہم سنتے نہ تھکیں گے۔۔۔۔لو آگئے بھیگی برسات میں سر تا پیر گیلے ہو کر آپکے صرف نام کے ماہر سپوت۔۔۔اجی میں نے کہا میرے لیے کام بڑھا کر دلی راحت تو ضرور ملی ہوگی، کلیجے کو ٹھنڈ تو ضرور پڑی ہوگی"

بے سری شکلیں بناتا وہ دادا کی گھوریاں دیکھتا ڈھٹیائی جاری رکھے بے اختیار داخلی دروازے کی جانب سے درآمد ہوتے ہونہار سر تا پیر بھیگ کر مزید ہاٹ ہوتے اپنے بقول نکمے چچا صاحب کو دیکھتا سرسرایا جس پر مالنی سمیت سبکی توجہ حویلی کے داخلی دروازے سے جیکٹ ہاتھ میں پکڑ کر اپنے دھیان میں اندر آتے ہاشم پر گئی جو لاڈلے کی ساری کارستانی سنے پہلے اسے ہی گھورا مگر پھر دل کی دھڑکن دونوں جانب سست سے پڑی، آنکھیں بے اختیار ایک دوسرے پر جا جمی، وہ عزیز جان سا شخص جسکی نظر کا بے اختیار شدت بھرا لمس جب اس دشمن جان کی آنکھوں سے ملا تو وہ لمحہ بھر سانس لینا بھول گئی تھی اور خود اس سے پہلے یہیں بے باک نظروں کا وصال کوئی قہر ڈھاتا، خوابناک ہوائیاں چلنے لگتیں مگر ضرار صاحب کباب کی ہڈی بن کر ان کا آنکھوں ہی آنکھوں کے سنگ چلتا ظالمانہ رومانس تباہ نہ کرتے معنی خیزی سے گلا کھنکارتے بری طرح اس سچویشن میں انتشار برپا کر بیٹھے۔

جیکٹ ملازم کو تھماتا وہ وہیں سب کے بیچ ہی چلا آیا جہاں زونی اور مالنی کو خیر و عافیت سے بابا سائیں کے پاس بیٹھا دیکھ کر اس نے سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا پھر دل کو سکون پہنچاتے اس چہرے کو ناراضگی سے دیکھتے ہی نظر ہٹاتا میسنی مسکراہٹ دبا کر ریمورٹ پکڑتے لاڈلے کو گھورا۔

"بھگو بھگو کے مارتا ہے آپکا یہ شوخا پوتا قسم سے، اور تم دونوں۔ چپیڑیں نہیں پڑیں اس سے؟ کوئی نہیں دونوں کو الٹا لٹکاتا ہوں ، زرا احساس بھی ہوا ہے تم دونوں کو کے کس سولی پر لٹکے تھے ہم یہ تین ماہ"

اول جملہ وہ بابا سائیں سے اس کھوتے کی شکائیت میں کہے ساتھ ہی خود کی جانب دیکھتیں ان دونوں ناراض آنکھوں والی لڑکیوں پر بگھڑا جبکہ مالنی نے جان بوجھ کر سنگدلی سے نظر پھیر لی مگر زونی ان آنکھوں پر ضرور تڑپ کر رہ گئی۔

"ہم ج۔۔جب آپ سے پہلی بار ملے تھے تبھی آپکی آنکھیں دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ یہ نظریں کسی غیر کی نہیں ہو سکتیں۔ آپ کو زندہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ہمیں"

اس سے پہلے کہ وہ ان دو کو مزید جھاڑتا، زونی نے دادا سائیں کے پہلو سے اٹھ کر ہاشم کی طرف قدم بڑھائے جو اسکی نم آنکھیں دیکھ کر ہی سارا غصہ بھول گیا، جبکہ سب ہی تھوڑے افسردہ ہوئے۔

"جانتا ہوں،لیکن تم دونوں نے بہت خوار کیا ہے ہمیں۔۔۔ اللہ کا شکر ہے تم دونوں خیر و عافیت سے مل گئیں، بہرحال غصہ تو مجھے تم دونوں پر ہے"

وہ اسکی آنکھ سے بے اختیار پھسلتا آنسو انگلی سے ہٹاتا اسکی گال سہلائے آخر تک غصہ بھی جتا گیا اور اس بیچ اس نے مالنی کو بھی سرسری سا دیکھا جسکی آنکھوں میں اس سے بڑھی ہوئی انتہا کی ناراضگی موجزن تھی۔

"اللہ کا شکر ہے میرے بچو یہ افسردگی ہٹا دو اب اور یہ ناراضگیاں بھی ختم کر دو کہ ہم بوڑھوں میں اب سکت نہیں رہی، تم پورے بھیگے ہو بچے۔ جاو جا کر پہلے کپڑے بدل لو ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گی تب تک میں کھانا بھی لگوا دیتی ہوں"

ہاشم کو بھیگا دیکھ کر جیسے فضیلہ اماں سے رہا نہ گیا اور وہ خود بھی اب خاصا بے چین ہوتے پلٹا تو سب نے بے اختیار مالنی کی طرف دیکھا۔

"جاو بچے، شوہر کو کپڑے نکال کر دو۔ فضیلہ بچے ، زونی کو بھی لے جاو کمرے میں ہاتھ منہ دھو کر  تازہ دم ہو جائے رو رو کر چہرہ سوجھا لیا ہے۔ پھر ہم ساتھ کھانا کھاتے ہیں"

مالنی تو جیسے شفیق دے سسر کے حکم پر ہی کومے میں جا چکی تھی اور زونی تو فضیلہ اماں کے ساتھ اٹھ کر بڑھ بھی گئی البتہ مالنی کو وہیں بزدار عالم کے پاس ہونق ہی جما بیٹھا دیکھ کر ضرار نے بمشکل اپنی فتنہ خیز مسکراہے دباتے ہوئے ہاشم کی اتری ہوئی مسکین شکل دیکھی جسے مالنی کے ہبوز وہیں جمے رہنے پرغضب سا چڑھا۔

"م۔۔میں؟"

وہ جیسے عالم بزدار کے پیار سے دیکھنے پر ہکلائی۔

"جی چچی صاحبہ آپ، اب سنبھالیں خود ہی اپنا ہاشم۔ ہمارے سینے پر مزید اس بوجھ کو اٹھائے رکھنے کی طاقت نہیں۔۔۔۔کیوں چچا جان"

ایک تو اس بے سرے کو چین نہ تھا، دادا سمیت ہاشم نے بھی اسے گھورا پر مجال ہو جو کشن سینے پر رکھ کر وہیں صوفے پر لام لیٹ ہو کر ٹی وی چلا لیتے ضرار صاحب کے سر میں جوں بھی رینگی ہو الٹا ضرار کا جواب مالنی کو کانوں تک سرخ ضرور کر گیا۔

جبکہ ہاشم اب سچ میں پھنکارتا ہوا غصے سے بھرا وہاں سے کمرے میں چلا گیا۔

"یہ مجھے اٹھا کر پھینک دیں گے سسر ابو جان، پلیز م۔۔مجھے مت بھیجیں انکے کمرے میں"

حلق تر کیے وہ زرا بزدار عالم کے کان کے قریب ہوتی منمنائی جسکی آواز باآسانی عزئز خان اور ضرار نے بھی سنی پر اب ضرار صاحب نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ اب دادا جان کا جوتا ضرور اس پر برسنے کے پورے چانس تھے۔

"او میرا بچہ تم بیوی ہو اسکی، ہاتھ تو لگا کر دیکھائے۔ دیکھنا مرغا بنا دوں گا۔ جاو میرا بچہ دیکھو اسے کیسے سخت سردی میں بھیگا ہوا آیا ہے۔۔۔جاو شاباش"

گویا سسر صاحب نے بچاری کی مجبوری سرے سے سمجھی ہی نہ تھی تبھی مجبورا ہی سہی پر اسے سسر سائیں کے بتائے کمرے کی جانب جانا ہی پڑا، خود پر جتنی حفاظت کی دعائیں اور آیات آتی تھیں وہ سب پھونک کر وہ جس طرح ہاشم کے کمرے کی طرف جا رہی تھی، ضرار نے قہقہہ لگائے واپس عزیز خان اور دادا سائیں کی اس بار کاٹ کھاتی نظریں دیکھتے ہی فوری شرافت سے منہ پر سنجیدگی لائی اور اپنی توجہ سامنے ٹی وی پر مرکوز کی البتہ مالنی صاحبہ ضرور مرنے والی ہو چکی تھیں۔

ضرار کے فون پر آتی ارجنٹ کال پر وہ مجبورا سہی پر ستانے کا سیشن منقطع کرتا شرٹ ٹھیک کرتے اٹھا اور سیدھا حویلی سے باہر نکل گیا جہاں چار بجے ہی رات کا سماں پھیلا تھا اور سردیوں کے پیک کی انتہائی سرد بارش اب تک جاری و ساری تھی۔

"ہاں کہو کیا خبر ہے؟"

وہ تیکھے چتون تانے سنجیدہ ہوا، نظر تاحد قہر برپا کرتے ملگجے موسم پر ثبت کی۔

"سائیں! سرمد جیل سے چھوٹ گیا ہے اور ہم اسکے پیچھے ہی جا رہے ہیں۔ حکم کریں آگے کیا کرنا ہے؟"

وہ آدمی ضرار کو خبر دیتے ہی اگلا لائحہ عمل دریافت کرتے بولا جس پر ایک لمحہ ضرار کے ماتھے پر بھی ناگواری کے سنگ شکنیں نمودار ہوئیں۔

"بس سب کچھ گہری نظر رکھ کر دیکھنا ہے، سرمد کے بچاو کی ہر تدبیر کرنا جو ممکن ہو سکے۔ اور ہاں کچھ بھی ناگہانی ہوتا دیکھو تو اپنی تمام حسیں چوکس رکھتے ہوئے ثبوت اٹھانا مت بھولنا۔ مجھے تمہاری کال کا انتظار رہے گا"

وہ سنجیدگی کے سنگ اپنی ہدایات دیتا کال کاٹ گیا مگر اس سے پہلے ضرار خود بھی اس بھیانک موسم کے باوجود کہیں جانے کی تیاری کو واپس اندر جاتا، جبل زاد کی آتی کال پر وہ لمحہ بھر رکا۔

"بولو جبل زاد کیا حالات ہیں؟"

اسے صبح سے جبل زاد کی کال کا انتظار تھا مگر وہاں سگنلز کی کمی کے باعث نجانے کتنی بار کوشش کرنے کے بعد ضرار کا نمبر اس سے لگ سکا تھا۔

"سائیں سب کچھ آپکے مطابق ہو رہا ہے، صبح فجر کے وقت ہماری یہاں سے روانگی ہے ، امید ہے عصر تک ہم سب پہنچ جائیں گے"

جبل زاد کی جانب سے ملتی خبر جیسے اسکے اندر سکون سا بھر گئی، سب کچھ اسکے مطابق چل رہا تھا مگر قدرت تو کچھ اور ہی طے کیے بیٹھی تھی۔

"ٹھیک ہے جبل زاد! دھیان سے آنا۔۔۔ ملتے ہیں"

سرسری سے انداز میں جواب دیتا ضرار کال بند کیے کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جمائے ہوئے تھا، ونی نکاح کے خاتمے کے لیے اس نے یہ پلین بنایا تھا کہ وہ نکاح نامے اور طلاق کی سچائی کل ہی جرگے کے سامنے پیش کر دے گا مگر قسمت میں کچھ اور طے تھا جسکی ابھی خود میثم ضرار چوہدری کو بھی خبر نہ تھی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

پریشان و متفکر سی مالنی اپنے قدم ہمت کیے اسکے کمرے کے باہر تک تو گھسیٹ لائی تھی پر اتنی ہمت نہیں تھی کہ اندر جا پاتی، اول تو ہاشم کو دھوکہ دینے کی سزا اس پر واجب تھی اور پھر وہ جس نے اپنے اس دھوکے پر خود کو ہاشم کا گناہ گار سمجھ لیا تھا، الٹا ہاشم کے دیے دھوکے اور فریب پر وہ اسے بھی تو گناہ گار سمجھ رہی تھی۔

"اگر ہاشم نے مجھے میرے دھوکے کی سزا دینی چاہی تو میں بھی عقل ٹھکانے لگا دوں گی، انہوں نے میرے ساتھ زیادہ برا کیا ہے۔۔۔۔ ن۔۔نہیں مالنی! تم نے زیادہ برا کیا ہے، انہوں نے جو کیا وہ تمہارے دھوکے کے آگے بے معنی ہے"

خود کو حوصلہ دیتی وہ جیسے ہی بمشکل سنبھل سکی، اپنی کی بے حسی دل میں اذیت کی لہر گاڑ گئی، جیسے وہ اپنے دیے کرب کو ہاشم کے دیے دکھ سے بڑا جان رہی ہو۔

ایک تو ٹھنڈ کے باعث اسکے پیر ویسے ہی جم رہے تھے اوپر سے خوف مزید رگوں میں خون جما رہا تھا تبھی فیصلہ کن ہوتی وہ پہلے دو منٹ تک دروازے کے ناب کو افسردہ چہرے اور سرخ ہوتی آنکھوں کے سنگ گھورتی رہی اور پھر برق رفتاری سے دروازہ کھولے اندر داخل ہوئی تو آنکھیں بے اختیار کبرڈ کھول کر خود ہی اپنے کپڑے نکالتے ہاشم پر جا جمی، فطری جھجھک اور اپنی بے باکی پر اس نے نظریں زرا دیر اس کے کسرتی وجود سے ہٹا لیں مگر وہ اسکی موجودگی کے باوجود اس سے بے نیاز رہا، شرٹ لیس ہونے کے باعث وہ جو شرٹ ٹراوز ہاتھ میں لگا، وہی لیتا بنا مالنی پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالے بنا واش روم میں گھس گیا جبکہ اس درجہ اہانت پر مالنی کا دل چاہا وہی بند دروازہ ٹھڈوں سے توڑ ڈالے۔

"ایٹیٹوڈ تو دیکھو ، جیسے سارے گناہ مالنی کے ہوں۔ جب خود ہی کپڑے نکالنے تھے تو میں یہاں چاولوں کی دیگ بانٹنے آئی ہوں۔ اس پر تو بلکل نہیں بخشوں گی تمہیں یاد رکھنا"

خفیف سی تلملاتی ، اس درجہ کٹھور پن پر وہ اس سے پہلے واپس جاتی، دروازے کو یکدم لاک ہوتا دیکھ کر مالنی کا سانس رکا، ڈر کے مارے وہ پلٹی مگر سامنے تو کوئی بھی نہ تھا، خوفزدہ ہو کر دو تین بار دروازے کو زور لگایا مگر بےسود کیونکہ وہ آٹومیٹک لاک تھا جسے صرف ہاشم ہی کھول سکتا تھا تبھی وہ ڈرتی ہوئی دوسری طرف بنے بالکونی کے دروازے کی طرف بڑھی مگر اس جانب پھیلی ٹھنڈ اور تیز ہو جاتی بارش سے اٹھتے سرد جھونکوں نے ویسے ہی اسکا وجود برف بنا دیا ، تبھی وہ کانپتی ہوئی دروازہ بند کیے واپس روم میں آئی اور گلے سے دوپٹہ نکال کر بیڈ پر رکھا اور خود بھی برہمی چہرے پر سجائے بیٹھی، بیڈ کی چادر نجانے گھبراہٹ اور بے بسی کے کس کس احساس کے تحت مٹھیوں میں بھینچ ڈالی۔

لگ بھگ دس منٹ کڑھتے ہوئے گزرے تھے کہ واش روم کا دروازہ کھلنے کی آہٹ پر وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی ، نہ صرف اٹھی بلکہ رخ موڑ کر پلٹی تو وہ نہا کر فریش ہوتا ٹراوز شرٹ کے عام سے خلیے میں ٹاول سے بال رگڑتا باہر نکلا جبکہ ہنوز اس نے چہرے پر گریز کا تاثر سجائے مالنی کو نظر انداز کیا اور یہ اس لڑکی سے بلکل برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

"دروازہ کھول دیں تاکہ میں جاوں، مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اس گھٹن سے بھری فضا میں رہنے کا"

اسے ڈریسنگ کے ساتھ کھڑے ٹاول ہینگر کے ساتھ ٹاول ہینگ کرتا دیکھتی وہ خفگی سے بڑبڑائی جس پر ہاشم نے پلٹ کر جس شدت بھری خونخواری کے سنگ دیکھا، مالنی کے چہرے کے رنگ لمحہ لگائے پھیکا پڑتے اڑے۔

"اور جو تم نے یہ تین ماہ میرا دم گھوٹا ہے وہ؟ اسکا حساب کون دے گا؟"

ہاشم کے وہ اس طرح کے کڑوے لہجے کی کب عادی تھی تبھی تو ناچاہتے ہوئے وہ تکلیف محسوس کر رہی تھی۔

"آپ نے زبردستی یہ بیوقوف لڑکی اپنے سر ڈالی تھی سو اب آپکی زبان پر شکوہ نہیں آنا چاہیے۔ مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی سو یہ اپنے جیسا ڈھیٹ دروازہ کھولیں تاکہ میں یہاں سے جاوں۔ بلکہ یہاں سے ہی نہیں، آپکی اس حویلی سے بھی اور زندگی سے بھی"

اس لڑکی کے کڑوے کسیلے الفاظ سن کر ہاشم کے ماتھے کی رگیں پھولنے لگی تھیں تبھی وہ جھٹکے سے بیچ کا فاصلہ عبور کرتا اس لڑکی تک پہنچا جو خود کو ہنوز پتھر بنائے بے خوفی سے اس کے روبرو جمی کھڑی تھی۔

"اب یہ بھول ہے تمہاری کے تمہیں مجھ سے نجات خواب میں بھی مل سکتی ہے، ایک بار بھی تم نے یہ کرتے ہوئے نہیں سوچا کہ جو انسان اپنی زندگی میں بچ چکی رہی سہی ساری محبت تمہارے دامن میں ڈالنے کی خواہش کر رہا ہے اسے یوں بے بسی اور اذیت کی بھٹی سے نہ گزاروں۔ مجھے تمہارے اس قدم سے یہ تو پتا چل ہی گیا ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کر پائی مالنی لیکن اس کے باوجود میں تمہیں خود سے دور کرنے کی کوئی سزا نہیں دوں گا کیونکہ میرے لیے تم بہت اہم ہو اب سو تم مجھے جیسا بھی سمجھو، آئی ڈونٹ کئیر۔۔۔"

نہ تو وہ تلملایا، نہ سخت آواز سے دھاڑا، بلکہ اسکے لہجے کی سرد مہری اور چہرے پر چھائی سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی نے کھڑے کھڑے اسکی لڑکی کا وجود آگ کے حصار میں دے دیا، وہ کیسے یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ مالنی نے اس سے محبت نہیں کی؟

کیوں اس دنیا کے سارے مردوں کو صرف اپنی محبت ہی محبت لگتی ہے؟

وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی پر پھر بھی ہو رہی تھی۔

"آپ کے قریب رہنا میرے لیے سزا ہی ہوگی، اور اچھا ہے مجھے محبت نہیں ہوئی آپ جیسے ظالم سے۔ ہو جاتی تو آپکے دل اور جسم کے بٹے ہونے پر بہت تکلیف ہوتی"

وہ اسکی خود پر افسوس سے جمی آنکھوں میں جھانک کر بڑے ضبط سے بولی تھی، یہ الگ بات تھی کہ تکلیف تو اسے اب بھی تھی اور اس نے اپنے ان سفاک جملوں سے ہاشم کو بھی دی۔

"تو تمہیں لگتا ہے ہاشم بزدار کا دل بھی بٹا ہے اور جسم بھی؟"

وہ زہریلی نظر اس لڑکی پر ڈالے زہر سے بھرا ہی سوال کر رہا تھا اور مالنی نے کرب سے سر جھٹک کر پہلو بدلنا چاہا مگر وہ اسکی بازو پر ہاتھ کی چٹانی گرفت بنائے اسے ہلنے تک سے قاصر کر چکا تھا۔

"تو کیا جھوٹ لگتا ہے مجھے؟"

وہ اس سے دگنی سفاکی سے غرائی تھی ، جی تو یہی کیا اس کا گریبان دبوچے پر لحاظ کر گئی۔

"قریب آکر خود دیکھ لو ، کہیں بھی کسی اور کا نشان میرے دل یا وجود پر پاو تو ابھی اسی وقت اس حویلی سے تو کیا میری زندگی سے بھی نکل جانا"

وہ جو کچھ دیر پہلے دہکا ہوا آتش فشان تھا، مالنی کی بازو اپنی کمر پر باندھتا جھٹکے سے قریب کرتا حصارے ، ایک ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد حائل کرتا جس طرح اسے قریب لایا، وہ بے حس بنی سمجھ ہی نہ پائی کے لمحے میں اس شاطر چال باز نے کیسا طلسم پھونک کر بے بس کر دیا ہے۔

"م۔۔مجھے ایسا کچھ نہیں دیکھنا۔ اور دور رہیں"

وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھے اسے خود سے دور رکھنے کی سعی میں دقت سے بول سکی کے سانسیں بکھرتی ہوئی سینے میں اس قربت پر اٹکنے لگی تھیں، پھر اس شخص کی آنکھیں بھی تو اس لڑکی کے جسم کو آنچ دینے لگتی تھیں۔

"میرے کردار پر بہتان لگاو گی اور میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ کیا اتنا مہربان سمجھ لیا ہے تم نے ہاشم بزدار کو؟"

وہ اپنی گرفت میں جنون شامل کرتا اسے مزید قریب کر چکا تھا جو پل پل خود سے بے خود ہوتی اس شخص کے اختیار میں جاتی ہوئی اس الزام پر تڑپی۔

"ب۔۔بہتان کب لگایا ہے؟ پلیز ہاشم"

وہ جیسے اس بات پر تکلیف سے بول اٹھی اور وہ اسکے اس درجہ بے بس ہو کر بھی احتجاج کر اٹھنے پر ساری خفگی بھول سا گیا ، اسکی رکی سانسیں خود میں تحلیل کرنے کی شدت بھری خواہش کو تکمیل دیتے دیتے اس نے خود پر واپس اختیار پائے اسکے ہونٹوں کی جانب جھکتے ہوئے رک کر خود کو یاد دلایا کہ اس لڑکی نے اسے کس قدر اذیت سے گزارا ہے۔

"بہتان ہی لگایا ہے تم نے مجھ پر۔ کیا سزا دوں اب میں تمہیں بیوقوف مالنی! دل تو چاہ رہا ہے ابھی تم سے ان سارے دنوں کا حساب لے لوں مگر پھر تم نے جو میرا دل دکھایا ہے اسکا کرب مجھے تمہارے قریب بھی آنے نہیں دے گا۔ واقعی محبت کرتی تو یقین بھی کرتی کہ ہاشم اگر تمہاری طرف بڑھا ہے تو تم جیسی پاکیزہ اور انمول لڑکی کے لیے اس نے اپنا معیار بھی ترازو پر تولا ہوگا، میں محبت کرنے لگا تھا تم سے، جس سے محبت کی جاتی ہے اسکے لیے کبھی بھی برا نہیں سوچا جاتا۔ اگر ہاشم بزدار کا دامن اتنا ہی غلیظ ہوتا تو میں اپنا سایہ بھی تم پر پڑنے نہ دیتا، بلکہ تمہیں خود سے ، اپنے دل سے اور اس وجود سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیتا۔"

اس شخص کا ٹوٹا بکھرا شکووں سے بھرا انداز مالنی کے دل کو آبدیدہ کر گیا تو وہیں اس شخص کی جسم سے لپٹتی خوشبو نے اس سادھی سانسوں والی کی رہی سہی تمام سانسیں سینے میں ہی گھوٹ دی تھیں۔

"ا۔۔اور وہ تصویریں؟ مما کی بتائی کہانی؟ سچ کیا ہے؟"

وہ آنسو روک کر دل پر دھرے بوجھ سوال بنا کر ایک ساتھ پوچھتی ہوئی ہاشم کو دیکھ رہی تھی جسکے چہرے پر کرب ناک سی دل چیڑتی مسکراہٹ بکھری۔

"بہتان لگانے سے پہلے پوچھتی تو شاید بتا دیتا، اور تم نے کونسا محبت کی ہے مجھ سے مالنی جو یہ سب اب اہم ہے"

اب اسکی باری تھی، مالنی کی جان جھٹکے سے نکالتا وہ اسے آزاد کرتا دو قدم پیچھے ہٹا تو وہ بے اختیار اسکی طرف بڑھی۔

"پلیز ایسے تو مت کریں ہاشم"

وہ اسکے زرا سے پیچھے ہٹنے پر بوجھل ہوئی جبکہ وہ گریز کا تاثر دیتا چہرہ پھیر گیا۔

"ابھی تم صرف بزدار عالم کی بیٹی اور بزدار حویلی کی چھوٹی بہو ہو، میرے پاس تمہارے لیے فی الحال کچھ نہیں ہے، معافی بھی نہیں"

وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر پرے کرتا دروازہ کھولنے بڑھنا چاہتا تھا مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑتی اسے رک جانے پر مجبور کر چکی تھی، ہاشم اسکی طرف دیکھنے سے گریز ہی برت رہا تھا۔

"اگر میں نہ جاتی تو مما تو زونی آپی کو ذہنی ٹارچر دے کر ہی مار دیتیں، میں خود کو نہیں روک سکی۔ پھر وہ سب دیکھ کر مجھے غصہ آگیا تھا، وہ جیسی بھی ہیں انہوں نے ہمیں ب۔بہت پیار سے پالا تھا ہاشم، میں انکی طرح سنگدل چاہ کر بھی نہیں بن سکتی۔ کوئی کچھ بھی کہتا ہے میں فورا مان لیتی ہوں، مجھے پتا تھا مما نے جو بھی کہا ہے وہ سارا سچ نہیں ہے۔۔۔ میرا دل تو انکی کوئی بات نہیں مانا، میں مانی ہوں ناں۔۔مجھے سزا دیں پر میرے دل کو ت۔۔تو مت دیں۔۔"

وہ رندھی آواز کے سنگ اپنی غلطی تسلیم کرتی بولتی گئی اور وہ بھی جیسے اسکے شفاف لفظ اور دکھ بھرے الفاظ سنتا رہا مگر کافی دیر کچھ نہ بولا۔

"مالنی! تمہارا کوئی لفظ فی الحال میرے غصے کو کم نہیں کر سکتا۔ باقی سب چھوڑ بھی دوں تو میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود تم گھر سے نکلی تو کیوں نکلی؟"

وہ جیسے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے جھٹکے سے چھڑواتا غصے سے پلٹا اور وہ آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھنے لگی۔

"مما نے مجھے دھمکی د۔ی تھی کہ اگر میں گھر سے نہ نکلی تو وہ خود سمیت زونی آپی کو بھی زہر دے دیں گی۔ ورنہ میری حالت تھی دیوار پھلانگنے کی خود سوچیں؟ آپ سے دور ہونا کیسے مالنی کی خواہش میں شامل ہو سکتا ہے؟ آپ مجھے بے شک بے یقین ہونے پر معاف نہ کریں ہاشم پر آپ مجھے گھر سے بھاگنے پر کوئی سزا مت دیں کیونکہ میرے پاس چوائز نہیں تھی۔ "

گوئا کنزا کی نیچ فطرت کا کھل کر سامنے آنا ہاشم کو مزید دہکا گیا اور کنزا کے ہاتھ سے نکلنے پر اسے سخت افسوس ہوا، جتنی سزا وہ اسے دے چکا تھا، وہ عورت تو کہیں درجے زیادہ کی مستحق تھی۔

"چلو اس پر سزا نہیں دیتا لیکن تم نے جو کہا کے محبت نہیں کرتی ہو، اس پر ضرور دوں گا۔ بے یقین ہونے کو بھی بھاڑ میں جھونکتا ہوں، کیونکہ تم سے میں اپنے جیسی شدت بھری محبت اور پختہ یقین امید کر کے خود ہی خطاء پر کھڑا ہوں۔ محبت نہیں کرتی تم؟ پھر کیوں گھسی تھی میری زندگی میں۔ ٹھیک تھا ہر احساس سے عاری ہو کر جیتا ہوا ہاشم بزدار، تم نے ہمت بھی کیسے کی پھر میری زندگی میں اس طرح کی مداخلت کی؟"

وہ رخ پھیرے پلٹا اور اس شخص کے ان سارے مزید اعتراضات پر وہ دم دیتی اذیت سے گزر کر رہ گئی۔

اب کیسے کہتی کے بکواس کر گئی ہے۔

"ہاں اس کے لیے آپ جو مرضی سزا دے لیں، مجھے آپکی ہر سزا منظور ہے۔ لیکن اگر معاف کر دیں تو شاید مجھے اس احساس جرم سے نکلنے میں آسانی ہو"

خود کو مضبوط کیے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی، جیسے انجام کی ہر فکر سے آزاد ہو گئی ہو۔

"اگر تمہارا دل مجھ پر یقین کر رہا تھا تو ایک بار بھی تم نے میری اذیت کا احساس نہیں کیا؟ کس درجہ بے بسی سے گزار چکی ہو مجھے تم مالنی! ایسا لگتا تھا زندگی ختم ہو گئی ہے۔ ایسے کیسے تمہیں معاف کر دوں؟"

وہ اسکے معافی کے تقاضے پر بپھر سا گیا اور مالنی نے سرخ ڈوروں سے بھری آنکھیں ہاشم کے بگھڑے چہرے پر ڈالیں۔

" مما نے یہ سب صرف میرے ساتھ نہیں، زونی آپی کے ساتھ بھی کیا تھا اور اسکے بعد تو میں خود وحشی ہو کر سوچنے لگ گئی۔ جب ہر طرف سے راہ بند ہو گئی تو میں چاہ کر بھی آپکو پکارنے کی خود میں ہمت نہیں کر سکی۔ لیکن ہر روز میری آنکھ آپکو سوچ کر ہی کھلتی اور ہر رات آپ کی کمی ہی میری آنکھیں بوجھ سے بند کرتی تھی۔ آپ کو دھوکہ دینے کی تکلیف مجھے بھی بے چین رکھتی رہی ہے، آئی ایم سوری پلیز، یا تو مجھے معاف کر دیں یا اپنی زندگی سے ابھی کے ابھی نکال دیں"

گویا اس کنزا نامی عذاب نے ہاشم کے عتاب کو مزید دہکایا، وہ عورت اب حقیقی میں کسی کی نرمی یا رعایت کے قابل نہ رہی تھی۔

"اس کنزا کے گناہوں کا گڑھا ہی اسکی قبر بنے گا، خود پر لعنت بھیجتا ہوں کے کبھی اس عورت کو اپنی محبت دینے کا فیصلہ کیا تھا، گھٹیا سفاک عورت۔۔۔ اپنی ہدایت کو خود لات مار کر وہی کچھ کر رہی ہے جو مقدر نے اسکے ساتھ کیا۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجھے آج بھی اس پر ترس آرہا ہے، اور تم!"

بہت سے پرانے زخم تھے جو ایک ساتھ ادھڑ گئے تھے جبکہ آخری لفظ کہتا وہ اس آنسو آنسو ہوتی آنکھوں والی کی جانب مڑا جو سانس روکے اسکے اگلے جملے کی منتظر تھی۔

"تم بھی کم سفاک نہیں ہو، دل پر وار کر کے اسے زخمی کر چکی ہو"

وہ پھر سے اس پر بگھڑا جو روتی ہوئی اسکے سینے سے لگ کر ہچکیوں کی زد میں آتی لمحے میں پوری لرزی تبھی تو وہ بھی بوکھلا کر اسکی سسکیوں کے باعث کانپتے وجود کو بازووں میں سمیٹے ساری تلخیاں اک طرف کر گیا۔

"م۔۔میں بہت بری ہوں ماسکو! آئی ایم سوری"

وہ ہنوز رو رہی تھی اور ہاشم اسکے رونے پر افسردہ ہو رہا تھا۔

"میں بھی برا ہوں ، تبھی تو اچھا نہیں لگتا"

اسے بالوں کو آہستگی سے مٹھی میں جکڑے وہ اسکا سینے میں چھپا سر اٹھائے اپنے چہرے کے روبرو کرتا پھر سے دل جلا بنا مگر وہ اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھر لیتی خود ہی مہکتے ہوئے لمس بکھیرنے اور ہاشم بزدار کے فرار کو ناکام کرنے روتے ہوئے ہی ان ٹھنڈے ہونٹوں کے سارے دہکتے شکوے خود میں اتار گئی اور بے دم ہونے تک اختیار میں شامل ہوتی سانسوں نے ناجانے کونسا جادو پھونکا کے وہ اپنا سارا وزن ہاشم پر ڈالے بے باکیوں کے سلسلے سہولت سے تکمیل پہنچاتی دور ہونے کو مچلی مگر ہاشم بزدار نے آج اس قطرے کو قطرہ رہنے نہ دیا بلکہ اسکا ٹوٹتا ہوا وجود بازووں میں سمیٹتے ان شبنمی سانسوں کی حدت، بے جان پڑتے وجود کی نرمی، اپنے تشنہ وجود کی آخری تہہ تک بسا لی۔

کئی لمحے سانسوں کے زیر و بم اور معنی خیز خمار کی نظر ہو کر دھڑکتے ہوئے امر ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے پر رحم کھائے سرخ ہو جاتی بے خود آنکھوں سے دیکھا جن میں جذبات و احساسات کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن تھا۔۔

"محبت واقعی نہیں ہورہی تمہیں، سوچ لو؟"

وہ جیسے ابھی مزید شرانگیزیوں کا طلب گار تھا تبھی تو اس لڑکی کی کمزوری پر قہر ڈھاتا اسکے بھیگے نرم ہونٹوں کو انگلی سے نرم بے باک پور سے چھوئے دباو پہنچاتا جذب و خفگی کی عجیب ملی جلی راعنائی کے سنگ اپنی آنکھیں اسکی سہمی آنکھوں میں ڈالے جان لیوا سا حصار بکھیر گیا مگر وہ ہاشم بزدار کے ذومعنی لفظوں کے حصار میں الجھی سہمی نگاہیں اس پر جمائے تھم سی گئی تھی، اتنی معصومیت بھری حیرانگی کہ بےاختیار سا ہوا، سختی سے ان فتنہ خیز آنکھوں پر اپنے پرحدت ہونٹ رکھ کر لمحوں کے ساتھ ساتھ مالنی کا دھڑکتا دل بھی مٹھی میں جکڑ گیا۔

وہ مزید کچھ کر بیٹھنے پر یہی سوچ رہی تھی کہ اپنی ہی بے خودی کے آگے سانس رکی تو اب کے بحال نہ ہو پائے گی۔

"نہیں، کیوں کے آپ ہر بار پہلے سے زیادہ بری طرح جان نکال لیتے ہیں، سب کچھ مفلوج ہو جاتا ہے، محبت کرنے کا موقع ہی کہاں دیتے ہیں"

اسکی سازش ناکام کرتی وہ اسکے سارے جال جھٹکتی، روہانسی ہوتی اسکے قبول ہو جاتے وجود میں جا سمٹی ، اور یہ احساس یوں تھا کے بازووں میں پوری کائنات سمیٹ لی گئی ہو۔

"ابھی کہاں جان نکالی ہے بیوقوف مالنی! ایک بار پوری شان سے مجھے مل تو لو۔ ایسی جان نکالوں گا کہ دوسرا سانس لینے کے لیے بھی تمہیں میری ضرورت درکار ہوگی"

اسکی کان کی اور جنون خیز سرگوشی کرتے جیسے وہ ہتھے سے اکھڑا اور مالنی نے خوفزدہ ہو کر اور سہم کر اسکی شرٹ مزید مضبوطی سے مٹھی میں جکڑی اور پھر رحم طلب نظر ڈالتی وہ اسے خود سے پرے کرتی دروازے کی جانب پلٹ گئی۔

"پلیز ہاشم، دروازہ کھول دیں ورنہ کسی ایک کی واقعی جان چلی جائے گی"

بنا مڑے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچی اور ڈور ناب کو ہاتھوں میں شدت سے دباتی گھبرا کر بولی جس پر وہ بھی اس تک پہنچا، آنکھیں موند کر اس لڑکی کے وجود سے اٹھتی خوشبو خود میں اتاری اور جھک کر اسکی شہہ رگ پر شدت بھرا لمس رکھتے ہی وہ دروازہ اوپن کر گیا جس پر وہ اس جان لیوا شکنجے سے دم دبا کر بھاگتی ہوئی ، اپنی اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو سنبھالتی ہوئی دیکھتے ہی دیکھتے ہاشم بزدار کی نظروں سے اوجھل ہوگئی اور خود ہاشم بھی روم سے نکلتا ہوا اک شر انگیز سی نگاہ سامنے ڈالتا باہر کی طرف لپک گیا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اوہ تو کاشف سانپ بن کر بیٹھا ہے اس حسین ان چھوئی لڑکی پر، شہیر جتنا مرضی اسکا بچاو کر لے، مرے گی تو وہ سرمد کے ہاتھوں ہی۔چلو جی اب اس کاشف کو گردن سے پکڑتے ہیں۔ تم یہ بات ولی زمان تک پہنچا دینا اور اس اتھرے تھانیدار سے کہہ دینا کے سرمد نکاح کے بنا ہی ساری عیاشیاں کرنے میں بااختیار ہے۔۔۔۔"

وہ تاریک ہوتی شام میں سڑک کے کنارے چلتا ہوا اپنے ہی کسی آدمی سے نجاست بکھیرتا ہوا مخاطب تھا جس نے اسے کاشف کو نازلی کو کچھ مہینوں پہلے ساتھ لے جاتے اور  اسکے آبائی گاوں جاتی بس میں بیٹھے دیکھا تھا، کوئی سیاہ ہڈ میں چھپا وجود پل پل سرمد کے قدموں کا پیچھا کر رہا تھا اور یہ پیچھا اس نے اسکے کلب سے کرنا شروع کیا تھا جبکہ ان دونوں کو اس سنسان راستے پر چلتا دیکھنے والی ایک چار آنکھیں اسی گلی نما سڑک کے آخری کونے پر کھڑی گاڑی میں سے ان پر نظر رکھے ہوئے تھیں، جبکہ پانچویں آنکھ کیمرے کی تھی۔

"تجھے عیاشیاں کرنے کی مہلت ملے گی تو کرے گا ناں، مر کر اس دھرتی سے اپنی غلاظت کم کر مردود کہیں کے، تجھے اپنی واحد نیکی اس طرح ضائع کرنے نہیں دے سکتا شہیر مجتبی"

ابھی سرمد نے فون بند کیے نجس سا قہقہہ لگائے فون دوسرے ہاتھ میں پکڑا ہی تھا کہ پیچھے چلتا آدمی اپنے منہ سے ماسک ہٹاتے ہی لپک کر اسکا وہی فون والا ہاتھ مڑوڑ ڈالتا جھٹکا دیتا اسکی کلائی ہی توڑ گیا جس پر دلخراش سی چینخ سرمد کے منہ سے نکلی اور ساتھ ہی وہ گاڑی میں بیٹھے دو ضرار کے لوگوں میں سے اس سے پہلے ایک اپنی گن لے کر باہر سرمد کی مدد کو نکلتا اور سرمد کو بچاتا، شہیر نے سرمد کو دوسری سانس لینے کا موقع تک نہ دیا اور اسکی گردن بے دردی سے مڑور ڈالی، جبکہ گاڑی سے نکلتے آدمی نے ہوائی فائر کیے مگر شہیر اپنا کام مکمل کرتا تیزی سے وہاں سے بھاگ نکلا مگر گاڑی کے اندر بیٹھے اس دوسرے آدمی نے شہیر کی کامیابی کے سنگ وڈیو بنا لی، جبکہ دوسرا آدمی جب تک سڑک پر گرے پھڑپھڑاتے سرمد تک پہنچا وہ اپنی آخری سانس لے کر مر چکا تھا۔

اس آدمی نے سرمد کی نبض دیکھی جو رک چکی تھی، گردن کی رگ دبائی جو منجمد ہو چکی تھی جبکہ دوسرا آدمی کامیابی سے شہیر کا چہرہ اس وڈیو میں مقید ہونے پر ایک کامیابی پر دوسری ناکامی کو بھلاتا خود بھی پریشانی کے سنگ باہر آیا۔

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف خوفزدہ ہوئے دیکھا اور پھر ساتھ ہی ایک نے اپنا فون پتلون کی جیب سے نکالے اس پھیلتی شام میں میثم ضرار چوہدری کا نمبر ملایا۔

یہ سچائی اس مضبوط اعصاب والے پر قہر کی طرح ٹوٹی پر اس وقت جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت تھی۔

"لاش کو کل تک اپنے قبضے میں رکھنا کیونکہ اسکی تدفین یہیں علاقے میں ہوگی، میری اگلی کال پر سرمد کی لاش اور اس وڈیو سمیت تم لوگ علاقے پہنچ آنا۔ باقی کا معاملہ میں اپنے حساب سے ہینڈل کروں گا"

ضرار نے ان دونوں کو تاکید کی اور کال کاٹ گیا جبکہ خود وہ کہیں روانگی کے لیے چینج کرنے بڑھ گیا۔

جبکہ اسکے دونوں آدمی سرمد کی لاش کو گاڑی میں اٹھا کر لیٹاتے کچھ ہی لمحوں بعد گاڑی وہاں سے بھگا لے گئے جبکہ شہیر جو اپنی طرف سے بنا کوئی ثبوت چھوڑے انتقام لے آیا تھا، خود روانگی کے لیے بس سٹاپ جانے سے پہلے کسی اور سمت نکل پڑا۔

اپنی طرف سے وریشہ یوسف زئی سے شاید آخری ملاقات کرنے جو اپنی برتھ ڈے پارٹی اٹینڈ کرنے کے بعد کچھ ہی دیر میں واپس اپنے گھر ہی جانے والی تھی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ضرار کو کہیں جانے کی تیاری کرتا دیکھ کر ہاشم جو اسکے کمرے میں ہی سیدھا آیا، حیرت سے قریب چلا آیا۔

"اس طوفانی موسم میں تم کدھر جا رہے ہو؟"

ہاشم نے فکر مندی سے پوچھا جس پر لاڈلے صاحب نک سک تیار ہوتے، خود پر پرفیوم کا بے دریغ استعمال عمل میں لائے پلٹے اور سرد نگاہوں سے چمکے دمکے چچا صاحب کو لتاڑتی نظروں میں لیا۔

"اپنے نام کا طوفان برپا کرنے، مطلب آپکے پھیلائے رائیتے سمیٹنے جا رہا ہوں ہاشم صاحب کیونکہ آپ تو اب مالنی چچی کے ہو گئے، کنزا کا پتا لگوانا ہے اور دوسرا کل صنم آرہی ہیں سو انکے لیے دل دہلاتے استقبال کی تیاری کرنی ہے، آپ میرا کام کرنا کے مشارب آئے تو اسے کہیے گا کہ سردار شمیشر یوسف زئی کو میرا پیغام پہنچا دے کہ ضرار کل ایک پراسرار جرگہ بلوانا چاہتا ہے سو انتظام کر لیں، جرگے کو بلانے کی نوعیت میں خود شریک ہو کر بتاوں گا۔ ڈنکے کی چوٹ پر ایک اور انصاف کا وقت ہوا چاہتا ہے"

اپنی تیاری مکمل کرتا ، آسمانی سوٹ پر سیاہ کوٹ پہنتا، چادر کو بے ترتیب انداز سے لیتا وہ سہی چوہدریوں کی طرح شان بان چھلکاتا دیکھائی دے رہا تھا،آواز میں بھی تنتنا تھا جبکہ ہاشم اسکے ارادے جان کر کچھ تشویش میں مبتلا لگا۔

"وہ تو سب ٹھیک ہے پر اشنال کے لیے تم کچھ زیادہ بے درد ہو رہے ہو لاڈلے، یقین اور بے یقینی کی مار سخت ہے، وہ پہلے بھی پاگل ہوتی ہوتی بچی ہے ، کہیں ایسا نہ ہو یہ نفرت اس بار جو تم اپنی طرف سے سزا بنا کر اسکے دل میں ڈال رہے ہو، تمہارا ہی امتحان نہ بن جائے"

تمام معاملات سے یکسر بے نیازی برت کر جیسے ہاشم نے سنجیدگی کے سنگ اسکی توجہ اس نازک معاملے کی طرف بھی دلائی مگر وہ کسی کی اس میں کوئی مداخلت نہیں چاہتا تھا۔

"پہاڑوں پر میں جس اشنال سے ملا تھا ہاشم صاحب وہ نہ تو پاگل تھی نہ گناہ و ثواب میں الجھی شہیر سے جڑے جھوٹے تعلق کے اثر سے نڈھال سی اشنال عزیز، بلکہ وہ بالکل ٹھیک اور اپنے حواسوں میں موجود میری بیوی، میری اشنال تھیں۔ پھر بھی مجھے دھتکارتی رہیں کس لیے، صرف مجھے اذیت دینے کو، میں ہمارے ریسیپشن پر ہی عزیز خان کو سامنے لے آوں گا، صرف ایک دن کی یہ اذیت تو اس لڑکی کو سہنی ہی ہوگی ہر صورت"

خود ہاشم جو ایک دن بھی مالنی کو سزا نہ دے پایا تھا، ضرار کے لیے بھی فکر مند تھا مگر یہ بھی جانتا تھا کہ میثم ضرار چوہدری اس سے ہر درجے مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔

"ہمم، مجھے بس فکر ہے کہ وہ ایک دن تم دو کی زندگی کا ناسور نہ بن جائے"

ہاشم نے بنا ہچکچائے اپنے دل کا خدشہ کہا جس پر فکر کی پرچھائیوں نے میثم کے چہرے پر بھی لمحہ بھر تاریکی کی مگر اسے ابھی جانا تھا تبھی وہ مزید بات نہ کر سکا اور اجازت لیتا نکل گیا۔

جبکہ آدھے گھنٹے تک مشارب زمان کی گاڑی بزدار حویلی میں اپنی پوری شان سے داخل ہوئی تھی۔

سردار مشارب زمان کی آمد کا سنتے ہی عزیز خان، بزدار عالم کے کمرے میں چلے گئے جبکہ عالم بزدار نے فضیلہ بیٹی کے سنگ اسکا استقبال کیا اور مشارب کو گلے لگا کر ملے۔

وہ ان دونوں کے ساتھ اندر آیا تو اسکی آنکھیں صرف زونیں کو ڈھونڈ رہی تھیں، جبکہ بزدار عالم نے جب فضیلہ کو کمرے میں زونی کو کہلوانے بھیجا تو وہ رو رو کر ضد کرتی مالنی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے سسک رہی تھی۔

"کیا ہو گیا میرے بچے کو؟ کیا ہوا ہے اسے مالنی ؟"

دل تو فضیلہ اماں کا بھی دہل اٹھا جب وہ اندر داخل ہوئیں اور زونی اٹھ کر ان سے جا لپٹی۔

"کہہ رہی ہیں اس حویلی مر کر بھی اب نہیں جائیں گی"

مالنی بھی اٹھ کر قریب آتی افسردگی سے بولی جس پر فضیلہ اماں نے ہچکیوں کی زد میں کانپتے وجود والی زونی کو خود سے الگ کیا اور اسکا بھیگا چہرہ ہاتھوں میں بھرے پیشانی چومی۔

"ناں میرے بچے، سردار مشارب خود تمہیں لینے آیا ہے۔ ایسے نہ کرو ، وہ بھی تمہاری غیر موجودگی سے بہت ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے اپنے بابا سائیں کو بھی کھو دیا ہے، ایسے بھی تم اسکے ساتھ یہ کرو گی تو وہ کمزور پڑ جائے گا"

بھیگے لہجے میں اس ماں نے زونی کی تکلیف کم کرنی چاہی پر وہ اس بار واقعی اس خونخوار حویلی جانا نہیں چاہتی تھی اور مشارب کے ذکر پر تو اسکی رہی سہی مدھم پڑتی سانسیں بھی اٹکنے لگیں۔

"ا۔۔اماں ہم ن۔۔نہیں جانا چاہتے، وہ سب ل۔۔لوگ بہت برے ہیں۔۔ہم نہیں جانا چاہتے ، ہم بتا رہے ہیں ہم مر جائیں گے۔۔۔ ہم مشارب کے سامنے بھی ن۔۔نہیں جا پائیں گے ہم پر رحم کھائیں۔۔۔ہم کہیں نہیں جائیں گے"

وہ تو یوں تھی جیسے کوئی اسکی نبض سے زندگی کھینچ رہا ہو تبھی تو مالنی اور فضیلہ اماں دونوں کی آنکھیں سرخ ہو گئیں جبکہ دادا سائیں کے ساتھ اکیلے مشارب کو بیٹھائے جب ہاشم خود روم میں آیا تو زونی کو تڑپتا ہوا دیکھ کر اسکا دل بھی بوجھل و سوگوار سا ہو گیا۔

زونین! بچوں کی طرح کیوں رو رہی ہو۔ جائیں آپ، میں باہر لاتا ہوں اسے"

ہاشم کو اندر آتا دیکھ کر وہ زرا رونے کی تکلیف بھلائے دقت سے سنبھلی پر پھر جیسے مالنی اور فضیلہ اماں پر نرم سی نگاہ ڈالتا وہ انکو باہر بھیجوائے خود رو رو کر آدھی ہو جاتی لاڈلی تک پہنچا جو مسلسل کپکپاتی ہوئی اپنی ہتھیلوں کی پشت سے آنسو رگڑ رہی تھی۔

"ہ۔۔ہمیں مت بھیجیں ان کے ساتھ، پلیز"

اسے لگا جیسے اور کوئی اسکی تکلیف سمجھے نہ سمجھے، ہاشم بزدار ضرور سمجھیں گے تبھی تو وہ اسے آہستگی سے خود سے لگاتا خود بھی اس بچی کی سسکیوں اور اختجاج پر تکلیف سے بھر گیا جو اپنی سگی ماں کے باعث اس درجہ ٹوٹی بکھری ہوئی تھی۔

"جو بھی گلہ شکوہ یا پریشانی ہے وہ تم مشارب سے جب تک ڈسکس نہیں کرو گی، یونہی اذیت میں رہو گی۔ مالنی نے بتایا مجھے ان تصویروں کا لیکن یہ معاملہ تمہیں سب سے پہلے اس انسان سے کہنا چاہیے تاکہ ایک طرف کا سچ جاننے کے بجائے تمہیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھائی دے۔ میں تمہارے سامنے تمہاری ماں کی برائی نہیں کرنا چاہتا زونین لیکن وہ عورت قابل اعتبار نہیں ہے۔ آجاو شاباش، وہ تین ماہ سے بہت اذیت میں مبتلا ہے"

ہاشم اس وقت جو بھی کہہ لیتا، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن وہ پھر بھی اسکے ساتھ اسکا مان نا توڑتی ہوئی باہر گئی اور ان بے تاب دھڑکنوں کو راحت ملی، صحیح سلامت زونی کو دیکھ کر یوں سکون ملا جیسے ایک لمحہ پہلے اس سے سارا چین لوٹ لیا گیا تھا۔

وہ اپنی جگہ سے بے اختیار اٹھا اور تڑپتی ہوئی نظر رو رو کر آنکھیں سرخ کر لیتی زونی پر ڈالی جو اسے دیکھنے کی کوشش تک نہ کر رہی تھی، ضرار تو چلا گیا تھا مگر اماں فضیلہ نے مشارب اور زونی کو بنا کھانا کھائے جانے نہ دیا، سارا وقت مشارب اسکی طرف ہی دیکھتا رہا جو بہت تکلیف میں ڈوبی دقت سے اپنے آنسووں پر بندھ باندھے بیٹھی تھی۔

ہاشم نے ضرار کا پیغام مشارب کو دیا تو وہ بھی اس پراسرار سے جرگے کی بات سن کر حیرت کا شکار نظر آیا، ہاشم کے زندہ ہونے کی خبر تین ماہ پہلے ہی ضرار نے مشارب کو دے دی تھی جس وقت کنزا کے بارے دونوں کے بیچ معاہدہ ہوا تھا۔

ہاشم بزدار، اماں فضیلہ، مالنی اور بزدار عالم چاروں نے اسے جھولی بھر کر دعائیں دے کر اس بھیگتے موسم کی رات کا دامن تھامتی شام میں ہی مشارب کے ساتھ رخصت کر دیا مگر وہ اسکے ساتھ بیٹھی بھی اجنبیت عیاں کیے جیسے ان دو کے بیچ کوئی تعلق ہی نہ ہو،

اپنا منہ پھیر کر وہ آدھے سے زیادہ سفر تو باہر دیکھتی رہی، جبکہ مشارب اندر ہی اندر اس لڑکی کے رویے سے گھٹ رہا تھا۔

گویا اس لڑکی کی خفا آنکھیں سارے سکون کو غارت کر دینے کو کافی تھیں۔

"دیکھ بھی نہیں رہیں مجھے، اتنی ناراض ہیں کیا؟"

جب اس شخص کا صبر اخیر حدوں کو چھوئے جواب دے گیا تو ڈرائیونگ روک کر وہ گاڑی ،کچی سڑک کنارے روکتا، تیز ہوتی بارش سے بے نیاز، ہاتھ بڑھا کر زونی کا سرد پڑتا ہاتھ اپنے دہکتے ہاتھ میں جکڑے اسے جھٹکے کے سنگ اپنی طرف موڑے بولا جس نے اس قربت کا ہرسکھ فراموش کیے بے دردی سے دوسرے ہاتھ کے سنگ اپنے آنسو رگڑے، مشارب کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔

وہ اس لمس کی حرارت سے اپنا جسم و جان آتش کے دہانے پر محسوس کر رہی تھی۔

"بات تو کریں یار، کیوں مزید تکلیف بڑھا رہی ہیں۔ میں نے آپکو کتنا مس کیا ہے، کیوں مجھے مارنا چاہتی ہیں"

وہ ہر ممکنہ لہجے کو نرم رکھے بھی زونین کی بے اعتنائی پر برہم ہوا جبکہ اس لڑکی کا گریز کتنا جان لیوا تھا یہ مشارب زمان کے شکستہ لہجے سے عیاں ہو رہا تھا۔

"پلیز ہم سے بات ک۔۔کرنے کی ابھی کوئی کوشش مت کریں، اور دور رہیں ہم سے۔۔۔۔"

وہ اسکا ہاتھ پھر سے پکڑنے کی کوشش میں نزدیک ہوا تو وہ پرے سرک کر اسے بھیگی پلکوں کے سنگ شکوہ کناں آنکھوں سے دیکھنے لگی۔

سخت لہجے میں خود کو اسکے حصار سے چھڑواتی واپس رخ موڑ گئی اور مشارب کا دل جو اسے پہلے ہی انہونی کے خدشوں سے ڈرائے ہوئے تھا ، مزید کانپ کر رہ گیا۔

وہ بے بس تھی کہ دل پر اس وقت گراں بوجھ دھرا تھا جس نے ذہن، دل اور وجود تینوں کو زنجیر کیا تھا۔

"تو کنزا اپنی گھٹیا چال میں کامیاب ہو گئی، چھوڑوں گا نہیں تمہیں منحوس عورت۔ تم نے زونی کے دل کو بھی اپنی سیاہی سے بھر دیا۔ اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔۔۔واجب الموت ہو تم، زونی کو تو اپنی بے گناہی پر قائل کر لوں گا مگر تمہارا مزید اس دنیا پر ایک بھی دن ہم سبکی بربادی کے مترادف ہے"

چونکہ وہ بلکل ٹھیک نہیں تھی تبھی مزید کوئی بات کیے وہ من ہی من میں انتقامی ہو کر سوچتا گاڑی واپس اسٹارٹ کر گیا جبکہ زونی نے اسکی تکلیف اور برہمی کی جان بوجھ کر کوئی پرواہ نہ کی۔۔

خانم حویلی تک پہنچتے پہنچتے عشاء ہو چکی تھی اور پھر وہ گل خزیں خانم اور خدیخہ خانم تو پہلے ہی پلیکں راہ میں بچھائے ان دو کی منتظر تھیں، زونی کو گاڑی سے خود گل خزیں نے باہر نکالا اور خود سے لپٹائے اندر لیے بڑھیں جبکہ مشارب وہیں رکا اور اپنے آدمیوں کی جانب بڑھا۔

"کنزا جہاں بھی نظر آئی اسے اسی وقت مار دینا، فورا روانہ ہو جاو۔ اب اس عورت کو ایک بھی مزید سانس لینے کی اجازت نہیں دوں گا۔۔۔"

اپنے آدمیوں کو سپاٹ انداز میں یہ ظالمانہ حکم صادر کرتا وہ انکے روانہ ہوتے ہی واپس اندر آیا تو نئی قیامت نے سردار مشارب زمان خان کو اذیت سے دوچار کیا۔

وہ ماں جو زمان خان کی موت سے اب تک اک حرف نہ بولی تھی، جب اس نے زونی کو واپس اس حویلی میں آتے دیکھا تو حلق کے بل دھاڑ دھاڑ کر چلانے لگیں، جھپٹ کر زونی تک کا وہ گلا دبا دیتیں اگر بروقت مشارب زمان بیچ میں پڑ کر زونین کو اپنی ماں کے چنگل سے نہ چھڑواتا۔

غیض و غضب نے اس عورت کے اندر اتنی طاقت بھر دی تھی کہ مشارب تک انکی طاقت سے حیران اور رویے سے اذیت میں تھا، وہ لڑکی پہلے ہی اس حویلی اور یہاں سے مکینوں سے بدگمان تھی اور رہی سہی کسر فرخانہ خانم نے پوری کر دی۔

"کیا ہو گیا ہے آپکو؟ پہلے بابا نے مجھے اذیت دی اور رہی سہی کسر آپ پوری کرنے پر تلی ہیں؟۔۔ یہ لڑکی میری زندگی ہے، کیوں آپ سفاک بن کر مجھ سے میری جان لینا چاہتی ہیں؟"

جب کافی دیر تک فرخانہ خانم نے پھینکارتے ہوئے دھاڑیں ماریں اور زونی بھی رو رو کر کانپ اٹھی تو وہ بھی اس تماشے سے ناک تک عاجز آتا سخت آواز کے سنگ دھاڑا کہ ایک لمحہ سبکی بلند ہوتی سسکیاں گھٹ کر رہ گئیں۔

"اس کی وجہ سے وہ بے موت مرے ہیں، اس لڑکی کی وجہ سے ہم برباد ہو گئے۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی، میں ا۔۔اسکی جان نکال دوں گی۔۔۔اسکی ماں پہلے میرا شوہر نگل گئی اب ی۔یہ ناگن تمہیں نگلنے آگئی ہے۔۔۔۔مار دوں گی میں اس بدبخت منحوس کو"

فرخانہ خانم کی یہ سب زہر میں بجھی کسیلی باتیں اور نشتر کسی اور پر قیامت ڈھا کر گئی ہوں یا نہیں، پہلے سے ٹوٹی ہوئی زونین سے اس گھر میں آنے اور رہنے کی رہی سہی ہمت بھی نوچ گئیں، فرخانہ کسی جن زادی کی طرح لپک لپک کر خونخوار ہوتیں بار بار زونین کو کاٹ کھانے کو بڑھ رہی تھیں اور وہ خوف زدہ ہوتی مشارب کے سینے میں چھپی تھی جسے یہ حالات سچ میں مارنے پر تل چکے تھے۔

خود گل خزیں خانم نے قدوسیہ اور خدیخہ کو اشارہ کیا تاکہ وہ اس سدھ بدھ بھلا چکی باولی عورت کو اندر لے جائیں مگر وہ خود کو ہاتھ لگانے والوں کو بھی کاٹ کھا رہی تھیں۔

"اس سب اذیت کے لیے لائے تھے آپ ہمیں، ہماری جان چھوڑ دیں مشارب۔ ہم آپکے ساتھ رہے تو سانس گھٹ جائے گی"

وہ بھی جیسے خود کو میسر آتی من پسند گرفت، بے دردی سے جھٹکتی ہوئی مشارب کو خود سے دور دھکیلتی گل خزیں کی جانب بڑھی جو خود دم دیتی اذیت سے گزرتیں ان دونوں بچوں کے دکھ پر سوگوار سی زونی کو خود میں سمو گئیں اور مشارب ایسے الفاظ پر بس اس بے رحم لڑکی کو تاسف سے دیکھ ہی پایا جو اسکا ساتھ تو دور اسکی دل جوئی کرنے سے بھی انکاری تھی۔

"سبکو اپنی پڑی ہے، لیکن مجھے اس اذیت میں بھی آپکا خیال ہے زونین۔ اتنی سنگدل مت بنیں"

دماغ اسکا بھی پھٹنے کے قریب تھا تبھی کہہ کر وہ دلبرداشتہ سے وہاں سے چلا گیا البتہ وہ روتی ہوئی نانو کے سینے میں ہی سمٹی رہی تو گل خزیں اسے بھی ساتھ لگائے اسکے اور مشارب کے کمرے تک لائیں۔

نواسی کے آنسو دیکھنا مشکل تھا پر وہ اس بچی کی تکلیف سمجھ رہی تھیں تبھی رونے سے نہ روکا، خدیخہ کو اسکے لیے کھانا لانے کا کہا مگر زونی نے بے دلی سے نانو کی بات رد کر دی۔

وہ بس نانو کے پاس ہی بیٹھی رہی اور کب روتے ، آہ و زاری کرتے نانو کی گود میں سر رکھے آنکھیں موندے ہوئے اسکی آنکھ لگی کے اسے خبر نہ ہوئی البتہ گل خزیں یہی چاہتی تھیں کہ وہ کچھ دیر آرام کرے تبھی اپنے گھٹنے کو زونی کے سر سے نکالے ، سر تلے احتیاط سے نرم تکیہ رکھتیں وہ کمرے کی مین لائیٹ آف کرتیں خود باہر آئیں تو خدیخہ سے علم ہوا کہ اس قدر ٹھنڈ میں مشارب باہر لان میں بیٹھا ہے، وہ کچھ دیر پہلے ہی سردار شمیشر یوسف زئی کو ضرار کا پیغام دے کر آیا تھا جس پر وہ بھی مشارب کی طرح ہی متجسس تھے، جبکہ سکون، بھوک پیاس تو غارت تھا تبھی گھٹن سی محسوس کرتا وہ وہیں قہر ڈھاتی بھیگی سرد رات میں باہر ہی کرسی سنبھالے بیٹھ گیا۔۔

"کھانا نہیں کھایا اس نے؟"

گل خزیں نے پریشانی کے سنگ خدیخہ سے استفسار کیا جس پر خدیخہ خانم جو ملازمہ سے کچن سمیٹوا رہی تھیں پلٹ کر افسردگی کے سنگ ناں میں سر ہلا گئیں۔

"میں دیکھتی ہوں، میرا بچہ تو ہر طرف سے پس کر رہ گیا ہے۔ خدیخہ! فرخانہ کو دیکھتی رہنا بچے، اس نمانی کا بھی کوئی قصور نہیں۔جو قیامتیں اس حویلی پر ٹوٹی ہیں وہ یہاں کے مکینوں کو پاگل کر سکنے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہیں"

گل خزیں کے لہجے میں اذیت تھی اور خود خدیخہ بہت افسردہ سی لگیں ، گل خزیں جب تک باہر آئیں، ٹھنڈ کی شدید لہر نے انکے وجود کو سن کر دیا تبھی تو آرام سے کرسی پر بیٹھے مشارب کو دیکھ کر وہ زیادہ پریشانی کے سنگ اپنے وجود کے گرد گرم چادر لپیٹتیں اس کی سمت بڑھیں جو آہٹ پر اپنی درد کرتی سوچوں سے باہر نکلا۔

"ہمت کرنی ہوگی، مجھے پتا ہے یہ مشکل وقت ہے بچے۔ لیکن خود کو اگر تم اپنی ماں کی جگہ رکھ کر دیکھو گے تو اسکا یہ پاگل پن تمہیں بے جا نہیں لگے گا، پھر زونین! اسے تو زخم دینے والی ہی اسکی ماں ہے، وہ کہاں سے ہمت اور صبر لا سکتی ہے۔ تم ہی اسے سنبھال سکتے ہو"

وہ جانتی تھیں اس وقت انکا کوئی لفظ مشارب زمان کی تکلیف میں کمی نہیں کر سکتا مگر وہ اپنا ٹوٹا پھوٹا سہارا اور کمزور سا ساتھ بہم پہنچاتیں اس سے بجھے بجھے لہجے میں ہمکلام ہوئیں جسکی آنکھیں جہنم کی طرح سلگ رہی تھیں۔

"سنبھالوں گا تو تب اماں سائیں جب وہ مجھے یہ اختیار دیں گی، وہ تو پہلے ہی یہاں آنے سے انکاری تھیں، رہی سہی کسر والدہ کے پہنچائے ذہنی ٹارچر سے پوری ہوگئی۔ مجھے بتائیں آخر مجھے میرے گناہوں کی ایک بار ہی سزا وہ رب کیوں نہیں دے دیتا، مجھے قطرہ قطرہ زندگی اور پھر موت دے کر اس بری طرح کیوں آزمایا جا رہا ہے؟"

اس بکھرے شخص کی آواز مضبوط ہو کر بھی کرچیوں میں بٹی تھی تبھی تو گل خزیں خانم کا دل چیڑ گئی، انھیں اپنے اردگرد پھیلی قہر ناک ٹھنڈ محسوس ہونی ختم ہو گئی تھی، تکلیف کی گرمائش سانس روکنے لگی تھی۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا، خود کو پریشان نہیں کرو بچے۔ اس بچی نے جو زندگی جی ہے وہ اسے اس درخت کی طرح بنا چکی ہے جسکی شاخیں اور پھیلاو تو بے پناہ ہے پر جڑ ایک نومولود پودے جتنی کمزور ہے، پھر تم ہی بتاو کے ایسی کمزور جڑ، کیسے اتنے بڑے طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟"

مشارب کی تکلیف کے باعث اس عورت کی آنکھوں میں دکھ اور تاسف کا پہاڑ جم گیا تھا تبھی تو انکے اس سوال پر وہ ایک لفظ نہ بولا بس اس سے زونین اتنی کمزور ہے، یہ سنا نہ گیا اور وہ اپنے دل، دماغ اور وجود کی تابناکی چھپاتا اٹھا اور بنا کہے اندر بڑھ گیا جبکہ گل خزیں خانم تاریک آبر آلود سے آسمان کو حسرت سے تکتی رہ گئیں۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سالی اتنا ٹارچر سہا پھر بھی سارا زہر قائم ہے، کاش میرا بس چلتا کنزا تو میں تمہارا یہ آکسیجن ماسک اتار دیتی اور بھاگ جاتی"

کافی دیر سے وہ ہوسپٹل کے وارڈ میں کنزا کے پاس بیٹھی اسکے جاگنے کی منتظر تھی کیونکہ نرس اسے کچھ دیر پہلے سکون کا انجکشن دے کر گئی تھی، ابھی بھی اس عورت کے چہرے پر زہر درج تھا جو ونیزے کو صاف صاف دیکھائی دے رہا تھا۔

جب کنزا کو یہ خبر ملی تھی کہ زونی اور مالنی دونوں کو ضرار لے گیا تو بہت چینخی چلائی، ونیزے تک کا گلا دبانا چاہا مگر پھر نرس نے اسے انجکشن دے کر بیہوش کر دیا تھا ، تب سے ونیزے بیٹھی تھی تاکہ اسکے جاگنے پر اسے تحمل سے سمجھا سکے مگر اسکا دل برا ہو رہا تھا۔

"سنیں! آپ پلیز کل آجائیے گا کیونکہ یہاں مریض کے ساتھ رکنے کی اجازت نہیں۔ ویسے بھی یہ صبح تک ہی جاگیں گی"

نرس کے آکر سمجھانے پر ونیزے بھی جیسے جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی۔

"میری طرف سے ابدی نیند سو جائے، چل ونیزے نکل اس نحوست کے سائے سے"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہوئی وہ ہوسپٹل سے باہر نکلی تو اچھی بھلی رات ہو چکی تھی اور پھر ابھی وہ گھر جانے کا ہی سوچ رہی تھی پر اسکے فون پر ولی زمان کی آتی کال نے اسکے دماغ کو الرٹ کیا۔

"جی انسپیکٹر؟"

وہ فوری کال ریسو کرتی دوبدو بولی تھی مگر دوسری طرف وہ شاید گرم توے پر بیٹھا تھا۔

"فورا تھانے پہنچو ونیزے حسن، دس منٹ کے اندر اندر"

تاکید نہیں بلکہ سختی سے حکم دیتا وہ اسکی کوئی بات سنے بنا منہ پر کال کاٹ گیا جبکہ ونیزے نے ہونق بنے کٹی کال کی طرف دیکھا اور باقاعدہ کوئی ٹیکسی پکڑنے کو دوڑی، دس منٹ تو نہیں البتہ پندرہ منٹ میں وہ ولی زمان خان کے تھانے میں موجود تھی ، وہ سیدھی اسکے کیبن ہی کی طرف آئی جو کمرے میں اشتعال کے سنگ چکر کاٹنے میں محو تھا، ونیزے کو سہم کر اندر آتا دیکھ کر رکا اور خشمگیں نظروں سے اس لڑکی کو سر تا پیر گھورا۔

"یہاں آو"

ولی نے چھبتی نظر ڈالے اسے سختی سے نزدیک بلایا جو واقعی اب ولی کی سرد مہری سے خوفزدہ سی آہستہ آہستہ چلتی دم سادھے اسکے قریب جا رکی۔

"دیکھیں پلیز آپکی آنکھیں پہلے ہی بڑی ہیں، جب آپ گما گما کر اور بڑی کرتے ہیں تو جان نکل جاتی ہے سامنے والے کی۔ ہوا کیا ہے آپکو جو ایسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہیں؟"

وہ اسکے سرد تاثر کے آگے خاموشی اختیار نہ کر سکی تبھی وہ مزید غضبناک ہوتا اسے دونوں بازووں سے پکڑ کر دیوار سے لگا گیا۔

"مجھے دھوکہ دینے کی ہمت بھی کیسے کی تم نے ونیزے حسن، وہ دونوں لڑکیاں تمہارے پاس کیا کر رہی تھیں؟ کنزا سے کیا تعلق ہے تمہارا جو وہ ان دو کو ساری دنیا سے چھپائے تمہارے پاس رکھوا کر گئی،"

ضرار نے اسے زونی اور مالنی کے علاوہ یہ بھی خبر پہنچا دی تھی اور اس کو سننے کے بعد والی کے اندر گویا آگ دہک گئی، رحم کھا کر جس لڑکی کے دامن میں اس نے اپنی توجہ ڈالی تھی، وہ اسے اس بری طرح دھوکہ دے گی یہ اس نے کبھی نہ سوچا تھا جبکہ ان دو لڑکیوں سے ولی کا کیا کنکشن ہے ، ونیزے کا سوچ کر ہی دماغ گھوم گیا۔

"میں آپکو کیوں دھوکہ دوں گی، کنزا سے پرانی جان پہچان تھی اور اس نے مجھے کہا کے اسکی بیٹیوں کی جان کو خطرہ ہے سو بس میں نے م۔۔مدد کی۔ دھوکہ کہاں ہے؟"

دھوکے پر جیسے وہ لڑکی تڑپ اٹھی، ہلکلاتے ہوئے بمشکل ہونٹوں سے لفظ ادا کیے جبکہ ولی کے ہاتھ جس طرح اسکی دونوں بازو میں گڑھے تھے، درد پر اسکی آنکھیں بھی چھلک گئیں اور یہ سن کر ولی نے اسے فورا آزاد کیا۔

"تم نے مجھ سے باقی ہر بات کی چپڑ چپڑ کر کے، یہ ذکر کیوں نہیں کیا کے تمہاری خفاظت میں دو لڑکیاں ہیں"

وہ نرم پڑا پر یہ وقتی تھا، اس نئے سوال پر ولی زمان کے چہرے کے تاثرات پھر سے پتھریلے ہوئے۔

"ک۔کیونکہ یہ سیکرٹ تھا"

وہ آنسو روکے بمشکل بولی جبکہ اسکے آنسو تھے کہ تیزی سے بہنے لگے۔

"تمہارے سب سیکرٹ اب سے مجھے علم ہونے چاہیں ونیزے حسن، اور کونسا سیکرٹ ہے جو چھپائے بیٹھی ہو؟"

وہ بے رحم بنا تھا ، اپنی کاٹ دار نگاہیں اس نے ونیزے کے چہرے پر ڈالے خونخوار لہجہ اپنایا تھا۔

"اور۔۔۔اور کوئی بھی نہیں"

وہ فورا منمناتی ہوئی مکری تھی جبکہ وہ اسکے اس بے باکی سے جھوٹ بولنے پر جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔

"مطلب اتنے دن بعد بھی سچ بولنے کی ہمت نہیں آئی تم میں؟ "

وہ اسے جتاتے الفاظ کہہ کر کمزور کرتا لاپرواہی کا لبادہ اوڑھے کرسی سنبھالے بیٹھا جبکہ وہ بھی آنسو رگڑتی برف کی طرح کے قدم بحال کرتی کرسی تک چل کر آئی۔

"مجھے آپکو مارے بنا نہیں مرنا، یہ ہے سیکرٹ"

بے یقینی کی کیفیت میں وہ اس لڑکی کے الفاظ سن کر پہلے تو صدمے میں گرا پھر جیسے زہریلا سا مسکرا دیا۔

وہ یوں تھا جیسے اسکی جوتی کو بھی موت کی پرواہ نہ ہو ، وہ کیسا شخص تھا جسے موت سے ڈر نہیں لگتا تھا، ونیزے جھنجھلائی۔

" چلی جاو یہاں سے ونیزے حسن، تم تو بہت نااہل شکاری نکلی۔ شکار کو بتا رہی ہو کہ اسکا شکار کرو گی،چلو سمجھو تم نے مجھے بتایا ہی نہیں۔ مجھے انتظار رہے گا تمہاری احسان فراموشی کا"

غصے کے سنگ اونچی ہوتی خفا آواز میں وہ جو بولا اس پر ونیزے کچھ دیر تو وہیں دھندلی آنکھوں سے اس شخص کا پھیرا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر آنکھوں میں کرچیاں سمیٹ کر نہ صرف پلٹی بلکے دیکھتے ہی دیکھتے اسکے کیبن سے نکل گئی، دکھ ہوا تھا اسے، ونیزے حسن کے سب کہہ دینے کی ہمت کے باوجود وہ وہ سیکرٹ نہ بتانے پر جو ولی سننا چاہتا تھا۔

بہت دکھ۔۔۔۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ کافی دیر باہر لاونچ میں بے مقصد بیٹھنے کے بعد جب کمرے میں آیا تو وہاں زونی کی غیر متوقع موجودگی نے جیسے مشارب زمان کی آنکھیں پھر سے سرخائی سے بھریں۔

وہ بے سدھ سی ہوش سے بیگانی نیند میں تھی یا اس پر تکلیف سے نجات کو بیہوشی طاری کی گئی تھی، وہ سمجھ نہ سکا کیونکہ اسکے نزدیک آنے، قریب ہی بیٹھنے اور اسکا بے جان ہاتھ تھام کر ہتھیلی کے سنگ سینے سے لگا لینے کے باوجود وہ لڑکی اسکے بظاہر ناپسند لمس سے بے قرار نہ ہوئی تھی۔

"آپ مجھے یوں بے بس نہیں کر سکتیں زونین، پلیز مجھے اذیت سے مت گزاریں۔ مجھ سے بات کریں، ترس گیا ہوں آپکی آواز سننے کے لیے"

بیٹھے قرار نہ تھا تبھی وہ اسکے ساتھ ہی اسکی جانب کروٹ کیے لیٹا، زونین کے سر کے نیچے سے آہستگی سے اپنی بازو گزار کر اسے اپنے وجود میں بسا کر اسکی سانسوں کی حدت اپنے سینے تک اترتی محسوس کی تھی ، وہ بھی جیسے جان گئی تھی کہ مشارب نے اسے خود میں مبتلا کیے بے بس کر دیا ہے۔

"آپ مجھ سے بدگمان ہونے پر برحق ہیں کہ میں تو اپنے ہاتھوں سے سرزد ہوئے پچھلے گناہوں کا ابھی تک خمیازہ بھگت رہا ہوں، شاید آپکی بدگمانی بھی میرے لیے کوئی سزا ہو مگر پاس رہیں، دور مت ہوں۔ آپ دور ہوتی ہیں تو اندر سے مر جاتا ہوں میری جان"

وہ اسے بانہوں میں بھرے، گھمبیر سرگوشیاں کرتا خود میں شدت سے سمو رہا تھا جو احساسات اس بری طرح سے جھنجھوڑے جانے پر بے جان ہو جانے کے باوجود اسکی دسترس سے نکلنے کو بند آنکھوں سے ہی سسکتی ہوئی مزاحمت کرنے لگی مگر اسکی مزاحمت بے درد بن کر مشارب نے اپنے وجود میں اتار لی۔

"نہیں لیڈی، آج دور جانے نہیں دوں گا۔ آج جتنی بھی مزاحمت کر لیں، بیکار ہے"

وہ اس جان لیوا قربت میں جسم سا ٹوٹنے پر زیادہ برا روتی اس سے دور ہونے کو مچل رہی تھی مگر وہ ہر نرمی برقرار رکھے ہوئے بھی جنون خیزیوں کی انتہا کرنے پر مجبور تھا، وہ سسکیاں اسے نامنظور تھیں تبھی اس شخص نے انھیں بڑی شان سے گھوٹا تھا، اپنی سانسوں کا ٹوٹتا سلسلہ اسکی آدھی رکی سانسوں سے ملائے پورا کیا اور وہ آنکھیں سختی سے میچے گہرے گہرے سانس بھرتی خود کو خوابناک کے سے اثر میں بے اختیار چھوڑتی رہی اور سردار مشارب زمان خان کی جذبوں سے چور نگاہیں اسکے انگ انگ سے الجھتی گئیں۔

وہ مسلسل اس سے نجات کو پھڑپھڑاتی ہوئی اسکے وجود میں شدت سے سمٹتی تو وہ شخص اسے خود میں دگنی شدت سے مبتلا کر دیتا۔

"پ۔۔پلیز ہم ناراض ہیں۔۔د۔۔دور رہیں"

جب وہ اسکے کپکپاتے ہونٹوں کی کہانیاں سنتا گہرائی میں اترا تو جیسے ساری بے خبری ان قربت کی شر انگیزیوں پر دور ہوئی اور وہ متزلزل سانسوں کو ہموار کرتی اپنی سرخ ڈوروں سے بھری آنکھیں اس پر کھولتی اسے خود سے پرے کرنے لگی مگر وہ اسکا سر اپنے سینے پر رکھتے ،اسکے لبوں پر انگلی رکھ گیا، جس پر زونین اس قید میں بے بس ہوتی پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔

"آپکی ناراضگی سر آنکھوں پر مگر دور جانے کی کوئی اجازت نہیں لیڈی، آج تو بلکل نہیں"

وہ اسکی قربت سے مہکا اپنا وجود سمیٹتے ہوئے لاکھ فرار کرتی مچلی تھی پر وہ ایک پل میں اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں جکڑ گیا، گویا آج دوسری کوئی راہ نہ تھی۔

"ہمارا دل زخمی ہ۔۔ہے، "

وہ پھر سے سسکی تھی جبکہ اس خمار آلود حصار میں ڈوبی چار دیواری جنون اور شدت میں ڈھلی تیز دھڑکنوں کو وہاں کی خاموشی نے کان لگا کر ، دم سادھ کر سنا۔

"آپکے ہر زخم کا مرہم میں ہوں میری جان، خاموش رہیں اور صرف میرے دل کی آواز سنیں۔ آپکا ہر شکوہ، ہر بدگمانی، ہر تکلیف سنبھل جاوں پھر سنوں گا، ابھی مجھے زونین چاہیں کے میرے پاس میرے بچاو کا واحد حل آپکا کچھ دیر بنا منقطع کیا ساتھ ہے"

اسکے تڑپتے وجود کو اپنی گرم بانہوں کا حصار دیتے ہوئے وہ ضدی ، بکھرے، گھمبیر لہجے میں بولتے اسے  بستر پر آہستگی سے اس کے سر کو پیچھے کی جانب سے احتیاط کے سنگ پکڑے لٹائے، خود اس پر جھکا تھا۔

جبکہ بے بس ہوتی زونین نے سختی سے آنکھیں میچیں تھیں ،ان بے وقت، جان لیوا شدتوں کے سامنے اپنا ریت ہوتا وجود دیکھنے کی اس میں کہاں سکت تھی۔

"آپ نے ہم سے ب۔۔بے وفائی کی، کی ہے ناں؟"

وہ اسکی شدتوں پر کانپ اٹھتی سسکنے لگی، اسے گریبان سے پرے کرتی خود سے دور کرنے لگی جبکہ وہ مان گیا کے بے وفائی کی ہے، بے وفائی ہی تو تھی کہ اسکی سانس اس چال باز عورت کے در پر جا رکی، بے وفائی تو کمزور پڑتی سانسوں نے کی تھی پر وہ کیسے سزا دیتا کہ مر بھی نہیں سکتا تھا۔

"کی ہوگی، بے دھیانی میں۔۔۔ دھیان میں تو صرف آپ سے وفا کر رہا ہوں لیڈی۔ آپکے بنا مر جاوں گا زونین، دور مت جائیں، دور ہونے کی کوشش مت کریں"

وہ بار بار اسے خود میں بسائے اسکی تکلیف بڑھا رہا تھا اور سمجھ ہی نہ پایا کے بے خودی اسکی زبان سے کیسا قہر ادا کروا گئی ہے، زونین کی سانس گھٹنے لگی تھی۔

"ہم خود کو بھی بے وجہ سزا دیں گے، ہم اسکی خود کو بہت کڑی سزا دیں گے۔ ہ۔ہم بے وفائی نہیں بخشیں گ۔گے آپکو"

لفظ اسکے ہونٹوں سے بکھرتے جا رہے تھے اور وہ اس پر چھایا جا بجا اپنے پر سحر لمس بکھیرتا ان سسکیوں کا گلا گھونٹ کر اسی میں گم ہو چکا تھا۔

"بے وفائی بخشی جاتی بھی نہیں، شش! مجھے مجبور مت کریں میری جان کے آپکو ان سنگین الزامات پر جان لیوا سزا سنا دوں، ایک آنسو بھی نہیں، بس۔۔۔ بے دھیانی میں بے وفائی کرنے والے مشارب زمان کی دھیان میں رہ کر وفا کرنے کی شدت محسوس کریں، بس۔۔۔ 

وہ اسکے ہر لفظ کو اسکے اندر ہی دفن کرتا اس کے دل پر بھی حاوی ہوا، تو اس پر اس لڑکی نے بھی ہچکی سی بھرے باقی سب آنسو اپنے اندر ہی گاڑ دیے کیونکہ فیصلہ تو وہ کر چکی تھی، اس شخص نے تو اسے اور بدگمان کر دیا تھا جو خود نہیں جانتا تھا کہ کیا کہہ بیٹھا ہے، اور کس کو کہہ بیٹھا ہے۔

وہ چاہتا تھا گناہ و ثواب کی تکرار، اور بدگمانی کے بہتان لگانے والے میزان سجنے سے پہلے اس لڑکی کی روح میں گھر کرتی اداسی کم کرے ورنہ وہ مر جاتی، اور سردار مشارب زمان خان کیسے اسے مرنے دیتا جسکی خوشبو کا نشہ ان نے نبض کی زندگی بنا لیا تھا۔

جسکی سانسیں اسکے اپنے وجود کا حصہ تھیں۔

وہ آنسو بہا رہی تھی مگر وہ اس پر اپنی محبت کا سحر پھونکتا ان آنسووں کو بہت عقیدت کے سنگ انمول کر رہا تھا۔

                             ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اک تیرا گھر تھا میری حد مسافت

اب یہ سوچا کے ہم حد سے گزر جائیں گے

اس سے پہلے کہ جدائی کی خبر تم سے ملے

ہم نے سوچا ہے کہ ہم تم سے بچھڑ جائیں گے"

اس نے سرمد چوہدری کی ایک بہترین سزا تجویز کی تھی، بنا تڑپائے مار دینا شاید شہیر مجتبی جیسے سفاک کی طرف سے دی جانے والی اب  تک کی سب سے آسان سزا تھی جو ہدایت بار بار دستک کے باوجود برائی کے گھڈوں میں پڑا رہا اور ایسے لوگ جنکے دل پر قفل لگ جائے اک روز انکو موت اچک لیتی ہے، وہ واپس علاقے جا کر اک نیا فساد برپا کرنے کی تیاریوں میں تھا، یہ اسے زیب کہاں دیتا تھا کہ وہ اپنے اختیار میں آتے معاملات میں دخل اندازی نہ کرتا۔

اپنی طرف سے اس نے ضرار کو بہت چھوٹ دے دی تھی مگر جیسے دل کے اندر دبی راکھ میں اک آدھ بچ چکی چنگاری اکسا رہی تھی کہ بنا ہلچل مچائے مت بیٹھ شہیر مجتبی!

سکوت تو موت کی علامت ہے لیکن یہ بھی سچ تھا وہ جب سے وریشہ یوسف زئی کے معاملے میں پڑا تھا، تب سے کسی اور ہی آڑے ترچھے راستے پر چل پڑا تھا اور اس راستے نے ایک دن موت تک جا کر ختم ہو جانا تھا۔

وہ ہمت کیے اس چوکھٹ تک چلا تو آیا تھا مگر پہلی بار قدم اسے پار کرنے کی استطاعت کھو رہے تھے، آج وہ سوچ رہا تھا بنا دستک کے ہی دروازہ کھل جائے تو کیا ہوگا شاید جان چلی جائے مگر پھر خود ہی اپنی سوچ پر زہر بھرا مسکراتا دروازے کی طرف بڑھ کر اس سے پہلے بے جواز سی دستک دیتا، وہ دروازہ کھولے دیوار کی ایک طرف کھڑی ہو کر اس کا سر تا پیر جائزہ لیتی سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی جبکہ آج تو وہ ایسا نہیں چاہتا تھا کہ بنا دستک کے وہ لڑکی دروازہ کھولتی، آج تو وہ اپنا حتمی فیصلہ سنانے آیا تھا۔

"آج نہیں کہو گے کہ بنا دستک دیے دروازہ کھولا ہے تو کیا تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی؟"

خوامخواہ مسکرا کر وہ اس کی گہری آنکھوں میں جھانکی جس پر شہیر نے نفی میں گردن ہلائے اپنے قدم اندر کی جانب بڑھائے تو وریشہ نے بھی دیوار سے ہٹ کر دروازہ بند کیا اور اسکے پیچھے ہی کھڑی، دیوار سے ٹیک لگا کر اسکی پشت تکنے لگی۔

"میں نے سوچا ہے خوش فہمیاں مجھ جیسے کہ لیے اچھی نہیں ہیں، تم نے بنا دستک دروازہ کھولا ہے تو شاید کسی اور کا انتظار ہو تمہیں"

وہ بھی جیسے رخ موڑے ہڈی کی جیبوں میں ہاتھ گھسائے زچ کرتے انداز اور ازلی ظالمانہ مضبوط ٹون میں بولا جبکہ وریشہ کو اسکی بات بھلے پسند نہ آئی ہو مگر وہ اپنی خفگی دبا گئی، معاملہ اب دل تک جو پہنچ آیا تھا۔۔

"ٹھیک کہا تم نے، مجھے انتظار تھا"

وہ بھی وریشہ یوسف زئی تھی جس نے بہت دن لگا کر اپنی تکلیف کا توڑ کیا تھا، وہ دیوار سے ٹیک چھوڑتی اس سیاہ مہیب سناٹے کے نزدیک چلی آئی، اس جواب کو دے کر اس نے شہیر مجتبی کی آنکھوں میں ہلکورے لیتی تڑپ صاف صاف دیکھی تھی، دل چاہا بڑھ کر اسکے گلے لگے، آخری بار ہی سہی پورے دل سے دیکھے تو سہی کے محبت کے بعد ناپسند لمس کس حد تک جان فرسا ہو جاتا ہے پر خود پر جبر کر گئی۔

"کس کا؟"

وہ پوچھنا نہیں چاہتا تھا پر ناجانے کس احساس کے تحت اس سے یہ سوال سرزد ہوا۔

"اپنے حصے کے طوفان کا"

وہ پراسرار سا مسکرائی مگر اسکی مسکراہٹ عجیب پتھریلی سی تھی، درد کا خاموش طوفان سمیٹے ہوئے جبکہ شہیر نے متاثر کن تاثر دیتے ہوئے ویسا ہی پتھر اپنا دل کر لیا جو بچھڑنے کا فیصلہ رد کر دینے کے پیچھے پڑا تھا۔

"اور تمہارے حصے کا طوفان کہاں چلا گیا ہے؟"

وہ بھی تو شہیر مجتبی تھا، باتوں میں اسے ہرانا وریشہ سے ممکن نہیں تھا۔

"پتا نہیں، بتا کر نہیں گیا۔ تم بتاو، اتنے دنوں بعد یہاں کیسے آنا ہوا"

وہ اس بعث کو سہولت سے ختم کرتی اب اصل مدعے پر آئی تھی جبکہ شہیر کچھ الجھا، وجہ کیا بتائے، وجہ تو اسے بھول رہی تھی، دل بھلانے پر اتر رہا تھا۔

"بس یونہی، سوچا مزید مہلت پر وقت ضائع نہ کرتے ہوئے تمہیں اس قید سے رہائی دے آوں، تمہارا بھی حتمی فیصلہ سن لوں کیونکہ ممکن ہے میری زندگی اب کسی اگلے آتے سٹیشن پر رک جائے یا پھر پٹری بدلنی پڑ جائے"

وہ بھی صاف گوئی سے الجھن بڑھا رہا تھا اور وریشہ نے اسکا دیکھنا بڑی دلچسپی سے دیکھا جو آنکھوں کے راستے بے خودی کی خفیف سی آنچ کے سنگ وریشہ کا چہرہ ، دل میں اتار رہا تھا۔

"اور تمہیں کیا لگتا ہے زندگی رکنے پر رچائے ہوئے اذیت ناک کھیل بھی رک سکتے ہیں، پٹری بدلنا بھی راستہ بدلنے جیسا آسان ہے؟"

اسکی کریدتی جان لیوا نظریں اپنے چہرے پر محسوس کیے وہ بیقرار سا ہوا۔

"شاید ایسا ہوتا ہو"

وہ ہاں اور ناں کی کیفیت میں الجھا ہی بول پڑا اور وہ مسکراتی ، رواداری اور اذیت کا سفر عبور کرتی عین نزدیک آکر رکتی اسکی خود سے حراساں نظروں کا یہ بدلاو دیکھنے لگی۔

"ایسا کہیں نہیں ہوتا شہیر مجتبی، ویسا بھی کہیں نہیں ہوتا جو تم کرتے پھرتے ہو"

وہ اسکی سانسوں کی حدت کے آتشی پھیلاو میں دقت سے اپنا روکا سانس خارج کرتی اس سے کھلا اختلاف جتا رہی تھی جبکہ وریشہ کے اختتامی جملے کی تپش سے شہیر کا پرسکون اور بے قرار انداز یکدم خفگی میں بدلا۔

"کیا کرتا پھر رہا ہوں میں؟"

اس بار شہیر کے سوال میں تلخی تھی جبکہ وریشہ نے اسکا ہڈی کی جیب میں گھسا سیدھا ہاتھ نکالے تھاما اور وہ بڑی دلچسپی سے وریشہ کی حرکات و سکنات دیکھتا گنگ ہوا۔

"دل ایک ہو جائیں تو مقدر دو ہو جاتے ہیں شہیر مجتبی، ہاتھوں کی لکیروں میں آگ جل اٹھتی ہے۔

آئی وش کے وقت پیچھے جا سکتا اس نقطے پر جب میں نے یہ بازی خود کھیلی تھی، تب جیت یا ہار کی پرواہ کسے تھی دونوں اپنے ہاتھ میں تھیں پر اب سمجھی ہوں یہ معاملہ تو اپنے بس کا تھا ہی نہیں، کاش وہ لمحہ واپس لا سکتی جس میں تم دوبارہ میرا دل لینے آتے اور میں سخت دل بن کر تمہیں تمہارے دل سمیت دھتکار دیتی ، دلوں کے تبادلے، مقدروں میں بٹوارے لکھ دیتے ہیں، اگر تم میرے دل میں نا سماتے تو شاید آج قسمت میں ہوتے"

اس لڑکی کی آواز یہ دل دہلاتا سچ کہتے لرزی تھی جب اس نے شہیر کے ہاتھ کی سخت ہتھیلی اپنے نرم دل سے جوڑی، وہ جانتا تھا وہ لڑکی سب سچ کہہ رہی ہے پر ہتھیلی میں دھڑکتے دل نے سب بھلا دیا تھا، سب جھٹلا دیا تھا۔

"بدلا لے رہی ہو؟"

وہ اسکے بے اختیار پوچھنے پر پھر سے مسکرائی۔

"ارے بدلا کیسا، تم نے ہی تو کہا تھا محبت ہی جدائی کی شرط ہے شہیر مجتبی۔ حساسیت اور رحم  کے مارے وریشہ کے دل نے تم جیسے لوفر سے محبت کر لی ہے، میں نے بلکل ویسے ہی ایمانداری سے محبت کی ہے جیسے ولی زمان خان نے مجھ سے کی تھی، لاحاصل سی۔ اسکی محبوب وریشہ تم پر مر گئی اور وہ خالی ہاتھ رہ گئے اور میرا جس پر دل آگیا وہ اپنی شرط کے ہاتھوں مارا جائے گا۔۔۔۔ میں بھی خالی ہاتھ رہ جاوں گی۔۔۔۔"

وہ بلکل کسی تکلیف کی زد میں نہ تھی، آج بولنے کی باری اسکی تھی، اور آج لاجواب ہونے کی باری شہیر مجتبی کی تھی۔

" اور تمہیں پتا ہے شہیر محبت کرنے والے حقیقت میں کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتے، جس دل میں محبت پیدا ہوتی ہے وہ خود ہی پاک ہو جاتا ہے، اور ایک بات جو میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں وہ یہ ہے کہ تم جیسے بھی ہو، تم سے محبت کر کے وریشہ یوسف زئی کسی خسارے میں نہیں رہے گی کیونکہ اب کچھ پانے کی طلب رہی ہی نہیں۔۔۔ اب تم بے شک چلے جاو، آزادی کی رضامندی کے سگنیچر جہاں کروانے ہوئے وہ کاغذ بھیج دینا مجھے۔ میں نے تمہاری شرط پوری کر دی ہے اب تم اپنی پوری کر کے مجھے چھوڑ دو"

وریشہ کے بے رحم تڑپ میں لپٹے الفاظ سن کر اس شخص کی آنکھوں کی جلن بڑھنے لگی، ناجانے کس جذبے کے تحت چہرہ سرخ ہونے لگا۔

"میں بھی تمہیں یہاں چھوڑنے ہی آیا تھا مگر تم نے پہل کی یہ میں برداشت نہیں کروں گا"

وہ جان بوجھ کر ہڈ دھرم ہوتا ضد پر اترا اور اپنا ہاتھ بھی جھٹک گیا جس پر وریشہ نے اسکی برہم آنکھیں بغور دیکھیں، یہ شاید واقعی اس شخص کے مضبوط اعصاب پر اک کاری وار ثابت ہوا تھا۔

"چھوڑنا تو ہے ہی، پہل کس نے کی یہ معنی نہیں رکھتا پاگل،۔ اب میں زندگی میں دوبارہ نہ کبھی شادی کروں گی نا محبت، یہ چیپڑ آج یہیں کلوز ہو جائے گا۔

یہ سب تمہارے پیچھے روگ میں یا ماتم میں نہیں کروں گی کسی خوش فہمی میں مت رہنا، وریشہ کا دل محبت سے بھر چکا ہے اب مجھے ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ولی زمان خان کو اپنے نام کا جلد مکمل دکھ دینے والی ہوں تاکہ وہ وریشہ کی رہی سہی امید بھی چھوڑ دیں۔ شاید یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی بھی جاوں، تم آزاد ہو، اب سے وریشہ یوسف ذئی کے نام سے، اسکے بوجھ سے"

وہ دو قدم پیچھے ہٹی ، کچھ بھی نہ ہوا، شہیر نے اسکا ہاتھ جکڑے واپس نزدیک کرنے میں جلدی کی ، وہ ایسی سنگدل کیسے ہو سکتی تھی؟ محبت کر کے کون چھوڑتا ہے بھلا۔

"محبت کے باوجود چھوڑ دو گی؟"

پہلی بار اسے اپنی شرط پر افسوس ہوا، خود کو ملامت تک کر دی۔

وہ اسکا چہرہ تڑپتی تشنہ آنکھوں سے دیکھتا ہوا دم ہارنے لگا تھا۔

"جیسے تم نے شرط لگائی تھی محبت ہوگی تبھی چھوڑوں گا، میں تمہارے جیسی ہو گئی ہوں"

اس بار اس لڑکی کا دل بوجھل جبکہ آنکھیں اداس تھیں۔

"میں نہیں چھوڑنا چاہتا"

وہ اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے ناچاہتے ہوئے بھی کہہ بیٹھا اور وہ مسکرائی۔

"میں بھی"

وہ کرب ناک ہوئی مگر ابھی اسکی بات ختم نہ ہوئی تھی۔

"لیکن شرط کسی صورت رد نہیں کی جاسکتی، شہیر مجتبی کی شرط تھی آخر، وہ اتنا مضبوط ہے تو اسکی شرط کیسے کمزور ہو سکتی ہے"

وریشہ کے اس جملے پر شہیر کی آنکھوں میں سرخائی گھلی۔

"ہمم، اگلی ملاقات پر فیصلہ کریں گے۔۔۔۔"

وہ اس سے فاصلہ بناتا دور ہوا تو وریشہ نے اسکا ہاتھ جکڑے پوری قوت سے اپنی جانب دھکیلا جو اس کے نازک وجود سے آکر پٹختا پٹختا بچا۔

"مکر کیوں رہے ہو؟ تمہارا میری نظروں میں جو امیج بنا ہے پلیز اسے قائم رہنے دو"

وہ منت بھرے برہم لہجے میں مبتلا تھی جبکہ اسکے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

"مکر نہیں رہا، صرف ایک اور ملاقات کی ریکوسٹ کی ہے"

وہ بھی سفاکی سے جھوٹ گڑھ گیا۔

"مجھ میں ہمت نہیں ایک اور ملاقات کی"

وہ اسکی بہت کچھ کہتی آنکھوں کی ہر بات رد کرتی زرا کمزور پڑی۔

"مجھ میں بھی"

وہ بھی اپنی ہار تسلیم کر رہا تھا پر ابھی اسکی بات ختم نہیں ہوئی تھی۔

"مگر شرط میری ہے تو ہر حکم بھی میرا چلے گا۔۔۔"

وہ اسکی گال پر اتر آتا آنسو انگلی کی پور سے ہٹاتا ہوا اسکی بھیگی گال پر جلتے ہونٹوں کی نرم اور مہربان مہر لگاتا، اسکا دکھتا سر چومتا، بلکتے بے قرار دلوں کی اذیت میں بے پناہ اضافہ کرتا تھما اور پھر خود کو مزید کمزور پڑنے سے روکتا دور ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے گھر سے باہر نکل گیا جبکہ وریشہ کی آنکھوں میں اس شخص سے ایک اور ملاقات کی ہمت اکھٹی کرنے کی مشکل بے شمار آنسو لے آئی۔

سڑک تک پہنچتے ہوئے اس نے دو منٹ مسلسل تیز تیز رکتی سانس بحال کیے ہانپتے ہوئے قدم اٹھائے تھے، سینے پر جمتی سانس بڑی مشکل سے خارج کی تھی۔

"I Spent All The Love I saved

We were always a losing game

Small town boy in a big arcade

A got addicted a losing game

All i knw, All i knw

Loving you is a losing game"

اسکی آنکھوں میں اس لڑکی کی حسرت آنسو لائی تھی، ہاں وہ رویا تھا، حسرتوں پر رویا ہی جا سکتا ہے۔

کسی گاڑی کے ہارن نے اسے متوجہ کیا تھا جبکہ شہیر نے وہ آنکھیں لمحوں میں رگڑتے بغور آنکھیں کھول کھول کر دیکھنے کی سعی کی تو میثم ضرار چوہدری مسکراتا ہوا اپنی گاڑی کا دروازہ کھولے باہر نکلا تھا جبکہ شہیر نے فوری چہرے پر سختی سجائی۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"

شہیر کا سوال اکھڑا سا تھا مگر ضرار صاحب مسکراتے ہوئے ناصرف قریب آئے بلکہ بڑی تمیز کے ساتھ شہیر کو اسکی گردن سے دبوچتے ہی بنا مہلت دیے گاڑی کی دوسری طرف کا دروازہ کھولے اسے باقاعدہ اندر دھکا دیا اور لمحہ لگائے دوسری طرف سے خود بھی سوار ہوا۔

شہیر کو اسکی یہ حرکت آگ لگا گئی جبکہ ہنستا ہوا چہرہ تن بدن میں شرارے دوڑا گیا۔

"میں یہاں تمہارے لگائے تماشے کا دی اینڈ کرنے آیا تھا، میرا مطلب تمہارا علاقے میں نہ ہونا مجھے اچھا نہیں لگا سوچا تمہیں وہاں خود لفٹ دے کر لے جاوں تاکہ اچھے سے فساد مچا سکو۔ ویسے بھی میری صنم کو مجھ سے چھیننے کے بعد سے اب تک تم نے مجھے مزئد کوئی آگ نہیں لگائی، اور مجھے آگ نہ لگائی جائے زیادہ دیر تو میں بور ہو جاتا ہوں۔۔۔میوزک لگا دوں؟ لانگ ڈرائیونگ ہے آخر"

بڑے تیز اور چھبتے لہجے میں وہ شہیر کے کھولتے خون کی پرواہ کیے بنا آخر تک زہریلا ہنسا جس پر شہیر نے گہرا سانس کھینچے چہرہ پھیر لیا جبکہ اس پر ضرار کی جمی نظر زہریلی ہوئی اور ساتھ ہی اس نے گاڑی چلا دی۔اشنال کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے عصر کے بعد جرگہ رکھا گیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ مجرم کو پورے پروٹوکول کے سنگ خود میدان انصاف میں لے کر جائے اور شہیر کے تو گماں میں بھی نہ تھا کہ اسکے ساتھ ہونے کیا والا ہے۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ہمم، بہت بڑی سازش کا شکار ہو گئیں ہم یعنی۔ لیکن میرے نزدیک ایک عورت خاص کر ایک ماں ایسی ظالم کیسے ہو سکتی ہے آنٹی؟ آپ بھی تو ایک ماں ہیں"

زونی کی زندگی کی ساری کہانی جب مالنی کو فضیلہ اماں سے پتا چلی اور ہاشم بزدار کی زندگی کے سارے سچ اسکے علم میں آئے تو وہ بہت افسردہ ہو گئی تھی، اپنے سخت رویے پر ملال دگنا اور ہاشم کو دیے دکھوں پر کرب گہرا ہوا، اسکا مہربان سا دل کہاں اس بات پر یقین کر سکتا تھا کہ ایک عورت اپنی کوکھ سے جنم لیے بچے کے ساتھ ایسی سفاکی کر سکتی ہے۔ وہ تو چلو کنزا کی منہ بولی بیٹی تھی مگر زونین تو اس عورت کا خون ہے پھر یہ سب مالنی کا دماغ اور دل ماننے پر راضی نہ تھا۔

"پہلے تو تم مجھے آنٹی نہیں بلکہ سبکی طرح اماں فضیلہ پکارو گی تو مجھے بہت خوشی ہوگی میرا بچہ۔ میں بہت چھوٹی سی لڑکی تھی جب ایک ماں بنا دی گئی، جبل زاد ، ہاشم اور، زونین، یہاں تک کہ ضرار تک کو پالا ہے، تم بھی اب بیٹی ہو میری"

سب سے پہلے تو انہوں نے شفقت سے مالنی کا مرمریں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے دباو ڈالتے اپنی خوش بختیاں گنوائیں تو وہ اداس سا سہی اس محبت پر سر ہلائے مسکرا دی۔

"آپ کو دیکھتے ہی ممتا بھرے احساسات محسوس ہوتے ہیں ، مجھے بہت خوشی ہوگی آپکو اماں کہہ کر۔ قسمت نے ایک ماں چھین لی تو کیا ہوا، آپ جیسی دوسری مل گئی، بلکہ پہلے سے لاکھ درجے بہتر ماں ملی"

وہ کہاں ادھار رکھتی تھی، فورا سے بیشتر اپنے دل کی بات کہہ کر اماں فضیلہ کا سیروں خون بڑھا گئی۔

"اللہ سائیں ہمیشہ دوسرا در کھولنے کے بعد ہی پہلا در بند کرتے ہیں، باقی جہاں تک کنزا کی سفاکیوں کی بات ہے تو اسے مقدر نے ڈسا اور اس نے ہم سب سے اپنی محرومیوں کا بدلا لیا، حتی کہ اپنی کوکھ سے جنم لیتی اولاد سے بھی۔ زندگی کا تھپڑ بڑا سخت ہوتا ہے میری بیٹی، یہ سارے نشے لمحوں میں اتار دیتا ہے۔ اور پھر ہمیں جو زندگی دیتی ہے، ہم وہی تو لوٹاتے ہیں۔ اس لڑکی نے گھر سے بھاگ کر جو پہلی خطاء کی تھی وہی اسکا زندگی بھر کا امتحان بن گئی، پھر کہتے ہیں ناں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی قبر کی دیواروں تک بھاگتی ہی رہتی ہے"

انکے لہجے میں اذیت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی تھا اور بوجھل پن تو مالنی کو بھی اعصاب پر بوجھ ڈالتا محسوس ہوا تھا۔

"ہمم، کاش وہ پہلی ٹھوکر پر سنبھل جاتیں۔ میں کبھی انکی پرورش، انکی محبت اور خفاظت بھول نہیں سکتی۔ انہوں نے میرے ساتھ جو کیا اسکے باوجود بھی نہیں، بس ساری زندگی دکھ رہے گا کہ جس بلندی پر میں نے انکو بٹھایا تھا وہ وہاں سے گر گئئ ہیں"

دل دکھا تو آنکھیں ویرانی سمیٹ لائیں اور خود اماں فضیلہ کو بھی کنزا سے کبھی نفرت نہ ہو سکی تھی، شاید انکو بھی یہی لگتا تھا کہ اس عورت کو مقدر کی مار ہی اتنی پڑ گئی ہے کہ مزید نفرتیں ، دھتکار، لعن تان، گالیاں، کوسنے، بددعائیں اسکے دامن میں جگہ نہ پائیں گی۔

"بھئی یہ کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں ماں بیٹی میں؟"

بابا سائیں کو دوا دے کر وہ سیدھا سٹنگ ایریا ہی کی جانب بڑھا جہاں آتش دان میں جلتی لکڑیوں نے جہاں سردی کی سختی اپنے اندر نگل کر ماحول گرما دیا تھا وہیں صوفے پر دبک کر بیٹھی مالنی اور فضیلہ اماں کو باتیں کرتا دیکھ کر وہ بھی سیدھا وہیں آیا اور بیٹھتے ہی شرارت سے مخاطب ہوا۔

اسکی بے خود نظر کا لمس مالنی کی آنکھوں میں نئی سی سرشاری سمیٹ لایا، انگ انگ تک اس شخص کی آنکھیں حدت پہنچاتیں، لہو گرمانے لگی تھیں۔

"تمہاری مالنی کو بزدار حویلی کے خسارے اور دکھ بتا رہی تھی، زونی کے لیے بہت پریشان ہے۔ اسے یہی کہہ رہی تھی کہ مشارب زمان پر چھوڑ دے، وہ بچہ جیسا بھی سیاہ سفید ہو، وہ زونین کو جلد یا بدیر خود کے واپس قریب کر کے اسکی تمام بدگمانیاں دور کر دے گا"

مدھم سا مسکراتیں فضیلہ دوبارہ سنجیدہ ہوئیں تو ہاشم نے اک نظر اداس سی مالنی کو دیکھا۔

"امید تو مجھے بھی مشارب سے اچھی ہی ہے، دیکھیں کیا کرتا ہے اور کیسے سب ٹھیک کرتا ہے۔ رات کافی ہو گئی ہے آپ دونوں جا کر سو جائیں"

جس طرح زونین تکلیف میں مبتلا سی رخصت ہوئی تھی اس پر ہاشم بھی فکر مند تھا مگر اب مشارب پر سب چھوڑنا ہی معاملے کا واحد حل تھا، نیند تو فکر و پریشانی کے سنگ کسی کو نہ آئی تھی مگر ہاشم کی بات درست تھی کہ رات کافی ہو چکی تھی۔

"ان شاء اللہ، آجاو میری بیٹی میں تمہیں کمرہ دیکھاتی ہوں۔بزدار سائیں کہہ رہے تھے کہ ضرار کا مسئلہ حل ہو لے تو باقاعدہ جشن رکھیں گے، تم دو کی شادی کی خوشی کا بھرپور جشن اور اسکے بعد ہی مالنی ، تمہیں مکمل دی جائے گی۔ لہذا تب تک میری بیٹی میرے ساتھ رہے گی"

گویا ہلکی پھلکی شرارت لیے اٹھتیں ہوئیں فضیلہ اماں دونوں کو دیکھ کر، باہمی نظروں کے بے قرار زاویے بخوبی بھانپ کر باقاعدہ جتاتے بولیں جس پر جہاں ہاشم غضبناک مسکرایا وہیں مالنی صاحبہ کو اس دوری پر کچھ ہونے لگا، وہ شخص جتنا بھی جان لیوا ہوتا، مالنی کو وہی اپنے ہر سو درکار تھا، وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس شخص کو کوئی حدود یا رکاوٹ،اس بندے کو دل سے دل لگانے سے روک نہیں سکتی مگر وہ کیا ہے ناں، دوبنے والے کو تکنے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے مگر دل سے وہ اس سہارے کو اس لیے بھی نہیں چاہتی تھی کیونکہ بوجھل ہو رہی تھی، چاہتی تھی وہ شخص اپنے بس میں کیے اسے دنیا جہاں سے کچھ لمحے غافل کر دے۔

"جی جی لے جائیں اپنی بیٹی کو، ویسے بھی میری ناراضگی ابھی برقرار ہے اس سے"

نہایت مغرور تاثرات کے سنگ اطلاع دی گئی جس پر جہاں فضیلہ اماں مسکراہٹ دباتی ہوئیں اندر کی جانب بڑھ گئیں وہیں مالنی نے ابرو اچکائے ہاشم کو اس درجہ ظالم طریقے سے دل توڑنے پر گھورا جو اب خود بھی آنکھیں مالنی پر جمائے ہوئے مسکا رہا تھا۔

"کیا کہا؟ ناراضگی کس خوشی میں برقرار ہے اب۔ میں نے منا تو لیا تھا ہاشم"

گویا اس بندے کی ناراضگی سے جان پر بن آئی ہو تبھی تو ہاشم نے ایک نظر اردگرد ڈالے جھٹکے سے مالنی کا ہاتھ پکڑے کھینچا جسکے باعث وہ لڑکھڑاتی ہوئی پہلے سینے سے لگائی گئی پھر خود ہی ہمت کرتی سرکی تو اسکے پہلو میں جا سمائی۔

"اچھا کیسے منایا تھا؟"

اس سے پہلے کہ وہ نزدیکی سے خوف کھاتی مزید پرے سرکتی، ہاشم نے بازو گرد لپیٹ کر نزدیک کیے معنی خیز جملہ ادا کیے مالنی کے دل تک گدگداہٹ پہنچائی اور وہ بھی اسکے تیور بھانپ کر کچھ گھبرائی، مگر یہاں ہر اعتراض کہیں دور جا آباد ہو جاتا تھا۔

"بی سیریس ماسکو، کیا آپ مجھے بار بار ناراضگی کا کہہ کر ستائیں گے اب۔ میں پہلے ہی اپ سیٹ ہوں یار اور اوپر سے آپ کے پاس بھی ابھی رہ نہیں سکتی، ستم یہ کہ آپ بھی ناراضگی کے ہنوز برقرار رہنے کی خبر دے کر پریشان کر رہے ہیں"

نزدیکی یا پھر ان کے بیچ کے رشتے کی خوبصورتی کا واپس لوٹ آنا ہی سبب تھا کہ وہ خود اس سے دور رہنے پر کہیں دل سے اداس بھی تھی اور ہاشم بزدار اس لڑکی کے منہ سے ایسا سب ہی سننے کا طلب گار رہتا تھا، کچھ بے باک سا، کچھ بے تاب سا جس سے اسکے دل میں دھڑکتی محبت اپنے کئی روپ بدل کر مالنی کے لیے اظہار بن جاتی تھی، سانس روک کر دل کے تاڑ چھیڑ جاتی تھی۔

"میری ناراضگی ہٹانا تمہارے لیے کونسا مشکل ہے ، رہی بات ستانے کی تو بدلے تو لینے ہیں ہاشم بزدار نے۔ باقی شکر مناو کے ابھی میرے کمرے میں رہنے کی اجازت نہیں ملی تمہیں ورنہ صبح تک تم اس دنیا سے غائب ہو جاتی۔۔۔ "

وہ اسکی اداسی کو لمحوں میں حیرانگی اور پھر شدت بھری پریشانی میں بدلتا، رحم اور لحاظ کو پرے کیے ان مہکتی سانسوں سے راز و نیاز کی شدت بھری جھلک دیکھائے روبرو ہو کر اسکے چہرے کے رنگ بدلتے انداز دیکھنے لگا جو اس اچانک و سلگتی قربت سے پھر خود پر اختیار کھو رہی تھی تبھی تو زرا سی رہائی ملتے ہی بے بسی سے منہ بنائے چہرہ موڑ گئی۔

"غائب ہونا تھا مجھے ماسکو، آپ پر فرض تھا اپنی بیوی کی اداسی دور بھگانا اور ان کیوٹ اماں فضیلہ سے تھوڑی دیر اجازت لے لیتے تو وہ رازداری سے دے دیتیں، مجھے یقین ہے۔ اسکا الگ سے بدلا میں بھی لوں گی۔ چھوڑیں، اپنی دریا دلی اب سنبھال کر رکھیے گا"

اس لڑکی کے یہ بجا شکوے ایسی دھڑک رکھتے تھے جس پر وہ فراغ دلی سے مسرور ہوا، نازک کمر پر گرفت سخت کیے خود میں سمونے کی کوشش کیے اسے قریب تر آباد کیا جو آنکھوں میں ناراضگی بھرتی اس قیدی کی اسیر ہونے سے ڈر کر اپنی آنکھیں خود بخود ہاشم کی آنکھوں سے ملا بیٹھی۔

"تمہیں ایسی باتیں کرتے ہوئے تھوڑا دھیان رکھنا چاہیے تھا بیوقوف مالنی کیونکہ اب تو اجازت ان سے کیا، تم سے لینی بھی ضروری نہیں"

جذب و شدت سے بھری ذومعنی دھمکی پر اس لڑکی کی سانس کی روانی، گھڑی کی سوئیوں سی سست پڑی تھی اور اگلے ہی لمحے ہاشم نے اسے بازووں میں اٹھائے فتخمندانہ دل دھڑکاتی سمائیل پاس کی اور مالنی نے نہ جانے کس احساس کے تحت حراس ہوتے اسکی شرٹ بھینچی مٹھی میں تھی۔

"ن۔نہیں ہاشم، م۔۔میں مزاق کر رہی تھی۔۔مجھے نیچے اتاریں کسی نے دیکھ لیا تو۔۔"

فورا سے بیشتر وہ اپنے کہے سے مکرتی اسکی بازووں میں پھڑپھڑائی مگر بے باک جسارت نے اسکے وجود کو لمحہ بھر ڈھیلا چھوڑا، مگر اسی لمحے آتی کال نے جیسے مالنی پر رحم اور ہاشم پر ہوش کی دستک دی۔

"بڑی اچھی قسمت ہے تمہاری لڑکی، سوری لیکن مجھے یہ کال لینی ہوگی"

اسکی سرخ پڑتی رنگت کو مخظوظ ہو کر دیکھتا ہاشم اسے نیچے اتارے ، آنکھیں ماتھے پر رکھتا میز پر پڑے فون کی اور لپکا کیونکہ آتی کال ضرار کی تھی۔

"ہاں ضرار بولو "

ہاشم نے کال ریسو کرتے ہی کان سے لگایا جبکہ مالنی نے فورا سے بیشتر کمرے کی طرف دوڑ لگا دی جبکہ خود ہاشم کے چہرے کی شرارت لمحوں میں کرب کا روپ دھار گئی۔

سرمد کی موت کی خبر اعصاب شکن تھی اور کال بند ہونے کے بعد اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہو گئے۔

وہیں یہ خبر وہ بابا سائیں سے چھپا بھی نہ سکا، تب عزئز خان بھی انکے کمرے میں ہی تھی جب ہاشم نے انکو سرمد کی موت کا اور کل جرگے کی نوعیت کا بتایا۔

اک کرب کا جہاں تھا جو بزدار عالم کے سینے پر آباد ہوا، انکی آنکھوں میں تکلیف بہرحال ہلکورے لیتی نظر آئی۔

اس باپ کو وہ اذیت یاد آئی جب بخت کو اپنی آنکھوں کی سامنے مرتے دیکھا اور آج بخت کا ایک اور وارث بے موت مر گیا تھا۔

"میں نے بہت کوشش کی تھی اسے بچا لوں پر اس کو اسکی ماں کی خطائیں، اور باپ کے گناہ دلدل میں دھنسانے میں کامیاب ہوگئے۔ اور دیکھو آج وہ بخت اور کنزا کا خون بھی بے موت مارا گیا۔ میرے مالک ، میری زونین کی حفاظت اب تیرے سپرد ہے، مجھے اب کوئی اور دکھ نہ دیکھانا کہ ان بوڑھی ہڈیوں میں مزید دکھ سہنے کی تاب نہیں رہی"

ہاشم اور عزئز خان دونوں ہی چوہدری عالم بزدار کے غم میں شریک تھے، دلجوئی کے لیے رات بھر پاس بیٹھے بھی رہتے مگر اس شخص کو تکلیف ہو رہی تھی، ایسی اولاد جو خود تو انکے لیے وبال جان تھی ہی، اپنی تابناکی اب تک پیچھے چھوڑ کر اس باپ کا درد بڑھانے کا سبب بنی ہوئی تھی۔

ہاشم خود افسردہ تھا، سرمد چوہدری سنبھل سکتا تھا اگر کنزا چاہتی، وہ اسے بخت کے سیاہ سائے سے نکال سکتی تھی مگر اس نے اپنی سفاکیوں کے بیچ سرمد چوہدری کو روند دیا تھا اور اب اسکے پاس بابا سائیں کو دینے کے لیے کوئی تسلی نہیں تھی اور یہی حال عزیز خان کا تھا جنھیں سب سے زیادہ فکر کل کی تھی، بھلے ضرار کی حکمت عملی درست تھی مگر انھیں اپنی بیٹی کے جذبات سے ہوئے کھیل کے بارے پریشانی اور اضطراب لاحق تھا۔

ساری رات اسی دکھ کو دل کے اندر سمیٹنے میں گزر جانی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ پیدل ہی سڑک کنارے خاموشی سے چل رہی تھیں، کراہٹیں گھونٹ کر، سانسیں دبائے، کمزور پڑتے حواس یکجا کیے ہوئے، سرد موسم میں بھیگی رات کے باوجود اسکے بے حس پڑتے جسم میں کوئی اثر موجود نہ تھا ، بس اسکی آنکھوں میں تیرگی تھی۔

ولی کے کہے الفاظ اسکے دماغ میں ہتھوڑوں کی طرح برس رہے تھے، تبھی اسکی جیکٹ میں رکھا فون بجا جسکی آواز ونیزے حسن کو بے دردی سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں پٹخ گئی۔

فون پر باس کالنگ کے دل خفا کرتے الفاظ دیکھ کر وہ خون جما دینے میں والی سردی میں شل پڑتے ہاتھ کو بڑھا کر کال ریسو کیے بے دلی سے کان سے لگا گئی۔

"کام کا کیا ہوا ونیزے، ولی نامی اس انسپیکٹر کا کام تمام کیا یا نہیں"

دوسری جانب کل کی بڑی سمگلنگ کی تیاریوں میں مصروف ٹرکوں کی جانچ پڑتال کرتا گونی سیٹھ مخاطب ہوا اور اسکے اس سوال پر دو موتی ٹوٹ کر ونیزے حسن کے عارضوں پر بکھر گئے۔

"کر دیا ہے، اب میں کیا کروں؟"

وہ غائب دماغی سے بولی تھی جبکہ اس جانب عجیب سی حیرت اور خوشی اسکے خبیث ہنسی والے چہرے پر نمودار ہوئی۔

"اب انتظار کرو، اپنے انعام کا"

سیٹھ گونی نے معنی خیزی سے کہہ کر رابطہ توڑا جس پر ونیزے نے بھی سانس کھینچ کر قدم گھسیٹے جبکہ سیٹھ گونی کوئی اور کال ملا چکا تھا۔

"ہاں میری بات غور سے سنو! ونیزے کی اب مجھے کوئی ضرورت نہیں سو ولی زمان کی موت کی تصدیق ملتے ہی ونیزے حسن کو ٹھکانے لگا دو۔ اور اگر اس نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے تب بھی ان دونوں کی سزا صرف موت ہونی چاہیے۔ کل مجھے دھندے کے بیچ کسی قسم کی مداخلت منظور نہیں ہے"

سیٹھ گونی نے کڑے اور سفاکانہ تیوروں کے سنگ  اپنے آدمی کو حکم صادر کیا اور کال کاٹی جبکہ اسے ناجانے کیوں ونیزے کی بات پر اعتبار نہیں تھا، تبھی حقارت کی شدید لہر اسکی انڈے کی طرح سفید دیکھائی دیتی آنکھوں میں پوری قوت سے بیدار ہوئی۔

لگ بھگ چالیس منٹ گزرے تھے کہ اسی سڑک کنارے لگے پتھر پر بیٹھی ونیزے نے کچھ دیر بعد واپس جانے کو اٹھ کر اپنے قدم بڑھائے تھے اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے عقب کی جانب سے کوئی گاڑی تیزی سے اسکی طرف بڑھ رہی ہے اور پھر تیز ہیڈ لائٹس کی روشنی رخ موڑتے ہی ونیزے کی آنکھیں چندھیا چکی تھی مگر اس سے پہلے اس گاڑی سے کوئی آدمی نکل کر ہاتھ میں پکڑی گن ونیزے کی طرف بڑھائے اسے شوٹ کرتا، ایک اور گولی کی تیز آواز بلند ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ونیزے کی جانب بڑھتا آدمی وہیں سڑک پر پھڑپھڑاتا ہوا گرا۔

کچھ لمحے تو ونیزے کو بھی سمجھ نہ آئی کے ہوا کیا ہے اور جب کچھ دیر بعد اسکے حواس لوٹے تو وہ ہمت کرتی ہیڈ لائیٹس کی جانب بڑھی جہاں گاڑی کے پاس بڑا وہ آدمی اسکی شکل سمیت وہ فوری پہچانی جو اب موت کی آغوش میں پڑا تھا اور اسکے ہاتھ میں موجود گن ویسے ہی اسکے ہاتھ میں تھی۔

ونیزے نے یہاں وہاں نظریں گمائیں مگر آس پاس کوئی زی روح موجود نہ تھا، جھک کر اس آدمی کی سینے پر لگی جیب میں سے اسکا فون نکالتی وہ تیزی سے وہاں سے فرار ہوئی تھی۔

جبکہ گاڑی سے کچھ فاصلے پر لگے درخت سے اوٹ سے نکلتا ولی زمان خان اسی کو غضبناک ہو کر دیکھ رہا تھا جو اب سڑک کے دوسرے کنارے جا کر گم ہو چکی تھی۔

"نااہل شکارن ونیزے حسن، اسے میری طرف سے آخری رعایت سمجھنا۔ ولی زمان خان نے جو کھویا ہے اس سے یہی سیکھا ہے کہ ہر کہانی ختم ہونے کو ہوتی ہے۔ اور میں بار بار ایک ہی تکلیف سے نہیں گزر سکتا سو تمہارے منہ سے خود سے جڑے سیکرٹ کو سننے کی خواہش یہیں اسی موڑ پر ختم کرتا ہوں۔ آج کے بعد تم پر کوئی رحم نہیں ہوگا"

اس لڑکی کے غائب ہوتے ہیولے پر پتھر نظر گاڑے وہ بولتا ہوا خود بھی واپس مڑ چکا تھا، لیکن اسے خبر کہاں تھی کہ کسی کی جان بچانے جیسی رعایت پہلی تو ہو سکتی ہے، آخری ہرگز نہیں ہوتی۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"تمہارے سینے میں دبی اُداسیاں

میرے چُھونے سے دور ہو تو گئی ہیں

مگر اس کرب کا کیا کیا جائے

جو میں نے بے یقین کر کے

جو تم نے بے یقین ہو کر دیا

ہمارے بیچ ابہام رہنے دیا

وصل کو ناتمام رہنے دیا۔۔۔۔۔۔!"

بھیانک سی رات بیت گئی تھی، بہت سی خطائیں ڈھانپتی ہوئی سحر کے اجالے سے وصل کی خواہش لے کر عالم دنیا پر بیدار ہوتی ہوئی، مرجھائی ڈری ہوئی روبرو آئی۔

وہ ایک ٹوٹی پھوٹی نیند سے جھٹکے سے مکمل بیدار ہوا جب آغوش، ہاتھوں کی مانند خالی نظر آئی۔

ساری نیند، خماری، لاپرواہی بھک سے وجود کے انگ انگ سے رخصت ہوتی ہوئی اذیت کی انتہا چھوڑ گئی اور آذان کی دور پار بلند ہوتی آواز سنتا وہ اٹھ بیٹھا۔

پورا کمرہ خاموش اور ویران تھا، گزری رات کا کوئی نشان باقی نہ تھا سوائے اس لڑکی کی موجودگی کے نام پر سلوٹیں چھوڑ جاتے اطلسی بستر پر رکھا سفید کاغذ جو سردار مشارب زمان خان کے دل کو جکڑ گیا۔

اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ وہ کاغذ اٹھائے اپنی ٹھہر چکی آنکھوں کے سامنے کیا۔

"بہت بڑی خطاء کر دی آپ نے مشارب، ہمارے شک پر یقین کی چادر اس بے دردی سے چڑھائی کہ ہم آپکی باہوں کے دنیا جہاں کے سب سے پرسکون حصار میں بھی باآسانی دوسرا سانس نہ لے سکے تھے۔ نہ ہمارے آنسو دیکھے، نہ ہمارے ٹوٹے زخمی دل کی کوئی مسیحائی کی، یونہی اپنی قربت میں اپنے ساتھ گھسیٹ کر آپ ہمیں بلا شبہ پریستان میں بھی لے جاتے تب بھی ہم تڑپتے رہتے۔ہم آپ کے ساتھ مزید رہے تو مر جائیں گے، سو بے وفائی کی سزا جھیلتے ہوئے آپ نہ ہمارے پیچھے آئیے گا نہ ہماری تلاش میں مزید بھٹکیے گا۔ نہیں رہنا ہمیں آپکے ساتھ، آپ جیسا خودغرض انسان کیا ہمارے زخم بھرے گا، آپ نے تو ہمیں اور سوگوار کر دیا۔ آپ کو شاید اپنے سکون ریز لمحوں کے سکھ کے بیچ یاد نہ ہو مگر ہم تکلیف کی جس سرحد پر تھے، کبھی بھول نہ پائیں گے یہ بات کے آپ اقرار کر چکے ہیں آپ نے زونین سے بے وفائی کر دی اور یہ ہم ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔ دوبارہ کہہ رہے ہیں، اب ہمارے پاس آنے کی جرت بھی مت کیجئے گا ورنہ ہماری موت کے ذمہ دار آپ ہی ہوں گے۔ اب ہم مریں، جیئیں یا تڑپیں، آپکی حسرت ہمیں سالم نگل ہی کیوں نہ جائے، ہم آپکو ہرگز نہیں پکاریں گے۔ سب برداشت ہے، بے وفائی کے سوا۔

سب برداشت کرنے کے اہل بھی ہیں ہم مگر یہ نہیں ہوگا ہم سے، ساری زندگی جس سیاہی سے آپکے نام کی ٹھنڈک نے ہمیں دور رہنے پر مجبور کیے رکھا تھا، اب آپکی بے وفائی ہمیں اسی کے نزدیک جانے پر بھی ویسا ہی مجبور کرے گی۔ فی امان اللہ"

وہ الفاظ نہ تھے، وہ سردار مشارب زمان خان کے گناہوں کے بدلے کا ایک آخری چابک تھا جو اس زور سے اسے رسید کیا گیا کہ ساری رات کے منظر کسی فلم کی طرح اسکے مفلوج ہوئے ذہن کی سکرین پر چلنے لگے۔

رات وہ تو کچھ دیر ہی زونین کی قربت میں جاگ سکا تھا مگر وہ مشارب کے نیند میں اترتے ہی خود کو اس سنگدل سے آزاد کرواتی اسکے پہلو سے نکل گئی تھی، شاید اس آخری پرسکون نیند کو نہ توڑنے کی آسانی بھی اس لڑکی نے محبت کے ہاتھوں سونپی تھی۔

وہ نہیں جانتی تھی اب کہاں جائے گی مگر اس نے بنا تعین کیے بھی سفر چنا تھا۔

وہ کاغذ پر مشارب کا جرم تحریر کرتی لگ بھگ پانچ منٹ پہلے ہی اسکے کمرے سے نکلی تھی، دبے پیر چلتی ہوئی سرد لہر میں ڈوبے لان میں آئی، جگہ جگہ محافظ موجود تھے مگر اسے کوئی پرواہ نہ تھی۔

"دروازہ کھولیے"

چوکیدار کے پاس جا کر رکتی زونین نے ہمت کیے انھیں کہا جو اسے صبح صبح اکیلا یہاں دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوئے۔

"معاف کیجئے چھوٹی بی بی لیکن میں آپکو باہر جانے نہیں دے سکتا، سردار مشارب کی اجازت کے بنا تو ہرگز نہیں"

چوکیدار نے کھڑا جواب دیے زرا ایک طرف ادب سے کھڑے ہو کر اپنے کوٹ کی جیب سے ابھی فون نکالا ہی تھا کہ زونی نے وہیں خانم حویلی کے گیڈ کے پاس پڑا ڈنڈا اٹھائے پوری قوت سے چوکیدار کے سر پر دے مارا جو انھیں اتنی زور سے تو نہ لگا پر درد کی شدت سے انکے ہاتھ سے فون گرا اور وہ اپنا سر جکڑ کر چلائے جبکہ اسی کا فائدہ اٹھاتی زونی، فورا سے پہلے گیڈ کی کنڈی کھولتی باہر نکلی اور اس سے پہلے باقی محافظ دوڑ کر کچھ چوکیدار کی طرف اور کچھ باہر بھاگتے، زونین نے بنا پیچھے دیکھے دوڑ لگا دی۔

مشارب کے ہاتھ سے یہاں وہ کاغذ چھوٹا وہیں دروازے پر ہوتی بھیانک دستک پر وہ فورا سے بیشتر اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھ کر اسے بکھرے دل اور ٹوٹی ہمت کے سنگ سے کھولا۔

"سردار! زونی بی بی چوکیدار کے سر پر ڈنڈا مار کر حویلی سے باہر بھاگ گئی ہیں، محافظ پیچھے گئے ہیں"

مشارب کے آدمی نے آکر بتایا تو مشارب کی آنکھوں میں لہو اترا، اس لڑکی کی اس ہمت پر جتنا غصہ اس نے دبایا اتنا لہو میں شرارے دوڑے، جبکہ ابھی جوش کا نہیں ہوش کا وقت تھا تبھی حواس یکجا کرتا خود بھی فون اور گاڑی کی چابی اٹھاتا اس محافظ کے پیچھے ہی نکلا۔

چند لمحوں میں ہی خانم حویلی میں پھونچال آچکا تھا۔

زونین بھاگتی ہوئی بہت دور تک اپنے پیچھے لوگوں کے پیروں کی دمک محسوس کرتی رہی مگر اسے جو راستہ ملا وہ بس بنا پیچھے دیکھے دوڑتی رہی اور اسی بیچ علاقے کی پکی سڑک شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جو پیچھے مڑ کر دیکھ رہی تھی اسی سڑک سے گزرتی گاڑی سے جا ٹکرائی۔

جبکہ گاڑی بھی بروقت کھلی اور اس میں سے کوئی سیاہ کپڑوں میں لپٹا آدمی جسکا صرف نچلا دھڑ دیکھائی دے رہا تھا، تیزی سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولے وہ اس سڑک پر پڑی خون میں لت پت زونی تک پہنچا اور اسے بازووں میں اٹھائے تیزی سے اپنی گاڑی کی پچھلی طرف بڑھا، اسے احتیاط سے لٹائے وہ اور اسی تیزی کے سنگ آگے بڑھے سوار ہوا اور ساتھ ہی گاڑی تیزی سے سٹارٹ ہوتی نظروں سے اوجھل ہوئی جبکہ مشارب زمان کے لوگ جب تک پکی سڑک تک ہانپتے ہوئے اور کچھ گاڑی کے ذریعے پہنچے، وہاں کسی زی روح کا نشان تک باقی نہ تھا، ہاں وہاں سڑک پر خون کی چند بوندیں ضرور تھیں۔

دس منٹ تک مشارب بھی اس جگہ پہنچ گیا، گاڑی وہیں روکتا وہ تیزی سے باہر نکلا، سڑک پر ملتے خون کے دھبوں تک پہنچے اس نے وہیں بیٹھ کر تکلیف کے سنگ اس خون کو انگلی پر لگائے ناک کے قریب کیا، خون بلکل ابھی کا اور تازہ تھا جسکا مطلب یہی تھا کہ اس جگہ کوئی حادثہ ضرور ہوا ہے۔

"پیچھا کرو ، نشان بتا رہے ہیں کہ یہاں سے گاڑی گزری ہے اور یہیں رکی تھی۔۔۔جلدی۔۔اس لڑکی کو ڈھونڈے بغیر واپس مت آنا سمجھے"

اپنی تکلیف اور اپنا خوف دباتا وہ حلق کے بل دھاڑا جس پر اسکے لوگ فورا سے پلٹے ، سب گاڑیوں میں سوار ہوئے جبکہ خود مشارب بھی اپنے ہوش و حواس یکجا کرتا زمین سے اٹھا اور واپس حویلی کی طرف بڑھا۔

تب تک نہ صرف گل خزیں اور خدیخہ خانم جاگ چکی تھیں بلکہ مشارب کو اکیلا آتا دیکھ کر وہ دونوں عورتیں ہی تکلیف کے سنگ اسکی طرف بڑھیں۔

"اپنی بیٹی کنزا کی فاتخہ پڑھ لیں اماں سائیں، کیونکہ اب وہ میرے ہاتھوں سے ہی مرے گی۔ زونی کو تو ڈھونڈ ہی لوں گا لیکن اگر میں نے ابھی اور اسی وقت اس منحوس کی جان نہ لی تو میرا دماغ ضرور پھٹ جائے گا"

اذیت سے دوچار دادی کو مزید کرب میں اتارتا وہ بپھری موج بنا واپس کمرے کی طرف بڑھا تھا، لگ بھگ دس منٹ بعد چینخ کیے فل بلیک میں، ہاتھ میں اپنی گن پکڑتا وہ بپھری موج بنا، دادی اور چچی کے روکنے کی پرواہ کیے بنا داخلی دروازے سے باہر نکلا۔

جرگے کی تمام ذمہ داری وہ سردار شمشیر یوسف زئی کے حوالے کرتا خود اپنے تین لوگوں کے ساتھ شہر روانہ ہوا۔

صبح دس بجے تک مشارب کی گاڑی اس ہوسٹل کے داخلی دروازے کے باہر رکی جہاں صبح ہی اسکے لوگوں نے اسے کنزا کی موجودگی کا بتایا تھا، وہ اپنی سائلنسر لگی گن اپنی سیاہ لیدر کی جیکٹ میں چھپاتا خود تیزی سے اپنے لوگوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتا اندر بڑھا، اسکے سر پر خون سوار تھا۔

اسکی آنکھوں میں آگ جل رہی تھی، ایسی آگ جو آج کنزا کو جلا کر راکھ کر دیتی۔

ریسپشن پر رک کر اس نے کنزا نامی پیشنٹ کا پوچھا جس کے بعد وہ وارڈ سے کمرے میں شفٹ ہوتی کنزا کی عبرت طے کرتا تیز تیز قدم اٹھائے آگے بڑھا۔

لگ بھگ تین چار کوریڈور عبور کرتے ہی وہ مطلوبہ دروازہ کھولے اندر داخل ہوا جہاں نرس ، کنزا کا بی پی دیکھنے کے بعد باہر نکل رہی تھی، وہ زرا دیر چہرے پر چھائی حقارت دبائے اس نرس کے جانے کا انتظار کرتا رہا اور پھر جلتی آنکھیں اس پژمردہ وجود پر ڈالے قریب گیا جو ناصرف ہوش میں تھی بلکہ آہٹ پر اسکی آنکھیں کھلیں ساتھ ہی خود پر نفرت کے سنگ گن تان کر کھڑے مشارب کو دیکھ کر اس عورت کی ساری سفاکی بھک سے اڑی۔

"کسی کو جان سے مارنا مشارب زمان خان کے لیے کبھی مشکل نہیں رہا، مارا جانے والا انسان، انسانیت کے ہر درجے سے گرا ہوا ہو پھر تو یہی سمجھو آسانی ہی آسانی ہے۔ تمہارے باقی سارے گناہ ایک طرف کنزا، تم نے جو زہر زونین کے دماغ میں بھرا ہے اب تم اسکی قیمت چکاو گی۔ مر کر اس دنیا کو اپنی نام کی گند سے پاک کرو"

اپنے اندر کی ساری نفرت اس عورت پر انڈیلتے ہی مشارب کے ہاتھ میں بجلی کی سی قوت بھری اور ٹھیک گولی کنزا کے وجود کے آر پار ہوتی اسے دن میں ہی رات دیکھا گئی، لہو کے چھینٹے خود مشارب کے چہرے تک پہنچے جسے اس نے سسکتی تڑپتی اور درد سے بلکتی کنزا کو دیکھتے ہی بے دردی سے رگڑے اور گن واپس سیاہ جیکٹ میں دیے وہ اس عورت کی اپنی طرف سے عبرت طے کیے جس طرح آیا ویسے ہی نکل گیا اور پھر جیسے موت جیسا خوف و حراس پھیلتے پھیلتے وہاں نجاست بھرا قہقہہ ابھرا تھا۔

کوئی ہنسا تھا، سردار مشارب کے کنزا کو بھیانک عبرت بنانے کے اس اقدام پر۔۔۔۔۔۔۔۔!

اسکے بعد وہاں کیا ہوا کچھ خبر نہیں مگر کچھ دیر بعد کوئی چادر اوڑھ کر نسوانی وجود ہوسپٹل کے مرکزی دروازے سے باہر آیا تھا۔

ہوسپٹل کے بیرونی گیٹ سے نکلتے ہوئے اس نے سامنے ہی مشارب زمان کو دیکھا تبھی اسکی اور اسکے آدمیوں کی اس سے پہلے اس پر نظر پڑتی وہ نسوانی وجود تیزی سے ہوسپٹل کے ساتھ جڑتی سڑک پر بڑھ گیا اور بنا دیکھے تیزی سے سڑک پار کر گیا جبکہ اس عورت کا خاتمہ کرنے کے بعد اب مشارب ہر اس ٹھکانے پر جانے کا فیصلہ لے چکا تھا جہاں اسکی سوچ کے مطابق اسکی زونین جا سکتی تھی۔

وہ مسلسل ولی سے رابطے میں تھا، جرگے کے متعلق بھی اس نے ولی کو بتایا تو ولی نے خود ہی ضرار کی ساری بقیہ حکمت عملی سمجھ لی اور ضرار کے اس فیصلے کو سنگدل ہونے کے باوجود ٹھیک مانا۔

کیونکہ جس طرح کا اس کے ساتھ غیر انصاف اور سفاک معاملہ کیا گیا تھا، وہ اس بات کا حق دار تھا کہ اسی سفاک طریقے سے اپنی کم ہوئی عزت واپس بحال کرتا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

دونوں علاقوں کے معززین جرگے میں شامل ہونے پہنچ آئے تھے اور سرمد چوہدری کے قتل کے بارے انکشافات سننے کے بعد سب لوگ ساکت اور ششدر ہو چکے تھے۔

سانول مجتبی اور اماں کوثر کو بھی جرگے کی اطلاع دے کر بلوایا گیا تھا، شہیر مجتبی جسے ضرار نے لاتے ہی زندان میں نظر بند کروایا تھا، جرگے میں جانے سے پہلے ہی اس نے شہیر مجتبی کو اپنے لوگوں کے ہمراہ جرگے میں شامل کروایا جو ایک بار پھر میدان انصاف سجنے پر یوں تو بظاہر کسی خوف میں مبتلا نہ تھا مگر ضرار نے جس طرح اسے یہاں لایا پھر اسی طرح جرگہ بلوایا جیسا چار ماہ پہلے شہیر نے بلوایا تھا۔

اسے وہ سارے منظر ذہن کی سکرین پر چلتے دیکھائی دے رہے تھے ، خفیف سا خوف بخش رہے تھے، جبکہ مشارب خود تو زونی کی تلاش کے باعث جرگے میں شریک نہ ہوا البتہ سرپنچ کی زیر صدارت ضرار کے اس پراسرار جرگے کو جلد وجہ دے کر سبکی حیرت کو صدمے میں بدلا گیا۔

پہلے سرمد چوہدری کی تدفین کی گئی اور اسکی مغفرت کے لیے دعائے خیر کی گئی جبکہ شہیر کو یہی لگ رہا تھا کہ سرمد کو قتل کرنے کے معاملے میں اس نے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا۔

"شہیر مجتبی نے سرمد چوہدری کا قتل کیا ہے "

ضرار کا مدعا سردار شمشیر یوسف ذئی نے دہرایا تو جہاں شہیر کی آنکھوں میں نفرت چھلکی وہیں اسکے ماں باپ کی تو جیسے اس الزام پر جان، تن سے نکل گئی۔

"ثبوت کیا ہے اسکے پاس کے شہیر نے اسکے بھائی کا قتل کیا ہے؟"

مجمعے میں سے اٹھتے ایک معزز نے اپنا اعتراض بلند کیا جسکے بعد ضرار ہی کے اشارے پر اسکے دو لوگ اپنے اپنے ہاتھ میں پکڑے دو ٹیب لے کر سرداران کی جانب بڑھے۔

وہ وڈیو ٹیب کی بڑی سکرین پر جیسے جیسے چل رہی تھی، سرداران کے چہرے سختی سے جبکہ شہیر کا خوف سے پر ہوتا گیا۔

البتہ ضرار بلا کا مطمئین ہو کر ایک طرف بیٹھا سبکی شکلوں پر اتری پریشانی، حیرت اور صدمے سے مخظوظ ہو رہا تھا۔

"یہ تو واقعی شہیر ہے سردار صاحب! کیسی بے دردی سے اس نے سرمد کا قتل کیا ہے۔ اب تو مزید کسی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں"

پنچائیت کے ایک دوسرے معزز نے پر تنفر انداز میں فوری اپنی رائے دے کر مجمعے کے روبرو مجرم کی طرح کھڑے شہیر کو دیکھا جسکی نظر تلملا کر ضرار کا پرسکون چہرہ دیکھ کر سلگ رہی تھی۔

"ہاں میں نے اسے مارا ہے کیونکہ وہ اسی لائق تھا، جو کرنا ہے کریں"

شہیر مجتبی کی متنفر بلند ہوتی آواز بھی اپنا خوف، حقارت دباتی غرائی تھی جسکے بعد مزید تحقیق کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔

"اس وڈیو سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ضرار چوہدری کے سوتیلے بھائی سرمد چوہدری کو شہیر نے ہی قتل کیا ہے اور خود مجرم نے بھی اعتراف جرم قبول کر لیا اس لیے خون کے بدلے خون کا فیصلہ بلکل صاف ہے، قتل چاہے جسکا بھی کیا جائے ناقابل معافی ہے"

سبکی رائے جاننے کے بعد سردار شمشیر یوسف زئی نے ضرار کے بقول آسان سی سزا سنائے فیصلہ سنایا مگر جیسے کسی تیز آواز نے اس سکوت کا ارتعاش بری برح دریم برہم کیا۔

"بھائی میرا مرا ہے اس لیے قصاص کے فیصلے کی نوعیت بھی میں یعنی مقتول کا بھائی چوہدری ضرار طے کروں گا"

بھری پنچائیت پر اسکی رعب دار دھاڑ نے سکتہ طاری کیا، آسمانی کاٹن کی کڑکڑاتی قمیص کا پلو جھاڑے، سیاہ چادر گرد لپیٹے، وہ نخوت سے سر بلند کیے سر پنچ سردار شمیشر یوسف زئی کی بات درشتی سے کاٹتا اٹھ کھڑا ہوا، گاوں کے تمام لوگ اور معززین آپس میں چہہ مگوئیوں میں مصروف، کچھ ضرار چوہدی کی ہمت پر رشک اور کچھ حقارت لٹاتے محسوس ہوئے۔

"ٹھیک ہے، تم خون کے بدلے خون چاہتے ہو تو بتاو"

اونچے سفید شملے والے شمیشر یوسف زئی دبنگ آواز بلند کیے سب کے بیچ کھڑے ضرار چوہدری سے مخاطب ہوئے تو سامین کی نظریں اب ضرار کے بھینچے چہرے کی جانب جمی تھیں جسکی خونخوار نظریں اپنے ازل کے دشمن پر مرکوز ہوئے سخت ہوئیں، اگلے ہی پل اس کے چہرے پر استہزاء بکھرا۔

"میں خون کے بدلے خون نہیں چاہتا سرپنج صاحب"

میثم ضرار چوہدری کے اس ادھے ادھورے جواب نے کئی دل روکے تھے، اس کا بھی جو آج اس پنچائیت میں اپنا اعتراف جرم کیے، سزا سننے کی ہمت کیے بھاری قدم مٹی کی زمین پر جمائے صبر و ہمت کا پیکر بنا کھڑا تھا۔

چار ماہ بعد قسمت وہی کھیل دوبارہ رچنے والی تھی مگر اس بار بازی شہیر مجتبی کے ہاتھ نہیں بلکہ میثم چوہدری کے قبضے میں تھی۔

"میں محترم شہیر کی ونی کی گئی منکوحہ کو اپنی زوجیت میں لینے کا فیصلہ کرتا ہوں، یہ ابھی اسی وقت اپنی منکوحہ کو آپ سب کے سامنے طلاق دے گا۔ اور اسکے بعد وہ میری بیوی بنے گی۔ میں بس اسی صورت یہ قصاص قبول کروں گا ورنہ شہیر کو اسکی سزا صرف موت کی صورت ملے گی اور یہ موت اسے ضرار چوہدری خود دے گا"

پوری پنچائیت کے لوگ یوں تھے جیسے ان پر صور پھونک دیا گیا ہو، دونوں قاضی اور سرپنچ تک ضرار چوہدری کی مانگ پر ششدر رہ گئے۔

جبکہ شہیر کا بوڑھا باپ اور ماں سسکتے اور بلکتے ہوئے سرپنچ سردار شمشیر یوسف زئی کے قدموں میں گر پڑے، ایک اور جوان اور اکلوتے بچے کہ موت سے بہتر تھا وہ ضرار چوہدری کا حکم مان لیتے، شہیر کی سلگتی آنکھوں میں زچ کرتی مسکراہٹ کے سنگ آنکھیں گاڑ کر اپنی جیت کا ڈنکا بجاتا میثم، چار ماہ پہلے ہاری بازی، اس چالاکی سے جیت جائے گا یہ تو شہیر کو خبر نہ تھی، وہ شیر کی طرح چار قدم پیچھے جا کر حاوی ہوتا خونخوار حملہ کیے اس آدمی کو وہاں چوٹ دے بیٹھا تھا جہاں شہیر مجتبی کی سانس جڑی تھی، اور ضرار چوہدری تو ، سانسوں، دھڑکنوں کی ڈور کاٹنے میں ویسے ہی ماہر کھلاڑی تھا۔

بنا ضرار کو سلگائے وہ اشنال عزیز سے دستبردار ہو جانے کے فیصلے پر سر تا پیر آگ بن کر سلگا۔

البتہ اپنے حاسد کو آخری اور پچھاڑ دیتی ہار دیے میثم سرخرو ضرور ہوا تھا۔

دونوں صورتوں میں ضرار کی ہی جیت تھی، اور ضرار! بھری پنچائیت میں اپنے ناکارہ بھائی کی موت کو استعمال کیے، ہاری ہوئی سانسیں، زندگی اور اختیار یعنی اشنال عزیز کو سب کے سامنے بھی واپس جیت گیا تھا یعنی اب ہر کوئی اس لڑکی کو میثم کے نام سے جاننے والا تھا، زندگی نہ سہی سرمد چوہدری کی موت کو کیش کروا لیا گیا تھا۔

جس طرح چار ماہ پہلے وہ اس سے بظاہر دنیا کے سامنے چھینی گئی تھی، آج وہ اس لڑکی کو بنا لڑے، فساد مچائے واپس چھین کر مکمل طور پر پا چکا تھا۔

یہ تھی میثم ضرار چوہدری کی سب سے بڑی جیت، اشنال عزیز !

"ٹھیک ہے میثم ضرار چوہدری، ہم تمہارا یہ فیصلہ قبول کرتے ہیں، شہیر اور اشنال کی طلاق کا بندوبست کیا جائے اور آج شام ہی پنچائیت تمہارا اور اشنال کے نکاح کا فیصلہ سناتی ہے۔"

سردار شمیشر یوسف زئی نے یہ فیصلہ سنا کر تمام افراد کی جانب اک نظر ڈالی اور پھر سانول اور کوثر کی جانب دیکھا جو پہلے ہی اس ونی نکاح سے اپنے بچے کو آزاد کروانے کے طلب گار تھے، شہیر یہاں آیا تو ضرار کو آخری آگ لگانے تھا مگر اسکو خود آگ لگ چکی تھی لہذا اس نے بھی بظاہر خاموشی اختیار کیے پنچائیت کا فیصلہ تسلیم کرلیا۔

اشنال عزیز کی آمد پر اسے ملتی یہ بھیانک خبر اسکے حواس جنجھوڑ چکی تھی۔

"پاگل ضرور ہوئی تھی مگر بیوقوف نہیں ہوں جو معاملہ سمجھ نہ سکوں، آپ سبکے بقول اگر اس شخص پر میرے بابا کا قتل ثابت ہوا ہے تو وہ اب تک زندہ کیوں تھا، پنچائتیوں نے اسے کس رشتہ داری کے تحت چھوٹ دی رکھی اب تک؟ اور اگر کسی طرح وہ قتل کی سزا سے بچ بھی گیا تو اسے کس نے حق دیا ہے وہ کسی اور کو قتل کی سزا کرواتا پھرے۔۔میں نہیں مانتی، میرے بابا مر نہیں سکتے سنا آپ سب نے"

وہ حلق کے بل چینختی ہوئی ان سنائی دیتی حقیقتوں سے اذیت کا شکار تھی جبکہ خدیخہ خانم، گل خزیں خانم اور گلالئی بے بس بن کر کھڑیں اشنال عزیز کے غضب کے آگے زبانیں رہن کیے خاموش کھڑی  تھیں۔

فردوسیہ کے لائے بڑے سے تھال میں شام ہوتے اسکے ضرار سے نکاح کا جوڑا، زیورات اور باقی لوازمات تھے جن پر نظر پڑتے ہی وہ جن زادی کی طرح اسکی طرف لپکی اور تھال لے کر فرش پر دے مارا۔

"نہیں ملوں گی اسے، مر بھی جائے تب بھی نہیں۔ آپ سب نے میرے ساتھ کھیل کھیلا، ابھی تک کھیلا جا رہا ہے۔ اسے کہیں میرے سامنے آکر یہ اعتراف کرے کہ اس نے عزیز خان کا خون بہایا ہے، اسکے سینے پر جلتا لوہا نہ گاڑا تو میرا نام اشنال عزیز نہیں"

وہ سب پر چینخ رہی تھی، اونچا اونچا چلا رہی تھی جب وہ شیر کی طرح خانم حویلی میں داخل ہوا تھا۔

مخافظوں سمیت سب اہل خانہ نے بھی خوفزدہ نظروں سے اندر آتے میثم ضرار چوہدری کو دیکھا۔

"ملیں گی تو آپ اب صرف مجھے ہی اشنال عزیز، جلدی سے انھیں تیار کروائیں خدیخہ خانم تاکہ یہ تماشا سمیٹ کر میں بھی تھوڑا ریلکس ہو سکوں۔ اور آپ؟ پیاری اشنال عزیز! دلہن کی طرح سرخ جوڑے میں سج کر اپنے باپ کے قاتل کے ساتھ رخصت ہوں گی اگر اعتراض کیا تو میں آپکے کسی اور پیارے کو جان سے مارنے میں بلکل دیر نہیں لگاوں گا۔۔۔ ریڈی ہوں، نکاح خواں از ویٹنگ۔۔۔تب تک زرا میں اپنے دشمن دادا جی کی خیریت پوچھ آوں"

نہ تو اس بندے کی آواز میں کوئی لرزش تھی نہ خود کو قاتل ظاہر کرتے ہوئے کوئی ڈر جبکہ جس بے تکلفی سے وہ آپاہج ، فالج ذدہ ، عبرت کا نشان بن جاتے خاقان خان کے کمرے کی طرف بڑھا، اشنال عزیز سر تا پیر تلملا کر رہ گئی۔

"تو تم مجھ سے بدلا لے رہے ہو سنگدل شخص، ٹھیک ہے ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی۔ خود ہی مجھے ساتھ لے جا کر تم سر تا پیر عاجز ہو کر نہ پچھتائے تو میرا نام بھی اشنال عزیز نہیں۔ تم میری کسی رعایت کے لائق نہیں ہو سر پھرے میثم ضرار چوہدری، دل کے ساتھ دماغ بھی الٹا لے کر پیدا ہوئے تھے،چھوڑوں گی نہیں تمہیں کیونکہ لاتوں کے بھوت واقعی باتوں سے نہیں مانتے۔۔آیا بڑا میرے بابا کا قاتل"

اپنے غصے کو ہر ممکنہ دباتی وہ اس شخص کو دیکھتی انتقامی ہو کر دل مسوس کر سوچ رہی تھی کیونکہ نہ تو اسے بتائی جاتی حقیقت یا کسی کی بات پر اعتبار تھا نہ یہ یقین تھا کہ وہ کسی کا بھی قتل کر سکتا ہے مگر اس شخص نے بے یقین ہونے کا جو بھیانک بدلا چنا تھا وہ اشنال عزیز کو آگ لگا گیا تھا حالانکہ وہ اپنا دل صاف کر کے لوٹی تھی۔

نکاح سے انکار بھی تب کرتی اگر وہ غیر ہوتا، وہ تو پہلے ہی اسکی زوجیت میں تھی ورنہ جو کھیل اس شخص نے کھیلا تھا وہ اسے ضرور سبق سیکھاتی سو مجبورا ہی سہی اس نے خود کو بظاہر مضبوط کیا اور پھر گلالئی کو اشارہ کیا جو گرے ہوئے تھال سے جھانکتا سرخ عروسی جوڑا باقی لوازمات سمیت اٹھاتی ، پیر پٹخ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ جاتی اشنال کے پیچھے ہی سہمی ہوئی بڑھی اور انکے جاتے ہی گل خزیں خانم نے اپنا سر تھامے خود کو صوفے پر لڑھکا دیا۔

"یا اللہ، اس حویلی میں اور کیا کیا ہونا باقی ہے۔۔۔۔بس کر مولا، بس کر میرے مولا مزید تماشے اور قیامتیں سہنے کی سکت نہیں رہی"

ایک تو وہ پہلے ہی زونی کے چلے جانے پر اذیت سے بھریں تھیں پھر ان دو سر پھروں کی تو گل خزیں کو سرے سے سمجھ نہ آرہی تھی البتہ آج خدیجہ خانم ضرور پرسکون دیکھائی دے رہی تھیں کیونکہ اشنال نے میثم کے قاتل ہونے پر آج بلکل یقین نہیں کیا تھا اور آج یہ اس لڑکی کے بنا بتائے ہی اسکی وہ پیاری ماں سمجھ چکی تھی، ضرار کو مجرم ماننے کی غلطی تو ان سے بھی ہوئی تھی لہذا وہ گل خزیں کا دھیان رکھنے کی ذمہ داری فردوسیہ کے سپرد اشارے سے کرتیں خود بھی ضرار کے پیچھے ہی خاقان خان کے کمرے کا رخ کر گئیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

چچ چچ، کیا حال ہو گیا دشمن دادا جی۔۔۔بہت افسوس ہوا سچ میں۔۔۔ہٹو بھئی فرعونیہ بی بی، مجھے دیکھنے دو اپنے دشمن دادا کو"

وہ جب اپنی مخصوص چال چلتا ہوا بڑے سے شاہی کمرے میں داخل ہوا تو قدوسیہ نامی ملازمہ ، خاقان خان کے ایک طرف سے ٹیڑے ہو جاتے منہ میں سوپ کی چمچ انڈیل رہی تھی مگر وہ سارا اس کے گلے میں دبائے ٹشو پیپرز پر گر گیا جس پر خاقان خان برہمی سے گھور گھور کر کرلاتی بھیانک آوازیں حلق سے نکال رہا تھا، ضرار نے جان بوجھ کر اس جلادن ملازمہ کا نام بگھاڑا تو وہ منہ بسورتی اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے نکل گئی اور ضرار کو اپنے سامنے آ کر مزے سے کرسی گھسیٹ کر سنبھالتے دیکھ کر وہ بے بس فرعون اپنی سرد نظروں سے اسے دیکھنے لگا، گویا حلق پر چھری سی لگی تھی۔

"مجھے تو لگا تھا مر کھپ گئے ہوں گے آپ، یہ کیا ہو گیا ۔ بہت دکھ ہو رہا ہے، آپ تو دھرتی پر پہلے سے بڑا بوجھ بن گئے ہیں دشمن دادا جی۔۔۔ مزہ آرہا ہے؟"

آنکھوں میں منصوعی ترس آخری جملے پر نفرت بنا تو اس فرعون نے بھی نفرت سے سر کو یہاں وہاں ہلا کے حقارت اظہار کیا تھا، جبکہ وہ واقعی افسوس میں مبتلا تھا۔

"ہ۔۔ہوں۔۔۔ہوں"

وہ فالج ذدہ شخص اس حال میں بھی پھنکار رہا تھا اور یہ بات میثم ضرار چوہدری کی عاجزی پر چوٹ تھی۔

"ارے نہیں! زیادہ زور نہ لگائیں۔ ورنہ آپکے کئیر ٹیکر کا کام بڑھ جائے گا ہو نو واٹ آئی مین۔۔۔خدا کی مخلوق کو بے بس کرنے والے کی سزا ایسی بھیانک اور شرمگیں بے بسی ہی ہوا کرتی ہے خاقان خان۔ مجھے پتا ہے میں کسی کو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا پر جس کا آپ نے سب سے زیادہ نقصان کیا وہ میرے دادا سائیں ہیں جو اپنی جان لینے والے کو بھی معاف کر دیتے تھے۔ معاف کیجئے گا دشمن دادا جی کہ مجھ میں ایسا جگرا نہیں۔ سب کہتے ہیں میثم تو عاجز ہی جچتا ہے پر میری عاجزی کسی کو راس نہیں آتی۔۔۔

بچپن سے میرے پاس اس ناپسند زندگی کو جھیلنے کا بس ایک ہی طریقہ تھا کہ میں خود پر نا ختم ہوتی سر مستی اوڑھ لوں، یہ الگ بات ہے کے میثم ضرار چوہدری کی یہ عاجزی دوسروں کو اکثر و بیشتر کاٹ کھاتی ہے۔ جیسے آپ کو کاٹ گئی، اب کھائے گی"

اسکے لہجے میں اذیت تھی، جس کھیل کو اس فرعون شخص نے شروع کیا تھا آج وہ ڈنکے کی چوٹ پر اسکا خاتمہ کر آیا تب بھی جیت کی کوئی خوشی نہیں تھی۔

"مجھ سے میرا صنم چھیننے کی کوشش کی تھی آپ نے، آج سب کے سامنے نہ صرف اپنا صنم واپس لے چکا ہوں بلکہ دونوں علاقوں کے تمام لوگ اس چار ماہ کا ہر راز جان چکے ہیں۔ آپ کے اعمال آپکو ہر کسی کے آگے خاک کر گئے، یہ بے بسی سزا نہیں ہے جی بلکہ مکافات عمل ہے۔۔۔۔کیا کروں تربیت ایسی نہیں کہ دشمن کی بے بسی پر خوشی مناوں، کایا پلٹتے دیر نہیں لگتی اور یہی میری تربیت میں سوئی دھاگے سے پرویا گیا تھا۔ اگر میرے سر پر دادا سائیں نہ ہوتے تو آج بخت کی اولاد ہونے کے ناطے میرا دامن بھی خالی ہوتا ، اور اپنے دامن کو سیر کرنے والے کا بدلہ لینا مجھ پر قرض تھا"

وہ برسوں سے دل میں جمے دکھ کو لفظوں مے ذریعے نکالتا کہہ کر جھٹکے سے اٹھا، ایک مایوس نظر اس تڑپتے شخص پر ڈالتا مڑا کیونکہ ابھی دل عجیب کمزور سا ہو رہا تھا اور سامنے دروازے سے اندر داخل ہوتیں خدیخہ آنکھوں میں پشیمانی لیے اسکے قریب چلی آئئں اور سمجھ جاتا تھا کن آنکھوں میں کیسا درد جاگا ہے۔

"معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے خدیخہ خانم، آپ بڑی ہیں اور کسی وقت آپ میثم کی سب سے بڑی خیر خواہ اور مددگار رہی ہیں۔ جو ہوگیا اچھا ہوا یا برا، بہترین ضرور ہوا ہے۔ آپکی اشنال لے کر جا رہا ہوں اور کل وعدے کے مطابق آپکے عزیز خان آپکو روبرو دیکھنے کو ملیں گے۔ اس جدائی کے لیے معذرت۔۔ اسی کو ہلکی پھلکی بدگمان ہونے کی سزا سمجھ کر دل ہلکا کر لیجئے گا۔۔۔ اب مجھے زیب تھوڑا دے گا آپ جیسی ماں سے لڑنا"

وہ انکے بنا کہے ہی سب سمجھ گیا تھا اور خدیخہ روتی روتی آخر تک مدھم سا مسکرائیں تب بھی آنکھوں میں آنسو چمک گئے۔

"اسے زیادہ مت ستانا، اس نے یقین نہیں کیا کہ تم قاتل ہو سکتے ہو سو اسکی لاج رکھنا، تھوڑی سی ڈانٹ کھا لینا محبت ہے وہ تمہاری۔ اور اسکا خیال رکھنا ضرار، یقین ہے اب اشنال کی زندگی میں کوئی دکھ نہیں بچے گا"

وہ اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے آسودگی کے سنگ پیشانی چومتیں بولیں جس پر وہ نڑوٹھا سا چہرہ لیے انھیں دیکھنے لگا، ابھی طرفداری اور مدافعتی انداز اسے قبول نہ تھا مگر کوئی اسکے دل سے پوچھتا کہ کیسا ٹھنڈا ٹھار لمس ہے اس یقین نامی بلا کا۔

وہ دونوں ہی ایک ساتھ نیچے آئے اور پھر ضرار کچھ دیر مردان خانے کی طرف بیٹھا رہا جہاں مولوی صاحب ایک بار پھر انکے نکاح کی شرعی اور قانونی تصدیق اعلانیہ کروانے کے لیے منتظر بیٹھے تھے۔

چونکہ ضرار اور اشنال کا نکاح اب بھی برقرار تھا سو انہوں نے ہی یہ بتایا کہ دوبارہ مکمل طور پر نکاح کی کوئی ضرورت نہیں بس شرعی اور قانونی تصدیق ضروری ہے تبھی اس معاملے کے لیے انھیں مدعو کیا گیا تھا۔

پھر فون پر جبل زاد کے پراسرار پیغام پر وہ مسکراتا ہوا وہاں بیٹھے افراد سے معذرت کرتا حویلی کے پورچ کی طرف آیا تو ایک شاپنگ بیگ تھا جو جبل زاد کے ہاتھوں میں جبکہ حسین سی مسکراہٹ چہرے پر درج تھی۔

"ہاں جبل زاد! کیا لائے ہو بھئی؟"

ضرار نے اسکی جانب سے بڑھایا شاپنگ بیگ تھامے تجسس سے پوچھا اور پھر کھولنے پر اندر سے نکلتا سیاہ گروم سوٹ دیکھ کر ضرار خود اس پر بے ساختہ ہنس دیا۔

"آپکا لکی سوٹ، چوہدری ضرار سے میثم بن جائیں زیادہ جچیں گے۔۔۔ آپ پر یہ رنگ اچھا لگتا ہے سائیں، اور یہ آپکی صنم کا بھی آپکے حوالے سے پسندیدہ ہے۔ سوچا اتنا لکی ڈے ہے تو اس کو لیتا چلوں۔۔۔تھوڑے سج دھج کر جائیں تاکہ پتا چلے میثم بازی پوری شان سے لے اڑا ہے"

آج تو جبل زاد کے رنگ ڈھنگ بھی دیکھنے لائق تھے اور واقعی جب وہ چینج کر کے خانم حویلی کے دالان میں لگے بڑے سے شیشے کے سامنے آیا تو گاڑی کے پاس کھڑے جبل زاد نے انگشت شہادت اور انگوٹھے کو ملا کر دور سے ہی شرارت کے سنگ داد دی۔

اور پھر وہ سیدھا گل خزیں خانم کے پاس پہنچا جہاں سے مشارب کی غیر موجودگی کا جب سبب معلوم ہوا تو اسکے غصے کی انتہا نہ رہی، لیکن جبل زاد چونکہ بزدار حویلی سے ہی ہو کر آیا تھا سو زونی کے مل جانے کی خبر بروقت پہنچا کر ضرار کے غصے کو ٹھنڈا کیا گیا، اور اس نے مشارب کو بھی زونی کے حوالے سے جبل زاد کو پیغام بجھوانے کا کہا کیونکہ گل خزیں اور خدیخہ خانم ، مشارب کے گھر سے غصے کے سنگ نکلنے کے باعث بہت خوفزدہ تھیں ، نکاح کی شرعی اور قانونی تصدئق ہوتے ہی خواتین نے رخصتی کی تیاری بھی مکمل کروا لی گئی اور خود وہ تھوڑی سی آگ لگانے کی نیت باندھے اشنال عزیز کے کمرے کی طرف بڑھا۔

"تم! تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہاں قدم رکھنے کی کولڈ فش۔ سفاک ، سنگدل، نکلو ابھی کہ ابھی ورنہ تمہیں مارنے کی میری تیسری کوشش آج ہرگز ناکام نہیں جائے گی"

آئینے میں ابھرتے اس شخص کا عکس گویا ، اس پور پور سجی سہاگن کی بھیگی، اجنبیت کا منصوعی عکس سمو لیتیں آنکھوں میں آگ کے شعلے بھر گیا۔ جھٹکے سے وہ اس شخص کی ڈھیٹائی اور بے خوفی سے یہاں چلے آنے پر مڑی، اپنے سامنے ، اس شخص کو دیکھ کر وہ سر تا پیر سلگی تھی، اپنے نرم لہجے اور مہربان وصف کی پرواہ کیے بنا اس پتھر کے مجسمے پر غصے سے چینخی۔

"ماریں گی تو یہ گناہ کہلائے گا، آپکے سو کولڈ اچھے اور پیارے رشتہ دار اور پنچائتی ، مجھے آپ پر حاکم بنا چکے ہیں صنم۔ ویسے آپکی اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی تھی کہ آپ کا مقدر ایک قاتل بنتا"

وہ سر تا پیر فتخ کے خمار میں لپٹا ہوا اس نازک لڑکی کی جان نکالنے پر اترا ابھی اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھا کہ اس مومی گڑیا کی کشش نے میثم ضرار چوہدری کے قدموں کو اپنی جانب کھینچا۔

دونوں ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں تھے۔

"رہی بات اس دہلیز تک آنے کی ہمت کی تو پہلی بار تھوڑی کی ہے، ابھی آپ میثم ضرار چوہدری کے اصل جنون اور ضد سے تو واقف ہی نہیں ہیں میری جان تو اسے چھوڑیں بلکہ آپکو اس وقت یہ فکر ہونی چاہیے کہ جو شخص آپکی ہار دیکھنے پوری خانم حویلی کے مکینوں کے سامنے روبرو آسکتا ہے وہ آج اس حاکمیت کے نشے میں آپکی روح کے کون کونسے تار نہیں چھیڑ سکتا"

خشونت بھری سخت آواز کے سنگ وہ رعب و دبدے کو بڑھائے کب اپنے قدم بڑھاتا اس خوبصورت آنکھوں والی کے سامنے جا رکا اور اس شخص کے سائے کے لمس سے ملتا قرار رد کیا، بے اختیار ہی اس دشمن جان کی آنکھیں دیکھ کر اسکے مزاحمت کرتے سارے ارادے جھاگ بن کر پگھل گئے، عضے کی شدت دور جا بسی۔

رہ گئیں تو اشنال عزیز کی جگر پاش نظریں جو اس دھمکی اور ذومعنیت بھرے انداز پر تاسف سے بھر گئیں۔

"میں تمہاری ضد اور تمہارے جنون کو رتی برابر وقعت نہیں دیتی ہوں، تم کسی مغالطے میں مت رہنا کہ تمہیں دی جانے والی میری اس سزا کے بیچ میرے جذبے رکاوٹ بنیں گے۔ میں نے جو تم سے محبت کی تھی اسے آتے ہی اپنے اندر دفنا دیا۔ بھولے سے بھی اپنی حد سے باہر مت نکلنا"

اشنال عزیز، آج دل پتھر کیے اس جنونی پاگل کو خود سے دور پٹخنے کا ظلم ڈھا رہی تھی جو اپنی سیاہ آنکھوں میں چمک بھرتا، تمسخرانہ مسکراہٹ اچھالے دونوں ہاتھ بلا تمہید و اجازت ، اشنال کے اردگرد دیوار سے ٹیکے زرا غور و فکر کے سنگ اس لڑکی کے گڈ مڈ تاثرات جانچنے اور خدیجہ خانم کی تصدیق کو اس پر جھک سا آیا اور وہ بنا مہلت دیے اپنے ہاتھوں کو بڑھائے، اس شخص کے چوڑے سینے سے نرم ہتھیلیاں لگائے دباو دے تو رہی تھی مگر وہ پہاڑ اس مزاحمت پر اپنی جگہ سے اک انچ بھی نہ ہلا۔

الٹا میثم ضرار چوہدری کی آگ لگاتی مسکراہٹ پر اشنال کا دل گھٹنے لگا۔

"جیسے آپ نے اظہار کیا ہے اپنی بے بسی کا، کاش ویسا مضبوط انکار بھی کرتییں تو میں مان جاتا کہ آپ نے ضرار چوہدری کی محبت کیا بلکہ مجسم اس پورے انسان اس قبر میں دفنا دیا ہے جس پر میرے نام کی تہمت ہے"

وہ مونچھ تلے چھپے خوبصورت لب مسکراہٹ زائل کیے کڑوی تلخی میں ڈھلے وہیں وہ سہولت سے اشنال کے سب لفظ اسکے حلق میں دفن کر چکا تھا۔

"رہی بات اوقات کی صنم! تو وہ میری ہمیشہ سے ایسی تگڑی رہی ہے۔ آپکی بے یقینی کی ایک سزا یہ بھی ہوگی کہ آپکو ایک وقت میں ایک ہی شخص سے محبت اور نفرت دونوں کرنے پر مجبور کروں گا"

وہ پھر سے استہزایا ہوئے آنکھ مارے مسکرایا، اسکی بہکتی خمار آلود نظریں، امثال کے ہونٹوں پر لٹکتے نتھلی کے موتی پر جا جمیں، جبکہ پھر اس لڑکی کے ہونٹ بھینچنے پر ضرار چوہدری نے برہمی کے سنگ اسکی آنکھیں دیکھیں جو محبت اور ناراضگی کی ملی جلی کیفیت میں لپٹ کر ضرار چوہدری کو مزہ دے گئی تھیں۔

"چلے جاو یہاں سے ورنہ تمہاری جیت کو تمہاری ہار بنا دوں گی"

وہ ہنستا چہرہ اس نازک کو آگ لگا گیا تھا جو اب اسکی دونوں بازو پرے دھکیلتی اسے پیچھے دھکا دیے پرے سرکی، جبکہ ضرار چوہدری کا قہقہہ گونج کر اسکی نس نس میں اذیت دوڑا گیا۔

"اب ضرار چوہدری ہارنے سے تو رہا، اب ہارنے کی باری صنم کی ہے۔ دل و جان ہار دیں گی اب آپ"

وہ اسکی کلائی پر چٹانی گرفت بڑھائے، اسے دوسرے ہاتھ کو بڑھا کر اپنی جانب کھینچ کر بازووں میں قید کرتے ہوئے اپنے لہجے کی تابناکی کے سنگ باآواز بلند بولا جس پر اشنال نے ہمت ختم ہونے پر اسکے سینے پر یکے بعد دیگرے مکے برسانے شروع کر ڈالے۔

"تمہاری بھول ہے، خود کو قاتل ثابت کرتے پھر رہے سو ایک اس الزام کے ہوتے ہوئے میری ہار کی امید بھی مت کرنا"

وہ پے در پے اسکے الٹی جانب نسب دل اور سینے پر مکے برساتی بولی نہیں، سسک کر غرا رہی تھی، جبکہ اس سالم مضبوط اور باحوصلہ شخص کے دل نے تو بس 'الزام' پر رک جانا چاہا، ہاں وہ بے یقین نہیں ہوئی یہ وہ ان ہونٹوں سے سن کر تھم چکا تھا، لمحے میں اس شخص کی ضد اور ہٹ دھرمی نے اذیت کا روپ دھارا تھا۔

وہ اسے لمحہ لگائے خود کے شدت بھرے حصار سے آزاد کیے، چند قدموں کا فاصلہ بنا چکا تھا، میثم ضرار چوہدری کا بنایا یہ فاصلہ اشنال عزیز کی رہی سہی سینے میں مچلتی دھڑکن روک کر رکھ گیا۔

"الزام کیسا، قتل تو ثابت ہے میری جان۔۔۔ کیوں دل کو تسلی دے رہی ہیں؟ وہ اچھا ، نیک اور شریف میثم تو پتا نہیں کہاں چلا گیا۔۔۔یہ تو سفاک اور سنگدل انسان ہے۔ غصے اور نفرت کے بیچ فرق کرنا نہیں آتا آپکو، مجھے خود سے دور کر رہی ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اب ایک لمحے کی دوری آپکو نصیب نہیں ہوگی وہیں ان آنکھوں میں نفرت کے بجائے محبت سے چور جذبات مچل رہے ہیں"

لمحے میں وہ منصوعی سفاکیت کا لبادہ اوڑھے اس لڑکی کے اس دہکتے روپ سے دامن بچاتا ہوا واپس قریب آن جما، آنکھیں اشنال عزیز کے اندر تک اتر رہی تھیں۔

"کوئی بات نہیں کرنی مجھے تم سے سنگدل کہیں کے"

وہ اسکے قریب آکر لہجہ بدلنے سے خوف کھاتی اسے پرے کرتی تب تھمی جب وہ اسکے دونوں ہاتھ جکڑ کر اپنی پشت پر باندھے اسے لاک کرتا خشمگیں نظروں سے ان بھیگی آنکھوں میں جھانکا۔

"مجھے بھی آج کوئی بات نہیں کرنی، نہ بات کی مہلت دوں گا آپکو یہ بات اپنے گرم کھولتے دماغ میں اچھے سے بسا لیں۔۔آپ ابھی میرے ساتھ رخصت ہو رہی ہیں اشنال عزیز"

رعب و حاکمیت کے سنگ کہتے ہی وہ اسے ناصرف خود سے آزاد کر گیا بلکہ رخ موڑ کر واپس دروازے کا رخ بھی کر گیا مگر اس لڑکی کے اعتراض پر جیسے اپنے افشار خون کو بمشکل نارمل رکھتے ہوئے وہ واپس پلٹا۔

"مجھے نہیں رخصت ہونا، میں تم سے ناراض ہوں"

وہ اب تک ستانے پر اتری ہوئی تھی۔

"چوائز نہیں دی، حکم دیا ہے۔ بیوی بن کر رخصت ہو رہی ہیں تو خود کو مکمل میری ملکیت سمجھیں۔۔۔آپکی ناراضگی آج تفصیلی مٹاوں گا"

چہرے پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی سجاتا وہ کمرے سے نکل گیا اور وہ ہزار ہا خواہش کے باوجود آج اس شخص سے سر تا پیر خوف کھا رہی تھی۔

اسکے نکلتے ہی مسکراتی ہوئی گلالئی اندر آئی جو اسے رخصتی کی مکمل تیاری ہوجانے کا ہی بتانے آئی تھی اور گلالئی اسکے ساتھ ہی جانے والی تھی۔

"گل! بہت ڈر لگ رہا ہے"

گل کے دونوں ہاتھ پکڑتی وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی تبھی تو گلالئی کے چہرے پر حسین مسکان پھیل گئی۔

"ڈریں مت خانم!اہمم اہمم آج تو برابری کا مقابلہ ہوگا۔ بس جلدی سے مجھے ماسی بنا دیجئے گا بہت انتظار کر لیا"

ایک تو اس شخص کی حسرت اسکی پہلے ہی سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ کر انگ انگ سے پھوٹتی گھبراہٹ بن کر جان لے جا رہی تھی اوپر سے گلالئی بھی جان لیوا چھیڑ گئی جس پر اشنال کے گال سرخ پڑے اور آنکھیں رحم طلب ہوئیں۔

"گلالئی! آدھی جان وہ نکال گیا باقی تم نکال لو۔۔۔۔بہت برے ہو تم سب"

گویا انگ انگ سے پھوٹتا ڈر اس لڑکی کو نڈھال کر گیا اور گل ہنستی رہی کیونکہ اسکی خانم فائنلی سب کی دعاوں کے حصار میں اپنے میثم کے ساتھ رخصت ہونے والی تھی۔

"اب تو حقیقی خوشیوں کو پانے کا وقت ہے خانم! میرا بس چلے تو میں زور زور سے چینخوں اور پوری دنیا کو بتاوں کے دیکھو ! محبت جیت گئی، امتحان اور آزمائشیں ہار گئیں۔ ویسے بھی میں آپکے ساتھ جا رہی ہوں، بہادر بنیں۔۔۔ چلیں آجائیں، گل خزیں خانم نے بلوایا ہے، وہ اپنی دعاوں میں آپکو رخصت کر کے اپنے کیے کی تلافی کریں گیں"

وہ اسے ابھی جتنا بھی حوصلہ دے لیتی، اسکے جسم کا رواں رواں کانپ رہا تھا، گل خزیں نے اسے گلے لگا کر تاعمر سہاگن رہنے کی دعا دی تھی پھر خدیخہ خانم نے ہر ماں کی طرح ہدایات کی گٹھڑی تھمائی تھی اور وہ یوں دیکھتے ہی دیکھتے اس دشمن جان کے ساتھ خانم حویلی سے رخصت ہو گئی۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اس وقت اس کے اندر ایک لاوا ابل رہا تھا، بدلے تک تو ٹھیک تھا مگر فیصلے کے بعد اس سانسیں کاٹ دیتے میثم ضرار چوہدری نے اسے جو دوسری ہار بخشی تھی وہ شہیر کی ہستی تہس نہس کر گئی۔

پوری پنچائیت کے سامنے ضرار نے اپنے اور اشنال کے کبھی طلاق نہ ہونے اور شہیر کی منکوحہ سرے سے نہ بننے کا جو دوسرا انکشاف کیا تھا شام میں وہ جرگے کے خاضرین کے لیے بھی دل دہلاتا جھٹکا اور شہیر مجتبی کے لیے آخری شکست ثابت ہوا تھا۔

"پھر تو نکاح کی ضرورت ہی نہیں"

اسکی سماعت میں سردار شمشر یوسف زئی کی آواز گونجی تھی۔

"جی سرپنج صاحب میں اس لڑکی سے تجدید نکاح کرنے کا خواہش مند ہوں، نکاح تو رجسٹر ہے پر شرعی اور قانونی تصدیق ہوجائے تو بہترین رہے گا، اسے میری خوشی سمجھ لیں ، میرا مقصد خود سے حسد کرنے والے اس شخص کو حتمی شکست دینا تھا۔ اور پھر جس طرح خاقان خان نے نکاح جیسے مقدس رشتے کی بے حرمتی کی، میری گزارش ہے کہ آئیندہ ویسا کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے جو میثم اور اشنال کے ساتھ ہوا کیونکہ ہر بار اللہ وہ آسانی نہیں دے گا جو اس رب نے مجھے دی، میرے تمام گناہوں کے باوجود"

اس وقت جو جواب اس شیر نے دیا تھا اس نے پنچائیت کے تمام معززین کو میثم ضرار چوہدری پر رشک کرنے پر مجبور کیا تھا اور وہ لوگ خاقان پر صرف لعنت ہی بھیج سکے تھے جو بستر مرگ پڑا پہلے ہی اپنے گناہوں کا کیا بگھت رہا تھا۔

شہیر کی جان بخشی تو بہرحال ضرار نے آج بھی کروائی تھی کیونکہ اس نے علیم مجتبی کی موت کا راز مصلحتا بس اس لیے چھپا لیا کہ اس شخص نے اپنے حاسد کی محبت کا احترام کیا تھا۔

محبت کے بارے ضرار کا نظریہ بڑا رحم دل تھا اور اگر وہ علیم والی سچائی جرگے کے سامنے بتا دیتا تو آج شہیر کو سزائے موت سے کوئی بچا نہیں سکتا تھا۔

جرگہ خیر و عافیت سے جب مکمل ہوا تو وہ مسکراتا ہوا اس لاوے سے بھرے شخص کے پاس آکر کچھ دیر رکا تھا۔

وہ سارے منظر یاد آکر شہیر کو سلگا رہے تھے۔

"تمہیں تجسس تھا کہ کیوں میثم ضرار چوہدری اپنے صنم کے تمہارا ہونے کے باوجود بڑا پرسکون پھرتا ہے تو یہی وجہ تھی شہیر مجتبی کہ وہ میری تھیں، ہیں اور میری آخری سانس تک رہیں گی۔ اگر ہماری طلاق ہو جاتی اور انکا تم سے نکاح ہو جاتا تو شاید میثم مر جاتا، لیکن میری موت بھی بہت سوں کی موت تھی تبھی مالک دوجہاں نے مجھے بچا لیا، دراصل بہت سوں کی موت ٹلی۔ پھر تمہیں موت کے قریب لے جا کر جو واپس لایا گیا ہے اسکی وجہ صرف وہ لڑکی ہے جسکا مقدر اور دل حقیقت میں تمہارے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اسے میری خود پر آخری عنایت سمجھنا"

ضرار نے اسکی جلتی آنکھوں میں اپنی پرسکون آنکھیں گاڑ کر اسے ایک آخری رحم سونپا تھا، مگر یہ شہیر پر اذیت کے در کھول گیا۔

"وریشہ اور اشنال دونوں بہنیں ہیں شہیر مجتبی جو مجھے تمہارے نکاح کا علم ہونے سے کچھ دن پہلے ہی ولی زمان خان سے پتا چلا تھا اور اگر تمہارا واقعی اشنال سے نکاح ہوتا تو وریشہ سے تمہارا نکاح کبھی بھی نہ ہو پاتا اور نہ تم آج اپنی محبت کے حاکم ہوتے سو اس معاملے میں بھی میں نے تمہارا بھلا کر دیا، اس لڑکی کا بھلا ہوا ہے یا برا یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔ جب مجھے تمہارے اور وریشہ کے نکاح کا علم ہوا تب میں بہت حیران ہوا تھا، میرے نزدیک تم جیسے بددماغ اور سنکی آدمی پر قدرت کی ایسی مہربانی بہت اضافی لگی پر پھر یاد آیا کہ تمہیں تو محبت میں ڈال کر آزمائش میں پھینکا گیا ہے۔ دوستوں کو ضرار اپنا سینہ وار کے لیے پیش کرنے کا عادی تھا، لیکن تمہارے معاملے میں میثم ضرار چوہدری نے داو پر اپنا سب کچھ لگایا اور دیکھو اللہ نے میرا زرا بھی نقصان ہونے نہیں دیا۔ آج سارے خسارے تمہارے دامن میں ہیں ، محبت سمیت"

اس کا لفظ لفظ شہیر کی آنکھوں میں خون سمیٹ لایا تھا نہ تب اس کے اندر سکت تھی ضرار کے آگے بولنے لی نہ اب وہ چینخ پایا کہ اپنے دماغ کو اس شخص کے بے رحم لفظوں سے آزاد کروا سکے۔

"تم نے مجھ سے تاعمر حسد کیا شہیر، لیکن میں نے تمہیں بارہا کہا کہ جو زندگی میں نے گزاری ہے اسکا ایک دن بھی تم جیسا نازک مزاج نہیں گزار سکتا۔ دیا تمہیں اپنی زندگی جیسا ایک بھیانک ہار سے وابستہ دن، جی جاو تو سمجھ جانا حسد میں سرخرو ہو گئے اور اگر نہ جی پاو تو اب بھی وقت ہے یہ دشمنی ختم کر کے اپنے راستے پر دھیان سے چلنا شروع کر دو۔ میں نے کبھی تمہیں بددعا نہیں دی شہیر مجتبی، مگر تم نے بھی کبھی دعا لینے کی کوشش نہیں کی۔ اب کر کے دیکھنا، ہو سکتا ہے تمہارے دامن میں سمٹی ہوئی بددعائیں کسی اک دعا کے اثر سے زائل ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔"

وہ تب یہ آخری جملے کہہ کر اس پتھر کی طرح جم چکے وجود پر اضطراری نگاہ ڈالے وہاں سے تو چلا گیا تھا مگر اب تک اسکے کہے الفاظ اس شخص کا امتحان بنے ہوئے تھے۔

سانول مجتبی اور اماں کوثر تو اپنے بچے کی سلامتی پر خوشی سے نڈھال تھے، دونوں کچھ دیر پہلے ہی علیم کی قبر پر فاتخہ کے لیے گھر سے نکلے تھے اور وہ اکیلا ڈھلتی شام میں کہیں خود میں رکا ہوا صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھا تھا۔

"مجھے ایسی زلت بھری ہار دے کر اچھا نہیں کیا تم نے ضرار، میرے دامن میں بچ گئی ہے تو بس وہ ایک لڑکی جیسے اگلی ملاقات پر مجھے چھوڑنا بھی ہے۔۔۔۔ نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ اسے چھوڑ کر میں کیا کروں گا"

وہ اپنے ہاتھوں میں سر جکڑ کر بیٹھا ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھا جب گھر کے دروازے پر ہوتی مانوس سی آہٹ پر شہیر نے اپنی درد کرتی آنکھیں اٹھائے سامنے دیکھا، لمحوں میں دل کی حالت بے یقین ہوئی تھی۔

سیاہ ہالے میں مقید وہ دمکتا سفید چاند اسکے اجڑے آنگن میں کیسے نکل سکتا تھا، وہ چارپائی سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ لڑکی بھی اداس سی مسکراتی آنکھیں لیے عین اس شخص کے روبرو آکر کھڑی ہوئی۔

دادا سائیں نے اسے جب اشنال کے آنے کی خبر دی تو اس سے رہا نہ گیا مگر یہاں آکر پتا چلا وہ تو رخصت ہو گئی پھر بہن سے زیادہ اس شخص کو اسکی دلجوئی چاہیے تھی تبھی وہ اپنے آپ کو ہزار ہا روکنے کے باوجود اک ہمدرد بنی یہاں چلی آئی تھی۔

"سب پتا چل گیا ہے مجھے، ان فیکٹ مجھے یہ سچائی بہت پہلے سے پتا تھی کہ تمہارا اور اشنال کا نکاح نہیں ہوا۔ اور سچ بتاوں اس کو جاننے کے بعد ہی تمہارے لیے الگ طرح سے سوچنا شروع کیا تھا۔ عورت جس بھی طبقے کی ہو، اپنے ساتھ جڑے مرد کو مکمل اپنا چاہتی ہے۔ ضرار لالہ نے اشنال کی حفاظت بہت سٹرونگ رہ کر کی، اور اگر مجھے یہ سب پہلے پتا چلتا تو ممکن ہے میں اور تم کبھی اس مختصر سے سفر میں ایک راہ پر نہ نکل پاتے۔ پھر سوچتی ہوں جو ہوتا ہے بہتری کے لیے ہوتا ہے"

وہ اسے دیکھ رہی تھی جو سرد تاثرات کے سنگ خاموشی اختیار کیے اس سن رہا تھا، دل و دماغ میں عجیب سا طوفان برپا تھا۔

"تو تم بہت پہلے جان چکی تھی کہ مجھے بیوقوف بنایا گیا ہے اور میں بن بھی گیا، لیکن تم بھی چپ رہی۔ سب جانتے تھے سچائی میرے سوا۔۔۔ اور شاید یہ سب میں ڈیزرو کرتا ہی ہوں تبھی میرے ساتھ ہوا۔ میں نے جو گناہ کیے ، اس پر رب کے سوا کوئی پردہ ڈالے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا، اور وہ ضرار ہو پھر تو ہرگز نہیں۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی کا مسلسل برا کرتے جائیں اور ہمارے ساتھ نفرت کے باوجود بھلائی کرتا جائے؟"

وہ عجیب بے قرار سا تھا مگر یہ آخری سوال کرتے ہوئے شہیر مجتبٰی کے چہرے کے سرد تاثرات یکدم پتھریلے ہوئے اور وہ لڑکی افسردہ سا مسکرائی۔

"تم ایسا سمجھ لو کہ وہ وریشہ کا میل ورژن ہیں، یا میں ضرار لالہ کا فی میل ورژن ہوں۔۔

اللہ کے سوا کوئی ہمارے عبیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا شہیر۔ بلکہ وہ ایسے بندوں کو وسیلہ بناتا ہے، جو دوسروں کا پردہ رکھنا بہت سیلقے سے جانتے ہوں۔ اور جتنا میں انکو جانتی ہوں، وہ کسی کو بلاوجہ بے عزت کرنے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ہر انسان اپنی جگہ، اپنے مطابق بہتر ہوتا ہے، لیکن ہر آنکھ اس کو الگ طرح جج کرتی ہے"

وہ بہت پرسکون ہو گئی تھی، جب سے اس نے محبت میں دل اور جان دے دینے کی ترکیب آزمائی تھی، آج وہ آخری ملاقات کا کوئی خوف بھی اپنے دامن پر نہیں رکھتی تھی بلکہ اسکے نزدیک یہ ملاقات تو اسکی شہیر مجتبی سے اضافی میں شمار ہونے والی ہے۔

آپسی تکرار سے بے نیاز ایک ہمدرد دل اور دکھی دل کی ملاقات!

"تم بھی اسکی مداح ہو، پوری دنیا کی طرح"

وہ خفیف سا سلگا تو وریشہ اس بار اس باولے کی جلن پر ہنسی۔

"پاگل! میں تو اپنے دل کی مداح ہوں جس میں تم جیسا بے عقل سما گیا۔ باقی اچھے کو اچھا کہنا تو ایک فطری شے ہے، تم جب برے تھے تو تمہیں بھی تو کہا تھا برے ہو، اور اب بھی کہہ رہی ہوں"

وہ اسکی اداسی سمیٹنے میں تھوڑی سہی پر کامیاب تھی اور وہ وریشہ کو اپنی آنکھوں سے کبھی نہ اوجھل ہونے کی دعا دے رہا تھا، وہ یوں تھا گویا اس پوری دنیا میں اسکے پاس راحت کا اک نقطہ بس یہی لڑکی بچی ہو۔

"اب کیا کہہ رہی ہو؟ "

وہ عجیب سی تکلیف کا شکار تھا۔

"یہی کے کچھ بہتر ہو گئے ہو، حسد کے بجائے تم ضرار لالہ جیسا بننے کے لیے رشک کا آپشن بھی چن سکتے تھے لیکن اتنی عقل آتی کہاں اس آگ بھرے دماغ میں۔ حسد کسی کو بھی ہو سکتا ہے شہیر مجتبی کیونکہ یہ انسانی فطرت میں درج ہے۔ لیکن خود کو ان بے جا بیکار جذبوں سے نکالنا ہم انسانوں کا کام ہے، اور تم نے سنا نہیں کہ بڑے بوڑھے سیانے لوگ کیا کہہ گئے ہیں کہ ’’حسد کی عادت کو رشک میں تبدیل کرلو۔‘‘ کہ کسی کی نعمت کو دیکھ کر یہ تمنا مت کرو کہ یہ نعمت اس سے چھن کر مجھے مل جائے بلکہ یہ دعا کرو کہ اللہ اس کی اس نعمت میں مزید برکت عطا فرمائے۔"

وہ اسکی باتیں سن کر تمام تکلیف پرے کرتا خفیف سا مسکرا دیا تھا، اسے یہی لگا کہ اس لڑکی میں آج کسی عالم کی روح گھسی ہے۔

"بہن سے مل لیا؟"

وہ ساری بعث خود چھوڑ چکا تھا جبکہ اسکے سوال پر وہ زرا بوجھل سا ہوئی۔

"نہیں، وہ تو رخصت ہوگئی میرے آنے سے پہلے ہی، اب سوچ رہی ہوں کل یا پرسوں خود جا کر مل آوں کیونکہ جتنی دیر بعد ضرار لالہ کو وہ ملی ہے، مجھے نہیں لگتا وہ اسے اتنی جلدی واپس میکے آنے دیں گے"

اسکی اداسی میں شرارت کا عنصر خود شہیر کا فضول موڈ بہتر کر گیا۔

"ہمم، لیکن بے دھیانی میں تم اپنے سسرال چلی آئی ہو، میرا مطلب ابھی تک تو یہ سسرال ہی ہے اور یہ آخری ملاقات تو ہرگز نہیں ہوگی جہاں تک مجھے یقین ہے"

وہ انکے ذکر کو نہیں چاہتا تھا تبھی ناگواری سے ہمم کیے اگلے جملوں سے وریشہ کے چہرے پر اک اداسی سمیٹ لایا، خود بھی سنجیدگی اختیار کی۔

"تم پر منحصر ہے، شرط تمہاری تھی تو حکم بھی تمہارا ہوگا۔ ویسے گھر پیارا ہے تمہارا، کچے صحن والے گھر پسند ہیں مجھے پھر اماں کوثر نے جو باغ بنا رکھا سارا رقبہ اسکی تو بات ہی الگ ہے۔ یہ رات کی رانی ہے ناں،میں نے تو سنا ہے اس پر سانپ آتے ہیں؟۔۔۔۔ تو یہ گھر میں کیوں لگا رکھی ہے"

وہ اول جملے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی پھر خود کو جیسے اس شخص کی نظروں کے پرتپش لمس کے حصار سے آزاد کروائے وہ اس کھلے کشادہ سر سبز گھر کے صحن کو دیکھتی اس سفید پھولوں والے خوشبودار پودے کو دیکھ کر پریشان سی ہوئی کیونکہ یہ پودا زیادہ تر حویلوں یا کھلی جگہوں پر لگائا جانا ہی سیو سمجھا جاتا تھا۔

"اتنے بڑے ناگ کے ہوتے سانپوں کی جرت کے وہ یہاں داخل ہوں"

وہ وریشہ کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر جو سنگدلی سے بولا اس پر وہ بے اختیار خفا سی ہو کر مڑی جہاں وہ خود اذیتی اور جان کنی پر اترا لگا۔

"خود کو جتنا برا کہنا ہے کہہ لینا پر میرے جانے کے بعد، مجھے تمہاری برائیاں سننے میں کوئی انٹرسٹ نہیں"

وہ منہ بگھاڑ کر اس سے پہلے اسکی دسترس سے بھی نکلنے کو مڑتی، وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتا لمحہ لگائے اسے خود کے نزدیک کھڑا کر گیا جو ایسی نزدیکی کی امید ہرگز نہیں کر رہی تھی، یہاں تک وہ سب بھول بھال کر اسے خود میں سانس سانس تک خوشبو کی طرح تحلیل کیے بنا اجازت مبتلا کر بیٹھا، یہ تو اس لڑکی نے بے رحم بنتی قربت پر اسکے ہوش پر دستک دی تو بے خودی کے سلسلے کو روک کر جیسے خود کو بھی بے اختیار محسوس کرتا ان آنکھوں میں جھانکا جہاں شدت بھری جان نکالتی کاوش سے چہرے کے رنگ بدلے اور جسم و جان کے انداز ، اس شخص کے لیے نرمی میں تبدیل ہوئے۔

"میں نہیں چاہتا ہماری کوئی ملاقات آخری ہو وریشہ، میں تمہیں بلکل تنگ نہیں کروں گا لیکن تم جب تک چاہو میرے نکاح میں رہ سکتی ہو۔زیادہ کچھ نہیں ہم بس کبھی کبھی یونہی ایک دوسرے سے تھوڑی دیر بات کر لیا کریں گے۔۔سب نارمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیا تم مجھے یہ تھوڑا سا فیور دے سکتی ہو؟"

وہ کل سنگدل تھی تبھی وہ کہہ نہیں پایا تھا پر آج دوست بن کر آئی تھی تبھی وہ بھی کمزور پڑتے ہوئے یونہی ناجانے جی میں کئا آئی کے خواہش کو لفظوں کا روپ دے بیٹھا اور کتنی ہی دیر وریشہ سے کچھ بولا ہی نہ گیا۔

"اگر اتنا قریب کرتے رہو گے تو کچھ بھی نارمل نہیں رہ سکے گا اور یہ تم بھی جانتے ہو، مجھے ہمارے بیچ کے اس تعلق کی خبر دادا سائیں کے علاوہ ولی زمان خان کو بھی دینی ہے کیونکہ تمہارا نام نہیں جانتے، تمہارا نام ظاہر کرنا ہے۔ اس سچائی کے بعد اگر دادا سائیں نے مجھے تم سے علیحدگی لینے کا کہا تو میں انکی بات نہیں ٹالوں گی"

وہ افسردہ تو نہیں تھی پر جیسے یہ سب فیصلے بتاتی کچھ متفکر ضرور تھی، شہیر کے لیے اگر وہ کچھ نہ کر پائی تو اسکا ملال اس لڑکی کو تاعمر رہنے والا تھا۔

"ہمم، تم جاو پھر۔۔۔ اتنی ملاقات کافی ہے۔ لیکن ولی کو ابھی مت بتانا، میں اسے کسی اور طریقے سے بتانا چاہتا ہوں۔۔۔بے فکر رہو، وہ طریقہ اسکو جلدی صبر کر لینے میں مددگار رہے گا"

اسے جس طرح بے اختیار قریب کیا تھا ویسے ہی دانستہ دوری اختیار کیے وہ کچھ فاصلے پر کھڑا ہو کر جو بولا اس نے وریشہ کو بے چین کیا۔

"تکلیف مت دینا انھیں، میں نے پہلے ہی بہت دی ہے۔ میں نہیں چاہتی انکی تکلیف ایک بار پھر میری وجہ سے بڑھے، چلتی ہوں"

آنکھوں میں تاسف بھرے درخواست کرتی وہ اس سے دور ہو گئی، جاتے جاتے پلٹ کر اس نے شہیر کو دیکھا تھا۔

"اپنا خیال رکھنا"

کہہ کر وہ رکی نہیں تھی اور تیز تیز قدم اٹھاتی کھلے دروازے سے وہ جیسے آئی ویسے ہی باہر نکل گئی جبکہ شہیر نے تھکن زدہ مسکراہٹ دیے اس لڑکی کے گم ہو جاتے سراپے کو کچھ لمحے بنا بینائی کا رابطہ توڑے دیکھا۔

جبکہ اسے واپس جانا تھا تبھی کچھ دیر بعد وہ بھی گھر سے نکل گیا،راستے میں قبرستان میں رکا تو اندر جانے کی نہ اس میں ہمت تھی نہ قدرت نے اس ضبط آزما سلسلے سے گزارا اور خود ہی سانول اور کوثر صاحبہ قبرستان کے احاطے سے باہر نکل آئے۔

وہ ان سے اجازت لیتا شام ہی علاقے سے واپس شہر روانہ ہوا کیونکہ سمگلنگ کی خبر ولی تک پہنچانی تھی مگر ولی کو اس سے پہلے ہی کوئی تمام معلومات فراہم کر چکا تھا۔

"شہیر تو یہاں تھا ہی نہیں پھر یہ سب معلومات کس نے پہنچائی ہوں گی؟"

اپنے کیبن میں چکر کاٹتا ہوا ولی اس معمے پر حیرت کا شکار تھا مگر پھر ذہن میں جھماکہ سا ہوا، ساری سچائی کھل کر اسکے سامنے آتی چلی گئی۔

"ونیزے حسن! تو میرا شک ٹھیک نکلا۔ تم نے میری جان لینے کے بجائے اپنی جان خطرے میں ڈالنی مناسب سمجھی، اور یہ آج کی معلومات بھی تم نے مجھے بھیجیں"

اپنے سخت رویے پر افسوس سا محسوس کرتا وہ لمحے میں حقائق کی تہہ تک پہنچا تھا مگر ونیزے حسن کی جان اب بھی خطرے میں تھی اور یہ نئی پریشانی اسکے اعصاب پر بوجھ ڈال رہی تھی۔

اپنے لوگ تو اس نے مخبری کی خبر ملتے ہی روانہ کر دیے تھے مگر خود وہ رحم کرنے یا ستم کرنے کے فیصلے کے بیچ پھنسا اضطراب کا شکار تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اس وقت کنزا خود کو چادر سے مکمل چھپائے رات کے وقت سنسان پارک میں بیٹھی تھی اور دو آنکھیں ہمہ وقت اسکے تعاقب میں لگی تھیں، ابھی تک گولی کی دہشت سے اسکا رواں رواں کانپ رہا تھا۔

جس وقت مشارب زمان اس عورت کے سینے میں گولی گاڑ کر وہ بہتا خون دیکھ کر مکمل تسلی کے بعد اس کمرے سے باہر نکلا تھا تبھی کوئی ماسک والا آدمی تھا جو پردے کے پیچھے سے ہنستا ہوا باہر نکلا، اور پھر اس نے قریب آکر کنزا پر دیے اس بلٹ پروف بلنکٹ کو ہٹایا تو اس آدمی کو دیکھتے ہی وہ عورت بھی درد یکدم غائب ہونے پر حیرت زدہ ہوتی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہتھیلی دیکھنے لگی، وہ خون سے سرخ تو ہوئی مگر وہ خون کنزا کے وجود سے نہیں بلکہ اسی بلینکٹ میں موجود اصلی خون کے پیکٹ کے پھٹنے سے باہر نکلا تھا۔

"ت۔۔تم۔۔۔۔کون ہو تم؟"

وہ حراساں ہوتی اٹھ بیٹھی تھی، وجود اب تک اس گولی کی دہشت سے سن جبکہ آنکھیں اپنے زندہ ہونے پر بے یقینی کے خوف سے بھری تھیں، اس آدمی نے اپنی جیکٹ کی جیب سے اپنا فون نکالا جس پر کوئی وڈیو کال چل رہی تھی۔

"وہ انسان ہوں جسکی سب سے بڑی گناہ گار ہو تم کنزا بی بی، کیا سمجھا تھا تم نے کہ تمہیں اتنی آسان موت مرنے دوں گا؟ یہ تو موت کی توھین ہوگی کہ کم پر بخش دے وہ تمہیں، تمہیں جب بھی موت آئے گی وہ عبرتناک ہوگی۔ وہ مشارب اب لاڈلی کے گھر والا ہے، بچارا پہلے ہی بہت دکھ دیکھ چکا ہے، نہیں چاہتا تھا کہ تمہارے گندے خون سے اپنے ہاتھ رنگ کر مزید کسی فساد کا نشانہ بنے سو بس اس لیے تمہیں موت سے بچانے کا سبب بنا ہوں۔ اب میری بات کان کھول کر سننا ، دوبارہ اگر تم میرے یا مجھ سے جڑے کسی فرد کے آس پاس بھی بھٹکی تو آج تو تم صرف مشارب زمان خان کے نزدیک مری ہو، اگلی خطاء پر اپنے ساتھ ساتھ اس دنیا کے لیے اختتام پذیز ہو جاو گی۔آج زونی نے خانم حویلی سے بھاگ کر جو غلطی کی ہے نہیں جانتا کیسے کر گئی، تمہارے بے حس خون کا اثر لگتا ہے۔ مگر اب اسکی ہر غلط فہمی ہاشم بزدار خود مٹائے گا، دعا کرنا کے وہ شخص زونی کی یہ خطا معاف کر دے ورنہ اسکی سزا تمہیں ملے گی۔ تم پر ترس کھاتے ہوئے ایک آخری موقع دے رہا ہوں، اپنے اس ناقابل برداشت وجود کو لے کر ہم سبکی زندگیوں سے دفع ہو جاو۔ کیونکہ اب تمہیں بھاگنے کی مہلت نہیں دوں گا، انہی ہاتھوں سے تمہیں اذیت ناک موت دوں گا۔ تمہیں یہ رعایت صرف اس لیے دی کے اپنی اولاد کی موت پر چند آنسو بہا لو، سرمد کو کھا گئی تمہاری تاریکی کنزا اور اس سے پہلے تم زونین کو بھی سالم نگل جاو، جاگ جاو۔۔۔۔ شاید توبہ کا کوئی دروازہ کھلا رہ گیا ہو، تم پر آج بھی ہاشم بزدار صرف ترس کھا رہا ہے، ورنہ کون واجب الموت وجودوں کو آخری موقع دیتا ہے۔۔۔۔ سب کے نزدیک اگر تم مر گئی ہو تو اب مری رہنا ورنہ تمہارے وہم و گماں میں بھی نہیں کہ ہاشم بزدار کیا کر گزرے گا۔۔۔۔اب دفع ہو جاو، غلطی سے بھی کوئی غلطی مت کرنا کیونکہ میری آنکھیں تم پر ہی جمی ہیں"

کیمرے میں ظاہر ہوتا ہاشم یہ سب کہتے ہوئے اذیت میں مبتلا تھا جبکہ ساتھ ہی کال کٹ چکی تھی اور وہ آدمی جو نصیر تھا، اپنا کام مکمل کرتے ہی بظاہر اس کمرے سے نکل گیا مگر ہاشم کے حکم کے مطابق اب اسے کنزا پر کڑی نظر رکھنی تھی اور کنزا جو ابھی بھی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی، اپنی گردن پر ہتھیلی مسلنے لگی، آنکھوں میں اذیت اور تکلیف تھی، سرمد مر گیا تھا اور آج وہ اولاد کے کرب کو سمجھی تھی، ضمیر کا چابک ایسوں کو تھوڑا ہی درد دے سکتا تھا، ایسے لوگوں کی سنگدلی کو دوام دے کر انھیں اندھا گونگا اور بہرا کر دیا جاتا ہے۔۔

ایک اولاد مر چکی تھی اور دوسری کو مارنے کی وہ سفاک عورت اب تک ہامی بھر رہی تھی، سوچ کر اک بار اسکا وجود کانپ گیا، ایک آخری بار مردہ سا ضمیر گھڑی بھر جاگا مگر اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا انتقام اس عورت کے سر پر اتنا سوار تھا کہ وہ بھول گئی تھی کہ اصل والی وارث، وہ رب ہے جسکے ہاتھ میں سب ظالموں کی طرح اسکی بھی رسی ہے۔

فورا سے بیشتر وہ باریک بلٹ پروف بلنکٹ جو خون آلود ہو چکا تھا خود سے اتار کر پرے پھینکتی وہ بازو پر نسب ہوئے ڈرپ بے دردی سے کھینچتی بستر سے لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی اور پھر کچھ دیر میں واش روم سے اپنے کپڑوں میں ملبوس ہو کر نکلی، نصیر نے اسکا پیچھا ایک مناسب فاصلے پر رہ کر برقرار رکھا، اپنے گرد چادر لپیٹی اور وہی فون ہاتھ میں دباتی وہ نقاب اوڑھے کمرے سے نکل گئی۔

وہ اب یہاں رات کے وقت سن و ساکت سی بیٹھی تھی، آنکھیں سوجھ چکی تھیں، اب آخری جائے پناہ رنگین حویلی ہی بچی تھی اور وہ کچھ دیر خوف و دہشت خود سے ہٹاتی رہی اور پھر ہمت کرتی اٹھی۔

اسکا سفر رنگین حویلی تک آکر رکا اور نصیر نے حکم کے مطابق یہ خبر جب ہاشم کو دی تب وہ مالنی اور اماں فضیلہ کے ساتھ ہی تھا اور تینوں کی نظر بے سدھ پڑی زونی پر تھی جسکے سر پر گاڑی سے ٹکرانے کے باعث چوٹ لگی تھی اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی اماں فضیلہ نے اسے سوپ پلا کر سلایا تھا۔

بزدار عالم تو ضرار کے ساتھ ہی گئے ہوئے تھے اور بس وہ لوگ بھی دلہن رخصت کروا کے آنے ہی والے تھے۔

"مشارب اب اسکی پٹائی بھی کرے تو منظور ہے مجھے، پاگل لڑکی ، اپنا گھر کون چھوڑتا ہے یار۔ شکر ہے نصیر کو مل گئی یہ ورنہ نجانے کیا غضب ہو جاتا، اگر ضرار کو پتا چلا تو چھوڑے گا نہیں زونین کو۔ کیا میرتھن ریس لگی ہے کہ کبھی ایک لڑکی بھاگ جاتی کبھی دوسری۔ بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے جب تک اسکی بدگمانی دور نہیں ہوتی یہ یہیں رہے گی۔ مشارب کو مزید اذیت سے نہیں گزرنا چاہیے، مالنی، یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ جیسے تم نے عقل و شعور سے کام لیا اسے بھی سمجھاو اور اسکی بند آنکھیں کھولو۔"

وہ اپنے فون پر آئے میسج پر خفا سا ہوئے ساتھ ہی غصے سے بڑبڑاتا ہوا آخر تک اداس سی مالنی سے مخاطب ہوا جو زونی کی حالت پر پہلے ہی افسردہ سی تھی۔

"ساری غلطی میری ہے، کاش میں وہ تصویریں گیلری سے بھی ڈیلیٹ کر دیتی، ہر انسان میری طرح آسان ٹارگٹ نہیں ہوتا ہاشم، بدگمانیوں میں بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ آپ کیا جانیں ایک عورت کے جذبات کے وہ اپنے من پسند مرد کے ساتھ اسکا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ پھر زونین آپی نے تو اس انسان سے محبت بھی بہت الگ کی تھی، سب انھیں قصور وار مت سمجھیں۔ حالات کا قصور بھی تو ہے، اور پھر کوئی جان بوجھ کر ایسی پاگلوں والی حرکتیں نہیں کرتا، ایسے ہر قدم کے پیچھے بے بسی اور مجبوری ہوتی ہے۔ ایک بار ہمیں مل کر انکی بات بھی سننی چاہیے، باقی میں ہر ممکن کوشش کروں گی انکی بدگمانی دور کرنے کی"

ناچاہتے ہوئے بھی سب کا زونی کو قصوروار ماننا، اسے تسلیم تھا پر وہ بار بار ایک ہی تکرار پر غصہ ہو گئی تھی اور اسکا ایک ایک لفظ ہاشم اور اماں فضیلہ کے سیدھے دل پر لگا تھا۔

"مالنی بیٹی ٹھیک کہہ رہی ہے، ایسا کیا ہوا ہے جو وہ اگلے دن ہی خانم حویلی سے بھاگ جانے پر مجبور ہو گئی۔ میری زونی بہت حساس ہے، میں جانتی ہوں اسے وہ یقینا بہت اذیت میں ہوگی۔ بدگمانی کسے نہیں ہوتی، لیکن سب میں تمہارے جیسا ہنر نہیں ہوتا ہاشم کے وہ چند لمحوں میں بدگمانی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر قادر ہو۔ ابھی ہمیں زونین کو قصور وار نہیں سمجھنا چاہیے، بنا اسکی سنے"

اماں فضیلہ کے تو آنسو نہیں تھم رہے تھے اور مالنی کے علاوہ اب ہاشم کو بھی انکی بات درست لگی۔

ابھی وہ لوگ انہی باتوں میں منہمک تھے کہ بزدار حویلی کے پورچ کی جانب سے داخل ہوتی دونوں گاڑیوں کے ہارن نے ان تینوں کی توجہ کھینچی۔

مالنی کو وہیں زونی کے پاس رہنے کا کہتا وہ خود اماں فضیلہ کے ہمراہ کمرے سے باہر نکلا کیونکہ دکھ درد اپنی جگہ پر نئی نویلی ہو کر آتی پیاری دلہن کا استقبال اسی شان سے کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جسکی وہ خوبصورت آنکھوں والی مستحق تھی جبکہ ان دونوں کے باہر جاتے ہی اداس سے مالنی بھی وہیں زونین کے سرہانے جا بیٹھی اور اسکا بے جان ہاتھ اپنے نرم ہاتھ میں جکڑ لیا۔

چونکہ بزدار عالم نے ضرار کی بینڈ بجانے کا انتظام ہاشم کو کہے پہلے ہی فرما رکھا تھا تبھی وہ بابا کی ہدایت کے مطابق کمرے سے باہر نکلتے ہی عزیز خان کو سرخ سگنل تھما چکا تھا۔

"اس لڑکے نے رات بھی میدان جنگ لگانا ہے اور خوامخواہ خود بھی سڑے گا اور میری بچی کو بھی ذہنی اذیت دے گا خود کو قاتل کہہ کہہ کر ، مجھ میں تاب نہیں کہ ان دو کے بیچ مزید کوئی تناو برداشت کر سکوں، سو جب ہم واپس آئیں تو عزیز خان کو کہنا وہ بھی اندر موجود رہ کر استقبال کرے، بہت ہوگئی اس بددماغ کی ضد، میں بھی اسکا دادا ہوں اس سے بڑا سر پھرا۔ سرمد کی موت کی وجہ سے رخصتی دھوم دھام سے نہیں کروا سکا مگر ایک ہفتے بعد تمہاری اور مالنی کی شادی کی خوشی کا جشن اور ان دو کا ولیمہ بلکل اسی شان سے ہوگا جیسا بزدار حویلی کی ریت ہے"

اسے بابا سائیں کے الفاظ یاد آکر مسکرانے پر اکسا چکے تھے جبکہ ضرار کی اس کے بعد شکل دیکھنے کی ہاشم کو دلی حسرت تھی، دادا سائیں ہوں تو ایسے، جنہوں نے شک و شبہات کو سرے سے ہی کچل کر ان دو کو فل اون فائر کرنے کا پورا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ایک طرف سے دل ہلکا ہو بھی جائے تو دوسری طرف سے کوئی نئی تکلیف دل پر آن لگتی ہے، اس فقیر کی بدعا لگی ہے مجھے جانتا ہوں"

فرخانہ کو نیند کی دوا دے کر خدیجہ کچھ دیر پہلے ہی سلا کر گئی تھیں اور جب وہ خانم حویلی واپس آیا تو سیدھا انہی کے کمرے میں داخل ہوا جہاں گل خزیں خانم پہلے ہی براجمان تھیں، اشنال کی خیر و عافیت سے رخصتی کی خبر اور تمام معاملہ بتا کر بھلے انہوں نے مشارب کا دل ہلکا کیا تھا پر اس کمزور سانسوں والے کو زونین کی بے اعتباری دکھ کے اک نئے سلسلے سے جوڑ چکی تھی۔

"سب بہتر ہو رہا ہے، جلد مکمل ہو جائے گا۔ اب تو تم نے اس بدبخت کنزا کو بھی اپنے انجام تک پہنچا دیا، اور شاید یہی اسکی سزا تھی۔ مجھ بدنصیب ماں کو دیکھو کہ میرے پاس اسکی اور سرمد کی موت پر بہانے کو آنسو تک نہیں بچے۔ ایسی ایسی اذیت سے گزر چکی ہوں کے اب یہ چھوٹے موٹے دکھ کچھ نہیں کہتے۔ تمہاری تو بہت آسان زندگی ہے میرے مقابلے میں، مجھے یقین ہے جلد رہی سہی الجھنیں سلجھا لو گے"

وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ کنزا کو مار کر سب ختم کر آیا ہے تبھی اسکا دل کچھ پرسکون تھا، زونی بھی ٹھیک تھی لیکن گل خزیں لاکھ چھپا لیتیں، انکی تکلیف پر مشارب نے بے اختیار تڑپ کر انھیں دیکھا۔

"مجھ سے ایک غلطی اور ہو گئی ہے اماں سائیں"

شاید زونین کی بدگمانی میں اسکا بھی اتنا ہی قصور تھا جتنا کنزا کا اور جس طرح وہ خدشوں میں گھرا ہوا گل خزیں خانم کی جانب دیکھ رہا تھا، انکا دل اک لمحہ کانپ کر رہ گیا۔

"مزید کچھ سہنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں مشارب"

وہ بھرے لہجے میں بے اختیار رحم طلب ہوئیں اور مشارب مزید احساس جرم میں مبتلا ہوا۔

"میں نے بے دھیانی میں اس لڑکی کا شک کل یقین میں بدل دیا، مطلب میرے الفاظ وہ مفہوم نہیں رکھتے تھے جو وہ سمجھیں۔ اب سوچ رہا ہوں صفائی کیسے دوں گا، اگر دینے کی کوشش کی تو وہ اور بدگمان ہوں گی"

یہ بتاتے ہوئے درد کی لہر اسکے تھکے وجود میں لہرا کر پھیلی تھی اور یہی معاملہ گل خزیں خانم کا تھا۔

"میں کیا کر سکتی ہوں بچے، تمہیں مفہوم سمجھانا چاہیے تھا۔ اتنی عقل مند تھوڑی ہے جو تمہارے آدھ کہے جملے سمجھ جائے، عمر میں بھی چھوٹی ہے اور پھر جن حالات سے گزری ہے، اسکا دماغ ایسی پہلیاں بوجھنے کی صلاحتیت کھو چکا ہے۔"

وہ ماں کی طرح نرم سرزنش کر رہی تھیں اور وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم بھی کر رہا تھا۔

فون کی ٹون پر مشارب اپنے درد دیتے خیالات سے نکلا اور اپنے آدمی کی آتی کال ریسو کی۔

"سردار سائیں! کنزا کے متعلق خبر ملی ہے، وہ صبح ہسپتال کے کمرے سے اچانک لاپتہ ہو گئی۔ پولیس بھی آئی تھی اس مریضہ کے متعلق چھان بین کرنے مگر کوئی ثبوت نہ ملنے پر چلی گئی، کمرے میں خون کی بہت مقدار ملی تھی جس کو دیکھ کر لگتا تو نہیں کنزا بچی ہوگی مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے دن دہاڑے کوئی کیسے وہاں سے لے گیا"

پہلے ہی ذہن دباو کا شکار تھا اور اب اس نئے مسئلے پر مشارب کا خون کھول گیا۔

"منحوس عورت ، مر کر بھی ہم سبکے لیے کوئی عذاب ہی بنے گی۔ ٹھیک ہے اپنی طرف سے اس معاملے پر گہری نظر رکھو، کچھ بھی پتا چلے تو مجھے انفارم کرنا"

مخدوش سی حالت میں بڑبڑاتا مشارب ہدایت دیتے کال بند کر گیا اور اپنی طرف پریشانی کے سنگ متوجہ اماں سائیں کو دیکھا۔

"کیا ہوا؟ وہ مر گئی ہے واقعی؟"

ماں کی ممتا نے تڑپ کر استفسار کیا تھا تبھی مشارب کے چہرے پر کلیجہ کھا جاتی اذیت درج ہوئی۔

"گولی تو ٹھیک اسکے سفاک دل پر مار کر آیا تھا مگر شاید وہ جس دنیا سے تعلق رکھتی ہے، وہاں مری کنو بائی کی بھی قیمت ہوگی تبھی کوئی اٹھا کر لے گیا اسے۔۔آپ پریشان نہ ہوں، میں آپکی ہر تکلیف سے باخبر ہوں لیکن کبھی کبھی اپنے جسم کے کسی حصے پر بنے ناسور کی وجہ سے وہ جسم کا حصہ کاٹنا پڑتا ہے۔ آپکو بحیثیت ماں اس عورت کی موت کا دکھ منانے سے نہیں روک رہا لیکن اسکا ذکر اب مجھے صرف ذہنی اذیت دے گا۔ کچھ دیر سونا چاہتا ہوں، آپ بھی آرام کریں"

اس خبر نے مزید اسکے اندر بیزارئیت بھری تھی تبھی وہ ان سب چیزوں سے کچھ دیر کا فرار چاہتا تھا، گل خزیں خانم ضبط کا بندھن تھامے، آنکھوں کی نمی اندر دبائے بظاہر تو جبرا سر ہلا گئیں مگر وہ انکی تکلیف چھپانے کے باوجود بھانپ گیا تھا تبھی فرخانہ خانم کا ہاتھ واپس انکے سینے پر رکھے اٹھا اور دادی سائیں کا ماتھا چومے کمرے سے نکل گیا اور وہ عورت بس آنسو ضبط کرتی ہی رہ گئی، لیکن ایک بات کا انھیں یقین ضرور ہو گیا تھا کہ جو زیادتیاں انسان کرتا ہے، اسکا کافی حد تک بدلہ اس دنیا میں ہی چکانا پڑتا ہے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"نکل آئیں اب یا کرین منگواوں"

گاڑی کا دروازہ کھولے پہلے وہ مغرور سا خود باہر نکلا پھر پیچھے بیٹھی گل کے ساتھ کسی بات میں مصروف سی اشنال کا موڈ تب خراب ہوا جب وہ دروازہ کھولے احسان جتاتے انداز میں بولا، اور اس سے پہلے وہ اسے یہیں کھری کھری سناتی، فضیلہ اماں گلاب کے پھولوں سے بنے ہار تھال میں اٹھاتیں باہر آئیں، ملازمائیں بھی پلیٹوں میں پھول لیے کھڑی تھیں جو ان پر استقبالی طور پر نچاور ہونے تھے۔

جبل زاد بھی دوسری گاڑی سے نکلتا ضرار تک پہنچا اور ساتھ ہی ہاشم صاحب بھی لاڈلے کی ٹور دیکھتے دور سے ہی ہنستے ہوئے قریب چلے آئے اور نخریلے کو پکڑ کر سینے میں بھینچ لیا جبکہ فضیلہ اماں اور گلالئی نے مل کر دلہن بنی اشنال کو باہر لایا اور گل نے اسکا فرش بوش لہنگا ایک طرف سے اٹھائے مسکراتے ہوئے سبکو پھولوں کے سراپے برساتے ہوئے دیکھا، خانم کا ائسا استقابک اسکا دل سرشار کر گیا۔

"اوئے لڑکے! صدا سہاگن رہو۔۔۔فائنلی مل گیا تمہیں صنم، پر منہ کیوں ایسا سوجھا رکھا ہے"

ہاشم صاحب کے لاڈ کے بعد لتاڑنے پر ضرار نے سرسری سے سر موڑے اس لڑکی کو دیکھا جو فضیلہ اماں کے گلے لگی دعائیں اور پیار سمیٹ رہی تھی جبکہ بزدار عالم نے بھی اشنال کو ڈھیر سا پیار دیے، اس کے اور ضرار کے سر سے پہلے پانچ پانچ ہزار کے کئی نوٹ وار کر ساتھ کھڑے ملازم کو تھمائے اور پھر صدقے کے دو بکروں کو اشنال کا ہاتھ لگوایا۔

"میرا منہ ہے ہی ایسا ہے، کہاں ہے زونی۔ پہلے زرا میں اسکی کلاس لے لوں پھر آپکو دیکھتا ہوں"

روٹھے لہجے میں کہے اس سے پہلے وہ اندر بڑھتا، باہر کی طرف آتے عزیز خان کو دیکھ کر ضرار نے بے اختیار اشنال کی طرف دیکھا جو بھاگ کر عزیز خان کے پاس جا چکی تھی اور عزئز خان نے نم ہوتی مسکرائی آنکھوں سے اسکو اپنی طرف آتے دیکھ کر اپنی بازو کھولے خود میں بسا لیا اور وہیں ضرار کی خونخوار نظریں مسکراہٹ دبا کر کھڑے ہاشم اور بزدار عالم پر جا جمیں۔

"با۔۔با جان۔۔مجھے پتا تھا آپ زندہ ہیں، آپکو ک۔کچھ نہیں ہوا۔۔میرے بابا زندہ ہیں، آئی مس یو سو مچ"

روتی تڑپتی وہ دلہن بنی اشنال ، عزیز خان کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے بولی جس پر عزئز خان نے پھر سے اسے سینے میں چھپا لیا جبکہ ضرار صاحب کا غصہ اور افشار ہوتا خون گلالئی اور جبل زاد بھی ایک سی تشویش سے ملاخظہ کر رہے تھے جو راستے میں آتی ہر چیز کو ٹھوکر مارتا حویلی کے اندر بڑھ چکا تھا۔

جبکہ بزدار عالم نے فورا آنکھ کے اشارے کے سنگ ہاشم کو شیر کی گھپا میں پیچھے روانہ کیا۔

"چھوڑوں گا نہیں تم سبکو، میرے رعب و دبدبے کی ماں بہن ایک کر دی۔۔۔ بخشوں گا نہیں"

منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا اس سے پہلے وہ بپھرا طوفان بنا زونی کے کمرے کی طرف بڑھتا، ہاشم نے اسکی بازو باقاعدہ دوڑ کر پکڑے گما کر اسے اپنے روبرو لایا جس نے فوری بے دردی سے اپنی بازو جھٹکی۔

"کام ڈاون لاڈلے"

ہاشم اسکے غضب سے خود بھی خفیف سا ڈرا مگر ضرار کا بس نہ چلا اس وقت کسی کا گلا دبا دیتا۔

"بھاڑ میں گیا سکون، کیوں کیا آپ سب نے۔۔۔ ؟ اچھا بھلا قاتل بنا تھا، کر دی ناں آپ نے میری عزت دو کوڑی کی، کتنا مزہ آرہا تھا قاتل بن کر پر نہیں آپ سب نے تو مجھ سے بدلہ لینا تھا سو لے لیا۔ عزئز خان کو اب واقعی اوپر پہنچاوں گا ، ہٹ جائیں آپ بھی ورنہ آپکی کوئی ہڈی کریک کر دوں گا اس وقت مجھے انتہا کا غضب چڑھا ہے"

وہ جن زادے کی طرح بے قابو ہوتا دھاڑا تو خود ہاشم کی ہنسی سلپ ہوئی پر لآڈلے نے بھی پیٹ میں سیدھا مکا دے کر ہنسی کا کنکشن ہی توڑا اور ہاشم کو مکا پڑتا دیکھ کر مالنی جو شور سن کر کمرے سے نکلی تھی، دوڑ کر دونوں کے بیچ آئی مگر جب ہاشم کو مکا کھا کر بھی ہنستے دیکھا تو خود بھی مسکرائی جبکہ دونوں میاں بیوی ہنستے ہوئے اس وقت ضرار کو زہر کی پریاں لگے۔

"ہاہا مار دیا ظالم! تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ رات و رات بدگمانی دور ہو گئی، پہلا سر پھرا آدمی دیکھا ہے جو اپنے ہاتھوں سے اپنی سہاگ رات برباد کرنے کی پلینگ کیے بیٹھا تھا۔۔۔۔یار قسم سے یہ بابا سائیں کا حکم تھا، عزئز خان اور میری کوئی غلطی نہیں"

زرا درد بھولا تو ہاشم نے فوری مدافعتی انداز اپنایا مگر ضرار اس وقت آگ کا گولہ بنا تھا تبھی انگلی ہوا میں لہرا کر وارن کرتا زونی کے کمرے کی طرف بڑھا وہیں مالنی نے فکر مندی سے ہاشم کو دیکھا۔

"یہ تو بہت جنونی بھتیجا ہے آپکا، بچت ہو گئی یا واقعی کوئی ہڈی کریک ہو گئی؟"

اس جن کو وہاں سے جاتا دیکھ کر مالنی نے مسکراتے ہاشم کو دیکھے پوچھا مگر سب اندر آچکے تھے سو وہ اشارے سے ٹھیک ہونے کا کہے خود بھی سب کی طرف بڑھا۔

اشنال صاحبہ تو ابھی بھی عزیز خان کے ساتھ لگی بیٹھیں اور بزدار عالم نے بھی نشت سنبھال کر اک شفقت بھری نگاہ باپ بیٹی پر ڈالی جبکہ ہاشم اور مالنی بھی ضرار کے پیچھے کمرے کی طرف بڑھے جہاں وہ تھانیدار بنا کھڑا، سہمی سی زونی کو ڈانٹ رہا تھا۔

"شرم نہیں آئی تمہیں اپنا گھر چھوڑتے ہوئے زونی، خدانخواستہ کسی اور کے ہتھے لگ جاتی تو چیڑ پھاڑ دیتے تمہیں۔ ایسی کونسی قیامت آگئی تھی جو تم نے یہ قدم اٹھایا، تین مہینے کی اذیت بھول گئی تھی کیا، اگر میرا بس چلتا تو دو لگاتا تمہیں آج کھینچ کر، اور خبردار اگر تمہاری آنکھ سے ایک آنسو بھی نکلا"

کچھ دیر وہ اضطراری انداز سے کمرے میں چکر کاٹتا رہا اور پھر جیسے پھٹ پڑا اور ستم یہ کہ ان نیلی آنکھوں نے ڈر کے باعث اپنے آنسو تک گھوٹ لیے۔

"آرام سے لاڈلے! "

ہاشم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی سرزنش کی کیونکہ زونی تو تکلیف میں تھی ہی، مالنی بھی اس خونخوار کے برسنے پر سہم کر رہ گئی۔

"آرام بھی گیا بھاڑ میں، مطلب ہو کیا رہا ہے ہماری زندگی میں۔ آخری وارننگ دے رہا ہوں تمہیں زونی، اپنے خون کا اثر دوبارہ دکھاو گی تو بہت برا ہوگا۔ یہ مت بھولنا کہ تمہاری پرورش بزدار عالم نے کی ہے اور تم کبھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی جو انکی تکلیف کا باعث بنے۔ مجھے روائتی بھائی بننے پر مجبور مت کرنا، تم سب لڑکیاں اتنی بے یقین کیوں ہوتی ہو ویسے؟ محبت کرتی ہو ناں تم مشارب سے، یہی محبت تھی کہ کوئی بھی اٹھ کر آکر تمہیں بدگمان کر گیا۔۔۔۔ بھاڑ میں گئی ایسی محبت"

وہ آج کسی کی سننے کے موڈ میں نہ تھا اور اندر ماحول اس قدر سنجیدہ ہو چکا تھا کہ خود ہی بزدار عالم کو وہاں آنا پڑا، انکے آتے ہی زونی اٹھ کر روتی سسکیاں گھونٹتی ان سے جا لپٹی جو اسے خود میں سموئے ضرار کو خشمگیں نظروں سے گھور کر اور تپا رہے تھے۔

جبل زاد بھی معاملے کی نزاکت بھانپتا پیچھے ہی آیا اور اپنے سائیں کا عتاب دیکھ کر اک لمحہ وہ بھی تھما۔

"اگر تم نے اب اسے کچھ کہا تو ایسی لات ماروں گا تمہیں کے ہر بار بیٹھنے پر میری یاد آئے گی، بچی آگے ہی تکلیف میں ہے اور یہ آگیا تھانیدار کہیں کا مزید تفتیش کرنے"

دادا جان راک اور ضرار صاحب شاکڈ، اسکے اور زونی کے سوا باقی سبکے دانت لمحوں میں باہر آئے اور ضرار نے کاٹ کھاتے انداز میں دادا سائیں کی چھپائی دبائی مسکراہٹ دیکھی۔

"آپ مجھے نہ ہی سلگائیں اس وقت تو اچھا ہے دادا سائیں ورنہ آپکے اندر آتی گھوڑے والی پھرتی دیکھتے ہوئے میں سر پھرا آپکا رشتہ ڈھونڈنے نہ نکل جاوں، تو مجھ سے پنگاہ لینے والے زرا احتیاط برتیں"

وہ نہ تو مزاق کے موڈ میں تھا نہ ہی اسکا غصہ کم ہوا تھا البتہ اسکی بات پر اس بار زونی میڈم بھی رونا بھول کر مسکاتی نظر آئیں اور ہاشم نے تو باقاعدہ قہقہہ لگائے باہر دوڑ لگائی جہاں گلالئی، عزئز خان اور اشنال، اماں فضیلہ چاروان ہی اندر مچتے وبال پر فکر مند تھے مگر اندر کے میدان جنگ میں امن کے آثار کا اشارہ دیتا وہ خود بھی وہیں دوسرے صوفے پر جا بیٹھا جبکہ دادا جان نے زونی کو چھوڑے اس بددماغ کی بازو پکڑے ایک طرف لے گئے۔

"اوئے کھوتے، ایسی باتیں سبکے سامنے نہیں کرتے"

وہ ڈرے سہمے دادا رازداری سے گویا ہوئے جس پر ضرار نے بھی ماتھے کی تیوریاں کم کرتے ہوئے چیلنجنگ ہوتے ہوئے پیارے گھبرائے دادا کو دیکھا۔

"اوہ واہ جی واہ، مطلب آپ میری عزت کا فالودہ سب کے سامنے کریں اور میں لحاظ و مروت تھامے رکھوں۔ معاف کیجئے گا مجھے بلکل منافقت نہیں آتی"

آنکھیں ماتھے پر رکھتا وہ ہری جھنڈی دیکھائے پلٹا تو زونی دم سادھے اسے ہی دیکھ رہی تھی جبکہ یہی حال جبل زاد، اور مالنی کا بھی تھا۔

"میری وارننگ کو وارننگ ہی سمجھنا زونی، مشارب کی نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاو۔ وہ اگر یہ برداشت کر رہا ہے تو صرف اس لیے کہ محبت کرتا ہے تم سے۔ ورنہ اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو مڑ کر تمہاری شکل بھی نہ دیکھتا لیکن وہ ہر لمحہ تمہارے لیے اذیت میں مبتلا ہے، تم دونوں کے بیچ جو بھی بدگمانیاں ہیں انکا حل ٹیبل ٹاک ہے، کل بلاتا ہوں اسے۔ آپس میں بات کر کے اس تماشے کو ختم کرو۔ اگر پھر بھی تمہاری بدگمانی دور نہ ہوئی تو میں خود دیکھ لوں گا سب۔۔سمجھی؟"

اس بار اس نے نرم لہجہ اختیار کیا تھا اور بزدار عالم سمیت دوسرے دونوں بھی پرسکون دیکھائی دیے اور زونی بھی اس تنبیہہ کو بس سوچ ہی پائی، کیا بتاتی کہ اس شخص نے بے وفائی کی ہے اور ستم کے اس بے وفائی کا اعتراف بھی کیا ہے۔

"سمجھی؟"

وہ اسے اذیت زدہ چپ میں ڈوبا دیکھے اس بار زرا اونچی آواز میں غرایا تو وہ ڈری ہوئی فورا سر ہلا گئی جبکہ خود وہ یہ کہتے ہی باہر نکلا تو عزیز خان اور اشنال کو لاڈ کرتے دیکھ کر اسکے اندر ویسے ہی شرارے دوڑ گئے۔

"بھئی اگر تمہارا دماغ ٹھنڈا ہو گیا ہو تو رسمیں کر لیں"

فضیلہ اماں ، گلالئی کے ساتھ مل کر رسموں کی تیاری میں مگن تھیں اور وہیں آکر رکتے ضرار نے ہاشم کی بات پر خود کی جانب اسی درد بھری نگاہ کے سنگ تکتی اشنال عزئز کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ تم بہت اذیت پسند ہو۔

اس وقت اسکا دماغ گرم تھا اور پھر جو سب نے عزئز خان کو سامنے لا کر اسکے ساتھ کیا تھا، وہ اشنال سے بھی خفا سا ہوئے بنا کوئی جواب دیتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور سب نے ہی اسکی ناراضگی شدت سے محسوس کی۔

بزدار عالم نے جبل زاد کو پیچھے ہی بھیجا کیونکہ انکو اپنے سر پھرے پوتے سے ابھی بھی اچھے کی امید نہ تھی۔

سب کو اگنور مارے جب کمرے میں داخل ہوا تو یہاں کی فسوں خیز سجاوٹ سے اسکا رہا سہا دماغ بھی گھوم کر رہ گیا۔

"اب یہ کس نے کروائی ہے ؟ "

اس سے پہلے وہ بڑبڑاتا ہوا غصے سے باہر نکلتا، جبل زاد کے اندر آنے پر رکا۔

"سائیں! غصہ نہ ہوں۔ یہ ہم سب نے مل کر تھوڑی سی سجاوٹ کی تھی، اگر آپکو پسند نہیں آئی تو میں پانچ منٹ میں یہ سب اٹھوا دیتا ہوں"

جبل زاد اسکے غصے کو بھانپے نرمی سے بولا تو ضرار نے بیزارئیت سے نفی میں سر ہلائے اپنے قدم واپس اندر بڑھائے اور بے دلی سے اک نظر پورے کمرے پر ڈالی۔

جگہ جگہ سرخ پھولوں کے بکے رکھے گئے تھے اور خوشبو اگلتی سیاہ موم بتیوں نے کہیں کہیں رنگ و عطر چھرکنے شروع کر دیے تھے۔

"یار کتنا کچھ پلین کیا تھا اس لڑکی کو سبق سیکھانے کے لیے اور کچھ اس نے میرے قاتل نہ ہونے پر یقین کر کے برباد کیا کچھ دادا سائیں کی کرم نوازی ہے۔ اب میرا دل چاہ رہا ہے گاڑی نکالوں اور کہیں چلا جاوں۔ مطلب کوئی ایکسائٹمنٹ ہی نہیں رہی۔ اوپر سے تم سبکی عقلوں کو سلامی پیش کرتا ہوں کے یہاں کا ماحول بنا کر تم لوگوں نے میرا پلڑا بلکل گرا دیا۔۔۔"

وہ خاصا زچ و بے قرار ہوتا بیڈ کے اک کنارے ٹک کر جو بولا اس پر جبل زاد کے مونچھ تلے دیکھائی دیتے ہونٹوں پر تہلکہ خیز مسکراہٹ جاگی۔

"مطلب آج آپ قید ہونے والے ہیں، اہمم اہمم۔۔۔ بیسٹ آف لک"

جبل زاد کے منہ سے جو بے اختیار مارے خوشی سلپ ہوا اس پر ضرار نے جھٹکے سے سر اٹھائے ابرو اچکا کر اس کی پھسلتی مسکان دیکھی جیسے اپنے سائیں کے جکڑے جانے پر بڑی خوشی ہو رہی تھی۔

"بہت افسوس کی بات ہے جبل زاد! تم بھی شریکوں سے مل گئے۔ جاو یہاں سے، اب گلالئی کو بھول جانا"

اس دھمکی نے گویا پیارے جبل زاد کی جان لی تھی، وہ مسکین سی صورت بنا چکا تھا۔

"سائیں ایسا تو نہ کہیں، میری توبہ جو آپکو کل تک دوبارہ چھیڑوں"

وہ اب بھی مستی موڈ میں تھا تبھی تو ضرار اٹھ کر گھورتا ہوا نزدیک آن کھڑا ہوا۔

"تم بھی تیز ہو گئے ہو جبل زاد! دیکھ رہا ہوں پہاڑوں پر کیا رہ آئے ہو، تمہارے تو رنگ ڈھنگ بدل گئے۔ پر میرے عزیز، گلالئی تو اب تمہیں نہیں دینے والا۔۔۔۔۔ شرط یہ ہے کہ جلدی سے مجھے اشنال عزیز کو سلگانے کی کوئی ترکیب بتاو شاباش کیونکہ ان سب نے آتے ساتھ میرا دماغ بند کر دیا"

بچے کی جان لیتا وہ فرمائش بھی جو کر رہا تھا اس پر اس جان لیوا دھمکی کے باوجود جبل زاد مسکرایا۔

"سائیں! سلگانے کے لیے آپ کی قربت ہی کافی ہے خانم کے لیے۔ میری مانیں تو آج بیچ کی ساری تلخیاں اور دوریاں مٹا دیں۔ کتنی مشکلوں کے بعد تو وہ آپ کی دسترس میں مکمل آرہی ہیں اور مجھے لگتا ہے آج فدا ہونے کی باری خانم کی ہے"

وہ رازداری سے کان کے قریب جھکا بولا تو ضرار بھی اس بار اسکے ایسے بے باک مشورے پر خوشگوار سی حیرت کا شکار نظر آیا، دونوں کا موڈ لمحے میں ایک سا ہوا۔

"جبل زاد! لگتا ہے تمہارا کام بھی ہو گیا اپنے سائیں کی طرح۔۔۔ہاہا جاو نہا کے آتا ہوں"

ضرار کی مسکراہٹ جان لیوا تھی جبکہ جبل زاد جاتے جاتے مسکین بنا پلٹا۔

"سائیں وہ گل؟ "

اپنے بے اختیار و بے خود جبل زاد پر اس وقت ضرار کو جی بھر کر پیار آیا۔

"تمہاری ہی ہے، کرتے ہیں تم دو کا بھی جلد کچھ۔۔۔۔اگر تمہارا مشورہ کام نہ آیا آج پھر ہو سکتا تمہارے سائیں کا موڈ بدل جائے"

جان بخشی کیے ساتھ ہی جان نکالنا تو کوئی میثم ضرار چوہدری سے سیکھتا، جبل زاد مسکرا کر آخر میں جب بوکھلایا تو ضرار کا قہقہہ پورے روم میں گونج کر یہاں کے فسوں پر چار چاند لگا گیا۔

"سائیں! جان مت لیجئے گا"

بے قرار ہو کر کہتا وہ کمرے سے فوری نکلا جبکہ تمام تر بیزارئیت اور غصے کے باوجود اس جلے ،سلگے جادوگر کا موڈ خوشگوار ہوا، ٹاول اٹھا کر جناب اگلے ہی لمحے نہانے بڑھ گئے۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"حرام زادے! اب کس نے مخبری کی تھی؟"

نئے گودام میں پڑتے چھاپے پر سیٹھ گونی جو اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بھاگ پانے میں کامیاب ہو گیا تھا، بند گلی کے پاس رکا اور ہیبت ناکی سے اپنے دونوں لوگوں پر دھاڑا، آج سیٹھ طلال بھی دھندے میں شامل تھا جبکہ شہیر موجود نہ تھا، بلکہ وہ کچھ دیر پہلے ہی پہنچا تھا جبکہ پولیس کے لوگ تمام مال ضبط کرنے کے علاوہ سیٹھ طلال کو موقعے پر گرفتار کر چکے تھے اور شہیر نے جب واپس پہنچ کر کچھ دور ہی چھپ کر پولیس کی گاڑیوں کے بیچ ضبط کیے ٹرکوں کو گودام سے نکلتے دیکھا تو وہ حیرت میں تھا کہ اس نے تو جگہ کی مخبری کی نہیں پھر پولیس کو اس گودام کا پتا کیسے ملا تھا اور اسی وجہ سے وہ تین ماہ کی طویل غیر خاضری کے بعد سیدھا ولی زمان خان کے تھانے کی طرف گیا مگر وہاں جا کر علم ہوا کے وہ فجر سے پہلے تھانے نہیں آئے گا مگر کیونکہ یہ معاملہ اہم تھا تبھی شہیر نے وہیں بیٹھ کر ولی کے آنے کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔

"شہیر ہو سکتا ہے کیونکہ وہ کل سے غائب تھا سر، ونیزے بھی ہو سکتی ہے۔ ضرور بہت لمبا کھیل کھلا گیا ہے"

ونیزے کے زندہ ہونے اور اپنے آدمی کے مرنے کی خبر اسے موصول ہو چکی تھی تبھی سیٹھ گونی کے آدمیوں سمیت اسکا شک بھی اب یا تو شہیر پر تھا یا ونیزے حسن پر۔

"جا کر دونوں کو تلاش کرو اور موقعے پر ختم کر دو، کچھ دن مجھے انڈر گروانڈ رہنا ہوگا۔ سیٹھ طلال کی ضمانت کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ زیادہ کچھ نہیں جانتا اس ڈیل کے بارے میں مگر شہیر سب جانتا ہے سو اسکو مارنا ضروری ہے ورنہ ہم لمحوں میں برباد ہو جائیں گے۔ جاو فورا"

اپنے معاوف ہوتے دماغ کو بروقت کام لاتا وہ اپنے دونوں آدمیوں کو حکم دے کر روانہ کرتا خود بھی بند گلی کے ساتھ لگتی تنگ گلی میں گھس گیا جبکہ ولی زمان خان کافی دیر سے سڑک کنارے گاڑی روکے کھڑا کسی کا منتظر تھا، سڑک کی دوسری طرف بڑا سا ہوسپٹل تھا اور ونیزے کا پیچھا کرتے اسکے دونوں اہل کاروں نے اسے ونیزے کے یہیں آنے کی اطلاع دی تھی مگر چونکہ وہ اسکے کسی سیکرٹ میں گھسنے کو افورڈ نہیں کر سکتا تھا تبھی باہر گاڑی میں بیٹھ کر ہی اسے ونیزے کا انتظار کرنا مناسب لگا۔

جبکہ ونیزے کی ڈاکٹر علی کے ساتھ اہم آپائنٹمٹ تھی تبھی وہ ایک گھنٹے پہلے یہاں آئی تھی۔

رات کے بارہ بجنے والے تھے، سڑکیں اب ٹریف کے تصادم سے خالی ہو چکی تھیں، سردی کی شدت سے اسکے سر میں ٹیس اٹھ رہی تھی اور پیر بھی جم سے چکے تھے۔

لگ بھگ دس منٹ بعد اسے ونیزے حسن، ہوسپٹل کے داخلی دروازے سے باہر نکلتی دیکھائی دی جس پر ولی نے فورا سے بیشتر گاڑی کا دروازہ کھولا اور جیسے ہی ونیزے نے اسے دیکھا، باقاعدہ دوڑ لگا دی جس پر ولی بھی اسکی اس حرکت پر جبڑے بھینچتا اسکے پیچھے ہی دوڑا۔

کیونکہ وہ سانس اکھڑنے کے باعث زیادہ دوڑ نہ پائی تھی تبھی چند سیکنڈوں میں ہی اسکی رفتار مدھم پڑی اور پھر ولی نے جھٹکے سے اسکی بازو پکڑے اپنی طرف گمایا جو اس اچانک افتاد پر تھم سی گئی۔

"پپ۔۔پلیز مجھے چھوڑ دیں، میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ مجھے مت ماریے گا انسپیکٹر "

وہ اسکو دیکھتے ہی خوف سے بڑبڑانے لگی اور ولی جو پہلے ہی سردی میں بیٹھا اسکے انتظار سے تپا تھا، خون جما دیتی سردی جس میں پیر سن ہوں، اچھی بھلی دوڑ لگوانے پر یہی سوچ رہا تھا کہ دو اس لڑکی کے کان کے نیچے لگا ڈالے۔

"چ۔۔چھوڑیں ولی، درد ہو رہا ہے۔۔۔۔کیوں مجھے اریسٹ کر رہ۔۔یے ہیں۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا"

وہ مسلسل مزاحمت کرتی رہی مگر وہ بنا اسے کوئی جواب دیتا اسکا بازو پکڑے پیچھے پلٹا اور گاڑی تک لے جاتے ہوئے دروازہ کھول کر باقاعدہ اسے دھکا دے کر اندر بٹھاتے وہ خود بھی دوسری طرف سے آکر سوار ہوا۔

ونیزے یوں تھی جیسے کسی نے اسکے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا ہو۔

"تم سے بہت حساب باقی ہے، وہ لے لوں پھر آرام سے ماروں گا۔ اب تمہاری آواز آئی تو گلا دبا کر یہیں تمہارا دی اینڈ کر دوں گا"

اس لڑکی کی ہر منت سماجت اسی کے حلق میں دفن کرتا وہ کڑھے تیوروں سے غرایا اور ساتھ ہی گاڑی سٹارٹ کی جبکہ ونیزے ، حراساں ہو کر اک نظر اس کھولتے خون والے انسپیکٹر پر ڈالتی، اپنی آنکھیں رگڑے خاموشی سے باہر دیکھنے لگی جہاں رات کے آثار بھی اسکے خوف کی طرح گہرے ہو رہے تھے۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

سب نے تمام دکھ بھلا کر آج کی رات صرف حاصل خوشیوں کو وقت دیا تھا، رسموں کے بیچ سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور پھر سفر کی تھکاوٹ کے پیش نظر سبکی لگتی بیٹھک جلدی سمیٹ لینے کا حکم بھی بزرگ کمونٹی کی طرف سے آیا تو جہاں خود اماں فضیلہ، دلہن بنی اشنال کو کمرے کی طرف لے گئیں وہیں مالنی کی ذمہ داری لگائی کے وہ گلالئی کو اسکا کمرہ دیکھائے جبکہ زونی سر درد کے باعث بس تھوڑی دیر سبکے ساتھ بیٹھی پھر کمرے میں چلی گئئ۔

عزیز خان اور بزدار عالم بھی دونوں بچوں کو دعائیں دیتے سونے چلے گئے اور میدان میں اب سیاہ میں ہی چمکتے دلہے رہ گئے اور انکی خشمگیں گھوریاں سہتے ہاشم چچا اور ساتھی جبل زاد۔

"اب یہ گھوریاں ختم بھی کر دو، جا کر اب اشنال کا سر چاٹو کیونکہ ہمیں بھی سخت نیند آرہی ہے اگر مزید میں یہاں بیٹھا تو میرے ارمان جاگ جانے کا خدشہ ہے، چلو جبل زاد ہم بھی نکلیں میرے عزیز"

ہاشم صاحب کی اس درجہ بے باک معصومیت پر جہاں جبل زاد مسکراتا اٹھ کھڑا ہوا وہیں ضرار نے خاصے ترس لٹاتے انداز سے چچا جان کو دیکھا۔

"چچ چچ ہفتے کی تو پھر سزائے موت سنائی گئی ہے آپکو، اللہ معاف کرے پتا نہیں کیسے گزرے گا۔ کہیں تو جاتے جاتے مالنی چچی کو آپکے کمرے میں ڈراپ کرتا جاوں۔ وہ کیا ہے کہ مجھ سے حسرت ٹپکاتے چچا دیکھے نہیں جا رہے"

ابھی بھی وہ سڑا جلا بیٹھا تھا اور اسکی آفر پر ہاشم نے اپنے خرافاتی بھتیجے کا صدقہ اتارے منہ زرا اسکے قریب لایا۔

"تم سے دو ہاتھ آگے ہی ہیں تمہارے یہ حسرت ٹپکاتے چچا لاڈلے سو تم اپنی فکر کرو۔ اپنی نیا پار لگتے لگتے پیچھے چلی جاتی ہے اور چلے ہیں لاٹ صاحب میری حسرت کا دی اینڈ کرنے۔۔چلو شاباش اٹھو اور کام پر لگو۔۔۔۔"

گویا چچا بھی آج شوخے ہو رہے تھے اور وہ ضرور جواب دیتا کوئی کرارا مگر ابھی وہ اپنا موڈ لڑاکا ہی رہنے دیتا خود بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ جبل زاد تو دونوں کی لفظی جنگ سے ہی مخظوظ ہوئے جا رہا تھا۔

"اب نیا پار لگا کر ہی دیکھاوں گا، ویٹ اینڈ واچ"

چیلنج کرتے جناب اترائے تھے اور ہاشم اور جبل زاد نے مسکراہٹ دبائے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر واک اوٹ کرتے لاٹ صاحب کو جو زرافے کی طرح گردن اکڑا کر وہاں سے جا چکے تھے۔

"جبل زاد! ہم نے اسکا گئیر تو مل جل کر لگا دیا پیارے اب دعا کرو یہ اتھرا گھوڑا آج کی رات سب سنبھال لے، مجھے تو ابھی بھی اندر 1965 کی جنگ کے ہی خدشات لاحق ہیں"

ہاشم کی فکریہ گل فشانی جبل زاد کو بھی ہنسا گئی، دونوں اسی جانب دیکھ رہے تھے جہاں موصوف گئے تھے۔

"خیر ہوگئی ہاشم لالہ، امید پے دنیا قائم ہے"

جبل زاد کی مسکراتی تسلی پر ہاشم بھی مسکرایا جبکہ اندر کمرے میں اسے بیڈ پر لا کر بٹھاتیں اماں فضیلہ اس پر جان نثار نگاہیں ڈالے اسکا بھاری کام داری سرخ دوپٹہ اتار کر الگ رکھتیں پاس ہی بیٹھیں کیونکہ وہ تھوڑی کنفوز اور گھبرائی ہوئی تھی اور انکے بیٹھتے ہی اشنال نے انکا ہاتھ ڈر کے مارے جکڑ لیا۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہی کے اس سے معافی مانگوں یا ناراضگی برقرار رکھ کر اسکی معافی کا انتظار کروں، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے اماں جان"

ایک تو وہ دلہن بنی ویسے ہی ہر شے کو آگ لگا دینے کی اہلیت رکھتی دیکھائی دے رہی تھی اوپر سے گھبراہٹ میں اسکا یہ بڑبڑاتا فضیلہ اماں کے چہرے پر بھی حسین مسکان بکھیر گیا، انہوں نے پکڑ کر اسے خود میں سمویا پھر اسکی ماتھا پٹی سے ڈھکی بے داغ پیشانی چومی۔

"جو مرضی کرو بس اس سے دور مت جانا ، ماں ہونے کے ناطے یہی مشورہ دوں گی، اب وہ تمہارا سب کچھ ہے میری بیٹی ، آپسی ناراضگی جتنی جلدی ہو مٹا لینا ورنہ شیطان کو تو موقع چاہیے دو لوگوں کے بیچ فساد ڈالنے کا۔ روٹھنا منانا تو محبت کے رنگ ہیں پر یہ ناراضگی دل دکھانے والی نہیں بلکے اہمیت جتانے والی ہونی چاہیے، صبح تم دونوں بچوں کے چہروں پر صرف خوشی چاہیے، اور مجھے امید ہے تم دونوں مایوس نہیں کرو گے"

اماں فضیلہ نے بہت پیار سے اپنا فرض نبھایا اور یہ سب دروازے کی اوٹ میں کھڑا ضرار بھی سن چکا تھا مگر خود کو بے نیاز ظاہر کیے وہ اچانک ہی اندر آیا تو دونوں خواتین نے اسکی جانب دیکھا جبکہ وہ رسان سے اماں فضیلہ پر ہی نگاہ ڈالے سیدھا واش روم گھس گیا اور دونوں لیڈیز اسکی آمد پر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں، اشنال کی مسکراہٹ میں گھبراہٹ تھی۔

"اب میرا ضرار تمہارے حوالے ہے، اسکی ناراضگی اپنی محبت اور پیش قدمی سے فورا مٹا لینا۔ اللہ سے دعا ہے وہ تم دونوں میاں بیوی کے بیچ انس و محبت اخری سانس تک قائم رکھیں، ایک دوسرے کا سکون بنو۔ اب مجھے اجازت دو، شب بخیر میرا بچہ"

وہ جانے کو اٹھیں تو اسے لگا دل بیٹھ سا گیا ہے تبھی تو لہنگا سنبھالتی وہ خود بھی لڑکھڑاتی اٹھی اور اماں فضیلہ نے اسکی سرد پڑتی گالوں کو دونوں ہاتھوں سے دبائے مسکرا کر دیکھا اور ڈھیر سی دعائیں دیتیں وہ ناصرف اس خوبصورت مہکتے سجے کمرے سے نکلیں بلکہ جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بھی بند کر گئیں۔

اشنال نے گہرے گہرے سانس بھرے خود کو تقویت دی مگر اس کا سامنا اس برفسوں جان نکالتے ماحول میں کرنا ہی اسکے چھکے چھڑوا رہا تھا۔

پورا جسم ابھی سے ہی ٹھنڈا پڑ رہا تھا، حالانکہ کمرے میں بنا آتش دان جس میں لکڑیاں جلائی گئی تھیں، آگ اگل کر خاصی گرمائش کرنے میں کامیاب تھا مگر اس آگ کو دیکھ کر بھی اشنال کو کچھ ہو رہا تھا۔

آگ سے رنگ نکل رہے تھے، ماحول گرماتے ہوئے رنگ۔

وہ جانتی تھی اس سنگدل شخص کی قربت، سحر بن کر لمحے میں اسکی سوچوں اور حسوں کو مفلوج کر دے گی مگر ہوش کے برقرار رہنے تک تو اسے اس جان لیوا سلسلے سے گزرنا ہی تھا اور یہ سوچ ہی اسکے وجود سے جان نکال رہی تھی۔

وہ کب باہر آیا اسے خبر نہ ہوئی مگر کسی مانوس سے احساس کے تحت وہ جب بے اختیار پلٹی تو آنکھیں اس شخص کی ناراض آنکھوں سے جا ملیں اور دل کے تار چھیڑ گئیں، وہ خود بھی ان اجنبیت بھرے نگاہ کے زاویے پر کچھ اداس ہوئی۔

"یہاں کھڑی کیا کر رہی ہیں؟ جائیں جا کر چینج کر کے آئیں"

شعلہ باز نظروں سے اس نے اس قدر سرد مہری سے اپنا فون سائیڈ میز پر رکھتے کہا کہ اشنال عزیز کا دل اسکے انداز پر کانپ کر رہ گیا۔

"تمہارے لیے سجی ہوں، دیکھ تو لو اچھے سے۔ پھر ساری زندگی طعنے دو گے کہ پہلی رات میں نے جلدی یہ روپ بدل کر تمہارے ساتھ ناانصافی کی تھی"

خود کو دبا ہوا نہ ظاہر کیے وہ بھی جیسے تھوڑی سنگدل بنی جبکہ ضرار کو اسکی آج بھی چلتی زبان کچھ زیادہ پسند نہ آئی۔

"میں اب تک صرف طعنے ہی تو دیتا آیا ہوں آپکو، ہے ناں"

وہ اس الزام پر خفیف سا تلملایا تھا جبکہ اشنال عزیز نے دو قدم اٹھائے اس روٹھے ہوئے شخص کے قریب جا بستے ہوئے اپنی بوجھل پلکیں اٹھائے پہلے اسکے چوڑے سینے کو دیکھا پھر دھیرے سے سر اٹھا کر اس کے سپید چہرے کو، دونوں کا ہی دل تیزی سے دھڑکا تھا۔

"تم یہ بھی تو سوچ سکتے تھے کہ اشنال عزیز چاہتی ہے کہ تم مجھے اس طرح سجا ہوا دیکھو"

سرخ خمار ذدہ نگاہیں اٹھا کر اسکی جلتی خفا آنکھوں میں ڈالے وہ جو بولی، اس شخص نے جس سنگدلی سے دیکھا وہ نظر سیدھی دل میں اتر کر سانس روکنے پر مجبور کر گئی۔

"دیکھے تو آپکے کئی روپ ہیں، آج ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ پہلے سے دیکھا ہوا آپکا کوئی روپ،  آج دہرایا نہیں جائے گا"

وہ بے باک ہونے کے باوجود ہلکا سا سلگا تھا تبھی تو جب ضرار نے اسے حصار میں لیتے ہوئے یہ کہا، وہ ناراضگی سے بھر گئی۔

"تم ناراض ہو؟ ناراض تو مجھے ہونا چاہیے تھا۔ ایسا گندا پلین بناتے ہوئے شرم نہیں آئی تمہیں؟ میرے بابا کا قاتل کہا تم نے خود کو، بلکے اس سب میں ہر کسی کو شریک بھی کیا۔ مجھے آزمانا چاہتے تھے یا سزا دینا چاہتے تھے؟ "

وہ اس کے قریب آباد ہوتی اسکے حصار میں موجود تھی اور اسکو ڈانٹ رہی تھی جبکہ شرم والی بات پر ضرار نے ڈھٹیائی سے اس زخم کریدنے پر نفی میں سر ہلایا اور پھر جیسے سر جھٹک کر پلین چوپٹ ہونے پر واپس بھڑکا۔

"آپکو زبردستی اپنا بنانے کا پلین تھا یار، مزاحمت کرتا صنم زیادہ اپیل کرتا مجھے مگر سب نے میرے پلین کو سرے سے چوپٹ کر دیا۔ رہی بات آپکی اشنال عزیز تو آپ کیا مزاحمت کریں گی میری جان، آپ تو میثم کے بس ایک بار گلے لگانے کی مار ہیں اور یہیں ڈھیڑ"

اس درجہ بے باک اور بھیانک منصوبہ بندی سن کر اشنال کا منہ حیرت اور صدمے سے جہاں کھلا وہیں اسکے بسورے منہ کو دیکھتے ہی وہ زور کا مکا ٹھیک اسکے الٹے دل کی جانب رسید کر گئی۔

جبکہ ضرار نے یکدم خونخوار ہوتی اشنال کو دل پر ہاتھ رکھے دیکھا جو واقعی سر پھاڑنے والی دیکھائی دی۔

"نہایت ہی کوئی فضول انسان ہو تم نہ تمہیں شرم آتی نہ حیا، اب تم مجھے ہاتھ بھی لگا کر دیکھاو زرا، ایک بار گلے لگانے کی مار نہیں ہوں اب مسٹر میثم کسی خوش فہمی میں مت رہنا"

لہنگا سنبھال کر غصے سے پٹر پٹر اسکی پلاننگ سے کان کی لو تک سرخ ہوتی اشنال اس سے پہلے واقعی چینج کرنے بڑھتی، وہ دل پر بجتے ڈھول، یعنی مکے کو بھلائے ایک ہی جھٹکے سے اسکی کلائی کھینچ گیا جس پر وہ اسکے سینے سے ٹکراتی ٹکراتی بچی۔

"چلیں پھر مقابلہ ہو جائے صنم، آپ جیتیں تو آپکی حکمرانی اور میں جیتا تو میری۔۔ اور میری حکمرانی آج آپکی ویسے ہی جان لے جائے گی"

فورا سے بیشتر وہ یہ دل دہلاتا شرطیہ کھیل بیچ میں لایا اور وہ ویسے تو نہ ڈرتی مگر میثم کے آخری جملے نے اسکے وجود میں برقی لہر دوڑا دی۔

"م۔۔مجھے نہیں کرنا ایسا ویسا کوئی مقابلہ۔۔تم ہٹو۔۔۔ دور رہو ہو ہی بتمیز۔۔ پیچھے ہٹو"

اس وقت ڈر اور گھبراہٹ سے اسکا جسم کانپ رہا تھا اور ضرار صاحب تو ہلکا ہلکا ابھی سے بے خود ہوتے اس لڑکی کو پکڑ کر گلے لگائے اس شدت سے وجود کی تہہ تک بھینچ گئے کہ اشنال چاہے بھی تو ہل نہیں سکتی تھی۔

لمحوں میں ان دلوں نے ایک دوسرے کو باہوں میں بھرا، سارے اعتراضات ، دوریاں اور فرار سبھی دور جا مفقود ہوئے اور یوں اس شخص کے گلے لگانے نے واقعی اشنال عزیز کے اندر سکون بھر دیا۔

کتنا مس کیا تھا اس نے اس لمحے کے سکون کو، دونوں نے کیا تھا، دونوں کی شدت بھری پکڑ بتانے کو کافی تھی کہ ایک لمبی مسافت کی تھکن بس ان باہوں میں ہی اتر سکتی ہے۔

اس اپنائیت بھرے حصار میں ، ساری بے چینی، ساری بے سکونی، ساری تھکان ختم ہوتی محسوس ہو رہی تھی بلکل ویسے جیسے اشنال عزیز کی حسیں اسکا ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔

"بہت مس کیا ہے آپ کو اشنال، اتنا کہ بتا نہیں سکتا۔"

وہ اپنے اندر سکون بھرتا جب اسے آزاد کیے روبرو لایا تو وہ اس قربت کے سکون کے سوا ساری دنیا کے سکھ بھول کر بس نم آنکھوں میں تڑپ اور تشنگی بسائے اسکی آنکھوں میں تکتی اسکے گھمبیر بوجھل لفظ سن رہی تھی۔

"ب۔۔بتانا پڑے گا تمہیں"

وہ بے اختیار بولی،آواز کو آنسووں نے نگلا تھا۔

"نہ بتایا جا سکا تو؟"

وہ اخیر جاننا چاہتا تھا جو پھر سے روتی ہوئی اس بار اسکی باہوں کے حصار میں سینے میں سمٹی تھی، جس دل کی دھڑکن ہمیشہ گلے لگانے سے یوں ہی تڑپ اٹھتی تھی۔

"مجھے معاف ک۔۔کر دو، تمہیں اس لیے بھیجا تھا کیونکہ وہ موسم تمہارے لیے بلکل اچھا نہیں تھا۔ آئی ایم سوری میں نے تمہیں بے یقینی سے اذیت پہنچائی میثم، آئی ایم سوری میں نے بہت دیر میں اپنا دل صاف کیا مگر یہ سچ ہے پاگل ہو گئی تھی، ایسا پاگل پن جس میں میری زندگی ختم ہو گئی تھی۔۔۔۔آئی ایم۔۔۔۔۔"

وہ سسکیاں بھرتی بولتی گئی اور جب میثم سے یہ مسلسل سوری کی رٹ ناقابل برداشت ہوئی تو وہ اسے سینے سے الگ کرتا جھٹکا دیے ساکت کر گیا۔

"ششش! سٹاپ دس نان سینس یار۔۔۔۔ سوری کی گردان کر رہی ہیں کیا۔ اب اگر یہ لفظ آپکی زبان پر آیا تو تھپڑ کھائیں گی۔ ویسے بھی کسی کو زور دار منہ پے دینے کی بڑی طلب ہو رہی ایسا نہ ہو آپ کے سامنے ہی میرا وہ حسرت زدہ زور کا آیا تھپڑ نکل جائے۔۔سو احتیاط کریں"

خاصا بیزار ہوتا وہ اس رٹ پر جنجھلائے جو بڑبڑایا اس پر وہ بھی روتی روتی بے اختیار مسکرا دی اور یہ لمحہ ہر شے روک دینے والا تھا۔

"خود کو مار لو اگر بہت زور کا آرہا۔۔۔۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے"

رونا ختم کیے وہ بھی جیسے ہر جمود سے نکل آتی شرارت پر اتری مشورہ دے گئی جس پر ضرار نے اسے منصوعی گھوری سے نوازا مگر کون اس دہکتے حسن کے آگے سنبھل پاتا۔

"آئی مس یور سمائیل اشنال عزیز، جان لے جاتی مسکراہٹ۔۔۔۔۔ شکوے شکائیت، سلگانا جلانا بعد کے لیے، ابھی میرے بے حد پاس آئیں تاکہ محسوس کر سکوں کے اب دنیا کی کوئی طاقت آپکو مجھ سے دور نہیں کر سکتی"

وہ جذب سے چور لہجے میں کہتے ہی اسکے نتھلی کے بالائی لب کو چھوتے موتی پر نگاہ ڈالے نزدیک آیا، اس شخص کی مہکتی سانس قریب آتے ہی اشنال کی سانسوں میں گھلی تو اشنال نے آنکھیں بند کیے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں بھینچا اور اس دل دھڑکاتی پیش رفت پر خود کے حواس بے لگام چھوڑتے ہوئے اس شخص کے برابر سانس کھینچی۔

ان یاقوتی ہونٹوں کی نرمی،استحقاق بھری گستاخیوں سے مدھم پڑتے بھیگے رسیلے رنگ میں جب تحیل ہوتی مسکراہٹ کا روپ بدلی تو میثم نے اسکی ہر سانس دوبارہ بلا اختیار خود میں، اپنی سانسوں میں اتارنے کی شدت بھری کوششوں کے بیچ اشنال عزیز کے جسم کا رواں رواں لرزا دیا۔

"کہا تھا ایک بار گلے لگانے کی مار ہیں، تھما دی ناں مجھے آپ نے حکمرانی ظالم لڑکی"

جب وہ من پسند شدتیں لٹائے ہوش تھامے مسکرا کر فتخ کی خبر سنا رہا تھا تو اشنال عزیز گہرے گہرے سانس بھرتی اسکی حکمرانی کا سوچ کر ہی سرخ رو ہونے لگی، منظر تو پہلے ہی بے حود تھے وہ بھی ایک دوسرے کی سانسوں میں اترتی خوشبو سے بدحواس ہو کر بے خود ہونے لگے تھے۔

میثم ضرار چوہدری کی بڑھتی عملی گستاخیوں سے وہ جلد ہی خود میں سمٹنے لگی تھی، جسم و جان کی حدود تک اس شخص کی قربت کی پرچھائیاں سایہ فگن ہو رہی تھیں اور اب روحیں ایک دوسرے کے جسموں میں اور دھڑکنیں ایک دوسرے کے دلوں میں تحیل ہونے کا وقت تھا جب وہ اسے پہلووں سے تھامے اپنے روبرو لایا، اس ساحر کی سیاہ آنکھیں روح اچک لینے کی خاصیت رکھتیں، ہوش بھلا دیتیں، مائل کر دیتیں تھیں۔ شدت لمس کی حدت سے سرخ پڑتے ہونٹوں کو وہ سختی سے آپس میں جوڑے اسکے روبرو دھڑکتی ہوئی کھڑی تھی، نتھلی ناک سے اتر کر دائیں جھمکے سے جھول کر خود پر ہوتے حسین تشدد کی ساری روداد سنا رہی تھی، جبکہ ضرار کی بے خود نظروں کو اس خوبصورت آنکھوں والی لڑکی کی جھکی جھکی پلکوں نے اپنی طرف کھینچا۔

سانسوں میں گھلتی مدھوش کن خوشبو ، انگلیوں کا اشنال کی کمر پر رینگتا نرم و نازک لمس، مدھوش پڑتے دل کی دھڑکنیں، اور سامنے کھڑا دلکش سراپا جس کا انگ انگ میثم ضرار چوہدری کے لیے سجا، اسے مائل با کرم کرنے کی سازشوں میں مصروف عمل تھا۔

"حکمرانی کے لیے تیار ہیں؟ آپکا میرے حواسوں پر سوار ہو جانا،  ہر صبر کو آگ لگا چکا ہے اشنال۔ آج تو صرف بدلا لوں گا، ہر اس لمحے کا جب خود سے دور کرتی رہی ہیں"

وہ اسکے سجے دہکتے چہرے کی بکھری راعنائیاں مزید بکھیر کر اپنے ڈھنگ سے سنوارنے کا طلب گار تھا اور آج واقعی وہ مزاحمت تو کیا اک حرف ایسا کہنے کی بھی رودار نہ رہی تھی جو میثم کو مزید دکھ دیتا۔

"میں خود تم سے دور رہ رہ کر تھک چکی ہوں میثم، بہت آزمایا تمہاری محبت نے، اب کمی مت رہنے دینا۔ تم جیسا جسم و جان کا حکمران ہی تو چاہتی ہے اشنال، جسکا پاس آنا میرے سارے دکھوں کا مرہم ہے، جسکا ہر لفظ اشنال عزیز کی محبت کا دم بھرتا مچلتا ہوا سمندر ہے، تم نے سب کے سامنے مجھے اپنا بنایا ہے میثم، اب کیسے دور جا سکتی ہوں۔۔۔۔"

وہ اسکے چہرے کو تکتی ہر پش و پیش کو بھلا کر اپنی سانسوں، دھڑکنوں، بے تابیوں، تشنگیوں کی تمام سرحدوں پر صرف اسے چاہتی تھی، جذب و تکلیف کی ملی جلی کیفیت نے اسکے اندر کی تشنگی عیاں کی تھی اور میثم نے مسکرا کر ایسی خواہش کرنے والی حسینہ کو اک نظر دیکھا، ماتھا پٹی نرمی اور احتیاط سے اس کی بے داغ ہیشانی سے ہٹائی تو ساتھ منسلک میثم کے دل کی طرح ڈولتے جھمکے بھی باری باری اسکے کانوں سے آزاد کیے نتھلی کو بھی آزادی بخشتا وہ یہ سب ڈریسنگ کی جانب اچھال گیا، اور وہ تھمی ہوئی سانس مزید روکے اسے دیکھنے میں گم ہوئی تھی۔

"ساری تھکن خود میں سمیٹ لوں گا، آج کے بعد آپکی آنکھیں صرف مسکرائیں گی صنم۔ وہ سارے آنسو جو ان خوبصورت آنکھوں سے بہے وہ ان دلنشین آنکھوں کا صدقہ تھے"

اسکے قریب بڑھتا، اسکی پیشانی پر شدت بھرا لمس بکھیرتا وہ آہستہ آہستہ لمس کی شدت میں اضافہ کیے ان آنکھوں پر جھکا، باری باری ہونٹ اس پر رکھتے ہوئے اپنے لمس کی مہک پھر سے پوری آب و تاب کے سنگ اس کے اندر تک اتارنے لگا۔

اپنے احساس سکون کے بیچ اس نے اشنال کے کانپتے جسم کو نظر انداز نہ کیا بلکہ تشنگی جیسے جیسے بڑھی وہ اسے مضبوط گرفت میں نرمی سے بسائے سب بھول گیا اور سانسیں تسخیر کرتے ہوئے ہی اسکی دمکتی سفید گردن کو تشدد کرتے ہار سے آزاد کیا اور ان شدت بھری من مرضیوں کا رخ شہہ رگ کی جانب کیا تو اشنال کو لگا ابھی سانس لیتے لیتے کہیں یہ ظالم ساری سانسیں ہی اپنی پرزور قربت کی شدت سے خود میں نہ نگل لے۔

"م۔۔میثم!"

وہ اسکے بہت شدید جان لیوا ہونے پر گھبرا کر اسے پکاری تو میثم نے اسکے لہنگے کی سرخ شرٹ کندھے سے زرا سرکائے، اسکی بنا سنے اگلے ستم کی تیاری کی۔

کندھے پر میثم کے ہونٹوں کی بے باک شدت کو محسوس کیے وہ کانپ کر مچلی، فرط جذبات سے آنکھیں بند کر گئی، تمام حسوں نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

"آپ تو آج گئیں اشنال ہاہا، جائیں چینج کر لیں۔ آپکا یہ ڈریس مجھے خاصا ڈسٹرب کر رہا ہے۔ "

آنکھوں میں معنی خیز سا سرور لیے زرا فاصلہ بنائے اس لڑکی کی اڑی ہوائیاں اور سرخ رو ہوتے چہرے کو دیکھتے وہ جو بولا اس پر اشنال نے سہم کر آنکھیں کھولیں اور تھوڑی دیر ہی سہی اس جن سے نجات پر وہ یوں سکھ سے سانس خارج کر گئی جیسے کسی شکنجے سے معصوم شکار بچ نکل کر آہ بھرتا ہے۔

"کیا پہنوں؟"

وہ یہ اس لیے بولی کے اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسکے یہاں کس طرح کے ڈریس ہیں کیونکہ جو وہ گھر سے لائی تھی وہ تو گلالئی نے بیگ ویسے ہی آکر رکھ دیا تھا اور کسی نے ابھی تک وہ ڈریس میثم کے چینجنگ روم میں ہینگ نہیں کیے تھے۔

"جی کیا کہا؟ میں نے سنا نہیں"

سرک کر چینجنگ روم کی طرف بڑھتی اشنال کو واپس کمر سے دبوچتا وہ سرسراتا ہوا بولا تو وہ تھوڑا بوکھلائی۔

"م۔۔میرا مطلب تھا سب ڈریس تو سوٹ کیس میں ہیں، اور اتنی اچانک رخصتی ہوئی ہے تبھی پوچھا کے کیا پہنوں"

اپنے کہے کی وضاحت اس لڑکی نے ڈرتے ہوئے کی۔

"آپ میثم کی منکوحہ بنی تھیں جس دن اسی دن یہ چینجنگ روم آپکے کپڑوں سے سجا دیا گیا تھا میری جان، اب تو آپ آفیشل بیوی بنی ہیں اب تو سارے لوازمات پورے ہیں، جائیں سب مل جائے گا، اب یہ آپ پر ہے کہ میرے ٹیسٹ کے مطابق کچھ پہنتی ہیں یا ماسی بن کر میرا بنا بنایا موڈ تباہ کرتی ہیں"

خاصے دل دہلاتے بے باک لہجے میں وہ فرمائش کرتا اسے مزید ڈرا رہا تھا اور وہ جان چکی تھی کہ اس شوخے کی خواہش کس قسم کی ہوگی تبھی خوف بھی چہرے پر ابھر چکا تھا۔

"تم چھچھوڑے تو نہیں تھے میثم، دیکھو اندر میرے پہننے کے لیے اگر کچھ نازیبا پڑا ہوا تو بتا رہی ہوں میں نہیں پہنوں گی۔ اسی لہنگے میں سو جاوں گی"

وہ اسکی بگھڑی نیت بھانپے فورا دھمکی پر اتری تبھی تو وہ اسے مزید ٹائیٹ جکڑتا جان لینے پر اترا۔

"آپکو آپکے لہنگے سمیت اٹھا کر باہر پھینک دوں گا اگر سحر تک آج سونے کا خیال بھی آپ نے اپنے قریب لایا، نازیبا کی کچھ لگتی، بندے کی بھی کوئی کلاس ہے سمجھ کیا لیا ہے آپ نے مجھے۔۔۔ آپکو کیا لگتا ہے سستی مووی کا ٹھرکی ہیرو ہے میثم؟ جو آپکو نامناسب لباس میں دیکھ کر باچھیں کھول کھول کر خوش ہوگا۔۔۔۔ آپ میری عزت ہیں میری جان اور میثم خود آپکا لباس بنے گا"

وہ تھوڑا تلملایا مگر اشنال تو اسکے ان لفظوں سے ہی کان کی لو تک سرخ ہوئی، یوں لگا شرم اور ہچکچاہٹ کے باعث جیسے کچھ بول نہیں پائے گی۔

"تم ایسی باتیں نہ کرو ، مجھے شرم آرہی ہے"

وہ اسکے سینے میں چھپ کر شرمگیں مسکان دبائے بولی تھی اور میثم کا اس سے پہلے ہاتھ اسکی شرٹ کی پشت پر لگی زپ سے الجھتا، وہ اسکے خوفناک ارادے بھانپتی کرنٹ کھاتی دور ہٹی۔

"ایسی باتیں بھی کروں گا اور حرکتیں بھی اس لیے شرافت سے چینج کرنے جائیں ورنہ مجھے اچھے سے پتا ہے آپکے اس لہنگے کو کس طرح اور کہاں ٹھکانے لگانا ہے"

وہ اس طرح جل بن کر تنبیہی ہوئے بولا جیسے لہنگا ہی اس وقت جناب کا رقیب ہو اور وہ تمام تر حیا و شرم کے باوجود مسکراتی ہوئی وہاں سے بھاگی تھی اور میثم ضرار چوہدری بھی عجیب سے مخمور مسکراہٹ کے سنگ اس بھاگتی دوشیزہ کو دیکھ کر سرشاری میں مبتلا نظر آئے تھے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ٹھنڈ نے جسم جکڑنے اور سوچیں مفلوج کرنی شروع کر دی تھیں، وہ اسے ساتھ لیے نائیٹ کلب اینڈ کیفے کے اس ریسٹورنٹ میں لایا تھا مگر ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ولی زمان کے فون پر بہت اہم کال آئی۔

اسی اہم کال کے لیے اسے میز سے اٹھ کر کچھ دور آنا پڑا تھا، وہ ظالم لڑکی اس وقت اسے کال کر رہی تھی کیونکہ جانتی تھی وہ شخص راتوں کو سوتا نہیں ہے۔

"اس وقت کال کے لیے سوری، لیکن اب ضروری تھا کہ آپکو وریشہ یوسف زئی نامی مکمل دکھ سے نواز دوں، یہ بتاوں کہ میرے دل کو وہ سنگدل بھا گیا ہے جسے اللہ نے میرے مقدر میں اچانک لکھا، کہا تھا ناں ولی کے محبت کرنی پڑ سکتی ہے، پڑ گئی محبت کرنی۔۔۔ آپکی محبت کی ہمیشہ عزت کی ہے وریشہ نے، لیکن کیا کروں کہ دل کہتا ہے اسے محبت کرنی چھوڑ دی تو وہ تو مرے گا ہی، وریشہ بھی مر جائے گی"

وہ ٹھیک نہیں تھی، بکھری ہوئی تھی اور وہ آج بکھرا ہوا نہیں حوصلے میں بھی تھا اور سنبھلا ہوا بھی تھا۔

وریشہ نے کبھی ولی سے محبت نہیں کی تھی، ہاں اسکا دامن ولی کی محبت سے حصارا ضرور تھا اور حساس تھی، ولی کو دکھ دے کر اپنی سیج سجانے سے اسے خوف آتا تھا تبھی تو وہ شہیر کو چھوڑنے کی بات تک کر آئی تھی لیکن حقیقت میں وہ سنگدل تو وریشہ کے اندر سرائیت کر چکا تھا۔

"لیکن وہ وعدہ جو میں نے آپ سے لیا تھا وری وہ اب بھی پردے میں ہے، کھولوں اسے؟ یا رہنے دوں"

ولی کے بے درد سوال نے اس لڑکی کو اداس و ملول کیا، اب کہاں تاب تھی اس میں کسی وعدے کو نبھانے کی۔

اگر اس شخص کے وعدے میں وہ خود نکلی تو کیا کرے گی تبھی فورا سے دل سنبھال گئی۔

"رہنے دیں ولی، پلیز۔۔۔"

وہ جاننا ہی نہ چاہتی تھی اور وہ اذیت سے مسکرایا۔

"ایسے تقاضے پردے میں ہی اچھے لگتے ہیں رہنے دیتے ہیں، تو آپکو محبت ہوگئی وریشہ۔ اور ولی سے نہیں ہوئی کوئی بات نہیں، آپکی محبت کا دل سے احترام کرتا ہوں مگر اس دل میں آپ ہی تحلیل رہیں گی۔ میں آپ سے خود کو تو آزاد کر دیتا ہوں مگر دل کو نہیں کر سکتا۔ جائیں آباد رہیں، آپکی خوشی کو دعا دیتا ہوں"

وہ ناجانے اذیت کے کس مقام پر تھا مگر اسکا دل تڑپ تڑپ کر تھک چکا تھا تبھی آج اس نے وریشہ کی خوشی میں خوشی ڈھونڈنی چاہی جو اپنے اعصاب پر کیے جاتے احسان سے رونے لگی تھی۔

"شادی کر لیں، پلیز۔۔۔۔ کسی ایسی سے جسکے دل میں آپ ہوں ولی۔۔۔ ورنہ میری تکلیف برقرار رہے گی، پلیز شادی کر لیں"

کچھ دیر ان کے بیچ جانیوا خاموشی رہی پھر جیسے اس لڑکی نے قہر ڈھایا اور ولی کی رنگ بدلتی آنکھیں سرخ ہوئیں۔

"میرے پاس جتنی محبت تھی میں نے آپ سے کر لی وری، آپکو نہیں لگتا کہ اگر میری زندگی میں کوئی دوسری لڑکی آئی تو اسکے ساتھ زیادتی ہوگی؟"

وہ آسان سا سوال، وریشہ کی طبعیت بوجھل کر گیا وہیں اس شخص کی حسرت امر بیل جیسی ظالم تھی۔

"ہوگی، ب۔۔بہت ہوگی مگر اسکی ولی زمان نامی دنیا جہاں کی سب سے خوبصورت خواہش لاحاصل نہیں رہے گی، اگر آپ نے میری بات نہ مانی ولی تو میں یہی سمجھوں گی کے آپ نے میری خودغرضی معاف نہیں کی۔ پلیز مجھے اس تکلیف سے نکال دیں، کریں گے ناں شادی۔۔۔پ۔۔پلیز"

وہ تو جان لینے پر اتر آئی تھی اور ولی نے بے اختیار کرسی پر بیٹھی گم سم سی ونیزے حسن کو دیکھا جسے وہ انتظار میں بٹھا کر آیا تھا، جس لڑکی کے دل میں وہ نجانے کب سے آباد تھا، اسے آج پہلی بار ونیزے پر ترس نہیں آیا بلکہ وہ وریشہ کا نعم البدل بننے کی کوشش کرتی لڑکی پر برہم ہوا۔

"کیوں جان لے رہی ہیں وری؟ ایسے تو دل مر جاتے ہیں"

وہ بہت ذہنی دباو میں دبا بے اختیار بولا، اسکی مضبوط آواز ڈوبی تھی۔

"محبت کے لمس میں لافانی روح مقید ہوتی ہے ولی، وہ لڑکی اسی روح کو آپکے دل میں منتقل کر دے گی مجھے یقین ہے۔ پلیز مجھے مایوس مت کریں، جب بھی اس انسان کی کشش مجھے اپنے قریب کھینچتی ہے مجھے آپ سے کی زیادتی اسکے پاس جانے نہیں دیتی۔ میں اسکے قریب جانا چاہتی ہوں ولی، میں اسکے بغیر نہیں رہ پا رہی، میرے دل اور دماغ پر بوجھ ہے، آپکی اذیت کا بوجھ۔۔۔۔۔آج کے بعد کچھ نہیں مانگوں گی ولی، بس میری یہ آخری خواہش مان لیں"

وریشہ کا بکھرتا ٹوٹتا لہجہ اس شخص سے کیسے برداشت ہوتا، پھر وہ ونیزے کو کیسے یہ دکھ دیتا، جو پہلے ہی موت کی آغوش میں جانے کے پر تول رہی تھی۔

وہ کیسے ونیزے سے یہ زیادتی کرے، آج وہ حقیقی بے بس ہوا تھا۔

"کل ہی نکاح کر لوں گا، آپ اس انسان سے دور مت رہیں۔ آئی پرامسس میری اذیت مزید آپکے دل و دماغ پر بوجھ نہیں بنے گی۔ آپکی خوشی کے لیے تو مر بھی سکتا ہوں، یہ تو بس ایک سمجھوتہ ہوگا۔۔۔شب بخیر "

محبت میں اپنا سب کچھ دے دینے والوں کو کائنات کا مالک محبتوں کے جہاں نوازتا ہے، وریشہ کی آنکھوں میں خوشی اور قرار کے آنسو تھے اور ولی زمان خان کی آنکھوں میں اس جان لیوا دستبرداری پر سرخائی گھلی۔

رابطہ منقطع ہوا اور پانچ منٹ ولی کو اپنی کمزور پڑتی حالت درست کرنے میں لگے اور پھر وہ انتظار میں بیٹھی ونیزے کی جانب بڑھا، اس مرجھائے چہرے پر اک سخت سی نگاہ ڈالتے ہی ولی نے سامنے والی کرسی سنبھالی۔

"ایک بلیک کافی، ایک کریمی کافی ود لیمن کیک"

کیفے پر اپنا آرڈر دیے وہ ویٹر کے جاتے ہی ولی زمان خان نے اپنی رنگ بدلتی برہم آنکھیں سامنے بیٹھی ونیزے حسن پر مرکوز کیں جو جیل میں لے جانے کے بجائے اسے اس گہری رات کے وقت نائیٹ کلب اینڈ کیفے لایا، جو فجر تک کھلا رہتا تھا۔

"اب بتاو، سیٹھ گونی کو کیسے جانتی ہو اور کیا ڈاکٹر علی شمشاد بھی تمہارے اس کھیل میں تمہارے ساتھ تھے؟"

وہ جو پہلے ہی اس شخص کی نظروں میں خود کو محصور محسوس کیے مضطرب تھی، ولی کے ان عجیب و غرئب دونوں سوالوں پر ہی حیرت ذدہ ہوئی، زیادہ پریشانی دوسرے سوال پر ہوئی۔

"کیسا کھیل؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں ولی؟"

وہ باقاعدہ روہانسی ہوئی کیونکہ ولی کا لہجہ تضخیک والا تھا اور وہ اسکے بھولے پن پر ماتھے پر مزید تیوریاں چڑھائے دونوں ہاتھ میز پر رکھے قریب ہوا۔

"پہلے سیٹھ گونی کا بتاو پھر کھیل کی بھی وضاحت کرتا ہوں"

وہ سرد مہر نظریں ونیزے کے آر پار ہو رہی تھیں اور شاید اب راہ فرار بھی نہیں بچی تھی۔

"بھائی کام کرتے تھے سیٹھ گونی کے لیے،وہ ٹمبر مافیا کا بڑا نام ہے۔ جب میرے بھائی نے سیٹھ گونی کے تمام دھندے پبلک کرنے کی کوشش کی تو اس نے میرے بھائی کو غداری کی سزا پر مار دیا اور مجھے بہت ساری دھمکیاں دے کر بھائی کی ساری ذمہ داریاں میرے سر ڈال دیں، کیونکہ میں شروع سے ہی انٹیلجنس میں جانا چاہتی تھی سو چار سال کی ٹرینگ کے بعد جب واپس آئی تو سیٹھ گونی کو میرے جیسی جاسوس لڑکی درکار تھی، میری عزت لوٹ کر مجھے مار دیتا تو اسے کوئی فائدہ نہ ہوتا لہذا اس نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا تاکہ میری صلاحتیوں کو اپنی حفاظت کے لیے یوز کرتا اور پھر جب مجھے پتا چلا کہ بھائی کو اس نے خود مارا تھا اسکے بعد میں بھی انکی موت کا انتقام لینے لگی تھی۔ شہیر مجتبی کے علاوہ میں نے بھی کئی بار مخبری کروائی، بہت ساری انفارمیشن انٹیلیجنس تک بھجھوائی تاکہ وہ اپنے تئیں اس ٹمبر معافیا کا خاتمہ کر سکیں۔ لیکن چونکہ مجھے کینسر جیسی موزی بیماری لاحق ہو گئی ہے سو میں انکے لیے ناکارہ ہو چکی ہوں اور پھر سیٹھ گونی کا دیا آخری کام یعنی آپکی موت بھی پورا نہیں کیا سو اب وہ میری جان کا دشمن بن چکا ہے۔۔۔ "

اپنی کرب بھری کہانی سمیٹ کر بھی وہ ولی کے چہرے کی ناراضگی اور کدورت ہلکی نہ کر پائی تھی کیونکہ ولی زمان خان تو اس لڑکی سے کچھ دیر کے لیے اخیر بدگمان ہو چکا تھا۔

"ہمم۔۔ اور ڈاکٹر علی کے ساتھ مل کر جو کھیل تم نے ولی زمان خان کے ساتھ کھیلا اسکی کیا وضاحت دو گی"

ولی یہ سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر علی نے تین ماہ پہلے اسے جو ونیزے کے دل کی بات بتائی تھی وہ صرف ونیزے کی ایک گیم تھی اور وہ صرف ولی کے قریب آکر اسے مارنے کے لیے یہ سب ڈرامہ کر رہی تھی۔

ایک بار پھر ولی کے اس سوال پر ونیزے تکلیف کے سنگ اس سنگدل کو دیکھنے لگی۔

"یہ کیا آپ نے کھیل کھیل کی رٹ لگا رکھی ہے، کونسا کھیل کھیلا ہے میں نے۔ ڈاکٹر علی نے کیا کیا ہے جو آپ یہ سوال کر رہے ہیں"

اس بار وہ غصے سے بپھری، یہ تھانیدار تو اب اسکا دماغ گما رہا تھا۔

کافی ود کیک آچکی تھی اور ویٹر کے آکر سرو کرنے اور جانے تک دونوں کے بیچ شدت پسند چپ حائل رہی۔

"تمہارا ایک سیکرٹ بتایا انہوں نے، حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے یہ سب صرف مجھے ہی کیوں بتایا۔ حالانکہ تب تو ایسے حالات بھی نہیں تھے جو اب ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہو چکا ہے کہ انکی بات میں کوئی سچائی نہیں تھی، یہ تمہاری چال تھی ولی زمان خان کے قریب آنے کی تاکہ سیٹھ گونی کا دیا کام پورا کر کے تم سیٹھ گونی کا اعتماد حاصل کرو پھر اسے بھی راستے سے ہٹا کر تم اپنے بھائی کی موت کا انتقام لے سکو"

وہ اخیر حد تک ظالم بنا اپنے ہی مفروضے جھاڑ رہا تھا اور ونیزے حسن یوں تھی جیسے اسکے سر میں کسی نے پتھر دے مارا ہو۔

خوفزدہ اور بے یقین تڑپتی نظروں سے وہ ولی کو دیکھنے لگی، ایسا کونسا سیکرٹ بتا دیا تھا ڈاکٹر علی نے کہ ولی اس درجہ حقارت میں مبتلا تھا، سوچ سوچ کر اسکا دماغ پھٹنے لگا۔

"ک۔۔کونسا سیکرٹ بتایا؟ آئی سوئیر مجھے کچھ بھی نہیں پتا۔ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟"

وہ بمشکل آنسو روک کر بولی جبکہ ولی کو اسکی ادکاری سے چڑ ہوئی۔

"یہی کہ کوئی ہے تمہاری زندگی میں جو خواب ہے تمہارا، وہ شخص جسے تعبیر کی صورت مرنے سے پہلے تم اپنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔وہ انسان ولی زمان خان ہے، تب مجھے لگا تھا ایسا کہ ڈاکٹر علی کی ہر بات درست ہے مگر اب لگ رہا ہے مجھے شدید غلط فہمی ہوئی تھی"

وہ مزید کڑوے لہجے کو برقرار کرتا ستم ڈھائے بولا اور ونیزے کو لگا کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انکی سماعت میں انڈیلا ہو، اسکے چہرے کی رنگت سفید ہو گئی تھی، ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ جس راز کو اس نے خود تک سے چھپایا وہ اس شخص تک پہنچ گیا۔

"بولو ونیزے حسن، مجھے غلطی فہمی ہوئی تھی ناں۔۔۔ یہ سب میرے دماغ کو جکڑنے کی سازش تھی اور میں تمہارے جال میں پھنس گیا۔ آپشن دیا تھا تمہیں کہ مار سکتی ہو، مگر تم پیچھے ہٹ گئی۔ میرا دماغ الجھا ہوا ہے، اس معاملے میں جو سچ ہے وہ بتاو تاکہ اس بات کا فیصلہ ہو سکے کے تمہیں سزا دینی ہے یا معاف کرنا ہے"

وہ بلکل سپاٹ تھا، کھردرے زہریلے لہجے میں ونیزے حسن کی جان نکال رہا تھا اور وہ تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی، اسکا دل چاہ رہا تھا کاش زمین پھٹ سکتی تو وہ اس میں سما جاتی پر اس بے دردی سے بے آبرو نہ کی جاتی۔

"م۔۔میں نہیں جانتی آپ کیوں مجھ سے اتنے ناراض ہیں مگر میں نے تو ایسا ڈاکٹر علی کو کبھی نہیں کہا، ۔۔آ۔۔آپکا نام کبھی میری زبان پر ن۔۔نہیں آیا۔۔۔۔ آپ کو جو لگ رہا ہے آپ اسی پر یقین کر لیں۔۔۔ ونیزے حسن ویسے بھی جلد مر جائے گی، اچھے ل۔۔لفظوں میں یاد کرنے والا تو پہلے بھی کوئی نہیں تھا میرے پاس ،ک۔۔کم ازکم برے لفظوں میں یاد کرنے والا مل گیا آپکی صورت۔۔۔۔ یہی سچ ہے کہ میں نے کھیل ہی کھیلا ہوگا، جس میں جان کی بازی لگا دی۔۔۔۔۔ سزا دے دیں اٹس اوکے، معافی کے لائق نہیں ہوں۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔م۔۔میری وجہ سے آپکا اتنا افضل نام، م۔۔مجھ جیسی مجرم شکارن کے ساتھ کچھ دیر جڑا۔۔۔۔رئیلی سوری۔۔۔۔ میں دوبارہ آپکو نظر نہیں آوں گی۔۔۔۔پلیز آپ اپنے دماغ کو میرے لیے مت الجھائیں۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہوگا"

بنا نظریں ملائیں وہ تکلیف اور بے بسی کے سنگ جو سمجھ آیا بولتی گئی پھر جیسے اسکی حلقوں کی زد میں ڈوبی آنکھیں چھلکیں تو وہ خود کو مضبوط ظاہر کرتی تیزی سے کرسی سے اٹھی مگر ولی زمان کی دبنگ آواز نے اس لڑکی کا دل تک لرزا دیا۔

"بیٹھو واپس"

وہ سیدھا سیدھا حکم سنا رہا تھا مگر وہ رونا روکتی نفی میں گردن ہلائے دوبارہ مڑی اور اس بار ولی خود اپنی جگہ سے اٹھا تو ونیزے بھی فورا سے اسکے ڈر کی وجہ سے روتی ہوئی واپس بیٹھی۔

"تمہیں الجھن مٹانے کا کہا تھا، دماغ کی کچھڑی بنانے کا نہیں۔۔۔ ہو کیا چیز تم؟ محبت کرتی ہو مجھ سے تو اتنے ماہ منہ سے پھوٹا کیوں نہیں۔۔۔ کیا مزہ آتا ہے تمہیں خود کو مزید اذیت میں جھونکنے سے، اور یہ مرنے کی رٹ سنبھال کر اپنی جیب میں رکھو۔۔۔۔ اور تم میرے ساتھ میرے گھر جاو گی کیونکہ وہیں محفوظ ہو، ویسے بھی اتنا سنگدل نہیں ہوں جتنا اس وقت تمہیں لگ رہا ہوں۔۔۔۔اٹھو"

وہ اس پر شدید برہم تھا اور وہ اسکے ساتھ جانے کا سوچ کر ہی مرنے والی ہوتی ہوئی رحم طلب نظر ولی پر ڈالے اٹھی۔

"ن۔۔نہیں پلیز، میں ایسے آپکے گھر نہیں جاوں گی۔۔۔ "

وہ عجیب سی تڑپی ہوئی لگی تبھی تو ولی نے جبڑے بھینچ کر اس سر پھری کے اعتراض کو سنا۔

"پھر کیسے جاو گی؟ بیوی بن کر؟"

وہ اس قدر اچانک بولا تھا کہ اس جملے کی نہ اسے امید تھی نہ روتی تڑپتی ونیزے کو۔

"ک۔۔کیا کہہ رہے ہیں"

وہ سسک کر روتی منمنائی، اس وقت اسے ولی ظالم ترین لگا۔

"آئی تھنک دس از اوکے۔ مر تو تم نے جانا ہی ہے تو مجھے بھی مارتی جاو۔۔۔ آئی مین برے لفظوں میں یاد کروں گا تمہیں آخری سانس تک اسکا وعدہ ہے۔۔۔۔اب چلو۔۔۔اس وقت تو بیوی نہیں بن سکتی، صبح کرتے ہیں کچھ ۔۔۔لٹس گو"

وہ بے اختیار ہی بولتا گیا اور ونیزے حسن تب کانپ کر رہ گئی جب ولی زمان خان نے بل میز پر رکھے اسکا کانپتا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں جکڑا اور کیفے سے باہر نکلا، وہ سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔

پورے سفر کے بیچ اسکا جسم کانپتا رہا تھا، گھر پہنچنے تک وہ عجیب بکھری بولائی تھی، اسکی بے قرار آنکھوں کی تشنگی رحم مانگتی بار بار ولی کے سامنے بے آبرو ہوئی مگر اس نے اسے اسکا کمرہ دیکھایا اور خود بنا کوئی مزید بات کیے باہر نکل گیا جبکہ یہ رات اس پر کیسی قہر ناک ہونے والی تھی یہ صرف ونیزے حسن ہی جانتی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

جب تک وہ چینج کیے باہر آئی، ضرار فون پر ہی لگا نیم دراز بیڈ پر لیٹا تھا جب اس حسن کی ملکہ کو بلیک نائیٹ ڈریس میں سر تا پیر دمکتے، ہونٹوں پر سرخ لپ سٹک لگا کر ، شرمگیں مسکراہٹ چہرے پر سجا کر آتا دیکھتا شرارت لیے فون ایک طرف رکھتا اٹھا جو قاتلانہ واروں کی پوری تیاری کر کے آئی تھی، نائیٹ ڈریس بہت پیارا، اسکے مرمریں وجود پر جاذبیت سے جچتا ہوا مکمل سلک کا بنا تھا جبکہ بالوں کو محترمہ نے جوڑے سے آزاد کیے ہلکے پھلکے سٹریٹ کر لیا تھا اور کھلے چھوڑ دیے تھے، جسم کو میثم کی خوشبو سے معطر ہی چھوڑ کر ہر قسم کی پرفیوم سے کنارہ کر لیا تھا اور اب اس سلک کے ٹھنڈے نائیٹ ڈریس میں اس سے پہلے سردی کے باعث وہ یہیں کانپنے لگتی، ضرار نے لپک کر اس نازک کو حصارا۔ 

"آں ہاں، خون پیتی چڑئیل لگ رہی ہیں۔۔۔۔۔ کیا ہوا ٹھنڈ ہے؟"

میثم کا گدگداتا چہرہ بہت سی شرارتوں اور شر انگیزیوں کا ترجمان تھا وہیں اشنال نے گھبرا کر سر اثبات میں ہلایا کیونکہ آتش دان میں دہکتی آگ بھی ان دو کی قربت کی حدت کے آگے ماند پڑی من ہی من میں سلگ رہی تھی۔

"بہت ٹھنڈ ہے میثم، چلو سوتے ہیں پلیز۔۔۔۔ "

معصومیت اور چالاکی کا مکسچر لیے وہ جو بوکھلا کر بولی اس پر ضرار نے فتخمندانہ مسکان پاس کی۔

پھر ہاتھ بڑھا کر اشنال کی ٹھوڑی پکڑے اسکا قربت کی حدت سے دہکتا چہرہ اوپر اٹھایا تو دونوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں۔

"پہلے تو جو میرے مقدر سلا چکی ہیں وہ جگائیں پھر آپکو نیند سے بلکل جدا نہیں کروں گا، آج آپکو کیسے بخشوں کے آپ نے میرے صبر کا بہت امتحان لیا ہے، اور کوئی اس خونی چڑئیل سے پوچھے کہ سونے والے ہونٹوں پر سرخیاں سجا کر تو دیوانوں کے روبرو نہیں آتے، یہ تو ویک آپ کال ہے صنم، اب اتنا بھی نادان نہیں ہے آپکا یہ میثم"

وہ اسکے جان نکالتے جملوں کے روبرو شرم و خوف کے ملے جلے تاثرات کے سنگ روہانسی ہوئی تو جناب نے تہلکہ مچاتی مسکراہٹ کو فوری طور پر اپنے ہونٹوں میں دبائے ان سرخیوں کے شایان شان شر انگیزیوں کی شروعات کی جو حرکت قلب سلب کر گئی پھر ان تشدد زدگان خدوخال نے سہم کر احتجاج کیا جو دھڑکنوں کے بے ہنگم ہوتے شور سے شدید گھبرا رہی تھی، چہرہ حیا کی حدت سے دہک رہا تھا۔

"تم ہو ہی بتمیز"

اپنی چوری پکڑنے پر وہ شرما کر بڑبڑائی تبھی تو اسکے باہوں میں اٹھا کر بھر لینے پر اشنال عزیز کے پورے وجود میں سرسراہٹ پھیلی اور اس اچانک افتاد پر اسکے منہ سے چینخ نکلتے نکلتے بچی۔

"میری جان! آج آپکو میثم کی محبت کی انتہا ہر صورت دیکھنی ہے، زیادہ دیر نہ سہی تھوڑی دیر ہی سہی "

دھیمے اور لو دیتے لہجے میں کہتے ہی وہ اسے اطلسی بستر پر لٹاتا خود اسکی گھبراہٹ سے بھیگتی جبین پر جھک کر مہر لگاتا مسکرایا۔

وہ اس احتیاط سے اسکے ساتھ جا بسا کہ اس لڑکی کو محسوس ہی نہ ہوا اضافی بدن پہلو میں آباد ہوا ہے، وہ اسے اپنا حصہ ہی لگا، پھر خود ہی اس شخص نے جب اشنال کے وجود میں قربت کے باعث ہوتی لرزش محسوس کی تو اسے اپنی طرف کھینچا اور خود میں سمیٹنے کی خواہش کی۔۔اس شخص کی خوشبو جسم و جان سے لپٹ کر سارے اعتراضات اور مزاحمتیں توڑ کر ، سانسوں کو سینے پر ہی جما رہی تھی۔

اس شخص کی حرکت کا اثر تھا یا بے باک نگاہوں کا، یا خود سپردگی کا نشہ کے وہ اسکے بازو پر سر رکھے اس پہاڑ کے گرد خود ہی نازک سا حصار باندھ گئی۔

بڑھتی بازووں کی گرفت، کمر پر سرسراتی انگلیوں کے لمس، سلگتی سانسوں کی بے خود تپش، دہکتے لبوں کی نرمیاں اور شدتوں کی چبھن نے حواسوں کو جنجھوڑا تھا اور پھر یوں تھا جیسے وہ ظالم اس پر کوئی اسم محبت پھونک کر بے اختیار و بے بس کر گیا۔

پور پور پر اس شخص کے ہونٹوں کی نرمیاں بکھرنے لگی تھیں، اس سانس روک کر قبول و منظور کرتی لڑکی کی حالت غیر کرنے لگی تھیں۔

باہر اندھیر گہرا ہو رہا تھا مگر وہ ایک دوسرے میں اپنی اپنی روشنی گہرائی سے منتقل کیے ہر کمی کا ازالہ کر رہے تھے۔

"‏إِنِّي تَرَكْتُ النَاسَ حِينَ وَجَدْتُهُ

تَرْكُ التَيَمُّمِ في وُجُودِ المَاءِ

جب مجھے وہ ملا تو میں نے لوگوں کو ایسے چھوڑ دیا جیسے پانی ملنے پر تیمم ترک کیا جاتا ہے." 

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے رات کی تاریکی نے جب میٹھی، خوشبودار اور رسیلی سحر سے قربت اختیار کی تو وہ مہکے بدن والی دوشیزہ پاکیزہ روپ میں لپٹی نماز شکر ادا کرتی دیکھائی دی تھی، جسکی پربہار نظریں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر شکر بجا لاتیں سوئے ہوئے میثم پر جا جمتیں اور مخمور ہو جاتیں جو محبتوں کی ساری حدیں عبور کرتا اب اس سفر کی تھکن ہٹائے نیند کی آغوش میں مست تھا۔

"اس نے مجھے میری کی زیادتیوں کی کوئی سزا نہیں دی، اس نے میرا ہر طرح سے پردہ رکھا آپ جانتے ہیں اللہ سائیں۔ مجھ سے اسے کبھی نہ لینے پر آپکا شکریہ، اگر یہ مجھ سے لے لیا جاتا تو سچ میں مر جاتی اشنال عزیز، ہم دونوں کو ایک دوسرے سے کبھی الگ مت کیجئے گا۔ اب تو بلکل نہیں"

وہ شکر گزار سی بھیگی آنکھیں بند کرتی اٹھی، جائے نماز فولڈ کر کے رکھا اور گرد لپیٹی چادر اتار کر رکھتی مسکراتی ہوئی واپس آئی اور میثم کے پاس بیٹھتے ہی اسکی گال پر جھک کر پیار دیتی شرمگیں ہنسی۔

کاملیت کا سکھ اس خوبصورت آنکھوں والی کے چہرے کی بہار، وجود کی مہک اور آنکھوں کی چمک کے سنگ پوری بے باکی سے چھلک رہا تھا، شب زفاف کے راز کھول رہا تھا۔

وہ سویا ہوا اسے بہکا رہا تھا مگر اب واقعی نیند اسے بھی شدید آرہی تھی تبھی تھکن بانٹنے کو وہ اسکے پہلو میں جا بسی۔

جناب نے بھی کسمساتے ہوئے اسکی خوشبو واپس سانسوں میں گھلتی محسوس کیے اس نرم وجود کو بازووں میں سمیٹے نیند میں ہی مقدس جبین چومی اور ہلکی سی پرخمار آنکھیں کھولے اشنال کا بڑھتے روپ سروپ والا حسین چہرہ دیکھا۔

"لگا لیں اللہ سے میری شکائیتیں، چین مل گیا آپکو"

وہ نیند میں ڈوبی خمار آلود آنکھوں میں منصوعی خفگی بھرے اس کے چمکتے سرخ رو روپ تکتے بولا جو آگے سے اسکی طرف دیکھتی دانت دیکھاتی مسکرائی۔

"ہاں لگا لیں ، مل گیا۔۔۔۔ بہت مزہ آیا یہ کر کے"

وہ کہاں پیچھے رہنے والوں میں تھی جبکہ اپنی کرم فرمائیاں اشنال کے چہرے پر رنگ لاتیں دیکھتا وہ پھر سے بے خود ہوتا وہ ٹھنڈی سانسیں ، اپنے گرم وجود میں تحلیل کرتا آخر تک سنجیدگی پرے کیے جان لیوا مسکرایا۔

"آپکو اپنے قریب کر کے بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں یار ایسا لگ رہا ہے دنیا جہاں کی راحت، لذت خود میں ان ہیل کر لی ہے، خمار سا چڑھ گیا ہے۔ اب سونے دیں دوبارہ مت یہاں سے جائیے گا اشنال ، ایسی نیند پہلی بار محسوس کر رہا ہوں اور کوئی لاکھ دروازہ بجائے، گیارہ بجے سے پہلے اگر آپ دوبارہ مجھ سے دور ہوئیں تو آج جو ٹریلر دیکھایا اسی کی کل فلم دیکھنے کے لیے ریڈی رہیے گا۔۔۔ویسے بھی سب عقل والے ہیں بزدار حویلی میں، نئے نویلے کپل کو گیارہ سے پہلے تنگ نہیں کریں گے"

وہ جس طرح اسے سختی سے حکم دیتا جھاڑ کر اشنال کے اسکا میثم کے جذباتی شدتوں اور قربتوں سے بچ نکلنے اور جلدی ہری جھنڈی دیکھانے پر ابتدائی چڑ ظاہر کر رہا تھا وہ بس شرمیلا سا مسکراتی ہی رہی اور فرمابرداری سے سر ہلایا جس پر جناب نے ٹھنڈی سی صبح میں گرم جوشی کے سنگ اسے خود میں بسائے نہ صرف خود آنکھیں موندیں بلکہ اشنال نے خود بھی اپنا ہر اختیار تھکن اتارتی نیند کے سپرد کر دیا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"میں جانتا ہوں اک ایسی لڑکی کو

جو اپنی بوجھل آنکھوں سے

پگھلا دیتی ہے سورج کو

نِگل لیتی ہے آسماں کو

اور پھر منہ سے نکال پھینکتی ہے ستاروں کو

تاکہ وہ بوسہ لے سکیں رات کا

سو میرے جیسے لوگ

کچھ روشنی پا سکیں

وہ نہیں جانتی

جو چیزیں میں کر گزرتا ہو

لیکن! اگر اک لڑکی اِس طرح کی

مجھ سے محبت کرنا چاہے

تو میں دوبارہ نکھر سکتا ہوں"

کچھ دیر پہلے ہی وہ اسکے تمام جملہ حقوق اپنے نام لگوا چکی تھی مگر اسکے کرب ناک آنسو اب بھی جاری تھے، ساری رات عجیب سی سبکی رلاتی رہی اور اب اس شخص کا ڈھایا قہر جان پر بن آیا۔وہ فجر کے وقت واپس نہیں جا سکا تھا کیونکہ نکاح کی تیاری میں اسے دو تین گھنٹے لگ گئے اور شہیر اب تک وہیں اسکا منتظر تھا اور تپ چکا تھا، چند دوست احباب کو گواہان بنائے ولی نے ونیزے حسن کو صبح ہی نکاح میں لیا اور وہ ان سب کو رخصت کرتا اب واپس تھانے ہی جانے والا تھا، نکاح کی خبر اس نے فی الحال بس مشارب اور وری کو دی تھی اور اسکی زندگی میں اس سے زیادہ کوئی اہمیت کا حامل تھا بھی نہیں، ناشتہ وہ قریبی ریسٹورنٹ سے پہلے ہی آرڈر کر چکا تھا اور اسے گیڈ سے ریسو کیے وہ کچن میں رکھتا خود ونیزے کو اپنے تھانے جانے کا بتانے اور اس پاگل لڑکی پر نظر ڈالنے روم میں آیا تو ونیزے کو ہنوز بیڈ پر بیٹھے سسکیاں گھوٹ گھوٹ کر روتے دیکھا تبھی چہرے پر پھیلی رہی سہی ساری بیزاری ہٹاتا وہ اندر داخل ہوا۔

"آپ نے یہ کیوں کیا ولی؟ آپکی ف۔۔فیملی کیا سوچے گی، کسی کو نہیں بتایا۔ ایسے کون کرتا ہے، اوپر س۔۔سے مجھے غصے سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔"

اسکو روم میں آتا دیکھتی وہ روتی تڑپتی شکوے کرتی اٹھ کھڑی ہوئی، پہلی دلہن تھی جو جینز شرٹ میں کرلی بال کیے، جاگرز پہنے ، شکارن روپ میں ہی سہاگن کا روپ بدل چکی تھی اور ولی اسکو ایک نظر دیکھتا قریب آیا اور رکا۔

"میری فیملی صرف تم ہو اب، جیسے بھی ہوا سب ٹھیک ہوا ہے۔ یہ گھر ہے تمہارا اب، جب تک اس ٹمبر مافیا کے ڈان کا خاتمہ نہ کر لوں تم یہاں سے باہر نہیں نکلو گی ونیزے، محبت کرتی ہو تو کیا مسئلہ ہے نکاح سے جو رو رو کر ہمارے بیچ مزید سمندر حائل کر رہی ہو"

وہ نہ تو مہربان ہوا نہ نرم بلکے وہ یہ سب بھی اکھڑ کر بولتا ونیزے کو جھاڑ رہا تھا تبھی تو وہ اسکی بے رخی پر مزید افسردہ ہوئی۔

"بار بار مجھے ی۔یہ کہہ کر تکلیف دے رہے ہیں آپ۔ میری محبت ک۔۔کی انسلٹ کر رہے ہیں۔ ک۔۔کیا اپنا احسان ہر لمحہ جت۔۔ائیں گے۔۔۔ ا۔۔ایسے تو یہ ا۔احساس وقت سے پہلے مجھے مار دے گا"

وہ سخت ہونا نہیں چاہتا تھا پھر بھی دل پر لگے زخم اسے سنگدل بنا رہے تھے مگر ونیزے کے تڑپنے اور سسکنے پر وہ خود کی سرزنش کرتا اسکے مزید قریب آیا جو ہچکیوں کی زد میں روتی ہوئی اسے بلکل بھی اچھی نہ لگی۔

"آئی ایم سوری، رو مت طبعیت بگھڑ جائے گی۔ میں احسان نہیں جتا رہا ونیزے میں بس تمہارے رونے سے اریٹیٹ ہو رہا ہوں۔ جس سے محبت کی جاتی ہے وہ مل جائے تو انسان تو موت تک کو مات دے سکتا ہے، تم کیوں تکلیف میں ہو بس مجھے اس سے مسئلہ ہے۔ لگ گیا ولی تمہارے نام، پا لی تم نے اپنے خواب کی تعبیر۔۔۔کم ازکم خوش تو ہو سکتی ہو؟ تاکہ مجھے بھی یہ احساس ہو کہ میں نے کچھ اچھا کیا ہے"

اسکے روتے چہرے کو دیکھ کر وہ خود کو روک نہ پایا اور اس لڑکی کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے نرمی سے سمجھانے لگا جو ہنوز ناجانے کس کرب میں مبتلا آنسو بہا تھی، یہ لمس اسکی حسرت تھا، اس شخص کی خوشبو واحد خواہش، لیکن ایسے تھوڑی ہوتا تھا۔

ایسے پانے سے تو وہ ولی سے محروم ہی اچھی تھی، اسے خوشی ہوتی تو وہ خوش ہوتی، یوں ولی زمان خان پر بوجھ بن کر تو اسکی رہی سہی سانسیں بھی گھٹ گئی تھیں اور وہ اسکے سمجھانے کے باوجود پھوٹ پھوٹ کر روئی جبکہ ولی کو سب سمجھ آرہا تھا پر وہ جان بوجھ کر فرار کر رہا تھا۔

"ونیزے!اب کیوں رو رہی ہو یار؟"

وہ تپ کر بولا جیسے اسکے آنسو ولی کو نوچ گئے ہوں۔

"تھوڑے سے ملے ہ۔۔ہیں، تھوڑے سے نہیں چاہیں۔ پورے چاہیں"

اس نے سسکیاں بھرتے جو ٹوٹتے بکھرتے لہجے میں کہا اس پر ولی تمام تر خفگی کے بے بس سا مسکرایا۔

"تھوڑا مطلب میری صرف ایک بازو سے نکاح ہوا ہے تمہارا؟ مطلب کچھ بھی۔۔۔پورا ہی تو ملا ہوں یار، اب اور کیا خود کو فولڈ کر کے تمہارے دل میں رکھ دوں تاکہ تمہارا یہ صدمہ ٹلے"

وہ اسکی معصوم خواہش اور رونے پر جیسے مسکینی کی حد کر گیا جو کچھ نہ بولی بس بے اختیار ہی ولی سے لپٹ گئی اور خود کتنی ہی دیر اس اچانک بے جان کرتی قربت کے لمس پر بوکھلایا ولی یہی سوچتا رہ گیا کہ اس لڑکی کو اپنی نامراد بازووں میں بسائے یا یہاں بھی ناانصافی کر دے، وہ اس لمحے کے لیے بہت ترسی تھی اور اب بھی اسکی سانس رک رہی تھی پر آنسو جاری تھے، ولی نے دل و دماغ کی جنگ ایک طرف کی اور بازو اس لڑکی کے نازک وجود کے گرد باندھ دیے اور تبھی ونیزے کی تکلیف میں اضافہ اسکی تڑپ میں بھی اضافہ لایا۔

"اب جانے دو، بہت کام ہیں۔۔۔ناشتہ کر لینا۔ رات کو آجاوں گا، اگلی آپائنٹمٹ کب ہے تمہاری؟"

زیادہ دیر وہ خود اس حالت میں نہ رہ پایا اور جب وہ لڑکی کچھ شانت ہوئی تو اسکے کمزور پڑنے کی لاج رکھتا وہ لہجہ اور انداز دونوں بدل گیا اور وہ نظریں نہیں اٹھا پا رہی تھی۔

"ون ویک بعد، وہ کہہ رہے تھے دوبارہ آپریٹ ہوگا۔ ل۔۔لیکن میرے پاس تو اب صرف بھائی والا گھر ہی بچا ہے۔۔پیسے تو نہیں ہیں"

اس لڑکی کا اذیت دہ جواب ولی کے دل کو درد دے کر گیا جو بہت زیادہ تکلیف میں تھی۔

"دو لگاوں ناں تمہارے کان کے نیچے اس جواب پر، پیسے گئے بھاڑ میں۔ اس پر سوچنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تم اور تمہاری یہ بیماری اب دونوں ولی کی ذمہ داری ہیں۔ بلکل ٹھیک ہونا ہے تمہیں اوکے، دوبارہ تم روئی تو اچھا نہیں ہوگا ونیزے، آو اور دروازہ بند کرو۔۔۔۔"

اس کے شکستہ جواب سے دکھ جاتے دل کو سنبھالتا وہ اسے پیار سے ڈانٹتا ہوا باہر نکلا تو وہ بھی آنکھیں رگڑتی ہوئی اسکے پیچھے ہی آئی، صبح کے گیارہ بجنے والے تھے اور ولی نے دروازے سے باہر قدم رکھتے اک نظر مڑ کر اس اداس لڑکی کو دیکھا جسکی آنکھیں ابھی بھی بوجھل تھیں۔

"ونیزے میں پھر کہہ رہا ہوں کے رونے کی کوشش بھی مت کرنا، ناشتہ کر کے ریسٹ کرنا۔ رات تک مجھے بلکل سر کھاتی باتونی ونیزے چاہیے، ٹیک کئیر"

اس انسان کی زرا سی نرمی ہی ونیزے کے سارے کرب سمیٹ گئی، اس بار اسکی بوجھل آنکھیں خوشی کے آنسووں سے بھریں جب وہ سر ہلاتی ولی کے اوجھل ہوتے ہی دروازہ بند کرتی اندر آئی۔

آنسو تھے کہ قطار در قطار اسکی آنکھوں سے برس رہے تھے، اس نے کب سوچا تھا وہ ولی کی زندگی میں یوں شامل ہو جائے گی۔

"ی۔۔یہ آپ نے کیا کر دیا ولی، کیسے مر پائے گ۔۔گی اب ونیزے حسن؟۔۔۔۔"

وہ وہیں صوفے کا سہارہ لیتی لاونچ میں بچھے کارپٹ پر ہی بیٹھ گئی اور اب تکلیف مرنے کی تھی، ولی زمان خان سے پھر سے دوری کی بھیانک تکلیف جو رگوں سے زندگی نوچ رہی تھی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄

پتا نہیں تمہارا یہ اتھرا تھانیدار کس چیز کا بدلا لے رہا ہے، او بھائی بارہ بجنے والے ہیں، کب آئے گا؟"

رات سے اب تک اس نے ولی ہی کی کرسی پر بیٹھے نیند تو اچھی خاصی پوری کر لی تھی مگر اب انتظار کر کر اسکی ہستی ہل چکی تھی تبھی چائے رکھ کر جاتے اہل کار سے وہ خاصے بیزار پن سے مخاطب ہوا۔

"آتے ہوں گے شہیر، تھوڑا اور انتظار کر لو"

وہ اہل کار تیسری بار کا دہرایا جواب دیے اسکے آفس سے نکلا تو شہیر نے بھی اپنا فون بجنے پر اسے اٹھایا اور کرسی سے اٹھتا ہوا کیبن سے باہر نکل آیا، کال کاشف کی تھی۔

"ہاں کاشف کیا ہوا؟"

وہ باہر کوریڈور میں کھڑا دوسری جانب سے بولتے کاشف سے مخاطب ہوا مگر اس جانب سے جو خبر ملی اس نے تو شہیر مجتبی کے چہرے کی ہوائیاں اڑا دیں۔

"کیا! ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ تو نے کنفرم کیا ہے؟ "

شہیر نے بے یقینی سے استفسار کیا جس پر دوسری جانب سے کاشف نے پورا یقین دلایا۔

"خبر پکی ہے شہیر، دراصل ولی کا ایک کلاس فیلو میرا بھی جاننے والا ہے، صبح اسکا اور ونیزے کا نکاح واقعی ہوا ہے اور یہ خبر اسی نے مجھے دی ہے"

کاشف کی بات سن کر شہیر کو اب اس لڑکی کے بارے جاننے کا تجسس ہوا۔

"ہے کون یہ ونیزے؟ ہم جانتے ہیں اسے کیا۔؟۔۔نام سنا سنا لگا"

شہیر اس وقت انتظار کر کر باولا ہوا تھا تبھی دماغ پر زور نہ دے پایا جبکہ کاشف نے ساری معلومات جمع کر رکھی تھیں۔

"تیری طرح یہ ونیزے بھی سیٹھ گونی کے گٹوں کا پانی ہے، مطلب اسکی موت۔۔اسکا بھائی سیٹھ گونی کا بڑا وفادار ساتھی تھا مگر غداری پر مارا گیا، یہ لڑکی اسی کی بہن ہے اور یقینا بھائی کی موت کا انتقام ہی لے رہی ہوگی۔ میرا ایک آدمی سیٹھ گونی کے پاس کام کر رہا ہے اسی نے بتایا کے کل جب مال پکڑا گیا ہے اور پولیس سبکو جب اریسٹ کر کے لے گئی تو سیٹھ گونی فرار ہو گیا اور اس نے اس سے پہلے ہی ونیزے اور تیرے خاتمے کا حکم دے رکھا تھا کیونکہ شاید اس نے بھی تیری طرح کوئی غداری کی ہے۔ مجھے نہیں پتا ونیزے کا ولی خان سے کنکشن کیسے جڑا مگر اس لڑکی کی جان ضرور بچائی ہے ولی نے"

کاشف یہ ساری تفصیل بتائے کچھ لمحے کو خاموش ہوا جبکہ شہیر کے چہرے پر فکر کی لاتعداد شکنیں نمودار ہوئیں اور پھر نظر تھانے کے داخلی دروازے سے انٹر ہوتی ولی کی گاڑی پر پڑی تو وہ شکنیں عجیب سی شر انگیزی کا روپ دھار گئیں۔

"ٹھیک ہے بعد میں کرتا ہوں بات"

شہیر نے گاڑی سے نکلتے اس جوشیلے خان کو دیکھتے کال کاٹی جو راہ میں ہی کالی بلی کی طرح راستہ کاٹتے شہیر کو دیکھتا بدمزہ سا ہوئے عین اسکے سامنے آکر رکا، اچٹتی نظریں شہیر کے چہرے پر مرکوز کیں۔

"جرت کیسے کی تم نے یہاں قدم رکھنے کی، تین ماہ سے میری ایک کال نہ لے کر کیا سمجھ رہے ہو بخش دوں گا تمہیں منحوس انسان"

ولی کو اسکی شکل دیکھ کر ہی غضب چڑھ چکا تھا جبکہ شہیر یوں تھا جیسے ولی کے نکاح کا سن کر اسے عجیب سا سکھ ملا ہو۔

"ایک لاسٹ ٹائم کی مخبری میں ہی دیری ہوئی ناں انسپیکٹر، باقی سب کام تو شہیر نے پورے کیے ہیں پھر کاہے کو برس رہا ہے۔ نئے نویلے دلہے والی تو تجھ میں کوئی بات نظر نہیں آرہی"

شہیر کا لہجہ اکساتا ہوا تھا اور نکاح والی بات اس شہیر تک پہنچ چکی تھی یہ اسکے اندر آگ لگا گیا تبھی تو ولی نے آو دیکھا نہ تاو، سیدھا شہیر کو دونوں ہاتھوں کے سنگ گریبان سے دبوچا اور چہرے پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی اتاری۔

"کس نے بتایا تجھے یہ ؟"

ولی کی پرعتاب آنکھیں شہیر کی ہنستی آنکھوں میں گڑھی تھیں اور سوال سختی سے مزین تھا مگر شہیر نے ایک ہی جھٹکے سے اسکے ہاتھ اپنے گریبان سے چھڑوائے۔

"جو بندہ تیرے لیے مافیا میں گھس سکتا ہے وہ کیا تیرے گھر کے معاملات سے لاعلم رہتا، بڑی جلدی بھلا دیا تو نے وری۔۔۔میرا مطلب وریشہ یوسف زئی کو"

وہ اس کو پھنکارتے انداز میں بولا جو بنا شہیر کی بکواس سنتا اندر اپنے کیبن کی طرف بڑھا جبکہ شہیر نے خود کو ملامت کی، آج وہ ولی کو ستانے ہرگز نہیں والا تھا۔

"اس معاملے سے کوسوں دور رہ شہیر ورنہ میرے ہاتھوب ضائع ہو جائے گا"

بہت تحمل سے تنبیہی جواب بلند ہوا گو وہ شہیر جیسوں کے ساتھ تحمل سے پیش آنے کا عادی ہرگز نہیں تھا۔

"کاش رہ سکتا مگر اب ممکن نہیں، اس نکاح کی خوشی میں شہیر مجتبی اپنی ہر دشمنی تجھ سے ختم کرتا ہے۔۔ پتا نہیں کیوں ایسی خوشی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی جو آج جانی دشمن کے گھر آباد ہو جانے پر ہو رہی ہے۔ لڑکی بھی اچھی چنی ہے، اپنے جیسی خطرناک۔۔۔"

شہیر کا انداز ہر شیطانیت سے پاک ہوتا دیکھ کر خود ولی کو جھٹکا لگا کیونکہ ایسے لوگ ٹھڈوں کی سنتے تھے اور شہیر کے اندر یہ والا انسانیت کا روپ ولی زمان خان کو قطعی ہضم نہ ہو سکا۔

"کہنا کیا چاہتا ہے تو شہیر؟ تجھ جیسی کتے کی دم سیدھی کیسے ہو گئی۔ مطلب مجھ سے دشمنی ختم کرنے اور میرے نکاح کرنے کی آپسی لاجک میرے پلے نہیں پڑی۔۔۔۔جو فساد دماغ میں ہے اسے واضح کر کے پھوٹ شاباش"

ولی کا دماغ یہ ماننے کو تیار نہ تھا تبھی وہ مغرور تھانیدار بنا کرسی سنبھالے بڑے کھردرے تضخیک لٹاتے لہجے میں بولا جس پر شہیر نے بھی سامنے والی کرسی عقب کی طرف زرا گھسیٹے سنبھالی۔

"تیرے لیے سیٹھ گونی کو پکڑ کر لاوں گا یہیں تیرے قدموں میں لا کر پٹخوں گا، ویسے اس نے مجھے اور ونیزے کو ختم کرنے کا حکم اپنے لوگوں کو دے دیا ہے پھر بھی اپنی ذمہ داری نبھاوں گا اور اس بار صلے میں مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے سوائے اس کے کہ تو بھی یہ دشمنی ختم کر دے گا"

وہ سر پھرا اسے مزید الجھا رہا تھا اور شہیر کی مہربانی ولی زمان کے لیے صدمے سے کم نہ تھی۔

"تُو تو بڑی برکیں مار رہا تھا کہ مجھ سے سب چھین لے گا، یہ کرے گا وہ کرے گا۔ کسی پاگل کتے نے تو نہیں کاٹ لیا تجھے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے؟"

ولی کا انداز اسکے سنگ کاٹ کھاتا ہی ہوتا تھا تبھی تو وہ اسے سوال پر قہقہہ لگائے ہنسا۔

"وقت تجھے جلدی بتائے گا میری بہکی بہکی باتوں کی وجہ، کچھ پوچھ سکتا ہوں ولی زمان خان؟ دشمن نہیں ایک ساتھ کام کرنے والا وفادار ساتھی سمجھ کر جواب دینا؟"

وہ نرم پڑا تھا تو ولی کو بھی مزید تضخیک والا انداز اپنائے رکھنا معیوب لگا تبھی اس نے شہیر کو سنجیدگی سے دیکھا۔

"پوچھ "

ولی کے لہجے میں ابھی بھی خفیف سی ناگواری تھی۔

"وریشہ یوسف زئی کیا کسی اور کو پسند کرتی ہے جو تو نے اسے اتنی آسانی سے اپنی محبت سے آزاد کر دیا؟ نکاح بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ تو نے ونیزے سے کیا ہے انسپیکٹر تو بہت کچھ سوچ پرکھ کر ہی کیا ہوگا"

شہیر نے بہت نرمی اور آسان انداز میں یہ سوال کیے جو ولی کو ناگوار تو گزرے مگر وہ ناجانے کیوں اور کس احساس کے تحت اس وقت شہیر کا منہ نہ توڑ سکا جس نے یہ سب پوچھنے کی ہمت کی تھی۔

"پورا علاقہ جانتا ہے کہ ولی زمان خان کے دل میں صرف وریشہ یوسف زئی ہیں، دنیا بھی جان جائے گی کہ وہ میرا عشق ہیں۔ تجھے کیوں بتاوں یہ سب؟ کس حیثیت سے بتاوں؟ دشمن ، دوست بن جائے تو زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے شہیر مجتبی اور میں ایسی غلطی تو کبھی نہیں کروں گا۔ ونیزے سے کیوں نکاح کیا یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، تیرے لیے یہی بہتر ہے کہ میری زندگی اور زندگی کے معاملات میں مداخلت مت کر۔ بائے دا وے تجھے میرے اور وریشہ کے معاملات میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ آج بتا ہی دے"

وہ غصیل سرد تاثرات میں لپٹا اتنا سب اسے سناتا رہا مگر ولی کے آخری سوال نے شہیر کے چہرے کا رنگ بدل دیا تھا۔

"بتا دیا تو مر جاوں گا تیرے ہاتھوں سر پھرے تھانیدار! ، سو پہلے سیٹھ گونی کو تیرے پاس لے آوں پھر اس راز سے مل بیٹھ کر پردہ ہٹائیں گے کیونکہ ممکن ہے میری زندگی میں اسکے بعد مزید کچھ باقی نہ رہے۔ ویسے مرد کو عشق نہیں کرنا چاہیے یہ میری زاتی رائے ہے، بچارا تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے"

وہ کہہ کر اٹھ گیا جبکہ ولی نے اسکی آنکھیں دیکھیں جن میں عجیب سی تکلیف تھی اور ولی زمان خان کی رنگ بدلتی آنکھیں، رنگ بدلتی آنکھوں کے سارے راز جان لیتی تھیں۔

"اچھا! بڑے فلسفے جھاڑ رہا ہے، ایسا کیا ہے تیرے پاس مجھے بتانے کو شہیر مجتبی۔۔۔"

ولی کو تجسس نے گھیرا اور شہیر دل جلا سا مسکرایا۔

"بہت کچھ ہے، پر ایک بات ابھی کہنی تھی۔ اب تک جتنا تجھے ستایا ہے اسکے لیے معاف کر دے انسپیکٹر، معافی دے گا تو اگلی داستان سننے میں آسانی ہوگی تجھے، شاید مارنے کے بجائے تو مجھے صرف موت کے قریب لے جا کر بخش دے۔۔۔چلتا ہوں"

وہ شخص ہر بار ولی کو آگ لگا کر جاتا تھا پر آج ولی زمان خان کے اندر لگی آگ ہلکی کر گیا تھا، شہیر کے جانے کے کئی منٹس بعد تک ولی اسی سمت دیکھتا رہا، سیٹھ طلال کی خبر گیری اہم تھی ورنہ جتنا شاطر ولی کا دماغ تھا وہ زرا دیر مزید سوچ بچار کرتا تو یقینا حقائق تک پہنچ جاتا مگر اس وقت اسے یہ سلسلہ منقطع کیے جانا ہی پڑا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں وریشہ؟ آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں سنگدل لڑکی؟"

اس وقت شمشیر یوسف زئی کے کمرے میں کھا جاتی وحشت ذدہ بے یقین آواز بلند ہوئی تھی اور وریشہ انکے جائز غصے کے روبرو مجرم بنی کھڑی تھی۔

کچھ دیر میں عزیز خان آنے والے تھے اور وہ ، خدیخہ خانم انکے ساتھ بزدار حویلی اشنال کا ناشتہ لے کر جانے والے تھے مگر جانے سے پہلے وریشہ نے قیامت خیز انکشافات دادا سائیں کے روبرو کر دینے ہی مناسب سمجھے۔

"ہماری پوری بات سن لیں پہلے دادا سائیں پھر آپ ہمیں جان سے بھی مارنا چاہیں گے تو اف تک نہیں کروں گی"

وہ انکی ناراضگی اور تکلیف کے روبرو خود بھی روہانسی ہوئی جو سخت ناگواری اور برہمی سے وریشہ کو دیکھ رہے تھے۔

"اب اور کیا رہ گیا ہے سننے کو؟ وہی ملا تھا آپکو دنیا جہاں کا لفنگا انسان۔ جو اپنے ماں باپ کا نہیں بن سکا وہ آپ کا کیا خاک بنے گا، پھر اوپر سے ولی زمان خان کے ساتھ آپ نے جو ظلم کیا، اس پر آپکی بخشیش کیسے ہوگی وریشہ یوسف زئی۔۔۔آپ نے اس شخص کو بہت اذیت دی ہے، بہت اذیت"

وہ اسکی کسی منت سماجت کو سننے کے متحمل نہیں تھے جبکہ وریشہ انکی طرف سے ایسا ہی سخت ری ایکشن امید کر رہی تھی۔

"پلیز دادا سائیں ایک بار میری بات سن لیں"

وہ انکا غصہ بھانپے انکا ہاتھ جکڑتی قریب آئی تو وہ ہاتھ جھٹک دینا چاہتے تھے پر وریشہ کی خودکشی والی حرکت سوچ کر خوفزدہ ہو گئے اور انکا دل اسے سننے کی رضا دے گیا۔

"کہیں کیا کہنا چاہتی ہیں؟"

وہ ہنوز برہم تھے۔

"میں جس ہوسپٹل میں کام کرتی ہوں وہاں کی نمرہ میم اور ڈاکٹر روحان کو تو آپ جانتے ہیں ناں؟ "

وہ جیسے اپنی صفائی پیش کرتی تمہیدا منمنائی تو شمیشر یوسف زئی نے دماغ پر زور ڈالے جیسے وہ شناسا چہرے ذہن میں لائے سر ہلایا۔

"نمرہ میم کے بھائی ہیں ڈاکٹر علی شمشاد، کینسر سپیشلسٹ، آپ کو تو پتا ہے ناں ولی اکثر مجھ سے ملنے ہوسپٹل آتے تھے ، تو کچھ ماہ پہلے ولی مجھ سے ہوسپٹل ملنے آئے تھے تو ڈاکٹر علی بھی وہیں موجود تھے، ولی سے ان کی بہت اچھی جان پہچان نکل آئی اور جب ولی واپس چلے گئے تو میں نے ڈاکٹر علی اور میم نمرہ کو باتیں کرتے سنا تھا"

وہ رک رک کر بولتی جیسے دو ماہ پیچھے چلی گئی۔

"اوہ سو سیڈ بھیا، آپ نے بہت اچھا کیا کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ونیزے حسن کے دل کی حالت ولی زمان کو بتا دی، اللہ پاک وسیلہ بنائیں۔ لیکن آپ نے کہا کہ ونیزے اس انسان کا کبھی نام نہیں لیتی تھی تو آپکو کیسے پتا چلا کہ وہ انسان ولی زمان خان ہے"

یہ دو ماہ پہلے کی بات تھی جب وریشہ نے ان دونوں بہن بھائیوں کو اس پیشنٹ کو ڈسکس کرتے سنا اور پھر ولی کا نام سن کر وہ ناچاہتے ہوئے بھی انکی باتیں سننے بے اختیار دروازے کے پاس رکی تھی۔

"یہ سچ ہے نمرہ کہ اس بچی نے کبھی اس شخص کا نام نہیں لیا لیکن ایک دفعہ جب وہ ٹریٹمنٹ کے بعد نیم بیہوش تھی تو میں نے اسکے منہ سے یہ نام سنا جو اسے پکار رہی تھی پھر اللہ کی مصلحت دیکھو کہ مشارب زمان اسی ہوسپٹل میں لایا گیا اور پھر اسکا بھائی ولی زمان خان۔"

ڈاکٹر علی جیسے نمرہ کے چہرے پر درج بیقراری پر اپنی بات روک گئے۔

"لیکن بھیا ولی تو دنیا میں کئی ہیں۔یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کوئی اور ولی ہوتا"

نمرہ کا اعتراض درست تھا تبھی ڈاکٹر علی مسکرائے۔

"ولی تو کئی تھے،انسپیکٹر ولی زمان خان شاید اس شہر میں ایک ہی تھا نمرہ، میں نے پوری کوشش کی کہ اس بچی کا پردہ رکھتے ہوئے میں ولی تک اسکی آخری خواہش پہنچا دوں کے وہ اس سے عشق کرتی ہے، پھر اس نے کچھ دن بعد آکر مجھے مسکراتے ہوئے بتایا کہ اسے ایک بہت پیارا اکڑو سا دوست ملا ہے جو کہتا ہے اپنی اداسی لے آو اور میرا کندھا لے جاو"

یہ سب بتاتے ہوئے ڈاکٹر علی شمشاد کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا مگر دروازے کی اوٹ میں کھڑی وریشہ یوسف زئی کا دل تکلیف اور ونیزے حسن کی اذیت سے بھر گیا۔

وہ وہاں سے چلی گئی اور پھر اس نے بہت دن تک ان دو کا خود پیچھا کروایا، ونیزے حسن جیسی لڑکی جسکے دل میں ولی زمان خان مکمل موجود تھا، اسکے نزدیک ولئ کی سب سے زیادہ مستحق تھی۔

بس اس دن سے وریشہ نے اللہ سے صرف یہی دعا مانگی تھی کہ اس لڑکی کو ہمت ملے تاکہ وہ اپنی محبت کا اظہار ولی زمان خان سے کرے۔

پھر اس جرگے والی شام، شہیر سے کی جانے والی ملاقات نے وریشہ کو بہت بے چین کیا اور وہ بنا سوچے ولی کو گھر بسانے کا حکم دے بیٹھی کیونکہ اسے پتا تھا وہ شخص کسی راہ چلتی لڑکی کو تو ہرگز اپنا نام دینے سے رہا سو وریشہ کی امیدیں ونیزے سے جڑی تھیں کیونکہ ڈاکٹر علی کے بقول انہوں نے ولی کو ونیزے کے دل کی حالت بتا دی تھی پھر ولی کا اس لڑکی سے دوستی کرنا وریشہ کو یقین دلا چکا تھا کہ وہ لڑکی یقینا ولی کے اردگرد رہنے والے لوگوں میں شمار ہونے لگی ہے اور اگر وریشہ ، ولی کو شادی کا کہے گی تو وہ ضرور کرے گا اور اسکی پہلی چوائز ونیزے حسن ہوگی۔

سردار شمشیر یوسف زئی کی آنکھوں میں اب تکلیف تھی اور خود وریشہ ہنوز مجرم بنی اپنے حساس ہونے کی سزا سننے کھڑی تھی۔

"مانا وریشہ بہت بری ہے دادا سائیں تبھی مرنا مجھے کسی بھی راستے کو چننے سے آج بھی آسان لگتا ہے، لیکن میں کیا کرتی کہ میرے پاس چوائز نہیں تھی، اور شہیر کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اسے اپنی طرف مائل کرنے والی میں خود تھی، میں نے تو اشنال کا بچاو کرنا چاہا تھا، شرط لگائی تھی اس سے، کیا خبر تھی میری یہ بیوقوفی مجھے اتنے بڑے صدمات سے دوچار کرے گی۔ نکاح کو خوامخواہ سمجھا تھا میں نے، سوچا تھا اسکو سزا دے کر اسکی جان لوں گی مگر مجھ سے ایسا کچھ نہ ہوا، الٹا شہیر پر آتی آنچ مجھے دکھ دینے لگ گئی۔۔۔ میں کیا کرتی اور کس سے اپنی تکلیف کہتی کہ خود کو اس عذاب میں ڈالنے والی میں خود تھی"

وریشہ کے آنسو بہہ رہے تھے اور دادا سائیں نے پکڑ کر اسے قریب کیا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔

"جو ہو گیا اسے بھول جائیں میری جان، اور مجھے معاف کر دیں کہ میں نے آپکو غلط سمجھا۔ اپنی غلطی کی تلافی آپ نے اپنی بساط سے بڑھ کر کی، لیکن آپکے ساتھ میں شہیر مجتبی جیسے انسان کو اس سب کے باوجود برداشت نہیں کر پا رہا"

وہ اسکی تکلیف سے بکھر گئے تھے جبکہ وریشہ جانتی تھی دادا کبھی بھی اسے شہیر کے ساتھ رہنے یا بسنے کی اجازت نہیں دیں گے سو اسے دادا جان کی بات سن کر اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی ہونی چاہیے تھی۔

"مجھے پتا ہے وہ کسی کو بھی پسند نہیں آسکتا ، اس نے اپنے گرد حد سے زیادہ سیاہی انڈیل رکھی ہے۔ آپ اگر مجھے اس سے دور ہو جانے کا کہیں گے تو میں ہو جاوں گی، پہلے ہی آپکے یقین کو توڑ کر بہت شرمندہ ہوں۔ اگر مجھ سے شہیر کو لے کر آپ میری نافرمانیوں اور بیوقوفیوں کو معاف کر دینے کا وعدہ کریں تو میں خوشی خوشی اسے خود سے دور کر دوں گی"

وہ یہ سب بہت حوصلے سے کہہ رہی تھی اور سردار شمشیر یوسف زئی کا دل تکلیف سے اٹا تھا، ان دو یہ گفتگو کسی تیسری سماعت نے بھی سنی تھی، مشارب جو کسی اہم کام کی وجہ سے سردار شمیشر یوسف ذئی کے پاس آیا، وری کی تمام باتیں سن چکا تھا اور اسکی ہری آنکھوں میں بھی اذیت دوڑی۔

نجانے کس کس کی تکلیف نے مشارب زمان خان کے کمزور دل کو مسکن بنایا اور وہ بنا سردار شمیشر سے ملے ہی واپس چلا گیا۔

"یہ آپ نے مجھے کس امتحان میں ڈال دیا ہے وریشہ، کیسے لوں آپ سے آپکی جان۔۔۔ ابھی جائیں آپ اشنال کے پاس، ہم اس پر پھر بات کریں گے"

آج پہلی بار وہ خود بے بس ہوئے تھے اور وریشہ نے تڑپ کر انھیں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو معاف تو کر دیا ہے ناں؟

"میں نے بہت سی غلطیاں کی ہوں گی دادا جان پر اس سے محبت کو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کر سکتی کیوں کہ وہ میرے لیے اللہ نے چنا ہے، شاید تھوڑی دیر ہی سہی پر اسے اپنا کہہ کر مجھے اچھا لگا۔۔۔ وہ اس پوری دنیا کے لیے انتہائی برا ہے، آپکے لیے قاتل ہے، اشنال کے لیے درندہ ہے، اپنے ماں باپ کے لیے آزمائش ہے، لیکن وہ میرے لیے صرف محبت ہے، اور جس نظر سے اسے وریشہ دیکھتی ہے ضروری نہیں کوئی دوسری نظر دیکھ سکے۔۔۔۔ اور میں آپکی خوشی کے لیے اس قدر پیارے اس شخص کو چپ چاپ چھوڑ دوں گی یہ میرا وعدہ ہے"

آنکھوں میں کرچیاں سئ سمیٹ کر وہ بولتے ہی وہاں سے چلی گئی اور سردار شمشیر یوسف زئی پر صدیوں کی تھکن لاد گئی۔

ویسی ہی تھکن خانم حویلی کے لان کی کرسی پر بیٹھے مشارب زمان خان کے سینے پر اتری ہوئی تھی۔

"ولی لالہ یہ برداشت نہیں کر پائیں گے، یہ کیا کر دیا آپ نے وری؟ شہیر سے نکاح! اوہ میرے خدا۔۔۔۔ ناجانے آپکا یہ فیصلہ کتنی بڑی قیامت ڈھائے گا"

خود مشارب کا سر درد سے پھٹ رہا تھا، ایک اذیت ختم نہ ہوئی اور دوسری جاگ گئی، اسکا بجتا فون اسے ان ذہنی دباو سے نکالے متوجہ کر چکا تھا کیونکہ فون پر ضرار کی کال تھی۔

"ہاں ضرار بولو"

وہ خود کو مضبوط کیے بولا۔

"بزدار حویلی پہنچو مشارب، تمہارا اور زونین کا معاملہ آج ہی سلجھانا چاہتا ہوں۔ جو بھی غلط فہمی اور بدگمانی ہے وہ بیٹھ کر آپس میں بات کر کے حل کرو تاکہ اگلے ہفتے ہمارے ولیمے کے ساتھ اسکی رخصتی بھی ہو جائے، اور یاد رکھنا میں فیصلہ دونوں کی تمام غلطیاں اور کوتاہیاں سننے کے بعد کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ میں بھی جانتا ہوں کے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، پہنچو فورا میں منتظر ہوں"

بیڈ پر نیم دراز، ابھی جاگتے ہوئے ضرار نے سنجیدہ انداز میں اپنی بات کہے ساتھ ہی رابطہ منقطع کر دیا تھا جبکہ فون بند کر کے سامنے میز پر بے دلی سے رکھتے ہوئے مشارب نے کن پٹی کو انگلیوں سے مسل ڈالا تھا، وہ یہ سب ولی کو کیسے بتائے گا یہ تکلیف اسے اس وقت ہر اذیت سے زیادہ بڑی محسوس ہو رہی تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"ناشتہ خانم حویلی سے آئے گا رسم کے مطابق کیونکہ عزیز خان صبح سختی سے منع کر کے گئے ہیں، تبھی میں نے فضیلہ اماں کو منع کیا کہ وہ دن کا انتظام کریں اور ناشتہ نہ بنائیں بابا سائیں۔ آپ کا ناشتہ تو ہو گیا پھر ٹنشن کس بات کی ہے"

سب ہی ٹھنڈ کی وجہ سے اپنے اپنے ہجروں میں دبکے تھے اور بزدار عالم سب کے آرام کو دیکھ دیکھ شدید بوریت محسوس کر رہے تھے کیونکہ کئی ماہ سے ساتھ رہنے والا پارٹنر عزیز بھی واپس خانم حویلی جا چکا تھا جبکہ ہاشم کو بابا جان کی فکر پر ہنسی آرہی تھی۔

"اس زحمت کی کیا ضرورت تھی بھئی، خوامخواہ انکو تکلیف ہوگی۔ اچھا جاو مالنی کو کہو جا کر ضرار اور اشنال کو جگا آئے، حد ہوتی ہے بارہ بجنے والے ہیں اور یہ کھوتا ابھی تک باہر نہیں نکلا، پھر کہے گا دادا سائیں میری عزت افزائی کرتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں علاقے کی عورتیں نئی نویلی بہو کو دیکھنے آجائیں گی، اسے کہلواو کے جان بخش دے اب اس بچی کی اور اسے باہر آنے دے"

خفت کے مارے وہ چڑچڑا ہوئے جبکہ مالنی خود ہی اسی وقت سٹنگ ایریا کی طرف چلی آئی جبکہ اپنا حکم وہ سن چکی تھی تبھی فرمابرداری سے وہ ضرار کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"ویسے آپس کی بات ہے بابا سائیں، آپ کب نکلے تھے کمرے سے؟"

مالنی کو جاتا دیکھتا وہ زرا بابا کے نزدیک ہو کر بیٹھے جو پوچھتا بولا اس پر بزدار عالم نے کھا جاتی گھوری سے نوازا۔

"تم پر بھی اثر ہو گیا اس بے باک کا، چپیڑ نہ کھا لینا باپ سے۔ جاو تم بھی اور زونی کو کہو باہر آئے سب کے ساتھ بیٹھے"

بابا سائیں کی جوابی گل فشانی پر ہاشم صاحب کے دانت باہر نکلے اور اس سے پہلے تپے بوریت کا شکار بابا سائیں واقعی دو ہاتھ پھیر دیتے وہ شرافت سے اٹھا اور ساتھ ہی نصیر کی کال نے اسکے چہرے کی ساری مسکراہٹ سلب کی۔

"ہاں نصیر، کیا صورت حال ہے؟ کہاں ہے وہ خرافاتی عورت؟"

ہاشم نے کڑوے لہجے میں استفسار کیا۔

"رنگین حویلی میں صبح سے پہلے جیسی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے سر! لڑکیاں دھندے پر واپس لگ چکی ہیں، پولیس کے لوگ آئے تھے کنزا کی تلاش میں پر وہ اندر چھپی رہی باہر نہیں آئی۔ سو وہ لوگ واپس چلے گئے"

نصیر کی بتائی خبریں ہاشم کے ماتھے پر بل لا چکی تھیں، مطلب اس عورت کو اپنے بیٹے کی موت کا کوئی غم نہیں تھا، اسے زندہ چھوڑنے پر ہاشم نے خود کی ملامت کی۔

"یہ ضرور کوئی نیا فساد برپا کرنے کی تیاری کر رہی ہے، تمہیں اب حویلی میں گھسنا ہوگا، کیسے یہ تمہیں اچھے سے پتا ہے۔ مجھے اندر کی ہر خبر چاہیے نصیر"

ہاشم کی ہدایت پر اک لمحہ نصیر کے چہرے کا رنگ سا اڑا۔

"سر میں لڑکی بن کر جاوں گا تو باخدا پکڑا جاوں گا"

وہ آگے سے نہایت مسکینی کے سنگ بولا تو ناچاہتے ہوئے بھی ہاشم مسکرا دیا۔

"لڑکی جیسا نہ تمہارا قد کاٹھ ہے نہ نزاکت بیوقوف انسان، تمہیں موسیقی کا استاد بن کر جانا ہے ۔ جو آڑے ترچھے راگ آتے ہیں سارے آزما لینا مگر اس عورت کو تم پر شک نہ ہو"

بچارے نصیر کو اتنی سخت ڈیوٹی تھماتا ہاشم بنا اسکی کوئی آہ سنے کال کاٹ چکا تھا، زونی کے کمرے کی طرف بڑھا جو بیڈ شیٹ درست کیے، لحاف فولڈ کر کے رکھ رہی تھی، رات مالنی اور وہ ساتھ ہی سوئی تھیں جبکہ گل کو اماں فضیلہ نے بھرپور کمپنی دی تھی جو ابھی بھی کچن میں انکے ساتھ دن کے کھانے کے لیے کباب وغیرہ بنانے میں مصروف تھی۔

"زونی! آجاو باہر، بابا تمہارا پوچھ رہے ہیں۔۔۔ٹھیک ہو؟"

اسکے آنے پر خود ہی زونین اسکی طرف لپک آئی جو اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھ کر فکر مند ہوا۔

"ہمیں آپ سے بات کرنی ہے چاچو"

وہ بہت بے قرار سی تھی۔

"ٹھیک ہے لاڈلی! ناشتے کے بعد آرام سے کرتے ہیں ابھی آو دادا جان کو کمپنی دو، یار نما عزیز خان کے جاتے ہی سڑے جلے بن کر بیٹھے ہوئے ہیں"

وہ اسے رسان سے کہتا ساتھ ہی لیے باہر آیا جبکہ خود وہ ضرار اور اشنال کے کمرے کی جانب سے آتی مالنی کو دیکھ کر رکا، زونی نے چچا جان کی نظروں کا تعاقب کیا تو خود ہی مسکرا کر وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ الڑ مٹیار بنی اس سے پہلے اس خونخوار بھتیجے کا پیغام، سسر صاحب کو دینے بڑھتی، کلائی پر جمتی گرفت پر وہ بے اختیار ہاشم کی بازووں میں جا سمائی جس نے بنا مہلت دیے مالنی کو دبوچتے ہی دیوار کی اوٹ میں کیا، کتنی دیر تو وہ نازک بے باک حسینہ اپنی بے خود سانسیں بحال کرتی رہی۔

"ڈرا دیا آپ نے ہاشم، پیٹ پر کل جو بھتیجے سے مکا پڑا تھا دل چاہ رہا ویسا آپکی پسلی میں دے ماروں۔ "

اس لڑکی کا اوپر کا سانس اوپر جبکہ نیچے کا نیچے رہ گیا تبھی وہ منہ بسورے بڑبڑائی مگر پرواہ کسے تھی، جناب تو خود سے بے خود ہو گئے۔

"خیریت تو پوچھی نہیں تم نے، نئے ستم کی تیاری کیے بیٹھی ہو بیوقوف مالنی۔ بس ایک ہفتہ پھر دیکھتا ہوں کیسے تمہاری یہ زبان اس فراوانی سے چلتی ہے"

جناب کا استحقاق بھرا رعب و دبدبا اور ہفتے والی دھمکی سن کر وہ تھوڑا گھبرائی مگر پھر جیسے اپنی کلائی اسکی چٹانی گرفت سے جھٹکے کے سنگ نکالتے ہی اپنی دونوں بازو ہاشم کی گردن میں ڈالے اسے دیوار سے لگاتی پراسرار سا مسکراتی اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب لائی۔

"زیادہ اترائیں مت ماسکو کیونکہ ابھی آپ نے بہکی ہوئی مالنی نہیں دیکھی، ایسا نہ ہو مجھے غائب کرنے کے چکروں میں آپ خود کہیں فنا ہو جائیں"

معنی خیز لہجے میں جب مالنی نے اسکی آنکھوں کے مچلتے جذبات کی برابری کے لفظ کہے آگ لگائی تو جناب نے اسکی بے خود مسکراہٹ بڑے جوش سے دیکھی اور کمر شدت سے بازووں میں لاک کی۔

"اوہ! تو تم ہاشم بزدار کو چیلنج کر رہی ہو؟"

سرسراتے لہجے میں کہتے ہی اس نے ایک ہاتھ اسکی کمر سے آزاد کیے مالنی کے بالوں میں پھنسائا، بالوں میں اس ساحر کی انگلیوں کی سرسراہٹ محسوس ہوئی تو لگا دل ہاتھ سے پھسل سا گیا ہو۔

"ایسا ہی سمجھ لیں، ڈرتی نہیں ہوں آپ سے"

وہ اسے اس بات پر مزید جنونی حصار میں بھر چکا تھا، اور اس شخص کے سینے کی دھک دھک مالنی کو وجود میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔

"اتنے ہاٹ اینڈ ہنڈسم ہاشم بزدار سے ڈرو گی تو مجھے ویسے ہی فیسینیٹ کرتا امرت لگو گی جسے آخری گھونٹ تک بہت سرشاری سے پی جاوں گا، اچھا ہے برابری کا مقابلہ ہوگا کیونکہ بہکا ہوا ہاشم بزدار تو اس ننھی جان نے بھی ابھی نہیں دیکھا"

وہ کیسے پیچھے رہتا، مالنی کی دھڑکنیں بڑھائے شدید بے رحم سی کاوش کو عمل میں لایا اور اسکی کم سے کم شدت بھی مالنی جیسی نازک کے لیے سنگین تھی تبھی تو سانس کھینچنے کو ہونٹوں کو پھیلائے اس نے ہاشم کی جذبات بھری آنکھیں دیکھتے ہی زرا پیروں کے تلوے اٹھائے اور اپنے نرم و نازک ہونٹ اسکی گال سے جوڑے جن پر اسکی بڑھی شیو نے لاکھ گدگداتی چبھن دی ہو مگر وہ پورا حساب باک کر کے ہی پیچھے ہٹی۔

"کھا جاوں گی آپکو، اتنے جان لیوا مت بنیں ابھی، ہفتہ بہت دور ہے۔۔۔آپکو پتا ہے کل ساری رات مجھے نیند نہیں آئی، یہی ڈر لگا رہا کے آپ بھی بھیجتے کی طرح مجھے بھی غائب کرنے نہ آجائیں، دروازے پر دو دو لاک لگائے تھے، زونی آپی بھی ہنس رہی تھیں۔ اندر اندر سے ڈر بھی ہے، کیونکہ آپ واقعی بہت وہ ہیں"

تمام ڈر اور خوف بھلے وہ ہٹا دیتی تھی پر جب جب ہاشم کے روبرو آتی، دل کسی اور طریقے سے بہکنے اور ہمکنے لگتا جبکہ ہاشم نے اسکی جبین چومتے ہوئے اس صاف گوئی پر اسے مسکرا کر دیکھا جو شرما کر اور غضبناک لگ رہی تھی، اسکے چہرے پر بکھرتی لالیاں ہاشم بزدار کی دنیا تہہ و بالا کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

"دل تو تھا تھوڑی آگ یہاں بھی لگائی جائے پر پھر سوچا مناسب وقت پر ہی یہ بہتر رہے گا، مجھے نہیں پتا تھا، تمہارے اندر ایک بھیگی بلی بھی ہے"

اول جملے معنی خیزی سے کہے وہ اسکی نشیلی آنکھوں میں جھانک کر جب سنجیدہ ہوا تو مالنی کو لگا بس اب اس سے دور ہو جائے ورنہ قہر ڈھا دے گی جبکہ یہ بات ہاشم نے بھی بھانپی تبھی آخری جملے کو شرارت سے اوڑھا۔

"آپ کے سامنے کچھ بھی ہو سکتا ہے مالنی کو، کچھ بھی۔۔۔۔۔اب چھوڑیں جانیں دیں ورنہ۔۔۔۔"

وہ اسکے شدید حصارنے سے گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی تبھی اس سے دور سرک رہی تھی اور ورنہ پر تو جناب نے اسکے فرار کو بلکل ناکام کرتے ہوئے اپنی بے خود دھڑکن کا توڑ اسکی بے چین دھڑکنوں کو بڑھاتے ہوئے سارے بے باک لفظ، اسکے ہونٹوں میں دبا دینے کے دلکش عمل سے کیا اور اس وقت اگر کوئی ان دو کو فرصت سے ایک دوسرے میں مبتلا دیکھ لیتا تو غش کھا کر گر پڑتا۔

وہ اسکے سینے پر نازک ہتھیلیوں کو لگاتی اسے اس دل دہلاتے سلسلے سے بری طرح باہر لائی جو شر انگیز مسکرا کر جان لے رہا تھا۔

"یوں مت کیا کرو بیوقوف مالنی! کچھ جذبات ان آنکھوں کے لیے رہنے دیا کرو،سب کچھ بول کر ان ہونٹوں کو زحمت سے مت گزارا کرو کیونکہ پھر میرا صبر جواب دے جاتا ہے، ایسے ہاشم بزدار کے تم پر رحم کے سارے ارادے بکھر جاتے ہیں۔۔۔۔ سمجھ گئی"

وہ خود اسکے نازک خدوخال پر حاوی ہوتی شدت پر کچھ سنجیدہ ہوا جو اسے روکتی نہیں تھی، جان لینے کے لیے مزید ابھارتی تھی اور ہاشم کی سنجیدگی پر تو مالنی فدا تھی۔

"سمجھ گئی پر وہ کیا ہے کہ میں بہت ناسمجھ ہوں ماسکو، آپ کے معاملے میں انتہائی ناسمجھ۔۔۔۔ "

وہ محبت سے چور لہجہ لیے کہہ کر رکی نہیں تھی، سب کے سامنے جانے سے پہلے اس مختصر ملاقات کے گہرے اثرات چھپانے تھے جو سرخیاں بن کر مالنی کے چہرے پر بکھر گئے تھے تبھی محترمہ نے شرمگیں مسکراہٹ کے سنگ جاتے ہوئے پلٹ کر سپاٹ چہرہ لے کر خود کو دیکھتے ہاشم کو جان لیوا نظروں سے دیکھا اور اپنے اور زونی والے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

جبکہ وہ بھی اس قدر بے رحم بن جانے پر خود کی سرزنش کرتا رہ گیا۔

وہیں کمرے سے باہر جانے کے لیے اشنال تو بلکل ریڈی تھی مگر جناب تھے کہ محبت نشین سا خمار اتارے اتر نہ رہا تھا، ہنوز بستر میں دبکے ہوئے تھے، اب تو اشنال کو خود شرمندگی ہو رہی تھی کہ مالنی تک بلانے آپہنچی تھی۔

وائیٹ بہت خوبصورت ڈریس میں لپٹی وہ صبح کی نورانی کرن دیکھائی دے رہی تھی، چہرے کی راعنائیاں منصوعی حسن سے دبا کر اور دلربا لگ رہی تھی، اپنے بالوں کو سٹریٹ کر کے محترمہ نے کمر اور کندھے پر ڈال رکھا تھا اور میثم کے لیے بھی کپڑے نکال کر رکھے تھے پر وہ لحاف سر تک اوڑھے ابھی تک سویا پڑا تھا یا شاید سونے کی اداکاری کر رہا۔

"میثم! اٹھ بھی جاو۔ ایسا کونسا نشہ کیا ہے جو تمہاری خماریاں ہی نہیں جا رہیں۔ سب کیا سوچ رہے ہوں گے کہ کتنے بدتہذیب ہیں ہم۔ دیکھو ساڑھے بارہ بجنے والے ہیں، ناشتہ لے کر سب پہنچنے والے ہوں گے"

وہ نک سک تیار حسینہ خاصی جھنجھلاہٹ میں لپٹی اپنی منفرد خوشبوئیں بکھیرتی میثم کے پاس بیٹھی جو اسکے تمام سوال سنتا نہ صرف مسکراتے ہوئے اپنی نیند کے خمار میں ڈوبی آنکھیں کھول چکا تھا بلکہ پاس بیٹھی اپنی بہت قریبی ہو چکی صنم کو گھیرے خود پر جھکا گیا جو اسکی آنکھوں میں بے شمار محبت دیکھ کر کانپ سی اٹھی۔

"باخدا بخت بس اسی کے ہیں

جس کے حصے میں آپ آئی ہیں۔۔۔!

ان آنکھوں کا نشہ کیا ہے جو میری آنکھوں پر اپنی نظر کا حصار باندھ گئی ہیں، ان سانسوں کا نشہ کیا ہے میری جان جن سے ہر سانس معطر ہو کر سینے کا سارا سکون لوٹا گئی، اس وجود کا نشہ کیا ہے جو اب سے میرا من پسند لباس ہوگا۔۔۔۔اتنے نشے ایک ساتھ، خماریاں کیسے جائیں گی۔ باقی سب کو میرے کرتوت پتا ہیں سو کوئی آپکو کچھ نہیں کہے گا، سب جانتے ہیں آپکے لیے کتنا شدت پسند ہوں۔ اتنی مدت بعد میسر آئی ہیں تو کیسے اتنی جلدی آپکو خود سے دور جانے دیتا، بائے دا وے اتنی حسین صبح ہے یا آپ ہیں صنم"

وہ رات والا میثم تو اشنال کی جان تھا ہی، یہ اپنے سکھ گنواتا درویش سا آدمی تو روح کے تاڑ چھیڑ چکا تھا، ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسکے بکھرے بال اپنی ٹھنڈی ہتھیلی سے سہلاتی اپنے ہونٹوں کو اسکی پیشانی سے جوڑ گئی اور ضرار نے سکون سے آنکھیں موندیں اور اشنال کو بازووں میں بھرا۔

"تم میری جان ہو، بہت پیار کرتی ہوں۔ اور تمہارا ایک ایک لفظ مجھے بہت سارا سکون دیتا ہے، ایسی ہی زندگی چاہتی تھی م۔۔۔میثم، ایسی ہی راتیں ایسی ہی صبح جب تمہیں میرے اور صبح کے حسن میں فرق بھول جائے، بہت بہت بہت پیارے ہو تم۔ اس پوری دنیا سے بلکل الگ، تم اتنے پیارے ہو میثم کہ اشنال اب سے تمہاری سانس کے ساتھ سانس لینے کی خواہش کرے گی"

وہ جذباتی ہو گئی تھی، اتنا سارا مان دامن میں ڈالے وہ شخص تو دل کی دھڑکن میں سما گیا تھا اور ہمیشہ سے اظہار تو بس اشنال ہی کرتی آئی تھی اور آج ضرار کا دل چاہا وہ بھی اسے کہے کہ بہت پیاری ہے اسے پر جناب زرا ٹیڑی کھیر تھے۔

"مکھن لگایا جا رہا ہے تاکہ مارننگ لوو ڈوز کے بجائے یہ بندہ آپکی خالی خولی پیار کی باتوں سے بہل جائے، پاس آئیں پورے دس منٹ اسکے بعد پکا اٹھ جاوں گا"

وہ ایک بار پھر بے خود ہوتا اشنال کی جان لینے پر اسے خود میں مبتلا کرنے کی کوششوں پر اترا جو فورا سے بیشتر سرکی، اس شخص کے ساتھ گزارا ایک منٹ بھی بہت خطرناک تھا۔

"م۔۔میثم تم پاگل ہو گئے ہو، نو ۔۔۔پلیز ابھی تیار ہوئی ہوں۔ کتنی مشکل سے سب کوور کیا۔ اب پلیز دور رہنا ورنہ مکا مار دوں گی، اٹھو فورا ورنہ ٹھنڈا پانی تم پر انڈیل دوں گی بتا رہی ہوں۔۔جو رہتا ہے پیار پھر کر لینا ابھی سب باہر ویٹ کر رہے ہیں۔ ابھی تم نے فریش بھی ہونا ہے آلسی پن کی پنڈ کہیں کے۔۔۔اٹھو شاباش، پٹائی کر دوں گی"

وہ اس سے دور جانے کو مچلتی لاکھ بڑبڑاتی پر جناب نے مختصر مگر شدید جان لیوا حق دار حرکتیں پوری شان اور دلربائی سے سرانجام دے ہی دیں اور اشنال نے اسے اور اسکی زچ کرتی مسکراہٹ کو گھور کر دیکھا جو آگلے ہی لمحے چھلانگ مارتا بستر سے نکلے بیڈ سے اتر چکا تھا اور وہ اس کو جاتا دیکھتی مٹھیاں بھینچتی رہ گئی کیونکہ چہرے کی لالیاں اس جان لیوا شدت نے بکھیر دی تھیں۔

"جب تک فریش ہوتا ہوں آپ بھی کام لگیں اور اپنا سہانہ ہو جاتا میک آپ ٹھیک کریں، وہ کیا ہے ناں مجھ سے ایسے رحم کی امید آپ نے آخری سانس تک نہیں کرنی صنم۔۔۔بائے میں چلا کیری اون"

اسے مزید چڑانے کو محترم واش روم کا دروازہ کھولے سر نکال کر شر انگیز مسکراہٹ دباتے باہر جھانکے اور اشنال نے بیڈ پر پڑا کشن ہی سیدھا دروازے پر دے مارا جو اس چالاک نے پہلے ہی ٹھک سے بند کر دیا تھا، جبکہ منہ بسورتی وہ واپس آئینے کی طرف آئی اور مٹھیاں بھینچ کر غرائی۔

زیادہ پھیلاوا نہیں تھا تبھی جلد ہی محترمہ نے حالات کنٹرول کر لیے اور جب جناب بیس منٹ لگا کر ٹاول سے بال رگڑتے باہر نکلے تو اشنال نے آنکھیں نکالے وارننگ دیتی نظر ڈالی۔

"بہت ہی چھچھورے ہو تم، اب اور کتنا ٹائم لگاو گے تیاری میں۔ تم نے اپنے ساتھ مجھ معصوم کو بھی پکا جوتیاں پڑوانی ہیں۔ جلدی کرو ناں میثم، مجھے بہت بھوک لگی ہے"

اصل مسئلہ سارا بھوک کا تھا اور ضرار صاحب نے بھی اس بار رحم کیے جلدی معاملہ نمٹایا اور زرا اس میک آپ کر کے چہرے کی سرخیاں چھپاتی محنت کشن سے دانستہ دور رہا۔

دونوں پونے ایک بجے ایک ساتھ باہر نکلے تو پہلے ہی سب لاونچ میں مسکراتے چہروں کے سنگ موجود تھے اور ضرار صاحب کا تو پتا نہیں، اشنال کو ضرور آکورڈ فیل ہوا، یہ الگ بات ہے سب نے ان دو کو اتنی محبت سے ویلکم کیا کہ اسے جلد ہی یہ احساس ہونا ختم ہو گیا۔

ناشتہ لے کر وریشہ، خدیخہ خانم ، عزیز خان اور مشارب زمان آئے تھے جبکہ زونی نے اس انسان کو آج بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھا البتہ اشنال ضرور وری سے اتنے عرصے بعد مل کر نہال ہو گئی پھر سب نے ہی ہر کام بعد پر ڈالے پہلے لٹکتا ہوا ناشتہ کیا کیونکہ اس سب ملنے ملانے میں ناشتے کے وقت کا بمشکل آخری پلو ہی پکڑا جا سکا تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اپنی تو محبت کی اِتنی سی کہانی ھے

ٹُوٹی ھُوئی کشتی ھے ، ٹھہرا ھُوا پانی ھے

اِک پھول کتابوں میں ، دَم توڑ گیا لیکن

کچھ یاد نہیں آتا ، یہ کس کی نشانی ھے

بکھرے ھُوئے پنوں سے ، یادیں سی جَھلکتی ھیں

کچھ تیری کہانی ھے ، کچھ میری کہانی ھے

ساون کی بہاروں میں نغمہ ھے نہ جُھولے ھیں

آکاش کی آنکھوں میں ، روتا ھُوا پانی ھے

چہروں کی کتابوں میں ، الفاظ نہیں ھوتے

ھر ایک شِکن خود میں، اک پُوری کہانی ھے

چہروں سے تو لگتا ھے ، سب بُھول کے بیٹھے ھیں

ھم صِرف مسافر ھیں ، اِک رات بِتانی ھے

مانا کہ اِنہیں ایک ھی ، جَھونکے نے گرایا ھے

ھر ٹُوٹتے پتے کی ، اپنی ھی کہانی ھے۔_______

وہ واپس گودام تو نہیں آیا تھا پر اسکے تھکے قدم اسے کسی اور منزل کی طرف ضرور کھینچ کر لے گئے، ولی سے ملنے کے بعد وہ بینک گیا تھا، اپنا لاکر کھولے اس میں رکھی ایک پراسرار ڈائری نکالے وہ وہیں اندر ہی سنگ مرمر کے فرش پر بیٹھ گیا، اس بوسیدہ ڈائری میں شہیر مجتبی چھپا تھا، آج ناجانے کیوں اسکا دل خود سے ملنے کو کیا، اول صفحات اسکے زندگی سے شکایات سے بھرے تھے، بہت سارے شکوے جو اس نے اللہ سے کیے، اسے بے بس بنا کر دنیا پر بھیجنے پر، اسکے حاسد بننے پر پھر وہ ایک تلخ تحریر پر رکا تو شہیر مجتبی کے چہرے پر اذیت اتر آئی، آنکھیں جہنم کی طرح جل اٹھیں، وہ دن اسکے لیے قیامت جیسے قہر سے بھرا ہوا دن تھا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ماضی کے اس اذیت ذدہ دن میں اتر گیا، کچھ سالوں پہلے ہی کی تو بات تھی وہ، اسکی آنکھوں میں اذیت کا جہاں آباد تھا۔

"تم یہاں کیا کر رہے ہو خبیث؟"

یہ انکی یونیورسٹی کا کھلا کشادہ پارکنگ ایریا تھا جہاں شہیر اپنے جیسے غنڈے موالیوں کے ساتھ جیسے ہی اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھا، اپنی بائیک عین پارکنگ میں کھڑی کر کے ہیلمنٹ اتارے اندر داخل ہوتے علیم مجتبی کو دیکھتے ہی شہیر کے تن من میں انگارے بھرے، اپنے یار بیلوں جن میں کاشف بھی شامل تھا، انھیں اشارے سے اندر جانے کا کہتا خود وہ اچٹتی ناگوار خونخوار نظریں علیم مجتبی پر ڈالتا عین اس تک پہنچے درشتی سے بولا جس نے آگے سے کمینگی بھری مسکراہٹ دیتے ہوئے کو ایجوکیشن کے رنگ بکھیرتی اس یونیورسٹی کو دیکھا جہاں طرح طرح کی حسینائئں یہاں وہاں بہتات میں ٹہل رہی تھیں۔

اس دن یونی میں سٹوڈنس کافی کم آئے تھے، وجہ اینول پارٹی کی تیاری تھی اور اتفاق سے ضرار بھی اس دن یونیورسٹی نہیں آیا تھا، لیکن اس دن ہیر ضرور آئی تھی، شہیر کے ستم اور ظلم کے باوجود اسے اسکا وعدہ یاد دلانے کہ وہ اس سے شادی کرے کیونکہ کچھ دن پہلے ہی وہ اسکے کہنے پر میثم ضرار چوہدری پر خود سے زبردستی کرنے کا الزام لگا چکی تھی۔

"تمہاری طرح میں بھی اسی یونی میں ایڈمیشن لوں گا  بس دیکھنے چلا آیا تھا، غصہ کیوں ہو رہے ہیں"

اس شخص کی آنکھوں سے ہی غلاظت ٹپکتی تھی تبھی تو شہیر کو اسکا یہاں آنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

"اپنی یہ گندی نظریں سنبھال کر رکھ علیم ورنہ یہیں مجھ سے بہت برا پٹ جائے گا، جن قدموں پر آیا ہے انہی پر چلتا ہوا نکل جا یہاں سے ورنہ تیری خباثت بھری یہ آنکھیں یہیں نوچ لوں گا"

شہیر نے گویا اسے پھاڑ کھاتے ہوئے وارننگ دی مگر علیم انتہا کا شر پسند اور ڈھیٹ انسان تھا تبھی اسکے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔

"اوہ خود تم ان رنگین دنیاوں کا حصہ ہو اور مجھے روک رہے ہو۔ نا  ناں، میں تو کہیں نہیں جاوں گا۔ جو کرنا ہے کر لو ڈرتا نہیں ہوں تم سے"

وہ آگے سے چٹ پٹے باغی تاثرات چہرے پر سجائے اس سے پہلے یونی کے اندر جاتا، شہیر نے اسکا بازو پکڑے اپنے واپس مقابل لایا اور ایک زور دار تماچہ اس کمینگی کے مرکب کے منہ پر دے مارا جس کے وجود کو شہیر کی یہ حرکت آگ لگا گئی۔

"بکواس کر رہا ہوں، سنائی نہیں دے رہا۔ دفع ہو جا یہاں سے، تیرے اندر کی گندگی مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا علیم، مجھے مجبور مت کر کے میں تیرے جیسی گندی شے کو زمین میں گاڑ دینے پر مجبور ہو جاوں"

شہیر کا بس نہ چلا تھا کہ وہ کھڑے کھڑے علیم کا منہ نوچ ڈالتا جبکہ شہیر نے اس پر جو ہاتھ اٹھایا تھا اس نے علیم مجتبی کے اندر شعلے بھر دیے تھے۔

بظاہر تو وہ اپنی گال سہلاتا، شہیر کو خونخوار نظروں سے دیکھتا وہاں سے چلا گیا تھا مگر وہ تھپڑ کا انتقام لینے وہیں رک گیا تھا۔

شہیر اپنے یار بیلیوں کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ گیا، کاشف کے اصرار کرنے پر اس نے دو کلاسز لیں اور پھر قیامت اتر آئی، علیم اسکے اور ہیر کے معاملات اچھے سے جانتا تھا اور یہ بھی کہ ضرار پر ہیر نے کیا الزام لگایا تھا۔

اسی ڈیپارٹمنٹ کی چھت سے ہیر نامی اس لڑکی نے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی، پوری یونیورسٹی جانتی تھی ان دنوں جو معاملہ پچھلے دنوں وقوع پذیر ہوا سو سب نے ہیر کی موت کا یہی اندازہ لگایا کہ وہ خود کی ہوتی بدنامی کے ہاتھوں مر گئی مگر ایسا تو بلکل نہیں تھا، شہیر جب اس آخری سانسیں لیتی لڑکی کی خواہش پر اس خط تک پہنچنے کے لیے اسکی کلاس میں پہنچا تو اسے اسکے بیگ سے خط مل گیا تھا۔

وہ خط جو بعد میں شہیر نے بدل دیا تھا، کیوں بدلا تھا یہ ضروری تھا، اس خط کا شہیر نے صرف وہ حصہ پبلک کیا جو ضروری تھا، یعنی ضرار کی بے گناہی جبکہ اپنی بے گناہی اس نے چھپا لی۔

اس یونی ورسٹی سے وہ خود نکلا تھا کیونکہ مزید وہاں رہتا تو دھنگے فساد میں کسی کا قتل ضرور کر ڈالتا اور حسد کی آگ اسے ویسے ہی جلا دیتی سو اس نے ہیر کے خط کو کچھ اس طرح بدلا کہ ضرار تو بے گناہ ثابت ہوا ہی ساتھ مجرم اس نے خود کو ثابت کیا تاکہ یونیورسٹی والے اسے اس بہانے یہاں سے نکال پھینکیں۔

وہ اس درد دیتی اذیت ناک کیفیت سے باہر نکلا تو ڈائری کے اگلے پنے سے جڑا ہیر کا اصل خط نظر آیا جسے آج بھی شہیر نے کانپتے ہاتھوں سے اٹھایا، اسکی آنکھوں میں تکلیف تھی۔

"میں نے تم سے بہت محبت کی شہیر مجتبی، سچی محبت تبھی تو تمہارے حسد کے چکر میں میثم ضرار چوہدری جیسے باکردار مرد پر خود سے زبردستی کرنے کا گھٹیا الزام لگایا۔ وہ تو آنکھیں اٹھا کر بھی کسی غیر عورت کو نہیں دیکھتا ، وہ تو مکمل اپنی صنم کا تھا، پھر تم نے اپنی زندگی اس سے حسد کرنے میں کیوں جھلسا لی۔ میں تمہارے کہے میں آئی، وہی کیا جو تم نے کہا مگر آج اس لیے آئی تھی کہ تم سے درخواست کروں کے اپنا وعدہ پورا کر کے مجھ سے شادی کرو اور مجھے کہیں دور لے جاو تاکہ اس زلت اور پچھتاوے سے پیچھا چھڑوا سکوں۔ لیکن پھر سب ختم ہوگیا شہیر، وہ ایک درندہ تھا، علیم نام تھا اسکا، مجھے کلاس روم میں اکیلا بیٹھا دیکھ کر وہ چپ چاپ اندر آیا، مجھے لگا کوئی سٹوڈنٹ ہے، میں چپ چاپ بیٹھی رہی، ضرار چوہدری کی بے گناہی کا خط لکھ رہی تھی کیونکہ اگر تم مجھ سے شادی کے لیے مان جاتے تو میں ضرار پر لگا الزام بھی ہٹوا دیتی، اس سے معافی مانگ لیتی۔۔۔لیکن وہ علیم، اس نے مجھے مار دیا شہیر، کلاس روم کا دروازہ بند کرتا وہ میرے قریب آیا، اس نے سب سے پہلے میری بلند ہوتی چینخوں کو مارا، میرا منہ بند کیا، پھر مجھے باندھا اور پھر مجھے وہ سزا دی جو شاید میرے کیے گناہ کی بنتی تھی، اس نے میرا ریپ کیا شہیر، اور مجھے مار کر وہ چلا گیا۔ ہنس کر گیا تھا، قہقہے لگا کر گیا تھا۔۔۔۔اور میں اب کس منہ سے تم سے کہہ سکتی ہوں بھلا کہ اپنا وعدہ پورا کرو۔۔۔ سو ضرار کی بے گناہی ثابت کرنا تم پر میری امانت ہے، یہ میری آخری خواہش ہے۔ اسکی بے گناہی ثابت کرو گے تو یہی سمجھوں گی تم نے میری ایک تکلیف کم کر دی، میں تو پہلے ہی تمہارے عشق میں برباد ہو گئی تھی اور اب کسی کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں رہی۔ میری آخری خواہش کا مان رکھنا شہیر ، میں تمہیں معاف کرتی ہوں، بس ضرار کو بے گناہ ثابت کر کے تم یہاں سے کسی بھی طریقے سے چلے جانا۔ نہیں چاہتی یہ حسد تم کو مزید برباد کرے۔ تم بھی سوچ رہے ہو گے کیسی پاگل لڑکی ہے، اب بھی تمہارا سوچ رہی ہے۔ کیا کروں تم جیسا کوئی دوسرا کبھی نہیں دیکھائی دیا، میری موت کا یہ راز اپنے تک رکھنا شہیر، پلیز۔۔۔۔مجھے مزید رسوا مت ہونے دینا۔۔۔ اور اس سے انتقام ضرور لینا جو میری موت کی وجہ بنا، مجھے معاف کر دینا شہیر، تمہاری ہیر"

اس خط پر آج بھی ہیر کے مٹے ہوئے آنسووں کے نشان تھے، اسکی سسکیاں، ہچکیاں ، کڑلاہٹیں آج بھی اس خط سے پھوٹتی ہوئیں شہیر کی آنکھوں میں سرخائی گھول گئیں، وہ جب جب بکھرتا تھا، اپنے سے زیادہ تکلیف کا جہاں یہ خط پڑھنے آجاتا تھا۔

پھر خوب روتا، اپنی قسمت پر جس نے اسے ہمیشہ سے امتحان میں رکھا لیکن پھر بھی اس نے ہیر کی آخری خواہش پوری کرتے ہوئے بھی اپنے حسد کو جاری رکھا۔

اس نے ایک اور خط لکھا، ہیر کی ہینڈ رائٹنگ میں، جس میں ضرار کی بے گناہی درج تھی، جس میں شہیر کا گناہ درج تھا اور یوں ہیر کی قبر پر پڑے بوجھ کو اس نے پوری شان سے ہٹایا تھا، خود مجرم بن کر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور آج تک کوئی سچ نہ جان سکا، لیکن اسکا یہ راز میثم ضرار چوہدری سے زیادہ دیر چھپ نہ سکا۔

ضرار کو پہلے ہی اس خط کی ہینڈ رائٹنگ پر شبہ تھا اور پھر اسکے اندر کا جاسوس جاگا، اس نے تحقیق کی اور ایک ہفتے کے اندر اندر وہ ساری سچائی جان گیا کیونکہ ہیر نے ایک مختصر خط اسکے نام ایک خفیہ جگہ پر چھوڑا تھا جو اسے ایک ہفتے بعد ملا لیکن اس نے شہیر مجتبی کا پردہ رکھا، اس نے اشنال عزیز کو بھی شہیر کے حوالے سے وہ حقائق ہی بتائے جو ساری دنیا جانتی تھی اور اسے بھی بارہا علیم اور ہیر کا مجرم کہا صرف اس لیے کہ وہ شہیر کے ہر راز تک واقفیت پا لینے کی یہ خاصیت اگر ظاہر کرتا تو شہیر کا حسد مزید دہک جاتا۔ جرگے میں بھی ضرار نے شہیر کا پردہ رکھا کیونکہ آج تک وہ شہیر سے نفرت نہ کر پایا، خاص کر جس طرح اس نے ہیر کی آخری خواہش کا احترام کیا اسکے بعد ضرار نے بھی اس راز کو اپنے اندر دفن کر لیا، لیکن آج تک اس نے شہیر پر یہ واضح نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ اسکا ہر راز جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ ہیر، شہیر کی وجہ سے موت تک ضرور پہنچ سکتی تھی پر خودکشی اس نے علیم کی درندگی کے باعث کی اور یہ سچ آج بھی ضرار کو دکھ پہنچاتے، ضرار نے آج تک شہیر پر ایک بار بھی خوشی سے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا بلکہ وہ جب بھی شہیر کے لیے برا بنا مقصد صرف اسے حسد سے نکالنا تھا۔

میثم ضرار چوہدری جتنا بھی دل بڑا کر لیتا، وہ شہیر کے لیے تب واقعی سنگدل ہوا جب اس نے علیم کی موت کے ساتھ اس سے اسکا صنم چھینے کی سازش برپا کی،

لیکن اسکے باوجود ضرار نے اسے کبھی بدعا نہ دی، وہ بس اسے ہدایت کی دعا دیتا تھا،باقی سبکو یہی لگتا تھا کہ وہ ہیر کی موت کی وجہ ہے لیکن شہیر نے کبھی کسی کی یہ غلط فہمی بھی دور کرنے کی کوشش نہ کی یہ کہنا درست ہوگا کہ جتنا سر پھرا ضرار تھا، اتنا ہی سر پھرا شہیر تھا اور دو تلواریں ایک میان میں کیسے رہ سکتی تھیں تبھی جب یونیورسٹی والوں نے شہیر کو نکالا تو ضرار نے اس میں شہیر کی بہتری جانی کیونکہ پڑھائی میں شہیر کی توجہ کم و بیش ہی تھی اور زیادہ توجہ لڑائی جھگڑے اور میثم کے گروپ کے لوگوں سے منہ ماری کرنا تھا، اسے امید تھی کہ یہاں سے نکل کر وہ ضرار سے حسد ترک کر دے گا مگر حسد کی آگ تو شہیر کے اندر اب ٹھنڈی ہوئی تھی جب اسے عشق ہو گیا تھا، اور عشق ہونے کے بعد ہر کمی کا ازالہ ہو گیا تھا۔

ایک دوسرے کا پردہ رکھنے میں وہ شاید ایک سے بڑھ کر ماہر تھے۔

علیم مجتبی پہلے ہی غلیظ اور گندا انسان تھا اور پھر اس نے جو ہیر کے ساتھ کیا، شہیر کے نزدیک اسکی سزا صرف بھیانک موت تھی، وہ اپنے ماں باپ سے دور رہتا تھا کیونکہ شرمندہ تھا کہ اس نے انکی دوسری اولاد مروائی تھی، پورا علاقہ جانتا تھا علیم کس قدر واہیات انسان تھا مگر جو درندگی اس نے ہیر کو دیکھائی، شہیر نے ایک چال چل کر دو شکار پھنسائے۔

یعنی علیم کا انجام مشارب کے ہاتھوں کروایا اور حسد کی آگ ٹھنڈی کرنے کو میثم کے دل کو بھی آگ لگا دی۔

لیکن اب سب ختم ہو گیا تھا، اسکا رچایا کھیل دی اینڈ ہو گیا تھا اور اب تو شہیر کو حسد جیسا کچھ باقی نہ رہا تھا، اس تک سے حسد نہ تھا جسکے دکھ میں تڑپتی وریشہ اس سے دور رہنے پر مجبور تھی۔

وہ سبکی نظروں میں سیاہ تھا، صرف حسد نے مار ماری تھی اسے، اور حسد تو نیکیوں کو کھا جانے والی بلا تھی۔

وہ کتنی دیر وہیں بیٹھا رہا، اسی ہیر کے خط کو تھامے۔

سانس اٹک رہا تھا، دکھ اسے بھی تھے پر دکھ کو ظاہر کرنے کے اسکے انداز بھی اس جیسے جنگلی تھے۔

اب آخری آسانی وریشہ بھی اسے کوسوں دور دیکھائی دے رہی تھی، اللہ کو اسکا صرف حسد پسند نہیں تھا اور کیا کرتا کہ یہ اسکی فطرت بن گیا تھا۔

فطرت سے کیسے پیچھا چھڑواتا وہ، کیسے خود پر انڈیلی سیاہی دھوتا، کیسے دنیا کے اک اک فرد کو جا کر بتاتا کہ سنو! میں ویسا نہیں ہوں جیسا دیکھائی دیتا ہوں۔

وریشہ یوسف زئی اس سے محبت کرنے لگی تھی اور یہی وہ سچ تھا جس نے شہیر کو توڑ دیا، اس جیسے سے محبت کرنے والی لڑکی پر اسے ترس آیا، بہت ترس۔

"تجھے کیا ضرورت شہیر مجتبی! کہ تو دنیا کو اپنی اچھائیاں گنواتا پھرے، تجھے وہ لڑکی ٹھیک پہچان گئی بس یہی کافی ہے۔۔۔ مجھے ایک بار وریشہ یوسف زئی تک پہنچنے کی مہلت ضرور دے دیں، اگر اسکی حسرت میں ڈوبا ہوا ہی آپ نے مجھے موت دے دی تو اس ڈائری میں لکھے سارے آپ سے کیے شکوے سچ ثابت ہو جائیں گے"

وہ کسی ٹرپتے ہوئے ضدی بچے کا روپ دھار چکا تھا، کیا کرتا کہ مکافات تو ہر کسی کو زیادتی کے بدلتے بھگتنا پڑتا ہے، اور اس نے تو خود سے بھی لافانی زیادتیاں کر رکھی تھیں۔

جب شہیر مجتبی وہ ڈائری واپس اپنے لاکر میں رکھ کر بینک سے باہر نکلا تو  اس کے چہرے پہ وہ حُزن تھا جو چھپ کے رونے سے پیدا ہوتا ہے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"رو مت میری جان، میری پیاری بہن۔ اتنی بڑی خوشی کی خبر سنا کر تم مسلسل رو کر میرا دل رنجیدہ کر رہی ہو، میں کیسے ت۔۔تمہاری محبت کا صلہ لٹاوں گی، تم نے میرے لیے کیوں اپنی زندگی داو پر لگا دی"

جہاں عزیز خان اور خدیخہ خانم نے اشنال اور وری کے بہنیں ہونے کی سچائی باقی سب پر کھولی وہیں وریشہ نے تمام سچائیاں خود اشنال کو بتائیں، شہیر مجتبی کے سچ سمیت جس پر خود اشنال کی آنکھیں سرخ اور بھیگی تھیں ، وہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھیں ایک کے دکھ سن رہی تھیں، ایک دوسرے سے جڑا اتنا قریبی رشتہ آنکھوں میں برسات لے آیا تھا۔

"ک۔کیونکہ میرا دل کہتا تھا میرا تم سے کوئی بہت گہرا تعلق ہے، مجھے پتا تھا ضرار لالہ تمہیں شہیر سے کچھ بھی کر کے لے لیں گے مگر میں نے اس سے یہ ش۔۔شرط صرف اس لیے لگائی کہ وہ تمہیں چھو نہ سکے، تمہیں ہاتھ بھی نہ لگائے۔ س۔۔سوچا تھا اسے اپنا آپ دے دوں گی تو وہ تم تک پہنچنے سے باز رہے گا، نہیں جانتی اشنال کے اس وقت عقل کہاں جا سوئی تھی۔۔۔۔ اور پھر کب اس ب۔۔بے درد سے محبت ہوئی، کچھ خبر نہیں ہو سکی۔ تم خود بتاو کیا محبت پر ا۔۔اختیار ہے؟ میرا بھی نہیں ہوا۔۔۔مجھے وہ ایک دن بھی برا نہیں لگا باخدا، کیوں نہیں لگا نہیں جانتی حالانکہ پہلے ہی دن اسکے سینے پر گولی ماری تھی، مر جاتا وہ، مگر بچا لیا۔۔۔۔کیوں بچایا تھا یہ بھی نہیں جانتی۔

میں یہ بھی جانتی ہوں میں نے سب پر ترس کھایا سوائے ولی کے کیونکہ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے ، شہیر سے اور ونیزے سے لاکھ درجے مضبوط ہیں"

وہ ہچکیوں کی ذد میں کانپ رہی تھی اور اشنال اس لیے بھی بھی تکلیف میں تھی کہ وریشہ اسکے مقابلے لاکھ گنا سٹرونگ گرل تھی لیکن آج وہ اشنال کے روبرو بیٹھی اسکی بڑی بہن، ریزہ ریزہ بکھری تھی تبھی اشنال نے اسے پکڑ کر گلے لگایا، ناجانے کتنی دیر وریشہ کے آنسو بہے اور اشنال نے اسے جی بھر کر رونے دیا، ناجانے وہ دل پر کیسے کیسے بوجھ لیے بیٹھی تھی جو آج ہلکے نہ ہوتے تو خدانخواستہ وریشہ کو کچھ کر دیتے۔

"خود کو ہلکان مت کرو میری پیاری بہن، جو ہونا تھا ہو گیا۔ تمہیں اس طرح تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔ کیا کروں تمہارے لیے بتاو، کیسے وہ سٹرونگ سی وریشہ دوبارہ مجھے مل سکتی ہے۔ تمہیں روتا دیکھ کر دل پھٹ رہا ہے"

اشنال کی اپنی آواز سوز و ملال کے سنگ بھیگی تھی اور وریشہ سر جھکائے بے بس تھی، کہیں بھی سکون نہیں بچا تھا۔

"دادا نہیں چاہتے میں اسکے ساتھ رہوں اشنال، وہ بھی مجبور ہیں کیا کریں۔ اپنی واحد قیمتی دولت کیسے اس کو سونپ دیں جو انکی نظر میں بہت برا ہے۔ میں کہہ تو آئی تھی کہ اسے چھوڑ دوں گی لیکن میرے لیے شہیر کو چھوڑنا اب ناممکن ہے، تم سمجھ سکتی ہو مجھے۔ جیسے تم ضرار لالہ سے دور ہونے پر محسوس کر رہی تھی میری بھی یہی حالت ہے۔ ہنسی بھی آئی کہ اللہ نے ہم دونوں بہنوں کے نصیب میں ایک جیسی ظالم محبت لکھ دی، کیسے کیسے اتفاق ہیں۔۔ "

وہ بھلے اپنے آنسو روک چکی تھی پر اشنال کا دل تو اسکی تکلیف سے ہنوز ڈوب رہا تھا، اس کا بس نہ چلا وہ دنیا خہاں کی ساری خوشیاں کے دامن میں ڈال دے۔

"تم نے کیوں کہا انھیں کے چھوڑ دو گی، کوئی ضرورت نہیں۔ کیسے جیو گی اسکے بغیر، اگر سردار شمشیر نے تمہیں اس سے الگ ہونے کا حکم دے دیا تو نہیں زندہ رہ سکو گی۔ میں بات کرتی ہوں ان سے، تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے تو تمہیں سزا بھی نہیں ملنی چاہیے۔ تم نے اشنال عزیز کے لیے اتنا کچھ کیا، اب مجھے بھی کچھ کرنے دو۔ تمہارے یہ آنسو میرے دل پر گر رہے ہیں وری، شہیر جیسا بھی ہے، اگر تمہیں قبول ہو گیا ہے تو سمجھو سبکو قبول ہے۔۔۔"

وہ شہیر کے سارے ستم وری کے لیے بھول گئی حالانکہ شہیر اسکے لیے صرف نام کی اذیت بنا تھا، اس نے خود تو اشنال کو کوئی دکھ نہیں پہنچایا تھا جبکہ وری نے روتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی۔

"ن۔۔نہیں اشنال! دادا جان کو پہلے ہی بہت دکھ دے چکی ہوں۔ ان سے یہ تقاضا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ بھی بہت مجبور ہیں۔ رہی بات شہیر کی، وہ تو خود بے رحم ہے، میرے لیے بھی اور اپنے لیے بھی"

وہ حقیقت میں شہیر کو بہت مس کر رہی تھی اور یہ اشنال بھی محسوس کر سکتی تھی۔

"کیسا انسان ہے وہ نیچر وائز؟ مطلب تم قریب ہو اسکے تو اسکا اصل جانتی ہوگی"

ناجانے کیوں اشنال کو شہیر برا نہیں لگا ، وری کے دل میں وہ جس شدت سے بسا ہوا تھا اسکے بعد تو اشنال کو شہیر پر بھی ترس آیا ، اشنال نے سوال پر وری نے چہرہ اٹھائے اپنی متورم آنکھوں سے اشنال کو دیکھا۔

"بہت اچھا تو نہیں کہہ سکتی پر مجھے ہمیشہ لاجواب کر دیتا ہے، روڈ بھی ہے۔ دل کا لگتا سخت ہے پر کبھی کبھی لگتا ہے اسکے اندر کسی چھوٹے سے اداس بچے کا دل ہے، اسکی روح شفاف آئینہ  ہے اشنال جس میں مجھے اپنا آپ دیکھائی دیا۔ بہت بولتا ہے، پٹر پٹر لیکن دل کی بات ہمیشہ بری سی کسی دھمکی میں ڈھال کر ہی کہتا ہے، کبھی کبھی اسے بہت مس کرتی ہوں۔ آج صبح سے بہت یاد آرہا ہے، حالانکہ کل ہی ملی تھی اس سے، شاید کمزور ہو رہی ہوں اس لیے"

اس دیوانی نے تو پورا مضمون کہہ دیا تھا اور تمام تر اداسی کے اشنال اسکا ہاتھ چوم کر مسکرائی۔

"تم تو اسکی محبت میں جوگن بن گئی ہو، واقعی ظلم ڈھا لیا ہے تم نے اپنے ساتھ۔ اچھا کیا تم نے ولی لالہ کو ونیزے کی طرف مائل کر کے، تم اب شہیر کے علاوہ کسی کی نہیں رہی، اپنی بھی نہیں"

یہ سب کہتے ہوئے اشنال اداس تھی تو وریشہ اذیت ذدہ مسکراہٹ میں چہرے کے خدوخال ڈھالے مزید اسکی جان لے رہی تھی۔

"چھوڑو یہ سب، آئی ایم سوری۔ تمہیں پہلے ہی دن آکر اتنا رلا دیا۔ ابھی تو یہ خوبصورت آنکھیں کھل کر مسکرائی تھیں اور آسمان سے نمودار ہوتی اس ظالم بہن نے نئی نویلی دلہن کو سوگوار کر دیا، میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں اشنال، ضرار لالہ نے تمہیں کہیں جانے نہیں دیا۔ پہنچ آئی تم انکی چھاوں میں۔۔۔ہمیشہ مسکراتی رہو، اب تم پر کسی تکلیف کی پرچھائی بھی نہ پڑے۔۔۔۔"

وہ اسے مس کر رہی تھی تبھی اسکا ذکر مزید دل کمزور کر رہا تھا تبھی اس نے سہولت سے موضوع بدلا، اور اشنال ایک بار پھر اسے خود میں سمو گئی۔

جیسی بچھری روحیں ایک دوسرے سے ملتی ہوں۔

"جلدی سے یہ دعائیں میں بھی تمہیں دینا چاہتی ہوں وری، جب بھی تمہارا دل اداس ہو ، تم میرے پاس آجانا۔ تمہیں ہمیشہ سنوں گی، میں تمہارے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں وری، پلیز مجھے موقع ضرور دینا ورنہ یہی سمجھتی رہوں گی کہ میری وجہ سے تم اس حال تک آگئی، کبھی نہ رونے والی وریشہ، اب ہر وقت روتی ہے۔ اس ظلم پر زمین کانپ جائے گی، اب مت رونا۔ تم میرا حصہ ہو، سب سے پیارا حصہ۔۔۔۔ مما کا گ ۔گفٹ ہو میرے لیے، بہت ہی پیارا گفٹ"

دونوں کے آنسو آج رکنے والے نہیں تھے مگر اشنال کے اتنے سارے پیارے لفظ وریشہ کا گھٹتا دل بحال ضرور کر گئے تھے، اسے اشنال کے پاس ہونے سے اتنی تسلی ضرور ہوئی تھی کہ اب کوئی ہے جو اسکے آنسو پورے خلوص سے پونجھے گا ورنہ جس ذہنی دباو کا وہ شکار تھی، جلد خود کے ساتھ کچھ کر ڈالتی۔

وہ اپنا بہت سا وقت آج تو کیا آگے بھی وری کے ساتھ ہی گزارنا چاہتی تھی، گلالئی ان دونوں کے لیے دنکا کھانا وہیں لے آئی اور خود بھی ان دونوں کے ساتھ مسکرا کر ان نے کھانے میں دونوں بچھڑی ہوئی آن تی بہنوں کا ساتھ نبھایا وہیں دن کے کھانے کے بعد عزیز خان اور خدیخہ خانم تو چلے گئے مگر مشارب کو ضرار نے روکا کیونکہ اہم معاملہ نمٹانا باقی تھا۔

چوہدری بزدار عالم، ہاشم، مشارب، ضرار اور زونی، مالنی اس وقت بڑے کمرے میں براجمان تھے، اور زونین اور مشارب کو ان سب نے ایک ساتھ بٹھا رکھا تھا اور اس وقت دونوں کے چہروں پر تکلیف سی براجمان تھی۔

"بولو باری باری دونوں، مالنی بھی یہیں ہیں۔ سب بدگمانیاں آج ہی دھل جائیں تو بہتر ہے، بتاو زونی تمہیں کیا مسئلہ سب سے زیادہ تکلیف دے رہا ہے، کس وجہ نے تمہیں مجبور کیا خانم حویلی چھوڑنے پر"

سب سنجیدہ تھے اور ضرار نے ہی دونوں پر باری باری نظر ڈالے پہلا سوال زونین سے کیا جو کرب میں مبتلا تھی، ہاشم کی طرف اس نے حسرت بھری نگاہ ڈالی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو اور یہ اس نے اور مالنی نے ایک سی شدت سے محسوس کیا۔

جبکہ مشارب خود تکلیف میں تھا، مشکل سے دوچار تھا۔

"بہت سی وجوہات ہیں ل۔۔لالہ، سب ہم نہیں بتا سکتے۔ فرخانہ خانم ہمیں اپنے شوہر کی موت کا س۔۔سبب سمجھتی ہیں، انہوں نے کہا ہم نے زمان خان کو کھا ل۔۔لیا اور اب ہم انکے بیٹے کو کھا جائیں گے، ہم نہیں جانا چاہتے ، اس گھر سے ہمیں وہشت ہوتی ہے۔ اور پھر تمام بدگمانیوں اور غلط فہمیوں پر سردار مشارب زمان خان تصدیق کی مہر لگا چکے ہیں، آپ خود ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ ہم پھر کیوں جائیں جب ہم انکے لیے ا۔۔اور خانم حویلی کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں"

وہ جتنا خود کو مضبوط کر رہی تھی اتنی ہی اسکی آواز آنسو نگل رہے تھے جبکہ زونی کے ان انکشافات پر ضرار، عالم بزدار، مالنی اور ہاشم تینوں نے بیک وقت مشارب کی طرف دیکھا جسکے چہرے کی رنگت بدل چکی تھی۔

"زونی کیا کہہ رہی ہے مشارب؟ اسکی بدگمانی دور کرنے کے بجائے تم نے مزید بڑھائی"

ضرار کا بس نہ چلا اٹھ کر سیدھا اسکا گریبان پکڑتا مگر اپنے غصے کو دبا گیا جبکہ یہی حال باقی تینوں کا بھی تھا۔

"زونی سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں پھر تمہارے ہر سوال کا جواب دوں گا ضرار"

وہ بھی جیسے زونی کے اس طرح اسے بے آبرو کرنے پر غصے سے بھرا اور ضرار تو ایسی اجازت قطعا نہ دیتا مگر بزدار عالم کا حکم تھا تبھی ماننا پڑا۔

"ہم نہیں ملنا چاہتے اکیلے میں ان سے دادا سائیں"

وہ لڑکی ستم کی حد کر رہی تھی جبکہ مشارب کے چہرے پر چھلک آتے لہو سے اسکا جبر کیا اشتعال واضع تھا، بزدار عالم نے ہی اسکا چہرہ تھپکائے قائل کیا اور خود وہ باقی تینوں کو لے کر کمرے سے باہر نکل گئے، اور اس سے پہلے زونین، اس سے بھاگ کر خود بھی کمرے سے نکلتی، وہ اسکی راہ میں نہ صرف آیا بلکہ بے دردی سے دروازہ بند کر کے پٹختے ہی اسکو بازو سے پکڑے دروازے سے لگا گیا جو ایسا ہی کچھ شدت بھرا امید کر رہی تھی۔

"کیوں ملنا نہیں چاہتیں آپ مجھ سے، مزید بے آبرو کریں گی؟ احساس بھی ہے آپکو کہ کس قدر اذیت دے رہی ہیں۔ کب تصدیق کی ہے مشارب نے اس ظلم کی زونی، میرے کہے لفظوں کو اس بری طرح سمجھا آپ نے، کیا کہہ رہی تھیں سب کے سامنے؟ وہ مجھ سے پوچھیں گے کیوں کیا اقرار، تو کیا کہوں گا۔ یہ تو ہمارے بیچ کی بات تھی ، آپ اسے سب کے سامنے کیسے کہہ سکتی ہیں۔ کیوں میرا امتحان لے رہی ہیں"

وہ بے یقین تھا، وہ لڑکی اسے بہت برا آزما رہی تھی اور خود زونین کا دل اسکی ان بکھری ہوئی تڑپتی باتوں پر تڑپا۔

"میرے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں، آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ کی ہے بے وفائی۔۔۔بھول گئے ہیں۔ہم نہیں بھولے اور نہ ہی بھول سکتے ہیں۔ ک۔کیسے مکر سکتے ہیں آپ؟ سب اگر م۔۔ہمیں زبردستی آپ کے ساتھ رہنے پر مجبور کریں گے تو ہم ہر بار ہمارے بیچ کی یہ بات سب کے سامنے لا کر رکھیں گے یاد رکھیے"

وہ سنگدل ہو گئی تھی، جیسے یہ بے وفائی کا نقطہ اسکے سوچنے سمجھنے کو گرہن لگا گیا ہو۔

"آپ بہت سفاک ہیں زونی، انتہائی سنگدل ہو چکی ہیں۔۔۔ یہ آپکا دل بھی جانتا ہے کہ سچ کیا ہے، میں آج کوئی صفائی نہیں دوں گا لیکن آپ یہ سب کر کے مجھے جس جہنم سے گزارنا چاہ رہی ہیں اسکی تپش سہنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک آخری بار کہہ رہا ہوں میرے ساتھ چلیں، میں آپکی ہر بدگمانی مٹا دوں گا۔۔۔ مجھے سب کے سامنے اتنا چھوٹا مت کریں پلیز"

وہ سردار بن کر اب خود بھی بدل گیا تھا پر اس لڑکی کے لیے وہ آج بھی صرف مشارب تھا، اسکی درخواست وہ اس وقت سننے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی کیونکہ زونی کا دماغ اس وقت کام کرنا چھوڑ چکا تھا۔

"جی بلکل ویسے مٹائیں گے ناں جیسے پہلے مٹائی، بہت شکریہ ضرورت نہیں آپکے اس احسان کی۔ ہمیں آپ کے ساتھ نہیں جانا، زبردستی کریں گے تو ہم بزدار حویلی سے بھی بھاگ جائیں گے۔ ہم کسی ثبوت اور دلائیل کو نہیں مانتے، ہم صرف آپکا کہا سنتے اور مانتے تھے مشارب ، اور آپ نے خود کہا سب، اسی منہ سے کہا۔۔۔۔۔جھٹلائیں گے کیا؟ آپکا ایک ایک لفظ ہمارے دل پر درج ہے"

وہ کسی صورت ماننے پر راضی نہ تھی اور مشارب کا صبر بھی بس یہیں تک تھا۔

"ٹھیک ہے اگر میں نے کسی کمزور لمحے یہ بکواس کر ہی دی ہے تو فائن، کی ہے بے وفائی۔ اور آپکو میری اس بے وفائی کو معاف کر کے میرے پاس اگلے ہفتے رخصت ہو کر آنا ہوگا،بظاہر سب کے نزدیک ابھی اس کمرے سے نکلنے کے بعد ہمارے بیچ سب ٹھیک ہو جائے گا، اگر آپ نے ہمارے بیچ کے ذاتی مسئلے کو سبکے سامنے مزید بے آبرو کیا تو میرا بہت بھیانک روپ دیکھیں گی اور وہ روپ آپکی نازک جان برداشت نہیں کر سکتی۔سن رہی ہیں؟ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اپنی جان لے لوں گا، پھر ساری عمر ڈھونڈتی رہیے گا، واپس نہیں آوں گا"

اس لڑکی کے آگے مزید جھکنے کے بجائے وہ غلطی پر مزید غلطی کر گیا اور اسکا یہ روپ زونین کی نیلی آنکھوں میں سمندر بھر گیا، وہ کتنی دیر بھرائی بے یقین نظروں سے اس ظالم بنے سردار کو دیکھتی رہی۔

"آ۔۔آپ ہمارے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے، ہ۔۔ہم آپکو معاف نہیں کریں گے"

وہ اسے خود سے پرے دھکیلتی پست سا چینخی جو اسکی کلائی جکڑ کر سختی سے واپس روبرو لائے جھٹکا دے چکا تھا، اس وقت مشارب زمان خان کا دماغ سخت گھوما ہوا تھا۔

"وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں، آپکی معافی گئی اب بھاڑ میں۔ مجھے خود ہی اس سختی پر اکسا چکی ہیں آپ۔ آپ میری غیرت کو للکار کر مجھ سے بچ نہیں سکتیں، جس طرح آپ نے سب کے سامنے منہ پھاڑ کر ہمارے بیچ کا ذاتی معاملہ بیان کیا تھا، جی تو یہی چاہ رہا تھا آپکی جان لے لوں اسی وقت۔ خبردار زونین اگر رخصت ہو کر مجھ تک آنے تک آپکی آنکھ سے ایک آنسو بھی نکلا، اگر آپ نے یہاں سے بھی بھاگنے کی جرت کی تو پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا، آپ کہیں بھی جا کر چھپ جائیں، آپکو مجھ سے کی اس زیادتی کا ہر صورت بدلا چکانا ہے"

وہ بہت زیادہ شدت پسند ہو رہا تھا اور اس وقت اسے زونین کے رونے سسکنے کی بھی کوئی پرواہ نہ تھی۔

"آ۔۔پ ۔۔۔۔"

وہ روتی ہوئی سسکی مگر مشارب کی خونخوار نظر اسکو خاموش کروا گئی۔

"کچھ نہیں بولیں گی، ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا۔ اب چلیں باہر اور چہرے پر مسکراہٹ لائیں۔ میری نافرمانی کریں گی تو بھول جاوں گا کہ آنکھوں کا نور بنایا تھا آپکو، لٹس گو"

وہ اسے جھاڑ رہا تھا، اور وہ بمشکل سارے آنسو اندر آنکھوں میں دباتی اسے درد بھرے انداز میں دیکھتے ہی اسکے دروازہ کھولنے پر باہر آئی تو مشارب کی دھمکی کے مطابق اس نے سب کے سامنے اپنی تمام بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دور ہونے کا کہہ کر ان چاروں کو ہی ورطہ حیرت میں ڈال دیا، مالنی، ہاشم اور بزدار عالم تینوں خوش تھے، یقین بھی کر چکے تھے پر ناجانے کیوں ضرار کو یہ معاملہ اتنی جلدی سلجھ جاتا کچھ ہضم نہ ہوا پھر اس نے زونی کی سرخ آنکھیں بھی گہرائی سے بھانپیں، مشارب بھی اکھڑا ہوا تھا اور پھر وہ وریشہ اور اشنال کے باہر آنے کے بعد وریشہ سے جانے کا پوچھتا اسکے ہامی بھرنے پر اجازت لیتا اسے ساتھ لیے واپس چلا بھی گیا، پانچ دن بعد رخصتی طے تھی، اور وہ کہہ کر گیا تھا کہ پانچ دن بعد زونین کو لینے آجائے گا جبکہ پانچ دن بعد ہی مالنی صاحبہ کی ہاشم صاحب کے کمرے میں رخصتی رکھی گئی، ضرار اور اشنال کا ولیمہ مقرر ہوا اور ابھی تو ضرار اس معاملے میں الجھا ہوا تھا مگر وہ گل اور جبل زاد کے سرپرائز نکاح کا بھی ارادہ بنائے ہوئے بیٹھا تھا۔

سب زونی اور مشارب کے پیچ آپ پر خوش تھے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ کس قدر قہر اترنے والا ہے، ضرار کی چھٹی حس اسے بتا چکی تھی کہ کچھ تو گڑبڑ ہے تبھی وہ سب کو مسکرا کر باتیں کرتا دیکھ کر سارا وقت خاموش ہی نظر آیا۔

کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مجھے کچھ نہیں پتا ولی، دیکھو اس نے مجھے بلاشبہ ہر دھندے میں شامل کیا ہوگا پر مافیا کا کوئی راز نہیں دیا، وہ بہت شاطر آدمی ہے۔ تم سے پہلے والا اس شہر کا تھانیدار بھی اسی وجہ سے بے موت مر گیا تھا کہ اس نے سیٹھ گونی کے تمام دھندوں تک رسائی پا لی تھی۔ تمہیں کنزا کا بھتیجا ہونے کے ناطے ایک پرخلوص مشورہ دوں گا کہ ابھی بھی وقت ہے، پیچھے ہٹ جاو ورنہ مارے جاو گے۔ شہیر اور ونیزے کو جلد اسکے لوگ مار دیں گے ، مجھے بھی اس نے پکڑوا دیا کیونکہ میں بھی اسکے لیے ایک مہرہ تھا"

ولی کے دو جلاد جب اپنے ہاتھوں کی بھرپور میل اتار کر سیٹھ طلال کو اسی کے لہو میں نہلانے کا کام پورا کر چکے تو تب ولی اندر پہنچا اور چھترول والے اسی کمرے میں پہنچ کر اس نے جب کرسی گھسیٹ کر سیٹھ طلال کے سامنے بیٹھ کر اس پر خونخوار نظر ڈالی تو وہ زخموں سے کراہتا خبیث فر فر بولتا گیا اور اسکا ہر لفظ ولی کے ماتھے پر پڑی شکنوں کی تعداد بڑھاتا رہا۔

"بڑی جلدی عقل آگئی تجھے کہ سیٹھ گونی جیسے لوگ کسی کے سگے نہیں ہوتے پر تو نے بھی کم گناہ نہیں کیے، تیرا سب سے بڑا گناہ سرمد کو موت کے راستے پر لانا تھا، وہ کنزا، اپنے ساتھ بیٹی کے بجائے بیٹا لائی تھی اور تو نے اس بچے کے اندر اپنی ساری گندگی بھر دی اور آخر کار وہ بے موت مارا گیا، مجھے مشورے دینے کہ بجائے تو اپنی زندگی کے اب بقیہ دن گننا شروع کر دے طلال! کیونکہ کل عدالت تجھے ریمانڈ پر بھجھوا دے گی، وہ اس سے بڑے جلاد ہیں جو تیرے اندر دفن ہوا ہر راز خود اگلوا لیں گے۔ میں تیرے بچاو کے لیے چاہتا بھی تو کچھ نہ کرتا کیونکہ ہمارے خاندان کی بربادی میں ایک بڑا حصہ تیرا بھی ہے"

وہ یہاں صرف طلال کی عبرت دیکھنے آیا تھا، ولی کا وہ خواب بہت جلد پورا ہونے کے قریب تھا جس کے لیے اس نے دن رات محنت کی تھی، مافیا پر ہاتھ ڈالنے جیسا رسک اب تک کسی پولیس کے بندے نے نہیں لیا تھا کیونکہ اس میں صرف موت تھی مگر اس نے لیا، تاکہ دوبارہ کوئی عورت کنزا نہ بنے، طلال اور گونی جیسے ناسور جب تک زندہ تھے، گھر سے بھاگی ہوئی عورتوں کے نصیب کنو بائی بننے تک آکر رکنے تھے اور اب جب شہیر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا تو ولی نے بھی ان سب غلیظوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

"خدا کے لیے انسپیکٹر مجھے بچا لے"

وہ آج سسکا تھا کیونکہ اب گردن کے گرد پڑا طوق گھٹ چکا تھا۔

"بچانے والی ذات صرف اللہ کی ہے، میں اسکے احکامات کے مطابق تجھ جیسی گندگی کو فقط انجام کے رستے پہنچانے پر ہی قادر ہوں۔ اب کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی طلال سیٹھ، اب صرف سزاوں کا وقت ہے۔۔۔لے جاو اسے اور صبح عدالت میں خاضری تک قید خانے میں بند کر دو"

چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ان سبکو عدالت میں پیش کیا جانا تھا مگر بروقت آتی عدالتی چھٹی کے باعث معاملہ کل تک پہنچ چکا تھا ، خود بھی اس پژمردہ وجود پر حقارت بھری نگاہ ڈالے ولی انویسٹیگیشن روم سے باہر نکلا اور اپنے کیبن تک پہنچا، طبعیت عجیب بوجھل ہو رہی تھی۔

وہ صبح آنے سے پہلے گھر کے باہر چار سول لوگ سیکورٹی کی صورت تو نافذ کر آیا تھا مگر اسے پھر بھی ونیزے کی فکر محسوس ہوئی، زیادہ فکر اس لیے بھی تھی کہ وہ اسے صبح روتے ہوئے چھوڑ آیا تھا۔

ولی نے میز پر دھرا اپنا فون اٹھایا اور ونیزے کا نمبر ملایا جو صبح سے اب تک بوجھل تھی، ناشتہ اس نے کیا تو تھا پر اداسی اتنی حاوی تھی کہ وہ اسکے بعد سے اب تک باہر لان میں نکلی دھوپ میں سبز گھاس پر بیٹھی تھی، خلاوں کو تکتی ہوئی، فون اسکا کچھ قریب ہی رکھے میز پر تھا تبھی بجنے پر وہ گہرا سانس لیتی اٹھی اور ولی کا نام دیکھتے ہی اس نے کال اٹھائی۔

"ونیزے! تم ٹھیک ہو؟"

پہلا سوال ہی فکر سے لبریز تھا۔

"جی ٹھیک ہوں"

وہ آواز سے بجھی سئ لگی، ولی نے کرسی سنبھالی اور ساتھ ہی آفس میں اجازت لے کر آتے اہل کار کو دیکھا جو ولی کے لیے دن کا کھانا لایا تھا مگر ولی نے اسے بے دلی سے کھانا لے جانے کا اشارہ کیا تو اہل کار ساتھ ہی ٹرے واپس لیے اسکے کیبن سے نکل گیا۔

"کچھ چاہیے تمہیں؟ مطلب تمہارے کپڑے وغیرہ"

وہ کچھ الجھا تھا تبھی اس نے فوری اپنی بات کی وضاحت کی۔

"گھر میں ہیں کپڑے، کی لے جائیں گھر کی مجھ سے اور لے آئیے گا۔"

وہ تکلف اور جھجک کا شکار تھی۔

"اب تم وہ فضول پھٹی جینز اور اڑی ترچھی ٹاپس نہیں پہنو گی ونیزے، میں لے آوں گا اپنے مطابق تمہارے نئے کپڑے۔ اور کچھ چاہیے تو بتا دو؟"

وہ جس طرح رعب سے بولا، وہ ناچاہتے ہوئے بھی مسکرائی کیونکہ اس شخص کی پسند میں ڈھلنے سے بہتر کچھ نہیں تھا اس لڑکی کے لیے۔

"میرے پاس سب ہے اب آپکی صورت، کچھ نہیں چاہیے"

وہ جذبوں سے بھرا جواب تھا، اس میں بے حد مان تھا، محبت تھی، اور ولی کا دل پھر سے اس لڑکی کا سامنا کرنے کا سوچ کر ہی بوجھل ہو رہا تھا۔

"چلو ٹھیک ہے ملتے ہیں"

وہ بیزاری سی محسوس کرتا اس سے پہلے کال بند کرتا، وہ کہنے کو بے قرار ہوئی تبھی ولی نے فون کاٹتے کاٹتے خود کو روکا۔

"اگر آپکا دل میری صورت دیکھنے کو راضی نہ ہو ولی تو خود کو جبر سے مت گزاریے گا۔ مجھے پتا ہے آپ کی کوئی خوشی میرے ساتھ وابستہ نہیں ہے سو آپکی تنہائی یا پرائیویسی میں ونیزے حسن بلکل مداخلت نہیں کرے گی، آئی پرامسس"

وہ یہ کہہ کر خود ہی کال بند کر گئی اور ولی نے فون کان سے ہٹائے اک نظر اس بند کال کو دیکھا، بات تو اس لڑکی نے ٹھیک کی تھی اور شاید اپنی طرف سے ولی زمان خان کو اپنے نام کے کرب سے دور کیا تھا پر وہ خود کو مزید افسردہ سا محسوس کر رہا تھا۔

زندگی کے رنگ ختم سے محسوس ہو رہے تھے، وہ بہت مضبوط اعصاب و حواس کا مالک تھا، مگر وہ مسلسل اذیتوں اور تکلیفوں سے اب خود بھی تھک گیا تھا، اسکا دل نڈھال تھا، کسی سے شدید محبت کرنے کا صلہ اسے کسی کی خود سے وابستہ شدید چاہت کی صورت ملا تھا، کیا یہ تجارت نقصان دہ تھی؟

پھر وہ محبت ہی کیا جس میں لین دین ضروری ہوتا ہے، ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو، بس دیتے رہو، بانٹتے رہو، یونہی اسکی زندگی بھی اب سکوت چاہتی تھی۔

ولی زمان خان اپنے سب خساروں پر جتنا بھی دلگرفتہ ہوتا، وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ دل قیمتی ہوتے ہیں، انمول ہوتے ہیں، ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ان کو بے مول ہونے سے بچانا چاہیے۔ اور یہی وہ ونیزے حسن کے دل کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کر رہا تھا۔

کیا ہوا ہے میثم؟"

سب وہیں لاونچ میں ہی براجمان خوش گپیوں میں مصروف تھے جب میثم ، اپنے اہم آدمی کی آتی کال سننے بزدار حویلی کے لان میں چلا آیا ، لیکن اسکے بعد کال بند ہونے کے باوجود وہ وہیں ٹھنڈے موسم میں ہی کھڑا زونی اور مشارب کے معاملے اور انکے تاثرات پر غور و فکر کرنے لگا۔ ضرار کو اس وقت شدید اضطراب نے گھیر رکھا تھا کیونکہ جس معاملے میں اسکا دل راضی نہ ہو وہ اسکی نیند اور چین یونہی اڑا دیتا تھا، تبھی عقب سے آتی اشنال کی آواز پر وہ اپنی تمام الجھاتی سوچیں جھٹک کر پلٹا تو بیگم صاحبہ جناب کے چہرے کے الجھے زاویے بھانپ کر پیچھے چلی آئی تھیں اور فکر سے دریافت کرنا چاہ رہی تھیں، وہ اسکے روح افزاء سراپے اور تھوڑے مرجھائے چہرے کو مخمور ہو کر تکتا پلٹا اور اشنال کے دونوں ہاتھ تھامے۔

"کچھ خاص نہیں ایک اہم کال تھی ، خیر چھوڑیں، آئیں روم میں آپکو آپکی منہ دیکھائی دینی ہے"

وہ تھوڑا سنجیدہ اور متفکر لگ رہا تھا تبھی وہ اسکے ہاتھ پکڑنے پر دانستہ چہرے پر شرارت سجائے اسکا ہاتھ اپنی طرف کھینچتی رکی۔

"صرف منہ دیکھائی ہی دو گے ناں؟ پرامس کرو"

گزری رات کی خماریاں تھیں کہ ڈر بن کر محترمہ کے انگ انگ سے لپٹی تھیں تبھی وہ تمام پریشانی کے اس لڑکی کے فطری خوف پر مخظوظ ہوا۔

"بہت ظالم ہیں آپ ویسے، منہ دیکھائی ہی دوں گا۔۔۔لٹس گو"

معصومانہ سا شکوہ کیے وہ اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتا اپنے ساتھ لیے اندر بڑھا تو اشنال نے بھی چہرے پر پرسکون مسکراہٹ سجائی، کمرے میں پہنچتے ہی ضرار نے اسکا ہاتھ آزاد کیا اور خود کبرڈ کی جانب بڑھا، اشنال بڑے تجسس کے سنگ اسکا کبرڈ تک جانا، اسے کھولنا اور پھر ایک بہت خوبصورت مخملی ریشمی سا باکس نکال کر اسکی طرف لانا دیکھتی مسکرائی جو عین اشنال کے قریب رکتا اسے ڈریسنگ کی طرف لایا اور آئینے کے سامنے کھڑا کیے خود اس نے وہ باکس ڈریسنگ پر رکھتے ہی پہلے اشنال کو پشت سے اپنی بازووں میں بھرا۔

"پہلے یہ بتائیں کتنے لیٹر آنسو بہائے ہیں بچھڑی بہن سے مل کر؟"

وہ دنیا جہاں کی سب سے پیاری آنکھیں رونے سے بجھی تھیں تبھی تو اسکے سوال پر وہ پھر سے افسردہ سی ہوئی۔

"بہت سارے، دل تو میرا اسکے لیے اب بھی رو رہا ہے میثم۔ تمہیں پتا ہے وہ شہیر سے محبت کر بیٹھی ہے، اسکے لیے بہت تڑپ رہی تھی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے میثم کہ ایک اچھی لڑکی کا نصیب ایک بڑا لڑکا بن جائے۔۔۔"

جو سچائی اسے ضرار نے بتائی تھی اسکے مطابق وہ شہیر کو برا ہی سمجھ رہی تھی لیکن اشنال کی فکریں چونکہ اب ایک بہن کی طرح لگاو اور لگن سے وابستہ تھیں تو ضرار کو لگا کہ یہی مناسب وقت ہے کہ وہ اسے تمام سچ بتائے۔

اور یہی ہوا، جب ضرار نے اسے شہیر مجتبی کی اصل حقیقتوں سے روشناس کروایا تو وہ جھٹکے سے اسکے نرم بنائے حصار میں ہنوز لپٹی ہی پلٹی اور کتنی ہی دیر بھرائی آنکھوں سے ضرار کو تکتی رہ گئی، خود وہ بھی شہیر کے سچ زبان پر لا کر افسردہ ہو گیا تھا۔

"یا میرے اللہ! اتنا سب۔۔۔ ٹھیک کہتے ہیں حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے، اسے بھی حسد نے کھوکھلا کر دیا۔ میثم لیکن ایک بات نوٹ کی تم نے، محبت میں ایک روح اپنی دوسری ہم نفس روح کو ہر صورت تلاش کر لیتی ہے۔ جھنیں زمین پر اتارتے ہی الگ کیا جاتا ہے پھر وہ ساری زندگی ایک دوسرے کو تلاش کرتی ہیں"

وہ ٹوٹے بکھرے لفظوں میں جو بھی ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی، ضرار نے اسکے حرف حرف کی پورے تقدس کے سنگ تائید کی، اسکا حرف حرف سچ تھا اور اب جب ضرار کو وریشہ کے جذبات معلوم ہوئے تو اسے شہیر کے لیے بہت برا محسوس ہوا۔

"جی میری جان! ایسی ہی تو ہوتی ہے محبت، جس میں چننے کا اختیار ہی دل اور روح کو دیا جاتا ہے، اب آپ خود دیکھیں جس وقت ان دونوں کو محبت ہوئی، وریشہ کے نزدیک وہ برا تھا، لیکن حقیقت برعکس نکلی۔ مجھے بھی بہت دکھ ہوا تھا جب شہیر کے دل میں اس لڑکی کے لیے محبت محسوس کی تھی، اس وقت میں نے جانتی ہیں کیا سوچا تھا کہ اس بدقسمت پر یہ وار ہونا بھی باقی تھا کیا، اس آدمی نے میرا جتنا بھی برا کیا ہو، میں اس سے آج بھی نفرت نہیں کر سکا پھر جھنیں محبت کا روگ لگے ان سے نفرت کرنی بھی نہیں چاہیے"

وہ گہرا انسان تھا، اسکے اندر احساس تھا اور تبھی تو اشنال عزیز نے ساری دنیا کو چھوڑ کر اس سر پھرے کو چنا تھا، وہ افسردہ سا مسکرائی تو ضرار نے اسکی خوبصورت آنکھیں جھک باری باری چومیں پھر سینے سے لگا کر باہمی احساس سکون کو اپنے اندر اتارا، آنکھیں لمحہ بھر موند کر اس خوشبو کو دل کی شادابی بنایا۔

وہ بھی ان بازووں میں ہر فکر سے آزاد ہو جاتی تھی پھر جیسے اس نے بے خود سی نظر اٹھا کر میثم پر ڈالی تو وہ اسکے تقاضے بھانپ کر سنجیدہ ہوا، یہ لڑکی اسکے قریب آتے ہی سارے فرار رد کر دیتی تھی، ساری پابندیاں ہٹا کر اس شخص کی دنیا تہہ و بالا کر دیتی تھی۔

"ایسے مت دیکھا کریں، پھر دل چاہتا ہے اٹھا کر دل میں قید کر لوں آپکو۔۔۔منہ دیکھائی تو رہ ہی گئی"

وہ جس طرح اسے دیکھتی تھی، وہ شرطیہ کہہ سکتا تھا کہ ایسی نظریں اسے اور کہیں سے میسر نہیں ہو سکتیں، وہ بھی اپنی چاہتوں کی فہرست پر پھوار کی طرح مہربان لمس پر گدگداتا ہنسی مگر پھر ضرار نے اسے خود وہ باکس کھولنے کا اشارہ کیا تو وہ واپس اسکے مہکتے ، دل دھڑکاتے حصار میں پلٹی اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے وہ ریڈ باکس کھولنے لگی۔

اس میں بہت خوبصورت سیاہ ہیروں سے جڑا ہوا خاندانی بیش قیمتی ہار تھا اور ساتھ ویسے ہی ائیر رنگز اور اشنال اسے دیکھ کر ستائشی مسکائی، اپنی لابنی مخروطی انگلیاں اسکی تراش پر پھیرنے لگی۔

"بہت خوبصورت، یہ بہت پیارا ہے میثم۔۔تمہاری آنکھوں جیسا سیاہ مگر چمکتا ہوا"

وہ تو گرویدہ ہو گئی تھی اور ضرار اس ہار کو دیکھ کر بوجھل سا ہوا۔

"جانتی ہیں تب بارہ سال کا تھا جب مما نے کہا کہ سنبھال لو اسے، یہ تم اپنی بیوی کو دینا۔ اور اسے کہنا اسکی شان کو اپنی گردن پر سجا کر دگنا کر دے، وہ میری طرح بہت سر پھری تھیں، بھلا بارہ سال کے بچے کو کون ایسی خاندانی شے تھماتا ہے"

اس سے جڑا ضرار کا بچپن جان کر وہ بھی افسردہ سی وہ ہار نکال کر اسے پہناتے ضرار کو دیکھتی پلٹی جو مما کو یاد کیے دکھ میں مبتلا تھا تبھی اشنال نے اپنے دونوں ہاتھ ہتھیلیوں کے سنگ اسکی گالوں سے لگائے۔

"مما یاد آتی ہیں؟"

وہ خود تکلیف میں تھی کیونکہ اسے نورے بہت یاد آتی تھیں۔

"ہمم، بہت۔۔۔ دادا سے پہلے کافی سال تک وہی میری بیسٹ فرینڈ رہی تھیں، بہت سر پھری تھیں تبھی تو بخت جیسے سے سر پھوڑ بیٹھیں۔۔۔ سر پھرے لوگ بہت سی غلطیاں کر گزرتے ہیں ، انہوں نے بھی کی ہوں گی جسکا صلہ بخت چوہدری ملا۔ کچھ نہیں رکھا میرے بچپن میں، چھوڑیں"

وہ خود کو کمزور کرتے حوالے بھول جانے پر یقین رکھتا تھا مگر وہ اسے ، اسکی ہر کمی کو جاننا چاہتی تھی۔

"بخت انکل کیا واقعی بہت برے تھے؟"

وہ جیسے کچھ سوچ کر بولی کیونکہ اس نے تو اپنے اردگرد بخت چوہدری کے خلاف صرف برا ہی سنا تھا اور ضرار اسے حصار سے آزاد کرتا چلتا ہوا صوفے پر جا بیٹھا تو وہ بھی بے قراری سے لپک کر اس کے پاس ہی آکر بیٹھی، وہ اسکے لیے بہت رنجیدہ لگی۔

"انتہائی برے، مما کو جانوروں کی طرح پیٹتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایسا کوئی دن نہیں تھا جب نائمہ چوہدری کے چہرے پر نیل پڑے نہ ملتے، وہ ان سے تُو کر کے بات کرتے، پہلے وہ محبت کے ہاتھوں اس سنگدل کے آگے زلیل ہوتی رہیں پھر جب وہ کنزا کو بیاہ لائے پھر مما نے بھی اپنی بچی کچی عزت نفس سمیٹ کر علیحدگی اختیار کر لی، لیکن اس کے باوجود وہ آگے نہ بڑھ سکیں، بخت نے انکا دماغ ، دل، ہوش سب کھا لیا تھا۔ اور مجھ سے اس بخت نے جیتے جی ہی میری ماں چھین لی، تبھی تو اماں فضیلہ نے پالا، گندا بچپن تھا، ایسا کسی دشمن کا بھی نہ ہو۔۔۔۔ میں نے جس دن آپ کو پہلی بار دیکھا تھا اشنال عزیز اسی دن سوچ لیا تھا کہ آپ کو اتنی عزت اور محبت سے اپنے پاس رکھوں گا کہ دنیا رشک کرے گی، اور میں اپنے بچوں کو بہت خوبصورت سا بچپن دوں گا، جو سیاہی میثم ضرار چوہدری کی آنکھوں نے دیکھی ہے اسکا سایہ بھی میں اپنی زندگی پر پڑنے نہیں دوں گا"

وہ بہت مضبوط تھا پر اسکی زندگی میں جو یہ سیاہی تھی وہ اسے توڑ دیتی اور اس وقت بھی اشنال نے اپنی بازو اسکے گرد باندھ کر اس کے سینے میں سمٹ کر اسے یہ بتایا کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گیا ہے۔

"میں تمہیں آپ نہیں کہہ سکتی میثم، مجھے عادت نہیں۔ تمہیں برا تو نہیں لگتا؟"

وہ اسکا دھیان بٹانے کو خود ہی مخملی لپجے میں مان سا ملائے بات بدل گئی اور جناب نے بھی مسکرا کر اس چہرہ اٹھا کر تکتی حسینہ کو دل دھڑکاتے دیکھا۔

"میں آپ کو 'آپ جناب' کہنے کی اجازت دوں گا بھی نہیں، آپ جب مجھے 'تم' کہتی ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے مجھ پر حاکم ہے یہ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی، اور جب آپ میثم کہتی ہیں پھر تو جو جذبات امڈتے ہیں انکو تو بیان بھی نہیں کر سکتا۔ "

وہ اتنے خوبصورت، شیریں اور دل موہ لیتے الفاظ ناجانے کہاں سے سمیٹ لاتا تھا اور وہ لڑکی اپنی اتنی اونچی قسمت پر ہر سانس کے ساتھ شکر گزار تھی۔

"میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں میثم، تم اداس کبھی مت ہونا۔ اور میں تمہیں 'تم' کہہ کر جب پکارتی ہوں تو مجھے زیادہ اپنے لگتے ہو، دوست، ایسا دوست جو اس ایک زندگی میں صرف ایک ہی ہوتا ہے"

اظہار ان دو کے کچھ الگ تھے، اقرار بھی الگ تھے اور محبتیں شدتیں تو انکے ہر موں سے عیاں ہوتی تھیں۔

"آپ کو میری ہر عادت پسند ہے؟"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکا تو محترمہ نے اتراہٹ سے سر ہلایا۔

"ہاں، ہر عادت"

وہ الوہی مسکراہٹ تھی، جس میں خوشی کا جہاں چھپا تھا۔

"جذباتی ہوں تھوڑا، آپکے بابا پر کافی بار ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔ اسکے لیے معاف کر دیں۔ اس بندے نے تو قسم اٹھا رکھی تھی، بھلے میرے ہاتھوں سے مر بھی جائے، اف نہ کرے گا۔ آپ اپنے بابا جیسی تو نہیں ہیں، ظالم فیکٹر کہاں سے لائی ہیں بائے دا وے"

اسکی سب سے اچھی بات یہی تھی کہ وہ اپنی غلطیوں کا نہ صرف اعتراف کرنا پسند کرتا تھا بلکہ انکو سدھارتا بھی تھا، وہ پھر سے ہنسی۔

"ظالم تو نہیں ہوں، ابھی تو پہلا دن ہے۔پوری زندگی میرے ساتھ گزارو گے تو جان جاو گے کہ بابا جیسی مربان ہی ہوں کیونکہ نورے اور عزیز دونوں ہی مہربان روحیں ہیں، تم لکی ہو تمہیں اشنال عزیز ملی"

اسکی اتراہٹ بنتی تھی اور وہ اس کا قائل تھا، اس نے اشنال عزیز کی مسکراتی آنکھیں شدت سے ہونٹوں کے لمس سے گلنار کیں اور پھر دھڑکنیں بڑھانے کو اسکے ہونٹوں کو تکتے ابرو اچکاتا اسکی شریر آنکھوں میں جھانکا۔

"اور آپ لکی نہیں ہیں؟"

وہ منصوعی خفگی سے بولا جس پر اشنال نے اسکی گال پر پیار دیتے ہی شرمگیں مسکراہٹ کے لمس کو اپنے ہونٹوں سے ملائے سر ہلایا۔

"میں تو لکیسٹ گرل ہوں، سنو!"

جواب کے ساتھ سوال کا ستم ڈھاتی وہ میثم کے دل کو دھڑکا بیٹھی۔

"سنائیں میری جان"

اور وہ تو آنکھوں کو ہی سماعت بنائے بے خود ہوا، سانسیں ہر بوجھ سے آزاد ہو کر ایک دوسرے کو مہکا رہی تھیں۔

"تم کیوں نہیں کہتے کہ پیار کرتے ہو، کبھی آئی لوو یو نہیں بولا۔۔۔۔ایسا کیوں؟"

وہ فطری طور پر اس شخص کا لفظی اظہار بھی چاہتی تھی اور جناب اس پر بے خودی پرے کیے بے اختیار ہنس پڑے۔

"آپکو نظر لگ جائے گی اس سے، اور میں آپکو نظر لگنے نہیں دے سکتا۔ "

وہ آئی لوو یو سے زیادہ جاندار جواب دیتا اسکی مسکراہٹ چرائے ان عارضوں پر سرخیاں بکھیرتا اسکے ریشم کی طرح کھلے ملائم بالوں میں انگلیاں سہلاتا صرف اسی کی آنکھیں تسخیر کر رہا تھا۔

"میثم"

وہ خود اسکی آنکھوں میں اس ستم کے بعد گہرائی سے ڈوب گئی۔

"سنیں! یہ آپکا خمار آشنا کیف۔۔۔

نرم و مسلسل

مجھے لذتوں کے عمق میں لیے جا رہا ہے

میں پل پل کبھی

لحظہ لحظہ کبھی

دھیرے دھیرے کبھی

لمحہ لمحہ کبھی

ایک دریا کے پھیلاؤ میں ڈوبتا جا رہا ہوں

شرابور طوفان میں تند لہروں کی صورت

نشیلے سمے

ایک آہنگ کے ساتھ ہچکولے کھاتا ہوا

میں کسی سوچ کی رو میں بہتا چلا جا رہا ہوں

مرا دل، مری جاں:

دونوں ہی موسوم ہیں، اس تموج سے

جو میری نس نس میں پیہم مچلتا ہوا

خون کے زیر و بم کی کہانی سناتا ہوا

بہہ رہا ہے

کہ جس کے ہر ایک لمس کی

لذتوں، ذائقوں میں

آپکا کوئی خواب ہے

جیسے مہتاب ہے

آپ تو میرے بدن کا کوئی پارۂ خاک ہیں

میری ہم زاد!

ہم کشتیٔ زیست کے بادباں کی طنابیں ہیں دو

ایک آپ، ایک میں

جن کا محتاج ہے بادبان نفس

یہ زمیں، یہ زماں

میرے ہی عہد کی داستاں

ہم سے آباد دائم بساط جہاں"

محبت بینائی تھی تو عشقا سماعت بنا، وہ اس سے دور جانا نہیں چاہتی تھی پر اس سکون آویز آغوش میں اسکی آنکھیں نیند مانگ رہی تھیں، اور خود ضرار نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ وہ کچھ دیر سو لے۔

"نیند آگئی ہے؟ آنی بھی چاہیے۔ آپ سے رات کو سونے کا اختیار جو چھین لیا تھا۔ ایسا کریں جا کر ریسٹ کریں میں بھی کام وام دیکھ لوں۔۔۔ رات ڈنر کہیں باہر کریں گے تب تک سو کر فریش ہو جائیں"

وہ واقعی تھکی ہوئی تھی اور اس مہربانی پر تو اسے ضرار پر بہت پیار آیا۔

"یہیں رکو، جب سو جاوں تو چلے جانا۔۔۔یہاں تمہارے دل کی دھڑکن سنتے ہوئے اچھی نیند آئے گی۔۔۔جب تک سو نہ جاوں، جانا مت میثم ورنہ پھر اچھے خواب نہیں دیکھ پاوں گی"

وہ خمار آلود لہجے سے ضرار کو تڑپا رہی تھی جو ابھی بھی اس لڑکی کے خواب دیکھنے پر تھوڑا جیلس ہوا۔

"اچھے خواب مت دیکھیں، اب صرف مجھے دیکھیں۔۔۔ نہیں جاوں گا، آپ کہیں تو آپ کے نیند لے کر اٹھنے تک یہیں بیٹھا رہوں گا، آپ کو اتنے قریب سے مسلسل دیکھنے سے بڑا سکھ کوئی نہیں صنم"

وہ اسکی پیشانی چومتا اسے مزید آسودگی کے جہاں سے ملوا رہا تھا، وہ آنکھیں دھندلا گئی تھیں پھر بھی وہ اسے دیکھ کر مسکرائی اور آنکھیں بند کر گئی۔

اس شخص کے بقول قید کرلینے چاہیں ایسی انمول خوشیوں کے لمحات کو, محبت کرنی چاہیے ٹوٹ کر اور من پسند عورت کا محبوب ٹھہریں!اسکی نظر میں یہی واحد حقیقت تھی دنیا میں, باقی سب نادانی تھی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ تھانے سے سیدھا مال چلا گیا، اپنی پسند کے وہ ڈریس تو لے رہا تھا پر اپنی غائب دماغی پر اسے شدئد غصہ آیا کہ اگر ڈریسیز بڑے چھوٹے ہو گئے؟ ایک بار اسکا دل ضرور چاہا کے ونیزے کو کال کرے، اس سے اسکے فیورٹ کلر ہی پوچھ لے مگر پھر معیوب محسوس کرتا خود ہی اسکے سراپے کو امیجن کرتے ہوئے بس چار ڈریس لیے، اپنی سوچ کے مطابق باقی ضروری چیزیں خریدتا وہ پورے دو گھنٹے بعد مال سے نکلا۔

"کتنا مشکل ہے لیڈیز شاپنگ کرنا، آئیندہ یہ شاپنگ کی مصیبت اپنے گلے مت لینا ولی، تمہارے بس کا نہیں ہے یہ"

خود کی سرزنش کرتا وہ جب مال کے پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی تک پہنچا اور شاپنگ بیگز پیچھے رکھے مڑا ہی تھا کہ عقب سے نمودار ہوتے تین عدد آدمیوں نے ایک ساتھ موقع ملتے ہی اپنے ہاتھوں میں پکڑے بڑے بڑے ڈنڈے ولی کے سر پر مارنے چاہے مگر ایک وہ ولی نے خود گردن سے دبوچ کر پچھاڑا دوسرے کو اسکا سکیورٹی گارڈ مکا دے کر وہیں زمین پر پٹخ گیا جبکہ تیسرے کے ہاتھ میں پکڑا چاقو اس نے اس تیزی سے چلایا کہ ولی کے بروقت بچاو کے باوجود وہ تیزی سے ولی کی بازو پر گہرا کٹ چھوڑ گیا اور اسے گارڈ کی طرف دھکیلتے خود ولی نے اپنی بازو سے نکلتے خون پر دوسرے ہاتھ کی مضبوط ہتھیلی جمائی اور خونخوار نظر کے سنگ ان دو بیہوش مسٹنڈوں پر نگاہ ڈالتا وہ اپنے گارڈ کے قبضے میں دبوچے اس تیسرے پھنکارتے آدمی کی طرف بڑھا جیسے یوں محسوس ہوا کے موت اسکے قریب بڑھ رہی ہو۔

"کس کے کہنے پر کیا یہ سب تو نے؟"

اپنی بازو سے نکلتا خون جو اسکی ہلکی آسمانی شرٹ اور یہاں تک کہ ہم رنگے کوٹ کو بھی خون آلود کر رہا تھا، نظر انداز کیے اپنا بھاری ہاتھ اس آدمی کی گردن کے گرد دبوچے دھاڑا، مال کی سیکیورٹی بھی اس شور شرابے کو سن کر وہاں سے مینجر سمیت ادھر ہی چلی آئی۔

"نہیں بتاوں گا، ہم نہ مار سکے تو کوئی اور آکر تیری موت بنے گا انسپیکٹر "

وہ آدمی وحشت سے بولتا اس سے پہلے ولی سے چپیڑوں کی برسات پاتا، اس نے اپنی جیب سے بروقت کوئی سفوف نکالا اور نگل گیا اور ان سب کے دیکھتے ہی اس آدمی کے منہ سے سفید جھاگ نکلی اور وہ وہیں گرا جبکہ دوسرے دو کو ولی اور اسکے گارڈ نے جب پانی گرائے ہوش میں لایا تو پتا چلا ان دونوں کی زبان کٹی ہوئی تھی، اور یہ اسکا دماغ گما گیا۔

جبکہ اصل آدمی وہی تھا جس نے سفوف نگل کر جان دے دی، آدھے گھنٹے تک تھانے سے گاڑی بھی منگوا لی گئی اور دونوں آدمیوں اور تیسرے کی لاش کو ولی نے تھانے بھجوایا اور خود بھی وہ پہلے تھانے ہی پہنچا، اس اچانک ہوتے حادثے کے بکھیڑوں کے باعث رات کے نو بج گئے تھے، اسکا جانا آج ممکن نہیں تھا مگر ونیزے کا بھی اسے خیال تھا تبھی وہ دس بجے واپسی کے لیے نکل گیا اور اپنی دونوں گنز اس بار نہ صرف اس نے ساتھ رکھیں بلکہ سارا رستہ محتاط بھی رہا۔

تھانے میں ہی اسکے بازو پر لگے کٹ کی مرہم پٹی ہو چکی تھی، گہرا کٹ ہونے کے باعث تین سٹیچیز لگ گئے تھے جبکہ ان دو گونگے آدمیوں کو وہ تھانے کے جلادوں کے سپرد کر آیا تھا ، یہ لوگ سیٹھ گونی تک پہنچنے کی راہ دیکھا سکتے تھے تبھی ولی ہر معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا۔

وہیں دادا جان نے اشنال سے مل کر واپس آتی وریشہ کو جب کوئی حتمی فیصلہ نہ سنایا تو وہ بھی ان سے اجازت لیے واپس آگئی تھی، اور گھر آتے ہی اس ستمگر کی یاد بھی بڑھ گئی کیونکہ اسکے گھر میں اس شخص کا جگہ جگہ عکس بکھرا تھا، لمس دہک اٹھے تھے۔

خود کو بہت روکا مگر دل تھا کہ اسکی آواز سننے اور اسے دیکھنے کا طلب گار تھا تبھی وریشہ نے اسکے نمبر پر کال ملائی جو اس وقت کاشف کے گھر موجود تھا، نازلی وہاں بہت اچھے سے ایڈجسٹ تو ہو چکی تھی مگر اسکا احساس جرم اب بھی تازہ تھا، شہیر کو اس سے مل کر تسلی تو ملی تھی پر وہ جس تکلیف میں مبتلا تھی اس میں کمی نہ ہو پانا شہیر کے لیے فکر کی بات تھی۔

وہ تب کاشف کے ساتھ ہی اہم معاملات پر بات کر رہا تھا جب اسکی جیکٹ میں رکھا اسکا فون بجا اور اس پر وریشہ یوسف زئی کے الفاظ خود کاشف نے بھی دیکھے تبھی وہ یار کو پرائیویسی دینے کے لیے چائے بنا کر لانے اور کھانے کی تیاری دیکھنے کا بہانہ کرتا کمرے سے نکل گیا۔

شہیر نے ہر احساس سے عاری ہوئے کال پک کی اور ٹیک لگاتے ہوئے فون کان سے لگایا۔

"شہیر! کہاں ہو؟"

وہ فون لگتے ہی بے قراری سے بولی اور وہ ایسی تڑپ پر مزید اداس ہوا، وہ لڑکی جب خود یاد کرتی تو جان لے جاتی تھی۔

"بیوی! فون لگتے ہی پوچھتے ہیں کہ کیسے ہو۔۔۔ کہاں ہو کیا سوال ہے لڑکی؟"

وہ جس طرح منصوعی برہم ہو کر ٹوکتے بولا، وہ تمام تر اداسی کے مسکرا دی، لاونچ میں لگے صوفے پر آکر بیٹھی اور کشن گود میں دبایا۔

"کیسے ہو؟ تم نے کبھی اس سوال کا جواب سچ نہیں دیا تبھی میں نے پوچھنا چھوڑ دیا۔ میں واپس آگئی ہوں، ابھی پہنچی ہوں۔ فری ہو اگر تو ڈنر کر سکتے ہیں کہیں باہر"

وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی تبھی ملنے کا بہانہ گڑھا اور باہر ملنا اس وقت شہیر مجتبی افورڈ نہیں کر سکتا تھا اور وریشہ کی خواہش رد کرنا بھی اسے منظور نہ تھا۔

"باہر ممکن نہیں ہے کیونکہ کچھ لوگ پڑے ہیں پیچھے، پریشان مت ہو جانا اب ادھار لیا تھا اس وجہ سے جان کھائی ہوئی ہے۔۔۔اس لیے ناممکن ہے ساتھ باہر ڈنر، باقی مجھے اپنے گھر انوائیٹ کرنے کا رسک نہ تم لینا چاہو گی نہ میں تمہیں اسکا مشورہ دوں گا"

وہ صاف گوئی سے کہتا سنگدلی اور جان کنی کیے بولا جبکہ وہ اسکے جملوں میں چھپی تڑپ بھانپ کر افسردہ ہو گئی۔

"مجھ سے ادھار لے کر انکا چکا دو، میں وصولی کے لیے تمہارے پیچھے نہیں پڑوں گی پکا پرامسس۔۔۔ باقی کبھی کبھی چھوٹے موٹے رسک لے لینے چاہیں، ایک دوست کی طرح تو ہم کہیں بھی ساتھ ڈنر کر سکتے ہیں"

وہ ہر صورت اسے دیکھنا چاہتی تھی تبھی تو اسکے اصرار نے شہیر کے دل کو اپنی طرف مبذول کیا۔

"تم کہو گی کیسا منافق ہوں مگر جب سامنے آتی ہو تو دوستی بھول جاتا ہوں، تم سمجھ سکتی ہو کیا ہو جاتا ہے"

وہ اخیر بے بس سا دیکھائی دیا تھا اور وہ اسکے بے بس ہونے کو کم ازکم اپنے معاملے میں برداشت نہ کر پائی۔

"آئی مس یو شہیر، مجھے تمہاری طرح باتیں بنانی نہیں آتیں ، آجاو پلیز۔۔۔ تھوڑی سی باتیں کریں گے پکا۔۔پھر تم چلے جانا"

وہ جانتی تھی اسے پھر سے اپنے قریب بلا کر غلط کر رہی ہے پر دل پر اختیار نہیں تھا اور وہ لڑکی اسے پکارے تو وہ کیسے نہ جاتا، دل اور روح تو پہلے ہی اس لڑکی کی طرف لپکے ہوئے تھے۔

"آتے ہوئے کیا لاوں تمہارے لیے؟"

وہ دنیا جہاں سے پیارا مسکرائی کیونکہ وہ اسکے پاس آرہا تھا، دل جیسے خوشی سے بھر گیا۔

"وہی پھول جو تمہیں میرے جیسے لگے تھے، انتظار کر رہی ہوں۔ اللہ حافظ"

کہہ کر اس دلکش حسینہ نے رابطہ توڑ دیا اور اسی وقت جب کاشف اندر آیا تو جناب کو تڑپتی دل دھڑکتی مسکراہٹ دیکھ کر سارا معاملہ ہی سمجھ گئے۔

"یہ دیوانہ تو گیا، لگتا ہے بلاوا آگیا"

کاشف کی چھیڑ خانی پر شہیر اپنے خیالات سے نکلا تو کاشف کے سر پر چپت رسید کرتا ، ساتھ ہی پڑی کرسی پر رکھی اپنی جیکٹ اٹھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"سوچا تھا بلائے گی بھی تو نہیں جاوں گا پر نہیں، یہ نہیں ہوگا مجھ سے یار۔۔چل دروازہ بند کر لے، اگر جلدی واپسی ہو گئی تو کال کروں گا، کھول دینا دروازہ یہ نہ ہو سردی میں مجھ غریب کو باہر سڑک پر رات گزارنی پڑے"

جناب کی بے تابیوں اور آخری بات پر کاشف کا قہقہہ بلند ہوا جو اسے باہر تک چھوڑنے ساتھ آیا۔

"جان ہے تو آپن کی یار، میں نے سونا ہی نہیں بس خوش۔۔۔تو فرصت سے جا، کبھی کبھی تو تیرے چہرے پر ایسا سکون آتا ہے، دعا ہے یہ سکون کبھی تیرے چہرے سے رخصت نہ ہو۔۔۔بیسٹ آف لک"

شاید اس کڑے وقت میں کاشف اسکا بڑا سہارہ تھا، شہیر نے ایک مشکور سی نظر اس پر ڈالی اور اسکی گال تھپکائے دروازہ کھولے، سر پر گرم سیاہ ٹوپی پہنتا وہ گھر سے نکل گیا اور اسکے گلی سے اوجھل ہونے تک کاشف اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا کر دروازہ بند کیے خود بھی اندر چلا گیا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"آپکا دماغ تو نہیں پھر ور گیا ہاشم صاحب، کیا ضرورت تھی اس منحوس کو بچانے کی؟ دل کر رہا پے ایک مکا آپکی ناک پر دے ماروں"

اشنال تو لمبی نیند سوئی تھی اور لگ نہیں رہا تھا محترمہ آج جاگنے والی ہیں تبھی ضرار اسے کمفرٹیبلی بیڈ پر لٹائے، اس پر لحاف کرواتا خود جب باہر آیا تو رات ڈھل چکی تھی کیونکہ اشنال کے ساتھ وہ بھی کچھ دیر سو گیا تھا ۔خواتیں رات کے کھانے کی جہاں تیاری میں لگی تھیں وہیں بزدار عالم دوا لے کر سونے جا چکے تھے اور جبل زاد انہی کے پاس انکے نیند میں اترنے تک کمپنی دینے والا تھا۔

ہاشم جانتا تھا جلد یا بدیر ضرار کو کنزا کے زندہ ہونے کی خبر مل جائے گی لہذا اس نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ خود ہی اسے بتا دے اور حسب توقع ضرار کا ردعمل سخت آیا۔

"دیکھو ضرار ! میں جانتا ہوں تم میری اس حرکت پر غصہ ہو لیکن میں نے یہ صرف مشارب کو مزید کسی کا قاتل بننے سے بچانے کے لیے کیا، اور شاید اس عورت پر کھایا گیا یہ میرا آخری ترس ہے۔ میرا یقین کرو کہ اگر اب اس عورت نے کوئی بھی کوتاہی کی تو وہ میرے ہاتھوں مرے گی۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں"

ہاشم نے اسے بازو سے پکڑ کر قریب کھڑا کرتے سنجیدگی کے سنگ سمجھانا چاہا مگر ضرار انکی اس حرکت پر اخیر آگ بگولا ہو چکا تھا، پھر اسے مشارب اور زونی کے بیچ بظاہر سب ٹھیک ہو جانے پر بھی شبہ تھا اور جہاں تک ضرار کا تعلق تھا اسے کچھ برا ہونے سے پہلے ہی اسکی چھٹی حس خبردار کر دیتی تھی۔

"کیوں نفرت نہیں کر پاتے آپ اس عورت سے؟ ایسا کیوں ہے بڈی؟ وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس پر ترس کھایا جائے، میں بتا رہا ہوں آپ نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ آپکا یہ ترس، ہم سبکے لیے عنقریب وبال جان بننے والا ہے"

وہ کنزا کی فطرت سے واقف تھا تبھی اتنا پریقین تھا جبکہ ہاشم بزدار نفرت کرنے سے پہلے ہی تو یہ آخری موقع دے بیٹھا تھا۔

"ٹھیک ہے اس نے جو بھی بگھاڑا وہ میں ہی سنواروں گا، مجھ پر بھروسہ رکھو۔ آئی ایم سوری لاڈلے! تمہیں بتائے بنا یہ قدم اٹھایا پر یقین کرو اگر وہ مشارب کے ہاتھوں مر جاتی تو بھی ہمارے سکون ہم سے رخصت ہو جاتے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ عورت مافیا کا بھی بڑا حصہ ہے، لہذا میری دوراندیشی اگر کسی کا نقصان کرتی بھی ہے تو اسکا مداوا بھی میں کروں گا"

وہ تھوڑا پرئشان تھا تبھی ضرار نے اسکی معذرت بظاہر تو قبول کر لی پر وہ ہاشم پر اک آزردہ نگاہ ڈالے ضرور اسے مایوسی میں گھیر چکا تھا۔

"امید ہے آپ مایوس نہیں کریں گے، آپکے اندر کی رحم دلی ہی آپکی دشمن ہے یار، مانا کبھی اس عورت سے محبت کی تھی آپ نے لیکن اب آپکی ہر محبت کی حق دار صرف مالنی ہے، کلوز کریں اس کنزا کے چپٹر کو اور اپنی زندگی بھرپور توجہ سے شروع کریں باقی سب مجھ پر چھوڑ دیں۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہیں آپ سے پہلے میرے بچے نہ آجائیں دنیا میں۔۔۔قسم سے بہت عجیب لگے گا"

وہ خود ہی دانستہ شریر ہوتا آخری جملے کے سنگ چھیڑنا تو چچا سائیں کو چاہتا تھا پر مسکین خود پھنس گیا کیونکہ جو دل گدگداتی نظر اس ساحر چچا کی بدلی اس پر ضرار نظریں چرانے پر مجبور ہوا۔

"خوش ہو لاڈلے؟"

جلد ہی چچا جان کی آنکھوں میں شفقت اتری اور وہ ہاشم کے سوال پر جی جان سے مسکرایا۔

"خوشی بہت چھوٹا لفظ ہے، لیکن خود سے زیادہ مجھے آج بھی آپکی خوشی عزیز ہے ۔ اس دن کے لیے سب سے زیادہ دعائیں میں نے مانگی تھیں کہ آپکا بھی ایک آشیانہ ہو، ایک پیاری سی ساتھی ہو، آپکے لیے بہت پرسکون ہوں۔ لیکن لیکن اگر کنزا نے رنگ میں بھنگ ڈالی تو یاد رکھیے گا ہاشم صاحب، میں مالنی کو اغوا کروا دوں گا اور آپ کو اس سے سزا کے طور پر بہت بہت بہت سارے دن دور رکھوں گا سو ذہنی طور پر اس سزا کے لیے تیار رہیے گا کیونکہ یہ مت بھولیں آپ کا بھتیجا کوئی عام نہیں، سر پھرا میثم ضرار چوہدری ہے"

وہ اظہار بہت کم کرتا تھا پر اگلے کے دل میں جان ڈال دیتا تھا، لیکن پھر اس اظہار کو ایسی گل فشانی پر اخترام پذیر کرتا کہ سامنے والے میں امڈتا محبت کا جہاں فوری اپنی فکر میں تبدیل ہو جاتا اور اس بار بھی ہاشم کی گھوریوں پر ضرار کا قہقہہ پورے حسن کے سنگ لاونچ میں گونجا تھا۔

اور یہ سزا تو واقعی دل دہلاتی ہوئی تھی۔

وہیں دوسری طرف مشارب نے واپس جا کر خود کو تنہائی کے حوالے کر دیا تھا کیونکہ اسکا دماغ زونین کی حرکت سے معاوف تھا ، جبکہ خود زونی، مالنی کے لاکھ پوچھنے کے بعد سب ٹھیک ہے، سب سلجھ گیا، ہم ساتھ ہو گئے جیسے جملے کہہ کر اسے مطمئین کرتی رہی لیکن حقیقت میں اس سر پھری نے ناجانے کونسے نئے قہر کی تیاری پکڑ رکھی تھی یہ صرف اللہ جانتے تھے۔

چونکہ اشنال ایک پرسکون نیند میں تھی سو ضرار نے آجکے ڈنر کا پلین اسکے آرام و سکون کو مدنظر رکھتے ہوئے کینسل کر دیا تھا اور فضیلہ اماں کی بھی ہدایت تھی کہ اسے بلکل تنگ نہ کرتے ہوئے سونے دیا جائے۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی کی گاڑی گھر کے پورچ میں رکی تو ڈرائیور نے اسکے اندر آجانے پر دروازہ واپس بند کیا اور ساتھ ہی ولی وہ تمام شاپنگ بیگز گاڑی سے نکال کر اٹھائے گھر کی طرف بڑھا، چونکہ رات ہو گئی تھی تبھی ونیزے کے سو جانے کا خیال کیے وہ خود ہی دوسری کی سے دروازہ ان لاک کرتا اندر داخل ہوا، بظاہر ہر طرف خاموشی کا راج تھا، شاپنگ بیگز ابتدائی راستے پر رکھی سجاوٹی میز پر رکھتا وہ گاڑی اور گھر کی چابی بھی وہیں رکھے گھر کے اندر آیا تو کچن کی طرف ہوتی غیر معمولی کھٹ پٹ پر وہ خوشگوار سی حیرت کے سنگ سیدھا وہیں گیا جہاں ایپرن پہن کر کھانے کے آخری مراحل دیکھتی ونیزے آہٹ پر پلٹی تو ولی کے کوٹ اتار کر خون آلود بازو پر رکھ کر خون چھپانے پر وہ اسکے زخم کو تو نہ جان سکی البتہ وہ اسے تھکن کا شکار ضرور محسوس کر سکتی تھی۔

"تم نے کھانا بنا لیا، میں تو سوچ رہا تھا کچھ آرڈر کر لیں گے"

وہ کچن میں پھیلا بکھراو اور دو عدد ڈشیز دیکھ کر خاصا متاثر ہوا جبکہ وہ کہہ نہ سکی کہ اسے باہر کا کھانا سوٹ نہیں کرتا۔

"اٹس اوکے، میں نے ڈرائیور انکل سے سامان منگوا لیا تھا، زیادہ محنت نہیں لگی۔ دو گھنٹے میں سب بن گیا، آپ بتائیں دن کیسا رہا؟"

وہ رسان سے اسکی فکر ٹالتی اسکے دن کا احوال پوچھنے لگی جو ابھی اس وقت کپڑوں پر لگے خون کے باعث سخت کوفت کا شکار تھا اور دیکھائی بھی دیا۔

"ٹھیک تھا، تم لگاو کھانا میں فریش ہو کر آتا ہوں"

وہ ہر ممکنہ کوشش میں تھا کہ اس کا زخم ونیزے کی نظر میں نہ ہی آئے تبھی اسے کھانا لگانے کی تاکید کیے خود وہ روم کی طرف بڑھا، ونیزے نے مسکرا کر اپنی توجہ واپس کھانے کے آخری مراحل کی جانب لگائی۔

سیلڈ اور قورمہ بنایا تھا اور ساتھ بوائل رائس، روٹی بھی بنا لی تھی کیونکہ اسے پتا تھا ٹھنڈ میں اکثر لوگ رائس اوائیڈ کرتے تھے، جب تک ولی فریش ہو کر چینج کیے گھر کے نارمل خلیے میں ملبوس ہوئے باہر آیا، وہ ڈائنگ پر ناصرف کھانا لگا چکی تھی بلکہ ڈرائیور انکل کو بھی دے آئی تھی، ولی کو آتا دیکھ کر ونیزے نے اسکے لیے بیٹھنے کو خود کرسی پیچھے کی جو ونیزے کے یوں کرنے پر جوابا بھی مسکراتے ہوئے پراعتمادی کے سنگ رغبت پیدا کرتی سجی میز پر طائرانہ نگاہ دوڑاتے بیٹھا، محترمہ نے خود بھی چہرے پر سکون سا درج کیے ولی کے سامنے والی کرسی سنبھالی۔

"سب ڈریسز بہت اچھے ہیں، لیکن اگر آپ اجازت دیں تو گھر میں جینز شرٹس پہن سکتی ہوں؟ وہ کیا ہے کہ مجھے عادت نہیں ہے ایسے کپڑوں کی"

ونیزے اسے خریدے سب ڈریسز پہلے ہی دیکھ چکی تھی جو سب آفت ناک تھے اور وہ نہیں چاہتی تھی مشرقی بیوی بن کر خوامخواہ ولی کے حواسوں پر سوار ہو کر اسکو ٹف ٹائم دے سو اسے اپنا بگھڑا شکارن خلیہ ہی گھر اور ولی کے اردگرد مناسب لگا۔

جبکہ ونیزے کے ہچکچا کر پوچھے سوال پر ولی کے پلیٹ میں چاول ڈالتے ہاتھ لمحہ بھر رکے اور اس نے اپنی خطرناک رنگ بدلتی آنکھیں ونیزے پر جمائیں۔

"پہنو گی تو عادت بھی ہو جائے گی، مجھے تمہارے حوالے سے کسی چیز پر اعتراض نہیں مگر جس خاندان کی بہو بنی ہو اسکے لیے ابھی سے ٹرین کر رہا ہوں۔۔۔بہت ماڈرن ڈریسز چوز کر کے لایا ہوں، مجھے نہیں لگتا تمہاری لک زیادہ بدلے گی"

وہ رسان سے اپنی بات کہے کھانا شروع کر چکا تھا جبکہ ونیزے من ہی من میں مسکراتی بس اسے جان لٹاتی  مخمور نظروں کے سنگ دیکھ رہی تھی جو اس میں تھوڑی ہی سہی پر دلچسپی لے رہا تھا۔

کھانے کے دوران دونوں میں اسکے بعد زیادہ بات نہ ہوئی، کھانے کے بعد وہ بلیک کافی پینے کا عادی تھا تبھی برتن سمیٹنے کے بعد ونیزے نے اسکے لیے کافی بنائی اور لے کر روم میں آئی جو بیڈ کے ایک کنارے ایک ٹانگ نیچے لٹکائے، دوسری بیڈ پر سیدھی کیے، دونوں تکیے اپنی کمر کے پیچھے رکھے سر ٹیکے آنکھیں موندے بیٹھا تھا، بازو ایک دم سن سی ہو رہی تھی اور اب تو ہلانی بھی مشکل تھی پر وہ پوری کوشش میں تھا کہ اسکی خبر ونیزے کو نہ ہی ہو سکے۔

اسکے سو جانے کا خیال کرتی وہ بھی چپ چاپ کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر پلٹی مگر ولی کا بے اختیار اسکا ہاتھ پکڑنا، ونیزے کا دل روک گیا، دھڑکنیں دھڑکا گیا۔

وہ پلٹی تو ولی زمان خان بند آنکھیں کھولے، ٹیک چھوڑ کر بیٹھے اسے بھی اپنے سامنے بٹھا چکا تھا جو دم سادھے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھتی اسکے کسی جملے کی منتظر لگی۔

"تمہارا کیسا رہا دن؟"

وہ عام سے دوستانہ لہجے میں بولا اور وہ کیا بتاتی کے اسے یاد کرتے کرتے بیت گیا۔

"کبھی یوں گھر ٹک کر نہیں بیٹھی پورا دن سو بور ہی گزرا ہے"

اسکے متوقع جواب پر ولی نے بھی اپنی سنجیدگی ایک طرف سرکائی، البتہ اس لڑکی کا نازک ہاتھ اب بھی ولی کے مضبوط ہاتھ میں تھا اور وہ لڑکی بس اتنی سی مہربانی پر ہی جان ہار رہی تھی کیونکہ اس شخص کے ہاتھ تھامنے کا طریقہ بہت جان لیوا تھا۔

"مطلب تمہیں بھی ان فیوچر اپنے ساتھ کام پر لگانا پڑے گا مجھے، تمہاری بورئیت دور کرنے کے لیے"

جناب نے خوش دلی سے فیصلہ کن ہوتے جواب دیا تو وہ ہنس پڑی۔

"خوشی خوشی لگوں گی کام پر ، ویسے بھی گھر بیٹھ کر سارا دن انتظار سے بندھے رہنا کافی مشکل ہے"

وہ اسے دبے لفظوں میں اسکے انتظار کی مشکل سمجھاتی بولی، دونوں ایک دوسرے کو ہی دیکھ رہے تھے۔

"جاو چینج کر کے آو، جو ڈریس تھوڑا بہت پسند ہے وہ پہننا۔ دیکھتے ہیں ولی زمان کی چوائز میں کیسی لگتی ہے یہ شکارن"

وہ یونہی اس سے فرمائش کر رہا تھا مگر کوئی ونیزے حسن سے پوچھتا کہ یہ سکھ کا کتنا پیارا لمحہ تھا، وہ فورا سے اٹھ کر مسکراتی ہوئی اسکی نظروں سے اوجھل ہوئی تو مسکراہٹ ولی کے چہرے سے بھی ناجانے کس احساس نے سلب کی۔

لگ بھگ پانچ منٹ بعد وہ ہچکچاتی ہوئی، وائیٹ شارٹ فراک جس پر ست رنگی ایمبائڑری تھی اور وائیٹ ہی ٹائیٹ میں لپٹی، ایک کندھے پر انہی سات رنگوں کی دیدہ زیب آمیزیش سے بنی شال ڈالتی، اپنے دھیمے سنہری مائل بالوں کو دوسرے کندھے پر ڈالتی، نازک پیروں پر نازکی بکھیرتے جوتے کے سنگ روم میں داخل ہوئی تو جناب نے سراہتی نظریں اس لڑکی پر مرکوز کیں جو خود کو ولی کی نظروں میں سر تا پیر محصور دیکھتی تب گھبرائی جب وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسے دیکھتا ہوا نزدیک آکر رکا، دھڑکنیں اس لڑکی کی بے ترتیب ہوئیں۔

"دیکھو! زیادہ نہیں بدلی بس اب مسسز ولی زمان خان کی جھلک آرہی ہے"

اسے لگتا تھا وہ کسی بھی لڑکی کی تعریف کرنے میں بہت اناڑی ہے پر ونیزے کے چہرے پر بکھرتے رنگ دیکھ کر لگ رہا تھا وہ اسے ان لفظوں سے مہک اٹھی تھی، اسکی ڈوبی ہوئی آنکھیں اجل سی گئی تھیں۔

"جیسی آپکو ٹھیک لگوں گی اب سے ویسی ہی رہوں گی"

وہ لڑکی خوش فہیوں کو دل میں جگہ نہیں دیتی تھی اور اسے ٹھیک کہنے پر ولی نے اسکے ایک طرف ڈالے بال پکڑ کر اسکی کمر پر ڈالے اور پکڑ کر قریب کرتے کھڑا کیا جو اسکے قریب کرنے پر آنکھوں میں تاسف سمیٹ لائی۔

"ٹھیک نہیں، بہت اچھی لگ رہی ہو۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تمہارے حقوق پورے کر بھی پاوں گا یا نہیں مگر اتنی کوشش ضرور کروں گا کہ تمہارے اندر ولی زمان خان نام کی کوئی حسرت باقی نہ رہے"

وہ اتنے ہی الفاظ کہہ رہا تھا جتنی اسکے دامن میں وسعت تھی اور ونیزے اسے مسکراتی آنکھوں سے دیکھ کر دل میں اتار رہی تھی، یہی تو چاہتی تھی وہ کہ مرنے سے پہلے کوئی کرامت ہو جائے اور اللہ اسکے اندر موجود اس شخص کے نام کی ہر حسرت ختم کرنے کا وسیلہ بنا دیں۔

"لیکن اب میں نہیں چاہتی یہ حسرت کبھی ختم ہو، یہی تو زندہ رکھے ہوئے تھی۔ آپ مکمل مل گئے تو زندگی اپنی مہلت چھین نہ لے، کیونکہ اس حسرت کے مٹنے تک ہی ونیزے نے اپنی زندگی مانگی ہے"

اسکا لہجہ سادہ اور بے ریا تھا جبکہ اسکے لفظوں کی تڑپ ولی بخوبی محسوس کر رہا تھا۔

"اوہ! تو ان ڈائریکٹلی تم مجھے خود سے دور رہنے کا مشورہ دے رہی ہو۔مطلب کافی سمجھدار ہو"

وہ سنجیدگی کے قہر سے بچنے کو شرارت بھرا انداز اپنائے اسے ہنسانے کی کوشش میں تھا جو ہر بار اسکے بہلانے پر تھوڑی بہل بھی جاتی تو پھر سے ہاتھوں سے ریت کی طرح گرتی زندگی پر وہی دردناک کیفیت۔۔۔

"ایسا ہی سمجھ لیں، آپ تھک گئے ہوں گے۔ ریسٹ کریں، میں بھی سوتی ہوں جا کر۔ آپکو مزید مجھے برداشت نہ کرنا پڑے یہی اچھا ہے، پہلے ہی آپ کے سر پر مفت میں سوار ہو گئی ہوں"

وہ خود ہی سب سوچ کر خود ہی جواب دینے پر لگی تھی جبکہ اسکے مڑ کر اس نزدیکی کے سکھ سے نکلنے پر ولی نے واپس اسکا ہاتھ پکڑا تو ونیزے واپس ولی کی طرف پلٹی۔

"ایسی باتیں پہلے والی ونیزے تو نہیں کرتی تھی، اب بھی ہمارے بیچ کچھ نہیں بدلا بلکہ جو رشتہ جڑا ہے وہ پہلے سے مضبوط ہے سو خود کو  ڈی گریڈ کرنے یہ حرکت دوبارہ مت کرنا، نارمل ہونے کی کوشش کرو، میں بھی کروں گا۔۔۔یہیں سو جاو، تمہارے زرا سے جگہ گھیرنے سے بیڈ پر میرے لیے جگہ کم نہیں پڑنے والی"

وہ اسے کسی بھی طرح کے احساس کمتری میں نہیں دیکھ پایا تھا مگر ولی کی ایسی پیشکش بھی وہ قبول نہیں کر سکتی تھی تبھی افسردہ ہوئی۔

"آپکے گھر میں اور بھی تو بیڈ رومز ہیں، مجھے اکیلا سونے کی عادت ہے بس اس لیے کہا"

وہ اپنی وجہ سے اسے بے چین نہیں کرنا چاہتی تھی جبکہ ولی کو یہی لگ رہا تھا جیسے ایک ہی دن میں اسے اسکی تمام عادات تبدیل کروانی پڑیں گی۔

"یہ عادت بھی آج سے بدلو، میں ایک ضروری کال کر کے آتا ہوں پھر سوتے ہیں"

اپنے بارعب لہجے میں وہ اسے نرمی اور پیار کے سنگ کہتا، ساتھ ہی اک بھرپور سراہتی نظر ڈالتا کمرے سے نکل گیا جبکہ وہ وہیں کھڑی بس تاسف سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄

سو گئے دادا صاحب؟"

جبل زاد کو بزدار عالم کے کمرے سے نکلتا اور وہیں آتا دیکھ کر سٹنگ ایریا کی جانب کوئی فیورٹ آتے میچ کو دیکھتے ضرار نے متفکر ہوئے پوچھا جو آگے سے کندھے اچکاتا قریب چلا آتا مسکرایا، مسکراہٹ میں گدگداہٹ تھی۔

"ہاہا سمجھ گیا، دیکھ رہے ہوں گے ٹک ٹاک۔۔ کیا ایپ بنا دی ان ظالموں نے، جسے دیکھو اسی میں گھسا ہوتا ہے۔ سوچ رہا ہوں دادا سائیں کو بھی ایک اکاونٹ بنا دوں"

اس وقت ضرار کو شرارتیں سوجھ رہی تھیں اور خود جبل زاد بھی اسکے مشورے پر ہنسا، اور ان دونوں کو واپسی کی دبنگ تیاری پکڑ کر وہیں آتے ہاشم بزدار نے متوجہ کیا ، ضرار تو جانتا تھا مگر جبل زاد اس جوشیلے لالہ کی واپسی کی تیاریوں پر تھوڑا حیران ہوا۔

"آپ کہاں چل دیے ہاشم لالہ؟"

جبل زاد نے اسے گاڑی کی چابی ، فون اور اوور کوٹ کیری کرتے دیکھ کر فکر سے پوچھا۔

"یار کل ایگزیبیشن ہے اور تمہارے اس سر پھرے سائیں کا حکم ہے کہ وہاں جا کر خود کنزا پر نظر رکھوں، اور ہاں بات سنو تم دونوں۔۔کنزا زندہ ہے یہ خبر بابا سائیں کے کانوں تک نہیں پہنچنی چاہیے، میں تین چار دن تک آجاوں گا، ضرار ٹک کر رہنا حویلی اور اشنال کو سارا وقت دینا۔ کچھ مجھے بھی کرنے دو، پھر تمہارے ساسوں کی طرح طعنے شروع ہو جائیں گے کہ میں صرف رائیتے پھیلاتا ہوں۔۔۔۔"

وہ ایک دم پہلے ہاشم بزدار کے روپ میں آچکا تھا، جوشیلا، دبنگ، ساحرانہ رعب چھلکاتا ہوا، جاندار، ہر حد سے گزر جانے والا ظالم، اور لگ یہی رہا تھا کہ کنزا کے پاس بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں، ضرار اور جبل زاد دونوں نے ہی مسکرا کر جناب کو رخصت کیا، وہ مالنی سے ملنا چاہتا تھا پر چونکہ سب سونے جا چکے تھے تو اسے مالنی کو تنگ کرنا مناسب نہ لگا، ویسے بھی چار پانچ دن تک رخصتی تھی پھر وہ اسی کی ہونے والی تھی اور خود وہ بھی یہ چند دن اس جان لیوا بے باک لڑکی سے دانستہ دوری چاہتا تھا کیونکہ وہ تھی ہی ایسی کہ ہاشم کو خدشہ تھا کہ وہ یہاں اسکے آس پاس رہا تو ضرور کچھ کر بیٹھے گا اور چچا کی گھبراہٹ اور بے تابیاں ضرار صاحب کو بخوبی پتا تھیں تبھی وہ اسے چلتا کرنے کا پلین بنا چکا تھا، جناب اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے تھے تو کیسے چچا جان کی بے تابیوں سے بے خبر رہتے۔

"خیر سے جائیں لالہ، پہنچ کر خبر کیجئے گا"

ضرار سے وہ اندر ہی مل آیا تھا اور جبل زاد نے اسے باہر گاڑی تک آکر چھوڑا اور گلے لگائے تاکید کی جس پر ہاشم اسکا کندھا تھپکائے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی گاڑی میں سوار ہوا اور چند لمحوں بعد ہی ہاشم بزدار کی گاڑی حویلی سے باہر نکل گئی۔

وہیں یہ سچائی زونی کے کانوں نے سن لی تھی جب وہ پانی پینے کے لیے کچن میں گئی اور اپنی ماں کے زندہ ہونے کی یہ خبر اسے مزید بدگمان کر گئی کیونکہ یہ بات تبھی ہو سکتی تھی جب اسکی ماں کو مارا گیا ہو اور وہ بچ گئی ہو، سرمد کی موت پر تو وہ صبر کر چکی تھی پر اب اسکا سر یہ سب سن کر چکرا رہا تھا، مالنی سو چکی تھی اور زونین ، گہرے گہرے سانس بھرے کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی، اسکا چہرہ زرد پڑا ہوا تھا، پورا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔

اور پھر گہری خاموشی کو چیڑتی ہوئی ارتعاش پیدا کرتی میسج ٹون پر وہ لرز اٹھی، یہ میسج ٹون اسے مالنی کے پرانے نمبر والے فون پر سنائی دی۔

زونی نے گردن موڑی جہاں مالنی بیڈ پر لحاف میں دبک کر بے خبر سوئی ہوئی تھی اور ساتھ ہی سائیڈ ٹیبل پر اسکا فون پڑا تھا۔

زونی نے لپک کر قریب جاتے کانپتے ہاتھوں سے وہ فون اٹھایا، اس پر میسج تھا جس کو ٹچ کرتے ہی وہ زونی کے سامنے کھل آیا۔

"مالنی! مجھے خبر ملی ہے تم نے اپنی بدگمانی اس شخص سے اتنی جلدی دور کر دی۔ اپنی زندگی تباہ کر چکی ہو تم، میرا یہ میسج پڑھ کر ڈیلیٹ کر دینا یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ کیونکہ سبکی نظر میں کنزا مر چکی ہے، ہاں۔۔۔مشارب زمان اپنی طرف سے مجھے مار گیا، اب بھی تم کہو گی کہ زونی کے لیے وہ قاتل درندہ بہتر ہے؟ اس نے پہلے بھی شہیر کے بھائی علیم کو جذبات میں آکر مارا تھا، اسی کی وجہ سے اشنال اور ضرار کو تکلیف سے گزرنا پڑا۔ چلو تم نے تو آنکھیں بند کیے یہ زہر نگل لیا ہاشم بزدار کی صورت مگر کیا تم زونی کو ایک قاتل کے ساتھ زندگی گزارتا دیکھ سکو گی؟ تم زونین سے بہت پیار کرنے لگی تھی؟ کیا اپنی بہن کو اس سفاک کے ساتھ جینے کی اجازت دو گی؟ چلو مان لیا اگر وہ مشارب واقعی پاک صاف ہے بھی تو اس نے اسی زونین کی ماں کو مارنے کی کوشش کی، حالانکہ میرے آدمی نے زمان لالہ پر اس لیے گولی چلائی کیونکہ وہ مجھے مارنے والے تھے۔۔۔ میری اس بات پر ٹھنڈے دل سے ضرور سوچنا، ابھی بھی تم دونوں کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے، ابھی بھی وقت ہے رنگین حویلی لوٹ آو، ہم مل کر رہیں گے میری بچی۔۔۔۔ میں لاکھ بری سہی پر نہیں چاہتی تم اور زونی ایسے کم ظرفوں کے ساتھ اپنی پاکیزہ محبت کا رشتہ جوڑو، سچائی جب تم لوگوں کے سامنے آئے گی تو وقت گزر چکا ہوگا، پھر جب تم دونوں کو ان خونخوار حویلوں سے دھکے دے کر نکالا جائے گا، پھر میرے پاس مت آنا۔۔۔۔یہ میسج پڑھ کر ڈیلیٹ کر دینا ، مجھے تم دونوں کے آنے کا انتظار رہے گا۔۔"

وہ عورت آخری وارننگ کے باوجود گندگی پھیلانے پر اتر چکی تھی اور وہ اپنے لفظوں میں ایسا زہر گھولتی تھی کہ دماغ جکڑ لیے جاتے تھے، زونی کی آنکھوں میں دردناک آنسو آچکے تھے، اسے آج ہاشم بزدار بھی دوغلا لگا، اسے ہر انسان فریبی لگا، اپنی اس جذبوں کی سوداگر ماں سمیت۔

زونی نے وہ میسج ڈیلیٹ کیا اور مالنی کا فون واپس وہیں رکھتی وہ بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی صوفے پر جا بیٹھی۔

"ک۔۔کوئی نہیں ہے ہمارا، آپ بھی نہیں ہیں مما۔ ہمیں سب سے نفرت ہو رہی ہے، ہمیں خود سے بھی ن۔۔نفرت ہو رہی ہے۔۔۔۔ ہم ضرور آئیں گے رنگین حویلی لیکن صرف سچ جاننے ، آپکو ہمیں بتانا ہوگا کہ آپ نے ہمارے اور مالنی کے ساتھ کونسے کھیل شروع کر رکھے ہیں۔ اور اگر اس بار آپ نے کوئی بھی نئی جھوٹی کہانی سنائی تو ہم اپنے ہاتھوں سے آپکی جان لیں گے، آ۔۔آپ نے ہمیں مشارب سے دور ک۔۔کر دیا۔۔۔آپ کی وجہ سے ہم ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں، س۔۔سب بہت برے ہیں، ہمیں کسی پ۔۔پر اعتبار نہیں۔۔۔۔"

وہ وحشی ہو رہی تھی، آنسو اسکی آواز نگل رہے تھے پر اسکی آنکھوں میں حقارت اور نفرت پوری آن بان سے بیدار ہو چکی تھی۔

وہیں جب جبل زاد واپس سٹنگ ایریا تک پہنچا تو ضرار اب بھی نیم دراز ریموٹ پکڑے میچ دیکھنے میں مصروف تھا، جبل زاد کو آتا دیکھ کر ضرار نے اسے اپنی طرف بلایا تو سائیں کا وفادار فرمابرداری سے قریب آکر رکا۔

"جی سائیں حکم کریں؟"

جبل زاد کے پوچھنے پر ضرار ، ریمورٹ سے ٹی وی آف کرتا، شرٹ کی سلوٹیں درست کیے اٹھ کھڑا ہوا۔

"حکم نہیں میرے پیارے جبل زاد! ایک خواہش جسے اپنی خوشیوں کے بیچ اسی خوبصورتی سے پورا ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں جیسے اپنی ہر خواہش کی تکمیل چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے ولیمے والے دن تمہارے اور گلالئی کے نکاح کا فیصلہ کیا ہے، چونکہ وہ یہیں رہے گی اب سو ساتھ ہی رخصتی بھی مناسب رہے گی۔ دادا سائیں اور اماں فضیلہ سے صبح میں خود بات کروں گا، لیکن کل تک گل کی مرضی تم خود اس سے پوچھو گے"

شاید یہ جبل زاد، پہاڑوں کے من پسند باسی سے کہی جاتی ضرار کی اب تک کی خوبصورت خواہش تھی، جس کی سرشاری جبل زاد کے چہرے پر بکھرے بوکھلاہٹ اور خوشی کی آمیزیش سے ملے رنگوں سے چھلک اٹھی تھی۔

"پر سائیں! میں کیسے پوچھوں گا؟"

جبل زاد کو رہ رہ کر ہول اٹھے تو ضرار اسکے لڑکیوں کی طرح گھبرانے پر شرارت پر اترا۔

"اتنے معصوم تو جناب رہے نہیں جتنے بننے کی کوشش کی جا رہی ہے، اب کیا اپنے سائیں سے کلاس لینی ہے، کہ کیسے لڑکی سے اسکی مرضی پوچھتے ہیں؟"

ضرار تو سیدھی اسکی جان لینے پر اتر آیا تھا تبھی تو جبل زاد نے رحم طلب نظروں سے بے درد بنتے ضرار کو دیکھا۔

"سائیں! عجیب لگے گا"

وہ بے بسی سے مسکرایا تو ضرار کو اسکی ابھی تک پہاڑ کے معصوم باسیوں جیسی حصلت پر ڈھیڑوں پیار امڈا۔

"محبت یا اس سے جڑا کوئی معاملہ کبھی بھی عجیب نہیں ہوتا جبل زاد! مجھ سے پانچ سال بڑے ہو تم، مزید تمہارے گھر کے بسنے میں دیری نہیں ہونی چاہیے، اور وہ گل تمہارے ساتھ بہت سجتی ہے۔ اچھا ہوگا اشنال کی گل ہمیشہ انکے پاس رہے گی۔ رہی بات اماں فضیلہ کی تو جب سے گل آئی ہے، وہ تو باقی بچوں کو بھول ہی گئیں ہیں، میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ وہ ہم سے پہلے ہی اسے بہو مانے بیٹھی ہیں۔ اور پھر انھیں بھی تو اپنے جبل زاد کا گھر آباد چاہیے، فرض اپنی جگہ سجتے ہیں مگر محبت کا سکھ پائے بنا اس دنیا سے چلے جانا بڑی بدقسمتی کا مقام ہوتا ہے۔ زیادہ مشکل کام نہیں ہے، میں نے گل کی آنکھوں میں اپنے اس شیر جیسے جبل زاد کے لیے پسندیدگی دیکھی ہے سو وہ انکار تو کرنے سے رہی، بس تم نے زرا ہمت کر کے اس بات کی تصدیق کرنی ہے"

بہت خوبصورتی اور سیلقے کے سنگ وہ جبل زاد کو شانوں سے تھامے یہ سب کہہ کر اسکی ساری نروسنیس دور کر چکا تھا اور اب جبل زاد کی آنکھوں میں اک الگ ہی خوشی آن بسی تھی، صرف اس احساس کے تحت کہ وہ لڑکی اسے پسند کرتی ہوگی۔

"سائیں! کیا وہ واقعی مجھے پسند کرتی ہوں گی۔۔۔مطلب میں تو عام سا ہوں"

اس معصومیت پر کیوں نہ فدا ہوں، ضرار بھی ہوا اور اسکی مسکراہٹ اسکے عزئز اپنوں کے دلوں میں ویسے ہی جان ڈال دیتی تھی۔

"مجھ سے پوچھو جبل زاد کے تم کتنے خاص ہو میرے عزیز، اور پھر سب محبت میں پڑنے سے پہلے عام ہی ہوا کرتے ہیں۔ یقین ہے اس رشتے میں جڑنے کے بعد دونوں ایک جتنے خاص ہو جاو گے، اب مرد بن کر سامنے جانا اسکے، گھبرا مت جانا۔ میں بھی اب سوتا ہوں جا کر، ہمارا صنم تو آج زندگی بھر کی نیندیں پوری کرنے پے لگا ہے سو نو لفٹ، ہم بھی سونے کا کام کرتے، تم بھی لگ جاو اپنی گل کی تاک میں۔۔۔۔"

ہلکے پھلکے دوستانہ لہجے میں جناب نے اپنے جیسی بے باکیوں کی ہدایت بخشتے ہی اپنے قدم ، کمرے کی جانب گامزن کیے اور یہ اتفاق تھا یا اللہ کی کوئی مہربانی کہ یہاں ضرار اپنے کمرے کی طرف گیا اور وہیں اپنے اور اماں فضیلہ والے کمرے سے جمائی لے کر منہ پر ہاتھ رکھ کر باہر نکلتی گلالئی کو کچن کی طرف جاتا دیکھ کر جبل زاد صاحب جہاں کے تہاں ہی رہ گئے، اس لڑکی سے اسکی رضا اس جلدی جاننے کا موقع ملے گا یہ تو جبل زاد سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

"اہمم اہمم"

وہ کچن کی طرف گئی تو حواس یکجا کرتے جناب بھی پیچھے لپکے مگر اسکے متوجہ کرنے پر گلالئی اس بری طرح سے ڈری کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹتے بچا اور منہ سے چینخ برامد ہوتے ہوتے رہی اور خود جبل زاد نے بچاری کو اس بری طرح اچانک ڈرا دینے پر اپنی سرزنش کی۔

"آ۔۔آپ نے تو میری جان نکال دی۔۔۔"

سانس بحال کرتی ہوئی وہ گھنگھریالے بالوں والی گل اسے بہت پیاری لگی جسکے چہرے پر خوف کے ساتھ حیا بھی شامل ہوتی تہلکہ مچاتی محسوس ہوئی۔

"بہت معذرت چاہتا ہوں، میری نیت آپکو ڈرانے کی نہیں تھی گل۔۔آپ ٹھیک ہیں"

وہ جو گلاس ریک پر رکھتی اسکی موجودگی میں کچھ بے قرار تھی، جبل کی معذرت پر مزید بے چین ہوئی۔

"ن۔۔نہیں ایسی بات نہیں، معذرت مت کریں۔۔میں ٹھیک ہوں۔ وہ نیند میں تھی تھوڑی تھوڑی، سو ڈر گئی"

وہ فورا سے خوبصورتی کے سنگ اسکی پشیمانی رد کر گئی جبکہ وہ واقعی نیند کے خمار میں سر تا پیر ڈوبی ہوئی تھی۔

"تو کیا ابھی بھی نیند میں ہیں؟ میرا مطلب اگر سارے حواس لوٹ آئے ہوں تو کچھ بات کر سکتا ہوں؟"

اتنا بے باک تو وہ نہیں تھا پر سائیں کی صحبت کا کچھ تو اثر تھا کہ محترم بلا تمہید ہی مدعے پر آئے اور گلالئی کے چہرے پر اس انداز پر ہی کئی رنگ آئے اور چلے گئے۔

"جی کہیں، کیا بات ہے"

وہ تھوڑی شائے سی تھی، خاص کر مرد خضرات کے روبرو اور جبل زاد کے لیے تو اسکے دل میں اضافی حیا موجود تھی۔

"کیسا لگتا ہوں آپکو؟ "

جبل زاد کے اس غیر متوقع سوال پر گل نے جھکی نظر جھٹکے سے اٹھائی۔

"جی"

وہ سرخ رو ہوئے ہونق بنی بڑبڑائی۔

"جی، کیسا لگتا ہوں آپکو گل؟ سچ اور صاف صاف بتائیں گی تو خوشی ہوگی"

ایسا انسان جسکی باتیں سننا ہی خوشی کی انتہا ہو، جسے چھپ چھپ کر دیکھنا ہی حیات کا کل سکھ ہو وہ جب روبرو آکر ایسا سب پوچھے تو دھڑکنیں اپنی ڈگر بلکل ویسے بھلاتی ہیں جیسے گل کی تھیں، بے خود، باولی سی۔

"آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"

گل کا انداز معصومانہ تھا۔

"آپکو اپنا بنانے کے لیے"

یہ جواب وہ خود بھی اپنے منہ سے برآمد ہونے کی امید نہیں کر رہا تھا اور گل تو یوں تھی جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں لے لیا ہو۔

"جی"

وہ پھر سے بدحواس ہو کر بڑبڑائی تو اس بار جبل زاد نے زرا بیچ کا فاصلہ مٹائے اس اڑے حواسوں والی کا خوبصورت سہما چہرہ پورے استحقاق سے دیکھا۔

"جواب دیں گل، وقت کم ہے"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر اسے مدہوش کر چکا تھا جو واقعی بھول گئی تھی کہ کہاں کھڑی ہے، پھر جب بیچ کے کم پڑتے اور قربت کا روپ بدلتے فاصلے کا احساس ہوا تو کانپتی ہوئی وہ اس سے دور ہوتی اس سے پہلے اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالتی جبل زاد اور کچن ریک کے بیچ سے نکل کر وہاں سے جاتی، جبل زاد کے مضبوط ہاتھ نے اسکا مرمریں ہاتھ جکڑے اسکے فرار کو ناکام کر دیا۔

اور وہ دم سادھے بس اسی لمحے کی اسیر ہوئی۔

"آپکا انکار لگ رہا ہے"

جناب نے منصوعی برہمی سے بنا مڑے ہی کہا تو وہ تڑپ کر اسکے پھیرے چہرے کو تکتی روبرو آئی۔

"ن۔۔نہیں کبھی نہیں"

وہ بے اختیار بولی مگر اس سے پہلے جبل زاد دل دھڑکاتی مسکراہٹ کے سنگ اس ہوش گنواتی حسینہ کو دیکھتا وہ گھبرا کر اپنا ہاتھ جبل زاد کے ہاتھ سے چھڑواتی لچن سے بنا پانی پیے ہی بھاگ گئی اور اس لڑکی کے اقرار کی یہ جان لیوا ادا، جبل زاد کا انگ انگ سرشار کر گئی۔

اسکے ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ مچلی تھی، اور وقت موصوف خود بھی اپنے سائیں ہی کا پرتو لگے جسکا دل بے قرار اور آنکھیں طوفانی جذبات سے بھری ہوئی تھیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی زمان خان کی کال کچھ لمبی ہو گئی تھی کیونکہ وہ اپنے لوگوں سے مسلسل رابطے میں تھا، ان دونوں گونگے لوگوں سے کچھ معلومات تو ملی تھیں مگر فی الحال ان میں سے کوئی بھی ایسی خبر نہیں تھی جو سیٹھ گونی تک پہنچا سکتی، کال بند کیے وہ اس قہر ڈھلکاتی رات کے وقت لھلے آسمان تکے یہاں باہر لان میں کھڑا اب تو اپنا پورا وجود سن ہوتا محسوس کر رہا تھا تبھی واپس اندر آیا، کمرے میں جانے کا خیال ناچاہتے ہوئے بھی اسکے قدموں کو سست کر گیا، چہرے کی رنگت یکدم بدلی۔

"محبت ناکام ہو جائے تو لوگ کہتے ہیں دل ٹوٹ جاتا ہے پر میری اس طرح ناکام ہوئی کہ محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے جسم کا ہر حصہ ٹوٹ گیا ہو، میں کتنی مہربانی کر سکتا ہوں آخر اس لڑکی پر؟ میرے پاس اپنا تو دل بھی نہیں بچا۔۔۔۔ اور اگر میں نے ونیزے حسن سے ناانصافی کی تو اسے اپنا بنا کر جو نیکی کرنی چاہی تھی وہ تو غارت ہو جائے گی۔۔۔ دل نہیں دے سکتا تمہیں ونیزے حسن، نام دے سکتا تھا وہ دے دیا، شاید اپنا آپ بھی دے دوں گا پر کیسے؟"

وہ اس لڑکی کے پاس جانا نہیں چاہتا تھا مگر اسکا دل پتھر نہیں تھا، سنگدل لوگ ویسے بھی محبت نہیں کر سکتے، اسکے قدم لاونچ میں رک گئے، ہمت ختم ہو گئی تھی،وہ اس لڑکی کی عادت تو بدلوا رہا تھا، اپنا کیا کرتا جسے وریشہ یوسف زئی کو چاہنے کی عادت تھی۔

"نہیں ولی! آدھی مہربانی تو پورے ستم سے زیادہ بھیانک ہوتی ہے۔ تم ستمگر نہیں ہو سکتے، اللہ ستمگروں کے تو اتنے امتحان نہیں لیتا"

اس کے اپنے بوجھ میں ڈوبے دل کو سمجھایا اور اپنے رکے قدم واپس بحال کیے، وہ کمرے میں انٹر ہوا تو ونیزے موجود نہیں تھی، شاید وہ اسکے بقول چینج کرنے چلی گئی تھی تبھی گہرا سا سانس بھرتا وہ بیڈ تک آیا، اور تکیے درست کیے بیٹھتے ہی نیم دراز ہو کر لیٹ گیا، لحاف ٹھیک کیے اپنی دوسری بازو پر اوڑھا کیونکہ ٹھنڈ کی شدت کی وجہ سے درد زیادہ اٹھ رہا تھا۔

لگ بھگ پانچ منٹ بعد اسی کے چیبجنگ روم سے نکلتی ونیزے کو اسی ڈریس میں لپٹ کر آتا دیکھتا وہ سیدھا ہوا جو ولی کو بنا دیکھے، اپنی شال کندھے سے اتار کر وہیں صوفے پر رکھتی بیڈ کے پاس ہچکچاتی ہوئی آئی، اسکی بجھی آنکھوں میں بلکتی ہوئی تکلیف وہ صاف دیکھ سکتا تھا۔۔

"ولی، میں وہاں بھی سو سکتی ہوں۔ آپ ایزی ہو کر ریسٹ کریں۔ ویسے بھی جیسی آپکی ٹف جاب ہے، سکون کی نیند کے چند گھنٹے ہی ملتے ہیں آپکو، میں نہیں چاہتی وہ وقت میری موجودگی کے باعث آپکی بے سکونی بنے"

وہ ابھی بھی افسردہ تھی اور صوفے کی طرف اشارہ کرتی اپنی بات ولی کو سمجھانے کی کوشش میں آخری تک بوجھل ہوئی جو اسکی تمام باتیں سنے اپنا مضبوط ہاتھ اسکی طرف بڑھا چکا تھا جسے ونیزے نے بھرائی آنکھوں کے سنگ دیکھا۔

"ونیزے، آجاو میرے پاس۔ ٹھنڈ میں ننگے پیر کھڑی ہو، آو یہاں"

وہ تو یوں تھا جیسے اس نے اس لڑکی کی کوئی بات سنی ہی نہ ہو، تبھی تو وہ اپنے آنسو لاکھ دباتی بھی دبا نہ سکی اور اپنا کانپتا ہاتھ ولی کی طرف بڑھایا جس نے اسے ناصرف بیڈ پر آنے پر مجبور کیا بلکہ خود بھی اپنے تکیے کو ٹھیک سے نیچے رکھتا لیٹا اور اس لڑکی کا سر بھی اپنی بازو پر رکھے، اسی ہاتھ سے اسکی کمر پر دباو ڈالے اپنے قریب کیا جو آنکھیں موند کر ہچکیوں کی زد میں روتی اسکے سینے میں چھپ گئی۔

ولی نے زخمی بازو والا ہاتھ ہمت کیے بڑھایا اور اپنی طرف کا تیز روشنی اگلتا لیمپ بجھا دیا، جبکہ اب کمرے میں نیم روشنی کا ہالہ اور اس لڑکی کی سسکیاں بلند ہو رہی تھی۔

"کیوں رو رہی ہو ونیزے، اپنا حق ملنے پر تو خوش ہوتے ہیں"

وہ اسکے رونے پر خود بھی تکلیف کا شکار ہوا تھا کہ وہ لڑکی کس قدر اندر سے بکھری ہوئی تھی کہ بس ولی کے زرا سا قریب کرنے پر ہی ضبط کھو بیٹھی تھی۔

"تمہاری مجھ سے محبت بہت سٹرونگ ہے، جانتی ہو کیسے؟"

وہ رونا روکے اکھڑتی سانسوں پر اختیار جماتی ہمت کیے چہرہ اٹھائے ولی کے ان لفظوں پر اسے دیکھنے لگی جو مدھم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے اسی نڈھال کو دیکھ رہا تھا۔

"ک۔۔کیسے؟"

اسکے ہونٹ اور آواز دونوں ہی یہ بولتے لرزے۔

"ایسے کہ تمہیں ولی پورے حق سے مل گیا، اس دنیا میں بہت سی محبتیں ایسی بھی ہیں ونیزے جو تاعمر لاحاصل رہ جاتی ہیں۔ تم تو خوش قسمت ہوئی پھر"

اس شخص نے جب لاحاصل کہا تو اسکی رنگ بدلتی آنکھیں لمحہ بھر ویران ہوئیں، جیسے اس نے اپنی مثال دی ہو۔

"خوش قسمتی حاصل ہو جائے تو بے وجہ آنسو بہانا ناشکری کے زمرے میں آتا ہے، تمہیں پتا ہے ولی زمان خان تو آج تک اپنے کسی بڑے سے بڑے خسارے پر بھی نہیں رویا۔ سمجھو کہ مجھ سے رویا ہی نہیں جاتا، ایک وقت آتا ہے جب آپکو اپنا رونا سب سے زیادہ مضحکہ خیز لگنے لگتا ہے"

وہ اسے بہلانے کی کوشش میں اپنی کمزوری کہہ بیٹھے گا یہ اسے بھی کب پتا تھا پر وہ بڑے بزرگوں کی کہاوت ہے ناکہ آپ دو لوگوں کے سامنے کبھی آزاد نہیں رہ سکتے، ایک اسکے سامنے جس سے آپ محبت کرتے ہوں اور دوسرا اسکے سامنے جو آپ سے محبت کرتا ہو۔

"آپ کبھی نہ روئیں، میں نے ہمیشہ یہی دعا مانگی ہے۔ آپکے دل کو کبھی کوئی دکھ نہ پہنچے"

وہ رونا تو روک چکی تھی پر اب اس سے ولی کی اداسی برادشت نہ ہوئی اور وہ اسکی سرخ ہو جاتی آنکھیں دیکھتا اسکی محبت بھری دعاوں پر مسکرا دیا۔

"اپنے دل کو دکھ تو ہم خود پہنچاتے ہیں ونیزے کیونکہ اس کا اختیار صرف ہمارے خود کے پاس ہوتا ہے، اس وقت میں بلکل اداس نہیں ہوں کیونکہ میرے پاس اس وقت ونیزے حسن موجود ہے جو میری زندگی میں اہم مقام رکھتی ہے"

اول جملہ یاسیت بھرا تو اختتام اس نے ونیزے کو خوشی سونپتے کیا جو بس اسی سکھ سے نہ نکل رہی تھی کہ وہ اسکے بہت پاس ہے، وہ اسے اسکا نام پکارتے ہوئے مزید پیارا لگا اتنا کہ وہ پھر سے آنکھیں بھرتی محسوس کر رہی تھی۔

"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آپ کو چھو بھی سکوں گی، مجھے یہی لگتا تھا شاید قریب سے دیکھ بھی نہیں سکوں گی"

وہ اسکے جسم کی ٹھنڈک کو اپنے باعث گرمائش میں بدلتا محسوس کر رہی تھی یہ فرحت بخش تھا، وہ اسکے سانس لینے کی مدھم آواز کو دھڑکنیں سماعت بنا کر سن رہی تھی یہ لذت آمیز تھ اور جب اس نے یہ جملے کہے تو وہ اس بار زرا حیرت زدہ ہوا، اور چہرہ بھی ونیزے کی طرف کیے ہلکی سی کروٹ بدلی۔

"دیکھ لو جی بھر کر، ویسے کب سے ولی جیسا یہ خارش آدمی تمہارے دل میں موجود تھا؟ یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں"

وہ اسے دیکھتی یا اسکا سوال سننے کو ہوش برقرار رکھتی، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اس لڑکی کو انجانے میں کتنا ٹف ٹائم دے بیٹھا ہے یوں مزید روبرو اور نزدیک ہو کر۔

"سکول کے ٹائم سے"

وہ اسکا گھبرا کر دیا جواب سن کر واقعی چونکا، جبکہ ولی کی کھلی حیرت سے اٹی آنکھیں اس وقت ونیزے کو بہت پیاری لگیں۔

"وآٹ؟ سکول ٹائم سے ہی میں نے تمہارا دماغ خراب کر دیا تھا۔ توبہ ولی، کتنے خراب ہو تم"

وہ اپنی اس چھپی واردات پر خود حیرت کے بعد ہنسا جبکہ وہ بھی سمٹا سا بھیگا سا مسکرائی۔

"پھر کبھی بتاوں گی یہ کہانی، آپ سو جائیں۔ "

وہ جانتی تھی کہ مزید بات نہیں کر پائے گی تبھی اسے یہ جان لیوا ملاقات ختم کرنا ہی مناسب لگا۔

"تمہیں مجھ سے بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا؟"

وہ اسکی جھجک اور ہچکچاہٹ سمجھنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ اس سے باتیں کرنا چاہ رہا تھا تاکہ وہ کچھ بھی بولے مگر بولے ضرور۔

"ایسا تو کبھی نہیں ہو سکتا مگر۔۔۔۔۔"

وہ اس الزام پر تڑپی پھر کچھ واضح کرتے کرتے اسکی زبان لڑکھڑائی۔

"مگر کیا ونیزے؟، سب کچھ کہنا سیکھو گی تو ذہنی دباو سے باہر نکلو گی۔ زندگی کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں، کیا پتا تم سے پہلے مجھے کچھ ہو جائے سو جتنے لمحے میسر آئیں انھیں جی لینا ہی بہتر ہے۔ تم مجھ سے ہر وقت باتیں کرنا چاہو تو کر سکتی ہو، تمہیں ولی یہ اجازت دیتا ہے۔۔۔ کبھی بھی خود کو کسی چیز کے لیے روکنا نہیں، میں نے تمہارے لیے خود کو تمہارے سپرد کیا ہے، اگر تم ہی بے قرار اور پریشان رہو گی تو میں بھی ٹھیک نہیں رہ پاوں گا"

وہ شخص جتنا بھی پریکٹیکل ہو جاتا، وہ ہر ادا سے جان لینے کی خاصیت رکھتا تھا، وہ لڑکی سانس روکے یہی سوچ رہی تھی کہ اگر یہ شخص ایک سمجھوتے سے جڑے تعلق میں اتنا مہربان ہے تو اس تعلق میں کتنا درویش ہو گا جو اس کے پیارے دل سے جڑا ہوگا۔

"بہت لکی ہوگی وہ لڑکی جس سے آپکو محبت ہوگی"

وہ اسکے ایک بھی سوال کا جواب نہ دے پائی بس یہی رشک سے بولی۔

"اور وہ لڑکی لکی نہیں ہے کیا جو ابھی میری بیوی بن چکی ہے؟"

وہ بھی ولی زمان خان تھا، دل کا بادشاہ، ونیزے کی حسرت کو اس نے بہت نرمی اور محبت سے اسکے اپنے رشک میں بدلا جسکی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگیں۔

"میں چاہتا ہوں تم جتنی دیر میرے ساتھ جیو ، خود کو لکی سمجھو۔ جسم کی بیماریاں تو آتی جاتی رہتی ہیں ونیزے، دل کو کوئی دیمک نہیں لگنی چاہیے۔ اور میں بھی یہی چاہتا ہوں تم وہ ساری خوشیاں دیکھو جو ایک صحت مند ، بہت زیادہ زندگی کے دنوں کا یقین لے کر جیتا انسان دیکھتا ہے"

وہ اسے تھکا رہا تھا، اپنی اتنی خوبصورت باتوں سے اور وہ اسکے آگے پہلے ہی کمزور تھی اب تو خود کو بکھرا ہوا محسوس کر رہی تھی۔

"م۔میری س۔۔ساری خوشی آپ ہیں ولی"

وہ آنسو روکتی سسک اٹھی تھی اور ولی نے انگلی کی نرم پوروں کے سنگ اسکے چہرے پر بکھرتے آنسو پونجے اور مسکرایا۔

"تو یہ بات مسکرا کر بھی بتائی جا سکتی ہے مس شکارن، رونا ضروری تو نہیں۔ تمہارے ساتھ ہوں ونیزے، اکیلی نہیں ہو۔ یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر امید رکھتا ہوں کہ اپنا آپ تمہارے لیے باعث سکون بنا پاوں۔۔۔ اچھی نہیں لگتی تم روتے ہوئے، بہت سٹرونگ گرل ہو، اب رونا نہیں اوکے"

خود میں سموئے وہ اپنی بازو کی فی الحال پرواہ بھی چھوڑ چکا تھا جبکہ اس آغوش میں اگر یہ اسکی آخری نیند ہوتی تو وہ خوشی خوشی مرنا قبول کر لیتی۔

"تھوڑی ہچکچاہٹ مجھے بھی ہے، وہ فطری ہے۔ لیکن ایسا مت سمجھنا کہ جان بوجھ کر تمہیں خود سے دور رکھ رہا ہوں ، مجھے سمجھ سکتی ہو تم۔ اب سونے کی کوشش کرو، بہت باتیں کر کے تمہارا دماغ کھا لیا"

وہ جو کہہ رہا تھا ، انکے بیچ کے بڑھتے تعلق کی بات تھی اور وہ اسکے ان کھلے الفاظ پر تھوڑی گھبرائی کیونکہ وہ شخص اسکی تکلیف کے بعد اسکی، اسکے دل کی اور اسکے بکھرے وجود کی خواہش بھی جان گیا تھا۔

"و۔۔ولی!"

وہ اسکے پاس گزارا ایک ایک ایک لمحہ کہیں قید کرنا چاہتی تھی، اسکے پکارنے پر وہ اسے روبرو کیے فکر سے دیکھنے لگا۔

"میں سو نہیں سکتی،درد کے باعث نیند نہیں آتی مجھے"

وہ بہت بے بس ہو کر بولی، آواز کو آنسووں نے نگلا۔

"میں بھی راتوں کو نہیں سوتا، کیسے الو ہیں ہم دو"

اتنی دردناک بات کو وہ جس طرح ٹالے ہنسا، کتنی ہی دیر وہ بجھی آنکھوں والی ہنستی رہی۔

"لیکن آپکو سونا چاہیے، چہرے کا گلو چلا جائے گا"

ہنس کر جب اسکی آنکھوں میں نمی اتری تو وہ اسے مشورہ دیتی مسکرائی اور گلو پر ولی بے اختیار مسکرایا۔

"چلا جائے، میں نے کونسا فیشن شو میں جانا ہے"

وہ اخیر اپنا بیسٹ دینے میں لگا تھا پر آج درد کے باعث ولی کو واقعی نیند سی محسوس ہو رہی تھی اور یہ بات ونیزے کو بھی محسوس ہوئی۔

"و۔۔ولی، کیا میں آپ کا ہاتھ چوم سکتی ہوں"

جناب کو ہلکی سی جمائی لیتے اور زبردستی پھر روکتا دیکھ کر وہ بے اختیار ہی بولی تو ولی نے ہنس کر اس لڑکی کو دیکھا اور پھر اسکے معصوم سے سوال کو۔

"میں تمہارا پیر ہوں کیا؟"

وہ آگے سے ہنس کر مزید قہر ڈھا رہا تھا اور ونیزے کے سر ہلانے پر ولی کے چہرے کی مسکراہٹ بھی غائب ہوئی اور خود ہی ونیزے نے اسکی ٹھہری ہوئی آنکھوں میں دیکھتے اسکے ہاتھ کو عقیدت سے چوما اور اس لڑکی کہ یہ تڑپاتی حرکت ولی زمان خان کے اندر کا ہر احساس اکھاڑ گئی۔

"پہلے تو دیوانی تھی پر ایک دن میں مرید ہو گئی آپکی ولی زمان خان، سو جائیں۔۔۔ اب میں بھی سونے کی کوشش کرتی ہوں"

یہ جان لیوا سا سحر پھونکتی وہ اپنی گرم ہتھیلی ولی کے سینے سے جوڑتی اسی پوزیشن میں اپنی آنکھیں بند کر گئی مگر ولی کی آنکھوں سے اس لڑکی کے دکھ نے رہی سہی ہر نیند نوچ لی تھی، نجانے یہ اس شخص کے ساتھ کا سکون تھا یا اس لڑکی کی خوشی کہ جلد ہی وہ مدھم مدھم سانس لیتی نیند میں اتری تو ولی نے اپنا وہی ہاتھ بڑھا کر اس لڑکی کی آنکھوں سے انگلیوں کی پوریں چھوئیں تو وہ اسکے بے خبری میں بہتے آنسووں سے تر ہو گئیں، نیند کے باوجود اس لڑکی کے جسم کی تکلیف اس پر حاوی تھی اور ولی اس لمحہ اپنی ہر تکلیف بھول گیا تھا، بس اس لڑکی کے نازک، بکھرے وجود کو اس نے پہلے سے زیادہ شدت کے سنگ خود میں بسا لیا تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اس دہلیز تک آنے کے لیے آج اسے پہلے سے زیادہ ہمت درکار تھی کیونکہ آج اسے وریشہ یوسف زئی نے خود بلایا تھا، پھولوں کو بند دکان کھلوا کر اس نے پھول ارینج کیے تھے، ان جیسے پھول جو ابھی تک مرجھائے ہوئے ہو کر بھی وریشہ کے پاس محفوظ تھے۔

آج وہ پورے دل سے سجی تھی، ہلکا پھلکا میک اور کیا، بال سٹریٹ کر کے کھولے، ان میں چمکتی ایکسٹینشنز لگا کر انکو گارجیس بنایا، کانوں میں نہایت چھوٹے ائیر رنگز اور بلیک ٹاپ ود جینز، وہ اس سے زیادہ کیا سجتی کہ جیسی بھی تھی ، اس سنگدل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہی سجنے لگتی۔

ڈنر میں اس نے سب تو خود نہیں بنایا تھا کیونکہ سفر کی تھکن تھی مگر پھر بھی ایک ادھ چھوٹی ڈش بنانے کی ہمت اس سے ملاقات کی خوشی نے سونپ دی۔

خوشبووں میں بسی وہ لڑکی آج نہ تو دادا کا سوچنا چاہتی تھی نہ ولی کا، اس کے نزدیک کم ازکم وہ ایک ایسی رات کا تو ضرور مستحق تھا جب وریشہ مکمل اسکی ہو، اور صرف اسے سوچے۔

ڈائنگ پر لگی خوبصورت سی موم بتیاں کینڈل لائیٹ ڈنر کا سماں سا باندھ رہی تھیں اور اگر شہیر مجتبی کو اندازہ ہوتا کہ وہ لڑکی اس پرزور تیاری کے سنگ اسکی جان لینے کی تیاری کیے بیٹھی ہے تو وہ کوئی جھوٹا ہی سہی نہ آنے کا بہانہ تراش لیتا۔

اپنے ہاتھوں میں تھامے کاسنی پھولوں کو اک نظر دیکھتے شہیر نے گہرا سانس کھینچا۔

"مجھے كاسنی پھول پسند ہیں

میں اُس لڑکی کا ذکر کر رہا ہوں

جسے میں نے چاہا

اُس کا نام اس لئے نہیں لے رہا کہ دنیا بہت گنجان ہے

اور میں نہیں چاہتا کہ اُس کی کوئی ہمنام کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے."

شہیر مجتبی نے ہاتھ نے بڑھ کر دستک دی تو ڈائنگ میز پر جھک کر آخری موم بتی کو جلاتی وریشہ چونکی، اگلے ہی پل اسکے مسکراتے چہرے کی خوشی کئی گنا بڑھی۔

وہ پلٹ کر مڑی اور اک نظر وہیں لاونچ کی دائیں دیوار پر نسب آئینے کے سامنے اپنے ہوش ربا سراپے پر نگاہ ڈالتی وہ دروازے کی طرف بڑھی اور جب کھولا تو وہ مغرور نقوش والا آج تو درویش بنا کھڑا تھا، ہاتھوں میں پھول پکڑے، وریشہ کو اتنا سجا نہایت سرسری دیکھ کر اسکی چھٹی حس نے اسے پہلے ہی خطرے کا سائن دیا مگر وہ ایک طرف کھڑی ہو کر اسے اندر آنے کی راہ دیتی مسکرائی تو جناب بھی چہرے پر بلا کی سنجیدگی سجائے اندر بڑھے اور خود وریشہ نے بھی اسکے اندر آتے ہی ڈور بند کیا اور مڑی جو ان پھولوں کو لاونچ کے خوابناک ماحول کو دیکھتے ہوئے وہیں رکھے ایک خالی واس میں لگانے لگا۔

"یہ ڈنر کوئی عام ڈنر تو نہیں لگ رہا بیوی، اور تم اتنی تیار کیوں ہوئی ہو؟"

دانستہ اس سے نظر چراتا وہ ہنوز ان پھولوں کی ٹہنیاں اک اک کر کے واس میں لگا رہا تھا اور وہ شرارت سی چہرے پر سجاتی قریب ہی آکر کھڑی ہوئی۔

"دیکھا تو تم نے ہے ہی نہیں مجھے، پھر کیسے پتا چلا کہ تیار ہوئی ہوں"

وہ اسکی آزمائش لیتی اسکے ہاتھ سے بقیہ تمام ٹہنیاں لیتی ایک بار ہی واس میں لگاتی اسکا یہ فرار کا کھیل سمیٹ کر عین سامنے اکر کھڑی ہوئی تو اسکی کشش نے شہیر کو مجبور کیا کہ وہ اسے دیکھے۔

"تمہیں آنکھوں سے تھوڑی دیکھتا ہوں، اپنے اس سیاہ گناہ گار دل سے دیکھتا ہوں۔ آنکھوں کا ایمان جلدی ڈگمگاتا ہے مگر دل مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں"

وہ ابھی بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ اسکی نظریں وریشہ کے کھلے بالوں پر تھیں جھنیں وہ ہاتھ بڑھا کر اسکے کندھے پر بکھرا ہوا دیکھ کر انگلیوں کی پوروں سے سمیٹ رہا تھا اور وہ اسکے دیکھنے کو شدت سے چاہ رہی تھی۔

"تم نے مس نہیں کیا مجھے؟"

وہ اسکا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑے اپنی طرف گماتی جس طرح بولی، شہیر نے اپنی آنکھیں وریشہ کی آنکھوں میں ڈالیں۔

"نہ کیا ہوتا تو دوڑ کر آتا کیا؟"

وہ اسے لاجواب کرنے میں ماہر ہی تو تھا، جبکہ وہ شدت سے چاہتا تھا آج اس لڑکی سے کھل کر اعتراف محبت کر لے، پھر ناجانے زندگی اسے یہ موقع دے گی بھی یا نہیں۔

"کیوں سجی ہو اتنا بیوی؟ رسک پر رسک کون لیتا ہے پاگل۔۔۔۔ "

وہ آنکھوں میں محبت کا جہاں بھرے اسکے بہت قریب کھڑی تھی تبھی تو جناب نے بھی اسے نرم سے حصار میں مبتلا کیے بازووں میں بھرتے  اسکی بے داغ پیشانی چومتے ہی سوال داغا جو وریشہ کو ہنسا گیا۔

"نہیں سجی، بس تھوڑا خلیہ درست کیا ہے۔۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم میرے بلانے پر آئے، اور خوشی میں انسان کھل اٹھتا ہے"

وہ اسے دیکھ کر مخمور لہجے اور اور لپکتی اتراہٹ کے سنگ بولی جو اس میں ہی جذب ہو کر کسی سحر کے زیر اثر اتر چکا تھا، صرف محبت کرنے والے اور خطرناک دُشمن ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دونوں کیا تھے؟ دشمن تو ہرگز نہیں تھے۔

"کچھ ہو گیا تو کیا کرو گی پھر ، اتنا زیادہ خود کو بہتر کرنے کی کیا ضرورت تھی بیوی"

وہ بے اختیار بولا، اسکی نظریں وریشہ کی بے خود آنکھوں میں فرصت سے گڑھی تھیں۔

"تم فکر مند ہو؟"

وہ خوشگوار سے تجسس میں مبتلا ہوئی۔

"ہمم، تم نے جب کہا کہ مجھے یاد کر رہی ہو تبھی سے فکر میں مبتلا ہو گیا تھا، اچھی نہیں لگ رہی تم مجھ سے ایسی محبت کر کے"

وہ خود پر اختیار کھو رہا تھا تبھی جانچے بنا ہی بول گیا اور وہ تب بھی اسکے اس فضول ہانکنے پر جان لیوا مسکرا اٹھی۔

"میں تو خود کو بہت اچھی لگ رہی ہوں، کیا تم تھوڑی دیر یہ امیجن کر سکتے ہو کہ وریشہ کی محبت کے ہوتے ہوئے تمہیں اس پوری دنیا میں کسی کی محبت نہیں چاہیے"

اسکی قربت کا تروتازہ لمس ، اس شخص کا پاس ہونا بڑی راحت تھی، اس لمحے کا سکھ وریشہ سے بیان نہ ہو سکتا تھا، وہ کچھ دیر تو کچھ بول ہی نہ سکا، کیا بتاتا کہ امیجن کرنے کا وقت تو کہیں پیچھے رہ چکا ہے، یہی بات حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔

"مجھے سچ میں کسی کی محبت نہیں چاہیے اب، لیکن تم اپنی محبت مجھ جیسے پر لٹا کر خسارے میں رہ جاو گی۔ پہلے ہی وارن کیے دیتا ہوں"

وہ محبت کے روپ میں ڈھل کر بھی سفاک تھا۔

"میں اس خسارے کو ہمارے ان چند لمحوں کے سکھ کے باعث فراموش کر دوں گی، بددعا دی تھی کہ اپنی حسرت سے تمہیں ماروں گی پر تم میری اس بددعا کے مستحق نہیں تھے، جانتے ہو کیسے پتا چلا مجھے؟"

وہ اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ بھرے جذبات سے اٹی آواز میں افسردہ سا مسکرائی تو شہیر نے ایک ہاتھ اسکے مرمریں ہاتھ پر جمایا۔

"ایسے پتا چلا کہ میں خود تمہاری شدید حسرت میں مبتلا کر دی گئی، اب پوری دنیا بھی مجھے خود غرض کہے، برا کہے، ظالم کہے، سنگدل کہے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اپنی ہمت کے مطابق سبکا بہت سوچ لیا وریشہ نے، اب صرف تمہارا سوچوں گی۔ صرف تمہیں سوچنا چاہتی ہوں، مکمل۔۔۔بنا یہ سلسلہ منقطع کیے"

اس شخص نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس عورت کے روبرو اسکا دل جھک گیا وہ کبھی اس پر یوں فدا ہو جائے گی، وہ شاک کی سی کیفیت میں تھا، اس جیسوں پر ایسے مبارک رحم کہاں کیے جاتے ہیں تبھی تو اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا، اندر باہر سب کرچیوں میں بٹ رہا تھا۔

"تم بہت مہربان اور رحم دل سی لڑکی ہو وریشہ، جانتا تھا جو نکاح کا قہر خود پر ڈھا بیٹھی ہو تم نے ایک دن میری محبت میں پڑ ہی جانا ہے پر ایسی شدید محبت تو میں نے سوچی بھی نہیں تھی"

اسے وریشہ کے جذبات کی شدت سے انجانا سا خوف تھا، وہ بہت شدید تھے، وہ اسے سالم نگل جانے والے جنونی جذبات تھے اور وہ جان نکالنے کی حد تک دلربا بنی مسکاتی ہی رہ گئی۔

"سوچ سے برعکس کچھ ملے تو اچھا لگتا ہے ناں؟"

وہ واقعی گلاب کے پھول کی طرح مہک رہی تھی، اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ کا لمس، عارضوں پر قربت کے گلال بکھرے تھے اور آنکھیں شہیر مجتبی کو خود میں اتار رہی تھیں۔

"مجھ جیسوں کو نہیں لگتا، مجھ جیسے مرنے لگتے ہیں"

وہ بوجھل دل سے بولا تو وریشہ نے خاموشی سے شدید گرم جوشی سے اسکے گلے لگ جانا ہی مناسب سمجھا، اور اس لڑکی کا یہ وار واقعی روح تک قربت و رسائی کی تاثیر اتار دینے جیسا سفاک تھا۔

"میں نے ولی سے کبھی محبت نہیں کی شہیر، تکلیف اس لیے تھی کہ میری محبت انکی ہمیشہ اذیت بنی اور پھر دیکھو لاحاصل بھی رہ گئی۔ تب میرے دل پر کسی کی حکمرانی نہیں تھی ناں تبھی اپنے دل کو ولی کے لیے سنبھالے رکھتی تھی، پہلے فیملی نے ان سے وریشہ چھینی پھر تم آئے لیکن تم نے تو وریشہ تک سے وریشہ چھین لی، اب لگتا ہے میرے پاس وریشہ کبھی واپس نہیں آئے گی، میرے دل کی جتنی خوشی ہے اب صرف تمہارے ساتھ تک ہے۔ تمہیں دیکھنا، تمہاری الٹی سیدھی باتیں سننا ، تمہارے قریب رہنا چاہتی ہوں"

گلے لگ کر وہ سیدھی سیدھی جان ہی تو مانگ رہی تھی اور شہیر اب جب حسد سے نکل چکا تھا تو اسے اپنا آپ مجرم محسوس ہو رہا تھا، اس لڑکی کا مجرم، اس شخص کا مجرم جس نے وریشہ کو ناجانے کتنا چاہ لیا تھا کہ وہ اسکے لیے قدرت کی جانب سے ممنوع کر دی گئی ، ناجانے مل جاتی اسے تو کیا قیامت آجاتی۔

"ولی کا کیا ہوگا وریشہ؟"

وہ اسے پکڑ کر روبرو لایا تو اس لڑکی کی مسکراتی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔

"تم اس وقت یہ سوچو کہ اگر ہم کبھی جدا ہو گئے تو ہمارے دامن میں ہماری محبت کے بہت کم لمحے ہوں گے یادوں کی سہولت کے لیے"

وہ اسے آزماتی ہوئی تکلیف میں اتری تو ہر پس و پیش کو جھٹلا دینے کا دل نے شدت سے حکم سونپا تھا۔

"تو تم جدا ہونے کا پہلے ہی مائند بنا چکی ہو؟"

وہ تکلیف سے یکدم خفگی میں ڈوبا۔

"کل کس نے دیکھی ہے پاگل، جو ہے بس آج ہے۔۔۔ مجھے تمہاری آنکھیں بہت یاد آئیں گی اگر ہم کبھی بچھڑ گئے، اور تمہارا وریشہ کے روبرو کمزور پڑتے ہی نظریں چرا لینا"

وہ اسے آج کسی اور کا ذکر کرنے نہیں دینا چاہتی تھی پھر وہ کوئی اور معاملہ انکے بیچ کی دوری ہی کیوں نہ ہو۔

"تو مت کمزور کرو مجھے، جانے دو۔۔۔۔ اتنی ملاقات کافی ہے"

وہ اسکا بختوں والا پیارا ہاتھ سنگدلی سے دل پر پتھر رکھے آزاد کرتا اس جان سے پیاری لڑکی سے دور ہوا مگر وریشہ نے اسکا وہی چھڑوایا ہاتھ بے اختیار جکڑے اسے اپنی طرف کھینچا تو دونوں کی ہر ہوش سے بیگانی کر دیتی آنکھیں آن ملیں اور دھڑکنیں روک کر رکھ گئیں۔

"کافی تو اب کچھ بھی نہیں رہا،  ویسے بھی ڈنر کیے بنا تم نہیں جا سکتے"

وہ خود کو بے خودی کی سرحد سے واپس گھسیٹ لائی اور اس سے پہلے وہ یہ دل دہلاتا مکالمہ ختم کرتی ، اس سے دور سرک کر اسکی مہمان نوازی کرتی، شہیر نے اسی کمر میں ہاتھ ڈالے ایک ہی جھٹکے سے ناصرف اپنی طرف کھینچا بلکہ کوئی لمسی میکانزم تھا جس نے بروقت کوئی اسم محبت پھونکا کہ وہ اسکی مہکی ہوئی سانسیں اپنے تھکے، فرار زدہ وجود کی زنجیر بنائے خود میں شدت سے فرصت و سہولت سے گھونٹ گھونٹ شفائے جان کے واسطے اتار بیٹھا، وہ اک ابتدائی بے خود لمحہ تھا ہچکچاہٹ و گھبراہٹ کا مگر پھر اگلے لمحے ان دو کو یک جان ہوتا دیکھ کر یوں تھا جیسے وہ دو نہیں ایک جسم ، ایک روح کا مرکز تھے، ایک دل کی دو دھڑکنیں تھے، اک بدن کی دو خوشبوئیں تھے، دو آسمانوں کا واحد چاند تھے۔

"Hey Love!

I can't talk to you without feeling honor.

I can't see you without feeling wonder.

I can't touch you without feeling pure.

I can't feel you without wanting more."

جب دھڑکنوں کو واپس ڈگر پر بحال کیے سانسوں کو کھلے عام آزادی تھمائی گئی تو ان دونوں کی ایک سی بے خود آنکھیں ایک دوسرے کا ہر چھپایا راز جان چکی تھیں، سراسیمگی کی سی کیفیت تھی جو ان دونوں پر طاری تھی، وہ جانتی تھی اگر مزید اسے دیکھتی رہی تو نظر لگا بیٹھے گی تبھی اسکی بے باک آنکھیں جھکیں اور شہیر مجتبی کا دل بھی اسکی ان جھکی سرشار آنکھوں کے روبرو سجدہ ریز ہوا۔

"تم نے اچھا نہیں کیا وریشہ مجھے کمزور کر کے، میں یہاں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ پہلے کی بات اور تھی، اب مجھے ولی کے لیے دکھ محسوس ہوتے ہیں"

وہ اسکی شکوہ کناں آنکھیں دیکھتی اسکے اب تک خزن سے بھرے دل پر تھکا مسکرائی۔

"تمہارا دل پتھر ہو ہی نہیں سکتا، پتھر دل ہوتا تو تم نے ہمارے بیچ تعلق کو میری رضا کے بنا ہی کب کا بنا لیا ہوتا، تم جس احساس کے تحت مجھ پر مہربان رہے وہ محبت ہے شہہر، اگر میں تمہاری جگہ ولی کو چنتی تو اپنا بٹا ہوا دل اور بے زار وجود ہی دے پاتی اور وہ میرے پہلے ستم کے بعد ایسی ناانصافی کے کہاں مستحق ہیں سو میں نے سوچا وہ شخص ایک بہت نایاب سی محبت کا حق دار ہے اسے ایسی ہی محبت ملنی چاہیے، ایک ایسی محبت کا جس میں بٹورا نہ ہو، اور دیکھو اللہ نے ونیزے حسن کو بھیجا۔ محبت تو زندگی کا دوسرا نام ہے، وہ سہہ سکتے ہیں محبت سے بچھڑنا، میں نہیں سہہ سکتی تھی۔ تم آزمانا چاہتے ہو مجھے تو آزما سکتے ہو، پھر سے اپنی جان لینا مشکل نہیں ہوگا میرے لیے"

وہ یہ سب بہت دکھ سے بولی، لپجے کو آخر تک آنسووں نے تر کیا اور آواز پر بھری جبکہ شہیر نے باقی سب ان سنا کیے اس لڑکی کے آخری جملوں پر دل بند ہوتا محسوس کیا، اور خود وریشہ کا دل کپکپا اٹھا کہ یہ تکلیف اس سے کیا کہلوا گئی ہے۔

"تم نے خود کو مارنے کی کوشش کی تھی؟ وریشہ بولو۔۔۔یہ کیا سن رہا ہوں میں؟"

وہ اسکو بازووں سے تھامے جھٹکا دیتے چہرے کے روبرو نزدیک کرتا برہمی سے غرایا جبکہ اس لڑکی آنکھیں جو کچھ دیر پہلے خوشی سے بھری تھیں، اب سرخ اور بھیگی تھیں۔

"ب۔۔بہت بے بس ہو گئی تھی، کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ تمہاری طرف بڑھتی تھی تو دل رکتا تھا، ولی کی تکلیف کا سوچتی تھی تو جان جاتی تھی، مجھے لگا میں ہی سبکی تکلیف کا سبب ہوں سو مجھے اپنے آپ کو ختم کر دینا چاہیے، وہ اخیر مایوسی کے دن تھے مگر اب نہیں، اب تمہاری طرف بڑھنے میں مجھے کوئی مشکل درپیش نہیں"

وہ اپنی وہ اذیت بیان کرتی ٹوٹی بکھری ہوئی تھی اور شہیر نے اسے پکڑ کر اس بے رحم انکشاف پر اپنے وجود کی تہہ تک بسایا، خود اس شخص کی آنکھوں کے کنارے اس درجہ خود سے وابستہ اس لڑکی پر نازل ہوتی سفاکیت پر سرخ ہو گئے۔

"معاف کر دو مجھے وریشہ، شہیر مجتبی دوبارہ تمہیں کبھی بے بس نہیں ہونے دے گا۔ اب ہمارے بیچ کسی تیسرے کا کوئی ذکر نہیں ہوگا"

وہ معذرت کرتا خود بھی اذیت میں مبتلا تھا اور وہ اس سکون سے بھری گرفت میں سانس بھرتی زرا فاصلہ بنائے اسکے روبرو ہوئی، اپنے آنسو رگڑے تو اس شخص کی ملال میں ڈوبی آنکھیں قریب آتے ہی باری باری چومیں جو اس عنایت پر اور دلگرفتہ ہوا۔

"میں جانتی ہوں تم مجھے اب کوئی تکلیف پہنچنے نہیں دو گے، محبت کرتے ہو ناں تم بھی ؟"

وہ اسکے اظہار کے لیے دل تک تڑپی لگی اور ایسے کئی اظہار اب وہ شخص اس لڑکی پر وار سکتا تھا۔

"اب بھی شک ہے تمہیں؟ "

وہ اسکے اس سوال کی امید نہیں کر رہا تھا مگر اسے کون بتاتا یہ صنف نازک بڑی ٹیڑی شے ہے، پسلی سے وجود میں آئی ہے تو کیسے اسکی ادائیں سیدھی اور آسان فہم ہوتیں، کیسے نہ بل کھاتے ہوئے جذبات، احساسات اور محبتیں اسکا خاصا نہ ہوتیں۔

"بول کر شک دور کیوں نہیں کرتے"

وہ تو سراسر قہر ڈھا رہی تھی آج اور شہیر اسکے چہرے کے پرکشش خدوخال پر نگاہ دوڑائے اسکے سسک اٹھنے پر سوچ سے کہیں درجے قریب آیا، اور وہ سانس روک کر اسکے اظہار کو سننے کی سماعت بنی مگر جیسے کچھ کہنے سے پہلے اٹکتی سانسوں کو تقویت کی ضرورت تھی، اور یہ لمحہ دونوں کا دل جکڑ گیا۔

"میں اپنے وجود میں تمہاری کمی محسوس کر رہا ہوں، اور تم سے دور جانے کا کوئی ارادہ باقی نہیں رہا۔ محبت کا تو پتا نہیں کیسی ہوتی ہے مگر ایک سچ پوری ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں، کہ اگر مجھ سے تمہارا نام چھین لیا جائے اب تو اسکے بعد دوسری سانس لینا ناممکن ہے۔ تم خود میرے ان ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو ترتیب دے کر دیکھ لو ، شک دور ہوا تو ٹھیک ورنہ جو تم سزا دو قبول ہے"

جذب سے اٹے لہجے میں جان لیوا سا اظہار تو شاید اس لڑکی نے بھی اس قدر کامل نہیں سوچا تھا، اور وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ ہی سانسیں بھرتی مسکرائی۔

"مجھ سے دور مت جانا شہیر، میں تمہیں خود سے دور جاتا نہیں دیکھ سکتی۔ دادا کو مناو گے ناں میرے لیے؟ پرامس کرو مجھ سے"

وہ اسکے گریبان پر ہاتھ رکھتی جیسے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی، کسے بچے کی طرح اس شخص کا دامن تھامے وہ اسکے دور جانے کے خیال سے ہی ٹوٹ رہی تھی۔

"کوشش کروں گا"

وہ پرامید کہاں تھا کہ وہ سردار اسے اپنے دل کا ٹکڑا تھما دے گا۔

"ڈنر کرتے ہیں، تم بھی کہو گے کیسی بے فیض میزبان ہوں۔ آتے ہی جان نکال لی، آجاو۔۔۔ مجھے پتا نہیں تمہیں کیا پسند ہے پر اپنی پسند کا سب یہ سوچ کر ارینج کروایا کہ تم میری پسند کو فراغ دلی کے سنگ اپنی پسند پر ترجیح دو گے"

وہ خود ہی یہ دل بہکاتی قربتیں فی الحال کے لیے سمیٹ دیتی اسکا ہاتھ پکڑے ڈائنگ تک لائی جہاں رنگ برنگے مزیدار پکوان اور خوشبو اگلتی کینڈلز فسوں خیر سماں باندھے تھیں مگر شہیر نے ان سب کو بے دلی سے سرسری سا دیکھتے واپس وریشہ کو نرمی سے حصار میں لیا۔

"مجھے صرف تم سے باتیں کرنا پسند ہے بیوی، یہ میزبان آج کچھ نہ بھی کھلائے ، بس پاس موجود رہ کر مجھے دیکھتی رہے، کچھ بولتی رہے تو بھی بہت ہے"

گویا اس بار اس شخص کا اظہار تروتازہ، ہر اداسی سے پاک تھا تبھی تو وریشہ کو بھی راحت سی محسوس ہوئی۔

وہ اسکی آنکھوں کو اپنے آنکھوں میں اترتا محسوس کیے کسی نئی خوشی کو دریافت کر رہی تھی، اس شخص کی سانسیں اسکے تھکے وجود میں آسودگی اتار رہی تھیں اور وہ جس جس شدت کے سنگ اسکو خود کے قریب کرتا، وہ اس سے زیادہ شدت چاہنے لگتی، آج وہ اسے وریشہ دینے پر دل و جان سے راضی تھی۔

"پاس ہی ہوں آج تمہارے، جتنا قریب کرنا چاہتے ہو کر لینا"

وہ لڑکی تو جان لٹانے پر آمادہ تھی آج اور شہیر اسکی محبتیوں اور شدتوں کے آگے خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا، وہ دھیرے دھیرے اسکے حواس جکڑتی اس شخص کو پوری چاہت سے خود میں سمیٹ رہی تھی۔

"تم پورے دل سے میرے قریب آنا چاہو گی تو کیوں نہیں کروں گا اپنے آپ سے بھی قریب، کہ یہ زندگی تمہارے لیے ہی تو ملی تھی وریشہ"

وہ اس کے لہجے میں امڈتی بے اختیاری بھانپ کر مسرور ہوئی، جو اسے اب خود سے دور رکھنا کفران نعمت مان رہا تھا، اسکی آنکھیں وریشہ کو سب کہہ رہی تھیں، کہ وہ اس سے پہنچنے کے لیے بے تاب ہے۔

"آج دنیا کا تو نہیں سوچو گے ناں؟"

وہ اسکی سانسوں کی خوشبو مدہوش ہو کر اپنی سانسوں میں اتارتی بے اختیار بولی تو اسکے دل نے بے اختیار ناں کہا تھا، آج وہ کسی دنیا کو جانتا ہی کب تھا، آج تو وہ وریشہ کے سوا سب بھول چکا تھا۔

"میری دنیا تو تم ہو بیوی"

وہ جیسے اسکے دل کی تڑپ کے آگے ہار رہا تھا، دونوں کی آنکھوں میں آج وہ شدت تھی جو تباہ کن تھی۔

"تمہارے قریب ہر دکھ بھول جاوں گی، یقین ہے مجھے"

وہ مسکرائی تھی، ڈوبتے دل کو اس لڑکی کی مسکراہٹ نے اجال سا دیا۔

"میں دکھ کا لفظ ہی تمہاری یاداشت سے مٹا دوں گا"

وہ اسکی آنکھوں پر اپنے تشنہ ہونٹ دلربائی اور جان لیوا ادا کے سنگ رکھتا ، اپنا چہرہ اسکے چہرے سے مس کیے اس لڑکی کو رہا سہا بھی خود میں مبتلا کر گیا۔

"میری روح تمہیں پہچانتی ہے شہیر"

وہ گہرا سانس کھینچ کر خود کو تقویت دیتی اس شخص کے صبر پر آخری وار کرتی اپنی زندگی کا ہر اختیار اسے تھما چکی تھی۔

"میری روح بھی تمہیں جانتی ہے وریشہ"

وہ دو ایک دوسرے کی خوشبو میں مدہوش ہو رہے تھے اور بچارا ڈنر حسرت سے ان دو کی جانب دیکھ رہا تھا،آج ان دونوں کو چند مہربان لمس کافی کہاں تھے، آج ان دونوں نے صحیح معنوں میں ایک دوسرے سے ملنا تھا اور کیا خبر اس ملاقات میں وہ دنیا جہاں نظر انداز کر دیتے۔

"ڈنر کریں، باقی باتیں بعد میں"

خود ہی مسکراتی ہوئی وہ اسکا ہاتھ پکڑتی، موڑ گئی اور خود کرسی گھسیٹ کر اسے بٹھایا جو اسکا ہاتھ ہنوز جکڑے اپنے بلکل سامنے ہی بیٹھا چکا تھا۔

آج سے پہلے تو وہ اداس کیکٹس کی طرح تھا، جو کبھی روتا نہیں، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ سو سال تک روتا رہے تب بھی اسے بغل گیر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا مگر اب وہ ایک مسکراتے ہوئے وصل کے لمحے کا سکھ پا کر اپنی اداسی، کسی اداس لمحے میں قید کیے دفنا چکا تھا۔

"کچھ نہیں چاہیے تمہارے سوا بیوی، کچھ وقت کافی ہے۔ پھر مجھے واپس جانا ہے۔۔۔ میں اس ڈنر پر وقت کا ضیاع کیوں کروں کے آج طلب صرف تمہاری ہے"

عجیب سی دھن تھی کہ آج اک لمحہ بھی کسی غیرضروری معاملے پر صرف نہ ہو، وہ اسکا ہاتھ آہستگی سے تھامے اسکی ہتھیلی پر لب رکھتا جو جدائی کا بول بیٹھا اس پر وریشہ ناچاہتے ہوئے بھی اداس ہوئی۔

"کہاں جانا ہے؟"

وہ اسے آج کہیں جانے نہیں دے سکتی تھی تبھی آنکھوں کی تڑپ اور اسکے ہاتھ کا شہیر کے گریبان کو جکڑنا دونوں جان لیوا تھے۔

"نہیں جانتا مگر تمہیں یوں سب سے چھپ کر اپنا آپ مکمل سونپنے سے ڈر رہا ہوں وریشہ، تم پر اور تمہارے کردار پر کوئی حرف آگیا تو جیتے جی مر جاوں گا، ہمارے بیچ کے تعلق نے شدت اختیار کر لی تو جانتی ہو ناں کیا ہوگا؟"

وہ اسکی نرم گال سہلائے اسکی مرجھائی صورت تکتا جو بولا اس پر وہ ناراض سی ہو کر اسکا ہاتھ جھٹکتی اٹھ کر اس سے پہلے وہاں سے جاتی، شہیر بھی اٹھا اور دونوں بازووں میں اس لڑکی کو حصارے اپنے نزدیک کیا۔

"تم نے کہا ہے کہ دنیا کا نہیں سوچو گے، تمہاری دنیا تو میں ہوں پھر کیوں؟ "

وہ بہت زیادہ خفا تھی اور اسکی ناراضگی شہیر کی سانسیں گھوٹنے لگی۔

"تمہیں سب کے سامنے اپنا بنانا چاہتا ہوں، تاکہ تم پر کوئی انگلی نہ اٹھے۔ میری دنیا سچ میں تم ہو وریشہ مگر پہلے ہی تم اس زمانے کے لیے ایک ناقابل قبول ہو جاتے شخص سے دل جوڑ کر خطاء کر بیٹھی ہو، پہلے تو مجھے اپنے اچھے یا برے ہونے کی پرواہ نہیں تھی لیکن اب میں تھوڑا ہی سہی تمہارے لائق بننا چاہتا ہوں۔ تم سے دور رہنا کتنا مشکل ہے کیا تمہیں میری حالت دیکھ کر اندازہ نہیں ہوا۔ مرہم اتنا قریب ہو پھر بھی زخموں کو بے مرہم رکھنا جان لیوا ہوتا ہے بیوی"

وہ سب سمجھ رہی تھی مگر جو شہیر نے اس بار کہا وہ اس لڑکی کے دل میں اسکا مقام آسمان تک پہنچا گیا، وہ اسکے لیے سوچ رہا تھا، صرف اس لیے کہ وریشہ یوسف زئی کو اسکا مستحق مقام سونپ سکے۔

"بٹ آئی نیڈ یو شہیر"

وہ تمام تر محبت کے اسکے سامنے بکھری تھی، اور شہیر نے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے ساری زمینی و جسمانی دوریاں تو مکمل ختم نہ کیں پر اپنے کئی احساسات ، ہونٹوں کی کہانیوں کے سنگ اس لڑکی کے دل کی کتاب پر درج کیے۔

"تم مجھے نفرت سے نہیں مار سکی پر محبت سے مار دو گی، ساتھ ہوں تمہارے ہمیشہ ۔ میرا ایک ایک لمحہ صرف تمہارا ہے بیوی، مگر مجھ پر آج تھوڑا رحم کرو ، کیونکہ میں بہت کچھ کر بیٹھوں گا ، اور پھر کوئی فرض یاد نہیں رہے گا"

وہ اسے اپنے قریب تر رکھے سمجھاتا ہوا وریشہ کے دل کو اپنی شدتوں سے پرسکون کر چکا تھا پر وہ بھی کیا کرتی، وہ اسکے لیے جان سے زیادہ پیارا ہو گیا تھا۔

"اوکے مگر کچھ دیر مزید رکو ،اور باتیں کرنی ہیں مجھے"

وہ اسکے سینے لگتی اسکے توانا وجود کو اپنی نازک بازووں میں سمیٹے فرمائش کرتی اتنی پیاری لگی کہ شہیر مجتبی کے چہرے کا ہر خدوخال مسکایا۔

"تمہاری تو باتیں بھی سیدھی جان لیتی ہیں، پھر بھی میں رکوں گا تمہارے پاس۔ تب تک جب تک تم تنگ آکر خود نہیں کہتی کہ چلے جاو۔۔پہلے کی طرح"

وہ اسکے نرم گرم وجود کی حدتیں اپنے جسم میں اترتی محسوس کرتا اسکے کان کی اور جھکا شرارت پر اترا جو چہرہ الگ کرتی نفی میں سر ہلاتی مسکرائی۔

"پہلے جیسا کچھ نہیں رہا سنا تم نے، تھپڑ لگاوں گی اگر کچھ اوٹ پٹانگ بولا۔ آو روم میں چلتے ہیں"

وہ اسے ڈانٹتی جیسے اسے لیتی بڑھی تو شہیر نے اسکا وہی ہاتھ کھینچ کر واپس اسے باہوں میں بھرا۔

"نو روم نہیں پلیز ، یہیں بیٹھتے ہیں"

وہ اپنی بہکی کمزور حالت کے پیش نظر گھبرایا تو بے اختیار ہی وہ کھلھلا اٹھی۔

"ہاہا تم مجھ سے ڈر رہے ہو؟ پاگل۔ یہ بے باکیاں تبھی دیکھا رہی تھی کیونکہ تمہارے مضبوط اعصاب پر مان اور یقین ہے مجھے۔۔۔آو یہیں بیٹھتے ہیں"

مسکرا کر اسکی جان لے جاتی وہ اسکے بیٹھتے ہی خود بھی ساتھ ہی لگی بیٹھی اور پھر اسکے سینے پر سر رکھے اسے نرم سا حصار گئی اور وہ بھی اس لڑکی کی خوشبو نس نس میں اتار کر سرشار سا ہوا۔

"میرے من بھاوت محبوب

میں چاہتا ہوں تم مجھے اپنے دل و روح میں

کہیں زندہ رکھو مجھے بدن پر تعویذ سا کر لو

میرا لمس اپنے پلو سے باندھ لو

میرا عکس اپنی آنکھوں سے گانٹھ لو

میری باتوں کو روح میں بُو لو

میری ہنسی کو ہونٹوں پر پرو لو

تم بھلے کرہءارض پر کہیں بھی جلوہ افروز رہو

مجھے اس سے غرض نہیں مگر ہاں

مجھے اس بات کا خوف لاحق رہے گا کہ تم

اداس تو نہیں پریشان تو نہیں

تمہاری شاخِ مژگان کہیں مرجھا تو نہیں رہیں

تمہارے رخساروں پر مسکراہٹیں زنگ آلود تو نہیں

تمہارے خجستہ پے(مبارک قدم) کہیں دڑاروں کی ذد میں تو نہیں

تمہارے رخِ سیما پر خوشیوں کا تناسب کتنا ھے

میں یہ سب کچھ سوچ سوچ پاگل ہوتا ہوں

جاناں تم فقط مجھے سوچنا اور شاداب رہنا"

اسکو اپنی آنکھوں میں بسائے وہ بہت خوش تھا، وہ لڑکی اس پر فدا تھی اور وہ فدائین میں شامل ہو چکے تھے۔

"تمہارے قریب بہت سکون ہے وریشہ، ایسا سکون جسکی ساری زندگی تلاش کی تھی"

وہ اسکی آواز پر اپنی سکون سے موندی آنکھیں کھولے، چہرہ اٹھائے دیکھنے لگی جو واقعی سچ کہہ رہا تھا۔

"یہی سکون تم نے میری بے سکون روح میں بھی اتار دیا ہے"

وہ اسکے اظہار کے سنگ اپنا اقرار باندھے، شہیر کا ہاتھ اپنے دل سے جوڑے بولی جسے وریشہ کی دھڑکنیں ویسے ہی وجود میں اترتی محسوس ہو رہی تھیں۔

"کیوں کی ہے مجھ سے محبت؟"

وہ اسکے تڑپ کر کیے سوال پر مسکرائی، اسکے چہرے پر اگی سیاہ بیرڈ کی پرواہ کیے بنا اپنی گال اسکی گال سے رگڑتی وہ اسکی گردن میں بازو سمیٹ کر باندھے ساتھ جا لپٹی جس نے اس آفت کو کمر سے جکڑے سنبھالا۔

"کیونکہ تمہیں وریشہ کی محبت چاہیے تھی، چاہیے تھی ناں؟"

جذب سے اٹی سرگوشی پر وہ اس میں جذب سا ہوئے اقرار کرتا حسین لگا۔

"بس بیوی، مزید قریب مت آو۔ کیوں آزما رہی ہو"

وہ اس پر کچھ ظالم پھونک چکی تھی اور وہ اپنا اختیار ہاتھوں سے جاتا محسوس کر رہا تھا۔

"مجھے کچھ دیر تمہارے اتنے ہی قریب رہنا ہے تبھی جانے کی اجازت دوں گی، تم پر حاکم ہوں بھولنا مت"

اس لڑکی نے اسکے ہر فرار کو ناکام کرتے ہوئے اسیری کا حکم صادر کیا اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس لڑکی کی حاکمیت پر ہنس دیا، گویا لمحے پاگل ہو گئے تھے۔

"صُبح رُوئے محبوب تمہیں پتہ ھے

میں آئے دن مشرق سے طلوع ہوتے سورج کو دیکھ

سوچا کروں گا کہ آج کا دن تجھے پہلے سے

کہیں زیادہ نہال کرے گا

میں سنہری دھوپ کو بڑھتا دیکھ

اندازے لگایا کروں گا کہ تم حسین ہوتی جا رہی ہو

میں سرِ شام افق کی شفق کو دیکھ کر

تیرے لعلیں ہونٹوں کی سُرخیوں کا سوچا کروں گا

اور میں رات کے پھیلتے اندھیروں میں

فلک پر روش چاند ستاروں کو دیکھ

دل ہی دل میں مسکراؤں گا کہ تم بھی کہیں دور

اپنی دو آنکھوں کو ان پر سجائے مسکرا رہی ھو!

اے بدیع الجمال

ایک غائبانہ بوسہ تمہاری لوحِ جبیں پر!"

ان دو کا دل مکمل وجودوں سے پرے دھڑک رہا تھا پھر بھی ان دو کے ایک دوسرے کو اپنے اپنے سکون کو پانے سے ہرگز دور نہ رکھا، اور پھر کہتے ہیں ناں جہاں دل جھکتا ہے وہیں تو سر جھکتا ہے۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اپنی باہوں کے فرحت بخش دائرے میں شدت سے سموئے وہ اسکی پرسکون نیند کا احترام کیے ساری رات اسکے قریب موجود رہا، ہلکی پھلکی جان لیوا گستاخیاں پورے حق سے جاری و ساری رہیں جو ایسی حدت بھری پھواروں کی مانند تھیں جو اس خواب زادی کے وجود، دل اور روح کو سکون بہم پہنچاتی رہیں۔ فجر کی اذانوں کے وقت دونوں کی ایک ساتھ آنکھ کھلی تو خود کو جاگتے ہی میثم کے قریب محسوس کرتی، اسکی خوشبو سانسوں میں بسائے، خمار آلود نیند سے جاگتے ہی وہ خوبصورت آنکھوں والی مسکرا اٹھی۔

"اتنی نیند کہاں سے چرا لائی تھیں میری جان، اتنا سکون کہاں سے بٹور لائی ہیں، ایسا کونسا سکھ پا لیا ہے جو اتنی لمبی نیند لے کر بھی تروتازہ اور پیاری لگ رہی ہیں"

وہ اسکی آنکھوں کو بے اختیار چومتا، اسکی سانسوں کے تروتازہ مہکے جھونکوں سے اپنی سانسیں معطر کیے صبح کا آغاز کیے اسکے چہرے کو تکتا مخمور لہجے میں بولا تو وہ اپنی ہتھیلی ضرار کے چہرے سے جوڑے اسکی جبین چومتی جی جان سے مسکرا اٹھی۔

"تم ہو ناں اشنال کا سکون، تمہیں پا کر بٹورا یہ سکھ، تمہارا ہو کر تروتازہ اور پیاری ہو گئی ہوں،سوری اتنا سارا سوئی اور تمہیں بلکل لفٹ نہ کروائی۔ لیکن خوش اور پرسکون بہت دنوں بعد ہوئی تھی تو سوچا ایڈوانٹیج لے لوں ساری نیندیں پوری کر کے، تمہیں پتا ہے میثم! رات وہ شہیر کے ساتھ تھی۔ اس نے مجھے میسج کیا تھا کہ وہ ہار گئی ہے، میں بہت خوش ہوں کے ان دونوں نے ایک دوسرے کی تڑپ کو دھانپنے کا فیصلہ لیا۔ اب ہمیں کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ پورا علاقہ ان دو کے اس رشتے کو دل سے قبول کرے، سردار شمشیر سمیت"

اتنی ساری خوشیاں ہی وہ اشنال کے دامن میں سمٹی دیکھنے کا خواہش مند تھا اور یہ خبر ضرار کے لیے بھی خوشگوار حیرت سے بھری تھی۔

"تو کیا خیال ہے آج چلیں یوسف زئی حویلی، آپ اپنے گھر سے بھی ہو آئیے گا اور میں یہ معاملہ بھی خود سردار شمشیر سے ڈسکس کر لوں گا۔ آپکی خواہش بہت مناسب ہے، وہ دونوں اگر دل سے ایک ہو گئے ہیں تو انکی اس خوشی کا جشن بنتا ہے"

وہ تو ضرار کی اس تجویز پر کھلھلا اٹھی، باقاعدہ جوش کے مارے جناب سے لپٹ کر اسکے وجود میں سما گئی اور وہ اس لڑکی کی اس درجہ بے قابو خوشی پر اسے خود میں بسائے ہنسا۔

"میں بتا نہیں سکتی کہ کتنی خوش ہوں، چلتے ہیں۔ بہت سکون آئے گا، اس نے میرے لیے بہت کچھ کیا، میں بھی یہ چھوٹا سا فیور کر کے اسکی محبت کا حق ادا کروں گی۔۔۔تھینک یو میثم"

وہ آخر تک جذباتی ہوئی تو دیوانے نے اپنے ہونٹوں سے اس لڑکی کے آنسو جذب کیے اک اور خوشی سے بھرپور خوشی سنا کر نہال کرنے کا فیصلہ کیا۔

"تھینک یو رکھیں پاس، اپنی گل کو بھی رخصت کرنے کی تیاری پکڑیں۔ جبل زاد کے ساتھ، اور میں رات جبل کو لگا آیا تھا کام پر کہ گل سے اسکی مرضی پوچھے، آج ناشتے پر ان شاء اللہ اسکا بھی بندوبست کرتے ہیں"

ضرار نے یہ کہہ کر اس لڑکی کی خوشیوں کو کئی گنا بڑھایا جو سمجھ نہ پائی کہ اتنے سکھ کیسے اپنے دامن میں سمیٹے۔

"وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں یہ میرا ذاتی خیال ہے ، گل شائے سی ہے مگر میں جانتی ہوں اسکے دل میں جبل بھائی کے لیے کچھ الگ سے احساسات ہیں جو اسکی آنکھوں سے چھلکتے ہیں، ویسے تم تو بہت فاسٹ نکلے ہنڈسم۔۔۔چلو سب کو اپنے اپنے گھر کا کرتے ہی ہم ورڈر ٹور پر نکل جائیں گے، کیا خیال ہے؟"

وہ تین ماہ پہاڑوں پر گزرا وقت یاد کرتی جیسے یقین واثق سے بولی جبکہ ضرار کو تو ویسے ہی محبت کرنے والے لوگ پہلی نظر میں دیکھائی دے جاتے تھے، محترمہ کے ٹور پلینز خاصے حیران کن تھے۔

"ہمم خیال اچھا ہے لیکن یہاں کی زمینوں کا اور شہر کی فیکڑیوں کا کام کون سنبھالے گا، ایسا نہ ہو لوگ میثم ضرار چوہدری کی عاجزی سے پھر کوئی ناجائز فائدہ اٹھا لے۔ ویسے زمین داری ایک بورنگ کام ہے، کیا خیال ہے آپکا جاسوسی نہ شروع کر دوں پروفیشنلی"

اپنے اس ٹیلنٹ پر جناب آنکھیں بند کیے بھی یقین رکھتے تھے تبھی تو اشنال اسکی بات پر ہنس دی۔

"ہاہا میرے جاسوس کہیں کے، جان ہو تم۔۔۔بٹ یہ کوالٹی تم خاص خاص لوگوں کے لیے ہی سنبھال لو۔۔ابھی پہلے تو جا کر مجھے کچھ کھانے کے لیے لا کر دو میثم، کیونکہ ناشتے کو بہت دیر ہے اور اب میرے پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں"

اول تو محترمہ فدا و قربان ہو کر جناب کی ہمت سے قریب آ آ کر کھیل گئیں اور پھر بیچارے سے تاثرات لیے وہ جو بولی اس پر جناب بھی محترمہ کی نیند کی عیاشیوں میں نظر انداز کیا کھانا لانے پوری شرافت کے سنگ پاس سے اٹھے اور اسکے اٹھتے ہی اشنال نے اسکا ہاتھ جکڑے روکا، آنکھیں بے حد چاہ سے لبریز تھیں۔

"تم سے لاڈ اٹھوانے کی اپنی ہی راحت ہے میثم"

وہ اسکی ہر بات مان جاتا تھا اور اشنال عزیز اس پر فدا تھی جبکہ جناب خفیف سی گھوری سے نوازتے جھک کر اسکی مسکراتی ہنسی چراتے لمحے میں بے خود ہوئے۔

"اور آپکی مسکراہٹ کو گھبراہٹ میں بدلنا میری خوشی، فریش ہو جائیں۔ کھانا لاتا ہوں"

اس بے خودی نے اس لڑکی کے چہرے پر گلال بکھیرے تبھی وہ زوردار چوٹ اسکی بوکھلائی سانسوں پر کرتا مسکراتا ہوا کمرے سے نکل گیا جبکہ سکون کی لہر اس لڑکی کے وجود میں اتری اور اسکا انگ انگ آسودہ کر گئی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

نئی مہکتی، خنکی کی چادر اوڑھے سحر ، زمین زادوں پر اتر چکی تھی۔

اسکی موہوم قربت ہی ونیزے کی ہر تکلیف کا توڑ نکلی تھی، رات تک جو ولی کے روبرو بکھری ہوئی، شکستہ اور کمزور تھی، اسکے جاگنے سے پہلے ہی نہ صرف شکارن روپ میں واپس آچکی تھی بلکہ بریک فاسٹ بھی اس نے چھ بجے ہی بنا لیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی وہ تھانے جلدی جاتا ہے، جب تک ولی فریش ہو کر نک سک تیار سا روم سے باہر آیا، ونیزے کو بہت نارملی بریک فاسٹ لگاتا دیکھ کر قدرے پرسکون ہوا جو اسے کچن میں ہی آتا دیکھتی چہرے پر خوشگوار سی مسکراہٹ سجاتی روبرو آکر کھڑی ہوئی۔

"فریش لگ رہی ہو"

وہ اسکی چمکتی آنکھیں دیکھ کر نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا جو واقعی ایک مدت بعد سکون کی نیند سے جاگی تھی۔

"ہمم، کسی نے آنکھوں میں بہت پیار سے نیند اتاری تھی، وجود یکدم ہلکا اور دل سکون سے بھر گیا ہے۔"

وہ اظہار میں سبقت لے جانے کی حد تک ماہر تھی، جبکہ اپنے اظہار سے ولی کو بے چین نہ کرتے ہوئے فوری بات بھی بدلی۔

"ولی! کیا گھر جا سکتی ہوں؟ ایکچولی میڈیسن بھی وہیں ہے ، رات میں پہنے والے کچھ کپڑے اور اپنی کچھ پرسنل چیزیں بھی لانا چاہتی ہوں۔ اگر آپ پرمیشن دیں تو"

اول جملوں کی حدت پر پردہ ڈالتی وہ اس من پسند چہرے والے کو تکتی بولی پھر یکدم اسکو آخری جملے کی ہچکچاہٹ نے خود میں سمیٹا تو ولی کے چہرے پر ونیزے کی جان کو لے کر خطرے نے فکر پھیلائی۔۔

"سیٹھ گونی نے تمہیں مروانے کا حکم جاری کر رکھا ہے، سیو نہیں ہے تمہارا باہر جانا۔ کی دو مجھے اور مجھے لسٹ بھی دے دو میں لے آوں گا "

وہ اسکا مسئلہ اپنی طرف سے تو حل کر چکا تھا پر وہ شدید متذبذب و بے قرار ہوئی۔

"ولی آپ سمجھ نہیں رہے، ٹو مچ پرسنل سامان ہے۔۔۔ آپ بے فکر رہیں، اپنی خفاظت کر سکتی ہوں۔ ایک گھنٹے میں واپس آجاوں گی"

وہ اپنی بات سمجھا نہ پانے پر تھوڑی بوکھلاہٹ کا شکار تھی تو ولی نے بھی کرسی سنبھال کر بیٹھتے ہی اسکا گھبرایا چہرہ دیکھا جو گلابی سا ہو رہا تھا، وہ اسکی جھجک سمجھ تو گیا تھا مگر اس وقت اسے موت کے منہ میں ہرگز جانے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔

"تم بتانا نہیں چاہتی تو مجھے میسج کر دو لسٹ، ابھی سیو نہیں ہے ونیزے۔۔۔ اور میں اچھے سے جانتا ہوں کتنی خفاظت کر سکتی ہو تم اپنی"

ولی کو وہ ساعت یاد آئی جب گونی کا آدمی ونیزے کو مارنے والا تھا اور ولی نے اسے بچایا تھا۔

"ولی پلیز جانے دیں ناں"

اس بار وہ اسکے آگے واقعی روہانسی ہوئی تو ولی نے اسکا ہاتھ پکڑے اسے قریب کھڑا کیے چہرہ اٹھائے خاصی برہم نظروں میں سمویا۔

"آئی تھنک ہم ایک دوسرے کے پرسنلز باآسانی شئیر کر سکتے ہیں اب، جھجھکتی رہی تم تو ہو گیا گزارہ ہمارا۔ تمہاری میڈیسن تمہارے گھر سے لاوں گا اور باقی تمہاری ضرورت کی ہر چیز میں خود مارکٹ سے لے آوں گا۔ تم اپنی لسٹ رکھو اپنے پاس۔ کی دو مجھے"

رعب کے سنگ کہتا وہ دیر ہونے کے باعث اپنا ناشتہ شروع کر چکا تھا اور وہ اسکے ہاتھ چھوڑنے پر دبا دبا مسکراتی پلٹی اور ریک پر رکھی کی اٹھا کر واپس ولی تک پہنچی اور بنا اسے دیکھے اسکی طرف بڑھائی جس نے اسکے ہاتھ سے چابی تو لی ہی، ساتھ اسکا ہاتھ پکڑے ساتھ والی کرسی پر بے تکلفی سے بٹھایا جو ولی کے اس بے باک انداز پر سہم سی گئی۔

"ناشتہ کرو میرے ساتھ، اپنی ہیلتھ کا بھرپور دھیان رکھو۔ میں ایک دو دن تک کسی میڈ کا انتظام کرواتا ہوں اور شیف کا بھی، میں گھر رہتا نہیں تھا تبھی کبھی ضرورت نہیں پڑی ہیلپرز کی ، اپنے کام خود کرتا تھا مگر اب نہیں چاہتا تم یہ سب کر کے خود کو تھکاو"

وہ اسکے لیے خود بریڈ پر بٹر لگائے ، دودھ کا گلاس اسکے سامنے رکھے تھمائے ساتھ ساتھ متفکر ہوئے بول رہا تھا جو دم سادھے اس شخص کو مسکراتی ہوئی صرف سن رہی تھی۔

"ولی، ایسے تو میں مزید بور ہو جاوں گی۔ میڈ کر لیں ارینج مگر کھانا میں خود بنانا چاہتی ہوں"

وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس سے ولی کے لیے کھانا بنانے کا شرف چھینا جائے تبھی تو ولی نے چہرہ موڑے ونیزے کو دیکھا اور پھر اسکی خوشی میں اگلے ہی لمحے مان گیا۔

"ٹھیک ہے، اور کل پورا دن تم نے میڈیسن نہیں لی، بہت غلط بات ہے ونیزے۔ کیونکہ نہیں بتایا،"

اسکے کل پورا دن میڈیسن نہ لینے پر ولی اس پر برہم تھا جو کل درد کے نئے درماں پر کسی دنیاوی دوا کی طلب محسوس کرنا ہی چھوڑ گئی تھی۔

"کل آپ تھے ناں میرے پاس تبھی آپ کو ہی دوا مان لیا تھا، مس کروں گی سارا دن"

وہ اسکی طرف دیکھ کر اپنی خوشی کا اعتراف کرتی بہت پیاری لگی، پھر خود ہی اس نے حیا سے نظریں جھکا لیں۔

"میں بھی کروں گا، اب آو دروازہ بند کر لو۔۔۔"

اسکے چہرے کو چھوئے اس لڑکی کا دل معطر کرتا وہ سرسری سا ناشتہ کرتا، اپنا کوٹ پہنے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ بھی آنکھوں میں محبت سے سمیٹے اسے چھوڑنے باہر تک آئی۔

"کھانے میں آج وہی بنانا جو تمہیں سوٹ کرے، تمہاری میڈیسن اپنے آدمی کے ہاتھ بھجھوا دوں گا، میں ویسے بھی سادہ کھانا پسند کرتا ہوں۔ میرے لیے رنگ برنگی ڈشیز بنانے کی ضرورت نہیں، ٹیک کئیر "

جاتے جاتے جناب نے اسے نرمی سے تاکید کی اور اک نظر اس ایک ہی رات میں اپنی اپنی ہو جاتی ونیزے پر ڈالتا وہ باہر نکلا جہاں پورچ میں اسکی گاڑی کھڑی تھی، ونیزے اسے تب تک دیکھتی رہی جب تک وہ گاڑی میں بیٹھے گھر سے نکل نہ گیا اور خود اسکے جاتے ہی چوکیدار انکل کے دروازہ بند کرنے پر گہرا سا سانس کھینچتی وہ بھی واپس اندر چلی گئی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

رات تو اذیت اور تنہائی کے حوالے کیے کٹ گئی تھی مگر گل خزیں اسے مزید بکھرا ہوا نہیں دیکھ پائیں اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد وہ سیدھی مشارب کے پاس آئیں جو بیڈ کے ایک طرف تکیے پشت سے ٹکائے بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں مرکوز کیے تھا۔

وہ بھلے تکلیف میں تھا مگر اماں سائیں کے پاس کچھ دیر بیٹھنا ، تکلیف اور اذیت سے نجات دیتا تھا ، وہ چپ چاپ آئیں اور اپنے بچے کے پاس آکر بیٹھیں۔

"آپ نے کیسے صبر کیا تھا بزدار عالم سے بچھڑ کر اماں سائیں"

وہ ٹھیک نہیں تھا تبھی اس ماں جیسی دادای کو قرار نہ ملا اور جب وہ اسکی ہمت بندھانے آئیں بھی تو اس نے یہ سوال کر کے گل خزیں خانم کی اذیت بھی بڑھا دی، اس نام پر انھیں آج بھی دکھ تھا۔

"تمہیں سب پتا چل گیا؟"

وہ بے یقین ہو کر نظر چراتیں بولیں تو وہ جلتی ہری آنکھوں والا تلخی سے مسکرایا۔

"ضرار نے جب ہاشم بزدار کے زندہ ہونے کا بتایا تھا تو اس نے مجھے ہر راز میں بھی شریک کر لیا تھا تاکہ بدگمانی میں رہ کر مجھ سے کوئی اور بے ادبی یا گناہ سرزد نہ ہو جائے، آپ بتائیں کیا وجہ ہے آپکی ان سے نفرت کی؟"

وہ آج اپنی نہیں انکی بات کرنا چاہتا تھا۔

"نفرت نہیں کی کبھی، بس تکلیف تھی کہ انہوں نے مجھے چپ چاپ خاقان کے سپرد کر دیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ انکی خزیں کو زندہ نہیں چھوڑے گا، محبت صرف خزیں نے تو نہیں کی تھی، اس شخص نے بھی کی تھی۔ پھر میں تو انکے پاس امانت تھی، کون اپنی پونجی یوں لٹنے دے سکتا ہے"

کل وہ زونی کی بدگمانی بھلے بڑھا آیا تھا پر وقت آگیا تھا کہ وہ اماں سائیں کی ہر بدگمانی دور کرتا، جن سے محبت کی جائے ان سے کہاں نفرت کی جا سکتی ہے۔

"اوہ تو آپ بھی بدگمان ہوئیں، زونین کی طرح۔سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔۔ لیکن کیا آپ جانتی ہیں بزدار عالم نے آپ کے لیے بہت جنگ کی تھی، وہ آپ سے دستبردار ہو کر اندر سے مر گئے تھے، انھیں آج بھی آپکو کھو دینے کا ملال ہے۔ دوسری محبت تو کسی کا مان نبھانے کے لیے کی جاتی ہے، آپ بھلے انھیں معاف نہ کریں لیکن اپنی بدگمانی دور کر لیں۔ کبھی آمنا سامنا ہوا تو مسکرا کر انکا حال پوچھ لیں گی تو ممکن ہے انکے درد کو بھی دوا مل جائے"

وہ مشارب کی تمام باتیں سن کر اپنی آنکھوں کو نم کر بیٹھیں، کیسے ہوتی بزدار عالم کی کوشش کامیاب کہ اس دنیا میں کچھ محبیتیں اس لیے لاحاصل رکھی جاتی ہیں تاکہ انکا حسن قائم رہے کیونکہ وہ محبتیں، پرفیکشن کو چھو جاتی ہیں اور پرفیکشن اللہ کی محبت کے سوا کہیں نہیں جچتی نہ قابل قبول ہے۔

"حال اتنا مختصر نہیں ہوتا جو لمحے میں پوچھ اور بتا دیا جائے، میں تو بدگمان رہ کر انھیں کھو ہی چکی ہوں لیکن تم کبھی زونین کو اسکی بدگمانی کی کوئی سزا نہ دینا۔ وعدہ کرو مجھ سے، وہ جیسی بھی ہے، تم جانتے ہو ناں وہ صرف تمہاری ہے۔ اس مسافت میں دل بڑا تم نے کرنا ہوگا"

وہ جتنا بھی دل بڑا کر لیتا، اس لڑکی کی دی تکالیف اسکے سانس کو روک دینے پر آمادہ تھیں اور سردار مشارب زمان خان جو ایک حوصلہ مند اور مضبوط سردار بن کر جانا جانے لگا تھا وہ اس وعدے پر چھوٹے بچے کی طرح انکی گود میں سر رکھے آنکھیں موند گیا۔

"میں دل نہیں بڑا کر پا رہا، میں غلطی پر غلطی کر رہا ہوں۔ اور ہم دونوں مل کر ہمارا رشتہ تباہ کر رہے ہیں۔ وہ مجھے مسلسل آزما رہی ہیں، میرا دل مزید چھوٹا ہو رہا ہے، بڑا کیسے ہوگا"

وہ بہت بکھرا ہوا شکستہ تھا اور گل خزیں اسکے بالوں میں انگلیوں کی پوریں سہلاتیں خود بھی کسی تکلیف میں ڈھل گئیں۔

"یہ مت بھولنا کہ تمہارے سوا وہ کسی کی نہیں ہے، وہ جو بھی کرے تمہیں زیب نہیں دیتا اسے کوئی سزا دو کیونکہ تم اس کے برابر غلطیاں کر رہے ہو۔ اگر وہ مجرم ہے تو تم بھی ہو، وعدہ کرو مشارب"

وہ ٹوٹے لہجے میں اس سے وعدہ مانگ رہی تھیں اور ناچاہتے ہوئے بھی مشارب کو وعدہ دینا پڑا، اتنی گہری اذیت میں بھی اس آپاہج شخص کی ہیبت ناک آوازیں گونج کر ان دونوں کو ہی مزید ذہنی دباو میں جھونک رہیں تھیں، اسے کچھ دیر آرام کا مشورہ تھماتیں وہ خود بھی اس شخص کو عبرت دیکھانے کمرے سے نکلیں۔

"رسی جل گئی پر بل نہ گیا، ابھی بھی تجھے اپنی حالت سے عبرت نہ ملی خاقان ابھی بھی اپنی ناسور جیسی دھاڑیں ہماری سماعت کا زہر بنا رہا ہے۔ شکر منا کے تیرے اس ناپاک وجود کو اس حویلی میں جگہ دی ہے۔ اوقات سے نکلے گا تو سردارنی کا قہر ٹوٹے گا۔ مر کیوں نہیں جاتا آخر تو؟"

کل شام سے ہی خاقان خان اونچی اونچی آواز میں چینخ رہا تھا، حویلی کے در و دیوار اسکی نجس ، بے بس دھاڑوں سے لرز رہے تھے، رات سے اس بدبخت عبرت کے نشان نے کھانا پینا بھی ترک کر دیا تھا، جسم پر اتری عبرت اسے خون کے آنسو رلا رہی تھی اور جب گل خزیں خانم سے یہ سب سہنا ناقابل برداشت ہوا تو وہ ضبط کی طنابیں ٹوٹنے پر کمرے میں داخل ہوئیں، اور اس عورت کے اندر آنے پر اس آپاہج شخص کی آنکھوں میں تکلیف جمع ہونے لگی لیکن اب وہ تڑپتا، ترستا یا سسکتا، وہ عورت اس پر رحم کھانے کی روادار نہ رہی۔

وہ جیسے پھٹ پڑیں تو اس شخص نے اپنا ایک کانپتا ہوا ہاتھ اس عورت کی طرف بڑھایا لیکن خزیں خانم نے حقارت سے نظر پھیری۔

"ن۔۔نہیں خاقان خان، یہ ہاتھ پکڑنا اب میرے اختیار میں نہیں رہا۔ تو نے مجھے بے اختیار کیا تھا اور تیری بے بسی مکافات ہے۔ مجھے اس شخص سے چھینا تھا تو نے جس سے خزیں کو چھیننا گناہ سمجھا جانا چاہیے۔۔۔۔ تیرے لیے میرے دل میں کوئی رحم نہیں، کسی کی محبت کو زبردستی اپنی ملکیت بنانے والوں پر کوئی رحم نہیں کیا جاتا"

وہ بے دردی سے اسکی پکار رد کر گئیں جو یوں تڑپ کر اس عورت کو دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ میری کوئی ایک بھلائی یاد کرتے ہوئے مجھے اس بے بسی سے نجات دے دو۔

اس سے زیادہ وہ کچھ کہہ نہ سکیں اور اسکے کمرے سے نکل گئیں اور آج اس تہہ دامن عورت نے صرف رونا ہی تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ ابھی جاگی تھی، اور اٹھ کر بیٹھی ہی تھی کہ سائیڈ میز پر پڑا فون بجنے لگا۔

مندی مندی آنکھیں کھولے حواس یکجا کیے مالنی نے رخ موڑا تو فون پر ہاشم کی کال دیکھ کر اسکی ساری نیند لمحے میں حیرت بنی۔

"یہ ماسکو کو کیا ہو گیا، ایک ہی گھر میں ہو کر کال کر رہے ہیں۔ لگتا ہے اب مالنی سے پردہ کریں گے"

خمار آلود نیند کے اثر میں ڈوبی اسکی حسین آنکھوں میں چمک بھری اور ساتھ ہی محترمہ نے فون پک کیا۔

"کیا ہوا ماسکو؟ سامنے آنے سے ڈر لگ رہا ہے جو کال کر رہے ہیں؟"

لہجے میں شرارت بھر کر بولی تو وہ دوسری جانب اپنے گھر کے لان میں کھڑا تھا، اسکے لوگ اسکی گاڑی تیار کر چکے تھے اور جناب اپنی ایگزیبیشن پر جانے کو بلکل نک سک تیار، سحر بکھیرتے معلوم ہوئے۔

"سامنے تو تب آئے گا جب بزدار حویلی میں ہوگا تمہارا ماسکو، میں تو رات ہی واپس آگیا۔ کچھ اہم کام تھے۔ تم سے مل کر نہیں آیا تو سوچا اٹھتے ہی تمہاری آواز سن کر اپنے دن کو خوبصورت بنا لوں"

وہ جذبات سے چور لہجہ تھا مگر مالنی کی آنکھوں میں اس شخص کی اتنی بڑی سنگدلی، ویرانی سمیٹ لائی، یکدم ہی اسے یہ ٹھنڈ سے جسم جکڑتی صبح بری لگنے لگی۔

"بہت برے ہیں آپ، آپکو دیکھے بنا کیسے رہوں گی۔ کیوں گئے ہیں، مل تو جاتے ہاشم"

وہ یکدم ہی روہانسی ہوئی اور جناب کی شر انگیز مسکراہٹ اس تڑپ پر گہرئی ہوئی۔

"ملوں گا ناں، آتے ہی بہت فرصت سے۔۔۔ تمہارے قریب حدود میں بندھ کر رہنا مشکل ہے، چاہتا ہوں تم مس کرو، بہت سارا۔ "

اس شخص کے الفاظ بھی اسکی محبت کی شدت سمیٹے ہوئے تھے اور ناجانے کیوں مگر مالنی کا دل عجیب سی گھبراہٹ کا شکار ہوا۔

"میں تو ابھی سے مس کرنے لگی ہوں، بہت ظالم ہو گئے ہیں۔ میرے لیے تو نہ ہوتے ماسکو، میں تو آپکو دیکھے بنا اب سانس بھی نہیں لے سکتی۔ مجھے ہر گھنٹے آپ نے اپنی سیلفی بھیجنی ہے ورنہ بتا رہی ہوں رونے لگ جاوں گی"

وہ دور بیٹھی بھی بہکاوے دے رہی تھی اور وہ گارڈ کے گاڑی تیار ہونے کے اشارے پر یہ فون کی ملاقات پر ختم کرنے پر مجبور ہوا۔

"بھیج دوں گا، زونی پر نظر رکھنا مالنی۔ کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے اور چونکہ شادی وغیرہ قریب ہے تو خریداری کے لیے نکلو تب زونی پر خاص توجہ دینا۔ ضرار کو لگتا ہے کہ زونی ہم سے کوئی غلط بیانی کر رہی ہے، اسکے اور مشارب کے بیچ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ تم اپنی آنکھ اس پر سے مت ہٹانا"

یہ سب سن کر تو مالنی بھی پریشان ہوئی اور اپنی طرف سے اس نے ہاشم کو پورا یقین دلایا، کال بند کیے وہ فریش ہوتی جب تک باہر آئی، سب ناشتے کی میز پر مسکراتے چہروں کے ساتھ براجمان تھے۔

آج فضیلہ اماں کا ارادہ شادیوں کی شاپنگ کرنے کا تھا اور وہ دلہنوں کو اپنے ساتھ لے کر جانے کی بزدار عالم سے اجازت بھی لے چکی تھیں ، چونکہ اشنال اور ضرار کے یوسف زئی حویلی جانے اور باقی دن بھر پہاڑوں پر گھومنے کے پلینز تھے سو مالنی، گلالئی اور زونی ہی تیار ہوئیں، جبکہ جبل زاد کو بھی ضرار نے انکے ساتھ بھیجا تاکہ وہ خاص طور پر زونی پر نظر رکھ سکے۔

ضرار نے ناشتے پر ہی دادا سائیں اور اماں فضیلہ سے جبل زاد اور گلالئی کی جب بات کی تو ان دو کی بھی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جبکہ ضرار کا اندازہ یہاں بھی درست نکلا تھا کیونکہ فضیلہ صاحبہ تو آل ریڈی اس پیاری گل کی شیدائی ہو گئی تھیں۔

سب نے باہمی رضامندی کے بعد ضرار اور اشنال کے ولیمے والے دن ہی گل اور جبل زاد کا نکاح رکھا اور یہ خوشی سب سے زیادہ اشنال اور ضرار کے دلوں کو محسوس ہوئی پھر گل کی تو دھڑکنیں ہی اپنے راستے سے ہل گئی تھیں، اس نے بہت چپ چاپ اس پہاڑوں کے باسی کو چاہا تھا اور اتنی آسانی سے وہ پوری رضا کے سنگ اسے ملنے والا تھا اور یہ احساسات ناصرف گلالئی کو گدگدا رہے تھے بلکہ ہمیشہ تاعمر اپنی خانم کی چھاوں میں رہنا اس وفادار سہیلی کے لیے کسی شرف سے کم نہ تھا۔

گیارہ بجے تک دونوں گاڑیاں ایک ساتھ ہی بزدار حویلی سے نکلی تھیں، ضرار اور اشنال ایک میں جبکہ دوسری گاڑی میں جبل زاد ، فضیلہ اماں اور پیچھے تینوں عنقریب بنتی دلہنیں براجمان تھیں مگر زونین کی آنکھوں میں آج بھی کچھ الٹا کر گزرنے کی شدت دیکھائی دے رہی تھی، اسے سب سمجھ آبھی جاتا مگر وہ خود کو ایک بار پھر مشکل سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیے بیٹھی تھی اور مالنی کی توجہ بھی یقینا خریداری سے زیادہ آج زونین پر رہنے والی تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

لاونچ میں لگی وال کلاک صبح کے سوا گیارہ کا وقت دیکھا رہی تھی جب اخیر سردیوں کے گرما گرم سورج کی گرمائش دے کر احساسات جگاتی کرن کی گدگداہٹ پر وہ اس سکون کے سلسلے کو منقطع کیے جاگا تو باہوں میں وریشہ جبکہ خود پر کمفرٹر اوڑھے محسوس کیے اسے وریشہ کی مہربانی پر جی بھر کر پیار آیا۔

رات جب وہ سویا تو محترمہ کو اسکے شدت بھرے حصار کافی نہ رہے تو وہ اٹھی اور کمبل وہیں لے جا کر ناصرف شہیر پر کروایا بلکہ خود بھی واپس اپنی جگہ لوٹ آئی اور اسی طرح سمٹ گئی تھی اور خود شہیر بھی یہی سوچ رہا تھا کہ یکدم جسم کو لگتی ٹھنڈ رات کے کسی لمحے رک سی کیوں گئی تھی، وہ سب بھول کر اس خواب زادی کی پلکیں اس احتیاط سے چھو رہا تھا کہ وہ اپنی نیند نہ توڑ بیٹھے مگر شاید اس شخص کی اس حرکت کا اثر تھا کہ وریشہ پر جمی ان پرتپش جذبات سے بھری آنکھوں کے لمس کا کہ وہ مندی مندی آنکھیں کھولتے ہی جان لے جاتی ہوئی مسکائی۔

"شہیر!"

اسکے جاگتے ہی سکون سے دیکھنا صبح کا حسین منظر تھا تبھی تو وہ اسکی نرم رسیلے ہونٹوں سے پہلا اپنا نام سنتا بے اختیار اسکی روشن پیشانی پر اپنے ہونٹوں کی شدت رکھے مسکرا دیا۔

"اتنا سارا وقت کافی ہے ناں، یا اور چاہیے؟"

وہ اسکے کھلے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ، گھمبیر لہجے میں اپنے چہرے کو وریشہ کے چہرے کے قرین لے جاتا بولا جس نے شرارت کے سنگ مسکراہٹ دباتے ہی نفی میں سر ہلائے واپس اپنی بازو اسکی گردن میں حائل کیے سیدھی ہو کر بیٹھی جو ٹیک لگائے اسکے خطرناک ارادے بھانپ کر خود بھی سیدھا ہو کر بیٹھا اور اپنے دونوں ہاتھ وریشہ کی نازک کمر کے گرد رکھے۔

"کبھی دوبارہ یہ سوال مت کرنا کیونکہ تمہارا ہر لمحہ اب وریشہ کا ہے سو مجھے کبھی بھی تمہارے چند لمحوں کا ساتھ کافی نہیں ہوگا، رات تو تمہیں بخش دیا پر سوچ رہی ہوں اب قید کر لوں۔ "

وہ اس کو اپنے بس میں رات سے کیے ہوئے تھی اور اب تو اس شخص کو خود سے وریشہ کی مہک اٹھتی محسوس ہو رہی تھی جو دونوں کی دل دھڑکاتی،ملاقات کے راز کھول رہی تھی۔

"قید تو کر چکی ہو، اپنی ان آنکھوں میں۔ اب جانے دو کیونکہ زندگی کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے، کچھ ضروری چھوٹنا نہیں چاہیے۔ دیکھو بچارا کھانا بھی کیسی حسرت سے دیکھ رہا ہے، موم بتیاں اپنی بے و قعتی پر جل جل کر فنا ہو گئیں ہیں، اور میرا دل مکمل تمہارے اختیار میں چلا گیا ہے۔۔۔۔ کچھ دن دو مجھے، ایک اہم فریضہ نبھانا ہے، اس جنگ سے زندہ لوٹ آیا تو صرف تمہیں میسر آوں گا یہ وعدہ ہے"

اسکی آنکھوں میں جھانکے وہ محبت بھرا بوسہ اس مسکراہٹ کے افق پر رکھے پھر سے آنکھوں میں اترا جو بس اسکے وجود سے جا لپٹی گہرا سانس بھر گئی۔

"اپنا وعدہ نبھاو گے جانتی ہوں پر کیسے جانے دوں تمہیں، کیسے رہوں گی تمہارے بنا۔ اف شہیر تم نے کیا پھونک دیا ہے مجھ پر ظالم انسان، ایسے لگتا ہے میری ان بازووں سے تمہارا جسم چھوٹا تو چھوٹتا چلا جائے گا، ان دھڑکنوں سے دل کا رشتہ ، زرا سے تمہارے اوجھل ہونے پر مچلنے لگے گا، ان سانسوں کو تمہاری خوشبو نہ ملی تو بند ہو جائیں گی"

وہ اسکی تاسف زدہ بے تاب سرگوشیاں سن کر غضبناک مسکرایا، اسے خود میں شدت سے بھینچ ڈالتے ہوئے اس نازک لڑکی کے کمزور وجود پر کوئی رحم نہ کھایا۔

"بس بیوی، کنڑول۔۔۔۔ایسے اظہار کرو گی تو کچھ ہو جائے گا مجھے، پھر وصل سے زیادہ تشنگی مزہ دینے لگے گی جو دونوں کو تڑپا دے گا۔ خود پر رحم کھاو ، اب ناشتہ مت سکپ کر دینا اور لگو اپنے مسیحائی کے پیشے پر، مجھے بھی کچھ دن کی آزادی دو"

جب اسکی شدت وریشہ کے لیے سنگین بنی تو وہ اس ارے حواسوں والی کو اس ٹریلر دیکھانے کے بعد روبرو لایا اور زرا سنجیدگی اختیار کر گیا جو اب تک دل تک جھانکتی نظروں سے شہیر مجتبی کا امتحان لے رہی تھی۔

"ساری دنیائیں ایک طرف، ایک طرف اب صرف تم ہو۔۔۔۔"

وہ باز نہ آئی تھی اور وہ مسکین سی گھوری دیتا بہت پیارا لگا۔

"وریشہ! باز آجاو"

وہ اسے تنبیہہ کر گیا جو پھر بھی رسک لینے پر تیار تھی۔

"بہت مس کروں گی تمہیں، بہت بہت بہت زیادہ"

وہ اسکو دیکھ کر کہتی برا آزما رہی تھی جبکہ اس بار وہ کچھ بوجھل ہوا۔

"میں بھی کروں گا مس، پھونک تو تم نے بھی کچھ دیا ہے نس نس پر حاکم بن گئی ہو"

اسے روکنے کے بجائے جناب خود بے خود ہوتے دیکھائی دیے اور وہ دنیا جہاں سے پیارا مسکائی۔

"میں یہ خوشی بیان نہیں کر سکتی شہیر جو تمہارے پاس محسوس ہو رہی ہے، دوبارہ بلاوں گی تو آو گے ناں"

وہ اس لڑکی کی اس درجہ شدید محبت پر کتنے ہی لمحے اسے ہی دیکھتا رہ گیا، کچھ بول ہی نہ پایا، خدشہ تھا اسے کہ آواز ٹوٹ جائے گی۔

"آوں گا، نہ آ کر کروں گا بھی کیا بیوی۔۔۔بس اس سے زیادہ نہیں۔۔۔۔میں اب نکلتا ہوں، تم بھی روٹین پر واپس آو۔ یہ نہ ہو جو بددعائیں تمہاری محبت نے ٹالیں ہیں وہ تمہارے مریض پھر سے مجھے دینے لگ جائیں کہ انکی مسیحا چھین لی"

اول جملہ ادا کرتے ہوئے اس سے پہلے وہ لڑکی خود اسکی دھڑکنیں روک دیتی، وہ بوکھلاہٹ میں بڑبڑاتا، نرمی سے اسے حصارے ہی اٹھ کھڑا ہوا جو اسکے خفیف سے گھبرانے پر دل سے ہنسی۔

"مت کیا کرو ایسے، مزید پیار آتا ہے۔۔یہاں دیکھو میری طرف"

اس سے پہلے وہ اپنی جیکٹ اٹھائے اس جان نکالتی ہوش ربا سے دور جاتا، وہ اسے جکڑتی، اسکا چہرہ زبردستی خود کی طرف موڑ بیٹھی۔

"تمہاری طرف دیکھنے کے لیے بھی بہت صبر چاہیے وریشہ، خود میں بسا لینے میں لمحہ نہیں لگاتی تم، اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔ اور اب کچھ مت کرنا جو مجھے بہکائے۔۔۔مجھے میری شرافت سمیت اپنے حصار سے نکلنے دو ورنہ یہی شرافت 'شر' اور 'آفت' بن کر تمہیں لمحہ لگائے تسخیر کر لے گی"

وہ جذبات کی آنچ سے دہکتے تنبیہی لہجے میں اسکی گال چومتا بڑے جبر سے اس سے جدائی کر رہا تھا اور وہ اسے اپنے لیے بے قرار سا بہت گرویدہ کر گیا۔

"آئی لوو یو"

وہ اسکے جاتے جاتے پھر سے اسکا ہاتھ جکڑے قہر ڈھا گئی جو لمحہ لگائے نہ صرف پلٹا بلکہ اس بار اس نے وریشہ کو دوسری سانس لینے کی مہلت کئی لمحے گزر جانے کے بعد جب استحقاق کو سمیٹ کر دی تو وہ سانسیں بحال کرتی سمٹا سا مسکرائی کیونکہ وہ شخص اپنی شدت پسندی سے اسکے چہرے پر حیا کی لالیاں بکھیر چکا تھا۔

"میرا جواب مل گیا ہوگا، فی امان اللہ"

اسکے چہرے پر محبت بھری نگاہ ڈالتا وہ کہتے ہی اس لڑکی کے جادوئی حصار سے ناصرف نکلا بلکہ گھر سے بھی نکل گیا اور وریشہ، اسے آج کا دن ہی نہیں، اپنی پوری زندگی ہی معطر ہو جاتی محسوس ہوئی۔

شہیر نے اس ایریا سے نکلتے ہی اپنی جیکٹ پہنی اور جیکٹ کی جیب میں گھسائی ٹوپی بھی سر پر ڈالی جبکہ منہ پر ماسک چڑھائے وہ محتاط سا ہوتا وہاں سے بہت جلدی میں نکل گیا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی سیدھا پہلے ونیزے کے گھر ہی گیا تھا، پہلے اسکی میڈیسن لی، اسکی کبرڈ کھولے جو بھی سات آٹھ ڈریس تھے وہ نکال کر چھوٹے سے بیگ میں پیک کیے پھر نظر اسکے بیڈروم میں پڑے لیپ ٹاپ پر گئی تو اس نے اہم سوچتے ہوئے وہ بھی اٹھایا اور پھر تھانے جانے کے بجائے سیدھا مارکٹ گیا۔

وہ ساری پرسنل چیزیں جو اسکے مطابق ونیزے بتا نہیں رہی تھی، جناب نے خاصے پراعتماد طریقے سے خریدیں اور وہ کسی اہل کار کے ہاتھ یہ سب بھجوانے کے بجائے خود واپس گھر آیا تو تب ونیزے فریش ہو کر گھر کی ہلکی پھلکی صفائی میں مصروف تھی، ولی کو آتا دیکھ کر وہ پہلے تو مسکرائی مگر ان پرسنل چیزوں کا سوچتے ہی اسکا دل ایک لمحہ تو شدید دھڑکا۔

"یہ تمہارا سارا سامان، چیک کر لو میں آتا ہوں"

سب کچھ لاونچ میں میز پر رکھے، چھوٹا سے اٹیچی بھی وہیں کھڑا کیے وہ خود اپنے روم کی طرف بڑھا تو ونیزے نے جھجھکتے ہوئے وہ شاپنگ بیگز کھولے اور سب کچھ موجود پائے اسکے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ اتری اور بلکل ایسا لگا کہ پرانی ونیزے بیدار ہو گئی ہے پھر اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھتے ہی وہ اسے وہیں میز پر رکھ کر اوپن کرتی صوفے پر ہی بیٹھی اور اسے اون کیا۔

وہ تو بھول ہی گئی تھی مگر اس لیپ ٹاپ میں بہت ساری انٹیلجنس کی معلومات تھی جو ممکن تھا سیٹھ گونی تک یا اسکے کسی اڈے تک پہنچنے میں مددگار رہتی اور یہی ہوا، جب تک ولی کچھ ضروری فائلز لیے اپنے کمرے سے نکلا تو ونیزے کو لیپ ٹاپ پر کچھ سیاہ نقشے کھولے اور توجہ سے دیکھتے خود بھی فائلز سامنے میز پر رکھے ساتھ ہی آکر بیٹھا۔

"کیا دیکھ رہی ہو؟"

ولی نے تجسس سے پوچھا۔

"ولی، یہ کچھ خفیہ جگہوں کے ایڈریس ہیں۔ کیا پتا سیٹھ گونی کے حوالے سے کوئی کلو مل جائے یا پھر مافیا کے متعلق بہت سی انفارمیشن، میں نے ٹمبر مافیا کے متعلق اور بھی کافی انفارمیشن جمع کر رکھی ہے، ہوپ سو آپکو میرا یہ لیپ ٹاپ کچھ مدد دے سکے"

وہ اپنے کام کو لے کر پرامید تھی اور اسکا یقین دیکھتے ہوئے ولی نے بھی اسکی معلومات چیک کرنے کی ہامی بھری۔

"واہ شکارن، تم تو بڑے کام کی ہو۔ پھر ایسا کرو یہ لیپ ٹاپ مجھے دو میں چیک کرواتا ہوں۔ یہ ایڈریس مجھے اپنی ٹیم کو ابھی بھیجنے ہوں گے تاکہ سرچ شروع ہو سکے۔۔۔گڈ جاب"

وہ اسکی تعریف کرتا آخر تک اپنے کوٹ کی جیب سے سپن فون نکال چکا تھا مگر یکدم اسکی بازو میں اٹھتے درد نے اس سمیت ونیزے کو بھی پریشان کیا۔

وہ نہ صرف پریشان تھی بلکہ ولی کی بازو کو دیکھتی اسکی طرف رخ موڑے بیٹھی جو رات تو یہ راز چھپا بیٹھا تھا پر ابھی مشکل لگا۔

"و۔۔ولی کیا ہوا ہے آپکو؟ کیا آپکی بازو میں درد ہے؟"

وہ پوچھتے ہی بے تاب ہوئی تو ولی نے چہرہ موڑے اس لڑکی کی پریشان آنکھیں دیکھیں۔

"معمولی سا ہے، ڈونٹ وری"

وہ اسے بہلائے کال ملانے لگا مگر اس لڑکی کی تو ولی کے درد پر جان سینے میں اٹکی محسوس ہوئی۔

"کیا کر رہی ہو ونیزے"

وہ اس لڑکی کی حرکت پر گھبرا سا گیا جو اسکا ہاتھ اپنی لانبی انگلیوں کے بیچ جکڑتی اپنی دوسری ہتھیلی اسکی بازو پر رکھے روبرو ہوئی۔

"رات کو مجھے اپنے پاس سلانے کی وجہ سے درد ہوا ہے کیا، ایک جگہ سوئے رہنے سے ہوا۔ سوری پلیز مجھے معاف کر دیں۔ آپ بولیں تو میں کان پکڑ لیتی ہوں"

بولتے ہی اس لڑکی کی آنکھیں بھیگیں تو ولی اسکی اس درجہ شدید پریشانی پر مسکراتے ہی فون آف کیے، لیپ ٹاپ واپس سامنے میز پر رکھے زرا رخ موڑ کر اس گھبرائی نڈھال ونیزے کے روبرو ہو کر بیٹھا۔

"مجھے ایسے زخم بہت عزیز ہیں جو کسی کا سکون بننے کے دوران مجھے لگ جائیں، تم روز ایسے ہی میرے قریب رہو گی اور یہ بات اچھے سے دماغ میں بٹھا لو۔ پھر چاہے میری پسلیاں دکھیں، کمر اکڑے یا بازو جام ہوں۔۔۔انڈرسٹینڈ"

اس شخص کے ہر ہر لفظ میں شدت تھی اور تبھی تو ونیزے اپنا رونا بھول کر اسے حیرت اور صدمے سے دیکھنے لگی۔

"ولی،لیکن میں آپکو تکلیف میں کیسے دیکھ سکوں گی"

اس لڑکی نے رنجیدہ ہوئے حسرت سے سوال کیا۔

"تم میری کوئی تکلیف نہیں دیکھو گی، مسکراتی رہا کرو"

اسکے لفظ لفظ میں یقین تھا تبھی تو وہ اسکے حکم پر مسکرائی۔

"بائے دے وے مل گیا تمہیں تمہارا پرسنل سامان، سب اوکے ہے؟"

جناب نے جلد ہی آپسی کشش توڑتے ہوئے لیپ ٹاپ واپس اٹھایا اور وہ اسکے نظریں چرانے پر خود بھی سرخ رو ہوتی سمٹا سا مسکرائی۔

"جی، مجھے نہیں پتا تھا آپکو اتنا سب پتا ہے"

محترمہ نے نظریں جھکائے ہی یہ قہر ڈھایا اور خود ولی نے بمشکل مسکراہٹ دبائے خود کو سنجیدہ ظاہر کیا۔

"کیا مطلب، اسی دنیا میں ہی رہتا ہوں ۔ کیوں پتا نہیں ہوگا مجھے"

ولی نے خود کو لاکھ سنجیدہ رکھا پر اس لڑکی کی مسکرا دیتی آنکھیں اسے سنجیدہ رہنے نہ دے سکیں۔

"مجھے لگا آپ کچھ نہیں جانتے، سوری خود ہی سمائیل آرہی ہے چہرے پر"

وہ خود کو سنجیدہ رکھنے میں ناکام ہوتی ولی کو بھی مسکرانے اور بوکھلانے پر مجبور کرنے پر لگی تھی پر سامنے ولی زمان خان تھا، ایسے معاملات میں اپنے تاثرات پر کنڑول رکھنے والا۔

"اہمم اہمم ایسے مسکراتی نظروں سے دیکھ کر آکورڈ فیل مت کرواو، تم نے مجھے چھوٹا سا ناسمجھ بے بی تو نہیں سمجھ لیا ہے شکارن، ویسے بھی بیوی والا ہوں اب، بیوی والا بن کر تو دیکھانا ہی ہے"

وہ اسے دیکھ کر اپنا اعتماد واپس بحال کر چکا تھا جس سے واقعی اب بات کرنا مشکل تھا۔

"چلو اب اکیلی بیٹھ کر باقی مسکراو کیونکہ مجھے اس کام پر بھی لگنا ہے ، ٹیک کئیر"

مزید بیٹھنا زرا دل پر بھاری ہوا تو ولی نے اسکا لیپ ٹاپ اسکے ہی بیگ میں ڈالے، اپنی فائلز اٹھائیں اور اٹھ کھڑا ہوا، ونیزے بھی مسکراتی ہوئی کھڑی ہوئی۔

"تھینک یو ولی"

وہ اسکے مشکور ہونے پر پلٹا تو اس لڑکی کی آنکھوں میں کل جہاں کی محبت تھی۔

"پورے حق سے تمہارا یہاں میرے پاس آنا ، میری بورئیت سے بھری زندگی میں کچھ مسکراہٹ کے حسین پل ضرور لے آیا ہے اس لیے تھینکو تمہارا بنتا ہے۔ بائے"

بہت سہولت سے وہ اسکی آنکھوں میں اپنے نام کے کئی مزید خواب بسائے جب واپس مڑا تو ونیزے نے اسکا مضبوط ہاتھ جکڑے ایک بار پھر اپنے ہونٹوں سے چوما۔

"یہ میرے لیے آپکی طرف سے عنایت کیا گیا ایک اور اعزاز ہے، اللہ کی امان میں رہیں"

وہ اسکو ایک بار پھر تڑپا بیٹھی تھی، اپنی حسرت میں کسی کو اس درجہ نہال وہ کبھی نہ دیکھ پاتا اگر ونیزے اسکی زندگی میں شامل نہ ہوتی۔

وہ نہ صرف پلٹا بلکے اسی ہاتھ سے ونیزے کو اپنے نزدیک کھڑا کرتا اسکی خود پر جمی چاہت بھری نظریں کچھ لمحے دیکھنے کے بعد اسکی جبین پر جھکا اور محبت بھرا لمس تحریر کرتے مسکرایا جو یوں تھی جیسے اسے کائنات کی سب سے بڑی راحت سونپی گئی ہو۔

"کر دی میں نے ایک اور پہل۔۔اب تو شکارن پورا دن خوشی سے جھومے گی بھئی۔۔۔"

اس ایک لمحے نے خود اس چٹانی اعصاب والے کو جکڑا تبھی وہ خود کو اس لڑکی کے سحر سے نکالنے پر جلد بازی کرتا دانستہ شرارت پر اترا جو یوں مسکرائی جیسے اسکی روح تک اس لمس کی تاثیر نے اتر کر زندگی کے دن بڑھائے ہوں۔

"پہل تھوڑا کی ہے، آپ نے تو مرتے ہوئے کمزور وجود کو چھو کر دوبارہ اچھا کر دیا ہے۔۔۔اب آپ جائیں ورنہ رو دوں گی"

وہ اس لڑکی کی سوچ سے بڑھ کر پیارا لمس تھا جسکی حدت نے ونیزے کے پورے درد کرتے وجود کو سہلا دیا تھا اور وہ اس پاگل لڑکی پر اک بھرپور سرشار سی نظر ڈالتا حکم کی تعمیل کیے باہر چلا گیا لیکن وہ محسوس کر سکتی تھی، اب تک جبین کے افق پر اس مہربان ساتھی کے ہونٹوں کا شدت بھرا لمس جو آج ونیزے کے ہونٹوں سے ممکن ہے مسکراہٹ جانے نہ دیتا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مجھے امید ہے آپ ہمارے آنے کا مقصد جان گئے ہوں گے شمشیر صاحب، کوئی تمہید نہیں باندھوں گا۔ سمجھدار انسان ہیں آپ اس لیے سیدھی اور صاف بات کروں گا"

وہ اشنال کے ساتھ ہی سیدھا پہلے یوسف زئی حویلی آیا تھا اور وہ ان دونوں کی آمد پر جتنے خوش تھے، ضرار کے مدعے پر سیدھے آنا انکے چہرے سے بھی مسکراہٹ ختم کر چکا تھا۔

"میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پایا ضرار، گو مگو کی سی کیفیت ہے۔ جانتا ہوں تم دونوں یہاں وریشہ کے مدافعتی طرف دار بن کر آئے ہو مگر میں شہیر جیسے کو اپنی اکلوتی پوتی کے لیے قبول نہیں کر پا رہا، یہ بھی جانتا ہوں وہ میرے لیے اسے چھوڑنے والے زہر کا گھونٹ بھی بھر لے گی مگر پھر بھی دونوں حالتیں میرے لیے اضطراب کی ہیں"

وہ فورا معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے تھے جبکہ ضرار اور اشنال نے انکی بے بسی پر ایک دوسرے کو دیکھا۔

"تو پھر آپکو اس کیفیت سے ضرار ہی نکالے گا، اگر آپکو شہیر کے وریشہ کے لیے بہترین ہونے کی گارنٹی میں دوں تو کیا تب بھی آپ ایک طرف ہو کر اپنا فیصلہ وریشہ کے حق میں نہیں دیں گے؟"

ضرار نے اپنی گارنٹی آج اپنی ہی حاسد کے لیے دی یہ اسکا بڑا پن تھا جبکہ سردار شمشیر یوسف زئی حیران سے دیکھائی دیے، جیسے وہ انھیں جکڑ گیا ہو۔

"تم کیسے گارنٹی لے سکتے ہو اسکی جس نے تمہیں اور اشنال کو تکلیف سے گزارا"

وہ ضرار کے ظرف پر الجھے جبکہ وہ جوابا دھیما سا درویشانہ مسکرایا۔

"کیونکہ وہ میرا دشمن ہونے سے پہلے ایک دوست رہ چکا ہے"

یہ سچائی آج اس نے بھی بڑئ مدت بعد زبان پر لائی تھی جبکہ شمشیر یوسف زئی کے علاوہ اشنال بھی اسکی سمت دیکھتی اداس ہوئی۔

"لیکن دوست ، دشمنی نہیں دیکھاتے۔ کیا بھروسہ وہ میری وریشہ کو بھی آدھے رستے لے جا کر چھوڑ دے، میرا دل نہیں مانتا ضرار"

انکا دل خدشوں کا مارا تھا۔

"مان جائے گا، وہ برا نہیں ہے۔ برا بننے کی کوشش کرتا ہے، مجھے امید ہے وہ وریشہ کے لائق بننے کی پوری کوشش کرے گا کیونکہ اسکی آنکھوں میں واقعی وریشہ کے لیے محبت دیکھی ہے میں نے۔ اگر آپ مجھ پر بھروسہ کریں تو میں اسکی گارنٹی لینے کا رسک باخوشی اٹھاوں گا۔ کوئی اچھا سا دن دیکھ کر آپ ان دو کی شادی ڈیکلئیر کر دیں، شہیر کو موقع دیں کہ وہ اپنا آپ منوائے۔ زمین داری میں ویسے ہی وہ زمان خان کے ساتھ رہ کر ماہر ہو چکا ہے سو اسکی صورت فیوچر میں آپکو ایک ہونہار فرزند بھی ملے گا اور اچھا سردار بھی اور آپکی وریشہ بھی آباد ہو جائے گی۔ میری اور اشنال کی باہمی خواہش اور درخواست ہے، اگر آپ اس پر نظر ثانی کریں تو بہت خوشی ہوگی"

وہ معاملہ فہم انسان تھا اور سردار شمشیر یوسف زئی اسکے مضبوط اور پختہ انداز تکلم سے قدرے قائل دیکھائی دے رہے تھے اور پھر جس معاملے میں میثم ضرار چوہدری دخل دے وہ کبھی بگھڑ جائے ایسا تو ناممکنات میں سے تھا۔

"اگر تم کہتے ہو تو میں پھر سے اس معاملے پر سوچتا ہوں، سچ کہوں تو میں خود اپنی پوتی کا دل اور گھر اجاڑنے پر خوش نہیں۔ اب جبکہ ولی نے بھی اپنے لیے بہتر پا لیا ہے سو میرا بھی یہی خیال ہے کہ پرانی غلطیوں کو نظر انداز کرنا ہی مناسب ہے"

ضرار کو انکے جواب نے راحت دی وہیں اشنال کی اداسی بھی قدرے زائل ہوئی۔

وہیں شہر پہنچ کر اماں فضیلہ نے تینوں دلہنوں کو ساتھ لے جا کر خریداری کرنی شروع کر دی تھی، انکو پہنچنے میں دن کے دو بج گئے تھے۔

جبل زاد اپنا پورا دھیان چاروں خواتین پر ہی دیے مال سے باہر چوکس کھڑا تھا، کیونکہ سبکے برائڈل ڈریس لینے تھے تبھی وہ لوگ شہر آئے تھے، برائیڈل ڈریسیز کی شاپ پر موجود زونین نے اک نظر اماں فضیلہ کو دیکھا جو گل اور مالنی کے لیے خوبصورت سے ڈریسیز نکلوائے ان سے انکی پسند بھی پوچھ رہی تھیں مگر مالنی بظاہر تو انکے ساتھ باتیں کر رہی تھی مگر اسکی نظریں ساتھ ہی خاموشی سے کھڑی زونین پر تھیں جو خریداری میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔

اور پھر وہ بار بار باہر جبل زاد کو دیکھ رہی تھی جو گاڑی سے لگ کر کھڑا ان سبکا منتظر تھا۔

"ہم آپ سے ہر حساب لیں گے، آپکو نہیں چھوڑیں گے"

دل میں تہیہ کرتی وہ مالنی کے فضیلہ اماں کے تھمائے ڈریس پکڑ کر قریب سے دیکھنے پر خاموشی سے بنا آہٹ کرتی اس شاپ سے نہ صرف نکلی بلکہ چادر سے چہرہ ڈھکتی تیزی سے اپنا بیگ جکڑے وہ مال سے باہر نکلی مگر اس سے پہلے جبل زاد کی اس پر نظر پڑتی، بیرونی دروازے سے انٹر ہوتی کسی فیملی کی وجہ سے وہ انکے پیچھے ہو گئی اور جیسے ہی جبل زاد نے فون پر وقت دیکھا، اسی دوران زونین نے ناصرف مال سے نکل کر سڑک کی راہ لی بلکہ ہاتھ کے اشارے سے ٹیکسی روکی اور اسکو کوئی پتا سمجھاتی پیچھے بیٹھی جبکہ مالنی نے جب رخ موڑا تو زونی تو کیا زونی کا نام و نشان بھی باقی نہ تھا، تینوں کے چہروں کا رنگ ایک ساتھ سفید پڑا، گویا پیروں سے زمین سرک گئی تھی۔

شاپنگ وہیں چھوڑتے وہ تینوں ہی جس طرح بوکھلاہٹ کا شکار باہر آئیں، جبل زاد بھی متفکر سا لپکتا ہوا ان تینوں تک پہنچا۔

"کیا ہوا ہے؟ سب خیر ہے ناں۔۔اور یہ زونین۔۔۔"

جبل زاد نے زونین کو انکے ساتھ نہ پائے دیکھ کر خوفزدہ ہوتے پوچھا۔

"پتا نہیں وہ کہاں غائب ہو گئی جبل، خدا کے لیے اسے ڈھونڈو میرے بچے"

اماں فضیلہ کی تو جان نکل رہی تھی یہی حال گل اور مالنی کا تھا مگر اس وقت مالنی کا دماغ بروقت کام کیا۔

"مجھے پتا ہے وہ کہاں گئی ہوں گی، ہمیں جلدی چلنا ہوگا جبل بھائی۔۔۔۔اس سے پہلے کے مما انکے دماغ میں مزید زہر بھر دیں"

مالنی نے بروقت دماغ کو کام لاتے رنگین حویلی کا سوچتے ہوئے جبل زاد کی طرف دیکھتے کہا جس پر جبل زاد کو بھی اسکا یقین دیکھ کر کچھ ڈھارس ملی، وہ گل اور اماں سائیں کو وہیں مال سے ملحقہ بنے کیفے میں کچھ دیر بیٹھ کر انتظار کرنے کا کہتا خود مالنی کو لیے اسکے بتائے پتے پر اسکے ساتھ روانہ ہوا۔

مالنی نے اسے گاڑی رنگین حویلی سے دو گلی پیچھے ہی روک دینے کا کہا، جبکہ جبل زاد اپنے یہاں کے لوگوں کو بلوا چکا تھا جو بس پہنچنے والے تھے۔

"دھیان سے جائیں مالنی، اندر خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ میں بھی آپکے ساتھ چلتا ہوں"

وہ اسے اکیلے وہاں جانے نہیں دے سکتا تھا مگر مالنی نے نفی میں گردن ہلائے جبل کو دیکھا۔

"آپ میرے جانے کے بعد آئیے گا"

وہ اسے کہتے ہی چادر سے اپنا وجود ڈھانپتی گاڑی سے نکلی اور سیدھی گلی کی طرف بڑھ گئی جبکہ آج ان گلیوں اور رنگین حویلی سے اسے شدید وہشت ہو رہی تھی۔

جبل زاد چند منٹس بھی ہرگز انتظار نہیں کر سکتا تھا سو وہ مالنی کے گلی سے اوجھل ہوتے ہی جب اپنی گاڑی سے نکلا تو عین اسکی وقت اسکے پاس ہی اسکے لوگوں کی گاڑی آکر رکی، وہ سب بھی مالنی کا تعاقب کرتے پیچھے لپکے مگر عین گلی کے نکڑ پر آتے ٹرالے کے باعث جبل زاد سمیت اسکے چاروں آدمیوں کو لگ بھگ پورے دو منٹ رکنا پڑا اور یہ اتفاق نہیں، کنو بائی کا پھیلایا ایک اور جال تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"یعنی سدھرنا نہیں تم نے کنو؟ ٹھیک ہے پھر میری آفر قبول کرو۔ آجاو جنگل میں منگل کریں"

چنگارتی میسج ٹون بلند ہوئی تھی جس پر کنزا نے ہاتھ میں تھاما حقہ ایک طرف سرکائے اس خرفاتی شخص کا پیغام کھولے تمسخر کے سنگ پڑھا۔

"پہلے زرا مشارب اور ہاشم سے انتقام لے لوں، پھر جنگل میں تمہارا منگل بھی کرواوں گی، تم تیاری پوری رکھنا کبھی بھی تمہیں ہماری مہمان نوازی کرنی پڑ سکتی ہے (حرام زادے)۔ آج دل کہہ رہا ہے بہت اچھا دن ہے۔ مجھے فالتو کے مسیج مت کرو، ہر کوئی تمہیں کتے کی طرح ڈھونڈ رہا ہے اور مجھے تو مر کر تھوڑی آسانی مل گئی۔ اب کنو کرے گی وار اور سب کہیں کے اوہ یہ کس نے کیا۔۔۔۔ہاہاہاہا"

رنگین حویلی پر یوں تھا جیسے رنگ برس آئے ہوں، شوخیاں اتر آئی ہوں، صحن کے برامدوں میں نصیر صاحب نقلی مونچھ داڑی میں سفید کرتا اور سنہری لاچا پہنے، گال پر منہ جتنا تل چپکائے، نقلی توند کی راعنائیاں بکھیرتے ہوئے نازک نازک حسیناوں کو راگ سنا سنا کر خود پر فدا کر رہے تھے اور وہ نصیر کی کان میں اتر کر چبھتی آوازوں پر جمگھٹے کی صورت قہقہے لگانے لگتیں تبھی تو انکا یہ ٹھٹھا سنتی کنزا بھی اس نئے آتے ماسڑ سے لگ جاتی رونقوں کو دیکھنے باہر نکلی، اب اسکے منہ میں پان تھا اور آنکھوں میں خوشگوار تجسس۔

"بس توند بری ہے، باقی تو پورا آفت ہے یہ جاسوس چھوڑا، کوئی نہیں تیرا بھی وقت جلد پورا ہوگا اور پھر تیرے بعد تیرے ہاشم کی موت ہوگی"

کنزا نے استاد نصیر پر اک بے قرار نگاہ دوڑاتے اگلے ہی لمے زہر خندی کے سنگ خود کلامی کی جسے خود بھی کنو کی نظریں محسوس ہو کر ڈرا چکی تھیں۔

"یار یہ کنو کہیں مجھی پر ہی فلیٹ نہ ہو جائے، ہاشم سر یہ مجھ معصوم کو کہاں پھنسا دیا کنیا کماریوں میں"

کنو کی التفات بھری مشکوک ، روح تک کا پوسٹ مارٹم کرتیں کاروباری نظریں، نصیر کے چھکے چھڑوا چکی تھیں اور اس سے پہلے وہ ادائیں لیئ، اپنے اب تک حسین جسم کی راعنائیاں بکھیرتی نصیر تک پہنچتی، رنگین حویلی کے دروازے پر ہوتی دستک نے ہر ایک کو اپنی جگہ ساکت کر دیا۔

دروازے کو بڑھ کر اک شوخ لڑکی نے جب کھولا تو سامنے سیاہ چادر سے خود کو سر تا پیر چھپائے کھڑی زونین فاطمہ کو دیکھ کر جہاں کنزا کا چلتا منہ تھما وہیں نصیر بھی جہاں کا تہاں رہ گیا۔

"اوہ میری پیاری بیٹی آئی ہے، مما قربان"

وہ تو مالنی یعنی اپنی ہی رقیب کا سوچے بیٹھی تھی مگر یہ تو سونے پر سہاگہ ہو گیا تھا، نصیر نے فورا سے بیشتر اپنا فون نکالا اور اس خبر کو بروقت ہاشم تک ارسال کیا مگر زونی اندر تو آگئی تھی مگر اس سے پہلے کنزا اپنی جھوٹی محبتوں سے اسے اپنے گلے لگاتی، اس نے بے دردی سے کنزا کو خود سے پرے دھکیلا اور کنزا بمشکل گرتے گرتے بچی، اسکی آنکھوں میں آگ لپک رہی تھی جو کنزا کو جلا کر خاکستر کر دینے کی اہلیت رکھتی تھی، کنزا کے دو مشتبہ مسٹنڈے لوگ، نصیر کی مشکوک حرکت دیکھ چکے تھے۔

"ہاتھ بھی مت لگائیے گا ہمیں، نہیں ہیں آپ ہماری مما۔ آپ جیسی ماں سے اچھا تھا ہم پیدا ہی نہ ہوتے، آپکی کوکھ کا احسان نہ لیتے۔۔۔ کیوں کر رہی ہیں آپ ہمارے اور مالنی کے ساتھ یہ سفاکیاں۔ کہاں ہے وہ لڑکی ؟ جسکو آپ نے مشارب پر مسلط کیا۔ ہمارے مشارب اتنے کمزور نفس کے نہیں ہیں جو ہر ایری غیری کے آگے بہک جاتے۔ کیسے لیں آپ نے وہ تصویریں؟ بتائیں ہمیں ورنہ آج ہم آپکی جان لے لیں گے"

وہ جن زادی بنی ہر لحاظ بالائے طاق رکھتی حلق کے بل دھاڑی اور اسکی یہ دھاڑ سن کر کنزا سمیت ہر کوئی سکتے میں آگیا تھا ، حتی کہ نصیر بھی ساکت ہوا۔

"تم کیا نازلی کو قصور وار سمجھ کر مشارب کو مہان مرد سمجھے خود کو تسلی دے رہی ہو؟ ہاہا مرد ہے وہ اور مرد ذات بہک ہی جاتی ہے جب اسکے آگے سب کھلا ہوا موجود ہو۔چچ چچ میری معصوم بچی تو اس منحوس کے دکھ میں پاگل ہو گئی، یہاں آو میری جان۔ مما تمہارا ہر دکھ دور کر دیں گی۔ "

وہ اسکے دماغ میں پھر سے زہر بھرتے اسے خود میں سمونے کی کوشش میں تھی مگر زونی کا دل مشارب کے سخت رویے نے بہت اذیت میں جھونک رکھا تھا اور وہ جو خطاء کیے یہاں آئی تھی مقصد صرف کنزا کو مارنا تھا۔

"آپ ایک بلا ہیں، آپ خون پیتی ب۔۔بلا ہیں سنا آپ نے۔ ہم آپ س۔۔سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ا۔۔اسکا بدلا چک۔کانا ہوگا آپکو"

وہ سر میں اٹھتی ٹھیسوں پر سر جکڑتی چینخی تھی جبکہ کنزا کے بروقت اشارے پر دو مسٹنڈے لپک کر گرتی ہوئی زونین کو سنبھالنے آگے بڑھے مگر وہ ہوش سے بیگانی ہوتی گر چکی تھی، کنزا نے فورا سے بیشتر خود بھی سہارہ دیتے ہوئے زونی کو اندر کمرے میں لے گئی جبکہ تمام لڑکیاں بھی اندر لپکیں تو ان سبکو کنزا نے اپنے دو مزید لوگوں کو اشارہ کیے ایک ہی بڑے کمرے میں لاک کروایا، جبکہ نصیر بھی فون پر آتی ہاشم کی کال پر اٹھ کر آنکھ بچاتا صحن کی پچھلی طرف بڑھا، وہ دو لوگ نصیر کے اب قریب بڑھ رہے تھے وہیں کال پر ہاشم کا اس وقت غضب سے برا حال تھا۔

"کہاں ہے زونی؟"

وہ ایگزیبیشن ہال سے تیزی کے سنگ نکلتا سخت مشتعل دیکھائی دے رہا تھا، زونین کی یہ حرکت اسے دہکا چکی تھی۔

"سر وہ تو کنزا کی جان لینے آئی تھیں پر چینختے ہوئے بیہوش ہو گئیں، اندر کمرے میں لے کر جایا گیا ہے اسے"

نصیر کا انکشاف ہاشم کے ماتھے کی رگیں پھلا گیا۔

"منحوس کنزا، اب نہیں بچے گی مجھ سے۔ تم مشارب کو کال کرو اور اسے کہو لے کر جائے اپنی بیوی کو اور خود سنبھالے۔ باقی اس کنزا کا دی اینڈ آج میں کروں گا"

وہ انتہائی غصے میں بولا مگر نصیر تب چونکا جب رنگین حویلی سے اندر آتی مالنی نظر آئی ، جبل زاد بھی لمحہ بہ لمحہ اپنے لوگوں کے سنگ رنگیں حویلی کے قریب پہنچنے والا تھا۔

"سر! مالنی بھی آگئی ہیں۔ مجھے لگتا ہے وہ زونین میم کے پیچھے آئی ہیں"

نصیر نے دیوار کی اوٹ سے دیکھا جہاں وہ چادر سے خود کو ڈھانپتی اندر کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔

"ہاں ابھی جبل زاد کا مسیج ملا ہے، وہ ساتھ آیا ہے اسکے۔ میری بات غور سے سننا نصیر، اپنی نظریں ان دونوں لڑکیوں پر جمائے رکھنا۔ میں پہنچتا ہوں"

وہ بھی اس سے پہلے اس پر کھول اٹھتا، دوسرے فون پر آتے جبل زاد کے میسج نے ہاشم کا امڈتا جلال ہلکا کیا اور نصیر حکم کی تعمیل کا اشارہ دیتے ہی کال کاٹ گیا جبکہ دو خبیث آدمیوں نے مالنی کو کمرے میں داخل ہونے سے روک دیا جو آج کنزا کا خون پینا چاہتی تھی۔

"کہاں ہیں زونی آپی، میں نے کہا ہے چھوڑو مجھے۔۔۔۔مما اگر آپ نے آپی کو ہاتھ بھی لگایا تو جان لے لوں گی۔۔۔کھولو دروازہ"

وہ ان دونوں خبیث آدمیوں سے اپنا آپ چھڑواتی دھاڑی جبکہ اسکی چینخ و پکار سنے، اندر اپنا کام اپنی خاص لوگوں کو سونپے وہ خود مالنی کی دھاڑ سنتی چہرے پر مضحکہ خیز مسکراہٹ سجاتی باہر نکلی۔

"چچ چچ جان لے لو گی، میری جان لو گی جس نے پالا پوسا۔ ویسے حیرت کی بات ہے میسج تو میں نے تمہیں کیا تھا، یہ زونی بیوقوف چل کر آپہنچی مگر تھوڑی اداس ہوں کے اسے مشارب کے خلاف اور تمہیں ہاشم کے خلاف زیادہ دیر بدگمان نہ کر سکی۔ لیکن اب تم دونوں کو مما کا نئے قسم کا پیار دیکھنا پڑے گا، میری مالنی کو لے جاو وہاں جہاں اسکا چہیتا ہاشم بھی اسے ڈھونڈ نہ سکے اور اسکی جدائی میں تڑپتا ہوا مر جائے"

وہ نفرت اگلتی ہوئی پھنکاری تھی، ایک طرف جہاں کمرے سے چار عدد مسٹنڈے نکلے وہیں دیوار کی اوٹ سے جھانکتے نصیر کو بھی دو آدمیوں نے گریبان سے جکڑے دو زور دار مکے رسید کیے زمین پر پٹخا جو گرتے ہی ہوش سے بیگانہ ہوا۔

اور ناجانے ان آدمیوں نے مالنی کو کیا سونگھایا کہ وہ کچھ دیر میں ہی بے ہوش ہوتی گرنے ہی لگی جب کنزا کے اشارے پر اسکا آدمی خباثت بھری مسکراہٹ دیے اس لڑکی کو اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا جبکہ جبل زاد جو لگ بھگ دو منٹ کے بعد اپنے چار عدد لوگوں کے ساتھ حویلی کی طرف بڑھا تو اسے وہاں نصیر کے علاوہ کسی کا نام و نشان بھی نہ ملا، وہ بے قراری سے اندر آیا، پوری حویلی چھانی پر ایک بڑے کمرے میں حویلی کی ساری لڑکیوں کو بند کیا گیا تھا اور باقیوں کوئی نہ ملا، ناجانے ان سبکو اتنی جلدی زمین نگلی تھی یا آسمان کھا گیا، وہ دوڑ کر زمین پر گرے نصیر تک آیا جسکے ناک اور منہ سے خون نکل رہا تھا۔

اپنے آدمیوں کو اشارہ کیے وہ اسے گاڑی میں ڈالنے کا کہتا خود باقی دو آدمیوں کو لے کر سیڑھیاں چڑھا مگر وہ سب کنزا سمیت فرار ہو چکے تھے اور چھت سے ایک خفیہ راستہ تھا جسکے ساتھ ہی کھلا گراونڈ تھا اور وہیں کنزا کے لوگوں کی گاڑیاں پہلے ہی کھڑی تھیں۔

جبل زاد نے خوف سے جھرجھری لی، ماتھا مسلے دیوار پر پوری زور سے پنچ دے مارا کیونکہ آج جو بھی ہوا تھا وہ اس نقصان کی وجہ خود کو قرار دے رہا تھا، زونی اور مالنی تو غائب ہو ہی گئی تھیں، کنزا بھی ہاتھوں سے نکل گئی۔

"یا خدا یہ منحوس عورت کہاں لے گئی سبکو، ہاشم لالہ تو میری جان لے لیں گے۔ اوہ میرے خدا یہ کیا ہو گیا۔ کیا کروں"

وہ اس وقت اخیر بے بس تھا اور اسکی آنکھیں جہنم کی طرح سلگ چکی تھیں۔

وہیں آدھے گھنٹے تک جب ہاشم، حویلی پہنچا تو جبل زاد سے ملتی یہ روح شگاف خبر اسکے دل کو کچل گئیں، نصیر بھی آئی سی یو پہنچ چکا تھا۔

"نہیں کنزا! اب تم میرے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتی درندہ صفت عورت۔ تم نے بتا دیا کہ کتنی منحوس ہو تم۔۔۔جبل زاد! واپس جاو ولی کو خبر کرو۔باقی یہ معاملہ میری وجہ سے بگھڑا ہے سو اب اسکو سدھاروں گا بھی صرف میں۔ گلٹی مت فیل کرو، تمہارا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔۔جاو"

جبل زاد کو وہ واپس روانہ کر چکا تھا اور خود جانتا تھا کہاں جانا ہے تبھی اپنے لوگوں کے ساتھ وہ جس طوفانی انداز سے وہاں آیا، ویسے ہی بپھری موج بنا وہاں سے چلا گیا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"خبر پکی ہے تو جلدی کنفرم کر، مجھے پہلے ہی شک تھا وہ وہیں ہوگا۔ باقی سب ولی زمان خان سنبھال لے گا، مجھے صرف اسے ولی کے آگے پھینکنا ہے"

وہ کانوں میں لگائے ائیر فون پر کسی سے بات کرتا تیزی سے جنگلی راستے کی جانب بڑھ رہا تھا، ٹھنڈ کی شدت کو دھوپ کی تمازت نے قدرے کم کیا تھا مگر پھر بھی ماحول میں عجیب سی یاسیت بھری تھی۔

"وہاں اسکا انڈر گراونڈ کیمپ ہے شہیر، جگہ جگہ اس نے زمینی بمب نسب کر رکھے، improvised explosive device کے ذریعے اس نے اپنا پورا کیمپ سیکور کر رکھا ہے اور مجھے لگتا ہے تیرا وہاں اکیلے جانا مناسب نہیں۔ آدھا گھنٹہ رک میں اپنے ٹرینڈ لوگ تیرے پاس بھیجتا ہوں اور تیری گنز بھی یہیں ہیں"

کاشف کی بات سنتے ہی شہیر کے تیز قدم سست پڑے تھے اور وہ وہیں درخت کا سہارہ لیے رک گیا۔

"دس منٹ کاشف، زیادہ انتظار ممکن نہیں۔۔۔دس منٹ کے اندر اندر پہنچا اپنی مدد۔ ایک دوربین بھی"

وہ اسے آخری بریفنگ دیتا کال بند کر چکا تھا جبکہ بہت فاصلے پر اسے تین عدد گاڑیوں کی آوازیں سنائی دیں جو تیزی کے سنگ سیٹھ گونی کے کیمپ کی طرف بڑھی تھیں۔

"یہ کون ہو سکتا ہے، او مائی گارڈ۔۔۔۔۔کنزا! اور یہ سب لوگ۔۔۔۔۔۔۔کون ہیں دو لڑکیاں جھنیں یہاں لایا گیا ہے، کیا گیم کھیلی جا رہی ہے یہاں؟

کہیں کنو بائی نے سیٹھ گونی کے ساتھ ہاتھ تو نہیں ملا لیا؟ دو منحوس مل گئے تو تباہی ہی پھیلے گی۔ مجھے یہ خبر ولی کو پہنچانی ہوگی"

ان گاڑیوں کو کیمپ سے کچھ فاصلے پر ہی روکا گیا تھا تبھی شہیر نے اس میں سے نکلتی کنزا کو دیکھا جبکہ اسکے سانڈ غنڈے اور موالی، دو نسوانی بے ہوش وجودوں کو گاڑی سے نکال کر کیمپ کی طرف بڑھ چکے تھے، شہیر نے اپنا فون آن کیا اور ولی کے نمبر پر لوکیشن کے ساتھ ساتھ یہ خفیہ پیغام بھیجتے ہی فون واپس آف کر دیا۔

جبکہ دوسری طرف مالنی اور زونی کے کنزا کی طرف سے اغواء کی خبر ولی تک پہنچ چکی تھی کیونکہ جبل سیدھا تھانے ولی کے پاس ہی آیا تھا، چونکہ گل اور اماں کو اس نے واپس علاقے بزدار حویلی چھوڑنا تھا سو وہ تین گھنٹے کی اجازت لیتا ولی کو یہ انفارم کرتے ہی تھانے سے نکل گیا۔

جبل زاد جس وقت تھانے سے نکلا، ولی بھی اپنی ٹیم کے ساتھ ریٹ پر نکلنے ہی والا تھا جب شہیر کی طرف سے موصول ہوتی خبر نے اسکی پریشانی قدرے کم کی، ونیزے کے لیپ ٹاپ سے ملی انفارمیشن کے مطابق تمام جگہوں کی چھان بین اسکے لوگ شروع کر چکے تھے مگر وہ خود شہیر کے بتائے پتے پر نکل گیا کیونکہ اس وقت سب سے ضروری مالنی اور زونی کو ان منحوسوں کے چنگل سے چھڑوانا تھا اور شاید آج ولی زمان خان کے لیے شہیر مجتبی کی خفاظت بھی اتنی ہی اہم تھی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

حد ہو گئی، اس لڑکی کو زنجیریں ڈال کر رکھنا چاہیے تھا بیوقوف ۔ مشارب خان تم بھی کم سر پھرے نہیں ہو، بہت افسوس کی بات ہے  تم نے اس بیوقوف لڑکی کی بدگمانی دور کرنے کے بجائے مزید ستم ظریفی دیکھائے ساتویں آسمان تک پہنچا دی۔ مجھے پہلے ہی شبہ تھا کہ تم نے ضرور کوئی ناقابل برداشت بکواس کی ہے تبھی تمہاری شکل پر بھی دبائی ہوئی اذیت تھی اور وہ لڑکی بھی کسی دباو میں سہمی ہوئی تھی۔ "

 حویلی پہنچتے ہی جب ساری صورت حال جب ضرار کو معلوم ہوئی تو اسکا دہکتا جاہ و جلال اور غصہ دیکھنے لائق تھا جو کسی کو بھی لرزا دیتا پھر گل خزیں خانم نے بھی مشارب کی غلطیوں کا پوری سچائی سے اعتراف کر دیا، جس ضرار کا خون مزید کھولا دیا اور اس وقت مشارب بہت بری حالت میں ہوتا اگر اس لڑکی کے ٹریس ہو جانے کی معلومات اسکو نہ ملتیں جو ولی نے اس تک پہلے ہی پہنچا دیں تھیں مگر اس وقت اسے ضرار کے عتاب کا سامنا کرنا ہی تھا کیونکہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ اس بار زونی یہ قدم اسکی وجہ سے اٹھا ہے کیونکہ اس لڑکی کا دماغ بہت سی تکلیفوں کے زیر اثر مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔

وہ سب خانم حویلی کے لاونچ میں بیٹھے تھے، ضرار کی برہمی سبھی کے نزدیک بلکل جائز تھی۔

"میں کیا کرتا ضرار، وہ مجھے اخیر عاجز کر چکی تھیں۔ جو منہ میں آیا میں نے بھی کہہ دیا۔ لیکن ہاشم بزدار کو کونسی آگ لگی تھی جو انہوں نے کنزا کو بچایا، اچھا بھلا اس خرافاتی عورت کو مار آیا تھا۔ دل چاہ رہا ہے زونین کے ساتھ ساتھ ہاشم صاحب کو بھی اس سوغاتی عنایت پر سنگین سزا سنا دوں"

وہ بھی جیسے بے بسی کی انتہا پر فائز تھا اور پھٹ پڑا، اس نے خود بھی اپنی غلطی کا کھلم کھلا اعتراف کیا، سردار شمشیر،گل خزیں خانم، عزیز خان اور خدیخہ خانم بھی افسردہ چہرے کیے وہیں براجمان تھے جبکہ اس سب سے اشنال بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھی اور مشارب کی ڈھٹائی سے دی صفائی کے بعد ہاشم پر بگھڑنا، ضرار سے برداشت نہ ہوا تبھی اسکے ماتھے پر پڑی شکنیں نمایاں ہوئیں۔

"ہاشم بزدار سب سوچ سمجھ کر کرتے ہیں مشارب، لہذا انکے بارے میں بولتے ہوئے اپنی زبان سنبھال کر رکھنا۔ کنزا کے ساتھ بہت سے اور معاملات بھی ہیں جنکا سلجھنا ضروری ہے، اس وقت مجھے زونین سے زیادہ تم پر غضب چڑھا ہے، جب اسکا سٹیٹ آف مائنڈ جانتے تھے کہ وہ کنزا کے زہر سے بری طرح متاثر ہے تو تم نے اسکو مزید تکلیف دے کر ہی اس سب میں جھونکا ہے اور میثم ضرار چوہدری کے نزدیک تم اس سے زیادہ بڑے مجرم ہو"

ان دونوں کو منہ ماری کرتا دیکھ کر ہر کوئی اس وقت پریشان تھا اور ضرار کی بات سو فیصد درست بھی تھی۔

"میں بھی ضرار سے متفق ہوں، وہ بچی ذہنی اذیت کا شکار تھی اور اسے پیار سے ہینڈل کرنے کے بجائے جبر سے کیا گیا۔ میرے خیال میں زونین کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا نظر آرہا ہے، اسکی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ مانا غلطیاں ہوئیں اس سے کہ اس نے خود کو مشکل میں ڈالنے کے ساتھ مالنی کو بھی ڈال دیا مگر تکلیف میں انسان کی سدھ بدھ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے، وہ عورت کوئی اور نہیں اسکی سگی ماں ہے اور یہ ایسا رشتہ ہے جو ہر سفاکی کے باوجود قدرتی کشش جھٹلا نہیں سکتا، خاص کر زونی جیسی حساس بچی کے لیے"

اس بار سبکی برہمی دیکھتے ہوئے عزئز خان نے گفتگو میں زور آور حصہ لیا تھا اور ہر کوئی انکی بات پر متفق تھا جبکہ مشارب کو بھی اب اپنے جذباتی پن پر افسوس محسوس ہوا لیکن اس نے بھی یہ سب بہت بے بس ہو کر کیا تھا۔

"بابا جان بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں بھی زونی کے ساتھ ہوں۔ آپ بہت جذباتی ہیں مشارب لالہ اور جذبات میں انسان ہمیشہ غلط قدم ہی اٹھاتا ہے"

گویا اشنال نے بھی اداسی کے سنگ اپنا موقف دیا اور مشارب سبکو اپنے مخالف دیکھ کر بس گہرا سانس ہی کھینچ سکا اور متنفر انداز میں سبکو ایک ہی سرد مہر نظر میں سمویا۔

"آپ سب مجھے بے شک غلط سمجھیں مگر سچائی نہیں بدلے گی، کنزا کو بچانے والے نے بھی سنگین خطاء کی ہے تبھی وہ عورت ہمارے سروں پر ناچ رہی ہے، فی الحال اس بحث کو ختم کر کے ہمیں بھی جانا چاہیے ان دونوں کے بچاو کے لیے"

مشارب نے قطعیت بھرے انداز میں کہتے ہی اپنی جگہ چھوڑی اور اٹھ کھڑا ہوا اور ضرار بھی اس پر خفا نگاہ ثبت کیے کھڑا ہوا۔

"کنزا تمہارے ہاتھوں مرتی تو تمہیں مرنے سے کوئی بچا نہ سکتا سر پھرے سردار، اور دوسری بات کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔ وہاں وہ سب نہ صرف انکی خفاظت کرنا جانتے ہیں بلکہ اپنی غلطیاں بھی بہت اچھے سے سدھار لیں گے۔ تم ٹک کر بیٹھو، نہیں چاہتا جذبات میں آکر مزید کسی کو پھڑکا آو۔ آپ اسے سمجھائیں سردار شمشیر صاحب کہ اب صرف یہ زونین کی واپسی کا بیٹھ کر انتظار کرے، یہی اسکی سزا ہے"

ضرار کو اس پر اس وقت صرف غصہ تھا تبھی وہ اکھڑے لہجے میں بولا اور مشارب اس شخص کے یوں ہاتھ پیر باندھ دینے پر تلملایا مگر سردار شمشیر نے اسے جذباتی ہونے سے بروقت روکے معاملہ سنبھالا تو وہ سب پر قہر ناک نگاہ ڈالتا وہاں سے چلا گیا۔

"تھوڑا ہاتھ ہولا رکھو برخوردار، جہاں غلطی دونوں کی ہو وہاں سارا غصہ ایک پر نکالنا مناسب نہیں"

مشارب کی تکلیف بھی وہ سمجھ رہا تھا پر اسکی بیوقوفیوں پر وہ سخت تلملا اٹھا تھا تبھی سردار شمشیر نے اسکے کندھے کو جکڑ کر نرمی برتنے کی تاکید کی۔

"ان دو کا کیا بنے گا ؟ بچوں کی طرح بیہو کر رہے ہیں۔ غصہ نہ آئے تو کیا آئے۔ اشنال آپ ریڈی ہوں ہم واپس نکلتے ہیں، آپکو حویلی چھوڑ کر مجھے خود یہ معاملات دیکھنے جانا ہوگا، میں زرا دشمن دادا جی کی خیریت جان کر آتا ہوں"

وہ بے زاری سے انکو کہتا، خود یہاں آکر سخت بوجھل ہو جاتی اشنال سے مخاطب ہوتا بنا کسی پر نگاہ دوڑائے خاقان خان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا جبکہ وہ آئی تو رکنے تھی مگر اس حویلی سے اسے عجیب سی وہشت محسوس ہو رہی تھی اور اسکا خیال یہی تھا کہ وہ واپس بزدار حویلی چلی جائے۔

وہیں کمرے میں لیٹا بظاہر وہ ناکارہ، آپاہج وجود اچانک سے اپنے ہاتھ ہلانے لگ گیا تھا، صبح تک اسکی آنکھوں سے ٹپکتی بے بسی، بھیانک خوشی کا روپ دھار گئی تھی۔

اسکا خاص آدمی جو اتنے ماہ سے خاقان کی دیکھ بھال کر رہا تھا، اسکے پاس ہی کھڑا شادی مرگ کی سی کیفیت میں مبتلا خاقان کے سن وجود کی حرکت دیکھ رہا تھا کیونکہ سردار خاقان اپنے ہاتھوں کے علاوہ اپنے پیر بھی ہلا کر پاگلوں کی طرح بھبک بھبک کر باولوں کی طرح ہنس رہا تھا۔

"آ۔آپ حرکت کر رہے میرے سردار۔ میری جان قربان آپ پر، میرے سردار ٹھیک ہو رہے ہیں۔ "

اسکا وہ خاص آدمی جھک کر اس کے کانپتے ہاتھ چومتا خوشی سے بڑبڑایا تو خاقان خان کی آنکھوں میں اس معزوری کو بھی شکست دے دینے کا سرور امڈا۔

"م۔۔می۔یں۔۔ٹ۔۔ٹھیک۔۔ہ۔ہو۔۔ر۔۔۔رہا۔ہ۔۔ہوں"

اس ظالم کی رسی گویا ایک اور بار دارز کر دی گئی تھی جبکہ اسکے اتنے دنوں بعد بولنے پر اسکا آدمی خوشی سے رونے لگا۔

"اللہ سائیں آپکو مجھ بے کار کی عمر بھی لگا دیں، اب آئے گا مزہ جب آپ اس ضرار کو اس سب کی سزا دیں گے۔ مجھے معاف کر دیں، میں نے اسکا نام نہیں لیا تھا مگر اب آپکے ساتھ ہوں سردار۔۔۔۔میرے سردار ٹھیک ہو گئے"

یہ وہی آدمی تھا جسے ضرار اور جبل زاد نے زندہ چھوڑ کر اس پر رحم کیا تھا اور لگ رہا تھا فرعون واپس جی اٹھا ہو۔

خاقان خان نے اپنے کانپتے ہاتھ کو اس آدمی کی طرف بڑھایا جو ان کے اشارے کے ارتکاز پر سائیڈ میز پر رکھی پھلوں کی ٹوکری میں پرے چاقو کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

"م۔۔۔مجھ۔ھے۔۔ی۔۔یہ۔دو۔۔"

وہ اٹک اٹک کر گہرے سانس لیے اس سے چاقو مانگ رہا تھا اور اس آدمی نے پہلے تو خوف سے سردار کو دیکھا کہ کہیں اس چاقو سے وہ اسی کا گلا نہ کاٹ دے مگر پھر ڈرتے ڈرتے اس نے سردار خاقان کو وہ چاقو پکڑایا تو اس آدمی نے فورا سے وہ چاقو دبوچتے ہی اپنی بازو، سیدھی کیے جسم سے لگاتے ہی وہ چاقو بھی لحاف کے اندر دبا دیا۔

"ت۔۔۔تم ج۔۔۔جاو۔۔ک۔کسی۔ک۔۔کو۔۔پ۔۔۔پتا ۔۔ن۔ن۔۔نہ۔۔چ۔۔چلے۔جاو م۔۔میرے۔پ۔۔پیارے۔و۔۔وفادار۔س۔سا۔ت۔تھی"

ابھی یکدم اس سے بولنا مشکل تھا اور ایک طرف وہ آدمی خاقان خان کے حکم پر کمرے سے نکلا وہیں سامنے سے میثم ضرار چوہدری مغرورانہ چال چلتا ہوا خاقان خان کے کمرے کی طرف بڑھا مگر اس آدمی کے چہرے پر پھیلی غلیظ مسکراہٹ دیکھ کر ضرار نے اسکے پاس سے گزرتے ہی اپنی چھٹی حس کا سگنل کیچ کیا، اس آدمی کی آنکھوں میں عجیب سی خوشی تھی تبھی خاقان خان کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے ضرار دانستہ محتاط ہو چکا تھا مگر پھر ایک کال وہ بھی اہم، اسکی توجہ کھینچ گئی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا گردن گمائے کسی گہری خاموشی میں ڈوبا ہوا باہر بدلتے مناظر کو دیکھ رہا تھا، اسکا ساتھی  تیزی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا مگر ولی زمان خان کے لاشعور میں کچھ گھنٹے پہلے کا منظر لہرایا جبکہ ایک کلاس فیلو  جمیل اپنے گھر ہوتی ڈکیتی کی واردات کی خبر دینے موجود تھا جب وہ ونیزے کا لیپ ٹاپ اپنی آئی ٹی ٹیم کو دینے کے بعد آفس آیا تو جمیل نام کے اس آدمی کو وہاں دیکھ کر وہ خوشگوار سی حیرت کا شکار ہوتا آفس میں داخل ہوا ۔

رسمی علیک سلیک کے بعد وہ ڈکیتی کی واردات کا بتانے لگا جس پر ولی نے اسے اس مسئلے کے حل کے لیے ناصرف یقین دلایا بلکہ دو لوگوں کو اسکے کیس پر سپیشلی ہائیر کیا۔

"کیسی چل رہی ہے میریڈ لائف۔ وریشہ کو بھول پانا مشکل ضرور ہوگا مگر میرے مطابق ونیزے بھی کسی سے کم نہیں؟"

وہ ولی کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتا تھا تبھی یہ ذاتی سوال بہت بے تکلفی سے کر گیا۔

"سب ٹھیک ہی ہے میرے دوست، اور سب ٹھیک کرنا آنسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے"

ولی نے اسے سرسری سا جواب دیا مگر اسکے بعد جمیل کے چہرے پر جھجھک اور پریشانی سی امڈی، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ولی کو کیسے بتائے۔

"کیا کوئی اور بھی مسئلہ ہے؟"

ولی کی رنگ بدلتی آنکھیں، آنکھوں کے بدلتے زاویے پڑھنے میں خاصی ماہر تھیں تبھی جمیل نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہی دونوں بازو میز پر رکھے اور تمام توجہ اس نے ولی کے متجسس چہرے کی جانب مبذول کی۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں تمہیں کیسے بتاوں، تمہیں یاد ہے ناں میں نے تمہیں وہ گھر دلایا تھا جو تم نے وریشہ کے لیے مجھے ڈھونڈنے کو کہا تھا۔ سو  وریشہ صاحبہ کا گھر میرے آفس کے راستے میں ہی پڑتا ہے میں نے ایک بار نہیں، دو بار تمہارے اس شہیر نامی آدمی کو اس گھر میں جاتے دیکھا وہ بھی رات کے وقت۔ میں پہلے تو چپ رہا لیکن دوسری بار کل ہی دیکھا ہے سو مجھے لگا تمہیں انفارم کرنا ضروری ہے۔ مجھے پتا ہے تم ونیزے کے ساتھ آگے بڑھے ہو مگر پھر بھی اس شہیر کو وہاں جاتا دیکھ کر مجھے تو بہت عجیب لگا۔ کیا وہ تم دونوں کا ایک جیسا جاننے والا ہے؟"

یہ لمحہ اذیت کا ہونا چاہیے تھا پر اذیت مدھم ہوتی پھر ہوتی چلی گئی، ادراک کے سارے در کھولتی گئی اور ایک ایک کر کے ولی زمان خان پر ساری حقیقتوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔

اس سے آگے ولی نے جمیل کو کچھ کہنے کی مہلت ہی نہ دی اور اپنا ہاتھ خاموشی کے اشارے کے طور پر اسکے سامنے بلند کرتے ہوئے ناگواری سے دیکھا۔

"تمہاری جاسوسی والی عادت گئی نہیں جمیل، اچھا بھلا پولیس میں آتے آتے تم نے پیارے سسر صاحب کا بزنس سنبھالنے کو ترجیح دے کر اپنی زندگی برباد کر لی، لگتا ہے اب مجھے شہیر کی طرح تمہیں بھی قابو کرنا پڑے گا"

وہ ولی کے غیر متوقع جواب پر الٹا جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا جبکہ ولی کو وریشہ یوسف زئی کے کردار پر اتنا ہی یقین تھا جتنا خود کے، اور وہ فورا جان گیا تھا کہ اگر شہیر اس چوکھٹ کو پار کرنے کی ہمت کر گیا ہے تو تبھی جب اس لڑکی نے اسے کوئی بہت بڑا حق سونپا ہوگا اور عجیب بات تھی، شہیر کی کہی وہ تکلیف دہ باتیں اسے اب بھی اپنے خسارے سے زیادہ دل چیڑتی محسوس ہوئیں۔

"کیا مطلب، تم مجھے جواب کے دینے کے بجائے میرے زخم ہرے کر رہے ہو"

جمیل زرا تلملایا۔

"وہ (یقینا) رشتہ ازواج میں بندھے ہیں، اور تم یہ سدھ بدھ لینی چھوڑ کر اپنے سسر کی جی خضوری پر توجہ دیا کرو۔ "

یقینا کا لفظ ولی کے دل نے شدت سے پکارا جبکہ جمیل صاحب، دوست کے ظالمانہ ، سفاکانہ رویے پر برہم ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ ولی کو اسکی یہ حرکت ایک آنکھ نہ بھائی کہ وہ وریشہ کے متعلق ناجانے کیا کیا سوچ رہا تھا اور پھر جس قدر برا ولی کو شہیر اس ادراک سے پہلے لگتا تھا اب وہ اس کے لیے بھی پروٹیکٹر بنا دیکھائی دیا۔

"آج تک ویسے ہی ٹیڑے ہو تم ولی، سر پھرے۔ مجھے تو لگا تم بھڑک جاو گے، وریشہ مدت سے تمہارے دل میں تھی اور شہیر سے بھی آئے دن تمہاری ان بن رہتی ہے لیکن تم۔۔عجیب مخلوق ہو، جب سے انسپیکٹر بنے ہو تم سے تو ڈر ہی لگتا ہے، میری توبہ جو آئیندہ میں آنکھوں دیکھا پر یقین بھی تمہیں کہہ گیا۔ "

جمیل ہڑبڑاتا ہوا ناراضگی دیکھائے اٹھا تو ولی بھی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کھڑا ہوا۔

"زخم جب مرہم ملنے کے بعد لگے تو اتنا درد نہیں ہوتا جتنا ہم نے توقع کر رکھی ہوتی ہے، ہاں افسوس اور ملال ہوتا ہے کئی وجوہات کی بنا پر۔۔۔ چلو تمہارے بہانے ایک اور اچھا کام ہوا۔۔۔چائے تو پی لو"

ولی نے اسکی ناراضگی ہٹانے کی سعی کی پر وہ اسے گھوریوں سے نوازتا اسکے کیبن سے ناراضگی جتاتا باہر نکل گیا اور اسکے جاتے ہی ولی زمان خان کی آنکھوں میں تکلیف اتری تھی۔

"وہ اچھا کام یہ ہوا کہ وریشہ یوسف زئی، ولی زمان خان کو اسکے رقیب کا نام بنانے کی تکلیف سے بچ گئیں۔ شہیر! تم تو اپنے کہے کے بڑے پکے نکلے مضبوط آدمی، واقعی مجھ سے میرا سب چھین لیا۔اب تم ہی بتاو گے کہ یہ سفر کیسے شروع ہوا کیونکہ جیسے تم دنیا کے لیے ہو، یہ سفر اس محبت سے تو شروع نہیں ہوا ہوگا جو اب اس لڑکی کے دل میں تمہارے لیے موجود ہے"

تکلیف اپنی جگہ پر اس آگ اور پانی کے ملاپ کا تجسس اس شخص کی نس نس میں اترا تھا، وہ ان خیالات سے چونک کر نکلا۔

آنکھوں میں تیرگی تھی، اعصاب ٹوٹ رہے تھے، یہ مشکل تھا اسکے لیے پر ناجانے کیسی عجیب بات تھی کہ وہ شہیر کے نام پر چاہ کر بھی وریشہ سے برہم نہ ہو پایا، شاید اس لیے کہ ولی زمان خان بھی شہیر مجتبی کے اصل کو جانتا تھا۔

"میں خوش ہوں کہ میری آپ سے محبت پرفیکشن کو چھو گئی، دیکھ لیں وری۔۔۔ولی زمان خان کس قدر امانت دار نکلا۔اور پرفیکشن کو پہنچتی محبت لاحاصل ہی رہے تو بہتر ہے۔کون چاہے گا کہ اسکا رب روٹھے، اور پھر دیکھیے اس خطاء کے بعد بھی اس رب نے مجھے ایک نئے فرض کے لیے چنا، ونیزے حسن کی محبت کا مان نبھانے کا فرض"

اس کے مضبوط اعصاب کی طرح اسکے خیالات بھی پہاڑوں کی طرح مضبوط تھے، وہ حقیقت میں درویش آدمی نکلا۔

"شہیر کی لوکیشن ٹریس ہوئی؟"

وہ اپنی آنکھوں میں واپس سختی لائے پیچھے بیٹھے لیب ٹاپ آپریٹر سے مخاطب ہوا جسکے ساتھ دو مزید مشکوک آدمی براجمان تھے۔

"سر وہ لمحہ بہ لمحہ سیٹھ گونی کے کیمپ کی طرف بڑھ رہا ہے، خبر ملی ہے کہ اسکے ساتھ کافی اسکے لوگ ہیں۔ اسکے پاس بارودی مواد اور اسلحہ بھی ہے مگر آپ جانتے ہیں ناں وہ جگہ سیکور نہیں"

پیچھے بیٹھے ولی کے آدمی نے برخستہ معلوماتی جواب دیا جس پر ولی گہرا سانس بھر گیا۔

"جلدی گاڑی چلاو، ہم اپنی ٹیم کا کوئی نقصان برداشت نہیں کر سکتے ، شہیر یا اسکے لوگوں کا تو ہرگز نہیں۔ آج جسکی بھی موت ہو وہ موت کے لائق بھی ہونا چاہیے یہ یقین دہانی لازمی کرنا، اور دوسرے کام کا کیا بنا۔ بات ہوئی ہے تمہاری ڈی آئی جی سر سے؟"

ولی نے اپنے فون پر دیکھائی دیتی شہیر کی لوکیشن دیکھی جو اسکے آدمی نے اسے بھی بھییج کر اسکے فون سے کنکٹ کر دی، اب وہ دوسرے آدمی سے مخاطب ہوا تھا۔۔

"جی سر، دو جنگجو طیارے ہمہ وقت ہمیں سپورٹ کریں گے، چونکہ معاملہ مافیا کا تھا سو یہ فیور دیا گیا۔ ڈی آئی جی سر کا کہنا تھا کہ یہ انڈر گراونڈ کیمپ بنا سرچ کے تباہ نہ کیا جائے کیونکہ کئی ملکی اور غیر ملکی معلومات ہو سکتی ہیں یہاں اور پھر اس سال کے نئے جاسوسوں کی لسٹ بھی گونی جیسے خبیث کے پاس ہے"

وہ ساتھ بیٹھا انٹیلجنس کا آدمی تھا جسکے منہ پر ماسک تھا اور سب نے بلٹ پروف جیکٹس پہنے خود کو ہر ممکنہ سیکور کر رکھا تھا۔

"ٹھیک ہے ایسا ہی کریں گے، اگر شہیر اور اسکے لوگ آگے بڑھ گئے تو وہ لوگ حملے کے لیے محتاط ہو جائیں گے اور دو طرفہ یلغار وقت سے پہلے شروع ہو جائے گی، اور ہمیں اگر وہ کیمپ سلامت چاہیے تو خاموشی سے وار کرنا ہوگا، اور پھر کنزا بھی وہیں ہے، اسکے قبضے میں زونین اور مالنی ہیں۔

شہیر کو سنگل دو کہ آگے مت بڑھے، میرا انتظار کرے"

ولی نے بروقت سوچتے ہی اگلا پلین ترتیب دیا جس پر وہ لیپ ٹاپ آپریٹر اپنا ایک خفیہ پیغام شہیر کے فون تک پہنچا چکا تھا جو ایک بار کھل کر ریموو ہو جانا تھا۔

کاشف کے بھیجے لوگ پانچ منٹ پہلے ہی پہنچے تھے، وہ سب بھی اپنی اپنی گنز لوڈ کرتے ، کندھے پر ڈالے بیگوں میں بارودی مواد لیے آگے بڑھ رہے تھے جب شہیر دوربین سے کیمپ کے چاروں طرف پھیلے لوگوں کو دیکھ رہا تھا، میسج ٹون پر اس نے ہاتھ بلند کیے اپنے لوگوں کو رک جانے کا اشارہ کیا جو فورا سے بیشتر زمین پر بیٹھنے کے بجائے کہنیوں کے بل زمین سے لگ گئے، خود شہیر بھی درخت کی اوٹ میں ہوتا وہ پیغام کھولتے ہی اسے پڑھنے کے بعد پیچھے مڑا۔

وہ لگ بھگ نو آدمی تھے جن میں دو کے پاس سنائپر ، ایک کے پاس کلشن کوپ جبکہ باقیوں کے پاس عام گن تھی۔

"ہم یہاں انتظار کریں گے میری بھائیو کیونکہ ہمارا کام صرف ولی زمان خان کو یہاں تک پہنچانا تھا، یہ میدان اسکا ہے سو وہی اس میں جیتنا اور لڑتا ہوا سجے گا۔ ہم سب صرف مدد کریں گے، کوئی بھی پیٹھ کر کے بھاگے گا نہیں، یہ یاد رکھنا کہ میدان جنگ میں سینے پر گولی کھانے سے راحت آمیز اور کچھ نہیں۔۔۔ تم دونوں ولی زمان خان پر اپنی آنکھیں مرکوز رکھو گے اور اس تک پہنچتی ہر گولی کو اپنے وار سے روکو گے"

شہیر نے رخ موڑے چہرے سے ماسک ہٹایا اور سنائپر شورٹرز کو مضبوط پروفیشنل لہجے میں خاص تاکید کی جو جوابا فرمابرداری سے سر ہلا چکے تھے۔

"اور تم اسے بے جا استعمال کر کے تباہی نہیں پھیلاو گے، اسکا نشانہ ضرورت کے وقت لگایا جائے گا جبکہ دشمن اگر تعداد میں زیادہ ہوں اور آپکو گھیر لیں تو پہلی کوشش دھوئیں والا بم پھینک کر انکی توجہ ہٹا کر چکما دیے بھاگنا اور اگر دشمن شاطر ہو تو بارودی بم سے سالوں کے چیتھڑے اڑا دینا"

وہ کلشن کوپ پکڑ کر کھڑے آدمی کو دیکھتا تنبیہی ہوتے بولا جبکہ ساتھ ساتھ سبکے کندھے پر موجود بیگوں میں ڈالے بمبز کا ٹھیک استعمال بتاتے ہی وہ خود بھی رخ پھیرے مڑا اور وہاں چمنی جیسا ایک ٹاور نظر آرہا تھا جس سے اب دھواں نکل رہا تھا، شہیر نے خود بھی زمین پر لیٹتے ہی اپنی گن زمین پر رکھی اور اپنی دوربین ٹھیک اس کیمپ پر لگائی جہاں معمولی سی ہلچل تھی اور کافی لوگ وہاں ادھر ادھر مٹر گشت کر رہے تھے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اوہ سوری ایک اہم کال آگئی تھی، سوچا جاتے جاتے آپکے زخم تازے کر جاوں دشمن دادا جی۔۔اس دن تو دل جل گیا تھا میرا پر آج بڑے پیار سے ملنے آیا ہوں۔۔۔اور بلکل کوئی طنز نہیں کروں گے سوائے اسکے کہ ایسا کیا پھونکتے تھے آپ اس آدھی سانسوں والے پر کہ عقل مت اسکی ناپید سی ہوگئی"

وہ کمرے میں ہی آرہا تھا جب اسے ہاشم کی کال آئی جو اسے ایک اہم معاملے کی اطلاع دے رہا تھا مگر کال بند کرتے ہی وہ اس خبیث شخص کے کمرے میں داخل ہوا جو بظاہر تو واپس اخیر بے بس ہونے کی اداکاری کیے ترس بٹورنے جیسی شکل بنائے ہوئے لیٹا ہوا تھا مگر حقیقت میں ضرار کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا چاقو مضبوطی سے جکڑا البتہ ضرار کو کچھ شبہات تھے تبھی وہ اسکے پاس بیٹھنے کے بجائے کرسی گھسیٹتا سامنے بیٹھا۔

"چچ چچ، کیا ہوا؟ غصہ آرہا ہے۔۔ زمان خان تو بے موت مر گیا مگر اب بھی آپکے اس جوشیلے پوتے مشارب نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ بھی کسی لفڑے میں مر ور جائے گا۔۔ویسے کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ اب تو آپکا یہ خرافاتی جسم پتھر کی طرح سن ہو گیا ہوگا، اتنے ماہ بیت گئے ایک ہی جگہ پڑے ہیں۔۔۔سچی بتاوں تو اب مجھے آپ پر تھوڑا تھوڑا ترس آتا ہے"

وہ بلکل بھی نہیں جانتا تھا کہ آج وہ فرعون اسکے ساتھ کیا کرنے والا ہے، اس نے اپنے آدمی سے چاقو مانگا ہی اس لیے تھا کہ وہ قدوسیہ سے ضرار اور اشنال کی آمد کا جان چکا تھا اور اسے یقین تھا پچھلی بار کی طرح آج بھی ضرار اس کے پاس ضرور آئے گا، خاقان خان کی آنکھوں میں جلا کر راکھ کر دینے والی آگ تھی۔

"مجھے اکیلے باتیں کرنا پسند نہیں دشمن دادا جی، کوئی ہوں ہاں ہی کر دیں تاکہ مزہ آئے۔۔۔ویسے آپکی ان منحوس آنکھوں کے نیچے حلقے بھی آرہے ہیں، اوہو میرے حسین دشمن دادا جی تو بدصورت بھی ہو رہے ہیں۔۔۔ابھی تو آپکا کیا کرایا آپکے پورے جسم پر آئے گا، دیکھیے گا آپکے جسم کو کیڑے پڑیں گے وہ بھی جیتے جی۔۔۔۔میرے خیال میں یہ سزا آپکے لیے بہت کم تھی، ایسی سزا نہیں دینا چاہتا تھا ضرار آپکو کہ آپ ترس بٹورٹے، سزا سے بچ جاتے۔۔۔سو میں چاہتا ہوں آپ ٹھیک ہو جائیں، تاکہ میں آپکی یہ آنکھیں ان اپنے ناخنوں سے نوچ لوں، آپکے سینے سے آپکا کلیجہ نکال کر کسی کتے کو دوں جو چبا کر بدذائقہ ہونے پر پھینک دے۔"

ضرار نے زرا جھک کر اس خونخوار درندے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جو یہ بھیانک خواہشیں بتائیں اس پر وہ شخص نہ صرف پھنکارا بلکہ اگلے ہی لمحے اپنا کانپتا ہاتھ لحاف سے نکالتے ہی وہ پوری بچی کچی ہمت لگاتا ضرار کے کندھے میں وہ چاقو گاڑ گیا اور پھنکارنے کے باعث اسکے منہ سے سسکاریاں اور تھوک نکلا البتہ ضرار یہ ضرور چاہتا تھا وہ ٹھیک ہو جائے پر اتنا ٹھیک کہ وہ اسے زخمی کر دیتا، یہ تو اسکے گماں میں بھی نہ تھا تبھی اس نے درد کی اخیر لہر کو برداشت کرتے ہی خاقان کا وہی ہاتھ مڑوا جس پر وہ درد سے دلخراش چینخنے لگا جبکہ خود آتنا بہادر ہونے کے باوجود اس کا حوصلہ نہ ہوا کہ وہ کندھے میں گڑھے چاقو کو یکلخت باہر نکال پاتا۔

اسکا چہرہ درد کی ٹیسوں سے سرخ ہو چکا تھا تب بھی وہ اک مسکراتی نظر تڑپتے خاقان پر ڈالتا لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا، اسکی پوری شرٹ اور کوٹ بھی خون سے تر ہونے لگا۔

"ب۔۔بہت ہی ڈھیٹ نکلے آپ تو دشمن دادا جی۔۔اچھا لگا آپکا کچھ بہتر ہو جانا۔۔۔۔"

وہ شخص بستر پر پڑا تڑپ رہا تھا کیونکہ جس طرح ضرار نے اسکا ہاتھ مڑوڑا، وہ برداشت نہ کر پایا جبکہ ضرار نے دیوار کا سہارا لیتے ہی ہمت کیے وہ کندھے سے زرا نیچے دبا چاقو بے دردی سے اپنے وجود سے نکالتے ہی اسے زمین پر بے دردی سے پٹخا جبکہ اپنی مضبوط ہتھیلی اس نے جسم سے ابل کر نکلتے لہو پر جمائی مگر اسکا بہتا خون فرش تک کو خون آلود کر گیا اور اس سے پہلے درد کی شدید لہر کے باعث وہ وہیں گرتا، تیزی سے اندر بھاگتے عزیز خان کی دھاڑ نے جیسے پوری خانم حویلی کو لرزا دیا۔

"ضرار!۔۔۔۔یا میرے اللہ۔۔۔ی۔۔یہ کس نے کیا۔۔۔کس نے کیا؟"

وہ ہانپتے کانپتے ہوئے اس تک دوڑ کر پہنچے جو زمین پر گرتے گرتے عزیز خان کے سنبھالنے پر گرنے سے بچا جبکہ عزیز خان تو وہاں کیا ہوا، یہ سمجھنے سے قاصر تھے۔ 

کیونکہ درد کی وجہ سے ضرار سے کچھ بول پانا مشکل ہوا جبکہ خاقان خان کی ہیبت ناک دھاڑیں الگ انکا دماغ سن کر رہی تھیں۔

جب تک سب ان مردود کی دھاڑیں اور عزیز خان کی چینخ سنتے خاقان خان کے کمرے میں پہنچے، اندر پھیلا خون خرابہ سبکے پیروں تلے سے زمین سرکا گیا۔

اشنال عزیز کی تو ضرار کو خون میں لت پت دیکھتے جان نکل چکی تھی ، سب کے جسم سے ایک ساتھ جان نکلتی محسوس ہوئی۔

اجلت میں علاقے کے ماہر اور اعلی حکیم کو بلوایا گیا، اسے اشنال والے کمرے میں لے جاتے ہی بیڈ پر لٹایا گیا، اسکے تیزی سے بہتے خون کو دیکھ کر ہر کسی کا سانس رکا ہوا تھا، مگر عزیز خان نے ہی مسلسل حکیم کے آنے تک زخم پر موٹا کپڑا دبائے رکھا تاکہ اسکے خون کو زیادہ سے زیادہ روکنے کی کوشش کی جائے۔

پھر جب حقیقت واضح ہوئی کہ یہ سب خاقان خان نے کیا اور اسکا ہاتھ ضرار نے مڑورا تو سب کے چہرے سفید پڑ گئے، کوئی بھی یہ یقین کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا کہ اس بستر مرگ پر پڑے شخص نے یہ سب کیا ہوگا کیونکہ بازو مڑوڑی جانے کے باعث خود خاقان خان درد سے کوک رہا تھا اور ایک طبیب اسکا بھی معاملہ دیکھ رہا تھا اور اسکے مطابق خاقان خان کے ہاتھ کی ہڈی کریک ہوئی تھی جو یقینا ضرار نے کی تبھی وہ اونچا اونچا بلکتا اور چینخ رہا تھا کہ اسکی ناسور جیسی آواز سہنی بڑی صبر آزما تھی۔

عزیز خان نے روتی ہوئی اشنال کو بھرپور تسلی دی جب تک علاقے کا حکیم ضرار کا معائنہ کرتا اندر کمرے میں موجود رہا۔

سبکے چہروں پر ایک سی پریشانی امڈی تھی مگر اشنال کی تو ہر سانس اپنے میثم کی خیریت مانگ رہی تھی، اسے روتا دیکھ کر سب مزید ہلکان و پریشان ہو رہے تھے۔

"کیسا ہے وہ؟ زیادہ گہرا زخم تو نہیں"

حکیم صاحب کو کمرے سے باہر نکلتا دیکھتی اشنال، بابا کا ہاتھ چھوڑتی بے قراری سے اپنے آنسو ہتھیلی سے رگڑتی انکی طرف آئی جو چہرے پر خاصی پریشانی اور فکر سجائے باہر آئے۔

"زخم گہرا تھا، اپنی طرف سے بھرپور علاج کر دیا ہے مگر میری صلاح ہے کہ واپس جا کر ایک بار انکو انگریزی ڈاکٹر سے دیکھا لیجئے گا تاکہ کوئی الرجی نہ ہو جائے، بہرحال وہ ہوش میں بھی ہیں اور بہتا خون بھی رک گیا ہے ، آپ لوگ مل سکتے ہیں۔۔۔میرا فرزند یہیں ہے دوا خانے میں، دوا تیار کر کے دے کر جائے گا، انھیں کہیے گا اپنا خیال رکھیں"

علاقے کے وہ جانے مانے حکیم تھے جنہوں نے جراحت کر کے اسکا زخم سی دیا تھا مگر درد کو کم کرنے کے لیے جو دوا تھی وہ ابھی تکمیل کے مراحل میں تھی۔

سبکا ہی رکا سانس بحال ہوا اور پہلے اشنال ہی اندر بڑھی تو اسی کے بیڈ پر کمر ٹیک کر تکیے پیچھے رکھ کر بیٹھا ضرار خود ہی دوسری شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا جو عزئز خان اپنی کچھ دیر پہلے ہی دے کر گئے تھے۔

باہر بھی سب شکر ادا کرتے لاونچ کی طرف بڑھ گئے۔

"میثم، میری جان ٹھیک ہو ناں"

اندر آتے ہی ہی وہ تکلیف کے سنگ روہانسی ہوتی اسکے پاس آئی تو جناب مسکراتے نڈھال چہرے پر شرارت سجاتے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکی سرد پڑتی ہتھیلی جکڑتے پاس آکر بیٹھی بوجھل لڑکی کو محبت سے دیکھنے لگے، اس وقت لگ بلکل نہیں رہا تھا کہ وہ اس سب بھیانک صورت حال سے گزرا ہے کیونکہ جناب کے لیے بور ہو جاتی لائف کا یہ ایک نیا ایڈونچر تھا۔

"آپکا میثم بہت فولادی ہے میری جان، ہٹا کٹا ہوں بی بریو۔ ویسے آپس کی بات ہے میں نے آپکے دادا کو ہر طرح مفلوج کر دیا تھا پر پتا نہیں دشمن دادا جی کی بختوں والی والدہ نے کیا کھا کر انھیں جنا کہ اس حالت میں بھی میرا یہ حال کر دیا۔۔۔۔۔دیکھ لیں میری عاجزی کا لوگ کیسے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں صنم"

نہ تو وہ درد سے ہلکان تھا نہ اسے اشنال کی سوجھی آنکھوں کا خیال تھا، جناب بس اپنی ہی ہانک رہے تھے تبھی تو اشنال نے زور دار مکا اسکی ٹانگ پر دے مارا جس پر اسکا بلند ہوتا قہقہہ خود اشنال کی نمی والی آنکھیں چمکا گیا، جبکہ وہ شخص اپنے لیے اتنے آنسو بہا دیتی لڑکی پر ازسر نو فدا ہوا تھا۔

"تم ہو ہی بتتمیز، اگر کہیں اور لگ جاتا وہ چاقو تو پھر دیکھتی کیسے تمہارے یہ دانت نکلتے۔۔جان نکال دی تم نے، اتنا سارا خون بہا دیا انہوں نے تمہارا۔ پتا نہیں کب مریں گے منحوس انسان، تم واقعی ٹھیک ہو ناں میثم، درد تو نہیں ہو رہا۔۔۔۔میں بہت ڈر گئی تھی"

وہ سمجھ نہ پائی روئے یا میثم کی سر پھری حرکتوں پر ہنس دے تبھی نزدیک ہوتی اسکا بجھا سا دیکھائی دیتا چہرہ ہاتھوں میں بھرے اسکے ٹھیک ہونے کا یقین چاہنے کو بے قرار ہوئی، اسکی جبین چومی، محبت بھرے لمس بکھیرتی، گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ اسکی گال سے جوڑے سانس بھرتی روہانسی ہوئی جو اپنے اتنے مزیدار دشمن کے مرنے پر زرا بے تاب ہوا۔

"ارے ارے ابھی نہیں مرنا چاہیے انکو، کیا غلط غلط بول رہی ہیں۔۔۔ابھی تو مزہ آیا ہے مجھے ان سے پنگے لینے کا، اور میں ٹھیک ہوں میری جان، بہادر بنیں۔ سر پھرے میثم ضرار چویدری کی بیوی ہیں، چوہدارائن ہیں بھئی، جگرا ہونا چاہیے۔۔۔۔اب تو دل چاہ رہا ہے یہیں مہمان بن جاوں۔۔۔۔ ویسے انکا ہاتھ بڑے برے طریقے سے مڑورا تھا، کہیں دشمن دادا جی لولے لنگڑے  تو نہیں ہو گئے؟ مجھے بڑی فکر ہے"

وہ ہنوز سر پھرا سا اوٹ پٹانگ گل فشانیاں کرتا اس لڑکی کی جان نکال رہا تھا اور اس بار تو وہ بھی تمام تر پریشانی کے ہنستی ہوئی اس جمود سے نکلی۔

"میثم تم مجھ سے پٹ جاو گے بتا رہی ہوں سر پھرے انسان، چھوڑو انھیں۔۔بتاو کیا کھاو گے، میں اپنے ہاتھوں سے بنا کر لاتی ہوں"

وہ اول اسکے مزاق اڑانے پر منصوعی برہم ہوئی پھر جیسے وہ اتنا سارا خون بہہ جانے پر اسے میثم خوامخواہ کمزور دیکھائی دینے لگا تبھی تو وہ اسکے سوال پر مسکراتے ہی سلامت طرف والا ہاتھ پاس بیٹھی حسینہ کی کمر میں حائل کرتے ہی اپنی طرف جھکاتے ہی اسکی سانسیں، خود میں تسلی سے الجھائے دھڑکنوں کی رفتار منہ زور حد تک بڑھائے جب اس جواب کو دے کر روبرو ہوئے اس لڑکی کی حیا سے اٹی آنکھیں دیکھنے زرا دور ہوا تو وہ بھیگی آنکھوں والی لڑکی ایسے شدت بھرے جواب پر بے تاب ہو چکی تھی۔

"اپنی رکی سانسیں بحال کر لیں۔ اپنے زخم کا مرہم لوٹ لیا، اب کسے طلب باقی ہے کسی اور شے کی۔ہاہا اب تو ماہ بدولت مزے سے اس ٹوٹے ہاتھ والے کی آہیں سنیں گے"

اول جملے وارفتگی سے ادا کرتا ساتھ ہی آخر تک وہ مست شر انگیز انداز میں ہنسا جبکہ اب تو واقعی اشنال کا دل چاہا اسکا گلا دبا دے، یہ تو دستک پر اسے بیچ کی قربتیں ختم کرنی پڑیں ورنہ ابھی قربتوں کے جہاں اور بھی تھے۔

سردار شمیشر یوسف زئی، گل خزیں خانم، خدیجہ خانم، عزیز خان سب ہی اندر آئے، اور ضرار کی خریت دریافت کی مگر یہ دیکھ کر انکو قدرے راحت ملی کے وہ بہت بہتر تھا جبکہ مشارب بھی یہ سب سنے وہیں آیا، جبکہ اب تو ہر کسی کا عتاب خاقان خان پر تھا مگر کوئی اسے سزا بھی کیسے دیتا کہ اس وقت وہ منحوس پر اپنے ٹوٹے ہاتھ کے کرب میں مبتلا ساری شیطانیت اور سفاکی بھول چکا تھا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"تم کہاں چل دی؟ جنگل میں منگل تو ابھی رہتا ہے"

یہ ایک سیکور میٹنگ روم تھا جہاں درمیان میں بڑا سا میز اور اردگرد چھوٹے چھوٹے لکڑی کے سٹول تھے اور اس وقت وہ کہیں جانے کی تیاری میں تھی، اس نے جینز شرٹ پر ہڈی پہنے چینج کر لیا تھا اور وہ کنزا نہیں اب اسی سیٹھ گونی کی کوئی خرافاتی ٹیم میمبر دیکھائی دے رہی تھی۔

"ایک ضروری کام ہے، زونین اور مالنی دونوں کے ساتھ زیادہ برا مت کروانا۔۔۔ بس زونی کے جسم کو کچھ ایسے جگہ جگہ سے جلا دینا کہ اسے دیکھتے ہی مشارب زمان خان پھڑک کر مر جائے جبکہ مالنی کے ساتھ جو مرضی کرواو، مر ہی جائے تو اچھا ہے، زیادہ درد مت دینا آفٹر آل ایک میرا سگا خون ہے اور دوسری منہ بولی اولاد، پر مجھ سے بغاوت کر کے ان دونوں نے خود اپنی سختی بلوائی ہے۔۔۔ ہاشم بزدار کو خون کے آنسو آنے چاہیں۔۔۔ مجھے نازلی کا خاتمہ کرنا ہے یہ نہ ہو بنا بنایا کھیل نگھاڑ دے، مجھے اسکے ٹھکانے کا پتا چل چکا ہے، اس سے پہلے وہ بھی کوئی مصیبت کھڑی کرے، اسکا کام بھی تمام ہو جانا چاہیے۔۔۔اسکے بعد ہی شرط کے مطابق میں تمہارا مطالبہ اور طلب پوری کروں گی"

وہ چہرے پر ماسک لگاتی، غنڈے موالی خیلے میں اس سے پہلے کہہ کر اس روم سے نکلتی، سیٹھ گونی نے اپنے سفید انڈے جیسے دانت دیکھاتے ہی کنزا کو لپک کر اپنی چٹانی بازو میں دبوچا۔

"ہلکی پھلکی پھوار تو برسا جاو کنو ڈرالنگ، دیکھ نہیں رہی تمہارے لیے ترس رہا ہوں۔۔اور پھر تمہیں اپنی اس خفاظتی دنیا میں لاکر تمہاری بھی تو جان بچائی ہے میں نے، میں کیسے مانوں کے تم اس بار بھی مکرو گی نہیں"

وہ خباثت سے اپنی گندی شکل پر شیطانیت سجائے اسکے خوبصورت چہرے پر سے ماسک ہٹاتا اس سے پہلے اسکے نرم ہونٹوں کو مرکز بنائے کوئی نازیبا حرکت کرتا، اس روم کے دروازے پر ہوتی آہٹ پر وہ دو قدم پیچھے ہوا اور اسی کا فائدہ اٹھاتی کنو، بھی موقع ملتے ہی نہ صرف اسکے شکنجے سے نکلی بلکہ سیٹھ گونی کو اندر آتے آدمی کے ساتھ مصروف دیکھتی وہ وہاں سے نکل گئی جبکہ وہ آدمی اسے ایک بری خبر سنانے آیا تھا جو ناجانے کیا تھی مگر سیٹھ گونی کے بدصورت چہرے پر مزید غلاظت ٹپک پڑی اور وہ تیزی کے سنگ اسکے ساتھ ہی پھنکارتا ہوا باہر نکلا جبکہ دوسری طرف کنزا، اس انڈر گراونڈ کیمپ کے خفیہ راستے سے زمینی بنی سرنگ سے باہر نکلی جو اس کیمپ سے کافی فاصلے پر چھوٹے سے پتھریلے تودے کے ساتھ کھلتی تھی۔

وہیں اسی سڑک پر تیزی سے کوئی گاڑی پہلے ہی اس عورت کی تاک میں وہاں موجود تھی مگر کنزا چونکہ اس سرنگ سے نکل کر مخالف طرف چلنے لگی تھی تبھی اسے نہ پتا چلا نہ پیچھے سے آتی گاڑی نے اسے خبر ہونے دی، وہ تیز گاڑی ناصرف اچانک پیچھے آئی بلکہ کنزا جس نے کان میں لگائے ہیڈ فونز کی وجہ سے پیچھے آتی گاڑی کی آواز نہ سنی، شدید طریقے سے ناصرف ٹکرائی بلکہ عین اس گاڑی کے بریک لگانے پر وہ درد سے کراہتی ہوئی وہیں جنگل سے ملحقہ سڑک پر گر پڑی اور اسی رفتار سے گاڑی کھلی اور اندر سے ناک کے نتھنے پھلا کر تلملا کر باہر نکلتا نہ صرف ہاشم بزدار آتا دیکھائی دیا بلکہ اسکے اگلے اشارے پر اسکے تینوں آدمی اس سڑک پر گر کر کراہتی کنزا کو جکڑتے ہوئے اٹھا کر جب پلٹے تو وہ گردن میں شدید بری چھوٹ لگنے کے باعث گردن لٹکائے گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔

"کیا سمجھا تھا تم نے کنو بائی، میری رعایت ملی ہے تو تمہاری عید ہو گئی۔ بدبخت عورت، تم نے تو میرے مہربان ہونے کو بھی مٹی میں ملا دیا۔۔۔اٹھا کر گاڑی میں ڈالو اور لے جاو اسے جو اسکی اوقات ہے۔ پہلے مالنی اور زونین کو بچا لوں پھر اسکا شاہانا حساب ہوگا۔ اس بار اسے فولادی زنجیروں سے باندھ کر گردن میں کاٹنے لگانا مت بھولنا تاکہ یہ ہر سانس کے ساتھ تڑپتی اور سسکتی رہے۔۔آسان موت نہیں آئے گی اب تمہیں، ہاشم بزدار کا قہر ٹوٹے گا اب تم پر۔فورا لے کر نکلو اسے"

وہ اسے اسکے کھلے بالوں سے بےدردی سے جکڑے اسکا چہرہ اوپر اٹھا کر حقارت و نفرت سے غرایا جبکہ خود کو اس بار ہاشم کی قید میں محسوس کیے کنزا کا سانس بند ہونے لگا کیونکہ یہ وہ خود بھی جانتی تھی کہ اب اسکی موت اٹل ہے مگر اسکی آنکھوں میں ہاشم بزدار کی طرف سے سونپی گئی قہر ناک موت کا خوف ہلکورے لے رہا تھا، خود اپنی دونوں گنز لوڈ کیے وہ جنگل کی طرف دو لوگ لیے بڑھا جبکہ اسکے باقی آدمی اسی گاڑی میں اس منحوس عورت کو ڈالے، وہاں سے لے گئے۔

جبکہ ہاشم کا رابطہ ولی سے تو مسلسل تھا مگر وہ شہیر کی طرح ولی کے آنے تک انتظار نہیں کر سکتا تھا، تبھی اکیلا ہی چلا گیا، مالنی کے ساتھ اسکی جان اٹکی تھی اور پھر زونی کے لیے بھی وہ پریشان تھا جو اپنی ایک اور سنگین غلطی کا خمیازہ بھگتی ناجانے کس حال میں پہنچ چکی تھی۔

مگر ہاشم بزدار کے پہنچنے سے پہلے ہی سیٹھ گونی، ان دونوں لڑکیوں کو اپنے خفیہ لوگوں کے ذریعے وہاں سے نکلوا چکا تھا، وہ لوگ ان دونوں کو کہاں لے کر گئے تھے، اسکی کسی کو ابھی تک کوئی خبر نہ تھی، ان دو کو بھی نہیں کیونکہ انھیں کلوروفارم کی اتنی شدید ڈوز دی گئی تھی کہ وہ ہوش سے مسلسل اب تک بیگانی ہی تھیں، ان دو لڑکیوں کو بھی سرنگ کے راستے باری باری باہر نکالا گیا اور پھر اسی سڑک کے راستے پر کھڑی سیاہ گاڑی میں ڈالا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سیٹھ گونی کے لوگ وہ گاڑی بھگا لے گئے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"کدھر جا رہی ہے پتری؟"

وہ خاصی بزرگ عورت تھیں جھیں اتنے ماہ سے نازلی کا بڑا آسرہ ہو گیا تھا مگر اسے اپنا سامان باندھتے دیکھ کر ، چادر سے خود کو ڈھانپتے دیکھتیں وہ کاشف کی والدہ پریشانی کے سنگ اسکی طرف آئیں۔

"بہت دن ہو گئے خالا جی، پتا نہیں جو کر کے آئی تھی اس سے کیسی کیسی قیامت اتر آئی ہوگی۔ ایک بار جا کر خود دیکھنا چاہتی ہوں، جلدی واپس آجاوں گی۔ مجھ سے مزید اب اس تکلیف کے سنگ جیا نہیں جا رہا، میرا گناہ مجھے سکون نہیں لینے دے گا۔ آپ وعدہ کریں میرے جانے کی خبر نہ شہیر مجتبی کو دیں گی نا کاشف صاحب کو۔ میں ایک دو دن میں واپس آجاوں گی۔"

وہ ناصرف کاشف کی اماں سعدیہ صاحبہ کو اپنے گناہ کا بتا چکی تھی بلکہ اس عورت نے اسکے باوجود نازلی کو اپنی بیٹی کے طور پر قبول کیا تھا اور وہ تو اسے کاشف تک کے لیے سوچے بیٹھی تھیں اور اب اسکا اپنے گناہ کا کفارا ادا کرنا خود انھیں بھی پریشانی میں مبتلا کر گیا لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ جب تک وہ اپنے ہاتھوں سرزد ہوا گناہ دھو نہیں لیتی، اسے سکون نہیں آئے گا۔

"اگر اس عورت نے تجھے نقصان پہنچا دیا یا اس خان زادے نے مار دیا؟ میں ان دونوں کو کیا جواب دوں گی۔ مت جا پتری، ان بوڑھی ہڈیوں میں جان نہیں ہے، کتنا من لگ گیا تھا تیرے سے میرا  ، تو نہ آئی واپس تو میں کہاں تجھے تلاشوں گی"

وہ بوڑھی خاتون کرب سے سسکنے لگیں تو نازلی نے بھی آنسو روکتے ہوئے انکو بے اختیار شدت سے گلے لگایا۔

"میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے خالا، جب تک تلافی نہیں کروں گی مجھے سکون نہیں آئے گا۔ آپ تو میرے راز سے واقف ہیں، اللہ سائیں مجھے تبھی معاف کریں گے جب وہ دونوں کریں گے۔ میں ا۔۔ان دو کے پیر پڑ جاوں گی، کیا خبر تھی کنو بائی نے مجھ سے پرورش کا اتنا بڑا تاوان لینا ہے، پتا ہوتا تو اس احسان کی زندگی سے موت بخوشی چن لیتی لیکن جو گناہ وہ مجھ سے کروا بیٹھی ہیں اس میں تو موت بھی بس آزمائش ہے۔ اس سے پہلے کہ مر جاوں، اپنے گناہ کا اعتراف کروں گی۔اس خان زادے کی سچائی، زونین کو حرف بہ حرف سچائی سے بتاوں گی۔مجھے دعا دیں خالا، اگر اللہ سائیں نے چاہا تو میں ضرور واپس آوں گی۔ آپ جیسی پیاری ماں کے پاس جس نے میرے عیب ڈھانپ کر مجھے بہت پیار سے اپنے پاس رکھا"

ان سارے ماہ واقعی سعدیہ صاحبہ نے نازلی کو ایک بیٹی کی طرح ساتھ رکھا، وہ بھی بیٹی کو ترسی ہوئی تھیں اور نازلی، ممتا اور شفقت کی پیاسی تھی تبھی تو وہ اسے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں۔

دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر خزن و ملال تھا۔

"اللہ تیرا حامی و ناصر ہو پتری، میں دعا کروں گی اللہ سائیں سے کہ وہ تجھے سرخرو کرے۔ تیری بے بسی وہ اللہ جانتا ہے میرے بچے، اور وہ مالک و دوجہاں۔ بے بسوں کا سب سے بڑا والی ہے۔ جا تو، اللہ کی امان میں رہ۔بس جلدی واپس آجانا پتری"

اس منہ بولی ماں نے کلیجے سے لگائے اسے الگ کرتے اسکا ماتھا چوما اور نازلی اپنے آنسو دباتی، انکا ہاتھ چومتی ہوئی اس سکون سے بھرے گھر سے رخصت ہوئی، اسکی منزل 'تاج حویلی' تھی، کنو بائی کا دوسرا مسکن، دوسرا بڑا اڈا جبکہ وہ اڈا سیٹھ گونی کی بھی ملکیت تھا تبھی سیٹھ گونی نے بھی ان دو لڑکیوں کو اسی حویلی بھجھوایا تھا جہاں آجکل اسکی بہن ریلا نامی سیاہ فام اس کوٹھے کی مالکن بنی ہوئی تھی جبکہ یہیں سے نئی اغوا شدہ لائی جاتی لڑکیاں بے خوف کر کے، رنگین حویلی تک ٹرینڈ ہونے کے لیے بھیجوائی جاتی تھیں جنھیں کنو بائی، مزید رقص و مویسقی، طوائفی تہذیب، اداب اور دھندے کے کام سیکھایا کرتی تھی۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ہاشم بزدار کے ٹرینڈ اور پروفیشنل لوگ اس بار پچھلی غلطی دہرانے کا نہ رسک لے سکتے تھے نہ ان میں سکت باقی تھی کہ وہ اس بپھرے شیر کا غضب برداشت کر سکیں سو کنزا کو اسی بے دردی سے وہ چھوٹے سے دو کمروں والے پرانے بوسیدہ اور ابتر سے گھر لائے ، جگہ جگہ گرد و غبار جمع تھا اور کئی عرصے سے اس ہٹ کے بند رہنے کے باعث ، خبس کے بدبودار جھونکے ہر سانس کے ساتھ اندر اترتے سانس گھونٹ دیتے۔

دو لوگوں نے سمینٹ کے بنے پلرر کے ساتھ تڑپتی سسکتی، آزادی کی بھیک مانگتی کنزا کو مضبوطی سے باندھا جبکہ گلے میں ایک پٹہ لپرایا جس کے ساتھ لوہے کے دو کانٹے لگے تھے جو جیسے ہی وہ گردن گراتی، اسکی گردن میں دھنس جاتے یا پھر ہلنے کی کوشش کرتی تو گلے میں ڈالی لیلون کی مضبوط رسی اسکی گردن کاٹ ڈالتی، اسکے منہ میں سفید کپڑا ٹھوس کر منہ پر ٹیپ لگاتے ہی دو آدمی وہیں اس پر بندوق تان کر کھڑے ہوئے جبکہ باقی باہر نکل کر اس ہٹ کی پہرا داری میں لگ گئے۔

وہیں جب تک ولی زمان ، اس کیمپ کے قریب پہنچا، شہیر اور اسکے لوگ مخالف طرف پر چوکس طریقے سے موجود تھے مگر اتنی خفیہ پلاننگ کے باوجود حملے کی خبر سیٹھ گونی تک پہنچ چکی تھی تبھی تو اس نے پہلی فرصت میں دونوں لڑکیوں کو سرنگ کے راستے وہاں سے نکلوا دیا مگر وہ خود اس سرنگ سے نہ نکل پایا کیونکہ جب سیٹھ گونی کے لوگ ان دونوں لڑکیوں کے ساتھ وہاں سے نکلے تو آخر پر آتے آدمی نے اس سرنگ کا پتھر واپس نہ لگایا جسکے باعث وہ خفیہ راستہ آتے ہی ولی کے لوگوں کی نہ صرف نظر میں آیا بلکہ اس میں بڑے بڑے پتھر بھروا دیے گئے جس کے باعث وہ سیٹھ گونی کے فرار کا آخری راستہ بھی بند کروا دیا گیا۔

مگر اس راستے پر کئی قدموں کے نشان اور سڑک پر دو تین گاڑیوں کے ٹائیرز کے نشان دیکھ کر ولی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی وہاں سے ضرور فرار ہوا ہے۔

جبکہ اتفاق کہہ لہجئے کہ سعدیہ صاحبہ اس وقت کچن میں کھانا بنا رہی تھیں جب کاشف کچھ ضروری چیز لینے گھر آیا مگر نازلی کو کہیں نہ پائے اسکے چہرے کی رنگت بدلی۔

پہلے تو سعدیہ صاحبہ نے لاکھ بہانے کیے مگر کاشف کو ٹالنا انکے بس کا روگ نہ تھا تبھی انھیں نازلی کے متعلق سب بتانا ہی پڑا جبکہ کاشف نے یہ خبر گھر سے نکلتے ہی شہیر تک پہنچائی جسے ابھی تو وہ خبر موصول نہیں ہوئی تھی مگر جلد ملنے والی تھی وہیں ولی نے خود ہی شہیر کو ایک دوسرا خفیہ پیغام بھیجوایا۔

"وہ دو لڑکیاں زونین اور مالنی تھیں، بہت ضروری ہیں اور سیٹھ گونی کو گرفتار کرنے سے زیادہ ان دو کی بازیابی اہم ہے۔یہاں کچھ نشانات ملے ہیں جو بتا رہے ہیں کہ اس خفیہ سرنگ سے کچھ لوگ فرار ہوئے ہیں، مجھے شبہ ہے کہ سیٹھ گونی کو ہمارے حملے کی خبر کی گئی ہے اور اس نے کنزا سمیت وہ لڑکیاں یہاں سے بھگا دیں ہیں۔ تمہارا کام صرف یہ خبر کنفرم کرنا ہے اسکے بعد تم واپس آجانا۔ اور یہ خبر کنفرم کرنے تمہیں بھیس بدل کر اندر جانا ہوگا"

شہیر اس وقت زمین پر لیٹا دوربین سے ہوتی مشکوک سی ہلچل اور بھگدڑ دیکھنے میں محو تھا جب فون پر بلند ہوتی پیپ پر وہ متوجہ ہوا، اسے پہلے ہی وہاں کی بھگدر اور بڑھائی جاتی سیکورٹی پر ایسا ہی شبہ ہو رہا تھا۔

لیکن اس سے پہلے شہیر ، اپنی ٹیم کو بریف کیے آگے بڑھتا، نازلی کے آتے اہم پیغام پر وہ وہیں رکا کیونکہ اس لڑکی نے ایک لوکیشن بھیجی تھی، اس وقت وہ کسی غیر ضروری میسج کو ہرگز نہیں دیکھ سکتا تھا مگر نازلی کا نام دیکھ کر وہ ناچاہتے ہوئے بھی وہ پیغام کھول کر دیکھنے پر مجبور ہوا۔

"میں نازلی، یہ ایک لوکیشن بھیجی ہے۔ میں اس وقت تاج حویلی میں موجود ہوں، زونین اور مالنی یہاں ہیں، کنو بائی کا کوئی اتاپتا نہیں۔ مجھے نہیں پتا وہ یہاں کیسے پہنچیں مگر انکے ساتھ بہت برا ہونے والا ہے سو کچھ کر کے انھیں یہاں سے نکلوائیں۔ میرے تاج حویلی میں ہونے پر ابھی کوئی سوال مت کیجئے گا کیونکہ مجھے لگتا ہے میرے گناہ کی تلافی نے ہی میرے قدموں کو یہاں لایا ہے"

شہیر یہ پیغام پڑتے ہی پریشانی کے سنگ واپس اپنی ٹیم کے پاس آیا اور اس دوران اسے کاشف کا میسج بھی موصول ہو چکا تھا۔

ولی اور اسکے لوگ سرنگ کو بند کرنے کا کام مکمل کرتے ہی آگے بڑھ رہے تھے اور انکا ٹارگٹ ، شہیر کی اطلاع ملتے ہی سیٹھ گونی کا کیمپ تھا۔

"یہ لوکیشن بھیج رہا ہوں، سیٹھ گونی کا ایک اور کوٹھا ہے تاج حویلی کے نام سے۔ زونین اور مالنی نہ صرف وہاں ہیں بلکہ نازلی بھی موجود ہے۔ امید ہے تم دو کے بجائے ان تینوں کی خفاظت کر پاو گے، اب تم آگے آسکتے ہو کیونکہ وہ دونوں لڑکیاں یہاں موجود نہیں ہیں"

شہیر کے ملتے پیغام کو پڑھتے ہی خود ولی نے اپنے لوگوں کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اور خود جبل زاد کو کال ملائی جو ابھی بزدار حویلی ہی پہنچا تھا اور اب اسکی واپس روانگی تھی۔

"جی ولی لالہ؟"

وہ گاڑی کے پاس پہنچتے ہی کال پک کرتا بولا، چہرے پر پریشانی کی لاتعداد شکنیں تھیں۔

"لوکیشن بھیج رہا ہوں ، مشارب کو ساتھ لینا اور جا کر مالنی اور زونی کو اس جگہ سے بازیاب کرواو، یہ مشن تم دو کا ہے۔ امید ہے مایوس نہیں کرو گے، وہاں ایک نازلی نام کی لڑکی بھی ہوگی۔۔۔ اسے بھی وہاں سے بخفاظت نکالنا۔ باقی تھانے سے پولیس کے چند لوگ لے لینا، تاج حویلی کو سیل کرنے کا وارنٹ ایک گھنٹے تک بن جائے گا، جب تک تم تھانے پہنچو گے، وہ آچکا ہوگا۔۔۔اب فورا نکلو۔۔ہاشم بزدار کو میرے لوگ ڈھونڈ رہے ہیں انکی فکر مت کرنا"

ولی نے اسے بریف کرتے ہی کال کاٹی اور اپنی گن لوڈ کرتا وہ اک نظر سر پر مٹر گشت کرتے طیارے پر ڈالتے ہی ڈوڑتا ہوا اپنے لوگوں تک پہنچا جبکہ اب مزید چھپ کر وار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی سو یلغار کو شروع کرنے کا ولی زمان خان نے اپنے تمام لوگوں کو اشارہ سونپ دیا تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"کیا مطلب کہاں جانا ہے ؟"

وہ اسکے ارادے کو بدلتا دیکھتی روم میں آئی اور سوپ کا باول میز پر رکھتے ہی اسکی طرف پریشانی کے سنگ لپکی جو تیار ہو کر کہیں جانے کے ارادے بنا رہا تھا۔

"ہاشم صاحب لاپتہ ہیں ، کسی کو انکا نہیں پتا انکے لوگوں نے بتایا کہ کنزا کو قید کروانے کا حکم دیتے ہی وہ جنگل کی طرف بڑھ گئے تھے۔ میں جانتا ہوں ولی اور شہیر اپنا اپنا کام سنبھال لیں گے لیکن ہاشم بزدار کو ڈھونڈنا میری ذمہ داری ہے۔ زونین اور مالنی کو وہ خبیث اس کیمپ سے کہیں اور بھجھوا چکا ہے جہاں مشارب اور جبل زاد پہنچ رہے ہیں، اگر آپ یہاں رکنا چاہیں تو رک جائیں لیکن مجھے جانا ہوگا"

وہ زخمی کندھے کے باوجود جانے پر بضد ہوا تو اشنال بھی یہاں رہنے کے بجائے ساتھ جانے پر رضا مند لگی۔

"نو میں یہاں نہیں رہ سکتی، تم مجھے عالم دادا سائیں کے پاس پہنچا دو۔ وہ بھی پریشان ہوں گے، لیکن میثم خود کا دھیان رکھنا، تمہارا کندھا بری طرح زخمی ہے"

وہ اپنا بیگ اٹھاتی ساتھ ہی جانے کو تیار ہوئی جبکہ اسے اشنال سے ایسی ہی امید تھی، جبل زاد نے اسے بتایا تھا کہ بزدار حویلی فی الحال ماتم کدہ بنی ہوئی ہے، سب انگاروں پر لوٹ رہے ہیں ایسے میں انکی اشنال عزیز ہمت بنے یہی ضرار چاہتا تھا۔

"اتنا درد نہیں ہے مگر ہاشم بزدار کو کچھ ہوا تو میری آدھی ہمت پھر سے ٹوٹ جائے گی۔ اور پھر دادا سائیں سے ایک بار پھر انکا بیٹا چھن جائے یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔ دشمن دادا ابھی اپنے ٹوٹے ہاتھ کے ماتم میں ہیں اور مجھے نہیں لگتا وہ ہفتہ اس درد سے نکل پائیں گے سو انکا انتظام فرصت سے آکر کروں گا، ابھی ہمیں چلنا ہوگا۔ آپکو بزدار حویلی ڈراپ کرتے ہی میں نکل جاوں گا"

وہ دیکھ سکتی تھی کہ وہ ہاشم کے لیے واقعی بہت پریشان تھا تبھی اشنال نے بھی مزید کوئی اعتراض نہ کیا اور اسکے ساتھ ہی واپس روانہ ہوئی۔

سب نے بہت روکا مگر اس وقت وہ اپنی سچویشن بتا کر سبکو پریشان نہیں کر سکتے تھے، البتہ مشارب ، جبل کی اطلاع ملتے ہی آدھے گھنٹے پہلے ہی گاڑی لے کر اپنے چند آدمیوں کے ساتھ اس پتے پر نکل چکا تھا۔

تاج حویلی اپنے نام کی طرح بہت وسیع و عریض اور زیبائشی حویلی تھی جہاں دھندے پر لگی عورتیں حسن کی ملکائیں اور انکے گاہک، بڑے بڑے منسٹر، بزنس مین، میڈیا کے لوگ اور یہاں تک کہ بڑے بڑے رئیس تھے۔

وہاں بہت سخت اصول تھے، نازلی اور مالنی کی چونکہ وہاں کی لڑکیوں کے ساتھ جان پہچان تھی تبھی ان دونوں کو ملنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی جبکہ زونی پر اسکی ماں کے حکم سے تشدد کروایا جا چکا تھا اور اسے ایک الگ شاہی کمرے میں قید کیا گیا تھا۔

"میں نے خبر پہنچا دی ہے، جلد تم دونوں کو تمہارے پیارے یہاں سے لے جائیں گے۔ "

اس وقت وہ دونوں باورچی خانے میں موجود تھیں،نازلی کی وہیں کی ایک دوست نے مالنی سے اسکی ملاقات ارینج کروائی تھی ورنہ ریلا بائی کے ہوتے مجال تھی کہ دو لڑکیاں آپس میں بات بھی کر جاتیں۔

مالنی اسکی اس احسان لٹانے پر آگ کی طرح برہم ہوئی، اسکا دل یہی کیا وہ نازلی کا منہ نوچ لے جبکہ نازلی اسکے چہرے اور آنکھوں میں اپنے لیے صاف نفرت دیکھ سکتی تھی۔

"اس احسان کو کر کے تم کیا سمجھتی ہو نازلی کہ تمہارا گناہ دھل جائے گا؟ نہیں۔۔۔تمہاری وجہ سے زونی آپی اس حال تک پہنچی ہیں۔ تم تو بہت پارسا تھی، کیسے کی تم نے یہ گری ہوئی حرکت۔ تمہیں ایک بار بھی خدا کا خوف نہ آیا؟ جس روز وہ خانزدہ پہلی بار رنگین حویلی آیا تھا، سب لڑکیوں نے بتایا تھا مجھے تمہاری التفات بھری نظروں کا۔۔مگر تم اس شخص کے آگے بے آبرو ہو جاو گی یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا"

بنا نازلی کی شکر گزار ہوتی وہ الٹا کچن ریک سے چھری اٹھائے نازلی کی گردن پر رکھ گئی لیکن نازلی بلکل خوفزدہ نہ تھی بلکہ وہ جانتی تھی مالنی کا سلوک بلکل بجا ہے۔

"میں کوئی صفائی نہیں دوں گی بس عمل سے بتا دیا ہے جو کہنا تھا، مشارب خان انھیں اور ہاشم بزدار تمہیں لے جائیں گے۔ تم سب مجھے معاف مت کرنا پر شاید میرا اللہ اسکے بعد مجھے معاف کر دے گا۔ بس ایک ہی دعا مانگی تھی کہ تلافی کی مہلت ملے، سو مل گئی۔ آج شام یہ لوگ تم دونوں کی منہ مانگی قیمت لگانے والے ہیں، زونین کے لیے تو ملک کے جانے مانے منسٹر نے بولی لگائی ہے، اور تمہارے لیے بھی کوئی کمین گاہ کا رہائشی ہے۔۔خود سنا ہے میں نے ان کانوں سے۔۔۔۔"

نازلی نے جب یہ سب دل دہلاتا ہوا قہر لفظوں میں ادا کیا تو بے اختیار ہی خوف کے سبب مالنی کے ہاتھ سے وہ چھری ڈھیلی پڑ کر زمین پر گری اور نازلی نے اسے پرے دھکیلا اور تیزی سے باورچی خانے سے باہر نکلی اور اس کے دو منٹ بعد سٹور روم سے باہر نکلی وہ لڑکی جسکے ہاتھ میں کوئی چھوٹا سا بیگ تھا، لیے مالنی تک آئی۔

"کیا نازلی چلی گئی، اسے کنو باجی کا یہ بیگ دینا تھا۔ وہ یہاں بھول گئی تھیں"

اس وقت مالنی کا دماغ پھٹ رہا تھا تبھی وہ اس لڑکی کی بات تو نہ سن پائی مگر غائب دماغی سے اس نے وہ چھوٹا سا بیگ ضرور اس لڑکی سے لیا ساتھ وہ چھری بھی اٹھا کر آستین میں چھپائی، وہ اسے ساتھ ہی لیتی لڑکیوں والے کمرے تک لے گئی جہاں ہنستی مسکراتی طنزیہ تبسم اچھالتیں طوائفئیں اسے کاٹ کھا رہی تھیں۔

اس وقت مالنی کا دماغ مفلوج تھا ورنہ وہ بیگ کھول لیتی تو شاید اسے سارے سوالات اور بدگمانیوں کا جواب مل جاتا جو اسکے اور زونین کے دل میں کبھی تھیں پر اب تو ان دونوں کے دل ہی ہر کثافت سے پاک ہو چکے تھے۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"یار یہ سگنل کہاں مر گئے"

ہاشم نے اپنا فون دیکھتے بے بسی سے چلاتے کہا کیونکہ نہ تو سگنل آرہے تھے نہ انٹرنیٹ سروس جبکہ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آکہاں نکلا ہے، ہر طرف گھنے درخت اور خاموشی پھیلی تھی پھر شام بھی ڈھل رہی تھی جسکے باعث جنگلی جانوروں کی غرغراہٹ بھی سنائی دینے لگی تھی، پھر سونے پر سہاگہ کہ اس اخیر ٹھنڈ میں آسمان پر سیاہ بادل بھی جمع ہونے لگے تھے۔

وہ گن ہاتھ میں جکڑے مسلسل اونچے نیچے راستوں کو عبور کرتا آگے بڑھ رہا تھا۔

"لوکیشن بھی نہیں کھل رہی، یا میرے خدا! کیسے پہنچوں اب کیمپ تک"

جو لوکیشن اسے ولی نے بھیجی تھی وہ بھی انٹرنیٹ سروس کی عدم دستیابی کے باعث کھل نہیں رہی تھی اور اسے یہی لگا جیسے وہ کب سے بے مقصد سمت میں چلتا جا رہا ہے مگر پھر سر پر سے گزرتے تیز طیارے کی آواز پر اسے کچھ ڈھارس ملی اور ہاشم نے چلنے کے بجائے کچھ قریب آتی آوازوں کا تعاقب کرتے دوڑ لگائی ، اور پھر اس نے پانچ منٹ کا مزید فاصلہ طے کیا ہی تھا کہ آگے سے چار لوگ بڑی بڑی گنز لیتے درختوں کی اوٹ سے نمودار ہوئے۔

"کون ہو تم؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو؟"

ان چاروں میں سے ایک نے ہاشم پر رائفل تانے حقارت سے پوچھا جس پر ہاشم نے چاروں پر ایک سی مشکوک نظر ڈالی۔

"سٹھ گونی کا مخبر ہوں، اسے اہم پیغام دینا ہے۔۔۔کیا تم سب اسی کے ساتھی ہو؟'

بروقت دماغ لڑائے ہاشم نے اپنے آپ کو پراعتماد کیا جس پر ان چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بیچ کی جگہ چھوڑ کر دو دو کے گروپ میں بٹے۔

"ہاں وہ تمہارے منتظر ہیں، بھاگنے کے لیے خفیہ راستے کی خبر لائے ہو ناں۔۔کوڈ بتاو۔۔۔"

وہ چاروں مشکوک نظروں سے ہاشم کو گھور رہے تھے اور کوڈ پر ہاشم نے اپنا حلق واقعی سوکھتا محسوس کیا اور اس سے پہلے ان میں سے ایک آدمی اسے مشکوک سمجھ کر گولی سے اڑاتا، چار فائر ایک ساتھ ہوئے اور وہ چاروں ہی وہیں پھڑک کر گرے جبکہ عقب کی جانب سے نمودار ہوتا آدمی جو ولی کا ہی ساتھی تھا، تیزی سے ہانپتا ہوا ہاشم تک پہنچا۔

"ہاشم سر، شکر ہے آپ مل گئے۔ ولی سر کا کہنا ہے کہ مالنی اور زونی یہاں موجود نہیں ہیں سو آپ جتنا جلدی ہو سکے اس ریڈ زون سے نکل جائیں۔۔۔ ان دونوں کے بچاو کے لیے لوگ روانہ ہو چکے ہیں۔۔آپ فورا جائیں"

وہ آدمی قریب آکر رکتے بولا اور سامنے سے سیٹھ گونی کے چھ آدمی مزید ان دو کی طرف بھوکے کتوں کی طرح دوڑے اور اس آدمی نے اسے بچایا تھا تبھی ہاشم کیسے اس احسان کا بدلا چکائے واپس جاتا تبھی اپنی گن ان آتے مسٹڈوں پر تانی اور دونوں نے بروقت ان چھ کو موقعے پر ڈھیڑ کیا جبکہ اس آدمی کو مشکور اشارہ کرتے ہی ہاشم اس جگہ سے واپس نکلا، جبکہ دوسری طرف ضرار نے باہر سے ہی اشنال کو حویلی پہنچایا جبکہ خود وہ گاڑی لیے اس ہٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔

البتہ شہیر اور ولی کے لوگوں نے سیٹھ گونی کے پورے کیمپ کو یرغمال بنانے میں کامیابی حاصل تو کر لی تھی میں اس کیمپ کے اندر بیٹھا وہ زلیل شخص اس کیمپ میں موجود تمام انفارمیشن خاکستر کرنے کے لیے جگہ خگہ بم نسب کروا رہا تھا چونکہ اب اسے پتا تھا وہ چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہے سو ایسے میں اپنی موت کے ساتھ ساتھ تمام انفارمیشن کا خاتمہ کرنا ہی آخری آپشن تھا اور اسکی یہ تمام کاروائی باہر موجود لوگ اچھے سے بھانپ چکے تھے، ایسے مجرموں کے پاس فرار کا آخری راستہ خود کش دھماکے ہی بچتے ہیں۔

اور یہی ہوا اگلے کئی گھنٹے خونی یلغار جاری رہنی تھی تاکہ باہر والے حملہ آوروں کا دھیان بٹایا جا سکے، دشمن تعداد میں سوچ سے زیادہ تھے تبھی ممکن تھا محنت بھی اسی حساب سے زیادہ لگتی۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ریلا کے حکم پر زونی کے جسم پر تشدد کرنے کے بعد اسے ایک بہت امیر زادے کے لیے خاص خادماوں سے سجوایا گیا جو رات اسکے ساتھ گزارنے کا خواہش مند تھا، ریلا نے اس آدمی سے منہ مانگی رقم وصولی تھی یہ کہہ کر کہ وہ ان چھوئی ہے۔ جبکہ اسے یہ بھی تاکید کی تھی کہ وہ اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کرے جبکہ مالنی کو بھی ایک وحشی درندے کے آگے ڈالنے کا حکم سونپتی خود وہ مزے سے اپنے تحت پر لیٹی حقہ پی رہی تھی، وہ دو جلادن خادمائیں ، مالنی کی چینخ و پکار کی پرواہ کیے بنا اسے کمرے میں گھسیٹ کر لائیں اور اندر دھکا دیتے ہی باہر سے کمرہ لاک کر گئیں جبکہ اسکی تمام چینخیں تب حلق میں دبیں جب اس کمرے میں پہلے ہی ایک خبیث آدمی اس لڑکی کا منتظر تھا، تو گویا نازلی کی بات درست نکلی تھی اور تبھی مالنی نے اپنے بازو میں دبایا وہی چاقو جو اس نے احتیاط کے طور پر چھپا لیا تھا، اس آدمی کے قریب آتے ہی اسکے پیٹ میں گھسا دیا جو جس طرح خباثت سے آنکھ مارتے قریب آیا ویسے ہی درد سے بلبلاتا ہوا زمین پر گرا۔

"مالنی، صرف ہاشم بزدار کی ہے۔ تم جیسے ہر ایک کو قبر میں گاڑ دوں گی۔۔۔۔آیا مجھے چھونے والا حرام خور۔۔۔اب دفع ہو ڈائریکٹ دوزخ میں"

اس سسکتے آدمی پر حقارت سے تھوکتی وہ دروازے کی طرف بڑھی کیونکہ اگر وہ جال میں پھنسی تھی تو ضرور زونی بھی اس وقت خطرے میں تھی تبھی اسی چاقو سے وہ لاکڈ دروازے کا لاک دو تین بار مڑور کر کھولتی تیزی سے باہر نکلی، جس کمرے میں زونین تھی وہاں باہر دو خادماوں کا پہرہ تھا تبھی مالنی نے دیوار کی اوٹ میں کھڑے ہو کر وہی چاقو سامنے بائیں طرف بنی دیوار پر رکھے واس پر مارا جس سے وہ نہ صرف ٹوٹا بلکہ کرچیاں ہو کر فرش پر بکھر گیا اور تبھی وہ دو لڑکیاں وہاں سے ہٹ کر دوسرے کوریڈور تک گئیں اور اسی دوران مالنی آنکھ بچاتی اس کمرے کی طرف بڑھی اور جاتے ہوئے ساتھ جڑے کچے صحن میں پڑی موٹی لکڑی کا ڈنڈا بھی اٹھا لیا۔ وہیں زونی نے خود کو بہت خوبصورتی سے ململی مخملی لباس میں سجے خود کو کمرے میں بیہوشی سے جاگتے لیٹا پایا، رات ہونے والی تھی، بیڈ کے کچھ فاصلے پر کسی مرد کی میرون قمیص پڑی تھی جسے دیکھتے ہی وہ کپکپاتی ہوئی اٹھ بیٹھی مگر کسی مضبوط گرفت نے اس کومل پری کے جاگتے ہی اپنا آپ روبرو لا کر بیٹھایا جو اسکے پاس آکر بیٹھتے ہی تھرتھر کانپنے لگی، وہ اسکے جاگنے کا ہی منتظر تھا تاکہ اپنے دیے پیسے کو اس لڑکی کے نمکین حسن سے فیض یاب ہو کر حلال کرتا مگر ابھی تک اس نے زونی کو چھوا نہیں تھا بس اسکے بے خبر راعنائیاں بکھیرتے وجود پر اپنی گندی نظریں جمائی تھیں۔۔

وہ آدمی وہی تھا جسکے آگے زونین کو آج رات کے لیے بیچا گیا تھا، وہ شکل سے ہی ایک نمبر کا کمینہ لگا، اسکے چہرے سے غلاظت ٹپک رہی تھی جو اس بیہوش لڑکی کے ہوش میں آتے ہی سرور بنی۔

"ک۔۔کون ہیں آپ؟"

وہ اس آدمی کے تیور بھانپتی خوف سے پیچھے سرکی مگر اسکا خوف، اس گاہک کو مزہ دے گیا جس نے اسکی بازو کھینچی تو زونی کے مزاحمت کرنے پر وہ کندھے سے پھٹ گئی۔

"تمہارا خریدار ہوں بلبل، آج رات کے لیے تمہارا یہ نیلام جسم خریدا ہے۔۔۔۔کتنوں کے منہ لگ چکی ہو؟ وہ بائی تو کہہ رہی تھی ان چھوئی ہو پر لگتا نہیں۔۔۔۔ تمہارے نشاط بھرے وجود سے اٹھتی مہک تو بازاری عورتوں جیسی عام نہیں، ہونٹوں کی سلوٹیں تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔۔۔۔اس بائی سے تو اس دھوکے پر اپنا پیسہ وصول کر ہی لوں گا، پر تمہیں چکھنا ضرور چاہوں گا"

وہ گندی نیت اور بھیانک لفظوں والا آدمی اس سے پہلے زونی کو جنون بھری شدت سے پکڑ کر دبوچتا، ایک بھاری لکڑی کا ڈنڈا کسی نے زونی کے ساتھ زبردستی کرتے اس منحوس کے سر میں مارا اور وہ کوکتے ہی وہیں سر پکڑتا ڈھے گیا جبکہ خود مالنی، تیزی سے آگے بڑھی اور سہمی سی زونی کو اسکے ڈوپٹے سے لپیٹا مگر ساتھ ہی باہر بلند ہوتی فائرنگ پر وہ دونوں ہی سہم گئیں، زونی، خوف سے کانپتی مالنی کے ساتھ لگی مگر پھر ناجانے باہر کیسی مانوس سی آواز بلند ہوئی کہ وہ مالنی کو پرے کرتی تیزی سے کمرے سے باہر نکلی، پولیس کے لوگوں نے چاروں طرف سے تاج حویلی کو گھیر لیا تھا۔

"ک۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔کون آیا ہے؟"

سر پٹ دوڑتی اجڑے حال میں پہنچی ہوئی وہ ابھی صحن عبور کیے آواز لگاتی لڑکھڑاتی ہوئی بلند شور شرابے پر بھاگتی ہوئی باہر پہنچی ہی کہ اسکے پیر جھٹکے سے تھمے وہیں پیروں میں سمٹ سمٹ کر جھٹکے کھاتی پازیبیں جو ناجانے اس آدمی نے کب اسکی بیہوشی کا فائدہ اٹھائے اسکے پیروں میں باندھ دی تھیں بھی اس انسان کے احترام، ڈر، دبدبے اور تقدس میں ساکن ہوئیں۔

وہ سانس لینا تو ویسے بھی روبرو آکر بھلا دیتا تھا پھر وہ تو اسکی سب سے بڑی مجرم تھی جس نے اس پر بدگمانی کے سنگ جانے کیسے کیسے الزام باندھے تھے، وہ خود بھی تو اسکا مجرم تھا جس نے اس لڑکی کو مزید اذیت سے گزارا تھا پر اب وہ اس سے کوئی جنگ لڑنا نہیں چاہتی تھی۔

پورے تاج محل کو سیل کر دیا گیا تھا، کئی لوگ پولیس کے آتے ہی فرار ہوئے جبکہ بہت سوں کو دبوچ لیا گیا جبکہ مالنی بھی پیچھے ہی باہر دوڑی تو اسکے قدم بھی تھم چکے تھے۔

"ان کی صحبت میں گئے، سنبھلے، دوبارہ ٹوٹے

ہم کسی شخص کو دے دے کے سہارا ٹوٹے

یہ عجب رسم ہے، بالکل نہ سمجھ آئی ہمیں

پیار بھی ہم ہی کریں، دل بھی ہمارا ٹوٹے"

وہ بھاری قدم اٹھاتا عین زونی کے روبرو چلا آیا، چہرہ ہر تاثر سے عاری مگر ان ہلکی دھانی وحشت ناک آنکھوں میں سمٹی بے پناہ ناراضگی اور نفرت نے زونین کی سانس روکی۔

"آپکی جان لینے سردار مشارب زمان آیا ہے ، کیا سمجھتی تھیں۔ آپ مجھ سے بھاگ کر ان گندی، ناپاک، گرد آلود دیواروں کے پیچھے خود کو چھپا لیں گی، صرف سردار مشارب زمان کی ہو کر زمانے بھر کو یوں آپنا آپ میسر کر دینے کی جرت کریں گی اور میں آپکو بخش دوں گا۔"

وہ آنکھوں میں جلتی آگ سلگاتا ہوا بنا کسی تماش بین کی پرواہ کیے زوبین کی کلائی جکڑ کر اپنی آہنی گرفت میں لیتا حلق کے بل دھاڑا جو پہلے ہی اپنی آواز اور لفظوں کے ساتھ حواس بھی کھو بیٹھی تھی۔

"آرام سے سردار، زونی آپی کی طبعیت پہلے ہی ناساز ہے۔۔میری بات سنیں پہلے۔۔۔۔"

اس ہیبت ناک غضبناک غصے کی بھینٹ چڑتی زونی کے لیے مالنی نے بہت سہم اور ڈر کر اس سردار کے غضب کے آگے بولنے کی جسارت کی جسے سرادر مشارب زمان کی اک نظر ہی پتھر کر چکی تھی البتہ زونین کو ضرور اپنی آنکھیں دھندلائی محسوس ہوئیں ، آخری بار سمجھ کر اپنے مشارب کا چہرہ دیکھتے ہی اس کی بازووں میں جھول چکی تھی۔

اور مشارب زمان کی جان تو اسے یوں بے جان دیکھ کر ہی جا چکی تھی، سارا غصہ تو کہیں دور جا بسا۔

وہ کب اسے اٹھائے لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس نجس جگہ سے نکلتا، بدنام گلیاں عبور کیے اپنی گاڑی تک پہنچا، جبل زاد اسے حویلی سے باہر نکلتا دیکھ کر معاملہ پہلے ہی سمجھ چکا تھا جو اپنے لوگوں کے ساتھ اسکے جاتے ہی اندر بڑھا، مالنی کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ نازلی کی بھی تلاش کی مگر وہ وہاں سے پہلے ہی جا چکی تھی سو جبل زاد، مالنی کو اپنے ساتھ لیے وہاں سے نکل گیا البتہ باقی ولی کے لوگ اپنا کام خود سنبھال چکے تھے، سیٹھ گونی کی بہن کو کامیابی کے ساتھ اریسٹ کر لیا گیا تھا۔

"جبل بھائی پلیز اس سے پہلے وہ سر پھرا سردار مزید زونی آپی کا دماغ مفلوج کرے، ان تک سچائی پہنچائیں۔۔ اور ہاشم کہاں ہیں بھائی؟"

گاڑی تک پہنچتی مالنی ہاتھ میں دبایا وہ بیگ جکڑے گاڑی میں بیٹھتے ہی فکر و اضطراب سے بولی جبکہ ہاشم کے لیے اس لڑکی کی تڑپ جبل زاد کو ناچاہتے ہوئے بھی مسکرانے پر اکسا گئی۔

"مشارب خان اور ہاشم بزدار کو صرف یہی بتاوں گا کہ مالنی اور زونین کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کرنے والوں کو پورا جہنم واصل کر دیا، تسلی رکھیں مالنی۔۔ہاشم سر بلکل ٹھیک ہیں"

وہ پرسکون انداز میں کسی میسج کو پڑھ کر کہتے ہی گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا اور تبھی مالنی نے وہ بیگ کھولا، اور اس میں مزید بھی بہت کچھ تھا مگر اول پر نازلی کا کنزا کو لکھا خط دھرا تھا جسکو پڑھنے کے بعد مالنی کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

"بھائی، مجھے ہاشم کے پاس لے جائیں پلیز۔ انھیں کچھ بتانا ہے۔مجھے ابھی بزدار حویلی نہیں جانا۔ آپکو پتا ہے کہ ہاشم کہاں ہیں"

اس بیگ میں ایک چھوٹی سی فلیش بھی تھی اور جانتی تھی اس میں ضرور کچھ اہم ہے اور پھر وہ ہاشم کو دیکھنے کے لیے بھی بہت بے چین تھی،جبل کا ضرار سے رابطہ تھا جو ہاشم کے ساتھ کنزا کی مہمان نوازی کے لیے پہنچ گیا تھا مگر خود جبل زاد کا دل نہ مانا کہ وہ مالنی کو انکار کرے۔

"پتا تو ہے لیکن انہوں نے سختی سے منع کیا ہے کے کل تک وہاں کوئی نہ آئے، یقین رکھیں وہ بلکل ٹھیک ہیں"

جبل زاد نے موہوم کوشش کیے سمجھانا چاہا پر وہ بضد تھی۔

"پلیز جبل بھائی، جب تک ان کو دیکھ کر اپنی اس کوتاہی کی معافی نہ مانگ لوں۔ سکون نہیں ملے گا، آپ تو سمجھ سکتے ہیں میری سچویشن۔۔ پلیز"

وہ روہانسی ہوئے رو دی تو جبل زاد نے بھی کٹھور پن اک طرف کیا۔

"اچھا روئیں مت پر اگر ان دونوں نے مجھے آپکو وہاں لے جانے پر پیٹا تو میرا بچاو کیجئے گا، افٹر آل عنقریب دلہا بننا ہے یہ نہ ہو اس سے پہلے ہی ضائع ہو جاوں اور گل میرا انتظار ہی کرتی رہ جائیں"

وہ دانستہ مسکرا کر شرارت پر اترا تو مالنی بھی بھیگی آنکھوں کے سنگ مسکرا دی، ہاشم اسکا یہ مرجھایا چہرہ دیکھ کر یقینا تڑپ اٹھنے والا تھا۔

"بائے دا وے آپ نے کوئی کوتاہی نہیں کی مالنی، انسان محبت کے ہاتھوں بہت بار مجبور ہو جاتا ہے۔ میرے مطابق زونین بھی غلط نہیں ہیں۔ ان شاء اللہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا، مشارب خان زونین کی اور ہاشم آپکی ہر غلطی کو درگزر کریں گے۔۔۔چئیر اپ۔۔ "

وہ امید افزاء لہجے میں مالنی کی فکریں اور پریشانیاں، اپنے نرم لہجے سے قدرے کم کر چکا تھا پر وہ سارا سفر پریشان ہی رہنے والی تھی۔

دوسری جانب تیز ترین ڈرائیو کیے اگلے چند گھنٹوں بعد مشارب کی گاڑی 'خانم حویلی' کے آگے رکی، اور گیڈ کھلتے ہی گاڑی اس تاحد نگاہ پھیلے پورچ سے گزرتی عین حویلی کے داخلی دروازے کے پاس آکر رکی۔

سرادر مشارب زمان کی بازووں میں ہوش سے بیگانہ ہو کر لہراتی زونی کو دیکھ کر گل خزیں خانم ، اور خدیخہ بیگم بھی تیزی سے باہر لپکیں مگر وہ اس وقت کسی کی مداخلت پر راضی نہ تھا تبھی وہ بس پریشانی سے خود کی جانب آتے مشارب کے آدمی سے ہی سب دریافت کرنے لگیں۔

لیکن وہ ایک بار پھر بھول چکا تھا کہ اس لڑکی سے خفا ہے،ناجانے کتنے لمحے بیت گئے تھے ، وہ اپنے کمرے میں بستر سے کچھ دور مسلسل اضطراب میں چکر کاٹ رہا تھا جبکہ بستر پر گرے پردوں کے بیچ طبیبہ خضوراں، بہت احتیاط سے زونی کا معائنہ کر رہی تھی۔

"جلدی کیجئے خضوراں، کیوں اس قدر وقت لے رہی ہیں۔ کیا ہوا ہے زونی کو؟"

دیری پر سرادر مشارب زمان کی سخت آواز اس بڑے کمرے کے در و دیوار سے ٹکڑا کر گونجی تبھی مودب سی ہاتھ باندھ کر بستر سے اتر کر قریب آتی خضوراں نے اک نظر سردار کے بھینچے چہرے کو دیکھا۔

"اب کچھ پھوٹیں گی یا میرے غضب کو للکارنے کا ارادہ ہے"

خضوراں کو منہ میں چنے ڈال کر مجبور سی چپ میں مبتلا محسوس کیے مشارب ایک بار پھر غصے سے بگھڑا جبکہ خضوراں نمانی کے اک لمحے تو اس للکار پر ہاتھ پیر پھول گئے۔

"س۔۔سردار سائیں ، زونی بی بی کو بہت تیز بخار ہے اور۔۔۔"

وہ ڈری سی عورت منمناتے ہوئے جب رکی تو مشارب نے سخت خون چھلکاتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔

"اور"

وہ غرایا تھا۔

کمرے کے باہر پہنچ آتیں گل خزیں بھی مشارب کے چلانے پر فکر مندی سے دروازہ کھولے اندر آئیں مگر خضوراں نے جو انکشاف کیا وہ ان دونوں پر حویلی کے در و دیوار گرا چکا تھا۔

"انکے جسم پر لاتعداد سرخ نشان ہیں سردار سائیں، بازووں پر جلے زخم جنکو نوچا گیا ہے۔۔۔یہ بخار بھی اسی ظلم کے باعث ہوا ہے۔۔ انکا لباس ایک جگہ سے پھٹا ہے، پ۔۔پیروں میں پازبیں ہیں"

گل خزیں خانم نے بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکے اپنی چینخ روکی جبکہ سردار مشارب زبان نے سرخ ہوتی انگارہ آنکھوں سے خضوراں کو کمرے سے نکلنے کا اشارہ کیا جس پر وہ ہمت واپس بحال کیے فرمابرداری سے باہر نکل گئی البتہ گل خزیں خانم کی آنکھوں میں تکلیف کے ساتھ ساتھ تاسف اترا۔

"اماں سائیں، آپ بھی جائیں۔۔۔۔کوئی کمرے میں نہ آنے پائے،اپنی اور اس لڑکی کی تمام غلط فہمیاں آج مجھے لگے ہاتھوں فرصت سے مٹانے دیں۔۔۔جائیں "

انھیں لگا جیسے قبر کی تہہ سے سردار مشارب کی آواز ابھری ہو اور اس وقت وہ لاکھ اصرار کے بھی انھیں ہرگز نہ رکنے دیتا تبھی وہ اپنی زونی کی اس حالت پر اک اذیت ناک نظر ڈالے، آنسو رگڑتیں باہر نکل گئیں جبکہ انکے جاتے ہی سرادر مشارب زمان، سسکاری کی آواز پر اپنے چٹخے اعصاب درست اور منتشر حواس بحال کرتا مرے مرے قدم اٹھائے ، ان سنہری گرے پردوں کو اس سے پہلے پرے کرتا، وہ جسم و جان کا ہر درد بھلائے، احساسات لوٹتے ہی خود کو اس مانوس سی جگہ جان کر جھٹکے سے اٹھی اور بھاگنے لگی جب ایک بار پھر اسکی نازک کلائی، مشارب نے اپنے مضبوط ہاتھ اور آہنی گرفت میں لیے اسے جھٹکا دیے اپنے قریب کیا جسکی سوجھی آنکھیں اور سرخ پڑتا چہرہ، مشارب کے دل کا ہر احساس کاٹ چکا تھا۔

"اب کہاں بھاگنے کا ارادہ ہے، اب آپکا ہر فرار مجھ تک ہے یہ اپنی اس کمزور عقل میں بٹھا لیں۔ کس نے چھوا ہے اس دردی سے آپکو، مشارب خان اسے زندہ زمین میں گاڑ دے گا۔۔۔۔بولیں۔۔۔کس نے آپکو یہ پازبیں پہنانے کی جرت کہ؟ کیا کروایا ہے آپکی اس منحوس ماں نے۔۔۔جس کے پاس بھاگ کر گئی تھیں"

وہ اسکے امڈتے آنسو دیکھنے کے ساتھ ساتھ حقارت سے زونی کی اذیت دیکھتے سرگوشی کیے رکا، جھک کر پہلے اسکے دونوں پیروں سے وہ ناپسند چیزیں نوچیں پھر اٹھا، اک بھرپور نگاہ اپنی من پسند عورت پر ڈالی جو دم دیتی اذیت سے گزرے پورے ہوش اور ہمت سے مشارب کو دیکھتی آنسو روکے کھڑی تھی۔

جیسے یہ کہہ رہی ہو کہ اسکی ہر تکلیف کی وجہ اس بار وہ خود بنا ہے۔

"بہت غلطیاں کر چکی ہیں، سب سے بڑا خطاء میری نافرمانی کی ، آپکے لیے اب مشارب جان نہیں دے گا بلکہ آپکی سزا تعین کیے آپکی جان لے گا۔۔۔ مجھے اذیت دینے کے لیے گئی تھیں ناں پھر بھاگ کر اس خرافہ عورت کے پاس؟ تاکہ مجھے آسان سانس نہ آسکے۔آپکے بقول میں نے آپ سے بے وفائی کی ہے ناں اور آپ نے مجھے جیتے جی مار دیا بلکہ کئی بار مارا۔ ہمارا معاملہ تو کوئی پنچائیت بھی نہیں لے گی ، نہ اس میں بچ نکلنے کی سبیل بچی ہے۔ آپ سے بعد میں حساب لوں گا اس خطاء کا مگر پہلے اسے زندہ دفن کروں گا جس نے آپ کے ساتھ یہ سب کیا۔۔بولیں نام بتائیں اسکا"

وہ نہ تو رحم کھا رہا تھا نہ ترس، اسے زونی کوئی صفائی دینا بھی نہیں چاہتی تھی، وہ چاہتی تھی وہ اس کے زہر سے نجات پا کر اپنی سرداری سنبھالے، وہ اسے مزید آزمانے کے حق میں بھی نہ تھی کیونکہ اب وہ اسکی مجرم نہیں تھی، وہ تھا اسکا مجرم جس نے تکلیف پر تکلیف دے کر اسے بے جان کر دیا تھا۔

اسکی وہ ناگن ماں تو اب اپنے انجام کو جلد پہنچنے ہی والی تھی جو شاید زونی کے ناکردہ گناہوں کی سزا تھی، جس نے اپنی محرمیوں کا بدلا لینے کے لیے اپنی سگی اولاد کی زندگی خاکستر کرنی چاہی تھی۔

"اب ہم نہ آپکی بے وفائی کا رونا رونا چاہتے ہیں نہ ہمیں اپنے پاگل پن پر کوئی ملال ہے، آپ ہمیں طلاق دے کر ہماری جان پر آخری احسان کر دیں سردار مشارب زمان۔۔۔۔ بہت اچھا کرتے تھے ہمیں ہماری ماں کی وجہ سے خود سے محروم رکھتے تھے، ہم اسی لائق تھے، ہم آپکے لیے زہر قاتل بن گئے ہیں سو ہمیں خود سے اور اپنے اس اعلی نیک خاندان سے نکال باہر پھینکیں۔۔۔ہم اپنی نانو کی نواسی اور دادا کی پوتی بن کر خوش تھے، ہم جب سے آپکی زندگی میں آئے صرف زہر گھلا۔۔۔۔ ہم نہیں چاہتے اب آپ ہمارے ساتھ مزید یہ رشتہ جوڑے رکھیں، شاید ہماری ماں نے ہمیں گندا کروا دیا ہے۔۔۔۔د۔۔دیکھیں ہمارے پیروں میں پائلیں بھی تھیں۔ہمارا لباس تار تار ہے، جسم پر نشانات ہیں، روح گھائل ہے۔۔ہم تو ہوش میں بھی نہیں تھے سو ہم نہیں چاہتے آپ جیسا پاکیزہ انسان، ہمارے گندے وجود کو چھوئے"

وہ جس ذہنی اذیت سے گزر کر آئی تھی اس غلاظت نے زونی سے وقتی طور پر اعتبار، وقار اور یہاں تک کہ رہا سہا رحم تک لے لیا تھا، اسے یہ بھی احساس نہ ہوا کہ وہ بہت بار ایسے انسان کو رلا چکی ہے جو صرف دنیا کو رلاتا آیا تھا، اسے توڑ چکی ہے جو صرف اپنے اصول توڑنے والوں کو عبرت بنانا پسند تھا۔

اس وقت مشارب کا دل چاہا وہ زونی کے منہ پر ایک ایسا تماچہ ضرور مارے جسکے بعد اس لڑکی کو سچ دیکھائی دینا شروع کرے مگر وہ عزت دار، غیرت مند اور باوقار سردار تھا جس پر ہاتھ اٹھانا تو دور ،محبوب عورت ذات پر غصے بھری نظر ڈالنا تک حرام تھا۔

"میں آپکی جان لے لوں گا زونی مجھے مجبور مت کریں"

ناجانے کتنا ضبط کیا کہ مشارب کا چہرہ لہو چھلکانے لگا اور وہ بے بسی کی آخری سٹیج پر تھا، اور یہ بھی صرف اس سنگدل عورت کے آگے جو اسے کہیں کا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔

"ہم تو کب سے چاہتے آئے تھے کہ کوئی ہمیں مار دے مشارب یہ تو آپ دسترس میں آئے تو ہم کچھ پل جینے کی خواہش کر بیٹھے، خودکشی اللہ نے حرام کر دی ہے اور ہمارا اختیار آپ ختم کر چکے ہیں۔ کسی اور کی ہمارے جیسی بیوی ہوتی تو اسے مارنے میں لمحہ نہ لگاتا۔ مار دیں ناں، ہمیں بھی زندگی سے نفرت ہو رہی ہے، ہم ناجانے کس کس کے ہو چکے ہوں گے۔۔۔۔"

وہ ستم ناک حد تک پاگل ہوتی ہنسی، اسکی ہنسی میں ہلکورے لیتا دکھ ، مشارب کو سلگا رہا تھا۔

وہ چینخ چینخ کر دھاڑیں مارنا چاہتا تھا، لیکن ستم کہ اسکا منسب اسے باندھے ہوئے تھا۔

"اسکو بری موت آئے گی جس نے آپکو اس بری طرح نوچا ہے باقی کسی نے آپکو گندا نہیں کیا، یہ بکواس دوبارہ مت کیجئے گا۔۔۔ ایک بار میرا اعتبار کریں لیڈی۔۔۔ صرف ایک بار میری اس بے وفائی کو فراموش کیے میری طرف آئیں میں آپکو یقین دلاوں گا کہ آپ کو کسی نے چھوا بھی نہیں"

ایک آخری کوشش کیے وہ دانستہ تحمل سے کام لیتا بولا جسکا وہ اس وقت متحمل نہ تھا مگر زونی نے اس سے دور جانے میں ہی اپنی نجات سمجھی۔

وہ اسے آزاد نہ کر پایا تو اس لڑکی نے آنکھیں پھیر لیں۔

"ہم آپکی اس بے وفائی سے مر چکے ہیں مشارب جو آپ نے کی بھی نہیں، اب بھلے ہم خود ہی خود کو نوچ لیں فرق نہیں پڑتا۔ آپ نے ہماری بدگمانی کو دوام دے کر قہر ڈھایا، وہی لمحہ تھا جب ہم مر گئے۔ ہم نہیں جانتے کہ آپ کیسے، کس سازش کے تحت، کس مجبوری کے تحت اس عورت کے قریب پائے گئے ، ہم بس اتنا جانتے تھے کہ سردار مشارب زمان ایک مضبوط کردار کا مرد ہو کر بہک نہیں سکتا، کیا جاتا اگر آپ ہماری بدگمانی اسی طرح ہٹا دیتے سچ بتا کر جس طرح اپنی محبت جتاتے تھے۔ ہم نے آپکے سہارے اپنے مقدر کی غلاظت سے نکلنا تھا ، مگر آپ نے خود ہمیں اس گندگی میں واپس دھکا دیا ہے اور ہم مجبور ہوئے اس عورت سے اس سفاکی کا حساب مانگنے پر۔ تو اب سردار مشارب زمان خان آپ روئیں، چیخیں یا مر جائیں، ہم آپ سے مزید محبت کا دعوی نہیں کریں گے"

وہ اسکی گرفت میں مزاحمت کے سنگ پھڑپھڑاتی، آنکھیں پھیرے یہ ظلم ڈھاتی گئی البتہ اسکا چہرہ آنسووں سے ضرور بھیگا جبکہ مشارب اس بے وفائی کی اب اور صفائیاں کیا دیتا اس لڑکی نے کبھی بے وفائی تسلیم ہی نہ کی بس وہ اذیت میں تو مشارب کی اس ہاں سے مبتلا تھی، کوئی کیسے یہ سفاکانہ طرز اختیار کر سکتا ہے۔

"اور اگر میں واقعی مر گیا؟"

وہ اسکا موڑا چہرہ ، اپنی سمت پھیرے، اپنی سرخ آنکھوں کو زونی کی آنکھوں میں گاڑ کر یہ سلگتا جان لیوا استفسار کیے بولا، جو ہونٹوں کو آپس میں میچ لیتی، اپنے چہرے کے خدوخال تک مشارب کی سانسوں کی حدت پہنچنے پر ضبط کے سنگ ، گہرا سانس کھینچے، رنجیدہ ہو کر مشارب کو تکنے لگی۔

"تو ہم شکر کا سانس لیں گے، ہمیں مارنے والا مر گیا۔۔۔ آپ نے ہمارے اندر جلتی آگ کو آتش فشان خود بنایا ہے، اب ہم یہاں نہیں رہیں گے۔۔۔ہم اسی جگہ کے لائق ہیں جہاں سے ہماری نسبت جڑھ چکی ہے۔۔طوائف زادی ہیں ہم"

یہ بولتے سمے اس لڑکی کا دل بری طرح تڑپا مگر وہ پتھر دل ہو چکی تھی جسے اپنی تکلیف دیکھنے کے بعد اب کسی کا کرب، کرب لگتا ہی نہ تھا۔

"تو آپ چاہتی ہیں جتنا آپ میرے لیے روئیں، اتنا سردار مشارب زمان کو خود کے لیے خوار کیے رلائیں"

وہ اس سے ایسے ہی جواب کی امید کر رہا تھا، امید پوری ہونے پر تلخی سے سوال کیا۔

"یہ رونا اور خواری آپ نے خود چن رکھی ہے، صرف اک ہم سے گریز۔۔آپکی جنہم جیسی حیات کو جنت بنا دے گا۔۔۔ ہم تو اب بدنام زمانہ ہیں ، بھاگنے میں ماہر، اپنی سفاک ماں جیسی طوائف، برا نام بھی ہوا تو جی لیں گے۔ آپ کے منسب اور رتبے پر یہ کالک نہیں جچے گی۔ لوگ آپ کو علاقے کا سردار کہتے ہی نہیں مانتے بھی ہیں۔ خود کے ساتھ رحم دل ہونا آپکے اپنے ہاتھ میں ہے۔ چھوڑیے ہمیں ، ہمارا سایہ بھی آپکے لیے مضر ہے اب"

وہ ایک بار پھر خود کو مشارب سے الگ کرتی اس سے یوں پرے ہٹتے بولی جیسے وہ کوئی اچھوت ہو اور اپنے سائے تک کو مشارب کے لیے برا جانتی ہو، مشارب اسکی اس حرکت پر ساری تکلیف اور بے بسی بھاڑ میں جھونکتا، اس بار اسے دونوں بازووں میں تھام لیتے جکڑا اور ساتھ ہی واپس بستر پر گرے پردے ہٹائے اسے بیڈ پر دھکیل کر پھینکا جو مشارب کی ایسی جرت اور بے باکی پر گرتے ہی بازو کے سہارے پر زرا سنبھل کر خوفزدہ نظروں سے اپنی سمت آتے دیکھ کر سہمی۔

"پہلے مجھے اپنے جائز حقوق چھین لینے دیجئے، زخم کوئی بھی دے آپکے ان زخموں پر مرہم کا حق صرف میرا تھا، ہے اور رہے گا۔ ابھی آپ نے سردار مشارب زمان کی من مانیاں دیکھی ہی کہاں ہیں، نہ تو آپکے لیے رونا ہے میں نے نہ مزید خوار ہونا ہے۔۔۔۔"

یہ آخری طیش بھرا حکم سناتے ہی وہ بنا زونی کو ایک بار پھر بھاگنے کی مہلت سونپتا اسکے پاس بیٹھتے ہی اسکے دونوں ہاتھ لاک کرتا واپس تکیے پر سر لگائے لیٹائے جھک چکا تھا جو لاکھ مزاحمت کرتی رہی مگر مشارب کے قریب آتے ہی اس لڑکی کی جلتی روح پر جہاں ابر پھیلا وہیں اسکی مزاحمت بھی ختم ہوئی۔

"ن۔۔نہیں قریب آئیں ہمارے، یوں کر کے آپ ہمارے اندر کی دفن محبت جگا نہیں سکتے مشارب"

وہ جو احساس سکون اپنے اندر اتارتا اس پر حاوی ہوئے بے خود ہو رہا تھا، زونی کی تڑپتی سسکتی سرگوشی پر چہرہ اٹھائے اسکی زردیوں میں گھلی رنگت تکتا زہر خند مسکرایا۔

"مجھے ضرورت بھی نہیں اس مردہ محبت کو جگانے کی، میں چاہتا ہوں آپ ایک بار پھر نئے طریقے سے میری شیدائی ہو جائیں۔ اب اگر اس مرہم لٹاتے سلسلے میں آپکی زبان سے اک حرف بھی نکلا تو شدت کی سنگینی آپکے نازک وجود کے لیے سہنی مشکل ہو جائے گی۔۔باقی باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے آپ آج اچھی طرح یہ محسوس کر لیں کہ آپ میرے سوا اب اپنی بھی نہیں ہیں اور نہ میں آپکے علاوہ کسی کا ہوں"

وہ جو اسے تنبیہہ کیے جان لیوا شدتیں بہم پہنچانے سے زرا رک چکا تھا، یہ استحقاق بھرا انداز لیے زونی کی جان نکالتے ہی اسکے کندھے سے زرا سا شرٹ سرکائے، وہاں بنے سرخ نشان پر اپنے سلگتے ہونٹ رکھ چکا تھا، جبکہ گردن پر بنے زخم پر نرمی سے ہونٹوں کی مہر لگائے اس نے اپنی اول گستاخیوں کی معذرت بھی شاہانہ کی اور وہ آنکھیں سختی سے بھینچے، اسکے بعد صرف مرہم وصولی کرنے پر مجبور کر دی گئی تھی البتہ اسکی آنکھوں سے نمی ہنوز بے اختیار ہو کر خود مشارب زمان کو ان خوبصورت لمحوں میں آزردہ کرتی رہی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ سب ہی سیٹھ گونی کے گودام کو چاروں اطراف سے گھیر چکے تھے، شہیر کے تمام ساتھی بھی ولی کے لوگوں کے ساتھ جلد ہی گھل مل گئے مگر شہیر خود ان سب میں موجود نہ تھا، فضا میں گھومتے جنگجو طیارے نے بھی اپنی پوزیشن سنبھال رکھی تھی، اندھیرا ہو جانے کے باعث مشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

"شہیر کہاں ہے؟"

ولی نے اپنی پوزیشن سنبھالتے ہی چار عدد لوگوں کے ساتھ کیمپ کی طرف آگے بڑھتے ہوئے اس کی غیر موجودگی کے بارے متفکر ہوئے استفسار کیا مگر حیرت کی بات تھی کہ شہیر کے اچانک ان سب کے بیچ سے غائب ہونے کی اسکے ساتھیوں کو بھی خبر نہ ہوئی تبھی وہ سب شہیر کو اردگرد نہ پائے بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے۔

"ابھی تو وہ ہمارے ساتھ ہی تھا۔۔۔۔۔ کہاں گیا۔۔۔ ولی زمان، دیکھو۔۔۔اس کی حفاظت کرنا تم پر بھی فرض ہے۔ اگر اسے کچھ ہوا تو ہم بھول جائیں گے کہ وہ ہمیں تم پر محافظ بنا کر گیا ہے"

وہ آدمی جو شہیر کے لوگوں کو لیڈ کر رہا تھا، اچانک پریشان و فکر مند ہوا اور پھر انتقامی سا ہوئے ولی زمان کو دیکھنے لگا جسے یہ سن کر حقیقی دھچکا لگا۔

"کیا مطلب محافظ بنا کر گیا تھا؟"

ولی نے آگے بڑھتے بڑھتے یکدم پلٹ کر اس آدمی کو بے یقینی سے دیکھتے استفسار کیا۔

"کچھ نہیں، کام کرو اپنا"

اگلے ہی لمحے وہ بگھڑے تیوروں سے کہتا وہاں سے دوڑ گیا جبکہ وہ خفیہ اندر گراونڈ کیمپ ایک کمپوٹر لیپ، ایک آفس روم ، بوائلر روم اور ایک تہہ خانے پر مشتمل تھا جبکہ باہر لگا دھواں اگلتا چیمبر، بوائلر روم سے اٹیچ تھا جسے شام ہی بند کر دیا گیا تھا تاکہ دھواں پھیلنے سے اسکے کیمپ کی ایگزیٹ لوکیشن ٹریس نہ کی جا سکے مگر اس کے باوجود وہ چاروں طرف سے گھیرا جا چکا تھا۔

جگہ جگہ اسکے لوگ ٹریگر بم نسب کرنے میں لگے تھے جبکہ اس ریڈ زون ایریا میں شہیر اس باہر کے رقبے میں پھیلے زمینی بم ٹریس کرنے میں منہمک تھا، تاکہ آگے بڑھتے سمے ولی یا اس کے  لوگوں کا کوئی جانی نقصان نہ ہو۔

"جلدی کر کاشف، وقت کم ہے"

دوسری جانب گودام میں بیٹھے کاشف نے زمینی بارودی بمبز کا نقشہ بروقت اور کامیابی کے سنگ ہیک کر لیا تھا۔

"تو جہاں کھڑا ہے اسکے گن کر چھ قدم آگے ، دھیان سے ڈی ایکٹیویشن کرنا شہیر۔ "

ائیر فون سے کاشف کی جوابی تاکید ابھری تو شہیر نے ٹھیک پانچ قدم اٹھاتے ہی موبائیل کی ٹارچ سے اس کچی زمین کو جھک کر گھٹنے کے بل بیٹھے دیکھا جہاں سے گھاس اکھڑی تھی اور یہی وہ جگہ تھی جہاں بارودی بم دبا تھا۔

سیٹھ گونی کے لوگ ان باہر کے زمینی بموں کے پھٹنے کے منتظر تھے کہ جیسے ہی کوئی ایک بھی دشمن کے پیر کا دباو پڑنے سے دب کر پھٹے، وہ لوگ اندر کیمپ میں لگے بمز ایکٹیویشن پر لگا دیں مگر شہیر نے آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ اردگرد کے تمام چودہ بم ڈی ایکٹیویٹ کر دیے، اور انھیں احتیاط سے زمین سے نکال کر درختوں کے تنوں کے ساتھ رکھ دیا تاکہ کسی کا پیر ان پر نہ پڑے جبکہ خود وہ یہ اپنا آخری کام تکمیل دیتے ہی وہاں سے اوجھل ہو گیا اور اس نے اپنے ساتھی کو کیمپ میں داخل ہو جانے کا گرین سگنل پہنچا دیا جسکے بعد ولی اور شہیر کے تمام لوگ آہستگی سے آگے بڑھتے ہوئے کیمپ تک پہنچے، باہر مٹر گشت کرتے سات آٹھ آدمیوں کی خفیہ طریقے سے عقب سے دبوچ کر گردنیں مڑورے انکو جہنم واصل کیا اور خود ولی کی سرپرستی میں کیمپ پر حملہ کیا مگر بہت خاموشی سے۔

"شور شرابہ نہ ہو، گونی تک پہنچنے تک کوئی ہلچل نہ ہو۔ کوشش کرنا کہ ہاتھ پیر استعمال کیے جائیں۔ شہیر کی لوکیشن ٹریس کرتے رہنا"

وہ لوگ کیمپ کے سنسان پڑے وحشت میں ڈوبے کوریڈور میں باری باری کودے اور وہیں رک کر گونی کے آدمیوں کو لیپ میں بم نسب کرتا دیکھتے وہیں رکے۔

"س۔۔سر، یہ تو ۔۔۔۔۔"

ولی کے ساتھ کھڑا اسکا اہل کار خوف سے ہکلایا تبھی ولی نے اسکی طرف خفگی سے نظر ڈالی۔

"وہ منحوس یہ کیمپ اڑانے کے چکر میں تھا، تم لوگ انھیں سنبھالو۔ گونی کو میں دبوچتا ہوں۔۔۔ ٹریگر بم لگ رہے ہیں، سبکی تلاشی لینا مت بھولنا۔ ریمورٹ کسی کے پاس بھی ہو سکتا ہے"

ولی نے انکو بریف کیے خود اپنی گن لوڈ کی اور آفس روم کی طرف بڑھا جہاں سیٹھ گونی، اپنے دو ہیکرز کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھا۔

"سر، مجھے سگنل ملا ہے کہ سارے زمینی بم ڈس کنکٹ ہو رہے ہیں ایک دوسرے سے، لگتا ہے وہ لوگ جانتے تھے زمینی جال بچھایا گیا ہے"

وہ گونی کا ہیکر خاصے مضطرب تاثرات کے ساتھ اطلاع دیے رہا تھا جبکہ اسکی اڑتی کھوپڑی سے ابل کر اسکے منہ پر پھیلتے خون پر ناصرف سیٹھ گونی کی مخدوش حالت پتلی پڑی بلکہ ولی نے دوسری گولی اس دوسرے ہیکر کی کھوپڑی میں ماری اور اس سے پہلے سیٹھ گونی، میز پر رکھی اپنی دونوں گنز اٹھا کر ولی پر تان دیتا، ولی نے بروقت بنا اسے سانس لینے تک کی مہلت دیے اسکی دونوں بازووں پر گولیاں مارتے ہی اندر بڑھ کر اپنی لات گما کر اسکے منہ پر ماری اور پہلی فرصت میں میز پر رکھا ٹریگر ریمورٹ اٹھا کر اپنے کوٹ کی جیب میں رکھا، سیٹھ گونی درد سے بلبلاتا ہوا خون میں لت پت ہو کر زمین پر گرا سسک رہا تھا کیونکہ ولی کا بوٹ اسکے جبڑے کو چیڑ گیا، ولی نے اپنا بھاری بوٹ میں مقید پیر زمین پر تڑپتے گونی کی گردن پر رکھا۔

"فائنلی، مشن کمپلیٹ۔۔۔۔ لولا تو ہو گیا ٹمبر معافیا کا ڈان، لنگڑا تجھ جیسے خبیث کو میرے تھانے کے جلاد کریں گے۔۔۔۔تیرا اور تیری ہر تنظیم کا کھیل ختم سیٹھ گونی۔۔۔۔"

اسکے حلق سے سانس کی عدم دستبابی پر وہ اگلے ہی لمحے کوکتا چینختا ہوا ادھ مرا ہوا ساتھ ہی ولی کے اندر بڑھتے لوگوں نے لپک کر اس زمین پر پڑے خبیث کو اٹھایا اور گھسیٹ کر باہر لے کر نکلے جبکہ ولی نے اپنے دو لوگوں کو ساتھ لیے لیب سے تمام انفارمیشن پہلی فرصت میں اپنے قبضے میں لی اور پھر باہر نکلا جبکہ اس زمین دوز اڈے کو اڑانا بھی ضروری تھا، ولی  اور اسکے تماس ساتھیوں کے باہر آنے پر کیمپ کی ریڈ زون سے باہر نکلتے ہی ٹریگر دبانے پر زمین بری طرح لرزی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کا ایک دیوہیکل ہیولہ سا آسمان کی طرف بلند ہوا اور اس کیمپ کو لمحوں میں آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا۔

جبکہ اپنی اپنی گاڑیوں تک پہنچتے ولی نے سبکو روانہ کیا مگر خود وہ دو لوگوں کے ساتھ وہیں رک گیا، ابھی تک شہیر کی لوکیشن ٹریس نہیں ہوئی تھی۔

"سر، یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ جلد آگ پورے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی"

ساتھ کھڑے اہل کار نے ولی کو سامنے جنگلی راستے کی طرف منہ کر کے کھڑے دیکھ کر نرمی سے حالات کی سنگینی کا بتایا۔

"شہیر کی لوکیشن ٹریس کرتے رہو، جب تک وہ نہ ملے ہم تینوں واپس نہیں جائیں گے۔۔جاو"

شہیر کے تمام لوگ پہلے ہی جنگل پورا چھاننے جا چکے تھے اور خود ولی بھی اسکی اطلاع ملنے تک یہاں سے ہلنے والا نہ تھا اور شہیر کہاں غائب ہوا تھا ابھی اسکی کسی کو کوئی خبر نہ تھی۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ ضرار کے مزید لوگوں کے باعث پہلے سے سخت سیکورٹی میں عبرت ناک حال تک پہنچ چکی تھی، ہاشم سے اس سنگدلی کی تو ضرار کو بھی امید نہ تھی مگر اب وہ عورت اسی سلوک کے لائق تھی۔

اسے زنجیروں سے باندھا گیا تھا، اس بے دردی سے کہ اب تو گلے پر لگے لوہے کہ کانٹے اسکی گردن میں دھنسنا شروع ہوئے جسے خود ضرار نے آدمی کو کہلوا کر اتارا اور چند قدم اٹھاتا عین اس سفاک عورت کے روبرو کھڑا ہوا جو آنکھوں میں اب بھی نفرت کا ابال لیے اسے دیکھ کم گھور زیادہ رہی تھی۔

"میرا تم نے زیادہ کچھ نہیں بگاڑا کنزا مگر میری ماں کو رقابت کا دکھ ضرور لگایا تھا، چلو وہ بھی میرا معاملہ نہ سہی مگر تم نے جو اپنی اولاد کے ساتھ کیا اس پر تمہیں معافی نہ دی جا سکتی ہے نا دلائی جا سکتی ہے۔۔۔ اب دیکھو کب موت تم پر ترس کھاتی ہے، تمہارا وہ ساتھی سیٹھ گونی تو پکڑا گیا، مافیا دی اینڈ۔۔۔ اب ہاشم بزدار تم جیسی نفس کی پجارن کو جو بھی سزا دیں، مجھے دل سے قبول ہے۔ میرا تو خود تمہیں دیکھ کر دل جلتا ہے۔۔۔ محبت کے نام پر کوئی دھبہ ہوگا تو وہ تم ہوگی کنزا، عورت کے نام پر کوئی داغ ہوگا تو وہ تم ہوگی کنزا، انسانیت کے نام پر جو کالک ہوگی وہ تم ہوگی کنزا۔۔۔۔۔"

وہ اپنی تمام تکلیفیں اس عورت کو پسپا دیکھ کر بھول چکا تھا، اس عورت کے سارے ستم اسکی سیاہ آنکھیں سرخ کر رہے تھے اور شاید اب کنزا کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا ہاں اس حسرت کے سوا کہ وہ مرنے سے پہلے ہاشم بزدار کی جان لے کر جائے۔

"ت۔۔تمہارا وہ ہ۔۔ہاشم مجھ سے پہلے مرے گا، اتنا آسان نہیں ہے کنزا ک۔۔کو موت دینا۔۔تم دونوں کو جاتے جاتے بھی گہرا ز۔۔زخم دے کر جائے گی کنزا۔۔۔۔ہاری ہوئی م۔۔مت سمجھنا۔۔۔۔کمزور مت س۔۔سمجھنا"

وہ گردن سے نکلتے خون اور ہاتھوں پیروں میں دھنس جاتی زنجیروں کے لافانی درد کے باوجود پھنکاری، اسکی آواز میں کاٹ کھاتی وحشت تھی۔

"افسوس، خوبخو اپنے منحوس باپ پر گئی ہو کنزا۔۔نہ اسے غیرت ہے نہ تمہیں شرم۔ تم میری ایسی دشمن ہو جسے میری عاجزی بھی ناقابل قبول جانتی ہے ورنہ میثم تو اپنے دشمنوں کو بھی عزت دیتا ہے۔ بناو پلینز، یہیں ہوں۔ اب تمہاری ہار دیکھے بنا کہیں نہیں جانے والا"

وہ اسے جتاتی نظروں سے وارن کرتا ہوا اس ہٹ سے باہر نکل گیا جبکہ وہ بھیانک تیور والی زخمی لومڑی کچھ بھیانک ہی سوچ رہی تھی کہ اسکی آنکھیں جہنم کی طرح سلگ اٹھی تھیں۔

"تم جا کر آرام کرو ٹارزن کی اولاد ، بے فکر رہو اب کنزا میرے غضب سے نہیں بچے گی۔ "

وہیں ہاشم، ضرار کے ساتھ پیش آئے حادثے سے خاصا دہل اٹھا تھا مگر ضرار صاحب کی ضد تھی کہ وہ کنزا کا انجام دیکھے بنا ہلیں گے بھی نہیں، اس نرم دل چچا کا کیا بھروسہ کے اللہ کے نام پر پھر سے کنزا کی جان بخشی کر دیتے جو پہلے ہی انتقام کی آگ سے بھنی بیٹھی کوئی ہیبت ناک منصوبہ بنا رہی تھی سو تبھی ہاشم کی تاکید پر وہ اچٹتی نظروں سے باہر آتے گھورنے لگا، دو تین آدمی ہٹ سے کچھ فاصلے پر لکڑیاں جمع کیے آگ لگانے کا انتظام کر رہے تھے کیونکہ جیسے جیسے رات کٹ رہی تھی، سردی کی شدت جسم و روح کو جمانے لگی تھی پھر میثم کو ایسی ٹھنڈک سوٹ بھی نہ کرتی، اوپر سے جناب نے کندھا بھی سلوا رکھا تھا۔

"اچھا! پر آپ پر اعتبار کرنے کا رسک کیسے لوں ہاشم صاحب۔ اب مزید کنزا سے جڑے کسی فساد کا متحمل نہیں ہو سکتا، اور آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میثم ضرار چوہدری آپ کی رحم دلی سے واقف نہیں"

وہ مسلسل اپنے فون کو ہاتھ اونچا کیے سگنلز کی موجودگی چاہ رہا تھا تاکہ اس سرے پھرے سردار کو تمام سچائی سے باخبر کر سکے جو جبل زاد نے راستے میں ہی اسے پہنچا دی تھی۔

"اب اتنا بھی رحم دل نہیں ہوں لاڈلے، اس عورت کو عبرتناک سزا دوں گا۔ جس نے میری عزت کو تار تار کرنے کی بارہا کوشش کی۔ تم گھر جاو کیونکہ بابا سائیں کا تمہیں پتا ہے وہ سب ٹھیک ہو جانے کے باوجود اپنا بی پی بڑھا چکے ہوں گے۔ اور ویسے بھی تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے، ویسے اس خاقان کا ہاتھ توڑنے کے بجائے گردن مڑور دیتے کم ازکم اس عذاب سے تو جان چھوٹتی۔ مگر تمہیں بھی الٹے الٹے پنگے سوجھ رہے ہیں، مزاق مزاق میں خود کے ساتھ کوئی سنگین وارداد نہ کروا دینا"

اچھا بھلا اپنی صفائی پیش کرتے کرتے وہ میثم پر بگھڑا، بھلا کیا ضرورت تھی اس بڈھے خبیث کو زندہ چھوڑنے کی جبکہ ضرار اس کی تپ پر آگے سے دانت نکالتا دیکھائی دیا۔

"او ہیلو ہاشم صاحب، آپ کی طرح اناڑی نہیں ہوں۔ دشمن دادا جی کو اگر مہلت دی ہے تو صرف انکی ناگہانی موت کا شاہانہ انتظام کرنے کے لیے۔۔۔ویسے بھی آپکی مالنی آرہی ہے، اور مجھے نہیں لگتا اب آپکو جنگل میں منگل کرنے سے کوئی روکنے والا ہے سو کنزا کی عبرت تو گئی پانی لینے سو میری مانیں تو کنزا کا معاملہ مجھے سونپیں، اس ناگن سے آپن کا زیادہ حساب باقی ہے"

فون کے سگنلز آچکے تھے اور اس نے اپنے بے باک الفاظ سے بچارے چچا کے دماغ کی بتی بھی گل کی جو مالنی کے آنے کا سوچ کر ہی پریشان دیکھائی دیا۔

"یار تم نے جبل کو منع کیوں نہیں کیا، یہ کوئی جگہ ہے میرے اور مالنی کے ملنے کی؟"

ہاشم نے بڑبڑانے کے انداز میں اردگرد کا جائزہ لیا جہاں دور دور تک مہیب سناٹا، گھنے درخت تھے جبکہ اس ہٹ کے باہر گرمائش پہنچانے کے لیے آگ لگائی جا چکی تھی جبکہ اندر کنزا موت اور زندگی کی جنگ لڑتی ہاشم کی سزا سے فیض یاب ہوتی ہچکیاں بھر رہی تھی۔

"اہمم اہمم کہیں تو انتظام کروا دیتا ہوں جناب کا مالنی سے ملن کا، لائٹنگ لگواوں، پھول برساوں یا کوئی اور تقاضا ہے آپکا محترم"

بچارے ہاشم کے بوکھلائے تاثرات سے مخظوظ ہوتا وہ بلکل بھی طبعیت ناسازی کے باعث ڈاون نہ تھا بلکہ کنزا کو شکنجے میں جکڑا دیکھ کر اسکی شوخی اور توانائی ازسرنو اس میں لوٹ چکی تھی، اس سے پہلے کہ چچا جان، مکوں سے بھتیجے کی پریڈ کرتے، کچھ فاصلے پر بنی کچی سڑک پر آکر رکی گاڑی نے ان دونوں کی توجہ اپنی سمت مبذول کی۔

"اہمم اہمم بھئی میں تو چلا ایک ضروری کال کرنے، ان گناہ گار آنکھوں سے میں کوئی جذباتی ملن نہیں دیکھ پاوں گا۔۔۔کیری اون بڈی"

شرارت سے آنکھ دباتا معنی خیزی سے چچا کی کٹ لگاتا وہ گاڑی سے نکلتی بے قرار مالنی کو دیکھتا چچا جان کے کندھے سے کندھا مس کرتا وہاں سے گزرتا ہوا گاڑی کی سمت بڑھا جہاں جبل زاد اسکا منتظر تھا، وہ دونوں وہاں سے سگنلز کے باعث کچھ دور چلے گئے جبکہ مالنی کی تو آنکھیں اس شخص کو سلامت دیکھتے ہی بھگیں اور وہ قریب آتے ہی اس شخص سے لپٹ کر ضبط کی طنابیں ٹوٹ جانے پر زارو قطار رونے لگی۔

خود وہ اسکے یوں شدید تڑپ کر رونے پر بوکھلاتا ہوا اپنے بازو اس عزیز لڑکی کے گرد حصار گیا۔

یوں لگا کھویا ہوا سکون لوٹ آیا ہو، ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتی زندگی کسی نے وجود میں واپس پھونکی ہو، تمام لوگ وہاں سے ان دو کے احترام میں غائب ہو چکے تھے جو ضرار نے جاتے ہی سبکو اشارے سے وہاں آس پاس سے غائب ہونے کا حکم دے دیا تھا۔

وہ رونا چاہتی تھی، جی بھر کر کہ اس آغوش کی حسرت اسے ایک لمحے بھی گراں تھی اور وہ تو اس سے دور، موت کے منہ میں کئی گھنٹے گزار کر آئی تھی۔ موت کے منہ سے نکل کر واپس اس شخص کی چھاوں میں آنا انکے زخموں کو ہرا کر گیا۔

ہاشم نے اسکے کانپتے وجود اور باریک کپڑوں سے اسکے ٹھٹرتے جسم کو بھانپتے ہی پہلووں سے تھامے الگ کیا اور اپنی جیکٹ اتارے مالنی کو پہنائی جسے اس وقت صرف آنسو بہانے یاد تھے، اس شکر گزاری پر کہ اس نے خود کو میسر ہر رشتے کا حق ادا کیا ہے۔

"بس مالنی، رو مت۔۔۔۔ "

اس لڑکی کے انمول آنسو گویا ہاشم بزدار کا سینہ جلا رہے تھے مگر وہ اس میں سمو جاتی بس ہچکیوں سے روتی چلی گئی اور خود ہاشم نے محسوس کیا کہ اگر اس نے یہ آنسو رکوا دیے تو وہ اس لڑکی کے دل پر بوجھ بن جائیں گے۔

وہیں دوسری جانب وہ اس لڑکی پر مزید کوئی ستم نہ ڈھا پایا تھا۔

"اٹھیں اور جا کر چینج کریں، آپ کے وجود پر ایسا نازیبا لباس برداشت نہیں کر سکتا۔ اور اب مزید آپ روئیں تو جو آپ کی ناساز حالت کے پیش نظر رحم کیا ہے اسکا ارادہ ترک کر دوں گا۔۔۔ہری اپ"

اسکی آنکھوں سے بہتے آنسووں کو ہونٹوں سے جذب کرتا وہ اسے آزادی دیتے اٹھ کھڑا ہوا جو مشارب زمان خان کی اس بار جبر میں لپٹی ، خفگی بھری آنکھیں دیکھ کر سہمی ہوئی اس کا پھیلا ہاتھ جکڑتی ناصرف اٹھی بلکہ رہے سہے تمام آنسو بے دردی سے رگڑے اس کو شکوہ کناں سرخ آنکھوں سے دیکھتی وہاں سے اس سے پہلے جاتی، مشارب نے اسکا ہاتھ جکڑے واپس پلٹتے ہی اسکی طرف دیکھا۔

"کیا واقعی مجھ سے جڑی محبت آپ نے اپنے دل میں دفن کر دی ہے؟"

اسے زونی کے کہے آخری جملے کی تابناکی سلگا رہی تھی مگر وہ ناں کہنے کی نا پوزیشن میں تھی نہ اقرار کر کے پھر سے بکھرنا چاہتی تھی، اسے سب سے زیادہ تکلیف اب صرف اس شخص کی اجڑی آنکھوں کی محسوس ہو رہی تھی، بخار کی شدت، جسم پر ہوتے تشدد سے بے نیاز اسے صرف مشارب کی اذیت یاد تھی۔

"بولیں زونی، بتا کر جائیں پلیز"

وہ نظر جھکائے اس سے دور جانے کو بیقرار تھی مگر وہ بنا جواب جانے اسے اوجھل بھی نہ ہونے دے سکتا تھا۔

"م۔۔مشارب، ہمیں مزید تکلیف مت دیں۔۔۔ "

وہ اسکا ہاتھ جھٹک کر چھڑواتی اوجھل ہوئی وہیں ضرار کی آتی کال پر وہ بھی بند ہوتے واش روم کے دروازے پر ایک کرب ناک نظر ڈالتا، فون لیے کمرے سے نکلا۔

ضرار نے اسے تمام حقائق سے آگاہ کرنے کے ساتھ وہ نازلی کا خط اور فیلش میں موجود تمام رئیل ڈیٹا اسے ٹرانسور کیا، اس فیلش میں نازلی اور مشارب کی وہ اصل تصویریں تھیں جن میں بظاہر کوئی قربت نہ تھی اور انہی کو فوٹو شاپ کر کے نازیبا بنایا گیا تھا جبکہ اسکے علاوہ اس میں ہاشم اور اس لڑکی کی بھی اصل تصویریں تھیں اور کنزا نے انھیں بھی اسی طریقے سے مرج کیا تھا، ضرار نے مشارب کو تمام سچائی سے واقف کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھا کیونکہ وہ خود بھی کہیں نہ کہیں زونی کو بے قصور سمجھتا تھا، یہ معاملات تھے ہی ایسے کہ ہوش و حواس کھو بیٹھنا کوئی انوکھی بات نہ تھی پھر اس نے اس بار زونین کے لیے بھائی بن کر سوچا تھا، وہ اسے کنزا کی وجہ سے ہمیشہ خود سے دور رکھتا آیا تھا مگر اب جب اس لڑکی کا دامن خالی ہو گیا تھا تو وہ ہرگز اس سے ایک سچے اور مخلص بھائی کے رشتے کو چھیننے پر راضی نہ تھا۔

اس نے مشارب کو زونی کے بارے میں بھی کلئیر کیا جو مشارب پہلے ہی تھا جبکہ وہ اب زونین اور مشارب کے بیچ کسی قسم کی تلخی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔

مشارب واپس کمرے میں آیا تو زونی بیڈروم میں نہیں تھی، شاید فرار کے لیے اس نے خود کو ابھی تک واش روم میں بند کر رکھا تھا تبھی مشارب نے بھی کچھ وقت اسے بھی اکیلا چھوڑا اور خود بھی فون وہیں رکھتا وہ کھلی تازہ ہوا لینے کمرے سے باہر نکلے صحن میں چلا گیا، ویسے تو ہر گھٹن ختم ہو گئی تھی پر زونین کے نشتر جیسے الفاظ پینا اسکے لیے دقت طلب تھے۔

وہ چہرے پر سے آنسووں کے نشانات مٹاتی جب کمرے میں آئی تو مشارب کہیں نہیں تھا مگر اسکا فون بیڈ پر پڑا ضرور رنگ کر رہا تھا اور ہاشم بزدار کی آتی کال پر جب تک وہ فون تک پہنچ کر پک کرتی، کال بند ہو گئی تھی اور ابھی فون زونی کے ہاتھ میں ہی تھا جب اسی ہاشم بزدار کے نمبر سے اسے مالنی کا میسج موصول ہوا۔

جسکو پڑھنے اور وہ تصویر دیکھنے کے بعد زونین کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔

وہ اسے میسج بھیج کر بھی بے قرار تھی اور ہاشم کو اس لڑکی کی بیقراری مزید منظور نہ تھی۔

"ان دو کے بیچ مزید کچھ برا نہ ہو، وہ بہت غصے میں تھے ہاشم۔۔۔"

وہ اسکا فون اسکی طرف بڑھاتی، روہانسی ہو کر بولی جو ایک بازو اسکے گرد حصار کر اسے ساتھ لگا گیا۔

"غصہ اتر جائے گا، ضرار نے مشارب کو انفارم کر دیا اور تم نے بھی اپنا فرض نبھا دیا۔ اب ریلکس ہو جاو مالنی۔۔۔ابھی تو تمہیں کنزا کی موت کی فلم دیکھانی ہے میری بے باک شیرنی"

وہ پہلے ہی بے جان تھی اوپر سے یہ انکشاف بھی اس لڑکی کے اعصاب پر قہر کی طرح برسا۔

"ن۔۔نو ہاشم، میں نہیں دیکھ سکتی انکو مرتا ہوا۔۔۔۔ ان فیکٹ میں کسی کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ آپ کی مجرم ہیں وہ، آپکی فیملی کی مجرم ہیں سو آپ جو مرضی کریں۔۔۔مجھے گھر بجھوا دیں"

وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنی کمزور پڑتی حالت کو چھپا نہ سکی اور ہاشم اس کے ایسے غیر متوقع جواب پر حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا۔

"کیا ہوا ہے تمہیں، ایسی کمزور تو نہیں ہو تم۔۔۔ سمجھ سکتا ہوں تمہارے جذبات مگر وہ اب ناسور بن چکی ہے، ناسور کو نہ کاٹا تو وہ اپنا زہر ہم سبکی رگوں میں اتار دے گی۔ تم جس سچویشن سے گزری ہو، وہ تمہیں توڑ گئی ہے۔۔۔سب سے زیادہ تکلیف اعتبار ٹوٹنے پر ہوتی ہے، میں سمجھ رہا ہوں تمہاری تکلیف"

وہ اسکا پل پل آنسووں سے بھیگا چہرہ تھامے اسکی آنکھوں میں جھانکے بول رہا تھا جو سب جانتے بوجھتے بکھری ہوئی تھی، یہ لمحہ ایسا تھا جیسے کوئی اسکے دل کو مٹھی میں لیے دبوچ رہا ہو۔

"وہ س۔۔سب کر لیتیں پر حفاظت میں خیانت نہ کرتیں ہاشم۔۔۔ انہوں نے مجھے اور زونی آپی کو درندوں کے آ۔۔آگے ڈال کر بہت بری تکلیف پہنچائی ہے۔ اس بری طرح سے اعتبار توڑا ہے کہ ہم دو زندگی بھر بہت مشکل سے کسی پر اعتبار کر سکیں گی۔۔حتی کہ نازلی کے ساتھ بھی یہی درندگی کی۔۔۔ک۔۔کیسے گر سکتی ہیں وہ؟ اگر نازلی مجھے خبردار نہ کرتی ہ۔۔۔ہاشم۔۔۔تو سب ختم ہو جاتا۔۔۔۔ آپکی م۔۔مالنی آپکو کبھی دیکھائی۔۔۔۔۔"

اسکے آنسو تھمے تو کرب بھری سسکیاں بلند ہوئیں اور اسکا آخری جملہ سننے کی اس مضبوط شخص میں بھی تاب نہ تھی تبھی اس نے بے اختیار ہی ان نرم ہونٹوں کی وہ سسکیاں خاموش کرواتے ہی اسکی تھکی رکی سانسوں کے سلسلے کو اپنی سانسوں اور شدتوں کی نرمیوں کے سنگ سمیٹ لیا جو ایسے لمس نشین لمحے سے ہزار ہا مضبوط ہوتی بھی جسم و جان ٹوٹتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔

"ایسا کبھی بھول کر بھی مت کہنا دوبارہ، تم دیکھائی دو گی تبھی اس شخص کا دل دھڑکے گا۔۔۔ سب بھول جاو، میں ہوں تمہارے ساتھ۔ اب تمہیں خود سے دور کرنے کا سوچوں گا بھی نہیں۔۔۔ تمہاری ہر تکلیف کا مرہم ہاشم بزدار ہے، تم خود نہیں جانتی کہ کتنوں کی زندگی بچانے کا سبب بنی ہو۔ پہلی جان تو تم نے میری بچائی ہے، مت رو پلیز۔۔۔ مجھے وہ مالنی چاہیے جو ہاشم بزدار کے چھکے چھڑوا دیتی ہو، یہ نہیں جسکے آنسو نہ تھمیں"

وہ اپنی شدت بھری پیش قدمی سے اس لڑکی کی آدھی تکلیف تو دور کر ہی چکا تھا پھر وہ اسکی بے خود خواہش پر افسردہ اور بوجھل سا مسکائی۔

اسکی بے قرار آنکھیں بھی، ہاشم کی آنکھوں کا طواف کرتی ہوئیں مسکرائیں۔

"اب وہ والی مالنی تو رخصتی کے بعد ہی ملے گی آپکو ماسکو، ابھی تو جو شاکس لگے ہیں ان سے نکلنے کے لیے مجھے آپکی بہت ساری بے باکیاں درکار ہیں۔ ایکچولی میرا انرجی لیول آپ سے جدائی میں خطرناک حد تک لو ہو گیا ہے"

اسی روتو چہرے کے سنگ شکوے کرتی وہ اپنی بازو اسکی گردن میں پھیلائے بولی تو جناب نے اردگرد کے خطرناک ماحول کے پیش نظر دل دھڑکتا محسوس کیا، ان کے لوگ یہیں آس پاس مٹر گشت کر رہے تھے تبھی وہ تھوڑا محتاط تھا۔

"میرے بھروسے رہو گی تو تمہارا انرجی لیول خطرناک حد تک ہائی کر دوں گا، پھر لو کرنے کے لیے کچھ اور خطرناک سا کرنا پڑے گا جو ابھی ممکن نہیں"

زرا سا اس لڑکی کے کان کی اور جھک کر جناب کی بے خود معنی خیز سرگوشی پر مالنی کے چہرے پر سرخیاں سمٹیں، ہزار بے اختیار ہونے کے باوجود اسے خود پر اختیار باندھ لینا ہی عافیت لگا۔

"بہت برے ہیں آپ"

چہرے پر چھلکتے حیا و شرم کے باعث خون سے دہک اٹھتے گالوں والی نے بھی جوابا دلنشین سرگوشی کی۔

"جنگل میں صرف ہلکے پھلکے رومینس کا مزہ ہے ، باقی کے لیے بزدار حویلی زیادہ سوٹ ایبل ہے۔۔۔ ویسے بھی مجھے ابھی بہکنا ہرگز نہیں میری جان، اس سے پہلے کہ تم مجھے اپنی قربت کے نشے سے گھائل کر دو، دور ہو جاو تھوڑی"

وہ اسکے وجود سے اٹھتی حدت سے فیسنیٹ ہوتا اس سے الگ ہونے کی کوشش میں تھا مگر مالنی نے اسے پوری قوت سے ٹائیٹ ہو کر جکڑا۔

"ہاشم میں آپکی جان لینا چاہتی ہوں"

وہ مخمور سی خماری میں لپٹی جناب کو ٹف ٹائم دے رہی تھی۔

"لے لینا، تفصیل سے۔۔۔۔پر جب موقع دوں گا۔ اس سے پہلے کہ میرا وہ الٹے دل اور دماغ والا بھتیجا ہماری اس کلوز پوز میں وڈیو بنا لے، دور ہو جاو۔۔۔ اسکے ہاتھ وڈیو لگی تو سمجھو ہاشم بزدار کی عزت کا فالودہ ہو جائے گا، ویسے بھی اس وقت میری نیت خراب ہونے میں دیر نہیں لگے گی، ایک تو ماحول جنگلی اوپر سے میرے ارادے جنگلی"

وہ اسے آزاد کرنے کے حق میں تھی ہی کب، سانسیں سینے میں جم جاتیں اگر اس شخص نے اسے پھر سے سزا سنائی ہوتی، جبکہ خود ہاشم بھی لاکھ دامن بچانے کے باوجود اسکے کانپتے وجود کو تھامے، خود میں بسائے، کہاں چاہتا تھا کہ وہ اب اس سے لمحے کے لیے بھی دور کی جائے۔

"مزاق سوجھ رہا آپکو، یہاں میری جان نکلی ہوئی تو آپکا فرض میرے سہمے دل کو اپنی محبت بھری شدتوں سے شانت کریں۔ بہت ڈر گئی تھی ناں ہاشم کی مالنی، لگا آپکو کبھی نہیں دیکھ پاوں گی اور یہ ڈر پہلی بار مالنی کو کپکپا کر رکھ گیا۔ ک۔۔کیوں ہو گئے ہیں آپ میرے اتنے قریب؟"

وہ اسکے دانستہ فرار کرتے انداز بھانپتی روبرو ہوئی اور اسکی شکوہ کناں نظریں کہاں اس بندے سے سہنی آسان تھیں پھر جس طرح وہ جان نکال لیتی تاسف اور تڑپ کے سنگ سوال کر رہی تھی، ہاشم نے بے اختیار ہی اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرا۔

"کیونکہ تم میرے قریب ہی سجتی ہو مالنی، ڈر تو ہاشم بزدار بھی گیا تھا۔ سب میری غلطی ہے، میری اس عورت کو دی رعائیت سب کے گلے کا پھندا بننے والی تھی، کتنا سنگدل ہو گیا تھا پر تم نے محبت پر لگا کر میرے اندر پھر سے نرمی بھر دی۔۔۔۔اب نو مور سیڈنس۔۔۔کنزا کا انجام مل کر کریں گے اور جس طرح میں نے اپنے اندر کی نرمی نوچ پھینکی ہے ویسے تم بھی پھینک دو۔۔۔ اب تمہیں میرے ساتھ ہی رہنا ہے، میرے ساتھ ہی ایک سفر شروع کرنا ہے۔۔۔ اور رہی بات تمہارے سہمے دل کو شانت کرنے کی تو میرا ساتھ اسکے لیے کافی ہونا چاہیے"

وہ اس لڑکی کو ابھی کے لیے صرف اپنا ساتھ ہی دے سکتا تھا مگر وہ کیا کرتی جو ہاشم کی محبت بھری شدتوں کے لیے دل کو مچلتا محسوس کر رہی تھی۔

"اوکے پھر مجھے بھجوا دیں حویلی، آپکے قریب رہ کر صبر کا دامن تھامے رکھنا اب مجھ سے نہیں ہوگا ہاشم۔۔۔ میں پہلے ہی بہت ڈاون فیل کر رہی ہوں۔۔۔ اب آپ میرے پاس تبھی آنا جب صبر کرنے کا جبر ہمارے بیچ نہ ہو"

وہ جس طرح اداس ہوتی پرے سرکی، ہاشم نے بے قراری سے اسے واپس حصار میں لیا۔

"مالنی! "

وہ اسے روکنا چاہتا تھا پر وہ رک نہیں سکتی تھی۔

"پلیز ہاشم، جانے دیں ناں۔۔۔ مجھ سے نہیں ہو رہا"

وہ اس بار باقاعدہ رو دینے کو تھی تبھی تو ہاشم نے پکڑ کر اسے گلے لگا لیا، اک محبت بھری ڈھارس اور سکون تھا جو اس لڑکی کی رگ رگ میں اترا۔

"کہیں نہیں جا رہی تم، سمجھی۔۔۔۔ اور کس نے کہا ہمارے بیچ کسی قسم کا جبر موجود ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں تم اپنی آنکھوں سے اپنی گناہ گار منہ بولی ماں کی عبرت دیکھو ہر تکلیف سے آزاد ہو کر، اب بس۔۔۔۔ تمہیں اس سچویشن میں نظروں سے اوجھل کرنے کا ظلم نہیں ڈھا سکتا ہاشم بزدار"

وہ اسکی ہر بات ان سنی کیے ان بوجھل سانسوں کو نرمی سے مہکائے اسے خود میں شدت سے سمو چکا تھا جبکہ اس طرز کی رعب دار جسارت پر وہ کیسے ہلنے کی بھی ہمت کر سکتی تھی بھلا؟؟؟

وہیں ضرار نے جبل زاد کو واپس تو بھجھوایا مگر نصیر کی خیریت دریافت کرنے کی بھی تاکید کی جو اب خطرے سے باہر تھا مگر ان لوگوں نے اسے بہت بری طرح پیٹا تھا سو زخموں کو مندمل ہونے پر وقت لگتا۔

جبکہ خود جب تک ضرار واپس آیا، آگ کے اردگرد کرسیوں پر بیٹھے ہنس کے جوڑے کو دیکھ کر وہ بھی ساری شرارت زائل کرتا ، مسکراتا ہوا ان دونوں کی طرف بڑھ گیا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

گہری تاریک رات کی مخملی ٹھنڈک اسکے وجود کو حصارے ہوئے تھی، وہ چینج کر چکی تھی پر بخار اور جسم کے ناسوروں نے اسکا گلاب چہرہ بوجھل اور مرجھا دیا تھا، نجانے کیوں پر اسے کچھ نہ ہونے کے باوجود خود سے وحشت محسوس ہو رہی تھی۔۔ اگر مالنی اسے نہ بچاتی تو وہ اب تک اس وحشی درندے کی درندگی کا شکار ہو جاتی، تب بھی اسے خود سے الجھن ہوئی، یہ سوچ کر کہ اس منحوس خریدار نے ناجانے اسے کیسی کیسی نظروں سے دیکھا ہوگا، اگر مشارب اسے تھوڑا بہت قریب نہ کرتا تو وہ واقعی اس سچویشن میں تھی کہ یا تو مر جاتی یا اسے مار دیتی مگر وہ اسکے ٹوٹے بکھرے وجود کو ایک حد تک یکجا کیے خود کے بپھرے جذبوں پر بند باندھ چکا تھا کیونکہ اب اسے زونین کی روح کے زخم پہلے بھرنے تھے۔

وہ بالکونی میں خود کے گرد شال کو مضبوطی سے جکڑے، کہر ناک اندھیرے سے ہمکلام ہوئے گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی اور پھر اس نے واپس ہاتھ میں پکڑا مشارب کا فون اپنے روبرو کیا۔

وہ اس تصویری خط کو کئی بار پڑھ چکی تھی ، اور اپنے کچھ گھنٹوں پہلے کے پاگل پن پر اب وہ مشارب کا سامنا کرنے سے گھبرا رہی تھی۔

"ہم نے وہ سب کیسے کہا۔۔ یا اللہ ہمیں کہیں روپوش کر دیں۔ ہم کیسے سامنا کریں گے مشارب کا"

موبائیل وہیں ملحقہ سائیڈ میز پر رکھتی وہ اس سے پہلے نانو کے کمرے میں جانے کے ارادے سے بھاگنے کو مڑتی، سخت طریقے سے وہ ٹکڑائی اور وہ کوئی ٹکرانے کی شے نہیں، کچھ وقت لان میں اپنی تکلیف پینے کے بعد قدرے بہتر ہو کر واپس آتے مشارب زمان خان کا چوڑا سینہ تھا۔

زونی نے بنا اسے دیکھے کترا کر گزرنا چاہا مگر اس نے بلا جھجک اسے کلائی تھامے اسے جانے سے روک کر آہستگی سے اپنے حصار میں سمویا۔

"دیکھ نہیں رہیں، زیادہ بدگمان ہو گئی ہیں یا یقین آگیا آپکو مجھ پر۔۔۔اب تفصیلی گفتگو پر آنا چاہیے۔۔۔یہاں آئیں"

وہ اپنے فون کو اسکے ہاتھ میں دیکھ کر سب جان چکا تھا تبھی متوقع سوالات کرتے ہی اس ٹھنڈک اوڑھتی رات سے اسے واپس روم میں ناصرف لایا بلکہ بالکونی کا دروازہ بند کیے اپنے روبرو بیٹھائے خود بھی چہرے پر چھائی کرب و اضطراب کی خماری پڑے کیے بیٹھا۔

وہ ہنوز سر جھکائے کسی پریشان خیال کے سنگ خزن و ملال میں مبتلا تھی۔

"ہ۔۔ہمیں نانو کے پاس جانے دیں۔۔۔پلیز"

وہ اسکے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنے ہاتھ کو جکڑتا محسوس کرتی بہت بے قرار تھی مگر مشارب نے اسکے فرار کو بری طرح ناکام کرتے، اسکی آنسووں سے دھندلائی آنکھیں خود پر جمانے کو ٹھوڑی سے پکڑے چہرہ اٹھایا اور وہ آنسو ضد کے پاش پاش ہونے پر اس لڑکی کی نیلی آنکھوں میں امڈے تھے۔

"پہلے نانو کے پوتے کو کلئیر کریں، ثبوتوں کی محتاج نہیں ہوتی محبت۔۔۔ دنیا لاکھ کہتی مگر آپ مجھ سے بدگمان نہ ہوتیں۔۔۔۔"

اس شخص کے لہجے میں دکھ تھا تبھی تو وہ اسکے الٹا شکوہ کناں ہونے پر برہم ہوئی۔

"ہم آپ سے بدگمان آپ کے کہنے پر ہوئے، آپ نے خود۔۔۔"

اس سے پہلے وہ روہانسی ہو کر کہتی رو دیتی، مشارب نے اسکے ہونٹوں پر انگلی جمائی اور اس شخص کی یہ حرکت زونی کو تڑپا گئی۔

" آپکے قریب سب بھول جاتا ہوں اور اس روز بھی یہی ہوا اور آپ نہ صرف مجھ سے دور چلی گئیں بلکہ اس روز مجھے بے آبرو کرنا چاہا۔۔۔یہ ہم دونوں کا نہایت پرسنل معاملہ تھا جس میں آپ نے سبکو شامل کیا۔پھر بھی میری غلطی آپ سے بڑی ہے زونین، تبھی آپکو کوئی سزا نہیں دی، آپ کو پہلے بدگمان کیا پھر اس بدگمانی پر یقین کی مہر بھی خود لگائی، آئی ایم سوری۔۔۔۔ لیکن آپ نے بھی کم ستم نہیں ڈھائے، جانتی تھیں ناں کہ آپکے بغیر مشارب کی زندگی کھوکھلی سانسوں کے سوا کچھ نہیں پھر بھی ہر بار مجھ سے دور بھاگیں۔

آپکے ہر ظلم کے باوجود آپکو اپنے بے حد قریب رکھتے ہوئے اپنی سچائی سمجائی ہے، اپنے دل کی آواز آپکے دل میں منتقل کی، اپنی سانسیں آپکے بکھرے وجود پر لباس کی طرح اوڑھی ہیں۔ میں نے بہت سی خطائیں کی ہیں اور مجھے آپکے معاملے میں اخیر آزمایا جا چکا ہے مگر اب میں تھک چکا ہوں"

وہ اسکے نرم ملائم ہاتھ کو تھامے، ہتھیلی اپنے چہرے سے لگائے بوجھل غمزدہ لہجے میں بولا جبکہ وہ گہرا سانس کھینچتی دل کو تقویت دینے لگی کہ اس سے مشارب کا بکھرا کمزور لہجہ سہنا مشکل تھا۔

"وہ نازلی نامی لڑکی ہمارے بیچ بھلے ہوا کے بدن جھلساتے جھونکے کی طرح آئی ہو مگر یہ جو آپ میرے پاس صحیح سلامت موجود ہیں، صرف اسکی کی گئی تلافی کے باعث ہیں۔ اور مالنی، جسے آپ نے اپنے ساتھ مشکل میں ڈالا، وہ پھر محافظ بنی۔ میں نے اس سچائی سے پہلے سوچ لیا تھا کہ کنزا کے اس نازلی نامی مہرے کو بھی موت کی سزا سناوں گا پر اب نہیں دے سکتا۔ اہم گناہ اور زیادتیاں نہیں ہوتیں، اہم گناہوں کی توبہ اور زیادتیوں کی تلافی ہوتی ہے جو اس نے کر دی۔۔۔"

وہ سب جانتا تھا، یہ جان کر زونین کی آنکھیں بھیگ گئیں، یعنی وہ میسج اور ضرار کی بروقت کی گئی کال ان دونوں کے بیچ کے ہر پردے کو چاک کر گئی تھی۔

جبکہ آج بہت دنوں بعد اس لڑکی کا ہوش لوٹا تھا تو یہ کوڑوں کی طرح برستے انکشافات اسکو دہلا گئے، نیلی آنکھوں میں سرخائی گھلنے لگی۔۔

"ہم اپنی ہ۔۔ہر غلطی مانتے ہیں لیکن ہم ک۔۔کیا کرتے۔۔ ہم بہت ٹوٹ گئے تھے، م۔۔مما نے ہم کو ذہنی اور جسمانی تکالیف دے کر ن۔۔نڈھال کر دیا تھا۔۔۔ ہ۔۔ہم آپکے ساتھ کسی کا س۔۔سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔ ہ۔ہم نہیں جانتے کہ کیوں وحشی ہو گئے تھے۔۔۔۔ "

آنسووں کی بہتی شدت نے اس لڑکی کا وجود لرزایا تبھی تو مشارب زمان خان اسکی پسپائی مزید نہ دیکھ پایا اور آہستگی سے اس جھکی آنکھوں والی کو خود میں سمو گیا۔

"دوبارہ آپ روئیں تو میں وحشی ہو جاوں گا زونی، بہت مشکل سے خود پر اختیار پائے بیٹھا ہوں۔ ورنہ جس قدر آپ نے مجھے کچھ دیر پہلے اذیت دی تھی، ہمارے بیچ کی ساری حدیں آج بے وقت پار ہو جاتیں۔۔۔ اور میں نہیں چاہتا کہ آپ کبھی میرا کوئی بھیانک روپ دیکھیں۔۔۔۔ کل آپ واپس جائیں گھر اور پورے حق سے یہاں رخصت ہو کر آئیں۔۔۔باقی حساب تفصیلا چکتا کیے جائیں گے"

وہ اسے برا آزما چکی تھی اور اس شخص کی تکلیف اسکے جملوں میں سرائیت کر چکی تھی۔

"ہ۔۔ہم رونا چاہتے ہیں، و۔۔ورنہ دم گھٹ جائے گا"

وہ اس کے سینے میں دبک کر ہچکیوں سے سسکی۔

"اور آپکے آنسو جو میرا دم گھوٹیں گے اسکا حساب کون دے گا لیڈی،"

وہ ہر طرح اس پر حاوی تھا، اسکی ٹوٹتی کمزور سانس، اپنی ادھوری سانس سے پوری کرتا ہوا وہ اپنے کرب بھلانے کی پوری کوشش میان تھا اور وہ اس شخص کے سامنے نظریں اٹھانے کے لائق بھی خود کو نہیں سمجھ رہی تھی۔

"آپ ہ۔ہمیں معاف کر دیں گے ناں؟"

وہ اسکی ہری آنکھیں کھوجتی تاسف سے بولی، آواز کو آنسووں نے نگلا۔

"آپ مجھے معاف کریں گی؟"

وہ الٹا اسکی بے داغ گال پر بکھرتی نمی اپنے ہاتھ کی پوروں میں جذب کرتے سوال کرتا، زونین کی آنکھوں میں تکلیف بھر گیا۔

"ہ۔۔ہم زیادہ گناہ گار ہیں"

وہ جیسے تڑپ کر بولی تھی، بلکہ اعتراف کیا تھا۔

"آپ جان بھی لے لیں تب بھی یہی کہوں گا، آپکے بغیر جینا ناممکن ہے۔۔۔ یہ جو ہم نے برداشت کیا یہ مکافات تھا ، ان ناکردہ گناہوں کی سزا تھی جو ہم نے کیے تو نہیں لیکن ہم انکی تپش کے دائرے میں آتے تھے"

اسکے لہجے میں ان کہا ملال تھا، کھارا پن تھا۔

"اب آپ جائیں اپنی نانو کے پاس، کیونکہ آپکو اپنے قریب افورڈ نہیں کر سکتا آج۔ مزید کوئی غلطی نہیں کروں گا، نہ آپکو کرنے دوں گا"

وہ اسے بہت جبر کے سنگ خود سے دور کرتا ناصرف خود اٹھا بلکہ اپنا ہاتھ بھی زونی کے روبرو پھیلایا جسے جکڑتے ہی وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

اسکا بخار تو سردار صاحب کے مرہمی بوسے پی چکے تھے پر وہ اپنے وجود پر ہوئے تشدد سے آدھی اور نڈھال لگ رہی تھی۔

"ہمیں خود سے د۔۔دور مت کریں، ہمیں آپ کی ضرورت ہے"

اس شخص کی آنکھوں میں دیکھ کر کہنا مشکل تھا تبھی سینے سے لگ کر یہ قہر ڈھا رہی تھی جو تلخ سا مسکرائے اپنے بازو اس لڑکی کے گرد حصار گیا۔

"لیکن مجھے خود کو بہتر کرنے اور سنبھالنے کی ضرورت زیادہ ہے، آپ پاس رہیں لیڈی تو کوئی نئی خطا سرزد ہوجائے گی اور میں اب ایسا کوئی رسک نہیں لے سکتا جو مجھے آپ سے دور کرنے کا سبب بنے۔ ویسے بھی سونا چاہتا ہوں، آپ کی موجودگی مجھے آپ سے جڑے سکون کے علاوہ کسی آرام کے قریب بھٹکنے نہیں دے گی۔۔۔۔ اماں سائیں بھی پریشان ہوں گی، جائیں اور اپنا خیال رکھیں۔۔۔ "

وہ صاف اور بے باک لفظوں میں اپنے دل کا بہکتا احوال کہے اسکی گردن پر بنے نشان پر نرمی سے ہونٹ رکھتا پیچھے ہٹا جو آنکھوں میں تاسف سا سمیٹ لاتی اسکے فاصلہ بنانے پر افسردہ ہوئی۔

"ہم بھی اب ک۔۔کوئی پاگل پن یا خطاء نہیں کریں گے، آپ پہلے جیسے ہو جائیں۔۔۔"

وہ اسے یوں بکھرا ہوا مزید تکلیف دے رہا تھا تبھی وہ لہجہ مضبوط بناتی اسکی متورم ہو جاتی آنکھوں میں جھانکی پھر ہمت کیے ان آنکھوں کو اپنے ہونٹوں سے چومتی آزاردہ ہوئی۔

"پہلے کی طرح ملیں گی تو وہ بھی ہو جاوں گا، ابھی خود کو اچھا محسوس نہیں کر رہا اور نہیں چاہتا آپ میری زرا سی بھی تکلیف دیکھیں"

وہ اسے یہ سب کہہ کر مزید مضطرب کر چکا تھا جو اسکی حالت دیکھتی واپس پلٹی اور اپنے دونوں گرم حدت پکڑتے ہاتھوں میں مشارب کا چہرہ بھرا۔

"ا۔۔ایسے تو مت کریں۔۔۔ہم آپکے پاس ہ۔۔ہیں مشارب "

وہ شکوے بھی جان لیوا کرتی تھی اور یقین بھی دل دہلاتے دے رہی تھی۔

"آپ پاس ہیں تبھی تو زندہ ہوں، آپکو آرام کی ضرورت ہے زونی،۔۔ جائیں پلیز۔۔۔ ابھی اکیلا چھوڑ دیں مجھے"

وہ اس کے روبرو کمزور پڑنے سے خود کو روکتا اس بار جس طرح تلخی سے بولا، وہ تمام تر خواہش کے بھی اسکا حکم رد نہ کر سکی۔

"ہم نانو کے پاس جا رہے ہیں مگر ہم جانا نہیں چاہتے تھے یاد رکھیے گا۔۔۔ خود کو تکلیف نہیں دیں گے پہلے وعدہ کریں۔۔۔ورنہ ہم باہر ہی بیٹھ جائیں گے روم کے دروازے کے ساتھ"

وہ جس طرح یقین مانگ رہی تھی، مشارب کو اس وقت سنگدل لگی۔

"پلیز زونی۔۔۔ "

اس شخص کی جان لیوا تنبیہہ کا اثر تھا یا پھر شدت بھری اس نگاہ یار کا کہ زونین ، تمام تر اداسی اور تکلیف کے اس سے دور جانے پر مجبور ہوتی جب دروازے تک پہنچی تو دل نے کہا مڑ کر دیکھے۔

"پیچھے مت پلٹیے گا ورنہ کہیں جانے نہیں دوں گا لیڈی"

اسکے ارادے کو اپنی جان لیوا تنبیہہ سے بری طرح توڑ گیا اور وہ بنا اسے دیکھے ہی آنکھیں رگڑتی اسکے کمرے سے نکل گئی جبکہ مشارب نے درد دیتے سر کو انگلیوں سے مسلتے خود کو بھی بستر پر ڈھیلا چھوڑتے ہی گرا دیا، وہ واقعی ایک پرسکون نیند کا طلب گار تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ضرار تک خبر پہنچا دوں گا بے فکر رہو، یار مجھے تو نازلی کے لیے اب تشویش ہو رہی، اسکے ساتھ کچھ ہو نہ گیا ہو۔۔۔"

سعدیہ الگ کب سے روئے جا رہی تھیں اور کاشف کی خود بھی نازلی کی گمشدگی پر جان ہوا ہو رہی تھی تبھی دروازے پر ہوتی دستک پر وہ فون کان سے لگاتا ہی بولتا ہوا باہر نکلا مگر دروازہ کھولتے ہی اسکے چہرے کی رنگت سفید پڑی،لب حیرت سے وا ہوئے، فون کا تو اسے دھیان ہی نہ رہا۔

اس سے پہلے وہ آگے بڑھتا، خود ہی سعدیہ صاحبہ اسے پرے کرتیں اداس سی نازلی کا ہاتھ پکڑے اندر لائیں اور روتے ہوئے گلے سے لگایا۔

"آگئی ہے نازلی، اب تو کہاں ہے یہ بھی بتا دے۔۔۔ میرے لوگ تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ پھاوے ہو گئے ہیں اور وہ تیرا رقیب ولی بھی ساری رات وحشی جنگل میں ہی بدروحوں کی طرح تجھے تلاش کرتا رہا"

کاشف نے دروازہ بند کیے پلٹ کر ماں کی لاڈیاں دیکھیں جن کا بس چلتا تو نازلی کو سینے میں گھوٹ ڈالتیں جبکہ دوسری طرف ایک کریانہ کی دکان پر کھڑا شہیر وہیں کے فون سے کال ملا رہا تھا، اسکی طبعیت کچھ بگھڑی دیکھائی دی۔

"میں نے ابھی وہاں بھی پیغام بھیج دیا ہے، دراصل ضرار کے لیے بچھائے جال میں پھنس گیا تھا، گولی بازو کو چھو کر نکل گئی۔۔۔ مجھے لگتا ہے خاقان نے ضرور ایسے مزید جال بچھا رکھے ہوں گے"

وہ اپنی بازو کی طرف دیکھتا خاصے فکر مندانہ انداز میں اطلاع دے رہا تھا جبکہ گولی کا سن کر کاشف کے چہرے کی بھی ہوائیاں اڑیں۔

"گولی لگی ہے تجھے۔۔۔کہاں ہے تو، بتا میں لینے آتا ہوں"

کاشف کی تڑپ دیدنی تھی تبھی تو شہیر بوجھل سا مسکرایا۔

"نہیں یار، پہلے ولی سے ملوں گا۔۔۔۔ ایک ملاقات کر لوں اس سے پھر واپس آتا ہوں۔۔۔ نازلی ٹھیک ہے ناں؟"

اس شخص کے لہجے میں اداسی تھی اور شہیر کے سوال پر کاشف نے گردن موڑی جہاں سعدیہ ، نازلی کا احوال دریافت کرتیں اسکی تلافی کی داستان سن کر آبدیدہ ہوئے جا رہی تھیں جبکہ کاشف نے جن نظروں سے اس معصوم سی دنیا کے فتنوں سے سر تا پا گھائل لڑکی کو دیکھا اس میں محبت اور تقدس بھرے جذبات موجزن تھے۔

"شاید وہ اب بہت زیادہ ٹھیک ہے، تیری خفاظت رائگاں نہیں گئی شہیر۔ نہ صرف اس لڑکی نے اپنی عظمت کا حق ادا کیا بلکہ میری تڑپتی ماں کا سہارہ بن کر مجھ اوباش کو بھی گھر کی فکروں سے دور کر دیا۔ تو ہر معاملے میں ایسے ہی سرخرو ہوگا، یہ تیرے اس جگری یار کی دعا ہے۔۔۔ زخم پر مرہم رکھ لینا ورنہ انفیکشن ہو جائے گا"

ناجانے کیوں پر کاشف اسکے لیے بہت پریشان تھا، وہ شہیر کی مشکل زندگی کا سب سے بڑا چشم دید گواہ تھا پھر گلی کوچوں میں بھٹکے ہوئے وہ دو آوارہ ساری زندگی ایک دوسرے کے مددگار رہے تھے۔

"مرہم تو اس لڑکی سے لگواوں گا جو میری زندگی کا وسیلہ بنی ہے، اور ہاں میری خواہش پر دو دن سوچ لے۔۔آکر تیرا اور نازلی کا کوئی فیصلہ کروں گا۔۔۔۔ میرے خیال میں بیوی والا ہو جانا، چھرے لفنگے سے قدرے پیاری پوسٹ ہے۔۔۔۔چل بائے، نازلی سے کہہ دینا میں اس سے بلکل ناراض نہیں ہوں، بلکہ خود چاہتا تھا وہ اپنے سنگین گناہ کی ایسی ہی شاندار تلافی کرے۔۔۔پہلے نہیں پر اب وہ تیرے لیے بلکل پرفیکٹ ہے۔۔۔ نہ تو دودھ کا دھلا ہے نہ وہ اتنی پرفیکٹ۔۔۔خوب بنے گی جب مل بیٹھو گے"

دانستہ مسکراتے لہجے میں وہ اس یار کو بہت سی خوبصورت ہدایات بخشتا کال کاٹ چکا تھا جبکہ کاشف نے واپس گردن موڑے نازلی کی طرف دیکھا، جو سعدیہ صاحبہ کو کچھ بتا رہی تھی۔بے اختیار جب نظریں پھیریں تو کاشف سے جا ملیں، عجیب سا احساس تحفظ تھا، عجیب سی سرشاری اور خوشی تھی جو میسر ہوتی خوشیوں کو تسیلم کر لینے سے وجود کی تابناکی اور بوسیدگی کو دور کر چکی تھی۔

محبت یہی نہیں کہ کسی نیک کو پارسا سے ہی ہوتی ہو، محبت تو کسی بے کار کو کسی گناہ گار سے بھی ہو جاتی ہے، اور یہ خود رو پودا بے وقت ہی دل کی زمین پر پھوٹتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہوتی کب اس پر کھلے پھول، دل کی دنیا کو مہکا ڈالتے ہیں۔

ہلکی ہلکی سحر پھیلنے لگی تھی، ولی کے دونوں لوگ ولی سمیت واپس تھانے آچکے تھے، جنگل میں کافی حد تک آگ پھیل جاتی مگر بروقت رات کے کسی مبارک پہر برستی بارش نے اس ہیبت ناک آگ کا پھیلاو روک دیا، ولی نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر سیٹھ گونی کو عدالت پیش کرنا تھا، جبکہ اسکے بعد قانون اس مافیا ماسٹر کے ساتھ کیا کرتا یہ سوچنا ہی ہیبت ناک تھا مگر ولی زمان خان کی اس کئی سالا محنت کے ثمر نے اسکے رینک ضرور بڑھانے کے وسیلے بنا دیے تھے، اور پھر میڈیا پر ولی زمان خان اپنے پورے رعب کے سنگ رات سے صبح تک کی ہر خبر میں موجود تھا، اور ولی جانتا تھا ونیزے اسکے رات گھر نہ آنے کا سبب جان چکی ہوگی تبھی اس نے اس لڑکی کو انفارم بھی نہ کیا، اس وقت اسے صرف شہیر مجتبی کا انتظار تھا جو اس ایریا سے بچ بچائے نکلتا ہوا بازو کو بنا کوئی مسیحائی دیے ہی سیدھا ولی زمان خان کے تھانے کی طرف بڑھ رہا تھا۔

"سر شہیر آیا ہے"

وہ ونیزے کو میسج ارسال کیے عقب سے بلند ہوتی آواز پر پلٹا تو اس شخص کے آنے کی خبر نے اسکے تنے اعصاب بحال کیے، دور پار فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔

"کیسا ہے؟ سلامت ہے ؟"

ولی کے غیر متوقع سوال پر اسکا ساتھی بھی مسکرایا جبکہ ولی اپنے اس سوال پر خود کی سرزنش کرنے لگا۔

"کافی مرجھایا ہوا ہے، ویسے سلامت ہے"

اہل کار نے مسکراہٹ دانتوں میں ہی دابے اطلاع دی اور ولی تھوڑا متفکر ہوا، چونکہ شہیر نے سیاہ جیکٹ پہن رکھی تھی سو اسکی زخمی بازو فی الحال دیکھائی دینے سے قاصر تھی مگر خون اسکی بھوری شرٹ پر دھبوں کی صورت نشانات چھوڑ چکا تھا جو کھلی جیکٹ سے آویزاں تھے تبھی اس نے تھانے میں انٹر ہوتے ہی جیکٹ کی زیپ سینے تک بند کر لی تھی۔

"بھیجو اسے"

شاید یہ پہلی بار تھا کہ وہ شہیر مجتبی کا سامنا کرنے سے کترا رہا تھا، شاید سب بدل گیا تھا، ولی خود بھی اس محبوب کے محبوب شخص کے لیے اپنی سنگدلی ترک کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

"کیسے ہو انسپیکٹر ولی زمان خان"

وہ درد کا کوئی اثر خود پر نہ آنے دیتا ازلی مسکراتے زچ کرتے انداز میں اسکے کیبن میں داخل ہوا تو ولی نے محسوس کیا واقعی اس شخص کا چہرہ مرجھایا ہوا اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

"کہاں غائب ہو گئے تھے تم؟"

دھچکا تو اتنی تمیز اور فکر پر شہیر کو لگا جو بے تکلفی سے مسکراتا ہوا ولی کے سامنے والی کرسی سنبھالتے سنبھالتے ٹھٹکا۔

"اوہ، میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا، میری فکر نے تو اس سر پھرے انسپیکٹر کی رنگت سفید کر دی۔ ویسے بہت مبارک ہو، انسپیکٹر سے سیدھے ڈی آئی جی بنو گے، اڑتی خبر سن کر آرہا ہوں۔۔۔تمہارا پولیس ڈیپارٹمنٹ تمہاری اس کارکردگی سے بہت خوش ہے"

وہ بنا اسکے سوال کا جواب دیتا الٹا ولی کو سراہنے لگا جبکہ شہیر کا لفظ لفظ ولی کے دل کو بوجھل کرنے لگا تبھی وہ بھی اپنی کرسی پر ڈھیلا ہو کر بیٹھا۔

"تم نے کیا سب،لیکن کریڈٹ مجھے دے دیا۔۔۔ایسا کیوں کیا تم نے شہیر؟"

ولی کے سوال میں عجیب سی تکلیف امڈی تھی اور شہیر کا دل سکڑ کر رہ گیا تھا، درد رگ رگ میں سرائیت کرتا محسوس ہوا۔

"کچھ بہت بڑا چھینا ہے تو اس سے بڑھ کر واپس بھی دینا تھا، ورنہ وہ چھینا ہوا مجھے راس نہ آتا۔ تمہارے جیسا حوصلہ مند، باہمت، نڈر اور دنیا دار انسان اس منسب کا حقدار ہے، مجھ جیسے تو خوشیاں چھیننے میں ماہر ہوتے ہیں۔۔ میں بھی تھا ماہر لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ مجھے خوشیاں پھیلانے میں مزہ آنے لگا، میں ساری زندگی تمہارے لیے بنا معاوضہ کام کر سکتا ہوں ولی زمان اور سارے کریڈٹ خوشی خوشی تم پر وار کر بھی اس چھینے ہوئے کا کفارہ ادا نہیں کر سکتا۔۔۔۔"

اس شخص کے لہجے کی اذیت پر ناچاہتے ہوئے بھی ولی کی آنکھوں میں سرخائی سی گھلی، وہ اسکی ان ادھوری جان لیوا تمہیدوں سے واقف تھا تبھی ولی کی تکلیف ، شہیر سے زیادہ تھی۔

"انسان اور مرتبے دو الگ چیزیں ہیں، فرق ہوتا ہے"

ولی کے جواب نے شہیر کے دل کو کاٹ ڈالا تھا، اسے لگا جیسے ولی سب جانتا ہو تبھی شہیر کے چہرے پر پریشانی امڈی۔

"کچھ نہ ادا کرنے سے بہتر ہے کچھ ادا کر دیا جائے، اوقات کے مطابق۔۔تم یہی سمجھو مجھ جیسے تہی دامن شخص کے بس میں یہی تھا، میں تمہیں انسان نہیں دے سکتا تھا، مرتبہ دے دیا۔ وہ بھی اس لیے کہ تم حق دار تھے، میں نے صرف مدد کی"

وہ پشیمان تھا، اسے لگا وہ ولی کے آگے بہت کمتر ہے۔

"میں تمہیں وہ انسان بخوشی دے رہا ہوں، اس لیے نہیں کہ تم نے مجھے بہت بڑا مرتبہ دیا۔ اس لیے کہ تم نے مجھے غلط ثابت کیا۔ مرتبے میرے لیے اہم نہیں، ولی زمان خان محبتوں کی اہمیت بلکل اسی طرح جانتا ہے جیسے تم اس سب سے واقف ہو۔"

اس شخص کے لہجے میں محبت امڈی پھر کڑواہٹ نے اسکا لہجہ کسیلا کیا اور شہیر ساکت و بے حرکت سا اسکی طرف غائب دماغ ہوئے دیکھنے لگا۔

"میں نے ماں باپ کے ہوتے ہوئے انکی کمی کو برسوں جیا ہے، اپنے خاندان کی سفاکی کے باعث ان سب سے کٹ کر رہا، اس کمزور وقت مجھے اس محبت نے سنبھالا تھا جو مجھے وری سے ہے، لیکن مجھے وری کی بدولت تم سے بھی انس ہو گیا، اسی لمحے جب ادراک پایا کہ وہ لڑکی میری محبت کی شدت کی ہر کشش کے باوجود تمہاری انمول چاہت کی گرویدہ ہوتی گئی"

شہیر کے چہرے پر تھکن تھی تو خود ولی زمان خان دل پر رکھے گراں بوجھ سے آزاد ہو گیا۔

"تم نے خود کو اس لڑکی کے لائق بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے، میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ جس طرح میں وری کو چاہتا ہوں، انکے حساس دل کا دھیان رکھوں گا ویسا کوئی نہیں کر پائے گا ، تبھی محبت کے بعد اس اذیت نے پہروں جہنم سے گزرا کہ ایسا کون ہے جو انکی زندگی کا اس آسانی سے حصہ بن گیا۔ لیکن وہ تم ہو ، اس سچائی کو جان لینے کے بعد میری اس لڑکی سے جڑی ہر فکر دور ہو گئی"

ولی کا ہر آزاد لفظ، شہیر کی تکلیف بھی کم کر رہا تھا مگر یہ لمحہ خزن اسکے چہرے سے الگ ہوتا یہ ممکن نہ تھا، اسے لگا اسکا مضبوط دل پھٹ جائے گا۔

"محبت تبھی وصل بنتی حسین لگتی ہے جب انس دونوں دلوں میں ایک جیسی شدت سے موجود ہو، یک طرفہ محبتیں اکثر مجھ جیسے حوصلہ مندوں کے حصے اس لیے رکھی جاتی ہیں تاکہ لاحاصلی کے باوجود وہ قابل برداشت ہو جائیں۔۔۔۔ میری وری کے لیے محبت، تمہارے بارے جان کر ہر طلب سے آزاد ہو گئی ہے شہیر۔۔۔"

وہ اس عزیز لڑکی کو، اس اچھے انسان کے لیے آزاد کرتے ہوئے بادشاہ لگا، ایسا انسان جو دل کا واقعی درویش ہو، شہیر کی آنکھیں تابناک اذیت کی زد میں تھیں۔

"محبت درحقیقت عادت اور فکر کا مرکب ہی تو ہے شہیر مجتبی۔۔۔ جو مجھ جیسے حوصلہ مند کو اس لڑکی سے بھی ضرور ہوگی جس نے میری طرح یک طرفہ محبت کرنے کا عظیم معرکہ سرانجام دیا ہے۔۔۔ میں اپنے آدھے صلے کو اسکے آدھے صلے سے جوڑ کر ہم دونوں کے صلے اور حاصل کو پورا کروں گا۔۔۔۔۔ "

اس جملے نے خود ولی کی تکلیف ختم کی اور شہیر کا احساس ندامت رفع ہوتا گیا۔

"بنا معاوضہ تو بس محبت کی جاتی ہے، تم اب سے اپنا ہر کریڈٹ اپنے لیے سنبھالنا، تمہیں آگے بڑھتا دیکھ کر وہ لڑکی خوش ہوگی اور تمہارے آگے بڑھنے میں اور وریشہ یوسف زئی کی خوشی میں ہی اب ولی زمان خان کی ہر خوشی شامل ہے"

وہ مسکرایا تھا، اپنی بھرپور خوشی کے سنگ جبکہ اس نے شہیر کی پھیری دھندلائی آنکھیں دیکھنے کی غلطی نہ کی اور اپنی نشت سے اٹھا اور عین شہیر کے پاس آکر رکا۔

"اگر واقعی تمہاری خبر سچی ہوئی کہ مجھے ڈی آئی جی کا رینک ملنے والا ہے تو ابھی والے ولی زمان خان کی طرح نائنٹین پی پی ایس کے ایس ایس پی کی جوائنگ کے لیے مائینڈ بنا کر رکھنا۔ تمہارا کوئی بہانہ نہیں سنوں گا ۔ اب جاو، خون کافی بہہ چکا ہے۔۔۔ وریشہ سے اپنی مرہم پٹی کرواو۔۔۔ "

بنا اسکی طرف دیکھے بھی وہ شہیر کی جیکٹ کے آدھے کھلے گلے سے اسکی شرٹ پر بکھرتا خون دیکھتے نرمی سے پاس آکر رخ موڑے کھڑا بولا اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا کیبن سے نکل گیا جبکہ شہیر مجتبی کا بے اختیار ہاتھ اسکے دل پر جکڑا تھا۔

اور آج شہیر مجتبی کو علم ہوا تھا کہ محبتوں کا کاروبار کرنے والے لوگوں کو اللہ کبھی خسارے سے دوچار نہیں کرتا ، نہ خسارہ ولی کو ملا نہ شہیر کو، وہ جو دو آنسو ولی کے اس درجہ بڑے پن پر شہیر کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے، وہ بتا رہے تھے وہ اچھی صحبت سے تھوڑا نہیں بہت زیادہ اچھا ہو گیا تھا۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"سردار! وہ گولی۔۔۔۔وہ شہیر کو لگتے لگتے رہ گئی"

اس وقت ایک تو اس بستر مرگ پر پڑے ٹوٹے ہاتھ کے کرب سے بلکتے خاقان کی اپنی اذیت ہی بہت تھی اوپر سے یہ ناکامی گویا اسکے اندر کی آگ دہکا گئی، حکیم کے دیے جڑی بوٹیوں کے لیپ کے باعث وہ پہلے سے درد تو کم محسوس کر رہا تھا پر ضرار کی جان بچنے پر وہ حلق تک کڑوا ہوا۔

"ا۔۔۔ایسے۔۔۔کئی۔۔۔کئی جال پھیلا دو۔۔۔ضرار ک۔۔کو زندہ نہیں چ۔۔چھوڑوں گا۔۔۔فورا ا۔۔۔اپنے لوگوں کو ک۔۔کہو کنزا ک۔۔کو ان من۔نحوسوں سے چھ۔۔چھڑوائیں۔۔۔۔اب۔۔وہ۔۔وہی ہے آخری مہرہ۔۔۔ وہ۔۔وہی لے گی اسکی ج۔۔جان۔۔۔۔ج۔۔جلدی کرو"

ہاشم نے کنزا کو پرانی جلی خانم حویلی کے قریب ہی بنے اسی حویلی سے ملحقہ ہٹ میں رکھا تھا اور رات ہی خاقان کے آدمی جو اسکو بہتر ہوتے دیکھ کر واپس اسکے ساتھ مل گئے تھے، انکی خبر پہنچا چکے تھے تبھی خاقان خان نے وہیں پاس ہی درختوں کے جھنڈ میں وہ گن مین تعینات کروائے تاکہ اگر ضرار دیکھائی دیتا تو وہ اسے مار دے مگر شہیر کا چونکہ فون گر کر ٹوٹ گیا تھا سو وہ خود ضرار کو خاقان خان کی چال کا بتانے گیا تھا جو مرحوم زمان خان کے آدمی نے اس تک پہنچائی تھی چونکہ شہیر، زمان خان کے ساتھ ہی زمین داری کرتا رہا تھا سو وہ آدمی شہیر کا بھی وفادار تھا تبھی اس نے خاقان خان اور اسکے آدمی کی ساری باتیں رات ہی سن لیں جس میں وہ ضرار کے قتل کا حکم دے رہا تھا تبھی شہیر اس وقت اپنا کام مکمل کرتے ہی ضرار کی طرف روانہ ہوا، چونکہ اس نے ضرار کی جب لوکیشن ٹریس کی اسکے بعد ہی اسکا فون گر کر ٹوٹا جبکہ وہ اس طرف گیا مگر ضرار تک تو نہ پہنچا البتہ خاقان کے اس آدمی نے اسے کسی دشمن کے مغالطے میں گولی ضرور ماری جو شہیر کی بروقت مزاحمت کے باعث اسکے بازو کو چھو کر نکلی جبکہ جس وقت وہ زخمی ہو کر وہاں سے بھاگا، انہی آدمیوں میں سے ایک نے شہیر کا چہرہ پہچان لیا۔

شہیر نے اپنے لوگوں کو اسی زخمی حالت میں جنگل کھوجتے ہوئے ڈھونڈا اور پھر انکے ہاتھ ضرار کے نام محتاط رہنے کی خبر بھیجی جبکہ ولی کے نام اپنی خیریت کی، اسکے بعد وہ کافی دیر خود بھی اپنے لوگوں کے ساتھ ضرار لوگوں کو تلاش کرتا رہا تھا مگر جب تکلیف سہنی محال ہوئی تو وہاں سے مجبورا باہر نکل آیا۔

تبھی اس نے یہ معاملہ کاشف کو بتانے کے لیے پی سی او کا فون استعمال کیا تھا جو خود بھی اب تک اس معاملے کو دیکھنے کی اسے یقین دہانی کروا کے اپنے مزید لوگ روانہ کر چکا تھا۔

"جو حکم سردار، اب جا کر اسکے سینے پر گولی ٹھوکتے ہیں۔۔۔"

وہ آدمی اس بڈھے منحوس کی ہدایت پر منتفر سا بپھری موج بنا اسکے کمرے سے نکل گیا جبکہ حقارت اس لاغر بڈھے کے انگ انگ سے ابل رہی تھی۔

وہیں رات تو ٹھنڈ اور آپس میں گفتگو کے بیچ گزر گئی تھی مگر اب کنزا کا اختتام کر کے وہ تینوں بھی واپسی کا فیصلہ کرنے کے حق میں تھے۔

وہ ساری رات کنزا کا سامنا کرنے کی ہمت جمع کرتی رہی مگر اسکا دل اس سفاک سوداگرنی کا چہرہ دیکھنے پر بھی راضی نہ تھا مگر ہاشم نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے جکڑے اندر قدم بڑھائے جہاں پہلے ہی کرسی پر نوابی انداز میں بیٹھا ضرار، بڑی فرصت سے کنزا کی ابتر حالت دیکھنے میں محو تھا۔

آہٹ پر کنزا نے اپنا جھکا سر اٹھایا تو ہاشم اور مالنی کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اندر آتے دیکھ کر پھنکاری جبکہ مالنی کی سوجھی ہوئی آنکھوں میں تکلیف نے نمی بھری مگر ہاشم نے اسکے ہاتھ پر دباو ڈالے تحفظ کا احساس بہم پہنچاتے اسے مضبوط کیا۔

"ک۔۔کیوں کیا آپ نے ہم تینوں کے ساتھ یہ ظلم۔۔۔ کیا ہو جاتا اگر آپ توبہ کر لیتیں، آپکے ہر ستم کے باوجود آپکی تکلیف مجھے بوجھل کر گئی۔ مما کہا ہی ن۔۔نہیں سمجھا بھی تھا۔ بہت دکھ دیا آپ نے، بہت"

وہ فیصلہ لے کر آئی تھی کہ کچھ نہ بولے گی پر اس عورت کو آخری سانسیں گھسیٹتا دیکھ کر مالنی کا نرم دل پھڑپھڑا اٹھا، جبکہ ہاشم اور ضرار کی آنکھوں میں ایک سی حقارت تھی۔

جبکہ باہر ضرار کے آدمی کے اشارے پر ضرار ان دونوں کو محتاط رہنے کا اشارہ دیے خود اس کی بات سننے باہر آیا جس نے نجانے ایسا کیا بتایا کہ ضرار کی آنکھوں میں نفرت چھلک آئی۔

وہ اسی لمحے واپس اندر آیا، ہاشم کو اشارہ کیا جو مالنی کا ہاتھ چھوڑے ایک طرف اسکی بات سننے آیا۔

"کیا ہوا ضرار؟"

ہاشم کو وہ متفکر لگا۔

"دشمن دادا جی بری طرح چارج ہو گئے ہیں، مجھے انکا سر کچلنا ہوگا۔ اس کنزا نامی نحوست کا کام تمام کرتے ہی آپ مالنی کو لیے بزدار حویلی نکل جائیے گا۔ پلیز بڈی، کوئی مزید رائتہ مت پھیلائیے گا اسے جلدی ختم کریں، مجھے جانا ہوگا، میرا فون سوئچ آف ہوگیا ہے، پہنچ کر اشنال کو بتائیے گا میں بلکل ٹھیک ہوں۔ رات تک میں بھی پہنچ جاوں گا۔ باہر میرے آدھے لوگ یہیں ہیں، محتاط رہیے گا"

وہ اسے اپنے جانے کا بتا کر پریشان کر چکا تھا جبکہ ہاشم کو اسکی خود سے زیادہ فکر تھی۔

"لیکن وہاں خطرہ ہو سکتا ہے"

ہاشم کو تشویش ہوئی۔

"وہاں میثم ضرار چوہدری کے معیار کا خطرہ ہے تبھی خود جا رہا ہوں۔ ٹیک کئیر"

اجلت میں تائید کرتے ہی وہ وہاں سے نکل گیا جبکہ خود ہاشم نے بھی جیسے اپنی گن جکڑے کنزا پر ہر صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے ہی جھٹکے سے تانی، اور مالنی بھی سہم کر ہاشم کے پاس آتی اس سے لپٹی اور چہرہ بھی اسکے سینے میں چھپا لیا۔

"کوئی آخری خواہش؟ آئی تھنک اتنی زلالت کافی تھی۔۔۔۔ اب مرنا ہوگا تمہیں کنزا۔۔۔۔۔۔"

وہ بھی جیسے اب مزید اس عورت کی چلتی سانسیں برداشت نہ کر پایا اور وہ مجبور اور بے بس کر دی گئی کنزا دونوں پر طنزیہ نظریں ڈالتے ہی چہرے پر منصوعی اذیت و ملال لے آئی جو اسکی ڈس لیتی اداکاری کا آغاز تھا۔۔

"ہاں۔۔آخری بار مالنی کو گلے لگانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ احساس ہو گیا کہ بہت گناہ کیے ہیں۔ معافی مل نہیں سکتی اور آج موت ٹل نہیں سکتی سو یہ احسان کر دو، پھر تمہاری دی موت بھی قبول کر لوں گی"

اس عورت کی خرافاتی ہنسی اندر جبکہ مگر مچھ کے آنسو بظاہر چہرے پر پھیلے جبکہ اسکی خواہش نے جیسے ان دو پر وقتی سناٹا اتارا، اسکی اداکاری دل نرم کر دینے کی حد تک جاندار تھی، کنزا تھی وہ آخر۔

ماہر کھلاڑی۔۔۔۔

کئی لمحے کے لیے جیسے ماحول پر سکتہ طاری ہو گیا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ایک ایمرجنسی پیشنٹ کے آنے کی وجہ سے وہ آج ہوسپٹل کچھ جلدی آگئی تھی، کل شہیر کے جانے سے اب تک وہ اسے بہت مس کر چکی تھی مگر چونکہ وہ کچھ وقت کی آزادی مانگ کر گیا تھا تبھی وری نے اسے نہ میسج کیا نہ کال کر کے تنگ کیا پھر صبح صبح ولی زمان خان کی کامیابی کی خبر جب اس نے اپنے روم میں لگے ٹی وی پر چلتی دیکھی تو اسکی اداسی قدرے رفع ہوئی۔

"کامیابی کے لیے بہت مبارک باد ولی، آپ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں"

پیشنٹ کے معائنے سے فارغ ہوتی وہ اپنے کیبن کی طرف آتے ہی ساتھ میسج ٹائپ کر رہی تھی اور پھر اس نے سمائیلی فیس کے سنگ ولی کو بھیجا جو اس وقت ونیزے کی خیر خبر لینے اور فریش ہونے گھر جا رہا تھا۔

میسج ٹون پر جناب نے فون اٹھائے دیکھا اور وریشہ کا پیغام آج اسے افسردہ نہیں بلکہ نہال کرنے کا سبب بنا۔

"آئی نو بائے دا وے ٹھینک یو ، ایک پیشنٹ ریفر کیا ہے آپکی طرف۔ اسکا خاص خیال رکھیے گا وریشہ، سپیشل آپ سے ٹریٹمنٹ لینے آرہا ہے"

جوابی میسج ہلکی پھلکی شرارت سے ٹائپ کیے وہ بھیجتے ہی گاڑی ایک بکے کی شاپ پر روک چکا تھا، رات کی غیر خاصری کے لیے معذرت سے بھرا پھولوں کا گلستہ تو اب ضروری تھا وہیں وریشہ کو اسکے پیغام پڑھنے کے بعد دو جھٹکے لگے، ایک ولی کا اسے وری کے بجائے وریشہ پکارنا دوسرا اس پراسرار پیشنٹ کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کرنا۔

اور یہ دونوں جھٹکے وریشہ یوسف زئی کی جان نکالنے کو کافی تھے۔

اس سے پہلے کہ ولی کواس الجھن سے چھٹکارے کو کال کرتی، اسکے ہاتھ اسکے کیبن پر ہوتی دستک سے رکے ، فون بے اختیار ہی سائیڈ پر رکھتی اس سے پہلے وہ روپنگ چئیر سے اٹھتی، شہیر مجتبی کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر پہلے تو وہ گلاب کی طرح کھلی مگر جیسے ہی اسکی کھلی جیکٹ سے جھانکتی شرٹ پر خون دیکھا، وہ پریشانی کے سنگ اسکی طرف لپکی۔

"شہیر!۔۔یہ کیا ہوا ہے تمہیں؟"

وہ اسکی جیکٹ آہستگی سے اسکے وجود سے اتار کر اسے سے پہلے خون نکلنے کے صحیح پوائنٹ تک پہنچتی، وہ اسے زخمی بازو کے سنگ ہی لپٹ گیا، نہ صرف لپٹا بلکہ وریشہ کی جان تب نکلی جب اسے اپنی گردن پر نمی محسوس ہوئی، کیا وہ رو رہا تھا؟ وہ برف کی طرح جم کر رہ گئی، اس شخص کے آنسو اسکی جان پر بنے، سانس روکنے لگے۔

"ش۔۔شہیر، میری جان کیا ہوا ہے۔۔۔ یہاں دیکھو"

وہ خود کو بھی اسکی تکلیف اور اس بکھری حالت پر اس سے پہلے رونے پر لگاتی، زرا حوصلہ کیے اسے خود سے علیحدہ کرتی اسے دیکھنے کی سعی کرنے لگی جو اس وقت اسکی گردن میں منہ چھپائے صرف آنسو بہا رہا تھا اور نہیں چاہتا تھا وہ اسکے آنسو دیکھے۔

وریشہ کی جان تو لبوں تک تب آئی جب وہ اسے شدت سے خود میں بھینچے اسکی شہیر کو دیکھنے کی ہر کوشش ناکام کر رہا تھا۔

"شہیر،۔۔سامنے آو ، مجھے زخم دیکھنے دو۔ کیوں تم وریشہ کی جان نکال رہے ہو۔ تمہیں یوں نہیں دیکھ سکتی، بتاو مجھے کس نے تکلیف دی ہے۔ وریشہ اسے چھوڑے گی نہیں۔۔۔۔"

وہ بہت ہمت کرتی اسے بکھرے وجود کو خود میں سمیٹتے اسکی پشت سہلاتی رندی آواز کے سنگ بولی، اسکی آواز بھیگی تو وہ بھی گہرا سانس بھرتا اس لڑکی پر یہ ڈھایا ستم سمیٹتے روبرو ہوا تو واقعی اسکی سرخ آنکھیں، اجڑا بے حال خلیہ وریشہ کا دل کچل گیا۔

"تم روتے بھی ہو؟ روتو کہیں کے۔۔۔ بولو کیا ہوا ہے۔۔۔یہاں آو، میرے پاس بیٹھو۔۔۔۔زخم دیکھنے دو ناں، بہت خون بہہ گیا ہے"

وہ اس وقت بہت مشکل سے خود کو سنبھال پایا تھا پر اس لڑکی کی محبت بھری باتیں مزید جان لیتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں، اول جملے کہتی وہ اسکا چہرہ تھامے وہ سارے آنسو ہٹائے مسکائی اور پھر اسے پکڑ کر باقاعدہ صوفے پر بٹھاتی خود اسکی کبھی بازو دیکھ رہی تھی کبھی پھیری ہوئی دردناک سرخ آنکھیں۔

"گولی لگی ہے؟ کس نے کی یہ حرکت۔۔۔۔ درد سے تو تم رونے والے نہیں ہو، بتاو ناں شہیر۔۔۔۔ دیکھو میں روئی ناں تو تمہیں رونا بھول جائے گا"

اسکی شرٹ آہستگی سے اسکے وجود سے اتارتی وہ اسکے بھیانک زخم سے نظر چراتی اسکے چہرے کی طرف دیکھتی تاسف سے بولی جو سر اٹھائے اس مسیحا کو دیکھتے ہی اسکا وہی ہاتھ جکڑتا اپنے ہونٹوں سے جوڑے انہی سرخ آنکھوں سے اسکی لٹائی فکر اور بچوں کی طرح ٹریٹ کرنے پر حسین سا مسکرایا۔

"تم یاد آرہی تھی، بس اور کچھ نہیں۔۔۔۔ چھو کر نکلی ہے، کسی اور کو لگنی تھی۔"

اپنی آواز کو وہ ہر ممکنہ بحال تو کر چکا تھا پر اس شخص کے رونے نے اسکا لہجہ مزید بھاری کیا تبھی تو وہ شہیر کو روہانسی ہو کر دیکھتی جھکی اور اسکی گال پر پیار دیے ساتھ ہی مزید خود کو بہکانے سے روکتی اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے اپنا کام کرنے لگی۔

زخم کو پہلے بہت نرمی سے صاف کیا، خون اسکی ویسٹ تک پھیلا تھا جو سیاہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آرہا تھا پر وریشہ نے اسکے سینے تک پھیلے خون کو صاف کیا تو نظر بے اختیار اس گولی کے نشان پر گئی جو اس نے ماری تھی تو وہ اپنے آنسو روک نہ سکی۔

زخم زیادہ گہرا نہیں تھا تبھی سٹیچیز کی خاص ضرورت نہ تھی، وہ اسکے زخم کو بینڈج لگانے کے دوران آنسو بمشکل روکے رہی، اس بیچ اس نے مزید کسی پیشنٹ کو ڈیل نہ کرنے کی اطلاح بھی باہر بھیجوائی تھی کیونکہ ابھی وہ شہیر کے علاوہ کسی کا سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

شہیر نے زخم کو مسیحائی عطا ہوتے ہی ہاتھ بڑھاتے ہی اس لڑکی کو اپنے پاس بٹھایا، دونوں اس وقت ایک جیسے مرجھائے ہوئے تھے، اس نے وریشہ کا ہاتھ پھر سے چوما، وہ کچھ بول پانے کی کنڈیشن میں اس وقت بلکل نہیں تھا۔

"کچھ دیر گھر چلے جاو اور آرام کر لو، میں بھی چلتی ہوں ساتھ۔ تم ابھی اگر اپنے رونے کی وجہ نہیں بتانا چاہتے تو میں فورس نہیں کروں گی۔ راستے سے تمہارے لیے کچھ نئے کپڑے لے لیں گے، جا کر چینج بھی کر لینا یہ تو سب خراب ہو گئے، رات مشکل تھی تمہاری، ان پیاری آنکھوں نے سب بتا دیا ہے۔ تم مجھے اپنی تکلیف بتا دینا تاکہ میں اسے دور کر دوں۔۔۔ انکار مت کرنا"

وہ اسے خاموش دیکھ کر خود ہی نرمی سے اسکی بیرڈ میں ڈوبی گال سہلائے بولی جبکہ اس وقت وہ واقعی وریشہ کو قریب چاہتا تھا، پوری دنیا کو چھوڑ دینا چاہتا تھا۔

"ہمم، تمہارے پیشنٹس کا کیا ہوگا"

اسے وریشہ کے مریضوں پر ترس سا آیا۔

"آج وریشہ اور کسی کی نہیں ہے، یہ پکڑو کی۔۔جا کر گاڑی میں بیٹھو۔۔۔میں لیو لے کر آتی ہوں۔۔۔۔"

قریب سے اٹھتی وہ میز تک گئی اور بیگ سے گاڑی کی چابی نکال کر اس نے اٹھ کر کھڑے ہوتے شہیر کو تھمائی اور پھر خود ہی اسے وہی شرٹ واپس پہناتے ہی اس سے پہلے کیبن سے نکلتی، شہیر نے اسکی کلائی جکڑے جھٹکا دے کر قریب کیے بازووں میں جکڑا جو آنکھوں میں تڑپ لیے اسکی سرخ سوجھی آنکھیں دیکھ رہی تھی۔

"آئی ایم سو۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اس لڑکی کو زحمت میں ڈالنے پر معذرت کرتا، وہ اسکے ہونٹوں کی اس حسرت کو اپنے دنیا جہاں کے لذت آمیز لمس سے رد کرتی بنا اسے دیکھے ہی سرخ رو ہوئے کیبن سے نکلی جبکہ وہ بھی گہری سی سانس کھینچتا جیکٹ اٹھا کر پہنتا کیبن سے نکل گیا۔

لگ بھگ پانچ منٹ بعد اس نے وریشہ کو بیگ تھامے، ہاتھ میں فون جکڑ کر باہر آتے دیکھا اور وہ گاڑی میں جب آکر بیٹھی تو شہیر نے اسکے کندھے پر سر ٹکائے آنکھیں موندیں تبھی ہر افسردگی کے باوجود وہ اسکی گال سہلاتی مسکرائی، سیٹ بیلڈ باندھا اور گاڑی سٹارٹ کی، مال تک پہنچ کر اس نے گاڑی روکی تو جناب نے بھی نازک کندھے پر سے سر کا بوجھ ہٹایا اور وریشہ کو جانے کی اجازت سونپی۔

اسے دس منٹ لگے تھے اور محترمہ ناجانے اس کے لیے کتنے کپڑے خرید لائیں، اور وہ اسکی اس درجہ فضول خرچی پر منہ بگھاڑے آتا دیکھنے لگا جو تمام شاپنگ بیگز پیچھے رکھتی واپس آکر ساتھ سوار ہوتی بیٹھی۔

"فضول حرکت تھی یہ بیوی"

وہ اسکے اتنا سب خریدنے پر خفا ہوا جبکہ وریشہ نے اسکا سر پکڑے اپنے کندھے سے جوڑا مسکرا کر بنا کوئی جواب دیے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

گھر پہنچنے تک جناب غنودگی میں ہی مبتلا رہے اور پھر گھر انٹر ہونے کے بعد اس سے پہلے وہ تھکن سے برے حال پر وہیں سٹنگ ایریا کے صوفے پر ڈھے جاتا، وریشہ نے اسکا ہاتھ پکڑے اپنی طرف کھینچا جو اسکے نازک سراپے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔

"پہلے چینج کرو، احتیاط سے نہانا کہیں زخم میں پانی نہ جائے۔ اور پلیز ان بالوں کو کوئی پونی لگا لینا، چڑئیل لگ رہے ہو ان کے کھل جانے پر۔۔۔میرے روم کے ڈریسنگ پر تمہیں سادہ سے ہیر بینڈ مل جائیں گے"

ایک سادہ گرم جرسی شرٹ اور گرم ٹراواز والا شاپنگ بیگ شہیر کو تھماتی وہ اسے چینج کرنے کے لیے روانہ کرتی بولی جسکا اس وقت منہ دھونے کا بھی دل نہ تھا۔

"مجھ سے نہیں نہایا جائے گا، رہنے دو بیوی"

وہ اکتاتے ہوئے منہ بسور کر بول کر وریشہ کو بھی مسکرانے پر اکسا گیا اور اسے شدت سے خود میں سمو بیٹھا جس نے بڑی بے مروتی سے جناب کے گرد بندھے بازو ہٹائے گھوری سے نوازا۔

"اوکے میں خود تمہیں کوٹ کوٹ کے نہلاتی ہوں، پھر اچھا رہے گا۔ شیم شیم ہوئی تو مجھے مت کہنا"

شرارتی ہنسی ہنستی وہ بچارے کو دہلا گئی جو اس سے کپڑے باقاعدہ جھپٹ کر جوابا بوکھلائے تاثرات کے سنگ سرد سا گھورا۔

"رہو یہیں، بہت بگھڑ گئی ہو تم۔۔۔ آتا ہوں۔۔۔۔۔"

رعب واپس لائے وہ خاصے مغرور پن سے ہچکچاہٹ مکمل دباتا کہہ کر اوجھل ہوا تو اسکے حیا دار ہونے کا احساس کرتی وہ الگ ہی سرشار سا مسکراتی خود جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گئی، تاکہ جب تک وہ نہاتا، وہ اسکے لیے کچھ فٹا فٹ کھانے کو بنا لیتی کیونکہ اسے یقین واثق تھا کہ شہیر نے کچھ کھایا نہیں ہوگا۔

وہیں دوسری طرف ونیزے نے رات ولی کو بہت مس کیا تھا، اوپر سے رات موسم بھی ایسا خوفناک اور گرج دار ہو گیا تھا کہ وہ مدت سے اکیلے رہنے والی ونیزے بھی سہم کر موہوم نیند سے اٹھ گئی تھی۔

ناشتہ اس نے بے دلی سے ہلکا پھلکا کر لیا تھا اور اسکے بعد وہ شاور لے کر نکلی، عام سی چیک گرے شرٹ اور وائیٹ ہی ٹائیٹ میں ملبوس اپنے گیلے نیم سنہری بال ڈرائے کرنے میں مصروف تھی جب مانوس سی اور منفرد سی خوشبو گڈ مڈ ہوئے اسکے ناک میں گھسی تبھی ولی کا خیال کرتے ہی وہ پلٹی تو جناب کو واس میں وہ خوبصورت سرخ گلاب کے پھول سجاتے دیکھ کر نہ صرف مسکرائی بلکہ ڈارئیر وہیں ڈریسنگ پر رکھتی وہ لپک کر ولی تک پہنچی، یہ احساس دلفریب تھا۔

"اب سے یہ واس خالی نہیں رہے گا، کیسی ہو شکارن، رات ڈری تو نہیں"

وہ ان خوشبو اگلتے پھولوں پر نگاہ ڈالتا اپنی ایک نئی عادت کی اطلاع سونپے اس پاس آکر کھڑی ہوتی مسکراتی لڑکی سے پوچھتے بولا جسکے آدھے بھیگے بال اسکے حسن میں اضافے کا سبب تھے اور پھر آج ولی کو اسکی آنکھیں بھی حلقوں کی زد سے نکلی ہوئیں اپنے جیسی رنگ بدلتی حسین دیکھائی دیں۔

"یقینا مجھ سے کہیں اہم معاملہ ہوگا جو آپ رکے یہی کہہ کر دل کا ڈر دور کرتی رہی، لیکن بارش بہت تیز ہوئی۔۔۔جیسے یکدم قہر اترا ہو۔۔۔۔ ڈری پھر بھی تھی، تھوڑی سی"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتی صاف گوئی سے بولی تو ولی نے بھی مسکرا کر اسے بازو کھولے خود میں سمویا کیونکہ جانتا تھا وہ اس لمحے یہی نرمی سے گلے لگ جانا چاہ رہی تھی اور سچ میں وہ اسکے وجود کی گرمی سے اپنے جسم کے ہر قہر ناک اثر کو زائل ہوتا محسوس کر رہی تھی۔

"تم سے اہم۔۔۔اممم سوچنا پڑے گا"

وہ سنجیدگی تو اس گھر سے باہر ہی رکھ آیا، یہاں آکر اسے اب سے صرف ونیزے حسن کی مسکراہٹ بڑھانی تھی۔

"آئی مس یو ولی، نیند نہیں آئی مجھے..بے سکون رہی۔۔۔۔ "

وہ اسکی قربت میں مخمور ہو کر جذب سے بولی جس پر ولی نے اسے شانوں سے تھامے روبرو کیا اور اسکے چہرے کو دیکھنے لگا۔

"کہو تو ابھی سونے کا سیشن کر لیں مس شکارن، وہ کیا ہے کہ میں بھی اس وقت سونے ہی آیا ہوں بہت تھکا دینے والی رات تھی۔ اپنے ان ہاتھوں کا مزیدار سا بریک فاسٹ کرواو اور اپنا سکون مجھ سے لوٹ لو۔۔۔"

اسکی شرارت بھی ونیزے کا دل خوفزدہ کر گئی کیونکہ اس شخص کے آخری جملے میں دل دہلا دینے کی خاصیت تھی۔

"جی؟"

ونیزے کی حیرت اور خوف سے ملی جلی 'جی' پر وہ بے اختیار مسکرایا۔

"فریش ہو کر آتا ہوں، اسی قہر ناک بارش میں بھیگتا رہا ہوں۔۔ جاو لگ جاو اپنے من پسند کام پر "

ونیزے کی بوکھلاہٹ بھانپے وہ خود ہی اپنے جملے کی معنی خیزی کم کرتا اس پر بھرپور نگاہ ثبت کیے کبرڈ کی طرف بڑھا تو اپنے تمام کپڑے بہت سلیقے سے ہینگ دیکھ کر ولی نے بے اختیار گردن موڑی۔

"سنو!"

وہ بال سمیٹے بس کچن کی طرف ہی جانے والی تھی جب ولی کے پکارنے پر جی جان سے پلٹی۔

"گیلے ہیں، کھلے ہی چھوڑ دو۔۔۔اور یہ سب کرنے کے لیے تھینک یو ورنہ اس بیزار حال میں اپنے کپڑے آئرن کرتے ہوئے مجھے بہت موت پڑنی تھی۔ سگھڑ بیوی بہت بڑی نعمت ہے"

اول تو اس لڑکی کے مسی جوڑا بناتے بال اس دلکش خواہش پر رکے تو ونیزے نے انھیں جناب کی تاکید پر نہ صرف کھلا ہی چھوڑ دیا بلکہ قریب آکر مسکراتی ہوئی اس کی ہر تھکاوٹ سے پاک رنگ بدلتی آنکھیں دیکھنے لگی۔

"تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی پر آپکی ہر عادت خراب کر دے گی یہ شکارن، تاکہ میرے بعد آپ مجھے کبھی بھول نہ پائیں"

اس کی مسکراتی آنکھیں اپنے کہے آخری جملے پر خود بھی ویران ہوئیں اور کبرڈ سے اپنا بلیک ٹراوزر اور ہاف وائیٹ شرٹ نکال کر صوفے کی طرف اچھالتا وہ کبرڈ بند کیے اسکی سمت رخ کیے پلٹا۔

"تمہارے ساتھ بھی اب ولی تمہیں نہیں بھولے گا سو بعد والی بات اب کبھی مت کرنا ونیزے، زندگی میں پہلی بار ہی میں نے خود کو کچھ اچھی عادتیں ڈالنے کا فیصلہ لیا ہے جس پر مجھے نہ آج پچھتاوا ہے نہ آخری سانس تک ہوگا۔انہی عادات میں سب سے اچھی عادت تمہارا چہرہ دیکھنا اور اس پر موجود مسکراہٹ کا اپنے چہرے پر منتقل ہونے کا سفر انجوائے کرنا ہے۔۔۔"

وہ اسکی اداس صورت دیکھ کر اسکے کھلے بال اسکی کمر پر ڈالے جبین پر بکھرتی لٹوں کو اس کے کان کے پیچھے اڑسائے بول نہیں، اس پر اپنا سحر پھونک رہا تھا۔

اور ونیزے حسن نے کب سوچا تھا کہ وہ اس کے ساتھ پر کبھی اتنا مطمئین بھی ہوگا۔

"لیکن سچائی تو نہیں بدلے گی ناں ولی"

وہ حقیقت پسند بننے کی کوشش میں سخت لفظ کہہ گئی۔

"بدل جائے گی، دعا سب کر سکتی ہے۔۔۔ ہم انسانوں کی مانگی ہوئی دعائیں ہمیں محروم اور خالی نہیں چھوڑتیں، اتنا تو ہمارا دامن بھر ہی دیتی ہیں کہ ہم زندگی گزارنے کے بجائے اسے جی پائیں۔ تم بھی شاید ولی زمان خان کی دعاوں کا وہ ثمر ہو جو تھوڑا سہی پر مجھے بھر دے گا"

آج اس شخص کے لہجے سے پھول جھڑ رہے تھے، مہک تو پہلے ہی اسکے ہر لفظ سے وہ لڑکی محسوس کرتی تھی پر آج وہ اسے کسی بہت بڑے بوجھ سے آزاد سا، کھل کر سانس لیتا ہوا دیکھائی دے رہا تھا، وہ جب اسے دیکھتا تھا تو وہ سب بھول جاتی تھی، جینے کی خواہش اسکی مرجھائی شاخوں میں زندگی بھرنے لگتی، وہ خوبصورت دل کا بادشاہ تھا، کیوں نہ اسکے لیے دنیا جہاں کی منفرد محبت سنبھال کر رکھی جاتی۔

"آپکو کس نے خالی کیا؟ کیا آپ مجھے بتائیں گے"

وہ جس مہارت سے ولی کی حسرت کھوج چکی تھی وہ خود اسکی ذہانت کا معترف ہوا، یہ لڑکی اس کے اندر جھانک سکتی تھی، اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ اسے خود پر تھوڑا سا بھی اختیار دے گا تو وہ اسکے اندر کے ہر زخم پر اپنے انہی ملائم ہاتھوں سے مرہم رکھے گی۔

اس سے پہلے ہی کسی سے محبت کر گزرنے کا الزام، ناسور بھی بن گیا تو وہ لڑکی اس ناسور کو بھی گلاب بنا دے گی۔

اگر وہ شکارن نہ ہوتی تو ساحرہ ہوتی۔

"پہلے تم سکول والی کہانی بتاو پھر سوچوں گا"

وہ یکدم کچھ یاد آنے پر شوخا ہوا تو وہ جیسے اپنی نادانیوں پر کھلکھلا سی دی۔

"وہ تو پاگل پن تھا"

وہ خود کو ارزاں جانے خود پر مسکائی تو ولی نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑے اپنی پشت پے لے جا کر بے تکلفی سے باندھے اور ولی کا استحقاق بھرا رویہ ونیزے کے سچ میں رونگٹے کھڑے کر گیا، اسکے سکڑتے پھیلتے لبوں اور پلکوں کا رقص مبہوت کرنے میں جاندار تھا۔

"اس محبت میں جب ہم اپنی طرف سے خود کو انتہائی سمجھدار سمجھتے ہوئے بلنڈر کر گزرتے ہیں تو ایک وقت ہر اس محبت پرست پر ضرور آتا ہے جب اسے اپنا کیا کرایہ پاگل پن لگتا ہے۔ میں بہت شوق سے تمہارا پاگل پن سننا چاہوں گا، تمہیں پتا ہے ونیزے، تمہاری آنکھیں بھی میری آنکھوں کی طرح رنگ بدلتی ہیں۔ میں نے آج نوٹس کیا"

وہ اسکی نازک کمر کے گرد آہستگی اور نرمی سے بازو باندھے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہی جیسے انکی خوبصورتئ پر سب بھول گیا اور جناب کے اس سمیلر کولٹی کو دریافت کرتے ہی اصل مدعے کو بھلا دینا، اس قربت کے باوجود ونیزے کے چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھلا گیا۔

"سائنٹسٹ کا خیال ہے ایسی آنکھوں والے دنیا میں بس چند لوگ رہ گئے ہیں، شاید اس شہر میں ہم دو ہی ہوں"

وہ اپنی آنکھوں کی تعریف پر تو نہیں بلکہ اس پر ضرور اترائی تھی کہ ولی نے انکو اپنی آنکھوں سے ملایا تھا۔

"جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہسبنڈ وائف کی سیم آنکھیں ہیں تو انکے بچوں کی ضرور ایسی ہی ہوں گی۔ سو انکی تعداد ان فیوچر بڑھنے والی ہے"

وہ اسے ایسا بے باک قسم کا جواب دے گا یہ تو ونیزے کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا، جبکہ ولی کا اعتماد اس ہائی لیول پر تھا کہ وہ اسکی آنکھوں کی تپش سے گھبراتی ہوئی اسکے وجود میں گھبراہٹ کے سنگ سمٹ سی گئی اور وہ اس پاگل پن کی حدیں عبور کر گزرتی لڑکی کے وجود میں اس زرا سی بات پر لرزش محسوس کرتا ہنسا۔

"تم کچھ زیادہ ہی شرمیلی نہیں ہو ونیزے، شکارن ہو کر اتنی نزاکتیں سمجھ سے باہر ہیں۔ میں تو دنیا دار بندہ ہوں۔ ان ادر ورڈز بولڈ کہہ سکتی ہو، میں تو جو چاہتا ہوں بولتا ہوں۔۔۔ منہ پھٹ بھی کہہ سکتی ہو"

جناب کے رنگ ڈھنگ ہی جان لیوا تھے پھر ایسی بے باک گفتگو وہ حیا کی دیوی کیسے سہہ لیتی۔

"ولی۔۔جائیں فریش ہوں۔۔۔ناش۔۔۔"

واحد حل فرار تھا مگر فرار بھی تو جناب کی اجازت کے بعد ہی نصیب ہونے والا تھا، وہ اسکی کلائی جکڑے زرا سا اپنی طرف جھٹکا دیے جان بوجھ کر اسکے سرخ رو چہرے کو دیکھنے کی کوشش میں تھا اور کوئی ونیزے سے پوچھتا کہ اس وقت یہاں کھڑے رہنا دوبھر لگ رہا تھا۔

"میری طرح تھوڑی کول ہو جاو تاکہ میری بھی تھوڑی ہچکچاہٹ کم ہو۔۔۔کیا خیال ہے آج پہلی کلاس دوں مس شکارن کو؟"

وہ اسکے سوال پر ہونق بنی ولی کو لب بھینچے دیکھنے لگی مگر پھر اسکے الفاظ کا مطلب سمجھ آتے ہی وہ ولی کے بقول نیلی پیلی ہو کر اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوائے پھڑپھڑا کر رہ گئی۔

"و۔۔ولی۔۔۔نووو"

وہ اسکی طرف دیکھے آنکھوں میں آنسو سمیٹ لائی تبھی ولی نے زرا رحم کا ارادہ بناتے مسکرا کر اسکی اور حالت ٹائیٹ کی۔

"تمہیں تنگ کرنے کا تو لطف ہی الگ ہے شکارن، اب نہیں بچتی تم۔۔۔۔ہاہا جاو ، بریک فاسٹ بنانے۔ اس قدر بھوک لگی ہے ایسا نہ ہو ولی زمان خان تمہیں ہی کھا جائے"

خود ہی ماحول پر حاوی سحر توڑتا وہ اسے آزاد کرتے صوفے کی سمت جھکا، اپنے کپڑے لیے اور ایک پرتپش جذبات سے بھری شرارتی نگاہ اس ہوش ربا بوکھلائے سراپے پر ڈالتا وہ نہانے بڑھا جبکہ اس اڑے حواسوں والی نے بھی گہرا سانس لیے باقاعدہ جھرجھری لی اور تپ اٹھتے گالوں کو ٹھنڈی ہتھیلوں سے واپس سرد کرنے کی سعی کرتی تیزی سے گہرے گہرے سانس بھرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

                     ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

میرے منہ پر کیا بیوقوف لکھا ہے کنزا؟ تمہارے سب کھیل ختم۔ مالنی تم سے گلے ملے گی؟ اوقات ہے تمہاری اتنی۔۔۔ اور ویسے بھی دماغ ہم دونوں کا اپنی جگہ پر ہے سو اپنے یہ ٹسوے بہانا بند کرو۔ تم سے آخری خواہش پوچھنے کی غلطی کر بیٹھا ہوں، تم اس لائق ہی نہیں"

وہ ہاشم بزدار کو کئی بار ڈس چکی ناگن تھی لہذا اس بار اسکی اداکاری بری طرح فلاپ ہوئی جبکہ ہاشم کے مضحکہ خیز جواب پر خوف کی لہر کنزا کے پورے وجود میں سرائیت کر چکی تھی جبکہ خود بھی مالنی، رحم اور ہمدردی بھلائے اس عورت کے قریب جا کھڑی ہوئی، وہ بندھی ہوئی تھی سو فی الحال اس سے کوئی خطرہ نہ تھا۔

"آنکھوں دیکھا زہر پینے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں کنزا صاحبہ، ویسے بھی میں آپ کو گلے لگانا تو دور آپکا چہرہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔ افسوس رہے گا کہ آپ میرے اور ہاشم بزدار کے بچے نہیں دیکھ سکیں، جو آپکو سفاک نانی کہہ کر بلاتے۔ اچھا ہی ہے وہ بچارے آپکی نحوست سے محفوظ ہو کر دنیا میں آئیں گے"

کنزا کو تو مالنی کے لفظ آگ لگا ہی گئے ساتھ ہاشم بھی سنجیدگی سے یکدم حیرت میں لپٹا،اس لڑکی کے بچوں والے ارادے جان کر جناب کو عجیب سی مسرت ہوئی پھر ایسے ہی نیک خیالات تو ہاشم بزدار کے اپنے بھی تھے، عجیب سی سرشاری رگ و پے میں اتری۔

"اب آپ کے پاس کچھ نہیں رہا بولنے کو، جس آگ میں برسوں پہلے یہ شخص جلا تھا، کاش آپکو ویسی آگ لگا سکتی مگر نہیں، آپ نے اپنی موت خود للکار لی، عام موت نہیں، دل دہلاتی دردناک موت"

اب وہ عورت حراساں و بے بس تھی اور خدا وقت آخر اس ظالم عورت کو ہرا چکا تھا، ایسی بے بسی جس میں راز اگلے جاتے۔

"تم دونوں سے شدید نفرت کرتی ہ۔۔ہوں، میرا بس چلتا تو تم دونوں کو زندہ زمین میں گاڑتی۔۔۔"

وہ دونوں کے زہر سے واقف تھے سو یہ سن کر حواسوں کو دھچکا نہ لگا بلکہ وہ امید پر پوری اتری تھی۔

اسی لمحے ہٹ کے اردگرد خاقان کے لوگوں کا یکدم گھیراو ہونے پر باہر اندھا دھند جوابی فائرنگ شروع ہونے پر زمین تھرا اٹھی وہیں مالنی اور ہاشم بھی فکر مند ہوئے جبکہ اس موت کی آغوش میں پل پل اترتی کنزا کی آنکھوں میں چمک جبکہ چہرے پر زہر خند مسکراہٹ آئی، باہر ضرار اور ہاشم کے لوگ خاقان خان کے لوگوں کو ہر ممکنہ منہ زور جواب دے رہے تھے مگر خاقان کا وہی خاص آدمی جسے ضرار کے یہاں ہونے کی پکی خبر ملی تھی، وہ ہاشم کے دو ہٹ کے قریب کھڑے لوگوں کو چالاکی سے جان سے مارتا اندر بڑھ آیا اور تبھی اس آدمی کے اچانک اندر آنے پر نہ صرف مالنی، ڈر کر ہاشم کے عقب میں چھپی بلکہ ہاشم نے اپنی گن سیدھی اس منحوس پھنکارتے اندر گھس آتے آدمی پر تانی اور وہ آدمی ضرار کو تو نہ پا سکا تھا پر خاقان کے حکم کے مطابق کنزا کو بچانے کی پوری کوشش میں تھا اور اس سے پہلے باہر سے خاقان خان کے تمام آدمیوں کو عبرت کا نشان بنا کر ضرار اور ہاشم کے آدمی اندر انکے ریسکیو کے لیے آتے، وہ خاقان کا آدمی گولی چلا چکا تھا مگر بروقت ہاشم کے پیچھے ہٹنے اور مالنی کو بھی اپنے ساتھ جھٹکے سے پیچھے کرنے پر اس آدمی کی چلائی گولی سیدھی عقب میں بندھی کنزا کی گردن پر جا دھنسی، موت کا وہ لمحہ دلسوز تھا، سانس تو ہاشم اور مالنی کی بھی لمحہ بھر رک گئی تھی، وہیں بروقت ہاشم کی چلتی گولی نے خاقان کے اس آدمی کی کن پٹی چیڑی جبکہ کنزا اور اس آدمی کے خلق سے ایک ساتھ آخری ہیبت ناک چینخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے خاقان کا آدمی زمین بوس ہوا وہیں کنزا جیسی سفاک عورت بھی اپنے انجام کو پہنچی۔

ہاشم اور مالنی نے ایک جیسی دردبھری نظر اس عورت پر ڈالی جسے واقعی اسکے کیے کی سزا شاہانہ مل گئی اور مالنی کا دل ایک بار تو اذیت سے پھڑپھڑا سا گیا، لیکن سب سے بڑا سکھ یہی تھا کہ ہاشم کے ہاتھ اس عورت کے خون سے ناپاک ہونے سے بچ گئے تھے، وہ عورت اپنے ہی درندہ صفت باپ کے جال میں پھنس کر اس دنیا کو اپنی وحشت کے بوجھ سے آزاد کر گئی۔

سب لوگ اندر آئے تو اندر کا معاملہ دیکھ کر سب نے شکر ادا کیا۔

کئی آنسو مالنی کی آنکھوں سے بہتے گئے اور ہاشم نہیں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی مزید اس عورت کا ماتم منائے۔

"کنزا کی تدفین کروا دینا، اور اس منحوس کو یہیں پڑا رہنے دو۔۔۔یہاں سے نکلتے ہی اس کاٹیج کو تباہ کر دینا۔ اور سب لوگ ضرار کے پیچھے نکلو، وہ خطرے میں ہے۔۔۔ہم بزدار حویلی جا رہے ہیں"

روتی ہوئی مالنی کا ہاتھ جکڑے وہ اپنے آدمیوں کو بریف کرتا اس گھٹن سے نہ صرف خود باہر آیا بلکہ مالنی کو اس نے ساتھ ہی رکھا، گاڑی تک پہنچتے پہنچتے پھر سے ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی جو صبح سے آبر آلود بادلوں نے خود میں دبا رکھی تھی۔

"وہ مر گ۔۔گئیں ہاشم، ابھی م۔۔مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے، پلیز مجھے رونے سے مت روکیے گا"

وہ اسکے برہم چہرے سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ اسکے آنسووں سے خائف ہے تبھی بنا اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ تمہید باندھ کر بولتے ہی آنکھیں بے دردی سے رگڑے ہاشم کے سینے میں سمٹ گئی۔

"مرتے مرتے بھی وہ ہم دونوں کا برا چاہتی تھی مالنی یہ مت بھولو، دکھ اسکی موت پر مجھے بھی ہے مگر شاید اسکا مرنا ضروری تھا۔ اب اگر تم اس کی موت پر رو گی تو میں برداشت نہیں کروں گا۔ ختم کرو یہ چیپڑ، ختم ہو گئی کنزا۔۔۔۔ "

وہ ناچاہتے ہوئے بھی ستم گر بنا، لیکن وہ اسے کہہ نہ پائی کہ وہ رو اس عورت کی موت پر نہیں، عبرت پر رہی ہے، پھر جس طرح ہر ظلم کے باوجود ہاشم نے اسکی قبر بنوانے کی ہدایت کی اس پر وہ شخص اسکی نظروں میں پہلے سے اونچے مقام پر فائز ہو گیا تھا۔

"ا۔۔ایک دن صرف ہاشم، میں نے ان سے سگی ماں کی طرح محبت کی ت۔۔تھی۔۔۔ انکی تکلیفیں محسوس کی تھیں، بھلے سچی ہوں یا جھوٹی۔۔۔ کیا پتا میرے چند آنسو انکی قبر میں دہکی آگ کی شدت میں تھوڑی ہی سہی پر کمی ک۔۔کر دیں۔۔۔۔"

وہ لڑکی زارو قطار روتی ہوئی جو ہچکیوں کی زد میں کپکپاتے لفظوں کے سنگ کہہ رہی تھی واقعی ہاشم کا دماغ گھوما۔

"تم مجھ سے کچھ سن مت لینا اب، خبردار جو اسکی بخشیش کا ایک فیصد بھی وسیلہ بنی تم۔۔۔ جلنے دو اسے اب تاقیامت، ویسے ہی جس طرح اس نے ہم سبکی خوشیاں خاکستر کیں۔ بیٹھو گاڑی میں، ٹھنڈ شاید تمہارے دماغ میں گھس گئی ہے۔۔۔۔اور اگر تم مزید روئی تو بتا رہا ہوں، بری طرح ناراض ہو جاوں گا پھر مناتی رہنا ہاشم بزدار جیسے سر پھرے کو"

باقاعدہ خفگی سے اسکی بازو پکڑ کر اندر بٹھائے وہ خود بھی تلملاتا ہوا دوسری طرف آکر بیٹھا جو شکوہ کناں نظروں سے اس تپے جن کو دیکھتی اپنے آنسو فوری پی گئی۔

"آپ نے بھی تو محبت کی تھی ان سے، سہہ لیا انکی موت کا دھچکا؟"

وہ مالنی سے کم ازکم اس وقت ایسے سوال کی امید ہرگز نہیں کر رہا تھا تبھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی بیلڈ باندھتے ہوئے اسکے ہاتھ بے اختیار رکے، آنکھوں میں اذیت ناچی۔

"بہت خوشی سے سہہ لیا ، اور جو تھوڑی بہت محبت کی تھی اس سے وہ کب کی مر چکی ہے۔ جسکی ہاشم بزدار نے کئی سال پہلے ہی قبر بنا دی تھی، تم اب ایسے سوال کر کے مجھے کونسی نئی اذیت دینے کی کوشش میں ہو؟ سب سچائی تو فضیلہ اماں نے تمہیں بتا دی تھی"

وہ کاٹ دار لہجہ اختیار کیے اس کنزا کے متعلق بولا جبکہ مالنی اسے اس درجہ ناراض کر بیٹھے گی یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا تبھی اسکا ہاتھ جکڑے قریب ہو کر بیٹھی۔

"ناراض مت ہوں ناں، ایسے ہی پوچھ لیا۔ آئی ایم سوری۔۔۔ آپکا دل بہت نرم ہے بس تبھی ک۔۔کہہ دیا، میں کیوں آپکو اذیت دوں گی۔ نہیں رووں گی، ایک دن بھی اس عورت کا ماتم نہیں مناوں گی بس آپ مجھ سے مت روٹھنا ہاشم۔۔۔ آپکے علاوہ کیا کوئی ہے میرا؟"

وہ بوجھل و تاریک لہجے میں کہتی آخر تک روہانسی ہوئی تو وہ بھی جیسے گہرا سانس بھرے تیکھے چتون تانے بیٹھا تھا، خفگی زائل کیے چہرہ موڑ کر اسکی سرخ آنکھیں دیکھنے لگا۔

"آج کے بعد تمہاری زبان پر اس عورت کا نام، ذکر یا کوئی حوالہ نہیں آنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا بیوقوف مالنی تو تم سے اتنی دور چلا جاوں گا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ نفرت ہے مجھے اس عورت سے، اب اسکے ہر حوالے سے۔۔۔۔سمجھ گئی ہو؟"

وہ بپھرا ہوا جیسے وارننگ دیتے غرایا اور وہ پہلی بار اسے اس درجہ مشتعل دیکھ کر دل تک سہم گئی تھی۔

"سہی نام دیا ہے آپ نے مجھے، واقعی بہت بیوقوف ہوں۔ اچھا ناں کان پکڑ کر سوری ماسکو۔۔۔ اب کیا بچی کی جان لیں گے، قسم سے آپکا غصہ دیکھ کر ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں۔ مالنی کے باپ دادا کی توبہ اگر میں اس اتھرے چوہدری کو دوبارہ طیش دلاوں"

وہ واقعی اسکے غصے کی وجہ بن کر افسردہ تھی اور تبھی خود کو واپس لاتے لہجہ بھی ڈرامائی بنایا مگر اس وقت ایک تو اسے ضرار کی ٹنشن تھی پھر اس لڑکی کے سوال نے دماغ جھنجھور دیا سو وہ نہ مسکرا پایا نہ خفگی کم کی بس خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کر دی۔

"سوری ناں ، کیا یونہی روٹھے رہیں گے؟"

اسکو پگھلتا نہ دیکھ کر مالنی اسکی بازو کے ساتھ لگ کر بیٹھتے معصومیت سے منمنائی مگر وہ روڈ مین بنا اس وقت مالنی کو زیادہ اپنی طرف مائل کر رہا تھا۔

"ہاں رہوں گا، چپ چاپ بیٹھو اب۔ ڈرائیونگ کرنے دو۔ تم سے گھر جا کر اس کا حساب لوں گا"

نروٹھے پن سے جناب نے ہری جھنڈی دیکھائی اور مالنی کی آنکھیں اسکے ایٹیٹیوڈ پر مسکا دیں، اسے بھوک بہت زوروں کی لگی تھی ورنہ مزید اسکا دماغ کھاتی اس لیے اپنی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے وہ اسکے کندھے سے سر ٹکاتی آنکھیں موند گئی اور چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ہاشم کو اسکے آہستہ آہستہ سانس لینے اور ہاتھ کی گرفت کے اسکی بازو کے گرد ڈھیلا پڑنے سے اندازہ ہو گیا کہ تھکن، بھوک اور نیند کے باعث وہ بے سدھ ہو گئی ہے تبھی جناب نے ایک مسکراتی نظر اس لڑکی پر ڈالی اور پر سینے پر جمتی سانس بمشکل خارج کرتا وہ سامنے دیکھ کر ڈرائیونگ کرنے لگا۔

یہ سچ تھا، تمام نفرت کے باوجود اسے کنزا کی موت پر تکلیف ہوئی تھی، اور وہ اسکے ہاتھ سے نہیں مری یہ ایک ایسی سہولت تھی جو اسکے نرم دل کو سنبھلنے کے لیے بہت شدت سے درکار تھی۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"لو جی! ہو گیا ہلکا پھلکا بریک فاسٹ۔۔۔نہیں آئی تھنک لنچ کہہ سکتے ہیں اسے"

جلدی میں اس نے نگٹس فرائے کیے، چائے بنائی، آملیٹ بنایا، فریز ہوئے کباب تلے اور ساتھ چٹنی بنا لی، رائس بوائل کیے، ساتھ بریڈ رکھی، جبکہ مریض صاحب کے لیے فریج میں موجود تازہ اونجیز کا جوس بھی نکالا کیونکہ ابھی ساڑھے گیارہ بجے تھے اور اس نے ناشتے اور لنچ کو اپنی طرف سے ملاتے ہوئے ڈائنگ سجا دیا جبکہ خود مسکراتی ہوئی آہٹ پر پلٹی تو تروتازہ ہو کر نکھر جاتے شہیر کو دیکھتی وہ پلٹی، بال نہ صرف محترم نے اندر ہی ڈرائے کر لیے تھے بلکہ بیوی کی خاص تاکید پر انکی ازلی پونی بھی بنا دی جبکہ وریشہ کے خریدے کپڑے اسے نہ صرف پرفیکٹلی پورے آئے بلکہ اخیر جچے، کیونکہ عام طور پر اس نے شہیر کو سیاہی میں ہی ڈوبا دیکھا تھا، ناجانے کیوں وہ رنگوں سے کٹا رہتا تھا۔

جبکہ شہیر کی نظر سجی ڈائنگ پر گئی تو سچ میں بھوک سی بھڑکی، کیونکہ وہ کافی دیر سے کچھ کھائے پیے بنا ہی مشقت میں مصروف تھا، بس پی سی او والے سے اس نے ایک کپ چائے لے کر پیا تھا۔

"باقی باتیں بعد میں پہلے کچھ کھا لو، آجاو۔۔۔۔"

اس سے پہلے کہ ڈنر کی طرح یہ بریک فاسٹی لنچ بھی بیچ میں رہ کر ضائع ہوتا، وہ نہ صرف کرسی پیچھے کرتی اسے پکڑ کر بے تکلفی سے بٹھا چکی تھی بلکہ خود بھی اسکے ساتھ ہی کرسی سنبھالے بیٹھی۔

"تمہیں ہمیشہ زحمت میں ڈالتا ہوں بیوی، میرے لیے اتنی ہلکان مت ہوا کرو"

تھوڑے سے رائس اپنی پلیٹ میں ڈالے، دو کباب رکھے، اس پر تھوڑی سی چٹنی انڈیلے وہ اسکی پنچابی ورژن پلیٹ کو دیکھتی اسکے سوال پر مسکراتی ہوئی اپنے لیے بس چائے کا ایک کپ بنا رہی تھی۔

"مجھے کبھی کچھ کرنے دیا ہی کب ہے تم نے، سب تو خود کر جاتے ہو۔ اب میری باری ہے سو برداشت کرو۔ سنو! مجھے لگتا ہے میں ڈاکٹر، تمہیں مرہم لگانے کے لیے ہی بنی ہوں۔۔۔۔ تم میرے پکے پیشنٹ ہو ویسے "

اسکے جذبات اسکی پیاری باتوں سے چھلکے جبکہ آخری بات محترمہ نے زرا شرارت سے ادا کی تبھی شہیر بھی اسکی گدگداتی مسکراہٹ خوش دلی سے دیکھنے لگا۔

"کیونکہ تمہارا دیا زخم درد نہیں دیتا اور لگایا مرہم، زخم کو بڑھنے نہیں دیتا۔۔ مجھے اچھا لگتا ہے جب تم میرے زخموں پر مرہم رکھتی ہو، وہ زخم چاہے جسم کا ہو یا روح کا"

وہ پوری کوشش میں تھی کہ کھانے کے دوران کچھ ایسا نہ کہے کہ انکی توجہ منتشر ہو مگر اس شخص نے جس طرح کھانے کو غیر ضروری جان کر اس لڑکی کو دیکھ کر یہ جذب سے اٹے الفاظ ادا کیے، وہ خود پر لگائے کنٹرول کو ٹوٹتا محسوس کرنے لگی، کیا وہ اس سے اظہار کر رہا تھا؟ کیا وہ اسکے لیے دنیا جہاں سے پیاری ہو چکی تھی، یہ احساس ہی وریشہ کی دنیا مہکا گیا۔

"تم جادوگر ہو، تم نے ٹھیک کہا تھا۔ لمس کی زبان ہوتی ہے شہیر، اور پھر ہر لمس ایک یادداشت بھی تو رکھتا ہے، تم جیسے بھی تھے، جیسے بھی ہو۔ میرے تو سیدھے دل میں اتر گئے تھے، تمہیں تکلیف دینا تو دور اب تو تمہاری تکلیف سہنا بھی محال ہے، جب تمہاری آنکھوں سے آنسو بہے، مجھے لگا میں بھی اس تکلیف سے بکھر جاوں گی لیکن پھر جانتے ہو بہت اچھا بھی لگا، ساری دنیا کے سامنے اکڑنے والا سنگدل، سر پھرا آدمی، ظالم، کمزور پڑا تو وریشہ یوسف زئی کی باہوں میں۔۔۔۔۔مار دیا تم نے مجھے اپنی اس ادا سے لفنگے"

وہ خود ہی اسکے ہاتھ سے سپون لیتی نرمی کے سنگ اسے کھانا کھلائے ساتھ ساتھ اپنی محبت بھری سرگوشیوں سے اسکے اذیت ذدہ وجود میں نشاط بھر رہی تھی، اسے لگا وہ جامد ہو گیا ہے، اسکا وجود، اس لڑکی کے ادا کیے گئے لفظوں کے طلسم میں جکڑ چکا ہے۔

"رویا نہیں تھا میں"

اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا وہ ہٹ دھرمی سے سر جھٹک کر بولا اور ساتھ اس مائل کرتی حسینہ سے سپون بھی جھپٹی اور خود کھانے لگا جبکہ وریشہ کی اس صفائی پر ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔

"نہیں نہیں، بس دل بھر آیا تھا جناب کا۔۔۔۔مجھے ہر بار مس کر کے تم رویا کرو گے کیا؟ میرا مطلب یہ بس جنرل نالج کا سوال ہے"

اس لڑکی کی آنکھوں میں گرویدہ کر لیتی چمک تھی اور وہ اب واقعی بوکھلا رہا تھا، اسکے چہرے پر مدھم سا سرخ رنگ گھل رہا تھا۔

"پلیز وریشہ، مت کرو"

وہ جیسے ہاتھ کھانے سے روک کر اپنی بھوک ختم کیے بنا ہی اٹھنے لگا جب وریشہ نے اسکا ہاتھ جکڑے واپس بٹھایا۔

"اوکے اوکے، نہیں کرتی۔۔۔کھانا کھاو۔ شکل دیکھی ہے، آنکھیں ڈوبی لگ رہی ہیں، ہونٹ دیکھو کتنے ڈرائے ہو رہے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے تم نے آبی مخلوق سے بھی کوئی ویر باندھا جو دشمنی میں پانی کو بھی خود پر ممنوع کر رکھا، پیتے تم نہیں، نہانے میں نے زبردستی بھیجا۔ تمہیں پتا ہے روز آٹھ گلاس پانی اور تین وقت کھانا بہت ضروری ہوتا ہے ایک ہٹے کٹے مرد کے لیے۔۔پھر جو تم نے یہ ایپس بنا رکھے اسکے لیے روز صبح ٹھنڈے پانی سے نہانا اہم ہے تاکہ جسم اسی طرح فولادی رہے۔۔ اور تم اپنے معاملے میں بہت لاپرواہ ہو"

وہ اسکے روکنے پر ناصرف رکا بلکہ کھانے کے ساتھ ساتھ محترمہ کی ہدایات بھی بڑی دلچسپی سے سنتا گیا جس نے اسکے لیے گلاس میں اورنج جوس ڈالے اسکی طرف بڑھایا۔

"تمہیں ڈاکٹر کس نے بنایا ہے بیوی، تم تو جیل میں قیدیوں کو بہت اچھا ٹارچر کر سکتی ہو"

اس بار وہ بھی مزاق کے موڈ میں تھا تبھی وہ منصوعی گھورتی چہرہ زرا اسکے قریب لائی، سانسیں بے خود ہوئیں تو دھڑکنیں لمحے میں بے تاب۔

"مجھے ایک ہی سڑا ہوا یہ قیدی کافی ہے، اور میں اسے جی بھر کر ٹارچر کرنے کا پہلے ہی پلین بنا چکی ہوں۔۔کہو گے تو اپنی محبت کو تمہارے چار طرف جیل کی طرح کھڑا بھی کر دوں گی"

وریشہ کی چمکتی آنکھیں اس جوابی حملے پر خطرناک مسکرائیں اور وہ بھی ہلکی پھلکی مسکراہٹ دباتا ہوا دیکھائی دیا۔

"کھانے نہیں دو گی ناں تم؟"

شہیر کی معنی خیز دھمکی پر جیسے وریشہ کی اعتماد زرا کم ہوا۔

"میں نے تمہارا منہ پکڑ رکھا ہے کیا؟"

پھر سے ازسرنو شرارت پر اترتی وہ بے باکی سے اسکی آنکھوں میں جھانکی۔

"دھیان بھٹکا رہی ہو"

جناب نے زور دیتے انداز میں درستگی کی۔

"بھٹک کر دھیان کہاں جائے گا ؟"

وہ اسکی ناک سے ناک رگڑے بچارے کھانے پر ظلم ڈھانے کے ارادے کر رہی تھی۔

"تمہارے چار سو"

وہ برخستہ بولا، اور پھر جیسے اس لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالے جکڑ کر اسکی وہی ہنستی آنکھیں چیلنچنگ ہوتے ہوئے دیکھ کر ان نرم ہونٹوں کی ساری راعنائیاں بکھیرتے ہوئے، احساس کی نرم پھواروں سے لمحے میں اس لڑکی کے حواس جل تھل کر دیے۔

" میں اتنا ہی مضبوط ہو سکتا ہوں جس قدر مضبوطی سے تم مجھے تھام سکتی ہو وریشہ"

وہ اسے انہی باہوں کے دلکش دائرے میں مقید کیے اٹھ کھڑا ہوا، بھوک مٹ چکی تھی اب کچھ حسین گستاخیوں پر دل مچلا اور وریشہ کا تو دل رکا تھا، دم سادھ کر سانس روکے اس شخص کے ہلتے لبوں سے جھڑتے لفظ اپنے اندر اتارنے کا نشہ، سدھ بدھ بھلا رہا تھا۔

"تم جیسی دلربا عورت ایسا تاج ہے جو اس فقیر کے سر پر سج کر اسے بادشاہ بنا چکا ہے، مجھے تکریم حاصل ہوئی صرف تمہاری بدولت، ساری دنیا قدموں کی دھول بنی تو وجہ تمہارا ساتھ ہے، تمہارے چار سو اپنا دھیان محصور کر کے، تمہاری آنکھوں میں اترنا، تمہاری سانسوں میں گھلنا، تمہارے وجود سے اپنی خوشبو بکھیرنا، یہی تو سب زندگی کے اسباب ہیں میری ، سو بیوی بے وقت مجھے مت بھٹکاو، کہ میں تو پہلے ہی تم تک پہنچ جانے کے کسی بہانے کی تلاش میں ہوں آج"

اس کے تشنہ لب وریشہ کی جبین پر تقدس سے مہریں درج کرتے، چہرے کا ہر پرکشش خدوخال، ان سے چھو کر صندل کرتے، خود بادلوں کی سی نرمی میں لپٹ چکے تھے جو گدگداہٹ عطا کرتے ہوئے جب وریشہ کی شہہ رگ کا سفر طے کرنے بڑھے تو وہ خود تھما، بے خود ہونے سے خود کو بری طرح روکا۔

"روکو مجھے، پلیز وریشہ۔۔۔۔۔"

وہ خاصے خفا ہوتے گھورا جو آگے سے باہیں گلے میں ڈالے لپٹ کر کچھ اور قہر ڈھا بیٹھی۔

"روئے کیوں تھے، نہیں دیکھ رہی تمہیں۔۔۔۔بتاو پھر خود آوں گی تمہارے قریب، بہت قریب۔۔ اتنا قریب کہ تمہیں بہانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی"

وہ اسے مضبوطی اور شدت سے لپٹی اسکے کان کی اور نرم بھیگے ہونٹوں کا لمس پہنچاتی سرگوشی میں بولی اور شہیر نے اس احساس سکون کو اپنے اندر اتارنے کے سلسلے کو منقطع کیا۔

"اور میں جیسے تمہیں یہ کرنے دوں گا۔۔ ، رات واپس چلتے ہیں علاقے۔ تمہارے دادا سائیں سے تمہیں آفیشلی مانگ لوں پہلے پھر ہی اسکی اجازت دوں گا بیوی۔ اور رونے کی وجہ بھی اسی لمحے بتاوں گا جب نہ تو تمہیں خود سے دور رکھنے کی مجبوری ہوگی نہ یہ ڈر کہ تمہیں قریب کرنے سے روایات ٹوٹیں گی"

وہ اسکے وجود کو خود میں بسائے اسکے معیار کو مدنظر رکھنا نہ بولا جبکہ باہیں گلے میں ہنوز ڈالتی وہ سامنے آئی، دل یہی چاہا اسکے لفظ بھی چوم لے جو سیدھے دل کو تقویت دینے لگے تھے۔

"یو نو واٹ شہیر، تم یہاں آکر بازی لے جاتے ہو۔ ہرا دیتے ہو مجھے"

وہ اسکی بہت اپنی آنکھوں میں جھانکے اداسی میں مبتلا تھی تبھی شہیر نے اسکی وہی دو اداس آنکھیں باری باری ہونٹوں کے نرم لمس سے مہکائیں، بینائی کو تقویت سی ملی۔

"تمہیں ہرا کر کیا مل جائے گا بیوی، جس شخص نے اپنی ہر جیت تم پر وار دی ہے وہ تمہیں پسپائی سے کیسے ہمکنار کرنے کی جرت کر سکتا ہے، محبت تھا وہ جذبہ جس کے تحت تمہارے سامنے شہیر مجتبی جھکا تھا، جھکا ہے اور آخری سانس تک سر خم رکھے گا"

اتنے جان لیوا اظہار کے بعد وہ ایک دوسرے کو خود سے روایات کے باعث دور رکھنے کا جبر مشکل سے ہی کر سکتے تھے، اور وہ تو بس اس پر لٹ چکی تھی۔

اپنا سب کچھ شہیر پر وار چکی تھی، چاہتی تھی وہ اختیار دے تو توجہ کے ہاتھوں سے اس شخص کے وجود کی ہر تھکن زائل کر دے۔

اسے اتنی مضبوطی سے تھام لے کہ وہ بادشاہ سے سکندر بن جائے۔

"سر اٹھا کر مجھے دیکھتے ہوئے زیادہ پیارے لگتے ہو"

وہ اسکے چہرے کی بڑھتی راعنائی پر اسکی بیرڈ سے ڈھکی گال چومتی روبرو ہوئی تو وہ اسکی خواہش پر سر اٹھا کر مسکرایا تھا۔

"تمہیں پیارا لگتا ہوں تبھی خود کو آجا کر تمہارے پاس لے آیا، اب سنبھال لینا اس عمر بھر کی پونجی کو۔ خود کو خوامخواہ سمجھتا تھا شہیر مجتبی، تم نے تو محبت کر کے اس جلے ہوئے کوئلے کو ہیرا بنا دیا۔ کچھ نہیں ہوں، تمہاری نسبت کے رنگ ہیں سب"

اسکا بس چلتا تو اس لڑکی کی خوشبو انگ انگ میں اتار لیتا اور وہ تو آج شہیر کے کھلے اظہارات پر گلاب کے پھول کی طرح کھل گئی تھی تبھی تو اسکی آنکھوں میں اس شخص کی محبت نے دھند بھری تھی۔

"سنبھال کر رکھوں گی، بلکہ دل سے لگا کر رکھوں گی تمہیں"

وہ اس پر قربان، واری اور فدا ایک ساتھ ہوئی۔

"تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کا لطف ہی الگ ہے، جنتی لطف۔۔۔مجھ جیسے دوزخی کے لیے کرامت ہو تم خدا کی، اسکی بخشش جو مجھے عطا ہوئی کسی در دعا تک پہنچتی نیکی کے عوض۔۔۔۔"

وہ اسے کہیں کا رہنے نہیں دینا چاہتا تھا، وہ اسکی کے ساتھ دم بھرتی، سانس لییتی اور مسکراتی رہے یہ چاہتا تھا شہیر مجتبی۔

"بس کرو۔۔۔۔ رو دوں گی۔۔۔۔مت کرو یہ ظلم۔۔۔ جانتے ہو ناں تمہارے لیے کتنی بیقرار ہے وریشہ"

بس اس سے زیادہ کی سکت اسکے نازک دل میں نہ تھی تبھی وہ بے اختیار سسک اٹھی۔

"اس بے قراری کی لذت، وصل سے سو گنا زیادہ ہے بیوی۔جانتی ہو ناں؟۔۔۔۔"

وہ اسے خود سے بے خود کرتا سوال کے جواب میں اسکی ہر حسرت سمیٹ چکا تھا، کئی لمحے وارفتگی کی نظر ہوئے اور سانسیں گڈمڈ ہوئیں، انکے دھڑکتے دل آواز بن کر فضا میں گونج اٹھے، ماحول تھرا اٹھا۔

" اب جاو تم، ایک گھنٹے کی لیو لائی تھی۔ میں بھی سونا چاہتا ہوں۔۔۔ پھر ایک ساتھ واپس چلتے ہیں، ختم کرتے ہیں یہ دوریاں، ایک دوسرے کو مکمل مل جاتے ہیں۔۔۔۔"

ایک گھنٹہ اپنے اختتام کو تو پہنچ چکا تھا پر دل تو ہاتھ سے پھسل چکے تھے۔

"ساونڈ ہارٹ ٹچنگ۔۔۔،اور واقعی سوجانا۔۔۔ تاکہ دادا کے سامنے رات فریش ہو کر انکی وریشہ مانگ سکو۔ جلدی آوں گی۔۔۔۔دھیان رکھنا اور یہ سب فنش کر کے سونا۔ بائے"

اسکی تاکید پر اپنے اکھڑتی سانس، بے خود دھڑکن سنبھالے وہ اس سے دور ہوئی اور پھر اسے دیکھتی وہ اپنا بیگ لینے کمرے میں چلی گئی، شہیر نے گہرا سا سانس کھینچے بھوک جگتی سی محسوس کیے اس بار زرا ٹھیک طریقے سے کھانے کا پلین بناتے واپس کرسی سنبھالی جبکہ جاتے جاتے محترمہ پھر سے عقب سے نمودار ہوتیں گال چوم کر تیزی سے باہر کی طرف دوڑیں اور وہ بنا اسے دیکھتے ہی شوخ سا مسکرا دیا، اور اب کھانا تھا اور شہیر صاحب تھے۔۔۔۔۔!

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

بریک فاسٹ تو جناب نے اچھے سے دبا کر کیا تھا اور پھر کھانے کے بعد غنودگی سی حاوی ہوتی محسوس کیے وہ کمرے میں آگیا، جب تک ونیزے برتن سمیٹ کر جناب کو دیکھنے واپس روم میں آئی تو دانستہ آہستگی سے دروازہ کھولا تاکہ اگر وہ سو گیا ہے تو ڈسٹرب نہ ہو، موسم یکدم ہی ابر آلود سا ہو گیا تھا، اور لگ یہی رہا تھا سردی کے اس اخیر موسم میں گرمی کا مون سون بھٹک کر یہاں آن پہنچا ہو۔

توقع کے برعکس وہ روم میں چکر کاٹتا کسی سے کال پر مخاطب تھا جب ونیزے کو آتا دیکھ کر اس نے فون پر مصروف ہوتے ہی اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا تو وہ مسکرا کر اسکا ہاتھ تھامے قریب آکر رکی۔

"بہت خوب، باقی جگہوں پر بھی جاو۔ یہ انفارمیشن اگر کسی دشمن کے ہاتھ لگتی تو سوچ سے بڑی تباہی آتی، مجھے تو شک ہے کہ سیٹھ گونی مافیا ماسٹر کے علاوہ دشمن ملک کا کوئی جاسوس بھی ہے۔ اتنی انفارمیشن اکھٹی کر رکھی تھی اس نے۔۔۔ یہ سب صبح فجر تک فائنل کرو کیونکہ کل اسکی عدالت پیشی کے ساتھ ہی یہ ساری انفارمیشن ہمیں انٹیلجنس تک بحفاظت پہنچانی ہے۔۔گڈ ورک۔۔۔کیری اون"

وہ اپنے لوگوں سے ہی مخاطب تھا جبکہ کال بند کرتے ہی جناب نے اڑی حواسوں والی ونیزے کی طرف دیکھا جیسے اسکی مدد کا شکریہ ادا کرنے والا ہو۔

"تمہاری بتائی ہوئی انفارمیشن بہت کام آرہی ہے شکارن، وہ یقینا کوئی غیر ملکی جاسوس بھی ہے، فوج کی انفارمیشن، سیاسی معاملات، یہاں تک کہ خفیہ ملکی، دفاعی اور اکانومی پراجیکٹس جنکی خبر صرف خاص اداروں کو دی جاتی ہے، وہ سب فائلز کی صورت ہمیں ان جگہوں سے ملی ہیں جن کے نقشے تمہارے لیپ ٹاپ سے ملے تھے"

وہ خاصا خوش اور پرسکون تھا جبکہ ونیزے کو اسی پر راحت ملی کہ وہ اپنی غلطیوں کا بہت اچھے سے مداوا کر چکی ہے پھر اسکی انفارمیشن ولی کے لیے مدد بنی اس سے بڑھ کر خوشی کیا ہو سکتی تھی۔

"بھائی کا قاتل بھی ہے وہ، مجھے خوشی ہوگی جب وہ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے گا۔ وہ انفارمیشن جان پر کھیل کر جمع کی تھی اس شکارن نے، بےکار تو نہیں جا سکتی تھی۔ آپکے کام آئی سو مجھے بھی محسوس ہوا جیسے بے کار نہیں ہوں میں، آپکے تھوڑے کام تو آہی گئی ہوں"

بھائی کی موت پر وہ رنجیدہ اور پھر جس طرح خود کو انڈر اسٹمیٹ کرتی اختتام تک بوجھل سا مسکرائی، ولی نے خفیف سی خفگی سے دیکھ کر اسے اس بات کے کرنے پر پریشان کیا۔

"ایسی باتیں مت کیا کرو ونیزے پلیز، تمہاری آپائنٹمنٹ کب ہے؟"

وہ ابھی اسے ڈانٹنے کے موڈ میں نہیں تھا سو خود بیڈ کی طرف نہ صرف بڑھا بلکہ پہلے ونیزے کو سامنے بیٹھایا پھر اسکے پاس بیٹھا۔

"پرسوں ہے، شام چار بجے"

وہ اداس سی تھی جبکہ ولی نے اسکے دونوں ہاتھ تھامے ڈھارس بندھاتی نظروں سے دیکھا۔

"میں تمہارے ساتھ جاوں گا، ڈاکٹر علی سے خود ڈسکس کروں گا تمہاری کنڈیشن۔ یہ بتاو طبعیت کیسی ہے تمہاری؟ کوئی چینج فیل ہوا یا نہیں۔۔۔ جسم کی تکلیف میں ہلکی سی بھی کمی آئی ہے کیا، ایکچولی کل سے تمہاری آنکھیں پہلے جیسی نہیں ہیں، خوش فہمی میں مبتلا ہو رہا ہوں، مجھ جیسے جن کو تمہارے ساتھ چمٹا دیکھ کر کہیں تمہاری چڑئیل بیماری دم دبا کر بھاگ تو نہیں گئی"

وہ اسے اپنی توجہ اور محبت دے کر اسکے اچھے ہو جانے کی امید کرتا نہایت پیارا لگا، اتنا کہ وہ زرا آگے سرک کر بیٹھتے ہی ولی کے چہرے کو تاسف سے تکنے لگی، آنسو بہت مشکل سے اس نے اپنی آنکھوں میں دبائے تھے۔

"جہاں جہاں آپ کے ہاتھوں نے چھوا وہاں سے تکلیف ناپید ہو چکی ہے ولی، آئی سوئیر میں جب آپکے پاس ہوتی ہوں تو بھول جاتی ہوں کہ ایک کینسر پیشنٹ ہوں۔ سانس نہیں لی جاتی تھی مجھ سے، میرے منہ میں خون جمع رہتا تھا، ہنسنے اور بولنے سے سینے کا درد شدت پکر لیتا تھا، نہ سو سکتی تھی نہ رو سکتی تھی، نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس کا احساس باقی رہا تھا۔۔۔۔لیکن اب۔۔۔۔۔ صرف دو تین دن میں مجھے آپ کے مل جانے کی خوشی نے میری وہ ساری تکلیفیں ثانوی کر دی ہیں۔۔۔۔ آج واقعی کہیں درد نہیں ہے"

وہ یہ سب کبھی نہ کہہ پاتی اگر اب بھی اسکی حالت پہلے سی ہوتی مگر اسکا ایک ایک کرب سے بھرا لفظ ولی کے دل کو اذیت دیتا گیا، وہ اتنا سب نازک سی جان ہو کر کیسے سہتی رہی ہوگی؟ ولی اس پر ترس نہیں کھانا چاہتا تھا، اس لمحے اس کی ہر حسرت خود میں سمیٹ لینا چاہتا تھا، جو اپنی ہر تکلیف کے مٹنے کا سبب اسے شان سے بنا چکی تھی۔

" تم تو مجھ سے بھی مضبوط ہو، آئرن لیڈی۔۔۔۔ یعنی ولی زمان خان کی خوش فہمی واقعی سچی نکلی، کیا اتنی خوش ہو میرے ساتھ؟"

وہ اسکے ہاتھ کو تھامے اسکی ملائم ہتھیلی جھک کر چومتا اسکی بے داغ گال پر اترتی نمی انگوٹھے کی پور میں جذب کیے سوال کرتا کسی ان کہے کرب میں تھا جو اس لمس پر نہال ہو گئی، جی چاہا جس ہتھیلی کو ولی کے ہونٹوں نے چھوا وہ وہیں اپنے ہونٹ رکھ کر اسکا لمس چرا لے، اسکا زائقہ چھکے۔

اور وہ شخص کیسے اسکی خواہشوں سے بے خبر رہتا جو اسکی آنکھوں سے جھلک رہی تھیں۔

"بہت ہوں، آپکو دیکھنا بہت پسند ہے۔۔۔ سکول کے زمانے سے، "

وہ جیسے اپنے پاگل پن پر مسکرائی مقصد اپنے آپ کو سنبھالنا بھی تھا اور وہ بھی چہرے پر اتری تکلیف اس لڑکی کی مسکراہٹ پر زائل کر گیا۔

"جب آپ سیکنڈ ہیئر میں تھے اور میں سیون کی سٹوڈنٹ۔۔۔۔ آپکا کالج ہمارے سکول کے ساتھ تھا، بھائی آپکے کلاس میٹ تھے۔ علی نام تھا انکا بھی۔۔۔وہ کبھی کبھی میری جلدی چھٹی ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے کالج لے جاتے تھے، اور میں وہاں صرف آپکو چھپ چھپ کر دیکھتی تھی۔ آپ بہت پیارے لگتے تھے اس چھوٹی سی ونیزے کو، دنیا میں دو لوگ ہی پسند تھے۔ ایک علی بھائی دوسرا ولی زمان خان۔۔۔۔ مما بابا تو بچپن میں ہی چلے گئے تھے، بھائی نے پالا تھا۔ پھر جب آپ یونی گئے تو بھائی نے بھی اتفاق سے وہی یونی جوائن کی، پھر تو آپکو دیکھنے کے لیے مجھے اپنے سکول سے کوئی نہ کوئی بہانہ کیے یا وبال مچا کر بھائی کے پاس جانا پڑتا تھا، بڑی ہوتی گئی۔ چند سال بعد خود بھی کالج پہنچ گئی، پھر آپکے سیمنارز میں جاتی تھی، آپ ڈیبیٹر تھے ناں، تو اس ڈیبیٹ کو سننے کے لیے ونیزے اپنی کلاسز بنک کرتی کالج سے ٹیکسی لے کر ہانپتی ہوئی ہال پہنچتی تھی اور بدقسمتی سے سب سے آخر پر جگہ ملتی تھی مجھے۔۔۔اسکا بہت افسوس ہوتا تھا بلکہ باقاعدہ ڈیبیٹ کے بعد ایک گھنٹہ رونے کا سیشن چلتا تھا۔

بھائی کو مار دیا اس نے تو بھائی کی ونیزے بھی آدھی مر گئی، میں ایک نمبر کی جاسوس تھی تبھی تو بچپن سے آپکی جاسوسی کی لیکن ایک بار بھی پکڑی نہ گئی۔۔۔۔ پھر اپنی زندگی اتنی تنگ ہو گئی خود پر کہ جاسوسی چھوڑ کر آپکی حسرت پال لی، آپ بڑے آدمی بن گئے تھے ناں، ہر ایرے غیرے کو آپکا دیدار ملنا ممکن نہیں رہا تھا سو لگے ہاتھوں گونی کی آفر قبول کی، بھائی کا بدلا بھی لیتی اور اس امید پر رہی کہ ساتھ جرم کی دنیا میں بظاہر کود کر کبھی نہ کبھی ولی زمان خان جیسے قانون کے محافظ کا سامنا ہو جائے۔۔۔۔لیکن سامنا ہوا تو دیکھیں میرے پاس زندگی کے بہت تھوڑے دن رہ گئے ولی، ڈاکٹر علی کہتے ہیں مجھے لاحق یہ موذی بیماری میری طرح بہت عجیب ہے، کب اسکی شدت بڑھتی ہے کب کم ہو جاتی ہے کچھ پتا نہیں چلتا۔۔۔۔۔۔ مجھے اب بھی آپکو دیکھنا بہت پسند ہے، اب تو میں پوری توجہ سے دیکھتی ہوں۔ جیسے اس کے بعد مجھے کچھ بھی نہ دیکھنا ہو۔۔۔۔بس یہی تھی میری چھوٹی سی کہانی، شاید بڑا سا پاگل پن بھی"

وہ روانی سے بولی، کبھی مسکراتی تو کبھی اسکی رنگ بدلتی یاسیت سے پاک آنکھوں میں آنسو بھر آتے، پھر وہ ان آنسووں کو دقت سے پیچھے دھکیل کر اپنی نادانیوں پر دردناک سا مسکراتی، مسکراتے مسکراتے اسکی آنکھیں جلنے لگیں پھر بھی وہ رونے کے بجائے مسکرائی، جب اپنی کہانی سمیٹی تو اسکی نظریں اسکی طرح کمزور ہو کر جھک گئیں اور ولی نے اسے دریا دلی کے سنگ اپنا آپ دینے کا فیصلہ لیا، وہ اسکے رخسار، ٹھوڑی، پھر اسکی کلائی، اور ہتھیلی کی پشت اس کہانی کے بیچ اپنی انگلیوں کی پوروں سے ٹرانس کی کیفیت میں سہلاتا رہا جس سے اسے خوشی اور ونیزے کو راحت ملی۔

"واقعی بہت ماہر جاسوس ہو تم، مجھے تو آج تک شک تک نہیں ہوا کہ کوئی میرے پیچھے اس فرصت سے لگا ہے، مجھے دیکھو ، دیکھنا پسند ہے تو آنکھیں کیوں جھکا لیں"

وہ اسکی جھکی آنکھیں دیکھنے کی چاہت رکھتے ہوئے نرمی سے شیریں سخن ہوئے بولا تو وہ جبرا روداری سے مسکراتی اسے آنکھیں اٹھا کر دیکھنے لگی۔

"میں نہیں چاہتی آپ مجھے کبھی بھی روتا ہوا دیکھیں، میری پچھلی زندگی تو بذات خود ایک آنسو تھی بس تبھی نظریں جھک گئیں"

وہ مضبوط تھی اور وہ بہت سہولت سے اپنی تکلیف اپنے اندر دبانے کی ماہر بھی تھی۔

اور ولی زمان خان اس کی اس مضبوطی اور باہمت ہونے پر فدا ہو چکا تھا، وہ خود پر کیا رشک کرتا کہ اس نے اک عمر جلتے ہوئے کاٹی تھی، اس لڑکی کی تکلیف کے آگے اسکی جلن تو قطرہ نکلی تھی۔

"مجھے تمہارا یہ پاگل پن بہت پسند آیا ہے، اتنا کہ ونیزے حسن کی ایسی محبت آخری سانس تک خود سے لپٹی ہوئی چاہتا ہوں۔ تم میرے سامنے دوبارہ نظریں مت جھکانا، مجھے بھی اچھا لگتا ہے جب تم ان آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہو، واقعی ایسے دیکھتی ہو جیسے اسکے بعد تمہیں کچھ نہیں دیکھنا"

وہ اسے دیکھ کر اپنے کہے لفظوں کی ٹھنڈک سے اسکے جلتے وجود کو تو آرام دے ہی رہا تھا ساتھ اس نے ونیزے حسن کی رخسار شدت سے چومی جس پر بہہ کر رینگتے آنسو کی نمکینی ولی کو اپنی زبان پر گھلتی محسوس ہوئی اور ونیزے نے بہت کرب سے ولی کی جذب سے بھری آنکھیں دیکھیں۔

"میں تمہاری ہر حسرت، خوشی میں بدلوں گا ونیزے۔ پوری ایمانداری کے ساتھ۔

میں تمہیں ہرگز مرنے نہیں دوں گا پارٹنر، میں تمہاری محبت کی تاثیر کو اور اپنی مخلص دعاوں کو آخری دم تک آزماوں گا، تم ایک سروائیور بنو گی ۔ جسے زندہ رہ کر اپنی حسرتوں کے جہاں سے نکل کر خوشیوں کے محل میں داخل ہونا ہے۔ بس تمہیں مجھ سے ایسے ہی محبت کر کے اپنے درد دور کرنے ہوں گے، کرو گی؟"

وہ اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتا یہ محبت بھرے الفاظ کہہ کر ، عہد باندھ کر اس لڑکی کی آنکھوں میں بلکتی ہوئی دم توڑتی حسرتوں پر مسکرایا، وہ بھی سر کو بچوں کی طرح جنبش دیتی روتی روتی ہنس کر ولی کا دل دکھانے کے باوجود اسے سکون دے چکی تھی۔

"بول کے بتاو، مجھ سے محبت کرنا بھی تمہیں پسند ہے یا نہیں؟"

کڑا امتحان تو اس شخص نے اس بار ونیزے کا لیا تھا، اس لڑکی کے سرسراتے ہونٹ، تھرتھراتی پلکیں، یہ رقص جان لیوا تھا۔

"ب۔بہت پسند ہے"

وہ اسکو دیکھ کر بمشکل بول سکی تھی، اسکا پورا وجود اس جواب پر کانپا تھا۔

"تو پھر ولی زمان خان سے ملنے کے لیے تیار ہو جاو شکارن، پورے استحقاق اور محبت کے سنگ۔ تمہاری ہر تکلیف کو راستہ بھلا دیتا ہوں، وہ پھڑک کر فنا ہو جائے گی اب، لیکن تمہارے وجود کا دوبارہ رخ نہیں کرے گی۔ اور اس بیچ صرف یہ سوچنا کہ ولی کی خواہش ہے وہ تمہاری محبت کا چہرہ دیکھے"

نہ تو اس نے ونیزے سے کوئی اجازت طلب کی نہ اسے کسی شدت سے آزمایا بلکہ اسےے نرماہٹ کے سنگ اپنے قریب کیا، اسکی دہک اٹھتی گالوں پر مہریں لگائیں، اور مخملی مہربان لمس سے اسکی تھکی تھکی سانسوں میں روانی لایا اور کپکپاتے لبوں کی لرزش منہدم کی، جو اسکے لبوں کو چھونے پر ہی کانپ کر رہ گئی تھی، باقی مسیحائی پر تو تڑپ اٹھتی ، جبکہ اس شخص کی وارفتگیوں ، شر انگیزیوں کے نرم جھونکے محسوس کرتی ونیزے نے سختی سے نہ صرف آنکھیں میچیں بلکہ ولی کے اس پر قابض ہونے اور اسکی وجود کو اپنی نرم ملائم قربت سے اطلسی کر دینے تک ہوش و ہواس سے بے گانی رہی، اسکے درد کی شاہانہ دوا ہو رہی تھی سو ہر مداخلت ولی زمان خان نے ممنوع قرار دے دی، ہر رکاوٹ کو بلکتا ہوا چھوڑتے ہی اپنے آپ سے بھی زیادہ اس لڑکی کو قریں کر لیا جسکی زندگی اب اسے اپنی زندگی کے لیے بہت ضروری ہو گئی تھی۔

ان دو کے بیچ صرف محبت اور دعائیں رہ گئی تھیں، ہر پردے کو لباس کی شکل میں تبدیل کرنے میں بھی وہ ماہر نکلا تھا۔

"زندگی مختلف علامتوں کی شکل میں اس کرہ ارض پر موجود ہے۔

جن کی طرف لوگ کھینچے چلے جاتے ہیں

میرے لیے زندگی کی علامت تم ہو

جس کی طرف میں بے اختیار کھینچا چلا جا رہا ہوں

لیکن نہیں! سنو

شاید تم بذات خود زندگی ہو"

ابر آلود سا یہ دن معتبر تھا، یہ لمحہ مقدس تھا، محبت بھری سرگوشیاں، جسم و جان کو گدگدا رہی تھیں۔ یہ لمحہ حسین تھا جب دکھتی رگوں کو آرام ملا، جب رکتی سانسوں کو دوام ملا، جب تھکے ہارے بدن کو سکون کا کام ملا۔

جب محبتوں کے ادھورے صلوں کو پورا نام ملا۔

وہ اس لڑکی کے لیے اسکے قریب گیا مگر یہ ادراک تو ولی زمان خان پر اسکی روح چھونے کے بعد کھلا کہ وہ خود اک نئے سکون سے متعارف ہو گیا ہے۔

ایسا سکون جو اللہ نے اسکے لیے صرف لڑکی کی قربت میں مخفی رکھا تھا، انعام کی صورت!

تمہاری روح میں جھانکا تو تم کھلی مجھ پر

یہ خال و خد تو تمہارا پتہ نہ دیتے تھے۔۔۔!

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

اشنال کل سے اب تک میثم کو بہت یاد کر چکی تھی، اسکا تو میثم کو دیکھے بنا لمحہ گزارنا محال تھا مگر وہ یہ بھی جانتی تھی وہ جن محازوں پر جاتا ہے وہاں سے جیت کے سنگ سرخرو ہو کر ضرور لوٹتا ہے۔

زونی بھی واپس آچکی تھی اور اسے خود مشارب ہی چھوڑنے آیا مگر پھر ضرار کے بارے جان کر وہ جلدی میں نکل گیا۔

ہاشم اور مالنی بھی دو بجے تک بزدار حویلی پہنچ چکے تھے، ان دونوں کو صحیح سلامت دیکھ کر حویلی کے ہر فرد نے رب کے خضور شکر بجا لایا، کنزا کی موت کی خبر پوری بزدار حویلی کو وقتی طور پر سوگوار کر گئی تھی مگر سب نے اس عورت کے لیے ماتم نہ کرنے کا فیصلہ لیا تھا، یہ سب زونی کے لیے سہنا واقعی مشکل ہوتا اگر اسے سنبھالنے کے لیے مالنی ، اشنال، گلالئی، فضیلہ اماں اور سب کے بڑھ کر ہاشم پاس نہ ہوتا پھر دادا سائیں نے اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا، اسے اکیلا نہ چھوڑا کہ وہ تنہائی میں رو کر خود کو اذیت نہ دے۔

مشارب، ضرار کی مدد کے لیے روانہ ہو چکا تھا، ضرار اور اسکے تمام لوگ بہت محتاط تھے، راستے میں دو جگہ تاک میں بیٹھے خاقان خان کے لوگوں کو تو وہ جہنم واصل کر ہی چکا تھا مگر اصل جھٹکا اسے تب لگا جب مشارب واپس حویلی پہنچا اور خاقان خان اپنے کمرے سے غائب تھا، کسی نے خاقان خان کو حویلی سے نکلتے نہ دیکھا تھا اور شاید اگر دیکھا بھی ہوگا تو وہ لوگ بھی وہی ہوں گے جو خاقان کے مددگار ہوں گے، اسکے دو لوگ اسے وہیل چئیر پر بٹھائے نجانے کب حویلی سے نکال کر لے گئے تھے کسی کو خبر نہ ہوئی جبکہ یہاں سے اصل ضرار کی فکر شروع ہوئی۔

حویلی کے لوگ بھی اب خاقان کے شر سے مخفوظ نہ تھے کیونکہ سرونٹ کوارٹر میں مشارب کو اپنے دو لوگوں کی لاشیں ملیں تبھی وہ حویلی کی سیکورٹی بڑھاتا خود وہاں سے اس منحوس دادا کی تلاش میں نکل گیا۔

فی الحال کسی کو کچھ پتا نہ تھا کہ خاقان کے لوگ اس مریل بڈھے کو کہاں لے کر گئے تھے اور یہ چیز ضرار اور مشارب دونوں پر لٹکتی تلوار کی طرح موجود تھی، جب تک مشارب، ضرار کی لوکیشن تک پہنچا تب تک پہلے ہی ضرار کے کچھ آدمی خاقان خان کی خبر ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو چکے تھے، اور وہ دونوں ہی اس جگہ روانہ ہوئے۔

دونوں حویلیوں کے مکین دعاوں اور دونوں بچوں کی خیریت کے لیے دعا گو تھے، کیونکہ وہ زخمی درندہ پہلے سے زیادہ وبال جان بن چکا تھا، اور اب اسکی موت تک کوئی بھی بشر محفوظ نہیں تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

تمہیں پکا یقین ہے کہ وہ یہیں ہیں؟"

ہلکی ہلکی بوندا باندی موسم کی خنک لہر میں قدرے اضافہ کر چکی تھی، وہ دونوں اس وقت ایک ساتھ ہی خاقان خان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے کیے آگے بڑھ رہے تھے، ضرار کے آدمی کی خبر غلط ہوتی ایسا تو ممکن نہیں تھا مگر اس جگہ تو دور دور تک کسی زی روح کا نام و نشان نہ تھا، تاحد نگاہ پھیلا کھلا سرسبز گھاس پوش میدان تھا اور ملحقہ ٹیوب ویل اور پھر دائیں جانب مسلسل کھڑی فصیلیں موجود تھیں اور ساتھ ہی ڈیرا تھا، جہاں طرح طرح کے مویشی بندھے تھے۔

"ہاں، خبر تو اسی جگہ کی تھی۔ ویسے بھی تمہارے پیارے دادا کے لیے آخری جائے پناہ انکا یہ مویشی ڈیرا ہی بچا تھا۔ جانوروں کے ساتھ جانوروں جیسی موت پا کر انھیں بہت مزہ آنے والا ہے"

مسکراتے لہجے میں کہتے ہی وہ اپنے لوگوں کو اندر بڑھنے کا اشارہ دیتا خود سنجیدہ ہوتے مشارب کو دیکھتے رکا۔

"ضرار! میں نہیں چاہتا تم انکو سزا دو۔ یہ حق میرا ہے"

وہ مشارب سے ایسی بات کی توقع نہیں رکھتا تھا تبھی خوشگوار سی مسکراہٹ جناب نے چہرے پر سجائے مکمل رخ اسکی جانب پھیرا۔

"اچھا! لوگ کیا کہیں گے۔ سردار مشارب زمان خان نے اپنے ہی آپاہج ، کمزور، بے بس دادا کے خون سے ہاتھ رنگ لیے۔ لوگ تو اس مردار پر ترس کھائیں گے، علاقے کے لوگوں کو کیا پتا کہ وہ اب بھی درندہ ہے۔ سو تم میری حکمت عملی کو دیکھنا! میں دشمن دادا کو اس جگہ جا کر سزا دوں گ جس جگہ ان کو ہوتی سزا پر کوئی سوال نہیں اٹھے گا"

مشارب اسکی تمہید بلکل نہ سمجھا، تبھی اسکے چہرے پر جھنجھلاہٹ نمودار ہوئی۔

"کیا مطلب، میں کچھ سمجھا نہیں"

وہ الجھ کر بولا۔

"سمجھا دوں گا، اپنے عتاب پر قابو رکھنا جوشیلے سردار۔ بنا بنایا کھیل بگھاڑ مت دینا۔ تمہیں جلد پتا چلے گا کہ میری حکمت عملی کیا تھی"

وہ اسے اپنے پلین سے بنا واقفیت کروائے ہی اندر کی سمت بڑھ چکا تھا جبکہ یہ الگ بات تھی کہ اسکا زخمی کندھا بہت بری طرح درد کر رہا تھا، مشارب کو اسکی اس لیے بھی فکر زیادہ تھی۔

اندر خاقان اپنے بیس کے قریب لوگوں کے ساتھ موجود تھا، وئیل چئیر چھوڑ کر وہ چارپائی پر بیٹھا، وہاں رکھی گولیاں، پھنکارتے ہوئے اپنی گن میں بھر رہا تھا اور اسکے منحوس لوگ پورے ڈیرے کے اردگرد مٹر گشت کرتے دیکھائی دے رہے تھے۔

اسے کنزا اور اپنے خاص آدمی کی موت کی خبر مل چکی تھی، سو بیٹی کی موت کا افسوس نہ تھا بلکہ مہرہ ضائع ہو جانے کا ملال تھا تبھی وہ ضرار کا خاتمہ کرنے خود نکل آیا تھا۔

یکدم ڈیرے کے باہر کی طرف سے ہوتی گولیوں کی اندھا دھند یلغار سنتے ہی خاقان خان کے خباثت سے بھرے چہرے پر چمک اتری۔

"آگیا و۔۔وہ۔۔۔۔اپ۔۔پنی موت لینے۔۔۔۔جاو ت۔۔تم سب۔۔۔ب۔۔بھون دو ا۔۔اسے"

وہ وہیں بیٹھا ہی اپنی جلے کے باعث آدھی ناکارہ زبان ہکلاتے غرایا تو اسکے آدمی فرمابرداری سے لپک لپک کر باہر دوڑے مگر ضرار کو تو زحمت بھی نہ کرنی پڑی اور اسکے لوگ اور مشارب ہی کافی تھا ، خاقان خان کے چیلوں کو جہنم واصل کرنے جبکہ خود ضرار، اپنی گن تھامے مسکراتا ہوا اس طرف آیا جہاں کچی گیلی زمین پر لوہے کہ بناوٹی چھٹ کو بنایا گیا تھا اور اس تلے دو عدد لاغر سی چارپائیاں بچھی تھیں۔

"کیسے ہیں دشمن دادا جی، ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔زبان بھی تھوڑی بہت چل پڑی۔چچ چچ میں نے تو بہت برا مڑورا تھا۔زبان پوری سفاکی سی جلائی تھی۔۔۔لائیں دیکھائیں زرا۔۔۔اوہ آپ تو گر گئے"

اچانک سے عقب سے بلند ہوتی آواز پر وہ اٹھنے کی کوشش میں ہڑبڑایا جس پر توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے وہ وہیں زمین پر بے بسی سے اپنی سارے بوجھ سمیت الٹ گیا جس پر ضرار نے بہت خود کو روکا پر درد کے باوجود اس موندی ہوئی فسادی شے کو دیکھ کر اسکا قہقہہ گونجا، اور ناصرف ضرار نے ہمدردی کے طور پر اسے سہارا دے کر واپس اٹھا کر بٹھایا بلکہ اسکی گن بڑی بے تکلیفی سے اپنے قبضے میں لی جس کی آنکھوں میں پہلی بار موت کا خوف تنتنا کر ناچا تھا۔

"جب پتا تھا کہ اب آپ سے میثم ضرار چوہدری کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تو پھر کیا سوچ کر پھنے خان بن کر حویلی سے نکلے تھے، کھڑا تو آپ سے ہونا مشکل ہے۔ گن بھی چلاتے تو میری ٹانگ وانگ پر ہی لگتی سو لائیں یہ گن مجھے دے دیں۔۔۔ آپ کے لیے  جرگہ میدان میں ایک بہت بڑا سرپرائز تیار کیا ہے"

ناصرف وہ اپنے بھیانک خوفناک سرسراتے جملوں سے اس شخص کی حالت پتلی کر گیا بلکہ اگلے ہی لمحے مشارب بھی گن لیتا وہیں دوڑ کر پہنچا، خاقان کے تمام وفادار مارے جا چکے تھے اور مشارب کو آتا دیکھ کر خاقان خان کو لگا شاید ابھی بھی بچ نکلنے کی راہ موجود ہے۔

"ی۔۔یہ ت۔۔تمہیں گمراہ ک۔۔کر رہا ہے۔۔۔۔۔ م۔۔میں ت۔۔تمہارا د۔۔دادا ہ۔۔ہوں۔۔بھول۔۔گئ۔۔ئے می۔۔میری محبت۔۔۔م۔۔میری ششفقت"

اس کی اداکاری کا تو میثم کے علاوہ مشارب بھی فین ہوا تھا اور زہر خند مسکراہٹ سجائے وہ بھی ٹھیک ضرار کے ساتھ آکر کھڑا حقارت سے اس شخص کو دیکھنے لگا۔

"آپ نے میرے اندر جو زہر بھرا ہے اسکے نتائج آج تک بھگت رہا ہوں، کونسی محبت اور شفقت کی بات کر رہے ہیں خاقان خان، وہ جو مجھے سود سمیت چکانی پڑی۔ اب سب ختم، آپکا وقت پورا ہوا۔ میں آپکو واجب القتل قرار دیتا ہوں، اور یہی بات پورے علاقے کے سامنے کہتے ہوئے مجھے بلکل دکھ نہ ہوگا۔۔۔ بھلے میرے بابا سائیں کو کنزا نے مارا ہو، لیکن وہ جس زہر کا شکار ہوئے اسکی وجہ بھی صرف آپ تھے۔ بہت سارے گناہ آج کھلیں گے، میں آپکو ماروں گا نہیں"

وہ اپنی گن جو اس منحوس شخص پر تان چکا تھا، اختتام تک نیچے کر گیا جبکہ ضرار کے اشارے پر چار لوگ خاقان خان کی طرف لپکے جس سے وہ حراساں ہوا۔

"لے چلو بھئی دشمن دادا کو، جرگہ سجنے والا ہے۔۔دیر نہ ہو جائے، میں بھی پہنچتا ہوں سرپرائز لے کر"

ضرار کے کہنے پر وہ اس بلکتے سسکتے تڑپتے فرعون کو گھسیٹ کر گاڑی کی طرف لے کر بڑھے جبکہ جاتے جاتے مشارب نے پلٹ کر ضرار کی طرف آسودہ دھانی آنکھوں سے دیکھا۔

"انتہائی ناسمجھ ہوں لیکن پہلی بار بنا تمہارے بتائے بھی سمجھ گیا ہوں کہ تمہاری حکمت عملی کیا ہے، اصل فاتح تو تم ہو ضرار، جس نے دشمنی بھی شان سے کی اور محبت کا بھی شاندار حق ادا کیا۔ جرگے پر تمہارا انتظار رہے گا، امید ہے تمہارا سرپرائز اس جیت کا مزہ دوبالا کرے گا"

وہ مسکرا کر رشک سے بھری نظریں ضرار پر ڈالتا وہاں سے جا چکا تھا اور میثم ضرار چوہدری اسکے پہلی بار عقل کو ہاتھ مارنے پر شر انگیز مسکرایا تھا۔

اسے جبل زاد کا انتظار تھا تاکہ آج روایات کا اصل حق ادا کرتے ہوئے خاقان خان کو اسکے تمام گناہوں کی شاہانہ سزا دی جاتی۔

اور لگ بھگ آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ سائیں کا وفادار وہاں پوری تیاری کے سنگ پہنچ چکا تھا، یہ وہ سارے ثبوت اور گواہ تھے جو کئی بار اس منحوس فرعون کی سازشوں کے باعث رد ہوئے تھے۔

لیکن آج انھیں عالم بزدار نہیں، بلکہ میثم ضرار چویدری پنچائیت کے سامنے پیش کرنے والا تھا، آج ناکامی ممنوع ہو چکی تھی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"She said, if You are holding my hand making me walk then I don't care about how many obstacles I get in my way."

اس شخص کی مخملی قربت، اسکے بیمار جسم، تھکے دل اور بے قرار روح کی شفا بنی تھی، وہ کب نیند میں اتری اور کب وہ اسے محبتوں کی نئی شکلیں تسخیر کرواتا اس کے ہر منظر سے اوجھل ہوا، اسے خبر نہ ہوئی، شاید وہ اسکی جھکی آنکھوں کو دیکھنے کی کچھ وقت تاب نہ رکھتا تھا۔

عصر کی آذانوں پر اسکی آنکھ کھلی تو جیسے جسم و جان پر حاوی اس شخص کی خوشبو کے لمس سے اسکی آنکھیں کھلیں، پھر جیسے کچھ قبل پہلے کے لمحے یاد آتے ہی وہ بے قراری سے اٹھ بیٹھی، ولی کمرے میں تو کیا گھر میں بھی موجود نہ تھا۔

ہاں اسکے سرہانے ایک پنک پیپر ضرور رکھا گیا تھا جسے حواس یکجا کرتے ہی ونیزے نے ڈرتے ڈرتے پکڑ کر اٹھایا۔

"تمہیں پتہ ہی نہیں ہے

اے خیال زادی! کہ تقدیر کی ساری اچھی لکیریں تمہارے ہاتھوں سے ہو کر میرا بخت بننے والی ہیں۔

تم جانتی ہی نہیں کہ تمہارے چہرے کی چمک سورج کی کرنوں کو پُر نور بنا چکی ہے، تمہیں پتہ ہی نہیں کہ تم موسم سرما کی ایک دلکش دوپہر جیسی ہو"

اسکے الفاظ یہیں ہی جان لے گئے اور ابھی تو آگے بھی محبت کو قبولیت بنانے کا فسانہ درج تھا۔

"جب تم نیند سے جاگو گی تو یقینا تمہیں ہمارے بیچ سب بدلا ہوا اور خوبصورت لگے گا، میری بازو کی فکر مت کرنا، سوچا تھا تم سے زخم چھپا لوں گا پر بےوقت تم پر مہربان ہونے کا ارادہ بنا کر خود ہی تم پر اپنی تکلیف عیاں کر بیٹھا۔ میں آج کے بعد کبھی تمہاری آنکھوں میں اپنی حسرت نہیں دیکھنا چاہتا ونیزے اور نہ کوئی تڑپ یا تکلیف، صرف خوشی، محبت اور سکون۔۔باقی ہر جذبہ ممنوع، اب ولی صرف تمہارا ہے، اور میں نے تمہیں پورے دل سے قبول کیا ہے۔ ایک دو دن شاید گھر نہ آسکوں، گونی اور اس سے جڑا ہر معاملہ سمیٹ کر آوں گا، تب تک خود کو دوبارہ میرے روبرو پراعتماد کر کے لانے کے لیے تیار ہو جانا کیونکہ جانتا ہوں تمہاری محبت کی صورت دیکھنے کی ضد میں ولی نے تمہیں بہت کمزور کر دیا ہے۔ مجھے یہ کچھ پل تمہارے ساتھ گزار کر بہت اچھا لگا، جیسے اس لمحے کے بعد سکون کا کوئی دوسرا لمحہ باقی نہ رہا ہو۔

ٹیک کئیر پارٹنر"

وہ الفاظ نہیں، وہ سکون رگ رگ میں اتارنے والا سندیسہ تھا، ناچاہتے ہوئے بھی اس نڈھال لڑکی کی آنکھیں اس قدر مقدس کر دینے پر بھیگ سی گئیں۔

وہ اس پیپر کو ہونٹوں سے چومتی مسکائی، جیسے اسے اس شخص کے لکھے لفظوں کا لمس بھی جان سے پیارا ہو۔

پھر وہ لفظ بھی تو تھکے وجود کی بہار تھے۔

وہ پیپر دھیان سے فولڈ کرتی، ڈرا کھول کر اس میں رکھے آنکھیں موند گئی، دل کب چاہ رہا تھا اس حصار سے نکلے، دل یہیں بکھرے لمس سمیٹنے کی جستجو میں تھا، ولی کی بیڈ پر جگہ پر پڑی سلوٹیں اسے مسکراہٹ بخش رہی تھیں، اسکے نرم ہونٹ ، گزری نوازشوں کے قہر سے مہکے ہوئے تھے، اسکے گالوں پر گلال بکھرا تھا، اسکی آنکھوں میں خمار آچکا تھا۔

پر اسکے باوجود اسے ولی کی بازو کے لیے پریشانی تھی، جسے وہ ولی کے لاکھ چھپانے کے باوجود بہت جلدی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

"آپکی قربت کا سحر لیے گر ونیزے اب مر بھی گئی تو اسکی اندھیری قبر انہی لمحوں سے روشن ہو جائے گی" انہی پر لطف مہکے لمحوں کی بدولت اس پر دوزخ کی آگ ممنوع ہوگی کیونکہ اسکے وجود پر اس شخص کی خوشبو کا حصار بندھ گیا تھا، جو ونیزے حسن کا امام ضامن بننے والا ہے

‏محبت عمر، شکل، رنگ، ذات، وقت اور مسافت کی محتاج نہیں ہے۔

یہ رب کی دین ہے جس کو مل جاۓ۔

جبکہ دوسری طرف وریشہ اور شہیر واپسی کے لیے روانہ تو ہو گئے تھے مگر وہاں پہنچ کر نئے سجتے جرگے نے انھیں بھی ویسے ہی حیران کیا جیسے دونوں علاقوں کے لوگوں کو کیا تھا۔

ناجانے اب اس پراسرار جرگے کی نوعیت کیا ہونے والی تھی، ابھی تک تو ہر فرد اسی تجسس میں مبتلا دیکھائی دے رہا تھا۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ایک بار پھر مغرب کی نماز با جماعت ادا کرنے کے بعد دونوں علاقوں کے معززین اس جرگے میں شامل ہونے پہنچ آئے تھے، آج مجرم وہ تھا وہ کئی سالوں سے اس پنچائیت پر حاکم بن کر اپنے جرائم کی بخشیش کرواتا آیا تھا، یہ بات واقعی سچ تھی کہ خاقان خان جس ابتر حالت میں تھا، لوگ اسکے ظلم بھول کر اسکی عبرت پر اب ترس کھانے لگے تھے اور یہی ترس تو میثم ضرار چویدری کو گوارا نہ تھا۔

سردار شمشیر یوسف زئی آج بھی سرپنج کی حیثیث سے جرگے کے حاکم اعلی تھے جبکہ سردار مشارب زمان خان بھی آج خاقان خان کی عبرت طے کرنے سارے حوصلے یکجا کیے براجمان تھا۔

ضرار کے ساتھ اسکا وفادار جبل زاد موجود تھا اور شروعات ہوئی تھی کئی سال پہلے کے اس قتل سے جسکا ثبوت گواہ کی صورت ضرار ساتھ لایا تھا۔

"کمو نامی وہ آدمی تو آپ سبکو یاد ہوگا جسے میرے دادا سائیں نے خاقان خان کو مارنے کے چکر میں جہنم واصل کیا تھا، میرے پاس ایک مزیدار گواہ موجود ہے۔ یہ آپکو بتائے گا کہ کمو کیسے مزاج کا مالک تھا، یہی نہیں، کمو کے بھائی کو رات و رات کس نے مارا یہ بھی تفصیل بتائے گا"

پوری پنچائیت پر رعب کے سنگ ضرار کی آواز گونجی اور پھر ایک مریل سا عمر رسیدہ آدمی مجمعے میں سے اٹھ کر سرداران کے روبرو پیش ہوا، وہ انتہائی بوڑھا ہو چکا تھا، اسکے وجود اور چہرے پر جھریاں تھیں۔

"میرا نام پھلو ہے، میں کمو کا چچا زاد بھائی ہوں۔ وہ ایک نمبر کا زانی، قاتل، کمینہ، کتا اور شرابی تھا، میں نے اپنی ان آنکھوں سے کئی بار اسے گناہ کرتے دیکھا اور رنگے ہاتھ پکڑا، اس منحوس کی ہر سانس اس دھرتی پر نحوست تھی سو میرا دل عالم بزدار کو داد دیے سلامی پیش کرتا ہے جس نے اس خبیث کو موت دی تھی"

تمام مجمعے پر اسکی گواہی کے بعد سکتہ طاری ہوا، جبکہ وہ آدمی جو گواہی دے رہا تھا اسے تو خاقان نے مار دیا تھا تبھی خوف کی لہر اس آپاہج شخص کے پورے وجود میں لہرائی۔

"اس کے بعد جرگہ بیٹھا تھا ناں چچا پھلو، عالم بزدار کے ہاتھ سے ہوتے جائز قتل پر بھی سزا ہوئی، گل خزیں کو ونی کیا گیا تھا کمو کے بڑے بھائی کے گھر۔۔۔پھر کیا ہوا تھا؟"

پھلو نامی اس آدمی کو خاقان خان کے جلادوں سے بچانے والے بھی بزدار عالم تھے، اور وہ تب سے لے کر اب تک عالم بزدار کے زمینی معاملات دیکھ رہے تھے۔

اس شخص نے مسیحا بنے انکی زندگی بچائی تھی سو انہوں نے اپنی ساری زندگی انکی خدمت میں گزار دینے کا فیصلہ لیا تھا۔

"چونکہ اس سب میں خاقان خان کی گندی نیت شامل تھی سو کمو کے بڑے بھائی نظیرے کو خود جا کر گلا دبا کر مار دیا اور میں چشم دید گواہ ہوں، اور چالاکی کے ساتھ اس نے گل خزیں خانم سے خود نکاح کیا، اور یہی نہیں پوری پنچائیت کو پیسہ دے کر خریدا، جو نہ بکے انکو دھمکیاں دیں کہ انکی عورتیں اٹھا کر انکی عزت خراب کرے گا سو تب کے سب سردار اسکی اس گندی چال میں شریک ہوئے۔۔۔۔ "

پھلو نے اپنی بات مکمل کی اور وہیں مجمعے اور سرداروں نے نفرت بھری نظروں سے مجرم کی طرف دیکھا۔

"بہت شکریہ چچا پھلو، آپکی آمد کا شکر گزار ہوں۔۔۔ابھی سب ختم تھوڑی ہوا ہے عزیزم! میری اگلی گواہ مائی جنتو ہیں۔۔۔آئیے۔۔۔ اور زرا ان دشمن دادا کی شان میں آپ بھی کچھ کہیے"

ضرار نے بہت محبت سے ان بوڑھے چچا کا شکریہ ادا کیا اور پھر مائی جنتو نامی ضعیف سے عورت جسکی کمر انتہا کی جھکی تھی، اسے لایا گیا اور آرام سے کرسی پر بٹھایا گیا۔

وہ بھی نفرت سے خاقان خان کو دیکھ رہی تھی۔

"میرا نام جنتو ہے، آپ سب جانتے ہیں میں اس علاقے کی جانی مانی دائی رہ چکی ہوں، یہ سردار نہیں تھا، یہ سردار کے بھیس میں ناگ تھا۔ جب اسکے چھوٹے بیٹے عزیز کی بیوی نورے آخری مہینوں میں تھی اور عزیز کی اولاد جنم دینے والی تھی تو یہ میرے پاس آیا، اور بولا کہ اگر لڑکی ہوئی تو اسکا گلا گھونٹ دینا اور اگر لڑکا ہوا تو اسے زندہ چھوڑ دینا اور نورے کا بھی کام تمام کر دینا۔ مجھے اس نے کئی ہزار روپے لالچ میں دیے، نورے نے ایک بہت پیاری بیٹی جنم دی مگر میرا پیشہ مجھے اس بات کی اجازت نہ دیتا تھا کہ میں اس نومولود بچی کو جنم دینے والی ماں کو مارتی سو خدا کا ڈر اور تکلیف حاوی ہونے پر میں نے جب انکار کیا تو اس خاقان خان نے ناصرف خود نورے کا گلا دبا کر اسے مارا بلکہ یہ مجھے بھی بے دردی سے پیٹ کر وہ بچی چھین کر لے گیا، بروقت عزیز خان نہ پہنچتے تو شاید یہ فرعون اس طوائف زادی کے بدن سے جنم لیتی اشنال عزیز کو بھی زندہ دفنا آتا۔۔۔۔۔ یہ درندہ ہے، اسے سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے"

وہ عورت اپنی درد بھری کہانی سمیٹ کر آخر تک آبدیدہ ہو گئی جبکہ اب علاقے کا ہر فرد گویا اس منحوس پر تھوتھو کرنے لگا، موت اچھی تھی پر یہ زلت تو خاقان خان کی زندہ درگوری بن رہی تھی۔

"خدا کی پناہ! اس منحوس انسان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے سرپنچ صاحب"

مجمعے میں سے ایک غم و غصے سے بھرا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور انصاف کے لیے للکارا جبکہ خود سردار شمشیر بھی کینہ توزی سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے جس کے چہرے پر نحوست اتر آئی تھی، اور ولی اور وریشہ کو الگ کرنے کے لیے جو پلین رچا گیا تھا وہ بھی اس منحوس بڈھے کی وجہ سے، اسے پتا تھا سردار شمشیر پہلے ہی اپنے بیٹے کی محبت میں نورے کو قبول کرنے کا زہر پیے بیٹھا تھا سو اسے ورغلانا آسان تھا اور آج سردار شمشیر یوسف زئی بھی خود کو نورے کی موت کا اتنا ہی ذمہ دار سمجھ رہے تھے جتنا وہ خاقان تھا۔

"بلکل سزا تو ملے گی ہمارے دشمن دادا جی کو، کیونکہ جو جو انہوں نے بویا ہے اب کاٹنے کی باری آچکی ہے،

یہی سب نہیں، خاقان خان نے ہاشم بزدار کو زندہ جلانے کا منصوبہ بھی تیار کیا تھا، خوش قسمتی سے وہ بچ گئے، پھر اپنی ہی اولاد عزیز خان کی موت کا ناٹک کھیلا، کیا کیا بتاوں اب اس بھری پنچائیت میں۔ ویسے مجھ پر جو انہوں نے گولی چلائی تھی اسکا شاہانا بدلہ میں انکو کوٹ پیٹ کر پورا کر چکا تھا، زبان بھی جلائی تھی پر شاید بڑی ڈھیٹ ہڈی نکلے یہ، لڑکھڑا کر ہی سہی اب تک اس زبان سے زہر اگلتے رہے ہیں۔ باقی رہے کاغذی ثبوت، مختلف زمینوں پر قبضہ کرنے کے ، طاقت کے نشے کے بیچ انہوں نے جس جس کا خون بہایا، جس جس عورت کی عزت لوٹی، وہ اس دستاویز میں تفصیلا درج ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ مائی جنتو اور چچا پھلو کی گواہی کے بعد مزید کسی گواہ یا ثبوت کی ضرورت ہے"

وہ بھری پنچائیت کے سامنے اپنا جرم بھی قبول کر کے شاہانا مسکرایا تھا اور ہر کوئی حیرت کدے میں مبتلا تھا کہ یہ شخص کس بے خوفی سے اپنے آپ کو سامنے لائے ساتھ ساتھ اپنے دشمن کی دھجیاں بکھیر چکا تھا۔

ابھی کئی گواہ تھے، کئی ثبوت تھے مگر وہ لگے ہاتھوں ایک فرض اور بھی نبھانے کے ارادے رکھتا تھا۔

شہیر مجتبی کو اجلت میں بلوایا گیا، سانول مجتبی بھی ہمراہ تھے، وقت آچکا تھا کہ شہیر مجبتی کا وہ روپ سامنے لاتا جو اب اسکے مطابق ضروری تھا مگر پہلے اسے سرداروں کی سنائی گئی سزا کا انتظار تھا۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اتنے گناہوں میں ملوث اس عادی مجرم کو میں کونسی سزا دوں، کہ میں تو خود اسکی باتوں میں آکر بارہا بھٹکا ہوں۔ شاید میں اسکے خلاف فیصلہ سنانے کا مستحق نہیں لہذا میں علاقے کے سردار مشارب زمان خان سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے کا فیصلہ وہ خود کریں تاکہ پورا علاقہ انکے انصاف سے متعارف ہو"

سب ثبوتوں اور گواہوں پر نظر کرنے کے بعد ہر خاص و عام پر اک افسردہ نگاہ ڈالتے سردار شمشیر اپنی نشت سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انکی تمہید پر سارا مجمعہ متفق تھا، ضرار بھی اپنی جگہ جا کر براجمان ہو چکا تھا اور ساتھ بیٹھے شہیر کو آج چوہدری صاحب نے مسکرا کر دیکھا تھا جسکی جیت کا ہر رنگ ولی سے اسے بروقت معلوم ہو چکا تھا اور ولی نے ہی اس سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا معاملہ فہمی سے کچھ ایسا کرے کہ شہیر کا اصل چہرہ بھی سب دیکھ لیں اور اسکے اور وریشہ کے نکاح کی سچائی سردار شمیشر قبول کریں اور دونوں علاقے جان جائیں جبکہ شہیر کو اسکی شر انگیز مسکراہٹ سے خطرے کی گھنٹیاں سی اردگرد بجتی محسوس ہو رہی تھیں۔

خاقان خان کی حالت یوں تھی جیسے میدان جنگ میں اسے دشمن سے لاتیں اور ٹھڈے رسید ہوئے ہوں اور وہ آپاہج بڈھا کسی تاک میں تھا کہ کسی طرح اسکے ہاتھ کوئی گن لگے اور وہ ضرار کے ساتھ ساتھ اپنے حق چھینتے اس سانپ جیسے پوتے کا سینہ بھی چھلنی کر ڈالے۔

"مجھے نہیں پتا کہ آپ سب لوگوں نے بحیثیت سردار مجھ سے کیا کیا امید لگا رکھی ہے لیکن میری کوشش ہوگی کہ اب سے انصاف پر مبنی فیصلے کیے جائیں، گواہان نے اپنی گواہی دے کر خاقان خان کی اصلیت ہر خاص و عام کے روبرو کر دی ہے سو پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ یہ آدمی آپ کے کسی ترس یا ہمدردی کے لائق نہیں۔

اور نہ ہی اس شخص کا پوتا ہونے کے ناطے میں اس پر کوئی ترس کھاوں گا۔ میں اگر اسکا ایک گناہ جو گل خزیں کو عالم بزدار سے چھین کر کیا، اسی کا بدلہ لینا چاہوں تو موت سے کم پر اکتفا نہ کروں گا۔ یہ شخص میری اماں سائیں کی زندگی پر لگی دیمک ہے، جس نے ایسے ایسے گناہ بھی کر رکھے ہیں جسکا گواہ صرف اللہ ہے۔ اسکے بعد میرے بابا سائیں کو نگلنے کا گناہ، ولی زمان خان کے ساتھ ناانصافی کرنے کا گناہ، سب سے بڑھ کر کنزا کی زندگی زہریلی کرنے کا گناہ کہ وہ اپنے آپ کو ہی نوچتی نوچتی بے موت ماری گئی، عزیز خان کے دل کو اجاڑنے کا گناہ، مشارب زمان کو اپنے جیسا فرعون ، بے حس بنانے کی کوشش کرنے کا گناہ، یہی کافی ہیں مجھے سزا سنانے پر قائل کرنے کے لیے سو میرے مطابق اسکی سزا صرف یہی ہے کہ اسکو اتنے کوڑے مارے جائیں کہ یہ اپنی جان دے دے۔۔۔۔ ہر کوڑا اسے ایک گناہ کی یاد دلائے گا"

سردار مشارب زمان خان کی دبنگ آواز میں بجلی کی سی کڑک اور چہرے پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی تھی جبکہ ہر فرد اسکے اس ہیبت ناک فیصلے پر قائل اور رضا مند نظر آیا، اور ضرار خاصے پرسکون انداز میں فیصلے کی ہیبت ناکی سے قہر اترتے خاقان خان کے وجود پر باآسانی دیکھ رہا تھا۔

ایسی ہی زلیل سزا کے لائق تھا وہ بڈھا، اور میثم ضرار چوہدری کی حکمت عملی کامیاب ٹھہری تھی۔

اسے تو یہ سزا بھی کم لگی مگر وہ پر یقین تھا کہ یہ شخص اپنے کیے ہر گناہ کی سزا مرنے کے بعد کئی گنا بڑھ کر پائے گا اور اسکی سب سے بڑی بدقسمتی یہی تھی کہ تاقیامت اسکی بخشیش کرنے والا کوئی نہ بچا تھا۔

لیکن اب اس مردار میں قوت تھی تبھی انہی آدمیوں سے منہ ماری کرتا پھنکارا جنہوں نے اسے تھام رکھا تھا ، اور اس سے پہلے کہ وہ بپھر کر اس آدمی سے گن لیتا، خود سردار شمشیر یوسف زئی آگے بڑھے اور پوری قوت سے گھونسا مار کر خبیث خاقان کو چت کر دیا، ہر فرد پر گویا خوف و حراس پھیلا اور خود ضرار کو بھی کہاں توقع تھی کہ زخمی شیر بننے کی باری اس بار سردار شمشیر کی ہے۔

"دیکھ لو! تمہارے سسر کتنے غصے میں ہیں شہیر مجتبی، اپنے ہی جگری یار کو تابناک گھونسے سے چت کر دیا، اب سوچ لو کہ خود مانگ سکتے ہو ان سے وریشہ یا میری ہلکی پھلکی سفارش چاہیے"

وہ خاصے مخضوظ انداز میں شہیر کی طرف جھک کر بولا جو خود سسرصاحب کی جارخانہ تیوروں پر زرا متفکر تھا۔

"اگر کہوں کے سفارش چاہیے"

اس بار شہیر نے خاصے سنجیدہ چہرے کو ضرار کی جانب پھیر کر مضبوط لہجے میں تمہیدا کہا جس پر ضرار کی نظریں اس طرف جمیں جہاں سرداران کے حکم پر اس مریل سزا یافتہ بڈھے کو انکے لوگ گھسیٹ کر وہاں سے لے جا چکے تھے۔

"اگر میں کہوں کہ تمہاری سفارش پہلے ہی کر چکا ہوں تو ؟"

وہ ضرار کی بات پر ہونق بنا اور پھر جیسے سردار شمشیر یوسف زئی کی دبنگ پکار نے ایک بار پھر ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کیا جبکہ ضرار نے بھی اخیر دل جلی مسکراہٹ دیتے ہوئے شہیر کو سامنے اپنے سسر کی جانب دیکھنے کا اشارہ دیا جس پر شہیر اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھنے لگا۔

"کل فجر کے بعد خاقان کی سزا پر سبکے سامنے عمل دراآمد کیا جائے گا تب تک وہ زندان میں رہے گا جبکہ میری کوتاہیوں کی یہی سزا ہے کہ میں سرداری سے دستبرداری لے لوں اور اپنی تھوڑی بہت ذمہ داریاں اب اپنے داماد کے کندھے پر ڈال دوں"

ہر کوئی انکے الفاظ پر دنگ تھا، اور یہی حال اس وقت شہیر مجتبی کا بھی تھا۔

"داماد؟ کون ہے آپکا داماد سردار شمشیر صاحب؟"

یہ چھوٹے سردار تھے جنکی حیرت دیدنی تھی اور جو سوال انہوں نے کیا وہ اس وقت ہر خاص و عام کی زبان پر اٹکا تھا۔

"شہیر مجتبی! میری پوتی کا نکاح شہیر مجتبی سے ہوا ہے اور میں آج آپ سبکے سامنے اس نکاح کا باقاعدہ اعلان کرتا ہوں، شہیر مجتبی نہ صرف ایک اچھا انسان ہے بلکہ بہت سی خوبیوں کا بھی مالک ہے جنکا ثبوت یہ وقت کے ساتھ خود دے گا سو میں نہیں چاہتا کہ گڑے مردے اکھاڑ کر پنچائیت کا وقت برباد کیا جائے، اپنی پوتی کو دو دن بعد پوری شان کے ساتھ میں شہیر مجتبی کے گھر رخصت کروں گا اور آپ سبکو اس جشن کی آج ہی پیشگی دعوت دیتا ہوں۔ اب سے میں سردار نہیں ہوں، میری جگہ سردار مشارب زمان خان بڑی ذمہ داریاں جبکہ شہیر مجتبی چھوٹی ذمہ داریاں نبھائیں گے"

سردار شمشیر نے اپنی بات مکمل کرتے ہی مشارب کی طرف اشارہ کیا اور آج ہر فرد کے چہرے پر خوشی درج تھی۔

"امید نہیں یقین ہے کہ اب اس علاقے کے لوگ انصاف کا بول بالا ہوتا نہ صرف دیکھیں گے بلکہ ونی اور قصاص کے ناسور بن جاتے غیر انسانی نظام سے یکسر پاک فیصلے انصاف کے مطابق پائیں گے، اب جو جرم کرے گا، وہی اسکی سزا پائے گا، نہ کسی کی بیٹی سولی چڑھے گی نہ کسی کی عزت اب پائمال ہوگی۔ خاقان خان کی موت کا جشن بھی ہم سردار شمشیر یوسف زئی کی پوتی کی رخصتی پر پوری شان سے منائیں گے، آپ سبکو کھلی دعوت میری جانب سے بھی کیونکہ رخصتی تو اس علاقے کی سردارنی کی بھی ہے۔ اللہ ہم سبکی خوشیوں کو ہر بری نظر سے بجائے۔ آخری اس طرز کی پنچائیت اپنے اختتام کو پہنچتی ہے، آپ سبکی شرکت کا شکریہ"

وہ مضبوط آواز آج ہر پست ہمتی کے شکار شخص کی ہمت بنی تھی اور آج کی اس پنچائیت کے ساتھ ہی یقینا دونوں علاقوں پر چھایا جمود بھی ہٹنے والا تھا۔

"تمہارے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکا شہیر مجتبی، اپنا اچھا چہرہ اب تم اپنے عمل سے سب کے سامنے لانا یہی تمہارا ٹاسک ہے، دوست کی فہرست سے تم کبھی نہیں نکلے، دو دن بعد پوری شان کے ساتھ تمہاری اور وریشہ کی شادی پر خاضری دوں گا اپنے صنم کے ساتھ، چلتا ہوں۔ خاقان خان کی موت تک تم پر ذمہ داری عائد ہے کہ اسے کوئی چال چلنے کا موقع نہ دینا"

اس سے زیادہ تو بس جان دی جا سکتی تھی اور جان تو میثم ضرار چوہدری صرف اشنال عزیز کے لیے دے سکتا تھا، آج شہیر مجتبی کو اس نے پھر سے دوست کہہ کر رہے سہے ہر کرب سے نجات دی تھی، سانول مجتبی بھی ایسی عزت پر آبدیدہ تھے، انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنی ایک اولاد کی وجہ سے بدنام ہوئے ہیں تو دوسری اولاد اسے ایک دن دنیا کے سامنے سر اٹھانے کے لائق بنائے گی، شہیر نے حسد سے نجات پاتے ہی اپنی زندگی کا اصل مقصد پایا تھا، اور زندگی نام ہی دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ہے، ضرار چلا گیا تھا، اپنے وفادار ساتھی کے ہمراہ واپسی کے سفر پر مگر شہیر کو سر اٹھا کر مسکرانے کی وجہ دے گیا تھا۔

آج تو گل خزیں بھی خوشی سے نڈھال تھیں، فرخانہ تک نیم پاگل پن سے نکل آئیں بس ولی کی ایک کال پر جب اس بچے نے اپنی زندگی کے بس جانے کی خبر اور جلد ونیزے کے ساتھ واپس آنے کی خبر سنائی۔

اسے جس کرب نے پاگل کیا تھا وہ ایک نہیں تھا، وہ ولی کا اجڑا دل بھی تھا، وہ مشارب کے ہاتھوں سرزد ہوتے گناہ بھی تھے، وہ زمان خان کی اپنے باپ کی اصلیت جانے بغیر موت بھی تھی مگر اس عورت نے جان لیا کہ وہ بھلے تاحیات کے لیے اجڑ گئی ہیں مگر اب انکی اولاد اجڑی نہیں رہی۔

خدیخہ خانم اور گل خزیں دونوں سے انہوں نے معافی مانگی، نہ صرف معافی بلکہ زونین کو بھی پرسوں ہی شان سے رخصت کروانے کا فیصلہ بھی انہی کا تھا، جو سلوک وہ زونین کے ساتھ کر چکی تھیں اب سوچ چکی تھیں کہ اپنی محبت سے اسکا ازالہ کریں گی اور اب اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنے کے سوا ہر خوشی بھول جائیں گی۔

خانم حویلی پر چھائے تاریک بادل جھٹ گئے تھے، خاقان خان کی نحوست سے وہ بلند و بالا در و دیوار پاک ہو گئے تھے اور اب دو دو بہووں کے آنے کی تیاریاں تھیں جو پوری شان کے ساتھ کل خاقان کی سزا کے فورا بعد شروع کر دی جانے والی تھیں۔

وریشہ کی خوشی لافانی تھی، دادا نے اس سے مزید کوئی آزمائش نہ لینے کا فیصلہ کیا، ضرار نے شہیر کی سچائی پچھلی بار ہی زرداری سے ان تک پہنچا دی تھی جو آج کی پنچائیت میں ایک خوبصورت قبولیت کے طور پر سامنے آئی تھی۔

انھیں لگتا تھا وریشہ کو ولی سے بہتر شخص نہیں مل سکتا مگر جو کچھ ضرار نے بتایا اسکے بعد انھیں وریشہ کو شہیر سے جدا کرنا ایک قہر معلوم ہوا، اور اب وہ ایسی حالت میں تھے کہ کسی قہر کو ڈھانے کے متحمل نہ ہو سکتے تھے۔

اماں کوثر اور سانول مجتبی کے سارے دکھ سمٹ گئے تھے، وہ عورت تو خوشی کے سنگ شادی مرگ کی سی کیفیت میں تھیں کہ اتنی بختوں والی وریشہ کو وہ کب اپنی بہو کے طور پر سینے سے لگائیں گی، انکا بس چلتا تو ابھی سے اسکی راہوں میں اپنا دل بچھا دیتیں اور آج شہیر بھی ہر بوجھ سے آزاد تھا، وہ ماں باپ جن سے اس نے انکی اولاد چھینی تھی آج ان سے نظریں چرانے کے بجائے انکی خوشی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

کل فجر تک اسکی ذمہ داری کڑی تھی، زندان کے باہر خاقان خان کا پہرا دینے کی ذمہ داری تبھی وہ جلد اپنے اس کام کی تکمیل کے لیے گھر سے نکل گیا۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

گھر کی تمام بیٹیوں نے آج شاندار ضیافت کا انتظام کیا تھا، زونی کو سب نے دادا جان کی کمپنی میں ہی بٹھائے رکھا جبکہ جیت کا جشن بزدار حویلی کے در و دیوار کو بھی سکون سے روشناس کروا چکا تھا۔

ضرار اور جبل زاد واپسی کے لیے روانہ تھے اور جلد حویلی پہنچنے والے تھے جبکہ بزدار عالم بھی خوش تھے کہ انکے پوتے نے انکے گناہ گار کو اسکی اوقات کی سزا دی ہے۔

"مجھے اسکے کندھے کی بہت فکر ہو رہی گل، مجھے پتا ہے زخم بگھاڑ کے رکھ دیا ہوگا ٹارزن صاحب نے"

باورچی خانے میں اس وقت گل اور اشنال تھیں جبکہ فضیلہ اماں کو انہوں نے خود زبردستی اب آخری مراحل خود دیکھ لینے کی تسلی کروائے باہر بھیجوایا تھا اور مالنی بھی باہر ڈائنگ پر برتن لگانے نکلی تھی۔

کھانا بس تیار تھا، کچھ چیزیں دم پر اور کچھ آخری مراحل پر تھیں، سلاد بناتی گل نے اشنال کو پریشانی کے سنگ بڑبڑاتے دیکھ کر چہرہ موڑا۔

"لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ کیا شاندار معرکہ کر کے آرہے ہیں وہ، جو کوئی نہیں کر سکتا تھا وہ ضرار سائیں نے کر دیکھایا۔ بزدار عالم صاحب نے جتنی ناکامیاں اور اذیتیں دیکھیں، سب کا کفارہ ادا کیا گیا ہے۔ اتنا سب پانے کے بیچ تھوڑی تکلیف تو جیت کا صدقہ ہوتی ہے ناں خانم"

گل نے اس خوبصورتی سے وضاحت دی کہ اشنال کی ساری اداسی ہی ختم ہوتی محسوس ہوئی اور پھر اب جب دل ہلکے اور دماغ پرسکون تھے تو سب اچھا اور خوبصورت لگ رہا تھا۔

"تم جانتی ہو گل، اس سے اگر یہ کہوں گی وہ بھی ایسے ہی کسی جواب سے مجھے لاجواب کرے گا، بس کیا کروں۔ اب چاہ کر بھی نہ اسے تکلیف دینے پر راضی ہوں نہ اس پر آئی ایک بھی آنچ پر مطمئین۔ جب تمہیں جبل زاد بھائی سے ویسی محبت ہوگی تو تم بھی میرے جیسئ ہو جاو گی"

وہ گلالئی کو تکتی بولی مگر اس سے پہلے ہی گل کے چہرے پر گلال سے اتر آئے اور اس سے پہلے گل اپنی خانم سے نظر چراتی، اشنال نے اسے دونوں شانوں سے تھامے اپنے روبرو کھڑا کیا۔

"مجھے اس سب جنجال میں یہ تو یاد ہی نہیں رہا کہ تم سے ایک بار تمہارے دل کا حال بھی پوچھ لوں، اتنا تو میں چند ماہ پہاڑوں پر تم دو کو ساتھ دیکھ کر جان ہی گئی ہوں کہ کوئی مانوس سی کشش تم دونوں پہاڑوں کے باسیوں کے بیچ ضرور موجود ہے لیکن تم اپنی خانم کو اپنے منہ سے بتاو گی تو بہت خوش ہو جاوں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ میثم کے سب سے وفادار ساتھی اور دوست ہیں۔ سو ابھی آس پاس کوئی نہیں، بتاو خوش ہو اس فیصلے سے؟"

وہ اشنال کے اتنے پیار سے پوچھنے پر آنکھیں نم سی کر لیتی بس اس سے لپٹ گئی اور اشنال عزیز کی خوبصورت آنکھیں اس درجہ دلکش جواب بھی نہال ہو گئیں۔

"مجھے وہ بہت پہلے سے اچھے لگتے ہیں خانم، وہ سب سے الگ ہیں۔ میں نے یہ بات آپکو کبھی اس لیے نہیں بتائی تھی کہ مجھے ایسی کوئی امید نہیں تھی کہ میں کبھی ان کے ساتھ اس طرح کے رشتے میں بھی جڑھ سکتی ہوں۔ میرے نزدیک یہ ناممکن سا تھا، آپکو گلالئی خوش نہیں لگی کیا، میری ساری خوشیاں تو آپکے ساتھ ہمیشہ رہنے سے اور بڑھ گئی ہیں۔ آخری سانس تک آپکو اپنے پاس موجود پانا، آپکی اس سہیلی کے لیے سب سے بڑی راحت ہے، اور اسکا وسیلہ اگر وہ بنیں، تو میری محبت کی یہ دوسری دنیا بھی آباد ہو جائے گی"

وہ گل کے اس اظہار پر جی سا اٹھی اور اسے پکڑ کر روبرو لائی، اسکا چہرہ اپنے یخ پڑتے ہاتھوں میں بھرا۔

"تمہارے لیے بہت خوش ہوں، خانم تم پر قربان جائے۔ جبل بھائی کی تو قسمت کھل گئی، ایسی محبت شناس گل کو پانے والے ہیں، مجھے یقین ہے وہ بھی تم سے ضرور کوئی جذباتی ناطہ بنائے ہوئے ہیں، اللہ تم دونوں کو ایک ساتھ ہمیشہ یونہی آباد اور خوش رکھے۔ میری سب سے عزیز سہیلی"

وہ گل کے چہرے پر اترتی الوہی مسکراہٹ پر فدا ہوئی، جھولی بھر کر اسے دعائیں دیں جبکہ گل تو خوشی سے بھری ہوئی تھی، وہیں ماسکو کے مزاج وہ جب سے واپس آئی تھی خاصے اکھڑے اور برہم دیکھ رہی تھی تبھی وہ ڈائنگ پر پلیٹس لگاتی مالنی کی نظر جب حویلی سے باہر جاتے ہاشم پر پڑی تو وہ بھی اس سے بات کا بہانہ ڈھونڈتی پیچھے ہی باہر آئی اور باہر آتے ہی بھیگی رات نے جیسے اسکے وجود کو سختی سے جکڑا۔

وہ ضرار کو ہی کال کرنے باہر آیا تھا تاکہ ان سے پوچھ سکے کہ انکو پہنچنے میں کتنا وقت ہے۔

"چلو بھئی جلدی پہچو، بابا سائیں نے صاف کہہ دیا، آج صرف ضرار کے ہاتھ سے کھانا کھائیں گے۔ وی آئی پی جناب جو ہو گئے آپ۔۔۔۔وی آر ویٹنگ لاڈلے"

وہ کال پر ضرار ہی سے مخاطب تھا اور جب کال بند کیے پلٹا تو سامنے کھڑی مالنی کو دیکھ کر جان بوجھ کر چہرے پر برہمی سمیٹ لایا۔

"جب سے واپس آئے ہیں، آپ مسلسل مجھے گھورتی ناراض نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ سوری تو کیا تھا ہاشم۔ آپ جانتے ہیں کہ آپکی ناراضگی برداشت نہیں ہوتی"

وہ اداس سا بوجھل چہرہ لیے روبرو آ کر رکی اور دقت سے نظریں اٹھا کر اس نے ہاشم کی سرد مہری میں ڈوبی آنکھیں دیکھیں۔

"میں تم سے ناراض نہیں ہوں"

وہ اس کی ایک ہی گزارش پر مان گیا تھا یہی مالنی کی رکی سانسیں بحال کرنے کو کافی تھا مگر ہاشم بزدار کی آنکھوں میں خطرناک سی سنجیدگی اسے خفیف سا ڈرا گئی۔

"میں نے آپکو ہرٹ کیا ناں، سزا دے لیں ماسکو۔ یا مجھے اجازت دیں میں آپکو اپنے طریقے سے مناوں"

وہ اسکے لہجے کے پھیکے پن پر اداسی سے بولی اور وہ اب خفا اس بات پر تھا کہ اس لڑکی کو عین رخصتی کے قریب ہی یہ اجازت لینے کے نئے نئے ظلم کیوں سوجھ رہے ہیں۔

"اور اگر میں بلکل بھی اجازت نہ دوں؟"

وہ کھردے پن سے تنبیہی انداز میں لپٹا اور اک پل مالنی بھی جیسے اسکے اس کھٹور پن پر افسردہ ہوئی اور اس سے پہلے واپس اندر چلی جاتی، وہ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑے ناصرف روک چکا تھا بلکہ بازو گرد باندھ کر اس کے ٹھٹرتے وجود کو بھی اپنی آغوش میں سمو بیٹھا۔

"جانتا ہوں کچھ زیادہ روڈ ہو گیا تھا، لیکن اس معاملے میں میرا اندر جل کر راکھ بنا ہوا ہے۔ تم جانتی ہو مالنی، میں تم سے اپنا مردہ دل جوڑ کر اسے واپس زندگی تھما چکا ہوں۔ اب نہ تم سے پہلے کوئی ہے نہ بعد میں۔ تمہیں ہاشم بزدار کی زندگی بننا ہے، نہ کہ اسکی آزمائش۔ میں اب تم سے دور یا تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، تم نے مجھے اپنے سوا کسی کا نہیں چھوڑا۔ تم میرے لیے سراپا محبت ہو، میں تم سے صرف محبت کرنا چاہتا ہوں۔ نہیں چاہتا کہ تمہاری کوئی بیوقوفی میرے اندر کے سر پھرے ہاشم کو جگا دے اور میں تمہیں خود سے دور کرنے پر مجبور ہو جاوں۔ اب تمہاری زندگی ہر تکلیف سے نجات پا چکی ہے سو تمہیں رخصتی سے پہلے ہی یہ سب تسلیم کرنا ہے، کیونکہ اسکے بعد مجھے تمہاری طرف سے کوئی کمی برداشت نہیں ہوگی"

وہ اس لڑکی کے نازک دل سے واقف تھا تبھی اس بار اس نے محبت سے سمجھایا اور اپنے جذبات کا اعتراف کیا تھا اور ہاشم کونسی کمی کا ذکر کر رہا تھا یہ بھی مالنی بخوبی جانتی تھی۔

لیکن اسکا دل جو غمزدہ تھا، ہاشم کے اظہار سے جی سا اٹھا۔

تبھی وہی خوبصورت چال چلی گئی تھی جسے قدرت نے محبوب کو بولنے سے روکنے کے لیے تیار کیا تھا، جب الفاظ ضرورت سے زیادہ ہو جاتے ہیں اور وہ ہاشم بزدار کے روبرو ایسے اقدام بے دھڑک اٹھا سکتی تھی، تبھی تو اس شخص کی ساری اداسی موم کی طرح پگھل جاتی تھی۔

"میں سمجھ گئی ناں، بس کریں یہ تقریریں۔ ابھی کروائیں مجھے رخصت۔۔ویسے بھی آپکے بابا کا آج موڈ بہت اچھا ہے"

وہ جو کافی سنجیدہ تھا، مالنی کی پہلے بے خود حرکت اور پھر گل فشانی پر لمحہ بھر تمام اعتماد کے بوکھلاہٹ کا شکار ہوا پھر جیسے اچٹتی نظریں اس نے مالنی پر مرکوز کیں۔

"مالنی! کیا بول رہی ہو؟"

وہ گویا اسکی مانگ پر بے یقینی سے جنجھلایا۔

"وہی جو آپ نے سنا، آپ کو اپنے طریقے سے منانا جو ہے"

وہ اخیر خطرناک ہوئی جبکہ ہاشم کو واقعی اب یہاں سے کھسکنا ہی عافیت لگا۔

"میں مان گیا ہوں ایسے ہی"

جناب گھبراہٹ میں ساری برہمی اور غصے کو بھول گئے اور وہ بہت مشکل سے مسکراہٹ دبا پائی۔

"اچھا! میں کیسے مانوں"

وہ اسے چیلنچ کیے باہیں گلے میں ڈال چکی تھی اور ہاشم اسکے یہی روپ چاہتا تھا پر اتنی جلدی نہیں کیونکہ مالنی کے اس روپ سے فرار کر پانا ہاشم بزدار جیسے مضبوط اعصاب کے مالک کے لیے بھی ناممکن ہو جاتا تھا۔

"بنا ثبوت کے نہیں مانو گی؟ مگر وہ ثبوت سب کی نظروں میں بھی آگیا تو تمہیں ہی مسئلہ ہوگا"

لمحے میں وہ اسکی کمر جکڑے سلگتی آواز میں اسکی کان کی اور جھکے سرگوشی میں بولا تو مسکراہٹ کے شرارتی لمس نے مالنی کے ہونٹوں کو چوما۔

"آئی ڈونٹ کئیر"

وہ تو جیسے ہر ڈر و فکر سے آزاد کر دی گئی تھی جبھی بے خود ہوتے اس شخص نے گردن کی گال تک سفر کرتی رگ اپنے لبوں سے چھوئی تو وہ مسکراہٹ عجیب سی خماری میں بدلی، اور جب اس مسکراتے لمس کو ہونٹوں نے چھوا تو تیز کڑکتی بجلی پر دونوں ہی اس سحر سے چونک کر نکلے اور ساتھ مالنی کی کھلھلاتی ہنسی گونجی۔

"ابھی قدرت نہیں چاہتی بیوقوف مالنی کہ ہاشم بزدار اپنی ناراضی ہٹ جانے کا تمہیں کوئی جان لیوا سا ثبوت دے، چلو بھاگو شاباش۔۔۔رخصتی تک مجھے بہکانے کی کوشش مت کرنا"

جناب کی قربت کو بادلوں کی گرج نے تو توڑ ہی دیا تھا جبکہ مالنی کی ہر اداسی وہ شخص بھی دور کرنے میں کامیاب رہا اور مسکراتی ہوئی وہ اس کو جان لیوا دل دھڑکاتی، مائل کرتی نظروں سے دیکھتی واپس اندر چلی گئی مگر ہاشم کسی پھر سے آتی کال پر رک گیا۔

ضرار کی آتی کال دیکھ کر اسے تشویش نے گھیرا مگر کال اٹھانے کے بعد گویا اسکے چہرے کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔

ضرار اور جبل زاد پر اچانک ہوتے حملے کی خبر پر گویا بزدار حویلی کے ہر فرد کے پیروں تلے سے وقتی طور پر زمین سرک گئی تھی مگر سائیں کے وفادار نے خود پر آنچ سہتے ہوئے خفاظت کی تھی جبکہ میثم ضرار چوہدری بھی اس خفاظت کا بھرپور صلہ نبھاتے ہوئے جبل زاد کی زندگی بچانے کا وسیلہ بنا تھا، یہ خبر سب کے لیے ایک سی تکلیف دہ تھی مگر زیادہ اشنال اور گل کے لیے صدمہ تھا مگر اللہ نے عافیت قائم رکھتے ہوئے بزدار حویلی کو ایک بڑے طوفان سے بچایا تھا۔

"اللہ کا شکر ہے بچت ہو گئی، پتا نہیں اس منحوس کے لوگ کہاں کہاں چھپے ہیں۔ مافیا سے تعلقات تھے اسکے، اسکی موت ہو گئی اور پھر سیٹھ گونی بھی قانون کے شکنجے میں پھنس گیا، انکا غم و غصہ فطری ہے۔ اور یہ بھی تو ٹارزن کی اولادیں بنے اکیلے ہی شام کے وقت نکل آئے تھے"

اس وقت سب ہی جبل زاد کے کمرے میں جمع تھے، جبکہ ضرار کے خراب ہوتے زخم کا بھی بروقت بینڈیج کر دیا گیا تھا جبکہ ان لوگوں نے جبل زاد پر تشدد کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر ضرار نے اپنے زخمی کندھے کے باوجود انکو بروقت جہنم واصل کر کے ہر ایک پر آتی اس مصیبت کو خود پر روک لیا تھا، ہاشم کی برہمی میں فکر اور محبت بھی شامل تھی۔

چونکہ ان لوگوں کو بروقت مزاحمت پر گنز چلانے کی مہلت نہیں ملی تھی کیونکہ اس آدمی نے جیسے ہی گن ضرار پر تاننے کی کوشش کی، جبل زاد بیچ میں کود پڑا تھا سو اس منحوس نے ہاتھ میں پکڑی اپنی گن ہی جبل زاد کے سر میں دے ماری تھی جس سے اسکے ماتھے پر گہرا زخم آیا تھا۔

"یار آپ سب لوگ پریشان نہ ہوں، سیٹھ گونی کی سزا ہونے کی دیر ہے، یہ بچے کچے اسکے پسو بھی وہیں گھس جائیں گے جہاں سے نکلے تھے۔ خیر جبل کو آپ سب آرام کرنے دیں، زخمی دلہا گل صاحبہ ہرگز قبول نہیں کریں گی۔۔۔۔"

چونکہ دو مریضوں کے سپیشل ڈنر جو کہ گل اشنال اور اماں فضیلہ بنانے میں باورچی خانے گھسی تھیں، کے علاوہ کھانا سب نے ہی کھا لیا تھا اور ضرار اب مزید بیٹھنے کی ہمت خود میں محسوس نہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا جبکہ زخمی بچوں کے لیے فضیلہ اماں بکرے کی توانائی سے بھری یخنی بھی دو ہونہار مددگاروں کے ذریعے بنوا چکی تھیں تبھی روم میں انٹر ہوئیں، خود جبل زاد بالکل ٹھیک تھا بس ماتھے پر بینڈیج لگا تھا اور سبکی خود کے لیے فکر دیکھ کر بچارا شرمندہ ہو رہا تھا اور پھر جس طرح افسردہ ہو کر ان دونوں لڑکیوں نے اپنے اپنے ساجن کو دیکھا یہ بھی ان دو کے لیے دل دھڑکانے کا سبب بنا۔

"الٹے دل دماغ والے ! دوبارہ اپنے لوگوں کو ساتھ رکھنا آتے جاتے ہوئے۔ ایک دشمن شکنجے میں جکڑا ہے، ہزاروں آزاد پھر رہے ہیں۔ اب ان بوڑھی ہڈیوں میں جان نہیں کہ تم سبکے زخموں سے بھرے وجود دیکھنے کی تاب کر سکوں، تم تو لوہے کا جُسا لے کر پیدا ہوئے ہو پر جبل زاد تمہاری طرح نہیں ہے"

اس سنجیدہ سچویشن میں بھی دادا جان کو ضرار کی کٹ لگانا نہ بھولی اور سب ہی افسردگی کے باوجود بزدار صاحب کے خفیف سے بگھڑنے پر مسکرائے۔

"پہاڑوں کا باسی ہے یہ ہٹا کٹا جبل زاد، اور ویسے بھی یہی میرا فولادی جُسا فنا ہو چکا ہوتا اگر جبل زاد بروقت اس آدمی کو نہ روکتا جس نے مجھ پر گن تان رکھی تھی۔ میرے ساتھ رہ رہ کر یہ بھی فولادی ہو گیا ہے، اور مجھے اس جانباز ساتھی سے نہ کسی نزاکت کی امید ہے نہ آپ اسے ہلکا لیں دادا جان"

گویا جبل زاد کو نازک سمجھ لینے پر ضرار صاحب تڑپ کر میدان میں بازو چڑھائے اترے، اور انکی یہ نوک جھوک سب ہی بہت مس کر رہے تھے۔

"تمہیں تو بندہ کچھ ہدایت بھی نہ کرے، سر پھرے آدمی"

دادا جان روٹھی محبوبہ بننے کی ازسرنو کوشش میں تھے۔

"دیکھ لیں آپ سب ، انکے رقیب کی مٹی پلید کر دی میں نے اور یہ مجھے ابھی بھی گھر کی مرغی دال برابر والی ویلیو دے رہے ہیں، ویسے دس از ناٹ فئیر دادا سائیں"

جناب کے شکوے اور رقیب کے کھلم کھلے ذکر پر گویا بزدار عالم بھی زرا بوکھلائے۔

"نہ اور تمہیں سر پر بٹھا لوں؟"

اپنی خفت مٹانے کو اس سے پہلے وہ وہاں سے رفو چکر ہوتے ہوئے کمرے سے نکلتے، ضرار بھی جناب کا سایہ بنا پیچھے ہی لپکا۔

"ارے سنیں تو یار! آئی نو آج آپکو مجھے چمیاں اور جپھیاں دینے کا دل کر رہا ہے پر آپکی سو کالڈ انا بیچ میں ٹانگ اڑا رہی ہے۔۔۔دیکھ لیں دادا! یہ ناانصافی میثم ضرار چویدری نہیں سہے گا"

جبل زاد کو اسکی والدہ اور محبوبہ کے ساتھ چھوڑے باقی سب بھی کمرے سے نکل چکے تھے جبکہ لاونچ میں آتے بزدار عالم کو دونوں شانوں سے تھامے وہ ابھی بھی آفت بنا فل چارج تھا، اور ناچاہتے ہوئے بھی انکی آنکھوں میں نمی سی اتری۔

"میں تم سے جان بوجھ کر پیار نہیں جتاتا، کہیں میری ہ۔۔ہی نظر نہ لگ جائے تمہیں"

ہاشم ، مالنی، اور اشنال بھی ان دو کے پیار کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے، گل وہیں روم میں ہی فضیلہ اماں کے ساتھ ہی تھی، جبل پر آئی آنچ نے اسے دہلا دیا سا سو فضیلہ اماں نے اسے خود ہی جانے سے روک لیا تھا تاکہ وہ اسکا دل بہلائیں۔

"آپ جو صبح شام مجھ مسکین کو بھیگو بھیگو کر مارتے ہیں وہ اتنا بڑا نظر پٹو ہے۔ آج تو جتا ہی دیں پیار، آفٹر آل آپکی خزیں پر سے اس منحوس بڈھے کی حاکمیت ہٹائی ہے آپن نے"

وہ ابھی بھی کسی درد یا تکلیف کے زیر اثر نہ تھا اور سب اسکی زندہ دلی پر مسکرا رہے تھے اور خود بھی تو بزدار عالم نے پکڑ کر اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا، اور آج بہت مدت بعد اسکے دادا سائیں دل سے مسکرائے تھے۔

"نہیں، تم نے بزدار عالم کی عزت میں لافانی اضافہ کیا ہے ضرار۔ بخت نے صرف ایک کام اچھا کیا، تم جیسا بیٹا پیدا کر کے، جسکی پرورش چوہدری بزدار عالم نے کی اور تم نے اپنی پرورش کا ہر ڈھنگ سے حق ادا کیا ہے، آج ا۔۔اگر یہ بزدار حویلی خوشیوں سے بھری ہے تو اسکا بڑا سبب تم ہو، میری ہر حسرت، ہر ناکامی، ہر نامرادی کو تم نے جیت میں بدلا۔۔۔۔ تم ہاشم سے زیادہ پیارے ہو مجھے، یہاں کی ۔۔۔دادا کے سینے کی ٹھنڈک ہو"

جب اس عزیز پوتے سارے دکھ انکے دامن سے چرا لیے تھے تو آج انھیں بھی اسکا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت تھی، جسے دادا کی دی جاتی ہر تھپکی سے کئی ٹن ہمت ملتی تھی، وہ خود دادا کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اتنی محبت جتانے پر بوجھل تھا، ہاشم، مالنی اور اشنال تک کی آنکھوں میں سرخائی گھلی تھی۔

"آپ نے سو سال اور بڑھا دی زندگی اس سر پھرے پوتے کی، سو سال آپکو بھی جینا ہے، کیونکہ آپ کے بغیر میثم ضرار چوہدری ایک آسودہ سانس بھی لینے کا نہیں سوچ سکتا۔۔۔۔ میں اور کسی معاملے میں سرخرو ہوا ہوں یا نہیں، میں آپکے دل کے چھپے ہر کرب کو دور کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا ہوں۔ باقی کاش آپکو آپکی خزیں بھی دے سکتا مگر۔۔۔۔"

وہ خود تھوڑا سینٹی ہوا مگر جیسے اسکے آخری ادھورے جملے پر دادا جان نے گھور کر اس خرافاتی دماغ والے پوتے کو سرد نظروں سے دیکھا۔

"اس سے پہلے کہ تم اس بوڑھے گھوڑے کو لال لگام لگاو، تمہارا سر پھاڑ دوں گا یہ یاد رکھنا۔ بات سنو! خزیں کا بھی حق ہے کہ وہ زندگی کے کچھ سال آزادی سے گزارے۔ ویسے بھی میرے پاس اسے دینے کو کچھ باقی نہیں، ہم زندگی کے اس نقطے پر کھڑے ہیں جب اپنا نہیں، اپنے بچوں کا سوچا جاتا ہے۔ وہ میری سمدھن ہے، براہ مہربانی اسے اسی منسب پر رہنے دینا۔ ورنہ تمہیں اتنا ماروں گا کہ پورا علاقہ بھی چھڑوانے آئے وہ بھی کم۔۔۔اسے لے جاو اشنال بچے، ورنہ یہ اپنی حسرت زدہ خواہشوں سے میرے دماغ کا کوئی سکریو ڈھیلا کر دے گا۔۔۔جا میرے باپ، آرام کر"

خفت و گھبراہٹ سے بھرے وہ جس طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے اس آفت کے پرکالے کو اشنال کے سر ڈالتے وہاں سے گئے، میثم تو ہنسا ہی ، انکے پیچھے جاتا ہاشم بھی مشکل سے ہی قہقہہ روک پایا تھا جبکہ ضرار نے بے اختیار چہرہ موڑا تو اشنال کی اداس آنکھیں دل میں گڑھ گئیں، وہ اشنال سے فرصت سے ملنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر پہلے زونی کے کرب کا مداوا ضروری تھا سو وہ تینوں ایک ساتھ ہی زونی کے کمرے کی طرف بڑھے تھے جو گم سم اداس سی تکیے سے گال جوڑے بیڈ پر لیٹی تھی جب آہٹ پر اٹھ بیٹھی۔

مالنی کے ساتھ اشنال اور ضرار کو آتا دیکھ کر وہ اپنے چہرے پر گھسیٹ کر مسکراہٹ لائی مگر جب ضرار اسکے پاس آکر بیٹھا تو ناچاہتے ہوئے بھی اسکی نیلی آنکھوں میں نمی اتری جسکے باعث وہ اپنی آنکھیں جھکا گئی۔

مالنی اور اشنال بھی اسکی تکلیف سے ویسی ہی افسردہ دیکھائی دیں۔

"سب اپنی طرف سے ٹھیک کر دیا ہے اب تم بھی ہو جاو زونین، تمہارا دل بڑا ہونا چاہیے،اس لیے کہ تم اب سے میثم ضرار چوہدری کی بہن ہو۔ مجھے معاف کر دو، اس عورت کے پھیلائے زہر اور زندگی میں گھولی کڑواہٹوں کے باعث میں نے تمہیں بھی سخت نظروں میں رکھا۔ لیکن خدا گواہ ہے آج تک تم پر سے اپنا خفاظت کرتا سایہ اور شفقت دیتا ہاتھ نہیں ہٹایا۔ تم لاوارث نہیں ہو،سگے بھائی ماں باپ بھلے تم سے جدا ہو گئے مگر اب تم دادا کی بیٹی اور لالہ کی بہن ہو، اور پھر خانم حویلی کی سردارنی بننے والی ہو ۔ وہ شخص تم سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور فرخانہ خانم نے بھی اپنئ غلطیوں کو تسلیم کر لیا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ خانم حویلی پر چھائی وہشتوں کو ختم کر دوں، مجھے یقین ہے اس بار جب تم پوری شان سے اس حویلی میں قدم رکھو گی تو تمہیں صرف محبتیں ملیں گی۔ نانو کا پیار ملے گا، ہر فرد کی طرف سے عزت اور سردار مشارب زمان خان کی طرف سے تقدس بھرا مقام۔۔۔۔"

آج اس لمحے بھی گر ضرار اسے محبت سے نہ سنبھالتا تو وہ واقعی بکھر جاتی، جتنے صدمات اسکی ننھی جان نے سہے تھے وہ کافی تھے اور اب ضرار نہ تو اسے تکلیف میں دیکھنا چاہتا تھا نہ دیکھ سکتا تھا۔

زونین کی آنکھوں میں اس وقت صرف تیرگی تھی، وہ اس شخص کے ایک لمس کے لیے بہت تڑپی تھی پر اسکے باوجود اسے ضرار کا معافی مانگنا ہرگز اچھا نہ لگا۔

"ہ۔۔ہم آپ سے ناراض نہیں ہیں، ہم تو آپ س۔۔سے بہت پیار کرتے ہیں لالہ۔۔۔ ک۔۔کیونکہ ہمیں آپکی سخت نظر میں بھی کبھی ن۔نفرت محسوس نہیں ہوئی اور ہ۔۔ہم بچپن سے اسی پر خوش رہے کہ آپکو ہم سے نفرت نہیں ہے۔ "

اس کی آنکھیں چھلکیں تو چہرے پر بلکتی سی حسرت پھیلی، اور خود مالنی اور اشنال کی آنکھیں آزردہ ہوئیں۔

"میں عمل سے اپنی فکر اور محبت ظاہر کرنے کا قائل ہوں زونی، اپنے سخت رویے پر پشیمان ہوں۔ کیونکہ برائیاں ہر انسان میں پائی جاتی ہیں سو مجھ میں بھی لاتعداد ہیں، اس زندگی نے اب جا کر یہ سبق بھی سیکھا دیا کہ کسی کے کیے کی سزا کسی اور بے گناہ کو دینے سے دل سے سکون رخصت ہو جاتا ہے، میں اس غلطی سے سیکھوں گا۔ اصول بناوں گا کہ جو مجرم ہے صرف اسی تک سزا کی تابناکی ارسال ہو۔ رہی بات پیار کی تو تم بھی مجھے بے حد عزیز ہو، سنبھالو خود کو، تمہیں نہ کبھی پہلے اکیلا کیا تھا نہ اب کیا جائے گا۔۔۔۔ تمہاری ہر تکلیف سمجھتا ہوں، لیکن کچھ دکھ ہمیں صابر پن دکھا کر فورا پینے پڑتے ہیں، جیسے کنزا کی موت کا دکھ۔۔۔۔۔ وہ عورت بھی تو ناکردہ گناہوں کے بوجھ تلے آکر مری ہے، حالانکہ سنورنے اور بگھڑنے کا راستہ اسکی چوائز میں موجود تھا ۔ میری دعا ہے کہ مشارب تک پہنچنے سے پہلے تمہارے دل سے کنزا کی موت کا دکھ مٹ جائے تاکہ تم اپنی نئی زندگی بنا کسی افسردگی کے شروع کرو"

وہ اسکی گالوں پر پل پل بکھرتی نمی، انگلیوں کی پوروں سے سمیٹے اسکے ڈوبتے دل کو اپنے مرہمی الفاظ سے قدرے پرسکون کر چکا تھا جسکا دکھ اب بھی تازہ تھا۔

"مالنی! آپ دھیان رکھیے گا زونی کا۔ یہ اگر روئی تو مجھے بتائیے گا۔ اسکے آنسو اب مجھے تکلیف دیں گے"

زیادہ دیر وہ خود بھی اب بیٹھ پانا مشکل جان رہا تھا سو آرام کی نیت سے وہ اٹھ کھڑا ہوتے اداس سی مالنی سے مخاطب ہوا مگر اس سے پہلے ضرار پلٹتا، وہ ناصرف اٹھی بلکہ بیڈ سے اترتی اسکے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

"ت۔۔تھینک یو لالہ، ہم جیسی سوتیلی بہن کو قبو۔۔ول کرنے کے لیے"

وہ نم آنکھیں اور بھیگی آواز لیے مشکور ہوئی جبکہ اسکا یہ کہنا ضرار کو رنجیدہ کر گیا۔

"آج یہ کہا ہے تم نے دوبارہ تمہارے منہ سے نہ سنوں یہ فضول بات۔ بہن بہن ہوتی ہے، سگی سوتیلی نہیں ہوتی۔ آرام کرو، تمہارے سر پر تمہارا بھائی موجود ہے سو اب نہ تم نے کسی سے ڈرنا ہے نہ دبنا ہے۔۔۔اور یہ بھائی آخری سانس تک تمہارے ساتھ ہے"

اسکی تکلیف محسوس کیے وہ اسے پہلی بار گلے لگاتا اسے مضبوط کر رہا تھا جو اس لمحے کے لیے ناجانے کتنا تڑپی تھی تبھی اسکی تکلیف ہچکیوں کا روپ بدل کر ان تینوں کو سوگوار کر گئی، ضرار کی اذیت زیادہ تھی، اسکے مطابق اسے زیب نہیں دیتا تھا کہ زونین کو اپنی حسرت سے اس درجہ آزماتا۔

"بس! اب تم مزید مت رو۔۔۔۔ ورنہ مجھے اپنے کیے پر ملال ہوگا"

وہ اسکے خود پر الزام لینے کے ڈر سے فورا ہچکیوں کی زد سے نکلتی اسکے سینے سے الگ ہوتی اپنے تمام آنسو ہتھیلوں سے رگڑ کر بھیگا سا مسکرائی، صرف ایک بار لالہ کے گلے لگانے نے اسے پہاڑ کی طرح مضبوط بنا دیا تھا۔

"ہم اب ک۔کبھی نہیں روئیں گے، آئی پرامسس"

اس نیلی آنکھوں والی نے اپنی بساط سے بڑا جب وعدہ لیا تو سرخائی تو ضرار کی آنکھوں میں بھی گھلی جسے صرف اشنال دیکھ پائی کیونکہ وہ خود پر ڈیپینڈ کرنے والوں کے سامنے کمزور پڑنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔

مسکرا کر اسکی گال سہلائے وہ کمرے سے چپ چاپ چلا گیا تو اشنال بھی قریب آئی، زونین کو گلے لگایا اور وہ بھی کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ ان دو قریبی سہیلوں کے تو ہر دکھ سکھ اب سانجھے تھے اور مالنی کی چھلکتی آنکھیں دیکھ کر زونی نے اسے لپک کر گلے لگایا کہ وہ خود دل سے بہت بوجھل تھی۔

"مالنی! آپ تو ہماری جان ہیں۔۔۔کم ازکم ہ۔۔ہم آپکو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔ ہم ن۔۔نہیں روئیں گے پکا پرامسس آپ سے بھی"

دونوں بلکل ایک دوسرے کا عکس لگ رہی تھیں، دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے پر دونوں ہی ایک دوسرے کی تکلیف دیکھنے کی ہمت نہ رکھتی تھیں۔

وہیں ہاشم نے بابا سائیں کو میڈیسن دی اور پھر انکے دل کی اندرون اداسی کا مرہم بننے کو وہ وہیں بابا کی گود میں سر رکھے انکے پاس لیٹ گیا۔

"لاحاصل محبت کی جلن ، آگ سے زیادہ ہوتی ہے۔ آگ تو جسم جلاتی ہے، پر لاحاصل محبت کی جلن روح جلاتی ہے۔ کیا آپکا دل نہیں چاہتا، ایک ہی بار سہی گل خزیں خانم سے طویل ملاقات کریں؟"

وہ بابا کے ہر دکھ سے واقف تھا تبھی سوال کرتا خاصا افسردہ لگا مگر بزدار عالم کے چہرے پر آج بلا کا سکون اترا ہوا تھا۔

"یہ جلن ایک حد تک جلاتی ہے بچے، اسکے بعد ہر طلب سے آزادی مل جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں اس سے ایک ملاقات ضرور کروں، اسے ایک طویل قید سے نجات کی مبارکباد دوں لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ ہمارے بیچ کوئی قریبی تعلق بنے۔"

وہ بابا کے جواب پر حیرت میں لپٹا انھیں دیکھنے لگا۔

"اس لیے کہ آپ ڈرتے ہیں، ایسا ہی ہے ناں"

وہ انکے دل کا ڈر بھانپ گیا تبھی وہ حیرت انگیز سا مسکرائے۔

"میں اس سے کی ناانصافیوں کے مکافات سے ڈرتا ہوں، جو کچھ اس سے چھینا گیا، مجھے اس سب کو لوٹانے میں مدت درکار ہے جبکہ میری عمر آخری لمحوں کے پراو پر ہے، کیا ایک بار پھر بیچ راہ بچھڑ کر میں اسے ایک نئی قید میں مبتلا کر دوں؟ وہ ضرار تو پاگل ہے، سو سال کون جیتا ہے، کب زندگی کا چراغ گل ہوجائے کیا خبر؟ میں اسے دور سے نہال دیکھنے پر ہی مطمئین ہوں اب، اس نے جو کچھ اس اسیری میں گنوا دیا اب وہ اپنے بل بوتے پر واپس پائے گی اسے عالم بزدار کے کمزور سہارے کی ضرورت باقی نہیں۔ اپنے تجربے سے کئی سوں کو فائدہ دے گی، یقینا اب وہ کسی خزیں کو عالم بزدار سے جدا ہونے نہیں دے گی یہی میری کل عافیت ہے"

وہ بابا کے درد بانٹنے آیا تھا مگر وہ تو اخیر مطمئین و آسودہ ہو چکے تھے، بس ایک حسرت تھی کہ اپنی سچائیاں، کوششیں، اپنی جنگ کا احوال اس عورت کو بتا کر مرنے سے پہلے اسکی معافی پا سکیں۔

"اگر آپ کہیں تو میں کسی معلم سے بات کرتا ہوں، اگر آپ دو کا نکاح ہو سکتا ہوا تو۔۔۔۔۔؟"

وہ اب بھی افسردہ تھا جبکہ عالم صاحب کے گھورنے پر وہ خاموش ہو گیا۔

"بکواس تم نے بھی شروع کر دی؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ نہ ممکن ہے نہ میری خواہش ہے۔ ویسے بھی وردہ نے مرنے سے پہلے وعدہ لیا تھا کہ میں لاحاصل محبت کے حسن میں کبھی کمی نہیں کروں گا۔ تمہاری ماں جتنی بھی بڑے دل کی ہو جاتی، میرے دل میں موجود خزیں نے اسے کئی خاموش رنج دیے ہیں۔ اور یوں وقت آخر پر میں تمہاری ماں سے وعدہ خلافی نہیں کر سکتا۔ محبت کی اپنی جگہ ہوتی ہے ہاشم مگر تمہاری ماں کی بھی ایک اپنی جگہ ہے جس کو مجروع کرنا اب میرے بس میں نہیں۔میں نہیں چاہتا اس دوسری لافانی دنیا میں بھی اسے بزدار عالم بٹا ہوا ملے، اب وہ مکمل میری مستحق ہے۔۔۔ مجھے امید ہے کوئی دوبارہ اس ٹاپک کو نہیں چھیڑے گا۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جسکے بعد محبت پانے کی جستجو ختم ہو جاتی ہے یقینا وہ عورت بھی اس جستجو سے ماورا ہو چکی ہوگی"

وہ بابا کی تمام باتیں سمجھ چکا تھا پھر بھی اس وقت اپنی اداسی ہٹانے پر قادر نہ تھا۔

"جیسا آپکی خوشی بابا سائیں، آپکے پاس ہی ہے آج آپکا یہ سو پونڈ کا کاکا۔۔۔۔ شب بخیر"

وہ چاہ کر بھی نہ خود اکیلے پن کو برداشت کر سکتا تھا آج نہ بابا سائیں کو اکیلا چھوڑ سکتا تھا، وہ ہاشم کے خود کو سو پونڈ کا کہنے پر شفیق سا مسکائے اور پھر جیسے اپنی زندگی کی خوبصورت یادوں میں محو ہو گئے۔

تیسری جانب جبل زاد ویسے تو والدہ کے سامنے اتنا بے قرار نہ ہوتا مگر گل کی موجودگی اسے بے چین کر رہی تھی، حالانکہ فضیلہ اماں دونوں سے ہلکی پھلکی باتوں میں مگن جبل کی عافیت پر اللہ کا شکر اور پھر ان دونوں کے جلد ایک ہونے پر گاہے بگاہے اپنی خوشی کا اظہار بھی کرتی رہیں۔

"گلالئی! میرا بچہ تم اپنے نانا اور نانی کو بلوا لو۔ وہ بھی اپنی نواسی کی شادی میں شریک ہونے چاہیں۔ انکی تو تم ہی واحد اپنی ہو ناں۔۔یا ایسا کرو مجھے انکا نمبر دو میں خود انکو مدعو کرتی ہوں۔ بھئی آئیں اور حویلی کی رونقوں میں وہ بھی شریک ہوں"

جبل زاد نے والدہ کے ہاتھ سے سوپ کا باول لے لیا تھا اور وہ خود ہی پینے میں مصروف تھا جبکہ اسکی نظریں ماں بیٹی کی طرح گپیں لگاتیں گل اور والدہ پر فرصت اور محبت سے جمی تھیں۔

"جی ، میرے فون میں انکا نمبر ہے۔۔۔۔"

گلالئی نے زرا ہچکاتے ہوئے اپنا فون انکی طرف بڑھایا جس پر اماں فضیلہ نے نا صرف فون لیا بلکہ اسکا ماتھا چومتیں کمرے سے بھی نکلنے کے لیے اٹھیں۔

"چلو پھر میں ابھی ہی کال کرتی انکو، عالم سائیں بھی تاکید کر رہے تھے۔ خیر سے کل تم مایوں بیٹھ جاو گی ناں، تو کہتی ہوں انکو کہ کل ہی آجائیں۔۔۔۔ میں ابھی آتی ہوں"

انکو اٹھ کر جاتا دیکھتی گل بھی اٹھ کھڑی ہوئی جیسے ساتھ ہی جانے کا ارادہ رکھتی ہو مگر اسکے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ جبل اسکا ہاتھ اس بے تکلفی سے والدہ کی موجودگی میں ہی پکڑ لے گا۔

اگر فضیلہ اماں کا رخ باہر دروازے کی طرف نہ ہوتا تو یقینا گل اس وقت صدمے سے بہوش ہو چکی ہوتی۔

"آپ کہاں جا رہی ہیں، خبردار جو یہاں سے ہلیں آج"

اپنے عقب سے بلند ہوتی آواز پر وہ فضیلہ اماں کے کمرے سے نکلتے ہی سہمی ہوئی پلٹی، وہ برہم نظریں گل پر ڈالے اسکا ہاتھ جکڑے اپنی طرف کھینچ چکا تھا جسکے باعث وہ اس پر گرتے گرتے خود کو دقت سے سنبھالتی بھی باقاعدہ جھک سی آئی۔

"ک۔۔کیا کر رہے ہیں؟ ک۔۔کسی نے د۔۔۔دیکھ"

وہ اسکی ہونق شکل دیکھ کر اور بیچ میں حائل زرا سے فاصلے کے باعث گل کی اڑتی ہوائیوں پر مخضوظ ہوا اور زرا شرافت کے سنگ گل کو اپنے پاس ہی بٹھا دیا جس پر اس لڑکی کی آنکھیں حیا و خوف کی شدت سے جھک سی گئیں۔

"ہم ایسا کچھ ممنوع تو کر نہیں رہے جو کسی کے دیکھنے سے خوفزدہ ہوں، صرف آپکا ہاتھ پکڑ کر آپکو زرا قریب سے دیکھا ہے"

وہ اسکے بے باک انداز پر مزید بوکھلائی جو سر پر لگتی چوٹ سے کچھ زیادہ ہی شوخ ہو رہا تھا۔

"و۔۔وہ۔۔۔عجیب لگے گا ن۔۔ناں اگر کسی نے م۔۔مجھے آپکے پاس بیٹھا دیکھا"

خود کو کمپوز کرتی وہ مشکل سے بولی جبکہ جبل زاد نے اسکے چہرے پر جھول آتی اکا دکا اسی کی طرح بے چین سی لٹ اسکے کان کے پیچھے اڑسائئ تو وہ اسے اس طرح چھونے پر کانپ سی گئی، ایک تو اس شخص کو لگتی چوٹ پر ویسے ہی گلالئی کا دل نڈھال تھا پھر اس نے پاس بٹھا کر مزید جان ہلکان کر دی تھی اور اب گستاخیوں سے گل کے چہرے پر سرخی سمیٹنے کے ارادے بنا رہا تھا۔

"آپکی پیاری ساس آپکو خود شیر کی گھپا میں تن تنہا چھوڑ کر گئی ہیں، سوچ لیں پھر آپ کتنی لکی ہیں۔

بس چند گھنٹے بچے ہیں ، اسکے بعد تو میرے اس سے کہیں زیادہ پاس آجائیں گی۔ پھر بھی یونہی گھبرائیں گی؟"

وہ عجیب بے خود سا ہوتا اسکے ہاتھ کی ملائمٹ محسوس کیے کسی سحر میں کھو رہا تھا، جبکہ گل اس شخص کو ایسا بے باک تصور بھی نہیں کر سکتی تھی جتنا وہ حدوں میں رہ کر بھی بے حد ہو رہا تھا۔

"پل۔۔لیز مجھے جانے دیں؟"

وہ اسکے پل پل کمزور کرتے انداز بھانپے باقاعدہ روہانسی ہوئی، کہ اس جگہ بیٹھنا یوں تھا جیسے دل کو کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو، پھر عجیب رگ و پے پر حاوی ہوتا اس شخص کی قربت کا اثر الگ گلالئی کی ہارٹ بیٹ مدھم کر رہا تھا۔

"پہلے میرا جواب دیں پھر ہی آپکو یہاں سے اٹھ کر جانے کی اجازت ملے گی ورنہ اس سر پھٹے بیمار کا کیا بھروسہ، کچھ بے وقت کر گزرے گا اور آپکی نیندیں اڑ جائیں گی"

وہ اسکے الفاظ کی تپش اور نظروں کے خود میں اتار لیتے انداز پر خوف سے کپکپائی، اور اسکے نازک وجود میں ہوتی لرزش جبل زاد کو عجیب سا سرور بخش رہی تھی۔

"ک۔۔کونسا جواب دوں آپکو؟"

وہ اسکے قریب ہونے پر جیسے خود کو بھی بھول گئی تھی پھر یہ کیسے یاد رہتا کہ اس ظالم نے کوئی سوال کیا تھا۔

"یہی کے خوش ہیں؟ خوشی خوشی اس بندے کا ہونے کے لیے تیار ہیں یا ابھی جیسی چند ملاقاتیں کرنی پڑیں گی آپکے دل کو اپنے دل کی طرح دھڑکانے کے لیے؟"

ایک تو اس شخص کے وجود سے اٹھتی خوشبو اسکی سانس مدھم کر رہی تھی دوسرا اسے یکدم بدلتے جان لیوا انداز تو مار ڈالنے پر آمادہ تھے جبکہ اس سر تا پا پہلی بار جبل کی آنکھوں میں محصور لڑکی کو لگا، دل جس شدت سے دھڑک رہا ہے، جلد وہ شور پوری دنیا سن لے گی۔

"پ۔۔پلیز نہیں۔۔۔۔ایسا مت کیجئے گا۔ م۔۔میں۔۔۔۔بعد میں بتاوں گی پ۔۔پکا۔۔ابھی مجھے جانے دیں"

وہ جو ٹرانس کی سی کیفیت میں تھی جبل زاد کا ہاتھ میکانکی انداز میں اسکی دہک اٹھتی گال سے مس ہوا تو گل کرنٹ کھاتی ہانپ اٹھتی اسکے پہلو سے بڑبڑاتی اٹھی مبادہ وہ واقعی کچھ بے وقت کر گزرتا۔

"اور اگر بعد میں آپکو بتانے کی میں نے مہلت ہی نہ دی پھر؟"

وہ اسکے اٹھ کر یوں جانے پر تھوڑا خفا ہو کر تنبیہی انداز سے بولا تو صدمے سے نیلی پیلی ہوتی گل کی آنکھوں میں جیسے اداسی کا جہاں سمٹ آیا۔

وہ ہاتھوں کو اضطراری انداز سے مسلتی اسکے زرا قریب ہوتی کھڑی ہوئی جو اسکی حرکات و سکنات پر دل کو عجیب باولا سا محسوس کر رہا تھا۔

"م۔۔میں خوش ہوں"

وہ اسکی ناراضگی سے ڈر کر فورا پٹری پر چڑھی جبکہ اس بار جناب منصوعی ناراضگی ہی برقرار رکھے بہت چالاکی سے گل کے جذبات جاننے کی تگ و دو میں مبتلا دیکھائی دیے۔

"ہمم، خوش ہوتیں تو یوں اٹھ کر دور نہ ہو جاتیں۔ کچھ دیر پاس بیٹھتیں، سکون مل رہا تھا۔ اور آپ نے یہ سلسلہ چند لمحوں کے بعد ہی سفاکی سے منقطع کر دیا"

وہ اسے جان بوجھ کر بیچ کی ہچکچاہٹ سے نکالنے کی کوشش میں تھا کیونکہ اس لڑکی کو خود سے دور رہنے کی جناب ایک لمحہ بھی حق ملنے پر اجازت نہیں دے سکتے تھے۔

جبکہ وہ تو اسکی ناراضگی بھی بھول گئی، دل اس نازک اندام کا تو سکون والے جملے پر ہی رک گیا۔

دل میں خوشی کا سماں بندھ سا گیا تھا۔

"آپ کو آرام کی ضرورت ہے ناں، تبھی اٹھ گ۔گئی۔۔ناراض مت ہوں"

نظر جھکائے، ناجانے کس سکھ کے تخت وہ مسکائی، اسکی شرمگیں حیا سے معطر آنکھیں دیکھنے کے بعد دل کسی گستاخی پر مائل ہونے لگا۔

"اچھا سا جواب دے کر جائیں، ورنہ میں بلکل آرام کو خود پر ممنوع کر دوں گا"

اس بار وہ اسے چوٹ لگنے پر خفیف سا ضدی لگا۔

"جواب!"

وہ گنگ سی زیر لب بڑبڑائی اور جبل زاد کا خود کی طرف فرصت سے دیکھنا، دل جکڑنے جیسا تھا۔

"آپ کی تکلیف پر ڈر گئی تھی، کیوں ڈری تھی یہ آپ خود سمجھ جائیں۔ ضرار سائیں کے دوست ہیں، سمجھدار ہوں گے بہت۔ اب میں جاتی ہوں"

رک رک کر سمٹے الفاظ میں کہتی وہ اس سے پہلے جاتی، ایک بار پھر اسکی کلائی، جبل زاد نے بیٹھتے ہوئے ٹیک چھوڑتے جکڑی جبکہ بنا دیکھے ہی گلالئی کی دھڑکنیں بے خود ہوئیں اور اپنی ڈگڑ بھلاتی محسوس ہوئیں تبھی وہ سختی سے اپنی آنکھیں میچ گئی۔

"میں کچھ زیادہ آگے والا معاملہ سمجھ بیٹھا تو مشکل سے آپ ہی گزریں گی گلالئی، سو میرا خیال ہے آپکو مجھے صاف صاف بتانا چاہیے۔ سمجھدار نہیں بندہ تو کچھ زیادہ ہی سمجھدار ہو چکا ہے"

اصل بات تو یہ تھی وہ اسے جانے دینا ہی نہ چاہتا تھا تبھی تو بہانے سے وہ گل کی اپنے اردگرد موجودگی طویل کر دیتا۔

وہ سہمی ہوئی گل آنکھیں کھول کر مسکرائی تھی مگر پلٹ کر اس شخص کو دیکھنے کی گویا تاب نہ تھی۔

"میں نے ہر اس جگہ پر آپکا ساتھ مانگا ہے جبل زاد جہاں جہاں مجھے لگا کہ میری دعا قبول ضرور ہوگی۔ شب بخیر"

اپنی کلائی اس کے ہاتھ سے پوری قوت لگا کر چھڑواتی وہ اپنا کھلا اظہار سونپے اس کی دسترس سے بھاگ نکلی اور باقاعدہ فضیلہ اماں سے ٹکراتے بچی جو کال کر کے اسکی نانی صاحبہ کو مدعو کر چکی تھی جبکہ گلالئی کو یوں ٹکرانے سے بچ بچا کر مسکراتے ہوئے بھاگتا دیکھ کر وہ جب پراسرار سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اندر آئیں تو پہاڑوں کے باسی جبل زاد نے شریر سی مسکراہٹ سے والدہ کو دیکھا جو بنا کچھ جانے یا دیکھے ہی کچھ حد تک تو بھانپ چکی تھیں کہ کوئی مبارک گھڑی گزری ہے اور انکے دل نے اپنے پیارے بچے کی اس نڈھال طبعیت میں بھی چمکتی مسکراہٹ کو اپنی ساری دعائیں ارسال کر دیں۔

"باولی سی فون بھی لے کر نہیں گئی، یہ اسے دے دینا اور اب تو بھی آرام کر۔۔۔۔ شب بخیر اماں کی جان"

وہ بھی اب سونے جا رہیں تھیں تبھی بچے کو فون کے بہانے ایک اور ملاقات کی ان ڈائریکٹلی اجازت دیتیں، اسکا ماتھا چومتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں اور وہ فون پر اک نظر ڈالے شر انگیز سا مسکا دیا۔

ایک ملاقات ختم ہونے پر دوسرے کی امید لگ جانا عاشقوں کے لیے بڑا انعام ہوا کرتا ہے۔

پھر چوتھی جانب شہیر صاحب اپنے گنے چنے آدمیوں کے ہمراہ زندان کے اردگرد مٹر گشت کرتے دیکھائی دے رہے تھے، سردی کی شدت گاہے بگاہے ہوتی کن من سے رات ہوتے ہی بڑھ چکی تھی اور وہ یہی سوچ رہا تھا کہ گھر جا کر کچھ گرم اوڑھنے پہنے کے لیے لے آئے مگر یہاں سے صبح فجر تک ہٹنا بھی اسے قبول نہ تھا سو وہ ایسے ہی ٹھنڈ میں اپنی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔

وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ ہی محو گفتگو تھا جب دور سے یوسف زئی حویلی کی ملازمہ اسے اپنی طرف آتی دیکھائی دی تو شہیر خود ہی اپنے لوگوں کو چوکس ہونے کا اشارہ دیتا خود اسکی طرف بڑھا جسکے ہاتھ میں ٹفن تھا، پانی کی بوتل تھی اور ایک گرم چادر تھی۔

"یہ سب کیا ہے؟"

وہ شہیر کو سب تھما رہی تھی تبھی شہیر نے حیرانگی سے استفسار کیا۔

"یہ وریشہ بی بی نے کھانا بھجوایا ہے آپکے لیے اور یہ چادر، یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ اپنا دھیان رکھیے گا"

یہ سنتے ہی شہیر کے چہرے پر سرشار سی مسکراہٹ اتری جبکہ وہ اس ملازمہ کا شکریہ ادا کیے اسے واپس بھیجوا چکا تھا۔

ابھی اس نے یہ سب کرسی پر رکھا ہی تھا کہ جینز میں دھنسے فون پر آتی کال نے شہیر کو متوجہ کیا۔

وہ لڑکی اپنے روم کی بالکونی پر کھڑی شہیر کو ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

"تو تمہیں پتا چل گیا تھا کہ مجھے بھوک ستا رہی ہے اور سردی تپا رہی ہے؟"

وہ بھی جیسے سر اٹھا کر حسینہ کی دور سے ہی دیکھائی دیتی خوشی بھانپتا مسکایا۔

"پتا کیسے نہ چلتا، تم میری جان جو ہو۔۔۔۔ اتنے اہم فریضے پر لگے ہیں محترم، بیوی اب اتنا بھی نہ کرے تو کہاں کی بیوی"

وہ اسے اب کسی لمحہ بھی اپنے احساس محبت سے خالی نہیں رکھنا چاہتی تھی اور جب سے دادا نے اسکی محبت قبول کی تھی وہ ہواوں میں اڑ رہی تھی۔

"تو پھر پاس آو میرے تمہیں اس محبت پر شاہانہ انعام دوں"

وہ شرارت پر اترے اسے دیکھتے معنی خیزی سے بولا جسکے چہرے پر گلال رنگ بکھرے۔

"سوری ٹو سے مسٹر لفنگے، یہ پاس آنے کی آفر آج تم بہت فراغ دلی سے رفیوز کر چکے ہو، اب تمہیں وریشہ رخصتی کے بعد ہی پاس ملے گی۔۔۔ مجھے تڑپاتے رہے ہو ناں، اب خود تڑپو"

اس میں دلرباوں کی ادائیں بھی آچکی تھیں اور شہیر مسکراتا ہوا کرسی پر بیٹھا ٹانگ پر ٹانگ جمائے فرصت سے چاند کی طرح چمکتی اس خوشی سے بھری لڑکی کو دیکھنے لگا۔

"تڑپنا نہیں ہے میں نے، تمہیں دیکھ کر ، سوچ کر، یاد کر کے یہ مختصر جدائی خوشی خوشی کاٹ سکتا ہوں۔ اسکا صلہ مکمل تم تک رسائی جو ہے، کوئی مجھ سے پوچھے تو بتاوں کہ خوشی تو وہ ہے جو شہیر مجتبی کو حاصل ہے"

وہ اب بھی اظہار کر رہا تھا اور وریشہ جانتی تھی اب وہ اسے کسی قسم کے اظہار کے لیے ہرگز نہیں تڑپائے گا۔

"تم جانتے ہو،خدا کے بعد تم وہ شخص ہو میرے لیے جسے یہ طاقت حاصل ہوئی ہے کہ نا صرف میرے احساسات پر قابض ہو سکے بلکہ میرے ہنسنے رونے سے لیکر میری سانسوں کی رفتار تک کو کنٹرول کر سکے۔ آئی لوو یو شہیر مجتبی"

وہ اظہار کا جواب پوری شان سے دیتی، دور فاصلے پر موجود تھی مگر اسے لگا اس لڑکی کی خوشبو اسکے باوجود سانسوں میں گھل سی گئی ہے۔

"بھوک کے ستائے، ٹھنڈ کے تپائے مسکین شوہر کو اب تم اس طرح آزماو گی بیوی؟"

وہ شکوہ کرتا حسین لگا تبھی وہ وہ کھکھلائی۔

آج وریشہ یوسف زئی پہلی بار اتنی پرسکون اور خوش تھی کہ ہنسی اسکے ہونٹوں سے الگ ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔

"آنے والے تم پر بھاری پڑتے لمحوں کا سائرن تھا یہ میری جان، اب کھانا کھاو اور سسر صاحب کی چادر قبول کرو فی الحال، بائے دا وے یہ چادر ان کی بھجوائی ہے، کہہ رہے تھے شہیر ساری رات ٹھنڈ میں زندان کے باہر رہے گا، اسے ٹھنڈ نہ لگ جائے۔۔۔۔ بڑی ویلیو بنا لی جناب نے ایک دن میں، اہمم اہممم"

وہ اب بھی شرارت پر آمادہ تھی جبکہ سسر صاحب کی یہ عنایت شہیر کے لیے بھی حیرت انگئز تھی۔

"بس کبھی غرور نہیں کیا، بندے میں کوئی تو بات ہے جو سب جلد گرویدہ ہونے لگے ہیں۔ میری اکلوتی بیوی سمیت"

آج پہلی بار وہ پورے دل سے اترایا اور وہ اسکے اس انداز پر جی بھر کر فدا ہوئی۔

"ہاں، حسد ترک کرنے کی کرامات ہیں۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے لفنگے۔۔۔ چلو اب بس، زیادہ بات کی تو تم تڑپو گے نہیں اور مجھے ابھی بہت تڑپانا ہے تمہیں۔۔۔ ٹیک کئیر۔۔۔۔"

خود بھی وہ ٹھنڈ سی محسوس کر رہی تھی اور کھڑا رہنا محال تھا تبھی محترمہ اپنی طرف سے تو تڑپا کر اوجھل ہوئیں پر اب شہیر مجتبی کا ہر تڑپ سے ناطہ ٹوٹ چکا تھا سو جناب نے رغبت کے سنگ وہ چادر تانی اور بھوک مٹانے کے لیے کھانے والا ٹفن کھولنے لگے۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"بس کر دیں صنم! یہاں آئیں میرے پاس۔ بلکل ٹھیک ہوں"

وہ اسے فضیلہ اماں کی بھجوائی یخنی پلانے کے بعد اسکے لیے ہلدی والا دودھ گرم کر کے لائی تھی اور اسے مسلسل اپنے لیے زحمت میں کب سے مبتلا دیکھ کر وہ اسکے ہاتھ سے گلاس لے کر سائیڈ پر رکھتا اسکا ہاتھ پکڑے پاس بٹھائے بولا جو دانستہ کاموں میں مصروف تھی تاکہ اسے مزید کمزور ہوتا نہ دیکھے جو واقعی سب ٹھیک ہو جانے کے باوجود کچھ بوجھل تھا۔

خاص کر زونین کے معاملے میں محبت کی بے انتہا کمی رکھ کر۔

"مجھے پتا ہے تم ٹھیک ہو، لیکن مجھے اپنا میثم بلکل ٹھیک چاہیے۔ آئی مس یو سو مچ، ایک ایک لمحہ بہت مشکل سے کاٹا، پھر جب اس حادثے کا سنا تو لگا پھر سے قیامت آگئی ہے، تمہیں سلامت دیکھ کر جان میں جان آگئی ہے"

وہ اسکے زرا بجھے چہرے کو دیکھتی فکر اور محبت لٹاتی اسکی جبین پر جھک کر پیار دیے مسکائی اور یہ محبت بھرا لمس اس کو تھکن سے دور لے جانے کا سبب بنا۔

"اب آپکی مجھ سے جان نہیں چھوٹ سکتی اشنال، اب فرصت سے میثم آپکی جان لے گا۔ ذمہ داریاں تو بھئی نبھا دیں میں نے ساری، اب بھرپور توجہ آبادی بڑھانے کی طرف دینے والا ہوں"

اتنی سنجیدہ صورت حال میں بھی میثم کا ایسا معنی خیز دل دہلاتا جواب، اشنال کے افسردہ چہرے پر سرخیاں سمیٹ لایا۔

"شرم کرو، پور پور ہلے ہو اور پلین دیکھو اپنے۔ ٹھیک کہتے ہیں دادا سائیں، الٹے دماغ اور دل والے ہمیشہ الٹے ہی رہتے ہیں، مجھے تو لگتا ہے تم پیدا بھی الٹے ہی ہوئے ہو"

خفت سے وہ الٹا اسے ڈانٹتے کیوٹ لگی تبھی تو تمام بوجھل پن کے وہ جان لیوا ازلی دل دھڑکاتا ہوا مسکرا دیا۔

"یہ اتنا بڑا سیکرٹ آپکو کیسے پتا چلا بائے دا وے"

وہ الٹا آنکھیں چھوٹی کیے اشنال کی ہنسی اسکے چہرے پر بکھیرتا شریر ہوا اور اشنال نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔

"تمہیں پتا ہے آج تمہارا زونی کے قریب جانا مجھے بہت پیارا لگا، مجھے تم پر رشک آتا ہے۔ خود سے جڑے ہر فرد کو کس سلیقے سے محبت سونپتے ہو، لمحہ بہ لمحہ تم میرے دل کے قریب ہو رہے ہو۔ اتنے بھی پیارے مت ہو جانا کہ تمہاری سوئے میں بند آنکھیں تک تمہاری اشنال کی جان لینے لگ جائیں"

مسکراتے مسکراتے وہ اداس ہوئی اور ضرار نے اسکی ہونٹوں کی حدود میں پہنچتی جبین چومتے اسی ہاتھ سے اپنے سینے پر بکھر جاتے اشنال کے بال محبت سے سمیٹے۔

"میں نے تو اتنا ہی پیارا ہونا ہے، جو کرنا ہے کر لیں"

وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا، وہ اسکے بے خود ڈھیٹ جواب پر مسکرائی۔

"تم کبھی سیدھا جواب نہ دینا، قسم اٹھائی کیا۔ سارے ایموشنز کا بیڑا غرق کر دیا۔ اب جاو میں نہیں بولتی"

مسکراہٹ کو فورا ختم کیے محترمہ زرا ٹپیکل پوسیسیو بیوی بنی غرائیں اور وہ اسے اس حصار سے نکلنے کی اجازت اتنی آسانی سے دیتا ایسا تو کسی کتاب میں درج نہ تھا۔

"ہم کس مرض کا علاج ہیں ، ہم لاتے ہیں ناں آپ میں ایموشنز کا طوفان۔۔۔یہاں آئیں اوپر میرے پاس، کیونکہ اس حالت میں آپ کی دھڑکنیں بڑھانا مجھ بیمار کے لیے خاصا دقت طلب ہے، اور پھر کندھا درد کر گیا تو آپکو ہی مسائل ہوں گے۔۔۔۔۔۔"

وہ اسکے پاس بیٹھی بیٹھی اس پر جھکی تھی جبکہ جناب تو جدائی کے ہر ہر لمحے کی تفصیلی بھرپائی کرنے کے موڈ میں تھے اور وہ خوشی خوشی اٹھ کر اپنے کندھے سے دوپٹہ اتار کر ایک طرف رکھتی اسکے پہلو میں جا سمائی جبکہ اسے بازو گرد لیپٹ کر خود میں سموتے ہی جناب نے جلتی روشنی کو مدھم کر کے ایموشنز واپس لانے کا ماحول بھی سازگار کیا۔

"تم واقعی بہت سر پھرے ہو"

وہ اسکی بازو پر سر رکھے، اپنی ہتھیلی اسکے دوسرے کندھے سے جوڑے مدھم سا بولی کیونکہ اسے اس وقت اشنال کی جانب جھکنے کے باعث یقینا درد ہو رہا تھا جسے وہ بالکل اگنور مارتے ہوئے اپنے سکون کو تفصیل سے بٹور رہا تھا۔

"آپکو اب بھی شک ہے ، میرے کندھے کی فکر مت کریں، آپکا لمس میرے جسم کے ہر درد کی دوا ہے"

وہ اسکا جواب دیتے ہی اشنال کے اسکے زخم والی جگہ پر ہونٹوں سے مہر لگاتا دیکھ کر اسکی فکر ہٹاتے مسکرایا مگر وہ کئی لمحے بس اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔

"تمہاری زندگی بہت مشکل رہی ہے میثم، کیسے سروائیو کرتے آئے ہو؟ اگر میں تمہیں نہ م۔۔ملتی تو تم تو ز۔ندہ۔۔۔۔"

اس سے آگے وہ بول نہ پائی کیونکہ دسترس کی سہولت ملتے ہی جناب نے بے خود استحقاق بھری گستاخی کرتے ہی اپنے ایک دم فٹ ہونے کی بھرپور ناصرف منادی کروائی بلکہ میثم کے ہونٹوں نے اس لڑکی کے چہرے کا ہر خدوخال اپنے لمس سے مہکایا اور پھر چہرہ اسکی گردن میں چھپائے اسکے کان کی لو چومتے اسے بھی جیسے خود میں شدت سے سمو چکا تھا۔

"زندہ نہ ہوتا، ٹھیک سمجھی ہیں۔ لیکن آپ مل گئیں، اور میں زندہ بچ گیا۔۔۔۔ اشنال! آپکی خوشبو مجھے پاگل کر دیتی ہے، کیسا جان لیوا احساس ہے آپکے قریب"

وہ اسکے ہونٹوں کو اپنے کان سے مس ہوتا محسوس کرتی اسکے آخری جذب بھرے الفاظ پر میثم کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی افسردہ سا مسکائی۔

"آرام سے میثم، تمہارا زخمی کندھا مجھ سے ٹچ ہو رہا ہے۔ باز آجاو پلیز، یہاں سامنے آو اور مجھے دیکھو۔ ابھی کسی جان لیوا احساس کے باعث بہکنے کی ضرورت نہیں تمہیں"

وہ اسکے وجود کو خود پر سے جھکی حالت میں واپس سامنے لاتی زرا منت سماجت پر اتری کیونکہ اس انسان کا پتا نہ چلتا کہ کب وہ خود میں مبتلا کر کے بے اختیار کر دے۔

"آپکو دیکھ لینے کے بعد اگلا مرحلہ تیزی سے طے ہوتا ہے کیا کروں؟"

وہ جیسے اسکے ایسے ہی بے تاب شدت بھرے جواب کی منتظر تھی تبھی مسکائی، اپنے چہرے کو میثم کے چہرے کے قریب لائی، ہونٹوں کو اسکی گال سے جوڑا۔

"ایسی باتیں کون سیکھاتا ہے تمہیں؟"

وہ متجسس تھی پھر جیسے چپکے سے اسکی مسکراہٹ اور حیرت کو میثم نے اپنی زبان کا زائقہ بناتے ہی اسکی دونوں آنکھیں چومیں۔

"آپ"

اسے یہ جواب دینے کے لیے سوچنا نہ پڑا۔

"میں! میں کون ہوں تمہاری؟"

وہ چاہتی تھی وہ آج اسکی تھکن کا فائدہ اٹھا کر اسکے منہ سے محبت کا راز اگلوائے۔

"آپ! آپ میری سانسیں ہیں"

وہ کامیاب ہوئی، چار لبوں کے کلموں نے محبت پر قائم ایمان جی جان سے پورا کیا۔

"اور"

وہ اسے اپنے بس میں کرتی اسکو ہر کرب و تھکن سے نجات دے چکی تھی۔

"اور! میری تاحیات کے لیے اپنے سکون پر اجارہ داری ہیں آپ، کیا چاہتی ہیں اتنی جلدی کھل جاوں آپ پر، آخری سانس تک بھی مکمل نہیں کھلوں گا میری جان تاکہ آپ کبھی بھی مجھے تسخیر کرنے کا عمل نہ روکیں"

وہ بے خودی میں بھی ہوش سنبھالنے کا ماہر تھا اور وہ تمام تر سنگین قربتوں کے اسکی چالاکی پر مسکرائی۔

"مجھے بھی یہی چاہیے میثم، مجھے آخری سانس تک تم کو کھوجنے سے فرصت نہ ملے۔ میں آخری سانس تک تم میں مبتلا رہوں"

گھمبیر جذبوں سے اٹی سرگوشیاں وجود میں روح پھونک رہی تھیں، وہ بھی مائل ہو رہا تھا ان دنیا جہاں کی حسین آنکھوں کی طرف، الجھے خوشبودار گیسووں کی طرف، اور پیش قدمی کرتے ہوئے ہونٹوں کی طرف۔۔۔۔

ہاتھ بڑھا کر اس اعتراف کے بعد وہ موہوم جلتی روشنی بھی رکاوٹ سمجھتے ہوئے میثم ضرار چوہدری کی جانب سے گل کر دی گئی تھی۔

اسکے بقول یہ لمحے نصیب والوں کو ہی ملتے ہیں اور محبت کرنے والوں کو جلد ہی الہام و اَحلام کی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں، جہاں جگنو کی سی پردہ چاک کرتی روشنی بھی چبھنے لگتی ہے۔

ایک دوسرے میں فرصت سے کھو جانا روح سہلاتا ، انتہائی فرحت بخش احساس تھا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

فجر کی اذانیں کہیں مدھم اور کہیں بلند آواز کے سنگ ابھرنے لگی تھیں، آج کا دن یاسیت اور قنوطیت سے پاک ہو کر زمین زادوں پر اترنے والا تھا جس کا اندازہ سحر کے وقت پھیلتی پرنور روشنی سے لگایا جا سکتا تھا۔

علاقے کی مسجد میں دونوں علاقوں کے معزین جو سزا دیکھنے کے لیے ٹھہرے تھے انہوں نے باجماعت شمشیر یوسف زئی کی امامت میں نماز ادا کی، مسجد کے امام بھی آج پہلی صف میں کھڑے تھے، مشارب زمان خان، عزیز خان بھی صف اول میں موجود تھے۔

نماز کے بعد امام مسجد نے آج کے ہوتے انصاف کے لیے رب پروردگار کے خضور دعائیں مانگیں اور علاقے ہر فرد کے امن و سکون کو طلب کیا۔

سزا حسب توقع جرگے کے میدان میں طے پائی گئی تھی، کوڑے برسانے والے دو خونخوار جلاد بلائے جا چکے تھے جنکے چہروں پر سنگلاخ چٹانوں کی سی سختی چھائی تھی، ایسی سزائیں قاتلوں اور زانیوں کے لیے اس لیے بھی ضروری تھیں کہ لوگ اس شخص کی عبرت سے خوف کھائیں،انگزیری قانون بھلے ایسے مجرموں کو سفارشوں، اعلی عہدوں پر فائز لوگوں کے دباو کے باعث اکثر و بیشتر ضمانت پر رہا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر اسلامی قوانین میں ایسے مجرموں کی مقررہ سزائیں درج ہیں، کہ کوئی لاکھ ہداہت کے بھی توبہ نہ کرے تو اسے قتل کے بدلے پورے علاقے کے سامنے قتل کیا جائے اور بدکاری کے بدلے انہی تمام لوگوں کے سامنے سنگسار کیا جائے، کیونکہ خاقان خان کئی جرائم میں مبتلا تھا سو اسکے لیے اسکے ایک گناہ کے عوض ایک کوڑا مارنا ایک شرعی اور مناسب سزا تھی۔

شہیر مجتبی نے ساری رات اس خونخوار زخمی بھیڑیے کی نگرانی کی تھی اور جرگے کے سجے میدان میں وہی اپنے چار لوگوں کے ہمراہ اسے لانے والا تھا۔

خانم حویلی کی تمام عورتیں سفید لباسوں میں ملبوس، باوضو ہو کر نماز شکر ادا کرنے کی تیاری میں تھیں، گل خزیں خانم کے چہرے پر سکون تھا، قید سے رہائی کا سکون۔

پوری خانم حویلی کو خاقان خان کے اثر سے نجات دی جا رہی تھی، ہر وہ چیز جسے خاقان نے استعمال کیا وہ سب گل خزیں نے حویلی کے باہر پھنکوا کر اسے آگ لگانے کا حکم دیا تھا، یہاں تک کہ اسکا استعمال شدہ بستر تک۔

ہاں وہ اس شخص کے اثر کو خود سے نوچ سکنے میں ناکام تھیں، وہ شخص جو ناجانے کس گناہ کے تحت گل خزیں خانم پر عذاب کی صورت اترا تھا۔

اور کچھ بعید نہ تھا کہ یہ عذاب ہی اس دائمی زندگی کی فتخ کے دروازے کھولتا۔

آج انکے دامن میں کوئی کرب باقی نہ تھا، وہ اپنے اجلے سفید لباس کی طرح خود بھی اجل چکی تھیں۔

زنجیروں میں جکڑے خاقان کو جب خانم حویلی سے ملحقہ میدان میں لایا گیا تو حویلی کی تینوں سردارنیاں چھٹ پر کھڑیں نخوت سے اس عادی مجرم کی عبرت دیکھ رہی تھیں اور پھر ان تینوں کے ساتھ آج رات مہندی کی دلہن بنتی وریشہ بھی آکر اس عبرت اور تماشے کو دیکھنے میں ساتھ شریک ہوئی۔

آہستہ آہستہ جیسے ہی سحر کی روشنی بڑھ رہی تھی، سزا دیکھنے والے لوگوں کا ہجوم بھی بڑھ رہا تھا۔

"تم نے گناہ کی لذت کے پیچھے اپنی موت کو بھی زلت بنا لیا خاقان خان، حالانکہ لوگ دعا کرتے ہیں کہ مولا ناگہانی موت سے دشمن کو بھی بچانا۔ آج ہر کوئی تمہاری موت سے عبرت لے گا خاقان، اور تمہاری موت کا کسی کو کوئی ملال نہ ہوگا"

اس منتفر شخص کی آنکھیں اب بھی زہر سے بھری تھیں اور وہ زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود اس تاک میں تھا کہ ان سبکو زندہ جلا کر خاک کر دے۔

"تمہیں اب بھی اپنے کیے پر کوئی ملال نہیں؟ کوئی آخری خواہش ہے تو بتاو۔ کبھی تمہیں جگری یار کہا تھا شمشیر یوسف زئی نے"

وہ اس شخص کی جلتی آنکھوں میں نظر آتا زہر بھانپ کر اور پھنکار کر کاٹ کھانے کو دوڑتے انداز دیکھ کر شمشیر یوسف زئی افسوس میں مبتلا تھے اور جیسے آخری خواہش اسے سلگانے کے لیے پوچھی تھی جبکہ آج عزیز کا دل بھی مدت بعد سکون سے مالا مال محسوس ہو رہا تھا، اپنی ماں کی طرح۔

سارے مجمعے کو یوں لگا تھا کوئی سانپ سونگھ گیا ہو۔

"ح۔۔حرام زادے۔۔۔۔۔۔"

وہ زیر لب گالیاں بکنے لگا تو جیسے شمشیر یوسف زئی کا بھی صبر کا پیمانہ لبرئز ہوا۔

انکی بلند دہشت طاری مرتی دھاڑ میدان میں اپنی پوری تابناکی سے گونجی۔

اور پھر جلادوں کو انکے کام کی شروعات کرنے کا اشارہ سونپا گیا۔

پہلا کوڑا۔۔۔۔۔

یوں تھا جیسے کوئی مردار بلک کر آخری حد غرایا ہو، اسکے حلق سے ہیبت ناک دھاڑ نکلی جو ہر فرد کو کپکپا چکی تھی، جو فلک بوس دیواروں تک جا کر ٹکرائی تھی۔

دوسرا کوڑا۔۔۔۔

اسکے چھوٹے گناہوں کی پاداش اسکی پیٹھ کو زخمی کر گیا، لہو اسکے لباس کو چیڑتا ہوا بہنے لگا۔

گل خزیں نے تمام اذیت کے منہ نہ موڑا، جتنے کوڑے اس نے گل خزیں کے وجود پر مارے تھے، یہ تو انکا ایک فیصد بھی نہ تھا۔

جلادوں کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے جن زاد قوت ملی ہو اور پھر نہ تو خاقان خان کی چینخوں کو اہمیت دی گئی نہ پہلے سے بن جاتے رستے زخموں کی۔

کوڑے برسے تو اسے اپنا ہر گناہ اپنی آنکھوں کی پتیلوں کے آگے ناچتا ہوا دیکھائی دیا، اپنی قبر پر جلتی آگ آنکھوں سے دیکھائی دینے لگی، طوق نظر آنے لگا، تپی سلاخیں دیکھائی دینے لگیں، جہنم کا گڑھا نظر آنے لگا۔

کئی گناہ، اک کوڑے کی اذیت سمیٹ رہی تھی، وہ گر چکا تھا، سسک رہا تھا، اس اذیت سے ایک بار ہی نجات مانگ رہا تھا مگر اب توبہ کا ہر در بند ہو چکا تھا۔

ہر کوڑے نے ایک قتل کی یاد تازہ کی، اک بدکاری کی تابناکی اس شخص کی روح تک لرزاں خیزی سے اتاری۔

لوگ خوف سے کانپ رہے تھے، رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے، حواس سلب ہو رہے تھے مگر جلادوں نے نہ رحم کھایا نہ ترس، نہ اسے سانس لینے کی، دھاڑنے کی اور رحم کی التجائیں کرنے کی مہلت دی۔

اور پھر اچانک تیز آندھی کا گرم جھونکا آیا، اور وہ کوڑے کھاتا گناہ گار آخری ہچکی کے ساتھ دم توڑ گیا۔

جلادوں کو کوڑے برسانے کے سلسلے کو ختم کرنے کا اشارہ کیا گیا ، چونیس کوڑے ہی اس شخص کو کھا چکے تھے، نگل گئے تھے، باقی آخرت کے لیے وہ محفوظ کیے اس جہاں سے اس جہاںِ عبرت کوچ کر چکا تھا۔

پورے مجمعے پر یہ کیفیت تھی کہ آنکھیں خوف اور اس شخص کی عبرت پر بھیگ گئیں۔

ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔

طبیب کو بلوایا گیا اور اسکے خاقان کی موت کی یقین دہانی کے بعد سردار مشارب زمان خان نے اس کی زنجیریں کھولنے کا حکم دیا، اسکی لاش کو اٹھا کر لکڑی کی چارپائی پر رکھا گیا، سفید کفنی چادر اس عبرت کے نشان پر اوڑھا دی گئی۔

"گناہ نہ کبھی چھپتا ہے نہ گناہ کی سزا سے آج تک کوئی بشر بچ سکا ہے، دنیا میں اس آدمی نے جتنے گناہ کیے شاید یہ زلت ان سب کا پورا بدلا تھی۔ اب اس شخص کا معاملہ ہم سب اپنے رب کے سپرد کرتے ہیں، ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم کسی مر چکے شخص کی آخرت کا فیصلہ کریں۔ ہاں ایک چیز ہرگز نہیں بھولنی اور وہ ہے اس شخص کی موت، مجھے امید ہے اس عبرت کو دیکھنے والی ہر آنکھ اور سننے والی ہر بصارت اس کے انجام کو تاحیات ذہن نشین رکھے گی۔ خاقان خان کے کفن دفن کا پورا انتظام کیا جائے گا اور اسے ہمارے ہی آبائی قبرستان میں سب سے علیحدہ کر کے دفن کیا جائے گا"

سردار مشارب زمان خان کی بلند آواز اور اسکی آخری رسومات کرنے کا فیصلہ ہر فرد کو اسکے بڑے پن سے متعارف کروا چکا تھا اور ہر کوئی مشارب کی اس رحم دلی سے متاثر ہوا تھا۔

اور پھر حکم کے مطابق خاقان خان کے گناہوں سے لتھڑے جسد خاکی کو اگلے دو گھنٹوں کے اندر اندر سپرد خاک کر دیا گیا، اور یہی نہیں پورے علاقے سے سردار مشارب نے ہر قسم کے خوف و حراس کو ختم کرتے تمام ماتم روک دینے کے ساتھ جشن کا اعلان کر دیا۔

کل یوسف زئی حویلی میں وریشہ اور شہیر کی شادی کا جشن تھا اور وہیں خانم حویلی میں نئی سردارنی کی آمد کا۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی زمان خان کی ذمہ داریاں یہیں ختم نہیں ہوئی تھیں، اگلا دن اسکے لیے بھی ایک نئی مسافت لایا تھا۔

سیٹھ گونی کو ٹھیک دس بجے عدالت پیش کیا گیا اور احتساب عدالت سے اسکا سات دن کا ریمانڈ لے کر نیب کے سپرد کر دیا گیا تھا، اسکے پاس موجود وہ تمام انفارمیشن جو اہم تھی اس نے انٹیلجنس کے ادارے تک پہنچائی اور اب سیٹھ گونی قانون اور نیب دونوں کی گرفت میں بری طرح جکڑا جا چکا تھا اور پولیس کا کام یہیں ختم ہو چکا۔

آج شام پانچ بجے اسکی اس کامیابی کے اعزاز میں تمام سینئیر سٹاف کے ساتھ میٹنگ تھی۔

اور شہیر کے مطابق جو اسے ڈی آئی جی کا رینک دینے کی سوچ بچار کی جا رہی تھی جو بلکل سچی تھی اور خود آئی جی گلزار نے اسے یہ خبر دیتے ہوئے نئے ایس ایس پی کے لیے تجویز طلب کی تھی۔

"سر مسٹر شہزاد آپ سے ملنا چاہتے ہیں"

وہ ونیزے کو دو دن بعد گھر آنے کا کہہ کر آیا تھا مگر اب اسے فریش ہوئے چینج کیے شام کی اعزازی پارٹی میں ود وائف مدعو کیا گیا تھا سو وہ گھر ہی جانے کے ارادے میں تھا جب اسکا اہل کار کسی کے آنے کی اطلاع لایا۔

"ہاں ہاں جلدی بھیجو"

وہ یقینا ولی زمان خان کا کوئی سئنیر تھا جسکا ولی خود بھی انتظار کر رہا تھا۔

کچھ دیر میں وہ سوٹڈ بوٹڈ سا آدمی ولی کے کیبن میں نہ صرف داخل ہوا بلکہ خوش دلی سے اس نے آگے بڑھ کر ولی سے ہاتھ ملایا۔

رسمی علیک سلیک کے بعد وہ لوگ مدعے پر آئے۔

"آپکی تجویز پر آئی جی گلزار صاحب نے بہت جلدی نوٹس لیا ہے ولی، اور یہ ہر بار نہیں ہوتا سو یو آر لکی۔ مجھے اس آدمی کا تمام بائیو ڈیٹا اور پراگرس رپورٹ دے دیں، گلزار صاحب خود ایک بار سٹڈی کر کے تسلی چاہتے تھے ورنہ آپکا ریفر کیا بندہ یقینا خوبیوں سے بھرا ہوگا پورا ڈیپارٹمنٹ اس پر بند آنکھوں یقین رکھتا ہے"

وہ آدمی وضع سے ہی مہذب اور تعلیم یافتہ لگتا تھا اور جب ولی نے اپنی تجویز دی تھی تبھی اس نے مطلوبہ مواد ایک فائیل کی صورت تیار کروا لیا تھا۔

ولی نے وہ فائیل پروفیشنل انداز میں مسٹر شہزاد کے سپرد کی اور انھیں چائے پلا کر ہلکی پھلکی گفتگو کیے رخصت کیا اور خود بھی گھر کے لیے نکلا مگر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے کچھ سوچتے ہوئے تہلکہ خیز مسکراتے ہوئے اپنا فون نکالا اور شہیر کا نمبر ڈائیل کرتے ہی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔

شہیر کچھ دیر پہلے ہی گھر واپس آیا تھا، تازہ دم ہوئے کوثر صاحبہ کے ہاتھ کا ناشتہ کیے ابھی ہی فارغ ہوا تھا جب ولی کی سرپرائزنگ کال پر وہ اٹھ کر باہر کچے صحن میں لگی کرسی پر آبیٹھا۔

"کیسے ہو چھوٹے سردار؟ وہ کچرا دفن ہو گیا یا نہیں"

ولی کے فون لگتے ہی سوالوں پر شہیر اسکی ازلی دبنگ سنگدل ٹون پر مسکرایا کیونکہ وہ اپنے سفاک دادا کو کچرا کہتے زرا نہ کانپا۔

"ہو گیا، اور یہ سردار سردور نہیں بننا مجھے۔ شمشیر صاحب کا مان رکھا ہے بس، مشارب خود ہی سب دیکھ لے گا، مجھے یقین ہے"

سردار کہنے پر وہ جس طرح خفیف سا بگھڑا، یہ ولی کے لیے ایکسپیکٹیڈ تھا تبھی تو تھانیدار نے شر انگیز مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیلائے گاڑی کی سپیڈ بھی بڑھائی۔

"مجھے بھی تم سے یہی امید تھی شہیر مجتبی، ٹھیک ہے پھر اپنا گھر بسا لو پہلے فرصت سے اور روایات کے مطابق تو واپسی کا ٹکٹ کٹوا کر پہنچو، تمہارے لیے تمہارے معیار کا عہدہ ڈھونڈ لیا ہے ولی زمان خان نے"

گویا وہ سر پھرا تھانیدار واقعی اس روز سچ کہہ رہا تھا، شہیر کا سر لمحے میں گھوما۔

"کیا مطلب"

شہیر کی ناسمجھی پر ولی نے مست سا مخظوظ قہقہہ لگایا جو اسے اور متذبذب کر گیا۔

"ایس ایس پی شہیر مجتبی، لیکن یاد رکھنا تم اب بھی میرے ماتحت رہو گے۔ سو میرے سامنے بھول کر بھی اکڑنے کی کوشش مت کرنا، اور ساری انسٹرکشنز بھی شرافت سے فالو کرنا۔۔۔سی یو"

رعب و دبدبے کے سنگ مسکراہٹ دباتا وہ ناصرف کال کاٹ چکا تھا بلکہ اگلے ہی لمحے پھولوں کی اسی دکان کے سامنے ولی زمان خان کی گاڑی رک چکی تھی۔

جبکہ شہیر مجتبی اس سر پھرے ولی زمان خان کی باتوں کو سوچتا جانے کتنی دیر مسکراتا ہی رہ گیا۔

ابھی وہ انہی سوچوں میں مبتلا تھا جب والد اور والدہ صاحبہ کو نک سک سا تیار کہیں جانے کے لیے آمادہ دیکھتا وہ حیرت سی چہرے پر سجاتا اٹھ کر انکی طرف بڑھا۔

"خیر ہے، آپ دونوں کہاں جا رہے ہیں؟"

شہیر نے ان دو کے چہروں پر پھیلی خوشی دیکھ کر استفسار کیا جو خاصے مشکوک سے لگ رہے تھے اور شہیر کے سوال پر مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جو شہیر کا تجسس اور بڑھا گیا۔

"سن رہے ہیں سانول صاحب، کل یہ دلہا بننے والا ہے اور کہہ رہا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ارے پاگلا! کیا خالی ہاتھ وریشہ بی بی کو لینے جائیں گے؟ وہ بھاگوں بھری اپنے پیارے قدم اس گھر رکھنے والی ہے کل سو ہم دو شہر جا رہے ہیں، اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے وریشہ کے لیے بہت سی چیزیں خریدنے، قیمتی تو وہ ان سب کو قبول کر کے کرے گی۔ اور تیرے لیے بھی تو شہر کی سب سے پیاری شیروانی لاوں گی، ہے ناں سانول جی"

اماں کو اس قدر خوشی سے جوشیلا دیکھ کر اس بار باپ بیٹا ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تھے، یعنی اماں صاحبہ تو بہو پر واری قربان ہونے کی تیاری میں تھیں، یہ احساس ہی فرحت بخش تھا۔

"ارے واہ! لیکن یہ شیروانی مجھ سے پہنی نہیں جائے گی، کوئی سادہ سا لباس ٹھیک رہے گا۔ اور وریشہ کے سامنے اسے بی بی مت بول دیجئے گا اماں، آپکو تو کچھ نہیں کہے گی، میرا سر پھاڑ دے گی کہ میں نے کیوں نہیں یہ بی بی کا ٹیگ ہٹوایا۔ میرا مطلب بہو اور بیٹی ہے وہ آپکی، اور وہ ہمارے جیسی ہی ہے سو نہ اس کے خاندانی مرتبے کے باعث اسے برتر جانیں نہ خود کو کمتر، اسے یہی پسند آئے گا"

وہ بہت خوبصورتی سے اس لڑکی کی سوچ واضح کرتا مسکرایا اور یہ تو ان دو کی اور زندگی بڑھا گیا۔

"چل شکر ہے تو نے بتا دیا، خوامخواہ شرمندہ ہو جاتی بچی۔ چل ٹھیک ہے ہم جا رہے ہیں، کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے، دھوم دھام سے بارات لے کر جائیں گے کہ پورا علاقہ دیکھے گا"

وہ تو خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھیں اور سانول مجتنی بھی آج خوشی سے بھرے ہوئے تھے۔

"جیسی آپکی خوشی"

گویا ان دو کی زندگی کے سارے ارمان شہیر کی شادی سے جڑے تھے سو اسے مان جانا ہی مناسب لگا، اماں کوثر اسکی پیشانی چومتیں کسی الڑ مٹیار کی طرح باہر کی طرف لپکیں جنکا آج خوشی سے پیر زمین پر نہ لگ رہا تھا، سانول پہلے ہی حویلی سے گاڑی لے آئے تھے اور شہیر انکو جاتا دیکھ کر مسکراتے ہوئے گیڈ تک آیا اور دروازہ بند کیے واپس اندر چلا گیا۔

رات جگے کے باعث اب اسے نیند آرہی تھی تبھی جب تک والد اور والدہ شہر لوٹ کر آتے اسکا دل تھا وہ نیند پوری کر لے کیونکہ اسکے یار بیلوں نے رات اسکی مہندی کا بھی پلین کر رکھا تھا اور وہ بھی خوب ڈھول ڈھمکے کے ساتھ۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اف میثم! بس کرو۔ کیا پوری بوتل انڈیلنے کا پلین ہے"

نکھرے تروتازہ سے چوہدری صاحب حقیقت میں بوتل خود پر انڈیل لیتے اگر چینج کر کے باہر آتی اشنال اس سے پرفیوم باقاعدہ جھپٹ کر نہ لیتی اور بنا کندھے کی پرواہ کیے بنا وہ اسے بازو سے جکڑے روبرو کھڑا کرتے لاک کرنے کے ساتھ ساتھ فرار کی تمام راہیں بھی بے خود ہوتے مسدود کر بیٹھا۔

"اگر یہ نہ کیا تو دنیا جان جائے گی کہ میثم ضرار چوہدری کو اسکے صنم کی کتنی حسین مسیحائی ملی ہے، سمجھا کریں میری جان۔ نظر لگ جائے گی اگر مجھ سے سب کو آپکی خوشبو آئی"

جذب سے اٹے شرارت بھرے بہکے تیور اور انداز جو اشنال کو گدگدا تو گئے ہی ساتھ وہ بازو اسکی گردن میں حائل کرتی ہنسی۔

"تم واقعی بہت سر پھرے ہو، تمہارا کیا کروں میں۔۔۔ "

وہ شکوہ بھی جان لیوا کرتی تھی اور میثم خود کو اب بھی اسکے روبرو پگھلتا ہوا محسوس کر رہا تھا کہ شدتوں بھرے ساتھ کو منقطع ہوئے ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے۔

"آپ کے ساتھ ہر لمحہ دلفریب ہے اشنال! 

لفظ خود ترتیب پاتے ہوئے آپ سے جڑی میری خواہشوں کے فسانوں کو بیاں کرنے لگتے ہیں"

اس حسین چہرے پر اپنی مہربان آنکھیں جمائے وہ اس حسن زادی کے حسن کو خراج پیش کرنا چاہتا تھا۔

"اور میں تمہارا ہر لفظ سننے کے لیے بے تاب رہتی ہوں"

وہ اسکی گال سے لبوں کو چھوتی مسکائی، صبح کی دھیمی خنک روشنی تک لجا و شرما گئی۔

"اے حُسن مجسم میں آپکا عاشق

آپکی سنگت میں گزری ہر شب 

یونہی کچھ دیر جادوئی لمحات پر دسترس چاہتا ہوں

میں ان جادوئی لمحات میں آپکو اس عالم اجرام سے

بہت دور ایک الگ دنیا میں لے جانے کا خواہش مند ھوں

جہاں بس آپ ہوں جہاں بس میں ہوں

جہاں بس ہم موجود رہیں۔۔۔!

چاند کو مسکن اور ستاروں کو آپکی راہگزر بناؤں

گلاب کی پتیوں کا احمری لباس آپکے دلکش

وجود کا حصہ بنے

تتلیاں آپکا صدقہ اتاریں جُگنو آپکی بلائیں لیں

کوئل کی کُو کُو گیت گا کر آپکے حسین سراپے کو

چار چاند لگائے

کوقاف کی حسین و جمیل پریاں آپکے سامنے آئیں

اور حُسن مجسم کی ایک جھلک دیکھ کر مر مٹیں

میری اس جادوئی دنیا کی آپ ملکہ بن کر حکم

صادر کریں اور آپ جسے پکاریں وہ لبیک لبیک کی صدا

لگائے حاضر ہو جائے

سچ کہوں تو

بہتی ندیاں آپکی چہل قدمی پر تھم جائیں

نگاء ڈالیں تو آبشاریں وہیں تھم جائیں

آپ پکاریں تو پرندے محویت سے دیکھنے پر مجبور

ہو جائیں

ان فضاؤں کی نذر اک لمبی سانس کریں , تاکہ

ہواؤں میں خوشبو ہی خوشبو پھیلتی جائے

ہر شے مست ہو جائے بس آپکا جلوہ باقی رہ جائے

اے نگار بند میرے حبیب

ہر وہ منظر جس پر آپ اپنی نظرکرم کریں

حسین تر ھو جائے

المختصر ! میں ہر شب ایسے طلسماتی لمحات چاہوں

اے آفتاب رُو

کہ اس اگلی صبح کی کرنیں آپکے وجود عنبریں کو چُھو کر

میرے ہر دن کا باقاعدہ آغاز کریں

شبنم آپکے چہرے پر پڑے اور اپنے بختوں پر نازاں ہو

شام کا ڈوبتا سورج آپکے قدموں کا بوسہ لیکر رخصت ہو

آپکے گیسوؤں کی کالک سے رات کا وجود ممکن ہو

اور یہی کالک تاریکیوں میں ڈھلے ,اور

چاند آپکی پیشانی پر جھومر کی طرح کندہ ہو جائے"

اول تو وہ دنگ تھی کہ وہ اتنے سارے لفظ کہہ کیسے گیا، لیکن پھر خوشی سے کھکھلائی کیونکہ اس شخص نے لفظ لفظ میں اظہار ڈال کر اشنال عزئز پر وارا تھا۔

"بس میثم، اتنا سب مت کہو۔۔۔۔۔۔"

وہ اسکی محبت پر روہانسی ہوئی جس نے بے تکلفی سے آنکھیں اپنے لبوں سے چومتے ہی زرا فاصلہ بنائے اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھا جبکہ وہ بھی اپنے احمری ہونٹوں کی مہربانیاں ان جان لیوا خدوخال پر فراغ دلی سے لٹاتی اس کے سینے میں سمٹ گئی۔

"واقعی کچھ زیادہ ہو گیا، ہاہا۔۔۔کبھی کبھی لگتا ہے زمین دار چوہدری کم، اول پائے گا شاعر زیادہ ہوں۔۔۔ پلیز سینٹی مت ہوئیے گا ورنہ سب نے مجھے خوامخواہ پیس دینا، لٹس گو۔۔سب ناشتے پر منتظر ہوں گے"

اس سے پہلے کہ موصوفہ اسکی محبت بھری جسارتوں سے جذباتی ہوتیں وہ مسکراتے چہروں کے ساتھ باہر آئے جہاں رہا سہا ہر جمود واقعی ہٹ چکا تھا۔

بہو رانیاں ناشتے کو اماں فضیلہ کے ساتھ لگانے میں مصروف تھیں اور باقی سب ناشتے کی میز پر براجمان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

آج سبکے بہت سارے پلینز تھے۔

"ناشتے کے بعد شاپنگ کرنے جانا ہے اور اس بار میں کسی بہو کو نہیں لے کر جاوں گی بس ہاشم جائے گا میرے ساتھ۔ میں جیسا بھی ڈریس اپنی دلاریوں کے لیے لاوں گی مجھے پتا ہے سب کو پسند آئے گا، زونی کے لیے خاص اہتتمام کرنا ہے کیونکہ یہ بھی وری کی طرح کل رخصت ہوگی جبکہ باقی تین جوڑوں کا فنکشن دو دن بعد ہے سو انکے لیے تیاریوں کا مزید دو دن کا وقت مل جائے گا"

ناشتے کے دوران ہی فضیلہ اماں نے اپنے آج کے دن کی مصروفیت پرجوشی سے بتائی اور سب ہی کل زونی کے لیے بہت خوش تھے اور اشنال، گل اور مالنی بھی خوش تھیں کہ مزے سے کل پہلے وہ زونی اور وریشہ کی شادی انجوائے کریں گی۔

آج ہی اشنال اور زونین کے سوا باقی دونوں نے بیٹھنا تھا اور زونی کی مہندی تھی اور رخصتی تک کسی دلہن کو اسکے دلہے سے ملنے یا اسے دیکھنے کی ہرگز اجازت نہ ملنے والی تھی اور اسکا بندوبست فضیلہ اماں پوری سختی سے کرنے والی تھیں جس میں چوہدری عالم بزدار کی بھی مکمل حمایت موجود تھی لیکن کیا پتا ایسا ممکن بھی ہونے والا تھا یا نہیں۔

جبکہ شادی کی تیاریوں میں اشنال نے اماں فضیلہ کی بھرپور مدد کرنے کا عہد لیا تھا۔

ناشتے کے بعد ہر ایک فرد کو اسکی ذمہ داری تھمائی گئی، جبل زاد کو تھوڑا فری رکھا گیا کیونکہ جناب کو ہلے ہونے کا ایڈوانٹیج ملا تھا جبکہ ضرار کے سپرد پوری بزدار حویلی کی سجاوٹ کروانے کا کام ڈالا گیا، اشنال کے ذمے ملازمین اور حلوائیوں سے شام اور اگلے سارے دن پکنے والے پکوان کی نگرانی کا کام تھا، جبکہ باقی کاموں کے لیے ملازمین موجود تھے۔

"یہ تمہارا جوڑا ہے آجکا، اور یہ مالنی اور زونی کو دو۔ اپنی اپنی مہندی تک تم اور ماپنی اسی طرح مایوں کی دلہنیں بنی رہو گی۔۔۔یہ حویلی کی رسم ہے"

درزن کچھ دیر پہلے ہی تینوں اپسراوں کے جوڑے دے کر گئی تھی جو ہاشم کے ساتھ خریداری کے لیے شہر جانے سے پہلے فضیلہ اماں نے گل کو تھمائے، جو انھیں لیے مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی مگر اپنے دھیان میں جاتے جاتے وہ کسی پہاڑ سے ٹکرائی، ہوش و حواس سلپ کرتی دوسری ملاقاب رگ جان پر مہکتے پھول کھلا چکی تھی، یہ نئی ملاقات کم، کل کی ادھوری ملاقات کا ٹوٹا سا حصہ زیادہ تھا۔

ایک لمحہ تو اسکا سر گھوما جبکہ جبل زاد اسکے ہاتھوں میں پکڑے جوڑوں کو دیکھتا اسکی بوکھلائی صورت دیکھتے جیب سے اسکا فون نکال کر اسکی ہتھیلی کھولے اس میں دبائے غضبناک سا مسکرایا جو کچھ لمحے پہلے اسکے سینے سے ٹکڑا کر جناب کے اور اپنے ہوش گل کر بیٹھی تھی سو ایسے میں ملاقات لمبی کرنا خطرہ تھا۔

"کل آپکا جواب مجھے بہت پسند آیا تھا گل، سچ میں آپکی ہر دعا قبول ہو چکی ہے۔ آج سے لمحے گننا شروع کر دیں، بہت تھوڑی مہلت بچی ہے آپکے پاس، میری دلہن اتنی پیاری ہوگی میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ اور مجھ پر میری طرح فدا ہوگی یہ تو خواب تھا جبل زاد کا"

وہ تو ابھی کل ہی کے سحر سے نہ نکلی تھی کہ یہ شخص پھر سے طلسم پھونک رہا تھا اور آج اس نے گل کو کسی مشکل سے دوچار نہ کیا اور بس اسکی حیا سے جھکی آنکھیں محویت سے کچھ دیر دیکھتا وہاں سے چلا گیا اور بھی جیسے دل کی بے ترتیب ہوتی دھڑکنیں سنبھالتی ہوئی وہاں سے تیزی سے زونی اور مالنی کے کمرے میں پہنچی۔

ان دو کو بھی اپنے ڈریسز پسند آئے تھے۔

"لو جی ہم تینوں جڑواں لگنے والی ہیں، ہمارے دلہوں کو کنفوزن نہ ہو جائے، ویسے زونی آپی کو ہم سے زیادہ پیارا لگنا چاہیے کیونکہ یہ ہم دو کے بیچ مہندی کی دلہن ہیں"

زونی کا لہنگا کچھ زیادہ برائیٹ کلرز پر مشتمل تھا اور گل اور زونی کی مسکراتی آنکھیں دیکھ کر وہ فقط اس لباس کو انگلیوں سے چھو کر دھیما سا ہی مسکائی۔

"بلکل، اور ابھی تو انکو مہندی بھی لگانی ہے۔ تو ایسا کرتے ہیں پہلے مہندی لگاتے ہیں اسکے بعد ریڈی ہوں گے۔ مجھے بہت اچھی مہندی لگانی آتی ہے، کیا میں آپکو مہندی لگا سکتی ہوں زونین آپی؟"

وہ تھوڑی اداس تھی شاید مشارب کو مس کر رہی تھی تبھی گل نے اسکا محبت سے دھیان بٹایا جبکہ خود مالنی بھی محسوس کر رہی تھی کہ زونی کا دھیان کہیں اور ہے اور اتفاق سے مالنی کے فون پر آتی مشارب کی کال پر مسکراہٹ کے مدھر لمس نے مالنی کے ہونٹوں کو چھوا اور وہ فون اٹھاتی اشارے سے زونین کو تھما کر خود گل کے ساتھ کمرے سے نکلی کیونکہ مہندی کی حق دار پہلے اشنال تھی۔

وہ بھی حویلی کی تیاریوں کی نگرانی پر فائز تھا جب اس لڑکی کی یاد نے کال کرنے پر اکسایا، دل دھڑکایا، توجہ اس لڑکی کی مدھم سانسوں کے حصار میں سمٹ گئی۔

"اداس ہیں آپ؟ لیکن کیوں میری جان۔۔۔ آپ کی اداسی بنا کہے مجھ تک پہنچتی ہے، مت ہوا کریں"

فون اٹھاتے ہی اس شخص کے مرہمی لہجے میں ادا کیے محبت بھرے لفظ سن کر زونی کا دل بھر آیا۔

"ہم آپکو یاد کر رہے ہیں مشارب"

وہ ہمت جتاتی رندی آواز سے بولی، سب نے اسے سنبھال لیا تھا پر جیسا وہ سنبھالتا تھا ایسا تو کسی کے بس کی بات نہ تھی۔

"بس ایک دن اور رات کی دوری ہے لیڈی، اسکے بعد آپکو یہ کہنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ میں آپکو خود سے دور ہونے ہی نہیں دوں گا، آئی نو آپ مضبوط ہو چکی ہیں اگر کوئی کمی باقی ہے تو میرے پاس آتے ہی ہو جائیں گی۔ آئی آلسو مس یو"

وہ اسے اس دن کی طرح کمزور نہیں بلکہ ازسرنو مضبوط لگا تبھی وہ بھی خود کو بہتر کرنے کی سعی میں مبتلا ہوئی۔

"آپ تو سردار ہیں ناں، سردار تو بے بس نہیں ہوتا۔ آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں"

اس بار وہ زرا جھجھک کر ساری اداسی دور پھینکے مسکائی تھی، شاید وہ اسے آج بھی دیکھنا اور ملنا چاہتی تھی کہ کل تو بہت دور تھا۔

اور سردار مشارب زمان خان کے چہرے پر پہلی بار پرسکون متبسم لمس بکھرے۔

"آہاں آپ ہمیں چیلنج کر رہی ہیں یعنی"

وہ بھی گرد حاوی حصار سے نکلتا مسکرایا اور زونین کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔

"ہم آپکو آج بھی دیکھنا چاہتے ہیں مشارب"

اس لڑکی کی خواہش سردار صاحب کا دل بے تاب کر چکی تھی۔

"آپکی خواہش پر تو ہر سکھ وار سکتا ہوں، آوں گا۔۔۔۔ لیکن صرف آپکے پاس، مہندی کی رسم کے بعد چینج مت کیجئے گا۔ بائے"

محبت سے بھری دل دھڑکاتی سرگوشی کرتا وہ فون بند کر چکا تھا اور زونین کا دل گویا اس کے مان جانے پر پوری شدت سے دھڑک اٹھا۔

اشنال مہندی سے خاصا خار لھاتی تھی پر سب کی پر زور فرمائش اور ضرار صاحب کی خواہش پر اسے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے اور گل نے اسکے دونوں ہاتھوں کو مہندی سے سجا دیا، جبکہ زونی نے صرف پچھلے ہاتھوں پر مہندی لگوائی اور ہتھیلوں کو یونہی چھوڑ دیا۔

اسکے بعد وہ تینوں تیار ہوئیں، اشنال نے ہی تینوں کو سجایا۔ دو مایوں اور ایک مہندی کی دلہن پر دنیا جہاں کا روپ اتر آیا تھا۔

گل اور مالنی مایوں کے پیلے اور سرخ شراروں میں حسن کی ملکائیں لگ رہی تھیں مگر مہندی کی دلہن ان پر ہر طرح سے بھاری تھی، تینوں کو ان کے دلہوں کو رخصتی تک نہ دیکھنے اور ملنے کا حکم دیے فون لے کر قید کروایا گیا تھا اس پر دل تمام تر اداسی کے دھڑک سا اٹھا تھا کیونکہ ملن کی خوشی تینوں پر پوری دبنگ تیاری سے اتری تھی جبکہ زونین کو تو رات کا زیادہ انتظار تھا۔

تیاری بزدار حویلی میں ہی نہیں، یوسف زئی اور خانم حویلی میں بھی شان سے شروع ہو چکی تھیں۔

ایک بیٹھی رخصت ہونی تھی اور دوسری آنی تھی۔

یہاں بھی آج دونوں یعنی وریشہ اور مشارب کی اکھٹی مہندی تھی اور جلد ہی دونوں حویلیوں کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔

ماتم ختم ہو چکا تھا اور اب ہر طرف خوشیوں کی ریل پیل تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

کل رات ولی نہیں آیا تھا اور وہ بلکل نہیں ڈری تھی بلکہ جو رتبہ وہ اسے سونپ کر گیا تھا اسکے بعد تو اس شخص کا احساس ہر دم روح اور وجود پر ثبت محسوس ہو رہا تھا۔

آج سردی کی شدت عام دنوں سے تھوڑی کم تھی اور وجہ تھی سنہری تیز دھوپ جو ہر سردی کی شدت کو خود میں سمیٹ کر زمین زادوں پر روح سہلاتے لمس بکھیر رہی تھی، شام اتر رہی تھی پر اس میں بھی حدت موجود تھی۔

ولی کی گاڑی پورچ میں رکی تب بھی محترمہ لان میں لگے پھولوں کے سنگ ہی مصروف رہیں، سکائے بلو فراک کے ساتھ وائیٹ تنگ پاجامہ پہنے، دوپٹے سے بے نیاز، دھیمے سنہری گھنگھریالے سے بال کھولے وہ لان میں لگے پھولوں کے تمام پودوں کو پانی دینے کے بعد نیٹ پر سرچ کر کے اب انکی تراش میں لگی تھی۔

کیونکہ لان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی مالی نہیں تھا اور ولی خود ہی فرصت ملنے پر کبھی کبھی انھیں پانی دیتا تھا۔

لیکن جب سے ونیزے آئی تھی ان پر بہار آگئی تھی جیسے وہ مرجھائے ہوئی مخلوق، اس خیال زادی کے لمس سے ہی شفا پانے کے منتظر تھے۔

ولی نے وہ سفید اور جامنی خوشبودار پھول اپنے کمرے کے واس میں لگائے، چہرے پر مسکراہٹ تب جگمگائی جب گلاس ڈور کے پار وہ لڑکی پھولوں سے گفت و شنید میں مبتلا دیکھائی دی۔

اپنا وائیٹ کوٹ اتار کر وہیں ہینگ کیے، آسمانی شرٹ کے اوپری دو بٹنز کھولے، کف فولڈ کرتا وہ خود بھی ٹھنڈ سی محسوس کیے سنہری ڈھلتی دھوپ کے لمس سے مستفید ہونے لان کی طرف بڑھا۔

وہ اب بھی اپنے کام میں مصروف تھی، وہ جیسے جیسے قریب آرہا تھا، محسوس کر سکتا تھا کہ وہ واقعی سنہری دھوپ کے کوئی سب سے روشن لمحے کا روپ دھار چکی تھی۔

ولی نے اسے مصروف دیکھ کر مسکراہٹ دی اور پھر کچھ فاصلے پر رک کر گلابی گلاب کے کھلے پودے کی جانب جھکا، ایک چھوٹا سا پھول توڑتے ہوئے اسکے دل نے سرزنش کی مگر وہ جانتا تھا جب پھول اسکے بالوں میں سجے گا تو شاخ سے ٹوٹنے کا دکھ بھول جائے گا۔

کب وہ اسکے عین پیچھے جا کر رکا اور آہستگی سے اسکے خوشبودار بالوں میں وہ پھول اٹکائے اپنی دونوں بازو اسکے مہکتے وجود کے گرد حصار گیا جس نے اس اچانک افتاد پر اپنی دھڑکنیں زیر اور دل بند ہوتا محسوس کیا، یوں لگا کہ اگر وہ پلٹ گئی تو اس شخص کو دیکھتے ہی اسکی مدھم سانسیں رک جائیں گی۔

"آ۔۔آپ اتنی جلد۔۔دی کیوں آگئے"

بنا پلٹے ہی وہ بمشکل منمنائی جبکہ اسکا ڈرا ہوا سہما چہرہ دیکھنا تو ولی کی ضد کا روپ اختیار کر گیا۔

"کیونکہ شکارن ہو تم، اور شکارن تو بہت سٹرونگ ہے۔ جب مجھے لگا کہ میں اب نارمل ہوں تو اندازہ لگایا کہ تم بھی نارمل ہو چکی ہوگی۔ کیا ولی زمان خان کا اندازہ غلط ہے؟"

وہ اسے ہنوز خود میں بسائے اسکے کانپتے وجود کی لرزش سے مخظوظ ہوتا اسکے کان کی اور جھک کر سرسراتے الفاظ میں بولا جو آنکھوں کے بعد اب ہونٹوں کو بھی شدت سے آپس میں بھینچ کر گہرے گہرے سانس بھر رہی تھی۔

"ن۔۔نہیں۔۔۔ہاں۔۔۔میرا مطلب"

انکار کیسے کرتی، اور اقرار کر کے دل بند ہو جاتا تو مشکل تھی تبھی وہ ہاں اور ناں کی کیفیت میں بےاختیار بڑبڑائی تو ولی نے اسے اپنے حصار میں لپٹائے ہی ایک لمحہ لگائے روبرو کیا اور پھر جیسے لمحے تھم گئے تھے، اس اڑے حواسوں والی کی جان تو لبوں پر آپہنچی تھی، اس شخص کے روبرو کھڑے رہنا مشکل تھا کہ وہ اب تو پہلے سے کئی گنا زیادہ جان لیوا ہو گیا تھا۔

"ایک جواب دو پارٹنر، اگر میرا اندازہ غلط ہے تو ابھی واپس چلا جاوں گا غبارے کی طرح اتنا بڑا منہ پھلا کر اور اگر صحیح ہے تو ہم ایک ساتھ رومینٹک سا لنچ کریں گے"

وہ اسکے بالوں میں نفاست سے ٹک جاتے اور سجتے پھول پر نظریں ٹکائے اسے سانس لینے کی فراغ دلی سے مہلت دے رہا تھا کیونکہ ولی اسے دیکھ کر پریشان کرنے کے حق میں نہیں تھا کہ کل اس لڑکی کی سکت سے بڑھ کر وہ اسے آزما بیٹھا تھا۔

جبکہ وہ اسکی گھبراہٹ ، بے چینی کا بھی خیال رکھ رہا تھا یہ احساس ونیزے کی رگ رگ میں سکون اتار گیا۔

وہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔

"رومینٹک سا لنچ کرنا ہے مجھے آپکے ساتھ، پر آپ مجھے مسلسل نہیں دیکھیں گے ولی۔ کیونکہ آپکا اندازہ ٹھیک ہے لیکن اتنا بھی ٹھیک نہیں"

وہ پراعتماد ہو چکی تھی، اور ولی اسکے دلربا انداز اور جواب پر ناچاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے پر مجبور ہوا تو ونیزے کی آنکھیں حیا و خوف سے واپس جھک گئیں۔

"اممم، بہت تیز ہو تم شکارن۔۔۔ بائے دا وے اتنی پیاری کیوں ہو گئی ہو، میں تو کل سوتے میں ایک چڑئیل کو چھوڑ کر گیا تھا۔ کہاں ہے وہ ونیزے حسن؟ نظر نہیں آرہی"

جان بوجھ کر اسکی ہچکچاہٹ اور فطری جھجھک کم کرنے کو ولی شرارت پر اترا تو ونیزے نے مبہم مسکان دیتے نظریں اٹھائیں۔

ان میں جی بھر کر تقدس تھا۔

"وہ تو نہیں رہی، یہی ہے آپکی محبت کا دم بھرتی نیا جنم لیتی ونیزے ولی زمان خان۔۔۔۔"

ونیزے کے جواب میں جذبات اٹے تھے اور ولی زمان خان اس منفرد عورت سے ایسے ہی منفرد جواب کی توقع رکھتا تھا۔

دھوپ کی شریر کرنیں ان دو کے چہروں پر موجود دلکش نور اور واضح کر رہی تھیں۔

"اسے دوبارہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا جس کی ہر ہر سانس حسرت کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی، مجھے یہ ونیزے چاہیے جسکی آنکھیں پوری چمک اور پراعتمادی کے کے ساتھ مجھے دیکھیں۔ سب بدل گیا ہے، ان فیکٹ سب خوبصورت ہو گیا ہے۔ اور یہ سب یونہی رہے گا"

وہ لڑکی اسکے نام کو اپنے ساتھ جوڑ کر اتراہٹ میں مبتلا ہوتی اس دنیا کی حسین لڑکی کا روپ دھار چکی تھی اور گزرے دن کی شوخ یادیں دونوں کے دل گدگدا رہی تھیں، وہ پہل جو ولی زمان خان نے کل مہربانی سمجھ کر کی تھی، خدا گواہ تھا وہ اختتام پر اسکی بھی ونیزے جیسی چاہت بن گئی تھی۔

"ایک بات پوچھوں ولی"

ناجانے اس شخص کے اس آسانی سے میسر آجانے کا فطری خوف تھا یا وہ اپنی زندگی سے ڈری کہ اسکے تمہید باندھنے پر ولی نے اپنے دونوں ہاتھ اسکی گالوں سے جوڑے۔

"ہمم پوچھو"

اتنے پیار سے اجازت دیتا شخص لمحہ لمحہ کیسے نہ ونیزے کی زندگی بن جاتا۔

"آ۔۔آپ بھی خوش ہیں؟ یا پھر آپ نے یہ اجلت صرف میری حسرت م۔۔مٹانے کے لیے کی۔ ک۔کیونکہ آپ نے مجھے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ آپکو کس نے خالی کیا، اور کیا میں کبھی آپ کی نظروں میں محب بن سکوں گی؟"

وہ تمام خوشی جو چمک تھی اب اداسی کا روپ بدل گئی اور اسکے سوال پر لمحہ بھر ولی کے چہرے کے رنگ پھیکے پڑے۔

"بتاوں گا تفصیل سے لیکن ابھی نہیں، اور دوبارہ تمہارے قریب تب آوں گا جب تم محب بن چکی ہوگی اور میرا قریب آنا تمہارے ہر سوال کا جواب بھی دے گا۔ رہی بات خوشی کی۔۔۔"

وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یقین دلاتے انداز میں بولتے رکا اور اپنے شدت بھرے لمس سے اسکی جبین مہکائی اور یہ سچ تھا کہ وہ لڑکی ولی کے ہر لفظ پر بند آنکھوں ایمان رکھتی تھی اور ہر لمس پر جان تک فدا تھی۔

"بہت زیادہ خوشی، عام خوشی نہیں۔ بہت خاص خوشی محسوس کی میں نے تمہارے قریب آکر۔ پوری کوشش کی ہے کہ تم اپنی محبت کو مکمل پا لو، ایسے کام وقت اور مقدر پر چھوڑنا سراسر بیوقوفی ہے۔ محب بننے کی جو خواہش ہے تمہیں اس سے پہلے یہ جان لو کہ تم ولی زمان خان کی بیوی ہو اور تم جیسی فریفتہ ، باکردار، پیاری بیوی سکون، آرام اور خوشی کا دوسرا نام ہے"

جانے وہ ایسے میٹھے لفظ کہاں سے لاتا جو روح میں سکون اتارتے، جسم کی تھکن مٹاتے، دل کو مضبوط بناتے۔

"م۔۔میں آپکی خوشی پر قربان ہوں ولی"

وہ اسکے وجود میں چھپ کر بولی، اسکی آواز کو خوشی کی زیادتی میں حاوی ہو جاتے صدمے نے لرزایا۔

"مجھے پتا ہے، بائے دا وے آئی مس یو"

وہ ایسے پر بہار جملے کہہ کر ہی اب ونیزے کو زندگی کی طرف لانے کی خواہش رکھتا تھا۔

اس شخص نے اسے یاد کیا تھا یہ شرف سے کم تھوڑی تھا۔

"آئی مس یو ٹو۔۔۔آپکی بازو کیسی ہے ولی؟"

آنکھوں میں محبت بھر کر وہ روبرو ہوئی تو ولی کی بازو کی فکر نے محترمہ کے حواس اڑائے۔

"بازو! اوہ سٹیچیز اتر گئے ہیں۔ بہتر ہے۔ مجھے لگتا ہے کل تم نے کچھ پھونکا تھا جو اس تیزی سے زخم مندمل ہوئے، میرے جسم کے بھی اور۔۔۔۔۔"

وہ اس وقت اسکے سحر میں گم تھا تبھی زخم کی یاد دلائی جانے پر جناب چونکے اور مسکراتی ہوئی ونیزے اسکے یکدم خاموش ہو جانے پر سانس روکے اسکے جملے کے مکمل ہونے کی منتظر ہوئی۔

"اور۔۔۔!"

اس کا اور دل دھڑکانے سا تھا، اسکی رنگ بدلتی آنکھوں میں ولی نے اپنا عکس دیکھا اور یہ دلفریب تھا۔

"شاید روح کے بھی"

اعتراف کرتے ہی وہ اسکے چہرے کی اور جھکا، ہونٹوں پر پہلے ولی زمان خان کی سانسوں کی تپش جان لے گئی اور پھر اسکی سانسوں دھڑکنوں کے ہر لمس پر استحقاق زدہ قبضہ پانے پر تو وہ نازک اندام سی لڑکی سر تا پیر کانپ کر رہ گئی، اگر ولی نے اسے دونوں بازووں میں تھام نہ رکھا ہوتا تو شاید کل کی بسنت اچانک کئی گنا بڑھ جاتی اس پیش قدمی پر وہ گر جاتی، اور وہ اسے کیوں گرنے دیتا کہ وہ اب ولی زمان خان کا تھوڑا سہی سکون بن رہی تھی۔

"میں نے اپنے بے خود ہونے پر تمہارا یوں بے حال ہونا زیادہ مس کیا شکارن، ہاہا چلو لنچ لگانے پر لگو۔۔۔ باقی بعد میں تفصیل کے ساتھ۔۔اہمم اہممم"

جب اس لڑکی کا وجود جامد پڑنے لگا تو تھانیدار صاحب نے اپنی پرزور شدتوں کی سختی ملائمٹ میں بدلی اور جب آزادی بخشی تو وہ ایک بار پھر اس کے سحر سے بے حال و بے قرار ہوئی اور وہ مسکرا کر سارے سحر کو منتشر کرتا مسکراتا ہوا وہاں سے واپس اندر گیا اور واقعی کئی لمحے ونیزے کو اپنی ٹانگیں کانپتی اور ہتھیلیوں کے بیچ ابھرتی نمی محسوس ہوتی رہی، سر ، دل ، دماغ سب ایک ساتھ جھٹکنے پر بھی اس ظالم کا حصار سر چڑھ کر ناچ اٹھا تھا۔

سچ کہتے ہیں کہ روح جب اپنے جیسی روح سے ملتی ہے ناں تو وہ مرمت بھی ہوتی ہے، عافیت بھی پاتی ہے اور مکمل بھی ہو جاتی ہے بلکل ان دو کی طرح!

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

یار، یار کی شادی پر پورے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ شام ہی پہنچ چکا تھا، شہیر کے گھر رونق لگ چکی تھی، خوب چہل پہل اور گہما گہمی نے تو دل سرشار کر دیے تھے۔

"نازلی اور خالا کو بھی لے آتا"

کچھ دیر پہلے ہی کاشف پہنچا تھا، یار کی شادی ہو اور یار نہ آئے ایسا ممکن تھوڑی تھا مگر کچھ گھنٹے ہی سہی شہیر نے نیند پوری کر لی تھی اور کاشف اپنے ساتھ ہی ڈھول باجے والے اور گھر کی سجاوٹ والے لایا تھا، مہندی کے لیے وہیں کچھ صحن میں ارینجمنٹس کیے جارہے تھے، شام ہوتے ہی ہر طرف رنگوں، خوشیوں اور مسکراہٹوں کی برسات ہو چکی تھی۔

"ہاں ہاں کل آئیں گی وہ دونوں، نازلی کی خواہش تھی کہ تمہاری کوئی بہن نہیں ہے سو کل وہ تمہیں جوڑا پہنوانے کی رسم کرے گی، سو ان دو میڈموں نے ابھی ڈھیر سی شاپنگ کرنی تھی دوسرا نازلی ، مشارب اور زونین کی شادی پر بھی کل شرکت کرے گی، کہہ رہی تھی معافی بھی مانگوں گی اور تحائف بھی لینے ہیں سو میں دو لوگوں کی ذمہ داری لگا آیا تھا ، کل پہنچ آئیں گی بارات لے جانے سے پہلے"

کاشف کی خوشی اور مسکراہٹ دیدنی تھی جبکہ یہ وضاحت اس بندے کے دل کا سکون، پھر شہیر کو نازلی کی سوچ جان کر مزید خوشی نے گھیرا تھا، وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ نازلی ایک بار خود بھی ان دو سے معافی مانگے تاکہ اسکے دل کا رہا سہا بوجھ کم ہو۔

"بہت اچھی بات ہے، اول تو مشارب اور زونین اسے معاف کر چکے ہوں گے مگر نازلی کی یہ پہل، رہی سہی ہر کڑواہٹ بھی دور کر دے گی۔ لڑکی تیرے قابل بننے کے لیے بھرپور جتن کر رہی ہے، لکی ہے تو"

وہ دونوں ہی کچے صحن کے پاس ہی کھڑے سجاوٹی کام دیکھ رہے تھے تبھی شہیر کے اسکی جانب رشک سے دیکھ کر بات مکمل کرنے پر کاشف نے مسکراتے ہوئے اپنے یار کو دل میں اترتی پل پل ٹھنڈک کے سنگ دیکھا۔

"میں لکی ہوں پر اس وجہ سے کہ تو میرا یار ہے، جب تک سجاوٹ کا کام مکمل ہوتا ہے اور خالا اور خالو کے ساتھ ساتھ باقی مہمان یار بیلی آتے ہیں۔ تیری مرمت کروانی چاہیے، اور اللہ کا واسطہ ہے یہ بال پہلی فرصت میں کٹوا ورنہ سبکو یہی کنفوزن ہوگی کہ دلہن کونسی اور دلہا کونسا۔۔۔چل میرے ساتھ، تیرے واسطے خاص ہیر ڈریسر بھی لایا ہوں"

اپنے سکھ اس نے فراغ دلی سے بیان کیے، جو دل دھڑکا سا گئے اور پھر مسکراتے کاشف نے یکدم ہی اسکی پونی دیکھ کر منہ بسورا جبکہ شہیر آل ریڈی آج ان زلفوں سے چھٹکارے کا موڈ بنا چکا تھا تبھی کاشف کی تاکید پر بے اختیار مسکرایا۔

بھئی یار ہو تو کاشف سا۔

"اتنا پروٹوکول! اتنا تو وریشہ کو بھی نہیں مل رہا ہوگا"

جناب اتراہٹ میں مبتلا ہوئے اور کاشف کیا بتاتا کہ اسکا بس چلتا تو شہیر کی خوشیوں میں اپنی ساری خوشیوں بھی منتقل کر دیتا، اپنے حصے کا ہر سکھ اس یار پر وار دیتا۔

"نہ ملے، کل کے بعد اسے تیری طرف سے جو سارا مل جائے گا۔ اچھا سن ڈاکٹر بھابھی کا ہوتے ہی مجھے نہ بھول جائیں، میرا معاملہ ابھی بھی لٹکا ہوا ہے"

جناب کو دلہے کے پرائے ہونے کے خوف میں مبتلا ہوئے اپنی پڑی تھی تبھی شہیر کا اسکی خوف زدہ سی حسرت پر کسی شرارت پر آمادہ قہقہہ بچارے کو متذبذب کر گیا۔

"نہیں بھولوں گا یار، بلکہ ولیمے کے فورا بعد واپسی ہے میری اور واپسی پر پہلے یہ دو کام بہت اہم ہیں، ایک تیرا اور نازلی کا نکاح دوسرا ولی کے مان کو قبول کرنا۔ اچھا بندہ ہے، میں نہیں چاہتا اسے شہیر خود سے بھی بہتر لگنے لگے، اسکا دیا عہدہ قبول کر کے اسکے دل کا بوجھ ہلکا کروں گا، تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ میں نے اس پر کبھی کوئی احسان کیا ہے"

شہیر کے اس فیصلے پر کاشف کا دل گویا خوشی سے ہمک اٹھا تھا، کاشف جانتا تھا کہ مان نبھانے میں تو اسکا یار اب کسی سے مات نہیں کھا سکتا۔

"تو کمال ہے یار، اور اس سے کمال بندہ وہ ولی نکلا۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ چل نکلتے ہیں، تیرے چمکنے کا وقت ہوا چاہتا ہے میرے یار، تاکہ کل تو اپنی ووٹی سے زیادہ لشکارے مارتا نظر آئے، پورا علاقہ دیکھے کہ اس جنگلی شہیر مجتبی کے پاس بھی حسن کی بہتات موجود ہے۔۔۔۔"

کاشف خود بھی نکھرا اور نہال تھا جبکہ اب باری تھی شہیر کے چمکنے دمکنے کی جس پر وہ خود زرا بے چین ہی تھا، ہمیشہ سے جنگلی روپ میں لپٹا رہا تھا اور اب سجنے سنورنے پر اسے عجیب محسوسات لاحق تھے۔

"اچھا سن! وہ تیرے لشکارے سہہ تو لیں گی ناں۔۔ میرا مطلب کہیں دانتوں تلے انگلیاں دبا کر اپنا نقصان نہ کر لیں۔۔۔کہہ دینا ڈاکٹرنی صاحبہ کو کہ اپنی ضمانت پر تجھے دیکھیں"

وہ اپنی طرف سے شہیر کو چھیڑنے کی سنگین کوشش میں تھا مگر شہیر صاحب اسی احساس سے سرشار ہوئے جا رہے تھے کہ وہ واقعی پہلی بار ایک سلجھے اور نفیس روپ میں اس عزیز، جان سے زیادہ پیاری ، خود پر خود سے زیادہ فدا لڑکی کے سامنے جانے والا ہے جس نے شہیر مجتبی کا دل سب سے خوبصورت طریقے سے دریافت کیا تھا، وریشہ کا وہ پہلا تاثر دیکھنے کی خواہش جب وہ اسے اس روپ میں دیکھے گی تو مزید دیوانی ہو جائے گی جبکہ وہ چاہتا تھا وہ اسکی ہر لمحہ اسیر شیدائی بنتی رہے۔

"کل جب میری تم سے جڑی محبت کو تکمیل ملے گی

ملن کا کن یکایک کہہ دیا جائے گا۔۔

اور پھر تمہاری آغوشِ مسیحائی تمام تر وحشتوں کی فنائی کا سبب بنے گی، اور صحرائے قلب پر ہر طرح کی ہریالی آئے گی۔

تمہارا ہاتھ تھامے ہوئے اک نئی دنیا تخلیق ہوگی وریشہ!

اور اس دنیا میں فقط

محبت کا فرقہ ہوگا

محبت کی زباں ہوگی"

اسکا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ زمانے کی نظروں سے چھپ کر اس تک پہنچ جاتا، اور بتاتا کہ واقعی وہ نظر نہ آئے تو دل تڑپ سکتا ہے، بینائی متاثر ہو سکتی ہے، ایک دن تو دور، ایک لمحہ بھی اس لڑکی کے بنا رہنا محال تھا اور یہ سب وہ روبرو کہنے کی خواہش کر بیٹھا تھا۔

"ہاہا یہ تو گیا بھابھی جی کے خیالوں میں، ابے چل خیالی پلاو بعد میں بنانا۔۔۔۔رات تیری خفیہ ملاقات کرواتا ہوں، ان ملاقاتوں کا اپنا مزہ ہے، اور میں کیسے اپنے یار کو اس شرف سے محروم رکھ سکتا ہوں"

اول جملوں سے مسکرا کر کسی دل دھڑکاتے سحر میں کھوئے شہیر کی بے خودی پر چوٹ کرتا آنکھ دبائے کاشف ملاقات کا کہہ کر تو شہیر کے حواس جنجھوڑ چکا تھا جبکہ اس لڑکی کی تڑپانے والی کہی بات سوچ کر جناب کو ایسے جان لیوا خفیہ ملنے کے دور دور تک کوئی اثرات نہ دیکھائی دیے تھے۔

"سنو تم سب، ودھیا سی سجاوٹ ہونی چاہیے، کوئی کمی ہوئی تو میں نے تم سبکی ٹانگیں سیک دینی ہے۔۔اور تم لوگ رکے کیوں ہو بھئی، پیٹو ڈھول۔۔۔۔ تم لوگوں کے ہاتھ نہیں رکنے چاہیں، اوئے میرے یار کی شادی ہے کوئی مزاق نہیں۔۔۔بجاو شاباش، پتا لگنا چاہیے شہیر مجتبی کی مہندی کا جشن ہے"

کھوئے سے شہیر کا ہاتھ پکڑے، جاتے جاتے سجاوٹ والوں کو مغرور انداز سے تنبیہہ کیے ڈھول بینڈ باجے والوں کو بھی تاکید کرتا شہیر کے ساتھ ہی باہر نکلا اور ڈھول والوں نے کاشف کے کہنے کی دیر تھی کہ دمکتی تھڑکتی ٹونز بجا کر گویا ماحول تھرتھرا دیا۔

جشن تو یہ تھا جو اب شروع ہوا تھا۔

اور یہی جشن یوسف زئی حویلی اور خانم حویلی میں بھی زوروں سے جاری تھا۔

مشارب اور وریشہ کی مہندی کا فنکشن دونوں حویلیوں میں ایک ساتھ ہی تھا، چونکہ اشنال خود بڑی بہو کے طور پر بزدار حویلی کے جشن کی تیاریوں میں مصروف تھی سو اس نے وریشہ کو فون پر ہی مبارکباد دی تھی اور ویسے بھی کچھ دیر میں وہ سب مشارب کی مہندی کی رسم ادا کرنے خانم حویلی ہی جانے والے تھے جو کہ ایک رسم تھی اور پھر اسکے بعد دلہے کی ماں یا دادی دلہن کے گھر جاتی تھی اور اپنے ہاتھ سے رسم ادا کی جاتی تھی۔

فی الحال تو اشنال، میثم ،فضیلہ اماں، اور ہاشم تیار ہوئے تھے خانم حویلی جانے کے لیے جبکہ خانم حویلی میں بھی سردارنیاں مسکراتیں ہوئیں تیاریوں میں گم تھیں جبکہ وریشہ کو بھی علاقے کی لڑکیاں گھیرے بیٹھی تھیں جس نے سرخ چنری اوڑھے، پیلے اور ہرے رنگ کے شرارے کو پہن رکھا تھا، کوئی منصوعی حسن نہ ہونے کے باوجود بھئ آج اس دلربا حسینہ پر دنیا جہاں کا سارا روپ آچکا تھا۔

گل خزیں خانم خود اسکی سونی ہتھیلوں پر سادہ سی مہندی لگا رہی تھیں جبکہ خدیخہ اور فرخانہ بھی پاس ہی بیٹھیں اس بچی کے دامن میں اپنی ساری دعائیں سمیٹ کر ڈال رہی تھیں۔

"مہندی لگائے بیٹھی ہے سجنی

دیکھو کچھ اس ادا سے۔۔۔۔۔

مٹھی میں انکے دے دے گا

ساجن اپنا دل نکال کر۔۔۔۔۔۔۔"

علاقے کی لڑکیاں مدھم مدھم راگ الاپتے ہوئے دلہن کے آس پاس بیٹھی ہنستی کھلھلاتی گنگنا رہی تھیں اور وریشہ کی آنکھوں میں ناچاہتے ہوئے بھی گل خزیں کے مہندی لگانے پر آنسو چمکے۔

اسے مما اور بابا کی یاد آرہی تھی، اگر وہ ہوتے تو وریشہ کو اتنا خوش دیکھ کر نہال ہو جاتے جبکہ اس سجی سنوری مہندی کی دلہن کی آنکھیں بھیگتیں ہوئیں اس سانجھی دادی نے دیکھ لیں تھیں۔

"ناں میرا بچہ، اتنے مبارک لمحے روتے نہیں ہیں۔ ارے تم تو بھاگوں والی ہو جسے اپنا رانجھن پورے حق سے ملنے والا ہے، اللہ تم دو کے دامن کو صدا خوشیوں سے بھرا رکھے، شہیر کے دل کی ملکہ رہو تمام عمر۔ ایک دوسرے کا سچا سکون بنو، یہ مت سمجھنا کہ تمہاری ماں نہیں ہے، یہ دیکھو تین تین مائیں اور وہ سوہنی بہن بھی تو آتی ہوگی، اب تو ہر طرف خوشیاں ہوں گی۔ اللہ میرے ولی کو بھی صدا آباد رکھے"

گل خزیں نے اس بن ماں کی بچی کو سینے میں سموئے پیار کیا تو وہ بھی کچھ باہمت ہوئی، جبکہ خود بھی وہ اپنے دوسرے پوتے کے آباد ہونے پر جی اٹھی تھیں، یہ سچ تھا وہ اشنال کو مس کر رہی تھی اور اشنال کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کر اپنی لاڈلی تک پہنچ جاتی۔

سب لڑکیاں مہندی کے گیت گاتیں، وریشہ کے دامن میں دعائیں باندھتی رہیں اور وہ شہیر مجتبی کے ملائم خیال سے اپنے ڈوبتے دل کو مضبوط کرتی رہی۔

تیاریاں تو بزدار حویلی میں بھی شان سے مکمل ہو چکی تھیں، اشنال، میثم اور فضیلہ اماں بلکل تیار تھے بس یہ ہاشم صاحب کب سے نجانے کونسے سنگار کر رہے تھے کہ انکا کمرے سے نکلنے کا دل ہی نہ کر رہا تھا۔

"ہاشم صاحب! آپکی مہندی پرسوں ہے اس پر سج لیجئے گا خضور، ابھی مشارب اور شہیر راہ دیکھ رہے ہوں گے ، نکل آئیں یا آپکو دھکے دینے پڑیں گے"

وہ خود تو حسن میں آفت تھا ہی اور بنا سجے ہی جناب سحر بکھیرتے مگر ہاشم بزدار صاحب کو زرا اپنے لشکارے ابڈیٹ کرنے میں وقت لگتا تھا اور ضرار کوئی دسویں بار ساس کی مانند اسے طعنہ دے چکا تھا جس پر اب تیار ہو کر حسن کی بجلیاں گراتیں دونوں ماں بیٹی بھی ہنس دیں، بزدار صاحب بھی گہرا براون کرتا شلوار پہنے ، کندھوں پر روائیتی شال اوڑھے آج سوبر اور ڈیشنگ سے ہم عمر سے علیم بدر کے ساتھ خوش گپیوں میں لگے تھے جبکہ گل اور مالنی، مہندی کی دلہن کو تیار کر رہی تھیں، زیادہ تو اشنال نے کر دیا تھا مگر ڈریس کے بعد زونین کے بال بنانے تھے اور دوپٹہ سیٹ کرنا تھا جبکہ ابھی مالنی اور گل نے بھی تیار ہونا تھا۔

گل کی نانی صبحیہ بیگم اور نانا علیم بدر شام میں ہی بزدار حویلی پہنچ آئے تھے اور علیم بدر کی صورت بزدار عالم کو تو دوست سا مل گیا جبکہ صبیحہ خانم کی آتے ہی دوستی فضیلہ اماں سے ہوگئی، سب بچوں کی خوشیاں انکے لیے بھی باعث خوشی تھیں۔ جبکہ جبل زاد کو آج مہمانوں کو ریسو کرنے اور انکا مکمل دھیان رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی کیونکہ آج ہر کوئی زونین کی مہندی کے جشن میں بزی تھا۔

"سر پر کیوں سوار ہو عزرائیل کی طرح۔ بندہ آرام سے تیار بھی نہیں ہو سکتا، بابا سائیں اسے کہیں یار دو منٹ دے دے اور۔ یہ میرے بال نہیں سیٹ ہو رہے اوپر سے اسکی چاں چاں سن کر میں نے مکا دے مارنا ہے پھر نہ کوئی مجھے کہے"

اندر کمرے میں بالوں سے جھگڑتا ہاشم خاصے تپے ہوئے غرایا جس پر سبکے دانت ایک ساتھ باہر نکلے۔

"تھوڑا سجیں یار ، ہم مزید آپ پر مر مٹتی مٹیاریں افورڈ نہیں کر سکتے پہلے ہی اس عمر میں بھی آپکا حسن ابل ابل کر گر رہا ہے، نہ مالنی چچی برداشت کریں گی۔ کسی نے آپکے حسن پر نظر بھی ڈالی تو آپکا گلا کاٹ دیں گی، بھئی میں تو آپکے لیے ہی سوچ رہا تھا"

وہ جو نک سک تیار ہاشم کو سلگانے دروازے میں ہی کھڑا تھا ، فورا سے بیشتر جواب دیتا خود بھی مسکراہٹ دباتا دادا سائیں کے پاس ہی جا بیٹھا اور ہاشم صاحب کے بھی بال سیٹ کرتے دانت نکلے۔

خیر جناب کے بال سیٹ ہوتے ہی چاروں مشارب کی مہندی کی رسم کرنے ایک ساتھ روانہ ہوئے ، پہلے سب خانم حویلی ہی پہنچے، رسم کے مطابق تحائف اور سوغاتیں دی گئیں، عزیز خان اور مشارب نے سبکا خود خوشدلی سے استقبال کیا، مہندی لگانے کی چونکہ دلہوں کو بھی رسم تھی سو فضیلہ اماں نے بھی مشارب کی ایک ہتھیلی پر زرا سی مہندی لگائے رسم پوری کی، اسکے بعد وہ سب وریشہ کی مہندی میں شریک ہوئے، اشنال کو دیکھ کر وریشہ اور جذباتی ہوئی اور کافی دیر روئی بھی مگر اشنال جانتی تھی وہ اسکے خوشی کے آنسو ہیں سو اس نے اسے رونے سے بلکل نہ روکا۔

جبکہ جتنی دیر اشنال اور اماں فضیلہ ، وریشہ کے پاس رکیں اتنیی دیر ہاشم اور ضرار نے بھی دونوں دلہوں کی تھڑکتی بھڑکتی مہندی میں شرکت کی۔

ہاشم نے مشارب کی مہندی میں جبکہ ضرار نے شہیر کے گھر جا کر اسے مان بخشا اور شہیر بال کٹوا کر واقعی جنٹل مین لک میں چھایا ہوا تھا اوپر سے بھلا ہو کاشف کا جس نے ناجانے کونسا کونسا ٹریٹمنٹ کروائے شہیر کے رنگ ڈھنگ بدل دیے۔

پھر ضرار کو سب سے زیادہ خوشی اس سانول مجتنی کے ویران گھر کے آباد ہونے کی ہوئی، اماں کوثر اسکو دعائیں دے دے ہلکان تھیں جبکہ سانول بھی ادب سے جھک رہا تھا ، شہیر کی زندگی اس نقطے پر ہی وہ چاہتا تھا کہ اسکو اتنے سکھ ملیں کے وہ میثم ضرار سے حسد چھوڑ دے اور آج ضرار اس شخص میں حسد تو کیا حسد کا نام نشان بھی تلاش نہ کر پایا۔

ضرار نے اسکی خوشی میں شرکت کر کے اسے عزت بخشی تھی اور عزت دینے والے لوگ قیمتی ہوا کرتے ہیں۔

وہیں دوسری طرف ولی اور ونیزے نے ایک رومینٹک لنچ تو کر لیا تھا مگر وہ شام میں ایک اہم پارٹی میں مدعو تھے اور پارٹی کے بعد ان دو کی بھی علاقے واپسی تھی۔

ولی زمان خان کے اعزاز میں تقرری کی تقریب شام پانچ بجے سے ساڑھے چھ تک تھی جس میں اسکی اس کامیابی پر تمام اعلی عہدیدار اور سٹاف کے روبرو ولی زمان خان کی پرموشن کا اعلان کیا گیا تھا۔

ایس ایس پی سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کا بیسویں رینک کا عہدہ دیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ٹھیک ایک ہفتے بعد نئے ایس ایس پی اور نئے ڈی آئی جی نے اپنے اپنے اپائنمنٹ لیٹرز وصول کرنے تھے۔

تقریب شاندار رہی تھی اور ولی کی طرح باقی سٹاف بھی اپنئ بیویوں کے سنگ اس تقریب کاحصہ بنے تھے جبکہ ونیزے کو ایک کے بعد ملتا دوسرا رتبہ نہال کر رہا تھا، اپنی تکلیف اور کرب کہیں پیچھے چھوٹ گئے تھے، اور ولی نے ڈاکٹر علی سے کل کے بجائے ہفتے بعد کی آپائنٹمنٹ لی تھی کیونکہ یہ ہفتہ گھر ہی گزارنا چاہتا تھا تاکہ ونیزے کو اپنے علاقے اور حویلی لے جا کر اسے اسکا ایک اور رتبہ دلائے۔

اور پھر وریشہ اور شہیر کی شادی پر شریک ہونا اب اسکی تکلیف نہیں بلکہ خوشی تھی، اور وہ اپنی اس خوشی کو ناصرف ونیزے کے ساتھ منانا چاہتا تھا بلکہ اسکی محب بننے کی خواہش کو بھی جلد تکمیل پہنچانے والا تھا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"اچھے لگ رہے ہو، مطلب ڈیشنگ۔۔۔میری سالی صاحبہ کو مزید لٹو کرنے کے ارادے ہیں کیا، وہ بچاری تو پہلے ہی تم پر فدا ہے"

ڈھول والے پورے جوش سے سماں باندھے تھے اور شہیر کے یار بیلی تو مسلسل ناچ اور پھدک رہے تھے اور سب سے اچھا تو کاشف ناچ رہا تھا، چونکہ ضرار کی وجہ سے دلہے کو رعایت مل گئی تھی ورنہ آج اسکے یار بیلوں نے اسے بھی نچوانا تھا۔

ضرار اسکے ساتھ ہی سٹیج پر براجمان تھا اور شہیر خاصے حیران ہوتے اسکے تعریف کرنے پر مسکرایا، میثم ضرار چویدری سے کسی قسم کے اظہار کی توقع کرنا ایک بیوقوفی تھی جو کم ازکم شہیر نے کبھی نہ کی تھی، مگر جب کچھ ان ایکسپیکٹیڈ ہو تو اسکا لطف الگ ہی دوبالا ہو جاتا تھا۔

"تمہیں اچھا لگ رہا ہوں؟ کیا سچ کہہ رہے ہو؟"

شہیر کے حیران کن سوال کی جناب کو پوری توقع تھی اور پوری محفل پر آج یہ وکھرے سے ساحر دوست چھائے ہوئے تھے۔

"میثم ضرار چوہدری جھوٹ بس مصلحت کے تحت بولتا ہے، لیکن آج نہ تو کسی مصلحت کی ضرورت نہ سچ بولنے میں قباحت، واقعی اچھے لگ رہے ہو سلجھ کر، لیکن یاد رہے ضرار نے تمہارے دل کی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے، بظاہر حسن کی تعریف سمجھ کر چوڑے نہ ہو جانا"

وہ اسے جس طرح ڈپٹے نروٹھے انداز میں لائن پر لایا اس پر شہیر کی آنکھیں بھی خوبصورتی سے مسکرائیں۔

"تم واقعی اس لائق تھے ضرار کے تم سے حسد کیا جاتا، میرا مطلب وہ جو اب رشک بن گیا ہے"

شہیر نے اسکی جانب دیکھے جو کہا، ضرار کے گھورنے پر جناب نے فورا درستگی بھی کی جو ضرار کو الگ سی خوشی دے گیا۔

"رشک بھی اونچی اور اعلی چیزوں سے جوڑنا سیکھو، میں تو نہ اونچا ہوں نہ اعلی۔۔۔ اگر تم میرے دادا کے سامنے میری گنوں کی تعریف کر دو تو وہ تمہیں بھی میرے سنگ لتاڑ ڈالیں سو گھر کی مرغی دال برابر ہی ہوتی ہے ۔۔۔"

اول بولے جملوں کی سنجیدگی وہ خود ہی اختتام تک زائل کر گیا جس پر دونوں ہی سامنے کاشف کے ڈھمکے اور آپس کے کولٹی ٹائم پر ہنسے۔

کاشف کے ناچنے پر باقی لڑکے بھی ہوٹنگ کر رہے تھے اور شور شرابا مچا ہوا تھا، جبکہ سانول اور اماں کوثر کے تو پیر زمین پر نہ لگ رہے تھے، وہ کاشف کو شاید کھانا لگ جانے کا بتانے باہر آئی تھیں، چمکتا جامہ واری ہرا جوڑا پہنے واقعی لگ رہا تھا دلہے کی اماں ہیں۔

"دیکھو اپنی ماں کو، جب علیم مرا تھا تو لگتا نہیں تھا یہ عورت کبھی مسکرا پائیں گی، برے بیٹوں کی موت ماں کو جلدی بھلا دی جاتی ہے یہ اس ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرنے والے رب کی ان پیاری برگزیدہ ہستوں پر عنایت ہوتی ہے شہیر، اور سانول مجتبی کو دیکھو، کل تک اس شخص کا سر جھکا ہوا تھا اور آج یہ پورے علاقے میں معزز انسان کہلائے جا رہے ہیں۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے، خود کو اپنے اختیار میں واپس لانے کا انعام ہے، جسکی بدولت تمہیں تمہارا سب کچھ مل گیا، اور مجھے تمہاری صورت ایک اچھا دوست۔۔۔۔ جسکی میثم ضرار چوہدری نے دشمنی میں بھی صرف فلاح چاہی"

وہ نرم اور مہربان سا ضرار، دشمنوں کے لیے بھی نرم تھا تو پھر اسکے دل میں دوستوں کے لیے کیسے نہ احساس جمع ہوتا، اسے شہیر کی قسمت کو بدلتا دیکھ کر دلی راحت ملی تھی جبکہ شہیر آج بنا ہچکچائے میثم ضرار چوہدری سے لافانی رشک باندھ چکا تھا۔

وہ رشک جو خود سے اونچی اور اعلی ہستوں سے باندھا جاتا ہے۔

"میں جانتا ہوں تم کریڈٹ لینا پسند نہیں کرتے لیکن پھر بھی مجھے تم سے عقیدت محسوس ہو رہی ہے، اس سچائی کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ضرار کے میری فلاح میں تمہارا ایک بڑا حصہ ہے، شکریہ نہیں کہوں گا، بس تمہارے لیے دل کا ایک خلوص سے بڑا کونہ وقف کر دیا ہے، تم سبکے دلوں پر پہلے ہی حاکم ہو، ایک دل شہیر مجتبی کا بھی سہی۔۔۔لیکن سارا دل نہیں، اس میں وہ لڑکی پوری شان سے پہلے ہی حاکم ہے"

ان دو کے چہرے مسکرا رہے تھے، دل سکون سے بھرے تھے اور جس طرح شہیر نے ایک کونہ اسے تھمائے باقی جگہ وریشہ کے لیے علیحدہ کی اس پر ضرار قہقہہ لگانے سے خود کو روک نہ پایا۔

"میرے لیے تم جیسے کنجوس کے دل کا ایک کونہ بھی بہت ہے ، اب مجھے اجازت دو شہیر مجتبی۔۔۔ کیونکہ بزدار حویلی میں بھی جشن ہے اور مہندی کی رسم ہے اور مہندی لے کر یہ خان بھی ہمارے پیچھے ہی بزدار حویلی جانے والے ہیں سو ادھر پہلے موجود ہونا بھی ضروری ہے ہمارا۔ کل ان شاء اللہ دبنگ انداز سے شرکت کریں گے"

قہقہہ لگاتے جناب اٹھے اور پھر پلٹ کر اجازت طلب کی کیونکہ اب مہمان کے بجائے انکو میزبان بننا تھا۔

شہیر بھی اسکے روبرو اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا، چہرے پر بلا کا سکون تھا۔

"ضرور، تمہاری آج شرکت کی زیادہ خوشی ہوئی کیونکہ ان ایکسپیکٹیڈ تھی۔ تھینک ہو میثم ضرار چوہدری، میرے اس دن کو تم نے مزید خاص بنایا ہے"

وہ بھی تو ادھار رکھنے کا قائل نہ تھا اور ضرار نے اسے گلے لگائے بھینچ کر الگ کیا اور مسکراتا ہوا اس اعزاز کو تائیدی انداز میں قبول کیے، وہاں سے چلا گیا، جاتے جاتے جناب نے کاشف کی ناصرف پیٹھ تھپکی بلکہ اسکے ساتھ ڈانس کے چوہدری اسٹائیل میں دو تین سٹپ بھی لگائے اور سارے لڑکوں نے اس پر اس قدر ہوٹنگ کی کہ کان کے پردے سلامت بچ گئے یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔

وہاں سے وہ پہلے یوسف زئی حویلی گیا، وریشہ کو شمشیر صاحب کو مبارکباد دی، اشنال کو لیے خانم حویلی پہنچا تو فضیلہ اماں اور ہاشم بھی مشارب کی مہندی کے فنکشن میں خاضری دے کر فارغ چکے تھے۔

ان سب کی گاڑی کو خانم حویلی سے نکلے پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ گل خزیں خانم اور عزیز ، زونی کی مہندی لے جانے کو تیار ہوئے مگر مشارب کے ساتھ جانے کی خواہش سن کر ان دو سمیٹ فرخانہ اور خدیخہ بھی ہنس دیں۔

فرخانہ اور خدیخہ خانم بھی زونی کی مہندی لے کر ساتھ جانا چاہتی تھیں مگر حویلی میں رکنا بھی ضروری تھا کیونکہ ولی اپنی ونیزے کے ساتھ آرہا تھا اور ان دونوں بہنو نے مل کر اس جوڑے کا خانم حویلی میں پرتپاک استقبال کرنے کا پلین بنا رکھا تھا۔

سو زونین کی مہندی لے جانے کے لیے سردار صاحب خود تیار ہوئے ساتھ چچا اور دادی کو رسما لیا ورنہ سردار صاحب کو اکیلے زونی کی مہندی لے جانے سے کون روک سکتا تھا بھلا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"بہت خوبصورت ہیں سب چیزیں، اللہ سوہنے سے دعا ہے کہ وہ سب تیرے خلوص کو دل سے قبول کریں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی پتری کہ تونے کل خود ان دو کی شادی میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا، دیکھنا تیرا دل کل کے بعد اور پرسکون ہو جائے گا"

نازلی نے شہیر کے جوڑے کے علاوہ وریشہ کے لیے بھی بہت پیارا کامداری جوڑا خریدا تھا، پھر سردار مشارب زمان اور انکی زوجہ کے لیے بھی اپنی طرف سے قیمتی تخائف لیے تھے، جن میں اسکی محبت اور معذرت شامل تھی، جبکہ سعدیہ صاحبہ نے پورے دل سے نازلی کے اس فیصلے کو سراہا تھا، نازلی نے مسکرا کر انکی طرف دیکھا۔

"میں اگر زندگی کو ایک لفظ میں بیان کروں ناں اماں جان تو اسکا خلاصہ شہیر مجتبی ہیں، انہوں نے تب تب مجھے حفاظت دی جب جب مجھے لگا تھا میرے سر کا سایہ فنا ہو گیا، مجھ ڈری سہمی لڑکی میں کہاں طاقت تھی کہ میں اپنے اتنے بڑے گناہ کی تلافی کرتی، یہ انکی حفاظت کا صلہ ہے جو نازلی سے خود بخود سرزد ہوا، وریشہ صاحبہ کو ضرور بتاوں گی کہ وہ کتنی خوش قسمت ہیں۔ کل جب وہ نازلی کا دیا یہ جوڑا پہنیں گے تو سب سے زیادہ خوشی مجھے ہوگی، انکو آباد ہونے کی دعا نازلی ہر سانس کے ساتھ دیا کرتی تھی، وہ تو آباد ہو ہی جائیں گے، اپنی حفاظت میں لی اس لڑکی کو بھی ایک محفوظ چھاوں دے چکے ہیں جس کے سائے تلے سے میں مر کر بھی نکلنا نہیں چاہوں گی اب"

ان خوبصورت تحائف پر اپنے مرمریں ہاتھ کے لمس بکھرتی وہ مسکراتی ہوئیں سعدیہ کو بھی رشک میں مبتلا کر چکی تھی، جنھیں اپنی بیٹی بھی ملی تھی اور بہو بھی پھر بہو بھی ایسی جو انکے بچے کی بنا کسی دباو خوشی بن چکی تھی، وہ کاشف کی آنکھوں میں نازلی کے لیے الگ سے رنگ دیکھ چکی تھیں اور ماں سے بچوں کی نہ خوشی چھپ سکتی ہے نہ دکھ۔

"شہیر نہ ہوتا تو میرا کاشف بھی کہاں زندہ ہوتا، جان بچائی تھی اس نے کاشف کی تب جب وہ خود ایک اجڑا ہوا شخص تھا۔ تبھی تو کاشف نے اس سے کی یاری ہمیشہ نبھائی۔ اب دیکھو ناں شہیر نہ ہوتا تو تو کیسے ملتی ہمیں، میرا کاشف بھی آباد ہوگا، اسکے بچے دیکھ کر جیسے ان بوڑھی ہڈیوں میں جان آجائے گی۔ دنیا میں آنے والا کوئی بشر فالتو نہیں ہوتا پتر، ہر اک کے ذمے مقصد لگائے گئے ہیں، اور انسانیت کی معراج یہی ہے کہ ہم اس مقصد کو پورا کریں۔ تم بھی بے مول نہیں ہو پتر نہ کبھی خود کو کمتر جاننا"

وہ انکی باتوں پر ایمان لاتی مسکرائی اور پھر اس بوڑھی ماں کا سر پر چھاوں کرتا ہاتھ محبت سے تھامے چوما جو انکو نہال کر گیا۔

"مجھے اس سب پر یقین آچکا ہے اماں جان، بے مول تھی نازلی لیکن اب جان گئی ہوں اپنا مول۔ سب سے بڑی خوشی ہی یہی ہے کہ اللہ کے بعد میرا محافظ وہ بنے جو شاید دنیا کے چند اچھے انسانوں میں سے ایک ہیں"

وہ دل کے ہر بوجھ سے آزاد تھی تبھی تو سعدیہ اماں نے آسودگی کے سنگ اسکی پیشانی چومی۔

"بیشک، دنیا ایسے ہی اچھے لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔۔اب یہ سب سمیٹو اور سو جاو۔ صبح جلدی نکلنا ہے کیونکہ اس بچے کی شادی میں بھرپور شرکت کرنی ہے۔۔میں بھی سوتی ہوں"

چونکہ صبح جلدی جانا تھا سو جلدی سونا بھی ضروری تھا، وہ اسے ہدایت کرتیں اٹھیں اور کمرے کی طرف بڑھیں مگر نازلی مسکرا کر وہ سب خریدی چیزیں پھر سے دیکھنے لگی کہ یہ ایسی خوشیوں سے بھرے احساس تھے جو ساری زندگی اس کی حسرت رہے تھے۔

                      ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"آپ لوگ جائیں، میں یہیں ویٹ کروں گا"

گاڑی بزدار حویلی کے تاحد نگاہ پھیلے وسیع پورچ میں روکتے ہوئے مشارب نے ساتھ بیٹھیں دادی سائیں اور گاڑی رکنے پر گاڑی کا ڈور کھول کر باہر نکلتے عزیز خان کو مخاطب کیا جنکی ایک ساتھ حیرت سے کھلی آنکھیں سردار صاحب پر آن جمیں۔

دوسری گاڑی ملازمین کی بھی رک چکی تھیں جنکے ہاتھوں میں تخائفوں، سوغاتوں، پھلوں اور مٹھائیوں کے ڈھکے تھال تھے۔

"لیکن تم تو ساتھ ضد کر کے آئے تھے ناں، اچھا تھوڑی لگے گا کہ دلہا یوں باہر ہی رہے۔ مت ملنا زونی سے پر اندر چلو ہمارے ساتھ"

گل خزیں تو اس دہلیز پر آکر اپنے دل کو عجیب سے کرب میں محسوس کر رہی تھیں جبکہ عزیز خان ہی مشارب کے اندر نہ جانے کے فیصلے پر ونڈو سے اندر جھانک کر منہ پھلائے بولے۔

"اوہ ہیلو چچا جان، میں یہاں صرف انہی سے ملنے آیا ہوں سو کسی اور سے ملنے کا یا سامنا کرنے کا میرا کوئی موڈ نہیں۔ آپ زرا اپنی والدہ کو سنبھالیں، اس میکے کی دہلیز پر بڑی مدت بعد آئی ہیں موصوفہ، اگر انکا ایک آنسو بھی انکی آنکھ سے گر کر مٹی میں ملا تو یہ سر پھرا سردار آپکو نہیں چھوڑے گا"

آج تو سردار صاحب کے رنگ ڈھنگ ہی وکھرے تھے پھر مشارب کی مسکراتی تاکید پر دونوں نے ایک ساتھ آنسو رگڑتیں گل خزیں کو دیکھا تو اداسی فطری طور پر چہروں پر اتری۔

"میں کیوں روں گی؟ تم دونوں آپس میں مت الجھو۔ بس یہ گھر بہت اپنا اپنا لگتا ہے کیونکہ بچپن کے کئی سال میں نے یہاں گزارے ہیں، انکی سنگت میں لمحے بیتائے ہیں تبھی آج بھی یہاں آکر اتنا اچھا لگا کہ آنکھیں نم ہو گئیں ، بزدار عالم کے لیے ایک عمر دل میں بدگمانی پالی ہے میں نے اور یہی دکھ ہے کہ کیسے معافی مانگوں گی ، انکی کسی تکلیف کا مداوا اب ممکن نہیں مگر شاید میری بدگمانی ہٹنے کا احساس انکے کئی زخم بھر دے"

وہ عورت اس گھر سے اور یہاں کے مکینوں سے والہانہ انس رکھتی تھی اور انکے زندہ دل ، محبت بھرے جواب نے مشارب اور عزیز خان دونوں کو افسردہ کر دیا تھا۔

لیکن وہ آج خوشی خوشی یہاں آئی تھیں، اس شخص کے پاس جو انکے لیے اب بھی آخری سانس تک اہم ہی رہنے والا تھا جبکہ وہ عورت بھی طلب کے ہر حصار سے مکمل آزاد ہو چکی تھی جو خوش آئیند تھا۔

"چاچو، انکے قریب ہی رہیے گا۔ انکا کوئی بھروسہ نہیں کہ خود بھی رونے لگیں اور بزدار عالم کو بھی رلا بیٹھیں، جائیں۔۔۔ جب میں زونی سے مل لوں گا تو میسج کروں گا، اس سے پہلے واپس مت آئیے گا"

مشارب نے اس بار گاڑی سے اتر کر عزیز خان کے کان میں کہا تو وہ مشارب کی آخری بات پر شریر مسکائے جبکہ گل خزیں بھی اپنے دھیمے ہاف وائف سلور کام والے غرارے کی راعنائیاں بکھیرتے ہوئے، دوپٹے کو نفاست سے جمائے، سیاہ چادر کا پلو اپنے وجود کے گرد لپیٹے دوسری طرف سے باہر نکلیں، ایک گہرا سا سانس اس آزاد فضا میں خارج کیا۔

جبکہ وہ عزیز خان اور دادی سائیں کے اندر جاتے ہی خود بھی واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔

اور جیسے جیسے گل خزیں کے قدم اس شخص کے قریب جا رہے تھے، انکا دل مزید خوشی سے بھر رہا تھا۔

اور پھر ان دو کے استقبال میں کئی چہرے داخلی دروازے تک آئے لیکن ان دو کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کی حسین سی لاحاصل محبت تھے جنکی آنکھوں میں شناسائی تھی۔

جو بنا کسی رشتے کے بھی اب دوست بن کر ایک دوسرے کے دکھ سن سکتے تھے۔

وہ زونین کی مہندی شان سے لائے تھے، ملازمین کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ڈھانپے تھال تھے، تخائفوں سے بھرے تھال، اور پھر مہندی کی حسین دلہن کو دونوں مایوں کی دلہنوں نے باہر لایا۔

گل خزیں نے لپک کر اپنی زونی کو سینے سے لگایا، کئی دکھ ہرے ہوئے اور نانی نواسی کی آنکھیں بھر آئیں، عزیز خان نے مشارب والا سیکرٹ پہلے ہی ضرار کے کان میں پھونک دیا تھا اور ضرار صاحب نے بھی فراغ دلی سے سردار صاحب کو زونی تک پہنچانے کی ذمہ داری خوشی خوشی قبول کی۔

مہندی کی سب نے مل کر رسم کی ، زونی کا منہ میٹھا کیا گیا، سب نے باری باری حسین آپسراہ کو دعائیں دیں اور پھر دلہن کو واپس اسکے کمرے میں بھیج دیا گیا جبکہ بزدار عالم نے خاص تاکید کی کہ کھانا کھائے بنا سمدیوں کو ہرگز جانے کی اجازت نہ دی جائے گی۔

اماں فضیلہ کچن میں تھیں اور اشنال انکے ساتھ ہی تھی جب ضرار اندر آیا اور اس نے اشنال کے کان میں ناجانے کیا کہا کے وہ پلٹ کر مسکرائی اور پھر آنکھ دبائے اوکے کا اشارہ دیا، یعنی سیکورٹی ٹائیٹ کروائی گئی تاکہ اس ملاقات کا اور کسی کو پتا نہ چلے سو اشنال نے سب کو باورچی میں روکے رکھنا تھا۔

گل اور مالنی نے بھی کچن میں اشنال اور اماں فضیلہ کی مدد کروائی جبکہ بزدار حویلی کے پچھلے دروازے پر کھڑے مشارب خان کے چہرے پر تب حیرت پھیلی جب عزیز خان کے بجائے وہ ضرار نے کھولا۔

"تم؟"

مشارب کو زرا ہچکچاہٹ ہوئی کہ نجانے دلہن کا بھائی اسے ملنے دے گا بھی یا نہیں جبکہ ضرار صاحب پیار کرنے والوں کے سب سے بڑے خیر خواہ تھے، کیسے نہ مدد کرتے۔

"جی جناب میں، لیکن صرف دس منٹ سردار جی۔ اگر زیادہ دیر لگائی تو آپکے سالے میں ولن والے جن آجائیں گے"

وہ مشارب کو دیکھ کر شریر ٹون میں بولے اسے بھی مسکرانے پر اکسا چکا تھا جبکہ لائیٹ گرے سوٹ میں چوہدری صاحب تو چمکارے مار ہی رہے تھے، پہلی بار سیاہ سوٹ پہن کر سب پر حاوی ہوتے سردار صاحب بھی آنکھوں کو خیرہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے، پھر وہ ہری، دھانی آنکھوں کا عکس۔۔۔۔وللہ قیامت تھا۔

ضرار شرافت سے ایک طرف ہوا تو مشارب اس پر مشکور سی نظر ڈالے اندر بڑھا۔

وہ کمرے کے بیچ و بیچ اضطراری انداز سے ٹہل رہی تھی، نیلی آنکھوں والی، عزیز خان اور نانو کو اکیلا آتا دیکھ کر ہی وہ اداس ہو گئی تھی اور اب تو اسے مشارب کے آنے کے دور دور تک کوئی اثرات دیکھائی نہ دے رہے تھے، بیڈ پر جگہ جگہ مہندی اور چوڑیوں سے بھری ٹوکریں رکھی گئی تھیں اور سارے کمرے ہی پھولوں کے بکوں سے یونہی سجائے گئے تھے جیسے یہ۔

وہ اداسی سے اپنی لہو چھلکاتی سونی ہتھیلوں کو دیکھے ڈریسنگ کے پاس ہی کھڑی تھی جب دروازے پر ہوتی آہٹ پر پلٹی اور سامنے سے آتے مشارب کو دیکھ کر زونین کی آنکھیں خوشی سے چمکیں اور مہندی کی وہ خوشبوئیں بکھیرتی جان لیوا دلہن مشارب کے اندر آتے ہی لپک کر اس سے جا لپٹی۔

اور یہ احساس مشارب زمان خان کے دل کو گدگدا دینے کو کافی تھا کہ وہ اسکے کیے اس جتنی بے قرار تھی، دونوں بازووں کے نرم حصار میں اس لڑکی کو بسائے وہ مسکرایا تھا بھلے اس نازک اندام کے بدن سے اٹھتی مہک سانس تھما کر خود کی جانب مائل کر چکی تھی، اسکی مسکراہٹ نے ماحول پر فسوں طاری کیا۔

"ہمیں لگا آپ نہیں آئیں گے، ہم آپکو بہت مس کر رہے تھے۔ تھینک یو مشارب"

رندی آواز پر قابو پائے وہ اس کے روبرو ہو کر بولی مگر آواز تب بھی لرزی جبکہ مشارب بس اسکے دہکتے روپ سے ہی الجھ گیا، وہ دنیا کی سب سے پیاری دلہن لگ رہی تھی، آج اتنا حسین روپ تھا تو کل وہ کیا کیا غضب ڈھانے والی تھی یہ سوچ کر ہی مشارب نے جھرجھری لی۔

"بہت خوبصورت۔ کیسے نہ آتا، آپکا حکم سر آنکھوں پر ہے لیڈی۔ واللہ اتنی حسین لگ رہی ہیں کہ دل چاہ رہا ہے ابھی رخصت کر کے لے جاوں"

اسکے محبت بھرے، جسم میں روح پھونکتے اظہار پر وہ حیا سے اٹی مسکائی، روح کے تار تو وہ اسے دیکھ کر چھیڑ چکا تھا مگر اسکی بے اختیاری ہمکاتی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ اس ملاقات میں مخص اس شوخ کو دیکھنے پر ہرگز صبر کرنے والا نہیں۔

"آپ کو اس روپ میں دیکھنے کا خواہش مند تھا، ارے مہندی بھی لگا لی۔ بائے دا وے وہ تو مجھے لگانی تھی ناں؟"

اسکے دونوں ہاتھ تھامے وہ اسکے ہاتھوں کی پچھلی اطراف سرخ آئے رنگ کو دیکھتا ہنسا جبکہ مشارب کے کہنے کی دیر تھی کہ زونی نے فورا سے بیشر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اسکے سامنے پھیلایا۔

"یہ ہم نے آپکے لیے بچا لیں، یہاں آپ کے نام کی لکیر ہے تو آپ کے نام کی مہندی بھی یہاں آپ کے ہاتھ سے ہی لگے گی۔ یہاں اپنا نام لکھیں"

ہتھیلوں کو دیکھاتے ہی وہ ٹوکری سے مہندی نکال لائی جبکہ مشارب پہلے تو تھوڑا بوکھلایا اور پھر وہ مہندی لیے زونی کا ہاتھ پکڑے وہیں بیڈ کے کنارے بیٹھا تو وہ بھی اسکے پاس ہی مسکراتی بیٹھی۔

"اور اگر کلاکاری کر دوں کوئی، مطلب کیا پتا آپکے ان ڈیزائنوں سے زیادہ اچھا ڈیزائن بنا دے سردار مشارب زمان خان، پھر کیا انعام دیں گی"

وہ پرفیشنل طرز سے نہ صرف مہندی پکڑے ہوئے تھا بلکہ بڑی نفاست سے اسکی ہتھیلی میں پھول بنانے لگا جو واقعی اسکی مہارت دیکھ کر کھلھلا دی، خود مشارب مہندی لگانا بھول کر اسکی ہنسی میں محو ہو گیا۔

اور دونوں کے بیچ انھرتی ذومعنی سے سرگوشی نے جان سی لی۔

"انعام!؟"

وہ ٹرانس سا ٹوٹنے پر بوکھلائی تو مشارب نے خود ہی اسکے ہونٹوں پر بکھری لالی اپنے استحقاق بھرے لمس سے مزید خوبصورت رنگ میں بدلی تو وہ اس جرت پر لجا سی گئی، آج اسکے انداز میں بے حد نرمی تھی۔

"اسکی آپ فکر نہ کریں، اپنا حق آپ سے پوری شان سے لوں گا لیڈی۔ آخری سانس تک۔ کل کے لیے کچھ زیادہ سٹرونگ ہو جائیں کیونکہ کل آپ کے اور میرے بیچ کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا"

وہ اسے دھڑکاتا ہوا واپس اسکی ہتھیلی پر مہندی لگائے بنا دیکھے ہی اسکے حواس اڑا چکا تھا جبکہ جتنی دیر وہ اسکی ہتھیلیوں کو مہندی سے سجاتا رہا، وہ دم سادھے بس اس شخص کو مخمور نظروں سے دیکھتی رہی۔

اس نے زونی کی دونوں ہتھیلوں پر اپنا نام بھی لکھا اور پھر مہندی کی کون واپس ٹوکری میں رکھے وہ مکمل اس لڑکی کی طرف رخ کیے بیٹھا جسکے پاس اب مزاحمت کے لیے ہاتھوں کو استعمال کرنے کا اختیار نہ بچا تھا، مشارب کی شرارت بھری بے خود نظریں دیکھتی وہ کچھ سہمی کیونکہ مشارب اسکی کمر جکڑے قریب کر چکا تھا اور زونی نے بمشکل اپنے چہرے کو اسکے چہرے سے زرا فاصلے پر رکھے اپنے ہاتھ اسکی پشت پر اکڑائے کیونکہ وہ اسے نئے طریقے سے قید کرنے آیا تھا۔

"م۔۔مشارب، مہندی خراب ہو جائے گی ہماری اور آپکے کپڑے۔۔۔"

وہ اسکی گال چومتا قریب ہوا تو وہ سہم کر اپنے ہاتھ دیکھتی منمنائی جو اسکے دبوچ لینے پر اسکی پشت سے جڑ رہے تھے مگر سردار صاحب کی شدت بھری من مرضیوں کے بیچ کئی لمحے اسے اعتراض اور مزاحمت کا حق نہ ملا، اور زونی کا فطری گالوں پر لگتا بلش دیکھ کر مشارب کو اپنی شدت بھری گستاخیوں کا احساس ہوا تو وہ اسے احتیاط سے آزاد کرتا شر انگیز سا مسکرایا جبکہ وہ الٹا نیلی آنکھوں سے اسے گھور کر رہ گئی کیونکہ ایک ہتھیلی کا ڈیزائن اس بیچ مشارب کی سیاہ قمیص کی کمر پر ٹھپے کی صورت لگ چکا تھا۔

"کر لیا ناں اپنا سوٹ بھی خراب اور ہماری مہندی بھی"

اپنی ہتھیلی کو اداسی سے دیکھتی وہ باقاعدہ روہانسی ہوئی تو مشارب بھی دل دھڑکاتے طرز میں اٹھ کھڑا ہوا۔

"اب زیادہ پروفیشنل ہو گیا، سب پوچھیں گے کہ کہاں سے لگوائی مہندی تو کیا کہیں گی"

خود کھڑا ہوئے وہ اسے بھی کمر سے جکڑے گھسیٹ کر اٹھائے اپنے حصار میں لیے شرارت سے بولا جبکہ وہ بھی ناچاہتے ہوئے مسکرا دی۔

"کہیں گے کہ ایک ایکسپرٹ ایلین آیا تھا ہمارے روم میں، دوسری بھی خراب کرنی ہے کیا۔۔۔پلیز مشارب"

اول جملہ شوخی سے ادا کیے وہ اسکے پھر سے جکڑنے پر افسردگی اور حیا کی ملی جلی کیفیت سے دبا سا چینخی جس پر مشارب نے مسکراتے ہوئے دھیرے سے اسکا نرم و گلابی گال چوما تو وہ پھر سے چھوئی موئی بن کر ساری خفگی بھلا گئی۔

"مت بلواتیں ناں آج، اب کون واپس جائے گا لیڈی، کون رات بھر بستر پر کڑوٹیں بدلے گا اور کون کل کا انتظار کرے گا۔۔۔آئیں میرے ساتھ بھاگ چلیں"

وہ تو بے خود ہوئے باولا ہو رہا تھا تبھی تو زونین کی ہنسی جلترنگ بنی۔

"جی نہیں، ابھی آپ بھاگیں کیونکہ پکڑے گئے تو رخصتی ڈیلے ہو جائے گی"

محترمہ کے بھرم تو سردار صاحب کو مایوس کر گئے جبکہ وہ اسکی گردن پر ابھرتی رگ پر بے اختیار لب رکھتا اس لڑکی کو مزید زحمت سے دوچار نہ کرنے کا فیصلہ لیے شرافت سے پیچھے ہٹا۔

"نو وے،مزہد ڈیلے نہیں چاہتا اب۔۔ آپ جانتی ہیں آپ سے دور رہنا اب ناممکن ہے۔ جلدی آجائیں میرے پاس"

ماتھے پر جھک کر دھیرے سے الوداعی اپنے پیار کی مہر ثبت کیے جناب نے آج کی جدائی کی بھرپور ہمت بٹور لی تھی، ان چمکتی نیلی آنکھوں کی مستی، گلابی گالوں کی لالی اور نرم لبوں کی نرمی وہ چرا کر ساتھ لے جانے والا تھا اور وہ اسکے ہر انداز پر از سر نو فدا ہو چکی تھی۔

"بائے گاجیئیس لیڈی، ایم ویٹنگ فار یو۔ امید ہے اب آپکو اور مجھے یہ آخری رات کاٹنے میں آسانی ہوگی"

اس لڑکی کی تمام محبت کا اکلوتا وارث تھا وہ اسکے دامن سے دل دھڑکاتے جملے باندھے اک بھرپور نگاہ اس حسینہ پر ڈالے معنی خیزی سے دھڑکنوں کے زیر و بم سے چھڑ خانی کیے وہ جیسے آیا ویسے ہی کمرے سے باہر نکل گیا اور زونی شرمگیں سا مسکاتی ہوئی اپنی ہتھیلوں کو دیکھتی گلال رنگوں میں نہا گئی، دل اس وقت بے انتہا شدت سے دھڑک رہا تھا اور وہ خود بھی مشارب سے ایسی جان لیوا ملاقات کر کے انگ انگ تک دھڑک گئی تھی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

وہ گل خزیں خانم کو خود سی آف کرنے آئے تھے، وہ ان سے کچھ بات کرنے کی طلب گار تھیں تبھی عزئز خان پہلے ہی اجازت طلب کرتے گاڑی کی طرف بڑھ چکے تھے جبکہ گل خزیں، مڑ کر بزدار عالم کے روبرو کھڑیں تھیں، دونوں ایک مدت بعد آمنے سامنے آئے تھے۔

لیکن سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ہر طرح کی تکلیف سے وہ دونوں ہی آزاد ہو چکے تھے۔

"بابا سائیں کی وصیت کا پوری کوشش کے باوجود مان نہیں نبھا سکا تھا، ادھوری لاحاصل محبت کے پیچھے کسی ایک کی غلطی ضرور ہوتی ہے اور وہ ایک یقینا میں تھا خزیں۔ ہم اپنی اپنی جگہ الگ الگ زندان میں قید تھے کل تک مگر تم آزاد ہو اور تمہیں آزاد دیکھ کر عالم بزدار بھی اپنے آپ کو آزادی سے ہمکنار محسوس کر رہا ہے"

وہ اس مضبوط عورت سے پراعتمادی کے سنگ شفیق نرم ملائم لہجے میں مخاطب تھے جو آج بھی اس شخص کو اپنے دل کا حاکم مانتی تھیں، وجود کے حاکم اہمیت کہاں رکھتے ہیں عورت کے لیے، وہ تو دل کے حاکم پر اپنی محبت آخری حد تک لٹا دیتی ہے۔

"مجھے لگا تھا آپ نے میرے لیے کوئی لڑائی نہیں لڑی، اور یہ خود ساختہ اذیت تاعمر مجھے انگاروں پر لوٹاتی رہی لیکن جب آپکی جدوجہد کا علم ہوا تو وہ ساری اذیت لمحے میں ختم ہو گئی۔ مجھے اس آزادی کی صرف یہی چیز تو عزیز ہے کہ میں اب اپنے فیصلے بنا کسی دباو کے لے سکوں گی اور آپکے لیے اب مجھے دعا کرنے کے لیے چھپنے کی ضرورت نہیں ہوگی"

وہ گل خزیں کے خلوص کے معترف تھے اور سب سے زیادہ اس عورت کے بے نیاز ہونے پر مطمئین تھے جو انکی طرح زندگی کی آزادی کو اہمیت دے رہی تھیں، اولاد کی خوشیاں مقدم جانتے ہوئے اس لاحاصل محبت کو حسین تر رکھنے کے لیے لاحاصل ہی چھوڑنا چاہتی تھیں۔

"یہ تمہارا اپنا گھر ہے خزیں، تم جب چاہو یہاں آکر اپنی اچھی یادوں کے سنگ وقت گزار سکتی ہو۔ رہی بات ہمارے بیچ کے اس پرانے تعلق کی۔۔۔۔"

وہ ایک دوستانہ ماحول بنا رہے تھے اور گل خزیں خوشی خوشی اس دہلیز پر بارہا آنے پر آمادہ بھی تھیں۔

"کچھ خواہشیں، خواب و خیال بن کر ہی اپنا حسن برقرار رکھ سکتی ہیں خزیں! پوری ہو جائیں تو اپنی راعنائی کھو دیتی ہیں اور میری زندگی کی انہی خواہشات میں سے ایک تم ہو اور ہمیشہ رہو گی"

وہ گل خزیں کا دامن بلکل خالی کیسے چھوڑتے، وہ اسی پر خوش تھیں کہ وہ آج بھی عالم بزدار کی سب سے حسین خواہش ہیں۔

"مجھے آپکی سب سے حسین خواہش بننے پر ناز ہے، اور یہ ناز آپ کو پانے سے زیادہ قیمتی ہے۔ سو میں بھی کبھی اس کے حسن اور سکون میں کمی نہیں ہونے دوں گی"

گل خزیں خانم نے مسکرا کر اس شخص کے اعصاب پر طاری سارے رہے سہے بوجھ اتارے تو دونوں ایک سا مسکرائے، خوشی چہرے کے خدوخال تک ڈھل گئی تھی۔

"ویسے بہت پیاری لگ رہی ہو، جا کر ایک بار نظر اتار لینا"

وہ اپنی طرف سے بات مکمل کیے مڑنے لگی تھیں مگر جناب کے تعریفی جملے کو سن کر وہ بے اختیار ہنسیں، عالم بزدار بھی اپنے بچپنے پر مسکرا دیے۔

کب سوچا تھا انہوں نے کہ خزیں کے حسن کی تعریف کرنے کا موقع زندگی انھیں اس ادھیڑ عمر میں دے گی مگر کوئی گل خزیں خانم سے پوچھتا کہ اس تعریف کی خوشی انکی زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی۔

"اب تو ضرور اتاروں گی، اللہ خافظ"

محبت کے بھی اپنے انداز ہیں ، یہ تو ہر عمر جاوداں ہے، وہ مسکرائیں اور کہہ کر پلٹ گئیں جبکہ عالم بزدار کی آنکھیں اسکے جانے سے اوجھل ہونے تک انہی پر جمی تھیں، فرصت سے، بڑے سکون سے، بڑے اطمئیان سے۔

"محبت کی سب سے خوبصورت کہانی کبھی نہیں لکھی جاتی، نہ وہ محبت ملن کے سکھ سے فیضاب ہو کر اختتام پاتی ہے۔

‏بس اس کو خاموشی سے جی لیا جاتا ہے کیونکہ وہ فرضی نہیں ہوتی نہ اس کا اختتام روایتی ہوتا ہے بلکہ اس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا۔

میری اور تمہاری محبت کچھ ایسی تھی خزیں اور ہم دونوں اپنے اپنے صلے کا معاملہ اس رب پر چھوڑ کر اس محبت کو امر کر چکے ہیں۔۔۔

یہ بہت خوبصورت ہے"

یہ واقعی خوبصورت نہیں تھا کیا؟ تھا۔۔۔۔ بے حد دلکش، موت سے پہلے ہر تکلیف سے نجات مل جانا، اللہ کے کسی بڑے کرم کا اشارہ ہوا کرتا ہے، عالم بزدار کے چہرے پر دنیا جہاں کی آسودگی اتر چکی تھی،ٹھنڈی رات کی شدت کے باوجود سکون کی حدت دل کو سہلا رہی تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

ولی اور ونیزے کو خانم حویلی پہنچنے میں خاصی دیر ہو گئی تھی کیونکہ مہندی کے فنکشنز مکمل ہو چکے تھے اور جب اسے یہ پتا چلا کہ دلہا صاحب خود بھی بے صبری کے تمام ریکارڈ توڑ کر بزدار حویلی جا چکے ہیں تب وہ واقعی حیرت انگیز حد تک شاکڈ ہو گیا۔

فرخانہ خانم اور خدیخہ خانم نے ملازمین کے سنگ دونوں پیارے بچوں کا پرتپاک استقبال کیا تھا، ولی جب بھی اس حویلی لوٹتا تھا، مجبوری یا تکلیف کے باعث ہی آتا تھا اور ایسے ہی اسکا یہاں سے جانا بھی تکلیفوں کا امبار سمیٹ کر لے جانے کے مترادف ہوا کرتا تھا مگر اس بار وہ پوری خوشی کے ساتھ آیا تھا، فرخانہ خانم کے دل کو لگے صدمات میں سے ایک اذیت ولی زمان خان کے اجڑے دل کی لاحق تھی مگر اسکا ونیزے کے ساتھ خوشی خوشی آنا اور پھر وریشہ اور شمشیر یوسف زئی کو مل کر مبارکباد دینے جانے کا اردہ اس ماں کے دل کے تمام بوجھ اتار چکا تھا۔

جبکہ خود ونیزے بھی اتنے محبت بھرے ویلکم سے حیران ہوئی تھی، فرخانہ اسے ولی کے کمرے میں لائیں جو ساس صاحبہ نے مدھم سا سجوا کر بہو کے شایان شان بنا رکھا تھا۔

اور پھر جاتے جاتے وہ بنا کچھ بولے ونیزے کو نم آنکھوں سے ممتا بھرے حصار میں لیے گلے لگاتیں اسے تازہ دم ہونے کا کہتیں خود جب باہر آئیں تو ولی ، یوسف زئی حویلی جانے کے ارادے کے متعلق ہی خدیخہ خانم کو بتا رہا تھا۔

"ونیزے تو بہت پیاری ہے، ماشاء اللہ۔۔ لاکھوں میں ایک تمہاری طرح، خوش ہو ناں ولی؟"

فرخانہ خانم کے قدم کچھ دور ہی رک گئے تھے کیونکہ وہ چاہتیں تھیں ولی کے منہ سے یونہی سچ سنیں اور وہ خدیخہ کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔

"خوش ہوں ، ورنہ اسے لے کر یہاں کبھی نہ آتا۔ اس حویلی نے اور یہاں کے مکینوں نے کبھی مجھے سکھ کا سانس لینے نہیں دیا مگر میں دل بڑا کر کے اپنی نئی زندگی کے سفر کے بعد خود بھی سب کو معاف کر کے آگے بڑھا ہوں"

اسکا جواب ہر قسم کے دباو سے پاک تھا تبھی خدیخہ کے علاوہ قریب آکر کھڑی ہوتیں فرخانہ کے چہرے پر بھی تکلیف اور تاسف امڈا اور ولی بھی انکو دیکھتا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"ایک بار اپنے منہ سے کہو کے تم نے اپنے ماں باپ کو بھی معاف کر دیا ہے، ورنہ میں جیتے جی اور زمان خان مرنے کے بعد بھی تڑپتے رہیں گے۔ ماں باپ کو ضرورت نہیں ہوتی بچوں کے منہ سے اعتراف سننے کی مگر ہاں جب خود غرض والدین ہوں تو ایسی نوبت اکثر و بیشتر آجاتی ہے۔ اپنے ان ہاتھوں سے تمہارا دل اجاڑنے والوں میں تمہاری ماں، تمہارے بابا بھی شامل تھے مگر خدا گواہ ہے کہ تمہارا دل اجاڑ کر کبھی ہم سکون سے اک لمحہ کاٹ سکے ہوں"

وہ دل برداشتہ تکلیف میں تھیں اور جب انسان خود ہر اذیت سے نکل آئے تو وہ اپنے دل کو اجاڑنے والے اپنوں کو بھی معاف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

"کسی کا دل اجاڑنے والوں کو سکون راس آ ہی نہیں سکتا، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ لیکن چونکہ اب ولی زمان خان کا سکون واپس آچکا ہے سو میں نے آپکو اور اس شخص کو بھی معاف کر دیا جن سے باپ کا رشتہ تھا۔ آپ بھی اس اذیت سے نکل آئیں، خوشی کا موقع ہے۔ اداس مت ہوں۔ میں ونیزے کے ساتھ ہو کر آتا ہوں تب تک سب آجائیں گے"

بڑے پن کا ثبوت دیے وہ اس اداس ماں کو گلے لگا کر اختتام تک اپنے ارادے سے آگاہ کیے مسکرایا تو فرخانہ کی مرجھائی صورت بھی جیسے کھل سی اٹھی۔

وہ دونوں بہنیں ایک دوسرے کو دیکھتے محبت سے مسکرا دیں جیسے اسی طرح کے سکون کی طلب رکھتی تھیں۔

یہاں شہر کی نسبت ٹھنڈ زیادہ تھی تبھی وہ چینج کیے ، شال گرد اوڑھ رہی تھی جب ولی روم میں آیا، اپنے کمرے کی سجاوٹ دیکھ کر اسے ماں پر مزید پیار آیا جبکہ اس وقت اسکی ساری محبتوں کی حق دار یہ حسینہ تھی جو ولی کے اندر آتے ہی خود بھی مسکراتی ہوئی اسکی جانب آئی اور ان ہمیشہ کی طرح اس کے لیے پھیلتی پرسکون باہوں کے حصار میں دل گرویدہ کرتی مسکراہٹ کے سنگ سما گئی، ولی اسے اپنے اردگرد محسوس کر کے اب دلی راحت محسوس کرنے لگا تھا۔

ونیزے کی مسکراتی آنکھیں دیکھ کر اس نے اپنے مہکتے حصار میں مبتلا اس لڑکی کی جبین چومی جو ہر بار ولی کے معتبر کرنے پر حیا سے کانپ سے جاتی۔

"ولی!کیا آپکے گھر کے سب لوگ اتنے ہی سوئیٹ ہیں، جتنی آپکی اماں سائیں؟"

اسکی خوشی بتا رہی تھی کہ وہ محترمہ ساس کی محبت پر فدا ہو چکی ہے، ولی نے اسے مزید قرین کر کے اک نظر دیکھا جو لمحہ بہ لمحہ بدل رہی تھی، اک الوہی روشنی تھی جو اسکی آنکھوں سے اسکے بیمار وجود میں اتر رہی تھی۔

"ساری کڑواہٹ ولی نے جو سہہ لی ہے، اب سوئیٹنس ہی بچی ہے یہاں۔ ہاں بلکل، اب یہاں ہر کوئی بہت اچھا ہے"

ناچاہتے ہوئے بھی وہ لہجے کی جلن چھپا نہ پایا جو ونیزے نے بھی محسوس کیا مگر ولی کا پھیکا پڑتا چہرہ ونیزے سے ہرگز برداشت نہ ہوا۔

"کیا کچھ ہوا تھا؟"

وہ دم سادھ کر سوال کرتی افسردہ ہوئی۔

اور وہ یہ کہہ بیٹھنے سے پہلے بھول گیا تھا کہ وہ لڑکی اسکی تکلیف تو دور، اداسی تک سہہ نہیں سکتی۔

"نہیں، ہوا بھی تھا تو تم نے بھلا دیا ہے۔ چلو چلتے ہیں، شمشیر یوسف زئی اور وریشہ کو مبارکباد دے کر آتے ہیں۔ مشارب کی طرح اسکی بھی آج مہندی تھی اور وہ ولی زمان خان کی اچھی دوست ہے"

جناب نے اظہار کے فورا بعد جانے کے ارادے کو ظاہر کیا جبکہ اس لڑکی کا ذکر کرتے ہوئے ونیزے نے ولی کے چہرے پر خوشی سی محسوس کی تھی تبھی اسے تو نہیں کہا پر ونیزے کا دل وریشہ سے ملنے کے لیے بے تاب ضرور ہوا تھا مگر اس لڑکی کو تصدیق درکار تھی تبھی وہ ولی کا ہاتھ کھینچ کر اسے واپس اپنی طرف موڑ چکی تھی۔

مگر پھر ولی کے اشارتا سوالیہ انداز پر وہ سر نفی میں گماتی مسکرا دی اور ولی کا ہاتھ تھامے ہی ساتھ باہر نکلی۔

اور اس نے ولی کی آنکھوں کے وریشہ تک پہنچتے لمس سے سارے خسارے تسخیر کر لیے، جان گئی کہ ولی زمان خان کو خالی کرنے والا کون تھا۔

خود وریشہ کو زرا اندازہ نہ تھا کہ ولی ونیزے کے ساتھ ایک سچے دوست کی طرح اسکی خوشی میں شریک ہوگا اور جب اس نے ولی کے ہاتھ میں ونیزے کا ہاتھ دیکھا تو اسکے دل نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ولی کے زخم تک بہت بہترین مرہم پہنچانے میں کامیاب ٹھہری ہے، اب وہ اپنی زندگی شہیر کے ساتھ ہر پچھتاوے سے آزاد ہو کر شروع کر سکتی ہے، اسے لگا جیسے وہ آیا ہی اس لیے ہو جیسے وریشہ یوسف زئی کے دل کو ہر بوجھ سے آزاد کر دینا چاہتا ہو۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"مجھے بلایا ہے؟  مطلب یقین نہیں آرہا"

مہندی کا ڈھول ڈھمکا سمیٹا جا چکا تھا اور اب وہی کاشف کے لوگ مہندی ارینجمنٹس کو سمیٹ کر ابھی سے ہی کل کے لیے تیاری شروع کر چکے تھے، سانول مجتبی اور کوثر بیگم کچھ دیر پہلے ہی وریشہ کی مہندی حویلی پہنچا کر آچکے تھے اور باقی مہمان بھی چلے گئے تھے تبھی شہیر کو کاشف نے آکر اطلاع دی کہ اسے شمشیر یوسف زئی نے بلایا ہے، پتا نہیں بات میں کتنی سچائی تھی مگر کاشف کی آنکھوں میں شرارت اور وہ خاصا مشکوک لگا تبھی شہیر نے بے یقینی کا اظہار کیا۔

"کیوں جی، تو بڑے صاحب کا اکلوتا داماد ہے مطلب کیوں نہیں بلا سکتے۔ ہو سکتا ہے سسر جی نے سلامی وامی دینی ہو۔ جا میرا بچہ۔۔مل کے آ تب تک ہم مل کر یہ بکھیرا سمیٹتے ہیں"

کاشف نے شرارت بھری نظریں چرائے فورا سے اسے چلتا کیے خود سجاوٹ سمیٹتے لوگوں کی طرف ہوا جبکہ شہیر منہ بسور کر اس پر ایک نظر ڈالے گھر سے نکل گیا جبکہ اسکے جاتے ہی کاشف نے سبکو سیٹی مارے بلایا۔

سارے سجاوٹ کرنے والے لوگ کاشف کے پاس آکر ہمہ تن گوش ہوئے کھڑے ہوئے۔

"سب غور سے سننا ، شہیر اور وریشہ کے کمرے کو غضبناک سا سجانا ہے کہ دیکھتے ہی بندا پاگل ہو جائے۔ ابھی فرنیچر والا ٹرک بھی آتا ہوگا، اسکے کمرے سے پرانا فرنیچر نکال کر دوسرے کمرے میں رکھنا ہے اور نیا سیٹ کرنا ہے اور یہ سب ہمیں دو گھنٹے کے اندر اندر بنا شہیر کو پتا لگوائے کرنا ہے، وہ دیکھو ٹرک پہنچ گیا ہے شاباش نکلو"

ابھی شہیر حویلی کے گیڈ سے انٹر ہی ہوا تھا باہر مین گیڈ کے باہر رکتے فرنیچر کے ٹرک کا ہارن سنائی دیا، اماں کوثر اور سانول مجتبی نے رہی سہی ساری جمع پونجی واقعی ہی لگا دی تھی، اجلت میں وہ لوگ فرنیچر کا آرڈر تو دے آئے تھے مگر ٹرک کو یہاں کاشف کے لوگ لے کر آئے تھے اور یہ ان دو نے اپنے بچے کو سرپرائز دینا تھا سو اماں کوثر نے ہدایت کی تھی کہ شہیر کو بنا پتا چلے اسکے کمرے کو سجایا جائے۔

وہ سب لوگ دروازہ پورا کھولے تیزی اور پھرتی کے سنگ سامان اتارنے بڑھ گئے جبکہ کچھ لوگ پہلے کمرے سے پرانا سامان نکالنے اندر جا چکے تھے اور سانول صاحب سبکو تاکید کرتے اور اماں کوثر اپنے ارمانوں کو پورا ہوتا دیکھ کر پھولے نہ سما رہی تھیں، جیسے جیسے سامان نکل رہا تھا، نیا نکور دمکتا فرنیچر اسی ترتیب سے رکھا جانا تھا تاکہ جلدی کام سمیٹا جا سکے جبکہ کاشف کی ہدایت تھی کہ ٹرک سے سارا سامان اتار کر اندر صحن میں رکھ کر ٹرک کو فوری واپس بھیجوا دے اور آدھے گھنٹے کے اندر اندر نہ صرف ان لوگوں نے سامان اتار کر ٹرک کو روانہ کر دیا بلکہ پہلے سے کمرے میں موجود سامان کو بھی اماں کوثر کی ہدایت کے مطابق دوسرے بڑے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا اور اب بس شہیر کے کمرے کو بھرپور ویڈنگ روم میں بدلنا باقی تھا جس میں کاشف صاحب خود بھی بھرپور حصہ لینے والے تھے۔

وہیں شہیر جب یوسف زئی حویلی پہنچا تو ولی اور ونیزے کو پہلے ہی وہاں موجود پائے اسے الگ ہی خوشی محسوس ہوئی، جبکہ وریشہ بھی وہیں تھی، آنکھیں بہت محبت سے مل کر دل دھڑکانے کا سبب بنی تھیں۔

شمشیر صاحب سب بچوں کے ساتھ مل بیٹھنا چاہتے تھے تبھی انہوں نے شہیر کو بھی بلوایا تھا۔

چونکہ ولی اور ونیزے سفر سے تھکے تھے سو کچھ دیر گپ شپ کے بعد وہ واپس خانم حویلی چلے گئے اور وریشہ انکو جب سی آف کرنے گئی تو شہیر کو میدان میں خود کو اکیلا بیٹھ کر تھوڑا بے چین محسوس کرتے وہ شفق سا مسکرائے اور اٹھ کر شہیر کے پاس آکر بیٹھے جو ریٹائرڈ سردار کے چپکو تیور بھانپ کر تھوڑا بوکھلایا۔

"آج سے تم بھی میرے بیٹے ہو شہیر، ہماری وریشہ کا سب کچھ۔ ولی کو ونیزے کے ساتھ مطمئین دیکھ کر مجھے تم سے جڑی ہر رہی سہی شکائیت بھی ختم ہو گئی ہے، اب تم میری وریشہ کو سنبھال کر رکھنا، وہ بہت حساس ہے ، اسکی خوشی تم سے جڑی ہے بچے، اور اگر تم اس سے واقعی محبت کرتے ہو تو اسکی خوشی کا اپنی خوشی سے بڑھ کر خیال رکھو گے"

وہ نرم اور مہربان لہجے میں شہیر کی اجنبیت قدرے کم کر چکے تھے جو انکے شبہات پر رسان سے سر ہلا رہا تھا۔

"اپنی خوشی اب اہم نہیں رہی شمشیر صاحب، اسکی خوشی ہی میری خوشی ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں، اسکے آرام و سکون اور اطمینان کا خیال خود سے ہمیشہ بڑھ کر رکھوں گا۔ "

وہ بھی ازسرنو مطمئین ہوئے انکی فکریں ہٹا چکا تھا جبکہ وہ کچھ متفکر ابھی بھی تھے۔

"ان شاء اللہ، ایک بات سوچ رہا تھا۔ ولی نے تمہارے اپنے ساتھ کام کرنے کا سرسری سا ذکر کیا تھا یقینا تم اور وریشہ یہاں علاقے میں تو نہیں رہو گے شادی کے بعد، اسکی بھی جاب ہے سو جب تک یہاں ہو، دونوں حویلی میں قیام کر سکتے ہو۔۔۔میرا مطلب ہے وریشہ جس ماحول میں پلی ہے وہ اسے تمہارے سادہ سے گھر میں نہیں ملے گا، شادی اجلت میں کی جارہی ہے ورنہ جہیز ۔۔۔۔۔"

وہ شمشیر یوسف زئی کی تمام فکریں سمجھ رہا تھا پھر بھی بڑے ادب کے ساتھ انکو مزید بولنے سے روک چکا تھا۔

"سائیں! ابھی شہیر کے گھر کے باہر ٹرک کھڑا تھا، بہت سارا سامان تھا اس میں۔۔۔۔ لگتا ہے شہیر بابو نے ہماری وریشہ بی بی کے آرام کے لیے پورا انتظام کروایا ہے، آپ ہلکا نہ لیں اسے۔۔۔۔۔ "

یہ شمشیر صاحب کا خاص آدمی تھا جو اندر آتے انکی فکر سن چکا تھا جبکہ شمشیر صاحب کی حیرانگی تو فطری تھی جبکہ شہیر کو زیادہ بڑا جھٹکا لگا تھا، یہ اتنی جلدی ٹرک سامان کہاں سے آیا ہوگا اور پھر کاشف کی مشکوک شکل یاد آتے ہی شہیر نے اپنی مٹھیاں جکڑیں، دل یہی کیا جا کر اس کی گردن دبوچ آئے۔

"ارے بہت خوب، چلو میری یہ فکر تو ہٹی۔ یہ بہت اچھا کیا ہے تم نے، دل جیت لیا"

وہ شہیر کے وقت کی ضرورت کے مطابق اس اقدام کو جان کر نہال تھے جبکہ شہیر کو بڑی زور کا مکا آیا تھا جو کاشف کے دانت توڑتا، اسے یہی لگ رہا تھا کہ یہ سب کاشف نے کیا ہوگا اور غصہ اس لیے کہ پوچھنا تو دور اسے بتانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔

"شادی کے بعد آپکی پوتی میری ذمہ داری ہے شمشیر صاحب سو اسکے لیے ہر فکر بھی اب مجھے کرنے دیں۔ شہر میں جلد اپنا گھر لے لوں گا اور وریشہ کے علاوہ اماں بابا بھی ہمارے ساتھ رہیں گے، باقی سامان کا سن کر امید ہے آپکو اطمینان مل گیا ہوگا"

وہ کچھ سنجیدہ تھا اور اسکو حویلی رہنے والی بات ہرگز پسند نہیں آئی تھی جو اسکے سپاٹ لہجے سے بلکل عیاں تھا۔

"دیکھو شہیر! برا مت مناو۔ میرا سب کچھ وریشہ کا ہی ہے، اور اسکے ساتھ اب تمہارا بھی۔ مجھے پتا ہے تم سمیت تمہارے ماں باپ خوددار ہیں مگر بہت کچھ ایسا ہے جو میں تمہیں اور اپنی پوتی کو دینا چاہتا ہوں، میرے بعد یہ یوسف زئی حویلی تم دو کی ہی ہے، اور وریشہ کا شہر والا گھر اب تمہارا بھی ہے۔ سو میری تو یہ صلاح ہے کہ مزید گھر لینے کی ضرورت نہیں تمہیں، اور سانول کی یہاں ضرورت ہے ، وہ میرا اچھا آدمی ہے، دکھ سکھ کا ساتھی ۔۔اور مجھے نہیں لگتا وہ دیہاتی لوگ شہر جا کر آباد ہونے پر خوش ہوں گے۔تموگ ہر ہفتے میں ایک دن یہاں علاقے رہ لینا، کبھی حویلی کے مکین بن کر کبھی اپنے گھر کے"

اس بار وہ انکی نرم شفق گزارش پر سوچنے پر مجبور نظر آیا مگر اتنا تو وہ جانتا تھا کہ وریشہ اسکے ساتھ کہیں بھی ایڈجیسٹ کر سکتی ہے لیکن شمشیر صاحب کا مشورہ بھی بدلتے وقت کے لحاظ سے مناسب تھا۔

"مجھے تمہاری قابلیت پر بھروسہ ہے لیکن یہ سب جو میں تم دو کو دینا چاہتا ہوں یہ میری محبت ہے، مجھے یقین ہے تم مجھے انکار نہیں کرو گے"

وہ اپنے اصرار سے شہیر کا انکار بدل دینا چاہتے تھے جبکہ شہیر نے فی الحال انکی بات کا مان رکھ لیا تھا مگر وہ اب خود ڈیپینڈ ہو کر وریشہ کے لیے دنیا کی ہر سہولت خریدنا چاہتا تھا۔

"یہ سب آپ اپنی پوتی کو خوشی خوشی دیں شمشیر صاحب، مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن شہیر مجتبی اپنی ذمہ داریوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا"

انھیں شہیر کے مزاج کے بدلاو دیکھ کر الگ ہی خوشی تھی اور وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا، زندگی میں پیسہ کمانا، آسائشیں پانا کبھی اسکی ترجیح میں شامل نہ تھا۔

زمان خان کے ساتھ کام کرنا اسکی مجبوری تھی کیونکہ علیم ہمیشہ سے نکما اور نکھٹو رہا تھا سو گھر کا چولہا جلانے کے لیے شہیر کو اپنی عیاشیوں ، بنجارے پن کے بیچ کام بھی کرنے پڑتے تھے، اور وہ آج تک ناجانے کتنے لاکھوں کما چکا تھا مگر پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ جس طرح لاپرواہ بن کر کماتا تھا ویسے ہی لٹا دیتا تھا، یار بیلی مانگ کر لے جاتے، اماں کوثر کو تھما دیتا جو سینچ سینچ کر اپنی بہووں کے لیے زیور بنوا لیتیں اور ابھی تو یہ راز کھلنا باقی تھا کہ اماں کوثر نے بھی وریشہ کے لیے جمع کیا یہ خزانہ آج ہی نکلوا لیا تھا اور اس پیاری وریشہ کے لیے اتنا اہتمام کر دیا تھا۔

جبکہ ایس ایس پی کی تقرری کے بعد وہ واقعی خودمختار ہونے والا تھا، اور خودمختاری کبھی کبھی وقت کی ضرورت بن جاتی ہے، خاص کر تب جب انسان بیوی بچوں والا ہو جائے۔۔

"مجھے یقین ہے اس بات کا"

وہ اسکی زندہ دلی پر نہال ہو کر اعتراف کرتے مسکرائے تھے۔

وریشہ اسی وقت اپنے خاص مہمانوں کو رخصت کیے وہاں آئی تھی اور ان دو کی بے اختیار ملتی نظروں کا لمحہ شمشیر یوسف زئی کی آنکھوں سے مخفی نہ تھا۔

"اجازت دیں، کل ملاقات ہوتی ہے"

وہ دانستہ نظریں سنبھالتا اٹھ کھڑا ہوا تو شمشیر صاحب بھی اپنی نشت سے اٹھ گئے جبکہ وریشہ نے منہ بسور کر اس جنٹل مین کو دیکھا جو نئے روپ پر منہ دیکھائی لیے بنا ہی جا رہا تھا جبکہ دادا سائیں نے پوتی کی خفگی بھانپ لی۔

"ان شاء اللہ، وریشہ بچے ۔۔شہیر کو باہر تک چھوڑ کر آئیں"

دادا جان نے نرمی سے کہا اور وہ مسکرا کر شہیر کی پشت تھپکاتے کنعے سے نکل گئے جبکہ انکی اس درجہ کھلی اجازت پر شہیر اور وریشہ دونوں حیرت انگیز ہوتے مسکرا دیے۔

جبکہ دادا کے باہر جا چکنے کا یقین کرتے ہی محترمہ نے کندھوں پر بکھرے بال جھٹک کر بجلیاں گراتے اس ہنڈسم کی طرف قدم بڑھائے جو سنجیدگی زائل ہوتی اور جسم و جان پر خماری طاری ہوتا محسوس کر رہا تھا۔

وہ بال کٹوا کر واقعی بدل گیا تھا، ہاٹ مین اور اوپر سے اسکی جان لیوا سنجیدگی تو سیدھا دل پر اٹیک کرتی، پھر یہی سنجیدگی جب بے خودی میں بدلتی تو وریشہ کا سارا اختیار اسکے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا تھا۔

اسکی مہندی کی دلہن تو چینج بھی کر چکی تھی، جبکہ اسکے ہاتھوں پر مہندی نے سرخ رنگ چھوڑ کر آفت مچا دی تھی ویسی ہی سرخیاں اس لڑکی کے عارضوں پر شہیر کے حصار لینے پر اتریں۔

"بہت پیارے لگ رہے ہو، دلہا بننے کی پوری تیاریاں۔۔۔اہمم اہممم۔۔۔۔ دادا جان بوجھ کر پرائیویسی دے کر گئے ہیں کیونکہ اپنی پوتی کے دل سے واقف جو ہیں۔۔۔"

وہ اسکی پہلے سے خوبصورت ہو جاتی آنکھیں اور صورت دیکھ کر مسکائی اور پھر آخر تک شرارت سے جو بولی ، شہیر بھی خوش دلی سے مسکرایا۔

"لیکن اس پوتی نے تو تڑپانا تھا مجھے، مگر لگتا ہے تڑپانے کے سارے ارادے جھاگ بن گئے۔"

وہ وریشہ کی مسکاتی شوخ آنکھوں کے بہکتے تیور پر چوٹ کیے ساتھ ساتھ اپنے حسین ہو جانے کی وضاحت پر بھی آمادہ لگا جبکہ وہ واقعی اتنے پیارے بندے کو تڑپانا سراسر ظلم جان رہی تھی۔

"اس سلجھی شکل میں میرا کوئی کمال نہیں بیوی، یہ سب جگری دوست کے کرتوت ہیں"

جبکہ اسکی اگلی مسکین وضاحت پر وریشہ بھی ہنسی، اسکی ہنسی میں دنیا بھر کو جکڑ لینے کی اہلیت تھی مگر ابھی تو شکنجے میں شہیر مجتبی تھا۔

"مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تم کیسے دیکھائی دیتے ہو، مجھے بس اس سے فرق پڑتا ہے کہ تم مجھے ہر روپ میں اپنے لگتے ہو۔ ایسے دوست نعمت ہوتے ہیں جو جنگلی دوستو کو کم ازکم انکی شادی پر لشکانے کے نیک فرائض بذات خود سرانجام دیں،یعنی دوست کے معاملے میں بھی لکی ہو تم۔۔۔۔"

وہ اسے خود کی جانب مائل کرتی شوخیوں پر اتری جبکہ اسکے آخری سوال پر شہیر نے فخریہ تائید میں سر ہلایا۔

"بہت لکی ہوں، آج پہلی بار ہی تو اپنی مکمل خوش قسمتی کا ادراک ہوا ہے۔ اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی کہ تم سے آج ملنے کے لیے مجھے کوئی جتن نہیں کرنا پڑا، مبارک ہو وریشہ! میرے نام کی مہندی تمہارے ہاتھوں پر بہت سجی ہے۔۔۔مطلب جانتی ہو اسکا بیوی؟"

اپنے دنیا جہاں کے سب سے پیارے حصار میں مبتلا کیے ہی وہ اسکی جبین پر میکانکی طور پر جھکا، پھر محبت بھری شدت دھرتے ہی زرا فاصلہ بنائے اپنی آنکھیں اس لڑکی کی آنکھوں میں ڈالیں جہاں مخمور حیا ساز مسکان اس کے نرم لبوں کو شدت سے چوم چکی تھی، اس لڑکی کو ہر لمس اس شخص کا سجتا تھا تبھی اسے آج وریشہ کے ہونٹوں کی وہ مسکراہٹ بھی اپنی رقیب محسوس ہوئی تھی۔

"جانتی ہوں پر تم بتاو گے تو مانو گی"

وہ اس پاگل دیوانی سے ایسے ہی باولے جواب کا متمنی تھا، بے اختیار مخمور مسکان کے کچھ دیر قبل نبھائے جاتے فرائض خود تھامے وہ ہوا کے لطیف، پاگل کر دیتے لمس کی طرح اسکے ہر احساس میں اترے زرا مزید دور ہو کر اس لڑکی کے چہرے پر گھل آتیں سرخیاں بغور دیکھنے لگا جو دل میں تہلکہ مچاتی محسوس ہوئیں۔

"مطلب کہ تم میری محبت میں تاحیات کمی نہیں دیکھو گی، پر پھر بھی جس دن کمی لگی ،مجھے گریبان سے پکڑنے کی پوری اجازت ہے تمہیں۔ جواب طلبی کرنا اور اس کمی کا پورے حق سے ازالہ کروانا۔۔۔"

وہ بے اختیار ہی اپنی اس اجازت پر ہنسا اور وہ بھی اس رعب دار حق ملنے پر کھلکھلائی مگر جلد ہی وہ ہنسی کے کھلتے پھول ، بے اختیاریوں، فتنہ خیزیوں کی معنی خیز سرگوشیوں کے پیرہن میں ڈھل گئے۔

"کمی نہ بھی دیکھائی دی تب بھی تمہیں گریبان سے پکڑ سکتی ہے وریشہ ، پکڑ کر قریب کر کے تم سے اپنی محبت کا جنگلی سا اظہار کرنے کے لیے، بائے دا وے وہ جنگلی شہیر وریشہ کا پہلا کرش ہے اور رہے گا، یہ بیبہ بچہ جیلس نہیں ہونا چاہیے کبھی"

اسے شہیر کا پہلا روپ زیادہ پسند تھا اور یہ جان کر شہیر اسکی تمام باتیں جو توجہ طلب تھیں، فراموش کیے اس کرش والی بات پر دوبارہ ہنس پڑا اور اس لفنگے کی ہنسی کس قدر قہر بن کر اس نازک جان پر اتری تھی یہ بس وریشہ جانتی تھی، دل اپنے مرکز سے ہٹ چکا تھا، واپس لانے کے لیے اس شخص کی بے باکیوں کے ہوش اڑاتے جام درکار تھے۔

"اگر تمہیں وہی لٹا پٹا شہیر پسند تھا تو بتاتی بیوی، خوامخواہ بچارے ہئیر ڈریسر کے میری حالت سنوارنے میں دو گھنٹے ضائع ہوئے۔ کوئی نہیں گھر کی کھیتی ہے، آپن پھر بڑھا لیں گے اپنی زلفیں۔۔۔ تم کو جیسا پسند ہوں، شہیر ویسا ہی رہنے کو ترجیح دے گا"

وہ اسکے یکدم مان جانے پر مزید خفا منہ بنا چکی تھی، اب کیا بندہ مزاق بھی نہ کرے۔

" ایسے والا شہیر دوسرا کرش ہے ناں لفنگے۔ ویسے بھی بال تم بڑھا ہی لو گے پر تمہاری پونی تو مجھ مسکین کو ہی کرنی پڑے گی ناں سو یہ بھی برا نہیں، جتنے تم خود سے بیزار رہتے ہو لڑکے، اتنے بال کافی ہیں۔۔۔سنبھال لو گے ایزیلی"

وہ اس کے اسکی پچھلی باتیں اگنور کرنے پر برہم سی بڑبڑائی جبکہ جناب نے فراموش ضرور کی تھیں، ان سنی نہیں۔

"آہاں! تو پھر جنگلی سا اظہار کرو مجھ سے تاکہ میں اس ملاقات کے شر سے بھاگ سکوں"

وہ اسکی آنکھوں میں تکتا اسکی کمر پر انگلیوں کی گستاخ گردش سے وریشہ کے جسم میں برق دوڑا چکا تھا جبکہ وہ اسکے سوال پر بے اختیار سٹپٹاتے ہوئے خود میں سمٹی اور اس لڑکی کا یہ یہ نیا روح جکڑتا انداز شہیر کو پاگل کر دینے والا تھا۔

وہ اس سے اپنا دامن بچاتا ہوا ہی وریشہ کو مائل کرتا تھا جبکہ خود قریب آکر تو اس لڑکی کی جان لے لیتا، اور اس وقت بھی اس شخص کے اردوں کی تپش سے وریشہ اپنا وجود کانپتا محسوس کر رہی تھی۔

"لیکن وہ تو کل کروں گی، میں نہیں چاہتی کل کچھ ادھورا رہے۔ تھوڑا سا تڑپ لو گے تو کیا چلا جائے گا تمہارا؟"

خود میں ہمت انڈیلنے کو گہرا سانس کھینچے وہ اسکے حصار میں پوری رضا سے لپٹی،اس لڑکی کو گلے لگا کر جو سکون رگوں میں اترتا تھا اسکی آسودگی بیان کرنے کے لیے شہیر مجتبی کو اپنی زندگی نہاہت مختصر لگتی تھی۔

اب وہ اتنی محبت سے تڑپنے کی گزارش کر رہی تھی وہ وہ اسکی خوشی کے لیے کیوں نہ یہ منصوعی تڑپ خود پر اوڑھ لیتا لیکن وہ مسکرایا ضرور تھا کیونکہ وریشہ اسکی دھڑکنوں کے بے ہنگم شور سے گھبرا رہی تھی۔

"مجھے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن یہ تڑپ سچی ہوگی۔۔ وریشہ!"

گھمبیر آواز اسکی سماعت میں اتری مگر اختتام تک اس شخص کی پکار پر وریشہ کی جامد ہوئی دھڑکن تک رواں ہوئی۔

وہ اسکے روبرو کرنے پر فطری جھجھک کے سنگ گھبرائی تو شہیر نے مسکراہٹ کو فوری فور پر لبوں میں دبایا۔

"پلیز سب کر لینا بیوی مگر مجھ سے شرمانا مت، یہ مجھ سے نہیں دیکھا جائے گا"

وہ اخیر کوشش میں تھا کہ نہ ہنسے مگر اسکے چہرے کے خدوخال تک اتری مسکراہٹ نے وریشہ کو بھی متذبذب کیا تبھی وہ واپس خود اعتمادی میں لوٹی۔

"نہیں شرما رہی بس یہ فطری ہے تم سمجھ جاو، آج مما اور بابا بہت یاد آرہے تھے۔ اشنال نہ آتی تو میں ابھی تک رو ہی رہی ہوتی اور تمہارے یہاں دانت نکلنے کے بجائے میرا برا رونا دیکھ کر آنسو نکل رہے ہوتے۔۔۔"

وہ یکدم ہی افسردہ ہوئی جبکہ شہیر کیسے اسکی اداسی سہہ لیتا۔

"کیا اتنا برا روتی ہو جو اسے دیکھ کر میرا بھی رونا نکل آتا؟"

نہایت سنجیدگی سے نالج میں اضافے کی کوشش کی گئی تھی اور دونوں کی بے اختیار نکلتی شرارتی مسکراہٹ لمحے پاگل کر چکی تھی۔

"شہیر! پٹ جاو گے۔۔۔ تنگ مت کرو ناں، تم نہیں جانتے لڑکیاں اس لمحے بہت سینٹی ہو رہی ہوتی ہیں۔اب تم جاو، ورنہ یہیں رونے لگ جاوں گی پھر نہ تمہارا دل جانے پر آمادہ ہوگا نہ تمہیں وریشہ جانے دے گی"

اسکے شوخ انداز میں چھیڑنے پر وہ بوکھلائی اور پھر جیسے اسکی نظریں جھکیں، شہیر کی دھڑکنوں کا سارا دھیان ان جھکی پلکوں نے کھینچ لیا۔

"کل تم میری ہو ہی جاو گی سو مجھے ایک دن پہلے تمہارے لیے اویلیبل ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں بیوی، کہہ کر تو دیکھو"

اسکے الفاظ میں ہمکتی ہوئی شدت اور محبت تھی اور وریشہ کے چہرے کی ساری اداسی تو اس شخص کے ان جملوں نے ہی خود میں جذب کر لی تھی۔

"ضرور کہتی اگر تمہیں تڑپانے کا پلین نہ بنایا ہوتا"

محبت الگ مگر اس وقت اسکا لہجہ شرارت آمیز تھا۔

"چلو تڑپا لو پھر، جاوں؟"

وہ اسکی خواہش پر فدا ہوتا دانستہ دور ہوا، اجازت طلب کی تو وریشہ نے اسے بے قراری سے دیکھا جو فاصلہ بنائے، وارفتگی سے اسی دل موہ لیتی حسینہ کو دیکھنے میں محو تھا۔

"تب تک تڑپاوں گی جب تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتے، یہ مت بھولنا کہ تمہاری بیوی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہوں"

محترمہ نے اتراہٹ کے سنگ ظالم سی یاددہانی کروائے شہیر مجتبی کے چہرے کے پھیکے رنگ مخظوظ ہوئے دیکھے جو اس سے پہلے اسے دبوچنے واپس اس تک پہنچتا، وہ ہنستی ہوئی نہ صرف دور ہٹی بلکہ بھاگ کر دروازے سے باہر نکلتی واپس اندر جھانکی۔

"اٹس ناٹ فئیر وریشہ"

وہ شکائیت کرتے خاصا معصوم لگا تھا اور وہ کھل کر کھلھلائی تھی۔

"محبت اور جنگ میں سب جائز ہے میری جان، اب جاو اور فرصت سے تڑپو"

وہ دلربا بنی واقعی تڑپانے پر اتری تھی مگر اگلے ہی لمحے شہیر کی آنکھوں میں ظالم سے رنگ اترے۔

"دیکھ لیتے ہیں بھئی کس میں کتنا دم ہے، تمہارا کیا ہوگا ایکسٹرا سمارٹ ڈاکٹر وریشہ، یہ کل تم خود دیکھ لینا۔۔۔بائے۔۔۔ "

موصوفہ کے گرد اپنے معنی خیز لفظوں سے خطرے کی گھنٹیاں بجائے جناب وہاں سے چلے گئے اور اسکے اوجھل ہوتے ہی وہ بھی خوشی سے ہمکتی مسکراہٹ کے لمس ہونٹوں میں ہی دبائے کمرے کی طرف بھاگی۔

جب تک شہیر صاحب واپس گھر آئے تو وہاں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا اور جب شہیر نے کاشف کی گردن دبوچے اس فضول خرچی کی باز پرس کی تو پتا چلا کہ اس سب کا انتظام اماں کوثر نے کیا تھا اور تب باری تھی شہیر کو زور کے جھٹکے کے دھیرے سے لگنے کی ، یہ سب پیسے اسکی پیاری ماں نے سنبھال جوڑ کر رکھے تھے اور کاشف بھلے لاکھ انکار کرتا رہا کہ وہ یہ سب خود کرنا چاہتا ہے مگر اماں کوثر نے اسے یہ کہہ کر قائل کیا کہ اب وہ بھی جلد بیوی والا ہونے والا ہے سو یہ پیسے اسکے کام آئیں گے اور ابھی وہ خود اپنے بچے کی خوشیاں اپنے بل بوتے پر بڑھانے کی خواہش مند تھیں تاکہ انکے شہیر کا سر ہمیشہ یونہی اونچا رہے۔

جبکہ وریشہ کے لیے پورے چودہ تولے کے مختلف سونے کے زیورات تھے جو وہ لاکر سے نکلوا کے لائی تھیں، سب بہت ہلکے اور نفیس تھے جبکہ شہیر تو ان دھچکوں پر ساری رات سر ہی پکڑ کر بیٹھنے والا تھا اور ستم یہ کہ کاشف نے اسے اسکے کمرے سے ہی کل تک بے دخل کر دیا کیونکہ جو سجاوٹ ہوئی تھی وہ چاہتا تھا شہیر بھی کل وریشہ کے ساتھ ہی دیکھے۔

لیکن اس سب کے باوجود جس طرح اس شخص نے اپنی ماں کو گلے لگا کر شکریہ کہا تھا وہ لمحہ امر ہوا تھا، محبت بن کر ان سب کی آنکھوں میں قید ہو گیا تھا۔

وہیں جب تک ولی اور ونیزے واپس آئے، مہندی والے بھی آچکے تھے اور چونکہ صبح مین فنکشن تھا سو تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد سب آرام کرنے کی نیت سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے مگر ونیزے ایک پرسکون نیند سے پہلے ولی زمان خان کو بھی سکون دینا چاہتی تھی کیونکہ اسکے دل نے سب بنا ولی کے بتائے ہی دریافت کر لیا تھا۔

"پلیز ولی، بتائیں ناں۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں ناں میری آپ سے جڑی محبت اب کچھ بھی ہو جائے حسرت کا روپ نہیں بدلے گی۔ میں جاننا چاہتی ہوں آپکے دامن کا ہر خسارہ، تاکہ اس گہرائی تک جا کر آپکی راحت بن سکوں۔ آئی پرامسس میں بلکل ہرٹ نہیں ہوں گی"

وہ جو سرد تاثر کے سنگ خاموشی اختیار کیے کب سے اسے حصار کر لھڑا دیکھ رہا تھا، ونیزے کی تمہید پر اسے پھر سے ایسا لگا جیسے وہ اسے قریب جا کر پوری طرح خفظ کر چکی ہے، اور ایسی لڑکی کے روبرو وہ مزید اپنا آپ چھپانے پر قادر نہیں رہا تھا۔

"مت ضد کرو ابھی، یہ ایک لمبی کہانی ہے ونیزے۔۔۔ تمہیں اپنی تکلیفیں بتا کر تمہارا دل بوجھل نہیں کرنا چاہتا"

وہ ناچاہتے ہوئے بھی افسردہ ہوا تھا اور اب تو ونیزے کسی صورت اس شخص کی اداسی کی وجہ جانے بنا قائل ہونے پر آمادہ نہ تھی، وہ اپنی یخ ہتھیلوں میں اسکا چہرہ بھرے بے قرار ہو کر اسے خود میں سمیٹ لینے کی کوشش میں تھی۔

"بوجھل نہیں ہوگا دل ولی، مجھ پر بھروسہ کریں بلکل ویسے جیسے میں نے اپنی ڈوبتی سانسوں کے باوجود آپ پر کیا"

وہ شدت سے چاہتی تھی آج وہ بھی اسے اپنی کمزوری سے ملوائے، جبکہ محبت کرنے والوں کے سامنے کھل جانے کا جی چاہنا فطری تھا اور ولی کا بھی اختیار وہ لڑکی چھین رہی تھی، چھین چکی تھی۔

اس شخص کے چہرے پر خزن تھا، تکلیف تھی تبھی ونیزے نے اسکی مشکل مزید آسان کی۔

"کیا آپ نے محبت کی تھی؟ دیکھیں صرف ہاں اور ناں کی سہولت تک لے آئی ہوں آپکو۔ محبت کرنے والے اپنے جیسوں کو بہت آسانی سے پہچان لیتے ہیں، مجھے بتائیں ناں ولی"

وہ جن تڑپ ساز آنکھوں سے سوال کرنے کے ساتھ اصرار باندھ رہی تھی، ولی کا فرار ماند پڑ رہا تھا پھر اس لڑکی کے مخملیں ہاتھوں کے فدائی لمس مزید کمزور ہو جانے پر اکسا رہے تھے کہ جسم کے ساتھ ساتھ دلوں کو بھی لمس درکار ہوا کرتے ہیں، محبت کے، حوصلے کے، شدتوں کے۔

وہ یوں سحر پھونک کر اسے بے بس کر رہی تھی جیسے اس لڑکی کو اس سوال کا جواب پتا ہو اور وہ بس ولی کی زبان سے تصدیق چاہنے کو مچل رہی تھی۔

"ہاں کی تھی محبت لیکن اسے خود سے بہتر انسان کے پاس سونپ کر اور خوش دیکھ کر اسکی طلب سے خود کو بہت سہولت سے آزاد کر دیا اور میں نے تمہاری خود سے جڑی محبت افضل جانی اور چنی، یہی مجھے چننا تھا کیونکہ جو جس کے لیے بنا ہے اسے وہی مسیر ہوتا ہے اور اللہ نے میرے دل کو اس محبت سے الگ ہونے پر کسی درد میں مبتلا نہیں ہونے دیا،

ایسا کبھی مت سمجھنا کہ تم پر مہربان ہونے کی تاک میں ولی نے اپنی ادھوری محبت کے زخم کو سہلایا ہے۔ تمہاری طرف بڑھنے کے لیے مجھے کسی بہانے یا زخم کے مرہم چاہنے کی نہ پہلے ضرورت محسوس ہوئی نہ آئیندہ ہوگی کیونکہ تمہاری طرف آنا میری مجبوری نہیں، خوشی رہی ہے، اور یہ جلد محبت میں بدلے گی جس کا ولی تم سے وعدہ کرتا ہے"

شائد روح زمین پر یہ پہلا ایسا دردناک اظہار تھا جسے ولی زمان خان جیسے درویش نے سکون سے بھر کر دیا، تبھی تو وہ دکھ سے نہیں خوشی کی زیادتی سے اپنی آنکھیں سرخ کر بیٹھی، یہ وعدہ تو اسکی متاع جان تھا۔

"مجھے گ۔۔گناہ گار تو مت کریں ولی، اگر میں ایسا سوچوں بھی تو دوسری س۔سانس نہ آئے مجھے۔ مجبوری ہوتی تو مجھے دیکھائی دیتی، آپ نے م۔میرے قریب آکر اپنے زخم بھرے ہوتے تو بھی مجھے اس خودعرضی کی آگ ضرور جلا چکی ہوتی۔ لیکن مجھے وہ مکمل ولی ملا ہے جسے میں نے ساری کی ساری محبت کی ہے۔ آپکی ہر طرح کی محبت میرے لیے اعزاز ہے، پھر چاہے وہ آپ نے اس لڑکی سے کی ہو یا اس بیوی سے۔ مجھے تو آپ کو پانے تک کی امید نہ تھی، کیا آپ ایسا سمجھتے ہیں کہ ونیزے کبھی اس معاملے میں خود کو یا آپکو اذیت دے گی ؟"

وہ رندی آواز والی روتی ہوئی لڑکی اسے آخری سوال سے تکلیف دے چکی تھی۔

"میں ایسا نہیں سمجھتا تمہیں، خود سے زیادہ مضبوط مانتا ہوں تبھی بتا دیا اپنی اس محبت کا جو میں نے اپنی سکت سے بہت بے حد ہو کر کی تھی۔ خدا گواہ ہے اپنے زخم تو ولی نے کبھی بھرنے کی خواہش کی ہی نہیں کہ مجھے اپنے زخم بھی بے حد عزیز رہے ہیں لیکن یہ سچ ہے تم جب سے میری زندگی میں آئی ہو، مجھے اس کے بعد کسی خسارے نے جلن نہیں پہنچائی، کوئی پچھتاوے یا اذیت کی آگ میرے وجود کو جلا نہیں سکی، میں پہلی بار مسکرایا بھی تمہارے ساتھ ہوں، اس سے پہلے دنیا نے تو کیا اس لڑکی نے بھی ولی کی وہ مسکراہٹ نہیں دیکھی جو تم نے دیکھی، جسکا تم سبب بنی"

وہ بہت خوفزدہ تھا، اس لڑکی کے لیے، جسے اب کھونے کا خیال ہی ولی کو خالی کر رہا تھا جبکہ وہ اسے محبت سے اس اجلت میں سمیٹ چکا تھا کہ وہ ولی کی دوسری محبت ہونے پر افسوس بھی نہ کرسکی۔ کیوں کرتی افسوس، ایسی محبت جو ولی نے اسے دی تھی اس سے تو اس شخص کا پیارا محبوب بھی محروم کر دیا گیا تھا۔

"میں آپ سے کبھی نہیں کہوں گی ولی کے آپ مجھے آئی لوو یو کہیں کیونکہ یہ مشکل ٹاسک ہوگا لیکن ایک پرامسس کریں، آپ اُس دنیا میں بھی ونیزے کے ہوں گے۔ کیونکہ آپکی بیوی میں ہوں"

وہ جو اس لڑکی کی مزید تکلیف امید کر رہا تھا، اس فرمائش پر ناچاہتے ہوئے بھی اسے شدت سے پکڑے خود میں بسا گیا، اسکی آنکھوں کے گوشوں پر چمکتی سرخی بتا رہی تھی وہ واقعی ڈرا ہوا تھا، جبکہ اس محبت بھرت حصار میں تاعمر رہنے کا حق صرف ونیزے کا تھا یہی اس لڑکی کی خووشیوں کا کل جہاں تھا۔

"ایسا مت کہو ونیزے، پلیز۔

پہلے اس دنیا میں تو مکمل میری ہو جاو ، اُس دنیا کی فکر پہلے پڑ گئی اس پاگل لڑکی کو"

اپنے کمزور پڑتے لہجے کو خفت سے بھر کر مضبوط بنائے وہ بنا اسکو دیکھے گرفت مضبوط کرتا احساس سکون کو خود میں اتار کر خود کو سنبھے بڑبڑایا مگر وہ اسے خود سے جان لیوا انداز میں الگ کرتی وہی من مانی بھرا انداز لے کر دیکھتی ہنوز اپنے جواب کی منتظر تھی جو اسکی آنکھوں کی تڑپ سے دہل اٹھا تھا۔

"مجھے اس دنیا کی گارنٹی نہیں چاہیے کیونکہ ۔۔۔۔۔ پ۔۔پلیز ولی وعدہ ک۔کر لیں"

اول جملہ کہتی وہ مرنے کی بات تو ولی کے گھورنے پر آنسو آنکھوں میں دقت سے گھسیٹ مر روک گئی مگر اسکے آخری کربناک جملے نے ولی کو ضرور دل و جان تک بوجھل کیا تھا۔

ئی پرامسس ونیزے، آئی ول ٹرائے مائی بیسٹ، اگر میری جانب سے تم سے محبت میں خیانت کر گزرنے کے اس گناہ کو پرکھا نہ گیا تو شاید مجھے تمہارا ساتھ وہاں بھی کسی نعمت کی طرح مل جائے"

اس شخص کے دل دھڑکاتے جواب پر وہ بے اختیار روئی تھی، اور ولی نے اسے کچھ دیر اپنے وجود کی روح سہلاتی گرفت میں بسائے رونے دیا لیکن پھر وہ تمام آنسو محبت بھرے انداز سے سمیٹے، اسکی گالوں پر محبت بھرے انداز میں اپنے ہونٹوں کو مس کیا، اور وہ روتی روتی مسکرا کر ولی کا دل پرسکون کر گئی۔

"کسی سے محبت کرنا بلکل دعا کی طرح ہوتا ہے ولی اور اس کی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی سو میں کبھی آپکی اس لڑکی سے محبت کو خیانت نہیں سمجھوں گی نہ اللہ ایسی خوبصورت محبتوں کو خیانت کے طور پر پرکھتا ہے، ہم تو بے بس ہو کر اس انسان کے اختیار میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہمارا مضبوط یقین ہی ہماری ہر بے یقینی کو ختم کر دیتا ہے۔"

اسے اس لڑکی سے ایسے ہی بلا کر دلکش جواب کی امید تھی۔

"بلکل یہ دعا ہی کی طرح ہے اور میں چاہتا ہوں میری ساری محبت دعا بن کر اب تمہاری طرف اپنا رخ بدل لے، جب میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا ونیزے تو تب میں نے تمہارے نام ایسی ہی ایک دعا کی تھی۔ کیونکہ تمہاری کمی، محبت کی لاحاصلی سے کئی گنا بڑا دکھ ہوگا میرے لیے اور ایسے دکھ مجھ سے مضبوط لوگ بھی برداشت نہیں کر سکتے"

اسکی رنگ بدلتی آنکھوں میں سرخی کے سنگ عجیب سا درد ہلکورے لے رہا تھا، آواز میں نوحے کی سی اذیت تھی۔

"م۔۔میں بھی مرنا نہیں چاہتی ولی"

وہ سسک اٹھی تھی اور وہ زندگی اور موت پر اختیار رکھنے والے رب سے اب ونیزے کو مانگنے کا فیصلہ کر چکا تھا، اپنا دکھ تو لافانی تھا ہی، وہ ونیزے کو خود سے کیسے بچھڑنے دے سکتا تھا۔

"میں تمہارے ساتھ ہوں ونیزے، تم تک پہنچتی ہر اذیت کو پہلے ولی سے نمٹنا ہوگا۔ اب بس، یہ ٹاپک آج یہیں بند ہو جائے گا، ماضی یہیں بند تہہ خانے میں دفن ہو جائے گا، زندگی کا نام آگے بڑھنا ہے، اور وہ ضرور بڑھے گی"

اسکی حدت اوڑھتی جبین چومتا وہ پچھلا سب اسکے ساتھ مل کر دفن کر رہا تھا جبکہ وہ بھیگی آنکھوں سمیٹ حوصلہ مندی سے مسکرائی تھی بھلے ایسے وقت مسکرانے میں لہو لگتا تھا۔

اور پھر سے جیسے ولی زمان خان کی بازووں کے سب سے آسودہ حصار میں سمٹ سی گئی، کہ ان دونوں کے دل ایک دوسرے کی طرف خوبصورتی کے سنگ پھیر دیے گئے تھے۔

تاحیات کے لیے۔۔۔۔!

"ولی!"

کچھ دیر اسکی پناہوں میں مبتلا رہنے کے بعد وہ سنبھل کر روبرو ہوئی اور ولی کو پکاری۔

"کہو پارٹنر!"

نرم محبت بھرے جواب پر ونیزے کی حیا کے بار سے پلکیں جھک گئیں۔

"م۔۔مجھے آپ پر ب۔۔بہت پیار آرہا ہے، مم۔۔میں کیا کروں؟"

چہرے کے رنگ اڑے ہوئے اور اسکی یہ بات سن کر بے اختیار ولی زمان خان کے چہرے پر متبسم رنگ بکھرے۔

"جو تم چاہو شکارن"

محترم تو پہلے ہی کول بیوی کے طلب گار تھے، سو ایسے میں نیکی کے لیے پوچھ پوچھ کی جاتی تو کہاں ان سے سہا جا سکتا تھا پھر والدہ خضور نے کمرے کی سجاوٹ کروا کے ویسے ہی دل گدگدا دیے تھے۔

"اور اگر یہ کہوں کے میری چاہت آپ خود بوجھیں آج پھر تو؟"

وہ بھرپور زندگی بھر کی ہمت مجتمع کیے یہ سوال کر پائی تھی۔

"کیا تم یہ چاہتی ہو کہ ولی زمان خان ایک بار پھر تمہارے لیے وقت روک دے؟"

سوال کے بدلے اس شخص نے اس جھکی پلکوں والی لڑکی کا چہرہ ہاتھ بڑھا کر ٹھوڑی سے پکڑے اپنی طرف اٹھائے سرسراتے ہوئے سوال کیا تو لمحوں میں وہ سرخ رو ہوتی آنکھوں میں جذبات کا سمندر لے آئی۔

وہ بچوں کی طرح سر کو روہانسی ہو کر جنبیش دیتی ولی کے دل کو بھی ہلا رہی تھی۔

"تمہیں اچھا لگے گا اور تم مزید میری میری ہو جاو گی تو ٹھیک ہے"

وہ اسکی سمٹتی ذات کے دل جکڑتے رموز پرکھ کر خود سپردگی کا برملا اعتراف کرتی لڑکی کو اپنے مہربان اقرار سے آزما رہا تھا۔

اور وہ اس محبتوں کی امین شخص کو کہنا چاہتی تھی کہ اسکے دل کی پاکیزگی ہی اس دنیا پر شرم و حیا کو نمو بخش رہی ہے لیکن وہ اسکے سامنے روح کی ہر تہہ تک کھلنے پر پوری خوشی سے آمادہ ہے۔

وہ کہنا چاہتی تھی کہ اسکے وجود اطہر کی لاج سے ہی ارض و سماوات میں عقیدتوں کا دور دورہ ہے، اور وہ آج اسکے دل کی ہر گہرائی ماپننے کی خواہش مند ہے۔

وہ کہہ بیٹھی تھی کہ اسکی روح اس دنیا کی معلوم نہیں پڑتی ، کہ سارے زمانے کا احساس اس میں پرورش پاتا نظر آتا ہے اور یہ ولی زمان خان کو دیا جاتا اس لڑکی کا اب تک کا سب سے حسین جواب ثابت ہوا تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

چونکہ مہندی کے فنکشنز اور سب ڈھول ڈھمکے میں سب بہت تھک چکے تھے سو کل کے ایک اور جوشیلے دن کےیے فریش اٹھنے کے واسطے بھرپور آرام درکار تھا۔

اشنال تو آج رات اپنے میثم کو ہرگز اویلبل نہیں تھی کیونکہ اس نے کل کے لیے اماں فضیلہ کے ساتھ مل کر تخائف کی پیکنگ کرنی تھی کیونکہ صبح صبح اس نے وریشہ کے پاس چلے جانا تھا، خود عالم بزاد، علیم بدر صاحب ، ضرار، ہاشم اور جبل زاد نے اپنی مردانہ محفل سجا رکھی تھی جبکہ زونی کو مکمل ریسٹ دیا گیا تھا جبکہ گل اور مالنی بھی خواتین کے ساتھ ہی مصروف تھیں۔

"اللہ کا شکر ہے سب اچھا ہوگیا، اب کل کا دن بھی خیر و عافیت سے گزر جائے، بہت سارے دکھ دیکھنے کے بعد ہم نے یہ خوشیاں پائی ہیں، اللہ سے دعا ہے کہ وہ یہ سکون قائم و دائم رکھیں"

بہت کچھ بکھرا ہوا تھا، فضیلہ اماں اور صبحیہ صاحبہ کل لے کر جانے والے جوڑے الگ الگ پیک کر رہی تھیں جبکہ اشنال نے مایوں کی دلہنوں کو بھی ساتھ کام لگا رکھا تھا۔

"آمین فضیلہ بچے، ان شاء اللہ یہ خوشیاں یونہی برقرار رہیں۔ مجھے تو اپنی گل کی قسمت پر رشک آرہا ہے، اسکے ماں باپ کی موت کے بعد ہم نے اسے نانا نانی نہیں بلکہ ماں باپ بن کر پالا ہے، اور اسکی بیاہ پر یوں لگ رہا ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنی بیٹی کو رخصت کرنے والے ہیں"

نانی جان کے اداسی سے بولنے پر وہ بھی کچھ اداس ہوئی مگر فضیلہ اماں نے محبت سے صبحیہ خانم کا ہاتھ تھامے تسلی آمیز انداز سے دبایا۔

"پریشان یا اداس نہ ہوں صبیحہ آپا، یہ اب سے میری بیٹی ہے اور اسے ماں کی کمی نہیں ہونے دوں گی۔ آپ لوگ بھی اب آتے جاتے رہیے گا اپنی گل کے پاس کیونکہ آپ بھی اب ہمارے خاندان کا خوبصورت سا حصہ ہیں بلکہ مجھے تو آپکی صورت بڑی آپا مل گئیں، ہمیشہ سے بڑی بن کر رہی ہوں اب خود سے بڑا شفقت بھرا سایہ آپکی صورت ملا تو دل خوش ہو گیا، رہی بات گلالئی کی تو مجھے یہ اتنی پیاری ہو گئی ہے کہ پوچھیں مت، اور دیکھیے گا یہ میرے جبل زاد کو بھی اب پیاری ہو جانے والی ہے"

صبیحہ صاحبہ کی ہر فکر بہت خوبصورتی سے فضیلہ اماں نے رشک میں بدلی جبکہ گل کے چہرے شرمیلی مسکراہٹ دیکھ کر اشنال اور مالنی دونوں نے بروقت گل کو چھیڑا۔

"آپ اس پوری بزدار حویلی کا کس طرح سائبان بنی ہو فضیلہ، گل نے ذکر کیا تھا۔ اللہ آپکو اسکا اجر دے، بس یہ بیٹیوں کو رخصت کرنے کی فطری اداسی ہوتی ہے"

جوابا وہ بھی محبت سے مسکرائیں جبکہ اسی لمحے کمرے میں جھانکتے ہاشم صاحب کو دیکھ کر سب تو مسکرائے ہی، خاص دھڑکنیں تو بے اختیار آنکھیں ہاشم سے ملاتی مالنی کی متذبذب ہوئیں کیونکہ جب سے وہ مایوں کی دلہن بنی تھی، جناب ہر ممکنہ اس تک پہنچنے کی کوشش میں تھے مگر کوئی مالنی تک اسے پہنچنے نہ دے رہا تھا۔

"آہاں اتنی ساری خواتین مل بیٹھ گئیں ہیں اللہ رحم ہی کرے، بھئی نیند تو نہیں آرہی سو کوئی اللہ کی بندی ہم غریبوں کو چائے ہی بنا دے ۔۔۔مالنی تم بنا دو گی؟"

اول لمحے شرارت سے کہتا وہ چائے کی فرمائش میں مالنی کی طرف دیکھے بولا جس پر ساری خواتین نے ہاشم کو یوں دیکھا جیسے اس نے کچھ غلط جگہ فرمائش کی ہو تبھی ہاشم کی مسکین مسکراہٹ پر سب ہی ہنس دیں۔

"رحم ہی رحم ہے میرے بچے، بلکل مالنی چائے بنا دے گی۔۔۔جاو تم، جب بن گئی لے جانا"

جناب کو ہری جھنڈی سب سے پہلے پیاری دلاری اماں کی طرف سے دیکھائی دی اور سب کو مسکراتا دیکھ کر بظاہر تو وہ شریف النفس بنا کمرے سے نکل گیا تھا مگر مالنی کے کمرے سے نکلنے کی دیر تھی کہ جناب پہلے ہی اپنی دنیا جہاں کی پیاری مایوں کی دلہن کو جکڑنے کی تاک میں بیٹھے تھے۔

اچانک افتاد پر وہ ہاشم کے بازو کھینچ لینے پر اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی، جبکہ کلائیوں میں پہنی ہری پیلی چوڑیوں کے ارتعاش نے ماحول کو فسوں سے بھر سا دیا۔

"کیا کر رہے ہیں ماسکو! چائے بنانے کو جتنا وقت لگتا ہے اس سے اماں جان بخوبی واقف ہیں۔ اگر ایک منٹ بھی آگے پیچھے ہوا ناں تو۔۔۔۔"

وہ اسکا ہاتھ پکڑے مسکراتا ہوا سیدھا کچن میں ہی لایا اور جب تک اسے پکڑ کر دروازے سے لگایا ، حسینہ کی زبان فراٹے ڈار انداز میں چلی مگر اسے قید کرتے ہی مالنی کی زبان بھی اسکے دل کی طرح تھمی، جب ان پرشوق آنکھوں کا طواف اپنے حسین فریفتہ کر دیتے حسن کا طواف کرتے دیکھا تو اسے اس کی بے قراریوں کے روبرو اپنا بولنا لگا بھی غیر ضروری تھا۔

"گزرنے دو وقت، کسے پرواہ ہے۔ یہ اہم ہے کہ تمہارے قریب آکر کچھ لمحے روک دوں۔ بہت پیاری لگ رہی ہو مالنی، ابھی سے اتنی جان لیوا۔۔۔ یہ بھی بتا دو کیسے سنبھالوں اپنے دل کو"

اس شخص کے بے تاب اظہار سے لمحوں میں اس لڑکی کا چہرہ حجاب آلود ہوا، دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دینے لگی، دل میں آگ سے جل اٹھی تھی۔

"جیسے میں نے سنبھالا ہے،ویسے یہ آپ پرائی شادی میں دیوانے عبداللہ کی طرح اتنا تیار کس خوشی میں ہو کر گئے تھے ماسکو۔۔۔ مجھے تو بعد میں پتا چلا ورنہ سر پھوڑ دیتی، دور ہٹیں۔۔ مجھے یاد آگیا میں تو آپ سے ناراض ہوں۔ کسی نے آپکی طرف اب نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو مالنی اسکی آنکھیں نوچ لے گی۔ آپ صرف میرے ہیں اب اور مالنی چاہتی ہے آپکو دیکھنے کا حق صرف اسکا ہو"

اول جملہ کہتے ہی وہ اس شخص کے رعب اور دلکشی سے خائف کچھ بے وقت کر گزرنے کے ڈر سے خوفزدہ ہوتی خفگی سے بڑبڑا کر اسے دور کرتی کچن کیبن کی طرف بڑھی، اور چائے کے لیے چولہے پر پانی چڑھایا جبکہ ساتھ ہی ہاشم نے اس بھرپور بیگانگی بھرے سراپے کو دیکھتے کی پشت سے اپنے سینے سے لگائے حصارا، اسکی دمکتی سفید گردن کو اپنے شدت بھرے لمس سے گلنار کیا جو بدحواسی و حیا کی ملی جلی کیفیت سے مسکراتی ہوئی بہت دلربا لگی۔

"مت کریں ناں ماسکو، چائے بنانے دیں۔ اب آپ میرا بے وقت امتحان لے رہے ہیں، میں نے لیا تو آپکو بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا"

اس کے ہاتھوں کے بے اختیار تھڑکتے انداز گستاخیوں پر تلے تھے اور وہ بے وقت حدوں سے بڑھ رہا تھا تبھی اس احساس کے تحت اسکا چہرہ سرخ ہوگیا مگر آفت کی پرکالہ کی ذومعنی دھمکی پر ہاشم بزدار نے پوری شرافت کے سنگ اپنی بے خودیوں کو لگام بخشتے ہوئے بس حصارنے پر توجہ دی اور مالنئ نے بھی مسکرا کرچائے بنائی اور اس بیچ وہ اسکی قید میں ہی مبتلا رہی۔

چائے پانچ مگز میں ڈالتی وہ انھیں ٹرے میں رکھتی، ہاشم کے حصار کو توڑتی پلٹی جو اس سے ٹرے لے کر واپس ریک پر رکھے واپس بازووں میں بھر کر کھڑا ہوا۔

"چائے ٹھنڈی ہو گئی تو سب سمجھ جائیں گے ہاشم صاحب گھوم پھر کر آئے ہیں، آپکو پتا ہوگا ماسکو کے اتنی ٹھنڈ میں چائے بھی بہت جلد ٹھنڈی ہو جاتی ہے"

اس بار بھی اس لڑکی کی آنکھوں میں شرارت تھی جبکہ ہاشم بزدار کے ہونٹوں پر بھی فرار کا رستہ ناپتی اس بے باک حسینہ مسکراہٹ بکھیر چکی تھی۔

"ڈرتا نہیں ہوں تم سے، یاد رکھنا"

جناب اپنی کچھ قبل پہلے دیکھائی شرافت سے نہیں چاہتے تھے مالنی کسی خوش فہمی کا شکار ہو جبکہ وہ ہاشم کے یقین دلانے پر بے اختیار ہنسی۔

"جی جی دیکھا میں نے ابھی، ابھی تو آپکی جان نکالنی ہے میں نے پھر کہیے گا یہی بات تو مانو گی۔ ہو ہوہو ہاہا کیا ہوگا آپکا ماسکو، خود پر حفاظت کی ساری دعائیں پھونک لیجئے کیونکہ۔۔۔۔ اہمم اہمم ۔۔۔ "

وہ تو ہاشم کو کچھ زیادہ ہی ہلکا لے رہی تھی جبکہ اسکی شرارتی ہنسی لمحوں میں اپنی وارفتگی سے مدھم مسکان میں بدلتا وہ اسکی اور جھکا جو خود اس بے لگام انداز پر لمحہ بھر سانس لینا بھولی۔

"کسی خوشی فہمی میں مت رہنا بیوقوف مالنی! اب مقابلہ برابری کا ہوگا۔۔۔۔ تم یہ سوچو کہ تمہارا کیا ہوگا۔ تھینک یو چائے کے لیے، ویسے ان فیوچر تم سے ایسے ہی آدھی رات چائے بنوایا کروں گا، اور آدھی رات کی انہی فرمائشوں کی نوعیت تمہاری نازک جان کے لیے اکثر مشکل بھی بنے گی۔۔سو دعاوں اور وظیفوں کی ضرورت تمہیں ہے میری شیرنی۔۔۔۔ہاہا۔۔۔سی یو"

خطرناک معنی خیز انداز میں وہ اسکی دہکی گال پر محبت بھری مہر لگائے من ہی من میں مسکراتا ٹرے اٹھائے کچن سے نکلتے ہوئے بھی آنکھ دبا کر گیا جبکہ گلال چہرے پر بکھیرے وہ بھی ہنستی ہوئے فورا سے کمرے کی طرف بھاگی، انکی اس ملاقات کی خبر اس سے پہلے اماں جان تک پہنچتی، واپس جانا ہی عافیت تھا۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

نئی مہکتی صبح زمین زادوں پر اتر چکی تھی،بزدار حویلی کے مرد خضرات کی بیٹھک کوئی فجر کے بعد ختم ہوئی تھی اور سب لوگ اپنے اپنے حجروں میں گئے تھے اور تبھی عالم بزدار اور علیم بدر صاحب کے علاوہ تینوں شیر جوان صبح چڑھنے کے باوجود گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے، ایک بجے بارات آنے کی اطلاع تھی سو بزدار حویلی کے ملازمین تو ایکٹیو ہو ہی گئے تھے جبکہ تمام خواتین بھی ناشتہ بنا کر ابتدائی کام پورے کر چکی تھیں، اشنال ابتدائی کام سمیٹے ریڈی ہوئی کیونکہ بابا جان اسے لینے پہنچ آئے تھے، جاتے جاتے میثم کی گال پر پیار دیتی وہ مسکرائی تھی کیونکہ جناب بہت گہری نیند میں تھے ورنہ اشنال کا آدھا گھنٹہ مزید لگتا۔

ہر طرف گہما گہمی تھی اور یہی حال باقی سب کے گھروں میں بھی تھا، نو بجے تک نازلی اور سعدیہ صاحبہ بھی ڈھیر سارے تحائف ، محبت اور دعاوں کے ساتھ شہیر کے گھر پہنچ آئے تھے اور جب نازلی نے آج کے لیے شہیر کا جوڑا اسے دیکھایا تو وہ شہیر کو کافی پسند آیا۔

وہ بلیک پینٹ شرٹ بلیذر گروم سوٹ تھا، اس طرز کا ٹیکسیڈو ویڈنگ سوٹ شہیر کو اس لیے بھی پسند آیا تھا کہ تھڑکتی بھڑکتی شیروانیاں اسے زہر لگتی تھیں اور نازلی نے اسکے من پسند رنگ اور خاص دن کے حساب سے ڈیسنٹ چیز چنی تھی۔

جبکہ سردار صاحب کا ڈریس بھی اتفاقا ایسا ہی ٹیکسیڈو ویڈنگ سوٹ تھا مگر وہ بلیک اینڈ وائیٹ تھا اور دونوں دلہے یقینا ایک ساتھ اخیر سجنے والے تھے۔

دن اور رات کی طرح کیونکہ دونوں کے مین فکنشنز خانم حویلی میں ایک ساتھ رکھے گئے تھے۔

جبکہ زونین کا ڈریس سردار مشارب زمان کی طرف سے خریدا گیا وائیٹ نیٹ اور امبائڑری سکوپ نیک فل سلیوز اے لائن ویڈنگ گاون تھا جو بہت ہی خوبصورت تھا جس میں زونین یقینا ایک شہزادی لگنے والی تھی جبکہ وریشہ کی ڈیپ ریڈ میکسی تھی جو شہیر کے بلیک کے ساتھ آفت مچانے والی تھی۔

ہر طرف ایک سی گہما گہمی عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔

"آج تو میرا یار بجلیاں گرانے والا ہے، قسم سے نظر لگ جائے گی تجھے۔ رک کالا ٹیکا لگانے دے"

اول منظر شہیر کے گھر کا تھا جہاں کوثر صاحبہ بارات کی تیاریوں میں میرون چمکتا جوڑا پہنے پھرتی کے سنگ یہاں وہاں باہر دوڑتی دیکھائی دے رہی تھیں جبکہ خود بھی کاشف آج سیاہ قمیص شلوار میں جچ رہا تھا اور سونے پر سہاگہ کے نازلی نے بھی کالا جوڑا پہن رکھا تھا۔

اس وقت روم میں شہیر اور کاشف تھے جو ابھی چینج کر کے آیا تھا، شرٹ اور پینٹ پہنے جبکہ یار نے نظر اترواتے ہوئے اسے بلیذر پہناتے ہی اپنی آنکھ میں لگائے سرمے کا نقطہ محترم کی گردن کے پیچھے لگایا اور شہیر واقعی اسکی نظر اتارنے پر بلش کرتا ہنس پڑا۔

"بس کر، اتنا بھی تیس مار خان نہیں لگ رہا۔ بس نارمل ہے۔ زیادہ تعریفیں مت کر ورنہ تجھے پتا ہے پھٹی جینز اور میلے رنگ کی شرٹ پہن کر جانے میں مجھے بلکل کوئی قباحت نہ ہوگی"

اپنی تعریف سن کر وہ خاصا بے چینی سے رخ موڑ چکا تھا جبکہ آئینے کے روبرو واقعی اپنا یہ روپ شہیر مجتبی بھی پہلی بار دیکھ کر لمحہ بھر گنگ رہ گیا اور کاشف نے مسکراتے ہوئے جناب کو پشت سے گھیرے حصارا اور اسکے کندھے پر ٹھوڑی اٹکا کر شرارتی سا مسکرایا۔

"لگا ناں جھٹکا! یقین کر تیری کئی بار میرے دل نے نظر اتاری ہے آج۔ انسپکٹر شہیر مجتبی اتنا ہی ڈیشنگ ہونا چاہیے، ویسے تیرے قانون میں پروفیشنلی آنے کا آپن کو بڑا فائدہ ہونے والا ہے"

کاشف کا انداز محبت بھرا ہو کر اختتام تک جونچال پن سے بھرا تو جناب بھی اپنے حسن کے لشکاروں سے آنکھ بچا کر پلٹے۔

"اچھا! وہ کیسے؟"

شہیر نے چہرے پر منصوعی حیرت سجائی جس پر کاشف کا بلند قہقہہ کمرے میں گونجا۔

"اب اپنا یار قانون کا رکھوالا جو ہوگا، آپن کے ہاتھ تو آٹومیٹلی لمبے ہو جائیں گے۔ سن ناں! مجھے اپنا قانونی مخبر رکھ لیئیں، بڑا فائدہ دوں گا"

جناب کی شوخی پر اس بار ہنسنے کی باری شہیر کی تھی۔

"ہاہا کمینے! تو نہ بھی کہتا تب بھی تجھے یہی فرض سونپنے والا تھا۔ خیر کمرہ دیکھا دے یار، ترس کھا لے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے تم سبکی خفیہ حرکتوں سے۔ کہیں کمرے سے سانپ وانپ نکل آیا ناں تو میری بیوی کے سامنے کیا عزت رہ جائے گی"

اول جملے ادا کرتے ہی جناب منصوعی مسکینی اوڑھے منت ترلے پر اترے جبکہ شہیر کو یوں منت کرتے دیکھ کر کاشف ضرور مخظوظ ہوا۔

"ہاہا نا جی شہیر صاحب، کمرہ تو تجھے بیوی جانیہ کے ساتھ ہی دیکھنے کو ملے گا۔ فکر نہ کر اب اتنی سنگین سجاوٹ بھی نہیں کی کہ ایسا کوئی موذی جانور چھوڑ دیا ہے۔ تم دونوں سے کیا ہم نے رات لگا کر علاقے کے سارے سانپوں کا زہر نکلوانا تھا۔۔۔ "

وہ اب بھی ہنستا ہوا شہیر کو خوفزدہ کر رہا تھا کیونکہ ایسے موقعوں پر یار بیلی اکثر شرارتیں کیا کرتے تھے اور یہ ایک ریت تھی۔

"سچ کہہ رہا ہے ناں؟ دیکھ اگر کوئی شرارت کی ہوئی ناں تو تجھے بھی نازلی نہیں دینے والا"

شہیر کی باقاعدہ گریبان پکڑ کر دی دھمکی پر زرا دیر کو کاشف کے چہرے کے رنگ اس جان لیوا دھمکی پر اڑے پر یار کی ویڈنگ نائیٹ ہو اور جگری یار کوئی پنگاہ نہ کریں ایسے تو مزہ کرکرا کرنے والی ہی بات تھی۔

اور کاشف کی شرارتی مسکراہٹ شہیر کو کھلے عام کسی گڑبڑ کی خبر دے رہی تھی۔

"ہاہا چل چل یہ باتیں چھوڑ، آجا باہر۔۔بارات سے پہلے تیرا فوٹو شوٹ ہوگا۔۔۔۔چل بے خوفزدہ دلہے میاں۔۔۔"

اسکی دھمکی کو چنداں اہمیت دیے بنا ہی کاشف اسے گھسیٹ کر باہر لایا اور اسے دیکھنے والی ہر آنکھ میں آج رشک تھا، اماں کوثر تو بچے پر آئے روپ پر فدا ہی ہو گئیں، لپٹا کر ملتے ہی الگ کیا اور اسکا ماتھا چوما جبکہ نازلی کی خوشی سے بھری آنکھیں اسکے لیے سب سے عزیز تھیں۔

جبکہ اشنال صبح ہی بابا جان کے لینے پر یوسف زئی حویلی آگئی پہنچ چکی تھی کیونکہ اسکی خواہش تھی وہ اپنی بہن کو خود دلہن بنائے، اور وریشہ کا کمرہ واقعی اس وقت کسی دلہن کی سیج کا روپ دھارے ہوئے رنگوں، روشنیوں اور خوشبووں سے سجا تھا، پورے بیڈ پر تو وریشہ کا کامداری سرخ بھاری دوپٹہ پھیلا تھا جبکہ سنگار میز کے روبرو وہ دونوں ہی سرخ ایک جیسے ہی دیکھائی دیتے جوڑوں میں دنیا کا سارا حسن خود پر لیے مسکا رہی تھیں، وریشہ کی مسکراہٹ میں گھبراہٹ موجود تھی۔

اشنال خود بھی دلہن کی طرح سجی تھی بس اس نے بھاری دوپٹہ دائیں کندھے پر مہارت سے سیٹ کر رکھا تھا اور اپنے بال بھی فرینچ ڈئزائن بنائے کھول رکھے تھے جبکہ وریشہ کا اس نے جوڑا بنایا تھا۔

اسکی وریشہ پر نظر نہ ٹھہر رہی تھی اور خود کو اتنا حسین تیار کرنے پر وریشہ نے اشنال کا وہی ہاتھ پکڑے محبت سے چوما۔

"تم پاس ہو تو یہی لگ رہا ہے وریشہ کو نورے دلہن بنا رہی ہیں، تھینک یو اشنال اس وقت میرے پاس ہونے کے لیے حالانکہ زونین کو بھی تمہاری اتنی ہی ضرورت تھی"

وہ اس خوشی کی گھڑی بھی روہانسی ہو رہی تھی اور اشنال نہیں چاہتی تھی کہ سہاگن صاحبہ رو کر اسکی محنت پر پانی پھیریں۔

"زونین کے پاس سب ہیں، اسکی سب سے پیاری مالنی ہے اور مجھے اپنی وریشہ کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ میں تو رات بھی رک جاتی تمہارے پاس مگر ڈھیڑوں کام تھے جو ہم خواتین نے ساری رات لگا کر سمیٹے، میثم کو بھی میسر نہیں آیا اپنا صنم کل سے۔ اور ویسے بھی تم بھی میری جان ہو، میں کتنی خوش ہوں بتا نہیں سکتی۔ تم دنیا کی سب سے پیاری دلہن ہو"

اس بہن کے احسان چکانے کی تو جسارت بھی ممکن نہیں تھی مگر اشنال خوش تھی کہ وہ اس کمزور وقت وریشہ کے پاس ہے۔

"میں خوبصورت دلہن ہوں کیونکہ مجھے سجانے والی لڑکی دنیا کی سب سے پیاری بہن ہے، بہت پیار کرتی ہوں تم سے اشنال"

اس بار تو اشنال کی آنکھیں بھی بھیگیں تبھی اس نے جھک کر وریشہ کی ماتھا پٹی سے سجی جبین چومتے محبت سے دیکھا، جھمکا بھی ڈول اٹھا۔

"میں بھی کرتی ہوں، جان ہو تم میری۔۔۔ پلیز رونا نہیں۔ یہ بتاو کیسی فیلنگز ہیں؟ ڈر لگ رہا ہے؟"

اس وقت سچویشن کے حساب سے اشنال اسے مزید افسردہ ہونے نہ دے سکی اور اسکے سامنے ڈریسنگ پر زرا سا بیٹھنے کے انداز میں ٹک کر شرارت پر اتری جبکہ اس سجی دلہن کا ایک بار تو دل کانپا۔

"اپنے لیے نہیں اسکے لیے ڈر لگ رہا ہے، اسکی بازو زخمی ہے اور میں۔۔۔"

حواس باختہ سی وریشہ جیسے کچھ کہتے کہتے حیا ساز رنگ چہرے پر پھیلنے پر تھمی اور اشنال کی ہنسی اسے اور متذبذب کر گئی۔

"میری بہن یہ شوہر نامی مخلوق کو من پسند بیوی پر پیار لٹانے کے لیے کوئی زخم نہیں روک سکتا سو میری نصیحت یہ ہے کہ تم بھی خود کے لیے ڈر لو تھوڑا"

یہ لڑکی تو نئی نویلی دلہن کی یہ کہہ کر جان نکالنے کے در پر تھی اور وریشہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دل کی دھڑکنیں سینے پر ہی جم گئی ہوں۔

"اشنال! تم مجھے بہت ڈرا رہی ہو"

وہ بے اختیار اشنال کے ہاتھ جکڑ کر منمنائی اور وریشہ کی گھبراہٹ دیکھ کر اشنال نے ہنستے ہنستے ہی اس چڑیا جیسے دل والی ڈاکٹر صاحبہ کو خود میں شدت سے سمو لیا۔

"ہاہا نہیں ڈرا رہی مگر یہ رات بہت سپیشل ہوتی ہے، اور اگر آپکا ساتھی آپ کا پیارا بھی ہو اور مدت بعد ملا ہو پھر تو جسم کے کسی زخم میں یہ جرت نہیں کہ بیچ میں دوری لا سکے۔ گھبراو مت، محبت کرتا ہے وہ الو تم سے، تو تمہارے اس فطری ڈر کو بھی بہت محبت سے خود میں سمیٹ لے گا"

محترمہ نے ڈرانے کے بعد دل کو سہلانے کا کام بھی بہن کی طرح کیا اور چھوٹی بہن بڑی بہن کو نصیحتیں کر رہی تھی یہ واقعی کیوٹ تھا۔

"اشنال اسے الو تو مت کہو"

محترمہ جیسے اس القاب پر تڑپ اٹھیں۔

"ہاہا تم گئی کام سے وریشہ۔۔۔ اوہ دادا جان"

اشنال اسے مزید چھیڑتی مگر شمشیر صاحب کے اندر آنے پر شرارت بھری گفتگو کرتی حسینائیں ایک ساتھ اپنے اپنے فرش بوس لباسوں کو سنبھالتیں اٹھیں تو وریشہ کا یہ دل موہ لیتا روپ دیکھتے اسکے دادا بے اختیار قریب آتے اپنی آنکھیں آبدیدہ کر گئے اور پھر دھیرے سے پکڑ کر اپنے سینے میں سموئے وریشہ کا سر چوما۔

ساتھ میں محبت بھری شفیق نگاہ اشنال پر بھی ڈالی۔

"آپ کے دادا آپ سے دل و جان سے راضی ہیں وریشہ، آپ ہماری جان ہیں اور ہم آپکی خوشیوں کے لیے دعا گو ہیں۔ شہیر واقعی آپکے لائق بن چکا ہے اور یقین کریں اس بات کی خوشی پوتی کے فرض سے سبکدوش ہونے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس قدر آپ پر دلہن بن کر روپ آیا ہے، دعا ہے آپکی زندگی بھی اب اس قدر دلکش ہو جائے"

وہ پوتی نہیں ہمیشہ سے انکی بیٹی بن کر رہی تھی اور وہ وریشہ کی تکلیف کے سکون بن جانے پر بلکل ایک والد کی طرح نہال تھے۔

"تھینک یو سو مچ دادا سائیں، آپ کی وجہ سے ہی آپکی وریشہ کی زندگی خوبصورت ہو پائی ہے۔ تھینک یو مجھے کسی امتحان سے نہ گزارنے کے لیے، مجھے نہ آزمانے کے لیے"

وہ بھی مشکور ہو کر دلبرداشتہ ہو رہی تھی اور وہ اپنی اتنی پیاری پوتی کو ہرگز رلانے پر راضی نہ تھے۔

"خوش رہو دونوں پریاں"

تائید کرتے وہ دونوں کو محبت اور پیار سونپتے جس طرح کمرے میں آئے ویسے ہی باہر چلے گئے اور اب وہ دو لاڈلی بہنیں تھیں اور انکے لاڈ۔

وہیں سردار صاحب بھی راعنائیاں اور سحر بکھیرتے ہوئے اپنی سردارنی صاحبہ کو رخصت کروانے کے لیے بلکل تیار تھے، ونیزے اور ولی مسکراتے ہوئے اپنے کمرے سے نکلے اور پیاری بہو سب خواتین کی طرف جبکہ لالہ صاحب اپنے چھٹکے ویر کے کمرے کی طرف بڑھے جسے عزیز خان تیار ہونے کے بعد شانوں سے پکڑے محبت بھری دوستانہ مبارکباد دے رہے تھے، ولی بھی مسکراتا ہوں دونوں ہنڈسمز کو دیکھے اپنے دلکش، رعب دار حسن کے جلوے بکھیرتا اندر داخل ہوا۔

"یہ مت سمجھنا کہ زمان بھائی نہیں ہیں تو تمہارے سر پر پدرانہ سایہ نہیں، یہ چاچو بھی تم دونوں کے بابا کی جگہ ہے۔ بہت مشکلات دیکھی ہیں تم نے، بلکہ ہم سب نے مگر یہ نئی خوشیاں اس خوفناک حویلی پر چھائے ہر جمود کو پاش پاش کر چکی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے وہ تمہاری سرداری کو دوام اور تعظیم عطا کریں اور زونین کے ساتھ ایک خوشگوار ازواجی زندگی گزارو۔ "

عزیز خان کی صورت واقعی اب بھی ولی اور مشارب پر ایک شفیق سایہ موجود تھا اور پھر جن کے سر پر گل خزیں خانم موجود تھیں انھیں کسی کی اب پرواہ تھی بھی نہیں کیونکہ وہ عورت اپنے سب سے اچھے روپ میں تبدیل ہو چکی تھیں۔

مشارب کو اپنے کندھوں کے گرد ولی کی بھی ویسی ہی گرفت محسوس ہوئی تو وہ اسی مسکراہٹ کے رنگوں کے سنگ دھانی آنکھوں کے جان لیوا عکس بکھیرتا پلٹا۔

"چاچو! اسکا ایک باپ تو میں بھی ہوں یار، اور یہ مشارب زمان ہے۔ ڈرنے والی بلا نہیں رہی اب یہ۔ ہے ناں ؟"

وہ ولی زمان خان جتنا اب بھی مضبوط نہیں تھا مگر یہ شخص اب تو کیا تمام عمر کے لیے اسکا آئیڈیل ضرور بن چکا تھا، مشارب نے مسکرا کر سر ہلایا تھا تو ولی اور عزئز خان کے چہروں پر بھی خوشی دوڑی۔

"آپ نے مجھے برا ہونے کے باوجود کبھی دھتکارا نہیں لالہ، اور شاید میرے خوف میرا پیچھا کبھی نہ چھوڑتے اگر آپ جیسا میرے پاس بھائی نہ ہوتا۔ جبکہ عزیز خان نامی سایہ تو ہم سبکی ہمیشہ ہمت رہے گا کیونکہ آپ دونوں ہیرے ہو، اور ہیروں کی پہچان صرف جوہری کر سکتے ہیں۔۔"

وہ سنجیدہ تھا پر شرارت میں وہ دونوں جوان تھے۔

"چاچو! آپکو نہیں لگا کہ سردار صاحب نے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی ابھی کوشش کیے خود کو جوہری کہا ہے"

ولی کے شریر انداز میں پوچھے سوال پر ناصرف مشارب صاحب ہنسے بلکہ تینوں کے کمبو نے مسکرا کر منظر میں جان ڈال دی اور پھر جب دلہا صاحب کو دونوں جنٹل مین باہر لائے تو تینوں سردارنیوں نے باری باری نظر اتاری، کسی ایک کی نہیں بلکہ سبکی۔

اور پھر لمحے بے تاب تھے کہ کب ان نیلی آنکھوں والی شہزادی کا دیدار ہو، اور جب وہ سامنے آئی تو دل سے رکنے لگے۔

ناجانے کیوں مشارب نے اسکے لیے سفید رنگ چنا تھا مگر اس حسینہ کو دیکھتی ہر آنکھ ستائش میں مسکرا اٹھی تھی کیونکہ وہ لباس اس پر انتہا کا سجا تھا پھر مالنی نے میک اوور بھی کچھ ایسا غضب سموکی سا کیا کہ وہ پہچانی نہ جا رہی تھی، یہی لگ رہا تھا پریستان سے سفید پروں والی پری اتر آئی ہے۔

مالنی اور گل نے آج ایک جیسی ہی فینسی میکسی پہنی تھی اور فضیلہ اماں نے اشنال، مالنی اور گل کے لیے آج کا ڈریس ایک جیسا ہی خریدا تھا بس سبکے رنگ الگ تھے، اشنال کا ڈیپ ریڈ، مالنی کا میرون جبکہ گل کا شوخ ریڈ تھا اور تبھی ان گہرے رنگوں اور سنگار میں لپٹی حسینوں کے بیچ سفئد سلور پرنسیز فراک والی زونین فاطمہ بلکل منفرد لگ رہی تھی۔

بہت پیارا نیٹ کا بنا گھونگھٹ بھی تھا جس میں اس لڑکی کے حسن کی ہلکی پھلکی راعنائیاں پوری آب و تاب سے چھلک رہی تھیں جسے ابھی کراون کے اوپر دہرا کیے اٹھایا گیا تھا۔

اور پھر ضرار صاحب فل بلیک میں اپنے صنم کے بنا تھوڑے اداس اداس سے سر پھرے عاشق دیکھائی دے رہے تھے اور جب جب ہاشم اور جبل صاحب اپنی والیوں کو شوخ نظروں سے تاڑ رہے تھے، اس مسکین کو اپنا صنم زیادہ یاد آرہا تھا جو آج بہن کو پیارا ہوا تھا۔

آج تو بزدار عالم بھی نوجوانوں کو کٹ مار رہے تھے ویسے ہی علیم بدر بھی چمکے تھے اور پھر فضیلہ اماں تو تھیں ہی خوبصورت، صبیحہ صاحبہ کی خوشی بھی انکے چہرے پر درج تھی۔

ہاشم اور جبل زاد نے بھی براون اور ڈارک بلو ٹو پیس بلترتیب پہن کر سحر بکھیر رکھے تھے۔

سب بہت خوبصورت تھا مگر خوبصورتی کی حدیں آج سردارنی عبور کر رہی تھی۔

اسے پہلے دیکھنے والی نظر اسکے لالہ کی تھی اور یہ خود زونی کی بھی خواہش تھی۔

"نظر نہ لگے تمہیں لڑکی، یونہی مہکتی چمکتی رہو۔ ہمیشہ خوش اور آباد رہو۔ اپنے میاں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنی رہو"

وہ آج بھی زونی کی آنکھوں میں اپنی ان ایکسپیکٹیڈ محبت اور دعاوں سے محبت بھری نمی سمیٹ لایا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی کہ اسکے رونے سے مالنی کی محنت ضائع ہوگی کیونکہ میڈم مالنی نے پکا واٹر پروف انتظام کیا تھا۔

"ہٹ پرے ، دادا میں ہوں اسکا سو یہ دعائیں میں دوں گا۔ تم اپنے بچوں کے لیے سنبھال لو"

ضرار صاحب شاکڈ اور دادا سائیں جو باقاعدہ اسے پرے کیے آگے آئے راکڈ اور ضرار کا بسورا منہ سبکو ہی ہنسا چکا تھا۔

"انکو اب میرے دعائیں دینے پر بھی اعتراض ہے، اوہ مجھے مارو مجھے مارو۔۔۔۔ یار بڈی یہ کیسے آبا ہیں آپکے"

منہ کے زوایے بگھاڑتا وہ دکھ بھرے انداز میں دہائی دیتا ہاشم سے مخاطب ہوا مگر دادا جان کے رخ موڑ کر گھورنے پر ضرار نے فوری چہرے پر شریر مسکراہٹ پھیلائی اور آج بھی دونوں دادا پوتا پنجے لڑانے سے باز نہ آرہے تھے اور سب کی مسکراہٹ کی وجہ بھی بن رہے تھے۔

"بہت ہی دبنگ، ہر ایک کو بزدار عالم کہاں ملتے ہیں بھئی۔ یہ کوئی ضرار تھوڑی ہیں جو سبکو سمجھ آجائیں"

ہاشم صاحب بھی آج کچھ زیادہ ہی ابا والی سائیڈ لے رہے تھے جس پر ضرار نے خاصی شدید گھوری سے نوازا۔

"آپکو تو آپکی شادی پر ستاوں گا میرے پیارے ہاشم صاحب، دیکھنا کیسی پریڈ کرتا ہوں آپکی۔ اتنی آسانی سے مالنی چچی تو آپکو ملنے سے رہی"

چچا کے بے وفا انداز دیکھ کر بھیجتا کچھ خرافاتی اور خوفناک سوچے بیٹھا تھا جبکہ ضرار کی شر انگیز مسکراہٹ ویسے ہی ہاشم کو خطرہ سا محسوس ہوئی تبھی تو آگے سے شرافت سے مسکرایا پر ضرار نے یوں ناک بھوں چڑھائے اگنور مارا کہ جناب کی حالت واقعی کچھ مشکوک ہوئی۔

جبکہ دلہن کے دادا صاحب فرصت سے اپنا فرض نبھاتے ہوئے دعائیں کے خزانے بہانے میں مصروف ہو چکے تھے۔

                           ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

آخر کار ملن کی رت آہی گئی تھی، پوری شان سے دونوں باراتیں ترتیب سے آئیں اور دلہنیں رخصت ہوئیں، پہلے سردارنی کی بارات لے کر جائی گئی، اب تاب کہاں تھی کہ جدائی کے لمحوں میں اضافہ کیا جاتا، بزدار عالم نے اپنا فرض اس بن ماں باپ کی بچی کو پورے پرتپاک انداز میں رخصت کر کے پورا کیا تھا، چہرے آج خوشی کی حدت سے گلنار تھے، دھڑکنیں بے خود، اور پھر زونین ، مشارب کے ساتھ رخصت ہوئی اور وریشہ اور شہیر کی شادی میں شریک ہونے کے لیے ضرار ساتھ روانہ ہوا۔

اور وہاں پہنچنے کے بعد اپنے صنم کے سنگ اسکی بہن اور اپنے دوست کی شادی میں شرکت کی۔

شہیر کے گھر والے یوسف زئی حویلی پوری شان سے بارات لے کر آئے اور دل کی دھڑکنیں تو ان دو خاص نفوس کی ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے لیے سجا دیکھ کر ہی مرکز سے ہل چکی تھیں، پورے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ شہیر مجتبی ، اس لڑکی کو روایات، رواج اور ریت کے مطابق رخصت کروانے آیا تھا۔

پھولوں کے مہکتے سراپے بھی نہال تھے، چمکتی روشنیاں مل کر انکے چہروں کی خوشی بڑھا رہی تھی، سب اپنے اردگرد جمع دعاوں سے دامن بھر رہے تھے، اور خوشیوں کی اس طویل العمری کو میثم ضرار چوہدری کے دل نے بھی دعا ارسال کی تھی۔

اور پھر دادا کی لاڈلی اور اشنال کی پیاری وریشہ، دعاوں اور محبتوں کے سنگ شہیر مجتبی کے ساتھ رخصت ہوئی مگر خانم حویلی کا جشن تھا کہ سردارنی کی آمد کے بعد پورے جوش و خروش سے شروع ہو چکا تھا۔

زونین اور مشارب وی آئی پی تھے، ہر کوئی اردگرد تھا مگر اس محفل میں کسی کی آمد نے وقتی طور پر سناٹا حاوی کیا کیونکہ بہت سے تخائف اور اپنی معذرت لیے وہ خان زادے کے روبرو پیش ہوئی تھی، اسکے ساتھ آج کاشف تھا۔

اسے نازلی کے ساتھ کھڑا ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ تھی اور مشارب زمان خان اور زونین کی آنکھیں اس لڑکی کو قریب آکر کھڑا ہوتا دیکھ کر سرد مہری سے بھریں اور پھر وہ دونوں ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

خاضرین محفل جشن میں مصروف تھے مگر چند اپنوں کی توجہ ان چاروں کی طرف ضرور جمی تھی خاص کر میثم ضرار چوہدری، اشنال عزیز اور گل خزیں خانم کی۔

نازلی نے مسکرا کر وہ سب تخائف ان دو کو پیش کیے جنھیں ملازمین پہلے ہی نازلی سے لے چکے تھے جبکہ نازلی قدم بڑھائے اس دنیا کی خوبصورت لڑکی کے پاس آئی۔

"محبت پردے کی چیز ہے، عزت کی طرح۔ داغ برداشت نہیں کرتی زونین ! میں نے کوئی پردہ چاک نہیں کیا تھا اسکی گواہی تو شاید آپکو مل گئی ہوگی، لیکن اس امید پر موت سے واپس آنے والی مجھ سی لڑکی مسکرانے پر آمادہ ہے کہ شاید میرے جیسا ناپسند ہوا کے جھونکا وقتی طور پر آپ اور آپکے سردار کے بیچ دوری لایا ہوگا مگر یہ دوری پہلے سے زیادہ شدید محبت کے دروازے کھولے گی۔ آپ دو کو دعائیں دینے آئی ہوں، اس امید پر کہ آپ نہ صرف مجھے دل سے معاف کر چکے ہوں گے بلکہ میری دعائیں بھی قبول کریں گے"

وہ لڑکی جتنی بھی اچھی ہو جاتی، ان دو کے بیچ کئی دن کی دوری ، تکلیف، تناو اور اذیت کا سبب بنی تھی سو وہ دو ناچاہتے ہوئے بھی برہم سے تھے مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ دونوں اسے معاف کر چکے تھے۔

وہ تو مشارب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہی تھی مگر اسے زونین رحم دل لگتی تھی۔

پھر زونین کیسے بھول سکتی تھی کہ اگر وہ سلامت اپنے سردار تک پہنچ چکی ہے تو اسکا سبب بھی یہی گناہ گار ہے۔

نازلی اس سے پہلے کہ ہاتھ جوڑتی، زونی نے اسکے دونوں ہاتھ جکڑ کر اک دکھ بھری نگاہ اس پر ڈالی جو اسکی طرح اسکی ماں کی ڈسی ہوئی معصوم سی لڑکی تھی، جسے زندگی نے ممکن تھا زونین سے بڑھ کر آزمایا تھا۔

"ہم نے آپکو معاف کر دیا ہے نازلی، کیونکہ ہمیں اس عورت کے شر سے بچا کر ناصرف آپ اپنے گناہ کی تلافی کر چکی ہیں بلکہ سردار مشارب زمان خان کو انکی زونین لٹا کر الٹا احسان کر بیٹھی ہیں۔ جو بھی تلخی تھی ہم بھول گئے، ہم دونوں ہی آپکو معاف کر چکے ہیں کیونکہ یہ بھلے نہ سمجھیں، اب ہم آپکی بے بسی اور تکلیف بخوبی سمجھ چکے ہیں"

نازلی کی آنکھوں میں آنسو تھے، کیونکہ سردار مشارب زمان خان اب بھی اس سے منہ پھیرے کھڑا تھا، کیسے بھول جاتا ایک دم اپنی اذیت اور جس طرح نازلی نے بلکتی نظر ہمت کیے اٹھا کر اس سردار کو دیکھا، یہ دل کاٹ کر رکھ دینے کے مترادف تھا۔

"آپ نے مجھے معاف کر دیا، بہت شکریہ۔ میں آپ دو کی شادی پر بنا بلائے آئی اسکے لیے بھی معاف کر دیجئے گا۔ اور اب میرا دل حقیقت میں ہلکا ہو گیا ہے۔ آپ بہت پیاری ہیں، دعا ہے ہمیشہ سردار کے دل کی ملکہ رہیں"

وہ مشارب کی معافی بھی چاہتی تھی پر کیسے اصرار کرتی کہ وہ معتبر شخص تھا جسے نازلی دیکھنے میں بھی احتیاط برت رہی تھی اور اس سے پہلے کہ نازلی، آنکھوں میں کرچیاں سمیٹ کر پلٹی، مشارب کی آواز نے اسکے قدموں کو زنجیر کیا۔

"نازلی!"

وہ اسکا نام لے کر پکارا تبھی وہ آنسو رگڑتی پلٹی جہاں سرد مہری بلکل یوں کم کی گئی جیسے تپش اگلتے سورج کے آگے یکدم بادل آگئے ہوں۔

"مجھے معاف کر د۔۔یں آپ خان زادے، میرا نام اس لائق نہیں کہ آپ کی زبان پر آئے۔ ساری زندگی بھی کوشش کروں تو آپ کو دی جانے والی تکلیف سے چھٹکارہ نہیں مل سکتا۔ "

وہ سسک اٹھی تھی اور کاشف بھی اسکی تکلیف پر خود آزردہ تھا۔

"ایسی بات نہیں ہے، نہ میں افضل ہوں نہ آپ کمتر۔ جو ہوا ناقابل برداشت تھا مگر اب وقت بدل گیا ہے۔ میری زونین صحیح سلامت میرے پاس ہیں، آپ نے واقعی اپنے کیے کی شاندار تلافی کی ہے سو میں بھی آپکو پورے دل سے معاف کرتا ہوں، جب آپ نے میرا پردہ رکھا تو میں کیسے آپکو اس تکلیف سے بندھا چھوڑ سکتا ہوں۔ نظر اٹھائیں اپنی"

اور پھر سردار بنتے ہی وہ اعلی اوصاف کا مالک بھی بن گیا تھا، نازلی نے بھیگی آنکھوں کو اٹھایا تو جیسے زونی، کاشف اور خود گل خزیں بھی افسردہ سا مسکرائیں جبکہ کچھ فاصلے پر صنم کے ساتھ کھڑے میثم ضرار چوہدری کے دل کو بھی راحت سی ملی۔

"اب ایسا کوئی معاملہ نہیں رہا کہ آپ میرے سامنے مجرم بن کر سر جھکائیں، کسی پچھتاوے کی آگ کو جلا مت چھوڑیں۔ اپنی زندگی بہترین طریقے سے شروع کریں، ہم نے معاف کیا یقینا اللہ بھی آپکی بے بسی اور مجبوری کا پردہ رکھتے ہوئے آپکو معاف کر دے گا "

وہ اسے سارے پچھتاوے اور ملال سے نکال چکا تھا اور نازلی نے زونی کو جب گلے لگانا چاہا تو زونین نے مسکرا کر اسے گلے لگایا اور جس قدر اسکا دل یہاں آتے وقت بھاری تھا، اتنا ہلکا خانم حویلی سے نکلتے وقت تھا، وہ اس شخص کے ساتھ ہم قدم چلتی خوشی کے آنسو بہا رہی تھی جب ڈھارس دیتی ہاتھ کی گرفت اسے اپنے مرمریں سرد ہاتھ کے گرد محسوس ہوئی۔

کاشف نے اسکا ہاتھ محبت سے تھاما تھا تبھی تو وہ چلتے چلتے رکی، گردن گما کر اس نے اس انسان کو دیکھا، تو یہ تھا وہ جس کی اسے آرزو تھی۔

زمانہ شناس سا، کڑوا ہونے کے باوجود شیریں، اور سخت دیکھائی دینے کے باوجود اتنا نرم دل کے اس سے نازلی کے خوشی والے آنسو بھی برداشت نہ ہوئے۔

"تھینک یو"

وہ رندی آواز سے بولی تھی اور وہ خاصی حیرت سے مسکرایا۔

"لیکن کاہے کو"

کاشف کے متوقع جواب پر نازلی نے مسکرا کر اسکے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کی اور یہ کاشف کے چہرے پر دنیا جہاں کی حسین مسکان بکھیرنے کا سبب بنا۔

"اس وقت چاہتی تھی کوئی زور سے میرا ہاتھ پکڑ لے اور آپ نے پکڑ لیا، آپ کو میں اچھی لگتی ہوں کیا؟"

وہ بہت پیاری تھی اس میں شبہ نہ تھا پر وہ بھی اپنا ایک الگ چارم رکھتا تھا، لاپرواہ، لفنگا سا مگر اسکی آنکھیں بہت مہربان روپ رکھتی تھیں۔

"اگر کہوں کے لگتی ہے اچھی"

وہ اسکی خوشی اور تکلیف کی حد جاننے پر مصر ہوا اور نازلی اسکے جان لیوا انداز پر مدھم سا مسکرائی اور نظر بھی جھکائی۔

"تو کہوں گی کہ نازلی اب مکمل آپکی ہوئی"

دھیرے سے یہ کانوں میں رس گھولتا اظہار کرتی وہ اسکے ہاتھ کو چھڑوائے تیزی سے بھاگ کر دو تین موڑ مڑتی گھر کی دہلیز پار کر گئی اور کاشف اس اظہار پر من ہی من میں مسکاتا خود بھی بے خود سے قدم اٹھاتا اس سرد رات کے دامن سے ہاتھ چھڑوائے گھر پہنچا کیونکہ ابھی تو یار کی اصل یاری شروع ہونی تھی۔

شہیر اور وریشہ کو ابھی بھی سٹیج پر بٹھایا ہوا تھا اور فوٹوگرافر اب انکا شوٹ کرنے میں بزی تھا جبکہ کمرہ ابھی تک اوپن نہیں ہوا تھا کیونکہ کمرے کی کنجی کاشف صاحب کی جیب میں تھی۔

بھئی اب ہمیں اجازت دیں اور آپ سب بھی آرام کریں، کل۔ان شاء اللہ بزدار حویلی کے سب افراد دونوں ولیموں میں شان سے شرکت کریں گے"

جشن ابھی تک زوروں سے جاری تھا مگر سات بجتے ہی ضرار نے واپسی کے لیے اجازت طلب کی کیونکہ دو تین گھنٹوں کا سفر تھا اور زوجہ بھی ساتھ تھی تو اسے ابھی نکلنا ہی مناسب لگا تھا۔

جبکہ زونین بھی خاصی تھک چکی تھی اور حویلی کی خواتین اب اسے بھی کمرے میں لے جانے والی تھیں۔

"آپ چینج کرلیجئے گا زونی، میں مہمانوں کو سی آف کر کے آوں گا۔ تھکی لگ رہی ہیں، آرام کریں جا کر"

فرخانہ خانم نے پہلے ہی ونیزے کو زونی کے کمرے تک لے جانے کی تاکید کر دی تھی اور اس سے پہلے وہ ونیزے کے ساتھ جاتی، مشارب نے رازدارنہ انداز میں سرگوشی کیے اسے ریلیف دیا جس پر وہ مسکرا کر ونیزے کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

جبکہ مشارب، گل خزیں خانم، خدیخہ اور عزیز خان نے پہلے اشنال اور ضرار کو رخصت کیا اور پھر باقی مہمانوں کو کرنے لگے۔

جبکہ حویلی کے باہر جشن اور ڈھول ڈھمکا اب تک پورے عروج پر تھا، آسمان رنگ برنگی روشنی سے ہر ایک منٹ بعد روشن کر دیا جاتا تھا۔

ونیزے بھی لائیٹ گرے ہلکے سے فینسی ڈئزانر لئیر ڈریس میں بہت پیاری لگ رہی تھی اور وہ اسے کمرے میں لائی تو کمرے کی بہت ہی مدھم مگر جان لیوا سجاوٹ دیکھ کر دونوں کے چہروں پر ایک سی مسکراہٹ سجی۔

"روم تو بہت پیارا ڈیکوریٹ کیا گیا ہے، تمہیں پسند آیا؟"

ونیزے اس سے بہت بے تکلف ہو کر بولی جس پر زونی نے فوری مسکرا کر سر ہلایا اور پھر ونیزے کا ہاتھ پکڑ کر اسے رشک سے دیکھنے لگی، وہ اور مالنی ان تین ماہ ونیزے کے ساتھ رہی تھیں، سو ونیزے اس کے لیے بلکل پرائی نہ تھی جبکہ ولی کے ساتھ اسے جڑتا دیکھ کر زونی کو مزید خوشی ہوئی تھی۔

"ہم آپکو کیا کہہ کر پکاریں گے اب؟"

ونیزے اسکے معصوم سوال پر بے اختیار ہنسی۔

"میں تمہاری ہی ہم عمر ہوں مگر چونکہ اب رشتہ بڑا ہے تو تم مجھے بلاجھجک آپی کہہ سکتی ہو، یہ برجائی وغیرہ مت کہنا بہت عجیب لگے گا"

ونیزے نے خاصے مسکین لہجے میں مسکراتی تنبیہہ کی جس پر وہ پری بھی مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئی۔

"آپی بیسٹ ہے، ہمیں آپ کو ولی لالہ کے ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ونیزے۔ آپ بہت پیاری اور انکی طرح مہربان ہیں"

زونی کے ملائم انداز اور لہجے میں پسندیدگی دیکھ کر ونیزے کو انتہائی خوشی نے گھیرا۔

"انکا کمال ہے یہ زونین میں تو بے حد عجیب مخلوق تھی، کچھ تم اور مالنی ان تین ماہ جان چکی ہو باقی کبھی فرصت سے ضرور بتاوں گی، خیر تم چینج کر لو۔ اندر تمہارا سنپل سا وائیٹ ہی ڈریس ہینگ کیا ہے سب ہیوی ڈریسز سے نکال کر، ایزیلی اس میں سو بھی سکتی تم ۔ اگر کچھ چاہیے تو بتا دو میں فرخانہ آنٹی کو کہہ دیتی ہوں"

اول اعتراف رشک اور گدگداتی مسکراہٹ سے کیے وہ آخر تک اسکے بالوں کے بن کو دیکھ کر بولی کیونکہ وہ ونیزے کے مطابق جس نے بھی بنایا تھا، اسے کھولنے میں بنانے سے زیادہ محنت درکار تھی۔

"کیا آپ ہمارے بال کھول کر انکو سٹریٹ کر دیں گی آپی، یہ ہماری مالنی نے بنایا ہے اور وہ ہوتیں تو ہم ان سے کہتے کیونکہ اسے کھولنا ہمارے بس کی بات نہیں"

اور عین ونیزے کے اندازے کے مطابق زونی اپنے بالوں کے جوڑے کو لے کر فکر مند ہوئی اور ونیزے اسے دیکھتی مسکائی۔

"کیوں نہیں، تم چینج کر لو میں کر دوں گی۔ تمہارے لیے کھانے کو تب تک کچھ لے کر آتی ہوں کیونکہ فرخانہ آنٹی کی خاص تاکید ہے کہ تمہیں کچھ کھلا دوں"

ونیزے اسے مکمل ریلکس کرتی مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی اور زونی بھی اپنا ہیوی ڈریس سنبھالے چینج کرنے بڑھی۔

جب تک ونیزے اسکے لیے کھانا لائی، زونی نا صرف چینج کر چکی تھی بلکے وہ بہت ہی پیارا شارٹ سا دھیمے نیٹ کا فراک تھا اور اسکے نیچے چوڑی دار باجامہ، جبکہ فراک کے دامن اور آستینوں کے کنارے موتیوں کی لائن جڑھی تھی اور دوپٹہ بھی نیٹ کا تھا جو زونی نے لینے کے بجائے باہر نکلتے ہی صوفے کی طرف اچھال دیا اور ونیزے مسکراتی ہوئی ڈریسنگ کے پاس آکر کھڑی اس حسینہ تک آئی اور اسے پکڑ کر وہیں ڈریسنگ میز کے سامنے بٹھایا۔

واقعی مالنی صاحبہ نے بہت مہارت سے زونی کے ریشمی گھنے بال جکڑے تھے اور ونیزے نے بہت احتیاط اور پندرہ منٹ کی مشقت کے بعد انھیں کھولا اور پھر زونی کی خواہش کے مطابق انھیں سٹریٹ کیا۔

وہ اب بھی دلہن کی طرح دمک رہی تھی۔

"ٹھینک یو سو مچ آپی"

اپنے بالوں میں مہندی سے سجا ہاتھ پھیرتی وہ مسکراتی ہوئی اٹھی جبکہ ونیزے اک نظر اس پر ڈالے اسکی گال سہلائے مسکرائی۔

"مجھے خوشی ہوئی تمہارے کام آکر، تم نے کھانا نہیں کھایا تھا سو ساسو ماں نے بھیجوایا ہے۔ کھا لو اور مزے سے اپنے ان کا انتظار کرو۔ کوئی اور ہلیپ چاہیے؟"

وہ یہاں آکر ولی کی نسبت سے خود کو ویسے بھی بڑا بڑا اور معتبر محسوس کر رہی تھی تبھی زونی کو اس نے بھرپور ماحول دیا تھا جو ایسی سچویشن میں نئی نویلی دلہنوں کو درکار ہوتا ہے۔

"آپ ہماری دوست بنیں گی ونیزے؟"

اسے زونی سے اس سوال کی امید نہ تھی تبھی وہ حیرت انگیز سی خوشی میں مبتلا ہوئی۔

"بھئی تمہیں یاد ہوگا کہ آپن تم دو کی آل ریڈی تھوڑی سی دوست ہوں، اور دوست وہی ہوتا ہے جو آپکی خوشی میں خوش ہو اور مجھے آج بہت خوشی ہو رہی ہے۔ تم بہت سٹرونگ ہو زونین، اتنا سب ہو جانے کے باوجود تم نے اپنے دکھ پیچھے چھوڑ کر اپنی اور اپنے سردار کی خوشیوں کو اہم رکھا۔ خوش رہو"

ونیزے کا محبت بھرا دوستانہ جواب زونی کے دل کو دلاسا دے چکا تھا جبکہ وہ اسے گلے لگاتی، مسکرا کر کھانا کھانے کی یاددہانی کرواتی اسے دیکھتی کمرے سے چلی گئی اور بھوک تو واقعی اب زونی کو بہت لگی تھی سو محترمہ نے فورا سے بیشتر کھانے کی طرف دوڑ لگائی۔

وہیں اشنال اور ضرار واپسی کے لیے روانہ ہو چکے تھے، موسم اخیر ٹھنڈا اور روح جما دیتا سرد تھا مگر جناب مزے سے لانگ ڈرائونگ کے مزے اٹھا رہے تھے۔

"مجھے صبح مل کر کیوں نہیں گئی تھیں؟ اسکا الگ حساب ہوگا صنم ذہن میں بٹھا لیں۔ سارا دن آپکا میثم بولایا بولایا کالا سایہ بن کر پھرتا رہا۔ ویسے زندگی میں پہلی بار میثم ضرار چوہدری کسی سے جلا ہے، وریشہ صاحبہ سے"

وہ جو زرا رخ موڑے ضرار کے ہی کوٹ کو پہنے، کہنی سیٹ سے اٹکائے مخمور مسکراہٹ کے سنگ میثم کو دیکھنے میں محو تھی، اسکی شکائیت اور پھر جلنے کی خبر پر ہنس دی۔

گال تک پچھکارتے ہوئے اسکی کھینچی جو آگے سے اسکی حرکت پر اور تپا، گھورا بھی۔

"میری جان! وریشہ کا دن تھا، اسے میری تم سے زیادہ ضرورت تھی۔ اب وہ جانے اور اسکا وہ الو، میرا مطلب شہیر۔۔۔اب وہ اسے سنبھال لے گا سو میں صرف تمہاری، ویسے بھی مسٹر میں تم سے مل کر گئی تھی، تم ہی ٹن ہوئے تھے اب اس میں میرا کیا قصور"

بیوی صاحبہ نے بھی اتراہٹ، محبت اور نزاکت کے ایک ساتھ ریکارڈ توڑے وضاحتیں پیش کیں اور ضرار نے زرا سا رخ موڑے ابرو اچکائے اسکی مسکراہٹ دیکھی۔

"آپ اب صرف میری، آہاں! قائم رہیے گا اس پر اشنال کیونکہ میثم تھوڑا برہم ہے اور ایک بار تو آپکو یہ یاددہانی اپنے انداز سے ضرور کروائے گا۔ "

ڈرائیونگ کرتے ہوئے جس طرح وہ خطرناک ہوئے بولا، وہ اسے دیکھ تو نہ سکی پر اسکے لہجے میں معنی خیزی اور شدت ضرور ہمکی تھی تبھی اشنال اسکی بازو سے ہی لگ کر بیٹھی ہنسی۔

"آئی ہیو نو ایشو ! مجھے تو ویسے بھی ہر وہ لمحہ پسند ہے جس میں تم مجھےاپنے دلفریب انداز سے یاددہانی کرواتے ہو کہ میں صرف تمہاری ہوں"

کندھے پر سر رکھے وہ جذبوں سے اٹی آواز میں بولی تھی تبھی تو میثم نے ایک ہاتھ بڑھا کر اس لڑکی کے ہاتھ کو انگلیوں سمیت جکڑا تھا،اسکے لمس سے اشنال کی روح تک گدگدا جاتی تھی۔

اور پھر وہ چہرہ اٹھائے جب اسے دیکھ رہی تھی تو خفا سے میثم نے اسکی جبین چومی۔

"ویسے تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ میں کیسی لگ رہی تھی؟"

وہ پرسکون ہو کر واپس دھیان سامنے دے چکا تھا جب اشنال نے پھر سے چہرہ اٹھائے مسکراتی آنکھیں جناب کے چہرے پر ثبت کیں۔

"جان لیوا ۔۔۔ اور ابھی تک لگ رہی ہیں"

پھر سے وہ چہرہ موڑے اپنے اظہار سے اشنال کی رگ رگ میں راحت اتار گیا جبکہ وہ اس سے ایسے اظہار خود اس لیے مانگتی تھی کیونکہ اسے پسند تھا۔

"اچھے لگتے ہو تعریف کرتے ہوئے کنجوس، اللہ جی اس ٹیری کھوپڑی کو توفیق دیں کہ یہ اشنال کی ہر لمحہ تعریف کرتا پھرے"

اول جملہ منصوعی منہ بگھاڑے اسے جبکہ باقی مسکین بن کر دعا کیے کہے اور وہ مسینا بنا من ہی من میں مسکرا اٹھا۔

"آپ کے نئے نئے روپ دریافت کرنے سے فرصت ملے گی تو کسی اور کام کی توفیق قبول کروں گا میری جان، بھلے وہ تعریف ہی کیوں نہ ہو، سوری ٹو سے ، اب تو بہت مصروف ہونے والا ہوں۔۔۔"

اسکے دل دہلاتے زومعنی جملوں پر وہ تمام تر مسکراہٹ دباتی حیا سے معطر مسکائی، وہ اسکے الفاظ کا مطلب جان کر زیادہ دھڑکی تھی، دونوں کی نظریں ایک لمحہ پھر ملیں اور جب دونوں آفت خیز مسکرائے تو یہ ٹھنڈی رات، بیچ حاوی ہوتی رومان پرور خاموشی سے کسی دہکتی، آتش کی طرح جل اٹھی تھی اور سونے پر سہاگہ یہ کہ میثم نے سوفٹ سا رومٹنگ میوزک بھی پلے کر دیا۔

گویا یہ عام سی لانگ ڈرائیونگ بھی انکی سب سے مضبوط اور حسین محبت اور قربت کی حدت سے یادگار بننے والی تھی۔

وہیں زونی نے بس تھوڑا سا ہی کھایا تھا اور وہ فل ہو گئی تھی جبکہ فرخانہ کو روم میں ملازمہ کے ساتھ آتا دیکھ کر زونی کچھ خوفزدہ سی اٹھ کھڑی ہوئی، فرخانہ خانم نے قدوسیہ کو اشارہ کیا جو برتن اٹھائے فرمابرداری سے باہر نکلی جبکہ اپنے سابقہ رویے کا سوچ کر فرخانہ کچھ پشیمان سی اس پیاری زونی کے روبرو جا کھڑی ہوئیں۔

زونی کو بے شک ضرار نے بتا دیا کہ وہ عورت اسے قبول کرنے پر راضی ہیں لیکن وہ پچھلی ملاقات چاہ کر بھی بھول نہ پائی تھی تبھی اسکی آنکھوں میں فطری ڈر دیکھتے ہوئے انہوں نے بے اختیار زونی کو اپنے گلے لگایا اور یہ ایک ایسی معذرت تھی جو کم ازکم وہ نیلی آنکھوں والی نرم دل ہرگز رد نہ کر سکتی تھی۔

پھر وہ اسکے لیے اب ماں جیسی تھیں، اسکے مشارب کو جنم دیا تھا انہوں نے اور زونی جانتی تھی کہ تب وہ زمان خان کی ناگہانی موت پر صدمے میں مبتلا تھیں اور انکا رویہ جائز تھا۔

"نہیں جانتی اس روز کیا ہوگیا تھا مجھے مگر تب بہت پریشان اور ذہنی دباو کا شکار تھی اور تبھی نہیں سمجھی کہ کیسا سفاک سلوک کر بیٹھی ہوں۔ مجھے اس رویے کے لیے معاف کر دو زونین، تم میرے مشارب کی زندگی ہو اور اب اس ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اب سے یہ حویلی تمہاری ہے، تم یہاں کی اصل سردارنی ہو"

وہ اپنے کیے پر بہت پرملال تھیں تبھی زونی نے انکو معافی مانگنے سے نہ صرف روکا بلکہ انکا ہاتھ عقیدت سے پکڑ کر پشت پر بوسہ دیا، جبکہ فرخانہ خانم اسکے اس قدر پیارے رویے پر اور اپنے کیے پر شرمندہ ہوئیں۔

"آپ ہم سے معافی مت مانگیں پلیز، ہم بلکل بھی خفا نہیں۔ بلکہ وہ سب حالات تھے ہی ایسے کہ ہم سب پتھر بن گئے تھے۔ آپ بلکل بھی افسردہ مت ہوں، ہمیں آپ سے کوئی گلا نہیں"

وہ نرم لہجے میں انکے سارے پچھتاوے مٹاتی محبت سے بولی، اسکے انداز میں ادب تھا اور تبھی فرخانہ کو اس پر مزید پیار آیا۔

"جیتا رہے میرا بچہ، اب تم آرام کرو۔ صبح ناشتے پر ملاقات ہوتی ہے۔اول تو مشارب نے کوئی کمی تمہارے لیے کہیں بھی نہیں رکھی لیکن پھر بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو اس ماں کو بلاجھجک یاد کر لینا۔ تم سب بچے ہی اب میری زندگی ہو، گل خزیں تم سے صبح ملیں گی کیونکہ سب مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ بہت تھک گئی تھیں تو خدیجہ انکو کمرے میں لے گئیں، شب بخیر"

دعائیں دیتیں، محبت سونپتیں وہ اس پر شفقت بھری نگاہ ڈالتیں ناصرف کمرے سے نکلیں بلکہ دروازہ بھی بند کر گئیں اور زونی نے پرسکون ہو کر ایک گہرا سانس کھینچے سب ٹھیک ہو جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا، عشاء کی آذان ہونا شروع ہو چکی تھی تبھی وہ نماز کی نیت کرتی وضو کرنے چلی گئی۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"شہیر! میں تھک گئی ہوں۔ مجھ سے بیٹھا نہیں جا رہا۔ کچھ کرو"

فوٹو شوٹ تقریبا مکمل ہو چکا تھا اور مہمان بھی جا چکے تھے اور وریشہ اب سخت اکتائی ہوئی تھکن سے نڈھال تھی تبھی شہیر کے باقاعدہ کان میں گھس کر بولی اور جناب نے فوری مسکراہٹ دبائے گردن موڑ کر دہکتی حسینہ کو پرشوق ہوئے دیکھا۔

"اتنی جلدی، خیریت ہے ناں ڈاکٹر صاحبہ۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے"

اس کے دہکتے روپ سے خود کے حواس بچائے وہ اسکی گھبراہٹ اور تھکن پر چوٹ کرتا سرگوشی میں بولا جبکہ وہ گھور کر ہی رہ گئی کیونکہ اماں کوثر پہلے ہی انکی طرف بڑھ چکی تھیں، چونکہ مہمان بھی آہستہ آہستہ جا چکے تھے سو انکو وریشہ کے آرام کا بہت خیال تھا، وہ نازلی کو بھی سعدیہ صاحبہ کے لیے کمرہ سیٹ کرنے لگا آئی تھیں۔

"میرا بچہ تھک گیا ہوگا، آو اندر چلتے ہیں۔ شہیر! جا کر کاشی کو بول کے روم اوپن کرے۔ تب تک میں وریشہ کو اپنے کمرے میں لے کر جا رہی ہوں، آجاو وریشہ"

شہیر کو والدہ نے ہداہت کی اور ساتھ ہی شہیر کے پہلو میں کھڑی اس حسینہ کو لے کر اندر بڑھیں تو شہیر نے بھی سٹیج سے اتر کر کاشف کو طائرانہ نگاہ اردگرد دوڑائے ڈھونڈا مگر وہ فی الحال نظر نہ آرہا تھا تبھی شہیر بھی اندر کی طرف بڑھا جبکہ شہیر والے کمرے کے باہر سٹنگ ایریا کی طرف وہ دو تین یار بیلوں کے ساتھ کھڑا تھا ، ایک کے ہاتھ میں خاکی لفافہ تھا جبکہ دوسرے کے ہاتھ میں سنہری ڈبہ اور پھر کاشف نے روم کا دروازہ کھولا اور رازداری سے ادھر ادھر دیکھتا اندر گیا، کمرہ نیم سی نیلی روشنی میں ڈوبا تھا اور جناب آخری مراحل پورے کرنے اندر آئے۔

سب سے پہلے وہ خاکی کاغذ سے کچھ نکال کر صوفے کی پائنی سے دھاگے کے سنگ جوڑ رہا تھا اور پھر اسے لائٹر سے اٹیچ کیا جبکہ سنہری بڑے سے ڈبے میں ناجانے کیا تھا مگر جناب نے اسے کھول کر بڑے سلیقے سے وہ نمکین اور میٹھی علاقے کی سوغاتیں ، گلاس میز پر رکھے سجاوٹی خشک میوہ جات کے پیارے سے ٹرے میں سجائیں، اور پھر جیب سے ایک دوسرا لائٹر نکال کر اس نے چند موم بتیوں کو روشن کیا جو کینڈل ہینگز پر بہت خوبصورتی سے سجائے روم کے ایک کونے میں جگمگا اٹھا تھا۔

اور پھر ایک سرسری نظر اٹیچ واش روم پر ڈالی جہاں کا کام اس نے نازلی کے سپرد کیا تھا، نازلی نے بہت سلیقے سے ضرورت کی ہر چیز وہاں سیٹ کی تھی، ٹاولز سے لے کر واش روم میں یوز ہوتے جوتوں تک ہر چیز پرفیکٹلی ارینج تھی اور وہاں بھی اکا دکا رکھی موم بتیوں کو جناب نے لائٹر سے جلایا، پھر مہکتا ائیر فریشنر یہاں بھی سپرے کیا اور کشادہ خوبصورت سجے روم میں بھی اور اسی رازداری سے باہر نکلا تب تک اسکے تینوں ساتھی، دلہے کو باہر ہی روک رکھنے پر بھرپور کامیاب ٹھہرے تھے اور کاشف کو اپنے کمرے سے باہر نکلتا دیکھ کر شہیر نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔

"کیا کر کے آیا ہے اندر؟ تیری تو"

دلہا اوٹ آف کنٹرول اور اسی حساب سے کاشف کے دانت بھی نکلے ، اگر ان تین لوگوں نے شہیر کو جکڑا نہ ہوتا تو کاشف کی چٹنی بن چکی ہوتی۔

"ہاہا میری جان! کچھ بھی نہیں کیا، میں تو دیکھنے گیا تھا واقعی کوئی سانپ وانپ تو نہیں۔ چل جا بیوی صاحبہ کو لے کر آ ، تیرے کمرے کی منہ دیکھائی کرواتے ہیں۔۔۔ہاہا قسم سے یار کوئی سنگین شرارت نہیں کی"

شہیر کی گھوریوں پر کاشف کے دانت کچھ زیادہ ہی نکلے اور فی الحال تو وہ اسکی شریف وضاحت پر مان گیا مگر اس نے سوچ لیا تھا پہلے خود روم میں جائے گا کیونکہ ان سب یاروں نے ضرور کوئی شرارت کی تھی جو انکے چہروں پر لکھا تھا اور وہ منہ بسورتا وہاں سے سیدھا اماں بابا والے کمرے کی طرف گیا تھا مگر دروازے میں ہی شہیر کے قدم رک گئے تھے کیونکہ اندر ساس بہو کا لاڈ چل رہا تھا۔

"مجھے پتا ہے زیادہ قیمتی نہیں ہے مگر جب تم اسے پہنو گی تو اسکی قیمت ہزار گنا بڑھے گی، اب میرا سب کچھ میرا شہیر ہی ہے اور تم ہو۔ اللہ نے چاہا تو وہ تمہارے سارے ارمان پوری شان سے پورے کرے گا کیونکہ آج تک اس نے ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تو تم تو اسکی محبت بن کر آئی ہو، جب سکول جاتا تھا تب بھی نوکری کرتا تھا، کالج یونیورسٹی کے بیچ بھی اس نے کبھی ہماری ضروریات پر اپنی خواہشیں اہم نہیں جانیں،۔ یہ گھر بھی اسکے کمائے پیسوں سے ہم نے بنایا تھا جو اس علاقے کے پیارے گھروں میں سے ایک ہے، تمہاری حویلی کی نسبت سادہ سا ہے پر تمہیں اس میں سکون اور خوشی کی کمی کبھی نہیں محسوس ہوگی"

وہ وریشہ کو اپنے پاس بیٹھائے اسکے روبرو بیٹھی تھیں اور بہت خوبصورت سا سونے کا خاندانی ہار اسے دے رہی تھیں جو سیاہ اور ہرے نگینوں سے جڑھ کر مزید خوبصورت لگ رہا تھا جبکہ وریشہ انکی فکروں، اور پھر شہیر کے بارے بتانے پر مسکرائی، انکا شفقت بھرا ہاتھ تھاما۔

"یہ بہت انمول ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ایک ماں کی محبت جڑی ہے۔

اور آپ کی اور اسکی محبت میرے لیے سب سے اہم ہے کوثر اماں! چیزیں اور آسائشیں اہمیت نہیں رکھتیں۔ اور یہ گھر مجھے میری حویلی سے ہر درجے خوبصورت لگ رہا ہے اس لیے آپ بلکل اسکے سادہ ہونے پر فکر مند نہ ہوں"

جس طرح کوثر اماں کو وریشہ کے جواب نے خوشی دی ویسے مسٹر شہیر بھی اس لڑکی کے ایسے خوبصورت جواب پر مسکراتا ہوا اندر آیا اور دونوں کی بیک وقت توجہ اس ہینڈسم کی جانب مبذول ہوئی۔

ماں قربان ہوئی اور بیوی فدا۔

"لو آگیا میرا شیر جوان، اللہ تم دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ سکھی رکھے۔ لے جا اپنی وریشہ کو، آرام کرو دونوں۔ میں زرا اس کاشف کو دیکھتی، کوئی شرارت نہ کرنے کا سوچ رہا ہو۔ "

سعدیہ صاحبہ اور نازلی بھی کمرے میں آرام کرنے جا چکے تھے اور بس اب باہر کاشف اور اسکے یار بیلی ہی بچے تھے جبکہ اماں کوثر دونوں پر پیار بھری نظر ڈالتیں کمرے سے نکلیں تو وہ حسینہ اپنا ڈریس سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئی۔

دونوں کی دھڑکنیں ایک ساتھ مرکز سے ہلی تھیں۔

"تمہاری اماں بہت سوئیٹ ہیں، بلکل تمہاری طرح۔ مجھے تو لگتا تھا یہ مجھے حویلی کی بیٹی سمجھ کر تکلف برتیں گیں مگر شکر ہے وہ مجھے بیٹی کی طرح بلا رہی تھیں، ورنہ میں خوامخواہ بے چین ہوتی"

اٹھ کر دھڑکنیں بڑھاتی حسینہ نے شروعات ہی اعتراف سے کیا اور شہیر نے اسکے روپ کو آنکھوں کے راستے دل میں اتارا اور حصار کر اسکی ماتھا پٹی سے ڈھکی جبین پر جھکا اور چومی۔

اسکے محبت بھرے انداز پر وریشہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اتری۔

"میں نے انکو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تکلف وریشہ کو پسند نہیں، کیسے تمہیں بے چین ہونے دیتا بیوی"

جناب کے حسین جواب پر وہ اسکے اس قدر غیر معمولی معاملے کو لے کر خیال رکھنے پر آسودگی کے سنگ مسکائی۔

"تم بہت پیارے ہو شہیر، مجھے تم سے تو محبت تھی ہی اب اپنی اس تم سے جڑی محبت سے بھی ہو گئی ہے۔ میرے لیے اتنا سوچتے ہو؟ میرا قرار اس قدر اہم ہے تمہارے لیے؟"

وہ ناچاہتے ہوئے بھی افسردہ سی ہوئی، اس شخص کی حدوں کو تجاوز کرتی محبت وریشہ کو بھر چکی تھی اور اب دامن میں جگہ کم پڑ رہی تھی تبھی تو جاندار سی مسکراہٹ شہیر مجتبی کے ہونٹوں کا احاطہ کر گئی۔

"بلکل اہم ہے، تمہارا سکون ہی سب سے عزیز ہے بیوی۔ نہ ہوتا تو تمہیں اپنا بنانے کے لیے شہیر مجتبی آج کے اس دن کا انتظار ہرگز نہ کرتا"

وہ اس سے ایسے ہی دل دھڑکاتے جواب کی منتظر تھی اور تبھی وہ اس سے مزید اک لمحہ دور نہ رہ پائی اور بے اختیار گلے لگی، شہیر نے بھی اس سجی سنوری آپسرا کا خوشبو بکھیرتا وجود لمحہ ضائع کیے بنا شدت سے حصار لیا۔

"تم نے تو بنا کچھ کیے ہی مجھے اپنا بنا لیا ہے ظالم، کچھ کر گزرو گے تو میں تو تمہارے لیے انگ انگ تک تاحیات کے لیے وقف ہو جاوں گی کہ میرے دل کی ہر دھڑکن تمہارے دل کے ساتھ اور وجود کا ساتھ چھوڑتی سانس، تمہاری سانس کے ساتھ سفر طے کرے گی۔ رحم کرنا پلیز، مجھے ہر خواہش کے باوجود تم سے تھوڑا ڈر لگ رہا ہے"

وہ اسکے فطری ڈر اور خوف پر مسکرایا نہیں تھا، کیونکہ وہ اس لڑکی کے منہ سے یہ سب سننے کے لیے شدت سے منتظر تھا، کہ اس لڑکی کا یہ سب کہنا ہی شہیر کے وجود کو گرما سا چکا تھا۔

تبھی وہ ناجانے کس احساس کے تحت بوکھلا کر اس سے دور ہوئی اور اس شخص کی بہت کچھ کہتی آنکھیں وریشہ کے دل کو جکڑ کر رہ گئیں۔

"ریلکس! آج کے دن اور رات کا فطری پریشر ہے یہ بس، ورنہ میرے پاس آتے ہی یقینا تم بھول جاو گی کہ گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ کیا ہوتی ہے"

وہ سنجیدگی سے اسکی یہ بے قرار حالت اسکی گالوں سے ہتھیلوں کو سہلائے بہتر کر چکا تھا جبکہ آنکھیں وریشہ پر ہی جمی تھیں، وہ بہت حسین لگ رہی تھی، اتنی کہ وہ اس پر آج برا ترین شاعر ہونے کے باوجود کچھ کہنا چاہتا تھا۔

"بازو کیسی ہے تمہاری؟"

اس شخص کی نظریں آج وریشہ کو اپنے اندر تک گڑھتی محسوس ہو رہی تھیں تبھی وہ بات بدلتے بولی۔

"گولی بس چھو کر گزری تھی بیوی، اور ایسے معمولی زخموں کی پرواہ نہیں کرتا۔ تمہیں یاد ہوگا کیسے سینے پر گولی کھا کر بھی شہیر مجتبی پھدکتا پھر رہا تھا۔ سو دوبارہ اس زخم کی نہ فکر کرنا نہ میری بازو کا حال دریافت کرنا کیونکہ آج ہمارے بیچ کسی اور ذکر کی کوئی گنجائش نہیں"

اس بار وہ تھوڑا سنجیدہ تھا، ایسی سنجیدگی جو وریشہ کے دل پر کپکپی اتار چکی تھی اور وہ ایسے ظالم سنجیدہ پہلی بار تھا تبھی تو وریشہ کا دل اوپر نیچے ہوتا محسوس ہوا۔

"شہیر! "

وریشہ کی آواز میں لرزش تھی اور شہیر اسکے خوبصورت یاقوتی ہونٹوں کو دیکھ کر پورے حق سے وہ رنگ، وہ نرمی، وہ حلال زائقے اپنی زبان پر اخیر جان نکالتے انداز میں منتقل کیے اس قطرے سے اندر کی گرمائش دہکائے نظر چرا گیا اور پھر اسی انداز میں اس دھڑکتی حسینہ کا ہاتھ پکڑے کمرے سے نکلا، جب تک وہ اپنے روم کے باہر پہنچا، کوثر اماں نے بھی کاشف کی اوپر اوپر سے خوب کلاس لے لی مگر وہ من ہی من میں ہنس رہا تھا کیونکہ وہ اندر ویلکم کے لیے نسب کر کے آیا تھا اسے پھٹنے سے تو کوئی روک نہ سکتا تھا۔

"جی دلہا جی، جیب خالی کریں پہلے ورنہ ہم بے فیضوں پر نہ جانا، ہم نے ساری رات تجھے بھابھی جی سمیت یہیں کھڑا رکھنا ہے"

وہ پہلے ہی کاشف کی شرارت بھانپے پہلے کمرے میں گھسنے کی کوشش میں تھا مگر یہاں بھی وہ سب راہ کی دیوار بنے شہیر کو تپانا شروع ہوئے اور اب تو اماں کوثر اور وریشہ نے بھی مسکرا کر اس رسم کو انجوائے کیا، وریشہ تو ہیل میں مقید پیروں کے درد تک کو اس مستی کے بیچ بھلا چکی تھی۔

"اچھا! منگتے جان نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔لو عیاشی کرو۔

اور سن! اگر اندر کچھ ہوا نا بچے تو دیکھیں تیرے خاص دن پر پوری دنیا دیکھے گی شہیر کا انتقامی بدلا"

اول وہ سبھی غریب مسکین یاروں کی طرف دیکھے مغرور ہوئے بولا اور پھر پورا والٹ ہی پینٹ کی جیب سے نکال کر کاشف کے ہاتھ میں تھمایا اور زرا قریب ہو کر اسے خاص دھمکی بھی دی جس پر کاشف نے فوری منصوعی شریفانہ سر کی جنبیش دی اور وہ والٹ پاتے ہی یاروں کو آنکھ مارتا انکے ساتھ ہی ہنستا ہوا دو قدم پیچھے ہٹا جبکہ شہیر نے مڑ کر ایک ایک نظر دونوں خواتین پر ڈالی۔

"دو منٹ رکو یہیں، مجھے ان نمونوں پر رتی برابر یقین نہیں"

شہیر نے دروازے کے ناب پر ہاتھ رکھے رخ موڑ کر وریشہ کو کہا مگر وہ مسکراتی ہوئی فورا سر ناں میں ہلا چکی تھی۔

"نو، ساتھ دیکھیں گے"

وریشہ کے اصرار پر خود کوثر صاحبہ بھی مسکرائیں جبکہ کاشف کچھ فاصلے پر لاونچ کی دیوار سے جڑھ کر کھڑا ابھی ہوتے دھنگے کے لیے اشتیاق سا آنکھوں میں بھرے کھڑا تھا اور باقی یار بیلی بھی ہنسی دبائے ہوئے تھے۔

وریشہ کے اصرار پر مجبورا اسے اور اماں دونوں کو ہی ساتھ لے جانا پڑا، اور جیسے ہی شہیر نے اندر قدم بڑھا کر مین سوئچ اندازے سے تلاشتے مین لائیٹ آن کی، نہ صرف پورا کمرہ روشن ہوا بلکہ وہ جو پھلجھڑیاں پٹاکے کاشف نے فٹ کیے تھے وہ شہیر کی ٹانگ لگنے کے باعث انکے ساتھ اٹیچ دھاگے کے ٹوٹنے سے ایک ساتھ چھڑ چھڑ کیے نہ صرف پھٹے بلکہ کچھ سیکنڈ پھلجھڑیاں جہاز بنے پورے کمرے میں گھومیں اور وریشہ اور اماں کوثر کی ہنسی بھی گویا ان پٹاکوں میں شامل ہوئی وہیں شہیر تو یار کی کروائی سجاوٹ پر مبہوت ہو گیا تھا ورنہ ضرور اسکی باہر جا کر گچھی مڑوڑتا۔

کاشف صاحب اندر جھانکے تو سب ہی اب مسکرا کر اس پردوں کے بیچ سے منہ نکال کر اندر جھانکتے آفت کے گولے کو دیکھ رہے تھے۔

"ہاہا کاشف بھائی، آپ نے تو کمال کر دیا۔ یہ بہت سوئیٹ ویلکم تھا آئی سوئیر"

لو جی دیور صاحب کی حرکت پر تو بھابھی جان فدا تھیں اور وہ فخریہ کالر جھاڑتا پورا اندر داخل ہوا اور شہیر صاحب اب بھی اسے گھورتے پائے گئے۔

"رک زرا، بلکل اچھا ویلکم نہیں تھا، اب دیکھنا تو، تیری شادی پر خاص ایٹم بم منگواوں گا۔ اور تجھے اڑائے گا وہ، ان پھلچھڑیوں کو پھلچھڑے نہ بنایا تو میرا نام بھی شہیر مجتبی نہیں"

شہیر کیسے نہ درگت بناتا، کہتے ہی کاشف صاحب دم دبا کر بھاگے اور شہیر بھی پیچھے ہی باہر اسکی گردن مڑوڑنے نکلا اور پیچھے اماں کوثر اور وریشہ کی ہنسی منظر اور حسین کر گئی۔

کمرہ پہلے ہی خوبصورت تھا اب تو انتہائی پرکشش اور زیائشی ہو چکا تھا، اماں کوثر اسے اسکے تمام کپڑوں کا وارڈرب میں ہینگ ہونے کا بتاتیں پیار کرتیں کمرے سے نکل گئیں اور وہ دلہن بنی لڑکی اس سجاوٹ پر فدا ہو گئی۔

اگر یہ سب کاشف نے کیا تھا تو واقعی وہ داد کا مستحق تھا کیونکہ وریشہ اپنے روم کو ایسا ہی پھولوں سے سجا ہوا سوچے بیٹھی تھی اور یہ فسوں خیز ماحول بھلے اسکی گھبراہٹ بڑھا چکا تھا پر وہ اس قدر خوش تھی کے بیان کرنا مشکل تھا۔

کچھ دیر کمرے پر طائرانہ نگاہ ڈالے وہ بیڈ کی جانب بڑھی اور سفید اور سنہری مخملی بستر اور چار خوبصورت ویسے ہی تکیے دیکھتی مسکائی، اور پھر موتیے کے پھولوں کے ساتھ گلاب کے سراپوں کا وصال اور وہ لڑیاں جو بیڈ کے اطراف کے بجائے دیواروں پر لگی تھیں، کمرے میں فرش پر قالین تھا جبکہ پھولوں کے گلدستے جگہ جگہ رکھے گئے تھے اور پھر موم بتیاں جو ماحول خوشگوار اور خوشبودار کرنے کا سبب تھیں۔

وریشہ وہیں بیٹھی اور رخ موڑ کر ایک بار پھر سجاوٹ پر نگاہ دوڑائی، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور خوشی کے مانو پھول کھل گئے تھے۔

جبکہ شہیر کو باہر لانے کا بھی یہ کاشف لوگوں کا پلئن تھا کیونکہ اب ایک گھنٹہ وہ سب شہیر کو مزید وریشہ سے دور رکھنے کا پلین کر چکے تھے ۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

خانم حویلی کا جشن دس بجے اختتام پذیر ہو چکا تھا، تمام مہمان رخصت کر دیے گئے تھے، پورے علاقے کے معززین اپنی فیملی کے ساتھ سردار کی شادی پر مدعو تھے اور سب نے ہی سردار کو بے حد دعاوں اور عزت سے نوازا تھا۔

مرد خضرات بھی اب تھکن اتارنے کو اپنی مردانہ بیٹھک ختم کرنے کا فیصلہ لے چکے تھے، عزیز خان کے حوالے بیٹھک کے معززین کیے، ولی خود دلہا میاں کو لے کر وہاں سے نکل گیا اور اس بیچ اس نے مشارب سے ونیزے کی کنڈیشن کا راز بھی ڈسکس کیا۔

"لالہ! ایک بات بتائیں۔ کیا وریشہ کو واقعی بھول گئے ہیں؟ کیسے؟ ونیزے ہر درجے بہترین ہیں مگر میں نے سنا تھا کہ محبت کبھی دل سے مدھم نہیں ہوتی اور لاحاصل تو سفاک سی کسک بن جاتی ہے"

وہ دو اس وقت سٹنگ ایریا کی جانب کھڑے تھے، مشارب کے سوال پر ولی کے چہرے پر پرسکون سی مسکراہٹ پھیلی۔

"تم نے ٹھیک سنا ہوگا لاڈلے! مگر مجھے نہیں لگتا میرے دل میں کوئی کسک موجود ہے۔ اسکی بڑی وجہ ونیزے کا مجھ سے بے حد محبت کرنا ہے، یعنی اس لڑکی نے مجھ سے اتنی محبت کی ہے کہ میرے اندر پائی جاتی ہر حسرت چپکے سے دور کر دی۔ اور جب آپکو خود سے محبت کرنے والے کی قدر بھی اللہ کرا دے پھر پچھلی ہر محبت صرف ایک خیال بن جاتی ہے، میں نے وریشہ سے جو محبت کی اس پر مجھے کبھی ملال نہیں ہوگا کیونکہ وہ ایک حسین سفر تھا اور ہمیشہ رہے گا لیکن اس میں نہ کوئی طلب باقی ہے نہ کوئی حسرت، وہ ایک خوبصورت رشتہ ہے مگر دنیاوی حد تک رہ جائے گا، مگر جو محبت میں ونیزے سے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، وہ اللہ کی طرف سے ولی زمان خان کا مرہم ہے۔ اور اسکے ساتھ جڑا رشتہ صرف دنیاوی نہیں، ابدی ہے اور تم جانتے ہو میں ایک حقیقت پسند انسان ہوں"

ولی نے بہت خوبصورتی سے مشارب کی پریشانی ہٹائی اور ونیزے کی صحت کے لیے مشارب کا دل شدت سے دعا گو تھا۔

"مجھے تسلی ہوئی، آپکا ظرف ہی دراصل آپکا مرہم ہے اور خوش نصیب ہوتے ہیں وہ انسان جو اپنے حاصل کی قدر کرتے ہیں۔ دعا ہے وہ جلد اس بیماری سے لڑ کر زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ آپکے ساتھ ہوں، اپنی دعاوں سمیت"

وہ ولی کا دل دلاسے سے بھر رہا تھا جو واقعی ولی کو درکار تھا کیونکہ بھلے اس نے ونیزے کو بہت مضبوط کر دیا ہو لیکن اس لڑکی کی زندگی کے بارے ولی متفکر تھا، ایک لمحہ بھی وہ اسکی فکر سے غافل نہ ہوا تھا۔

کل رات جب وہ ایک اور بار، پہلے سے زیادہ ولی کی محبت پانے کے بعد پرسکون نیند میں اسکی آغوش میں سو رہی تھی تو ولی ناجانے کس خوف کے بھیانک احساس کے تحت اپنی پختہ نیند سے جاگ کر اسکی چلتی نبض دیکھنے لگا، اسکی چلتی سانسیں محسوس کر کے اسکی بے چینی مٹی جو بے اختیار اس سے آن لگی۔

اور ابھی اسے اپنی بے قراری یاد آئی تو اسکی آنکھوں میں ان کہا خوف سمٹ آیا۔

"ان شاء اللہ! سچ یہی ہے مشارب کے وہ چند دنوں میں ہی مجھے اتنی عزیز ہو گئی ہے کہ اگر یہ سوچوں کہ اسکے بغیر ایک دن رہنا پڑے تو دل کو کچھ ہونے لگتا ہے، شاید محبت سے پہلے میں اسکی عادت میں مبتلا ہو گیا ہوں"

وہ ایسا اظہار خاصے افسردہ طریقے سے کر رہا تھا تبھی مشارب بھی لالہ کے دل کے آباد ہوتے آثار دیکھ کر افسردہ ہی مسکرایا، لالہ کو پکڑ کر سینے میں بھینچ ڈالا۔

"اور یہ عادتیں زیادہ جان لیوا ہوا کرتی ہیں، اداس نہ ہوں۔ کچھ نہیں ہوگا انھیں"

ولی کو بھی اس وقت تسلی کی ضرورت تھی اور مشارب نے یہ کام بخوبی سرانجام دیا تھا، ویسے بھی وہ ونیزے کی بیماری کے متعلق مزید کسی کو بھی پریشان نہیں کر سکتا تھا۔

"آمین! خیر تمہیں بھی افسردہ کر دیا۔ جاو زونی انتظار کر رہی ہوگی۔ شب بخیر، صبح ملتے ہیں"

آمین تو ولی کے دل نے شدت سے کیا جبکہ نئے نویلے دلہے کا خیال آتے ہی جناب نے اسے زوجہ کی طرف چلتا کیا اور جاتے جاتے بھی مشارب، اسے گلے لگا کر گیا تھا۔

اسکے جاتے ہی ولی بھی گہرا سا سانس کھینچے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

وہ چینج کیے نائیٹ کے لیے ہلکا سا پیلا جوڑا پہنے ہوئے، ننگے پیر قالین پر کھڑی ، بالوں میں برش کر رہی تھی جب جناب بنا آہٹ کیے اندر آئے اور مسکرا کر ونیزے کو دیکھتا اس تک پہنچا اور آہستگی سے اپنی بازو اسکے گرد باندھ کر آئینے سے اسکی اپنے جیسی آنکھیں دیکھیں اور ونیزے نے برش پکڑ کر سامنے ڈریسنگ پر رکھا،اسے ونیزے پھر سے تھوڑی بجھی لگی اور وہ پہلے ہی پریشان تھا، مزید ہوا۔

"ونیزے! تم ٹھیک ہو؟"

اسے ولی کا پوچھنا ہی روشن کر گیا، اپنا آپ وہ ولی کے حوالے کیے آسودہ سی کھڑی تھی۔

"بہت ٹھیک، بلکہ بہت خوش۔ پہلی بار اتنی مزے کی خاندانی شادی دیکھی ہے، میری آنکھوں پر مت جائیں ولی۔ آرٹی فیشل لیشیز سے الرجی ہے مجھے اسکا ری ایکشن ہے بس آنکھوں میں۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا، روز واٹر ڈالا ہے"

ونیزے نے پہلے تو اپنی خوشی کا اظہار چہک کر کیا مگر پھر ولی کو پریشان دیکھ کر وہ اپنی ہلکی ہلکی سرخ آنکھوں کی وضاحت دیے اسکے حصار میں پلٹ کر اسکے روبرو ہوئی۔

"تو کیا ضرورت تھی لگانے کی، تمہاری اپنی لیشیز۔۔۔۔!"

وہ برہمی سے کہتے کہتے تب رکا جب اس نے ونیزے کی بھنویں بغور دیکھیں۔

"جب پہلا آپریٹ ہوا تھا تو ٹوٹنے لگ گئیں تھیں، شدید ہیوی میڈیسن سے میرے جسم کی جلد بھی اترنے لگتی تھی اور بال بھی کمزور ہو گئے تھے، بلکل مدھم ہو گئیں تھیں یہ۔ لیکن اب تو پہلے سے بہتر ہو گئی ہیں دیکھیں۔ ایسا سمجیں آخری بار آرٹی فیشل کا سہارہ لیا کیونکہ شادی کے لیے سردارنی کی طرح سجنا تھا، آپکو پتا ہے ولی، میرے سر کے بال گرنا بھی اچانک بند ہو گئے"

وہ خود اسکی آنکھوں کو بدلا محسوس کر رہا تھا جبکہ بالوں والی بات پر ولی نے بے اختیار اسکے کھلے ریشمی بالوں میں انگلیاں چلائیں اور چند بال ہی تھے جو ٹوٹ کر ولی کی ہتھیلی میں آئے اور یہ سب تبدیلیاں خود ونیزے کو حیران کیے ہوئے تھیں۔

"یہ اچھے سائن ہیں، اللہ سے دعا کیا کرو خود بھی کہ تمہیں ٹھیک کر دیں"

وہ اپنے دل کو بمشکل تکلیف میں ڈوبنے سے بچا سکا تھا پر جس طرح ولی نے اسے گلے لگا کر منصوعی حوصلے سے کہا، اسکی آواز مضبوط ہو کر بھی کھاری تھی تبھی ونیزے کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری، اس شخص کی خوشبو اسے دنیاوی ادوایات سے کہیں درجے آرام بخش رہی تھی۔

"آپ پریشان ہیں؟ میرے لیے"

وہ اپنی مرمریں ہتھیلوں کو ولی کی پشت پر سہلاتی، اپنی گال اسکی گال سے جوڑے سرگوشی میں بولی تو ولی نے گرفت کچھ مضبوط کی۔

"تھوڑا سا ہوں"

وہ اپنا خوف چھپا نہ سکا اور ونیزے اسکی تکلیف محسوس کر رہی تھی، وہ اسکے لیے اتنا ٹچی بھی ہوگا یہ ونیزے نے کب سوچا تھا، رات جب وہ اسکی دھڑکنیں دیکھنے کو جاگا تھا تو ولی کے دوبارہ سونے کے بعد وہ بھی اسکے لمس محسوس کیے جاگی تھی، اور اسکی تڑپ پر ایک بار پھر ولی پر قربان ہو گئی تھی۔

"مت پریشان ہوں، ابھی تو پاس ہوں آپکے، اور میری محبت ابد تک آپ کی ملکیت رہنے والی ہے۔

آپ میری ہر تکلیف کا علاج ہیں ولی، آپ کا مجھے یوں گلے لگانا میری زندگی کے دن بڑھاتا ہے اور وہ زندگی کی لہر میں باآسانی اپنے وجود میں اترتی محسوس کر سکتی ہوں۔ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں، آپ ونیزے کے لیے اسکی چلتی سانسوں سے کہیں بڑھ کر قیمتی ہیں۔ اور آپ کا میرے لیے پریشان ہونا، مجھے کسی بے انتہا اونچے درجے پر بیٹھا دیتا ہے جیسے میں آپکے لیے بھی بے حد قیمتی بن گئی ہوں"

اس وقت وہ خود کو بہتر محسوس نہیں کر رہا تھا، اور کئی وجوہات تھیں جو وہ بھی جانتا تھا اور ونیزے بھی تبھی اس نے ولی کو دیکھنے کی ضد نہ کی لیکن وہ اسکے پاس رہ کر اسے ہر فکر سے آزاد رکھنے کی خواہش مند ضرور تھی۔

"تو تم ہو ناں قیمتی پارٹنر، تم نے مجھ سے محبت کی ہے، تم نے میرے روبرو اپنا مول یہ کر کے خود بڑھایا ہے۔ میں واقعی تمہارے لیے فکر مند ہوں، کمزور پڑ رہا ہوں۔ تم سے اس لیے کہہ رہا ہوں کے تم مجھ سے زیادہ بہادر ہو"

وہ اسکے روبرو خود آیا، اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اسکی جبین چومی، اور وہ جب پارٹنر کہتا تو ونیزے کا دل عجیب سی لے سے دھڑک اٹھتا۔

"آئی ایم سو لکی کہ میرے لیے آپ جیسا بہادر ڈر رہا ہے، کل شاید آپ نے اپنی مضبوطی مکمل طور پر ونیزے میں منتقل کر دی اور میرا سارا خوف خود لے لیا، سو سنیں! میں آپکو چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والی، دنیا سے چلی بھی گئی تو ہر رات آپ کے پاس روح بن کر آجایا کروں گی پکا"

یہ باتیں اس نے ولی کو ہنسانے کو کیں تھیں پر وہ کیا بتاتا کہ وہ اسے یونہی پاس چاہیے، جسے وہ چھو سکے، جسے محسوس کر سکے، جسکی محبت میں اپنے سارے خسارے بھلا سکے۔

"اور دن کیسے کٹیں گے پھر میرے ونیزے؟"

وہ خفگی سے اسکی زندہ دلی پر بگھڑا اور ونیزے کی آنکھیں لمحہ بھر خالی ہوئیں۔

"دن رک جائیں گے"

وہ بے اختیار کہیں کھو گئی تھی۔

"سٹاپ دس نان سینس"

وہ خفگی سے بڑبڑایا، اسے اس وقت یہ باتیں ہرگز قبول نہ تھیں اور ونیزے نے اسکا ہاتھ پکڑے نہ صرف اپنی طرف پلٹا بلکہ بے اختیار ہی اس ناراض ہوتے شخص کو اپنی محبت کے بے باک انداز کے ایک نئے آغاز کے سنگ بلاخوف جکڑ لیا اور یہاں ولی بے اختیار کر دیا گیا،اسکی ساری خفگی دھول بن کر اڑ گئی۔

رہ گیا تو اس مختصر استحقاق بھری پہل کے جواب میں شدت بھری پیش رفت کا سحر اور اس کے باعث ماحول پر طاری ہوتا جان لیوا فسوں۔۔۔۔!

وہیں مشارب بھی کمرے میں پہنچا تو زونی چینج کیے بھی پہلے سے خوبصورت روپ میں لپٹی سردار کی منتظر تھی اور مشارب کے اندر آتے ہی آئینے کے روبرو کھڑی وہ واپس مدھم سا میک اور مکمل کر کے مڑتی زونین، مشارب زمان خان کی آنکھوں کے والہانہ اظہار دیکھتے ہی قریب آتے آتے دم سادھ گئی مگر وہ اس حسن کی ملکہ پر بھرپور نگاہ ثبت کیے خود اسکے نزدیک گیا۔

کوٹ اس نے اتار کر بازو پر رکھا تھا جبکہ اس ہوش ربا تک پہنچتے ہی کوٹ اک طرف رکھے جناب نے گہری نظروں کے لمس سے زونی کے حسن کو چھیڑا اور اسے دونوں بازو زونی کی کمر پر رکھتے ہی اس کی بہکتی نگاہیں بے اختیار ان صندلی ہونٹوں پر جا ٹھہریں۔

"خدا کی پناہ! پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئی ہیں لیڈی۔ یہ آپ ہی ہیں یا میرا کوئی خواب ہے، میری محبت آخر کار وصل تک آ ہی پہنچی، اس لمحے کا انتظار جتنا پیارا تھا اتنا جان لیوا بھی تھا۔ ناجانے کیسی محبت کی میں نے جو بارہا میرا اور آپکا درد بنی مگر دیکھیں اسکا اختتام راحت پر ہوا"

آج اس شخص کے انداز دل راغب کر کے تمام پردے چاک اور تمام حدیں توڑنے جیسے تھے اور آج وہ مشارب کی تمام محبتوں اور شدتوں کو چھکنے کے لیے پورے دل سے بیقرار تھی۔

دونوں کے جسم و جان حدت پکڑ چکے تھے، دلوں میں قربت کی آگ بھڑک سی گئی تھی۔

"آپکی محبت درد نہیں بنی، ہماری کم عقلی راہ کی دیوار تھی۔ نہ پہلے جب آپ نے نکاح کر کے ہمیں خود سے دور کیا، ہم میں ہمت تھی کہ ہم آپکا گریبان پکڑ کر آپکو اپنا بن جانے کا پابند کرتے کہ آپ کون ہوتے ہیں ہم سے اس طرح کا بچھڑنے والے، نہ بعد میں سب جان بوجھ کر بھی آپکی بے جان سانسوں کی پرواہ کر پائے، لیکن ہم اپنی ہر نادانی کی تلافی کریں گے"

وہ تڑپ سی اٹھی تھی، اب جیسے اپنی خطائیں صاف دیکھائی دیں اور مشارب نے بے اختیار اپنی سانسوں کے حوالے سے برتی لاپرواہی کا بدلا چکاتے ہی اسکی کمر جکڑی۔

"تو کریں تلافی"

گھمبیر جذب سے اٹے لہجے میں کہتے ہی مشارب نے اس سفید مومی گڑیا کی سانسوں پر ناصرف اختیار جمایا بلکہ اسکا بے خود انداز اور اول لمحے کی لپک ہی اتنی پرزور تھی کہ زونین تو جسم جان تک اترتی سنسنی پر کپکپا سی اٹھی، اب سردار صاحب کی سانسوں کے لیے لاپرواہی برتنے کی اتنی سزا تو بنتی تھی کہ وہ اپنے باعث اس لڑکی کے پورے وجود کو لرزتا محسوس کرتا، اس پر رحم کھائے دوری اختیار کیے مسکرا کر جب وہ اسکی سانسیں بحال کی جاتی حالت دیکھنے لگا تو وہ رحم طلب ہوتی ان لپکتے ہونٹوں کی اول گستاخی پر ہی یوں تھی جیسے سانس لیتی سانس چھوڑ دے گی جبکہ مشارب کی نظر بے اختیار زونی کے ہاتھوں پر گئی جو اسکی شرٹ بری طرح جکڑے ہوئے تھے، اسکی دھانی آنکھوں میں اسی لمحے ہر شے ساکت کرتا سرور امڈا تھا جو سب فنا کر سکنے کی اہلیت رکھتا تھا۔

ج شدتیں اسکے ہر انداز سے چھلک رہی تھیں، جس پر زونی کی دھڑکنیں اسکے دل کا ساتھ چھوڑ رہی تھیں جیسے کوئی بے لوث محبتوں کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔

اس شخص کی بے تابیوں سے گھبرا کر زونی کے اسکے کشادہ سینے پر ہتھیلی جمائے فاصلہ قائم کرتے ہوئے پھر خود ہی اسے دیکھنے کی تاب نہ رکھتی وہ سانسوں کے زیر و بم کے ساتھ اسکے سینے میں چھپ کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی۔

اپنے وجود سے، دل سے، سانسوں سے لپٹی اسکی ہوش ربا مہک مشارب کی دھڑکن قدرے مدھم کر چکی تھی، اور پھر مشارب کے دل کو سست پڑنے کے لیے تو اس لڑکی کی صرف موجودگی ہی کافی ہوتی تھی اور آج تو وہ اسکی دسترس میں خواہشوں، شدتوں، چاہتوں کا گلاب بنی مہک رہی تھی۔

"ک۔۔کیا آپ ہم سے ابھی بھی خفا ہیں مشارب"

اسکی بے لگام ہوتی قربت کا ستم بھلائے جیسے وہ اسکی ناراضگی کے خوف سے بے جان ہوتی دھیرے سے بولی جبکہ مشارب کی آنکھوں کا سرور لمحوں میں دلفریب مسکراہٹ کا روپ دھار گیا۔

"آپکو ایسا کیوں لگا زونین؟ کہ میں آپ سے خفا ہوں۔ میرے بے درد بن کر چھونے سے؟"

اپنی پوری قوت لگائے وہ اسکو سینے سے علیحدہ کرتا، اسکی اداس سی ، ڈری آنکھوں میں جھانک کر مسکراتے لہجے کو ہر خماری سے پاک کیے پوچھ رہا تھا مگر پھر پھر اسکے معنی خیز سوال کی شدت پر زونی کی پلکیں حیا کے باعث گر کر اٹھیں، مشارب کے دل کی دنیا میں تہلکہ تو ان عارضوں کی جنبش ہی برپا کر دیا پھر آج تو وہ اسے مکمل حاصل ہونے والی تھی۔

"ن۔۔نہیں تو"

زونی نے فورا نفی کی کیونکہ وہ یہ ہرگز نہیں کہہ پائی کی اسکے شدتیں چھلکاتے انداز ، زونی کے لیے امتحان بنے ہوئے ہیں جبکہ مشارب اپنی اول بے اختیاری کی رومانیت کم کرنے کو اسے نرماہٹ کے سنگ زونی کی معصومیت پر خود میں دوبارہ بسا گیا، جیسے کوئی بہت مدت بعد اپنے آپ سے ملتا ہے، بہت مدت بعد جیسے کسی کو کامل سکھ ملتا ہے، اس بار اسکی گرفت میں روح سہلاتی نرمی تھی جو زونین کو انگ انگ تک اترتی محسوس ہوئی تبھی وہ حیا سے پرنور مسکان کا لمس ہونٹوں پر دبائے آسودگی سے آنکھیں موند گئی۔۔

"آپ جانتی ہیں کہ آپ کے سامنے مجھے کچھ یاد نہیں رہتا کہ کتنی نرمی برتنی ہے اور کس حد تک بہکنا ہے، آپکے آنسو میرے دل پر گرتے ہیں اور میں جتنا بھی آپ سے ناراض ہو جاتا، وہ آنسو میرے دل کی تمام خفگی دھو گئے اور ویسے بھی میں آپکی کسی خطاء پر آپکو سزا دینے کا حق نہیں رکھتا کیونکہ یہ بے وجہ سزا دینے کا سلسلہ میں نے ہی شروع کیا تھا اور آپ نے اسے ختم کر دیا"

اسکے ہر انداز میں معذرت سی تھی اور آنے والے وقت کے لیے یہ امید بھی کہ ان دو کے بیچ اب کوئی نہیں آئے گا۔

اپنے بھاری لہجے میں حکایت دل سناتا مشارب کم جان لیوا تھا مگر وہ محصور کن لمس دل کی دنیا دہلانے جیسے تھے جو آج زونین کو ہرلمحہ میسر آنے والے تھے، وہ اسکی خوشبو اور سانسوں کا نشہ آج تفصیل سے کرنے کے ارادے کیے بیٹھا تھا۔

"پرانی باتیں بھول جائیں، ہم آپ سے بالکل ناراض نہیں تو آپ بھی ہمارے لیے دل کو صاف کر لیں"

وہ اسے روبرو لائے یہ سب سمیٹ دینے پر بضد تھی اور مشارب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائے دلفریب اقرار کیا تھا۔

"آپ کے لیے یہ دل کبھی میلا نہیں ہو سکتا میری جان، آپ تو پوری اس دل کی سلامتی کی وجہ ہیں لیڈی ۔خیر مسیز مشارب یہ بتائیں کیسا لگ رہا ہے ہمیشہ کے لیے میرے پاس آ کر؟"

اول لمحے اظہار سے سرشار الفاظ کہتے ہی وہ پھر سے اس لڑکی کی موجودگی سے جسم و جان پر خمار سا طاری ہوتا محسوس کر رہا تھا، وہ اسے کھلے بالوں میں ہاتھ کی انگلیاں چلاتا بولا تو اک لمحہ اسکے اسقدر قریب خود کو موجود پائے اسے یہی لگا کہ اس شخص کی دھڑکن اسکے وجود میں منتقل ہو رہی ہو۔

"ہم آپکو پا کر مکمل پرسکون ہو گئے ہیں، اب یہ ڈر نہیں کہ آپ سے دور ہونا پڑے گا"

زونین نے بنا ہچکچائے اپنے دل کا سچا اظہار اسے سونپا کیونکہ وہ اب اسکی محبت کا حقیقی مستحق بن چکا تھا۔

"لیکن میں ابھی بھی سکون سے دور ہوں، اب بھی آپکی کمی اندر تک اتری ہوئی ہے"

وہ اسکے بے تاب انداز پر فطری فکر کا شکار ہوئی، گویا مشارب کی بے سکونی اسے تڑپا گئی، تبھی بے اختیار اس نے اپنی مرمریں ہتھیلوں کو مشارب کے چہرے سے جوڑا۔

"ل۔۔لیکن ہم تو آپکے بہت پاس ہیں ناں"

وہ اسکی تڑپ پر مزید قریب چلا آیا، اسے خود میں بسائے اسکی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا، اسکے سرکتے ہاتھ ان کھلی خوشبودار زلفوں میں ہنوز الجھے تھے جنھیں ہر الجھن سے اسی واسطے آزاد کیے سنوارا جا چکا تھا، مشارب نے روشن کمرے میں خوبناک اندھیرا کر دیا، کیونکہ اپنا ریت ہوتا اختیار خود مشارب سے بھی دیکھنا اب منظور نہ تھا۔۔

"میں چاہتا ہوں آج آپ میرے مزید قریب آئیں لیڈی، ان ساری کمیوں کو ختم کریں جو میرے دامن میں سمٹی ہوئی ہیں، میرے اس وجود کو ایک نئی راحت سے

متعارف کروائیں، میرے دل کے تمام درد سمیٹ لیں"

وہ اس کی جذب سے کی سرگوشیوں پر بے ساختہ مسکائی، کھڑکی کے بند شیشے سے جھانکتے چاند کی خوابناک روشنی میں اس لڑکی کے چہرے پر بکھرا گلال نہایت حسین تھا۔

"ہم سمیٹ لیں گے، ہم سمیٹنا چاہتے ہیں"

مختصر مگر جان لیوا سرگوشی پر مشارب کے ہونٹوں پر بھی متبسم لمس بکھرا جو اس نے اس کی آغوش سے نکلتے ہی اسکی گلال اوڑھتی رخساروں کو عنایت کیا، پھر جیسے دونوں کی دنیا جہاں کی نایاب آنکھیں ملیں تو دل کے کئی تاڑ چھیڑ گئیں، اسکے فدا ہو جانے پر زونین کے چہرے پر قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے، شدتوں میں ڈوبے لمس بےترتیب سانسوں کا موجب بننے لگے۔

"آپکے وجود کی یہ سوندھی سی خوشبو آج مشارب زمان کے سر چڑھ کر بولنی چاہیے، اٹش یور ٹاسک لیڈی۔ "

خمار آلود آنکھوں میں بلا کی شرارت بھرے وہ ہر بے خودی اک طرف کیے دل کے تار چھیڑ دیتا مسکرایا اور وہ شرمگیں مسکراہٹ والی حواس اڑنے پر لمحہ بھر تھمی، پھر خود ہی اسکے بے باک انداز پر شرم سے اس لڑکی کی پلکیں بوجھل ہوئیں۔

وہ نزدیک آیا، ان آنکھوں کو باری باری لبوں سے چوما، پھر کمر پر ہاتھ جکڑتے ہی زونین کی مشکل آسان کیے خود ہی جذب سے اسے خود میں مبتلا کیا۔

"م۔۔مشارب۔۔!"

وہ اسکے جذباتی وار سے ڈھے گئی، اعتراض کی جسارت کرنی چاہی مگر اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھے لفظوں کا سفر روکا۔

"میری جان، اعتراض کے علاوہ سب سنوں گا مگر آج آپ میری محبت کی تمام تر شدتیں دیکھنے کی پابند ہیں"

وہ دیوانگی میں ڈوبی آواز اسے بھی مدہوش کر رہی تھی، جبکہ بے اختیاری نے ملائم پھول کے سرد اثر کی مانند اسکے چہرے پر جابجا اپنے اثرات چھوڑے، آج ان کے بیچ کی لافانی کشش بس قربت کے نئے رموز تسخیر کرنے پر مائل کر رہی تھی تھی۔

"ہمیں بھی آپکے وجود کی خوشبو سے محبت ہے، کبھی نہیں کہا مگر ہمارے دل آپکی طرف بڑھنے کے لیے ہمیشہ مائل رہتا ہے، آپ محبت نہیں کرتے، آپ زونین کو اپنے قریب کر کے معتبر کرتے ہیں، ہم آپکی ہر تکلیف کو خوشی میں بدلیں گے، ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے"

اپنے ہوش وحواس میں وہ پہلی بار اسکی قربت کیلئے تشنگی ظاہر کررہی تھی اور یہ اس شخص کی راحتوں میں بتدریج اضافے کا سبب بنا تھا۔

"اور آپ کی محبت کا یہ جان لیوا انداز کیسے نہ مجھے حدوں سے تجاوز کرنے پر  اکسائے، آپ میرے ہونٹوں کی وہ دعا ہیں زونین، جسے مانگتے ہوئے میں نے ہمیشہ سکون محسوس کیا۔ آپ میری زندگی کی مٹھاس ہیں"

مشارب زمان کے پر حدت، جذب سے لبریز لفظوں کے حصار میں الجھی وہ خوف و خوشی کی شدت سے ڈبڈبائی نگاہیں اس پر جمائے دھڑکتی ہوئی روبرو کھڑی تھی، تبھی تو اس مٹھاس کو اس نے انگ انگ تک اتارنے کی شان دار شروعات کی تھی، اور وہ اپنے اختیار کا ہر دھاگہ پوری رضا سے اس شخص کو دے گئی کہ اب الفاظ نہیں اسے مشارب زمان خان کے وہ مرہمی لمس درکار تھے جو اسکے دل کی رہی سہی تکلیف بھی خود میں جذب کرلیتے۔

سرد سی رات، ان دو کی سانسوں ، دھڑکنوں اور قربت کی حدت سے ملائم ہو رہی تھی، دہک اٹھی تھی۔

آج کوئی حد نہیں تھی ایک دوسرے کو تسخیر کرنے کی، آج بے حد ہو کر کئی ادھار چکانے کی باری تھی اور اسکے نزدیک چلے آنے نے ہر اعتراض کو کہیں دور جا دفن کیا تھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

آخر کار گھنٹے تک یاروں کی مغز ماری کے بعد وہ خفت زدہ سا سب سے جان چھڑوائے روم میں آہی گیا تھا مگر فسوں خیزی کی شان بڑھاتی آپسراہ کو اس سجی جگہ سے غائب دیکھ کر شہیر نے طائرانہ سی نگاہ وسیع کمرے پر ڈالی، ہر چیز سے نفاست اور سلیقہ تو چھلک ہی رہا تھا پھر جس خوبصورتی سے سجاوٹ کی گئی تھی وہ شہیر کے تمام بگھڑے موڈ کو ایک بار پھر خوشگوار کر گئی، آج اسے ہوش و حواس سنبھالنے میں ناجانے کتنی مشکل پیش آنے والی تھی اور فقط سوچ کر ہی دل گداز لے میں تیزی سے دھڑک اٹھا۔

وہ کوٹ اتار کر وہیں صوفے کی جانب اچھالتا، آستینوں کے کف فولڈ کیے بازو زرا سی چڑھائے کمرے میں پل پل بڑھتی ٹھنڈک کا توڑ کرنے پہلے کمرے کے کونے میں بنے خوبصورت راوئیتی سے آتش دان کی طرف بڑھا جہاں رکھی گئی دو لکڑیاں مکمل جل چکی تھیں تبھی وہ مزید دو لکڑیاں آگ کے مدار میں دیے خود بھی اٹھ کھڑا ہوا، آگ یکدم بھڑک اٹھی تھی بلکل اسکے دل کی آتش جنون کی طرح، رنگ اور شعلے نکلنے لگے تھے، شہیر نے گردن گمائی تو بیڈ پر وریشہ کا بھاری دوپٹہ دھرا تھا۔

اور واش روم میں چلتے نل سے وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وریشہ اندر ہے۔

شہیر نے ہاتھ بڑھا کر وہ بھاری آنچل اٹھایا اور مسکرا کر اسکی خوشبو سونگھی، اس لڑکی کی مہک اس سے تو کیا، شہیر مجتبی کو آج خود سے بھی آرہی تھی۔

اور جس کی خوشبو ہی حواس چھین لے، اسے مکمل تسخیر کرنا کس قدر نشاط انگیز ہوگا، یہ سوچنا ہی آج دل کی دھڑکنیں بڑھا رہا تھا۔

پھر ناجانے کیا سوچ کر وہ آنکھوں میں شرارت سے لیے پلٹا، اور وریشہ جو واش بیسن کے پاس کھڑی مصروف انداز میں میک آپ ریموو کرنے میں مصروف تھی، شہیر کے بے تکلف انداز میں اندر آنے پر پہلے تو چونکی مگر پھر اپنی آنکھوں کے منصوعی سارے رنگ اتار کر ہونٹوں کو یاقوتی رنگ سے ہی سجا رہنے دیتی مبہم مسکرا کر واپس اصل حالت میں لاتی وہ زرا سمٹی ہوئی اس سے پہلے پلٹ کر اسے دیکھنے کی ہمت کرنے ہی لگی، جب شہیر نے اسی طرح پلٹے ہوئے ہی اس لڑکی کو حصار کر اپنے بس میں کیا، اسکی کمر اپنے سینے سے جوڑی اور گہرائی سے ان خوشبووں کے جھونکوں کو سانسوں میں اتارا، اس یاقوتی رنگ کی شان ہر پس و پیش کو بھلا کر بڑھائی، اس دہکتے حسن کو محبت کے رنگوں کی اک نئی گہرائی سے خراج دیا، کہ اسکے ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں کا لمس تک وریشہ کو آج روح تک جھانکتا محسوس ہوا اور حق دار جسارتوں کے اثر تو ہر طرف حشر برپا کر چکے تھے، وریشہ ہر گھبراہٹ کے باوجود اسکے بے باک انداز پر چہرے پر خون سمٹ آنے کے باوجود حواس باختہ سی مسکرائی کہ یہ تو بنا مہلت دیے ہی خود میں اتار لینے کی کوشش میں تھا۔

"شہیر! سنو پلیز ،اس سنگار اور جوڑے سے سچ میں اب مجھے الجھن ہو رہی تھی، مجھے پتا ہے تم مجھے اس روپ میں مزید دیکھنا چاہتے تھے مگر اب تھک گئی تھی، سوری"

وہ اب بھی اسی سہاگن کے جوڑے میں ملبوس تھی مگر بالوں کو آزادی اور اپنے خوبصورت چہرے کو وہ ہر منصوعی رنگ سے آزاد کر چکی تھی اور وہاں اب شہیر مجتبی کی چاہتوں کے گلال بکھرے تھے جبکہ شہیر اسے ایسے ہی ہر منصوعی حسن سے پاک دیکھنے کا عادی تھا، وہ تو یونہی اس شخص کی جان لے لیتی تھی۔

"میں تمہارا یہ ہی نہیں آج ہر روپ دیکھنا چاہتا ہوں وریشہ"

اسکی گال سے لب جوڑے شہیر کی جذب سے اٹی دل دھڑکا دیتی سرگوشی نے وریشہ کے دل کو مٹھی میں جکڑ لیا مگر وہ آنکھیں آج اس من پسند شخص پر ٹکائے کسی خوابناک مسرور سی کیفیت میں مبتلا تھی۔

"جانتی ہوں، مگر تم جن نظروں سے مجھے آج دیکھ رہے ہو قفط وہی میرے دل کو گھائل کر رہی ہیں شہیر۔ پلیز پہلے کی طرح دیکھو ورنہ میرے دل کو ک۔۔کچھ ہو جائے گا"

وہ لاکھ خود کو اس بے حد اپنے کے روبرو آج مضبوط کرتی مگر شہیر کی آنکھوں کے جذبات اور خواہشات اسکی سکت اور برداشت سے زیادہ تھے، پھر جس طرح مدھم روشنی، مہکتی فضا اور قربت کا فسوں ان دو کو بہکانے پر تلا تھا، وہ جان سے گزرنے کے حالات سازگار کر رہا تھا، وہ بے حد نروس تھی کیونکہ اس شخص کا رعب اور اسکی منفرد مہک وریشہ کے حواس پر بھاری تھی۔

"آج ان پرانی عام نظروں سے نہیں دیکھ سکتا تمہیں، آج تم حد سے سوا پیاری ہو مجھے۔ میں تمہارے دل کو کیسے کچھ ہونے دے سکتا ہوں بیوی، آج مجھے انہی نظروں سے خود کو دیکھنے دو جن سے تم کو دیکھنے کا حق صرف میرے پاس ہے"

وہ اسکو یونہی تھامے روبرو لایا، اس شخص کا اک اک لفظ بالترتیب وریشہ کے دل کی دھڑکن تیز کر رہا تھا، پورا وجود اس شخص کی نظروں کے لمس سے تپش محسوس کر رہا تھا اور وریشہ کی تیز ہوتی سانسوں کا ارتعاش اس وقت اس چار دیواری میں مچل اٹھا تھا جو شہیر کو مزید مائل کر رہا تھا، جذبات کی دنیا میں تلاطم برپا کر رہا تھا، آج اسکے اندر طوفان جیسی شدت جنم لے رہی تھی۔

"تمہاری آنکھیں آج صرف مجھے دیکھ نہیں رہیں، چھو بھی رہی ہیں شہیر"

اسکا دل چاہا وہ اسکی ہمت کم کرتی آنکھوں پر ہاتھ رکھے مگر شہیر نے اسکے اس خیال کو تب حسرت بنایا جب وریشہ کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے پشت پر ٹکائے اور اس لڑکی کو مکمل بازووں میں حصار لیا۔

"کیونکہ تم انکی پہلی محبت ہو"

گھمبیر لہجے میں بولتا، نظر اسکے پیوست ہونٹوں اور بدلتی رنگت پر ڈالے، اسکے کانپ اٹھتے وجود پر نگاہ دوڑائے وہ بے اختیار اسکی جبین پر جھکا اور پیشانی سے پیشانی ٹکائے کچھ لمحے اس ٹھہر جاتے سانس کے دلگرفتہ ماحول کو محسوس کیا، یہ اعتراف کرتے ہوئے وہ وریشہ کی جب آنکھیں دیکھنے واپس روبرو ہوا تو ان میں نمی اتر آئی تھی، وہ آج اسکے پیار سے چھونے تک سے دلبرداشتہ ہوئے جا رہی تھی، جیسے وہ شخص اسکی دسترس میں آتے ہی اس قدر مقدس ہو گیا تھا کہ وہ ان مبارک لمحوں پر شکر سے بھر گئی تھی، اور آنسو اس لیے بے قابو تھے کیونکہ وریشہ نے اس شخص کے کبھی یہاں تک آنے کی امید نہیں کی تھی۔

ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ اسکے لیے صرف ایک حسرت بن کر رہ گیا تھا مگر اب وہ زرا سا قریب آکر اپنے بخت سنوار سکتی تھی۔

"نہیں ! یہ مت کرنا، تمہارے آنسو مجھے مزید کمزور کر دیتے ہیں وریشہ،تم روئی تو میں تمہیں اپنے رونے کی وجہ کیسے بتا پاوں گا"

وہ اسکی آنکھ سے بہتی نمی اپنی انگلی کی نرم پور سے جذب کیے بے اختیار اسکی اور لپکتے بولا، جبکہ وہ خود کو بہتر کرتے ہی خود ہی اپنی آنکھیں رگڑ کر واپس اس شخص سے شدت لپٹ گئی۔

"آئی فیل کہ آج مجھ سے کچھ کہا اور سنا نہیں جائے گا، مجھے بس آج تمہاری ضرورت ہے، تم سے اتنی محبت کر لی ہے کہ ایک لمحہ بھی تم سے مزید دوری برداشت نہیں، ک۔۔کیوں شہیر! کوئی کسی کو اتنا ہیارا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔تم نے مجھے برا ہرایا ہے کہ اب تمہیں دیکھے بنا مجھے قرار نہیں مل سکتا"

گلے لگ کر یہ سارے اظہار کرتی جان لیتی لڑکی کا ہر لفظ شہیر کی آنکھوں میں الگ ہی راحت اتارنے کا سبب بنا تھا تبھی اس نے گرفت مضبوط کیے وریشہ کے وجود کی فطری لرزش بڑی سہولت سے اپنے آپ میں قابو کی۔

اور اسے خود میں شدت سے سموئے وہ بھول گیا تھا کہ سانس لینے کی مہلت کے لیے بازووں کے بیچ گنجائش اہم ہے اسکے باوجود وہ اسی گرفت میں پرسکون ہو کر مبتلا رہی۔

"تمہاری محبت کی ہر گہرائی دیکھنے کو بے تاب ہوں ، مجھے بتاو آج کے کتنا پیارا ہوں تمہیں"

اسکا جواب وریشہ کو پھر سے چاہت اور اعتماد سے بھر گیا، اسکی ہچکچاہٹ اور جسم کی لرزش کم ہوئی تبھی وہ اس سے الگ ہوئی، اپنے دونوں ملائم حنائی ہاتھ شہیر کے چہرے سے جوڑے۔

"اتنے پیارے کہ تم نے مجھے میرا نہیں چھوڑا شہیر"

جذبوں سے اٹا اظہار کرتے ہی وہ آنکھیں موند کر اسکی دھڑکنیں بڑھانے خود پہل کر رہی تھی جبکہ وہ بھی اس اعزاز پر مدہوش سی سرمستی میں مبتلا اپنی سانسوں کے تار چھیڑتی ان گلاب کی پنکھڑیوں کی نرمی رگ جان تک تہلکہ مچاتی محسوس کر رہا تھا، اسکے ہاتھ وریشہ کی کمر کو شدت سے جکڑ رہے تھے، جسم و جان میں برق دوڑ رہی تھی۔

"تم ہمیشہ سے صرف میری تھی وریشہ، تبھی مجھے محبت سے بھری ہوئی ملی ہو،۔ میری آنکھیں تو تمہیں آج چھو رہی ہیں، تمہاری آنکھوں نے تو باخدا مجھے پہلے ہی لمحے چھو لیا تھا"

الفاظ تو اس شخص کے بھی ختم تھے پر وہ آج ناجانے کیا کچھ کہنا چاہتا تھا، جبکہ وریشہ گہرا سانس بھرتی اس کے روح کو سکون بخشتے اظہار پر نم آنکھوں سے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"میں تمہارے پاس آکر بہت خوش ہوں، سچ میں"

اس لڑکی سے کچھ کہنا واقعی محال تھا اور وہ جیسے اپنی آنکھیں نم محسوس کرتا اس لڑکی سے ایک بار پھر نظریں چرا گیا۔

شہیر نے اسکی دونوں کلائیوں پر نگاہ ثبت کیں، وہ سرخ اور سنہری چوڑیوں سے لبالب بھری تھیں اور وہ اسے خود ان سب سے آزاد کروانے کا طلب گار تھا، اس شخص کے ہاتھ کی پوریں وریشہ کی کلائیوں کو چھونے کے بعد ہر ہر انگ سے الجھنا چاہتی تھیں۔۔

وہ اپنی لپکتی کیفیت پر قابو پائے ایک ایک کر کے اسکی کلائیوں کو ان سے آزاد کرنے لگا اور وریشہ کی آنکھیں اسکی جھکی آنکھوں کے حسن کو دریافت کرتی رہیں اور پھر وریشہ کی گردن میں سجا ہار اپنے ہاتھ اسکی گردن کی جانب بڑھائے نکال کر سامنے بے دلی سے پھینکے شہیر کی نگاہ اس لڑکی سے ملی، وہ بلش کرتی نظر جھکا گئی، اسکے کانوں کے جھمکے اور ماتھا پٹی بھی یونہی ٹرانس کی سی کیفیت میں اتار کر سامنے پھینکی گئی جو ناچاہتے ہوئے بھی شہیر کے ان سب پر برہم ہونے پر مسکرائی کیونکہ شاید آج شہیر کو وریشہ کے ساتھ یہ بے زبان زیورات بھی قبول نہ تھے جو اسے اسکی طرح چھونے کے حق دار بنے تھے۔

"نہیں چاہتا آج میرے سوا تمہیں کوئی زحمت سے گزارے، میرے سوا کوئی تمہیں چھوئے، کیا تھک گئی ہو ؟"

اپنے زومعنی جملوں کی شدت آخری فکر سے اٹے جملے سے وہ بہت پیار سے دبا گیا اور وریشہ نے بچوں کی طرح معصومیت سے حیا اور بے بسی کے سنگ سر ہلایا۔

"بہت زیادہ"

وہ اسکے دیکھتی باقاعدہ روہانسی ہوئی اور جناب کی آنکھوں میں اسے نرمی سے حصارتے سرور امڈا۔

"کیا اتنی کہ ڈریس بھی بدل نہیں سکتی؟"

بظاہر وہ سنجیدہ تھا پر اسکے سادہ سے سوال پر وریشہ کی گالیں دہک اٹھیں۔

"جی نہیں، اتنی بھی نہیں تھکی"

فورا سے سہم کر گھومتی وہ تیزی سے جانے کو پلٹی جب شہیر نے کلائی جکڑے ایک بار پھر اسے بازووں میں بھرا۔

"مت کرو بیوی"

وہ اسکی بات کو واقعی سمجھ نہ سکی۔

"کیا"

وریشہ نے فوری تڑپ کر پوچھا۔

"چینج"

وہ اسکی آنکھیں کھوجتا کہیں کھویا ہوا بولا۔

"مگر اس میں سو نہیں پاوں گی"

اس بار وہ شہیر کی نظروں کی حدت محسوس کیے زرا بوکھلائی۔

"سونے کون دے گا تمہیں؟"

اس بار خماری ہٹا کر سوال کیا گیا اور وریشہ نے سہم کر اسکی خطرناک مسکراہٹ دیکھی۔

"شہیر! نیند آرہی ہے سچ میں"

بس رونا باقی تھا۔

"اڑا دوں گا، مجھ پر چھوڑ دو۔۔۔۔"

استحقاق آمیز انداز میں وہ اسے لیے کمرے میں آیا تو آگ جلنے اور بھڑکنے کے باعث کمرہ خاصی حدت اوڑھ چکا تھا مگر یہ جان لیوا ماحول جسکے باعث وریشہ کو تب بھی ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔

"شہیر! "

ساری بے باکی ہوا ہو چکی تھی اور اسکی گھبرائی آواز پر شہیر نہ صرف رکا بلکہ مکمل پلٹ کر وریشہ کے روبرو ہوا، خو آنکھوں ڈرا سا خمار بسائے اسے مائل کرنے میں پیش پیش تھی۔

"ایسے مت پکارا کرو بیوی، بے قابو ہونے لگتا ہوں۔ جبکہ میں آج بہت فرصت اور تفصیل سے تمہارے ساتھ یہ لمحے گزارنا چاہتا ہوں"

اس نازک سراپے کو شہیر نے نرمی کے سنگ اپنی طرف کھینچا تھا جو اسکے جان لیوا مدھم سے خود کی طرف مائل کرتے انداز سے خوف کھا رہی تھی۔

"گھبرا کیوں رہی ہو؟"

وہ لہجہ نرم کیے اس سے مخاطب تھا جو اپنے معصوم ہونٹوں کو کچلتی ویسے ہی اس وقت شہیر کو غصہ دلا رہی تھی۔

"ک۔کیونکہ تم بہت۔۔۔۔بہت وہ لگ رہے ہو"

بڑی دقت سے وہ اسکی روح تک اترتی نظروں سے گھبرا کر بول سکی تھی اور شہیر کا دل چاہ رہا تھا بس یہیں ہوش و حواس چھوڑ دے اور اس لڑکی کے بھی اڑا دے۔

"آدم زاد؟"

نہایت سنجیدگی سے منہ بسورے پوچھا گیا اور وریشہ نے اسے بے اختیار خفگی سے دیکھا۔

"بکواس کرو گے تو ماروں گی لفنگے"

وہ اسکی گرفت جھٹکتی جا کر متذبذب سے بیڈ پر بیٹھی، راعنائیاں بکھیرتا اسکا لباس دوپٹے سے بے نیاز مزید قہر تھا اور اسکے بیٹھتے ہی شہیر بھی ساتھ ہی آکر مطمئین سے سنجیدہ انداز میں بیٹھا۔

وہ باقاعدہ کانپ رہی تھی اور اسکے وجود کی کپکپاہٹ پر شہیر نے بمشکل مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی۔

"ڈر لگ رہا ہے مجھ سے؟"

کچھ دیر اسے کمپوز ہونے کا وقت دیے وہ زرا اسکی طرف رخ کیے اسکا وہی ہاتھ تھامے مدھم آواز میں بولا تو وریشہ نے ڈرتے ڈرتے اسے دیکھا اور سر کو اثبات میں ہلا گئی، وہ اپنے ہاتھوں کو مسلتی، بے حد نروس ہونٹوں کو مسلسل چبائے جا رہی تھی۔

"زیادہ نہیں بس تھوڑا سا، عجیب سی فیلنگ ہے شہیر۔ دل بری طرح کانپ رہا ہے"

اسکے گہرے سانس لینے اور کہنے کی دیر تھی کہ شہیر نے اسے لمحے کے ہزارویں حصے وہیں گرایا اور اسے سنبھلنے کی مہلت دیے بنا اس پر جھک آیا، وریشہ نے اسکی اس چالاکی پر ہاتھ کا مکا بنائے اسکے سینے پر مارا مگر شہیر کے جبین چومنے پر وہ ساری خفگی بھلا گئی۔

"دل ہی نہیں تم خود بھی کانپ رہی ہو بیوی، اور یہ مجھے فیسینیٹ کر رہا ہے"

وہ اسے مزید مہلت دینے کے ہرگز حق میں نہ تھا کہ یہ کپکپاہٹ دور کرنے کے اسے سارے طور معلوم تھے اور وریشہ اسکے حاوی ہونے پر اپنا سارا اختیار لوز کر رہی تھی۔

"ن۔۔۔نہیں پلیز۔۔۔۔"

وہ بچوں جیسا بیہو کیے شہیر کو مزید پاگل کر رہی تھی جبکہ اسکی مسکراہٹ اور پھر مسرور ہو کر وریشہ کے حسن سے چھیڑ خانیوں، شر انگیزیوں کی ابتدا پر وریشہ کے وجود سے جان سرکنے لگی۔

"شہیر پلیز۔۔۔۔تمہاری بازو"

سہم کر وہ اسکے خطرناک ارادے بھانپ کر منمنائی مگر شہیر اسکی اس دھمکی پر جابجا فرصت سے لمس بکھیرتا سر اٹھائے شرارت سے آنکھ ونگ کیے مسکایا۔

"بازو کا حال صبح مل کر پوچھیں گے، ابھی تم بس یہ محسوس کرو کہ شہیر مجتبی تمہارے ڈر کو کیسے خود میں اتارتا ہے"

تمام مزاحمتوں کو اس ظالم نے اپنے بڑھتے جنون سے دم توڑنے پر اکسا چھوڑا تھا اور وہ گہرا سانس کھینچ کر خود کو تقویت دینے کی کوشش کرتی رہ گئی۔

خوف و خوشی میں ڈھلی تیز ڈھرکنوں کے لمس نیم نیلی روشنی میں مدھم مدھم لے پر جگنووں کی طرح جل اٹھے اور پھر دھیرے دھیرے شہیر مجتبی کی تمم محبت اور شدت کی اکلوتی حق دار وریشہ پوری شان سے بنا دی گئی، تاحیات کے لیے۔

                            ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

خوبصورت سی جذبات اور احساسات کی آنچ پر سلگتی حسین رات کٹ گئی، ایک خوبصورت سردی کے نئے دن کا آغاز اسی گرم جوشی سے ہوا، جو محبت کرنے والوں کے وصل کی خوشی میں اضافی نور سے ہوتا ہے۔

کسی مانوس سے احساس کے تحت اسکی نیند میں مکمل ڈوبی آنکھیں دھیرے سے کھلیں تو وہ نک سک تیار خوشبوئیں بکھیرتا جھک کر اپنی محبت لے رنگ میں سراپا ڈوبی اس لڑکی کی حدت اوڑھتی جبین پر محبت تحریر کرنے میں فرصت سے محو تھا جب زرا چہرہ اٹھاتے ہی دونوں کی بے خود نظریں ملیں اور پھر سے سب تباہ کر گئیں، وہ خواب زادی، دل دھڑکا دیتا خمار اپنی آنکھوں میں بسائے اسکی خوشبو سانسوں میں بسا کر اپنی نئی زندگی کی پہلی صبح کا آغاز کر رہی تھی، وہ اسکے تکیے سے پشت ٹیک کر زرا بیٹھنے کے باعث خود بھی اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں جکڑے پہلو میں بیٹھا۔

اب تک اسکی ظالم آنکھیں فرصت سے وریشہ کو چھو رہی تھیں اور اب وہ واقعی نظر جھکانے پر فطری مجبور ہوئی، اور اسکا مضبوط ہو جاتا دل پھر سے دنیا کی اس خوبصورت عورت کے آگے سجدہ ریز ہونے لگا۔

"صبح بخیر ، کیسی گزری رات۔ شہیر نے تنگ تو نہیں کیا بیوی؟"

گزری رات کا ایک ایک لمحہ کسی طویل فسانے جیسا جسم و جان کے گرد سہلاتے لمس بکھرتا محصور تھا تبھی وہ اسکے شرارت سے پوچھنے پر سمٹا سا مسکرائی۔

"بلکل تنگ نہیں کیا، بائے دا وے صبح صبح تیار کس خوشی میں ہوئے۔ ابھی تو۔۔۔اممم بس نو بجے ہیں"

وہ اسکی تیاری دیکھ کر کچھ حیران تھی جبکہ شہیر اپنی تیاری کی ایک خاص وجہ بتانے کے لیے عجیب سی سرشاری میں مبتلا ہوا۔

"وہ جو رات کاشف نے پھلچھڑیوں سے ویلکم کیا تھا اسے ایٹم بم بنانا ہے، تم بھی جلدی سے ریڈی ہو جاو کیونکہ بہت سی تیاریاں کرنی ہیں۔ ہمارے ولیمے سے پہلے ہی نازلی اور کاشف کے نکاح کی تیاری مکمل ہو جانی چاہیے، ان دونوں کو سرپرائز دینا ہے مل کر"

شہیر کے بتانے پر واقعی وریشہ کی آنکھوں سے ساری نیک بھک سے اڑ کر اشتیاق بنی۔

وہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ نازلی اور کاشف دونوں کے لیے ایک جیسا خوبصورت دل رکھتا ہے اور رات تو اور کچھ کہنے سننے کی فرصت نہ تھی مگر وہ آج رات فیصلہ کر چکی تھی کہ شہیر سے اس دن رونے کی وجہ بھی جانے گی اور کاشف اور نازلی سے جڑا خوبصورت رشتہ بھی دریافت کرے گی اور ولی کے یکسر الگ رویے کا راز بھی پوچھے گی۔

"کاشف بھائی اور نازلی راضی ہیں؟"

وریشہ کے استفسار پر وہ اسکا وہی ہاتھ چومے مسکرایا جیسے کہہ رہا ہو دل و جان سے۔

"لیکن ایک پرامس کرو پہلے"

اس لڑکی کا پھر سے مائل کرتا انداز وہ نظر انداز کرنے کے باوجود فراموش نہیں کر پا رہا تھا تبھی اچانک ہی اس کے حدت اوڑھتے نرم لمس کو محسوس کرتے ہی اسکے گداز وجود کو خود میں بھینچ لیا۔

"کیا"

اسکے بے خود سرگوشی میں دیے جواب پر وریشہ کا انگ انگ مسکرایا۔

"سن تو لو"

زوجہ نے جیسے وعدے کی نوعیت کی جانب دھیان دلانا چاہا تو وہ اسے زرا سی آزادی بخشے روبرو ہو کر دیکھنے لگا، وہ اسکی ہو کر اسکے لیے مزید جان لیوا حد تک عزیز ہو گئی تھی۔

"سناو بیوی"

وہی بے خود، جان سے پیارا انداز کے سوال خود ہونٹوں سے امڈنے لگے۔

"آج تم مجھے رونے کی وجہ بتاو گے اور نازلی تمہیں اتنی پیاری کیوں ہے اور تمہاری بہن جیسی دوست کیسے بنی یہ بھی بتاو گے، بلکہ لفنگے بن کر کیوں پھرتے تھے یہ بھی، اور تم کیا کرتے ہو یہ بھی۔ تم مجھے اپنے بارے میں ہر بات بتاو گے پرامسس ود می۔ اور ولی نے تمہارا نام کیسے جانا، انکا اس پر کوئی ری ایکشن کیوں نہیں آیا؟"

وہ تھوڑی افسردہ تھی، رات وہ اپنے اور شہیر کے بیچ صرف محبت چاہتی تھی مگر اب وہ شہیر کے ہر روپ سے محبت کی طلب گار تھی اور وہ اس پر ابھی مکمل نہیں کھلا تھا۔

"میں سب بتاوں گا تمہیں، آئی پرامسس"

وہ اسکی مہک میں پھر سے محو ہو رہا تھا اور جب شہہ رگ پر اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ رکھے تو وریشہ کو لگا یہ ظالم پھر سے اسکے حواس سلب کر لے گا مگر وہ جلد ہی اپنے آپ کو اس لڑکی کے سحر سے نکالتا، اسکی مہکتی سانسیں متذبذب کرتا واپس اٹھ کھڑا ہوا۔

"تھینک یو شہیر"

وہ خواب زادی پھر سے دھیرے سے بولی، اور شہیر نے بڑے دل کے سنگ دوری اختیار کرتے ہوئے اس لڑکی کی آنکھیں دیکھیں اور مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ اس لڑکی کی دھڑکنیں اب بھی قربت کے لمحوں میں مبتلا اوپر نیچے تھیں مگر چونکہ جناب تاکید کر کے گئے تھے سو دل نہ ہونے کے باوجود اسے اٹھ کر اس طلسم سے نکلنا ہی پڑا۔

وہیں دوسری جانب بھی مشارب زمان خان صبح ہی جاگ چکا تھا، اس نے اللہ کے خضور اپنی زندگی کی خوبصورت تکمیل کا شکر ادا کیے صبح کا آغاز کیا اور زونی کو بنا کسی مزید زحمت سے دوچار کیے باہر چلا گیا کیونکہ وہ اسے رات سکت سے زیادہ آزما چکا تھا۔

خانم حویلی ولیمے کی شان دار تقریب کے لیے صبح ہی سج چکی تھی، آج کا جشن زیادہ بڑا تھا۔

لگ بھگ آدھے گھنٹے بعد ونیزے ہی اسکے روم میں دستک دیے آئی تو سنہری دن کی کرنوں کا نور خود پر سمیٹ لیتی وہ حسینہ ناصرف جاگ چکی تھی بلکہ چینج کیے اپنے بال ڈرائے کیے آئینے کے روبرو کھڑی مسکا رہی تھی جب ونیزے کے دستک دینے پر وہ بوکھلا کر پلٹی مگر ونیزے کو اسکا ولیمے کا ڈریس لے کر اندر آتا دیکھتی وہ شکر کا سانس بھر گئی کیونکہ مشارب کا سامنا یکدم کرنا اسے جان جوکھم کا کام لگا۔

آج اسکی پینک فراک تھی، بہت پیاری اور ونیزے نے اسے بیڈ پر رکھا اور مسکرا کر زونی کی طرف آئی جس کی نیلی آنکھوں کا عکس اسکے بڑھ جاتے روپ سروپ سے مل کر تباہ کن منظر پیش کر رہا تھا۔

"بہت پیاری لگ رہی ہو بلکل گڑیا جیسی، یہ تمہارا ڈریس ہے۔ چینج کر لو پھر ناشتہ کرنے کے بعد میں تمہیں پیارا سا ریڈی کر دوں گی۔۔میں ناشتہ لاتی ہوں تمہارا۔۔ تمہارے وہ مردان خانے میں ہیں گھبرانا مت، علاقے کے معززین ولیمے کی سوغاتیں لائے ہیں رسم کے مطابق"

ونیزے آج بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑ رہی تھی بلکہ ساس صاحبہ نے بڑی بہو کی سپیشل ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ شادی کے فنکشنز کے دوران زونی کا خیال رکھے اور آج تو ولی اور ونیزے کا ولیمہ بھی رکھا گیا تھا جس کے باعث ونیزے خود بھی دلہن بننے والی تھی اور یہ تجویز مشارب نے ہی صبح صبح سبکو دی تھی اور چونکہ انکا ولیمہ ویسے بھی پینڈنگ تھا جو سنت تھی سو مشارب کے نزدیک سنت ادا کرنا اہم تھا جس کے باعث آج ہی یہ فریضہ رکھا گیا تھا۔

ہر طرف چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔

دو کے بجائے تین تین ولیمے بھی پوری شان سے کیے گئے تھے، مگر شہیر اور وریشہ کے ولیمے کو چار چاند تب لگے جب شہیر نے پھلچھڑیوں کو واقعی پھلچھڑے بناتے ہوئے شام میں نازلی اور کاشف کے سرپرائز نکاح کا اعلان کیا اور واقعی یہ کاشف صاحب کو زور کا جھٹکا زرا دھیرے سے پورے شان سے لگایا گیا تھا سو تینوں ولیموں پر آئے مہمان لگے ہاتھوں یہ سرپرائز نکاح بھی اٹینڈ کر کے واپس پلٹے، چونکہ کل سے بزدار حویلی میں شادی کے فنکشن شروع ہونے والے تھے سو وہ سب ہی بروقت شام ہوتے ہی واپس نکل گئے کیونکہ کل مالنی اور گل کی مہندی تھی اور مہندی پر گل اور جبل زاد کا نکاح رکھا گیا تھا سو سبکو بہت سارے کام تھے۔

جبکہ شہیر کے دھماکے کا صرف وریشہ کو پتا تھا اور باقی اب ہی کاشف اور نازلی سمیت شاکڈ تھے کیونکہ ابھی وہ دو ایک دم نکاح میں بندھ جانے کے لیے میٹلی بلکل تیار نہ تھے۔

جبکہ سعدیہ صاحبہ شہیر کے اس اقدام پر سب سے زیادہ نہال تھیں۔

وریشہ کی فراک آج پیچ کلر کی تھی اور شہیر نے ہاف وائیٹ شلوار قمیص اور ویس کوٹ پہن کر سحر بکھیرے تھے جبکہ ولی اور مشارب فل بلیک اور دونوں سردارنیاں پنکیش پریاں دیکھائی دے رہی تھی، باقی سب بھی بہت پیارے اور آفت لگ رہے تھے، خوبصورت سا دن کٹ کر شام تک اتر آیا تھا اور وریشہ چینج کیے اب دعوت کے لیے ریڈی ہو رہی تھی۔

"کون لیتا ہے ایسا ظالم بدلا، یار پھلجھڑیاں ہی تو چھوڑی تھیں اور تو نے تو ایک ہی جھٹکے میں میرے چھکے چھڑوا دیے"

وہ دونوں اس وقت مزے سے کچے صحن میں لگی کرسیوں پر بیٹھے تھے جبکہ وریشہ اندر سب خواتین کے ساتھ ہی ریڈی ہونے میں مصروف تھی، رات انکا یوسف زئی حویلی دادا کے ساتھ ڈنر تھا اور انہوں نے ونیزے اور ولی کو بھی بلا رکھا تھا سو وریشہ جانے کے لیے ساسو ماں کی ہدایت کے مطابق پیارا سا نئی نویلی دلہن کی طرح سج رہی ھی۔

ولیمے کا آج اسکا کم ہیوی ڈریس تھا سو وہ آج بہت ایزی رہی تھی جبکہ نازلی اور کاشف کی تقریبا مکمل شادی ہو چکی تھی بس ولیمہ واپس جا کر کرنے کا پلین تھا۔

کاشف کی اڑی ہوائیاں اور شکوہ سن کر شہیر کا مست سا قہقہہ اس سرد فضا میں گونجا، گرم گرم چائے کا مگ پکڑے ہوئے جناب سرد سی شام سے لطف لیتے خاصے پرسکون لگے۔

"میں نے کہا تھا ناں ایٹم بم پھوڑوں گا تجھ پر، وعدہ کیا تھا تجھے نازلی دینے کا دے دی۔ اب میں بری الزمہ ہوا کیونکہ یہ میرے سر کا بوجھ اب پیاری نازلی کے سر، ویسے بھی ایس ایس پی کی جوائنگ کے بعد مجھے جو تھوڑی فرصت ملے گی وہ سارا وقے صرف وریشہ کے لیے ہوگا۔ تو نمٹ گیا اب جس دن باقاعدہ جشن ہوا انویٹیشن دے دینا، پہنچ جاوں گا تیرے ولیمے کے چاول کھانے"

جناب کے تو بیوی والا ہوتے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے اور کاشف نے اسکی باتوں پر زرا سا مسکرائے زرا چہرہ اسکی طرف کیا اور منصوعی گھورا۔

"بڑا ہی بے فیض ہے تُو، مجھے نازلی کے سر ڈال کر خود فرار ہو رہا ہے ۔۔۔یاد رکھیں مجھے ٹائم نہ دیا تو تیری گھچی مڑور دوں گا"

دبنگ دھمکی تو اسکا حق تھی، اور اسی لمحے دونوں کی نظر بیک وقت اندر سے باہر آتی دو پیاری دلرباوں پر پڑی، وریشہ نے لیمن اور وائیٹ کنٹراس کا بہت ہی پیارا جوڑا پہنے سحر بکھرا تھا اور وہ سنپل سا تیار ہوئی نکاح کی دلہن نازلی کے ساتھ مسکرا کر باتیں کرتی باہر آئی تو شہیر اسے ریڈی دیکھ کر چائے کا مگ وہیں رکھتا کاشف کی طرف دیکھے آنکھ دباتا اٹھ کھڑا ہوا جیسے کہہ رہا ہو بیسٹ آف لک۔

"تیار ہیں محترمہ؟ چلیں"

وہ بھی ڈارک براون جرسی شرٹ اور جینز میں ہنڈسم لگ رہا تھا، وریشہ نے اسے دیکھتے مسکرا کر سر ہلایا اور وہ دونوں ہی ڈنر کے لیے نازلی اور کاشف کو خدا خافظ کہتے گھر سے نکل گئے جبکہ اس سے پہلے نازلی ، کاشف سے بچ کر اندر بھاگتی، بروقت جکڑی کلائی پر وہ بے اختیار گھبرائی ہوئی پلٹی۔

یہ پہلا ایسا شخص تھا جسکے چھونے پر نازلی کو کوئی برا تاثر نہ آیا، وہ اسے یونہی اپنے روبرو لایا اور اسکی جھکی آنکھیں دیکھتا اسکی ٹھوڑی کو پکڑ کر چہرہ اوپر کیے اسکی آنکھوں میں جھانکا جہاں بیچ کے بدل جاتے حسین رشتے کے باعث شرم و حیا کے سائے ٹھہرے تھے۔

"تُو بھی میری طرح شاک میں ہے نازلی!لیکن دل تجھے اپنا محسوس کر کے بڑا خوش ہوا ہے۔ کیا تو بھی خوش ہے؟"

اس نے نازلی کی کلائیاں جس استحقاق سے جکڑے پوچھا وہ تمام تر گھبراہٹ کے بھی نظریں اٹھا کر اس شخص کو دیکھنے لگی جہاں واقعی خوشی کی شدت رقصاں تھی۔

"خوش ہوں، اب کوئی ایک ایسا ہے نازلی کے پاس جسے دل و جان سے اپنا کہہ سکتی ہوں اور آپ شہیر مجتبی کی چوائز ہیں اور انکی چوائز میری سب سے بڑی راحت۔ لیکن ک۔۔کچھ پوچھنا چاہتی ہوں آپ سے کاشف"

اپنی خوشی بیان کرتے کرتے وہ اچانک استفسار کر کے اپنا دل بوجھل اور کاشف کو حیرت و فکر میں مبتلا کیے بولی۔

وہ اسکی کلائیوں سے اب اسکے نازک سفید نرم ہاتھوں کو ملائمٹ سے اپنے ہاتھوں میں جکڑ چکا تھا اور وہ اس وقت اس لمس کی راحت فراموش کیے دم سادھ کر اسکے جواب کی منتظر تھی۔

"پوچھ ناں ، کیا پوچھنا چاہتی ہے"

وہ تو آج دل و جان سے جیسے اس پر فدا سا ہو رہا تھا اور اسکے محبت بھرے انداز نے ہی نازلی کو ہمت سونپی۔

"میں نے اپنی غلطی کی معافی سب سے مانگ لی لیکن جو رشتہ آج آپ سے جڑا ہے اسکے بعد میں اس سب کی معافی آپ سے بھی مانگنا چاہتی ہوں، کیا آپ اپنی بیوی کا اس طرح کا عجیب ماضی درگزر کریں گے؟ جھوٹ مت بولیے گا نہ میرا دل رکھیے گا، اگر زرا بھی آپکے دل میں اس سب کو لے کر کوئی سوال ہے؟ کوئی کڑواہٹ ہے تو ابھی کہہ دیں پلیز۔۔۔۔۔۔"

اسکے دل میں خود ہی یہ خیال آیا تھا حالانکہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ کاشف اب سے نہیں ایک مدت سے اسکے لیے دل میں جذبات رکھتا تھا، شاید تب سے جب وہ پہلی بار شہیر کے ساتھ کنو بائی کے کوٹھے پر گیا تھا، اور شہیر نے آج تک اپنے یار کی دبائی ہوئی محبت کا پردہ رکھتے ہوئے ہی نازلی پر اپنا سایہ کر رکھا تھا اور یہ بات آج تک کاشف نے شہیر تک سے نہ کہی تھی کہ وہ نازلی سے دل جوڑ بیٹھا ہے لیکن اسکے باوجود شہیر نے اپنا فرض نبھایا۔

لیکن وہ کاشف کے اسکے آگے نازلی سے محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ خود نازلی کے دل کے بسنے کا منتظر تھا اور قدرت نے بہت سلیقے سے ان دونوں کو ایک دوسرے کی راہ میں لایا تھا۔

"محبت کرتا ہوں میں تیرے سے نازلی، کیسے تیرے کردار پر سوال اٹھا سکتا ہوں۔ میں تجھ سے کبھی تیرے ماضی کے بارے کچھ نہیں کہوں گا، تو اس لائق تھی کہ تجھے سات پردوں میں چھپا لیتا پر وقت کی ستم ظریفی تیرا امتحان بنی ۔ بھلا دے وہ سب خطائیں جو میرا ہونے سے پہلے تو نے اور میں نے کیں، اب سب سنور جائے گا۔ دوبارہ اس معاملے کو لے کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں"

اسے خود بھی کہاں علم تھا کہ پتھر جیسا دل اول لمحے ہی اس لڑکی کے روبرو اظہار کرتے پگھل جائے گا جبکہ اپنے منہ سے سرزد ہوتے پہلے جملے کا احساس کاشف کو اپنی بات مکمل کرنے کے بعد ہوا تبھی وہ نظریں چراتا ہوا اس سے پہلے اسکے اپنی شدت بھری گرفت سے سرخ پڑتے ہاتھ چھوڑ کر فرار کرتا، نازلی بنا کچھ کہے اسکے سینے سے جا لگی اور یہ لمحہ کاشف کے دل تک کوئی کھینچ پہنچا گیا کہ بے اختیار کسی مانوس کشش کی شدت تھی کہ اسکے ہاتھ بے اختیار دھڑکنوں سے کھیلتے اس سراپے کے گرد جا مضبوط ہوئے۔

"اب واقعی سب سنور جائے گا کیونکہ آپ نے اتنا کچھ ہونے کے باوجود مجھ سے محبت کی، وعدہ کرتی ہوں اپنے دل میں سنبھال کر رکھی محبت آپ سے کروں گی کاشف"

وہ لڑکی اپنے اعتراف سے کاشف کی ویران زندگی میں خوشبو بھر گئی۔

"ساری کی ساری کرے گی"

اسے اس لمحہ بلکل خوف نہ تھا کہ کوئی اسے کاشف سے لپٹے دیکھ کر کیا کہے گا مگر جب اس نے سرگوشی کیے سوال کیا تو وہ اپنی اس بے اختیاری پر گھبرا کر اس سے الگ ہونے کی کوشش میں مچلی مگر وہ اسکی کمر شدید جکڑے اسکے فرار کو ناکام کر چکا تھا۔

"پہلے بتا"

وہ رعب کے سنگ اسکے شرم سے سرخ پرتے چہرے پر پراشتیاق نظریں جمائے بولا جسکی اب دھڑکن مدھم ہونے لگی تھی۔

"میری ساری محبت کے اب آپ ہی تو مستحق ہیں، عام سی محبت ہے کونسا حاض ہے"

وہ اسکے خوش ہونے پر الٹا افسردہ ہوئی مگر کاشف نے اسکی دونوں آنکھیں بے اختیار چھوئے جب پیشانی چوم کر فاصلہ بنائے دیکھا تو نازلی کو وہ لمحے میں یقین دلا چکا تھا کہ اسکی محبت کم ازکم کاشف کے لیے عام نہیں رہی۔

"تو پوری خاص ہے میرے واسطے پاگلے! فر تیری محبت اس عام سے آدمی کو کتنی مقدس لگے گی یہ تیری سوچ ہے۔ تو کتنی خاص ہے اب تجھے ساری زندگی بڑی تفصیل سے بتاوں گا۔ ابھی کے لیے بس گلے لگ جا ظالمہ"

وہ مضبوط لہجے میں محبت کے تمام رنگ لیے جو مستی اور بے خودی کے سنگ باولا ہوئے بولا، اس بار ناچاہتے ہوئے بھی نازلی کے چہرے پر اسکے لیے محبت بھری مسکراہٹ اتری اور پھر وہ شرمگیں مسکرائی اور بنا خوف و خطر خود کو کاشف کے سپرد کیا اور اس بار جناب نے شدت میں خاصا سرور انڈیل کر خاص ہونے کی ہلکی سی جھلک پورے جان لیوا انداز میں دیکھائی تھی اور دل ہی دل میں اپنی شام حسین کر دینے والے یار کو جلد ابا جان بننے کی خاص دعا ارسال کی تھی۔

نیزے اور ولی ، یوسف زئی حویلی ڈنر پر جا چکے تھے جبکہ مشارب اور زونین کی خانم حویلی روانگی تھی کیونکہ بزدار پلٹون نے ہر تھکاوٹ کے باوجود چھوٹا سا اچانک مایوں کا مین فنکشن رکھا تھا جس میں جبلو کے نکاح کی واردات بھی اچانک پلین ہو گئی اور رسم کے مطابق زونی کو بھی ولیمے کے بعد واپس گھر جانا تھا اور مشارب اسکے ساتھ ہی جانے والا تھا۔

وہ ڈیپ ریڈ لئیرڈ فراک پہنے بلکل تیار تھی بس فائنل لک دیکھنے کے بعد اس نے اپنی لپ سٹک تھوڑی لائیٹ کی اور سارا دن مشارب نے اسے بلکل تنگ نہ کیا تھا کیونکہ ولیمے کے جشن میں وہ سردار کی حیثیت سے بہت مصروف تھا، دونوں علاقوں کے تمام لوگ مدعو تھے اور پھر سردار کی تمام انتظامات دیکھنے میں خود موجودگی علاقے کے لوگوں کو مزید نہال کرنے کا سبب بنی تھی۔

اپنے بھاری شال کی طرز کے خوبصورت آنچل کو زونی نے اپنے کندھے پر ڈالا اور اسی لمحے مکمل بلیک ٹو بیس میں اپنی شخصیت کے سحر بکھیرتا وہ روم میں انٹر ہوا تو زونی کو دیکھتے ہی اسکے دہکتے کامل حسن کے باعث جناب کی دھانی آنکھوں میں شادمانی اتری اور خوشی کی اخیر روشن ہوئی۔

زونی بھی اسکو آتا دیکھ کر کچھ خود میں فطری جھجھک کے سبب سمٹی اور رات کے خوبصورت لمحوں کے بعد وہ اب ولیمے کے بعد جا کر اسے میسر آیا، دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کو بے حد اپنا محسوس کیے مسکراتے جذبات مچلے تھے۔

"لکنگ گارجئیس لیڈی، آپ پر تو ہر رنگ سج جاتا ہے۔ کیسی ہیں؟ امید ہے میرا دیا ریلیف آپکو بہتر کر چکا ہوگا"

وہ خوبصورت محبت بھرا بازووں کا حصار زونین کے دمکتے خوشبو بکھیرتے سراپے کے گرد حائل کیے وہ اسکی روشن جبین پر جھکا، محبت کی مہر لگاتے ہی روبرو ہو کر اس حیا اور فطری جھجک کے حسن سے مالا مال آپسرہ سے مخاطب ہوا جو مشارب کے دیے ریلیف پر واقعی بہت بہتر ہو چکی تھی، رات کے دل دہلاتی ملاقات کے سرخ رو رنگ اس نے مہارت سے اپنے چہرے پر سے چھپا لیے تھے۔

"ہم بلکل ٹھیک ہیں"

محترمہ کا مسکرا کر کیا اعتراف ، حسین تر ، دھڑکنیں بڑھانے کے مترادف تھا تبھی تو وہ اسکے اس جواب کے شایان شان بے خود ہوئے ان ملائم ہونٹوں کی راعنائیاں بکھیرنے ہی لگا جب زونی کی اڑی ہوائیاں دیکھتا مسکرا کر زرا فاصلہ بنا گیا۔

اور وہ اسکے اشارہ سمجھ جانے پر دل تک کھلھلا اٹھی۔

"اوکے سمجھ گیا، ان نازک ہاتھوں سے کافی دقت کے سنگ آپ نے میری محبت بھرے خود پر حاوی رنگ چھپائے ہیں، بھئی ہم نہیں چھیڑتے اس حسینہ کو۔ ویسے بھی اب ان شر انگیزیوں کے لیے پوری زندگی پڑی ہے۔ تیار ہیں تو چلیں؟ آپکی مالنی منتظر ہوگی"

وہ اپنے بے باک الفاظ کی حدت سے نہ صرف زونی کے چہرے پر گلال رنگ چھلکا گیا بلکہ جانے کا سن کر تو زونی کا دل مسکرا اٹھا۔

مالنی کی شادی کے ہر فنکشن میں وہ شامل ہونا چاہتی تھی اور تبھی اسکی اس خواہش کو سردار صاحب نے اپنا ہر اہم کام چھوڑ کر قبول کیا تھا۔

"ہم بلکل تیار ہیں، چلیں "

بیڈ پر رکھی خوبصورت علاقائی چادر اٹھا کر وہ پرجوشی سے بولی مگر مشارب نے اسکی کلائی پکڑے جھٹکے سے روکا، نظر زونی کی سونی کلائیوں پر گئی تو اسے اچھا نہ لگا۔

"رکیں یار، آپ نے تو مجھے سب بھلا دیا تھا رات۔۔۔ آپکی منہ دیکھائی تو رہ گئی۔۔ویٹ آ منٹ لیڈی"

رات کی بے اختیاریوں کا ذکر کرتا وہ خجل سا ڈرا کی طرف ہاتھ بڑھائے اسے کھول چکا تھا اور پھر ان میں رکھے گئے بہت خوبصورت خاندانی کنگن جو کہ زونی کی نازک کلائیوں کے لیے ہی بنے تھے، بہت پیار سے اسے پہنائے اور وہ وائیٹ گولڈ اور جڑے موتیوں کی نفیس سجاوٹ سے دیکھنے میں انتہائی پرکشش لگے۔

اپنی نازک کلائیوں کے حساب سے پرفیکٹلی فٹ آتے کنگن دیکھ کر وہ مسکرا کر نظریں اٹھائے مشارب کو محبت بھری وارفتہ نگاہوں سے دیکھنے لگی جو مشارب کو مائل کرنے پر تلی تھیں۔

"یہ اتنے قیمتی نہیں تھے، آپ نے پہنائے ہیں تو بہت انمول ہو گئے۔ تھینک یو۔۔لیکن ہم نے تو کوئی گفٹ نہیں لیا آپکے لیے مشارب"

رخصتی کا ایک فائدہ ہوا تھا کہ حیا کی دیوی صاحبہ اظہار کرنے لگیں تھیں مگر خود ہی وہ اختتام تک افسردہ ہوئی اور جناب نے گلے بھی بڑے جان لیوا انداز میں لگائے اپنے ہونٹوں کو اسکے کان کی لو سے جوڑا، اس شخص کی خوشبو انگ انگ میں اتر جانے کے باوجود اب بھی دل کی دھڑکنیں بڑھانے میں ماہر تھی۔

اس لڑکی کے پورے وجود میں لرزش اتری، جس کے باعث مشارب زمان خان کے ہونٹوں پر تلکہ خیز مسکراہٹ اتری۔

"آپ بھی دیں گی ناں گفٹ، ویٹ کریں"

اسکی سرگوشی کا سحر زونین کو انگ انگ تک سرشار کر گیا اور اسکی اس جان لیوا سرگوشی کا مفہوم سمجھتے ہی کانوں کی لو تک سرخ پڑی تبھی سردار صاحب نے فی الحال کے لیے رحم کھاتے ہوئے اسے اس روح سہلاتے حصار سے آزاد کیا۔

اسکے مرمریں ہاتھوں سے چادر لی اور زونی کے خوبصورت سراپے کے گرد اوڑھا دی، اک محبت بھری نظر ڈالتا وہ اسکا ہاتھ پکڑے روم سے نکلا تو خانم حویلی کے سبھی افرار باہر ہی لاونچ میں بیٹھے تھے۔

سب نے دونوں کو ساتھ سجتا دیکھ کر صدقہ اتارا اور دعاوں کے ساتھ رخصت کیا۔

جبکہ بزدار حویلی میں یکدم بن جاتے مایوں کے فنکشن نے جیسے رونقیں جما دی تھیں۔

سب دلہے خصرات نے پیلے کرتے اور سفید شلواریں پہن کر تھیم فالو کی البتہ ضرار ، بزدار عالم اور بدر علیم صاحب نے ان رنگوں سے خود کو دور ہی رکھا جبکہ گل اور مالنی، دوبارہ سے مایوں کی دلہنیں بن کر سج چکی تھیں، گیندے کے پیلے پھولوں کے بیچ موتیے کے خوشبودار پھولوں سے ملی جیولری دونوں دلہنوں پر سج رہی تھی۔

اور چونکہ ضرار کے سب سے پیارے جبل زاد کا نکاح بھی تھا سو بہت پیارا سا ییلو نیٹ کے پردے کا انتظام کیا جا رہا تھا اور نکاح کل کے بجائے آج ہی رکھ لیا گیا تھا تاکہ یہ فرض لگے ہاتھوں آج ہی سمیٹ دیا جاتا جبکہ کل مہندی کا دھوم دھڑکا پوری شان سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اشنال تو بڑی بہو اور پیاری بیوی کے تمام فرائض نبھاتی ، اپنے جناب کی ہوش ڈگمگاتی نظروں سے بچ بچاتی کاموں میں مصروف دیکھائی دے رہی تھی اور پھر زونی اور مشارب کی آمد نے تو بزدار حویلی کے اس اچانک پلین بن جاتے دو دو فنکشنز کو چار چاند لگا دیے۔

مالنی اور گل کے ہونٹوں پر سے مسکرایٹ ہٹنے کا نام نہ لے رہی تھی یہی حال دل پھینک دیوانوں جبل زاد اور ہاشم بزدار کا تھا جن کا بس نہ چل رہا تھا ان رسموں کو سمیٹ کر اپنی اپنی دلہن لے کر فرار ہو جاتے۔

دل بے قرار اور دھڑکنیں اوپر نیچے تو ان آپسراوں کے دیدار سے ہی ہونے لگی تھیں۔

اور پھر سب پیاروں کی دعاوں کے حصار میں پیاری گلالئی کے تمام جملہ حقوق بھی پوری شان سے جبل زاد کے نام ہو گئے، اور یہ خوشی کا لمحہ سب سے زیادہ ضرار اور اشنال کے لیے معتبر تھا۔

پھر گل کے نکاح کے وقت بے اختیار بہتے آنسو ماحول کو کچھ لمحے افسردہ کر گئے مگر ضرار نے زیادہ دیر یہ روتا دھوتا ماحول برداشت نہ کیا اور دادا کے سنگ ماتھا ٹیکے ماحول پر اپنی موجودگی کا سحر بکھیر کر مسکراہٹیں بانٹیں۔

نکاح کا فریضہ انجام پانے کے بعد بہت سے دل قرار پائے تھے، سب سے زیادہ گل کے نانا نانی جو اپنی مرحوم بیٹی کی امانت کے فرض سے اس شان سے سبکدوش ہوئے کہ انکے دل خوشی سے بھر سے گئے، پھر خود گل، جسے جبل مل گیا تھا۔

اشنال، جسے اپنی گل کے مقدر پر رشک آیا، ضرار جسکا وفادار ساتھی بھی اسکی طرح اب محبت کی راہوں کا مسافر بن گیا۔

اور سب سے بڑھ کر اماں فضیلہ جنکے پیارے جبل کا دل اور گھر آباد ہو گئے۔

نکاح کے بعد سب نے مل کر ہنستے مسکراتے ہوئے مایوں کی رسم ادا کی۔

اماں فضیلہ اور صبیخہ صاحبہ نے کچھ پرانے علاقائی ٹپکے گا کر ماحول مزید مزیدار کیا۔

دونوں دلہنوں کو پھر الگ لے جایا گیا، ہلدی اور ابٹن لگائے انکے لیے میٹھے میٹھے گیت گائے گئے۔

اور دلہوں کو آج اپنی اپنی دلہنوں سے کوسوں دور رکھنے کا مکمل بندوبست تھا تاکہ اب یہ جنون خیز ٹاکرے مناسب وقت پر ہی ہوں۔

                         ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"تو کیا تم بزدار حویلی کے فنکشنز میں حصہ نہیں لو گے، اس اچانک واپسی کی وجہ برخوردار "

ڈنر انکا کچھ دیر پہلے ایک خوبصورت ہلکے پھلکے ماحول میں ہو چکا تھا اور ونیزے، وریشہ کچن میں سوئیٹ ڈش بنانے اور پھر لینے گئی تھیں جبکہ ولی نے کل اپنی اچانک واپسی کی خبر سنا کر جہاں شمشیر یوسف زئی کو حیرت زدہ کیا وہاں شہیر کے چہرے پر بھی اسکی واپسی نے فکر کی پرچھائیاں لا دھریں۔

"حصہ لینا تو چاہتا ہوں، جبل زاد اور ہاشم لالہ کی شادی میں شرکت میری بڑی خواہش تھی اور میں آیا بھی ہفتے کے لیے تھا مگر کچھ ارجنٹ ہے جسکی وجہ سے مجھے جانا پڑ رہا ہے"

ولی نے ڈاکٹر علی سے جو ہفتے کا وقت لیا تھا ، آج انکی کال آنے پر وہ واپسی کا ارادہ بنا چکا تھا کیونکہ ونیزے کے اندر آتی تبدیلیوں کے بارے جب اس نے ڈاکٹر علی سے کل رات ونیزے کے سو جانے کے بعد ڈسکس کیا تو انہوں نے فورا اسے واپس آنے کا کہا تاکہ وہ بروقت ونیزے کے اندر آتی ان تبدیلوں کا مشاہدہ کر سکیں اور ونیزے کے کینسر کے متعلق صرف مشارب اور وریشہ ہی جانتے تھے اور اس نے خود یہ سب کسی سے ڈسکس کرنا مزید مناسب نہ سمجھا، کل انکی چار بجے ڈاکٹر علی سے آپائنٹمنٹ تھی۔

"چلو کوئی نہیں، کام بھی اہم ہیں۔ ونیزے کو بھی لے جاو گے یا وہ اب یہیں رہے گی"

شمشیر صاحب کے اگلے رسان سے کیے سوال پر وہ بھی کچھ سنجیدہ ہوا۔

"وہ میرے ساتھ ہی جائے گی ، ان شاء اللہ اب ہم چکر لگاتے رہیں گے"

وہ شہیر کو کچھ پریشان لگ رہا تھا اور شہیر ، شمشیر صاحب کی وجہ سے خاموش تھا ورنہ وہ ولی کی پریشانی ضرور پوچھتا کیونکہ ولی کے آنکھوں کے کنارے آج رنگ بدلے ہوئے تھے۔

"ان شاء اللہ، میں یہ کال سن کر آتا ہوں پٹواری کی ہے۔ تم لوگ باتیں کرو"

شمشیر صاحب کی آتی کال انھیں معذرت پر مجبور کر گئی جس پر ولی اور شہیر دونوں نے رسان سے سر ہلایا تو وہ اپنا بجتا فون لیے اٹھ کر مسکراتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھے اور تبھی موقع ملتے ہی شہیر اپنی جگہ سے اٹھ کر ولی کے ساتھ آکر بیٹھا۔

"ولی زمان خان! تم پریشان لگ رہے ہو۔ کیا ہوا ہے؟ کونسا ارجنٹ کام ہے۔ کیا میں جان سکتا ہوں"

ولی نے شہیر کی طرف دیکھا جو پورے دل سے اسکی فکر بھانپ کر اب اسے جاننے پر بھی اصرار کر رہا تھا جبکہ ولی، ڈاکٹر علی کے واپس بلانے پر واقعی پریشان تھا۔

"تمہیں کیسے پتا چلا کہ ولی پریشان ہے؟"

ولی نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائی ہوئی تھی پھر شہیر اسکی حالت کیسے بھانپ گیا تھا یہ سوال اسکی زبان پر جب آیا تو شہیر نے دل جلی سی مسکراہٹ کے سنگ اس مہربان شخص کو اپنائیت سے دیکھا۔

"کیونکہ تمہاری آنکھیں رنگت بدل چکی ہیں، تم نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی تکلیف سے نکالا تھا ولی، اور شہیر مجتبی احسان فراموش نہیں ہے۔ ایک دوست نہ سہی ایک ساتھی ہی سمجھ کر اپنی تکلیف شئیر کر لو"

وہ شہیر کی ڈھارس بناتی باتوں پر جوابا مسکرایا، لیکن ولی زمان خان کی مسکراہٹ ادھوری سی تھی، کسی خوف نے اسے نوچا ہوا تھا۔

"کچھ بتانے کو ہے ہی نہیں شہیر مجتبی، بس اتنا کہ ولی زمان خان زندگی میں پہلی بار ڈرا ہوا ہے"

شہیر کو وہ کچھ الجھا اور ذہنی دباو کا شکار لگا جب ڈر والے اقرار نے تو شہیر کی آنکھوں کی رنگت بھی بدلی۔

"اور وجہ کیا ہے اسکی؟ کیا میرا اور وریشہ کا ایک ہونا؟"

پرانے ڈر تو اب بھی شہیر کے دل سے جڑے تھے اور شہیر کے اس سفاک سوال نے ولی کو شدید دکھ پہنچایا۔

جی یہی کیا ایک بار پھر اسکا گریبان پکڑ لے۔

"دوبارہ یہ بکواس نہ کرنا شہیر ورنہ پرانا ولی جاگ جائے گا"

وہ بڑے ضبط سے تحمل تھامے بولا، تبھی چہرہ لال انگارہ ہوا۔

"تو خوف کی وجہ بتا کر مجھے بکواس کرنے سے روک لو"

وہ بھی تو شہیر تھا، اپنے نام کا ایک ہی سر پھرا۔

اور پھر ناچاہتے ہوئے بھی ولی کو اسے اپنی تکلیف کا رازدان بنانا ہی پڑا اور شہیر کی آنکھوں میں بھی اب تکلیف تھی، وہ ولی کو ونیزے کے لیے اس قدر پریشان دیکھ کر دہل اٹھا تھا، یہ بلکل قہر جیسا تھا۔

جس سے شہیر مجتبی کے اعصاب چٹخ گئے۔

"وہ باہمت لڑکی ہے، تمہارا مضبوط ساتھ ہے اسکے پاس ولی زمان خان اور مجھے لگتا ہے اسکے پاس اس کے علاوہ کوئی اور پاور بھی آچکی ہے"

شہیر کی بات اسکی سمجھ نہ آئی تبھی وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا کہ وہ کس پاور کی بات کر رہا تھا۔

"کیسی پاور؟"

ولی کو وہ پہلی بار غائب دماغ دیکھ رہا تھا اور باخدا شہیر سے یہ دیکھنا محال تھا۔

"تمہیں جلد پتا چلے گا اس پاور کا، محبت کو اس دنیا میں سب سے زیادہ سمیٹنے کا سلیقہ میسر ہے ولی زمان خان، یہ کبھی مکمل ہاتھ نہیں آتی کیونکہ اسکا ایک سرا ہمیشہ آسمان سے جڑا ہوتا ہے جہاں سے یہ آسمانی مرہم اپنے دوسرے سرے تک منتقل کرتی ہے اور اس جسم میں اتارتی ہے جو بس بکھرنے والا ہوتا ہے"

اسے اب بھی شہیر کی بات سمجھ نہ آئی مگر جس طرح شہیر نے اسکا زرا لپک کر چوڑا سینہ تھپکایا تھا، وہ ضرور ولی کو اس کیفیت سے نکال باہر لایا۔

"تمہیں اکیلا دیکھنے سے پہلے شاید مجھے کچھ ہو جائے گا ، دعا کروں گا کہ تمہیں مزید نہ آزمایا جائے کیونکہ تمہاری آزمائش سمجھ لو شہیر مجتبی کی آزمائش ہے۔ اور تمہاری تکلیف دل پر ایسا بوجھ بنے گی کہ میں سب پا کر بھی ناشاد رہوں گا ولی"

وہ یہ اس سے کہہ نہ پایا مگر دل عجیب گھٹ رہا تھا تبھی وہ اسے مزید یوں نہ دیکھ پاتا اٹھ کھڑا ہوا، ولی کا کندھا تھپکاتا اک جگر پاش سی نظر اس پر ڈالتا وہ کچھ دیر کھلی ہوا میں سانس لینے حویلی سے نکل گیا اور ولی اسکی آنکھوں کے اپنے جیسے سرخ رنگ ہی سوچتا رہ گیا۔

وہیں سوئیٹ ڈش بنانے کے بعد وریشہ نے اسے تھوڑا ٹھنڈا ہونے کے لیے فریزر میں رکھا اور خود پلٹ کر مسکراتی ہوئی ونیزے کی طرف پلٹی جو اسے بھی محبت سے دیکھ رہی تھی۔

"ونیزے! تم جانتی ہو تم بہت پیاری ہو۔ ولی کی ساری محبت کی حق دار صرف وہی لڑکی ہو سکتی تھی جو ان سے بے پناہ محبت کرتی ہو۔ تم ہمیشہ انکے ساتھ رہنا، کبھی انکو اکیلا مت کرنا مجھ سے پرامس کرو"

وریشہ کو ناجانے کیوں مگر اب بھی اک تکلیف لاحق تھی جو اس لڑکی کی بیماری کے باعث تھی اور وریشہ کو تمہید باندھتا دلسوز ہوتا دیکھ کر ونیزے نے اپنی دونوں ہتھیلوں کو وریشہ کی گالوں سے پیار کے سنگ جوڑا۔

"میں انھیں اکیلا چھوڑنا بھی نہیں چاہتی، لیکن وعدہ۔۔۔۔"

وہ جیسے وعدے پر کچھ مرجھائی اور وریشہ نے بنا کچھ کہے اسے گلے لگایا۔

چند آنسو وریشہ کی آنکھوں سے بے اختیار بہہ نکلے۔

"وعدہ کر لو ناں ونیزے، محبت کرنے والے تو یقین اور امید سے کبھی خالی نہیں ہوتے۔ انکے دل تو کبھی مایوس نہیں ہوتے"

ونیزے اسے گلے لگا کر خود بھی مسکرائی تھی، پھر جیسے وریشہ نے خود کو سنبھال کر اسے سامنے لایا تو وہ لڑکی وعدہ کرنے پر آمادہ ہو گئی۔

"میں جانتی ہوں تمہاری کنڈیشن کے بارے، اور مجھے ولی نے نہیں بتایا بلکہ تمہارے ڈاکٹر علی سے علم ہوا تھا، ان فیکٹ انکی بات سنی تھی۔ تم بالکل ٹھیک ہو جاو گی، اور پھر ولی کیسے کچھ ہونے دے سکتے ہیں اس پیاری لڑکی کو جو انکے دل کو دوبارہ دھڑکانے کا سبب بنی ہے۔۔۔۔"

وریشہ اسکے لیے ولی سے زیادہ پریشان تھی اور وہ اپنے لیے سبکی پریشانی دیکھ کر بوجھل ہو رہی تھی، رات ولی کو بھی اس نے مشکلوں سے سمیٹا تھا، اپنی سکت سے زیادہ ہمت لگا کر۔

"آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں؟"

اسے سوال کے لیے سوال کرتے دیکھ کر وریشہ کے چہرے پر لمحہ بھر سفیدی اتری کیونکہ وہاں کرب سا نمودار ہوا۔

"ہاں پوچھو"

وہ اسے بول تو گئی پر وریشہ کا دل ڈر رہا تھا۔

"آپ کو ان سے محبت کیوں نہیں ہوسکی، وہ تو قابل محبت ہیں پھر۔۔۔۔۔؟"

یہ سوال اس نے یونہی کیا کہ وہ دنگ تھی کہ کوئی لڑکی اس شخص سے کیسے محبت نہیں کر پائی۔

جبکہ وریشہ کے چہرے پر تکلیف سی امڈی۔

"آئی ڈونٹ نو ونیزے، شاید اس لیے کہ وہ جو رشتہ نبھاتے ہیں اس میں پرفیکشن کو چھو جاتے ہیں بس تبھی۔۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وریشہ کبھی انکی تکلیف سے غافل رہی ہو۔ تین کے معاملے میں یا تو تینوں تباہ ہوتے ہیں یا کسی ایک کو گرہن لگتا ہے اور انہوں نے تینوں کی تباہی کے بجائے اپنا گرہن قبول کیا تھا"

وہ بوجھل تھی، اسکی آنکھیں یہ بتاتے ہوئے ویرانی کی انتہا سے گزری تھی۔

"اور یہ گرہن تو محبت جیسے موجزے ختم کر سکتے ہیں جیسے تمہاری محبت نے کیا مگر تباہی تو نسلوں تک منتقل ہوتی ہے، میں اپنا آپ اگر ولی کو دے بھی دیتی تو وہ کیا پاتے، کیا یہ انکی محبت کی توھین نہ ہوتی کہ انکو صلے میں ایک ایسا وجود ملتا جس میں دل ہی نہ ہوتا۔۔۔"

اس لڑکی کی آنکھیں بھیگیں اور ونیزے نے اسے رلانے کے لیے یہ ہرگز نہیں پوچھا تھا بس وہ حیران تھی کہ اس دنیا میں کون ہوگی جو ولی کے لیے انکار کر سکتی ہے۔

"لیکن تم اگر ان سے چھن گئی ناں تو وہ تباہ ہو جائیں گے، اور شاید کبھی کوئی انسان دوبارہ محبتوں میں اپنا بیسٹ نہیں دے سکے گا۔"

اسے ونیزے کی زندگی، اپنی خوشی سے بڑھ کر عزیز تھی۔

"وہ تو یہ رشتہ بھی پرفیکٹلی نبھا رہے ہیں، اور میں اس پرفیکشن پر زیادہ خوفزدہ ہوں"

یہ پہلئ بار تھا کہ وہ لڑکی وریشہ کے سامنے سچ اور دل کا ڈر بولی اور وریشہ نے اسے پھر سے خود میں سمویا کیونکہ لفظ اسکے ختم ہو گئے تھے۔

وہیں اپنی تکلیف اور حالت شہیر نے ضرار تک پہنچائی جو تمام فنکشنز سے فری ہوئے ابھی ہی روم میں آیا تھا۔

شہیر نے اس مشکل وقت جب وہ بہت کمزور پڑ رہا تھا، ضرار کو پکارا اور یہ اس دل والے کے لیے اعزاز کی بات تھی۔

"خود کو سنبھالو شہیر، اللہ کسی پر اسکی سکت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، ولی بہادر انسان ہے اور بہادروں کی آزمائشیں کڑی ہوتی ہیں۔ خود کو کسی احساس جرم کا شکار مت کرو کیونکہ یہی مقدر تھا، تمہیں وریشہ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تبھی وہ تمہیں سونپی گئی جبکہ امید ہے یہ ولی کا پہلے سے چھوٹا امتحان ہوگا، بی بریو۔۔۔ اپنی زندگی کے سارے سچ، ساری تکلیفیں وریشہ کے سامنے بیان کرو، تاکہ تمہارا دل اس اذیت سے نجات پائے۔ میں تمہاری تکلیف سمجھتا ہوں، دکھ پہاڑ ہوتے ہیں اور اپنی جگہ سے ہجرت نہیں کرتے، خود کی تکلیف تم نے کبھی اپنی زبان پر نہیں لائی تھی تبھی تمہیں وریشہ دی گئی کہ وہ تمہارے اندر کی خبس کو باہر نکالے، اسکے ساتھ رہو، امید ہے تم اس سب سے نکل آو گے۔ باقی میری دعائیں بھی تمہاری طرح ولی زمان خان کے ساتھ ہیں"

اگر ضرار اسے یہ سب نہ کہتا تو جس بھرے دل سے وہ باہر آیا تھا، چینخے لگتا، اپنے اندر کی گھٹن کو راستہ دینے کے لیے حلق کے بل چلاتا مگر ضرار نے آج بھی اسکی مخلص ہو کر رہنمائی کی۔

تبھی کال بند کرنے کے بعد بھی ضرار کے چہرے پر ان کہا ملال وخزن درج تھا جسے روم میں آتے ہی اشنال نے محسوس کیا تبھی وہ چینج کیے بنا دروازہ بند کرتی لپک کر بیڈ کے کنارے بیٹھے میثم تک آئی۔

"میثم! میری جان کیا ہوا۔۔۔تم اداس کیوں لگ رہے ہو؟"

وہ تو جیسے اسکے اندر تک جھانک لیتی تھی اور ابھی بھی اسکی سہمی پکار پر وہ ساری اداسی بھلائے مسکراتا ہوا اسکا ہاتھ تھامے لبوں سے لگا گیا۔

"ونیزے کینسر سے لڑ رہی ہے، شہیر کی کال تھی۔ بتا رہا تھا ولی بہت پریشان ہے اور کل وہ لوگ واپس جا رہے ہیں"

یہ سن کر تو اشنال کی آنکھوں میں بھی تکلیف سمٹ آئی۔

"یا خدا! کینسر۔۔۔۔ اللہ سائیں رحم کریں۔ پریشانی تو بنتی ہے ناں، ولی لالہ کی آزمائشیں طویل ہیں، پہلے وریشہ چھن گئی اور اب وہ پیاری سی ونیزے۔۔۔ نہیں۔ اللہ انکو اب ونیزے سے ہرگز جدا نہ کرے۔ وہ سب تو بہت پریشان ہوں گے"

اشنال بھی جیسے ونیزے اور ولی کے لیے تڑپ اٹھی اور اس وقت ضرار بھی متفکر تھا۔

"ہمم۔۔ پریشان تو ہیں ۔ اور ہم دعا ہی کر سکتے ہیں اشنال، کیونکہ ان معاملات میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا لیکن اگر ونیزے کو خدانخواستہ کچھ ہوا تو ولی کی سکت سے بڑا امتحان ہوگا، محبت کھو کر سنبھلنا عام بات نہیں ہوتی صنم، یہ ایک سلگتی جہنم کا راستہ ہے اور اس نے اسے پار کیا۔ میری تو دل سے دعا ہے کہ اللہ ونیزے کو صحت عطا کریں، ولی کے لیے واقعی دل بوجھل ہو گیا۔ وہ باہمت اور نڈر انسان ہے اور دیکھیں اسکی تکلیف بھی بہت بڑی ہے"

ضرار واقعی اسکے لیے دلی وابستگی کے طور پر رنجیدہ تھا اور اشنال کا اپنا دل پل پل انکے لیے دعا گو ہوا۔

"اللہ پاک خیر رکھیں، میرے ولی لالہ کی یہ آزمائش جلد ختم ہو جائے۔ دل واقعی اداس ہو گیا ہے"

وہ جتنی خوشی گل اور جبل کے نکاح سے تھی اب اتنی ہی افسردہ تھی اور سر میثم کے سینے پر رکھے بوجھل سی کہہ کر لپٹ گئی تو وہ بھی بازووں میں اسے سمیٹ کر کسی گہری سوچ میں اتر گیا۔

وہیں سوئیٹ ڈش تو بیچ میں ہی رہ گئی، ولی اور ونیزے کچھ دیر بعد چلے گئے کیونکہ ولی نے سر کے درد کے باعث معذرت کی جبکہ دادا سائیں نے وریشہ اور شہیر کو آج کے لیے روک لیا تھا۔

ونیزے کو گھر چھوڑے وہ خود کچھ دیر اکیلا رہنے کا کہہ کر حویلی سے نکل گیا کہ تمام ہمت و حوصلے کے باوجود اسکے لیے یہ رات کاٹنی محال تھی اور وہ ونیزے کے سامنے کمزور ہونا نہیں چاہتا تھا۔

وریشہ، دادا جان کو شب بخیر کہتی جب ملازمہ کے ساتھ کچن سمیٹ کر روم میں آئی تو شہیر خاموشی سے اندر ہی اندر کسی جنگ کو لڑتا کھلی کھڑکی سے لگ کر کھڑا تھا، کچھ بے حس سا کیونکہ ٹھنڈ کھڑکی سے اندر آ کر پورے کمرے کو منجمد کیے ہوئے تھی۔

وریشہ دبے پیروں چلتی ہوئی اسکے پاس آکر کھڑی ہوئی اور کھڑکی کے پٹ بند کیے تو آہٹ پر وہ بھی اپنے خیالات سے نکلا، آہٹ سے زیادہ اس لڑکی کی خوشبو نے حواس بحال کیے۔۔

وہ اسکی آنکھوں کے چراتے انداز دیکھ کر سمجھ گئی کہ وہ بھی تکلیف میں مبتلا ہے۔

سارے سوال جواب تو وہ بھول چکی تھی کیونکہ خود بھی بہت پریشان تھی۔

"شہیر! "

وہ بمشکل اسکی بازو سہلائے پکار پائی لیکن پھر بھی آواز کو نمی نے کھارا کیا۔

"تمہارے علاوہ وہ بھی ایک ایسا شخص ہے جس سے میرا رشتہ دشمنی سے شروع ہوا، لیکن پتا نہیں آج وہ کس مقام پر ہے کہ اسکی تکلیف مجھے دگنی ہو کر محسوس ہو رہی ہے۔

وہ صرف ایک ضد پر ڈٹ کر مجھے تاعمر جلنے کے لیے چھوڑ سکتا تھا وریشہ کیونکہ میں نے اسے بھی جلایا تھا، وہ مجھے ایک انکار سے مارنا چاہتا تو مار دیتا یہ اسکے اختیار میں تھا۔ 

وہ مجھے بدعاوں سے سسکنے پر مجبور کر سکتا تھا کیونکہ اسکا پلڑا بھاری تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔"

آج شہیر مجتبی سے اپنی تکلیف چھپانی مشکل تھی کیونکہ آج وہ مکمل کھلنے والا تھا، اس لڑکی کے روبرو جو اسکی واحد غم گسار بچی تھی۔

شہیر کی آواز میں نمی نے وریشہ کی آنکھیں ابھی سے چھلکا دیں تبھی اس نے شہیر کا مضبوط ہاتھ جکڑا۔

"اس نے میری آسانی چنی، کیونکہ وہ محبت کرنے والوں کی راہ میں کانٹے بچھانے والا نہیں تھا۔ یہ سچ ہے اس رب کے بعد وہ ولی ہی واحد انسان تھا جسکے اللہ کے سامنے کیے ایک اعتراض پر تم مجھ سے چھین لی جاتی"

وہ رکا، اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی اور وریشہ کا دل بھی اس شخص کے آنسووں کو دیکھ مر ڈوب کر ابھرا۔

"آج جب اس نے مجھے کہا کہ وہ ونیزے کے لیے ڈر رہا ہے تو مجھے وہ لمحہ یاد آیا جب میں ڈرا تھا تمہارے لیے کہ مجھ سے چھن رہی تھی تم، اس انسان کی تکلیف مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی وریشہ، حالانکہ وہ مجھے کبھی عزیز نہیں رہا۔ اسکی جگہ کبھی خود کو رکھوں اور سوچوں کے مجھے وریشہ سے دستبردار یونا پڑے تو باخدا میرا دل لمحہ لگائے بنا بند ہونے لگتا ہے لیکن اس نے سہا، سب سہا۔ وہ گر کر اٹھا اور قسمت۔۔۔۔۔ اسے پھر سے گرانے کی کوشش میں ہے اور قسم سے وہ اب گرا تو اس سے زیادہ یہ ہار میری ہوگی"

وہ رندی آواز اور ٹوٹے لہجے میں بولتا اسے بھی تکلیف دے رہا تھا جو پہلے ہی مشکل سے خود کو سنبھالے ہوئے تھی تبھی روتی ہوئی وہ شہیر کے گلے لگ گئی۔

رویا تو وہ بھی تھا، شاید انسان بننے کے بعد انسانیت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ پتھروں کو بھی رلا دے۔

"مت کرو میرا د۔۔دل پھٹ جائے گا شہیر"

وہ کرب سے سسکی تھی تبھی وہ اپنے ریت ہوتے ضبط کو سنبھال کر اسے روبرو لایا، اسکے سارے آنسو اپنے ہاتھوں کی نرم پوروں میں عقیدت سے جذب کیے۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑے صوفے کی جانب بڑھا، کہانی کا آغاز ہونے والا تھا، وہ اسکی طرف زرا سا رخ کیے اپنی درد بھری کہانی سمیٹنے کے لیے بیٹھا۔

"میری زندگی جتنی آج محبت سے بھری ہے ایسی کبھی نہیں تھی وریشہ، صرف ناامیدی، حسرت، نفرت، حسد اور دشمنی کا مرکب تھی۔

پہلا حسد ضرار سے کیا اور اس حسد کی آگ میں میری ضد نے ایک معصوم سی لڑکی کو نگلا۔۔ وہ محبت کرتی تھی مجھ سے اور میں اس وقت صرف حسد کو اہم جانتا تھا۔ میں نے اسے ضرار پر جھوٹا الزام لگانے پر مجبور کیا اور اسے شادی کا جھانسا دیا اور وہ اس جھانسے میں چپ چاپ آئی، ضرار پر بدکاری کا الزام لگا کر اس نے میری شرط قبول کی ، میری حسد کی آگ بظاہر بجھ گئی۔

میں شاید اس لڑکی سے شادی کر بھی لیتا کیونکہ اس نے اپنی عزت میرے لیے داو پر لگائی لیکن وہ میرے مردود بھائی کی حوس کا نشانہ بن گئی، اس نے خود کشی کر لی۔۔۔اور اپنے آخری خط میں مجھے معافی کی اس شرط سے باندھ گئی کہ میں اسکے گناہ گار کا بدلہ لوں گا۔ میں اسکی موت سے بہت بری طرح بکھرا کیونکہ اس لڑکی کی موت میرے سینے پر رکھی سل تھی جو میرا دم گھوٹ رہی تھی۔

وہ اسی جیسے خط میں ضرار کی بے گناہی بھی ثابت کر گئی جو میری حسد کی بجھی آگ میں چنگاری کا سبب بنا۔

علیم مجتبی کی موت وہ واحد تلافی تھی جو مجھے اس دنیا اور اِس لڑکی کو اُس دنیا میں سکون دیتی۔

اور میں نے علیم کی موت کو ضرار کی تکلیف سے جوڑ کر قہر سا برپا کیا۔

تب تک میں ایک جانور تھا، لیکن ہیر کی موت سے لے کر اسکا بدلا لینے تک یہ جانور، کچھ انسان بن گیا۔

یا پھر وہ مجھے ماری جانے والی قدرت کی پہلی لاٹھی تھی"

وہ یہ سب بلاخوف کہہ رہا تھا اور وریشہ اسکی تکلیف کو خود پر حاوی محسوس کر رہی تھی، جانے کتنا ضبط کیا تھا کہ اسکی آنکھیں انگارے کی طرح سلگ اٹھیں۔

"ہیر کی موت کا بدلہ لینے کے باوجود مجھے قرار نہ ملا، کئی لوگوں کے پاس گیا کہ مجھے میرا سکون لوٹا دیں مگر سب یہی کہتے کہ تلافی کروں۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ اب ہیر کی موت کی کونسی تلافی کروں کے میرے اندر بلکتا درد دم توڑے، اور پھر میری زندگی میں مدھر آواز والی ، روح کے درد سمیٹ لیتی نازلی آئی، انہی اذیت زدہ دنوں میرے قدم کوٹھے کی طرف اٹھے، لیکن میں نے اس لڑکی کو کسی بری نیت سے نہیں بلکہ اسکی آنکھوں میں بکھرے سوز کے رنگوں کے باعث ایک ہمدرد کی طرح دیکھا، وہ وہاں رقاصہ تھی اور کنو بائی جلد یا بدیر اسے جسم فروشی پر لگانے پر مجبور ہو جاتی کیونکہ نازلی کے حسن کے چرچے اسکی مانگ بڑھا رہے تھے اور میں اسی روز بنا سوچے اس لڑکی کو کنو سے اپنے لیے علیحدہ کر کے خرید آیا۔ مقصد تلافی تھی کہ میں اسے اس گند سے بچا کر ایک اچھی زندگی دے دوں، میں جو کچھ کماتا اس میں سے جو حصہ اپنے لیے رکھتا وہ ہر ماہ اس لڑکی کی قیمت ہوتی۔ میں اسکے پاس جاتا تھا، صرف اس لڑکی سے یہ یقین مانگنے کہ کیا وہ واقعی محفوظ ہے، میرے پیچھے اسکے ساتھ کچھ ہوا تو نہیں اور پھر مجھے وقت کے ساتھ کاشف کے دل میں نازلی کے لیے نرم جذبات محسوس ہوئے اور پھر تو تلافی کے ساتھ ساتھ اس میں میرے یار کی خوشی مل گئی تھی، شہیر مجتبی کی خفاظت مضبوط ہوئی۔ 

یہ سچ تھا نازلی کے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے سکون ملنے لگا، ہیر کی موت کی تکلیف مدھم ہو گئی۔

وہ اکثر میرے خواب میں آنے لگی اور مجھے ہر تکلیف سے آزاد کرتی، یعنی اللہ کو مجھ گناہ گار کی یہ دوسری تلافی قبول تھی"

نازلی کے متعلق جان کر تو وقتی تکلیف دبانے کے بعد وریشہ اسکے لیے اور دیوانی ہوئی، اسکا جکڑا ہاتھ محبت سے چوما مگر ابھی بہت کچھ باقی تھا۔

"ولی سے میری دشمنی تب شروع ہوئی جب اسے میرے دھندوں کا علم ہوا، میں ایک سیٹھ کے ساتھ کام میں ملوث تھا، لیکن وہ سیٹھ اصل میں مافیا ماسٹر تھا جسکی ابتدا میں مجھے بھی خبر نہ تھی اور جب ولی کو پتا چلا کہ میں سیٹھ گونی اور سیٹھ طلال کا پراعتماد بندہ ہوں تو اس نے میری کمزوری تلاشی، ہیر والی سچائی تک پہنچا، پھر نازلی کی حقیقت جان کر مجھے بلیک میل کیا جسکے باعث نہ صرف مجھے اس مافیا کا ادراک ہوا بلکہ ولی کے دھمکانے کے باعث مجھے اسکا مخبر بن کر اس مافیا کے اندر تک گھسنا پڑا، کیونکہ ولی زمان ان لوگوں کے پپچھے دو سال سے لگا تھا اور اسکو میری صورت ایک مضبوط سیڑھی درکار تھی۔ اور پھر اسطرح میں اسکے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہوا مگر میرے اندر اسکے لیے تب تک نفرت تھی۔"

وہ پھر سے رکا، وریشہ کے چہرت پر زردی کھنڈ چکی تھی۔

یہ سب ناقابل یقین تھا۔

"سب ٹھیک چل رہا تھا، وہ مردود علیم ، مشارب کے ہاتھ مرا وہیں میں نے ضرار سے اسکی سانسیں چھینیں لیکن قدرت کی دوسری لاٹھی باقی تھی۔ 

محبت سے بھاگنے والا شہیر تمہارا اسیر ہوا، ضد سے کب تم میرے اندر تک اتری، خبر تو تب ہوئی جب یہ سر پھرا مکمل برباد ہو چکا تھا۔

پہلے جب تم سے نکاح ہوا تو مقصد صرف ولی کو تکلیف دینا تھا مگر میں اس کھیل میں منہ کے بل گرا، مجھے ولی کو تمہارا نام لے کر تکلیف دینے سے خود بھی درد ہونے لگا، کیونکہ خود تم سے محبت کر رہا تھا۔

جب انسان کو خود محبت ہوتی ہے تو وہ محبت کرنے والوں کی ہر تکلیف سمجھ جاتا ہے۔

میں نے تبھی وہ محبت کی شرط رکھی کہ تمہیں آزاد کر کے ولی کو واپس کر دوں، تمہاری محبت چاہتا تھا کہ تمہیں چھوڑتے وقت شہیر مجتبی کا دامن بلکل خالی نہ ہو مگر تم بھی مجھ سے محبت کر بیٹھی اور میں ولی کی طرح یک طرفہ عذاب سے رہائی پا گیا۔

میرے اندر ٹوٹ پھوٹ ہونے لگی، میں ذہنی اذیت کا شکار تھا، مجھے اپنا آپ اضافی لگتا۔

پھر دوسری طرف اشنال کو جس مقصد کے لیے ضرار سے چھینا تھا وہ بھی راہ میں رہ گیا، سرمد ایک خبیث آدمی تھا اور ناصرف اس نے نازلی سے بدسلوکی کرنے کی نیت کر رکھی تھی بلکہ مجھے بھی کڈنیپ کر کے تشدد کیا جسکے بعد نازلی کی سلامتی کے لیے مجھے اس منحوس کو مارنا پڑا لیکن اس سے میرے دل کا بوجھ بظاہر بڑھا لیکن حقیقی کم ہوا کیونکہ ضرار کو اسکی اشنال مل گئی، اور وہ کبھی میں نے اس سے چھینی ہی نہ تھی یہ سب میری بڑی ہار تھی۔

میں ولی کے ساتھ اسکے مشن میں شریک رہا، سوچ لیا تھا اسے سب سچ بتا کر اسکے فیصلے کو منظور کروں گا، بتا دوں گا کہ اسکی وری میں نے چھینی ہے، اور میں یہ سب بتانے کے بعد اسکے ہاتھوں مرنے کے لیے بھی تیار تھا مگر وہ میرے بتانے سے پہلے ہی ناجانے کس طرح یہ سچ جان چکا تھا، خدا کی قسم یہ اللہ نے کوئی رحم ہی کیا تھا ورنہ یہ سب میں اسے کبھی نہ بتا پاتا اور یہ سب جاننے کے بعد اس نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا، بس یہ کہا کہ وریشہ میری ہے۔

جانتی ہو اس دن زخمی تھا، یہ گولی ضرار کے لیے خاقان کے لوگوں نے چلائی تھی پر مجھے لگ گئی، ضرار نے بھری پنچائیت میں میری عزت رکھ کر مجھے بچایا تھا سو یہ کر کے میں نے اسکے احسان کا بدلا چکایا سو اب تک مجھے لگتے ہر زخم کی ایک دلفریب کہانی ہے، اس سینے پر لگا زخم تو سب سے خوبصورت ہے"

اسکی آنکھیں اختتام تک بھیگ کر مسکرائیں تو وہ بھی روتی روتی مسکرائی۔

"تم اس دن میرے پاس جب آئے تھے تو ولی نے مجھے کہا تھا کہ ایک خاص ہیشنٹ ریفر کیا ہے، میں اسکا س۔۔سپیشل دھیان رکھوں۔۔۔ لیکن جب تم میرے پاس آئے تو میں سب بھول گئی، تم اس لیے روئے تھے شہیر کہ ولی نے تمہیں خوشی خوشی وریشہ دی تھی"

وہ اسکے آنسو پیار سے مٹاتی خود ڈوبتی آواز سے بولی، شہیر نے بڑی مشکل سے تکلیف ضبط کیے سر ہلایا۔

"وہ واقعی ہر تعلق پرفیکٹ نبھاتے ہیں پھر چاہے انکا تم سے جڑا یہ خوبصورت کنکشن ہی کیوں نہ ہو، وہ اس مافیا گینگ کو پکڑوانے کے اعزاز میں ڈی آئی جی بنے ، تمہاری محنت بھی شامل تھی تبھی انہوں نے تمہیں اسکا صلہ ایس ایس پی کی پوسٹ دلوا کر دیا۔۔۔۔ تم دونوں ہی سر پھرے پاگل ہو"

آگے کی کہانی تو وہ ونیزے سے جان ہی چکی تھی اور شہیر اتنا کچھ بول چکا تھا کہ اسے اب واقعی بولنا ناممکن لگا بس وہ وہیں ٹانگیں سمیٹ کر وریشہ کی گود میں سر رکھے لیٹا اور آنکھیں موند لیں۔

"اسکا پہلا دکھ بھی بہت بڑا تھا وریشہ، محبت کھو بیٹھنے کا۔ لیکن اس کے صبر کیا ۔ اب اسکی آزمائش تو بلکل اضافی ہے۔ میں زندگی میں بہت بار اندر سے ٹکڑے ہوا ہوں لیکن جو غم اس بار لاحق محسوس ہو رہا ہے اسکی تو حد ہی نہیں۔ وہ پھر اکیلا ہوا تو مجھ سے دیکھا نہیں جائے گا، مختصر کے میری خوشی ، میرا اطمئیان اس کے سکون سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ میں اسکے لیے جو بھی کر دوں، میں اسکے آگے اس جتنا بلند نہیں ہو سکتا۔ اور بلندی پر آباد ہستیاں آزردہ اچھی نہیں لگتیں"

وہ اس وقت کسی کا نہیں سوچ رہی تھی بس دل کو شہیر کے لیے تڑپتا محسوس کر رہی تھی، شہیر مجتبی نے اسے اپنی زندگی کے سارے سچ کھول کر بتا دیے تھے اور وہ واقعی اس وقت بہت تکلیف میں تھا۔

"مجھے جیلس فیل ہو رہا ہے کہ تم ولی کی فکر مجھ سے زیادہ کر رہے ہو"

معصومیت بھرا شکوہ اسکی زبان پر بے اختیار پھسلا تبھی تو شہیر نے اس کی ہتھیلی پہلے ہونٹوں سے پھر سینے سے جوڑی۔

"تم تو میرا اپنا وجود ہو، میرا حصہ ہو وریشہ۔۔۔۔ لیکن اس سے میرا دوستی یا دشمنی کا نہیں، انسانیت اور احساس کا رشتہ ہے۔ سچ کہوں تو ولی زمان خان کو تکلیف میں دیکھ کر مجھے بہت برا لگا، اتنا کہ میں نے خود بھی امید نہیں کی تھی"

وہ بلکل سچ بول رہا تھا اور اس وقت شہیر کو بکھرا ہوا دیکھ کر وریشہ کو بھی تکلیف ہو رہی تھی۔

"اللہ سائیں انکی تکلیف کو بڑھنے نہیں دیں گے، جیسے میری ختم ہوئی انکی بھی ہوگی"

وہ اسے دلاسا دینے کے ساتھ خود کو بھی دے رہی تھی جبکہ شہیر کچھ سوچ رہا تھا۔

"ہم بھی چلیں کل، ان دو کو ہماری ضرورت ہوگی۔۔۔ ویسے بھی یہاں کی تمام ذمہ داریاں تو پوری ہو گئی ہیں"

اسے شہیر کی تجویز سن کر دلی خوشی ہوئی اور وہ جذبات و احساسات سے بھرا اقرار تھا جو وری نے اسے دیکھ کر کیا۔

"ضرور چلتے ہیں، لیکن ایک پرامس اور کرو مجھ سے شہیر"

وہ اقرار کے ساتھ ان کہی تکلیف میں لپٹی جب ایک اور وعدے تک آئی تو وہ اٹھ کر واپس بیٹھا، اپنی پوری محبت بھری توجہ جی جان سے وریشہ کو دی، اسکے مرمریں ہاتھ تھامے۔

"کہو"

وہ جیسے اس لڑکی کا دیا ہر وعدہ دل و جان سے پورا کرنے کا طلب گار تھا۔

"دوبارہ تم کبھی مت رونا، کیونکہ وریشہ تمہیں دیکھ کر جیتی ہے۔ میں اتنی بہادر بلکل نہیں ہوں کہ تمہارے آنسو دیکھوں، کرو گے پرامس"

یہ مشکل تھا پر وریشہ کے لیے وہ اپنی تکلیفوں سے نکلنے کی بھرپور کوشش کرنے پر رضا مند تھا۔

"یہ معاملہ میری سکت سے باہر کا ہے تبھی تمہیں اس مشکل سے گزارا، ورنہ جس کے پاس تم ہو وہ تو جان بھی ہنستے ہنستے دے گا۔ آئی پرامس، کیونکہ تمہیں شہیر مجبتی کے اصل سے ملوا کر میرے دل کے تمام بوجھ ویسے ہی گھٹ گئے ہیں"

اور وہ روح زمین پر چند ایسے لوگوں میں سے تھا جنکے لفظ روح کی طرح جسم کے مردہ پن کو ختم کرتے تھے اور وہ اسکے وعدے پر یقین رکھتی تھی۔

"اور گھٹا دوں؟ تو سنو۔۔۔ تم نے جو ہیر کے لیے تلافی کی وہ تمہارے سوا کوئی نہیں کر سکتا تھا اور مجھے تم پر اس سب کو جاننے کے بعد مزید پیار آیا، تھوڑا برا لگا کہ وریشہ کے علاوہ کوئی اور تمہیں اتنا کیسے چاہ سکتا ہے مگر پھر بیوی تو وریشہ ہے تمہاری سو اپنے سکون کو اہم جانا اور ہر انسان کی راہ میں جگہ جگہ لاحاصل محبتوں کے پتھر پڑے ہیں، ان سے ٹھوکر لگی تو درد انکو اور ہمیں بھی ہوگا سو اگر ایسے پتھر راہ میں آئیں تو عقل مندی یہی ہے کہ اسے اٹھا کر کسی کمزور دیوار کا حصہ بنا کر اسکو اسکی جگہ دیکھا دی جائے۔۔۔ میں نے بھی یہی کیا تھا، ولی کو ونیزے سے نکاح کرنے پر اکسانے والی میں تھی اور دیکھو میری تلافی بھی کچھ قبول ہوئی، تم دعا کرو وہ مکمل قبول ہو جائے اور ولی کے سارے ڈر ، وہ لڑکی موت سے لڑ کر ختم کر دے"

وریشہ کا یہ انکشاف شہیر کے لیے متوقع تھا کیونکہ خود شہیر بھی ولی کے اچانک نکاح پر کچھ ایسی ہی سوچ میں مبتلا ہوا تھا لیکن آج وریشہ کے اقرار نے اسے خوشی بخشی تھی۔

"میری اس وقت ہر دعا ان کے لیے ہی ہے ، تم یہ دعا کرو کہ میری دعا قبول ہو جائے"

اسے اپنی دعاوں کے قبول ہونے میں ابھی بھی ڈر لاحق تھے کہ وہ ایک عمر اس دعا قبول کرنے والے کا ناپسند رہا تھا، شکوے کرنے والا اور حسد کرنے والا اللہ کو بلکل پسند نہیں۔

"ان شاء اللہ قبول ہوگی کیونکہ دعا تمہارے ہونٹوں سے نکل کر اب مزید اس رب کو پیاری ہو گئی ہوگی کیونکہ کسی اور کے لیے کی دعا اللہ کی پسندیدہ ہوتی ہے، ہم انھیں بلکل اکیلا نہیں چھوڑیں گے"

وہ اسکے ساتھ ہم قدم ہوئی، اسکی مشکلات جاننے کے بعد اسے شہیر مزید عزیز ہو چکا تھا اور وہ آج سمجھی تھی کہ کیوں ولی کی اس قدر محبت کے باوجود اسے وریشہ نہیں ملی کیونکہ وریشہ کی سب سے زیادہ ضرورت اس پاگل کو تھی، جو اپنے سوا سب کا سوچ رہا تھا۔

دونوں بہت پرامید تھے لیکن ایک دوسرے کا مخلص ساتھ کمزور پڑتے دلوں کی لافانی قوت بن رہا تھا۔

وہ اسے سینے سے لگائے مسکرایا تھا، اسکے دل کے بوجھ یہ لڑکی سوچ سے زیادہ کم کر چکی تھی اور انکا لمحہ لمحہ دعاوں میں وقف ہونے والا تھا۔

اگلا دن زمین زادوں پر اتر چکا تھا، ولی اور ونیزے کی صبح ہی واپسی ہو چکی تھی اور دن تک شہیر اور وریشہ کے ساتھ ساتھ کاشف، نازلی اور اماں سعدیہ نے بھی سانول مجتنی اور اماں کوثر سے اجازت طلب کی۔

گو انکا گھر یکدم ویران ہونے والا تھا پر شہیر نے جاتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد واپس آئے گا۔

جبکہ چار بجتے ہی بزدار حویلی میں گل ، جبل زاد، مالنی اور ہاشم کی مہندی کا جشن شروع ہو چکا تھا اور اشنال اور ضرار نے کسی پر بھی یہ عیاں ہونے نہ دیا کہ وہ کتنے پریشان ہیں کیونکہ یہ جشن بھی ان کے لیے بے حد اہم تھا۔

وہیں ونیزے کی شام چار بجے ہی ہوسپٹل آپائنٹمنٹ تھی اور ڈاکٹر علی نے اسکے کچھ ٹیسٹ کیے تھے جنکی رپورٹ فجر کے بعد آنی تھی اور ونیزے کو رات وہ ہوسپٹل ہی ایڈمنٹ کر چکے تھے اور ولی اسکے ساتھ رہنے والا تھا جبکہ وریشہ اور شہیر کا بھی یہی ارادہ تھا کہ وہ آج کی رات ولی کے ساتھ ہی ہمدرد کی صورت موجود رہیں۔

سب بہت خوش ہیں اور آپ بھی سمائیل کرتی نظر آئیے گا صنم۔ ولی اور ونیزے کے لیے ہمارا دل دعا کر رہا ہے مگر ہماری توجہ ان سب کو بھی چاہیے جنکا آج اور کل سپیشل دن ہے، میری شہیر سے بات ہوئی ہے ، وہ اور وریشہ ان دو کے ساتھ ہیں"

مہندی کے فنکشن کے لیے پوری بزدار حویلی انتہائی خوبصورتی سے سج چکی تھی اور ضرار اپنے روم سے باہر آتے ہوئے خاص اشنال کو تاکید کرتا آ رہا تھا جبکہ اشنال نے بھرپور یقین دلاتے انداز میں مسکرا کر آنکھوں کے سنگ ملائم تسلی پہنچائی اور وہ دوسرے کمرے کی طرف بڑھی جبکہ ضرار نے پاعتمادی کے سنگ چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ سجائے مہندی کے جادو گر دلہوں کی طرف رخ کیا۔

جبل زاد اور ہاشم بزدار دونوں ہی آج وائیٹ قمیص شلوار میں شریفانہ مگر ہینڈسم لک دے رہے تھے، یہ الگ بات تھی کہ شرافت بچاری کو دونوں آگ کے گولوں نے زبردستی، ظالم سماج کی مجبوری کے باعث خود پر چڑھا رکھا تھا۔

جبل تو نک سک تیار ہو کر بزرگ اور ینگ کمیونٹی کے ساتھ آکر گپ شپ لگا رہا تھا جبکہ ہاشم صاحب کی حسب معمول ابھی تیاری باقی تھی جسے بھیجتے نے ٹیک دینی تھی تبھی وہ اسے ڈھونڈتا اسے مہکتے، خوبصورت سجاوٹ سے اٹے کمرے کی طرف بڑھا۔

خانم حویلی کے باقی افراد بھی مہندی کی تقریب میں شمولیت اختیار کرنے پہنچ چکے تھے اور دل کی دھڑکنیں تیز کرتی رونق لگ چکی تھی البتہ مشارب کی فکریں بھی اس وقت اس فنکشن کے پرسکون ماحول کے باوجود لالہ کی سمت جڑی تھی۔

ہاشم اسی وقت خود پر بے دریغ پرفیوم چھڑک رہا تھا جب ضرار شر انگیز مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔

"اف ہاشم صاحب! اتنی پرفیوم آج لگانے کی کیا ضرورت تھی، کونسا آپکو آج مالنی کے قریب جانے کی اجازت ملنی ہے۔ ہاں اگر آپ یہ محنت کل کرتے تو چانس بن سکتا تھا"

حسب توقع وہ گدگداتی چھیڑ خانی کیے اپنے مخصوص دل ے انداز میں اندر آیا تو ہاشم بزدار ، بجلیاں گراتے ہوئے روبرو آئے، آج تو وہ ضرار کی ٹکڑ کا ساحر لگ رہا تھا، شاید یہ سارا حسن مالنی کے پروٹوکول کے لیے خصوصی دہکایا گیا تھا۔

ضرار نے چپکے سے اس پیارے شخص کا صدقہ اتارا ، کیونکہ آج وہ اس قدر خوبرو لگ رہے تھے کہ ضرار کو لگا لوگ دلہن چھوڑ کر کہیں اس پیارے دلہے کو نظر نہ لگا بیٹھیں۔

"تو تم کس دن کام آو گے لاڈلے، ماحول میں نے گرما لیا اب مالنی کو مجھ تک پہنچانے کا انتظام تو تم کرو گے"

نہایت چالاکی کے سنگ بھیجتے سے رعب دار فرمائش کرتا ہاشم ، اسکی منصوعی گھوری پر مسکراہا۔

"نہ کریں یار، کیوں مجھے سب ظالم بزرگ کمیونٹی سے پٹوانا ہے۔ ایک دن کا صبر کریں، کل آپکو یہ لاڈلہ خود مالنی دے گا، عیش کیجئے گا"

آنکھ دبائے جناب نے ٹرخانہ چاہا پر ہاشم صاحب کے ظالمانہ تیور تو بتا رہے تھے آج مالنی نہ ملی تو شاید کسی دیوار سے ٹکر مار لیں گے۔

"تم پٹو آج یا ضائع ہو، بھئی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ "

دلہا بنتے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھنا تو کوئی ہاشم بزدار سے پوچھتا۔

"بہت افسوس کی بات ہے، ہو گئی ناں مالنی چچی آپکو مجھ سے پیاری"

زرا سی آگ تو بھیجتے کے دل کو بھی لگی تبھی تو پھپھولے پھوڑتا لمحے میں ناک بھوں چڑھائے خفا ہوا۔

"بھئی اب کیا کروں، دھڑکتا بھڑکتا عشق جو ٹھہری وہ ہاشم کا۔۔۔ویسے ولی کے نہ آنے پر اس سے الگ لیول کا ناراض ہونے والا ہوں میں، کچھ پتا چلا کہ اچانک واپس کیوں چلا گیا"

اول جملہ شرارت سے کہتے ہی وہ ولی کے متعلق متفکر ہوا جبکہ ضرار اسے یہ ٹنشن بتا کر آج کے دن افسردہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

"بھئی بڑے لوگ اور انکے بڑے کام، خیر آپ اب نکل آئیں تاکہ رسم کی جائے۔ مجھے تو ابھی سے مالنی چچی پر ترس آرہا ہے، شادی کے بعد تیار ہونے پر وقت آپ لگائیں گے اور بدنام وہ بچاری ہوں گی"

وہ ہر ممکنہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش میں تھا اور جناب کے اس تیاری پر چوٹ کرنے نے ہاشم کو بھی ہنسنے پر مجبور کیا پر لاڈلہ کیسے سکون سے ہنسنے دیتا۔

"پر کوئی نہیں، انکل نما بندے سے شادی کے سائیڈ ایفیکٹس بھی تو برداشت کرنے پڑتے ہیں"

جاتے جاتے وہ ہاشم کی دکھتی رگ دبائے جیسے ہی فرار ہونے لگا، ہاشم نے عقب کی جانب گریبان سے ہی پکڑے لاڈلے کو دبوچا۔

"یہ انکل نما بندہ کسے کہا ہے تم نے؟"

ہاشم کھولتا، تنتناتا ہوا اس الزام پر گھور کر بولا تو ضرار کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا۔

"ہاہا آپ کے علاوہ ایک ہنڈسم نوجوان ہی ہے اس کمرے میں سو آپکو ہی کہا ہے ناں ہاشم صاحب"

دبوچے ہونے کے باوجود ضرار نے ڈھیٹائی کا مظاہرہ کیے چڑایا جبکہ ہاشم نے اپنی پوری قوت دیکھائے لاڈلے کو ایک ہی داو لگائے بیڈ پر پٹخا اور وہ گرنے کے باوجود مسلسل ہنس رہا تھا۔

"لو پھر اس ہنڈسم نوجوان کو اس انکل نما بندے نے پچھاڑ دیا، آگے سے میری جوانی پر بات کی ناں لاڈلے تو اگلا مقابلہ علاقے کے سنسنان اکھاڑے میں ہوگا اور پورا علاقہ دیکھے گا ہاشم بزدار کی قوت"

اپنی راج ہنس سی گردن اکڑاتے ہاشم، اور اسکے تیور ضرار کے پیٹ میں ہنس ہنس کر درد کروا چکے تھے جبکہ خود ہی ہاشم مسکراتا ہوا ہاتھ بڑھائے اس ڈھیر ہوئی شے کو اٹھائے ساتھ ہی لپٹا گیا اور یہ دونوں کا پیار یونہی دھڑکتا بھڑکتا سا تھا۔

"یا میرے مالک، مالنی چچی کی خفاظت کیجئے گا۔ یہ تو دلہا کم پہلوان زیادہ بن چکے ہیں۔۔۔ مجھ مسکین کا جوڑ جوڑ ہلا دیا ظالم انسان، اب دیکھنا کل آپکو کیسے ترسا ترسا کر مالنی دیتا ہوں"

وہ بھی لڑنے مرنے کو تیار بازو چڑھاتا دھمکی دے کر کمرے سے نکلا جبکہ اسے ہاشم کا ہنسنا پیچھے تک سنائی دیا۔

اور وہیں دونوں مہندی کی دلہنوں پر اخیر روپ آیا ہوا تھا، دونوں کے گرین اور پنک لہنگے تھے جبکہ چنریوں میں ڈھیر سارے رنگ شامل تھے جو دونوں کے گداز رنگت اور حسن پر آفت خیزی سے سجے تھے۔

اشنال تو دونوں کی نظر اتار کر گل کو پہلے رسم کے لیے باہر لے کر چلی گئی تھی جبکہ زونی ابھی بھی مالنی کے ساتھ ہی تھی، بس اسکا دوپٹہ سیٹ ہونا باقی تھا۔

"آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں مالنی، ہم تو یہ سوچ رہے ہیں ہاشم چاچو آج آپ کو دیکھ کر کیسے اپنا ہوش سنبھالیں گے"

تعریف کے ساتھ وہ مالنی کو چھیڑ بھی رہی تھی اور مالنی کے چہرے پر بکھرے گلال بس خوشی کے رنگوں سے سجے تھے، ہاں یہ سچ تھا اسکے دل کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی، جیسے جیسے رخصتی کا وقت قریب آرہا تھا، ویسے ویسے دل کی ہمت ہوا ہو رہی تھی۔

"انکا تو پتا نہیں زونی آپی پر مجھے ضرور مشکل پیش آنے والی ہے، آپ نہیں جانتی اس بندے میں ایک جادو ہے، شروع سے لے کر اب تک ماسکو نے مجھے اسی جادو سے ہی تو پاگل بنایا ہے، کل تو بہت دور ہے، میں تو آج بھی انکو بہت مس کر رہی ہوں۔ میں تو سات پشتوں کو منع کر جاوں گی کہ پہلے نکاح کوئی نہ کرے، یہ جان جوکھم کا کام ہے۔ اپنے آپ کو اس شخص کے سامنے حدود میں قید رکھنا مجھ سے نہیں ہوتا یار۔۔۔ "

زونی جو اس سے شرمانے لجانے کی توقع کیے بیٹھی تھی، دلہے سے دگنی بیقراری بھانپ کر بے اختیار ہنس دی، بلکہ مالنی کو خود سے لپٹایا۔

"آپ مجھ پر ہنس رہی ہیں؟"

مالنی نے منہ پھلائے اسکے ہنسنے کا برا منایا۔

"ارے نہیں، ہم تو آپکی بے تابیوں پر مسکرائے۔ وہ کہتے ہیں ناں دیر آئے درست آئے، ہمارے چاچو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لمبے صبر کے بعد آپ جیسی جان نچاور کرتی مالنی جو ملی ہے ناں، مجھے نہیں لگتا انکا کوئی ارمان باقی بچا ہوگا"

زونی نے نہایت خوبصورتی سے اپنی مسکراہٹ کا جواز دیا جبکہ مالنی کے چہرے پر تب روح افزاء مسکراہٹ آئی جب دروازے سے اندر آتے بے تکلف جناب سے نظریں ملیں، وہ ہر پابندی کے باوجود مالنی کو دیکھنے آیا تھا، اور دروازے کے باہر منہ بسور کر کھڑے ضرار کو دیکھ کر لگ رہا تھا چچا جان نے بندوق تان کر پہرے پر کھڑا کیا ہو مگر اسے اپنے جبلو کا بھی خیال تھا سو جناب اپنا فریضہ نبھاتے اسکی رسم میں شمولیت کو پہرے سے مسکراتے ہوئے اگلے ہی لمحے ہٹ گئے۔

جبکہ زونی ، ہاشم کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی اسے دیکھنے لگی جو آج واقعی بہت چج رہا تھا اور پھر ان دو کی نظروں کے بے خود ارتکاز بھانپ کر اس سے پہلے زونی کمرے سے نکلتی، مالنی نے خوف زدہ ہو کر اسکی کلائی جکڑی جبکہ مالنی کے اڑے حواس دیکھ کر خود زونی تو اپنی مسکراہٹ دبا گئی مگر ہاشم کے ابرو اچکا کر گھورنے پر مالنی کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔

"زونی! لوگ ڈر رہے ہیں کافی حیرت کی بات ہے"

دیکھ وہ مالنی کی آنکھوں میں بے باکی سے رہا تھا جو اپنے آپ کو کچھ دیر پہلے بیقرار کہہ رہی تھی، اب یوں تھی جیسے اس شخص کے قریب آتے ہی اسکی روح پرواز کر جائے گی جبکہ زونی ان دو کے پیچ خود کو پیغام رساں سا محسوس کیے مخظوظ ہوئی۔

"کیونکہ آپ نے خاصے سحر بکھیرے ہوئے ہیں، ہر خدا کی بندی کو ڈرنا چاہیے چاچو"

زونی نے بھی شرارت سے کہا البتہ وہ دونوں کی سچویشن بخوبی سمجھ رہی تھی۔

"آہاں! تو پھر کل کیا ہوگا لاڈلی۔۔ لوگ تو آج ہی ہتھیار پھینکتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں، یہاں تو ایک نڈر، شیرنی رہ رہی تھی تمہارے ساتھ، تم جانتی ہو یہ بھیگی بلی اسے کس نے منتر پھونک کر بنا دیا ہے"

اسکے تپش دیتے الفاظ پر مالنی اب برہم ہوئی، یہ بندہ تو اسکی فطری جھجک کو خوف سمجھ رہا تھا۔

زونی کا ہاتھ چھوڑتی وہ لمحے میں اپنا گھیرے دار لہنگا سنبھالتی ہاشم کے روبرو آن کھڑی ہوئی جو اک لمحہ اس آپسراہ سے نظریں ہٹانا ہی بھول گیا تھا۔

"زونی آپی انکو کہیں کہ زیادہ اڑیں مت،اسی شیرنی کی ایک للکار ہی ساری ہوا نکال دے گی"

آنکھوں میں معنی خیزی بھرے وہ بھی جس طرح میدان میں آئی، زونی نے ہنستے ہوئے دو قدم دونوں کی طرف بڑھائے۔

"ہمیں کبوتری بننے کا بلکل شوق نہیں چاچو چاچی، پلیز آپ لوگ براہ راست بات کریں۔ پہرا ہم دیتے ہیں کیونکہ بزرگ کمیونٹی کے جاسوس آج ہر طرف گھوم رہے۔۔۔ہاہا کیری اون"

اپنا بھاری لہنگا سنبھالتی ایک ہی دن میں شرارتی ہو جاتی زونی، فورا سے کباب میں مزید ہڈی نہ بنتے ہوئے کمرے سے نکلی اور مالنی نے بے اختیار تڑپ کر دروازے کی سمت دیکھا مگر پھر ہاشم کی خود پر جمی نظروں کی غائبانہ تپش محسوس کیے وہ سہم کر چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگی جسکی نظروں کا انداز ہی دل جکڑنے سا تھا۔

"تو ہوا نکالو گی تم ہاشم بزدار کی؟ ، اتنا کونفیڈنس لاتی کہاں سے ہو بیوقوف مالنی۔ وہ دن گئے جب ہاشم تمہاری بے باکیوں سے گھبرا جاتا تھا"

آج تو ہاشم بزدار میں پہلے والے اس کھڑوس کی جھلک آئی تبھی تو وہ اسکے حصار میں مبتلا کرنے پر گھبرائی۔

"دیکھیں ماسکو! وہ بس ایک دھمکی تھی ناں تاکہ سب یہی سمجیں کہ آپ پر مالنی کا رعب ہے۔ سمجھا کریں پلیز"

سہمی چڑیا نے فورا سے پہلے صفائی دی جبکہ ہاشم کے چہرے پر مدھم سی دبائی مسکراہٹ وہ بھی دیکھ چکی تھی۔

"تو اتنی دھمکی دینی تھی پھر جتنی تابناکی تمہاری نازک جان برداشت کر سکتی ہے ، سیدھا سیدھا للکار سے ہوا نکالنے کی دھمکی۔۔ناٹ فئیر مائی لوو یہ بہت زیادہ ہوگیا۔۔ اب تو تمہیں کل تمام چھوٹے چھوٹے ٹریلرز کی فلم دیکھانی پڑے گی مجھے"

اسکے دلکش خمار میں لپٹے دھمکی خیز لفظ مالنی کے پورے وجود میں برق دوڑا گئے تھے، اور یہ سچ تھا آج اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنی بازو اسکی گردن میں باندھ کر قید کرتی۔

بس حیا و بے بسی کی شدت سے بلش کرتی نظریں جھکا گئی اور یہی لمحہ ہاشم کی ساری کیفیت بدل کر رکھ گیا۔

"ماسکو!"

وہ اس سے لپٹ کر جیسے شکوہ کناں ہوئی اور جناب نے بازووں میں بھر کر اپنا گمشدہ قرار واپس دل کی تہوں تک اترتا محسوس کیا۔

"میرے لیے ہمیشہ تم ظالم رہنا، محبت میں۔۔۔۔پرامس ود می"

اسکی بے خود سرگوشی پر وہ حیرت سے جھٹکا کھائے روبرو ہوئی۔

"ہیں! ظالم۔۔۔ کیا آپ پر تشدد بھی کرنا پڑے گا مجھے"

مالنی نے اچنبھے سے سوال کیا تو وہ میسنا مسکراہٹ سلب کرتا دیکھائی دیا، اسکی دل دھڑکاتی نظریں مالنی کے ہونٹوں پر سجا ہر تاثر اسے بھلا چکی تھیں۔

"ہاں تشدد، پر وہ جو تم پر سوٹ کرتا ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے"

ہاشم کے شریر جواب کا مفہوم وہ لمحہ لگائے سمجھی تبھی تو دگنی شرارت اسکی آنکھوں میں بھی اتری۔

"اصل والی مالنی ویسی نہیں ہے، وہ آپ نے ابھی دیکھی ہی نہیں"

یہ بتاتے ہوئے مالنی کا دل دھڑکن تیز لے پر لے اڑا اور اسکے تیز ہوتی دھڑکن کے اثر ہاشم بزدار پر بھی ہوئے۔

"وہی تو دیکھنی ہے ، جسے میرے سوا کوئی دیکھائی نہ دیتا ہو۔ آپنا آپ بھی نہیں۔ آئی وانٹ سپیشل پروٹوکول فرام یو ٹومارو۔ بس اسی شرط پر ابھی بخشوں گا"

وہ اسے سرسراتے لہجے میں رعب کے سنگ کہتا آخر تک زرا گرفت جکڑ کر اپنے اس وقت کسی بھی حد سے گزر جانے کا دہلا دیتا اشارہ سونپ رہا تھا اور مالنی کا دل بری طرح کانپ اٹھا۔

"سپیشل پروٹوکول کیسا ہوتا ہے؟ تھوڑا ایکسپلین کر دیں"

وہ واقعی اسکے لیے کل کا ہر لمحہ خاص بنانا چاہتی تھی تبھی یہ جنرل نالج کے لیے اہم تھا پوچھنا اور ہاشم نے اسکی کمر پر رکھا ایک ہاتھ ہٹائے اسکی نرم دہکتی گال سے سہلایا، پھر جب انگلی کی پور نے بالائی لب کو چھوا تو وہ جو دم سادھے اسکے جواب کی منتظر تھی، بوکھلائی، بے اختیار ہاشم کا ہاتھ مٹھی میں جکڑا کیونکہ ان ہونٹوں نے جلد ہاتھ کی پوروں کی پیروی کرنی تھی اور پھر بات بڑھ جاتی۔

"پلیز ہاشم! غلط وقت پر دل کو مت پاگل کریں"

وہ اسکے ہر ہر انداز پر دل کو مائل ہوتا محسوس کرتی بے اختیار التجاء کر اٹھی۔

"دیکھا ! مجھے، تمہیں ایکسپلین کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یو نو ویری ویل۔۔۔۔۔ بائے دا وے ، لنگنگ سٹننگ۔۔ نظر اتار لوں تمہاری؟"

وہ خود ہی شرارت ختم کیے اپنے جذبات پر بندھ باندھے لہجہ تعریفی کیے بولا تو وہ اس پر بھی بوکھلائی، یہ سوچ کر کہ ناجانے یہ شخص بے وقت نظر کیسے اتارتا ہوگا۔

"کیسے اتاریں گے؟"

ایک تو ہاشم کو اسکے سوال بہت تپا رہے تھے۔

"تمہیں محبت سے دیکھ کر، صدقہ بھی اتار لوں کیا؟"

وہ اسے پھر سے اپنے اختیار میں لے رہا تھا تھا۔

"وہ کیسے اتاریں گے؟"

اس بار اس نے واقعی چرانے کو پوچھا اور جناب فی الحال نظر اتارنے پر ہی اکتفاء کیے خود کو روک بیٹھے۔

"تمہیں محبت سے مکمل چھو کر، لیکن آئی فیل کہ ابھی صدقہ اتار لیا تو کل کی ملاقات کا حسن ماند پڑ جائے گا، تمہیں دیکھنا بھی بہت خوبصورت احساس ہے مالنی، کیونکہ تم ہاشم بزدار کو اپنا عکس لگتی ہو"

وہ اسکے آگے کچھ ہوش برقرار رکھے پہلی بار اظہار کر رہا تھا اور مالنی مسکرا کر اسے دیکھنے میں محو تھی۔

"میں واقعی آپکا عکس ہوں ماسکو۔۔میں نے بھی نظر اتار لی اور صدقہ اتارنا پینڈنگ کر لیا، اب آپ جائیں۔ میں آپکو کل تک بہت سارا مس کرنا چاہتی ہوں"

اسکی اس انوکھی خواہش پر وہ بے اختیار اسکی گردن کی اور جھک کر اپنے تشنہ لبوں کی مہر لگائے جاتے جاتے اسکی گال سہلا کر اسکا دل دھڑکاتا دروازے کی سمت بڑھ گیا۔

"یہ آخری بار ہے، اسکے بعد تو تم صرف مجھ سے پناہ مانگو گی ڈارلنگ۔۔۔ہاہا۔۔کر لو مس، اور کل تفصیل سے بتانا کے کیا کیا مس کیا تم نے ہاشم بزدار کے حوالے سے۔۔۔"

جاتے جاتے بھی وہ مالنی کے جذبات سے کھیل کر گیا، اور اسکے اوجھل ہونے تک وہ مسکراتی ہوئی اسے ہی دیکھتی رہی۔

بے اختیار اپنا ہاتھ اپنی گردن سے چھوا تو گدگداتا سا لمس از سر نو اسکے اندر تک اترتا گیا۔

جبل اور گل کو ملاقات کا موقع نہ ملا کیونکہ ان دو بچاروں پر پہرا کچھ سخت تھا اور ضرار کو چچا جان کے جذبات کی شدت سے زیادہ اپنے چھپے رستم جبل کے بہک جانے کے خدشات تھے سو بڑا پہرے دار وہ خود بنا رہا۔

رسمیں پوری شان اور خوبصورتی سے نبھائی گئیں، اور دل کے تار تو آنکھیں ہی ابھی چھیڑنے کو کافی تھیں۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"تم دونوں نے خوامخواہ زحمت کی، وقتی پریشان ہوا تھا۔ آئی ایم اوکے ناو، ویسے مجھے امید نہیں تھی تم دونوں ولی کی ہمت بندھانے پیچھے ہی چلے آو گے"

وہ لوگ اس وقت ہوسپٹل کے کوریڈور میں کھڑے تھے، خود وریشہ اور شہیر نے یہ فیل کیا تھا کہ وہ کل کی بنسبت اب کافی بہتر تھا، شہیر ان سب کے لیے دو منٹ پہلے کافی لینے گیا تھا جبکہ ولی کو تکلف برتتا دیکھ کر وریشہ افسردہ سا مسکرائی۔

"ہم ہمت نہیں بندھانے آئے بس یہ کہنے آئے تھے کہ آپکے ساتھ رہنا ہماری اولین خوشی ہے، آپکو ہماری ہمت کی بلکل ضرورت نہیں کیونکہ آپ ولی زمان خان ہیں، ہم تو ساری زندگی آپکے اور ونیزے کے دکھ اور سکھ میں بنا بلائے شرکت کرنے والے ہیں اور آپ ہمیں روک نہیں پائیں گے"

وہ اسکے روبرو پورے اعتماد سے کھڑی تھی، وہ بھی کبھی ولی کے سامنے اس جتنی بلند نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ درد کے دائرے تو اپنی جگہ ایک خلش چھوڑ چکے تھے، وہ اسے خوش دیکھ کر اندر تک خوش ہوا تھا مگر وریشہ اسے خوش دیکھنے کی شدت سے طلب گار تھی۔

"دکھ سے تھوڑا بور ہو گیا ہوں، آپ خوشی کی دعا دیتی ہوئی اچھی لگیں گی وریشہ"

وہ بھی دوستانہ انداز میں یونہی مدھم درویش سی مسکراہٹ لیے بولا مگر وریشہ لمحہ بھر خاموش ہوئی، اسکی آنکھیں ویران سی ہوئیں۔

"جس نے آپکی خوشی چھین لی، وہ آپکو خوشی کی دعا آپکے سامنے کس منہ سے دے۔ آپ نے تو وریشہ کو برا بھلا بھی نہیں کہا کہ میرا احساس جرم گھٹ پاتا"

وہ اسکے سامنے تھوڑی مرجھائی، اور مرجھایا ہوا تو آج وہ بھی تھا، اسکی نبض دباو میں تھی۔

"آپ نے ہی تو ونیزے دی ہے مجھے وریشہ، پھر کونسا جرم ادھار رہا۔۔۔ میں آپ پر آگے بڑھ جانے کا کیسے الزام لگاوں کے میں نے تو خود بڑی اجلت میں قدم بڑھائے ہیں۔ اسے میری بہت ضرورت تھی"

وہ کافی دیر سے کھڑا ہونے کے باعث تھکا تو وہیں لگی کرسیوں پر بیٹھے تاسف کے سنگ وضاحت کیے بولا، وریشہ بھی چلتی ہوئی اسکے ساتھ ہی آکر بیٹھی۔

ضرورت والے جملے پر اس نے ولی کو کسی کرب میں مبتلا محسوس کیا۔

"اسے صرف آپکی ہی ضرورت تھی ولی، اور یہ سچ ہے کہ اگر ونیزے نہ ہوتی تو میں شہیر سے جڑی محبت کے باوجود ، اسکو وریشہ کی لاحق ضرورت کے باوجود مر جاتی۔۔۔ یا کہیں دور چلی جاتی، میں آپ سے کی زیادتی کی سزا خود کو اور شہیر کو برابر دیتی"

وہ اسکی طرف دیکھ تو نہ سکی پر ولی نے اسکے الفاظ میں اتری نمی ضرور شدت سے محسوس کی۔

"شہیر کو آپکی ضرورت تھی، تبھی ونیزے کو بھیجا گیا۔ یہ دنیا محبتوں اور ضرورتوں کی بچھی بساط ہی تو ہے، کسی کو جیت ہوتی ہے اور کسی کو ہار مگر بیچ میں چھوڑ کر کھیل کوئی نہیں جا سکتا، بھلے محبت کا معاملہ ہو یا ضرورت کا۔۔۔ ہم دونوں کے معاملے میں تو محبت کا پلڑا بھاری تھا"

وہ اسے اب بھی اداس لگا تبھی وہ اسکی طرف چہرہ موڑے بوجھل ہوئی۔

"آپ نے شہیر سے محبت کی اور ونیزے نے مجھ سے، اور آپ دو کی محبت بھی پرفیکشن کے مدار تک ضرور پہنچ کر واپس آئی ہوگی تبھی تو مرتے مرتے زندگی کی امید جاگ اٹھی، یا پھر آپکی اور ونیزے دونوں کی محبت ، اس بار ولی زمان خان کی محبت پر بھی بازی لے گئی ۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے، میں نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں تھا ماسوائے آپکے ، کیونکہ بے جا ضد میرے خون میں بھی کہیں شامل تھی، ضد ہی تو تھی، اپنے آپ کو سراب کے پیچھے دوڑانے کی ضد"

وہ یہ کہتے ہوئے کافی پرسکون ہوتا گیا مگر وریشہ کا دل ہنوز بھاری تھا۔

"آئی ایم سوری ولی"

یہ صرف رسم تھی ورنہ دل کی کثافتیں تو دھل چکی تھیں، وہ تو ونیزے کے گرد اپنی سوچوں کے ہر محور کو موڑ چکا تھا، وہ وریشہ یوسف زئی کو اپنے ہر جذبے سے پوری ایمانداری سے آزاد کر چکا تھا۔

"آئی ایم سوری وریشہ"

اسکے متوقع جواب پر وہ بھیگی آنکھوں سمیت مسکرائی۔

"آپ نے کیوں سوری کہا؟"

آنسو رگڑ کر وہ متجسس ہوئی۔

"آپکو بے جا اپنا کہتا رہا، حالانکہ آپ کبھی میری نہیں تھیں نہ میرے لیے بنائی گئیں۔ میری وجہ سے آپ تکلیف سے گزریں ، آپکی خودکشی کا معاملہ پہنچ گیا کسی طرح مجھ تک، آپ کو کچھ ہو جاتا تو آج یہاں چار کے بجائے کوئی ایک بھی موجود نہ ہوتا۔۔۔اور آپ نے سوری کیوں کہا؟"

وہ اسکے ایسے جواب پر کتنی دیر کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہی مگر پھر آنکھیں رو پڑنے کے ڈر سے جھکا گئی۔

"آپکو نہیں پتا؟"

وہ بمشکل بول پائی تھی۔

"بتا دیں پھر"

وہ یونہی جاننے پر مصر تھا تبھی وریشہ نے اپنی آنکھیں اٹھائے ولی کو دیکھا۔

"وہ جو وعدہ کیا تھا؟ میں جاننا چاہتی ہوں"

یکدم ہی اس بھولی بسری یاد پر ولی بے اختیار ہنس دیا اور وہ مزید اداس ہوئی۔

"اگر اس وعدے سے پردہ ہٹا تو آپ بھی میری طرح ہنسیں گی"

وہ یکدم ہر فکر بھول کر سسپینس پھیلائے مسکرائا۔

"میں ہنسنا چاہتی ہوں"

اسے اب جانے بنا کہاں قرار تھا جبکہ ولی کے چہرے کی ہنسی لمحوں میں غائب ہوئی۔

"وہ وعدہ پورا ہو چکا ہے"

ولی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یہ انکشاف کیا جبکہ وریشہ واقعی اب جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔

"مگر کیسے ولی؟"

اسکی حیرت میں ڈوبی آواز لرز اٹھی تبھی ولی نے کرسی پر پڑے اپنے کوٹ کی جیب سے اپنا والٹ نکالا اور وہ اس کی ایک اندرونی جیب میں رکھی چھوٹی سی چٹ نکال کر مسکراتا ہوا وریشہ کی طرف دیکھنے لگا۔

"خود دیکھ لیں"

وہ ناسمجھی کے سنگ ولی کے ہاتھ سے وہ چٹ لے کر اسے کھولنے لگی مگر اس پر لکھی سطر پڑھنے کے بعد وریشہ کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔

"آپ کے باعث ولی زمان خان کی زندگی کے رنگ چلے گئے ہیں، لیکن آپ ہی مجھے یہ رنگ لوٹانے کا سبب بنیں گی صرف تبھی جی سکوں گا، وعدہ کریں"

یہ پڑھنے کے بعد وہ روتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی جو اپنا باقی کا وقت ونیزے کو دینا چاہتا تھا تبھی اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں ونیزے کے ساتھ جینا چاہتا ہوں اور وہ مجھے میرے رنگ لوٹا چکی ہے، آپکو شہیر کے ساتھ خوشی خوشی آباد دیکھنے کا خواہش مند ہوں۔ کبھی خود کو میرے دکھ کی وجہ مت مانیے گا وریشہ کیونکہ آپکو محبت کر کے مسیحائی کرنے کا شرف ملا اور مجھے محبت پا کر ۔کہ ان دونوں کو ہماری بے حد ضرورت تھی پھر ولی کو وریشہ دے کر قہر کیسے ڈھایا جا سکتا تھا۔۔۔ ہم دونوں ایک جیسے ہیں، میری محبت آپکے لیے نہ اس جہاں زحمت بنی ہے اور نہ اس جہاں بنے گی کیونکہ ہماری محبتوں کا رخ جب اللہ کسی سمت پھیرتا ہے تو وہی ہمارے عشق کا آخری سچا قبلہ ہوتا ہے۔۔۔ آپ لکی ہیں کہ آپکی پہلی سمت ہی آپکا سچا قبلہ نکلی، مجھے زرا ایکسٹرا بھاگ دوڑ کروائی گئی جو مجھے اب عزیز ہو گئی۔۔۔"

اسکے ہر درد کو ختم کر دیا گیا، جب وریشہ اٹھ کھڑی ہوئی تو شہیر بھی تب تک ان دونوں تک پہنچ چکا تھا، ولی نے جو مہربان نظر شہیر پر ڈالی وہ دل کے بوجھ اتارنے جیسی تھی۔

"میں نے آپکو داد بھی دینی تھی وریشہ، اس کو چننے کی کہ ان جسوں کو چاہنے والے بڑے امتحان سے گزرتے ہیں کیونکہ ریزہ ریزہ دل والے کو یکجا کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ اسکی رگ رگ سے واقف تھا تبھی خوشی خوشی اسے وریشہ دی کیونکہ یہ محبت کرنا اور محبت کی قدر کرنا جان گیا تھا، اسکی اصل تلافی علیم کو مروا کر یا نازلی کی خفاظت کر کے قبول نہیں ہوئی بلکہ آپ سے محبت کر کے ہوئی۔۔۔۔ یہ اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس روز وریشہ مجھے واپس دینے آیا تھا، اور میں جان نکالنے والا لگتا ہوں کیا؟ شاید لگتا ہوں اور میں لے بھی لیتا اگر مجھے ونیزے نامی دعا نہ لگی ہوتی"

وہ ان دو کو محبت بھری نگاہوں میں بسائے کھڑا تھا۔

اور شہیر نے اسکی واپس مضبوط ہوتی ذات پر خود کو بھی مضبوط ہوتے محسوس کیا۔

"تم دونوں مجھے ایک سے عزیز ہو کیونکہ ہم تینوں نے ایک دوسرے کا ایک دوسرے سے ہمیشہ پہلے سوچا اور میں یہ کنکشن ہمیشہ اپنے دل کے قرین رکھنا چاہوں گا، تم دو کو اصولا آج میرے لیے میرے پاس ہی ہونا چاہیے تھا، اسکے لیے تھینک یو"

وہ محبتوں کے ساتھ ساتھ اپنی کوتاہیوں کو بھی قبول کر رہا تھا، اپنی کوتاہی قبول کرنا اس نے شہیر مجتبی سے سیکھا تھا۔

جیسے سب سے بڑی کوتاہی ولی کی یہی تھی کہ اس نے وریشہ کے ہر بار انکار کے باوجود خود کو اسکی امید سے باندھا ، کیونکہ وریشہ نے اسے کبھی محبت میں مبتلا ہونے کا ماحول مہیا نہیں کیا تھا، جب وہ کسی اور کی ہوئی تو صاف صاف اس نے ولی کو یہ سچ کہا، امید توڑی اسکی مگر وہ پھر بھی امید سے بندھا رہا، اور لاحاصل محبت اوپر سے بے جا امید باندھنا تو ایک دن برا توڑتا ہی ہے۔

"میں کچھ دیر ونیزے کے پاس جاتا ہوں، پھر ہم یہیں سے کنٹینیو کریں گے کیونکہ اب تم لوگ آئے ہو تو ولی کے عجیب و غریب فلسفے سننے کا ٹارچر تو سہنا پڑے گا۔  تم دونوں کی کمپنی اپنی جگہ عزیز ہے پر ونیزے ولی زمان خان کی مسکراہٹ مجھے ہر دلاسے سے کہیں زیادہ انرجی دے سکتی ہے، سوری ٹو سے گائیز یہ ولی کا پرائیویسی لینے اور دینے کا وکھرا انداز ہے"

وہ مسکراتا ہوا دونوں کو بڑے حسین انداز میں مسکرانے پر اکسائے خود اس دل دھڑکا دیتی لڑکی کے پاس گیا جسکا سوچ کر ہی اسکا مضبوط دل ڈوبنے لگا جبکہ وریشہ نے مسکرا کر شہیر کو دیکھا جو خود بھی کسی گہری مسکراتی سوچ میں مبتلا تھا۔

"تمہیں پتا ہے بیوی، ولی کو ونیزے راس آگئی ہے۔۔۔۔ یہ بندا خدا کی پناہ! اپنی وری نامی ضد سے انچ بھی ہلتا نہیں تھا، اب دیکھو اس لڑکی کے لیے کیسے ہمیں میٹھی میٹھی باتوں میں پھنسا کر اگنور مار کر گیا ہے۔۔۔ لچھن ٹھیک نہیں لگ رہے اس ڈی آئی جی کے"

شہیر، کافی کا مگ پکڑے آرام سے کرسی پر بیٹھے جس طرح مشکوک ہوئے بولا، ناچاہتے ہوئے بھی وریشہ اسکے جاسوس انداز پر ہنسی۔

"اندر سے وہ پریشان ہیں، اوپر اوپر سے مسکرا کر گئے ہیں۔۔۔۔"

وریشہ اب بھی بوجھل تھی تبھی شہیر نے بازو اسکے گرد حائل کیے محبت بھری نگاہ ثبت کی جو لڑکی کا سہما ڈرا دل ازسرنو مضبوط کر گئی۔

"پریشان نہیں ہے، وہ جس تکلیف میں ہے وریشہ وہ شاید ہم کبھی محسوس بھی نہ کر سکیں۔ اسے یہ نہیں لگنا چاہیے کہ ہم اسکی پریشانی چھپانے کے باوجود بھانپ گئے، وہ دھوکہ دے گا تو ہم خوشی خوشی اسکے دھوکے میں آئیں گے یہی مناسب ہے۔۔۔ اسے رات ونیزے کے ساتھ ہی رہنے دینا چاہیے، تم آو ہم صبح تک کہیں گھوم پھر کر آتے ہیں۔۔۔۔ وہ کیا پرائیویسی دے گا ، ہم بھی اس سے کم نہیں۔۔۔۔"

اسکے یکدم بنتے پراسرار پلینز پر وریشہ بھی حیرت سے ہنسی، کیونکہ شہیر اسے کسی عام اور بے مقصد سفر پر تو لے جانے سے رہا۔

"لیکن وہ باہر آئے اور ہمیں نہ دیکھا تو ہرٹ نہ ہو جائیں"

وریشہ اسکے اٹھ کھڑا ہونے اور ہاتھ بڑھانے پر اسے جکڑتی اٹھی مگر پھر پریشانی سے بولی۔

"وہ فجر سے پہلے باہر نہیں آئے گا اور ہم آذان سے آدھا گھنٹہ پہلے واپس آجائیں گے"

کافی کا مگ وہیں کرسی پر رکھتے ہوئے شہیر نے ناصرف اپنی جیکٹ پہنی بلکہ گرم شال وہیں کرسی سے اٹھا کر وریشہ کے گرد اوڑھائی اور پھر وہ اسکا ہاتھ جکڑتی اسکے ساتھ کوریڈور سے باہر نکل گئی۔

جبکہ دروازہ کھلنے کی آہٹ پر وہ جو بورئیت کی انتہاوں کو چھوتی کینڈی کرش کے کسی مشکل سے لیول میں پھنسی جھنجھلا رہی تھی، خفت سے بے اختیار آہٹ دینے والے کی طرف متوجہ ہوئی تو ولی زمان خان کی آنکھیں اسکے ہاتھوں کی پکڑ کو ڈھیلا کر گئیں۔

"ولی"

وہ فون ایک طرف رکھے اس سے پہلے خود اٹھنے کی کوشش کرتی، وہ خود اسے اس زحمت سے بچانے نہ صرف نزدیک آیا بلکہ اسکے بے حد پاس اسکی کے سرہانے جڑھ کر بیٹھتے ہی اسکی طرف چہرہ کیے اسکا ہاتھ تھام پکڑے اپنے سینے سے جوڑ گیا، نظر اسکے فون پر چلتی کینڈی کرش پر گئی تو بے اختیار وہ مسکرایا جبکہ ولی کی نظروں کے تعاقب میں ونیزے نے فورا فون آف کیے ایک طرف رکھا۔

"تم پہلی پیشنٹ ہو گی جو اس سنگین سچویشن میں گیم کھیل رہی ہو، مجھے تو لگتا ہے زندگی بھی ایسے ہی کھیل رہی ہے آج"

وہ کمزور ہرگز نہیں تھا پر نجانے کیوں اس لڑکی کے سوا کل سے کچھ سوجھائی نہ دے رہا تھا اور ونیزے کی مرجھائی آنکھیں تمام تر خوف کے مسکرائی تھیں جب اس نے ولی کے کندھے پر سر ٹکایا۔

"زندگی جتنے کھیل کھیلے، میرے جتنی ایکسپرٹ نہیں ہو سکتی"

یہ شاید اسکی زندہ دلی تھی پر ولی نے اسکی دل سے جوڑی ہتھیلی اپنے ہاتھ میں جکڑے نظر جھکا لی جیسے ونیزے کو دیکھنے سے ضروری اپنے نام کی لکیر کو اسکی ہتھیلی میں کھوجنا تھا، اور یہ ونیزے سہہ نہ پائی۔

"کل سے مجھ سے دور کیوں ہیں آپ ولی؟"

وہ سب جانتے ہوئے بھی جس خوف میں ڈوبی اسکی طرف دیکھتے بولی تھی، ولی نے اسکے چہرے کو دیکھنے کے لیے لحظہ بھر اپنی رنگ بدلتی آنکھیں اٹھائیں۔

"کچھ وقت تمہارے لیے اپنی پرفیکشن کو چھوتی موجودگی کم کرنا چاہتا تھا، میں نے تھوڑی کمی کی اس میں تاکہ تم کسی طرح مجھ تک واپس آجاو"

وہ اسکی بات پر ناچاہتے ہوئے بھی آزردہ ہوئی اور جس طرح اس نے نرمی سے ونیزے کی بھولی بسری سی مسکراہٹ ہونٹوں سے چھوئی،اس انداز پر وہ اپنی تکلیف تو بھول گئی، اپنے بنا اس شخص کا ایک لمحہ سوچ کر ہی وہ دہل اٹھی اور اس نرمی کو اپنی تڑپ سے شدت بخشی، چند لمحے اسی سحر میں مبتلا ہوئے۔۔

"میں آپ سے دور ہی کب ہوئی؟ کیا دور لگ رہی ہوں؟"

اس نے اپنی آنکھوں کے آنسو دباتے ہوئے ولی کی ٹھوڑی پکڑے اسکی آنکھوں میں پٹ سے اپنی آنکھیں گاڑے پوچھا۔

"تمہیں بے حد جلدی اپنے بہت قریب کر لیا پارٹنر مگر اب سوچ رہا ہوں کہ کہیں سارے سکھ ایک ہی بار ہی تو نہیں دیکھ لیے۔ دلاسا دینے ساری دنیا چلی آئے، مجھے نہیں ملے گا۔ 

I can't see you going away, I will not be able to reach my destination without you"

وہ اسکے سامنے مزید خود کو چھپا نہیں سکا تھا تبھی وہ ٹیک چھوڑے اسکی طرف ہوئے بیٹھی، اپنا وہ ہاتھ جو ڈرپ کی زد میں تھا، اسکے بجائے دوسرے کی ہتھیلی، ولی کے ہاتھ سے جوڑی اور وہ اسکے یوں کرنے پر لمحہ بھر سب بھول گیا، بس اک ڈھارس تھی جو ہتھیلوں کو جوڑنے سے ولی کو ملی تھی۔

"میں نے کل خواب میں بھائی کو دیکھا ، وہ اداس تھے۔ یو نو واٹ انہوں نے کیا کہا، کہ سوری لٹل اینجل ہم ابھی مل نہیں سکیں گے۔ میں تمہیں لینے آیا تھا، کہ تم دنیا کے دکھوں سے تھک گئی ہوگی لیکن تم مجھ سے زیادہ بہادر نکلی، جاو میں تم سے نہیں بولتا اور میں تمہیں اپنے ساتھ بھی بلکل نہیں لے کر جانے والا۔۔۔ سچی وہ خواب میں مجھ سے لڑ رہے تھے، کون کرتا ہے ایسا؟"

وہ اسکی ہتھیلی سے اب بھی ہتھیلی جوڑے منہ پھلا پھلا کر بولی جبکہ ولی بس اسے ہی دیکھتا رہ گیا، کیا وہ اسے بہلا رہی تھی ، زندگی اتنی ظالم نہیں ہو سکتی تھی کہ ولی زمان خان کو بہلاوں تک جھونک دیتی، اسکی آنکھوں کی جلن میں اضافہ ہوا۔

"مجھے بھی تم سے لڑنا پڑے گا شکارن"

وہ اسکے اس جملے پر تڑپ کر زرا قریب آئی اور اسکے ہونٹوں پر اپنا وہی نرم ملائم ہاتھ رکھ دیا۔

"نوو پلیز، آپ ونیزے سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟"

خود اذیتی کی شاید یہ انتہا تھی۔

"ونیزے! یہ رات کاٹنی بلکل ویسے ہے جیسے پل صراط کو جیتے جی پار کرنے کا حکم مل گیا ہو، تم نے اور تمہاری محبت نے ولی زمان خان کو کمزور کر دیا، تمہیں پتا ہے میرا دل کبھی اتنا نہیں ڈوبا، میں نے کہا تھا میں تمہیں کچھ ہونے نہیں دوں گا مگر اس کچھ نہ ہونے تک مجھے لگتا ہے میں تکلیف کی آخری حد چھو جاوں گا"

وہ کسی کے سامنے رونا پسند نہیں کرتا تھا مگر آج اس شخص کی آنکھوں میں نمی تھی، تکلیف تھی، ونیزے کے کہیں کھو جانے کا خوف تھا، وہ اسکے لیے چھاوں تھی، اسے دھوپ سے نکال کر سنبھال لینے والی، اور اتنی تکلیف محبوب کے بچھڑنے کی نہیں ہوتی جتنی خود سے محبت کرنے والے سے بچھڑنے کی ہوتی ہے۔

"آئی ایم سوری، میں آپکو اس تکلیف تک پہنچانا نہیں چاہتی تھی۔ آپ اگر مجھے یونہی تکلیف سے چھوتے اور دیکھتے رہے ولی، میں تو آپکی پریشانی سے ہی مر جاوں گی۔۔۔۔ کیا پتا اللہ مہلت دے دیں، اچھی امید رکھیں۔۔۔۔ کیا پتا ونیزے آپکا سر کھانے کے لیے پھر سے واپس آجائے"

بھلے موت کا خوف اسکے انگ انگ تک اترا تھا مگر اس شخص کی آنکھیں جان لیوا تھیں۔

"میں پر امید ہوں،

 but I feel like I'm missing you badly

..."

اسکی آواز مضبوط ہو کر بھی لرزی تھی اور اس لڑکی نے بے اختیار وہ آنکھیں چومیں۔

"ولی! پلیز۔۔۔۔ مت کریں"

کیسی ہوک تھی ، کیسی کربناکی تھی کہ اسکی التجاء پر ولی کا مضبوط دل سہم اٹھا اور اس نے بے اختیار اس لڑکی کو اپنے سینے سے لگایا۔

"میں تمہیں اس جگہ موجود دیکھ کر اچھا محسوس نہیں کر رہا پارٹنر، میں کچھ برا برداشت نہیں کر پاوں گا۔ آئی ڈونٹ نو تم نے مجھے کتنا چاہ لیا ہے، مجھ سے میرا سارا صبر چھن رہا ہے، وہ ضبط ٹوٹ رہا ہے جس پر ولی کو ناز تھا۔

"I miss the smile on your face because of me. So please smile"

 اس طرح تو وہ جان بھی مانگ لیتا تو وہ لڑکی دے 

دیتی، روتے روتے پھر بھی وہ مسکرائی۔

"تم نے نکاح کے بعد کہا تھا تمہیں پورا ولی چاہیے، مجھے لگتا ہے آج تمہیں پورا ولی مل گیا ہے۔ کیونکہ زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے، دل کے، جان کے حصے کی ساری پرواہ تم سے جڑی محسوس ہو رہی ہے، مجھے تمہاری موجودگی سے پھر محبت ہو رہی ہے، یہ موجودگی ہی اس محبت کی سلامتی ہے اور یہ محبت ہی ولی زمان خان کے جینے کا مقصد"

وہ اسکی پیشانی پر محبت سے ہونٹ رکھے اعتراف بھی جلد کر گیا اور ونیزے کا دامن اتنی خوش بختوں کے لیے قلیل ہوا۔

"ول۔۔لی پلیز! ک۔۔کیوں میرے اور اپنے کمزور پڑتے دل پر قہر ڈھا رہے ہیں۔۔۔ مجھے خود کے پاس رکھیں بس۔۔"

وہ واقعی اسکے اظہار پر بے جان ہو رہی تھی اور ولی نے خوفزدہ ہو کر اسے خود میں سمیٹ لیا۔

لمحے بھی ان کی جان پر عذاب بن کر سرکتے گئے، وہ رات جو مشکل تھی کٹنی، دونوں پر اتر آتی پرسکون نیند کے باعث لمحوں میں کٹی اور وہیں وہ شہیر کے ساتھ جا کر کچھ دعائیں لوٹ لائی، وہ ساری رات سفر میں رہے۔

انکا یہ سفر راز تھا، کسی پھول کی خوشبو، کسی جگنو کی چمک، کسی پروانے کا کرب، رات کی رانی کا سوز، کسی پہاڑ کی خوش بختی، کسی کچی سڑک کا سناٹا، کہر بڑھاتی شبنم کا حسن، کیا کیا نہ تھا جو دونوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پیدل چل کر، منہ سے ٹھنڈ کے باعث دھوئیں کے مرغولے اڑائے، ٹھٹھرتے ہوئے تسخیر کیا تھا، اور سب سے ایک ایک سرگوشی کی۔

محبت بھری!

احساس سے لبریز!

اور خدا آسمان پر نہ ملے تو اسے کسی رات ڈھونڈنے کے لیے ایسا ہی پراسرار سفر اختیار کیا جاتا ہے، وہ ملتا ہے پھر اور قریب آکر بندے کے سارے درد سنتا ہے۔

فجر کی بلند ہوتی آذانیں اک پیغام لائی تھیں، صبح کا سویرا آج نور سے بھرا تھا، اک چمک تھی جو آج کے موسم کو دلفریب بنا رہی تھی۔

He loved her so much

that love itself was jealous of him♡

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

خانم حویلی میں جشن کا آغاز صبح ہوتے ہی ہو گیا تھا ۔ ونیزے کی رپورٹ تو فجر کے وقت ہی آگئی تھیں مگر یقین تھا کہ اس کئی سال ڈاکٹری کی سروس کو سرانجام دیتے ڈاکٹر علی کو اب فجر کے بجائے دن کے تین بجنے کے باوجود نہ آ پا رہا تھا۔

تین بار وہ ونیزے کی ریپورٹس کو چیک کروا چکے تھے مگر ہر بار ایک سا دہلا دیتا رزلٹ۔

بزدار حویلی میں ہاشم اور جبل زاد کی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ پہنچ چکا تھا، جب وہ دو آپسرائیں ہر حدود سے ماورا ہو کر ان دو کو مکمل سونپ دی گئیں۔

مالنی اور گل دونوں کے ہوش ربا سراپوں پر سہاگن کے سرخ لہنگے آفٹ ناکی سے جچے تھے، اور دونوں دلہے بھی آج شان بان کے سنگ سحر بکھیرتے نظر آئے۔

ضرار ، اشنال اور مشارب تینوں کے دل تو ولی اور ونیزے کے سکھوں دکھوں سے جڑے تھے مگر وہ اس جشن میں پورے دل سے شریک ہوئے، کوئی کمی نہ رکھی گئی، نہ دعاوں میں اور نہ محبتوں کے اظہار میں۔۔۔۔

پورے حق کے ساتھ وہ دونوں اپنے اپنے دلہوں کے نام لگ گئیں تھی اور بزدار حویلی بہت مدت بعد اس دلکشی سے آباد ہوئی کہ دلوں کا سکون چہروں پر چھلک آیا۔

وہیں پچھلے دس منٹس سے وہ ابتر حال کو پہنچا ولی زمان خان، ڈاکٹر علی کے روبرو کرسی سنبھالے صبر و ہمت کا پیکر بنا بیٹھا تھا۔ 

ولی کا کرب اس بڑھتے انتظار سے انتہاوں کو چھو رہا تھا، ونیزے کے پاس وریشہ تھی جبکہ شہیر، ڈاکٹر علی کے کیبین کے باہر اضطراری انداز سے چکر کاٹ رہا تھا۔

"خدا کے لیے مجھے آزمانا بند کریں مسٹر علی، دل چاہ رہا ہے اب آپ کا گریبان نوچ لوں۔ آخر آپ کئی گھنٹوں سے مجھے سولی پر کیوں لٹکائے ہوئے ہیں، کیا آیا ہے ریپورٹس میں؟"

فجر سے لے کر اب تک اس نے اپنا اخیر حوصلہ لگایا مگر ڈاکٹر علی کو پتھرایا دیکھ کر وہ جیسے بے قابو ہوتا نہ صرف اٹھا بلکہ حلق کے بل دھاڑ اٹھا، ناجانے کتنا ضبط کیا گیا کہ چہرے پر اسکے جسم کا سارا لہو چھلک آیا جبکہ اسکی دھاڑ پر شہیر بھی تیزی سے اندر لپکا اور ولی کو مشتعل دیکھ کر اسے بھی پریشانی نے گھیرا جبکہ ڈاکٹر علی نے یوں سر اٹھایا جیسے وہ کسی گہرے شاک سے ولی کی دھاڑ پر نکلے ہوں، انکے ہاتھ میں رپورٹس تھیں اور اس ماہر ڈاکٹر کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

" میں بتا رہا ہوں مسٹر علی، اگر آپ مزید کچھ نہ بولے تو میں آپکی جان لے لوں گا"

شہیر اگر اسے نہ جکڑتا تو وہ اس قدر وحشی ہو رہا تھا کہ لپک کر اسکا گریبان نوچ ڈالتا جو اپنی جگہ سے اسی صدمے کے سنگ اٹھ کھڑے ہوئے، فون کا ریسور اٹھایا اور کسی نرس کو اندر بلایا جو اگلے ایک منٹ میں ایک موٹی سی فائیل لیے اندر آئی۔

شہیر اور ولی دونوں ہی ڈاکٹر علی کو وہ فائیل بری طرح کھولتے دیکھ کر ٹھٹکے، اسکے صفحے نوچ نوچ کر کچھ دیکھتے جس طرح وہ پاگل ہونے لگے، وہ ولی کو اپنا کرب اور شہیر کو ولی کی تکلیف بھلا گیا کیونکہ ڈاکٹر علی واپس اپنی کرسی پر سر کے بال جکڑے ڈھے چکے تھے جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو۔

"She will no longer be a cancer patient after today.  How it was done, it is miracle.  Oh my God"

اپنا سر جکڑے وہ سدھ بدھ بھلائے بے یقینی کی سرحدوں کو چھوتے ہوش گنواتے بڑبڑائے جبکہ سکتہ تو اس وقت وہ تھا جو ولی زمان خان اور شہیر مجتبی پر چھایا، انکے چہرے لمحے میں سفید ہوئے جیسے کسی نے وجود میں دوڑتے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہو۔

ک۔کیا مطلب۔۔۔آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔۔۔اسے کینسر نہیں رہا؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ کینسر کی سیکنڈ لاسٹ سٹیج سے لڑ رہی تھی۔۔میرا دماغ مزید خراب مت کریں ڈاکٹر علی"

جب وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا تو شہیر سے اپنا آپ چھڑوائے باقاعدہ کسی جن زاد کی طرح لپک کر ڈاکٹر علی کو اسکے گریبان سے اٹھا کر کھڑا کیے دھاڑا جبکہ شہیر اسکی اس جنونی کیفیت سے زیادہ صدمے میں مبتلا دیکھائی دیا۔

ڈاکٹر علی تو خود اس وقت ایک گہرے سکتے میں تھے اور ولی کا دماغ انکے انکشاف پر جھنجھنا اٹھا۔

"یہی تو میں کہا رہا ہوں ولی زمان خان، وہ اب کینسر پیشنٹ نہیں رہی۔ اسکے لنگز میں مائنر سے جرمز رہ گئے جو میڈیکیشن سے چند ماہ میں بلکل ریموو ہو جائیں گے، اگر آپکو یقین نہیں تو خود رپورٹس دیکھ لیں، میں صبح سے اسی حیرت انگیز معاملے کی وجہ سے نڈھال ہوا پڑا ہوں"

ولی کے انکا گریبان پکڑنے کی وجہ سے یا اسکی کھولتی سرخ شعلہ نما آنکھوں کا اثر تھا کہ ڈاکڑ علی فر فر سچائی بولتے گئے اور ایک ایک لفظ شہیر اور ولی کے دماغ پر ہتھوڑے سا برسا۔

جس پر ولی کے ہاتھوں کی پکڑ ڈھیلی پڑی اور اس نے ڈاکٹر علی کے ہاتھ سے تھمائی جاتی ریپورٹس بے دردی سے جھپٹیں اور بنا کچھ کہے وہ انکے کیبن سے نکلا، اس سے پہلے شہیر بھی اسکے پیچھے جاتا، ڈاکٹر علی کے پکارنے پر رکا۔

"شہیر، بات سنیں"

شہیر ڈاکٹر علی کے پکارنے پر انکی طرف مڑا جو ٹیبل اور کرسی کے بیچ سے نکل کر بے قراری سے اسکی جانب آئے۔

"یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے مسٹر علی؟ اسکا کینسر تو بہت ڈینجرس سٹیچ پر تھا پھر؟"

اس سے پہلے کہ ڈاکٹر علی کچھ کہتے، شہیر خود ہی پوچھ بیٹھا۔

"یہ میری تیس سالا سروس میں پہلی بار ہوا، میری تمام صلاحتیں خود دنگ ہیں۔ وہ لڑکی بہت ابتر حالت سے گزری ہے، لیکن کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسکی دوا وہ شخص ہوگا۔

It is true that this girl was not cured by any medicine, but by the love of Vali Zamaan Khan"

آج یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر علی تک کی آواز کانپی جبکہ درد کے دائرے نے شہیر کے گرد بھی وسعت پکڑی تھی، اسے علم نہیں تھا اس سے پہلے لیکن اب یقین ہو گیا کہ کچھ محبتیں واقعی جسم کے ہر ناسور کی دوا ہوتی ہیں۔

"وہ اللہ کی ایسی ہی مہربانی ڈیزرو کرتا تھا، کیا ونیزے واقعی بلکل ٹھیک ہے۔کیا اسے مزید ہوسپٹل ایڈمٹ رکھیں گے یا اب وہ گھر جا سکتی ہے"

اول جملہ کہتے ہوئے شہیر نے اپنی سکون کو واپس خود میں اترتے محسوس کیا اور پھر وہ ولی کے بحاف پر مزید بولا۔

"بلکل ٹھیک ہے، مائنرز سے جرمز باقی ہیں جو بہت کم ایم جی میڈیسن سے ریموو ہو جائیں گے۔ میں آپکو انکے دو ماہ کا مکمل کورس پریکاشن دے دیتا ہوں"

وہ بھی جیسے پرسکون ہوتے پیشہ وارنہ انداز میں واپس پلٹے جبکہ شہیر نے رسان سے مسکرا کر سر ہلایا۔

وہیں ہاتھ میں وہ رپورٹس پکڑے وہ ہوسپٹل کے گارڈن ایریا میں لگے بینچ پر اکیلا کسی غیر مرئی نقطے پر اپنی جلتی سرخ آنکھیں گاڑے بیٹھا تھا۔

آنکھوں سے پھر یکدم نمی سے بہہ کر اسکے رخسار بھگونے لگی، بڑھی بیرڈ میں وہ سارے آنسو دفن ہونے لگے۔

اسکے مضبوط اعصاب کے لیے یہ مہربانی سہنا بھی محال ہوا، وہ اب بھی تکلیف کی حدوں پر فائز تھا۔

کیسے اس لڑکی کے لیے کی جاتی اسکی مسیحائی قبول ہوئی تھی، یہ ولی زمان خان کے ہمت والے دل تک کو تڑپا رہا تھا۔

بہتے ہوئے سارے آنسووں نے اسکی رب تک بھیجی دعا کی قبولیت کی گواہی دی تھی۔

اسکا وجود مٹی کے ڈھیر کی طرح ساکت تھا، ہونٹ خاموش اور آنکھیں پتھرائی ہوئی لیکن دل بہت شدت سے دھڑک رہا تھا۔

تبھی کاندھے پر رکھے جانے والا مرہمی ہاتھ اسکی آنکھوں سے بہتے تمام آنسو روک گیا۔

گویا اسکی موجودگی نے آنکھوں کے الٹے کناروں پر امڈتی نمی کو پونچھ دیا تھا، لیکن اسے کمزور دیکھنے کی تاب شہیر میں نہیں تھی تبھی وہ تاحد نگاہ پھیلی شبنمی سردیوں کی ڈھلتی دوپہر کی طرف دیکھنے لگا۔

"اسے تمہاری اور تمہیں اسکی ضرورت ہے ولی زمان خان، جب سپر پاور کا کہا تھا تو مجھے بھی شبہات لاحق تھے۔ لیکن اب تسلیم کر رہا ہوں، تمہارا ساتھ چاہے جس سے بھی جڑے، سپر پاور کا کام کرتا ہے"

وہ شہیر کی آواز پر مٹھی میں وہ رپورٹس جکڑے خود کو کمپوز کرتا اٹھ کر اسکے روبرو ہوا، جو آپکو کمزور پڑتے وقت دیکھنے سے گریز کرے، سمجھنا یہی چاہیے کہ اسے آپکے آنسو تکلیف پہنچاتے ہیں۔

"یہ میری ہمت سے بڑھ کر ہے شہیر مجتبی"

وہ مضبوط تھا، لیکن اس اتنے بڑے انکشاف نے اسکے اندر تک سب ہلا دیا تھا اور شہیر نے اسکی آواز میں یکجا ہوتی مضبوطی پر اسکی طرف مسکرا کر دیکھا۔

"تمہاری ہمت تم نہیں، وہ رب طے کر چکا ہے جس نے تمہیں وہ لڑکی لوٹائی اور شہیر مجتبی کو اسکا کھویا وقار۔۔۔ اب مجھے اور وریشہ کو اجازت دو کیونکہ کل نازلی اور کاشف کی شادی کا چھوٹا سا جشن ہے اور آج ڈنر پر اس نے ہم دو کو بلایا ہے۔ جبکہ تم اپنا تمام وقت ونیزے کو دو۔۔۔۔ ڈاکٹر علی نے اسے ہوسپٹل سے ڈسچارج کر دیا، مجھے یقین ہے تمہاری زندگی سب سے خوبصورت اور آئیڈیل ہونے والی ہے، جاتے جاتے تمہارے گھر پر تم دو کے لیے تھوڑا ویلکم ماحول بنانا چاہتا ہوں، اگر ہو سکے تو گھر کی ایک چابی دے دو"

وہ مسکرا کر بولا اور جس طرح شہیر نے اسے اس مشکل وقت میں دلاسا اور ڈھارس بہم پہنچائی تھی وہ اس شخص کے لیے ناقابل فراموش تھا۔

ولی نے اسکی جانب تشفی بھری نگاہ ڈالے اگلے ہی لمحے والٹ کی جیب سے کی نکال کر شہیر کی طرف بڑھائی جبکہ وریشہ بھی اتنی دیر میں جانے کو تیار باہر پہنچ چکی تھی جبکہ ونیزے کے پاس ڈاکٹر علی اس وقت خود موجود تھے۔

وہ چاہتے تھے کہ ونیزے کو زندگی کی خبر خود سنائیں، کیونکہ وہ انھیں بیٹی کی طرح عزیز تھی اور وہ اس بچی کی زندگی میں چمکتے زندگی کے چراغ خود سب سے پہلے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

"ولی! آپ ٹھیک ہیں؟"

وہ دونوں کے قریب آکر کھڑی ہو کر سہمی افسردہ سی آواز میں بولی تو اس بار اسکی ہنوز فکروں میں ڈوبی آنکھیں دیکھ کر وہ دونوں مسکرائے۔

"شہیر بتائے گا ایگزیٹ آپکو، مجھے تو میں ٹھیک لگ رہا ہوں۔تم دونوں نے مجھے ،میرے کسی خسارے پر کبھی مجھے خود سے لڑنے کی مہلت نہیں دی اور مجھے اپنی ساری دعائیں سونپ دیں کہ آج اس کے علاوہ کسی کا سوچ بھی نہیں پا رہا ولی"

وہ اسکے خوبصورت مگر گھبرائے سے جواب پر پورے دل سے مسکرائی پھر اس نے گردن زرا موڑے شہیر کو دیکھا۔

"ہم چاہتے بھی نہیں کہ اب آپ کسی اور کا سوچیں، آپکی ونیزے سے تو مجھے بھی محبت ہو گئی ہے پھر آپکو وہ کتنی عزئز ہو گئی، سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ جلد ملیں گے، ایک کمپائن کپل ڈنر کے ساتھ۔ تب تک آپ دو ایک دوسرے کے پاس رہیں"

وہ دونوں کو خوشی خوشی رخصت کیے جب تک واپس اندر پہنچا، نرس نے ونیزے کو اسکے کپڑے لا کر دیے تھے جس نے واپس چینج کر لیا تھا جبکہ ڈاکٹر علی اب بھی اسکے پاس ہی نرس کے ہمراہ کھڑے اسے نرم لہجے میں ہنوز برقرار رکھتی احتیاطیں بتا رہے تھے جب ولی کے اندر آنے پر جس طرح ونیزے کی ہر خوف سے پاک آنکھیں ولی کی آنکھوں سے ملیں وہ لمحے پاگل کر گئیں اور پھر نرس اور ڈاکٹر علی تک ان دو کے دیکھنے کو بھانپ کر زرا حیا سے نظر چرا گئے۔

"اب آپ دونوں ایک خوف اور ڈر سے پاک زندگی گزار سکتے ہو، محبت کرنے والا دل گہرے رنگ چھوڑتا ہے، یہ رنگ ہماری روح کو شاندار کر دیتے ہیں۔ پھر بھلے ہم زخمی روح کے مالک ہوں یا بے چین۔ اس دنیا میں میرے آنے کا مقصد تو اب پورا ہوا کہ میں اس بچی کو صحیح معنوں میں پرامید اور زندگی سے بھرا دیکھ پایا۔۔۔ ہیو آ گڈ لائف برخوردار"

ڈاکٹر علی کی مسکراتی باتیں اور جذباتیت پر اس سے پہلے وہ روم سے نکلتے، ولی نے اپنے بے خود رویے کی معذرت کی نیت سے روکا مگر وہ مسکرا کر اسکی پیٹھ تھپک کر نرس کے ساتھ ہی روم سے باہر نکل گئے جبکہ سکائے بلو فراک کے سنگ وائیٹ پلاوز پہنے، کھلے بال کمر پر ڈالے، وہ مرجھائی سی ونیزے اٹھ کر ولی کی طرف بڑھی تو چند قدم ولی نے بھی اسکی طرف بڑھائے، وہیں بیڈ پر رکھی اسکی چادر اٹھا کر اس نے ونیزے کے وجود کے گرد اوڑھائی، اور اس نے مدھم سا سانس کھینچ کر نظر بھر کر ولی کو دیکھا۔

"یہ سچ ہے ونیزے کہ اب ولی واقعی تمہاری تکلیف سے مر جاتا، اور چونکہ ابھی میری زندگی لکھی تھی سو تمہیں مجھ سے چھینا نہ گیا۔۔۔۔ اپنی اس مقدر میں لکھی زندگی پر فدا رہوں گا۔ محب بن گئی تم، میرے اندر تک اتر گئی تم، میں اس مہربانی کا مستحق ہرگز نہیں تھا جو کائنات کے مالک نے تمہاری صورت مجھ پر کی، جیتے جی مرنا کسے کہتے ہیں یہ تمہارے چھن جانے کے خوف نے بتایا۔۔۔۔ اور ایسی موت جو تمہارے چھن جانے سے آتی، وہ مجھے اس جہاں بھی ناشاد رکھتی"

اس شخص کے اس طرز کے اظہار نے قہر ڈھایا تھا، اس لڑکی کی پلکیں بھیگنے کو بے تاب تھیں، چہرہ سرخ ہو رہا تھا، اور پھر جس طرح ولی نے دونوں ہتھیلوں میں اسکا چہرہ بھرے اسکی پیشانی شدت سے چومی، اس لڑکی کی لرزتی پلکیں، آنسووں کے سیلاب کو روک نہ سکیں۔

", I got life only for you vali".

روتے روتے مسکرا کر اس نے زندگی کا دلفریب و دلکش اعتراف تڑپ کر کیا اور ولی نے اسے بے اختیار اپنے وجود کی سب سے محفوظ پناہ میں مقید کیا کہ اپنے ایسے سکون کو اب دنیا سے چھپا لینا ہی عقل مندی تھی۔

"ہاں پارٹنر، میری تکلیف تب تک قائم تھی جب تک اللّٰہ نے مجھے صبر نہیں دیا تھا ، جب اس رب نے میرا من چاہا راستہ بند کیا تو اپنے تک پہنچنے کے سارے دروازے کھول دیے، اسکی چاہ میرے تم تک پہنچنے میں جو تھی۔

اور جب وہاں تک پہنچا تو میرے ہاتھ میں صبر کی ڈور تھما دی گئی، اور یہی صبر مجھے جینے کی طرف لایا، تمہاری طرف لایا، پھر مجھے نا اپنے دل ٹوٹنے پر افسوس رہا نہ محبت کا لاحاصلی پر کوئی کرب باقی، پھر مجھے ہر چیز معجزہ لگنے لگی، پھر میرا راستہ اُسکی طرف پلٹ گیا، میری دُعائیں ناممکن وسیلوں سے قبول ہوئیں۔مڑ کر دیکھا تھا فقط۔۔۔۔ محبت کرنے کے بجائے قبول کی تھی بس۔۔۔نہیں جانتا تھا محبت کرنے سے زیادہ طاقت تو محبت کی قبولیت کے تعلق میں ہے۔۔۔۔۔ "

وہ اسکے جواب میں بھیگی آنکھوں سے مسکرائی۔

"ہر سانس جینے کا تاوان بھرنے والے، حوصلے سے لڑنے والے کی تھکن کا احترام لازم ہوتا ہے، مجھے تو اپنا آپ یہی سوچ کر مقدس لگا کہ مجھے اس لائق سمجھا گیا کہ مجھ سے آپکی زندگی، خوشی، سکون کا اتنا شدید تعلق جوڑا گیا۔۔۔۔ "

یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں نمی چمکی، نمی سے جھیل کنارے لبریز ہوئے تو ان بہتر ہو جاتی سانسوں پر استحقاق بھری گرفت اور اس شادی مرگ کی کیفیت سے سرشار ڈھے جاتے وجود کو ان چٹانی بازووں نے سمیٹا، سنبھالا، خود پر فدا ترین ہونے کا بھرپور موقع دیا۔

"تم اس حدود سے ماورا ہو پارٹنر، تم میرے لیے کیا ہو شاید میں کبھی ڈیفائن نہ کر پاوں کیونکہ خود بھی چاہتا ہوں کہ تمہاری اہمیت ولی کے لفظوں میں کبھی نہ سمٹے۔ اتنا جان لو کہ میرے زخموں کی گہرائی تک صرف تم پہنچی ہو، صرف تم ونیزے۔۔۔ "

شاید یہ معتبر کرنے کا اس شخص کا والہانہ اظہار تھا، تبھی تو وہ اسکا ہاتھ تھامے چل پڑی تھی، زندگی چلے جانے کا خوف اسکی رگ رگ سے نکلا تو اسے ولی کا ہاتھ تھامنا بھی رلانے لگا، کون تھامتا ہوگا یوں ہاتھ جیسے ولی کے ہاتھ کی ہر پور اسے چھوتی تھی۔

جیسے ایک فاصلے پر بھی اس شخص کے وجود سے نکلتی مہربان شعاعیں اسکے جلتے وجود کو منجمد کرتی تھیں، جیسے اسکی مسکراہٹ، صرف اور صرف ہونٹوں سے چھونے کے لائق تھی ورنہ اسکی تعظیم میں کمی ہو جاتی اور اب وہ لڑکی تاعمر اپنی محبت بڑھانے کے حق میں تھی، ولی اسکی تمام تر محبتوں اور شدتوں کا بھرپور حق دار تھا۔

شہیر نے یہ اطلاع بزادر حویلی میں جمع خانم اور بزدار حویلی کے تمام مکینوں تک فرض سمجھ کر پہنچائی تو رہا سہا ہر جمود ہٹ گیا، قہقہے مستیاں جل ترنگ ہوئے کھلھلائیں۔

ولی اور ونیزے جب تک گھر پہنچے، سرخ اور سفید پھولوں کے سنگ دونوں کی گھر اور اک نئی زندگی کی جانب آمد کا جشن وہ دو بنجارے برپا کر چکے تھے اور آج انکا وقت ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ نازلی اور کاشف کا تھا، پھر نازلی اور کاشف کی شادی کی تمام تیاریاں بھی تو وریشہ اور شہیر کے ذمے تھیں۔

جو خوشبو وہ دو ولی اور ونیزے کی زندگی میں بکھیر چکے تھے ، اسی خوشبو نے انکو بھی رنگ لگانے تھے، پکے گہرے رنگ ، جو نسلیں سنوار دیتے ہیں۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

سب بڑے ڈھیر خفا ہوئے تھے کہ آخر انکو ولی اور ونیزے کی تکالیف سے بے خبر کیوں رکھا گیا، سب سے بڑھ کر یہ انکشاف گل خزیں خانم اور فرخانہ کے لیے تابناک تھا مگر جب ضرار نے انھیں اس سچائی کو چھپانے کی مصلحت سمجائی تو سب نے ہی ولی کے اس فیصلے کو سراہا۔

فراخانہ خانم کی تکلیف لمحہ بھر حدوں کو یہ سوچ کر تجاوز ضرور کی تھی کہ انھوں نے ایک ایسے بیٹے کو جنم دیا جو ہمیشہ سے اپنی تکلیفیں چھپانے میں ماہر تھا مگر اب تو اسے بتانا چاہیے تھا، وہ ولی کی اس تکلیف سے افسردہ تھیں جو اس لڑکی کی شفا تک انتظار میں دیکھی تھی مگر پھر سب نے ولی کی طرف سے جب انکو تکلیف نہ پہنچانے اور پریشان نہ کرنے کی مصلحت سمجھائی تو انکا دل قرار کے محور میں آن بسا۔

چونکہ جشن دن کو ہی تھم گیا تھا سو شام تک خانم حویلی کے افراد بھی رخصت لیے روانہ ہو گئے، چونکہ ولیمہ ایک دن کے گیپ سے رکھا گیا تھا سو سب نے کل کا دن یقینا نیندیں پوری اور تمام تھکن اتارنے کا فیصلہ لیا تھا۔

بزدار حویلی کی رونقیں تو اب تمام عمر یونہی رہنے والی تھیں جسکا سبھی کو یقین تھا۔

چاروں سپیشل ونزز کے لیے مزے مزے کی رسموں کا اہتمام کیا گیا، جس میں جوتا چھپائی، دودھ پلائی، دودھیا گلاب کے عطر میں ملے پانی میں رنگز تلاش کرنا شامل تھا۔

زونی بھی مشارب کے ساتھ واپس جا چکی تھی اور مالنی کو اسکی کسی ہدایت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھی، آج اسے چاچو جانی خود سارا گائیڈ کریں گے۔

بزرگ کمیونٹی کیونکہ پہلے فنکشن اور پھر ولی کے حوالے سے پریشانی لے کر خاصے تھک چکے تھے سو ہاشم نے پہلے بابا جان کو انکے کمرے میں چھوڑا وہیں اماں فضیلہ اپنی بہو کو خود جبل کے کمرے میں لے کر گئیں اور اشنال ، مالنی کے ساتھ تھی جبکہ ضرار نے دونوں دلہوں کو ابھی تپانا تھا، سو جب تک ہاشم ، بابا جان کو  چھوڑ کر واپس آتا، ضرار نے جبل زاد کو پھدک کر بھاگتے بروقت جکڑا، وہ آج کسی دلہے کو بخشنے کے موڈ میں نہ تھا۔

"او ہیلو! کدھر بھاگا جا رہا ہے جبل زاد"

ضرار نے اسکی بازو پکڑے روکا جبکہ اسکا چہرہ گدگداتے رنگوں سے سجا تھا، مگر جبل زاد کی نظروں کے تعاقب میں دیکھنے کی دیر تھی کہ ضرار کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔

وہ کمرے میں لے جاتیں والدہ اور انکے لاڈ بٹورٹی گل کو دیکھ رہا تھا، تبھی اپنی چوری پکڑی جانے پر خجل سا ہوئے پلٹا۔

"سائیں! کل بھی آپ نے مجھ مسکین پر بہت کڑا ظلم کیا تھا۔ آج تو عنایت کریں، شکل دیکھیں میری کس قدر مظلوم دلہا دیکھائی دے رہا ہوں"

جبل کی منصوعی مسکینی، ضرار کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑا گئی۔

"استغفراللہ ، تم اور مظلوم۔۔ شکر مانو کہ کل تمہیں قید کیے رکھا تھا ورنہ جو ہوتا دیکھائی دے رہا تھا مجھ دوراندیش آدمی کو، وہ تو بڑا قہر ناک ہوتا۔۔۔ ویسے آج بھی کم خطرناک نہیں لگ رہے تم، او یار مجھ سے بھی آگے نمبر نہ لے جانا، یہ نہ ہو میں بچارا بیٹھا رہوں اور تم سب پھرتیلے آدمی مجھے تایا چاچا ماما بنا دو"

ضرار کی معصومیت پر اس بار جبل زاد کے ساتھ ساتھ بابا کے روم کی طرف سے آتے جناب بھی بھتیجے کی اس حسرت پر نہ صرف قریب آئے بلکہ زور دار ہاتھ اسکی کمر پر مارے قہقہہ لگایا۔

"پہلے تو تمہیں ایک چاچا زاد یا زادی ملنی چاہیے، تاکہ خوب جل جل کر سڑو تم لاڈلے۔۔۔۔ بعد میں دیکھی جائے گی کہ بچارے ضرار صاحب کو ابا بننے سے پہلے اور کیا کیا بننا ہے"

ایک تو وہ پہلے ہی جلا سڑا اوپر سے دونوں دلہوں میں خدا کا خوف بھی نہ تھا، ضرار نے آو دیکھا نہ تاو، ہاشم کی بازو جکڑے اسے مکمل قابو کیا۔

"جاو جبل زاد، جی لو اپنی زندگی کیونکہ تم کل قابو آکر اپنی آجکی سزا بخشوا چکے ہو۔۔۔۔ اب دیکھتے ہیں یہ چچا جان مجھے میری مرضی کے بغیر میرے نکے نکے کزن کیسے دیتے ہیں۔۔ہاہا ہاشم صاحب،  اب سنسان اکھاڑے میں لگا مقابلہ جیتیں گے تو ہی آپکو آپکی مالنی دوں گا۔۔۔۔۔"

دو اپنے آدمیوں کو آنکھ سے اشارہ کیے وہ مسکراتا ہوا ہاشم کی گھوریاں دیکھتا زرا پیچھے ہٹا اور جبل زاد بھی ہنستا ہوا دو قدم پیچھے کھڑا ہوا۔

"اوئے ضرار، ماروں گا اگر تم نے رنگ میں بھنگ ڈالا"

سر پھرے لاڈلے کو واقعی سنجیدہ دیکھ کر بچارے ہاشم صاحب کو اپنی گولڈن نائیٹ کی ساری بتیاں بجتی محسوس ہوئیں۔

"ہاہا مجھے چیلنج کرنے کی سزا ہے بڈی، بھئی فورا جاو اور اکھاڑے کو سجاو۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کس میں کتنا دم ہے اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوگا"

بنا بچارے چاچو کی دہائی سنے وہ اکھاڑے کو اس وقت سجوانے کا حکم دیتے ساتھ ہی گھوریوں سے ہی اسکا کچومر بنانے کے ارادے رکھتے بڈی کے قریب آیا، حویلی کے ملازمین پھرتیلے انداز میں ضرار کے حکم پر حویلی کے ساتھ ہی ملحقہ اسطبل کے پاس بنے اکھاڑے کی طرف دوڑے۔

"او یار میری توبہ جو میں آئیندہ تمہیں چیلنج دوں ، نہ کر ضرار۔۔۔۔تیری گردن ہاتھ لگی تو مڑور دوں گا"

ہاشم کی اول مسکین بن کی کی التجاء جب آخر تک دھمکی بنی تو ضرار کا قہقہہ گویا پوری حویلی میں گونجا جبکہ ضرار نے ڈھٹیائی سے ہاشم کی پھولی گالیں اندر کی طرف دبائے ڈھیٹ سی مسکراہٹ دی۔

"جی جی مڑوریے گا مگر اکھاڑے میں۔۔۔بھئی جوانو جلدی کرو۔۔۔۔۔ ہاشم صاحب کو لے کر چلو میں بھی زرا آتا ہوں لڑنے کی تیاری کر کے۔۔۔۔ ویسے چاچو! اس گروم سوٹ میں آپ لڑ تو لیں گے ناں مجھ سے، کہیں تو خاص ڈریس کا انتظام کرواوں؟"

اس وقت ہاشم کا بس نہ چلا، ضرار کی گردن مڑورتا، اسکے آخری سوال پر ہاشم دانت نکوستا ہوا، کوٹ اتارے، ساتھ میں شرٹ بھی اتارتا، بپھری موج بنا حویلی سے نکلا تو ضرار بھی جبل کو آنکھ کا اشارہ کیے اپنے کمرے کی طرف چینج کرنے بڑھا۔

جبکہ جبل زاد بھی کوٹ اتارے، اندر کمرے میں داخل ہوا اور وہیں صوفے پر رکھتا اس سے پہلے والدہ اور گل کو باتیں کرتا دیکھ کر پہلے وہ فائیٹ دیکھنے جاتا، فضیلہ اماں کی آواز پر رکا۔

"یہ باہر کیا ہو رہا ہے جبل؟"

اماں فضیلہ اٹھ کر اسکے قریب آئیں تو جبل شرارت سے مسکرایا۔

"مت پوچھیں، اکھاڑا سجنے والا ہے اور یہ فائیٹ مجھے لازمی دیکھنی ہے، آپ زرا ہاشم لالہ کے لیے لڑانے کے لیے کوئی مناسب لباس ڈھونڈ دیں، وہ انہی کپڑوں میں چلے گئے ہیں اکھاڑے میں"

مسکراتا ہوا جبل زاد جس طرح شوخی سے بولا، فضیلہ صاحبہ بھی ہنس کر سر پکڑتیں کمرے سے نکلیں اور جناب زرا دیر کو رک کر پلٹے تو گلالئی کی آنکھوں سے آنکھیں ملتے ہی دل کو دھڑکا گئیں، اف آج یہ ملاپ قہر ناک ہونے والا تھا، آنکھوں کے جذبٹ ہی دل دہلا دینے والے تھے۔۔

وہ خود اسکے دیکھنے پر مسکراہٹ بھلائے بوکھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ وہ اسکے نزدیک آکر رک چکا تھا۔

"آپکو کوئی ایشو تو نہیں ہوگا گل کہ آپ سے ملنے سے پہلے میں یہ مزیدار مقابلہ دیکھ آوں، سائیں کا بھی جواب نہیں۔ مطلب بچارے ہاشم لالہ کو اپنی مالنی تک پہنچنے کے لیے ان سے فائیٹ جیتنی ہوگی۔۔۔۔ ہاہا کتنا مزیدار ہے یہ"

اول جملوں کی معنی خیزی جان لیوا ہو جاتی اگر وہ مسکرا کر آخری کہے جملوں سے گل کی گھبراہٹ کو مسکراہٹ میں نہ بدلتا۔

جبکہ وہ دلہن بنی، جان لیوا حد تک اعصاب پر حاوی ہوتی ساحرہ، اقرار میں بس سر ہی ہلا سکی۔

"جی لیکن آپکے لیے کیا کوئی روک تھام نہیں کی آپکے سائیں نے؟"

لہجہ گداز رکھے وہ یہ سوال کرتے کچھ ہچکچائی تبھی جبل زاد اسکی بات پر آفت ناک ہنسا۔

"آپ چاہتی ہیں تو کچھ دیر خود کو خود روک تھام کے مراحل سے گزار لے گا یہ بندہ، لیکن آج آپ ہر صورت میری ہو چکی ہیں اور مکمل ہو جائیں گی سو دل کی تسلی کے لیے میری زرا سی دوری، مختصر معاملہ ہوگا"

اسکی بے خود و بے باک گفتگو ہی گل کے چہرے پر لہو چھلکا گئی سو اگر وہ چھو لیتا تو وہ سانس لینا چھوڑ دیتی تبھی شرم و حیا کی ملی جلی کیفیت کے سنگ اس سے پہلے وہ پہلو بدلتی، جبل نے اسکی کمر جکڑنے کی جسارت کیے زرا اپنے چوڑے سینے کے نزدیک ہی کیا تو گل یوں تھی جیسے اسے کسی نے اسم پھونکے پتھر کیا ہو۔

"ج ۔جبل۔۔۔"

وہ اسکی قربت میں بے قراری سے مچلی اور جبل کا دل نہ جانے پر بے ایمان سا ہوا، کون اس دلفریب سحر کو ٹوڑنے پر آمادہ ہوتا اب۔

"آپ چینج کر کے ریلکس ہو جائیں، اور جتنے لمحے مجھ سے نجات کو مل رہے ہیں خود کو مظبوط بنا لیں کیونکہ جبل زاد کو ایک ہی بار آپ پوری ملی ہیں اور میں پورا ہی آپکو اپنا محسوس کرنا چاہتا ہوں، سو آپکی کوئی مزاحمت مجھے قبول نہیں ہوگی۔۔آتا ہوں"

اسکی سنجیدگی سیدھی گل کے دل کو جکڑنے کا سبب بنی تبھی وہ گھبراہٹ ترک کرتی اسکے استحقاق بھرے انداز پر تابعداری کا مظاہرہ کرتی اس کی گرفت سے خود کو چھڑوائے تیزی سے واش روم میں جا بند ہوئی اور جناب دل اور دماغ جھٹک کر مسکراتے ہوئے خود بھی کمرے سے نکل گئے۔

وہیں جب تک اشنال، مالنی کو اسکے روم میں کمفرٹیبل کر کے اپنے روم میں آئی تو ضرار صاحب کی اس وقت اکھاڑا سجوانے کی حرکت پر پہلے تو سن رہ گئی پھر اسکو چینج کر کے آتا دیکھ کر خود بھی اپنی ہنسی نہ روک پائی۔

وہ بلیک ٹراوزر اور بلیک ہی ویسٹ پہنے خاصا لفنگا ہو کر بھی پیارا لگ رہا تھا اور اشنال کو ہنستا دیکھ کر جناب اپنے سحر بکھیرتے لمحے میں اس ہنستی آنکھوں والی کو دبوچ گئے۔

"زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں میری جان، آج مجھ میں خاصا بے آرام آدمی گھسا ہوا ہے جو پیارے چچا کا سکون تو کچھ دیر غارت کرے گا ہی آپکی نیندیں بھی اڑائے گا۔ سو دھیان رکھیے گا، مجھ پر ہنستیں رہیں تو ایسا نہ ہو آپکو بھی پہلے کی نسبت زیادہ مہارت سے یہ پہاڑ سر کرنا پڑ جائے"

معنی خیز جملوں کے سنگ سرسراتے انداز میں وہ ان شوخ گلوں کے مانند شرارت سے دانتوں میں دبا لیے جاتے ہونٹوں پر گہری نگاہ مرکوز کیے ان دنیا کی پیاری آنکھوں میں جھانکا تو اشنال کی ہنسی میں شرم کے رنگ بکھرے۔

"یہ پہاڑ،اب پہاڑوں پر ہی سر ہوگا مسٹر۔۔۔۔ "

ہنس کر محترمہ نے ہری جھنڈی دیکھائی۔

"آہاں، آپ چاہتی ہیں کہ ٹھنڈ سے کوچ کر جاوں"

وہ اسکو اتنا ظالم کہاں سمجھتا تھا، تبھی اشنال نے اپنی باہیں اسکے گلے میں ڈالے مسکراہٹ دبائے دیکھا۔

"پہلے تمہیں خود سے دور رکھنے پر مجبور تھی تبھی پہاڑوں کے سفر سے واپس بھیج دیا، لیکن اب تو تمہاری ہی دھڑکن ہے اشنال۔ میرے ہوتے ہوئے موسم کی کیا مجال کے تمہیں چھو سکے، تمہاری سانس رکی تو اشنال کی ساری لے لینا، اور میری محبت تاعمر تمہیں ہر موسمی شدت سے کوسوں دور رکھے گی آئی پرامس"

محترمہ تو بے بس اور پاگل کرنے میں ماہر تھیں اور ایک چیلنج اسے اشنال دے رہی تھی جو سب سے خاص تھا سو پورا کرنا تو چوہدری صاحب کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔

"ایسا ہے تو ٹھیک ہے ، آپکا میثم آپکے بھروسے یہ سفر ضرور کرے گا اشنال"

وہ اسکے مان جانے پر کھلھلائی اور اس سے لپٹ گئی جس نے مسکرا کر لمحے پاگل کرتے ہوئے اپنی بازو اسکے وجود کے گرد حائل کیں۔

"ویسے کیا خیال ہے، ایک فائیٹ آپکی اور میری بھی ہو جائے؟"

وہ اسکے اس درجہ سر پھرے مشورے پر کرنٹ کھائے دور ہوئی جو آفت بنا مسکرا رہا تھا۔

"جی نہیں، مرنا نہیں ہے مجھے ۔۔۔ جاو تم چاچو کو ہی پچھاڑو۔۔ مجھے زیر تو تمہاری یہ ظالم نظریں ہی کر دیتی ہیں سر پھرے اور میں تو تمہارے آگے اپنی جیت بھی ہار سمجھتی ہوں۔۔۔ جاو پلیز بچارے چاچو کو زیادہ مت ستانا اور ہار جانا ان سے جلدی"

فورا سے پھدکتی ہوئی وہ اس جن سے دور ہوئی اور وہ اسکے اب بھی خوف بھانپ کر ہنستا ہوا کمرے سے نکلا۔

حویلی کے تمام ملآزمین، جبل زاد خود، اور یہاں تک کہ اماں فضیلہ بھی یہ مزیدار لڑائی دیکھنے میں محو تھیں، سب کے لیے مزیدار گڑ والی چائے بنا کر لائیں اور جبل کو ٹرے تھمائے وہ واپس اندر چلی گئیں۔

جبل ریفری تھا جبکہ ہاشم صاحب سفید پتا نہیں کس کے سائز کا کرتا اور کھلی سی سفید ہی شلوار پہنے خونخوار ہو کر غراتے ویسے ہی ضرار کی ہنسی تھمنے نہ دے رہے تھے جبکہ سارے ملازمین بھی تماش بین بنے آدھے ضرار اور آدھے ہاشم کی طرف ہو کر ہوٹنگ کر رہے تھے۔

"آج تمہیں پیس دے گا ہاشم بزدار، آجاو میرے لاڈلے تمہیں بہت شوق ہے ناں پنگے لینے کا، آو شاباش۔۔۔۔ کہیں نازک مقام پر لگ گئی تو رونے مت بیٹھنا کیونکہ میں نے بلکل بھی تم پر ترس نہیں کھانا آج"

ہاشم یوں اکھاڑے سے گیلی مٹی اٹھائے اپنے نفیس سفید کرتے پر لائینوں کی شکل میں لگا کر غرایا جیسے ابھی رستم پنجاب کا میڈل وہی جیت کر آیا ہو اور اسکی باتوں اور جلالی تیوروں سے جبل زاد اور ضرار کو ہنسی کا دوڑا پڑا تھا۔

"ہاہا بڈی، زیادہ نہ اترائیں۔۔۔۔ آپ یہ سوچیں کہ اگر میثم ضرار چوہدری کا ایک مکا صرف آپکی کمر میں پڑ گیا تو رات اوئے ھوئے کی جگہ ہائے ہائے کی آواز بلند ہوگی اور پھر ہر لمحہ آپکو رونا پڑے گا جب آرمان پورے کرنے کی رات، مالنی چچی آپکی تیمارداری کرتی نظر آ رہی ہوں گی"

دونوں پہلوانوں کے جسے داو پیج کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے آگے گھوم گھوم کر لہرا رہے تھے تبھی ضرار کی سرگوشی پر ہاشم نے گما کر مکا مارا مگر ضرار نے بروقت اپنے منہ کو نہ صرف بچایا بلکہ اگلے ہی لمحے بازو اسکے کندھے سے گزار کر اسے شدید طریقے سے دبوچا۔

"ہاہا میرے چاچو تو پھنس گئے، اب کیا ہوگا آپکا۔۔بتائیں کونسا پاسا پہلے سیکوں آپکا؟"

وہ پوری قوت لگانے کے باوجود ضرار کے ہوشیار چنگل سے نہ نکل پایا کیونکہ دونوں ٹکر کے جوان تھے جبکہ ہاشم کو اسکی گرفت سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر نکلتا دیکھ کر ضرار اسکی سرخ پرٹی صورت دیکھ کر بولا۔ اور جبل زاد کو الگ ہی ہنسنا آیا تھا کیونکہ جناب دونوں کی گفتگو بھی سماعت فرما رہے تھے۔

"مت کرو ضرار، مانا تم جوشیلے آدمی ہو پر کیوں اپنے معصوم چچا کے ارمانوں کے پیچھے باولی بلا بن کر پڑ گئے ہو۔۔۔دیکھو ہار جاو اور جیتنے دو مجھے ورنہ قسم سے تمہاری یہ بتیسی ایسی پھوڑوں گا کہ ساری زندگی یاد کرو گے"

منت کرتے ہوئے بھی چچا جان کی دھمکیاں تھیں کہ ضرار کو اور مزہ دے رہی تھیں اور ضرار نے ایک ہی جھٹکے سے پیارے چچا کو زمین پر بڑی نرمی سے پٹخا کیونکہ مقصد اسکا بھی بچارے چچا کے ارمانوں کا جنازہ نکالنا نہ تھا بس مستی تھی۔

"ضرار!"

ہاشم نے دانت نکوستے آواز لگائی اور ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اب ہوئی تھی مزیدار ٹکر کی فائیٹ، دونوان ایک دوسرے کو اس طرح الٹ پلٹ رہے تھے جیسے تنکے ہوں اور ایک دوسرے کو پٹخنے کی باری لگی ہو۔

دونوں کے کپڑے، سر اور منہ ہلکی ہلکی نم گیلی مٹی سے اٹ چکے تھے اور جبل سمیت سارے حویلی کے آدمی ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جا رہے تھے۔

آخر کار کوئی مسلسل بیس منٹ بعد دونوں اکھاڑے میں قہقہے لگاتے ڈھے چکے تھے اور سب نے زبردست ہوٹنگ لگائے مقابلے کی برابری کا عندیہ دیا۔

جبل نے مسکراتے ہوئے اکھاڑے کے اندر جھمپ مارا اور دونوں مٹی میں رلتیں سر پھری بلاوں کو ہاتھ بڑھا کر اٹھائے دونوں کی حالت پر قہقہہ لگا گیا کیونکہ بچارے دونوں پہچان سے نکل چکے تھے۔

"آج مالنی چچی انکے انگ انگ کی مٹی ہی صاف کر لیں تو بہت، ہاہا یار چاچو بہت پیارے لگ رہے ہو۔"

بھلے وہ خود مٹیلا باوا بنا عجیب مزاخیہ لگ رہا تھا مگر ہاشم کو تپانے کو اسکی بیرڈ میں دھمستی مٹی جھاڑے چھیڑنا نہ بولا جس پر ہاشم نے مکا اسکی کمر میں ٹھوکا۔

"کمینا انسان"

ہاشم کو سلگتا دیکھ کر وہ دونوں ہی میسنے بنے مسکائے۔

"ہاہا ویسے آپکا اس مٹی سے رومینس دیکھ کر وہ جیلس ہوں گی لہذا جائیں اور نہا دھو کر کمرے میں انٹری دہجئے گا، آپکو اس طرح دیکھ کر کہیں چچی جان کا آپکے حسن سے اعتبار ہی نہ اٹھ جائے"

جاتے جاتے بھی وہ ہاشم کی دکھتی رگ دبا کر گیا اور جس طرح اچھل کر وہ اکھاڑے سے نکلا، مٹی متواتر اس پر سے جھڑی جبکہ جبل بھی مسکراتا ہوا ہاشم کے ساتھ ہی اندر بڑھا۔

یہ سب جب صبح دادا سائیں کو پتا چلتا تو ضرار صاحب کی جو ہونی تھی اسکا ابھی ہی سوچ کر ہاشم نے اپنا دل تھاڑا جبکہ جبل زاد اسکے کپڑے وہیں دوسرے روم میں رکھ گیا تاکہ وہ چینج کر کے واپس اصلی حالت میں آجائے۔

مالنی کافی دیر سے اسکا ویٹ کر رہی تھی، کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا مگر وہ تو سپیشل پروٹوکول کا سوچ سوچ نیلی پیلی پڑ رہی تھی۔

کچھ دیر پہلے ہی فضیلہ اماں اسے اکھاڑے کے حالات سنا کر گئی تھیں جس کے باوجود بھی وہ بس عجیب بے کل ہوئے جا رہی تھی، آئینے کے روبرو اپنا سراپا دیکھ کر اپنے ہی ہوش گل ہوئے جا رہے تھے تو پھر ہاشم کی نظروں کا غائبانہ لمس کس حد تک جان لیوا تھا یہ اسکے کپکپاتے وجود سے واضح تھا۔

                        ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"زندگی آسانی سے سیدھی ڈگر پر نہیں آسکتی، اسے لکا چھپی کا کھیل بھاتا ہے۔ دیکھ وہ بھی دن تھے جب زندگی اور موت کے سوا اور کوئی اہم نہ تھا۔ اب یہ دو غیر ضروری الفاظ کی فہرست بنے ہوئے ہیں"

وہ اسکے بلانے پر آیا اور یہ کاشف کے لیے شرف تھا، وریشہ کو وہ نازلی اور اماں سعدیہ کے پاس کل کی تیاریوں کے لیے چھوڑ آیا اور خود وہ اور کاشف گھر کے باہر سیدھی سنسان سڑک پر روح جما دیتی سردی میں ہاتھ جیکٹس کی جیبوں میں دیے ٹہل رہے تھے۔

"بلکل، محبت اور انسانیت۔۔موت اور زندگی جیسے الفاظ پر ہمیشہ مقدم رہیں گے"

وہ اسکے ساتھ اسکی بات کے اعتراف میں خوبصورت مسکرایا تبھی تو کاشف نے چلتے قدم روک کر رخ شہیر مجتبی کی طرف پھیرا۔

"تجھے کب پتا چلا تھا کہ نازلی پسند ہے مجھے؟"

ناجانے کس متجسس احساس کے تحت کاشف نے یہ سوال کیا جو شہیر کو مخظوظ کر گیا۔

"جس لمحہ وہ تیرے دل کو پسند آئی تھی"

وہ ایسا ہی سر پھرا جواب امید کر رہا تھا۔

"تو آنکھیں پڑھتا تھا میری کمینے کہیں کے"

کاشف کی لاڈ بھری خفگی پر شہیر نے اسکی گال تھپکائی، اس انداز میں رعب اور محبت کی انتہا تھی۔

"یہی تو خطاء کی تھی، اپنے سوا ہر آنکھ پڑ لی شہیر مجتبی نے۔ "

وہ تھوڑا سنجیدہ تھا، دونوں کا رخ واپس گھر کی طرف ہوا۔

"تو بہت اچھا ہے شہیر"

یہ کاشف نے زندگی میں پہلی بار کہا، اسکے لہجے میں آج احترام تھا اور کاشف کے ستائشی جملے پر صاف صاف شہیر کو بے قراری لاحق ہوئی۔

"تجھے اچھا لگتا ہوں تو یہ اچھائی تیرے اندر ہے کاشف، مجھے اچھا کہنے والوں کے بجائے اپنا کہنے والے عزیز ہیں اب۔۔۔کبھی خواہش تھی کہ مجھے پوری دنیا اچھا کہے لیکن اب مجھے میری یہ چھوٹی سی دنیا اپنا کہے۔ یہی اصل زندگی ہے، جب دامن اپنے حاصل پر بھرا ہوا اور دل مطمئین محسوس ہو"

وہ اسے صبر، شکر اور خشوع سے بھرا فلاسفر لگا تبھی تو کاشف مسکرائا۔

"تو کتاب لکھ سکتا ہے، اپنے آپ پر۔ہاتھوں ہاتھ بکے گی"

یہ مشورہ اس نے مزاق میں ہی دیا اور جناب نے مزاق میں ہی اڑایا۔

"مجھ پر آنے والی جنریشن کتاب لکھنے پر مجبور ہو، ایسی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا۔ باقی تجھے تو پتا ہے لکھنے بڑھنے میں کتنا بے کار آدمی ہوں۔۔۔ تو میری جان یہ مشورہ پاس رکھ اور چل۔۔۔تیری مہندی کا سین بناتے ہیں ہلکا پھلکا، ڈھول ڈھمکے نہ سہی، تجھے سب کی دعائیں ملنی چاہیے اور وہ رسم ہوتی ہے ناں دلہن کے ہاتھ پر دلہے کا نام۔۔وہ تو میرا حق ہے۔۔۔۔"

اپنی اختراع پر نازاں ہوئے وہ تمام کڑواہٹیں، تارکیاں ہنسی میں اڑاتے یار گھر پہنچے تو ہلکا پھلکا واقعی مہندی کا سین جمایا گیا۔

سانول مجتبی اور اماں کوثر بھی شام پہنچ آئے تھے کیونکہ کاشف کی شادی میں شرکت انکی اولین خوشی تھی۔

دن میں ہی یار بیلی کاشف کے گھر کو ہلکا پھلکا سجا گئے تھے اور پھر سب نے چھوٹی سی مہندی کی گھر کے لوگوں کے ساتھ تقریب کی اور نازلی کے ہاتھ پر شہیر نے خود کاشف کا نام لکھا ، اور جب اس نے نازلی کے ہاتھ پر یہ نام لکھا تو وہ وہاں موجود ہر فرد کو بے حد پیارا لگا، خاص کر وریشہ کو، جو شہیر کے اندر محبت یہ سارے رنگ دریافت کر کے سکون سے بھر گئی تھی۔

وہ صرف وریشہ سے محبت کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا بلکہ وہ ہر محبت کو بڑے سلیقے سے نبھاتا تھا، وہ زندگی کے متعلق سنجیدہ ہو چکا تھا، اور اسے سنورتا دیکھنا وریشہ کے لیے خوشی کی انتہا تھی۔

چونکہ یہ گاوں تھا جہاں کاشف کا گھر تھا سو رات مرد خضرات ایک مردان خانے میں جبکہ تمام لڑکیاں ایک کمرے میں سونے والی تھیں، پھر بھی وہ اسے چائے دینے کے بہانے ٹھٹھرتے موسم کی سختی کے باوجود چھت پر آئی جو نیند سے زیادہ کسی اخیر درجے کے سکون میں مبتلا، تاحد نگاہ پھیلے اندھیرے سے ہمکلام تھا۔

گرم چائے کا بھاپ اڑاتا مگ لے کر آتی وریشہ کو دیکھ کر جناب نے یہ کنکشن مسکرا کر توڑا۔

"کیسی ہو وریشہ؟"

چائے کا مگ اسکے ہاتھ سے لیتے یہ خیریت اس نے وریشہ کے دل کی پوچھی، جو اسکی بازو سے لگ کر کھڑی اسکے کندھے پر سر ٹکائے شہیر والے سکون میں مبتلا سامنے اندھیرے میں جگمگاتی روشیاں دیکھنے لگی۔

"بہت خوش ہوں، تم نے مجھے کہیں بھی مایوس نہیں کیا۔ اور تم کیسے ہو؟"

یہاں اسکے پاس راحتوں کا جہاں تھا جو اسکو سکون دے رہا تھا، شہیر نے اپنی بازو اسکی گرفت سے نکالے اس لڑکی کے گرد حصار لی۔

"میں تمہارے رنگ میں رنگ کر سنورتا ہوا کیسا لگ رہا ہوں بیوی؟"

وہ سوال کے بدلے ایسا روح اسیر کرتا سوال کرے گا وہ دلربا جانتی تھی، تبھی چہرہ اٹھا کر اس نے شہیر کے چہرے پر بکھری شوخی محویت سے دیکھی۔

"جان لیوا، تمہارا اب تک کہا گیا ہر لفظ میری ڈھارس بنتے ہوئے بھروسا بنا، ہاں محبت سے زیادہ تم نے وریشہ کا اعتبار جیتا، محبت محض چار حرفی نہیں یہ تم نے ثابت کیا، تم قابل محبت ہو، سنبھال کے رکھنے کے لائق، تاعمر دل سے جوڑ کر رکھنے کے قابل"

وہ بے خود ہوئے بولی، اور اس شخص کے دل کو سرور بخش گئی۔

"تم نے باتیں نہیں کیں، لگاوٹ کے مظاہرے نہیں کیے۔ تم نے صرف محبت کی، اور تمہیں محبت ہی ملی۔ کبھی نہیں بتا سکتی کہ کیسے لگتے ہو، کیسے لگ رہے ہو۔ تم وریشہ کے دل کو بھاتے ہو، ہر پل"

وہ خود اسکے اظہار پر یہی سوچ رہا تھا شاید اس نے وریشہ سے بہت مشکل سوال کر لیا تبھی تو اسکی مدھم سانس لیتی حالت سنوارتے ہوئے اس خوشبو کو اپنے ہونٹوں کا پیرہن کیا، وہ اسکے لپکنے پر گداز ہوئی۔

"ایک خوبصورت زندگی گزارو گی تم میرے ساتھ وریشہ، اور جان لگا دوں گا مگر اس خوبصورتی میں کمی ہونے نہیں دوں گا، تم دونوں جہانوں میں قیمتی رہو گی میرے لیے، کیونکہ شہیر مجتبی نے خود سے زیادہ تم سے محبت کی ہے"

آج پہلی بار وہ سیدھے اظہار پر آ کر رکا اور وریشہ کا بس نہ چلا ان ہونٹوں کی خوبصورتی اپنے خافظے میں قید کر لے جب وہ اظہار میں ڈھل کر لمس کی زبان بنے وریشہ کے اندر اترے تھے۔

غضب کا موسم تھا، سرد ہوا چل رہی تھی، رومان پرور!

اس سیاہ بھیگی رات میں آگ لگ گئی تھی، لیکن انکی محبت ہر گرہن سے آزادی پا گئی تھی۔

پھر دوسری جانب وہ بھی تو آزاد ہوا تھا، جسم و جان کی ہر قید سے، پھر سے خالی ہو جانے کے خوف سے۔

وہ اسکے پاس تھی، بے حد پاس۔

وہ اسکی آغوش میں لپٹ کر بیٹھی اسکی خود پر جمی آنکھوں کے ارتکارز سے بے حال ہوئی۔

دونوں کی آنکھیں یوں تھیں جیسے مرتے ہوئے کسی آدمی نے لافانی بین کیے ہوں اور اسکی زندگی بڑھ گئی ہو اور اب وہ وہی شکر بھری آہ و زاری سجدے میں گر کے ابھی کیے اٹھا ہو۔

اس شخص کے ہاتھ کی پوریں ونیزے کو اپنی روح سہلاتی محسوس ہو رہی تھیں۔

"کیا دیکھ رہے ہیں ولی؟"

کیا بتاتی کہ اس کے دیکھنے سے ہی وہ خود پر اختیار کھونے لگی ہے، لیکن اسکی تکلیف اور نیند کے اثرات میں ڈوبی آنکھیں فراغ دلی سے مسکرائی تھیں۔

"تمہیں اپنا اور خود کو تمہارا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں"

اسکے جواب پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی نظر جھکا کر اسکے وجود میں مزید سرک کر گم ہوئی۔

"ولی!"

ولی کو اسکے ہونٹوں کی حرکت سینے پر تپیش پہنچاتی جبکہ لفظوں کا لمس کان کی طرف حدت پہنچاتا محسوس ہوا، وہ اسکے نڈھال ہونے کو بھی محسوس کر رہا تھا

"کہو پارٹنر!"

وہی مخصوص دلفریبی بھرا جواب۔

"تھینک یو، اینڈ سوری"

وہ اسکی خوشبو خود میں اتار کر اپنے وجود کے تابناک اثرات بہت جلد ہٹانے کی طلب گار تھی اور اسے ونیزے کی کہی وہی اس جملے سے جڑی بات یاد آئی تو وہ نیند کا دامن کچھ دیر جھٹک کر اسے سامنے کیے دیکھنے لگا جسکی سانسوں کا ربط ان نظروں نے متاثر کیا۔

"فار واٹ ؟"

اسکی ٹھوڑی پر لب رکھتا وہ اسکے اس تکلف کو جاننے کا طلب گار تھا جو اسکے ہر ہر لمس پر اس کے لیے دیوانگی کی حدیں عبور کر رہی تھی۔

"میرے لیے روئے آپ، سوری۔۔۔۔ اور میرے لیے ہمیشہ مسکرائیں گے اسکے لیے تھینکیو"

یہ لڑکی انہی باتوں سے ولی کو جکڑ لیتی تھی، اور وہ تمام تر حوصلے کہ اپنا آپ اسکے دل اور وجود پر فدا کر دیتا تھا۔

"تمہارے لیے جان ہارنے والا شخص، کیا تمہارے دور ہونے کے خدشوں پر روتا بھی ناں۔۔کیا تمہارے مل جانے کے بعد تاعمر مسکرانا واجب نہ ہوتا۔۔۔ نو مور فارمیلٹیز۔۔۔ اب تو ہرگز نہیں جب تم میری زندگی کا خوبصورت حصہ بن گئی ہو ونیزے"

وہ اسکے جواب پر خوبصورت مسکرائی اور پھر دونوں نے اپنی تکلیفیں کہیں پیچھے چھوڑ کر ایک دوسرے کو الفت بھری نگاہوں میں لیا۔

"مجھے اپنی ز۔۔زندگی سے محبت ہوگی اب کیونکہ اسکی وجہ آپ ہیں ولی"

وہ اسکے لیے خود ایک دھڑکتا دل بن جاتی تھی۔

"مجھے بھی ، کیونکہ میری زندگی کی وجہ بھی تم ہو"

لب و لہجے میں مٹھاس، محبت اور وارفتگی بھر کر اس نے ایک پرسکون نیند کے اہتتمام کے لیے اسے خود میں جکڑ لیا تھا، اور اس شخص کے یہ محبت بھرے لفظ ہر رات اسے یونہی ایک اچھی نیند سے فیض یاب کرنے والے تھے اور یہی اسکی زندگی تھی۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

بھیگے نم نم خلیے میں وہ فائنلی ایک لمبے ٹارچر کے بعد جب سحر بکھیرتا کمرے میں داخل ہوا تو اک جادوئی سا لمحہ تھا جس کے فسوں نے ہاشم بزدار کے پورے وجود کو حصارا، وہ اس سجے کمرے میں اپنی زندگی کی وجہ جیسی اس خوبصورت حسینہ کو اس کے اندر آنے پر گہرے گہرے سانس لے کر خود کو تقویت دینے کی کوشش کرتا دیکھ کر بے خود ہوا۔

ہاشم کے دروازہ بند کر کے مزید نزدیک آنے پر اس بے تاب دلہن کی پلکیں خوف سے لرز کر رہ گئیں جبکہ باہمی دھڑکنوں کا بے ہنگم شور اس سے پہلے بڑھتا، وہ قریب آتے ہی اک نظر اس دل بہکاتی ، ہوش گنواتی اور اعصاب چٹخاتی لڑکی کے حسن پر ڈالے رکا، جھرجھری لی، وللہ وہ آج جان لے کر رہنے والی دیکھائی دی۔

اک لمحہ ہاشم بزدار کے دل کی دھڑکن تھمی، وہ اسکی دسترس میں مکمل آکر سب تباہ کر رہی تھی، ہوش ، حواس، شرطیں کہیں بیچ میں اٹک گئیں، پروٹوکول تو اس لڑکی کی جھکی نظروں نے دیا، دھڑکنوں کے تاڑ چھیڑے۔

مگر اس سے پہلے کہ اس سے کوئی بات کرتا، بنا کچھ کہے  ہی اس کے نرم گرم لمس محسوس کرنے کی اک فطری چاہ کے ہاتھوں ہاشم نے بے خود انداز میں اسکے خوشبو بکھیرتے، انگ انگ تک سجے وجود کو خود میں بھینچ لیا۔

اس قدر دلکشی، سرکشی کی زیادتی کے سنگ کہ وہ تمام اعتماد کے باوجود صرف اس شخص کی اک نظر کے باعث ہی اپنے ریت ہوتے وجود سے رہی سہی جان سرکتی محسوس کرتی تڑپ کر رہ گئی۔

اس بانکی سجیلی، دھڑکنوں سے تلاطم سے چھیڑ خانی کر کے اسے طوفان کا روپ دینے والی آپسراہ کا لرزتا وجود آج ہاشم بزدار کو کسی ظلم پر اکسا رہا تھا کہ آج تو ضد، انا اور تمام سختی کو پیچھے چھوڑ دینے والا لمحہ تھا، جب وہ اسے سچ میں اپنے مزید قریں بسا کر محبت کی عملی شکل بن جانے کا شرف بخشتا۔

"کیا یونہی جان لیں گے ماسکو؟"

اس شخص کی مدھم دھڑکنوں کو بنا کسی رکاوٹ کے محسوس کر کے اس میں گویا اس سے کچھ کہنے کی ہمت ہوئی تو ہاشم نے مسکرا کر اس دہکتے حسن کو دیکھنے کے لیے ایک بار پھر خود سے زرا دور کیے، سر تا پیر جذبات سے اٹی دلفریب نظروں سے دیکھا۔

"ایسے ویسے ہر طریقے سے آزمائش ہوگی آج تمہاری، مجھے گھبرائی ہوئی، فطری جھجھک میں مبتلا اس لڑکی کو اپنے طریقے سے مضبوط بھی تو کرنا تھا کیونکہ تم ہاشم بزدار کو جھکی نظروں سے زیادہ، آنکھیں اٹھا کر دیکھتی پسند ہو۔

تم مجھے نہ آسانی سے ملی ہو ناں تم تک پہنچنے کے لیے میرے پاس آسان راستہ موجود تھا، لیکن اب یہی میری آخری منزل ہے"

وہ اس بھاری جوڑے میں مقید لڑکی کی تھکن اور انتظار سے بسوری شکل دیکھ کر جو بولا، وہ وجود پر بھاری لباس اور بھاری زیورات کے تشدد کے باوجود مسکرائی تھی، اسکی مسکراہٹ دلی جذبات کے سمندر میں طغیانی لائی تھی۔

"ہاشم!"

اسکی اس پکار میں وہ شدت تھی جو ہاشم کے دل میں ہلچل لے آئی۔

"ابھی یوں مت پکارو، دیکھنے دو مجھے خود کو"

جبکہ وہ اسے وارفتگی سے خود میں مبتلا کرنے لگا۔

اسکے رسیلے نرم ہونٹوں پر سرخ رنگ، ارمانوں کے خوش زائقہ جام سا تھا، جسکا ایک قطرہ ہی مدت کی پیاس بجھانے کا سبب بنے، پھر ان من پسند ہونٹوں کی شان بڑھاتا ہوا، سر مستی میں جھومتا ہوا نتھلی کا وہ موتی جو بار بار اس حسینہ کے بالائی لب کو چھوم کر اپنی قسمت پر رقص کرنے لگتا کیونکہ مالنی کی بے ترتیب سانسیں اسکی مسلسل بے خود حرکت کا سبب تھی۔

لمبی گھنی سیاہ خم دار پلکیں جنکے کنارے ہاشم بزدار کی خواب جیسی محبت کے پکے رنگ ٹھہرے ہوئے تھے، وہ آنکھیں تو کسی پل خود میں اتار لیتیں اور خبر تب ہوتی جب ہوش و ہواس سلب کر لیے جاتے۔

اسکی مہکتی سانسیں، اسکے جسم سے اٹھتی مخمور خوشبو، اسکے نچلے لب کو دانت تلے دبا کر خود پر ہوتے جان لیوا مشاہدے کو برداشت کرتے روح پرور تیور، وہ کہیں سے بھی ناپسند نہیں تھی اسے، وہ اسکی آنکھوں کو سکون بخشتی تھی، ان آنکھوں کو جنہوں نے آگ میں جلتے ہی اپنے سارے خواب جلائے تھے، اسے کب خبر تھی کہ اسکے لیے یہ لڑکی سنبھالی گئی ہے جو اسکے اندر کا ہر کرب فقط اپنی موجودگی اور پہلے ہی لمس سے جذب کر لے گی۔

ہاشم نے اسکی سرخ رو گال سہلائے سنجیدگی اختیار کی تو لمحے کے ہزارویں حصے مالنی کا دل پھڑپھڑایا۔

"ان آنکھوں کے شر سے بچائیں مجھے ماسکو، پلیز"

آج نجانے کیوں وہ شخص اس پر ہر طرح حاوی تھا کہ وہ اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا چاہتی تھی، اس شخص کی ذات حاوی تھی تبھی تو فقط دیکھنے نے ہی مالنی کا حلق خشک کرنا شروع کیا تو ہاشم نے اسے خوشبو بکھیرتے سراپے کو کھینچ کر اپنی بازووں کے آہنی حصار میں جکڑ لیا، اسکے اس درجہ بدلتے انداز بھانپتے ہی مالنی کے وجود سے سرد لہریں اٹھنے لگیں۔

اسکی کم سے کم شدت، نرم سے نرم لمس کی گہرائی بھی مالنی کی نازکی کے روبرو بے حد تھی، لامتناہی تھی۔

"ہرگز نہیں، تم نے کہا تھا کہ تم بہک کر مجھے دنیا آخرت بھلا سکتی ہو، سو آج میں سب بھول جانا چاہتا ہوں مالنی، میں تمہیں ہر طرح دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری آنکھوں میں تمہارے سوا کوئی نہ رہے، مجھ میں صرف تم باقی رہو"

ہاشم کے بے باک انداز اور ڈھیٹائی سے اسکے کمزور اور شل پڑتے حواسوں پر قابض ہونے پر مالنی نے لب دبا کر اسے دیکھا ، دھڑکنیں ابتر ہوئیں مگر جلد ہی فراموش نہ کیے جاتے معنی خیز چنگل نے انھیں زیر کیا، وہ اس لڑکی کے دسترس میں آنے کے بعد محسوس کر رہا تھا جیسے وہ سراپا بدل گئی ہو، خوشبووں نے اپنی نرمی اسکے دل، وجود اور روح کو بخش دی ہو، اسے چھو کر اب والا سکون، پہلے والے کی نسبت ہزار درجے حسین تھا۔

"میں بھی آپکو نظر بھر کر دیکھنے کی جرت کرنا چاہتی ہوں، لیکن کیا کروں کہ آج مجھ میں سمٹنا ، شرمانا اور آپکے جذبات کی شدت سے گھبرانا شامل کیا گیا ہے، آپکو اس مالنی سے ملنا ہوگا جو اب تک آپ پر حدود و جبر کے باعث کھل ہی نہ سکی مگر رک جائیں پلیز، میرے ہوش و حواس پر مہربان رہیں ہاشم ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

اسکی بے بسی بھی غضبناک ہوئی تو بے اختیار ہاشم نے اسکی ماتھا پٹی سے سجی جبین چومی۔

"ورنہ؟"

اس کے سرور نے مدہوشی کا روپ بدلا تو وہ قربت کے رنگوں میں دھڑکتی اسکے چہرے کو اپنے گداز لبوں مہکا اٹھی۔

"ورنہ باخدا آپ خود کو سنبھال نہیں سکیں گے"

وہ اسکے سامنے مضبوط ہو کر بھی آج کمزور ہونا چاہتی تھی، وہ جانتی تھی اس شخص کی ذات میں اس لڑکی کی پیش رفت ہی موجود کمیاں بھرے گی۔

"آج سنبھلنا کون چاہتا ہے مالنی! تمہارا یہ روپ بھی جان لیوا ہے، تم جانتی ہو تم میرے لیے میری راحت ہو، کبھی میری محبت میں ایسی شدت اور تڑپ نہیں تھی، پہلی محبت تو پھیکی اور بوسیدہ تھی، شاید زبردستی میں نے خود کو محبت کی کھائی میں جھونکا تھا، وہ سب پرسکون نہ تھا۔ وہ تکلیف دہ تھا مگر جب سے میں نے تم سے محبت کی، مجھے لگا میرا چھن چکا سکون بحال ہوگیا"

آج اس نے نجانے کیا کیا کہنا تھا، کیسے کیسے اس لڑکی کو محبوب بنایا، کیسے کیسے اس کی موجودگی نے ہاشم بزدار کی بے چین روح سہلائی۔

جبکہ وہ اسے سانس روک کر بھی سن سکتی تھی، اسکی جذبات سے چور آنکھیں اسکی کمزوری بنیں۔

اس لڑکی نے اپنی کومل ہتھیلوں کی حدت ہاشم کے چہرے تک پہنچائی اور اسکی صبیح پیشانی اپنے نرم لبوں سے چھوئی، وہ اسے معتبر کر رہا تھا، تو وہ کیوں پیچھے رہتی، بھاڑ میں جاتا آج کی شب کا فطری ڈر، وہ تو اسکے لیے چلتی سانسوں، کا سبب تھا۔

"سنیں ! آپ سے نہ ملتی تو کیسے جانتی میرے اندر ہاشم بزدار نامی کتنی بڑی کمی موجود ہے"

اسکے من پسند جواب نے ہاشم کی آنکھوں میں الگ ہی سرور اتارا، تبھی تو یہ کہہ بیٹھنے کے بعد وہ اس شخص کی بے باک اور پر تپش نظروں کی حدت کی لپک کے تحت فطری بوکھلائی۔

"اتنی جلدی یہ ذکر مت چھیڑو، مجھے محسوس کرنے دو کہ میری طرح ہی میرے لیے تمہیں میرے رب نے محبت کے ڈھنگ سیکھائے، ایسی ہی عورت ہاشم بزدار کو سنبھال سکتی تھی"

اسکے دہکتے روپ سے نظریں چرانا جان جوکھم کا کام تھا پھر بھی وہ کر گزرا مگر اسکی آنکھوں میں معنی خیز سا سرور اتر کر مالنی کے دل کو دھڑکا گیا۔

"پتا نہیں مگر میں نے آپکے ساتھ بے خوفی سے جینے کے ارمان ضرور سجائے ہیں، پوری دنیا مجھے آپکا کہے ہاشم، آپ سے محبت پہلے مجھے ہوئی تھی، آپکو تو مالنی نے اپنی محبت میں زبردستی قید کیا تھا"

ناجانے کیوں وہ اسکی جان لیوا باتوں سے جان چھڑوائے آہستگی سے اسکے سینے سے لگی، اسکی اداسی بھانپ کر ہاشم نے اسکی گردن میں چہرہ چھپائے اپنی بازووں کو جکڑا۔

"تمہیں خود بھی نہیں علم کہ اب تم اپنی بھی نہیں رہو گی،ہم نے ایک ہی وقت میں محبت کی تھی، تم مجھ پر یہ حق جتا سکتی ہو مگر یہ مت کہو کہ قید کیا، تم نے تو مجھے میری خوشی اور میرا سکون لوٹایا ہے"

اس شخص کے بازووں کی بڑھتی گداز گرفت، پشت پر سہلائے جاتے ہاتھوں کی انگلیوں کا سرسراتا لمس، اسکے ہونٹوں کی نرم شدتیں، سانسوں کی گردن اور گال پر بکھرتی تپش یہ سب مل کر مالنی کے حواس جنجھوڑ رہے تھے۔

"میں ایسی نہیں تھی جیسی آپکے سامنے ہو جاتی تھی سچ میں، آپ کو برا تو لگتا ہوگا ناں ماسکو کیونکہ عورت تو نزاکت اور شرم و حیا سے گندھی ہی خوبصورت لگتی ہے مگر میں نے تو ہمیشہ آپکو ٹف ٹائم دیا، ان سب کے لیے سوری"

ناچاہتے ہوئے بھی وہ اسکی اداس بات پر حسین مسکرایا کیونکہ جس طرز کی وہ اسکی ہو چکی تھی، یہ فطری تھا کہ وہ اپنی بے باکیوں پر پشیمان ہوتی۔

کیونکہ بے وقت اس نے اس شخص کی بڑی طویل آزمائش لی تھی پھر وہ اسے روبرو لایا، اسکے حساس ہونے پر اتنا پیار امڈا کے ہاشم نے اسکے سر کو چوما، تحفظ کے ساتھ ساتھ محبت بھرا احساس تھا جو ہاشم نے اسے مہیا کیا۔

"سچ بتاوں تو مجھے ٹیپیکل محبوبہ بلکل درکار نہیں تھی مالنی، جو میرے دیکھنے تک سے کانپ اٹھتی۔ سیریسلی یہ میرے لیے ایک ٹارچر ہوتا، بیوی تو ایسی بلکل ہی ناقابل قبول تھی۔ تمہیں محبت کرنے کی ایک وجہ تمہارا میرے لیے محبت اور بے اختیاری سے بھرا ہوا ہونا ہی تھا، تمہارے اندر زندگی کے وہ تمام اجلے رنگ تھے جن سے ہاشم بزدار محروم تھا۔ مجھے تم ایسی ہی پسند ہو، میرے روبرو ہر حد پار کرنے والی۔ مجھے کسی جذبے کے لیے محروم نہ رکھنے والی"

وہ اسکی ہر اداسی بہت خوبصورتی سے دور کرتا اسکے راعنائی بکھرتے وجود سے دسٹریکٹ ہوا ، کیونکہ وہ اس خلیے میں خاصی بے سکون تھی، اور وہ بھی تو ان رکاوٹوں سے بے چین ہو رہا تھا۔

"سچ کہہ رہے ہیں ناں؟"

وہ یقین چاہتی تھی اور ہاشم نے اس رقص کرتے نتھلی کے موتی کو آزادی بخشے اتار کر دائیں طرف بنے ڈریسنگ کی سمت اچھالا اور مڑ کر عاشقانہ قہر ڈھایا جو اس ماحول میں جلتے، سلگتے رنگ بکھیر گیا، خوبصورت سجاوٹ کا فسوں ان دو کے سحر کے آگے آج کمتر تھا۔

"تم سر تا پیر میری من پسند ہو، تمہیں یونہی رہنا ہے مالنی ورنہ ٹھیک نہیں رہ پائے گا ہاشم بزدار"

اسی نرمی کے سنگ وہ اسکے گلے میں سجا کندن بھاری ہار احتیاط سے اسکی گردن سے جدا کیے بولا اور اسکی بات پر مالنی نے تڑپ کر اسے جھکی آنکھیں اٹھا کر دیکھا جو ہار ایک طرف رکھتے ہی اپنے تشنہ لب اسکی شہ رگ پر رکھے مالنی کے حواس جنجھوڑ گیا۔

"کیا ہو جائے گا آپکو؟"

آنکھوں میں ان کہا سا خوف بھرے وہ اسے روبرو کرتی بولی جس نے شاید اسکا کوئی لفظ سنا ہی نہ تھا، وہ اسکی کلائیوں کو چوڑیوں سے بڑی تفصیل سے آزادی بخشے اسکی ہتھیلوں کو چومتے ہوئے کلائیوں کو بھی محبت سے چھو رہا تھا جیسے ان زیوارت کے تشدد سے پھیلتی سرخیوں کو مٹا دینا چاہتا ہو مگر اسکے بے خود ہوتے تیور مالنی کے گال بھی سرخ کرنے لگے تھے۔

"تمہیں نہیں پتا کہ تم سے دور مجھے کیا ہوگا؟"

جناب نے اپنے سحر بکھرنے کو روک کر منصوعی برہمی جتائے ابرو اچکا کر کہا تو ناچاہتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر بکھرے گلال، مسکراہٹ کی دلکشی سے گہرے ہوئے۔

"نوو"

شرارت پر آمادہ وہ بس ہاشم کو اس خمار سے نکالنے کی کوشش میں بولی مگر اس شخص نے جان لیوا حد تک جکڑ کر اسکے ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ کو گھبراہٹ کے رنگوں میں تبدیل کیا۔

"تمہیں پتا ہونا چاہیے مالنی، کہ مجھے اب تمہاری کمی ہرگز قبول نہیں۔ تم خاص ہو ، تمہیں ہاشم بزدار آج ایک خاص طرح چاہنا چاہتا ہے جس میں ہم دونوں کا ساتھ کسی نئے سکون کو دریافت کرے گا، جاو جا کر چینج کرو،۔۔۔تمہارے قریب آج صرف میں رہوں گا اور میری محبت"

اسکے یکدم بدلتے ارادوں پر اسکے چہرے کے ہر خدوخال میں مسکراہٹ اتری، الگ طرح سے چاہے جانا اسکی بھی تو خواہش تھی۔

"مجھے دیکھنے تو دیں خود کو پہلے جی بھر کر"

اسکے ہونٹوں کی دلفریب مسکراہٹ بے خودی سے چرائی گئی تو ہاشم اسکے سوال اور تڑپ پر قاتلانہ ہنسا۔

"جاو ہاشم کی مالنی بن کر آو پھر دیکھوں گا تمہیں اور اپنا آپ دیکھنے دوں گا"

اسکے گداز جواب پر وہ بلش کرتی اپنا بھاری جوڑا سنبھالتے چینج کرنے بڑھی وہیں ہاشم نے اپنے کوٹ میں رکھا فون رنگ کرتے دیکھا تو اس پر لکھے نام نے ہاشم کو مسکراہٹ بخشی مگر میسج پڑھنے کے بعد ہاشم نے پریشانی کے سنگ چینجنگ روم کے بند ہوتے دروازے کی طرف دیکھا۔

وہ واش روم سے جڑے خوبصورت سے چینجنگ روم کے اندر پہنچی تو دائیں طرف گلاس ڈور سے جڑا بہت بڑا وارڈرب تھا جہاں مالنی اور ہاشم کے کپڑے بہت سلیقے سے ہینگ تھے جبکہ دیوار سے جڑی شیلف پر اسکے لیے رات میں پہننے والا نائیٹ سوٹ دھرا تھا جس کی خوبصورتی اور دلکشی خود مالنی کو بھائی، حالانکہ وہ ہاشم بزدار سے ایسی شریف چوائز کی امید نہیں رکھ رہی تھی مگر یہاں وہ پھر دل جیت گیا تھا۔

مگر اس سے پہلے وہ چینج کرنے کا سوچتی، وہیں روم میں پھدکتے لگ بھگ تین موٹے تازے لال بیگ دیکھ کر مالنی بمشکل چینختے چینختے بچی اور اس گھبراہٹ میں کہ وہ موٹا تازہ لال بیگ اس پر چھلانگ لگاتا، اسکا ہاتھ شیلف پر لگا اور پرفیوم کی بوتل فرش پر گری جس پر ہاشم اس آواز پر بے اختیار چینجنگ روم کی طرف بڑھا۔

                       ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

لائیٹ لیمن کلر کی شارٹ کرتی اور ہم رنگا ہی پلازو تھا جسے پہن کر وہ کافی پرسکون ہو چکی تھی جبکے سوٹ پر سفید رنگ کی چھوٹی چھوٹی لیس نسب تھی جسکے ساتھ ہی سفید دوپٹہ میچنگ تھا، اپنے بال جو کے سادہ سے نرم جوڑے میں مقید تھے، انھیں برش پھیرے کھول کر سلجھاتی ہوئی وہ من ہی من میں شرمگیں سا مسکرائی، جبل زاد کی آنکھیں امیجن کرنا ہی وجود میں گدگداتی لہریں اتار گیا۔

مگر پھر جلد ہی بالوں کو سلجھا کر برش واپس ڈریسنگ پر رکھتی وہ پلٹی، گھبراہٹ اسکے ہر موں سے نمایاں تھی، جبل زاد سے اسے فطری ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ شخص کس حد تک اس سے محبت کرتا تھا یہ وہ اسے چند دن میں بنا کہے بتا چکا تھا۔

اسکی ہر نظر میں گل کے لیے لافانی جذبات دیکھائی دیے تھے، اسکی ہر مسکراہٹ میں محبت کے رنگ تھے جو وہ دیکھ چکی تھی مگر آج وہ اسے اپنی ملکیت کے طور پر ملنے والا تھا، محبت ہونے کے باوجود، اس شخص کو دعا میں مانگنے کے باوجود اسکا مکمل سامنا گلالئی کے پورے وجود میں لرزش دوڑانے کا سبب بن رہا تھا۔

دونوں ہتھیلوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے وہ اخیر حد تک نروس تھی جب دروازہ کھلنے کی آہٹ پر خوفزدہ ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی اور جبل نے اس کو ڈرا دینے پر خود کی سرزنش کی اور مسکراتی آنکھوں سے اس حواس کھوتی لڑکی کو سر تا پیر مرکوز کیے دروازہ بند کرتے ہی آہستگی سے اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے جو فوری نظریں جھکا کر بے اختیار اسکو نہ دیکھ پانے کی کوشش کر بیٹھی۔

عجیب سی سرشاری تھی جو اپنے باعث اس لڑکی کو گھبراتا دیکھ کر پہاڑوں کے اس من پسند باسی کے انگ انگ تک اتری تھی۔

کمرے میں انکی مدھم چلتی سانسوں کے بے خود سے لمس بکھر رہے تھے،معنی خیز خاموشی اس فسوں کو بڑھا رہی تھی۔

وہ اسے چند ثانیے یونہی اپنے باعث گھبراتا دیکھتا رہا اور پھر عین روبرو آتے ہی اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر اسکی کلائیوں سے مس کیے جس پر گل نے اپنی جھکی آنکھیں اوپر اٹھائیں مگر جس طرح جبل کے ہاتھوں نے اسکی بازووں پر اوپری جانب سہلاتی دل دہلاتی حرکت کی، وہ گل کی گھبراہٹ میں شرم و خوف ملا گئی اور تب اسکی پلکیں تھرتھرائیں جب اس شخص نے اسے ہاتھ روکتے ہوئے شانوں سے تھامے اپنے نزدیک کر لیا۔

"یوں آتے ہی اپنی اداوں سے مجھے زیر کریں گی تو کیسے خود کو روک تھام کے مراحل سے گزار پاوں گا گل، خود بھی نہیں چاہتا کہ اتنی جلدی آپ میں کھو جاوں۔۔۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہیں، آپکے یہ گھنگھریالے بال بہت خوبصورت ہیں"

اسکی تعریف پر جس طرح گل کے دل کی رفتار بڑھی، وہ جی بھر کر مسرور ہوا اور جس طرح قریب کھڑے ہو کر وہ اسکے مدھم گھنگھریالے بالوں میں اپنے ہاتھ کی انگلیاں چلائے اسکی دمکتی سفید گردن کو اسی بے لگام ہاتھ کی پشت سے چھوئے بولا، وہ دل کو بمشکل سنبھال پائی۔

وہ پہلا ہی تھا جسے ایسے الجھے بال پسند تھے تبھی تو تمام قربت کے سحر کے وہ افسردہ سا مسکرائی۔

اس نے اپنی آنکھیں جبل کی آنکھوں میں فرصت سے ڈال رکھی تھیں، اور جبل زاد سے پوچھتا کہ لاجواب کرنا کسے کہتے ہیں۔

"مجھے تو اپنے بال خود نہیں پسند، کبھی سیدھے جو نہیں ہوتے۔۔۔ لیکن اب اچھے لگیں گے، ہو گئی فائیٹ۔۔جیتا کون؟"

وہ خود کو ہر خوف سے نکالنے کی کوشش میں مدھم سا بولئ تو جبل زاد اس سچویشن کو سوچ کر مسکرایا۔

"مقابلہ برابر رہا، بچارے ہاشم لالہ پر رحم کر دیا گیا۔ یہ تو سائیں زرا زخمی تھے تو رعائیت دے گئے ورنہ آج انکے ارمان بہہ جاتے۔۔۔ ہاہا مزہ بہت آیا"

وہ اسے پہلی بار ہنستا دیکھ کر مسکرانا بھول چکی تھی کیونکہ اس شخص کو گل نے کبھی ہنستے نہیں دیکھا تھا، مقابل بھی اسکی دلچسپی اور پسندیدگی جلد بھانپ لی گئی، ان نظروں کا مرکز جب وہ گلابی ہونٹ بنے تو گلالئی کی نظریں اس پر سے ہٹیں، جبکہ ان کپکپاتے لبوں کو ، آنکھوں پر سایہ کرتی پلکوں کی چھاوں کو، اسکی سرخ گالوں پر پھیلتی شفق، چھونے کی خواہش منہ زور طریقے سے جبل زاد میں سر اٹھاتی محسوس ہوئی تبھی تو اس نے بنا دیر لگائے گل کی کمر کے گرد بازو حائل کیے اسے اپنی طرف کھینچا جو اسکے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی، اپنی ڈری سی آنکھیں لمحہ لگائے اس نے جبل زاد کی آنکھوں سے ملائیں۔

"آپ جانتی ہیں گل، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھ سا خشک مزاج بھی کبھی محبت کر سکتا ہے، جبل زاد کی زندگی وفاداری اور یاری کے گرد گھومتی تھی اور پھر یہی دونوں فرائض مجھے اس عمر تک لے آئے، لیکن کب آپ میرے دل میں اتریں، خبر ہی نہ ہوئی۔ شاید اس دن جب پہلی بار آپکا ہاتھ تھاما تھا، آپکو قریب سے دیکھا تھا، آپکے دل کی کشش سے میرے دل کی کشش کا وصال ہوا تھا۔ آپکو تو گرنے سے بچایا مگر اپنے ارادے ڈگمگا گئے، وہ پہلا ہی لمحہ تھا جب مجھے لگا محبت کو بھی وقت دے کر دیکھنا چاہیے"

وہ نرم لہجہ اختیار کیے اسے کسی سحر پھونکتے انداز میں بتا رہا تھا اور وہ بھی اس پرسکون حصار میں مقید اپنے خوف جھٹتے محسوس کیے اسے سنتی ہوئی مسکرائی، وہ لمحہ اسکے خیالوں میں آکر بھی دل دھڑکا گیا۔

"بہت تیزی سے آپ میرے دل کی مکین بنیں، اور پھر چاہا کہ آپ پر حق پا لوں اور پا لیا، میرے تو ارادے ڈگمگا گئے مگر آپکو کیسے یہ بے ذوق آدمی اچھا لگا؟ حالانکہ مجھے نہیں یاد میں نے کبھی اس سے پہلے آپکو نظر اٹھا کر دیکھا ہوگا"

اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اس بھرے سفید گال کو چھو کر نرمی محسوس کی تو وہ اس لمس سے گلاب ہوئی اور گل کی مسکراہٹ اسکے چہرے پر بے حد سجتی تھی اس میں شبہ نہ تھا۔

"تو کیا ہوا، ضروری تو نہیں کہ نظر اٹھا کر دیکھنے سے ہی آپ مجھے پسند آتے، بس اچھے لگتے تھے شروع سے تھوڑے مغرور، سنجیدہ اور اکڑو سے جسکا واسطہ پوری دنیا میں بس اپنے سائیں سے تھا، جب سے خانم کا نکاح ہوا تھا۔ یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ کوئی کسی کو کیوں اچھا لگتا ہے"

وہ اس سے عمر میں چھوٹی بھی تھی اور ابھی بے حد معصوم بھی تھی اسکا اندازہ جبل کو پہلے بھی تھا اور اب تو وہ اسکے ان چھوئے انداز دیکھ کر اور گرویدہ ہوا۔

"اور آپکو پتا ہے مجھے بلکل امید نہیں تھی کہ آپ کبھی شادی کر سکتے ہیں، مطلب مجھے لگتا تھا آپ ساری زندگی بس اپنے سائیں کے ساتھ رہنے کو پسند کرتے رہیں گے، یہ بھی لگتا تھا کہ آپکی زندگی میں میری جگہ نہیں، کیونکہ میں خود خانم کے ساتھ مکمل مطمئین تھی، سو اس پسندیدگی کو میں نے اس خانے میں رکھا جہاں لوگ بڑی بڑی معتبر شخصیات کو آئیڈیل بنا کر رکھتے ہیں، جو انکو پا تو نہیں سکتے کبھی مگر انکو اہم رکھنا کبھی نہیں بھولتے"

وہ اسکی تمام باتیں سن کر بے اختیار مسکرایا تو اسے مسکراتا دیکھ کر گل پھر سے گھبراہٹ کا شکار ہوئی۔

"اممم! تو آئیڈیل ہوں میں آپکا؟ مجھے امید نہیں تھی سچ میں"

وہ اسکے خیالات جان کر خاصا متاثر ہوا۔

"آپ بہت اچھے ہیں، بہت پیارے ہیں۔ خاص کر جب میں آپکو ضرار سائیں کے ساتھ وفاداری نبھاتا دیکھتی تھی تو مجھے ان پر رشک آتا تھا کہ انکے پاس آپ ہیں، ہماری محبوب ہستی جن لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے، یہ قدرتی ہے کہ ہم ان لوگوں سے بھی محبت محسوس کرتے ہیں۔ کہ یہ لوگ اس شخص کے قریب بسنے والے ہیں، یہ لوگ اس شخص کو کبھی بھی دیکھنے کا حق رکھتے ہیں، کبھی بھی بات کر سکتے ہیں۔۔۔ مجھے ضرار سائیں ہمیشہ بہت لکی لگتے آئے ہیں، ایک تو انکے پاس میری خانم ہیں پھر سب سے پیارے دوست اور ساتھی کے روپ میں انکے لیے آپ عزیز رہے ہیں"

وہ تھوڑی شائے سی تھی مگر وہ جو دل میں تھا سب بہت سکون سے بتا رہی تھی، تب اسکے اندر ہچکچاہٹ دم توڑ دیتی تھی۔

"اب تو پھر سب سے لکی آپ ہوئیں گل، آپ مجھے اب سب زیادہ دیکھ سکتی ہیں، سب سے زیادہ مجھ سے بات کر سکتی ہیں اور۔۔۔۔"

جبل کی ادھوری بات کا مفہوم سمجھنا اسکے لیے مشکل نہ تھا کیونکہ وہ اسے لمحہ بہ لمحہ اپنے قریب کیے بولا اور وہ گلاب ہوتا چہرہ لیے ناجانے کس احساس کے تحت آنکھیں جھکا گئی۔

"اور"

جھکی نظروں کے سنگ کیا جاتا اس لڑکی کا سوال جبل زاد کے دل کو دھڑکا گیا، خود اسکے حصار میں مقید تر کرنے پر گل کو اپنی دھڑکنیں کسی جلترنگ کی مانند محسوس ہوئیں، جبکہ جبل زاد کے ہونٹوں نے جب اسکی جبین چومی تو گلالئی کی سانسوں میں روانی آئی، اور جب اس شخص نے ان گلابی لبوں پر سجی مسکراہٹ کو اپنی بے باکیوں سے چھیرا تو پہلی مرتبہ خوف کے بجائے اک سحر نے اسے سر تا پا گھیرا۔

مگر جلد ہی وہ سحر، وجود کو توڑنے لگا کیونکہ اسکے ہر لمس کی نرم شدت نے خمار میں اترتے ہی سختی اوڑھی اور گل کو اپنی روکی بات کا مفہوم پورے استحقاق سے بتائے وہ دور ہٹا۔

اگلے کئی لمحے اس لڑکی کو سنبھلتا دیکھنا جان لیوا رہا۔

"میں اس سکون کی گہرائی نہیں بتا سکتا گل، جو آپکے قریب ملا۔ آپکی موجودگی بہت خوبصورت ہے ، میرے اس ویران کمرے میں آپکی پھیلی خوشبو ہر زرے کو رقص میں مبتلا کر رہی ہے۔ اگر پتا ہوتا آپ سے محبت کرنا اتنا دلفریب ہے تو بہت پہلے کر لیتا، خود کو اتنی دیر تک آپ سے محروم نہ رکھتا"

گلے لگانا اسکی پہلی چاہ تھی جو وہ بعد میں پوری کر رہا تھا، اور جب وہ اسکے وجود میں سمٹی تو جبل زاد کو اس بات پر یقین آیا کہ روحیں تو بہت پہلے تشکیل دی جا چکی ہوتی ہیں، اسے گلے لگا کر وہ اک نئے سکون کو تسخیر کر بیٹھا تھا، اسکے وجود سے اٹھتی خوشبو، گل کے وجود میں دھڑکتے دل کی حدت کے تابع ہوئی تو اس نے گرفت میں مضبوطی انڈیلی۔

جہاں جبل کا دل جیت کے نشے میں مخمور تھا وہیں گلالئی کی آنکھوں میں اس پرسکون حصار کے باعث رتن کی سی چمک چھلکی۔

وہ اسے یونہی تھامے روبرو لایا۔

"کیا یہ کافی ہوگا گل کہ اس پوری دنیا میں اب صرف آپ ہی مجھ سے محبت کر سکتی ہیں؟"

اسکے اس خوبصورت سوال نے گل کی آنکھوں میں اتنی خوشی بھری کہ وہ نم سی ہوئیں۔

"اگر کسی اور کو بھی آپ پسند آگئے تو؟"

وہ رونا نہیں چاہتی تھی تبھی یہ انوکھا سوال کیے جبل زاد کے موڈ کو بھی بدل کر رکھ گئی۔

"محبت کا کہا ہے میں نے، اسکا اختیار جبل زاد صرف آپکو دے رہا ہے"

بہت شدت سے دل میں پلتی خواہش کو اس نے گل کی رخسار چومے پورا کیا تو وہ اسکی بیرڈ کی گدگداتی چبھن اور جواب کی دلکشی پر حسین مسکائی۔

"یہ کافی تھوڑی ہوگا"

اس لڑکی نے صرف محبت پر اکتفا نہ کرنے کی ٹھانی تھی، وہ اسے لمحہ بہ لمحہ خود میں سمیٹ رہی تھی۔

"ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں، ابھی سے فیصلہ نہ کریں کافی یا ناکافی کے متعلق۔۔ میرے خیال میں روک تھام کے مراحل اختتام تک پہنچانے چاہیں کیونکہ آپ کے قریب رہ کر آپکو مزید خود سے دور نہیں رکھ سکتا ہوں"

جبل کے بے اختیار کہے جملے نے گل کے دل کو شدت سے جکڑا، پھر اس شخص کی منفرد خوشبو ، سانسوں کو روک اور دھڑکنوں کو دل کے گرد بکھیر رہی تھی، اپنے آپ میں مدہوش ہونے پر اکسا رہی تھی۔

پھر اب کی بار نوازشوں کی کم سے کم شدت کا سخت ہونا بتا رہا تھا کہ اب کسی مزاحمت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

"دور تو ن۔۔نہیں ہوں اب، اتنا قریب کافی نہیں ہے کیا"

وہ تو اتنے سب پر ہی ہلکان تھی، اس شخص کی نظریں ہی دل کو مرکز سے ہلا چکی تھیں پھر یکدم اسکے رنگ میں رنگ جانے کے خدشے اس لڑکی کو ڈرانے لگے۔

"بلکل نہیں، یہ تو کچھ بھی نہیں تھا"

جبل نے اسکی پیشانی کو چومے اسے خود میں سمونے کی نیت سے بھینچا جبکہ اپنے ہونٹوں کو گل کی سماعت کے قرین جوڑا جبکہ اسکے بے باک طرز کے ڈھیٹ سے جواب نے گل کا سارا اختیار سلب کیا۔

"ج۔۔جبل "

اسکے ہونٹ ان سرکش انداز و اطوار پر سسکی کی صورت پھیلے مگر وہ مسرور سا اب میں محو اپنے لمس بکھیرنے اسکی شہہ رگ کی سرحدوں تک پہنچا اور وہ سانس لیتی ہوئی سانس چھوڑے اپنے آپ کو بھی اسکے حوالے چھوڑ بیٹھی۔

"ایک مرد صرف اپنی من پسند عورت ہی کو تمام تر شدتوں کے ارمان رکھے بھی نرمی اور محبت سے چھوتا ہے کہ وہ اس نرمی کے انداز کی جلد گرویدہ ہو کر خود ہی شدتیں چاہنے لگتی ہے، یہ احساس کس قدر دلنشین ہے کہ جس نرمی پر آپکی جان جا رہی ہے، جلد یہ آپکی عادت بنے گی، خوبصورت ہے ناں یہ"

وہ اسے جلد نجات دیتا اسکے اطلسی پڑتے وجود کو گھیرے روبرو ہوا جسکے چہرے پر گلال بکھر آئے تھے۔

"میری محبت جو آپکی خواہش کے مطابق آپ کو پرسکون کرے، لامتناہی ہے گل۔۔۔ جو تمام عمر آپ پر مہربان رہے گی، لیکن آپ صرف میری ہیں، آج تو یہ ایک جملہ ہی بہت کچھ کروا بیٹھے گا، درگزر کریں گی گر حدوں کو توڑ بیٹھا؟"

گھمبیر سرگوشی کی صورت اس نے اختیار ہاتھوں سے چھوٹتے اجازت طلب کی تھی، سوال بنا کر اسکے ہونٹوں پر رکھا تھا اور وہ کیا کہتی کہ ظالم نے اپنے بس میں کر کے اختیار کی آفر کر دی تھی۔

"ک۔۔کیسی باتیں کر رہے ہیں جبل"

وہ اسکے سوال، نوعیت، استحقاق اور تشنگی پر روہانسی ہوئی ، جبکہ وہ مسکرایا۔

اسکی مسکراہٹ جواب کی اس درجہ دلکشی پر گل کی روح کو گدگدا گئی۔

"اب تو آپ بولتی ہوئیں، مجھے دیکھتیں ہوئیں، میرے قریب آتیں ہوئیں ہی اس قدر جان لیوا لگ رہی ہیں کہ میرا دل میرے بس سے باہر ہو رہا ہے، کیا کروں بتائیں؟ کیسے روکوں اپنے آپ کو آپ پر فدا ہونے سے۔۔۔۔۔ "

وہ اسے محبت سے چھو کر معتبر کرتے بولتا ہوا رکا، گل کے دل نے اس سے پہلے فدا ہونے کی ترغیب دی۔

"سنیں! مجھے خود میں اتنا بھی مبتلا مت کریے گا کہ میں دنیا بھول جاوں۔۔۔۔ "

جبل کی انگلیوں کے گداز لمس نے جب اسکے ہونٹوں کو اک نئے انداز سے چھوا تو وہ کانپ کر سانس روک گئی، یہ الگ بات تھی کہ وہ دھڑکتے دل کے شور سے، جبل زاد کی پر تپش جذبات کی آنچ پہنچاتی نظروں کے لمس سے بدحواس ہو رہی تھی۔

"جبل پلیز"

وہ اسکے لفظی حملوں سے ہی ٹوٹ بکھر گئی جبکہ خمار آلود فتخمندانہ سی مسکراہٹ کا لمس جبل کے ہونٹوں پر رقص کرتا مچلا۔

اپنے دھڑکتے دل اور بدلتی کیفیت پر قابو پائے اس نے گل کا اپنے سینے پر جمایا ہاتھ جکڑا اور ہتھیلی چومی جس پر وہ محبت بھری بھیگی نظروں سے جبل کو دیکھنے لگی۔

"یہ پلیز وغیرہ کرنے سے اب اجتناب برتیں ادنی گزراش ہے جانِ جبل، کیونکہ جبل جب جب آپکے پاس ہوگا تب تب آپکی صرف خود پر حکمرانی دیکھنا چاہے گا، مجھے جی بھر کر دیکھنا ہے آپکو، آپ جانتی نہیں کہ جی بھر کر دیکھنا کیسا ہوتا ہے، بتاوں گا آج۔ آپ کو محبت سے اپنی محبت کا احساس دلاوں گا، آپ یہ بھی کہاں جانتی ہوں گی کہ محبت کا احساس بہت قریب آکر کیسے کراتے ہیں، کرواوں گا آج، کیسے پہاڑوں کا یہ باسی محبت جتائے گا، یہ تو آپ بلکل نہیں جانتی۔ جتاوں گا آج، آپ صرف میرا دیکھنا دیکھیں گی، میرا احساس دلانا محسوس کریں گی اور میرا جتانا سہیں گی بس۔۔۔۔۔"

وہ یہ سب کہہ کر گل کی ہر مزاحمت ، لرزش اپنے وجود میں جذب کرتا اسکی سوچ سے بڑھ کر قریب آیا تھا کہ وہ پہلے ہی لمحے اسکا دیکھنا دیکھ کر بہک گئی، اور اسکے بہکا کر وہ باقی فریضے اب بہت تفصیل سے نبھانے والا تھا۔

دل کی دھڑکن حد سے سوا ہوئی تھی، سوچوں، جذبوں اور دھڑکنوں کا سارا رخ اسکے بعد گلالئی نے پوری ایمانداری سے جبل زاد کی جانب موڑا تھا۔

بہت ہی اپنائیت کے سنگ وہ گل کو اپنا بنا گیا تھا کہ اسکے اس طرح اپنا بنانے پر بھی وہ عاشق ہو چکی تھی۔

"ہر روز تُم کائنات کی روشنی سے کھیلتی ہو

جنوبی ستاروں کے درمیان دُھندلے حروف میں کون تمہارا نام لکھ جاتا ہے؟ شاید میں!

تُم میری آخری سانس تک یہاں ٹھہرو

اور کِسی خوف زدہ شخص کی طرح مُجھ سے لپٹ جاؤ

میں تُمہارے لیے پہاڑوں سے مُسکراتے پُھول

نیلی سوسن، گہری دُھند

اور بوسوں سے بھری ٹوکریاں لاؤں گا

میں تمہارے ساتھ وہ کرنا چاہتا ہُوں

جو بہار چیری کے سفید درختوں سے کرتی ہے"

اب سے وہ پہاڑ زادہ ہمدم تھا اسکا، ہمدم یعنی جس کے ساتھ سانس لی جاتی ہو اور وہ پہاڑ زادی اپنی خوش بختی پر تمام عمر نازاں رہنے والی تھی۔

                          ❀⊱┄┄┄┄┄┄┄┄┄⊰❀

"بہت ہی سر پھرے ہو تم میثم، کونسی دشمنی نکالی پیارے چچا سے، بچارے"

فائیٹ کے دوران میثم کے کندھے کا زخم ہل گیا تھا اور اس کی مرہم پٹی کرتی ساتھ ساتھ وہ اسکے اگلے پلین کو سن کر ہونق رہ گئی جو آگے سے اسکی ڈانٹ اور کوفت پر دانت نکالے مسکرایا۔

"دشمنی نہیں میری جان ، اسے کہتے ہیں چچا بھتیجے کا پیار۔۔مجھے تو سوچ کر ہی مزہ آرہا ہے، اپنی ویڈنگ نائیٹ ہاشم بزدار صاحب کبھی بھول نہیں سکیں گے۔۔۔"

ہنوز وہ ڈھیٹ بنا اپنے کارناموں پر مخظوظ ہوا تو اشنال نے زرا سرک کر اسکے پہلو میں جگہ بنائی اور ہنستی ہوئی اپنا سر اسکے سینے پر رکھ گئی، جناب نے گستاخیاں کرنے پر لاکھ بند باندھے مگر جب صنم پہلو نشین ہوتا تو اختیار ہاتھوں سے پھسلنے لگتا تھا۔۔

"تم بھولنے دو گے بھی نہیں ان بچاروں کو، پاگل انسان تم نے لال بیگ لائے کہاں سے تھے۔ اور اس شرارت کا فائدہ کیا ہوگا، کندھا تو اکھاڑے میں ہلا لیا، باقی کسر صبح اپنے دانت تڑوا کر پوری کر لینا"

اشنال کو ابھی بھی اسکی حرکتوں پر ہول اٹھ رہے تھے تبھی وہ اسکی جان لیوا بہکانے کی کوششیں ناکام کرتی بڑبڑائی اور وہ ہمیشہ کی طرح اشنال کی کوفت پر قہقہہ لگائے ہنسا جس پر اسی کا دل اسکے دانت توڑنے کا کیا۔

"میری جان، یہ کیڑے مکوڑے پکڑنا آپکے میثم کا بچپن سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے، یہ تو چوہدری کا ٹیگ لگا تھا تو زرا اس چوول شعبے سے دستبرداری لے لی۔۔

رہی بات شرارت کے فائدے کی تو سمجھ لیں بڈی کے جذبات بڑھانے کے لیے کیا، دیکھیں جب مالنی چچی انکو دیکھ کر چلائیں گی تو بڈی دوڑے جائیں گے اپنی مالنی کو بچانے اور پھر وہی ہوگا جو آپ سوچ رہی ہیں"

پہلے تو وہ اسکے شوق کو جان کر حیرت انگیز مسکائی اور پھر پاس پڑا تکیہ ہی ہنستے ہوئے میثم کو دے مارا۔

"ہاہا کچھ نہیں سوچ رہی میں"

اسکے مسکراہٹ دبانے پر خود ضرار بھی ہنسا۔

"آہاں اب اتنی معصوم بھی نہیں آپ صنم، میثم ضرار چوہدری کی سانسیں اور سکون ہیں، ان معاملات میں آپکو بہت تفصیلی ٹرین کیا ہے"

وہ اسکے مسکرانے اور شرمانے پر چوٹ کرتا ہنسا تو اس بار وہ اسکا گلا دبانے لپکی مگر اس بے آرام آدمی نے بڑی چالاکی سے جھپٹتے صنم کو بازو کی زنجیر سی بنائے گرفتار کر لیا اور دونوں کی مسکراہٹ لمحے میں خماری اور شرارت کا روپ بدل گئی جبکہ تینوں لال بیگوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بعد ہاشم کا دل یہی کیا جا کر انکو ضرار کی شرٹ میں گھسا آئے، اخیر تپا ہوا وہ اور ہاٹ ہو جاتا تھا۔

مالنی نے مسکراتے ہوئے ہاشم کو دیکھا جو ہاتھ دھونے کے بعد انھیں ڈرائے کیے خفگی سے اسکے مسکرانے پر گھورا اور پلٹ کر مالنی کے روبرو ہوا۔

"آپکا بھتیجا ، خدا کی پناہ! شاید شیطان سے اس سب کی ٹرینگ لیتا ہے ماسکو"

اسکی شرارتی ہنسی پر ہاشم نے لمحہ لگائے اس لڑکی کو اپنے محصور کن لمس میں جکڑا اور اس بیچ ہاشم کا پیر ناجانے کس چیز سے ٹکرایا کہ لمحہ لگتے ہی روم کی چھت سے گلاب کے پھولوں کی برسات ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا چینجنگ روم سفید اور سرخ پھولوں کے سراپوں سے بھر گیا ، اور دونوں ہی اس طرز کے سرپرائز پر لال بیگوں کا غصہ بھلاتے دلفریب سا مسکرا اٹھے۔

"اوہ! یہ بہت پیارا تھا"

مالنی نے مسکرا کر چھت کی طرف دیکھا جہاں ایک نیٹ نسب تھا اور اسے ایک ڈور سے کنیکٹ کیا گیا تھا، جیسے ہی ہاشم کی ٹانگ لگنے سے وہ دوڑی ٹوٹی، نیٹ کلوز ہوا اور اس میں رکھے گئے پھول ان پر پوری شان سے برس پڑے۔

"سب خوبصورت ہے، ہم دونوں کی اس قربت سمیت۔۔ یہ سب منصوعی رنگ اتار دو اب خود سے، میرے رنگ تم پر اپنا آپ تحریر کرنے کو بے تاب ہیں مالنی"

یکدم اردگرد کے بڑھ جاتے فسوں کے باعث خمار سے بھرے سلگتے لہجے میں بولتا وہ اسکے قریب آیا، اسکا ہاتھ مالنی کے شانے پر جمی شرٹ کی بازو سرکانے لگا تو وہ خوف و دسترس سے بے خود ہوتی اس شخص کے بہکاوے میں فورا آئی جو اپنے بڑھتے قدموں کے اثر سے اسکے پیوست ہونٹوں اور متغیر رنگت والے چہرے کو خمار آلود آنکھوں کے سنگ طواف کر رہا تھا، اپنی بے ساختہ حرکت پر اور ہاشم کی آنکھوں کے بے باک لمس پر وہ سختی سے لب بھینچ کر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔

اس شخص نے اسکے کندھے سے شرٹ سرکائے اپنے تشنہ لب رکھے تو وہ سانس روک کر آنکھیں موند گئی، جبکہ وہ اپنی دونوں بازووں میں اسکے ٹوٹتے وجود کو جکڑے ہوش کھو رہا تھا، اسکے مرمریں ہاتھ ہاشم کی اجلی شرٹ پر شدت سے پکڑ جمائے سلوٹیں ڈال گئے اور آج تو اسے ان سلوٹوں پر بھی پیار آیا، اسکا سرور بڑھنے لگا۔

"ہاشم!"

جبکہ ہاشم کی بیتابیوں سے گھبرا کر وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھے بمشکل فاصلہ بنانے لگی مگر ناکام ہوتی سانسوں کے زیروبم کے سنگ اسکے کچھ بے باک کر گزرنے سے پہلے ہی اسکے سینے میں سمٹ گئی۔

"واللہ آج ہاشم بزدار واقعی خود کو سنبھال نہیں پائے گا مالنی، تم نے مجھ پر اپنا آپ پھونک کر بڑا ظلم کر دیا"

آج اسکے ہر انداز سے شدت چھلک رہی تھی، جبکہ وہ کیا بہکاتی مزید، کہ آج تو اس شخص کے بہکاوے ہی کافی تھے، اسکی استحقاق بھری پناہوں میں مالنی کو ٹوٹی شاخ کی مانند بے جان ہونے میں چند لمحے لگے۔

اس پر موجود ہر رنگ اتارنے کے لیے وہ اسے برستی پانی کی گرم پھواروں میں گھسیٹ لایا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دل سے پھوٹتی شعاوں نے ایک دوسرے کو لافانی کشش سے جوڑا۔

اسکا ہر منصوعی رنگ اترا تو ان گہری سیاہ آنکھوں میں اپنے رنگ چڑھانے کا خمار اترا۔

وہ اسکی دھڑکنوں پر اختیار اور جامد پڑتی بھیگی سانسوں پر آخری زور آور وار کیے اسکے ہر احساس پر دسترس پا چکا تھا اور اب پھولوں کے بھیگ جاتے سراپے انکی بے تابیوں، بے قراریوں اور نشاط انگریزیوں کے گواہ رہنے والے تھے اور باقی سب مدھر سی دھندلاہٹ میں بدل جانے والا تھا۔

قطرہ قطرہ بھیگتی رات انکی محبت کے رنگوں کو گہرا کرتی رہی، اتنا گہرا کہ وہ رنگ دونوں کے سراپوں پے چڑھ آئے۔

دیکھتے ہی دیکھتے مدھم سی گداز صبح زمین زادوں پر اتر آئی، وہ اس زندگی کی بہت ملائم سی نیند سے بیدار ہونے کو ٹال رہی تھی، کہ آنکھیں کھل جاتیں تو اسکے پھونکے اسم اپنے حصار توڑ دیتے، محبت بھری گستاخی پر اسے جبرا ہی سہی اپنی خوابناک اثر کے خمار میں ڈوبی آنکھیں کھولنی پڑیں، جب وہ آنکھیں کھلیں تو وہ اب تک اس پر محصور ہوئے محبت سے بار بار اسکی پیشانی چوم رہا تھا، پھر رک کر اس نے اسکی خود پر کھلتی آنکھیں چومیں، وہ نک سک تیار خوشبوئیں بکھیرتا ہوا اس کے لیے پھر سے امتحان بنا۔۔

"کیا تمہیں پتا ہے ہاشم کے تمہارے قریب آنے کا کیا مطلب تھا مالنی"

وہ آنکھوں میں نیند کا خمار لیے دیکھتی اسے مائل کر رہی تھی مگر وہ مائل نہیں ہوا، اس نے نرمی اور شدت دونوں کے سنگ بارہا اسکے ہونٹوں کے خاموش لفظ اپنی سماعت تک پہنچائے۔

اسے پتا تھا اس سب کا مطلب مگر وہ پھر بھی چپ رہی، اسکا مطلب تھا وہ اسکی ہو چکی ہے، اسکا مطلب تھا وہ اپنی نہیں رہی، اسکا مطلب تھا لامتناہی محبت، تحفظ ، احترام، اور یہ کہ وہ اس سے راضی ہے۔

"آپ جانتے ہیں کہ میں جانتی ہوں ماسکو"

اس نے بے اختیار زرا قریب ہوئے سانسوں کی تھکن مٹاتے ہوئے اس شخص کی دھڑکن روکی اور اس میٹھے لمحے وہ سرشار ہوا۔

"پھر یہ سن لو کہ مجھے اس لمحے تم سے مزید پیار ہو گیا، تمہیں کیا بتاوں کہ تمام حسیں مفلوج ہونے کے بعد بھی کتنی محبت سے سمیٹا ہے تم نے اس بکھرے شخص کو"

وہ مدہوش سا اس پر چھایا جابجا اپنے لمس کی مہک اسکے اندر اتارنے لگا اور وہ قبول کرتی رہی، پھر اسکے سینے سے ہتھیلی جوڑ کر اس نے یہ طلسم پاش پاش کیا۔

"آپ ظالم نہیں ہیں، آپ تو میرے سر کی چھاوں ہیں"

وہ رات کی بنسبت اب کھل کر اس پر اپنی خوشبو بکھیرنے لگی کہ بہت دن بعد صبح حسین تر ہوتی گئی۔

"I fell in love with the way you touched me."

اسکے ہونٹوں کے لمس اپنے کندھوں پر محسوس کیے وہ اس اظہار پر سانس روکے آنکھیں موند گئی۔

"The way you made me yours, I fell in love so intensely."

اسکا چہرہ اپنی بازو پر رکھے وہ اسکے گرد یوں نازک سا حصار باندھ گیا کہ اسکے ریشمی بال کچھ ہاشم کے چہرے اور کچھ سینے پر بکھرے۔

دونوں کی سانسوں میں اترتی مدہوش کن خوشبو ، انگلیوں کے نرم لمس، مدہوش سانسوں کی تپش سے جلتے خدوخال، اور دلکش سی اس دسترس کا سحر سر چڑھے بول اٹھا۔

"I am addicted to the way you comfort me."

اسکے جان لیوا اظہار یونہی جاری تھے اور طوفان برپا کرنے کی تیاری میں تھے جب دروازے پر ہوتی گستاخ دستک پر جہاں ہاشم نے اس مداخلت پر منہ بسورا وہیں وہ ہاشم کے پہلو سے اٹھنے پر قید سے رہائی ملتے ہی بھاگ نکلی جبکہ جناب اپنے موڈ کو برباد کرتے اس گستاخ بھتیجے کی اس سے پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر درگت بناتے، وہ جگے تھانیدار کی طرح دروازے میں جھولتا ہوا، ہاشم کو گہری نظروں میں لیے دیکھنے لگا۔

"خیریت ہے خرفاتی لاڈلے، خود تو بارہ ایک بجے نکلے تھے، میری باری نو بجے ہی آگئے سکون غارت کرنے، ٹھہر جا تیری گھستی ٹانگ مڑور لوں پہلے"

ہاشم پہلے ہی ریڈی تھا سو اب جب مالنی صاحبہ بھی دم دبا کر بھاگ نکلیں تو وہ بھی ضرار کا قیمہ کرنے پیچھے ہی دوڑا جو پہلے ہی چچا کے ہاتھوں سے بھاگ نکلا تھا۔

جبکہ بزدار حویلی کے تمام افراد مسکراتی صورتوں کے سنگ ناشتے کے لیے مہکتے خوشبو لٹاتے لوازمات سے بھرے ڈائنگ کے گرد جمع تھے اور ان ٹوم اینڈ جیڑی کی بھاگم دوڑ سبکو ہی ہنسا گئی، جبل اور اسکے پہلو میں مہکتی مسکراتی گل پر تو انتہا کا روپ آیا تھا۔

"اوئے میری زندگی کی کوتاہیو! انسان بنو"

بزدار عالم نے دونوں کو ڈائنگ کے گرد دوڑتا دیکھ کر عاجز آتے لتاڑا جس پر دونوں پہلے تو ایک دوسرے کو ہونق ہوتے دیکھ کر رکے پھر منصوعی مسکینی سے بزدار عالم کو دیکھا۔

"آپ اسے انسان بنائیں بابا سائیں، آپکی اس بڑی کوتاہی نے میرے ارمانوں پر رات جو سیلاب بہانے کی کوشش کی ہے ناں۔۔۔۔ اور میرے روم میں جو لال بیگ چھوڑے اس پر تو اسکی تشریف سیکوں گا"

ہاشم نے جیسے غرا کر واپس ضرار کے پیچھے دوڑ لگائی جبکہ ضرار نے آنکھ ونگ کرتے چچا جان کی پکڑ میں آتے ہی لمبی سی سانس لی اور اس کھولتے جن کے کان میں باقاعدہ گھسا۔

"وہ لال بیگ نہیں تھے یار، میری آہیں تھیں۔۔۔۔ لال بیگ کی شکل اختیار کر گئی ہوں گی۔۔۔اوئے کوئی مجھے اس جلاد ہاشم صاحب سے بچائے"

آخر کار مستیاں قہقہے تب بڑھے جب ہاشم نے اسے آخری جے کے سنگ چلانے پر ناصرف دبوچا بلکہ کان کے نیچے دو پھینکیں اور کمر میں دو مکے ٹھوکے مگر پھر دادا سائیں کی رعب دار گھوری پر سب ہی شریف بنے کرسیاں سنبھالے بیٹھے، جب مالنی آئی تبھی سب نے ناشتہ شروع کیا اور روپ تو اس آفت ناک حسینہ پر بھی رج کے آیا تھا۔

بزدار عالم نے سب بچوں پر مسکراتی نگاہ ثبت کی اور دل میں اس حویلی کے آباد ہو جانے پر اللہ کا شکر بجا لایا۔

چونکہ سبکے ولیمے میں آج ایک دن کا گیپ تھا سو سب کپلز کو فراغت اور آزادی دی گئی، وہیں کاشف نے شادی پر ولی اور ونیزے کو بھی ارجنٹلی بلایا تھا اور ولی کو انکار مناسب نہ لگا سو آج کا دن ان دو پیارے کپلز نے کاشف اور نازلی کے نام کرنا تھا۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Aatish E Junoon Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Aatish E Junoon  ritten by S Merwa Mirza .Aatish E Junoon  by S Merwa Mirza  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages