Ulfat E Ishq Junoon Ishq Season 2 By Zainab Rajpoot Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ulfat E Ishq Junoon Ishq Season 2 By Zainab Rajpoot Complete Romantic Novel |
Novel Name: Ulfat E Ishq Junoon Ishq Season 2
Writer Name: Zainab Rajpoot
Category: Complete Novel
"سڑک کے چاروں اور پھیلے گھپ اندھیرے میں سرسراتی جانوروں کی آوازیں ، آسمان پہ مدہم سے نظر آتے چاند کی روشنی میں ایک دم سے فضا کو چیرتی بائیک کی آواز فضا میں پھیلی خاموشی کو توڑتے ہر سوں پھیلی تھی۔ بائیک کو ریس دیے ڈرائیور نے ذرا سا نیچے کی جانب وہیلز کو کرتے بائیک کو ٹرن کیا تھا ، جبکہ سامنے ہی سر پہ بلیک ہڈ ڈالے ، پاؤں کو بھاری شوز میں مقید کیے، وہ مسکراتی نظروں سے اسکے سامنے ایک جانب رکا تھا۔
بائیک سوار نے اسکی جانب رخ کرتے بائیک کو ریس دی تھی جبکہ مقابل کی روشن آنکھیں اب پیچھے کھڑے گارڑز نے بیچ کھڑے آدمی پہ تھیں ۔۔ جس کے ایک ہاتھ میں ٹائم واچ تو ساتھ ہی منہ میں سیٹی دبائے ہوئے تھا ۔ سیکنڈز پورے ہوتے ہی سیٹی کی آواز سنائی دی تھی۔ "
جسکے ساتھ ہی ریس شروع ہوئی تھی۔ بائیک ڈرائیور نے ایک طرفہ مسکراتے اسکی جانب دیکھا ، مگر وہ ٹھٹھکا ضرور تھا اس کی طنزیہ مسکراہٹ وہ اسکے آدھے نظر آتے چہرے سے بھی اندازہ لگا سکتا تھا۔ مگر جلد ہی اسنے رخ سامنے کی جانب کیا تھا اور منٹوں میں اسے پیچھے چھوڑتا وہ ہوا سے باتیں کرتے بائیک کو بھگا لے گیا۔"
گارڈز نے حیرانی سے اسے دیکھا جو آیسے چک رہا تھا مانو یہاں پکنک انجوائے کرنے آیا تھا، مگر کسی میں بھی ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھتے کہ آخر کار وہ کیوں اپنا وقت ضائع کر رہا تھا،۔۔۔ ' ٹھیک تین منٹ بعد اسکی چوڑی پشت اب دور سے دھندلی نظر آ رہی تھی۔ اپنے ہاتھ میں پہنی واچ پہ سے وقت دیکھتے وہ ایک دم سے پھرتی سے بھاگا تھا۔۔۔
اسکے دونوں ہاتھ فضا میں بڑی تیزی سے آگے پیچھے گردش کر رہے تھے جبکہ سر پہ پہنے ہڈ اسکے یوں تیز رفتاری سے بھاگنے کی وجہ سے اب اسکے سر سے گرتے پیچھے اسکے کندھے پہ ڈھلکی ہوئی تھی ۔ سرخ و سفید رنگت میں ناک پہ چھائی سرخی ، گہرے سرمئی آنکھوں میں اب سامنے ہی اس بائیک اور ڈرائیور کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔
اسکے مغرور نقوش ایک دم سے اجڑ چکے تھے ، آنکھوں میں جیت کا جذبہ لیے وہ پھرتی سے آگے بڑھا تھا اور ہوا کے جھونکے کی مانند اسکے پاس سے گزرا تھا ، کہ مقابل جو اب بڑے آرام سے بائیں ہاتھ سگ بائیک ڈرائیو کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرنککر رہا تھا اس نے حیرت سے آنکھوں کو چھپکتے سامنے دیکھا جہاں وہ ہوا سے باتیں کرتا آگے بڑھا تھا،۔۔۔۔"
"کیا لگتا ہے کون جیتے گا، ایک گارڈ نے ماتھے پہ اتنی ٹھنڈ میں بھی چمکتے پسینے کے ننھے ننھے قطروں کو صاف کرتے دوسرے سے پوچھا تھا ، جس نے گھور کر اسے ایسے دیکھا جیسے جانے کیا غلط کہہ دیا تھا اس نے۔۔"
"تم نئے ہو بچے ورنہ کبھی یہ سوال ناں کرتے ، نخوت سے سر جھٹکتے مقابل نے اسکے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا تھا ۔ "
سہی کہا آج تک اس ریس میں "ایچ اے آر" سے کوئی جیت نہیں سکا اور مزے کی بات مقابل کبھی آج تک واپس اس راستے سے آتا دکھائی بھی نہیں دیا۔۔ اب کی بار جورڈن نے ببل چباتے اسے مزید خوفزدہ کیا تھا ، ۔۔۔
کک کیوں وو واپس کک کیوں نن نہیں آ سس سکا ۔۔"
" کیونکہ وہ ہار جاتا ہے اور ہارنے والے سے "ایچ اے آر" کو سخت نفرت ہے!"
" جورڈن نے سرگوشی نما بھاری آواز میں کہتے اسکی کان کے پاس پھونک ماری تھی ۔ کہ وہ ہڑبڑا اٹھا۔۔"
" جج جورڈن کک کیا پپ پتہ اس بب بار ، شیرڈن جیت جج جائے ، ایچ اے آر سے۔۔۔۔ اپنی آنکھوں میں آئے خوف کو چھپانے کی سعی کرتا وہ خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے بولا تھا ، جبکہ جورڈن نے قہقہ لگایا اس کی بات پر ۔۔ گارڈز سمیت سب نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔۔
تم بچے ابھی نئے ہو اس کھیل میں ، یہ کھیل نہیں یہ موت اور زندگی کی بازی ہے اور وہ دیکھو بھیڑیا۔۔۔۔اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھے وہ دوسری جانب بنے وننگ پوائنٹ کی جانب اشارہ کرتے بولا تھا ، جبکہ گارڈز نے ایک دم سے بائیک آن کرتے اس جانب روشنی پھیلائی تھی۔۔لارنس کی آنکھوں میں ایک دم سے خوف کے ساتھ حیرت کا تاثر تھا ، وہ مسلسل نفی میں سر ہلا رہا تھا ۔۔
جبکہ گارڈز نے زور شور سے ایچ اے آر۔۔۔۔ کا نام پکارتے سامنے سے مغرورانہ چال چلتے آتے ایچ اے آر کو دیکھا تھا، جس کا آدھا چہرہ اب دوبارہ سے ہڈ سے ڈھکا ہوا تھا۔۔
" ہر کھیل کے ختم ہونے پہ ایک نئے کھیل کی شروعات ہوتی ہے۔۔۔
And I am always want a new game with a new one to win the game in my style. "
"اسکی پراسرار سرد سی آواز پہ سب نے احتراماً نظریں جھکائی ، جبکہ جورڈن نے اس کے چہرے پہ فتح سے پھیلی معنی خیز سی مسکراہٹ کے ساتھ اسکے منہ سے نکلتے دھوئیں کو دیکھا تھا۔۔
آج کا یہ کھیل تم سب کے لئے ایک سبق ہے جو بھی اب یہاں سے میرے ساتھ چلے گا اسکی زندگی کی ساری ڈوریں ایچ اے آر "کے ہاتھ میں ہونگی ، اور جو یہاں سے واپس جانا چاہتا ہے تو اسکی زندگی کی ساری ڈوریں ایچ اے آر خود کاٹے گا۔۔۔ ہاتھ میں تھامے اپنے خون سے بھرے چھوٹے سے تیز دھار خنجر کو جورڈن کے جانب پھینکتے وہ دوبارہ سے اندھیروں میں گم ہوا تھا۔"
جبکہ جورڈن جانتا تھا آگے اسے کیا کرنا تھا۔
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
السلام علیکم! سیڑھیوں سے اترتے اپنی نرم میٹھی مگر مدہم سی آواز میں کچن میں داخل ہوتے محبت سے بولی تھی۔"
وعلیکم السلام،اٹھ گئی تم ۔۔۔۔۔ چائے کو کپ میں انڈیلتے وہ نرمی سے مسکراتے ہوئے بولی تھیں۔ کہ وہ مخض خاموش سی گہرہ سانس لے سکی۔۔
" آج کیا کوئی خاص بات ہے ماما ۔۔۔۔۔۔ انکے چہرے پہ پھیلی ہلکی سی مسکراہٹ کو دیکھ وہ خود بھی تو اندر تک مطمئن اور پرسکون ہوئی تھی۔ سر پر اوڑھا اپنا بلیک حجاب ٹھیک کرتے وہ یسری کو دیکھے گئی۔"
" ہمممم آج کچھ خاص بات ہے جبھی تو میں خوش ہوں، انکے لہجے کی مٹھاس ، وہ اپنے ہاتھ پہ دھرا انکا ہاتھ غور سے دیکھے گئی۔
" ماما آپ کیوں خود کو بار بار تھکاتی ہیں جب ہونا ہوا تو سب ہو جائے گا، اس طرح کب تک آپ خود کو اذیت دیں گی اور بابا بھی تو کتنے ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔۔ وہ جانتی تھی کہ ایک ماں اپنی بیٹی کے لئے پہلے دن سے فکر مند رہتی ہے۔ وہ ہر بار انہیں تسلیاں دیتی ، بہلاتی مگر کچھ دن کے بعد وہ پھر سے اسی ضد میں آ جاتی ۔۔۔
بیٹا تم آج جلدی واپس آ جانا ، حسن کو میں منا لوں گی۔۔ وہ نرمی سے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے ایک یقین سے بولی تھی،جیسے ڈر ہو کہ وہ انکار ناں کر دے۔ "
" کیا ہو گیا ہے آپ کو یسری۔۔۔۔۔۔ اچانک سے حسن کی ناگوار آواز انکی پشت سے ابھری تھی ، حیا نے نظریں اٹھائے اپنی بابا کو دیکھا ، جو گرے تھری پیس میں ملبوس ، آنکھوں پہ سفید نظر کا چشمہ جو اسکی وجاہت پہ خاصا سوٹ کرتا تھا ، ہلکی سے سفید ہوتی داڑھی کے ساتھ وہ بالکل اپنی جوانی کا عکس دکھتا تھا۔ "
" کیسی ہے میری پرنسز۔۔۔۔ حیا کے سہمے چہرے کو دیکھ وہ قدم قدم اٹھاتا آگے بڑھا تھا وہ بڑھتے اپنی جان سے عزیز بیٹی کے ماتھے پہ بوسہ دیتے وہ محبت سے ہمیشہ کی کہی بات دہراتے اسے دوبارہ سے کرسی پہ بٹھا گیا۔
یسری میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ اس بارے میں اب کوئی بھی زکر نہیں کریں گی ،مگر آپ جانے کیوں ہر دو دن بعد کسی ایرے غیرے کو بلا لیتی ہیں۔ حسن کے لہجے میں واضح ناپسندیدگی اور ناگواری تھی۔ یسری نے ہمشیہ کی طرح خاموشی سے جھکے سر سے اسکے آگے ناشتہ سرو کیا تھا،
حسن لڑکا آرمی میں ہے۔۔۔۔ انکے خاموش ہونے پہ ابکی یسری نے ایک اپنی سی کوشش کی۔ ۔۔ جبکہ حسن کی نظریں اپنے سامنے اپنی حیا پہ تھیں۔ جو خاموش بیٹھی ایسے ناشتے میں مگن تھی جیسے کسی اور کی بات ہو رہی ہو۔۔۔۔
" یسری آپ کو ۔۔۔۔۔
بابا وہ یسری کو دیکھ بات کاٹ گیا سخت لہجے میں ،جبکہ حیا نے ٹوکتے اسے باز کیا ۔۔۔
میں آ جاؤں گی آج جلدی ماما آپ پریشان ناں ہوں ۔۔۔ آنکھوں سے ہی حسن کو پرسکون رہنے کا اشارہ کرتی وہ میز پر سے اٹھی تھی ۔۔ اسکی دھیمی آواز میں کہی بات یسری نے ہاتھ اٹھائے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔۔۔۔
اگر ابکی بار میری بیٹی کا دل ٹوٹا ناں تو آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا میں ۔۔ مٹھی میں دبوچی چمچ کو وہ زور سے میز پہ پٹھکتے ہوئے اٹھا تھا۔۔۔ جبکہ یسری نے سرد آہ بھرتے آدھے چھوڑے ہوئے ناشتے کو دیکھا تھا۔
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" افففف۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے ناں کریں ناں۔۔۔۔۔"
اچانک سے کرٹن سرکنے سے چہرے پہ پڑتی روشنی پہ وہ منہ بسورتے بڑبڑائی تھی انداز خاصہ بچگانہ تھا ، جبکہ مقابل نے دانتوں تلے لب دبائے تھے اور دھیمے سے قدم اٹھائے وہ اسکے بیڈ کی دائیں جانب آئے جہاں وہ کروٹ لیے منہ بسورے لیٹی تھی ، جبکہ چہرے پہ بکھرتی سنہری سورج کی روشنی کی مانند دکھتی زلفیں آدھی بیڈ سے نیچے جھول رہی تھی۔۔ "
وہ دیکھتے افسوس سے نفی میں سر ہلا کے رہ گئے۔۔ "
" سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔ نرمی سے جھکتے وہ احتیاط سے اسکے بالوں کو اٹھاتے محبت سے بولے تھے جبکہ سامنے نیند میں غرق وجود کے لبوں پہ پھیلی خوبصورت سی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اسکی چھوٹی سی ناک سرخ ہوئی تھی ۔۔۔ جسے دیکھتے ہی وہ ہر بار کی طرح دل ہی دل میں اسکی نظر اتار چکے تھے۔۔۔۔"
" لگتا ہے میری سویٹ ہارٹ بھول گئی آج کیا دن ہے۔۔۔۔ ؟
اسے ہنوز مسکراتے لیٹا دیکھ وہ اب اسکے بیڈ پہ اسکے پاس بیٹھے تھے اسکے پھولے گال پل بھر میں سرخ ہوئے تھے جب اپنے ڈیڈ کا محبت بھرا لمس اپنے گالوں پہ محسوس ہوا ۔۔ "
" اوکے تو پھر آج آپ نے شوپنگ پہ بھی نہیں جانا ہو گا، اور ناں اپنے ہیرو کے گھر۔۔۔۔۔ پرسوچ انداز اپنائے وہ ایبرو اچکاتے بولتے ساتھ ہی اٹھا تھا مگر توقع کے مطابق اپنے ہاتھ کو اسکے چھوٹے سے ہاتھ کی گرفت میں دیکھ وہ لب دبائے مسکراہٹ روکنے کی سعی کرنے لگا ۔۔۔۔۔"
" نو ڈیڈا ،ایم ناٹ سلیپنگ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سے بیڈ پر سے اٹھتے وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی تھی جبکہ اسکی بات کے ساتھ حرکت پہ رافع قہقہہ لگا اٹھا تھا۔
" آئی نو سویٹی ، ۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے محبت سے بولا تھا، "
ڈیڈا وو وہ آپ نے ابھی بولا تھا ناں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔ وہ ہاتھ سے اسکے کوٹ کے بٹنوں سے کھیلنے لگی رافع مسکرایا یہ اسکی بچپن کی عادت تھی جو شاید فدک سے ملی تھی اسے ،۔۔۔۔ وہ ایسے ہی اپنی بات منوانے کے لئے ایسے حربے چلاتی تھی اپنے باپ کے سامنے۔۔۔۔۔"
" ہمممم۔ ، میں نے کہا تھا کہ آج ہم دونوں ابھی شاپنگ پہ جائیں گے ۔۔۔۔ "
اسکا کہنا تھا کہ عیناں نے آنکھیں پھیلائے اسے گھور کہ ناراضگی سے دیکھا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔"
" نو ڈیڈا آپ نے اور بھی کچھ کہا تھا ہم کہیں اور بھی جا رہے ہیں۔۔۔۔ ابکی بار اسکی کرسٹل گرے انکھوں میں خفگی دھر آئی تھی جبکہ ہلکی سے سرخ ہوتی ناک کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے وہ منہ موڑ گئی تھی۔۔۔ "
" اوکے سویٹ ہارٹ ہم دونوں جا رہے ہیں آپ کے ہیرو کے گھر۔۔۔۔ اوکے ۔۔ اسے یوں ہاتھ سے ناک رگڑتا دیکھ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ ناراضگی جتانے کا اسکا اپنا سا انداز تھا وہ فورا جیب سے رومال نکالتے اسکی ناک صاف کرتے بولا تھا،۔۔۔۔۔ جسکی آنکھیں یہ سنتے ہی چمک اٹھی تھیں۔۔۔۔ "
ویسے یہ بات بہت غلط ہے سویٹی۔۔۔۔
وہ سنتی فوراً سے کبرڈ میں گھسی تھی اور اپنے سوٹ دیکھنے لگی۔۔ جبکہ رافع نے دل سے افسوس جتایا تھا، ۔۔۔۔
کیا ہو گیا ڈیڈا۔۔۔۔ وہ سنتے فوراً سے مڑی تھی ایک ہاتھ میں بلیو پرننٹڈ شرٹ تھی اور دوسرے میں حجاب۔۔۔
آپ کے ڈیڈا کیا کسی ہیرو سے کم لگتے ہیں آپ کو جو آپ اس وریام کو ہیرو کہتی ہیں۔۔۔ اسے دل سے دکھ ہوتا تھا پہلے بیوی اور آب بیٹی دونوں اسکی فین تھیں۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا ۔۔ نو ڈیڈا یور آر مائی رئیل لائف اینجل۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے رافع کے گلے میں بازوؤں کا ہار ڈالتے اسکے گال پہ بوسہ دیتے اسے مطمئن کرنے لگی، ہمم؟ آئی نو آپ یہ مکھن لگانا بند کر دیں اب مجھے ،پہلے ہی ہم بہت لیٹ ہیں ، ۔۔ وہ مصنوئی غصے سے ناک چھڑہاتے ہوئے بولا تھا ، جبکہ عیناں اوکے کہتے اپنے کپڑے لئے واشروم میں بند ہوئی تھی۔۔۔۔"
رافع کی مسکراتی آنکھوں نے آخر تک اسکی پشت کو دیکھتے دل سے خوشی کی دعا دی تھی۔
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" دیکھ راستہ چھوڑ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔ "
اگر ناں چھوڑا تو کیا کر لے گا توں۔۔۔۔"
وہ مسلسل آدھے گھنٹے سے یونہی راستہ بلاک کئے کھڑے تھے ، اب تو کئی لوگ تھک کے اپنی گاڑیوں میں دوبارہ سے بند ہو چکے تھے ، جانے کہاں سے ایسے گنڈے موالی آئے دن آ جاتے تھے ،جو یونہی سڑکوں کے بیچوں بیچ راستہ روکے اپنے ساتھ دوسروں کو بھی خوب پریشان کرتے تھے۔"
"دیکھ بہت ہو گیا ، بند کر یہ تماشہ ۔۔۔ اگر تجھے کوئی بات کرنی ہے ناں تو کل یونی آ جانا وہاں بات ہو گی ۔۔۔"
" سیف نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے صلح جو انداز میں کہا تھا جبکہ مقابل کی سرخ غصے سے لبریز آنکھوں اسکے ہاتھ پہ تھیں۔۔۔
یونی تیرے جیسے بڈھے جاتے ہیں ، جو دس دس بار ایک ہی کلاس میں فیل ہوتے ہیں۔۔ اگر سچ میں توں شیر کا بچہ ہے تو ، آ جا یہیں مقابلہ کریں۔۔۔۔ اپنے گلے میں پہنی موٹی سی چین کو ہاتھ کے انگوٹھے سے گھماتے وہ ہاتھ پہ پہنے بریسلٹ کو پیچھے کرنے لگا تھا ۔
" تجھے کس بات کی تکلیف ہو رہی ہے اگر میں نے اسے کچھ کہا بھی، کونسا وہ تیری کچھ لگتی ہے ۔۔۔۔ "
اسکے بڑھتے قدم اپنی جانب اٹھتے دیکھ سیف نے دونوں ہاتھ اسکے سامنے کیے تھے۔ اسکی حرکت پہ مقابل نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھتے سر جھٹکا۔۔۔۔۔ "
ویسے ایک بات ہے وہ ہے تو بہت خوبصورت ، کیا کما۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دم سے اسکے الفاظ منہ میں دم توڑ چکے تھے ، پاس کھڑے لوگوں نے اچانک سے اس زمین پہ بے سودھ الٹے پڑے وجود کو دیکھتے منہ پہ ہاتھ رکھے حیرت سے مقابل کھڑے شخص ہو دیکھا ۔ جسکی آنکھوں سے ٹپکتی وخشت وہ سب دم سادھ کہ نظریں جھکائے کھڑے ہو گئے۔"
"اگر کسی نے بھی اسکی مدد کرنے یا پھر اسکے پاس انے کی کوشش کی تو اگلی بار وہ اپنی کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہے گا،۔۔۔۔۔ اس بلکتے وجود کو پاؤں سے ٹھوکر مارتے وہ تنفر سے کہتے آگے بڑھا تھا ۔۔
" یہ یہی سب کچھ تو ہو رہا ہے اب۔۔۔ ہر دوسرا امیر زادہ اٹھ کر ایسے ہی بے دھڑک غریبوں کو مارتے چلا جاتا ہے اور ہم سب کچھ نہیں کر سکتے۔۔ پاس کھڑے ایک ادھیڑ عمر شخص نے کہا تھا ۔۔ ویسے اسکی گاڑی کو دیکھ کر یہ کوئی غریب تو نہیں لگتا۔۔۔۔ دوسرے نے بھی رائے دہ تھی۔۔۔
ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا تھا جبکہ ایک کارنر میں کھڑے شخص نے چپکے سے وڈیو سیو کرتے بنا کسی کی نظر میں آئے فون جیب میں ڈالا تھا، وہ جانتا تھا کہ اب کون اسکی مدد کرے گا۔"
آستین سے ماتھے پہ آئے پیسنے کو صاف کرتے وہ آخری دم لیتے اس شخص کو دیکھ وہاں سے غائب ہوا تھا۔"
" ویسے یہ اچھا شوق اپنا لیا ہے تم نے۔۔۔۔۔ بائیک کو ریس دیتے مقابل کے بریسلیٹ سے مقید ہاتھ تھم چکے تھے ، ہینڈل پہ گرفت مضبوط کرتے وہ ضبط سے سرخ ہوئی اپنی شہد رنگ آنکھوں کو میچ گیا۔۔۔"
" ویسے کتنے پیسے ملتے ہیں تمہیں ہوں دوسروں کو بے دردی سے مارنے کے، اس بار خاصا جھبتا ہوا سا لہجا تھا وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے ، گردن موڑ گیا، سبیل میں اس وقت بات کرنے کے موڈ میں نہیں لِیو ناؤ۔۔۔۔ ضبط کے باوجود لہجہ سخت ہوا تھا جبکہ مقابل نے ائبرو اچکائی اس کے لہجے کے سخت پن پہ۔۔۔۔۔ "
" تم واقعی اب وہ نہیں رہے تم بدل چکے ہو، اور اچھا ہوا تمہاری یہ سائیڈ جلد میرے سامنے آ گئی۔۔ ورنہ دل میں جو پچھتاوا مجھے مار رہا تھا وہ کیسے ختم ہوتا۔۔۔۔ "
"سبیل کے لہجے میں دکھ ،کرب اور اذیت تھی کسی اپنے کے دور ہونے کی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا ناٹ دیٹ اگین سبیل ۔۔۔۔اب میں پچھتاوؤں میں نہیں جیتا۔۔۔ اچھا ہوا تم نے بھی چھوڑ دیا۔۔۔ اچھا چھوڑو، ان سب باتوں کو تم میرے بچپن کے یار ہو ، کبھی آنا بھاؤں کے گھر مل بیٹھ کر چائے پیئے گے۔۔ اسکی انکھوں میں سختی تھی جبکہ لہجہ طنزیہ۔۔ جسے سیف محسوس کر چکا تھا۔۔"
" جس دن توں راہ راست پہ آ گیا تو سب سے پہلے تجھے میں ہی ملوں گا یہ یاد رکھنا ام۔۔۔۔۔۔۔ "
" بکواس نہیں۔۔۔۔ ، ۔۔۔۔۔ بھاؤں بھاؤں نام ہے میرا ۔ آئندہ کے بعد کبھی میرا راستہ روکا ناں تو یہ سر دھڑ سے الگ کر دوں گا۔۔۔ ایک جھٹکے میں اسنے مقابل کو گریبان سے پکڑتے دور پٹکھا تھا جبکہ سبیل حیران نہیں تھا ہوا اسکے اس روپ سے۔۔۔
"وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھا تھا اسکی نم آنکھوں نے دور تک مقابل کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔ "
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" کہاں۔۔۔۔۔!" ایک دم سے کھینچنے پہ ایک چیخ اسکے منہ سے نکلتے ہوئے تھمی تھی۔وہ غصے سے اپنے سامنے کھڑے مسکراتی نظروں سے خود کو تکتے وریام کو گھورنے لگی تھی،"
" یہ کیا طریقہ ہے وریام ۔۔۔۔ ہٹئیے راستہ دیجئیے۔۔۔۔۔ وہ غصے سے منہ پھلائے اسے سائڈ کرنے لگی ، جبکہ وریام نے لب دانتوں تلے دبائے اسکے غصے سے بھرے چہرے کو دیکھ۔۔۔"
" اب کیا کر رہے ہیں آپ ۔۔۔ اسے کچھ پڑھتا دیکھ وہ اپنی کمر پہ مضبوطی سے بندھے اسکے ہاتھوں کو کھولتے جھنجھلائی تھی ۔ جبکہ وریام کی گرفت مضبوط تھی اور چہرے پہ ایک خوبصورت سی مسکان۔۔۔۔ "
" آیت الکرسی ۔۔ پڑھ رہا ہوں بیگم اپنی خفاظت کے لئے۔۔۔۔ وہ خود پہ پھونک مارتے اسے آگاہ کرتے دوبارہ سے سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔جبکہ نیناں نے ماتھے پہ بل ڈالے اسے دیکھا جو اب سنجیدہ شکل بنائے ہوئے تھا۔۔۔ "
" مجھے چھوڑیں وریام میں جانتی ہوں آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں مگر آج میں آپ کی کسی بات میں نہیں آنے والی۔۔۔۔۔ وہ سمجھتی فورا سے پڑپھڑائی تھی مگر مقابل بالکل پرسکون تھا جانتا جو تھا کہ یہ حصار توڑنا اسکے لئے ناممکن ہے ۔۔"
" آہ۔۔۔۔ کیا ہوا نین ۔۔۔ یار آر یو اوکے۔۔۔۔۔ اسکی درد سے نکلی چیخ پہ وریام نے بے ساختہ اپنا حصار توڑا تھا جلدی میں اسے یونہی سیڑھیوں پہ بٹھائے وہ متفکر سا اسکا چہرہ دیکھنے لگا تھا ۔۔ جو کسی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا جبکہ وریام کو لگا کہ شاید درد کی وجہ سے وہ سرخ پڑ رہی ہے ۔ وریام سر درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ "
" وہ معصومیت سے منہ بنائے اب اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے دبا رہی تھی۔۔۔ "
کتنی بار کہا ہے کہ اتنی ٹینشن مت لو مگر مجال ہے جو تمہاری سمجھ میں کچھ آئے۔۔ رکو میں میڈیسن لاتا ہوں ابھی ۔ وریام بڑبڑاتے اسے ہدایت دیتے سیڑھیوں سے اترا تھا جبکہ اسکے جاتے ہی نیناں کے چہرے پہ مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔
وہ فورا سے دوپٹہ ٹھیک سے لیتے اوپر بڑھی تھی ۔۔ ایک جھٹکے میں اسنے غصے سے دروازے کو دھڑام کی آواز سے کھولا تھا مگر بھلا ہو وریام کا جو اسنے دروازے کی آواز کا علاج کروا دیا تھا جبھی دروازہ بے آواز کھلا تھا ، نیناں نے اب کی بار غصے سے سامنے کی جانب دیکھا تھا ، ۔۔۔۔"
" حور۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سے بیڈ کے پاس پہنچی تھی اور کھینچتے اسکے منہ سے چادر ہٹائی تھی مگر ہمیشہ کی طرح اسکے سرخ و سفید پاؤں کو دیکھ وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتے پائنتی کی جانب گئی تھی۔۔۔ جہاں وہ منہ سے سوں سوں کی آوازیں نکالے مزے سے سو رہی تھی۔۔ اسکی نیند پہ نیناں عش عش کر اٹھی۔۔۔۔۔۔"
اگر تم دو منٹ میں ناں اٹھی ناں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا حور۔۔۔۔۔ نیناں نے اسے وارن کرتے اونچی آواز میں کہا تھا جبکہ ایک دم سے حور کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آئی ۔۔ وہ آنکھیں زور سے میچ گئئ۔۔۔
اللہ کس پر چلی گئی یہ لڑکی۔۔۔ اسکی نیند کی وجہ سے نیناں خاصی پریشان تھی اب بھی دن کے بارہ بج رہے تھے اور محترمہ نیند میں غرق تھی۔
۔۔بالکل اپنی موم پر گئی ہے میری پرنسز ۔۔۔۔ وریام کی مسکراتی آواز اسکے کانوں میں پڑی کہ وہ غصے سے مزید منہ پھلا گئئ۔۔۔۔ "
" وقت دیکھیں آپ، ناں ناشتہ کیا ہے میڈم نے ناں ہی کوئی اور کام اور بس نیند کی پڑی ہے اسے۔۔۔۔ وہ وریام کی جانب دیکھتے غصے سے اسے جتاتے ہوئے بولی تھی۔ جو اب حور کی جانب دیکھ رہا تھا اسکے اشارہ پہ وہ مسکراہٹ دبائے سر جھکا گیا تھا۔۔۔۔"
" گڈ مارننگ موم ۔۔ ایک دم سے پیچھے سے اسنے حصار میں لیتے نیناں کے دائیں گال پہ بوسہ دیا تھا نیناں نے خفگی سے وریام کو دیکھا جو اب کندھے اچکا گیا۔۔۔ "
حور یہ کونسا وقت ہے جاگنے کا ، تم جانتی ہیں کتنے کام ہیں اور ایک تم ہو ۔ اٹھنے کا نام نہیں لیتی،۔۔۔۔ نیناں نے اسے ڈانٹتے اپنے سامنے کیا تھا جو اب وریام کی جانب جاتے اسکے سینے سے چپک چکی تھی ۔"
ڈیڈ سیو می۔۔۔۔۔ وریام کے گال پہ بوسہ دیتے وہ معصومیت سے بولی کہ وریام نے پرزور قہقہہ لگایا تھا۔۔۔۔۔
نیناں نیچے چلو مجھے کافی بنا کر دو اور پرنسز آپ جلدی سے چینج کرتے نیچے ائیں۔۔۔ وریام نے اسکے چہرہ ہاتھوں میں بھرتے اپنے سامنے کیا تھا اور مسکراتے اسکی گہری کالی آنکھوں پہ بوسہ دئیے وہ اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے بولا۔۔"
" نو آپ کی کافی بعد میں ، آج میں پہلے حور کو کچھ کوکنگ سکھاؤں گی ۔۔ نیناں نے آج ٹھان رکھا تھا وہ بس کسی طور حور کو گھر کے کاموں کا ماسٹر کرنا چاہتی تھی وہ چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی ہر کام کرنا جانے مگر ہر بار وریام اسے بچا لے جاتا تھا۔۔"
" ڈیڈ۔۔ ۔۔ حور نے سہمی نظروں سے وریام کو دیکھا تھا ۔
حور آپ نے صبح کی نماز پڑھی تھا پرنسز ۔۔ ابکی بار وریام نے بات بدلی تھی وہ اپنی بیٹی کی آنکھوں میں نمی نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔
یس ڈیڈ ۔۔۔۔ حور نے زور سے سر ہاں میں ہلایا تھا جیسے نیناں کو یقین دہانی کروائی ہو ، اور آپکو پتہ ہے آج فدک پھپھو کی سالگرہ ہے۔۔ تو کیا اپ نے انکے کئے گفٹ خریدا۔۔ وہ جان بوجھ کر نیناں کو الجھا رہا تھا ۔۔ وہ جانتا تھا اپنے نین کو ہینڈل کرنا ، مگر اس وقت اسے اپنی پرنسز کو سیو کرنا تھا۔۔"
یس ڈیڈ مجھے عیناں نے کل ہی بتایا تھا اور میں نے پہلے سے ہی کے کیا گفٹ ، وہ چہکتے ایک دم سے اپنے بالوں کو سائیڈ کرتے بولی تھی جبکہ وریام نے مسکراہٹ دبائے نیناں کو دیکھا جو کافی متفکر سی لگی اسے۔۔۔"
" کہاں ہوا نین ، آر یو اوکے۔۔۔۔ اسکی پریشان چہرے کو دیکھتے وہ مسکراہٹ دبا گیا ۔ اور فکر مندی سے اسے بیڈ پہ بٹھائے وہ حور کو اشارے کرتا وہاں سے بھگا چکا تھا۔۔"
وریام میں نے تو کچھ گفٹ بھی نہیں لیا اللہ ، اور آج رات کو انوائیٹ بھی کیا ہے رافع بھائی نے۔۔۔ وہ ماتھے پہ ہاتھ رکھتے پریشان ہوئی تھی ۔
ڈونٹ وری میری جان ۔۔۔ ہم ابھی چلتے ہیں اور جلدی سے گفٹ لے لیں گے ۔۔ ۔
اسکے ہاتھوں کو تھامتے وہ محبت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا ، جبکہ نیناں نے شکر بھری نگاہوں سے اسے مسکراتے دیکھا تھا۔۔ جبکہ وریام خوش تھا آخر اپنی پرنسز کو بچا لیا تھا اس نے۔۔ اسکی ہٹلر ماں سے۔۔۔۔
" ویٹ کہاں جا رہے ہو۔۔۔ ۔۔۔"
رات کے آخری پہر اسے یوں شرٹ لیس ، بکھرے حلیے میں روم سے نکلتا دیکھ وہ مگ کو مضبوطی سے اپنے بائیں ہاتھ میں تھامے آگے بڑھی تھی۔ "
" ڈونٹ یُو ڈئیر۔۔۔۔۔ مائنڈ جور اوئن بسنز۔۔۔۔۔۔ " کرخت لہجے میں وہ بنا بے زاریت چھپائے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اسے وارن کرتے ہوئے بولا تھا ۔
جو اب چلتی اسکے سامنے کھڑی تھی۔
قطار میں بنے رومز کے بند دروازوں پہ ایک نظر دوڑائے وہ ہونٹوں کو ٹرن کرتے گردن ہاں میں ہلاتے گویا ہوئئ۔۔
آئی نو یُو ڈونٹ لائک مائی انٹرفیئرنس بٹ ڈونٹ فارگٹ اٹس مائین ورک۔۔۔ وہ جھکتے رازداری سے اسکی جانب سر جھکائے ایک ادا سے بولی تھی کہ مقابل نے ہاتھوں کی مٹیھاں بھینجتے اسے خونخوار نظروں سے گھورا۔۔۔"
" اگر تم نے ایک قدم بھی باہر نکالا تو پھر یہ رات آخری رات ہو گی تمہاری یہاں پر۔۔۔۔ پھر تمہاری اتنے سالوں کی محنت مٹی میں مل گی ۔ اینڈ آئی وان مائی ٹاسک۔۔ وہ صاف اسے چلینج کر رہی تھی اسکے الفاظ اسکا لہجہ ہمیشہ کے جیسے اجنبی تھا ، اسکی بات پہ مقابل کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ گہری ہوئی تھی جسکے ساتھ ہی اسکے گالوں پہ نمایاں ہوتے گڑھوں کو دیکھ وہ غصے سے سر جھٹک گئی ۔ اٹینشن سیکر۔۔۔۔۔ وہ گردن پہ ہاتھ گھماتے منہ ہی منہ میں بڑںڑائی تھی جبکہ وہ چلتا خود سے چار قدموں کے فاصلے پہ کھڑی الایہ کے سامنے آیا تھا۔۔"
" ڈونٹ وری مس آفت۔۔۔۔۔ ابھی اتنے برے دن نہیں آئے وی کے ۔۔۔۔۔ کے وہ قائروں کی طرح سے چھپ کے جائے گا، ویسے بھی جو روح میں بستے ہوں انہیں دیکھنے کیلئے ان آنکھوں کی نہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔"
" اسکے ناتواں کاندھوں پہ ہاتھ رکھتے وہ طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے ہوئے بولا تھا جبکہ الایہ کا چہرہ دھواں دھواں تھا۔
ایک اور بات اگر میں چاہوں تو مجھے تم کیا اس دنیا کی کوئی بھی طاقت اس سے ملنے سے روک نہیں سکتی ، یو نو ناں پہلے ہی ایک بار ہار چکی ہو مجھ سے ۔۔ کیوں بار بار لڑنے آ جاتی ہو،۔۔۔ وہ دھیمے سے لہجے میں اسکے زخموں پہ نمک چھڑک رہا تھا کہ الایہ نے غصے سے اسے دیکھ دانت پیسے تھے ۔"
" تمہاری بھول ہے کہ تم جیت گئے ہو ویام کاظمی ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ میں تمہیں کبھی بھی تمھیں جیتنےنھیں دینے والی، ابکی بار اسنے مقابل کھڑے ہوتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ایک عزم سے کہا تھا ، جبکہ مقابل یونہی خاموش کھڑا تھا مگر اسکی بھوری آنکھوں میں نظر آتے ہمدردی ترس کے تاثرات الایہ کو مزید آگ لگا گئے۔۔۔"
" تم ابھی تک یہ سوچ رہی ہو کہ تم مجھے جیتنے نہیں دینے والی مگر میں ایک بات کہوں میں تو بہت پہلے جیت گیا ہوں تم سے۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔ اور تم تم کچھ نہیں کر سکی مس آفت۔۔۔ یخ بستہ ٹھنڈے موسم میں اپنی ہی کہی بات اسکی آنکھیں ایک دم سے عجیب سے انوکھے تاثرات سے چمک اٹھیں تھیں۔ سرخ و سفید چہرہ پل بھر میں لہو مانند ہوا تھا ، وہ بنا وقت ضائع کیے اسکے کندھے سے اپنا باززوں ٹکراتے وہاں سے اندر اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔"
" جبکہ پیچھے وہ اکیلی اسکی باتوں پہ ہمشیہ کی طرح اپنا خون جلاتی کڑھتے ہاتھ میں تھامے کافی کے مگ کو ایک دم سے پٹھک چکی تھی ۔
آئی ول سی یو ویام کاظمی۔۔۔۔ وہ غصے سے خود سے بڑبڑاتے اپنے روم کی جانب بڑھی تھی۔
کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔" اپنے ہاتھ پہ ننھا سا لمس پاتے ہی وہ جو غصے سے ناراض سا چہرے پہ تکیہ رکھے آدھا بیڈ سے نیچے تو آدھا بیڈ پہ الٹا ترچھا لیٹا ہوا تھا ، وہ جھٹ سے تکیہ ہٹائے یونہی لیٹا سر اٹھائے سامنے دیکھنے لگا ۔۔ جہاں وہ ہمیشہ کی طرح بنا اسکے غصے کی پرواہ کیے اسکے دائیں جانب گودی بنائے بیٹھی اپنے گولڈن سنہری بالوں کی دو چٹیاں بنائے پھولے پھولے سفید گال ، کرسٹل گرے انکھوں میں اداسی اور فکر سموئے ، ایک دم سے اسکا سانس روک گئی تھی ۔۔
جب اسکا چھوٹا سا ہاتھ ویام کے ماتھے پہ تھا ، بخار تو نہیں ۔۔۔ منہ بنائے وہ کسی سنجیدہ ڈاکٹر کی طرح بولی تھی جبکہ مقابل کا دھیان اسکی ہلتی پونیوں میں مقید سنہری بالوں پہ تھا۔۔
مجھے فلحال کسی سے بھی بات نہیں کرنی تم جاؤ یہاں سے۔۔۔ ایک دم سے اسے رافع کی کہی بات یاد آئی تھی ، وہ فورا سے اپنے دل پہ پتھر رکھے سختی سے بولا تھا جبکہ دروازے کے باہر کھڑے دو پریشان سے وجودوں نے ناکامی دیکھ افسوس سے سر ہلایا یعنی اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔ "
" تم ناراض ہو مجھ سے ۔۔ ایک دم سے اسکے سخت ہوئے لہجے کو محسوس کرتی وہ معصوم سی فورا سے پانی بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے تصدیق چاہنے لگی۔ ویام کے سینے کے اندر موجود دل زور سے ہھڑپھڑانے لگا مگر وہ ایک نظر اپنے سامنے بیٹھی پانچ سالہ عیناں کو دیکھتا فورا سے اگنور کیے اٹھا تھا۔"
"ہم جلدی واپس آ جائیں گے پرامش۔۔۔۔۔۔۔ وہ بمشکل سے اسکے بڑے سے ہاتھ کو تھامتے صلح جو انداز میں بولی تھی ۔
ڈونٹ وری وہ منا لے گی۔۔حرمین نے ایک نظر متفکر سے کھڑے انزِک کو دیکھتے کہا تھا جو خود بھی یوں پاکستان اچانک جانے پہ افسردہ سا تھا ۔ یہاں پہ سب تھے اسکے اپنے ۔ وہ اور عیناں کتنے خوش تھے یہاں ، ویام کتنا اچھے سے خیال رکھتا تھا دونوں کا ، بھائی نہیں مانے گے میں جانتا ہوں۔۔۔ انزِک نے سر جھٹکتے کہا تھا ، اسے دل سے دکھ ہوا تھا ویام کے ناراض ہونے سے۔۔ وہ بڑا تھا ان سب کا ، وہ سب اپنی ہر پریشانی ہر بات اسی سے تو شئیر کرتے تھے جو خود چودہ سال کی عمر میں ہی ان سب کا مخافظ بنا تھا ۔۔۔۔۔ "
" عین گو بے بی آئی ڈونٹ وانٹ ٹو ہرٹ یو۔۔۔۔۔۔ " کبڑڈ سے نکالی اپنی شرٹ کو وہ صوفے پہ پھینکتے قدرے مدہم آواز میں بولا تھا ۔۔ عیناں نے بیڈ پہ کھڑے ہوتے انگلی منہ میں ڈالتے اسے غصے سے گھورا تھا ۔۔۔ اور ون ٹو تھری۔۔۔۔ سٹارٹ۔۔۔ اور اب عیناں نے اپنا فیورٹ کام سٹارٹ کر دیا تھا ، اسکے رونے پہ ویام دوڑتا بیڈ پہ اسکے پاس آیا تھا ۔۔ اور نرمی سے اسے پکڑتے اپنے سامنے بٹھایا۔۔۔۔
ہیے کیا ہوا عین پلیز ڈونٹ کرائی۔۔۔۔۔ اسکے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں بھرے وہ بے بسی سے بولتے اسکے آنسوں صاف کرنے لگا۔۔ جو اب اسکی کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔"
" تو تم تاراض مت ہو ناں۔۔۔۔۔ وہ پھر سے اپنے مطالبے پر آئی تھی ، کہ ویام نے سرد سی آہ خارج کرتے آنکھیں میچیں۔۔۔۔
اوکے میں اب ناراض نہیں ہوں اوکے۔۔۔۔ وہ بے بسی سے ہتھیار ڈالتے بولا تھا۔۔۔ انزِک اور حرمین نے خوشی سے ہائے فائی کی ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔۔"
"
لیکن تم کہیں نہیں جاؤ گی۔ بلکہ تم میرے پاس رہو گی۔ " وہ مسکراتے اسکے بالوں کو ٹھیک کرنے لگا جبکہ عیناں نے گردن گھمائے دروازے کی جانب دیکھا تھاجہاں وہ دونوں افسوس کرتے واپس جا چکے تھے یہ تو طے تھا کہ وہ عیناں کو جانے نہیں دے گا۔۔"
"مجھے مما کے بغیر نیندی نہیں آتی ، کچھ پل سوچتے وہ اپنا سب سے بڑا مسئلہ اسکو سامنے بیان کرنے لگی ۔
ڈونٹ وری ، تم نین کے پاس سو جانا۔۔۔۔۔
میں مما سے پوچھ کے آتی ہوں ۔۔۔۔۔ وہ فورا سے کہتے باہر کو بھاگی تھی، عین۔۔۔۔۔
ایک دم سے وہ پسینے سے شرابور چیختے دھڑکتے دل سے اٹھا تھا ، بے چینی سے اپنے آگے پیچھے ہاتھ پھیرتے وہ اسے ڈھونڈنے لگا تھا۔ عین ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ خواب تھا ہاں خواب ہی تھا اسکا آج یوں اتنے عرصے بعد وہ مزید بے چین ہوا تھا ۔
" وہ بے چینی سے ایک دم سے اٹھا تھا بیڈ میز ہر چیز وہ اتھل پتھل کرتے ایک دم سے موبائل کو دراز سے نکالتے کھڑکی کے سامنے جاتے موبائل کو انلاک کر چکا تھا۔۔۔ کچھ کوڈز ڈائل کرتے اسکرین پہ ایک جگہ نیم تاریکی میں ڈوبا کمرہ دکھائی دیا تھا وہ جو تیز ہوتی سانسوں کے ساتھ پوری طرح سے موبائل کی جانب متوجہ تھا ایک دم سے وہ مزید بے چین ہوا تھا۔۔ "
" ان ساڑھے تین سالوں میں آج پہلی بار اسنے خود سے بغاوت کی تھی، اپنے سامنے اسے دیکھنے کی حسرت کے آگے ہتھیار ڈالے وہ آج خود سے کیے اپنے وعدے سے مُکر چکا تھا مگر پھر بھی شاید قسمت کو بھی اسکا دیدار ہونا منظور نہیں تھا جبھی وہ سخت غصے میں فون پیچھے بیڈ کی جانب پھینک چکا تھا۔۔
" ایک ایک پل اسپہ بھاری تھا ، وہ جانتا تھا جلد ہی وہ واپس جائے گا کامیاب ہوتے اپنے خواب کو پورا کرتے مگر تب تک یہ دن جانے کیسے کٹنے تھے۔۔۔ سرد آہ خارج کرتے وہ آنکھیں موند گیا ۔
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" اسلام علیکم موم۔۔۔۔۔۔ کوٹ کے بٹن بند کرتے وہ جلدی میں سیڑھیاں اترتے محبت سے اپنی موم کو کام میں مگن دیکھ وہ آگے بڑھا تھا اور نرمی سے انکی پیشانی پہ بوسہ دیے وہ ہاتھ پکڑتے انہیں ڈائننگ چئیر پہ بٹھا چکا تھا۔۔"
انز (انزِک) میری جان کیا ہوا بیٹا کچھ چاہیے ۔۔۔ " فدک نے الجھی نظروں سے اپنے سوبر سے معصوم بیٹے کو دل کی دل میں سراہتے نظریں چرائیں تھی کہ کہیں میری ہی نظر ناں لگ جائے۔۔
فلحال کچھ نہیں چاہیے ۔ ہمیشہ کی طرح محبت سے بھرپور شگفتگی سے جواب دیتے وہ انکے سامنے چئیر گھیسٹتے بیٹھا تھا ۔۔ اور نرمی سے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں۔ تھاما۔"
ڈیڈ اور چھوٹی کہاں ہیں ۔۔ فدک کی نظروں سے الجھتے وہ رافع اور عیناں کا پوچھنے لگا ۔
شاپنگ پہ گئے ہیں دونوں باپ بیٹی میری تو کوئی سنتا ہی نہیں۔۔ منع بھی کیا ہے کہ اتنی صبح صبح ناں جائیں ، مگر خیر چھوڑو تم بیٹھو میں ناشتہ لگاتی ہوں اپنے بیٹے کیلئے ۔۔۔ وہ نرمی سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے اٹھنے لگی تھی کہ انزِک نے ہاتھ تھامے اسے دوبارہ سے بٹھایا۔۔۔
کیا ہوا بیٹا تم ٹھیک ہو،۔ ۔۔۔ اسے یوں گھٹنوں کے بل اپنے پاس بیٹھتا دیکھ ابکی بار سچ میں فدک کو پریشانی لاحق ہوئی تھی۔
ہیپی برتھڈے موم۔۔۔ اپنی موم کے دائیں ہاتھ کو تھامتے وہ محبت سے اسکی پشت پہ بوسہ دیتے آنکھیں موندے بولا تھا جبکہ فدک کی آنکھوں میں ایک دم سے خوشی کی چمک کے ساتھ نمی سی تیری تھی۔
میں جانتا ہوں ، وہ دونوں ضرور کوئی پلان بنا رہے ہونگے اور اسی وجہ سے وہ شاپنگ پہ گئے ہیں اور ہر بار کی طرح مجھے بار بار نصیحت بھی کی ہے کہ اس بار آپ کو وِش کرتے انکا سرپرائز سپوئل ناں کروں مگر میں ایسا نہیں کر سکتا آپ جانتی ہیں۔٫
وہ نظریں جھکائے چہرے پہ ایک مدہم سی مسکان سجائے بولا تھا جبکہ فدک نے ممتا سے لبریز خوشی سے اپنے بیٹے کی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
میرے لیے کسی بھی سرپرائز سے بڑا سرپرائز یہی ہے میرے چاند۔ تم جب بھی ہر سال مجھے وش کرتے ہو تو جو خوشی مجھے ملتی ہے یقین جانو وہ کسی بھی سرپرائز سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی ہے ۔۔۔
وہ جانتی تھی اسکے بیٹے کو دکھاوا بناوٹ ایسا کوئی بھی کام بالکل پسند نہیں۔ ، ہاں وہ تھوڑا سا الگ تھا جس عمر میں لڑکے گرل فرینڈز بناتے تھے پارٹیز کرتے تھے اس عمر میں وہ اپنے ڈیڈ کے ساتھ بزنس مینج کر رہا تھا، وہ کم گو ضرور تھا مگر لاپرواہ نہیں۔
وہ ہر کسی سے زیادہ گھلتا ملتا نہیں تھا اپنے آپ میں ہی رہنا پسند کرتا تھا مگر اکثر اسکی سوبر سے طبیعت کی وجہ سے اکثر رافع اور فدک کافی پریشان جاتے تھے۔ اجکل کے دور میں اس کے جیسے سادہ لوگ بہت مشکل سے سروائیو کر پاتے ہیں۔"
" گفٹ ابھی نہیں دے سکتا وہ سب کے ساتھ ہی دونگا کیونکہ اگر چھوٹی کو معلوم پڑا ناں تو سچ میں گنجا کر دے گی ۔ہاہاہا ۔۔۔۔ وہ کہتے پرزور قہقہ لگا اٹھا۔۔
میرا سب سے بڑا تختفامیری اولاد ہے میرا بیٹا ہے، جانے میرے رب کو کونسی ادا پسند آ گئی جو مجھے ایسا سمجھدار بیٹا عطا کر دیا۔۔۔
فدک نے محبت سے اپنے عزیز از جان بیٹے کو دیکھتے دل ہی دل میں دہرایا تھا ۔۔'
تم کہاں جا رہے ہو انز۔۔۔۔ اسے اٹھتا دیکھ ابکی بار وہ پریشان ہوئی تھی ، ناشتہ بھی نہیں تھا کیا اور ایسے ہی جا رہا تھا وہ۔۔۔۔
موم میٹنگ ہے آج جانا ضروری ہے۔ بٹ ڈونٹ وری جلدی آ جاؤں گا۔۔ مسکراتے وہ فدک کے بولنے سے پہلے ہی اسے گاہ کر چکا تھا ، جو اب خاموش سی ہوتے رہ گئی تھی اسکی بات پہ ۔۔"
" اللہ خافظ موم ۔۔۔۔۔ خیال رکھیے گا اپنا۔۔۔۔ فدک کے اداس چہرے کو دیکھ وہ جھکتے محبت سے اپنی موم کی پیشانی پہ بوسہ دئیے باہر کو بڑھا تھا۔
فدک کی نم آنکھوں نے باہر تک اسکی پشت کو دیکھا تھا۔ جو اب منظر سے غائب ہو چکا تھا ۔
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<۔ >.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
"بیٹا کیا عمر ہے آپ کی۔۔۔ " چائے کا کپ لیتے وہ سامنے خاموش نظریں جھکائے بیٹھی حیا سے مخاطب تھی۔
جی پچیس کی ہونے والی ہے اس سال ۔۔۔ حیا کے بولنے سے پہلے ہی یسری نے بات کاٹتے ہوئے کہا تھا جبکہ حیا نے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھا جو اب اتنے بڑے جھوٹ کے بعد اسے التجائی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔"
" نہیں آنٹی میں اٹھائیس سال کی ہونے والی ہوں اس سال ، اور معاف کیجئے گا میری ماما نے اس وجہ سے میری عمر کم بتائی کہ شاید آپ سن کے رشتہ توڑ دیں گے۔ مگر میں نہیں چاہتی کہ میں اپنی زندگی میں کسی بھی نئے رشتے کی بنیاد جھوٹ پہ رکھوں ۔"
" ایک دم سے ہال میں پنِ ڈراپ خاموشی چھا چکی تھی ۔
سامنے صوفے کے وسط پہ بیٹھی ایک ادھیڑ عمر نفیس سی عورت نے اپنے ساتھ بیٹھی اپنی بیٹی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے انہیں بولنے سے باز رکھا تھا۔ یسری نے شرمندگی کے احساس سے ایک دم سے نظریں چرائیں تھی جبکہ حیا ایک دم پرسکون تھی ، اسے اپنے رب پہ بھروسہ تھا ۔ تو پھر وہ کیوں پریشان ہوتی ۔"
"بیٹا بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے ہم سے کوئی جھوٹ نہیں بولا ،اور ماشاءاللہ آپ کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی ۔۔۔ میں ایسی ہی لڑکی اپنے بیٹے کے لئے چاہتی ہوں جو دل کی صاف اور کھری ہو ،۔۔۔ اور آپ کی عمر سے مجھے ایشو نہیں ہے ،۔۔۔ ویسے بھی تو میرا بیٹا بھی بتیس کا ہونے والا ہے ماشاءاللہ سے۔۔۔۔ "
" حیا کے سر پہ ہاتھ رکھے وہ مسکراتے لہجے میں بولی تھی جبکہ یسری نے کب سے اپنا روکا ہوا سانس بحال کیا تھا۔ وہ تو شکر تھا کہ ابھی تک حسن نہیں تھا آیا ورنہ شاید اس جھوٹ کا نتیجہ بھیانک نکلتا۔"
" بھائی ہمیں تو ہماری بیٹی بہت پسند آئی اب اگر بھائی صاحب آ جاتے تو ہم مزید اچھے سے بات کر لیتے ۔ "
" علینہ بیگم نے سرشاری سے چہکتے ہوا کہا تھا انہیں اپنے بیٹے کیلئے حیا بالکل پرفیکٹ لگی تھی جیسے وہ چاہتی تھی وہیں خوبیاں موجود تھیں اس میں ۔"
" جی یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو میری حیا بہت پسند آئی۔۔ لیجئے حسن بھی آ گئے ۔۔ یسری نے مسکراتے ایک دم سے ہال میں داخل ہوتے حسن کو دیکھ کہا تھا جبکہ حیا اپنے بابا کو دیکھتے فورا سے اٹھی تھی اور جھٹ سے غائب ہوئی تھی۔۔"
" میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں امید ہے آپ لوگ برا نہیں منائیں گے۔۔۔
سلام دعا کے بعد حسن نے وہی بات دہرائی تھی جس کا یسری کا ڈر تھا وہ لاکھ نفی کرتی رہی مگر حسن نے بالآخر اپنی بات شروع کی تھی۔
جی بھائی صاحب آپ پوچھ سکتے ہیں اس میں کوئی ایشو نہیں ہے۔ علینہ بیگم نے مسکراتے اسے گویا اجازت دی تھی ، جبکہ عائشہ نے نخوت سے سر جھٹکا ، اسے یقین نہیں تھا کہ اسکی بہن اتنی جلدی حامی بھر دے گی رشتے کے لئے۔"
"کیا آپ لوگوں نے ہمارے گھر رشتہ لانے سے پہلے ساری چھان بین کروائی تھی۔ حسن نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا جبکہ لہجہ نرم ہی تھا۔
جی بھائی آپ پریشان ناں ہوں ہمیں آپ کی بیٹی بہت پسند ہے اور ہم نے ساری چھان بین کروائی ہے ، ویسے بھی جو باتیں لوگ بنائیں ان پر مجھے اور میرے بیٹے دونوں کو یقین نہیں ہے۔ آپ ہماری طرف سے ہاں ہی سمجھیں۔ "
علینہ بیگم نے گویا اپنی جانب سے انہیں مکمل رضامندی دے دی تھی۔ جبکہ حسن نے ماتھے پہ بل ڈالے انہیں دیکھا۔
آپ کے شوہر اگر آ جاتے۔۔۔ اسے مناسب ناں لگا ایسے کسی عورت سے بات کرنا ۔۔
جی وہ ایک آرمی آفیسر تھے ، ابھی وفات پا چکے ہیں۔ اور میرا ایک ہی بیٹا ہے جو کہ آرمی ہے ۔میں نے ہی اسے ماں اور باپ بن کے پالا ہے آپ مجھ سے بات کر سکتے ہیں ۔۔۔
سن کے افسوس ہوا مجھے۔۔۔حسن نے دکھ سے کہا تھا ۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک بار اگر آپ کا بیٹا آ جائے ہم آمنے سامنے بات بھی کر لیں اور اس کے علاؤہ میں ایک بار اپنی جانب سے ساری تسلی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ جھوٹ یا ڈھکے چھپے بات کا قائل نہیں تھا آگے ہی زندگی میں جھوٹ نے اسے بہت سی مشکلات دکھائی تھی وہ مزید کچھ نیا نہیں چاہتا تھا۔۔"
آپ بے فکر ہو کر اپنی تسلی کریں اور اس ہفتے میرا واجد آ رہا ہے تو آپ کی ملاقات کروا دوں گی۔ وہ جانتی تھی کہ حسن ضرور کچھ بات کرنا چاہ رہے تھا مگر وہ مطمئن تھی اپنے بیٹے کی جانب سے بھی ۔۔۔ "
"شکریہ بہن جی ۔۔۔۔ آپ بیٹھیں میں آتا ہوں ذرا۔۔۔ بظاہر وہ بے تاثر لہجے میں کہتا وہاں سے اٹھا تھا مگر وہ کتنا پرسکون ہوا تھا یہ تو اس کا دل جانتا تھا ۔۔۔ اسکی دعا رنگ لے آئی تھی اسے یقین تھا کہ اسکی بیٹی کے نصیب میں ضرور کوئی ایسا ہمسفر لکھا ہے اسکے رب نے ۔۔ جو بنا سوال و جواب کے اسے اسکی خامیوں خوبیوں سمیت اپنائے گا ۔اسے اس کے ماں باپ کے ماضی کے طعنے کبھی نہیں دے گا ۔۔ "...
" وہ گہری سانس فضا کے سپرد کرتے آنکھیں موندے کھولتے اوپر اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" پانی لا۔۔۔۔" جھٹکے سے دروازہ کھولتے وہ گیٹ سے اندر کی جانب بڑھا تھا۔۔ اسے آتا دیکھ ایک دم سے بھاگتے سب نے کھڑکیوں کو بند کیا تھا اور جو نیچے موجود تھے وہ بظاہر اپنے کام میں مشغول تھے مگر انکی آنکھیں بھاؤں کی ایک ایک حرکت پہ تھیں۔"
وہ آگے بڑھتے پاس الٹی پڑی کرسی کو ٹھوکر مارتے دور پٹھک چکا تھا۔۔ اور ایک جانب پڑی اپنی سکرولنگ چئیر پہ بیٹھتے وہ جھولتے اوپر کی جانب دیکھ رہا تھا جہاں سے اسے سارے گھر باقاعدہ نظر آ رہے تھے۔"
" سلام بھاؤں پانی۔۔۔۔۔ " اچانک سے وہ پھرتی سے ایک جانب جانے کہاں سے نمودار ہوا تھا ۔ اور دوڑتے سٹیل کے چمکدار گلاس میں پانی بھرتے وہ اسکے سامنے کر چکا تھا ۔۔ "
اسکی آواز کے بعد بھاؤں نے کرسی کو روکتے آگے پیچھے دیکھا مگر پھر اچانک نیچے سے آتی آواز پہ وہ افسوس سے سر کو جھٹکتے نیچے دیکھنے لگا، جہاں اسے کرسی کے پیچھے وہ چھپا ہوا سا کھڑا تھا۔۔ وہ بمشکل سے اسکی ٹانگوں کے برابر آتا تھا۔ "
" دوائی کھاتا ہے توں۔۔۔۔ گلاس تھامے وہ ایک نظر اسے دیکھتا جوابدہ ہوا تھا جو اب گڑبڑا گیا تھا اسکے پہلے سوال پہ ۔ وہ تو پوچھتا ہی نہیں تھا تو آج کیسے اس نے پوچھا لیا تھا۔"
" جج جی بب بھاؤں ککک کھاتا ہہ ہوں۔۔۔۔ اسے پانی پیتا دیکھ ابکی بار مٹھو نے حوصلے سے بولا تھا ، وگرنہ اسکی نظروں میں دیکھ وہ کہاں بول پاتا تھا۔۔"
"ہممممم تو اب چھوڑ دے ۔۔۔۔۔ اب سے مت کھانا ۔۔ گلاس واپس اسکے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں رکھتے وہ سنجیدگی سے بولا تھا کہ پیچھے کھڑے سب نے اپنی ہنسی کنٹرول کری تھی۔"
" کک کیوں بب بھاؤں۔۔۔ سسس سوری ۔۔۔۔۔۔ جس ہمت سے سوال کیا تھا اب اسکی غصیلی نظروں کو پاتے ہی وہ فورا سے سر جھکائے سوری کر چکا تھا ۔۔۔۔ "
" تیرے لئے تیرے جتنا ڈیڑھ فٹ جتنا سائز دھونڈ رہا ہوں ۔ انشاء اللہ جلد ہی تیرے لئے بھی کوئی مل جائے گی۔ اس لئے اب تو دوا نہیں کھائے گا۔۔۔ وہ جواب تو نہیں دینا چاہتا تھا مگر آج اسکا موڈ کافی خوشگوار تھا ۔۔ کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں وہ جانتا تھا وہ پولیس کے روبرو ہو گا ۔۔ اس نے اندازے سے وقت دیکھا۔
تقریبا آدھا گھنٹا ہو چکا تھا اسے آئے اور اب تک تو اسکی بنی ویڈیو پولیس اسٹیشن پہنچ چکی ہو گی۔۔ "
" اکٹھا کرو سب کو آج پانچ تاریخ ہے اور ابھی تک کسی نے ایک پیسہ جمع نہیں کروایا۔۔۔۔۔"
ابکی بار اونچی آواز میں وہ سب سے مخاطب ہوا تھا ۔ کہ سب نے سنتے ہی ایک دوسرے کی جانب افسوس کرتی نگاہوں سے دیکھا تھا یعنی وہ بھولا نہیں تھا بلکہ بس انہیں موقع دے رہا تھا۔"
"آ جاؤ۔ سب اپنا اپنا حصہ لیتے آنا ورنہ بعد میں شکایت مت کرنا کہ بھاؤں نے مارا ہے۔۔"
" مٹھو نے دور الٹی پڑی کرسی کو اٹھائے سیدھا کیا تھا اور اس پہ پاؤں رکھے کھڑا ہوتے وہ زور شور سے ہانک لگا رہا تھا جبکہ بھاؤں اب میز پہ پاؤں رکھتا کسمسا رہا تھا ، نیند کی وجہ سے اسکی شہد رنگ آنکھیں سرخ ہو رہی تھی وہ سونا چاہتا تھا ایک گہری نیند مگر فلحال یہ سب بکھیڑے سلجھانا زیادہ ضروری تھا۔"
" نام درج کرتا جا سب کے اور جو پیسے ناں دے اس کا دو دن کا کھانا پانی بند کر دے۔۔۔ موبائل پہ آتی کال کی جانب متوجہ ہوتے وہ مٹھو کو اشارہ کرتے وہاں سے اٹھا تھا ۔۔۔۔ اور بڑھتے وہ اس بڑی سے بلڈننگ کی اوپر کی جانب جاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا ۔ بظاہر یہ دیکھنے میں بلڈنگ سی تھی مگر یہ ایک گھر تھا جہاں یہ سب لوگ بھاؤں کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے۔۔ جہاں کا ، دن اور رات سب بھاؤں طے کرتا تھا۔"
" بب بھاؤں۔۔۔معا دروازے کو کھولتا اس کا ہاتھ پیچھے سے آتی جانی پہچانی آواز پہ رہا تھا مگر وہ یونہی کھڑا رہا ۔ ہمممم بول۔۔۔۔ گلے میں پہنی چین کو منہ دبائے وہ خود پہ قابو رکھ رہا تھا یا پھر کچھ اور۔۔۔۔۔"
" و و وہ پہ ہوسپٹل جانا تھا آج۔۔۔۔۔ مدہم سی تکلیف کرب سے لبریز آواز تھی جبکہ لہجہ دکھوں غموں سے لبریز تھا ۔۔۔۔
ہمممم میں ہو آیا ہوں پرسوں پھر جاؤں گا تم اب میرے سامنے مت آنا ، ورنہ بائے گاڈ بے موت تجھے مارنے میں اس بھاؤں کو ذرا سی تکلیف نہیں ہو گی۔۔۔ ابکی بار مقابل کی گردن اسکے مضبوط ہاتھ میں تھی۔ ۔ایک دم سے وہ غرایا تھا نیچے لائن مین موجود کئیوں نے سہمتے اس کی دھاڑ پہ گردن اونچی کیے اسے دیکھا ۔۔ وہ جھرجھری لے اٹھے تھے اسکے غضب ناک روپ کو دیکھتے۔۔ "
" دفع ہو جا پورے دو ہفتے یہاں گھر مت آنا۔۔ جہاں مرضی چلا جا ورنہ ۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے اسے شہادت کی انگلی سے وارن کرتے ٹھاہ سے دروازہ بند کر چکا تھا۔۔جبکہ زمین پہ کپکپاتے وجود نے اپنی آستیں سے پسینہ صاف کرتے خود کو ٹھیک ٹھاک دیکھتے گہرہ شکر بھرا سانس لیا تھا۔"
" تاریکی میں ڈوبے روم میں داخل ہوتے وہ ایک جانب جاتے ہاتھ بڑھاتے لائٹ آن کر چکا تھا ۔۔۔۔
توں توں کیا کر رہی ہے یہاں ۔۔۔ ایک دم سے اسکے لہجے میں ناگواری سی دھر آئی تھی وہ سخت تند و تیز لہجہ اپنا چکا تھا ، مگر مقابل نے ڈھٹائی سے سارے دانتوں کی نمائش کیے اسکی جانب قدم بڑھائے تھے۔"
کیوں میں یہاں نہیں آ سکتی ۔۔ وہ قدم قدم چلتے اب اسکے سامنے دو قدموں کے فاصلے پہ کھڑی ہوئی تھی۔۔ فضا میں بکھرتی مقابل کی خوشبو میں گہرا سانس بھرتے وہ مسکرا اٹھی تھی جبکہ بھاؤں نے نفرت ناگواری جیسے تاثرات سے اسے گھورا تھا ۔ جو اب اسکے سر کا درد بن رہی تھی۔"
" دو منٹ دے رہا ہوں تجھے نظر مت آئیو۔۔۔ ورنہ توں جانتی ہے بھاؤں دوسرا موقع کسی کو نہیں دیتا۔۔۔۔۔ ایک جانب بنی پرانی سی لکڑی کی بوسیدہ الماری کو کھولے وہ کپڑے تلاشتے اسے وارن کرتے لہجے میں بولا تھا۔ یہ لڑکی اسکی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی تھی۔"
" ناراض کیوں ہوتا ہے ۔ توں جانتا ہے ناں تیرے لئے ہی تو آتی ہوں۔۔ "
" اسے غصے کی۔میں دیکھ وہ خود بھی تھوڑی نرمی سی محبت سموئے لہجے میں بولی تھی۔'
کتنی بار کہوں مجھے یہ جھوٹی ہمدردیاں نہیں چاہیے ناں ہی یہ محبت ، کیوں سمجھ نہیں آتا تجھے ۔۔۔۔۔ ایک دم سے وہ بھپرتے اسے پکڑتے الماری سے پن کر چکا تھا ، اسکے ماتھے پہ گن تانے وہ لہو رنگ ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا ۔۔۔۔ جبکہ وہ بنا ڈرے اسکی آنکھوں میں دیکھتے اسے مزید طیش دلا رہی تھی۔۔۔"
"تجھے کیوں لگتا ہے کہ میں دکھاوا کر رہی ہوں۔ میں سچ میں تجھ سے محبت۔۔۔۔۔ "
چپ اشششششش خبردار جو اب یہ الفاظ اپنے منہ سے نکالے ورنہ جس کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر لایا تھا وہیں پھینک آؤں گا تجھے۔۔۔۔۔ وہ غصے سے غراتے ایک دم سے دیوار پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولا تھا جبکہ آنکھوں میں ایک الگ سا کرب ، وخشتوں کا جہان برپا تھا۔"
" دفع ہو جاؤ۔۔۔۔ " اسے کھینچتے وہ پیچھے کی جانب پھینکتے وہ پینِک سا ہوتے کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔
" تمہیں اسیر کرنا اس زوہا کی ضد بن چکا ہے بھاؤں ۔۔۔۔ میں بھی دیکھتی ہوں کہ آخر توں کب تک منہ موڑے گا مجھ سے ۔۔ "
اسے جاتا دیکھ وہ اپنے آنسوں بےدردی سے رگڑتے سسک اٹھی تھی ۔ مگر وہ انجان تھی اس بات سے۔۔۔ کہ وہ جس سے ٹکرانا چاہ رہی تھی وہ خود ہی اندر سے ٹوٹا ہوا سا تھا۔ وہ اسے کیا دیتا جو خود خالی ہاتھ رہ چکا تھا۔۔۔
اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتانے والا تھا کہ زوہا کی یہ ضد کیا رنگ لانے والی تھی۔
" یہاں سے لفٹ ۔۔۔ "
نیم اندھیرے میں ڈوبی رات کی نیم تاریکی میں وہ سامنے سڑک کے تین جانب مڑتے موڑ دیکھ اسے آگاہ کرنے لگی مگر آواز قدرے مدہم سی سرگوشی نما سی تھا۔
مقابل نے سنتے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ کتنا ٹائم ہے ۔ ایک نظر اپنے چاروں جانب ڈالتے وہ احتیاط سے بولا تھا ، جبکہ بھاری بوٹوں میں مقید پاؤں وہ سنبھل کے قدم اٹھائے بنا آواز کئے آگے کی جانب چل پڑا ۔"
" دس منٹ ۔۔۔۔ " ٹائمر کی جانب دیکھتے وہ سنجیدگی سے بولی تھی ، اپنے چہرے پہ آتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیے وہ جھٹ سے آگے اسکے سامنے دوسری دیوار سے جا لگی۔ ایک ہاتھ میں گن تھامے وہ ٹریگر پہ جاتے رکھے اپنے سامنے دوسری جانب موجود اسے دیکھ سر ہلا گئی۔ اور احتیاط سے قدم اٹھائے آگے بند تاریک گلی کی جانب بڑھی تھی۔
" اسکے بڑھتے قدموں کو پیچھے سے دیکھتا وہ ایک دم سے پیچھے سے آتی آواز پہ اپنی آنکھیں چھوٹی کیے ابکی بار غور سے آواز سنتے سامنے اسے دیکھ ہاتھ کے اشارے سے ریلکس کر چکا تھا، اسکے اشارے پہ وہ سر ہلاتے آگے بڑھی تھی۔۔ "
" جبکہ پیچھے وہ ایک دم سے ہڈ کو سر پہ ڈالتا ایک دم سے نیچے کی جانب جھکتے جیسے چھپا تھا۔۔ سامنے ہی آہٹ کے بعد ایک درمیانے قد و قامت کے ساتھ ہاتھ میں پکڑی گن کو سامنے کی جانب احتیاطاً تانے وہ آگے بڑھا تھا۔۔ اسکے قدموں پہ نظریں گھاڑے وہ ایک دم سے اسے دیوار کے پاس سے جھپٹ چکا تھا اور بنا پھر پھڑانے کا موقع دیے وہ گردن کو بائیں جانب گھماتے اسے وہیں ایک جانب پھینک چکا تھا۔۔۔ "
سامنے بے سودھ پڑے وجود کے جسم پر سے کوٹ اوپر کیے وہ نیچے موجود اسکی شرٹ الٹ چکا تھا محسوس جگہ پہ ہاتھ لے جاتے وہ اندر موجود اپنے کام کا سارا ڈیٹا لئے وہاں سے آگے بڑھا تھا۔
ابکی بار اسکے قدموں میں تیزی تھی کیونکہ وہ غائب تھی ، اسے غصہ آیا شاید وہ زیادہ وقت لگا چکا تھا اسے فکر ہوئی اسکی ، ساتھ میں غصہ اور طیش بھی وہ جلد از جلد اسکے پاس جانا چاہتا تھا تاکہ اسے سیو کر سکے۔ مگر ائیر پورڈ سے آتی آواز پہ وہ ایک دم سے پرسکون ہو چکا تھا ۔ ہاں وہ خیال رکھ سکتی تھی اپنا۔۔۔۔ مقابل کے کان میں دہرائے الفاظ وہ زیر ِ لب بڑبڑاتا آگے سنسان گلی میں کہیں اندر داخل ہوا تھا۔۔ "
" مگر اندھیرے میں جگہ کا جائزہ لے پانا خاصا مشکل لگا تھا اسے۔۔"
"ایک دم سے اپنے رائٹ سائڈ سے کچھ گرنے کی آواز پہ وہ کلائی پہ مخصوص بٹن کو آن کیے آگے بڑھا تھا۔۔ باریک ایک لائن کی طرح سے نکلتی سرخ روشنی میں وہ قدم قدم چلتے آگے بڑھا تھا۔ سامنے ہی اسے دیوار میں تقریباً دیوار ہی کے جیسا دروازہ جو کہ شاید وہ ادھا کھول کے گئی تھی اس کے لیے تاکہ وہ آسانی سے اندر آ سکے۔۔ وہ بنا وقت ضائع کیے آگے بڑھا تھا۔۔"
گن کو بیک پاکٹ میں ڈالے وہ ابکی بار احتیاط سے آگے بڑھا ، لائٹ آف کرتے وہ منہ پہ نقاب چڑھا چکا تھا۔ جبکہ بھوری سرخ آنکھیں پوری جگہ کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔"
" وہ ایک نظر باہر دیکھ اندر بڑھا تھا اور احتیاط سے دروازہ لاک کیا تھا۔۔ اندر کا ماحول باہر سے یکسر مختلف تھا ۔ جہاں باہر تاریکی تھی وہیں اندر ساری جگہ نیلی اور سرخ لائٹوں میں ایک الگ سا جہاں الگ سا ماحول بیاں ہو رہا تھا۔"
" اسنے قدم روکے تھے اور آہٹ پہ وہ فورآ ایک جانب پڑے بڑے سے ڈبوں کے پیچھے چھپا تھا۔۔ اسکی نظریں سامنے ہی تھیں جہاں تین سے چار آدمی اب دوبارہ سے آ چکے تھے ایک گول دائرے کی صورت میں وہ سب اکھٹے ہوئے تھے اور دروازے کے پاس پڑے سامان کو اٹھاتے وہ اندر کی جانب لے گئے ۔۔۔"
"آئی ڈونٹ فائنڈ ہر۔۔۔۔ اسنے جھنجھلاتے ہوئے ائیر پورڈ پہ قدرے ہلکی آواز میں کہا ، اسے اب غصہ آ رہا تھا اگر وہ اکیلا آتا تو اب تک تقریباً سارا معاملہ سالو کر چکا ہوتا۔۔ وہ مقابل کو جتلانا چاہتا تھا کہ آپ نے غلط کیا اسے میرے ساتھ بھیج کے۔۔۔ "
" ڈونٹ وری شی کین فائنڈ یو۔۔۔۔ مقابل نے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے کہا تھا انہیں یقین تھا کہ وہ اپنا آدھا سے زیادہ کام کر چکی ہو گی ۔"
" ہممم لیٹس سی ۔۔۔ وہ سنتے جتاتے انداز میں بولا تھا اور اب دوسری جانب سے وہاں سے آگے بڑھا تھا یہ ایک بڑا سا کوئی ہال نما کمرہ تھا دونوں جانب سے جائزہ لیتے وہ تین منٹ میں ساری جگہ دیکھ چکا تھا مگر الایہ کو ناں پاتے اب کی بار وہ غصے سے سامنے آیا تھا۔۔"
" قدموں کی آہٹ کے بعد اب یوں کسی اونچے قد و قامت کے ساتھ چہرے پہ ماکس سر پہ ہڈ لپیٹے اسے یوں اچانک سے وہاں دیکھ وہ سارے چونک اٹھے تھے۔۔ ٹیبل پہ موجود لفافوں کو وہیں چھوڑتے وہ اب آٹھ چکے تھے جگہ سے اور ایک ایک کرتے اسکے آگے پیچھے دائرے کی شکل میں اکھٹے ہوئے تھے۔۔ "
ہوُ آر یو۔۔۔۔ ان میں سے ایک نے اسے بنا ڈرے دیکھ استفسار کیا ، اسکے چہرے پہ مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی جسے وہ دیکھنے سے قاصر سے تھے۔۔"
" یور ڈیڈ ۔۔۔۔۔ بھاری سرد آواز میں۔ کہتے وہ ایک دم سے جھکا تھا اسے یوں فرش پہ بیٹھتا دیکھ وہ سب دو قدم آگے بڑھتے اسکے قریب ہوئے اور ایک دوسرے کو دیکھا کہ اسے کیا ہوا ، مگر اچانک ہی وہ نیچے بیٹھا ہی ٹرن ہوا تھا اور ایک ٹانگ آگے کی جانب بڑھائے وہ باری باری ان کی ٹانگ پہ وار کر چکا تھا جو اب ایک ایک کرتے نیچے گرے کراہ رہے تھے ۔ "
" وہ بنا وقت ضائع کیے ایک دم سے آگے بڑھا تھا موبائل پہ تصاویر بناتے وہ مڑا تھا اور ایک ایک کرتے سب ماتھے کے بیچ نشانہ لیتے وہ اب آگے پیچھے دیکھنے لگا کہ کوئی اور تو رہ نہیں گیا ."
" اسنے الایہ کو ڈھونڈنا چاہا مگر بے سودہ وہ آگے بڑھا اور میز کی جانب بڑھا تھا ، جہاں بڑی تعداد میں کچھ خاکی اور ہزاروں کی تعداد میں بھرے لفافے پڑے ہوئے تھے۔۔ "
" وہ دیکھتے مڑا تھا اور اچانک سے وہ دوبارہ سے ایک جگہ پہ رکا تھا فرش پہ پڑے ڈبوں کو سائیڈ کیے وہ جھکا تھا ، اور ہاتھ سے ٹائلوں کو ہٹاتے وہ ہلکا سا مسکرایا ، جیسے کہنا چاہ رہا ہو مجھ سے کچھ نہیں چھپ سکتا۔۔۔"
" احتیاط سے آگے بڑھتے وہ سیڑھیوں سے نیچے اترا تھا ۔ سامنے ہی ایک جانب وہ اپنے کام میں مشغول تھی ۔۔ اسے کیپ ٹاپ پہ بزی دیکھ وہ چلتا اس کے پیچھے رکا ۔۔ اونلی ون منٹ اس لیفٹ۔۔۔۔۔ "۔ ٹائمر دیکھتے وہ اسے یاد دہانی کروانے لگا۔۔ "
" ویٹ جیسٹ تین سیکنڈز۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے لیپ ٹاپ پہ ہاتھ چلاتی سنجیدگی سے بولی تھی مگر مقابل اس سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ اگر ایک منٹ میں وہ یہاں سے ناں نکلتے تو وہ دونوں کبھی واپس ناں جا پاتے۔۔۔ ہری اپ مس آفت۔۔۔۔ اسکی کرسی پہ جھکتے وہ سامنے اسکرین دیکھنے لگا جہاں اب ٹائم سٹارٹ ہو چکا تھا۔۔۔ "
" ویام ڈونٹ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے اسے پنچ کرنے لگی مگر وہ پہلے ہی پیچھے ہو چکا تھا اور اب اسے اگنور کرتے وہ لاکر کی جانب گیا تھا ۔"
" ویام جلدی کرو ، نکلو ۔۔۔۔، اسے آگے لاکر کی جانب بڑھتا دیکھ وہ غصے سے بولے تھے جبکہ الایہ نے نفی میں سر ہلایا ۔اور اپنا سامان اٹھائے وہ پیچھے بنے دروازے کی جانب بڑھی تھی۔"
" تیس سیکنڈ ویام ۔۔ بائے۔۔۔۔ اسے ویہیں چھوڑتی وہ فورا سے باہر کی جانب بڑھی تھی .
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" آئیے آئیے ویلکم ٹو آل آف یو۔۔۔۔ مسکراتے سرشار سے لہجے میں وہ سامنے سے انہیں آتا دیکھ فورا سے جگہ پر سے اٹھا تھا۔۔ جہاں اسکے پراشتیاق ویلکم پر وہ سب مسکرائے تھے ۔۔ فدک اور انزِک نے گردن گھمائے پیچھے کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔"
جہاں وہ تینوں مسکراتے ہوئے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تھے۔ بلیک شرٹ جس کے کے نیچے بلیو جینز پہنے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے بھوری آنکھوں میں محبت اور شرارت کے تاثرات کے ساتھ سب نے مسکراتے اتنے سالوں بعد بھی اسکی سحر انگیز شخصیت کو دیکھ دل سے سراہا تھا۔ وہ تھا ہی ایسا ، تعریف کے قابل ۔۔ "
جبکہ اسکے ہم قدم اسکی پسندیدہ من پسند بیوی ، جسکے بائیں بازوؤں کو۔ زبردستی اپنے بازوؤں کی گرفت میں لئے ہوئے تھا۔ بلیک ہی پرنٹٹ سوٹ میں وہ کچھ شرمندہ سی نظریں چرائے آج بھی وریام کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی ۔ "
اس کے خفا چہرے پہ نظریں گھاڑے وہ ایک دم سے تھما تھا۔ جبکہ نیناں نے خفت سے شرمندہ ہوتے ہلکا سا منمناتے اسے وارن کیا تھا۔"
" وریام اللہ کا واسطہ مجھے گھرونا بند کریں ورنہ میں واپس چلی جاؤں گی۔ وہ سچ میں روہانسی ہو چلی تھی۔ اس بندے نے کوئی موقع نہیں چھوڑا تھا اسے شرمندہ کروانے کا، اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اب تو انزِک جو کسی سے فالتو بات تک نہیں کرتا تھا اب وہ بھی اسے باتوں ہی باتوں میں چھیڑ جایا کرتا تھا ، ۔۔۔ " جبکہ عیناں کی تو وہ کیوٹی پائی تھی۔"
" ہیے انکل کم یار اب بس بھی کر دیں یم بچوں کا ہی خیال کریں۔۔۔ ایک دم سے انزِک کی مسکراتی آواز وریام نے سنتے نیناں کی جانب دیکھا تھا جو اسے گھور رہی تھی وہ مسکراتے اسکا بازوؤں چھوڑ چکا تھا جو اب بھاگتی آگے کی جانب بڑھی تھی۔ جبکہ اسکی احتیاط پہ سب کا قہقہہ بے ساختہ ہی تھا۔"
" ڈونٹ وری ڈیڈ ہم دونوں چلتے ہیں چھوڑیں اپنی بورنگ بیوی کو۔۔۔۔۔ ایک دم سے وہ جو پرس گاڑی میں بھول چکی تھی اب اپنی موم کو یوں جاتا دیکھ وہ فورا سے وریام کے بازوؤں میں ہاتھ ڈالتے مسکراتے بولی تھی۔۔ میرے چھوٹی وریامنی۔۔۔ اسکی ادا پہ وریام نے بے ساختہ اسکے گالوں کو کھینچا تھا ۔۔۔ جس پہ وہ کھلکھلا اٹھی ۔۔۔ "
" اسکی پرسوز کھلکھلاہٹ وہ جو فون کال پہ تھا اچانک سے جانی پہچانی ہنسی کی آواز پہ وہ مڑا تھا اور چونکتے سامنے دیکھا جہاں وہ بلیک پرنٹٹ شرٹ کے اوپر بلیک ہی حجاب کیے جس میں اس کی سفید دودھیا رنگت چگمگا رہی تھی ۔ وہ بغور اسے دیکھے گیا بلاشبہ وہ اپنی ماں کا عکس تھی۔ "
" وہ فورا سے نظریں چرائے اب ایک جانب گیا تھا ۔ اور اپنے مینیجر کو گائیڈ کرتے اس کا سارا دھیان اب انہی لوگوں میں تھا۔"
" ویلکم مائی پرنسز۔۔۔۔۔۔
تھینک یو ماموں ۔۔۔۔ وریام کو اگنور کیے رافع نے محبت سے حرمین کے سر پہ ہاتھ رکھے کہا تھا جو اب مسکراتے ایک جانب کھڑی اپنی موم اور فدک کی جانب بڑھی تھی۔۔
ایک بات تو بتا یہ مجھے دیکھ کر تیرا منہ کیوں بن جاتا ہے۔۔ اسکا اگنور کرنا وریام کو ہمشیہ کی طرح بہت بھایا تھا۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی شرٹ کا کالر ٹھیک کرتے اسے جلانے کی کوشش میں تھا۔ جبکہ رافع سمجھ رہا تھا اسکی ادائیں یعنی وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ دیکھ کر میں آج بھی جوان ہوں۔۔"
" میں بدھوں سے بات نہیں کرتا مسٹر کاظمی۔۔۔ رافع نے ہاتھ پاکٹ میں۔ ڈالے صاف اسے طنز کیا تھا۔۔ جسنے ایبرو اچکایا اسکے سوال پہ۔۔۔۔ وہ جانتا تھا اسکے بال ہلکے سے سفید ہو رہے تھے۔ اور شیو بھی مگر نیناں تو کہتی تھی کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ حسین لگتا ہے۔۔ تو پھر رافع اسکو بڈھا کیوں کہہ رہا تھا۔۔"
" اکسکیوزمی مسٹر رافع بڈھے آپ ہوںگے خبردار جو میرے بھائی کو بڈھا کہا تو۔۔۔۔ فدک جو نیناں اور حرمین سے ملتے اب انکی جانب آئی تھی وریام سے ملنے ۔۔ رافع کی بات پہ وہ غصے سے آگے بڑھتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ اپنی بہن کے سپورٹ پہ وریام کی شرارتی آنکھوں میں آنسوں جھلک آئے۔۔ اتنا پیار۔۔۔۔۔۔"
" فف فدک میں تو بس ایسے ہی۔۔۔۔۔ رافع سٹپٹا گیا اگر وہ ناراض ہو جاتی تو آج پھر اسے ہال میں سونا پڑتا جو کہ وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ یہ معصوم بیوی کتنی معصوم تھی یہ وہ ہی جانتا تھا۔"
" ابھی خاموش ہو جائیں اور اب خبردار جو میرے بھائی کوکچھ کہا۔۔ کیسے ہیں آپ بھائی۔۔۔۔ اسے جھڑکتے وہ وریام سے مخاطب ہوئی تھی۔۔ جسکا سینہ اتنی محبت پہ چوڑا ہو چکا تھا۔۔ "
" میں ٹھیک ہوں میری لاڈلی چھوٹی پیاری سے بہنا۔۔۔۔۔۔ اسنے رافع کو دل جلانے والی مسکراہٹ پاس کی تھی۔ ۔جو اب جل بھن کے رہ گیا تھا۔۔۔ "
" میری بیٹی کہاں ہے ۔۔۔ فدک ۔۔۔ عیناں کو نا پاتے وہ فورا سے پوچھ بیٹھا۔۔ رافع مسکرایا۔۔۔
وہ آتی ہی ہو گی انکل کب سے آپکا ویٹ کر رہی تھی۔۔۔ " فون جیب میں رکھتے وہ مسکراتے اندر داخل ہوا ۔۔۔ کیسے ہو میرے شیر۔۔۔ اسے ساتھ لگائے وریام نے مسکراتے اسکی پیٹھ تھپکتے ہوئے کہا تھا۔ جو اسے بالکل رافع کی کاپی لگتا تھا ۔۔ "
"الحمد اللہ آپ کسیے ہیں۔۔۔ مصافحہ کرتے وہ نظریں جھکائے ہوئے بولا تھا۔ رافع نے بھی مسکراتے نظروں سے اپنے لاڈلے کو دیکھا۔۔ جسے وہ کبھی سمجھ نہیں سکا تھا۔"
" ہم بھی بس ٹھیک ہیں۔۔ " وریام نے صوفے پہ جگہ سنبھالی تھی اب وہ تینوں اپنے بزنس ریلیٹٹڈ باتوں میں مصروف ہوئے تھے جبکہ فدک اور نیناں اپنی باتوں میں۔۔۔ مما میں عیناں کے پاس جا رہی ہوں۔۔۔ حرمین نے مسکراتے کہا تھا وہ سب اس وقت لان میں موجود تھے۔۔ جبکہ عیناں اندر تھی۔۔۔ جانے وہ کیا کر رہی تھی۔ ۔"
"ہیلو میڈم۔۔۔۔ بنا ناک کیے وہ دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ " وہ ایسے ہی ایک دوسرے کے کمرے میں بنا اجازت کے آ جاتی تھی۔"
" تت تم ۔۔ ایک دم سے وہ ہڑبڑا اٹھی موبائل بمشکل سے گرتے گرتے بچا تھا جسے وہ تھوک نگلتے آف کرنے لگی ۔۔۔ اسکی اڑی رنگت ہاتھوں کی کپکپاہٹ پرحرمین نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔ "
" ہاں میں ۔۔۔ کیوں تمہیں کیا لگتا کون ہے۔۔۔؟ حرمین نے آگے بڑھتے اسکی گردن میں بانہیں ڈالتے اسے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔ "
کک کچھ نہیں مجھے کیا لگنا۔۔۔۔ وہ منہ پھلائے نارمل تاثرات سے بولی تھی ۔ جبکہ حرمین نے ایک دم سے اسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹا تھا۔۔ یی یہ کیا مم میرا فون واپس کرو ، حرمین۔۔۔ عیناں نے ڈرتے اسکے ہاتھ میں اپنا موبائل دیکھتے صلح جو انداز میں کہا تھا ۔۔ جبکہ حرمین اس سے دو قدم دور جاتے اب موبائل ان لاک کر رہی تھی کیونکہ پاسورڈ وہ جانتی تھی کیا ہو گا۔۔۔"
ہم سب آدھے گھنٹے سے آئے ہوئے ہیں اور تم اس موبائل میں لگی ہو ، آخر میں دیکھوں تو اس میں ایسا کیا ہے۔۔ عیناں کے ہاتھ کو جھٹکتے وہ دوبارہ سے رخ پھیر چکی تھی۔۔ "
" ہیں ہہ کیا ہے اتنی تصوریں۔۔۔ حرمین نے حیرت سے موبائل کو اور پھر عیناں کو دیکھ پوچھا تھا ۔ جو انگلی منہ میں دبائے ہوئے کھڑی تھی۔۔ بس تصویریں ہی تو۔ رہی تھی اپ کیوں اتنا ڈر گئی۔۔۔۔"
وہ مسکراتے نارملی انداز میں گویا ہوئی تھی ۔۔ حرمین کو اب بھی یقین نہیں تھا اس پر۔۔ وہ دو سال بڑی تھی اس سے مگر وہ بالکل بہنوں کے جیسی تھی۔ ہر بات ایک دوسرے سے شئیر کرتی آئی تھیں مگر اب حرمین کو گڑ بڑ لگی مگر وہ کچھ سوچتے خاموش ہو گئ۔۔۔"
" اچھا ادھر آؤ ہم دونوں نے سیم ڈریسنگ کری ہے آؤ ایک سیلفی لیتے ہیں۔۔ "
عیناں نے پکڑتے اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا اور پھر دو تین سلیفیز ایک ساتھ لے ڈالیں۔ "
" اسے ادھر ہی رہنے دو، چلو ہم نیچے چلتے ہیں ہم سب کے پاس۔۔۔۔ موبائل بیڈ پر پھینکتے وہ کھینچتے حرمین کو لئے باہر نکلی تھی۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" حسن کا فون آیا تھا ۔۔۔ مسلسل دس منٹ کی خاموشی کے بعد ڈائننگ پہ ایک دم سے اشعر کی آواز ابھری تھی۔۔ نوالہ توڑتا رمشہ کا ہاتھ تھما تھا مگر نظریں ہنوز کھانے پہ تھیں۔۔ "
حیا کا رشتہ آیا ہے۔۔۔ لڑکے کے بارے میں چھان بین کرنے کا بولا ہے اس نے۔۔۔ "
ایک دم سے رمشہ کے گلے میں پھندہ سے اٹکا تھا۔۔۔ وہ شدتِ ضبط سے مٹھیاں بھینچ گئی۔۔ مگر تاثرات ہنوز نارمل تھے ۔۔"
" اذلان کب آ رہا ہے ۔۔۔ وہ سرے سے اسکی بات کو اگنور کر چکی تھی۔۔ جبکہ اشعر نے سرد اہ خارج کرتے خود سے مخض چند قدموں کے فاصلے پہ موجود اپنی متاع جان کو دیکھا۔۔ یہ چند قدم اسے ایک لمبا عرصہ مخصوص ہوا تھا اسے۔۔ رِم اذیت سے دوچار شکستہ سے لہجے میں لہجے میں اسکے ہاتھ کو اپنے پرحدت ہاتھ میں لیتے وہ بمشکل سے خود کو ٹوٹنے سے روک پا رہا تھا۔"
" جی کچھ چاہیے۔۔ اسکے شکست خوردہ اذیت سے دوچار لہجے کو اگنور کیے وہ نارمل تاثرات سے اسے دیکھ بولی ۔۔ اشعر نے گہرہ سانس فضا کے سپرد کیا تھا اور سر نفی میں ہلایا ۔۔۔"
"آپ نے بتایا نہیں اذلان کب آ رہا ہے۔۔۔ برتن سمیٹتے اسے جیب سے سگریٹ نکالتا دیکھ وہ لب بھینج گئی۔ "
"کہہ رہا تھا جلد آ جاؤں گا۔۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا تھا اور ناں ہی سچ بتانے کی سکت تھی۔۔۔ جبھی آدھا سچ آدھا جھوٹ بولا تھا۔"
دوا کیوں نہیں لیتی تم ۔۔ کیوں مجھے مارنا چاہا رہی ہو میری ذندگی۔۔ اسکے ہاتھوں کو تھام وہ ایک دم سے اسے روک چکا تھا اسکی سوالیہ نظروں کو خود پہ پاتے وہ ایک دم جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔ "
" جو خود مرا ہو وہ بھلا کسی کو کیسے مارے گا۔۔ اور آپ بے فکر رہیں مجھے کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ اپنے سامنے کھڑے اپنے وجہیہ شوہر کو مسکراتی نظروں سے دیکھتے وہ ابکی بار اسکے کالر کو ٹھیک کرنے لگی۔۔"
" حسن بھائی کی طرف چلیں گے آج رات۔۔۔ اسکے ہاتھ کو تھامے وہ لبوں سے لگا گیا۔ جبکہ رمشہ کے چہرے پہ ایک سایہ سا لہرایا وہ ہاتھ کھینچ گئی فورا سے۔۔۔"
" کتنی بار کہا ہے مجھے کہیں نہیں جانا کیوں تنگ کرتے ہیں مجھے ۔ جائیں چھوڑ دیں مجھے ۔۔۔ وہ ایک دم سے آپے سے باہر ہونے لگی۔ دھڑام سے زمین بوس ہوتے برتنوں کے ساتھ ایک دم سے فضا میں ایک آواز گونجی ۔۔۔ اشعر نے مٹھیاں بھینچی تھی ۔ رمشہ ۔۔ وہ بھاگتے اسکی جانب گیا تھا اسکے بےہوش وجود کو بانہوں میں بھرتے وہ درد اذیت سے آنکھیں میچ گیا ۔ "
" ڈونٹ وری سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ دل نے اندر سے مانو تسلی دی تھی مگر وہ جانتا تھا یہ سب ٹھیک ہونا نا ممکن تھا۔۔ "
" بؤاں ۔۔ رمشہ کو کمرے میں لے جاتے وہ دروازہ بند کیے باہر آیا تھا۔۔۔ غصے سے آوازیں دیتے وہ بے چینی سے ٹہلنے لگا۔ "
جی جی بیٹا ۔۔۔ اچانک کچن سے ہاتھ دھوتے وہ پریشان سی اسکے بلانے پہ آئی تھیں۔"
" آپ سے کہا تھا رمشہ کا خیال رکھنے کا حالت دیکھیں اس کی ۔۔۔ "
کوشش کے باوجود لہجہ سخت ہو چکا تھا اسکا ۔۔۔ وہ سخت پریشان سا تھا اب کیسے اسے چھوڑتے ڈیوٹی پہ جاتا۔۔۔"
بیٹا میں تو دھیان رکھتی ہوں اسکا ۔۔ مگر وہ خود ہی کوئی بات نہیں کرتئ۔۔۔ نظریں جھکائے وہ اسے مدعا بتانے لگی ۔ وہ خود بھی بات کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔ رمشہ کی غائب دماغی انہیں خود بھی بہت دکھ ہو رہا تھا۔۔۔ "
" اگر آپ دھیان رکھتی ہیں تو وہ ایسی کیوں ہے دوا تک نہیں لی اس نے ۔۔"
وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا تھا آنکھوں کے سامنے ابھی بھی رمشہ کا بے ہوش ہوتا وجود گھوم رہا تھا۔"
" بیٹا اسے آپ کی ضرورت ہے اپنی فیملی کی ۔۔ ہم نوکر خیال تو رکھ ہی دیں گے مگر ایک فیملی کا احساس محبت وہ سب کیسے دیں ۔۔۔ انہیں اپنے بیٹوں کی اور آپ کی ضرورت ہے ۔۔ "
" نظریں جھکائے وہ آج بیس سال میں پہلی مرتبہ اسکے سامنے بولی تھی۔ اشعر ایک دم سے لاجواب سا رہ گیا ۔۔ "
" کئی لمحے اسکے پاؤں جکڑے رہے تھے ۔ وہ حالی حالی نظروں سے فرش کو گھور رہا تھا۔ تو کیا سچ میں وہ ناکام ہو گیا اپنی فیملی کئلیے۔۔۔ "
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>>.<>.
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
سلام آفیسر۔۔۔۔۔ کرسی کھسکاتے وہ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔۔ اسکے انداز کے بعد اب حرکت پہ سامنے بیٹھے آفسیر نے بغور اسکی جانب دیکھا۔۔"
"کس سے پوچھ کے بیٹھے ہو تم ۔۔۔ اٹھو۔۔۔غصے سے گھورتے وہ پین ٹیبل پہ پٹھک چکا تھا۔۔ "
جبکہ پیچھے کھڑے خوالدار نے تھوک نگلتے انسپکٹر کو دیکھ ابکی بار مقابل بیٹھے بھاؤں کو دیکھا ۔"
بیٹھنے کی بات چھوڑ اور بتا کس لیے بلایا اپن کو۔۔۔۔۔ وہ طنزیہ مسکرایا تھا اور ہاتھ کرسی پہ پھلائے وہ مٹھو کو ایک جانب کھڑے ہونے کا اشارہ کرنے لگا ۔۔ جو سمجھتے ایک جانب ہوا تھا ۔۔"
" تمہیں تمیز نام کی چیز نہیں ایک تو گنڈے ہو اور اوپر سے ایسے دھمکی لگا رہے ہو ۔۔۔ اب کی بار انسپکٹر نوید نے کھڑے ہوتے غراتے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔۔ جبکہ بھاؤں نے ہاتھ کانوں پہ رکھا۔۔۔
آواز آہستہ کر پولیس کے چمچمے۔۔۔ تجھے کسی نے بتایا نہیں کہ بھاؤں کو سخت ناگوار لگتا ہے کہ کسی کی آواز بھاؤں سے اونچی ہو۔۔۔ اسے نفرت سے سر تا پاؤں گھورتے بھاؤں نے سامنے میز پہ رکھا پانی کا گلاس اٹھاتے منہ کو لگایا۔۔۔
اسکی بات پہ وہاں موجود سب نے اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کی تھی ۔ جسے دیکھ انسپیکٹر نوید نے غصے سے اسکے ہاتھ میں پکڑا گلاس زور سے دور اچھالا۔۔۔۔ گلاس گرنے کے ساتھ کانچ کے ٹوٹنے کی آواز ایک دم سے ماحول میں سکتہ سا چھا گیا ۔۔ سب کی خاموش نظریں بھاؤں پہ تھیں ۔۔۔۔ "
" تیری اتنی ہمت۔۔۔ ایک دم سے وہ غصے سے کھڑا ہوا تھا کرسی دھڑام سے دور جا گری تھی جبکہ مقابل کی گردن اب بھاؤں کے ہاتھ میں تھی۔۔ جسے کھینچتے وہ میز پہ لٹا چکا تھا ۔ "
بب بھاؤں چچ چھوڑ دیں۔۔۔ یہ نئے ہیں۔۔ آپکو نہیں جانتے۔۔۔ خوالدار نے ڈرتے آگے بڑھ کر اسکے سامنے ہاتھ جوڑے تھے جسکا غصے سوا نیزے پہ تھا۔
کب سے تجھے دیکھ رہا ہوں کتے کی طرح بھونک رہا ہے توں ۔ پہلے پتہ تو کرنا تھا کس کے علاقے میں آیا ہے توں۔جو یوں میرے سامنے بھونک رہا ہے۔۔ اسکی گردن پہ دباؤ بڑھاتے وہ اس سے دگنے تیز لہجے میں غرایا تھا۔ "
" بب بھاؤں مممعاف ۔۔ خوالدار نے انسپیکٹر کے پھڑپھڑاتے ہوئے پاؤں دیکھے تھے۔۔۔۔۔ اسکی شعلے برساتی نظروں میں دیکھتے وہ متفکر سا ہوا تھا۔۔ جبکہ انسپیکٹر کی آنکھیں ایک دم سے ابل چکی تھی ۔ جیسے باہر آنے والی ہوں۔۔۔۔"
ہاتھ جوڑ کے معاف مانگ تب تجھے آزادی ملے گی ورنہ یہ سانسیں تیری زندگی کی آخری سانسیں ہونگی ۔۔۔ اسنے مزید دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ بس نہیں تھا کہ ابھی اسے جان سے مار دے۔۔۔۔۔ "
" جا رہا ہوں میں اندر اور ہاں اب دو دن تک کسی کہ شکل مت نظر ائے۔۔ ورنہ جیل کے اندر ہی دھو ڈالوں گا ۔۔ ایک دم سے اسکے جڑے ہاتھوں کو دیکھتے وہ اسے نفرت غصے سے دور پٹھک چکا تھا۔ خوالدار کو وارن کرتے وہ لاکپ کی جانب بڑھا تھا ۔۔ "
مٹھو نے حیرت سے اسے لالہ میں بند ہوتے دیکھا تھا۔ جو اب سب چیزوں سے بے نیاز سامنے ہی دیوار سے ٹیک لگائے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔۔۔
کہاں تھے اتنے دنوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔ وائٹ اور گرے کلر کے کامبینشین سے سجا ایک قدرے درمیانے سائز کا کمرہ تھا جہاں وہ ساڑھے پانچ فٹ سے نکلتا قد و قامت کسرتی تواناں بدن، براؤن کلر کی شرٹ جسکے اوپر براؤن ہی جیکٹ زیبِ تن کیے وہ اپنے بائیں ہاتھ سے مسلسل باؤل میں چمچ ہلا رہا تھا۔۔۔ ہلکے براؤن کلر کے کندھے تک جاتے بال جن کے ترتیب سے آدھے بالوں کی پونی کیے باقی یونہی کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔۔ " اسکی پشت کو دیکھتے وہ سوالیہ انداز میں سر تا پاؤں گھورتے ہوئے بولا ۔۔"
" مقابل بنا کوئی جواب دیے اپنے کام میں مشغول رہا تھا۔۔ "
" میں تم سے ہوں ، جواب تو دے دو ایٹ لیسٹ۔۔۔۔۔۔ اپنا اگنور کرنا وہ ہمشیہ کی غصے سے اسکی جانب بڑھا تھا اسکے پاس جاتے وہ اسے دیکھتے استفسار کرنے لگے۔۔۔ "
یہ یہ آواز۔ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔۔۔۔ کون ہے اوپر۔۔۔ ؟ کسی چیز کے گرنے کی آواز کے ساتھ ہی وہ چونکتے اسکی جانب متوجہ ہوئے تھے۔ جو اب اکتا چکا تھا انکے سوالات پر۔۔۔"
تم کیا کرتے پھر رہے ہو ایل جواب تو دو مجھے۔۔۔ " اب کی بار اسکا راستہ روکے وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولے تھے۔۔ جسکی سرخ ہوئی نیلی نظریں ایک بار ہی انہیں خاموش کروا چکی تھی۔۔ مگر وہ پھر بھی بنا ڈرے اسکی جانب لپکے۔۔۔ " جو ہاتھ واش کر رہا تھا۔۔۔ "
" میں خود ہی دیکھ لیتا ہوں آخر کون ہے اوپر اور تم کیا کرتے پھر رہے ہو اس کا جواب تمہیں دینا ہو گا ۔۔ آج۔۔۔۔۔ "
اسکا مسلسل اگنور کرنا وہ بیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں۔ کہ میں مزید کوئی بدتمیزی ناں کروں تو مہربانی فرما کے مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔۔۔ "
" اسکی نفرت سے لبریز سرد آواز پہ وہ ایک دم سے قدم روکے تھم سا گئے۔۔۔ "
" کیا کہنا چاہ رہے ہو تم ۔۔۔ تم کیا کرتے پھر رہے ہو ، مجھے کچھ بتاؤ گے باپ ہوں میں تمہارا ، سٹوپڈ۔۔۔۔۔ اسے گریبان سے جھنجھوڑتے وہ ہاتھ روک چکے تھے اپنا، جبکہ ایل کی شعلہ برساتی نظریں انکے تھمے ہاتھ پہ تھیں ۔۔۔ وہ طنزیہ مسکرایا تھا انکی جانب دیکھتے وہ سر جھٹکتے اپنا آپ چھڑواتے پیچھے ہوا.. "
"تم ایسے نہیں مانو گے ۔۔ "
" وہ سمجھ چکے تھے وہ جان بوجھ کے انہیں الجھا رہا تھا باتوں میں تاکہ وہ اوپر ناں جائیں ۔ "
سٹاپ اٹ مسٹر سلمان ۔۔۔ یہ میرا اپارٹمنٹ ہے اور میں اتنی پرمیشن کسی کو بھی نہیں دیتا کہ وہ یوں میری اجازت کے بغیر میری پرسنل میں انٹرفئیر کرے۔۔ وہ غصے سے ایک دم سے انکے پیچھے سے بولا تھا۔۔ "
" جبکہ سلمان نے اسے گھورتے اوپر کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔ " ایل نے مٹھیاں بھینچتے خود پہ ضبط کیا تھا۔۔۔ اور بھاگتے انکے پیچھے ہوا ۔۔۔۔"
" پہ پلیز سیو می ۔۔۔ پہ پلیز۔۔۔ سامنے ہی فرنٹ ڈور کھولتے وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئے سامنے بکھری سی حالت میں کھڑی اس لڑکی کو دیکھ انکے اوسان خطا ہو گئے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے آنکھوں میں بے یقینی سموئے ایل کو دیکھ رہے تھے ۔۔ جسکی آنکھوں میں انہیں کوئی ملال پشیمانی ڈھونڈنے سے بھی نظر ناں آئی۔۔۔۔"
" واٹ ازِ دس ۔۔۔۔۔ " ہاؤ کین یو دو دزِ ۔۔۔۔ وہ غصے سے اسکی جانب بڑھے جو اب نڈر سا کھڑا تھا ۔۔ ویسے بھی دیکھ تو لیا تھا انہوں نے اب ڈر کیسا۔۔۔۔ "
" پلیز انکل سیو می۔۔۔۔ " اپنے چہرے سے بہتے خون کو صاف کرتے وہ روتے ہوئے بولی تھی جبکہ ایل کی آنکھوں میں ایک دم سے خون اترا تھا۔۔ وہ غصے سے اس لڑکی کے ساتھ اپنے باپ کو گھورنے لگا۔ "
آپ جائیں یہاں سے ورنہ پھر یہاں قدم نہیں رکھنے دوں گا۔۔۔۔ دانت پیستے اسنے اپنی طرف سے لخاظ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔ جبکہ سلمان اپنے سامنے کھڑے اپنے چھبیس سالہ جوان بیٹے کو صدمے سے کنگ ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ "
وہ ایسا تو ناں تھا۔ پھر کیوں وہ ایسا بدتمیز، ایسا درندہ، حیوان بن چکا تھا۔۔۔ " ایل بیٹا میری بات سنو۔۔۔۔ "
ڈونٹ آج کے بعد یہ بیٹا ویٹا مجھے مت کہنا۔۔۔ آپ کا بیٹا اسی دن مر گیا تھا جس دن میری موم کو ڈائیورس دی تھی آپ نے۔۔ اور یہ لڑکی کہی نہیں جائے گی اس نے ایل کی منظورِ نظر پہ نظر رکھ کے اچھا نہیں کیا اسکا حساب میں خود کر لوں گا۔۔۔ آپ جا سکتے ہیں۔۔۔ بائیں ہاتھ سے سلمان کو دروازے کی جانب اشارہ کرتے وہ ایک نظر روتی ہوئی لڑکی کو دیکھ بولا تھا ۔۔
جس نے سلمان کے جھکے سر کو خوف سے دیکھا ۔۔"
" بیٹا یہ سب کچھ غلط ہے تم میری بات کیوں نہیں سمجھتے۔۔۔ سلمان نے شکست خوردہ سے لہجے میں ایک بار پھر سے اپنی سی کوشش کی تھی۔ ۔۔ جبکہ ایل نے ایک دم سے دروازہ بند کرتے اسکے ہر سوال کا جواب اسے لٹا دیا تھا۔۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" ایوری ون نوٹ دز فارمولا وی ٹالک اگین اباؤٹ دز۔۔۔۔۔۔۔ وائٹ بورڈ پہ لکھے فارمولے کی جانب اشارہ کرتے وہ مسکراتے لہجے میں بولی تھی۔۔ جبکہ سٹوڈنٹس نے مسکراتے فارمولا نوٹ کرنا شروع کیا تھا۔۔۔۔"
" لائٹ پنک کلر کے سوٹ میں ملبوس ساتھ کیچنگ ہی پنک حجاب میں وہ آج آگے سے کافی بہتر محسوس کر رہی تھی وجہ اپنی مما اور بابا کی خوشی ہی تھی ۔۔ کم از کم اب وہ دونوں خوش تھے اسے لے کر۔ ۔۔ آج اسے جلدی جانا تھا ، کیونکہ اسکی ہونے والی ساس آپنے بیٹھے کے ساتھ اسے دیکھنے آنے والی تھی۔۔ وہ ڈائس کے پاس جاتے گھڑی پہ وقت دیکھنے لگی ۔۔۔ کلاس آف ہونے میں ابھی بیس منٹ تھے۔۔۔ "
" سلام ایوری ون ۔۔ چلو جی آج کی کلاس یہی پہ ختم ہے اب تم سب چپ چاپ اپنا بوریہ بسترا سمیٹو اور نکلتے بنو یہاں سے ۔۔۔۔۔ ایک دم سے ٹھاہ کے ساتھ دروازہ کھولتے وہ مخصوص مغرورانہ چال چلتا آگے بڑھا تھا ۔۔۔ گلے میں پہنی اپنی موٹی سی چین کو گھماتے وہ ایک سرد نظر سب پہ جمائے اب اپنے سامنے کھڑی حیا کی جانب متوجہ ہوا تھا ۔۔۔۔"
" جو حیرت و بے یقینی کے ملے جلے تاثرات سے اپنے سامنے کھڑے شخص کو نفرت ، سے دیکھ رہی تھی۔۔۔"
" دو منٹ میں کمرہ حالی کرواؤ۔۔ ۔ اسکے مقابل جاتے اسنے دھاڑتے اسکی کالی آنکھوں میں دیکھ اونچی آواز میں کہا تھا کہ اس کے آدمی اب خود سے کھینچتے پکڑ پکڑ کے سب کو نکال رہے تھے۔۔ "
یہ کیا بے ہودگی ہے ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔ ایک دم سے کمرہ خالی ہوتے دیکھ وہ غصے سے اسے دیکھتے باہر کی جانب بڑھی تھی جبکہ مقابل نے جھٹکے سے اسکی کلائی کو پکڑتے اپنی جانب کھینچا کہ وہ چلّا اٹھی اس پہ۔۔۔۔ "
" اششششش۔۔۔۔ مجھے اونچی آواز میں بات کرنے والی لڑکیاں بالکل بھی پسند نہیں۔۔۔۔۔ خاص طور پہ وہ جو حسین کمال کی ہوں۔۔۔۔ اسکے غصے سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ وہ بائیں ہاتھ سے اسکے رخسار کو سہلانے لگا کہ حیا تڑپ اٹھی اسکے لمس پہ۔۔۔۔ "
" اسنے نفرت بے بسی سموئے اپنی سرخ ہوتی نگاہیں اٹھائے مقابل کو دیکھا تھا۔۔ جس کی آنکھیں بے تاثر تھیں ۔۔۔ مگر ان میں جھلکتی نفرت جانے کیوں حیا کو نظریں چرانے پہ مجبور کر گیا ۔۔"
" سنا ہے لڑکا آرمی میں ہے۔۔ اپن کو کسی باہر والے سے پتہ لگا۔ تو سوچا کیوں ناں گھر والوں سے خبر لی جائے۔ کیوں ٹھیک کیا ناں۔۔۔۔ وہ جھٹکے سے اسے کھنچتے کرسی پہ بٹھا گیا تھا اور ہاتھ اسکے دائیں بائیں جمائے وہ سرخ ہوتی نظروں سے اسکی جانب دیکھے گیا ۔۔ جس کی آنکھوں سے جھلکتے آنسوں بہہ دینے کو تھے۔۔۔"
" مم مجھے جانے دو۔۔۔ وو ورنہ میں بابا کو بب بتاؤں گی۔۔ اسے یونہی خود پہ جھکا دیکھ حیا نے ڈرتے وخشت زدہ سا ہوتے کہا تھا۔ آنسوں روانی سے بہتے اسکے چہرے کو بگھو رہے تھے مگر پرواہ کسے تھی۔۔۔ "
وہ جو سنجیدگی سے اسکی بات سن رہا تھا ایک دم سے قہقہ لگا اٹھا ۔ وہ سہم گئی اسکے قہقہہ پہ۔۔ جانے کیوں اسے وہ عجیب بدلہ بدلہ سا لگ رہا تھا۔۔۔"
" ابھی تک بابا کے پیچھے چھپی رہتی ہو۔۔۔ ابھی تو بڑی ہو گئی ہو شادی بھی ہونے والی ہے خیر سے۔۔۔۔ بہادر بنو ہاہاہا۔ وہ صاف اسکی بے بسی کا مذاق بنا رہا تھا مگر اسکے لہجے کی کاٹ پہ وہ لب بھینج گئی ۔ "
"ہاتھ چھوڑو میرا گھٹیا انسان۔۔۔۔۔ ایک دم سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت میں محسوس کرتے وہ چلا اٹھی تھی۔۔ " بھاؤں نے ایبرو اچکاتے اپنے بائیں ہاتھ سے داڑھی کھجائی۔۔۔ کیا ایک ہی لفظ سکھایا ہے بابا نے ۔۔۔۔ جب دیکھو گھٹیا آدمی ۔۔۔۔ اب تو اتنے سال ہو گئے۔۔ کچھ نیا سیکھ لیتی۔۔ " اسکی ڈھکی چھپی باتیں ، وہ جانے کیوں خود کو مجرم سمجھ رہی تھی۔۔۔"
" میں بڑی ہوں تم سے کچھ شرم کرو۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں کو کرسی سے بندھتا محسوس کرتی وہ بمشکل ضبط کے بولی تھی ۔۔ کہ بھاؤں نے مسکراتے اسکی بات پہ ائبرو اچکایا اور ایک گہری نظر اسکے وجود پہ ڈالی۔"
" اسکی نظروں کا مطلب سمجھتے وہ شرم سے رخ پھیر گئی ۔۔ جبکہ سانس پھول چکا تھا مسلسل خود کو چھڑوانے کی جدو جہد میں ۔۔۔۔۔"
" پلیز مجھے جانے دو میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ،۔ وہ وقت دیکھتے ایک دم سے بے بس لہجے میں منت پہ اتر آئی تھی ۔ جبکہ بھاؤں نے اسکے پاس بیٹھتے اسے غصے سے گھورا تھا ۔ "
" ویسے آج بھی وہی پرفیوم استعمال کرتی ہو خوشبو کافی اچھی ہے ۔۔ وہ گن سے ماتھا مسلتے پرزور قہقہ لگا اٹھا تھا۔ کہ حیا نے خفت اور شرم نے نچلا لب دانتوں تلے دبایا۔۔۔ "
" وہ کتنی خوش تھی آج۔ اسکی پھپھو آنے والی تھی اتنے سالوں کے بعد۔ اسکا رشتہ فائنل ہونے والا تھا اسکے ماں باپ سب ہی تو خوش تھے ، مگر پچھلے ایک گھنٹے وہ یہاں اپنی یونی میں بے بس سی بندھے ہاتھوں کے ساتھ اپنے سامنے بیٹھے بے حس کو گھور رہی تھی۔ جسے کسی بھی بات سے کوئی غرض نہیں تھی۔"
" تم میری سوچ سے بھی برے شخص ہو کیوں آئے ہو اب دوبارہ ۔۔ دفع ہو جاؤ ہم سب سے دور۔۔۔۔ وہ پانی بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے چلا اٹھی تھی جس پہ کسی بات کا بظاہر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ مگر اسکی حددرجہ سرخ ہوتی آنکھیں اسکی اندرونی کیفیت کی غمازی کر رہی تھیں۔۔۔"
" کس بات کی جلدی ہے۔۔۔۔ جاناں آج اتنے سالوں بعد ملے ہیں چند پل ہمیں بھی دے دو۔۔۔۔ پھر جانے ملاقات ہو ناں ہو۔۔۔۔ "
شاعرانہ انداز میں ہاتھوں کو پھیلائے وہ اسے دیکھ آنکھ دباتے ہوئے بولا تھا ۔۔ جبکہ حیا نے غصے سے اسے دل ہی دل میں کوستے اپنے ہاتھوں کو کھولنے کی اپنی سی سعی کی۔۔ "
" دیکھو جانے دو مجھے ورنہ میں بابا اور انکل کو سب بتاؤں گی۔ ۔۔۔وہ ایک دم سے غصے سے اسے اشعر اور حسن کی دھمکی دینے لگی ۔۔ مٹھو ۔۔۔۔ اسکی جانب غصے سے دیکھتا وہ ایک دم سے چلا اٹھا تھا ۔۔ حیا نے ڈرتے اسکی دھاڑ پہ سہمتے آنکھیں میچیں ، مٹھو منٹوں میں بوتل میں بند جن کی طرح وہاں پہ خاضر ہوا تھا۔۔ "
" جج جی بھاؤں ۔۔۔ اسکے پیچھے کھڑا ہوتے وہ اسکی پشت کو دیکھتے بولا تھا ۔ "
جو یک ٹک اپنے سامنے بت بنی بیٹھی لڑکی کو گھور رہا تھا۔۔"
" دھیان رکھنا اسکا ہاتھ پاؤں بہت چلتے ہیں اسکے ، اگر کوشش کرے بھاگنے کی تو پہلی گولی اسکی خوبصورت آنکھوں میں مارتے اسے اندھا کر دینا مگر جان سے مت مارنا ۔۔۔۔ شام کے پانچ بجے تک یہ لڑکی اگر یہاں سے نکلی تو تیری ڈولی کے اٹھنے سے پہلے ہی تیرا جنازہ نکالوں گا ۔۔۔"
" وہ بغور اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔ جسکی آنکھوں میں اسے بے یقینی بخوبی دکھی تھی۔۔۔ آنکھیں جھکا کر بات کیا کرو مجھ سے ورنہ اگر ارادہ بدل گیا اپن کا تو کہیں تمہارے لیے مشکل ناں ہو جائے ۔۔ وہ جھکتے رازداری سے اسکے کان میں سرگوشی کرتے گہرہ سانس اسکی خوشبو میں بھرتے ایک پل میں وہاں سے اوجھل ہوا تھا ۔۔ "
" جبکہ حیا نے بے بسی ، حیرت ، کے تحت الجھی سی نظروں سے اسکی اوجھل ہوتی پشت کو دیکھا تھا۔۔ جبکہ مٹھو تو پل بھر میں اسکو دیکھتا سٹپٹا کے گردن جھکا گیا۔۔ "
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" اسلام علیکم، کیسی ہو ٹڈی ۔۔۔۔ ہاف وائٹ کلر کی شرٹ ، جسکے ساتھ میچنگ ٹراؤزر پہنے بالوں کی اونچی پونی کیے گلے میں حسب معمول سٹالر لپیٹے وہ سامنے کھڑی اسے کینڈی پاپ کھاتا دیکھ افسوس سے سر ہلاتے اسکی جانب بڑھی تھی ۔۔۔ پیچھے سے کھینچتے بکس اسکے کندھے پہ ماری تھی کہ وہ بلبلا اٹھی اور اس اچانک افتاد پہ اسکا کینڈی پاپ ایک دم سے نیچے گر چکا تھا۔۔ "
" عیناں نے اسکی پھیلی آنکھوں میں دیکھتے اب ڈرتے لب دانتوں تلے دبایا ۔ عینوں یہ یہ مم میرا پاپ۔ ۔۔۔۔ وہ صدمے سے اپنے سامنے فرش پہ اوندھے منہ پڑے اپنے پاپ کو دیکھ رہی تھی ۔ جبکہ آنکھوں میں پھل پھل کرتے آنسوں عیناں کو ایک دم سے اپنی بے ساختگی پہ افسوس ہوا تھا ۔"
" میرب ۔۔۔ سو سوری یار ۔۔ وہ ہاتھ سے کان پکڑتے دل سے سوری ہوئی تھی جبکہ میرب کا دھیان تو اپنے کینڈی پاپ پر تھا ، ایک ہی تو ملتا تھا اسے پورے دن میں اور وہ بھی گرا دیا تھا عیناں نے ۔۔ وہ بے ساختہ جھکتے اسے اٹھانے لگی کہ اسکی حرکت کو بھانپتے عیناں نے ہڑبڑاتے آگے پیچھے دیکھ اسے کھینچا تھا۔۔ کتنے ہی سٹوڈنٹس انکی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔۔۔"
میرو۔۔۔ میری جان کیا کر رہی ہو ، ادھر آؤ میرے ساتھ بمشکل اسے گھیسٹتے وہ اسے کھینچتے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ جسنے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔ "
" چھوڑ مجھے بدتمیز لڑکی تیری وجہ سے میرا پاپ گر گیا ۔ کمینی بے شرم عورت۔۔۔ اسکی کمر پہ تھپڑ مارتے وہ رونے جیسے ہوئی تھی جبکہ لفظ عورت پہ عیناں نے آنکھیں پھیلائے اسے حیرت سے دیکھا۔۔ عورت اور میں ۔۔۔ "
وہ صدمے سے چیخ اٹھی تھی ۔ مگر مقابل اپنے غم میں اسکی حیرانگی بھی بھول چکی تھی۔۔"
" دفع ہو جا بات مت کرنا ۔۔ وہ غصے سے ٹشو سے آنسوں صاف کرتے اگے بڑھی تھی جبکہ عیناں نے اسکے پیچھے ہی ڈور لگائی۔۔ "
" اچھا یار ناراض مت ہو میں دعا خالہ سے کہوں گی تمہیں آج ایک اور دے دیں گی ۔۔ وہ صلح جو انداز میں اسے آفر کرنے لگی ۔۔ جبکہ میرب جانتی تھی اسکی ماں کبھی اسے کھانے کو ناں دیتی آگے ہی پاپا نے چوری دیا تھا "
" اچھا رکو تو یار آج بھائی لینے آئیں گے واپسی پہ ان کو بولوں گی لے دیں گے ۔۔۔ "
اسکا ہاتھ تھامتے وہ ہانپتے سیڑھیوں سے کھینچتے اسے لاتے ایک جانب چئیر پہ اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے بولی تھی ۔۔ جبکہ میرب نے آنکھیں چھوٹی کیے اسکی دی گئی ڈیل پہ غور کی۔۔
اگر ناں لے کر دیا تو۔۔۔ میرب کو کچھ یقین ہو چلا تھا وہ جانتی تھی کہ انزِک کبھی بھی عیناں کی بات نہیں ٹالتا تھا ۔۔"
کیا سوچ رہی ہو۔۔ اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ ابکی بار عیناں نے خوشی سے پوچھا۔۔ اگر وہ ناراض ہو جاتی تو ایک مہینے تک ناراضگی چلنی تھی جو کہ عیناں کو بالکل بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔۔"
" ہممم ایک شرط پر ۔۔۔ وہ بکس کو ایک جانب رکھتے عیناں کی معصوم صورت دیکھتے بولی تھی کہ وہ ایبرو اچکا گئی ۔۔ اگر تم آج سر لیوس کا ٹیسٹ مجھے کاپی کرواؤ گی تو۔۔ پھر سوچا جا سکتا ہے ۔"
" تم کتنی تیز ہو میرب ۔۔۔ اللہ اللہ عیناں نے سنتے ہی صدمے سے کانوں کو ہاتھ لگایا تھا ."
" اگر کر سکتی ہو تو بولو ورنہ مجھے بھی کوئی شوق نہیں۔۔۔ میرب نے اتراتے بکس اٹھائی تھی جبکہ عیناں نے دانت پیستے اسکا ہاتھ تھاما ۔۔ اوکے اب بیٹھو ۔۔۔۔ وہ منہ بسورتے واپس بیٹھی تھی ۔۔"
" عیناں یار آج میں بیت خوش ہوں ۔۔ ۔ یا ہوں۔۔۔۔ ایک دم سے حرمین جو پوری یونی میں اسے ڈھونڈ چکی تھی اب اسکے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے وہ سامنے ہی اسے چئیر پہ بیٹھا دیکھ خوشی سے چیختے اسکے پاس گئی تھی اور کھینچتے اسے اپنے گلے لگایا تھا۔۔۔"
عیناں نے ایک دم سے اسے دیکھا تھا جو خوش سے اسکے ساتھ جھول رہی تھی۔۔ وہ مسکرا دی اور زور سے اسے ہگ کیا ۔۔"
'کیا ہوا سب ٹھیک ہے۔ناں۔۔۔" عیناں نے الگ ہوتے اسکے خوشی سے دمکتے حسین چہرے اور روشن جگمگاتی گہری کالی آنکھوں میں دیکھا ، وہ سر ہلا گئی خوشی سے۔۔۔ یار ۔۔ مجھے پرمیشن مل گئی یونی کی طرف سے اب میں دوبئی جا سکوں گی ۔۔ وہ خوشی سے ایک دم سے چہکتے ہوئے بولی تھی۔۔ جبکہ عیناں کو ابھی تک یقین نہیں تھا ہوا ۔۔۔۔"
" کیا مطلب مجھے سمجھ نہیں آئی کچھ بھی۔۔۔۔ اسکے دوبئی جانے اور یونی کا تعلق عیناں کو کچھ خاص سمجھ نہیں آئی تھی وہ چونکتے پوچھ بیٹھی تھی۔۔ جو اب مسکرا دی ۔۔"
" یار موم ڈیڈ نے انکار کر دیا مجھے اکیلے بھیجنے سے تو میں نے بہت دنوں سے سوچ سوچ کے آخر دماغ لگا کر یہ آئیڈیا لگایا اور ایک ہفتے سے سر کو منا رہی ہوں آخر کار وہ مان گئے ، مجھے ایز آ سٹوڈنٹ ٹور پہ بھیجا جائے گا۔۔۔ پچھلے سال ہی اسکی سٹڈی کمپلیٹ ہوئی تھی اب وہ کچھ الگ کرنا چاہتی تھی۔ جسکی وجہ سے اسنے سب سے پہلے دوبئی وزٹ کرنا تھا۔۔ یہ اسکی اپنی خواہش تھی ۔۔
مگر نیناں اور وریام نے سختی سے انکار کر دیا تھا کہ ایسے کیسے جوان بیٹی کو اکیلے بھیج دیتے مگر شاید وہ بھول چکے تھے کہ وہ وریام کی ہی اولاد تھی اسکے جیسے ہی ضدی ۔ "
" مگر ہیرو اور مما نہیں مانیں گے۔۔ عیناں جانتی تھی کہ وریام اور نیناں انکار ہی کریں گے وہ اسے کوئی جھوٹی امید نہیں دلانا چاہتی تھی ۔ "
اس کی فکر ناں کرو ۔۔ بس آج واپسی پہ مجھے بھی ساتھ لے جانا مجھے اپنے پاٹنر کی مدد لینی پڑے گی اب۔۔۔ویام کو وہ جانتی تھی۔ وہ کبھی بھی ناں مانتا۔۔۔۔ پھر کون۔۔ عیناں نے الجھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
مگر میرب کے اشارے پہ وہ ہنسی چھپا گئی ۔۔"
اوہ۔ تو تم انزِک کی بات کر رہی ہو۔۔۔ میرب کے اشارے کو سمجھتے عیناں نے اوہ کو لمبا کھینچتے دہرایا۔۔۔ جبکہ اسکے عجیب سے انداز پہ حرمین نے اسے گھورا تھا۔۔جبکہ میرب اور عیناں اسکی ناسمجھی پہ قہقہ لگا اٹھی۔۔۔"
ایچ اے آر سے ڈیل فائنل ہو چکی ہے ۔۔ "
اپنے سامنے اسے صوفے کی بیٹھا دیکھ وہ فوراً سے پوچھ بیٹھا جس نے مخض سر ہاں میں ہلایا۔۔۔"
" ایل کو معلوم ہے اس بارے میں۔۔۔۔ مقابل کی بند آنکھوں کو دیکھتا وہ پرسوچ انداز اپناتے ہوئے بولا تھا آخر وہی تو تھا اس سب کا اصل وارث۔۔۔"
" کسے کب اور کتنا بتانا ہے یہ میں طہ کروں گی تم یا ایل نہیں۔۔۔ سو اسے ابھی ان سب سے دور رکھو۔۔۔ سگریٹ کا گہرہ کش لگاتے وہ تنفر سے بولی تھی اور جھٹکے سے اپنے بالوں کو پیچھے پھینکا ۔۔"
" وہ سلمان اس سے ملنے گیا تھا کل ۔۔ " ابکی بار مائکل نے نظریں چراتے کہا تھا۔کہ وہ صوفے کی پشت سے سر اٹھائے اسے حیرت سے دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ وہ کیا لینے گیا تھا ۔۔۔
کہیں اس لڑکی کو تو نہیں دیکھ لیا اس نے۔۔۔ اسکی نیلی آنکھوں میں ایک دم سے عجیب سے تاثرات دھر آئے تھے ۔۔مائکل نے اسکے سفید نازک ہاتھ کو تھامتے اسے ریلکس کیا۔۔۔
ڈونٹ وری جان وہ ہمارا بیٹا ہے وہ کبھی اس کی باتوں میں نہیں آئے گا ۔۔ اسنے سنبھال لیا ہے اس کو۔۔۔ وہ نرمی سے اسکے ہاتھ کو تھپتھپا رہا تھا جو اب سنتے قدرے پرسکون ہوئی تھی ._
" اسے بولو میرے پاس آئے اب اسے اسکے اصل دشمن سے واقف کروانے کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
اس لڑکی کی ساری ڈیٹلیز شئیر کر دو اور اسکے ساتھ ساتھ ایل کی دوبئی کی ٹکٹ بھی کنفرم کروا دو۔۔۔ ایل کو بلاؤ اب ایک آخری ملاقات اپنے بیٹے سے کرنی ہے مجھے باقی وہ خود سارا کھیل سنبھالے گا۔۔۔ "
شاطرانہ انداز سے مسکراتے وہ آنکھ دبا گئی کہ مقابل بیٹھا مائکل بھی قہقہ لگا اٹھا۔۔۔"
ڈیڈ پلیز۔۔۔۔۔۔ وریام کے ہاتھ کو تھامتے وہ منت بھرے لہجے میں بولی ، جبکہ وریام نے ایک نظر اپنی معصوم بچی کو دیکھتے , سامنے بیڈ کی جانب دیکھنے لگا جہاں اسکی نین فل غصے میں منہ موڑے خفا سی بیٹھی تھی۔۔ جبکہ ہاتھ میں انویلپ پکڑے وہ بھری بھری آنکھوں سے اپنے خوبرو بیٹے کو مخصوص کر رہی تھی "
"ڈید پلیز کچھ کریں ۔۔۔ دروازے سے کھسکتے وہ ایک جانب ہاتھ سینے پہ باندھے کھڑے وریام کے پاس آئی تھی اور جھکتے سرگوشی کی ۔۔"
نو۔ آنکھیں چھوٹی کیے وہ اسے گھوری سے نوازتے ہوئے بولا۔۔"
" اگر آپ بھی اپنی بیوی کی طرح مجھ سے منہ موڑ لیں گے تو اس معصوم کا کون خیال کرے گا۔۔۔"
" وریام کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ سر اسکے سینے پہ رکھتے لاڈ سے بولی تھی ۔"
" وریام نے بے بسی سے ایک نظر اپنی متاعِ جاں کو دیکھ اپنی معصوم بیٹی کو دیکھا جو اسکے سینے سے لگے اپنی ضد پوری کروانے کی خاطر اڑی ہوئی تھی۔۔"
" بیٹا تمہاری موم نہیں مانے گی ." وہ نرمی سے اسکا سر تھپکتے ہوئے بولا تھا۔۔ آگے ہی ویام کی دوری وہ ہی جانتا تھا کیسے اس نے نیناں کو اتنے سالوں سے سنھبالا تھا ورنہ وہ تو ایک پل کو بھی اپنے لاڈلے کو آنکھوں سے اوجھل ناں ہونے دیتی ۔ اب بھی تو حرمین کی ضد اور دبئی جانے کی بات پہ وہ غصے سے اسے بالکل انکار کر چکی تھی اور جبھی شام سے ہی وہ انویلپ کھولے ویام کی بچپن کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔"
" ٹھیک ہے آپ نے ہمیشہ سے بھیو کی ہر ضد پوری کی ہے میں تو آپ کی سوتیلی ہوں مجھے اب آپ دونوں سے بات نہیں کرنی ۔ آنے دیں دادی دادو کو واپس میں اب ان دونوں سے ہی کہوں گی ۔۔۔ "
وہ غصے سے منہ پھولائے پیر پٹھکتے وہاں سے نکلی تھی جبکہ وریام نے اسے روکنا چاہا تھا مگر اب وہ بھی ماں کے جیسے ناراض تھی شاید۔۔۔۔"
" نین ۔۔۔ ۔۔ وہ چلتا اسکے پاس بیٹھا تھا ۔۔ مگر نیناں بنا اسکی بات کا جواب دیے سامنے اپنی گود کی جانب دیکھ رہی تھی جہاں تصویر پہ دکھتے منظر کو دیکھ وریام نے بے ساختہ قہقہ لگایا تھا ۔۔ اسے یوں ہنستا دیکھ نیناں نے غصے سے اسے دیکھا کہ وہ سٹپٹاتے سیدھا ہو بیٹھا۔۔۔۔"
" ویسے دیکھ لو میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں زیادہ اچھے سے میک اپ کرتا ہوں۔۔۔ وہ پیچھے سے اسے حصار میں لیتے سامنے تصویر میں۔ قید منظر کو دیکھتا مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔ " جہاں سامنے ایک جانب وہ دونوں باپ بیٹا کھڑے تھے اور نیناں مرر میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی۔"
" اسے یاد تھا آج بھی وہ دن جب دعا کی شادی پہ نیناں کتنے دل سے تیار ہوئی تھی مگر جاتے وقت ویام نے اسے پکڑتے روک لیا تھا۔۔ کیا ہوا بیٹا ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔ ڈیڈ ویٹ کر رہے ہونگے تمہارے۔۔۔ "
" وہ مسکراتے اسکے بھورے بال بکھیرتے اسکی پیشانی چومتے ہوئے بولی تھی۔ ویام مسکرا دیا اپنی موم کی محبت پہ وگرنہ اتنی ہمت اگر کوئی اور کرتا ہوں اسکے بال بکھیرنے کی تو جانے وہ کیسے اسے سزا دیتا۔۔۔۔"
" وہ بنا جواب دیے اسے لیتے اپنے روم میں لایا تھا ۔۔ نیناں بنا کچھ کہے خاموشی سے اسکے ساتھ چل دی تھی۔۔ نین آپ بیٹھیں۔۔۔ وہ سامنے مرر کے سامنے رکھی چئیر کی جانب اشارہ کرتے اپنی کبرڈ میں گھسا تھا۔۔ نیناں نے حیرانگی سے اپنی لاڈلے کو دیکھا مگر پھر خاموش سے اسے اوبزرو کرنے لگی۔ "
" نین یہ آپ کیلئے لگائیں اسے ۔۔۔۔ وہ ایک باکس نکالتے واپس آیا تھا۔۔ اور لپ اسٹک نکالتے نیناں کی جانب بڑھائی۔ جو ہڑبڑا دی اسکی بات پہ۔۔۔"
" بیٹا یہ کیا ہے۔۔ نیناں نے ناسمجھی سے اس پنک لپ اسٹک کو دیکھتے استفسار کیا۔ ویام نے مسکراتے اپنی موم کو دیکھا۔
مگر ویام میری جان میں یہ سب نہیں لگاتی مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔ وہ منہ بسورتے اسے منع کر گئی ۔ جبکہ ویام نے خفا سا ہوتے اپنی موم کو دیکھا۔۔ کیوں نین فدک آنٹی بھی تو لگاتی ہیں ۔۔
ویام چاہتا تھا کہ اسکی موم بھی دوسروں کے جیسے بن سنور کے جائے۔ اسنے غور کی تھی الایہ نے بھی تو لگائی ہوتی تھی حالانکہ وہ تو چھوٹی سی تھی ابھی۔۔۔۔"
" اوکے آپ بیٹھیں میں لگاتا ہوں ۔۔۔ وہ بنا اسکی سنے خود سے ہی اسے لپ اسٹک لگانے لگا۔ جبکہ نیناں نے بے بس ہوتے اس چھوٹے پیس کو گھورا۔ ۔"
کیا ہو رہا ہے یار میں باہر گاڑی میں بیٹھ بیٹھ کے تھک چکا ہوں اور ایک تم دونوں ہو کہ ۔۔۔۔ وریام نان سٹاپ بولتے اندر داخل ہوا تھا جہاں سامنے کا منظر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا وہ منہ کھولے اپنے غصیلے بیٹے کو اور اپنی نین کو دیکھ رہا تھا جو اسکے سامنے خاموش سی بیٹھی تھی۔ "
" یہ سب کیا ہو رہا یے۔ وہ حیرت و صدمے سے چیخ ہی تو پڑا تھا کبھی اسے تو ناں دی تھی اتنی جگہ ۔۔۔ اور آج اپنے دشمن اول کو یوں دیکھ وہ صدمے سے گویا ہوا۔۔۔۔ ڈسٹرب مت کریں مسٹر کاظمی اور کتنی دفع کہا ہے کہ آرام سے بولا کریں۔ وہ جو بڑی توجہ سے اپنی موم کو میک اپ کر رہا تھا اب یوں وریام کے چلانے پہ وہ خاصا بدمزہ ہوتے بولا۔۔ "
"اسے شروع سے یہ شور ، بے وجہ بولنا سخت ناپسند تھا یہ سب ۔جبکہ اسکے برعکس وریام کا مشغول مشغلہ تھا یہ سب کرنا۔ اور اسی وجہ سے بھی دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے خار محسوس کرتے تھے۔۔"
" ڈسٹرب کے بچے چھوڑ میری بیوی کو۔۔۔ یہ سب کیا ہے نین تمہیں اس سے تیار ہونے کی کیا ضرورت ہے میں تیار کروں گا تمہیں۔۔۔ اپنے دس سالہ چھوٹے پیس کو گھورتے وہ ایک جانب کرتے اب خود ہی سامان پکڑے تیار کھڑا تھا۔۔ جبکہ نیناں کی سنتے آنکھیں صدمے سے باہر آنے کو تھیں۔ "
میں تیار کروں گا نین کو ،دیں مجھے مسٹر کاظمی۔۔۔۔ اپنے باپ کو گھورے وہ سنجیدگی سے اپنا سامان اسکے ہاتھوں سے لینے لگا ۔۔ کتنی بار کہا ہے موم کہا کرو ۔۔ بے شرم الو کے پٹھے۔ ۔۔۔ نین وہ صرف میرے لئے ہے ۔۔ "
۔" ان کی دوبارہ سے شروع ہوتی جنگ پہ نیناں نے سر تھام لیا تھا وہ تنگ آ چکی روز روز کی ایک ہی لڑائی سے۔۔۔ اسنے صدمے سے خود کو آئنے میں دیکھا جہاں کچھ اور ہی نقشہ بنا تھا اسکا ۔۔۔"
" میں کروں گا تیار۔۔ ابھی وہ کچھ کہتی کہ اس سے پہلے سے وریام فورا سے آگے بڑھا تھا اور اب خود اسکے خوبصورت نقوش کی بگاڑ اپنے ہاتھوں سے کرنے لگا۔ ویام نے باپ ہونے کی عزت رکھتے بےبسی سے مٹھیاں بھینچی ۔۔۔"
" چھوڑیں مجھے کرنے دیں ۔۔ دو منٹ بعد وہ آگے بڑھتے بولا تھا جبکہ نیناں نے سامنے گھڑی پہ ٹائم دیکھا ۔۔ اچھی خاصی وہ تیار تھی ۔ جانے کیا سوجھا ان دونوں باپ بیٹے کو۔ وہ تھک ہار کے کرسی کی پشت سے سر ٹکا گئی۔ "
" نین آں ۔۔۔۔
کک کیا ہوا ۔۔۔ ۔ وہ جو غصے سے آنکھیں موندیں ہوئے تھی اب اچانک ان باپ بیٹے کو کیا ہوا۔۔۔۔"
وہ حیرت سے حواس بافتہ سی ہوتے ان سے پوچھ بیٹھی ۔۔ دونوں نے منہ کھولے اسے سامنے مرر کی جانب اشارہ کیا۔ نیناں نے ناسمجھی سے دونوں کو دیکھ ابکی بار مرر کی جانب دیکھا ۔۔ مگر ایک دم سے اسکی دل دہلا دینے والی چیخ کہ وہ دونوں ہی سنتے کانوں پہ ہاتھ رکھ گئے۔ جبکہ نیناں تو اپنا آج سنوارا روپ دیکھ غم و غصے اور کچھ ڈر سے پریشان ہوئی تھی ۔۔
وہ فورا سے اٹھتے مرر کی جانب بڑھی تھی اور غور سے اپنی آنکھوں کو دیکھا جس پہ ایک جانب ایک آنکھ پر بالکل سیاہ کلر تو دوسری جانب گولڈن آئی شیڈ لگا ہوا تھا اور ہونٹ جو آدھے سرخ تو آدھے گلابی تھے۔ اور گالوں پہ اس قدر تیز گاڑھا سرخ کلر ایک پل کو تو اسے یقین نا ہوا کہ وہ خود ہی تھی ۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ اٹھاتے اپنے چہرے کو چھوا تھا۔۔ "
جبکہ وریام اور ویام دونوں باپ بیٹا ۔۔ اب ترچھی نگاہوں سے اس کی ایک ایک حرکت ملاحظہ فرما رہے تھے۔۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ چیختی وہ دونوں بھاگ چکے تھے۔۔ ویام بھاگ۔ وریام نے سپیڈ سے آگے بڑھتے اپنے چھوٹے پیس کو آواز دی تھی۔۔ ویام نے ہڑبڑاتے اپنی معصوم ماں کو دیکھا جو بالکل اسے ایک چڑیل لگی تھی ۔۔
پہلی بار اپنے باپ کی بات سے متفق ہوتے وہ اس کے پیچھے ہی بھاگا تھا۔۔
وریام آپ بلا دیں اسے۔۔۔ پلیز۔۔۔ نیناں کی نم آواز ، پہ وہ فورا سے آنکھیں صاف کرتا خود سے لپٹی اپنی متاعِ جاں کے گرد مضبوط حصار بناتے ماضی سے نکلا ۔۔
تصویر اسکے ہاتھ سے پکڑتے اسنے ایک جانب میز پہ رکھی تھی۔۔۔
آ جائے گا جلد ہی جہاں اتنا انتظار کیا ہے وہاں کچھ دن اور۔۔۔۔
وہ خود اپنے شہزادے کو مس کر رہا تھا ۔۔ جانتا تھا چاہے بظاہر دونوں جتنا بھی جھگڑتے آ رہے ہوں ۔ مگر وہ بھی اپنے باپ سے اسی قدر محبت کرتا تھا جس قدر وریام کو وہ عزیز تھا۔"
" وریام میں حرمین کو کہیں نہیں جانے دوں گی ۔۔ میں پہلے ہی بتا رہی ہوں۔ وہ اچانک سے یاد آنے پہ اسکے سینے سے سر اٹھائے اسے باور کروانے لگی ۔
جو حکم میری زندگی۔۔۔۔ اسکے آنسوصاف کرتے وریام نے مسکراتے اسکی آنکھوں پہ بوسہ دیا تھا۔ "
وہ جانتا تھا ویام کے بعد اب وہ حرمین کو دور نہیں جانے دے گی مگر وہ اپنی اس پاگل ضدی بیٹی کو کیسے سمجھاتاجو ابھی بھی خفا ہوتے گئی تھی۔۔"
"نماز پڑھیں اسکے سر پہ بوسہ دیتے وہ وقت دیکھتے بولا تھا ۔۔ نیناں نے ایک نظر اپنے وریام کو دیکھا فورا سے مسکراتے اس نے دوپٹہ اوڑھتے سر ہاں میں ہلایا ۔ "
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" لیٹس گو بے بی۔۔۔۔۔ "
" بلیک شرٹ کے اوپر بلیک ہی واسکٹ پہنے بھورے بال جو آج اچھے سے سیٹ کیے تھے ۔ بھوری نظروں میں۔ بلا کی سنجیدگی سموئے وہ ایک نظر اپنے سامنے بلیک میکسی میں کھڑی لڑکی کو کروفت سے دیکھ رہا تھا۔۔
اس کی آنکھوں کے تاثرات وہ پڑھنے سے قاصر تھی ، جبھی بنا جانے اسے اپنے ساتھ ڈانس فلور کی جانب لے جانے لگی۔"
" یہ نہیں چھوڑے گا اسے ۔۔ دور ٹیبل پہ بیٹھی الایہ نے اپنے ساتھ بیٹھے کرپس کی جانب دیکھتے کہا تھا۔ "
" یار ویسے تم نے اچھا نہیں کیا اسے پھنسا کر۔۔۔۔ کرپس نے ایک نظر سامنے فلور کی جانب دیکھ مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ ویام کی طبیعت سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔۔ وہ تو کسی بھی لڑکی سے ٹھیک سے سلام تک کرنا گنوارہ نہیں کرتا تھا کجا کے ریلیشن بناتے ڈانس کرنا۔۔۔ "
" جانتی ہوں۔۔ مگر کیا کروں بڑے حساب نکلتے ہیں اس کی جانب جب تک حساب پورا ناں ہو جائے اس دل کو چین ہی تو نہیں آتا۔۔۔"
اپنی بائیں کندھے سے بالوں کو جھٹکتے وہ مسکراتی ایک ادا سے بولی تھی جبکہ کرپس سر ہلاتے رہ گیا۔۔"
اب دیکھنا یہ ویام خود بخود یہاں سے باہر جائے گا پھر سر اسکی بجائے مجھے کیس ہینڈل کرنے کا بولیں گے۔۔ کولڈرنک کا سپ لگاتے وہ یقین سے بولی۔ تھی کیونکہ وہ جانتی تھی ۔ چاہے وہ شکل و صورت میں اپنے باپ کی کاپی تھا مگر عادات میں بالکل الٹ تھا۔۔"
" وریام جس قدر ہنس مکھ تھا ویام اسی قدر خود میں رہنے والا سنجیدہ سا تھا۔۔ وریام کی دوستی لڑکیوں سے شروع ان پہ ختم ہوتی تھی جبکہ ویام تو لڑکیوں کے سائے سے بھی دور رہتا تھا۔۔"
" اسے پورا یقین تھا کہ ویام اس لڑکی کو ہینڈل نہیں کر پائے گا جبھی تو وہ پریقین تھی ۔۔ پھر اس کے بعد ان کی زندگی کا پہلا کیس وہ خود ہینڈل کرنا چاہتی تھی جس میں ویام اسکے انڈر کام کرے گا۔۔۔ اپنی سوچ میں ڈوبی وہ اچانک سے لائٹ کے آف ہونے پہ چونکتے کرپس کو مخاطب کرنے لگی۔۔"
" جو خود پریشان سا تھا، ۔۔۔۔۔۔"
" ابھی وہ کچھ سمجھتے کہ اچانک سے فلور پہ ایک دم سے سپورٹ لائٹ آن ہوئی تھی۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھتے سر نفی میں ہلایا کہ یہ سب کیا تھا وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے۔۔"
اچانک سے ایک کے بعد ایک کرتے لائٹس آن ہوئی تھی۔۔۔ سامنے ہی رخ دوسری جانب کیے کھڑے شخص کی مائک سے سریلی آواز گونجی کہ دونوں غش کھانے کو تھے۔۔ یہ آواز تو وہ دونوں ہزاروں میں بھی پہچان سکتے تھے۔"
" اچانک سے مقابل رخ پھیرتے سامنے ہوا تھا جہاں بار میں ایک دم سے تالیوں کی گونج اٹھی تھی الایہ اور کرپس کا منہ حیرت و بے یقینی سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔ جبکہ ویام مسکراتا اب ایک جانب شاک کی کیفیت میں کھڑی جولی کے پاس گیا ۔۔ ایک دم سے وہ پاؤں کے بل نیچے بیٹھا تھا اور ہاتھ اسکی جانب پھیلایا ۔ جسے اسنے خوشی سے تھاما تھا ۔۔ ویام مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھتا اب دوبارہ سے فلور کے درمیان میں گیا تھا۔۔۔"
"یہ اپنا ویام ہو ہی نہیں سکتا۔۔ کرپس نے الایہ کے کندھے کو جھنجھوڑا جو خود بھی ابھی تک شاک میں تھی ۔ کہاں یہ لڑکا کسی کو بلانا گنوارہ نہیں کرتا تھا مگر اب وہ اسیے خوشی سے اسکا ساتھ جھول رہا تھا کہ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ناٹک کر رہا ہے۔۔۔ "
" ویام تمہیں میں نہیں چھوڑوں گی ۔۔ وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولی تھی اور ایک دم سے اٹھتے وہ ایک جانب بھیڑ میں سے ہوتے وہاں سے نکلی تھی اور واشروم کی جانب بڑھی ۔۔"
بلیک فل ڈریس پینٹ کوٹ کے نیچے پہنی ہائی ہیلز کی ٹک ٹک کی آواز خاموش فضا میں ارتعاش برپا کر رہی تھی۔۔ وہ غصے سے آگے بڑھی تھی۔۔۔ ہال سے لیفٹ لیتے وہ ایک دم سے اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔"
کہاں گئی ابھی یہیں تو تھی ۔۔ وہ جو ایک گھنٹے سے اسکا پیچھا کر رہا تھا اب یوں اسے اٹھتا دیکھ وہ اسکے پیچھے ہی واشروم کی جانب آیا تھا مگر اب سارے رومز چیک کرنے کے باوجود اسے ناں پاتے وہ پریشانی سے گویا ہوا۔۔۔"
" اششششش ۔۔ شششش۔۔۔۔ اچانک سے اسے اپنی پیچھے سے سیٹی کی آواز کے بعد آواز سنائی دی۔۔ وہ ایک دم سے چوکس ہوا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ میں تھامی گن سے مڑتے اس پہ حملہ کرتا اس سے پہلے ہی الایہ نے ایک دم سے جھکتے اسکا نشانہ رد کیا تھا اور ٹرن کرتے ایک دم سے وہ اپنے بھاری بوٹ سے اسکے کان اور گردن کے بیچ کک کر چکی تھی۔"
" مقابل ایک دم ابلتی آنکھوں کے ساتھ زمین بوس ہوا۔۔۔ الایہ نے ایک نظر اس بے ہوش ہوئے وجود کو دیکھا تھا اور کپڑے جھاڑتے اسکے پاس نیچے بیٹھی۔۔۔"
" مل گیا شکار۔۔۔ اب اس لڑکی کو ہینڈل کرو میں اور کرپس باہر بیک گیٹ پر ہیں۔۔۔۔ اسے ہدایت دیتی وہ اسکی گردن پہ نس ٹٹولنے لگی۔۔ اٹھاؤ اسے گاڑی میں ڈالو۔ "
کرپس کو اندر آتا دیکھ وہ ہدایت کرتی اپنے کب سے گردن پہ جھبتے بالوں کو باندھتے باہر کو بڑھی تھی۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
"بیٹا آپ ٹھیک ہو۔۔۔۔۔!" گاڑی میں بیٹھتے ہی اشعر نے پانی کی بوتل اسکی جانب بڑھائی جو ابھی تک ڈری سہمی ہوئی سی بیٹھی تھی ."
" جج جی انکل ۔۔۔۔ حیا نے نمی سموئی بھیگی پلکوں سے اشعر کی جانب دیکھتے پھیکی سی مسکراہٹ سجائے کہا تھا ."
" جو پرسکون تو نہیں تھا مگر گہری سانس بھرتے وہ خاموش سا ہوتے رہ گیا۔۔۔"
" بیٹا آپ اندر جاؤ آپ کی پھپھو اندر ہی ہیں اور پریشان مت ہو۔۔ وہ لوگ کل آئیں گے آج وہ کسی وجہ سے نہیں آ سکے ۔۔۔ "
اسکی پریشانی بھانپتے اشعر نے خود سے ہی گاڑی روکتے اسے آگاہ کیا۔۔ مگر وہ پریشان بھی تھی خود کو اتنے سالوں کے بعد یوں اسی گھر میں دیکھتے ۔ کتنی یادیں جڑی تھی اسکے بچپن کی ۔"
" مگر انکل۔۔ وہ لب کچلتے اشعر کو دیکھنے لگی ۔"
آپ کی پھپھو خفا ضرور ہیں مگر بیمار بھی ہیں کیا آپ ان سے نہیں ملیں گی ۔ "
" اشعر نے پرامید نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا کو خاموشی سے سر جھکا گئی ۔"
" انکل آپ اذلان سے کہیں وہ کیوں نہیں واپس آ جاتا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی اولاد کا دکھ رمشہ کی اس حالت کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ وہ چاہتی تھی اس کی پھپھو پھر سے پہلے کے جیسی ہو جائیں خوش و خرم۔۔۔۔ "
" اسکی ٹریننگ ختم ہونے والی ہے پرسوں تک آ جائے گا۔۔۔ وہ مسکراتے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ۔۔ مگر یہ ناں بتا سکا کہ اسکا بیٹا جھوٹ بولتے ایک سال سے مری میں مقیم تھا مگر اشعر جانتا تھا اسکی ٹریننگ ایک سال پہلے ہی ختم ہو چکی تھی اور اس وقت وہ ایس پی اذلان کے نام سے مری میں مقیم تھا۔۔۔"
" مگر شاید یہ بھول تھی اس کی کہ اشعر اس سے بے خبر ہے ، جبھی اس نے خود سے فیصلہ لیا تھا کہ کل وہ خود جائے گا اسے لینے اسی وجہ سے وہ حیا کو ساتھ لایا تھا تاکہ وہ سنبھال سکے رمشہ کو ، پھر وہ سکون سے جا سکے مری اذلان کے پاس۔۔۔"
" انکل چلیں۔۔۔۔ اسے خیالوں میں کھویا دیکھ رمشہ نے اسے دوبارہ سے مخاطب کیا وہ ہاں کہتا اسکے ساتھ ہی باہر نکلا تھا اور اندر داخل ہوا ۔"
" جاؤ اندر ہیں ۔۔۔۔۔ "
وہ اندر داخل ہوئے تھے ۔ مگر حیا ابھی تک پریشان تھی وہ کیسے سامنا کرتی اپنی پھپھو کا ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔"
۔جج جی میں جاؤں۔ وہ سہمی نظروں سے اشعر کی جانب دیکھتے بولی اشعر نے لب دبائے مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔ جائیں۔۔۔"
وہ سر ہلاتے مسکراتا گویا ہوا۔۔"
حیا مرے قدموں سے بمشکل سے چلتے آگے بڑھ رہی تھی دروازے کے پاس پہنچتے اسنے پیچھے کی جانب مڑتے دیکھا مگر اشعر کو وہیں کھڑا دیکھ وہ ہلکا سا مسکرائی تھی اور پھر اللہ کو یاد کرتے وہ ڈرتے دہک دہک کرتے دل سے ڈور کھولتے اندر داخل ہوئی۔۔"
" وو وہ ممم میں ۔۔۔۔"
ایک دم سے دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ جو خلاؤں کو گھور رہی تھی چونکتے دروازے کی جانب دیکھا۔۔ حیا کو یوں اچانک دیکھتے رمشہ فوراً سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔ حیا نے ڈرتے بولنا چاہا مگر الفاظ جیسے ختم ہو گئے تھے۔۔۔"
" سس سوری پھپھو ۔۔ رمشہ کی غصے سے لبریز نظریں دیکھ وہ فورا سے معافی مانگتے باہر کو بھاگی ۔"
" حیا۔۔۔۔ "
" رمشہ کی آواز پہ وہ ایک دم سے قدم روک گئی۔ اسے یقین نہیں تھا کہ اسکی پھپھو اسے یوں مخاطب کریں گی۔۔۔"
وہ لب دانتوں تلے دبائے سرخ چہرے سے مڑی تھی۔۔ رمشہ نے اسے اشارے سے اپنے پاس آنے کا کہا۔۔ وہ قدم قدم اٹھائے اسکے پاس گئی تھی ۔ رمشہ نے پکڑتے اسے پاس بٹھایا۔۔"
"ملو گی نہیں مجھ سے۔۔۔ رمشہ نے خفا ہوتے لہجے سے اسکے چہرے کو تھوڑی سے پکڑتے اونچا کرا تھا۔"
" اسکا معصوم چہرہ دیکھ پل بھر میں سارا غصہ ساری ناراضگی ہوا ہوئی تھی اسکی۔۔ "
وہ کسیے یقین کر لیتی اسکی معصوم بھیجتی جھوٹ بول سکتی تھی تو کیا پھر اسکے بیٹے نے ۔۔۔۔ وہ مر کے بھی نہیں مان سکتی تھی کہ اسکا بیٹا کبھی ایسی کوئی حرکت کرے گا ۔ مگر جو بھی تھا حیا خود سے آئی تھی اسکے پاس وہ کیوں اس سے ناراض ہوتی. "
" اتنے سال بعد پھپھو کی یاد آئی۔۔۔ اسکی پیشانی کو محبت سے چھوتے رمشہ نے خفا ہوتے کہا تھا جبکہ حیا تو اسکے اتنے سے لاڈ پیار پر سسک اٹھی تھی ایک دم سے اسنے رمشہ کے گلے لگتے رونا شروع کر دیا تھا۔ جبکہ رمشہ نے نرمی سے اسکے سر کو سہلاتے اسکے سر پہ محبت بھرا بوسہ دیا۔ "
" بس اب چپ کر جاؤ ورنہ بھائی نے کہنا کہ ان کی بیٹی کو مارا ہے میں نے ۔۔ رمشہ نے شرارت سموئے لہجے میں اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے دیکھ کہا تھا ۔۔ حیا کھلھلا اٹھی اسکی بات پہ۔۔۔"
" پھپھو آج میں آپ کے پاس رہوں گی ۔۔ وہ لاڈ سے بولی تھی جبکہ رمشہ اتنے سالوں بعد خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھی ۔
کیوں نہیں میری جان آپ یہاں رہ سکتی ہو۔۔ "
" رمشہ نے مسکراتے اسے دیکھ حامی بھری تھی۔ ۔۔
اوکے میں بابا کو بتا دوں ۔۔ وہ فورآ سے اٹھی تھی اور موبائل نکالتے وہ حسن کو کال کرنے لگی ۔ جبکہ رمشہ نے گہرہ سانس فضا کے سپرد کرتے آنکھیں موندی تھی۔۔ ایک آنسو اسکی بند آنکھوں سے لرزتے باہر کو نکلا تھا۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
الفتِ عشق (جنونِ عشق سیزن ٹو)🔥
قسط نمبر ۶
از قلم_ زینب_راجپوت
اجازت کے بغیر کاپی کرنا ممنوع ہے 🚫🚫۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🔥🔥🔥اج کی ایپی غور سے پڑھیں تقریباً سب سمجھ آ جائے گا۔۔۔🔥🔥🔥
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" اسلام علیکم پھپھو ۔۔۔۔۔ "
وعلیکم السلام ارے کیا بات ہے آج تو حور صبح صبح ہی آ گئی بڑی بات ہے بیٹا۔۔۔"
" فدک جو کہ ناشتہ ٹیبل پہ سیٹ کر رہی تھی اچانک سے حرمین کی آمد پہ وہ خوش ہوتے اسکے گلے ملتے محبت سے گویا ہوئی۔"
" جبکہ حرمین نے پھیکی سی مسکراہٹ سے مسکراتے سر جھکایا۔۔ کچھ نہیں پھپھو وہ بس انزِک سے ملنے آئی ہوں کیا گھر ہے وہ۔۔۔ "
" بنا تکلف کے وہ فوراً سے مسکراتے کرسی پہ بیگ رکھتے ہوئی بولی تھی جبکہ فدک مسکرائی اسکی پہ بات پہ۔۔
ارے کیوں نہیں بیٹا مل لو گھر ہی ہے۔ویسے بھی اگر تمہارا پتہ چلا ناں پھر تو کام کاج چھوڑتے بھی ملے گا۔۔۔"
" فدک نے مسکراتے ہوئے لہجے میں اسے آگاہ کیا تھا۔جو خوش ہوئی سنتے ۔
اچھا پھپھو پھر میں عیناں اور انزِک سے مل لوں۔۔ "
وہ فدک کے گال پہ بوسہ دیتے دوڑتے اوپر کی جانب گئی تھی جبکہ فدک ارے ارے کہتی رہ گئی۔ "
" کیا بات ہے بیگم کیوں مسکرایا جا رہا ہے ۔ رافع جو ٹائی باندھتے باہر آیا تھا آج یوں صبح ہی صبح فدک کو مسکراتے دیکھ وہ پوچھتے چئیر گھیسٹتے بیٹھا۔"
" کچھ نہیں میں سوچ رہی ہوں کیوں ناں ہم اپنے انزِک کیلئے حور کا ہاتھ مانگ لیں۔ بھائی سے۔۔۔ کب سے اپنے دل کی بات وہ کہے بنا رہ نہیں پائی تھی ۔۔۔"
" بات تو تمہاری ٹھیک ہے فدک مگر عیناں اور ویام کا تم جانتی ہو اور اب ایسے کیسے۔۔۔
رافع نے اسے سمجھانا چاہا تھا اسے خود بھی حرمین بہت عزیز تھی مگر وہ ایک رشتے پہ دوسرا نہیں کرنا چاہتا تھا کہ کہیں بعد میں مسلئے مسائل ناں ہوں۔۔"
او ہو رافع کچھ نہیں ہوتا ۔ ۔۔۔ ویام تو ماشاء اللہ سے سمجھدار بچہ ہے۔۔ آپ بس راضی ہو جائیں ۔۔ "
" ہمممم کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ پہلے الایہ کیلئے کوئی اچھا سا رشتہ مل جائے آپ جانتی ہیں وہ اور ویام ہم عمر ہیں۔۔اور ابھی انزِک چھوٹا ہے۔۔ وہ اور حرمین دونوں ہی ہم عمر ہیں۔ اصولاً الایہ ہماری بڑی بیٹی ہے اور اس کی عمر بھی اب چھبیس ہونے والی ہے ۔۔ تو پہلے عیناں اور الایہ کو رخصت کریں گے ۔۔ "
" فدک کے ہاتھ کو تھامتے وہ تحمل سے گویا ہوا۔۔ جبکہ فدک گہری سرد سانس خارج کرتے رہ گئئ۔۔"
" رافع آپ جانتے ہیں اپنی ضدی بیٹی کو میری تو آج تک اس نے کوئی بھی بات نہیں مانی اب کونسا کوئی مانے گی۔۔ دیکھا نہیں آپ نے کس طرح لڑ جھگڑ کر گئی ہے ٹریننگ پہ۔۔۔ چار سال ہونے والے ہیں مگر مجال ہے جو ایک بار بھی ماں سے بات کی ہو اس نے۔۔"
" الایہ کے ذکر پہ فدک کی آنکھیں نم ہوئی تھی یوں بھی وہ اسی وجہ سے اسکا ذکر کم کیا کرتی تھی۔۔ "
" غلطی آپ کی بھی ہے آپ جانتی ہیں۔ کہ اسپیشل فورسز میں جانا اس کا جذبہ ہے بچپن سے اس نے ویام کے ساتھ یہی خواب سجایا تھا تو پھر وہ کیسے آپ کی بے جا ضد کی وجہ سے انکار کرتی۔۔۔"
" آج اتنے دنوں بعد وہ دوبارہ سے اس سے وہی بحث کر رہا تھا۔۔ جبکہ جانتا تھا فدک ابھی بھی الایہ سے ناراض تھی ۔۔۔"
" رافع آپ اسے ہوشیاری مت دیں۔۔ آپ کی ہی وجہ سے وہ اس قدر ضدی ہو گئی ہے۔۔ آنے دیں اسے کرتی ہوں میں رمشہ سے بات۔۔۔ "
فدک نے آج تہیہ کر لیا تھا وہ کہتی نظریں چرائے وہاں سے اٹھی تھی جبکہ رافع نے فورا سے اسے روکا اور ہاتھ پکڑتے دوبارہ کرسی پہ بٹھایا۔۔"
" کیا بات کرنی ہے رمشہ سے۔۔ وہ جانتا تھا مگر پھر بھی پوچھا ۔۔
آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ جانتے نہیں کہ الایہ کا رشتہ ہم نے بچپن میں ہی اشعر کے بیٹے اذلان سے طہ ہے۔اور اب بس وہ ٹریننگ سے آئے تو میں بات کرتی ہوں نیناں اور رمشہ سے , عیناں کے ساتھ ساتھ ہم الایہ کو بھی رخصت کریں گے ۔"
" فدک نے کچھ سوچتے عزم سے کہا تھا۔۔ ویسے بھی رافع ٹھیک کہہ رہا تھا پہلے وہ الایہ اور عیناں کو رخصت کرے گی پھر حرمین کو اپنی بیٹی بنا کر لائے گی۔۔"
" آپ شاید بھول رہی ہیں۔ کہ الایہ کبھی بھی اس رشتے کےلئے نہیں مانے گی۔ جانتی ہیں ناں بچپن میں اسکا کیا ری ایکشن تھا جب اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ ہم نے اسکا اور اذلان کا رشتہ طے کیا ہے۔۔۔"
" رافع نے اسے آئنیہ دکھایا وہ کسی بھی حال میں اپنی بیٹی سے زبردستی نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ فدک کو کلئیر کر رہا تھا کہ وہ یہ بات اب دل سے نکال دے۔۔"
" وہ بچپن تھا رافع اب وہ بڑی ہو چکی ہے ہم ماں باپ ہیں اس کے کوئی دشمن تو نہیں اب تو ماشاءاللہ سے اذلان ایس پی بن چکا ہے ۔۔ بس اب ہم اس بارے میں کوئی بات نہیں کرے گے۔۔ "
" الایہ کو منانے کی زمہ داری میری ہے۔۔ " رافع جو خاموش کرواتے وہ خود سے الایہ کو منانے کی زمہ داری اٹھا چکی تھی ۔ اس نے طہ کر لیا تھا کہ جیسے ہی وہ اور ویام ٹریننگ سے واپس آئیں گے ، وہ فوراً سے اس سے بات کرے گی اور اسے شادی کے لئے راضی کرے گی۔ جو بھی تھا وہ ماں تھی آخر کیسے اپنی سب سے چھوٹی انیس سالہ بیٹی کو اپنی بڑی بیٹی سے پہلے رخصت کرتی۔۔ اس نے گہری سانس فضا کے سپرد کرتے اپنے رب سے مدد مانگی تھی ."
مگر شاید وہ آنے والے طوفان سے انجان تھی کہ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ الایہ نے اسے بچپن میں ہی اذلان سے شادی کرنے سے منع کر دیا تھا تو کیا اب وہ راضی ہو جاتی اپنی ماں کے اس فیصلے سے۔۔ یہ تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا کیا آخر کیا لکھا تھا ان سب کی قسمت میں۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" ہیے ٹائگر کم۔۔۔ مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے وہ سامنے اتنی برفباری میں بھی اپنے انتظار میں باہر بیٹھے ٹائگر کو دیکھ مسکرایا تھا۔۔ "
"اسکی آواز پہ ٹائگر نے سر اٹھائے اسے دیکھا اور بھاگتے اسکے پاؤں سے جا لگا ۔۔ اذلان نے مسکراتے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔۔ جو اب لاڈ سے اسکے پاؤں میں بیٹھ چکا تھا۔۔"
" یار اب بس کرو اتنا لاڈ مت کرو ، اندر چلتے ہیں پہلے یہاں تو اتنی سردی یے۔۔ اپنی ناک پہ گرتی برف کو ہاتھ سے اٹھائے وہ فورا سے بولا ۔۔ جبکہ ٹائگر نے سنتے قدم آگے بڑھائے تھے۔۔"
" دروازہ کھلا کیوں یے۔۔"
دروازے کھلا دیکھ وہ حیران ہوا تھا اور اپنے یونیفارم کی بیلٹ سے لوڈڈ گن نکالتے وہ احتیاط سے چلتے اندر داخل ہوا۔۔ اچانک سے کچن سے کھٹ پھٹ کی آواز پہ اسکے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے وہ احتیاط سے قدم اٹھاتے اندر بڑھا تھا ۔۔"
" ہینڈز اپ۔۔۔ مقابل کھڑے بلیک اوور کوٹ میں ملبوس شخص کی پشت پہ گن رکھتے وہ گرج دار آواز میں روعب سے بولا تھا۔ سامنے والے کے عنابی لب مسکرائے وہ ہاتھ اٹھا گیا۔ کون ہو ٹرن کرو اپنا فیس ۔۔"
سنجیدگی سے وہ ایک ایک قدم احتیاط سے لیتے اب رینک کی دوسری جانب سے اسکے سامنے جانے لگا۔۔۔ "
مگر جیسے ہی وہ روبرو ہوا اشعر نے ایک دم سے اسکی گردن کے گرد ہاتھ لپیٹتے ایک ہاتھ سے گردن دبوچتے اسے نیچے گرایا تھا۔ وہ ہکا بکا سا اپنے حالی ہاتھ کو دیکھتے اپنے پاپا کو دیکھنے لگا۔ جو اب مسکراتے اسی کی گن اس کے سر پہ تانے ہوئے تھا ۔"
" پاپا ۔۔۔ اذلان کے لب ہلکا سا پھڑپھڑائے وہ حیرت سے اپنے پاپا کو دیکھ رہا تھا ۔ جبکہ اشعر تین سال بعد اپنے خوبرو جوان بیٹے کو یوں آج پہلی بار پولیس یونیفارم میں دیکھ رہا تھا۔۔ اسکا سینہ فخر سے چوڑا ہو رہا تھا اپنے عکس کو یوں اسی روپ میں اپنے سامنے دیکھ ۔"
" ابھی کچے ہو بیٹا اپنے باپ سے مقابلہ کی ہمت تو ہے مگر جذبہ کم کے تم میں ۔۔ وہ ہاتھ اسکی جانب بڑھاتے مسکراتے لہجے میں بولا۔ ۔"
آپ یہاں کیسے۔۔ اذلان نے کھڑے ہوتے ہاتھ جھاڑے تھے اور اب دوبارہ سے اسے اگنور کرتا وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا۔۔"
" اشعر کو اس کا اگنور کرنا اندر سے زخمی کر گیا مگر وہ خاموش رہتے لب بھینج گیا۔ "
" لینے آیا ہوں تمہیں۔۔۔ وہ لمبا سانس خارج کرتے بولا تھا اس نے طے کر لیا تھا وہ اب اسکے بغیر واپس کبھی نہیں جاتا ۔۔"
" میرا وہاں کوئی نہیں اس گھر میں۔۔ " وہ صاف اسے انکار کر گیا اتنے سالوں سے بہانے بناتے وہ تھک چکا تھا اب جھوٹ کا سہارہ نہیں لینا چاہتا تھا "
" گھر چلو اذلان بیٹا اگر تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہے تو ہم گھر جا کر بات کریں گے اس مسلئے پر۔۔۔"
" اشعر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے کہا تھا۔"
بیٹا وہ بھی آپ کا بیٹا تھا پاپا جسے آپ نے بے قصور گھر سے نکال دیا۔۔۔ "
وہ مڑتے اب اشعر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔ کتنا تکلیف دہ تھا یہ خیال بھی کہ اسکا جگر اسکا بھائی جسکی شرارتوں سے انکے گھر میں رونق تھی اب وہ اس گھر میں صرف ایک مجرم کے طور پہ جانا جاتا تھا۔۔ "
" اذلان اس کا نام مت لو مر گیا ہے وہ میرے لئے۔۔۔ " اشعر نے سخت لہجے میں۔ اسے روکنا چاہا تھا جبکہ اذلان مسکرا دیا اس کی بات پہ۔۔۔۔"
" کیوں نام ناں لوں میرا بھائی ہے وہ یہاں اس سینے میں بستا ہے وہ ، کیسے نکالیں گے اسے یہاں سے ، آپ صرف اور صرف آپ کی وجہ سے وہ آج تک مجھ سے نہیں ملا میں نے وہ گھر چھوڑ دیا کہ شاید میں اسے ڈھونڈ لوں مگر میں ناکام رہا ۔٫
" آپ جائیں اور خوش رہیں اپنی جھوٹی خوشیوں میں مجھے اب میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔"
" وہ غصے سے تیز لہجے میں بولا تھا اور شاید آج پہلی بار اشعر اسے یوں اپنے آگے بولتا دیکھ رہا تھا۔۔ شاید ہی اذلان جانتا کہ اس کے الفاظ اسکے باپ کے دل کو کیسے لہو لہان کر رہے تھے۔۔"
" اذلان بیٹا میری بات سنو وہ اس قابل نہیں تھا میرے بچے وہ ایک گناہ گار ہے وہ ایک مجرم ہے ،اس نے چاہے گناہ نہیں کیا مگر گناہ کرنے کی طرف اسکے قدم اٹھے تھے میں کیسے اسے معاف کر دوں جب ساری دنیا کے لئے میں انصاف کرتا رہا ہوں تو کیسے اپنی اولاد کو معاف کرتا۔۔۔۔
اشعر نے بے بسی سے اسے دیکھا تھا جو اسے ہی قصور وار ٹہرا رہا تھا۔۔"
" وہ مجرم نہیں تھا پاپا وہ امن تھا ہمارا امن۔ ہم سب کے دلوں کا سکون ۔۔۔ جسے آپ نے بنا کوئی موقع دیے بنا اسکی سنے اس گھر سے نکال باہر کیا۔۔ کیا اتنا ہی یقین تھا آپ کو اپنی تربیت پہ۔۔۔۔"
" اذلان نے مڑتے اسکی جانب قدم اٹھائے تھے کیا کچھ نہیں تھا اسکی آنکھوں پہ۔۔۔ اشعر نے بے بسی سے اسکی گہری کالی آنکھوں میں چھائی سرخی دیکھ نظریں چرائی تھی۔"
" آپ ابھی نکلے گے تو جلد پہنچے گے۔ ویسے بھی باہر برفباری ہو رہی ہے احتیاط سے جائیں اللہ خافظ۔۔۔"
بنا اشعر کی جانب دیکھ وہ کہتے بھنجے جبڑوں کے ساتھ اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔"
" اذلان اپنی ماں کے لئے بھی نہیں چلو گے واپس بیٹا وہ بہت بیمار ہے۔ ہر وقت روتی رہتی یے۔۔ اسے ضرورت ہے تمہاری ، پلیز گھر چلو ، وہ روز مجھ سے پوچھتی ہے کہ اذلان کب آئے گا میں روز جھوٹ بولتا ہوں ، پلیز تم مجھ سے ناراض ہو بھلے مجھے مت بلانا اگر تم کہو گے تو میں۔ گھر نہیں آیا کروں گا مگر بیٹا اسے بچا لو۔۔میں اسے اس حالت میں اس قدر تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔"
" اشعر کی بے بس آواز ، اپنی ماں کی حالت کا سنتے اذلان کے قدم زمین میں جکڑ چکے تھے وہ چاہنے کے باوجود بھی وہاں سے جا نہیں پایا۔۔۔"
" اذلان بیٹا پلیز اپنی ماں کیلئے ہی سہی۔۔۔ "
اشعر نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا ۔۔ جو آنکھیں موند گیا اپنی مما کا مسکراتا ، روتا چہرہ اسکا دل دہل گیا۔ ان سب میں ان کو بھی فراموش کر چکا تھا۔ کیسا بیٹا تھا وہ۔۔۔"
" اذلان۔۔۔ اشعر نے اسے جھنجھوڑا تو وہ حال میں واپس لوٹا تھا۔۔"
آپ ریسٹ کریں پاپا سامنے والے روم میں اگر کچھ چاہیے ہو گا تو مجھے بتائیے گا ۔ ہم کل واپس چلیں گے۔۔۔" بنا اشعر کی جانب دیکھے وہ کہتے اوپر کی جانب بڑھا تھا جبکہ اسکا دماغ اپنی ماں میں اٹکا تھا ۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
"بیٹا تم خوش ہو۔۔۔۔۔ رمشہ نے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتے ہوچٹھا ۔۔ حیا کا ہاتھ ایک دم سے رک گیا تھا۔ وہ مسکرا دی اپنی پھپھو کو دیکھ ۔۔"
" جی پھپھو بھلا اس میں کونسی ناخوش ہونے کی بات ہے بابا ، مما خوش ہیں انہیں لڑکا پسند ہے اور آپ بھی مطمئن ہیں تو پھر مجھے کیوں خوشی نہیں ہو گی۔۔"
" رمشہ کے سر کو دباتی وہ ہلکے پھلکے سے انداز میں بولی تھی جبکہ رمشہ نے گہرہ سانس بھرتے اسے دیکھا ۔۔۔"
" آج وہ دونوں دن کو حسن کی طرف گئی تھی۔۔ کتنے خوش ہوئے تھے حسن اور یسری بھی ۔۔۔ دن کو مہمانوں کے آنے کے بعد حیا تو جیسے کمرے میں گھسی باہر ناں نکلی تھی مگر حسن یسری کو لڑکا کافی پسند آیا تھا ، لڑکے والے اب جلدی سے بس شادی کرنا چاہتے تھے مگر حسن نے اگلے ہفتے چھوٹی سی رسم کرنے کا بولا تھا وہ شادی ایسے نہیں کرنا چاہتا تھا اس کا ارادہ تھا کہ پہلے سلمی بیگم عمرہ سے واپس آ جائیں تو ایک بار انکی رضامندی بھی پوچھ لے۔۔۔"
" پھپھو آپ پریشان ناں ہوں میں خوش ہوں۔۔۔" حیا نے رمشہ کا سر دباتے کہا تو وہ خیالوں سے باہر نکلی تھی گویا..."
اللہ خوش رکھے میری بچی کو ۔۔ رمشہ نے مسکراتے اسکے ہاتھ پہ بوسہ دیا تھا۔۔۔۔"
" اچھا آپ دوا لے لیں ورنہ انکل ناراض ہونگے دن سے دس بار فون کر چکے ہیں مجھے کہ وقت سے دوا دے دینا پھپھو کو ۔۔ حیا نے مسکراتے کہا تھا اور اٹھتے دوائیں نکالتے وہ گلاس میں پانی انڈیلنے لگی۔"
" کیا ہو جاتا بیٹا اگر ہم ادھر رہ لیتے حسن بھائی کا بھی کتنا دل تھا اور میرا بھی ۔۔ بیڈ کروان سے ٹیک لگاتے رمشہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا ۔۔ جبکہ حیا مسکرا دی اسکے انداز پہ۔۔"
۔" پھپھو جب آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی تو پھر ہم دس دن ایک ساتھ رہیں گے مگر ابھی آپ جانتی ہیں کہ دوا وقت پہ لینا کتنا ضروری ہے اور اسی وجہ سے آج میں بھی تو آئی ہوں آپ کے ساتھ۔۔ گلاس تھامتے وہ رمشہ کے منہ کے زاویے بگاڑتے دیکھ مسکراتے بولی۔"
" ہممم چلو اب جلد ان سے جان چھوٹ جائے گی ۔۔ رمشہ نے دوا کھاتے ہی برا سا منہ بنایا ۔۔۔ "
اچھا اب تم جاؤ آرام کرو ، ۔۔۔ میں بھی سونے لگی ہوں۔۔۔" وہ کب سے رمشہ کے پاس ہی تھی مگر رمشہ نے اسے بھگانے کو جلدی سے سونے کا بہانہ بنایا۔۔ وہ جانتی تھی کہ صبح سے کاموں کی وجہ سے حیا کو تھکاوٹ ہو گی اور اسکے آرام کا خیال آتے ہی رمشہ نے اسے دوسرے کمرے میں بھیجا۔۔۔"
" پھپھو میں ادھر ہی سو جاتی ہوں ناں۔ منہ بنائے وہ رمشہ کو دیکھ بولی جبکہ رمشہ نے گھوری سے نوازا مطلب صاف تھا کہ جلدی سے جاو۔۔ حیا منہ لٹکائے روم سے باہر آئی تھی۔۔۔ "
۔کچن سے پانی کی جگ لیتے وہ آج پھر اتنے سالوں بعد اسی کمرے کے باہر رکی تھی جہاں وہ بچپن میں اکثر اپنی پھپھو کے گھر آتے رہا کرتی تھی ۔"
" سوچوں کو جھٹکتے اسنے دروازہ کھولا تھا مگر وہ حیران سی دروازے کے پاس ہی کھڑی رہ گئی۔۔ ہر ایک چیز بالکل ویسی ہی تھی جیسی وہ چھوڑ گئی تھی۔۔ وہی کمرہ وہی بیڈ وہ صوفہ ہر ایک چیز اپنی جگہ پہ موجود تھی۔ اس نے مسکراتے قدم بیڈ کی جانب کیے تھے ایک نظر کھڑکی سے چگمگاتی رات کا روشن حصہ بنے اس چاند پہ ڈالے وہ اپںے بچپن کو محسوس کرنے لگی ۔ "
" مگر اچانک سے اسکی آنکھوں کے سامنے وہی گزرے وقت کے منظر لہرائے تھے ، سیاہ آنکھوں میں خوف کی سیاہی چھانے لگی وہ لرزتی ٹانگوں سے پیچھے کو قدم لینے لگی کہ اچانک سے وہ پیچھے موجود کسی وجود سے ٹکرائی ۔۔ ایک چیخ اسکے منہ سے نکلتے نکلتے تھمی تھی۔
اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ پھر سے اپنے ماضی کا سفر کر رہی تھی مگر یہ سب حقیقت تھی ناں کہ اس وہم۔۔۔ حیا نے پیسنے سے تر چہرے سے کپکپاتے وجود کے ساتھ مڑتے پیچھے کی جانب دیکھا ۔"
" اشششششش۔۔۔۔ مقابل نے اس کے بولنے سے پہلے ہی اپنے بھاری مردانہ ہاتھ سے اسکی چیخ کا گلا گھونٹا تھا کہ وہ پھڑپھڑا گئی اسکی گرفت میں ۔۔۔ اسکا یوں مچلنا اسے سرشار کر گیا۔۔۔"
" کہا تھا ناں جب بھی آؤ گی اپنے روبرو پاؤ گی ۔ اسکی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے وہ جھکتے سرگوشی میں بولا تھا اور ایک دم سے پیچھے بیڈ کی جانب دھکا دیا کہ حیا نے ہانپتے اپنے لرزتے وجود سے خوف و وخشت سے ڈرتے چیخنا چاہا مگر آواز جیسے گلے میں پھنس چکی تھی ۔ اسکا چہرہ آنسوں سے تر ہو چکا تھا۔۔ "
وہ فورا سے گھٹنوں کے بل ہوتے بیڈ سے اترنے لگی کہ مقابل نے سیاہ بوٹ میں مقید اپنے بھاری پاؤں کو بیڈ پہ رکھتے اسکے راستہ روکا۔۔۔ حیا نے کپکپاتے ایک نظر بھاری بوٹ کو دیکھ اب سامنے کی جانب دیکھا جہاں وہ مسکراتا اسکی بےبسی کا مذاق بنا رہا تھا ۔۔"
" ا اااا امممن۔۔۔۔۔۔ وہ لرزتی زبان کے ساتھ بمشکل سے روتے ہوئے بولی تھی کیونکہ سامنے موجود وخشت ناک تاثرات لیے وہ شخص اسے بالکل کوئی انجان حیوان دکھا تھا۔۔ اس نے ایک آس کے تحت اسے آواز دی جبکہ مقابل کی آنکھوں میں یہ نام سنتے ہی خون اترا تھا وہ ایک دم سے جھکتے اسکے بالوں کو گرفت میں لیتے اسکے چہرے پہ غرایا۔۔ "
" امن نہیں بھاؤں کہو مجھے بھاؤں ہوں میں۔۔۔ " اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ اسے بت کا کر گیا۔۔۔ حیا نے ڈرتے ایک دم سے سانس روکا تھا اسکے پورا وجود ہلکا ہلکا لرز رہا تھا۔ جبکہ دوپٹا بیڈ کے نیچے زمین بوس ہوا پڑا تھا۔۔۔"
"اتنا گھبرانے کی کوئی بات نہیں جان ۔۔۔۔ آنکھیں کھولو اور دیکھو مجھے ۔۔۔ آج اتنے سالوں بعد میں واپس آیا ہوں تمہارے پاس ، جو الزام تم نے لگایا تھا اب اس الزام کو سچ بھی تو کرنا تھا۔۔۔ اسکے بالوں کو زور سے کھینچتے وہ سرد عجیب سے بھاری لہجے سے بولا تھا جبکہ نظریں اسکی بند آنکھوں پہ مرکوز تھیں۔۔ ٫
" ننن نہیں ام امن پپ پپ پلیز مم مجھے ممم ۔۔ " اسنے روتے ایک دم سے خوف سے آنکھیں کھولتے خود پہ جھکے اس خونخوار بنے شخص کو دیکھا وہ اج پھر خود کو سالوں پہلے اپنے ماضی میں محسوس کر رہی تھی۔۔ "
میں ایسا ہی کروں گا۔۔۔۔ " اسنے غصے ، نفرت کے ملے جلے تاثرات سے اسکے جبڑے کو اپنے دائیں ہاتھ میں دبوچا اسکی گرفت پہ جانے کتنے ہی آنسو حیا کی آنکھوں سے بہہ چکے تھے مگر وہ لاپرواہ بنا رہا۔۔۔ "
" مجھے ساری دنیا کے سامنے گناہ گار ثابت کرنے کے بعد میرے گھر سے میرے اپنوں سے دور کرنے کے بعد تم خود کیسے یہاں آئی۔۔ منع کیا تھا ناں کہ کبھی اس گھر میں قدم مت رکھنا ۔۔۔۔ مگر آج سچ میں تم ایک مظلوم لڑکی بنو گی۔ تمہارے وجود پہ ایسی وخشتیں رقم کروں گا کہ ہر کوئی تمہیں مظلوم ماننے کو مجبور ہو جائے گا۔۔۔۔"
اسنے ایک دم سے اسکے کان میں اپنے لفظوں کا زہر گھولا تھا اور جھکٹے سے اسکے بے جان ہوتے وجود کو بیڈ پہ دھکا دیا تھا۔۔ کہ وہ اوندھے منہ بیڈ پہ گری تھی۔۔ حیا نے خوف و وخشت سے فورا خود کو سنبھالا تھا اور سیدھی ہوتے وہ ایک دم سے چیخ پڑی تھی جب امن کو اپنے سامنے یوں شرٹ کے بٹن کھولتے دیکھا۔۔۔"
نن نہیں امم امن پپ پلیز مم مجھے مم معاف کر دددد دو ۔۔۔مم۔ میرے سسسس ساتھھ اییسا۔۔۔۔۔" حیا نے گڑگڑاتے اپنے دونوں ہاتھ اس ستم گر کے سامنے جوڑے تھے۔۔۔ شاید ہی اسے رحم آ جاتا ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ وہ پہاڑ جیسے دیو ہیکل کا مقابلہ یا سامنا کر پاتی۔۔۔"
مقابل کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوئی تھی جبکہ شہد رنگ آنکھوں میں درد ہلکورے مار رہا تھا۔۔۔"
" ایسے کیسے چھوڑ دوں تمہیں میرے منع کرنے کے باوجود تم اس یونی سے آئی ۔۔۔ جب میں نے تمہیں باندھا تھا تو پھر تم کیوں میری اجازت کے بغیر آئی۔۔۔ اسنے غصے سے کہتے ساتھ ہی اپنی شرٹ اتارتے دور اچھالی تھی کہ حیا نے دکھتے سر کے ساتھ اپنی جانب بڑھتے اس بے رحم شخص کو دیکھا ۔"
" اممم امممم پپ پلیز نننن نہیں۔۔۔۔۔ اپنی جانب بڑھتے اسکے قدموں پہ وہ بمشکل ہمت کرتے اٹھی تھی آنکھیں کھولنے کی سعی کرتے وہ باہر کی جانب بڑھنے لگی مگر ایک دم سے اسکے سر میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی کہ وہ ہوش و خرد سے بے گانہ ہوئی مگر مقابل نے اسے گرنے سے پہلے ہی تھام لیا تھا۔۔۔".
وہ یونہی کمرے کے وسط میں کھڑا اپنے بانہوں میں جھولتے اسے نازک سے وجود کو دیکھ رہا تھا۔۔سارا غصہ کہیں دور جا سویا تھا۔۔ ۔۔۔ اسنے نرمی سے اسے گود میں بھرا تھا اور چلتے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔"
"بہت اذیتیں ملی ہیں تم سے ۔۔۔ حساب کروں بھی تو کیسے۔۔۔ کاش کہ میں تم سے نفرت کر پاؤں۔۔۔ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی یہ دل جو پتھر ہے جانے کیوں تمہارے لیے ہر بار نرم پڑ جاتا ہے۔ تمہیں محبت نہیں عبادت سمجھ کر تم سے عشق کرتا آیا ہوں ، کاش تم اس عشق کو سمجھ پاتی ۔۔۔ اسے تکیے پہ لٹائے وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کر رہا تھا اپنے اندر کا حال وہ اسی کے سامنے عیاں کر رہا تھا جو اس کے خوف سے بےہوش پڑی تھی ."
" تم نے اچھا نہیں کیا یوں خود کو کسی اور کے سامنے پیش کر کے۔۔۔۔ جب تم سے عشق تھا تب بھی تمہیں کسی کا ناں ہونے دیا اب تو اس عشق سے الفت ہو گئی ہے جاناں۔۔۔۔ "
" امید ہے اب تمہارے دماغ سے یہ شادی کا بھوت نکل جائے گا ورنہ یہ بھاؤں تمہارے لئے خود ہی مسلئے بن جائے گا۔۔۔ بمشکل سے اسکے نازک وجود سے نظریں چرائے وہ بیڈ سے نیچے گرا اسکا دوپٹہ اٹھاتے ایک جانب رکھ چکا تھا اور آرام سے کمفرٹر اوڑھاتے ، وہ محبت سے اسکی پیشانی پہ لب رکھتے پرسکون سا ہوتے وہ آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔ "
" آ جائیں۔۔۔۔ " روم ناک ہونے کی آواز پہ اس نے مصروف سے انداز میں اجازت دی۔
اجازت ملتے ہی وہ قدم قدم اٹھاتی اندر داخل ہوئی تھی۔۔ اسلام علیکم پاٹنر۔ ..."
" محسوس میٹھی سی باریک سی آواز اسکے کانوں میں رقص کی مانند گونجی تھی وہ چہرے پہ ہلکی سے مسکراہٹ سجائے سر کو نفی میں جھٹک گیا ۔۔ صبح صبح ہی اسکا خیال۔۔۔ "
" حرمین نے ایک نظر ہاف وائٹ ٹراؤزر اور بلیک سلیو لیس شرٹ میں ماتھے پہ بے ترتیب بکھرے سنہری بالوں والے سنجیدگی سے کام کرتے ، اچانک اسکی بات پہ مسکراتے انزِک کو آنکھیں پھاڑے دیکھا ۔"
"انزِک اسنے غصے سے لال چہرہ لئے اسے پکارا ، ۔۔۔
وہ جو دوبارہ سے کام کی جانب متوجہ ہو چکا تھا اب قدرے اونچی آواز پہ نظریں خودبخود ہی اٹھی تھیں۔۔
تم ۔۔ اسنے حیرانگی سے اپنے سامنے کھڑی حرمین کو دیکھا تھا ۔۔ جسے وہ اپنا وہم سمجھ رہا تھا ۔"
' ہاں میں کیوں کسی اور نے ملنے آنا تھا۔۔۔ ابکی بار آنکھیں پٹپٹا کر وہ معصومیت سے بولی تھی جبکہ انزِک نے سر جھکاتے مسکراہٹ روکی۔۔۔۔ نہیں تمہارے علاؤہ کوئی آ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔"
" مسکراتے وہ سفید خجاب کے ہالے میں لپٹے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھ بولا تھا۔۔ جبکہ حرمین ہمیشہ کی طرح اسکی بات کو ہوا میں اڑاتے بیڈ کی جانب بڑھی تھی۔۔ مقابل نے ہاتھ سینے پہ باندھے اسکا بغور جائزہ لیا۔ ۔۔۔"
" عیناں بتا رہی تھی کہ تم نے کوئی بات کرنی تھی سوری یار کل میٹنگ کی وجہ سے نہیں آ سکا میں۔۔٫
" وہ دوبارہ سے صوفے پہ بیٹھا تھا اور لیپ ٹاپ بند کرتے وہ اب حرمین۔ کو دیکھ رہا تھا جسکی سیاہ گہری آنکھیں اب چمک اٹھی تھی۔ اس ایک بات پہ۔۔"
کرنی تو ہے اگر تم وعدہ کرو کہ میرا ساتھ دو گے تو۔۔۔۔ وہ جانتی تھی انزِک وریام کی بات نہیں ٹالتا ۔۔ اسی لئے وہ اپنے باپ سے پہلے اسے اپنی ٹیم میں ملانا چاہتی تھی تاکہ وہ خود سے وریام اور نیناں سے بات کرے اسے یقین تھا اگر انزِک خود سے بات کرے گا تو وہ ضرور مان جائیں گے۔۔"
"تمہیں یاد ہے ناں میں نے تمہیں بتایا تھا ایک این جی او کے بارے میں جہاں پہ یتیم اور بے سہارہ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی جاتی ہے۔۔ جانتے ہو اس کی ایک برانچ دوبئی میں ہے جو کہ ابھی حال ہی میں بنی ہے اسی لئے میں وہاں جانا چاہتی ہوں تاکہ کچھ عرصہ خود وہاں رہوں اور اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالوں۔۔۔"
" حرمین نے اسے دوبارہ سے یاددہانی کروائی جو اب ٹانگ پہ ٹانگ جمائے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ مگر ماتھے پہ ایک دم سے کئی بل نمودار ہوئے تھے ۔۔ "
حور وہاں تم کیسے جاؤ گی انکل اور آنٹی دونوں نہیں مانے گے۔۔ انزِک جانتا تھا اسکی فیملی کبھی بھی اسے جانے کی اجازت نہیں دے گی ۔جبھی وہ اسے کوئی جھوٹی امید نہیں دلانا چاہتا تھا۔۔
جانتی ہوں میں اسی وجہ سے تو تمہارے پاس آئی ہوں۔
حرمین نے انگلی منہ میں ڈالے اسے مسکراتی نظروں سے دیکھا۔۔ جبکہ انزِک اسکا مطلب سمجھتے فوراً سے کھڑا ہوا تھا۔۔۔"
میں اس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا تو سو سوری ڈئیر فرینڈ۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ کھڑے کرتا اسکی آخری امید پہ پانی پھیر گیا ۔
جبکہ حرمین نے سنتے وہیں اسکے بیڈ پہ ڈاکہ ڈالا تھا اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔۔"
بھیا کیا ہوا یہ رونے کی آواز۔۔۔ عیناں جو اسی کے پاس آ رہی تھی ہاتھ میں اپنے میتھس کے نوٹ لئے وہ تشویش زدہ سی اندر داخل ہوئی تو انزِک نے اسے بیڈ کی جانب اشارہ کیا ۔
حرمین۔ کو یوں روتا دیکھ دونوں بہن بھائی کی ہنسی ایک ساتھ چھوٹی تھی ۔۔ جبکہ انکے ہنسنے پہ حرمین نے سر گھٹنوں سے نکالتے دونوں کو گھورا اور فورا سے بیڈ سے اتری۔۔۔۔
حوری یار کہاں جا رہی ہو کیا ہوا۔ اسے باہر جاتا دیکھ عیناں نے لپکتے اسے بازو سے پکڑتے سامنے کیا تھا۔۔ جو اب فل منہ پھلائے دونوں کو دیکھنے سے گریز برت رہی تھی۔"
" رونا بند کرو یار میں خود بات کروں گا انکل سے بلکہ تم تیاری رکھو کچھ دنوں تک تمہیں میں خود اپنے ساتھ دوبئی لے کر جاؤں گا۔۔۔
انزِک نے جھکتے سرگوشی نما آواز میں اسکے پاس ہوتے کہا تھا جبکہ حرمین نے ایک دم سے سنتے مسکراہٹ روکی اور منہ پھلائے اسے دیکھا جیسے احسان کر رہی تھی اس پہ۔ ۔۔"
" تم دونوں میرا مذاق بنا رہے ہو میں جانتی ہوں اب ذرا دور ہی رہنا مجھے بات ہی نہیں کرنی۔۔۔۔ وہ عیناں کے حصار کو توڑتے خفا سی ہوتے رخ پھیرے کھڑی ہوئی۔۔"
" میں مذاق نہیں بنا رہا سچی بھی آج میں اور عیناں آئیں گے رات کو اوکے ۔۔ اور میں خود وریام انکل سے بات کروں گا۔۔۔ اسنے لمبی سی سانس کھنچتے اسے یقین دلانا چاہا۔۔۔"
" اب رونا بند کرو اور یار ایک بار اپنے ڈمپل تو دکھاؤ۔۔ مجھے زور کی کسی آ رہی ہے۔۔۔"
عیناں نے محبت سے اسکے گلے میں بازوؤں حمائل کرتے سرگوشی کی تھی۔۔ حرمین کا قہقہ بے ساختہ تھا جبکہ انزِک دونوں کو چھوڑے اب نیچے کی جانب چلا گیا۔۔"
" ویسے یہ کسی تمہیں میرے ڈمپل دیکھ کر ہی کیوں لگتی ہے۔۔۔"
حرمین نے اسکی کمر سے ہاتھ نکالتے اسے زور سے ہگ کیا تھا اور لب دبائے وہ آنکھوں میں شرارت لیے عیناں کو دیکھنے لگی جسکی گرے آنکھوں میں ایک الگ سی چمک اور الگ جہاں آباد تھا۔۔"
" اچھے لگتے ہیں ناں بس اسی لیے۔۔۔۔ حرمین کی شرارت سمجھتے عیناں نے عام سے لہجے میں کہتے اسکے گال پہ بوسہ دینا چاہا جبکہ حرمین ایک دم سے پیچھے ہوئی اور عیناں کے یوں گھور کر دیکھنے پہ کھلکھلا اٹھی۔۔ "
" یار میں جانتی ہوں تمہیں یہ کسی اتنی زور کی کیوں لگی ہے اب میرے بھائی کو یاد کرو گی تو ایسا ہی ہو گا۔ تو میڈم ایسا کرو ابھی کے لیے اپنا ارادہ بدل لو اور جب کچھ دن بعد بھیو آئیں گے ناں تو جتنی زور کی کسی لگی ہے انہی کو کرنا۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔ "
اسکے کان میں سرگوشی کرتے وہ ایک اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ قہقہ لگا اٹھی تھی۔۔
جبکہ عیناں نے شرم و خفت سے اسکی کمر پہ ایک دھموکا جھڑا تھا ۔۔ اور اپنے سرخ ہوئے چہرے کو اسکی گردن میں منہ دیے وہ ویام کا سوچتے ہی مسکرا اٹھی۔۔۔
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<،>
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" ہال سے ہوتے وہ سیدھا دائیں جانب مڑتے پہلے کمرے کے سامنے رکا تھا ۔۔ گہرے تاریک اندھیرے کے باوجود بھی وہ بخوبی اس روم کا راستہ جانتا تھا۔۔ چہرہ پہ سرد مہری سجائے وہ ایک ہاتھ اپنی گرے ہڈ میں ڈالے اپنی دائیں ٹانگ کو مسلسل حرکت دے رہا تھا۔۔ "
" ٹھیک دو منٹ بعد سامنے ایک کوڈ نمودار ہوا تھا جس پہ اس نے اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو پریس کیا تھا ایک محسوس آواز کے بعد دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔ "
" اسنے ایک سرسری مگر گہری نظر اپنے پیچھے کی جانب چاروں اطراف دوڑائی تھی اور روم میں جاتے ہی کندھے پہ بکھرے اپنے ڈارک براؤن بالوں کو پیچھے کرتے وہ سیدھا آگے کی جانب بڑھا تھا۔۔ "
" یہاں باہر کی نسبت اندر کا ماحول یکسر مختلف تھا جہاں چاروں طرف گہما تھی ۔ یہ سوچنا ناممکن تھا کہ باہر سے ایک ویران سی دکھنے والی عمارت کے اندر اس قدر رش بھی ہو سکتا تھا۔۔ "
" تیز میوزک کی آواز پہ روم میں جھولتے نوجوان بالکل سہی غلط کی تمیز بھلائے ہوئے تھے۔۔ وہ ایک جانب سے گزرتے آگے بڑھا تھا ہمشیہ کی طرح آج بھی نیلی آنکھوں میں سرخی کا تاثر تھا جسے وہ چھپانا ضروری نہیں سمجھتا تھا ۔ اسنے ہاتھ سے ٹیبل پہ جاتے ناک کیا تھا ۔۔ جبکہ سامنے والا ابھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔ جب وہ اونچے دراز قد و قامت کا مالک اپنی بھرپور وجاہت کے ساتھ ماحول کے ساتھ ساتھ اب مقابل بیٹھے شخص پہ بھی اپنا اثر چھوڑ چکا تھا ۔ جو یونہی منہ کھولے اپنے سامنے بیٹھے ایل کو دیکھ رہی تھی۔"
" وئیر از ایچ اے آر۔۔۔ِ۔۔۔۔ مقابل بیٹھے شخص کی آنکھوں میں اپنے لئے ستائش وہ بھانپ چکا تھا مگر اسے اگنور کرتے وہ ٹانگ پہ ٹانگ جماتے بولا تھا ۔۔ جبکہ شیلا جو ابھی تک مقابل کے سحر میں جکڑی ہوئی سی تھی اب اسکی گھمبیر آواز کو سنتے وہ دھک دھک کرتے دل سے بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی یہ جانے بنا کہ مقابل کو اسکی حرکت سخت ناگوار گزر رہی تھی۔ "
" اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو ملے ہیں تھوڑی اپنی باتیں کر لیتے ہیں۔ ایک ادا سے اپنے شولڈر کٹ بالوں کو انگلی کے گرد لپیٹتے وہ سر تا پاؤں اسے گہری نظروں سے دیکھتی اٹالین زبان میں بولی ۔۔۔ ایل کا بایاں پاؤں مسلسل حرکت کر رہا تھا جو واضخ نشانی تھا کہ وہ اپنا طیش دبا رہا تھا اپنے اندر۔۔۔۔۔"
" کبھی فرصت میں آنا میرے در پہ باتیں تو کیا راتیں بھی گزاریں گے ۔۔۔ اسنے جھکتے رازدرانہ طور پہ گھمبیر سرگوشی کی تھی ۔۔ جبکہ شیلا اسکی سرگوشی کاطلب سمجھے بنا ہی اسکی آفر پہ گہرا مسکراتے اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔ ایل کی آنکھوں کا رنگ مزید گہرہ ہوا تھا۔ وہ یک ٹک اسے گھور رہا تھا جو اب چلتی اسکے پاس ائی۔۔۔ "
" تو کیا اسے میں تمہاری اجازت سمجھوں ہینڈسم ۔۔۔۔۔ وہ جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگی تھی۔۔ جبکہ ایل کی توجہ اب سامنے ایک جانب تھی جہاں سے اسے شیشوں میں سے اپنے پیچھے کھڑے شخص کا عکس واضح دکھا تھا۔ "
" اجازت ہی اجازت ہے اب حسن کو کون کافر انکار کر سکتا ہے۔ بھلا بس اگر ایچ اے آر۔۔۔۔ ایل نے مسکراتے اپنی براؤن شیو پہ انگوٹھے مسلتے پرسوچ انداز اپناتے کہا تھا جبکہ شیلا تڑپ اٹھی اس کے انداز پہ۔۔۔"
" اس کی فکر چھوڑ دو اسے میں ہینڈل کر لوں گی تو کیا آج رات۔۔ اسکے چہرے پہ انگلی گھماتے وہ گہرہ سانس اسکی خوشبو میں کھینچتے ہوئے بولی جبکہ ایل کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک ابھری تھی اب اسنے اپنی ٹانگ کو ہلانا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ مگر شیلا کا ہاتھ اب بھی اسکے چہرے پہ گردش کر رہا تھا۔۔ جسے وہ جان بوجھ کر اگنور کر رہا تھا۔۔۔"
" ہاؤ ڈئیر یو ڈو دز۔۔۔۔ ایک جھٹکے میں شیلا کا بازوؤں وخشیانہ طور پہ کھنچتے اسنے سامنے کرتے ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ جھڑا تھا۔۔۔ ابھی وہ سمجھتی کہ مقابل نے آگے بڑھتے اسکے بالوں کو بے دردی سے اپنی گرفت میں لیا تھا اور ایک دم سے اسے فرش پہ پھٹکتے وہ اپنے بوٹوں سے ضربیں اسکے پیٹ پہ لگانے لگا ۔۔ شیلا کا سارا چہرہ لہو لہان ہو چلا تھا۔۔ پورے روم میں اسکی دردناک چیخیں گونج اٹھی تھی جبکہ ایچ اے آر کے بندوں نے منٹوں میں سارے روم کو حالی کیا تھا۔۔۔ کمینی ڈیش۔۔۔۔ تیری اتنی ہمت توں مجھے ایج اے آر کو دھوکا دے گی ۔
ایچ اے آر کا غم و غصّے سے برا حال تھا اسے آدھ مرا کرنے کے بعد وہ پیسنہ صاف کرتے پیچھے کی جانب مڑا تھا جہاں ایل ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ جبکہ اسکا بے خوف ہو کہ بیٹھنا ایچ اے آر کو مزید طیش دلا گیا ۔ وہ شیلا کو چھوڑتے اب اسکی جانب بڑھا تھا۔"
" تیری اتنی مجال کہ ت۔۔۔۔۔
اشششش۔۔۔۔ آواز دھیمی اور پہلے میری سنو۔۔۔ایک جھٹکے میں وہ کرسی سے اٹھا تھا ایچ اے آر کے مقابل کھڑے ہوتے وہ شہادت کی انگلی دکھائے اسے خاموش کروا گیا۔۔ جو اسکے نڈر پن پہ اپنے آدمیوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کر گیا ۔۔ "
" میں ایل ہوں لیلی کا بیٹا۔۔۔ کچھ بات کرنی تھی تم سے
۔۔۔۔۔ بنا توقف کے اپنا تعارف کرواتے وہ ہلکا سا ہنسا۔۔۔ جبکہ ایچ اے آر نے سر تا پاؤں اس مغرور سے اپنی عمر سے بڑا دکھتے ایل کو سر تا پاؤں دیکھا تھا۔۔ جہاں تک اسے علم تھا لیلی کا ایک ہی بیٹا تھا جو کہ ابھی چھبیس سال کا ہوا تھا مگر اپنے سامنے کھڑا لڑکا اسے کہیں سے بھی چھبیس کا ناں دکھا تھا۔۔ وہ بالکل اسکے تصور کر برعکس تیس پینتیس سال کا چوڑے کشادہ سینے، قد و قامت سے اپنی عمر سے کئی بڑا دکھ رہا تھا۔۔ اسکی نیلی آنکھیں اسکی ماں سے مشابہت رکھتی تھی جبکہ ڈارک براؤن بال اسنے ایسے سلیقے سے بنائے تھے کہ کوئی بھی منٹوں میں اسے دیکھ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اسے اپنے بالوں سے خاص انسیت تھی۔ سرخ و سفید رنگت ، ڈارک براؤن ہی بئریڈ کے ساتھ وہ ستواں باریک سرخ ہوئی ناک اور درمیانے سرخ ہوتے ہونٹوں والا کوئی لندن کا شہزادہ محسوس ہو رہا تھا۔۔ "
" میں کیسے مان لوں کہ تم لیلی کے بیٹے ہو ، ایچ اے آر نے دو قدم اسکی جانب بڑھائے تھے جبکہ ایل نے سنتے سر کو افسوس کرتے نفی میں جھٹکا ۔۔۔ اچھا پھر اتنی دیر سے کیا گھور رہے تھے ابھی تک اندازہ نہیں لگا پائے۔۔۔۔ اسنے طنزیہ کہا تھا اور دوبارہ سے کرسی پہ بیٹھا۔ ایچ اے آر اس تزہیک پہ مٹھیاں بھینچتے اسکے سامنے بیٹھا تھا۔۔"
" ویسے یہ لڑکی تمہاری گرل فرینڈ تھی۔۔۔ وہ سامنے بےہوش پڑی شیلا کی جانب اشارہ کرتے بولا ۔۔ جبکہ ایچ اے آر کے دانت کچکچاتے شیلا کو دیکھا۔
ہاں پچھلے تین مہینے سے میرے ساتھ ہے سالی مگر اپنی اصلیت دکھانے سے باز نہیں آئی۔۔۔۔" ایچ اے آر کے لہجے میں واضخ نفرت تھی شیلا کے لئے جبکہ ایل نے غور سے اسے دیکھا تھا۔۔"
" تم نے اس لڑکی کو اس قدر اس لئے مارا کیونکہ تمہیں اس کے ساتھ دل سے انسیت ہو گئی ہے اور اب جلد ہی اگر اس کی اصلیت سامنے ناں آتی تو محبت ہو جاتی۔۔ ایک بات یاد رکھو چاہے تم عمر میں مجھ سے بڑے ہو ، اس کھیل میں کوئی بھی کسی کا کچھ نہیں ہوتا ، عورت صرف استعمال ہونے کا نام ہے اسے یوز کرو اور پھینک دو ، مگر کبھی اسے اپنے ساتھ چپکائے مت رکھو ، کیونکہ اجکل تو اپنا سایہ بھی اپنا نہیں تو یہ لڑکیاں کیا چیز ہیں۔۔ "
" ایل کے لہجے میں نفرت تھی عورت ذات کیلئے تحقیر تھی جسے ایچ اے آر نے واضخ محسوس کیا تھا۔۔ اور یہ سب اسکے دل و دماغ میں بھرنے والی خود کو اسکی ماں کہنے والی لیلی شاید وہ یہ بھول چکی تھی کہ وہ خود بھی ایک ماں تھی ایک عورت تھی ۔۔۔ جسے آج اسی کا بیٹا انجانے میں عورت ذات ہونے پہ تحقیر سے نواز رہا تھا۔۔۔"
" لگتا ہے کافی پہنچے ہوئے ہو اس کھیل میں ۔۔۔ ایچ اے آر نے مسکراتے آنکھ ونک کی تھی جبکہ ایل نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا ۔"
" پہنچے ہوا تو نہیں مگر اب پہنچنے والا ہوں۔۔۔ آنکھوں کے سامنے ایک عکس سا لہرایا تھا ۔۔۔ اسنے ہرسوچ انداز اپناتے اپنے بالوں کو سہلاتے کہا تھا۔جبکہ ایچ اے آر الجھ کے رہ گیا اس کی بات میں۔۔۔"
خیر چھوڑو یہ سب تم بتاؤ کیوں آئے ہو مجھ سے ملنے۔۔۔ ایچ اے آر نے اسکی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی وہ سنجیدہ ہوتے سیدھا ہو بیٹھا۔۔"
" ہمممممم۔۔۔۔۔ سامان ریڈی ہے آدمی بھجوا دو آگے سے میں خود ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔ ایل نے اسے دیکھتے کہا تھا ۔۔۔ جو کسی سوچ میں ڈوب چکا تھا۔"
" مگر دھیان رکھنا اجکل پولیس ریڈ ڈال رہی ہے۔۔۔ کہیں لینے کے دینے ناں پڑ جائیں۔۔ تین بار اس ایک مہینے میں اسکا سامان غائب ہو چکا تھا اور اسکے علاؤہ اسکے خاص آدمی بھی ایک ایک کر کے غائب ہو رہے تھے اسی وجہ سے وہ پریشان سا ہوا تھا اور اب لیلی سے ہاتھ ملا لیا تھا جو خود ڈرگز مافیا کی کافی پہنچی ہوئی تھی۔۔۔
پولیس ، اسپیشل فورسز اسے بخوبی جانتے تھے مگر آج تک کوئی بھی سراغ اسکے خلاف انکے ہاتھ ناں لگ سکا تھا۔۔ "
" ڈونٹ وری ڈائنا کو کوئی بھی نہیں پکڑ سکتا۔۔ ایل کے انداز میں غرور سا تھا ، لیلی کو مافیہ کی دنیا میں سب ڈائنا کے نام سے جانتے آ رہے تھے۔۔ جس نے بیس سالوں سے تقریباً ہر ملک میں سمگلنگ کی تھی مگر حیرت انگیز طور پہ آج تک اسے کوئی بھی پکڑ نہیں سکا تھا۔۔"
" ویسے حصام علی راج اچھا لگا تم سے مل کر۔۔۔۔ ایک نے کھڑے ہوتے اسکے ساتھ ہاتھ ملایا تھا اور بنا مڑے وہ جیسے ایا تھا ویسے ہی شاہانہ چال چلتا وہاں سے منٹوں میں غائب ہوا تھا۔ جبکہ ایچ اے آر ابھی تک ویسے ہی پریشان سا کھڑا تھا آخر کیسے اسکا نام مقابل کو معلوم پڑا تھا ، وہ تو شاید پچھلے چند سالوں سے خود بھی بھول چکا تھا کہ اسکا نام ایچ اے آر نہیں بلکہ حصام علی راج تھا۔۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" ویام کچھ پتہ لگا اس لڑکی سے ۔۔۔۔ روم میں داخل ہوتے ہی سی آئی ڈی کمشنر دانیال شاہ نے ویام کو دیکھ پوچھا تھا جو انکے دیکھنے پہ سلیوٹ کرتا ایک جانب کھڑا ہوا تھا۔۔۔"
" سر ابھی تک بے ہوش ہے ۔۔۔ ہوش نہیں آئی اسے۔۔۔۔ الایہ نے ویام کو خاموش دیکھ جواب دیا تھا ۔ جو ہمیشہ کے طرح اس بے ڈھنگی بدتمیز لڑکی کے بیچ میں ٹوکنے پہ غصے سے مٹھیاں بھینچتے رہ گیا "
" کیا ویام کیا سچ میں ابھی تک وہ لڑکی بےہوش ہے ۔۔ "
دانیال شاہ نے حیرت و بے یقینی سے مقابل کھڑے اپنے قابل آفیسر کو دیکھا تھا۔۔۔ جس کی جانب سے انہیں آج تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی۔"
"وہ سنجیدہ سا اپنی ذہانت اور حسن میں سب سے منفرد سا تھا۔۔ اسے دیکھ کئی لڑکیوں نے کمشنر دانیال کو ٹریننگ کے لئے ملے اس اسپیشل گروپ کو جوائن کرنا چاہا تھا مگر یہ الایہ کی خوشقسمتی تھی کہ آج تک اس کے علاؤہ ویام نے کسی کو پاس تک بھٹکنے ناں دیا تھا ۔۔ جبکہ الایہ تو اسے دھکی روح کہتی تھی ۔۔ جس کے پاس شکل و صورت تو لاجواب تھی مگر انداز کسی نائنٹین کے بھوڑوں والے۔۔ وہ اکثر اسے تنگ کرتی تھی۔۔"
" جیسے صبح ٹریننگ میں جانے سے پہلے اسکے جوتے غائب کر دینا۔۔ اکثر اسکا یونیفارم چھپا دینا ۔۔ مگر مجال ہے جو اس نے کچھ بولا ہو اسے ۔ وہ بس خاموشی سے اسے اگنور کرتا آ رہا تھا۔۔۔ جبکہ الایہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے لڑے جھگڑے تاکہ وہ بات کو طول دے کر اسکے بھورے ریچھ کے جیسے دکھتے بالوں کو جڑ سے نکال دیتی اور پھر بعد میں۔ اپنی پرنسز کا رشتہ اسے دینے سے انکار کر دیتی کہ بھلا وہ ایک گنجے کو اپنی بہن کیوں کر دے۔۔۔ مگر کمال کا ضبط رکھتا تھا ویام کاظمی جو اس چڑیل کو پچھلے ساڑھے تین۔ سالوں سے برادشت کیے آ رہا تھا۔۔"
" سر انفارمیشن لے لی ہے اس سے ۔۔ آج رات اڑھائی بجے ائیرپورٹ سے سمگلنگ ہوگی ۔۔ "
سر دانیال کو دیکھتے ویام نے ایک جذبے سے انہیں بتایا تھا جہاں کرپس نے الایہ کو لوز کا نشان دکھایا تھا وہیں الایہ دور اپنے خیال میں اسے رسی سے باندھے ڈنڈے سے مار رہی تھی۔ اور آگے سے ویام کا ری ایکشن وہ اپنے خیال پہ کھل کے کھلکھلائی تھی ۔۔ الایہ کے ہنسنے پہ میٹنگ روم میں موجود سب نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ جبکہ وہ گڑبڑا گئی۔۔ ویام نے ترچھی نگاہ اس نیم پاگل پہ ڈالی۔۔ اسے تو پہلے دن سے پتہ تھا کہ اس لڑکی کو رافع اور فدک نے کہیں سڑک سے اٹھایا تھا۔۔ جو یوں جانوروں جیسا برتاؤ کرتی رہتی تھی۔۔"
سس سوری سر۔۔۔ سر دانیال کی جانب دیکھتی وہ سر جھکاتے بولی ۔۔۔ آؤٹ مس الایہ ۔۔۔ سر نے غصے سے اسے جھڑکتے میٹنگ سے نکالا وہ منہ بسورتی مندے مندے قدموں سے باہر آئی تھی۔۔
جانے کیا بتا رہے ہیں سر۔۔۔۔ سلور کلر کے لانگ کورٹ میں بالوں کو اونچی چوٹی میں باندھے وہ بیزار سی دیوار سے ٹیک لگائے سوچ رہی تھی۔۔ آدھے گھنٹے سے وہ باہر کھڑی تھی۔۔ اچانک سے ذہن میں ایک ترکیب آئی تھی۔۔ وہ فون جیب سے نکالتے عیناں کا نمبر نکالتے ویڈیو کال کر گئی ۔یوں تو ہر روز رات وہ اپنے ڈیڈ کے ساتھ ساتھ عیناں اور انزِک سے بات کرتی تھی فدک سے ناراضگی تھی اسکی ۔۔۔۔ مگر اس وقت ویام کو ستانا ضروری تھی ۔۔۔
دوسری ہی بیل میں کال پک ہو چکی تھی۔۔
ہائے پرنسز کیسی ہو۔۔۔ عیناں کے کال پک کرتے ہی وہ چہکتے محبت سے بولی تھی جبکہ عیناں نے مسکراتے ٹاول ایک جانب صوفے پہ اچھالا تھا۔۔ آپی۔۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں۔۔۔"
" فورا سے بیڈ پہ چڑھتے وہ ٹانگیں کلوز کرتے اپنے نم بالوں کو بیڈ پہ پھیلانے لگی تھی ۔ کہاں کی تیاری ہے میڈم ۔۔۔۔ اسکے کھلے نم سنہری بالوں کو یوں دیکھ ، وہ پنک کلر میں دمکتے اسکے روپ کو دیکھتی دل ہی دل میں اپنی جان عزیز چھوٹی کی نظر اتار چکی تھی۔۔۔"
" آپی آج میں اور انزِک بھائی ہیرو کے گھر جا رہے ہیں۔۔ عیناں نے اپنے لمبے گھنے بالوں کو بیڈ پہ پھیلایا تھا اور اب الایہ کو دیکھتی وہ فورا سے بولی تھی۔۔
اوہہہہہ ۔۔۔ اچھااااا ۔ اسی لئے اتنی تیاری کی جارہی ہے ۔یہ لال رنگ یہ سجا سنورا روپ۔۔ یار تمہارے یہ سنہری بال تو اس ہیئر اسٹائل میں غضب ڈھا رہے ہیں۔۔۔ "
روم سے نکلتے ویام کو دیکھتی وہ اپنے پاس سے لفظوں کا تڑکہ لگاتے بولی تھی جبکہ عیناں نے سر کھجایا بھلا آپی کو کیا ہوا ۔۔۔ "
ویام سننے کے باوجود اسے اگنور کرتا باقی سب کے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔
عیناں پرنسز تم ناں وہ ہائی ہیل پہن کے جانا پارٹی میں۔۔۔ الایہ نے زور سے ہانک لگائی تھی۔ جبکہ ویام صاحب کے قدم ایک دم سے تھمے تھے۔۔ جسے نوٹ کرتی الایہ کا دل ناچنے کو چاہا تھا۔۔
آپی کیا کہہ رہی ہیں۔ کون سا ہیئر اسٹائل اور کون سی پارٹی کیا کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔ عیناں نے الجھتے اسکرین کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ الایہ کے جواب دینے سے پہلے ہی مقابل لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اسکے سامنے رکا تھا۔ الایہ جانتی تھی وہ عیناں سے بات نہیں کرتا تھا ناں ہی اپنی موم سے۔۔ کیونکہ ان دو لوگوں کا سامنا کرنے کے بعد وہ بالکل بے بس ہو جاتا تھا۔۔
جبھی وہ جان بوجھ کے ویام کو ستا رہی تھی ۔مگر اگلے ہی پل اسکا منہ حیرت و بے یقینی سے کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔۔ جب مقابل نے ایک دم سے اسکا موبائل اسکے ہاتھ سے جھپٹا تھا۔۔۔ الایہ اسے آوازیں دیتی اسکے پیچھے بھاگی تھی مگر وہ جلدی سے اپنے روم میں آتے دروازہ لاک کر گیا۔۔۔ پردے برابر کرتے وہ چئیر پہ بیٹھا تھا۔۔۔ اور اپنے دھک دھک کرتے بے تخاشہ تیز دھڑکتے دل سے اسنے موبائل کی اسکرین سامنے کی تھی۔۔
" آپپہی۔۔۔۔ عیناں جو اب کچھ ناں دکھنے پر کال کاٹنے والی تھی ایک دم سے اس ستم گر کا چہرہ سامنے دیکھتے ، وہ ساکت ہو گئی تھی۔۔ دھڑکنیں معمول سے زیادہ تیزی سے رقص کرنے لگی تھی۔۔ کیونکہ آج اتنے سالوں بعد مقابل کی نظروں کی تپش ، اسکی آنکھوں میں جھلکتا شدت جنون بھرا استحقاق ،پل بھر میں عیناں کی پلکیں لرزی تھی۔۔
جبکہ مقابل خاموش بیٹھا اپنے سامنے دکھتے مقابل کے ہوشربا حسن میں کھویا اج اپنے آنکھوں کی برسوں پرانی تشنگی مٹا رہا تھا جیسے۔۔۔ دونوں اطراف مکمل خاموشی تھی۔۔ عیناں جو تین سالوں سے ایک ایک شکائت جوڑ جوڑ کے رکھ رہی تھی اب جب مقابل نظروں کے سامنے تھا تو زبان جیسے تالوں سے چپک چکی تھی ۔۔۔ اس سے نظریں اٹھانا محال ہو رہا تھا۔۔
جب وہ گیا تھا تب وہ سولہ سال کی تھی۔۔ ویام اسکے لئے ایک اچھا دوست تھا اسکا بیسٹ فرینڈ۔ ۔۔۔ جس کے ساتھ وہ اپنی موم سے بھی زیادہ باتیں شئیر کرتی تھی ۔۔ اسکا آدھے سے زیادہ بچپن ویام کے ساتھ گزرا تھا ۔۔ مگر آج وہ صرف اسکا دوست نہیں تھا ناں ہی وہ سولہ سال کی نادان سی بچی تھی۔۔۔ آج وہ ایک انیس سالہ سمجھدار لڑکی تھی۔۔
" عیناں نے پل بھر کو اپنی کرسٹل گرے نظریں اٹھائی تھی مگر مقابل کی نظروں کو خود پہ ٹکا پاتے وہ پل بھر میں نظریں جھکا گئی ۔۔۔ اسے اب اپنی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا ۔۔ شرم و حیا سے اسکا چہرہ ایک دم دہک رہا تھا۔۔ اسنے ہاتھ بڑھا کہ اپنا دوپٹا اڑھے ترچھے انداز میں خود پہ لیپٹا تھا۔۔۔
جبکہ ویام مسکرائے بنا ناں رہ سکا اسکی معصوم سی کوشش پہ۔۔..."
کیا سزا دی جائے آپ کو مس عیناں ویام کاظمی۔۔۔اپنے شوہر کو یوں دوران کام تنگ کرنے کی۔۔۔۔ ویام کی بھاری گھمیبر آواز میں اپنے نام کے ساتھ اسکا نام لینا ، عیناں کی پلکیں پل میں بوجھل ہوئی تھی وہ سرخ چہرے سے لب بھینج گئی۔۔۔"
" اششششش۔۔۔۔۔ اگر رونے کی کوشش بھی کی تو آئی سویر ایک ایک آنسوں کا حساب آج ہی بے باک کروں گا تم سے۔۔۔ تم جانتی ہو ناں میں ایسا کر بھی سکتا ہوں ڈونٹ ٹرائی ٹو کرائے مائے گرل۔۔۔۔۔۔ اسنے نرمی سے مگر سنجیدہ لہجے میں اسے سمجھایا تھا ۔۔ جسکی ریڑہ کی ہڈی میں ایک سرسراہٹ سے دوڑی تھی اسکے انداز پہ۔..."
" ڈو یو مس می۔۔۔۔ دنیا کے سامنے سنجیدہ سا خاموش طبیعت کا مالک بند کمرے میں اپنی دنیا سے نا چاہنے کے باوجود بھی بات بڑھا رہا تھا۔۔۔ وہ دیکھ چکا تھا یہ تین سال بہت کچھ بدل گیا تھا ان دونوں کے درمیان ، جیسے یہ رشتہ تبدیل ہوا تھا اب وہ اسے پہلے والی اپنی عیناں ناں دھکی تھی جو خود رات کو اٹھ کر اسے چوری کال کرتی تھی اور جب وہ پوچھتا تو کہتی کہ نیند نہیں آ رہی مجھ سے بات کرو اور ویام مسکراتے پوری رات اس سے جاگتے باتیں کرتا تھا۔۔ ".
" آج کے بعد الایہ سے بات مت کرنا ۔۔ ورنہ مجھے اپنا فیصلہ بدلنے میں ذرا بھی پریشانی نہیں ہو گی مگر شاید تمہارے لئے مشکل ہو جائے اور ایک بات خود کو تیار کر لو جان ، بہت جلد تمہیں اس دنیا سے چرا کر یہ ویام کاظمی اپنی اس حسین دنیا میں لے جاے گا جہاں تمہارا اس جن کی قید سے آزاد ہونا ناممکن ہے۔۔۔۔۔ " اسکے چہرے سے ہوتے ویام کی نظریں اسکے لمبے سنہری بالوں پہ آ ٹہری تھی جنہیں وہ مبہوت سا ہوتے دیکھ رہا تھا۔
اپنا دھیان رکھنا اپنے ویام کیلئے مائی پرنسز۔۔۔ ویام نے کہتے ایک دم سے کال کاٹی تھی۔۔۔"
" وہ جو کب سے دروازے سے کان لگائے ہوئے تھی اچانک سے دروازہ کھلنے پہ بمشکل سے خود کو گرنے سے روک پائی تھی ویام حیران نہیں تھا ہوا اسکے انداز پہ۔ الایہ نے زبردستی مسکراتے ہوتے بتیس دانتوں کی نمائش کی تھی اور شاید پہلی بار ویام نے اسے دیکھ ہلکی سی سمائل پیش کی ۔ ابھی وہ اسی شاک میں تھی وہ ویام کو جاتا دیکھ اب اپنے موبائل کو دیکھ رہی تھی ۔۔ مگر اگلے ہی پل وہ چیخ پڑی تھی جب موبائل کی ٹوٹی اسکرین اسکے ایک ہاتھ میں تھی اور باقی ہیچ پرزے نیچے پڑے تھے۔۔۔ویام۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
"پردے سرکنے سے ایک دم سے چھن سے ٹکراتی تیز سورج کی کرنوں نے اسکے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔۔ وہ نیند میں کسمساتے الٹا لیٹے ہی کروٹ بدل چکا تھا۔ زوہا نے ایک نظر بارہ بجاتی گھڑی کی سوئیوں کو دیکھا تھا اور چلتے چارپائی کے پاس آئی۔۔۔ "
" بھاؤں طبیعت تو ٹھیک ہے ناں تیری۔۔ وہ فکر مندی سے اسکے کندھے کو ہلاتی بولی تھی آج پہلی بار وہ یوں بے خبر اتنی دیر سے سو رہا تھا ورنہ تو وہ صبح ہی صبح کام کیلیے چلا جاتا تھا۔ "
بھاؤں اسکے ناں ہلنے پہ زوہا نے دوبارہ سے اسے جھنجھوڑا تھا کہ ایک دم سے بھاؤں نے جھٹکے سے اسے کھنیچا تھا وہ حواس باختہ سی ہو گئی جب اپنی پہلی گردن مقابل کے ہاتھ میں دیکھی ، ۔۔۔"
" تجھے کتنی دفعہ کہا ہے میرے کمرے میں مت آیا کر
۔۔۔ بھاؤں نے غصے سے سرخ ہوتی نظروں سے اسے دیکھتے کہا تھا جس کا چہرہ ایک دم سے سرخ پڑا تھا جبکہ آنکھیں باہر ابلنے کو تھیں ۔"
" امممممم۔۔۔ ۔۔۔ زوہا نے خود کو چھڑوانے کی سعی کرتے منہ سے آوازیں۔ نکالی تھیں ۔ جبکہ بھاؤں نے دو منٹ میں ہی اسے نیم بے ہوش کیے اب ایک جانب پھینکا ۔۔ وہ گرتی ہمشیہ کی طرح برے طریقے سے کھانسنے لگی ۔ بھاؤں تجھے کو کیا گیا ہے۔۔۔ توں ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔ زوہا نے ایک دم اپنی بے قدری پہ گالوں پہ بہتے آنسوں رگڑتے پوچھا تھا۔۔ جو اب باتھروم کی جانب بڑھا تھا.."
" فلحال مجھے اکیلا چھوڑ دو زوہا ، میں مزید کوئی تماشہ نہیں کرنا چاہتا مجھ پہ رحم کھاؤ اور جان چھوڑو اپن کی۔۔۔۔ بھاؤں بے بسی سے مڑا تھا اور چلتے روتی ہوئی زوہا کے قریب جاتے وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔جبکہ زوہا تو اسکے لب و لہجے پہ دنگ سی رہ گئی۔۔ اسنے آنکھیں پھیلائے اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔۔ "
" جو کہیں سے بھی بھاؤں نہیں تھا لگا اسے ۔۔۔ بلکہ اس وقت اسے وہ ایک ٹوٹا بکھرہ بے بس سا انسان لگا تھا۔۔ جس کی آنکھوں میں غموں ، اور تکلیفوں کا جہاں آباد تھا۔۔۔ زوہا کی گہری نظریں اپنے چہرے پہ پاتے وہ ہاتھ پکڑتے اسے باہر نکال گیا۔
اسنے الماری سے اپنا کالا سوٹ نکالا تھا۔اور یونہی وہ اپنے سینے میں جلتی آگ کو بجھانے کی سعی میں واشروم کی جانب چل پڑا تھا۔۔۔ شاور آن کرتے اسنے دائیں بائیں دیوار پہ ہاتھ رکھے تھے۔۔ اور آنکھیں موندے وہ سکون کا سانس چاہتا تھا۔۔ مگر دل مزید لہو لہان ہو چلا تھا۔۔۔ اپنا اندر اس سے ملامت کر رہا تھا۔۔ جس لڑکی نے اسے تباہ و برباد کیا تھا آج پھر وہ اسے آباد کر آیا تھا۔۔ پچھلے دس سالوں سے جسے برباد کرنے کا موقع ڈھونڈتے اسنے دن رات میں تفریق کرنا چھوڑ دی تھی۔۔ آج جب اسکے پاس موقع تھا۔۔ تو پھر کیوں کیوں وہ اپنا بدلہ ناں لے سکا تھا۔۔"
" اسنے شدید غصے سے اپنے ہاتھ کا مکہ بناتے دیوار پہ دے مارا تھا۔۔ اسکے غصے سے لبریز چیخ جو دھاڑ کی مانند لگی تھی۔۔ پل بھر میں اسکی گردن کی رگیں پھولنے لگی ۔۔۔ حیا کا معصوم چہرہ آنکھوں کے بند پردوں پہ لہرایا اسنے جھٹ سے آنکھیں کھولیں تھی۔۔ لب بھینجتے وہ اپنے دل و دماغ میں لگے اس آگ کے پہاڑ کو بھجانے کی سعی میں مکمل ناکام ہوتا جا رہا تھا۔۔
" امن نے کہا ہے بابا ۔۔۔ اسنے بلایا تھا مجھے ۔۔۔۔" کانوں کے پردے سے اسی ستم گر کی روتی آواز ٹکرائی تھی ۔۔۔ بھاؤں کیلیے سانس لینا مشکل ہو چکا تھا۔۔۔ کتنے آنسوں اسکی آنکھوں سے بہے تھے اسے اندازہ نہیں تھا اس بات ۔۔۔ مگر جو بات اسے اندر ہی اندر تکلیف دے رہی تھی۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کی اس لڑکی کیلئے محبت اور فکر تھی۔۔
وہ رات چھوڑ آیا تھا اس ستم گر کو۔۔ حالانکہ کا اسکا ارادہ اسے برباد کرنا تھا مگر اسکے جنون اسکے عشق نے جانے کیسے اسکے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں۔۔ کہ وہ جو اسے برباد کرنے گیا تھا۔۔ خود برباد ہوتے واپس آیا تھا۔۔۔
وہ گھر واپس نہیں آیا تھا بلکہ اپنے اڈے پہ چلا گیا تھا۔۔۔ لگاتار چار گھنٹے اسنے سگریٹ پھونکے تھے۔۔۔ شراب نوشی اسکی ماں کو سخت ناپسند تھی۔۔ ناپسند تو انہیں سگریٹ بھی تھے۔۔ مگر غم بھلانے کو وہ اتنے سے نشے کا سہارہ ضرور لیتا تھا۔۔"
" راکنک چئیر پہ جھولتے اسنے موبائل کو لیپ ٹاپ سسٹم سے اٹیچڈ کیا تھا۔۔ تقریباً ساڑھے چار بج رہے تھے اور وہ جانتا تھا یہ وقت رمشہ کی نماز کا تھا وہ روز اسی وقت تو اپنی ماں کے روشن چہرے کو دیکھتا تھا۔۔۔ سرخ ہوئی آنکھوں سے وہ نیند سے بھری آنکھوں کو کھولنے کی مکمل کوشش کرتے اب اپنے گھومتے سر کو ہاتھ سے دبانے لگا ۔۔۔۔ ایک دم سے اسکی سانس تھمی تھی۔۔ جبکہ اسکی ماں کے قدم اپنے روم سے باہر جاتے حیا کے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔۔۔"
" آج سہی معنوں میں اسے یہ بات سمجھ میں آئی تھی ک واقعی وہ اکیلا تھا بے سہارہ اس دنیا میں ۔۔۔ اپنی ماں سے لگائی ساری آسیں ایک دم سے ٹوٹیں تھی۔۔ اسکا دل کیا کہ وہ بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کے روئے ۔۔ یا پھر کہیں سے اسے وہ لڑکی مل جاتی تو ابکی بار وہ اپنی گستاخ نظروں پہ پٹی باندھے اسے جان سے مار دیتا۔۔ "
" اسکے سینے میں موجود وہ خون کا لوتھڑا زور سے دھڑکنے لگا جب رمشہ فکر مندی سے حیا کے پاس بیٹھی اسکا سر دبا رہی تھی۔۔ تو ثابت ہوا تھا کہ جسے دنیا کے الزاموں نے نہیں توڑا تھا آج اپنی ماں کے رویے نے۔ توڑ دیا تھا۔۔ وہ سکھ چکا تھا ۔۔ اگر دس سال بعد اسکی ماں اپنے بھائی کے گھر جا سکتی تھی اپنی بھیجتی کو واپس لا سکتی تھی ۔ تو اس کا مطلب بالکل تھا کہ امن اشعر علوی انکی نظروں میں ایک گنہگار شخص تھا۔۔ جس کے جانے کا سوغ کچھ سالوں تک منا لیا اب وہ ہو ناں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔ "
" کیوں میں ہی کیوں۔۔۔۔۔۔ فرش پہ گھٹنوں کے بل بیٹھا وہ نوجوان مرد چیخا تھا ۔۔ اسنے ہاتھ سے اپنے پاس پڑی شیمپو کی بوتل کو دیوار سے دے مارا تھا۔۔۔۔ وہ رویا نہیں تھا آج تک کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مرد کبھی روتے نہیں مگر آج اسکی ماں کے رویے نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔۔۔ "
" اگر کسی کو میری پرواہ نہیں تو میں کیوں کسی کی پرواہ کروں ۔ کوئی نہیں میرا اس دنیا میں ۔۔ امن اشعر علوی آج سے دس سال پہلے ہی مر چکا تھا میں صرف بھاؤں ہوں جو اب اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کر گزرے گا۔۔۔ اب اس لڑکی کو تباہ ہونے ہو گا۔۔ مجھے اپنا بدلہ چاہیے وہ بھی اسی سے۔۔ جسنے مجھے تباہ کیا۔۔ اب میں کسی کو معاف نہیں کروں گا ۔۔ ہر ایک کا حساب ہو گا۔۔ اور ہر کوئی اپنے حصے کی سزا بھگتے کا ، وہ سزا جو بھاوں مقرر کرے گا سب کی ۔۔۔۔"
" اسنے سر گھٹنوں کے بیچ ٹکاتے عجیب سے سرد لہجے میں جیسے خود کو باور کروایا تھا۔۔۔ نیند سے سرخ ہوتی آنکھوں میں اب ایک الگ سی نفرت جھلک رہی تھی ۔۔ وہ نفرت جو دس سالوں میں اپنی جگہ ناں بنا پائی تھی مخض چند لمحوں میں مقابل کے اندر ایک گہرہ گھر کر چکی تھی ۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" اسلام علیکم امی۔۔۔۔دروازے پہ دستک دیتے اسنے قدم آگے بڑھائے۔۔ سامنے ہی بیڈ پہ بیٹھی سلمی بیگم نے تسبیح کرتے سر کو ہلکی سی جنبش دی۔۔ حسن دھیرے سے قدم اٹھاتے اندر داخل ہوا۔ "
" کیسی ہیں آپ امی ، طبیعت ٹھیک ہے چند پل کی خاموشی کے بعد حسن کی تابعدار محبت سے لبریز لہجے میں آواز گونجی تھی۔ سلمی بیگم نے تسبیح چومتے ایک جانب دراز میں رکھی۔"
" الحمد اللہ اللہ کے گھر کی زیادت سے آئی ہوں ٹھیک ہی ہوں۔ شکر ہے میرے رب کا ۔ انہوں نے تیکھے لہجے میں جواب دیا تھا حسن شرمندہ سا ہوتے سر جھکا گیا۔۔"
" معذرت خواہ ہوں امی میں خود ائیرپورٹ پر آپکو لینے آنا چاہ رہا تھا مگر حیا کی طبیعت بہت ناساز ہو گئی تھی اسی وجہ سے اسے ہوسپٹل لے جانا پڑا۔ حسن نے حیا کے بیمار ہونے کے متعلق بتاتے نظریں جھکائی۔۔۔ آج صبح ہی رمشہ کی کال آئی تھی۔۔ وہ خاصی ڈری ہوئی سی تھی۔ حیا کو ہوش نہیں تھا آ رہا۔ اسی وجہ سے وہ خاصا پریشان ہوئی تھی۔ اسی لیے اسنے حسن کو کال کی تھی جو بھاگتے رمشہ کے گھر پہنچا تھا۔ "
حیا کے بے ہوش وجود کو اٹھائے وہ گاڑی میں ڈالتے ہوسپٹل پہنچا تھا۔۔ پورا دن گزر چکا تھا مگر حیا کی طبیعت ابھی تک نہیں سنبھلی تھی۔ اسی ابھی پھر سے وہی جھٹکے آ رہے تھے جو چند سال قبل اس حالت میں ہوتا تھا۔
حسن نے ایک ایک لمحہ اضطراب اور پریشانی میں گزارا تھا۔۔ ابھی تو وہ سنبھلی تھی کجا کہ دوبارہ سے اسی حال میں جانا ۔۔ ایک باپ کے کندھے آج بوجھ سے نہیں بلکہ اپنی معصوم بیٹی کی فکر سے جھکے تھے۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا آخر ایسا کیا ہو گیا جو ایک ہی رات میں اس کی پھول جیسے کھلتی چاند چہرے والی بیٹی آج مرجھا چکی تھی۔"
" اسے بارہا کی کال آ رہی تھی ، مگر وہ موبائل آف کر چکا تھا ابھی بھی رات کے نو بجے وہ ڈاکٹر کی تسلی پہ گھر آیا تھا ۔ تو یسری سے اسے سلمی بیگم کی آمد کا پتہ چلا تھا، جبھی وہ سیدھا انکے کمرے میں آیا تھا ۔٫
"بیوی اور بیٹی سے فرصت ملے تو ماں کا خیال آئے تمہارے بابا کے جانے کے بعد تو اس گھر میں کسی کو بھی میری پرواہ نہیں ۔۔ انکا لہجہ نفرت سمویا ہوا سا تھا۔ جبکہ حسن ضبط کرتا بیٹھا ہوا تھا ۔ "
" آپ آرام کریں امی کھانا لاؤں آپ کے لئے۔۔ وہ مزید بیٹھنے کا ارادہ ترک کرتے تھکے قدموں سے اٹھا تھا۔۔ گرے شلوار قمیض پہ جابجا سلوٹیں پڑی تھی۔ جبکہ اسکے چہرے سے واضخ تھکاوٹ محسوس کی جاسکتی تھی ۔ "
ایسا کرو زہر ہی لا دو مجھے۔۔ حسن کا یوں اٹھنا انہیں کانٹوں پہ لوٹا گیا وہ بنا لخاظ کے بولی تھی۔ جبکہ حسن نے بھینجے جبڑوں سے لہو ہوتی آنکھوں کو جھکایا۔۔ جانے کب یہ سزا یہ اذیت کٹنی تھی۔"
"اپنا خیال رکھئے گا امی اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتائیے گا ، فی امان اللہ۔۔ حسن نے نرم شکستگی سموئے لہجے میں کہا تھا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا ۔"
"حسن حیا کہاں ہیں آئی نہیں آپ کے ساتھ۔۔ یسری نے ہاتھوں کو لوشن لگاتے شیشے سے نظر آتے حسن کے عکس کو دیکھ پوچھا تھا۔۔۔ حسن نے بے بس نظروں سے اسے دیکھا۔ کیا بتاتا کہ اسکی بیٹی صبح سے بے ہوش بیڈ پہ پڑی ہے اور یہ باپ کچھ نہیں کر پا رہا۔۔ "
" وہ رمشہ نے ضد کی تو اسے ادھر ہی رہنے دیا آج کل آ جائے گی۔ نظریں چرائے کہتے ساتھ ہی اسنے موبائل نکالتے سامنے رکھا ۔
آپ ٹھیک تو ہیں طبیعت ٹھیک ہے آپکی کافی تھکے محسوس ہو رہے ہیں ۔ یسری نے اسے دیکھ پوچھا جو کافی پریشان الجھا ہوا سا لگا اسے۔۔"
"ہمم کچھ نہیں یار بس تھک گیا آج آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔ اسنے نرم لہجے میں کہتے بیڈ پہ دراز ہوتے آنکھیں موندی۔۔ جبکہ یسری اسکے الجھے رویے پہ خود بھی متفکر سی ہوتے رہ گئی ."
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" ماما آپ ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے۔۔۔۔۔۔ پچھلے دو گھنٹوں سے وہ جلے پاؤں کی بلی بنے لاونج میں چکر کاٹ رہا تھا۔ وہ آج دن میں ہی اشعر کے ساتھ گھر پہنچا تھا مگر رمشہ کا رویہ توقع کے برخلاف تھا ۔ "
" اذلان کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے نہال ہوتے اس سے ملی تھی۔ اذلان نے نم آنکھوں سے شرمندہ سا ہوتے نظریں چرائی تھی، مگر اس سے ملنے کے بعد رمشہ نے کمرہ اندر سے لاک کر لیا تھا ۔"
اشعر تو ضروری میٹنگ کا کہتے چلا گیا تھا واپس جبکہ اذلان اپنی ماں کے لیے سخت پریشان سا تھا اور ابھی دو گھنٹوں بعد روم کا دروازہ کھلا تھا وہ بنا توقف کے دوڑتا آگے بڑھا تھا ، اور فورا سے رمشہ کا ہاتھ تھام وہ بے چینی سے استفسار کرنے لگا۔"
" رمشہ نے ایک نظر اپنے وجہیہ بیٹے کو دیکھا تھا اور ہلکا سا مسکراتے وہ سر کو نفی میں ہلا گئی "
ایسی کوئی بات نہیں بیٹا۔"۔ اسنے نظریں چراتے کہا تھا۔ اذلان مزید بے چین ہوا۔"
" میں جانتا ہوں اتنے سالوں بعد آیا ہوں اسی وجہ سے آپ ناراض ہیں ، یہی وجہ ہے ناں۔۔"
اسنے محبت سے رمشہ کے ہاتھ پہ بوسہ دیا۔ تو رمشہ کی آنکھیں روانی سے بہنے لگی۔
ماما میری کوئی بات بری لگی ہے آپ کو ، پلیز ایم سوری آپ روئیں نہیں۔۔۔۔۔ اسنے پریشان ہوتے فورا سے معذرت کی تھی۔ جبکہ سامنے بیٹھی رمشہ نے اپنے دھکتے دل کے ساتھ لہو رنگ ہوئی آنکھوں سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا۔"
" اذلل اذلان۔ وہ بھی تو جوان ہو گیا ہو گا ۔۔ کیسا دکھتا ہو گا۔ بچپن میں تو تم دونوں بالکل ایک جیسے دکھتے تھے ناں ، تو کیا اب بھی وہ تم جیسا ہو گا۔ کیا وہ ایسا ہی لمبا چوڑا ، تم جیسے خوبصورت نقوش ہونگے اس کے۔۔۔۔ اذلان کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھوتے وہ گالوں پہ بہتے آنسوں سے تر چہرے سے عجیب سے کھوئے ہوئے لہجے میں بول رہی تھی ۔ اذلان نے شدت ضبط سے اپنے جبڑے بھینجے تھے ۔
کیا بتاتا اپنی روتی ہوئی ماں کو کہ ہاں شاید مجھ جیسا ہی ہو گا وہ یاں شاید مجھ سے بھی خوبصورت۔۔۔ اسنے بے چین دل سے رمشہ کو اپنے سینے سے لگایا۔
جو ضبط کی انتہا پہ تھی۔ اذلان ۔۔۔۔۔ اسنے روتے اپنے بیٹے کے سینے پہ محبت سے بوسہ دیا ، اذلان نےضبط سے آنکھیں میچیں۔۔۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا بچپن میں وہ دونوں ہی تو ایس ضد کرتے اپنی ماں سے بوسہ لیتے تھے اپنے سینے میں موجود دل پہ، کہ دیکھتے ہیں کس کا دل زیادہ زور سے دھڑکتا ہے۔۔ "
جج جی موم۔۔۔۔ اس نے خلق میں اٹکتی آواز سے بمشکل کہا تھا۔ ایک ہاتھ سے انکے سر کو تھپکتے وہ مضبوط حصار بنا گیا اپنی ماں کے اطراف۔۔ "
" کیا وہ بھی یاد کرتا ہو گا مجھے۔ ۔۔۔۔ اذیت ، دکھ سے لبریز لہجہ اذلان کا دل لہو لہان ہوا تھا۔۔۔ اسکے لئے اب یہاں بیٹھنا مشکل ہو چلا تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ دس سال کا دکھ غم تھا جو اسکی ماں اپنے سینے میں چھپائے بیٹھی تھی۔۔"
" ماما آپ خاموش ہو جائیں پلیز، میں آپ کو ایسے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ اذلان نے لب دانتوں تلے دباتے خود مضبوط لہجے میں کہا تھا ۔ "
" اذلان میری جان تم وعدہ کرو تم اسے لاؤ گے میرے پاس ایک بار۔۔۔۔ " میں میں اسے بتاؤں گی مجھے یقین ہے اپنے بیٹے پہ ، وہ کچھ غلط نہیں کر سکتا ، پلیز اس لا دو ، رمشہ نے ہاتھ جوڑتے اذلان سے منت بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔ اشعر نے تو امن کا نام تک اس گھر میں لینے سے منع کر رکھا تھا مگر وہ ماں تھی کیسے اتنے سال اپنے بیٹے کے بغیر رہی تھی ، یہ وہ اور اس کا رب ہی جانتے تھے۔
" ماما میں وعدہ کرتا ہوں میں لے کر آؤں گا اسے آپ کے پاس بلکہ کانوں سے پکڑتے لاؤں گا ، اور دیکھئے گا وہ آپ سے معافی بھی مانگے گا۔ اپنے رویے کی۔۔ اذلان نے محبت سے انکے آنسوں صاف کیے تھے ۔ نرمی سے انکی پیشانی چھوتے وہ ایک عزم سے بولا تھا ۔ رمشہ نے سنتے سکون سے آنکھیں موندیں تھی۔ مسلسل رونے سے اسکے پورا وجود ہلکے سے لرز رہا تھا۔۔ اذلان نے احتیاطاً ان پہ کمفرٹر اوڑھایا تھا ۔ کہ اچانک میز پہ دائیں جانب پڑا رمشہ کا سیل فون رنگ ہوا، اذلان نے وقت دیکھتے موبائل اٹھایا تھا۔۔"
" مگر سامنے ہی اسکرین پہ شو ہوتے نمبر کو دیکھ اسنے حیرت سے آنکھیں بند کرتے دوبارہ سے کھولی اور بغور نمبر کو دیکھا۔۔"
" ایک نظر رمشہ پہ ڈالے وہ فون سائلنٹ پہ لگائے اپنے ہاتھ میں تھامے باہر آیا تھا۔"
" ہیلو۔۔۔"
" ہائے جانی ہاؤ آر یو سویٹ ہارٹ۔۔ فون کیوں نہیں اٹھایا میرا کہیں آپکا وہ ظالم شوہر تو نہیں آ گیا تھا۔۔ ایک ایک منٹ کہیں آپ کے اس کالے کلوٹے نے تو کال نہیں کر دی تھی ۔"
" وہ جو زینے چڑھتے اپنے روم کی جانب آیا تھا کالے کلوٹے مطلب اپنا لیے خطاب سنتے اسنے موبائل پہ پکڑ مضبوط کری تھی۔ کالی آنکھوں میں غضب کی سرخی تھی۔ "
اتنے سالوں بعد بھی وہ اس بتمیز لڑکی سے یہی امید کر سکتا تھا۔ ۔۔جسنے بنا اسکے ہیلو پہ غور کرتے اب اپنی پھٹارا گاڑی سٹارٹ کر دی تھی۔ اذلان نے ہاتھ سے اپنی شرٹ کے بٹن کھولے تھے اور چلتا اپنے مخصوص روم میں داخل ہوا تھا۔۔"
" ایک گڈ نیوز ہے جانی۔۔۔ الایہ نے مسلسل خاموشی محسوس کرتے دوبارہ سے چہکتے کہا تھا کہ اذلان نے قدم روکے فون پہ گرفت مضبوط کی اور اپنی پوری حسیات سے اب فون کی جانب متوجہ تھا۔۔ حالانکہ اسے اس لڑکی سے کوئی اچھی امید نہیں تھی مگر پھر بھی اسے جانے کیوں لگا تھا کہ وہ ضرور اسی کی بات کرنے والی تھی۔۔
" میں نے آپ کےکالے کلوٹے کے لئے لڑکی ڈھونڈی ہے۔۔ ہاہاہاہاہاہا آپ امیجن بھی نہیں کر سکتی بائے گاڈ بالکل کالو کے جیسی ہے۔۔ وہی خوبصورت کالی آنکھیں وہی کالی چمکدار رنگت، قسم سے دیکھتے پہلی نظر میں آپ کے کالے خیال آیا تھا۔ تو سوچا کہ آپ کو بتا دوں ویسے بھی اب کہا اس عمر میں آپ اسکے لئے رشتہ ڈھونڈنے میں خوار ہونگی ۔۔۔ یہ تھی مس الایہ کی دو منٹ کی بات۔۔ جسے وہ خالصتاً مختصر گفتگو گردانتی تھی۔!!چئیر پہ بیٹھتے اسنے اپنی پونی ٹیل میں جھولتے بالوں کو ایک ادا سے جھٹکا تھا۔۔"
" تمہیں اسکی زخمت کرنے کی ضرورت نہیں الحمد اللہ میں اپنے لئے خود سے لڑکی ڈھونڈ لوں گا۔جو کم از کم مینرز جانتی ہو گی تمہاری طرح عقل دماغ مینرز سے پیدل نہیں ہو گی۔۔ جس کو کم از کم کسی سے بات کرنے کی تمیز ہو گی۔ جو تم میں سرے سے نہیں۔ اذلان نے غصے سے بھری سرد گھمیبر آواز میں دانت پیستے کہا تھا۔۔
جبکہ الایہ جو رمشہ کی آواز سننے کی متوقع تھی اب اس کالے کلوٹے کی آواز سنتے اسکے گلے میں پھندا سا اٹکا وہ بری طرح کھانسنے لگی۔ جبکہ مقابل کا چہرہ ہتک اور تضحیک سے لال بھبھوکا ہو چلا تھا۔"
" یعنی یہ لڑکی اسکی ماں سے اسی کی بدصورتی بیان کرتی تھی وہ بھی اس قدر تفصیل سے۔۔۔ اسنے ماتھا مسلتے کمرے میں چکر کاٹے تھے۔۔
" آئندہ کے بعد میری ماما کو کال مت کرنا ورنہ تم کسی کو کال کرنے کا قابل نہیں رہو گی مس بدتمیز۔۔۔۔ اسنے غصے سے کہتے ساتھ بنا اسکی سنے فون ٹھک سے بند کیا تھا اور ساتھ ہی آف کرتے بیڈ پہ پٹھکا۔۔۔۔ "
" کیا تھی یہ لڑکی بیٹھے بھٹائے اذلان کا پارہ ہائی ہو چلا تھا۔۔ وہ کافی سوفٹ نیچر کا تھا مگر صرف سب کے لئے ۔ الایہ کی آواز سنتے ہی اسے چڑ سے محسوس ہونے لگتی تھی۔۔ اذلان نے شرٹ اتارتے صوفے پہ رکھی تھی۔۔ کچھ سوچتے اسنے سامنے ڈریسنگ مرر کہ جانب دیکھا قدم خود بخود ہی اٹھے تھے۔۔ "
" وہ چلتا آگے بڑھا تھا اور بغور اپنا نین نقوش کا اپنی رنگت کا جائزہ لینے لگا۔۔۔ گہری کالی آنکھیں، ستواں ناک، بھرے بھرے ہونٹ ، چہرے پہ موجود ہلکی سی داڑھی ، چوڑا کشادہ سینہ ، بس رنگت ہی تھوڑی سانولی تھی ۔ جو اشعر کی ہی طرح اس کو سب سے الگ بناتی تھی۔۔ اسکے نین نقوش میں ایک کششش سی تھی جو دیکھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کیے رکھتی۔۔ "
" تم دعا کرو کہ تم میرے سامنے کبھی مت آؤ ورنہ ایک قتل میرے ہاتھوں سر زد ہو جائے گا۔۔۔ "اسنے غصے سے اپنے عمل پہ خود کو جھڑکتے ، الایہ کو تصور میں ہی دیکھتے بڑبڑاتے کہا تھا۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
مے آئی کم ان سر۔۔۔۔۔ "
آواز پہ اشعر نے فائل سے نظریں اٹھائے سامنے کھڑے آفیسر کو دیکھا اور سر ہاں میں ہلایا۔۔ "
کم ان آفیسر۔۔۔۔۔ چشمے اتارتے وہ ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست کرتے بولا تھا ۔ "
" جی سر آپ نے بلایا تھا مجھے ۔۔ ایس پی شہروز نے اپنے سامنے براجمان کمشنر اشعر علوی کو دیکھ احترام اور ادب سے کہا تھا۔
" یس آفیسر آپ سے میں خود براہ راست بات کرنا چاہ رہا تھا اسی لئے بلایا آپکو ۔۔۔ اشعر نے بنا تمہید باندھے کہا تھا ، شہروز نے ماتھے پہ بل ڈالے مقابل کو دیکھا۔"
" کچھ دن پہلے آپ کے پاس ایک لڑکا آیا تھا غالباً اس نے آپ کو دس تاریخ کو سڑک ہوئے واقع کے متعلق ویڈیو دی تھی۔۔۔
اشعر کے سنجیدہ انداز پہ مقابل نے تھوک نگلتے پہلوں بدلا۔"
جج جی سر۔۔۔ اسنے سر ہلاتے ہکلاتے کہا تھا۔۔ اشعر نے بغور اسے دیکھا۔۔۔
ہمممم۔۔ تو آپ نے بھاؤں کو تھانے میں بلایا تھا۔۔ "
اشعر نے ٹیک لگاتے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے پوچھا ۔۔۔ وہ آج ہی لاہور سے ٹرانسفر کرواتے کراچی واپس آیا تھا۔۔ اسے آج ہی میٹنگ میں معلوم ہوا تھا بھاؤں کے متعلق جس کی دہشت سے ہر کوئی ڈرا بیٹھا تھا۔۔۔ ایک جانب وہ پرسکون تھا اب وہ اچھے سے رمشہ کا خیال بھی رکھ سکتا تھا ، اپنے گھر رہتے ہی اور دوسری جانب اس بھاؤں سے متعلق بھی آگاہی چاہیے تھی اسے۔۔"
" جی وہ وہ سر میں نے بلایا تھا بھاؤں کو دو دن تک اسے جیل میں اریسٹ کیے رکھا تھا ، مگر وہ ویڈیوز جھوٹی نکلی سر اور وہ لڑکا جس نے وہ ویڈیو دی تھی اس نے خود سے کہا تھا کہ اس سے غلطی ہو گئی تھی اس نے بھاؤں کے خلاف جھوٹی ویڈیو بنائی تھی ۔ شہروز نے ماتھے پہ چمکتے پسینے کے ننھے قطروں کو رومال سے چنتے کہا تھا ۔"
" اشعر نے بغور اسکا جائزہ لیا ۔۔ ابھی تو آپ نے کہا کہ بھاؤں دو دن جیل میں رہا کہا ہے اسکی ضمانت کے پیپر کی کاپی ۔۔۔۔ جس پہ غالباً آپ کے سائن ہونگے۔۔۔ اشعر نے ہاتھ بڑھاتے فائلز مانگی ۔۔ جبکہ شہروز کی زبان جیسے تالوں سے چپک چکی تھی ۔
وہ کیا جواب دیتا کوئی ضمانت ہوتی تو اسکے کاغذ ہوتے، بھاؤں تو اپنی مرضی سے آیا تھا اور دوسرے دن ہی بنا کسی کی سنے وہ سخت غصے سے چلا گیا تھا۔وہاں سے اسکے غصے کو دیکھ شہروز تو کیا کسی نے بھی اسے روکنے کی جرات نہیں کی تھی ۔۔ شہروز نے ہکلاتی زبان کے ساتھ اپنے سامنے براجمان کمشنر کو دیکھا۔۔ جو بھاوں کی ہی طرح اسکے سر پہ تیز دھاری تلوار کی مانند لٹک رہا تھا۔"
" وو وہ سر۔۔۔
آفیسر ہکلانا بند کریں ۔۔ اینڈ بی سئیریئس ۔۔ یہ کسی کی زندگی موت کا معاملہ ہے اور آپ کو دیکھ کر میں تو کیا کوئی بھی بتا سکتا ہے آپ کی بات میں کتنا سچ ہے اور کس مقدار میں جھوٹ یے۔۔ شیم آن یو۔۔۔ اگر کل تک وہ بھاؤں مجھے یہاں میرے سامنے ناں ملا تو آپ کو اگلے سیکنڈ ہی میں جاب سے فائر کر دوں گا۔۔
اشعر نے سنجیدہ لہجے میں اپنا فیصلہ سناتے شہروز کے کانوں سے دھواں نکالا تھا۔۔ جو ایک ہی جگہ جیسے جم گیا تھا۔۔"
یو مے گو ناؤ۔۔۔۔ اشعر نے درشتگی سے اسے جھڑکتے کہا تو وہ ہڑبڑاتے آٹھ کھڑا ہوا اسے سلیوٹ کرتے وہ مرے قدموں سے باہر نکلا تھا۔۔"
" تمہیں یقین ہے کہ وہ آئے گا۔"
" ایک نظر اپنے سامنے دیکھ وہ اپنے سر کی جانب دیکھتے خود سے زیادہ بے چین کرپس کو دیکھ بولی ۔ "
" مجھے یقین ہے وہ آئے گا فکر ہی مت کرو تم۔۔۔ اسنے بے چینی سے سامنے دیکھ الایہ کو حوصلہ دیا تھا۔ جو اپنے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے اب چوکس سی ہوئے بیٹھی تھی۔۔"
" ایلی آ گیا سامنے دیکھو۔۔۔ کرپس نے اسکے کان کے قریب سرگوشی کی تو الایہ نے فورا سے سر ہلایا تھا۔۔ سامنے ہی ویام اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے رات کے ایک بجے بیرونی گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ "
" وہ دونوں اس وقت پچھلے آدھے گھنٹے سے آدھی رات کو ویام کے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔۔ اسکے نکلتے ہی کرپس نے اسے کندھا سے ہلاتے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔۔"
" جو بھی کرنا سوچ سمجھ کے کرنا ورنہ یہ بھورا بلا مجھے جان سے مار دے گا اگر میں اس کے ہاتھ آ گئی۔۔ الایہ نے کرپس کو انگلی اٹھائے وارن کیا تھا ۔ وہ جانتی تھی کام کے سلسلے میں ویام کسی بھی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کرتا تھا ۔۔ اسی لئے وہ کرپس کو پہلے ہی وارن کر رہی تھی۔۔ جس نے اسے یوں گھورا جیسے کہہ رہا ہو کہ تمہیں میری قابلیت پہ شک ہے۔۔"
" جلدی چلو الایہ۔۔۔۔۔ وہ دونوں نیم اندھیرے میں تقریباً گھنٹوں کے بل جھکتے اسکے پیچھے گیٹ تک آئے تھے سامنے ہی وہ بلیک ماسک لگائے اپنا چہرہ کور کر رہا تھا۔۔ بلیک ہڈ سے اسکا چہرہ بھی مکمل طور پر کور ہوا تھا جیسے۔۔۔" اب یقیناً وہ گاڑی میں بیٹھنے والا تھا۔۔"
" الایہ اور کرپس نے سپیڈ تیز کی تھی اور ایک دم سے اسکی گاڑی کے پیچھے ٹیک لگائی تھی، کرپس نے انگوٹھے سے اسے ڈن کا اشارہ کیا تو الایہ نے جھٹ سے ڈِگی کھولی تھی اور پُھرتی سے وہ جمپ کرتی اندر ایک کونے میں دبکی اسکے بیٹھتے ہی کرپس نے بھی اندر داخل ہونے کی کوشش کری تو الایہ نے ایک دم سے اسکے پیٹ پہ کک کیا تھا وہ ہڑبڑاتے الٹے قدموں سے پیچھے کی جانب منہ کے بل گرا۔۔۔ اس نے فورا سے اٹھتے سامنے دیکھا جہاں ویام کی گاڑی فل سپیڈ سے آگے بڑھی تھی۔۔ "
کرپس نے سرخ لال بھبھوکا چہرے سے الایہ کو غصے سے دیکھتے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجا جو اسے منہ باہر نکالے ہاتھ سے بائے بائے کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔ کرپس کا دل چاہا کہ ابھی گاڑی رکے اور وہ اس چڑیل کو اسکے کالے بالوں سے گھیسٹتے پورے گروانڈ کے چکر لگوائے۔۔ سارا پلان اسنے بنایا تھا۔۔۔ وہ نو بجے سے اکیلا جاگتے ویام کے جانے کا ویٹ کر رہا تھا کیونکہ الایہ نے پہلے ہی کہا تھا کہ جب بارہ بجے تو اٹھا دینا ۔۔۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد اسے پھر سے وہ دھوکا دے گئی۔۔۔ کرپس نے دانت کچکچاتے ہوا میں بکھرتے دھوئیں کو دیکھا۔۔۔کہ اچانک سے کتوں کے بھونکنے کی آواز کے ساتھ کور لائٹ کی روشنی اسی جانب ہوئی وہ ایک دم سے جیسے ہوش میں آیا تھا اور بھاگتے ایک جانب دیوار سے جا لگا۔۔۔"
" منزل پہ پہنچتے اسنے کار ایک جانب روکی تھی۔۔ اپنی گن چیک کرتے وہ بیک پاکٹ میں ڈالتے اب الٹے قدموں سے مڑا تھا۔۔ الایہ جو ہلکا سا جھانکتے دیکھ رہی تھی اب اس سر پھرے کو یوں پیچھے کی جانب جاتا دیکھ اسنے منہ بنایا ۔۔ ضرور وہ کچھ الٹا ہی کرنے والا تھا۔۔ اسنے بے زاری سے اپنے شولڈر پہ لگی دھول کو جھاڑا تھا اور جھٹکے سے وہ نکلتے بیک سیٹ پہ بیٹھی۔۔ اسنے ہاتھ میں پہنی واچ پہ ٹائم دیکھا جو ایک پچاس بجا رہی تھی یعنی ابھی اس کے جانے میں وقت تھا۔۔ اسنے آرام سے سیٹ پہ نیم دراز ہوتے فون پہ سونگ لگائے تھے ۔"
" سارا سامان جلدی سے سمیٹو ہمیں آج ہی اسے دوسرے اڈے میں شفٹ کرنا ہے۔۔۔ روزل نے کام کرتے اپنے آدمیوں سے کہا تھا اور خود چلتے وہ ایک جانب پڑے باکس کی جانب گیا ۔۔ چیک کرو کہیں سامان میں گڑبڑ تو نہیں۔۔۔ اسنے ایک سفید لفافے کو ہاتھ میں تھامتے چیک کیا تھا ۔۔۔ بوس سارا سامان ٹھیک ہے ۔ میں نے چیک کیا ہے۔۔ لفافے بیگ میں رکھتے ہوئے شخص نے روزل کو دیکھ بولا۔۔۔"
" جو اب سر ہلا گیا۔۔۔۔"
" یہ آواز جاؤ دیکھو پیچھے کون ہے۔۔۔" ایک دم سے پیچھے کمرے سے آتی آواز پہ روزل نے سامنے ہاتھ میں گن تھامے کھڑے گارڈ کو اشارہ کیا جو سر ہلاتے اس جانب گیا۔۔۔"
" جاؤ دیکھو وہ آیا کیوں نہیں۔۔۔ پانچ منٹ بعد بھی گارڈ کے واپس ناں آنے پہ روزل نے دوسرے کو کہا جو سر ہلائے اس جانب گیا تھا۔۔۔ "
اسنے گن سامنے کی جانب کرتے چاروں اطراف دیکھا۔ کون سامنے آؤ۔۔۔۔۔ اسنے قدموں کی آواز پہ ڈر چھپائے حکم دیا تو مقابل فورا سے اندھیرے سے نکلتا سامنے آیا تھا۔۔"
" ہاتھ اوپر کرو ورنہ شوٹ کر دوں گا۔۔۔ اسنے گن دکھاتے روعب سے کہا تو اسنے فورا سے ایک قدم آگے کی جانب کرتے ہاتھ اوپر کیے ۔ "
سٹاپ اٹ۔۔۔۔۔ آگے کیوں بڑھ رہے ہو۔۔۔۔ گارڈ نے اسے آگے بڑھتا دیکھ غصہ سے کہا مگر مقابل ڈھیٹ بنا اسکی جانب بڑھتے گیا۔ آگے مت بڑھو ورنہ۔۔۔ اسنے بے بسی سے خود سے دو قدم کے فاصلے پہ موجود شخص کو کہا ۔۔۔
ورنہ کیا۔۔ مقابل نے طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے قدم آگے بڑھائے تو گارڈ نے کپکہاتے ہاتھوں سے فائر کرنا چاہا ۔۔ جسے مقابل بآسانی سے رد کر چکا تھا۔"
"ڈونٹ گیو می آرڈر ادر وائز آئیل گِیو یو آ ہوریبل پین۔۔۔۔
(Don't give me order other wise I'll give a horrible pain. )
(مجھے حکم مت دو ورنہ میں تمہیں بہت خطرناک درد دوں گا۔۔)
مقابل نے جھکٹے سے اسکے بائیں ہاتھ کے نیچے ٹانگ سے وار کیا تھا جس سے اسکی گن دور جا گری۔۔۔ گارڈ نے پسینے سے شرابور چہرے سے کپکپاتی ٹانگوں سے اسے دیکھ سر کو نفی میں ہلایا تھا۔
سسس سوری پلیز لیو می۔۔۔۔ ویام نے پاؤں مارتے گن کو ایک جانب پھینکا اور قدم گارڈ کی جانب بڑھائے تھے۔۔جو خوف سے مسلسل کپکپا رہا تھا۔۔"
" آواز مت کرو بہت آرام سے ماروں گا۔۔۔ ویام نے دھیرے سے اسکی گردن کو دبوچتے کہا تو وہ دم سادھ گیا۔۔۔ گڈ بوائے۔۔ اسکے دم سادھنے پہ ویام ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔ اور ایک ہی جست میں اسکے گردن کو اپنے ہاتھ کو ٹیڑھا کرتے مروڑا تھا۔۔۔ " اور ایسے ہی اسکے بے جان وجود کو اپنے بازوؤں سے دبوچتے وہ گھیسٹتے اب سامنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔"
" قدموں کی تیز آہٹ پہ روزل سمیت سب نے گردنیں گھمائیں۔۔ جہاں سامنے ہی بلیک ماسک سے چہرہ کور کیے وہ چوڑے کشادہ سینے ، لمبے دراز قد کے ساتھ کھڑا ایک ہاتھ میں گارڈ کی بے جان گردن دبوچے ہوئے کھڑا تھا۔۔۔ پل بھر میں سب نے اپنی جگہیں چھوڑی۔۔۔۔ "
" کون ہو تم۔۔۔۔" روزل نے ناسمجھی سے اسکے باززوں میں لٹکتے زمین بوس ہوئے گارڈ کی باڈی دیکھتے سنجیدگی اور حیرت سے استفسار کیا۔۔"
" مقابل نے ہلکا سا مسکراتے اپنی بھوری آنکھوں سے آگے پیچھے کا اچھی طرح سے جائزہ لیا ، گویا صرف دس منٹ کا کھیل تھا۔۔ وہ سوچتے انکی نادانی پہ سر جھٹک گیا۔۔۔"
" میں پوچھ رہا ہوں کون ہو تم۔۔۔۔" روزل نے قدم آگے بڑھاتے پوچھا جبکہ گارڈز سمیت اسکے سبھی آدمی اب اپنی اپنی گنز تھامے روزل کے آرڈر کے انتظار میں تھے۔۔"
" نام جان کر کیا کرو گے۔ ویسے بھی تم جانتے نہیں ہو مجھے۔۔۔ اسنے ایک دم سے گارڈ کے مردہ وجود کو دور پٹکھا تھا اور ہاتھ اپنی ہڈ کے جیبوں میں ڈالے وہ سرخ نظروں سے روزل کو گھورتے بولا۔۔ کمرے میں جلتی سفید لائٹ نے چاروں اطراف روشنی کیے ہوئے تھی جس میں دائیں بائیں جانب کھڑے گارڈز بنا نظریں جھپکائے انکی جانب متوجہ تھے۔۔ "
" روزل نے پاس کھڑے اپنے آدمی کو گردن دائیں جانب گھماتے اشارہ دیا تو وہ سر ہاں میں ہلاتے آگے بڑھا تھا۔۔۔ وہ دیکھنے میں کافی موٹا تازہ بھاری بھرکم وجود کا مالک تھا ۔۔ ویام نے مسکراتے اپنی جانب بڑھتے شخص کو دیکھ روزل کو داد دینے والے انداز میں دیکھا جو اب مسکراتے سامنے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔ "
" مگر اگلے ہی پل وہ شششدر رہ گیا ۔۔ جب اسکا آدمی ایک دم سے لڑکھتے زمین بوس ہوا۔ اسکے منہ سے جھاگ کی مانند نکلتے خون کو دیکھ سب نے دو قدم پیچھے لیے تھے۔۔ جبکہ مقابل کھڑا ہوتے اپنا ہڈ جھاڑتے اب روزل کو دیکھ رہا تھا۔۔ "
" تم جیسوں کو انکی اصل جگہ دکھانے والا ، تم سب کا باپ وی کے ہوں میں ۔۔۔ ویام کی سرد بے تاثر آواز پورے کمرے میں سکوت سا طاری ہوا ۔۔۔ سب نے ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھا یہ نام وہ سب پہلی بار سن رہے تھے۔۔ جبکہ روزل کی آنکھیں اس نام کے سنتے حد سے پھیلی تھی ۔۔۔"
"شوٹ کرو اسے زندہ نا بچنے پائے ۔۔۔۔ روزل نے خوف و وخشت سے چیختے کہا تھا اور دو قدم پیچھے ہوتے وہ اپنے آدمیوں میں احتیاطاً چھپا تھا جیسے۔۔ ۔"
" حکم ملتے ہی اسکے گارڈز نے ٹریگر پریس کیا مگر توقع کے برخلاف ناں کوئی گولی چلی تھی ناں ہی کوئی آواز آئی ۔۔سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا جبکہ ویام کی سرخ غصے سے لبریز نظروں کو خود پہ پائے روزل غصے سے چیخا تھا۔۔۔
"منہ کیا دیکھ رہے ہو مارو اسے۔۔"
"وہ تقریباً بیس بائیس کے لگ بھگ تھے۔۔ حکم ملتے ہی سب نے ویام کی جانب دوڑ لگائی تھی۔۔ اور ایک دم سے اس پر وار کرنا شروع کیا۔۔۔ پہلے پہل ویام نے اچھے سے انکا مقابل کیا مگر وہ تعداد میں زیادہ تھے۔۔ ویام نے فورا سے سامنے اوپر کی جانب جاتی سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگائی۔۔"
" وہ ایک ایک کرتے بڑی مہارت سے سب کو دھول چٹا رہا تھا۔۔۔ تقریباً آدھے آدمی بے سودھ ہو چکے تھے مار کھاتے اور زمین پہ پڑے کراہ رہے تھے بری طرح سے ۔۔۔ روزل نے ماتھے پہ چمکتے پسینے کو شرٹ سے صاف کرتے پیچھے کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔ ویام نے اسے بھاگنے کی کوشش کرتا دیکھ لب بری طرح سے پیوست کرتے خود سے لڑٹے آدمی کے دونوں بازوؤں بری طرح سے مروڑے تھے۔۔۔"
" وہ انکے پیچھے جانا چاہ رہا تھا مگر ان سب کو مارنا ضروری تھا ۔۔
ڈونٹ وری بھورے بلّے۔۔۔ میں مینج کرتی ہوں ان کتوں کو تم جاؤ پکڑو اسے۔۔۔۔ الایہ کی آواز پہ چونکتے ویام نے آدمی کو گردن سے دبوچتے پکڑا اور پیچھے مڑا تھا جہاں سامنے ہی دروازے سے ٹیک لگائے وہ اسکے دیکھنے پہ ہاتھ ہلا گئی ۔۔ جیسے کہہ رہی ہو احسان بعد میں اتارنا۔۔۔ ویام نے بری طرح سے دانت پیسے تھے اور فورا سے اس آدمی کی گردن کو جھٹکے سے مروڑتے وہ باہر روزل کے پیچھے بھاگا۔۔۔"
" دیکھو ایک ایک کر کے آنا ۔۔۔ یار دو ہفتوں سے ناخن بڑھا رہی ہوں ہر بار ٹوٹ جاتے ہیں ۔اگر اس بار ٹوٹے تو قسم سے میرا میٹر گھوم جانا ہے۔۔ پہلے ہی بتا رہی ہوں۔۔۔ الایہ نے اندر داخل ہوتے ہی اپنے سرخ و سفید ناخن سب کے سامنے لہراتے کہا تھا جبکہ مقابل کھڑے آدمی اس نازک سی دکھنے والی لڑکی کو اب سر تا پاؤں گھور کر دیکھتے قہقہ لگا اٹھے۔۔ کہ یہ ہمیں مارے گی ۔"
" مجھے خود پہ ہنسنے والے لوگوں سے سخت نفرت ہے ، کمینو ۔۔۔۔ تمہاری تو۔۔۔۔ الایہ انکے قہقہ لگانے پہ غصے سے دانت پیستی آگے بڑھی تھی۔۔ سرخ و سفید رنگت غصے سے ٹماٹر کی طرح ہو چلی تھی۔۔ اس نے اپنی جانب آتے شخص کو دیکھ گھومتے اپنی ہائی ہیلز سے سیدھا مقابل کے پیٹ کی بیچ وار کیا تو وہ آدمی تلملاتے پیٹ پکڑتا نیچے بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔"
" آ جاؤ اب کیا منہ دیکھ رہے ہو۔۔۔ سامنے کھڑے خود کو حیرت سے تکتے سب کو دیکھ وہ بےزار س لہجے میں بولی تھی ۔۔ تو سب نے ایک ساتھ اسکی جانب دوڑ لگائی۔۔ مگر ان سب سے زیادہ سپیڈ میں وہ بھاگتے ساتھ والے کمرے میں پہنچی تھی ۔ جسے وہ اپنی موبائل سے دیکھ چکی تھی۔ آ جاؤ ڈر کیوں رہے ہو ۔۔۔"
الایہ نے کرسی پہ بیٹھتے اپنے ہاتھ میں پکڑی کانچ کی بوتل کو گھماتے سب کو آفر کری تھی۔۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ اچھا ایک کام کرتے ہیں ویٹ۔۔۔ ان سب کے ڈر کو بھانپتے الایہ نے خشاش بشاش لہجے میں کہا مگر انکا خود پہ ہنسنااسے یاد تھا اچھے سے۔۔ "
" الایہ نے ایک ایک کرتے شراب کی بند پندرہ سے بیس بوتلیں اس صاف فرش پہ پھینکی تھی ۔ جو اب گرتے سامنے فرش پہ بکھری تھی۔۔ پورا فرش شیشوں سے بھر چکا تھا۔۔۔۔ سب نے حیرت سے سامنے بیٹھی اس سر پھری کو دیکھا۔ وہ جانتے تھے۔۔۔ اتنے مضبوط کانچ کے ٹکڑوں سے گزرتے ان سب کے پاؤں لہو لہان ہو جائیں گے۔۔۔ "
چلو جی اب میں گبر اور تم آٹھ کے آٹھ میری بسنتی ۔۔ اے بسنتیو۔۔۔۔ اسنے بسنتی کا جمع کرتے سب کو مخاطب کیا جو ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگے۔۔۔ آج ذرا اپنے گبر کو ناچ کے تو دِکھاؤ۔۔۔۔ الایہ نے ہاتھ فضا میں لے جاتے اچھے سے خود کو فریش کیا تھا اور ٹانگ پہ ٹانگ جمائے انہیں ناچنے کا کہا جو آگے ہی ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔۔"
او جب تک ہے جاں جانے جہاں میں ناچوں گی۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔" اپنے شوز سے موبائل نکالتے وہ پھر سے اسب کو شاک کر چکی تھی جو پھٹی پھٹی نظروں سے اسے آٹھویں عجوبے کو دیکھ رہے تھے۔۔"
الایہ نے فون نکالتے ہی سانگ پلے کیا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی سب کو ناچنے کا حکم دیا اور وہ بھی ان شیشوں پہ۔۔۔۔ "
" اب دیکھو ہنٹر تو ہے نہیں پاس اگر تم سب ناچے ناں تو اگلی بوتل تمہارے سروں پہ ہو گی بائے گاڈ نشانہ کافی اچھا ہے میرا۔۔"
لگتا ہے یہ پاگل ہے ۔ ان میں سے ایک نے سرگوشی نما آواز میں کہا جبکہ سب نے اس سے متفق ہوتے سر ہاں میں ہلایا تھا ۔۔ دیکھو دروازہ لاک ہو گیا ، اب یہاں سے جانے کا ایک ہی چارہ ہے کہ اس پاگل کی بات چپ چاپ کرتے مان لو۔۔۔ ان میں سے ایک نے الایہ کی جانب دیکھ کہا جو بوتلوں کو ہاتھ میں پکڑتے چیک کر رہی تھی۔"
" تم پاگل ہو سامنے دیکھ یہ کوئی عام کانچ نہیں جانتے ہو ناں کتنا مضبوط کانچ ہے کوئی اناڑی بھی یہ جانتا ہو گا کہ اگر اس کانچ پہ ڈانس کرنے کی کوشش کری تو اسکے سارے پاؤں لہو لہان ہو جائگے۔ ان سب کو جھڑکتے پیچھے کھڑے ایک نے بتایا تو سب کی ٹانگیں کپکپا اٹھی۔۔۔ "
" اے بسنتیوں کتنے آدمی تھے ۔۔ الایہ نے دائیں جانب بنے کرسی کے ہینڈل پہ اپنے دونوں پاؤں رکھے تھے ۔۔ سیاہ گھنے بالوں کی چٹیا زمین پہ لڑکھ رہی تھی جبکہ وہ گول گول گھمائے شراب کی بڑی سی بوتل کا جائزہ لے رہی تھی۔۔"
" اااا ایک اددد آدمی تتت تھا سسس سرکار۔۔۔ سب نے ڈرتے یک زبان ہوتے اسے جواب دیا۔۔۔ "
" آدمی کسے بولا۔ ابے گبر بولو گبر۔۔۔۔ الایہ نے سنتے سب کو غصے سے جھڑکا ۔۔۔
اور زور سے ایک بوتل ان کی جانب پھینکی۔۔۔ جو سیدھا ایک کے سر پہ جا بجی ۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا سر لہو لہان ہوا تھا۔۔ اسے دیکھ سب نے ڈر سے شیشوں پہ ناچنا شروع کر دیا۔۔ مگر وہ کون سا نقلی شیشے تھے جسکا کوئی نقصان ناں ہوتا۔۔۔"
تھوڑی ہی دیر میں وہ سب فرش پہ پڑے کراہ رہے تھے۔۔۔"
الایہ نے ایک نظر ان سب کی جانب دیکھ افسوس کرتے گانا آف کیا۔ اب بتاؤ کوئی ہے تم میں سے میری ٹکر کا۔۔۔۔ اسنے فرضی کالر جھاڑتے کہا ۔۔ تو سب نے بنا توقف نے ناں ناں کی گردان الاپی۔۔۔ مقابل کھڑی تیھکی مرچی نے اپنے فرضی کالر کو جھاڑا یونہی تو نہیں اسکے ڈیڈ اسے مس فائر کہتے تھے۔۔"
" اسنے ایک نظر سب کو دیکھا۔۔ اور سامنے بنے ساتھ والے دروازے سے دوسرے کمرے میں داخل ہوئی۔۔"
" کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔" اپنے سامنے وی کے کو دیکھ اب کی بار روزل نے حلق تر کرتے قدم پیچھے کی جانب لیے تھے، ویام نے قدم اسکی جانب بڑھائے تھے اور ساتھ ہی نیچے پڑا بڑا سا لوہے کا راڈ ہاتھ میں تھامتے دوسرے ہاتھ سے اپنا ماسک اتارا ، وو وی کے پلیز مجھے مم معاف کر دو۔۔۔"
" روزل جو آگے ہی اس ماسک کے پیچھے ویام کا تصور کرتے ہی کانپ اٹھا تھا اب اسکا چہرہ دیکھ وہ اسکے پاؤں پکڑتے گڑگڑانے لگا۔۔۔ راڈ پہ گرفت مضبوط کرتے ویام نے اسے زور سے کک کیا تھا جو دور جا گرا اوندھے منہ۔۔'
" ہمممم تجھے کیا لگتا ہے کہ توں میری غیر موجودگی میں میری پرنسز کو کوئی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔۔۔ ،۔ ویام نے سرسراتے ہوئے لہجے میں کہتے اسکے پیٹ پہ ایک اور کک کی تھی ۔ ایک خون کی لکیر روزل کے منہ سے ابلی تھی جبکہ ویام کی آنکھیں غضب سے سرخ ہو چکی تھی۔۔۔ اسنے بری طرح سے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑا روزل پھڑپھڑا اٹھا اسکی گرفت پہ۔۔۔"
تمہیں کیا لگتا ہے کہ ویام کاظمی اتنی آسانی سے ہار جائے گا تمہارے آگے۔۔۔کیونکہ میں نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا پھر زندگی بازی۔۔۔٫"
ویام نے اسکے کان کے پاس جھکتے سرگوشی نما سرد لہجے میں کہا تھا۔۔ جبکہ اسکی گرفت کے بعد اسکے سرسراتے لہجے پہ روزل تڑپ اٹھا۔۔۔"
" پلیز مجھے معاف کر دو میں نے تمہاری بہن کو کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ روزل نے تڑپتے ہاتھ جوڑتے کہا جبکہ مقابل نے غصے سے پھولتے تنفس سے یکے بعد دیگرے پانچ سات مکے اسے منہ پہ جڑے تھے۔۔ "
" ہمت بھی کیسے ہوئی تیری میری پرنسز کا ذکر اپنی اس گندی زبان سے کرنے کی۔۔۔ ویام کا بس نہیں تھا کہ وہ اس گستاخی پہ اس کی کھال کھینچتے جسم سے جدا کر دیتا۔۔۔ "
_ میں اپنوں سے دور ضرور ہوں مگر انجان یا لاپرواہ نہیں۔۔۔ تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ میری پرنسز سے دور رہنا۔۔ تجھے سمجھ نہیں آئی تھی ناں اب دیکھ میں کیسے تجھے سمجھاتا ہوں۔۔۔"
" ویام نے اسے بالوں سے پکڑتے گھیسٹا تھا اور ایک دم سے واپس اندر لے جانے لگا ۔ "
" اس وقت کوئی اور اسے دیکھ لیتا تو یقین کرنا مشکل تھا کہ خاموش سنجیدہ سادکھنے والا پروقار شخصیت کا حامل ویام کاظمی ایسا روپ بھی رکھتا تھا۔۔۔ "
اسنے ایک سال پہلے بھی روزل کو معاف کیا تھا۔۔ روزل اسی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا جہاں پہ حرمین ، عیناں اور میرب پڑھتی تھی ۔ اسکی حرکتیں ویام کو پہلے دن سے ہی مشکوک سی لگی تھی۔۔ اور اسکا بار بار حرمین کے آگے پیچھے گھومنا وہ نوٹ کر چکا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اپنی پرنسز کو۔۔ بچپن سے ہی اسنے ماں اور باپ دونوں کی طرح پالا تھا اسے۔۔۔ اسی وجہ سے حرمین اپنی ڈیڈا اور موم سے زیادہ سے اپنے بھیو سے اٹیچڈ تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی ویام کس قدر احساس تھا اسکے لئے۔۔جبھی تو وہ چاہتی تھی کہ ویام کے واپس آنے سے پہلے ہی وہ دوبئی چلی جائے ۔۔ورنہ اسکے ہوتے تو یہ نا ممکن تھا۔۔"
" بتا کون کون شامل ہے اس میں تیرے ساتھ۔۔۔ تاریک کمرے میں لے جاتے ویام نے اسے بری طرح سے پٹکھا تھا۔۔ ایک خون کی لکیر اسکے ماتھے سے بہہ نکلی۔۔۔ ویام نے سر سے ہڈ اتارتے اپنی بھوری وخشت ناک نظریں اسی پہ گاڑھی ۔۔جو اب مزید خوفزدہ ہو چلا تھا ۔"
" ویام نے اسکے سامنے پڑی کرسی پہ گھٹستے اسے بٹھایا تھا اور اب غصے سے استفسار کیا۔۔۔ تو وہ ویام کو دیکھنے لگا۔۔ وو وہ یونیورسٹی کا انچارج ہہ ہماری مدد کرتا ہے ان سب میں۔۔۔۔ روزل نے ڈرتے ویام کو سچ بتاہا۔۔۔ وہ دل ہی دل میں پرسکون تھا کہ ویام کو صرف حرمین کے متعلق ہی معلوم پڑا تھا اگر وہ جان جاتا کہ یہ لوگ حرمین کے ساتھ ساتھ عیناں کو بھی کڈنیپ کرنے والے تھے تو یقیناً اس وقت تک روزل کے ٹکڑے کرتے وہ سمندر میں بہا چکا ہوتا ۔۔'
" اتنا سب صرف انچارج کی نگرانی میں نہیں ہو سکتا اسکے علاؤہ اور کون کون شامل۔ہے سب بتا۔۔۔ ویام نے اسکے کالر سے جھنجھوڑتے ایک زور دار تھپڑ مارا تھا۔۔۔ اسے اس گینگ کے متعلق اگر انفارمیشن ناں چاہیے ہوتی تو اب تک اپنی پرنسز کو دیکھنے کی گستاخی کرنے والی اسکی آنکھیں وہ نکالتے کتوں کو کھلا دیتا۔۔"
" سس سچی اس کے علاؤہ اور کوئی نہیں ۔۔۔ روزل نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا کیونکہ پرنسپل کا نام لینے کا مطلب اپنی فیملی کی بربادی تھا۔۔ جسے وہ چاہ کر بھی نہیں کر سکتا تھا ۔۔"
" اگر توں نہیں بتائے گا تو کیا مجھے معلوم نہیں پڑے گا۔۔۔ جیسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔۔ تیرے سامنے ہی اس انچارج کے منہ سے اگلواؤں گا اور تجھے ایسی دردناک موت دوں گا کہ رہتی دنیا تک تجھ جیسا کوئی بغیرت کسی کی بہن بیٹیوں پہ بری نظر ناں ڈالے گا۔۔۔"
" اسکی گردن پہ محسوس نس دباتے ویام نے دبے دبے غصے سے کہا تھا۔
ہیل کی ٹک ٹک کی آواز پہ اب اسکا دھیان سامنے دروازے کی جانب تھا۔۔ جہاں سے الایہ غالبا اسی کی جانب آ رہی تھی۔۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" انکل۔۔۔۔" انزِک نے آدھے گھنٹے کی خاموشی کے بعد دوبارہ سے وریام کو مخاطب کیا۔۔۔ جو بڑی توجہ سے اپنے کام میں مصروف تھا۔۔۔ "
نیناں نے کچن سے ہی اپنے صدا کے بگڑے شوہر کو دیکھ سر کو پرزور طور پہ نفی میں ہلایا۔۔ جبکہ حرمین نے من من من پانی بھری آنکھوں سے انزِک کو دیکھا۔۔ جو گہرہ سانس چھوڑتے اب غصے سے اپنے چھوٹی کو گھور رہا تھا۔۔۔ '
" ڈول تھوڑا آگے ہو کے بیٹھو ناں تمہارے بال کافی لمبے ہو گئے ہیں پہلے سے بھی ذیادہ۔۔۔۔ ماتھے پہ بل ڈالے وہ سنجیدگی سے عیناں کو دیکھ بولا تھا۔۔ جو کہ فرش پہ بیٹھی پاپ کارن کھانے میں مگن تھی۔۔ جبکہ وریام ہمیشہ کی طرح عیناں کے بالوں کی سنہری چٹیا باندھنے میں مگن تھا۔۔ اسے شروع سے ہی بہت شوق تھا مگر اسکی خواہش کے برعکس اسکی لاڈلی بیٹی بھی اپنی ماں کی ہی طرح وریام کی اس حرکت سے چڑ محسوس کرتی تھی ۔۔ "
" نیناں نے شروع سے ہی اسے بتایا تھا کہ اسکے بال درد کرتے ہیں تو وہ دور ہی رہے اس کام سے۔۔۔ پھر اس نے یہ خواہش اپنی لاڈلی کے آنے تک سنبھال کے رکھی تھی۔۔ مگر حرمین۔ بھی وریام کے ہاتھ میں برش دیکھ بچپن سے چیخنا شروع کر دیتی تھی۔۔ جس پہ نیناں فورا سے پروٹیکٹر بنتے بروقت اسے بچاتی تھی۔۔۔ "
" ایسے ہی جب حرمین پانچ سال کی ہوئی تھی تو ایک دن اسنے بڑی محبت سے اسے پچکارتے اسکی چٹیا بنانا چاہی تھی۔۔ عیناں جو کہ خود تین سال کی تھی۔ اپنی بڑی بڑی گرے انکھوں سے غور سے منظر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ پھر سے وہی ہوا تھا جس پہ رافع فدک سمیت سب قہقہ لگا اٹھے تھے۔۔ وریام اپنا سا منہ لیتے رہ گیا۔۔۔۔"
" کچھ سوچتے عیناں جو ویام کے پاس بیٹھی تھی۔۔ وہ صوفے سے اپنے ننھے ننھے قدم اٹھائے اپنے ہیرو کے پاس گئی تھی۔۔ جسکی سفید رنگت سرخ ہوئی تھی۔۔۔ "
" اپنے گھٹنوں پہ چھوٹے سے لمس کو محسوس کرتے وریام نے چونکتے اس سنہری بالوں والی ڈول کو دیکھا تھا۔۔ اور ہلکا سا مسکراتے اپنی گود میں بھرا۔۔۔ رافع اور فدک کے تینوں بچوں میں سے وہ وریام کی زیادہ لاڈلی تھی۔۔ کیونکہ وہ بنا کہے ہر کسی کی بات سمجھ جایا کرتی تھی۔وہ خوبصورتی میں ناں تو فدک جیسی تھی ناں ہی رافع کے جیسی۔۔۔ بلکہ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو وہ دونوں اسے دیکھ حیران سے تھے۔۔۔
جو الگ سے روپ سے اس دنیا میں آئی تھی ۔" مگر فدک نے یہ تصدیق کری تھی کہ اس کی آنکھوں کا کلر اپنے نانا کے جیسا تھا ۔ مگر باقی اسکے بالوں کی رنگت ہی تھی جو صرف فدک جیسی تھی ۔۔ جبکہ الایہ تو فدک کی پرچھائی محسوس ہوتی تھی ۔"
" ہیرو میلے بال بائے۔۔۔۔ عیناں نے اپنے ننھے ہاتھوں میں برش تھامتے وریام کی جانب کرتے اپنی توتلی زبان میں کہا تھا۔۔ جہاں سب اسکی بات پہ حیران ہوئے منہ کھول چکے تھے وہیں وریام کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک ایک الگ محبت پیدا ہوئی اپنی ڈول کے لئے۔۔ اسنے محبت سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔ اور نرمی سے اسکے کندھوں تک جاتے سنہری بالوں کو سنوارنے لگا۔۔ "
" سچی بہت تنگ کرتے ہیں۔۔ آپ کی بہن بھی نہیں بناتی کتنی بار آپ سے بھی کہا ہے کٹوا دیتی ہوں۔مگر آپ سنتے ہی نہیں۔۔۔ وریام جو خیال میں کھویا اپنے خوبصورت ماضی کو یاد کر رہا تھا۔۔ عیناں کی جھنجھلائی ہوئی آواز پہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔۔ اور مسکراتے اسکے پھولے گالوں کو دیکھا۔۔"
" کوئی ضرورت نہیں کٹوانے کی ، تم ایسا کرو روز آ جایا کرو ، پھر ہم باپ بیٹی روز مل کر تمہاری پونی بنائے گے۔۔۔ وریام نے خالصتاً نیک مشورہ دیا۔۔۔ جس پہ انزک نے سر کھجائے حرمین کو کن اکھیوں سے دیکھا۔۔۔"
" یار انکل آپ بات تو سنیں میری ۔۔۔۔ انزِک نے سر تھامتے زچ ہوتے دیکھا۔۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ وریام اسے جان بوجھ کے اگنور کر رہا تھا۔۔ "
" وریام نے حیرت سے ششدر ہوتے انزِک کو گردن گھمائے دیکھا۔۔۔ " انکل آپ بات کریں میں ابھی ائی۔۔۔ عیناں نے فورا سے وریام کو کہا تھا اور ایسے ہی بھاگتے وہ سیڑھیاں عبور کرتے وریام کے ارے ارے کرنے کے باوجود ویام کے کمرے میں گھسی تھی۔۔۔ یہ واحد کام تھا جسے کرنے میں اس شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔۔ شاید بچپن سے اسے ایک اپنائیت کا احساس ہو چکا تھا۔۔ جبھی وہ ویام کے کمرے میں استحقاق سے آتی جاتی تھی۔"
" بلیو شرٹ میں ملبوس ماتھے پہ بکھرے سرخ بال ، اور سرخ ہوئی آنکھوں میں بے حد الجھن لئے انزِک نے وریام کی جانب دیکھا جو اسے ہی بغور دیکھ رہا تھا۔۔
انکل میں ساتھ ہی جا رہا ہوں اگر آپ کہیں تو وہیں رہ لوں گا جب تک حور کا شوق پورا ناں ہو جائے۔۔۔ انزِک نے سنجیدگی سے ایک نظر ہاتھ میں ٹرے تھامے آتی نیناں کو دیکھا تھا۔۔۔ جس کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوا پڑا تھا۔۔ جبکہ حرمین اپنی موم ڈیڈا کے ری ایکشن کا سوچ سوچ کے اب ناخن کتر رہی تھی منہ میں ڈالے۔۔۔"
" انزِک بیٹا تم جانتے ہو تم نے اپنا کام بھی سنبھالنا ہوتا ہے اور اوپر سے اگر ویام سے پوچھے بنا ہم نے حرمین کو جانے کی اجازت دے دی تو تم نہیں جانتے وہ کتنا غصہ ہو گا۔۔۔ اس نے جاتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ حور پاکستان تک اکیلی نہیں جائے گی اور تم جانتے ہو پاکستان میں سب اپنے ہیں ، اگر وہ وہاں جانے کیلیے نہیں مانا تو کیا لگتا ہے تمہیں وہ دوبئی کیلئے مانے گا۔۔۔"
نیناں جانتی تھی ضرور حرمین ہی انزِک کو فورس کر کے ساتھ لائی تھی ۔ وگرنہ وہ خود بھی سمجھدار تھا جانتا تھا کہ آج تک انہوں نے کسی کو اکیلے جانے کی اجازت نہیں دی اگر الایہ گئی تھی تو وہ جانتے تھے ، ویام اپنی جان سے بڑھ کر اسکا خیال رکھے گا۔۔۔"
"انزِک۔ نین ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا۔۔۔ حور اگر جانا چاہ رہی ہے تو یاں تو یہ خود ویام سے اجازت مانگے گی یا پھر جتنے دن بھی وہاں رہنا ہے رہے مگر تمہارے ساتھ ہی یہ واپس آئے گی۔۔۔"
وریام نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔ جانتا جو تھا ذرا سی نرمی پہ اسکی لاڈلی رونا شروع کر دے گی۔۔۔"
" انکل آپ بے فکر رہیں وہاں پہ میرا ایک فرینڈ ہے اس کی بہن بھی اس این جی کی برانچ کی وزٹ کے لئے جا رہی ہے۔۔ وہ حور کے ساتھ ہی رہے گی اور میں تو آگے ہی ہونگا ۔ آپ بس پریشان۔ ناں ہوں اور پلیز ویام بھائی کو ان سب سے دور ہی رکھے تھوڑا۔۔۔"
" انزِک نے وریام کو تسلی دیتے کہا تو نیناں نے گھورتے دیکھا دونوں کو۔۔۔۔"
تم جانتے ہو کہ اگلے ماہ وہ واپس آ رہا ہے کب تک چھپائیں گے اس سے۔ وہ سخت ناراض ہو گا ہم سب سے ۔۔۔ نیناں جانتی تھی اسکا مزاج کیسا تھا۔۔۔ وہ وریام کی طرح بات کو ٹالتا یا بھولتا نہیں تھا وہ ہر بات کو ردعمل انکی سوچ سے بڑھ کر ہی دیتا تھا۔۔ اور یہاں تو اتنی بڑی بات تھی۔۔"
" ڈونٹ وری نین۔۔ حور میری بیٹی ہے ویام کی نہیں ۔۔۔ اسکا باپ میں ہوں میں اجازت دے رہا ہوں اپنی بیٹی کو۔۔ وہ کون ہوتا ہے غصہ کرنے یا پھر ناراض ہونے والا۔۔۔ انزِک اسی ہفتے تم اور حور دونوں جاؤ گے تیاری کر لو ۔۔ میری پرنسز ضرور جائے گی۔۔"
" ڈیڈا آئی لو یو ۔۔۔ تھینکیو سو سو مچ۔۔۔۔ حرمین نے خوشی سے چیختے وریام کے گال پہ کس کرتے کہا تو وریام مسکرا اٹھا۔۔۔"
لو یو ٹو پرنسز مگر ایک بات یاد رکھنا تمہارے ڈیڈا تم سے کئیں زیادہ تم سے پیار کرتے ہیں ۔ تو پلیز اپنا بہت سا خیال رکھنا اوکے۔۔ وریام نے محبت سے حرمین کے سر پہ بوسہ دیتے کہا تو ہلکا سا مسکرائی۔۔۔ "
" اچھا بچو تم بیٹھ کر باتیں کرو ذرا میں اور نین آتے ہیں ابھی ۔ نیناں جو کب سے کچھ بولنے کو تیار بیٹھی تھی اب یوں وریام کے کہنے پہ وہ ارے ارے کہتے رہ گئی جبکہ وریام بنا سنے اسے زبردستی تھامتے وہاں سے لے جانے لگا ۔۔"
" نین اگر اب آواز نکالی تو گود میں اٹھا لوں گا ۔۔ مجھے تو کوئی پرابلم نہیں ہو گی کیونکہ میں تو روز ہی اٹھاتا ہوں مگر تم نے خود ہی شرم سے بے ہوش ہو جانا ہے۔۔۔ وریام نے گرفت سخت کرتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسکے دھواں دھواں چہرے کو دیکھ بمشکل مسکراہٹ روکی۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" ہائے موم ۔۔۔۔۔"
ہیلو مائے بوائے۔۔۔۔۔۔ " لیلی نے محبت سے ایل کو گلے لگائے کہا تھا۔۔ جس کا چہرہ فل وقت روشن تھا۔۔".
" بیٹھو ۔۔۔۔ اسے صوفے کی جانب اشارہ کرتے لیلی نے مغرور سے انداز سے اپنے مغرور خوبرو جوان بیٹے کو ستائشی نظروں سے دیکھا ۔۔ جو اس وقت بلیو ڈریس پینٹ پہ بٹنوں والی شرٹ جسکے اوپر دو بٹن کھلے تھے۔۔۔ ڈارک براؤن لمبے بالوں کو ترتیب سے پونی میں باندھے، نیلی روشن آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی لئے اس کے سامنے براجمان تھا۔۔"
" ایچ اے آر سے ملاقات ہو گئی ہے میری آپ فکر مت کریں اس بار سامان میں خود لے کر جاؤں گا اور کچھ دن اٹلی میں رہوں گا۔۔"
" سامنے میز پہ پڑے وائن کے گلاس کو اپنے سرخ ہونٹوں سے لگاتے وہ ٹانگ پہ ٹانگ جماتے بولا۔۔ جبکہ لیلی نے گہری مسکراہٹ سے اسے دیکھا ۔۔"
" اس بار تم نہیں بلکہ ڈائنا خود جائے گی سامان لے کر۔۔۔ لیلی کے کہنے پہ ایل نے سرخ ہوتی اپنی نیلی کانچ کے مانند نظریں اٹھائے اسے دیکھا ۔۔"
موم آپ جانتی ہیں یہ کام میرا ہے اور میرے ہوتے آپ نہیں کریں گی۔ "
ایل نے گلاس پہ گرفت مضبوط کرتے سرد مگر فکر سموئے لہجے میں کہا ۔۔ تو لیلی کی نیلی آنکھیں چمک اٹھی اسکے خیال ، محبت پر۔۔۔"
" مائے سن اب تم یہ چھوٹے موٹے کام چھوڑو تمہارے لئے ایک بڑا کام ہے تمہاری موم کے پاس۔۔۔ لیلی کے سرسراتے ہوئے لہجے پہ ایل نے آنکھیں چھوٹی کیے مقابل بیٹھی اپنی موم کو دیکھا۔۔'
" کمرے میں بکھری سرخ لائٹ میں وہ واضخ اپنے سامنے صوفے پہ بیٹھی اپنی موم کو دیکھ سکتا تھا۔۔ جو آج بھی بالکل پہلے جیسی جوان اور خوبصورت تھی۔۔ "
" یور ہنٹ۔۔۔۔۔ "
Your hunt"
دو لفظی معنی خیز سی بات کہی تھی لیلی نے ۔۔ ایل کے چہرے کے تاثرات ایک دم سے بدلتے پتھر کی طرح سرد ہوئے تھے۔۔۔ اسنے وخشت سموئی نظروں سے مقابل بیٹھی اپنی موم کو دیکھا جو ایل کے بے سکون چہرے کو دیکھ رگوں تک سکون اترتا محسوس کر رہی تھی۔۔"
" کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔ "ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے اسنے گھبیر سرد لہجے میں استفسار کیا ہاتھ میں پکڑا کانچ کا گلاس ٹوٹتے اسکے ہاتھ میں بری طرح سے زخم کر گیا۔۔مگر یہاں پرواہ کسے تھی۔۔۔
دوبئی ۔۔ دوبئی جا رہی ہے بہت جلد اس سے پہلے تم دوبئی پہنچو گے ایل۔۔ اتنے سالوں سے تمہیں میں نے روکا ہوا تھا مگر اب میں ، میں تمہیں اجازت دے رہی ہوں۔۔۔۔ اب وقت آ گیا ہے تم اسے تباہ و برباد کرو گے ۔بالکل ویسے ہی جیسے اسکے باپ نے مجھے کیا تھا۔۔ تمہاری موم کو۔۔۔۔ لیلی مسلسل اسکے دماغ میں زہر گھول رہی تھی۔۔۔ جسنے بچپن سے اپنی موم کے کہے کو خرفِ آخر تسلیم کیا ہوا تھا۔۔ اب بھی وہ پورے جسم سماعت بنائے اپنی موم کی جانب متوجہ تھا۔۔"
" یہ لو دیکھ لو اسے ایک بار۔۔ اسکی معصومیت کے جھانسے میں مت آنا۔ ایل تمہارا پہلا شکار وہی ہو گی ۔۔ اسکے بعد تم جس کی جانب اشارہ کرو گے اسے تمہارے قدموں میں پھینکوں گی میں ۔۔۔ لیلی نے نفرت سموئے ہاتھ میں پکڑا البم میز کی جانب اچھالا ۔۔۔ "
" بیس سال سے اسے دیکھنے کا انتظار کیا ہے اب کیسے اس بے جان کاغذ کو دیکھوں۔۔۔ اب ملاقات آمنے سامنے ہی ہو گی ۔۔۔"
ایل نے سرد نظروں سے ایلبم کو مٹھی میں مسلتے کہا تھا جبکہ لیلی مسکرا دی اسکے اندر اس قدر نفرت پہ۔۔۔"
شاباش مائے چائلڈ مجھے تم سے یہی امید تھی۔۔۔ تمہیں کچھ بھی بتانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اب کھیل تم خود سے کھیلو گے۔۔۔ جو چاہے کرو چاہے تو اسے جان سے مار دینا ۔۔ چاہے کسی اور کے آگے پھینک دینا ۔۔ مجھے پرواہ نہیں مگر اسکے باپ کی تڑپ مجھے دیکھنی ہے اسے روتا ہوا دیکھنا ہے جسنے مجھے برباد کر دیا۔۔۔ لیلی نے غصے سے وریام کا تصور کرتے اپنے بائیں گال کو ہاتھ سے چھوا تھا جہاں پہ جلنے کا گہرہ بڑا سا زخم ابھی تک موجود تھا۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
گڈ آفٹر نون ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔ "
ہمممم آفٹر نون۔۔۔۔ پیشنٹ کی کنڈیشن کیسی ہے۔۔۔" ہلکا سا سر کو جنبش دیتے وہ اپنے پیچھے چلتی نرس سے مخاطب تھا۔۔ جبکہ نرس ڈاکٹر کو بغور سر تا پاؤں گھورتے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ڈاکٹر فیصل نے تو کہا تھا کہ کوئی ایجڈ ڈاکٹر ہوں گے مگر یہ تو بالکل کوئی جوان شخص تھا۔۔ اسکے چوڑے مسلز دیکھ وہ ڈاکٹر کم اور باڈی بلڈر زیادہ لگا نرس کو۔۔ اسنے کوشش کرتے ڈاکٹر کے ساتھ قدم ملائے تھے اور بغور اسکے ڈھکے چہرے کو دیکھنا چاہا مگر مقابل نے اچھی طرح سے ماسک سے کور کیا ہوا تھا ۔ "
" مس روزی کیا آپ پیشنٹ کے مطلق کچھ بتائیں گی۔۔۔۔ مقابل نے خود کو گہری نظروں سے دیکھتی روزی کو رکتے تیز لہجے میں کہا تو وہ بھوکھلاتے گڑبڑا گئی۔
سوری سر وہ پیشنٹ کو آج دس بجے ہوش آیا تھا۔۔۔ تب سے وہ بالکل خاموش ہیں ۔۔۔ کنڈیشن آگے سے بہتر ہے مگر انکو مائنر اٹیک بھی آیا ہے ۔۔ آپ ایک بار دیکھ لیں ان کو۔۔۔ روزی نے فائل کے مطابق ڈاکٹر کو مکمل گائڈ کیا۔۔ "
" میں انکا چیک اپ کر لوں گا آپ جا سکتی ہیں۔۔ سامنے ہی اپنی منزل کے قریب رکتے مقابل نے مڑتے روزی سے کہا ۔۔۔ جج جی سر مگر میں تو آپکے ساتھ ہی۔۔۔
مجھے میرے کام میں مداخلت پسند نہیں آپ جا سکتی ہیں۔۔"
" ڈاکٹر نے اسے غصے سے بیچ میں ہی ٹوکا تھا۔۔ روزی چارو ناچار وہاں سے منہ بنائے غائب ہوئی۔۔۔ بھاؤں نے دور جاتی نرس کی پشت کو دیر تک گھورا تھا۔۔۔ گلے میں موجود استھیٹو سکوپ کو ہاتھوں میں جکڑتے وہ احتیاطاً چاروں اطراف دیکھتا اندر داخل ہوا۔۔۔"
"پورے کمرے کا جائزے لیتے اسکی نظریں سامنے ہی بیڈ پہ نیم بے ہوش وجود پہ ٹہری ۔۔۔ اسنے دروازے سے ٹیک لگائے بغور اسکی حالت کا جائزہ لیا۔۔"
" جو سفید رنگ کے لباس میں دوپٹے سے بے گانہ تھی ،اسکے لمبے بال آدھے نیچے کی جانب جھول رہے تھے۔ جبکہ آنکھوں پہ ہاتھ رکھے وہ گہری سوچ میں تھی ۔ ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔۔ اور گلابی درمیانے ہونٹ آدھ کھلے سے تھے۔ "
اپنے بھاری قدم اٹھائے وہ مغرورانہ چال چلتا بیڈ کے قریب پہنچا۔۔۔ حیا جو آگے ہی جاگتے خیالوں میں بری طرح سے کھوئی تھی۔ اچانک اپنے آس پاس کسی کی موجودگی محسوس کرتے وہ بری طرح سے ٹھٹکی تھی جب مقابل کی تیز کلون کی مہک اسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔
ایک دم سے اسکی آنکھوں پہ سایہ سا لہرایا اس خوشبو کو تو وہ آنکھیں بند کیے بھی پہچان سکتی تھی۔۔ اسنے ڈرتے اپنے ہاتھ میں بیڈ شیٹ کو جکڑا تھا۔۔ جبکہ ڈر کے برعکس اسکے ہونٹ مسلسل کپکپا رہے تھے۔۔ بھاؤں نے بغور اسکے ہاتھ کو دیکھا اب اسکی نظریں حیا کے ہلتے ہونٹوں پہ تھی ۔۔
اسے جاگتا محسوس کرتے وہ گہرا مسکرایا۔
لگتا ہے میری دوری زیادہ دیر برداشت نہیں ہو سکی تم سے ۔۔۔۔۔ "
اسنے جھکتے رازداری سے اسکے کان میں سرگوشی کی ۔ حیا کے پورے بدن میں ایک کرنٹ سا دوڑا تھا۔ مگر وہ آنکھوں پہ ہاتھ مضبوطی سے جمائے سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی ۔"
"ویسے اچھا نہیں کیا تم نے اتنی جلدی ہی بے ہوش ہو گئی تھی۔ ابھی تو میں نے کچھ کیا بھی نہیں ، اسنے ایک ہاتھ بیڈ پہ رکھا تھا اور دوسرا سے اسکی آنکھوں پہ رکھے ہاتھ کو ہٹایا ۔۔ حیا کی پلکیں اسکی بےباکی پہ کپکپا اٹھی ۔ '
" کوشش بے کار ہے جاناں ، کیونکہ میں جانتا ہوں تم جاگ رہی ہو۔۔۔ اسکی لرزتی پلکوں پہ ہلکی سے پھونک مارتے اسنے صاف اسکی بے بسی کا مذاق اڑایا تھا۔۔ حیا کی آنکھیں ایک دم سے ڈر اور خوف سے لرز اٹھی تھی۔"
اسے تو لگا تھا کہ شاید اب وہ واپس نہیں آئے گا مگر یہ صرف اسکا وہم تھا ، کیونکہ وہ تو پھر سے اسے اذیت دینے کیلئے بھاگتا چلا آیا تھا ."
" اب ایسی حرکتیں کرو گی تو پھر بعد میں مجھے قصور مت دینا ۔۔۔ بھاؤں نے لب دانتوں تلے دباتے کہا تھا۔۔ اسکی حالت دیکھتے ہی اسے سکون رگوں میں اترتا محسوس ہو رہا تھا۔۔ یعنی کچھ اثر تو ہوا تھا اسکا ۔۔۔ کہ محترمہ ابھی تک ہوسپٹل میں تھی۔۔ "
" ویسے مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے۔۔۔ اسنے ہاتھ بیڈ پہ اسکے دائیں بائیں جمائے تھے اور بغور اسکی آنکھوں میں دیکھتے بولا ۔۔ جو اسے وخشت خوف بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔ "
" افسوس ہو رہا ہے کہ تمہیں چھوڑ دیا تھا۔۔ مگر فکر کی بات نہیں اب میں اس غلطی کو دوبارہ نہیں دوہراوں گا۔۔۔۔ امن کی کہی بات پہ حیا کی سیاہ آنکھوں میں ایک دم سے سیاہی چھائی تھی۔۔ اسنے زرد پڑتے چہرے سے مقابل کے سینے پہ ہاتھ رکھتے اسے خود سے دور کرنے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔۔ "
" پپ پلیز چچ چلے جاؤ مت دد دو مجھے اور اذیت۔۔۔ کئی سفید موتی اسکی گال پہ لڑکھے تھے ۔ اسنے مقابل کی شرٹ کو بری طرح سے جکڑا تھا ."
" مم میں نے کیا بب بگاڑا ہے پپ پلیز مجھے معاف کک کر دو ،۔۔۔ اسکی ڈر سے کپکپاتی آواز پہ مقابل کو مزید طیش آیا۔۔ اسنے جھٹکے سے ہاتھ اسکے گھنے بالوں میں پھنساتے اسے زور سے جکڑتے کھینچا تھا کہ وہ تڑپ اٹھی ۔ اسکی سخت گرفت پہ۔۔۔"
" کتنا آسان ہے ناں معافی مانگنا ۔۔۔۔ مگر یہ معافی میرے زخموں کو نہیں بھر سکتی حیا میڈم ۔۔۔ تم نے۔۔ صرف تم نے مجھے ایسا بنا دیا ۔ تمہاری وجہ سے میں نے اب تک اذیتیں برداشت کیں مگر اب تمہارے ساتھ ہی میری ہر تکلیف کا مداوا ہو گا۔ "
" نن نہیں امم امممن ننن نو پپ ۔۔۔۔۔"
اسکی غصے بھری دھمکی پہ وہ رونا بھولتے آنسوں بھری آنکھوں سے اسے دیکھ بمشکل بولی تھی۔۔۔ بے تخاشہ رونے سے اسکی آنکھوں سمیت گال اور ناک بھی سرخ ہو رہے تھے۔۔ امن نے جھٹکے سے اپنی شرٹ اسکے ہاتھوں سے چھڑوائی تھی ۔ اور ایک ہاتھ میں اسکے دونوں نازک بازوؤں کو دبوچا کہ وہ کسمساتے خود کو آزاد کروانے کے لیے پھر پھڑا گئی مگر بے سود۔۔ مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔۔جسے توڑنا اسکے بس کی بات نہیں تھی۔۔"
" سو مس حیا آج ہم اپنے سارے پرانے حساب برابر کریں گے ۔اوکے۔۔ اسنے طنزیہ لہجے میں پچکارتے کہا تھا اور ایک دم سے اسکے چہرے پہ جھکنے لگا جو کہ تڑپتی خود کو چھڑوانے کی ناکام سی کوشش ہو رہی تھی۔"
" مقابل کی گرم سانسیں اپنے چہرے پہ محسوس کرتے حیا نے زور سے آنکھیں میچیں تھیں کہ اچانک سے دروازہ کھلنے کی آواز پہ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ ،"
" حیا میری جان کیا ہو گیا آپ کو آپ ٹھیک تو ہو ۔۔۔۔"
یسری جو حسن کے بتانے پہ اب زبردستی روتے ہوئے آئی تھی ۔۔ اسے یوں بکھرے حلیے میں دیکھ وہ گھبرا گئی اور ہاتھ سے اسکے نم چہرے کو صاف کرتے وہ بوسہ دینے لگی۔۔"
جبکہ حیا کی خوف سے بھری نظریں سامنے چینجنگ روم کی جانب تھی ۔۔ ککک کچھ نن مما۔۔۔۔"
وہ بمشکل سے بولی تھی کہ رمشہ نے دوپٹہ اٹھاتے اسکے بال سنبھالے تھے اور نرمی سے دوپٹہ اوڑھایا ۔ تمہاری ساس بھی آئی ہیں۔ کال کی تھی انہوں نے تو مجبوراً بتانا پڑا ، ساتھ میں واجد بیٹا بھی آیا ہے ۔۔ اچھے سے سلام دعا کرنا۔۔"
یسری نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا تو وہ فق چہرے سے ہلکا سا سر ہلا پائی تھی ۔ جبکہ اندر دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے بھاؤں نے غصے سے پہلوں بدلا۔۔
"اسلام علیکم! بیٹا ۔۔۔ کیسی ہے میری بیٹی۔۔۔" علینہ بیگم اندر داخل ہوتے محبت سے بولی ، حیا نے نظریں اٹھائے انہیں دیکھا تھا اور ہلکا سا مسکرائی۔۔ انکے پیچھے ہی واجد بھی آیا تھا ۔۔ جو دراز قد و قامت کے ساتھ جاذب نقوش کا مالک تھا۔۔ "
و علیکم السلام آنٹی اب ٹھیک ہوں ۔۔ حیا نے نرم لہجے میں کہتے ٹیک چھوڑی تھی ، تو واجد نے ہاتھ پشت پہ باندھے اسے بغور دیکھ ہلکا سا سر ہلایا۔۔۔"
" کیسی ہیں آپ حیا طبیعت کیسی ہے۔۔۔ واجد نے شگفتہ سے لہجے میں چہرے پہ ہلکی سی مسکان سجائے پوچھا تو حیا اسکے یوں پوچھنے پہ گڑبڑا گئی ۔ "
" بے ساختہ اسکی نظریں سامنے بند دروازے کی جانب گئی ۔۔ ٹٹ ٹھیک ہوں۔۔۔۔ " اسنے آہستگی سے کہا تھا ۔۔ "
بیٹا آپ بیٹھیں کھڑے کیوں ہیں۔۔۔ ایسا کریں آپ دونوں باتیں کریں ہم آتے ہیں ۔ یسری نے علینہ بیگم کے اشارے پہ سر ہلاتے کہا تھا کہ وہ دونوں کچھ پل بات ہی کر لیں۔ورنہ جو اجنبیت کی دیوار تھی وہ کیسے گرتی ۔۔".
مما پلیز آپ یہی رک جائیں۔ ۔ حیا نے بے بسی سے یسری کا ہاتھ تھامے کہا تھا ، وہ جانتی تھی اندر بند وہ فولادی جن اگر اسکی گفتگو سنتا تو ضرور ابھی اسے جان سے مار دیتا۔۔ وہ مزید کوئی بکھیڑا نہیں چاہتی تھی۔۔ جبھی یسری کو روکنا چاہا ۔۔"
" بیٹا کچھ نہیں ہوتا دو منٹ بات کر لو میں باہر ہی ہوں آج ویسے بھی ہم گھر چلے جائیں گے ۔۔یسری نے اسکی فطری حیا کو سمجھتے گال سہلاتے کہا تھا جبکہ حیا نے ایک بے بس نظر اپنی ماں کو دیکھ ہونٹ بری طرح سے کچلے تھے۔۔"
"کیسے ہوا تھا یہ سب حیا ۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ تو ٹھیک تھی پھر کیسے ایک دم اچانک سے ۔۔۔کمرے کی گہری خاموشی میں واجد کی پریشان سی آواز گونجی ، حیا گڑبڑا گئی۔۔جبکہ بھاؤں کے ماتھے پہ لاتعداد بل نمودار ہوئے تھے۔۔"
" وو وہ بب بس اچانک سے ہوا سب۔۔۔ حیا کو سمجھ ناں آیا کہ کیسے جھوٹ بولے اسی لیے جو منہ میں آیا کہہ دیا مگر جیسے ہی اپنے کہے الفاظ سمجھ آئے فوراً سے گڑبڑا اٹھی۔۔"
" مم میرا مطلب ہے کہ کچھ دنوں سے سر میں درد تھا۔ مگر رات کو کچھ زیادہ ہی درد ہونے لگا تھا تو میں جوں ہی میڈیسن لینے کو اٹھی تو بس ایک دم سے چکر سا آیا ،بس اسکے بعد کچھ یاد نہیں۔۔"
حیا نے سر جھکائے کہا تھا۔ اندر موجود شخص جو کچھ اور ہی سننا چاہ رہا تھا بری طرح سے چونکا اسکے جھوٹ پہ ۔۔ اسکے شفاف ماتھے پہ لکیروں کا جال نمایاں ہوا تھا۔۔ "
" اچھا چلیں جو بھی ہو آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں اب۔۔۔۔ واجد نے کچھ شوخ لہجے میں حیا کو دیکھتے کہا جو اسکی بات پہ گڑبڑا گئی۔۔ اسنے بے بسی سے دروازے کی جانب دیکھا تبھی حسن مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا تھا۔۔ جسے دیکھ حیا نے سکون بھرا سانس خارج کیا۔۔ تو دوسری جانب بھاؤں آج پھر سے ناکام واپس لوٹا تھا مگر اس بار اسکے ذہن میں الجھن تو آنکھوں میں واجد کیلئے نفرت ، طیش اور غصہ سمویا تھا۔۔۔"
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<>.<
" گڑیا تم اندر چلو میں کال کر کے آتا ہوں ۔۔ انزِک نے محبت سے عیناں کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہاں میں ہلاتی بھاگتے اندر کی جانب بڑھی تھی ۔ انزِک کے لب اسکی حرکت پہ مسکائے تھے ۔۔ گاڑی ایک جانب پارک کیے وہ کب سے بجتے موبائل کو لیے باہر نکلا تھا۔۔ "
جی مسز حماد بولیں کیا بنا احمد کا ۔۔۔"
جینز کی پاکٹ میں ایک ہاتھ ڈالے وہ رات کے گیارہ بجے لان میں ٹہلتے بولا۔۔۔ "
" آپ تھوڑی سختی کریں اس پہ ورنہ اسے کہیں کہ پاپا ملنے نہیں آئیں گے۔۔ اس سے۔۔۔ " مسز حماد کی پریشان سی آواز سنتے انزِک نے مشورہ دیا۔۔ "
" ہائے اللہ یہ یہ اس ڈریکولا نے ششش شادی کر لی۔۔۔ وہ جو پچھلے دس منٹ سے یہاں گھاس پہ ایک جانب چھپی بیٹھے اپنا کینڈی پاپ کھا رہی تھی ۔پہلے تو اس کے آنے پہ سخت بدمزہ ہوئی تھی مگر پھر مسز لفظ سن کے وہ خاموشی سے بیٹھی سننے لگی۔۔ مگر پاپا لفظ نے اسے پہلے سے بھی بڑا شاک دیا تھا۔۔ وہ گرتے گرتے بچی تھی بمشکل اور اپنی موٹی موٹی آنکھوں کو مزید بڑا کیے وہ اسکی بڑی سے ڈریکولا والی پشت کو گھورنے لگی ۔"
" کینڈی پاپ اسکے ہاتھ میں تھا جسے وہ ساتھ ساتھ مزے سے کھاہ رہی تھی۔ "
" وہ کچھ نہیں کرے گا آپ فکر مت کریں کسی کو علم نہیں ہو گا ۔۔ "
انزِک نے ماتھا مسلتے انہیں سمجھایا تھا۔۔ وہ خود بھی کافی متفکر سا تھا۔۔ احمد اسکے باڈی گارڈ کا بیٹا تھا۔۔ جنہیں اچانک سے ہارٹ اٹیک آیا تھا۔ تو وہ ہاسپٹل میں زیر علاج تھے ۔ حماد کی بیوی سخت پریشان تھی کیونکہ احمد نے انہیں اچھا خاصا تنگ کیا ہوا تھا۔".
اور اب بھی وہ اپنے پاپا سے ملنے کی ضد کر رہا تھا۔۔ "
آپ فکر مت کریں میں کل آؤں گا اس سے ملنے۔۔"
" اس سے پہلے پانی سر سے اوپر سے اوپر کو جائے مجھے انکل آنٹ اور عینوں کو بتانا ہو گا۔۔ اسنے پاپ کو مٹھی میں مضبوطی سے جکڑا تھا۔۔"
" باریک عنابی ہونٹ پاپ کی وجہ سے سرخ ہوئے تھے جبکہ گھنگھریالے کندھوں تک جاتے سرخ بال بے ترتیبی سے بندھے تھے جیسے دس دن سے اسی چٹیا میں بندھتے زنگ لگ گیا تھا۔۔ وہ یہاں عیناں کے ساتھ ویک اینڈ گزارنے آئی تھی۔۔ اور اپنے چھپائے کینڈی پاپ بھی ساتھ لائی تھی۔ مگر خدا نے اسے وسیلہ بنایا تھا۔۔ یہ بتمیز شخص اسے شروع سے نہیں بھایا تھا۔۔
ہر بات میں ٹونکنا ، ڈانٹنا۔۔۔ آج اسے موقع ملا تھا۔۔ ڈریکولا کی ٹانگ نہیں بلکہ اسکے حساب سے پورے کا پورا ڈریکولا اسکی گرفت میں تھا۔۔ اسنے اپنی روشن ہوتی سرمئی بڑی بڑی نظروں سے مقابل کی پشت کو گھورا تھا۔۔ اور دبے قدموں وہاں سے نکلی۔۔ "
" تم تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔" ہڑبڑی میں بھاگتے وہ جو گلنار چہرے سے اندر کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ ایک دن سے منہ کھولے اسکے قدم تھمے تھے۔۔ جب مقابل نے غصے سے اسکے ہاتھ کو زور سے تھامتے گرفت مضبوط کر دی۔۔"
" وو وہ میں انکل اور آنٹ کو آپ کے بیٹے اور بیوی کا بتانے جا رہی ہوں۔۔ " ایک دم سے اسکی زبان سے پھسلا اسنے زبان دانتوں کے بیچ دبائی ۔۔ مر گئے۔۔۔ مقابل کے خونخوار تیور دیکھتی وہ ایسے زبردستی مسکرائی جیسے کسی بچے کو انجیکشن لگاتے ہوئے کہا جائے کہ شاباش یہ نہیں روتا یہ تو بہادر ہے۔۔ جس پہ وہ بچہ زبردستی مسکرا دے۔۔"
" نن ڈڈ ڈریکولا۔۔۔ مم میرا مطلب ہے انن انجی۔۔۔ مم مطلب ۔۔اسنے ہڑبڑاہٹ میں اپنی جانب بڑھتے انزِک کو دیکھتے صلح جو انداز میں کہا مگر ہمشیہ کی طرح زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔"
" یو میڈ گرل۔۔۔ کیا کہا کونسا بیٹا کونسا باپ ۔۔۔ انزِک نے غصے سے اسے گاڑی سے پن کرا تھا اس بے وقوف لڑکی کی وجہ سے وہ خوامخواہ اپنی موم اور ڈیڈ کو پریشان نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔"
" مم میں نے کچھ نن سنا دد دیکھو میرے کان بند ہیں کل سے کچھ سنائی نہیں دے رہا ۔۔۔ اسکے غصے سے کو دیکھتی وہ اپنے سرخ ہوتے کان اسکے سامنے کرتے بولی ۔۔ اسکی بونگی پہ انزِک نے غصے سے اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھے تھے۔۔ اور آنکھیں چھوٹی کیے اسکی گول گول بڑی بڑی سی آنکھوں میں بغور دیکھا۔۔ "
"اگر کسی سے بات کی تو یاد رکھنا پاگل خانے چھوڑ آؤں گا سمجھی۔۔۔ " اسنے غصے ، اور ڈانٹ سے کہا تو وہ ناسمجھی سے ایک بار گردن ہاں میں تو ایک بار ناں میں ہلا گئی ۔ مقابل نے دانت پیستے اسے غصے سے گھورا۔۔"
مم مطلب بات نہیں کروں گی تو سب سمجھیں گے کہ گونگی ہو گئی۔۔ میرب نے اسے سولڈ ریزن دیا اپنے بولنے کا۔۔ جب کہ انزِک کا دل چاہا کہ پتھر اٹھا کے اسکا سر پھوڑ دے۔۔".
بے وقوف عورت میں بات کرنے سے منع نہیں کر رہا بس یہ کہہ رہا ہوں کہ اس بارے میں کسی کو مت بتانا۔۔"
انزِک نے اسکے چہرے پہ بکھری سرخ گھنگھریالی لٹوں کو الجھن سے دیکھا ۔ دل چاہا کہ ابھی پکڑتے پیچھے کرے۔۔ اسنے دل پہ لعنت بھیجی اور اسی کی جانب متوجہ ہوا۔۔"
" مگر اگر آپ کی بیوی اور بیٹا ہے تو اسے چھپانے کی کی۔۔۔۔"
اششش۔۔ شٹ اپ۔۔۔ آواز نہیں۔۔۔ اب اگر فضول گوئی کی تو بہت برے طریقے سے پیش آؤں گا یقیناً تمہیں اچھا ناں لگے۔ تو یاد رکھنا اس معاملے میں کسی سے ذکر مت کرنا اور میں بھی کسی کو تمہارے یوں چوری چوری کینڈی پاپ کھانے کے بارے میں نہیں بتاوں گا۔۔۔"
میرب نے سہمی نظروں سے سر جھکائے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔"
چاند کی مدہم سی پڑتی روشنی میں وہ مکمل اسکے حصار میں کھڑی اسکے کندھے پہ سے شرٹ کو بری طرح سے جکڑے ہوئے تھی۔۔ اسکے تیز تیز سپیڈ سے بھاگتی دھڑکنوں کی آواز انزِک بخوبی سن رہا تھا۔۔ بے ساختہ اسنے ہاتھ بڑھاتے اسکے چہرے پہ جھولتی سرخ لٹ کو نرمی سے کان کے پیچھے کیا ۔ اسکے عجیب سے انداز پہ میرب نے سانس روک لیا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ یاں تو یہ اسکا خواب تھا پھر ڈریکولا سچ میں پاگل ہو گیا تھا۔۔"
" جاؤ اندر۔۔۔۔ اسکے کسمسانے پہ انزِک نے گرفت ڈھیلی کرتے اسے حکم دیا جو پاؤں سر پہ رکھے اندر کہ جانب بھاگی تھی۔۔ مقابل کی گہری نگاہوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔۔"
کیا ہو گیا کیوں ریل گاڑی کی طرح بھاگے جا رہی ہو ، بریکس پہ پاؤں مار لڑکی۔۔۔۔ وہ ڈرتی خوف سے آنکھیں پھیلائے عیناں کو دیکھ اب بند دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔
شکر تھا کہ دروازہ بند کیا تھا اس نے ، ورنہ کیا پتہ وہ ڈریکولا اندر ہی اس کے پیچھے آ جاتا۔۔"
میرو۔۔۔۔۔عینان نے اسے خیال میں کھویا دیکھ جھٹ سے اپنی نائٹ شرٹ اسکی جانب اچھالی تھی۔۔ "
ہہ ہاں کک کیا ہوا۔۔ میرب نے زمین بوس ہوئی اسکی گلابی نائٹ شرٹ کو دیکھ عیناں کو دیکھ پوچھا تھا۔۔۔۔"
" ہوا تو کچھ نہیں ، مما بتا رہے تھے کہ تم شام سے آئی ہو کہاں تھی تم لڑکی۔۔ عیناں نے ہاتھ میں تھاما اپنے نائٹ ٹراؤزر بیڈ کی جانب اچھالا تھا۔۔ اور اپنے سامنے فکر مند سی کھڑی میرب کی جانب قدم بڑھائے۔۔ "
" میں بب باہر تھی۔ میرب نے بات ختم کرنا چاہی تھی ، ہلکے سے انداز میں اسے بتائے وہ بیڈ کی جانب ہوئی جبکہ عیناں نے فورا سے اسے باززوں سے کھینچتے رخ اپنی اور کیا ."
" باہر کیا کچھ خاص ہوا ہے جو تمہارا چہرہ اس قدر لال ہو رہا ہے ۔ عیناں نے آنکھیں چھوٹی کیے مصنوعی سنجیدگی سے اسے سر تا پاؤں گھورا۔۔ جبکہ میرب جو آگے ہی اس ڈریکولا کے تیوروں سے پریشان سی تھی اب اوپر سے عیناں کا یوں پوچھنا اسے آگ لگا گیا۔۔"
" کک کیوں تم ایسا کک کیوں کہہ رہی ہو ، باہر کک کچھ بھی تو نہیں۔۔ اور مجھے تھوڑا بہت بخار ہو رہا ہے اسی لیے شاید چہرہ لال ہو رہا ہے میرا۔۔"
اپنے دہکتے گالوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے وہ منہ پھلائے عیناں کو کافی کیوٹ سی لگی۔۔ اسنے جھٹ سے آگے ہوتے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لیا۔۔"
ہائے میری جان باہر کچھ خاص ہو بھی نہیں سکتا پوچھو کیوں ۔۔۔ عیناں نے آنکھیں پٹپٹاتے اسے گردن اٹھائے کہا کہ میرب نے جھنجھلاتے سوال کیا۔۔ حصار توڑنے کی کوشش ساتھ ساتھ جاری تھی۔۔"
" کیونکہ باہر کچھ خاص تب ہوتا جب تم میں کچھ خاص ہوتا، سوائے ان موٹی موٹی آنکھوں کے تمہارے پاس کچھ خاص نہیں ۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔
عیناں نے اسکی حد سے زیادہ پھیلی آنکھوں کو خود پہ پاتے قہقہ لگایا تھا اور حملے سے پہلے ہی وہ بھاگی تھی مگر افسوس کے میرب نے اسے غصے سے کھینچتے بیڈ پہ پٹخا تھا۔۔"
کیا کہا تو نے میں بدصورت دکھتی ہوں تجھے کمینی عورت۔۔۔ پاس پڑے کشن سے وہ عیناں کی اچھی خاصی دھلائی کر رہی تھی ۔ جو اسکی صدمے بھری آواز پہ ابھی تک قہقہ لگا رہی تھی۔۔"
"میرب واٹ دا ہیل از دز۔۔۔ اچانک سے کلک کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ کھلتا چلا گیا تھا۔۔ میرب نے اسکی دھاڑ پہ سہمتے سامنے دیکھا جو آنکھیں پھیلائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ "
" بب بھائی ۔۔۔۔ عیناں ، انزِک کی غصے بھری آواز پہ بمشکل سے سیدھے ہوئی بیٹھی تھی۔۔ کشن سے بکھری ساری روئی اسکے بالوں پہ ایسے سجی تھی جیسے خود بالوں کو سجایا گیا تھا۔۔ جبکہ کشن کی مردہ لاش انزِک کے پاؤں میں پڑی تھی مطلب صاف تھا کہ کشن پیچھے کی جانب گرا تھا وہ صرف گرا نہیں بلکہ اگلے بندے پہ اچھا خاصا گرا تھا۔ ۔"
" وو وہ بب بھائی کچھ چاہیے تھا آپکو۔۔۔ عیناں نے تھوک نگلتے حراساں سی خوف سے آنکھیں بند کیے بیٹھی میرب کو دیکھ پوچھا تھا ۔ سامنے ہی وہ غصے سے سرخ رنگ نقوش ماتھے پہ بکھرے سیاہ اور سرخ بال ، لئے میرب کو گھورنے میں مصروف تھا۔۔"
" یہ ہر دفعہ غلط ٹائم پہ کیوں آ جاتا ہے ڈریکولا کہیں کا۔۔ ذرا مینرز نہیں لڑکیوں کے روم میں اجازت مانگ کر آتے ہیں۔۔۔ میرب نے گردن ہلائی تصور میں اسے کوسہ تھا۔۔ "
" مما نے موبائل دیا ہے تمہارا شاید تم انکے روم میں رکھ آئی تھی۔۔ یہ لو۔۔۔۔"
" اسکا گردن ہلانا ، بھینجے جبڑے انزِک کا بس نہیں تھا کہ وہ عیناں کو پانچ منٹ کے لیے سائڈ کرتے ابھی اسکی کلاس لگا دیتا ۔ اسنے ناگواری سے روئی میں سفید برف کی مانند بیٹھی میرب کو خونخوار نظروں سے گھورا۔۔۔
یہ لڑکی جب بھی آتی تھی اسکی بہن کو بھی اپنے ساتھ خراب کر دیتی تھی۔۔"
" اسنے سرد آہ بھرتے ماتم کناں فرش اور بکھرے کمرے کو دیکھا ۔ اسے یقین نہیں تھا کہ ابھی تو وہ اندر آئی تھی اور آتے ہی اس قدر تباہی مچائی تھی۔۔ جانے آنٹی کیسے اسے برداشت کرتے ہوں گے ۔ اسے دل سے دعا کے لئے ہمدردی ہو رہی تھی ۔ جس کی اکلوتی بیٹی خد سے زیادہ درجے والی نکمی تھی۔۔ "
" شکریہ بھائی۔۔۔ "
نو نیڈ بھائی کی جان آپ ریسٹ کرو اوکے ، اگر مجھے ذرا سا بھی شور سنائی دیا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔اسنے محبت سے عیناں کے سر پہ بوسہ دیتے ، سامنے دیکھ کہا تھا ۔۔ میرب جو ایک آنکھ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ انزِک کے دیکھنے پہ فورا سے آنکھیں بند کیں۔۔۔"
"اللہ تیرا شکر ۔۔ "انزِک کے نکلتے ہی عیناں نے دروازہ اوپر سے اچھے سے لاک کیا تھا ، اور ایک خونخوار نظر میرب پہ ڈالی جو بتیس دانتوں کی سلامی پیش کرتی آنکھوں کو باہر کی جانب نکالتی ہی ہی کرتی مسکرائی تھی۔۔عیناں کو ہنسی تو بہت آئی مگر وہ سخت قسم کا ضبط کرتی اپنا نائٹ ڈریس لیے واشروم میں بند ہوئی تھی۔۔"
" ڈریکولا کہیں کا اللہ کر کے ایسی بیوی ملے اس سڑیل کریلے کو جو دن میں تارے اور رات کو خطرناک نظارے دکھائے اسے۔۔۔ آواز مت آئے میں یہی ہوں۔۔۔ اسنے غصے سے کشن کو نیچے پھینکتے آواز بھاری کرتے انزِک کی نقل اتاری تھی۔۔"
" بیڈ کو اچھے سے صاف کیے وہ ایک جانب ہوتی لیٹی تھی۔۔۔"
" میرب اٹھو۔۔۔۔ عیناں جو شاور لیتے دس منٹ بعد ہی آئی تھی اسے یوں آرام سے سوتا دیکھ اسنے غصے سے کمفرٹر اتارتے اسے گھورتے اونچی آواز میں کہا۔۔ محترمہ سارے کشنز کی روئی بکھیرے آرام سے سو رہی تھی۔۔"
کیا کر رہی ہو میرب۔۔۔' عیناں نے زچ آتے اسکی کمر پہ دھپ رسید کی۔۔"
اپنی زندگی کو بہار بنانے والے شہزادے کے خواب دیکھ رہی ہوں کیوں تمہیں لینا ہے میرا شہزادہ۔۔۔ میرب نے جلتے بھنتے کہا تھا۔۔ "
کمینی اتنا گند ڈال کر تجھے نیند آئی ہے اٹھو میرے ساتھ صفائی کرواؤ۔۔۔"
عیناں نے اسے کھینچتے کھڑا کرنا چاہا جوابا وہ اسے اپنے ساتھ ہی بیڈ پہ گرا چکی تھی۔۔"
ڈارلنگ اوپر مت گرنا ساتھ جگہ ہے۔۔۔ میرب نے آنکھ دباتے بے باکی سے کہا تھا ۔۔جبکہ عینان نے حیرت سے منہ کھولے اس بلا کو گھورا اور فوراً سے ہاتھ کانوں کو لگائے۔۔۔"
" پیچھے مرو بتمیز لڑکی شرم کرو کیا اول فول کہے جا رہی ہو ۔ عینان نے اسکے ہاتھ اپنے پیٹ سے ہٹاتے غصے سے جھڑکا جوابا وہ پھر سے مسکرائی۔۔"
صفائی میڈ کر دے گی اور تم اپنے اس ڈریکولا بھائی کو سیرئیس مت لیا کرو یار۔ وہ کیا ہے ناں کہ بہت جلدی ہی سٹڈی چھوڑ کر بزنس مین بن گیا ہے اسی وجہ اسکا اوپر والا پورشن حالی ہے ۔۔ میرب نے عیناں کے سر کے نیچے ہاتھ رکھتے اسکے ساتھ لگاتے پچکارتے ہوئے کہا..
کیا اوپر والا ۔۔ عیناں نے سر اسکے نازک بازو سے اٹھائے پوچھا ۔۔میرب نے آنکھیں گھمائی ۔۔وہی جسے ہم عام لفظوں میں دماغ کہتے ہیں ۔"
کیا ہوا ۔۔؟ عیناں کی سرخ ہوتی ناک اور پھولے سرخ ہوئے گالوں کو دیکھتی وہ ناسمجھی سے پوچھنےلگی۔۔"
تم میرے بھائی کو پاگل کہہ رہی ہو ۔۔ عیناں نے اسکے گھنگھریالے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑتے کھینچا۔۔ اسکے اس قدر شدید ردعمل پہ میرب کی ڈر سے چیخ نکلی ۔۔ عیناں نے فورا سے ہاتھ اسکے بالوں سے نکالا ۔۔۔ چپ چلا مت بھائی کو شور نہیں پسند ۔ اسنے غصے سے کہا تو میرب نے اپنے دائیں اور بائیں جانب گھونسلے بنے اپنے سرخ بالوں کو دیکھا۔۔ جو یقیناً کنگھی کرنے کے لائق ہو چکے تھے۔۔'
" عیناں یہ گھونسلے آگے ہی میری جان کو پڑے ہیں اور اوپر سے تم نے یہ کیا کر دیا ہے ۔۔ چڑیل کہیں کی۔.."
میرب نے صدمے سے رندھی آواز میں کہا۔۔۔ جبکہ عیناں نے غصے سے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔ "
" تو کٹوا لو ناں ان کو۔۔ وہ جو اپنی کلاس میں شاشا آتی ہے کہ آتا ہے۔۔ اسکے جتنے کروا لو ، مطلب یہ بلکل نئے نکلے بالوں کی طرح ۔۔ عیناں نے اپنی کلاس فیلو کا تصور دیتے کہا تھا جو تھی تو لڑکی مگر بال اسکے ایسے تھے جیسے ابھی ابھی اُگے ہوں۔ یونیورسٹی میں زیادہ تر سب اسے لڑکا ہی کہتے تھے۔"
" بہن معاف کر ایک بار کوشش کی تھی تیری دعا ماسی نے ڈنڈے سے مارا تھا۔۔ کہتی ہیں۔۔ایک شکل نہیں اچھی ۔ اوپر سے گُن نہیں کچھ تم میں اوپر سے بال کٹوانے کے بعد مجھے لڑکی ڈھونڈنے پڑی گی تیرے لیے، لڑکا نہیں۔"
میرب نے منہ بناتے اس سے دکھ شئیر کیا۔ دعا نے سختی سے منع کیا تھا جبھی یہ بال ابھی تک اس کے سر پر دکھتے تھے۔۔ مگر وہ بھی بات کی پوری تھی پورے پانچ دن بعد کنگھی کرتی کیونکہ بقول اسکے کنگھی کر کے بھی گھونسلہ ہی دکھنا ہے اور ناں کر کے بھی۔ "
" چل خیر چھوڑو یار صبح میں بناؤں گی تیرے بال اچھے سے اوکے۔۔۔۔ عیناں نے مسکراتے اسکے گال کو کھنچتے کہا تھا۔ جوابا وہ بھی ہلکا سا مسکرائی۔۔".
" عیناں تو کیا کرنے لگی ہے۔۔" اسے سیدھا ہوتے کمفرٹر اوڑھتا دیکھ میرب نے اسے دیکھ پوچھا۔۔"
" سونے لگی ہوں یار اب نیند آئی ہے۔۔"
عیناں نے ایک نظر اسے دیکھا اور فورا سے لائٹ آف کی ۔"
عینو۔۔۔۔۔۔۔ ابھی پانچ منت ہی گزرے تھے کہ میرب نے اسے جھنجھوڑا ۔۔ عیناں نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔'
باتیں کرتے ہیں یار ۔۔ اسکے دیکھنے پہ میرب نے مسکراتے کہا اسکی نیند اڑ چکی تھی ۔ اور ویسے بھی آنکھیں بند کرتے ہی اس ڈریکولا کی غصیلی نظریں پردے پہ لہراتی۔۔ وہ جھنجھلاتے اسے بھی اٹھا گئی۔۔"
یار میرب بھائی نے رات کو کام کرنا ہوتا ہے انہیں شور بالکل بھی ہضم نہیں ہوتا اور تم بنا شور کے نہیں رہو گی۔۔"
عیناں نے بند آنکھوں سے کہتے کروٹ بدلی۔۔
عینوں یار ہم سرگوشی میں باتیں کرتے ہیں۔۔ میرب نے محبت سے مدہم آواز میں کہا عیناں مسکرائے بنا ناں رہ سکی۔۔۔"
" اوکے مگر سرگوشی میں ہی۔۔۔ عیناں نے گردن گھمائے اسکی جانب دیکھ کہا تھا کہ وہ فورا سے سر ہاں میں ہلاتے اسے ہگ کرتے مسکرا اٹھی ۔"
💥💥💥💥💥
" نین یار میری وہ ریڈ فائل نہیں مل رہی پلیز ڈھونڈ دو۔۔۔ وریام نے حرمین کو اشارہ کرتے نیناں کو مخاطب کیا۔۔ حرمین اپنے باپ کے اشارے پہ مسکراہٹ دبائے سر جھکاتی اپنے روم کی جانب بڑھی تھی۔۔ جبکہ نیناں نے اسے اگنور کیے ریمورٹ اٹھایا اور چینل سرچ کرنے لگی۔۔ اسے ابھی تک غصہ تھا وریام پہ۔۔۔ وہ کیسے حرمین کو اجازت دے سکتا تھا یوں کسی دوسرے انجان شہر جانے کی۔۔"
" جب جانتی ہو کہ ناراض میں ہونے نہیں دوں گا تو پھر یہ کوشش کیوں کرتی ہو۔۔۔"
" وریام اسکے پاس ہی بیٹھتے اسے حصار میں لیتے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔ نیناں نے جھٹ سے آگے پیچھے دیکھا مگر شکر تھا خدا کا کہ حرمین چلی گئی تھی روم میں۔۔"
" چھوڑیں مجھے وریام کچھ شرم کریں ، جہاں دل چاہتا ہے شروع ہو جاتے ہیں آپ۔۔۔۔ نیناں نے شکر بھرا سانس خارج کیا اور فوراً سے اسکے حصار سے نکلنے کی کوشش شروع کر دی۔۔ مگر وریام کے حصار کو توڑے پانا کہاں اس کے بس میں تھا۔۔"
" کہاں شروع ہوا ہوں جان ۔ تم اجازت دو پھر کچھ کر سکتا ہوں۔ اسنے محبت سے نیناں کے سر پہ بوسہ دیتے حصار تنگ کیا تھا , اسکی بے باکی پہ نیناں سٹپٹا اٹھی۔ "
" چھوڑیں وریام مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔۔ اسنے رخ موڑتے خفگی سے کہا ، وریام سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ "
" ڈارلنگ چلو پھر روم میں چلتے ہیں۔ میرا بھی بات کرنے کا کوئی خاص موڈ نہیں۔۔۔ اسنے جھٹ سے ارادہ بدلتے کہا ۔۔ جبکہ نیناں نے بمشکل اپنے چکراتے سر کو تھاما۔۔
مجھے لگا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ بدل جائیں گے مگر میں غلط تھی بڑھتی عمر نے آپ کو اور بھی بے شرم کر دیا ہے وریام۔۔ کچھ شرم کریں دو جوان بچوں کے باپ ہیں آپ۔۔"
" نیناں نے افسوس سے سر نفی میں ہلاتے کہا تھا مگر ہمیشہ کی طرح وہ مسکراتے اسے گود میں اٹھائے اس اعزاز پہ سر فخر سے بلند کیے اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔"
" وریام اتاریں مجھے ، میں خود چلی جاؤں گی۔۔۔ نیناں نے اپنی سی کوشش کی تھی مگر جانتی تھی مقابل سے کچھ کہنا گویا پتھر سے سر پھوڑنے کے مترادف تھا۔"
" کیا ہو گیا جو میں دو جوان بچوں کا باپ ہوں۔۔ میرا ارادہ ہے کہ ایک بیٹا اور ہونا چاہیے تھا میرا ۔ ویسے بھی پہلے والا تو مجھے ایسے دیکھتا ہے جیسے میں نہیں وہ میرا باپ ہو، اور ایک پرنسس ہی ہے میری جسے میری فکر ہے ۔ اگر حرمین کی دفع کمپلیکیشن ناں ہوتی تو آج میری اپنی کرکٹ ٹیم ہوتی۔۔ "
پاؤں سے دروازہ لاک کرتے وریام نے مسکراتے اسے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہا۔"
" نیناں نے مسکراتی نظریں اپنے محبوب شوہر کو دیکھا ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ سراسر مذاق کر رہا تھا۔ کیونکہ حرمین کی رفعہ ڈاکٹرز نے اسے پہلے ہی وارن کیا تھا۔مگر وہ جانتی تھی کہ وریام کو بیٹی کی کتنی چاہت تھی۔ اسی لیے اسنے وریام سے چھپایا تھا ورنہ وہ کبھی بھی چانس ناں لیتا۔"
"اور پھر جب ڈیلیوری کے دوران ڈاکٹرز نے اسے نیناں کی کنڈیشن کے بارے میں بتایا تھا اور ساتھ میں کسی ایک کو چننے کا کہا تھا۔ یہ وقت وریام نے کس طرح سے تکلیف اور اذیت میں گزارا تھا یہ اس کا رب ہی جانتا تھا۔۔"
" وریام آپ پلیز حرمین کو روکیں وہ آپکی ہر بات مانتی ہے۔ میرا دل نہیں مانتا اسے بھیجنے کو۔۔"
۔
" نیناں کی مدہم سی سرگوشی نما آواز پہ مقابل نے سر اٹھائے اسے دیکھا ، جو آج بھی پہلے کی جیسی ہی حسین تھی وریام کاظمی کی دھڑکنیں منتشر کرنا بھلا اسکے علاؤہ کہاں کسی کو آ سکا تھا۔"
" میری جان بھروسہ رکھو وہ نیک کام کی نیت سے جا رہی ہے تم بھی جانتی ہو اسنے شروع سے ہی خواہش کی ہے کہ وہ اپنا ایک ادارہ بنائے جہاں پہ وہ بے سہارہ بچوں کی پرورش خود سے کر سکے۔ اور میں اسے بار بار منع کر کے اپنے رب کا نافرمان نہیں بن سکتا۔۔ اللہ اسکے ساتھ ہے تم پریشان مت ہو ۔ تم اداس ہوتی ہو تو یہ دھڑکنیں تھم جاتی ہیں۔ اسے بیڈ پہ لٹائے وہ اسکا سر سینے سے لگاتے ہوئے بولا تھا۔۔ نیناں نے آنکھیں موندیں، بی جان کے بعد چاہے سب نے اسے پیار دیا تھا مگر ایک ٹھنڈے درخت کی چھاؤں میں خود کو مخفوظ وہ صرف اسی مہربان شخص کے حصار میں خود کو کرتی آئی تھی۔ "
ان گزرے ماہ و سال میں وریام نے اسے دیا ہی تھا کبھی واپس نہیں مانگا تھا، اور کبھی کبھی تو نیناں کو وہ اپنے رب کی طرف سے ملا ایک انمول تحفہ محسوس ہوتا تھا۔ جسکے ساتھ سے اسکی زندگی بہار تھی۔"
💥💥💥💥💥💥
صبح کے تقریباً ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔ ہوسپٹل کے پرائیویٹ روم میں وہ سامنے ہی بائیں ہاتھ میں پکڑی اپنی فیورٹ پنسل کو گھمائے نظریں سامنے میز پر پڑی فائل کی جانب مرکوز کیے توجہ سے فائل میں درج نئے کیس کو ریڈ کر رہا تھا۔ سامنے ہی دوسری جانب دو کرسیاں سیٹ ہوئی تھی ۔جبکہ شیشے پہ لٹکے گرے پردے ایک جانب ہوئے تھے ۔ بڑے سے شفاف شیشے پہ باہر سے پڑتی سورج کی سنہری کرنیں ٹکراتے واپس مڑ رہی تھیں ۔ اتنی دیر میں وہ سامنے سے اجازت طلب کیے اندر داخل ہوا۔
" بتاؤ شفیع کوئی خاص خبر۔۔ مقابل نے فائل بند کرتے اپنے اسٹنٹ کو کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔ شفیع سر کو حم دیتے جگہ پہ بیٹھا تھا۔"
" بتاؤ کیا خبر ہے۔۔ "
شفیع کے چہرے کے بجھے تاثرات سے مقابل بیٹھے ڈاکٹر سلیمان نے دکھ سے چور لہجے میں پوچھا تھا۔۔ بوڑھی گرے آنکھیں پل بھر کو نم ہوئی تھیں۔۔ انہوں نے ہاتھ سے چشمہ اتارتے میز پہ رکھا تھا اور اپنی ہاتھ کی انگلیوں سے انہیں صاف کیا۔'
" سر وہ ایل سر کل دوبئی جا رہے ہیں۔۔ لیلی میڈم نے انہیں جانے کا کہا ہے وہ کسی بھی صورت نہیں ٹلیں گے۔۔۔" شفیع اپنے باس کا دکھ سمجھتا تھا۔۔ ایک عرصے سے وہ سلیمان کے ساتھ تھا۔۔ انکا شگفتہ نرم لہجہ ، پل بھر میں کسی کو بھی اپنا بنا لیتا تھا۔۔ شفیع نے آنے والے لمحات سے ڈرتے نظریں چرائیں۔۔۔"
" ہمممم ۔۔۔ اسنے کونسا میرے کہنے سے رکنا تھا بھلا۔۔ جانے دو اسے۔۔۔ درد سے چور لہجہ تھا۔۔۔ کہ شفیع اسکا درد خود میں اترتا محسوس کر رہا تھا۔۔
سر ایک اور بات بتانی ہے آپکو۔۔" شفیع کی شش و پنج میں مبتلا آواز پہ سلیمان جو کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے تھے فورا سے سیدھے ہوئے۔۔۔"
کہو کیا ضروری بات ہے۔" سلیمان نے فائل کھولتے پوچھا۔۔ اسے آج ہی اس کیس پہ کام شروع کرنا تھا.. ہلکی سی چلتی ہوا سے کھڑکیوں کے پردے ہلکے سے ہلتے دوبارہ اپنی جگہ آ جاتے۔۔"
سر وو وہ۔۔۔ شفیع کے گلے میں الفاظ اٹک گئے۔۔ اسکے لیے یہ سب کہنا مشکل ہو رہا تھا۔۔'
سلیمان کو تجسس ہوا تھا۔۔ اسنے نظریں فائل سے اٹھائے اسے اشارے سے بولنے کا کہا اور خود پنسل سے ضروری پوائنٹ نوٹ کرنے لگا۔"
سر وہ لیلی میڈم نے آپ سے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔۔ "
کونسا جھوٹ کیا کہہ رہے ہو شفیع۔۔۔ ماتھے پہ ہزاروں بل سجائے وہ لیلی کے نام سے ہی آگ بگولا ہوئے جا رہا تھا۔۔اس عورت نے اسکی پوری زندگی برباد کر دی تھی۔۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔"
" سر وہ آپ کی بیٹی۔۔۔۔ شفیع پل بھر کو تھما ایک گہری سانس فضا کے سپرد کرتے اسنے آنکھیں میچتے کھولتے خود کو بولنے کے لئے تیار کیا۔۔"
سر آپ کی بیٹی مری نہیں تھی وہ زندہ ہے۔۔ لیلی میڈم نے آپ سے جھوٹ کہا تھا کہ انہوں نے ایک مردہ بچی کو جنم دیا ہے ۔ " شفیع کے کہے الفاظ مقابل بیٹھے شخص کو پل بھر میں بُت کا کر گئے تھے۔۔۔ اسکی سلور گرے آنکھوں میں اذیت ، بے یقینی اور خوف کے تاثرات ایک ساتھ جھلکنے لگے تھے۔ صبیح روشن چہرہ لٹھے کی مانند زرد پڑا تھا۔۔ جبکہ ہاتھوں میں تھامی پنسل کہی گر چکی تھی ۔ اور پورا وجود کیسے زلزلوں کی ضد میں تھا۔۔۔"
" ایک دم سے اسکے سینے پہ بائیں جانب درد سا ابھرنے لگا
۔۔ شفیع اسکی بگڑتی حالت پہ فورا جگہ سے اٹھا تھا اور دوڑتے اسکے پاس پہنچا۔۔۔ جو ہوش و حواس سے بے گانہ ہوتے کرسی پہ ایک جانب لڑکھ رہا تھا۔۔"
💥💥💥💥💥💥
میم آپ آگے نہیں جا سکتی ۔۔ پلیز آپ جائیں یہاں سے۔۔۔ دونوں گارڈز نے ہاتھ پھیلائے اسے روکتے تیز وارننگ بھرے لہجے میں کہا تھا ۔۔ جوابا وہ سر تا پاوں انہیں بغور دیکھ اب ہاتھ اپنی براؤن لیدر جیکٹ میں ڈالے کھڑی ہوئی۔۔"
" لمبے بال مسلسل پونی ٹیل میں جھول رہے تھے جبکہ لمبے براؤن شوز میں مقید پاؤں وہ مسلسل ہلا رہی تھی۔ اسکے یوں رکنے پہ گارڈز نے سکون کا سانس خارج کیا تھا۔۔ ابھی دس منٹ تک ایچ اے آر آنے والا تھا۔۔ یہ اسپیشل جیٹ اسی کیلئے تیار کھڑا تھا جو اگلی فلائٹ سے پیرس جانے والا تھا۔۔"
" الایہ نے ایک نظر دونوں پہ ڈالتے اب چشمہ نکالتے آنکھوں پہ سیٹ کیا تھا اور سٹیئرز اترنے لگی ۔ "
" ایوری تھنگ از ریڈی۔۔۔ وہ مصروف سے انداز میں اپنے پیچھے چلتے اپنے باڈی گارڈ سے مخاطب تھا ۔۔ جس نے فورا سے سر ہاں میں ہلاتے جواب دیا۔"
" کل کی میٹنگ رکھنا شیفرڈ سے ، کام مسلسل نقصان میں چل رہا ہے مجھے اب لیلی کے سپورٹ کی ضرورت ہو گی۔۔۔ اسنے سٹیرز پہ قدم جمائے ماتھا مسلتے پریشانی سے کہا تھا۔ بیلو ڈریس پینٹ شرٹ میں ملبوس ، بھرپور وجاہت کے ساتھ وہ ٹھیک ٹھاک قد کا حامل ، نارمل سے نقوش والا تقریباً سینتیس سالا مرد تھا۔ "
" مسلسل کام میں ہوتے نقصان کی وجہ سے اب ایچ اے آر خاصا پریشان تھا ۔دشمن جو کوئ بھی تھا اسکی ٹکر کا تھا اور ایسے کھیل اسے خاصے پسند تھے۔ "
" گڈ مارننگ سر۔۔۔ گارڈز نے اسے مارننگ وش کی ، وہ خیالوں سے نکلتا سر کو حم کیے آگے بڑھا تھا۔۔ ".
سیٹ پہ بیٹھتے اسنے سیٹ بیلٹ باندھا۔ " آنکھیں موندے وہ سر سیٹ سے ٹکائے ریلکیس ہونے لگا ۔"
" ہائے مسٹر چھوٹو۔۔۔۔۔ " اپنے بہت پاس سے باریک مگر مضبوط لہجے میں کہے الفاظ وہ نسوانی آواز سنتے ٹھٹھک کے آنکھیں کھول گیا۔ "
اپنے بائیں جانب دیکھنے پہ اسے حیرت ہوئی کیونکہ سیٹ حالی تھی ۔ سامنے ہی ٹیبل سیٹ تھا اسنے احتیاطاً پیچھے کی سیٹ پہ دیکھا مگر کسی کو بھی ناں پاتے اب اسنے آگے دیکھا تھا۔۔ اپنا وہم تصور کرتے اسنے سر جھٹکا تھا اور دوبارہ سے آنکھیں موندیں۔"
میں تم سے ہوں مسٹر چھوٹو ۔۔۔ دوبارہ سے وہی آواز ۔۔ ایچ اے آر نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ اسے حیرت ہوئی کوئی بھی تو نہیں تھا اور روم اسنے لاک کرا تھا ۔"
" اوئے۔۔۔۔ اچانک سے آواز پہ اسنے سر اٹھاتے اوپر کہ جانب دیکھا تھا ایک دم سے وہ جگہ سے اٹھتے کھڑا ہوا ۔ کون ہو تم۔ اسنے چھت کی جانب دیکھتے ہوچھا جہاں الایہ دونوں ہاتھوں کو مضبوطی او ٹانگوں کو پھنسائے الٹا لٹکی ہوئی تھی۔"
"کہنے کو تو ایک لڑکی ہوں مگر دنیا مجھے مس فائر کے نام سے جانتی ہے۔ وہ الٹی بازی لگائے ایک دم سے اسکے سامنے رکتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے بولی۔۔ ایچ اے آر نے ایبرو اچکاتے سر تا پاؤں اس آفت کو دیکھا۔۔"
" بیلک شرٹ کے اوپر براؤن لیدر جیکٹ زیب تن کیے ، بیلک ہی جینز کے نیچے براؤن شوز، کالے بالوں کو پونی ٹیل میں مقید کیے ، وہ سرخ و سفید رنگت والی بالکل کوئی نازک سی لڑکی لگی ۔۔ اسکی تھوڑی میں نمودار ہوتے گہرے گھڑے کو مقابل نے بغور دیکھا۔ وہ حسین تھی ، مگر اسکے حسن سے زیادہ ستائش مقابل کی نظروں میں ابھرنے لگی تھی اسکے لئے۔ "
ایچ اے آر کے لب گہری مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔۔ وہ ہمیشہ سے ہی کچھ الگ کی خواہش میں تھا۔۔ مگر یہ اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی الگ تھا ۔"
" کون ہو تم اور اندر کیسے آئی۔۔۔ ؟ اسے بغور جانچتے ایچ اے آر نے قدم اسکے سامنے روکتے مضبوط لہجے میں پوچھا۔۔ اس قدر ٹائٹ سیکورٹی کو چکما دے کر اسکے پرائیویٹ جیٹ کے روم میں آنے والی یقیناً کوئی بہت ہی خاص تھی ۔"
" تمہاری سیکورٹی بہت وِیک ہے مسٹر چھوٹو۔۔۔۔ اور اندر آنے کا راستہ صرف دروازے سے ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ اب کی بار وہ ائبرو اچکاتے بولی کہ ایچ اے آر سچ میں متاثر ہوا اسکے الفاظ اسکا لہجہ ، یقیناً وہ عام نہیں تھی۔"
" بیٹھ سکتے ہو تم بھی۔۔۔۔ " الایہ نے اسکی جگہ سنبھالتے گویا احسان کرتے انداز میں کہا تھا ، ایچ اے آر کے لب مسکرائے وہ سر جھٹکتا اسکے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھا۔۔"
" ایکچوئلی مجھے آج کسی بھی حالت میں پیرس جانا ہے ، مگر کوئی بھی فلائٹ اویلبل نہیں یہ پرائیویٹ جیٹ ملا تھا مگر تمہارے گارڈز نے لفٹ دینے سے انکار کر دیا۔۔ پھر مجھے اس طریقے سے اندر آنا پڑا۔۔"
" اپنے شوز کی زپ کھولتے وہ موبائل نکالتے مصروف انداز میں گویا ہوئئ۔۔ مقابل فضا میں بکھرتی اسکی خوشبو میں گہرا سانس بھرتے مدہوش ہونے لگا تھا جیسے ۔ اسکی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک ابھری تھی ، وہ گہرا مسکرایا۔۔۔ وہ چاہتا تو بآسانی اسے حاصل کر سکتا تھا مگر دل نے اسے بری طرح سے اکسایا ۔ وہ یقینا کسی خاص جگہ پہ قدم جما چکی تھی۔۔ ایچ اے آر نے دل کی آواز پہ لبیک کہا تھا مگر وہ جاننا چاہتا تھا اسکے متعلق مزید۔۔۔"
" اچھا تو کیا تم کسی دوست سے ملنے جا رہی ہو، اسے موبائل میں بزی دیکھ وہ باتوں پہ اکسانے لگا۔۔"
الایہ نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا ۔۔ سچ بتاؤں۔۔۔۔ وہ جھکی تھی اسکی جانب ، ایچ اے آر کو اسکی آنکھوں میں کئی رنگ ، کئی راز جھلکتے دھکے مگر انہیں پڑھ پانا یقیناً ناممکن تھا ._
" مرڈر کرنے جا رہی ہوں۔۔۔۔" الایہ نے اسکی چمکتی آنکھوں میں دیکھتے گہری گھمبیر سرگوشی میں کہا ، ایچ اے آر مسکرائے بنا ناں رہ سکا ۔ تو پھر قتل کرنے کے لئے ہتھیار کی ضرورت ہی نہیں آپ خود ہی کافی ہیں۔۔ "
" ایچ اے آر نے اسکی چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے کہا تھا الایہ مسکرائی گہری مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔۔ اپنی تعریف مجھے بالکل ناپسند ہے مسٹر چھوٹو۔۔۔۔ اب کی بار اسکا لہجہ تیز تلخ تھا۔۔ مقابل نے خود سے چند قدموں کے فاصلے پہ بیٹھی اس نازک پری کو بغور دیکھا ، "
" ویسے اتنا اعتماد کس بات کا مطلب تم ایک جوان خوبصورت لڑکی ہو پھر یوں اکیلے کسی غیر مرد کے ساتھ سفر کرنا تمہیں ڈر نہیں لگ رہا ۔۔ اسکے نین نقوش سے وہ مشرقی حسن کی مورت دکھی تھی وہ جانتا تھا مشرقی عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں۔۔ "
" اپنی خفاظت میں خود کر سکتی ہوں۔ کسی میں اتنی ہمت اور جرت نہیں جو مجھے میری مرضی کے بغیر ٹچ کرے۔۔ وہ سمجھ چکی تھی ایچ اے آر کا یوں کہنا اسے بالکل ناں بھایا تھا۔ وہ کمزور نہیں تھی وہ مضبوط تھی ، نڈر تھا ، ہر مصیبت کو خود سے ہینڈل کر سکتی تھی۔۔"
" اتنا کنفیڈنس۔۔۔۔ وہ متاثر ہوا الایہ اسے دیکھ ہلکا سا مسکرائی۔۔
نہیں اوور کنفیڈنس۔۔ اسنے تصحیح کی۔۔ وہ پھر سے حیران ہوا تھا ۔۔ وہ جتنا اسے سمجھنا چاہ رہا تھا اتنا الجھ رہا تھا۔ اور شاید پہلی بار تھا یہ کہ وہ کس لڑکی سے بے مقصد بات کر رہا تھا ورنہ اسنے صرف لڑکیوں کو یوز کیا تھا ۔۔ مگر اس لڑکی میں کچھ عجیب سی کشش تھی جو ایچ اے آر کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی ۔"
وہ حسن کا پجاری تھا ، اس کالی دنیا میں قدم جماتے ہی اسنے بے تخاشہحسین چہرے دیکھے تھے مگر الایہ میں اسے عجیب سی کشش محسوس ہو رہی تھی ، وہ خود اپنے آپ سے حیران ہو رہا تھا ۔۔ اسنے سر کو حم دیتے اسے کی جانب تیچھی نگاہوں سے دیکھا جو موبائل میں کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔۔"
"تمہارا نام کیا ہے کیا میں جان سکتا ہوں۔۔۔۔ ایچ اے آر نے گہری نظروں سے اسے دیکھ پوچھا۔۔ الایہ نے گردن ترچھی کیے اسے دیکھا ۔
" کیوں تم میرے چاچا کے بیٹے ہو یا پھر تایا کے ۔۔۔۔ "
اسکے سوال میں چھپے طنز پہ وہ گہرا مسکرایا ۔۔ نہیں نہیں ہوں۔۔"
وہ مسکراتے بولا ۔۔
"تو پھر نام جان کر کیا کرو گے۔"
و سر جھٹکتے گویا ہری جھنڈی دکھا گئی تھی اسے۔۔ وہ لب دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔ ڈرنک کی شدت سے طلب کے باوجود وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہ رہا تھا جو سامنے بیٹھی لڑکی کی نظروں میں اسکا امیج خراب کر دے۔۔"
" کیا ہم دوبارہ ملیں گے۔۔ "
بائیں ہاتھ سے داڑھی مسلتے وہ جانے کیوں اس سے ایسی خواہش ظاہر کر رہا تھا جبکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اسے خواہش ہوئی تو وہ آرام سے اسے اپنے پاس لا سکتا تھا مگر وہ اس سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔۔"
" الایہ نے ماتھے پہ بل سجائے لمحے بھر کو وہ گہری سوچ میں ڈوبی موبائل پینٹ کی پاکٹ میں رکھتے وہ پوری طرح سے اسکی جانب گھومی۔۔ "
" سچ بتاؤں ۔۔"
اسنے بے تاثر لہجے میں چہرے پہ بلا کی سنجیدگی سجائے پوچھا۔"
" ہاں میں سچ ہی سننا چاہتا ہوں۔۔ وہ الجھتے ہوئے بولا ۔ اسے یقین تھا جواب ہاں ہی ہو گا۔۔"
"سچ بتاؤں تو مجھے کوئی انٹرست نہیں ہے ناں ہی تم میں اور ناں ہی تم سے دوبارہ ملنے میں ، مسٹر چھوٹو۔۔۔"
" اسنے بے لچک لہجے میں سرخ ہوئے چہرے سے اسے سیدھا ٹکا سا جواب دیا ۔۔
ایچ اے آر کا چہرہ پل بھر کو متغیر ہوا مگر وہ پھر سنبھلا تھا جیسے۔۔ اگر اسے کچھ خاص محسوس ہوا تھا تو یقیناً وہ عام حرکات کیسے کر سکتی تھی۔۔"
" ویل مجھے خوشی ہو گی ، بلکہ سچ کہوں تو مجھے انتظار رہے گا ہماری اگلی ملاقات کا ۔۔۔ "
ایچ اے آر نے گھمبیر شدت بھرے لہجے میں اپنی خواہش ظاہر کی۔.
الایہ نے آنکھیں میچتے خود پہ کنٹرول کیا ۔۔ اگر وہ اس وقت مقابل کے جیٹ میں سوار ناں ہوتی تو ابھی اسکے منہ کو دائیں بائیں سے سجا دیتی ۔ وہ کوئی بچی نہیں تھی صاف سمجھتی تھی اسکا یوں بار بار فورس کرنا، یوں باتیں کرنا ۔"
وہ ویام کو چکما دے کر آئی تھی کیونکہ کل رات ہی اسنے ایچ اے آر کے پرائیویٹ میجینر کا لیپ ٹاپ ہیک کیا تھا جس میں سے اسے انفارمیشن ملی تھی ایچ اے آر کے پیرس جانے کی۔۔ ویام نے اسے وارن کیا تھا کہ وہ اکیلی کہیں ناں جائے ،۔۔۔۔ مگر وہ خود سے اس کیس کو اکیلے ہینڈل کرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر وہ انجان تھی کہ جس کے جیٹ پہ جسکے وہ سفر کر رہی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی ایچ اے آر تھا جس کو پکڑنے کی خاطر وہ پیرس جا رہی تھی۔۔"
💥💥💥💥💥💥
ہائے عیناں ۔۔۔ جانی پہچانی آواز پہ عیناں جو بکس ایک ہاتھ میں تھامے مناسب قدم اٹھائے اپنے کلاس روم کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔ وہ ایک دم سے رکی تھی ۔۔ نظریں اٹھائے اسنے سامنے دیکھا۔۔ صوفیہ کو دیکھ وہ ہلکا سا مسکرائی تو صوفیہ دوڑتے اس تک پہنچی۔۔"
کیسی ہو ۔۔۔۔ " عیناں نے اسے زور سے ہگ کرتے پوچھا تھا کہ وہ مسکرا دی۔۔۔
بالکل ٹھیک ہوں اور تم سناؤ۔۔۔ "
میں بھی ٹھیک ہوں۔۔" عیناں نے مسکراتے اسے بتایا۔۔ وہ اس کی اور میرب کی دوست تھی جو پاکستان سے سٹڈی کیلئے آئی تھی اور میرب سے دوستی ہوئی تو خود بخود ہی عیناں سے بھی اسکی اچھی جان پہچان ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دن چھٹیاں لے کر گئی تھی پاکستان سب سے ملنے اور آج کافی دنوں کے بعد یونی آئی تھی ۔۔"
" میرب کہاں ہے یار۔۔ صوفیہ نے اسے اکیلا دیکھ پوچھا ، ویسے تو وہ دونوں ساتھ ہی ہوتی تھی۔۔"
اسکی طبیعت خراب ہو گئی ہے اج وہ نہیں آئی۔۔ عیناں نے منہ پھولائے کہا۔۔"
" پنک گھٹنوں تک جاتی سکرٹ کے ساتھ میچنگ سکارف لپیٹے وہ گلابی گالوں والی عیناں صوفیہ کو بہت کیوٹ اور پیاری لگتی تھی۔۔ اسے خوشی تھی کہ عیناں اور میرب کی اچھی عادت کی وجہ سے اسکی دوستی ہو گئی تھی دونوں سے۔"
" یار آج مجھے بھی جلدی جانا ہے ۔۔ صوفیہ نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے آگاہ کیا ۔۔ عیناں کا منہ پھول گیا ۔" اسے سچ میں رونا آنے لگا تھا۔۔ وہ اکیلی کم ہی آیا کرتی تھی۔ اسے اچھا نہیں تھا لگتا یونی آنا۔۔۔ کیونکہ اسکے کلاس میٹ کے علاؤہ کچھ سینئرز بھی اسے اکیلا پاتے کافی تنگ کرتے تھے۔۔ اور وجہ میرب کا انکی کلاس کے جونی کو تھپڑ مارنا تھا۔۔"
جسے میرب نے مارا تھا کیونکہ وہ لڑکا کافی دنوں سے عیناں کو تنگ کر رہا تھا۔۔ عیناں نے منع بھی کیا تھا میرب کو مگر تنگ آتے میرب نے سب کے سامنے تھپڑ مارتے ساتھ وارن کیا تھا کہ اگر اب انہوں نے کوئی بھی حرکت کی تو وہ پرنسپل کو شکایت لگائے گی۔۔جسکا ایک فائدہ ہوا تھا کہ وہ لڑکے میرب کے سامنے عیناں کو تنگ نہیں کرتے تھے مگر جب کبھی عیناں اکیلی ملتی تو اسے خوب تنگ کرتے تھے۔۔ آج بھی وہ سر کے ٹیسٹ کی وجہ سے آئی تھی مگر اب اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔ کہیں وہ لڑکے پھر سے ناں اسے تنگ کریں۔۔"
عیناں یار کیا ہوا ۔۔ تم ٹھیک ہو۔۔۔ " اسکے زرد پڑتے چہرے کو دیکھ وہ گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی ۔ عیناں نے تھوک نگلتے ہاں میں سر ہلایا جبکہ بیگ اور بکس پہ گرفت مضبوط کی تھی ۔"
" چلو سر آ گئے ہیں۔۔ روم میں داخل ہوتے پروفیسر گارلک کو دیکھ صوفیہ اسے پکڑتے کلاس کی جانب لے جانے لگی۔۔ جبکہ عیناں نے خوف سے کپکپاتے وجود کے ساتھ آیت الکرسی پڑھتے خود کو حوصلہ دیا۔۔"
ہیے بیوٹیفل گرل۔۔۔ وئیر آر یو گو۔۔۔"
ڈیسک پہ بکھری اپنی بکس اٹھاتے اسکے ہاتھ مسکراتی آواز پہ کپکپائے تھے۔۔ آنکھوں کے سامنے ایک گہرا سایہ سا لہرایا۔ن دھڑکنیں خوف کی زیادتی سے بڑھی۔ب وہ تھوک نگلتے خود کو بہادر کہتے جلدی سے بکس سمیٹتے مڑی تھی۔"
" صوفیہ لیکچر ختم ہوتے ہی چلی گئی تھی۔ جبکہ عیناں نے بمشکل ٹیسٹ دیا تھا۔۔ خود پہ عجیب سی نظریں محسوس کرتی وہ بس جلدی سے اب گھر جانا چاہتی تھی۔ اسکا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔جیسے کچھ ہونے کو تھا۔"
" راستہ چھوڑو پلیز ۔۔۔۔ اپنے راستے میں حائل ہوتے جونی کو سخت آواز میں کہتے وہ دوسری جانب سے گزرنے لگی مگر ایک دم سے اسکے قدم تھم چکے تھے۔ عیناں نے نظریں اٹھائے سامنے دیکھا جہاں جونی کا بڑا بھائی اور ساتھ دو لڑکے اور تھے جو اسے دیکھ قہقہ لگا اٹھے۔۔"
عیناں کے دل میں ایک دم سے خوف سا ابھرا۔۔ دل مانو پسلیوں سے باہر آنے کو تھا ۔ عیناں نے مسلسل سر نفی میں ہلاتے قدم پیچھے کو لیے۔۔"
" ڈونٹ وری بے بی گرل ہم تمہیں زیادہ تکلیف نہیں دیں گے۔ بس تھوڑا سا تنگ کرنا تو بنتا ہے اب تمہاری اس بدتمیز دوست نے اس دن سب کے سامنے مجھے مارا تھا۔تو کیا تمہیں ایسے ہی جانے دوں ۔۔"
جونی اسکی آنکھوں سے بہتے موتیوں کے مانند آنسوں کو دیکھ نرمی سے پچکارنے لگا۔ اسے پہلے دن سے ہی عیناں پسند تھی۔وہ گرل فرینڈ بنانا چاہتا تھا اسے۔۔ اور ابھی بھی اسکا ارادہ مخض اسے ڈرانے کا تھا تاکہ وہ اسکے ڈر سے میرب کو چھوڑ کر جونی کو دوست بنا لے۔ پھر بعد میں وہ میرب سے بدلہ لینے کا پلان بنانا چاہتا تھا۔"
" یار پلیز رو مت۔۔ وائے آر یو کرائنگ۔۔ اسنے آگے بڑھتے عیناں کے آنسوں صاف کرنے چاہے تھے ، مگر عیناں نے غصے ، نفرت سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔۔"
" وہ کمزور نہیں تھا ناں ہی ڈرپوک ۔۔۔ بس ایک خوف سا رہتا تھا اس کے دل میں وہ لوگوں کا مقابلہ نہیں کر پاتی تھی۔ کرتی بھی کیوں۔۔ کہاں اسے کسی سے مقابلے کی ضرورت درکار ہوئی تھی۔ اسے تو بچپن سے اسکا ساتھ ملا تھا۔ جس نے راتوں کو جاگ کر عیناں کے ہر خوف کو خود میں سمیٹا تھا۔۔ اسنے شدت سے اس ستمگر کو یاد کیا تھا ۔جو جانے کیوں اس سے دور چلا گیا تھا ."
" ہاتھ مت لگاؤ مجھے ۔۔ گھٹیا انسان میں ڈرتی نہیں تم سے۔۔۔ خبردار جو مجھے ہاتھ لگایا میرے پاپا اور بھائی چھوڑیں گے نہیں تمہیں۔۔"
کیسی بے بسی تھی ۔ ایک وقت تھا جب وہ بنا کہے اسکی تکلیف محسوس کیے آ جاتا تھا۔۔ عیناں نے ویام کی بجائے اپنے مضبوط سہاروں کا نام لیتے مقابل کو ڈرایا ۔۔ جو پہلے تو اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا مگر پھر وہ چاروں قہقہ لگا اٹھے ۔ کلاس روم کے بند دروازے سے ٹکراتے انکی آواز نے مزید ماحول کو خوفناک بنا دیا تھا۔۔"
" یار جونی قسم سے یہ بہت بیوٹیفل ہے۔۔ لک ایٹ ہر آئز (اس کی آنکھوں میں دیکھو)..
لوکی نے خوف سے آنسوں صاف کرتی عیناں کی کرسٹل گرے آنکھوں میں جھانکتے کہا تھا۔ جونی نے نظر اٹھائے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا ۔"
" ڈونٹ سے دِز برو یہ میری صرف میری بے بی گرل ہے۔۔"
جونی نے غصے سے آتش فشاں ہوتے مٹھیاں بھینچتے لوکی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ لوکی حیران سا رہ گیا اسکی آنکھوں میں جلتی جنون کی آگ کو دیکھ کر۔۔"
" بے بی گرل۔۔ سِی آئی لو یو۔۔۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔ آج سے نہیں بلکہ ایک سال سے جب سے تم اس یونی میں آئی ہو۔۔۔۔ یو نو وٹ تمہاری یہ آنکھیں، یہ بیوٹیفل چکس، یہ بیوٹیفل لپس ، یور نوز ایوری تھنگ از پرفیکٹ اینڈ بیوٹیفل۔۔۔ تمہاری مسکراہٹ نے مجھے تمہاری جانب راغب کیا تھا۔ مگر اس میرب نے اچھا نہیں کیا مجھے سب کے سامنے تھپڑ مار کے۔۔ تم خود ہی بتاؤ میں نے کچھ غلط کیا۔۔۔"
وہ جنونی سے انداز میں کہتا آگے بڑھا کہ عیناں نے سہمتے قدم پیچھے لیے وہ ایک دم سے دیوار سے جا لگی۔۔ ڈر سے پورا وجود لرز رہا تھا، اسنے مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں سکارف کو جکڑتے مٹیھاں بند کیں تھیں۔ لوکی اور اسکے دوست منہ بنائے ڈیسک پہ بیٹھے تھے۔"
انہیں لگا تھا شاید جونی انہیں بھی ساتھ میں شامل کرے مگر وہ تو شاید پورا پاگل ہو چکا تھا۔.
" جونی پلیز مجھے جانے دو آئی ریکویسٹ یو۔۔۔۔"
عیناں نے اپنے بازوؤں سے اپنی آنکھوں کو رگڑا تھا۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔ وہ بس بھاگ جانا چاہتی تھی ان سب سے دور جہاں کوئی بھی ناں ہو وہ اپنی موم کے پاس جانا چاہتی تھی ۔ اسنے امید بھری نگاہوں سے جونی کو دیکھا ۔"
" میں خود تمہیں تمہارے گھر چھوڑو دوں گا ۔۔ تم کہو کرو گی مجھ سے محبت۔۔ وہ سنتا صلح جو انداز اپناتے ہوئے بولا تھا۔۔ عیناں نے بری طرح سے لب کچلتے ویام کو دل سے یاد کیا۔۔ اسنے سنا تھا کہ جونی دماغ سے گھوما ہوا تھا مگر اسکی حرکتوں سے اسے پورا یقین ہو چلا تھا کہ یہ سچ تھا۔"
" پلیز بے بی گرل۔۔۔ جونی نے آگے ہوتے اسکے ہاتھ کو تھاما عیناں نے فورا سے اسکے ہاتھ کو خود سے دور جھٹکا تھا۔ جونی حیران ہوا اسکے انداز پہ۔۔"
جانے دو مجھے ورنہ ویام نہیں چھوڑے گا تم کو۔ ۔۔۔ جانے کیسے اس میں اس قدر ہمت در آئی تھی کہ وہ اپنی جانب بڑھتے جونی کو پیچھے کی جانب دھکہ دیتے ہوئے چلا اٹھی۔۔"
جونی لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ہوا تھا لوکی فورا سے اٹھا اور اسکے پاس پہنچا۔۔"
" کون ہے یہ ویام ۔۔۔ انزِک کو وہ جانتا تھا عیناں اسی کے ساتھ آتی تھی یونی مگر ویام کا نام اسنے پہلی بار اسکے منہ سے سنا تھا۔۔ طیش سے مٹھیاں بھینچتے وہ غصے سے بولا۔۔"
" میرے ہزبینڈ ہیں ۔۔ سنا تم نے ،، اب جانے دو مجھے اس سے پہلے کہ وہ خود آ جائے۔ وہ کہتی فورا سے باہر کی جانب لپکی تھی کہ جونی نے پیچھے سے اسکے اسکارف کو تھاما۔۔ عیناں کا سانس سینے میں اٹک گیا تھا مانو۔۔ آنسوں متواتر لڑی کی صورت میں بہتے جا رہے تھے۔۔ اپنے بے آبرو ہونے کے خوف سے پہلے ہی اس نے رب سے اپنی موت کی دعا مانگتے آنکھیں میچیں۔۔۔"
💥💥💥💥💥💥
" اپنی محسوس رفتار میں ہوا سے باتیں کرتی بائیک گیٹ کے بیچ و بیچ رکی تھی ، کہ اچانک سے ٹرن ہوتی گاڑی کے پہیوں کی چرچراہٹ نے پہلے سے پررونق فضا میں ایک دم سے خاموشی طاری کی ،۔۔۔۔ "
سب نے مڑتے گیٹ کے بیچ میں کھڑی اسی پرانے ڈیزائن کی مگر نئی ہیوی بائیک کو منہ کھولے آنکھوں میں حیرت و بے یقینی لیے دیکھا تھا، اسے پہچانتے ہی کئیوں نے مدہم سی سرگوشیاں کرتے اسے اچانک سے وہاں پاتے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ مگر وہ مغرور سا شخص بنا کسی کی حیرت کو نوٹ کیے ، ایک دم سے اترتے اپنے بائیں ہاتھ میں تھامی چابی کو گھماتے ، ایک ہاتھ اپر کی جیب میں ڈالتا اپنی محسوس پروقار مگر تیز رفتار میں چلتا آگے بڑھا تھا، ۔۔۔
" بھوری سحر طاری کرتی آنکھوں میں چھائے سرد پن ، بے نیاز سی مغرور چال چلتا وہ اپنے بھورے ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتا آگے بڑھا تھا، اسکی شاہانہ چال ، پروقار سحر طاری کرتی شخصیت کو دیکھ وہاں موجود کئیوں نے دل پر ہاتھ رکھے اس مغرور کو خود سے دور جاتے دیکھ سرد آہ کھینچی۔۔۔۔"
مگر وہ سب جانتے بھی ان سب سے انجان بنتا ، آگے بڑھا تھا۔۔۔ اتنے سالوں کے بعد اسے اپنے روبرو دیکھنے کی حسرت ، اسکے عشق میں راتیں پاگلوں کی طرح جاگتے وہ اس عشق سے الفت کر بیٹھا تھا ، کہاں تھا اسکے قابو میں اپنی بےترتیب دھڑکتی دھڑکنوں کو قابو کرنا ، مگر وہ جانتا تھا کہ کچھ لمحوں بعد ہی وہ اسے خود اپنے روبرو دیکھ پائے گا ، جسکے ہونے کا احساس اتنی دور سے اسکی دھڑکنیں منتشر کرتا تھا۔۔۔
ایک دم سے محسوس کمرے کے سامنے رکتے وہ اپنے بھاری سفید بوٹوں کو ایک نظر دیکھتے ، بائیں ہاتھ سے زرا سا دروازہ کھولنے لگا ، اندر سے بند دروازے کو محسوس کرتے اسکے سرخ و سفید ماتھے پہ جانے کتنے بل نمودار ہوئے تھے ، کہ وہ ایک سیکنڈ ضائع کیے بنا زرا سا پیچھے ہوتے پوری قوت لگاتے دروازے پر وار کرنے لگا کہ وہ کھلتا چلا گیا۔۔۔۔
" سرخ ہوتی اپنی سرد تاثرات سے لبریز بھوری آنکھوں کو گھماتے وہ ایک نظر باہر دیکھتے اندر داخل ہوا تھا مگر اچانک سے اسکی دبی دبی سی ہوا میں ساز چھیڑتی میٹھی خوبصورت مگر درد سے نکلتی آواز کو سنتے وہ ایک دم سے اندر بڑھا تھا کہ سامنے ہی ایک دم سے سر پر موجود خجاب کے بے دردی سے کھینچنے پر وہ نازک سی جان جھولتے پیچھے کو گرنے لگی کہ معاً وہ ایک دم سے آگے بڑھتے اسے خود میں بھینجتے سب کی نظروں سے اوجھل کر گیا کہ اچانک سے کسی کی مداخلت پر وہ سب ایک دم سے بدمزہ ہوتے اپنے اور اس لڑکی کے بیچ حائل اسکی پشت کو دیکھ حیرت زدہ سے ہوئے تھے ، جس نے آتے ہی اسے سب سے اوجھل کرتے اپنی بانہوں میں چھپا لیا تھا ، "
" اتنی لیٹ آئے تم۔۔۔" اسکے سینے میں چھپتی آنسوں بہاتے وہ شکوہ کرتی اپنی ناک اسکی اپر سے رگڑنے لگی کہ اسکے انداز کو محسوس کرتے ، اور اتنے سالوں بعد بھی بنا دیکھے خود کو پہچان لینے پر اسکے چہرے پر ایک جان لیوا مسکراہٹ بکھری۔۔۔"
" کم مائی لِٹل پرنسز ....." زرا سا جھکتے وہ اسکے سر پر بوسہ دیتے بولا اور بنا ایک نظر پیچھے دیکھے وہ ایسے ہی اسے خود میں چھپائے محسوس انداز میں چلتا روم سے نکلتے ہی اسے باہر سے لاک کر گیا ۔۔ اور چلتے ساتھ کے روم میں داخل ہوا۔۔۔۔۔"
" اشششش۔۔۔۔ ڈونٹ کرائی ادر وائز اینی ون پے فار دِز۔۔۔۔ بنا اسکے چہرے کو غور سے دیکھے وہ اٹھاتے اسے بینچ پر بٹھاتے اسکی آنسوں سے بھری کرسٹل گرے بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھتے وہ سرد لہجے میں بولا کہ اتنے سالوں بعد بھی اسکے اسی جنونی انداز پر وہ چونکتے سر اٹھاتے اسکی جانب دیکھنے لگی جو مسکراتے اسکے دیکھنے پر ہاتھ اسکی گردن میں لپیٹتے اس کے چہرے پر جھکا تھا اور اتنی ہی محبت اور عقیدت سے اسکے آنسوں کو اپنے بے تاب ہونٹوں سے چنتے وہ مسکراتے پیچھے ہوا۔۔۔۔۔"
" بات نہیں کرو گی مجھ سے۔۔۔ اسے نظریں چراتا دیکھ وہ ہاتھ سے اسکے بکھرے سنہری ریشمی بالوں کو سلجھاتے محبت سے بولا تھا ۔۔۔
کہ وہ سنتی فوراً سے اپنے ہونٹ دباتے سر کو نفی میں ہِلا گئی۔۔ "
وہ جو اپنی بے تاب نگاہوں سے اسکے چہرے کا طواف کرنے میں مگن تھا اچانک سے اسکے نفی میں ہلاتے سر کو دیکھتے حیران سا پوچھ ںیٹھا۔۔
" کیوں بات نہیں کرنی۔۔وہ پوچھتے اپنی اپر اتارنے لگا۔۔۔۔"
" مم میں نن ناراض ہوں، اپنی تیکھی چھوٹی سی ناک کو چڑھاتے وہ بمشکل سے بولی تھی اتنے سالوں کے بعد اسے سامنے پاتے وہ پہلی بار لرزتے لڑکھڑائی تھی ۔۔"
" کیا جان سکتا ہوں ، کہ آخر ایسی کیا غلطی ہو گئی اس ناچیز سے جو میری جان ناراض ہے۔۔۔ اسکے دائیں ہاتھ کو تھامتے وہ اپنی اپر اسکے ہاتھ میں ڈالتے بولا کہ وہ گڑبڑائی اسکی حرکت پر۔۔۔۔
مم میں پپپ پہن لوں گی۔ نظریں جھکائے وہ لرزتی پلکوں سے بمشکل سے اسکے ہاتھ کو تھامتے بولی کہ وہ حیران ہوتے اسکی لرزتی گھنی خمدار پلکوں کو دیکھنے لگا۔۔"
" کیوں ، مجھے پہناتے کیا ہوتا ہے۔۔۔؟" اسے برا لگا تھا پہلے بھی تو وہ ہی اسے اکثر پہناتا تھا اسکا خیال بھی تو رکھتا تھا تو کیا ان چار سالوں میں سب بدل گیا تھا ، سوچتے ہی اسکی دل و دماغ میں ہلچل سی برپا ہوئی ۔۔۔ وہ گہری نظروں سے اپنے سامنے بیٹھی اس کانچ کی سی گڑیا کو دیکھنے لگا ،۔۔۔ جسکے الفاظ اسکے دل پہ کاری وار کر چکے تھے۔۔۔۔"
" مم مما نے بولا ہے کہ اب میں بب بڑی ہو گئی ہوں۔۔ اپنی مما کی سمجھائی بات وہ ہمیشہ کی طرح اسی سے شئیر کرتے اپنے بائیں ہاتھ سے چہرے پہ آتے بالوں کو پیچھے کرتے بولی۔۔۔"
" وہ سنتے ایک دم سے مسکرایا تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ آخر وہ کیا سمجھا رہی تھی اسے۔۔۔ وہ سر جھٹکتے گہرا مسکرایا۔۔۔۔
" اور تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔ اسکے ہاتھ کو تھامتے اپنے لبوں سے لگاتے وہ محبت سے بولا اور بنا پرواہ کیے اسے دوبارہ سے اوپر پہنانے لگا ۔ کہ وہ سنتی ایک دم سے نظریں اٹھاتے اسی کو دیکھنے لگی جسکے گالوں میں پڑتے ڈمپل کو دیکھتے ہمیشہ کی طرح اسکے دل میں گدگدی سے ہونے لگی۔۔۔"
" ٹچ کر لو ۔۔۔ تمہارے ہی ہیں ۔ اسے مبہوت سا اپنے ڈمپل کی جانب متوجہ پاتے وہ مسکراتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا کہ وہ سٹپٹا گئی۔۔ کک کر لوں۔۔۔۔ اپنی کرسٹل گرے انکھوں کو پھیلائے وہ منہ کھولے بولی کہ وہ سنتا اسکی آنکھوں کو چومتے سر کو ہاں میں ہلا گیا ۔ جبکہ وہ اپنے لرزتے ہاتھ کی شہادت والی انگلی بڑھاتے اسکے گال پر دائیں جانب ابھرتے ڈمپل پر رکھتے اسے اپنے ہاتھ کے نیچے محسوس کرتی کھلکھلا اٹھی۔۔۔"
" کہ اسکی پرسوز میٹھی آواز کو سنتے وہ دل سے مسکراتے اسے خود میں بھینجتے سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔ مگر اسکے اندر ایک خلفشار سا چل رہا تھا ، یہ سوچتے ہی کہ اسکے پیچھے سے اسکی غیر موجودگی میں جانے کس کس نے اور کیسے اسکی پرنسز کو اس سے دور کیا تھا، وہ ہچکچا رہی تھی اپنے ویام سے ، اور یہ بھلا ویام کاظمی کیسے برداشت کرتا۔۔۔۔"
" تم ویٹ کرو میرا میں آتا ہوں پانچ منٹ میں۔۔۔ " اس سے الگ ہوتے وہ ہڈ اسکے سر پر ڈالتے محبت سے اسکی پیشانی چومتے بولا ۔۔۔'
کک کہاں جا رہے ہو، " اسے پھر سے خود سے دور جاتا دیکھ وہ تڑپتے اسکے ہاتھ کو تھامتے اسے روک گئی۔۔ حجاب لے آؤں اپنی پرنسز کا۔۔ اسکے ڈر کو محسوس کرتے وہ سرد آہ خارج کرتے مسکراتے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے اسے سمجھاتے بولا ۔۔ کہ وہ سر ہلا گئی۔۔۔۔"
" جبکہ وہ مسکراتے ہمیشہ کی طرح اسکی بات ماننے کے انداز پر دھڑکتے دل سے وہاں سے نکلا تھا اور باہر نکلتے ہی وہ دروازے کو لاک کرتے ساتھ والے روم کا دروازہ جسے وہ خود لاک کر گیا تھا اسے کھولتے وہ بڑھتے اندر داخل ہوتے کمرے کو اندر سے لاک کر گیا۔ کہ اندر موجود ان پانچوں لڑکے نے ، اسے دوبارہ سے اندر آتے اپنے سامنے دیکھ وہ گھبراتے پیچھے ہوئے تھے۔۔۔ وی کے۔۔۔۔" ان میں سے ایک اُسے پہچانتے بمشکل سے زرد پڑتی رنگت سے بولا ۔۔۔
جبکہ مقابل کے چہرے پر ایک گہری پراسرار سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔۔"
تم میں سے کس نے اسے ٹچ کیا تھا ۔۔ دروازہ اندر سے لاک کیے وہ سامنے کھڑے ان سے مخاطب ہوا تھا۔۔ بھوری آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی سی تھی۔۔ لوکی نے خلق کو تر کیا۔۔ وہ جانتا تھا وی کے کو۔۔
وہ کافی مشہور رہا تھا یونی میں۔ اپنی سنجیدہ نیچر اور کم گو طبیعت ک مالک وی کے یونی کا ٹاپر ہوا کرتا تھا۔ جس نے بارہا کئی لڑکوں کو بری طرح سے پیٹا تھا
۔ جو ایسے ہی لڑکیوں کو تنگ کرتے تھے۔ اسکے جانے کے بعد میں آج تک یونی میں اسکا نام کافی لیا جاتا تھا۔۔ "
" کون ہو تم۔۔۔؟ جونی نے غصے سے ویام کو دیکھتے پوچھا تھا۔ اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا وہ کیسے اسکی بے بی گرل کو اپنے سینے سے لگائے لے جا چکا تھا۔۔ اسکا بس نہیں تھا کہ وہ عیناں کو واپس لے آئے اپنے پاس۔۔۔'
" میری چھوڑو یہ بتا توں کون ہے۔۔ ویام نے قدموں کا رخ آگے کی جانب بڑھایا جہاں وہ ان سب سے پیچھے کھڑا تھا۔۔ عیناں کا پنک اسکارف اسکے پاوں میں یوں پڑا دیکھ ویام کی دماغ کی نسیں پل بھر میں ابھری تھیں۔۔چہرہ غصے کی شدت سے دہکنے لگا تھا۔"
" میں جونی ہوں یہاں کے چیف اسسٹنٹ کا چھوٹا بیٹا۔۔جونی نے ہاتھ اپنی بلیو گھٹنوں تک فولڈ جینز کی پاکٹ میں ڈالے مسکراتی کانچ آنکھوں سے ویام کو دیکھا۔۔ جس کے چہرے کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں کی سنجیدگی کو دیکھ جونی ایک دم سے گڑبڑا اٹھا تھا۔۔ جب ویام کے بڑھتے قدم اسکی جانب بڑھے تھے جونی کے قدم خودبخود ہی پیچھے کی جانب ہوئے۔۔"
اسنے جھٹکے سے اپنے بائیں ہاتھ کو آگے بڑھایا تھا۔۔اور ایک دم سے اسکی گردن کو دبوچتے وہ پھولتی رگوں تنے اعصاب کے ساتھ اسے ہوا میں بلند کر گیا۔۔ جونی کا سفید چہرہ سانس رکنے سے سرخ ہونے لگا تھا۔ اسنے پاؤں جھکائے خود کو چھڑوانے کی کوششیں شروع کردیں ۔جو کہ ناممکن تھا ۔ جبکہ لوکی اپنے بھائی کی حالت پہ تڑپ اٹھا۔اسنے بنا سوچے سمجھے آگے بڑھتے پیچھے سے اسپہ حملہ کرنا چاہا تھا۔
ویام نے جھٹکے سے اسکے پیٹ پہ وار کیا وہ درد سے کراہتا پیٹ پکڑتے زمین پہ بلبلا اٹھا تھا۔ جبکہ مقابل کھڑے وہ دونوں لڑکے باہر بھاگنے لگے۔۔ مگر ایک دم سے مسکراتے کرپس اندر داخل ہوا۔۔"
" کہاں جا رہے ہو دونوں ۔۔۔۔ اسنے کالر سے دبوچتے ان دونوں کو اپنی جانب کھینچا تھا۔۔ وہ دونوں گڑگڑاتے معافی مانگنے لگے ۔۔"
" لے جاؤ ان سب کو ۔۔ میری اجازت کے بغیر انہیں موت بھی میسّر ناں ہو پائے کرپس۔۔۔ یہ تمہاری زمہ داری ہے یاد رکھنا۔۔ اسنے فضا میں لہراتے جونی کو دور اچھالا تھا جس کا سر بری طرح سے ڈیسک سے پٹکھا ایک خون کی لکیر اسکے ماتھے سے نکلتے آنکھ کی جانب سے رسنے لگی۔۔ لوکی نے درد سے بھری نظروں سے اپنے بھائی کے بےہوش ہوتے وجود کو دیکھا۔۔"
💥💥💥💥💥💥
" ڈونٹ وری عین ایم ہئیر ریلکس بے بی۔۔۔۔ کرپس کو حکم دیتے وہ اسکارف اپنے ہاتھ میں تھامے دوبارہ سے اسی کمرے میں آیا تھا۔۔جہاں وہ پہلے کی پوزیشن میں بیٹھی آنسوں بہانے کا شغل فرما رہی تھی۔۔ وہ دھیمے قدموں سے فاصلے مٹاتے اس تک پہنچا تھا۔ "
" اسکا اپنا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔ اپنی زندگی کو اس حالت میں دیکھتے اس نے لب بھینجتے اسکے سر کو سینے سے لگایا۔۔ "
" ویام مم میں ن نے کتنا یاد کیا تم اتنی دیر سے کیوں آئے۔۔ وہ روتی اسکے گرد اپنے ہاتھوں کا حصار بناتے اسکے سینے سے لگتے شکوے شکایات کرنے لگی۔"
ویام اپنے سینے سے لگے اس نازک وجود کے لمس پہ پل بھر کو سن سا رہ گیا۔مگر پھر اسکی خؤشبو میں گہرہ سانس لیتے اسنے محبت سے اسکے سر پہ بوسہ دیا۔۔"
آ گیا ہوں جان ڈوٹ وری کسی کی اتنی جرت نہیں جو میری عین کو ہرٹ کر سکے۔۔ اسنے اپنی پچپن کی کئی بار کہی بات دہرائی ۔ عیناں کے گال مسکراتے گلابی ہونے لگے تھے۔۔ اب وہ آ گیا تھا کیسا ڈر کیسا خوف۔۔۔"
چلو...." ویام نے نرمی سے اسے ساتھ لگاتے ہڈ سر پہ اوڑھایا۔ عیناں سٹپٹا گئی جب اچانک ہی ویام نے اسے جھٹکے سے گود میں اٹھایا تھا۔۔ وہ ویام ویام کرتی رہ گئی جبکہ مقابل ایک ہاتھ میں اسکے اسکارف کو لپیٹے اسکے ناک تک ہڈ کو برابر کیے ، جس طرح سے آیا تھا ایسے ہی شاہانہ چال چلتا وہ سیڑھیاں اترتے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔"
" کئی لڑکیاں مبہوت سی اسکی گود میں اٹھائی اس انجان لڑکی کی قسمت پہ رشک کرتی رہ گئی ۔ جبکہ وہ صدا کا بے نیاز اپنی متاعِ جاں کو خود میں بھینجتے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔ اور نرمی سے دروازہ کھولتے اسنے فرنٹ سیٹ پہ اسے احتیاط سے بٹھایا جیسے وہ کانچ کی گڑیا ہو جسکے ٹوٹنے کا اسے ڈر تھا۔"
" ڈور بند کیے وہ پلٹا سامنے ہی اسکا ڈرائیور ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔۔ اسنے ایک نوٹ اور ساتھ میں بائیک کی چابی ڈرائیور کو تھمائی۔۔ مسٹر کاظمی کو میرا میسج دینا ، کہ یہ بائیک وہ خود آ کر لے جائیں گے یہاں سے اور یہ لیٹر صرف مسٹر کاظمی کے ہاتھ میں تھمانا۔۔۔ اسکے خوبصورت مغرور چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔۔ ڈرائیور جو تین سال سے اسکی گاڑی کی دیکھ بھال کر رہا تھا اسکے نہایت ادب سے سر کو حم دیتے یس سر کہا اور ایک جانب ہاتھ باندھے اسے گزرنے کا راستہ دیا۔ ویام سر ہلاتے دوبارہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔
ووو ویام ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔؟"
اسکی حیرانگی سمیٹی آواز مقابل کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔ عنابی لبوں پہ ایک دلفریب سی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔ جبکہ اسکے گال پہ نمودار ہوتے ڈمپل کو دیکھتی وہ فٹ سے ناک سکوڑتے انگلی منہ میں ڈال گئی۔۔"
" مجھے گگ گھر جانا ہے۔۔۔ انجان راستوں کو دیکھ عیناں کی جان خشک ہونے لگی تھی۔۔ اسنے اپنی گرے آنکھوں میں معصومیت سموئے مقابل کے ہاتھ کو دیدہ دلیری سے تھامتے کہا تھا۔۔ جو ایبرو اچکاتے ہلکا سا ہنسا۔۔"
مطلب کچھ بھی۔۔۔'"
عیناں کا دل چاہا کہ ابھی اسکا کچھ کر دے جس نے منہ میں ایلفی ڈالی تھی شاید۔۔۔"
" ویام مجھے ماما کے پاس جانا ہے۔۔۔ ابکی بار اسکی غصے سے جھنجھلائی ہوئی آواز میں حکم کے تاثر کو نوٹ کرتے مقابل کے دل پہ ٹھنڈی بوچھاڑ ہوئی۔۔اسے ایسی ہی تو چاہیے تھی اپنی عین ۔۔ غصہ کرتی ، لڑتی جھگڑتی۔۔ خود پہ حکم چلاتی۔۔"
جان ماما کو چھوڑو۔۔۔ اب شوہر کا سوچو ۔۔۔۔ ویام نے اسے پچکارتے اسکے پھولے گال کو کھینچا تھا۔۔"
" جو نظریں آگے پیچھے گھمائے اسے اگنور کرنے لگی۔۔"
یہ دو دن صرف میرے ہیں عین۔۔ ان دو دنوں میں تمہاری زبان پہ ویام کے علاؤہ کسی کا بھی ذِکر ناں آئے۔۔۔"
ویام نے مسکراتے اپنی ہڈ میں دمکتے اسکے پرنور چہرے کو دیکھ کہا تھا۔۔ جبکہ عیناں اسکے نئے شوشے پہ دھنگ رہ گئی۔۔
کہاں وہ اسکی نظروں سے گھبراتی تھی اور کہاں وہ پورے دو دن اسے سب سے دور لے جا رہا تھا۔ ہاں رشتہ بدل چکا تھا دونوں کا،،،، بچپن کا دوست اب شوہر کے روپ میں تھا۔۔ماں کی سیکھائی ساری نصیحتیں پل بھر میں اسکے ننھے سے دماغ سے اڑی تھی۔۔"
ڈونٹ وری عین ان دو دنوں میں مجھے میری پہلی والی عین مل جائے گی اور یہ ویام کاظمی کا خود سے وعدہ ہے۔ ۔ مقابل کی سرخ ہوئی بھوری آنکھوں میں مقابل بیٹھے نازک وجود کے لیے محبت ، چاہت کا ایک الگ سا جہاں آباد تھا۔۔ اسنے مسکراتے خود سے رخ موڑے بیٹھی اپنی متاعِ جاں کو دیکھ دل میں سوچا...
عیناں نے رخ موڑتے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔۔ ویام اسکی ایک ایک حرکت کو گہری نظروں سے آبزرو کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا سفر کے دوران میڈم جلد سو جایا کرتی تھی۔ اسے یقین تھا اب بھی ناراضگی بھول وہ نیند کے مزے لوٹنے والی تھی۔ اسنے گاڑی کا ٹمپریچر بڑھاتے ساتھ ہی سپیڈ تیز کی تھی۔ وہ رات سے پہلے اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔
مسلسل ڈرائیونگ کے دوران بھی اسکی نظر بار بار اس لاپرواہ وجود پہ ٹہر رہی تھی۔ اسے تیز تیز گہرے سانس بھرتے دیکھ وہ سمجھ گیا کہ وہ نیند میں ہے۔ مسکراتے سر کو نفی میں جھٹکتے اسنے بٹن پریس کیا تھا عیناں کی سیٹ ایک دم سے جگہ سے ہلی اور تقریباً ویام کی جانب گھومی تھی۔ عیناں کا سر خود بخود ڈھلکتے مقابل کی گردن پہ آیا۔ وہ مسکرا دیا۔ اسکی نرم گرم سانسوں کی تیز اور مدہم بم اپنی گردن پہ محسوس کرتے مقابل کے دل میں جذبات کا طوفان مچلنے لگا تھا ۔ مگر وہ کمال ضبط سے بنا اسے ڈسٹرب کیے ڈرائیونگ کی جانب متوجہ تھا ۔"
جونی کی کہی باتیں ابھی تک اسکے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔ بھوری آنکھوں میں غصے اور اشتعال کے تاثرات واضع تھے۔ کوئی کیسے اسکی عین پہ اپنا حق جتا سکتا تھا۔ اسکا بس نہیں تھا کہ وہ ابھی اسے دردناک موت مارتا ۔ مگر اس سے پہلے اسے عین کو بہت کچھ باور کروانا تھا۔ اسے شدید غصہ آیا تھا اس وقت جب وہ جونی کو اپنے بھائی اور باپ سے ڈرا رہی تھی۔ کیا اسے ویام کے علاؤہ کسی اور کا نام لینے کی ضرورت تھی۔ ان سب باتوں کا بدلہ تو وہ اپنے انداز میں لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔"
اسنے ایک نظر اپنی گردن میں چھپے عیناں کے سر کو محبت پاش نظروں سے دیکھا ۔ اور موبائل نکالتے اسی انداز میں ایک پیاری سے سیلفی لی تھی ۔ اور وٹس ایپ کھولتے الایہ کو شئیر کی اور ساتھ میں ہارٹ شیپ ایموجیز لگاتے بڑے حروف میں واضخ طور پر لکھا۔
Honeymoon with Jan."
ایسا کرتے خوشی اسکے انگ انگ سے واضع تھی۔۔ الایہ سمجھ رہی تھی کہ وہ مقابل کو چکمہ دے کر گئی تھی جبکہ سچ تو یہ تھا کہ ویام نے اسے خود جانے دیا تھا تاکہ وہ اسکا اور عین کا پلان خراب ناں کر سکے۔۔ بھوری آنکھوں میں کمال کی چمک تھی۔ گالوں پہ ابھرتے ڈمپل مبہوت کر دینے کی قابلیت رکھتے تھے۔ مگر یہ مسکراہٹ صرف عین کے لئے تھی۔ ورنہ اسے مسکراتا بہت کم دیکھا تھا سب نے۔۔'
مقررہ مقام پہ پہنچتے اسنے گاڑی زور دار جھٹکے سے روکی تھی۔ عیناں ہڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔۔ گرے آنکھیں نیند کے خمار سے سرخ ہو رہی تھی۔ اسنے ایک نظر ویام کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے سب کچھ لہرایا ۔ اسنے سہمتے ویام کو دیکھا جو موبائل پاکٹ میں رکھتے گاڑی سے باہر نکلا تھا۔ عیناں کی نظریں اسی پہ تھیں جو اب اسکی سمت آیا تھا ڈور کھولتے اسنے بنا کچھ کہے عیناں کو نرمی سے گود میں بھرا ۔ عینان کی آنکھیں ابل پڑی تھیں۔ وہ واقعی سچ میں اسے کہیں دور لے آیا تھا مگر وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر یہ جگہ کونسی تھی۔ ویام جانے اسے کہاں لے آیا تھا۔
ویام پلیز میں خود چلتی ہوں ۔۔۔۔" وہ ہلکا سا منمناتے ہوئے بولی تھی۔۔ پہلی بار وہ اسے اس قدر غصے میں دیکھ رہی تھی۔۔ برف سے ڈھکی ان سیڑھیوں پہ وہ سنبھلتے مضبوط قدموں سے اوپر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ جبکہ عیناں نے اسکی گردن کی نیلی رگوں کو یوں ابھرتے دیکھ تھوک نگلتے خلق کو تر کیا تھا جیسے۔۔۔۔"
" اتنے سالوں بعد ایک نئے رشتے میں یوں اسکا اپنی سانسوں سے بھی زیادہ قریب آنا ۔۔ عیناں کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگی تھی۔۔"
" سنہری سورج کی کرنوں کی مانند دکھتے بالوں کی آدھی زلفیں اسکے خوبصورت چہرے پہ بکھری ہوئی تھی۔ جبکہ وہ اسکی مضبوط گرفت پہ کسمساتے ہوئے رہ گئی۔۔'
" وہ بنا کچھ بولے ڈور کو پاؤں سے کھولتے اندر روم میں داخل ہوا تھا۔۔ یخ بستہ ٹھنڈ کی وجہ سے دونوں کے منہ سے دھواں نکل رہا تھا ۔"
ویام مکمل خاموش تھا۔ اسکی خاموشی جانے کیوں عیناں کے ننھے دل کو بری طرح سے ڈرا رہی تھی۔۔ اسنے ذرا سی آنکھیں اٹھائے مقابل کو دیکھنا چاہا تھا مگر پھر خود ہی ڈرتے اسکے کالر کو جکڑے وہ آنکھیں میچ گئی۔۔"
ویام ییی یہ سس سب کیا۔۔۔"
واشروم میں داخل ہوتے ہی ویام نے اسے کھڑا کیا تھا اور۔ ہاتھ سے اپنی پہنایا ہڈ اتارتے ایک جانب اچھالا۔عیناں حیرت زدہ سی اسے تاثرات کو سمجھنے کی سعی میں بری طرح سے گھبرا اٹھی۔"
" اششششش۔۔ " ہاتھ بڑھائے اسنے شاور آن کیا تھا اور انگلی عیناں کے ہونٹوں پہ رکھتے اسے خاموش کروا گیا۔۔ مقابل کی حددرجہ سرخ ہوتی بھوری آنکھوں میں دیکھ وہ گھبرا اٹھی۔ زبان تالو سے چپک چکی تھی۔۔ وہ بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔جس کا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل تھا تو دوسرا اسکے چہرے کے نقوش پہ استحقانہ گردش کر رہا تھا۔۔ برف کی مانند ٹھنڈے پانی میں عیناں کا نازک وجود پوری طرح سے کپکپا رہا تھا۔ مگر آج جو مسیحا تھا وہی ہرجائی بنا ہوا تھا۔۔"
تمہاری آنکھیں خوبصورت ہیں مگر ان پہ صرف میرا ویام کاظمی کا حق ہے۔۔ مقابل کی گھبیر آواز اسکے ہاتھ کی انگلیوں کا لمس اپنی بند آنکھوں پہ محسوس کرتی وہ تیز تیز دھڑکتے دل سے لب بھینج گئی۔ کسی اور کی نظر تو کیا میں تصور بھی تمہارے لئے برادشت نہیں کر سکتا۔۔ اسکی آنکھوں کو ہلکے سے رگڑتے جانے وہ کیا باور کروا رہا تھا۔۔ اسے، اسنے جھکتے اسکی آنکھوں پہ باری باری بوسہ دیا تھا۔ عیناں اسکے شدت بھرے پہلے لمس پہ ہی کپکپا اٹھی تھی۔ وہ ویام کے سہارے پہ اسی کے حصار میں کھڑی تھی ، پاؤں پہ کھڑے ہونے کی ہمت کہاں تھی اب۔۔
" تمہارے یہ گلابی گال انکی سرخی صرف میرے لئے ہے اور میرے علاؤہ کوئی دوسرا انہیں نظروں میں لائے تو میں اسکی آنکھیں نکال دوں گا۔۔ اسنے ہاتھ کی پشت سے عیناں کے دونوں گال رگڑتے صاف کیے تھے۔ پل بھر میں عیناں کے دماغ میں جونی کی کہی ساری باتیں آ سمائی ۔۔ تو کیا ویام نے سن لیا تھا سب۔۔ تو ویام اسی وجہ سے اسے باور کروا رہا تھا کہ اس پہ صرف ویام کا حق تھا۔۔ اسکی گرے آنکھوں میں ایک ساتھ جانے کتنے رنگ ابھرے۔۔۔"
" ویام نے شدت بھرا لمس اسکے دونوں گالوں پہ چھوڑا تھا۔ اسکی مہک عیناں کو اپنے حواس پہ طاری ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ اسنے کہاں سوچا تھا کہ ویام اس قدر جنونی ہو گا۔۔ وہ تو اسکے لئے اسکا بیسٹ فرینڈ تھا جس سے شادی کے بعد وہ کبھی الگ نہیں ہو سکے گی۔۔ مگر وہ انجان تھی کہ مقابل اسکے لئے کس قدر جنونی ہو چکا تھا۔۔ جس نے بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اسکے جنون ، عشق کو اپنی رگوں میں طاری کیا تھا."
" تمہاری اس چھوٹی سے ناک کو دیکھنے ، اسے چھونے کا حق تو میں نے تب سے اپنے نام کر لیا تھا جب تم خود بھی اپنے نام سے نا واقف تھی۔۔ شاور سے بہتا برف کی مانند حواس جھنجھلا دینے والا ٹھنڈا پانی ویام کی چوڑی پشت پہ مسلسل بہہ رہا تھا۔۔۔ بھورے بال پیشانی سے چپک چکے تھے۔۔ جبکہ عیناں تو خود اسکے انداز پہ حیران گھبرائی سی تھی۔۔ "
" تمہارے ان ہونٹوں کو دیکھنے ، چھونے کا حق یہ ویام کاظمی رکھتا ہے صرف۔۔ اگر کسی نے میرے حق میں شراکت یا پھر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی۔۔ تو آئی سویر اسے اس دنیا میں اگلی سانس تک نہیں لینے دوں گا۔۔۔"اسکے چہرے پہ جھکے وہ اپنی بھوری آنکھیں اسکی خوف سے پھیلی گرے آنکھوں میں گھاڑتے ہوئے سنجیدگی سے بولا تھا۔اسکے ایک ایک لفظ میں شدت تھی جنونیت تھی۔ عیناں کئلیے یہ سب یقین کر پانا ناممکن سا ہوتا جا رہا تھا۔۔"
جبکہ مقابل اپنی پوری شدت سے جھکا تھا اسکی سانسوں کی مہکتی خوشبو کو خود میں اتارتے وہ مدہوش سا ہو گیا تھا۔۔ اسکی گرفت میں شدت ،جنونیت محسوس کرتی وہ پھڑپھڑا سی گئی۔ مگر مقابل اتنے سالوں کی تشنگی کیسے مٹا دیتا ۔۔۔"
تمہارا سب کچھ یہ ویام کاظمی ہے۔ تمہارا دوست، تمہارا شوہر تمہارا ہمسفر، سب کچھ ۔۔۔۔ میرے جنون کی شدت سے ابھی تم نا واقف ہو عین ۔۔۔۔ جس دن اسکا جھونکا بھی تمہیں چھو کر گزرا ، تمہارا ہوش میں رہنا ممکن نہیں ہو پائے گا ۔۔ یور آر اونلی مائن۔۔۔"
عیناں کا پورا وجود کپکپا رہا تھا۔ دماغ سن سا ہو گیا تھا۔ چہرہ مقابل کی قربت پہ دہکتے انگارہ ہو چکا تھا۔" یہ سارے رنگ ویام کاظمی کی قربت کے تھے جسے وہ پورے استحقاق سے دیکھ اور سراہ رہا تھا۔"
اسکے چہرے کو اپنوں ہاتھوں میں تھامے وہ شدت بھرے انداز میں بولتے اسے سہما گیا۔۔
اسکی نرم گرم دہکتی سانسیں اپنے چہرے پہ محسوس کرتی وہ کبوتر کے جیسے آنکھیں موند گئی۔
وہ نرمی سے اسکے نقوش پہ اپنا لمس چھوڑتے پیچھے ہوا تھا۔
" چینج کرو عین اور باہر آؤ میں ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔ اسکی پیشانی پہ پھر سے اپنا دہکتا لمس چھوڑے وہ یونہی بھیگے لباس سے باہر نکلا تھا۔ اسکے جاتے ہی وہ ہوش میں آئی تھی جیسے۔ ویام کی قربت اسکی جنونی باتیں عیناں کو سہما گئی تھی سب ۔ جانے کتنے ہی پل وہ خاموش کھڑی اسکی باتوں میں چھپے جنون کو محسوس کرتی رہی تھی۔"
اسنے چینجگ روم میں چیک کیا تھا مگر اسکا کوئی ڈریس نہیں تھا وہاں پہ وہ ہلکے سے قدم اٹھائے روم کی جانب آئی تو نظریں سامنے ہی کشادہ شرٹ لیس اسکی سفید پشت سے ٹکرائی پلکیں ایک دم حیا سے بوجھل ہوئی تھی ۔ اسکی نظروں کی تپش ہی تھی کہ مقابل فون کان سے ہٹائے مڑا اور گردن ہلاتے پوچھا ۔۔۔۔"
وو وہ مم میرے کپڑے نہیں ہیں انن اندر۔۔۔ اسکی قربت سے وہ گھبرا رہی تھی، نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھی۔ اسکے بڑھتے قدم اپنی جانب آتے دیکھ وہ واپس ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی۔"
" مگر میرے کپڑے تو ہیں۔۔۔'
وہ مسکراتے فاصلے مٹاتے ہوئے بولا۔۔"
جی جی مم مطلب۔۔۔۔ اس نے ناسمجھی سے پوچھتے فاصلہ بڑھایا ، بھلا اسکے کپڑوں سے عیناں کو کیا کام۔۔۔ "
" مطلب یہ کہ تم میری ہو اور کپڑے بھی میرے ہیں ۔ تم میرے کپڑے پہن سکتی ہو۔ "ویام نے جھکتے اسکے گیلے بالوں کی لٹ کو انگلی پہ لیپٹا ۔۔ ایک تو اسکی قربت اوپر سے ٹھنڈے پانی کے شاور میں بھیگے کپڑوں کی وجہ سے اسکا وجود مسلسل کپکپا رہا تھا۔
مم مگر میں کیسے پہنوں تمہارے کپڑے۔۔ وہ ہلکی آواز میں منمائی ویام بمشکل اسکی منمناہت سنتے گہرا سانس بھرتے رہ گیا ۔
میں نے تو آپشن دیا ہے جان ۔ اب یہ تم پہ ہے کہ میرے کپڑے پہنو گی یا پھر انہی کپڑوں میں رہنا ہے تمہیں۔۔ اسکی لرزتی گھنی بھیگی پلکوں کو دیکھ وہ جھٹکے اسے اپنی جانب کھینچتے مدہم سرگوشی کرنے نما آواز میں بولا تھا۔ تھوڑی دیر پہلی کی سختی کا اب شبہ تک نہیں تھا۔
جبکہ عیناں تو ابھی تک اسکے انداز پہ سہمی ہوئی تھی۔ فدک نے اسے سمجھایا تھا کہ شوہر جب غصے میں ہو تو سوال جواب نہیں کرتے۔۔ وہ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کیا اسے ویام سے کچھ پوچھنا چاہیے کہ نہیں۔۔ وہ فدک کی ہر بات کو بغور سنتی تھی۔ الایہ کی نسبت وہ زیادہ اٹیچڈ تھی اپنی مام سے۔ فدک نے ان تین سالوں میں اسے اچھے سے ٹرین کیا تھا ایک اچھی بیوی کی ساری باتیں اسکے چھوٹے سے دماغ میں بٹھائی تھی۔ مگر اب وہ خاصی کنفیوز تھی ۔ جسے بیسٹ فرینڈ مانا تھا اس شوہر کیسے اور وہ کس لہجے سے اس سے بات کرے۔
یہ لو دو منٹ میں چینج کر کے باہر آؤ۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ ویام کے جانے آنے کا احساس تک ناں ہو سکا تھا۔ ویام نے اپنی بلیک شرٹ اور جینز اوکے ہاتھ میں تھمائی تھی۔ عیناں نے کچھ کہنا چاہا مگر پھر اسکی نظریں خود پہ پاتے وہ خاموش سر جھکا گئی۔ ویام بنا کچھ کہے روم سے نکلا تھا۔
💥💥💥💥💥💥
ووو ویام۔۔۔۔۔ وہ چینج کرتی چھوٹے چھوٹے قدموں سے روم میں آئی تھی۔ مکمل اندھیرے میں ڈوبے کمرے کو دیکھ عیناں نے ڈرتے ویام کو پکارا ۔۔ ایک دم سے اسکی ہلکی سی چیخ نکلی تھی۔ جب اچانک ایک دم سے اپنے سر پہ کچھ گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔عیناں نے ڈرتے سر اٹھائے اوپر کی جانب دیکھا اچانک سے مدہم سے سرخ روشنی جلی تھی۔ اپنے چہرے پہ کچھ محسوس کرتے عیناں نے ہاتھ سے انہیں چھوتے محسوس کیا۔۔ گلابی ہونٹوں پہ ایک دم سے مسکراہٹ بکھری تھی۔
وہ خوشی، حیرت کے تاثرات سمیت ایک دم سے ہاتھوں کو فضا میں اٹھائے گول گول گھومنے لگی۔
بلیک شرٹ کے نیچے ویام کی فولڈ کی ہوئی جینز پہنے ، سنہری زلفیں سورج کی کرنوں کا سا سماں برپا کر رہی تھیں۔ سرخ گلاب کی پتیاں اسکے چہرے پہ جابجا برس رہی تھیں۔ حسین چہرہ ایک دم سے خوشی و حیرت سے سرخ ہو رہا تھا۔۔ دروازے سے ٹیک لگائے وہ استحقاق سے اپنی عین کا دمکتا روپ دیکھ رہا تھا۔
خود پہ کسی کی گہری نظروں کو پاتے وہ ایک دم سے مڑی سامنے ہی ویام کو یوں خود کو دیکھتا پاتے اسکے قدم تھم سے گئے تھے۔ وہ انگلیاں چٹخانے لگی۔ نظریں اسکے اپنی جانب بڑھتے قدموں کی جانب تھا۔ عیناں نے بری طرح سے لب کچلے ، وہ بار بار اپنے چہرے پہ بکھرتی لٹوں کو کان کے پیچھے اڑس رہی تھی ۔ ویام اسے یوں گھبراتے دیکھ گہرا سانس بھرتے رہ گیا۔
وہ بنا کچھ کہے اسے حصار میں لیتے بیڈ تک لے گیا تھا۔ نرمی سے ٹاول سے اسکے سارے بالوں کو خشک کرتے اسنے ایک نظر خاموش بیٹھی اپنی عین کو دیکھا۔ وہ مسلسل گھبرا رہی تھی۔ ویام کو اس کا یوں گھبرانا ، ڈرنا تکلیف دینے کا باعث بن رہا تھا۔ اسنے ٹاول دوبارہ سے صوفے کی جانب اچھالا۔
لائٹس ایک دم سے روشن ہوئی تھیں۔ عیناں نے پل بھر کو نظریں۔ اٹھائی مگر دوبارہ جیسے نظریں پلٹنا ہی بھول گئی تھی۔ وہ بے یقینی سے اپنے چہرے پہ دونوں ہاتھ رکھے کھڑے ہوئی منظر میں کھو سی گئی۔
بڑے سے حال نما کمرے میں مکمل خاموشی کا رقص تھا۔ سامنے ہی کمرے کی دونوں اطراف بنی کھڑکیاں ہنوز بند تھیں۔ رات کے پہر چاند کی ہلکی سی روشنی نے احاطہ کیا جو کمرے میں جلتی لائٹوں میں نامحسوس سی لگی۔ سامنے ہی کمرے کے وسط میں بڑا سا قالین بچھا ہوا تھا۔
جس پہ سارا خاندان مکمل خاموشی میں اپنے اپنے کھانے میں مصروف تھا۔ بظاہر وہ سب خاموش تھے۔ مگر جان گلے میں اٹکی ہوئی تھی۔ایک چور نظر سب نے سرداری گدی پہ براجمان اپنے مالک کو دیکھ اسکے پیچھے چھپے مٹھو کو دیکھا۔ جو تابعداری سے ہاتھ باندھے ایک کندھے پہ تولیہ ڈالے بھاؤں کے پیچھے کھڑا تھا۔
خود پہ نظروں کی تپش محسوس کرتے اسنے نظریں اٹھائی تو سامنے ہی پورے کمرے میں کھانے کے قالین پہ بیٹھے خود کو دیکھتے لوگوں پہ پڑی۔ اسنے ایبرو اچکاتے پوچھا کیا بات ہے۔
مقابل بیٹھے لوگوں نے اسے اشارے شروع کر دیے۔ جنکی مٹھو کو خاصی سمجھ ناں آ سکی۔ وہ سب بھاؤں کی جانب سے گھبرائے ہوئے تھے اگر وہ دیکھ لیتا تو یقیناً سزا پکی تھی سب کی ۔
کیا بات ہے فرید ۔۔ اپن سامنے ہے پوچھ کیا پوچھنا ہے۔۔ بھاؤں کی بھاری گھمیبر آواز پہ مقابل بیٹھا مٹھو کو اشارے کرتا فرید ایک دم جگہ سے اچھلا تھا۔ خواتین اور بچے جو الگ دسترخوان بچھائے ہوئے تھے۔ سب نے بھاؤں کی گرج دار آواز پہ گردنیں گھمائی۔ تو اس کی چوڑی پشت کو دیکھ سہم سے گئے۔
سرخ و سفید رنگت ، تیکھی ہما وقت سرخ رہتی ناک درمیانے سرخ رنگ ہونٹ، شہد رنگ آنکھیں جو اسکے بالوں سے ہم رنگ تھی۔ سرخ ڈوروں سے لبریز تھیں۔ سرخ ہوتے ہونٹوں کے اوپر گھنی مونچھیں اور بیئریڈ جو شیو نا ہونے کی وجہ سے کافی بڑھی ہوئی تھی۔۔ جس سے مقابل کے حسن میں مزید نکھار برپا ہو رہا تھا۔ اسکے نین نقوش میں خوبصورتی تھی دل موہ لینے والی۔ جو بھی دیکھتا نظریں پلٹنا بھول جاتا تھا۔ عمر سے پہلے سے اسکا قد کاٹھ سینہ کافی بڑھ گیا تھا مگر اس وقت وہ کہیں سے بھی ستائیس سالہ نوجوان معلوم نہیں ہو پاتا تھا۔ بلکہ عمر سے بڑا دھکتا۔
فرید نے گہرہ سانس لیتے کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ مم میں کرتے خلق کو تھوک نگلتے تر کیا تھا۔ مقابل نے ایبرو اچکاتے اسے دیکھا باقی سب کھانے کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ جبکہ مٹھو تو فرید کے چہرے پہ آئے پسینے کو دیکھ رہا تھا۔
وو وہ بب بھاؤں وو وہ پپ پولیس والا آ آیا تھا۔ فرید نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے بمشکل کہا تھا۔ بھاؤں کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے تھے۔
تو کیا ہو گیا کیا کہا اس نے۔۔ ابکی بار وہ بظاہر تولیے سے ہاتھ صاف کرنے لگا۔ مگر سبھی کا دھیان اسی کی جانب تھا۔ صبح اور رات کا کھانا وہ سب ایک جگہ پہ کھاتے تھے ۔ اور رات کے کھانے میں بھاؤں خود ان کے درمیان ہوتا تھا ۔ ہر کسی کے مسلئے کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔ اور پھر مناسب حل پیش کرنے کے بعد وہ بہتر طریقے سے معاملے کو حتی الامکان کوشش کرتے نپٹا دیتا۔"
" وہ آ آپ کو تت تھا تھانے بب بلا رہا تت تھا۔ ابکی بار بھاؤں کے ہاتھ تھمے تھے۔ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ سب کے بیٹوں کی عمر تھا تو غلط ناں تھا مگر وہ احتراماً اسے بھاؤں کہتے تھے۔ اسکے سامنے سر اور آنکھیں جھکا کر بات کرتے تھے۔ کیونکہ جانتے تھے وہ کافی سر پھرا شخص تھا۔۔ جس نے ان سب لوگوں کو سہارہ دیا تھا۔ جن کو اپنی اولاد نے بڑھاپے میں نکال باہر کیا تھا۔ تو کئی ایسی بیوہ عورتیں اور یتیم بچوں کو پناہ دی تھی۔ جن کا واحد سہارہ خدا کے بعد بھاؤں کی ذات تھی۔
ہمممم ۔ میں خود نپٹا لوں گا سب کچھ ۔۔ بھاؤں نے گہرہ سانس فضا کے سپرد کرتے کہا تھا۔ وہ دن کو حیا کو ڈرانے گیا تھا مگر اسکے رویے سے وہ خود بھی پریشان ہوا تھا کہ آخر حیا نے کیونکر جھوٹ بولا تھا
اگر وہ چاہتی تو سب کے سامنے اسکا نام کے سکتی تھی اور وہ ویسے بھی اس وقت اسکے کمرے میں تھا کوئی بھی حیا پہ غلط الزام ناں لگا پاتا۔ یہی بات اسے دن سے کافی ڈسٹرب کر چکی تھی۔ وہ غائب دماغی سے باہر نکلا تھا۔ چہرے پہ ڈاکٹری ماسک لگا ہوا تھا۔
اپنی اسی غائب دماغی سے وہ ایک دم سے کسی نازک وجود سے ٹکرایا تھا۔ اسنے ہوش میں آتے معذرت کرتے مقابل کو سنبھالا۔ تو رمشہ نے ارے کچھ نہیں ہوا بیٹا کہتے ذرا سی مسکراہٹ کے ساتھ قدموں پہ کھڑے ہوتے اب اوپر کی جانب رخ کیا۔ بھاؤں کے ہاتھ ایک دم سے لرز اٹھے تھے۔ آنکھوں کے سامنے ایک سایہ سا لہرایا۔ پورے چہرے سے تکلیف کے عناصر واضخ ہوئے تو رمشہ بے چین ہو گئی۔ وہ ابھی تک اسکے حصار میں تھی۔
آپ ٹھیک ہو بیٹا۔" وہ متفکر ہوتے پوچھنے لگی ۔ بھاؤں نے فوراً سے خود کو سنبھالا ۔ نظروں کا رخ موڑتے اسنے ہممم۔ کہتے سوری کہا اور آگے بڑھنے لگا۔ رمشہ کو کچھ عجیب سا احساس ہوا۔ مقابل کی آنکھوں میں شکوہ سا تھا۔ وہ جھنجھلاتے اسے آواز دیتے روک گئی۔
بھاؤں کے قدم ایک دم سے تھمے، دل خوش فہمیوں کا شکار ہوا تھا کہ شاید اسکی ماں نے آج اتنے سالوں کے بعد بھی اسے پہچان لیا تھا۔ مگر اگلے ہی پل اسنے سینے میں کچھ بری طرح سے کچھ ٹوٹا تھا۔ وہ لہو لہان ہوتی
آنکھیں میچتے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے رہ گیا۔
"کیا میں آپکو جانتی ہوں بیٹا جانے کیوں مجھے ایسا لگا کہ میں جانتی ہوں آپکو۔"رمشہ نے اسکی چوڑی پشت کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ دل نے صدا دی کہ ہاں یہ اس کا امن ہی تھا۔ وہ کیسے اسکی خؤشبو کو ناں پہچانتی۔ جب اسنے اچانک سے آج اسے حصار میں لیا تھا تو جانے کیوں اسے آج وہی خؤشبو محسوس ہوئی تھی۔ جو اسکے امن سے اسے محسوس ہوتی تھی۔ جب وہ اذلان اور حیا کو مار کر اپنی ماں کے آنچل تلے چھپ جایا کرتا تھا۔
ایک پل کو دل نے کہا کہ ہاں یہ تمہارا امن ہے آگے بڑھو اسے سینے سے لگا لو اب دور مت جانے دینا مگر اگلے ہی پل اسکے سارے ارمان بھک سے اڑے تھے۔ جب بھاؤں نے اپنی مخصوص گھمبیر سرد آواز میں جواب دیا ۔
نہیں میں آپکو نہیں جانتا..."۔ وہ کہتے ایک پل ضائع کیے بنا پچھلے گیٹ کی جانب بڑھا تھا۔ رمشہ کی نم آنکھوں سے اسکی چوڑی پشت کو دور تک دیکھا۔
کیا ہو گیا مما ۔۔۔۔" گاڑی پارک کرتے رمشہ کو یوں غیر مرئی نقطے کو گھورتا پاتے اذلان نے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اپنی مما کو حصار میں لیا اور سر پہ بوسہ دیتے ہوئے پوچھا۔۔
کچھ نہیں بیٹا۔۔ وہ پھیکا سا مسکرائی۔ تو اذلان نے انکی نم آنکھوں پہ بوسہ دیا۔۔
تو پھر چلیں آپ کی صدا کی مریض بھتیجی کا حال احوال پوچھ لیں۔۔ اسنے رمشہ کا موڈ بحال کرنے کو کہا نتیجتاً وہ گھورتے رہ گئی۔ مذاق تھا یار۔۔
اسکے یوں دیکھنے پہ اذلان نے سرینڈر کرنے والے انداز میں کہا اور اسے ساتھ لیے اندر بڑھ گیا۔
بھاؤں۔۔۔ کندھے پہ ہاتھ کے لمس کے بعد پکار پہ وہ حیالوں سے باہر نکلا تھا۔ اسنے ناسمجھی سے سامنے غائب دماغی سے دیکھا ۔
جاؤ سب لوگ آرام کرو ، میں خود کر لوں گا سب کچھ۔۔ اسنے سینے میں اٹھتے درد کو دبانے کی کوشش کرتے روکھے لہجے میں کہا ۔
بھاؤں وہ حالہ کے گھر بیٹی ہوئی ہے۔۔۔"
مٹھو نے فوراً سے اسے بتایا۔ جسکے چہرے پہ اس نئی خوشخبری کے بعد اب کافی سکون در آیا تھا۔
مبارک ہو سب کو ماشاءاللہ۔۔۔ کون ہے ان کے پاس۔۔ وہ مسکراتے ہوئے سب کو مبارک دیتے پوچھنے لگا۔۔اسکے سوال پہ جیسے سانپ سونگھ گیا تھا سب کو۔۔
بولو کون ہے انکے پاس۔۔ اسنے ناگواری سے سب کو دیکھتے ہوئے پوچھا وگرنہ سمجھ تو وہ گیا تھا۔۔۔ وو وہ انکا شوہر۔۔۔ مٹھو نے اپنی جانب اس بلا کا رخ دیکھا تو فوراً سے جواب دیا۔ وہ آگے ہی اتنا سا تھا بھاؤں کے ہاتھ کی ایک پڑنے کے بعد وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اسکا کیا ہو گا۔
نکال باہر کرو سالے کو۔ ۔۔ جس بیٹی کو مروا رہا تھا اب اسکے پیدا ہونے کی خوشی منائے گا سالا ۔۔ اگر اگلے ایک گھنٹے میں وہ ہسپتال میں نظر آیا تو تم سب کے سب اس دنیا میں نظر نہیں آؤ گے۔۔
بھاؤں نے غصے سے انگلی اٹھائے سب کو وارن کیا۔۔ اسکے جگہ سے اٹھنے پہ سبھی ایک ساتھ آٹھ کھڑے ہوئے۔
جج جی بب بھاؤں ایسا ہی ہو گا۔۔ فرید نے سر جھکائے کہا اور ایک دم سے الہ دین کے جن کی طرح سے وہاں سے غائب ہوا۔۔ "
کل سے یہاں دو نئے مہمان آنے والے ہیں۔ بؤاں۔۔۔۔ اسنے گردن گھماتے ادھیڑ عمر عورت کو مخاطب کیا جو جی بیٹا کہتے اسکی جانب قدم بڑھاتے آئی۔ آج سے آپ بے اولاد نہیں۔ یہ دنیا صرف چھیننا جانتی ہے اور وہ رب لوٹانا ۔کل آپ کی دونوں بیٹیاں آپ کے پاس ہونگی ۔ جن کی پرورش آپ کے ذمے ہے۔ پشت پہ ہاتھ باندھے وہ کافی سنجیدگی سے مخاطب ہوا تھا۔
بؤاں کی جانب سے مکمل خاموشی محسوس کرتے اسنے نگاہیں انکی جانب کیں تو وہ حیران سا ہوا وہ رو رہی تھیں۔ بؤاں کیا ہو گیا آپ رو کیوں رہی ہیں۔ وہاں موجود ہر فردجانتا تھا کہ بؤاں وہ پہلی خاتون تھی جن کو بھاؤں نے اس گھر میں سب پہلے پناہ دی تھی۔ وہ بے اولاد تھی یہ سب تو قسمت کی طرف سے تھا مگر شوہر نے طلاق دیتے نکال دیا تو ماں باپ کے مرنے کے بعد بھائی بھی اپنے نا بن سکے۔ اور پھر بھاؤں کی نظر جب سڑک کے کنارے روتی خاتون پہ پڑی تو وہ بؤاں کہتے اپنے گھر لایا تھا۔
گھر کے سارے مکین بخوبی واقف تھے کہ بؤاں کس قدر اولاد کو تڑپتی تھی۔
بیٹا میں کس طرح تمہارا شکر ادا کروں کہ تم نے اس بے سہارہ کو سہارہ دیا اور آج مجھے اولاد سے بھی نواز دیا۔ کون کہتا ہے کہ وہ خدا اپنے بندوں کی نہیں سنتا۔۔ بے شک جب وہ سنتا ہے تو تم جیسی نیک اولاد اپنے ماں باپ کو تخفے کی صورت ادا کرتا ہے۔ سر جھکائے ان سے پیار لیتے بھاؤں کی آنکھوں کے سامنے ایک سایہ سا لہرایا۔ فخر، تخفہ کیا وہ تخفہ تھا اپنے ماں باپ کیلئے نہیں وہ تو سزا تھا سب کیلئے۔۔
میرے لیے دعا کیجیے گا مجھے سکون مل جائے۔۔ پہلی بار اسکی آنکھیں نم ہوئی تھی آواز بھیگ سی گئی ایک آنسو بے ساختہ شہد رنگ آنکھوں سے گرتا دبیز قالین میں جذب ہوا تھا۔۔ وہ سب کو ساکت چھوڑتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا نظروں سے اوجھل ہوا ۔
💥💥💥💥💥💥
وہ مبہوت سی منظر میں کھو سی گئی تھی۔ کمرے کا ماحول باہر کی نسبت گرم تھا۔ وائٹ اور ریڈ کلر کی روشنی میں ڈوبے کمرے کے وسط میں وہ سہج سہج کے قدم اٹھاتی آگے بڑھی تھی۔ بے ساختہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں اسکا ہاتھ اٹھا تھا نرمی سی اپنی چاروں اور لٹکتی ان تصویروں کو وہ ہاتھ سے چھونے لگی۔
ایک تصویر میں وہ شاید تین سال کی تھی۔ سنہری بالوں کی دو چٹیاں بنائے وہ وائٹ کلر کے باربی فراک میں کوئی گڑیا سی دکھ رہی تھی۔ یہ سب کچھ عیناں کے لیے ایک خواب کی سی مانند تھا۔ اسکے پچپن کے خوبصورت لمحات کو یوں قید کیا گیا تھا جیسے وہ بہت قیمتی اثاثہ ہوں کسی کے لئے۔ مقابل اسکی خوشی ، حیرت کے تاثرات کو دیکھ ہاتھ سینے پہ باندھے کھڑا ہوا تھا۔ بھوری آنکھوں میں جذبات کا طوفان سا برپا تھا۔
ویام یہ دیکھو یہ تصویر یہ تب کی ہے ناں جب میں نیچے گری تھی اور میرے کپڑے گندے ہو گئے تھے اور تب تم نے مجھے چاکلیٹ دلوائی تھی ۔ عیناں خوشی سے چہکتے ایک تصویر کو دیکھ بولی تھی۔ جہاں سامنے کا منظر کافی خوبصورت تھا۔ وہ منہ پھولائے بھیگی نم آنکھیں لیے کھڑی تھی جب کہ مقابل گھٹنوں کے بل بیٹھا اسکے کپڑے صاف کر رہا تھا۔ عیناں کے لئے یہ سب بہت یادگار سا تھا۔ وہ بھول چکی تھی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ کس قدر ڈری ہوئی سی تھی ، وہ مسکراتے ویام کی جانب مڑی ۔
ویام کیا ہوا۔۔۔ اسے یوں ساکت ایک جگہ کھڑا دیکھ وہ متفکر سی ہوتے اسکی جانب بڑھی اور دو قدموں کے فاصلے پہ رکی تھی ۔ کہ اچانک سے فضا میں اسکی چیخ گونجی تھی۔ آنکھیں حیرت سے پھیلی ۔ جبکہ مقابل نے بنا اسکی حیرت کو نوٹ کیے اپنا دوسرا ہاتھ بھی اسکی کمر کے گرد حائل کیا تھا ۔ وہ جھٹکے سے کھینچتی اسکے کشادہ سینے سے لگی ، سانس روک گئی۔اپنے سینے پہ رکھے اسکے نازک ہاتھوں کو تھامتے اسنے گردن کے گرد حائل کیا اور آہستہ سے اسے تھوڑا سا کمر پہ دباؤ بڑھاتے اونچا کیا تھا ۔ عیناں کے دونوں پاؤں اپنے شوز میں مقید پاؤں کے اوپر ٹکائے وہ بغور اسکے پھڑپھڑاتے ہونٹوں کو دیکھنے لگا۔
مس کیا مجھے۔۔۔۔ اسنے ایک ہاتھ عیناں کی کمر کے گردن حائل کیا جبکہ دوسرے ہاتھ کی پشت سے اسکے دہکتے سرخ ہوتے گال کو سہلایا ۔ اسکے ہاتھ کی پرحدت لمس پہ عیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔ وہ لرزتی پلکوں سے بالکل ساکت خاموش سی کھڑی تھی۔ ویام کی ناک اسکی ناک سے مس ہو رہی تھی۔ گہری خاموشی میں صرف دونوں کی سانسوں کا رقص جاری تھا۔ ویام کے بےباک نظریں عیناں کے نقوش کو استحقاق سے سراہ رہی تھی۔
مس کیا تھا مجھے عین کہ نہیں۔۔۔ اسکے یوں خاموش ہونے پہ ویام نے نرمی سے اپنے راستے میں حلل بنتی سنہری لٹوں کو کان کے پیچھے اڑسہ۔ عیناں خود میں سمٹ سی گئی۔ وہ مخض سر ہلا پائی تھی ۔ اسکے اقرار پہ وہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔
وو ویام پلیز۔۔۔۔ اپنے گال پہ اسکے پرحدت لمس ، کو محسوس کرتے وہ التجائیہ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔ ویام نے ایک نظر عیناں کی بند آنکھوں کو دیکھا ۔ کیا ہو گیا۔ میرا چھونا اچھا نہیں لگ رہا کیا۔ اسکے ذہن میں اندیشہ سا ابھرا تھا۔ وہ ہاتھ سے عیناں کی شرٹ کے بٹن کو بند کرتے گویا ہوا۔ وہ تھوک نگلتے سر کو نفی میں ہلا گئئ۔ جسے دیکھ وہ گہرا مسکرایا۔
مم مجھے ماما کے پاس جج جانا ہے۔ اپنی کمر کے گرد اسکی مضبوط گرفت محسوس کرتے عیناں نے سر پیچھے کرتے کہا ویام ایبرو اچکا گیا اسکی ہوشیاری پہ اور جھٹکے سے ہاتھ اسکے سر کے پیچھے لے جاتے اسنے فاصلہ ختم کیا۔ عیناں نے ڈرتے اسکے شدت بھرے لمس پہ اسکی گردن کے گرفت مضبوط بنائے آنکھیں مضبوطی سے بند کیں۔
" اتنے سالوں سے ماما کے پاس ہی تھی تم ، مگر اب سے تم اپنے شوہر کے پاس رہو گی۔ اسکی گردن میں اپنا لمس چھوڑتے وہ سرگوشی نما آواز میں بولا تھا ۔ عیناں کی آنکھیں ایک دم بے یقینی سے پھٹ پڑی تھی۔ مگر مقابل کو یوں اپنی گردن پہ جھکا دیکھ وہ لب دانتوں تلے دبائے دوبارہ سے آنکھیں میچ گئی۔
ابھی تو میں نے تمہیں جیب بھر کے دیکھا بھی نہیں ۔ واپسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ اسکی ناک کو سہلاتے وہ یونہی الٹے قدم لیتا بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔ ویام کی حرکتیں اسکا شدت بھرا انداز اسے اندر سے گھبرانے پہ مجبور کر رہا تھا۔مگر ویام کہاں اسے کچھ سوچنے کا موقع دے رہا تھا۔ وہ بے بس سی ہو گئی تھی۔ جیسے اسے قید کر لیا گیا ہو ، کسی قید میں جہاں سے رہائی ناممکن عمل تھا۔
تم نے تو دو مہینوں کے بعد آنا تھا۔ " ویام نے ایبرو اچکایا اسکے سوال پہ۔ اسے گود میں اٹھائے وہ کمفرٹر اوڑھتے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے سوچ میں پڑا ۔۔ اسکے یوں خاموش ہونے پہ عیناں پریشان سی ہو گئی۔ وہ اسے باتوں میں لگانا چاہتی تھی مگر شاید وہ غصہ ہو گیا تھا۔ اسنے گھبراتے سر اٹھائے اسے دیکھا۔ تو پہلی نظر اسکے قاتل ڈمپل پہ پڑی۔
ویام جانتا تھا اسے کیا کرنا ہے۔ وہ مسکراتے یونہی ہلکا سا جھکا اور گال اسکے سامنے کیا۔ عیناں نے جھجھکتے سر نفی میں سر ہلایا مگر کمر کے گرد اسکی مضبوط ہوتی گرفت واضع وارننگ لگی اسے۔ اسنے گھبراتے شرم سے سرخ پڑتے چہرے سے بمشکل سے اپنے کپکپاتے ہونٹ اسکے ڈمپل پہ رکھے۔ دل میں ایک میٹھی سی گدگدی سی ہوئی تھی۔ ان مسکراتے ڈمپل کو اپنے ہونٹوں کے نیچے محسوس کرتے، اسکے ہونٹوں پہ رقص کرتی مسکراہٹ کو دیکھتے وہ چہرہ گھمائے دوسرا گال بھی اسکے سامنے کر گیا۔ ابکی بار وہ بنے جھجھکے استحقاق سے اپنا لمس چھوڑتے کھلکھلا اٹھی۔
کمرے کی معنی خیز خاموشی میں اسکی میٹھی آواز کی کھنک کو محسوس کرتے وہ بغور اسے دیکھے گیا۔ اسے یوں خود کو دیکھتا پاتے عیناں کے ہونٹ ایک دم سے سمٹ گئے۔ وہ دوبارہ پہلے والے حول میں خود کو قید کر گئی۔ کچھ لمحات بعد ویام نے نظریں ہٹائیں اور ٹیبل سے پلیٹ اٹھائے اسکے سامنے رکھی۔
عیناں نے ایک خاموش نظر ویام اور پھر پلیٹ میں رکھے سینڈوچز کو دیکھا ۔ خود پہ ضبط کے باوجود وہ شرم کو بالائے طاق رکھتی فورا سے ایک ساتھ دو سینڈوچز اٹھائے کھانے لگی۔ اسے یوں محویت سے کھاتا دیکھ ویام کا دل زوروں سے دھڑکا ۔ وہ یک ٹک اپنی گود میں بیٹھی عیناں کو دیکھے گیا۔ خود پہ ویام کی نظروں کو محسوس کرتے عیناں نے شرمندہ ہوتے دونوں ہاتھوں میں تھامے سینڈوچز کو دیکھا اور پھر دائیں ہاتھ کو آگے بڑھاتے اسکے سامنے کیا۔ ویام نے سر نفی میں ہلا دیا۔
عیناں نے پھر سے اصرار کیا ۔ جسے دیکھ وہ ہلکا سا جھکتے سارے سینڈوچ سمیت اسکی انگلیوں کو منہ میں دبوچ گیا۔ عیناں نے سٹپٹاتے اپنے ہاتھ کو انگلیوں کو دیکھا۔ اور جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچتے وہ کمر کے پیچھے چھپا گئی۔ اسکی حرکت پہ مقابل بے ساختہ قہقہ لگا اٹھا۔ عیناں نے منہ پھولائے اسے یوں خود پہ ہنستا دیکھا۔
اور خفا ہوتے اسکی گود سے اٹھنے لگی کہ اسکی کوشش کو بھانپتے وہ فٹ سے گھیرا تنگ کرتے اسے خود سے لگا گیا۔
عیناں نے ایک چور نظر اسکے کشادہ سینے پہ ڈالی اور فوراً سے نظریں جھکا لیں۔ خود ہی تو آفر کیا تھا اب ناراضگی کیسی ۔وہ نارمل انداز میں اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولا جیسے ساری غلطی عیناں کی تھی۔
تو میں نے سینڈوچ آفر کیا تھا اپنا ہاتھ تو نہیں۔۔ وہ تپے چہرے سے خفگی سے گویا ہوئی۔ ویام نے لب دانتوں تلے دبائے اسکی ادا پہ ۔۔
مگر تمہیں ٹیسٹ کرنے کے لئے مجھے تمہاری اجازت کی بھی ضرورت نہیں سویٹ ہارٹ۔۔۔ اسکی بات کو مذاق میں اڑاتے وہ ہلکا سا ہنستے ہوئے بولا ۔ عیناں کی نظریں ابکی بار پھر سے جھک سی گئی۔
" ویام ۔۔۔۔۔ مجھے نیند آئی ہے۔ اسکے ارادے بھانپتے وہ معصومیت سے بولی ۔ ویام نے بغور ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سامنے بیڈ کی دوسری جانب رکھے تکیے کو، اور ہاتھ بڑھاتے تکیہ اپنے سر کے نیچے رکھا۔ عیناں نے منہ کھولے اسے دیکھا۔ اگر وہ دونوں تکیے لیے سوتا تو پھر وہ کہاں سوتی ۔
جان تمہاری جگہ یہاں ہے۔ میرے دل میں ۔ اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے وہ دونوں آنکھوں پہ بوسہ دیتے محبت سے بولا۔ تو میں دل میں کیسے سوؤں گی۔ عیناں نے منہ بنائے کہا ، ویام مسکرا دیا۔ تم آج دل کے اندر نہیں دل کے نزدیک سو لینا۔ وہ نیم دراز ہونے کے سے انداز میں بیٹھا تھا اور عیناں کو گود میں بھرتے وہ سر اپنے سینے سے لگائے کمفرٹر اوڑھاتے بولا ۔ عیناں نے کچھ کہنا چاہا مگر اچانک سے خود پہ برستی گلاب کی پتیوں کو محسوس کرتے آنکھوں میں ایک الگ سی چمک ابھری تھی۔ دل میں گدگدی سے ہونے لگی۔ وہ سر مقابل کے سینے سے ٹکائے منہ اوپر کر گئی۔ گلاب کی کئی پتیاں اسکے چہرے پہ برستی تو وہ کھلکھلا اٹھتی۔
ویام خاموشی سے اسکے ہر روپ کو اپنے دل میں بسا رہا تھا۔ ویام یہ دیکھو۔ عیناں نے جھنجھوڑتے اسے اپنی ناک کینجانب متوجہ کیا جہاں ایک سرخ پتی چمک رہی تھی۔ ویام نے مسکراتے اسے ہونٹوں سے چنا ۔ عیناں سٹپٹا اٹھی اسکی حرکت سے۔ ڈونٹ وری آج میرے پاس وقت ہی وقت ہے ۔ ناک پہ لب رکھتے وہ مسکراہٹ دبائے بولا ۔
عیناں کا منہ بنا اسکی بات پہ۔۔۔۔ " ۔
اچھا یہ بتاؤ تمہاری مانو کا کیا بنا ۔۔ ویام نے اسکے گالوں کو چھوتے اسکی بلی کے متعلق پوچھا۔ عیناں کا منہ بن گیا اسکی بات پہ۔
وہ تو بھاگ گئی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ۔۔ عیناں نے دکھ سے کہا ، وہ واقعی کافی اداس ہوئی تھی مانو کے جانے پر۔ ویام کے منع کرنے کے باوجود وہ تین چار سال سے عیناں کے پاس تھی۔ مگر اچانک ہی وہ پڑوس کے بلے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس بات کا عیناں کو کافی دکھ بھی تھا۔ مگر پھر انزِک کے سمجھانے پہ وہ آہستہ آہستہ اسے خود ہی بھول گئی تھی۔
اچھا تو کیا اب کبھی آتی نہیں معافی مانگنے تم سے۔ ویام نے مانو کا سوچتے مسکراہٹ روکی اور نرمی سے اسکی تھوڑی پہ لب رکھے۔ " کہاں وہ تو بھول ہی گئی مجھے۔۔ مگر ایک دن ملی تھی مجھے۔۔ اسکے بچے بھی ہیں پانچ ، نہیں چار بچے تھے اس کے۔۔۔ عیناں نے انگلیوں پہ گنتے ویام کو بتایا ویام نے ہممم کہتے سر ہلایا۔۔
تو پھر لے جاتی سب کو گھر۔۔۔۔ شہ رگ کو سہلاتے وہ مانو کے متعلق سوال کرنے لگا۔ ، میں گئی تھی ناں اسکے پاس مگر وہ بھاگ گئی مجھے دیکھ کر ۔۔ مجھے بہت غصہ آیا اس پہ اسی وجہ سے میں اب دیکھتی بھی نہیں ہوں اسے وہ ہمسایوں کے گھر کی بہو بن کے رہ رہی ہے۔ بتمیز۔۔
عیناں نے منہ بنائے کہا۔۔۔ ویام نے مسکراتے اسکی شہ رگ کو اپنی بھوری داڑھی سہلایا۔ عیناں کسمسا اٹھی ۔۔مگر اب تم آ گئے ہو ہم کسی اور پیٹ کو لے لیں گے۔۔ ہے ناں ویام۔۔۔۔عیناں نے اسکے کندھے کو جھنجھوڑا تو وہ سر ہلاتے مسکرایا۔۔
کسی پیٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ ہم خود ہی تمہارے کھیلنے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ کندھے پر سے اسکے ہاتھ کو تھامتے لبوں سے چھوتے وہ صلح جو انداز میں گویا ہوا ۔
ویام تمہیں معلوم ہے ناں وہ شیزی۔۔۔۔ جو مجھے ڈراتی تھی ۔ اس نے شادی کر لی ہے۔ اور تمہیں معلوم ہے اسنے اپنے شوہر کو مارا بھی۔۔۔ بیچارے کا پورا منہ نیلا پڑ گیا۔۔۔ عیناں نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو گھماتے کہا ویام نے ہاتھ سر کے نیچے رکھتے اسے دیکھا۔ اچھا تو پھر ۔۔۔۔۔ بالوں کو سہلاتے وہ محبت سے پوچھنے لگا۔ عیناں نے سر اسکے سینے پہ ٹکایا ۔۔۔۔
تو پھر یہ کہ بعد میں وہ بیچارہ معافی مانگتا رہا تو شیزی نے اس سے طلاق لے لی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ کسی اور لڑکی کے ساتھ انوالو تھا۔ اور تمہیں معلوم ہے ناں وہ آنٹی جن سے ہم چوری ملنے جایا کرتے تھے۔
وہ مسلسل اسکے سینے پہ سر رکھے اس سے ساری باتیں شئیر کر رہی تھی۔ ویام بغور اسکی باتوں کو سن رہا تھا کہ اچانک سے اسکی بھاری سانسوں کو محسوس کرتے اسنے سر نیچے کرتے اسے دیکھا۔۔ جو سو چکی تھی۔۔ ویام نے مسکراتے اسکے سر پہ بوسہ دیے اسے خود میں سمیٹ لیا۔۔ "
💥💥💥💥💥💥
سامنے سے لیفٹ روم لینا۔۔۔ ہاتھ میں کارڈ تھماتے ویٹر نے سرگوشی نما آواز میں کہا ۔ مقابل نے ٹرے سے جوس کا گلاس اٹھائے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔
چارو اطراف دیکھتے وہ سپ لیتے ایک کونے میں گیا۔ پارٹی پورے آب و تاب پہ تھی۔ جبکہ مقابل کی گہری نگاہیں وہاں موجود پروفیسر محمد عقیل پہ تھیں۔
محتاط انداز میں کارڈ کو کھولتے وہ روم کا نمبر پڑھتے وہاں سے دائیں جانب غائب ہوا تھا۔۔۔ پچھلے راستے سے باہر نکلتے وہ سامنے پائپ کو دیکھنے لگا۔۔ کھردرے پائپ کو دیکھتے اسنے محتاط انداز سے پائپ پہ چڑھنا شروع کیا ۔
ایک نظر نیچے دیکھا اور پھلسلتے ہاتھوں سے گرفت پہ سختی کر دی۔ اور پھر احتیاط سے کھلی کھڑکی کی جانب ہوتے وہ اندر جمپ لگاتے داخل ہوا۔ ۔۔۔۔ کمرہ حالی تھی ۔۔ اسنے فورا سے کھڑکی بند کی اور باتھروم میں داخل ہوتے اسنے جیب سے تیز دھار چاقو نکالا ۔۔۔ باتھروم سے اٹیچڈ دروازے کے قریب جاتے اسنے لکڑی کو درمیان سے سوارخ کیا ۔۔
اسکا پورا وجود محتاط تھا۔۔ ہر حرکت پہ وہ چاق و چوبند ہو جاتا۔۔۔ گھڑی پہ وقت دیکھا جہاں پہ دس بج رہے تھے۔ اسے ساڑھے دس بجے تک واپس جانا تھا۔ سوارخ ہوتے ہی اسنے شکر بھرا سانس خارج کیا ۔ اور اندر سے ہاتھ ڈالتے اسنے لاک کھولا۔۔ تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔
اندھیرے میں ڈوبے ہال سے ہوتے وہ بنا آواز کیے دھیمے قدموں سے چلتا کمرے کے باہر کھڑا ہوا ۔ فائیو سٹار ہوٹل کے اندر بنے اس طے خانے کو دیکھ کوئی بھی یقین ناں کر پاتا کہ یہاں کوئی ایسی جگہ بھی ہے۔
اسنے ائیر پوڈ کان سے لگائے اور اسے پریس کیا۔۔ مقابل کی آواز کانوں میں ابھری۔۔ یس سر میں پہنچ چکا ہوں۔۔ اور یقیناً میٹنگ شروع ہونے والی ہے۔ سانولی رنگت میں گھلی سرخی اسکے اندر کے غصے کو بیاں کر رہی تھی۔ وہ بنا آرڈر کے کچھ بھی نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔
ویل ڈن اذلان ۔۔۔۔ اب وہاں پہ کیمرہ فٹ کرو اور فورا سے واپس نکلو۔۔۔ کمشنر نے اسے آرڈر دیے جس پہ مقابل کا ماتھا ٹھنکا۔۔
وٹ ڈو یو مین سر۔۔ میں یہاں ان لڑکیوں کو بچانے آیا ہوں ۔۔ جن کو کل رات پیرس بھیجا جا رہا ہے۔۔ اور میں ان کو لیے بنا واپس نہیں جا سکتا۔۔ اذلان نے بنا لخاظ کے کہا تھا۔ کمشنر نے اسکی بتمیزی پہ ماتھے کو مسلا۔۔
ویٹ اذلان ابھی یہ کرنا خطرے سے حالی نہیں ہو گا۔۔ اگر ہم نے لڑکیوں کو بچا بھی لیا تو ہم ان بزنس مین کو کبھی بھی سامنے نہیں لا پائیں گے۔ کیونکہ ہمارے پاس انکے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔ اگر تم نے ابھی کوی ایکشن لیا تو یقیناً وہ میٹنگ کینسل کر دیں گے۔۔ جہاں اتنے ہفتے صبر کیا ہے ایک دن اور انتظار کرو ۔۔ میٹنگ کی ریکارڈنگ اور ویڈیو ہاتھ آنے دو اسکے بعد میں کل صبح ہی تمہارے ساتھ جاؤں گا۔۔
کمشنر نے اسے کیس کا دوسرا رخ سمجھایا۔ اذلان نے لب بھینجتے ماتھا مسلا تھا۔۔ پورے چار ہفتوں سے وہ اس کیس پہ کام کر رہا تھا۔ مگر اب جب اس کیس کو سالو کرنے کے اتنے نزدیک تھا تو وہ کوئی رزک نہیں لے سکتا تھا۔۔ "
" اوکے سر ایز یو وِش۔۔۔۔ اسنے کہتے ائیر پوڈ کان سے نکالا تھا۔۔ کیمرہ سیٹ کرتے وہ جس طرح سے آیا تھا ویسے ہی وہاں سے نکلا ۔۔
اوئے کون ہو تم۔۔۔ بیک سائیڈ سے پائپ سے اترتے دیکھ گارڈ نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔۔ وہ شام سے پہرہ دے رہا تھا۔۔ ابھی چکر لگاتے وہ پچھلے ایریا میں آیا تو اسے اترتا دیکھ وہ گن تانتے ہوئے بولا۔۔ اذلان نے جیکٹ کو جھاڑا اور رخ سامنے کیا۔۔
ہلنا مت ورنہ شوٹ کر دوں گا۔۔۔ اسکے بیلٹ کو دیکھتے وہ سمجھ گیا کہ وہ پولیس والا ہے۔ گارڈ نے قدم بڑھاتے اسے وارن کیا۔ اذلان نے ہاتھ اٹھائے سیرینڈر کیا۔ گارڈ نے موبائل نکالا کہ اطلاع کر سکے۔۔ مگر اس سے پہلے ہی مقابل نے ایک بھاری مکہ اسکے منہ جڑھا تھا۔ خون کی ایک پھوار اسکے منہ سے نکلی ۔ وہ اوندھے منہ زمین پہ گرا ۔۔ اذلان نے فورا سے اسکے فون کو اٹھایا اور جیب میں رکھا ۔
" اور محسوس رگ دباتے اسنے گارڈ کو بے ہوش کیا۔ جیب سے گن نکالتے اسنے گارڈ کو پلٹ کے سیدھا کیا۔۔ اور پوری گن اسکے منہ میں ڈالی اور ایک ساتھ فائر شروع کر دیے۔۔۔ گارڈ کے بے ہوش وجود میں جنبش ہوئی مگر وہ ساکت سا رہ گیا۔۔ اپنے ہاتھوں کی کھجلی مٹاتے اسنے گارڈ کے پیٹ پہ لات رسید کی ۔
بے ضمیر انسان۔۔۔۔ اگر وقت ہوتا تو تجھے بھی کل تیرے ان کتوں کے ساتھ موت کی گھاٹ فرصت سے اتارتا۔۔۔ مگر تیری قسمت اچھی ہے جو توں اج وقت سے پہلے میرے سامنے آ گیا۔۔۔وہ غصے سے اسے جھٹکے سے زمین پہ مارتے جیکٹ جھاڑتے وہاں سے نکلا۔۔
بیک سائیڈ پہ اپنی جیپ کے پاس پہنچتے ہی اسنے جیکٹ سے گولیاں نکالتے گن دوبارہ سے لوڈ کی۔۔ کہ اچانک سے جانی پہنچانی آواز پہ اسکے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے۔۔
"اذلان سر میں نے آپ کو کتنا ڈھونڈا آپ یہاں ہیں۔۔ " مسکراتے بے انتہا خوش ہوتے وہ اذلان کے سامنے کھڑی ہوئی۔اذلان نے طیش کے باوجود خود کو کنٹرول کیا۔
تم یہاں پہ کیا کر رہی ہو روبیہ۔۔۔۔۔ وہ غصے سے بولا ۔۔ یہ جگہ بالکل سیو نہیں تھی۔
سر میں بابا کے ساتھ آئی ہوں اور آپ پلیز سر میری بات سنیں ۔۔۔ بڑھتے اذلان کے ہاتھ کو تھامتے اسنے التجائی انداز میں کہا۔ اذلان نے نفرت سے اسکے ہاتھ کو دور جھٹکا۔ اور ایک نظر روبیہ پہ ڈالی جو اب خجاب میں تھی ۔
سر پلیز مجھے یوں اگنور مت کریں۔۔میں آپ کو بہت پسند کرتی ہوں۔۔ دیکھیں آپ کے لئے میں نے اپنا آپ تبدیل کر لیا کیا آپ ابھی بھی مجھے قبول نہیں کر سکتے۔"
روبیہ نے پھر سے اسکے سامنے ہوتے اسے روکا۔اذلان کا دل چاہا کے کہ کھینچ کے اسکے کان کے نیچے ایک دے۔
" دیکھو روبیہ میں نے پہلے ہی تمہیں کہا تھا۔تم ابھی بچی ہو۔ اٹھارہ سال کی عمر پڑھائی کرنے کی ہوتی ہے محبت کرنے کی نہیں۔۔۔ اسنے پھر سے اسے باز رکھا اور جیپ میں بیٹھنے لگا۔۔
" اسے شدید غصہ تھا اس لڑکی پہ۔۔ مری کے کالج میں ہوئے دہشت گردوں کے حملے میں اذلان نے سب بچوں کو اپنی ٹیم کے ساتھ بچایا تھا۔۔ جب سے روبیہ کا دل اذلان کے لئے دھڑکنے لگا تھا وہ ہر روز اسکے پولیس اسٹیشن پہنچ جاتی ۔ اذلان کی انسلٹ کرنے کے باوجود وہ ڈھیٹ بنی رہی۔ اسکی دوستوں نے اسے بتایا کہ انسپکٹر تھوڑا اسلامی ٹائپ ہے تو روبیہ نے اپنی ٹاپ اور سکرٹ کو پہننا چھوڑ دیا۔ اور شلوار قمیض پہ خجاب لینے لگی۔ مگر اسکی صبح پولیس اسٹیشن سے اسے خبر ملی کہ وہ جا چکا ہے یہاں سے۔۔ مگر آج یوں اسے اتنے دنوں بعد سامنے دیکھ وہ یہ چانس نہیں کھونا چاہتی تھی ۔
" سر پلیز ایسا مت کہیں ۔۔ پلیز میری محبت کو سمجھیں۔۔ میں بچی نہیں ہوں میں سچ میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔ سر پلیز مجھے یوں اگنور مت کریں۔
کیا مذاق ہے یہ دور رہو ۔۔۔۔ اپنے کندھے پہ دھرے اسکے ہاتھ کو بے دردی سے جھٹکتے وہ غصے سے گویا ہوا۔ وہ سہمتی دو قدم پیچھے ہوئی۔۔
کون سی محبت۔ کیسی محبت ۔۔ یہ محبت ہے تمہاری۔۔ اپنے اللہ کی محبت کا تمہیں ذرا خیال نہیں آیا ۔ اپنے بے ہودہ لباس کو تم نے رب کی بجائے میری وجہ سے ترک کر دیا۔ محبت میں اپنے لباس کو نہیں اپنے دل کو تبدیل کرنا پڑتا ہے میڈم ۔۔ اور خبردار جو آج کے بعد میں میرے راستے میں آئی تو۔۔۔"
اسنے غصے سے اسے تیز آواز میں وارن کیا۔۔ تو اسنے سر شرمندگی سے جھکا لیا ۔اذلان نے ایک نظر اسکے جھکے سر پہ ڈالی اور جیپ سٹارٹ کیے اسکی آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلا گیا ۔
" یہ سچ تھا کہ اسے چڑ تھی ۔ لڑکیوں کے بے ہودہ لباس سے۔۔ اسکے مطابق لڑکیو کو اپنے خدا کے حکم کے مطابق اور خود کو چھپا کے رکھنا چاہیے تھا۔ اسے کلب جاتی نہیں بلکہ مدرسے جاتی لڑکیاں پسند تھیں، آج جو کچھ بھی ہوا اسکی آنکھوں کے سامنے کسی کا دھندلا سا عکس نمودار ہوا۔۔ وہ بھی تو ایسی ہی تھی۔ مگر اسکی ضد اور غرور اذلان کا ذرا نہیں بھاتی تھی۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتے اسنے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔
💥💥💥💥💥💥
خوش ہو تم۔۔۔
حرمین کے دمکتے چہرے کو دیکھ وہ ہاتھ پاکٹ میں ڈالتے ہوئے گویا ہوا۔۔
" بہت خوش ہوں۔۔۔ وہ چہکتے ہوئے گویا ہوئی۔ انزِک دل سے مسکرایا اسے یوں خوش دیکھ کر۔۔"
آج پہلے ریسٹ کریں گے۔۔ گاڑی میں بیٹھتے اسنے حرمین کو بولنے سے روکا تو وہ منہ بنائے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔ وہ لوگ پہلے ہوٹل میں رکے تھے۔ وہاں سے ڈنر کرتے انزِک نے گاڑی ایک پرائیویٹ فلیٹ کی جانب بڑھائی۔۔ وہ اکثر یہاں میٹنگ کے سلسلے میں آتا تھا۔ اور اب حرمین کے ساتھ وہ ہوٹل میں نہیں رک سکتا تھا۔
" جاؤ یہاں سے تم۔۔۔۔ سر پہ ہڈ ڈالتے اسنے نیلی سرخ ہوتی نظروں سے ساتھ بیٹھے اپنے ساتھی کو گھورا ۔۔ وہ حیرت زدہ سا ہوا۔۔ مگر پھر جی سر کہتا وہ گاڑی سے اترا اور جنگل میں غائب ہوتا چلا گیا۔۔ ایل نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سامنے فلیٹ میں داخل ہوتی گاڑی کو۔۔ گاڑی کی کھلی کھڑکی کے اوپر اسکا ہاتھ تھا۔۔ وہ شیو مسلتے اس لڑکے کی پشت کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔
"حرمین آج ریسٹ کرنا میں کل خود تمہیں لے جاؤں گا۔۔ انزِک نے مسکراتے اسکے کندھے پہ اپنا کوٹ ڈالا ۔۔ ٹھنڈ کے احساس سے حرمین نے کوٹ دونوں ہاتھوں میں تھاما اور سر کو ہاں میں ہلایا۔۔
اوکے اب روم میں جاؤ ریسٹ کرو۔۔ اسکی سرخ ناک اور گالوں پہ ابھرتے ڈمپل سے نظریں چرائے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔ وہ سر ہلاتی اندر بڑھ گئی۔۔ انزِک کی نگاہوں نے دور تک اسکی پشت کا احاطہ کیا۔ وہ ایک دو ضروری کام کرنے کے بعد وریام کو اپنی آمد کی اطلاع دیے اندر داخل ہوا تھا۔ اور اچھے سے لاک کرتے اسنے حرمین کے بند دروازے کو دیکھا اور پھر اپنے روم میں چلا گیا ۔"
"وہ جو کافی دیر سے ویٹ کر رہا تھا۔ اب تیس منٹ گزرنے کے بعد وہ باہر نکلا تھا۔۔ نظریں سامنے بند کھڑکی کی جانب مرکوز تھیں۔ وہ جانتا تھا کونسا روم تھا اسکا۔۔۔
وہ دو منٹ میں کھڑکی کو کھولتے اندر داخل ہوا۔۔ نظریں روم میں چھائے اندھیرے میں سے ہوتی سامنے دائی جانب بیڈ پہ گئی۔ جہاں وہ سمٹی ہوئی سی گھٹڑی بنی ہوئی لیٹی تھی۔ وہ یہاں اسے ایک نظر دیکھنے آیا تھا۔۔ آخر کیسی دکھتی تھی اسکی نفرت کی وجہ۔ ۔۔
قدم آگے بڑھاتے وہ دھیمے سے آگے ہوئے۔ اور سامنے میز پر پڑے لیمپ کو آن کیا ۔ کمرے میں ہلکی سی روشنی پھیلی۔۔ مقابل کی پشت کو دیکھتے اسنے ہاتھ ہڈ میں ڈالے۔۔۔ پانچ منٹ تک وہ یونہی کھڑا رہا۔ اچانک سے حرمین نے کروٹ بدلی تھی۔ لیمپ کی تیز چھبتی روشنی اسکی نیند میں حلل ڈال رہی تھی۔ تھکاوٹ کے سبب اسنے لب بھینجے۔۔ تو گال میں ابھرتے واضع ڈمپل نے اپنی چھپ دکھائی تھی۔
مقابل کی پہلی نظر اسکے ڈمپل پہ گئی۔ دل میں عجیب سی ہلچل ہونے لگی۔ اسنے ہاتھ سے آہستہ سے اسکے چہرے پہ بکھرے بالوں کو پیچھے کیا اور بیڈ پہ اسکے پاس بیٹھا۔۔ اسکے پورے چہرے کو بغور دیکھتے اسنے ہلکا سا شیو کو انگوٹھے سے مسلا۔۔
" تو اسکی مام کے کہے مطابق وہ واقعی خوبصورت تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ بے انتہا خوبصورت تھی تو غلط ناں تھا۔ مگر اسکے چہرے پہ پھیلا معصومیت کا نور اسے مزید پرکشش بناتا تھا۔ ایل نے اپنی نیلی سرخ آنکھوں سے اسکے گلابی ہونٹوں کو دیکھا۔ اور سر جھکٹتے ہنس دیا۔۔
حرمین کو نیند میں ہی خود پہ کچھ عجیب سی نظر محسوس ہوئی تو اسنے پٹ سے آنکھیں کھولی۔۔ اسنے آنکھیں جھپکائی اور غائب دماغی سے خود پہ جھکے ہڈ میں سرخ دو روشن نیلی آنکھوں کو دیکھا۔۔ حساسیت بیدار ہوئی تو وہ ایک دم سے سرخ چہرے سے چیختی کہ مقابل نے مسکراتے اسکے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھا۔۔
" ابھی میں بزی ہوں بعد میں کال کرنا." کیز سے دروازہ کھولتے وہ بے زاری سے بائیں ہاتھ میں پکڑے موبائل کو ایک نظر دیکھتی کال کٹ کرتے موبائل جیب میں رکھتے اندر داخل ہوئی۔
دروازے کو مڑتے اندر سے لاک کیے ، وہ موبائل بے زاری سے بیڈ پر پھینکنے لگی کہ اچانک سے محسوس رنگ کی آواز پہ اسنے گردن کو دائیں بائیں جانب گھماتے خود کو پرسکون کیا۔ سامنے ہی ویام کے میسیجز شو ہو رہے تھے۔ اسے لگا کہ شاید وہ غصہ ہو گا اسکے یوں بنا بتائے پیرس جانے پر۔۔
اسنے ٹائم دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے۔میسجز دیکھنے کا ارادہ ترک کیے وہ موبائل بیڈ پہ پھینکتے کبرڈ کی جانب بڑھی ۔ بیگ سے کپڑے نکالتے اسنے یونہی بے ترتیبی سے سارے ایک ساتھ اندر ٹھونسے اور آرام دہ ڈریس نکالتے شاور لینے چلی گئی ۔
دماغ اس وقت ایچ اے آر کے متعلق بری طرح سے الجھا ہوا تھا۔ پرسوں میٹنگ تھی۔ اور اسکے پاس صرف ایک دن تھا ۔ اس ایک دن میں الایہ کو ناں صرف میٹنگ کی جگہ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ایچ اے آر کے باقی ساتھیوں کی اپ ڈیٹس حاصل کرنی تھی۔
بالوں کو یونہی کھلا چھوڑتے وہ خجاب بنائے جائے نماز جو وہ ساتھ لائی تھی۔ اسے بچھائے نماز ادا کرنے لگی۔ موبائل سے ڈیجیٹل قرآن سے تلاوت کرنے کے بعد دل و روح میں سکون سا اترتا محسوس ہوا ۔
دروازے پہ دستک ہوئی تو اسنے خجاب کھولا اور گلے میں سٹالر لپیٹتے وہ دروازہ کھول گئی۔ سامنے ہی ویٹرس تھی۔جس نے مسکراتے اسے کافی دی ۔ سمائل کا تبادلہ کرتے وہ کافی کا مگ تھامتے اندر آئی تھی۔ اور یونہی مگ تھامتے وہ کروان سے ٹیک لگائے بیٹھی۔ لیپ ٹاپ تو بیگ میں تھا۔ تھکاوٹ کے سبب آنکھیں بند ہو رہی تھی۔
گرما گرم کافی کو اندر انڈیلتے اسنے مگ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا تو نظر دوبارہ سے موبائل پہ پڑی۔ ویام کے میسیجز کا سوچتے وہ موبائل اٹھائے چیک کرنے لگی۔ مسکراتے ہونٹ ایک دم سے سمٹے تھے۔
جب ویام کے مسیج کے ساتھ عیناں اور ویام کی تصویر دیکھی۔ آنکھوں میں ایک الگ سا غصہ جلن کے تاثرات نمودار ہوئے ۔
" اوہ تو اس لیے اس بھورے بلّے نے مجھے اتنی آسانی سے پیرس آنے دیا ۔۔ وہ سمجھتی غصے سے مٹھیوں کو بھینج گئی۔ "
غصے سے سانس پھولنے لگا۔ اسکا بس نہیں تھا کہ ابھی جاتے اسے سیدھا کر دے ۔ تم نے اچھا نہیں کیا ویام ۔۔۔۔ اب غلطی کی ہے تو اس کی سزا بھی بھگتو گے تم۔۔ گہری کالی آنکھوں میں تھکاوٹ اور غصے سے سرخ در آئی تھی۔ خوبصورت نقوش تنے ہوئے تھے۔ مگر پھر اچانک ہی وہ پراسرار سی مسکرائی۔ لبوں کی مسکراہٹ جان لیوا تھی۔ اسنے ادا سے نم بالوں کو جھٹکا اور کھلکھلا اٹھی۔
کوئی اور اسے یوں اکیلے روم میں کھلکھلاتے ہوئے دیکھ لیتا تو یقیناً اسے پاگل تصور کر لیتا ۔ وہ ایسی ہی تھی۔ ضدی ، بدتمیز ، گھمنڈی سی۔۔ اپنے رشتوں کے لئے جان دینے اور لینے والی۔ اور اس وقت اسکی سوچوں کا محور اسکی چھوٹی سی ڈول اور ویام تھے۔
مگر جلد ہی اسنے ویام کو سبق سکھانے کا ارادہ بنا لیا تھا۔
" ڈوٹ وری ویام اس بار الایہ نہیں بلکہ الایہ کی عین تم سے نپٹے گی ۔۔ "
اسنے پرسوچ انداز میں سوچتے موبائل میز پہ رکھا تھا۔ یقیناً ویام سوچ رہا ہو گا کہ میں پریشان رہوں گی۔ مگر وہ جانتا نہیں کل اسے کتنی پریشانی اٹھانی پڑے ۔۔ وہ کمفرٹر خود پہ برابر کرتی بڑبڑائی تھی ۔ اور لائٹ آف کرتے آنکھیں موندیں۔۔
💥💥💥💥💥
امی کچھ چاہیے آپ کو۔۔۔ یسری نے کھڑے ہوتے کمرے میں داخل ہوتی سلمیٰ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ آنکھوں میں حیرت کے تاثرات لیے وہ ایک جانب ہوئی۔ حسن نے بھی گردن گھمائے اپنی ماں کو دیکھا۔ حیا کے کمرے میں اچانک انکی آمد سے وہ دل ہی دل میں خوش بھی تھا۔
حیا جو اپنے بابا کے سر دبانے پہ آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔ اب اپنی دادو کا سنتے وہ بھی آنکھیں کھولے اٹھنے لگی کہ حسن نے اسے کندھے سے تھامتے دوبارہ سے لٹایا۔۔ لیٹی رہو بیٹا طبیعت ٹھیک نہیں ہے ابھی تمہاری۔ حسن نے تھوڑ سختی سے کہا تو حیا نے اپنی دادو کو دیکھا۔ جو چھڑی کے سہارے کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
یسری سے چاہے ان کی ناراضگی تھی مگر حیا کو انہوں نے ہمیشہ سے اپنے نزدیک رکھا تھا۔ اپنی اکلوتی پوتی انہیں بے حد عزیز تھی۔ وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو روک نہیں سکی تھی ۔ اور خود ہی حیا کے کمرے میں اسے دیکھنے کو آئی تھی۔ مگر اب وہاں حسن اور یسری کو دیکھ وہ گڑبڑا اٹھی۔
کچھ نہیں چاہیے مجھے تمہیں زخمت کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ بیگم نے یسری کو دیکھ غصے سے کہا تو حسن نے لب بھینج لیے۔ یسری پھیکا سا مسکرا دی۔
"امی جان آئیں اندر آئیں وہاں کیوں کھڑی ہیں۔ حسن نے بیگم کا دھیان بٹاتے ہوئے کہا۔ "
"ہممممم ۔۔۔ "وہ ہنکارہ بھرتے چارو ناچار آگے بڑھی تھی۔ دل میں حیا کو دیکھنے کی جو فکر لگی تھی۔اسے دیکھے بنا گزارہ نہیں تھا۔
"بخار تو ابھی ہے گڑیا کو ۔۔۔۔ " حسن نے اٹھنے ان کو جگہ دی تو وہ حیا کے پاس بیٹھی اور ہاتھ سے اسکے ماتھے کو چھوا۔ حسن اور یسری دونوں ہی اتنے سالوں بعد انکے بہتر رویے پہ خوش تھے جبکہ حیا کی آنکھوں میں نمی در آئی۔ اپنی دادو کے یوں لاڈ پہ ۔۔ وہ آنکھیں کھولے بغور انہیں دیکھ رہی تھی۔ جو نظریں چرا رہی تھی۔۔
جی امی وہ دراصل ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ ایک دو دن تک اثر رہے گا ابھی بخار خود بخود ہی ٹوٹ جائے گا۔ " حسن نے یسری کو مسکراتے دیکھ بتایا تو یسری حسن کے پرسکون چہرے کو دیکھ اپنے رب کی شکر گزار ہوئی تھی۔ جو آج اتنے دنوں بعد حسن کو یوں پرسکون دیکھ پائی تھی۔ "
" بچی کو کچھ کھلایا بھی ہے کہ نہیں۔۔" حیا کے ماتھے کو دباتے وہ حسن سے گویا ہوئی۔
"جی امی جان سوپ پلائی ہے تھوڑی سی ۔۔ اور میڈیسن دے دی ہے ۔ " یسری نے فورا سے بتایا تو وہ خاموش سر ہلا گئی۔"
اب کیا یہیں کھڑے رہنا ہے ہمارے سر پہ۔۔ " حسن اور یسری کو گھورتے وہ غصے سے گویا ہوئیں تو وہ دونوں ہی سٹپٹا اٹھے۔
جی وہ امی آج حیا کے پاس یسری سونا چاہ رہی تھی۔ کہ کہیں رات کو کسی چیز کی ضرورت ناں بن جائے۔" حسن نے اپنے کھڑے ہونے کی وجہ بتائی ۔
یسری انگلیاں چٹخانے لگی۔ جبکہ حسن ہاتھ پشت پہ باندھے ہوئے کھڑا تھا۔ صبیح چہرے پہ پریشانی کے تاثرات بھی نمایاں تھے۔
آج رات میں یہیں رکوں گی گڑیا کے پاس تم دونوں جاؤ یہاں سے۔۔۔ انہوں نے سختی سے دونوں کو حکم دیا ہاتھ سے چشمہ ٹھیک کیا اور ٹیک لگا کر بیٹھی۔ تو حسن اور یسری کو یونہی منہ کھولے کھڑا پایا۔ کیا اب اعلان کرواؤں۔۔ وہ غصے سے بولی تو حسن نے فورا سے یسری کے بازو کو تھاما تھا اور واک آؤٹ کر گیا ۔
سلمیٰ بیگم نے ایک چور نظر بند دروازے پہ ڈالی اور پھر خود کو آنسوں بھری نظروں سے دیکھتی حیا کی جانب متوجہ ہوئی۔
اسکی نم آنکھوں میں شکوہ دیکھ ایک پل میں ہی انکا دل پسیج گیا ۔وہ جھکتے حیا کی دونوں آنکھوں پہ بوسہ دیتے اسکی پیشانی پہ ہونٹ رکھ گئی۔ انکی اپنی آنکھیں بھی نم ہوئی تھی۔ جبکہ حیا نے ایک دم سے سر انکی گود میں رکھا اور رونا شروع کر دیا۔
کیا ہو گیا میری جان ۔۔۔ خاموش ہو جاؤ ۔۔۔٫" اسکے یوں زاروقطار رونے پہ وہ گھبرا گئی۔ فورا سے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں تھامتے وہ متفکر سی ہوئی۔ حیا نے آنسو بازوؤں سے رگڑتے سر نفی میں ہلایا ۔
_"دادو آپ ناراض ہیں مجھ سے ۔۔۔"
حیا نے سر دوبارہ سے انکی گود میں رکھتے پوچھا۔ وہ جانتی تھی۔ جو کچھ بھی ہوا تھا شاید امن کی وجہ سے اتنے سالوں تک وہ دور رہی تھی اس سے۔ ۔۔ مگر حیا جانتی تھی۔ وہ بے حد چاہتی تھی اسے۔۔ اور آج اس طرح سے انکا پریشان ہونا حیا کے پاس آنا۔۔ حیا کو اندر سے پرسکون کر گیا تھا۔
نہیں میری جان میں ناراض نہیں ہوں تم سے۔۔ بس وقتی غصہ تھا۔ جو اب ختم ہو گیا ۔ " بیگم نے اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
مگر امن کا دکھ ابھی تک تھا انہیں۔۔ وہ جانتی تھیں۔ امن شرارتی ضرور تھا۔ مگر وہ ایسا نہیں تھا۔ انہیں یقین تھا اپنے ناتی پہ۔۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ حیا کبھی جھوٹ نہیں بولے گی۔ وجہ وہ جاننے سے قاصر تھی۔ کہ آخر ایسا ہوا کیا تھا۔ جو حیا نے اتنا بڑا الزام لگایا تھا۔ مگر ایک بات تو طے تھی۔ وہ یوں حود کو حیا سے دور رکھ اب مزید دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔
"سو جاؤ میری جان ۔۔ میں یہیں ہوں تمہارے پاس۔۔۔ " بیگم نے حیا کی پیشانی چومتے کہا۔ تو وہ مسکراتی آنکھیں موند گئی۔ مگر جونہی آنکھیں موندی تو مقابل کی سرخ رنگ شہد آنکھوں کو خود پہ پایا۔۔ وہ فورا سے آنکھیں کھول گئی ۔اور آج دن کے متعلق سوچے گئی۔ کیا اگر آج مما ناں آتے تو امن کچھ کرتا اسکے ساتھ۔۔ وہ دن سے کئی بار اس بارے میں سوچ چکی تھی۔
مگر جتنا سوچتی اتنی ہی الجھ جاتی۔ کبھی لگتا کہ ہاں وہ ضرور اسے برباد کرتا ، وہ اسے ہی تو اپنی بربادی کی وجہ سمجھتا تھا تو پھر کیونکر اسے چھوڑتا۔ اور کئی دفعہ اسے لگتا کہ وہ مخض اسے ڈرانے کو آیا تھا۔۔
حیا بیٹا سو جاؤ ۔۔پریشان مت ہو اللہ بہتری کریں گے۔ اسے جاگتا پاتے بیگم نے محبت سے کہا ۔ تو وہ آیت الکرسی پڑھنے لگی۔ جانے کب پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھ لگی۔ اسکے سونے کے بعد بیگم نے مسکراتے اسکے سر کو گود سے اٹھاتے تکیہ پہ رکھا تھا۔ اور کمفرٹر برابر کرتے سورتیں اسپہ پھونکی اور لائٹ آف کرتے خود بھی اسکے پاس ہی نیم دراز ہوئی ۔
💥💥💥💥💥💥
" نین یار آج ڈنر باہر کریں گے۔۔۔ اوکے اسے کبرڈ میں کپڑے ہینگ کرتا دیکھ وریام نے پیچھے سے حصار میں لیتے مسکراتے ہوئے کہا ۔ تو نیناں کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے۔
کیوں کس خوشی میں ہم باہر ڈنر کریں گے۔۔ میں نے کھانا بنا لیا ہے کوئی ضرورت نہیں جانے کی۔۔،،"
کمر کے گرد اسکے بندھے ہاتھوں کو تھامنے کی کوشش کرتے وہ سختی سے گویا ہوئی۔
جی نہیں آج ہم باہر جائیں گے۔ ڈیٹس اٹ۔۔۔ وریام نے ختمی انداز میں کہا اور تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائی۔ نیناں نے اس چھچھورے کو نظروں سے گھورا ، وریام نے آنکھ دباتے اسکے گال پہ بوسہ دیا۔
"وریام کمینے انسان چھوڑو مجھے۔۔۔۔ نیناں نے غصہ ہوتے اسے خود سے دور کرتے کہا جو اپنی بے باکیوں پہ اتر رہا تھا ۔"
نین یار کمینہ کسے بولا بھول گئی اپنا پرامس۔۔ تم نے کہا تھا کہ تم مجھے آپ کہو گی اور عزت سے بات کرو گی۔ وریام جانتا تھا ۔ وہ اکثر غصے میں ایسا کہہ دیتی تھی اور آج تو حرمین کے جانے کے بعد وہ کافی برے موڈ میں تھی۔
مجھے آگے ہی تم پہ بہت غصہ ہے وریام ، تو اسی لئے دور رہو مجھ سے ، ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔ نیناں نے دور کھڑے ہوتے انگلی اٹھائے اسے وارن کیا۔ وریام نے مسکراتی نظروں سے اسکے غصے کو دیکھ لب دانتوں تلے دبائے۔
" میں بھی تو یہی چاہتا ہوں کہ کچھ اچھا ناں ہو ، ہم دونوں مل کے گستاخیاں کریں اور پھر ان گستاخیوں کے بدلے میں اللہ ہمیں پھر سے ایک چھوٹا سا بیٹا یا بیٹی عطا کر دیں۔۔ جھٹکے سے اسے بازوؤں سے کھینچتے وہ خود سے لگائے باری باری اسکے گالوں پہ بوسہ دیے گویا ہوا ۔ نیناں کی آنکھیں پھٹ پڑی۔۔
"یا اللہ مجھے صبر دے۔۔۔ " نیناں نے آسمان کی جانب سر اٹھاتے متفکر سے لہجے میں کہا۔۔ تو وریام نے زور شور سے سر کو ہاں میں ہلاتے آمین کہا۔۔"
" اچھا ڈنر پہ نہیں جانا تو تمہاری مرضی ویسے بھی آج ہم دونوں اکیلے ہیں۔ پہلے کوئی رومینٹک سی مووی دیکھیں گے۔۔ہھر ایک سویٹ سا کپل ڈانس۔۔ مگر تمہیں ایک وعدہ کرنا پڑے گا مجھ سے۔۔ نیناں کی تھوڑی پہ لب رکھتے وہ اسے باتوں میں لگانے لگا۔۔ نیناں نے ماتھے پہ بل ڈالے شرط کا پوچھا۔۔
یہی کہ تم ڈانس کے دوران مجھ سے زیادہ فری نہیں ہو سکتی۔ میں ایک شریف سا بندہ ہوں۔۔ "
وہ آنکھیں پٹپٹاتے اپنی گردن کے گرد نیناں کے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔۔ نیناں نے حیرت کی زیادتی سے منہ کھولے اسے دیکھا۔
اور پھر ڈانس کے بعد ہم دونوں لانگ ڈرائیو پہ جائیں گے۔ اور پھر سے کہوں گا تم اپنے جذبات پہ قابو رکھو گی۔ کوئی کس وِس نہیں چلے گی۔ میں بالکل شریف ہوں۔مجھے شرم آتی ہے۔۔" نیناں کی ناک پہ لب رکھتے وہ اس قدر معصومیت سے بولا کہ نیناں نے اس ٹھرکی کے سفید جھوٹ پہ زور سے اپنے پاؤں کو اسکے پاؤں پہ مارا۔۔
وریام درد سے بلبلا اٹھا۔۔"
اللہ اللہ بیوی مارنے کا ارادہ ہے کیا ؟ ٹھیک ہے میں تھوڑا ذیادہ شریف ہوں۔مگر اگر تم اتنا فورس کرو گی تو تھوڑا سا میں بھی فری ہو جاؤں گا۔ " وہ کہاں باز آنے والا تھا اور آج تو بالکل بھی نہیں۔ اتنی مدت بعد اسے وقت ملا تھا اکیلے اپنی نیناں کے ساتھ یہ لمحات جینے کا۔۔ وہ کیسے اس وقت کو ضائع کر دیتا۔۔
اچھا تو پھر کیا ارادہ یے۔ ڈنر پہ چلیں کہ آج گھر پہ ہی ڈنر کرنا ہے۔۔ وریام نے پھر سے اپنی بات دہرائی اور کھینچتے اسے حصار میں لیا۔۔ نیناں نے مسکراہٹ دبائی، جانتی تھی وہ جان بوجھ کے اسے تنگ کر رہا تھا تا کہ وہ جانے کےلئے حامی بھر دے۔
میرا خیال ہے کہ آج ہمیں شرافت سے گھر پہ ہی جو بنا اسے کھانا چاہیے۔ویسے بھی اس عمر میں کون باہر ڈنر پہ جائے۔۔ نیناں نے اسکی مسکراتی بھوری آنکھوں میں دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔ تو مقابل کی مسکراہٹ پل بھر کو سمٹی مگر وہ پھر دلکشی سے مسکرایا۔۔
نیناں نے بغور اسکے حسین چہرے کو دیکھا۔
تو ٹھیک ہے جان۔۔ آج ڈنر گھر پہ ہی کریں گے اور سویٹ ڈش میری پسند کی ہو گی۔۔ ابکی بار اسنے معنی خیزی سے کہتے نیناں کو دیکھا جو سرخ ہوتی رنگت سے اسے گھور رہی تھی۔
"جائیں دیکھیں کون ہے۔۔ " وہ جواب دیتی کہ اچانک سے ڈور پہ بیل ہوئی نیناں نے مسکراتے اسے دروازے کی جانب بھیجا اور خود کپڑے سیٹ کرنے لگی۔
"یس واٹس دی پرابلم۔۔۔۔ " اپنے خوبصورت لمحات کے بیچ یوں کسی کا آنا اسے ہرگز گنوارہ نہیں تھا۔ جبھی اسنے جلے بھنے انداز میں کہا۔
سوری سر آپ کو ڈسٹرب کیا۔۔ یہ بائیک کہ چابی اور یہ لیٹر ۔۔۔ ڈرائیور نے چابی اور لیٹر اسکے سامنے کیا۔ تو وریام نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
" ویام سر کی بائیک کی چابی ہے اور یہ لیٹر بھی آپ کیلیے ہے ۔" ویام کے ذکر پہ وریام نے حیرت سے ڈرائیور کو دیکھا اور پھر اسے جانے کا اشارہ کیا۔۔ گارڈ سے ہلاتے وہاں سے چلا گیا۔"
وریام نے دروازہ لاک کرتے ماتھے پہ بل سجائے لیٹر کو کھولا ۔
'' اسلام علیکم ! مسٹر کاظمی۔۔۔ کیسے ہیں آپ یقیناً میری غیر موجودگی میں بہت خوش ہونگے ۔۔۔ ہونا بھی چاہیے ، کونسا یہ خوشی روز روز ملتی ہے۔ میری نین کا خیال رکھئے گا۔۔ اگر وہ ذرا سی بھی کمزور ہوئی۔ تو آپ کے لئے اچھا نہیں ہو گا۔۔"
اسکے یوں کھلے عام دھمکی دینے اور اپنی بیوی کو یوں مخاطب کرنے پہ وریام نے سرخ چہرے سے مٹھیوں کو سختی سے بند کیا۔
" خیر مدعے پہ آتا ہوں۔ دراصل میری بائیک یونی میں ہے آپ کی بہو کو لینے گیا تھا۔ تو بائیک وہیں رہ گئی۔ آپ جا کر گائیک کے آئیے گا۔ اور دوسری بات میری عین اس وقت میرے پاس ہے۔ میرے سسر ، میرا مطلب آپ اپنے دوست کو انفارم کر دیں کہ پریشان مت ہوں ہم دونوں ہنی مون پہ آئے ہیں۔۔ میں عین کا اچھے سے خیال رکھوں گا۔۔ اور دوسری بات حور کو اور نین کو میرا بہت سا لاڈ اور پیار ۔۔ بائے۔۔۔۔مسٹر کاظمی کا چھوٹا پیس ۔۔ "
جوں جوں وہ لیٹر کو پڑھ رہا تھا اسکے چہرے کے تاثرات بدل چکے تھے۔ اسے یقین نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اس سے بھی بڑا کمینہ نکلے گا۔۔ خود تو بنا بتائے عیناں کو ہنی مون پہ لے گیا اور اوپر سے باپ کو پھنسا گیا۔۔۔ رافع اور فدک کے سوالات کا سوچ سوچ کر ہی وریام کو شدید غصہ آ رہا تھا اپنے بتمیز بیٹے پہ۔۔
" کیا ہو گیا وریام آپ ٹھیک ہیں۔۔ اسے یوں دروازے کے پاس متفکر سا کھڑا دیکھ نیناں نے پریشانی سے اسکے کندھے کو ہلاتے ہوئے پوچھا۔۔"..
" تمہیں کہا تھا ناں کہ یہ کمینہ میرا بیٹا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ مجھے آج یقین ہو گیا ہے کہ وہ ہمارا بیٹا نہیں ۔۔ ضرور نرسز نے ہمارے بیٹے کو بدل دیا ہے کس دوسرے کے بچے سے۔۔"
نیناں کے کندھوں کو تھامتے وریام نے دانت پیستے ہوئے کہا جیسے ویام جو کچا چبا جائے گا۔
استغفر اللہ وریام ۔۔۔۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں وہ میرا ہی بیٹا ہے میں جانتی ہوں یہ بات۔۔ نیناں نے غصے سے کہا اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا وریام کا یوں کہنا اپنے لاڈلے کے لئے۔۔
ہونہہ تمہاری آنکھوں پہ تو ممتا کی پٹی بندھی ہے کچھ نظر نہیں آتا تمہیں۔۔ وریام نے تلملاتے ہوئے کہا۔ تو نیناں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔
اچھا یہ تو بتائیں کیوں ہیں اس قدر غصے میں۔۔ ہوا کیا ہے آخر۔۔نیناں نے اسے پرسکون کرنا چاہا۔۔۔ وہ جانتی تھی جب بھی وریام ویام کی کسی حرکت سے غصہ ہوتا تھا تو یونہی کہتا تھا۔۔ اب بھی وہ یہی کر رہا تھا۔۔ مگر وجہ نیناں کو نامعلوم تھی۔
کیا ہوا ہے۔۔ اس کمینے انسان نے آرڈر دیا ہے مجھے کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون پہ جا رہا ہوں تو آپ ذرا میرے سسرال میں اطلاع کر دیں۔ دیکھو اس کمینے کے کام اب میں کس کس کو وضاختیں دوں۔ بھلا رخصتی سے پہلے بھی کوئی ہنی مون پہ جاتا ہے۔۔ تم جانتی ہو ناں کہ فدک کتنی حساس ہے عیناں کے لئے۔۔"
وریام نے نیناں کو ویام کے کارنامے بتائیں تو ہنسی آنے کے باوجود وہ خود پہ قابو کرنے لگی۔۔
ہاں ہاں تم بھی دانت نکال لو ہنس لو مجھ پہ۔' وریام نے خفاہوتے اسے گھورا۔ اس سے پہلے کہ وہ غصے سے باہر جاتا نیناں نے فورا سے اسکا ہاتھ تھاما۔
میں نے کہا تھا ناں کہ آپکا ہی بیٹا ہے۔ یہ سب تو ہونا ہی ہے۔۔
اگر باپ نکاح کا بول کے زبردستی مجھے اٹھا کے
سات سمندر پار لے جا سکتا ہے تو پھر بیٹا بھلا رخصتی سے پہلے ہنی مون پہ کیوں نہیں جا سکتا۔۔ نیناں نے اسکی گردن کے گرد دونوں ہاتھ لپٹاتے اسی کے انداز میں کہا تھا۔۔ وریام کے چہرے پہ ایک دم سے گزرے وقت کو یاد کرتے مسکراہٹ سی بکھری ۔
"ہمممم آئ تھنگ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ تو کیوں ناں آج تم خود ہی اپنے بیٹے کو سیو کرو۔۔۔ "نیناں کے چہرے پہ جھولتے بالوں کو پیچھے کرتے وریام نے شرارتا کہا ۔
" استاد آپ ہیں اپنے بیٹے کے۔۔ اگر آپ شریف ہوتے تو میرا بیٹا بھی شریف ہی ہوتا۔ یہ چھچورا پن اسے وراثت میں ملا ہے تو اب آپ ہی اسے پروٹیکٹ کریں۔۔ "
نیناں نے صاف اسے دیکھتے منع کر دیا کہ اسے القابات پہ وریام کامنہ بن گیا ۔
ڈونٹ وری کچھ کرتا ہوں میں۔۔۔" اپنی شیو کو مسلتے اسنے پرسوچ انداز اپناتے ہوئے کہا۔ کہ نیناں ہنس دی اسکے انداز پہ جانتی تھی کہ اب جو بھی کرنا تھا وریام کو ہی کرنا تھا۔
کیوں ناں آج ڈنر رافع اور فدک کے ساتھ کریں۔ وہیں چل کے اسے اطلاع کر دیں گے کیا خیال ہے !" نیناں کو دیکھتے اسنے رائے جاننا چاہی تو وہ کندھے اچکا گئی۔
"میں کال کر کے اسے آگاہ کرتا ہوں۔۔ ابھی تو تمہارے لاڈلے نے بائیک کی چابی بھی بھجوائی ہے مجھے وہ بھی لینے جانا ہے۔۔ منہ بنائے اسنے گویا شکایت لگائی تھی ویام کی۔۔ "
" میں کچھ نہیں جانتی وریام میرے لاڈلے کے خلاف مجھے بھڑکانا بند کریں اور کال کریں رافع بھائی کو۔۔۔"
نیناں نے اسے ٹوکتے ویام کے خلاف کچھ بھی کہنے سے باز رکھا۔ نتیجتاً وہ برے سے منہ بناتا رافع کو کال کرنے لگا۔
💥💥💥💥💥💥
ہائے موم۔۔۔۔ ہائے ڈیڈ ۔۔۔ " کندھے پہ لٹکتے اپنے بیگ کو دور سے ہی صوفے کی جانب اچھالتے وہ ایک نظر اپنے ڈیڈ اور موم کو دیکھ بولی۔"
" ہائے ڈارلنگ ہاؤ آر یو ۔۔۔۔ مقابل صوفے پہ بیٹھے نیوز چینل سرچ کرتے داؤد نے مسکراتے اپنی لاڈلی کو ہاتھ سے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ "
تو وہ ایک چور نظر بظاہر کٹنگ کرتی اپنی موم کی جانب ڈالتی ایک ہی جست میں دوڑتی اپنے ڈیڈ کے گلے لگی ۔"
" آپ کی سینیوریٹا کو کیا ہو گیا۔ " داؤد کے کان میں گھستے میرب نے تجسس سے پوچھا۔ اسکے طرزِ تخاطب پہ دؤاد کا قہقہ بے ساختہ تھا۔ مگر جلد ہی دعا کی گھوری پہ سٹپٹاتے اسنے قہقہہ اندر ہی ضبط کیا ۔"
" تم کل سے گھر پہ نہیں ہو تو اسی وجہ سے اسے ڈانٹنے کے لئے صرف ایک عدد خوبصورت شوہر ملا اسی وجہ سے غصے میں ہے ۔ داؤد نے بھی سرگوشی میں اسے حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا اور ہاتھ کی پشت سے میرب کی پیشانی کو چھوا۔۔ اور پھر گال کو ۔۔۔ جو بخار سے تپ رہے تھے۔"
" میرو میری جان آپ کو تو بخار ہو گیا ہے۔۔ اٹھو ہم ابھی ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔ اپنی لاڈلی کے یوں اچانک بیمار ہونے پہ وہ پریشانی سے اسکی پیشانی چھوتے اسے ساتھ لگائے اٹھنے لگا۔ "
"نو ڈیڈ آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی۔ ویسے بھی جب ڈاکٹر گھر میں موجود ہو تو باہر کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔۔"
اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو گھمائے اسنے داؤد کے سینے سے لگتے کہا تو وہ مسکراتے سر نفی میں ہلا گیا۔
بالوں کو کیا کیا ہے میرب۔۔۔۔ دعا کی تفتیش میں ڈوبی تیز آواز پہ وہ سٹپٹا اٹھی۔ ایک نظر اپنی ڈیڈ کو دیکھا تو وہ آگے پیچھے دیکھنے لگے ۔ پھر اپنی موم کو دیکھا جو اسے ہی فرصت س گھور رہی تھی۔ میرب نے زبان سے خشک ہونٹوں کو تر کیا۔
"مم موم وہ پپ پتہ نہیں کیا ہو گیا ان کو۔۔۔ سو کے اٹھی تھی تو ایسے ہی ہوئے تھے۔" ڈیڈ کو امید سے دیکھتے اسنے دعا کو دیکھا۔ اب یہ تو بتانے سے رہی کہ عیناں نے بالوں کو کھینچا تھا تب سے گھونسلا بنے ہوئے تھے۔
یونی کیوں نہیں گئی تم آج۔۔۔ اب کی بار اسنے غصے سے پوچھا تھا ۔ میرب نے سر کھجایا۔۔ بڑی بڑی سرمئی آنکھوں میں بخار کی وجہ سے سرخی در آئی تھی۔ اسنے معصومیت سے منہ بنائے ڈیڈ کو دیکھا۔
"دعا کیا ہو گیا ہے ابھی بچی آئی ہے آتے ہی تفتیش شروع کر دی۔۔ یہ گھر ہے کوئی پولیس اسٹیشن نہیں۔۔ میری بچی کو آگے ہی سخت بخار ہو رہا ہے ۔ میرو میری جان آپ جا کر ریسٹ کرو۔۔ میں آتا ہوں پھر چیک اپ کر کے آپ کو میڈیسن دوں گا۔۔ اوکے جاؤ شاباش میرا بچہ۔۔۔"
داؤد نے محبت سے میرب کے بالوں کو سہلایا اور ساتھ ہی دعا سے نظر بچاتے میرب کو آنکھ مارتے اندر جانے کا کہا۔ جو اب مسکراہٹ دبا رہی تھی۔
ایک منٹ ڈاکٹر داؤد رحمان ۔۔۔ میں آپ سے نہیں اپنی بیٹی سے بات کر رہی ہوں تو بہتر ہو گا کہ آپ خاموش رہیں۔۔ دعا نے ائبرو اچکاتے داؤد کو وارن کیا ۔ داؤد نے سر کھجاتے میرب کو محسوس اشارہ کیا ۔ تو وہ صوفے سے اٹھتی فوراً سے روم کی جانب بھاگی۔۔
" داؤد ہاؤ ڈئیر یو۔۔۔ تم جانتے ہو ناں کہ مجھے بات کرنی تھی اس سے۔ تم ہر بار ایسا ہی کرتے ہو، بگاڑ کے رکھ دیا ہے تم نے اسے۔۔ میرب کے جاتے ہی دعا نے غصے سے داؤد کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ تو بدلے میں ہلکا سا مسکرایا۔"
" سینیوریٹا جب ایسے پورے نام سے پکارتی ہو ناں قسم سے پھر سے محبت ہو جاتی ہے تم سے۔۔۔ وہ جگہ سے اٹھتے دعا کے پاس جاتے بولا ۔ تو دعا نے تاسف سے سر ہلایا۔ یہ بٹرنگ بند کرو ، اب میں پھر سے تمہاری باتوں میں نہیں آنے والی سمجھے تم۔۔۔ پہلے ہی مجھے اپنی ان چکنی چپڑی باتوں میں پھانس کے تم نے شادی کر لی مجھ سے ۔۔۔ خبردار جو اب مجھے مسکے لگانے کی کوشش کی ۔"
دعا نے چھری اٹھائے اسے وارن کیا۔ تو داؤد نے مسکراہٹ دبائی اور اسکے پاس ہی کرسی پہ بیٹھا۔۔
میری جان یہ محبت ہے داؤد رحمان کی! دیکھو یونہی تو نہیں یونی کے دوست آج تک مجھے عاشق کہتے ہیں ۔"
اسنے کالر اٹھائے فخریہ انداز میں کہا تو دعا نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔۔
یہ سچ تھا کہ وہ یونی ٹائم سے ہی اسے بہت پسند کرتا تھا۔ کئی مرتبہ دعا کو پرپوز بھی کیا تھا مگر اسنے ہر بار انکار کر دیا کہ وہ پاکستان میں جا کر کسی سے شادی کرے گی۔ اسکے بعد داؤد نے نیناں ،وریام ،رافع اور فدک ان سب کو اپنی محبت کا یقین دلایا تھا۔ جس کے بعد سب نے داؤد کا ساتھ دیتے دعا کو آخر کار شادی کے لئے راضی کر لیا تھا۔ "
"داؤد مذاق چھوڑیں عادتیں دیکھیں اپنی لاڈلی کی۔۔ بیس کی ہونے والی ہے ۔ مگر ذرا جو عقل ہو اس میں۔ کون تھامے گا اس کا ہاتھ ۔۔۔ ہر وقت شرارتیں ، مستی کوئی ڈھنگ کا کام تک اسے کرنا نہیں آتا، اور عیناں کو دیکھیں چھوٹی ہے چھ ماہ میرب سے مگر ماشاءاللہ سے کتنی سمجھدار اور نرم طبیعت کی مالک ہے۔۔ مجھے ہر وقت اس لڑکی کی پریشانی کھائے رکھتی ہے ۔
دعا نے داؤد کو دیکھتے کہا جو سنجیدگی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
" دعا پہلی بات تو یہ کہ مجھے اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی ایسے شخص کو تھمانا ہی نہیں جو اسکی معصومیت کو بے وقوفی گردانے۔ دوسری بات عیناں ماشاءاللہ سے سمجھدار ہے ۔یہ اسکی اپنی نیچر ہے ۔میری بیٹی کسی سے کم نہیں۔تم اسے بات بہ بات ڈی گریڈ کرنا بند کر دو، وقت کے ساتھ ساتھ وہ میچیور ہو جائے گی۔ اور میرے ہوتے اسے ہر قسم کی آزادی ہے۔
ویسے بھی جو میری بچی کے نصیب میں لکھا ہے وہ تو اسے مل ہی جانا ہے تم کیوں خود کے ساتھ ہر وقت میری معصوم بیٹی کو پریشان کیے رکھتی ہو۔ بخار ہے اسے اتنا تیز ، ایک بار بھی نہیں پوچھا تم نے اسے ۔۔ ہاتھ لگا کر دیکھا تک نہیں۔۔
میں جا رہا ہوں اپنی بیٹی کے پاس ۔۔ اگر تمہیں وقت مل جائے اور باتیں سنانے سے دل بھر جائے تو ایک بار دیکھ لینا اسے۔۔"
وہ سخت لہجے میں کہتے اپنے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔ استھیٹو سکوپ ، اور میڈیسن کا بیگ تھامے وہ باہر آیا تو نظر سامنے روتی زوجہ پہ پڑی۔۔ اسنے افسوس کرتے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔
دعا اب رو کس لیے رہی ہو۔۔" داؤد نے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کرنا چاہے تو جوابا دعا نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا۔۔
داؤد آپ کو کیا لگتا ہے۔میں دشمن ہوں اسکی میری کچھ نہیں لگتی وہ۔۔ آپ اچھے سے جانتے ہیں۔دن رات مجھے میرب کی فکر ستائے رکھتی ہے۔۔ کبھی دیکھا آپ نے دنیا کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر میں اسے کچھ ناں کہوں تو وہ بالکل ہی خود میں مگن رہ جائے۔ بال تک نہیں بنانے آتے اسے ۔۔ کب تک میں سنبھالوں گی اسے۔ میں اگر غصہ کرتی ہوں تو صرف اس لئے ناں تاکہ وہ اپنی عادتیں بدلے۔ مگر نہیں آپ کو تو میں ہی غلط لگتی ہوں۔۔"
وہ روتے ہوئے اس سے شکوے شکایات کرنے لگی۔ داؤد جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہی تھی۔ مگر ان سب میں میرب بری طرح سے ہرٹ ہوتی تھی۔
اچھا اب یہ رونا بند کرو، اٹھو پہلے میرب کا چیک اپ کر کے اسے دیکھ لیں پھر تم مجھے سنا لینا جتنا سنانا ہے۔۔ داؤد نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے کھڑا کیا تھا اور مسکراہٹ روکتے معصومیت سے کہا۔ جوابا وہ گھورتی آنسو صاف کرتی اس سے پہلے میرب کے روم کی جانب بڑھی ۔ پیچھے وہ سر جھٹکتا خود بھی میرب کے کمرے کی جانب بڑھا۔
اممممم۔۔۔۔ خوف سے آنکھیں پھیلائے اسنے حراساں سا ہوتے خود پہ جھکی ان نیلی سرخ آنکھوں کو دیکھ مزاخمت کرتے پورے وجود کا زور لگاتے خود کو مقابل کی گرفت سے آزاد کروانا چاہا۔۔۔ "
اسکے یوں پھڑپھڑانے ، آنکھوں میں موجود اپنے دیے خوف اور ڈر کے تاثرات کو دیکھ مقابل بیٹھا شخص پراسرار سا مسکرایا۔
حرمین کی آنکھوں میں ایک دم سے نمی در آئی تھی۔ اسنے جھپٹتے اپنے منہ پہ رکھے اسکے بھاری ہاتھ کو ہٹانا چاہا تو مقابل نے ائبرو اچکاتے اسے داد دی ، اور جھٹکے سے اسکے مزاخمت کرتے نازک ہاتھوں کو اپنے ایک ہاتھ میں تھامتے اسنے پیچھے تکیے سے لگایا ۔۔
خوف ، ڈر اور غصے کی سبب حرمین کا سانس پھول رہا تھا۔ ناک سرخ لہو رنگ ہوئے جا رہی تھی۔ جبکہ ہونٹوں پہ مقابل نے بری طرح سے اپنے ہاتھ کی گرفت جمائے اسے بولنے، چیخنے سے کا روک رکھا تھا۔
"امپریسو۔۔۔۔ " اسنے مسکراتے حرمین کو سراہا ، جو اب ٹانگیں چلا رہی تھی۔ ایل نے داد دیتی نظروں سے زخرخند مسکراہٹ سے اسکے نازک وجود کو گہری نظروں سے دیکھا۔
اسے اچھا لگ رہا تھا کہ اسکا شکار کمزور نہیں تھا۔ اب اسے کھیلنے میں یقیناً مزہ آنے والا تھا۔ وہ یہاں رات کے اس پہر صرف اپنی آنکھوں سے اسے دیکھنے کے لئے آیا تھا۔۔کہ آخر اسکی نفرت کی وجہ کیسی دکھتی ہو گی۔ مگر یہاں تو پہلی ملاقات میں جنگ چھڑ چکی تھی۔۔
اسکا یوں بن پانی مچھلی کی مانند تڑپنا، مقابل کو خوب بھایا تھا۔
" سوچ بدل دی ہے تم نے میری ، اچھا لگا تمہارا یوں تڑپنا۔۔۔۔" اسنے بھاری آواز میں معنی خیزی سے جھکتے حرمین کے کان میں سرد سی سرگوشی کی۔ وہ جو اسے اپنا خیال وہم سمجھ رہی تھی ۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ واقعی یہ کوئی خواب کوئی وہم نہیں تھا اسکا۔۔۔ "
خوف و دہشت سے حرمین کا چہرہ ایک دم سے زرد پڑ گیا۔ اپنے اتنی قریب کسی انجان کو یوں دیکھنا، خود کو بے بس پانا، آنکھوں میں ایک دم سے اپنی بے بسی سے آنسوں امڈ آئے تھے۔
امممممم۔۔۔ اسنے زور سے چیخنا چاہا مگر منہ پہ دھرے مقابل کے بھاری ہاتھ کی وجہ سے آواز اندر ہی دب سی گئی تھی۔
" یو نو وٹ روتی ہوئی لڑکیاں مجھے ذرا بھی پسند نہیں۔۔۔ " اسنے بغور حرمین کے آنسوں کو دیکھتے طنزاً کہا تھا کہ وہ مزاخمت ترک کرتی اسکے چہرے کو دیکھنے کی سعی کرنے لگی۔ مگر وہ جان بوجھ کے اندھیرے میں بیٹھا تھا کہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ صرف اسکی آنکھوں کی سرخی، ان میں جھلکتی نفرت کے سوا کچھ ناں دیکھ پائی۔
ایل نے مسکراتے اسکے ساکت وجود کو دیکھا اور ایک دم سے اسکی گردن پہ جھکا۔۔ اپنی بے بسی پہ ایک ساتھ جانے کتنے ہی آنسوں حرمین کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔ جبکہ اسے یوں تکلیف میں مبتلا دیکھ وہ سرشار سا ہوا۔ اسنے جھکتے اپنی ناک اسکی شہہ رگ سے سہلائی ، جوابا وہ تڑپ اٹھی اور اختجاج کرتے اپنے ہاتھ چھڑوانے کی سعی شروع کر دی۔
ایل نے ایک بے زار سی نظر اسکے دوبارہ سے مزاخمت کرتے وجود پہ ڈالی۔ اور گہری سانس فضا میں خارج کرتے اسنے جھکتے زور سے دانت اسکی گردن میں گھاڑے ، حرمین یوں خود کو کسی درندے کی گرفت میں پاتے مچل اٹھی۔ ڈر ، خوف اپنے بے آبرو ہونے کا احساس اسے پل میں کئی موت مار گیا ۔
اسنے شدت سے اپنے مرنے کی دعا کی۔ اور زور سے آنکھیں میچتے اپنے رب سے یہ سب ایک خواب ہونے کی دعا شروع کر دی۔ اگر یہ سب سچ ہوتا تو کیسے وہ جی پاتی۔ اسنے بے بسی سے دھاڑے مار کے رونا شروع کر دیا۔۔ ایک دم سے پورے روم میں اسکی دلدوز سی چیخیں گونجنے لگی۔۔۔۔
"حرمین حرمین۔ کیا ہوا ۔۔۔۔ ! حرمین گیٹ اپ یار ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔۔"
اسکے یوں ایک دم سے چیخنے پہ انزِک ہڑبڑاتے ہوئے اٹھا تھا ، کمرے میں آتے ہی اسنے تعجب سے بیڈ کی جانب دیکھا ، جہاں وہ آنکھیں بند کیے جانے کس احساس کے تحت چیخ رہی تھی۔ انزِک نے لپکتے اسے باززوں سے جھنجھوڑتے اٹھایا۔۔
مگر ڈر اور خوف کے احساس تلے دبی وہ معصوم اور شدت سے رونے چیخنے لگی۔۔ انزِک نے ایک دم سے اسے جھنجھوڑا۔ تو حرمین نے آنکھیں کھولتے حالی حالی نظروں سے انزِک کی جانب دیکھا۔۔۔
انزِک ووو ووہ اببب ابھی ییی یہاں پہ وو وہ کک کک کوئی تت تھا۔۔ ااس اسنے ممم میرے منہ پہ ہہ ہاتھ رر رکھا ۔۔ انن انزِک پپ پلیز ممم مجھے نن نہیں رہنا یہی یہاں۔۔۔ "
حرمین نے ہوش میں آتے حراساں سی نظروں سے انزِک کو دیکھا تھا اور لپکتے اسکے بازوؤں پہ سر رکھتے اسنے خوف سے کپکپاتے اسے ٹوٹے الفاظ میں بتایا۔۔ انزِک ایک دم سے اسکی حالت پہ اور یوں رونے چینخنے پہ پریشان سا رہ گیا۔۔ اسنے نرمی سے اسکے بالوں کو سہلایا اور نظریں جھکائے اسکے اسکارف کو سر پہ اوڑھایا ۔ حرمین اس وقت اپنے حواس میں نہیں لگی تھی اسے۔۔۔
"انن انزِک وو۔۔۔۔۔"
حرمین نے رونے سے سرخ ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔
"اشششش کچھ نہیں یہاں ، دیکھو میں ہوں ناں کوئی بھی نہیں یہاں اوکے ریلکیس۔۔۔ ڈونٹ وری میں ہوں ناں۔۔۔" اسکے ڈر کو سمجھتے وہ بیڈ پہ تھوڑی سی جگہ پہ بیٹھا اور نرمی سے اسکے آنسوں صاف کیے۔ حرمین نے روتے نفی میں سر ہلایا۔۔
"نن نہیں کک کوئی تھا مم مجھے پتہ ہے۔ یی یہ دیکھو یہاں اسنے مم مجھے کٹ کیا۔۔۔۔" وہ روتی ہزیانی سی ہوتے اپنی گردن کی جانب اشارہ کرنے لگی۔۔ انزِک نے اسکے اشارہ پہ گردن کی جانب دیکھا تو وہاں پہ ناخن سے خراش پڑی تھی ۔ جو شاید حرمین نے ہی خود کو دی تھی۔
"حور میں نے کہا ناں کہ کوئی نہیں دیکھو کوئی کٹ کا نشان نہیں تمہاری گردن پہ۔۔ اور اب رونا بند کرو میں ہوں تمہارے پاس اوکے تم سو جاؤ آرام سے۔۔ " انزِک نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا تھا ۔شاید نئی جگہ پہ یوں اکیلے رہنے کی سبب وہ ڈر گئی تھی۔
"نن نہیں تم سس سمجھ نن نہیں رہے وو وہ تت تھا ممم مجھے پہ پتہ ہے کککوئی خواب نہیں تھا ۔یہ۔۔ "
حرمین نے اسکے ہاتھ کو دور جھٹکتے یقین سے کہا تھا۔ ڈر سے اسکا نازک وجود پورا لرز رہا تھا۔ وہ حراساں سی نظروں سے بند کھڑکی کو دیکھ رہی تھی۔ انزِک نے اسکے نظروں کے حصار میں دیکھتے کھڑکی کو دیکھا
" اوکے میں دیکھتا ہوں ریلکس۔۔ "وہ کہتا جگہ سے اٹھا تھا اور کھڑکی چیک کی جو کہ شاید جام تھی ۔۔اسنے زور لگاتے کھڑکی کو کھولا اور باہر جھانکا۔۔ مگر ہر سوں اندھیرے اور سامنے گھنے جنگل کے سوا اسے کچھ ناں دکھا۔۔
"کوئی نہیں حور دیکھو میں نے چیک کیا ہے شاید تمہارا وہم ہو گا۔۔ اچھا ایسا کرتے ہیں تم میرے روم میں سو جاؤ آج اوکے۔۔ ویسے بھی کل سے ماریا بھی یہیں رہے گی تو تمہیں کمپنی مل جائے گی۔۔ "
انزِک نے اسے موضوع سے ہٹاتے پرسکون کرنا چاہا۔
٫کک کون ماریا۔۔ "آنسوں صاف کرتے اسنے لب دانتوں تلے دبائے ہچکی روکنے کے لئے ، گالوں میں ابھرتے ڈمپل سوگوار حسن میں بیٹھی وہ دوشیزہ مقابل کے اعصاب کو بری طرح سے چٹخا رہی تھی۔۔ انزِک سے نظریں چرانا مشکل ہونے لگا۔۔ ایک دم دل چاہا کہ ابھی وقت ہے اپنے جذبات سے آگاہ کر دے اسے۔۔۔ مگر پھر اگلے ہی لمحے ویام کے خیال اور اوپر سے حرمین کے ری ایکشن کا سوچتے اسنے ساری سوچوں کو دماغ سے جھٹکا۔۔
" بتایا تھا ناں کہ میرے دوست کی بہن یہیں پہ ہے تو اسے میں نے بول دیا ہے کل سے وہ یہاں رہے گی اور پھر اس سے تمہیں بھی کمپنی مل جائے گی ۔"
انزِک نے ہلکی سی مسکراہٹ سجائے کہا۔تو حرمین نے سر ہاں میں ہلایا۔۔
"میں تمہارے روم میں سوؤں گی ۔ حرمین نے گویا حکم دیتے انداز میں کہا اور بنا اسکے جواب کا ویٹ کیے وہ روم سے نکلتی چلی گئی۔۔ انزِک اسکے یوں بھاگنے پہ سر جھکٹتے بیڈ پہ آیا۔۔ ایک گہری مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کیا۔۔ اسنے مسکراتے تکیے کو بانہوں میں بھینجتے گہرا سانس اسکی خوشبو میں لیتے مسکراتے آنکھیں موند لی۔۔۔
اسنے غصے سے ہاتھ سے پنچ مارتے گاڑی کے شیشے کو چکنا چور کر دیا،
" پک اپ دی کال ڈینی۔۔۔ اسنے غصے سے اپنے ماتھے پہ بکھرے ڈارک براؤن بالوں کو ہاتھوں میں بھینجا۔۔۔ دینی نے فورا سے کال پک کی۔ "
"تمہارے پاس آدھا گھنٹا ہے! مجھے جاننا ہے کہ انزِک نامی لڑکا وریام کاظمی کا کیا لگتا ہے۔۔اور اگر ایک سیکنڈ بھی تم نے لیٹ کیا تو لندن کے بھوکے کتوں کو تمہاری لاش تک نہیں ملنے دوں گا۔۔ انزِک پہ آیا سارا غصہ اسنے ڈینی پہ نکالتے ساتھ ہی اسے وارن بھی کیا۔ جسکی آنکھیں فورا سے خوف سے پھیل گئی۔۔ وہ جو گہری نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔فورا سے جی سر کہتے اٹھا، اسکی بیوی نے آوازیں دیتے اس سے پوچھا تو وہ ضروری کام کا بولتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔"
" حرمین وریام کاظمی۔۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔ اس دو ٹکے کے لڑکے کے بازو پہ سر رکھا۔۔ یو وِل پے فار دزِ۔۔۔۔ اسنے غصے سے اپنے لہو لہان ہوئے ہاتھ کی مٹھی کو بھینجا۔۔۔ آنکھوں کے سامنے ابھی تک وہی منظر کسی فلم کی مانند گھوم رہا تھا۔ وہ مخض اسے ڈرا رہا تھا۔۔ اسکے چیخنے پہ وہ مسکراتا کھڑکی سے غائب ہوا تھا مگر اچانک سے انزِک کی آمد ، حرمین کے یوں اسکے نزدیک ہونے نے اس نفرت میں جھلستے انسان کو مزید آگ لگا کہ رکھ دی تھی۔۔ اسکا بس نہیں تھا کہ ابھی وہ انزِک کے وجود کے چِھتڑے چِھتڑے کر دیتا۔۔
اسنے سر جھکٹتے ڈور اوپن کیا تھا ۔ فلحال خود کو پرسکون کرنا زیادہ ضروری تھا۔۔ کچھ سوچتے اسنے گاڑی ریورس کرتے شہر کا رخ کیا۔
💥💥💥💥💥💥
نیند پوری ہونے پہ وہ گہرے سانس لیتے آنکھیں مسلتے اٹھنے لگی ۔ مگر خود کو یوں کسی کے تنگ حصار میں محسوس کرتے اسنے پٹ سے آنکھیں کھولیں ۔۔ نظریں سامنے ہی سوتے ویام پہ پڑی۔۔
عیناں نے لب دانتوں تلے دبائے۔ ۔۔ وہ ابھی تک اسکے سینے پہ سوئی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں ایک دم سے محبت ، شرم کے تاثرات ابھر آئے۔۔ اسنے لب دانتوں تلے دبائے۔ کہنی اسکے دائیں جانب سینے پہ ٹکائی اور سر اونچا کیے، گہری نظر مقابل کی سحر طاری کرتی بند آنکھوں پہ ڈالی ، اسنے نرمی سے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ پھیرا ، پھر اسکی مغرور سی ناک کو چھوتے اسکے دل میں عجیب سے گدگدی ہوئی ۔۔اسنے غور سے ویام کو دیکھا جو ویسے ہی لیٹا تھا۔
اسے سوتا پاتے عیناں میں مزید حوصلہ بیدار ہوا تھا جبھی شیرنی بنتے اسنے، ویام کے دونوں گالوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوا ، اسکی ناک سے نکلتی نرم گرم سانسیں مقابل کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔ عیناں نے لب دانتوں تلے دبائے اور چہرہ نیچے کیے اسی کی طرح اسکی تھوڑی کو چھوا ، جس طرح وہ استحقاق سے چھوتا تھا۔۔ اپنی حرکتوں پہ اسے ہنسی آنے لگی۔ اسنے منہ پہ ہاتھ رکھا اور ایک نظر بند کھڑکی پہ ڈالی شاید باہر برف باری ہو رہی تھی۔۔
ایسے علاقے میں جانا اسکا خواب تھا مگر اس وقت اسنے ایک چور نظر ویام کی جانب ڈالی تو اسے سوتا پاتے دل کو سکون ملا۔ اور آرام سے پیچھے ہوتی بنا آواز کیے وہ بیڈ سے اترنے لگی کہ اگلے ہی لمحے اسکی چیخ فضا میں بلند ہوئی۔
جب مقابل نے جھٹکے سے اسے بازؤں پر سے کھینچتے ایک ہاتھ اسکی کمر میں لپٹائے اسے کھینچتے اپنے حصار میں لیتے اپنے نیچے گرایا تھا۔ عیناں نے ڈرتے اس افتاد پہ آنکھوں کو مضبوطی سے میچا۔۔۔۔۔
"صبح صبح سوئے ہوئے شیر کو جگا کر ناقابلِ فراموش گستاخیاں کر کے کہاں جانے کا ارادہ تھا میڈم۔۔۔۔"
ویام نے مسکراتے اسکی بند آنکھوں اور لرزتی پلکوں کو دیکھا اور ایک گہری نظر اسکے کپکپاتے وجود پہ ڈالی۔۔
"مممم میں نے تو کک کچھ بھی نن نہیں کک کیا۔۔۔۔" خشک ہوئے لبوں پہ زبان پھیرتے ہوئے عیناں نے بظاہر مسکراتے خود کو بہادر بناتے کہا ۔۔۔۔
مقابل نے ائبرو اچکاتے اسکے سفید جھوٹ پہ اسے داد دینے والے انداز میں دیکھا ۔۔۔۔
"ہمممم ۔۔۔۔۔ ویسے جا کہاں رہی تھی تم۔۔۔۔ ویام نے اسی کا عمل دہراتے اسکے چہرے پہ اپنے ہاتھ کو پھیرا ۔۔۔" عیناں نے تھوک نگلتے سوچنا شروع کر دیا آخر کرے تو کیا کرے۔۔"
" وو وہ مم میں بب باہر جا رہی تھی۔۔ اپنے ناک پہ اسکے لمس کو محسوس کرتے عیناں نے فورا سے بتایا تو مقابل گہرا مسکرایا ۔
"ویسے تم مجھے جاگتے ہوئے بھی پیار کر سکتی ہو ، ایم نیور مائنڈ سویٹ ہارٹ۔۔۔۔" اس نے مسکراتے اسکے گالوں پہ بوسہ دیتے کہا ۔ تو عیناں کی پلکیں حیا اور شرم سے لرز پڑی ۔
"گڈ مارننگ نہیں کہو گی ۔ " اسے یوں خاموش دیکھ ویام نے جھکٹے سے اسکی کمر کے گرد حصار تنگ کرتے اسے خود میں بھینجا،۔۔۔ شرم و حیا سے سرخ پڑتی عیناں نے مضبوطی سے اسکے کندھوں کو تھاما ۔
"ویسے میرے لئے اس سے خوبصورت مارننگ کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم روز ایسے ہی مجھے اپنی محبت سے جگاؤ۔۔۔" اسکے کندھے پہ لمس چھوڑتے ویام نے گھمیبر سرگوشی کی ۔۔ جبکہ عیناں تو اسکی شدت سے ڈرتی اسی میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی۔"
" وو ویام۔۔۔ عیناں نے ڈرتے اسے پکارا ، تو مقابل کے چہرے پہ ایک دم سے جان لیوا مسکراہٹ بکھری۔۔
اسے مزید تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے اسنے نرمی سے حصار توڑا اور جھکتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے وہ شاور لینے چلا گیا۔۔
اسکے جاتے ہی وہ گہرہ سانس فضا کے سپرد کرتے پٹ سے آنکھیں کھول گئی۔۔ اپنے کپڑوں کی جانب دیکھا تو خود کو اسی کے لباس میں دیکھ وہ لب دانتوں تلے دبائے اٹھی۔۔ بالوں کو برش کرتے اسنے یونہی کھلا چھوڑ دیا۔۔ہئیر بینڈ اور کیچر تو تھا نہیں پاس۔۔ وہ یونہی کھڑکی کے پاس جاتے آسمان سے گرتی برف کو اشتیاق بھری نظروں سے دیکھے گئی ۔
اچانک سائڈ ٹیبل پہ رکھا موبائل رنگ ہوا۔۔ عیناں نے حیرت سے یہاں وہاں دیکھا تو اسے اندازہ ہوا یہ ویام کے فون کی بیل تھی۔۔
اسنے کچھ سوچتے موبائل کی جانب قدم بڑھائے تھے اور سامنے اسکرین پہ دیکھا تو الایہ کا نمبر "مس بک بک" کے نام سے سیو تھا۔۔ غصے سے بند دروازے کو دیکھا اور ساتھ ہی مسکراتے سر جھٹکتے اسنے موبائل اوپن کیا مگر سامنے ہی لاک شو ہوا۔۔ کچھ سوچتے اسنے عیناں ٹائپ کیا مگر ایرر شو ہوا۔۔
اسنے پھر سے عین ٹائپ کیا تو لاک کھل گیا۔۔ کوئی ویڈیو تھی شاید اسنے پریس کیا تو ہونٹوں پہ بکھری مسکراہٹ ایک دم سے سمٹ سی گئی۔۔
آنکھوں میں بے یقینی اور حیرت کے تاثرات امڈ آئے ۔۔ کرسٹل گرے انکھوں میں ایک دم سے آنسو امڈنے لگے۔۔۔
ہاتھ اور ہونٹ کپکپانے لگے تھے۔۔ عیناں نے مضبوطی سے ہونٹ آپس میں پیوست کیے کہ اچانک سے وہ شاور لیتا بلیک جینز پہنے شرٹ لیس سا بالوں کو تولیے سے رگڑتا باہر آیا۔۔
ویام نے ایک نظر عیناں کو دیکھا جو رو رہی تھی۔۔اور پھر اسکے ہاتھ میں موجود موبائل فون کو۔۔۔
" ہیے وائے آر یو کرائنگ عین۔۔۔ وہ متفکر سا ہوتا اسکی سمت بڑھا۔ عیناں نے اسکے بڑھتے قدموں کو دیکھ سر کو زور زور سے نفی میں ہلایا اور بنا کچھ کہے وہ بھاگتے وہاں سے باہر نکلی۔۔
ویام نے اسے پکارا اور بھاگتے موبائل کو آن کیا۔۔ تو سامنے کا منظر دیکھ اسکی آنکھوں میں شدید غصہ در آیا ۔۔ جہاں وہی ویڈیو تھی، جو اس رات ویام نے اس لڑکی کو پرپوز کیا تھا۔ ۔۔ویام نے مٹھیاں بھینچی، اوپر ہی الایہ کا میسج تھا ۔۔
جہاں بڑے خروف میں Surprise* لکھا ہوا تھا۔۔
جبڑے بھینجتے اسنے موبائل کو دیوار سے دے مارا۔۔ اور فورا سے اپنی ہڈ نکالتے وہ عیناں کو آوازیں دیتا باہر آیا۔۔ اسنے کچن ، اور باقی روم چیک کیے مگر وہ اسے کہیں نہیں ملی۔۔ دل و دماغ غصے سے پھٹنے کو تھا۔"
" وہ باہر آیا جلدی سے روم میں جاتے اسنے لیپ ٹاپ نکالا اور دو منٹ پہلے کی ویوڈیو پلے کی۔۔ جہاں وہ اسے روتی گیٹ سے باہر جاتی دکھائی دی۔۔۔"
"شٹ یار۔۔۔۔۔" ویام نے غصے ، اشتعال سے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑا تھا۔۔ دماغ جیسے پھٹنے کو تھا۔۔۔ خود کو پرسکون رکھتے اسنے غور کی وہ صرف ویام کی شرٹ اور جینز میں تھی اور باہر تیز برف باری ہو رہی تھی۔۔ ویام کا دل چاہا کہ الایہ اسکے سامنے ہوتی تو وہ اسے ابھی شوٹ کر دیتا۔۔
اسنے کچھ سوچتے ایک اور اپر نکالتے خود پہ پہنی اور شوز پہنتے وہ باہر اسکے پیچھے دوڑا۔۔
"عین کہاں ہو تم۔۔۔ عین۔۔۔۔۔ چاروں جانب دھند کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اوپر سے اس قدر ٹھنڈ میں عیناں کا خیال آتے ہی ویام نے غصے سے سر کو نفی میں ہلایا۔۔٫
دماغ کو پرسکون رکھتے اسنے غور کی تو ایک جانب سے قدموں کے نشان دکھے۔۔ ننگے پاؤں کے نشانات دیکھتے ہی اسکا پارہ ایک دم سے ہائی ہوا تھا۔۔
"اگر میری عین کو کچھ بھی ہوا تو الایہ آئی سویر تمہارا یہ دن اس دنیا میں آخری دن ہو گا۔۔۔ اسنے غصے سے الایہ کا سوچتے بڑبڑاتے انہی قدموں کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔۔"
💥💥💥💥💥💥
" جو جو کچھ لینا ہے جلدی سے لے لو اپن کو جلدی سے کسی کام پر نکلنا ہے۔۔ مال کے سامنے گاڑی روکتے بھاؤں نے بےزاری سے کہا تو مٹھو سر ہلاتا باہر نکلنے لگا ۔۔
بھاؤں توں بھی چل ساتھ وہ کیا ہے کہ بچی کے کپڑوں کا میرے کو کوئی اتنا تجربہ نہیں ہے ناں۔۔۔۔ زوہا نے آنکھوں سے مٹھو کو اترنے سے باز رکھتے بھاؤں کو مخاطب کیا۔ تو مقابل نے ائبرو اچکائے مرر سے اسے دیکھا۔
" تیرے ساتھ یہاں پہ آیا ہوں کیا یہ کافی نہیں ،کیوں دماغ گھما رہی ہے میرا ۔۔۔ ' بھاؤں نے مرر سے اسے تیز نظروں سے گھورتے تنبیح کری تو وہ سٹپٹاتے پہلوں بدل گئی۔۔۔۔۔
"مگر بھاؤں اگر توں بھی چلے گا تو ساپنگ (شاپنگ)جلدی ہو جائے گی ناں۔۔ تیرے کو تو سارے جانتے ہیں ادھر۔۔ ۔"
زوہا نے پھر سے اک امید کے تحت کہا۔ ۔۔۔ بھاؤں کا ساتھ ہی اسکے لئے زندگی کی نوید تھی۔ بھاؤں نے لب بھیجے اور پھر دیری کا سوچتے باہر نکلا۔۔۔
" جلدی سے جو بھی لینا ہے لو اور فورا سے باہر نکل آنا سمجھی۔۔۔ گلاسز لگاتے اسنے سرد آواز میں کہا تو زوہا نے دل سے خوش ہوتے دھک دھک کرتی دھڑکنوں سے مقابل کی چوڑی پشت کو ایک نظر دیکھا اور اسکے ہمقدم ہوتے اس نے سہج سہج کے اسکے قدموں کے پیچھے اپنے قدم رکھے۔۔۔۔۔۔
فضا میں بکھرتی اسکی جان لیوا کلون کی خؤشبو کو سانسوں میں اتارتے وہ مدہوشی سے آنکھیں موندے مسکرانے لگی۔۔
" زوہا کیا کر رہی ہے یہ۔۔۔۔"
بھاؤں جو مکمل خاموشی محسوس کرتے شاپ کے سامنے رکا تھا اسنے مڑتے اسے حیرت سے دیکھا اور غصے سے بولا۔۔ کہ زوہا سٹپٹا اٹھی۔۔ ۔۔
"کک کچھ نن نہیں۔۔۔۔۔" اسنے ہونٹوں کو تر کیے ہلکی سی مسکان سجائے کہا تو بھاؤں نے سر جھٹکا۔۔۔۔۔۔۔
" اندر جا کے خریداری کرو میں یہیں ہوں۔۔۔۔" اسنے سائڈ ہوتے اسے راستے دیا تو وہ سر ہلاتے اندر چلی گئی۔۔۔ بھاؤں نے طائرانہ نظروں سے سارے مال کا جائزہ لیا۔۔
وہ اس وقت سیکنڈ فلور پے تھے۔۔ وہ چلتا گرل کی جانب بڑھا اور ایک نظر فرسٹ فلور میں چلتی بھیڑ پہ ڈالی۔۔ ماتھے پہ ایک دم سے بل نمودار ہوئے تھے۔ اس نے جیب سے لائٹر نکالتے سگریٹ سلگایا۔۔ اور دھواں فضا میں خارج کرتے اسنے یونہی خود پہ گہری نظروں کی تپش محسوس کرتے نظریں آگے پیچھے گھمائی ، اور جھٹکے سے پیچھے مڑا ۔۔۔۔۔۔
مگر دور دور تک کچھ بھی غیر معمولی نظر ناں آیا۔۔۔ اسنے آخری کش لیتے سگریٹ پاؤں کے نیچے مسلتے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا اور مخصوص چال چلتے وہ شاپ کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
" یہ والی شاپ چیک کر لیں، آپ دونوں یہاں کی ڈریسز بہت اچھی ہوتی ہیں۔۔"واجد نے ایک نظر اپنی موم اور حیا کی جانب دیکھتے ہوئے عجلت میں کہا ۔۔
"بیٹا یہ سب تو ٹھیک ہے مگر تم بھی آؤ ساتھ۔۔۔ "علینہ بیگم نے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ آنے کا کہا ، وہ یہاں شادی کی شاپنگ کرنے آئے تھے۔ حیا کی طبیعت ابھی تک ناساز تھی۔ مگر پھر علینہ بیگم کے اتنے اصرار اور واجد کے واپس جانے کا سنتے وہ ساتھ آنے کو مان گئی تھی ۔مگر اب یہاں پہ اسکی ساس ابھی تک کوئی بھی ڈریس سیلیکٹ نہیں کر سکی تھی۔۔ بقول انکے وہ اپنی حسین بہو کیلئے اسکے شایان شان ڈریس لینا چاہتی تھی۔۔ جو کہ ابھی تک انہیں نہیں ملا تھا۔۔
"امی مجھے سر کی کال آ رہی ہے ۔۔۔۔" کچھ ڈاکومنٹس آج دینے تھے۔۔ آپ دونوں شاپنگ کریں میں بس بیس منٹ میں ڈاکومنٹس اپنے دوست کو دے کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔"
واجد نے عجلت میں جاتے وجہ بیان کی تو علینہ بیگم نے ماتھے پہ بل ڈالے ۔۔۔
" یہ کیا بات ہوئی بھلا، جب تک حیا کا برائیڈل ڈریس سیلیکٹ نہیں ہو جاتا تم کہیں نہیں جا رہے سمجھے تم۔۔۔۔۔۔۔ "
انہوں نے غصے سے اسے جانے سے منع کر دیا تو مقابل لب بھینج گیا۔۔۔۔
" ارے آنٹی جانے دیں ضرور کوئی امپورٹنٹ کام ہو گا ویسے بھی میں اور آپ مل کے سیلیکٹ کر لیں گے ۔ " حیا کو بالکل بھی اچھا نہیں تھا لگا آنٹی کا یوں اسکی وجہ سے اپنے بیٹے کو ڈانٹنا۔۔۔ جبھی اسنے نرمی سے کہا تو وہ مسکرا دی۔۔۔
"یہ سہی ہے دیکھا میری بہو کو ابھی شادی ہوئی نہیں پہلے سے ہی طرف داری شروع کر دی تمہاری۔۔۔ "علینہ بیگم نے مسکراتی نظروں سے حیا کو دیکھتے اپنے بیٹے کو جتاتی نظروں سے دیکھ کر کہا تو واجد نے ایک گہری نظر اس نازک وجود پہ ڈالی اور خوبصورتی سے مسکراتے سر کو حم دیتے انکی بات کو قبولا۔۔۔
یہ تو سچ تھا کہ وہ واقعی میں تعریف کے قابل تھی۔۔۔
"اچھا آپ لوگ اطمینان سے ڈریسز چیک کر لیجئے اگر کوئی پسند ناں آئے تو کوئی ایشو نہیں ہم بوتیک چلیں گے کل۔۔۔۔" موبائل پاکٹ میں ڈالتے حیا کو نظروں کے حصار میں رکھتے اپنی موم سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔۔"
"چلو ٹھیک ہے مگر جلدی واپس آنا آگے ہی حیا کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔۔۔" علینہ بیگم نے حیا کے بجھے چہرے کو دیکھتے کہا تو وہ سر ہاں میں ہلاتے وہاں سے نکلا۔۔۔
"چلو آؤ بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔ "حیا کا ہاتھ تھامے وہ شاپ کے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔ اسلام علیکم! انہوں نے سامنے سیل گرل کو دیکھتے مسکراتے مخاطب کیا تو بدلے میں وہ بھی مسکراتی انکی جانب آئی ۔۔۔۔۔۔
"و علیکم السلام ! آنٹی بتائیے میں کیا مدد کر سکتی ہوں آپکی۔۔۔۔" وہ خوش اخلاقی سے مخاطب ہوئی،
"بیٹا ہمیں برائیڈل ڈریسز دیکھا دیں اچھے سے۔۔ یہ میری بہو ہے ہمیں اس کے لئے بالکل اس کے ہی جیسا خوبصورت سا ڈریس چاہیے۔۔۔۔ "
حیا کے گرد بازوؤں کا حصار باندھتے وہ محبت سے بولی۔۔۔
"جی آپ آئیں میرے ساتھ میرے پاس ایسی کولیکشن ہے جو یقیناً آپ کو اپنی بیوٹیفل بہو کے لئے پسند آئے۔۔۔۔۔۔۔"
وہ مسکراتی انہیں لیے ایک جانب بڑھی۔۔۔۔علینہ بیگم نے حیا کو بھی ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور ایک ساتھ آگے بڑھے۔۔ ۔۔۔۔
"یہ دیکھیں یہ ریڈ اور گولڈن کلر کا برائیڈل لہنگا ہے ۔۔ آپ ٹرائی کریں بہت پیارا لگے گا آپ پہ۔۔۔ " سیل گرل نے حیا کے کمزور وجود کو دیکھتے ایک خوبصورت سا ڈریس نکالا اور سامنے کرتے کہا۔۔۔۔۔۔
"ارے ایسے تو ہم نے اور بھی بہت سے چیک کیے ہیں کچھ یونیک دکھائیں ۔۔۔ ڈونٹ وری اماوئنٹ کی فکر مت کریں آپ۔۔۔۔۔"
علینہ بیگم نے ڈریس کو چھوتے کہا تو سیل گرل انکی بات پہ گہرا مسکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک جانب بنے روم میں گھس گئی۔۔
"رک سالے کہاں جا رہا ہے ۔۔۔ " ایک دم سے ہڑبڑی سے مچ گئی۔۔۔ لوگوں کی چیخ و پکار پہ وہ دونوں کسی کے یوں چیخنے پہ پلٹی تو سامنے ہی ہاتھ میں گن تھامے ایک عجیب سے دکھتے شخص کو بھاگتے دیکھا۔۔۔ حیا کی آنکھیں اسکے پیچھے بھاگتے بھاؤں کو دیکھ جیسے باہر ابلنے کو تھی۔۔۔۔۔
" رک کمینے جاتا کہاں ہے۔۔۔۔ "اسے شاپ میں داخل ہوتا دیکھ بھاؤں غیض و غضب سے دھاڑا۔۔۔۔۔ کچھ گڑبڑی کا شک تو اسے پہلے ہی ہو چلا تھا۔۔ اور اب یوں اس گنڈے کا دیکھ اسنے دبے قدموں اسے دبوچنا چاہا جو وہاں پہ پہلے سے چھپایا بم ایکٹیویٹ کر رہا تھا۔۔ اسنے احتیاطاً نظریں گھمائیں تو سامنے سے دبے قدموں سے اپنی جانب بڑھتے بھاؤں کو دیکھا۔۔۔۔۔
وہ خوف سے بم کو وہیں چھوڑتے گن نکالتے وہاں سے بھاگ نکلا تھا۔۔۔۔
بھاؤں اسکے یوں بھاگنے پہ اسکے پیچھے ہی بھاگا تھا جو اب تھرڈ فلور پہ پہنچ چکا تھا۔۔۔۔۔
" آگے مت بڑھ بھاؤں ورنہ میں میں۔۔۔۔۔ "رفیق (گنڈہ) نے شاپ میں داخل ہوتے گن بھاؤں پہ تانی۔۔ جو سامنے سے بے خوف پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اسی کی جانب آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
"میں میں کیا کیا کرے گا توں۔۔۔۔۔" بھاؤں نے طنزاً مسکراتے اسکا مذاق اڑایا جسکے ہاتھ کپکپا رہا تھا۔۔۔۔۔
"دد دیکھ ببب بھاؤں۔۔۔۔۔" اسنے آگے پیچھے دیکھتے بھاؤں کو کانپتی آواز میں ڈرانا چاہا۔۔۔۔ جبکہ علینہ بیگم تو ایک دم سے یہ سب دیکھ خوف سے زرد پڑ چکی تھی۔۔ انہوں نے حیا کو تھامتے ایک جانب اپنے پیچھے چھپایا۔۔۔۔
"کیا ببب بھاؤں لگا رکھا ہے۔۔۔۔ اور دیکھ کہاں رہا ہے توں اگر مرد کا بچہ ہے تو گولی چلا۔۔۔۔۔۔"
بھاؤں نے اطمینان سے اسے گولی چلانے کی دعوت دی۔۔۔ تو علینہ بیگم کے پیچھے چھپی حیا نے اچانک سے اسکے یوں کہنے پہ بری طرح سے لب کچلے تھے اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں اپنا اوڑھا حجاب دبائے اسنے ایک نظر سامنے بے خوف سے کھڑے بھاؤں کو دیکھا۔۔۔۔
اگر اسے کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔۔ حیا نے ایک دم سے سوچتے خوف سے بڑبڑاتے اپنی ہی بات کی نفی کی۔۔۔
"دد دیکھ بھاؤں آگے مت بب بڑھ مم میں چلا دوں گا۔۔۔۔"
اسنے حلق تر کرتے پیچھے کی جانب قدم بڑھائے تو علینہ بیگم یوں اس گنڈے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ گھبرا اٹھی۔۔۔۔
"بیٹا آپ اس ساتھ والے کمرے میں جاؤ۔۔۔۔۔ "انہوں نے ہاتھ سے حیا کو پیچھے دھکیلا۔۔۔۔۔ تو حیا نے فورا سے سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔
" میں آپ کو چھوڑ کے نہیں جاؤں گی آنٹی آپ بھی ساتھ چلیں۔۔۔۔ وہ جو امن کو اس طرح سے بے تاثر ، بپھرا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔ علینہ بیگم کے کہنے پہ ہوش میں آئی اور فورا سے نفی کی ۔۔۔۔۔۔
"اچھا چلو یہاں سے ۔۔۔ " اسے ساتھ لیے وہ اسی کمرے کی جانب بڑھی جہاں پہ سیل گرل گئی تھی ۔۔ یہ علاقہ تھوڑا گنجان تھا۔۔ اور شام کے اس پہر وہ دونوں ہی اس شاپ میں اکیلی تھیں۔۔۔۔
"کہاں چلی بوڑھیا۔۔۔۔۔۔ بھاؤں اگر توں نے ایک قدم بھی آگے لیا تو میں اس لڑکی کو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔"
رفیق (گنڈے) نے بھاؤں کو بچے کو چھپاتے دیکھا تو فورا سے آگے پیچھے نظریں گھمائی اور سامنے ہی علینہ بیگم کے ساتھ جاتی حیا کا ہاتھ تھامتے اسکی گردن پر سے ہاتھ لے جاتے اسنے گن اسکی کنپٹی پہ سیٹ کی۔۔۔۔۔
بھاؤں جو اچانک سے کسی چھوٹے بچے کو وہاں ڈرا سہما دیکھ کپڑوں کے بیچ چھپا رہا تھا آواز پہ اسنے بچے کو خاموش رہنے کا کہا اور کھڑا ہوتے سامنے دیکھا تو ماتھے پہ ایک دم سے شکنوں کا جال سا ابھرا۔۔۔۔ اسنی گردن پہ ہاتھ پھیرتے خود کو آنکھیں بند کیے پرسکون کرنا چاہا ۔۔۔۔۔
"چھوڑ لڑکی کو۔۔۔۔ " وہ دبے دبے غصے سے غرایا۔۔۔۔ تو رفیق قہہقہ لگا اٹھا۔۔۔۔
"ایسے کیسے۔۔۔۔ پیچھے ہٹ اور مجھے جانے دے یہاں سے ۔۔۔ اگر توں نے ایک قدم بھی آگے لیا تو اس لڑکی کو نہیں چھوڑوں گا میں۔۔۔۔"
نن نہیں نہیں بیٹا پلیز میری بہو کو کچھ مت کرنا ، پلیز چھوڑ دو اسے۔۔۔۔۔۔ "علینہ بیگم نے ہاتھ جوڑتے ایک دم سے رفیق سے بھیک مانگتے انداز میں کہا وہ حیا کے خوف سے سفید لٹھے کی مانند پڑے چہرے کو دیکھ ایک دم سے کسی انہونی کے ڈر سے خوف میں مبتلا ہوئی۔۔۔۔
"اے بڑھیا۔۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے ہٹ ورنہ یہیں پہ بھون ڈالوں گا اِسے۔۔۔۔ "مقابل کھڑے رفیق نے گن کا دباؤ حیا کی کنپٹی پہ بڑھاتے علینہ کو دور رہنے کی تائید کی۔۔۔ جو ڈر اور گھبراہٹ سے حیا کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔
"سن بھاؤں اگر اس لڑکی کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے ناں تو ابھی پیچھے ہٹ اور وہ سامنے دوسرے کیبن میں چل۔۔۔۔۔ "
رفیق نے حیا کی گردن پہ دباؤ بڑھایا تو وہ خوف سے چیخ اٹھی۔۔
بھاؤں نے سرخ ہوئی غصب ناک نظروں سے حیا کی خوف سے نم گہری سیاہ آنکھوں میں جھانکتے گردن کو جھٹکا تھا۔۔۔ اور ہاتھ اوپر کیے اور سامنے بنے کیبن کی جانب بڑھا ۔۔ اسکا کوئی بھی قدم حیا کی جان پہ خطرہ بن سکتا تھا ۔ اور ایسا وہ کبھی بھی نہیں ہونے دے سکتا تھا۔۔۔
"منہ دوسری طرف کر ۔۔۔ " شیشے سے اندر جھانکتے رفیق نے بھاؤں کو حکم دیا تو وہ جبڑے بھینجتے رخ دوسری جانب کر گیا ۔۔ رفیق نے فورا سے روم کو باہر سے لاک کیا اور حیا کو ڈھال کی صورت میں ساتھ لیے وہ لفٹ کی جانب بڑھا۔۔۔
بھاؤں نے مڑتے سامنے دیکھا اور غصے سے دیوار پہ مکہ مارتے اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔
معا دماغ میں کچھ کلک ہوا ۔۔ وہ کیبن کے لاک دروازے کے پاس پہنچا تو سامنے ہی علینہ بیگم رو رہی تھی اور سیل گرل جو ڈر کے چھپی ہوئی تھی وہ ایک جانب ڈری سی کھڑی تھی ۔ بھاؤں نے سیل گرل کو دیکھتے ہاتھ ہلایا کیونکہ آواز باہر جانا ناممکن تھا ۔۔۔
سیل گرل اسے دیکھتی دوڑتے روم تک آئی اور فورا سے اسے کھولا۔۔۔۔
" کہاں گیا ہے وہ شخص۔۔۔۔۔ بھاؤں نے گن بیک پاکٹ سے نکالی اور لوڈ کرتے وخشت بھری نظروں سے سیل گرل کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔"
" وو وہ لفٹ کی طرف گیا ہے ۔۔۔" سیل گرل نے گن دیکھتے ڈرتے ہوئے بتایا ۔۔۔ تو مقابل نے ایک غصے بھری کاٹ دار جتاتی نظر روتی ہوئی علینہ بیگم پہ ڈالی اور فورا سے وہاں سے نکلا۔۔۔۔۔
"بھاؤں توں کہاں جا رہا ہے ۔۔ بھاؤں رُک۔۔۔۔۔" اسکے ہاتھ میں گن اور چہرے سے ٹپکتی وخشت کو دیکھ زوہا نے ڈرتے ہوئے پوچھا تھا۔۔ وہ دیکھ چکی تھی ۔۔ بھاؤں کو اس گنڈے کے پیچھے لگا۔۔۔ مگر اب یوں اس گنڈے کے پیچھے جاتا دیکھ وہ فورا سے اسے روکنے لگی۔۔۔۔
" اگر ایک سیکنڈ میں میرا راستہ ناں چھوڑا تو تیری کھوپڑی کھول دوں گا میں ۔۔۔۔" بھاؤں نے گن زوہا کے ماتھے پہ رکھتے دہاڑتے ہوئے کہا کہ وہ سہم گئی اور فورا سے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سے تاثرات عجیب سی دہشت برپا تھی ۔۔ وہ پل بھر کو ڈر گئی۔۔۔
جبکہ مقابل نے بنا اسکے ڈر کا نوٹس لیے فورا سے سیڑھیوں کی جانب دوڑ لگائی۔۔
اسکی آنکھوں میں ابھی تک وہی منظر قید تھا ۔۔ جب حیا اسے خوف، ڈر اور امید سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
" توں نے اچھا نہیں کیا اسے ٹچ کر کے رفیق۔۔۔۔ اب توں کسی کو ٹچ کرنے کیلیے نہیں ملے گا۔۔۔۔۔ " بھاؤں نے غصے کی شدت سے گن پہ گرفت بنائے سیڑھیاں پھلانگتے خود سے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔۔
"گڈ مارننگ مما ۔۔۔۔۔"
"مارننگ میری جان آؤ بریک فاسٹ کرو ۔۔ "
مسکراتے بریڈ پہ جیم لگاتے رمشہ نے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھ دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہتے نظر اتاری تھی۔ اشعر بغور رمشہ کو دیکھ رہا تھا۔۔
جس کی آنکھوں میں ممتا کی الگ سی چمک نمایاں تھی۔ اذلان کے آنے سے اب وہ قدرے بہتر ہو رہی تھی۔ بات بہ بات امن کو یاد کرنا ، بے وجہ رونا چھوڑ دیا تھا اسنے۔۔ اور اسی وجہ سے اب اشعر بھی کافی مطمئن ہو چکا تھا۔۔۔
کہیں جا رہے ہو اذلان۔۔۔۔۔ " جوس کا سپ لگاتے اشعر نے گہری نظر اذلان کی تیاری پہ ڈالی۔۔ جو اس وقت براؤن لیدر جیکٹ کے نیچے براؤن ہی شوز اور بیلک جینز پہنے ہوئے تھا۔۔ سیاہ بال سلیقے سے پف سٹائل میں بنے ہوئے تھے۔ سانولی رنگت میں کافی حد تک نکھار سا تھا۔۔
" جی ڈیڈ ایک کیس کی فائنل ریڈ ہے آج ۔۔۔۔۔ بہت ہفتوں سے اس کیس کے پیچھے ہوں اب جا کر سالو ہو رہا ہے ۔ دعا کیجئے گا آپ اور موم ۔۔۔۔ " اذلان نے سلائس کا پیس توڑتے اپنی طرف سے اشعر اور رمشہ کو آگاہ کیا تھا۔۔
اشعر سر ہلائے ہلکا سا مسکرایا ۔۔
"ماشاءاللہ اللہ میرے چاند کو مزید کامیابیاں عطا کریں اور آج تم کامیاب ہو کے واپس آؤ۔۔۔ "
رمشہ نے محبت سے اپنے بیٹے کو نم آنکھوں سے دیکھتے ڈھیروں دعائیں دیں تھیں۔۔ اذلان پھیکا سا مسکرا دیا۔۔۔
"اوکے اب چلتا ہوں ڈیڈ آج مما کے ٹیٹس ہیں منتھلی تو آپ ساتھ جائیے گا۔۔۔ پلیز.." نیپکین سے چہرہ صاف کرتے اسنے اشعر کو آگاہ کیا تو اشعر سر ہلا گیا ۔۔
اذلان نے رمشہ کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور فورا سے باہر نکلا۔۔۔
"ہممممم ۔۔۔بولو کیا خبر ہے۔۔۔۔ جیپ میں بیٹھتے اذلان نے رنگ ہوتے موبائل کو اٹھایا اور ضروری کال دیکھ فورا سے کال پک کی تھی۔۔"
" سر گڈ نیوز ہے آپ کے بھائی کے بارے میں معلوم ہو گیا ہے ۔۔۔ ایک سال پہلے وہ ملتان میں تھے۔۔۔۔ اسکے علاؤہ بھی کچھ بہت اہم معلومات ملی ہیں مجھے۔۔۔۔۔"
" موبائل فون سے ابھرتی آواز پہ اذلان نے بے یقینی سے فون پہ گرفت مضبوط کی۔۔۔ آنکھوں میں سکون ، خوشی ، حیرت کے ملے جلے تاثرات تھے۔۔"
" کیا سچ کہہ رہے ہو اشفاق۔۔۔۔ " اپنی نم آنکھوں کو رگڑتے اسنے نمی گھلی آواز میں پوچھا۔۔۔
" یس سر بالکل سچ کہہ رہا ہوں آپ آ جائیں شاید ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ اب کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔!"
" بات سنو اشفاق مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی ۔۔ تم ایسا کرو کہ ساری اپ ڈیٹس مجھے میل کر دینا۔۔۔ اور میرا انتظار کیے بغیر ہی اسے ڈھونڈو۔۔۔ اگر کچھ بھی معلوم پڑے تو فورا سے مجھے اطلاع کر دینا۔۔۔۔"
" اذلان نے بے چینی سے ماتھا مسلتے کہا تھا اس وقت اسکا ہوٹل جانا ضروری تھا۔۔ ریڈ کا ٹائم ہو چکا تھا اب لڑکیوں کو فورا سے بازیاب کروانا زیادہ ضروری تھا۔۔۔"
"جی سر جیسا آپ کہیں ۔۔۔۔" اشفاق نے کہتے ساتھ ہی کال کٹ کی تھی۔۔۔
" ڈونٹ وری مما اس بار بہت جلد میں امن کو بھی آپ کے پاس لاؤں گا۔۔۔۔ " مسکراتے امن کو یاد کرتے اذلان نے جیپ اسٹارٹ کی۔۔۔
💥💥💥💥💥
"تمہیں نہیں لگتا کہ تم کچھ زیادہ ہی اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہے ہو۔۔۔۔۔"
اسکی جانب جھکتے اسنے شہادت کی انگلی ایچ اے آر کی شرٹ کے کالر پہ پھیرتے ہوئے پوچھا تھا۔۔ جسنے جھٹکتے وائن کا گلاس منہ کو لگایا۔۔۔
" سوچا اسے جاتا ہے جسے انسان بھولےمجھے تو دو دن سے وہ بھولی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسنے قہہقہ لگاتے اپنی دلی کیفیت سے مقابل بیٹھی لڑکی کو آگاہ کیا تو اسکے چہرے کا رنگ پل بھر کو اڑا۔۔۔۔۔
" ویسے کیا مجھ سے بھی زیادہ حسین ہے وہ۔۔۔۔۔" جینیفر کے اندر ایک انجانی سی جلن اٹھنے لگی۔۔ وہ پچھلے دو سالوں سے ایچ اے آر کی گرل فرینڈ تھی۔۔ جو پیرس مقیم تھی یہاں آتے ہی ایچ اے آر اپنا سارا وقت اور پیسہ اسی پہ لوٹاتا تھا۔۔۔ مگر اس بار جانے کیا ہوا تھا۔۔۔
کہ اس نے جی بھر کہ ایک نظر تک جینیفر کو ناں دیکھا۔۔۔ وہ جب بھی پوچھتی تو وہ آگے سے کسی مشرقی حسن کی بات کرتا۔۔۔۔ جس سے اسکا غصہ ، نفرت مزید بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔
" حسین تو تم جیسی نہیں مگر وہ لاجواب ہے۔۔۔۔۔۔۔" ایچ اے آر نے بغور اسے دیکھا جو حسن کی مورت جیسی تھی۔۔ اسکی آنکھوں میں الایہ کا بےزار خود سے لاپرواہ مگر غرور میں ڈوبا سراپا لہرایا۔۔۔۔۔ جینیفر اسکی وفادار تھی جبھی وہ اپنے دل کی ہر بات اس سے شئیر کرتا تھا۔۔۔ جبکہ دوسری جانب جینیفر کے لیے وہ پیسوں کی لاٹری تھا۔۔۔ ۔۔۔۔ جسکے سامنے وہ اسی کی تھی ۔۔ مگر اسکے جانے کے بعد وہ سارا عرصہ اپنی مرضی سے گزارتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
" اوہ آئی سی۔۔۔۔۔۔ یو مین ٹو سے دیٹ شی از آ یونیک بیوٹی آف دی نیچر۔۔۔۔۔(تم کہنا چاہتے ہو کہ وہ قدرت کا کوئی انوکھا شاہکار ہے)...."
ایک طرفہ مسکراتے اسنے جھٹکے سے ایچ اے آر کے کالر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔
ایچ اے آر اسکے انداز پہ مسکرایا اور خالی گلاس پیچھے کی جانب فرش پہ پھینکتے اسنے جھٹکے سے ہاتھ جینیفر کی گردن کے گرد لپیٹا۔۔۔۔....
"تم جانتی ہو جینی( جینیفر) تمہارا نشہ بالکل اس وائن کے جیسا ہے جسے میں یعنی ایچ اے آر جتنا مرضی پی لے مگر وہ مجھ پہ کوئی اثر نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔ مائن بیوٹی (الایہ) اس میں یہ پاور ہے۔ کہ اسے دیکھتے ہی اسکا نشہ ایچ اے آر کے حواس پہ طاری ہو جاتا ہے۔۔۔... آج دو دن ہو گئے ہیں مجھے اس سے ملے مگر ابھی تک اسکا نشہ یہاں میرے دل اور دماغ پہ چھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہاری قربت بھی مٹا نہیں سکی۔۔۔۔۔۔ " اسنے انگلی اپنے دل اور دماغ کے مقام پہ رکھتے جینیفر کے بالوں کو پیچھے کی جانب کھینچا تھا اور ایک دم سے کھڑا ہوتے اسنے بے دردی سے اسکے بالوں کو کھینچا کہ وہ سسکی سی بھرتی رہ گئی۔۔۔۔۔
ڈھونڈو اسے وہ یہیں ہے پیرس مجھے وہ چاہیے جینی ۔۔۔۔ اور تمہارے علاؤہ کوئی بھی یہ کام نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ڈھونڈو گی ناں اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اپنے اسپیشل لٹل ماسٹر پیس آف نائف کو اپنے کوٹ سے نکالتے اسنے جینیفر کے ماتھے سے لے کر اسکی گردن تک لکیر کھینچی۔۔۔۔۔۔ تو مقابل ہراساں سی سہمی کھڑی جینیفر نے دھک دھک کرتی سانسوں سے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اگر وہ شادی شدہ ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔" جینیفر نے اسے پرسکون کرنے کی خاطر اپنا بایاں ہاتھ ہلکے سے اسکے دل کے مقام پہ رکھتے گھمایا ۔۔۔ اندر سے ڈر بھی تھا۔۔۔ ابھی جو اسکے وخشی روپ کی ایک جھلک وہ دیکھ چکی تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکا اگلا شکار بنے اور یونہی بےدردی سے ماری جائے۔۔۔۔۔۔
" یہ تم ہو جس نے یہ بول لیا ہے جینی۔۔۔۔ اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتی تو ابھی اس کے وجود کو اپنے بھوکے کتوں کے آگے ڈال دیتا۔۔۔۔۔ آئندہ اس زبان کا استعمال سوچ سمجھ کے کرنا۔۔۔۔۔۔۔ "
اسنے ہاتھ میں تھاما اپنا چھوٹا سا مگر تیز دھار خنجر جینیفر کے کندھے پہ گھاڑا تھا کہ وہ تڑپ اٹھی درد سے مگر لبوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے اسنے اپنی چیخ کا گلا گھونٹے رکھا تھا۔۔۔۔ ایچ اے آر نے وخشی خون آلود نظروں سے اسے دیکھا اور چاقو کندھے پہ گھاڑتے اب اسے دائیں جانب لے جانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جینیفر کا چہرہ درد کی شدت سے سرخ ہو چکا تھا ۔۔۔ مگر یہ درد سہنا وہ بخوبی جانتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
" اسی وجہ سے تم مجھے بے حد پسند ہو جینی ڈارلنگ ۔۔۔۔۔۔۔ " جھٹکے سے خنجر نکالتے ایچ اے آر نے خون آلود خنجر اسکے دائیں رخسار پہ گھماتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ جبکہ وہ درد ، تکلیف کے باوجود بھی پھیکا سا مسکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یاد رہے اسے ایک خراش تک ناں آئے۔۔۔۔۔ ورنہ تمہارے لئے اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔"
ایچ اے آر نے اسے کندھے سے تھامتے پیچھے بیڈ کی جانب دھکا دیا تو بیلنس ناں رکھ پاتے سیدھا پیچھے کو گری ۔۔۔۔۔ ایک ہلکی سی سسکی اسکے منہ سے نکلی اسنے چہرہ اٹھائے وہاں سے جاتے ایچ اے آر کی پشت کو خونخوار نظروں سے گھورا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" کچھ اور بھی آتا ہے تم لوگوں کو کہ بس یونہی میرا ٹائم ویسٹ کرو گے۔۔۔۔ ۔"
ٹیبل پہ دونوں پاؤں رکھتے اسنے بے زاری سے کہا تھا اور ہاتھ سے اپنے بلیک اوور کوٹ کو جھٹکا۔۔۔۔۔ نظریں سامنے کی جانب مرکوز تھی۔۔۔۔۔ چہرے پہ سنجیدگی کے تاثرات تھے۔۔۔۔
کیفیٹیریا میں پن ڈراپ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
مینیجر خود بھی خاموش ہاتھ سینے پہ باندھے اطمینان سے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
" پلیز سسٹر وی آر سوری پلیز فارگیو اَس ( بہن ہم سے غلطی ہو گئی ہمیں معاف کر دیں)......"
بھیڑ کے بیچ گھرے ان تین لڑکوں نے اب ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔ جبکہ چند لوگ واقعے کی ویڈیو اپنے موبائل پہ بنا رہے تھے ۔۔ ۔۔
"ہممممم۔۔۔۔ ابھی میں سسٹر بن گئی۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے کیا بکواس کر رہا تھا توں۔۔۔۔۔۔۔ "
الایہ نے غصے سے سسٹر کہنے پہ اپنے قریب کھڑے روتے لڑکے کو گریبان سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا اور زور داد تھپڑ اسکے منہ پہ جھڑا تھا۔۔۔۔ دوسرے دونوں مکمل طور پہ کپکپا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح سے ہی کافی جگہ گھوم چکی تھی۔۔۔۔۔ کافی ڈیٹا اسے مل چکا تھا اور اب وہ پرسکون سی ہوتی کیفیٹیریا میں کافی پینے آئی تھی ۔۔۔
اندر داخل ہوتے ہی وہ چونکی تھی اس قدر خاموشی وہ بھی ایسی جگہ پہ۔۔۔۔۔ اسنے بھاری سیاہ بوٹ میں مقید اپنے نازک پاؤں آگے بڑھائے تو اونچی ہیل کی ٹک ٹک کی آواز سے ماحول میں چھائی خاموشی ٹوٹ سی گئی ۔۔ ۔۔۔
ہاتھ سے اپنی پونی ٹیل کو کستے اسنے ساری چئیرز کا جائزہ لیا تو ہر ٹیبل پہ لیڈیز ہی بیٹھی تھی۔۔۔۔اور سامنے ویٹرس بھی لڑکیاں تھیں۔۔۔۔۔۔ اسنے داد دینے والے انداز میں ائبرو اچکایا کہ واقعی آجکل کے آزاد ماحول میں یوں کسی باہر کے آزاد ملک میں عورتوں کے لئے الگ کیفیٹیریا بنانا واقعی یہ اچھی شروعات تھی۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہلکی مسکراہٹ سے چلتی ایک خالی ٹیبل پہ گئی۔۔۔۔تو ویٹرس گھبرا اٹھی۔۔۔۔۔
"پلیز میم آپ یہاں نہیں بیٹھ سکتی۔۔۔۔۔ آپ میرے ساتھ آئیں میں آپ کو دوسرے ٹیبل پہ لے جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔"
اسنے معذرت کرتے ساتھ ہی الایہ کو آفر کی۔۔۔۔ الایہ نے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے اسے بغور دیکھا تو اسے وہ گھبرائی ہوئی سی لگی۔۔۔۔۔۔۔
"میں اس جگہ پہ پہلے بیٹھی ہوں اور اب یہ جگہ میری ہے ۔۔۔۔۔ الایہ نے سخت لہجے میں اسے گویا حکم سنایا تھا۔۔ مینیجر بھی معاملہ بگڑتے دیکھ وہاں آئی۔۔۔۔
"پلیز میم آپ آٹھ جائیں اٹس آ ریکویسٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " مینیجر نے متفکر سے لہجے میں ایک جانب دیکھتے ہوئے کہا تو الایہ نے دونوں کو باری باری دیکھا پھر انکی گھبراہٹ کو سوچ وہ جلدی سے اٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
"ارے ارے کہاں چل دی آپ ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے یار ڈیٹس ناٹ فئیر ہم لوگوں کو آنے میں تھوڑی سی دیری کیا ہو گئی تم دونوں مل کے ہماری مہمان کو ہی بھگا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ ناٹ فئیر دِز۔۔۔۔۔۔"
ان تینوں لڑکوں میں سے ایک جو انکا لیڈر تھا اسنے آگے ہوتے ایک نظر الایہ پہ ڈالتے اب مینیجر اور اس ویٹرس گرل کو دیکھ کہا تھا جن کا چہرہ اب فق ہو چکا تھا ان تینوں کی اچانک آمد پہ ۔۔۔۔۔۔۔
" نن نو سس سر ہم تت تو بس۔۔۔۔" مینیجر نے اپنی جانب سے صفائی دینی چاہی تھی جبکہ الایہ اب آرام سے ان کے پاس کھڑی ہاتھ سینے پہ باندھے ہوئے تھی۔۔۔۔۔۔
کچھ کچھ وہ ان لڑکوں کی حرکتوں اور اس طرح سے سب کے ڈرنے پہ سمجھ چکی تھی مگر ابھی بنا کسی پرو کے وہ یونہی کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
"نیور مائنڈ تم دونوں جاؤ آج تمہاری معافی کیونکہ اس قدر خوبصورت لڑکی اففففف ۔۔۔۔۔ آج تو دن ہی حسین کو گیا یار۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ ویٹرس کو وہاں سے جانے کا کہتے ایک نے الایہ کو پرشوق للچاتی نظروں سے دیکھتے کہا تو باقی دونوں بھی اسکی بات پہ متفق ہوتے قہقہ لگا اٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہممممم سو نام کیا ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔" اب وہ الایہ کے آگے پیچھے گھومتے اس سے تفتیش کرتے انداز میں پوچھ رہے تھے۔۔ الایہ کی نظریں باریک بینی سے انکی ایک ایک حرکت کا نوٹس لے رہی تھی ۔۔
" تمہارے بال اففففف بہت خوبصورت ہیں جانم۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ ایک نے الایہ کی کمر پہ لہراتے سرخ ریشمی گھنے بالوں کو ٹچ کرتے آنکھ دباتے کہا تھا کہ باقی کے سب بھی اسکی بات پہ قہقہ لگا اٹھے۔۔۔۔۔۔ الایہ نے ائبرو اچکایا اسے واقعی ہی اپنی تعریف پسند آئی تھی۔۔۔۔۔۔
"ویسے تم دیکھنے میں تو کچھ الگ سی ٹائپ دِکھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے کچھ اسپیشل ہے تم نے۔۔۔۔۔ "
اب وہ ہاتھ پہ ہاتھ مارتے بے باکی سے بولے تو الایہ نے مسکراتے سر جھٹکا۔۔۔۔۔۔
" صرف دکھنے میں ہی نہیں یقین جانو میں۔ واقعی ہی کچھ الگ ٹائپ کی ہوں۔۔۔۔۔ "
اسنے باری باری تینوں کو گردن گھمائے دیکھ کہا تو وہ تینوں ہی جیسے اسکی بات پہ خوش ہوئے تھے۔۔۔۔
"لگتا ہے آج بہت مزہ آنے والا ہے سویٹ ہارٹ آؤ چلو ہمارے ساتھ۔۔۔"
ان میں سے ایک نے بے ساختہ الایہ کے بازو کو تھاما ۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا ، چلو ہمارے ساتھ۔۔۔۔ اسنے مڑتے الایہ کو وہیں کھڑا دیکھ کہا تو الایہ نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔۔۔"
"ایسے کیسے ابھی کچھ دیکھا تو لوں تم سب کو۔۔۔۔" "اپنے ہاتھ کو گھماتے الایہ نے سیرئیس انداز اپناتے کہا تو وہ تینوں ایک دوسرے کو دیکھ ہنسنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔
" اچھا تو پھر ٹھیک ہے ایک ساتھ ہی دکھا دو سب کو۔۔۔۔۔" ایک نے مسکراتے ہوئے آنکھ دبا کے کہا تو مقابل کھڑی الایہ گہرا مسکرائی۔۔
" شیور وائے ناٹ ۔۔۔۔۔" اسنے تائید کرتے انداز میں کہا تھا اور ایک دم سے جھٹکے سے وہ گھومی کہ وہ تینوں ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ،
وہ گھومتی ایک دم سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے ایک دم سے مڑی تھی اور اپنی بائیں ٹانگ فضا میں بلند کرتے اسنے زرا سا حم دیے ان تینوں کی گردنوں کے پاس ضرب لگائی کہ اس اچانک افتاد پہ وہ تینوں ایک ایک کرتے نیچے زمین بوس ہوئے ۔۔۔۔۔
کیفیٹیریا میں خاموش بیٹھی سب خواتین اب جگہ پر سے اٹھ چکی تھیں۔ اور جھرمٹ کی صورت میں انکے آگے پیچھے کھڑی ہوئیں۔۔۔۔
" یو بلاڈی بِچ۔۔۔ پکڑو اسے۔۔۔۔۔ ایک نے اٹھتے ساتھ ہی خونخوار نظروں سے الایہ کو گھورا جو جیکٹ جھاڑتی سامنے موجود میز پہ جا بیٹھی۔۔۔۔۔
حکم ملتے ہی وہ دونوں ایک ساتھ بڑھے مگر اسے چھونے سے پہلے ہی وہ ہر بار پیٹ میں ہوتے وار کی وجہ سے بلبلا کے نیچے گر پڑتے۔۔۔۔۔ پیچھے کھڑے ان کے تیسرے ساتھی کو دیکھ الایہ کے ہاتھ سے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تو وہ گڑبڑاتے باہر کو بھاگنے لگا مگر چاروں اطراف کھڑی خواتین نے اسکے جانے کا سارا راستہ بند کر دیا تھا۔۔۔۔۔
مینیجر اب ہلکا سا مسکرائی تھی ، جبکہ لڑکا اب ایک بار پھر سے خود میں ہمت پیدا کرتے پیچھے مڑا تھا اور الایہ پہ حملہ کرنا چاہا مگر وہ آگے ہی اس سب کےلئے تیار تھی ۔۔ وہ ایک اسپیشل آرمی آفیسر تھی ۔۔۔ جہاں اس کو مینٹلی اور فزیکلی ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے فل ٹریننگ دی گئی تھی۔ اسکے لئے ان عام سے لڑکوں سے لڑنا گویا بچوں کا کھیل تھا جیسے۔۔۔۔
"ایک ہاٹ کافی پلا دیں پلیز۔۔۔۔۔" گردن گھمائے اسنے ٹرے تھامی کھڑی ویٹرس سے کہا جو سمائل پاس کرتی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" آپ کا بت حد شکریہ میم ۔۔۔۔۔۔ آپ نے آج ہمیں ان تینوں سے بچا لیا، ورنہ یہ روز ہی اپنی حرکتوں سے نا صرف مجھے اور میرے سٹاف کو بلکہ میرے کسٹمرز کو بھی کافی تنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" مینیجر نے الایہ کے سامنے کھڑے ہوتے کہا تو الایہ نے سر جھٹکا۔۔۔۔۔
" یہ آپ کی غلطی ہے جس وجہ سے ان جیسے لوفروں کو اتنی ہمت ملی ہے اگر آپ میں اتنے گٹس ہیں کہ آپ نے اس بزنس کو شروع کیا تو پھر ان جیسی چھوٹی موٹی مشکلات کا سامنا کرنا بھی سیکھیں۔۔۔۔ بی بریو۔۔۔۔۔۔" اسنے کندھا تھپکتے کہا تو مینیجر سرد آہ خارج کرتے سر ہلا کے رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" فون ادھر کرو سب۔۔۔۔۔۔۔ میز سے چھلانگ لگاتے کھڑے ہوتے اسنے تیز اونچی آواز میں حکم دیا ۔۔ ویڈیوز بناتی خواتین نے ایک نظر اسے دیکھا اور موبائل سامنے کر دیے ، ویٹرس نے اشارے پہ موبائل لیتے الایہ کے سامنے کیے۔۔۔۔۔۔ الایہ نے ایک نظر سب موبائل فونز کو دیکھا اور ایک جانب میز پہ رکھا ۔۔۔۔ ایک ایک کرتے اسنے سارے موبائلز کے لاک توڑتے ویڈیوز کو فار ایور ڈیل کیا اور موبائلز وہیں پہ رکھتے وہ چلتے ان تینوں لڑکوں کے سامنے رکی جو نڈھال سے آگے پیچھے جھول رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ایک آخری گفٹ لے لو۔۔۔۔۔۔۔ اسنے مخصوص مسکراہٹ سے اپنے بائیں الٹے ہاتھ کا تھپڑ ایک ساتھ تینوں کے منہ پہ جھڑا تھا کہ چٹاخ کی سی آواز گونج اٹھی۔۔۔۔۔ میرا کام مکمل ہو گیا اب یہ آپ پہ ہے آگے کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔"
ہاتھ جھاڑتے وہ سب سے مخاطب ہوئی گلاسز نکالتے اسنے آنکھوں پہ سیٹ کیے اور باہر کی جانب بڑھی۔۔۔ وہ جانتی تھی پیچھے کھڑی لڑکیاں اب خود کا دفاع ضرور کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
"کچھ زیادہ ہی نہیں ہو گیا۔۔۔۔ مطلب اس وقت یہاں رات کے دس بجے کون سرعام بیٹھا تمہارا انتظار کرے گا۔۔۔۔ بولنے سے مجبور ہوتے اسنے بنا بے عزتی کی فکر کیے اسے سنایا ،۔۔۔۔۔ جسکے ماتھے پہ ایک ساتھ ڈھیروں بل نمودار ہوئے۔۔۔۔ اسنے دائیں ہاتھ میں تھامی گن پہ گرفت مضبوط کر دی۔۔۔۔۔ اور قدم آگے کی جانب بڑھائے ۔۔۔
یہ ایک روپوش علاقہ تھا۔۔۔۔۔ بڑے سے گلی نما کمروں میں ایک جیسے دروازے نصب تھے جہاں سے گزرتے ان میں فرق کر پانا ناممکن تھا۔۔۔۔۔
" دماغ کو ٹینشن دینا تمہارا نہیں میرا کام ہے۔۔ شکر کرو ابھی تک ان پیروں پہ کھڑے ہو ورنہ دونوں پاؤں پہ شوٹ کر کے لنگڑا کر دوں گی۔۔۔۔۔ "
اسنے بھاری سرد آواز میں کہا تو کرپس کی زبان تالو سے چپک گئی۔۔۔ وہ جانتا تھا کام کے وقت وہ مذاق برداشت نہیں کرتی تھی۔۔ اور یہاں پہ تو سرعام اسے دھوکہ ملا تھا ۔۔۔ وہ جو خود کو اس پلان میں اکیلا مانے ہوئے تھی اب اسے معلوم پڑا تھا کہ کرپس آج شام ہی یہاں پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔ جبکہ ویام وہاں سے ڈائنا کو فگر آؤٹ کرنے والا تھا۔۔۔۔۔۔
" ایلی اس طرف نیچے کو سٹیرز ہیں۔۔۔۔" کرپس نے ہاتھ میں تھامی ٹارچ کو بند کرتے کہا تو الایہ محتاط ہو گئی۔۔۔ اسنے اشارے سے اسے خاموش ہونے کا کہا اور اسے پیچھے کی جانب نظر رکھنے کا کہا ۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے سے قدم اٹھاتی بنا آواز کیے نیچے اترنے لگی۔۔۔۔۔ کرپس کی شارپ نظریں چاروں جانب تھیں ۔۔۔۔
وہ دونوں محتاط سے نیچے اتر رہے تھے ۔۔۔۔
"آہ۔۔۔۔۔۔"
ایک دم سے کسی کے بازوؤں سے پکڑ کے کھینچنے پہ الایہ کے منہ پہ اس افتاد سے ہلکی سی چیخ گونجی ۔۔۔۔۔ کرپس نے فورا سے نیچے دیکھا جہاں الایہ اس سے پہلے اتر رہی تھی ۔ مگر اب وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
"اششششش۔۔۔۔ ہو آر یو۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماتھے پہ گن کا دباؤ بڑھاتے اسنے دبے دبے لہجے میں پوچھا جبکہ ایک ہاتھ الایہ کے منہ پہ تھا۔۔۔
الایہ نے ایک نظر نیم اندھیرے میں ان آنکھوں کو دیکھنے کی کوشش کی اور ایک ہی جھٹکے میں وہ اپنی بائیں ٹانگ سے اسکی پشت پہ گہرا وار کرتے اسکے سنبھلنے سے پہلے سے ٹانگ سے ہی اسکے گن والے ہاتھ پہ وار کر چکی تھی۔۔۔۔ گن ایک دم سے مقابل کے ہاتھ سے چھوٹی مگر اتنی ہی پھرتی سے اسے تھامتے اب کی بار الایہ نے اسے مقابل کے ماتھے پہ رکھا۔۔۔۔۔
"آئی اگین رپیٹ یور کوئسچن۔۔۔ ہو آر یو۔۔۔۔۔۔" الایہ نے ہاتھ مقابل کے گریبان پہ رکھنا چاہا تھا جبکہ مقابل نے سمجھتے فورا سے اسکے ہاتھ کو تھاما اور دوبارہ سے اسے دیوار سے پن کیا اور ساتھ ہی اپنی دوسری گن اسکی کمر پہ رکھتے دباؤ بڑھایا ۔۔ ۔۔۔ مسلسل ایک دوسرے پہ وار کرتے وہ دونوں پھولی سانسوں سے ابھی تک نڈر کھڑے تھے۔۔
اپنی کمر پہ گن کو رینگتا پاتے الایہ نے داد دینے والے انداز میں آئی برو اچکائے اور اسکے ماتھے پہ رکھی اپنی گن سے دباؤ بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔۔
" میں لڑکیوں پہ ہاتھ نہیں اٹھاتا اسی لئے تم زندہ ہو ابھی تک ۔۔۔۔۔۔ " اپنی مخصوص بھاری گھمبیر آواز میں وہ بے لچک لہجے میں بولا تھا ، اردو میں کہے اسکے جملے کو سنتے الایہ اسکے کنفیڈینس پہ حیران ہوئی۔۔۔۔۔۔
ویل ڈن مسٹر قالو۔۔۔۔۔۔ کوشش اچھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اسنے دل سے اسے سراہا تھا ، ۔۔۔ جبکہ مسٹر قالو سنتے پل بھر کو اذلان کا چہرہ متغیر ہوا تھا ۔۔۔ اسے چند سیکنڈز لگے تھے اسے پہنچاننے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
"کون ہو تم چھوڑو اسے۔۔۔۔ "کرپس جو الایہ کو ڈھونڈتے وہاں آیا تھا اب ہلکی سی روشنی میں اسنے ٹارچ سامنے کی اور بت بنے اذلان اور مسکراتی الایہ پہ ایک نظر ڈالتے اسنے گن اذلان پہ تانی۔۔۔۔۔۔
" چھوڑو اسے کرپس بچہ ہے۔۔۔۔۔۔" الایہ نے کمر پہ ٹکی اسکی گن والے ہاتھ کو نفرت سے جھٹک دیا اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ اسکی پیشانی سے نیچے کیا تھا۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں جھلکتی نفرت مقابل کھڑے اذلان کو اشتعال میں مبتلا کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" تم ٹھیک ہو ایلی۔۔۔۔۔۔ " کرپس کو اسکی بات سمجھ تو ناں آئی مگر وہ جان گیا تھا کہ اس شخص سے انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ۔۔۔۔۔ اسنے گن پاکٹ میں ڈالتے الایہ کے پاس جاتے متفکر سا ہوتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
" ایک منٹ مجھے بات کرنی ہے تم سے الایہ۔۔۔۔۔ " اسنے اپنے اور الایہ کے درمیان حائل کرپس کو ہاتھ سے ایک جانب کیا تھا اور الایہ کو بغور دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔ اسکے طرزِ تخاطب پہ الایہ نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے بغور دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
" مگر مجھے نہیں کرنی تم سے کوئی بھی بات۔۔۔۔۔ "الایہ نے سپاٹ بے تاثر چہرے سے اسے دیکھتے کہا تھا اور ہاتھ سینے پہ باندھے۔۔۔۔۔۔۔
کرپس دونوں کو دیکھتا سر کھجا رہا تھا آخر کار یہ ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہیں۔۔۔۔ یہ بات وہ سمجھنے سے غافل تھا۔۔۔۔
لیو مائی ہینڈ اذلان ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو دا ہیل آر یو۔۔۔۔۔۔۔" اسنے غصے سے اپنے ہاتھ پہ اذلان کی گرفت دیکھ بدتمیزی سے کہا تھا اور ساتھ ہی ایک نفرت بھری نظر اس پہ ڈالتے وہ ہاتھ چھڑواتی کرپس کے پاس جانے لگی۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ اذلان نے غصے سے اسکے یوں اگنور کرنے پہ مٹھیاں بھینچتے اسے خونخوار نظروں سے گھورا۔۔۔۔۔۔
اور ایک دم سے اپنے بھاری قدم اٹھاتے اسنے بنا اسکی سنے اسے بازوؤ سے تھاما اور اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔۔۔
" چھوڑو اسے مسٹر کون ہو تم۔۔۔۔۔ " کرپس نے اذلان کے ہاتھ کو پکڑتے اسے روکنا چاہا۔ جو اس وقت غصے کی انتہا پہ تھا۔۔۔۔۔۔
" میں جو بھی ہوں تم ان سب سے دور رہو تو ہی اچھا ہے۔۔۔۔ خبردار جو اب بیچ میں ٹانگ اڑائی ورنہ یہ ٹانگ جڑ سے ہی کاٹ دوں گا میں۔۔۔۔۔ "
کلائی پہ اسکی سلگتی گرفت پہ الایہ تلملا اٹھی اسنے بارہا خود کو چھڑوانے کی کوشش کی مگر جیسے وہ پتھر کا بنا تھا ۔۔۔۔ اس کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ کامیاب ناں ہو سکی تو ایک کاٹ دار نظر اسنے خود کو گھورتے اذلان پہ ڈالی۔۔۔۔۔۔۔
" اذلان ہو دا ہیل آر یو چھوڑو مجھے قالو۔۔۔۔۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا آئی وارن یو۔۔۔۔۔۔۔" اسنے جھپٹے اپنے ہاتھ کے مکے بنائے اسکی کمر پہ رسید کرنا شروع کر دیے جسے وہ جبڑے بھینجتے خاموشی سے برداشت کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
گاڑی کے پاس جاتے ہی اسنے الایہ کو زور سے اندر پٹھکا تھا اور جیب سے ہتھکڑی نکالتے اسنے الایہ کے باززوں پہ باندھے ساتھ ہی اسے اپنے سیٹ بیلٹ سے اٹیچڈ کر دیا۔۔۔۔۔۔
یو بلیڈی قالو۔۔۔ لیو می ۔۔۔۔۔۔۔" الایہ نے غصے نفرت سے بپھرتے ہتھکڑی کو کھولنے کی سعی شروع کر دی ۔۔۔۔ مگر وہ کھل ناں پائی۔۔۔۔
اذلان اسے اگنور کیے اندر بیٹھا اور خاموشی سے اس بکھری جنگلی بنی لڑکی کی حرکات پہ اپنے آپ پہ ضبط کیے بیٹھا تھا۔۔۔۔
اسکے ماتھے پہ ابھرتی رگیں اسکے اندر اٹھتے طوفان کی صاف نشانی تھی ۔۔ مگر ساتھ بیٹھی الایہ اس وقت کسی شیرنی سے کم نہیں تھی ۔۔۔ جسے وہ دیکھنا گنوانا نہیں کرتی تھی اس کا یوں خود پہ حکم چلانا۔۔۔۔۔ اسکا دل چاہا ک کاش وہ ماتھے پہ سیٹ کی اپنی گن کا ٹریگر دبا کر اس قالو کو جان بحق کر دیتی۔۔۔۔۔۔
" اترو نیچے۔۔۔۔۔ تیزی سے ڈرائیونگ کرتے اسنے گاڑی اپنے اپارٹمنٹ کے سامنے روکی تھی۔۔۔۔ دروازہ کھولتے اسنے الایہ کو حکم دیا جس نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا تھا۔۔۔بس نہیں تھا کہ ابھی جان سے مار دیتی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم کبھی نہیں بدل سکتی۔۔۔۔۔۔"اس کی ضد پہ اذلان نے افسوس سے کہا تھا اور ہتھکڑی کھولتے اسنے ہاتھ کو دوبارہ اپنی گرفت میں لیا اور ایک ہی جست میں وہ اندر داخل ہوا اور روم کو لاک کرتے اسنے جھٹکے سے اسے بیڈ کی جانب پٹھکا تھا۔۔۔۔۔
" تم ہوتے کون ہو مجھ پہ حکم چلانے والے اذلان اشعر علوی۔۔۔۔۔ ابھی ابھی کے ابھی دروازہ کھولو میں اپنی مرضی کی مالک ہوں جو مرضی کروں تم ہوتے کون ہو مجھ پہ حکم چلانے والے،مجھے یوں قید کرنے والے۔۔۔۔۔۔ "
الایہ نے سرخ ہوتی نظروں سے نفرت سے اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔
" تم کہیں نہیں جا رہی تو اب یہ ڈرامہ کرنا بند کرو اور چپ چاپ یہاں بیٹھو ۔۔۔۔۔۔" اسے دروازے کی جانب جاتا دیکھ اذلان نے سرد لہجے میں کہا اور دوبارہ سے کھینچتے پیچھے بیڈ کی جانب دھکا دیا ۔۔۔۔
" میں تمہاری پابند نہیں ہوں سنا تم نے۔۔۔۔۔۔ تم میرے باپ نہیں ہو جو مجھ پہ اپنی مرضی تھوپو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکم اپنی کسی ہوتی سوتی پہ چلانا میں یہ سب برداشت نہیں کرنے والی ۔۔۔۔۔ سنا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔ "
الایہ نے کھڑے ہوتے اسے پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا اسکے لہجے میں بے حد نفرت تھی اذلان لڑکھڑاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔۔
" باپ نہیں ہوں میں اور ناں ہی مجھے بننے میں شوق ہے۔۔۔۔ کیونکہ میں اذلان اشعر علوی ہوں۔۔۔۔ اور مجھے وہ بننے کی ضرورت نہیں جو میں ہوں۔۔۔۔۔ اور مرضی کی کیا بات کر رہی ہو ، یہ مرضی اپنی ہوتی سوتی پہ ہی تھوپ رہا ہوں ۔۔۔۔ آئی سمجھ۔۔۔۔۔ میری مرضی کے بغیر اگر یہاں سے قدم بھی باہر نکالا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ "
اسنے غیص و غضب نے اسکی گردن کو دبوچتے اسکے چہرے پہ غراتے کہا تھا۔۔۔۔ جبکہ الایہ سن ہوتے دماغ سے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
"میں بھی دیکھتی ہوں کیسے روکتے ہو تم مجھے۔۔۔۔" اسنے زور لگاتے اذلان کے حصار کو توڑا تھا اور بھاگتے دروازے کی جانب دوڑ لگائی ، جبکہ اذلان نے ایک ہی جست میں اسکے بازو کو پکڑتے کھینچا تھا اور ایک دم سے دروازے کے ساتھ پن کیا۔۔
"چھوڑو مجھے اذلان چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔ "
الایہ نے غصے سے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا مگر مقابل کھڑے شخص نے ایک دم سے اسکی کمر پہ مضبوط حصار بناتے اسکی سانسوں کو اپنی دہکتی گرفت میں لیا۔۔۔۔ الایہ کی آنکھیں اسکی حرکت پہ بے یقینی سے پھٹ پڑی تھی۔۔۔ اسنے زور سے مکہ اذلان , کے منہ پہ مارنا چاہا تھا مگر اذلان نے پیچھے ہوتے اسکے ہاتھ کو تھاما۔۔۔۔۔۔۔۔
" فضول بولنے والی لڑکیاں مجھے زہر لگتی ہیں اتنا تو جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔۔ " اپنے ہونٹوں کو شرٹ کے بازو سے رگڑتے اسنے جتلاتے انداز سے الایہ کو دیکھا۔۔ جس کی آنکھیں بے یقینی سے نم ہو رہی تھی ۔۔۔۔
"چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اسی کے قابل ہو گھٹیا انسان۔۔۔۔۔۔ " الایہ کا ہاتھ اٹھا تھا اذلان کے سمجھنے سے پہلے ہی اسنے زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ رسید کرتے نفرت سموئے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔
اذلان نے شدتِ ضبط سے جبڑے بھینجتے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا۔۔۔۔۔۔۔
الایہ نے ایک کاٹ دار نظر اس پہ ڈالی اور آنسوں صاف کرتے وہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔۔ کہ اچانک سے مقابل نے ہاتھ اسکی گردن کے گرد پیچھےںسے لپیٹتے اسے گرفت میں لیا اور رخ اپنی جانب کیا۔۔ اسکی سرخ ہوتی کالی آنکھوں میں چھائی سختی دیکھ الایہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی ۔۔۔۔۔
مقابل نے ایک دم سے اسکی گردن کو دبوچتے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔ اور ایک دم سے اسکے پھڑپھڑاتے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔۔ اسکے عمل میں پہلے سے زیادہ سختی تھی۔۔۔ الایہ نے بارہا مزاخمت کرنا چاہی مگر مقابل کی گرفت میں اتنی ہی زیادہ سختی در آئی۔۔۔۔۔ اذلان نے اپنا غصہ اسکے سرخ ہو رہے ہونٹوں پر نکالتے ایک دم سے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس کرتے اسے بیڈ پہ دھکہ دیا۔۔۔۔۔۔"
وہ بیڈ پہ گرتی گہرے سانس لیتے اپنے آنسوں صاف کرنے لگی۔۔۔۔۔
" میری ملکیت ہو تم لڑکی۔۔۔۔۔ جو چاہوں جیسے چاہوں کر سکتا ہوں میں تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج جو تھپڑ تم نے میرے منہ پہ مارا ہے یاد رکھنا بہت جلد اسکا حساب تمہیں سود سمیت لوٹانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے بہت پر نکل گئے ہیں تمہارے ڈونٹ وری میں کاٹ دوں گا انہیں۔۔۔۔"
اذلان نے جھکتے اسکے بالوں کو گرفت میں لیتے آسکا چہرہ اونچا کیے غصے سے سرد لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
" تم ہوتے کون ہو میرے پر کاٹنے والے ، یاد رکھنا اذلان یہاں سے نکلتے ہی میں ڈیڈ کو تمہاری ہر حرکت کا بتاؤں گی۔۔ تم مجھے کوئی عام سی سہمی ہوئی سی لڑکی مت سمجھنا۔۔۔ میں تمہیں اس سب کیلئے کبھی معاف نہیں کرنے والی، تم دیکھتے جاؤ بس۔۔۔۔ "
اپنے بالوں کو چھڑواتے وہ اس سے بھی زیادہ غصے سے گویا ہوئی تھی۔۔۔۔
" ایک بات ذہن نشین کر لو الایہ ، تم اور تمہارے ڈیڈ دونوں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، کیونکہ حق رکھتا ہوں تمہیں چھونے کا میں۔۔۔۔۔ تم سے زیادہ تم پہ حق ہے میرا۔۔۔۔۔۔۔ تم ، تمہارا یہ وجود ،۔۔۔۔ یہ سب اس اذلان اشعر علوی کی امانت ہے اور میں اپنی چیزوں کی خفاظت بخوبی کرنا جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔"
اسکی بات کو اگنور کرتے اذلان نے انگلی اٹھائے اسے وارن کیا۔۔۔۔ جو بے یقینی سے اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
" جھوٹ مت بولو اب اپنی حرکت کو چھپانے کیلئے تم یہ سب جھوٹ بولو گے ، شرم سے ڈوب مرو تم گھٹیا انسان۔۔۔۔۔ الایہ نےغصے سے اسے مارنا چاہا تھا مگر مقابل نے فورا سے جھپٹتے اسکے چلتے ہاتھوں کو اسکی پشت پہ پن کیا۔۔۔۔۔
" جھوٹ نہیں ہے یہ ، مجھے جھوٹ بولنے کا کوئی شوق اور ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ " اگر یقین ناں آئے تو اپنی موم سے پوچھ لینا یا پھر ڈیڈ سے ۔۔۔۔۔ تم پچھلے اکیس سالوں سے میری یعنی اس اذلان اشعر علوی کی ملکیت میں ہو میری بیوی ہو تم ۔۔۔مس الایہ اذلان اشعر علوی۔۔۔۔۔۔۔ میرے آنے تک یہاں اس بیڈ پہ سوتی ملو مجھے، اگر بھاگنے کی کوشش کی تو ابھی تو صرف ایک ٹریلر دکھایا ہے ، ایسا ناں ہو پوری رات پکچر دیکھانے میں بیت جائے۔۔۔۔۔۔ اسکے سرد پڑتے گال کو تھپکتے وہ معنی خیزی سے اسکے ہونٹوں کو دیکھ بولا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ الایہ کا پورا وجود تو جیسے سن سا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ اسکے دماغ میں صرف ایک بات گونج رہی تھی۔۔۔" تم اکیس سالوں سے میری ملکیت ہو الایہ اذلان اشعر علوی۔۔۔۔۔۔۔"
" آئیے آئیے ویلکم مسٹر وریام بڈھے کاظمی! بہت خوشی ہوئی جو تم ہمارے گھر میں آئے مگر سچی یہ خوشی صرف بظاہر ہے ۔ "
اسکے گلے ملتے رافع نے غصے سے دانت کچکچاتے سرگوشی کی، مقابل بخوبی واقف تھا اسکی حالت سے۔۔۔ وریام کے چہرے پہ ایک خوبصورت شیطانی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔۔۔۔"
" اگر تجھے میرا آنا پسند نہیں تو میں فدک کو بتا کر ابھی واپس چلا جاتا ہوں۔۔۔۔۔" وریام نے اسے کس سے گلے لگاتے کان میں گھستے ہوئے کہا تھا۔۔۔
" کمنیہ انسان۔۔۔۔۔٫ رافع نے جبڑے بھینچتے بمشکل خود پہ ضبط کیا تھا۔۔۔۔
" ویسے تو تجھے آگ لگی ہوتی ہے ۔۔سب کے سامنے بیوی سے رومینس جھاڑنے لگتا ہے توں۔۔۔ تو آج کیا لینے آ گیا ، میرے گھر ، عرصے بعد مجھے وقت ملا تھا فدک کے ساتھ اکیلے رہنے کو مگر توں ، کبھی میری جان مت چھوڑنا کمینے۔۔۔۔۔"
بظاہر مسکراتے ہوئے رافع نے زور دار مکہ وریام کی کمر پہ رسید کیا تو وریام کے دل میں اسکی حالت سے عجیب سے گدگدی سی ہونے لگی۔۔۔۔۔۔
" رافع وریام بھائی کیا سب کچھ ٹھیک تو ہے ناں آج بہت پیار آ رہا ایک دوسرے پہ کیا اندر جانے کا ارادہ نہیں آپ دونوں کا ۔۔۔۔ "
فدک اور نیناں دونوں کی ہی نظریں ان دونوں پہ ٹکی تھی جو جانے کون سی کھسر پھسر کر رہے تھے ۔ بلآخر فدک نے ہی ان دونوں کو آواز دیے مخاطب کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
" فدک وہ رافع کہہ رہا تھا کہ آج رات میں اور نین یہیں رک جائیں ، تو بس میں اسے سمجھا دیا تھا کہ ہم بس ڈنر کریں گے اور واپس چلے جائیں گے ، رکنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں آج ۔۔۔۔۔"..
اپنے بھورے ماتھے پہ بکھرے بالوں کو اسٹائل سے سیٹ کرتے وریام نے رافع کو دیکھ آنکھ دباتے ہوئے کہا تھا۔۔ جو ہکا بکا سا اسکی چالاکی پہ منہ کھولے کھڑا تھا۔۔۔۔۔
یہ تو اچھی بات ہے ، آج پہلی بار رافع نے کوئی اچھی بات کی ہے۔۔۔۔ تو پھر آج ہم پانچوں ایک ساتھ رہیں گے۔ اور نیناں تم بتا رہی تھی ناکہ عیناں کے بارے میں تم بتاؤ گی ۔۔ کہاں ہے میڈم ۔۔۔۔ آئی نہیں تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔"
فدک کو لگا تھا کہ شاید عیناں یونی سے وہاں چلی گئی تھی نیناں اور وریام کے پاس ۔ جبھی وہ پرسکون تھی۔۔ مگر اب دونوں کو اکیلا دیکھ وہ خاصی الجھ سی گئی تھی ۔۔۔۔
پہلے اندر چلیں پھر بات کرتے ہیں ۔۔ وریام نے بات بدلتے کہا تو سب مسکرا دیے۔۔۔ اور اندر ڈائننگ روم کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔
" فدک نے اچھا خاصا اہتمام کر لیا تھا۔۔۔ اتنے تکلف پہ وریام اور نیناں سخت ناراض ہوئے تھے۔۔۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھانے کے بعد سب ایک ساتھ اوپر روم میں آئے تھے۔۔۔ جہاں سب اکثر ایک ساتھ رہتے تھے۔۔۔۔ وریام اور رافع اپنی جوانی میں اکثر یہاں رہا کرتے تھے اور اب یہ کمرہ چھوٹو کی ملکیت میں تھا۔۔۔۔ "
" کیا عیناں دعا کے گھر تو نہیں چلی گئئ۔۔ نیناں۔۔۔۔ " انگلیاں چٹخاتے فدک نے خود کو لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی پھر سے سوال کیا تھا۔۔۔۔ نیناں ایک دم سے گڑبڑا اٹھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا جواب دیتی۔۔ اسنے چور نظروں سے وریام کو دیکھا جس نے اسے آنکھوں سے ہی تسلی رکھنے کا کہا تو وہ قدرے پرسکون ہوئی تھی ۔۔۔۔ "
"فدک دراصل وہ عیناں دعا کے گھر نہیں ہے ۔۔ ہم یہی بتانے آئے تھے تم دونوں کو ۔۔۔۔۔ دراصل ویام اچانک سے اسے گھمانے لے گیا ہے اب اتنے سالوں بعد اچانک اس نے ضد کر دی تو پھر ہم نے مجبوراً حامی بھر دی عیناں کو لے جانے کی۔۔۔۔۔ اگر تم دونوں کو برا لگے تو میں بلا دیتا ہوں اسے واپس۔۔۔۔۔۔"
وریام نے ڈھکے چھپے الفاظ میں بیٹے کی عزت ، مان رکھتے کہا تھا جبکہ نیناں تو اس پہ نہال ہو گئی۔۔ کتنے اچھے سے اس نے معاملہ سنبھالا تھا۔۔
" فدک کیا ہوا تم پریشان ہو میں ابھی بلا لیتا ہوں بچوں کو واپس۔۔۔۔۔۔۔"
فدک کے پھیکے پڑتے رنگ کو دیکھ وریام نے فورا سے موبائل نکالا وہ جانتا تھا فدک عیناں کو خود سے دور نہیں کرتی تھی ۔۔
" نہیں بھائی کیسی باتیں کر رہیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ ویام کے ساتھ ہے تو پھر مجھے کوئی پرابلم نہیں ۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ عیناں کا خود سے بھی زیادہ خیال رکھے گا۔۔۔۔۔۔
فدک نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ ویام کی عیناں کیلئے محبت وہ بخوبی جانتی تھی ۔۔۔ اسے یقین تھا وہ عیناں کا خیال رکھے گا اچھے سے۔۔۔۔
" ایک بات تو بتا وریام ۔۔۔۔ " رافع نے سنجیدگی سے وریام کو دیکھا جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس بے حد وجیہہ دکھ رہا تھا ۔۔۔ گزرے وقت میں اسکی جاذب شخصیت اور بھی نکھر گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
" بھونک لے کیا پتہ پھر تجھے موقع ملے یاں ناں ۔۔۔۔۔۔ کافی کی سپ لگاتے وریام نے جلے انداز میں اسے دیکھ کر کہا تو رافع جو اسے دل ہی دل میں سراہ رہا تھا دانت کچکچاتے رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" کیا ویام نے تجھے بتایا تھا کہ وہ عیناں کو لے کر جا رہا ہے۔۔۔ جہاں تک مجھے لگتا ہے اسنے تجھے حکم سنایا ہو گا ،بتانے والا سین مجھے نہیں لگتا کوئی ہو گا۔۔۔۔۔"
ابکی بار وریام کا چہرہ اپنے نالائق کے کارناموں کو یاد کرتے سرخ پڑ گیا تھا۔۔۔۔
" مجھے حکم سنا دے کوئی ہونہہ بھول ہے تمہاری۔۔۔ مصنوعی روعب طاری کیے اسنے پہلو بدلتے ساتھ ہی ویام کو گالیوں سے نوازا۔۔۔۔۔"
💥💥💥💥💥
" مٹھو زوہا کو لے کر ہسپتال پہنچو، مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی ۔ ۔۔۔۔۔ تیزی سے گاڑی میں بیٹھتے اسنے سرخ نظروں سے خود سے دور جاتی گاڑی کو دیکھ جبڑے بھینچے۔۔۔۔ "
" مٹھو جی بھاؤں کہتا فون رکھ چکا تھا۔۔۔ بھاؤں نے موبائل جیب میں ڈالا اور گاڑی سٹارٹ کرتے اسنے رفیق کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی گاڑی کے پیچھے لگائی۔۔۔۔۔
یہ لڑکی ہر بار اسکے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی تھی۔۔ اسنے غصے سے سٹیئرنگ پہ مکہ جھڑا تھا۔۔ وہ جانتا تھا رفیق اس پہ گولی نہیں چلا سکتا تھا۔۔ کیونکہ اس وقت بھاؤں اور رفیق کے گروپ کے لیڈر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا۔۔ جس میں بھاؤں نے صاف لفظوں میں انہیں ایسے کاموں سے باز رہنے کا بولا تھا۔۔۔ "
" پلیز مجھے چھوڑ دیں آپ ۔۔۔۔۔۔ میں نے کونسا کچھ بگاڑا ہے آپکا ۔۔۔۔۔!"
حیا نے روتے سرخ ہوئی آنکھوں کو رگڑتے اپنے بازو کو رفیق کی گرفت سے چھڑوانا چاہا تھا۔۔۔
" چپ کر جا لڑکی ، تیری وجہ سے وہ پاگل بھاؤں میرے پیچھے لگ گیا ہے تجھے کیا لگتا ہے تجھے یونہی چھوڑ دوں گا میں۔۔۔۔ جب تک یہ بلا میرے سر سے نہیں ٹلتی ،تب تک توں چپ چاپ بیٹھی رہ یہاں۔۔۔۔ گاڑی تیز چلا فیدے ، اگر بھاؤں نے پکڑ لیا تو آج موت پکی ہے۔۔۔ " رفیق نے گردن گھمائے پیچھے کی جانب دیکھا جہاں بھاؤں کی گاڑی عین اسکی گاڑی کے پیچھے تھی۔۔۔ اسنے رومال نکالتے پسینہ صاف کیا۔۔۔۔
" فیقے(رفیق) کال کر باس کو اور بتا کہ بھاؤں کو پتہ چل گیا ہے سب اور وہ ہمارے پیچھے پڑ چکا ہے ۔۔۔٫ فیدے نے اسے کال کرنے کا کہا تو وہ بھی سنبھلتے سر کو ہاں میں ہلاتے اپنے باس راشد کو کال کرنے لگا ۔۔۔۔
" ہاں بول کام ہوا کہ نہیں فیقے ۔۔۔۔۔" فون سے نشے میں ڈوبی لڑکھڑاتی ہوئی سے آواز گونجی، حیا نے سہم کے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ ، دل میں خوف کے ساتھ ایک امید بھی تھی کہ امن آتا ہی ہو گا اسے بچانے۔۔۔۔۔۔۔"
" بوس کام کیا ہونا ہے وہ بھاؤں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ٹانگ اڑانے پہنچ گیا ۔۔۔ اب میرے پیچھے لگا ہوا ہے ، مجھے بتاؤ کیا کروں میں ۔۔۔۔۔۔۔"
رفیق نے ماتھا مسلتے حیا کے ہاتھ کو پل بھر کے لیے چھوڑا تھا وہ ایک دم سے دبکتے دروازے کی جانب ہوئی مگر لاک دروازے کو دیکھ اسنے سہمتے سر اسی سے ٹکا دیا۔۔۔۔
" توں بچ کیسے گیا اس سے۔۔۔ " راشد نے حیرانگی سے استفسار کیا تھا اور ساتھ ہی پتے میز پہ پھینکے ۔۔۔۔ "
وہ ایک لڑکی کو قابو کر لیا تھا بوس اسی وجہ سے وہ مجبور ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ اور مجھ پہ حملہ نہیں کر سکا ۔۔۔"
ہممممم لڑکی کہاں ہے ۔۔۔۔ " راشد نے اپنے پہلے دانتوں کی نمائش کرتے سینہ مسلتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ تو رفیق نے پہلوں بدلتے اپنے سامنے بیٹھی اس معصوم سی لڑکی کو دیکھا۔۔
"میرے ساتھ ہے باس۔۔۔کیوں سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔۔۔"
رفیق سمجھ تو گیا تھا اس کی گندی نیت کو مگر اس وقت اس کے پاس اپنی جان۔ بچانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔۔ اگر وہ حیا کے ساتھ رہتا تو یقیناً بھاوں اسے جلد کی پکڑ لیتا۔۔۔ اس وقت صرف راشد ہی تھا جو اسے بھاؤں کے قہر سے بچا سکتا تھا ۔۔۔
" ایسا کر توں اپنے پرانے اڈے کے قریب کہیں چھپ چھپا کے اتر جا اور لڑکی کو فیدے کے ساتھ یہاں بھیج دے۔۔۔۔۔ راشد نے ٹانگ کرسی پہ رکھی تھی۔۔ سامنے طاش کے پتے پھینکتے اسکے ساتھی نے اسے اشارے سے پوچھا تو وہ خباثت سے مسکرا دیا۔ جس پہ وہ بھی سر جھٹک کے اپنے کام میں مشغول ہوا ۔۔۔۔۔۔
" مگر باس۔ ۔۔۔"
"اگر مگر چھوڑ اس وقت اپنی جان کا سوچ۔۔۔۔ اور بھاگ جا، لڑکی کو میں سنبھال لوں گا۔۔۔۔۔"
راشد نے بات کاٹتے اسے بولنے سے روکا تو مجبوراً وہ خاموش ہوتے رہ گیا ۔۔۔ ۔
" کیا کہا باس نے۔۔۔۔ فیدے نے اسکے لٹکے چہرے کو دیکھ پوچھا ۔۔ بھاؤں کی گاڑی اب بہت پیچھے چھوٹ چکی تھی۔۔ ٹریفک کی وجہ سے وہ کافی آگے نکل چکے تھے۔۔ بس یہیں اڈے پہ مجھے اتار اور توں باس کے پاس جا۔۔۔۔"
۔۔رفیق نے اس سے چادر لیتے خود پہ لپٹاتے ہوئے کہا تو حیا نے آنسوں صاف کرتے اسے دیکھا۔۔۔
ممم مجھے چھوڑ دیں پلیز۔ مجھے گگ گھر جانے دیں ۔۔۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے پلیز۔۔۔۔ " حیا نے اسے اترتا دیکھا تو فورا سے کہا رفیق بنا کچھ کہے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔
جبکہ حیا سہم سی گئی تھی یہ خوف ہی اسے سہما گیا تھا کہ وہ کہیں اور کسی اڈے پہ جا رہی تھی ۔۔ "
" سلام باس۔۔۔۔۔ خفیہ راستے سے ہوتے فیدے نے گاڑی سیدھی شٹر کے اندر داخل کی تھی۔۔۔ اور فورا سے شٹر نیچے کرتے وہ دوڑتا سامنے ایک جانب بڑھا۔۔
نیم تاریکی میں ڈوبا کمرہ اچانک سے روشن ہوا تھا۔ ۔ حیا نے خوف سے آنکھیں پھیلائے گاڑی سے ہی باہر کی جانب دیکھا تو ایک بڑی تعداد میں گنڈوں کو یوں بیٹھا دیکھ وہ اور بھی ڈر گئی تھی۔۔
اپنی ماں ، باپ کو یاد کرتے آنسوں اور بھی روانی سے بہہ نکلے تھے۔۔ اتنا بے بس اس نے خود کو آج تک کبھی نہیں پایا تھا۔۔ جتنا وہ ان گزرتے دنوں سے ہو رہی تھی۔۔۔
" ہمممم لڑکی کہاں ہے۔۔۔۔ کمرے کے وسط میں طاش کے پتے کھیلتے راشد نے نشے سے چور ڈوںی آواز میں کہا تو حیا سنتی ایک دم سے سپید سی پڑ گئی۔۔۔۔
فیدے کے سوائے باقی سب اپنے کام میں مشغول تھے۔ جبکہ راشد کی تلاشتی نظریں حیا کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔
وہ گاڑی میں ہے باس۔ ۔" فیدے نے ادب سے ہاتھ باندھے ذرا سا جھکتے کہا تو راشد نے منہ بنایا جیسے کڑوا بادام کھا لیا ہو ۔۔۔
" گاڑی میں کیا کر رہی ہے ذرا لے کر آؤ اسے ۔۔۔۔ میں بھی تو دیکھوں آخر ایسا کیا ہے اس میں جو بھاوں ہاتھ دھو کے پیچھے پڑ گیا ۔۔۔"
راشد نے ہنستے پاس بیٹھے اپنے ساتھی کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔ جبکہ فیدہ ایک دم سے حکم کی تعمیل کرتا کھینچتے اسے گاڑی سے باہر نکالتے مقابل کے پاؤں میں پٹھک چکا تھا۔۔۔۔
"ارے ارے آرام سے فیدے ۔۔۔ کیوں اس نازک سی جان کو تکلیف دے رہا ہے توں۔۔۔ راشد نے مصنوعی غصے سے اسے جھڑکا تو کمرے میں سب کے دبے دبے قہقہے گونج اٹھے۔۔۔۔ راشد نے ہاتھ حیا کی تھوڑی کے نیچے رکھتے اسکا چہرہ اٹھایا تھا۔۔۔ جس پہ اس نے غصے سے فورا سے اپنے چہرے سے اسکا ہاتھ جھٹکا اور ساتھ ہی ایک دم سے پیچھے کو ہوتی سمٹ کے بیٹھ گئی ۔۔۔
"ارے دیکھو تو ہماری چڑیا کو غصہ آ گیا ۔۔۔۔" ویسے خوبصورت تو توں کمال کی ہے ۔۔ کیوں سہی کہا ناں میں نے۔۔۔۔ راشد نے ہنستے سب سے پوچھا تو سب سر ہلا گئے۔۔۔ جبکہ خود پہ اٹھتی اتنی غلیظ نظروں کو پاتے وہ بے آواز رو رہی تھی ۔۔۔ اسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہونے لگا ۔۔۔
" بھاؤں کیا اسکے جیسے ہزاروں اسکے آگے دم بھریں۔۔۔۔۔ مگر دیکھ قسمت دیکھا کسی نے اور پایا کسی نے۔۔۔۔ " وہ لڑکھڑاتے قدموں سے جگہ سے اٹھا تھا ۔ وہ ایک قدم آگے کی جانب لیتا تو دو قدم خود بخود ہی پیچھے کو مڑتے۔۔۔ مگر پھر بھی وہ حیا کے سر پہ پہنچ چکا تھا جو خود میں سمٹ کہ بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
" ویسے اگر یہ چادر اتار دے تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔ " ذرا ہم بھی تو تجھے دیکھیں جی بھر کے۔۔۔۔۔ " راشد نے قہقہ لگاتے ایک دم سے ہاتھ بڑھاتے حیا کی چادر جھپٹنی چاہی تھی ۔۔ مگر اس سے پہلے ہی ایک تیز دھماکے کی آواز گونجی ۔۔ سب کے سب جو شو دیکھنے میں مگن تھے ایک دم چونکتے پیچھے شٹر کو دیکھنے لگے ۔۔۔ جہاں سے تیز رفتار میں چلتی کار ایک دم سے آتے ہی راشد کے پاؤں کے بیچ رکی ۔۔
" گاڑی سے نکلتے خونخوار بپھرے شیر کی مانند بھاؤں کو دیکھ وہ سب ایک دم سے جیسے اپنی اپنی جگہ فریز ہو گئے تھے۔ ۔۔۔ راشد نے آنکھیں کھولتے پیچھے دیکھا تھا۔۔ جبکہ بھاوں کی نظریں سب کے بیچ بیٹھی اپنے خجاب کو دونوں ہاتھوں سے تھامی حیا پہ تھیں ۔۔ جو زہر لب جانے کیا پڑھ رہی تھی۔۔۔۔
" بھاؤں کو رشک آیا اسکی قسمت پہ۔۔۔ کیسی قسمت تھی محترمہ کی ،، ہر بار عین وقت پہ بچ جاتی تھی۔۔۔"
مارو سالے کو ، جو ہو گا بعد میں دیکھیں گے۔۔۔۔۔ " راشد نے غصے سے غراتے لہجے میں کہا تو حیا نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔
وہ سب ایک دم سے بھاؤں کی جانب آگے بڑھے تھے کہ اچانک سے گاڑی کے سامنے فرنٹ پہ دونوں اطراف سے بندھے رفیق کا پورا وجود دو حصوں میں بٹتے دائیں اور بائیں جانب گرا ۔۔۔ جسے دیکھ ہی سب کے ہاتھ کپکپا اٹھے تھے۔۔ سب نے غیر ارادی طور پہ قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔
بھاؤں نے ایک نظر سب کو دیکھا اور چلتے حیا کے پاس پہنچا۔۔۔
حیا نے بہتی آنکھوں سے اسے دیکھا جو بے تاثر چہرہ لیے اسے پکڑتا گاڑی میں بٹھا چکا تھا۔۔۔۔
ہاں تو باقی حساب پھر کروں گا ابھی جلدی ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے کچھ لایا ہوں تمہارے لئے۔۔۔۔ بھاؤں نے وخشت بھری نظروں سے سب کو دیکھا اور پھر اپنے سامنے کھڑے راشد کو جو اسے ہی غصے سے گھور رہا تھا۔۔۔۔
بھاؤں نے بغور اسکے دائیں ہاتھ کو تھامتے الٹ پلٹ کے دیکھا۔ اسکے نارمل ری ایکشن پہ سب ہی حیران تھے کہ آخر یہ اتنا نارمل تاثر کیوں دے رہا تھا۔۔ مگر اگلے ہی لمحے ، فضا میں راشد کے ساتھ ساتھ حیا کی دلدوز چیخیں گونجیں۔۔۔ جب ایک ایک کرتے بھاوں نے ساری کی ساری گولیاں اسکے ہاتھ کی پشت پہ ماری تھی۔۔۔
وہ درد سے بلبلاتے کتوں کی طرح زور زور سے غرانے لگا۔۔۔ جبکہ بھاؤں نے ایک نظر اسے دیکھا اور زور دار مکہ رسید کرتے وہ جلدی سے گاڑی کی جانب بھاگا۔۔۔
" پکڑو حرامی کو۔۔۔۔۔ بھاگنے ناں پائے وہ سالا۔۔۔۔" درد سے بلبلاتے وہ خون الود ہاتھ کو تھامے زمین پہ بلبلاتے غصے سے دھاڑ اٹھا ، تو سب جیسے ہوش میں آئے تھے اور فورا سے گاڑیاں نکالتے بھاؤں کے پیچھے لگائی۔۔۔ "
" سٹاپ اِٹ حیا۔۔۔۔ رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔ " مسلسل گاڑیوں کو اپنے تعاقب میں آتا دیکھ اور ساتھ ہی حیا کے رونے پہ وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
" تم نے اسے مارا ۔۔۔ " وہ روتی سرخ ہوئی آنکھوں سے اپنے آنسوں ہاتھ کی پشت سے رگڑتے ناک اپنے خجاب سے صاف کرتے بولی تھی ۔۔ جبکہ اسکی اس گندی حرکت پہ بھاوں تلملاتے پہلوں بدل کہ رہ گیا۔۔۔۔
" تم کس سے ناک صاف کر رہی ہو، بے وقوف لڑکی۔۔۔ اسنے دبے دبے غصے سے گاڑی ریورس کرتے دانت کچکچاتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔۔ کہ شاید وہ سوری بول دے اپنی حرکت پہ۔۔۔۔
" ٹشو نہیں، میرے پاس اور رومال تم رکھتے نہیں پاس ۔۔ تو تمہاری شرٹ سے کروں۔۔۔۔۔ " ناک سکوڑتے اسنے گویا اسپہ احسان کیا تھا۔ " بھاؤں کا دل چاہا کہ اسے گاڑی سے پکڑتے باہر پھینک دے ۔۔
" ویسے تو کوئی بات یاد نہیں محترمہ کو اتنا یاد ہے کہ رومال نہیں رکھتا میں پاس۔۔ " وہ غصے سے بیک مرر سے پیچھے کی جانب دیکھتے بڑبڑایا۔۔۔۔جبکہ مقابل بیٹھی حیا اب کافی پرسکون تھی ۔۔ جانتی جو تھی وہ اسے کچھ بھی نہیں ہونے دے گا۔۔ ایک یقین ایک اعتماد تھا اس پہ۔۔۔
" اوہ شٹ ڈیم اٹ۔۔۔۔۔ " ایک دم سے گاڑی بیلنس ناں رکھ پاتے اچانک سے مڑی تھی۔ بھاؤں نے سنبھالتے اسے بمشکل سے قابو کرتے روکا تو شاید پٹرول ختم ہو چکا تھا۔۔۔
وہ بنا وقت ضائع کیے باہر نکلا تھا۔۔۔ اور حیا کی سائڈ کا دروازہ کھولتے اسنے حیا کا ہاتھ تھامتے اسے باہر کھینچا۔۔۔۔
" رات کافی ہو چکی تھی۔۔۔ ہر طرف اندھیرہ چھایا ہوا تھا ، اوپر سے کتوں کے بھونکنے کی آواز پہ وہ مزید خوفزدہ سی ہو گئی تھی۔۔
" امنن ہم کہاں جا رہے ہیں ،۔۔۔۔۔ کیا وہ لوگ ہمارے پیچھے ہیں۔ ۔۔۔؟"
وہ تیز تیز قدم اٹھائے اس وقت گلی میں داخل ہوئے تھے۔۔ جبکہ حیا نے ناسمجھی سے اسکی چوڑی پشت کو گھورتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" پکنک پہ جا رہیں ہیں ۔۔۔ اب خوش۔۔۔۔۔ " وہ آگے ہی کافی پریشان تھا ۔۔۔ اسے اپنے سو بکھیڑے تھے اوپر سے اس نئی آفت کے سر پڑنے پہ وہ مزید جھنجھلایا ہوا تھا۔۔ اگر اکیلا ہوتا تو مقابلہ کرنا اسکے بائیں ہاتھ کا کام تھا مگر حیا کی وجہ سے وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔۔
" تم بدتمیزی مت کرو میں تم سے بڑی ہوں۔۔۔۔ " اب کی بار حیا نے غصے سے ہاتھ چھڑواتے کہا تھا۔۔ جبکہ اسکے ہاتھ چھڑوانے اور یوں رکنے پہ بھاوں کے ماتھے پہ ایک ساتھ ہزاروں بل نمودار ہوئے۔۔۔
" تمیز اور بدتمیزی جس دن میری دیکھ لی، یقین مانو کچھ دیکھنے کے لئے نظریں نہیں اٹھا پاؤ گی ۔۔ سال بڑی ہو تو کوئی تیر نہیں مار لیا تم نے سال پہلے اس دنیا میں آ کر۔۔۔ خود کو دیکھو اور مجھے دیکھو دیکھو کون بڑا ہے۔۔۔۔۔"
" اسے ایک دم سے دیوار سے لگاتے بھاؤں نے سرگوشی نما آواز اپناتے ہوئے کہا تھا ۔ حیا کی پلکیں ایک دم سے لرزی تھی ۔ جبکہ بھاؤں اسے جھٹکے سے چھوڑتا آگے بڑھا۔۔۔
" وہ عورت کیا لگتی ہے تمہاری۔۔۔۔ وہ آگے چلتے چلتے اس سے سوال کر رہا تھا۔۔ حیا نے منہ پھلائے جواب دینے سے انکاری ہی تھی جیسے۔۔۔۔
" وو وہ میری ہونے والی ساس ہے۔۔۔۔"
اسکی سرخ نظروں کو خود پہ ٹکا پاتے فورا سے بولی تھی ۔۔۔
" ایک بار پھر سے مکمل خاموشی چھا گئئ۔۔۔ وہ اسے لیے ایک گھر کینجانب بڑھا اور ہاتھ سے دراوزے کا لاک کھولتے اندر بڑھا۔۔۔۔۔
" بیٹھو یہاں۔ اندر داخل ہوتے ہی بھاؤں نے حیا کو ایک چارپائی پہ بیٹھنے کا کہا تو وہ چپ چاپ چلتی چارپائی پہ سمٹ کے بیٹھ گئی ۔ آنکھوں میں ڈر کی جگہ اب پریشانی دھر آئی تھی، اگر وہ وقت پہ گھر ناں پہنچی تو سب کیا سوچیں گے۔۔۔
اسنے آنکھیں میچتے ہوئے خود پہ ضبط کیے ، سر گھٹنوں سے اٹھایا۔۔ تو سامنے ہی اسے وہ کھڑکی کے پاس ہاتھ میں گن تھامے کھڑا ملا، حیا نے بغور اسکا جائزہ لیا۔۔۔ جو اس وقت ماتھے پہ ڈھیروں بل ڈالے ، تنے اعصاب کے ساتھ سرخ چہرہ سے کھڑا تھا۔۔ بلاشبہ وہ بے حد حسین تھا۔ اسکی نظروں کی وارفتگی پہ بھاوں نے گردن گھمائے اسے دیکھا تو وہ سٹپٹاتے سر جھکا گئی ۔
" تم مجھے کیوں بچا رہے ہو ، اگر تم مجھے ناں بچاتے تو اس طرح سے تمہارا بدلہ بھی پورا ہو جاتا ۔ "
کچھ پل کی خاموشی کے بعد حیا کی آواز پہ وہ چونکتے مڑا تھا۔۔ بھاؤں نے اسکی بات پہ ایک طرفہ مسکراتے سر جھٹکا۔۔۔ حیا نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جو اب چلتا اسی کی جانب آ رہا تھا۔
" کیونکہ تم میرا شکار ہو اور تمہیں سزا دینے کیلئے میرے پاس لاکھوں طریقے ہیں مگر بشرطیکہ سزا میں خود چنوں۔۔۔۔ نا کہ کوئی دوسرا۔۔ ۔۔۔ " بھاؤں نے پاؤں اٹھاتے چارپائی پہ رکھا تھا اور جھکتے اسکی پھیلی آنکھوں میں دیکھتے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ بولا تو حیا کا منہ حیرت سے کھل گیا ۔
مطلب کے وہ اسے اپنے لئے بچا رہا تھا تاکہ وہ بعد میں اسے خود سے سزا دے سکے۔۔۔۔ "
"پریشان کیوں ہو رہی ہو، فکر مت کرو میں ایسے سزا نہیں دوں گا کیونکہ بے بس شکار مجھے ذرا پسند نہیں، بلکہ مجھے تو شکار کو اسکے گھر سے جھپٹنے کا مزہ آتا ہے ۔۔ تم آرام سے پرسکون ہو کے بیٹھو۔۔ہممممم۔ ۔۔۔"
حیا کے کپکپاتے ہاتھوں کو دیکھ بھاوں نے تصحیح کی تو وہ لب بھینچتے رہ گئی۔ آنکھوں میں ایک ساتھ جانے کتنے آنسوں امڈ آئے تھے ۔۔۔ اسکا دل چاہا زور زور سے رونا شروع کر دے مگر پھر اپنی بے بسی کا سوچ پروگرام کینسل کر دیا۔۔۔
" آدھے گھنٹے بعد ہی بھاؤں نے باہر کی جانب دیکھا جہاں اب مکمل خاموشی پھیلی تھی۔ وہ گہرہ سانس بھرتے واپس مڑا تو حیا کو خود میں سمٹا سوتے پایا ۔۔۔ وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا اور ایک دم سے اسے کھینچتے بازو سے کھڑا کیا تو اچانک سے اس افتاد پہ وہ بوکھلائی ہوئی سی تھی۔
" کیا بات ہے مس حیا ۔۔۔ تمہیں میری موجودگی میں نیند آ گئی۔ ڈر نہیں لگ رہا مجھ سے ۔۔ کہ کہیں میں پھر سے تم پہ حملہ ناں کر دوں ، کہیں دوبارہ سے تمہارے ساتھ وہی سب کچھ ناں ہو جائے ۔۔ بھاوں نے زور سے اسکا بازو دبوچتے ایک ایک لفظ غصے اور طیش سے کہا تھا جبکہ حیا تو بس اسکے انداز پہ ایک دم سے شرمسار ہو گئی ۔ سارا چہرہ اہانت کے تحت سرخ پڑ گیا ۔"
" چلو یہاں سے ۔۔۔ " بھاؤں نے کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھتے اسکا بازو چھوڑا کہ وہ گرتے ہوئے بمشکل سے سنبھلی۔۔۔
وہ جلد از جلد حیا کو گھر پہنچانا چاہتا تھا باقی جو بھی ہو گا وہ آرام سے سب کو ہینڈل کر سکتا تھا۔۔ مگر اس وقت اس مصیبت سے پیچھا چھڑوانا زیادہ ضروری تھا۔۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں چلتا کافی آگے نکل آیا تو اسنے مڑتے پیچھے کو دیکھا۔ حیا دھیمے قدموں سے اسکے پیچھے ہی چل رہی تھی ۔۔
" بھاؤں نے سرد سانس فضا میں خارج کرتے رخ آگے کی جانب موڑا کہ اچانک سے اسکے دماغ میں کچھ لہرایا ۔۔۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے دوڑتے حیا کی جانب بڑھا تھا ،۔۔۔۔ حیا حیرت سے اسے اپنی جانب یوں آتے دیکھ گھبرا سی گئی۔۔۔
" حیاااا ۔۔۔" ایک دم سے گولیوں کی بوچھاڑ کی تیز آواز کے ساتھ بھاؤں کے دھاڑ فضا میں گونجی تھی ۔۔ حیا نے پھٹی پھٹی نظروں سے امن کی جانب دیکھا جو اسے حصار میں لیے ہوئے تھے ۔ اسکے سینے سے ابلتے خون کو دیکھ ، حیا کی دل دہلا دینے والی چیخ ماحول کے سکوت کو توڑ گئی۔۔۔۔۔۔
"امنننننن۔۔۔۔۔۔حیا نے بے یقینی، سے ڈر، اور وخشت سے بھاؤں کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھ چیختے اسے پکارا تھا۔۔۔۔ جس کی آنکھیں ایک دم سے بند ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" عین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" خاموش فضا کو چیرتی ویام کی آواز اب چیخ چیخ کے بھاری ہونے لگی تھی۔۔۔ "
دھند اور برف کی شدت میں ہوئے اضافے کی وجہ سے دن کے وقت بھی رات کا سا اندھیرا چار سوں چھانے لگا تھا۔۔۔۔۔
ویام کی سانسیں یچ بستہ ٹھنڈ میں بھاری ہونے لگی تھی۔۔ مگر وہ دو گھنٹوں سے عینان کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔ وہ بھٹک چکا تھا اسے تلاش کرتے ۔۔۔ اندھیرے کے سبب اسے نشانات بھی نہیں مل پا رہے تھے اوپر سے چہرے پہ پڑتی تیز برف آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا سا چھانے لگا تھا۔۔۔۔۔
" ویام جانتا تھا ٹھنڈ عیناں پہ بہت جلدی سے اثر کرتی تھی۔۔۔ جبھی وہ جلد از جلد اسے ڈھونڈتے واپس جانا چاہتا تھا۔۔۔ دل و دماغ میں اپنی ہی جنگ جاری تھی مگر فلحال عیناں کو سہی سلامت ڈھونڈنا زیادہ ضروری تھا۔۔۔۔۔
اسنے آنکھوں کو مسلتے سامنے اوپر کی جانب دیکھا جہاں پہ اونچی ڈھلوان بنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اس ڈھلوان کو پار کرنا اسکے کوئی مشکل عمل ناں تھا گو کہ وہ مہینوں اس ٹھنڈے علاقے میں رہ چکا تھا ۔۔۔ جہاں اسے برف میں کئی گھنٹے
رہنے کی مشق کروائی گئی تھی۔۔۔۔ ایسی بہت سے خطرناک جگہوں پہ انکی ہوتی ٹیم رہ چکی تھی۔۔ مگر اسے فکر عیناں کی تھی۔۔۔
جسکے لیے یہ سب برداشت کر پانا ناممکن تھا۔۔۔۔۔ وہ اپنی سوچ میں گم اوپر کی جانب بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ ابھی تک اسے کوئی علم نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کہا ہو سکتی ہے۔وہ بس چلتا جا رہا تھا۔۔۔
راستے میں ایک دو جگہ اسے پاؤں کے نشانات ملے تھے وہ اسی اندازے سے چل رہا تھا۔ ۔۔۔
"عینن۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہو تم آواز دو مجھے ۔۔۔۔۔۔۔" عین۔۔۔۔۔۔" وہ ڈھلوان چڑھتے مسلسل اسے آوازیں بھی دے رہا تھا۔۔۔۔۔
اچانک سے اسے محسوس ہوا جیسا کوئی اسے بلا رہا ہے۔۔۔۔۔ ویام نے قدم روکتے غور سے دماغ پہ زور ڈالتے بغور آواز کو سنننا چاہا تو اسے کہیں بہت دور سے عیناں کی آواز آتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔ وہ بالکل فریز سا ہو گیا۔۔۔ ایسی جگہوں پہ آواز سے سمت کا تعین کرنا بہت مشکل امر تھا جبھی وہ پوری حسیات سے آواز سے سمت کا تعین کرنے لگا اچانک سے پھر سے اسے دائیں جانب سے مدہم سی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔ وہ بنا وقت ضائع کیے ڈھلوان کے اوپر کی جانب جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔
عیناں جو اس وقت غصے سے باہر نکل آئی تھی ۔۔۔ وہ روتی ہوئی جانے کب اتنی دور نکل آئی کہ اسے احساس تک ناں ہو سکا۔۔۔ مگر پھر اچانک سے اندھیرے کے احساس کے بعد ٹھنڈ کو محسوس کرتے اسنے آنکھیں چاروں اطراف گھمائی تو وہ خود کو یہاں باہر پا کر دنگ رہ گئی ۔۔۔ اسنے خوف سے ڈرتے ویام کو آوازیں دی مگر بےسود۔۔۔۔۔
بہت کوشش کے باوجود بھی ویام اسے نہیں ملا تھا۔۔۔ خود کو حوصلہ دیتے عیناں نے ایک جانب جانا شروع کر دیا۔۔۔۔ اسے لگا تھا کہ شاید وہ جلد ہی ویام تک پہنچ جائے گی۔۔۔ مگر لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ ویام کو نہیں ڈھونڈ سکی۔۔ دماغ نے زور ڈالا کہ وہ کیوں ڈھونڈے گا تمہیں مگر پھر دل نے ڈھارس بندھائی کہ وہ ضرور اس کے لئے پریشان ہو گا۔۔۔۔ اسنے آنسوں صاف کیے اور اوپر ڈھلوان کی جانب چل پڑی۔۔۔
سردی سے اسکا پورا جسم کپکپا رہا تھا۔۔۔ پاؤں سرخ لہو رنگ ہو چکے تھے جبکہ ہونٹ ایک دم سے نیلے پڑنے لگے تھے۔۔۔۔۔۔
بمشکل سے چڑھتے اسنے سرد سانس خارج کرتے آگے پیچھے دیکھا تو اچانک سے اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔ وہ ایک دم سے اپنے سامنے برفانی ریچھ کو دیکھ زور سے چیختی پیچھے کی جانب بھاگنے لگی کہ ایک دم سے اسکا پاؤں مڑا تھا ۔۔۔۔ وہ بری طرح سے گھٹنوں تک آتی برف کی تہہ میں گرتے دھنس چکی تھی۔۔۔۔
" عیناں نے درد کی شدت سے تڑپتے اپنے نیلے پڑے ہونٹوں کو بری طرح سے کچلا تھا ۔۔ سر بھاری ہوتا محسوس ہونے لگا تھا اسے۔۔۔۔ اسنے کپکپاتے سرخ پڑے ہاتھوں سے اپنی ٹانگ کو پکڑنا چاہا تھا۔ پاؤں میں درد شدید ہو رہا تھا مگر اس میں کھڑے ہونے کی ہمت تک نہیں تھی۔۔۔
" گرے کانچ سی شفاف آنکھوں میں آنسوں کا ریلا سا بہہ نکلا تھا۔۔۔۔ اسنے غصے اور بے بسی سے اپنے پھولے رخساروں پہ بہتے اس گرم سیال کو بےددی سے ہاتھ کی پشت سے رگڑا۔۔۔۔۔
پورا جسم سردی سے اکڑ رہا تھا۔۔۔ عیناں نے امید سے آگے پیچھے چار سوں نظریں دوڑائیں تو سامنے ہی اسے ایک اجڑے سے درخت کی جڑیں نظر آئی۔۔عیناں نے ہمت کرتے پاؤں گھسیٹتے آگے کی جانب جانا چاہا تھا مگر پھر اچانک سے وہ خوف سے کانپ اٹھی جب اپنے بے حد قریب سے اسے کسی جانور کے رونے کی آواز سنائی دی۔۔۔"
" وہ ہراساں سی نظروں سے آگے پیچھے دیکھے گئی۔۔۔ ڈر ، اور خوف حاوی ہونے لگا تو وہ کپکپا اٹھی۔۔۔۔ اسنے تھوک نگلا تو نظر سامنے ہی ایک زخمی سفید رنگ کی بلی پہ پڑی۔۔۔ جو اس قدر ٹھنڈ میں یوں ٹھٹرتی آوازیں نکالے رو رہی تھی۔ شاید۔ ۔۔۔۔ عیناں نے پل بھر کو اسے دیکھ اپنی مصیبت بھلائے اسکی جانب جانا چاہا مگر پاؤں میں درد کی بنا پہ وہ گھیسٹتے ہوئے اس برفانی بھالو کے بچے کے پاس پہنچی۔ ۔
بے ساختہ عیناں نے کپکپاتے ہاتھوں سے اسے گود میں بھرنے کو اٹھایا مگر وہ خود بھی اس وقت بے بس آڑی ترچھی برف پہ پڑی تھی۔ بھالو اسکے سخت حصار پہ کسمساتے چیخ اٹھا۔۔ عیناں نے بمشکل سے آنکھیں کھولنے کی سعی کرتے اسکی جانب دیکھا ۔ تو وہ بمشکل سے بلی کے جتنا دکھا اسے، مگر اسکے پورے وجود پہ سفید لمبے لمبے بال سے تھے۔۔۔ شاید وہ اپنی ماں سے علیحدہ ہو گیا تھا۔۔ اس قدر طوفانی موسم میں بھی وہ بچہ ابھی تک بچا ہوا تھا کیونکہ برفانی ریچھ ایسے علاقوں میں ہی رہ سکتے ہیں۔۔ شاید پاؤں پرچوٹ کی وجہ سے درد سے رو رہا تھا۔۔
" عیناں کا پورا وجود سردی سے کانپ رہا تھا۔۔۔ خون جیسے رگوں میں برف کی مانند ٹھنڈا پڑ رہا تھا۔۔ اچانک سے اسے دور سے کہیں ویام کے چلانے کی آواز سنائی دی تھی ۔۔ بے جان نیلے پڑتے ہونٹ ایک دم سے کپکپائے تھے۔۔ وہ ڈھونڈ رہا تھا اسے۔۔۔۔۔۔۔ ایک خوشگوار سانس اپنے اندر کھینچتے اسنے ٹھنڈ سے کچکچاتے دانتوں سے بمشکل سے اپنے خشک ہوئے ہونٹوں کو جنبش دیتے ساری ہمت مجتمع کی اور ویام کو زور سے پکارا تھا۔۔۔۔۔
آنکھوں میں ایک دم سے بہت سے آنسوں آنے لگے تھے۔۔۔۔ اسکا دل پھر سے نخرے کرنے پہ اکسانے لگا ۔۔۔ جیسے یقین تھا کہ اسکے نازو و نخرے اٹھانے والا اسے سنبھالے گا۔۔۔ اسکی ہر بات کو مانے گا ۔۔۔۔ اسنے گردن گھمائے اس چھوٹے سے بھالو کو دیکھا جو گھٹڑی سی بنا سر نیچے رکھے بیٹھا تھا ۔۔۔
اسنے پھر سے ہمت کرتے جسم کی ساری طاقت لگاتے ابکی بار گھٹنوں کے بل بیٹھتے ویام کو پکارا تھا۔۔۔۔ ایکدم سے اسکی آنکھوں میں اندھیرا سا چھانے لگا تھا۔۔۔ وہ بے دم سی ہوتے پیچھے کی جانب گری تھی۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
ہیلو جی سر کام ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ مشن از سکسیس فل ۔۔۔۔۔"
ہاتھ جینز کی پاکٹ میں ڈالے اسنے سنجیدگی سے کہا تو مقابل خوشدلی سے مسکرا اٹھے۔۔۔
' ویلڈن اذلان۔۔۔۔ مجھے تم پہ فخر ہے۔۔ تم نے آج اپنی جان پر کھیلتے ان معصوم بچیوں کی ہی نہیں بلکہ انکے گھر والوں اور ساری قوم کی عزت بھی بچائی ہے ۔۔ کمشنر نے اسے سراہتے لہجے میں کہا تو سر جھٹکتا رہ گیا۔۔۔۔
"میں کون ہوں سر عزت دینے اور لینے والا۔۔۔۔ یہ سب تو اس مہربان کی ذات کا کام ہے جو عزت دیتا ہے۔۔اور اسے مخفوظ بھی رکھتا ہے۔ "
بظاہر وہ بات کر رہا تھا مگر اسکا اندر کافی بکھرا ہوا سا تھا۔۔
"اوکے ینگ مین تم کام ختم کرواور پاکستان جلد از جلد پہنچو۔۔۔ اور پھر سے ہم ایک نئےمشن پہ ایک ساتھ کام کریں گے۔۔ "
کمشنر نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ جی سر کہتے کال کاٹ گیا ۔۔۔۔۔
اپنے اندر میں لگی اس بے چینی کی آگ میں جھلستے اسنے اپنے آپ پہ بے حد غصے سے مکہ دیوار پہ رسید کیا۔۔۔۔ اسے بار بار اپنا رویہ یاد آ رہا تھا جو تھوڑی ہی دیر پہلے وہ الایہ سے برت چکا تھا۔۔۔۔ دل و دماغ نے الگ سا شور برپا کر رکھا تھا۔
وہ یہاں انہی لڑکیوں کو رہا کروانے آیا تھا۔۔ جن کو چھڑوانے اور کیس کو سالو کرنے کے پیچھے وہ کئی ہفتوں سے تھا۔۔ مگر صبح جب وہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ہوٹل پہنچا تو اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے آنے میں دیر ہو گئی تھی ۔۔ جبھی اسنے بنا کسی کو بتائے پیرس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہاں آتے ہی اسنے ہوٹل کے اونر پر نظر رکھی تھی۔۔ اور اسکا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ ۔۔ وہی بے وقوف اسے لڑکیوں کے پاس لے گیا تھا۔۔۔ جسکے بعد اسنے بآسانی لڑکیوں کو رہا کروا لیا تھا۔۔۔۔۔
مگر ایک بات جو اسے معلوم ہوئی تھی وہ یہ کہ اس سارے معاملے میں صرف پاکستان کے ہی نہیں بلکہ اس کے علاؤہ کئی اور ممالک کے لوگ بھی شامل تھے۔۔۔ جبھی اسنے کمشنر سے رابطہ کرتے لڑکیوں کو انڈرکوور کے تحت بنا کسی کی نظروں میں آتے محتاط اور باخفاظت طریقے سے پاکستان پہنچا دیا تھا۔۔
اب اسکا ایک ہی اہم کام تھا ۔۔ ان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا۔۔۔ یقینا وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتا مگر وہاں الایہ کو یوں کھلے عام گھومتا دیکھ وہ غصے میں خود پر سے ضبط کھو چکا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جگہ اسکے لئے نہایت خطرناک تھی۔۔ اسی وجہ سے وہ بنا غصہ کیے اسے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔
اسنے سوچا تھا کہ وہ آرام سے اسے پوچھے گا کہ آخر وہ رات کے اس پہر وہاں کیا کرنے گئی تھی۔۔ وہ بھی اکیلی ایک نوجوان لڑکے کے ساتھ۔۔۔۔ مگر اسے شدید دکھ اور افسوس ہوا تھا اسکی سوچ اور زبان آج بھی بالکل ویسی ہی تھی کڑوی۔۔۔۔ جبھی اسی نفرت آمیز گفتگو پہ وہ اشتعال میں اسے ہرٹ کر چکا تھا۔۔۔۔
" اسنے گہری سانس فضا کے سپرد کرتے اپنی آنکھوں کو مضبوطی سے مینچا۔۔۔۔۔ وہ کبھی بھی اسے یوں خود سے بتانے کا روادار نہیں تھا۔۔۔ یہ رشتہ انکے بچپن میں جوڑا گیا تھا جس میں ان دونوں کے بڑوں کی خوشی اور رضا شامل تھی۔۔۔۔
الایہ اس وقت پانچ سال کی تھی اور اذلان کی عمر اس وقت ساڑھے سات سال تک تھی۔۔۔ اس چھوٹی سی عمر میں وہ اس رشتے کو سمجھنے سے بالکل انجان تھے مگر پھر بھی وہ دونوں ایک ساتھ ہی پائے جاتے تھے۔۔۔۔ انکا ایک ساتھ کھیلنا ، ایک دوسرے سے ہر بات شئیر کرنا۔۔اسی وجہ سے سب مطمئن تھے کہ یہ فیصلہ ان دونوں کے لئے ہی ٹھیک تھا ۔۔۔۔
مگر پھر اچانک سے سب کچھ بدلہ تھا ۔ جب الایہ گیارہ سال کی عمر میں ویام کی جگہ پر نیناں اور وریام کے ساتھ پاکستان گئی تھی۔۔۔ اسے اذلان سے ملنا تھا۔۔۔ اس سے ڈھیروں باتیں کرنی تھی تو دوسری طرف ویام نے جانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ عین کے بنا نہیں جائے گا۔۔ اسی وجہ سے وہ فدک کے پاس رکا تھا ۔۔
رہنا تو وہ نیناں کے بغیر بھی نہیں چاہتا تھا مگر عیناں شدید بیمار سی تھی اور اس وقت وہ اسے یوں چھوڑ کے کسی بھی قیمت پہ جانے کو راضی نہیں تھا۔۔۔
الایہ جو خوشی خوشی اپنے دوست (اذلان) کے پاس گئی تھی اسے بہت سی اسپیشل باتیں بتانی تھی اس نے۔۔۔۔ مگر وہاں پہنچتے ہی اسکا سارا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔۔۔
گیارہ سال کی عمر میں جس قدر محبت اسکی آنکھوں میں اذلان کے لئے دکھتی تھی اب انہی آنکھوں میں صرف اور صرف نفرت ہی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس جنگ میں کب اتنے آگے نکل گئے کہ راہیں جدا ہو گئیں ، مگر وہ دونوں ایک دوسرے سے انجان نہیں تھے۔۔۔۔ وہ جانتے تھے ایک بار پھر سے انکا آمنا سامنا ہو گا۔۔ مگر وقت کیا کرے یہ کس نے سوچا تھا۔۔۔۔
اذلان نہیں جانتا تھا کہ اسکی کہی باتوں کو دل سے لگائے وہ اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ اپنی زندگی کو اپنے وطن کیلئے دان کرنے کےلئے اسنے ویام کے ساتھ اسپیشل فورسز جوائن کرنے کی ضد پکڑ لی تھی۔۔ جسے وہ پورا بھی کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس ایک ملاقات میں وہ اس پہ قابض ہو گیا تھا۔۔۔ غصے اور اشتعال میں کچھ کہنے جاننے کا موقع ہی نہیں ملا ۔۔ وہ سرد آہ خارج کرتے اپنے اندر کے ابال کو کہیں باہر دور پٹکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسنے پشت دیوار سے لگاتے سر زور سے دیوار پہ مارا تھا۔۔۔ کہ اچانک ہی الایہ کی نم آنکھیں اپنے سامنے آنکھوں کے پردے پہ لہرائی وہ دل سے شرمندہ تھا جبھی کچھ سوچتے اسنے صلح جو انداز میں قدم اندر کی جانب بڑھائے تھے۔۔۔ ۔
ایک گہری نظر بند دروازے پہ ڈالے وہ دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا تو آنکھوں میں حیرت کے تاثرات ابھرے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اذلان نے نظریں گھمائے بند ڈور کو دیکھا اور ہاتھ سے دروازہ لاک کرتے وہ واشروم کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ دروازہ ناک کیا مگر کوئی جواب نا ملا۔تو اسکے ماتھے پہ۔ایک ساتھ ڈھیروں بل نمودار ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔
اسنے زور سے دھکہ لگاتے دروازے پہ وار کیے جو جلد ہی کھل گیا تھا۔۔۔۔ اسنے آگے پیچھے دیکھا تو اعصاب تن گئے تھے۔۔۔ غصے سے سانس بھاری ہوتے پھول رہا تھا۔۔۔
الایہ۔۔۔۔ وہ دہاڑا مگر جواب ندارد۔۔۔۔۔ اذلان نے غصے سے کمرے میں جانتے ہی زور دار ٹھوکر بیڈ کو رسید کی تھی۔۔۔۔۔ دماغ سناٹوں کی ضد میں چلا گیا تھا۔۔مانو۔۔۔۔۔۔۔٫"
وہ مڑتے روم سے نکلنے لگا کہ اچانک نظر تکیے پہ پڑی وہ چلتا آگے جاتے تکیہ اٹھا گیا تو نیچے ہی ایک لیٹر لکھا پڑا تھا۔۔۔ اسنے آنکھیں چھوٹی کیے اس لیٹر کو گھورا اور فورا سے جھپٹتے اسنے کھولتے لیٹر کو پڑھنا شروع کر دیا ۔ ۔۔۔۔۔"
" کہا تھا کہ میں یہاں نہیں رکوں گی تو دیکھ لو۔۔۔ تم اور تمہارا یہ سو کالڈ غصہ مجھے میرے ارادوں سے نہیں روک سکتا۔۔۔۔۔ مسٹر قالو۔۔۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا۔۔۔ اول تو میں اس نکاح کو نہیں مانتی مگر پھر بھی بہت جلد ڈائیوارس پیپر تمہارے منہ پہ ماروں گی۔۔۔۔۔ مجھے روکنا تمہارے جیسوں کے بس کی بات نہیں۔۔۔ ہاں ایک اور بات تم باہر ہی نہیں تم اندر سے بھی کالے ہو ۔۔۔ گھٹیا وخشی جانور انسان۔۔۔۔۔۔ آج کے بعد میرے سامنے کبھی مت آنا ورنہ بے موت مرو گے۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ ۔۔۔"
اذلان کا چہرہ لال بھبھوکا ہوا جا رہا تھا۔۔ لیٹر پہ لکھا ایک ایک لفظ اسے اپنے منہ پہ تمانچے کی مانند لگا ۔۔ وہ غصے سے اسے مٹھی میں مسلتے الایہ کو تصور کرتے چلا اٹھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
"کیا بات ہے ایل۔۔۔ اس طرح سے اور اتنے پریشان کیوں ہو ، آج تک تو میں نے تمہیں اتنا پریشان نہیں دیکھا پھر آج کونسی ایسی چیز ہے جس نے تمہیں پریشان کر دیا۔۔۔۔۔"
اسکے اس طرح سے مسکراتے کہنے پہ ایل نے سرد نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا اور ایک دم سے گلاس منہ کو لگائے ڈرنک ختم کی۔۔۔۔۔
ہنہہہ۔۔۔۔۔ دنیا کی کوئی بھی چیز مجھے پریشان نہیں کر سکتی کیونکہ میں خود دوسروں کو پریشان کرنے کے لئے بنا ہوں ۔۔ اسنے مسکراتے اپنے سامنے بیٹھی صوفیہ کو جیسے آگاہ کیا تھا جو ایک طرفہ مسکرائی اسکی بات پہ ۔ ۔۔
"اچھا تو پھر اتنی پی کیوں رہے ہو۔ صوفیہ نے ائبرو اچکاتے سیرئیس انداز اپناتے ہوئے پوچھا تھا کہ ایل کی سرخ پڑتی نیلی آنکھوں میں غصہ در آیا۔۔۔۔
"تم صرف اتنا ہی جان سکتی ہو جتنا تمہیں میں بتانا چاہتا ہوں۔۔۔ اس سے آگے اور اس سے زیادہ اپنی ذات میں کسی سے ڈسکس کرنے کا روادار نہیں ہوں۔۔۔ "
ایک نے غصیلی نگاہ سے اسکی جانب دیکھتے کہا تو صوفیہ افسوس سے سر جھٹک گئی۔۔ وہ بچپن کی دوست تھی ایل کی۔۔۔۔ ایل کے ساتھ اسکی دوستی ایک قسم کی یک طرفہ ہی تھی کیونکہ اسے ایل کی پراسرار شخصیت نے اپنی جانب راغب کیا تھا ۔۔۔۔۔ مگر وہ دل سے اسے دوست مانتی تھی۔۔۔۔
ان دونوں کے گھر آمنے سامنے ہوا کرتے تھے ۔۔ وہ صرف سات سال کی تھی ۔ جب اسکی پہلی نظر اپنی کھڑکی سے اس گھر کے سامنے والی کھڑکی میں کھڑے روتے ہوئے اس نیلی آنکھوں اور ڈارک براؤن بالوں والے لڑکے پہ پڑی تھی۔۔ صوفیہ نے پریشانی سے اسے دیکھا آخر وہ کیوں رو رہا تھا۔۔۔۔
ابھی وہ کچھ کرتی کہ اچانک سے وہاں کوئی دوسرا شخص آیا تھا۔۔۔ جسنے بےدردی سے اس لڑکے کو بالوں سے گھیسٹتے کمرے میں لے جاتے بند کیا تھا۔۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ سہمی سی اس کھڑکی کو دیکھتی رہی تھی۔۔ مگر پھر اچانک سے اسکی چیخوں کی آواز کربناک ہونے لگی تھی۔۔ جس کی وجہ سے صوفیہ اور بھی خوفزدہ ہو گئی۔۔۔ وہ یتیم تھی اس دنیا میں ماں باپ ، بہن بھائی کوئی نہیں تھا سوائے ایک پھپھو کے۔ ۔۔ ابھی وہ چند دن قبل ہی یہاں شفٹ ہوئی تھی۔۔۔
یہ وہ پہلا واقعہ تھا جس نے اسے ایل کی جانب بری طرح سے راغب کر دیا تھا ۔۔۔ وہ بچہ کوئی نہیں ایل ہی تھی ۔ ۔۔۔ اس رات صوفیہ سوئی نہیں تھی اسکی سوچوں کا محور اس لڑکے کی ذات تھی۔۔۔۔
اور آج اتنے سالوں بعد بھی وہ اسکے سامنے تھا وہی آنکھیں وہیں پرکشش شخصیت، وہی ڈارک براؤن بال جنہیں وہ جانے کیوں اشتیاق سے بنائے رکھتا اور بچپن سے خود پہ چڑھایا وہ خول اب اسے ایسا لگتا تھا کہ شاید وہ غلط تھی۔ ایل کبھی بھی اپنے اس خول سے نہیں نکلنے والا ۔۔۔۔ مگر آج اس طرح سے ایل کا یوں پریشان ہوتے اس کے پاس آنا ۔۔۔ صوفیہ کی سوچ کو نئی راہیں ہموار کر گیا ۔۔۔۔۔
"ایل مجھے بتاؤ کیا پرابلم ہے تم اس طرح سے کیوں ڈپریس ہو۔۔۔ صوفیہ جگہ سے اٹھتے اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور نرمی سے اسکے سرخ پڑتے بھاری ہاتھ کو اپنے نازک ہاتھ میں لیتے وہ متفکر لہجے میں پوچھنے لگی۔ ایل نے ایک دم آنکھیں کھولتے اسے دیکھا ۔۔
جس کی آنکھوں میں واضح اپنے لئے محبت کی داستان وہ کئی بار پڑھ چکا تھا۔۔۔
ایل نے ایک دم جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا تھا کہ وہ خوف سے آنکھیں میچ گئی۔
" مت کیا کرو یہ پرواہ، یہ محبت جل جاؤ گی۔ اس میں کچھ حاصل نہیں کر پاؤ گی تم ۔۔ ایل نے بےدردی سے اسکے بالوں کو پیچھے کی جانب کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔
" مجبور ہوں یہ دل نہیں مانتا۔۔۔۔۔ " صوفیہ نے اسی کے انداز میں بند آنکھوں سے جواب دیا۔۔۔۔
میں تمہارے قابل نہیں ہوں صوفی، تم کیا میں کسی کے بھی قابل نہیں۔۔۔ , سمجھ جاو اس بات کو ۔۔ تم مجھے مجبور کر رہی ہو کہ میں تم سے بھی نفرت کروں۔۔۔ جو میں نہیں چاہتا کیونکہ تمہارے روپ میں میں اپنے اچھے دوست کو نہیں کھو سکتا۔۔۔۔۔
ایل نے بےبسی سے کہتے اسے چھوڑا تھا۔۔ صوفیہ نے پل بھر کو آنکھیں کھولے اسے دیکھا ۔۔ جو اپنے آپ میں نہیں لگا اسے۔۔۔۔۔
"ایل میری با۔۔۔ "...
"شششش۔ کوئی بات نہیں تم میری سنو۔۔۔۔۔ تیار ہو میرے کھیل میں میرا ساتھ دینے کو۔۔ اسنے بات بدلتے ہوئے پوچھا تو صوفیہ نے بے بسی سے سر ہاں میں ہلا دیا۔ ۔۔
" چلو میرے سارے صبح تمہیں ہوٹل چھوڑ دوں گا جہاں سے وہ تمہیں لے جائیں گے۔۔ مگر ایک بات یاد رکھنا۔ کل سے تم صوفیہ نہیں ماریہ ہو گی ۔۔۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا مجھے دھوکہ دینے کا کبھی سوچنا بھی مت۔۔۔ ایل نے اسے گہری نظروں سے گھورتے کہا تو ہنس دی۔۔
" ویل ڈونٹ وری ایل ، صوفی جان دے سکتی مگر تم سے دغا کبھی نہیں کر سکتی کیونکہ مجھے یہ دوستی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔۔۔ "
صوفیہ نے اسکی سرخ نیلی آنکھوں میں دیکھتے ایک عزم سے کہا تھا ایل خاموش سا رہ گیا ۔۔۔۔
اوکے میں چلتا ہوں آ جاؤ باہر ۔۔۔ تم جانتی ہو آگے تمہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔۔ ایل نے اٹھتے صوفیہ سے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔
"ہاں بولو ڈینی کیا خبر ملی ۔۔۔۔ " پاکٹ میں وائبریٹ ہوتے موبائل کی وجہ سے ہی وہ جلدی سے باہر نکلا تھا۔۔۔ ڈینی کی کال دیکھ اسنے فورا سے کال پک کی تھی۔۔۔۔
" جی وہ سر وہ انزِک ، وریام کاظمی کے دوست کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔ اور۔۔۔ "
"دوست کے بیٹے پہ اتنا اعتماد ، آخر اتنا یقین کیونکر ہے۔۔۔ ضرور بات کچھ اور بھی ہے ۔۔۔ اسکی بات کاٹتے ایل نے پرسوچ انداز میں سوچتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
"جی سر ایکچوئلی۔۔۔۔۔ وہ وریام کے بچپن کے دوست کا بیٹا ہے جسے وہ اپنا بھائی مانتا یے۔۔۔۔اور انزِک کی بہن کا نکاح وریام کے بیٹے سے ہوا ہے ۔۔ جس کی وجہ سے دونوں خاندانوں کے مابین رشتہ اور مضبوط ہو گیا ہے۔۔۔۔ شاید اسی وجہ سے وہ انزِک پہ اعتماد کرتا ہے۔۔۔۔
ڈینی نے اپنی سوچ کے مطابق اسے آگاہ کیا مگر وہ مطمئن نہیں تھا۔۔۔
"نہیں ڈینی جہاں تک مجھے لگتا ہے بات کچھ اور ہے۔۔۔ جو ابھی تک چھپا ہوا ہے۔۔ مگر بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس اعتماد کے پیچھے کی وجہ کیا ہے، آخر اپنی جوان بیٹی کو یوں اتنی قدر اس لڑکے کے ساتھ بھیجنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ ۔۔۔ تم ویام پہ نظر رکھو۔۔۔۔ کسی بھی صورت اسے الجھائے رکھنا ۔۔ وہ یہاں اپنی بہن کے پیچھے ناں آنے پائے ، وہ ہمارے لئے روکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے۔۔۔۔۔باقی اس انزِک کو سنبھالنا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ۔۔۔۔"
ڈینی کو ہدایت دیتے ایل نے کال کٹ کرتے موبائل جیب میں ڈالا ۔۔
" وریام کاظمی۔۔۔۔ آخر تم کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔ مگر جو بھی سوچو ، اب اس کھیل میں مزہ آنے والا ہے کیونکہ اب تمہیں پتہ چلے گا۔۔۔ کہ آخر اصلی کھلاڑی ہے کون۔۔۔۔۔۔"
خود سے بڑبڑاتے ہوئے کہتے ساتھ ہی وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔"
💥💥💥💥💥
" کہاں ہے وہ جینی ۔۔۔ تم اکیلی کیوں آئی ہو واپس۔۔۔۔۔" وہ بےتاب سا اپنے دلہن کی مانند سجائے روم سے نکلتا سیڑھیوں سے اترتے استفسار کر رہا تھا۔۔ سامنے ہی جینیفر پورے پیلس کو جھبتی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ جو دلہن کی مانند سجایا گیا تھا۔۔
" ایچ اے آر۔۔۔۔ وہ دراصل میں نے سارا پیرس چھان مارا مگر وہ مجھے کہیں بھی نہیں ملی۔۔۔ "
اسے اترتے اپنے قریب آتا دیکھ جینیفر نے سکون سے اسے آگ لگائی تو ایچ اے آر کا دمکتا روپ پل بھر میں مانند پڑا تھا۔۔ اسنے قدم روکے جینیفر کو دیکھا۔۔
" کیا کہہ رہی ہو جینی ۔۔۔ وہ یہاں آئی ہے میرے ساتھ اور تم کہہ رہی ہو وہ پورے پیرس میں نہیں۔ ۔۔ "۔ ایچ اے آر نے ضبط کرتے لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ نہیں ہے یہاں ایچ اے آر۔۔ میں نے سارا پیرس چھان مارا ہے۔۔ شاید وہ واپس چلی گئی ہے ۔۔۔ ۔۔" اسکی آخری امید توڑتے جینیفر کے خوبصورت ہونٹوں پہ قاتلانہ مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔
ایچ اے آر نے پاس پڑا واس اٹھائے زور سے دیوار پہ دے مارا۔۔۔۔ اسکا بس نہیں تھا کہ ساری دنیا کو آگ لگا دیتا۔۔۔۔
"مجھے وہ کسی بھی قیمت میں چاہیے۔۔ اگر کسی کو قتل کرنا پڑے تو کرو۔۔۔ کسی کو بیچنا پڑے تو وہ بھی کرو، مگر مجھے وہ چاہیئے۔۔۔ "
جینیفر کو کندھوں پر سے تھامتے وہ دھاڑ اٹھا تھا۔۔ جینیفر نے منہ کھولے اس پاگل ہوتے شخص کو دیکھا۔۔۔ جو اپنے دھندے میں آدھی دنیا پہ حکومت کرتا تھا۔۔۔
" او ییلو دیکھ کر چلو ۔۔۔۔۔ اندھے ہو کیا ۔۔۔۔ "بمشکل خود کو گرنے سے بچائے وہ ناک چڑھاتے پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی تھی۔۔ مقابل کھڑے شخص نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔
وہ خود اس سے ٹکرائی تھی اب بجائے معافی مانگنے کے وہ الٹا اسے ہی مزید سنا رہی تھی۔۔۔۔
" میں نہیں تم دیکھ کے چلو میڈم۔۔۔ منہ سے بڑی تو آنکھیں اور اوپر سے اتنا بڑا چشمہ لگا رکھا ہے۔۔۔ تب بھی کم دکھتا ہے آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " میرب کی جانب غصے سے دیکھتے ارشمان نے غصے سے کہا تھا۔۔۔
اسے واقعی ہی اس لڑکی کی حرکت بری لگی تھی۔۔۔۔ کیا کہا تم نے سٹوپڈ مین۔۔۔۔ ابھی ابھی دو منٹ میں تمہیں اس یونی سے نکلوا دوں گی تم رکو زرا۔۔۔۔ "
وہ جو نیچے گرا موبائل فون اٹھا رہا تھا۔ اچانک سے اسکی دھمکی پہ کھلکھلاتے سر جھٹک کر موبائل ہاتھ میں تھامے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔
' میری عمر آپ جیسوں کا دماغ ٹھکانے لگانے کی ہے مس۔۔۔ نا کہ پڑھنے کی۔۔۔ بائی دا وے میں اسٹوڈنٹ نہیں ہوں۔۔۔۔۔" ارشمان نے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے مسکراتے اسے آگاہ کیا تو میرب کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہونے لگا۔۔۔
"بچ گیا سالا۔۔۔ ۔" وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ایک نظر اس سوبر سے دکھتے لڑکے پہ ڈالے آگے بڑھی تھی۔۔۔۔۔ ارشمان نے دور تک اس پاگل کو دیکھا ۔۔۔ اور سر جھٹکتے اپنا فون جیب سے نکالتے دیکھا، شکر تھا کہ کوئی مسئلہ نہیں بنا تھا۔۔۔ اسکا موبائل ٹھیک ٹھاک تھا۔
اسنے کال لگاتے قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے۔۔۔۔
" ہاں انزِک۔۔۔۔۔۔کام ہو گیا ہے۔۔۔۔ بے فکر رہو کسی کو کوئی شک نہیں ہوا۔۔۔۔۔"
اسے مطمئن کرتے وہ ایک نظر چاروں اطراف ڈالے گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
" بدتمیز۔۔۔۔ لوفر ، لفنگا۔۔۔ کیا مجال ہے جو ذرا تمیز ہو کسی مرد کو کہ لڑکی کو کیسے تمیز سے بلاتے ہیں۔۔۔ بس حکم جھاڑنے آ جاتے ہیں۔۔۔ وہ سخت بدمزہ ہو چکی تھی۔۔ صبح جو اتنے شوق سے چشمہ لگایا تھا اب وہ بھی سخت برا لگ رہا تھا اسے۔۔۔۔
وہ یونہی بےزاری سے منہ پھلائے کلاس روم کی جانب بڑھی۔۔۔ بہت سے بچے اسے دیکھ دبی دبی ہنسی ہنسے۔۔۔ کیونکہ بڑا سا چشمہ جس سے اسکی آنکھیں اور بھی بڑی لگ رہی تھی۔۔۔ وہ چشمہ چوڑائی میں ہونے کی وجہ سے سائز میں کافی بڑا تھا۔۔۔ اور اسکی ناک سے نیچے کو کھسک رہا تھا ۔۔۔ کتنا شوق تھا اسے کہ اسکی بھی نظر کمزور ہوتی پھر وہ یونہی چشمہ لگاتی اور ناول کی ہیروئن کی طرح اور بھی خوبصورت دکھتی۔۔۔
مگر اپنی گول گول باہر کو ابھری آنکھیں دیکھ اسے شدید افسوس رہا تھا اپنے شوہر کے لئے۔۔۔ جس کے نصیب میں خوبصورت لمحات آنے سے محروم رہ چکے تھے۔۔ وگرنہ وہ بھی ان خوش قسمت لوگوں کی طرح اپنی کم نظر بیوی کے چشمے سے خوب فائدہ اٹھاتا۔۔۔۔ وہ سر جھٹکتے قدم گھیسٹتے اپنے بینچ تک پہنچی تھی ۔۔۔ اور بے دلی سے بکس ڈسک پہ رکھتے اسنے ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھتے ٹیک لگائئ۔۔
تو اسے لگا جیسے سب اسی پہ ہنس رہے ہوں۔۔۔۔ "" اسنے ایک ادا سے اپنے صبح کے سلجھائے گھنگھریالے بالوں کی لٹ کو انگلی کے گرد لپیٹتے ایک دلچسپ مسکراہٹ سے مسکراتے لب دانتوں تلے دبائے تھے۔۔۔۔
ہیلو ایوری ون۔۔۔۔۔ " پروفیسر گارلک نے روم میں آتے ہی سب کو مخاطب کیا تو سب احتراماً جگہ پر سے کھڑے ہوئے ۔۔۔۔ میرب بھی مسکراہٹ دبائے کھڑی ہوئی اور ایک خطرناک نظر پوری کلاس پہ ڈالی۔۔۔
گڈ مارننگ سر ۔۔۔۔۔ سب نے ایک ساتھ کہا تو پروفیسر نے سر کو حم دیا اور کلاس کا آغاز کیا۔۔۔۔۔
" کل جو اسائمنٹ بنانے کا کہا تھا آپ سب سے وہ سبمنٹ کروائیں"۔۔۔۔۔۔ سر نے بلند آواز میں سب سے کہا تو سارے سٹوڈینٹس فورا سے اسائمنٹ کھولنے لگے ۔۔ پروفیسر کے غصے سے ہر کوئی واقف تھا۔۔ اور اب اس وقت تو یقیناً وہ کوئی سخت سزا نہیں چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔
" سر آئی ہیو آ کوسچن۔۔۔۔۔ " میرب نے ہاتھ کھڑا کرتے کہا تو سب ہی اس کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔ پروفیسر نے اسائمنٹ کو کولیکٹ کرتے ڈائز پہ رکھی تھی۔۔۔۔؟
" یا میرب وٹس ہیپننگ۔۔۔۔۔۔٫" سر نے اسے مخاطب کیا تو وہ چشمہ اتارتے کھڑی ہوئی۔۔۔۔ اسکے کھڑے ہوتے ہی ساری کلاس کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔ وہ جانتے تھے یہ بلا ضرور کچھ گڑبڑ کرے گی۔۔۔ انکی آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا۔۔۔۔
جبکہ وہ پرسکون سی چہرے پہ دنیا جہاں کی معصومیت سجائے کھڑی ہوئی ۔۔۔
"سر آپ نے کچھ ایسکٹرا کوسچن دیے تھے جو ہمیں گوگل سے سرچ کرنا تھے۔۔ اور پھر ان سب کے نوٹس بنا کر آج جمع کروانے تھے۔۔۔ تو کیا میں اپنے نوٹس جمع کروا دوں۔۔۔۔"
"انتہائی معصومیت سے پوچھا اس کا سوال جہاں ساری کلاس کا منہ ڈر اور حیرانگی سے کھلا تھا کچھ ایسی ہی کیفیت سر کی تھی۔ بھلا میرب کیسے کام کر کے لا سکتی تھی وہ بھی ایکسٹر ایکٹیویٹی۔۔۔۔۔۔ یقین کر پانا ناممکن تھا۔۔۔۔۔۔۔
"ویلڈن میرب ڈیٹس گڈ۔۔۔۔۔ نوٹس دکھاؤ میں دیکھوں تو۔۔۔"سر نے چشمہ اٹھاتے آنکھوں پہ سیٹ کیا اور ساتھ ہی اس سے بولے تو وہ جی سر کہتی سر کے پاس گئی۔۔۔ نرمی سے نوٹس پیش کرتے وہ رخ اپنے کلاس میٹس کی جانب کر گئی۔۔۔ جو اسے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے جانے کونسی بلا دیکھ لی ہو۔۔
" ؤاؤ میرب۔۔۔۔ ونڈر فل۔۔۔ اتنا اچھا کام کیا ہے آپ نے ، ایم امپریسڈ۔۔۔۔ "سر واقعی ہی اس سے امپیرس ہوئے تھے۔۔ کیونکہ سارے نوٹس صاف ستھرے اور بہت عمدہ طریقے سے بنے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
"تھینکس سر۔۔۔۔ "وہ مسکراتے اعزاز وصولتے سر کو جھکا گئی۔۔۔۔۔
"سٹوڈنٹس نوٹس لائیں ۔۔ سارے اپنے۔۔۔۔۔ " میرب کے جاتے ہی سر نے پوری کلاس کو مخاطب کیا تو کوئی بھی ناں اٹھا۔۔
"سٹوڈنٹس۔۔۔۔ آئی سیڈ گیو می یور نوٹس۔۔۔۔۔" سر نے جھڑکتے تیز آواز میں کہا تو سب ایک ساتھ کھڑے ہوئے اور سر جھکا لئے۔۔۔
" تو اس کا مطلب پوری کلاس میں صرف میرب نے ہی کام کیا ہے۔۔۔۔۔ "سر نے غصے سے سب کے لٹکے چہرے دیکھ استفسار کیا تھا۔۔۔ جس پہ سب نے شرمندہ ہوتے نظریں جھکا لیں ۔۔
"گیڈ آؤٹ فرام مائی کلاس۔۔۔۔ "سر نے غصے سے سرخ چہرے سے کہا تھا سب ہی منہ لٹکائے اور میرب کو غصے سے دیکھا تھا جس پہ وہ بائے بائے کا اشارہ کرتی چشمہ لگانے لگی۔۔۔۔۔
سر نے پورا آدھا گھنٹہ سب کو کھڑا کیا تھا اور پھر لیکچر دیتے کل تک نوٹس کمپلیٹ کرنے کا کہتے چلے گئے۔۔۔۔
میرب یہ سب کیا تھا تم نے ہی تو پرسوں سب سے کہا تھا کہ سر کو ویسے ہی یاد نہیں رہتا تو ہم سب میں سے کوئی بھی انکو نوٹس کا یاد نہیں کروائے گا۔۔۔ اور ناں ہی نوٹس بنائے گا ، تو پھر تم نے کیوں چیٹنگ کی ہمارے ساتھ، ۔۔۔۔ کیوں بتایا سر کو۔۔۔۔۔۔ " پوری کلاس ہی بھری پڑی تھی۔۔
سر کے جاتے ہی سب نے اسے گھیرا تھا۔۔ مگر وہ کمال سکون سے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
" پہلی بات یہ میں نے کہا تھا ،۔۔۔۔ اس کا مطلب کِیا تو نہیں ناں ۔۔۔۔ اور دوسری بات۔۔۔۔ جب تم سب میرا یعنی میرب داؤد کا مذاق بناؤ گے تو میں تم سب کو چھوڑ دوں ایسا سوچنا بھی مت۔۔۔ میں میرب ہوں ناں کہ عیناں، جو خاموشی سے سب کی بات مان جاتی ہے۔۔۔۔۔ اسنے ہنستے سب کو آگاہ کیا تو سب نے دل ہی دل میں اسے گالیوں سے نوازا۔۔۔۔۔
"دوسری بات یہ نوٹس میرے نہیں میرے انوسنٹ جان عیناں کے ہیں۔۔۔۔ جو آج میرے کام آئے۔۔۔۔۔ "
اسکی کہی آخری بات جیسے سب کو جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔۔ وہ سب منہ کھولے اس جھوٹی کو دیکھ رہے تھے جو کس کی محنت پہ خوب تعریفیں وصول چکی تھی ۔۔
"ایکسکیوزمی پلیز سائڈ۔۔۔۔۔ "وہ سب کو اگنور کرتے ایک ادا سے کہتے بیگ اٹھائے کلاس سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
وہ سب ہی اس وقت کو کوس رہے تھے جب وہ اس پہ ہنسے تھے۔۔ اگر وہ اس پہ ناں ہنستے تو آج یہ نوٹس ناں بنانے پڑتے انکو۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
" عین ۔۔۔۔۔ "وہ پاگلوں کی طرح چلاتا اسے آوازیں دیتے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔ پورا وجود سرد ہو رہا تھا۔۔۔ مگر وہ خود کو مضبوط بنائے ہوئے تھا۔۔۔ برفباری کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔۔
وہ اسے یہاں اس لیے لایا تھا تاکہ وہ یہ دن خوب انجوائے کرے اسکے ساتھ۔۔۔۔۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا۔۔۔ بے چینی حد سے سوا تھی۔۔۔۔ وہ اس وقت نویڈا کے ایک مقامی علاقے میں تھا ۔۔۔۔ جہاں اس بار شدید برفباری ہو رہی تھی ۔۔۔۔ یہ سب اسکے لئے برداشت کرنا کوئی مشکل عمل نہیں تھا۔۔۔۔ جبھی وہ اس قدر تیز برفباری میں بھی سروائیو کر پا رہا تھا۔۔۔ جو کہ عیناں کے لئے ناممکن سا تھا ۔۔۔۔۔۔
" عیننن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "منہ سے سردی کے باعث بھاپ اڑ رہی تھی۔۔ سانس ڈھلوان پہ چڑھتے اوپر نیچے ہو رہا تھا اسکا, مگر وہ بےتاب نگاہوں سے اسے ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔ جس میں جان اٹکی ہوئی تھی ویام کاظمی کی۔۔۔۔۔
وہ بھاگتے ایک دم سے اوپر پہنچتے ایک جانب بھاگا تھا۔۔۔۔ جہاں پہ دو تین درخت برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
" عین۔۔۔۔۔۔۔ " وہ آگے بڑھتے اسے تلاشنے لگا کہ شاید وہ یہیں کہیں ہو مگر بارہا دیکھنے کے باوجود بھی وہ اسے کہیں نہیں ملی تھی ۔۔ تبھی وہ بے بسی کے عالم میں اپنے بالوں کو نوچتا گھٹنوں کے بل ڈھے سا گیا تھا۔۔
" اسکا دل جیسے درد سے بند ہونے کو تھا۔۔۔ بھوری آنکھوں میں نمی کا جہاں آباد ہو گیا۔۔۔ وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی بےبس مجبور سا ہو گیا ۔۔۔ اسنے جبڑے بھینجتے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں کو بری طرح سے رگڑا تھا۔۔۔ اچانک اسے یوں محسوس ہوا جیسے عیناں اسکے آس پاس ہے۔ دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں۔۔۔ وہ زیر ِ لب اسکا نام بڑبڑاتے ایک دم سے اٹھا تھا۔۔۔۔
ڈھلوان کے نیچے کی جانب کھڈا سا بنا تھا۔۔۔۔ ویام نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔۔۔ اور پھر کچھ سوچتے وہ چھلانگ لگاتے نیچے اترا تھا۔۔۔۔ برف میں دھنستے قدموں کے ساتھ وہ بمشکل سے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔
ایک دم سے اسنے سامنے دیکھا تھا قدم اپنی جگہ تھم سے گئے تھے ۔۔۔۔ ویام کو سانس اپنے سینے میں اٹکتا محسوس ہوا تھا۔۔ وہ بھاگتے اسکی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ اور کسی قیمتی خزانے کی مانند اسے اپنے باززوں کے حصار میں لیتے اپنی گود میں بھرا تھا۔۔۔ عیناں کا پورا چہرہ برف سے ڈھک چکا تھا۔۔
اسکے نیلے پڑتے ہونٹوں اور حد سے زیادہ سفید پڑتی اسکی رنگت کو دیکھ ویام تڑپ اٹھا تھا۔۔۔۔ اسنے فورا سے اسکے چہرے کو صاف کیا اور جابجا اپنا محبت بھرا لمس چھوڑتے وہ اسے پکارنے لگا۔۔۔ محبت سے ۔۔۔۔ مگر وہ یونہی بےسودھ بے ہوش سی اسکی بانہوں میں جھول رہی تھی۔ ویام نے نرمی سے اسکے بالوں کو سہلایا۔۔۔۔۔ خود کو پرسکون کرتے اسنے فورا سے اسے دیکھا جو اسکی ہی بلیک شرٹ اور پینٹ میں تھی۔۔۔
کتنی معصوم ، کتنی پیاری لگ رہی تھی اسے وہ۔۔۔۔ کتنی بار ویام کاظمی کی دھڑکنیں منتشر کر چکی تھی وہ۔۔۔۔۔ ویام نے اسکی سرد پڑتی پیشانی کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تھا اور فورا سے اپنی اپر اتارتے اسنے عیناں کو پہنائی تھی۔۔۔ اسکے بعد اپنی دوسری اپر بھی اسے پہناتے اسنے شوز اتارنا شروع کر دیے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر اسکے شوز عیناں کو بڑے تھے۔۔۔۔۔ ویام نے لب بھینچتے سوچا تھا۔۔۔۔
کہ آخر کیسے اسے اپنے جوتے پہنائے ۔۔۔ مگر کوئی بھی طریقہ نا سوجھا تھا۔۔۔۔۔ اسنے ایک پل میں فیصلہ کیا تھا ۔۔ اور فورا سے اپنی ساکس اتارتے جوتوں کے آگے پھنسائی اور پھر سے عیناں کو جوتے پہنائے۔۔۔۔ جوتے اسے ابھی بھی کھلے تھے مگر پہلے سے اب قدرے ٹھیک اسکے پاؤں پہ مضبوطی سے موجود تھے ۔۔ دونوں ہڈ اسکے سر پہ اوڑھاتے وہ ایک نظر اسکی بند آنکھوں پہ ڈال کرب سے آنکھیں میچ گیا۔۔۔۔۔۔۔
" عین ڈونٹ وری تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔ ہاں بےبی میں آ گیا ہوں ۔۔۔ ناں ۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ اب تم میرے پاس ہو مخفوظ۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح اس سے باتیں کرتے جانے خود کو یا پھر عیناں کے بےہوش وجود کو تسلیاں دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ویام نے اسکی گردن پہ ہاتھ رکھا جو ابھی بھی ویسے ہی سرد تھی ۔۔
اندھیرا ہونے کے باعث وہ بمشکل ہی دیکھ پا رہا تھا۔۔ مگر اس علاقے سے وہ اچھی طرح سے واقف تھا۔۔۔ جبھی آسمان کے بدلتے رنگ کو دیکھتے اسنے فورا سے عیناں کو گود میں بھرا تھا۔۔۔۔۔ اور اپنے کندھے کے ساتھ لگاتے وہ فورا سے واپسی کیلئے پلٹا ۔۔۔ وہ جلدی سے واپس پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔
" اسنے جونہی قدم موڑے اچانک سے اسے کسی بچے کے رونے آواز سنائی دی ۔۔ ویام نے حیرت سے پیچھے دیکھا تو ایک دم سے آسمان میں چمکتی بجلی سے اس بھالو کے بچے کی آنکھیں روشن ہوئی تھی ۔۔۔ ویام کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ وہ رکا تھا۔۔۔ ایسے ہی عیناں کو ساتھ لگائے وہ واپس مڑتے اسکے پاس بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جھکتے اسے ہاتھ سے ٹچ کیا تو ایک دم سے اسکی چیخ درد سے گونجی تھی ۔۔ ویام سمجھ گیا تھا کہ شاید اسے کوئی درد یا تکلیف تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اسے دیکھ پاتا۔۔۔ جبھی اسنے سوچتے اس تین چار دن کے بچے کو اپنے بازوؤں میں بھرا تھا۔۔۔ اور فورا سے گھیرا بناتے اپنا ہاتھ عیناں کے گرد لپٹائے دونوں کو حصار میں لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ واپسی کا سفر اسکی سوچ سے بھی زیادہ مشکل تھا۔۔۔۔ برف پڑنے کا رخ دوسری اور تھا جسکی وجہ سے اسے دیکھنے اور چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر سے پاؤں ننگے ہونے کی وجہ سے سردی کی وجہ ٹھٹر گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے چلنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ ویام نے جیسے تیسے یہ مشکل سفر طے کیا تھا۔۔۔۔
اپارٹمنٹ کو دیکھتے ہی اسے سکون سا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ تیز تیز قدم اٹھائے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ نرمی سے جھکتے اسنے صوفے پہ اس بچے کو رکھا۔۔۔۔ ہاتھ سے عیناں کے جوتوں مقید پاؤں آزاد کیے اور ہڈ سر سے اتارتے فورا سے واشروم کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔۔ گیزر آن کرتے اسنے شاور کے نیچے کھڑے ہوتے فورا سے عینان کے وجود سے اپرز جدا کی تھیں ۔۔
گرم پانی پڑتے ہی حواس بحال ہونے لگے تھے جیسے ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے نرمی سے عیناں کے بالوں کو سہلایا۔۔۔ پانی مسلسل دونوں کے سر پر سے بہہ رہا تھا ۔۔۔۔ اسکے سرد چہرے پہ اپنے ہاتھ کو پھیرتے وہ بہکنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔ بمشکل سے خود پہ قابو پاتے اسنے آدھے گھنٹے کے بعد اسے گود میں بھرا تھا اور بیڈ پہ لٹائے لائٹ آف کرتے ہیٹر فل سپیڈ سے چلا تھا۔۔۔ کمرے کا سرد ماحول اب آہستہ آہستہ خنکی میں تبدیل ہو رہا تھا۔۔۔۔ ویام نے بیگ سے عیناں کے کپڑے نکالے تھے۔۔ جو وہ ساتھ لایا تھا ۔۔۔۔۔ اسکے پاس بیٹھتے اسنے ایک نظر عیناں کو دیکھا۔۔۔
" جسکے ہونٹ سردی سے کپکپا رہے تھے مگر وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔۔۔۔ ویام نے لائٹس آف کرتے اسکے کپڑے چینج کیے تھے۔۔۔۔۔۔ اپنا حلیہ ابھی تک ابتر تھا۔۔۔۔۔ فورا سے اسپہ کمفرٹر برابر کیے اسنے الماری سے دوسرا کمفرٹر نکالا اور وہ بھی اسے مکمل طور پہ اوڑھا دیا تھا۔۔۔۔۔۔بےاختیار اسنے جھکتے اپنے ہونٹ اسکے رخسار پہ رکھے تھے جو ابھی تک سرد تھے ۔۔۔۔۔ وہ لب بھینچتے اٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفے پہ بیٹھتے اسنے بھالو کا جائزہ لیا تو اسکے پاؤں پہ زخم تھا۔۔۔۔۔ ویام نے فورا سے اسکی ڈریسنگ کی تھی۔۔۔۔۔ سردی میں ان کا بچنا ممکن تھا کیونکہ وہ سرد علاقوں میں پائے جاتے تھے مگر یہ بچہ بےحد چھوٹا تھا شاید وہ اپنی ماں سے بچھڑ چکا تھا ۔۔ ویام نے لاڈ سے اسکے بالوں کو سہلایا تو وہ بھی گرم ماحول اور درد کم ہونے پہ فوراً سے آنکھیں موندے لیٹ گیا ۔۔
ویام نے احتیاطاً اسپہ چادر ڈالتے اسے اچھے سے لپٹایا تھا۔۔۔۔ اور پھر اپنے کپڑوں کو دیکھا جو بھیگے ہوئے تھے۔۔۔ گہری نظر بیڈ پہ کمفرٹر میں لپٹی عیناں پہ ڈالتے اپنا کپڑے لیے وہ واشروم میں بند ہوا۔۔۔۔۔۔۔
چینج کرتے وہ باہر آیا تھا۔۔۔۔ عیناں کا ٹمپریچر چیک کیا جو کہ کافی زیادہ ہو رہا تھا۔۔۔۔ ماتھا مسلتے اسنے سامان سمیٹا تھا اور فورا سے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔۔کمفرٹر ہٹائے عیناں کے پاس ہوتے اسنے فورا سے دونوں پہ کمفرٹر برابر کیا تھا۔۔۔۔ ہاتھ تکیے پہ دائیں بائیں رکھے وہ اسپہ جھکتے اسکی بند آنکھوں اور چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ جانتا تھا عیناں کا اس طرح سے بی ہیو کرنا عام بات تھی۔۔۔ مگر یہ جو کچھ بھی ہوا تھا۔۔ اس سب میں جس بات نے اسے ہرٹ کیا تھا وہ تھا عیناں کی آنکھوں میں اپنے لیے بے یقینی دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔ اسنے نرمی سے اسکے بھیگے بال سمیٹے اسکی گردن سے نکالتے پیچھے کی جانب کیے تھے۔۔۔۔۔اور بغور اس چھوٹی سی نازک جان کو دیکھا جس میں ویام کاظمی کی جان بستی تھی۔۔۔۔۔۔
" تم نے اچھا نہیں کیا عین۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری اس حرکت کہ وجہ سے میں کافی ہرٹ ہوا ہوں۔۔۔۔ اب تمہیں میری یہ ناراضگی کافی مہنگی پڑنے والی ہے۔۔۔ اسنے پراسرار لہجے میں کہتے اسکی گردن کو اپنے رخسار سے سہلایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ آج تک میری محبت اور عشق دیکھا ہے تم نے اب میری جنونیت دیکھو گی تم۔۔۔۔۔۔ میرے عشق کی انتہا ہو تم الفت ِ ویام۔۔۔۔۔۔ "
" اسکی آنکھوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے وہ عجیب سرد لہجے میں بولا تھا۔۔۔ مگر مقابل اسکی شدت اسکے پاگل سے انجان سردی سے ٹھٹرتی پڑی تھی۔۔۔۔۔ ویام نے اسے بانہوں میں سمیٹتے خود سے لگایا تھا ۔۔۔۔ بے قرار دل کی دھڑکنیں اب پھر سے تیز دھڑکتے اسے بہکنے پہ اکسا رہی تھی۔۔۔۔ مگر وہ ویام کاظمی تھا۔۔۔۔ اپنے باپ کی طرح اپنی محبت اپنے عشق کو مان دینے والا۔۔۔۔۔۔۔۔"
اپنے حصار میں بھینچتے اسنے گہرہ سانس اسکی مدہوش کن خوشبو میں کھینچا اور بغور اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ "
💥💥💥💥💥
" یہ ٹھیک تو ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسکے یوں روتے ہوئے پوچھنے پہ مقابل نے نظریں اٹھائے اس روتی ہوئی لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔ جسکی آنکھیں سوجھ چکی تھیں۔۔۔۔۔ مگر آنسو ابھی تک تھمے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
" میں پوری کوشش کر رہا ہوں ۔۔ انہیں بچانے کی مگر ایک گولی انکے سینے کے بائیں جانب دل کے قریب لگی ہے ۔۔۔ جبکہ دوسری سینے کے وسط میں ۔۔۔ خون زیادہ بہنے کی وجہ سے انکی حالت کریٹیکل ہے۔۔۔ آپ دعا کریں۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اپنے سر پہ گن تانے بیٹھے مٹھو اور جبار کو دیکھتے وہ نرمی سے آگاہ کرتے نظریں جھکا گیا۔
"کیا مطلب ہے تیرا دعا سے۔۔۔۔۔" اگر میرے بھاؤں کو کچھ ہوا ناں تو سالے بھون ڈالوں گا ۔۔۔۔ ایک منٹ میں۔۔۔۔۔ اگر دعا ہی کرنی ہوتی تو تجھے کیوں لاتے یہاں پر ۔۔۔۔۔۔ " مٹھو نے گن ڈاکٹر کے سر پہ رکھتے غصے سے کہا تھا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے پرشکوہ نگاہوں سے اس چھوٹے سے بونے کو گھورا۔۔۔۔ جس نے ڈاکٹر کو اپنے باپ کے مرنے کا جھوٹ بولا تھا اور اب زبردستی اس لمبی سی گاڑی میں لے آیا تھا۔۔۔۔ اب ڈاکٹر کو سمجھ آیا تھا کہ وہ کیوں سارے اوزار لانے کا کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے غصے سے انہیں پولیس کیس کا کہا اور بتایا کہ وہ علاج نہیں کرے گا
۔۔ جب سے مٹھو بات بات پہ گن اسکے سر پہ تان دیتا ۔۔۔۔۔ جس پہ ڈاکٹر خود ہی شرمندہ سا رہ جاتا کیونکہ اسکے چھوٹے سے ہاتھ میں تھامی بڑی سی گن۔۔۔۔۔ اسے بے بس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
" آپ رونا بند کریں باجی آیا(حیا)........... بھاؤں ٹھیک ہے۔۔۔! بس آرام کر رہا ہے ۔۔۔ ابھی اٹھ جائے گا دیکھنا ۔۔۔۔۔ پتہ ہے آج سے ایک ہفتہ پہلے اسنے مجھے آس لگائی تھی کہ میرے لئے دلہن ڈھونڈ نکالی ہے اس نے۔۔۔۔ تب سے لے کر اپنے جوتے پالش کروانے کپڑے دھلوانے تک سارے کام مجھ سے کروا رہا ہے ۔۔۔۔جب تک کھانا ناں کھائے مجھے اپنے پیچھے اپنے پاس کھڑا رکھتا ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر ایسے کیسے مجھ سے اتنی خدمات کروا کر یہ یوں چلا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔مٹھو کا لہجہ نم تھا ۔۔۔۔ آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔۔۔
جسے حیا بخوبی محسوس کر پا رہی تھی ۔۔۔۔۔ حیا نے آنسو صاف کرتے ایک نظر اس بےجان پڑے وجود پہ ڈالی۔۔۔۔۔ جس میں کوئی جنبش کوئی حرکت باقی نہیں تھی۔۔۔۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ لوگ کون تھے۔۔۔ جو ایسے ایک دم سے انہیں بچانے آ پہنچے تھے۔۔۔ بھاؤں کو گولی لگتے ہی ، سامنے سے آتے گنڈوں میں سے ایک نے پھر سے اسکے سینے پہ وار کیا تھا۔۔ وہ جانتا تھا۔۔۔ ایک گولی اسے بےبس نہیں کر سکتی۔۔۔ بھاؤں کو تڑپا تڑپا کے مارنے کی خوشی میں وہ سب انکی جانب بڑھے تھے۔۔ مگر اس سے پہلے ہی ایک سفید بڑی سی گاڑی انکے بیچ حائل ہوئی تھی۔۔
جس میں موجود افراد نے پلک جھپکتے اپنے مسیحا کو اٹھاتے گاڑی میں ڈالا تھا۔۔۔۔۔۔ اور گاڑی مخفوظ مقام پہ لے آئے تھے ۔۔۔ وہ گھر نہیں جا سکتے تھے ۔۔ کیونکہ جانتے تھے سارا ماحول افسردہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ ہوسپٹل جانا چاہے خطرناک تھا ۔۔ مگر وہ بھاؤں کو جانتے تھے۔۔۔ پچھلی دفعہ ہوئی واردات وہ بھولے نہیں تھے۔۔ جب ایسے ہی اسے گولی لگی تھی۔۔ مگر جب وہ ہوش میں آیا تو خود کو ہوسپٹل میں پاتے خونخوار ہوتے بپھر گیا تھا۔۔۔۔۔
تبھی مٹھو کچھ سوچتے شہر کے سب سے بڑے ہوسپٹل کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو گن کے دباؤ سے دھمکا کر یہاں لایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
" گھر چلئے آپ بھاؤں کو ہوش آیا تو ناراض ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی کا ڈور کھولتے پیچھے کھڑے جبار نے ہاتھ پشت سے باندھے کہا نظریں جھکی تھی ۔۔ اتنا تو وہ جان چکے تھے کہ بار بار اس لڑکی کا بھاؤں کے ساتھ پایا جانا ضرور انکا کوئی ناں کوئی رشتہ تھا آپس میں ۔۔۔ بھاؤں کے حوالے سے تو انہیں موت بھی قبول تھی۔۔۔۔۔ جبھی اپنے بھاؤں کی ناراضگی کا سوچتے اسنے حیا کو مخاطب کرتے کہا۔۔۔۔
حیا نے نم نظروں سے امن کو دیکھا ۔۔۔۔۔ دل نے شدت سے کہا کہ رک جائے اسکے پاس۔۔۔ اسی کہ وجہ سے تو وہ اس حال میں ہے مگر دماغ نے تنبیہ کی ، گھر چلو ماں ، باپ پریشان ہونگے۔۔۔۔۔۔۔ انہی سوچوں میں کھوئی وہ بے دھیانی سی اٹھ کھڑی ہوئی جبار نے دوسری گاڑی نکالی تھی ۔۔۔ اسے بیٹھنے کا کہا وہ خاموش نظروں سے اس بند گاڑی کے ڈور کو دیکھتی خاموشی سے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
" اگر کوئی مسلئہ ہے تو میں ساتھ چلتا ہوں آپی۔۔۔۔۔ جبار نے ہاتھ پشت سے باندھے اسکے اترتے ہی کہا تو حیا نے ایک حالی نظر اس انیس بیس سالہ نوجوان پہ ڈالی۔۔۔۔۔ اور خاموشی سے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔۔۔۔ رات کے اس وقت تک گیٹ کھلا تھا۔۔ مگر وہ اپنے ہوش میں ہوتی تو دھیان دیتی۔۔۔۔۔ اسکے قدموں کی لڑکھڑاہٹ اسکے اندر کی شکستہ حالت کو عیاں کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پہ صوفوں پہ پریشان بیٹھے نفوذ نے مڑ کے دیکھا تو سامنے ہی حیا کو پاتے سب ہی اسکی جانب لپکے تھے۔۔۔ سلمیٰ بیگم حیا کے کڈنیپ ہونے سے انجان تھی انکی حالت کے پیشِ نظر کسی نے بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔۔ اشعر اور حسن فورا سے اسکی جانب لپکے۔۔۔ رمشہ ، اور یسری نے آنکھیں پونچھی تھی ۔۔۔۔۔
" کیسی ہو میری جان ۔۔۔۔ حیا میرے جان میرا شہزادہ بچہ ٹھیک ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن نے بے اختیار اپنی لاڈلی کو خود سے لپٹائے اسکا سر ماتھا چوما تھا۔۔۔۔۔ "یسری بھی اسکے پاس ہوئی تھی۔۔۔ کتنے خوف کتنے خدشات لاحق ہو گئے تھے ان کو۔۔۔ مگر اپنی بیٹی کو یوں سہی سلامت دیکھ وہ اب خدا کی شکر گزار تھی۔۔۔۔۔
اشعر واجد بیٹا کو بتاؤ حیا مل گئی ہے شام سے وہ بچہ پریشان حال اسے ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔حسن نے اشعر کو مخاطب کرتے کہا تو وہ سر ہلاتے ایک سائڈ ہوتے واجد کو کال کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔
"بیٹا آ جاؤ بیٹھو یہاں ۔۔۔۔ بتاؤ تم ٹھیک تو ہو ناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" رمشہ نے اسے ساتھ لگائے اسے اپنے حصار میں لیتے آسکا ماتھا محبت سے چھوا، مگر وہ خاموش تھی بالکل جیسے پھتر کی مورت ہو کوئی جسے سب پکڑتے آگے پیچھے لے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
" حیا بیٹا ۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔" یسری نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا جو لڑکھڑاتے قدموں سے بنا کچھ بولے سیڑھیاں چڑھتے اپنے روم کی جانب جا رہی تھی ۔۔۔۔۔
" جانے دیں اسے بھابھی شاید بچی پریشان ہے اتنا بڑا حادثہ جو ہوا ہے اسکے ساتھ ۔۔۔۔ " رمشہ نے اسے تھاما تھا۔۔۔ یسری نے گردن گھمائے حسن کو دیکھا تھا جو سر ہاں میں ہلا گیا ۔۔۔۔۔۔
"اچھا ایسا کرو تم دونوں آج رات یہیں رک جاؤ۔۔۔۔ رات بھی کافی بیت چکی ہے۔۔۔ "حسن نے اشعر اور رمشہ کو مخاطب کیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو خاموش نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔
روم میں آتے ہی اسنے سامنے اپنے بیڈ کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کے گئی تھی ۔۔۔ مگر پھر کیوں دل بھرا رہا تھا۔۔ جیسے کچھ چھوٹ گیا ہو بہت قیمتی بہت خاص۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مردہ قدموں سے آئینے کے سامنے آئی تھی ۔۔۔ جس میں اپنا ہی عکس اسے خود پہ ہنستا ہوا دکھا۔۔۔۔۔۔۔
" میں نے کچھ غلط نہیں تھا کیا وہ اسی کے لائق تھا۔۔۔۔۔ میں نہیں ہوں اسکی مجرم۔۔۔۔ وہ میرا مجرم تھا ۔۔ ہے ۔۔۔اور رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیوں مجھے اپنا آپ گناہگار لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اپنے عکس کو دیکھتی وہ روانی سے بولی تھی۔۔۔۔۔۔ آنسوں تواتر سے بہتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ خجاب ویسے ہی سر پہ موجود تھا۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کیا موجود تھی ،یہاں۔۔۔۔۔۔۔
" نہیںںں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ کیا میں نے کچھ سمجھے تم۔۔۔۔۔۔ نہیں ہوں میں مجرم ۔۔۔۔ تم تم نے ہرٹ کیا ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں اپنے کیے کی سزا ملی ہے ۔۔۔۔ پھر کیوں میرے پیچھے پڑے ہو جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے میری۔۔۔۔۔۔۔۔ نفرت ہے مجھے تم امن اشعر علوی ۔۔۔۔۔۔ چھوڑ دو میرا پیچھا۔۔۔۔۔ کیوں ہر روز ایک نئے روپ میں میرے سامنے آ جاتے ہو۔۔۔۔ کیوں مجھے پاگل کر رہے ہو تم۔۔۔۔ آخر کیا بگاڑا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔"
پورے کمرے کو تہس نہس کرتے وہ ہزیانی سی ہوتے چلا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آواز میں کرب واضع تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے اپ پہ قابو نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔۔
" دیکھ لو حیا آخر ثابت ہو ہی گیا تم اس کی گناہ گار ہو جبھی تو ابھی تک تڑپ رہی ہو ۔۔۔۔۔" آئینے میں دکھتے اپنے عکس کو خود پہ ہنستا دیکھ وہ پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچنے لگی۔۔۔۔ خجاب بری طرح سے نوچتے دور پھینکا تھا۔۔اب تلاشتی نگاہوں سے آگے پیچھے دیکھا اور پاس ہی میز پہ رکھے واز کو اٹھاتے اسنے زور سے آئینے کی جانب پھینکا ۔۔۔"نہیں ہوں میں مجرم۔۔ مجرم وہ ہے امن ہے مجرم اسنے میرا کردار داغدار کرنا چاہا تھا۔۔۔ میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا سنا تم ۔ ۔۔۔۔ نہیں ہوں میں مجررر۔۔۔۔۔۔۔" وہ حواس باختہ سی پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی۔۔۔۔ آئنیے چھناک کی آواز سے ٹوٹا تھا ۔۔۔۔۔ جیسے وہ ٹوٹی تھی آج۔۔۔۔۔۔۔
اتنے سالوں کا پکتہ لاوا آج اس طرح سے نکلے گا کسی نے نہیں سوچا تھا۔۔۔۔۔ حسن ، رمشہ, یسری اور اشعر۔۔۔۔۔ سبھی بے چینی سے دروازہ پیٹ رہے تھے۔۔۔ اس کی چیخوں کی آوازیں تو سنائی دی تھی ۔۔۔۔۔ مگر سب یہ سمجھ نا سکے کہ آخر کار وہ کیوں اتنے کرب میں تھی۔۔۔۔ یسری کو اندر ہی اندر ایک ان دیکھا خدشہ لاحق ہونے لگا تھا۔۔۔ چہرہ ایک دم سے تاریک سا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشہ نے اسے سہارہ دیتے اپنے بھائی کو دیکھا جسکی آنکھوں کے گوشے نم تھے ۔۔۔ جبکہ وہ بظاہر خاموش لب بھینچے دروازہ کیز سے اوپن کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھلتے ہی حسن اور یسری کے قدم ایک دم سے تھم سے گئے تھے جیسے کسی نے جکڑ کیے ہوں بری طرح سے۔۔۔۔۔۔ انکا سانس سینے میں اٹک گیا جب اپنی لاڈوں پلی معصوم بیٹی کو یوں آج دوسری بار بنا دوپٹے کے یوں ہوش و حواس سے بیگانہ دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ "حیااااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کمرے میں حسن کی دلدوز سی چیخ گونجی تھی وہ لپکتے اپنی معصوم سی بیٹی کو خود میں سمو گیا۔۔۔۔۔۔
جبکہ اسکی حالت پہ اشعر نے زخمی نظروں سے بے بس سی کھڑی رمشہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سختی سے آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔۔۔
کھڑکی پہ لٹکے ڈراک گرے کلر کے پردوں سے کمرے میں بالکل اندھیرہ سا چھا چکا تھا۔۔۔۔۔ کمرے کے وسط میں درمیانے سائز کا بیڈ تھا جسکی دائیں جانب والی دیوار پہ ڈریسنگ مرر سیٹ ہوا تھا۔۔۔۔۔ اس سے تھوڑی ہی دوری پہ کبرڈ رکھی گئی تھی ۔۔ جو کہ درمیانے سائز کی ہی تھی۔۔۔۔ بائیں جانب ایک ڈور بنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو چینجنگ روم اور واشروم کے لئے بنایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ بیڈ کے بالکل قریب ٹیبل پڑا تھا۔۔۔ جس پہ پڑے گرما گرم کافی کے مگ سے اٹھتی بھاب اس کے تازہ ہونے کی دلیل تھی۔۔۔۔۔۔۔ نیند پوری ہونے پہ وہ انگڑائی لیتے منہ ٹیڑھا کرتے اٹھی تھی۔۔۔۔
دونوں بازوؤں فضا میں لہرا رہے تھے۔۔ جبکہ چہرے پہ سنہری لٹیں جھوم رہی تھیں۔۔۔۔۔ پنک کلر کی سکرٹ جسکے گلے پہ بلیک پرنٹ بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ بازوؤں پہ بھی ایسا ہی پرنٹ بنا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دودھیا رنگت گلابی رنگ میں مزید دمک رہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں اپنے سفید نازک ہاتھ کی پشت سے مسلتے ہلکی ہلکی سی آنکھیں کھولے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔
" جیسے جیسے اسکا دماغ بیدار ہوا کل کا گزرا ایک ایک لمحہ آنکھوں کے سامنے لہرا گیا۔۔۔۔۔ کرسٹل گرے آنکھوں میں حیرت کے تاثرات سجائے وہ خود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اس کمرے میں کیسے پہنچی یہ سب اس کے لئے حیرت کی بات تھی ۔۔۔مگر وہ جانتی تھی ۔ ضرور ویام ہی اسے لے کر آیا ہو گا واپس۔۔۔۔ویام کا سوچتے ہی دل زوروں سے دھڑکنے لگا تھا۔۔۔۔ شرم و حیا سے گردن جھکائی تو نظر اپنے کپڑوں پہ پڑی ۔۔۔۔۔
وہ تو ویام کے کپڑوں میں تھی۔۔۔۔۔ آگے کا سوچتے ہی پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئی ۔۔۔۔۔۔ چہرے پہ حسین رنگ لیے وہ لب کا کونہ دانتوں تلے دبا گئی۔۔۔۔۔ اس وقت وہ بھول چکی تھی کہ وہ ناراض تھی ۔۔۔۔ ویام سے۔۔۔۔ غیر اردای طور پہ نظریں پورے کمرے میں دوڑائیں۔۔ مگر وہ کہیں نہیں ملا۔۔۔ مگر خود سے آتی اس کی دلفریب مہک کو اپنی سانسوں میں اترتا محسوس کرتی وہ خود میں سمٹ گئی۔۔۔۔۔
" دل کی دنیا بہت دلفریب ہو رہی تھی۔۔۔ کتنا مان تھا اسے اپنے ویام پہ۔۔۔۔ اور اس کا یقین اعتماد تھوڑا ہی غلط ٹہرا تھا۔۔۔ وہ آ تو گیا تھا۔۔۔ اس کے پاس۔جانے کیسے وہ بچا کے لایا تھا اسے۔۔۔۔ کیسے ڈھونڈا تھا۔۔۔۔۔۔۔اسے۔۔۔۔ اس کا خیال ہی دل میں عجیب سی ہلچل مچا رہا تھا۔۔۔۔ بے اختیار ہی وہ بیڈ سے اتری تھی۔۔۔۔۔ دبے قدموں وہ روم سے باہر نکلی ۔۔۔۔ دائیں کندھے پہ لہراتی بکھری سنہری زلفیں جن کی کچھ لٹیں اسکے چہرے پہ بکھرتی گالوں کو چھو رہی تھی۔۔ سرخ و سفید پاؤں فرش پہ رکھتے وہ دبے قدموں کچن میں داخل ہوئی ۔۔ مگر وہ کہیں بھی نہیں تھا ملا ۔۔۔۔
اس کی غیر موجودگی دل کو بری طرح سے کھل رہی تھی۔۔۔ کچن سے منہ بناتے وہ باہر نکلی تھی۔۔۔ ایک ایک کمرہ چیک کیا مگر وہ کہیں نہیں تھا۔۔۔۔۔ لبوں کو دانتوں تلے کچلتے وہ انگلیاں مڑورتے باہر آئی تھی۔۔۔۔ ایک نظر والکلاک پہ ڈالی جہاں دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔۔۔۔۔ باہر دیکھنے کا ارادہ بالکل نہیں تھا۔۔۔۔ کل سے جو خوف دل میں بیٹھا تھا وہ مر کے بھی اکیلی باہر ناں نکلتی اب۔۔۔۔۔۔
پیٹ میں بھوک سے چوہے کودنے لگے تو ہمشیہ کی طرح فکر پریشانی ایک طرف رکھتے وہ کچن میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔ فریج کھولا تو فروٹس پڑے تھے۔۔ منہ بناتے اسنے زور سے دروازہ بند کیا۔۔۔ اچانک اسے روم میں رکھی کافی کا مگ یاد آیا آنکھیں چمک اٹھی تھی۔۔۔۔۔ کمرے کی جانب بڑھتے قدم ڈائننگ میز کے قریب تھمے تھے۔۔۔ جہاں چار کرسیوں پہ محیط چھوٹا سا میز درمیان میں پڑا تھا جس پہ شاید نہیں یقیناً کچھ ڈھانپ کہ رکھا تھا۔۔۔۔۔
ہمشیہ کی طرح پیٹ کی فکر میں وہ دوسری ساری فکریں بھلائے جلدی سے چئیر کھسکاتے بیٹھی تھی۔۔۔۔ پلیٹ کو اپنی جانب کھینچا اور اوپر سے ڈھانپ کے رکھی پلیٹ ہٹاتے اسنے پلیٹ کو دیکھا سینڈوچز دیکھ بوکھ پھر سے تازہ ہو گئی تھی۔ سرخ ہونٹوں پہ زبان پھیرتے اسنے بھرپور توجہ سے انصاف کرتے وہ چاروں سینڈوچز پرسکون ہوتے کھائے تھے۔۔۔۔۔۔ اسکی بھوک کل سے کچھ ناں کھانے پہ بھڑک اٹھی تھی۔۔ مگر سینڈوچز سے کچھ آسرا ہوا تھا۔۔۔
سینڈوچز کھاتے ہی اسنے ایک چور نظر آگے پیچھے ڈالی کسی کو ناں پاتے وہ پھر سے اٹھی تھی۔۔۔ اب رخ کچن کی جانب تھا۔۔ ضرور وہ کہیں چھپا کر گیا تھا ایکسٹرا سینڈوچز۔۔۔۔۔۔۔ اسکے یوں چوروں کی طرح کچن میں جانے پہ مقابل گہری مسکراہٹ سے مسکرایا۔۔۔۔۔
جبکہ وہ دنیا و جہاں سے بےگانہ اپنے کام میں مشغول تھی ۔۔۔۔۔ آنکھوں میں تجسس اور بھوک کی چمک واضع جھلک رہی تھی ۔۔
شیلف چیک کرتے ہی اسکا منہ پھول گیا۔۔۔ رخسار غباروں کی طرح خفگی سے پھولے ۔۔ کیونکہ سارا کچن حالی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ یونہی حالی فرش کو گھور رہی تھی۔۔۔۔۔ پانی کی طلب نہیں تھی مگر کافی وہ بھول چکی تھی جبھی مڑتے روم میں جانا چاہا تھا۔۔ ۔ کہ اچانک سے مڑتے وہ بری طرح سے مقابل کی چوڑی پشت سے ٹکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔ جان جیسے حلق میں اٹکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں بند کیے اسکی بانہوں میں جھول رہی تھی ۔۔ جس نے فورا سے سہارہ دیتے اسے تھاما تھا ۔۔۔۔۔
" وو وہ ممم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ " آنکھیں کھولتے ہی نظریں اسکی بھوری سرخ آنکھوں سے ٹکرائی وہ گڑبڑاتے نظریں جھکا گئی۔۔۔۔۔ جبکہ مقابل نے فورا سے سیدھا کرتے کھڑا کیا تھا مگر حصار ابھی تک نہیں توڑا تھا۔۔۔۔۔۔
" ویام تم کہاں تھے۔۔۔۔؟" اپنی چوری چھپانے کی کوشش کرتے وہ ہلکے پھلکے سے انداز میں بولی تھی۔۔۔
" جوتا کہاں ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔!" اسکی بات کو اگنور کیے وہ نرمی سے اپنے یخ بستہ ٹھنڈے ہاتھ سے اسکی بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے بولا تھا کہ عیناں اسکے لمس پہ کپکپا اٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
" ممم میں کہاں سے ملی تمہیں ۔۔۔۔۔۔" ایک اور سوال تیار تھا ۔۔۔ وہ بالکل نارمل بیہیو کر رہی تھی۔۔۔ جبکہ ویام اسکے برعکس تھا ۔۔۔
" بخار ابھی بھی ہے ۔۔۔۔ میڈیسن لی۔۔۔۔"
اسے جھٹکے سے اپنے قریب کرتے وہ سرد لہجے میں بولتا اسکی سانسیں خشک کر گیا ۔۔۔۔ عیناں کا پورا وجود اسکے جان لیوا لمس پہ مچل اٹھا تھا مگر پرواہ کسے تھی۔۔۔۔۔۔
"ویام مجھے۔۔۔۔۔۔"
عیناں نے التجا کرتے لہجے میں نظریں اٹھاتے کہا تھا مگر مقابل ایک دم سے جھکتے اسکی بولتی بند کر گیا ۔۔۔۔۔ اسکے سخت جان لیوا لمس پہ وہ بری طرح سے کپکپانے لگی ۔۔ آنکھیں میچتے خود کو آزاد کروانے کی سعی کی مگر ناکام رہی تھی کیونکہ مقابل کے لمس میں شدت نہیں جنونیت آباد تھی ۔۔۔۔ وہ جتنا اسے دور کر رہی تھی ۔۔۔وہ اتنا ہی اسے تڑپا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ عیناں کو سانس رکتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔ اختجاج خودبخود ہی ترک ہوا تھا۔۔۔۔۔
اسکی رکتی مدہم پڑتی سانسوں کو محسوس کرتے مقابل نے آہستگی سے اسے چھوڑا مگر حصار سے نکلنا ابھی کہاں ممکن تھا ۔۔۔۔۔
آزادی ملتے ہی وہ سر اسکے سینے سے ٹکائے بری طرح سے کھانستے گہرے سانس آنکھیں بند کیے بھرنے لگی۔۔۔ عیناں نے آنکھوں میں نمی سموئے فورا سے سنبھلتے اسے خود سے دور کیا تھا۔۔۔۔۔ آج پہلی بار ویام نے اسے تکلیف دی تھی کیونکہ وہ ہرٹ ہو چکی تھی اسکی جنونیت سے۔۔۔۔ وہ یونہی آنسوں لیے پلٹی تھی اور رخ اپنے کمرے کی جانب کیا ۔۔۔۔۔ مقابل نے جھٹکے سے ہاتھ سے کھینچتے کمر کے گرد حصار باندھتے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔
وہ ایک دم سے کھینچتی چلی آئی ۔۔۔ لہراتے بری طرح سے چکر کھاتے وہ سیدھا اسکے سینے سے ٹکرائی تھی۔۔
تکلیف ہو رہی ہے تمہیں۔۔۔۔ دو منٹ کے لئے تمہاری سانس روکی تو دیکھو حالت اپنی۔۔۔۔۔ مجھ پہ ذرا رحم نہیں آیا تمہیں۔۔۔۔۔ جانتی ہو میرا سانس کب تک رکا تھا۔۔۔۔۔ اسکی نمی سے جھلکتی قاتل نگاہوں میں دیکھتے خود کو مضبوط بنائے وہ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے بولا تھا۔عیناں کا سانس اٹک گیا۔۔۔۔۔ آنکھیں اسی پہ تھیں۔۔۔۔ جبکہ دونوں ہاتھوں میں ویام کی شرٹ کا کالر جکڑے وہ آنکھوں میں خوف ، ڈر سموئے اسے بری طرح سے کنفیوز کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
" ایک جھٹکے سے اسکے بالوں کو اپنے بائیں ہاتھ سے کھینچتے ایک ہاتھ اسکے گرد حصار میں لیتے وہ عجیب سے تاثرات سے بولتےسرد چٹان کی مانند بن چکا تھا۔۔۔۔۔۔ جسے اپنی عین کے آنسوں تک پگھلا نہیں پائے تھے۔۔۔۔۔
جانتی ہو کل سے کتنی بار مراہوں میں ۔۔۔۔۔یہ سوچ ہی سوہانِ روح ہے کہ تمممممم۔۔۔ کہ تممممم میری عین۔۔۔۔۔ میری عین نے مجھ پہ اعتبار نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ اسکے بھیگے لہجے میں چھپے کرب پہ وہ تڑپ اٹھی تھی اسکی گرفت میں۔۔۔ آنکھوں سے بہتے اشک چہرے کو بھگو رہے تھے۔۔۔
پورے آٹھ گھنٹے تک میرا سانس تھما تھا۔۔۔۔ اگر تم ناں ملتی تو آج ویام کاظمی فنا ہو جاتا۔۔۔ عین۔۔۔۔ مگر تمہیں کہاں مجھ پہ اعتبار ہے۔۔ میری فکر ہے۔۔۔۔۔۔۔
"نن نہیں ووو ویام پپپ پلیز۔۔۔۔۔"
عیناں نے کرب سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے اپنا کپکپاتا ہاتھ اسکے ہونٹوں پہ رکھتے اسے بولنے سے روک دیا۔۔۔۔۔۔ کتنی تکلیف دہ تھی یہ حقحقیت۔۔۔ کیسے سن لیتی وہ ۔۔۔۔ کہ ہاں وہ سچ میں اسپہ اعتبار نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔۔۔
سنتے ہوئے کتنی تکلیف ہو رہی ہے تمہیں ۔۔۔ مجھ پہ تو بیتی ہے۔۔۔! اسنے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا تو عیناں نے بے دردی سے لب کچلے ۔۔۔۔۔
جانتی ہو تمہارے عشق میں ان گزرے ساڑھے تین سالوں میں ہر رات جاگا ہوں۔۔۔۔ ہر وقت یہی خیال اتا تھا دماغ میں کہ کہیں تم مجھے بھول تو نہیں جاؤ گی۔۔ کہیں میری جگہ کوئی اور تو نہیں لے لے گا۔۔۔۔ کہیں میری عین روئی تو نہیں آج ۔۔ اس نے مجھے مس کیا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔ جانتی ہو کتنا اذیت ناک ہے یہ سب۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوچنا کہ جس لڑکی سے مجھے بچپن سے عشق تھا۔۔ اسی عشق سے الفت کرتے کرتے میں نے اپنا آپ گنوا دیا۔۔۔۔۔
اس کی انکھوں میں دیکھتے وہ ایک ایک لفظ پہ دباؤ دیتے بےبسی کرب کی انتہا پہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ مقابل کھڑی وہ نادان اپنا سانس روک گئی تھی۔۔۔ اس کی ایک ایک بات دل کے آر پار ہوتی محسوس ہوئی تھی اسے۔۔۔۔ دم گھٹنے لگا تھا۔۔۔۔ دل تھا جو اکسا رہا تھا کہ مانگ لو معافی وہ ہرٹ ہے تم سے۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہمت کہاں سے لاتی خود میں۔۔۔۔۔۔۔۔
جا کر فریش ہو کے دس منٹ میں باہر آؤ۔۔۔۔۔ میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اسے آہستگی سے چھوڑتے وہ رخ پھیر گیا۔۔۔۔۔
" ووو ویام ممم۔۔۔۔۔ "
" ڈونٹ سے اینی تھنگ ایلز۔۔۔۔۔۔ " آج تک میرا عشق دیکھا ہے اب تم میری بے رخی دیکھو گی۔۔۔۔۔ اسی سرخ ہوتی گرے آنکھوں میں دیکھ وہ باہر نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔
" وہ بے یقینی سے ایک دم سے ڈھے گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ویام کا رویہ اسے زخمی کر گیا تھا اندر سے ۔۔۔ کہاں برداشت تھی اسکی ناراضگی۔۔۔۔ اس ناراضگی سے تو اسے موت اچھی لگتی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ ہرٹ کر چکی تھی اسے۔۔۔۔۔ مگر اسے مناتی کیسے ۔۔۔۔۔ لب کاٹتے اپنے آنسوں صاف کیے تھے۔۔۔۔
اپنے من من کے ہوتے بھاری قدم اٹھائے وہ باہر نکلی تھی جہاں وہ آنکھوں پہ چشمہ سیٹ کیے ۔۔۔۔۔ دنیا جہاں سے غافل کار سے ٹیک لگائے اپنی سحر انگیز شخصیت سے اسے بری طرح سے گھائل کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اپنے خوبصورت آنکھوں کو رگڑتے وہ خاموشی سے آگے آئی تھی۔۔۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے بیک ڈور اوپن کیا جو کہ لاک تھا۔۔۔انگلیاں مروڑتے وہ چپ چاپ منہ پہ قفل لگائے فرنٹ سیٹ پہ آ بیٹھی۔۔۔۔۔ وہ جیسے اسی انتظار میں کھڑا تھا۔۔۔ گاڑی سٹارٹ کرتے اس سے بالکل انجان بنتے وہ گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔
عیناں نے چور نظر سے اسے دیکھا جو ایسے تھا۔۔ جیسے دونوں میں کبھی بات تک ناں ہوئی ہو ۔۔۔ وہ کہاں عادی تھی اسکی ایسے کسی رویے کی۔۔۔۔ دل کیا دھاڑیں مار کے رونا شروع کر دے ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو گھورا تھا ۔۔۔۔۔۔ ویام کی چند پل کی ناراضگی ناقابلِ برداشت تھی۔۔۔۔۔ کچھ وقت کی ناراضگی اسکے لئے سوہان ِ روح تھا جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بھلا کیسے اس سے دور اس سے خفا رہ پاتی ۔۔۔
اعتبار کی ڈور جس قدر اہم ہوتی ہے اسی قدر کمزور بھی ہوتی ہے جسے انسان اپنی محبت اپنی توجہ سے سینچ سینچ کے مضبوط طاقتور جڑ بناتا ہے ۔۔۔۔۔ کئی بار آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا مکمل سچ نہیں ہوتا۔۔۔۔ جذباتیت میں لیے فیصلے انسان کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔۔ خود کو بہتر بنانا ہے تو اپنوں پہ اعتبار محبت کی شرط لازم ہے۔۔۔۔۔۔ جو ٹوٹ گیا وہ بکھر گیا جو سنبھل گیا وہ پہنچ گیا عروج پہ ۔۔۔۔۔۔ "
💥💥💥💥💥
" انزِک سے بات ہوئی تمہاری۔۔۔۔۔۔ " ڈائننگ ہال میں چھائی خاموشی کو فدک کی آواز نے توڑا۔۔۔ رافع نے جوس کا سپ لیتے گردن ہاں میں ہلائی۔۔۔۔۔۔
" حرمین تھیک ہے کچھ مسئلہ تو نہیں ہوا ان دونوں کو۔۔۔۔۔۔ " فدک نے ایک نظر اسے دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔۔ جو نک سک سا آفس جانے کے لئے بالکل تیار تھا۔۔۔
" کوئی مسلئہ نہِیں ہوا بیگم ۔۔ ٹھیک ہے آپ کا لاڈلا۔۔۔۔۔ " سر جھٹکتے اسکی متنفر نظروں میں دیکھ وہ مسکراتے بولا تھا۔۔۔۔۔۔
فدک گہرہ سانس بھرتے رہ گئی۔۔۔۔۔
رافع مجھے بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔" فدک نے اسکا ہاتھ تھامتے کہا تو رافع نے ایک نظر اپنے ہاتھ پہ دھرے اسکے ہاتھ کو دیکھ ائبرو اچکائی۔۔۔۔۔
" جان خاضر آپ کےلئے حکم تو کریں جانِ من۔۔۔۔۔۔ وہ شوخی سے اسکی سرخ پڑتی ناک کھینچتے ہوئے بولا تو فدک نے خفگی سے اسے گھورا۔۔۔۔۔
" جان پاس رکھیں ڈائیلاگ بلوا لو بس۔۔۔۔ وہ منہ چڑھاتے بولی تو رافع نے بمشکل قہقہ ضبط کیا۔۔۔۔۔
"رافع وہ۔۔۔۔۔"
ایک منٹ کوئی ہے باہر میں دیکھتا ہوں ۔۔ نیپکین سے ہاتھ صاف کرتے وہ اٹھتے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
" الایہ بابا کی پرنسز واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز۔۔۔۔۔۔ آپ آپ کب آئی۔۔۔۔ "
رافع کی پرجوش محبت سے لبریز آواز اور الایہ کے ذکر پہ فدک نے نظریں اٹھائے سامنے دیکھا ۔۔ جہاں سامنے ہی دروازے کے پاس اسکی پرچھائی کھڑی تھی ۔۔ رافع کے قدم اپنی بیٹی کو اتنے سالوں بعد یوں اپنے سامنے پاتے حیرت سے تھم چکے تھے۔۔۔ آنکھیں اسے سامنے دیکھ نم ہونے لگی تھی ۔۔ جبکہ دل چاہا کہ اسے چھپا لے کہیں قید کر لے اپنے پاس ۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے اسکی جانب بڑھا بالکل ویسی ہی تو تھی وہ بچپن میں بھی تو ایسی ہی دکھتی تھی۔۔۔ رافع کو آج پھر اسکے بچپن کی جھلک نظر آئی تھی اپنی پرنسز کو دیکھ۔۔۔۔
فدک بے یقینی سے اپنے ضدی بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔۔ کتنا بدل گئی تھی وہ ان ساڑھے تین سالوں میں۔۔۔۔۔۔۔
دور سے دیکھنے پر بھی اسکی شخصیت میں روب ، وقار محسوس ہوا تھا اسے۔۔۔ بلا کا اعتماد تھا اسکے انداز میں
۔۔ اسے دیکھ کر ہر کسی کا اندازہ غلط ٹہرایا جا سکتا تھا کہ عورت صرف صنفِ نازک ہے۔۔۔۔۔ بے اختیار ہی اسکی آنکھیں جھلک پڑی تھی ۔۔ سارا غصہ ناراضگی اپنی لاڈلی کو دیکھ جانے کہاں جا سویا تھا۔۔۔۔۔
وہ لرزتے قدموں سے اسکی جانب بڑھی تھی۔۔ جبکہ رافع تو اسے سینے میں بھینجتے سر ماتھا چوم رہا تھا۔۔۔۔ کبھی چہرہ ہاتھوں میں تھامتے یقین کرتا کہ ہاں واقعی ہی وہ اسکی الایہ اسکی پرنسز تھی۔۔۔۔۔ جو اتنے سالوں بعد اپنے باپ کے سامنے اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک بن کے لوٹ آئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
" الایہ مائی پرنسز۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں آنسوں تو لبوں پہ اسکا ذکر تھا۔۔۔ جو بت بنی بس حالی حالی نظروں سے اپنے سپر مین کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
آنکھوں سے اشک بے اختیار روا ہوئے تھے ۔۔ جنہیں بےدردی سے رگڑتے وہ دو قدم پیچھے ہوئی۔۔۔ رافع نے حیرانگی سے اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں بے اعتباری ، کے رنگ تھے۔۔۔۔ اسکا دل تڑپ اٹھا تھا۔۔۔۔ جبکہ اپنے باپ کو دیکھ وہ نظریں پھیرتے اپنی موم کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
مجھے آپ دونوں سے بات کرنی ہے " سرد بالکل سپاٹ لہجے میں بولتے وہ ان دونوں کو چونکنے پہ مجبور کر گئی تھی ۔۔ وہ ٹھٹکتے ایک دوسروں کو دیکھنے لگے پھر الایہ کی جانب دیکھا جو سفید چہرے سے بالکل انجان بنی کھڑی تھی۔۔۔۔۔
" بیٹا آپ آ گئی ہو آؤ پہلے بیٹھتے ہیں ۔۔ پھر بات چیت ہو گی۔۔۔۔۔بلکہ میں اپنی بیٹی سے ڈھیر سی باتیں کروں گی۔۔۔ فدک نے مسکراتے اسکے پاس جاتے چہرے کو بے اختیار اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔۔ مگر الایہ پھر سے دو قدم دور ہوئی تھی۔۔۔۔ فدک نے لب بھینچتے اسے دیکھا بالکل نہیں بدلی تھی وہ بالکل ویسی ہی ضدی تھی۔۔۔۔
کیا بات ہے بیٹا۔۔۔۔ بتاؤ مجھے کیا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔!" رافع نے بے چینی سے اسے دیکھتے پوچھا۔۔ جسکی آنکھیں سرخ سوجھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ وہ بغور اسے دیکھتے تڑپتے اسکی جانب لپکا تھا ۔جسے دیکھ الایہ نے ہاتھ سے دور رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔ رافع کے قدم تھم سے گئے تھے۔۔ آنکھوں میں اضطراب سا لیے وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
" کیا آپ دونوں نے میرا نکاح بچپن میں اذلان اشعر علوی سے کیا تھا ۔۔ یا نہیں ۔۔۔ " اپنے سامنے کھڑے اپنے ماں باپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے وہ یکسر انجان لگی انہیں۔۔۔ فدک نے ٹھٹکتے پریشانی سے رافع کو دیکھا تھا۔۔۔ جو خود ماتھے پہ بل ڈالے الایہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
بیٹا ہماری بات۔۔۔۔۔۔"
چند پل کی خاموشی کے بعد فدک کو تسلی دیتے وہ الایہ سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔ وہ جانتے تھے اس کا ری ایکشن کیسا ہو گا جب اسے یہ سب معلوم پڑے گا۔۔ مگر یہ بات زیادہ حیرانگی کی تھی کہ اسے یہ بات بتائی کس نے تھی۔۔۔۔۔۔
" نو ڈیڈ سٹے اوے فرام می۔۔۔۔۔ میری بات کا جواب دیں ہاں یا ناں ۔۔۔۔۔۔۔" اپنی جانب بڑھتے رافع کو سرد لہجے میں وارن کیے وہ اجڑی سی شکستہ نم لہجے میں استفسار کرنے لگی۔ دیکھ تو چکی تھی انکی آنکھوں میں سچ۔۔۔۔ مگر دل تھا کہ ماننے سے انکاری تھا کہ بھلا وہ کیسے ایسا کر سکتے ہیں اسکے ساتھ۔۔۔۔۔۔
" ہاں ہم نے بچپن میں تمہارا نکاح کیا تھا اذلان سے مگر بیٹا اس وقت جو حالات ۔۔۔۔۔۔۔" رافع نے نرمی سے آنکھیں میچتے اپنے آپ پہ ضبط کرتے اسے پیار سے سمجھانا چاہا تھا۔۔۔۔۔
مگر وہ ایک دم سے اسے روک گئی ۔۔۔۔۔
نو ڈیڈ کچھ نہیں سننا میں نے۔۔۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ اس سو کالڈ رشتے میں مجھے باندھ دیں گے اور میں خاموشی سے اس جنگلی کے ساتھ رخصت ہو جاؤں گی ۔۔۔۔ آپ آپ تو ہیرو تھے میرے ڈیڈ۔۔! آپ نے بھی میرا بھروسہ توڑ دیا ۔۔۔۔۔ " اپنی آنکھوں سے بہتے آنسوں کو بےدردی سے پونچھتے وہ خود ہی اپنے آپ پہ ہنسی تھی۔۔۔۔۔ کیسی قسمت تھی اسکی ۔۔۔۔۔۔ اسکے ماں باپ نے ہی اسے آج تک دھوکے میں رکھا تھا۔۔۔۔۔۔
"الایہ پرنسز پاپا کی بات تو سنو آپ پلیز ۔۔۔۔۔" رافع جانتا تھا اسے ۔۔۔۔ اسکے دکھ سے اچھی طرح سے آگاہ تھا وہ جبھی اسے محبت سے بلایا ۔۔۔۔۔۔۔
"نو ڈیڈ سننے کو کچھ بھی نہیں بچا۔۔۔۔۔۔ جانتے ہیں۔۔۔ مجھے خود پہ یہ اعتماد بناتے چار سال کا عرصہ لگا جسے آپ نے , پل بھر میں توڑ دیا ۔۔۔۔۔ آپ نے مجھے اس شخص سے جوڑ دیا جسے دیکھنا تو دور جسکا ذکر تک مجھے برداشت نہیں۔۔۔۔۔ "
موم آپ کیوں رو رہی ہیں یار۔۔۔۔۔ " ڈونٹ کرائے یار۔۔۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ آج ثابت ہو گیا کہ الایہ واقعی سچ میں ضدی خودسر ہے۔۔۔ دیکھیں اپنے ڈیڈ سے الجھ رہی ہوں میں۔۔۔۔ ماریں ایسا کریں چار پانچ تھپڑ ماریں مجھے۔۔۔۔۔۔
فدک کے پاس جاتے اسکے ہاتھوں کو تھامتے وہ اپنے چہرے پہ مارنے لگی ۔۔۔ جبکہ فدک اسکی باتوں اسکے لہجے سے ملتی تکلیف سے رونے لگی تھی ۔۔۔ کیا بن گئی تھی۔۔ وہ۔۔۔۔ کیا کبھی اس نے چاہا تھا کہ کوئی اس کی بیٹی سے نفرت کرے۔۔۔
" آج ناں مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں آپ کی اپنی بیٹی ہوں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تبھی میرے ساتھ سوتیلوں والا سلوک کرتے ہیں۔ آپ۔۔۔ مگر ایک بات یاد رکھئے گا میں مرتی مر جاؤں گی مگر اذلان اشعر علوی کو کبھی کسی بھی قیمت پر اپنی زندگی میں قبول نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ رافع کو دیکھتے وہ اذلان کے ذکر پہ اس قدر نفرت سے بولی تھی کہ رافع آنکھیں میچ گیا جبکہ فدک تو منہ پہ ہاتھ رکھے باقاعدہ رونے لگی تھی۔۔۔ ۔۔
جبکہ الایہ اپنے آنسوں رگڑتے اوپر اپنے روم کی جانب بھاگی تھی۔۔۔۔۔
"الایہ الایہ رکو ۔۔۔۔۔۔۔ " رافع نے اسے بےبسی سے پکارا تھا ۔۔ جبکہ وہ ان سنا کرتے ٹھاہ سے دروازہ بند کر گئی۔۔۔ جبکہ فدک تو ابھی تک اسکے الفاظ اسکے دل میں چھپی اپنے لئے ناپسندیدگی پہ حیران تھی۔۔۔۔ بےجان قدموں سے وہ لڑکھڑاتی فرش پہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔
"فدک کیا ہو گیا ہے یار۔۔۔ سنبھالو خود کو۔۔۔۔۔ فدک۔۔۔۔۔" رافع نے اسے ایک دم سے حصار میں لیتے سینے سے لگایا تھا۔۔۔ جبکہ وہ کہا ہوش میں تھی ۔۔۔
" سنا آپ نے رافع میری بیٹی مجھے اپنا دشمن کہہ رہی ہے ۔۔۔۔۔ اسے لگتا ہے کہ میں نے اسے بیٹی نہیں مانا ۔۔۔۔۔ کیسے کہہ سکتی ہے وہ ایسا۔۔۔ میری پہلی اولاد ہے وہ ۔۔۔ جسے میں نے راتوں کو جاگ کر اپنے سینے سے لگایا تھا اسکے آرام کےلئے اپنا آرام بھول گئی میں۔۔۔ اور وہ وہ کہہ رہی ہے کہ وہ میری بیٹی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں ماں نہیں ہوں اس کی کیسے کہہ سکتی ہے وہ ایسا۔۔۔۔۔۔۔
اسکے کالر کو دبوچے وہ ہزیانی سی ہوتے بری طرح سے رو رہی تھی ۔۔۔ رافع نے بے بسی سے لب بھینچ لیے۔۔۔ وہ کیا کہتا کیسے اسے یقین حوصلہ دلاتا ۔۔۔۔۔ کہ وہ مان جائے گی۔۔ وہ خود بھی تو ٹوٹ چکا تھا ۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
"سر آپ نے یاد کیا مجھے۔۔۔۔۔۔ " ہوسپٹل کے کمرے میں داخل ہوتے وہ ہاتھ مؤدب سا باندھے کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔
ہممممممم... کام تھا تم سے شفیع۔۔۔۔۔۔ " مقابل نے ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹاتے سہارے سے بیٹھتے کہا تھا۔۔ شفیع نے پل بھر کو نظریں اٹھائے سلمان صاحب کو دیکھا جو اب پہلے سے کافی کمزور لگے تھے اسے۔۔۔۔۔
" میری بیٹی۔۔۔۔ میری بیٹی مجھے چاہیے واپس اپنے پاس ۔۔۔۔۔۔۔" اسے دیکھتے وہ نم آنکھوں سے بولا تھا۔۔شفیع نے سر جھکا لیا ۔۔۔۔۔۔!
"سر مگر اس کا ملنا ناممکن سی بات یے۔۔۔ مجھے بس یہ سب معلوم ہوا تھا کیونکہ جب لیلی میڈم کی ڈیلیوری ہوئ تھی اسکے بعد انہوں نے ایک زندہ بچی کو جنم دیا تھا اور یہ بات مجھے ہاسپٹل کے ریکارڈ سے معلوم ہوئی تھی۔۔۔ اسکے علاوہ میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔۔۔۔ "شفیع نے اسے جھوٹی امید دلانے کی بجائے سچ بتایا تھا۔۔۔۔کیونکہ وہ سچ میں اسکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔
" جانتا ہوں میں شفیع۔۔۔ وہ مکار عورت میری زندگی تباہ و برباد کر گئی۔۔۔۔۔ اب میں کسی بھی حال میں اپنی بچی کو ڈھونڈوں گا۔۔۔ بیٹا تو مجھ سے نفرت کرتا ہے مگر مجھے اپنی بیٹی چاہیے اپنے پاس ۔۔۔۔۔ آنکھوں سے بہتے آنسوں کو صاف کرتے وہ التجائیہ لہجے میں بولا تو شفیع شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔
" میں کوشش کروں گا سر کہ جلد ہی اسے ڈھونڈ لوں۔۔۔ مگر میں امید سے نہیں کہہ سکتا کچھ۔۔۔۔۔ "
تم کوشش کرو مجھے یقین ہے وہ مل جائے گی تمہیں۔۔۔۔ " سلمان نے شفیع کو دیکھتے ایک عزم سے کہا تھا ۔۔۔۔ وہ سنتے سر ہلا گیا۔۔۔اور فورا سے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
"میں ڈھونڈ لوں گا تمہیں میری بچی۔۔۔۔ بہت جلد تم اپنے ڈیڈ کے پاس ہو گی۔۔۔ اپنی گرے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے وہ تصور میں ہی اپنی بیٹی سے مخاطب تھا۔۔۔
💥💥💥💥💥
ٹھیک سے نیند آئی تمہیں۔۔۔۔ " کوٹ چئیر پہ رکھتے وہ مسکراتے ہوئے استفسار کرنے لگا تو حرمین ڈل چہرے سے ہلکا سا مسکراتے سر ہاں میں ہلا گئی۔۔۔۔
" ویری گڈ۔۔۔۔۔ تو آج پھر کیا ارادہ ہے ۔۔ چلیں پھر ۔۔۔۔۔۔ "اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ بولا تو حرمین نے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیری ۔۔۔۔۔۔
نہیں وہ میرا دل نہیں چاہ رہا آج۔۔۔۔۔۔ منہ بنائے وہ بےبسی سے بولی ۔۔۔۔ کل رات کو جو کچھ بھی ہوا تھا وہ بھولا نہیں تھی سب۔۔۔۔ جانے کیوں مگر اسے ایسا لگ رہا تھا ۔۔۔ جیسے یہ سب سچ ہو جیسے۔۔۔۔۔۔
کیوں کیا ہو گیا۔۔۔ پہلے تو بڑی ایکسائٹڈ تھی تم۔۔۔۔۔ انزِک نے حیرت سے اسے دیکھ پوچھا تھا۔۔۔۔ جو نظریں چرا رہی تھی۔۔۔
" نہیں بس دل نہیں چاہ رہا آج ۔۔۔۔۔ وہ پھیکا سا ہنسی تو انزِک نے بغور اسے دیکھا۔۔۔۔
اچھا پھر ایسا کرتے ہیں پہلے ماریا سے مل لیتے ہیں پھر اسے بھی ساتھ واپس یہیں لے آئیں گے۔۔۔ کیا خیال ہے۔۔۔ اسکے موڈ چینج کرتے وہ فریش سا بولا ۔۔ تو حرمین نے گہری سانس خارج کرتے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔ ٹھیک ہے چلو پھر چلتے ہیں ۔۔۔۔ انزِک کا خیال کرتے وہ بےدلی سے ہی مگر مسکرائی تھی ۔۔ جسے دیکھ وہ بھی مسکراتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
آسمان پہ چمکتے سنہرے سورج کی روشنی ہر سوں تروتازگی اور فرحت بخش نظارے پیش کر رہی تھی۔۔۔۔۔ درختوں پہ بیٹھے پرندے صبح کے وقت چہچہا رہے تھے۔۔۔۔۔ انکی میٹھی سی دھن ماحول کو پرکشش بنا رہی تھی۔۔۔ دور ایک درخت کے نیچے کھڑی سفید رنگ کی بڑی سے لمبی گاڑی میں ایک سائڈ کا شیشہ ہلکا سا وا ہوا تھا ۔ جہاں سے راستہ بنائے دھوپ اپنے رنگوں سمیت اندر چپکے سے داخل ہو رہی تھی۔۔۔۔
سامنے ہی سٹریچر پہ لیٹے اس تواناں وجود کے چہرے پہ پڑتی سنہری روشنی کی وجہ سے ہلچل ہوئی تھی۔۔۔ ہاتھ اٹھانے میں اسے تکلیف تو ہوئی مگر پھر بھی وہ ہاتھ اٹھاتے آنکھوں پہ رکھا ۔ شہد رنگ آنکھوں میں سرخی چھائی تھی ۔۔۔ تو دماغ جو تھوڑی دیر پہلے مکمل سویا ہوا تھا اب ہلکے ہلکے سے بیدار ہونے لگا ۔
گردن ذرا سی نیچے کیے اسنے خود پہ نظر دوڑائی۔۔۔۔ لب اچانک سے ہلے تھے جہاں سے ادا ہوتا نام باہر سے آتے مٹھو نے بغور سن لیا تھا۔۔۔ بھاؤں شکر ہے تجھے ہوش آ گیا ۔۔ کیسا لگ رہا ہے تجھے اب۔۔۔۔۔ خوشی اور مسرت کے ملے جلے احساس سے وہ بھاگتے اسکے سینے سے جا لگا تھا ۔۔۔۔ مگر اگلے ہی پل اسکے منہ سے نکلتی کراہ کو سنتے وہ معذرت کرتا پیچھے ہوا ۔۔۔۔
آواز پہ وہ ایک جانب ٹیک لگائے سویا ڈاکٹر بیدار ہوا تو اپنے سامنے اسے سہی سلامت پاتے اسنے ہاتھ تشکر میں اٹھائے ۔۔۔
توں کیسے یہاں آیا۔۔۔ اور مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔ اور وہ لڑکی وہ کہاں گئی ۔۔۔ اپنے بائیں کندھے پہ لپٹی سفید پٹی سے رستے خون کو ایک نظر دیکھتے وہ سرد لہجے میں مٹھو سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔ اور سٹریچر سے پاؤں اتارتے وہ بیٹھ گیا۔۔۔
وہ بھاؤں جب وہ لوگ تجھ پہ حملہ کر رہے تھے اسی وقت ہمیں اطلاع مل گئی تھی جبھی ہم نے تجھے بچا لیا اور یہاں لے آئے۔۔۔ تجھے دو گولیاں لگی تھی۔۔ ڈاکٹر تو کہہ رہا تھا کہ تیرا بچنا ممکن نہیں۔۔ مگر میں نے اسے بتایا تھا کہ میرے بھاؤں کو کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔ دیکھ ڈاکٹر نظر آیا دیکھ میرا شیر بالکل ٹھیک ہے۔۔
نم آنکھوں میں محبت کے جذبات لیے وہ ایک طرف بیٹھے ڈاکٹر سے مخاطب ہوا تو بھاؤں نے گردن گھمائے ڈاکٹر کو دیکھا ۔۔ اور سر جھٹکا ۔۔۔۔۔
" ارے بھاؤں شکر ہے اللہ کا آپ کو ہوش آ گیا۔۔۔ کیسا لگ رہا اب ۔۔۔۔۔۔۔۔ !" جبار ہاتھ میں ناشتے کا شاپر تھامے جیس ہی اندر داخل ہوا تو نظر اپنے بھاؤں پہ پڑی ۔۔۔ وہ بھاگتے اسکے پاس پہنچا تھا ۔۔۔ بھاؤں نے آنکھیں میچتے سر جھٹکا۔۔ اور پھر قدرے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔
" توں واپس کب آیا۔۔۔۔۔؟" اسکی بات کو سرے سے نظر انداز کرتے بھاوں نے غراتے لہجے میں اپنے شرٹ ہاتھ میں لیتے پوچھا۔۔۔۔
ارے بھاؤں چوٹ آئی ہے آپ کو ۔۔۔ کیا کر رہے ہیں۔۔۔ ؟" جبار نے لپکتے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا مگر اسکی آنکھوں کی گھوری پہ فورا سے دبکتے ایک جانب ہوا۔۔۔۔۔ اور شکوہ کناں نظر سے اسے دیکھا۔۔
میں نے کچھ پوچھا تھا تم دونوں سے بولو گے کہ میں اپنے طریقے سے بلواوں دونوں کو۔۔۔ ڈاکٹر جو متفکر سا اسکی جانب آیا تھا۔ اسے ہاتھ سے وہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے بھاوں نے دونوں کو ایک نظر دیکھا ۔۔۔۔
" وہ بھاؤں آیا (حیا) باجی کو ہم نے گھر چھوڑ دیا تھا رات کو ہی ۔۔۔۔ وہ بالکل ٹھیک ہیں آپ فکر مت کریں ۔۔۔"
مٹھو نے منہ پھلائے کہا تھا ۔۔۔ جبکہ اپنی گن چیک کرتے بھاوں کا ہاتھ ایک پل کو تھما تھا مطلب وہ اسے اس حال میں چھوڑ کر کتنی آسانی سے چلی گئی تھی۔۔ ایک تلخ مسکراہٹ لبوں پہ نمودار ہوئی تھی مگر وہ جلد ہی اسے چھپا گیا۔۔۔
وہ بب بھاؤں مجھے چھٹیاں ہوئی ہیں کل تو میں نے سوچا کہ کیوں ناں سب سے مل آؤں جبھی میں واپس آیا تو راستے میں مٹھو مل گیا تو پھر یہ مجھے یہاں لے آیا۔۔۔۔۔ مٹھو کے حیرت سے کھلے منہ کو دیکھتے وہ آدھا جھوٹ آدھا سچ بولنے لگا ۔۔۔
بھاؤں نے غصے سے ائبرو اچکائے۔۔۔۔" بیٹا یہ چونا اپنی اماں کو لگانا گھر جا کر اپن تیری باتوں میں آنے والا نہیں۔۔۔۔۔ توں خود آیا ہے ناکہ تجھے یہاں یہ بونا لایا ہے۔۔ مٹھو کو گھورتے وہ ترش تیز لہجے میں بولا تو مٹھو اپنے لیے لفظ بونا سنتے حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔ مگر مقابل کو کہاں اسکی حیرت کی پرواہ تھی۔۔۔۔
آپ لیٹے رہیں پلیز آپ کے زخم ابھی تازہ ہیں۔۔۔۔" ڈاکٹر نے فورا سے لپکتے اسکے سامنے ہوتے پیشہ وارانہ انداز میں کہا جو کہ بھاؤں کو بالکل ناں بھایا تھا۔۔۔۔
اسنے ناگوار نظر مٹھو اور جبار پہ ڈالی اور ڈاکٹر کو ہاتھ کی مدد سے ایک طرف کیا۔۔۔۔
" سخت زہر لگتی ہیں مجھے یہ وقتی ہمدردیاں۔۔۔۔ " اسنے کاٹ دار نظر ڈاکٹر پہ ڈالتے سخت بےتاثر لہجے میں کہا تھا۔۔۔ کہ وہ سنتے گڑبڑا گیا ۔۔۔۔ فورا سے ایک طرف ہوتے اسے راستہ دیا ۔۔۔۔
بب بھاؤں کک کہاں ۔۔۔۔۔۔!" پریشانی سے اسکے پیچھے لپکتے اپنے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اسکی چوڑی پشت کو دیکھتے وہ زور سے بولا تھا۔۔۔ مگر ایک دم سے جب نظریں اسکے بھاری بوٹوں پہ پڑی تو وہ حلق تر کرتے ہوئے ڈر سے کپکپانے لگا۔۔۔۔۔۔
" لاشیں گرانے جا رہا ہوں ۔۔ چلے گا ساتھ۔۔۔۔۔۔" اسنے غصے سے سرخ پڑتی شہد رنگ آنکھوں سے اس ڈھائی فٹ کے بونے کو دیکھتے غراتے تیز لہجے میں کہا تھا جو ڈر سے گھبرا گیا تھا ۔۔۔ فورا سے نفی میں سر ہلاتے وہ پیچھے کو الٹے قدموں سے بھاگنے لگا۔۔۔ مگر افسوس صد افسوس اس سے پہلے کہ وہ اس زخمی شیر کو چھیڑتے بھاگتا۔۔۔مقابل اسکے گریبان سے جھپٹتے اسکے گریبان کو پکڑتے اسے ایک ہاتھ سے زمین سے قدرے اونچا کیے واپسی کو مڑا تھا۔۔۔۔ کالر سے مضبوطی سے دبوچنے پہ مٹھو کا سانس اٹکنے لگا تھا۔۔ جبکہ وہ تو اسے کسی کھلونے کی مانند ہاتھ میں لیتے آگے بڑھ رہا تھا بنا اسکے بلکنے اسکے چیخنے کی پرواہ کیے۔۔۔۔۔۔۔۔
جبار نے پریشانی اور ڈر سے مٹھو کی فضا میں لہراتی ٹانگوں کو دیکھ تھوک نگلا تھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" ہم اتنی جلدی ابھی اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے۔۔۔۔ معذرت مگر ہماری طرف سے انکار ہی سمجھیں۔۔ کیونکہ آپ جلد از جلد شادی کرنا چاہتے ہیں۔ جو کہ ابھی ناممکن ہے ۔۔۔۔۔"
دوٹوک انداز اپنائے حسن نے ایک دم سے بات ختم کی تھی۔۔ علینہ بیگم کے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات ابھرنے لگے تھے جبکہ عائشہ بیگم دل ہی دل میں خوش تھی کہ چلو بلا ٹلی اب انکی بیٹی کے لئے راستہ صاف تھا۔۔۔۔
مگر بھائی صاحب آپ ایسے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔۔ حیا ہماری بیٹی ہے ہم نے اسے بیٹی کہا ہی نہیں بلکہ مانا بھی ہے اور جہاں تک شادی کی بات ہے تو میں صرف اس لئے چاہ رہی تھی کیونکہ اگلے دو سال تک واجد کو شاید ہی کوئی لمبی چھٹی مل سکے۔۔۔۔ اسی وجہ سے میں چاہ رہی تھی کہ اپنی بیٹی کو جلد از جلد اپنے گھر اپنے پاس لے جاؤں ۔۔۔" علینہ بیگم نے سرخ چہرے سے تپے بیٹھے حسن کو دیکھتے کہا تھا۔۔
جبکہ رمشہ اور اشعر تو بس خاموش سے بیٹھے تھے۔۔ کیا کہتے۔۔۔ وہ تو دونوں تو رات سے حیا کی حالت دیکھ ہی بالکل سکتے میں آ گئے تھے۔۔۔۔ اشعر کو آج پھر اپنے بیٹے سے نفرت سی محسوس ہوئی تھی اس کی وجہ سے وہ معصوم لڑکی آج پھر زندگی اور موت میں جونج رہی تھی۔۔۔۔ کاش کہ وہ پیدا ہوتے ہی مر جاتا۔۔۔۔۔بے بسی سے سوچتے اسنے لب مضبوطی سے بھینچ لیے تھے۔۔
جبکہ رمشہ تو لہو ہوتے دل سے یہ سب سن اور دیکھ رہی تھی۔۔۔ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں حیا کےلئے چاہت محبت کے رنگ تو بچپن سے ہی دیکھ چکی تھی اب کیسے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لاڈلے کی چاہت کو کسی اور کا ہونے دیتی ۔۔۔۔
" حسن آپ ایک بار انکی بات سن لیں۔۔۔ یسری نے انگلیاں مڑورتے بے بسی سے کہا تو سلمی بیگم نے تیز نظروں سے بہو کو گھورا انکے گھورنے اور ہنکارہ بھرنے پہ وہ خاموش سی بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔
" دیکھیں بیٹا۔۔۔۔۔ میری پوتی کی طبیعت کچھ دنوں سے بہت ناساز ہے ۔۔ ایسے حالات میں ہم کسی بھی طور اسکی شادی نہیں کر سکتے۔۔۔ ہماری بچی ہمیں بےحد لاڈلی ہے ۔۔۔ کونسا ہمارے دس بچے ہیں۔ایک ہی تو پوتی ہے اور اسے بھی ایسے ہی بیماری میں رخصت کر دیں۔۔۔۔۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ انتظار نہیں فرما سکتے تو ہماری طرف سے انکار سمجھیں۔۔کیونکہ حیا کی حالت کو دیکھ ہم قطعاً اسکے شادی نہیں کرنے والے ۔۔۔۔۔۔۔"
سلمی بیگم نے ایک دم سے کہتے بات ہی ختم کر دی تھی۔۔
علینہ بیگم جو حیا کو دیکھنے اور شادی کی تاریخ لینے کے لئے آئی تھی اب بےبس سی ہوتے رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔
"میں سوچ کر آپ کو جواب دوں گی۔۔۔ "وہ بے بسی سے کہتے عائشہ بیگم کو اشارہ کرتے اٹھی تھی۔۔۔۔
ایک منٹ آنٹی۔۔۔۔۔"حیا کی آواز پہ سب نے سیڑھیوں سے اترتی سوگوار سی حیا کو دیکھا ۔۔۔۔۔
جسکی آنکھیں حددرجہ سرخ اور سوجھ چکی تھی۔۔۔۔
حسن نے آگے بڑھتے اسے تھامنا چاہا تو وہ ہاتھ سے انہیں روکتی علینہ بیگم کے سامنے چلی گئی۔۔۔۔۔
" میں اس شادی کے لئے تیار ہوں۔۔۔۔ مجھے کوئ اعتراض نہیں اس شادی پہ۔۔۔ ویسے بھی کل بھی ہونی ہے شادی تو پھر ابھی کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔"
گہری سانس لیتے اسنے ہونک بنی علینہ بیگم کو دیکھا۔۔۔۔۔
اس ہفتے کو رخصتی رکھ لیں ۔ اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔۔۔ " اپنا فیصلہ سناتے وہ بنا کسی کو دیکھے واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔ جبکہ ہال میں یک دم سے اسکے فیصلے سے ایک گہری خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
میز پہ پڑے گلاسز میں بھرا مشروب کب سے پڑا ٹھنڈا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میز کے اطراف میں رکھی کرسیوں پہ بیٹھے نفوس مکمل خاموش تھے۔۔۔۔۔۔ تیز میوزک کی ہلکی سی آواز بمشکل پہنچ پا رہی تھی ۔۔۔۔ کیونکہ یہ میز کلب میں ایک جانب تھا۔۔۔ جہاں پہ شور قدرے ناممکن تھا۔۔۔۔۔۔
سامنے ڈارک بلیو فل اوور کوٹ میں ملبوس اپنے گولڈن لمبے بالوں کو شانوں پہ بکھیرے بلیو اوشن کلر کی گہری کانچ آنکھوں میں بلا کی کشش تھی ۔۔۔ انچاس سالہ زندگی میں بھی آج تک بالکل حسین دکھتی تھی ۔۔ کہ دیکھنے والا مبہوت ہوتے اسکے حسن میں کھو سا جاتا تھا۔۔۔ کچھ ایسا ہی حال دوسرے میز پہ بیٹھے گارلک کا تھا۔۔ جو بنا پلکیں جھپکائے اسے نشیلی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ کوئی غیبی مخلوق آئی تھی جس نے تمہاری ناک کے نیچے سے ان تیس کی تیس لڑکیوں کو غائب کر دیا۔۔۔۔"
اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی میں اپنے گولڈن سلکی بالوں کی لٹ کو لپیٹتے وہ طنزیہ تیز لہجے میں گویا ہوئی کہ مقابل بیٹھے شخص نے سرخ چہرے سے ایک نظر اسے دیکھا اور سر جھٹک دیا ۔۔۔۔
" کچھ ایسا ہی سمجھ لو ۔۔۔۔۔۔" وہ کندھے اچکاتے گویا ہوا ۔۔۔
" تمہیں کیا لگتا ہے ایچ اے آر۔۔۔۔۔۔ تم لیلی کے دھندے کو چوپٹ کر سکو گے۔تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ ان لڑکیوں پہ اسی پرسنٹ میں نے انویسٹ کیا تھا۔۔۔ مگر پھر بھی تم نے لاپرواہی دکھائی ۔۔۔۔ میز پہ دونوں سفید ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو گھاڑتے وہ دھاڑتے ہوئے بولی کہ ایچ اے آر نے ماتھے پہ بل ڈالے اسکے انداز پہ۔۔ پلک جھپکتے اسکے گارڈز نے لیلی پہ گنز تانی تھی۔۔جو غصے سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔
ایچ اے آر نے ہاتھ سے انہیں پیچھے ہونے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔ تو وہ سر ہلاتے گنز نیچے کرتے پیچھے ہوئے۔۔۔۔۔
ایچ اے آر نے ہاتھ پاکٹ سے نکالے اور غصے سے لیلی کو دیکھ گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔۔
" وہ لڑکیاں میں نہیں جانتا کیسے غائب ہو گئیں ۔۔۔ مجھے یہ جاننے میں کوئی انٹرست نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ فلحال میرا انٹرسٹ کوئی اور ہے ۔۔۔۔ " برے سے منہ بنائے اسنے گلاس میز سے اٹھاتے لبوں سے لگاتے کہا تھا جبکہ لیلی تو اسکے ایسے جواب پہ دنگ سی رہ گئی ۔ یہ وہ ایچ اے آر تو نہیں تھا جسے وہ جانتی تھی ۔ جو اپنے کام کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا۔۔۔۔
اسکا چونکنا ایچ اے آر نے بھی نوٹ کیا تھا تبھی قہہقہ لگاتے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
ڈونٹ وری سویٹی مریض ِ عشق ہو گیا ہوں باقی پاگل مجھے کر دے کوئی اتنی کسی کی اوقات اور ہمت نہیں۔۔۔۔" آنکھ دباتے وہ اسکی نظروں سے جھلکتے سوال پڑھتے بولا تھا کہ لیلی نے نخوت سے سر جھٹکا ۔ بھلا اسکی لؤ سٹوری سے اسکا کیا کام تھا۔۔۔۔۔
اگر تمہاری جگہ میرا ایل ہوتا تو وہ ایسی بے وقوفی ہرگز ناں کرتا ۔۔ بلکہ وہ اس دشمن کے ٹکڑے میرے سامنے پھینک دیتا ۔۔۔ کیونکہ وہ ایل ہے لیلی کا رائٹ ہینڈ میرا سب کچھ۔۔۔۔ اسنے سلگتے لہجے میں کہا تھا کہ ایچ اے آر کی آنکھوں میں چنگاریاں سی ابھرنے لگی ۔ جسے دیکھ وہ زیرِ لب مسکرائی تھی۔۔۔۔
" میں جانتا ہوں ۔۔۔۔۔! لیلی کہ تمہارا سو کالڈ رائٹ ہینڈ وہ ابھی تک اس بات سے انجان ہے کہ اس کی موم اسکی پیٹھ کے پیچھے اسکے منع کرنے کے باوجود لڑکیوں کا دھندا کرتی ہے اور تمہیں کیا لگتا ہے اگر اسے کسی طرح سے خبر مل جائے کہ اس کی موم اسے دھوکہ دے رہی ہے تو کیا وہ تمہارے ساتھ کام کرے گا۔۔۔ بلکہ کام تو دور وہ تمہاری شکل تک دیکھنے گنوارہ ناں کرے۔۔۔۔۔ "
ایچ اے آر نے اسکی نیلی قاتل نگاہوں میں دیکھتے مسکراتے اسے آگ لگائی تھی ۔۔۔ لیلی سنتے ہی غصے سے جبڑے بھینچ گئی ۔۔ یہ سب صرف وہ جانتی تھی کہ ایل کو ایسے کام سے سخت نفرت تھی۔۔ مگر یہ خبر اگر ایچ اے آر کو تھی تو مطلب صاف تھا۔۔ وہ اسکے اور بھی کئی رازوں سے واقف تھا۔۔۔۔۔ جبھی وہ خاموش صبر کا گھونٹ بھرتے رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔
بتاؤ مجھے کیا کرنا ہو گا تمہارے لئے۔۔۔ " وہ غصے سے بھینچے جبڑوں سے بولی۔۔۔
ایچ اے آر قہہقہ لگاتے ہنسا تھا۔۔۔۔
"باربی ڈول۔۔۔۔ وہ چاہیے مجھے۔۔۔۔۔" ذرا سا جھکتے لیلی کی جانب ہوتے وہ پراسرا سے لہجے میں آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے بولا تھا کہ لیلی ٹھٹک گئی اسکی بات پہ۔۔۔۔۔۔"
" نام بتاؤ اس کا۔۔۔۔۔۔۔ " بالوں کو جھٹکتے وہ ایک طرفہ مسکراتے مغرور سے بولی تھی ۔۔۔ نام ہی تو نہیں جانتا۔۔۔۔۔ کرب سے آنکھیں میچتے لبوں پہ شریر مسکراہٹ لیے وہ تصور میں ہی اسے دیکھتے مسکرا اٹھا ۔۔۔ کہ لیلی کو اسے دیکھ کسی پاگل کا گمان ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
" چاہو تو کسی بھی لڑکی پہ ہاتھ رکھو ۔۔۔ تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گی۔۔۔۔۔ " لیلی کے اسکی جانب دیکھتے آنکھ دباتے کہا تھا جبکہ مقابل بیٹھا ایچ اے آر آنکھوں میں الایہ کا عکس سمائے سر جھٹک گیا ۔۔۔۔۔
" وہ نہیں تو کوئی نہیں۔۔۔۔ اب اس دل و دماغ میں ناں تو کوئی نشا چڑھ سکتا ہے ناں ہی کوئی حسینہ ۔۔۔۔۔۔ اب وہی چاہیے پورے حق کے ساتھ۔۔۔۔ جسکی پہلی ملاقات سے ہی ایچ اے آر گھائل ہو گیا۔۔۔ اگر وہ مکمل مل جائے تو پھر قہر برپا ہو جائے گا۔۔۔۔۔ اسنے نشیلی آنکھوں میں چمک لیے کہا تھا۔۔ جبکہ لیلی اسکے یوں بات بدلنے پہ خاموش سی رہ گئی۔۔۔۔
اوکے ڈن تم میرے لئے اس شخص کو ڈھونڈو جس نے ان لڑکیوں کو بچایا ہے اور میں میں تمہارے لئے اس لڑکی کو ڈھونڈوں گی ۔۔۔ پھر چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوئی۔۔۔۔۔۔
" تو پھر سمجھو وہ شخص دو دن میں تمہارے قدموں میں ہوگا۔۔۔۔ مگر مجھے میری باربی ڈول اسی دن چاہیے۔۔۔۔۔ یہ دو دن اسکے بعد تم صرف میری ہو گی۔۔۔ میرے پاس صرف میری ۔۔۔ لیلی کے جاتے ہی وہ آنکھوں میں اسکا عکس سمائے شدت سے اسے یاد کرتا بڑبڑایا تھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" السلام علیکم مما۔۔۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔۔۔۔۔ " روم میں داخل ہوتے وہ ہشاش بشاش سا مسکراتے انہیں پیچھے سے حصار میں لیتے محبت سے ہونٹ انکے سر پہ رکھتے بولا تو جیسے وہ خیالوں سے نکلی تھی ۔۔
بری طرح سے چونکتے اسنے اذلان کو دیکھا جو محبت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
تڑپتے وہ اسکے سینے سے جا لگی ۔۔۔ کب سے روکے آنسو ایک دم سے چہرہ بھگونے لگے تھے۔۔۔۔ اذلان نے نرمی سے انہیں ساتھ لگائے انکی گود میں رکھے انویلپ کو اٹھانا چاہا تھا ۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے ہی رمشہ تھام چکی تھی اسے ۔۔۔
"اسے تو بند کر دو گے ، چھپا بھی دو گے مگر میرے دل میں چھپے امن کو کیسے نکالو پاؤ گے تم۔۔۔۔۔ " نمی سموئے ممتا سے چور لہجے میں کہتے وہ اسکی تصویر کو اپنی انگلیوں کے پوروں پہ محسوس کرنے لگی۔۔
"مما میں کیوں نکالوں گا اسے آپ کے دل سے۔۔۔ وہ تو میرے دل میں آج بھی آباد ہے ۔۔ میری دھڑکن بن کر۔۔ تو کیا میں اپنی دھڑکن کے بنا جی سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ "
محبت سے رمشہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرتے وہ آج اتنے سالوں بعد امن کا ذکر اتنی محبت سے یا پھر شاید پہلی بار کر رہا تھا۔۔۔ رمشہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا تو اذلان نے سر ہاں میں ہلایا۔۔ اور بس یہی تک تھی رمشہ اشعر علوی کا حوصلہ ۔۔۔ وہ ایک دم سے اپنے جوان بیٹے کے گلے لگتے دھاڑیں مار کے بری طرح سے روتے اسکا کلیجہ چیرنے لگی ۔۔۔۔ مگر اسنے آج اپنی جنت کو روکا نہیں تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا۔۔۔ برسوں کا غم تھا۔۔۔ جو وہ آج اپنے ایک بیٹے سے بانٹ رہی تھیں۔۔۔۔۔
"اذلان اسے لا دو مجھے ۔۔۔۔ مم میں جانتی ہوں ۔۔۔ وو وہ گناہ گار نہیں ہو سکتا۔۔میرا دم کہتا ہے وہ تو معصوم تھا اذلان ۔۔۔۔ وہ بھلا کیسے کچھ گرا ہوا کام کر سکتا ہے۔۔۔ دیکھو اسکی آنکھوں میں کتنی محبت ، کتنی عزت سے حیا کے لیے ۔۔۔ وہ آنسوں صاف کرتی اسے تصویر دکھانے لگی۔۔۔۔
اذلان نے دھندلی نظر سے اس تصویر کو دیکھا تھا۔۔۔ جہاں اسکا جگر اسکی دھڑکن ایک ہاتھ سے حیا کی ناک کھنچتے کھڑا تھا۔۔ جبکہ حیا کے چہرے پہ رونے کے سے تاثرات تھے تو وہیں پہ امن کے چہرے پہ خوشی ،شرارت کے۔۔۔۔۔ "
مما میں جانتا ہوں ۔۔۔ وہ ایسا نہیں ہے ۔۔۔ وہ کبھی بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔ اور حیا کو تو بالکل بھی نہیں۔۔وہ اپنی ماں کو پرسکون کرنے کو انکی بات کی تصحیح کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔۔ رمشہ نے نم نظروں سے اپنے اذلان کو دیکھا ۔۔
" تم جانتے ہو اذلان حیا کی شادی کر رہے ہیں بھائی۔۔۔۔ ایک ہفتے بعد اسکا نکاح ہو جائے گا ۔۔ وہ کسی اور کی ہو جائے گی۔۔۔ میرا امن۔۔۔۔ اگر اسے معلوم ہوا وہ تو ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔ میں ماں ہوں اسکی میں جانتی ہوں کتنی محبت کرتا ہے وہ ۔۔۔۔۔ مگر ناراض ہے اپنی ماں سے بھی۔۔۔ باپ نے گھر سے کیا نکالا مجھے بھی بھول گیا ۔۔۔ میں کبھی اس سے بات نہیں کروں گی۔ تم دیکھ لینا۔۔۔ آنے دو اسے واپس۔۔۔۔۔۔ " اسکے سینے سے سر ٹکائے وہ اپنا غبار اپنی ممتا کی تڑپ اسے بتا رہی تھی۔۔۔ جو بخوبی ایک ایک چیز سے آگاہ تھا۔۔
" اذلان کچھ کرو۔۔۔ حیا میری بہو ہے میرے امن کی امانت۔۔۔ مجھے وہ چاہیے اپنے امن کے ساتھ ۔۔۔۔۔ "
ایک دم سے پیچھے ہوتے وہ اذلان کو دیکھتے فیصلہ کن لہجے میں بولی تھی۔اذلان نے پل بھر کو انکی آنکھوں میں دیکھا۔۔ جہاں اپنی اولاد سے محبت کا سمندر آباد تھا۔۔۔۔
" مما آپ کو کیا لگتا ہے من(امن) کے ہوتے اسکی چوزی (حیا) کو کوئی دوسرا لے جا سکتا ہے ۔۔۔ اپنی مما کو دیکھتے وہ ہنستے ہوئے سوال گو ہوا تو رمشہ نے چونکتے اپنے اذلان کو دیکھا ۔۔
کتنے سالوں بعد اسکا نام لیا گیا تھا۔۔۔ اس گھر کی چار دیواروں میں۔۔۔۔۔ وہ خوشی سے مسکراتے اپنے آنسوں صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔ کتنا دل اداس تھا اسکا ۔۔ مگر اذلان کے سہارے اسکی باتوں نے اسے مطمئن کر دیا تھا۔۔۔
" اذلان۔۔۔۔ " محبت سے اسکے گہرے کالے بالوں کو ماتھے پہ بکھیرتے وہ سکون محبت سے بولی تو ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اذلان کے ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی۔۔۔۔
" اگر وہ ملے تو اسے کہنا کہ ماں یاد کرتی ہے اپنے من کو ۔۔۔۔ مجھ سے ناراض مت ہوا کرے ۔۔۔ یا تو واپس آ جائے نہیں تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائے۔۔۔۔۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی اسکے آنسوں بہہ نکلے تھے۔۔۔ اذلان نے آنکھیں میچتے اپنی ماں کے ضبط پہ گہری سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔۔ ۔
مما آپ نے کھانا نہیں کھایا۔۔ آئیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔ " بات بدلتے وہ رمشہ کو گھورتے اپنے ساتھ کھڑا کرنے لگا۔۔۔ جبکہ رمشہ اسکی خاموشی پہ کرب سے آنکھیں میچتے اٹھی تھی۔۔۔۔۔ اپنے دوسرے بیٹے کے غم میں وہ اپنے ایک بیٹے کی محبت کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
پورے راستے اسنے ایک نظر تک نہیں دیکھا تھا۔۔ اسے۔۔۔۔ اپنے دل پہ جبر کیے وہ ظالم بنا رہا تھا۔۔۔ مگر کب تک اپنے اس باغی دل کو روکتا۔۔۔۔۔
جبھی اسنے ایک نظر اپنے کندھے پہ سر رکھے سوئے اس نازک وجود پہ ڈالی اور گاڑی ایک جانب درخت کے نیچے کھڑی کی۔۔۔۔۔ بٹن دباتے اسنے ساتھ والی سیٹ کو پیچھے کی جانب کیا اور احتیاط سے عیناں کا سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے وہ بغور اسکے چہرے پہ مٹے مٹے آنسوں کے نشانات کو دیکھ لب بھینچ گیا۔۔۔
ایک نظر ویران تاریک رات میں سنسان سی سڑک پہ دوڑائی تھی ۔۔۔۔۔ اور پھر عیناں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ اسکے کسمسانے پہ وہ گہری سانس لیتے گاڑی اسٹارٹ کر گیا۔۔۔گیٹ پہ ہارن دیا تو چوکیدار نے گیٹ کھولا۔۔ گاڑی کھڑی کرتے وہ اترا تھا۔۔۔۔
عیناں کی سائڈ کا ڈور اوپن کرتے اسنے نرمی سے اسے گود میں بھرا۔۔۔۔ اور قدم اندر کی جانب بڑھائے۔۔۔۔۔
ویام تم دونوں۔۔۔۔۔۔ دو مجھے میں لے چلتا ہوں پرنسز کو۔۔۔۔۔۔ رافع جو پریشان سا الایہ کے رویے کی وجہ سے ابھی تک جاگ رہا تھا ۔۔۔ اچانک سے اندر داخل ہوتے ویام اور اسکی گود میں موجود اپنی پری کو دیکھ وہ ہاتھ آگے کرتے بولا۔۔۔۔۔
ویام نے ایک نظر رافع کو دیکھا اور پھر ناگواری سے اسکی پھیلی بانہیں دیکھی۔۔۔۔۔
" میں لے جا سکتا ہوں انکل۔۔۔۔ " اسنے جتاتے انداز میں استحقانہ لہجے میں کہا تھا کہ اسکے چہرے پہ شرم کے تاثرات ڈھونڈنے میں ناکام ہوتے رافع نے سر نفی میں جھٹک دیا۔۔۔بھلا وریام کی اولاد کو شرم بھی آ سکتی ہے ۔۔اسنے خود سے ہی سوال کیا جواب وہ جانتا تھا۔۔۔جبھی راستہ چھوڑتے ایک جانب ہوا۔۔۔۔
فدک نماز پڑھ رہی تھی۔۔ جبھی اسنے ملازمہ کو کھانا لگانے کا کہا اور خود صوفے پہ چلا گیا۔۔ دل کیا کہ ایک نظر عیناں کو جی بھر کے دیکھ آئے دو دن سے وہ نظروں سے دور تھی ۔ مگر پھر ویام کی پوزیسونیس یاد آتے ہی وہ منہ بناتے صوفے پہ ٹک گیا۔ وہ الایہ کے لئے سخت پریشان تھا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا ۔۔ اسے منانا کتنا مشکل تھا۔۔۔۔
پاؤں سے ڈور اوپن کرتے اسنے ویسے ہی اسے پاؤں سے لاک کیا اور چلتا بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ نرمی سے اسے بیڈ پہ لٹائے وہ خود ایسے ہی ایک گٹھنہ بیڈ پہ فولڈ کیے رکھتے اسے بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
" جانتی ہو تمہارے اس رویے نے جہاں مجھے ہرٹ کیا وہیں مجھے اس بات کا احساس بھی کروا دیا کہ تمہارے اس چھوٹے سے دل میں بھی اپنے ویام کے لئے محبت ہے۔۔۔۔ صرف دوستی نہیں۔۔۔ اسے عیناں کا ویڈیو دیکھنے کے بعد یوں رونا یاد آیا تو دل کو سکون بھی ہوا تھا ۔۔ یعنی وہ بھی اس پہ اپنا حق سمجھتی تھی۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنے ہونٹوں سے اس محبت کا اقرار کرو ۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔۔۔ " اسکی انگلیوں کے پوروں کو شدت سے اپنے ہونٹوں سے چھوتے وہ سرخ نظروں سے اسکی بند پلکوں کو دیکھتے گویا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
اسکے پاس بیٹھتے ہی اسنے نرمی سے اسکا سر اپنے ایک ہاتھ پہ رکھا تھا اور بالکل نرمی سے اسکا خجاب کھولا ۔۔۔۔۔۔ عیناں نے کسمساتے آنکھوں کھولنی چاہی مگر پھر کروٹ بدلتے وہ سو گئی ۔۔۔ اسے سوتا پاتے وہ گہرا سانس اسکے خجاب میں سے آتی اسکی خوشبو میں کھینچتے مسکراتے اسےایک جانب رکھتے اسکی جانب متوجہ ہوا ۔۔ جو گہری نیند میں تھی۔۔۔۔
بہت جلد تمہیں خود تک محدود کر لوں میں عین۔۔۔۔۔ یہ دوریاں خود میں سمیٹ لوں گا ۔۔۔ اپنے طریقے سے۔۔۔۔۔۔ اسکی پشت کو دیکھتے وہ بڑبڑایا اور جھکتے اسکی گردن کو محبت سے چھوتے وہ اٹھا تھا۔۔۔ دروازہ کے پاس جاتے اسنے ایک نظر اس سوئے وجود پہ ڈالی اور باہر نکل آیا۔۔۔۔۔۔۔۔
آؤ کھانا لگا دیا ہے میڈ نے کھانا کھا کر جانا۔۔۔۔۔۔ اسے سیڑھیوں سے اترتا دیکھ رافع نے کھڑے ہوتے محبت سے کہا ۔۔۔۔۔ تو جینز کی پاکٹ میں ہاتھ پھنساتے ویام نے ماتھے پہ بل ڈالے ۔۔۔کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ سر ہاں میں ہلاتا انکے پیچھے ہی ڈائننگ ہال میں گیا۔۔۔۔۔
فدک مما کہاں ہیں نظر نہیں آئی۔۔۔۔۔۔" کرسی گھیسٹتے اسنے ایک نظر آگے پیچھے دیکھتے پوچھا تو رافع مسکرایا۔۔۔ نماز پڑھ رہی تھی آتی ہو گی تم کھانا شروع کرو۔۔۔۔۔ اسے آگاہ کرتے رافع نے پلیٹس نکالی ۔۔۔
تھینکس انکل مگر میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔۔۔ آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔"
سالن نکالتا رافع کا ہاتھ اسکی بات پہ تھما۔۔۔۔اسنے بغور ایک نظر اپنے وریام کی پرچھائی کو دیکھا۔۔۔ بلیک چیک شرٹ جسکے اوپری دو بٹن کھلے تھے ۔۔۔کے اوپر بلیو کوٹ پہنے ۔۔۔۔۔۔ بھوری سرخ آنکھوں میں سنجیدگی سموئے اسی کے جیسے بھورے بال پیشانی پہ بکھیرے وہ بلاشبہ اپنے باپ جیسا مگر الگ سا تھا ۔۔۔۔ وریام کی آنکھوں میں شرارت کی چمک ہوتی تھی جبکہ ویام کی آنکھوں میں سنجیدگی کا گہرہ سمندر ۔۔۔۔ وریام لوگوں کو اپنے اردگرد راغب کرتا تھا جبکہ ویام کی سوبر سنجیدہ سی طبیعت کی وجہ سے شروع سے ہی دنیا اسکے پیچھے گھومتی تھی۔۔۔ وہ دکھنے میں مغروری سا لگتا تھا ۔ کم گو اپنے آپ میں رہنے والا مگر بظاہر خاموش دکھنے والا اندر سے اتنا ہی گہرا تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے باپ کی جوانی کے کارناموں سے انسپائر ہو کر اسنے بچپن سے ہی وریام کو بتا دیا تھا کہ وہ وریام کا عکس تو ہے مگر وہ ہر کسی میں اپنی الگ پہچان بنائے گا۔۔۔۔۔۔ جو کہ اسنے ثابت بھی کیا تھا۔۔۔ دنیا اسے وریام کاظمی کا بیٹا سوچ اسکے طرف آتی تھی جبکہ وہ نظریں جھکائے خود کو ویام کاظمی بتاتے وہاں سے غائب ہو جاتا۔۔۔ اسکے لیے شناخت وہ نہیں تھی جو اسکے باپ نے اسے دی تھی۔۔۔ بلکہ اسکے لئے شناخت وہ چیز تھی۔۔۔۔ جو اسے خود اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو کر اپنے لئے بنانی تھی۔۔۔ جس میں وہ کامیاب بھی ٹہرا تھا۔۔۔۔
"کہو میں سن رہا ہوں۔۔۔ اسکی بھوری آنکھوں کو پڑھنے کی ناکام سی کوشش ترک کرتے رافع نے اسے دیکھتے ہاتھ آپس میں پیوست کرتے کہا۔۔۔۔۔"
" الایہ کے لئے پریشان مت ہوں وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔ اسے کسی اور نے نہیں بلکہ اذلان نے خود اس نکاح کے بارے میں بتایا ہے۔۔۔۔۔" ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے وہ آرام دہ انداز میں گویا ہوا تھا جبکہ رافع نے حیرت اور بے یقنی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
اتنا حیران مت ہوں ۔۔ ہر چیز کی خبر رکھتا ہوں میں۔۔۔۔۔ مسکراتے اسکی معلومات میں اضافہ کرتے وہ کوٹ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے چئیر کی پشت سے ٹیک لگا گیا ۔۔۔
"فدک مما سے کہیے گا کہ آج رات الایہ کے پاس رک جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عین کی طبیعت تھوڑی سی خراب ہے تو آپ آج رات اسکا خیال رکھئے گا۔۔ وہ ایسے اسے بتا رہا تھا جیسے اسے حکم سنانے والا کوئی بڑا ہو۔۔۔ رافع تو اسکے انداز پہ کلس کے پہلوں بدل گیا۔۔۔۔
" میں الایہ کو دیکھ لوں گا۔۔ فدک عیناں کا خیال اچھے سے رکھ لے گی۔۔۔۔ اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ ویام کھانا کھانے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے احکامات سنانے کی غرض سے ابھی تک ٹکا ہوا تھا۔۔ مگر الایہ کا رویہ وہ جانتا تھا جبھی وہ فدک کو اسکے پاس کبھی نہیں بھیج سکتا تھا۔۔۔
" آپ نہیں مما کو بھیجیں الایہ کے پاس۔۔۔۔ اس وقت اسے آپ کی نہیں بلکہ مما کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ اوپر سے روڈ دکھتی اور بنتی ہے مگر حقیقت میں وہ ایسی نہیں۔۔ وہ انتظار کر رہی ہو گی کہ فدک مما اسکے پاس جائیں ۔۔۔ جیسا کہہ رہا ہوں ویسا ہی کرئیے گا۔۔۔۔
بات مکمل کرتے ہی اسنے ایک نظر غیر مرئی نقطے کو گھورتے رافع کو دیکھا جو قدرے پریشان تھے۔۔۔۔۔
"عیناں کو کیا ہوا۔۔۔ بخار کیسے ہوا اسے۔۔۔۔۔۔۔" متفکر سا ہوتے اسنے ویام کو دیکھتے پوچھا جو گہری سانس بھرتے رہ گیا ۔۔۔۔
بس برفبانی علاقے کی وجہ سے تھوڑا فیور ہو رہا ہے باقی وہ ٹھیک یے۔۔۔۔
نارمل سے انداز اپناتے اسنے سرسری سا بتایا تو وہ سر ہلاتے رہ گیا۔۔۔۔
"مجھے آپ سے کچھ اور بھی کہنا تھا ۔۔۔۔۔ "رافع کے پرسوچ انداز کو دیکھتے وہ پھر سے اس سے گویا ہوا تھا۔۔۔ کہ رافع نے بغور آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔
"کچھ کہنے کو رہ گیا ہے کیا۔۔! "ایبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
”میں چاہتا ہوں کہ جلد از جلد عین کو رخصت کر کے اپنے گھر لے جاؤں ۔۔۔ تو آپ اپنا ارادہ بنا لیں کیونکہ اگلے ہفتے تک مجھے رخصتی چاہئے۔۔۔ بنا اسکے حیرت کی پرواہ کیے وہ لاپرواہی سے اپنا فیصلہ سناتے اسے پل بھر میں غصہ دلا گیا ۔۔۔۔
جبھی رافع نے بمشکل ضبط کیے اسے دیکھا تھا۔
اگر میں انکار کر دوں تو۔۔۔ گہری نظروں سے ویام کی جانب دیکھتے وہ تھوڑی کو انگلی سے مسلتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔۔
”اگر آپ انکار کر دیں گے تو پھر ۔۔۔۔ پھر میں اسے زبردستی اٹھا کر آپکی آنکھوں کے سامنے لے جاؤں گا ۔۔ کیونکہ اس پہ صرف میرا حق ہے۔۔ ویام کاظمی کا۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو سوچنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دے رہا ہوں ۔ امید ہے کوئی اچھا فیصلہ لیں گے آپ۔۔۔۔ ایک دم سے کھڑے ہوتے رافع کے کندھے کو تھپکتے وہ متبسم سا وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔
تم ٹھیک ہو۔۔۔۔!..."
گرے پنٹ کورٹ میں ملبوس شفاف پیشانی پہ بل ڈالے ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وہ اپنے سامنے بجھے سے چہرے کے ساتھ کھڑی حرمین کو دیکھ تجسس سے پوچھا۔۔۔۔۔
حرمین نے گہری سانس لیتے سر ہاں میں ہلایا اور نظریں سامنے بند دروازے کی جانب مرکوز کیں۔۔
انزِک نے دوبارہ سے ڈور ناک کرنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی دروازہ کھلا تھا ۔ سامنے ہی یلو چیک شرٹ میں ملبوس ساتھ بلیو جینز پہنے بالوں کی پونی ٹیل بنائے چھوٹا سا یلو رنگ کا مفلر سا گلے میں لپٹائے وہ چہرے پہ حیرانگی سموئے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ حرمین اور انزِک نے بغور اسکا جائزہ لیا۔۔۔۔
" کون۔۔۔۔۔!" خود کو دیکھتے ان دونوں کو دیکھ وہ قدرے حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
ہائے میں انزِک کیا آپ ماریا ہیں۔۔۔؟" اسے دیکھتے انزِک نے سوالیہ سا پوچھا تو ماریا نے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔ آپ آئیے ویلکم۔۔۔۔۔۔ میں آپکا ہی ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔ ایک جانب ہوتے وہ دونوں کو راستہ دیتے مسکراتے ہوئے بولی انزِک ٹھٹکا۔۔۔ اسنے رکتے گہری نظر سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
بھائی نے بتایا تھا کہ آپ آنے والے ہیں سو۔۔۔۔۔ اسی لیے میں ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔ انزِک کے یوں دیکھنے پہ وہ سنبھلتے مسکراہٹ پاس کرتے بولی تو انزِک نے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔۔
دراصل ہم این جی او جا رہے تھے تو سوچا کہ کیوں نہ آپ کو بھی ساتھ لیتے چلیں ۔۔۔۔ انزِک نے حرمین کو دیکھتے بات کا آغاز کیا۔۔۔ سامنے ہی دوسرے صوفے پہ بیٹھی ماریہ کی نظریں حرمین پہ ہی اٹکی تھی ۔۔۔
میں تو تعارف کروانا بھول گیا حرمین یہ ماریہ ہے اور ماریہ یہ میری کزن میری بیسٹ فرینڈ حرمین۔۔۔۔۔۔ مسکراتی نظروں کے حصار میں حرمین کو سموئے وہ حرمین پہ زور دیتے بولا تھا۔۔۔۔ ماریہ نے بغور اسکی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں حرمین کے لئے چھپے احساسات پڑھتے وہ گردن پہ ہاتھ پھیرتے سوچ میں ڈوبی۔۔۔۔۔
"کیسی ہو حور۔۔۔۔ ”ماریہ نے محبت سے اسے نک نام سے بلاتے پوچھا تو اسکے دوستانہ انداز پہ حرمین کو اچھا لگا تھا جبھی ذرا سا مسکراتے وہ سر ہاں میں ہلا گئی ۔۔۔۔
ماریہ نے مبہوت نظروں سے اسکے گالوں کی ابھرتے ڈمپل کو دیکھا۔ بلاشبہ وہ حسین تھی۔۔۔۔ ایل کا خیال آتے ہی اسنے لب بری طرح سے کچلے تھے۔۔۔۔۔
تو کیا ہم چلیں ۔۔۔۔۔۔" انزِک نے گھڑی پہ وقت دیکھتے پوچھا۔۔۔ان دونوں کو چھوڑتے اسنے میٹنگ پہ بھی پہنچنا تھا ۔۔
ویٹ میں آئی۔۔۔۔۔ "ماریہ نے اٹھتے کہا اور فورا سے ہاتھ میں پرس تھامے وہ حرمین کے پاس پہنچی۔۔۔ اسے جلد از جلد حرمین سے دوستی بنانی تھی۔۔ جبھی وہ اپنی عادت سے زیادہ گھل مل رہی تھی۔۔۔۔۔
"چلو حور۔۔۔ "حرمین کی سوالیہ نظروں پہ ماریہ نے مسکراہٹ پاس کرتے کہا تو حرمین بھی سر ہلاتے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ وہ ایک ساتھ باہر آئے تھے۔۔۔ انزِک دو قدم آگے چل رہا تھا۔۔۔۔ اور ماریہ حرمین کے ساتھ چلتی مسلسل مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
"حور کیا میرا حور کہنا تمہیں برا تو نہیں لگا۔۔۔۔۔۔" حرمین کی مسلسل خاموشی پہ گاڑی میں بیٹھتے ہی ماریہ نے محبت سے پوچھا تو حرمین کو اپنے رویے پہ شرمندگی سی ہوئی تھی جبھی سر کو نفی میں ہلایا اور ہلکا سا مسکرائی۔۔۔ تو ماریہ نے جھٹ سے اسے ساتھ لگاتے محبت کا اظہار کیا تھا ۔۔۔۔
" تھینکیو یار کہ تم مسکرائی تو ورنہ میں تو سمجھی تھی کہ واقعی میں میری کمپنی تمہیں بری لگی ہے جبھی تم اتنی خاموش سی ہو ۔۔۔۔ " اس سے الگ ہوتے ماریہ نے نارمل سے انداز میں کہا
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں مجھے آپ کی کمپنی بری نہیں لگی ۔۔۔۔۔۔ " یہ پہلے الفاظ تھے جو ماریہ کے لیے اسکے منہ سے ادا ہوئے تھے۔۔۔ ماریہ اسکی خوبصورت آواز پہ کتنی دیر دم بخود اسکے حسین چہرے کو دیکھتی رہی تھی ۔۔
بلاشبہ اسنے بہت سی خوبصورت دنیا دیکھی تھی ۔۔ ایسی خوبصورتی جو آنکھوں کو خیرا کر دے۔۔ ۔۔ مگر اس لڑکی کی معصومیت اسکے چہرے پہ الگ سا نور تھا۔۔۔ جبھی تو وہ مبہوت سی تھی۔۔۔۔ آخر اتنی پیاری لڑکی سے ایل کی کیا دشمنی ہو سکتی تھی بھلا ۔۔۔ دل سے کہیں اندر سے آواز آئی تھی۔۔۔ مگر پھر خود ہی سر جھٹکا ۔۔۔ اور مسکراتے حرمین کی جانب دیکھا ۔۔۔۔۔
تم دونوں بچوں سے مل لو ۔۔۔۔۔" اور ماریہ حرمین کا نام درج ہو چکا ہے۔۔۔ تو اگر تم بھی کرونا چاہو تو کروا سکتی ہو۔۔۔۔۔
این جی او کی بڑی سی بلڈنگ کے سامنے گاڑی روکتے انزِک نے بیک مرر سے دونوں کو دیکھتے کہا تو ماریہ نے سر ہاں میں ہلایا ۔ یہی تو وہ چاہتی تھی۔۔۔ جبھی حرمین کو اشارہ کرتے وہ دوسرے دروازے سے باہر نکلی۔۔۔
"حور میں جلد آؤں گا اگر کوئی مسلئہ ہو تو مجھے کال کر لینا۔۔۔۔"
اندر جاتی حرمین کے ہاتھ کو تھامتے وہ بے اختیار بولا تھا ۔۔ حرمین نے مسکراتے اسکی جانب دیکھتے سر ہاں میں ہلاتے اسے پرسکون کیا تھا۔۔
"
دھیان رکھنا اپنا اوکے۔۔۔" آنکھوں میں فکر کا جہاں سموئے وہ بے چین سے لہجے میں بولا تھا ۔۔۔۔ حرمین اسکے متفکر انداز پہ ہلکا سا مسکرائی تو انزِک کو سکون ہوا ۔ جبھی اسے خدا خافظ کہتے وہ دوبارہ گاڑی کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
حور تم ایسا کرو کہ گارڈن میں چلی جاؤ اور بچوں سے مل لو۔۔ تب تک میں ذرا اپنی رجسٹریشن کروا دوں۔۔ آخر کچھ دن کیلئے ہی سہی مگر اب ہم اس این جی او کا حصہ تو ہیں ۔۔۔ ماریہ نے آگے پیچھے دیکھتے محتاط سے انداز میں کہا ۔۔۔
" ٹھیک ہے تم جاؤ میں بچوں کے پاس جاتی ہوں۔۔۔۔ "
اسے جواب دیتے وہ سر ہلاتی اپنا مطلوبہ سامان اٹھانے لگی مگر ایک نظر اپنے سامان پہ ڈالی تو سر جھٹک گئی۔۔ جانے کہا سے کوئی چوکیدار برآمد ہوا تھا۔۔ جسنے مسکراتے اسے انگلش میں کہا تھا کہ میں اٹھا دیتا ہوں۔۔ وہ بھی مخض سر ہلاتی اسکے آگے ہوئی۔۔۔
پارک میں داخل ہوتے ہی حرمین نے اطراف میں نظریں گھمائی ۔ یہ ایک چھوٹا سا پارک تھا۔ جسے شاید این جی او والوں نے خود ہی تعمیر کیا تھا۔ بچوں کیلیے ۔۔۔ حرمین کے بے چین چہرے پہ ایک دم سے تاثرات ڈھیلے سے پڑے تھے۔۔۔۔ بھنچے لب ایک دم سے مسکراہٹ میں ڈھلے وہ ایک دم سے رکتی ان بچوں کو دیکھنے لگی۔۔۔ جو گول دائرے میں بیٹھے کچھ کھیل رہے تھے۔۔۔
وہ مسکراتی اس کھلی فضا میں سانس لیتے مڑی۔۔۔ ایک نظر ہاتھ میں باکسز تھامے کھڑے گارڈ کو دیکھا۔۔۔ آپ یہ رکھ دیں میں اٹھا لوں گی ۔۔ ہلکا سا مسکراتے اسنے گارڈ کو کہا تو وہ بھی سامان رکھتے چلا گیا ۔۔ اب وہ رخ بچوں کی جانب کیے مسکراتے انکے پاس گئی۔۔۔۔ بچے جو کھیل میں مصروف تھے ۔ سب نے ہی اچانک کسی لڑکی کو اپنے پاس کھڑا دیکھا ۔۔ ایک پل کے لئے کھیل روکتے وہ بغور اسے دیکھنے لگے۔۔ آنکھوں میں خوف کے تاثرات نمایاں تھے۔۔۔
کیا میں کھیل سکتی ہوں۔۔۔۔ " دوستانہ انداز اپناتے اسنے مسکراہٹ سے پوچھا۔۔۔ تو سب بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔ زیادہ تر بچے نو دس سال تک کے تھے۔۔ اور ایک بچی بیٹھی تھی شاید جو تین چار سال کی تھی۔۔۔۔ وہ بار بار اپنے چہرے ہی آتے بےبی کٹ بالوں کو جھنجھلاہٹ سے پیچھے کررہی تھی۔۔ حرمین کو اسے دیکھ اپنا بچپن یاد آیا ۔۔ وہ لب دبائے سب کو دیکھنے لگی۔ ۔۔ اب سب کی نظریں وہاں بیٹھے ایک بچے پہ تھی ۔۔ جو بالکل سرد سپاٹ چہرے سے بیٹھا تھا۔۔
آپ کھیل سکتی ہو مگر تھوڑی دیر کیلئے ۔۔۔ اس بچے نے حرمین کو دیکھتے ساتھ میں حکم بھی جاری کیا۔۔ جہاں سارے بچے ایک اور فرد کی شراکت سے خوش ہوئے تھے وہیں حرمین بھی سر ہلاتی اس چھوٹی سی بچی کی جانب بڑھی۔۔ سبھی اسے دیکھ رہے تھے ۔۔ حرمین نے نیچے ہوتے اس بچی کو گود میں اٹھایا اور خود اسکی جگہ بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ بچی پہلے سہمی سی نظروں سے اسے دیکھتی رہی مگر پھر حرمین کے مسکرانے پہ وہ بھی کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔
مجھے تو اس گیم کے رولز ہی نہیں پتا۔۔۔۔۔ برا سا منہ بناتے اسنے کندھے اچکاتے کہا تو ایک بچی نے اسے رولز سمجھائے۔۔۔۔ کہ جس کے ہاتھ پہ سنڈے آئے گا اسے سزا دی جائے گی اور بدلے میں اسے وہ سزا پوری کرنا ہو گی۔۔۔۔ حرمین نے سنتے ہونٹ او۔۔۔ شیپ میں ٹرن کیے۔۔۔
"سر لیلی میڈم نے پیغام بھیجا ہے۔۔۔۔۔"
دور گاڑی کی بونٹ پہ بیٹھے ایل کو دیکھ ڈینی نے ہلکی آواز میں اسے آگاہ کیا۔ ۔۔ ۔۔ جبکہ مقابل اپنی نیلی آنکھوں میں سرد تاثرات سجائے سامنے دیکھنے میں مگن تھا۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ لگاتار اندر دیکھ رہا تھا ۔ ۔۔۔۔ ڈینی کے لئے اسکو سمجھنا ہمیشہ سے ہی ناممکن رہا تھا۔۔۔۔ اور اب بھی وہ تججس میں تھا کہ آخر ایل کیونکر اپنا اتنا قیمتی وقت اس لڑکی پہ ضائع کر رہا تھا ۔ اگر وہ چاہے تو پل بھر میں اس سے بدلہ لینے کے کوئی سو بہانے اور طریقے نکال سکتا تھا۔۔ مگر وہ کیونکر اپنا وقت ضائع کر رہا تھا ۔ یہاں آتے ہی اس کی سوچ کو کوئسچن مارک لگ جاتا تھا۔۔۔۔
" میں دیکھ لوں گا ۔۔۔۔" سرسری سا جواب دیا لہجہ ابھی بھی اکھڑ تھا۔۔ جیسے کتنی مشکل درپیش ہوئی ہو بولنے میں۔۔۔۔۔
" سر میم نے کہا تھا کہ ضروری میسج ہے پہلے آپ۔۔۔۔۔ " ڈینی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے جب ایک دم اسنے غصے سے اسے دبوچتے کالر سے اپنی جانب کھینچا۔۔۔۔
" میں جانتا ہوں کہ کونسا کام میرے لیے کب اور کتنا اہم ہے۔۔ آئندہ فالتو زبان کھولی تو یہ زبان ہی کاٹ دوں گا۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ دھاڑتے وہ آنکھوں میں غصہ بھرے بولا کہ ڈینی نے فورا سے ڈرتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔
"جاؤ یہاں سے ۔۔۔" اسے جھٹکے سے دور پھینکتے وہ بےزار سے لہجے میں بولتے اپنے پونی میں مقید ڈارک گولڈن بالوں کو ہاتھ کی مدد سے پیچھے کرنے لگا۔۔۔
اسکے محسوس انداز میں ایسا کرنے پہ ڈینی نے خوف اور ڈر سے تھوک نگلا اور فورا سے وہاں سے غائب ہوا۔۔۔۔۔
ایل نے بھنچے جبڑوں سے اب سامنے کی جانب دیکھا مگر آنکھوں میں عجیب سے تاثرات امڈ آئے سامنے ہی وہ جگہ بالکل خالی تھی جہاں پہ حرمین بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔۔ ایک دم سے وہ چھلانگ لگاتے اترا تھا ۔۔ بےاختیار ہی قدم آگے کی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔
گیٹ کے پاس پہنچتے ہی اسنے قدم روکتے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔ سامنے ہی وہ بچوں کے بیچ گھری سب کو مسکراتے اپنے لائے گفٹس دے رہی تھی۔۔۔ اسکے چہرے پہ بکھری دلکش مسکراہٹ ، گلابی گالوں پہ ابھرتے خوبصورت سے گھڑے۔۔۔۔۔ بےساختہ ہی وہ جانے کتنی دیر سانس روکے اسے دیکھتا رہا تھا۔ لبوں پہ دھیمی سی مسکراہٹ جانے کب خودبخود ہی آئی تھی۔۔۔ جس سے وہ خود بھی انجان تھا۔۔۔۔
وہ چلی گئی تھی ۔۔۔۔ کہیں دور بہت دور مگر باہر کھڑا ایل کب تک اس جگہ کو گھورتا رہا تھا۔۔ دل میں عجیب سی بے چینی سی ہونے لگی تھی۔۔۔ کتنی خوشی تھی اسکے چہرے پہ سکون تھا ۔ ایک نور تھا۔۔۔۔
اگر وہ ایک بگڑے عیاش باپ کی بیٹی تھی تو پھر وہ ایسی کیوں تھی ۔۔ وہ کیوں اسکی سوچ کے مطابق کسی کلب ، میں نہیں پائی گئی تھی۔ کیوں وہ خجاب اوڑھتی تھی۔۔۔ کیوں وہ لڑکوں کے ساتھ دوستی نہیں کرتی تھی۔۔۔ اس حالی سنسان ویران سی جگہ کو دیکھتے یہی خیال اسکے دماغ میں گھومے تھے۔۔۔ مگر موم نے تو ۔۔۔۔۔۔!" یہاں پہ ایل کی سوچ تھم گئی تھی ۔۔۔ اپنی سوچوں سے بچنے کی کوشش کرتے وہ خودبخود ہی پیچھے کو ہوا تھا۔۔۔۔
دماغ کی رگیں پھٹنے کو تھیں اور نیلی آنکھوں میں سرد وخشت ناک سے تاثرات۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
کافی بیٹ کرتے ایک دم سے اسنے خفگی سے دروازے کی جانب دیکھا۔۔۔ ضرور وریام ہی تھا۔۔ جو اسے یوں تنگ کر رہا تھا۔۔۔ ابھی تو ضروری کام کا بول کر نکلا تھا۔۔۔ نیناں نے خفگی سی گردن نفی میں ہلائی اور یونہی کافی کا مگ ایک سائڈ رکھا۔۔۔ ٹائم دیکھا تو دس بجنے والے تھے۔
دوپٹے کو ٹھیک سے اوڑھتے وہ برے سے منہ بناتے دروازہ کھول گئی۔ مگر سامنے کوئی نہیں تھا۔۔ اسنے حیرت سے سامنے دیکھا۔ پھر ذرا سا چہرہ نکالتے آگے پیچھے دیکھا۔۔ مگر کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ نیناں نے غصے سے دانت پیستے دروازے کو لاک کیا کہ اچانک ہی اسکے دماغ میں کچھ لہرایا وہ فورا سے دروازہ کھولتے سامنے نیچے کی جانب دیکھنے لگی ۔۔۔
فرش پہ پڑے ریڈ گلاب کے بکے کے ساتھ ایک چھوٹا سا لیٹر تھا۔۔۔ اسنے پھر سے آگے پیچھے دیکھا مگر کوئی بھی نہیں تھا جبھی آنکھیں چھوٹی کیے وہ تجسس میں فورا سے اس لیٹر کو تھام گئی۔۔
بکے ایک بازوؤں پہ رکھتے اسنے لیٹر کھولا تو سامنے بڑے حروف میں سوری" اور ساتھ ایک سمائلی بنی تھی۔۔۔ ماتھے پہ بل ڈالتے اسنے لب کچلے مگر کچھ سمجھ ناں آیا کہ آخر کون لا سکتا ہے یہ۔۔۔۔
جبھی وہ واپس کچن کی جانب مڑی مگر پھر سے ڈور پہ بیل ہوئی تو نیناں نے دوڑتے مڑ کے دروازہ کھولا مگر اب پھر سے کوئی بھی نہیں تھا باہر مگر اس بار دو بکے نیچے پڑھے تھے۔۔۔ نیناں نے جھکتے ایک معصوم سی مسکراہٹ سے ان دونوں بکے کو اٹھایا۔۔۔۔
بنا رکے اب وہ دروازہ اندر سے لاک کر چکی تھی ۔۔ وہ جان چکی تھی کہ باہر کون تھا۔۔۔ آنکھوں میں نمی کے ساتھ ساتھ محبت بھی امڈ آئی وہ بکے کو ناک کے قریب لے جاتے اب کچھ سوچتی پیچھے کی جانب گئی تھی۔۔۔۔ بالکونی سے اسکے جھکتے نیچے دیکھا تو سامنے ہی اسے پایا جو متبسم سا جان لیوا ہلکی سی مسکراہٹ لیے پہلے سے مزید تواناں اور چوڑا لگا تھا اسے۔۔۔ آنسوں خودبخود ہی گال بھگونے لگے تھے۔
خود پہ کسی کی گہری نظروں کو محسوس کرتے اسنے جھٹ سے نظریں اٹھائی تو اوپر بالکونی میں کھڑی اپنی متاع کو روتا پایا ۔۔ دھڑکنیں ایک دم سے رک گئی تھی۔۔ جبھی اسنے بنا لمحہ ضائع کیے پائپ کو تھاما تھا ۔ بچپن سے پریکٹس تھی جبھی وہ بڑی مہارت سے پاؤں سنبھال کر رکھتے اوپر چڑھا تھا ۔۔۔ چھلانگ لگاتے اسنے گرل سے اندر کو جمپ کیا اور ایک دم سے سیدھے ہوتے اپنی موم کو دیکھا۔۔۔۔۔ نیناں کو تو یہ خواب ہی لگا تھا۔۔۔ اسکا ویام اتنے سالوں کے بعد اسکے سامنے تھا ۔۔
اسکے لیے یقین کرنا ناممکن تھا۔۔ جبھی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ کپکپاتے ہاتھ آگے بڑھاتے اسکے نقوش پہ پھیرتے اسکے ہونے کا یقین کرنے لگی۔۔۔ نیناں کے آنسوں میں روانی تھی وہیں ویام کی گردن کی رگیں پھولی اور آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔ وہ بس خاموش سا اپنی موم کو دیکھ رہا تھا۔۔ کتنے سال ہو گئے تھے اسے اپنی موم سے دور انکو دیکھے بنا کتنا عرصہ گزارہ تھا اسنے ۔۔۔۔۔۔ یہ تو ویام ہی جانتا تھا کہ وہ کیسے اپنی متاع حیات سے دور رہ پایا تھا۔۔۔۔
اس نے نرمی سے اپنی موم کے دونوں ہاتھوں کو تھاما اور ایک مسکراتی نظر اپنی موم پہ ڈالتے اسنے عقیدت اور محبت سے انکے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پہ بوسہ دیا اور پھر وہی ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگائے ۔۔۔۔۔ نیناں نے ہچکی روکتے اپنے کپکپاتے ہاتھ اپنے خوبصورت جوان تواناں بیٹے کے چوڑے کندھے پہ رکھے۔۔۔۔۔
" بہت جلدی آئی ماں کی یاد۔۔۔۔۔۔" ناراض کیسے ہوتی اسے تو کبھی روٹھنا بھی نہیں آیا تھا۔۔۔۔ جبھی ذرا سی خفگی سموئے اسکے بھورے بالوں کو اپنے ہاتھ سے سہلانے لگی۔۔۔۔۔ اسکے ایک ایک نقوش میں نیناں کے وریام کا عکس تھا۔۔۔ وہ کتنی خوش ہوتی تھی اپنے ویام کو دیکھ ۔۔۔۔ وہ بالکل اسکے وریام کے جیسے تھا۔۔ مگر محبت میں اس سے بھی زیادہ کھرا اس سے بھی زیادہ خطرناک۔۔۔۔۔
" اگر اب بھی ناں آتا تو جان سے جاتا۔۔۔۔۔ نرمی سے اپنی موم کے آنسوں ہاتھ سے صاف کرتے اسنے باری باری انکی نم آنکھوں پہ بوسہ دیا ۔۔۔ تو نیناں مسکرائی اسکے محبت سے کہنے پہ۔۔۔ جبھی تو ناراضگی بھولے وہ اپنے جگر کے گوشے کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔۔۔ ویام نے نرمی سے اپنی جنت کے گرد ایک اپنے مضبوط ہاتھوں کا حصار قائم کیا تھا ۔ ہونٹ انکے سر پہ رکھتے اسنے سکون اپنے اندر تک اترتا محسوس کیا تھا ۔
" کھانا نہیں کھلائیں گی۔۔۔۔۔ خاموشی کا دورانیہ بڑھتا گیا تو ویام نے شرارت سموتے متبسم سے لہجے میں سوال کیا ۔۔۔ نیناں نے سر اٹھاتے اپنے لاڈلے بیٹے کو دیکھا۔۔۔۔ اپنے شہزادے کو تو میں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گی ۔۔ نرمی سے اسکے حسین چہرے کو ہاتھوں میں لیتے اسنے بےساختہ اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے نظریں گھما دی۔۔۔ تین بار آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی کہ کہیں اپنی ہی نظر ناں لگ جائے ۔۔۔ ویام ہنوز مسکراتے انکو دیکھ رہا تھا ۔۔
نیناں نے دم کرتے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے ساتھ لیے نیچے آئی۔۔۔۔ ویام نے ایک نظر سارے خاموش گھر پہ دوڑائی۔۔۔۔۔ اور ماں کے ساتھ چلتا وہ ڈائننگ ٹیبل تک آیا
۔۔۔ ہاتھ پکڑتے نیناں نے اسے چئیر پہ بٹھایا تھا۔۔ تمہاری پسند کی بریانی بنائی تھی آج۔۔۔۔ اور ساتھ فرائڈ چکن ہے۔۔ میں ابھی لاتی ہوں ۔۔۔ "
مسکراتے وہ اسے آگاہ کرتے کچن میں گئی۔۔ سامنے شیلف پہ دھرا کافی کا مگ ٹھنڈا ہوا پڑا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے نیناں نے اکیلے ناں کھانے کی خاطر کافی بنائی تھی۔۔ کیونکہ اسے اکیلے کھانا کھانا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا ۔ مگر اب اپنے ویام کو دیکھ وہ جیسے ہواووں میں اڑ رہی تھی۔۔۔ خوشی سے نہال ہوتے گلنار چہرے سے وہ بہت محبت سے ایک ایک چیز ٹرے میں سجا رہی تھی۔۔ وریام کو میٹھا کافی پسند تھا۔۔ جبکہ ویام اتنے شوق سے نہیں کھاتا تھا۔۔۔۔
مگر پھر بھی تھوڑی دیر پہلے وریام کے لئے بنائے شامی کباب کو فریزر سے نکالتے وہ چہرے پہ دنیا جہان کی مسکراہٹ لیے باہر نکلی تھی ۔۔
ویام نے بغور اپنی موم کو دیکھا جن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اسنے پورے ساڑھے تین سال انکے ساتھ زیادتی کی تھی۔۔۔ انکی اپنے لئے محبت انکی چاہت سے وہ بخوبی واقف تھا۔۔۔ اگر ان تین چار سالوں تک اسنے اپنی ماں کو خود سے دور رکھا تھا تو صرف اس لئے کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کل کلاں کو اگر وہ اس دنیا میں ناں رہے تو اسکی موم اسکے پیچھے سے اپنی زندگی روک دیتی۔۔ جبھی اسنے یہ تین چار سال خود کو ان سے دور رکھا تھا۔۔
شروع شروع میں اسے بھی تکلیف ہوئی تھی۔۔۔ درد تو وہ ہر روز برداشت کرتا تھا۔۔ ان کو ناں دیکھنے کا ۔۔۔ مگر پھر اپنی ٹریننگ کے دوران اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے بالکل ٹھیک فیصلہ لیا تھا۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے تو اس نے اپنی موم اور عین کو خود سے اتنے سال دور رکھا مگر جہاں تک عین دستبردار ہونے کی بات تھی تو یہ بات ویام کاظمی کے لئے ناممکن تھی کیونکہ اسے عشق نارمل سا نہیں ہوا تھا بلکہ اسے عشق کا نشہ چڑھ چکا تھا۔۔۔ جس طرح سے ایک نشہ آور شخص کو مطمئن کرنے کے لیے کہا جائے کہ آپ کو کل تک یہ ڈوز دے دیا جائے گا۔۔ تو وہ کسی طرح وہ وقت گزار لیتا ہے مگر پھر جب وقت آنے پر بھی اسے اس نشے سے دور رکھا جائے تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔۔۔
اپنے پاگل پن اور جنون میں ہر چیز تباہ کر دیتا ہے ۔۔ اور کچھ ایسا ہی حال ویام کا تھا عیناں کو لے کر۔۔۔ اسکے جذبات گہرے سمندر سے بھی زیادہ گہرے تھے۔۔۔ جن کی شدت سے کبھی کبھار تو وہ خود بھی گھبرا جاتا تھا۔۔۔ رافع کو ایک ہفتہ تو دے آیا تھا ۔ مگر واپسی پر اسے پہلی بار اپنے فیصلے پہ افسوس ہوا تھا۔۔۔
اسے عین کو اپنے ساتھ ہی اپنے گھر لانا چاہیے تھا۔۔ ناں کہ ایک ہفتے کی یہ دوری کی دیوار حائل کرنی چاہیے تھی۔۔۔۔۔ خیر جو بھی تھا۔۔۔۔ اب عین کے عشق کی الفت یاں تو اسے جنونی کر دینے والی تھی یا پھر اپنے عشق میں جلا دینے والی ۔۔۔۔۔۔۔
" ویام عیناں کہاں ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔!" نیناں کی آواز پہ وہ چونکتے جیسے ہوش میں آیا ۔۔۔۔ دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی۔۔۔ دل چاہا کہ ابھی کسی طرح سے اسے اٹھا کر لے آئے اپنی پناہوں میں سب سے دور۔۔۔۔۔
"اپنے گھر ہے موم مگر اگلے ہفتے تک وہ یہاں ہو گی آپکی بہو کی حیثیت سے۔۔۔۔۔۔ " اسنے مسکراتے انکے ہاتھوں سے نوالہ لیا۔۔ تو نیناں کے چہرے پہ بکھری مسکراہٹ سمٹ سی گئی ۔۔۔۔
" مگر ویام اتنی جلدی یہ سب۔۔۔۔ مطلب کہ تم کہہ رہے ہو کہ اگلے ہفتے تمہاری اور عیناں کی شادی ہے ۔۔۔ " نیناں نے حیرانگی سے الجھتے ہوئے پوچھا تو ویام کے چہرے پہ قاتل ڈمپل نے اپنی چھپ دکھائی۔۔۔۔
" شادی کا معلوم نہیں اسلام میں نکاح اور رخصتی ضروری ہوتی ہے موم اور مجھے اب بس وہ اپنے پاس چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔ !" اسنے بنا کسی پس و پیش سے کہا وہ ایسا ہی تھا دنیا کے سامنے سنجیدہ اپنی موم سے اپنے دل کا حال بیان کرنے والا۔۔۔۔
" نیناں ایک پل کو تو اسکی آنکھوں سے جھلکتی شدت سے گھبرا اٹھی وہ جانتی تھی۔ عیناں کے لئے ابھی ویام کی محبت اسکی شدت اسکے پاگل پن کو سنبھالنا قدرے ناممکن سی بات تھی ۔۔۔ مگر ویام کی ضد سے بھی وہ بخوبی واقف تھی۔۔۔۔
میری جان ایسے نہیں ہوتا۔۔۔۔ تم خود سوچو لوگ ہزار باتیں بناتے ہیں ۔۔۔ بنا کسی فنکشن کے یہ سب۔۔۔۔۔ اچھا نہیں لگتا۔۔۔ نیناں نے نرمی اسکے ہاتھ کو تھامتے اسے سمجھایا۔۔۔۔
" موم آپ جانتی ہیں۔۔۔ اسکے بنا یہ سانسیں بند ہونے لگتی ہیں۔۔۔ اب میں اسکے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ ویسے بھی یہی طے ہوا تھا۔۔۔ میرے واپس آنے پر ۔۔۔ میری عین پہ صرف میرا حق ہو گا۔۔۔ وہ خاموشی سے اسے میرے ساتھ رخصت کر دیں گے ۔۔۔ اگر انہیں کوئی فنکشن کرنا بھی ہوا تو وہ الایہ کے ساتھ کر لیں گے بعد میں ۔۔۔۔مگر ایک ہفتے سے زیادہ وقت میں نہیں دے سکتا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں شعلے سے بھڑکنے لگے تھے۔۔۔
دماغ دل ابھی بھی اسے چھوڑ آنے پہ ملامت کر رہے تھے۔۔۔۔ وہ روئی بھی تو تھی۔۔۔ ویام نے بمشکل اپنی موم کے سامنے خود کو پرسکون رکھنے کی سعی کی تھی۔۔۔ نیناں تو اسکے شدت بھرے انداز پہ خاموش ہی ہوتے رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اچھا تم کھانا کھاؤ جیسے میرا چاند چاہے گا ویسا ہی ہو گا۔ اسکے گال کو تھپکتے نیناں نے اسے پرسکون کیا تھا۔۔۔ نتیجتا اسکے تاثرات ڈھیلے پڑے تھے۔۔۔۔ وہ نرمی سے مسکراتے انکے ہاتھ سے کھانے لگا۔۔۔۔
تممممم۔۔۔۔ تم نے کیا کہا ہے رافع سے ۔۔۔۔۔ " ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچتے وریام نے اپنے غصے پہ ضبط کرتے اسے غصے سے دیکھ دانت کچکچاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
کیا..... کیا کہہ دیا میں نے آپ کے دوست سے ایسا کچھ ۔۔۔ کہ انہوں نے اتنی جلدی شکایت لگا دی۔۔۔ نیناں کے ہاتھ سے محبت سے کھانا کھاتے وہ کندھے اچکاتے نارمل سے تاثرات سے بولتا وریام کو دھواں دھواں کر گیا۔۔
" کیوں کر تم نے رخصتی مانگی ہے عیناں کی ۔۔۔۔ " وریام نے دبے دبے غصے سے اسکے سامنے ہاتھ سینے پہ باندھتے پوچھا۔۔۔ اسکے انداز پہ ویام نے ایک نظر پریشان سی نیناں کہ ڈالی اور آرام دہ انداز میں چئیر جی پشت سے ٹیک لگاتے اپنے باپ کو دیکھا۔۔۔
" ظاہر سی بات ہے نکاح ہو جائے تو اس کے بعد رخصتی کیوں مانگتے ہیں ۔۔۔ " ائبرو اچکاتے اسنے باپ کو دیکھتے معنی خیزی سے کہا تو نیناں نے افسوس سے ایک نظر دونوں پہ ڈالی اور برتن سمیٹتے وہ واک آؤٹ کر گئی۔۔۔
"انسان بنو ابھی تمہارا باپ زندہ ہے ۔۔۔۔۔ عمر دیکھی ہے اس کی ابھی بچی ہے ۔۔۔۔ وریام نے اسے شرم دلانے کی خاطر کہا تھا۔۔ مگر شاید وہ بھول چکا تھا۔کہ آگے بھی اسی کا بیٹا تھا ۔ اس سے دو ہاتھ آگے ۔۔۔۔۔۔
انیس کی ہے جانتا ہوں ۔۔ میری عمر پتہ ہے آپکو۔۔۔۔ چھبیس کا ہو گیا ہوں ۔۔ اور میری عمر میں تو آپ باپ بھی بن گئے تھے۔۔۔ تو آپ نہیں چاہتے کہ آپ کا بیٹا بھی جلد از جلد اس عہدے پہ فائز ہو جائے۔۔۔۔۔۔ پانی کا گلاس اٹھاتے لبوں سے لگاتے وہ کمال بےنیازی سے کہتا اسے بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔۔۔ جبکہ وریام تو اسکی بات پہ بمشکل اپنی حیرت چھپائے کرسی کا سہارہ لیتے بیٹھا تھا۔۔۔
" جانتے ہو میرے گھر کا سکون برباد کر دیا تم ہے تم نے۔۔۔ بےشرم انسان اپنی ماں کے سامنے ایسی بےہودہ باتیں کرتے تمہیں ذرا بھی شرم ناں آئی۔۔۔ " وریام تو پہلے ہی سے اسے یوں نیناں کے ساتھ مسکراتا دیکھ تپا ہوا تھا ۔۔ اوپر سے اسے راستے میں ہی علم ہو چکا تھا کہ ویام نے اسے گھر سے جان بوجھ کر دور کیا تھا تاکہ وہ نیناں کو آرام سے منا لے۔۔ اور وہ بخوبی اپنے کام میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔
اور زیادہ غصہ تو اسے تب آیا تھا جب راستے میں ہی رافع کی کال آئی تھی اسے۔۔۔۔۔ کتنی شرمندگی ہوئی تھی اسے ۔۔ جب رافع نے بتایا کہ وہ اسے دھمکی لگا کر گیا ہے کہ ایک ہفتے بعد وہ عیناں کو لے جائے گا۔۔۔۔۔
" اس میں بھی آپ کی ہی غلطی ہے۔۔۔ ' اسنے ٹیک لگاتے وریام کی جانب دیکھا ۔۔۔ جو آج بھی بالکل ویسا ہی تھا۔۔۔۔ بےاختیار اسکی آنکھوں میں اپنے ڈیڈ کے لئے محبت سموئی مگر پھر خود پہ لعنت کرتے اسنے سر کو جھٹکا۔ جیسے کوئی غلط خیال آ سمویا ہو۔۔۔۔۔
"میری۔۔۔۔۔۔ میری کیا غلطی ہے اس میں۔۔۔" ویام نے غصے سے چیختے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔جبکہ ویام مسکرایا اسکے گال پہ ابھرے ڈمپل کو دیکھ وریام پہلوں بدلتے رہ گیا ۔۔۔۔۔
" اگر آپ موم کے سامنے مجھ سے یہ سوال کریں گے کہ مجھے رخصتی کیوں چاہیے تو ظاہر سی بات ہے میرا جواب وہی ہو گا جو آپ بخوبی جانتے ہیں۔۔۔ کیونکہ آپ خود اس دور سے ہو کر آئے ہیں۔۔۔۔ " اپنے بھورے ماتھے پہ بکھرے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کیے اسنے کوٹ اتارتے چئیر کی پشت پہ پھینکا ۔۔۔ اسکے کسرتی تواناں وجود کو دیکھ وریام کے دل سے بےساختہ ماشاءاللہ نکلا وہ سر جھکٹتے چہرہ موڑ گیا۔۔۔۔۔۔
دیکھ لوں گا تمہیں میں بھی تمہارا باپ ہوں رخصتی تو نہیں ہو گی کسی بھی قیمت میں۔۔۔۔۔۔"بڑبڑاتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے وہ خفگی سے کہتا روم کی جانب بڑھا۔۔۔
کہاں جا رہی ہو ۔کمرے سے نکلتی نیناں کے سامنے دائیں بائیں ہاتھ ر کھتے اسنے ائبرو اچکاتے پوچھا۔۔۔
ویام کے پاس جا رہی ہوں۔۔۔ اسے دیکھوں تو ۔۔۔ کیا پتہ بچے کو کچھ چاہیے ہو گا۔۔۔۔ !"... اسکے خطرناک موڈ سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ویام کے ساتھ لڑ کے آیا تھا۔۔۔ تبھی تھوک نگلتے اسنے صلح جو انداز اپناتے کہا۔۔۔۔ جبکہ وریام ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے دوسرے ہاتھ سے دروازہ لاک کر گیا ۔۔
نیناں گڑبڑا اٹھی۔۔۔۔ وریام۔۔۔۔"۔ اسنے اجتجاجا غصے سے کہا ۔۔
" اشششش۔۔۔۔ تمہارے بچے کے باپ کا موڈ آف ہو چکا ہے۔۔۔ اب پہلے میرا موڈ ٹھیک کرو پھر بیٹے کو دیکھنا۔۔۔۔ اسے گود میں اٹھاتے اسنے آنکھوں میں محبت مگر لہجے میں غصہ سموئے کہا ۔۔۔۔ جبکہ نیناں جانتی تھی یہ صراصر اسکا پلان تھا۔۔۔ اسے ویام سے دور رکھنے کا۔۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔۔۔۔ آ رہا ہوں میں۔۔۔۔۔ اس بار شکار کو وہی پہ موت ملے گی۔۔۔۔ اور ایک بات کا دھیان رکھنا۔۔۔ اگر شمشیر سر کو اطلاع ہوئی تو بدلے میں نقصان کے زمہ دار تم خود ہو گے۔۔۔۔۔۔۔
وریام کے جاتے ہی وہ اپنے روم میں آیا تھا۔۔۔ کمرے میں بکھری عیناں ہی خوشبو اسے مسکرانے پہ مجبور کر گئی تھی۔۔۔۔۔ جبھی اسنے سر جھٹکتے اپنا ہڈ نکالا۔۔۔۔ مقابل کو آگاہ کرتے وہ ہڈ پہنتے ہاتھوں پہ گلوز پہنتے روم سے نکلا تھا۔۔ ایک مسکراتی نظر اپنے ڈیڈ کے بند دروازے پہ ڈالی اور فتع مندی سے وہ تیز تیز قدم اٹھاتے کھڑکی سے باہر کودا۔۔۔
💥💥💥💥💥
"بھاؤں آپ ہسپتال نہیں آئے سب پوچھ رہے تھے۔۔۔۔ " جبار نے کرسی پہ بیٹھے اپنے سینے پہ بندھی پٹی کو کھولتے بھاؤں سے کہا۔۔۔۔ مٹھو ایک جانب کھڑا تھا۔۔ جب سے وہ واپس آیا تھا۔۔۔ ابھی تک شاک میں تھا۔۔۔ آنکھوں کے سامنے وہ منظر لہرا رہے تھے جب بھاؤں نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس راشد کے ہاتھ کاٹے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکی گردن بھی اڑائی تھی۔۔ وہ تو حواس کھو چکا تھا ۔ بھاؤں سینے سے بہتے خون کو دیکھتے ۔۔۔ جبکہ وہ تو جیسے ہر شے ہر درد سے بےگانہ ہو چکا تھا۔۔
جبھی اپنے راستے میں آتے ہر شخص کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔۔۔ راشد کا سر پیک کر کے وہ ساتھ لایا تھا اور ابھی بیسمنٹ میں رکھوایا تھا۔۔۔ مٹھو تو بالکل سن سا ہو گیا تھا۔۔ جس کا بھاؤں کو کوئی خاص فرق بھی نہیں تھا پڑا۔۔۔۔۔۔۔
" مل لوں گا۔۔۔۔ بچی کا نام کیا رکھا یے۔۔۔ " اسنے بات کاٹتے ہوئے پوچھا ۔۔
" خالہ کہ رہی تھی کہ آپ سے رکھوانا ہے ۔۔۔۔" بھاؤں کے پٹی کھولتے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔ چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ امڈ آئی۔۔۔ بھلا جو اپنی شناخت ہی تباہ کر چکا ہو وہ کیسے کسی کو شناخت دے سکتا تھا۔۔۔۔۔۔
" ببب بھاؤں۔۔۔۔۔ اچانک سے آواز پہ بھاوں سمیت سب نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں پہ قیصر صاحب کھڑے تھے۔۔۔۔۔
" کہیے کیا کام ہے۔۔۔۔۔' اسنے پٹی کھولتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔
" وہ نیچے کوئی آئی ایس پی آیا ہے ملنے ۔۔۔ " پھولتے سانس کے ساتھ اسنے گھبراہٹ سے بتایا بھاؤں کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری۔۔۔
کہہ دو بھاؤں کے پاس وقت نہیں۔۔۔۔ "اسنے مسکراتے حکم دیا جبکہ قیصر اب بھی وہیں کھڑا تھا۔۔۔
" وہ کہہ رہا تھا کہ بتانا کہ ایس پی اذلان اشعر علوی آئے ہیں ملنے۔۔۔۔۔۔۔"
اسکے منہ سے ادا ہوتے الفاظ بھاؤں کو پل بھر میں شل کر گئے تھے۔۔۔ اسنے سرد نظریں اوپر اٹھاتے اسے دیکھا۔۔ ۔
" بلا لاؤ آفیسر صاحب کو۔۔۔ آج ملاقات ہو ہی جائے ۔۔ چور اور پولیس کی ۔۔۔۔۔۔" لبوں پہ تلخ مسکراہٹ سجائے اسنے قیصر کو اجازت دی۔۔۔اور پھر سے لاتعلق سا بنتے اپنے پٹی باندھنے لگا ۔۔۔۔
آئیے آئیے اے سی پی صاحبببب۔۔۔۔۔۔۔" سینے پہ پٹی لپیٹتے اسنے پرجوش آواز میں بنا نظریں اٹھائے اسکے قدموں کی دھمک سنتے کہا تھا۔۔۔۔۔۔
اذلان کے چہرے پہ اپنے بھائی کی حالت کو دیکھ درد کی لہر سی اٹھی تھی۔۔۔ آنکھوں میں درد تکلیف کے تاثرات تھے۔۔۔ مگر مقابل تو سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔ کتنا خون بہہ رہا تھا اسکے سینے سے ۔۔۔ بےساختہ اپنے لب کچلتے اذلان نے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا۔۔۔۔۔۔
" کیا پولیس والوں میں سلام دعا کا کوئی رواج نہیں ہے ۔۔۔ اسکی مکمل خاموشی پہ بھاوں نے گردن اونچی کیے ائبرو اچکاتے اسے دیکھ طنز کیا تھا۔۔۔۔ " سر تا پاؤں ایک بھرپور نظر اس پہ ڈالی جو پولیس یونیفارم میں بےحد وجیہہ دکھ رہا تھا۔۔ ۔۔۔ جبار اور مٹھو تو بس منہ کھولے ان دونوں کو باری باری دیکھ رہے تھے ۔۔
" اذلان کی سانولی رنگت کے باوجود بھی وہ بالکل بھاؤں کی پرچھائی دکھتا تھا۔۔۔۔ انکے بالوں اور آنکھوں کی رنگت بھی تبدیل تھی مگر کوئی بھی ایک بار دیکھنے پہ ضرور چونکتا تھا۔۔۔ کیونکہ انکے کسرتی چوڑے وجود ، قد کاٹھ اور اسکے علاؤہ مسکراہٹ بھی تو ایک جیسی ہی تھی ۔۔۔
" اذلان نے ہاتھ پشت پہ باندھے اور اپنے اور امن کے درمیان حائل اس فاصلے کو دیکھ گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔۔۔۔۔
" ویسے چور اور پولیس کا کوئی سلام دعا کا رشتہ ہوتا ہے ایسا مجھے تو نہیں لگتا۔۔۔۔۔" پورے کمرے کو گہری نظروں سے گردن موڑتے دیکھ وہ برے سے منہ بناتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔
تو امن کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ بکھری۔۔۔۔۔۔ " تو پھر اس بار کیا نیا الزام لگانے آئے ہو۔۔۔۔۔!" اسکی آنکھوں میں دیکھتے امن نے کارا وار کیا تھا۔۔۔ اس پہ۔۔۔ اذلان تڑپ اٹھا اسکی بات پہ اسنے اذیت ناک نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
" ویسے ایک بات تو اپن سمجھ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جو ایک بار اپنا ناں بنے اس کے سامنے بار بار رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔ اب تم بتاؤ رونے آئے ہو یا پھر جیل لے جانے۔۔ پٹی کو گرہ لگاتے اسنے شرٹ سے اپنے کندھے پہ لگا خون صاف کرتے شرٹ ایک جانب اچھالی اور اسکے سامنے کھڑے ہوتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔
"کہنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں اگر تم اجازت دو تو۔۔۔۔۔" آنکھوں میں امید لیے اذلان نے ایک قدم امن کی جانب بڑھاتے کہا ۔۔۔۔ امن نے بغور اسکے بڑھتے قدم کو دیکھا اور خود سے دو قدم پیچھے ہوا تھا ۔۔۔۔
" بھاؤں نے سننا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اب اپن سنتا نہیں اپنی سناتا ہے ۔۔۔۔۔۔ " اسکی گہری کالی آنکھوں میں اپنی شہد رنگ نظروں کو گھاڑتے اسنے تیز لہجے میں سپاٹ چہرے سے کہا تو اذلان نے دل میں ہوتی تکلیف پہ نظریں جھکا لی۔۔۔۔۔۔
" مٹھو چل یار سیٹھ انتظار کر رہا ہو گا۔۔۔۔۔" اذلان کو نظر انداز کرتے اسنے جان بوجھ کر مٹھو کو مخاطب کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے جانے کی بات سنتے اذلان پل بھر میں سنبھل گیا۔۔۔۔
سرخ نظروں سے خود سے دور جاتے بھاوں کی پشت کو دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔۔ فضا میں بکھری بھاؤں کے کلون کی خؤشبو اذلان کو جیسے دوبارہ سے امید دلا گئی تھی ۔۔۔۔۔ ۔
"ایک منٹ بھاؤں۔۔۔۔۔" اسنے رخ اسکی جانب کرتے اسے اسکے ہی انداز میں مخاطب کیا تھا۔۔۔ اسکا بھاؤں کہنا جانے کیوں مگر امن کو بہت برا لگا تھا۔۔۔۔ وہ تو من کہتا تھا۔۔۔ اسے ۔۔۔۔۔ اہہہ یہ خوش فہمیاں زندگی تباہ کرنے کے بعد بھی جانے کیوں پیچھا نہیں چھوڑتی ۔۔۔۔۔۔ بھاؤں نے اذیت ناک نظروں کو میچتے سوچا اور سر جھٹک کے بالکل سپاٹ تاثرات سے اسکے جانب مڑا۔۔۔۔۔ ۔۔
اذلان چلتا اسکے سامنے رکا تھا۔۔۔۔۔ " بہت خاص انویٹیشن دینے آیا تھا۔۔۔ اب اتنی بڑی خوشخبری ہے تو سوچا کہ اپنے پرانے نئے سب رشتہ داروں کو خود ہی انوائیٹ کر آؤں۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں کچھ الگ سی چمک ابھری تھی۔۔۔ جسنے بھاؤں کو ٹھٹکنے پہ مجبور کیا تھا۔۔۔
جبھی وہ بغور اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔۔۔
ویٹ "انگلی سے اسے اشارہ کرتے اذلان نے مسکراتے اپنے بیلٹ میں اڑسے کارڈ کو نکالا۔۔۔ اور بھاؤں کی جانب بڑھا دیا ۔۔۔۔
بھاؤں نے ایک نظر اس کارڈ کو اور پھر اذلان کو دیکھا۔۔۔۔
"مجھے کہیں بھی آنے جانے کا شوق نہیں ۔۔۔۔۔ یہ کارڈ ویسے بھی تمہارے پیچھے سے جلا ہی دوں گا تو بہتر ہے اسکی بچت کرو،، کسی اور کو اس سے انوئت کر لینا۔۔۔۔۔" بھاؤں نے سپاٹ لہجے میں کہا اور مسکراتے وہاں سے نکلنے لگا۔ ۔ جبار اور مٹھو دونوں ہی الجھتے جا رہے تھے پہلے حیا اور اب یہ ایس پی۔۔۔۔۔
" میری بہن حیا حسن شاہ کی شادی ہے اس جمعہ کو نکاح یے۔۔۔ اتنی بڑی خوشخبری ہے تو سوچا کہ اس شہر کے سب سے بڑے غنڈے کو بھی انوائیٹ کر دوں
۔۔کیا پتہ بعد میں کچھ انہونی ناں ہو جائے۔۔۔۔ خیر چلو تم نہیں آنا چاہتے تو کوئی ایشو نہیں۔۔۔ میں نے تو انوائیٹ کرنا تھا۔۔ اب تمہاری مرضی ۔۔۔۔۔۔ "
بھاؤں کے منجمد وجود کے سامنے جاتے اسنے بھاوں کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔۔ میں چلتا ہوں۔۔۔ کیونکہ اب یہ کارڈ تمہارے مشورے سے ضائع ہونے سے بچ گیا ہے تو کسی اور کو اس سے انوائیٹ کر دوں۔۔۔۔۔ اسنے معصومیت سے اپنے گہرے کالے بالوں کو سیٹ کرتے اسے مزید سلگایا تھا۔۔۔ اور سیٹی کی دھن پہ اسے مزید تپاتے وہ مغرورانہ چال سے چلتا اس بڑے سے گھر سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔
لوگ اسے حیرانگی سے دیکھ رہے تھے ۔۔ مگر اذلان تو جیسے اپنے آپ میں ہی نہیں تھا۔۔ امن کو یوں اتنے سالوں بعد دیکھا تھا ۔۔۔ آخر اپنے من کو دیکھنے کے بعد وہ خوش کیونکر ناں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
اسکا کام ہو چکا تھا۔۔ اب باقی کام بھاؤں نے کرنا تھا۔۔۔ مسکراتے ایک نظر اوپر کمرے کی جانب ڈالتے وہ جیپ میں بیٹھتے اسے سٹارٹ کر گیا ۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخاتے فدک نے ایک گہرا سانس فضا میں خارج کرتے چابی سے دروازہ ان لاک کیا ۔۔۔ ہلکا سا ہینڈل گھماتے ہی دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔۔۔۔ اسنے گردن اندر کیے آگے پیچھے دیکھا تو مکمل اندھیرا ہوا پڑا تھا۔۔۔۔
فدک کو جانے کتنا دکھ اور تکلیف ہوئی تھی جبھی تو وہ لبوں کو کچلتے اندر داخل ہوئی اور دوبارہ سے روم کو لاک کیا ۔۔۔۔
الاییہہ ۔۔۔۔۔ بب بیٹا کہاں ہو آپ۔۔۔۔۔۔۔۔" متفکر سے لہجے میں اندھیرے میں ڈوبے اس کمرے میں وہ بمشکل سے چلتے آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ جو کب سے تکیے میں منہ دیے سسک رہی تھی ۔۔ اچانک اپنی موم کی آواز پہ اسنے آنسوں سے تر چہرہ اٹھایا تھا۔۔۔۔ یقین کرنا ناممکن تھا ۔ اسکی موم اسکے پاس آئی تھی ۔۔ بےیقینی ہی بےیقینی تھی ۔۔۔۔ الایہ بیٹا کہاں ہو آپ۔۔۔۔۔۔ فدک کی بے چین سی آواز پہ وہ ایک دم سے اٹھی تھی ۔۔ دوڑتے بیڈ سے اترتے وہ ایک دم سے اسکے سینے سے جا لگی ۔۔۔۔ بےساختہ ایک چیخ اسکے منہ سے نکلی تھی ۔۔
مگر پھر خود سے لپٹے اس لرزتے وجود کو محسوس کرتے فدک نے مضبوطی سے اسے اپنے سینے میں سمایا تھا۔۔۔۔
فدک نے بے چینی سے اسکے سر پہ بوسہ دیتے اپنے ہونے کا یقین دلایا۔۔
اسکے ہچکولے کھاتے وجود کو سنبھالنا فدک کے لئے مشکل ہوتا گیا تھا ۔۔۔۔بمشکل سے اسے ساتھ لگائے وہ بیڈ تک پہنچی تھی ۔۔۔
مما۔۔۔۔۔ککک کہاں جا رہی ہیں آپ۔۔۔۔۔۔ " کسی بچے کی مانند سسکتے اسنے خوف سے خود سے دور جاتی فدک کے ہاتھ کو تھاما تھا۔۔۔ فدک کے دل کو جانے کتنی تکلیف ہوئی تھی ۔۔۔ وہ ایسی کمزور تو نہیں تھی۔۔۔۔
بچے میںں لائٹ آن کرنے لگی ہوں۔۔۔۔۔" اسکے بالوں کو سنوارتے اسے تسلی دیتے فدک نے گھبراہٹ سے ماتھے پہ بل ڈالے تھے۔۔۔۔۔ لائٹ آن کرتے ہی وہ مڑی تھی ۔۔۔۔ نظریں جب اپنی الایہ پہ پڑی تو اسنے بےیقینی سے اسے دیکھا جو بکھرے بالوں میں سرخ ہوئی سوجھی آنکھوں میں چہرے پہ مٹے مٹے آنسوں ہے نشانات لئے اپنے موم کو ہی دیکھ رہی تھی ۔ ۔
فدک نے ایک دم سے اسے آگے بڑھتے بےساختہ چوما تھا۔۔ اسکی پیشانی پہ لب رکھتے اسنے اپنی تڑپتی ممتا کو سکون دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
الایہ میری جان کیا ہو گیا۔۔ دیکھو میری طرف تم تو بہت سٹرانگ ہو میری جان پھر کیا ہو گا ۔۔۔۔۔ ' چہرے پہ فکر لئے وہ گھبرائے سہمے لہجے میں اسکی حالت پہ تڑپ ہی تو اٹھی تھی۔۔۔۔۔
"مم مما مم مجھے نہیں کرنی اس سے شادی۔۔۔۔ وہ بالکل بھی اچھا نہیں۔۔۔ مم مجھے نہیں کرنی اسسس سے شش شادی۔۔۔۔۔۔"انکے سینے میں منہ چھپائے وہ روتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔۔۔
اسکے ہچکیوں میں ادا ہوئے الفاظ فدک نے بےساختہ اپنے لب بھینج لیے وہ کیا جواب دیتی ۔۔ اسکے لئے تو اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھنا ہی سب سے بڑی تکلیف تھی۔۔۔۔ کہاں آج تک روتے دیکھا تھا۔۔اسے۔۔۔۔ یا پھر اپنے زندگیوں کے بکھیڑوں میں وہ اسے تو بھول ہی گئی تھی ۔۔۔ کبھی اس بات پہ غور ہی نہیں کر سکی کہ اسکی بیٹی کو اسکی ضرورت ہو سکتی تھی۔۔۔۔
" ہمیشہ سے عیناں کے چھن جانے کے خوف نے اسے اندر سے اس قدر تک خوف زدہ کیے رکھا تھا کہ آہستہ آہستہ وہ خود ہی اس سے دور ہو گئی تھی۔۔۔ کبھی اسکی بتمیزیوں اسکے اکھڑے روہے کا نوٹس ہی نہیں لے سکی وہ۔۔۔
آج اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھ اسے شدت سے اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تھا۔۔۔ وہ صرف ویام کے کہنے پہ اسکے پاس آئی تھی۔۔۔ مگر اسکی سسکیاں اسکی پکار ۔۔ وہ تڑپ کے رہ گئی تھی ۔ آج اپنا آپ ہی قصوروار لگ رہا تھا۔۔ اسے۔۔۔۔۔۔ آخر کچھ تو ایسا تھا۔کہ وہ اتنی دور ہوتی چلی گئی اپنی موم سے ۔۔۔۔۔ آنکھوں میں نمی سی سمونے لگی تھی ۔ ۔۔۔۔ اسنے مضبوطی سے اسے خود سے لپٹائے اپنے ہونے کا حوصلہ یقین دلایا ۔۔۔۔۔۔
" میری جان ۔۔ تم جیسا چاہو گی ویسا ہی ہوگا ۔۔۔۔ مما ہیں تمہارے ساتھ فکر مت کرو۔۔۔۔۔۔". فدک نے نرمی سے اسکے آنسوں صاف کرتے اسکے گالوں پہ بوسہ دیا تھا۔۔۔۔۔
الایہ تو بس یک ٹک اپنی موم کو دیکھ رہی تھی۔۔ جن کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت فکر دیکھ وہ کتنی ہی دیر بت کی بن گئی تھی ۔۔۔
فدک اسکا یوں ٹکٹکی باندھے خود کو دیکھنا نوٹ کر چکی تھی۔۔ مگر خود سے ہی اس قدر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اس سے کیا نظریں ملاتی۔۔۔۔۔۔
"موم آپ جانتی ہیں ۔۔۔۔ جب میں نائتھ سٹینڈرڈ میں تھی ناں تب مجھے میری کلاس کی ایک لڑکی نے بہت مارا تھا۔۔۔ میں روئی بھی تھی۔۔۔ جب میں نے اسے دھمکایا کہ اپنی موم کو بتاؤں گی تو وہ آگے سے ہنس دی تھی۔۔۔ آپ جانتی ہیں وہ کیوں ہنسی تھی ۔۔ وہ اس لئے ہنسی تھی۔۔ کیونکہ اسنے میرے ماتھے پہ چوٹ دیکھی تھی۔۔ جو مجھے واشروم میں گرتے لگی تھی۔۔۔۔۔ اس چوٹ پہ میں نے کچھ بھی نہیں لگایا تھا۔۔ آپ کو بتایا تھا۔۔ آپ نے کہا کہ ائنمنٹ لگا لو۔۔ پھر مجھے بھی خیال نہیں رہا۔۔۔۔
الایہ اپنے ماضی میں کھوئی فدک کے ساتھ اپنے دل میں دبی وہ ساری باتیں شئیر کرنے لگی جس کی وجہ سے اسکے دل میں زخموں کے ناسور بن چکے تھے۔۔۔۔۔۔
اس لڑکی نے کہا کہ جب تمہاری موم نے تمہاری پرانی چوٹ نہیں دیکھی تو وہ یہ بھی نہیں دیکھی گی۔۔۔ اور آپ جانتی ہیں۔۔ میں نے اسے بدلے میں دھکہ بھی دیا کہ نہیں میری موم ایسی نہیں ہیں۔۔۔وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں ۔۔مگر میں غلط تھی۔۔۔ میں غلط تھی کیونکہ آپ نے پھر سے میری چوٹ کو نظر انداز کر دیا۔۔۔۔ ڈیڈ نے مجھے مرہم لگایا ۔۔۔۔پیار بھی کیا ۔۔ مگر میں تو ساری رات آپ کا انتظار کرتی رہی آپ کہیں بھی نہیں تھی آپ نہیں آئی موم۔۔۔ اور پھر اس دن کے بعد میں نے آہستہ آہستہ اپنی امیدیں ختم کردیں آپ سے۔۔۔۔۔۔۔ تکیلف ہوتی تھی برا بھی لگتا تھا۔۔ کہ میری موم مجھے کیوں وقت نہیں دیتی۔۔۔۔
میری سب فرینڈز کی موم تو ہوتی ہیں انکے پاس۔۔۔ وہ اپنی ہر بات ہر راز ان سے شئیر کرتی ہیں مگر میں ۔۔۔ میں کس سے شئیر کرتی ۔۔۔۔ آپ کے پاس میرے لئے وقت ہی نہیں تھا۔۔۔ اور اذلان ۔۔۔ آپ جانتی ہیں ناں اسے میں نے اپنا بیسٹ فرینڈ مانا تھا۔۔۔۔ مگر اس نے بھی مجھے دھوکہ دے دیا۔۔۔۔۔
فدک نے بے بسی سے اپنی بکھری بیٹی کو دیکھا۔۔۔ اسکی حالت کی قصور وار وہ خود ہی تو تھی۔۔۔ کتنی تکلیف دہ حقیقت تھی یہ ۔۔۔۔۔ فدک کا دل چاہا کہ ابھی گڑگڑا کر اپنی بیٹی سے اپنے کیے کی معافی مانگ لے مگر وہ کچھ کہہ رہی تھی۔۔ کچھ بتانا چاہ رہی تھی اسے۔۔۔ وہ پھر سے اسے خود سے دور نہیں کر سکتی تھی۔۔ اپنی بچپن کی معصوم الایہ کو دوبارہ سے اسی خول میں قید نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔۔
میری جان میں پاس ہوں آپکے آپ بتاؤ کیا کیا اذلان نے۔۔۔ اگر اس نے کچھ بھی برا کیا ہوگا تو میں خود اپنی بیٹی کو اس کے ساتھ رخصت نہیں کروں گی ۔۔۔۔ اسکی نم آنکھوں پہ بوسہ دیتے فدک نے اپنے ہونے کا یقین دلایا ۔۔ ۔۔۔ الایہ کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی ۔۔اپنی موم کے ساتھ انکے پیار کو پا کر ۔۔۔۔۔۔وہ اسکے پاس تھی۔۔۔ اس سے بات کر رہی تھی۔۔ اسے سن رہی تھی۔۔ کیا یہ کم تھا اسکے لئے۔۔۔۔
" اسنے مجھ سے کہا تھا۔۔ کہ میں بہت گھٹیا لڑکی ہوں۔۔۔ مجھ سے دوستی تو دور کی بات ہے۔۔۔۔ کسی کو مجھ سے بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔۔ وہ بچھتا رہا تھا کہ اسنے مجھ سے دوستی کی۔۔۔۔۔۔۔ اسنے مجھے تھپڑ مارا تھا موم ۔۔۔ جانتی ہیں ۔۔ گیارہ سال کی تھی میں جب اتںےشوق سے اس سے ملنے گئی۔۔۔ مگر اذلان اس نے مجھے تھپڑ مارا زور سے دھکہ بھی دیا میں نیچے گر گئی۔۔ مگر میں نے پھر بھی ہار نہیں مانی ۔۔۔۔میں نے اسے بتایا تھا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔
وہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔ میں نے اسے کچھ نہیں پلایا مگر اذلان نے میری ایک بھی نہیں سنی۔۔۔۔ اسنے ہاتھ پکڑتے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ۔۔۔ ۔۔" یہ بھی نہیں سوچا کہ میں کہاں جاؤں گی ۔۔۔۔ اکیلی۔۔۔ آپ جانتی ہیں ۔۔۔ نیناں آنٹی کو جب پتہ لگا تو انہوں نے مجھے لاڈ سے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔ مجھے بہت سمجھایا ۔۔۔ مگر میں اس دل کا کیا کروں جس میں ایک ہی بات سموئی ہے۔۔۔۔۔ آپ جانتی ہیں ۔۔ اسکی باتوں اسکے رویے نے مجھے کتنے سال ڈسٹرب رکھا۔۔۔
جس وقت میرے کھیلنے کی عمر تھی۔ میں رات رات جاگتی اسکے رویے پہ روتی تھی ۔ اسے کال کرتی تھی۔ ۔ تو آگے سے وہ نفرت سے باتیں سنا کر کال کاٹ دیتا۔۔۔۔ آپ ہی بتائیں میں کیسے ایسے شخص کے ساتھ رہ لوں ۔۔۔ جسے مجھ پر اتنا سا بھی یقین نہیں۔۔۔۔۔
کہتے ساتھ ہی وہ زور زور سے رونے لگی تھی۔۔ فدک کا حال تو یہ سب جاننے کے بعد مزید خراب سا ہو گیا تھا۔۔ اسکی بیٹی اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنا کچھ برداشت کرتی آئی تھی اور وہ کیسی ماں تھی جسے ہوش تک ناں آیا۔۔۔۔۔
بعض اوقات ماں باپ کا چھوٹوں کے لئے پیار توجہ اور یہ سوچ کہ میرا بڑا بچہ خود سے سب ہینڈل کر لے گا۔۔۔ اسی وجہ سے بچے اپنے ماں باپ سے دور ہونے لگتے ہیں۔۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے اندر رکھنے میں وہ خود کو اس خد تک ایک خول میں قید کر لیتے ہیں کہ اس خول کو توڑ پانا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
جس طرح سے چھوٹے بچے کو ماں باپ کے لاڈ پیار توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے بڑوں کو بھی انکا ساتھ چاہیے انکی توجہ ۔۔۔ تاکہ بعد میں انہیں پچھتانا ناں پڑے۔۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو الایہ میری بچی۔۔۔۔۔۔۔ " میں تمہیں وہ پیار وہ محبت نہیں دے پائی جس پہ تمہارا حق تھا۔۔۔۔۔ تمہارے بگڑے رویے کی وجہ جاننے کی بجائے میں نے تمہیں خود سے دور کر دیا۔۔۔ اپنی موم کو معاف کر دو میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بچی۔۔۔۔۔"
نہیں موم آپ پلیز ایسا مت کہیں ۔۔۔۔۔۔ آپ نے ہمیشہ مجھے محبت دی میں نے ہی بدتمیزیاں کیں آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔ " اسکی بات کاٹتے وہ فدک کی گود میں سر رکھتے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔
فدک نے نرمی سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اسے سہلایا۔۔۔۔۔۔" ایسا مت کہو میری جان۔۔۔۔۔ میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔ اب تمہاری مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ اسکے سر پہ بوسہ دیتے جہاں فدک نے پرعزم انداز میں اسے یقن دلوایا تھا ۔۔ وہیں وہ آج اتنے سالوں بعد کسی چوھٹے بچے کہ مانند اپنی موم کی گود میں سکون سے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" اندر جا ابھی اور دیکھ وہ لڑکی آئی ہے آج یونیورسٹی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اذلان کی کہی بات اسکے دل و دماغ کو بری طرح سے آگ لگا گئی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ دائیں سے بائیں ٹہلتا کوئی پاگل دکھ رہا تھا۔۔ مٹھو اور جبار چلے گئے تھے ۔۔۔ جبکہ بھاؤں نے فون نکالتے شارف کو کال کی جسے اسنے حیا پہ نظر رکھنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
" بب بھاؤں آج وہ یونیورسٹی نہیں آئی۔۔۔۔۔" شارف نے فورا سے معلوم کرتے بھاوں کو کال کی ۔۔ بھاؤں نے بری طرح سے فون پہ گرفت مضبوط کی تھی۔۔۔۔۔۔ جبڑے غصے سے بھینچ گئے تھے جبکہ چہرہ خدردجہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔۔
اسنے غصے سے اپنا فون سامنے ٹھاہ سے دیوار پہ دے مارا تھا۔۔۔۔ ' اسکا مطلب یہ سچ تھا۔۔ تو حیا میڈم سچ میں چار دن کے بعد نکاح کرنے والی تھی اور اپنے گھر چھپ کے بیٹھی تھی کہ بھاؤں اس تک نہیں پہنچ پائے گا۔۔۔۔۔۔۔
"قیصر۔۔۔۔۔" بھاؤں دھاڑا تھا ۔۔۔۔ اسکی گرج دار آواز پہ قیصر سیڑھیاں چڑھتے دوڑتے اوپر آئے۔۔۔۔۔ فون دے اپنا۔۔۔۔ بھاوں نے پھٹتے سر کو انگلیوں سے مسلتے اسے حکم دیا ۔۔۔۔ قیصر گڑبڑا گیا ۔
جج جی ۔۔" وہ ڈر گیا کہ شاید کچھ غلط کر دیا ہے اسنے۔۔۔۔۔
فون دے سالے۔۔۔۔ " اسے گریبان سے جھنجھوڑتے وہ جنونی انداز میں غرایا تھا۔۔ اور پھر خود ہی اسکے جیب میں ہاتھ ڈالتے فون نکالا ۔۔ اسے جھٹکے سے چھوڑتے اسنے ہاتھ سے اسے غائب ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔ تو مقابل جھٹ سے غائب ہوا۔۔۔۔۔۔
بھاؤں نے لہو رنگ نظروں سے نمبر ڈائل کیا ۔۔۔۔۔ بیل جا رہی تھی مگر کوئی بھی کال نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔
حیا جو باتھ لے کر بالوں کو تولیے سے رگڑتے باہر آئی تھی۔۔ مسلسل بجتے موبائل کی آواز پہ اسنے زچ آتے کال پک کی تھی۔ ۔۔۔
ہیلو کون۔ ۔۔۔۔۔!" انجان نمبر تھا جبھی وہ غصے سے استفسار کرنے لگی۔۔ یہ جانے بنا کہ مقابل کون تھا۔۔۔۔۔۔
" تمہیں کیا لگتا ہے کہ یوں چھپ کر نکاح کر لو گی تم۔۔۔۔ میری زندگی تباہ و برباد کر کے خود اپنا گھر بسا لو گی۔۔ حیا میڈم۔۔۔۔۔۔ وہ بولا کم دھاڑا ذیادہ تھا۔۔۔۔۔ حیا نے کانپتے ہاتھوں سے فون کو دیکھا۔۔۔ یہ سب اسکے لئے غیر متوقع تھا۔۔۔۔
"مم میں ڈڈ ڈرتی نہیں ہوں تم سے ۔۔۔ سن لیا ۔۔۔ چار دن بعد میرا نکاح ہے اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب کک کر کے تم مجھے ڈرا لو گے تو بھول ہے تمہاری۔۔۔۔" کانپتی انگلیوں سے فون پہ گرفت مضبوط کرتے اسنے خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے کہا تھا۔۔ مگر لہجے کی کپکپاہٹ واضح تھی۔۔ کہ وہ اندر سے کتنا خوفزدہ ہو گئی تھی ۔۔۔۔
" بڑا شوق چڑھا ہے نکاح کرنے کا ۔۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے سن لو آج سے ٹھیک تین دن بعد تم اپن کے نکاح میں ہو گی تمہارے باپ اور ماں کے سامنے اپن تم سے نکاح کرے گا۔۔۔۔۔ اور اگر ایسا ناں کر سکا تو میرا نام بھی بھاؤں نہیں۔۔۔۔۔ ایک بات اور اگر اپنے ہاتھوں پہ کسی غیر کے نام کی مہندی لگائی تو سب سے پہلے تمہارے ہاتھ کاٹوں گا۔۔۔۔۔۔۔"
اسنے سرد سپاٹ لہجے میں اسے آگاہ کیا تھا۔۔ حیا نے زرد پڑتی رنگت سے آنکھوں کو جھپکا۔۔۔۔۔۔
" تم سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔۔۔ تمہاری بھول ہے کہ تم اب دوبارہ سے ایسی کوئی گھٹیا حرکت کر سکتے ہو۔ ۔۔۔ اگر اس دفعہ تم نے مجھے یا میرے خاندان کو تکلیف دینے کا سوچا بھی تو میں تم پر کیس کرواؤں گی ہراسمنٹ کا۔۔۔امن اشعر علوی۔۔ ۔۔ جو کچھ پہلے نہیں کر سکی وہ اب کروں گی۔ مجھے کمزور مت سمجھنا۔۔۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔۔۔۔وہ تنگ آ چکی تھی روز روز کے اس ڈرامے سے کیوں وہ اسے تنگ کرنے آ جاتا تھا۔۔۔ جب بھی وہ خود کو سنبھالتی تھی تبھی وہ کہیں ناں کہیں سے آ جاتا تھا۔۔۔۔ اسکی زندگی کو اور کٹھن کرنے۔۔۔۔۔
" بھاؤں کا چہرہ اتنی تذلیل، اہانت پہ سرخ ہوا تھا۔۔۔ دل کیا کہ ابھی اسکی جان اپنے ہاتھوں سے کھینچ کر نکال دے ۔۔۔۔ " پہلے تین چار بار تمہیں سہی سلامت چھوڑ دیا اسی وجہ سے آج یوں بھونک رہی ہو۔۔۔۔۔ فکر مت کرو۔۔۔ بھونکنا تو دور بولنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ جب پورے حقوق کے ساتھ تمہارے وجود پہ اپنے نام کی مہر لگاؤں گا۔۔۔ صرف تین دن۔۔۔ تین دن تک جی لو اپنی زندگی ۔۔۔۔ اسکے بعد تمہاری ہر آتی جاتی سانس پہ اس بھاؤں کی حکمرانی ہو گی۔۔۔ اگر ایسا ناں کر سکا تو پوری زندگی تمہیں کبھی شکل تک نہیں دکھاؤں گا۔۔۔۔ "
غصے ، تکلیف ، طیش میں وہ ضبط کھوتا دھاڑ اٹھا تھا۔۔۔ اپنے الفاظ کی سختی تک کا اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ دماغ جو تھوڑی دیر پہلے اسکی دوری کا سوچتے دُکھ رہا تھا اب اسکے الزامات پہ سن ہو گیا تھا۔۔۔ جیسے۔۔۔۔۔ اپنے بالوں کو مٹھیوں میں بھینچتے وہ تکلیف کی شدت پہ زور سے دھاڑا تھا۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" ماریہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔! " سڑک کے کنارے پہ اسکے ساتھ چلتی وہ تقریباً گھبرائی اور سہمی سی تھی۔۔ ماریہ کی چار گھنٹوں کی کمپنی سے وہ اب کافی خد تک گھل مل گئی تھی اس کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔
ڈونٹ وری مائی لو۔۔۔۔" بس ایک فرینڈ سے کچھ کام تھا مجھے تو اس نے یہیں پاس ہوٹل میں بلایا یے۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں ہم فری ہو جائیں گے۔۔۔۔۔
اسکے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھتے وہ محبت سے مسکراتے بولی تو حرمین نے سر ہلایا۔ البتہ وہ اندر سے ڈر رہی تھی۔۔۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی ۔ وہ ہنس مکھ سی تھی۔ دوست بنانے والی۔۔ مگر جو کچھ وہ یہاں آنے کے بعد محسوس کر رہی تھی۔۔ وہ سہم گئی تھی اندر سے۔۔۔۔
اسنے دیکھے تھے اپنے بائیں کندھے پہ دانتوں کے نشانات مگر وہ ڈر کے خاموش ہو گئی تھی۔۔ بتاتی بھی تو کسے بتاتی انزِک ویسے بھی یقین نہیں کر رہا تھا ۔۔ اور پھر وہ اسے کیسے کہتی کہ اسکے کندھے پہ کسی کے کاٹنے کے نشانات پڑے ہیں۔۔ یہی سب سوچتے وہ خاموش سی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
کمرہ تبدیل کرنے کے باوجود بھی اسے خود پہ کسی کی گہری نظروں کی تپش محسوس ہوتی تھی ۔۔۔۔ مگر وہ خاموش سی ہو گئی تھی ۔ عزت کے ڈر نے اسے کچھ بھی بولنے سے روک دیا تھا۔۔۔۔ اب واپس بھی کیسے جاتی ۔۔۔ کیا کہتے سب کہ ضد کر کے گئی تھی اور ایک مہینہ بھی ٹہر ناں سکی۔۔۔۔
" حور چلو اندر ۔۔۔ ۔۔۔ ماریہ کے جھنجھوڑنے پہ وہ ہوش میں آئی تھی۔۔۔ اور سر کو ہاں میں ہلاتے اسکے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئی۔۔۔ ہوٹل کے اندر کا ماحول نارمل سا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ حرمین نے خوف سے بھری اپنی گہری جھیل جیسی سیاہ آنکھوں سے اطراف کو دیکھا ۔۔۔ سب اپنے اپنے کام میں مگن تھے۔۔۔۔ ایک دم سے اپنی پشت پہ نظروں کی تپش محسوس کرتے اسنے جھٹ سے چہرہ موڑا مگر پیچھے تو ایک ہی شخص بیٹھا تھا۔۔۔ جس کی اسکی جانب پشت تھی۔۔۔۔۔ وہ رخ پھیرے کافی یا پھر شاید چائے پی رہا تھا۔۔۔
اسکے ڈارک براؤن سلیقے سے بندھے بالوں کو دیکھ حرمین کو عجیب سا لگا وہ سر جھٹکتی اپنی چھوٹی سی ناک چڑھاتے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔۔ مقابل چئیر پہ بیٹھے وجود نے اپنی بائیں ٹانگ کو جھلاتے بغور اسکی چھوٹی سی ناک اور گالوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔ اور ہلکا سا ہنستے وہ بالوں کو اپنے بائیں ہاتھ سے پیچھے کرنے لگا۔۔۔۔
تم یہاں بیٹھو میں ابھی آتی ہوں۔۔۔۔۔۔ " اسے ایک صوفے پہ بٹھائے ماریہ نے مسکراتے کہا تو حرمین نے فورا سے اسکا ہاتھ تھاما۔ ۔۔۔ " ڈونٹ وری بےبی یہیں ہوں اکچوئلی وہ لڑکا ہے جس سے ملنے جا رہی ہوں ۔ اور تم اس سے ملنا پسند نہیں کرو گی اسی لیے میں مل کے آتی ہوں ۔۔۔ ہممممممم۔۔۔۔ اسے سمجھاتے وہ محبت سے گال تھپکتے بولی ، ، حرمین نے سر ہلا دیا ۔۔۔ ماریہ مسکراتے ایک جانب چلی گئی۔۔۔
حرمین نے آگے پیچھے دیکھا سب ہی خود میں مگن تھے۔۔۔ اچانک سے حرمین نے سامنے دیکھا جہاں ایک ادھیڑ عمر کا شخص اسے گھور رہا تھا۔۔ حرمین نے نامحسوس انداز میں اپنے گرد اپنے ہاتھوں کو لپیٹا ۔۔۔۔ گھبراہٹ میں اسنے پانی کا گلاس اٹھاتے فورا سے لبوں کو لگاتے ایک ہی سانس میں ختم کر دیا۔۔۔۔۔
ماریہ جانے کہاں چلی گئی تھی ۔۔ اب اسے سچ میں خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کیونکہ پچھلے دس منٹ سے وہ شخص اسے بری طرح سے گھور رہا تھا۔۔۔۔ حرمین نے ڈرتے اس جانب دیکھا جہاں ماریہ گئی تھی۔ یہاں بیٹھنا محال لگا اسے ۔۔۔اسی لئے وہ فورا سے اٹھی تھی اور اسی جانب بھاگی جہاں ماریہ گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ اسے ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔ جو اسے کہیں بھی نہیں ملی تھی ۔۔۔
ماتھے پہ بل سجائے وہ سرد تاثرات سے تیز تیز قدم اٹھائے اسی جانب آیا تھا۔۔۔۔ دائیں جانب سے مڑتے وہ تیز تیز قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ مگر چاروں اطراف نظریں دوڑانے کے باوجود اسے وہ کہیں نہیں ملی تھی۔۔ جبھی اسنے غصے سے اپنی گردن پہ ہاتھ پھیرا اور لہو رنگ نظروں سے آگے پیچھے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
مگر کسی کو بھی ناں پاتے وہ دوبارہ سے واپس جانے کو مڑا ۔۔۔۔۔ کیونکہ آگے راستہ بند تھا اور دونوں اطراف لائن میں کمرے بنے تھے۔۔۔۔
اچانک روم سے کچھ گرنے کی آواز پہ ایل کے قدم تھمے تھے۔۔۔ اسنے فورا سے مڑتے اس روم کے دروازے کو گھورا۔۔۔ اور ایک دم سے بنا سوچے سمجھے اسنے ٹانگوں سے وار کرتے دروازہ کھولا تھا۔۔۔
سامنے کا منظر دیکھ اسکی آنکھوں میں خون سا اترنے لگا۔۔ گردن کی رگیں پھولنے لگی وہ مٹھیاں بھینچتے آگے بڑھا تھا۔۔۔۔ اور ایک دم سے حرمین کے اوپر جھکتے اس ادھیڑ عمر شخص کو پیچھے سے پکڑا تھا۔۔۔۔۔ وہ جو اپنے کام میں مگن تھا۔۔ اچانک کسی کی آمد پہ بری طرح سے چونکا۔۔۔۔۔۔۔
ایل نے بائیں ہاتھ کا مکہ بناتے اسکے منہ پہ مارا تھا۔۔۔ وہ درد سے کراہتے ایک دم سے فرش پہ ڈھیر ہوا تھا۔ منہ سے خون کی ایک لکیر سی نمودار ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اسکے بعد وہ رکا نہیں تھا۔۔۔ اسکے دائیں بائیں ٹانگیں رکھتے وہ آدھا اسی پہ جھکا اسے مار مار کے آدھ مرا کر چکا تھا۔۔۔۔۔ آنکھوں میں خون سا جھلک رہا تھا۔۔۔ مگر غصہ کسی بھی طور کم نہیں تھا ہوا ۔۔۔۔۔۔ ایک نے ایک آخری وار اسکے پیٹ پہ کیا۔ تو وہ بےہوش وجود سے بھی تڑپ اٹھا تھا۔۔۔
اسکے بعد اسنے گن سے اسکے دونوں ہاتھوں کے بیچ فائر کیا تھا۔۔۔۔ جس سے مقابل کی دلدوز چیخیں پورے کمرے میں گونجنے لگی۔۔۔۔۔ اسکے تڑپتے وجود کو چھوڑتے وہ واپس مڑا تھا۔۔۔۔
" مگر جیسے ہی نظر بیڈ پہ بےہوش پڑی حرمین پہ پڑی جانے کیوں مگر ایل کو اپنے دل میں درد کا احساس سا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ بےاختیار اسکے قریب ہوا تھا۔۔ گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھتے اسنے بے حد نرمی سے اسکے رخسار کو سہلایا جس پہ انگلیوں کے واضع نشانات تھا۔۔۔۔
دل میں عجیب سے جذبات بیدار ہونے لگے۔۔۔۔ اسے یوں ہوش و حواس سے بےگانہ دیکھ ایل نے بے حد نرمی سے اسے بازوؤں میں بھرا تھا۔۔۔ بالکل کسی کانچ کے وجود کی مانند کے اسکے ٹوٹنے کا ڈر تھا جیسے اسے ۔۔۔۔۔۔ چہرے کے تاثرات پھر سے سپاٹ ہوئے تھے۔۔ مگر سینے میں موجود وہ گوشت کا لوتھڑا بری طرح سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
" اپنی بانہوں میں بھرتے اسنے ایک گہری نظر اس کے بے ہوش وجود پہ ڈالی اور یونہی اسے اٹھائے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
دیکھو اگر تم چاہو تو میں تمہیں منہ بولی قیمت دینے کو تیار ہوں ۔۔۔۔۔ ایک نظر راہداری پہ ڈالتے اسنے سرگوشیاں انداز اپناتے کہا تھا۔۔۔ مقابل بیٹھی لڑکی نے ماتھے پہ بل ڈالے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
" تو مطلب کہ تم مجھے رشوت دینا چاہ رہے ہو۔۔۔۔۔!" اسنے دوٹوک انداز میں پوچھا تھا۔۔۔ جبکہ شفیع نے گہرا سانس بھرتے سر کو ہاں میں جنبش دی۔۔۔۔۔
رات کے ساڑھے گیارہ بجے جہاں چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا تھا۔ وہیں آسمان پہ پھیلی یہ سیاہی مزید گہری ہوتی جا رہی تھی ۔ ۔۔ شہر کے اس بڑے اور مرکزی ہوسپٹل میں اس وقت بھی دن کا سا سماں تھا ۔۔ باہر پھیلی تاریکی کی نسبت ہوسپٹل کے اندر کا ماحول کافی خوشگوار اور پررونق تھا۔۔۔۔۔
شفیع نے ایک آخری امید کے تحت اس لڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔ کیونکہ اس ہوسپٹل میں لیلی کی ڈیلیوری ہوئی تھی۔۔ یقیناً اگر بچہ زندہ تھا تو اس کے سارے ثبوت بھی تو ہوسپٹل والوں کے پاس ہونگے ۔۔۔ اور اسکا شق ٹھیک نکلا تھا۔۔۔۔ اس بچی کو اسی دن ہوسپٹل سے ہی کسی نے اڈاپٹ کر لیا تھا۔۔ یہ سب معلوم کرنے میں اسے پورا ایک ہفتہ لگ چکا تھا۔۔ مگر ریکارڈ نکالنا اسکے لئے بےحد مشکل تھا۔۔۔
اسی وجہ سے اسے کسی کی مدد درکار تھی۔۔
"کیا آپ کو آج سے انیس سال پہلے اس ہوسپٹل میں جنم لینے والی اس بچی کی رپورٹس اور ڈیٹا چاہیے۔۔۔۔ "
بھاری سرد مگر گھمبیر سا لہجہ تھا۔ اپنی پشت سے ابھرنے والی آواز پہ وہ جو پورا جھکا ہوا تھا۔۔۔ اس نے سر اوپر کیا۔۔۔ ماتھے پہ بل نمودار ہوئے۔۔۔۔
پراسرار سی سرد آواز اسے ٹھٹھکنے پہ مجبور کر گئی تھی ۔۔ جبھی وہ مڑا تھا۔۔۔
بلیک ہڈ سے چہرے کو ماسک سے کور کیے بھوری سرخ آنکھوں میں سرد پن کی سرخی لئے۔۔۔۔۔ وہ اس سے بڑے قد کاٹھ کا چوڑے شانے والا کوئی پچیس تیس سالہ نوجوان تھا۔۔۔ شفیع نے سر تا پاؤں اسے دیکھا۔۔ کچھ تھا اسکے لہجے میں کہ کاوئنر پہ بیٹھی لڑکی بھی اب خاموش سی اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔۔۔
شفیع کی نظریں اسی پہ تھیں۔۔ آخر وہ یہ سب کیسے جانتا تھا ۔۔ اور سب سے بڑی بات وہ تھا۔۔کون۔۔۔۔
" ہاں جاننا چاہتا ہوں۔۔ مگر تم کون ہو تم اس کے بارے میں کیسے جانتے ہو۔۔۔۔..." شفیع نے پر اعتماد لہجے میں آنکھیں چھوٹی کیے اس سے استفسار ذرا سخت لہجے میں کیا تھا۔۔۔۔
اسکے روعب پہ مقابل نے ائبرو اچکائے۔۔اور چلتا اس دو قدموں کے فاصلے کو سمیٹتے اسکے قریب کھڑا ہوا۔۔ اتنا کہ اسکے مسحور کن کلون کی خؤشبو کو شفیع نے بخوبی اپنے اندر تک اترتا محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔ شاہد یہی چیز اسے آگے جا کر مدد کرتی۔۔۔۔۔!"
" مجھے لگا تھا کہ ناکامی ملنے کے بعد تم اس بات کا پیچھا چھوڑ دو گے مگر تم تو کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ نکلے۔۔ بہرحال میں جو بھی ہوں اور ان سب کے بارے میں کیسے جانتا ہوں ۔۔۔ اس بات کو چھوڑو اب ایک بات یاد رکھنا۔۔۔۔ اس لڑکی کا تم سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ خود سے پیچھے ہو جائے کیونکہ اگر میں نے اپنا انداز اپنایا تو یقیناً تمہاری چودہ سالہ بیٹی جو کہ اس وقت اٹلی کی مشہور کالج میں پڑھ رہی ہے۔۔ تمہارا دس سالہ چھوٹا بیٹا جو اس وقت تمہاری بیوی کے ساتھ تمہارا گھر پہ انتظار کر رہا یے۔۔۔۔ اور تمہارا بیس سالہ جوان بیٹا سمیر جسے تم نے بہت سے لوگوں سے چھپا کر رکھا ہے ۔۔۔ ان سب کے لئے کچھ بھی اچھا نہیں ہو گا۔۔۔"
اسنے تیز مگر سرد لہجے میں اسکی آنکھوں میں اپنی بھوری لہو رنگ آنکھوں کو گھاڑتے اسے آگاہ کیا تھا۔۔ شفیع کے ماتھے پہ ڈھیروں بل نمودار ہوئے تھے۔۔۔۔ ماتھے پہ چمکتے پسینے کے قطرے مقابل پہ اسکی حالت عیاں کر رہے تھے ۔۔۔ جبھی وہ نقاب کے اندر سے ہی گہرا مسکرایا ۔۔۔
"تم ہو کون دیکھو تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔ وہ بچی میرے سر کی ہے۔۔۔ وہ بہت تلاش رہے ہیں اپنی بیٹی کو۔۔۔ انکی طبیعت خراب یے۔۔۔ پلیز آپ اس لڑکی کو اگر جانتے ہیں۔۔۔ تو اسے واپس کر دیں۔۔۔ "شفیع نے ہاتھ جوڑتے ایک آخری التجا کی تھی ۔۔ سلمان کی التجائیں کیسے بھول جاتا
۔۔۔۔ جسکی وجہ سے اسکا خاندان آج خفاظت سے رہ رہا تھا۔۔۔
" تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ وہ بالکل ٹھیک اور بہت خوش ہے۔۔۔ اگر اب تم نے اس تک پہنچنے کی کوشش بھی کی تو اپنے بچوں تک پہنچنے کی ہر کوشش میں تم خود کو ناکام پاؤ گے۔۔۔ "
شفیع کی کوئی بھی التجا اس پہ اثر نہیں کر سکی تھی۔۔۔ شفیع سر جھکائے مردہ قدموں سے خود کو گھیسٹتے باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔
وہ باہر آیا تھا۔۔ دور تک اس کی گاڑی کو دیکھا اور پھر ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اسنے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔
ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل فون پہ ڈالی اور پھر نمبر ڈائل کیا ۔۔ جسے ایک سیکنڈ میں ہی پک کیا گیا تھا۔۔۔۔
" کیا۔۔۔۔ کیا ہوا ویام۔۔۔۔ ! تم نے سنبھال لیا اس شخص کو کہ نہیں۔۔۔۔" خوف سے گھٹی آواز میں وہ لہجے کی کپکپاہٹ پہ قابو پانے کی سعی کی ناکام سی کوشش کرتے بولا۔۔۔۔۔
ویام نے مسکراتے سر جھٹکا ۔۔۔ "ڈونٹ وری سسر جی میرے ہوتے میری عین کو کوئی مجھ سے دور لے جائے میں اسکی سانسیں تک چھین لوں یہ تو بس ایک ٹریلر تھا۔۔۔۔۔۔" سسر جی وریام سے پڑنے والی ڈانٹ کے بعد سے وہ بول رہا تھا۔۔۔
" ویام وہ ریکارڈ وہ کہاں ہے ۔۔۔۔۔!" رافع کو ابھی تک تسلی نہیں تھی ہوئی۔۔۔ اگر یہ بات فدک کو معلوم پڑتی تو یقیناً اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔۔۔ رافع کو ویام نے ہی کال کر کے اس سب کے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔ کیونکہ اس سب کے پیچھے اسکا اپنا مفاد بھی تھا۔۔۔
" ڈونٹ وری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سسر جی ریکارڈ میرے پاس ہے اس کی فکر مت کریں آپ۔۔۔ بس آپ اپنا وعدہ یاد رکھئے گا۔۔۔۔۔ ۔۔" گلوز اتارتے اسنے تنبیہہ اور یاددہانی کروانا لازم جانا۔۔۔۔۔۔۔ "
" رافع نے آنکھیں میچتے ہونٹوں کو بری طرح سے کچلا۔۔۔۔ مگر زبان سے کچھ نہیں بولا ۔۔۔۔۔۔
سو گئے کیا۔۔۔۔۔۔" ویام نے تیز لہجے میں طنز کرتے پوچھا۔۔۔ تو رافع نے گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔۔۔
" یاد ہے مجھے اسی ہفتے عیناں اور تمہاری رخصتی ہو جائے گی۔۔۔۔ مجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔۔۔ " ہاتھوں کی مٹھیوں کو سختی سے دبوچتے وہ دل پہ جبر کرتے بولا۔۔۔۔
" مجھے آپ سے یہی امید تھی۔۔۔ شکریہ سسر جی۔۔۔۔۔۔۔" ہڈ سر پر سے اتارتے ویام نے اپنی بھورے بالوں کو مسکراتے اپنے ہاتھ سے سہلایا ۔۔۔ چہرے پہ ابھرتی قاتل مسکراہٹ، بھوری آنکھوں میں چمکتا جنون ، عشق ، وہ ایک پل میں جیسے صدیاں جی آیا تھا۔۔۔۔
"رافع کو اپنی بےبسی پہ جی بھر کے غصہ آیا تھا۔۔ کاش وہ وریام سے اسکی شکایت ناں کرتا۔۔۔۔ " وہ جانتا تھا۔۔۔ ویام نے جان بوجھ کر دو ہفتے کی جگہ اب ایک ہفتے کی ڈیمانڈ کی تھی ۔۔ کیونکہ وہ وریام سے بدلہ لینا چاہ رہا تھا۔۔۔ اور ان دونوں باپ بیٹے کے بیچ رافع بری طرح سے پھنس چکا تھا۔۔۔۔۔۔
"اوکے خیال رکھئے گا اپنا۔۔۔ سی یو ۔۔۔۔ " اسنے جان لیوا مسکراہٹ سے رافع کو گڈ بائے کہا تھا۔۔موبائل جیب میں ڈالا اور ایک نظر آسمان سے آدھے جھانکتے اس چاند کو دیکھا۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی پشت پہ ہاتھ لے جاتے اس نے ڈاکومنٹس اپنے سامنے لہرائے۔۔۔۔
" ڈاکومنٹس کھولے ایک نظر اس بلیو لائن پہ ڈالی جس پہ واضع طور پہ لکھا تھا۔۔۔ " عیناں رافع اظہر " وریام نے ایک نظر آسمان پہ ڈالی اور اگلے ہی پل اسکے دماغ میں شفیع کی کہی بات لہرائی۔۔۔ " بھلا وہ کیسے اپنی عین کو خود سے دور کر سکتا تھا۔۔۔۔ کیسے کسی کے مانگنے پہ اسے پلیٹ میں سجا کے سرو کر دیتا۔۔ وہ تو ویام کاظمی کےدل میں دھڑکتی تھی۔۔۔۔ اسکی سانسوں میں عشق کی ماند گردش کرتی تھی۔۔۔ کیسے اسے خود سے دور کر دیتا۔۔۔۔۔
" میں ہر اس وجہ کو ختم کر دوں گا جو مجھ سے میری عین کو دور کرے۔۔۔۔۔۔۔۔" ہاتھ میں تھامے ڈاکومنٹس کے ٹکروں کو فضا میں پھینکتے اسنے عجیب سے سرد بھاری لہجے میں خود سے سرگوشی کی تھی۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" مجھے بس وہ واپس چاہیے امی۔۔۔۔ میرے دل دکھتا ہے اسکی جدائی پہ۔۔۔۔۔۔ اب تو آنکھیں بھی سوکھ گئی ہیں۔۔ آنسوں بھی نہیں بہتے۔۔۔۔ کیا وہ اتنا سفاک تھا۔۔ کہ اسے اپنی ماں کے آنسوں تڑپ تک محسوس نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔۔"
سلمیٰ بیگم سے فون پہ بات کرتے وہ سسک رہی تھی۔۔۔ وہ خود بھی تو اپنی بیٹی کی تکلیف کو محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ بھلا ان سے کیا کچھ چھپا تھا۔۔۔۔۔
" وہ نہیں آئے گا۔۔۔ وہ اشعر کا خون ہے۔۔ اسکے جیسا ہی ضدی۔۔۔۔ میں اسی لئے نہیں چاہتی تھی کہ وہ تمہاری زندگی میں آئے۔۔۔۔ دیکھا میری بچی پوری زندگی کا روگ لگا دیا ۔۔۔۔ جوان جہان بیٹے کو آنکھوں سے دور کر دیا۔۔۔گھر سے ذلیل کر کے نکال دیا ۔۔۔۔۔ ایک بار بھی اس کی بات نہیں سنی اسے صفائی کا موقع تک نہیں دیا۔۔۔۔۔۔
" سلمیٰ بیگم کی آنکھوں میں اپنے شریر سے امن کی جھلک سی ابھری آنکھیں نم سی ہو گئیں تھی۔۔۔ اب تو اسے دیکھے عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔ "
" امی آپ نہیں جانتی ۔۔۔۔ وہ خود بھی اندر سے تڑپتا ہے۔۔۔ کیسے بھول سکتا ہے اسے۔۔۔ بھلا وہ کوئی کھلونا تھا۔۔۔لوگ تو بےجان چیزوں کو بھی آسانی سے نہیں بھولتے وہ تو پھر بھی ہمارا بچہ ہے۔۔۔۔۔"
" وہ جب بھی یہاں آتی تھی اسکا غم ہلکا سا ہو جاتا تھا۔۔۔۔ اسکی سننے والی اسکی ماں جو ہوتی تھی۔۔ اسے تسلیاں دینے والی۔۔۔۔۔۔ "
میں بات کروں گی اس سے اب تو حیا کی شادی ہو رہی ہے میں اسے سمجھاؤں گی کہ اسے ڈھونڈے، واپس لے آئے بچے کو۔۔۔۔۔" اپنی بیٹی کی اذیت کو محسوس کرتی وہ تسلیاں دینے لگی۔۔ رمشہ نے اپنی سرخ آنکھوں سے آنسوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کیا تھا۔۔۔۔۔
"اچھا امی میں بعد میں بات کروں گی اشعر آ گئے ہیں شاید۔۔۔ ۔ گیٹ پہ ہارن سنتے اسنے خدا خافظ کہتے کال کاٹی تھی۔ ۔۔۔۔۔",
"حیا میری بچی ادھر آؤ میرے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" فون رکھتے سلمی بیگم نے دوپٹے سے آنکھیں صاف کرتے کہا تھا۔۔ وہ جو اپنی دادو کے پاس آئی تھی تاکہ سکون سے بے خوف ہو کر سو سکے مگر اپنی پھپھو اور دادو کی باتیں سننے کے بعد اسکے پاؤں منجمد ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔
اب سلمی بیگم کے بلانے پہ وہ شرمندہ سی ہو گئی۔۔۔۔ بمشکل مردہ قدموں سے وہ چلتی انکے بیڈ کے قریب آئی تھی۔۔۔۔۔
ادھر آؤ میری جان۔۔۔۔۔" اسے یوں نظریں جھکائے کھڑا دیکھ وہ محبت سے بولی تو حیا دوڑتے انکے سینے سے جا لگی ۔۔۔۔۔
" باہر کیوں کھڑی تھی ہمممم۔۔۔ میرے پاس آنے کیلیے تمہیں کسی کی اجازت درکار نہیں تم جب چاہو آ سکتی ہو۔۔۔۔۔"
اسکے بال سنوارتے وہ پیشانی پہ لب رکھتے بولی کہ وہ آنکھیں جھکائے سر ہاں میں ہلا گئی ۔۔۔۔۔
" خوش ہو اس نکاح پہ۔۔۔۔" اسکے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے وہ پوچھنے لگی حیا کے کانوں میں امن کے کہے الفاظ بازگشت کرنے لگے وہ نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دباتے سر ہاں میں ہلا گئی ۔ تو سلمی بیگم گہرہ مسکرائی۔۔۔۔
ادھر آؤ میری گود میں لیٹو آج تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔" نرمی سے اسکے بال سنوارتے انہوں نے محبت سے کہا تو وہ خود بھی انکی گود میں سر رکھتی آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔۔
امن اور اذلان تمہاری پھپھو کے بیٹے۔۔۔۔۔۔ شکل و صورت سے ایک جیسے مگر عادتوں کے مختلف۔۔ ۔۔ اذلان شروع سے ہی کم گو تھا۔۔۔ اپنے باپ سے اسکی کافی بنتی تھی ۔۔۔ کیونکہ وہ پڑھائی میں کافی اچھا تھا۔۔ ہر مقام میں اول آتا تھا۔۔۔ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتا تھا۔۔۔۔۔ اور امن اس سے دو منٹ پہلے اس دنیا میں آیا تھا۔۔۔۔
خود کو اسکا بڑا بھائی کہلواتا تھا۔۔ بےحد بدتمیز ، ضدی اور شرارتی۔۔۔۔ اسکی بدتمیزی اسکے باپ کے آگے چلتی تھی۔۔ کیونکہ اشعر اسے پولیس آفیسر بنانا چاہتا تھا۔۔۔ اسی لئے وہ چاہتا تھا کہ وہ خوب اچھے سے پڑھے ۔۔ محنت کرے مگر وہ اس شعبے میں نہیں جانا چاہتا تھا۔۔۔ یہ ہم سب جانتے تھے مگر اندر کی کہانی سے کوئی بھی واقف نہیں۔۔۔۔۔
وہ ماں کے سامنے ضدی تھا۔۔ کیونکہ اسکے لاڈ اور ضد اسکی ماں اٹھاتی تھی۔۔ ہر رات اسکے لئے اشعر اور اذلان سے چوری کچھ ناں کچھ بنا کے رکھتی تھی۔۔۔۔ جو وہ بھی اچھے سے جانتا تھا۔۔۔۔ اور شرارتیں سلمی بیگم اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے مسکرا رہی تھی۔۔۔ وہ سارا وقت آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا۔۔۔۔
صحیح کہتے ہیں لوگ اصل سے سود پیارا ہوتا ہے۔۔ اور اب اپنے بچوں کی تکلیف پہ وہ کیوں تکلیف میں ناں ہوتی۔۔۔۔ اسکی شرارتیں صرف حیا سے ہوتی تھی۔۔۔۔ صرف تم سے ہوتی تھی میری بچی ۔۔۔۔۔ "
حیا نے لب بھینچتے انکے دوپٹے کو مٹھیوں میں دبوچا ہوا تھا۔۔۔ آنکھوں میں خود بھی نمی آئی تھی۔۔۔۔
اب میں تمہیں بتاؤں کہ اصل کہانی کیا تھی۔۔۔
"وہ ہر سال کم نمبر لاتا تھا۔۔۔ تاکہ اسکا باپ اسے ڈانٹے ۔۔۔ اسکا بھائی پہلے آنے پہ مسکرائے ۔۔۔۔ سب سے اسے شاباش ملے ۔۔۔۔ اور ماں کا لاڈ جو صرف اس اکیلے کے لئے تھا وہ بھی صرف اسے اکیلے کو چاہیے تھا۔۔۔۔۔ وہ بدتمیز نہیں تھا۔۔۔ مگر باپ کے سامنے خود تیز لہجے میں بولتا تھا۔۔ تاکہ اشعر کچھ دیر صرف اسکے لئے بولے صرف امن کا ذکر کرے ۔۔۔ وہ لفظوں کی سختی نہیں بلکہ لہجے میں چھپی پرواہ پہ مسکراتا تھا۔۔۔۔
وہ جانتا تھا۔۔ اسکا باپ اس سے بےحد محبت کرتا تھا۔۔۔
ایک بار اسنے کہا تھا کہ وہ پولیس آفیسر بنے گا کہ اسکی خواہش تھی مگر جانتی ہو ۔۔۔ جب اذلان نے اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ پیچھے ہو گیا۔۔ کیونکہ رمشہ اپنے دونوں بیٹوں کو پولیس میں نہیں کروانا چاہتی تھی۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ اسکا ایک بیٹا اسکے پاس رہے اسکی آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔۔
وہ حیا سے شرارتیں کرتا تھا۔۔ کیونکہ وہ اس کی شرارتوں پہ روتی تھی۔۔ کبھی کبھی ہنستی بھی تھی۔ اور کبھی کبھی تو امن کے دو دن گھر ناں آنے پہ بیمار ہو جایا کرتی تھی۔۔۔۔ اذلان سے بھی حیا کی اچھی دوستی تھی مگر وہ امن نہیں تھا۔۔ کیونکہ امن اسے دن میں سب کے سامنے رولاتا تھا ۔ اور رات کو سب سے چوری اسے ہنساتا تھا۔۔۔۔
حیا نے اذیت سے آنکھوں کو نیچا ہوا تھا۔۔ یہ سب تو وہ جانتی تھی۔۔۔ مگر ہر بار اسے کیوں الگ سی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔۔؟۔
جانتی ہو حیا جب تم دس سال کی تھی۔۔۔ امن اور اذلان اس وقت نو سال کے تھے۔۔۔۔۔ تب گارڈن میں کھیلتے ایک کتا آ گیا تھا۔۔ وہاں۔۔۔۔ تم اور اذلان دونوں اس کتے سے ڈر گئے اور رونے لگے تھے ۔۔۔ ہم سب گھر کے اندر تھے ہمیں معلوم نہیں ہو سکا کہ باہر کچھ ایسا ویسا ہوا ہے۔۔۔
تم ہمشیہ روعب جمایا کرتی تھی کہ تم ان سے بڑی ہو۔۔ اور اذلان گردن ہلاتا تھا تمہاری بات پہ ۔ جبکہ امن مسکرا کے سر جھکا دیتا تھا۔۔۔ اور اس دن بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا ۔۔۔ اذلان دروازے کے قریب تھا۔۔ وہ بھاگ کے اندر آیا ہمیں بتانے کے لئے۔۔ مگر وہ کتا تب تک تمہارے قریب آ چکا تھا۔۔ جس سے خوفزدہ ہو کر تم چیخنے لگی تھی۔۔۔۔۔ اور جانتی ہو تب اس نو سال کے بچے نے کیا کیا تھا۔۔۔
تب اسنے تمہیں پیچھے دھکہ دیا تھا۔۔۔ وہ کتا غصے سے امن کی جانب مڑا تھا۔۔۔ اور اسکے پاؤں پہ بری طرح سے کاٹا تھا ۔۔ تب تک ہم سب وہاں پہنچ آئے تھے۔۔۔۔ اس کتے کو اشعر نے مار دیا تھا۔۔۔ مگر امن کی ٹانگ پہ آج بھی اس کتے کے کاٹنے کے نشانات موجود ہیں۔۔۔۔۔
اپنے ماضی میں کھوئی وہ گہرہ سانس بھرتے چہرہ جھکائے خود کو دیکھتی حیا کی جانب متوجہ ہوئیں۔۔۔۔
میری جان بتانے کا مقصد یہ تھا۔۔ کہ ہمیشہ آنکھوں دیکھا سچ نہیں ہوتا۔۔۔ میں جانتی ہوں میری حیا مر جائے گی مگر جھوٹ نہیں بولے گی ۔۔ مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرا امن اپنی عزت کو خود سے داغدار نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔وہ مر سکتا ہے مگر کبھی بھی اپنی حیا کی عزت کو پامال کرنے کا نہیں سوچ سکتا۔۔۔۔۔
" کیونکہ تم آج تک انجان ہو کہ تمہارے باپ نے تمہیں بہت پہلے ہی اسکے نام کر دیا تھا۔۔۔۔۔ تمہارا نکاح بے شک نہیں ہوا مگر حسن نے خود امن کو زبان دی تھی کہ حیا اسکی امانت ہے ۔۔۔۔ اور میرا دل نہیں مانتا کہ میرا بچہ کچھ ایسا ویسا کرے گا کہ اسکی ماں کا غرور اسکے باپ کی عزت اسکی حیا کا بھروسہ اس پر سے ٹوٹ جائے ۔۔۔۔
میری باتوں کو سوچنا ضرور۔۔۔۔ اور ہو سکے تو امن کو معاف کر دینا۔۔۔۔ " سلمی بیگم نے نرمی سے اسکے بالوں کو سہلاتے کہا تھا۔۔۔۔
"دادو وہ واپس کیوں نہیں آتا۔۔۔۔۔ لب کچلتے وہ دل سے بے چین ہوتے بولی تھی۔۔۔ " اپنی پھپھو کی بے چینی دادو کی تڑپ ۔۔ سب کچھ تو اسکے سامنے تھا۔۔ ویسے بھی اسکا اپنا دل یہ ماننے سے انکاری تھا کہ امن ایسا ویسا کچھ کر سکتا تھا۔۔۔ مگر فلحال وہ چاہتی تھی کہ وہ واپس آ جائے۔۔۔ تاکہ اسکی شادی میں وہ کوئی بھکیڑا ناں کرے۔۔۔۔ مگر وہ نادان یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ بکھیڑا تو وہ کر چکی تھی ۔۔ بس اب تماشہ لگنا باقی تھا۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
" بیوی کہاں ہے آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔!" پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے وہ ایک ادا سے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے اپنے کندھے سے تھوڑے نیچے جاتے سرخ گھنگھریالی زلفوں کو کھولے ، بڑی بڑی سرمئی آنکھوں میں شرارت کے تاثرات سجائے اپنے ڈیڈ کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔۔
"وہ وہ مم میڈم جی وہ آج ذرا باہر گئی ہیں۔۔۔۔۔ "گھبراتے لہجے پہ قابو پاتے داؤد نے ہاتھ تعزیما ً باندھتے کہا ۔۔۔۔
"واٹ کس سے پوچھ کر گئی ہے وہ باہر۔۔۔۔۔ تنخواہ کس چیز کی ملتی ہے اسے ۔۔۔۔ آئے روز کام سے بھاگ جاتی یے۔۔۔۔ کام چوری کی بھی حد ہوتی ہے۔۔۔۔۔
ناک سکوڑتے اسنے بالوں کو پیچھے کی جانب جھکٹتے شوخ لہجے میں ایٹیوڈ سموتے کہا تو اس کے گھونسلے بنے بالوں کو دیکھ داؤد کے لئے قہقہ ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔۔۔ اسے جی بھر کر اپنی لاڈلی بیٹی پہ پیار آیا مگر فلحال وہ اپنے گیٹ اپ میں تھا۔۔ اور میرب اسکی مالکن ۔۔۔۔۔
"جی جی میڈم میں تو کہتا ہوں نکال باہر کریں اسے گھر سے۔۔۔۔۔٫" اسکے قریب جاتے داؤد نے اسکے کمزور سے کندھے پہ اپنے بھاری ہاتھ رکھے اور خوشامدی طریقے سے کہتے اسنے میرب کے نازک کندھے کو اپنے بھاری ہاتھوں سے دبایا۔۔۔
"ہمممم سوچ رہی ہوں۔۔۔ کہ اس بار تنخواہ دے کر اسے فارغ کر دوں۔۔۔۔۔۔ ناک پہ دھری اپنی عینک کو درست کرتے اسنے آنکھ اٹھاتے داؤد کو دیکھا جو مسکراتے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
"ممم ماما ۔۔۔۔۔۔ اچانک سے دروازے پہ ہوتی بیل پہ جہاں میرب چیخی تھی وہیں داؤد جو اسکا کندھا دبا رہا تھا وہ بھی گڑبڑا اٹھا۔۔مم ۔۔۔ ماما۔۔۔۔۔ میرب کے جیسے ہی چیختے وہ اسی کے کہے الفاظ دہراتے بھاگا تھا۔۔ وہ دونوں ہی گھبراہٹ کا شکار تھے۔۔۔۔
"ڈیڈ وہ آپ کی بیوی ہیں ماما نہیں۔۔۔۔" میرب نے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے پاؤں کو بریک لگاتے اسے بتایا تو وہ بھی اوہ اچھا کہتا سر ہلا گیا ۔۔۔۔
" جائیں دروازہ کھولیں۔۔۔۔ اپنے کھلے بالوں کی اونچی پونی بناتے اسنے داؤد سے کہا۔۔ وہ سر ہلاتے وہاں سے نکلا۔۔ مگر میرب نے پھر سے اسے پکارا تھا۔۔ داؤد نے گردن گھماتے اسے انکھوں سے کیا ہے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
جوابا اسنے اسے ایپرن کی جانب اشارہ کیا جو ابھی تک اسکے گلے میں تھا ۔۔۔ داؤد سمجھتا فورا سے ایپرن اتارنے لگا اور دور سے ہی اسکی جانب اچھالتے وہ ہاتھ سے بال سیٹ کرتے دروازے تک پہنچا۔۔۔۔۔
"اتنی دیر کیوں لگی دروازہ کھولنے میں۔۔۔۔" ہاتھ میں تھاما پرس اسے تھماتے وہ ائیبرو اچکاتے استفسار کرنے لگی تو داؤد نے مسکراتے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
" وو وہ میں نیوز سن رہا تھا۔۔ ۔۔۔ گڑبڑاہٹ پہ قابو پاتے اسنے تھوک نگلتے کہا تھا۔۔مگر دعا کو یقین نہیں آیا تھا۔۔۔جبھی سر ہلا گئی۔۔۔۔
" لاڈلی کہاں ہے تمہاری۔۔۔ ۔" وہ مسز حماد کی عیادت کرنے ہوسپٹل گئی تھی۔۔ جو اسکی ہمسائی تھی کل رات اچانک سے طبیعت خرابی پہ انہیں ہوسپٹل ایڈمٹ کیا گیا تھا۔۔۔ جبھی وہ آج انکی عیادت کو گئی تھی ۔۔۔ اور میرب کے لئے خاص تاکید کر کے گئی تھی کہ وہ آتے ساتھ ہی رات کا ڈنر تیار کرے گی۔۔۔ شیف کے ساتھ۔۔۔۔
" و وہ وو وہ۔۔۔۔۔۔داود نے آگے پیچھے دیکھتے کچھ بہانہ تلاشنہ چاہا۔۔۔ کیونکہ ڈنر تو دور اسکی لاڈلی نے ایک برتن تک نہیں دھویا تھا۔۔ وہ تو ماں کے جانے کی خوشی میں گھر کی مالکن بن کے خود کو اور باپ کو خوش کر رہی تھی ۔۔ اسے کیا معلوم کے گھر کے اصل مالکن آنے والی تھی وہ بھی اچانک۔۔۔۔۔
" ہائے موم۔۔۔۔۔۔۔" ماں کو دیکھتے ہی پشت پہ ہاتھ باندھے وہ نیوی بلیو نائٹ ڈریس میں ملبوس اسے دیکھ مسکراتے بولی۔۔۔ دعا نے سر تا پاؤں اسے دیکھا۔۔۔ اسکی تیز نظروں کو میرب پہ پاتے دونوں باپ بیٹی نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں سے کیا ہے کا اشارہ کیا مگر کچھ ناں سمجھ آنے ہی دونوں نے کندھے اچکا دیے۔۔۔
مگر پھر داؤد نے فق چہرے سے اسے کپڑوں کی جانب اشارہ کیا۔۔ تو وہ آگے سے ناسمجھی سے سر کھجانے لگی۔۔۔ مگر جب نظر اپنے ڈریس پہ ڈالی تو اب چہرہ فق ہونے کی باری میرب کی تھی۔۔کیونکہ وہ اس وقت دعا کے نائٹ ڈریس میں بھی اور تو اور چپل بھی اسی کا پہنا ہوا تھا۔۔
جسے وہ چینج کرنا بھول گئی تھی۔۔۔۔ گھر کے خاموش ماحول کو دیکھ دعا نے ایک نظر دونوں باپ بیٹی پہ ڈالی۔۔۔ دعا کی خونخوار نظروں کو خود پہ ٹکا پاتے وہ دونوں ہی ڈھیٹوں کی طرح سے مسکرائے۔۔۔۔۔
دعا داؤد کو تیز نظروں سے دیکھتی کچن میں داخل ہوئی تھی۔۔۔
" ڈیڈ بب بب بچا لیں پہ پلیز۔۔۔۔۔" اپنے ڈیڈ کے ہاتھوں کو تھامتے وہ منت کرتے معصومانہ لہجے میں بولی۔۔۔۔
" تم تو اسے نکالنے والی تھی۔۔۔ پتر اب اس ڈائن نے ہم دونوں کو کچا کھا جانا ہے ۔۔ کیونکہ دن کو جو ہم نے پیزا منگوایا تھا۔۔ اسکے ریپر کچن میں ہیں اور تم نے ڈنر بھی نہیں بنایا اور شیف کو بھی چھٹی دے دی۔۔۔
داؤد نے اس سے بھی زیادہ ڈرے لہجے میں اسے حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا۔۔
" اب کیا کریں پرنسز ۔۔۔۔" دعا کی خاموشی اسے آنے والے طوفان کی علامت لگی تھی۔۔ جبھی کپکپاتی آواز میں اس سے مشورہ مانگا۔۔۔۔
" اب اسکا ایک ہی حل ہے۔۔۔۔۔" میرب نے باپ کو دیکھتے روانی سے کہا ۔۔۔۔
وہ کیا ۔۔۔۔" داؤد ناسمجھی سے بولا۔۔۔۔
" اس سے پہلے کہ چڑیل حملہ کرے بھاگ لو۔۔۔۔۔" اسنے سرگوشی میں اسے کہا تھا۔۔ داؤد کے سمجھنے سے پہلے ہی وہ سیڑھیاں پھلانگتی اپنے روم میں بند ہو گئی تھی۔۔۔
جبکہ داؤد منہ کھولے اپنی فسادی بیٹی کے بعد آگ بگولہ ہوتی اپنی جانب بڑھتی اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ابھی تک اٹھی نہیں عیناں۔۔۔۔۔۔!" آرام سے بنا آواز کیے دروازہ بند کرتی وہ چلتی بیڈ کے قریب آتے متفکر سی رافع کو دیکھ بولی۔۔۔
رافع جو کراؤن سے ٹیک لگائے عیناں کے سنہری ریشمی بالوں کو سہلا رہا تھا ۔ اسنے گردن نفی میں ہلاتے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ تو فدک گہری سانس فضا میں خارج کرتے رافع کے قریب بیٹھی۔۔۔ مگر عیناں کے بالوں کو پیچھے کرتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دینا نہیں بھولی تھی ۔۔
کتنے دنوں بعد اسے سہی سلامت دیکھ کر اسے سکون ملا تھا۔۔۔ وہ رات کو بھی ملنا چاہتی تھی مگر رافع نے انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایک بار عیناں کے پاس چلی گئی تو اسکا واپس الایہ کے پاس جانا نا ممکن تھا۔۔۔۔۔۔۔
فدک جاناں ٹھیک ہے عیناں ۔۔۔۔۔۔ تمہیں ذرا یقین نہیں شوہر پہ۔۔۔۔۔ " اسکی نظروں کو عیناں ہی ٹکا پاتے وہ برے سے منہ بناتے ہوئے شکایت کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
"نہیں ایسی بات نہیں رافع کتنے دنوں کے بعد دیکھا ہے ناں تو بس۔۔۔ اسی لئے۔۔۔۔۔ " وہ شرمندہ سی ہو گئی اسکی بات پہ جبھی اپنی جانب سے صفائی پیش کی ۔۔۔۔۔
" الایہ کیسی ہے ۔۔۔۔۔۔" اسکا سر سینے سے ٹکائے وہ الایہ کی بابت دریافت کرنے لگا۔۔
"ہممممم۔۔رات کو کافی تکلیف میں تھی ۔۔۔ مگر اب ٹھیک ہے ۔۔۔ میں نے واقعی اوکے ساتھ زیادتی کی ہے رافع۔۔۔۔۔ مگر اب ہم اسے کسی بھی چیز کیلیے فورس نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔ "
" فدک , کو کافی دکھ تھا اذلان کے رویے نے اسے کافی ٹھیس پہنچائی تھی۔۔۔۔۔ وہ جسے اپنی بیٹی کا مخافظ بنا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو بہت پہلے ہی اسکی بیٹی کو ٹوڑ چکا تھا۔۔۔۔۔
فکر مت کرو ۔۔۔۔ اس کا حل نکالا ہے میں نے۔۔۔۔ " پرسوچ انداز اپناتے وہ گہری سوچ سے بولا ۔۔۔۔۔۔
فدک نے سر اٹھائے اسے دیکھا۔۔۔۔ کیا سوچا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔"
وہ فکر مندی سے بولی۔۔۔۔۔۔ دل میں ایک انجانا سا خوف تھا۔۔۔
" اشعر سے بات ہوئی ہے میری ۔۔۔۔۔۔ اذلان آ رہا ہے لندن۔۔۔۔۔۔ "
" رافع یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔ " فدک اچانک اسکی بات پہ حیرت زدہ سی بات کاٹتے بولی ۔۔۔۔
" ٹھیک کہہ رہا ہوں میں۔۔۔۔ اذلان نے رخصتی کا بولا ہے اشعر سے۔۔۔۔۔ اشعر نے اسی لیے مجھے کال کی تھی۔۔۔ مگر میں نے اسے ٹال دیا تھا۔۔۔ کیونکہ الایہ کا ری ایکشن تم جانتی ہو۔ وہ کبھی بھی رخصتی کیلئے نہیں مانے گی۔۔۔۔۔۔ اسی لئے میں نے اذلان کو یہیں بلا لیا یے۔۔۔۔ کچھ دن دونوں ایک ساتھ رہیں گے شاید سب ٹھیک ہو جائے۔۔۔ اگر الایہ پھر بھی ناں مانی تو ہم بنا کسی ہنگامے کے اس رشتے کو ختم کر دیں گے۔۔۔۔۔۔
فدک کے ساتھ ساتھ وہ عیناں کےسر کو بھی تھپک رہا تھا۔۔ جو پرسکون سی سوئی تھی۔۔۔۔۔
الایہ نہیں مانے گی ۔ " فدک نے سر نفی میں ہلاتے بےبسی سے کہا۔۔۔۔
رافع خود بھی تو جانتا تھا مگر ایک آخری کوشش کے تحت وہ اس رشتے کو ایک آخری موقع دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
فدک عیناں کے بارے میں کیا سوچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!" ساری رات یہی سوچیں اسکے دل و دماغ میں گردشِ کرتی رہی تھی ۔۔۔۔۔ فدک کو منانا کیا آسان تھا۔۔ ابھی تک تو عیناں بھی ان سب سے باتوں سے انجان تھی۔۔۔۔۔
" کیا سوچنا ہے۔۔۔۔۔ ابھی اسکی پڑھائی مکمل نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ وہ پڑھے گی ۔۔پہلے اپنی پڑھائی کمپلیٹ کرے گی۔۔۔۔۔ اسکے بعد دیکھیں گے کیا کرنا یے۔۔۔۔۔ آنکھیں موندیں وہ مسکراتی عیناں کیلئے بنائے اپنے فیوچر پلان سے اسے آگاہ کر رہی تھی۔۔۔
جبکہ رافع تو خاموش لب بھینچے ہوئے تھا۔۔۔۔۔
فدک تم جانتی ہو ناں کہ ہم نے ویام سے کیا وعدہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔!"
رافع کو سمجھ ناں آیا آخر وہ کیسے اسے اپنی رضامندی میں لیتا یہی تو سب سے بڑی مشکل تھی۔۔۔۔
" رافع ویام کی ضد پہ ہم نے اسکا نکاح کروا دیا تھا۔۔ کیونکہ وہ عیناں سے واقعی بہت اٹیچ ہو چکا ہے مگر آپ کیا چاہتے ہیں۔۔ کہ میں اپنی بچی کو اتنی سی عمر میں رخصت کروں ۔۔۔۔۔۔ ابھی تو اسے گھر گھرہستی تک کی سمجھ بوجھ نہیں۔۔۔۔۔ ناں ہی اسے کھانا بنانا یا پھر کوئی دوسرا کام آتا یے۔۔۔۔ شوہر کی خدمت کرنا سارے خاندان کو ساتھ لے کر چلنا یہ سب کتنا مشکل ہے جانتے ہیں ناں آپ۔۔۔۔"
وہ سئیریس ہو چکی تھی شاید ڈسٹرب بھی مگر رافع اسے کسی بھی حال میں منا لینا چاہتا تھا۔۔۔۔ کیونکہ کہیں ناں کہیں وہ خود بھی جانتا تھا کہ ویام ہی اسکی عیناں کی خفاظت کر سکتا تھا۔۔۔۔
" تمہیں کونسا کچھ کرنا آتا تھا۔۔۔۔ پھر بھی میں نے تو تمہیں کبھی کسی چیز کا طعنہ نہیں دیا ۔۔۔۔۔ نیناں کو دیکھو وریام نے کتنی محبت سے اسے سنبھالا ۔۔۔۔ زبردستی شادی کی مگر پھر بھی آج وہ دونوں کتنے خوش ہیں۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے اس گھر میں ہماری بچی کو کوئی بھی تکلیف ملے گی۔۔۔۔ نہیں بلکہ وہاں وہ زیادہ خوش رہ سکتی ہے۔۔۔۔ ہم سے بھی زیادہ خوش۔۔۔۔۔۔۔"
فدک نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔۔ جانے کیوں اسے شدید غصہ آ رہا تھا رافع پر۔۔۔۔۔
" اصل بات بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔۔" اسکی اتنی لمبی تمہید کو سنتے وہ گہرا سانس فضا میں خارج کرتے سپاٹ لہجے میں بولی ۔۔۔۔ ایک نظر عیناں کے نازک وجود پہ ڈالی جو یوش و خرد سے بےگانہ نیند کی وادیوں میں ڈوبی تھی۔۔۔۔۔
" ویام رخصتی چاہتا ہے۔۔۔۔ اسی ہفتے۔۔۔۔۔ " آنکھیں میچتے اسنے ایک ہی سانس میں کہا تھا۔۔۔ جبکہ یہ سنتے فدک کے چہرے کے تاثرات سخت ہو چکے تھے۔۔۔ بالکل کسی پتھر کی مانند ۔۔۔۔۔۔
" تو آپ کا کیا فیصلہ یے۔۔۔۔" کسی غیر مری نقطے کو گھورتے وہ سپاٹ لہجے میں اس سے دور ہوتے گویا ہوئی۔۔۔۔ رافع بخوبی اسکی کیفیت سے آگاہ تھا۔۔۔۔۔
" میں نے حامی بھر دی یے۔۔۔ اسی ہفتے ہم عیناں کو ویام کے ساتھ رخصت کریں گے۔۔۔ "
اگر فیصلہ لے ہی لیا ہے تو مجھے آگاہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ جو مرضی کریں بھلا میں کون ہوتی ہوں کچھ کہنے والی میں تو ۔۔۔۔۔ "
اسکے روانی سے کہنے پہ اسکے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھتے رافع نے ڈر سے آنکھیں پھیلائے گردن نفی میں ہلائی تھی۔۔۔۔ فدک نے بھینچے لبوں سے ایک نظر رافع اور پھر عیناں کو دیکھا ۔۔ اسکا ہاتھ غصے سے جھٹکتی وہ کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔۔
" میں ڈرتا ہوں فدک تمہیں کیسے بتا دوں کہ جس خوف کو اتنے سالوں سے سینے سے لگایا ہے آج وہ سامنے ہی کھڑا ہو گیا یے۔۔۔ میں مر کے بھی اپنی بچی کو خود سے دور نہیں کر سکتا ۔۔۔ میں خود غرض ہو گیا ہوں۔۔۔ میں جانتا ہوں ویام اسے کبھی بھی خود سے دور نہیں ہونے دے گا۔۔ وہ ہم سے بھی زیادہ اسکی خفاظت کرے گا۔۔۔ مجھے معاف کر دو میں تمہیں یہ سب نہیں بتا سکتا۔۔۔۔۔ کیونکہ میں مجبور ہوں۔۔۔۔۔"
آنکھیں موندیں وہ فدک سے ہی مخاطب تھا۔۔۔۔۔ ایک نظر اپنی معصوم بیٹی پہ ڈالے وہ مردہ قدموں سے کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔ اولاد کتنا مجبور کر دیتی ہے انسان کو۔۔۔۔ اس وقت بھی تو وہ مجبور تھا۔۔۔۔
" ڈیڈ ۔۔۔۔ " اپنے خیالوں میں گم اچانک سے الایہ کی آواز پہ اسکے قدم تھمے تھے ۔۔۔۔ وہ لب بھینچتے کھڑا تھا۔ جانتا تھا کہ وہ یقیناً سن چکی ہے سب۔۔۔۔۔
" آپ پریشان ناں ہوں میں موم کو منا لوں گی ۔۔۔۔۔ عیناں کی رخصتی ہم دھوم دھام سے کریں گے ۔۔ اپنے ڈیڈ کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیتے وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ کتنی دیر رافع اسے حیرانگی سے دیکھتا رہا تھا۔۔ یہ وہ الایہ تو نہیں تھی۔۔۔ اسے تو لگا تھا کہ وہ بھی ضد کرے گی ۔۔۔۔
" عیناں کو بھی منا لوں گی میں۔۔۔۔ آپ بس انزِک اور حرمین کو واپس بلائیں۔۔۔۔۔۔۔ "
رافع نے بغور اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھا تھا ۔۔ آنکھوں میں ابھی تک سرخی سی تھی۔۔۔ جبکہ اداس چہرے میں چمک بھی تھی ۔۔ شاید فدک کی توجہ اور محبت سے وہ خوش تھی۔۔۔۔۔
تھینکس پرنسز۔۔۔۔۔ رافع نے مسکراتے اسے سینے سے لگایا اور ہونٹ اسکے سر پہ رکھتے سکون سے آنکھیں موندیں۔۔۔۔۔
پرنسز مجھے اور بھی کچھ کہنا تھا۔۔۔ " کل اذلان آ رہا تھا۔۔۔ رافع چاہتا تھا کہ وہ الایہ کو پہلے ہی اس بارے میں آگاہ کر دے۔۔۔۔۔۔
" میں جانتی ہوں ڈیڈ آپ فکر مت کریں ۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گی کہ آپ کو شکایت کا موقع ناں دوں ۔۔۔۔۔۔۔ " رافع کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے وہ اسکی آنکھوں میں حیرت دیکھ ذرا سا مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔ ۔۔ آئی ایم سوری ڈیڈ میں نے کچھ زیادہ ہی روڈ بیہیو کیا آپ کے اور موم کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ "
رافع کی جانب دیکھتے وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے معصوم سا چہرہ بناتے بولی تو رافع کو خوشگوار حیرت کے ساتھ جی بھر کر اس پہ پیار آیا۔۔
میری پرنسز ۔۔۔ ڈیڈ لوز یو مور دین اینی تھنگ۔۔۔۔۔۔۔ تھینک یو ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔۔ " اسے خود سے لپٹاتے رافع نے محبت سے کہا تھا۔۔ وہیں وہ اپنے ڈیڈ کے لہجے میں خوشی سرشاری محسوس کرتی سکون سے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
مم مجھے ممم معاف کک کر دو ایل۔۔ پپ پلیز۔۔۔۔۔" آنکھوں میں خوف لیے وہ اسکے پاؤں کو ہاتھ لگاتے منت بھرے لہجے میں روتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ایل نے خون آشام نظروں سے اسے دیکھا اور فورا سے اسے دوسرے پاؤں سے زور دار ٹھوکر ماری کہ وہ منہ کے بل کراہتا دور جا گرا ۔۔۔۔۔
پورے کمرے میں اسکی دلدوز چیخیں کسی وخشت کی طرح پھیلی تھی ۔۔ پاس ہی وہ ہاتھ باندھے آنکھوں میں خوف و حراس لیے اس منظر کو دیکھ کانپ رہی تھی۔۔۔۔
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ اسے ایسے ہی مار رہا تھا۔۔ نا تو جان لے رہا تھا۔۔ اور ناں ہی جان بخش رہا تھا۔۔۔۔ اسکی چیخیں اسکی معافیاں ، اور اسکی جان لیوا سسکیاں ماریہ کی آنکھوں میں خود بخود ہی آنسوں آئے تھے۔۔۔۔ ڈینی زمین پہ پڑا بری طرح سے کراہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا چہرہ خون سے لت پت تھا۔۔ ایک آنکھ کے کنارے سے خون کی لکیر نکلتے پورے چہرے کو بھگو رہی تھی۔ ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔
جبکہ منہ کے اندر سے سرخ خون کے لوتھڑے نکل رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کسی بھی انسان کا ڈرنا چیخنا کوئی معمولی سے بات لگتی تھی۔۔۔۔۔
بس کرو ایل وہ مر جائے گا۔۔۔۔" اسکی جانب بڑھتے ایل کے قدموں کو دیکھ ماریہ نے تڑپتے اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے روکا تھا۔۔۔۔ اور خود اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپائے وہ بری طرح سے رو رہی تھی۔۔۔۔۔
ایل نے سرد نظروں سے رخ گھمایا اور پراسرار سی نظروں سے اسے دیکھا۔ جو آگے ہی اسکے اس وخشت ناک روپ پہ کپکپا رہی تھی۔۔۔۔
" کیسے مرے گا۔۔۔ میں مرنے دوں گا تو مرے گا ناں ۔۔۔۔ " چہرے پہ آتے ڈارک گولڈن بالوں کی لٹوں کو اپنے خون آلود ہاتھوں سے پیچھے کرتے وہ اس وقت کوئی سر پھرا پاگل وخشت ناک انسان لگا تھا۔۔ ماریہ کو ۔۔ جسے دیکھ اسکا دل دھڑکتا تھا۔۔ آج اسکے اس وخشی روپ کو دیکھ وہ اندر سے کپکپاتی پیچھے کو ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
" تمہیں میں نے کہا کہ اس کو مت چھوڑنا پھر کیوں چھوڑا تم نے اسے اکیلا ہاں ۔۔۔ بولو۔۔۔ اسکے آگے پیچھے دیوار پہ ہاتھ ٹکائے وہ غضب ناک لہجے میں کسی حیوان کی مانند دھاڑا تھا۔۔۔۔۔ اسکی دھاڑ سے خاموش فضا میں حلل سا ہوا تھا۔۔۔ ڈینی نے ایک سوجھی آنکھ سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔ اسے کوئی دکھ نہیں تھا۔۔ وہ جانتا تھا۔۔۔ اسکا قصور تھا۔۔۔جبھی ایل اسے سزا دے رہا تھا۔۔ وہ اس کا حقدار تھا۔۔۔ ۔۔
" ااا ایل پہ پلیز بب بند کک کرو یہ سب۔۔۔۔۔۔۔" وہ روتی بمشکل سے اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے منت کرنے لگی۔۔۔۔
کیا بس کروں۔۔۔۔ کیا کیا ہے میں نے ۔۔ تم دونوں ۔۔۔۔ جب میں نے تم دونوں کو آگاہ کیا تھا کہ مجھے کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں چاہیے تو پھر تم دونوں نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔۔ "
اسنے جھٹکے سے ہاتھ کا مکہ بناتے شیشے کی کھڑکی پہ مارا تھا۔۔۔ خون پانی کی مانند اسکے ہاتھ سے بہتا فرش پہ ٹوٹے کانچ کے ٹکڑوں کے ساتھ گر رہا تھا۔۔
" جب میں نے اسے کہا تھا کہ میں بعد میں دیکھ لوں گا تو پھر یہ کیوں تمہارے پاس آیا۔۔۔۔۔ کیوں تم نے اسے اکیلا چھوڑا۔۔۔ مجھے بنا بتائے تم ڈینی سے ملنے کیوں گئی۔۔۔۔۔"
اسے دونوں کندھوں سے تھامتے وہ اسکے چہرے پہ غراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ اسکے لہجے کا جنونی پن۔۔۔۔ ماریہ کو کپکپانے پہ مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔
"وو وہ تتت تمہاری موم کا میسج لایا تھا۔۔۔ تم نے نہیں سنا تو اسی لیے وہ میرے پاس آیا تھا۔۔۔۔ " ماریہ نے اسکا بچاؤ کرنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر وہ بھول چکی تھی۔۔۔ ایل کی نظر میں غلطی کی سزا ہوتی ہے معافی نہیں۔۔۔۔۔
" اگر اس لڑکی کے ساتھ کچھ ہو جاتا تو تمہیں اس سب کی پرواہ کیوں ہے ۔۔ ویسے بھی تو تم اس سے بدلہ ہی لینا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔۔" ماریہ نے اسے دوبارہ سے بےبس فرش پہ پڑے ڈینی کی جانب جاتا دیکھ پوچھا تھا۔۔۔۔
وہ رکا تھا۔۔۔ اسکی بات پہ چھپے طنز کو وہ پہچان گیا تھا۔۔۔ جبھی چہرے پہ ایک خطرناک مسکراہٹ لیے وہ اسکے پاس آیا۔۔۔۔ ۔
وہ میرا شکار ہے صوفی۔۔۔۔ یہ میں طے کروں گا اسے کیسے اور کب کتنی سزا دینی ہے ۔۔۔ تم نہیں۔۔۔۔۔ ' میرے علاؤہ اگر کسی نے اسے ہاتھ تک لگانے کی کوشش کی تو اسے کاٹ کے رکھ دوں گا میں ۔۔۔۔۔۔۔ "
اپنے خون سے بھرے ہاتھ سے اسکے جبڑے کو دبوچتے وہ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے اسکی آنکھوں میں دیکھ وخشت ناک تاثرات سے بولا تھا۔۔۔۔۔ اور جھٹکے سے اسے چھوڑا۔۔۔ صوفیہ نے بمشکل سے دیوار کا سہارہ لیا تھا۔۔۔۔
گہرے سانس بھرتے اسنے موبائل کی جانب دیکھا جو نیچے پڑا زور زور سے بج رہا تھا۔۔۔۔
اٹھاؤ اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ " کندھے سے بالوں کو پیچھے جھٹکتے اسنے تحکم بھرے انداز میں کہا تھا۔۔۔ اور قدم ڈینی کی جانب بڑھائے۔۔۔۔ اسکے حکم پہ صوفیہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے فون کو تھاما ۔۔۔۔۔۔۔
" کک کیا کیا کہہ رہے ہو تم۔۔۔۔۔۔ " کان سے فون لگائے وہ چیخ ہی تو پڑی تھی۔۔۔ آنکھیں حیرانگی سے باہر آنے کو تھی۔۔۔ ایل نے ناگواری سے اسے دیکھا اور پھر ڈینی کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
پینٹ کو ہاتھ کی مدد سے اوپر کرتے وہ نیچے اسکے پاس بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔
ااا ایل۔۔۔۔۔۔" صوفیہ کی گھبراتی آواز پہ ایل نے وخشی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
" حرمین اور انزِک واپس چچ چلے گئے ہیںں۔۔۔۔۔۔ " صوفیہ نے تھوک نگلتے اسے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔۔ جس کے چہرے پہ حد سے زیادہ سرد تاثرات تھے۔۔۔۔ یہ سب اسکے لئے ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔۔
وہ خود اسے سہی سلامت چھوڑ کے آیا تھا۔۔ اور اب یہ سب کیا تھا۔۔۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے تم بچ جاؤ گی مجھ سے سن شائن۔۔۔۔۔۔ اب میں تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا بلکہ تم خود آؤ گی میرے پیچھے میرے شہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اسکی آنکھوں میں غضب ناک سے تاثرات تھے۔۔۔۔ جبکہ لہجہ کچھ عجیب سا تھا۔۔۔۔۔ انزِک کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔۔۔ یقیناً اسکی سن شائن کو وہی اس سے دور لے کر گیا تھا۔۔۔۔۔ تمہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔۔۔ انزِک۔۔۔۔۔۔۔" دانت پہ دانت جماتے اسنے دل سے ہی اسے مخاطب کرتے کہا تھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
حسن کی کال آئی تھی مجھے۔۔۔۔۔۔" پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے اسنے کھانے پہ جھکے اذلان اور رمشہ کو ایک نظر دیکھتے بات کا آغاز کیا۔۔۔۔۔
کھانے کے میز پہ تین افراد کے ہوتے ہوئے بھی طویل خاموشی سی تھی۔۔۔ رمشہ اور اذلان نے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر اشعر کو دیکھا۔۔۔۔
" پرسوں مایوں ہے حیا کی اور جمعے کو نکاح ۔۔۔۔ حسن نے سختی سے اصرار کیا ہے کہ ہم کل ہی شاہ حویلی میں شفٹ ہو جائیں۔۔۔ اور ساری زمہ داریوں میں اسکا بھرپور ساتھ دیں۔۔۔ کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔
رمشہ کے چہرے کے سرد پن اور بھینچے جبڑوں کو دیکھ وہ گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے بولا تھا۔۔۔۔
اوکے ڈیڈ میں کل ہی شفٹ ہو جاؤں گا۔۔۔ وہاں۔۔۔۔۔" ماں کے ضبط کو دیکھتے اذلان نے بات کو ٹالنا چاہا ۔۔۔ ویسے بھی امن نے سب خود ہی سنبھالنا تھا۔۔ وہ جانتا تھا یہ بات۔۔۔۔۔۔
" تم نہیں میں رمشہ شفٹ ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔" اسکی بات کاٹتے اشعر نے سخت لہجے میں اسے آگاہ کیا۔۔۔ اذلان کے لئے اپنے ڈیڈ کو سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ اسنے ماتھے پہ بل ڈالے اشعر کو دیکھا۔۔۔
" میں اور رمشہ شاہ حویلی جائیں گے اور تم لندن جا رہے ہو کل ۔۔۔۔۔ "
دونوں کی حیرانگی سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے اشعر نے سانس لیتے ان دونوں کو دیکھا۔۔۔۔
" رافع سے بات ہوئی ہے میری۔۔۔۔۔ تم کل ہی وہاں جاؤ گے۔۔۔۔ الایہ تمہاری جانب سے کافی انسکیور ہے۔۔۔ اسے اپنے اعتماد میں لو چاہے کچھ بھی کرنا پڑے کرو۔۔۔ مگر ایک بات یاد رکھنا۔۔۔۔ دو ہفتے ہیں تمہارے پاس ۔۔۔۔ ان دو ہفتوں میں اپنا اسٹیٹس اسکی نظروں میں ٹھیک کرو گے تم۔۔۔۔ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اب جلد از جلد تمہاری شادی کر دوں ۔۔۔۔
ڈیڈ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ میں لندن کیسے اور اچانک سے کیوں ۔۔۔ حیا کی شادی ہے اور میں یوں اچانک سے وہاں چلا جاؤں ۔۔۔۔۔۔"
اشعر کے اس غیر متوقع فیصلے کا اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔وہ تو آرام سے یہاں رہ کے امن اور حیا کی شادی انجوائے کرنا چاہتا تھا۔۔ مگر اشعر کے اس اچانک سے کئے فیصلے پہ وہ حد سے زیادہ حیران تھا۔۔۔
" ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو جیسے تم ان سب سے انجان ہو۔۔۔۔ تمہارے سارے کرتوت سے آگاہ ہوں میں۔۔ اگر خاموش ہوں تو کچھ سوچ کر ہی خاموش ہوں۔۔ وگرنہ ایک بات یاد رکھو تمہارا باپ میں ہوں تم میرے باپ نہیں۔۔"
اب اشعر کا رخ بالکل اذلان کی جانب تھا۔۔۔ اسکے ڈھکے چھپے الفاظ جہاں اذلان کو بہت کچھ سمجھا گئے تھے وہیں رمشہ کے دماغ کے اوپر سے سب گزر گیا تھا۔۔
" ڈیڈ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔۔ غیر محسوس انداز میں اپنی گردن کو ہاتھ سے سہلاتے وہ نظریں پھیرتے انجان بنتے بولا۔۔۔۔
" تم کیس سالو کرنے گئے تھے پیرس اور جو جو کیا ہے کیس کی آڑ میں ۔۔۔۔۔ میں سب سے آگاہ ہوں۔۔ کیا چاہتے ہو تمہاری ماں کو بتاؤں پھر اسکا ری ایکشن تمہیں زیادہ مہنگا پڑے گا۔۔۔۔۔ اذلان کی جانب جھکتے وہ تنبیہ کرتے سرگوشی نما آواز میں مگر سخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔ وہیں اذلان کا چہرہ ایک دم سے سرخ پڑا تھا۔۔۔
اسنے ایک چور نظر اپنی موم پہ ڈالی جو دونوں کو ہی گھور رہی تھی۔۔۔۔
"اوکے فائن ایم ریڈی میں جاؤں گا کل۔۔۔۔۔" اشعر کے بازوؤں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے اسنے التجائی انداز میں اسے مضبوطی سے تھاما تھا۔۔۔ اور اشعر کو بولنے سے باز رکھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" ہڈ کے دونوں پاکٹ میں ہاتھ ڈالے چہرے پہ جان لیوا مسکراہٹ لیے وہ کافی دیر سے اس کھڑکی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ چار سال کے بعد وہ آج پھر اسی جگہ پہ کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔ وقت تبدیل ہوا تھا مگر وہ ۔۔ وہ آج بھی اسی جگہ پہ کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اسنے پراسرار سی نظروں سے ان درو دیوار کو دیکھا۔۔۔ ایک گہرا سانس فضا میں خارج کرتے وہ آگے بڑھا تھا۔۔ پائپ کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں سے تھامتے وہ اسی طریقے سے آج پھر سے اوپر چڑھ رہا تھا۔۔۔۔ جیسے وہ پہلے کیا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔
" برفباری کا موسم شروع ہونے والا تھا۔۔ جسکی وجہ سے صبح کے نو بجے بھی کافی اندھیرا سا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔ چار گھنٹوں سے وہ باہر کھڑا رافع کے جانے کا ویٹ کر رہا تھا۔۔ اب جب وہ جا چکا تھا ۔ اسکا راستہ بالکل صاف تھا۔۔۔ اسی لیے وہ اطمینان سے اوپر چڑھتے گرل سے چھلانگ لگاتے اندر کودا تھا۔۔۔۔
محسوس پرانے طریقے سے کھڑکی کو گھمایا تھوڑی پس و پیش کے بعد وہ کھلتی چلی گئی۔۔۔۔ ویام نے بنا آواز کیے پاؤں اندر رکھا تھا۔۔ اور پھر دوسرا پاؤں بھی اسی احتیاط سے رکھتے وہ مڑتے کھڑکی اندر سے لاک کر گیا ۔۔۔۔۔ پردے برابر کرتے اسنے ایک تیز نظر پورے کمرے پہ دوڑائی ۔۔۔۔۔۔ بیڈ پہ کروٹ کے بل لیٹے اس ناتواں وجود کو دیکھ ایک دلفریب سی مسکراہٹ اسکے عنابی ہونٹوں پہ رقص کرنے لگی ۔۔۔۔
ہڈ اتارتے اسنے ایک طرف صوفے پہ اچھالی۔ شرٹ کے بٹن کھولتے وہ چلتا دروازے تک گیا تھا۔۔۔اچھے سے لاک کرتے وہ واپس صوفے پہ آیا ۔۔۔۔۔ نظریں سامنے بیڈ پہ لیٹی عیناں پہ اٹکی تھیں ۔۔مگر وہ تیز تیز ہاتھ چلاتا شرٹ ایک جانب پھینکتے اب شو لیسز کھول رہا تھا۔۔۔۔۔
شوز اتارتے وہ سرخ نیند سے بوجھل آنکھیں لیے بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ جہاں وہ مزے سے نیند کی وادیوں میں ڈوبی پڑی تھی ۔۔۔۔ ویام چلتے ایک جانب آرام سے نیم دراز ہوا ۔۔ ھاتھ سر کے نیچے رکھتے اسنے گردن گھماتے اسے دیکھا جو اسکی جانب پشت کیے سو رہی تھی۔۔۔۔
تبھی بےہود سا ہوتے اسنے جھٹکے سے ھاتھ اسکی کمر کے گرد لپٹاتے اسے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔۔۔ جو ایک دم سے اسکے سینے سے لگی تھی ۔۔۔ یوں کسی کے کھینچنے پہ عیناں کی نیند میں حلل سا پڑا۔۔ اسنے بوجھل سی نیند سے بھری اپنی گرے کانچ جیسی سرخ نظروں سے سامنے دیکھا۔ ۔ جہاں وہ بھوری آنکھوں میں خمار کی سرخی کیے اسے ہی والہانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
عیناں نے آنکھیں جھپکتے اسے دیکھا۔۔۔۔۔ پھر ہلکا سا مسکراتے اپنا دایاں ہاتھ اسکی گردن کے گرد حائل کرتے وہ پھر سے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔۔
ویام نے ائبرو اچکاتے اسے داد دینے والے انداز میں اسکے بالوں کو سہلایا تھا۔۔۔۔۔۔ میری نیند برباد کر کے خود کیسے ہو سکتی ہو تم عین۔۔۔۔۔۔ اسکے کان میں شرارت سے گھمبیر سرگوشی کرتے ویام نے جھکٹتے سے اسکی گردن اور کمر پہ گرفت مضبوط کرتے اسے اپنے جانب کھینچتے اپنے نیچے گرایا تھا۔۔۔۔۔
عیناں نے بھوکھلاتے گڑبڑا کے آنکھیں کھولی۔۔۔ مگر پھر سے ویام کو دیکھ اب اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی ۔۔ گلابی ہونٹ ہلکے سے کھلے تھے ۔ جبکہ پھولے گلابی گال اس وقت سرخ پڑ رہے تھے ۔۔۔
"ووو ویام۔۔۔۔۔۔" اپنے چہرے پہ جھکے ویام کی گرم سانسوں کو محسوس کرتے عیناں نے مدہم سی سرگوشی نما آواز میں اسے پکارا تھا۔۔۔۔۔ ویام مسکرایا ہاتھ اسکی کمر سے نکالتے اسنے نرمی سے اسکے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو اپنے ہاتھوں میں الجھایا ۔۔۔۔ عیناں کی نیند بھک سے اڑی تھی ۔۔۔۔ وہ سچ میں آیا تھا۔۔۔ عیناں نے تھوک نگلتے گردن گھماتے آگے پیچھے دیکھا مگر وہ اسی کے گھر اسی کے کمرے میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔
" ووو ویام تم نے معاف کک کر دیا مجھے۔۔۔۔۔۔" اپنی گردن پہ اسکے ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتے عیناں نے تھوک نگلتے خشک خلق کو تر کرتے بے چارگی سے لرزتی آواز میں پوچھا۔۔۔ مگر جواب ندارد تھا۔۔۔۔
عیناں کو اپنے آگے پیچھے خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہونے لگی ۔۔۔۔
ویام وہ لڑکی کون تھی۔۔۔۔۔ " عیناں نے بمشکل اپنا ایک ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالا تھا ۔ اور غصے جلن کے شرارے آنکھوں میں بھرے اسنے غصے طیش سے اسکے بھورے بالوں کو جھٹکے سے پیچھے کی جانب کھینچا۔۔۔ ویام جو مدہوش سا اسے محسوس کر رہا تھا۔۔ اس اچانک غیر متوقع حملے پہ اسنے غصے سے سرخ پڑتی عیناں کو دیکھا۔۔۔
جس کی آنکھوں میں جلن اور غصے کی سرخی واضع تھی۔۔۔
" لڑکی تھی اور خوبصورت بھی دیکھا نہیں تھا کیا۔۔۔۔۔" اسکا یوں جیلس ہونا ویام کو کافی بھایا تھا۔۔۔ عیناں کا یہ پوزیسو روپ کہاں دیکھا تھا۔۔ اسنے۔۔۔
" کام کی وجہ سے ملا تھا اور وہ سب صرف ایک ناٹک تھا۔۔۔ ویام نے کہتے اسکے پھولے گال پہ ہونٹ رکھے تھے ۔ عیناں پل بھر کو خاموش سی رہ گئی ۔۔
" کیوں تمہارے علاؤہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا یہ سب۔۔۔۔۔" اپنی ناک پہ اسے ہونٹ رکھتا دیکھ عیناں نے دانت پیستے گردن دوسری جانب گھمائی۔۔۔۔۔
اسکے انداز پہ ویام کو جی بھر کے پیار آیا مگر وہ لب دانتوں تلے دبائے اسے یوں خفا ہوتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
" اچھا تم ہی بتاؤ کیا کروں میں۔۔۔۔۔" ویام نے مسکراتے محبت سے اپنے ہاتھ میں الجھے اسکے ہاتھ کی انگلیوں کو چھوتے محبت سے پوچھا۔۔۔
" تم کسی بھی لڑکی کو نہیں دیکھو گے اب سے۔۔۔ اور بھی تو کتنے آدمی ہیں وہ کریں لڑکیوں سے باتیں یہ پیار محبت کا ناٹک مگر تم ۔۔۔۔ تم نہیں کرو گے ایسا کچھ بھی۔۔۔۔۔" خود پہ سایہ فگن ہوئے ویام کی بھوری آنکھوں میں اپنی کانچ سی آنکھوں کو گاڑھتے وہ ایک اعتماد ایک عزم سے تحکم بھرے لہجے میں بولی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ویام نے جان نثار کرتی نظروں سے اسکے اس نئے روپ کو گہری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
اگر دیکھا تو۔۔۔ پھر کیا کرو گی تم ۔۔۔۔۔۔" اسکی بات کو مذاق میں اڑاتے وہ دوبارہ سے مسکراتا اسکی گردن پہ جھکا گستاخیاں کرنے لگا۔۔۔۔۔
" میں تمہاری آنکھیں نکال دوں گی ویام۔۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے پھولے سانس سے نم آواز میں برس پڑی۔۔۔۔۔۔
"اگر میرے علاؤہ کسی کو دیکھا بھی تو اچھا نہیں ہو گا تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔۔"
وہ غصے سے چیختی اونچی آواز میں بولی ۔۔۔۔۔۔ مگر اسکی نظروں کو خود پہ پاتے عیناں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالا اور سینے پہ دونوں ہاتھ رکھتے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔۔۔
مگر ویام نے جھٹکے سے اسکے دونوں ہاتھوں کو سختی سے اپنی گرفت میں لیا تھا۔۔۔۔۔۔ عیناں نے پھڑپھڑاتے اپنے ہاتھوں کو اسکی گرفت سے آزاد کروانا چاہا تھا۔۔۔ مگر ویام کی خمار ذرہ سی بھوری نظروں کو خود پہ ٹکا پاتے ہی وہ ایک دم سے فریز سی ہو گئی تھی جیسے۔۔۔۔۔ جبکہ مقابل نے مسکراتے جھکتے اسکی بند آنکھوں کو دیکھا اور نرمی سے اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی سخت گرفت میں لیتے وہ مدہوش سا اسکی مہکتی سانسوں کو خود اتارنے لگا۔۔۔۔۔۔
بیٹا کہاں ہے تمہارا نظر نہیں آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔"کچن میں کام کرتی نیناں کے کندھے پہ تھوڑی ٹکائے وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے ظاہری فکر مندی سے گویا ہوا۔۔۔۔
" کام سے گیا ہو گا میرا بچہ اللہ جانے کہاں ہو گا کس حال میں ہو گا کہا بھی تھا دیکھنے دیں مجھے چلا گیا ناں رات کو ہی۔۔ گیارہ بج رہے ہیں دن کےاللہ جانے کہاں چلا گیا ۔۔۔
نیناں کے پاس اپنی فکر مندی کے ڈھیروں قصے پڑے تھے۔۔۔۔ اپنے پیٹ پہ سرکتے وریام کے ہاتھ پہ تھپڑ مارتے وہ خفگی سے اسکا ہاتھ جھڑک گئی۔۔۔۔۔۔
ڈارلنگ یو نو واٹ آج میں کتنا خوش ہوں کیونکہ آج میری لٹل نین گھر آ رہی ہے واپس۔۔۔۔۔" وریام نے بنا اسکی حرکت پہ غصہ کیے چہرے پہ ایک خوبصورت مسکراہٹ سجاتے کہا تھا۔۔
نیناں خود بھی کافی پرسکون تھی۔۔ حرمین اور انزِک واپس آ رہے تھے بھلا اس سے بڑھ کے اور کیا بات ہو گی۔۔۔۔۔
فون اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔" چائے کو مگ میں ڈالتے نیناں نے اسے گھورتے کہا تو وریام بھی سر ہاں میں ہلاتا فورا سے موبائل فون اٹھا کے کان سے لگا گیا۔۔۔۔۔۔۔
" کیا ۔۔۔۔۔ کیا توں پاگل ہے رافع ۔۔۔ رات کو تو توں خود غصہ ہو رہا تھا اور اب توں کہہ رہا ہے تجھے اسی ہفتے رخصتی کرنی ہے۔۔۔۔۔" ماتھے پہ بل ڈالے وریام رافع کے اس غیر متوقع فیصلے پہ برہم سا ہوتے اس پہ برس پڑا تھا۔۔۔
نیناں نے گردن گھمائے اسے دیکھا آخر بات کیا تھی۔۔۔۔
مجھے کوئی بات نہیں کرنی تجھ سے ، دفع ہو جا ، بےشرم انسان ۔۔۔ کال مت کرنا اب مجھے دوبارہ۔۔۔۔۔" غصے سے اسے کھری کھری سناتا وہ فون سامنے میز پہ پٹھک چکا تھا۔۔
کیا ہوا ہے وریام اس قدر کیوں پریشان ہیں اور رافع بھائی تھے کال پہ کس بات پہ اتنا غصہ ہو رہے ہیں ۔۔۔ نیناں نے پریشانی سے اسے دیکھتے پوچھا جو کچھ زیادہ ہی غصے میں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
رافع کی کال تھی۔۔۔ وہ عیناں کی رخصتی کیلئے مان چکا ہے ۔۔اور وہ بھی اسی ہفتے کو۔۔۔۔۔" اپنے غصے سے پھولتے سانس کے ساتھ وہ کہتے ساتھ ہی آنکھیں میچتے خود پہ کنٹرول کرنے لگا۔۔۔۔
کیا سچ میں۔۔۔" یہ تو کتنی خوشی کی بات ہے رافع بھائی مان گئے۔۔۔ ہائے میرا معصوم بچہ ضرور اللہ نے میرے ویام کی دعائیں سن لی ہیں۔۔ دیکھیں رات تک خود ہی انکار کر رہے تھے اور اب دیکھیں کیسے حامی بھر رہے ہیں۔۔۔۔۔
نیناں نے اچھلتے خوشی کا اظہار کرتے کہا تھا۔۔ جبکہ وریام تو ویام کے لئے اسکے منہ سے ادا ہوئے لفظ معصوم پہ ہی چکراتے سر کے ساتھ بمشکل سے کھڑا تھا۔۔
"گھنا میسنا ہے تمہارا بیٹا۔۔۔۔ لکھ کر دیتا ہوں میں اس نے ہی رافع کو فورس کیا ہو گا۔۔۔۔ جیسے دکھتا ہے ویسا ہے نہیں وہ بیوی۔۔۔۔۔ یوں قائروں کی طرح چھپ کے وار کرتا ہے۔۔ اگر ہمت ہے تو میرے جیسا کام کرے سامنے چیلنج کر کے بیوی کو اٹھا کر لائے تو مانوں۔۔۔۔۔۔"
غصے سے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے نیناں کو دیکھ وہ ایک روعب سے بولا تھا۔۔۔مقصد اسکی نظروں میں اپنا امیج صاف کرنا تھا۔۔۔۔ اور ویام کو نیچے گرانا۔۔۔۔
" یوں زبردستی کسی کی بیٹی کو اٹھا کر لانا کہیں کی سمجھداری نہیں مسٹر۔۔۔۔ شکر کریں کہ آپکو معاف کر دیا تھا سب نے اور میں نے بھی۔۔۔۔ اور دوسری بات مجھے یقین ہے کہ ویام کبھی بھی کسی کو بلیک میل نہیں کر سکتا ۔۔۔ ویسے اگر اس نے ایسا ویسا کچھ کیا ہے تو تب بھی اسنے آپ کے جیسے زبردستی سے کام نہیں لیا۔۔۔اگر وہ عیناں کو اٹھا کر بھی لے آئے تو اس کا کچھ نہیں جائے گا بلکہ ہمارے ریلیشن خراب ہونگے اس لئے میرا بیٹا آپ سے زیادہ سمجھدار ہے۔۔ وہ ہر کام سوچ سمجھ کرکرتا ہے ناں کہ یونہی آپکے جیسے بنا کسی کا سوچے اپنی مرضی کر لی۔۔۔۔۔"
نیناں نے اچھا خاصا سمجھایا تھا اسے۔۔۔۔ وریام سرخ چہرے سے اسکے ویام نامے کو سن رہا تھا۔۔۔ ایک وقت تھا وہ پاس بیٹھ کے اپنے ماں باپ کی لڑائی کرواتا تھا اور ایک آج کا وقت تھا جب اسکا بیٹا پاس ناں ہوتے بھی اپنا کام بخوبی کرتا تھا۔۔۔۔۔
توں نے اچھا نہیں کیا ویام۔۔۔۔۔۔۔ خیر میری پرنسز آ رہی ہے اپنے ڈیڈ کو سپورٹ کرنے اور مجھے پورا یقین ہے کہ رافع کو توں نے ہی بلیک میل کیا ہے۔۔۔ " اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔۔ پرسوچ انداز میں گہری سوچ میں ڈوبتے وریام دل ہی دل میں ویام سے مخاطب تھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
وویام۔۔۔ پلیز جاؤ اب کتنی دیر ہو گئی ہے مجھے سب سے ملنا ہے چھوڑو مجھے ۔۔۔۔" منہ بسورے وہ پچھلے دو گھنٹوں سے اب تک کئی بار کہی بات پھر سے دہرا رہی تھی۔۔۔۔
جبکہ مقابل ایک ہاتھ اسکے سر کے نیچے سے نکالتے دوسرے ہاتھ کو اسکے گرد حصار بنائے اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگائے مزے سے آنکھیں موندے پرسکون سا لیٹا ہوا تھا۔۔
"میں ناراض ہوں کب مناؤ گی مجھے۔۔۔۔۔ " عیناں کے کندھے پہ لمس چھوڑتے وہ فرمائشی انداز میں محبت سے استفسار کرنے لگا۔۔
عیناں نے گہری سانس فضا کے سپرد کرتے آنکھیں گھمائی۔۔مطلب دو گھنٹوں سے اپنی من مانیاں کرنے کے بعد بھی نواب صاحب ناراض تھے۔۔۔۔۔
اگر تم ناراض تھے تو پھر یہاں کیا لینے آئے۔۔۔" اپنے گرد لپٹے اسکے ہاتھوں کو کھولنے کی سعی کرتی وہ منہ بناتے ہوئے بولی ۔۔
" تم سے پیار کرنے آیا تھا یار۔۔۔اب ناراضگی اپنی جگہ اور محبت اپنی جگہ ۔۔۔۔۔ میں ان لوگوں کی طرح پاگل ہرگز نہیں جو روٹھ کے خوامخواہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔۔۔۔ بتاؤ کب مناؤ گی مجھے۔۔۔۔
اپنی بات کہتے وہ گھمبیر لہجے میں اسکے بالوں میں چہرہ چھپائے اسکی خوشبو کو خود میں اتارنے لگا۔۔۔۔۔
ہمممم تم جاؤ گے تو کچھ سوچوں گی ناں۔۔۔۔" لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ اسکی گرفت سے نہیں نکل پائی تھی ۔ جبکہ لب بھینچتے اسنے صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔۔۔
اسکے انداز پہ ویام کے چہرے پہ ایک جان لیوا مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔۔ عین۔۔۔۔۔" محبت سے اسکے کان کی لو کو چھوتے وہ سرگوشیاں کرنے لگا۔۔۔۔
عیناں کی پلکیں لرز اٹھی مگر وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اسکے سینے سے لگی پڑی تھی ۔۔
" اگر سسر جی کچھ پوچھیں تو جواب ہاں میں دینا ۔۔۔ ' وہ چاہتا تھا کہ رافع خود اس سے بات کرے۔۔ اسی لیے ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے سمجھانا چاہا۔۔
"کیا مطلب ڈیڈ کیا پوچھیں گے۔۔. کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔۔ " عیناں نے رخ موڑتے اسکی جانب کیا اور حیرت سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا ۔۔۔۔۔
" بس خود ہی پتہ لگ جائے گا تمہیں اور ایک بات دو دن تک کچھ سوچ کے مناؤ مجھے ورنہ میں راضی نہیں ہوں گا تم سے۔۔۔۔۔۔ اسکے پھولے گالوں کو چھوتے وہ فرمائشی انداز میں بولا ۔۔۔ اور لب اسکی تھوڑی پہ رکھے۔۔۔ اسکی شیو کی جبھن پہ وہ کسمساتے پیچھے ہوئی۔۔۔۔
اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔ پھر ملاقات ہو گی۔۔۔۔ " عیناں کی پیشانی پہ بوسہ دیتے وہ مسکراتا اٹھا تھا۔۔ جبکہ وہ فوراً سے کمفرٹر میں دبکی تھی۔۔۔اسکی حرکت پہ ویام نے سر نفی میں ہلایا تھا اور شوز اور ہڈ پہنتے وہ مسکراتا بیڈ کے پاس آتے کمفرٹر کھینچتے نیچے پھینک گیا۔۔۔
اس اچانک افتاد پہ عیناں نے ہڑبڑاتے آنکھیں کھولی۔۔۔۔ ٹیک کئیر مائی لو ۔۔۔" اسکی حیرت سے پھٹی آنکھوں میں دیکھتے ویام نے نرمی سے اسکے نقوش پہ اپنا محبت بھرا لمس چھوڑا تھا۔۔ اور فورا سے کھڑکی کی جانب بڑھا۔۔۔۔
اسکے جاتے ہی وہ فکر مندی سے اٹھی تھی جگہ سے۔۔۔ کھڑکی کے قریب جاتے دیکھا تو وہ گیٹ پھلانگتے باہر کی جانب گیا تھا۔۔۔ عیناں کا نازک سا دل لرز اٹھا اگر اسے لگ جاتی تو۔۔۔۔ وہ جھرجھری لیتے اپنی سوچ پہ خود ہی سر جھٹکتی مرر کے سامنے آئی تھی ۔۔۔ اپنے بکھرے حلیے کو دیکھ چہرہ حدردجہ سرخ ہوا تھا۔۔۔
فورا سے اپنے حلیے کو قدرے بہتر کرتی وہ وارڈروب کی جانب بڑھی ۔۔
شاور لینے کا سوچتے ہی اسنے کپڑے نکالے مگر اچانک سے کچھ گرنے کی آواز پہ وہ ٹھٹکی۔۔۔۔ کپڑے بیڈ پہ پھینکتے عیناں نے اس پرانے سے البم کو دیکھا۔۔۔۔
ہاتھ سے اسے صاف کرتی وہ حیران بھی تھی۔۔۔ یہ ایلبم تو وہ کب سے چوری کرکے لائی تھی موم کے روم سے۔۔ مگر جانے کہاں چلا گیا تھا۔۔۔ موم نے بتایا تھا۔۔ اس ایلبم میں اسکے نانا کی بھی تصوریں تھی۔۔۔
وہ سوچتی فورا سے چہکتے ایلبم تھامے بیڈ پہ گئی ۔۔۔۔ ایک ایک تصویر کو کھولتے وہ محبت سے دیکھ رہی تھی۔۔
وریام، نیناں، فدک اور رافع کی بہت سی خوبصورت تصویریں اس ایلبم میں قید تھی۔۔۔ وہ جوں جوں تصویریں دیکھ رہی تھی دل اور بھی خوش ہوتا جا رہا تھا۔۔۔
الایہ اور انزِک کی بھی تصویریں تھی بچپن کی۔ ۔۔۔۔ عیناں نے منہ بسورا کیونکہ تقریبا ایک دو پیجز رہ گئے تھے مگر اسے نانا کی تصویر نہیں ملی۔۔۔اسے کتنی خواہش تھی ان کو دیکھنے کی وہ انکے جیسی ہی تو دکھتی تھی۔۔۔
گردن پہ بکھری اپنی سنہری زلفوں کو کان کے پیچھے اڑستے وہ لب دانتوں تلے دبائے ایک ایک تصویر کو بغور دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اگلے پیج پہ ایک تصویر دیکھ اسکے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔ عیناں نے بغور تصویر کو دیکھا۔۔ جہاں بلیو تھری پیس میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر شخص اسکی موم کو سینے سے لگائے ہوئے تھا۔۔۔ عیناں خوشی سے چہکی آخر کار اسے مل ہی گئی تھی تصویر۔۔۔۔ عیناں نے بغور انکی آنکھوں میں دیکھا مگر اسے جھٹکا لگا۔۔۔ کیونکہ انکی آنکھوں کا کلر تو کالا تھا ۔۔
اپنی سوچ کو جھٹکتے عیناں نے سارا ایلبم ڈھونڈ ڈالا مگر اسے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔۔۔ سوائے اس ایک تصویر کے۔۔۔۔
تمہاری آنکھیں بالکل تمہارے نانا کے جیسی ہیں۔۔۔۔ بالکل کانچ کے جیسی خوبصورت کسی کو بھی خود میں قید کرنے والی۔۔۔۔۔"
فدک کی کہی باتیں اسکے دماغ میں گردش کرنے لگی۔۔۔۔ نانا کی آنکھوں کا کلر تو بلیک ہے پھر موم نے جھوٹ کیوں بولا ۔۔۔۔۔ ہاتھ میں تھاما ایلبم بیڈ پہ گرا تھا۔۔۔۔۔ عیناں کے چہرے پہ الجھن بےیقیی سی در آئی۔۔۔۔۔ اسے بالکل یقین نہیں تھا کہ اسکی موم اور ڈیڈ اس سے جھوٹ بولیں گے۔۔۔ وہ کیوں اپنی موم اور ڈیڈ کے جیسی نہیں دکھتی تھی۔۔۔انزک اور الایہ بھی تو اسکے بہن بھائی تھے پھر وہ دونوں کیوں موم اور ڈیڈ جیسے لگتے تھے۔۔۔۔
اپنے وہم کو جھٹلاتے وہ جھٹ سے اٹھی تھی۔۔۔شیشے کے سامنے کھڑے ہوتے اسنے بغور اپنے چہرے کے ایک ایک نقش کو ہاتھ سے محسوس کیا ۔۔۔۔ اسکی کرسٹل گرے آنکھیں بالکل شفاف خوبصورت سی تھی ۔۔۔ گلابی گال تھوڑی دیر پہلے ویام کی گستاخیوں پہ دہک رہے تھے۔۔۔جبکہ اسکی چھوٹی سی ناک سرخ تھی۔۔۔ جبکہ الایہ اور فدک کی ناک تو سیدھی کھڑی تھی۔۔۔
اسے ڈھونڈنے سے بھی اپنے اندر کوئی ایسا نقش نہیں ملا تھا۔۔ جس میں اسکے کسی اپنے کا کوئی عکس ہو۔۔۔۔۔ اسکا چھوٹا سا دماغ سوچ سوچ کے ماوف ہونے لگا۔۔۔
وہ جانے کب تک اپنی سوچوں میں گم رہتی کہ اچانک سے دروازے پہ ہوتی بیل پہ وہ ہوش میں آتی آنسوں صاف کرتے ایلبم کو چھپاتے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔
💥💥💥💥💥
*******ماضی******
کیا ہو گیا یہاں کیوں کھڑی ہو ۔۔۔۔۔۔۔" سونیہ صبح ہی صبح اسے کالج گیٹ میں یوں کھڑا دیکھ ایک نظر آگے پیچھے دیکھتی اسکے پاس آئی تھی۔۔۔ اسے کندھے سے ہلاتے سونیہ نے کڑی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
کک کچھ نہیں بس من کا انتظار کر رہی تھی۔۔ کل بھی نہیں آیا تھا گھر بس اس لیے ۔۔۔" شولڈر پہ بیگ ڈالتے ہاتھ میں پکڑی بکس کو سینے سے لگائے وہ اداسی سے گویا ہوئی۔۔
یہ تم امن سے کچھ زیادہ ہی اٹیچڈ نہیں ہو رہی ۔۔۔۔" سونیہ نے جانچتی نظروں سے حیا کے چہرے کو دیکھا ۔۔ مگر حیا اسکی بات پہ برے سے منہ بناتے رہ گئی۔۔۔
" تمہیں کیا تکلیف ہو رہی ہے بڑی بہن ہوں اس کی ۔۔۔ ہر وقت فضول مت سوچتی رہا کرو۔۔۔۔" اسکی بات کا مطلب وہ اچھے سے سمجھ رہی تھی جبھی اسے اچھے سے باور کروا دیا کہ اسکا دل بالکل صاف ہے۔۔۔
ہممم بڑی بہن ۔۔۔۔تم خود ہی بن کے بیٹھی ہو اسکی بڑی بہن وگرنہ اسکے تیور کو بالکل الگ ہی دکھتے ہیں۔۔۔
حیا کو لے کر امن کی جذباتیت سارے کالج میں مشہور تھی۔۔ کوئی بھی اسے تنگ کرنے کی جرت نہیں کر پاتا تھا۔۔ اوریہ سب امن کی وجہ سے تھا۔۔ کیونکہ بقول امن وہ صرف امن کے تنگ کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے ناکہ دوسروں کی دانت ڈپٹ برداشت کرنے۔۔۔۔۔
" حیا اندر چل وہ دیکھ سامنے کیسے گھور رہے ہیں وہ دونوں تجھے۔۔۔۔ امن سے بریک میں مل لینا ابھی چل کلاس میں۔۔۔۔۔" عمر اور وقاص کی عجیب سی نظروں کو حیا پہ ٹکا پاتے سونیہ نے اسے باززو سے کھینچتے کان میں گھستے سرگوشی کی۔۔۔۔
حیا نے گردن گھمائے ان لوفروں کو دیکھا۔۔۔ جو اسی کی کلاس فیلو تھے۔۔۔
حیا نے سر تا پاؤں دونوں کو گھورا۔۔۔اور سر جھٹک دیا۔۔۔۔ تم جاؤ سونی یہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔۔ حیا نے اعتماد سے آنکھوں میں روشن جگنو سجائے کہا سونیہ پل بھر کو کھڑی اسی کو دیکھتی رہی اور پھر کندھے اچکاتے اندر بڑھ گئی۔۔۔۔
" کیا بات ہے لگتا ہے آج حیا میڈم کو ہماری کمپنی انجوائے کرنی ہے۔۔۔" سونیہ کے جانے کے بعد وہ دونوں ہی قہقہہ لگاتے حیا کے پاس آئے تھے۔۔۔ ایک بھرپور نظر حجاب کے حالے میں دمکتے حیا کے معصوم نوخیز حسن سے چمکتے چہرے پہ ڈالتے وہ دونوں ہی اپنی بات پہ ہنس دیے۔۔۔۔
دفع ہو جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔"
حیا نے انگلی اٹھائے ان دونوں کو وارن کیا تھا۔۔ وہ دونوں پہلے تو چونکے پھر خود ہی قہقہ لگانے لگے۔۔۔ حیا نے ماتھے پہ بل ڈالے ان دونوں کو دیکھا۔۔۔۔
" او ہو میڈم ۔۔۔۔ آج تو آپ کے ساتھ ہی دفع ہوں گے۔۔ ذرا کلاس کی سب سے لائق سٹوڈنٹ سے کچھ سیکھنے کو بھی مل جائے گا اور اس سے ہماری بھی میٹرک کی ڈگری شاید کلئیر ہو جائے۔ وہ دونوں پچھلے دو سال سے میٹرک میں فیل ہو رہے تھے۔۔ عیاش اور آوارہ ہونے کے باوجود امیر باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے پرنسپل انہیں نکال نہیں رہے تھے۔۔۔
" جس کی وجہ سے ان دونوں کو کافی شہہ مل گئی تھی۔۔۔ حیا پہ کافی دنوں سے ان دونوں کی نظر تھی مگر ہر بار اذلان اور امن اسکے آگے پیچھے منڈلاتے رہتے تھے جسکی وجہ سے انہیں موقع نہیں مل پا رہا تھا۔۔ مگر آج کافی اچھا موقع تھا۔۔ وہ اسے اکیلے میں اچھے سےدبوچ سکتے تھے۔۔۔
چلو مس حیا کچھ سبق ہمیں بھی پڑھا دو۔۔۔۔" عمر نے آنکھ دباتے خباثت سے کہا تھا۔۔ اور حیا کی ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھاما ۔۔۔
مگر اگلے ہی پل پیچھے سے پیٹھ پہ پڑنے والی ٹانگ پہ وہ درد سے کراہتا اوندھے منہ زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔
حیا نے خونخوار نظروں سے عمر کو گھورا تھا اور نفرت سے اپنے سرخ پڑتے ہاتھ کو صاف کیا۔۔ "
تیری اتنی جرت کہ توں حیا کو ہاتھ لگائے۔۔۔ " امن نے شعلہ بار نظروں سے حیا کی سرخ کلائی کو دیکھا تھا اور غصے سے عمر کو گریبان سے پکڑتے وہ ایک کے بعد ایک مکہ اسکے منہ پہ مارتے اسے لہو لہان کر گیا۔۔۔
وقاص صورتحال سے گھبراتے بھاگنے لگا تھا کہ حیا نے پاؤں اسکی ٹانگ میں پھنسائے اسے نیچے گرا دیا۔۔۔۔
وہ دونوں ہی عمر میں امن سے بڑے تھے مگر وہ جسامت میں ان دونوں سے بڑا دکھتا تھا اور کچھ وقتی طیش اور غصہ اس پہ اس قدر حاوی تھا کہ وہ دونوں ہی اسکے آگے کچھ نہیں تھے۔۔۔
امن مڑا تھا اور وقاص کو بھی اچھے سے پیٹنے کے بعد وہ دونوں کو گریبان سے پکڑتے پورے کالج میں سے لے جاتا پرنسپل کے روم میں گیا ۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے امن۔۔۔۔۔ چھوڑو دونوں کو۔۔۔۔"
پرنسپل جگہ سے اٹھتا عمر اور وقاص کو لہو لہان دیکھ بھڑک اٹھا۔۔۔
سر یہ میری کزن سے سبق پڑھنا چاہ رہے تھے آئی ہوپ کہ آپ کی بیٹی ان دونوں کو اچھے سے سمجھا سکے۔۔۔
دروازے کے پاس اطمینان سے کھڑی حیا کو دیکھ امن نے پرنسپل کے سامنے ان دونوں کو ٹیبل پہ دے مارا ۔۔۔
حد میں رہو اپنی تم۔۔۔۔ تم کل کے بچے میری بیٹی کے بارے میں ایسی بات کرو گے۔۔۔ ہاؤ ڈئیر یو۔۔۔۔ "
پرنسپل نے مٹھیاں بھینچتے غصے سے کہا تھا۔۔ جبکہ امن مسکرا دیا۔۔۔
اتنا غصہ اپنی بیٹی کیلئے ایسی بات سن کر آیا آپ کو ۔۔۔۔ تو اس کالج میں جو لڑکیاں پڑھتی ہیں وہ بھی تو آپ کی ہی بیٹیاں ہیں جنہیں ان کے ماں باپ آپ کے پاس تخفظ ،عزت سے تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں۔۔۔۔
آج تک میں چپ تھا کیونکہ آج تک یہ میرے راستے میں یا پھر میری فیملی کے سامنے نہیں آئے مگر اب انہوں سے میری کزن کو ٹچ کر کے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔ یا تو آپ انکو نکالیں گے یا پھر میں اپنے ڈیڈ کو سب کچھ بتاؤں گا جو جو کچھ آپ کی ہوشیاری پہ یہ دونوں یہاں پہ کرتے آ رہے ہیں۔۔۔۔
امن کی غصے سے سرخ آنکھوں میں دیکھتے پرنسپل پل بھر کو گڑبڑا گیا ۔۔۔اور فورا سے حیا سے معذرت کرتے ان دونوں کو کالج سے نکال دیا۔۔۔۔۔۔
کیا کر رہی تھی تم گیٹ پہ چوزی۔۔۔۔" پرنسپل کے روم سے نکلتے امن نے زور سے تھپڑ اسکے سر پہ مارتے مصنوعی غصے سے پوچھا تو حیا نے غبارے کے جیسے منہ پھولایا۔۔۔۔
تمہارا ویٹ کر رہی تھی۔۔ تم کل نہیں آئے ناں گھر تو سوچا کہ ابھی مل لوں۔۔۔۔" اسکی جانب رخ کرتی وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔۔۔جبکہ امن نے تاسف سے سر کو نفی میں ہلایا ۔۔
اب سے کسی بھی ایرے غیرے سے بات کرتی مت دکھائی دینا آئی سمجھ اور اب جاؤ کلاس میں۔۔۔۔
دھول سے اٹی اپنی وائٹ یونیفارم شرٹ جھاڑتے امن نے اسے حکم دیا۔
ایک سیکنڈ۔۔۔" بیگ سے رومال نکالتے وہ دھیان سے اسکی گندی شرٹ کو صاف کر رہی تھی۔۔۔ امن بغور اسکے معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اسکے لبوں پہ رقص کرنے لگی۔۔۔
ہو گیا۔۔۔۔۔۔" حیا کی آواز پہ وہ چونکتے ہوش میں آیا ۔۔۔۔ہمممم اب جاؤ کلاس میں چاکلیٹ نہیں میرے پاس۔۔۔اپنے شہد رنگ بالوں کو پیچھے کرتے وہ نظروں کا رخ پھیرتے بولا۔۔۔۔ جبکہ حیا برے سے منہ بناتی کلاس میں چلی گئی ۔۔۔اسکے جاتے ہی امن مسکراتے سر نفی میں ہلاتے اپنے پورشن کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" کام کہا تھا تم سے۔۔۔۔۔ دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں کچھ بنا کہ نہیں۔۔۔۔ " سگریٹ کا گہرہ کش لگاتے وہ نشے سے سرخ بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتے سامنے بیٹھے موئذ سے مخاطب تھا۔۔۔
" کام تو ہو جائے گا مگر میرا انعام کیا ہو گا۔۔۔۔" اسکے ہاتھ سے سگریٹ چھینتے موئذ نے بدلے میں کش لگاتے دھواں عمر کے چہرے پہ پھینکتے کہا تھا۔۔۔
جتنا پیسا مانگو گے میں دینے کو تیار ہوں ۔۔۔مگر ایک بات یاد رکھنا۔۔ اس امن کے ساتھ ساتھ اس حیا کی ساری اکڑ اور غرور توڑ ڈالو۔۔۔۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے عمر نے طیش اور غصہ دباتے ہوئے کہا تو مقابل بیٹھا موئذ گہرا مسکرایا۔۔۔۔
وہ فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔۔۔ عمر اور وقاص کے نکالے جانے کی بات پورے کالج میں آگ کی طرح پھیلی تھی۔۔۔۔ موئذ کو وہ کافی عرصے سے جانتا تھا۔۔۔ امن کے ہاتھ سے پڑنےوالی پٹائی وہ بھولا نہیں تھا۔۔پورے دوہفتوں سے وہ امن سے بدلہ لینے کا سوچ رہا تھا۔۔۔ پھر موئذ کا خیال آتے ہی وہ اسکے پاس آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
سمجھو کام ہو جائے گا۔۔۔۔۔" موئذ نے آنکھ دباتے کہا تھا۔۔۔ جس پہ عمر خباثت سے قہقہ لگا اٹھا۔۔۔
امن آ رہا ہے۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے امن کو دیکھ موئذ نے جلدی سے سگریٹ پاؤں کے نیچے بھجایا اور ہڑبڑاتے اسے وہاں سے بھیجا ۔۔ عمر بھی چھپتا چھپاتا وہاں سے غائب ہوا تھا۔۔
ارے امن آؤ یار ۔۔۔۔ بہت خوشی ہوئی تم میرے بلانے پہ آئے۔۔۔۔" موئذ اٹھتے گرم جوشی سے اسکے گلے لگتے ہوئے بولا تھا۔۔جبکہ امن اس ماحول میں گھبراہٹ محسوس کرتا عجیب سا فیل کر رہا تھا۔۔جبھی وہ مسکرا بھی ناں سکا۔۔۔
آپ نے کہا تھا کہ آپ کو کچھ کام ہے موئذ بھائی بتائیں کیا کام ہے۔۔۔۔ رات کے دس بجے وہ اپنے ڈیڈ سے جھوٹ بول کر آیا تھا۔۔ کچھ دنوں سے موئذ سے اسکی اچھی دوستی ہو گئی تھی ۔۔۔ جبھی آج اسکے یوں بلانے پہ وہ اپنے باپ سے جھوٹ بول کر اسے ملنے گیا تھا۔۔۔۔۔
کچھ خاص نہیں ۔۔۔۔ میرے کچھ دوست تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔ رکو میں بلاتا ہوں۔۔۔ اسکے چہرے کی بےزاری نوٹ کرتے موئذ نے جلدی سے اپنے دوستوں کو آواز دی جو پلین کے مطابق اسکے آس پاس ہی کھڑے تھے۔۔۔۔
اس سے ملو یہ میرا نیا دوست امن اور امن یہ حیدر ہے ، صائم اور یہ بلال ۔۔۔۔۔ کیسے ہو تم امن۔۔۔ بہت ذکر سنا ہے موئذ سے تمہارا آج ملاقات بھی ہو گئی۔۔۔۔ بلال نے مصافحہ کرتے گرم جوشی سے کہا تو امن کے چہرے پہ مسکراہٹ رینگ آئی۔۔۔ موئذ واقعی ہی کافی اچھا تھا۔۔اسکے ساتھ۔۔۔۔۔
یار چلو آج اس دوستی کے نام پہ ایک ایک کش ہو جائے۔۔۔ جیب سے نشے کے سگریٹ نکالتے اسکے سامنے کرتے بلال نے کندھا تھپکتے کہا۔۔۔۔
ارے امن یہ سب کچھ نہیں پیتا۔۔۔۔ رہنے دو۔۔۔۔" امن کے چہرے کے تاثرات دیکھتے موئذ نے فورا سے منع کیا تھا۔۔۔
ارے اب تم بڑے ہو رہے ہو امن اور سگریٹ تو ہر لڑکا اسی عمر سے پیتا ہے۔۔ چلو یار ایک کش لگانے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ سب نے باری باری اصرار کرتے اسے مجبور کیا تو امن نے سگریٹ ہاتھ میں تھامتے سب کو دیکھا۔۔۔۔
نہیں میں نہیں پی سکتا۔۔۔۔ بے چینی سے سگریٹ کو پھینکتے وہ جگہ سے اٹھا تھا ۔۔ سب کے چہرے مرجھا گئے۔۔۔۔
کہا تھا ناں کہ رہنے دو۔۔ امن نہیں پیتا۔۔۔۔موئذ نے کھڑے ہوتے امن کے کندھے کو تھپکتے کہا ۔۔۔ تو امن مشکور نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
شکریہ موئذ بھائی اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔" موئذ کو شکریہ کرتا وہ جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔۔ موئذ نے ہاتھ ملاتے اسے اللہ خافظ کہا تھا۔۔۔
توں نے روکا کیوں موئذ۔۔۔ اچھا بھلا قابو آیا تھا۔۔۔۔ منا۔۔۔ " امن کے جاتے ہی وہ سب اسکے آگے پیچھے کھڑے افسوس جتا رہا تھے۔۔
" جتنی شکر ڈالیں گے میٹھا اتنا ہی زیادہ ہو گا۔۔۔ فکر مت کرو کچھ دن کی بات ہے یہ خود ہی سگریٹ مانگے گا۔۔۔ ۔۔۔
اسکی بات سنتے وہ سب ہی اتفاق کرتے قہقہہ لگاتے ہنس پڑے ۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دنوں میں موئذ امن کو ہر طرح سے اپنی جانب راغب کر چکا تھا۔۔۔ بریک ٹائم۔۔۔۔۔ سکول سے کلاسسز مس کر کے وہ اکثر موئذ کے ساتھ گھومتا تھا۔۔۔ موئذ کو حیا کے ساتھ گزارا اپنا وقت اپنی پسندیدگی تک سے وہ آگاہ کر چکا تھا۔۔۔
اور آہستہ آہستہ اسے سگریٹ کی لت بہت آسانی سے وہ لگا چکا تھا۔۔۔ جس کا خود امن کو بھی اندازہ نہیں تھا ہو سکا۔۔۔۔ وہ چوری سب سے چھپ کے بھی سگریٹ پیتا تھا۔۔مگر موئذ کی جانب سے ملنے والی سگریٹ میں نشے کی مقدار بہت کم تھی ۔۔۔ وہ ایک ہی بار میں اسے قابو نہیں کر سکتا تھا۔۔ جبھی پوری تیاری سے جال تیار کیا تھا۔۔۔۔
" وہ پسند کرتی ہے تمہیں۔۔۔ جیب سے سگریٹ نکالتے امن کی شہد رنگ سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھتے موئذ نے اسے ٹٹولا ۔۔۔۔ آج وہ آخری وار کرنے والا تھا۔۔ اسی لئے نشے کی مقدار کافی حد تک تیز رکھی تھی۔۔ کہ آدھا سگریٹ پیتے ہی امن کو نشہ چڑھ جاتا۔۔۔۔
" کرتی ہو گی اگر میں اسے پسند کرتا ہوں۔۔۔ حیا کا سوچتے ہی وہ لمبا ساکش لگاتے دھواں اپنے اندر انڈیلتے لڑکھڑاتی آواز میں بولا ۔۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے حیا کا نازک سراپا تھا۔۔۔۔جبکہ ہونٹوں پہ ایک گہری دلکش مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
" تم نے کہا تھا کہ آج رات وہ تمہارے گھر آئی ہے رہنے۔۔۔۔۔ ایک اور سگریٹ نکالتے اسے پکڑایا۔۔۔ جو گہری تاریک رات میں ماں باپ سے جھوٹ بولتے کمبائن سٹڈی کا کہتے موئذ کے پاس آیا تھا۔۔۔۔۔
ہاں آئی تو ہے ۔۔۔۔ مگر میری ملاقات نہیں ہوئی اس سے۔۔۔۔۔"
اچھا۔۔۔ تو ابھی جا کر مل لو۔۔ اور ساتھ میں پرپوز بھی کر دینا۔۔۔۔۔ " موئذ نے سرگوشی کرتے اسے اکسایا ۔۔۔۔
" نہیں اب تو رات ہو گئی ہے پھر بات کک کروں گا۔۔۔۔ نشے کا اثر ہو رہا تھا۔۔۔امن کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔۔۔ وہ بمشکل سے آنکھیں کھولتا بول رہا تھا۔۔۔۔
" تو کیا ہو گیا یار۔۔۔۔ ویسے بھی رات کے وقت محبت کا اظہار کرنا کونسا غلط ہے ۔۔۔۔ اگر وہ انکار کرے تو تھوڑا زبردستی ہاں کروا لینا۔۔۔ اتنا تو چلتا ہے۔۔ " امن کے کندھے کو تھپکتے وہ آنکھ دباتے ہوئے بولا تھا۔۔ جبکہ امن کی آنکھوں میں مسکراہٹ اور ایک عجیب سی چمک در آئی۔۔۔
" اچھا میں چلتا ہوں اب۔۔۔۔۔۔" بمشکل سے لڑکھڑاتے قدموں سے کھڑے ہوتے وہ موئذ کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔
موئذ کی تیر نگاہوں نے دور تک امن کا پیچھا کیا تھا۔۔ جو دل و دماغ میں حیا کا عکس لیے اپنے گھر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔
" گھر میں داخل ہوتے ہی وہ لڑکھڑاتے قدموں سے بڑبڑاتا حیا کا نام لیتے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ آنکھیں نشے کی زیادتی سے سرخ ہو چکی تھی۔۔ جبکہ دماغ میں موئذ کی کہی باتیں گردش کر رہی تھی ۔۔ سانس بند ہونے پہ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے بٹن کھولتے اپنے روم کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔ کہ اچانک سے وہ رکا اور چکراتے سر کے ساتھ حیا کے کمرے کے بند دروازے کو گھورا۔۔۔۔
موئذ نے تو کہا تھا کہ رات کو ہی پرپوز کر دینا ۔۔۔۔ وہ بڑبڑاتے لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے تک پہنچا۔۔۔ ہینڈل گھمانے پر دروازہ کھلتا چلا گیا۔ وہ بنا آواز کیے دروازہ بند کیے اندر داخل ہوا۔۔ ہلکی سی مدہم لیمپ کی روشنی میں وہ گرتے پڑتے بیڈ کے قریب پہنچا۔۔ جہاں وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔۔
امن گھٹنوں کے بل بیٹھتے ایک ہاتھ اپنے چہرے پہ ٹکائے بمشکل سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
ححح حیا بب بہت اچھی لل لگتی ہو تت تم مجھے۔۔۔۔ آ تھنگ آ آ آئی لل لو یو ۔۔۔۔۔۔ " زبان پہ قابو کرنے کی سعی کرتا وہ اپنی ہی بات پہ ہنس دیا تھا۔۔۔
بےاختیار امن نے ہاتھ بڑھاتے حیا کے گال کو اپنے ہاتھ کی پشت سے سہلایا ۔۔ گزشتہ دنوں کی موئذ کی سکھائی باتیں اسکے ارد گرد منڈلانے لگی۔۔ وہ سر جھٹکتے ہر بری سوچ کو اپنے دماغ سے نکالنے لگا مگر سب بے سود ہوا۔۔۔۔۔
حح حیا اٹھو دد دیکھو میں امن۔۔۔۔ کک کچھ کک کہنا ہے مجھے۔۔۔۔۔" امن کی نظریں حیا کی گردن پہ ٹہری تھی۔۔ وہ پہلی بار شاید اسے یوں سویا دیکھ رہا تھا۔۔ کتنا اچھا لگ رہا تھا یہ سب۔۔۔ امن نے غیر محسوس انداز میں اسکی گردن پہ بنے بڑے سے کالے تل کو ہاتھ سے سہلایا۔۔ حیا نیند میں کسمسائی۔۔۔ مگر پھر خود ہی سو بھی گئی تھی ۔۔۔ امن بمشکل سے گھٹنوں پہ زور دیتے اٹھا تھا ۔۔۔ اور لڑکھڑاتے وجود کے ساتھ وہ ایک گھنٹہ بیڈ پہ ٹکائے تقریبا اسپہ جھک سا گیا۔۔۔۔۔
حیا ویک اپ ۔۔۔۔۔۔ "اسے سوتا پاتے وہ دونوں ہاتھوں سے اسکے کندھوں کو جھنجھوڑتے اسے اٹھانے لگا۔ کہ وہ نیند میں ہی کسی کے جھنجھوڑنے پہ اٹھی مگر اپنے قریب امن کو پاتے وہ ڈر سی گئی تھی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ چیختی امن نے اپنا بھاری ہاتھ اسکے منہ پر رکھتے اسے خاموش کروا دیا تھا۔۔
حیا نے ہراساں سی نظروں سے امن کو دیکھتے اپنے منہ پہ دھرے اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی ناممکن سی کوشش کی۔۔۔۔۔
کیا کر رہی ہو بات کرنی ہے مجھے۔۔۔ امن نے غصے سے اسے جھڑکا تو حیا دم سادھے خوف سے اسکی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔
مم مجھے کچھ کہنا ہے حیا۔۔۔۔۔ اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھامتے وہ مدہوشی کی حالت میں اس پہ جھکنے لگا کہ اس کی کوشش کو بھانپتے وہ ڈر سے اسے دھکا دیتے اٹھی تھی ۔۔۔۔۔ اور بھاگتے دروازے تک جانا چاہا تھا مگر امن نے لپکتے اسے باززوں سے تھاما۔۔۔۔
سن تو لو مجھے کک کیا کہنا ہے۔۔ اسے کھنیچتے اپنے ساتھ لگاتے وہ لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں بولا تھا۔۔۔
" مم من چھوڑو مجھے۔۔۔۔" ڈر اور وخشت سے حیا کی آواز اندر ہی کہیں دب سی گئی خوف و ہراس میں اس سے بولنا تک محال ہو گیا تھا۔۔۔ مگر وہ ہمت کرتی اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔۔ جو نشے میں دھت حیا کی گردن پہ جھک رہا تھا۔۔۔
حح حیا ۔۔ " امن نے آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتے اسے پکارا تھا۔۔۔ جبکہ حیا نے پوری قوت سے اسے خود سے دور کیا مگر امن نے اسے باززوں سے کھینچتے سامنے کیا تھا۔۔ کہ اسکی سرخ نظروں کو دیکھتی حیا آج سہم سی گئی تھی۔۔ یہ اس کا من تو نہیں تھا۔۔۔ وہ کیوں آدھی رات کو یوں چوروں کی طرح اسکے کمرے میں آیا تھا۔۔۔
حیا کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ نمی در آئی جب امن نے اسے پیچھے بیڈ کی جانب پھینکا تھا۔۔ وہ اوندھے منہ بیڈ پہ گرتے سانس روک گئی ۔۔۔۔
" امن چچ چھوڑو مم مجھے۔۔۔ " وہ ایک بار پھر سے اسکے سامنے مضبوط بنتی دروازے کی جانب بھاگی تھی مگر اب کی بار امن نے اسے کھینچتے بیڈ کی جانب دھکا دیا بلکہ خود بھی بیڈ پہ اسکے ساتھ گرتے وہ مضبوطی سے اسکے ہاتھوں کو تھام گیا ۔۔۔۔۔
ہششششش۔۔۔۔اواز مت کرو بات کرنے دو مجھے۔۔۔۔۔ " اسپہ جھکے وہ غصے سے برہم ہوتے بولا تھا۔۔ اور احتیاط سے اسکے بالوں کو گردن سے ہٹائے وہ خمار بھری نگاہوں سے اسکی سفید شفاف گردن پہ چمکتے اس تل پہ نظریں گھاڑتے جھکا تھا۔۔۔
ممممما پاپا۔۔۔۔۔۔ " عزت کے خوف اور ڈر سے وہ ایک دم سے چیخی تھی۔۔۔ اسے دھکا دیتے وہ بیڈ پر سے اترنے لگی کہ گھٹنوں کے بل فرش پہ گری تھی۔۔۔ شدید درد کے باوجودِ بھی وہ روتی دروازے تک پہنچی تھی۔۔۔
پھپھو پلیز کوئی ہے۔۔۔۔۔ " امن کو یوں غصے سے اپنی جانب بڑھتا دیکھ وہ کپکپاتی آواز میں دروازہ ناک کرنے لگی مگر تب تک امن نے کھینچتے اسے سامنے کیا تھا اور زور داد تھپڑ اسکے منہ پہ جھڑا تھا۔۔۔
اسکا دماغ بالکل کام کرنا بند ہو چکا تھا ۔۔۔ اسے صرف اور صرف اس وقت حیا سے مطلب تھا۔۔۔ اسکی تکلیف اسکا خوف ڈر کچھ معنی نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ وہ بالکل موئذ کے کہے مطابق چل رہا تھا۔۔۔۔۔
مم منع کیا ہے ناں کک کیوں چلا رہی ہو۔۔۔ " اپنے بالوں کو نوچتے امن نے غصے سے اسے باززوں سے پکڑتے جھنجھوڑا ۔۔۔۔ حیا نے دھندلاتی نظروں سے امن کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جو اسے کوئی وخشی درندہ لگا تھا۔۔
حیا دروازہ کھولو ۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی یا پھر کرتی اچانک سے رمشہ کی بے چین آواز دروازے کے پاس سے سنتے وہ سہمی نظروں میں آس امید لئے امن کو دیکھنے لگی۔۔
پہ پھپھو ۔۔۔۔ " ہونٹ سے بہتے خون کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتی وہ سسک پڑی۔۔۔۔۔ "
اپنی موم کی آواز سنتے وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھا تھا۔۔ اور آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتے وہ بمشکل سے دروازہ کھول گیا۔۔۔۔۔
حیا۔۔۔۔۔ فرش پہ بکھری حالت میں حیا کو یوں دیکھ رمشہ کی چیخ گونجی تھی۔۔ اشعر نے بےیقینی سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر ایک نظر حیا پہ ڈالتے وہ شرم سے نظریں جھکا گیا ۔۔۔
بیٹا اٹھو حیا ۔۔۔۔ ٹھیک ہو تم۔۔۔۔۔ " حیا کے پاس جاتے رمشہ نے بمشکل سے اسے سنبھالا تھا جو بری طرح سے رو رہی تھی۔۔۔۔۔ پھپھو ااا امننن۔۔۔۔۔" وہ توڑ توڑ کے الفاظ ادا کرتی رمشہ کے ساتھ لگتے ایک دم سے رونے لگی۔۔۔ کہ اشعر نے ضبط کھوتے آگے بڑھتے امن کو گریبان سے دبوچا تھا۔۔۔
ڈیڈ کک کیا ہوا ۔۔۔ چچ چھوڑیں ممم مجھے۔۔۔۔۔۔" اشعر کے ساتھ گھٹستے ہوئے وہ لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے بولا تھا۔۔۔
کیا کر رہے ہو تم حیا کے روم میں۔۔۔۔۔" کمرے سے نکلتے ہی اشعر نے اسے کالر سے دبوچتے اپنے سامنے کرتے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔ آنکھوں میں غضب کی سرخی تھی۔۔۔
ممم میں تو اسے بب بتانے۔۔۔۔۔" چٹاخ۔۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات پوری کر پاتا ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ پڑا تھا۔۔۔۔ وہ اوندھے منہ فرش پہ گرا۔۔۔۔
تم اتنا گر سکتے ہو امن ۔۔۔۔۔۔ تمہاری جرت بھی کیسے ہوئی اسکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی۔۔۔۔" اسے پھر سے پکڑتے اپنے جانب رخ کرتے ایک اور تھپڑ جھڑا تھا اشعر نے۔۔۔اذلان حراساں سا سیڑھیوں سے اترتا یہ منظر دیکھ پاگل سا ہو گیا۔۔۔
ڈیڈ چھوڑیں من کو ۔۔۔۔ پلیز ڈیڈ کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔" وہ بری طرح سے بھوکھلاتے آگے بڑھا تھا۔۔۔اشعر کے ہاتھوں کو امن سے دور کرتے وہ ان دونوں کے درمیان ڈھال بن گیا۔۔۔
میں بتاتا ہوں کیا کیا ہے اس بغیرت انسان نے۔۔۔۔" اذلان کو دھکہ دیتے اشعر غصے سے بےحال امن کی جانب بڑھا تھا۔۔۔ اسے کھینچتے اپنے ساتھ لے جاتے وہ اندر گیا تھا۔۔۔۔۔ حیا جو چادر میں دبکی اپنی پھپھو کے ساتھ لگی روتے ہوئے بھی ہلکا سا لرز رہی تھی۔۔۔اب یوں پھر سے امن کو اپنے سامنے دیکھ وہ خوف سے آنکھیں بند کرتی سسکنے لگی۔۔۔۔
حیا بیٹا بتاؤ امن کیوں آیا تھا یہاں کیا آپ نے بلایا تھا۔۔۔اسے۔۔۔۔۔۔" ایک ہاتھ سے اسکے کالر کو دبوچتے وہ حیا سے جواب طلب ہوا تھا ۔۔۔
مم میں ننن نے نن نہیں بب بلایا۔۔۔۔ااا امن نن مم مجھ پہ ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔ مم میں نننن نہیں جانتی وو وہ کی کیوں اا آیا تھا۔۔۔۔"
" رمشہ کی جانب دیکھتے وہ ہچکیوں میں اسے بتانے لگی رمشہ نے بےیقنی سے ایک نظر اپنے امن کو دیکھا۔۔۔۔ جو نشے سے چور آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
چلو میرے ساتھ۔۔۔" اشعر سنتے ہی بالکل سپاٹ چہرے سے اسے گھیسٹتے باہر لے جانے لگا۔۔۔ رمشہ اسکے تاثرات سے خوفزدہ سی اسکے پیچھے لپکی تھی۔۔۔۔ مگر اشعر تو جیسے آج اپنے آپ میں ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
بےشرم بےحیا انسان تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی اپنے ہی گھر کی عزت کو داغدار کرنے چلے تھے تم۔۔۔۔۔۔ یہ تربیت کی ہے ہم نے تمہاری۔۔۔ "
اشعر اشعر رکیں اسکی بات تو سن لیں۔۔۔۔ رمشہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔جبکہ اشعر اسے لاتوں سے بری طرح سے پیٹ رہا تھا۔۔۔
تم چپ کرو ، آج کوئی بھی نہیں بولے گا ہمارے بیچ۔۔۔۔" اشعر نے انگلی اٹھاتے رمشہ کو وارن کیا تھا ۔۔۔ جبکہ اذلان اپنے ڈیڈ اور من کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو کسی غیر مری نقطے کو گھور رہا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔
نکل جاؤ اس گھر سے آج کے بعد تم مر گئے ہمارے لئے۔۔۔ ایک مجرم کیلئے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں دفع ہو جاؤ چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔"
اسے گھیسٹتے ہوئے وہ دروازے سے باہر دھکہ دیتے بولا تھا۔۔۔۔ رمشہ اس قیامت پہ ڈھے سی گئی تھی۔۔ جبکہ اذلان ماں کو سنبھالتے یہ سب دیکھ اندر سے لرز اٹھا تھا۔۔۔۔
ڈیڈ دروازہ کھولیں میری بب بات سنیں۔۔۔۔۔" منہ سے بہتے خون کو صاف کرتے امن نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔
اسکی درد سے بھری روندھی آواز سنتے رمشہ تڑپتے دروازے کی جانب بھاگی تھی۔۔۔۔
خبردار رمشہ جو اسکے لئے دروازہ کھولا ۔۔۔ تو آج اس گھر سے میری لاش ہی نکلے گی۔۔۔" الفاظ کی سخت گرفت اسکے پاؤں میں زنجیر کی مانند ڈالتے وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اوپر گیا تھا۔۔۔
جبکہ رمشہ وہیں ساکت وجود کے ساتھ فرش پہ گر سی گئی۔۔۔۔
مم موم دروازہ کھولیں میں نے کچھ نہیں کک کیا مم میری بات تو سنیں۔۔۔۔۔" اپنی موم کی موجودگی کا احساس اسکے دل میں اسے محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ جبھی آنکھوں سے بہتے آنسوں صاف کرتا وہ روتے ہوئے بولا تھا
۔مگر وہ مجبور تھی جبھی پوری رات وہ دروازے کے پاس بیٹھی رہی تھی ۔۔۔ ناجانے کب تک وہ روتا اسے آوازیں دیتا رہا تھا۔۔۔اود پھر جب اسکی آوازیں آنا تھم گئی تو بے اختیار وہ اٹھی تھی ممتا کی تڑپ کے آگے مجبور ہوتے اسنے دروازہ کھولا تھا۔۔ مگر باہر کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
رمشہ نے آنسوں بھری نگاہوں سے دور دور تک اسے ڈھونڈا جو اس سے کافی دور چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
******ماضی*******
میں ایک بار ملنا چاہتا ہوں حیا سے۔۔۔۔۔۔۔" غیر مری نقطے کو گھورتے وہ جانے کس سوچ میں ڈوبا تھا۔۔۔۔۔
سگریٹ کا کش لگاتا موئذ بری طرح سے ٹھٹکا ۔۔۔۔
" توں پاگل ہو گیا ہے کیا امن ۔۔۔۔۔ کیا کرے گا اس سے مل کے ۔۔۔۔۔ جانتا ہے ناں تجھے کس کی وجہ سے نکالا گیا ہے گھر سے۔۔۔"
موئذ نے اسے تصویر کا دوسرا پہلوں واضع کیا جس سے وہ بھی بخوبی واقف تھا۔۔
تو کیا کروں پوری زندگی یہ سوچ سوچ کے گزار دوں کہ میرے اپنوں کو مجھ پہ بھروسہ نہیں۔۔۔ میں حیا سے ملوں گا اسے بتاؤں گا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ سب ویسا نہیں تھا جیسا وہ سمجھ رہی ہے۔۔ میں معافی مانگوں گا اس سے۔۔۔۔"
ہاتھوں کو مٹھیوں کو بھینجتے امن نے دھندلاتی نظروں سے کہا تھا۔۔۔۔ وہ پورے ایک ماہ سے موئذ کے پاس تھا۔۔۔۔ جسے موئذ آہستہ آہستہ اپنی انگلیوں پہ نچا رہا تھا۔۔۔ طلب بڑھنے پہ ایک سگریٹ نکال کر دے دیتا ۔۔۔ جس کی وجہ سے امن اسکا پابند ہو کے رہ گیا تھا ۔۔۔ موئذ کا ارادہ اسے اپنے ساتھ شامل کرنا تھا۔۔ ایک غنڈہ بنانا جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوا بھی تھا۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ چل ایک بار مل لو کیا پتہ تمہاری تسلی ہو جائے۔۔۔ کندھے اچکاتے بظاہر پرسکون دکھنے کی کوشش کرتے موئذ نے کہا تو امن جگہ سے اٹھا۔۔۔
کہاں وقت دیکھ آج بھی رات کا وقت ہے۔۔۔۔!" موئذ کے کہنے پہ اسکے قدم جکڑ سے گئے تھے مگر پھر وہ زخمی سا مسکرایا۔۔۔ آج ہوش میں ہوں اس دن نشے میں تھا۔۔میں سب ٹھیک کروں گا ۔۔۔۔ اپنے دل کو تسلی دیتا وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اسکی آنکھوں سے اوجھل ہوا۔۔۔
گہری خاموش سیاہ رات میں وہ دل میں اٹھتے طوفان کو دبائے شاہ حویلی کے سامنے کھڑا تھا۔۔ دل تھا کہ بس اسے اپنی گواہی دینے کو بے تاب تھا۔۔۔ جبکہ انا اسے ان سب سے روکے ہوئے تھی ۔۔ ایک طویل سانس اندر کھینچتے وہ ٹھنڈی سانس کو اپنے سینے میں اتارتا اپنے اندر لگی اس آگ کو کم کرتا آگے بڑھا تھا۔۔۔۔ دیوار پھلانگتے وہ پچھلے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔۔
وہ کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔۔۔ جبھی وہ یوں چوروں کی طرح گھسا تھا۔۔۔۔ امن نے متلاشی نظروں سے آگے پیچھے دیکھتے سیڑھی کو ڈھونڈا مگر اسے ناں پاتے ایک نظر اس لمبے پائپ کو دیکھتا وہ ہمت کرتے مضبوطی سے پکڑے اوپر چڑھنے لگا۔۔۔۔
ہاتھوں میں سردی کے باعث درد سا ہونے لگا تھا مگر وہ نظر انداز کرتا اندر کودا۔۔۔۔۔ سامنے ہی کھڑکی کھلی تھی۔۔۔ امن نے سانس روک دیا۔۔ جانے کیوں آج حیا کے سامنے جانا اسے اپنا آپ کیوں شرمسار سا لگ رہا تھا۔۔۔ لاکھ ہمت باندھنے کے بعد وہ اندر گیا تھا ۔۔
پورے کمرے میں اسکی خؤشبو بکھری ہوئی تھی ۔۔۔ وہ لب بھینچ گیا ۔۔ سرخ ہونٹ سگریٹ پینے کی وجہ سے خشک بےجان سے لگ رہے تھے۔۔ حلیہ معمول کے برعکس بکھرا ہوا تھا۔۔۔
تممممم۔۔۔۔۔ " اپنی سوچ میں گم اچانک حیا کی آواز پہ وہ مڑا تھا۔۔۔۔ جو واشروم سے باہر نکلی تھی۔۔
" حیا کیسی ہو ۔۔۔۔۔" امن نے بےچینی سے اسے دیکھتے اسکے پاس جاتے پوچھا تھا ۔۔ جبکہ حیا غیر محسوس انداز میں دو قدم پیچھے کو ہوئی۔۔۔ امن ٹھٹکا مگر اپنا وہم سمجھتے وہ پھر سے آگے ہوا۔۔۔۔۔
" تم کیوں آئے ہو امن چلے جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔" اسکا لہجہ بے لچک تھا۔۔ جیسے کہنے کے دوران وہ ہر تاثر سے حالی تھی۔۔۔۔ امن نے لب بھینچتے اسے دیکھا ۔ جو بالکل حیا نہیں لگی تھی اسے۔۔۔۔۔
بات سن لو میری پلیز ایسا تو مت کرو۔۔۔۔" وہ تڑپ اٹھا تھا اسکی بے رخی امن کو اپنا دل جلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔ بے اختیار اسکا بازو تھاما تھا۔۔ حیا کا رنگ پل بھر میں سفید ہوا تھا۔۔اپنا بازو امن کے ہاتھ میں دیکھ کر ۔۔۔۔۔
" چھوڑو مجھے امن دور رہو مجھ سے ۔۔۔۔ " حیا نے چلاتے اونچی آواز میں کہا تھا۔۔ جبکہ امن نے خوف سے دروازے کو دیکھا۔۔۔
" تم سمجھتے کیا ہو خود کو نکلو یہاں سے کیا لینے آئے ہو یہاں۔۔۔۔۔" حیا نے پھر سے چلاتے اسے دھکا دیتے کہا تھا۔۔۔ جبکہ امن نے دروازے کی جانب دیکھتے پھر سے اپنی بات دہرائی جسے وہ نظر انداز کر رہی تھی۔۔۔۔
" اششششش۔۔۔۔۔" آواز مت کرو ۔۔۔۔ " امن نے جھنجھلاتے اسکے چہرے پہ اپنا بھاری ہاتھ رکھتے اسے خاموش کروایا ۔۔۔۔ جس سے وہ مزید خوفزدہ ہوتے اسکی گرفت میں مچلنے لگی۔۔۔امن نے بےبس نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
حیا نے ڈر اور خوف سے ایک نظر آگے پیچھے دیکھا اور پاس پڑے ٹیبل کو پاؤں کی مدد سے ہلایا تھا۔۔۔ میز پہ پڑا واس فرش پہ گرتے چکنا چور ہوا تھا۔۔۔۔ چھناکے کی آواز ہوتے روم میں گونجی تھی۔۔۔۔
اچانک سے دروازہ ٹھاہ سے کھلا تھا۔۔۔۔ دروازے سے داخل ہوتے حسن کو دیکھ امن نے خوف اور وخشت سے بھری نظروں سے حیا کو دیکھا جو اسکی گرفت میں تھی جبکہ امن کا ایک ہاتھ حیا کے منہ پہ تھا۔۔۔۔۔
حسن نے قہر بھری غضب ناک نظروں سے امن کو دیکھا امن کا ہاتھ خودبخود ہی پیچھے ہوا تھا۔۔۔ حیا بھاگتے اپنے ڈیڈ کے سینے سے جا لگی تھی۔۔۔
" پاپا ۔۔۔۔ امن میرے ساتھ بتمیزی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔اپ پلیز اسے لے جائیں ۔۔۔۔۔۔" ڈر اور خوف سے وہ سہمی جھوٹ کا سہارہ لیتے بولی تھی۔۔۔ حسن نے ایک تیز نظر اس پہ ڈالی تھی ۔۔ اور پیچھے کھڑی یسری کے حوالے حیا کو کرتے وہ آگے بڑھا تھا۔۔ جہاں وہ حیران بت بنا سا کھڑا حیا کو بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
ماموں۔۔۔۔۔" چٹاخ۔۔۔۔۔" خاموش آواز ناں آئے تمہاری ۔۔۔۔۔" حسن کے ہاتھ سے پڑتے اس دوسرے تمانچے نے آج امن کی نظروں سے حیا کی محبت کو گرا دیا تھا۔۔۔۔ وہ خاموش مٹھیاں بھینچے کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
نکل جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ میری نظروں سے دور۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے کسی بھی رشتے کا پاس بھول کر تمہیں پولیس کے حوالے کروں نکل جاؤ میرے گھر سے اور پوری زندگی اپنی شکل مت دیکھانا مجھے۔۔۔۔"
یہ وہ آخری الفاظ تھے جو اسکے کانوں میں اپنوں کی یاد کی طرح گونجتے اسے آج بھی تکلیف دیتے تھے۔۔۔۔
وہ مردہ قدموں سے واپس لوٹا تھا۔۔۔ مگر آگے موئذ کو عمر اور وقاص کے ساتھ بیٹھا دیکھ ایک اور انکشاف ہوا تھا اس پہ ۔۔ اسکی بربادی ۔۔۔ اسکے ماں باپ کی عزت سب کچھ اسکی ایک غلطی کی وجہ سے تہس نہس ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ دھندلی نظروں سے آسمان کو دیکھتا اپنے آنسوں صاف کرتے سڑک پہ گھومنے لگا۔۔۔ ویران تاریک خاموش سڑک پہ وہ بے مقصد ہی چلا تھا۔۔۔ جانے کتنے دن۔۔ کتنے مہینے۔۔۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا ہو سکا۔۔۔۔ وہ فٹ پاتھ پہ سوتا تھا۔۔۔۔ لڑکوں کو بھیک مانگتے دیکھتا مگر کبھی اپنے اندر یہ ہمت ناں بنی۔۔۔۔ اور پھر ایک دن وہ اٹھا تھا۔۔۔۔
فیکٹری کے سامنے کھڑے ایک ٹرک میں سے مال اتارتے مزدوروں کے ساتھ وہ بھی کام میں لگا۔۔۔
مالک مکان نے بچہ کہتے اسے نکالا مگر وہ پھر سے ایک نہیں بلکہ دو دو بوریاں ایک ساتھ کندھے پہ لادے اتارنے لگا۔۔۔۔۔ مزدور حیرت سے کنگ منہ کھولے اس سولہ سالہ لڑکے کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
مالک مکان مسکرایا ۔۔ ۔۔۔
میرا پیسہ۔۔۔۔۔۔ " خون سے سرخ ہوئے ہاتھ سے اپنا پسینہ صاف کرتا وہ سخت بے تاثر لہجے میں بولا۔۔ مالک مکان نے اسے سو روپے دیے۔۔۔ حالانکہ اسکے کام کے حساب سے دوہزار بنتا تھا۔۔۔۔۔۔
" امن نے نوٹ تھاما اور مسکراتی نظر اس فیکٹری کے مالک پہ ڈالی جو خوش تھا۔۔ آج اتنی بچت جو ہوئی۔۔۔ اسکے بعد وہ پلٹا تھا۔۔۔ پاس پڑی شیشے کی بوتل وہ ایک دم غصے سے ٹھاہ کرتا اسکے سر پہ توڑ چکا تھا۔۔ اور اسکے بعد وہ رکا نہیں تھا۔۔۔ مزدوروں نے گھبراتے آگے بڑھتے اسے تھاما ۔۔۔ اور پھر اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔۔۔۔
بچہ ہونے کی وجہ سے اسے سخت مشقت میں ایک سال جیل میں رکھا گیا اور اس ایک سال نے اسے امن سے بھاؤں بنا دیا تھا۔۔۔۔ جیل میں رہتے اسکے اندر پلتے سارے جذبات نفرت میں بدلے تھے۔۔۔۔۔ اپنے باپ سے نفرت اسے شدید تر محسوس ہوئی تھی ۔۔ کیونکہ وہ اپنی اولاد کا بھروسہ ناں کر سکا۔۔۔
اور اس ایک سال کے بعد وہ باہر نکلا تھا۔۔۔ مگر بھاؤں بن کر۔۔۔۔ وہ ہر برا کام کرتا تھا۔۔۔ جس سے اسے روکا جاتا ۔۔ جیل اسے روکنے کے لئے نہیں بلکہ اسے سہارہ دینے کا کام کرتی تھی۔۔۔۔۔۔ باہر نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے اس فیکٹری کے مالک کو مارا تھا۔۔۔۔ وہ بھی سب کے سامنے اسکی فیکٹری جو کہ دو نمبر تھی۔۔۔اسکا سارا پیسہ غریبوں میں بانٹنے کے بعد اسکے جیب سے اپنا دوہزار نکالا ۔۔۔۔۔ اور پیدل چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سفر اسکا انجان راستوں پہ تھا۔۔۔ یہ جانے بغیر کہ یہ سفر اسے کہاں لے جائے ۔۔ اپنوں کے اعتماد کی کمی ۔۔۔۔ خود بری صحبتوں میں پڑنے کی غلطی ۔۔ چھوٹی سی عمر میں محبت سے ملنے والا دھوکہ ۔۔۔۔ بستر پہ سونے والی عمر میں فرش پہ سونا۔۔ جیل میں اپنے سے بڑے لڑکوں کی ہر زیادتی کو برداشت کرنا۔۔۔۔ ان سب چیزوں نے مل کر اسے اندر سے پتھر بنا دیا تھا۔۔۔ جس میں جذبات نہیں تھے ۔۔ بلکہ وہ بس ایک بولتا بت بن گیا تھا۔۔۔۔
اپنے جذبات، اپنی الفتوں پہ اسنے بند باندھ دیا تھا۔۔ کبھی ناں ٹوٹنے والا بند ۔۔۔۔۔ وہ جھکا نہیں تھا بلکہ دنیا کو اپنے آگے جھکا لیا۔۔۔۔ اور آج وہ دنیا کے لئے نہیں اپنوں کے لئے جیتا تھا ۔۔۔اسکے اپنے۔۔۔ ایسے اپنے جو اسے ہر مصیبت میں ڈھال بن کر بچاتے تھے۔۔ایسے رشتے جن کو امن کی طرح ہی انکے گھر والوں نے بےآسرا کر دیا تھا۔۔۔۔
اب وہ لوٹنا چاہتا تھا ان سب کو جنہوں سے اس سے اس کا سب کچھ لوٹ لیا تھا۔۔۔ اسکا بچپن اسکا مسقبل اسکے اندر کا ایک معصوم انسان۔۔۔۔۔ وہ برباد کرنا چاہتا تھا اپنی محبت کو اس لڑکی کو جس سے اس نے اس عمر سے عشق کیا تھا جس عمر میں وہ اس جذبے کی حدوں تک سے ناواقف تھا۔۔۔ اب یہ تو آنے والا وقت بتانے والا تھا کہ کیا وہ تباہ کرے گا سب کو یا پھر خود کو فنا کرے گا۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
******حال********
تیز سائرن کی آواز پہ ایک دم سے لوگوں نے مڑتے سڑک کی جانب دیکھا جہاں سڑک پہ سب نے ہواؤں سے باتیں کرتی ، فل سپیڈ میں آگے بڑھتی بائیک کو دیکھا ، ۔۔۔۔ "
"بائیک ایک جانب روکتے وہ مخصوص سے انداز میں ہیلمٹ نکالتے سامنے لگاتے بائیک سے اتری تھی۔۔۔ بلیک لیدر جیکٹ جسکی ہاف زپ بند تھی اسے مزید اوپر کیے وہ پاؤں اوپر کرتے ایک دم سے نیچے جھکتے اپنا موبائل شوز کے اندر سے زپ کھولتے نکالتے کھڑی ہوئی تھی۔۔"
" ہلکی ہلکی سی دھوپ کے ساتھ چلتی نرم ہوا اسکے چہرے سے ٹکراتے گزر رہی تھی وہ ناک سکوڑتے حسبِ معمول چڑتے اپنی ہائی ہونی ٹیل میں جکڑے کالے کمر سے تھوڑے اونچے بالوں کو پیچھے کرنے لگی۔ ساتھ ساتھ موبائل بھی سکرول کر رہی تھی .! چہرہ پہ ایک الگ فاتحانہ سرشار سی مسکراہٹ تھی۔ اسکی تھوڑی پہ نمودار ہوتا بڑا سا گڑھا اسکے مسکرانے پہ مزید گہرا ہوا تھا ۔"
" سرخ و سفید رنگت میں گھلتی غصے کی لالی وہ اب غصے سے موبائل کو گھور رہی تھی۔ ؛ مگر پھر اپنے یہاں آنے کا مقصد یاد آتے ہی تاثرات یکسر بدلے تھے۔ ایک نظر اپنے حلیے کو ستائشی نظروں سے دیکھتی وہ خود پہ اٹھتی کئی نگاہوں کو اگنور کر چکی تھی۔"
" کتنی دیر لگی گی اور! سامنے سے آتے جوزف کی جانب دیکھتے وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولی تھی اچانک سے موبائل سکرین روشن ہوئی تھی ، جہاں سے موصول ہوتے مسیج کا ریپلائے کرتی وہ ہلکا سا مسکرائی تھی ۔ بس وہ آ رہے ہیں۔ نظریں جھکائے وہ ہاتھ احتراما باندھے ہوئے بولا تھا کہ وہ سنتی ہممم کرتے اپنے بائیں ہاتھ سے اسے جانے کا اشارہ کر گئی۔۔۔"
وہ ائیرپورٹ کی اندر کی جانب متلاشی نظروں سے دیکھنے لگی جبکہ نظروں کے سامنے گزرے وقت کا ایک پل چھن سے لہرایا ، اچانک سے دھندلا ہوتا عکس اب مکمل ہو چکا تھا جب نظریں سامنے سے آتے ، کندھے پہ اپنا سفری بیگ لٹکائے ایک ہاتھ میں اپنی براؤن جیکٹ پکڑے ، ہمیشہ کی طرح چہرے پہ اسکی سوچ کے مطابق بےزار، گھمنڈی سے تاثرات لیے وہ اونچا لمبا بالکل اپنے باپ کی کاپی ، وہی رنگ وہی شکل و صورت ، وہ سر تا پاؤں اسے جانچ رہی تھی۔۔ "
"مقابل کی نظریں اپنے استقبال کے لئے آئے افراد کو ڈھونڈنے میں مصروف تھیں۔یہ جانے بغیر کہ استقبال کا سارا بندوبست وہ خوب اچھے سے کر چکی تھی۔ اسکے باہر آتے ہی بالکل اسے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور ہاتھ جیکٹ کی پاکٹ میں پھنسائے۔۔ مقابل نے یوں اپنے سامنے راستہ روکے کھڑے اس نازک سے وجود کو سر تا پاؤں اچٹتی نگاہوں سے گھورا۔۔ "
" اسے دیکھتے ہی اسکے حلیے سے چڑ سی محسوس ہوئی تھی۔ مگر وہ ضبط کر گیا ، شاید کوئی انجان تھی ، وہ نظریں اسکی ہائی ہیل شوز پہ گھاڑتے ایک جانب سے گزرنے لگا کہ آواز پہ ٹھٹکتے اسکے قدم تھمے تھے، مجھے ہقین تھا کہ تمہیں بالکل بھی اچھا نہیں لگے گا کہ یہاں آتے ہی تمہاری پہلی ملاقات مجھ سے ہو ،۔۔۔۔ "
" پھر میں نے سوچا آخر بچپن کا گہرہ رشتہ ہے ، اب اسی ناطے سے سب سے پہلے دیدار کروانا لازمی ہے۔۔ وہ کیا ہے ناں کہ وریام انکل اور میرے ڈیڈ دونوں کے پاس بالکل فرصت نہیں ، یو نو ناں۔ کام کا برڈن۔وہ تو سوچ رہے تھے کہ خود ہی آ جائے گا مگر پھر میں نے سوچا کہ یہ تو کتنا غلط ہو جائے گا ، چلو گھر آ کر انسلٹ کرنا اور بات ہے اور یوں بیچ سفر چھوڑ دینا ، کیا پتہ بچارے کو کوئی رکھے بھی کہ ناں۔۔۔۔۔ "
" کیا کروں ترس خور ہوں تمہاری طرح بے حس تو ہونے سے رہی۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کے بولا رہی تھی اور بس یہی تک تھی مقابل کی برداشت ۔۔۔ جو وہ آزما چکی تھی۔۔ تمہیں کسی نے بتایا نہیں ، تم اور بھی زیادہ کالے ہو گئے ہو ، چچچ چچ لگتا ہے پاکستان کا پانی راس نہیں آیا جبھی انکل نے یہاں بھیج دیا ، شاید کچھ یہاں کی آب و ہوا کا ہی اثر ہو جائے تم پر۔۔۔ بائیک سے ٹیک لگاتے وہ اسکے دھواں دھواں چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔
جسکی غصب سے سرخ ہوتی کالی آنکھیں مقابل کھڑے اس نازک وجود پہ تھی۔۔ مجھے لگا تھا کہ شاید میں نے کچھ زیادہ ہی کہہ دیا ہو گا ، مگر آج تم سے اتنے سالوں بعد ملتے مجھے اس بات کا اچھے سے احساس ہو چلا ہے کہ میں نے کچھ زیادہ نہیں بلکہ بہت کم کہا تھا ۔"
مخصوص دل جلانے والے مسکراہٹ چہرے پہ سجائے وہ جھکتے رازداری سے گھمیبر سرد لہجے میں بولا تھا جبکہ مقابل کا چہرہ ہتک سے دھواں دھواں تھا۔"
" تم میرے کیا کسی بھی لڑکی کے قابل نہیں ہو ، اذلان اشعر علوی! اور ایک بات یاد رکھنا ، تم آ تو گئے ہو مگر اب تمہارا اٹھنا بیٹھنا، تمہارے جینا تک میں حرام کر دوں گی۔۔ آئی ہیٹ یو ! یہ بات یاد رکھنا تم۔۔۔ اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھائے وہ اسے وارن کرنے لگی۔ جو ہاتھ اب سینے پہ باندھے اسے سن رہا تھا بغور۔"
" لٹس سی ڈئیر! " اسے بائیک پہ بیٹھتا دیکھ وہ سوچ چکا تھا پہلا کام اسے بائیک چلانے کی آزادی ختم کروانے سے کرنا تھا، مگر شاید وہ جانتا نہیں تھا کہ وہ کس سے ٹکر لے رہا تھا ، جو اتنے سالوں میں مخض ایک ہی کام اچھے سے کرنا جان پائی تھی اور وہ تھی اپنی ضد پوری کرنا۔۔۔
" کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔!" کان سے فون لگائے وہ دانت پیستے سرخ چہرے سے ماتھے کو شہادت کی انگلی سے مسلتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
تیرے پیچھے دیکھ ۔۔۔۔۔۔"جوابا وہی مسکراتی بھاری آواز موبائل فون سے ابھری تھی کہ اذلان اچھا خاصا برا مناتا مڑا تھا۔۔۔۔۔
" کب سے تیرا ویٹ کر رہا ہوں کہاں رہ گیا تھا توں۔۔۔۔۔۔۔" گاڑی میں بیٹھتے ہی اسنے غصے سے بیگ پچھلی سیٹ پہ پھینکا اور غراتے لہجے میں اسے دیکھ دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
"میں تو کب کا یہاں کھڑا ہوں۔۔۔ تیری ہی اپنی بیوی سے ڈسکشن ختم نہیں ہو رہی تھی مجھے کیا خاک دیکھتا۔۔۔۔۔ سن گلاسز لگاتے وہ جلا دینے والی مسکراہٹ پاس کرتے بولا تھا۔۔۔ جبکہ لفظ بیوی پہ اذلان پہلوں بدلتا رہ گیا ۔۔۔۔۔۔
"موڈ مت آف کر ۔۔۔۔ توں منا لے گا اسے۔۔۔ آئی نو۔۔۔۔" اسکی اتری شکل دیکھ ویام نے کندھے پہ پنچ کرتے پرجوش لہجے میں کہا تھا جبکہ اذلان نے اداس نظروں سے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔۔۔ ماتھے پہ بکھرے بھورے بال آنکھوں پہ سن گلاسز لگائے ، گالوں پہ ابھرتے قاتل ڈمپل وہ واقعی حسین تھا۔۔۔
" کیسے منا لوں گا۔۔ بات بات پہ تو لڑنے کو دوڑتی ہے ۔؟" سر جھٹکتے وہ گہرا سانس لیتے اداسی سے گویا ہوا۔۔۔۔۔
توں نے کونسا اس سے پیار سے بات کی ہے۔۔۔۔ ایسا زہر بول کیسے لیتا ہے توں ویسے۔۔۔۔۔۔"
پل بھر کو چہرہ گھمائے اسے دیکھتا وہ واقعی کافی متعجب سا تھا۔۔۔ اذلان نے سر جھٹکا اور کھڑکی سے باہر کے مناظر پہ نظر دوڑائی۔۔۔۔۔۔
" اگر ناں بولتا تو وہ مجھے اپنی باتوں سے ہی مار دیتی۔۔۔۔۔ " بہت دھیمی آواز میں کہا جیسے وہ دوبارہ سے انہی لمحوں میں جی رہا تھا ۔۔ ۔۔ ویام نے ہونٹ او شیپ میں ٹرن کیے اور سر تاسف سے ہلایا۔۔۔۔۔
" اسے ناراض کیا ہے تو راضی بھی کر یہ کیا ہوا بجائے اسے سوری کرنے کے توں اسے مزید نفرت دلا رہا ہے خود سے۔۔۔۔۔۔"
ویام کو اس پہ واقعی غصہ تھا۔۔۔ اسنے موقع بھی دیا تھا کہ شاید وہ خود ہی سوری کر دے اپنے رویے کی معافی مانگے مگر وہ تو کچھ اور ہی کر آیا تھا۔۔۔
" توں چھوڑ یہ سب میں ہینڈل کر لوں گا الایہ کو ۔۔۔۔۔۔ توں نے بتایا نہیں کہ الایہ پیرس اس لڑکے کے ساتھ کیوں گئی تھی۔۔۔""
رخ گھمائے سنجیدگی سے اسے دیکھتے اذلان نے پھر سے وہی بات پوچھی جو وہ کب سے پوچھ رہا تھا۔۔ مگر ویام ہر بار ٹال دیتا۔۔۔۔
ویام نے گردن ترچھی کرتے اذلان کو دیکھا وہ ابھی اسے الایہ کے اسپیشل آفیسر ہونے کی بات نہیں بتا سکتا تھا۔۔۔۔ کیونکہ یہ دھماکہ وہ دونوں کو ایک ساتھ دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
" تھوڑی دیر صبر کر لے خود پتہ چل جائے گا ۔۔" میوزک آن کرتے اسے بالکل اگنور کیا تھا۔۔۔۔ اذلان غصے سے پہلوں بدل کے رہ گیا ۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
میری پرنسز کو کیا ہو گیا اتنی خاموش کیوں ہو۔۔۔۔۔!' نرمی سے حرمین کے سر کو سہلاتے وریام نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔
وہ جب سے آئی تھی بس خاموش سی بیٹھی تھی ۔۔۔۔ اس کی خاموشی نیناں اور وریام دونوں نے ہی بری طرح سے نوٹ کی تھی ۔۔ وہ تو ہر وقت چہکتی رہتی تھی۔۔ مسکرانا تو جیسے وہ بھول گئی تھی۔۔
" حور۔۔۔۔ " وریام نے پھر محبت سے اسے پکارا تھا۔۔ حرمین نے زبردستی ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجائی۔۔۔ اور اپنے ڈیڈ کو دیکھا ۔۔۔۔ جو فکر مند سے تھے۔۔۔
" ڈیڈ آپ سب کو بہت مس کیا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ " آنکھوں میں نمی سموئے وہ کہتے ہی وریام کے سینے سے لگی تھی ۔۔ وریام نے مسکراتے اسکے سر کو تھپکتے ہونٹ اسکے سر پہ رکھے۔۔۔
" میں نے بھی اپنی پرنسز کو بہت مس کیا۔۔۔۔ " آنکھیں موندے وہ محبت سے بولا تھا۔۔۔۔ حرمین خاموش اسکے سینے سے لگی تھی۔۔۔
پرنسز آپ تھوڑی دیر ریسٹ کر لو پھر اپکا بھائی آ گیا تو آپ نے پھر ریسٹ نہیں کرنی آئی نو دیٹ۔۔۔۔"
" اوکے میں چلتی ہوں۔۔۔" مسکراتے وہ اپنے ڈیڈ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اٹھی تھی۔۔ وریام نے دور تک اسکی پشت کو دیکھا۔ ۔۔۔ حرمین کی یہ خاموشی اسے عجیب سی لگی تھی مگر وہ اسے زبردستی کچھ بھی بتانے پہ فورس نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔ اسی لئے وہ خاموش سا ہو گیا۔۔۔
دروازہ کھولتے وہ گہرا سانس اپنی مخفوظ پناہ گاہ میں لیتے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔ ہوٹل میں ہونے والے واقعے نے اسے چپی سی لگا دی تھی۔۔۔۔ اسے یاد تھا کہ وہ ہوٹل میں تھی جب وہ آدمی اسے زبردستی کمرے میں لے گیا۔۔ مگر پھر جب وہ ہوش میں آئی تو وہ گھر پہ تھی۔۔۔۔۔۔ اسنے انزِک کو بھی بتایا تھا ان سب کی بابت ۔۔۔۔۔ مگر وہ کیسے مانتا ۔۔۔۔کوئی ثبوت جو نہیں تھا۔۔۔ اسکے پاس۔۔۔۔۔ !'
ایک سرد آہ خارج کرتے وہ آنکھیں موندے بیڈ پہ گری تھی۔۔۔۔۔ کتنی خوشی سے وہ گئی تھی مگر کیا ملا اسے ۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔ سوائے خوف اور ڈر کے۔۔۔"
اپنی سوچوں سے الجھتے اچانک اسکے دماغ میں جھماکا سا ہوا۔۔۔۔ حرمین نے بیٹھتے ساتھ ہی فورا اپنے بائیں ہاتھ کو دیکھا اور پھر دائیں کو۔۔ ۔ میرا بریسلیٹ۔۔۔۔۔۔" اپنے ہاتھوں پہ اپنا فیورٹ بریسلیٹ ناں پاتے ہی وہ ہلکی سی آواز میں منمنائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید کہیں گر گیا ہو۔۔۔۔۔" خود کو تسلی دیتے وہ اٹھی اور فریش ہونے واشروم کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
تم نے کہا تھا کہ تم ڈھونڈ لو گی اسے۔۔۔۔۔" کہاں ہے وہ۔۔۔!"
سرخ نظروں سے لیلی کو دیکھتے وہ غصے سے پوچھنے لگا۔۔۔
لیلی نے آنکھیں چھوٹی کیے اس پاگل انسان کو دیکھا ۔۔ اسے دیکھ مافیا ڈان کم اور ایک مجنوں کی فیلنگ زیادہ لگی تھی لیلی کو۔۔۔۔۔
کوشش کر رہی ہوں میں۔۔۔۔ مل جائے گی وہ۔۔۔۔" سر جھکٹتے وہ وائن کا گلاس اٹھائے لبوں سے لگا گئی۔۔۔
ایچ اے آر نے جبڑے بھینجتے اسے دیکھا۔۔۔
میرا مجرم نہیں ڈھونڈ پائے تم ۔۔۔۔۔،" طنزیہ لہجے میں چہرے پہ مسکراہٹ سجائے وہ صاف اسکا مذاق اڑا رہی تھی۔۔۔ ایچ اے آر نے اسے گھورا ۔۔۔ اور پھر چئیر کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔۔۔
" پاکستان پولیس فورس کا ایک معمولی سا آفیسر تھا وہ لڑکا جو تمہاری ناک کے نیچے سے لڑکیوں کو اڑا لے گیا ۔۔ ۔۔۔
" مطلب کوئی پاکستانی آدمی مجھ پہ ہاتھ ڈال گیا۔۔۔ کون ہے وہ کیا نام ہے اسکا۔۔۔۔شرر بار لہجے میں وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولی ۔۔۔۔ ایچ اے آر نے مسکراتے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔
" اتنی بھی کیا جلدی ہے میرا کام کرو اور پھر ساری معلومات مل جائیں گی تمہیں۔۔۔۔"
نارمل سے انداز میں وہ آنکھ دباتے اسے مزید آگ لگا گیا۔۔۔۔۔
فکر مت کرو آدھا کام ہو چکا ہے الایہ نام ہے اس لڑکی کا۔۔۔۔۔ لندن میں رہتی یے۔۔۔۔ اور باقی سب بھی میں معلوم کر لوں گی جلد ہی۔۔۔۔۔"
اسے بتانے کا ارادہ نہیں تھا لیلی کا مگر اب اذلان کے متعلق مزید جاننے کی خواہش میں وہ اسے بتا رہی تھی۔۔۔۔ یہ سب۔۔۔۔۔۔
الایہ بالکل اس کی طرح ہی اسکا نام بھی خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ " میں خود جاوں گا لندن ۔۔۔۔ اسکے پاس وہ جہاں بھی ہوئی اسے ڈھونڈ نکالوں گا میں ۔۔۔۔۔۔ " وہ صرف ایچ اے آر کی ہے میری ہے وہ۔۔۔۔میںں آ رہا ہوں الایہ۔۔۔۔۔۔۔
ماتھے پہ بکھرے شہد رنگ پسینے سے نم ماتھے پہ چپکے بال ، بائیں ہاتھ میں بےترتیب سے رنگ برنگے دھاگے اور بریسلیٹ ڈالے ، کالی ہی بنیان میں وہ سرخ نظروں سے دیوار کو گھورتا پش اپس لگا رہا تھا۔۔۔۔ چہرے پہ بکھری سرد مہری معمول سے ذرا ہٹ کے اور تاثرات بے حد سنجیدہ سے تھے۔۔۔۔
لگاتار پش اپس کرتے اسکے چوڑے مسلز بار بار پھول رہے تھے۔۔ گردن کی نیلی رگیں واضع ہو رہی تھی۔۔ جبکہ سفید چہرہ اس وقت سرخ ہوا پڑا تھا۔۔۔۔ اچانک سے موبائل پہ ہوتی بیل نے اسے چونکنے پہ مجبور کیا تھا۔۔۔۔ وہ رکتا گردن ترچھی کیے میز پہ پڑے اپنے فون کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔۔ کیا ہؤا۔۔!" نظریں کھڑکی سے باہر کے مناظر پہ گھاڑے وہ سرد بےتاثر لہجے میں بولا ۔۔ ٹھیک ہے کرنے دو اسے اپنی مرضی جو ہو گا بعد میں دیکھ لوں گا۔۔۔۔۔ " مقابل کی بات سنتے وہ جواب دیتا کال کاٹ گیا۔۔۔
چند پل یونہی خاموشی سے باہر دیکھنے کے بعد وہ مڑا تھا۔۔۔۔ الماری کھولتے اپنے کپڑوں کا جائزہ لیا تو مسکراہٹخود بخود ہی ہونٹوں پہ آ ٹہری۔۔۔۔ نیوی بلیو کلر کی شرٹ کے ساتھ میچنگ جینز نکالتا وہ واشروم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
اگلے دس منٹ میں وہ نکھرا سا شاور لیتے باہر آیا تھا۔۔چہرے کے تاثرات اب بالکل نارمل ہوئے تھے۔ جیسے وہ خود کو پرسکون کر چکا ہو۔۔۔۔۔
بھاؤں۔۔۔۔۔" پشت سے ابھرتی آواز پہ ہاتھ پہ گھڑی باندھتے بھاؤں نے ماتھے پہ بل ڈالے مڑ کے دیکھا ۔۔۔۔ تو سامنے زوہا کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
" بھاؤں کہیں جا رہا ہے توں۔۔۔۔ " انگلیاں چٹخاتے وہ مضطرب سی اسکی تیاری کی بابت پوچھنے لگی۔۔۔ بھاؤں نے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔۔
ہاں جا رہا ہوں میں کیوں توں نے سائن کر کے دینے ہیں۔۔۔۔ خاصے غصے میں تپے چہرے سے وہ اس پہ چڑھ دوڑا تھا۔۔۔ زوہا اسکے انداز سے پہلے سے واقف تھی۔۔ اسی لیے ڈھیٹ بنے وہیں کھڑی رہی۔۔۔
کیا ہے اب کیوں سر پہ سوار ہو گئی ہے۔۔۔" بےزاری سے ماتھے پہ بل ڈالے وہ بدسلوکی سے تیز لہجے میں گویا ہوا ۔۔۔ زوہا پل بھر میں سٹپٹا گئی۔۔۔۔
نن نہیں مم میں تو بس۔۔۔۔۔" کہتے ساتھ ہی وہ خاموش ہوئی تھی کیا کہتی کہ اسے دیکھنے کی چاہ میں دوڑی چلی۔۔۔ اسکا ری ایکشن بھی خوب اچھے سے معلوم تھا۔۔۔ جبھی سر جھکائے خاموش کھڑی رہی۔۔۔۔
" تجھے مجھ میں کیا کمی لگتی ہے بھاؤں۔۔۔۔ توں بتا میں کہاں سے تیرے قابل نہیں۔۔۔ میں خود کو بدل لوں گی تیرے لئے ۔۔۔۔۔۔"
" خود سے مخظ چند قدموں کے فاصلے پہ کھڑے اس ساحرانہ شخصیت رکھنے والے مغرور بے حس انسان کو دیکھتے وہ جلے دل سے بولی ۔۔۔
بالوں میں چلتا بھاؤں کا ہاتھ پل بھر کو رکا۔۔۔ تاثرات سخت ہوئے بھنوئیں غصے سے تن گئی ۔۔۔ مگر پھر مڑتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے بھاؤں نے ضبط سے جبڑے بھینجتے آنکھیں موندیں ۔۔۔۔۔
" تم میں کوئی کمی نہیں ہے زوہا بلکہ تم ہر لخاظ سے مکمل ہو کامیاب اور خوبصورت بھی ہو۔۔ مگر میں تمہارے قابل نہیں ہوں ۔ کیونکہ میں تمہارے لئے نہیں بنا۔۔۔۔ اللہ نے ضرور کچھ اچھا سوچا ہو گا تمہارے لئے۔۔۔ مگر وہ بھاؤں نہیں ہو سکتا۔۔۔ آج کے بعد اس بات کو یہیں پہ ختم کر دو ۔۔۔ ہم اچھے دوست ہیں ۔۔ تم دل لگا کر پڑھو اپنی ماں کا خواب پورا کرو۔۔۔۔ جانتی ہو ناں تمہارے لئے تمہاری ماں کو طلاق ہوئی ۔۔۔
آج وہ صرف اس ایک آس پہ زندہ ہیں کہ تم ایک ناں ایک دن ڈاکٹر بنو گی اور پھر وہ تمہارے باپ کے سامنے جائیں گی یہ بتانے کہ بیٹی صرف شادی کے لئے ہی نہیں بنی بلکہ بیٹی اپنے ماں باپ کا وہ غرور ہوتی ہے جسے اللہ نے تخفے کے طور پہ والدین کو عطا کیا ہے۔۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم جلد ہی ایک کامیاب ڈاکٹر بنو گی۔۔۔۔ اپنی ماں کیلئے اپنے اس خاندان کے لئے۔۔ جس کے کئی بیمار بچے اس بھاؤں سمیت تمہارے لیے دعاگو ہیں ۔۔۔ چھوڑ دو اس عشق محبت کو۔۔ یہ صرف جان جلاتا ہے ۔۔۔۔ انسان کو مار دیتا ہے مگر بدلے میں کچھ نہیں دیتا ۔۔۔۔ سوائے بے وفائی کے۔۔۔۔۔
مجھے یقین ہے اس بار تم مجھے نا امید نہیں کرو گی۔۔۔۔" اسکے کندھے کو تھپکتے بھاؤں نے ایک آس سے اسے نرم نظروں سے دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔ پندرہ سال کی تھی جب وہ اسے اسکی ماں سمیت آوارہ لڑکوں سے بچا کے لایا تھا۔۔۔ اپنے گھر کا فرد بنایا مگر زوہا اسے تب سے اپنے دل کی مسند پہ بٹھا چکی تھی۔۔۔ جس سے امن بخوبی واقف تھا۔۔ مگر وہ چاہتے ہوئے بھی اسے بدلے میں کچھ بھی نہیں دے سکتا تھا۔۔۔کیونکہ وہ خود بھی تو خالی ہاتھ تھا۔۔۔۔
میں کوشش کروں گی مگر تمہیں نہیں بھول سکتی میں ۔۔۔ چہرے پہ تلخ مسکراہٹ سجائے وہ زخمی سا مسکرائی ۔۔۔۔۔ تو امن نے گہرہ سانس بھرتے اسے دیکھا تھا۔۔۔ جو اسکی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔۔۔۔۔
بب بھاؤں۔۔۔۔۔ "
آواز پہ گردن ترچھی کیے بھاؤں نے مٹھو کو دیکھا جو ہانپ رہا تھا۔۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہ کافی چپ چپ رہتا تھا۔۔۔ بھاؤں سے ڈر اور خوف سا بن گیا تھا اسکا۔۔۔۔ جس سے بھاؤں کافی سکون میں ہو گیا تھا۔۔۔
" گاڑی نکال۔۔۔۔۔ " بندوق میں گولیاں چیک کرتے وہ مصروف سے انداز میں بولا ۔۔۔۔
کک کہاں۔۔۔۔۔" مٹھو نے ڈر سے تھوک نگلتے پوچھا تھا۔۔۔ پچھلی بار کا واقع ابھی تک اسے کافی اچھے سے یاد تھا۔۔۔اب وہ اسکے ساتھ کہیں بھی جانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
" تیرے بھاؤں کی شادی ہے چلے گا نہیں کیا۔۔۔" بندوق کو اڑاستے وہ ہلکے پھلکے سے انداز میں مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔مٹھو کا منہ حیرت و بے یقینی سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔۔
" بب بھاؤں تت تیری شادی۔۔۔۔۔" وہ منمنایا تھا۔۔۔ بھاؤں نے ائبرو اچکاتے اسے دیکھا ۔۔۔۔
کک کس سے۔۔۔۔" ایک اور سوال تیار تھا۔۔ یقین کر پانا نا ممکن تھا۔کہ بھاؤں شادی کر رہا تھا۔۔۔۔
توں سوال بہت پوچھتا ہے ایسا کر توں یہیں رک میں شادی کر کے آؤں گا تو خود دیکھ لینا۔۔۔۔ " گھڑی پہ وقت دیکھتے بھاؤں نے عجلت میں بےزار سا ہوتے کہا تھا۔۔۔۔ کہ مٹھو نے آنکھیں پھیلائی۔۔۔
بب بھاؤں مجھے بھی لے چل۔۔۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے ہلکی سی چھائی روشنی اب اندھیرے میں تبدیل ہو رہی تھی۔۔۔ موسم کی بدلتی کروٹ کی وجہ سے موسم کافی سرد سا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔
بھاؤں کے بیٹھتے ہی وہ بمشکل سے چلتا اسکے ساتھ گاڑی میں کودا تھا۔۔۔ بھاؤں نے ناگوار نظر سے اس دو فٹ کی حرکت کو دیکھ سر جھٹکا اور گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔ مٹھو جو چھلانگ لگاتے سیٹ کے نیچے گرا پڑا تھا
۔۔ ٹانگوں کو نیچے کرتا وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے سیٹ کو پکڑتا سیدھے ہوتے بیٹھا۔۔۔
💥💥💥💥💥
" اللہ تمہارے نصیب اچھے کریں آمین۔۔۔ بہت خوبصورت دکھ رہی ہو۔۔۔۔۔"
گہرے پیلے اور جامنی کلر کے ہم رنگ شرارے میں ساتھ میچنگ یلو اسٹائلش خجاب سے بالوں کو اچھے سے کور کیے۔۔۔ ماتھے پہ پھولوں کا بنا مانگ ٹیکا ، ہونٹوں پہ ہلکی گلابی لپ اسٹک اور دونوں ہاتھوں پہ زیور کے نام پہ پھولوں کے گجرے ڈالے وہ سوگوار متورم نظروں سے ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے وہ پورے ماحول میں ایک الگ ہی سحر طاری کر رہی تھی۔۔۔۔
" کیا ہوا میری جان اداس کیوں ہو۔۔۔۔۔" اسکی یہ بے وجہ خاموشی یسری کو کاٹنے لگی تھی وہ تین دن سے چپ سادھے ہوئے تھی۔۔ بیٹی کی شادی کی فکر میں گھلتی آج اسکی مایوں پہ اندر سے اداس تھی ۔۔۔
حیا نے سرخ سوجھی نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھا تو یسری کا کلیجہ جیسے منہ کو آیا تھا۔۔۔۔
اسنے تڑپتے اسے سینے سے لگاتے خود میں بھینج لیا۔۔۔ میری گڑیا اللہ تمہیں دنیا جہاں کی ہر خوشی دیں۔ ۔۔۔ بس کبھی اپنی ماں سے ناراض مت ہونا۔۔۔۔ " وہ ہلکی سے سرگوشی میں اپنی سفارش کر رہی تھی۔۔۔ اکلوتی بیٹی کی ماں بھلا کہاں اسکی ناراضگی برداشت کرتی۔۔۔
بس کرو یسری آج کے دن بھی تم نے رلا دیا میری بچی کو۔۔۔ چلو اب پیچھے ہو دیکھو لڑکیاں آ رہی ہیں مہندی لگانے۔۔۔۔۔"
ہلکے پیلے کلر کے سوٹ میں مناسب سے میک اپ کے ساتھ رمشہ مسکراتے یسری کے پاس آئی تھی ۔۔اسے کندھوں سے حصار میں لیتے وہ ایک جانب ہوئی تھی۔۔۔ دور ایک جانب کھڑا حسن محبت بھری نظروں سے اپنی گڑیا کو دیکھ دیا تھا۔۔ جو جانے کب اتنی جوان ہو گئی تھی۔۔۔۔
حیا کے منع کرنے پہ مہندی کا فنکشن علیدہ سے ارینج کیا گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ علینہ بیگم تو ایک ساتھ ہی یہ فنکشن کرنا چاہتی تھی۔۔۔مگر حیا نے صاف انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی مان گئی تھی اب صرف اسکے کپڑے اور مہندی وہ بھجوا چکی تھی۔۔۔ باقی کل نکاح کے بعد ایک طویل فنکشن وہ اپنی خوشی سے کرنا چاہتی تھی۔۔
اسلام علیکم مما۔۔۔۔" کیسے ہو۔۔۔۔" فون کان سے لگائے اذلان کی محبت سے گھلی آواز پہ رمشہ نے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔ کی۔بورڈ پہ انگلیاں گھماتا ویام مسکرایا اور گھومتے چئیر کا رخ اسکی جانب کیا۔۔۔۔۔
اذلان نے اسے نظروں سے باز رہنے کا اشارہ کیا تو جوابا وہ سر کو جنبش دیتے خاموش ہو گیا۔۔۔۔
" مما ایک بار حیا کی جانب کریں کیمرہ میں اسے دیکھوں۔۔۔۔" اذلان نے کافی دل سے کہا تھا۔۔ وہ ڈیڈ کی وجہ سے حیا کی شادی انجوائے نہیں کر پایا تھا۔۔۔
رمشہ نے فون کان سے ہٹایا اور بیک کیمرہ آن کیا۔۔۔ اذلان کے پیچھے بیٹھے ویام نے بھی ایک چور نظر اسکرین پہ ڈالی تھی اور ہونٹ واؤ شیپ میں سکیڑتے وہ ائبرو اچکا گیا۔۔۔۔
" ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے امن کی چوزی۔۔۔۔ آپ بے فکر رہیں آتا ہی ہو گا آپ کا لاڈلا۔۔۔ بس ایک بات کا خیال رکھئے گا ڈیڈ کسی بھی حال میں یہاں نہیں پہنچنے چاہیے۔۔۔۔ اذلان نے پھر سے تائید چاہی تھی۔۔۔ وہ کسی بھی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔
" بے فکر رہو اسکا بندوست کر دیا ہے میں نے۔۔۔ تم یاد رکھنا اگر امن ناں آیا تو تمہاری بھی رخصتی کینسل۔۔۔۔۔"
رمشہ نے اسے دانت پیستے وارن کیا تھا۔۔۔ جوس کا سپ لگاتے ویام کو اچھو سا لگا تھا۔۔۔اسکی بات پہ وہ قہقہ ضبط کرنے کے چکر میں سرخ پڑ گیا۔۔۔جبکہ اذلان تو ہونقوں کی طرح منہ کھولے ہوئے تھا۔۔۔مطلب ہر حال میں نقصان اسی کا تھا۔۔۔
" اب آپ کچھ زیادہ کہہ رہی ہیں موم اللہ سے ڈریں ۔۔اہک تو بہو آپ نے توپ ڈھونڈی اوپر سے ایسی دھمکی۔۔۔ وہ سوچتا جھرجھری لے اٹھا۔۔۔۔ رمشہ نے لب دانتوں تلے دباتے سامنے اسٹیج کی جانب دیکھا جہاں اب لڑکیاں حیا کو واجد کے نام کی مہندی لگا رہی تھی۔۔
اچھا میں بعد میں بات کروں گی تم اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔؛' یکلخت اسکے چہرے پہ اداسی چھائی تھی جسے اذلان بھی بخوبی محسوس کر سکا تھا۔۔۔اس لیے خاموشی سے کال کاٹتے وہ آنکھیں موندے چئیر کی پشت سے سر ٹکا گیا۔۔۔۔۔
مما مجھے ریسٹ کرنی ہے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔۔۔" دونوں ہاتھوں پہ واجد کے نام کی مہندی لگائے وہ خوشبو میں بھیگی سوگوار حسن کے ساتھ اپنی ماں سے مخاطب تھی جو مبہوت سی اسکے نکھرے روپ کو دیکھ دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہہ رہی تھی۔۔۔
آؤ میرا بچہ تھوڑی ریسٹ کر لو۔۔۔۔۔۔" بےساختہ اسکی پیشانی کو لبوں سے چھوتے یسری اسے تھامتے کھڑی ہوئی۔۔۔۔
ہمیشہ خوش و آباد رہو اس باپ کی دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔۔۔۔ حسن کے پاس سے گزرتے وہ رکی تھی اپنی پاپا کی جانب دیکھا جو محبت سے نم آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔ حسن نے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے سینے سے لگایا۔۔۔۔
جاؤ آرام کرو۔۔۔ اسکے چہرے پہ بکھری تھکن وہ محسوس کر چکا تھا۔۔۔جبھی نرمی سے اسے خود سے الگ کرتے وہ محبت سے بولا تھا۔۔۔ وہ سر ہلاتی آگے بڑھی۔۔
بیٹا آپ بیٹھو اور ہاتھ ابھی گیلے ہیں جب تک مہندی خشک ناں ہو جائے نیچے مت رکھنا میں ذرا مہمانوں کو دیکھوں۔۔۔۔۔"
اسے کمرے میں لے جاتے بیڈ پہ بٹھاتے یسری نے اسے احتیاطاً بتایا تھا۔۔۔ حیا سنتی سر ہلا گئی تھی۔۔۔ اور بیڈ کروان سے ٹیک لگاتے آنکھیں موندیں۔۔۔۔
یسری اسکے گال کو محبت سے چھوتے باہر نکلی۔۔۔۔
ایک دم سے اندھیرا فیل کرتے حیا کی آنکھ یک دم سے کھلی۔۔۔۔
" یہ اندھیرا کیوں ہو گیا۔۔۔۔" کافی کا مگ ہونٹوں کو لگائے اسکرین پہ اندھیرا دیکھتے اذلان نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔
" امن آیا ہے حیا سے ملاقات کر رہا ہو گا۔۔۔۔۔" ٹانگ پہ ٹانگ جمائے کی بورڈ کو پریس کرتا وہ اپنی جانب متوجہ ہوتے اذلان کے دیکھنے پہ آنکھ دبا گیا۔۔۔۔ اذلان نے منہ کھولے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔۔ بھلا وہ (ویام) کہاں سے خاموش یا سنجیدہ تھا۔۔۔۔
اچھا تجھے کیسے پتہ۔۔۔۔۔" ناک چڑھائے اسنے جانچتی نظروں سے ویام کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" ایکسپیرینس ہے۔۔۔۔۔" اسے دیکھتا وہ آنکھ دباتے کافی بےباکی سے بولا تھا ۔۔ اذلان کو اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا ۔۔ وہ افسوس سے سر جھٹکتا اسکرین کی جانب دیکھنے لگا ۔۔ جو اندھیرے کی وجہ سے کالی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ٹھاہ کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہونے کی آواز پہ وہ سہمتے بیڈ پہ سیدھے ہوتے بیٹھی۔۔۔۔۔۔
ککک کون۔۔۔۔ لرزتی ہوئی آواز میں پوچھتے گلے میں گلٹی سی ابھرتے معدوم ہوئی تھی ۔۔۔ اپنے قریب تر بھاری قدموں کی آہٹ محسوس کرتے اسکے وجود پہ کپکپی سی طاری ہوئی۔۔۔۔
چہرے پہ ایک دم سے خوف در آیا۔۔۔۔۔ جسم میں سرد سی لہریں دوڑنے لگی تھی۔۔۔ وہ کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ بمشکل سے اٹھی تھی۔۔۔۔ اندھیرے میں اپنی جانب بڑھتے ہیولے کو دیکھتی وہ دوسری جانب سے بھاگنے لگی کہ سرعت سے کسی نے ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے کھینچتے اسکی کوشش ناکام بنائی تھی۔۔۔
حیا ڈر و خوف سے لرز اٹھی۔۔۔ اسنے تڑپتے خود کو آزاد کرنا چاہا مگر مقابل کی گرفت سخت تھی۔۔۔۔
" کہا تھا ناں کہ ان ہاتھوں پہ کسی دوسرے کے نام کی مہندی مت لگانا۔۔۔۔۔۔" اپنے کان کے قریب اسکی بھاری گھمیبر سرگوشی سنتے حیا کا وجود پل بھر میں سن پڑا تھا۔۔ ساری مداخلت دم توڑ چکی تھی وہ خوف سے لٹھے کی مانند زرد پڑنے لگی۔۔۔یہ اسکا وہم نہیں تھا۔۔۔ وہی بھاری آواز میں کی سرگوشیاں ۔۔ وہی سرد لہجہ وہی سخت گرفت، وہی خؤشبو۔۔۔۔"
حیا کے گلابی ہونٹ پھڑپھڑائے وہ خشک خلق سے وہ ڈر کے مارے بولنے سے قاصر تھی۔۔۔ گہری کالی جھیل سی آنکھوں میں خوف کی سرخی تھی ۔۔۔
" فکر مت کرو اپنے نام کی مہندی میں خود لگاؤں گا۔۔۔۔" ایک بار پھر سے وہی سرد سرگوشی حیا کا سانس سینے میں اٹکا تھا جب امن کا بھاری ہاتھ کا لمس کمر سے سرکتا اپنے ہاتھوں کی جانب بڑھتا محسوس ہوا۔۔۔ حیا نے ہاتھ فضا میں بلند کرتے اس سے دور کیے تھے جن پہ واجد کے نام کی مہندی سجی تھی۔۔۔۔
اسکی ادا پہ مقابل دل وجان سے گہرا مسکرایا۔۔۔۔ اور فورا سے ہاتھ بلند کرتے اپنے ہاتھوں کی کھردری سخت انگلیاں اسکے نازک ہاتھوں کی نازک انگلیوں میں الجھاتے مٹھیاں بند کر دی۔۔۔۔۔۔ اپنی گردن کے پاس اسکی گرم سانسوں کو محسوس کرتی وہ سرد پڑتے وجود کے ساتھ بمشکل سے کھڑی تھی۔۔۔ جبکہ وہ اطمینان سے اسکے ہاتھوں پہ لگی واجد کی مہندی کو بڑی توجہ سے برباد کر رہا تھا۔۔۔۔۔
اب یہ نام مٹ گیا ہے۔۔۔اب یہ مہندی بھاؤں کے نام کی ہے۔۔۔ تمہارے ہاتھوں پہ بھی بھاؤں کے نام کی چھاپ ہے ، جیسے تمہارے دل اور دماغ پہ ہے۔۔۔"
اا اممم ۔۔۔۔" حیا نے بمشکل سے لرزتے ہوئے اسے پکارنا چاہا جو آج سہی معنوں میں اس سے بدلا لینے آیا تھا۔۔۔۔
اہاں۔۔۔۔۔ بری بات ہونے والے شوہر کا نام لینا بری بات ہوتی ہے۔۔۔۔۔" اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھے وہ سخت سرزنش کرتے لہجے میں بولا تو لب بھینجتے وہ سسک اٹھی تھی ۔۔۔۔۔
چچ چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔" آنسوں لڑکھتے گالوں پہ بہہ رہے تھے جبکہ وہ ہمت جٹاتے اب اسے خود سے دور کرنا چاہتی تھی۔۔۔ جبھی ایک دم سے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتے وہ اجتجاج کرتے چلائی۔۔۔۔
" چھوڑنے تو نہیں آیا ۔۔۔۔۔ اچھا چلو چھوڑو ساری باتیں کام ختم کرتے ہیں باتیں کرنے کو تو رات باقی ہے۔۔۔۔۔"
خوشگوار سے ہلکے پھلکے سے لہجے میں بولتا وہ اسے آگ لگا گیا تھا۔۔۔۔ جو خونخوار نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔
چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔" ایک دم سے اسے سختی سے بازو سے کھینچتے وہ باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔اسکے ہاتھوں کی سخت گرفت پہ حیا کو اپنا بازو ٹوٹتا ہوا سا محسوس ہوا ۔۔۔ آنسوں آنکھوں کا بار توڑتے بہہ رہے تھے۔۔۔ جبکہ مقابل کسی مضبوط چٹان کی مانند اسے اپنے ساتھ گھیسٹتے لے جا رہا تھا۔۔۔۔
امن چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔" حیا نے چیختے اپنا بازو اسکی سخت گرفت سے آزاد کروانا چاہا مگر وہ موقع کہاں دے رہا تھا۔۔ اسے اپنے ساتھ گھیسٹتے وہ داخلی دروازے کی جانب بڑھا تھا۔۔ کہ اچانک سے سامنے سے آتے حسن اور یسری کو دیکھ اسکے قدم تھمے ۔۔۔۔۔ وہیں حسن کے چہرے کے تاثرات پل بھر میں سرد ہوئے تھے۔۔۔
" اسکے نین نقوش کی مشابہت اذلان جیسی تھی جسے وہ پل بھر میں پہچان چکا تھا۔۔۔۔
چھوڑو میری بیٹی کا ہاتھ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اسے چھونے کی گھٹیا انسان۔۔۔۔۔" وہ غصے سے آگے بڑھتے بپھرتا امن کے ہاتھ سے حیا کا ہاتھ آزاد کروانے لگا ۔۔۔ مگر جتنا وہ اسے دور کرنا چاہتا تھا اسی قدر اسکی مضبوط بھاری انگلیوں کی گرفت حیا کے ہاتھ پہ مضبوط ہوئی تھی۔۔ کہ حیا کو اپنا ہاتھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
چھوڑنے کیلئے نہیں تھاما یہ ہاتھ ۔۔۔۔"سرسراتے ہوئے سے لہجے میں وہ بھاری سرد آواز میں بولا تو حسن نے ماتھے پہ بل ڈالے اسے دیکھا۔۔۔ جو آج بھی آنکھوں میں وہی سرخی لیے اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔ مگر آج وقت بدل چکا تھا۔۔۔
" تمہارا دماغ خراب ہو گیا تماشا مت کرو امن۔۔۔ حیا کی شادی ہے کل اور تم یہ بکواس بند کرو اور نکلو یہاں سے اس سے پہلے کہ میں اپنا آپا کھو دوں ۔۔۔"
حسن نے مٹھیاں بھینچتے آگے ہوتے دھیمی آواز میں اسے دھمکی دے تھی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ جبکہ رمشہ بھی وہیں انکے پیچھے اندر آئی تھی مگر سامنے کا منظر دیکھ اسکا پورا وجود ساکن سا پڑ گیا ۔۔۔۔ وہی غصے سے بھری شہد رنگ آنکھیں ، وہی سرخ وسفید رنگت ماتھے پہ بکھرے شہد رنگ بال ، چوڑے کشادہ سینے اور دراز قد و قامت میں اسکے سامنے آج دس سال بعد اسکا اپنا بیٹا کھڑا تھا۔۔۔ آنکھوں میں بے اختیار نمی سی آنے لگی وہ بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
جو ماں کو دیکھنے کے باوجود نظریں چرا رہا تھا۔۔۔۔
میں کسی قسم کی بحث کرنے نہیں آیا یہاں مجھے آپکی بیٹی نے بلایا ہے یہاں پہ۔۔۔۔۔"
رمشہ سے نظریں چراتا وہ مضبوط لہجے میں حسن کو دیکھتے بولا تھا ۔۔ حیا نے خوف سے اسے دیکھا اور پھر اپنے پاپا اور ماما کو جو بےیقین سے تھے۔۔۔
لیپ ٹاپ میں یہ سارا منظر دیکھتے اذلان نے ویام کو اشارہ کرتے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا۔۔ اسے تو لگا تھا کہ امن آئے گا اور حیا کو اٹھا کے لے جائے گا مگر یہاں تو کچھ اور ہی سین چل رہا ہے۔۔۔۔
جوابا وہ کندھے اچکا گیا اور اسے خاموش رہنے کا کہتے خود بھی بغور اسکرین کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔
مجھے بچہ مت سمجھو امن۔۔۔ مجھے یقین ہے اپنی بیٹی پہ وہ کبھی بھی ایسی حرکت مر کر بھی نہیں کر سکتی۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔۔ مجھے غلط ثابت کرنے کی بجائے اب نکلو یہاں سے ۔۔۔۔۔ " اسکے گریبان سے پکڑتے اسے جھنجھوڑتے وہ غصے سے بولا تھا مگر امن کے اعتماد میں رتی برابر بھی فرق ناں پڑا تھا۔۔
میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔۔ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو پوچھیے اپنی بیٹی سے کہ یہ کچھ دن پہلے جب رات کے اندھیرے میں واپس گھر آئی تھی تو یہ پوری رات کس کے ساتھ تھی۔۔۔۔ حیا کے سرخ پڑتے چہرے کی جانب دیکھتا وہ سرسراتے لہجے میں بولا تھا حیا کی آنکھیں پھٹ پڑی تھی۔۔۔۔ اسنے ڈرتے سر نفی میں ہلایا تھا۔۔۔
جبکہ حسن نے ایک دم سے اسے دیکھا ۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھے میری بیٹی کے خلاف کرو گے اور میں مان جاؤں گا تمہاری بات۔۔۔۔ بھول ہے تمہاری کہ میں تمہاری باتوں میں آؤں گا ۔۔۔۔۔ "
حیا کی جانب دیکھتے وہ اعتماد سے بولا تھا۔۔۔ جبکہ حیا نے سہمی نظروں سے اپنے پاپا کو دیکھا ۔
" آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر آج آپ میری بات کا یقین نہیں کریں گے تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا میں ایسے نہیں جاؤں گا ۔۔۔ بھول ہے یہ آپکی ۔۔۔۔ یا تو آپ آج اسی وقت حیا کو میرے نام کریں گے یا پھر کل ساری دنیا یہ تماشا دیکھے گی ۔۔۔۔ فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے ۔۔
حیا کو بازو سے کھینچتے اپنے پیچھے کرتا وہ سرسراتے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔۔ رمشہ بے بسی سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔۔ جبکہ یسری کیلئے تو یہ سب سمجھنا ہی جیسے مشکل تھا۔۔۔
" جو کرنا ہے کر لو مگر میں اپنی بیٹی کی شادی تم جیسے گھٹیا انسان سے کبھی نہیں کروں گا۔۔۔ حسن کے لہجے میں اعتماد ، تھا ۔۔۔۔ وہ ڈٹے ہوئے لہجے میں اسکے قریب ہوتا اسکی آنکھوں میں دیکھتے ایک عزم سے بولا ۔۔۔
"کیا اپنی بیٹی کی خوشی کیلئے بھی آپ اسے میرے نام نہیں کریں گے۔۔۔"
چہرے پہ فتع مند مسکراہٹ سجائے وہ قابلِ دید اعتماد سے بولا تھا کہ حسن کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے ۔۔۔
حیا نے بلایا ہے مجھے یہاں۔۔۔ بلکہ یہ ہماری چوتھی ملاقات ہے آپ سب سے چوری بھی یہ ملتی رہی ہے مجھ سے۔۔ یقین نہیں آتا دو خود پوچھ لیں اس سے۔۔۔ اپنی بات کہتا وہ لاپرواہی سے کندھے اچکا گیا ۔۔۔ اسکا اعتماد حسن کو ٹھٹھکنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔
اسنے سوالیہ نظروں سے حیا کی جانب دیکھا جو پانی بھری نگاہوں سے انکو دیکھتی گردن نفی میں ہلا رہی تھی۔۔۔
"حیا بتاؤ جھوٹ بول رہا ہے ناں امن۔۔۔ بتاؤ اپنے پاپا کو تم نہیں ملی اس سے کبھی ۔تم نے نہیں بلایا اسے۔۔۔۔۔ " حسن کی خاموشی پہ یسری نے سفید پڑتے چہرے سے آگے بڑھتے حیا کو باززو سے جھنجھوڑا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ حیا خاموش نظریں جھکا گئی۔۔۔۔
حیا تم امن سے ملی تھی کہ نہیں۔۔۔۔۔ " یسری کو بازو سے تھامے پیچھے کرتا وہ سخت لہجے میں استفسار کرنے لگا۔۔۔
حیا نے روتے ہوئے جنبڑے بھینجے ۔۔۔۔۔
میں ملی تھی مم مگر ۔۔۔۔۔" سن لیا آپ نے اپنی بیٹی کا جواب اب کیا کہیں گے آپ مسٹر حسن شاہ۔۔۔۔۔"
اسکے بات ٹوکتا وہ فورا سے بولا تھا جبکہ حیا تو بے بس سی اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی جنکی آنکھوں میں آہستہ آہستہ بے یقینی کی سرخی در آئی تھی ۔۔۔
" تم حیا سے شادی صرف اس سے بدلہ لینے کو کر رہے ہو میں جانتا ہوں امن۔۔۔۔ بھول جاؤ کہ میں ایسا ہونے دوں گا۔۔۔۔
حسن نے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔۔ کیسے اپنی لاڈلی بیٹی کو یوں اسکے حوالے کر دیتا۔۔۔
اور آپ کو کیوں لگتا ہے کہ اس سے بدلہ لینے کیلئے شادی ہی صرف ایک راستہ بچتا ہے۔۔ بھولیں مت چار دفعہ اسے باعزت چھوڑا ہے میں نے۔۔۔بدلہ لینا ہوتا تو تب ہی لے لیتا آج اسکے یوں بلانے پہ دوڑا چلا ناں آتا۔۔۔۔۔ وہ سرد لہجے میں آخر میں حیا کی جانب دیکھتا آنکھ دباتے ہوئے بولا تھا۔۔ حیا تو بس ماؤف پڑتے دماغ سے یہ سب ہوتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ آنکھوں میں بے چینی ایک خوف سا تھا۔۔۔۔ مگر وہ جانتی تھی اسکے ڈیڈ کبھی بھی امن کی باتوں میں نہیں آئے گے ۔۔۔۔
" میں کیسے یقین کروں کہ یہ سچ ہے۔۔۔" حسن نے پھر سے سوال کرتے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
اگر یقین نہیں کرنا تو یہ آپکی مرضی ہے مگر اگر آج آپ نے حیا کو میرے نام ناں کیا تو تاعمر یہ یہی اسی گھر بیٹھی رہے گی مگر میرے علاؤہ کوئی بھی اسے اپنانے آیا تو اسکی لاش اس گھر سے واپس جائے گی اور یہ میرا وعدہ ہے آپ سے ۔۔۔۔" اسکے لہجے میں چٹانوں کی سی مضبوطی تھی آنکھوں میں جنون کی سرخی لیے وہ حسن کو دیکھتا ایک ایک لفظ پہ زور دیتے بولا۔۔۔۔۔
جواب دیں مجھے میرے نام کریں گے یا پھر نہیں۔۔۔۔۔" اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ وہ پھر سے دوبدو ہوا۔۔۔ حسن نے سرد نظروں سے حیا کو دیکھا۔۔۔۔
" حیا اگر تمہیں یہ شادی نہیں کرنی تھی تو بیٹا پہلے ہی مجھے آگاہ کر دیتی ۔۔۔ اس طرح سے چوری چھپے امن کو کیوں بلا لیا کیا تمہیں مجھ پہ ذرا بھی یقین نہیں تھا کیا تمہاری خوشی سے بھی کچھ اور عزیز ہوگا مجھے۔۔۔۔۔"
حیا کے چہرے کو ہاتھوں میں لیتے حسن نے پرشکوہ نم نگاہوں سے اسے دیکھ کر کہا تھا۔۔ جبکہ حیا تو انکی بات پہ چونکتے انکو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
مگر پاپا۔۔۔"۔ کوئی ضرورت نہیں صفائی دینے کی ، اگر تم خوش ہو تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔" اسے بولنے سے روکتے وہ آنکھیں صاف کرتا باہر کی جانب نکلا تھا۔۔
ماما میری بات تو سنیں پاپا ۔۔۔۔اپنے ماں باپ کو یوں خاموش باہر جاتا دیکھ وہ تڑپ ہی تو اٹھی تھی۔۔۔ وہ لپکتے ایک دم سے چیختی انکے پیچھے جانے لگی کہ امن نے جھٹکے سے بازو سے کھینچتے کوشش نا کام بنائی۔۔۔
اور بنا رمشہ کو دیکھے وہ کھینچتے اسے دوبارہ سے کمرے کی جانب لے گیا۔۔ ٹھاہ سے دروازہ بند کرتا وہ اسے کھینچتے دروازے سے لگائے ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھے اب سخت نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
دور رہو گھٹیا انسان۔۔۔۔ میں بتاؤں گی ان کو یہ س جھوٹ ہے نہیں کرتی میں تم سے محبت سمجھے تم۔۔۔ دور رہو مجھ سے ۔۔۔ وہ غصے سے چلاتی اسکے سینے پہ ہاتھوں سے دباؤ ڈالتے پھٹ پڑی تھی۔۔۔
اششش۔۔۔ آواز ناں نکلے تمہاری۔۔۔۔ اسے تھوڑی سے دبوچتے وہ غصے سے گھبیر آواز میں بولا تھا۔۔۔ جب کہ دوسرا ہاتھ سے اسکے ہاتھوں کو وہ تھامتے اوپر دروازہ سے لگا چکا تھا۔۔۔۔۔
" اگر اب اپنی زبان قبول ہے کہنے کے علاؤہ کھولی ناں تو یہ جو ریموٹ دیکھ رہی ہو۔۔ ناں ۔۔۔۔ ایک بٹن دباوں گا اور تمہارے ماں باپ دادی اور چہیتی پھپھو سب کے سب پھک۔۔۔۔۔ پوممممم۔۔۔۔۔۔"
سرخ لہو رنگ نظریں اسکی رونے سے سوجھی متورم نظروں میں گاڑھتا وہ سرسراتے ہوئے لہجے میں بولا اور آخر میں اشارہ اپنے سینے پہ بنی جیب کی جانب کیا تھا۔۔ جس میں ایک چھوٹا سا ریموٹ پڑا تھا۔۔ جسے دیکھتی وہ خوف سے دم سادھ گئی۔۔۔انکھیں خوف کی زیادتی سے باہر آنے کو تھیں۔۔۔۔
" تم ایسا نہ ننہ نہیں کک کر سکتے۔۔۔۔ وہ دکھتے سر کے ساتھ صورتحال کو سمجھتی ایک دم سے بے یقینی سے چیخی تھی۔۔۔ آنکھوں میں غم ، غصہ بے اعتباری کیا کچھ ناں تھا۔۔۔
" میں ایسا ہی کروں گا۔۔۔اگر تم نے کچھ بھی اپنی زبان سے الٹا سیدھا کہا تو پھر بدلے میں جو کچھ بھی ہو گا اسکی زمہ دار تم خود ہو گئ۔۔۔۔ " اسکا دہکتا گال اپنے سرد بھاری ہاتھ سے تھپکتا وہ زہر خند سا مسکراتے پیچھے ہوا تھا۔۔۔
دونوں ہاتھوں سے اپنے کوٹ کو جھاڑتے وہ گہری نظر سے اسے سر تا پیر دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو اسے ہی غصے سے گھور رہی تھی۔۔۔
ہائے ظالم تیرا دیکھنا۔۔۔۔۔" اس کی غصے بھری نگاہوں کو خود پہ پاتے وہ ہاتھ سینے پہ رکھتے فدا ہوتے انداز میں بولا تھا ۔۔۔ حیا کو اپنی بےبسی پہ جی بھر کے رونا آیا تھا۔۔۔ وہ سچ میں اسکی زندگی کا سکون نگل گیا تھا۔۔۔
اوپس لگتا ہے تمہارا باپ مولوی کو لے آیا چلو اب اچھے بچوں کی طرح منہ پہ چادر اوڑھو اور صرف قبول ہے ہی بولنا ورنہ دوسری صورت میں تم جانتی ہو کیا ہو گا۔۔۔
اسے زبردستی کندھوں سے تھامتے وہ بیڈ پہ بٹھاتے بولا تھا۔۔۔جبکہ حیا بس بت بنی اسے گھور رہی تھی۔۔۔ جسے دیکھتا وہ سر جھٹکتے خود سے ہی پیچھے پڑا دوپٹہ اس پہ گھونگھٹ نکالتے ڈال دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔
"ارے آپ مولوی کہاں ہے۔۔ حیا تو کب سے بیٹھی ویٹ کر رہی ہے مولوی کے آنے کا۔۔۔۔۔"
" حسن جو ایک بار اپنی بیٹی سے بات کرنے آیا تھا۔۔۔امن کی بات سنتے وہ بے یقنی سے کنگ اسے سائڈ کرتا اندر جھانکا تھا۔۔ مگر حیا کو گھونگھٹ نکالے بیٹھا دیکھ وہ جبڑے بھیجتے آنسوں کا گولا نگلتے باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
حیا حسن شاہ آپ کا نکاح امن اشعر علوی سے بعوض دس ہزار روپے سکہ رائج الوقت طے پایا گیا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔ "
مولوی صاحب نے تیسری بار اپنا سوال دہرایا۔۔ پاس بیٹھا وہ مضطرب سا گلا کھنگارتے اسے وارن کر چکا تھا۔۔ کہ امن کی وارننگ پہ وہ کپکپاتوں ہونٹوں سے آنسوں پیتی بمشکل سے ضبط کرتے قبول ہے بول پائی تھی۔۔۔۔
جسے سنتے ہی اذلان نے خوشی سے اٹھتے ویام کو اٹھایا اور گول گول چکر کاٹنے لگا۔۔۔ امن بھی پرسکون سا سانس فضا میں خارج کرتے اب سکون میں ہوا تھا جبکہ رمشہ کی تو مانو دلی مراد بھر آئی تھی۔۔ اسکے تو پاؤں زمین پہ نہیں ٹک پا رہے تھے ۔ جبکہ حسن اور یسری تو آنسوں پیتے مردہ قدموں سے کھڑے تھے۔۔۔۔ ایک جانب صوفے پہ بیٹھی سلمی بیگم بھی مطمئن سی تھی ۔۔۔۔۔
اعجاب و قبول کا مرحلہ طے پاتے ہی حسن نے اپنا کپکپاتا ہاتھ حیا کے سر پہ رکھا تو جیسے وہ ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی۔۔۔ اسنے گھونگھٹ کی اوٹ سے ہی اپنے پاپا کو دیکھا تھا۔۔ کب سے روکے آنسوں ایک دم سے پلکوں کی باڑ سے بہہ نکلے تھے۔۔وہ روتی حسن کے سینے سے جا لگی۔۔۔۔
بس بس ڈرامہ بند کریں چلو حیا۔۔۔۔۔" کان کھجاتے وہ بےزاری سے بولتا آگے بڑھا تھا۔۔۔ مگر اپنے پیچھے اسے ناں پاتے امن نے گردن گھمائی مٹھو دروازے کے پاس کھڑا تھا۔۔ حیا کے ساتھ بھاؤں کی شادی پہ سب سے زیادہ وہی خوش تھا۔۔۔ کم از کم اب حیا سے درخواست کرتے وہ اپنی شادی کیلئے دلہن بھی ڈھونڈ سکتا تھا۔۔۔۔۔
" مجھے نہ نہیں جانا اسکے ساتھ۔۔۔۔۔ " پاپا مجھے آپ کے پہ پاس رہنا ہے۔۔۔۔۔"
وہ بری طرح سے حسن کے سینے سے چپکے ہوئے منمنائی تھی۔۔امن کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔۔ جبھی وہ غصے سے پلٹا۔۔۔
" شادی کے بعد بیوی کو شوہر کے ساتھ ہی رہنا ہوتا ہے اگر اتنا ہی دل اداس ہے تو پھر آ کے مل لینا(اگر میں آنے دوں تو) ابھی چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔
اسے بازو سے تھامتے وہ اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔یسری تڑپتے انکے پیچھے ہوئی تھی۔ جسے بازوؤں سے پکڑتے حسن روک چکا تھا۔۔۔۔۔
" گاڑی سٹارٹ کر مٹھو۔۔۔۔" اسے گھیسٹتے اپنے ساتھ لاتا وہ آگے چلتے مٹھو سے بولا تھا ۔۔۔ جو سر ہاں میں ہلاتا اب فورا سے گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔۔۔
ببب بھاؤں تیرے اور آیا (حیا) باجی کیلئے میں نے اپنے ہاتھوں سے کمرہ سجایا ہے ۔۔ توں لے چل باجی کو اوپر والے کمرے میں۔۔۔
گاڑی روکتے ہی بھاؤں کے اترتے وہ اسکے سامنے ہوتے خوشی سے بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ اسکی بات سنتے بھاؤں کے لبوں پر مدہم سی مسکراہٹ رینگ آئی۔۔۔
میں اپنی چیزیں نہیں بدلتا اپن اپنے کمرے میں ہی سوئے گا۔۔۔۔ اور تیری باجی بھی ۔۔۔ " سر جھکٹتے وہ دونوں بازوؤں فضا میں بلند کرتا انگڑائی لیتے گردن گھمائے اسے دیکھنے لگا جو ابھی تک گاڑی میں دبکی بیٹھی تھی۔۔
یہ لے چھوٹو کی گاڑی کا ریموٹ میرے پاس رہ گیا تھا۔۔۔اسے دے دینا صبح۔۔۔اپنے جیب سے ریموٹ نکالتے وہ اونچی آواز میں بولا تھا۔۔۔ جسے مٹھو تھام چکا تھا۔۔ جبکہ حیا تو بےیقنی سی سنتی خاموش بیٹھی تھی۔
اچھا جا توں سو جا ۔۔۔۔ اور سن کسی کو بھی مت بتانا ابھی کل بتاؤں گا میں خود ابھی آرام کر لیں ہم بچاری تھک چکی ہے بہت۔۔۔۔" ناک چڑھاتے وہ جیسے اپنی ہی بات کا مذاق اڑاتا محسوس ہوا مٹھو کو۔۔۔۔۔ وہ سر کھجاتا وہاں سے اپنے کمرے کی جانب گیا ۔۔۔۔
باہر نکلو محترمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔" دروازہ کھولتے ذرا سا اندر جھانکتے وہ بےزار سے لہجے میں بولا۔۔ حیا نے کھوئے کھوئے سے انداز میں اسے دیکھا مگر وہ ہلی نہیں تھی جگہ سے ۔۔۔۔ چلو اٹھا کے لے جاتا ہوں ۔ ویسے بھی تھوڑی دیر بعد بھی تو یہ کام کرنا ہے ۔۔۔۔ کندھے اچکاتے وہ بڑبڑاتا آگے کو جھکا کہ حیا سیٹ میں دبکی ۔۔۔۔ اسنے خوف سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا تو امن گہرہ سانس بھرتے پیچھے ہوا۔۔۔
" وہ لرزتے قدموں سے باہر نکلی تھی۔۔۔ دل و دماغ سن سے ہوئے پڑے تھے ۔۔۔ جبھی بنا کوئی مزاخمت کیے وہ اسکے ساتھ کھینچتی چلی گئی۔۔۔ جسے ہاتھ سے کھینچتے بھاؤں اپنے کمرے میں لایا۔۔ہاتھ چھوڑتے وہ واپس مڑا اور دروازہ لاک کر دیا ۔۔۔۔۔
" آہہہہہ ۔۔۔۔۔۔ کیسا لگا اپن کی دلہن بن کر۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ کیا کہا تھا تم نے۔۔۔۔۔۔ میں مر جاؤں گی مگر تم سے شادی ۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔" اپنی بات کہتے وہ قہقہ پہ قہقہ لگاتے اسے زچ کر رہا تھا۔۔جو پانی بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
تم ایک نمبر کے گھٹیا انسان ہو ۔۔۔۔۔۔ میں تمیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔غصے سے چیختے وہ آگے بڑھتی اسے پیچھے کو دھکہ دیتے بولی تھی ۔۔ امن کی مسکراہٹ ایک پل میں سمٹی ۔۔۔۔
" معافی کی بات تو رہنے دو لخت جگر۔۔۔۔ ناں تم مجھے معاف کرو ناں ہی میں تمہیں کرنے والا ہوں۔۔۔ ایسا کرتے ہیں آج ایک دوسرے کی سنگت میں یہ دنیا بھول کر ایک دوسرے کو محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔" ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے اپنے بے تخاشہ قریب کرتا وہ دوسرے ہاتھ سے اسکا خجاب کھولتے بھاری سرگوشی نما آواز میں بولا تھا۔۔۔۔
اسکے ہاتھ کے سرد لمس اور بےباک جملوں پہ حیا کا چہرہ سرخ خون کی مانند دہکنے لگا تھا۔۔۔۔۔
وہ لب بھینجتے اسے خود سے دور کرنے کو مزاخمت کرنے لگی۔۔۔ مگر اسکی گرفت سے نکلنا بھلا کہاں اسکے بس کی بات تھی۔۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔" وہ غراتے اسکے حصار کو توڑنے لگی جو کافی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ ویسے تمہارے یہ بال اففف کافی خوبصورت ہیں ۔۔ یہ مہکتی خؤشبو چلو مل کے بہک جاتے ہیں۔۔۔۔ جھٹکے سے اسکا رخ موڑتے وہ پشت اپنے سینے سے لگائے اسکے بالوں کی مدہوش کن خوشبو خود میں اتارتا شوخ مگر بھاری گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔۔
حیا کا پورا وجود سن سا پڑ گیا اسکے لمس ، اسکے لہجے کی مدہوشی وہ کانپ کے رہ گئی ۔مگر پھر خود کو مضبوط بنائے وہ تھوک نگلتے آنکھوں کو جھپکتے اپنے خشک لبوں کو تر کرتے اسکے ہاتھوں کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔ " ایک دم سے اسے بنا سمجھنے کا موقع دیے وہ جھٹکے سے اسے نیچے گرا چکا تھا کہ اس اچانک سے ہوتی افتاد پہ ایک ہلکی سی چیخ حیا کے منہ سے نکلی۔۔۔
وہ زمین پہ اوندھے منہ پڑی آنکھوں میں حیرت لیے پلٹی تھی۔۔۔۔
یہ ہے تمہاری اصل جگہ ۔۔۔۔ بھاؤں کے دل میں۔ تمہاری کوئی جگہ نہیں اور ناں ہی کبھی بن سکتی ہے۔۔۔۔ " بربادی مبارک ہو لختِ جگر۔۔۔۔۔"
اسکے قریب جھکتے وہ سرد آواز میں کہتا ایک دم سے اٹھا تھا۔۔۔۔ دروازہ ٹھاہ کی آواز سے بند ہوا تھا۔۔۔ حیا نے دھندلی نظروں سے اس بند درو دیوار کو دیکھا ۔۔۔ کئی آنسوں اسکی پلکوں کی باڑ سے بہتے چہرے کو بھگو گئے تھے۔۔۔۔
منہ کیوں بنا رہی ہو ۔۔۔۔۔۔ ویٹ کچھ سوچتی ہوں ناں ۔۔۔۔" پاس پڑا کشن اٹھاتے اسکی جانب پھینکتے وہ تسلی دیتے انداز میں بولی تھی۔۔۔ عیناں نے سرد سانس خارج کرتے سر ہلایا مگر وہ بےزار سی تھی۔۔۔جانتی تھی میرب اسے کچھ ہیلپ نہیں کر پائے گی۔۔۔۔
" ایک آئیڈیا ہے میرے پاس۔۔۔۔" دماغ پہ زور ڈالتے وہ کچھ یاد آنے پہ چہکتے بولی تھی ۔ عیناں نے آس امید سے اسے دیکھا۔۔۔۔
بتاؤ کیسا آئیڈیا۔۔۔۔۔ وہ اٹھتی اسکے پاس آئی تھی اور پاس صوفے پہ بیٹھی بولی ۔۔۔
ایسا کرو ایک پارٹی ارینج کرو۔۔۔ پھر ویام کو سرپرائز دینا وہ خودبخود ناراضگی بھول کر مان جائے گا۔۔۔۔"
پچھلے دو گھنٹوں سے وہ یہاں اسکا دماغ چاٹ رہی تھی۔۔۔۔ عیناں بار بار اسکا دیا آئیڈیا رد کر رہی تھی ۔ کیونکہ وہ ویام کو راضی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ ناں کہ اور بھی ناراض۔۔۔۔
" میرو دماغ سیٹ ہے تیرا ۔۔۔۔ اگر پارٹی سیٹ کروں اور اسے بھی بلا لوں۔۔ وہ خومخواہ جان کو آ جاتا ہے اور اوپر سے راضی بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ کل رات اسکی گستاخیاں کافی اچھے سے یاد تھی اسے۔۔۔۔ بھلا خود سے کیسے اسے موقع دے دیتی ۔۔۔۔
ویسے عیناں توں نے بتایا نہیں مجھے ۔۔۔۔ کیسا گزرا تیرا شادی سے پہلے کا ہنی مون۔۔۔۔۔۔۔ میرب کو اچانک سے یاد آیا تھا۔۔جبھی اسے ٹہوکا مارتے وہ آنکھیں نچاتے چہکتے استفسار کرنے لگی ۔۔ جبکہ عیناں کا چہرہ ایک پل میں سرخ ہوا تھا۔۔۔وہ سٹپٹاتے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔
" اوہو کیا شرمانا کیا لجخانا۔۔۔۔۔" اسکے چہرے پہ بکھرے شرم و حیا کے رنگوں کو دیکھتی وہ آنکھیں پٹپٹاتے معصومیت سے بولی تھی۔۔ بدلے میں عیناں نے پاس پڑا کشن اٹھاتے اسے مارا ۔۔۔۔
انسان بنو ۔۔۔۔ میں یہاں تجھ سے مدد مانگ رہی ہوں توں باتوں میں سے باتیں نکال رہی ہے ۔۔۔۔ اگر کوئی اچھا سا آئیڈیا نہیں دے سکتی تو دفع ہو جا میں خود سوچ لوں گی۔۔۔
عیناں نے منہ پھلائے چہرہ موڑتے کہا تھا۔۔۔ ویام کی ناراضگی کافی بھاری پڑ رہی تھی اس پہ۔۔۔۔۔ " اوپر سے وہ پہلی بار ناراض ہوا تھا۔۔۔۔ ورنہ اسے کہاں آتا تھا۔۔ناراض ہونا۔۔۔۔۔"
عیناں نے سرد آہ بھرتے آنکھیں موندیں۔۔۔۔
الایہ سے بھی پوچھا تھا۔۔ مگر وہ تو آگے سے خوش ہوئی تھی کہ چلو کچھ دن ناراض ہے تو دور ہی رہے گا عیناں سے۔۔
رک ایک اور پلین ہے میرے پاس۔۔۔۔" ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے وہ ٹانگیں صوفےکے اوپر کرتی بولی تھی۔۔۔۔ ہینڈل گھماتا انزِک کا ہاتھ تھما تھا اسکی آواز پہ مقابل کے ماتھے پہ شکنوں کا جال نمودار ہوا ۔۔۔۔۔
" تجھے معلوم ہے عیناں اس ہفتے ہماری یونی میں پارٹی ہے۔۔۔ نیو کمرز کے لیے۔۔۔۔"
میرب کو یقین تھا یہ پلین کافی اچھا تھا اور عیناں مان بھی جائے گی ۔۔جبھی وہ کافی زور شور سے اپنا پلین شئیر کر رہی تھی ۔۔۔ نا چاہتے بھی انزِک نے سنجیدگی سے دروازے پہ قدم روکے تھے ۔۔۔۔۔
ہاں ہے پارٹی تو پھر۔۔۔۔" عیناں نے ناسمجھی سے کہتے ماتھے کو مسلا۔۔۔۔
تو پھر یہ کہ اس پارٹی میں ایک ایکٹ ہو رہا ہے جس کے لئے اوڈیشن جاری ہیں۔۔۔تم اس میں پارٹ لو گی اور بدلے میں اس ایکٹ میں اس لڑکے کے ساتھ ڈانس کرو گی۔۔۔
آنکھیں پٹپٹاتے وہ کافی خوشی سے بولی تھی۔۔۔۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے میرب یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔۔۔ اسکے کندھے پر مکہ مارتے وہ غصے سے ٹوکتے بولی تھی۔۔۔۔
میں کچھ غلط نہیں کہہ رہی۔۔۔۔ جب ویام تمہیں کسی اور کی بانہوں میں دیکھے گا تو سارا غصہ ساری ناراضگی بھول جائے گا اور خود تمہیں لینے آئے گا۔۔۔اور پھر تم اسے سب کے سامنے پرپوز کر دینا اور ساتھ معافی بھی مانگ لینا۔۔۔۔۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے میرب ۔۔۔ کسی اور کے ساتھ دیکھ کر وہ مجھے معاف نہیں جان سے مار دے گا۔۔۔ اتنا تو اسے جان چکی ہوں میں۔۔۔تم رہنے دو میں کچھ اور سوچ لوں گی۔۔۔
بری طرح سے اسے جھڑکتے عیناں نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔۔ جبکہ میرب نے غصے سے اسے گھورا۔۔۔۔
بھلائی کا زمانہ ہی نہیں ہے اتنی بڑی میٹنگ چھوڑ کر آئی ہوں میں ( گھر کی صفائی) موم نے بولا تھا کہ جلدی آنا میٹنگ پہ جانا ہے (گھر کی صفائی کرنی ہے) ۔۔۔ دفع رہو تم ۔۔ میں جارہی ہوں۔۔۔ اگلے تین دن تک میں بزی ہوں۔۔۔۔ ڈیڈ کے ساتھ کام پہ جاؤں گی (سٹور روم کی صفائی کروں گی) مجھے کال بھی مت کرنا۔۔۔۔۔" ایک چور نظر عیناں کے حیرت سے کھلے منہ کو دیکھتی وہ بیگ اٹھاتے کندھے پہ ڈالتے روعب سے بولتی کمرے سے نکلی تھی۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔" اپنے دھیان سے چلتے اچانک کسی کے بری طرح سے کھینچنے پہ ہلکی سی چیخ اسکے منہ سے گونجی تھی ۔۔۔۔ چکراتے سر کے ساتھ میرب نے آنکھیں کھولتے سامنے دیکھا تھا۔۔۔جہاں ایک ہاتھ سے اسکے بازوؤں کو دبوچے جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ٹھاہ سے اپنے روم کا دروازہ بند کر چکا تھا۔۔۔ ٹھاہ کی زور دار آواز پہ میرب نے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھا۔۔ جسکی آنکھیں غصے سے سرخ ہوئی تھی۔۔۔
اچانک سے خوف محسوس کرتی وہ پیچھے ہوتے دروازے سے جا لگی۔۔۔
یہ کب آیا۔۔۔ یہ تو حرمین کے ساتھ گیا تھا ۔۔۔۔ اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی وہ ہونٹ چباتے سوچ میں تھی۔۔۔۔
ڈریکولا بھائی۔۔۔۔ سسس سوری ممم میرا مطلب انزِک بھائی آپ کب واپس آئے۔۔۔۔"
اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو حیرت سے پورا کھولے وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ بولی تھی۔۔۔۔
" کیا ایڈوائز دے رہی تھی تم عیناں کو۔۔۔۔" اسکی بات کو کاٹتے وہ غصے سے اسکے دائیں بائیں ہاتھ رکھے اسپہ جھکتا اسکی پھیلی آنکھوں میں دیکھتے بولا تھا۔۔۔ جبکہ عیناں کی بات مطلب اسنے سن لیا سب۔۔۔۔۔ ممم میں نن نے ککک کچھ بب بھی تو ننہ نہیں کہا۔۔۔۔۔"
دماغ کے گھوڑے دوڑائے وہ فورا سے سوچتی جھٹ سے جھوٹ بول گئی۔۔۔ انزِک نے غصے سے اسے سر تا پاؤں گھورتے دیکھا۔۔۔۔ جو اس وقت گلابی سکرٹ کے ساتھ میچنگ ٹاپ ، گلے میں اسکارف لپیٹے گھنگھریالے بےترتیب بال دو چوٹیوں میں مقید کندھے پہ ڈالے تھے ، بڑی بڑی آنکھوں سے بے خوف سی اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔
مجھے بچہ سمجھتی ہو تم میں نے خود سنا ہے جو بکواس میری بہن کو پڑھا رہی تھی تم۔۔۔۔" نظریں گھماتے وہ ہاتھ کا مکہ بناتے اسکے پاس مارتے دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
" میرب نے ڈرتے آنکھوں کو زور سے میچا۔۔۔
میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے اسے بس مشورہ دیا تھا اور کچھ بھی نہیں کہا ۔۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ بھی مجھ سے مشورہ لے لیں آپ کے اور حرمین کے بارے میں ۔۔۔۔ میں مخلص مشورہ دوں گی آپ کے کام آئے گا۔۔ حرمین آسانی سے پٹ جائے گی۔۔۔۔"
اپنی بات کہتے وہ آخر میں آنکھ دباتے رازداری سے بولی تھی۔۔۔ آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھتے انزِک کو اچھو سا لگا وہ بری طرح سے اسکی بات پہ کھانسنے لگا۔۔۔۔ جبکہ اسکے یوں کھانسنے پہ میرب نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر بھاگتے پانی کی جانب بھاگی کہ اچانک سے اسے کمر میں ہاتھ ڈالتے وہ جھٹکے سے اپنے قریب کر گیا۔۔۔
یہ سب اس قدر اچانک ہوا تھا کہ اسکے سینے سے لگتی وہ بری طرح سے دم سادھ گئی تھی۔۔۔ جبکہ انزِک خود بے یقینی سے اپنے سینے سے لگے اسے نازک وجود کو دیکھتا جھٹ سے پیچھے ہوا۔۔۔
پلیز مجھے جانے دیں۔۔۔۔ " وہ جو بھاگتے دروازے کی جانب بڑھی تھی اب دھڑکتے دل سے اپنے ہاتھ پہ اسکی سلگتی گرفت محسوس کرتے ہلکا سامنمنائی تھی۔۔۔ بیگ کندھے سے گرتا زمین بوس ہوا تھا جبکہ ماتھے پہ پسینے کے ننھے سے قطرے نمودار ہوئے تھے۔۔۔ دل کی دھڑکنیں خوف سے بے تخاشہ تیز دھڑک رہی تھی۔۔۔۔
" کیا بکواس کی ابھی میں اور حرمین کیا بتاؤ اب۔۔۔۔" اسے کھینچتے دیوار سے پن کرتا وہ غصے سے ایک ایک لفظ چبا کے بولا تھا۔۔۔ یہ لڑکی اسکی سوچ سے بھی زیادہ منہ پھٹ اور بددماغ واقع ہوئی تھی۔۔۔ اگر یہی سب وہ کسی اور کے سامنے کہہ دیتی تو کیا عزت رہ جاتی اسکی۔۔۔
" اللہ کا واسطہ آپ کو چھوڑیں مجھے میں کوئی مجرم نہیں ہوں بار بار ٹارچر کرنے آ جاتے ہیں آپ۔۔۔۔۔ " اسکے سینے پہ ہاتھ مارتے وہ غصے سے چلاتے بولی تھی کہ انزِک نے فورا سے انگلی اسکے ہونٹوں پہ رکھتے اسے خاموش کروایا۔۔۔۔ بدلے میں وہ خاموشی سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو کافی دلچسپی سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔ اپنے چہرے پہ اسکی نظروں کی تپش محسوس کرتے میرب نے نظریں گھمائے اپنے ہونٹوں پر دھری اسکی انگلی کو دیکھا۔۔۔۔ خود پہ جھکتے انزِک کو دیکھتے میرب نے خوف سے پسلیوں سے سر ٹکراتے دھک دھک کرتے دل سے آنکھوں کو میچا تھا۔۔۔
" سوچ سمجھ کے بولا کرو لڑکی ورنہ کبھی تمہارے الفاظ تمہیں کافی بری طرح سے پھنسائیں گے ۔۔۔۔ اسکے کان میں گھبیر بھاری سرگوشی کرتے انگلی اسکے ہونٹوں سے ہٹائے انزِک نے ہلکی سے پھونک اسکے ہونٹوں پہ ماری تھی کہ میرب نے ڈرتے آنکھیں مضبوطی سے بند کرتے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجا۔۔۔
مگر پھر اپنے چہرے پہ اسکی نظروں کی تپش محسوس ناں کرتے میرب نے ڈرتے انکھیں کھولتے آگے پیچھے دیکھا شاید وہ واشروم میں تھا۔۔۔ تھوک نگلتے اپنا نیچے گرا بیگ اٹھائے وہ پاؤں سر پہ رکھتے دوڑی تھی۔۔۔۔ آرام سے بچے۔۔۔۔۔۔" روم سے نکلتے وہ خوف سے سیدھا رافع سے ٹکرائی تھی ۔۔۔
اسکے خوف سے زرد پڑتے چہرے کو دیکھتا رافع نرمی سے بولا تھا۔۔جبکہ میرب بنا جواب دیے وہاں سے بھاگتے سیڑھیوں سے اتری تھی ۔۔
رافع نے دور تک اسے دیکھا تھا۔ وہ یہاں عیناں سے بات کرنے آیا تھا مگر میرب کو یوں خواس باختہ سا انزِک کے کمرے سے نکلتا دیکھ رافع نے پرسوچ نظروں سے انزِک کے کمرے کے بند دروازے کو گھورا تھا ۔۔۔ اور پھر کچھ سوچتے وہ عیناں کے روم کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
تم ٹھیک تو ہو ایل ۔۔۔۔۔ " اسکی سرخ ہوتی نیلی آنکھوں میں دیکھتی وہ تجسس اور حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔ جو دکھتے سر کے ساتھ صوفے پہ بیٹھا کسی غیر مری نقطے کو گھور رہا تھا۔۔۔۔۔۔
"تم نے کہا تھا کہ تم ملو گی اس سے۔۔۔۔۔۔ تم جاؤ ابھی اسکے گھر ملو اس سے ۔۔۔۔۔ اسے مناؤ اپنے ساتھ نیوزی لینڈ جانے کیلیے۔۔۔۔" بہت اچانک سے اسکے ہاتھوں کو تھامے وہ آنکھوں میں جنون ایک الگ سی سرخی لیے بولا تھا۔۔
صوفیہ اسکے انداز پہ حیران سی تھی۔۔۔ ریلیکس ایل صبر کرو میں ایسے کیسے آج ہی اسکے پاس چلی جاؤں ، بات سمجھنے کی کوشش کرو آج ہی وہ اپنے گھر پہنچی ہے اور رات کو میں چلی جاوں۔۔ تم جانتے ہو اسکا بھائی کتنا شاطر ہے اگر اسے شک ہو گیا تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔۔۔۔کیا تم چاہتے ہو کہ یہ بنا بنایا کھیل خراب ہو۔۔۔۔اپنے ہاتھوں میں موجود ایل کے ہاتھوں پہ دباؤ بڑھاتے وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے بولی تھی ۔۔۔
ایل نے سرد سانس خارج کرتے جبڑے بھینجتے آنکھیں ضبط سے بند کی تھیں ۔۔
حرمین کا آنکھوں سے اوجھل ہونا اسکے فشار خون کو بڑھا گیا تھا۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے وہی منظر تھا جب وہ اسے بانہوں میں اٹھائے اس ہوٹل سے گھر تک لایا تھا۔۔۔۔ اسکی نرم گرم سانسوں کی مہک ، اسکا نازک مدہوش کن اپنے آپ سے بےگانہ سراپہ اس کے وجود کی پاگل کرتی مہک ایل کے حواس جھنجھلا گئے تھے بری طرح سے۔۔۔۔۔۔
اسے بیڈ پہ نرمی سے لٹائے وہ جانے کتنی دیر اسکے معصوم چہرے کو محویت سے تکتا رہا تھا۔۔۔۔۔ جانے کیسے اپنے منہ زور جذباتوں پہ بندھ باندھے وہ وہاں سے بھاری قدموں سے لوٹا تھا۔۔۔کہ اب یہ دوری اسے سانپ بن کے کاٹ رہی تھی۔۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ۔۔۔ مگر حرمین کا آنکھوں کے سامنے رہنا جیسے ضروری ہوتا جا رہا تھا اسکے لئے۔۔۔۔۔
وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح سے وہ بس صوفیہ کہ بات مانتے جانے کو تیار ہو جائے اسکے بعد وہ اس سے بدلہ لے گا۔۔ اپنی موم سے کیا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ۔۔ مگر دل میں ایک الگ سا طوفان اٹھ رہا تھا ۔ جس کی تباہی اور جنون خیزیوں سے ابھی وہ خود بھی ناواقف تھا۔۔۔۔۔ کہ یہ جنون یہ الفت اسے کیسے رفتہ رفتہ اپنی لپیٹ میں لیتے تباہ و برباد کر رہی تھی۔۔۔
ایل تمہارے ڈیڈ کی کال آ رہی تھی تم بات کر لیتے ان سے ایک دفعہ۔۔۔۔۔۔۔ " صوفیہ نے میز پہ رنگ ہوتے موبائل فون کو دیکھتے نرمی سے کہا تھا۔۔
مگر ایل کی خونخوار زخمی نظروں کو خود پہ پاتے اسکی زبان جیسے تالو سے چپک چکی تھی۔
💥💥💥💥💥
" کیسی ہے میری پرنسز ۔۔۔۔۔" روم کا دروازہ ناک کیے وہ سامنے بیڈ کی چادر ٹھیک کرتی عیناں کی پشت دیکھ بولا تھا۔۔۔عیناں جو کافی مصروف سے انداز میں ویام کو راضی کرنے کی بابت سوچ رہی تھی اچانک اپنے ڈیڈ کی آواز پہ وہ چونکتے مڑی تھی۔۔۔
ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔۔ آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں اندر تو آئیں ناں۔۔۔۔۔ وہ چونکتے خفگی سے بولی تھی اور خود ہی رافع کے پاس جاتے اسکے بازو میں اپنا بازوؤں حائل کرتے اسے لئے اندر اپنے کمرے میں آئی۔۔۔
"کیا بات ہے آج آپ کی دوست واپس کیوں چلی گئی ۔۔۔ وہ تو رہنے آئی تھی یہاں۔۔۔۔۔ پھر واپس کیوں چلی گئی۔۔۔!" اسے حصار میں لیتے بیڈ پہ بیٹھتا وہ میرب کی بابت پوچھنے لگا۔۔۔
کہہ رہی تھی کہ کام ہے تو اس لئے جا رہی ہوں واپس۔۔۔" اسکے سینے سے لگی وہ گول گول انگلی سے اسکی شرٹ پہ لکیریں کھینچتی بولی تھی ۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔۔۔۔ الایہ کہاں ہے کچھ پتہ ہے آپ کو ۔۔۔۔۔" صبح سے ہی وہ نظر نہیں تھی آئی جبھی وہ عیناں سے پوچھ رہا تھا کہ شاید اسے کچھ معلوم ہو۔۔۔۔۔۔
"کہہ رہی تھی کہ دوستوں نے بلایا ہے ۔۔۔ تو ان سے ملنے جا رہی ہوں۔۔۔۔ "
اچھا تمہاری ماما بتا رہی تھی کہ تم ہونی نہیں گئی۔۔۔۔" اسے سمجھ نہیں تھا آ رہا کہ آخر کیسے بات کا آغاز کرے جبھی وہ بات کا آغاز کرتے بولا ۔۔۔۔
" ڈیڈ آپ سیدھے سے پوچھ سکتے ہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ !" اسکی جانب دیکھتی وہ مسکراتے بولی تو رافع نے مسکراتے اسکے سر پہ بوسہ دیا۔۔۔۔!
" ویام رخصتی چاہتا ہے اسی ہفتے۔۔۔۔۔۔ !" اسکے سر کو تھپکتے وہ گہرا سانس لیتے ایک پل کو رکا تھا۔۔۔۔ عیناں نے حیرت سے کنگ بے یقنی سے اپنے ڈیڈ کو دیکھا ۔۔
آر یو سیرییس ڈیڈ آپ مذاق کر رہے ہیں۔۔۔" وہ ہنستے سر نفی میں ہلاتے بے یقنی سی کیفیت میں تھی ۔۔۔۔ رافع نے سرد سانس خارج کرتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔
میں سچ کہہ رہا ہوں پرنسز ۔۔۔۔۔ ویام سچ میں ایسا چاہتا ہے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔"
نو ڈیڈ ایسا نہیں ہو سکتا مجھے ابھی رخصتی نہیں کروانی آپ پلیز اسے انکار کر دیں۔۔۔ میں نے ابھی پڑھنا ہے آپ جانتے ہیں ڈاکٹر بننا میرا امبیشئن ہے میں شادی سے پہلے ہی اسے پورا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ آپ پلیز اسے میری طرف سے انکار کر دیں ڈیڈ۔۔۔ " رافع کے کندھے پہ اپنا نازک دودھیا ہاتھ رکھے وہ ایک امید سے اسے دیکھتے بولی تھی۔۔۔
رافع گہرا سانس لیتے اسکی سہمی امید سے بھری گرے کانچ سی سرخ نظروں کو دیکھتا مسکرایا اور نرمی سے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیے وہ مسکراتے اٹھا ۔۔
جیسا میری پرنسز چاہے گی ویسا ہی ہو گا ۔۔۔ ڈونٹ وری میں بات کرتا ہوں ویام سے۔۔۔۔۔"
رافع نے اسکا گال تھپکتے کہا تھا۔۔۔۔ کہ عیناں پرسکون سی ہوتے گہرا سانس لیتے سر ہلا گئی ۔۔۔
آ جاؤ تمہاری موم کہہ رہی تھیں کہ کھانا کھا لو آ کے۔۔۔" اسنے ٹائم دیکھا تو رات کے نو بج رہے تھے۔۔۔ فدک کا پیغام بھی یاد آیا تھا تو اسے جلدی سے اپنے ساتھ چلنے کا کہا ۔۔۔۔
آپ چلیں ڈیڈ میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں۔۔۔وہ مسکراتے بلینکٹ ٹھیک کرتے بولی تھی کہ رافع سر ہلاتے باہر نکلا۔۔۔
💥💥💥💥💥
اپنے ضروری کام نپٹاتے وہ رات کے دو بجے واپس آیا تھا۔۔۔۔۔ تھکن سے چور وجود سے آنکھوں کو رگڑتے وہ دروازہ کھول اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ کمرے کی جلتی سفید روشنی میں نظریں بالکل سامنے گئی تھی ۔۔ جہاں وہ گھٹنوں میںں منہ چھپائے آڑی ترچھی لیٹی تھی ۔۔۔۔۔۔
اپنے چھوٹے سے کمرے پہ نظریں دوڑاتے بھاؤں نے غصے سے جبڑے بھینجتے اس آفت کی پشت کو گھورا جس نے اسکا سارا کمرہ تہس نہس کیا تھا۔۔۔
سر جھٹکتے وہ آگے بڑھا تھا اور ایک واحد چارپائی جو الٹی ہوئی پڑی تھی اسے اٹھاتے سیدھا کرتا وہ شرٹ کے بٹن کھولتا آگے بڑھا تھا۔۔۔ ذرا سا جھکتے اسنے ہاتھ کی مٹھی میں حیا کا حجاب دبوچا اور سیدھا کھڑے ہوتے ایک نظر اسکے سوئے وجود پہ ڈالتا وہ حجاب ایک جانب لکڑی کی کرسی پہ رکھتا مڑا تھا۔۔۔۔۔
امن چلتا اسکے قریب رکا تھا۔۔۔ جسنے بڑی بےدردی سے اپنے پھولوں کے زیورات کو نوچ نوچ کے خود سے دور پھینکا تھا۔۔۔۔ وہ دیکھتا سرد سانس خارج کرتے جھکا تھا۔۔۔۔
چاہے جو بھی تھا وہ اتنی ٹھنڈ میں اسے نیچے نہیں سونے دے سکتا تھا ۔۔۔۔ نرمی سے اس نازک خوشبو میں گندھے وجود کو اٹھائے وہ اپنی چارپائی تک لایا تھا ۔۔۔ اور بےحد نرمی سے اسے لٹاتا وہ گھٹنا فولڈ کیے وہیں بیٹھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جس کے چہرے پہ مٹے مٹے آنسوں کے نشانات تھے پورے چہرے پہ رونے سے پھیلا کاجل وہ کافی فنی لگ رہی تھی سوتے۔۔۔۔
" اب اگر ایسی ادائیں دکھاؤ گی تو اپن برباد کرنے کی بجائے خود ہی برباد ہو جائے گا لخت ِ جگر۔۔۔۔۔۔" اس دوپٹے سے بے گانہ نرم وملائم وجود کو اپنے استحقاق میں یوں لیٹا دیکھ وہ بےخود سا ہونے لگا تھا۔۔ شہد رنگ آنکھوں میں خمار کی سرخی چھانے لگی تھی کہاں کا غصہ کہاں کی نفرت ۔۔۔۔۔۔۔" وہ تو سراپا عشق بنا اپنی عشق کی منزل کو الفت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جو ہوش و خرد سے بےگانہ اسے گستاخیوں پہ اکسا رہی تھی۔۔۔۔
امن کی نظریں اسکے ڈیپ گلے سے ہوتے اس کالے بڑے سے تل پہ ٹہری تھی جو آج بھی اسکی شفاف دودھیا گردن پہ چمکتا اسے اپنا سب سے بڑا رقیب لگا تھا۔۔
بنا توقف کے وہ ہاتھ تکیے پہ حیا کے دائیں بائیں رکھتا پورے استحقاق سے جھکا تھا۔۔۔۔ اپنے سلگتے ہونٹ اسی قاتل تل پہ رکھتے جیسے جذبات کا ایک طوفان سا تھا جو اسکے اندر ہلچل مچانے لگا تھا۔۔ بےخود سا وہ بہت اچانک حیا پہ حاوی ہوتا اسکی گردن کو اپنے ہونٹوں سے معتبر کر رہا تھا۔۔۔۔ اسکے سلگتے جان لیوا لمس ، مونچھوں کی جبھن پہ وہ کسمساتے ہوئے اپنی مندی مندی سرخ آنکھوں کو کھولتے حالی نظروں سے خود پہ سایہ بنے امن کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
دماغ بیدار ہوا تو اپنے اور اسکے مابین رشتے کی نوعیت ،اسکا دھوکا فریب سب یاد کرتے حیا نے ہاتھ اسکے سینے پہ رکھے بمشکل سے اسے خود سے دور کیا تھا۔۔۔ جو اب خمار آلود بہکی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
کیا کر رہے ہو تم ۔۔۔۔" حیا نے غصے سے دانت پیستے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا۔۔۔ مگر شاید وہ انجان تھی مقابل کھڑا شخص ایک جذبات کا طوفان اپنے سینے میں دبائے اپنی محبت اپنی الفت کے روبرو تھا بھلا اتنا آسان تھا اس سے بچ پانا۔۔۔۔
" پیار کر رہا ہوں یار دکھتا نہیں۔۔۔۔" اسکی سرخ ہوتی جھیل سی کالی نظروں کو اپنے ہونٹوں سے چومتے امن نے اسکے گالوں پہ بوسہ دیا تھا۔۔۔ اسکی خمار سے بھاری ہوئی گھبیر آواز ، نظروں کا استحقاق حیا نے سن ہوتے دماغ دھک دھک کرتے دل سے خود پہ سایہ بنے اس شخص کو دیکھا ۔۔۔۔ جو اسکی سانسوں سے بھی قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔
امن کے ہونٹ اسکے گال سے سرکتے اسکی ناک تک گئے تھے حیا کا سانس ڈر اور خوف سے رکنے لگا تھا ۔۔۔۔ امن کی جان لیوا قربت اسکا لمس حیا کی جان پہ بن آئی تھی۔۔۔ بہت آہستگی سے اپنے لرزتے ہاتھوں سے اسکے سینے پہ دباؤ بڑھاتے حیا نے اس پھر سے باز رکھنا چاہا تھا۔۔۔۔ مگر امن نے خفگی سے اسکے ہاتھوں کی انگلیوں کو اپنے بھاری ہاتھوں کی انگلیوں سے الجھاتے اوپر تکیے سے لگایا تھا اور بےحد نرمی سے اپنے تشنہ لب پورے استحقاق سے اسکے ہونٹوں پہ رکھتے وہ بےخودی سے اسکی مہکتی سانسوں کو خود میں اتارنے لگا ۔۔۔۔۔
اسکے شدت بھرے لمس پہ حیا کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اسنے پھڑپھڑاتے سانس رکنے پہ اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا کہ امن نے نرمی سے پیچھے ہوتے اسے دیکھا جو لہو چھلکاتے چہرے سے آنکھیں بند کیے گہرے سانس بھر رہی تھی۔۔۔۔
بس اتنی سی برداشت ہے ابھی تو صرف میری شدتوں کی ہلکی سی آنچ تمہارے تک پہنچی ہے اور حالت دیکھو اپنی۔۔۔۔۔ کوسو گی اس لمحے کو جب میری انتہا کو جانو گی۔۔۔۔۔ اسکے کان کے قریب سرگوشی کرتے وہ اسے پل بھر میں منجمد کر گیا تھا۔۔۔ حیا نے خوف سے لرزتی پلکوں سے اپنے بھیگے ہونٹوں کو بھینجتے رخ بدلنا چاہا تھا۔۔۔ اپنے ہاتھوں میں الجھی اسکے بھاری ہاتھوں کو نکالتے وہ جھٹ سے رخ موڑتے اٹھنے لگی تھی مگر مقابل نے اتنی ہی جلدی اسے کھینچتے واپس گرایا تھا کہ اس افتاد پہ حیا کا دل شدت سے دھڑکتے امن کو اپنے کانوں میں بجتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
اتنی چھوٹی بھی نہیں یہ چارپائی شرافت سے لیٹ جاؤ یہاں میرے پاس ۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ بکھرتی لٹوں کو نرمی سی کان کے پیچھے کرتا وہ کمر سے پکڑتے اپنے پاس بازوؤں پہ سر رکھتے لٹا چکا تھا۔۔۔۔ جبکہ حیا تو اسکے بدلتے روپ اسکے انداز سے حیران پریشان سی تھی۔۔۔آخر کیا تھا وہ شخص پل میں ایسا کہ اس سے زیادہ نفرت کسی دوسرے کیلئے محسوس ناں ہو اور پل بھر میں اتنا نرم اتنی محبت ، اتنی شدت۔۔۔۔۔۔"۔ اپنی کمر کے گرد حائل امن کے ہاتھ کو نکالنے کی سعی کرتے وہ رخ گھمانے لگی مگر مقابل نے اسی قدر زور سے گرفت مضبوط کی تھی کہ حیا کو اپنی کمر پہ اسکی انگلیاں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔
آنکھوں میں نمی لیے اسنے سرخ نظروں سے امن کو دیکھا ۔۔۔۔
" اگر عافیت چاہتی ہو اپنی تو خاموشی سے لیٹ جاؤ ورنہ بعد میں آنسو بہاتی رہنا ۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔ اسکی نم آنکھوں میں اپنے شہد رنگ سرخی سموئی نظروں کو گاڑھتا وہ معنی خیزی سے کہتے اسے بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔۔۔جبھی وہ سنتی پٹ سے آنکھیں بند کیے سوتی بنی تھی۔۔۔جبکہ اسکی حرکت پہ ایک دلفریب سی مسکراہٹ نے مقابل کے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا ۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" اشعر کیسا ہے اور رمشہ۔۔۔۔ " صوفے پہ ہاتھ پھیلائے وہ حرمین اور دوسری جانب نیناں کو حصار میں لیتے اپنے سامنے بیٹھے اذلان کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔۔۔
"دعا ہے آپ کی انکل سب ٹھیک ہیں ۔۔۔ ۔۔ آپ سب کو بہت یاد کرتے ہیں۔۔۔ مسکراتے وہ نیناں اور وریام کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔حرمین نے مسکراتی نظروں سے اذلان کو دیکھا۔۔۔۔وہ بچپن سے ہی اسکا فیورٹ رہا تھا۔۔ مگر جانے کیوں اس سے بات کرتے وہ شرما جایا کرتی تھی۔۔۔اسکی جھینبپ ، شرم سے سبھی واقف تھے۔۔۔۔
جبھی اذلان نے بارہا اسکی شرماہٹ کو کم کرنا چاہا تھا۔۔۔مگر وہ جانے کیوں اس سے شرما سی جاتی تھی۔۔۔۔۔ وہ چھپ چھپ کے اسے دیکھتی تھی ۔۔۔ اپنے سب بھائیو میں سے اسے وہ کافی پسند تھا۔۔۔ کیونکہ ویام کے علاؤہ ایک وہی تھا جو کافی سویٹ نیچر کا تھا۔۔ جبکہ اسکے برعکس تو امن اسے ہنسنے بھی نہیں دیتا تھا۔۔۔ ہمشیہ اسکی چاکلیٹس لے کے بھاگ جایا کرتا تھا۔۔۔ جبھی وہ اذلان سے کافی محبت کرتی تھی۔۔۔۔۔
اور اذلان کے لئے تو وہ اسکی چھوٹی سی گڑیا تھی۔۔۔ جس سے بات کرنے کو ہفتے میں ایک بار لازمی کال کرتا تھا۔۔۔مگر وہ سلام دعا کے بعد بات ہی نہیں کرتی تھی۔۔۔ اب بھی وہ صبح سے ویام کے ساتھ اسکے گھر پہ تھا ورنہ رافع کی کئی بار کال آ چکی تھی اسے۔۔۔۔ وہ اصرار کر رہا تھا کہ وہ ادھر اسکی طرف آئے۔۔۔۔
ہائے جاناں کم۔۔۔۔۔" ویام کی فریش سی آواز پہ گردن گھمائے سب نے اسے دیکھا جو بلیک ٹراؤزر پہ بلیک ہی شرٹ پہنے فریش سا گالوں پہ قاتل ڈمپل کی جھلک لیے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سیڑھیوں سے اترتے حرمین سے مخاطب تھا۔۔۔۔
حرمین اپنے بھائی کی آواز سنتے فورا سے وریام کے حصار سے نکلی تھی اور بھاگتے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔۔ ویام نے اسے ساتھ لگاتے حصار میں لیا تھا اور ذرا سا زمین سے اوپر کرتے وہ اسے اٹھائے آگے بڑھا تھا۔۔۔ حرمین نے سر اسکے کندھے پہ رکھا۔۔۔
کیا ہوا میرا بچہ اداس کیوں ہے۔۔۔۔۔۔!" صوفے پہ بیٹھتے ویام نے اسے پاس بٹھاتے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا تھا اور باری باری اسکی خوبصورت آنکھوں پہ بوسہ دیے وہ فکر مندی سے گویا ہوا ۔۔۔اپنے بھائی کی الفت ، فکر پہ وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔۔ گالوں پہ ابھرتے ڈمپل اسے حسین تر لگے تھے کہ دونوں بہن بھائی کے اس خوبصورت مکمل منظر کو دیکھ وریام اور نیناں نے نظریں چراتے ماشاءاللہ کہا تھا۔۔۔
جبکہ اذلان بھی کافی خوش سا تھا اس بونڈنگ کو دیکھ۔۔۔۔
"نہیں تو اداس تو نہیں ہوں میں۔۔۔۔" اسکے کندھے پہ سر ٹکائے اسکے بھورے بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ آنکھیں موندے بولی تھی۔۔۔ جبکہ جانتی تھی اسکا بھائی اسے اندر تک پڑھنے کا ہنر رکھتا تھا ۔وہ سب سے چھپا سکتی تھی مگر ویام سے جھوٹ بولنا کافی مشکل تھا۔۔۔۔
دبئی کا وزٹ اچھا نہیں لگا میرے بیٹے کو۔۔۔۔" تھوڑی سے پکڑتے اسکا چہرہ اونچا کیے وہ فکر مندی تفتیش سے اسکے چہرے کا اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ وریام اور نیناں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا وہیں حرمین نے حیرت سے منہ کھولے اپنے بھائی کو دیکھا ۔۔۔
" تمہارے دبئی جانے کے خیال سے لے کر ٹکٹ بک کروانے تک سب کچھ مجھے معلوم ہے میری لٹل فیری۔۔۔"وہ بتا تو حرمین کو رہا تھا مگر دھیان وریام کی جانب تھا جو پہلوں بدلتا سر جھٹک گیا۔۔۔۔
بیٹا تمہارا روم سیٹ کروا دیا ہے تم ویام کے ساتھ والے کمرے میں رہو گے آج سے۔۔۔۔"
نیناں نے اذلان کو دیکھتے بتایا تھا۔۔۔جو سنتا سر ہاں میں ہلا گیا۔۔۔
"نہیں نین یہ یہاں نہیں اپنے سسرال میں رہے گا۔۔ کیونکہ اسے یہاں پہ اسی لئے بلایا گیا ہے کہ یہ الایہ کے قریب رہ سکے تاکہ دونوں کے بیچ کی غلط فہمیاں ختم ہوں۔۔۔" حرمین کے سر پہ ہاتھ رکھتے ویام نے نیناں کو آگاہ کیا تھا۔۔۔وہیں اسکے فیصلے پہ اذلان نے پہلوں بدلہ تھا۔۔۔۔
" ماں بولو کمینے انسان تمیز بھول گئے ہو کیا۔۔۔۔ اسکا نین کہنا وریام کو غصہ چڑھا گیا تھا۔۔جبھی وہ اسے ٹوکتے غصے سے دیکھ بولا تھا۔۔۔۔
اسے جلانے کو وہ مسکراتا ڈمپل کی بھرپور نمائش کیے کندھے اچکا گیا۔۔۔۔کہ وریام نے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینجتے پہلوں بدلہ تھا۔۔۔۔
اچھا بیٹا پھر آو آپ کھانا کھا لو ویام بیٹا آپ بھی آ جاؤ۔۔۔۔"
نیناں نے بات بدلتے اذلان سے کہا تھا ۔۔جو سر ہلاتے اٹھا تھا۔۔۔
نو موم یہ ابھی جا رہا ہے۔۔۔الایہ گھر پہنچ چکی ہے اب اذلان وہیں انکے ساتھ ڈنر کرے گا۔....."
ویام کے اس نئے حکم پہ اذلان نے ماتھے پہ بل ڈالتے دانت پیسے تھے۔۔۔۔ کم از کم آج تو وہ سکون سے اپنی حالہ کے ہاتھ کا کھانا کھا سکتا تھا۔۔۔ جانتا تھا آگے موجود الایہ جیسی توپ اسے سکون سے سانس بھی نہیں لینے دی گی۔۔۔۔
ایک سیکنڈ میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔۔"
اذلان کو بولنے سے روکتا وہ فون رنگ ہونے پہ معذرت کرتے اٹھا اور ایک جانب ہوا۔۔۔۔۔
رافع کی کال دیکھ اسنے ایک نظر سرسری سی سب پہ ڈالتے باہر لان کینجانب قدم بڑھاتے فون یس کرتے کان سے لگایا ۔۔۔۔۔
"کہیے سسر صاحب کہاں تک پہنچی تیاری ۔۔۔۔۔" کافی سنجیدگی سے اپنی بھوری شیو کو انگوٹھے سے مسلتے وہ ماتھے پہ بکھرے اپنے بھورے بالوں کو ایک جانب کرنے لگا۔۔۔۔
"ویام میں نے بات کی ہے عیناں سے۔۔۔ عیناں ابھی رخصتی نہیں چاہتی ۔۔۔ وہ ابھی پڑھنا چاہتی ہے ۔۔۔ اسنے صاف انکار کر دیا ہے کہ اسے ابھی رخصتی نہیں کروانی۔۔۔۔۔"
رافع کافی پرسکون سا ہو گیا تھا عیناں کے فیصلے سے۔۔ مگر بظاہر وہ فکر مندی ظاہر کرتا ویام سے مخاطب تھا۔۔۔ جسکے ماتھے پہ ایک دم سے شکنوں کا جال نمایاں ہوا تھا۔۔۔۔۔
" وہ شادی کے بعد بھی پڑھے گی آپ جانتے ہیں مجھے اسکے پڑھنے سے کوئی پروبلم نہیں۔۔۔ " رافع کی بات کاٹتا وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا
۔۔
میں جانتا ہوں مگر یہ عیناں کا اپنا فیصلہ ہے تو میں اسکے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کر سکتا۔۔۔۔ اس لئے میری طرف سے ابھی انکار ہی سمجھو تم۔۔۔۔۔"
رافع نے دوٹوک انداز اپناتے کہا تھا اور ساتھ ہی بنا سنے کال کٹ کی تھی۔۔۔ ویام نے غصے سے جبڑے بھینجتے خود پہ بہت مشکل سے ضبط کرتے اپنی لہو رنگ ہوتی نظروں سے لان کو گھورا تھا۔۔۔
اذلان چل۔۔ موم مجھے ایک کام سے جانا ہے تو اذلان کو بھی ڈراپ کر دوں گا میں۔۔۔۔ بنا کسی کی سنے وہ اپنی کہتا اذلان کو بازوؤں سے پکڑتے کھینچتا اپنے ساتھ لیے باہر کو بڑھا۔۔۔۔۔
ہاتھ چھوڑ میرا کمینے ۔۔۔۔۔" اذلان نے غصے سے اپنا بازوؤں چھڑواتے سر کو نفی میں گھمایا۔۔۔۔
" بیٹھ ۔۔۔۔۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے اسنے سرد لہجے میں کہا تھا ایک لمبا سانس فضا کے سپرد کرتے اذلان نے اپنی جگہ سنبھالی تھی۔۔۔۔
پریشان ہے توں کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔۔۔۔؛" اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتے اذلان نے حیرت سے پوچھا تھا ۔۔۔ جبکہ ویام سر نفی میں ہلاتے مخض خاموش بیٹھا تھا۔۔۔۔
اتر نیچے ۔۔۔۔۔اپنے مقام پہ گاڑی روکتے اسنے اذلان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔جو آنکھیں چھوٹی کیے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ "میں تجھ سے بڑا ہوں چل اس بات کی توں چھوڑ توں مجھے تمیز سے نہیں بلاتا یہ تو خیر چلتا ہے مگر اب توں مجھے یوں بیچ سڑک کے اتارے گا۔۔۔۔"
سنسان تاریک سڑک کو دیکھتے اذلان نے کافی افسوس سے کہتے شرم دلائی تھی۔۔۔ جبکہ ویام اسے دیکھتا سر نفی میں ہلاتے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے خود گاڑی سے اترا تھا جسے دیکھ اذلان کو بھی چارو ناچار اترنا پڑا۔۔۔۔۔
یہاں سے دس منٹ کے فاصلے پہ ہمارا سسرال ہے ۔تو فکر مت کر چپ چاپ میرے ساتھ چل ۔۔۔" ٹروازر کے ایک پاکٹ میں ہاتھ ڈالے وہ اسے سکون سے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔
تو توں مجھے وہاں بھی اتار سکتا تھا گاڑی یہاں کیوں روکی مجھے اتار کے توں جہاں بھی جانے چاہے چلا جا ۔۔۔ اپنے بیگ کو کندھے پہ ڈالتے وہ منہ بناتے سر نفی میں جھٹکتے ہوئے بولا تھا۔۔
ویام نے خاموش سے چلتے بس کندھے اچکائے تھے۔۔۔۔
چل اب توں جاں اندر اور اگر کسی نے پوچھا کہ کس کے ساتھ آئے ہو تو کہنا کہ ویام مجھے چھوڑ کے اپنے کسی کام سے گیا ہے ۔۔۔۔۔ ویام گیٹ کے پاس اسے کھڑا کرتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
توں کہاں جا رہا ہے حبیث انسان اتر نیچے۔۔۔۔۔" ویام جو اسے گائیڈ کرتاخود دوسری جانب سے دیوا پھلانگ رہا تھا۔۔ اسے کالر سے پکڑتے اذلان نے دانت پیستے ہوئے پوچھا اسے لگا تھا کہ شاید وہ اس سے کچھ چھپا رہا ہے بھلا اسے یہاں کھڑا کرتے خود کیسے وہ اندر جا رہا تھا اور یوں چوروں کی طرح جانے کا کیا تک بنتا تھا۔۔۔
ریلکیس یار میں کسی کام سے نہیں آیا اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں ۔ ۔ ذرا اسکا دماغ ٹھکانے لگا آؤں تم جاؤ اور کسی کو بھی مت بتانا کہ میں بھی تیرے ساتھ آیا ہوں۔۔۔۔ ویام نے دیوار پہ ہاتھ رکھتے اس تنبیہ کرتے انداز میں سرگوشی نما انداز اپناتے سمجھایا ۔۔۔۔۔
توں میرے ساتھ سیدھے راستے سے بھی جا سکتا ہے ایسا کون کرتا ہے بھلا ۔۔۔" اذلان نے ناگوار نظروں سے اسکی حرکت دیکھتے افسوس سے سر جھٹکا تھا۔۔۔۔۔ مگر مقابل اسکی بات سنتا گہرا مسکرایا ۔۔۔
" جو کوئی بھی نہیں کرتا وہ ویام کاظمی کرتا ہے ۔۔۔اور تجھے لگتا ہے میں سیدھے راستے سے اندر جاؤں گا اپنی ہی بیوی سے ملنے اسے دیکھنے کیلئے کسی سے اجازت لوں گا ۔۔۔ " ائبرو اچکاتے وہ جس انداز میں بولا تھا اذلان نے سرد سانس خارج کرتے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔
ایک نمبر کا کمینہ انسان ہے یہ۔۔۔۔۔۔" اسے دیوار سے اندر کودتا دیکھ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے گیٹ کے پاس رکا تھا ۔۔۔ بیل دینے پہ سامنے سے تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔
انزِک اذلان کو دیکھتا کافی حیران اور خوش بھی ہوا تھا۔۔۔۔فورا سے اسے گلے لگائے وہ اپنی حیرت اور خوشی کا اظہار کر چکا تھا۔۔۔
اذلان نے مسکراتے اسے زور سے خود سے لگایا ۔۔
واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز برو کم۔۔۔۔۔ آپ دیکھئے گا سب آپ کو دیکھ کر کتنے خوش ہونگے۔۔۔۔ اسکا بیگ تھامتے وہ ایک ہاتھ اسکے ہاتھ میں ڈالتا اسے ساتھ لیے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔
اذلان مسکراتے اسکی بات پہ ہلکا سا سر جھٹکتا اسکے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔۔۔
ڈیڈ دیکھیں کون آیا ہے۔۔۔۔۔!" صوفے پہ براجمان الایہ کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار باندھے رافع نے انزِک کی آواز پہ چونکتے گردن گھمائے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ جہاں تھوڑا تذبذب کا شکار اذلان انزِک کے پیچھے کھڑا تھا۔۔۔
اذلان۔۔۔۔ فدک جو ڈنر ٹیبل پہ سیٹ کیے یہی آئی تھی ازالان کو دیکھتے ہی وہ بےچینی سے بولتے اسکی جانب بڑھی تھی۔۔۔ رافع بھی مسکراتے اٹھا تھا۔۔جبکہ الایہ نے قہر بھری نظروں سے اسے گھورتے نخوت سے سر جھٹکا تھا۔۔۔۔۔
اپنے موم اور ڈیڈ کا سوچتے وہ ضبط کرتے وہاں بیٹھی رہی ۔۔ جبکہ سب سے ملتا وہ ایک چور نظر اس دلربا پہ ڈالتا من ہی من میں مسکراتا رافع کے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔۔
اؤ بیٹھو بیٹا اور سناؤ کیسے ہو ۔۔۔ گھر میں سب کیسے ہیں ۔۔۔۔۔!" گرم جوشی سے اسے ملتا رافع اپنے ساتھ ہی بٹھا چکا تھا۔۔۔ اذلان کا آنا اسے کافی اچھا لگا تھا۔۔۔۔اخر اسکی بات کا مان رکھتے وہ آ ہی گیا تھا۔۔۔۔ اسکے گھر۔۔۔۔۔"
جی انکل دعا ہے آپ کی سب ٹھیک ہیں۔۔۔"
اور کیسی ہو الایہ تم ۔۔۔۔!" رافع کو جواب دیتے وہ مسکراتے سب کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے الایہ سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔۔ جبھی الایہ نے سر فون سے اٹھائے اسے گھورا ۔۔۔ فدک اور رافع نے چور نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔۔۔ جو اپنے موم ڈیڈ کی موجودگی کی وجہ سے مخض سر ہلا پائی تھی۔۔۔۔
اذلان اسکی خاموشی پہ گہرا سانس بھرتے خاموش سا بیٹھا رہا۔۔۔۔ جانتا تھا غصہ دبائے بیٹھی تھی۔۔۔
ڈیڈ مجھے کل جلدی نکلنا ہے تو ابھی میں سونے جا رہی ہوں گڈ نائٹ ۔۔۔۔۔۔!"
بلیک ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک ہی جینز پہنے چھوٹے سے اسکارف گردن میں لپٹائے ، اپنے کمر تک جاتے بالوں کی پونی ٹیل بنائے رف سے حلیے میں بولی تھی۔۔۔
اذلان نے گہری نظروں سے اسکے سراہے کو دیکھتے جبڑے بھینجے تھے۔۔۔۔۔۔۔ سر جھٹکتا وہ نظروں کا رخ پھیر گیا۔۔۔۔
ایسے نہیں پہلے کھانا۔۔۔۔۔۔چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ اسکی بات ٹوکتے فدک نے سختی سے کہا تھا اور اذلان اور انزِک کے ساتے رافع کو بھی کھانے پہ بلاتی وہ زبردستی الایہ کو بازوؤں سے کھینچتے ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھی تھی۔۔
موم سئیریسلی مجھے بھوک نہیں یار۔۔۔۔۔!" منہ بناتے اسنے پلیٹ میں چاول ڈالتی فدک کو دیکھتے منت بھرے انداز میں کہا تھا۔۔۔۔جو کہ نظر انداز کرتی اپنا کام کرنے میں مگن تھی۔۔۔۔
الایہ نے چونکتے اپنے دائیں جانب والی سیٹ کو دیکھا جہاں اب اذلان جان بوجھ کر اسکے قریب بیٹھا تھا۔۔۔۔
جسے دیکھ وہ گردن پہ ہاتھ پھیرتے خود کو پرسکون کرنے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
آنٹی عیناں کہاں ہے نظر نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔" ویام کی موجودگی سے واقف ہوتے ہوئے بھی وہ انجان سا بنتا سوال گو لہجے میں پوچھنے لگا تو رافع نے فدک کو دیکھا۔۔۔۔
بھائی اسکا یہ چلتا ہے ۔۔۔۔۔ میڈم کافی لیٹ کھانا کھاتی ہیں۔۔۔ آپ فکر مت کریں آ جائے گی ابھی۔۔۔۔۔"
پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے انزِک نے ہنستے ہوئے بتایا تھا۔۔۔کہ اذلان سرد سی سانس کھینچتے سر ہلا گیا۔۔۔
"بیٹا آپ آئے کس کے ساتھ ہو یہاں ۔۔۔۔ مطلب کیا ویام چھوڑنے آیا تھا یا پھر ڈرائیور کے ساتھ آئے ہو۔۔۔۔۔"
رافع نے بائٹ لیتے سرسری سا پوچھا۔۔۔۔
جی انکل وہ میں ویام کے ساتھ ہی آیا ہوں دراصل اسے کسی کام سے جانا تھا تو مجھے یہاں ڈراپ کر کے وہ کسی ضروری کام سے گیا ہے۔۔۔۔۔': دانت پیستے اسکے ضروری کام کو یاد کرتا وہ جبڑے بھینجتے رہ گیا۔۔۔۔
اندر نہیں آیا کھانا کھا کر جاتا۔۔۔۔" فدک نے بھی کہا تھا جو بھی تھا وہ اسکا داماد تھا اور اسکے ساتھ تو اسے بیٹوں جیسی محبت تھی۔۔یہ تو عیناں کی اچانک رخصتی کی بات سے وہ کافی خفا سی ہوئی تھی۔۔ویام کے ساتھ۔۔۔۔۔
" جی آنٹی میں نے بھی کہا تھا مگر اسکا کہنا تھا کہ کام بےحد ضروری ہے اور وقت پہ کرنا بھی۔۔۔۔ الایہ کی نظریں خود پہ پاتے اسنے جھٹ سے اسے دیکھا جو اب سر جھٹکتے کھانے میں مگن ہوئی تھی۔۔۔۔
اچھا یہ بھی تو بچے کی جاب ہی ایسی ہے کسی بھی وقت کوئی بھی کام پڑ سکتا ہے۔ ۔۔ "فدک نے سمجھتے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اذلان اسکے لئے ایسے الفاظ سن کر سہی میں خود پہ افسوس کرتے رہ گیا ۔۔ ایک وہی تو شریف تھا باقی سب اسکی سوچ سے بھی زیادہ تیز نکلے ۔۔۔۔۔
بیٹا ایسا کرو تم بھائی کو روم دکھا دو ۔۔۔۔۔ آپ ریسٹ کرو صبح ملاقات ہوگی۔۔۔۔ " اذلان کو چئیر کھسکاتے اٹھتا دیکھ رافع نے انزِک کو مخاطب کیا تھا۔۔۔ " ڈیڈ میں لے چلوں گی اذلان کو اسکے کمرے تک۔۔۔" الایہ کے اچانک سے کہنے پہ سب نے حیرت و بے یقینی سے اسکی جانب دیکھا جو سب کی نظروں کو خود پہ پاتے کندھے اچکا گئی جبکہ اذلان نے ایک بھرپور نظر اس پہ ڈالی۔۔۔۔ " یہ غنڈی اسکے ساتھ چل رہی تھی مطلب ضرور کچھ گڑبڑ تھی۔۔۔ "
اسکے یوں نارملی کہنے پہ اذلان نے دماغ کے گھوڑے دوڑائے تھے۔۔ اتنا وہ جانتا تھا اسے۔۔۔۔۔ " مگر پھر ایک نظر اسکے مغرور حسین چہرے پہ ڈالتے وہ شیطانی مسکراہٹ دباتے ہوئے صوفے کی جانب بڑھا تاکہ اپنا بیگ اٹھا کے الایہ کے ساتھ جا سکے ۔۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
"اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آنے میں دیر تو نہیں ہو گئی۔۔۔ اتنی خاموشی سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔"
ایک ہاتھ میں بیگ تھامے وہ شاہ حویلی میں داخل ہوا تھا جہاں آج حیا کی بارات تھی مگر خاموشی اس قدر تھی کہ وہ چونکتے حیران سا صوفوں پہ خاموش بیٹھے حسن ، یسری اور رمشہ کو دیکھ وہ پریشانی سے استفسار کرنے لگا۔۔۔
رمشہ۔۔۔۔۔" اشعر کو کسی انجانی گڑبڑ کا احساس ہوا تھا وہ رمشہ کے سامنے کھڑے ہوتے اسے اپنی جانب متوجہ کرتے لہجے میں بولا تو مقابل نے اسے اداسی سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
" حیا کی شادی ہو چکی ہے کل رات۔ ۔۔۔۔۔ " اشعر کی جانب دیکھتے رمشہ نے بظاہر دکھ سموئے لہجے میں کہتے سر جھکا لیا جسے دیکھتے اشعر کو کچھ کچھ سمجھ آیا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب حیا کا نکاح آج تھا اور رات کو کیوں ہوا کس سے ہوئی حیا کی شادی۔۔۔۔۔ اسے کل صبح ہی فون آیا تھا جس کیس کو وہ سالو کر رہا تھا اسکے مجرم اسلام آباد میں کوئی کاروائی کرنے والے تھے ۔۔ رئیس ماں باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے اشعر ان لڑکوں پہ سیدھے سے ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا جس کی وجہ سے وہ خود جاتے انہیں موقع پہ ہراست میں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
وہ وقت پہ کل آ بھی جاتا واپس مگر جانے کیسے اسکی گاڑی خراب ہوئی تھی۔۔ جس کہ وجہ سے اسے قریبی ہوٹل میں اسٹے کرنا پڑا تھا۔۔ اور اب صبح گاڑی ٹھیک کرواتے وہ جلدی میں واپس آیا تھا کہ حسن کوئی شکوہ شکایت ناں کرے۔۔۔ مگر گیٹ سے ہی اندر داخل ہوتے پوری حویلی میں چھائی خاموشی پہ وہ چونک ضرور گیا تھا۔۔۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں کس سے اور کیوں ہوا حیا کا نکاح ۔۔۔۔۔! سب کی خاموشی پہ وہ اضطراب سے پوچھ بیٹھا۔۔۔۔
امن۔۔۔۔۔۔ امن سے ہوا ہے حیا کا نکاح ۔۔۔۔۔۔ " سلمی بیگم کی آواز پہ سب نے نظریں گھمائے انہیں دیکھا جو چھڑی کے سہارے کھڑی تھی۔۔۔۔ اشعر کے ماتھے پہ ایک ساتھ ڈھیروں بل نمودار ہوئے۔۔۔
امممن۔۔۔۔۔۔ اسکا دماغ ماؤف ہونے لگا بھلا امن کیسے آ سکتا تھا اور حیا کا نکاح اس سے کیوں ۔۔۔۔۔۔
کیا کہہ رہی ہے آپ آنٹی ۔۔۔۔ امن سے نکاح اگر یہ مذاق ہے تو میں پہلے ہی آگاہ کر دوں یہ مذاق کافی برا ہے۔۔۔
سر جھٹکتے اسنے خود کو تسلی دلائی تھی جیسے ۔۔۔۔۔ جبکہ دل دھک دھک کر رہا تھا آخر امن کہاں سے اور کیسے پہنچا ۔۔۔۔
جو تم سن رہے ہو بالکل سچ ہے ۔ حیا اور امن کا نکاح رات میں ہی ہو چکا ہے۔۔۔۔
ایسے کیسے آپ نے اس جیسے آوارہ کے ساتھ حیا کی شادی کر دی سب جانتے بوجھتے آخر کیوں کیا آپ نے ایسا۔۔۔۔۔! میں مر گیا تھا کیا جو میرے آنے تک آپ سب انتظار نہیں کر سکے۔۔۔ غصے سے لال بھبھوکا چہرہ لیے وہ غراتے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔۔۔
حسن اور یسری تو رات سے چپی سادھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ اپنی اکلوتی اولاد کو یوں رخصت کرنے کے بعد دل جیسے منہ کو آ گیا تھا۔۔۔۔ تکلیف حد سے سوا تھی۔۔۔ اوپر سے اشعر کا غصہ اسکے سوال۔۔۔۔ وہ مزید اذیت کا شکار ہوئے تھے۔۔۔۔۔
وہ آوارہ ہو چاہے جو کچھ مرضی مگر اب وہ حیا کا شوہر ہے اور اس بات کو مزید بڑھانے کی بجائے بہتر ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے۔۔۔۔ سلمی بیگم نے اس سے بھی زیادہ سخت اور تیز لہجہ اپناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے خاموشی سے سفید ماربل کو گھورنے لگا۔۔۔
مجھے بتائیں کہاں چھپا بیٹھا ہے وہ میں خود اس سے بات کروں گا ۔۔۔ مجھے ملنا ہے اس سے۔۔۔۔" اپنے غصے کو کنٹرول کرتے وہ حسن سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔رمشہ خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی جو کسی بپھرے ہوئے شیر کی مانند ہو چکا تھا۔۔۔۔
کیا کرو گے اس سے مل کے۔۔ بھولو مت اب وہ حیا کا شوہر ہے ہمارے ہر عمل ہر بات کا اثر حیا کو بھگتنا پڑے گا۔۔۔ جو کہ میں قطعی نہیں چاہتی کہ ایسا کچھ بھی ہو تو بہتر ہے کہ اس بات کو ختم کر دو اب۔۔۔ پہلے وہ صرف کزن تھا مگر اب اب وہ اسکا شوہر ہے جسکے ساتھ حیا کے نصیب جڑ چکے ہیں۔۔۔ میں کبھی نہیں چاہو گی کہ تم سب میں سے کسی کے بھی کہے یا کیے کا اثر میری بچی کو بھگتنا پڑے تو اس لیے یہ میرا حکم ہے کہ تم میں سے کوئی بھی امن یا پھر حیا سے نہیں ملے گا۔۔۔ وہ جہاں بھی رہیں بس خوش اور سلامت رہیں یہی ہمارے لئے سب سے بڑی بات ہے۔۔۔۔
سلمی بیگم اشعر سے واقف تھی کہ وہ کبھی باز نہیں آئے گا جبھی وہ سب کو مخاطب کرتے حکمیہ انداز میں بولی تھی۔۔ جسکا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا سوائے اشعر کے۔۔۔۔
" ساسو ماں اگر تو آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے آپ مجھ سے امن کو بچا سکتی ہیں تو یہ بھول ہے آپکی بہت جلد میں خود اس سے ملوں گا ۔۔۔۔۔ اور پھر اس سے آمنے سامنے بات ہو گی۔۔۔۔ رمشہ اور سلمی کو باری باری دیکھتے وہ اپنی بات کہتا وہیں سے قدم موڑتے واپسی کو نکلا تھا۔۔ جسے دیکھتے رمشہ بھی فورا سے اٹھتے اسکے پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
ویسے مجھے لگا نہیں تھا کہ اتنی انسلٹ کے بعد تم یوں منہ اٹھائے بھیک منگوں کی طرح ہمارے گھر ٹپکو گے۔۔ خیر بائے دا وے ضروری تو نہیں جیسا انسان سوچے ویسا ہی ہو بھی۔۔۔۔ یہ رہا تمہارا روم گڈ نائٹ۔۔۔۔۔ اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی وہ ایک ادا سے اپنے بالوں میں جھٹکتے واپسی کے لئے مڑی تھی۔۔۔۔
اکسکیوزمی مس ٹڈی۔۔۔۔۔ یہ روم کا دروازہ کھل نہیں رہا آپ کچھ ہیلپ کر دیں ۔۔۔۔۔ وہ ضبط کرتا پیچھے سے زور سے ہانک لگاتے ہوئے بولا تھا کہ الایہ نے سرد سانس خارج کرتے رخ گھمائے اسے دیکھا۔۔۔۔
یُو تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے اس نام سے بلانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ جو اسے آگ لگاتے مزے سے سونے جا رہی تھی اب اچانک سے اپنے لئے لفظ ٹڈِی سنتے وہ بھپرتے مڑی تھی اور فورا سے مکہ بناتے اسے مارنے کو مڑی تھی۔۔۔۔
مگر مقابل نے فورا سے جھکتے اسکی کوشش ناکام بنائی تھی جبکہ اسکے جھکتے ہی الایہ نے بائیں ٹانگ گھماتے اسکے ناک پہ وار کیا تھا کہ اذلان اس اچانک سے ہوتے دوسرے حملے پہ فورا سے منہ کے بل گرا تھا۔۔۔۔
سر جھکٹتے اسنے ناک کو انگوٹھے سے چھوا تھا جہاں سے خون کی ایک لکیر سی نمودار ہوئی تھی وہ ائبرو اچکاتے اپنی بیوی کو داد دینے والے انداز میں دیکھ رہا تھا جو اب اپنے کالر کو جھاڑتے واپسی کے لئے مڑی تھی۔۔۔
مگر وہ فورا سے ہاتھوں پہ دباؤ دیتے چھلانگ لگاتا اٹھا تھا اور الایہ کو سمجھنے کا موقع دیے بغیر ہی وہ اسے بازو سے کھینچتے کمرے میں لے جاتے اندر سے لاک کر گیا تھا۔۔۔۔۔
لیو می یُو اڈیٹ۔۔۔۔۔۔اپنے بازو پہ اسکی جارخانہ گرفت پہ وہ غصے سے غراتے اپنا بازو چھڑواتے غرا اٹھی۔۔۔۔۔
چھوڑنے کیلئے تھوڑے ہی پکڑا ہے۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ سایہ فگن ہوتی کالی لٹوں کو نرمی سے کان کے پیچھے اڑستے وہ بھاری لہجے میں بولا تھا کہ الایہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔۔ وہ لب بھینجتے خود کو آزاد کروانے لگی مگر ہمیشہ کی طرح اسکی گرفت سے نکلنا کہاں آسان تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹر قالو ابھی کے ابھی مجھے چھوڑو ورنہ تاعمر پچھتاؤ گے کہ کس سے پنگا لے لیا ہے۔۔ ۔۔۔ خود سے محض ایک انچ کی دوری پہ اذلان کی آنکھوں میں دیکھتے وہ طیش سے اس انداز میں بولی تھی کہ وہ داد دیے بنا ناں رہ سکا۔۔۔۔۔۔
"میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم ایسا کچھ کر جاؤ کہ تاعمر میں بولنے کی کوشش کے باوجود بھی بھول ناں سکوں۔۔۔۔۔۔اپنی کچھ مہکتی سانسیں مجھے دیتی جاؤ یا پھر ایسا کرو اپنی اس مدہوش کرتی خؤشبو کو خود میں سمیٹ لینے دو مجھے۔۔۔۔۔"
اپنی ناک سے بہتا خون اسکی شہہ رگ پہ صاف کرتے وہ خمار آلود چہرے میں اسے دروازے پن کرتے بولا تھا کہ الایہ کے پورے وجود میں سنسی سے دوڑی اسکے لہجے کا بھاری پن اسکے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پہ محسوس کرتے الایہ نے لب بھینجتے آنکھیں موندے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا ۔۔۔
وہ جو اسکی خوشبو میں گہرے سانس بھر رہا تھا اچانک ہی ٹانگ پہ ہوتے وار پہ وہ سسکتا ٹانگ پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ جبکہ الایہ اسکی گرفت ڈھیلی پڑنے پہ فورا سے اسے دھکہ دیے لاک کھولے کمرے سے بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔
اپنے اسکارف کو ٹھیک کرتے وہ سرخ چہرے پہ ہاتھ پھیرتے اپنے بکھرے بالوں کو ٹھیک کرتے تھوک نگلتے لمبے لمبے سانس فضا میں لیتے نیچے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔
اسکے جاتے ہی وہ بند دروازے کو دیکھتا بمشکل سے ٹانگ گھیسٹتے اٹھا تھا وار اچانک سے ہوا تھا جسکے لئے وہ تیار نہیں تھا جبھی ٹانگ میں درد ہو رہا تھا۔۔۔ بیڈ پہ بیٹھتے اسنے ہاتھ کی مدد سے ٹانگ کو دائیں بائیں گھمایا تھوڑی راحت ملتے ہی وہ فریش ہونے کا سوچتے کبرڈ کی جانب بڑھا جو کہ سامنے ہی ایک جانب سیٹ ہوئی تھی۔۔
اپنے دھیان میں اسنے اچانک سے لاک گھمایا تھا کہ اچانک سے اندر سے نکلتے پنچ نے سیدھا اسکے منہ پہ زور سے ہٹ کیا تھا۔۔۔ اس اچانک غیر متوقع حملے پہ اذلان بری طرح سے چلاتے منہ پہ ہاتھ رکھتے مڑا تھا۔۔۔۔
آگے ہی ناک پہ وہ ٹھوکر مار چکی تھی اوپر سے ہوتے اس تیسرے حملے پہ وہ بلبلاتے منہ کے بل بیڈ پہ گرا تھا اور تکیے میں منہ دیے اسنے گرم سانسیں خارج کرتے تکیے کو گرم کرتے ناک کو سہلایا تھا تھوڑی دیر کی محنت کے بعد وہ فریش ہونے کا ادراہ ترک کرتے اٹھا تھا ۔۔۔
دل ہی دل میں اپنی سلامتی کی دعا کرتے وہ واشروم کا دروازے کھول منہ دھونے کی غرض سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ مگر مرر کے سامنے کھڑے ہوتے ایک فلک شگاف چیخ تھی جو اذلان کی پورے کمرے میں گونجی تھی ۔۔ وہ ڈرتے اس قدر بھیانک چہرے کو دیکھتا واشروم سے بھاگنے لگا تھا دل کی دھڑکنیں سپیڈ سے بھاگتے اسے پاگل کر رہی تھی کہ اچانک ہینڈل پر سے ہاتھ اٹھاتے وہ گہرے سانس لیتے پلٹا تھا ۔۔۔
دھیمے قدموں سے چلتے وہ مرر کے سامنے رکا تو بمشکل سے ایک بار پھر سے نکلتی چیخ کو منہ میں دبایا تھا ۔۔۔۔ اسنے بے یقنی سے اپنے چہرے کو ہاتھ لگایا تو یہ اسی کا چہرہ تھا جو بالکل کالا ہوا پڑا تھا۔۔۔۔۔ لب بھینجتے الایہ کو دل ہی دل میں کوستے نل کھولے منہ دھونے کیلئے اسنے ہاتھ آگے بڑھایا تھا مگر ہاتھوں پہ گرتے آگ کی مانند گرم پانی پہ وہ تڑپتا بری طرح سے چیختے ہاتھ پیچھے کو کھینچ چکا تھا ۔۔۔۔
پھونک مارتے اسنے سرخ ہوئے اپنے ہاتھ کو تسکین دینی چاہی تھی کہ اچانک سے کمر پہ الرجی سے محسوس ہوئی اذلان نے کندھے اچکاتے گھومتے دماغ کے ساتھ نظر انداز کیا تھا مگر اچانک ہی اسے اپنی کمر جلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ اذلان نے دونوں ہاتھوں سے بری طرح سے کمر کو کھجانا شروع کر دیا ۔ مگر جلن کم ک
ہونے کی بجائے بڑھنے لگی تھی جبھی وہ دیوار کے ساتھ بری طرح سے کمر کو رگڑنے لگا کچھ نا سوجھنے پہ اس نے دوڑتے شاور آن کیا تھا اور اسکے نیچے کھڑا ہوا مگر برا ہو قسمت کا جو شاور سے نکلنے والا پانی گرم ہونے کے ساتھ ساتھ کالا بھی تھا۔۔۔۔
اذلان کا پورا وجود اس اچانک سے گرتے پانی سے جھلسنے لگا تھا۔۔۔۔ ابلتے پانی کو چہرے پہ گرتا محسوس کرتے اسنے بمشکل سے ہاتھ مارتے شاور آف کیا تھا۔۔۔۔۔ مردہ قدموں سے بےحال وہ فرش پہ گرتا گردن ایک جانب لڑکھتے بےسودھ وجود سے پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھتے یقین کرنا مشکل تھا یہ وہی اذلان اشعر علوی تھا جس کا دنیا کے سامنے ایک الگ مقام تھا ۔۔۔
یہ تو بس شروعات ہے مسٹر قالو یا یوں سمجھ لو پیرس میں کی تمہاری بدتمیزی کی سزا۔۔۔۔ جب جب میرے نزدیک آنے کی کوشش کرو گے ۔۔۔ تمہیں اتنا ٹارچر کروں گی کہ تم پاؤں سر پہ رکھتے واپسی کو بھاگو گے ۔۔۔۔۔ لیپ ٹاپ اسکرین میں اسے یوں نڈھال سا پڑا دیکھ الایہ ایک عزم سے بولی تھی۔۔۔
💥💥💥💥💥
وہ فریش سی تولیے سے بالوں کو رگڑتے شاور لیتے باہر نکلی تھی۔۔۔ پنک کلر کے نائٹ شارٹ شرٹ کے ساتھ میچنگ پنک ٹراؤزر پہنے وہ گلابی پھولے گال اور متفکر سی اپنے سنہری بالوں کو تولیے سے خشک کرتے کافی الجھی سی واشروم سے باہر نکلی تھی۔۔۔
دماغ میں کچھ دیر پہلے رافع کی کہی باتیں گردش کر رہی تھی۔۔ اسکا دماغ بری طرح سے سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ مرر کے سامنے بے دھیانی سے کھڑی اپنے بالوں کو رگڑ رہی تھی کہ اچانک سے کچھ غیر معمولی احساس ہوتے ہی وہ چونکتے مڑی تھی جہاں سامنے ہی وہ چھلانگ لگاتے کمرے کی کھڑکی سے اندر کودا تھا ۔۔۔
جسے دیکھتی پل بھر میں ہی عیناں کی آنکھوں میں خوف دھر آیا وہ ڈرتے بنا کچھ سوچے دروازے کی جانب بھاگی تھی ۔۔۔ مگر اسکے ارادے کو کمرے میں آتے ویام نے بھانپ لیا تھا۔۔۔
جبھی وہ تیر کی تیزی سے آگے بڑھتے اسکے دروازے کے ہینڈل پہ رکھے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیتے جھٹکے سے اپنی جانب کھینچ چکا تھا اور ٹھاہ سے دروازہ جسے وہ کھول چکی تھی اسے لاک کرتے ویام اسے کھینچتے بیڈ کہ جانب بڑھا تھا ۔۔ عیناں اسکے ارادے بھانپتے ہاتھ چھڑوانے کی سعی کرتے بھاگنے لگی تھی کہ ویام نے جبڑے بھینجتے اسے کھینچتے کبرڈ کے ساتھ پن کرتے ہاتھ اسکے دائیں بائیں دیوار کی مانند حائل کیے کہ وہ سہمی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
جو آگے ہی بغور اسکے بھیگے سراپے کو نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا۔۔۔۔
ووو ویام۔۔۔۔۔۔ " اسکی نظروں کی وارفتگی اپنے وجود پہ پاتے عیناں نے سہمی نظروں سے اسے غصے سے ٹوکا تھا۔۔۔۔ کہ مقابل نے ائبرو اٹھائے اسے دیکھا ۔۔۔
کہاں جانے کا ارادہ تھا۔۔۔۔ " اسکے بھیگے بالوں کی سنہری لٹ کو انگلی کے گرد لپٹائے وہ مخمور لہجے میں اسکے کان کے قریب جھکتے پوچھنے لگا کہ اپنے کان کی لو سے مس ہوتے مقابل کے ہونٹوں کے لمس پہ وہ جی جان سے لرزی تھی۔۔۔۔
مم مجھے کک کھانا کھانا ہے ڈڈ ڈیڈ نن نے بلایا ہے۔۔۔۔۔۔" عیناں جانتی تھی وہ یہاں ضرور اسے رخصتی کی بابت انکار کی وجہ جاننے آیا تھا جبھی وہ جلد از جلد یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔۔۔۔
کھانا تو میں نے بھی نہیں کھایا اسی لیے تمہارے پاس آیا ہوں۔۔۔۔۔۔ ہلکا سا اپنے ہاتھ کے گرد لپٹے اسکے بالوں کو کھینچتے وہ ناک اسکی ناک سے سہلاتا بھاری گھمبیر لہجے میں بولا تھا کہ عیناں نے تھوک نگلتے اسکی معنی خیز بات پہ خود کو پرسکون رکھنا چاہا۔۔۔۔
دددد دیکھو وو ویام۔۔۔۔۔"
جان ویام دیکھنے ہی تو آیا ہوں کہو تو سراہ بھی سکتا ہوں اپنے انداز میں ۔۔۔۔۔۔ اسکی بات کاٹتے وہ انگوٹھے سے اسے نچلے ہونٹ کو رگڑتے معنی خیز لہجے میں کہتا اسے مارنے کے دم پہ تھا۔۔ جبکہ عیناں تو آج اسکی حد سے زیادہ بے باکی پہ بری طرح سے کپکپا رہی تھی۔۔۔ وہ ایسا تو نہیں تھا۔۔ ایسا لہجہ ایسی نظریں ایسی ذو معنی گفتگو کہاں کی تھی اس نے آج تک۔۔۔۔۔ عیناں کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں بھیگتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔
ویام پیچھے ہٹیں مم مجھے نن نیچے جانا ہے ۔۔۔۔۔" اپنے لہجے کی کپکپاہٹ پہ قابو پاتے وہ ہاتھ اسکے کشادہ سینے پہ رکھتے اسے خود سے دور کرنے لگی تھی ۔۔۔
"پوچھ سکتا ہوں کس سے پوچھ کے رخصتی سے انکار کیا ہے تم نے۔۔۔۔۔" اسکا یوں خود سے فاصلہ بنانا اسے مزید طیش دلا گیا تھا۔۔۔تبھی جھٹکے سے اسکے دونوں بازوؤں مروڑتے اسنے کمر سے پن کیے تھے اور لہجے میں غراہٹ سموئے وہ سرد تاثرات سے اسے کھینچتے اپنے قریب تر کرتے بولا تھا۔۔۔
عیناں نے سہمتے اسکی بھوری سرخ بے تاثر آنکھوں میں دیکھا تھا ایک دم سے اسکے وجود پہ کپکپی سی طاری ہوئی تھی ۔۔۔۔ ویام کو یوں غصے میں دیکھتے وہ خود کو تسلی دیتے اپنے اندر حوصلہ پیدا کر رہی تھی۔۔۔
"دد دیکھو تت تم جانتے ہی ہو کہ میں ڈاکٹر بننا چچ چاہتی ہوں اور اپنے اس ڈریم کو پورا کرنے کیلئے کتنی محنت کی ہے میں نے۔۔۔۔ صرف ایک سال کی بات ہے اسکے بعد تت تم جب کہو گے میں رخصتی کے لئے تیار ہوں۔۔۔۔ "
اسکی لہو چھلکاتی نظروں کو خود پہ پاتے عیناں نے نرمی سے صلح جو انداز اپناتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
"اور تمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں ایک سال مزید تم سے دور رہ لوں گا۔۔۔۔" اسکی بات کاٹتے وہ ائبرو اچکاتے سوالیہ ہوا تھا۔۔۔ جبکہ عیناں نے کسمساتے اسکے حصار کو توڑنا چاہا تھا مگر وہ گرفت مضبوط کرتے اسے وارڈروب سے لگا چکا تھا۔۔۔
دد دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔"
"اشششش۔۔۔۔ سنو تم میرے جانے کے بعد اپنے ڈیڈ سے بات کرو گی اور ان سے کہو گی کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اس رخصتی پہ۔۔۔۔۔ " وہ اسے حکم دیتے لہجے میں بتا رہا تھا۔۔ جبکہ عیناں نے دھندلائی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
تم مجھے حکم دے رہے ہو۔۔۔ " وہ چیختے بولی تھی مقابل نے کندھے اچکائے اسکی حرکت اسے ناگوار گزری تھی مگر وہ خاموشی سے اسے اگنور کیے کھڑا تھا۔۔۔۔۔
"عیناں بیٹا کھانا نہیں کھانا آپ نے ۔۔۔۔۔۔ عیناں۔۔۔ " اچانک سے دروازے پہ ہوتی دستک اور فدک کی آواز پہ عیناں نے سہمی نظروں سے ویام کو دیکھا تھا۔۔۔
موم وو ویام جاؤ یہاں سے پلیز ۔۔۔۔۔۔" فدک کے دوبارہ سے ناک کرنے پہ وہ گھبراتے ویام کے سینے پہ اپنے ہاتھوں کا دباؤ بڑھاتے اسے جانے کا کہنے لگی ۔۔۔۔۔
میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں فلحال بولو اپنی موم کو کہ تم بعد میں کھانا کھاؤ گی۔۔۔"
اسکی گردن سے بال سمیٹے وہ لب رکھتے سرگوشی نما آواز میں بولا تھا۔۔۔۔ عیناں نے لب دانتوں تلے دباتے آنکھیں میچیں تھیں۔۔۔۔۔
بولو ورنہ میں بولوں گا۔۔" گردن سے ہوتے اسکے کان میں سرگوشی کرتا وہ کان کی لو دانتوں تلے دبا گیا کہ عیناں نے کپکپاتے ہاتھوں سے اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑا تھا۔۔۔۔۔ اسکی حالت بھانپتے ویام نے ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے خود میں بھینجا تھا۔۔۔۔۔۔
ممم موم مم میں بعد میں کھا لوں گی آپ پلیز جائیں ابھی میں بزی ہوں۔۔۔۔۔۔" اپنے بالوں میں الجھتے اسکے بھاری مرادنہ ہاتھ کی انگلیوں کے لمس پہ عیناں نے لرزتی ہوئی آواز میں فدک سے کہا تھا ۔۔۔
ویام نے سر ہلاتے اسے داد دی تھی۔۔۔ جسے دیکھتی وہ سرخ چہرے سے رخ موڑ گئی مگر ویام نے جھٹکے سے اسکے بالوں کو کھینچتے رخ اپنی جانب کیا تھا اور بنا توقف کے اسکی سانسوں کو اپنی قید میں لیتے وہ اسے پھڑپھڑانے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔۔
"عیناں تم باتھ لے کے آئی ہو ایک بار باہر نکلو تمہیں پوچھتی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔ مجال ہے جو ذرا اثر ہو تمہیں ہزار دفع کہا ہے کہ اتنی رات کو مت نہایا کرو مگر یہاں اثر کسے ہے۔۔۔۔ "پیر پٹھکتے وہ غصے سے خود سے بڑبڑاتے واپس گئی تھی ۔۔۔۔
جبکہ عیناں نے غصے سے آنکھیں میچے ہی اپنے دونوں ہاتھ ویام کے بالوں میں الجھاتے زور سے کھینچا تھا۔۔۔ مگر وہ بنا اثر لیے یونہی اس پہ جھکا اپنی محبت کی برسات کرتا رہا ۔۔۔۔
" آج سے تین سال پہلے تمہارے ڈیڈ سے میں نے پرامس کیا تھا کہ جب تک میری ٹریننگ کمپلیٹ نہیں ہوتی میں تمہیں دیکھوں گا بھی نہیں ۔۔۔۔۔ ! مگر اسکے بعد وہ خود میرے آنے کے دو دن بعد تمہیں میرے ساتھ رخصت کریں گے۔۔۔ یہ شرط انہوں نے بخوشی قبولی تھی۔۔۔ آج جب وقت آیا تو وہ مکر کیسے سکتے ہیں۔۔۔۔۔
جانتی ہو کتنی سانسیں ادھار ہیں تم پہ میں ان سانسوں کو تم میں بھرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ یہ جو ساڑھے تین سال کا ہجر جھیلا ہے اس کے بعد اس وصال کے ایک ایک لمحے کو ، تمہاری خوشبو کو خود میں اتارتے میں اس حد تک تمہیں خود میں الجھانا چاہتا ہوں کہ تم اس دنیا کو میری قربت میں بھول جاؤ ۔۔۔۔ تم بھول جاؤ کے تم نے آخری سانس کب میرے بنا بھری تھی۔۔۔۔
اسکے نازک وجود کو وہ بیڈ پہ لٹائے اسپہ سایہ کرتے اسکے چہرے کے ایک ایک نقوش کو اپنے دہکتے ہونٹوں سے چھوتے بے خودی کے عالم میں اسکے کان میں جھکتے وہ جان لیوا سرگوشیاں کر رہا تھا جبکہ اس کی جنونیت ،اسکی شدت پہ عیناں نے بے تخاشہ خوف سے تیز دھڑکتے دل سے اس ساحر کو دیکھا جو اپنی بے پناہ وجاہت ، حسن کے ساتھ جان لیوا سرگوشیاں کرتے اسکی جان پہ بن آیا تھا۔۔۔۔
اپنے چہرے پہ عیناں کی نظروں کو پاتے ویام نے گہری مسکراہٹ سے مسکراتے اسکے نازک ہاتھوں کو اپنے بھاری ہاتھوں میں الجھایا تھا۔۔۔ آنکھوں میں اسکی قربت سے خمار کی سرخی سی دھر آئی تھی۔۔۔وہ بہک رہا تھا اس نازک وجود کی جان لیوا حواسوں پہ طاری ہوتی مسحور کن مہک مقابل کے حواسوں کو سلب کر دیتی تھی۔۔۔ جبھی وہ مدہوش سا ہوتے جھکا تھا۔۔۔
اسکی سانسوں کی مہکتی خؤشبو کو خود میں اتارتے وہ اسے بےبس کر گیا تھا۔۔۔۔ جس کی ٹانگیں اس بھاری وجود کے بوجھ سے شل ہو رہی تھی۔۔۔ مگر وہ ہمیشہ کی طرح کہاں اسے کچھ بولنے دیتا تھا کہاں اسکی سنتا تھا ۔۔۔ اپنی من مانیاں کرتے وہ اسے اس دنیا سے دور لے جانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر عیناں جانتی تھی یہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔۔۔۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی مگر وہ سنتا ہی کب تھا۔۔۔
تمہاری یہ تیز تیز چلتی سانسوں کی آواز مجھے مزید بہکاتی ہے۔۔۔۔۔۔ میرا بس چلے تو تمہیں اس دنیا سے اتنا دور لے جاؤں جہاں میرے علاؤہ کوئی تمہاری اس چھوٹی سے انگلی کے ناخن تک کو ناں دیکھ پائے۔۔۔۔۔ کیا تم انجان ہو اس جنون کی آگ سے ،میرے عشق کی الفت سے۔۔۔۔۔ وہ اسے الجھا رہا تھا اپنی باتوں کے سحر میں اسے خود میں جکڑ رہا تھا ۔۔۔ عیناں نے مدہم سی سنہری روشنی میں خود پہ جھکے اس حسین ترین چہرے کو دیکھا تھا جس کی آنکھوں سے زیادہ اسکے لمس میں شدت پن تھا۔۔۔
وہ بہک رہی تھی ، اسکی جان لیوا قربت اسکی بھاری معنی خیز سرگوشیاں وہ لاکھ چاہنے کے باوجود ان لمحاتی فسوں خیز لمحوں میں جکڑی جارہی تھی۔۔۔ جسے محسوس کرتا مقابل دلکشی سے مسکراتے اسکی شہہ رگ پہ جھکا تھا۔ ۔۔۔۔۔ عیناں نے کچھ کہنے کو لب وا کیے تھے مگر مقابل کی جان لیوا جسارتیں اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کر رہی تھی ۔۔
اب بتاؤ اپنے ڈیڈ سے بولو گی کہ میں رخصتی کے لئے تیار ہوں۔۔۔۔۔۔ اسکے دل کے مقابل ہی ہونٹ رکھتے وہ کان کے قریب سرگوشی کرتے فتح مندی اسے لمبے سانس بھرتے دیکھ رہا تھا۔۔۔جسکے چہرے پہ اسی کی قربت کے سارے رنگ ویام کاظمی کو بہکانے کا سبب بن رہے تھے۔۔۔وہ شدت سے اسکے سرخ پڑتے گالوں کو چھوتے چہرہ اسکے بھیگے بالوں میں چھپائے انکی مسحور کرتی مہک خود میں انڈیلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
" وو ویام مجھے پہلے ڈاکٹر بننا ہے اسکے بعد میں شادی کروں گی یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔۔۔" خود کو مضبوط بنائے وہ تھوک نگلتے بمشکل سے بولی تھی۔۔۔ اپنے فیوچر سے رِزک نہیں لے سکتی تھی وہ ۔۔۔۔وہ اچھے سے جانتی تھی اگر ایک بار وہ ویام کے ساتھ رخصت ہو کر گئی تو پھر ویام کو روک پانا خود کو پڑھائی کی جانب فوکس کروانا سب سے مشکل کام تھا۔۔۔ جبھی وہ اپنی پڑھائی کو ترجیح دے رہی تھی۔۔ مگر اسکا یہ جواب مقابل کو بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔
جبھی اسنے سر اٹھائے اسکی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گھاڑتے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
جسکی آنکھوں میں کوئی خوف ، کوئی ڈر نہیں تھا۔۔۔
" تمہیں لگتا ہے کہ تم ایسا کر کے خود کو مجھ سے دور رکھ پاؤ گی۔۔۔۔ وہ ایبرو اچکاتے اس سے سوال کر رہا تھا۔۔۔ عیناں نے گہرا سانس لیتے اسے دیکھا جو پل میں ہی سنجیدہ ہوا تھا۔۔۔
"میں تمہیں خود سے دور کبھی بھی نہیں کر سکتی ویام کیونکہ تم میرا آج میرا کل سب کچھ ہو۔۔۔۔ میں بس اپنی پڑھائی کو وقت دینا چاہتی ہوں وہ خواب جسے دیکھنے میں تم نے مجھے راہ دکھائی تھی۔۔۔وہ خواب جو کبھی تمہاری آنکھوں سے جھلکتا تھا میں اسے پورا کروں گی ویام۔۔۔۔۔
بےحد نرمی سے اپنا نازک ہاتھ اسکے گال میں ابھرتے ڈمپل پہ رکھتے وہ دھڑکتے دل سے بے خوفی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ ویام کا چہرہ پل بھر میں سرخ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ اسنے بے یقنی اور حیرت سے عیناں کو دیکھا جس کی آنکھوں میں اسی کا عکس تھا۔۔۔۔۔
" میں جانتی ہوں ویام تم ڈاکٹر بننا چاہتے تھے مگر صرف میری وجہ سے تم اپنا خواب پورا نہیں کر پائے ۔۔۔۔۔ مگر ایک خواب میں نے بھی دیکھا ہے تمہارے اس خواب کو پورا کرنے کا خواب جوکہ میری آنکھوں نے بھی بہت پہلے دیکھ لیا تھا ۔۔ جب تمہاری آنکھوں سے آنسوں گرا تھا اپنی عین کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ میں ناچاہتے ہوئے بھی تمہاری تکلیف کی وجہ بنی تھی۔۔۔
اگر میں تمہارے ایگزامز کے دنوں میں بیمار ناں ہوتی تو تم آج ایک آفیسر نہیں ایک ڈاکٹر بن کر میرے سامنے ہوتے۔۔۔۔ میرا بس چلے تو میں اپنی سانسوں کو تم پہ وار دوں اور وجہ تم جانتے ہو ۔۔۔۔۔ میں بچی نہیں تھی ویام ۔۔۔۔۔ سب سمجھتی تھی ایک لڑکی کو اللہ نے اتنی حس دی ہے کہ وہ خود پہ کسی کی بری اور اچھی نظروں کو پہچان سکتی ہے۔۔۔
عین اسٹاپ اٹ۔۔۔۔۔۔۔" وہ غصے سے بھپرتے دھاڑ اٹھا تھا۔۔۔گزرے وقت کی پرچھائی بھی وہ اپنی عین پہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کجا کہ وہ خود سے انہی سب باتوں کو دہرائے۔۔۔۔۔
"نو ویام جانتے ہو تمہارے لیے یہ دل کب پہلی بار دھڑکا تھا۔۔۔۔۔۔۔کب میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ وہ تمہیں میرے نصیب میں لکھ دیں۔۔۔۔ جب تم نے اپنی جان پر کھیلتے ایک معصوم بچی کو ان بھیڑیوں کے منہ سے نکالا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس گزرے وقت کی اذیت کو یاد کرتے عیناں کی آنکھوں سے آنسوں بہتے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔۔
جبکہ ویام کے دماغ کی نسیں پھول چکی تھی وہ جھٹکے سے اٹھا تھا کمرے میں دائیں بائیں چکر کاٹتے وہ خود پہ قابو پانے کی سعی کرنے لگا۔۔۔۔۔ وہ جب بھی اس گزرے وقت کو بھولتا تھا کوئی ناں کوئی اسے دوبارہ سے اس کربناک وقت کی یاد دلا دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ پھولتے تنفس سے اپنے سر کو ہاتھوں میں گراتے بے بس سا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک اپنے سینے پہ کسی کے ہاتھوں کا لمس پاتے ویام نے شدت ضبط سے سرخ ہوئی اپنی بھوری آنکھوں کو کھولا تھا جہاں وہ سر اسکی کمر سے ٹکائے ہاتھ آگے سینے پہ باندھے ویام کو حصار میں لئے کھڑی تھی۔۔۔۔ ویام نے لب بھینچتے اسکے نازک ہاتھوں کو تھاما تھا اور کھینچتے اسے اپنے سامنے کیا تھا۔۔۔
جس کی ناک رونے سے سرخ ہوئی پڑی تھی۔۔۔ ویام نے جھکتے اسکی ناک کو ہونٹوں سے چھوا تو وہ کھلکھلا اٹھی۔۔۔ جسے دیکھتا وہ کھینچتے اسے سینے سے لگائے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔
تم سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں رہا عین اور ناں ہی کبھی ہوگا یہ بات یاد رکھنا ۔۔۔۔۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا مگر وہ صرف ایک وقتی فیصلہ تھا ۔۔۔ مگر آج میں ایک اسپیشل فورس آفیسر ہوں یقین جانو یہ اعزاز دس بار ڈاکٹر بننے سے زیادہ عزیز ہے مجھے۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں میری عین ڈاکٹر بنے ۔۔۔ اسکی خواہش ہے تو میں اس خواہش کو پورا بھی کروں مگر یہ سمجھ لو کہ میں خود غرض ہوں۔۔۔ یا پھر چاہے جو مرضی۔۔۔۔ مگر اب تم سے ایک پل کی دوری میرے لئے سوہانِ روح ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں تم اب بھی انکار کرو گی اسی لئے مجھے یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔سوری مائے لو۔۔۔۔۔۔ خود میں بھینچے وہ اسکے کان میں ہلکی سے سرگوشیاں کرتے بولا رہا تھا ۔۔۔ جسے وہ ناسمجھی سے سنتے اسی کے حصار میں کھڑی تھی۔۔۔اچانک اپنی گردن پہ کچھ جھبتا محسوس کرتے عیناں نے مدہم سی سسکی بھری تھی مگر ایک جھٹکے سے اسکا نازک وجود لڑکھتے ویام کے کشادہ سینے سے ٹکرایا تھا۔۔۔
جسے دیکھتے وہ نرمی سے بازوؤں میں بھرتے بیڈ تک لایا تھا۔۔۔۔ نرمی سے اسکی بند گھنی خمدار پلکوں کو ہونٹوں سے چھوتے وہ اٹھا تھا وارڈروب سے اسکا ڈریس نکالتے ساتھ ہی حجاب بھی لایا ۔ کمرے میں جلتی ہلکی سی سنہری روشنی کو آف کرتے اسنے نرمی سے اسے چینج کرواتے لائٹس آن کی تھیں ۔۔۔۔ حجاب اچھے سے اسے پہناتے وہ اٹھا تھا ۔۔۔ ہلکے سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے اسنے کسی کانچ کی گڑیا کہ مانند اسے بالکل دھیان اور نرمی سے بانہوں میں سمیٹا تھا اور دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
احتیاط سے سیڑھیاں اترتے اسنے بھرپور نظر پورے گھر پہ دوڑائی مگر کوئی بھی نہیں ملا تو وہ سکون کا سانس لیتے باہر نکلا تھا۔۔۔۔
ویام بھائی یہ سب۔۔۔۔ آپ اس وقت یہاں اور عیناں ۔۔ کیا ہوا ہے اسے کہاں لے جا رہے ہیں اسے۔۔۔۔۔۔!"
وہ جو میٹنگ کے لئے ضروری کال سننے باہر نکلا تھا اب یوں اچانک سے واپس اندر داخل ہوتے وہ ویام اور اسکی بانہوں میں موجود اپنی بہن کو دیکھتا فکر مندی سے گویا ہوا تھا۔۔۔
" ریلکس ٹھیک ہے عین میرے ہوتے اسے کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔ انکل اور آنٹی نہیں ملے مجھے ۔۔۔ اس وقت جلدی میں ہوں تو ان کو میرا میسج دے دینا کہ عیناں کو میں اپنے ساتھ ہمیشہ کےلئے لے جا رہا ہوں ۔۔۔۔ان شارٹ سمجھ لو عین کی رخصتی ہو چکی ہے۔۔۔ اب سے وہ میرے ساتھ رہے گی۔۔۔۔۔
ویام بھائی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔۔ ایسے کیسے عینان کی رخصتی اور آپ کیوں لے کر جا رہے ہیں اسے۔۔۔۔" دیکھئے ہم آرام سے بیٹھ کر اس معاملے پہ بات کریں گے مگر پلیز آپ عیناں کو مجھے دیں اس وقت میں اسے اندر روم میں لے جاتا ہوں۔۔۔۔۔
انزِک نے ساری باتوں کو پس پشت ڈالتے ویام کو سمجھانا چاہا تھا مگر وہ خود بھی الجھا ہوا تھا آخر یہ سب کیا تھا اور کیوں کر رہا تھا ویام ایسا۔۔۔۔۔۔۔
ڈونٹ ٹرائے ٹو ٹچ ہر شی از مائن اور میں اسے لے کر جا رہا ہوں۔۔۔۔ سٹے اوے فرام ہر۔۔۔۔۔۔۔۔ انزِک کی پھیلی بانہیں دیکھ وہ غصے سے غراتے لہجے میں بولا تھا اور بنا رکے اسے خود سے لگاتے وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا باہر کو نکلا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ پیچھے اسکی باتوں کو سوچتے وہ سن ہوتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے نیچے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ارے تم زندہ ہو ۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ بہت اچھی قسمت ہے تمہاری ، چلو میرے لئے اچھا ہے کہ تمہاری سانسیں ابھی تک چل رہی ہیں۔۔۔۔" عیناں کو دیکھتے وہ خباثت سے قہقہ لگاتے بولا تھا۔۔۔
عیناں اسے دیکھ ڈرتے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ ماتھے پر ایک جانب چوٹ لگنے سے خون بہہ رہا تھا ہونٹ سے بری طرح سے زخمی ہونے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا اور بال ہیری کے بے دردی سے کھینچنے پہ بکھر سے گئے تھے۔۔۔ اسے دیکھ کسی پھڑپھڑاتے پرندے کا سا گماں ہوتا تھا جو اپنی موت کے بے حد قریب تھا۔۔۔۔
ہیری نے آگے بڑھتے اسے ٹانگ سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا تھا وہ معصوم اس جانور کے یوں کھینچنے پہ کھینچتی بیڈ کے درمیان میں بری طرح سے اڑھی ترچھی سی پڑی تھی۔۔۔۔ ہیری نے مسکراتے اپنی شرٹ کے بٹن کھولے تھے مگر عیناں کو بیڈ سے اترتا دیکھ وہ غصے سے آگے بڑھا تھا اور کھینچتے اسے بالوں سے پکڑتے اسکا چہرہ اپنی جانب گھمایا تھا۔۔۔ اسے مارنے کے لئے اسکا اٹھا ہاتھ فضا میں ہی رہ گیا تھا جب اچانک سے پیچھے سے سر پہ ہوتے وار پہ ایک چیخ سی اسکے منہ سے نکلی تھی وہ مڑتے سرخ بند ہوتی نظروں سے پیچھے دیکھنے لگا تھا جہاں ویام ہاتھ میں واز پکڑے کھڑا تھا۔۔۔۔
ہیری نے ہاتھ اٹھایا مگر اس سے پہلے ہی اسکی آنکھیں بند ہوئی تھی وہ بے جان سا لڑکھتے زمین پر گرا۔۔۔۔ اسکے بے ہوش ہوتے ہی ویام نے واز کو دور پھینکا تھا اور دوڑتے عیناں کے جانب ہوا جو اوندھے منہ نیچے فرش پہ پڑی تھی۔۔۔
عین ۔۔۔۔ عین تم ٹھیک ہو ۔۔۔ کیا ہوا عین۔۔۔ دیکھو میں۔۔۔ میں ویام ۔۔۔۔میں آیا ہوں۔۔۔۔۔ پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔" اسکے نازک وجود کو اپنے ہاتھوں میں بھرتے وہ سر اپنے گھٹنے پہ رکھتے تڑپتے اسے پکار رہا تھا ۔۔ جو بے سودہ سی پڑی تھی۔۔۔ویام کی آنکھوں سے گرتے آنسوں اسکے گالوں کو بگھو رہے تھے۔۔۔
تت تام۔۔۔۔۔۔۔" بہت اچانک ہی اس نے ہلکے سی اپنی گرے سرخ ہوئی آنکھوں کو کھولتے ویام کو پکارا تھا اسکے ساتھ ہی اسکے منہ سے خون کی پھوار نکلی تھی۔۔جبکہ ہاتھ ایک جانب لڑکھ گیا ۔۔۔ ویام اسکے بے جان ہوتے وجود کو دیکھتے ایک دم سے جیسے پاگل سا ہو گیا تھا۔۔۔ وہ روتے اسے بانہوں میں بھرتا اٹھا تھا۔۔۔۔
اسکا دماغ اس وقت کچھ بھی سوچنے سے ماؤف ہو گیا تھا۔۔۔۔ جس طرح احتیاط کرتے وہ اوپر آیا تھا۔۔۔ اب وہ بنا سوچے سمجھے نیچے اتر رہا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔ اسے عین کو بچانا تھا۔۔۔اسکا دماغ اپنے باززوں میں بھرے اس ننھے وجود میں اٹکا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ بار بار اسکے مرجھائے چہرے کو دیکھتا سیڑھیاں اتر رہا تھا۔۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔۔ اور کہاں لے جا رہے ہو اسے۔۔۔۔۔۔" فوزن جو بے چینی سے نیچے ٹہل رہا تھا۔۔ ہیری کی جگہ ویام اور اسکی گود میں بے جان سی پڑی عیناں کے وجود کو دیکھتے وہ چلتا اسکی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ویام نے غیر محسوس انداز میں قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔۔۔ خبردار جو اسے ہاتھ لگایا ۔۔۔۔ " ویام غصے سے غرایا ۔۔۔۔۔ جبکہ فوزن تو یہ سوچ رہا تھا کہ اگر عیناں یہاں سے گئی تو اسکا باپ اسے جان سے مار دے گا اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ بھلا کیسے کوئی باپ اسے زندہ چھوڑ دیتا۔۔۔۔۔۔۔
کائف، جورڈ ۔۔۔۔۔ فوزن نے ایک دم سے چلاتے ہوئے ان دونوں کو آواز لگائی تھی۔۔۔ جو بھاگتے اندر داخل ہوئے۔۔۔۔ کائف ہیری کو دیکھو اوپر جا کر ۔۔۔۔ جورڈ پکڑو اس لڑکے کو۔۔۔۔۔۔۔۔"
فوزن نے آگے بڑھتے کہا تھا۔۔۔۔ اسکا حکم سنتے ہی وہ دونوں سر ہلاتے آگے بڑھے تھے۔۔۔ ویام نے لب بھینجتے عیناں کو خود سے لگایا تھا۔۔۔۔ اور اپنی جانب بڑھتے جورڈ کو ایک ٹھوکر رسید کی ۔۔۔۔۔ جورڈ تھوڑا سا جگہ سے ہلا تھا۔۔ ویام نے بے بسی سے آگے پیچھے دیکھا۔۔۔۔ اور دوڑتے ایک جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ عیناں کو ایک جانب فرش پہ لٹائے وہ اسکے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔
"خبردار جو میری عین کو ہاتھ بھی لگایا دور رہو اس سے
۔۔۔ "اپنی جانب بڑھتے فوزن کو دیکھتے وہ غصے سے بولا تھا۔۔۔
فوزن نے آگے بڑھتے اسکے وار کو جھیلا۔۔۔۔ اور پھر ویام کے دائیں ہاتھ کو مروڑتے وہ کمر سے لگا گیا۔۔۔۔ ویام نے جبڑے بھینجتے درد برداشت کرتے خود کو چھڑوانا چاہا تھا مگر اسے دھکہ دیتے فوزن اور جورڈ دونوں ٹانگوں سے اسے مارنے لگے تھے۔۔۔اسکا قد کاٹھ کافی اونچا تھا مگر اسکا وجود کافی کمزور سا تھا اپنے سے بڑے عمر کے لڑکوں سے مقابلہ کر پانا اسکے لئے مشکل تھا۔۔۔۔
کافی دیر اسے مارنے کے بعد وہ لمبے لمبے سانس لیتا عیناں کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
جورڈ باہر جا کے دیکھ اگر اس لڑکے کے ساتھ کوئی اور بھی ہوا تو اسے بھی پکڑ کے لے آ۔۔۔۔۔۔ " اسے ہدایت دینے کے بعد وہ ایک نظر ویام کو دیکھتے عیناں کی جانب بڑھا ۔۔۔ پینٹ اوپر کھسکاتے وہ چلتا عیناں کے قریب بیٹھا تھا۔۔ ماتھے پہ بل ڈالے وہ عیناں کے چہرے پہ بکھرے بال پیچھے کرتے اسکا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔۔
ویام نے آنکھ کے پاس سے بہتے خون کو بازو سے رگڑا تھا۔۔۔ بمشکل سے وہ گھیسٹتے ہوئے آگے بڑھا ، صوفے پہ ہاتھ رکھتے وہ سہارے سے کھڑا ہوا اور غصے سے جبڑے بھینجتے وہ آگے بڑھتے فوزن کی کمر پہ زور سے لات رسید کی۔۔۔۔۔۔
فوزن اچانک اس حملے پہ لڑکھتے زمین پر گرا تھا۔۔۔ ویام نے بنا اسے موقع دیے پانچ سات لاتیں رسید کیں اور آگے بڑھتے اسکے اٹھنے سے پہلے وہ عیناں کو اٹھائے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔ اسکی مدہم سی چلتی سانسوں کو محسوس کرتے ویام نے نم آنکھوں سے اسکی پیشانی کو پہلی بار چوما تھا۔۔۔۔ اپنے سینے سے لگائے وہ لنگڑاتے ٹانگ پہ چوٹ لگنے سے اسے گھیسٹتے باہر کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔ فوزن نے غصے سے اسے باہر جاتا دیکھ اٹھتے اپنے جیب سے ریوالر نکالا ۔۔۔۔۔۔۔
اور باہر کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیے چھوڑو لڑکی کو۔۔۔۔۔ اسے بار آتا دیکھ جورڈ نے غصے سے اسکا راستہ روکا۔۔۔۔ ویام نے وخشت بھری بھوری نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔ جورڈ کو وہ کوئی پاگل لگا۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ چھائی سرد مہری ناچاہتے ہوئے بھی جورڈ کے قدم لڑکھڑائے تھے وہ پیچھے کو ہونے لگا ۔۔۔۔ کہ اچانک سے فوزن نے چلاتے ویام کو پکارا۔۔۔
ویام نے عیناں کے گرد گرفت مضبوط کرتے گردن گھمائی تو پیچھے ہی وہ اس پہ گن تانے کھڑا تھا۔۔۔۔۔
فوزن نے جیسے ہی فائر کرنے کے لئے ٹریگر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔ اچانک سے اسکے ہاتھ پہ کسی نے فائر کیا ۔۔۔ بری طرح سے چیختے وہ بلبلا اٹھا گن اسکے ہاتھ سے چھوٹتے دور جا گری۔۔۔۔۔ویام نے سرد نظروں سے گھومتے پیچھے کی جانب دیکھا۔۔۔۔ جہاں وریام کھڑا تھا۔۔۔۔
اسکے ساتھ ہی رافع بھی گن تھامے کھڑا تھا۔۔۔۔ ان دونوں کو دیکھتے ویام کو کچھ حوصلہ ملا تھا۔۔۔۔۔۔
رافع نے غصے سے آگے بڑھتے ایک ساتھ تین چار فائر بت بنے سہمے سے کھڑے جورڈ پہ کیے جو موقع پہ ہی دم توڑ گیا تھا۔۔۔۔۔
رافع نے آگے بڑھتے ویام کی بانہوں میں موجود اپنی چھوٹی سی جان کو دیکھا۔۔۔ آنکھیں بے تخاشہ ہی بہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ ویام نے بنا کچھ کہے عیناں کے بے ہوش وجود کو رافع کی گود میں دیا تھا۔۔۔۔ جسے سینے سے لگائے وہ بری طرح سے رونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکی حالت دیکھ رافع اندر سے ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔۔
تم ٹھیک ہو ویام۔۔۔۔۔۔۔وریام نے تڑپتے اسکے ماتھے کو چھوتے پوچھا ۔۔۔۔ ویام نے ہلکے سے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔۔۔۔۔۔
رافع بچوں کو لے کر ہوسپٹل جاؤ ۔۔۔۔۔ جلدی۔۔۔ وریام نے سرد لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔ رافع سر ہلاتے ویام اور عیناں کو لیے آگے بڑھا۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔۔۔" ویام کی آواز پہ اندر جاتے وریام کے قدم تھمے تھے۔۔۔۔اپنے بیٹے کی آواز میں کرب اسے واضح محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
ان میں ایک بھی زندہ نہیں بچنا چاہیے۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کو صاف کرتے وہ برفیلے لہجے میں سفاکیت سے دانت پیستے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔ وریام نے اسے ساتھ لگاتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا۔۔۔
اپنے ڈیڈ پہ یقین رکھو ۔۔۔۔۔ ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔تم جاؤ جلدی سے ۔۔۔۔۔۔ وریام نے اسے رافع کے ساتھ گاڑی میں لے جاتے بٹھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خود وہ اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
ویام۔۔۔۔۔۔۔ رافع نے نم آواز میں اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔ جو اسے اپنے آپ میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ ویام نے آنسوں بھری وخشت ناک بھوری آنکھوں سے سر اٹھائے رافع کو دیکھا۔۔۔۔۔ جو لب بھینجتے کھڑا تھا۔۔۔ اب اسکے یوں دیکھنے اور سر جھکانے پہ وہ اسکے قریب بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
فدک اور نیناں کو کال کر کے وہ بتاچکا تھا کہ بچے کہیں باہر پارک سے ٹھیک ٹھاک مل گئے ہیں۔۔۔ جسے سنتی وہ دونوں اب ان دونوں سے ملنے کی ضد کر رہی تھی۔۔۔۔جیسے تیسے رافع نے انہیں ٹال دیا تھا۔۔۔اگر فدک عیناں کو اس حال میں دیکھ لیتی تو اسے سنبھالنا یقینا بےحد مشکل ہو جاتا۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرز پچھلے آدھے گھنٹے سے عیناں کو لیے اندر روم میں آپریٹ کر رہے تھے۔۔۔۔۔ رافع کا دل بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ ویام کے ماتھے اور آنکھ کے قریب سے بہتے خون کو دیکھتے رافع چلتا اسکے قریب آیا تھا۔۔۔۔
وہ ٹھیک ہو جائے گی ویام۔۔۔۔۔۔ تم پٹی کروا لو۔۔۔۔۔" رافع جانتا تھا اسکا لگاؤ عیناں کی جانب بچپن سے ہی بہت زیادہ تھا۔۔۔ جبھی وہ بضد ہوتے بیٹھا تھا نرس کئی بار اسے پٹی کا کہہ چکی تھی مگر وہ خاموش سر جھکائے بیٹھا رہا۔۔۔۔
" اسے ٹھیک ہونا پڑے گا۔۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ ٹھیک ہو جائے گی میرے لیے۔۔۔۔۔۔۔!" رافع کی آنکھوں میں دیکھتے وہ جنونی سے لہجے میں آنکھوں میں جنون سموئے بولا تھا۔۔۔۔رافع کو کچھ عجیب سا لگا اسکا رویہ مگر وہ خاموشی سے اسکا کندھا تھپک گیا۔۔۔۔
ویام بیٹا آپ پٹی کروا لو۔۔۔۔۔ خون بہہ رہا ہے اتنا زیادہ۔۔۔۔۔" رافع نے بات بدلتے فکر مندی سے کہا تھا۔۔۔۔۔
" پہلے عین کو دیکھ لوں اسکے بعد۔۔۔۔۔۔۔" رافع کو جواب دیے وہ چلتا دروازے کے پاس رکا تھا۔۔۔۔۔ ڈاکٹرز اب عیناں کو انجیکشن لگاتے باہر کی جانب آئے تھے۔۔۔ رافع بھی اٹھتا اسی جانب آیا۔۔۔۔۔ دل خوف سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر میری بیٹی۔۔۔۔۔۔۔" بے چینی سے تڑپتے وہ اپنی بیٹی کی بابت پوچھنے لگا۔۔۔۔
مسٹر رافع آپ میرے ساتھ آئیں۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کے چہرے پہ پھیلا اضطراب دیکھ رافع مزید بے چین ہو ہوا تھا۔۔۔ اسنے ویام کی جانب دیکھا جو سر نفی میں ہلاتے اس سے پہلے ڈاکٹر کے پیچھے اسکے کیبن میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔
بیٹا آپ باہر ویٹ کریں مجھے ان سے کچھ امپورٹنٹ بات کرنی ہے۔۔۔۔" ڈاکٹر نے ویام کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔۔
آپ میرے سامنے بات کریں میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔رافع کو ایک نظر دیکھتا وہ کرسی کھینچتے بیٹھا تھا۔۔۔۔ رافع بھی بے چین سا اسکے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھا۔۔۔ ڈاکٹر نے ایک نظر ویام پہ ڈالی ۔۔۔ اور پھر رافع کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔۔
" مسٹر رافع آپ جانتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر اور پیشنٹ کا تعلق کتنا گہرا اور اہم ہوتا ہے۔۔۔ میں آپ سے جو جو سوال پوچھوں گا آپ کو ان سب کے صحیح سے جواب دینے ہونگے۔۔۔۔
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز اپناتے کہا تھا۔۔۔ویام کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے اسنے سرد نظروں سے ڈاکٹر کو دیکھا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر آپ پوچھیں آخر کیا بات ہے کیا میری بچی ٹھیک ہے یا نہیں آپ مجھے بتاتے کیوں نہیں رہے وہ کیسی ہے۔۔۔۔۔" رافع نے بے چینی بے بسی سے تڑپتے کہا تھا ڈاکٹر نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔۔
" کیا یہ آپ کی اپنی بیٹی ہے۔۔۔۔ " ڈاکٹر نے سنجیدگی سے رافع کو مخاطب کرتے پوچھا تھا۔۔۔ ڈاکٹر کے غیر متوقع سوال پہ رافع ٹھٹک سا گیا ویام نے پریشانی سے ڈاکٹر اور پھر رافع کی جانب دیکھا جو پریشان سا تھا۔۔۔۔
" جج جی ڈاکٹر میری اپنی بیٹی ہے عیناں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ اس بارے میں۔۔۔۔ ایک نظر ویام کے الجھے چہرے پہ ڈالتے وہ اعتماد سے بولا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اسکے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھے ۔۔۔۔ اور پھر نرمی سے گویا ہوا۔۔۔۔
ہم نے بچی کے سارے ٹیسٹ کیے ہیں۔۔۔۔ جس سے ہمیں یہ معلوم پڑا ہے کہ بچی کے پیدا ہونے سے پہلے اسکی ماں کچھ مضر صحت ادویات اور نشہ دونوں استعمال کرتی رہی ہیں۔۔۔۔ شاید وہ یہ بچہ نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ " ڈاکٹر کے اتنے بڑے انکشاف پہ ویام نے جبڑے بھینجتے سرخ نظروں سے رافع کو دیکھا۔۔۔ جو خود اس انکشاف پہ حیرت زدہ سا تھا۔۔۔
ڈڈ ڈاکٹر آپ کیا کہہ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔" ماتھے پہ چمکتے پسینے کو صاف کرتے وہ ویام سے نظریں چراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
نیناں وریام ، فدک اور رافع کے علاؤہ سب بچے اس بات سے انجان تھے کہ عیناں فدک اور رافع کی اپنی بیٹی نہیں۔۔۔۔ جبھی وہ اس سچ کو چھپا رہا تھا ویام سے۔۔۔۔
" آپ کی بیٹی کو بولنے میں مسلئہ ہے کیا وہ اٹک اٹک کے بولتی ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر کے اگلے سوال پہ رافع نے مضطرب سا ڈاکٹر کو دیکھا۔۔۔ ویام کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔۔
جی نہیں ڈاکٹر دراصل اسکی زبان ابھی صاف نہیں ہوئی وہ الفاظ ٹھیک سے نہیں بول پاتی ابھی بچی ہے وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔ رافع کو عجیب لگا ڈاکٹر کا ایسے پوچھنا ۔۔۔۔ عیناں ٹھیک سے نہیں بول پاتی تھی اور وہ اسی غلط فہمی میں تھا کہ شاید وہ ابھی ٹھیک سے الفاظ ادا نہیں کر پا رہی۔۔۔۔ مگر ڈاکٹر کے سوالات اسے مزید الجھا رہے تھے۔۔۔۔۔
" آپ کی بیٹی نے نارملی بولنا کب سٹارٹ کیا تھا۔۔۔۔" اب کی بار ڈاکٹر پرسکون تھا اسے سمجھ آ گیا تھا کہ باقی والدین کی طرح رافع بھی اپنی بیٹی کے ایسے بولنے کو نارمل لے رہا تھا۔۔۔
" شاید تین سال کی عمر میں وہ بولنے لگی تھی۔۔۔۔۔" نظریں چراتے وہ ڈاکٹر کو ناں دیکھتے بولا تھا۔۔۔
اور آپ نے زخمت بھی ناں کی کہ آخر تین سال کی بچی بول نہیں پا رہی اس کے پیچھے کوئی وجہ ہو گی۔۔۔۔ ڈاکٹر نے افسوس سے سر نفی میں ہلاتے اسے مزید شرمندہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔
" مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے مسٹر رافع کہ آپ کی وائف اس بچے کو نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی پریگنینسی کے دروان بہت سی غلط ادویات اور نشہ کا استعمال حد سے زیادہ کیا تھا۔۔۔۔ اور اسکے علاوہ پیدائش کے بعد بچی کو پورے چوبیس گھنٹے تک ماں کا دودھ میسر نہیں ہو سکا ۔۔۔۔
اسکے گلے کے ووکل کارڈز بڑھ گئے ہیں۔۔۔۔ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ یہ ٹانسرز بڑھنے کی وجہ سے اسے بولنے میں دقت ہونے لگی۔۔۔ اور اب وہ اٹک اٹک کے بولتی ہے اس کے علاؤہ اسے بولتے وقت شدید درد بھی برداشت کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ جس کا اس نے آپ کو بتایا ہو گا مگر آپ نے کبھی غور نہیں کی ۔۔۔۔۔۔ "
ڈاکٹر نے نہایت سکون سے اسکے سر پہ بم پھوڑا تھا۔۔۔ جو حیرت زدہ سا ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ویام اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے خود پہ ضبط کیے بیٹھا تھا۔۔۔ اسکے دماغ میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ فدک نے عیناں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مارنا چاہا تھا۔۔۔۔۔
" ڈاکٹر پلیز اسکا کچھ حل ہے پلیز میری بچی کو ٹھیک کر دیں۔۔۔۔" ڈاکٹر کے ہاتھ پکڑتے وو بے بسی سے بولا تھا۔۔۔ آنکھیں مسلسل نم تھیں ۔۔۔۔ "
ویام غصے سے جگہ سے اٹھا تھے اور باہر کی جانب گیا۔۔۔۔
آج جو حادثہ پیش آیا ہے شکر کریں آپکی بیٹی اس حادثے میں وقت سے پہلے سہی سلامت بچ گئی۔۔۔۔ ظاہری چوٹیں بھر جائیں گی مگر وہ شاک میں چلی گئی ہے۔۔ آپ کا وقت پیار اور محبت اسے ٹھیک کر پائے گا۔۔۔۔
اور جہاں تک اسکے گلے کا سوال ہے تو ہمیں کل اسے فوری طور پر آپریٹ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔ ان بڑھتے ٹانسرز کو کاٹنا پڑے گا تاکہ آپ کی بچی ٹھیک ہو سکے۔۔۔۔"
ڈاکٹر وہ ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ پلیز اسے بچا لیں ورنہ میری بیوی مر جائے گی۔۔۔۔ اپنی آنکھوں کی نمی کو ہاتھ سے صاف کرتے وہ التجائیہ ہوا تھا۔۔ ڈاکٹر نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے اسے دیکھا۔۔۔۔
فکر مت کریں ہم پوری کوشش کریں گے ان کو بچانے کی۔۔۔۔۔۔ مگر ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ آپ کی اپنی بیٹی نہیں۔۔۔۔" ڈاکٹر آرام سے کہتے کرسی سے ٹیک لگا گیا۔۔ رافع نے ایک نظر ڈاکٹر کو دیکھا تھا اور بنا کچھ کہے باہر آیا۔۔۔ جہاں ویام غصے سے چکر کاٹتے اسی کا انتظار کر رہا تھا۔۔ اسے دیکھتے ہی رافع نے لب کچلے تھے۔۔۔۔۔
" انکل مجھے جھوٹ مت بولئے گا۔۔۔ مجھے سچ جاننا ہے کیا عین آپ کی اپنی بیٹی کے ہاں یاں نہیں۔۔۔۔۔۔۔" اپنی سرخ ہوئی بھوری آنکھوں سے لہجے میں وخشت سموئے وہ رافع کو دیکھتے غصے سے غرا اٹھا۔۔۔۔ رافع نے لب بھینجتے اسکی جانب دیکھا ۔۔۔۔
" عیناں ہماری بیٹی نہیں۔۔۔ نہیں ہے وہ میرا خون۔۔۔۔ جس دن فدک کا آپریشن ہوا تھا اس نے مردہ بیٹی کو جنم دیا تھا۔۔۔ اسکی دماغی کنڈیشن پہلے ہوئے ایک دو حادثے کی وجہ سے بہت کمزور تھی ڈاکٹرز نے مجھے کہا تھا کہ اگر یہ بات فدک کو معلوم پڑی تو وہ جی نہیں پائے گی۔۔۔۔ میں بہت پریشان تھا۔۔۔ کچھ بھی سمجھ ناں سکا ۔۔۔
جب دو گھنٹوں کے بعد فدک کے پاس ہمت کرتے گیا تو مجھے دیکھتے ہی چلا اٹھی۔۔۔۔ الایہ اور انزِک دونوں بچے ماں کی حالت کو دیکھتے سہم سے گئے تھے۔۔۔ نرس نے اسے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ اس نے مردہ بچی کو جنم دیا ہے۔۔۔ اسکی حالت کے زیرِ اثر ڈاکٹرز نے اسے بے ہوش کیا تھا۔۔۔۔ پوری رات میں اور وریام پریشان رہے تھے۔۔۔
پھر اچانک وارڈ بوائے نے مجھے کہا تھا کہ اپنی بیٹی کو دفنا آئیں۔۔۔ میں مردہ قدموں سے اس کمرے میں گیا تھا۔۔ جہاں میری بیٹی تھی جو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی چلی گئی تھی۔۔۔ جیسے ہی میں اسے اٹھائے کمرے سے باہر نکلنے لگا اچانک مجھے کسی بچی کے رونے کی آواز آئی ۔۔۔۔ میں پریشانی سے واپس گیا تو سامنے ہی ایک کچرے کے ڈبے کے پاس سفید تولیے میں ایک سرخ چہرے والی معصوم سے بچی لپٹی پڑی تھی۔۔۔۔ ۔
میں نے فورا سے اسے اٹھایا تھا ۔۔ پورے ہاسپٹل سے پتہ کروایا مگر کچھ بھی پتہ ناں لگنے پہ میں نے اسے سینے سے لگایا اللہ نے اسے میری فدک کے لئے بھیجا تھا۔۔۔ میں جانتا تھا فدک کو زندگی کی نوید اسی بچی سے ملے گی۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن جب فدک کو ہوش آیا تو اسکے کانوں میں کسی بچی کے رونے کی آواز گونجی وہ تڑپ اٹھی ۔۔۔ میری طرف دیکھا تو میں نے کمبل میں لپٹا وہ ننھا سا وجود اس کی گود میں دے دیا۔۔۔ بہت روئی تھی فدک مگر اس کے بعد وہ عیناں کے لیے بہت حساس ہو گئی۔۔۔۔۔ وہ ہماری بیٹی ہے۔۔۔۔ میری اور فدک کی بچی۔۔۔ وعدہ کرو یہ راز کسی سے شئیر نہیں کرو گے تم۔۔۔۔۔۔"
آنسوں صاف کرتے وہ مڑا تھا اور ویام کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔۔۔۔ ویام نے ایک نظر رافع کو دیکھا اور فورا سے اسکے گلے لگا۔۔۔
آئی پرامس یہ بات کسی سے بھی نہیں شئیر کروں گا۔۔۔عین ٹھیک ہو جائے گی ناں۔۔۔۔۔ آنکھیں موندیں وہ اپنے آپ پہ ضبط کرتے پوچھنے لگا۔ رافع نے نرمی سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔۔۔۔" الایہ کی آواز پہ وہ دونوں چونکتے حیرت سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے۔۔۔۔۔
رافع نے پریشانی سے پیچھے مڑتے دیکھا جہاں کالے بالوں کی پونی ٹیل بنائے وہ آنکھوں میں آنسوں لیے کھڑی تھی شاید نہیں یقیناً وہ سب کچھ سن چکی تھی۔۔۔۔ رافع بھاگتا اسکے قریب ہوا۔۔۔۔
الایہ تم تم یہاں کیسے۔۔۔۔" اسکے کندھوں کو پکڑتے وہ پریشانی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
الایہ نے آنسوں رگڑتے اپنے ڈیڈ کو دیکھا۔۔۔۔ میں نے نیناں آنٹی کی باتیں سن لی تھی آپ نے ان کو کال کی تھی۔۔۔ تو میں وریام انکل سے ہاسپٹل کا پتہ پوچھتے یہاں آ گئی۔۔۔۔
رافع نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ ویام بس خاموش نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔
الایہ میری جان آپ نے کچھ سنا۔۔۔۔۔" رافع کا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔اگر الایہ کو کچھ معلوم ہوا اور اسنے عیناں کو بتا دیا۔۔۔۔۔
نو ڈیڈ میں نے کچھ نہیں سنا۔۔۔۔۔ عیناں ہماری بہن ہے اور آپ کی بیٹی مجھے بس یہی معلوم ہے۔۔۔۔اس کے علاؤہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔۔۔۔ " نفی میں سر ہلاتے وہ روتے رافع کے سینے سے جا لگی رافع نے اسے خود میں بھینجتے اپنی آنکھیں موندیں۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" ویام بیٹا آپ کے سر نے تین بار کال کی ہے آپ کا ٹیسٹ ہے آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے قریب بیٹھتے وریام نے اسے یاد دلایا تھا۔۔۔ وہ رات ان سب کو پکڑتے یہاں آیا تھا۔۔ جہاں اسے رافع سے عیناں کے آپریشن کا معلوم ہوا اور ساتھ یہ بھی کہ الایہ اور ویام دونوں ہی جان چکے تھے کہ عیناں انکی اپنی بیٹی نہیں۔۔۔۔۔۔
وریام نے ایک بار پھر سے وقت دیکھا جہاں صبح کے نو بج رہے تھے۔۔۔ پروفیسر سٹیون کی کال دیکھ وہ بت بنے ویام کو چھوڑتے ایک جانب ہوتے فون اٹھاتے کان سے لگا گیا۔۔۔۔
مسٹر وریام ویام کہاں ہے۔۔۔۔ اسکے ٹیسٹ کا ٹائم ہو گیا ہے آپ جانتے ہیں اسنے ایک سال سے کتنی محنت کی ہے اس ٹیسٹ کیلئے , آپ پلیز اسے جلدی سے بھیجیں میں ٹائم مینیج کروا لوں گا۔۔۔۔" ویام کافی ذہین طالب علم تھا۔۔۔جبھی پروفیسر اسکے ناں آنے پہ کافی پریشان تھا۔۔۔اسے پوری امید تھی کہ ویام فرسٹ آئے گا۔۔۔
دیکھیں پروفیسر میں کوشش کرتا ہوں اسے بھیجنے کی۔۔۔۔۔" وریام نے ماتھا مسلتے بے چینی سے کہا تھا۔ اور مڑتے بینچ پہ بیٹھے ویام کو دیکھا۔۔۔۔
ویام۔۔۔۔۔" وریام نے پھر سے اسے پکارا۔۔۔۔۔
نو ڈیڈ مجھے کہیں نہیں جانا جب تم عین ہوش میں نہیں آ جاتی میں یہاں سے ہلوں گا بھی نہیں۔۔۔۔۔" اسکی جانب دیکھتے وہ برفیلے لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔۔
بیٹا آپ کا فیوچر سب کچھ تباہ ہو جائے گا ہم سب ہیں یہاں عیناں کا خیال ہم سب رکھیں گے میں وعدہ کرتا ہوں۔۔۔۔ " وریام جانتا تھا ویام کی بچپن سے ایک ہی خواہش رہی تھی وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔۔۔ مگر اب جب اسکے خواب کو پورا کرنے کا وقت تھا وہ خود ہی پیچھے ہٹ رہا تھا۔۔۔
نو ڈیڈ عین سے بڑھ کے کچھ نہیں ۔۔۔۔۔! آپ چاہے جو مرضی کہہ لیں میں کہی نہیں جا رہا ۔۔۔۔ "
آپریشن تھیٹر کے بند دروازے کی جانب دیکھتے وہ کہتے ساتھ ہی اٹھا تھا اور وریام کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
عیناں کا آپریشن کامیاب ہوا تھا۔۔۔ اب وہ خطرے سے باہر تھی مگر ڈاکٹر نے جیسے پہلے ہی آگاہ کیا تھا وہ اب خاموش سی ہو گئی تھی۔۔۔
اس حادثے کو گزرے دو ہفتے ہو چکے تھے مگر وہ بالکل خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ آج رافع اور فدک اسے ہاسپٹل لے گئے تھے جہاں اسکی پٹی اتری تھی۔۔ ڈاکٹر نے پھر سے ایک بار چیک اپ کیا تھا ۔۔۔ انہیں پرسکوں کرتے ڈاکٹر نے واضع بتایا تھا کہ اب وہ ٹھیک تھی اور بالکل نارمل بچوں کے جیسے بول پائے گی۔۔۔۔۔ مگر اسکی خاموشی کی وجہ سے وہ دونوں کافی پریشان تھے ۔۔ ڈاکٹر کو اسکی کنڈیشن کے متعلق آگاہ کیا تھا مگر ڈاکٹر نے صبر کرنے کا کہا تھا۔۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ ڈاکٹر کی بات پہ وہ دونوں خاموش ہوگئے۔۔
عیناں میری پرنسز آج آپ کا فیورٹ چاکلیٹ کیک بنایا ہے میں نے۔۔۔ چلو آؤ نیچے۔۔۔۔۔۔۔"
فدک رات اس کے کمرے میں آئی تھی ۔۔۔۔
جہاں وہ بیڈ پہ بیٹھے اپنی فیورٹ ڈول کے ٹکرے کر رہی تھی۔۔فدک نے سہمتے دل پہ ہاتھ رکھا پھر خود کو مضبوط کرتے وہ آگے بڑھی تھی اور نرمی سے اسکے سنہری بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتے وہ اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے بولی تھی۔۔۔۔۔
عیناں نے ایک نظر اپنی موم کو دیکھا اور رخ پھیر گئ۔۔۔ اسکا رویہ جانے کیوں مگر فدک کو دکھ پہنچاتا تھا۔۔۔
عیناں نے فدک کی جانب دیکھتے سر نفی میں ہلایا تھا۔۔۔
کیوں کیا ہو گیا کیوں نہیں کھانا کیک۔۔۔۔۔" اسکے چہرے کو ہاتھوں میں لیے فدک نے اسے بولنے پہ اکسایا مگر وہ بولی نہیں بس خاموشی سے اسے دیکھتی رہی فدک دل برداشتہ ہوتے روتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔۔
عیناں نے ایک نظر اپنی موم کی پشت کو دیکھا اور پھر اٹھتے دروازہ اندر سے لاک کیے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔
گردن پہ آئے اپنے سنہری بالوں کو پیچھے کرتی وہ بغور ہاتھ لگائے اپنی گردن کو ٹٹول رہی تھی۔۔۔۔۔ اتنے دن کی پٹی کے بعد اسے بولنے سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔ اس حادثے کے بعد وہ گھر سے نکلنا چھوڑ چکی تھی سکول جانا بھی بند کر دیا تھا اسنے ۔۔۔۔ الایہ اور انزِک اسے خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے مگر وہ حالی حالی نظروں سے ان دونوں کو دیکھتی ۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ دونوں ہی کافی مایوس ہو گئے تھے ۔۔۔۔
ابھی بھی وہ شیشے کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ گرے کانچ سی شفاف آنکھوں میں آنسوں کی نمی سموئے وہ سرخ چہرے سے اپنے ماتھے کو دیکھنے لگی جہاں پہ چوٹ کا نشان باقی تھا۔۔۔
وہ چھلانگ لگاتے اندر کودا تھا۔۔۔ مڑتے کھڑکی کو اندر سے بند کرتے اسنے سامنے دیکھا جہاں عیناں اپنے ماتھے کو چھو رہی تھی۔۔۔ویام نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے قدم آگے بڑھائے تھے۔۔۔۔
کیا ہوا میری عین پریشان کیوں ہے۔۔۔۔۔۔۔!" ہڈ کے پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے وہ شیشے سے نظر آتے اسکے سرخ چہرے کو دیکھتے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
عیناں نے اچانک ویام کو یوں اپنے کمرے میں دیکھتے پریشانی سے مڑتے اسے دیکھا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں حیرت تھی مگر ڈر نہیں۔۔ جسے ویام نے محسوس کیا تھا ۔۔۔
جبھی وہ مسکراتے ہوئے جھکا تھا نرمی سے اسے بازوؤں میں بھرتے وہ چلتا بیڈ کی جانب بڑھا عیناں اپنی بڑی بڑی سی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جو اسے نرمی سے بیڈ پہ بٹھائے اب اسکے قریب بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
چاکلیٹس۔۔۔۔۔۔ اسے یوں خاموش بیٹھا دیکھ ویام نے جیب سے چاکلیٹس نکالتے اسکے سامنے کیں۔۔۔ جسے دیکھتے وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔۔۔
اوکے حور ، الایہ اور انزِک کو دے دوں گا" کندھے اچکاتے اسنے چاکلیٹس واپس جیب میں ڈالنے چاہی مگر اسکی بات سنتے ہی وہ فورا سے اپنے ننھے ہاتھوں سے اسکے ہاتھ سے چاکلیٹس چھینتے گود میں چھپا گئی۔۔۔۔ویام نے لب دبائے مسکراہٹ روکی۔۔۔۔۔
عین تمہیں پتہ ہے تمہاری کیٹو اسے میں نے آج دیکھا تھا وہ ساتھ والے گھر گئی تھی نظر رکھو اس پہ۔۔۔۔ اسے انہماک سے چاکلیٹ کھاتا دیکھ ویام نے اسے چہرے پہ آتے بالوں کو نرمی سے پیچھے کرتے اسے بتایا تھا۔۔۔ عیناں نے سنتے حیرت سے آنکھیں پھیلائے۔۔۔۔
ویام کہاں دیکھی۔۔۔۔۔۔" اپنی حیرت کا اظہار کرتے وہ مشکوک سی ہوتے سامنے ایک جانب لیٹی اپنی کیٹو کو دیکھتے پوچھنے لگی۔۔۔۔
ویام اسکے منہ سے پہلی بار اپنا نام یوں بنا اٹکے ٹھیک سے ادا ہونے پہ گہرہ مسکرایا۔۔۔۔ اسکے مسکرانے پہ عیناں نے نظریں اٹھائے اسکے گال پہ ابھرتے ڈمپل کو دیکھا ۔۔۔۔
" ٹچ کر لو تمہارا ہی ہے۔۔۔۔"! وہ جھکتے اپنا گال اسکی جانب کرتے بولا تھا۔۔۔ عیناں نے جھجھکتے اپنی چھوٹی سی انگلی اسکے گال پہ رکھی ۔۔۔۔۔ اسکے ڈمپل کو محسوس کرتے وہ اپنا ہاتھ اسکے گال پہ رگڑتے کھلکھلا اٹھی۔۔۔ ویام نے مسکراتی نظروں سے اسکے حسین چہرے کو آنکھوں میں سمویا۔۔۔۔۔۔
وہ روز رات اسکا ویٹ کرتی تھی۔۔۔۔ جلدی سے کھانا کھاتے وہ اندر آتے ہی دروازے لاک کیے کھڑکی کے پاس چلی جاتی۔۔۔ جہاں سے روز رات وہ آتا تھا۔۔ اس سے ڈھیروں باتیں کرتا اسکی ساری باتیں توجہ سے سنتا تھا۔۔۔۔۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ عیناں کا رویہ نارمل ہونے لگا تھا جسکے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ ویام کا ہی تھا۔۔۔ وریام نے اسے کئی بار روکا تھا ۔۔۔۔ سختی سے اسے یوں رات کو جانے سے منع کیا مگر وہ الٹا بپھر گیا اسکی بات پہ ۔۔۔ وریام سے لڑتے وہ رافع کے گھر گیا تھا۔۔۔۔ رافع اسکے تاثرات دیکھ ٹھٹھک گیا۔۔۔۔۔
وریام کو ویام کے یوں چوری چھپے آنے کی بات رافع نے ہی بتائی مگر اب اسکے تاثرات سے وہ خود پریشان سا ہو گیا۔۔۔۔
انکل ایک بات یاد رکھیں عین آپ کے پاس میری امانت ہے ۔۔ آپکے روکنے یا منع کرنے کا مجھے کوئی اثر نہیں ہو گا۔۔ بہتر یہی ہے کہ یوں ڈیڈ کو شکائتیں لگانا بند کر دیں اور ایک بار ہمیشہ یاد رکھیے گا عین کو مجھ سے کبھی کوئی بھی خطرہ یا تکلیف نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔ "
اپنی بات کہتے وہ رافع کو حیرت زدہ سا چھوڑتے واپس آیا تھا۔۔۔
اتنے سالوں میں کسی کے بھی منع کرنے یا پھر سمجھانے کا کوئی بھی اثر نہیں تھا ہوا اس پہ۔۔۔۔ الٹا وہ عیناں کے اور بھی نزدیک ہو گیا تھا۔۔ کسی کی بھی بری نظریں عین پہ پاتے وہ بنا کسی کو خبر ہوئے خود سے ہی اسے سزا دیتا تھا۔۔۔۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اسکی عادت مضبوط ہوتی گئی۔۔۔ لڑکپن کی عمر میں دل میں جاگتا احساس کب محبت سے عشق بنتے رگوں میں خون کی مانند دوڑنے لگا اسکا احساس تک ناں ہو سکا تھا اسے ۔ ۔۔۔ اور جب اسپیشل فورس کو جوائن کرنے کا فیصلہ لیا۔۔۔ تو ٹریننگ کے لئے جانے سے پہلے اسنے رافع کے سامنے اپنا مطالبہ بیان کیا تھا۔۔۔
رافع اسکے عیناں کے لئے جذبات سے آگاہ تھا۔۔۔ جبھی اسنے صرف نکاح کے حامی بھری تھی۔۔۔ مگر ویام نے اسے صاف بتایا تھا کہ چار سال بعد جب وہ واپس آئے گا۔۔۔ تو وہ عین کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جائے گا۔۔۔ اسکے وقتی فیصلے کو سمجھتے رافع نے رضامندی دے دی تھی۔۔۔ کیونکہ عیناں کی ویام کے ساتھ محبت اٹیچمنٹ کی وجہ سے آج عیناں بالکل پہلے کے جیسے ٹھیک اس کے پاس تھی۔۔۔۔ اس بات کو وہ جھٹلا نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔
ویام کے سامنے حامی بھرنے کے بعد اسنے بہت مشکل سے ہی مگر فدک کو بھی نکاح کے لیے راضی کر لیا تھا۔۔ جبکہ عیناں کو پہلے ہی ویام نے اس بابت بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس طرح سے وہ سولہ سال کی عمر میں ہی عیناں رافع اظہر حسین سے عیناں ویام کاظمی بن کر ویام کا الفت ِ جنون بن کے اسکی زندگی میں آئی ۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
*****حال*****
بمشکل ایک ہاتھ کی مدد سے دروازہ کھولتے وہ پاؤں سے لاک کرتا ناشتے کی ٹرے تھامے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ ٹرے سائڈ میز پہ رکھتے نظریں جیسے ہی کمفرٹر میں دبکی عیناں پہ گئی بے اختیار اسکے چہرے پہ مسکراہٹ رینگی ۔۔۔۔۔۔ وہ ٹرے ایک سائڈ رکھتے بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
نرمی سے اسکے چہرے پر سے کمفرٹر ہٹاتے وہ کراؤن سے ٹیک لگائے بغور اسے دیکھنے لگا جو مزے سے گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ ویام کی نظریں اسکی بند آنکھوں سے ہوتے اسکے گلابی ہوتے پھولے گالوں پہ اٹکی تھی۔۔۔۔۔ دل کی آواز پہ لبیک کہتے وہ ہاتھ کی پشت سے اسکے گلابی گالوں کو چھوتے انکے نرمی کو اپنے ہاتھ پہ محسوس کرنے لگا۔۔۔۔
لب دبائے وہ ذرا سا جھکا اور بغور اسکا جائزہ لیا ۔۔۔۔۔ اسے سوتا پاتے وہ ہلکے سے اپنے ہونٹ اسکے گال پہ رکھتے مسکرایا ۔۔۔ یہی عمل اسنے دوسرے گال پہ بھی دہرایا تھا۔۔۔۔ عیناں بے چین ہوتے کروٹ بدلنے لگی۔۔۔ جسے دیکھتے ویام نے جھکتے اسکی ناک کو دانت سے ہلکا سا کاٹا تھا۔۔۔۔۔ عیناں نیند میں اچانک اپنی ناک پہ کچھ محسوس کرتے فورا سے آنکھیں کھولے سامنے دیکھنے لگی جہاں وہ ہمیشہ کی طرح اپنی بھوری آنکھوں میں قربت کی سرخی لیے اس پہ جھکا ہوا سا تھا۔۔۔۔۔
عیناں نے سر جھٹکتے اس خواب کے اثر کو توڑنا چاہا تھا مگر آنکھوں کو کھولنے کے بعد اسنے منہ کھولے اسے دیکھا جو اسکے پاس بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔ عیناں نے ہاتھ بڑھاتے اسے چھونا چاہا تھا۔۔ جسے دیکھ ویام نے جھکتے ہونٹ اسکی تھوڑی پہ رکھے ۔۔۔۔۔ عیناں نے جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا تھا اور فوراً سے خود بھی بیٹھتے وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
" گڈ مارننگ مائی لو......"! ہاتھ اسکے بالوں میں الجھاتے وہ نرمی سے اسکی پیشانی کو چومتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔۔۔
وو ویام تم۔۔۔۔۔۔۔" عیناں نے حیرت و بے یقینی سے سوال کیا تھا۔۔۔۔۔ مگر پھر نظریں چاروں اطراف دوڑائی تو خود کو کسی اور ہی جگہ پایا ۔۔۔۔یہ اس کا کمرہ تو نہیں تھا۔۔۔۔ دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو اسے یاد آتا گیا رات وہ اس سے ملنے آیا تھا ۔۔۔ انکی باتیں , ویام کی قربت اور پھر اسے اچانک گردن پہ درد سا ہوا تھا۔۔۔۔
ویام ہہ ہم کہاں ہیں۔۔۔۔ یہ کونسی جگہ ہے ۔۔۔۔۔" اس سے دور ہوتے وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں استفسار کرنے لگی۔۔۔ ویام نے سکون سے اسکے دلکش روپ کو آنکھوں میں اتارا اور بیڈ پہ گرتے وہ کشن سر کے نیچے رکھتے لیٹا۔۔۔۔۔۔ عیناں نے فاصلہ بڑھاتے قدم بیڈ سے اتارے تھے۔۔۔۔۔
ویام کو دیکھتے وہ غصے سے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔ مگر دروازے کو لاک دیکھ عیناں نے غصے سے مڑتے ویام کو گھورا تھا۔۔۔۔۔ وہ چلتے واپس بیڈ کے قریب آئی تھی۔۔۔۔
ویام دروازہ کھولو مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔۔" ویام کے کمرے کی ایک ایک چیز سے وہ واقف تھی یہ اسکا کمرہ تو کیا یہ اسکا گھر ہی نہیں تھا۔۔۔۔ اسنے غصے سے کہا تھا۔۔۔اسے لگا تھا وہ ویام کو منا لے گی۔۔۔ مگر اسکے یوں دھوکے سے خود کو لانے پر وہ سخت خفا ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
" کوشش کر لو ڈارلنگ یہ لو چابی۔۔۔۔۔ یونہی آنکھیں موندے وہ ہاتھ میں پکڑی چابی اسکی جانب اچھالتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ عیناں نے لب بھینجتے اسے دیکھا ۔۔۔۔ اور غصے سے چابی اٹھائے وہ دروازے کے جانب بڑھی تھی۔۔۔۔
بارہا کوشش کرنے کے باوجود وہ دروازہ نہیں کھول پائی تھی عیناں نے جھنجھلاتے اپنے بالوں کو پیچھے کیا اور پھر سے جھکتے وہ کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
" نہیں کھلے گا جان یہ ویام کی دنیا ہے ڈارلنگ ۔۔۔۔ یہاں پہ چلتی اس ہوا کو بھی کوئی میری اجازت کے بغیر کنٹرول نہیں سکتا۔۔۔۔۔ یہ تو پھر پورے کا پورا دروازہ ہے۔۔۔۔" اسکے بے حد قریب وہ جھکتے اسکے کندھے پہ تھوڑی جمائے آرام سے بولا تھا۔۔۔۔
عیناں نے سنتے غصے سے رخ موڑا تھا۔۔۔۔۔
تم......" انگلی اٹھائے اسے وارن کرتے وہ دانت پیستے خاموش ہوئی۔۔۔۔۔ویام اسکے انداز پہ مسکراتے ہاتھ اسکے دونوں جانب رکھے جھکا تھا۔۔۔۔
" میں جانتا ہوں میں اس دنیا کا سب سے رومینٹک ، سب سے جنونی بندہ ہوں۔۔۔۔۔ میرا بس چلے تو تمہیں سانسوں کی طرح اپنے اندر سما لوں یا پھر دھڑکن کی مانند دل میں بسا لوں۔۔۔۔ یا پھر تمہاری روح کو اپنا اسیر کرتے تمہیں اس حد تک اپنی محبت میں رنگ دوں کہ تمہیں بھی میرے جنون سے الفت ِ عشق ہو جائے۔۔۔۔۔"
اسکے کان کے قریب جھکتے وہ ہمیشہ کی طرح اپنی خمار سے بھاری گھبیر آواز میں سرگوشیاں کرتا اسکے نازک وجود کو لرزنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔ اسکی حالت محسوس کرتے ویام نے ہلکے سے اسکے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوا تھا۔۔۔۔۔
عیناں آنکھیں بند کیے اس کی قربت پہ سانس روکے کھڑی تھی۔۔۔ جسے محسوس کرتے وہ فورا سے پیچھے ہوتے اسکے گلنار ہوئے چہرے پہ اپنی قربت کے رنگ دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
" تم ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہو مجھے تم سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔ اسکے دور ہوتے ہی وہ غصے سے چلاتے ہوئے بولی تھی اور ساتھ ہی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔۔ ویام نے سرد نظروں سے اسکے لرزتے وجود کو دیکھا اور جھٹکے سے دو قدموں کا فاصلہ طے کرتے وہ فورا سے اسے بازوؤں میں بھرتے واشروم کی جانب ہوا۔۔۔۔
عیناں نے بوکھلاتے چہرے سے ہاتھ اٹھائے تو نظریں ویام کے تنے نقوش پہ ٹہری۔۔۔۔۔ عیناں کا دل خوف سے پھڑپھڑانے لگا۔۔ وہ تھوک نگلتے سہمی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو بنا کسی تاثر کے اسے لیے باتھروم میں گیا تھا۔۔۔۔
عیناں کی آنکھیں آنے والے لمحات کا سوچتے ہی حیرت سے پھیل گئی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔جبکہ ویام بنا کچھ کہے اسے آرام سے کھڑا کرتے اسکے چہرہ واش کرنے لگا۔۔۔۔ عیناں نے نرمی سے اسکے ہاتھ کو جھجھکتے تھاما تھا۔۔۔ جبکہ ویام نے فورا سے اسکے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے سختی سے پشت سے لگایا اور ٹاول سے اسکے چہرے کو صاف کرتے وہ واپس مڑا تھا اور پھر سے اسے گود میں بھرتے وہ بیڈ کی جانب آیا۔۔۔۔۔
آرام سے اسے بیڈ پہ بٹھائے وہ خود اسکے سامنے بیٹھا۔۔۔ عیناں ٹکر ٹکر آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو اب جھکتے میز سے کھانے کی ٹرے اٹھائے گود میں رکھتا اسکی جانب متوجہ ہوا۔۔ عیناں فورا سے سیدھی ہوتے بیٹھی۔۔۔۔۔۔
ویام نے سرد نظروں سے اسے گھورتے بریڈ اسکے سامنے کیا جسے وہ خاموشی سے جھکتے بائٹ لیتے چبانے لگی۔۔۔۔ ویام نے جوس کا گلاس اٹھاتے اسکے ہونٹوں سے لگایا تھا وہ خاموشی سے اسکے بگڑے تاثرات کو دیکھتی غٹاغٹ جوس پی رہی تھی۔۔۔۔ ویام نے سارا ناشتہ ختم کرواتے ٹرے واس میز پہ رکھا۔۔۔۔
ٹشو اٹھائے وہ اسکا چہرہ اچھے سے صاف کرنے لگا۔۔۔۔ عیناں آنکھیں جھپکتے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ویام نے ٹشو ایک جانب رکھتے گہرہ سانس فضا میں خارج کرتے عیناں کو دیکھا۔۔۔۔
ویام کے یوں دیکھنے پہ عیناں کو گڑبڑ کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی ویام نے جھکتے اسکی گردن میں ہاتھ ڈالتے اسکی سانسوں کو قید کیا تھا۔۔ اس اچانک افتاد پہ عیناں کا سانس سینے میں الجھ گیا ۔۔۔ جبکہ ویام نرمی سے اسے بیڈ پہ لٹائے اپنی شدتوں سے اسے بے جان کرنے لگا۔۔۔۔
اسکی بڑھتی جنونیت پہ عیناں نے ڈرتے اسکے گریبان کو پکڑتے جھنجھوڑا۔۔۔۔۔ ویام نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکائے گہرے سانس بھرنے لگا۔۔۔۔۔
" صرف پانچ دن ان پانچ دنوں میں تم بنا کچھ کہے میرے ساتھ رہو گی ۔۔۔۔۔ تمہاری پڑھائی یا پھر کسی بھی چیز میں کوئی بھی فرق نہیں آنے دوں گا میں۔۔۔۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں اگر ان پانچ دنوں میں تمہیں میری قربت میری چاہت میں کچھ برا محسوس ہوا تو میں تمہیں چھوڑ آؤں گا واپس۔۔۔۔۔
ویام اسے نظروں کے حصار میں لیتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
ویام مم میں تت تمہاری قربت نہیں بب برداشت کر سکتی۔۔۔۔۔ " عیناں نے آنکھیں میچتے اپنے اندر کا خوف اس پہ عیاں کیا تھا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی اسکے جنون کی انتہا کے سامنے عیناں کی محبت بہت معمولی تھی ۔۔۔اسکی شدتیں جھیلنا اسکے لئے سب سے مشکل کام تھا۔۔۔
"ویام نے مسکراتے اسکی بند نظروں کو دیکھا ۔۔۔
" میری شدتیں جھیلنا تم پہ لازم ہے جاناں ۔۔۔۔۔ مگر ایک بات یاد رکھنا تم الفت ِ ویام ہو ۔۔۔۔۔ اپنے جنون سے تمہیں روشناس کروانا میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔۔۔ خود کو تیار کر لو اس قید کیلئے۔۔۔ کیونکہ اس قید سے رہائی نا ممکن ہے۔۔۔۔۔
ڈیڈ آپ نے کیا سوچ کر اس عورت سے شادی کی تھی۔۔۔۔۔" اپنے دونوں اطراف کس کے بندھے بالوں کی چوٹیوں کو دیکھ وہ من من کے آنسوں اپنی بڑی بڑی گول مٹول آنکھوں میں سجائے بولی تھی۔۔۔۔۔۔
میز کی دوسری جانب انہماک سے نیوز پڑھتے داؤد نے چشمہ اتارتے گردن گھمائے پہلے اپنی معصوم بیٹی کو دیکھا تھا اور پھر دعا کینجانب جو کچن میں کھڑی ملازمہ سے ناشتہ تیار کروا رہی تھی۔۔۔۔۔
بیٹا جب اس سے شادی کا سوچا تھا تو مجھے لگا کہ یہ خوبصورت لڑکی میری زندگی کی دعا بن کر میری زندگی کو نکھار دے گی۔۔۔ اسی لیے تو اسے میں دعا کہتا ہوں۔۔۔ مگر اللہ جانے اکیس سال سے یہ دعا کیوں نہیں لگی مجھے۔۔۔ دیکھو پہلے اتنا صحت مند ہوتا تھا اور اب آگ دیکھو اکیس سالوں میں کمزور ہو گیا ہوں میں۔۔۔۔۔ ہر وقت اس عورت سٹ ٹارچر ہو کر کے میں پاگل ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔۔
اپنے مصنوعی آنسوں کو آنکھیں رگڑتے صاف کرتا وہ میرب سے بولا تھا۔۔۔۔ جسکا چہرہ دھول سا اٹا ہوا تھا۔۔۔۔ ناک پہ لگی دھول کو دیکھتے داؤد نے قہقہ ضبط کرتے سرخ چہرے سے گردن گھما دی۔۔۔۔۔
" ڈیڈ اچھا بھلا لوگ انکو ردا کے نام سے جانتے ہیں آپ نے جب سے دعا بنایا ہے یہ عورت میری زندگی کی دعائیں کھا گئی ہے۔۔۔ بھلا اتنی ظالم ماں بھی ہو گی کسی کی۔۔۔۔۔ صبح تین بجے سے اٹھایا مجھے دیکھیں پورا سٹور روم صاف کروایا بالوں کی کس کے دو دو چوٹیاں کر دیں سر ابھی تک دکھ رہا ہے میرا۔۔۔۔۔۔" اپنے ناک کو بازو سے رگڑتے وہ دعا کو گھورتے بولی تھی۔۔۔۔۔۔
داؤد نے سر نفی میں ہلاتے اسکے ساتھ برابر کا افسوس ظاہر کیا تھا۔۔۔۔۔۔
" بیٹا پاگل عورت ہے غصہ مت کرو۔۔۔ یہ میری ہمت ہے جو اسے برداشت کر رہا ہوں ورنہ۔۔۔۔۔۔"
کون کسے برادشت کر رہا ہے۔۔۔۔" پیچھے سے آتی دعا کی آواز پہ میرب نے چونکتے اپنی موم کو دیکھا جبکہ دادو کا پانی کا گلاس پکڑا ہاتھ بری طرح سے کپکپانے لگا تھا۔۔۔۔۔
کک کوئی نہیں میری جان۔۔۔۔ میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ مجھ جیسے نکمے شوہر کو برداشت کرنا کون سا کام ہے ۔۔۔ یہ تو تمہاری ہمت ہے جو مجھے برداشت کر رہی ہو۔۔۔۔۔
میرب اپنے ڈیڈ کے یوں روپ بدلنے پہ مسکراہٹ روکتے میز کے نیچے سے لے جاتے پکوڑے اٹھانے لگی مگر دعا نے چپت لگاتے اسے غصے سے گھورا تو وہ منہ بسورتے رہ گئی۔۔۔۔
" ہاتھ دھو کے آؤ باپ کی چمچی۔۔۔۔۔۔" دعا نے دونوں باپ بیٹی کو کڑی نظروں سے دیکھتے میرب سے کہا تھا جو فورا سے تابعداری سے سر ہلاتے جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔۔۔
داؤد آپ سے بات کرنی ہے مجھے رات بھی میں انتظار کرتی رہی مگر آپ پوری رات گھر نہیں آئے۔۔۔۔"
میرب کے جاتے ہی دعا نے جھنجھلاتے ہوئے اسے آگاہ کیا تو داود مسکرایا۔۔۔
جان ایک ضروری کیس تھا ہاسپٹل ۔۔۔ اسی وجہ سے رات نہیں آ سکا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری بیوی مجھے اتنا یاد کر رہی ہے تو قسم سے کام چھوڑ کے بھاگا چلا آتا۔۔۔۔۔۔ داؤد نے آنکھ دباتے کہا تھا۔۔جبکہ دعا سر جھٹکتے رہ گئی۔۔۔۔۔
" کبھی میری بھی سن لیا کریں۔۔۔۔ ہر وقت فضول ہی سوچیں گے آپ۔۔۔۔ وہ ناراضگی سے منہ پھلائے اٹھنے لگی کہ داؤد نے فورا سے ہاتھ تھاما۔۔۔۔
بیٹھو یار مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔اچھا بتاؤ کیا بات کرنی ہے
۔۔۔۔۔ داؤد نے موبائل ایک جانب رکھتے کہا تھا۔۔۔۔
داؤد وہ مسز شیرازی۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں ناں انہیں ۔۔۔۔۔ دعا نے کہتے اسکے چہرے کے تاثرات دیکھے تھے۔۔۔ ہاں وہی ناں جو پچھلے ویک اینڈ آئی تھی اپنی بیٹی کے ساتھ۔۔۔۔۔ داؤد نے سوچتے اسے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔
" جی وہی دراصل انکا بیٹا تیمور وہ جرمن ہوتا ہے ، اچھا خاصا بزنس ہے لڑکا ایک سال سے کاروبار سنبھال رہا ہے باپ کے ساتھ۔۔۔۔"
ایک منٹ تم کہنا کیا چاہتی ہو سیدھے سے مجھے بتاؤ پہلے۔۔۔۔۔۔ اسکی بات کاٹتے داؤد نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔
" تیمور واپس آیا ہوا ہے۔۔۔۔ مسز شیرازی کو میرب اپنے بیٹے کے لئے بہت زیادہ پسند آئی ہے وہ اسے اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔ اور آج وہ تیمور کے ساتھ آنا چاہتی ہیں ۔۔ میرب کو دیکھنے۔۔۔۔ " دعا نے کہتے داؤد کے ہاتھ کو تھاما ۔۔۔۔ داؤد نے پرسوچ انداز میں اسے دیکھا۔۔۔
" وہ سو بار آئیں دعا مجھے اعتراض نہیں۔۔۔۔ بیٹیوں کو دیکھنے تو لوگ آتے رہتے ہیں مگر ایک بات یاد رکھنا ۔۔۔۔ آخری فیصلہ میرب کا ہو گا ۔۔۔ اور اگر میری میرب کو ذرا سی بھی کسی نے تکلیف دی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔
دعا کو دیکھتے وہ کہتے ساتھ ہی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔۔۔
آپ کہاں آپ بیٹھیں تو۔۔۔ اسے جاتا دیکھ دعا نے آواز دی ۔۔ داؤد نے ایک نظر مسکراتے اپنی جانب آتی اپنی پرسنز کو دیکھا۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہے شاید رات کو لیٹ ہو جاؤں۔۔۔۔
تم مینج کر لینا۔۔۔ اور ہاں آج یہ آخری بار تھا۔۔۔۔ آج کے بعد تم میری اجازت کے بغیر میرب سے چائے تک نہیں بناواں گی۔۔۔۔ میرب کے ماتھے پہ بوسہ دیے وہ سخت لفظوں میں دعا کو وارن کرنے لگا۔۔۔۔
دعا سمجھ گئی تھی کہ وہ اندر سے بے چین ہو گیا تھا۔۔۔۔ میرب کی شادی کا تو شاید ہی اسنے سوچا ہو گا مگر وہ ماں تھی وہ جانتی تھی ایک ناں ایک دن ہر بیٹی کو رخصت ہو کر اپنے گھر جانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔
" اسی لیے تو آپ دنیا کے سب سے ہینڈسم ڈیڈ ہیں۔۔۔۔۔ مسکراتے اپنی بخشش کی نوید سنتے وہ اسکی گردن میں دونوں بازوؤں ڈالے مسکراتے بولی تھی داؤد کا قہقہ بے ساختہ تھا۔۔۔ اسنے مسکراتے پھر سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا اور جلدی میں باہر کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
میرب یہاں آؤ۔۔۔۔۔ دعا کی آواز پہ وہ دروازے کو گھورتے ٹھٹکی اور دھیرے سے سہج سہج کے قدم اٹھائے وہ معصوم سا چہرہ لیے اسکے سامنے ہاتھ باندھے پکوڑوں کی پلیٹ کو گھورنے لگی۔۔۔۔
" بیٹا آج میری ایک فرینڈ آ رہی ہیں اپنے بیٹے کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں دیکھنے کے لئے۔۔۔۔۔" تم نے کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کرنی میرب اور ایک بات اچھے سے تیار ہو جانا میں فدک کو کال کر رہی ہوں وہ اور عیناں دونوں آئیں گی۔۔۔عیناں تمہیں اچھے سے تیار کرے گی۔۔۔ اوکے ۔۔۔ اب تم تھوڑی ریسٹ کر لو ۔۔۔۔۔ اسکی جانب دیکھتے وہ اسے سمجھانے لگی۔۔۔ میرب کے گال لڑکے کے نام پہ ہی حیا سے لال ہونے لگے۔۔۔۔
کوئی اسے دیکھنے آ رہا تھا۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ کیسا تاثر دے۔۔۔۔۔۔
جبھی وہ فورا سے سر جھکائے دوڑتے اپنے کمرے میں آئی اور دھک دھک کرتے دل سے کمرے کا دروازہ اندر سے لاک کیا۔۔۔۔۔
کوئی مجھے دیکھنے آ رہا یے۔۔۔۔اففففف میں تو شرما شرما کے ہی مر جاؤں گی۔۔۔۔۔ " آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے وہ فورا سے شرماتے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی ۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بار کوئی لڑکا اسے دیکھنے آ رہا تھا۔۔۔ یا یوں کہا جائے کہ اسکا رشتہ آیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ہواؤں میں جھولنے لگی تھی۔۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا اگر لڑکا رج کے ہینڈسم ہوا تو وہ پہلی ہی ملاقات میں اس پہ فلیٹ ہونے والی تھی ۔۔۔۔ یا پھر اسے خود پہ فلیٹ کرنے والے تھی۔۔۔۔۔
ہائے اب میں بھی لڑکے والی ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔" وہ خوشی سے جھولتے بیڈ پر چڑھتے چہرہ تکیے میں چھپا گئی۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
" رو کیوں رہی ہو ، زندہ ہوں ابھی سامنے دیکھو نظر نہیں آ رہا کیا۔۔۔۔ " وہ جب کمرے میں آتے اسکا ہاتھ چھوڑتے شاور لیتے واپس آیا تو چارپائی پہ اسے بیٹھے روتا دیکھ امن کو شدید غصہ آیا ۔۔۔۔۔
وہ دھیمے مگر تیز لہجے میں قدم اسکی جانب بڑھاتے بولا تھا۔۔ حیا نے اپنی لال ہوئی کالی آنکھوں سے سر اٹھائے اسکی جانب دیکھا ۔۔۔ اور پھر غصے سے منہ گھٹنوں میں دیے رونے کا شغل جاری کیا۔۔۔۔ امن نے تولیہ کرسی کی جانب اچھالا اور چلتا چارپائی کے پاس آیا۔۔۔۔۔
" حیا خودبخود خاموش ہو جاؤ ورنہ برا پیش آؤں گا۔۔۔۔۔۔" اسکے بازو کو پکڑتے امن نے جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ حیا نے لب بھینجتے اپنا بازو اسکی گرفت سے نکالا ۔۔
" تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔۔۔ ایک تو جھوٹ بول کے مجھ سے نکاح کیا میرے ماں باپ کی نظروں میں مجھے گرا دیا تم نے۔۔۔اوپر سے جانے کہاں لے آئے ہو کون لوگ ہیں اور اب تم ان سب انجان عورتوں میں مجھے چھوڑ کے جا رہے ہو۔۔۔۔۔"
اسکے سینے پہ بازو رکھے وہ روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔ حیا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ امن کو باتیں سنا کر واپس بھاگ جائے اپنے ماما پاپا کے پاس۔۔۔۔"
" چپ ایک دم چپ۔۔۔۔ اگر اب ایک آنسو بھی تمہاری آنکھ سے بہا تو یاد رکھنا میں ادھار رکھنے والوں میں سے نہیں۔۔۔ رات کو تو تمہیں چھوڑ دیا تھا مگر اب مجھ سے بچ پانا تمہارے لیے کافی مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔
امن نے غصے سے اسکے ہونٹوں پہ انگلی رکھتے کہا تھا۔۔۔ حیا اچانک اسکی دھاڑ پہ سہمی نظروں سے خود پہ سایہ بنے امن کو دیکھ دم سادھ گئی۔۔۔۔
" لوگ نہیں ہیں یہ میرا خاندان ہے یہ ۔۔۔۔۔ میری فیملی ۔۔۔۔ میرے اپنے ان سب سے تمہیں کوئی بھی خطرہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ اور جہاں تک دھوکے کی بات ہے تو اب تک تو تمہیں عادت ہو جانی چاہیے تھی۔۔ جانتی ہو نا کیسے کچھ سال پہلے تمہارے کمرے میں آیا تھا میں دھوکے سے یاد ہے کہ بھول گئی۔۔۔۔۔"
امن کی آنکھیں غصے اور ضبط سے سرخ ہوئی تھی۔۔۔ اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ حیا کو نظریں جھکانے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔
بھاؤں اسے نظریں پھیرتا دیکھ گہرا سانس بھرتے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔۔ بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ دیوار کے سامنے کھڑے چھوٹے سے آئینے کے سامنے کھڑا ہوا ۔۔ حیا نے دانت پیستے اسے تیز نظروں سے گھورا تھا۔۔۔۔۔۔
اسکے شرٹ لیس کشادہ شففغ سینے اور تواناں بازوؤں کو دیکھ حیا جھرجھری لیتے امن کے دیکھنے پہ نظروں کا رخ پھیر گئی۔۔۔۔۔ امن ایک طرفہ مسکراتے دروازے کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
" کیا ہے۔۔۔۔۔" سامنے کھڑے مٹھو کو دیکھ امن نے ناگواری سے پوچھا جو ڈھیٹ بنتے مسکرا دیا۔۔۔
"آیا (حیا) باجی سے ملنے آیا ہوں...." دروازے سے اندر جھانکنے کی سعی کرتے وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔ امن اسکی حرکت پہ غصے سے اسے گردن سے پکڑتے اوپر فضا میں اٹھا گیا۔۔۔۔
بب بب بھاؤں تت تجھے اللہ کا واسطہ ، مم میں مر جج جاؤں گا ببب بھاؤں دد دیکھ آیا بب باجی کے واسطے مجھے مم معاف کر دے۔۔۔۔ " سانس بند ہونے پہ وہ گردن پہ اسکی سخت گرفت میں روتا ہوا اپنے چھوٹے چھوٹے پاؤں لہراتے بولا تھا۔۔۔ حیا مٹھو کی آواز سنتے اب یوں امن کے فضا میں لہراتے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس میں مٹھو کی گردن تھی۔۔۔۔
وہ پریشانی سے دوڑتے دروازے کی جانب آئی۔۔ امن چھوڑیں مٹھو کو وہ مر جائے گا۔۔۔ " امن کے بازو کو تھامے وہ چلاتے پریشانی سے بولی تھی ۔۔امن نے گردن گھمائے اپنے بازو کو اور پھر حیا کے زرد پڑتے چہرے کو دیکھا اور ایبرو اچکاتے مٹھو کو دھڑام سے نیچے زمین پہ پھینکا۔۔۔۔۔
آج کے بعد میری موجودگی میں میری بیوی سے بیس فٹ دور رہنا اور اسکا نام اپنی زبان میں مت لانا۔۔۔ اس سے پہلے کہ تجھے دو فٹ اور چھوٹا کروں نظر مت آنا یہاں۔۔۔۔۔۔ " قدم دروازے سے باہر نکالتے وہ غراتے لہجے میں اسے انگلی اٹھائے وارن کرنے لگا۔۔۔ اسے باہر مٹھو کی جانب بڑھتا دیکھ حیا نے فورا سے اسکے بازو کو زور سے پکڑتے اپنی جانب کھینچا ۔۔۔ امن نے ترچھی نظر سے حیا کے ہاتھ اور پھر اسکے چہرے کو دیکھا ۔۔۔
امن کے یوں دیکھنے پہ وہ سر کو زور زور سے نفی میں ہلا گئی ۔۔۔جبکہ امن نے بنا کچھ کہے ایک تیز نظر مٹھو پہ ڈالی جو لڑکھڑاتے قدموں سے کھڑا ہوتے سر پر ہاتھ رکھتے امن کو سلیوٹ کرتا وہاں سے الٹے قدموں سے بھاگا۔۔۔ امن اسے جاتا دیکھ اندر کی جانب بڑھا تھا اور زور سے کھونٹی لگائے اسنے حیا کا بازو دبوچا جو بھاگنے کی تیاری میں تھی۔۔۔
"اا اممم امن نن نہیں۔۔۔۔۔۔" حیا نے سہمی نظروں سے اسکے بھاری سرخ ہاتھ کو دیکھا۔۔ جو اسکے خجاب کی طرح سر پہ لپٹے دوپٹے میں الجھا ہوا تھا۔۔۔۔۔ حیا کے یوں دیکھنے پہ امن نے دوسرا ہاتھ اسکے قریب دروازے پہ ٹکایا تھا اور ایک دم سے کھینچتے دوپٹے اسکے سر سے اتارا تھا۔۔۔۔
حیا کا سر لڑکھڑاتے آگے کی جانب ہوا تھا۔۔۔ گھنے سیاہ بال ایک دم سے بکھرتے امن کے کندھوں پہ بکھرے تھے۔۔۔۔ امن نے جھکتے اسکے سر کو کندھے پہ ٹکایا تھا۔۔۔ حیا کی تیز تیز چلتی سانسیں وہ بخوبی محسوس کر رہا تھا۔۔۔ کبھی مسکراتے ہاتھ اسکی کمر کے گرد مضبوطی سے لپیٹتے امن نے چہرہ اسکے بالوں میں چھپاتے گہرہ سانس لیتے انکی خؤشبو کو خود میں اتارا تھا۔۔۔۔
کمر پہ اسکے مضبوط ہوتے ہاتھ کی گرفت محسوس کرتے حیا خود میں سمٹنے لگی تھی ۔۔۔ پاؤں بری طرح سے کپکپا رہے تھے۔۔۔ جبکہ امن نے جھٹکے سے اسے کھینچتے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔۔ حیا نے ڈرتے اسکے سینے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھتے اس سے دور ہونا چاہا ۔۔
" صبح سے بار بار یہ استحقاق سے چھو کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔ " اسکے یوں گردن پیچھے کی جانب لے جاتے فاصلے بنانے پہ امن نے چہرہ اسکی صراحی دار گردن میں چھپاتے سرگوشی کی تھی۔۔۔۔ جبکہ حیا تو اسکے بدلتے انداز پہ اندر سے خوفزدہ سی ہوتے کھڑی تھی۔۔۔۔
اا اممم امن چچچ چھوڑو........." حیا نے بمشکل سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتے لہجے پہ قابو پاتے کہا ۔۔۔ امن نے سر اسکی گردن سے نکالتے سرخ نظروں سے حیا کو دیکھا ۔۔۔۔ اسکے یوں بے باکی سے دیکھنے پہ حیا کی پلکیں لرزی تھیں وہ شرم سے چہرہ جھکائے سرخ پڑتے چہرے سے گردن گھما گئی۔۔۔۔ امن نے ہاتھ اسکی کمر سے سرکاتے بالوں میں الجھایا ۔۔ اور مضبوطی سے اسکے بالوں کو جکڑتے وہ جھٹکے سے اسکا رخ اپنی جانب کرتے اسکے ہونٹوں پہ جھکتے انہیں قید کر گیا ۔۔۔۔۔
اسکی حرکت پہ حیا نے ڈرتے آنکھیں مضبوطی سے میچیں ۔۔۔۔۔ جبکہ امن بےخودی کے عالم میں اسکی مہکتی سانسوں کو خود میں انڈیلتے اسکی جان پہ بن آیا ۔۔۔ سانس سینے میں الجھنے پہ حیا نے ہاتھ اسکے سینے پہ مارتے اسے دور کرنا چاہا تھا۔۔۔ جبکہ مقابل کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔ جبھی اسکے ہاتھوں کو مڑورتے وہ کمر سے لگاتے پھر سے اسکے ہونٹوں پہ جھکا ۔۔۔
حیا کا وجود سن سا پڑنے لگا۔۔ ٹانگیں بے جان سی ہونے لگی۔۔جبھی امن نے دوسرا ہاتھ اسکی کمر میں لے اسکے خود میں بھینجا ۔۔۔اور نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے وہ اسے اٹھائے چارپائی کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
حیا سر اسکے سینے سے ٹکائے گہرے سانس بھرنے لگی۔۔۔۔ اگر اب ایک دفعہ بھی حق جتایا تو یاد رکھنا تمہیں میری قربت سے کوئی نہیں بچا پائے گا ۔۔۔۔ اس لئے اگر میں دور ہوں تم سے تو مجھے مجبور مت کرو کہ میں خود پہ باندھا اپنا ہر پہرا توڑوں اگر ایسا ہوا تو تمہارے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔۔۔۔۔ اسکا سر تکیے پہ رکھتا وہ بھاری سرگوشیاں کرتے حیا کی جان لبوں پہ لے آیا تھا۔۔۔۔۔ امن نے بمشکل سے اسکے دو آتشہ وجود سے نظریں چراتے نرمی سے اسے ہونٹوں کو چھوا اور دوپٹہ اسکے پاس رکھتے وہ بنا کچھ کہے ایک بھرپور نظر اسکے لرزتے وجود پہ ڈالتے اپنی شرٹ اٹھاتے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
وریام بلاؤ ویام کو نیچے کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!" رافع نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے اندر داخل ہوتے کہا تھا۔۔۔ وریام سمیت نیناں اور حرمین جو ناشتہ کر رہی تھیں سب نے مڑتے پیچھے دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں پہ رافع شدید غصے سے اندر داخل ہوا تھا۔
ارے رافی یار آ جا۔۔۔۔۔۔ آج اتنی صبح صبح ۔۔۔ چل آ ناشتہ کر لے۔۔۔۔۔۔! '
وریام جگہ سے اٹھتے مسکراتے پرجوش سا آگے بڑھا ۔۔
میں یہاں ناشتہ کرنے نہیں آیا ویام کو بلاؤ مجھے بات کرنی ہے اس سے۔۔۔۔ " رافع نے چہرے پہ سرد مہری سموئے پوری رات جاگنے کے سبب سرخ ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے کہا ۔۔ جبکہ وریام نے الجھن سے اسکے تاثرات دیکھے۔۔۔
کیا بات ہے کچھ ہوا ہے کیا ۔۔۔۔۔ اتنے غصے میں کیوں ہے کیا کچھ کیا ہے اس کمینے نے۔۔۔۔۔!" وریام نے آگے بڑھتے اسکے بازو پہ ہاتھ رکھتے اسکا چہرہ دیکھتے تشویش سے پوچھا ۔۔۔ رافع نے ایک نظر اسکے پریشان چہرے کو اور پھر سہمی سی نیناں اور حرمین پہ ڈالی ۔۔۔۔۔۔ وہ سب کو پریشان نہیں کر سکتا تھا یہ سب اسکے اپنے تھے۔۔۔۔
" وریام میں نے رات کو ویام کو کال کر کے آگاہ کر دیا تھا کہ عیناں ابھی اس رخصتی کے لئے تیار نہیں۔۔۔ میری بچی نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ وہ ابھی ایک سال مزید پڑھنا چاہتی ہے ۔۔۔ اسی وجہ سے میں نے ویام کو کال کر کے عیناں کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔۔ اور وہ وہ کمینہ انسان میرے ہی گھر سے میرے بیٹی کو میری اجازت کے بغیر اٹھا کے لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ " جبڑے بھینجتے وہ لاکھ کوشش کے باوجود اونچی آواز میں بولا ۔
کہ وریام نے سنتے آنکھیں میچیں تھیں جبکہ حرمین نے آنکھیں پھیلائے اپنی موم کی جانب دیکھا جو خود بھی شاک سی منہ پہ ہاتھ رکھی کھڑی تھی۔۔۔۔
بلاؤ اسے کہاں ہے وہ ۔۔۔۔۔۔" ان سب کو اگنور کیے وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا ۔۔۔
وہ گھر پہ نہیں ہے رافع ۔۔۔۔۔" آنکھیں میچتے اسے اوپر کی جانب بڑھتا دیکھ وریام نے اسے پکارتے کہا ۔۔۔ رافع نے پیشانی پہ ڈالے مڑتے وریام کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔
کیا کہاں ہے وہ ۔۔۔۔۔۔؟ میری بچی کہاں ہے عیناں ۔۔۔ ؟ ضرور وہ اسے لے گیا ہے پھر سے ۔۔۔۔ اوہ خدایا۔۔۔۔ وریام پلیز اپنے بیٹے کو کال کرو اسے بولو کہ مجھے میری عیناں سہی سلامت اگلے ایک گھنٹے میں اپنے سامنے چاہیے، ۔۔۔۔۔ "
وریام کی جانب دیکھتے رافع نے جبڑے بھینجتے سرخ ہوئی آنکھوں سے طیش سے کہا ۔۔۔ وریام اپنی شیو کو مسلتے کافی پریشان سا ہو گیا ۔۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ ویام ایسا کچھ کرے گا، ۔۔۔۔
رافع پریشان مت ہو دیکھ اسے آنے دے گھر میں بات کروں گا اس سے ، سمجھاؤں گا اسے۔۔۔ وریام نے آگے بڑھتے اسکے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا ۔ رافع نے بس بسی سے اپنے بالوں کو نوچا ۔۔۔
اگر وہ آئے تو اسے کہہ دینا کہ مجھے میری بیٹی اپنے گھر پہ سہی سلامت چاہیے ورنہ میں ہر لخاظ بھول جاؤں گا۔۔۔
ایک باپ اپنی اولاد کے معاملے میں اتنا ہی حساس ہوتا ہے ، اسے رات انزِک سے جب سے یہ خبر ملی تھی اسکا بس نہیں تھا کہ ابھی جا کر ویام سے اپنی عیناں جو واپس لے آئے مگر وہ اسکی سوچ سے بھی بڑا کمینہ تھا شاید وہ جانتا تھا کہ رافع گھر آئے گا اسی لئے تو وہ اسے کہیں اور لے کے گیا تھا۔۔۔
💥💥💥💥💥
مے آئی کم اِن سر۔۔۔۔۔ ہاتھ پشت پہ باندھے وہ آفس کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوتا مؤدب سا بولا ۔۔۔ یس کم اِن ۔۔۔۔۔"
کمشنر نے سامنے دیکھتے اسے اجازت دی تھی ویام چلتے اندر آیا ۔۔۔ جہاں ایک جانب کرپس ہاتھ پشت پہ باندھے کھڑا تھا۔۔۔
الایہ کہاں ہے ویام۔۔۔" کمشنر نے ائبرو اچکاتے ہوئے پوچھا ۔ ویام نے آگے پیچھے دیکھا مگر الایہ نہیں تھی۔۔ وہ عیناں کے پاس سے سیدھا یہاں آیا تھا آج ان کی بہت ضروری میٹنگ تھی یا پھر یوں کہا جائے کہ انکے مشن کا آغاز تھا آج ۔۔۔۔۔
سوری سر مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔ " ویام نے بنا چونکے کہا تھا اس سے پہلے کہ کمشنر کچھ بولتے الایہ کی آواز پہ سب نے بلیک یونیفارم میں لمبے بالوں کی پونی ٹیل بنائے تیکھے نقوش کے ساتھ کھڑی الایہ کو دیکھا۔۔۔
کمشنر نے سکھ کا سانس لیتے اسے آنے کی اجازت دی ۔۔۔ تو وہ چلتی ویام کے برابر کھڑی ہوئی۔۔ مگر اسکے چہرے کے بھیانک تاثرات ویام کے چہرے پہ تروتازگی پھیلا گئے وہ جانتا تھا عین کے غائب ہونے کی خبر سے الایہ کا موڈ بگڑ چکا ہو گا ،
ویام کہاں ہیں ایس پی اذلان۔۔۔؟ الایہ کو دیکھ کمشنر نے اسے پکارا ۔۔۔ اتنی دیر میں اذلان سب کو مخاطب کرتے اندر آیا ۔۔۔ ویام سے ہاتھ ملاتے اذلان نے سرشاری سے مسکراتے جاتے کمشنر کی جانب ہاتھ بڑھایا ۔۔۔
وہیں دوسری جانب اذلان کو اپنے سامنے پاتے الایہ نے حیرت سے منہ کھولے ویام اور پھر اذلان کو دیکھا جس کی نظریں ابھی تک الایہ پہ نہیں پڑی تھی۔۔۔
اذلان نے مسکراتے سر گھمایا تو جیسے ہی نظر الایہ پہ پڑی ۔۔۔ اسکا وجود جیسے سن سا پڑ گیا تھا۔۔۔ کان میں سائرن سے بجتے محسوس ہونے لگے۔۔ الایہ یہاں اس آفس میں سب کے ساتھ ، اور پھر نظریں کرپس پہ پڑی تھیں ۔۔۔ جسے دیکھتے ہی اذلان پہچان گیا تھا ۔۔۔ الایہ کے ساتھ اس رات وہی تو تھا۔۔ جسے اذلان نے دیکھا تھا۔۔۔
اذلان نے بے یقنی سے گردن گھماتے شاک کی کیفیت میں ویام کو دیکھا ۔۔ کچھ ایسی ہی حالت الایہ کی بھی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں خونخوار نظروں سے ویام کو دیکھ رہے تھے جبکہ کمرے میں موجود باقی نفوس انکے تاثرات دیکھ کافی الجھے اور حیران تھے۔۔۔۔ ویام نے ایک نظر اذلان کو دیکھا اور پھر گردن الایہ کی جانب کرتے وہ دونوں کو دیکھتے کندھے اچکا گیا۔۔۔۔
اذلان کی حالت تو جیسے بن پانی کے مچھلی جیسی ہو گئی تھی۔۔۔۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ الایہ پیرس کسی کیس کے سلسلے میں گئی ہو گی اور تو اور اس نے سوچا تک نہیں تھا کہ وہ ایک اسپیشل فورس آفیسر ہو گی۔۔۔ اپنی حرکت اپنا غصہ سب کچھ کسی فلم کی مانند اذلان کی کالی آنکھوں کے سامنے چلتے اسکے وجود میں کرنٹ سا دوڑا گیا۔۔۔
وہیں الایہ کا بس نہیں تھا کہ وہ ویام کو شوٹ کر دے ۔۔۔وہ جانتی تھی اذلان کو اپنے ساتھ اس کیس میں انوالو کرنے کی کمینی حرکت ویام کے علاؤہ اور کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
میرے خیال میں ہم یہاں کیس کے سلسلے میں اکھٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔' گلا کھنکھارتے ہوئے کمشنر نے تینوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔۔ ویام سنتے سینہ تانے کھڑا ہوا
۔۔۔ اس کے انگ انگ سے سرشاری جھلک رہی تھی جو صرف و صرف عین کی موجودگی کے احساس سے تھی۔۔۔۔
" سوری سر یو کیری آن۔۔۔۔۔" کرپس نے الایہ کی شرمندہ سی آواز کو دل و جان سے کانوں کے رستے دل تک اتارا تھا۔ بہت کم ہی تو وہ شرمندہ ہوتی تھی۔۔۔۔
آئی ہوپ کہ آپ سب ایک دوسرے کو اچھے سے جاتے ہونگے ۔۔۔۔ اذلان سے انکی ملاقات پہلے ہی ہو چکی تھی وہ بات کا آغاز اچھے سے کرتے سب کو دیکھنے لگے سب نے گردن ہاں میں ہلائی تھی۔۔۔۔
ہممممم ۔۔۔ آپ جانتے ہیں، پچھلے ہفتے جو تیس معصوم لڑکیاں اغواء ہو کر آئی تھیں وہ پاکستان سے آئی تھی مگر ایس پی اذلان جیسے بہار آفیسر کی وجہ سے ان بچیوں کو بر وقت بازیاب کروا لیا گیا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے ہمیں فخر ہے ان پہ۔۔۔ اذلان کی جانب دیکھتے وہ مسکراتے فخریہ لہجے میں بولے ۔۔ الایہ نے ٹھٹکتے نا محسوس انداز میں سنجیدہ سے کھڑے اذلان کو دیکھا۔۔۔۔ بلیک یونیفارم زیب تن کیے وہ کافی خوبرو دکھ رہا تھا۔۔ سر جھٹکتے وہ نظریں پھیر گئی۔۔۔۔
مافیا کی دنیا میں جانی مانی ہستیاں ڈائنہ اور ایچ اے آر ان دونوں نے اب گھٹ جوڑ کر لیا ہے ۔۔۔ انفارمیشن ملی ہے کہ اس ہفتے وہ دونوں کوئی بڑا دھماکہ کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔ پوری مافیا کی ایک دھماکہ خیز پارٹی ہو گی۔۔۔ جہاں پہ نئی جگہوں کا اعلان ڈائنہ کرے گی کہ کونسی سی جگہ کونسا ڈرگس اور کیسے پہنچے گا۔۔۔
ویام تم اور کرپس یہاں ہی رہو گے۔۔۔ ڈائنہ اس وقت لندن میں ہے تم دونوں کو اس کے ایک ایک قدم پہ نظر رکھنی پڑے گی اور یہ پتہ کرنے کی کوشش کرو کہ آخر وہ پارٹی میں کونسا دھماکہ کرنا چاہتی ہے ۔۔ آخر اس بار وہ ایسا کیا کرنے والی ہے کہ پوری مافیا ورلڈ چوکس ہو گئی یے۔۔۔ الایہ اور اذلان آپ دونوں پیرس جائیں گے ۔۔۔ ایچ اے آر اس وقت پیرس میں ہے ۔۔۔۔ وہ دماغ سے ڈائنہ سے بھی زیادہ شاطر ہے۔۔ اس کا اعتماد جیتو اور کسی بھی طرح سے اسے ٹریپ کر کے اسے خلاف ثبوت اکھٹے کرو ۔۔۔۔ پارٹی سے پہلے ان دونوں کو پکڑنا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔۔۔۔۔
از دیٹ کلئیر ٹو آل آف یو ۔۔۔" کمشنر نے ان چاروں کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔ سب نے بآواز بلند یس سر کہا تھا۔۔۔۔
ویام تم رکو مجھے بات کرنی ہے کچھ۔۔۔ ان سب کو نکلتا دیکھ کمشنر نے ویام کو پکارتے روکا تھا۔۔۔ جبکہ باقی وہ تینوں قطار میں آفس سے نکلے تھے۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
ڈیڈ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں ایک بار بھائی سے پوچھ لیں ان کو بتا دیں۔۔۔۔" حرمین صبح سے دس بار وریام کی منت کر چکی تھی جبکہ وریام ایک ہی ضد پہ اڑا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی رافع کے جانے کے بعد صوفیہ آئی تھی۔۔۔ حرمین اس سے بہت اچھے سے ملی تھی۔۔۔
صوفیہ نے حرمین کی طرح ہی ان کو اپنا نام ماریہ بتایا اور وریام اور نیناں کے ساتھ کافی اچھے سے بات کری تھی۔۔ اس کے بعد وہ اپنے مقصد سے انہیں آگاہ کرتے التجا کرنے لگی کہ وہ کسی بھی طرح سے حرمین کو ساتھ لے کر جانا چاہتی یے۔۔۔۔۔ نیوزی لینڈ میں اسکا اپنا فارم ہاؤس تھا اسے علاؤہ اسکا بھائی بھی وہاں تھا۔۔۔ حرمین کی حفاظت کا زمہ بھی وہ اپنے سر لے چکی تھی۔۔۔
مگر وریام نے صاف الفاظ میں اسے بھیجنے سے منع کر دیا تھا۔۔۔ جس کے بعد ماریہ نے منت سماجت کرتے اسے پاکستان جانے کے لئے منا لیا تھا۔۔ جہاں وہ مری میں قیام کرنے والے تھے۔۔ پاکستان میں اشعر اور حسن کا سوچتے وریام نے ماریہ کو بھر دی۔۔۔۔۔
" تم میری بیٹی ہو اور جب میں تمہیں اجازت دے رہا ہوں تو پھر وہ کون ہوتا ہے کچھ کہنے والا۔۔۔ " وریام نے ویام کا سنتے غصے سے کہا تھا جبکہ صوفے پہ بیٹھی ماریہ اب کافی پرسکون تھی کہ ایل کی بے چینی اب ختم ہونے والی تھی۔۔۔۔ حرمین اپنے ماں باپ سے دور ایک بار پھر ایل کی قید میں جانے لگی تھی ہمیشہ کیلئے۔۔۔۔
وریام آپ کو کس بات کی جلدی ہے ماریہ بیٹا آپ بھی ایک دو دن رہ لو ابھی تو حرمین کو دوبئی سے آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔۔۔ کچھ دنوں کے بعد آپ دونوں چلے جانا۔۔۔۔
نیناں جو کب سے سب خاموشی سے ہوتا دیکھ رہی تھی اب ویام کے لئے وریام کے سخت الفاظ اسے بولنے پہ مجبور کر گئے۔۔۔ اگر وہ عیناں کو لے کر گیا تھا تو کیا گناہ کیا تھا اس نے۔۔۔۔ وریام کو کوئی حق نہیں تھا اسکے لاڈلے کو یوں بات بہ بات طعنے دینے کا ۔۔۔۔۔
آنٹی میرا اپنا ارادہ بھی یہی تھا مگر آپ یقین کریں اس ٹوور کے بعد میرے اپنے ایگزامز ہیں اسی وجہ سے میں چاہتی ہوں کہ کچھ دن ہم دونوں ایک ساتھ گزاریں۔۔۔۔" ماریہ نے رسان سے نیناں کو جواب دیا تو نیناں لب کچلتے رہ گئی۔۔۔۔
حرمین آپ جانا چاہتے ہو ہاں یا نہیں۔۔۔۔،" وریام نے حرمین کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے محبت سے پوچھا ۔۔۔ تو حرمین نے ایک نظر ماریہ کی التجا کرتی آنکھوں پہ ڈالی اور پھر ہولے سے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔۔
تو بس آپ ابھی جائیں گی ۔۔۔۔' یہی تو دن ہیں پرنسز انجوائے کرو اور اپنے بھائی کی فکر کرنا چھوڑ دو وہ گدھا تمہیں کچھ کہہ کر دیکھے۔۔۔ نرمی سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے وریام نے دانت پیستے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔ ماریہ ان کے ماننے پہ جگہ سے مسکراتے اٹھی۔۔۔۔
اپنا خیال رکھنا حور میرا دل نہیں چاہ رہا مگر اگر میری بیٹی چاہتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ "حرمین نے نیناں کے جانب دیکھا تو وہ بھی اپنے دل پہ بندھ باندھے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ لیے اسکی جانب آئی تھی۔۔۔ اور مسکراتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیتے وہ اپنے سینے سے لگا گئی۔۔۔۔
میں جلدی ہی واپس آؤں گی موم۔۔۔۔ نیناں کے ہاتھوں کو تھامے حرمین نے یقین دلایا تو نیناں نے سر ہلاتے انشاء اللہ کہا تھا۔۔۔۔
اس کے بعد وہ ماریہ کے ساتھ باہر کی جانب بڑھی ۔۔ وریام اور نیناں اسے چھوڑنے آئے تھے۔۔۔ ماریہ پورے بندوست سے آئی تھی۔۔۔ اسنے پہلے ہی ایل کے کہنے پہ نیوزی لینڈ کے بجائے پاکستان کی ٹکٹیں بک کروائی تھی۔۔۔۔
حرمین کو باہر نکلتا دیکھ اسکی نیلی آنکھوں میں سرخی سے اتری ۔۔۔۔ اسنے بے چین نظروں سے اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھتے گردن کو ہاتھ سے سہلایا ۔۔ بے قراری حد سے سوا تھی۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ آنکھیں اسکے دیدار پہ چمک اٹھی تھی۔۔۔۔
" ویلکم بیک سن شائن۔۔۔۔ پہلے تم میرے ہوش میں آنے سے پہلے ہی مجھ سے دور ہو گئی تھی مگر اب۔۔۔ کہتے ایل کے ہونٹوں پہ قاتل مسکراہٹ دھر آئی۔۔۔ مگر اب تمہیں اپنے پاس ایسے قید کروں گا کہ تم چاہ کر بھی مجںھ سے دور نہیں جا پاؤ گی۔۔۔۔ اسکرین سے اوجھل ہوتے اس سفید پراڈو کو دیکھتے وہ جذب کے عالم میں شدت سے بولا تھا۔۔۔
" وہ بلیو شارٹ فراق جس کے ساتھ گولڈن میچنگ جینز اور گولڈن ہی حجاب سلیقے سے لئے ، بڑی بڑی سرمئی حیا سے جھکی آنکھیں، سرخ و سفید رنگت ، چھوٹی سی ناک جو قدرے موٹی سی تھی مگر اسکے چہرے پہ کافی خوبصورت لگتی تھی ۔۔ وہ مکمل طور پہ شرم و حیا کا پیکر بنے معصومیت میں ڈوبی تیمور شیرازی کے دل میں اتری تھی۔۔۔
وہ بلا جھجھک اپنی موم ، اپنی بہن اور دعا کی موجودگی میں اسے یک ٹک گھور رہا تھا۔۔۔ جہاں مسز شیرازی اپنے بیٹے کی اس حرکت پہ کافی شرمندہ سی ہو رہی تھی وہیں دعا کا دل کافی مطمئن تھا میرب کی خاموشی اسے حد سے زیادہ حیران کن لگی تھی مگر وہ انجان تھی کہ میرب نے حیا دار شرم و حیا سے لبریز لڑکیوں کی سرچ میں سارا گوگل چھان مارا تھا ۔۔۔ جبھی تو وہ انکے سامنے کافی معصومیت سے نظریں فرش پہ گھاڑے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
" میں نے تو ساس کو پٹانے کی تیاری کی تھی مگر اس بلے کی نظروں سے لگتا ہے کہ ساس کی جگہ سئیاں پٹ گیا ہے۔۔۔۔۔۔" اپنی عادت سے مجبور وہ ناچاہتے ہوئے بھی بڑبڑائی تھی۔۔۔
اسکے ہلتے باریک ہونٹوں کو دیکھ تیمور مسکراتے سر جھٹکتا کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گیا ۔۔۔۔
" بیٹا آگے کا کیا ارادہ ہے مطلب یہ کہ کیا آپ لندن میں بزنس شفٹ کریں گے یا پھر وہیں رہنے کا ارادہ ہے۔۔ " دعا نے کافی کا کپ تیمور کے سامنے رکھتے سوال کیا ،۔۔۔۔
ارادہ تو نہیں تھا آنٹی مگر اب لگتا ہے لندن میں جلد ہی شفٹ ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔۔ میرب کو گہری نظروں سے دیکھتے وہ معنی خیزی سے بولا تھا۔۔۔۔
تانیہ نے ماں کو ٹہوکا مارتے تیمور کی جانب راغب کیا تھا۔۔۔ جو خود ہاتھ مسلتے کافی پریشان ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ بیٹا یہ تو کافی اچھی بات ہے ۔۔۔ تمہارے انکل کو کوئی ضروری کام تھا ورنہ وہ تم سے مل کے کافی خوش ہوتے ۔۔۔ دعا کافی متاثر ہوئی تھی۔۔۔ تیمور کا لب و لہجہ اسکی شکل و صورت وہ ہر لخاظ سے اسے اپنی میرب کے لئے پرفیکٹ لگا تھا۔۔۔۔ کچھ ایسی ہی سوچ میرب کی بھی تھی اسے پہلی نظر دیکھ وہ شکل و صورت میں اسے اسی فیصد نمبر دے چکی تھی۔۔ باقی سو فیصد اسکی نظر میں صرف اسکے حود کے ہی تھے۔۔۔۔
یہ تو کل سے میرے پیچھے پڑا تھا کہ موم آنٹی کے گھر چلیں مگر تم تو جانتی ہو ناں کہ سوشل سرکل کیسا ہے میرا کافی بزی ہوتی ہوں اسی وجہ سے میں نے بہت مشکل سے آج وقت نکالا ہے۔۔ " میرب کے ہاتھ کو تھامتے مسز شیرازی دعا سے بولی۔۔۔ جبکہ تیمور کی مسکراتی تیز نظریں میرب پہ تھیں۔۔۔۔ اسے ایسی ہی سادہ لوح بیوی چاہیے تھی۔۔۔۔ جو اس کی ہر بات خاموشی سے سن لے کبھی آگے سے بولنے کی جرت ناں کرے۔۔۔اور میرب اسے بالکل پرفیکٹ لگی تھی۔۔۔ مگر وہ جانتا نہیں تھا کہ بظاہر سادہ لوح رکھنے والی یہ لڑکی اندر سے کتنی پوری تھی۔۔
اگر وہ تیمور کی زندگی یا پھر اسکی عیاشیوں کی بابت جان لیتی تو اپنی ساری شرافت ایک سائڈ رکھتے وہ کافی اچھے سے اسکی خاطر تواضع کر سکتی تھی۔۔۔۔ مگر مسز شیرازی کا دعا کے سامنے تیمور کے لیے کھینچا نقشہ بالکل ہی معصوم سا تھا۔۔۔ اور ابھی وہ جس انداز سے سب سے پیش آ رہا تھا۔۔ دعا تو بالکل ہی تیار تھی اس رشتے پہ۔۔۔۔۔
میرب نے بمشکل سے لب کو آپس میں پیوست کرتے اپنی اونگ کو روکا تھا۔ ورنہ دل تو تھا کہ اس بورنگ سی میٹنگ پہ منہ کھول کر اچھے سے اونگے۔۔۔۔ مگر کچھ وقتی شرم و حیا آڑے آ رہی تھی۔۔ اور کچھ خود پہ ٹکی تیمور کی نظریں اسے ایسا کرنے سے روکے ہوئے تھی۔۔
عیناں اور فدک کا وہ کتنی دیر انتظار کرتی رہی مگر وہ دونوں نہیں آئی تو دعا نے کال کرتے انزِک سے پوچھا تھا ، انزِک نے سرسری سا بتایا تھا کہ عیناں کو ویام لے گیا تھا جس کی وجہ سے موم کافی پریشان ہیں اسی وجہ سے وہ نہیں آئیں گی ۔۔ فدک سے ہی انزِک کو میرب کے رشتے کی بابت پتہ چلا تھا۔۔۔۔ وہ بے تاثر سا سنتے عجیب سی کیفیت میں معذرت کرتا کال کاٹ گیا ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بات چیت کے بعد وہ اجازت لیتے اٹھے تھے جس پہ میرب نے سکون کا سانس خارج کیا اسے سر میں شدید قسم کی کھجلی ہو رہی تھی ۔ اتنا ٹائٹ حجاب باندھنے پہ اندر موجود اسکے نازک بال بری طرح سے درد کر رہے تھے۔۔۔ وہ بہت کم خجاب لیتی تھی ۔ ویسے بھی وہ عیناں کے گھر ہی تو جاتی تھی یا پھر پورا دن اپنے گھر میں گزارتی ۔ ۔ مگر آج تیمور کی آمد پہ اسکا دل چاہا کہ وہ خجاب لے تو اس نے خجاب نکالتے لے لیا تھا جس پر دعا نے کافی تعریف بھی کی۔۔۔۔
آنٹی آپ سے ایک اجازت چاہیے تھی ۔ " میرب کو کمرے سے نکلتے دیکھ تیمور نے دعا کو دیکھتے نرم لہجے میں ادب سے کہا ۔۔۔ مسز شیرازی کی رنگت بالکل سفید پڑی انہوں نے تیمور کو آنکھوں سے باز رہنے کا اشارہ کیا جسے وہ سرے سے نظر انداز کر گیا۔۔
" بیٹا آپ بلا جھجک بات کریں ، آپ بھی میرے بیٹے کے جیسے ہیں۔۔۔ دعا نے ہاتھ تیمور کے کندھے پہ رکھا تو تیمور مسکرایا۔۔۔
شکریہ آنٹی ۔۔۔ میں جھوٹ بولنے کا یا پھر بات گھما پھرا کے کرنے کا عادی نہیں ہوں دراصل مجھے میرب بے حد پسند آئی ہے آپ میرے اظہار کو چاہے جو مرضی نام دے دیں مگر یہ سچ ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں مجھے وہ اچھی لگنے لگی ہے۔۔۔ میں اسے اپنے ساتھ ڈنر پہ لے جانا چاہتا ہوں ، اگر آپ اور انکل اجازت دیں تو ورنہ مجھے کوئی ایشو نہیں میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تھوڑا سا ٹائم اکیلے میں اسکے ساتھ سپینڈ کروں ۔۔۔ تاکہ ایک دوسرے کو جاننے میں آسانی ہو۔۔۔۔۔۔
بہت سلیقے سے اسنے دعا کو چاروں اور سے اپنی باتوں کی لپیٹ میں لیا کہ وہ اسکی باتوں میں الجھ سی گئی مگر تیمور کا لب و لہجہ اسے کافی اچھا لگا تھا کہیں سے بھی ایسا نہیں محسوس ہوا کہ وہ پہلی بار ملی تھی اس سے۔۔۔۔۔۔۔!"
ایک بار داؤد سے پوچھ کے آپکو آگاہ کروں گی بیٹا دراصل میرب کے معاملے میں وہ تھوڑے جذباتی ہیں ۔۔ ویسے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر ان سے پوچھنا بھی ضروری ہے۔۔۔
دعا نے سہولت سے اپنی بات اسکے سامنے رکھی تھی۔۔۔ جسے سنتا تیمور جبرا مسکرایا۔۔۔۔ اسکا ارادہ جلد از جلد میرب کے قریب آنے کا تھا۔۔ ویسے بھی شادی کا وہ فیصلہ کر چکا تھا۔۔ مگر اس نازک وجود نے جو دل و دماغ کے تار چھیڑے تھے۔۔ تیمور شیرازی مکمل طور پہ اسکا گرویدہ ہوا تھا ۔۔۔ ایک بار داؤد حامی بھر دے۔۔۔۔۔ "
آسمان کی جانب دیکھتے وہ پرسوچ انداز میں سوچتا سر جھٹک گیا ۔۔۔۔۔
انسان کے چہرے سے اسے اندر کی پہچان کرنا اگر ممکن ہوتا تو اس دنیا میں کوئی بھی دل آج اداس افسردہ ناں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات نقاب میں لپٹے زہریلے چہرے انسان کو اندر سے توڑ کر اسکی روح کو فنا کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور ایسے زخموں سے ابھرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔۔
💥💥💥💥💥
" سنو اس بیڈ پہ صرف میں ہی لیٹوں گی تم اپنا بندوست کر لو۔۔۔۔۔۔ تھکا دینے والے لمبے سفر کے بعد وہ اس چھوٹے سے ہٹ نما کمرے میں آئے تھے جہاں پہ اندر کا ماحول باہر سے یکسر تبدیل تھا باہر سے معمولی سا دکھنے والا یہ چھوٹا سا ہٹ نما کمرہ اندر سے کافی وی آئی پی طرز کا تھا ایک جانب کمپیوٹرز پہلے سے ہی سیٹ کیے گئے تھے چونکہ الایہ کا سارا کام ہی سسٹم کے متعلق تھا ، جبھی ویام نے سارا سیٹ اپ پہلے سے کیا تھا ۔۔۔
الایہ کا دل کافی ہلکا ہوا تھا مگر پھر جب نظر درمیان میں لٹکے ڈارک چاکلیٹ کے شائننگ پردوں پہ پڑی تو وہ اذلان کو اگنور کیے چلتے آگے بڑھی ، جیسے ہی اسنے ہاتھ سے پردہ پیچھے سرکایہ تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی ، وہ چہرے پہ بل سجائے بیڈ کی جانب دیکھ رہی تھی۔۔۔ اذلان جو کندھے پہ ڈالا اپنا بیگ ایک جانب رکھتے الایہ کو یوں خاموش دیکھ اسکی جانب آیا ۔۔۔
تو اسے حیرت ہوئی آخر اسکی پٹاخہ اتنی خاموش تھی ۔۔۔ آخر کیوںںںں۔۔۔۔۔۔!"۔ اذلان نے ششدر سا اسے سر تا پاؤں دیکھ قدم اسکی جانب بڑھائے ۔۔۔ اور کندھے پہ تھوڑی ٹکائے وہ سامنے دیکھنے لگا ۔۔ سامنے موجود سنگل بیڈ کو دیکھے اذلان کی آنکھوں میں شریر سی چمک دور اٹھی۔۔۔ آج پہلی بار اسکا دل چاہا کہ ویام اسکے سامنے ہوتا تو وہ بنا کسی پس و پیش کے اسکے گلے لگتے اس کا سر ماتھا چومتا۔۔۔۔۔۔
الایہ نے فورا سے اپنے کندھے کی جانب دیکھا اذلان کی تیز پرفیوم کی خوشبو الایہ کے حواس پہ طاری ہونے لگی تھی۔۔۔ جبھی و جھٹکے سے مڑی۔۔۔۔ اور اذلان کو دیکھتے اسے اپنا فیصلہ سنایا۔۔۔
اذلان کافی دیر اسکے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر اپنی ہلکی سی بلیک شیو کو ہاتھ سے کھجاتے وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔۔
میرا ایسا کوئی بھی ارادہ نہیں ، میں نیچے نہیں ہو سکتا وہ کیا ہے ناں سیوٹ ہارٹ میں ایک پولیس آفیسر ہوں مجھے تو ٹریننگ میں بھی نیچے سونے کو نہیں ملا تو بھلا میں اب کیسے سو سکتا ہوں۔۔۔۔ ویسے ایک بات ہے جو سیکریٹ فورس آفیسرز ہوتے ہیں انکے بارے میں میں نے کافی سنا ہے کہ وہ کافی مشکلات سے گزرتے ہیں جیسے ٹھنڈ میں فرش پہ سونا انکے لئے بالکل بھی مشکل نہیں ہوتا۔۔۔۔
تو مجھے امید ہے کہ تم کافی اچھے سے مینج کر لو گی ۔۔۔۔ اذلان نے ایک طرفہ مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے الایہ کو سر تا پاؤں دیکھا جو اس سے چار قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔۔۔۔
ویسے اگر تم میرے ساتھ سونا چاہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔" اسنے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں لہراتے کندھے اچکاتے کہا اور الایہ کے خطرناک تاثرات دیکھ اذلان نے فورا سے اپنا بایاں ہاتھ شرٹ کے سب سے اوپری بٹن پہ رکھا ۔۔ الایہ کے بڑھتے قدم پہ اذلان نے دوسرا بٹن کھولا ، جیسے ہی وہ ایک قدم کے فاصلے پہ بھرپور اعتماد سے اسکے سامنے سینے پہ بازوؤں ٹکائے کھڑی ہوئی امن نے چوتھا بٹن نظریں جھکائے کھولا اور الایہ کے رکتے قدم پہ اسنے ترچھی نظر سے الایہ کو دیکھا۔۔۔۔
اسے امید تھی وہ آگے نہیں بڑھے گی ۔۔ اور وہ کامیاب ٹہرا تھا۔۔۔ اپنے کامیابی پہ مسکراتے اسنے دلفریب سی مسکان اپنے عنابی ہونٹوں پہ سجائی اور پھر گردن جھکائے ایک عام سی نظر شرٹ کے کھلے بٹنوں سے جھلکتے اپنے کشادہ سینے کو دیکھا۔۔
مگر اگلے ہی لمحے اسکے کان کے قریب ایک جھٹکے سے الایہ نے وار کرتے اسے گرانا چاہا جس پہ اذلان نے تیر کی تیزی دکھائے الٹی چھلانگ لگائی اور پھر ویسے ہی وہ چھلانگ لگاتے کھڑا ہوا ۔۔۔
دونوں ہاتھوں کے مکے بنائے وہ ایک پاؤں آگے کی جانب بڑھاے چہرے پہ سنجیدگی سموئے کھڑی تھی۔۔۔ اذلان کے کھڑے ہونے پہ الایہ نے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو ہلاتے اسے ہنستے اپنی جانب بلایا۔۔۔ جسے دیکھ مقابل کے چہرے پہ جان لیوا مسکراہٹ نے اپنی چھپ دکھائی جبھی وہ مسکراتا باقی کے بچے بٹن کھول شرٹ پیچھے کو پھینکتے آگے بڑھا تھا۔۔
الایہ سے تین قدموں کے فاصلے پہ کھڑا ہوتے اذلان نے بھی دونوں ہاتھوں کو مکے کی طرح بھینجا اور گردن گھمائے وہ اپنے کسرتی وجود کو حرکت دیے الایہ کو کھلے عام پہلے وار کرنے کی اجازت دے گیا۔۔۔۔ الایہ نے دانت پیستے اپنا بایاں ہاتھ اسکے چہرے کی جانب بڑھایا جسے اذلان نے چہرے کے قریب جانے پہ تھام لیا الایہ نے غصے سے اپنے دوسرے ہاتھ سے وار کرنا چاہا تھا جسے اذلان نے تھامتے الایہ کے کراس کیے ہاتھوں کو دبوچتے اپنی جانب کھینچا وہ جھٹکے سے اسکے وجود سے جا لگی۔۔۔
اذلان کے وجود کی جان لیوا فضا میں بکھری خؤشبو رقص کرتی تیز دھڑکنوں کا شور اوپر سے اسکی بے انتہا قربت جانے کیوں الایہ کی پلکیں لرز پڑی حیا سے ، اپنی تیز ہوتی سانسوں پہ قابو کرتے الایہ نے جھکٹے سے اپنا پورا زور لگاتے اسے پیچھے دھکیلا۔۔۔اذلان خود بخود ہی مسکراتا پیچھے ہوا اور دیوار سے لگتے اسنے گھماتے الایہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسکی پشت کو اپنی جاب کھینچا اور ہاتھ آگے اسکے پیٹ کے قریب لے جاتے وہ بری طرح سے اسے شنکجے میں لے چکا تھا۔۔۔۔
"بہت بری کوشش تھی ڈارلنگ مزید محنت کی ضرورت ہے۔۔۔ اسکے کان کے قریب اپنے دہکتے ہونٹ لے جاتے وہ سرگوشی کرتا اپنے ہونٹ اسکے کان کی لو پر رکھ گیا۔۔۔ الایہ نے جھرجھری لیتے اپنے ہاتھ چھڑوانے چاہے مگر وہ اسکی ٹانگوں کو بھی اپنے بھاری ٹانگوں میں الجھا چکا تھا ۔۔۔ کہ الایہ ہی کوشش کے باوجود بھی وہ ہانپتے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔۔
" ویسے کافی اچھا پرفیوم ہے کونسا پرفیوم یوز کرتی ہو۔۔۔۔۔ اذلان نے ناک کندھے پہ اسکی شرٹ کے اندر لے جاتے سہلایا الایہ لب بھینجتے آنکھیں میچ گئی۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ اسے زچ کر رہا تھا اپنی حرکتوں سے اسے دوبارہ سے اپنے قابو میں کرنا چاہتا تھا مگر اب وہ سمجھ گئی تھی جو دوستی کا رشتہ ناں نبھا سکا اسکے ساتھ ہوتی زندگی ایک لباس کی طرح کیسے نبھاتی ۔۔۔۔ میاں بیوی کے رشتے کی پاکیزگی ، انکا ایک دوسرے پہ اعتماد ہی اس رشتے کی بنیاد ہوتا ہے جب وہ اسکہ دوستی کو مان نہیں دے سکا بھلا وہ اسکی محبت کو مان دے سکتا تھا۔۔۔۔۔
الایہ کے سن پڑتے وجود کی کپکپاہٹ محسوس کرتے اذلان نے آہستہ سے ہونٹ اسکی گردن پہ رکھے گہرہ سانس بھرتے وہ اسکے وجود کی خوشبو کو خود میں انڈیلتے اسے آزاد کر گیا۔۔۔۔ حصار ٹوٹتے ہی وہ گہرے سانس لیتے اپنی آنکھوں کی نمی کو خود میں اتارنے لگی۔۔۔۔
اذلان نے ایک نظر اسکی نازک کمر پہ ڈالی اور بنا کچھ کہے وہ موبائل اٹھائے ہٹ سے نکلا تھا۔۔۔
اسےث جاتے ہی الایہ نے خود کو پرسکون کیا وہ مضبوط تھی وہ کسی کے سامنے کمزور نہیں پڑ سکتی ۔۔۔ اسنے خود کو دلاسہ دیتے بیگ سے اپنا نائٹ ڈریس نکالا ۔۔۔۔ اور چینج کرنے کے لئے سامنے بنے ایک چھوٹے سے واشروم میں گھسی۔۔۔
وہ فریش سی بنا شاور کے ایسے ہی کپڑے تبدیل کیے باہر نکلی ۔۔۔ اسنے سکائے بلیو گھٹنوں کو چھوتے ڈھیلے سے ہلکے کرتے کے نیچے کھلے پائنچوں والی شلوار زیب کی ہوئی تھی۔۔ پونی ٹیل سے بالوں کو آزاد کرتے اسنے دونوں ہاتھوں کو بالوں میں الجھایا یہ اسکا سکون حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا وہ اکثر فدک اور عیناں سے اپنے بالوں میں ہاتھ چلواتی تھی جسکے بعد وہ پرسکون سی ہوتے سو جاتی تھی۔۔
اسے کافی تھکن محسوس ہو رہی تھی جبھی وہ اذلان سے بحث کا ارداہ کینسل کیے بیڈ کی جانب بڑھی پردوں کو ہاتھ سے ایک جانب کرتے الایہ نے نیند سے بھری بوجھل آنکھوں سے اس سنگل بیڈ کو دیکھا اور پھر سکون سے وہ بیڈ پہ بیٹھے اس واحد تکیے کو اچھے سے سیٹ کیے لیٹی تھی ۔۔۔۔
آنکھیں بند کرتے ہی وہ آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی ۔۔ یہ بھی اسکی عادت میں شمار تھا۔۔ وہ روز رات سونے سے پہلے تین بار آیت الکرسی پڑھتے خود پہ دم کر کے سوتی تھی۔ بے شک اللہ کے کلام سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔۔۔ اس وقت وہ آنکھیں بند کیے وہی سکون اپنے اندر اترتا محسوس کر رہی تھی۔۔
ویام سے بات کرنے کے بعد وہ دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا ۔۔۔ ایک نظر لہراتے پردوں پہ ڈالے وہ بیڈ سے نظر آتے اسکے عکس کو دیکھتا سر جھٹکتے آگے بڑھا ۔۔۔۔ کل سے انہیں کام شروع کرنا تھا۔۔۔ سفر کی وجہ سے وہ بھی کافی تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا ۔۔
اذلان نے الایہ کی نیند کا خیال کرتے ایک کونے میں پڑی شیٹ اٹھاتے فرش پہ بجھائی ۔۔ تکیہ کی جگہ پہ اپنے بیگ سے دو کوٹ نکالتے وہ سر کی جانب گول کرتے رکھ گیا اور پھر گہرا سانس بھرتے اسنے ایک آخری نظر پردوں پہ ڈالی۔۔۔
"ایک بار دیکھ لیتا ہوں دیکھنے میں کیا جاتا ہے۔۔۔ " دل نے شدت سے کہا ۔۔۔ نہیں اسکی نیند خراب مت کرو ورنہ یہ ناں ہو بات بڑھ جائے دماغ نے تنبیہ کی۔۔۔۔ دل و دماغ کی کشمکش میں آخر وہ دل کی سنتا سیدھا ہوتے کھڑا ہوا۔۔۔۔ ویسے بھی دیکھنے میں کیا برائی تھی اسکا شرعی حق تھا وہ اسے دیکھنے کے سارے حقوق و فرائض کا اکیلا مالک تھا۔۔۔۔ اذلان نے آگے بڑھتے پردہ ایک جانب کیا ۔۔۔۔
تو بیڈ پہ لیٹے اس نازک وجود کو یوں ان کپڑوں میں اس روپ میں دیکھ اذلان کا دل شدت سے پھڑپھڑانے لگا وہ کتنی ہی دیر ساکت قدموں سے پتھرائی بے یقین نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ، اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں تھا ہو رہا، وہ شاکڈ ہی تو تھا آخر الایہ کیسے شلوار قمیض۔۔۔ اپنی حیرت پہ قابو پاتے وہ پاؤں سے شوز اتارتے آگے بڑھا تھا۔۔۔۔
بیڈ کے قریب کھڑے ہوتے اسنے ہاتھ سینے پہ باندھے اور گہری دلچسپ نظروں سے اسکے نازک وجود کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ الایہ نے جھنجھلاتے کروٹ موڑی اذلان کی نظریں اسکے چہرے پہ بکھرے سیاہ بالوں سے ہوتے اسکی گردن پہ اٹکی تھی۔۔۔ آنکھوں میں عجیب سی سرخی در آئی۔۔ قدم خودبخود ہی اسکی جانب بڑھے تھے۔۔۔۔
وہ چلتا دو قدموں کے فاصلے کو مٹائے بیڈ پہ اسکے قریب بیٹھا۔۔۔۔۔ اور آرام سے ایک جانب ہوتے وہ تھوڑی سی بچی جگہ پہ لیٹے کروٹ الایہ کی جانب لیتے لیٹا یک ٹک اسکے حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
اذلان کا سر اسکے آدھے تکیے پہ تھا جس کی وجہ سے وہ اسکے چہرے کے بالکل قریب سا لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ اسکی گرم سانسوں کو اپنے چہرے پہ محسوس کرتی الایہ نے منہ بسورتے نیند سے بھری اپنی گہری کالی آنکھوں کو کھولا تو نظریں مقابل کی سرخ پڑتی کالی آنکھوں سے جا ٹکرائی۔۔۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھتے اس سے فاصلے پہ بیٹھی۔۔۔۔ اذلان سیدھا ہوتے پھیل کر پورے بیڈ پہ لیٹ گیا جبکہ نظریں اسکے وجود پہ اٹکی تھی۔۔
اترو نیچے۔۔۔۔۔ وہ غراتے اسے انگلی دکھاتے بولی۔۔۔۔ مقابل کندھے اچکاتے صاف انکار کر گیا۔۔۔۔
ایک منٹ میں بیڈ سے اترو اذلان ورنہ۔۔۔۔۔۔" وہ چیختے بدتمیزی سے بولی اسکے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے تھے جب جھٹکے سے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے وہ اسے حصار میں دبوچتا بیڈ پہ گرائے اس پہ سایہ سا کر گیا۔۔۔ الایہ نے حیرت سے آنکھیں سکیڑے اذلان کے شرٹ لیس سینے کو دیکھ اسکی نظروں میں دیکھا۔۔
جو الایہ کے ہونٹوں پہ ٹہری ہوئی تھی ۔۔۔ اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے وہ جھپٹتے اٹھنے لگی ، مگر وہ ہاتھ اپنے قابو میں کر چکا تھا الایہ کی ہلتی ٹانگوں پہ اپنی بھاری ٹانگوں کا بھوج ڈالتے اذلان نے اسے بے بس کر دیا کہ وہ بری طرح سے پھڑپھڑاتے اسکی گرفت میں دھک دھک کرتے دل سے آنکھیں خوف سے پھیلائے پڑی تھی۔۔۔
اذلان نے بے خودی سے جھکتے اپنے دہکتے ہونٹ الایہ کی شہہ رگ پہ رکھے تھے۔۔۔ اسکے ہونٹوں کے شدت سموئے لمس کو محسوس کرتے وہ خشک ہوتے خلق سے چلانے لگی مگر آواز جیسے خلق میں دب سی گئی تھی ۔۔۔ اسکے آگے وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگی مگر وہ مضبوط تھی الایہ نے خود کو حوصلہ دیتے تھپکا۔۔۔
اذذل۔۔۔۔۔۔" وہ جو ہمت کیے اذلان پہ چینخنے لگی تھی اچانک سے مقابل کے ہونٹوں کے سرکتے لمس کو اپنے بیوٹی بون پہ محسوس کرتے الایہ کی آواز لڑکھڑا گئی ۔۔
وہ جتنی کوشش کرتی مقابل کی گرفت اسکے ہاتھوں پہ بڑھنے لگی۔۔۔
اذلان نے اپنے ایک ہاتھ میں اسکی نازک کلائیوں کو جکڑتے دوسرا ہاتھ سرکاتے اسکی کمر کے گرد مضبوطی سے حمائل کیا اور ایک دم سے بے خود ہوتے وہ اپنی بانہوں میں کسی پرندے کی مانند اسکے پھڑپھڑاتے وجود کو سمیٹتے اسکے ہونٹوں پہ اپنے دہکتے ہونٹ رکھتے الایہ کے وجود کو سن سا کر گیا۔۔۔۔۔
اذلان بے خود سا اسکے نازک وجود کو بانہوں میں سمیٹے پورے استحقاق سے اسکی سانسوں کو خود میں انڈیلتے اپنی الفت سے اسے بھگونے لگا ۔۔۔ اسکی نرم گرم سانسوں کو خود میں اترتا محسوس کرتے اذلان کے اندر جیسے جذبات کا طوفان سا برپا ہوا ۔۔
اپنی بڑھتی تشنگی اسکے گلابی نازک ہونٹوں سے بجھاتے وہ آنکھیں موندے سکون اپنے اندر تک اترتا محسوس کر رہا تھا۔۔۔ کہ اپنے چہرے پہ نمی کو محسوس کیے اذلان نے بھاری ہوئی اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کو کھولتے الایہ کو دیکھا۔۔ اسکی نم آنکھوں کو دیکھ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسکے ہونٹوں کو آزادی دیتے ہاتھ آزاد کر گیا۔۔۔۔۔ "
الایہ نے نفرت سے بنا کچھ کہے اپنے بھیگے سرخ ہوئے ہونٹوں کو ہاتھ کی پشت سے بری طرح سے رگڑا تھا۔۔۔ایک نفرت بھری نظر اذلان کے وجود پہ ڈالے وہ رخ پھیرتے اپنا آپ کمبل میں لپیٹتے دبی آواز سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔۔
اسکی سسکیوں کو سنتا وہ پاگل سا ہوتے اپنے بالوں کو نوچنے لگا۔۔۔ اسنے ایک نظر اسکے ہلتے وجود پہ ڈالی۔۔۔۔۔
ماہی........" اذلان نے بے بسی سے اسکی پشت کو دیکھتے کرب سے شدت سموئے لہجے میں اسے پکارا تھا۔۔۔۔ اتنے سالوں بعد اسکے منہ سے اپنے لیے یہ نام سنتے الایہ کے وجود میں جیسے آگ کی سی لہریں دوڑنے لگی ۔۔۔۔۔
" ماہی پلیز یار میری طرف دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ بے بسی سے چلا ہی تو اٹھا تھا ۔۔۔ اپنی بے خودی کا احساس بھی تھا مگر وہ اپنے کیے پہ شرمندہ ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ وہ حق رکھتا تھا اس پہ۔۔۔۔ اس سے ذیادہ وہ اس پہ حق رکھتا تھا پھر بھلا وہ کیوں شرمندہ ہوتا مگر اسکے آنسوں اذلان کو اذیت دینے کا سبب بن رہے تھے۔۔۔
" خبردار جو اب مجھے اس نام سے پکارا ۔۔۔۔۔ اس نام سے پکارنے کا حق تم کھو چکے ہو اذلان علوی، بالکل اسی طرح سے جس طرح سے میں نے اپنا سب سے اچھا دوست کھو دیا۔۔۔۔۔ اسنے آنسوں سے لبریز اپنی قاتل سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے غراتے لہجے میں بنا ڈرے کہا تھا۔۔۔۔ اذلان نے بنا کچھ کہے نظریں اسکے چہرے پہ گھاڑی۔۔۔۔
اور ایک بات اپنے دل سے یہ خوش فہمی نکال دو کہ میں تمہارے ساتھ کمپرومائز کر لوں گی۔۔۔ جیسے ہی یہ کیس سالو ہو گا مجھے تم سے طلاق چاہیے اذلان صاحب کیونکہ میں ایک بہت بری لڑکی ہوں ، تمہاری سوچ سے بھی بری ۔۔۔۔۔۔۔ بہت گھٹیا ہوں یاد ہے ناں چھوٹی سی عمر سے ہی کافی گھٹیا ہوں تو پھر مجھے چھونے سے تمہیں گھن محسوس نہیں ہوئی ۔۔۔۔ کیسے مجھے ہاتھ لگایا تم نے۔۔۔۔۔" وہ غصے سے اسپہ چھپٹنے لگی تھی مگر اذلان کے چہرے کے تاثرات حدردجہ سرد چٹان جیسے ہوئے تھے ۔۔
اسنے ایک دم سے ہاتھ الایہ کی گردن میں لپٹائے اسے کھینچتے تکیے پہ گرایا۔۔۔۔ سانس رکنے پہ وہ پھڑپھڑانے لگی آنکھیں سرخ انگارہ ہو چکی تھی۔۔۔ جبکہ اذلان کی وخشت سموئی نظریں اسکے نازک وجود میں اٹک چکی تھی۔۔۔ جن سے اب الایہ کو نا چاہتے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
" کیا سوچ کر مجھ سے الگ ہونے کی بات کی ہے تم نے ماہی۔۔۔۔۔، تم طلاق لو گی مجھ ہاں ۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان نکال دوں گا مگر ایک بات یاد رکھنا اذلان علوی ہی تمہارے بچوں کا باپ بنے گا۔۔۔ تمہاری روح تک پذیرائی میرے علاؤہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے لئے اس کا زندہ بچنا بھی ضروری ہے۔۔ اور ماہی کہنے سے تم مجھے روک نہیں سکتی۔۔ مانتا ہوں کسی کی باتوں میں آ کر میں نے کچھ غلط کہا تھا تم سے۔۔۔۔ مگر اب جان گیا ہوں کہ میری ماہی میرے علاؤہ کبھی کسی مرد کو نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ اپنی غلطی کا ازالہ کروں گا مگر تم سے دور ہرگز نہیں۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔! یہ بھول جاؤ اپنے ذہن سے یہ سوچ نکال دو ۔۔۔۔۔ کیونکہ ان گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ میں ایک ایک کرتے ہر پردہ گرا دوں گا اپنے اور تمہارے پیچ سے۔۔۔۔ تمہیں میری شدتوں سے ایسے روشناس کرواں گا کہ تم میرے دیے ہر زخم کو بھول جاؤ گی۔۔۔۔۔
اسکے ہاتھوں کو گرفت میں لیے وہ اسکے کان کے قریب جھکے اپنی بھاری سرگوشیوں سے اسے لرزا گیا۔۔۔ الایہ کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگی۔۔۔۔ اذلان کا رویہ اسے تکلیف دینے کا سبب بن رہا تھا۔۔۔ وہ کیسے اتنی آسانی سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔ کیا معاف کرنا آسان تھا۔۔۔۔
" قالو کی جان ہاتھ نہیں لگایا قسم سے ہونٹوں سے ہی چھوا ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔ اپنے ہونٹوں سے اسکی آنکھوں کی نمی چنتے وہ مخمور لہجے میں کہتا الایہ کے پور پور کو سرخ کر گیا ۔۔۔ الایہ نے پھڑپھڑاتے اپنا آپ چھڑوانا چاہا تھا۔۔۔
اذلان نے نرمی سے اسکے نقوش کو چھوتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا اور جھٹکے سے ایک سائڈ ہوتے وہ اسے کھینچتے حصار میں لے گیا۔۔۔۔
چچ چھوڑو ممم۔مجھے۔۔۔۔۔" اسکی انگلیوں کی شریر حرارت اپنی کمر پہ محسوس کرتے وہ اسکا حصار توڑنے کو مچلنے لگی۔۔ہاتھ اسکے کشادہ سینے پہ رکھتے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا ۔۔ اذلان نے ایک نظر اسکی آنکھوں میں دیکھا اور پھر سے جھکتے اسکے ہونٹوں کو قید کر لیا ۔۔۔۔۔۔
" امید ہے اب احتجاج نہیں کرو گی ورنہ تمہاری قسم آج تمہارے نازک وجود پہ یہ رات میری شدتوں سے کافی بھاری پڑنے والی ہے۔۔۔۔
نرمی سے پیچھے ہوتے اذلان نے اسکے ہونٹوں کی نمی کو چھوا اور ہاتھ اسکے ملائم بالوں میں ڈالے اسے پرسکون کرنا چاہا ۔۔۔۔ اذلان کا یہ روپ اسے سہما سا گیا تھا۔۔۔ اسکے لمس کی شدت اسکی گھمبیر سرگوشیوں سے وہ سہم سی گئی تھی ۔۔ وہ چاہے خود کو جتنا مضبوط کہہ لیتی مگر وہ تھی تو ایک لڑکی ہی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک تواناں جوان مرد کا سامنا کر پانا اسکے لئے بالکل ناممکن تھا۔۔۔۔
جبھی وہ کچھ دیر خاموشی سے اسکے کندھے پہ سر رکھے پڑی اپنے چہرے اور بالوں پہ اسکے لمس کو آنکھیں موندے برداشت کرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔ اسکے مضبوط حصار میں جانے کب وہ پرسکون سی ہوتے سوئی تھی۔۔ مگر اسے اپنی سانسوں کے قریب تر محسوس کرتے وہ ساری رات کبھی اس ساحرہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا تو کبھی اسے محبت سے چھوتا ۔۔۔۔
******ماضی******
آنٹی اذلان کہاں ہے۔۔۔۔" وہ بے زار سی منہ پھلائے اپنے چہرے پہ آتے کالے گھنے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے کچن میں آئی تو نظریں سامنے مصرسف سی رمشہ پڑی ۔۔ وہ اس کے پاس جاتے اذلان کا پوچھنے لگی۔۔۔ ! کباب فرائی کرتے رمشہ نے گردن گھمائے الایہ کی اتری بے زار سی شکل کو دیکھا ۔۔۔۔
بیٹا وہ سمائکہ کے پاس گیا ہے ، کل اسکا پیپر ہے تو وہ دونوں ایک ساتھ تیاری کرتے ہیں۔۔ اذلان گیا تھا تمہارے کمرے میں مگر تم سوئی ہوئی تھی تو اس لئے تمہیں جگائے بنا ہی وہ چلا گیا۔۔۔ الایہ کے سرخ پڑتے چہرے اور آنکھوں میں سمائکہ کے نام سے اتری نفرت دیکھ فدک نے محبت سے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرے اسکی پیشانی پہ لب رکھے۔۔۔۔
سمائکہ پروفیسر معیز کی بڑی بیٹی تھی۔۔۔۔ انکا گھر اشعر لوگوں کے بالکل ساتھ ہی تھا۔۔ اور ہ ایک ہی کلاس ایک ہی سکول میں پڑھنے کی وجہ سے انکی کافی بنتی تھی ایک دوسرے سے۔۔۔۔۔ اس کے برعکس امن کو وہ بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔۔۔۔ سمائکہ کو دیکھتے ہی امن کا منہ کڑوا ہو جاتا تھا۔۔۔۔ وجہ سمائکہ کا بات بہ بات اپنی ذہین ہونے کا غرور دکھانا تھا۔۔۔
وہ کلاس میں سب سے لائق اور قابل سٹوڈنٹ تھی۔۔ اسکے ساتھ ہی اذلان بھی کافی ذہین اور محنتی تھا۔۔۔ ٹیچر اکثر ان دونوں کی مثال کلاس میں دیا کرتے تھے۔۔۔ جسے امن ایک کان سے سنتے دوسرے سے نکال دیتا تھا۔۔۔۔
" مگر اذلان کے ساتھ سمائکہ کی دوستی دن بہ دن گہری ہوتی جا رہی تھی ۔ اذلان کے لئے سمائکہ کے ضدی جنونی انداز کو دیکھتے امن نے کئی بار اذلان سے صاف الفاظ میں اس پاگل لڑکی سے دور رہنے کا کہا ، مگر اذلان نے اسے کافی اچھے سے اسکی خوبیاں گنواتے خاموش کروا دیا ۔۔۔۔ وہ سیون سٹینڈرڈ میں تھے ۔۔۔ مگر اذلان اور امن کے قد کاٹھ کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے کافی بڑے دکھتے تھے،
اب بھی وہ سمائکہ کے ضد کرنے اور ناراض ہونے کی دھمکی پر اپنے نوٹس اور بکس لئے اسکے پاس گیا تھا۔۔۔
"آنٹی میں باہر پارک تک جا رہی ہوں۔۔۔ تھوڑی دیر میں واپس آ جاؤں گی ۔۔
اذلان کے جانے کا سنتے الایہ کا موڈ کافی آف ہو چکا تھا۔۔ وہ منہ پھلائے رمشہ سے کہتی باہر کو نکلی تھی۔ رمشہ جانتی تھی الایہ لندن سے یہاں صرف اذلان کے لئے آئی تھی ۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ سمائکہ اور اذلان کی دوستی کس قدر بڑھ رہی تھی، اور ویسے بھی اذلان کے لئے کسی ایک دوست کیلے دوسرے کا ناراض کرنا مشکل تھا۔۔۔
رمشہ نے گہرا سانس بھرتے اسے آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھا۔۔
میں اتنی دور سے اس قالو کے لئے آئی مگر اسے اس چڑیل بدتمیز لڑکی سے فرصت نہیں ملتی، مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔ وہ بینچ سے سر ٹکائے اداسی سے آنکھیں موندے گہرا سانس بھرنے لگی۔۔۔۔ وہ کافی بور ہو چکی تھی اسے آئے تین دن ہو چکے تھے مگر آج بھی وہ پہلے کی طرح اسکے ساتھ نہیں کھیلا رات کو بھی وہ اسکے روم میں گئی تھی اس سے باتیں کرنے اسکے ساتھ وقت گزارنے کیلئے مگر اذلان نے معذرت کرتے ساتھ ہی پرسوں پیپر کا بتایا ، مگر الایہ کے خفا چہرے کو دیکھ وہ اس سے وعدہ کر چکا تھا ۔
کہ وہ سکول سے واپس آتے ہی سارا دن اسکے ساتھ گزارے گا مگر وہ پھر سے اپنا وعدہ توڑ چکا تھا۔۔۔ الایہ کی آنکھیں دھندلانے لگی ، وہ اپنے قریبی رشتوں کے لیے کافی حساس تھی، جو اسکا تھا وہ صرف اسکا تھا۔ اسکے وقت ، اور توجہ پر صرف الایہ کا حق ہوتا مگر وہ جانتی تھی ڈیڈ کے علاؤہ کوئی بھی اسکی کئیر نہیں کرتا تھا۔۔۔ فدک بھی عیناں سے زیادہ محبت کرتی تھی ۔۔ اور اب اسکا دوست اذلان بھی اس سے دور ہو رہا تھا۔۔
الایہ کی خوبصورت آنکھیں پل بھر میں بھیگنے لگی وہ بےاواز روتے بینچ سے ٹیک لگائے ترچھی سی بیٹھی تھی۔۔۔۔
ماہی۔۔۔۔۔"۔ اچانک سے آتی آواز پہ الایہ نے آنکھیں کھولے آگے پیچھے دیکھا مگر سامنے کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔اسے لگا اذلان آیا ہے جبھی اداس چہرے پہ مسکراہٹ دھر آئی تھی، مگر کسی کو بھی نا پاتے وہ پھر سے مرجھا گئی،
ماہی کیسی ہو ۔۔۔۔۔؟" اسکے یوں اداس ہو کر بیٹھنے پہ مقابل ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتا گہرا مسکراتے اب روبرو آیا تھا ۔۔ مہندی کلر کے سلکی گھنے بال ہمشیہ کی طرح اسکے ماتھے پہ بکھرے اسکے پرکشش چہرے کو مزید جاذب نظر بنا رہے تھے۔۔۔ وہ سرخ و سفید رنگت تیکھے نقوش کا مالک پندرہ سالہ لڑکا تھا۔۔۔
الایہ نے اسے بغور دیکھا مگر پہچاننا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ پہلی بار اسے دیکھ رہی تھی۔۔ جس کے پاس کھڑی وہ بچی سی دکھ رہی تھی۔۔۔ سفید رنگ کی شرٹ کے اوپر سلیو لیس بلیو جیکٹ پہنے وہ ساتھ میں جینز اور سفید ہی شوز پہنے بالکل کوئی سوبر سا نوجوان لڑکا دکھ رہا تھا۔۔ الایہ نے ناسمجھی سے اس انجان کو سر تا پاؤں دیکھا ، اسکی آنکھوں میں جھلکتی غیر شناسائی کے تاثرات کو بھانپتے عاصم کے چہرے پہ مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔ وہ یہاں اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے آتا تھا۔۔
کل اسی وقت وہ پارٹی کرنے پارک میں آئے تھے کہ عاصم کی نظریں الایہ پہ پڑی ، جو امن کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ امن اس کے ساتھ کھیل رہا تھا۔۔۔ وہ خاموشی سے دانت پیستے اسے گھور رہی تھی جو کبھی اچھلتے اسکی پونی ٹیل کو کھینچتا تو کبھی اسکی ناک کو زور سے دباتا اور پھر اسکا نیا نام ڈالنے کے بعد قہقہ لگا کر ہنستا تھا۔۔۔
ان دونوں کی حرکتوں کو وہ دور کھڑا کافی دیر تک دیکھتا رہا تھا۔۔ مگر اسے غصہ تب آیا جب اسنے الایہ کی گہری جھیل سی سیاہ آنکھوں کو نم دیکھا تھا۔۔۔ وہ ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے امن کی جانب آیا تھا ۔ مگر پھر الایہ کو امن کی کس بات پہ ہنستا دیکھ عاصم کے قدم خودخواہ تھم سے گئے۔۔۔ امن اور اذلان کو وہ جانتا تھا کیونکہ وہ انہی کے سکول میں تھا۔۔ مگر امن اور اذلان کی کبھی بھی عاصم سے نہیں بنی تھی۔۔
کیونکہ عاصم نے ایک بار پرنسپل کو امن کی شکایت لگائی تھی جب اسنے اپنے سے بڑی کلاس کے لڑکوں کی رینکنگ کی تھی یہ اسکا اپنا سٹائل ہوتا تھا۔۔۔ وہ کسی ناں کسی طریقے سے دوسروں کی ناک میں دم کیے رکھتا ۔۔۔ مگر بات پرنسپل تک پہنچی ، تو پرنسپل نے دونوں کو اپنے سامنے پیش کیا جس پہ اذلان نے جھوٹ بول کر سارا الزام اپنے سر لے لیا تھا۔۔ امن کو وہ اپنے طریقے سے خاموش کروا چکا تھا۔۔
اسکے بعد اشعر نے پہلی بار دونوں کو سخت سزا دی تھی اور پوری رات دسمبر کی ٹھٹھرتی ٹھنڈ میں ان دونوں کو باہر کھڑا کیے رکھا۔۔ اس واقعے کے بعد وہ دونوں جہاں بھی عاصم کو دیکھتے اس سے شدید نفرت کا اظہار کرنا نہیں بھولتے تھے۔۔۔۔
سکول کے طلباء کے لئے وہ ایک مثالی طالب علم تھا مگر امن اور اذلان کی نظروں میں وہ دودھ کم پانی زیادہ والی حیثیت رکھتا تھا۔۔۔ وہ دونوں اسے دیکھتے برملا اپنی نفرت کا اظہار بھی کرتے ، جس سے خود عاصم بھی واقف تھا۔۔۔
کل امن کے ساتھ اسکا روتا ، پھر کھلکھلاتا روپ جانے کیوں مگر اسے بھایا تھا۔۔۔ وہ مسکراتے سر جھٹکتے رہ گیا۔۔۔ یقیناً وہ کوئی دوست تھی امن کی ۔۔۔ امن کے لبوں سے اسکا نام ماہی سن کر وہ جاندار مسکراہٹ سے مسکراتا ان دونوں کو آنکھوں سے اوجھل ہونے تک دیکھتا رہا تھا۔۔۔
الایہ سے ملنے اور دیکھنے کی امید میں آج پھر سے وہ پارک میں آیا ، مگر ایک گھنٹے سے اسکا انتظار کرنے کے بعد بھی اسکے ناں آنے پر وہ عجیب سی کیفیت کا شکار واپسی کو جانے لگا کہ نظر پاس سے گزرتے اس بینچ پر پڑی جہاں وہ بیٹھی رو رہی تھی ۔۔ کتنی ہی دیر اسے دیکھنے کے بعد عاصم نے اسے پکارا تھا۔۔ جو اسکی توقع کے مطابق چہرے پہ الجھن لیے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
آپ کون ہیں؟...."۔ اسے سر تا پاؤں دیکھتے الایہ نے نم سرخ ہوئی آنکھوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے پوچھا۔۔۔
" میں۔۔۔۔۔ وہ سوچ میں مبتلا ہوا آخر کیا کہے۔۔۔ "
میں امن کا فرینڈ یوں کل آپ دونوں کو دیکھا تھا۔۔ کیا وہ نہیں آیا آج۔۔۔۔۔۔" ماتھے کو انگوٹھے سے مسلتے وہ پہلی بار جھوٹ بولتا نظریں زمین کی جانب مرکوز کر گیا۔۔۔
" الایہ نے منہ بنایا جسے کوئی کڑوی چیز زبان تلے آئی ہو۔۔ اسکے انداز وہ بخوبی دیکھ رہا تھا۔ جو رفتہ رفتہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بدلتے تھے۔۔
وہ وہ کیوں آئے گا من نہیں آتا پارک وہ کہتا ہے کہ یہاں بچے جاتے ہیں اور میں بچہ نہیں ہوں۔۔۔۔" سینے پہ ہاتھ باندھتے وہ اسکی معلومات میں اضافہ کرتے سر نفی میں ہلا گئی۔۔
مگر کل تو وہ آیا تھا۔۔۔۔" عاصم نے سرسری سا پوچھا اور بڑھتے ان دس قدموں کے فاصلے کو سمیٹتے وہ اسکے پاس کھڑا ہوا بغور اسکے معصوم چہرے کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
" ہاں وہ مجھے بلانے آیا تھا ۔۔۔۔ آنٹی نے بھیجا تھا۔۔۔ الایہ نے بالوں کو جھنجھلاہٹ سے پیچھے کرتے کہا تو عاصم نے سر کو حم دیا۔۔۔ جیسے وہ سمجھ گیا ہو۔۔اسکی بات،
تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا کیا تم یہاں نئی آئی ہو۔۔۔۔ " اسے جاتا دیکھ وہ اسکے ساتھ ساتھ چلتے بولا ، الایہ نے بےزاری سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ جو جانے کیوں اس سے بات بڑھا رہا تھا۔۔۔
" میں یہاں نہیں رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ رکتے تیز آواز میں بولی عاصم نے ٹھٹک کر اسے دیکھا ۔۔۔ تو کہاں رہتی ہو۔۔۔۔؟" اسے تجسس ہوا جاننے کا اسکے نین نقوش اسکی رنگت سے وہ کسی باہر کے ملک کی دکھتی تھی ۔۔۔
میں پرستان میں رہتی ہوں۔۔ جہاں پر انسان نہیں رہتے۔۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے جھکتے رازداری سے گویا ہوئی ۔۔۔ عاصم کے ماتھے پہ پڑے بل سمٹے اور لبوں پہ ایک شریر سی مسکراہٹ در آئی ۔۔۔۔ وہ اتنی معصوم نہیں تھی جتنا وہ دکھنے میں لگتی تھی۔۔۔
" ماہی۔۔۔۔۔۔۔۔ " ایک دم سے تیز دھاڑ کی آواز پہ وہ جو اپنے دھیان میں کھڑی تھی وہ ڈرتے جگہ سے اچھلی ۔۔۔ رخ گھمائے وہ مڑتے اس دیکھنے لگی، جو ایک ہاتھ میں بکس لیے چہرے پر شدید غصے کے تاثرات لئے کھڑا تھا۔۔۔
اذلان۔۔۔۔۔۔ الایہ کی حیرت و بے یقینی سے بلانے پہ وہ غصے سے بھپرتے آگے بڑھا تھا اور پل بھر میں اسے بازوؤ سے جکڑتے وہ عاصم سے دور کرتے اپنے حصار میں لیتے عاصم کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگا۔۔
عاصم کیلئے اسکا یہ انداز نارمل تھا مگر وہ امن کا تصور کر رہا تھا ناکہ اذلان کا۔۔۔۔
اچھا ماہی میں چلتا ہوں۔۔۔" عاصم نے غیر متوقع صورتحال کے باعث چہرے پہ زبردستی کی مسکان سجائے کہا جیسے وہ کافی اچھے سے جانتا ہو اسے۔۔۔۔۔
خبردار جو اسے اس نام سے پکارا ، وہ ماہی صرف میرے لئے ہے کوئی دوسرا اسے اس نام سے نہیں بلا سکتا۔۔۔ وہ میری ہے خبردار جو کبھی اسکے آس پاس نظر آئے ، ورنہ پہلے چھوڑ دیا تھا مگر اس بار۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ غصے سے اسکے ماہی کہنے پہ بپھرتا اسکے گریبان کو دونوں ہاتھوں سے تھام چکا تھا۔۔۔ اذلان کا یہ روپ عاصم کو کافی ٹھٹکا گیا وہ بھلا ایسے کیوں کہہ رہا تھا۔۔
" اوکے سوری مگر میں نے تو بس ایسے ہی کہا ہے اس میں ہائپر ہونے والی کونسی بات یے۔۔۔ " عاصم نے صلح جو انداز اپناتے اذلان کی وخشت بھری نظروں میں دیکھتے کہا وہ بھلے عمر میں اس سے چھوٹا تھا مگر اذلان کا قد کاٹھ اس سے انچ بھر کم تھا۔۔ اور اس وقت اسکے تاثرات دیکھ وہ بات سنبھالنے لگا۔۔۔۔ الایہ نے ہونٹ کچلتے اپنے سرخ پڑتی کلائی پہ اسکے سانولے مضبوط ہاتھ کی شدت بھری مضبوط گرفت کو دیکھا۔۔۔۔۔
" جھٹکے سے اسکے گریبان کو چھوڑتے وہ طیش سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ نظر مت آنا اس کے قریب ورنہ۔۔۔۔۔!" انگلی اسکے چہرے کے سامنے کرتا وہ اسے ادھورے جملے میں بہت کچھ سمجھاتا الایہ کو ساتھ کھینچتے مڑا ۔۔۔۔۔"
آن کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔۔ تم نے کہا تھا کہ تم رات تک میرے گھر رہو گے ہم مل کے تیاری کریں گے ۔۔۔ " وہ جو الایہ کو یاد کرتا سمائکہ سے معذرت کرتے واپس آیاتھا۔ اب پھر سے اپنے راستے میں اسے دیکھتا وہ غصے سے جبڑے بھینج گیا۔۔ فلحال وہ اس سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔ عاصم کا غصہ وہ سمائکہ پہ نہیں نکالنا چاہتا تھا
۔۔ جبھی بنا کچھ کہے وہ الایہ کے بازوؤں کو کھینچتا باہر کی جانب نکلا تھا۔۔۔
اسکے ہاتھ میں تھامے الایہ کی نازک کلائی کو دیکھ سمائکہ کی آنکھوں میں خون اترا ۔۔۔۔اسکی فرینڈز اسے اذلان کے لئے چھیڑتی تھی۔۔۔اسے بار بار اذلان کے نام سے تنگ کرتی کہ تم دونوں کی جوڑی کافی پیاری دکھے گی۔۔۔ اپنے دل میں امڈتے ان نئے جذبات اور کچھ اپنی طبیعت کے سبب اسے اذلان کا رویہ نہیں بلکہ الایہ کا وجود اذلان کے ساتھ برا لگا ۔۔اس کا دل چاہا کہ ابھی اسے بالوں سے گھیسٹتے وہ جان سے مار دیتی۔۔۔۔ کتنی خوشی سے دونوں پڑھ رہے تھے ایک ساتھ۔۔۔مگر اس الایہ کی وجہ سے وہ چھوڑ آیا تھا اسے۔۔۔
تمہیں جانا ہو گا آن سے دور ۔۔۔۔۔ ماہی بے بی وہ صرف میرا دوست ہے۔۔۔ اپنے آنسوں غصے سے رگڑتے وہ نفرت سے بھری آواز میں بڑبڑائی۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
******حال*******
" حور کیا دیکھ رہی ہو، " اسے کھڑکی سے باہر دیکھتا پاتے ماریہ چلتے اسکے پاس آتے بولی، وہ جو مگن سی باہر کے مناظر میں کھوئی ہوئی تھی اچانک ماریہ کی آواز پہ وہ چونکتے اسکی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔"
ماریہ نے کافی کا مگ اسکے سامنے کیا جسے وہ مسکراتے تھام گئی ۔۔۔۔
کچھ نہیں بس دیکھ رہی ہوں ۔ کہ اللہ پاک کی قدرت بھی کس قدر خوبصورت ، آنکھوں کو خیراں کرنے والی ہے۔۔ '
حجاب میں لپٹے اسکے پرنور چہرے پہ ایک مدہم سی مسکراہٹ اور ایک سکون قائم تھا ۔۔ ماریہ اسکی بات پہ مسکرائی۔۔
اچھا وہ کیسے۔۔۔۔" کافی کا مگ لبوں سے لگائے ماریہ نے سرسری سا پوچھا تھا۔۔ یہاں آئے انہیں ایک دن ہو چکا تھا۔۔۔ آج پورا دن وہ آرام کرتی رہیں تھی اور کل سے وہ دونوں پاس کے سکولز کے ٹور پر جانے والی تھی۔۔
" باہر دیکھو کس قدر خوبصورت منظر ہے روشنی سے جگمگاتی اس جگہ میں اللہ پاک کی جانب سے کیے اندھیرے میں یہ روشنیاں بھی وہ روشنی نہیں کر پا رہی جو میرا رب ہمیں دن کے سویرے میں عطا کرتا ہے، اس آسمان کو دیکھو جہاں سے یہ خوبصورت سی برف کییسے زمین پہ گرتی اس کی قدرت اسکی شان کو عیاں کر رہی ہے۔۔۔ "
دیکھ رہی ہوں کہ ہمارے رب نے ہمیں کس قدر اپنی نعمتوں سے نوازا ہے ، اس دنیا کے ذرے ذرے میں اس کی قدرت کی جھلک ملتی ہے ، مگر اسکی بے بہاں نعمتوں کے باوجود بھی ہم اپنی اس قدر مصروف زندگی میں پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھ سکتے۔۔۔ اپنے لئے سراپا رحمت بنے اپنے قرآن کی تلاوت نہیں کر سکتے ۔۔ اور یہ سب تو ایک طرف رہا اجکل تو ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت تک نہیں رہی، یہ دکھلاوا یہ رنگ ، یہ چہرے کی مسکان ، آنکھوں میں سجی محبت یہ سب ایک فریب ہے۔۔۔۔ کوئی اپنا نہیں اس دور میں ، صرف اس رب کی ذات کے ۔۔۔ جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے۔۔
اسکے سامنے جھکیں تو وہ اپنی شان کریمی کے صدقے ہمارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ۔ ہم اس سے کچھ مانگیں تو وہ فرشتوں سے کہہ دیتا ہے کہ اے فرشتو میرے اس بندے کے نامہ اعمال میں اس دعا کی جگہ نیکیاں لکھ دے کیونکہ جو اس نے مانگا ہے وہ اسکے لئے بہتر نہیں۔۔۔ بے شک تم وہ سب کچھ نہیں جانتے جسکا علم مجھے (رب) کو ہے۔۔۔۔۔۔"
" ہم پھر بھی اپنے رب سے شکایات کرتے ہیں ، ہماری دعائیں رد کر دی اسنے۔۔ وہ ہم سے محبت نہیں کرتا ہم نماز چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ جب وہ ہماری دعاؤں کو نہیں سنتا تو پھر ہم کیوں اسکی عبادت کریں۔۔۔
بلکہ ہمیں تو چاہیے کہ ہم اس نیت سے اسکے سامنے جھکیں کہ ہمارے دل میں جنت یا دوزخ کا کوئی لالچ ناں ہو کوئی ملاوٹ نا ہو بلکہ ہمیں اسکے آگے جھکنا چاہیے یہ سوچ کر کے میں اسکے آگے جھک رہا ہوں اسکی عبادت کر رہا ہوں کیونکہ وہ عبادت کے لائق ہے۔۔۔
اسکی خوبصورت میٹھی آواز میں کہی باتیں ماریہ کی پلکیں کب نم ہوئی اسے خود بھی انداز نہیں تھا ہوا۔۔۔۔ آج دوسری بار وہ اسکے سامنے لاجواب ہوئی تھی۔۔۔۔ کیسا سکون تھا اسکی باتوں میں کیسی محبت جھلکتی تھی اپنے رب اپنے مہربان کیلئے،۔۔۔۔ چہرے پہ نور کا حالہ جو اسکے دل کی صفائی اسکی رب سے محبت کی وجہ سے تھا۔۔ بے شک وہ اپنے پیاروں کو اپنے نور سے روشن کرتا ہے ۔۔۔ وہ آج دوسری بار مبہوت ہوئی تھی ۔۔۔۔
ایک بار آج صبح جب ہر سوں پھیلے اندھیرے میں ماریہ کی آنکھ کھلی تو نظریں جائے نماز پہ بیٹھی حرمین کے چہرے پہ پڑی ۔۔۔ کیسا سکون تھا اسکے چہرے پہ کیا کسی کے دل میں ایسا سکون بھی ہو سکتا تھا۔۔۔۔ اور اب اب وہ اسکے الفاظ اسکے لفظوں کی تاثیر میں جکڑی جا رہی تھی۔۔۔
دل اپنی جگہ ندامت سے بھر گیا تھا۔۔۔۔ وہ خاموش ہو گئی بالکل اسے لگا تھا کہ وہ انزِک کا سوچ رہی ہو گی مگر وہ تو اپنے رب کی قدرت میں کھوئی تھی ۔۔۔ ماریہ اپنی جگہ ہی شرمندہ ہو گئی۔۔۔
" حور میں آئی کال سن کر آئی۔۔۔۔۔" معا اسکی جینز میں پڑا موبائل بجا وہ ایکسکیوز کرتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔
حور نے لمبا سانس بھرتے کافی کا حالی مگ سامنے ایک جانب پڑے میز پر رکھا اور ہلکے قدموں سے وہ دروازہ کھولتے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
ہلکی سی ہوتی برفباری میں باہر کا منظر کافی بھایا تھا اسے۔۔۔۔ لندن میں بھی وہ اکثر ایسے موسم کو انجوائے کرتی تھی مگر جو بات پاکستان کی تھی بھلا وہ کہیں اور کسی اور دیس کی کیسے ہوتی۔۔ لندن میں پیدا ہونے وہاں پہ پرورش پانے کے باوجود بھی وہ ویام ہی کی طرح پاکستان سے انسیت اور محبت رکھتی تھی۔۔
جبھی تو وہ باہر نکلتے کھلے آسمان کو دیکھتے دونوں ہاتھ پھیلائے اپنے رب کی رحمت کی بارش کو اپنے وجود پہ محسوس کرتے آسودگی سے مسکرا دی ۔۔ برف کی ہلکی سی ٹھنڈک محسوس کرتے وہ ہاتھ سینے سے لپیٹتے آگے بڑھی تھی۔۔۔ ٹھنڈ کے باعث اسکی چھوٹی ناک سرخ پڑنے لگی تھی جبکہ سرخ ہونٹوں پہ کپکپی سی طاری تھی۔۔۔۔
مگر وہ اس خوبصورت سے ماحول میں اکیلی اپنے آپ کو پرسکون سا محسوس کر رہی تھی۔۔ تھوڑی دیر وہیں کھڑا رہنے کے بعد ایک نظر آگے پیچھے ڈالے ایک کونے کی جانب بڑھی جہاں پہ اندھیرا سا تھا۔۔
ایل نے ماتھے پہ بل ڈالے اسے دیکھا اور قدم آگے بڑھاتے وہ اسکے پیچھے گیا۔۔۔۔ ایل نے ساکت قدموں سے مبہوت ہوتے اس جانب دیکھا تھا۔۔ دل تیزی سے پھڑپھڑاتے باہر آنے کو تھا۔۔اسے لگا وہ بت کا بن گیا ہو جیسے۔
اسکے وجود سے نظریں ہٹانا ایل کو دنیا کا سب سے مشکل کام لگا تھا ۔۔۔ کھلے آسمان تلے وہ سفید گول گھیرے دار شارٹ فراق کے ساتھ جینز پہنے ، کمر سے دور نیچے تک جاتے اپنے سیاہ گھنے بالوں کو کھولے چہرہ آسمان کی جانب کیے دونوں ہاتھ فضا میں لہراتی گول گول چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔ اسکی کھلھلاہٹ کی پرسوز دل دھڑکا دینے والی مسرور سی سر بکھیرتی آواز ایل کے کانوں میں کھنکتے اسے پتھر کا کر گئی۔۔ اسے لگا جیسے وہ آسمان سے اتری کوئی سچ کی حور تھی۔۔۔ جو دور رہتے ہوئے بھی ایل کے حواسوں پہ بری طرح سے رفتہ رفتہ قابض ہو رہی تھی ۔
ایل کی نظریں اسکے وجود میں اٹکتے جیسے پلٹنا بھول گئی تھی ، اسے حرمین پہ کسی وِچ کا شبہ ہونے لگا جو آہستہ آہستہ اسکے حواسوں کو اپنے قابو میں کر رہی تھی ۔۔۔۔
" اچانک اسے پھسلتے دیکھ بے اختیار ایل نے تیر کی تیزی سے آگے بڑھتے اپنے ہاتھ اسکے کمر میں حمائل کرتے اپنی جانب کھینچا تھا۔۔۔ حرمین کی دلدوز چیخ فضا میں گونجی ، خود کو یوں کسی کے مخفوظ جھلسا دینے والے حصار میں پاتے حرمین کا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔ آنکھیں خوف سے کالی پڑنے لگی جب نیم اندھیرے میں جھلکتے مقابل کے سائے کو خود پہ جھکتا محسوس کیا۔۔ ۔۔۔ خوف سے اسکی آواز خلق میں دب سی گئی ۔۔۔
وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی کوئی اختجاج ناں کر سکی۔۔۔ اسکے کپکپاتے نازک وجود کو اپنی بانہوں میں محسوس کرتے ایل کے احساسات بری طرح سے بدلے ، دل نے شدت سے اسکے نیم اندھیرے میں دکھتے ان کپکپاتی پنکھڑیوں کو چھونے کی خواہش کی ، جبھی وہ بے خودی کے عالم جھکتے اسکی کمر کے گرد حصار تنگ کیے اسکے چہرے پہ جھکا اپنی گرم سانسوں سے اسکی جان لبوں پہ لے آیا۔۔۔۔
بنا توقف کے وہ اسکے نازک وجود کی خؤشبو کو خود میں اترتا محسوس کیے چہرہ اسکے چہرے سے نزدیک کیے اپنے دہکتے ہونٹ اسکی شہہ رگ پہ رکھ گیا ، کسی غیر محرم کے لمس کو اپنے اس قدر قریب محسوس کرتے حرمین نے آنکھیں موندے بند ہوتے دل سے اپنے رب کو پکارا۔۔ وہ جو اسکی گردن کو چھوتے اپنی بےخودی میں گستاخیوں پہ اترا کہ اچانک ناجانے کیوں اسنے جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا تھا ۔۔
جیسے کوئی طاقت تھی جو اسے یہ کرنے پہ اکسا رہی تھی۔۔۔ ایل نے اسے دور کرتے اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔ اور ایک نظر برف پہ بے سودھ پڑے اس نازک وجود پہ ڈالی ایل نے گھبراتے قدم آگے بڑھانا چاہے مگر جیسے اسکے وجود کو کسی نے جکڑ لیا تھا۔۔۔ وہ دور کھڑا اسے اٹھتا دیکھ رہا تھا جو جلدی سے نیچے پڑا اپنا خجاب اٹھائے خود کو لپیٹتے آیت الکرسی کا ورد کرتی وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔۔
ایل نے جنون بھری وخشت کی سرخی سے لبریز اپنی نیلی آنکھوں سے اسے خود سے دور جاتے دیکھا تھا۔۔۔
" تمہیں اپنی دسترس میں لینا ہی پڑے گا حرمین وریام کاظمی ، آخر میں بھی تو دیکھوں تم میں ایسا کیا جادو ہے جو ایل کو بہکنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔۔۔"
غصے سے لبریز اپنی بھاری آواز میں اسکے قدموں کے نشان کو دیکھتے ایل نے اپنے کوٹ کو ناک کے قریب کرتے حرمین کی خؤشبو کو جیسے خود میں اتارتے کہا تھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
لڑکا کافی اچھا ہے داؤد ۔۔۔ ماشاءاللہ سے شکل و صورت بھی کافی اچھی ہے اور تو اور وہ لندن میں شفٹ ہو رہا ہے۔۔۔۔ ' داؤد کو کھانا سرؤ کرتے وہ مسلسل دس منٹ سے تیمور کی اچھائیاں گنوا رہی تھی۔۔۔
داؤد ضبط سے بیٹھا رہا، مگر میرب کی چور نظریں باپ پہ تھی۔ ڈائنگ ٹیبل پہ بیٹھی وہ دونوں اطراف اپنے گھنگھریالے بالوں کو ڈالے منہ میں کینڈی پاپ ڈالے صورتحال کا حتمی جائزہ لے رہی تھی۔۔
باپ کا بگڑا موڈ دیکھ اسکا منہ پھولا۔۔۔۔ وہ اونگتے دونوں ٹانگیں اوپر کرتے ساتھ والی کرسی پہ رکھنے لگی کہ سر کے پیچھے سے دعا نے زور دار چپت لگاتے اسے دانت پیستے گھورا وہ منہ بنائے سیدھی ہوتے بیٹھی۔۔ دعا نے ہاتھ بڑھاتے اسکے منہ سے اس سوغات کو نکالنا چاہا تھا۔ میرب بھانپتے فورا سے اٹھی اور داؤد کے پاس والی کرسی پہ بیٹھے وہ اسکے کندھے پہ سر ٹکا گئی۔۔۔۔
بگڑے موڈ سے کھانا کھاتے داؤد کا موڈ اچانک خوشگوار ہوا تھا اسنے مسکراتے جھک کر اسکے سر پہ بوسہ دیا ۔۔۔ تو میرب مزید اپنے باپ سے جا لگی۔۔۔ جبکہ دعا نے گھورتے اسے دور سے تھپڑ دیکھایا۔ جسے دیکھ وہ سونے کا ناٹک کیے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔
ردا (دعا) تم جانتی ہو کہ مجھے اپنی بیٹی کے لئے ایسا لڑکا چاہیے جو اسکی قدر کرے اسے عزت دے مان دے۔۔۔۔ شکل و صورت کچھ بھی نہیں یہ سب اللہ کی دین ہے۔۔۔ کیونکہ سودے بکاؤ چیزوں کے ہوتے ہیں قیمتی چیزوں کے نہیں بالکل اسی طرح سے شکل و صورت نہیں انسان کی سیرت ہی اسے دوسروں میں معتبر بناتی ہے۔۔۔
اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس جو میری بیٹی کا ہے۔۔ مجھے کسی کے بزنس سے کوئی غرض نہیں۔۔۔۔" وہ صاف الفاظ میں منع کرنے لگا۔۔۔۔۔ جسے دیکھ دعا کا دل بیٹھ گیا ۔۔۔
" آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے مگر وہ واقعی میں کردار کا بھی کافی اچھا ہے آپ یقین نہیں کریں گے۔۔۔ اگر آپ خود ملے ہوتے تو آپ سمجھ جاتے کہ وہ واقعی میں آپ کی بیٹی کے لئے درست انتخاب ہو گا۔۔۔۔۔
" میرب نے ترچھی نظر سے داؤد اور پھر پریشان سی سامنے بیٹھی دعا کو دیکھا ۔۔۔ اس معاملے میں جو بھی ہو وہ ماں کی سائڈ پر تھی ۔۔۔۔۔۔۔
" مگر دعا ۔۔۔۔۔"
پلیز داؤد ہماری بچی کونسا دودھ پیتی چھوٹی کاکی ہے وہ اب خود بھی سمجھدار ہے ۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ان دونوں کو موقع دینا چاہیے ایک دوسرے کو سمجھنے کا۔۔۔۔ آخر برائی کیا ہے اس میں۔۔ آج نہیں تو کل ہمیں شادی تو کرنی ہی ہے میرب کی۔۔۔ "
دعا نے خوبصورت لہجے میں کہتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔ داؤد نے گہرا سانس بھرتے اپنے کندھے کی جانب دیکھا جہاں وہ باپ کے دیکھنے پر اپنے پاپ کھانے سے سرخ ہوے دانتوں کی نمائش کرتی مسکرا دی۔۔
آخر کار ماما نے پٹا لیا۔۔ داؤد کی نظروں میں الجھن دیکھتے وہ بڑبڑاتے سر جھکا گئی۔۔۔
ٹھیک ہے بلاؤ اسے، پہلے میں اس سے خود ملوں گا اگر وہ مجھے ٹھیک لگا تو ہی اپنی بیٹی کو اسکے ساتھ بھیجوں گا۔۔۔ داؤد نے حتمی فیصلہ سناتے دعا کو دیکھا جو اب کافی مطمئن ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ جانتی جو تھی کہ داؤد تیمور سے مل کر کافی خوش ہو گا۔۔۔۔
" مجھے کافی اچھا لگا کہ تم میرے ساتھ آئی ہو میرب۔۔۔۔۔۔" گردن ترچھی کیے اسکے دو آتشہ وجود کو گہری نظروں کے حصار میں لیتے وہ بھاری آواز میں بولا
۔۔۔۔ میرب اسکی گہری نظروں سے کنفیوز سی مسکرا بھی ناں سکی۔۔۔۔
دعا کے بتانے پہ وہ صبح ہی صبح ٹپک پڑا تھا۔۔۔ داؤد سے بات کرتے وہ مسلسل نرم لہجے میں بولا ۔۔۔ اور ایک دفعہ بھی اسنے نگاہیں میرب کی جانب نہیں کی ۔۔ داؤد کے پوچھے ہر سوال کا جواب وہ کافی اچھے سے ٹہر ٹہر کے دیتا داود کو متاثر کر گیا۔۔۔۔ وہ کافی حیرت سے اسے دیکھ اور سن رہا تھا۔۔۔ جس کا لہجہ کافی نرم تھا۔ بلآخر اسنے بات ختم کرتے داؤد سے اجازت طلب کی۔۔ داؤد نے ایک دو ضروری ہدایت اور میرب کا خاص خیال رکھنے کا کہتے اسے اجازت دے دی تھی۔۔۔۔ اور اب وہ رات نو بجے اسے لیتے اپنے ساتھ جانے کہاں جا رہا تھا۔۔
" ڈیڈ کے سامنے تو نظر نہیں اٹھا رہا تھا۔۔۔۔ اور اب ، کمینہ ہے ایک نمبر کا۔۔۔ خود میں سمٹتے وہ اسکی نظروں سے بری طرح سے جھنجھلاتے خود سے بڑبڑائی۔۔۔۔ "
کچھ کہا تم نے۔۔۔۔۔" اسکی بڑبڑاہٹ کو وہ سن چکا تھا مگر اسے کچھ خاص سمجھ نہیں آئی جبھی اسنے میرب سے پوچھا۔۔
نتھنگ۔۔۔۔ میرب نے سٹپٹاتے سر کو نفی میں ہلاتے بمشکل سے کہا تو داؤد مسکراتے سر ہلا گیا۔۔۔۔
کم ۔۔۔۔۔۔۔" گاڑی ایک سائڈ پر پارک کرتے وہ دوڑتا تیزی سے میرب کے نکلنے سے پہلے ہی وہ جلدی سے دروازہ کھولتے بولا ، میرب نے چونکتے اسکے چہرے کو دیکھا اور پھر غیر محسوس انداز میں ہاتھ پیچھے کیا۔۔۔
ایک گہرہ سانس فضا کے سپرد کیے وہ باہر نکلی تھی
۔۔۔ تیمور نے مسکراتے اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔۔۔۔
یہ کون سی جگہ ہے ، میرا مطلب ہوٹل ایسے تو نہیں ہوتے۔۔۔۔۔" میرب نے چونکتے اس عجیب و غریب جگہ کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔ تیمور نے دونوں ہاتھ اپنے بلیک ڈنر سوٹ کی پاکٹ میں ڈالے، " دراصل یہ کلب ہے۔۔۔۔ کوئی ہوٹل نہیں۔۔۔" میرب کے الجھن زدہ چہرے کو دیکھتا وہ نرمی سے بولا تو میرب کو شدید جھٹکا لگا۔۔
مگر آپ نے تو کہا تھا کہ ہم ہوٹل جائیں گے ۔۔۔ وہ بے شک ایسی جگہوں پر جاتی نہیں تھی مگر وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ ایسی جگہوں کا ماحول ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔۔ ' اوپر سے تیمور کا یوں جھوٹ بول کر لانا اسے سخت ناگوار گزرا۔۔
' دراصل میرے کچھ فرینڈز بھی تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔ تو صرف اس لئے ہم یہاں آئیں ہیں ان سے مل کے ہم ہوٹل کے لئے نکلیں گے۔۔۔۔ میرب کے ہاتھ کو تھمامتے تیمور نے التجائی نظروں سے اسے دیکھتے کہا مگر میرب نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا ۔۔۔۔۔
اچھا سوری یار چلو ہم دس منٹ میں واپس نکلیں گے آئی پرامس۔۔۔۔۔۔ " اسکے خفا چہرے کو دیکھ تیمور نے منت بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔ جسے سن کر میرب نے مجبورا حامی بھر دی۔۔۔
تھینکس یار لیٹس گو۔۔ بانہیں پھیلائے وہ اسے ہگ کرنے کے لئے آگے بڑھا تھا مگر میرب نے لب بھینجتے قدم پیچھے کیے جس پہ تیمور سوری کرتا خود کو سمجھاتے آگے بڑھا۔
اندر کا ماحول کافی عجیب سا تھا۔۔۔۔۔ تیز میوزک کی کانوں میں چھبتی آواز میں رنگین روشنی سے سجے اس ہال نما کمرے کے ایک جانب لڑکے لڑکیاں میوزک کی بیٹ پر نازیبا ڈانس کر رہے تھے ، جبکہ ایک جانب بڑا سا بار بنا تھا۔۔۔۔ میرب نے خوف و ڈر سے اس عجیب سے ماحول کو دیکھ جھرجھری سی لی۔۔ اسکے برعکس تیمور کافی خوش تھا۔۔۔
میرب کے ہاتھ کو زبردستی پکڑے وہ ایک جانب جاتے دو تین سیڑھیاں عبور کرتا اسے لئے آگے بڑھا تھا۔۔ یہاں درمیان میں آدھی دیورا بنائے صوفے سیٹ کیے گئے تھے۔۔۔۔جن میں سے کچھ صوفوں پر لوگ انجوائے کر رہے تھے۔۔۔ اور کچھ حالی پڑے تھے۔۔
تیمور نے اسے ساتھ لے جاتے ایک صوفے پہ بٹھایا اور ساتھ ہی اپنے دوستوں کو اشارہ کیا ۔۔ جو تیز میوزک کی وجہ سے اسکی جانب متوجہ نہیں تھے۔۔
سر نفی میں ہلاتا وہ میرب سے ایکسکیوز کیے پھر سے اسی ڈانس والے ایریا میں گیا تھا ۔ اپنے دوستوں کو پکڑتے وہ انہیں ہاتھ کے اشارے سے میرب کا بتانے لگا ۔۔
میرب اس بے ڈھنگ عجیب سے ماحول سے خوفناک ہوتے اپنے ہاتھ مسل رہی تھی۔۔
اتنے میں تیمور اپنے تین چار دوستوں کے ساتھ وہاں آتے ہی میرب کو مخاطب کر چکا تھا۔۔۔
میرب نے اپنی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں میں خوف سیمٹتے اسے دیکھا ۔۔۔ ۔"
میر جاناں ان سے ملو یہ میرے بچپن کے دوست ہیں ۔۔ جیکی ، وکی ، راحت اور عائشہ۔۔۔۔. " ایک ایک کرتے وہ سب کی جانب ہاتھ کا اشارہ کرتے بولا۔۔۔ سب کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔۔۔ میرب نے زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پہ سجائی ۔۔۔ جبکہ دل یہاں سے بھاگ جانے کا تھا۔۔۔۔
تیمور یار آؤ ڈانس کریں۔۔۔ شارٹ سی ڈریس میں بالوں کو کندھے پہ ڈالے عائشہ نے نخوت سے میرب کو سر تا پاؤں گھورتے اپنے بازؤوں جان بوجھ کے تیمور کی گردن میں حائل کرتے کہا تھا۔۔۔۔۔ میرب کے آنکھیں اس منظر پہ دھندلانے لگی۔۔۔۔ جبکہ تیمور اسے دیکھ معذرت کرتا عائشہ کی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے ساتھ لگائے واپس ڈانس فلور کی جانب بڑھا۔۔۔
میرب کا دل چاہا کہ وہ زمین میں دھنس جائے۔۔۔اخر کیسے اس جیسے واہیات آدمی سے وہ شادی کے خواب سجانے لگی تھی ۔۔ گال پہ لڑکھتے اپنی آنسو کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے وہ اٹھی تھی۔ کہ آگے بڑھتے وکی نے اسکے بازو کو تھاما ۔۔۔۔میرب کا سانس سینے میں اٹکا ۔۔۔۔ وہ خوف و وخشت سے پھڑپھڑانے لگی۔۔۔
چچ چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔" لہجے پہ قابو پاتے میرب نے دھک دھک کرتے دل سے اپنا آپ چھڑوانا چاہا مگر سب بے سود۔۔۔۔۔"
" کیا یار اتنے ڈرامے ۔۔۔۔ کیا ہم اس تیمور کو نہیں جانتے آئے روز ایک نئی لڑکی کو ڈھونڈ لیتا ہے اور جب طلب ختم ہو جائے تو پھینک دیتا ہے ٹشو پیپر کی طرح۔۔۔ چلو ایسا کرو تم آج ہمارے ساتھ بھی انجوائے کر لو۔۔۔۔۔ اسکے حسین چہرے سے ہوتے وکی کی نظریں اسکے سراہے میں الجھی۔۔۔۔ میرب اسکی باتوں کو سنتے جیسے سںناٹوں میں چلی گئی۔۔۔
اسکا وجود ساکن بت کا بن گیا۔۔۔۔ مگر جلد ہی اسنے خود کو سنبھالتے وکی کو پوری قوت لگاتے پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا ۔۔۔ جس سے وہ پیچھے کو ہوتا غصے سے میرب کو دیکھتے آگے بڑھا اور اسکے بازوؤں کو دبوچتے وہ غصے سے غرانے لگا۔۔۔۔
تیری یہ مجال تو مجھے وقاص کو مارے کی۔۔۔ آج دکھاتا ہوں تجھے کہ میں ہوں کون۔۔۔ ایسی حالت کرو گا کہ توں خود بھی خود کو پہچان نہیں پائے گی۔۔۔۔ تیری روحیں ایسے زخم لگاوں گا کہ توں موت مانگے گی مگر تجھے نصیب نہیں ہو گی۔۔۔۔"
اسکے بازوؤں کو مڑورتے وہ کمر سے لگاتے دوسرے ہاتھ سے میرب کے بالوں کو اپنی گرفت میں لیتے بولا تھا۔۔۔۔ درد کی شدت سے اسکا چہرہ سے تر ہونے لگا۔۔۔۔۔ میرب کی سسکیاں پورے بار میں گونجتی میوزک کے تیز شور میں غائب ہو رہی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس ظالم کی بالوں پر تیز گرفت پہ اسکا سلیقے سے اوڑھا خجاب ڈھیلا پڑ گیا۔۔۔۔۔
" وکی۔۔۔۔۔۔ ہاؤ ڈئیر یو ٹچ ہر۔۔۔۔۔۔" تیمور جو بڑی مشکل سے عائشہ کو سمجھاتے بھجھاتے اپنی محبت کا یقین دلائے واپس آیا تھا۔۔۔۔ مگر سامنے کا منظر دیکھ تیمور کا فشار خون پل بھر میں ابلنے لگا۔۔۔اس نے کھینچتے وکی کا رخ اپنی جانب گھمائے اسکے سوچنے سے پہلے ہی ایک زور دار مکہ اسکے چہرے پہ رسید کیا ۔کہ وہ دھڑام سے پیچھے کو لڑکھڑاتے گرا۔۔۔
میرب کی سہمی حالت اسکے چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے تازہ نشانات تیمور شیرازی کا دل شدت سے چاہا کہ وہ وکی کو جان سے مار دے۔۔۔۔
اسنے آگے بڑھتے میرب کو سنبھالا جو اپنے ہواس میں نہیں تھی ۔ تیمور نے پکڑتے اسے صوفے پہ بٹھایا۔۔۔ وہ یہاں میرب کو لایا تھا مگر کسی اور کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے لئے۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک بار اسکی قربت میں کچھ سکون کے لمحے گزارے ۔۔۔۔۔ مگر اسنے یہ سوچ رکھا تھا۔کہ وہ شادی میرب سے ہی کرے گا۔۔۔۔۔۔ مگر اب اپنے نام سے منسوب ہونے والی لڑکی کے ساتھ اپنے ہی دوستوں کا یہ رویہ اسے پاگل کر دینے کا باعث تھا۔۔۔۔۔
" جیک اور راحت نے تیمور کے دیکھنے سے پہلی وکی کو سہارہ دیتے وہاں سے غائب کیا تھا۔۔۔ جبکہ تیمور کا دھیان میرب پہ تھا۔۔۔ وہ گھٹنوں کے بل اسکے پاس بیٹھا۔۔ اسکے سرخ ہوئے ہاتھ کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔ ویٹر ۔۔۔۔۔ اسنے چلاتے ویٹر کو بلایا جو فوراً سے وہاں پہنچا تھا۔۔۔۔۔
" پانی لاؤ۔۔۔۔۔۔ تیمور کو اسکی حالت ٹھیک نہیں لگی وہ خاموش ہو گئی تھی باکل خاموش۔۔
" ویٹر نے بھاگتے گلاس لاتے اسکے آگے کیا۔۔۔ تو تیمور نے گلاس میرب کے لبوں سے لگایا۔۔۔ میرب نے ہچکیاں بھرتے اس پانی کو پیا تھا چہرے پہ آنسوں خود بخود گرنے لگے۔۔۔۔
وہ حالی گلاس میز پر رکھتے اسے کھڑا کرنے لگا کہ ایک دم سے میرب چکراتے اوندھے منہ فرش پہ گری ۔۔۔ تیمور نے ڈرتے اسے سنبھالا۔۔۔۔
" تم چ چھوڑو مم مجھے۔۔۔۔" اپنے کندھے کے گرد لپٹے تیمور کے ہاتھوں کو بری طرح سے جھٹکتے میرب نے لڑکھڑاتی آواز میں کہتے اسے خود سے دور کرنا چاہا ۔۔۔ مگر اسکے ڈگمگاتے قدموں کو دیکھتا تیمور فورا سے اسے سنبھالتے سہارہ دے گیا۔۔۔۔
" میر ویٹس ہیپننگ ۔۔۔۔۔ تیمور کی کیفیت بری تھی ۔ اسے خود بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیوں اس قدر پریشان ہو رہا تھا۔ ۔۔ تیمور نے اسے سنبھالتے اسکا چہرہ تھپکا ۔۔۔۔ میرب نے نشے سے دھت آنکھوں سے تیمور کو دیکھا ۔۔۔ تو تیمور نے مڑتے میز پر پڑے گلاس کو دیکھا۔۔۔۔اوہ شٹ۔۔۔۔
ویٹر نے پانی کی جگہ وائن لا کر دی تھی۔۔۔ جس کا اتنا تیز ری ایکشن ہوا تھا میرب پر۔۔۔ تیمور نے احتیاط سے میرب کو تھامتے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔
جبکہ میرب جھپٹتے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کرتے اسکے چہرے کو نوچنے لگی ۔۔جسے برداشت کرتا وہ اسے لئے سیڑھیاں چڑھتا اوپر موجود کمروں میں سے ایک میں گیا ۔۔
" چچ چھوڑو۔۔۔۔۔ میرب نے بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کرتے اسکے چہرے پہ تھپڑ مارتے اپنا آپ کو چھوڑنا چاہا مگر تیمور نے جبڑے بھینجتے اسکے دونوں ہاتھوں کو قابو میں کیا ۔۔۔۔۔
جس پہ وہ غصے سے پھولتے سانس نے اسکے ہاتھ پر اپنے دانت گھاڑ چکی تھی، بے ساختہ درد سے تیمور کی چیخ فضا میں گونجی ۔۔۔۔ تیمور نے آنکھوں میں آتی نمی سے اپنے ہاتھ پہ کسی چڑیل کی طرح چمٹی میرب کو دیکھا۔۔۔۔
تیمور نے لب آپس میں پیوست کیے درد کو برداشت کیا تھا۔۔۔۔۔میرب کے دانتوں کا دباؤ اسکے ہاتھ کی پشت پر بہت زیادہ تھا۔۔۔ مگر تیمور خاموش کھڑا مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ میرب نے نڈھال ہوتے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا اور نشے کی وجہ سے سرخ ہوئے بڑے بڑے سرمئی نین کٹوروں سے تیمور کو دیکھنے لگی۔۔۔
جس کی نظریں میرب کے ہونٹوں پہ لگے اپنے خون پہ تھیں۔۔۔۔ اسکے لڑکھڑاتے وجود کو دیکھ تیمور نے ایک دم سے ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کرتے اسے کھینچتے اپنے نزدیک کیا۔۔۔۔۔
میرب بمشکل سے اپنی بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ جبکہ تیمور شیرازی اس چھوٹی سی لڑکی کے لئے اپنے بدلتے احساسات سے انجان اسے ایک دم سے جھکتے اپنے بازوؤں میں بھر گیا۔۔۔
میرب کا سر مقابل کے سینے سے جا لگا جس نے تیمور کی دھڑکنیں منتشر کر دیں ۔۔ لاکھوں لڑکیوں کے ساتھ راتیں گزارنے والا آج ایک لڑکی کے لمس اسکی خؤشبو میں خود ہی گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔۔۔
تیمور نے بیڈ کے قریب جاتے نرمی سے اسے بیڈ پہ لٹایا تھا ۔۔۔ ہاتھ اسکی قریب رکھتے وہ جھک گیا تھا اسکے چہرے پہ۔۔۔۔ جو آنکھیں بند کیے ہوش و حواس سے بےگانہ تیمور شیرازی کی پناہوں میں تھی۔۔ مگر اب اسکے احساسات بدل چکے تھے۔۔ تھوڑی دیر پہلے بنایا گیا اپنا منصوبہ وہ یکسر بھول چکا تھا۔۔۔
وہ بس خاموش نظروں سے اسکے چہرے کو دیکھتا رہا ۔۔ آنکھوں میں ایک چمک سی دھر آئی مگر جب نظریں اسکے چھوٹے سے ہونٹوں پہ لگے اپنے خون پہ گئی۔۔۔تیمور نے اپنا بایاں ہاتھ اٹھائے دیکھا جہاں سے خون کافی زیادہ نکل رہا تھا۔۔۔
تیمور نے مسکراتی نظروں سے اپنے ہاتھ کی پشت کو چھوا تھا۔۔۔ جبکہ نظریں میرب پہ ٹکی تھی۔۔۔۔
" تم پہ میرا سارا خون معاف میر جاناں۔۔۔۔۔۔ مگر شرط یہ ہے کہ بدلے میں تم اپنی اتنی ہی سانسیں میری سانسوں میں بھرو گی ۔۔۔ آخر ایسا کیا خاص ہے تم میں ، جو لاکھوں لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارنے والا یہ تیمور شیرازی تمہارے آگے بے بس ہو گیا۔۔۔۔۔۔ مگر جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے ، کہ اب سے تم پہ صرف اور صرف تیمور شیرازی کا حق ہے۔۔۔۔۔ میری ملکیت کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے تو میں اسکی آنکھیں نہیں اسے ہی اٹھا دیتا ہوں۔۔۔ اسکے ہونٹوں کو اپنے لبوں سے چھونے کی خواہش کو دل میں دبائے تیمور نے نرمی سے اپنے انگوٹھے سے اسکے ہونٹ سہلاتے اپنا خون صاف کیا ۔۔
اور پھر وہی ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگائے۔۔۔۔۔ ایک مسکراتی نظر میرب کے وجود پہ ڈالتا وہ بے بسی سے جھکتا اسکی پیشانی پہ اپنے دہکتے ہونٹ رکھتے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔
' کیا کروں اتنا تو چلتا ہے۔۔۔۔ " تیمور نے پیچھے ہوتے اسکی بند آنکھوں کو دیکھ اپنی جانب سے صفائی دی تھی گویا اسے ڈر تھا کہیں وہ غصہ ناں کرے۔۔۔۔
ہممممممم..... اگلے دس منٹ میں جیک، راحت اور وکی کو میرے پرائیویٹ فلیٹ میں لے چلو ۔۔ آخر انہیں بھی تو رات رنگین کرنے کا موقع ملے۔۔۔۔۔ کھڑکی کے پاس جاتے تیمور نے موبائل جیب سے نکالتے اپنے خاص آدمی کو کال کی۔۔۔۔ جس نے فورا سے یس سر کہتے کال کاٹی تھی۔۔۔ تیمور فون جیب میں رکھتے اب کھڑکی سے ٹیک لگائے میرب کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسے یہاں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔۔۔۔ وہ آرام سے میرب کے تھوڑا بہتر ہونے تک یہاں رک سکتا تھا۔۔۔
بھلا کلب کے مالک کو اپنے ہی کلب میں کیا خطرہ ہوتا سکتا تھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
*****ماضی******
" کیا کر رہی تھی تم اس کے ساتھ۔۔۔۔۔ " اپنے سامنے خاموشی سے بیٹھی الایہ کو گھورتے اذلان نے غصے سے در یافت کیا۔۔۔
" کس کے ساتھ۔۔۔۔۔" الایہ نے حیرانگی سے اذلان کو دیکھا بھلا وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔ اذلان نے مڑتے ایک نظر صوفے پہ خاموش بیٹھی الایہ کو دیکھا اور چلتا اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھتے اسکے ہاتھوں کو تھاما۔۔
ایم سوری ماہی میں جانتا ہوں تم ناراض ہو میں نے وعدہ کیا تھا مگر پھر بھی میں نہیں آ پایا ، مگر اب دیکھو میں صرف تمہارے لئے ہی واپس آیا ہوں۔۔۔۔ مگر تم اس عاصم کے پاس کیا کر رہی تھی۔۔۔۔
اذلان کا چہرہ غصے سے سرخ پڑا تھا۔۔کانوں میں ابھی تک عاصم کا الایہ کو یوں ماہی کہنا گونج رہا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ خود پہ ضبط کرتا بمشکل سے بیٹھا تھا۔۔۔۔
سچ میں میں اسے نہیں جانتی وہ ایسے ہی آیا تھا اور مجھے کہہ رہا تھا کہ وہ امن کا دوست ہے۔۔۔۔" الایہ نے اپنے تئیں اسے یقین دلانا چاہا مگر الایہ کے جھوٹ پر اذلان۔ نے غصے سے اسکے ہاتھوں کو چھوڑ دیا اور کھڑے ہوتے وہ ایک جانب رخ کیے مسلسل اپنی ٹانگ کو ہلا رہا تھا۔۔۔۔
" وہ جانتا تھا عاصم کی کبھی بھی ان دونوں بھائیوں سے نہیں بنی تھی پھر وہ کیونکر ماہی سے جھوٹ بولتا مگر کیا ماہی جھوٹ بول سکتی تھی ۔۔۔یہاں پر اذلان کی سوچ خودبخود تھم گئی۔۔۔۔
اسے لگا کہ اسکا دماغ پھٹ جائے گا۔۔۔۔ الایہ کو یونہی چھوڑتے وہ دروازہ کھولتے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔ جبکہ اسکے یوں اتنے سخت رویے پہ الایہ نے روتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا ۔۔۔ آخر وہ کیوں ایسا کر رہا تھا اسکے ساتھ ۔۔۔۔۔
پہلے تو وہ ایسا نہیں تھا۔۔ اسکے چھوٹے سے ذہن میں جانے کتنے ہی سوال آئے تھے مگر جو بات اسے سب سے بری لگی تھی وہ تھا سمائکہ کا اذلان کے پیچھے آنا۔۔۔۔ یہ سوچتے ہی کہ اذلان اب پھر سے اسکے پاس گیا ہو گا۔۔۔ الایہ کے رونے میں روانی آئی۔۔
الایہ نے نوٹ کیا تھا اذلان اب اس سے دور رہنے لگا تھا پہلے کے جیسے اس سے بات کرنا کھیلنا وہ چھوڑ چکا تھا۔۔۔ الایہ جب بھی اس کے سامنے جاتی وہ خاموشی سے نظریں پھیرتے اسے اگنور کر دیتا جس کے باعث وہ مزید تکلیف میں تھی ، مگر ہمیشہ کی طرح اسکی پریشانی اسکی تکلیفوں کو سننے والا کوئی بھی نہیں تھا مگر ان گزرے تین چار دنوں میں عاصم کے ساتھ اسکی کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
پہلے تو وہ خود اس سے دور رہی تھی مگر پھر عاصم کے دوستانہ انداز اور شرارتوں پہ وہ بھی اسکے ساتھ اچھا وقت گزار لیتی تھی مگر اذلان کا برا رویہ اسے اندر سے توڑ رہا تھا۔۔۔۔
اب بھی وہ بظاہر عاصم کے ساتھ پارک میں موجود ایک جانب گھاس پہ بیٹھی ہوئی تھی مگر اسکا دھیان اذلان میں تھا۔۔ کل رات کو وہ اس سے ٹکراتے بری طرح سے گری تھی مگر اذلان نے اسکے رونے کی پرواہ کیے بنا ہی ایک نفرت بھری نظر اسکے وجود پہ ڈالی اور تن فن کرتا اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔ الایہ کتنی ہی دیر اسکے برے رویے پہ روتی رہی تھی۔۔۔۔
مگر پھر خود ہی خاموش بھی ہو گئی۔۔۔۔۔ شاید اسکی قسمت میں کوئی اچھا دوست نہیں لکھا گیا تھا۔۔۔۔۔
لایہ آئسکریم۔۔۔۔۔۔۔ عاصم نے پاس بیٹھتے اسے مسکراتے آئسکریم دی جسے دیکھ الایہ نے سر نفی میں ہلا دیا ۔۔۔۔
اسکے خراب موڈ کو دیکھتے عاصم نے شرارت سے ائیسکرم اسکی ناک سے لگائی۔۔۔۔ الایہ نے حیرت سے منہ کھولے اپنے ناک کو چھوا اور پھر غصے سے عاصم کو دیکھا جو ہنس ہنس کے بے حال ہو رہا تھا۔۔۔
اوہ سو سوری لایہ ویری سوری یار۔۔۔۔ عاصم نے اسے یوں غصے سے کھڑا ہوتے دیکھ ایک دم سے گھبراتے کہا تھا ۔۔ اور پھر الایہ کے حملہ کرنے سے پہلے ہی وہ ایک جانب بھاگا ، ۔۔۔۔
دیکھا آن میں نے کہا تھا ناں کہ الایہ نے تم سے جھوٹ کہا ہے وہ جانتی ہے عاصم کو ۔۔۔۔۔ " اذلان کی آنکھوں میں۔ بےیقینی ایک جلن سی تھی۔۔۔۔ اسکے لئے یقین کرنا نا ممکن تھا۔ مگر جو تصویریں سمائکہ نے دکھائی تھی ان میں بھی تو عاصم کے علاؤہ اور کتنے لڑکوں کے ساتھ اسنے دیکھا تھا ۔۔ الایہ کو مگر تب تب اسنے غصے سے سمائکہ کو ڈانٹ دیا تھا۔۔۔کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔۔۔
مگر اب الایہ کو یوں اس طرح سے عاصم کے ساتھ کھلکھلاتا دیکھ اذلان نے طیش میں اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے آنکھیں سختی سے میچیں۔۔۔۔
میں نے کہا تھا تم سے آن مگر تمہیں یقین نہیں آیا یہ دیکھو اسنے مجھے مارا بھی تھا کل۔۔۔ میں گئی تھی اس سے بات کرنے اسے سمجھانے مگر اس نے آگے سے مجھے دھکہ دے دیا اور اتنی زور سے مجھے گرایا نیچے۔۔۔ یہ دیکھو ، میرا سارا ہاتھ زخمی ہو گیا ۔۔۔۔
اپنے بازوؤں کو اسکے سامنے کرتے سمائکہ نے من من کے آنسوں آنکھوں میں سجائے اذلان کو دیکھا ۔۔۔۔ جو آنکھوں میں غصے کی سرخی لئے اسکے سرخ ہوئے بازو کو دیکھ رہا تھا۔۔ جس پہ خراشیں ابھی بھی تازہ تھیں ۔۔۔
آن رکو تم۔۔۔۔ کہاں جا رہے ہو؟ ۔۔۔۔" اسے غصے سے الایہ کی جانب بڑھتا دیکھ سمائکہ نے گھبراتے اسکے بازوؤں کو تھاما ۔۔۔ اتنے دنوں سے اسکے دماغ میں جو زہر اسنے الایہ کے خلاف بھرا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ ابھی اسکا منصوبہ خراب ہو ۔۔۔ اسکی دوستیں ان سب میں اسکی بھرپور مدد کر رہی تھیں۔۔ انہوں نے ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکی کو یہ بات اچھے سے سمجھا دی تھی کہ اذلان ہی اسکا لائف پارٹنر بنے گا ۔۔ اسے الایہ سے دور کرنے اور اپنی جانب راغب کرنے کا ہر پلان اسنے اپنی دوستوں کے ساتھ مل کے بنایا تھا ۔۔۔۔
اور اب عاصم اور الایہ کی دوستی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی تھی۔۔۔ اذلان کا دماغ سمائکہ کی کہی باتوں میں الجھ چکا تھا۔۔ اسے خود پہ یقین ناں آیا کہ آخر کیسے وہ ایسی لڑکی سے دوستی کر سکتا تھا۔۔۔ اسے تو شروع سے خاموش طبع ، معصوم ، لڑکوں سے کم دوستی رکھنے والی اور باحیا لڑکیاں پسند تھی ۔۔ جب آنکھوں پہ پردہ پڑا تو ایک ساتھ جانے کتنی ہی برائیاں اسے الایہ میں سے نظر آنے لگی۔۔۔
میں تمہارے ساتھ ہوں آن تم اتنے ڈسٹرب ناں ہو۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنا ہاتھ الجھائے سمائکہ نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ اذلان نے غصے سے اسے دھکہ دیتے قدم واپسی کو موڑے تھے۔۔۔۔
" سمائکہ مسکراتی نظروں سے زمین سے اٹھتی اپنی کامیابی پہ مسکرائی تھی۔۔۔۔ آخر کار اسنے دور کر دیا تھا اذلان کو اسکی ماہی سے۔۔۔۔ اسنے دل میں سوچتے ایک نظر مڑتے الایہ پہ ڈالی ۔۔۔ جسکے چہرے پہ سجی مصنوعی مسکراہٹ بھی اسکی آنکھوں میں چھپی اداسی کو چھپانے سے قاصر تھی۔۔۔۔
کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔۔" شام کے پانچ بجے وہ عاصم کے ساتھ ہی واپس آئی تھی عاصم اسے گیٹ کے سامنے چھوڑتا کل پھر سے آنے کی ہدایت دیتا وہاں سے گیا تھا ۔۔
الایہ نے تھکاوٹ سے لبریز اپنی گہری کالی آنکھوں کو اٹھائے اسے دیکھا ۔۔ جو رف سے حلیے میں سیڑھیوں پر کھڑا آنکھوں میں سرخی لئے اسی کو گھور رہا تھا۔۔۔۔ الایہ نے لب بھینجتے اسکے تاثرات دیکھے مگر وہاں اسے کوئی شناسائی کا نام و نشاں ناں ملا ۔۔۔۔ وہ بدل چکا ہے دل نے صدا لگائی الایہ نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔
وہ اوپر کمرے میں جانے کا ارادہ کینسل کیے رمشہ کے پاس جانے لگی۔۔۔۔
آج اسکا ارادہ حیا کے پاس رکنے کا تھا۔۔ نیناں اور وریام نے کہا تھا کہ وہ رات اسے لینے کو آئیں گے جبھی وہ رمشہ کے پاس کچھ وقت گزارنے کا سوچتی قدم وہیں سے موڑ گئی۔۔۔
اذلان نے نفرت بھری نظروں سے اسکی حرکت کو دیکھا ۔۔۔۔ اپنا آپ اگنور ہوتا دیکھ اسکا غصہ سوا نیزے پہ تھا۔۔۔ اور شاید یہی وجہ تھی جو اسے عاصم سے جلن محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔ وہ بچپن سے ہی اذلان کی تھی۔۔۔۔ تو پھر بھلا وہ اتنی جلدی کیسے بدل گئی۔۔۔
کیا اذلان اسے ایسا کرنے دے سکتا تھا۔۔۔ اذلان نے تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے اسکے نازک ہاتھ کو اپنی مضبوط گرفت کی میں لیا۔۔۔ اسکے یوں ایسے ردعمل پر وہ جی جان سے لرزی تھی۔۔۔۔۔
اسے لگا شاید وہ اسے مارے گا۔۔۔۔ اسکا ردعمل اور گرفت ہی اس قدر سخت تھی کہ الایہ کو اس سے ڈر لگنے لگا۔۔۔۔ اذان چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔" الایہ نے بھیگی آنکھوں سے اسکی کمزور مگر چوڑی پشت کو دیکھتے کہا تھا۔۔۔
مگر اسے کھینچتے وہ اپنے ساتھ لیتے سیڑھیاں پھلانگنے کے سے انداز میں چڑھتا اوپر کمرے میں آیا ۔۔۔۔
" جب میں نے منع کیا تھا کہ تم مجھے اس عاصم کے ساتھ ناں دکھو تو تم پھر بھی اس سے ملتی ہو کیوں الایہ۔۔۔۔۔۔۔" اسے غصے سے نیچے فرش پہ پھینکتے اذلان نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال نوچے تھے۔۔۔۔ الایہ نے غصے سے اپنے آنسوں صاف کیے ۔۔۔۔ اسے اپنے ہاتھ میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ ایک جھٹکے سے یوں ایک طرف گرنے پہ اسکا بازوؤں نیچے آتے دب گیا تھا۔۔۔
مگر اپنے غصے میں وہ دھیان ہی ناں سکا۔۔۔ کہ جس کی تکلیف پہ وہ تڑپ جاتا تھا آج وہ خود ہی اسے تکلیف دینے سبب بن رہا ہے۔۔۔۔۔
آج کے بعد تم نہیں ملو گی اس سے۔۔۔۔" اذلان نے انگلی اٹھائے اسے غصے سے دیکھ وارن کیا تو الایہ نے ضبط سے لب بھینجتے اسے دیکھا ۔۔۔
کیوں میں ملوں گی اس سے وہ میرا دوست ہے سمجھے تم ۔۔ تم بہت برے ہو مجھے بات نہیں کرنی تم سے۔۔۔۔"
اسے جاتا دیکھ وہ شکوہ کرتے ساتھ ہی اپنا فیصلہ بھی سنا گئی ۔۔۔۔ اذلان نے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے گردن موڑے اسے دیکھا تھا۔۔۔
اگر اب تم اس سے ملی تو یاد رکھنا بھول جانا کہ اذلان سے تمہاری کبھی کوئی دوستی یا کوئی رشتہ تھا۔۔۔۔"۔ اسے کھلے لفظوں میں وارن کرتا وہ غصے سے ٹھاہ سے دروازہ بند کرتا باہر نکلا۔۔۔۔
" میں ملوں گی اس سے میں بھی دیکھتی ہوں تم کیسے روکو گے مجھے تم خود بھی تو ملتے ہو سمائکہ چڑیل سے۔۔۔ پھر میں کیوں کسی سے ناں ملوں۔
وہ روتے خود سے تہیہ کرتی گھٹنوں میں منہ دیے سسکنے لگی۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
بیٹا آپ بھی چلو ہمارے ساتھ ہم جلدی سے واپس آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔"
ناشتہ ختم کرتے ہی رمشہ نے گم سم سی خاموش بیٹھی الایہ کو مخاطب کرتے کہا ۔۔۔ جو مسکرا بھی ناں سکی۔۔۔
رمشہ نے بغور اسکی سوجھی آنکھوں کو دیکھا اذلان اور الایہ میں چھائی یہ سرد مہری وہ محسوس کر چکی تھی مگر بچے ہیں شاید کسی بات سے ناراضگی ہو گئی ہو اسی بات کو سوچتے وہ خاموش تھی۔۔۔۔
نہیں آنٹی آپ اور انکل جائیں میں گھر پہ ہی ٹھیک ہوں۔۔۔ویسے بھی تھوڑی دیر میں نیناں آنٹی آ جائیں گی میرا اب حیا سے ملنے کا بہت دل چاہ رہا ہے۔۔۔ اسکے کہنے پہ اذلان نے منہ سے لگائے پانی کے گلاس کے گرد گرفت سخت کی تھی۔۔۔۔ مگر زبان سے کچھ نہیں بولا۔۔۔۔
ماما میں جا رہا ہوں دعا کیجئے گا آج آخری پیپر ہے۔۔۔۔ امن کو باہر آنے کا اشارہ کرتے وہ سکول یونیفارم میں ملبوس رمشہ کے آگے سر جھکائے محبت سے بولا۔۔۔ رمشہ نے دعائیں پڑھ اس پہ دم کیں تھیں۔۔۔ وہ مسکراتے پاپا کو بائے کہتا بیگ اٹھائے ہال سے باہر نکلا۔۔۔۔۔
اچھا ماما دعا کیجیے گا کہ پیپر میں کوئی آسان سوال بھی ڈال دیں ۔۔۔۔ "
" امن نے ناشتہ ختم کرتے رمشہ کے ماتھے پہ بوسہ دیے اشعر کے ڈر سے اسکے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔ جس پہ وہ گھورتے اسے آنکھوں سے ہی باز رہنے کا بولنے لگی۔۔ امن نے آنکھ دبائے اشعر کو دیکھا جو اسی کی جانب متوجہ تھا ۔۔۔ جبھی وہ سیدھا کھڑے ہوتا اسے سلیوٹ کرتا بیگ اٹھائے اذلان کے پیچھے گھر سے نکلا۔۔۔۔۔۔۔
ہائے آن کیسے ہو ۔۔۔۔۔۔" کندھے پہ لٹکے اپنے بیگ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتی وہ تیز تیز قدم لیتی اسکے ساتھ ہمقدم ہوئی ۔۔۔۔۔" ناراض ہو۔۔۔۔۔"
اسکے غصے سے یوں بنا جواب دیے چلتے پر سمائکہ نے تشویش سے پوچھا۔۔ جب سے وہ الایہ سے لڑا تھا۔۔۔ بالکل ہی بولنا چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔ پہلے جیسا ہنس مکھ ، چہرے پہ ہمہ وقت ایک مسکراہٹ سجائے رکھنے والا اذلان علوی تو جانے کہاں کھو گیا تھا۔۔۔۔۔
نہیں ناراض نہیں ہوں بس تھوڑا ڈسٹرب ہوں پلیز اگر کوئی کام کی بات ہے تو کرو ورنہ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔" وہ ابھی کسی بھی قسم کی بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔۔۔۔ ناں ہی فلحال وہ سمائکہ سے بات کرنا چاہتا تھا ۔۔ اسکا پیپر بہت اچھے سے ہوا تھا۔۔۔ جبکہ امن نے اسے اشارہ کرتے کے جانے کا بولا کیونکہ وہ ابھی تک کسی غیبی مدد کے آسرے پہ بیٹھا حالی پیپر کو شان سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
رمشہ اور اشعر دونوں ہی لاہور گئے تھے اسے اب جلدی سے گھر پہنچنا تھا کیونکہ گھر الایہ اکیلی تھی۔۔۔۔ وہ چاہے ناراض تھا مگر وہ خوش بھی تھا کہ اسکی بات مانتے وہ اس دن کے بعد نہیں ملی تھی عاصم سے۔۔۔۔
ارے رکو ایک چیز دکھانی تھی تمہیں آن۔۔۔۔۔" سمائکہ کی آواز پہ اذلان نے آنکھیں میچتے خود کو پرسکون کیا اور ایک گہرہ سانس فضا میں خارج کرتے وہ مڑا تھا۔۔۔
یہ دیکھو عاصم اور تمہاری کزن فرینڈ الایہ۔۔۔۔۔۔۔ کتنے اچھے دکھ رہے ہیں ایک ساتھ۔۔۔۔۔" اپنے جیب سے فون نکالتے سمائکہ نے اذلان کے سامنے کیا تو اذلان نے غصے سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
تمہیں موبائل کس نے دیا سکول لانے کیلئے۔۔ ۔۔۔ اسکی بات پہ بنا کان دھرے وہ الٹا اسی سے پوچھنے لگا۔۔۔ سمائکہ ہڑبڑا اٹھی۔۔۔۔ یہ فون اسکی دوست سماپ نے اسے دیا تھا۔۔۔۔ جس میں اسنے کل ہی ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ تصویر بھی بنائی مگر اب وہ ڈر رہی تھی۔۔
اگر اذلان اسکے موم ڈیڈ کو بتا دیتا تو پھر وہ کتنا غصہ کرتے۔۔۔ اسے فون صرف گھر میں چلانے کی آزادی تھی ناں کہ سکول یا پھر گھر سے باہر۔۔۔۔۔۔
وو وہ اذلان میرا فون خراب ہو گیا تھا تو صبح ہی ڈرائیور انکل نے ٹھیک کروا کر دیا تو میں نے آف کرتے بیگ میں ڈال دیا تھا۔۔۔اب تمہیں دیکھ کر مجھے تمہاری وہ سیکنڈ کزن یاد آ گئی جس کی تصویر ہے میرے پاس ۔۔۔۔۔
چہرے پہ معصومیت سجائے سمائکہ نے موبائل فون اذلان کے سامنے کیا۔۔۔ جسے جھپٹتے وہ غصے سے سمائکہ کو دیکھتے اب موبائل فون کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔
وہ مسلسل اپنے ہاتھ چلاتی مقابل کی پشت پہ اپنے نازک ہاتھوں کے مکے مارتے سرخ چہرے سے نہایت بتمیزی سے اسے جانے کون کون سی بدعائیں اور گالیوں سے نواز رہی تھی۔۔۔۔
اسکے پاوں مسلسل ہلتے مقابل کے وجود سے ٹکرا رہے تھے۔۔۔ مگر وہ جبڑے بھینجے سرد نظروں سے اسے کندھوں پہ لادھے اب اپنے فلیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
جسے دیکھتی وہ انگلش میں چلاتی اپنے بڑے بڑے ناخن اسکی کمر پہ پیوست کرتے چکی تھی ۔۔۔ جسکا اثر مقابل کی کو رتی برابر بھی نہیں ہوا تھا ۔۔ روزی نے غصے سے اپنے چھوٹے دانتوں سے اسکے کندھے کو نشانہ بنایا تھا۔۔۔۔ اور زور سے اپنے دانت گھاڑھتے وہ مقابل کو آنکھیں میچنے پہ مجبور کر گئی۔۔۔۔
وہ سمجھ گیا تھا اس میں تہذیب کے ساتھ ساتھ عقل کی بھی نہایت کمی تھی ۔۔ جبھی وہ جھکٹے سے اسے کھینچتے اسکا سر پکڑتے سامنے کر گیا ۔۔ جس کی سہمی کانچ سی سرخ آنکھیں مقابل پہ ٹکی تھی ۔ اسکے بھاری تواناں وجود کے سامنے وہ بالکل کوئی چھوٹی سے بےجان گڑیا ہی تو تھی ۔۔
اسنے جھٹکے سے اسے پھر سے اپنے کندھے پہ ڈالا ابکی بار وہ اسکی سرد آنکھوں کی سرخی دیکھ سہم گئی تھی ۔۔۔۔ مگر ڈرنا اسنے کہاں سیکھا تھا ۔۔۔۔
اسنے سوچ لیا تھا جیسے ہی وہ اسے اندر لے کر جائے گا تو وہ فورا سے اسپہ حملہ کر کے بھاگ جائے گی۔۔۔۔۔
اپنی سوچوں میں گم روزی کا دھیان اچانک سے کمرے کے کھلتے دروازے کی آواز پہ بٹا تھا۔۔
وہ چونکتے اس انجان عجیب ویران سی جگہ کو دیکھنے لگی جسکے چاروں اطراف ایسا جنگل تھا جیسے صدیوں سے یہاں کوئی ذی روح آباد ناں ہو۔۔۔۔ روزی کا سانس حلق میں اٹکا تھا۔۔ وہ الٹی لٹکی مقابل کے کندھے سے پیچھے گیٹ اور چھوٹی سے بنی دیواروں سے آگے پیچھے دیکھ رہی مگر اب اسے اپنا بھاگنا سب سے مشکل کام لگا تھا۔۔۔۔
مگر وہ جانتی تھی اگر وہ کسی طرح اس غنڈے کے سر پہ وار کرے گی تو وہ بے ہوش تو ضرور ہو جائے گا اور اسکے بعد جب اسے ہوش آئے گا وہ کافی دور چلی گئی ہو گی۔۔۔۔۔
اسکے کندھوں کو چھوتے ڈارک گولڈن سٹریٹ بال اسکے چہرے پہ بکھرتے اسے عجیب سی مخلوق پیش کر رہے تھے۔۔۔
مقابل نے بڑھتے پانچ سیڑھیوں پہ مقید اس دہلیز کو عبور کیا تھا۔۔۔ اور لاک کھولتے وہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
روزی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی کیونکہ دروازے کا لاک اسکی انگلیوں سے کھلا اور بند ہوا تھا۔۔۔ اسکی آنکھوں کے آگے دھند چھانے لگی۔۔اپنے بھائی کی لاڈلی نازوں میں پلی روزی جس پہ ایک دنیا اسکے حسن سے متاثر ہوتے مرتی تھی آج کوئی یوں اسے سر عام پارٹی سے اٹھا لایا تھا۔۔
اسکے گارڈز اسکے دوست کوئی کچھ نہیں کر سکا تھا۔۔۔ اور اب اسے شدید نفرت محسوس ہو رہی تھی اس شخص سے۔۔۔ جسنے جانے کیوں اسے قید کیا تھا۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سے منہ کے بل فرش پہ گرنے سے اسکی چیخ فضا میں گونجی ، جبکہ مقابل ہاتھ جھاڑتا ایک جانب پڑی کرسی اٹھائے اسکے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔
روزی نے غصے سے چہرے اٹھائے اسے طیش سے دیکھا اور ایک دم سے جھپٹتے اپنے تیز دھار ناخنوں سے اسکے چہرے پہ حملہ کیا مگر وہ اطمینان سے بیٹھا اسکے دونوں ہاتھوں کو گرفت میں لیے اسے پھر سے اپنے قدموں میں گرا گیا ۔۔۔۔
لیٹ می گو یو باسٹرڈ۔۔۔۔۔ ۔۔" اپنے ہاتھوں میں ہوتے درد پہ وہ غصے سے چلا پڑی مگر مقابل کو اسکے الفاظ مزید طیش دلا گئے جبھی اسنے اپنے بائیں ہاتھ کا ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ رسید کیا کہ وہ اسکے بھاری ہاتھ کے تپھڑ سے ایک دم سے گرتے سن ہوتے دماغ سے آنکھیں موند گئی۔۔۔۔۔
انزِک نے غصے سے ایک نفرت بھری نظر اسکے نیم برہنہ وجود پہ ڈالی ۔۔۔ جو اس وقت سلیو لیس شارٹ گھٹنوں سے اوپر تک جاتی بلیک سکرٹ میں تھی۔۔۔۔۔
" میں تمہارا کوئی سو کالڈ بوائے فرینڈ یا پھر تمہارے پیچھے دم بھرنے والے ان کتوں کی طرح نہیں ہوں روز میڈم۔۔۔۔۔۔ " انزِک نے جھکتے اسکے بالوں کو گرفت میں لیتے آسکا چہرہ اونچا کیا تو درد سے روز کی آنکھوں سے آنسوں بہتے اسکے سرخ گال کو بھگونے لگے۔۔۔۔ وہ بلا کی حسین تھی مگر اسکا یہ حسن انزِک کے لئے سوائے آگ کے کچھ نہیں تھا ۔۔۔
" آج تو تمہاری یہ بکواس میں نے برداشت کر لی مگر ۔۔۔ ۔ مگر آج کے بعد اگر میرے خلاف کوئی ایک لفظ بھی ادا کیا تو گدی سے زبان کھینچتے ہاتھ میں دے دوں گا۔۔۔۔۔ " اسکے چہرے کے قریب جھکتا وہ بھاری سرد آواز میں بولتا اسکے وجود کو سن کر گیا۔۔ یہ سب برداشت کرنا روزی کے لئے بالکل ناممکن تھا۔۔۔
دنیا کی سرد و گرم سے دور کسی سونے کے محل میں پرورش پاتی وہ نازک اندام کانچ سی لڑکی تھی۔۔۔ جسے اج تک اسکے بھائی نے پھول سے بھی تکلیف نہیں دی تھی۔۔۔ کجا کے ہاتھ اٹھانا۔۔۔۔۔ انزِک کے بھاری ہاتھ اسکے تواناں وجود کے سامنے وہ کوئی کانچ کی گڑیا محسوس ہوتی تھی۔۔۔
" لیٹ می گو پلیز۔۔۔۔۔" اسے باہر جاتا دیکھ روز نے اسکے پاؤں میں گرتے تڑپ کے کہا تھا۔۔ ایک پل کو انزِک کو اسکے یوں رونے بلکنے پہ شدید دکھ نے آن گھیرا ، مگر پھر اچانک ہی تھوڑی دیر پہلے اسکا یوں کسی غیر محرم کے گلے میں بازووں ڈالے بےہودگی سے ناچنا یاد آتے ہی اسکی آنکھوں میں شعلے سے بڑھکنے لگے وہ غصے سے اپنے آپ پہ قابو کرتا کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔۔
کافی دیر سے وہ بے چینی سے ٹہلتا اسے کال کر رہا تھا۔۔۔ اپنی مرضی سے دل کی بھڑاس کو اندر لٹکائے وجود پہ نکالتے وہ ایک آخری مکہ اسکے پیٹ پہ رسید کرتا باہر آیا تھا۔۔۔
پھولتے سانس کے ساتھ ،اسنے پاس ایک جانب پڑا ٹاول اٹھائے اپنے وجود کو صاف کیا جو پسینے سے شرابور ہوا تھا۔۔۔۔
اسکے بعد اسنے ایک نظر اس مسلسل بجتے موبائل کو دیکھ اندر کینجانب دیکھا ۔۔۔ اور پھر ہاتھ سے میز پر پڑے موبائل کو اٹھاتے وہ کان سے لگائے اب اپنے چوڑے کندھوں کو صاف کر رہا تھا۔۔۔
“کب سے کال کر رہا ہوں فون کیوں نہیں اٹھا رہے میرا۔۔۔۔۔” اسکے فون اٹھاتے ہی انزِک نے غصے سے چھوٹتے کہا تو مقابل کے ماتھے پہ ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے ۔۔۔۔۔
“ توں بھول رہا ہے کہ توں کس سے بات کر رہا ہے۔۔۔۔” پاس پڑی کرسی پہ اپنا ایک پاؤں اٹھائے رکھتے ویام غصے سے تیز آواز میں غرایا تھا۔۔۔۔ اسکی تیز غراہٹ پہ انزِک نے موبائل کان سے دور کرتے موبائل کو گھورا گویا ساری غلطی ہی اسکی تھی۔۔۔
“ آپ کے کہنے پہ اس ایچ اے آر کی بہن کو اٹھا لایا ہوں میں اب آگے کیا کرنا ہے۔۔۔۔ فلحال وہ اس سے لڑائی نہیں چاہتا تھا وہ جانتا تھا اگر وہ بھپر گیا تو اسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ جبھی انزِک محتاط تھا۔۔۔ مگر وہ کسی بھی طور اس بےحیا آوارہ لڑکی کو مزید اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔
“ گڈ یہی امید تھی تم سے۔۔۔۔۔۔ اب اسے سنبھالو۔۔۔۔۔۔” ویام نے اسکی تعریف کرتے پانی کی بوتل اٹھائے ایک ہاتھ میں فون کو مضبوطی سے تھاما اور قدم پھر سے اندر کمرے کی جانب بڑھائے جہاں وہ وجود الٹا لٹکا بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔
“ آپ مذاق کر رہے ہیں بھائی۔۔۔۔۔ وہ لڑکی آپ نے دیکھا نہیں اسے۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کر ہی میرا دماغ غصے سے پھٹنے کو ہے گویا کہ اسے اپنے پاس رکھوں میں۔۔۔۔”
انزِک نے بے چینی سے ٹہلتے اپنی اندرونی کیفیت سے اسے آگاہ کیا۔۔۔۔۔ تو ویام کے گال پہ ایک دم سے گڑھا نمودار ہوا۔۔۔۔۔۔
“ تصحیح کر لو سالے صاحب لڑکی نہیں اٹھارہ سالہ بچی ، جو آج ہی پورے اٹھارہ سال کی ہوئی ہے ۔۔۔ بے چاری اپنی پسند کے لڑکے سے چھپ کے شادی کرنے والی تھی مگر تم ۔۔۔۔۔ تم نے اسکے ساتھ زبردستی کی ، اسے اٹھا کے اپنے پاس لے آئے۔۔۔۔۔ ویری بیڈ انزِک۔۔۔۔۔۔”
دروازہ پاوں سے کھولتے اسنے جھٹکے سے سارا پانی اسکے چہرے پہ گرایا تو وہ چیختے ہڑبڑا اٹھا۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری جانب اسکے صاف کھلے عام الزام پہ انزِک کا چہرہ تاریک سا ہوا تھا۔۔۔۔
” آپ بھول رہے ہیں کہ مجھے آپ نے ہی بولا تھا کہ اسے اٹھا لاؤں میں۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا بھائی اسکے لئے تڑپے گا تو ہی مزہ آئے گا۔۔۔۔۔۔۔ ” یاد آیا آپکو۔۔۔۔” پیچھے سے آتی دلدوز چیخوں کو نظر انداز کرتے انزِک نے دانت کچکچاتے ہوئے غصے پہ کنٹرول کرتے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجا۔۔۔۔۔
” مگر میں ایک اسپیشل فورس آفیسر ہوں مجھے بھلا تمہاری کیا ضرورت میں نے تم سے ایسا کہا ہے اسکا کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس۔۔۔۔۔۔”
ویام نے گہری مسکراہٹ سے مسکراتے مقابل کے بالوں کو جھٹکے سے مٹھیوں میں جکڑا اور کھینچتے اسکا چہرہ اوپر کیا وہ درد سے تڑپ اٹھا۔۔۔۔انکھوں کے آگے سر سے خون بہتے اسکی تکلیف میں اضافہ کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔
” یہ سب اچھا نہیں کر رہے آپ ۔۔۔۔” اسنے جھنجھلاتے غصے سے کہا اور فون آف کر دیا۔۔۔۔ جبکہ ویام انجان بنتے موبائل فون کو دیکھ کندھے اچکا گیا۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥💥
” سنیے پلیز کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہاں پر کوئی قریبی ہوٹل ہے ۔۔۔۔” شام کے ڈھلتے سائے میں وہ کافی پریشان سی اپنے پاس سے گزرتی ایک خاتوں سے مخاطب ہوئی۔۔۔
جسنے رکتے سر تا پاؤں حرمین کو دیکھا۔۔۔۔۔
" یہاں سے سیدھے جائیں تو آدھے گھنٹے کی مسافت پر ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے ۔۔۔۔ مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔۔۔"
خاتون نے اسکے پریشان چہرے کو دیکھ نرمی سے پوچھا۔۔۔
” دراصل آنٹی میری دوست مجھے کہہ کر گئی تھی کہ وہ پاس ہی ایک ہوٹل میں جا رہی ہے جلد مجھے لینے آئے گی مگر دن سے رات ہونے کو ہے وہ نہیں آئی ابھی تک۔۔۔۔۔"
حرمین نے بےچینی سے سکول کے بند گیٹ کی جانب دیکھتے انہیں بتایا تو وہ خاتون بھی سوچ میں مبتلا ہوئی۔۔۔۔
ماریہ اور وہ دونوں صبح سے ہی گھر سے نکل آئی تھی۔۔۔۔ مگر دن کے وقت ماریہ نے اسے اپنے بھائی کی آمد کا بتایا اور ساتھ اسے بھی چلنے کا کہا تھا۔۔مگر حرمین نے اپنی طبیعت کے تحت اسے سکون سے انکار کر دیا جس پہ وہ جلد ہی اسے واپس لینے آنے کا کہتی ہوٹل کے لئے نکلی تھی ۔۔ پورا دن ان بچوں کے ساتھ مگن وہ خوشی میں ماریہ کے جانے کا اور اپنے اکیلے ہونے کا بھی بھول چکی تھی مگر جب دن کے دو بجے سکول بند ہونے کا وقت آیا تو۔۔۔۔
حرمین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے بمشکل منت سماجت کر کے اس نے سکول کی پرنسپل سے وہاں کچھ دیر رہنے کی اجازت مانگ لی تھی ۔۔۔ مگر کافی دیر انتظار کے بعد بھی ماریہ کے نا آنے پر پرنسپل نے اسے معذرت کرتے اپنے واپس گھر جانے کا کہا۔۔۔
جس پہ ایک ساتھ جانے کتنے ہی آنسوں اسکی گہری کالی آنکھوں میں دھر آئے۔۔۔۔ وہ تو جلدی میں فون بھی نہیں لا سکی تھی۔۔۔۔ اور اب اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ دل جیسے اس اندھیرے کے پھیلنے سے بند ہو رہا تھا۔۔۔۔
ہر سوں پھیلتے گہرے تاریک سائے کو دیکھ اسکا دل مزید سہم گیا تھا۔۔۔۔۔ جبھی اسنے پاس سے گزرتی اس خاتون سے مدد مانگی۔۔۔۔۔۔!
آنٹی کیا آپ پلیز مجھے وہاں تک چھوڑ دیں گی۔۔۔۔۔۔” حرمین نے انہیں جاتا دیکھ سہمتے انکا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔۔۔
بیٹا معذرت مگر میری بات سنیں میرا گھر یہی قریب ہی ہے۔۔۔۔ میں یوں کہیں نہیں جا سکتی ۔۔۔۔ اگر آپ میرے ساتھ جانا چاہو تو آپ آ سکتی ہو۔۔۔۔۔”
خاتون نے اسکی سہمی معصوم صورت کو دیکھتے کہا مگر حرمین کیسے کسی انجان کے ساتے انکے گھر چلی جاتی۔۔۔ جبھی اسنے انکار کر دیا۔۔۔۔
”نہیں آپ کا بے حد شکریہ ۔۔۔۔ میں خود چلی جاتی ہوں۔۔۔۔۔” حرمین نے فورا سے انکار کرتے کہا تھا۔۔۔۔
آپ کی مرضی۔۔۔۔” وہ ٹھنڈا سانس کھینچتے بولی تھی۔۔۔ جبکہ انکے جانے کے بعد وہ اکیلی اس سنسان سڑک پر کھڑی اپنے آنسوں کو ہاتھ سے رگڑنے لگی۔۔۔
معا کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد اسے یوں محسوس ہوا کہ اسکے پیچھے کوئی چل رہا تھا۔۔۔
حرمین نے خوف سے دھڑکتے دل سے قدم روکتے پیچھے دیکھنا چاہا تھا دل بری طرح سے کانپنے لگا۔۔۔۔ ایک دم سے خود پہ ضبط کرتے وہ گردن گھمائے دیکھنے لگی ۔۔۔
پیچھے ہی چند قدموں کے فاصلے پہ کچھ لڑکے ہاتھ میں سگریٹ پکڑے ایک دوسرے سے باتوں میں مگن تھے۔۔۔ حرمین کی جھیل سی آنکھوں میں سرخی دھر آئی ۔۔۔۔ جبھی اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو پیسوت کیے وہ تیز تیز قدم اٹھائے آگے بڑھنے لگی ۔۔ اپنے پیچھے ہی اسے قدموں کی چاپ محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
حرمین کا دل خوف و وخشت سے بری طرح سے لرز رہا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ پورا وجود کپکپاہٹ کا شکار تھا۔۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھنے لگی مگر اسکے قدموں کی تیز ہوتی رفتار کو بھانپتے اب کی بار ان لڑکوں نے اسکے پیچھے ہی دوڑ لگائی تھی۔۔۔
" وہ ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اندھیرے میں کھڑا اپنے سامنے سے ہراساں سی بھاگتے ہوئے آتے اس وجود کو سر تا پاؤں گہری نظروں سے گھور رہا تھا۔۔ جسکا حجاب میں لپٹا روشن ، پرنور خوف سے سفید پڑتی رنگت ، اسکی نظریں اسکے سفید چھوٹے سے مومی ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔۔۔ "
" اسکی نیلی سرخ ہوتی آنکھیں اپنے سامنے اس وجود کو پاتے نفرت ، سے جیسے ابلتے باہر آنے کو تھیں۔۔۔۔۔"
" کونسلنگ کی وجہ سے لی جانے والی فل ٹریننگ کی وجہ سے وہ خود پہ کنٹرول کر رہا تھا ۔۔۔ مگر اچانک سے نیم روشنی میں رات کے اس پہر وہ وجود ایک دم سے اسکے ساتھ ٹکرایا تھا۔۔۔۔
اسکے نازک وجود کے لمس کو پاتے اسکا دل میں نفرت کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے وہ ہاتھ بڑھاتے اسے نفرت میں خود سے دور کرنے لگا جیسے کوئی اچھوت ہو مگر اگلے ہی لمحے وہ خود سے ہی اسے چھوڑتے ایک دم سے پیچھے ہوتے کھڑی ہوئی تھی ۔۔"
پہ پلیز سس سیو مم می۔۔۔ اسکی سرخ باریک ہونٹ پھڑپھڑائے تھے۔ جبکہ گہری کالی آنکھوں میں خوف و وخشت کا ایک جہان آباد تھا۔۔۔ اسکی نمی سموئی بھیگی پلکوں کو دیکھتے وہ کروفت زدہ سا رخ موڑتے وہاں سے جانے لگا کہ اچانک سے اسکے قدم تھمے تھے جب کمر پر سے اپنی ہڈ کسی کے ہاتھوں کی گرفت میں محسوس ہوئی ۔۔ وہ دھڑکتے دل سے رکا تھا ، سخت سردی کے موسم میں بھی اسکے ہاتھوں کی ہتھیلیاں گرم ہونے لگی۔۔۔ "
” اسے جانا تھا یہاں سے۔۔ ان لڑکوں کی دردندگی کا نشانہ بنتے وہ پوری طرح سے برباد ہو جائے گی جسکے ساتھ ہی وریام کاظمی بھی تباہ و برباد ہو جاتا ۔۔ مگر جانے کیوں وہ منجمد سا ہو گیا تھا۔۔۔۔""
لیو می۔۔۔۔۔" ایک عجیب سا احساس اسکے اندر سرائیت کرنے لگا اپنی چھبیس سالہ زندگی میں کہا سوچا تھا اسنے کہ اپنی نفرت کے وجود کو سامنے پاتے وہ یوں پہلی بات اس طرح سے اپنے منہ سے نکالے گا۔۔۔۔"
" او ہو یہاں پر تو ہیرو پہلے سے موجود ہے۔۔۔"
وہ جو اپنی ہڈ پر سے اسکے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش میں تھا کہ اچانک سے گھیرے کی صورت میں اپنے آگے پیچھے کھڑے لڑکوں کی بات اور قہقہوں کو سنتے وہ دانت پیستے آنکھیں موند گیا ۔۔ "
"پہ پلیز سیو می۔۔۔ موم، ڈیڈ پلیز سیو می۔۔۔۔ وہ روتے بری طرح سے ان لڑکوں کو اپنی جانب آتا دیکھ اپنے ماں باپ کو یاد کر رہی تھی۔۔ وہ اس لمحے پہ پچھتا رہی تھی جب اس نے یہ فیصلہ لیا تھا ۔۔" وہ کیوں اپنے گھر اپنے موم ڈیڈ کو چھوڑتے یہاں آئی تھی۔ جہاں کوئی اس کا اپنا نہیں تھا۔۔۔۔"
" چلو یہاں سے کوئی نہیں آنے والے تمہیں بچانے مائی بیوٹیفل لیڈی۔۔۔۔۔ ایک لڑکا خباثت سے دانت نکالتے آگے بڑھا تھا ، مگر اس سے پہلے کہ وہ اسکی کلائی کو تھامتا ، اچانک سے اسکی درد سے چیخ فضا میں گونجی تھی کہ اس دل دہلانے والی چیخ پہ وہ سب ہڑبڑا گئے۔ جبکہ مقابل اپنی قہر برساتی آنکھوں سے سب کی جانب دیکھتے ایک دم سے اسے جھٹکے سے کھینچ گیا کہ وہ کمزور سا لڑکا لڑکھڑاتے اسکی چوڑی پشت سے ٹکرا گیا۔۔۔
جبکہ ایل کی نظریں اپنے سامنے خوف سے آنکھیں پھیلائے کھڑی اس لڑکی پہ تھیں۔ جسے دیکھنے کی طلب ، بچپن سے ہی اسکے خون میں دوڑتی نفرت کے ساتھ پروان چڑھی تھی۔۔۔ "
" اپنی نیلی آنکھیں مسلسل اسکی گہری کالی آنکھوں میں گھاڑے وہ اٹھاتے اس لڑکے کو دھڑام سے پٹھک گیا کہ اس لڑکے کی چیخوں کے ساتھ ہی منہ سے ابلتے خون کو دیکھتے باقی کے پانچوں نے ڈرتے قدم پیچھے لیے تھے جبکہ وہ جو اس سے مدد لینے آئی تھی اسکی جارخانہ حرکت پہ وہ ایک دم سے نیلی پڑی تھی اسکی سفید رنگ نیلا پڑنے لگا وہ سر کو زور سے نفی میں ہلاتے بھاگنے کو تھی کہ اچانک سے اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔۔"
" مگر گرنے سے پہلے وہ خود کو کسی کی جھلسا دینے والی پرتپش گرفت میں محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔'
" اس نازک موم کے جیسے وجود کو بانہوں میں بھرے وہ کروفت کا شکار ہوا تھا ۔۔ اچانک سے ڈینی دوڑتا اسکے سامنے آیا تھا ، اور ہاتھ پھیلائے اس لڑکی کو خود کو سونپنے کا بولا ، مگر ایل اس پہ ایک کاٹ دار سرد نظر ڈالتے ہی اسے لیے وہاں سے آگے بڑھا تھا۔۔۔۔"
" اسکے ادھ کھلے منہ سے نکلتی گرم سانسیں ایل کے سینے سے ٹکرا رہی تھی۔ مگر وہ یونہی بےتاثر چہرہ سے چلتا اپنے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے آگے بڑھا تھا۔۔۔۔"
" وہ پاؤں سے دروازے کھولتے اندر داخل ہوا تھا اور اسے لیے اپنے روم میں داخل ہوتے وہ اپنے بیڈ کو ایک نظر دیکھتا اپنی بانہوں میں بھرے اس وجود کو دیکھنے لگا۔۔۔ اسکے ڈیڈ اور موم نے اسے ہوش سنبھالتے ہی لاکھوں حسین چہرے دکھائے تھا ۔ اسکی فیزیکلی مکمل طور پر تیاری کی گئی تھی۔
" مگر اپنی بانہوں میں موجود یہ وجود اسے جانے کیوں مگر کچھ الگ سا لگا تھا معصوم ، سارے عیبوں سے پاک ۔۔ وہ سر جھٹکتے آخری سوچ پہ بند باندھے آگے بڑھا تھا اور جھکتے اسے بیڈ پہ ڈالا۔۔۔ حجاب کے حالے میں لپٹا وہ روشن چمکتا چہرہ ۔۔۔ اوپر سے فضا میں بکھرتی اس نازک وجود کی دلفریب خوشبو اسکے حواس جھنجھلا اٹھے تھے۔ مگر وہ ایل تھا ۔۔ اپنی سوچ اپنے دماغ حتیٰ کہ دل پہ بھی قابو رکھنے والا شخص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
چئیر گھیسٹتے وہ اسکے سامنے ہی بیڈ کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔"
" ہیلو۔۔۔۔۔" پلین چینج ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ اب ایک نیا پلین ہو گا جس کا ماسٹر مائنڈ بھی میں ہوں گا اور کھلاڑی بھی میں خود۔۔۔۔۔"
اب یہ لڑکی اپنے باپ کے سامنے جائے گی مگر بالکل ایک الگ انداز سے ،جسکی ہنسی کھلکھلاہٹ پہ وہ مرتا ہے اب اسکی اجڑی حالت ، اور ویران دہشت زدہ سی آنکھیں اس کے مرنے کی وجہ ہوں گی ۔۔۔۔"
وہ ایک نظر اپنے سامنے لیٹے ہوئے اس نازک وجود کو دیکھتے نفرت سے سوچتے بولا تھا جبکہ دل کے کسی کونے میں جانے کیوں اسے تکلیف سی ہوئی تھی کیا وہ اسے تکلیف پہنچا پائے گا ، کیا آسان تھا یہ سب ۔۔۔۔ یہ جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔ اور وہ جانتا تھا کہ آج نہیں تو کل وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔۔۔ اسکی نفرت جیت جائے گی ۔۔۔"
مگر کیا وہ خوش تھا ان سب سے۔۔۔۔۔ دل و دماغ کی جنگ پہ وہ کروفت زدہ سے جھنجھلاتے ہوئے اٹھا کہ اچانک سے اپنا ہاتھ کسی نرم و ملائم ہاتھ کے چھوٹے سے لمس میں پاتے وہ جیسے بے جان سا ہوا تھا۔۔۔ وہ گردن گھمائے اسے دیکھنے لگا۔
جو بنا کسی بناوٹی حسن کے بھی اپنے قاتل حسن سے انجان کئیوں کو مارنے کی طاقت رکھتی تھی۔۔۔۔"
ایل نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔۔ اور تیز تیز قدم اٹھاتے کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔۔ کیا وہ سچ میں اتنی ہی معصوم تھی جتنی وہ دکھتی تھی ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وہ سوچ ہی سکا تھا کیونکہ جواب وہ ماننے سے انکاری تھ۔۔
💥💥💥💥💥💥
******ماضی******
ماہییییی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ غصے سے چیختا اپنے پھٹتے دماغ سے بولتا اندر داخل ہوا جہاں وہ صوفے پہ پاؤں سامنے میز پہ پھیلائے رکھے کوئی کارٹون نووی دیکھتے اسکی آواز پر بری طرح سے ڈرتے جگہ سے اچھلتے اٹھی۔۔۔۔۔
کہاں گئی تھی تم۔۔۔۔۔۔ ” وہ چلتا اسکے قریب آتے جارخانہ انداز میں اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے اپنے مضبوط ہاتھ میں جکڑتے غصے سے گرجتے بولا کہ اسکے اس قدر جارخانہ رویے اپنے ہاتھ پہ اسکی سخت گرفت پہ الایہ نے درد سے کراہتے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنا چاہا۔۔۔
” اذان چھوڑو مجھے۔۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔” اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کرتے وہ بھرائی نم آواز میں اپنی بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے بولی تھی۔۔۔ تو اذلان کو اس کے معصوم چہرے سے نفرت سے محسوس ہوئی تھی۔۔ اذلان نے نفرت سے اسے ایکدم سے پیچھے کو پھینکا کہ وہ چیختی درد سے کراہتے اپنے زخمی ہوئی کہنیوں کو دیکھ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔۔۔۔
اذلان نے غصے سے اسکے وجود کو دیکھا۔۔اسکا دل چاہا کہ ابھی وہ اپنے ہاتھوں سے اسکی جان لے لے۔۔۔۔ بھلا کیسے وہ اسکی ہو کر کسی دوسرے کے ساتھ باتیں کر سکتی تھی ۔۔۔ اسے بتایا تھا اسکی موم نے کہ الایہ پہ سارے حقوق سارا حق صرف اسکا ____اذلان علوی کا ہے۔۔۔" تو پھر کیسے وہ عاصم یا کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ دوستی کر رہی تھی۔۔۔۔
غصہ ایک شیطانی فعل ہے کیونکہ غصے میں انسان سہی غلط کی تمیز بھول جاتا ہے ۔ اس لئے تو اللہ پاک نے غصے کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔۔۔
مگر فل وقت اذلان جو خود ایک تیرہ چودہ سالہ کم عمر بچہ تھا۔۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ، کہ آخر اس صورتحال کا اس قدر شدید ری ایکشن کیوں تھا اسکا۔۔۔۔
مگر وہ اتنا جانتا تھا کہ اب اسے الایہ سے اپنی دوستی ختم کرنی ہے جبھی اسنے غصے سے اسکے زخمی ہوئے بازوؤں کو پکڑتے اسے گھسیٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔
” پلیز اذان میری بات سنو میری تمہاری دوست ہوں پلیز مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔” زور سے چیخنے پر اسکی آواز گلے میں دب سی گئی وہ بمشکل سے اپنی پوری قوت سے چیخنے لگی مگر اس وقت سامنے موجود شخص اسکا دوست نہیں تھا بلکہ وہ انجان بنا کسی درندے کی مانند اسے کھینچتے اپنے ساتھ گھیسٹتے لے جا رہا تھا۔۔۔
الایہ نے دھندلاتی نظروں سے اذلان کے ہاتھ میں موجود اپنے نازک ہاتھ کو دیکھا۔۔۔۔ ”وہ ایسا تو نہیں تھا”.... الایہ کے معصوم ذہن میں اچانک سے خیال آیا تھا۔۔ مگر ظاہری طور پر اپنے ساتھ اذلان کا رویہ اسکے ذہن کو بری طرح سے چوٹ ہہنچا رہا تھا۔۔
وہ ٹوٹ رہی تھی اندر سے۔۔۔۔ ایک وہی تو تھا جسے وہ اپنا سب کچھ مانتی تھی ۔۔۔ مگر آج_______ آج اس چھوٹی سی عمر میں جو بات اسے سمجھ آئی تھی وہ تھا دوسروں پہ اعتماد کرنا ہمیشہ انسان کا وجود اسکی روح کو چھلنی کر دیتا ہے۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اسکا سر چکرانے لگا اچانک آنکھوں کے آگے دھند سی چھانے لگی۔۔۔۔۔ جب ایک دم سے اسے چھوڑتے وہ جھکٹے سے اسے خود سے دور پھینک گیا۔۔۔ الایہ نے چکراتے سر کے ساتھ اپنے ڈیڈ کو پکارا ۔۔۔ کاش میں یہاں ناں آتی۔۔۔ اپنا آپ بے ضرر سا محسوس ہوتے وہ بےاواز رونے لگی ۔۔۔۔۔
سارا مان سارا غرور خاک ہوا تھا۔۔۔ پل بھر میں اسکی روح جھسلنے لگی ۔ جیسے کسی نے اسے تپتے سہرہ میں لا پھینکا تھا۔۔۔۔۔۔
نکل جاؤ میرے گھر سے۔۔۔۔۔۔۔” اذلان نے رخ موڑتے اپنے آنسوں انگوٹھے سے صاف کرتے کہا تھا۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اپنے موم اپنے ڈیڈ کو وہ کیا جواب دے گا مگر وہ اب الایہ کو اپنے پاس نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔
وہ ایسا ہی تھا بچپن سے اپنے ہر رشتے میں شراکت کہاں برداشت تھی اسے۔۔۔۔۔ وہ تڑپ جاتا تھا۔۔۔ غصہ نفرت اسکا وجود جھسلنے لگتا تھا جیسا اب ہو رہا تھا اسکے ساتھ۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا اسکے یہ معصوم جذبات اسکے کس پاکیزہ بندھن کی وجہ سے تھے الایہ کیلئے ۔۔ وہ کیوں اسے عزیز رکھتا تھا۔۔۔ اگر تکلیف ماہی کو تھی تو خوش اسکا اذان بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
اذذذ اذان۔۔۔۔۔” الایہ نے اپنے دکھتے سر میں اٹھتی ٹیسوں کو نظر انداز کیے اسے پکارا تھا۔۔۔ جسکے قدم اسکی آواز پہ تھم سے گئے۔۔۔۔۔ وہ ضبط سے اپنے دل کو مضبوط کرتے مڑا تھا۔۔۔۔۔
"کیوں کیا تم نے ایسا الایہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جیسی گھٹیا لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تم نے صرف مجھے دکھ دینے کیلئے عاصم کو دوست بنایا اسکے علاوہ۔اود کتنے لڑکوں سے تمہاری دوستی رہی مجھے سب پتہ ہے میں سب جان گیا ہوں۔۔۔۔۔۔ افسوس ہوتا ہے مجھے کہ میں نے تم سے دوستی کی۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسکے قریب بیٹھتے اذلان نے نفرت سے اسے دیکھتے کہا تھا۔۔۔۔
”نن نہیں اذان مم میری بب بات سس سنو۔۔۔۔۔۔۔” الایہ نے مچلتے اپنا ہاتھ اسکے گھٹنے پہ رکھنا چاہا تو مقابل نے جھٹکے سے اسکے ہاتھ کو تھامتے خود سے دور کیا۔۔۔۔۔۔۔
پلیز اذذ اذلان۔۔۔۔۔” اسے اندر جاتا دیکھ الایہ نے اسکے پاؤں کو گرفت میں لیتے سسکتے کہا تھا۔۔۔۔ اذلان نے اپنے پاؤں سے لگے اس کے وجود کو دیکھا۔۔۔ جو سہارے سے اسکے ساتھ لگتے اب اٹھ رہی تھی۔۔۔ اسکے کمزور سے وجود میں تکلیف کے باعث کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھی مگر وہ پھر بھی وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ ایسا کچھ نہیں جیسا وہ سوچ رہا ہے ۔۔ وہ ایسی نہیں تھی ۔۔
" اذلان۔۔۔۔۔چٹاخ......” ابھی وہ کچھ کہتی کہ اسے دھکہ دینے کے لئے مڑتے اذلان نے ہاتھ جھٹکا جو سیدھا اسکے چہرے پہ لگتا اسے گرنے پہ مجبور کرگیا۔۔۔۔
اذلان نے بنا رکے اندر جاتے ہی گیٹ کو لاک کر دیا۔۔۔۔۔ وہ روتی رہی چیختی رہی مگر اندر وو خود اپنے اس ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جس سے اسنے الایہ اپنی ماہی کو تکلیف دی تھی۔۔۔۔ اذلان نے اپنے آنسوں رگڑتے بند کھڑکی کو دیکھا اور پھر سرد نظروں سے اٹھتے وہ روم لاک کیے اس کھڑکی کے پاس آیا تھا۔۔۔۔۔۔
” آہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فضا میں اچانک سے اسکی دلدوز سی چیخیں گونجنے لگی ۔۔۔ اذلان نے غصے سے اپنے سرخ لہو لہان ہوتے ہاتھ کو دیکھا ۔۔۔۔۔ اپنے آپ پہ غصہ،،،، اسکے اندر نفرت کی لہریں دوڑنے لگی۔۔۔ وہ تیزی سے دروازہ کھولے نیچے اتراتے کچن میں گیا۔۔۔۔۔۔۔ اپنے زخمی ہاتھ کو ابلتے پانی میں رکھتے وہ لب بھینجتے اس اذیت کو برداشت کرتا آنکھوں میچ گیا۔۔۔۔۔
وہ جانے کب تک باہر بیٹھی رہی ۔۔۔ چیخ چیخ کے اسکا گلا بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔انکھوں سے آنسوں خشک ہو چکے تھے مگر دل ابھی تک خون کے آنسوں رو رہا تھا۔۔۔۔
” الایہ میری جان_____ کیا ہوا ہے تم یہاں باہر کیوں بیٹھی ہو؟""
وریام اور نیناں جو اسے ہی لینے کے لیے آئے تھے اب یوں گھر سے باہر گیٹ کے پاس بیٹھا دیکھ وہ تڑپتے آگے بڑھے تھے۔۔۔ نیناں نے اسے ساتھ لگاتے اسکا ماتھا چومتے محبت، گھبراہٹ سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
مگر وہ کیا جواب دیتی وہ تو اپنے حواس میں ہی نہیں تھی۔۔۔۔
چلو بیٹا اٹھو اندر چلو میرے ساتھ اسکی خاموشی دیکھ نیناں کا دل لرز سا گیا۔۔ وریام نے پاس جاتے محبت سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے اسے اٹھانا چاہا مگر وہ جگہ سے ہلی تک نہیں تھی۔۔۔۔
مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔ ” نیناں کے سینے سے لگے اسنے سرد لہجے میں کہا تو وریام نیناں نے چونکتے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔۔
بیٹا میری جان ہم کل صبح چلیں گے آپ چلو ابھی ہمارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” وریام نے پچکارتے محبت سے کہا
” اپنے گھر جانا ہے انکل اپنے گھر۔۔۔۔” اسکے لہجے میں عجیب سی سرد مہری تھی۔۔۔ نیناں تو اسکی حالت پہ الگ پریشان تھی ۔۔۔۔ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ الایہ یوں باہر تھی ۔۔۔ وہ اذلان سے پوچھنا چاہتی تھی مگر اس وقت الایہ کو سنبھالنا ضروری تھا۔۔۔۔
رمشہ نے کال کر کے بتایا تھا انہیں کہ گھر پہ اذلان اور الایہ اکیلے ہیں کیونکہ امن پیپر دے کر سیدھا حیا سے ملنے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔ جبھی وہ پریشان تھی کہ بچے اکیلے ہونگے اسی وجہ سے وہ دونوں انہیں لینے آئے تھے۔۔مگر یہاں پہنچ کر الایہ کو یوں گیٹ کے ایک جانب بیٹھا دیکھ وہ دونوں ہی پریشان ہوئے تھے۔۔۔۔۔
” اچھا چلو بیٹا ہم ابھی پہلے حسن انکل کے گھر جاتے ہیں ، اسکے بعد ہم آج ہی واپس چلیں گے۔۔۔اوکے۔۔۔۔۔!"
اسکی آنکھوں میں چھائی سرخی نیناں نے نرمی سے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے کہا تو الایہ نے ایک نظر نیناں کے چہرے کو دیکھا اور پھر کسی ریموٹ کی مانند سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔۔۔
جسے دیکھ دونوں نے ہی سکون کا سانس لیا تھا۔۔۔۔ حسن کے گھر جانے کے بعد بھی وہ خاموش تھی امن ، حیا سب نے بہت پوچھا مگر اسے ایک گہری چپ لگ گئی تھی۔۔۔۔اس چھوٹی سی عمر میں وہ ایک بات کافی اچھے سے سمجھ گئی تھی کہ وہ ایک گھٹیا لڑکی تھی۔۔۔۔
وہ بھرپور نیند لیتے ہاتھ فضا میں اٹھائے انگڑائی لیتے اپنے سنہری بالوں کو پیچھے کرتے بیڈ سے اتری ۔۔۔۔۔ ویام کا خیال آتے ہی عیناں نے گردن ترچھی کیے بیڈ کی جانب دیکھا مگر وہاں اسے ناں پاتے وہ سکون کا سانس لیتے وارڈروب کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔
ویام کی بانہوں میں گزارا ایک ایک پل یاد آتے ہی اسکے چہرے پہ ہزاروں رنگ شرم و حیا کے بکھر گئے۔۔۔۔۔ جبھی وہ سرخ چہرے سے اپنی سوچوں کو جھکٹتے وارڈروب کھولتے دیکھنے لگی۔۔۔۔
وارڈروب کھولتے ہی عیناں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔۔۔۔ اسنے حیرت سے آنکھیں پھیلائے اپنے ہاتھوں سے ان خوبصورت مختلف رنگوں کے خجاب کو چھوا۔۔۔۔۔ اسکا خوبصورت چہرہ ایک دم سے دمک اٹھا۔۔۔۔۔ عیناں نے مسکراتے ایک خوبصورت ڈارک بلیو کلر کی شارٹ فراک اور اسکے ساتھ میچنگ ہی ڈارک بلیو خجاب نکالا اور فریش ہونے واشروم میں گئی۔۔۔۔۔۔۔
" اگلے دس منٹ کے بعد وہ شاور لیتی بالوں کو ٹاول میں لپیٹے باہر آئی تھی۔۔۔۔۔ جلدی سے بالوں کو ڈرائے کرتے عیناں نے انہیں سمیٹتے اچھے سے خجاب اوڑھا ، ایک نظر اپنے سادہ میک اپ سے پاک چہرے پہ ڈالتے عینان نے اپنے ہونٹوں کو دیکھا۔۔۔۔ ویام کا سوچتے ہی عیناں نے ایک چور نظر بند دروازے پہ ڈالی اور پھر جلدی سے ڈریسنگ مرر پہ رکھا میک اپ کا سامان الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔۔۔۔
تھوڑی سی مشقت کے بعد بالآخر ایک پنک کلر کا لپ گلوز اسے پسند آ ہی گیا تھا۔۔۔۔ اس نے مرر کے سامنے ہوتے ہی گلوز اچھے سے اپنے چھوٹے سے ہونٹوں پہ لگایا۔۔۔۔اپنی حرکت پہ وہ خود بھی حیران سی تھی۔۔۔ وہ خود اپنی ان بدلتی سوچوں سے انجان ویام کی محبت اسکی توجہ پانے کو یہ سب کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اچانک سے دروازہ کھلنے کی آواز پہ ایک دم سے وہ خوف سے اچھلی تھی کہ اچانک سے ہاتھ میں تھاما لپ گلوز نیچے جا گرا۔۔۔۔۔
عیناں نے مرر سے ویام کو دیکھ ایک دم سے تیزی سے دھڑکتے دل سے مڑتے اسے دیکھا ۔۔۔۔ جو پریشانی سے اسکے ہواہیاں اڑے چہرے کو دیکھ اس کے قریب ہوا۔۔۔۔۔
کیا ہوا عین۔۔۔۔۔۔ ؟ آر یو اوکے۔۔۔۔۔۔۔” ، ویام متفکر سا اسکے قریب جاتے اپنا مضبوط ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپٹائے اسے اپنے بے حد قریب کرتا بغور اسکی گرے کانج سے شفاف خوبصورت آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔
کک کچھ نن نہیں۔۔۔۔۔۔” عیناں نے بمشکل سے مسکراتے کہا خوف سے اٹکا سانس بحال ہوا تھا۔۔۔۔ ویام نے گہری نظروں سے اسکے چہرے کو بغور دیکھتے اسے جھٹکے سے اپنی بانہوں میں بھرا۔۔۔۔
اور چلتا روم سے باہر نکلا۔۔۔ عیناں سر اسکے سینے سے ٹکائے ویام کی دھڑکنوں میں چلتے اپنے نام کی دھنوں کو سنتی اپنے آپ کو کسی ریاست کی شہزادی تصور کرنے لگی۔۔۔۔۔۔ وہ واقعی ایک شہزادی تھی جسے چاہنے والا الفت کرنے والا ایک خوبصورت شہزادہ اللہ نے دیا تھا۔۔۔۔۔
ویام اسکی ہر سوچ سے بخوبی واقف تھا۔۔۔۔وہ جانتا تھا اسے کس طرح سے اپنی عین کو ہینڈل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ ویام نے ڈائننگ ٹیبل کے قریب جاتے ہی جھکتے اسے ایک کرسی پہ بٹھایا ۔۔۔۔۔۔۔
میں خود کھا لوں گی ۔۔۔۔۔۔۔" عیناں نے آنکھیں پھیلائے میز پہ سجی اتنی ساری ڈشز کو دیکھا ۔۔۔۔ اسکی آنکھیں حیرت و شرمندگی سے پھیلی تھی وہ جانتی تھی یہ سب ویام نے خود سے اسکے لئے بنایا ہو گا۔۔ اور اب یوں اسکا خود کو کھلانا عینان نے شرمندہ سا ہوتے کہا تھا۔۔۔۔
ویام اسکے برابر بیٹھتا چئیر اسکے قریب کرتے خجاب کے حالے میں لپٹے اسکے خوبصورت معصوم چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اسکے پھولی سرخ پڑتے گال دیکھ ویام کے گلے میں ایک دم سے گلٹی سی ابھرتے معدوم ہوئی۔۔۔ جبھی اسنے جھٹکے سے اسے کھینچتے اپنی گود میں لیا ۔۔۔۔۔
عیناں نے سہمتے ہاتھ اسکے چوڑے کندھوں پہ رکھے جو اپنی بھوری آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لیے عیناں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
“ وو ویام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اپنے حجاب کے گرد حائل ہوتے اسکے بھاری ہاتھ کی انگلیوں کی جنبش عیناں نے جھرجھری لیتے آنکھوں میں خوف سموئے اسے دیکھا جو بالکل پرسکون گہری نظروں سے اسکی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے آہستگی سے اسکا حجاب اتارنے لگا۔۔۔۔۔
ویام نے ایک دم آرام سے اسکے حجاب کو چہرہ سے ہٹایا ، عیناں کے سنہری ریشمی خوبصورت بال کسی گھٹا کے جیسے مقابل کے چہرے اور کندھوں پہ بکھرے ویام کو مزید بےخود کرنے لگے ۔۔۔۔۔ ویام نے عیناں کی کمر سہلاتے اسے جھٹکے سے اپنے نزدیک کرتے سارا فاصلہ تمام کیا تھا۔۔۔۔ اسکے ہلکے نم بالوں میں سے آتی خؤشبو کو اپنی سانسوں میں انڈیلتے ویام نے ناک آہستگی سے اسکی دائیں گال سے مس کی۔۔۔ ۔
عیناں کی پلکیں اسکے بےباک لمس پہ لرزنے لگی۔۔۔ دل کی دھڑکنیں اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی جبھی اسنے تھوک نگلتے اپنا خشک حلق تر کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ویام کی دہکتی گرم سانسیں اسکے چہرے پہ پڑتے اسکے پور پور لرزا گئیں ۔۔۔۔۔ جبکہ مقابل اسکے چہرے کے نقوش کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے ایک دم سے اسکے گلابی ہونٹوں پہ جھکتے اپنی تشنگی مٹانے لگا۔۔۔۔۔۔۔
” ویام کے شدت بھرے لمس کو اپنے ہونٹوں پہ محسوس کرتے عیناں نے آنکھیں مضبوطی سے میچیں ۔۔۔۔۔۔ جبکہ اسکی سانسوں کی خؤشبو کو خود انڈیلتے ویام مدہوش سا اسکی کمر کے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے اسے خود میں قید کرنے لگا۔۔۔۔۔
” سانس سینے میں الجھنے پر عیناں نے مضبوطی سے اسکے کندھوں کو تھاما ۔۔۔۔۔ جو مدہوش سا اسکی سانسوں کو خود میں اتارتے سکون سے آنکھیں موندیں ہوئے تھا۔۔۔۔۔۔
ویام نے نرمی سے اسکے بالوں کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے سہلاتے اسکے ہونٹوں کو آزادی بخشتے اپنے دہکتے ہونٹ اسکی شفاف گردن میں رکھے تو عیناں نے بےچینی سے اسکے سینے میں منہ دیا۔۔۔۔۔۔ ویام نے خمار سے سرخ ہوتی اپنی بھوری آنکھوں سے خود میں چھپی اپنی ننھی سی جان کو دیکھا جو اس سے بچنے کیلئے اسی کے سینے میں پناہ ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
” گڈ مارننگ مائی عین ________! ” ویام نے شدت سے اسکے گالوں پہ بوسہ دیتے اسکے چہرے پہ بکھرے بالوں کو سنوارتے کندھوں پہ ڈالا۔۔۔۔۔۔
”ویام میں اتنے اچھے سے تیار ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ ” اپنے بکھرے بالوں کو دیکھ عیناں نے خفا سا ہوتے کہا جبکہ نظریں ہنوز جھکی تھیں جبکہ گال اسکی قربت اور بے باک نظروں کی تپش پہ دہک رہے تھے ۔۔۔۔۔
”ایک بات یاد رکھو عین۔۔۔۔۔۔ میں تم پر تم سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں۔۔۔۔ تمہاری روح سے لے کر تمہارے اس نازک وجود پہ تم سے زیادہ یہ ویام کاظمی حق رکھتا ہے۔۔۔۔ تمہارے یہ سنہری سورج کی کرنوں کی مانند چمکتے خوبصورت بال ، ان کو دیکھنے ان کو چھونے انکی خؤشبو کو اپنی سانسوں میں انڈیلنے کا یہ ویام کاظمی اکیلا وارث ہے۔۔۔۔ جب تک تم میرے قریب رہو میری نظروں کے حصار میں ، تب تک تم یونہی بنا حجاب کے رہو گی۔۔۔۔
گھر سے باہر نکلتے وقت تم چاہے حجاب اوڑھو مجھے کوئی پرواہ نہیں مگر۔۔۔۔۔ مگر آج کے بعد میری قربت میرے ساتھ میں۔۔۔۔۔۔ خود کو مجھ سے چھپانے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔۔ کیونکہ ایک بار میرے جنون نے میری الفت سے بغاوت کی۔۔۔ تو میں خود نہیں جانتا کہ تمہارے اس نازک وجود تمہادی ان مہکتی سانسوں کو رہائی ملے یا ناں ملے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
ایک جھکتے اسے کھینچتے اپنے بےحد قریب کرتا وہ اسکے چہرے پہ اپنی گرم دہکتی سانسیں چھوڑتا عیناں کی سہمی نظروں میں دیکھتا جنون خیزی سے بولتا اسے لرزنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔۔
” ریلکس آج اپنی عین کو میں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔" اسکی رکتی سانسوں کو محسوس کرتے ویام کو اپنے لہجے اپنے لفظوں کی شدت کا اندازہ ہوا تو اسنے فورا سے اسکی پیٹھ رب کی۔۔۔۔۔۔۔” جبکہ مقابل کی بھاری سرد انگلیوں کی سرسراہٹ اپنی کمر پہ محسوس کرتی وہ خود میں سمٹنے لگی۔۔۔
” ویام نے جوس کا گلاس اٹھائے اسکے سامنے کیا تو عیناں نے کپکپاتے ہونٹوں سے بمشکل سے ویام کو دیکھتے ایک دو گھونٹ بھرا۔۔۔۔ ویام نے گلاس اپنی جانب کرتے عیناں کی سائڈ سے اپنے ہونٹوں کو لگائے سارا جوس ختم کیا تھا۔۔۔۔۔۔
” عیناں پریشان سی اسکی گود میں بیٹھی کافی عجیب فیل کر رہی تھی ۔۔۔ ویام کا ہر بدلتا روپ اسے سہمنے پہ مجبور کر دیتا تھا۔ ۔۔۔۔۔ جانے وہ اور ایسے کتنے روپ اپنے اندر رکھتا تھا جن سے فلحال وہ نا واقف تھی۔۔۔۔
یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے میں نے میرے عشق۔۔۔۔۔۔۔۔” ویام نے ہونٹ اسکے پھولے گلابی پڑے گال پر رکھتے بھاری سرگوشی کرتے اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔۔
ویام نے آملیٹ اور پراٹھا قریب کرتے ایک بائٹ بنائے اسکے منہ کے قریب کیا تھا۔۔۔ جسے وہ خاموشی سے اچھے بچوں کی طرح کھاتے ویام کے دیکھنے پہ نظریں چرانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
” بب بس۔۔۔۔۔۔” عیناں نے گھبراتے ایک دو بائٹ لیتے اسکے ہاتھ کو تھاما تھا۔۔۔۔۔ ویام نے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ گہرہ سانس فضا کے سپرد کیا ۔۔۔۔۔
” عین میرا جنون میری الفت یہ عشق صرف تمہارے لئے ہے۔۔۔۔ تم چاہے مجھے کوئی پاگل تصور کرو مگر سچ یہی ہے کہ میری الفت ِ عشق میرے جنون کے آگے کر بار ہار جیت جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ ویام کاظمی صرف اور صرف تمہارا ہے جیسے تم صرف میری ہو ۔۔۔۔ مجھ سے لڑا کرو ، مجھ سے غصے سے بات کیا کرو مگر یوں خاموش مت ہوا کرو ۔۔۔۔۔۔۔”
ویام نے ٹشو اٹھائے اسکا چہرہ نرمی سے صاف کرتے کہا تو عیناں کو ایک پل میں شرمندگی نے آن گھیرا وہ جھٹکے سے اسکے شرٹ لیس کشادہ سینے سے لگتے ویام کا سانس روک گئی۔۔۔۔ اپنے سینے سے لگے اس نازک وجود کی خوشبو کو خود میں اترتا محسوس کرتے ویام نے مضبوطی سے اسکی کمر کے گرد حصار بنائے اسے خود میں بھینج لیا۔۔۔۔۔۔۔”
” آئی ایم سوری مجھے پتہ ہے کہ تم مجھ سے بہت محبت کرتے ہو، مگر اب تم پہلے کے جیسے نہیں رہے تو مجھے شرم آتی ہے تم سے بات کرتے۔۔۔۔۔۔” اسکے کان کے قریب بالکل مدہم آواز میں سرگوشی کرتے وہ ویام کو اپنی بدلتی کیفیت سے آگاہ کرنے لگی۔۔۔ جو کہ اس سے پہلے ہی اسکی کیفیت سے آگاہ تھا۔ ۔۔۔
ویام کے لب دلکشی سے مسکرائے تو گالوں پہ ابھرے قاتل ڈمپل نے اپنی خوبصورت جھلک دکھائی۔۔۔۔۔
” وہ اس لئے جاناں کیونکہ اب میرے پاس یہ سب کرنے کا پرمٹ ہے۔۔۔۔۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنے ویام سے دور ہو جاؤِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم چاہ کر بھی مجھ سے دور نہیں ہو سکتی الفت ِ دل کیونکہ یہ ویام کاظمی سانس روکے رہ سکتا مگر اپنے عشق اپنے جنون سے دور نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔” اسکی گردن سے اسکے سنہری بال سمیٹتے ویام نے مدہوشی سے اپنے عنابی لب اسکی شفاف گردن پہ رکھے عیناں گہرہ سانس بھرتے اسی میں سمٹنے لگی۔۔۔۔۔
” اس سے پہلے کہ میں مزید بہک جاؤں جاؤ جلدی سے ریڈی ہو کے آؤ موم سے ملوا کے تمہیں یونی ڈراپ کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اسکی گردن سے سر نکالتے ویام نے محبت سے اسکے گلابی ہونٹوں کو چھوتے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔ عیناں تو جیسے انتظار میں تھی وہ جلدی سے اسکے حصار نکلتے فورا سے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
” پورے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد وہ تھکاوٹ سے چور اوپر آتے ہی دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔”
ایک دم سے اسکے بھاری قدم دروازے کے بیچ میں تھمے تھے جب نظریں اپنے کمرے کے بدلے زاویے پہ پڑی۔۔۔۔۔ خوبصورتی سے گرے اور بلیک کے پینٹ سے مزین کیا گیا کمرہ جسکے بائیں جانب کونے پہ ایک بڑا سا درمیانی سائز کا خوبصورت بیڈ تھا جسکو دیکھ ہی اسکے نئے ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا۔۔۔۔ سامنے ہی ایک جانب ڈریسنگ مرر تھا جس پہ حیا کی ضرورت کے لئے سارا سامان موجود تھا ۔۔۔۔۔۔جبکہ اسکی چھوٹی سی لکڑی کی بنی الماری کی جگہ اس کمرے کی جگہ کے حساب سے ایک اچھی وارڈروب سیٹ کی گئی تھی جو بیڈ کے پائنتی کی جانب والی پوری دیورا کو گھیرے ہوئے تھی۔۔۔۔۔۔ لے دے کے کمرے میں ایک صوفے کی جگہ بچی تھی ۔۔۔
بھاؤں نے گردن گھمائے دروازے کو بند کرنا چاہا تو وہ داد دیے بنا ناں رہ سکا کیونکہ صوفہ بھی سیٹ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اسنے مڑتے اپنے ہاتھوں کو پیچھے گھمائے دروازہ بند کیا اور پھر چلتا وہ بیڈ کے قرہب رکتے اپنے بائیں ہاتھ سے شرٹ کے بٹن کھولتے ایک دم سے دروازہ کھلنے کی آواز پہ چونکتا مڑا ، جہاں اسکی نئی نویلی دلہن سر تا پاؤں ہار سنگھار کیے سرخ رنگ کے پوشاک میں سجی امن کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
وہ سرد سانس خارج کرتے دوبارہ سے اپنی پہلی پوزیشن میں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اور بےنیازی سے بٹن کھولنے لگا ۔۔۔۔۔ حیا تو خود حیران ہی ہوتے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔۔۔ یہ وہ کمرہ تو نہیں تھا۔۔۔۔جہاں سے وہ صبح گئی تھی۔۔۔۔۔ اسنے آنکھیں میچتے کھول پھر سے غور کی۔۔۔۔۔ ہاں مگر یہ سب۔۔۔۔۔۔” وہ خود ہی الجھی تھی۔۔۔۔۔ جب کہ اسکی حیرانگی کو مقابل ناں دیکھتے ہوئے بھی نوٹ کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔
“ کیا کمرے کو اپنی کالی کالی آنکھوں سے گھور رہی ہو۔۔۔۔۔۔ کھانے کا ارادہ ہے اسے یا پھر نظر لگانے کا۔۔۔۔۔۔" امن نے مرتے شرٹ اتارتے اس پر پھینکی تو حیا کا سکتہ ٹوٹا تھا وہ سر ہلاتے اسے دیکھنے لگی جو بڑبڑاتے بیڈ پہ بیٹھا اپنے شوز اتار رہا تھا۔۔۔۔۔۔
” یہ سب یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔؟” اسے بیڈ سے اٹھتا دیکھ حیا نے حیرت سے کمرے کی بابت سوال کیا تھا وہ جو فریش ہونے کی غرض سے واشروم جا رہا تھا۔۔۔۔ایک دم سے اسکے قدم تھمے وہ ایک قدم آگے اور ایک پیچھے لئے یونہی کھڑا اپنے سے مخض تین قدموں کے فاصلے پر کھڑی اس پور پور سجی اپنی جائز بیوی کو دیکھ رہا تھا جس پہ اسکا جائز حق تھا۔۔۔۔۔۔
جس کو دیکھتے ہی بھاؤں کے جذبات میں آگ دہک رہی تھی۔۔۔۔۔ ”
یہی تو پوچھ رہا ہوں کیا ہے یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔” اسکی بات کو اپنے مطلب سے الٹتے وہ اپنے بھاری قدم اٹھاتا اسکے نزدیک ہونے لگا۔۔۔۔ حیا نے حیرت سے اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں خمار کی سرخی چھانے لگی ۔۔۔۔۔ سرخ و سفید چہرہ پہ بلا کی سنجیدگی تھی جبکہ حیا کے پیچھے کی جانب بڑھتے قدموں پر بھاؤں کے گھنی مونچھوں کے عنابی لب دلکشی سے مسکرائے۔۔۔۔۔”
ممم میں نے کک کچھ نن نہیں کک کیا۔۔۔۔ سس سب نے زبردستی پہنایا مجھے یہ سب۔۔۔۔۔۔۔” اپنے بھاری کامدار دوپٹے کو گھیسٹتے وہ سر نفی میں ہلاتے پیچھے ہونے لگی۔۔۔۔ جبکہ امن کی نظریں اسکے ماتھے پہ سجے مانگ ٹیکے سے ہوتے اسکے کانوں میں چمکتے بھاری آویزوں پہ تھیں۔۔۔۔۔۔۔
حیا نے خشک ہوتے خلق کو تر کیا تھا۔۔۔۔ صبح امن کے جانے کے بعد ہی تو سب خواتین اسے اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔۔۔۔ ایک بڑے سے کمرے میں لے جاتے سب نے باری باری اسکی نظر اتاری تھی۔۔ جو انکے رویے پہ کنفیوز تھی مگر پھر ان سب کی کچھ کچھ باتوں سے اسے اتنا تو سمجھ آ گیا تھا کہ وہ سب امن کی بہت عزت کرتے تھے اور یہ بھی کہ اللہ کے بعد اس دنیا میں ان کا آسرا امن بنا تھا۔۔۔۔ حیا کو جانتے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔ جیسے دل پہ ایک ٹھنڈی پھوار برسی تھی ۔۔۔
ان سب خواتین نے ہی زبردستی اسکے حجاب کو کھولتے اسے یہ سرخ بھاری پوشاک دیا تھا۔۔۔۔۔ اور ساتھ میں یہ بھی بتایا تھا کہ سب سے پہلے بھاوں ہی گھر آتا تھا۔۔۔باقی سب مردوں کے آنے سے پہلے وہ اسے اچھے سے تیار کرتے دوپٹہ سر پہ اوڑھاتے اسے کمرے کے پاس چھوڑ گئیں ۔۔۔۔
حیا نے جلدی سے کمرے میں آتے چینج کرنے کی خاطر دروازہ کھولا تھا مگر سامنے ہی وہ پہلے سے ہی اپنے بھاری وجاہت کا شاہکار بنے اپنے مضبوط تواناں
وجود کے ساتھ کمرے کے وسط میں کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
” امم امممن ۔۔۔۔۔۔۔۔” امن کے بھاری ہاتھ کو اپنے پیٹ کے گرد لپٹتا پاتے حیا کا سانس سینے میں الجھا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ امن نے کھینچتے اسے خود سے نزدیک تر کرتے اسکی پشت کو سینے سے لگایا اور آہستگی سے اسکے وجود پہ ٹکے اس بھاری دوپٹے کو سرکاتے وہ اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔
حیا نے گہرے سانس بھرتے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا۔۔۔۔۔ مگر مقابل اسکی کوشش کو ناکام کرتے اسکے کان میں چمکتے آویزے پہ لب رکھتے حیا کی دھڑکنوں کو منتشر کر گیا ۔۔۔۔۔۔
” امن نے جھٹکے سے اسکے نازک وجود کو اپنی بانہوں میں بھرا ۔۔۔۔۔ جو بری طرح سے لرزتی زمین بوس ہونے کو تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اممم امممنننن” خود پہ جھکتے اسکے کشادہ سینے کو دیکھ حیا نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا تو امن نے جھکتے اسکے کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوا۔۔۔۔۔۔ حیا نے ڈرتے اسکے کندھے کو بری طرح سے دبوچا۔۔۔۔تو امن نے جھکتے اسکی گردن پہ اپنا لمس چھوڑتے اسکی نازک وجود کے گرد اپنا مضبوط بھاری ہاتھ لے جاتے اسے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ اپنی محبت کی بارش کرتے بھاوں نے ہونٹ اسکے ماتھے پہ سجے مانگ ٹیکے پہ رکھتے اسے آہستگی سے الگ کرتے نیچے پھینکا تھا۔۔۔۔ اور پھر ہونٹ اسکی پیشانی پر رکھتے اسکے کانوں سے آویزے نکالتے وہی عمل وہاں دہرایا۔۔۔۔
ان سب میں وہ بری طرح سے اسکی قربت اسکے شدت بھرے لمس پہ گھبرائی سی سانس روکے اسکے سینے سے لگی پڑی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امن کے دہکتے ہونٹ اپنی ناک میں چمکتے موتی پہ پاتے حیا نے تڑپتے اسے پکارا ۔۔۔۔۔۔
” کافی تھک چکا ہوں میں حیا۔۔۔۔۔۔ اپنی یہ ساری تھکن میں تمہارے اس نازک وجود پہ نکالنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اپنے جنون کی انتہا سے تمہیں روشناس کروانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ تمہاری روح تک پذیرائی کرتے تمہاری سانسوں کو اپنی قید میں لینا چاہتا ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے________!”
اسکے اختجاج پہ مقابل نے جھکتے اسکے کان میں بھاری مگر بےباک سرگوشی کی تو حیا کا روم روم لرز پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ امن اسکی حالت سے بےگانہ جابجا اسکی گردن پہ جھکا اپنی شدتیں لٹاتے اسے بےحال کر گیا۔۔۔۔۔
اپنی گردن کی دائی جانب تل پہ اسکے شدت بھرے لمس پہ حیا مچل اٹھی مگر مقابل نے اسکے وجود کو قید کیے اسے پھڑپھڑانے کا بھی موقع ناں دیا۔۔۔۔۔۔۔
حیا کی ترتیب سانسوں کو محسوس کرتے بھاوں نے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے اپنی قربت میں نڈھال پڑی اس نازک جان کو دیکھا ۔۔۔جس کا بکھرا سراپا اسکے جذباتوں کو مزید دہکا گیا۔۔۔۔۔۔ جبھی وہ شدت سے اسکے نرم گلابی ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیتے اسکی سانسوں کو خود میں اتارتا حیا کو اپنے جنون اپنی الفت سے روشناس کروانے لگا۔۔۔۔۔۔
جبکہ حیا تو اسکے شدت بھرے لمس پہ بے جان ہو چکی تھی۔۔۔۔ آنے والے لمحات کا سوچتے ہی خوف سے اسکی آنکھوں سے بے اختیار ہی کئی آنسوں بہہ نکلے تھے۔۔۔۔۔۔۔ جنہیں اسکے ہونٹوں پہ جھکے امن نے محسوس کرتے ہی سر اٹھائے اسے دیکھا جو آنسوں بہاتی کپکپاتے نم ہونٹوں سے رونے کا شغل پورا کر رہی تھی۔۔۔۔۔
امن نے غصے سے اسکے رونے سے لرزتے وجود کو دیکھا۔۔۔ اور ہاتھ اسکے بالوں میں لے جاتے جھٹکے سے اسکا چہرہ اونچا کیا ۔۔۔اسکی جارخانہ گرفت پہ حیا کی سسکی سی نمودار ہوئی تھی۔۔۔۔
” تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارا یہ رونا دھونا مجھے میرا جائز حق لینے سے روک سکتا ہے۔۔۔۔۔ ؟ جتنی جلدی ہو سکے اپنے اس دماغ میں یہ بات بٹھا لو۔۔۔۔۔۔ ! حق رکھتا ہوں میں تم پہ۔۔۔۔ یہ شادی تمہارے نخرے دیکھنے کے لیے نہیں کی میں نے بلکہ اپنے سکون کے لیے کی ہے۔۔۔۔وہ سکون جو تمہاری قربت میں تمہادے مچلنے سے ملے گا مجھے ۔۔۔۔۔۔ تیار کر لو خود کو آج کی رات ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کل کی رات تمہیں ہر حال میں میری شدتیں سہنا ہونگی۔۔۔۔۔ ”
اسکے کان میں اپنے سرد غصے سے لبریز آواز میں سرگوشیاں کرتا وہ ایک نظر اسکی بکھری ہوئی حالت پہ ڈالتا فورا سے اٹھتے شرٹ لیتا کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
”نظریں سیدھی رکھو اپنی۔۔۔” اسکے پیٹ میں اپنی کہنی سے تیز وار کرتے الایہ نے جلن سے سرخ چہرہ لیے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ اسکے یوں اچانک سے اپنے پیٹ پہ وار کرنے پہ اذلان نے درد سے ذرا سا جھکتے اپنے سرخ چہرے سے لب کا کونہ دانتوں تلے دبایا۔۔۔۔۔۔
” ڈارلنگ اتنا جیلس ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ اب تمہارا آدھا شوہر ہے ہی اس قدر ہینڈسم کہ لڑکیاں شہد کی مکھیوں کی طرح منڈلاتی ہے میری آگے پیچھے۔۔۔۔” اپنے بلیک کورٹ کو ایک ادا سے کندھوں سے برابر کرتا وہ اپنے پاس سے گزرتی لڑکی کو دیکھ سمائل پاس کرتے الایہ کو آگ لگا گیا۔۔۔۔۔۔
” اپنا منہ کالا کرنے کی ضرورت نہیں میرے ہاف ہبی۔۔۔۔۔۔” ویسے بھی سارے کے سارے ہی کالے ہو اب اگر کسی بھی لڑکی کو یوں سمائل کر کے دیکھا ناں تو دانت توڑ کے جبڑا ہاتھ میں تھما دوں گی۔۔۔۔۔۔۔”
وہ کہاں باز آنے والی تھی رات میں کی اذلان کی گستاخیاں وہ بھولی نہیں تھی۔۔۔۔ جو یوں اسے معاف کر دیتی۔۔۔۔۔
” کالو کی جان تم بس ایک بار پورا شوہر بننے دو ___ پھر دیکھو تمہارا یہ قالو تمہیں کیسے اپنی محبت کے رنگ میں رنگتا ہے۔۔۔۔” اذلان نے ایک دم سے اسکی نازک پتلی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے اپنے بےحد نزدیک کرتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے کہا تھا۔۔۔ الایہ کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگی مگر وہ تلخی سے مسکراتی اپنی کاجل سے لبریز آنکھوں سے اسے دیکھتی سر جھٹک گئی۔۔۔۔۔۔
” محبت اعتبار مانگتی ہے مسٹر علوی جو آپ میں نہیں۔۔۔۔۔ اتنے بڑے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔جنہیں آپ پورا ناں کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
اسکے بائیں جانب سینے پہ اپنے سفید دودھیا نازک ہاتھ کی انگلیوں کو رکھتے وہ اذلان کی آنکھوں میں دیکھتے طنزیہ گویا ہوئی تھی۔۔۔ اذلان کا چہرہ پل بھر میں متغیر ہوا۔۔۔۔۔۔ ”
وہ اس وقت رات کے گیارہ بجے ایک فائف سٹار ہوٹل میں تھے۔۔۔ جہاں پہ انکی معلومات کے مطابق ایچ اے آر نے آنا تھا۔۔۔۔۔
” ڈانس کرو گی میرے ساتھ______ ” اذلان نے اپنے حصار میں مقید اس کے بلیک میکسی میں دمکتے نازک سراپے کو دیکھتے بات بدلتے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا۔۔۔۔
الایہ نے غصے سے جبڑے بھینجے۔۔۔۔ اسے اذلان کا یوں بات بدلنا سخت غصہ دلاتا تھا۔۔۔ کہیں ناں کہیں اسکا دل چاہتا تھا کہ وہ خود اس سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگے اسے پھر سے وہی مان بخشے جو اسنے خود ہی چھین لیا تھا۔۔۔۔۔ مگر وہ مقابل کی سوچ سے انجان تھی بھلا کیسے جان لیتی کہ اسکے دل میں اس وقت کیا چل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
” تمہارے ساتھ رہ رہی ہوں یہی کافی ہونا چاہیے تمہارے لئے ____ جاؤ جا کر ان چہیتیوں میں سے کسی کے ساتھ کرو ڈانس۔۔۔۔۔” وہ غصے سے اسے اپنے ساتھ برابر کی آگ لگاتی ٹھنڈے ٹھار لہجے میں اذلان کو عجیب سی نظروں سے گھورتی لڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے بولی تھی۔۔۔۔۔
اور ایک جھٹکے سے اپنا آپ چھڑواتی وہ باہر کو نکلی۔۔۔۔۔ ” الایہ نے ایک چور نظر پیچھے مڑتے اذلان کو دیکھا مگر اسکے آگے پیچھے کھڑی ہوتی ان لڑکیوں کو دیکھ الایہ کے لبوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ در آئی اور آنکھوں میں آئی نمی کو اپنے اندر اتارتے وہاں سے باہر نکلی ۔۔
” کیا ہو گیا جو میں نے ایسے بول دیا مجھے روک تو سکتا تھا، مگر نہیں اسے دو بس موقع چاہیے تھا ان لڑکیوں کے ساتھ منہ مارنے کا۔۔۔۔۔۔ خیر مجھے کیا لینا دینا میری بلا سے جو مرضی کرے ۔۔۔۔ منہ لگائے یا ڈانس کرے ہنہہہہ۔۔۔۔۔۔” سنہری روشنی سے مزین اس بڑے سے لان میں وہ اضطراب سے آگے پیچھے چکر کاٹتے مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ان لڑکیوں کے بیچ میں اذلان کو یوں کھڑا دیکھ اسکے تن بدن میں آگ لگی تھی دل چاہا کہ ابھی جا کر ان سب کو گنجا کر دے مگر پھر اس وقت اپنی پوزیشن کا سوچتے وہ صبر کے لمبے گھونٹ بھرتے اب گہرے سانس لیتی خود کو پرسکون کر رہی تھی۔۔۔۔
” ایلا۔۔۔۔۔۔” اپنی پشت پہ کسی بھاری گھبیر مگر جانی پہچانی آواز کو سنتے وہ چونکتے مڑی تھی۔۔۔۔۔ الایہ نے بغور اس شخص کو دیکھا جو بلیو پرنٹڈ ڈریس کوٹ پینٹ میں اپنے درمیانہ قد کے ساتھ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اپنی نظروں میں عجیب سی چمک لئے اسے سر تا پاؤں گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔۔ مسٹر چھوٹو۔۔۔۔۔” اسے پہچانتے الایہ چہکتے اسکے قریب آتے جوش سے اونچی آواز میں بولی تھی۔۔۔۔ اسکے طرزِ تخاطب پر مقابل کے لبوں پہ ایک دلکش سی مسکراہٹ بکھری۔۔۔۔۔ ”
وہ خود سے دو قدم اٹھائے الایہ کے قائم کیے فاصلے کو مٹاتا اسکے قریب رکا۔۔ ۔۔۔۔ ” وہ ابھی پارٹی میں آیا تھا۔۔۔مگر اچانک سے لیلی کی آتی کال پہ وہ اپنے پارٹنر کو اکسکیوز کرتے باہر آیا تھا۔۔۔مگر باہر آتے ہی اسکی نظریں سرخ چہرے سے چکر کاٹتی الایہ پہ پڑی۔۔۔۔۔۔ لیلی کی آواز مسلسل اسکے فون سے آ رہی تھی مگر وہ تو بس ٹکٹکی باندھے الایہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جسے دیکھتے ہی اسے اپنے خواب کا گماں ہوا تھا۔۔۔
مگر پھر خود ہی اپنے بےلگام دل کے ہاتھوں سے مجبور ہوتے وہ اسکے پاس آیا تھا۔۔۔۔ اور اب تو اسکے منہ سے اپنا نام سنتے اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ سچ میں تھی کوئی خواب نہیں تھا۔۔۔۔۔
ایچ اے آر کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی۔۔۔۔۔ دل اسکے سجے سنورے قاتل مکھڑے پہ اٹک سا گیا تھا۔۔۔۔ جبھی اسنے ایکدم سے مسکراتے اسے آج ہی اپنے ساتھ اپنی دنیا میں لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔۔
” مجھے لگا تھا کہ تم مجھے بھول گئی ہو گی۔۔۔۔” ایچ اے آر نے چہرے پہ معصومیت سجائے اسکے چہرے کا طواف کرتی اس کالی لٹ کو نظروں کے حصار میں لیتے کہا تھا۔۔۔۔۔ جب کہ اسکے یوں شکوے پہ الایہ کا مسرور سا قہقہ فضا میں گونجا ۔۔۔۔۔۔۔”
ایسی کوئی بات نہیں میں صرف انکو بھولتی ہوں جو یاد رکھنے کے قابل ناں ہوں ۔۔۔۔" الایہ نے دلکشی سے مسکراتے رسان سے کہا تو ایچ اے آر اسکے تیکھے نقوش کو دیکھتے کہیں کھو سا گیا۔۔۔۔ نظریں جیسے اس سے ہٹنا نہیں چاہ رہی تھیں۔۔۔۔۔
” تو اسکا مطلب میں یاد رکھنے کے قابل ہوں۔۔۔۔” اپنے سر کو خم دیتے ایچ اے آر نے دل سے مسکراتے کہا تھا۔۔۔۔
نہیں اب ایسی بھی کوئی خاص بات نہیں۔۔۔۔۔ ویسے تمہیں میرا نام کیسے پتہ چلا۔۔۔۔۔” الایہ نے کہتے ساتھ ہی اسے مشکوک نظروں سے سر تا پاؤں گھورتے ایبرو اچکاتے سوال کیا تو ایچ اے آر نے سرد آہ بھرتے الایہ کے حسین چہرے کو دیکھا۔۔۔۔۔۔
” میں تو کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں ۔۔ مگر تم تو جیسے غائب ہی ہو گئی تھی ۔۔ دیکھ لو جن کی تلاش سچی ہو وہ منزل تک پہنچ جایا کرتے ہیں جیسے آج میں تم تک پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایچ اے آر نے اسکے وجود کو آنکھوں میں سموئے معنی خیزی سے کہا تھا۔۔۔۔۔
” الایہ ایک ادا سے مسکرائی ______ میرا نام جان لیا ہے اب اپنا نام بھی بتا دو۔۔۔۔۔۔” اس سے بات کرنا الایہ کو اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ واقعی میں کافی اچھا تھا۔۔۔۔”
” اہہہہہہ میرا ناممممممم_______ وہ سوچنے کی اداکاری کرنے لگا۔۔۔۔۔ الایہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔”
” میرا نام حصام ہے ۔۔۔۔۔۔” مگر تم مجھے راج بھی کہہ سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔” آج پہلی بار اسنے اپنا تعارف ایچ اے آر کی جگہ اپنے اصلی نام سے کروایا تھا۔۔۔۔۔۔ الایہ کے ہونٹوں سے اپنے نام کو سننے کی خواہش میں وہ سرد ہواؤں میں اسکے نازک وجود کو دیکھتا مسرور سا تھا۔۔۔۔
” اوکے نائس نیم راج۔۔۔۔۔۔۔۔” الایہ نے مسکراتے پرجوش ہوتے کہا تھا اور ایک دم سے ہاتھ اسکی جانب بڑھایا۔۔۔۔۔ ایچ اے آر کی سرخ پڑتی نظریں اسکے اپنی جانب بڑھے دودھیا نازک ہاتھ پہ تھیں۔۔۔۔
ایچ اے آر نے ہاتھ آگے بڑھاتے اسکے ہاتھ کو تھامنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی کسی نے جھکٹے سے الایہ کے بازوؤں کو کھینچتے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
ایچ اے آر کے ماتھے پہ ایک دم سے ڈھیروں بل نمودار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔وہ شدید غضب سے نظریں اٹھائے اپنے اور ایلا کے بیج کھڑے اس شخص کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ جس کی پشت ایچ اے آر کی جانب تھی مگر اسکے اونچے قد و قامت اور چوڑے کشادہ سینے کی وجہ سے الایہ اسکے پیچھے چھپ سی گئی تھی ۔۔۔۔
ہیے مسٹر کون ہو تم۔۔۔۔۔۔” ایچ اے آر غضے سے غراتے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے بولا تھا۔۔۔ جو سرخ نظروں سے الایہ کو دیکھتا اب پلٹتے ایچ اے آر کو دیکھ رہا تھا۔_______ ”
”لٹس گو الایہ ۔۔۔۔۔۔۔” اسے تیز نظروں سے دیکھ وہ الایہ کے نازک ہاتھ میں اپنا بھاری مضبوط ہاتھ ڈالے بولا تھا۔۔۔۔۔۔
لیٹ می گو اذلان ۔۔۔۔۔۔” الایہ نے غصے سے چیختے اذلان کے سرخ لپ اسٹک سے سجے گال کو دیکھ اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا تھا ۔۔۔۔
” جب وہ کہہ رہی ہے کہ اسے نہیں جانا تو ہاتھ چھوڑو اسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ایچ اے آر نے اذلان کے ہاتھ میں موجود الایہ کا ہاتھ تھامتے کہا تو الایہ نے اس چھوٹے پیکٹ کو سر تا پاؤں گھورا۔۔۔۔
” یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے تم اس سے دور رہو۔۔۔” اذلان نے دانت پیستے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتے پیچھے کرنا چاہا تھا جو بمشکل سے اسکی گردن تک آ رہا تھا۔۔۔۔
” مگر مقابل اپنی جگہ سے ایک انچ تک ناں ہلا تھا۔۔۔۔ ”
” دکھنے میں چھوٹا ضرور ہوں مگر اندر سے پورا ہوں...” اپنے سینے پہ رکھے اذلان کے ہاتھوں کو ہٹاتے وہ طنزیہ مسکراہٹ سے مسکراتے بولا جبکہ اذلان کے کندھے سے اوپر اچھلتے یہ سب دیکھ وہ ہونٹ سیٹی کے شیپ میں گول کرتی قاتلانہ مسکرائی۔۔۔۔۔ ”
واقعی میں یہ چھوٹا پیکٹ بہت تباہ کن ہے۔۔۔۔۔” اذلان کی ترچھی نظروں کو خود پہ پاتے وہ واپس سیدھے سے کھڑی ہوتی بڑبڑائی۔۔۔۔۔۔۔۔
” تم جاؤ میں خود ایلا کو ڈراپ کر دوں گا۔۔۔۔۔” اپنےکالر کو ٹھیک کرتا وہ اذلان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالتا الایہ کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔
”ڈونٹ یو ڈئیر مسٹر ایکس وائے ذی______ یہ میری بیوی ہے میری ملکیت ۔۔۔۔۔۔۔ آج تو اسکا نام تم نے لے لیا۔ اور میں نے تمہیں بچہ سمجھ کر چھوڑ دیا مگر آج کے بعد میری بیوی کے نزدیک آنے کی یا پھر اسکا نام اپنی زبان سے لینے کی کوشش بھی مت کرنا ۔۔۔۔۔۔”
اذلان نے جھٹکے سے طیش میں اسکے گریبان کو دبوچتے کہا تھا ۔۔جبکہ ایچ اے آر تو اسکے منہ سے الایہ کے لئے لفظ بیوی سنتے ہی جیسے شاک میں مبتلا ہو گیا تھا۔۔۔۔
” مجھے لگتا ہے تمہیں سمجھ آ گئی ہے۔۔۔۔”
اسکے یوں بت بنے وجود کو پیچھے کی جانب دھکیلتے اذلان نے غصے سے الایہ کے بازؤں کو اپنی مضبوط مگر سخت گرفت میں لیا تو وہ پھڑپھڑا اٹھی۔۔
” راج یہ جھوٹ بول رہا ہے میں اسے جانتی بھی نہیں ہوں پلیز مجھے بچاؤ ، پلیز ہیلپ می۔۔۔۔۔”
اسکے ساتھ گھیٹستی الایہ نے چیختی ہڑبڑاتے ایچ اے آر کو مدد کیلئے بلایا۔۔۔۔ جو ایلا کی آواز پہ ایک دم سے جیسے ہوش میں آیا تھا۔۔۔۔
وہ دھڑکتے دل سے اس جانب بھاگا جہاں اذلان اسے اپنی گاڑی کی جانب لے جا رہا تھا۔۔۔
” راج پلیز سیو می ____ یہ غنڈہ ...........” الایہ اسے اپنے پیچھے آتا دیکھ پھر سے چلائی تھی۔۔۔جبکہ اذلان نے زخمی نگاہوں سے جبڑے بھینجتے اسے جھٹکے سے اپنے سامنے کرتے گاڑی سے پن کیا۔۔۔۔۔ تو وہ سہمی نظروں سے تیز ہوتی دھڑکنوں سے اپنے اوپر سایہ ہوئے اذلان کو دیکھنے لگی مگر جیسے ہی نظریں اسکے لپ اسٹک سے سجے گال پہ گئیں ۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سے جلن عجیب سا غصہ طیش آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ جبھی دانت پیستے اسنے اذلان کے بھاری ہاتھوں کو خود سے دور کرنا چاہا ۔۔۔
” پلیز سیو مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ابھی وہ مزید کچھ کہتی اذلان نے جھکتے اسکے ہونٹوں کو قید کرتے الایہ کے لفظوں کو اپنے ہونٹوں سے چن لیا۔۔۔۔۔۔۔ ” الایہ آنکھیں پھیلائے اپنے ہونٹوں پہ جھکے اذلان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ جو اسکی نرم و ملائم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتا مدہوشی میں آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔ الایہ نے اپنے ہاتھ ہلاتے اسکی قید سے رہائی چاہی مگر مقابل نے جھکٹے سے اسے سینے میں بھینجتے گرفت مضبوط کی۔۔۔
کہ اسکے جان لیوا شدت بھرے لمس پہ اپنی سانسوں میں اترتی اسکی دہکتی سانسوں کو محسوس کرتی وہ بےبسی سے آنکھیں موندے اسکے حصار میں قید سی ہوئی کھڑی تھی۔۔۔۔۔
” سر۔۔۔۔۔۔” ایچ اے آر کے بڑھتے قدموں کو پیچھے سے آتی اسکے خاص آدمی کی آواز نے روکا وہ حد سے زیادہ چونکا تھا۔۔۔جبھی وہ حیرانگی سے مڑتا پریشان سے کھڑے شارلی ایبڈو کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔”
” کیا ہوا میری روزی کو۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ غصے سے بھپرتا مقابل کے چہرے پہ کسی درندے کی مانند دھاڑا تھا۔۔۔۔۔ا۔سکی غراہٹ میں چھپے کرب و وخشت کسی اپنے عزیز از جان کے کھو دینے کا خوف جانے کیا کچھ شامل ناں تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ شارلی ایبڈو کسی غلام کی طرح اس آدمی کے سامنے نظریں جھکائے کھڑا تھا۔۔۔۔ وہ انسان جسے پورا ترقی اسکے قد و قامت اور وخشت سے جانتی تھی آج ایچ اے آر کے سامنے اسکی بہن کے گمشدہ ہونے پر وہ کسی گناہ گار کی طرح اسکے گھٹنوں میں بیٹھتا اپنا آپ اسکے سامنے پیش کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ ایچ اے آر شارلی کے یوں اپنے قدموں میں بیٹھتے ہی اپنی روزی اپنی بہن جسے اسنے کسی شہزادی کی طرح دنیا کی سرد و گرم سے مخفوظ رکھتے سونے کے محل میں پالا تھا آج اسکے یوں کسی انجان دشمن کے شکنجے میں ہونے کے خوف سے اسکے سینے میں موجود دل جیسے کسی نے ہاتھ سے بےدددی سے کھینچتے باہر نکالا تھا ۔۔۔۔۔
” آہہہہہ..............” سر میں ہوتے اس عجیب سے تیز درد کی وجہ سے وہ نیند میں بھی بےچینی سے کراہتے بائیں ہاتھ سے سر کو مسلتے اپنی سرخ ہوئی سرمئی بڑی بڑی سے آنکھوں کو کھولتے چھت کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔
دماغ جیسے بالکل سناٹوں میں جا چکا تھا۔۔۔۔ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا آ رہا ۔۔۔۔ جبکہ وجود پہ عجیب سی تھکاوٹ محسوس کرتے میرب نے ہاتھوں کے سہارے سے اٹھنا چاہا تھا۔۔۔مگر کچھ غییر معمولی احساس ہوتے ہی اسنے جھٹکے سے گردن گھمائے اپنے بائیں جانب دیکھا جہاں اسکے برابر لیٹا شخص پرسکون گہری نیند سو چکا تھا۔۔۔
جبکہ میرب کی آنکھیں حیرت سے باہر آنے کو تھی وہ جھٹکے سے اٹھنے لگی مگر اپنے پیٹ کے گرد لپٹے تیمور شیرازی کے بھاری سرخ ہاتھ کو دیکھتے میرب نے کسی اچھوت کی طرح ڈرتے ایک دم جھٹکے سے اسکے ہاتھ کو کھینچتے اپنے پیٹ سے ہٹایا ۔۔۔۔۔ اور سیکنڈ سے بھی کم کے وقت میں وہ بیڈ سے اترتے تیمور شیرازی کو دیکھ رہی تھی جو شرٹ لیس سا اطمینان سے لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔
میرب نے خوف و وخشت سے اس انجان کمرے کو دیکھ اپنے وجود پہ نظریں دوڑائی۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہوا سارا واقعہ کسی فلم کی طرح اسکی آنکھوں کے آگے چلنے لگا ۔۔۔ اسے یاد آیا وہ بےہوش ہوئی تھی اسکے بعد تیمور اسے سنبھالنے لگا مگر آگے کیا ہوا تھا ۔۔۔۔ اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔
میرب کے ہاتھ اور چہرہ بری کپکپانے لگے تھے۔۔۔ سینے میں ایک دم سے ایک ٹیس سی اٹھنے لگی۔۔۔ وہ اپنے پھڑپھڑاتے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اپنی سسکی کو دبانے کی ناکام سی کوشش میں سسک اٹھی ۔۔۔۔ جبکہ دوسری جانب نیند میں بھی میرب کو اپنے قریب نا پاتے
مقابل کے ماتھے پہ ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے تھے۔۔۔۔
وہ ہاتھ اپنے برابر میں لے جاتے حالی بیڈ کو ٹٹولنے لگا معا اسنے ڈرتے میرب کو ناں پاتے جھٹ سے اپنی نیند سے بھری سرخ ہوتی چاکلیٹ براؤن آنکھوں کو کھولتے سامنے دیکھا مگر جیسے ہی نظریں اپنے سامنے روتی بلکتی میرب کے کپکپاتے وجود پہ پڑی وہ لمحوں میں ہوش میں آتا ایک دم سے جگہ سے اٹھتے اسکی جانب بڑھا تھا۔۔۔
میر کیا ہوا وٹس ہیپننگ______” تیمور نے متفکر سا ہوتے اسکے قریب جاتے اسے چھونا چاہا تھا مگر وہ بری طرح سے ڈرتی پیچھے کو قدم لے گئی۔۔۔۔ تیمور نے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے خود پہ کنٹرول کرنا چاہا تھا۔۔۔ مگر دماغ میں ایک کرنٹ سا اٹھنے لگا تھا۔۔۔ اسکا یوں رونا تیمور شیرازی کے جنون کو ہوا دینے لگا۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں آنا چاہیے تھا تمہارے ساتھ ، تم ایک گھٹیا شخص ہو ___ یو چیٹر تم نے مجھے برباد کر دیا۔۔۔۔۔۔ کسی قابل نہیں چھوڑا تم نے مجھے۔۔۔۔۔ تم ایک درندے ایک وخشی ہو۔۔۔ مجھے خود سے نفرت محسوس ہو رہی ہے جانے کیسے تم پر اعتماد کر لیا میں نے ۔۔۔۔۔۔ ”
وہ ہزیانی سی ہوتے اپنے نقصان پہ دہاڑیں مار کے بری طرح سے رو رہی تھی جبکہ اسکی باتیں تیمور کے دماغ کے اوپر سے گزر گئی ۔۔وہ مانتا تھا کہ اسے یوں میرب کے ساتھ نہیں سونا چاہیے تھا مگر وہ پھر بھی کمفرٹر سے باہر لیٹا تھا۔۔
اپنے جذبات سے مجبور ہوتے وہ اسکی خوشبو کو خود میں اتارنے کی خاطر اسے اپنے قریب محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔مگر اس کے علاؤہ اسے نہیں تھا لگا کہ اسکی اتنی بھی کوئی غلطی تھی۔۔۔۔ یہ سب کچھ اسکے لئے ایک الگ سا احساس تھا۔۔۔
اتنا واویلا تو اسکے ساتھ رات گزارنے والی اسکی گرل فرینڈز نے بھی کبھی نہیں کیا تھا مگر اس لڑکی کے قریب جانے پر ہی وہ اس طرح سے رو رہی تھی جیسے اسنے کیا کچھ کر دیا تھا اسکے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔
” اوکے ریلکس دیکھو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تم بیٹھو ہم آرام سے بات کرتے ہیں۔۔۔۔” تیمور نے اسے سمجھانے کے خاطر پیار سے پچکارتے کہا تو میرب نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے نفرت سے دیکھا جو اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسے آرام سے بیٹھنے کا کہہ رہا تھا۔۔۔۔
” تمہیں لگتا ہے کہ تمہیں معاف کر دوں گی میں یا پھر چھوڑ دوں گی۔۔۔۔۔ تمہاری غلط فہمی ہے یہ میں ان کمزور لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں جو اپنی عزت کے لٹ جانے پر اپنے گھر میں چھہ کے بیٹھ جائیں میرے ڈیڈ تمہیں جان سے مار ڈالیں گے مسٹر تیمور ۔۔۔۔۔ میں ابھی انکے پاس جاؤں گی تمہارا یہ گھناؤنا چہرہ پوری دنیا کو دکھاؤں گی میں۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ غصے سے غراتے نفرت اشتعال میں کہتے ساتھ اپنے آنسوں رگڑتے اسے پیچھے کو دھکہ دیے باہر جانے لگی کہ اسکی باتوں کا مفہوم سمجھتے تیمور نے جھٹکے سے اسے بازوؤں سے کھینچتے اپنی جانب کیا کہ وہ ایک دم سے اسکے سینے سے لگتی آنکھیں خوف سے پھیلا گئی۔۔۔۔
” دماغ کہاں ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ میں نے کچھ الٹا سیدھا کیا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔” اسے کمر سے تھامتے اپنے نزدیک کرتا وہ غصے روعب سے چلاتے بولا تھا۔۔۔۔۔۔ میرب اسکے کشادہ سینے کو دیکھتے نظریں پھیر گئی۔۔۔۔۔ جسے محسوس کرتا وہ دلکشی سے مسکرایا۔۔۔۔۔
”میری غلطی ہے جو میں تمہیں یہاں لایا۔۔۔۔ میری غلطی ہے جو تمہارے ساتھ ایک ہی بیڈ شئیر کیا۔۔۔ مگر اسکے علاؤہ میں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔”
اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ وہ گھبیر آواز میں اسکے کان کے قریب جھکتے سرگوشی کرنے لگا۔۔
میرب نے پل بھر میں بےیقنی سے نظریں اٹھائے اسکے بولتی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔۔ مگر پھر خود سے ہی نظریں جھکائے اسکے حصار کو توڑنے لگی۔۔
” یہ جو کچھ بھی ہوا اس کے لئے ایم سوری ______ یہ میری غلطی ہے اور آئی پرامس آج بہت بعد ایسی غلطی نہیں ہو گی ۔۔۔” اسکی تھوڑی کے نیچے اپنا ہاتھ رکھتے تیمور نے اسکا چہرہ اپنے سامنے کرتے التجائیہ محبت سے چور لہجے میں کہا تھا۔۔۔میرب کی پلکیں لرز پڑی وہ سر جھکائے اپنی تیز ہوتی دھڑکنیں شمار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔
” میں نہیں جانتا کہ یہ محبت ہے پیار ہے یا پھر صرف ایک وقتی احساس مگر تم مجھے بےحد اچھی لگنے لگی ہو ۔۔۔ تمہارا ساتھ ان سانسوں میں الگ سی روانی بھر دیتا ہے وہ سارے احسات جنہیں آج تک میں نے کبھی بھی محسوس نہیں کیا تمہارے سارے گزارے ان کچھ ہی گھنٹوں میں میں بےشمار احساسات سے واقف ہوا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ آئی ڈونٹ نو واٹ از اِٹ بٹ آئی نیڈ یو فار ایور ”
اسکے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے وہ خود اپنی بدلتی کیفیت کا آشکار کرتا بے ساختہ ہی مسکراتے اپنے نچلے لب کو دانتوں تلے دبا گیا۔۔۔۔۔۔
” مم مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔” اسکے حصار کو توڑتے میرب نے نظریں فرش پہ گھاڑتے کہا تھا۔۔۔ تیمور نے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔۔۔
” اوکے میں تمہیں لے چلتا ہوں بٹ کیا میری ایک وش پوری کر سکتی ہو تم پلیز۔۔۔۔۔۔۔”
اسکی بات مانتے تیمور شیرازی نے کھینچتے اسے پھر سے اپنے مضبوط حصار میں قید کیا۔۔۔ میرب تو اس شخص کے بے انتہا قربت پہ ہی نڈھال ہو رہی تھی۔۔۔ اپنی کیفیت اسے خود بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔۔
” کین آئی کس یو۔۔۔۔” اسے سوچوں میں الجھا دیکھ تیمور نے چہرے پہ معصومیت طاری کرتے اسکے سرخ چھوٹے سے ہونٹوں کو دیکھ التجا کی تھی۔۔۔ جبکہ تیمور کی اس بےہودہ بات کو سنتے میرب کا چہرہ غصے اور شرم سے لال پڑ گیا ، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی مقابل نے ایک دم سے جھکتے اسکے دائیں گال پہ اپنے ہونٹ رکھتے میرب کے وجود کو سن سا کر دیا تھا۔۔۔ مقابل کی مونچھوں کی جبھن کو اپنے گالوں پہ محسوس کرتے میرب نے جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا جو مدہوشی سے اس پہلے تجربے کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔
تھینکس میر۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین تھا تم انکار نہیں کرو گی۔۔۔۔” اسکے سرخ پڑتے رخسار کو دیکھ تیمور شیرازی نے دھڑکتے دل سے مسکراتے کہا تھا۔۔۔۔جبکہ میرب بنا کچھ کہتے تیزی سے دروازہ کی جانب بڑھی ۔۔۔اسکے پیچھے ہی تیمور بھی اسکی خاموشی پہ کندھے اچکاتا صوفے سے اپنی شرٹ اور گاڑی کی چابیاں اٹھائے روم سے باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
*****ماضی******
مجھے جانے دیں پلیز ______! ” ایک دم سے چار دن کے بعد کمرے کا دروازہ کھلنے پہ وہ یوں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ کو اپنے قریب سنتا دروازے سے اندر داخل ہوتی تیز روشنی کو محسوس کرتا آنکھوں پہ ہاتھ رکھتے اس چبھتی روشنی کو خود سے دور کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
” کہاں جانا ہے تجھے۔ ۔۔۔۔۔۔” اپنے قریب سے ہوتی سرگوشی پہ وہ دھندلائی نظروں سے پیچھے کو قدم لیتے سہمتا دیوار سے جا لگا۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا” اسکے ڈر خوف و وخشت کو بھانپتے مقابل کا قہقہ بے ساختہ بلند ہوا تھا ۔۔۔۔۔
” تیرا باپ تجھے بیچ گیا ہے میرے اگے۔۔۔۔۔ جانتا ہے کتنے پیسوں میں تجھے دیا ہے اس نے۔۔۔۔” اسکے قریب پنجوں کے بل بیٹھتا وہ وخشت بھرے لہجے میں اس کے کمزور سے وجود کو دیکھتا سرد مہری سے دھاڑا تھا۔۔۔
جبکہ مقابل بیٹھا وہ چھوٹا سا معصوم بچہ اپنی نیلی سرخ سوجھی آنکھوں کو بشمکل کھولتے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اسکے سرخ چھوٹے چھوٹے ہونٹ اپنے ڈیڈ کے لئے ایسا سنتے پھڑپھڑانے لگے وہ جانتا تھا اسکے ڈیڈ اسے نہیں چھوڑ سکتے ۔۔۔۔۔
وہ تو کسی کام سے گئے تھے اور اس سے کہا بھی تھا کہ اپنا دھیان رکھنا ۔۔۔۔ وہ تو اس سے بہت محبت کرتے تھے اسکی ماں کی طرح اسے چھوڑ کے نہیں گئے تھے مگر ابھی سامنے بیٹھا یہ شخص اسے جانے کون کون سی باتیں بتا رہا تھا۔۔۔۔
ممم مجھے پتہ ہے میرے ڈیڈ ایسا نہیں کر سکتے تم جھوٹے ہو ۔۔۔۔۔” اپنے ڈیڈ کو یاد کرتے وہ بیٹھی آواز سے سوجھے نیلے پڑتے ہونٹوں کو ہلاتا تکلیف کے باوجود بھی بولا تھا۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں سے جھلکتے اعتماد نے مقابل کو مزید طیش دلایا تھا۔۔ جبھی وہ اپنے بائیں ہاتھ کا ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ مارتے جگہ سے اٹھا تھا ۔۔۔۔
” توں ایسے نہیں مانے گا ۔۔ آج تجھے بتاتا ہوں کہ تیرا باپ تجھے کیوں کر دے گیا ہے مجھے اور جن بچوں کے باپ یا ماں انہیں بیچ دیا کرتے ہیں ، تو پھر ان ناجائز بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔۔۔۔”
اسکے بالوں کو اپنی وخشیانہ گرفت میں لیتے وہ اسے کراہنے پہ مجبور کرگیا۔۔۔ ایل کا نازک وجود اس دردندے کی پکڑ پہ بری طرح سے پھڑپھڑانے لگا ۔۔۔۔ اپنے بالوں میں اس سفاک کی گرفت پہ ایل کی آنکھیں درد سے بند ہونے لگی ۔۔۔ منہ سے خون ابلتا اسکے سرخ چہرے پہ نشان چھوڑنے لگا جبکہ مقابل اپنے بھاری قدموں سے اسے کھینچتے دوسرے کمرے میں لے جاتا جھٹکے سے اسے اٹھائے بیڈ پہ پھٹک گیا۔۔۔
”تجھے ایسی نفرت کرواں گا تیرے باپ سے___ کہ توں اسکے نام سے بھی نفرت کرے گا ۔۔۔” چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ سجاتے ڈیون نے اسکے نیم بے ہوش وجود کو دیکھتے سوچا تھا۔۔۔ اور پھر جھٹکے سے اپنی شرٹ کو اتار دور پھینکتے وہ بیڈ کے قریب جاتے اسے بالوں سے پکڑتا گھیسٹتے سیدھا کر گیا۔۔۔۔ کہ درد سے چور اس کمزور وجود میں اب ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی رہی۔۔۔ جسے دیکھ مقابل ہنستے اسکے بالوں کو دبوچتے اسکے کان میں سرگوشیاں کرتے اپنی دردنگی دکھاتے اس کمزور سے وجود کو کچلنے لگا ۔۔۔۔۔
ایل کی کربناک چیخیں اس خاموش ماحول کی گونجتی ایک عجیب سی وخشت برپا کر رہی تھی ۔۔۔۔ اسکی آنکھیں باہر کو ابلی پڑی تھی۔۔۔ جبکہ منہ سے ایک بار پھر سے خون بہنے لگا ۔۔۔۔ ” تم ایک ناجائز ان چاہے بچے ہو ، جب تیرے باپ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ خود تجھے بیچ گیا میرے آگے ۔۔۔۔تیرے جیسوں کی زندگی ایسی ہی لکھی گئی ہے۔۔۔۔۔ تجھے تیرے وجود سے اس قدر نفرت کروا دوں گا میں کہ توں خود ہی موت کی بھیک مانگے گا ۔۔۔۔۔۔”
اسکے کان کے قریب اپنے غلاظت پھونکتے وہ جھٹکے سے اسکے بالوں کو چھوڑتا اسکے چہرے پہ تھوک گیا۔۔۔۔۔ ایل کے بےجان وجود میں جیسے جینے کی سکت نہیں رہی تھی ۔۔۔ آنکھوں سے بہتے انسںوں اسکے چہرے پہ بہتے سرخ لہو میں ملتے خون آلود ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔
اسے پاؤں سے ٹھوکر مارتے ڈیون نے نفرت سے اسے دیکھا کہ معا ایک محسوس بیل کی آواز پہ وہ چونکتا اٹھا تھا۔۔۔۔۔
ایک تیز نظر اس آخری سانس لیتے کمزور وجود پہ ڈالتا وہ باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔۔
سر لیلی میڈم آئی ہیں ۔۔۔۔۔۔” باہر کھڑے اسکے گارڈ نے اسے اطلاع دی تو ڈیون سر ہاں میں ہلاتے روم لاک کرتے وہاں سے نکلا۔۔۔۔۔
” کیا بات ہے میڈم لیلی ۔۔۔۔۔۔ اتنی جلدی آ گئی تم۔۔۔۔۔۔” اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں بھی وہ اسکی بےچینی کو محسوس کر پایا تھا۔۔۔۔۔ جو ڈیون کی آواز سنتے جھٹکے سے جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔۔۔
" تمہارا وقت پورا ہوا ڈیون اب مجھے میرا بیٹا واپس کرو ۔۔۔۔۔” وہ سیدھا مدعے پہ آئی تھی۔۔۔۔
" مگر تم خود ہی تو مجھے دے کر گئی تھی اسے۔۔۔۔۔کہ میں اسکا دماغ میں تمھارے سابقہ شوہر کیلئے نفرت ڈال دوں تاکہ پھر وہ آسانی سے تمہارے ساتھ جانے کو مان جائے ۔۔۔۔۔۔۔”
ہاں میں لائی تھی اسے ۔۔۔۔۔۔مگر میں نے کہا تھا کہ صرف دس دن کیلئے تم اس پہ ظلم کر سکتے ہو اسے اسکے باپ سے نفرت کروا سکتے ہو مگر اب پورا ڈیرھ ماہ ہو گیا ہے مجھے چاہیے اب وہ واپس ۔۔۔۔ میں خود یہ کام کروں گی اب سے۔۔۔۔۔ ” ڈیون کی آنکھوں میں اپنی نیلی سرخ ہوتی نظروں کو گھاڑتے وہ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے بولی تھی۔۔۔۔ جبکہ ڈیون کی نظریں اسکے قاتل سراہے پہ تھی۔۔۔۔۔۔
وہ مافیہ کی دنیا کا سب سے بڑا ڈان تھا ۔۔۔ایک بار جو کیس اسے سونپا جاتا وہ اسے پورا کیے بنا واپس نہیں کرتا تھا مگر اس گیارہ سالہ بچے نے ڈیڑہ ماہ کی اذیتوں کے باوجود بھی اپنے باپ کی نفرت نہیں قبولی تھی۔۔۔ اپنی ہار کا غصہ نکالتے اسنے اس نازک وجود کو مسل ڈالا تھا ۔۔۔۔ جو خود اپنی غلطی اپنے گناہ سے انجان تھا۔۔
وہ میرا بیٹا ہے اور مجھے اسے اپنے ساتھ لے جانے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا ۔۔۔۔ لیلی کا غصہ حد سے سوا تھا۔۔۔۔۔۔
جبھی اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کرتے ڈیون نے اسے ایل کو کے جانے کی اجازت دی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ پارٹنر شپ اسے کتنی مہنگی پڑنے والی تھی۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
پاگل خانے میں اسکی ملاقات ڈاکٹر سلمان سے ہوئی تھی ۔۔ لیلی کا خاموش رہنا اسکی خوبصورتی نے سلمان کو اپنی جانب راغب کیا تھا وہیں سلمان کی توجہ کو خود پہ پاتے لیلی کو وہاں سے نکلنے کا راستہ مل گیا تھا۔۔۔مگر اب کی بار اسنے سوچ لیا تھا وہ وریام کو نہیں چھوڑے گی ۔۔۔ جس نے نا صرف اسکی زندگی برباد کر دی بلکہ اسکی محبت کو بھی دھتکارا تھا۔۔۔۔
سلمان کی توسط سے وہ جیل سے نکلنے میں کامیاب تو ہوئی مگر اس سے پہلے ہی سلمان نے اس کے سامنے شادی کا پرپوزل رکھ دیا ۔۔۔ جسے وہ کسی بھی حال میں انکار نہیں کر سکی ۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ جانتی تھی ابھی کچھ عرصہ سیو رہنے کے لئے اسے سلمان کی ضرورت تھی۔۔۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔۔۔۔ سلمان کا رویہ لیلی کے ساتھ اسکی سوچ سے بھی زیادہ اچھا تھا ۔۔۔وہ اسکا بے حد خیال رکھتا تھا ۔۔۔۔ مگر لیلی کے اندر جو بدلے کی آگ بھڑکی تھی وہ ہر حال میں سلمان کو چھوڑنا چاہتی تھی ۔۔
وہ ایسا کر بھی جاتی مگر اچانک سے اپنی ماں بننے کی خبر نے اسے روک دیا۔۔۔۔۔ اسے اپنے اندر ہوتی اس تبدیلی نے خاموش سا کردیا تھا۔۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ آخر ایسا کیوں تھا۔۔
وہ خاموش سی ہو کے رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ مگر وقت بڑھتا گیا سلمان اس کا پہلے سے کئی زیادہ خیال رکھتا تھا۔۔۔ مگر پھر اچانک سے مائیکل اسکی زندگی میں آیا ۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سے منتھلی چیک اپ کے بعد سلمان لیلی کو بینچ پہ بٹھائے میڈیسن لانے گیا تھا جب وہ لیلی کو پہنچانتے اسکے پاس آیا ۔۔۔۔۔۔
اوہ مائے گاڈ یہ تم ہو لیلی ۔۔۔۔ " وہ اسکا کلاس میٹ تھا۔۔۔۔ جس نے کئی بار اسے پرپوز بھی کیا تھا مگر وریام کی محبت اسے حاصل کرنے کے جنون کے آگے لیلی کو کہاں کچھ دکھائی دیتا تھا ۔۔
لیلی کیا حالت بنا لی تم نے ۔۔۔ تم وہ لیلی تو نہیں رہی ۔۔ اسکے حالت کو دیکھ وہ افسوس کرتے لہجے میں بولا ۔۔۔ لیلی نے جھٹکے سے گردن گھمائے اپنے آپ کو دیکھا وہ واقعی میں وہ نہیں تھی رہی۔۔۔ وہ اس وقت سیون منتھ پریگننٹ تھی۔۔۔
مائیکل دو چار باتیں کرتا وہاں سے چلا گیا تھا۔۔ مگر گھر آنے کے بعد بھی اسکا دماغ ایک ہی بات پہ اٹک گیا تھا۔۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھنے لگی بوجھل سی سوجھی نیلی آنکھیں بھرا بھرا سراپا ۔۔۔۔۔ اسے اپنا آپ کہیں کھوتا سا لگا ۔۔۔۔ وہیں سے اسکے دل میں خلش ابھرنے لگی ۔۔۔۔
وہ سلمان سے دور ہونے لگی جہاں تک ممکن ہوتا اس سے فاصلہ بنانے لگی اور اس سب میں مائیکل کی موجودگی نے اسکے دماغ کو پھر سے ورغلایا تھا ۔۔۔۔
عالیان کی پیدائش کے بعد اسکا رجحان گھر سے باہر زیادہ ہوتا تھا۔۔۔وہ اکثر بے وقت باہر چلی جایا کرتی پہلے پہل تو سلمان نے خاموشی سے اسکے بدلتے تیور دیکھے مگر پھر جب عالیان پانچ سالوں کا ہوا تب تک لیلی صرف برائے نام اسکے ساتھ رہنے لگی ۔۔۔۔ یہ بھی مائیکل کا ہی مشورہ تھا کہ جب تک سلمان کی پراپرٹی نام ناں کروا لو تب تک اسکے قریب رہو اور جہاں تک ہو سکے اپنا رویہ بہتر کرو ۔۔۔۔
اسکی بات پہ وہ حامی تو بھر گئی تھی مگر ایل کی طرف دیکھتے ہی اسے شدید غصہ آتا ۔۔۔۔ وہ بری طرح سے اس چھوٹے سے بچے کو مارتی توکبھی بیڈ سے گرا دیتی۔۔۔۔ مگر سلمان لیلی کی ذہنی حالت کی سوچتے خاموش ہو کے رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
کچھ دنوں سے لیلی نے اپنا رویہ سلمان سے ٹھیک کیا تھا ۔۔۔ وہ قریب آتا تو وہ اسے روکتی نہیں تھی ۔۔۔۔۔ سلمان بھی اب پرسکون ہونے لگا کہ اب شاید لیلی پھر سے ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔۔۔ مگر لیلی کی نظر تو اسکی جائیداد پہ تھیں۔۔ وہ جیسے تیسے یہ وقت گزار رہی تھی۔۔۔ اور انہی سب میں اسے اپنے دوبارہ سے ماں بننے کا پتہ چلا ۔۔۔۔ اسکا ری ایکشن حد سے سوا تھا۔۔۔
اسے جیسے ہی ڈاکٹر نے یہ نیوز سنائی وہ جھپٹتے سب کے سامنے سلمان پہ برسی ۔۔۔۔۔اسے بری طرح سے کوستے وہ اپنی بھڑاس نکالنے لگی ۔۔۔۔۔ وہ تو اسی ہفتے اسکی جائیداد اپنے نام کروانے کے بعد اس سے طلاق لینے والی تھی مگر یہاں تو ایک نیا قصہ شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔سلمان شرمندہ سا اسے بشمکل گھر لایا تھا ۔۔مگر گھر آتے ہی اسنے پھر سے اس بچے کو ختم کرنے کا کہا جس پہ سلمان کا ہاتھ اٹھا تھا لیلی پہ۔۔۔ شفیع جو ان دونوں کو ڈراپ کرنے آیا تھا وہ گھبراتے آگے بڑھا تھا کیونکہ لیلی کی طبیعت کے پیش نظر ایسا کچھ بھی اسکے لئے نقصان دہ تھا ۔۔۔
لیلی کی دھمکیوں سے ڈرتے سلمان نے اسکا باہر آنا جانا بند کر دیا مگر اس سب کے باوجود بھی وہ کئی بار غلط دوائیاں کھا چکی تھی۔۔۔۔۔ وہ یہ بچہ کسی حالت میں بھی نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔ مائیکل کو کتنی مشکل سے اسنے سمجھایا تھا ۔۔۔۔ ورنہ وہ تو صاف الفاظ میں اسے سلمان سے کوئی بھی تعلق بنانے سے منع کر چکا تھا اگر اسے پتہ چلتا کہ وہ دوبارہ سے سلمان کے بچے کی ماں بننے والی ہے تو کیا پتہ وہ اسے چھوڑ جاتا اور اب لیلی ایسا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔
وہ ہر ممکن کوشش کرنے لگی کہ کسی بھی طرح سے سلمان اس سے بدذن ہو کر اسے نکال دے۔۔ وہ جان بوجھ کے ایل کو مارتی اسے پورا پورا دن ٹھنڈ میں کھڑا کر دیتی ۔۔۔ جبکہ سلمان اسکے ساتھ سائے کی طرح قائم تھا۔۔۔۔۔ وہ کئی بار اپنے رب سے اسکے لئے معافی مانگ چکا تھا ۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اسکے پاگل پن کی وجہ سے وہ یہ سب کر رہی تھی ۔۔مگد وہ انجان تھا کہ وہ لڑکی پاگل تھی نہیں بلکہ پاگل بنتے اسے تباہ کرنے والی تھی۔۔۔۔
مائیکل کے ساتھ لیلی کا رابطہ سات ماہ سے نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ مائیکل بری طرح سے جھنھجلا گیا تھا۔۔۔۔ مگر اسے امید تھی کہ لیلی اسکے پاس ہی واپس آئے گی۔۔۔۔
سلمان شدید غصے میں آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھا تھا۔۔۔۔ اسے بار بار لیلی کا وہ روپ یاد آ رہا تھا جب اج اسنے اسکی آنکھوں کے سامنے اتنی زیادہ دوائیاں کھائی تھی جانے وہ کہاں سے لے رہی تھی یہ دوائیں مگر ان کو کھاتے ہی اسکی طبیعت بگڑ گئی تھی ۔۔ ایل کو شفیع کے پاس چھوڑنے کے بعد وہ لیلی کو لیے ہاسپٹل آیا۔۔۔۔
” ڈاکٹر میرا بچہ۔۔۔۔۔" دروازہ کھلتے ہی اسنے ایک امید سے ڈاکٹر کو دیکھ لیلی کی بجائے اپنے بچے کا پوچھا ۔۔۔ لیلی کو طلاق دینے کا فیصلہ وہ پہلے ہی کر چکا تھا۔۔۔۔ اسکی زندگی عذاب بن چکی تھی اس عورت کے ساتھ رہتے وہ اب مزید اپنے بچوں کو اس عورت کے ہاتھوں تباہ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔
” سوری ڈاکٹر سلمان ۔۔ مگر آپ کی بیوی نے ایک مردہ بیٹی کو جنم دیا ہے۔۔۔۔۔”ڈاکٹر اسکا کندھا تھپکتے چلا گیا جبکہ وہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔۔۔۔۔
سلمان کو لیلی سے شدید نفرت سی محسوس ہونے لگی ۔۔ کیسی ماں تھی وہ جو اپنے ہی بچے کو کھا گئی۔۔۔ لیلی نے ہوش میں آتے ہی اس سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا ۔۔۔ سلمان کو افسوس ہوا اس عورت کے رویے پہ اپنے بچے کے مرنے کا اسے ذرا برابر افسوس یا دکھ نہیں تھا۔۔۔ جبھی سلمان اسے طلاق دیے ایل کو لئے اٹلی چلا گیا۔۔۔۔
اس نے اکیلے ہی ایل کو اچھے سے پالا تھا۔۔۔ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے تھے۔۔ ایل کی آنکھیں اسکے نین نقوش میں سلمان کے ساتھ ساتھ لیلی کی بھی جھلک دکھتی تھی ۔ مگر سلمان کے لئے اپنا بیٹا اپنی جان سے بھی عزیز تھا۔۔۔
لیلی سے دور ہونے کہ ان ساڑھے پانچ چھ سالوں میں ہی ایل پہلے سے زیادہ صحت مند ہونے لگا تھا۔۔۔ بات بات پہ شرارتیں کرتے وہ اپنے ڈیڈ کو ہنسنے پہ مجبور کرتا تھا اور سلمان کی تو کل کائنات ہی اسکا بیٹا تھا۔۔۔۔
ان ساڑھے پانچ چھ سالوں میں لیلی ہر طریقے سے بری طرح سے ناکامیاب ہوئی تھی ۔۔۔ وریام کو مات دینے کا ہر حربہ ناکام گیا تھا۔۔۔شاید وہ پہلے سے ہی محتاط ہو جاتا تھا۔۔ اب بھی وہ کمرے میں بیٹھی غصے سے بھری شراب پینے میں مشغول تھی جب مائیکل نے اسے ایک نیا پلان بتایا ۔۔۔۔
” وریام کی بیٹی کافی خوبصورت ہے دیکھنا چاہو گی ۔باکل اسکی بیوی کی جھلک ہے اس میں ۔۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پہ جھلکتی نفرت جلن کے آثار نمودار ہونے لگے جس پہ مائیکل گہرا مسکرایا۔۔۔۔
” جان سے مار دوں گی میں ان سب کو۔۔۔۔ سب کو مرنا ہو گا ہر وہ انسان جس نے لیلی کو تکلیف دی ہے وہ نہیں بچ پائے گا۔۔۔۔ و غصے سے اسکے گریبان کو پکڑتے طیش سے بولی۔۔۔۔ تو مائیکل نے ماتھے پہ بل سجائے اسے دیکھا۔اسکا ایک ہی حل ہے سویٹ ہارٹ تمہارا بیٹا۔۔۔۔۔۔”
اپنے کالر سے اسکے ہاتھوں کو جھٹکتے وہ معنی خیز لہجے میں بولا تو لیلی نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا ۔۔۔
میرا کوئی بیٹا نہیں مائکل اور تم جانتے ہو مجھے اس سلمان کے بیٹے سے کتنی نفرت یے۔۔۔۔ نظریں چرائے وہ غصے نفرت سے بولی تو مائیکل کا قہقہہ اسے چونکنے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔
" تم جانتی ہو لیلی کہ مجھے بچوں سے کوئی انٹرسٹ نہیں اور میں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا ۔۔ اس لئے ہمیں اس ایل کو اپنے شکنجے میں کرنا ہو گا۔۔ آگے جا کر وہ ہمارے بہت کام آنے والا ہے۔۔۔
کیا مطلب تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔۔۔ آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورتے وہ غصے سے استفسار کرنے لگی ۔۔ جس پہ مائیکل نے اسے اپنا سارا پلان بتایا ۔۔۔۔ اسکا سوچا پلان ایسا تھا کہ کئی لمحوں تک وہ خود بھی سناٹوں میں آ گئی۔۔۔۔
مگر پھر خود کو سنبھالتے اس نے ایک ایک پہلوں پہ غور کی واقعی مائیکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔۔ ایسا ہی تو تھا۔۔۔۔
" مان لیا کہ تمہاری بات ٹھیک ہے مگر ایل مجھ سے نفرت کرتا ہے وہ کبھی نہیں مانے گا۔۔۔۔ ”
اسے اب اچانک سے اپنے رویے پہ افسوس ہوا تھا اسکے پاس تو جیک پاٹ پڑا تھا جسے وہ نظر انداز کر گئی تھی۔۔۔
تو میری جان اسے ہم منا لیں گے۔۔۔۔” لیلی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے وہ آنکھ دباتے اسے قہقہ لگانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔
اس سے اگلے دن ہی وہ دونوں سلمان کی ساری معلومات لیتے اٹلی پہنچے تھے پورا ایک ماہ اس پہ نظر رکھنے کے بعد آخر کار انہوں نے ایل کو سکول کے باہر سے کڈنیپ کروایا تھا ۔۔۔۔۔
جہان سے ڈیون اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔۔۔ کیونکہ لیلی نے اس سے مدد مانگی تھی کہ وہ جلد از جلد اسکے بیٹے کے دل میں اسکے باپ کیلئے نفرت پیدا کرے۔۔۔۔
اسے ہر طرح کی اذیتیں دینے کے باوجود بھی وہ اسکے ذہن سے سلمان کی محبت کو نہیں نکال پایا تھا جس پہ غصہ ہوتے ڈیون نے اس کے وجود کو نوچا تھا ۔۔ اسکے کان میں سرگوشیوں کرتے اسکے باپ کے خلاف ورغلایا تھا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اسکا ناجائز بیٹا تھا۔۔۔۔۔
لیلی جیسے تیسے اسے ڈیون سے چھڑوا لائی تھی۔۔۔۔ اسکے سامنے ایک ایسی مظلوم لاچار ماں کا روپ پیش کیا کہ وہ معصوم جو خود ہی ٹوٹ چکا تھا لیلی کی بتائی ہر بات پہ یقین لے آیا وہ مان گیا کہ ہاں اسکے باپ نے ہی اسکی ماں کو زبردستی طلاق دی تھی اسے پاگل قرار دیا اور اسکی بہن کو بھی اسکے باپ نے ہی مارا تھا ۔۔۔ وہ جان بوجھ کہ لیلی کو مجبور کرتا تھا کہ وہ مجبوراََ ایل پہ ہاتھ اٹھاتی۔۔ جسکے باعث ایل کو اس سے نفرت ہونے لگی ۔۔۔۔
رفتہ رفتہ گزرتے وقت کے ساتھ لیلی اسکے دل و دماغ پہ قابض ہوتی گئی۔۔۔ اسے بتایا کیسے وریام کاظمی نے اسے برباد کیا تھا۔۔۔۔ اس سے شادی کرنے کا جھوٹ بولتے اسکی زندگی تباہ کر دی ۔۔۔ جسکے باعث وہ پاگل ہو گئی۔۔۔۔۔۔ لیلی نے مائیکل کا بھرپور ساتھ دیتے ڈیون کا سارا کالا دھندا آہستہ آہستہ اپنے قابو میں کیا ۔
اسنے انیس سال کی عمر میں ایل کے ہاتھ میں بندوق تھمائی تھی ۔۔۔۔۔ اور ڈیون کو اسکے سامنے پیش کیا۔۔۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہی ایل کو خود پہ بیتی وہ قیامت یاد آنے لگی وہ بےحس بن چکا تھا مکمل طور پہ ہر کسی سے نفرت کرنے والا ایک بے حس وجود جو صرف لیلی کے اشاروں پہ چلتا تھا ۔۔ مگر ایل نے اسے بندوق سے آسان موت نہیں دی تھی بلکہ اسے رفتہ رفتہ مارا تھا ایسی کربناک موت دی تھی کہ ڈیون کی روح اسکے وجود کا ساتھ چھوڑنے کو تڑپنے لگی ۔۔۔۔۔
مگر ایل کو سکون نہیں ملا تھا۔۔۔ وہ شراب پینے لگا ۔۔۔۔ اپنے اندر زہر انڈیلتا ۔۔۔۔۔۔ آئے روز ایک نئی لڑکی اسکے کمرے میں ہوتی تھی اسکی دسترس میں مگر آج تک کوئی بھی وجود کوئی بھی چہرہ ایل کو اپنی جانب نہیں کھینچ سکا تھا کہ وہ اسے حاصل کرتے اپنی بےچین روح کو سکون پہنچاتا ۔۔۔
مگر جب اسکا دل اس دنیا سے بھر جاتا تو وہ لیلی کی طرف سے دی ایک عدد وہ چھوٹی سی تصویر پکڑتے اسے گھورتا رہتا جس میں اسکی زندگی کا مقصد اسکی نفرت کی وجہ تھی۔۔
آخر کار اب وہ وقت آن پہنچا تھا جب وہ اپنے جینے کے مقصد اپنی نفرت کو تباہ و برباد کرتا۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
******حال******
” کب تک فری ہو جاؤ گی تم۔۔۔۔۔۔” گاڑی سے باہر نکلتے وہ اسکے قریب کھڑے ہوتے سامنے دیکھتے پوچھنے لگا۔ ۔
” اگلے ہفتے سے پیپرز ہیں بس لیکچرز ہی ہونگے آج ۔۔۔۔۔۔” عیناں نے آگے پیچھے دیکھتے معصومیت سے کہا تھا۔۔۔ وہ کافی لیٹ ہو چکے تھے گھر سے نکلتے اسی وجہ سے ویام اسے سیدھا یونی لایا تھا۔۔ اب اسکا ارادہ واپسی پہ عین کو ماما کے پاس چھوڑنے کا تھا کیونکہ اسے آج رات ہی ایک ضروری کام سے جانا تھا ۔۔۔۔
” اوکے آؤ تمہیں اندر تک چھوڑ آتا ہوں۔۔۔۔۔” سن گلاسز لگاتے وہ چہرے پہ سنجیدگی سموئے عیناں کا ہاتھ تھامتے آگے بڑھنے لگا۔۔۔
وو ویام میں خود سے چلی جاؤں گی ۔۔۔” پاس سے گزرتے کئی سٹوڈینٹس کی نظروں کو خود پہ پاتے وہ خائف سی ہوتے بولی تھی۔۔۔ کہ ویام نے ماتھے پہ بل سجائے اسے دیکھا۔۔۔۔
میں چھوڑ آتا ہوں ۔۔۔ چلو۔۔۔۔۔۔ ” اسنے پاس سے گزرتے عیناں کو گھورتے اس لڑکے کو دور تک جاتا دیکھ جبڑے بھینجتے کہا تھا۔۔۔ عیناں سر ہلاتی اسکے ساتھ چلنے لگی۔۔۔۔۔
جو اسکا ہاتھ تھامے کئی لڑکے لڑکیوں کی نظروں کو خود پہ پاتا بھی انجان سا بنتا اوپر اسکی کلاس میں داخل ہؤا۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر کے آنے میں ابھی وقت تھا جبھی تمام سٹوڈنٹس ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے۔۔ عیناں کے ساتھ کسی لڑکے کو دیکھ سب ہی خاموش ہوئے تھے جبکہ لڑکیاں تو اسکے حسین چہرے کو کافی غور سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
ویام نے ایک بھرپور نظر پوری کلاس پہ ڈالی اور گلاسز اتارتے پاکٹ میں رکھے۔۔۔۔ عیناں کا ہاتھ تھامے وہ عین کلاس کے بیچ کھڑا ہوا۔۔۔
عیناں تو شرمندہ سی اسکی اگلی حرکت کا سوچ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ یہاں آنے کے بعد ویام کو دوبارہ سے کچھ دن پہلے کا گزرا واقعہ یاد آیا تھا۔۔ جبھی وہ خاموش سا ہو گیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اب وہ کیا کرنے والا تھا۔۔۔۔؟”
” اسے جانتے ہونگے آپ سب مگر یہ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں۔۔۔۔؟ ” عیناں کو اپنے قریب کرتے وہ بت بنے خود کو گھورتے لڑکوں کو دیکھتے گویا ہوا تھا۔۔۔۔
” میں ویام کاظمی ہوں اس یونیورسٹی کا سینیئرس سٹوڈنٹ یقیناً کچھ لوگ تو جانتے ہی ہونگے۔۔۔۔۔۔۔ وہ جاننے پہ زور دیتے ہلکا سا مسکرایا تو اسکے گال پہ ابھرتے ڈمپل کو دیکھ کئی لڑکیاں مبہوت سے اسکے حسین چہرے کو دیکھنے لگی۔۔۔ عیناں نے ایک چور نظر سامنے ڈالی مگر ویام کو گھورتی لڑکیوں کو دیکھ اسے شدید جلن اور غصہ آیا جبھی وہ ویام کا قائم کیا فاصلہ کم کرتے گردن اکڑاتے اسکے بازوؤں سے جا لگی۔۔۔۔۔
جسے محسوس کرتا مقابل دلکشی سے مسکایا۔۔۔
” یہ میری بیوی ہے میری عین ! عیناں ویام کاظمی۔۔۔ آج کے بعد کوئی بھی لڑکا اسے نہیں بلائے گا اگر کسی کو کوئی کام ہو گا تو وہ مجبوری کے طور پہ اسے بلائے تو باجی کہے گا۔۔۔۔ یہ ہمارے پاکستان میں بہنوں کو عزت دینے کیلئے بولا جاتا ہے۔۔
مجھے امید ہے کہ اب سے تم سب اسے بہن یا پھر باجی کہہ کے بلاؤ گے۔۔۔۔۔ وہ عیناں کے کھلے منہ حیرت سے پھیلی آنکھوں کو دیکھتے بولا تو سب نے آنکھیں پھیلائے عیناں اور ویام کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی مجھے جانا ہے تو اپنی باجی کا خیال رکھنا سب بھائی مل کے ۔۔ رکھو گے ناں۔۔۔۔ ؟” وہ انگلی اٹھائے سب کو وارن کرتا آخر میں مسکرایا تو سب نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔
” اپنا خیال رکھنا دل جانم ۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہو بس ایک بار مجھے پکارنا تمہارا ویام تمہارے دل میں بستا ہے کوئی بھی تکلیف تم تک پہنچے اس سے پہلے میں تم تک پہنچوں گا۔۔۔۔۔
”Every calamity that befalls you will have to face my madness first ... My Love”
( تم تک پہنچنے والی ہر تکلیف کو سب سے پہلے میرے جنون کا سامنا کرنا پڑے گا میری جان ۔۔۔۔۔ )
ویام نے محبت سے اسکے خوبصورت چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے ہونٹ اسکی پیشانی پہ رکھے تو عیناں نے سکون سے آنکھیں موندے اسکے احساس اس لمس کو اپنے اندر تک اترتے محسوس کیا ۔۔۔۔۔
اسے ڈیسک پر بٹھائے وہ ایک نظر خاموش بیٹھے سٹوڈنٹس پہ ڈالتا اسکی آنکھوں سے اوجھل ہوا۔۔۔۔۔
عینان اسکے دیے مان اس تحفظ کو محسوس کرتے خود کو مغرور سا سمجھنے لگی مگر شاید وہ جانتی نہیں تھی کہ یہ مان بہت جلد ٹونٹے والا ہے۔۔۔
ہمممممم۔۔۔۔۔۔۔ کہہ رہا ہوں کوشش کروں گا ۔۔۔۔۔ ” لب بھینجتے اسنے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کو میچتے خود پہ ضبط کرتے کہا تھا۔۔۔۔ یہ تمیز کا دائرہ کار اسے ہمیشہ مروا دیتا تھا ۔۔۔
”بھائی میرے اتنے برے دن نہیں آئے کہ میں اس چڑیل کے ساتھ گزاروں ۔۔۔ ” اسنے غصے سے فون پہ گرفت مضبوط کرتے فرش سے بے نام مٹی کو کھرچا۔۔۔ دور دور تک ٹھنڈ کے باعث پھیلی حدردجہ دھند میں وہ ڈارک چاکلیٹ کلر کی شرٹ جسکے اوپری دو بٹن کھلے تھے کندھے پہ لٹکایا بلیک کوٹ اور بلیک ہی جینز میں آنکھوں میں حدردجہ تھکاوٹ سموئے آج دو دن بعد وہ اپنے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا۔۔۔۔۔
” میں گزارنے کا نہیں نکاح کا کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔" سامنے سے اطمینان بخش جواب دیا گیا کہ انزِک ساکن سا ہوتے اسکے کہے لفظوں کو سوچنے لگا ۔۔۔۔۔
ویٹ آ منٹ۔۔۔۔۔ کیا کہا آپ نے ابھی۔۔۔۔ نکاح اور وہ بھی اس گوری چڑیل سے اللہ جانے مسلمان بھی ہے کہ نہیں ۔۔ اوپر سے اسکا بھائی۔۔۔۔۔” بھائی آج تک آپ کی ہر بات بنا بحث کے مانی ہے میں نے ۔۔۔ مگر اب یہ نہیں کر سکتا میں۔۔۔۔۔”
انزِک کی آنکھوں کے سامنے دو سراپے لہرائے تھے ۔۔۔۔ اسنے سوچ رکھا تھا کہ وہ شادی حرمین سے کرے گا اور اگر ویام نے انکار کر دیا تو سیکنڈ آپشن اسکے پاس میرب تھی۔۔۔۔۔۔ جسکے اوپر اسکا کوئی خاص دباؤ بھی تھا۔۔۔۔۔۔
مگر یہاں تو ویام اسکے زندگی کو اپنے مرضی سے گھما رہا تھا ۔۔۔۔ انزِک کا چہرہ پل بھر میں سرد پڑا تھا ۔۔ جھنجلاہٹ بےچینی کیا کچھ نہیں تھا اسکے دماغ اسکی سوچوں میں ۔۔۔۔۔۔۔”
” تجھ سے پوچھا نہیں بتا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایچ اے آر کو خبر مل چکی ہے روز کے کڈنیپ ہونے کی ۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح ہر چیز تہس نہس کر رہا ہے ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے ڈھونڈتا یہاں تم تک پہنچے تمہیں روز کو اپنے نام اپنے اختیار میں لینا ہو گا۔۔
میں کیوں کروں اس سے نکاح آپ کرپس کا کروا دیں ۔۔ ویسے بھی اسے دیکھتے ہی مجھے غصہ آ جاتا ہے کجا کے اس سے شادی ۔۔۔ وہ چیخ ہی تو پڑا تھا کہاں سوچا تھا کہ اس کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ وہ ظالم سفاک شخص یوں دو منٹوں میں کرے گا۔۔۔۔ ” وہ بظاہر خاموش طبیعت کا مالک کم بولنے والا وریام کا الٹ تھا مگر وہ دماغ میں اس سے کہیں زیادہ شاطر تھا۔۔۔۔۔ وہ ہر اس شخص پہ نظر رکھتا تھا جس کا تعلق کہیں ناں کہیں اسکے اپنوں سے تھا۔۔۔۔
وہ ایک دماغ رکھنے والا سب سے الگ سب کا احساس کرنے والا شخص تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے معلوم تھا کہ اسکے ساتھ دل سے جڑے ہر رشتے کو کہاں اور کیا تکلیف ہے وہ آنکھوں سے اوجھل رہتے ہوئے بھی سب پہ نظر رکھتا تھا ہر کسی کے غم کو ختم کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ وہ پل بھر میں روپ بدلتا تھا وہ ایسا ہی تھا۔۔۔۔ کبھی مسکراتے ہوئے سنجیدہ ہو جاتا تو کبھی سنجیدگی سے جنون پہ اتر آتا ۔۔۔۔۔ وہ خاموش تھا کیونکہ وہ خاموش رہنا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ الگ تھا سب سے تبھی تو خاص تھا۔۔۔۔۔”
اب تم مجھے بتاؤ گے کہ تم کیا کرو گے انزِک ۔۔۔۔۔۔۔” ابکی بار اسکا لہجہ سخت ہوا تھا انزِک نے سرد ہوتی آنکھوں کو بند کیے اپنے نچلے ہونٹ کو بری طرح سے کچلا ۔۔۔۔۔۔۔
” سوری بھائی ۔۔۔" وہ جانتا تھا ویام کا فیصلہ آج تک اسکے لیے سب سے بہتر ہوا تھا ویام کے ساتھ کی وجہ سے ہی تو وہ اپنی جاب اور اپنے شوق دونوں کو ساتھ لیے آسانی سے چل رہا تھا ۔۔۔۔ ”
انزِک ایک بات یاد رکھو اس دنیا میں ہر انسان نے بہت کچھ فیس کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔ تب جا کے وہ اپنی منزلِ مقصود کو حاصل کرتے ہیں ۔۔ مجھے وہ انسان زہر لگتے ہیں جن کے سامنے ہمیں بار بار اپنی اہمیت بیان کرنی پڑے ۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا اگر تم اسے اپناؤ گے تو دل سے قبولے گے ۔۔۔۔ اس کے نام سے جڑنے کے بعد اسکے دل تک رسائی حاصل کرو گے تم۔۔۔۔۔۔ وہ نا سمجھ سی بچی ہے ابھی ۔۔۔۔۔ جسے خود نہیں پتہ تھا کہ وہ اس لڑکے سے شادی کر کے خود کو کتنی بڑی مصیبت میں پھنسا رہی تھی ۔۔۔ تمہارا انتخاب میں نے اس لیے کیا ہے کیونکہ تم میری عین کے بھائی ہو۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو لڑکیوں کا حساس ہونا انکے جذباتوں کا الگ ہونا۔۔۔۔۔۔۔ ”
ایچ اے آر کے پہنچنے سے پہلے ہی تمہیں روز کو خود سے دور جانے سے روکنا ہو گا۔۔۔۔ یہ سب کیسے ہو گا یا پھر تم کیسے کرو گے یہ تم پہ ڈیپنڈ کرتا ہے مگر صرف دو دن ہیں تمہارے پاس۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا کھیل خراب ہو ۔۔۔۔۔ ”
کچھ تو خاص کچھ عجیب سا تھا اسکے لہجے میں ۔۔۔۔ جسے انزِک محسوس تو کرو پایا تھا مگر جان نہیں پا رہا تھا۔۔۔ِ
تمہارے ڈاکیومنٹ کمپلیٹ ہیں میرے پاس ۔۔۔۔۔ اب یہ تم پہ ہے کہ تم اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے کیا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔”
اپنے ہاتھ میں موجود اس نیلی فائل کو دیکھ ویام نے شاطرانہ انداز میں مسکراتے انزک کو چاروں شانے چت کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بری طرح سے پھنس گیا تھا ویام کے جال میں ۔۔۔۔۔۔ اسے افسوس ہو رہا تھا اب کہ آخر کیوں وہ ویام کے آگے اپنے حال دل کو بیاں کر چکا تھا اپنی زندگی کے مقصد کو اسکے سامنے عیاں کیا تھا جو دن رات اسے ڈراتا رہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اگر میری بہن کا معاملہ ناں ہوتا تو آئی سویر اس سالے کو میں اپنے ہاتھوں سے ختم کرتا۔۔۔۔۔ اس سے اچھے تو وریام انکل ہیںں۔۔ جو جو ہیں سامنے ہیں۔۔۔۔ اس میسنے کی طرح پیٹھ کے پیچھے وار نہیں کرتے۔۔۔۔ اللہ جانے یہ کمینہ کس پہ چلا گیا ۔۔۔۔”
اسکی عزت صرف ویام کے سامنے ہی واجب تھی باقی وہ خود پہ لازم نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔۔۔۔
روز میڈم ۔۔۔۔۔۔ اب تو آپ کو ایک بار چیک کرنا پڑے گا آخر تم ہو کیا بلا ۔۔۔۔۔۔۔” فون پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وہ اپارٹمنٹ کو گہری نظروں سے دیکھتا بڑبڑاتے اندر کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
” سس سنیں پہ پلیز مجھے جانے دیں ۔۔۔۔۔۔۔” وہ بشمکل سے ہمت کرتے باہر نکلی تھی ۔۔۔ ۔۔ دبے قدموں سے اسے تلاشتے وہ اوپر ایل کے ایکسرسائز روم میں پہنچی جہاں وہ شرٹ لیس پھولتے سانس کے ساتھ پش اپس لگا رہا تھا۔۔۔۔۔
” کانوں میں ایک جانی پہنچانی سی باریک مدہم آواز کے پڑتے ہی اسکی نیلی آنکھوں میں عجیب سا تاثر ابھرا ، وہ گردن گھمائے دروازے کے بیچ کھڑی اس معصوم کو گھورنے لگا ۔۔۔۔۔۔ جس کا سانس اسکے دیکھنے پہ ہی سینے میں اٹکنے لگا تھا۔۔۔۔۔
”پپ پلیز مجھے جج جانے دیں ۔۔۔۔۔۔۔” ایل کی چوڑی پشت اسکے ہاتھ میںں موجود ٹاول جس سے وہ اپنا پسینہ صاف کر رہا تھا اس سے ہوتے حرمین کی نظریں اسکی سلیقے سے بندھی پونی پہ اٹکی ۔۔۔۔۔ وہ بکھرا ہوا سا شخص جس میں نفاست صرف بالوں کے معاملے میں تھی۔۔۔۔ ڈارک گولڈن بال جو اسکے دونوں اطراف کندھوں پہ بکھرے اسکے خوبصورت چہرے اور نقوش کو مزید جاذب نظر بناتے تھے ۔۔۔ ۔۔ بازوؤں سے ابھرتی نیلی رگیں اسکی کسرتی جسامت کی نشاندھی تھی۔۔۔۔۔۔۔
” کس خوشی میں واپس جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔” ایل نے پاس پڑا ڈمبل اٹھائے ایکسرسائز کرتے سرد مگر بھاری لہجے میں پوچھا تو حرمین کا سانس خشک ہونے لگا وہ ڈر سے خاموش ہوتی خود میں سمٹ گئی۔۔۔۔۔
اسکی جانب سے جواب ناں پاتے وہ ماتھے پہ پل لیے مٹا تھا مگر سامنے ہی وہ معصومیت سے نظریں زمین پہ ٹکائے اپنے دونوں ہاتھ سینے کے گرد لپیٹے کسی مجرم کی طرح کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ کچھ تو خاص تھا اس میں جو ایل کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔۔۔۔۔۔
۔ وہ سرد نظروں سے اسے گھورنے لگا ۔۔۔۔۔ اسکے سراپے کو سر تا پاؤں گھورتے ایل کی نظریں اسکے آدھ کھلے ہونٹوں پہ پڑی ۔۔۔۔ حلق میں کانٹے سے چھبنے لگے ۔۔۔۔۔ وہ اپنی ہی کیفیت سے جھنجھلا چکا تھا ۔۔۔۔۔ جبھی لب بھینجتے وہ مڑا کہ دھڑکنیں ساکت سی ہو گئی تھی اسکی آنکھیں ایک ہی منظر پہ ٹک گئی۔۔۔سانس اٹک سا گیا ۔۔۔۔۔
وہ مبہوت سا اسے دیکھتا رہ گیا جو حسن کی مورت بنے اپنے نچلے ہونٹ کو دبائے کھڑی تھی اسکے گال پہ ابھرتا ڈمپل کسی مہکتی وادی کا سا گماں کرتا تھا جس کو دیکھتے اسکی سیر کرنے اسے چھونے کا من چاہتا تھا جیسے۔۔۔۔۔۔۔”
وہ بے ہودی میں قدم اٹھائے اس نازک وجود کے قریب تر ہونے لگا ۔۔۔۔ فضا میں آج بھی اسکی وہی مدہوش کن خوشبو بکھری تھی جو ایل کو پاگل کیے دیتی تھی۔۔۔۔۔ حرمین اسکے بڑھتے قدموں سے خائف ہوتے پیچھے ہونے لگی ۔۔۔۔۔
” اسکے چہرے اسکی نیلی آنکھوں میں دھری وخشت حرمین کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی تھی۔۔۔۔۔۔وہ تھوک نگلتے پیچھے کو بڑھنے لگی کہ معا اپنی گردن کے گرد مقابل کے بھاری ہاتھ کے لپٹتے ہی ڈر خوف و وخشت سے اسکی چیخ نکلی تھی۔۔۔۔۔
جب مقابل نے اس سے پانچ قدموں کے فاصلے سے ہی اسے پکڑتے رخ اپنی جانب کیا۔۔۔۔۔۔۔
کہاں گیا وہ ۔۔۔۔۔” اسکے چہرے کو قریب تر کرتے ایل نے وخشت سے بھاری لہجے میں غراتے ہوئے پوچھا جبکہ حرمین تو اسکے اتنے قریب ہونے اسکے وجود سے اٹھتی خؤشبو ، اپنے چہرے پہ اسکی گرم جھلسا دینے والی سانسوں کو محسوس کرتے ہی سانس روک چکی تھی ۔۔۔۔۔
دھڑکنوں میں اودھم سا برپا ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ مگر وہ نازک سی جان مقابل کھڑے اس شخص کی وخشتوں سے انجان اسے بری طرح سے اپنے حسن میں جکڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔
دکھاؤ مجھے وہ ۔۔۔۔۔۔” ایل نے ایک ہاتھ اسکی کمزور سی کمر کے گرد حائل کرتے اسے خود سے قریب تر کیا تو حرمین کسی انجان کے اس قدر قریب ہونے پہ سہم سی گئی ۔۔۔۔کالی جھیل سی آنکھیں میں وخشتیں خوف ناچنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
مگر اسکے یوں ہی خاموش رہنے پہ ایل نے جنونی انداز میں غصے سے اسکے جبڑوں کو دبوچتے بری طرح سے اسکے منہ کو دبوچا کہ اسکے بھاری ہاتھ کی گرفت پہ وہ نازک سی جان لرز پڑی ۔۔۔۔۔ مگر ایل کو اس وقت صرف اپنی طلب سے مطلب تھا ۔۔۔۔
جبھی اسنے ہاتھ سے اسکے جبڑوں کو دبوچتے اندر کیا تھا ۔۔۔۔۔ حرمین کی بند آنکھوں کو دیکھ ایک بار پھر سے ایل کی نظر اسکے گالوں پہ گئی تھی۔۔۔ وہ بنا توقف کے جھکتے اپنے دہکتے آگ کے مانند جھلسا دینے والے ہونٹ حرمین کے گال پہ رکھ گیا ۔۔۔۔۔۔
اپنے چہرے پہ اسکی ظالم گرفت اسکے جھلسا دینے والے ہونٹوں کا لمس اپنے گال پہ محسوس کرتے حرمین کو لگا کہ جیسے وہ اگلا سانس بھی نہیں لے پائے گی ۔۔۔۔ جبکہ مقابل مدہوش سا اسکے نازک وجود کو خود میں سمیٹتا اسکے گال پہ ہونٹ رکھے اس احساس کو محسوس کرنے لگا ۔۔۔۔۔
اسکے ہونٹوں کے جان لیوا لمس پہ حرمین کی آنکھوں سے خوف و ڈر سے گرم سیال ابھرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ وہ بےاواز مگر بےتخاشہ رونے لگی ۔۔۔۔۔۔
اسکے آنسوں کو اپنے ہونٹوں کے نیچے محسوس کرتے ایل نے سرخ پڑتی نظریں اٹھائے اسے دیکھا جو ہاتھ بلا ارادہ ہی اسکے سینے پہ دل کے مقام پہ رکھے آنکھیں موندیں لرزتی ہوئی سی ایل کی دھڑکنوں کو ساکن کر گئی۔۔۔۔۔۔
کچھ خاص ہے اس میں بہت خاص ۔۔۔۔۔ جو مجھے اسکی جانب کھینچتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کار ایسا کیا خاص ہے جو اس سینے میں بند پڑا خون کا لوتھڑا آج حرکت میں آیا ہے۔۔۔۔۔
حرمین کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی پشت کو دیکھ وہ انگوٹھے سے اپنے ہونٹ کو چھوتے دلکشی سے سوچتے مسکرایا ۔۔ِ۔
💥💥💥💥💥💥
” چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے اذلان ۔۔۔۔۔۔۔” وہ غصے سے اپنے ہاتھ پہ اسکی جارخانہ گرفت پہ چیختے بولی تھی۔۔۔۔۔۔ اذلان نے ذرا سی گردن ترچھی کیے اپنے ساتھ بیٹھی اپنی پٹاخہ بیوی کو دیکھا جس کا چہرہ بالکل سرخ ہوا پڑا تھا جبکہ ہونٹ کے کنارے سے بہتا خون اذلان کو مزید بےخود کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
خبردار جو اب مجھے یوں گھورا آنکھیں نیچی کرو اپنی ۔۔۔ ۔ اسکی بےباک نظروں کو اپنے ہونٹوں پہ ٹکا پاتے الایہ نے غصے سے اپنے ہونٹ سے بہتے خون کو بائیں ہاتھ سے رگڑا تھا۔۔۔۔۔۔
” دیکھنے والی چیز ہو اوپر سے حق بھی رکھتا ہوں تم دیکھنے کی بات کرتی ہو میں تو چھونے کے بھی سارے حقوق کا مالک ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ” گاڑی ریورس کرتے اذلان نے جھٹکے سے اسکے بازوؤں کو کھینچا تو وہ ایک دم سے اسکے باززوں سے آ لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔الایہ کا چہرہ غصے سے سرخ انگارہ ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔
اسے صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ شخص آہستہ آہستہ اسکے حواسوں پہ طاری ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکے ناخن کو پکڑ وہ اب اسکی زندگی کا مالک بننے کا خواہش مند تھا مگر الایہ ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی میں یہ محبت دوستی الفت یہ سب صرف بےنام کے رشتے ہیں۔۔۔۔اس حقیقت کو وہ بہت پہلے ہی تسلیم کر چکی تھی اب وہ پھر سے خوش فہم نہیں بن سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم جانتے ہو اذلان علوی تمہارے جیسا گٹھیا انسان ایسا ہی کچھ کر سکتا ہے۔۔۔ جب دل چاہا نکال دیا جب دل چاہا دوبارہ سے اپنا لیا۔۔۔۔۔ اب بھی تم اسی لئے واپس آئے ہو میری زندگی میں کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا کہ کوئی چیز جس پہ تمہارا حق ہو تم اسے استعمال کیے بنا ہی چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر یوں وقت برباد کرنے کا کوئی فائدہ۔۔۔۔ یہ ناٹک یہ دھکلاوا سب چھوڑو اور اپنے اصلی روپ میں آ جاؤ وہ روپ جس سے میں بخوبی واقف ہوں۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی تم تو حق کیا حقوق رکھتے ہو مجھ پہ نوچ لو میرے وجود کو کر لو اپنی خواہش پوری ۔۔۔۔ جس کو پورا کرنے کے لئے تم اتنی دور سے آئے ہو یہاں ۔۔۔۔۔۔”
اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ ایک ایک لفظ میں اپنے اندر آج تک پلتا وہ زہر وہ نفرت سب کچھ گھول رہی تھی وہ آگ جس میں آج تک وہ جلی تھی اس کی آنچ آج اذلان کے وجود پہ انڈیلتے وہ خود کو پرسکون کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔
اذلان نے توہین ختک کے شدید احساس سے سثیرئنگ پہ مضبوطی سے گرفت کرتے گاڑی کو جھٹکے سے روکا اور ایک دم سے اسکی گردن کو اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لیتا وہ اسے چیخنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔
” کیا کہا تم نے ابھی میں اتنی دور سے یہاں صرف تمہیں نوچنے کے لئے آیا ہوں ۔۔۔۔۔ تم سے اپنا حق وصول کر کے تمھیں دوبارہ سے بےمول کر کے چھوڑ دوں گا۔۔۔۔ اگر تم ایسا سوچتی ہو تو سن لو الایہ اذلان علوی ۔۔۔۔۔۔ تمہاری یہ سوچ بالکل درست ہے۔۔۔۔۔۔”
الایہ کی آنکھیں آنسوں سے تر ہونے لگی تھی اپنی گردن پہ اسکا بھاری ہاتھ اسکی سانسیں روکنے لگا اذلان کی تیکھی مغرور ناک اسکی ناک سے مس ہوتے اسکی وجود میں سنسنی سے دوڑا گئی۔۔۔۔ مگر اسے کے کہے الفاظ الایہ کے وجود کو پل بھر میں سرد سا کر گئے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے یقنی سی اپنی سانسوں کے قریب تر_________ بے حد قریب اس مغرور کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ جس کے کہے الفاظ آج پھر سے اسکی اذیت بڑھا گئے تھے۔۔۔۔۔
الایہ نے غصے سے اپنے دائیں ہاتھ کا زور دار مکہ اسکے چہرے پہ رسید کیا تھا یہ سب بالکل غیر متوقع تھا اذلان کی ناک سے خون پھوارے کی مانند بہتا اسے چونکنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ سنبھلتا کہ الایہ کا ایک اور وار اسکے جبڑوں کو ہلا گیا ۔۔۔۔۔ وہ بمشکل سے اسکے ہاتھوں کو قابو کیے اپنے چکراتے سر کو تھامتا اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
جو شیرنی بنی اسے پھاڑنے کے در پہ تھی۔۔۔۔۔ اذلان نے اسکے حسین چہرے اور اسٹائلش ہئیر اسٹائل کو بھرپور نظروں سے دیکھ اپنے ناک اور ہونٹ کے قریب سے بہتے خون کو صاف کیا۔۔۔۔۔۔
ویری امپریسو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ معنی خیز لہجے میں کہتے جھٹکے سے اسکی گردن کو دبوچتے الایہ کے سرخ ہونٹوں کو اپنی ہونٹوں کی دہکتی گرفت میں لے گیا ۔۔۔ اسکے شدت بھرے لمس پہ وہ جھپٹتے اس جانور کو خود سے دور کرنے لگی ۔۔۔ جسکی جنونیت پہ الایہ کی روح تک لرز گئی تھی۔۔۔۔ مگر اذلان تو جیسے اسکی سانسوں کو اپنی دہکتی سانسوں میں الجھائے اپنی روح تک کو سیراب کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ اذلان نے ہاتھ اوپر اسکے جوڑے میں پھنسائے جھٹکے سے اسکے بالوں کو بکھیرا جو الایہ کے ہونٹوں کو قید کیے اذلان کے اوپر گرتے سایہ سا کر گئے ۔۔۔۔۔۔۔
اسکی بڑھتی شدتوں پہ الایہ کا سانس بھاری ہونے لگا ۔۔۔۔ وجود میں جیسے آخری سانسیں بچی تھی جنہیں وہ بڑے سکون سے خود میں اتار رہا تھا۔۔۔۔۔۔ الایہ نے ناکام سی کوشش کرتے اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔۔ اذلان نے سرخ نظروں سے الایہ کی بند ہوتی آنکھوں میں دیکھ نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دی تو وہ بےجان سے ہوتے اسکے سینے سے لگتے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔۔ اذلان کا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل تھا جبکہ دوسرا ہاتھ سے وہ اسکے بالوں کو سہلاتے اپنے آپ کو پرسکون کر رہا تھا۔۔
الایہ کی خؤشبو اسے بے بس کرنے لگی تھی وہ جنونی بنتا جا رہا تھا یا شاید وہ شروع سے ہی اسکے معاملے میں ایسا تھا ۔۔۔۔۔
” میری ذرا سی قربت تو برداشت نہیں ہو پاتی ۔۔۔ سوچو جب تمہارے مطابق میں تمہارے وجود کو نوچوں گا تو پھر کیا خشر ہو گا تمہارا ۔۔۔۔۔۔ اسکے چہرے کو تھوڑی سے پکڑتے اونچا کیے وہ بھاری لہجے میں سرگوشی کرتے اسکی جھکی پلکوں کو دیکھتا الایہ کے چہرے پہ لگے اپنے خون کو انگوٹھے سے صاف کرتے اسکے ہونٹوں کو سہلاتے پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
” ہاں ایک اور بات بیوی کو نوچا نہیں جاتا بلکہ وہ تو سکون ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی وہ لمحے میسر ہوئے تب تمہیں ڈیٹیل سے سمجھاؤں گا کہ نوچنے اور معتبر کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔”
الایہ کی گردن کو اپنے دہکتے ہونٹوں سے چھوتے وہ بھاری سرگوشیاں کرتے اسے بےچین سا کر گیا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
” بیٹا بھاؤں کہاں گیا ہے کچھ علم ہے آپکو ۔۔۔۔۔۔” وہ سب اس وقت حال میں بیٹھے تھے جہاں سب خواتین رات کے کھانے کا سامان بنا رہی تھیں ۔۔۔۔۔
نن نہیں مجھے نہیں پتہ وہ کہاں گئے ہیں۔۔۔۔” سب کی نظروں سے خائف ہوتے وہ نظریں ہی جھکا گئی۔۔۔۔۔
بلیک کلر کے سوٹ جسکے بارڈر اور دوپٹے کے کناروں پہ گولڈن مکیش سے کافی خوبصورتی سے کام کیا گیا تھا۔۔ سر پہ دوپٹہ خجاب اسٹائل لپیٹے وہ کافی معصوم دکھ رہی تھی ۔۔۔۔ اسکی سرخ آنکھیں رات بھر جاگنے کی غمازی کرتے ذوہا کو بےچین کرنے لگی ۔۔۔۔۔
” کیسی بیوی ہو تم اپنے شوہر کے آنے جانے کا ہی معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔” اسنے جلے دل سے اسکے حسین چہرے کو دیکھتے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹا۔۔۔۔۔۔
و وہ مم مجھے بتا کے نہیں گئے ۔۔۔۔۔۔۔”,وہ سب کے سامنے شرمندہ سی انگلیاں مسلنے لگی ۔۔۔۔ بؤاں نے غصے سے ذوہا کو گھورا اور پھر کر آرائش و زیبائش سے پاک حیا کے معصوم چہرے کو ہاتھوں میں تھاما ۔۔۔۔۔۔ بیٹا اس میں کوئی بڑی بات نہیں آتا ہی ہو گا اسے عادت ہے یونہی رات کو کبھی کبھار کام سے چلا جاتا ہے مگر تم فکر مت کرو آتا ہی ہو گا کہیں سے۔۔۔۔۔۔۔۔”
پیار سے اسکی تھوڑی کو چھوتے وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ تو حیا نے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔۔۔
ویسے تم نے بتایا نہیں کہ بھاؤں کو تم کہاں سے ملی کہاں سے اٹھا لایا وہ تمہیں _____ لگتا تو یہی ہے کہ زبردستی اسکے گلے پڑی ہو تم۔۔۔۔۔۔”
ذوہا کو کہاں چین تھا حیا کے ساتھ سب کا نارمل محبت بھرا سلوک اسکے تن بدن کو آگ لگا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
ذوہا تمیز سے بات کرو تم۔۔۔۔۔۔ بڑی ہے وہ تم سے ۔۔۔۔۔۔” بؤاں کو اسکا لہجہ چبھا تھا دل چاہا کہ بنا لخاظ کے دو چار تھپڑ جڑھ دیتی۔۔۔۔مگر سب کی موجودگی کا خیال انہیں اپنا غصہ دبانے پہ مجبور کیے ہوئے تھا۔۔۔۔۔۔
” ہنہہہہ_________ بڑی کہاں کی بڑی، کہاں کی تمیز اماں یہ تو مجھ سے چھوٹی دکھتی ہے اسی لیے تو اپنے نوخیز حسن کے جلوے دکھا کر اسنے میرے بھاؤں کو مجھ سے چھین لیا ۔۔۔۔۔۔۔”
ابکی بار وہ چپ نہیں رہی تھی دو دن سے اسکے اندر پکتا لاوا آج سب کے سامنے اس طوفان کی صورت باہر نکلا تھا۔۔۔۔۔ بؤاں نے جبڑے بھینجتے اپنی اس خودسر بیٹی کو دیکھا حال میں موجود سبھی خواتین ہلکی سی سرگوشیاں کرتے ذوہا کے اس انکشاف پہ دھنگ تھی ۔۔۔۔۔
جبکہ حیا تو اسکے میرا بھاوں کہنے پہ ہی ساکت سی ہو گئی۔۔۔۔۔ دل میں ایک عجیب سی جلن ہوتی محسوس ہوئی تھی اسے۔۔۔۔۔۔
میری عمر اٹھائیس سال ہے کوئی بیس سالہ چھوٹی بچی نہیں ہوں میں۔۔۔۔ آپ سب کے بھاؤں نے زبردستی مجھے میری مایوں کے دن بلیک میل کر کے شادی کی ہے مجھ سے اور ہاں دوسری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے کوئی جلوے نہیں دکھائے اپنے حسن کے بلکہ وہ خود ہی میرے پیچھے پاگل تھا تبھی تو خود سے ایک سال بڑی لڑکی سے زبردستی شادی کر لی۔۔۔۔۔۔”
ذوہا کے سامنے کھڑے ہوتے وہ غصے سے آگ بگولہ بنے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے بولی تھی۔۔۔۔۔ اسکے ماں باپ نے اسے صبر کرنا سکھایا تھا مگر اپنے کرادر کے معاملے میں وہ کسی کی بھی برداشت نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ تو پھر ذوہا کی کیسے کر لیتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” اگر آپ میں سے کسی کو برا لگا ہو تو معذرت مگر میں ہر چیز برداشت کر سکتی ہوں مگر جو انگلی میرے کردار پر اٹھائی جائے میں اسے کبھی بھی سالم نہیں چھوڑتی چاہے پھر وہ کوئی بھی ہو۔۔۔..” بؤاں کی جانب دیکھتے وہ سرخ چہرے سے مٹھیاں بھینچے سامنے کھڑی ذوہا پہ ایک نظر ڈالے وہاں سے نکلی تھی۔۔۔۔۔۔۔
” کیا میں نے ٹھیک کیا ۔۔۔۔۔۔” کمرے کا دروازہ لاک کرتے حیا کو اب اپنے کیے پہ شرمندگی سی ہونے لگی اگر بھاؤں کو علم ہوا کہ میں نے سب کو بتا دیا سارا سچ تو پھر وہ کیا کرے گا ۔۔۔۔۔۔ حیا نے سوچتے تھوک نگلتے اسکے رات کے روپ کو یاد کیا ۔۔۔ تو دل ہی دل میں وہ دہل سی گئی تھی ۔۔۔ اب جانے کیا ہونے والا تھا۔۔۔۔"
معا دروازے پہ ہوتی دستک کو سنتے حیا کا دل جیسے اچھلتے منہ کو آیا تھا چہرے پہ ڈر سے پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہونے لگے وہ خشک خلق کو تر کیے دبے دبے قدموں سے گھبراتے دروازے کے قریب جاتے بمشکل سے کپکپاتے ہاتھوں سے لاک کھولتے آنکھیں میچ گئی۔ اسے لگا تھا کہ یقیناً بھاوں ہی آیا ہو گا اور آتے ساتھ ہی اسے بری طرح سے ڈانٹے گا ۔۔۔
ایا باجی ۔۔۔۔۔۔۔ دروازے کے ایک طرف آنکھیں بند کیے کھڑی کپکپاتی حیا کو دیکھ مٹھو نے اسے حیرت سے پکارا جو جھٹ سے آنکھیں کھولے مٹھو کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔ جس کے ہاتھوں میں دو بڑے بڑے باکس تھے ۔۔۔۔ حیا نے آگے ہوتے امن کو تلاشہ مگر وہ کہیں نہیں تھا۔۔۔
بھاؤں کام سے گیا ہے کہیں ۔۔۔۔۔ یہ کچھ سامان بھیجا ہے اسنے آپ کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔”
مٹھو نے بتاتے ساتھ ہی اپنے ہاتھوں کی جانب اشارہ کیا تو حیا نے آنکھیں پھیلائے جھکتے ان بیگز کو تھاما۔۔۔۔۔۔
شکریہ ۔۔۔۔۔۔ وہ مروتا مسکراتے ہوئے بولی تو مٹھو کھل کے ہنسا۔۔۔۔۔
اچھا میں چلتا ہے ۔۔۔۔۔” اسکا دل حیا سے بات کرنے کا چاہ رہا تھا مگر آتے وقت بھاؤں کی دی دھمکی یاد آتے ہی وہ جھرجھری لیتا حیا کی نظروں سے اوجھل ہوا۔۔۔۔۔
حیا نے سکھ کا سانس لیتے دروازے کو اندر سے لاک کیا۔۔۔۔۔۔۔ اور چلتے بیڈ کے قریب جاتے اسنے ہاتھ میں تھامے بھاری بیگز بیڈ پہ رکھے۔۔۔۔۔۔
میرے لئے کیا بھیجا ہو گا امن نے۔۔۔۔۔۔ چیک کرنا چاہیے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔” اپنی سوچوں میں الجھی وہ فورا سے فیصلہ کرتے ان ریپرز کو اتارنے لگی ۔۔۔۔ جو کافی ٹائٹلی پیک کیے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔
آخر بڑی انتھک محنت کے بعد وہ ایک بیگ کو ریپ سے نکال چکی تھی ۔۔۔۔۔ گہرا سانس بھرتے حیا نے تھوڑی کھجاتے ہونٹوں کو پھیلایا ۔۔۔۔۔ اور جھکتے اسنے بیگ کو کھولتے اپنا ہاتھ اندر ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔
استغفرُللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اپنے ہاتھ میں سرخ رنگ کی شارٹ سی سلیو لیس میکسی کو دیکھ حیا نے ڈرتے اسے دور اچھالتے اللہ سے معافی مانگی تھی ۔۔۔۔ اسکا چہرہ پل بھر میں سرخ پڑ گیا ۔ شرم و حیا سے چہرہ دہکنے لگا ۔۔۔۔۔ حیا نے ایک چور نظر آگے پیچھے ڈالے خود کو حوصلہ دیا کوئی بھی تو نہیں تھا وہاں ۔۔۔۔۔۔
یہ سب کک کیوں ببب بھیجا اس نے ۔۔۔۔۔۔” کپکپاتے ہاتھوں کو اپنے چہرے پہ پھیرتے حیا نے غائب دماغی سے خود سے بڑبڑاتے پوچھا تھا اور پھر ایک نظر فرش پہ اپنی ناقدری پہ روتی پڑی اس میکسی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔ ایک دم سے امن کی رات کو کہیں باتیں اسکی بھاری سرگوشیاں اسکے کانوں میں گونجنے لگی ۔۔۔۔۔۔
” وہ سمجھ گئی تھی کہ امن اسے ان کپڑوں میں دیکھنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔” حیا کا سانس سینے میں الجھ سا گیا ۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ اگر کہہ رہا تھا تو وہ کر بھی گزرے گا ۔ تو پھر اسکے بعد اسکے بعد کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ اگر اسنے مجھے حاصل کرنے کے بعد چھوڑ دیا تو پھر ۔۔۔۔۔۔”
اسکا دماغ بری طرح سے معاوف ہونے لگا ۔۔۔۔۔ وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔اگر امن نے مجھے چھوڑ دیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔” اسکے آگے اسے سوچنے سے بھی ڈر لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
اٹھائیس سالوں تک اپنے ماں باپ پہ بوجھ بننے کے بعد وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ دوبارہ انکی اذیت کا باعث بنے ۔۔۔ دنیا انہیں طعنہ دے کہ انکی بیٹی گھر بھی ناں بسا سکی۔۔۔۔۔۔
افففف اللہ جی مجھے کوئی راہ دکھائیں ۔ وہ رونے لگی بری طرح سے ۔۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبھی اسنے ایک دم سے اٹھتے آئینے کے سامنے جاتے اپنے آنسوں صاف کرتے خود میں ہمت پیدا کی۔۔
امن کے آنے سے پہلے ہی میں دور چلی جاؤں گی یہاں سے ۔۔۔۔اتنی دور کہ وہ چاہ کر بھی مجھے ڈھونڈ ناں پائے گا۔۔۔۔۔۔۔
ایک عزم سے سوچتے وہ خود کو ایک بڑی سے چادر میں لپیٹے کمرے سے نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بلڈ ریڈ کلر کی میکسی جس کے گلے پر بلیک پرنٹڈ کامدار جالی لگی تھی ۔۔۔۔۔ دودھیا شفاف ہاتھوں میں سے ایک پہ بریسلیٹ پہنے ، اپنے گولڈن کرل کیے بالوں کو دونوں کندھوں پہ ڈالے وہ آنکھوں پہ بلیک اور ریڈ ڈیول ماسک ڈالے انہماک سے کب سے کھڑے اس شخص کی پشت کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔
کیا ہوا کہیں دل تو نہیں آ گیا اس پہ۔۔۔۔۔۔۔” اسکی یاسیت نوٹ کرتے مائیکل نے ڈرنک کا آخری سپ لیتے خالی گلاس میز پر رکھا اور ہاتھ لیلی کے پیچھے پھیلائے وہ گردن اکڑاتے سب کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
لیلی نے چونکتے مائیکل کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
لیلی کو کبھی عام چیزیں پسند نہیں آتی مائیکل اور وہ لڑکا جو بلیو ڈنر سوٹ میں ہے اسکی پرسنالٹی مجھے کسی کی یاد دلا رہی ہے ۔۔۔۔۔ کچھ تو خاص ہے اس میں جو لیلی کی نظریں اس سے ہٹ نہیں پا رہی ۔۔۔۔۔۔۔ سگریٹ کا کش لیتے لیلی نے دھواں مائیکل کے چہرے پہ چھوڑتے کہا تھا۔۔۔
مائیکل نے بغور اس کشادہ سینے ، چوڑے وجود کے مالک نوجوان کو دیکھا ۔۔۔۔۔ جو ایک ہاتھ میں وسکی کا گلاس تھامے ہوئے تھا جبکہ اسکا دوسرا ہاتھ ایک نازک سی لڑکی کی کمر کے گرد حائل تھا۔۔۔۔۔ وہ حرکتوں سے بالکل کوئی لوفر ٹائپ لڑکا لگا اسے۔۔۔۔
تمہیں اس میں کیا خاص لگا لیلی ۔۔۔۔۔۔ مقابل کو اس کے ساتھ کھڑی لڑکی کے چہرے پہ جھکتا دیکھ وہ حیرت سے کنگ لیلی سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔۔۔ لیلی اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔۔۔
وہ جو دونوں ہاتھوں میں اس لڑکی کے چہرے کو تھامے اس ہونٹوں پہ جھکنے لگا تھا اچانک سے اپنے کندھے پہ کسی نازک لمس کو محسوس کرتے وہ چونکتے مڑا ۔۔۔۔۔۔۔
"Yes darling tell me what I can do to help you"
(یس ڈارلنگ بتاو میں کیا مدد کر سکتا ہوں تمہاری )
اپنے پیچھے کھڑی اس حسین عورت کو دیکھتا وہ سیدھا کھڑے ہوتے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے مسکراتے بےباکی سے بولا تو لیلی نے ایک ادا سے بالوں کو جھٹکا۔۔۔۔۔۔
بلیک ماسک میں سے جھلکتی اسکی بھوری شریر نظریں اسے پل بھر میں وریام کاظمی کی یاد دلا گئی۔۔۔۔۔۔ اتنی مشابہت بھلا کیسے۔۔۔۔ وہیں شرارتی مسکراتی آنکھیں وہیں قد و قامت وہیں بھاری آواز وہیں چھا جانے والی پرسنالٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔
”You're not as handsome as Layla looks, young man”
تم اتنے حسین نہیں ہو جنتے لیلی کو لگ رہے ہو ، نوجوان ”
مقابل کے کالر پہ اپنی انگلی پھیرتے وہ جھٹکے سے کھینچتے اسے قریب تر کر گئی ۔۔۔۔۔۔ ویام کی بھوری آنکھیں لیلی کی نیلی کانچ سی آنکھوں پہ جمی تھی جن میں جانے کیا کچھ دفن تھا۔۔۔۔ وہ بغور اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا کہ لیلی نے سر جھکٹتے اسے خود سے دور کیا۔۔۔۔۔۔
آج کی یہ حسین شام تمہارے نام ۔۔۔۔۔۔۔” اپنا ہاتھ ایک ادا سے ویام کے سامنے پھیلائے وہ مغرور سے لہجے میں بولی تو مقابل نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے اسکے ہاتھ کو چومتے تھاما ۔۔۔۔۔۔
کلب میں مکمل خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔۔ مائیکل خود بھی سٹیج کی جانب بڑھتی لیلی اور اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا ۔۔
”Heart beats fast
Colors and promises
How to be brave?
How can I love when I’m afraid to fall?
میوزک کی تیز دھنوں میں ویام نے ایک ماہر ڈانسر کی طرح جھٹکے سے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامے اپنے جانب کھینچا وہ مہارت سے ایک اسٹیپ آگے اور ایک پیچھے لیتا لیلی کو اپنے ساتھ لیے ڈانس کرتا کئیوں کو حیران کر گیا۔۔۔۔۔
لیلی جھٹکے سے اسکی بانہوں میں جھولتے گری تو ویام نے اسے کمر سے تھامتے اسکا ایک ہاتھ اپنے کندھوں پہ رکھا دوسرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں الجھائے وہ مہارت سے اسٹیپ لیتا اسے مسکرانے پہ مجبور کر گیا ۔۔۔۔۔
But watching you stand alone,
All of my doubt suddenly goes away somehow.”
” تمہیں دیکھ کر کسی کی یاد آ گئی مجھے آج ۔۔۔۔۔۔۔” اسکے کان کے قریب جھکتے وہ میوزک کی دھنوں پہ مدہوش سی ہوتے بولی تھی۔۔۔۔۔ ویام کے گالوں میں ابھرتے ڈمپل مزید گہرے ہوئے۔۔۔۔
I have died every day waiting for you
Darling, don’t be afraid I have loved you
For a thousand years
I’ll love you for a thousand more.
” تو یقینا وہ میری نہیں مجھ جیسے دکھنے والے کی خوش قسمتی ہو گی۔۔۔۔۔ اس کی پشت کو گھماتے سینے سے لگائے وہ کان میں سرگوشی کرتا بولا اور ساتھ ہی دو اسٹیپ لیتا وہ جھٹکے سے اسکا رخ سامنے کر گیا ۔۔۔۔۔۔۔
” باتیں بہت اچھی کرتے ہو تم ہینڈسم ۔۔۔۔۔۔ اپیریسو۔۔۔۔۔ تم نے واقعی مجھے امپریس کیا ہے۔۔۔۔۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے جب میں کسی سے امپریس ہو جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھے وہ کہتے ہی کھلکھلا اٹھی اسکی کھلھلاہٹ پہ مقابل کے ماتھے پہ ایک ساتھ جانے کتنے ہی بل نمودار ہوئے تھے ہاں یہ سب وہم تو نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آواز اسکی کھلھلاہٹ کیوں اسکی عین جیسی لگی اسے ۔۔۔۔۔۔۔”
” تھینکس بٹ ابھی مجھے جانا ہے یو نو میری گرل فرینڈ ناراض ہو گئی ہے آج کی رات ہم ایک ساتھ سپینڈ کرنے والے تھے مگر جانے کیوں یہ دل بےایمان ہو گیا ۔۔۔۔۔ ویسے کافی اچھا لگا مجھے ۔۔۔۔ یہ ملاقات میں کبھی نہیں بھولوں گا مجھے امید ہے آپ بھی مجھے بہت عرصے تک یاد رکھنے والی ہیں۔۔۔۔۔ اس کے کان میں سرگوشیاں کرتے ویام نے مسکراتے گھٹنوں کے بل ہوتے اسکے ہاتھ پہ بوسہ دیا۔۔ بنا لیلی کے مبہوت ہوئے وجود کو دیکھتا وہ عجیب سی کشمکش کا شکار کلب سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔
لیلی نے مسکراتے اسکی نظروں سے اوجھل ہوتی پشت کو دیکھ اپنے ہاتھ کو چھوا جہاں ابھی تک ویام کا لمس موجود تھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
عیناں ایک بات پوچھوں۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ کلاس سے نکل رہی تھی جب اسے جینی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ جو ویام کے جانے کے بعد سے اسکے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔۔۔۔ عیناں اسکا چہکنا واضع محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
جو بار بار اس سے بہانے بہانے سے ویام کا پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔ عیناں کو الجھن ہونے لگی۔۔۔ ویام کا ذکر یوں کسی دوسرے کے منہ سے سننا اسے سخت ناگوار گزرا۔۔۔۔۔۔
” میرے پاس ٹائم نہیں جینی ویام مجھے لینے آیا ہو گا نیچے۔۔۔۔۔۔۔” بکس کو سینے سے لگائے وہ غصے سے سرخ چہرہ لیے بولی تو اسکے پھولے گلابی گال غصے کی شدت سے مزید پھول گئے ۔۔۔
” یار بس ایک بات بتا دو۔۔۔۔۔۔” عیناں کے غصے کو دیکھتے وہ دانت پیستے منت کرتے اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔۔ عیناں تیزی سے قدم اٹھائے اس سے آگے بڑھ جانا چاہتی تھی مگر جینی کہاں اسکا پیچھا چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔
” جینی جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھو مجھے جانا ہے۔۔۔۔۔ آخر وہ رکتے غصے سے جھنجھلاتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
تھینکس یار۔۔۔۔۔ وہ مجھے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ویام سچ میں تمہارا ہزبینڈ ہے۔۔۔۔۔”
آنکھوں میں الجھن لیے وہ اپنے بے بی کٹ بالوں میں عیناں کو دنیا کی سب سے بدصورت لڑکی لگی۔۔۔۔۔
یہ دیکھ لو میرا کارڈ ۔۔۔۔ نظر آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور سے پڑھ لو ۔۔۔۔یہاں پہ واضع بڑے لفظوں میں لکھا گیا ہے عیناں ویام کاظمی۔۔۔۔۔" وہ ایک ایک لفظ پہ زور دیتے غصے سے سرخ چہرہ لیے بولی تو جینی نے اداسی سے لب بھینجے۔۔۔۔۔۔ کتنا اچھا لگا تھا اسے وہ ۔۔۔۔۔ اسکی باتیں اسکا لہجہ اسکا ڈمپل وہ تو دیوانی ہو گئی تھی اس ساحر کی۔۔۔۔۔ مگر اب اپنی آنکھوں سے نام دیکھنے کے بعد اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ سچ میں عیناں کا ہزبینڈ تھا۔۔۔۔۔۔۔
” عیناں کیا اس نے تمہیں کبھی کس کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔” اپنا کارڈ اسکے ہاتھ سے جھپٹتے وہ آگے بڑھنے لگی کہ معا جینی کی نم آواز اسکے عجیب سے سوال پہ عیناں نے حیرت سے آنکھیں پھیلائے مڑتے اسے دیکھا ۔۔۔۔ جس کے لیے یہ ایک عام سی بات تھی ۔۔۔۔۔
” دیکھو جینی تم نے پوچھا میں نے بتا دیا بات ختم۔۔مجھے باکل بھی اچھا نہیں لگتا کوئی میرے شوہر پہ بلا وجہ یا پھر مجھ سے زیادہ حق جتائے۔۔۔۔۔۔ اسے جان سے مارنے کی خواہش کو دل میں دبائے وہ صاف الفاظ میں وارن کرنے لگی کیا پتہ کبھی اسکی غیر موجودگی میں وہ اسکے ویام پہ ڈورے ڈالنا شروع کر دے ۔۔۔۔
” آئی نو کہ وہ تمہارا ہزبینڈ ہے بٹ مجھے پتہ ہے تم ابھی اپنے موم ڈیڈ کے گھر رہتی ہو ۔۔۔۔تو بس اس لیے پوچھا ، پلیز ایک فیور چاہیے تھا تم سے ۔۔۔۔۔ عیناں کے ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی وہ نرمی سے بولی۔۔۔
” تم تو اس کی وائف ہو پلیز اس سے کہو کہ ایک بار مجھے اس کے ڈمپل پر کس کرنے دے۔۔۔۔ آئی پرامس صرف ایک کس کروں گی اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔”۔ اپنی شہہ رگ کو چھوتے وہ فورا سے پرامس کرنے لگی جبکہ اسکی بات پہ عیناں کا غصہ سوا نیزے پہ تھا ۔۔۔۔۔وہ لال بھبھوکا چہرہ لیے ایک دم آتش فشاں بنی اسپہ برسنے لگی ۔۔۔۔۔۔
کیا بکواس لگا رکھی ہے تم نے_______ کیوں کرے گا وہ تمہیں کس؟ کس خوشی میں ۔۔۔۔۔۔ وہ میرا شوہر ہے۔۔۔ اسکا ڈمپل اور وہ بھی سب کا سب کچھ صرف میرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں ہزار لوگوں کو ڈمپل پڑتے ہیں جاؤ جا کے کسی کو بھی پکڑ کے کر لو چما۔۔۔۔۔۔۔ مگر میرے ویام کی طرف اگر تم نے یہ اپنی گندی نظر بھی ڈالی تو تمہاری یہ کتے کے جیسی بھدی آنکھیں نوچ لوں گی میں ۔۔۔۔۔ صبح سے برادشت کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ویام ناں ہوا کوئی نقلی گڈا ہو گیا۔۔۔۔۔۔ صبح سے میرے ویام کے اوپر اپنی بدنظر ٹکائے بیٹھی ہے۔۔۔۔۔۔ اگر آج کے بعد توں نے خیال میں بھی اسکا سوچا تو یاد رکھنا تیرے خواب میں آ کر ہی تیرا خشر بگاڑ دوں گی میں ۔۔۔۔۔۔۔”
غصے سے چیخنے پر اسکا چہرہ حدردجہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ جینی تو حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا اس نے۔۔۔۔۔ صرف ایک کس کا ہی تو کہا تھا۔۔۔۔ وہ اپنی بےعزتی پہ شرمندہ سی آس پاس جھرمٹ کی شکل میں کھڑے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ شرم سے نظریں چرا گئی ۔۔۔۔۔۔
تم میں سے بھی کسی نے کچھ پوچھنا ہے ۔۔۔یا پھر کس کرنا میرے ویام کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار وہ غصے سے مڑتے اپنے آگے پیچھے کھڑی ہوئی ان لڑکیوں کو دیکھتے غرائی تھی۔۔۔۔۔ لڑکے تو سٹپٹاتے اسکے دبنگ روپ پہ حیران سے نظریں جھکائے ایک منٹ میں غائب ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
بولو چاہیے کسی کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ” غصے سے اپنے جیب میں اپنی خفاظت کےلئے رکھی اس چھوٹی سی چھری کو نکالتے وہ سب کے سامنے کر گئی کہ خوف و وخشت سے لڑکیوں کی چیخیں نمودار ہوئی۔۔۔۔ سب نے کی ڈرتے زور شور سے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔۔۔۔ عیناں نے غصے سے انہیں اشارہ کرتے وہاں سے بھیجا۔۔۔۔۔۔ تو سب منٹوں میں رفو چکر ہوئی ۔۔۔۔۔
رکو تم_______ ” جینی کو بھاگتا دیکھ عیناں نے جھٹکے سے کھینچتے اسے بازوؤں سے پکڑتے روکا۔۔۔۔۔۔ جو آگے ہی اسکے تیورں سے کافی حائف تھی۔
” آج کے بعد کبھی میرے ویام کی طرف دیکھا ناں تو تمہارے یہ بدصورت ہونٹ دوبارہ کسی کو کس کرنے کے لئے سلامت نہیں چھوڑوں گی میں________ آئی سمجھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
جینی نے ڈرتے گردن ہاں میں ہلائی تھی اور عیناں کے چھوڑنے پہ وہ بھاگتے وہاں سے غائب ہوئی ۔۔۔۔۔۔میرے ویام کو کس کرے گی وہ بھی میرے ہوتے اسکے دانت ناں توڑ دوں میں ۔۔۔۔۔۔۔ بےشرم بے حیا لڑکیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
وہ غصے سے بڑبڑاتی سرخ چہرہ لیے وہاں سے نکلی تھی۔۔۔۔اگر اسکا یہ روپ ویام دیکھ لیتا وہ یقینا غش کھا جاتا اسکے جنون اسکی الفت کو دیکھ۔۔۔۔۔۔
مس عیناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اپنی پشت پہ کسی لڑکی کی آواز سنتے عیناں نے رکتے پیچھے مڑ کے دیکھا۔۔۔۔
جی _______!” بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس اس اونچے لمبے قد و قامت والی لڑکی کو سر تا پاؤں گھورتے عیناں نے الجھن سے استفسار کیا۔۔۔۔۔
” کیا ہم دو منٹ کے لئے بات کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ عیناں کے چہرے کو مبہوت سی نظروں سے دیکھتے وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
” سوری مگر میرے شوہر نے مجھے سختی سے منع کیا ہے کسی انجان سے بات کرنے کےلئے_________؛” عیناں اسے سر تا پاؤں دیکھتے اطمینان سے بولی ۔۔۔۔۔ تو لیزن نے ائبرو اچکاتے اس انیس بیس سالہ چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا اسے دیکھ کر یہ تصور کرنا کہ وہ شادی شدہ ہو گی ہرگز ممکن نہیں تھا۔۔۔۔۔
” اگر بات آپ کے متعلق ہو تو کیا پھر بھی آپ نہیں سنننا چاہیں گی۔۔۔۔۔۔” لیزن اسکی آنکھوں میں اعتماد دیکھ اب مدعے پہ آئی تھی ۔۔۔۔۔۔ عیناں کو اسکی باتیں عجیب سی لگی بھلا وہ اسے اسی کے بارے میں کیا بتانے والی تھی۔ ۔۔
سوری مس آپ جو بھی ہیں ۔۔ مگر الحمدللہ میں اپنے بارے میں سب کچھ بہت اچھے سے جانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے اپنے ہی بارے میں کسی اجنبی سے جاننے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ آگے ہی جینی کی وجہ سے بھری پڑی تھی اب بھی بنا کسی پس و پیش کے وہ سیدھا اسکے منہ پہ جواب دیے جانے کو مڑی۔۔۔۔۔۔۔۔
” مس عیناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ ایک اڈاپٹٹ چائلڈ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟”۔ عیناں کے بڑھتے قدموں کو لیزن کی پر اعتماد لہجے میں کہی بات نے رکنے پہ مجبور کر دیا ۔۔۔۔ اسکی گرفت اپنی کتابوں کے گرد مضبوط ہوئی تھی۔۔۔۔۔
دودھیا چہرے پہ بلا کی سنجیدگی دھر آئی ۔۔۔۔ جو آج سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔
" ڈو یو تھنک کہ تمہاری ان چیپ باتوں میں آ کر میں شاک ہو جاؤں گی یا پھر ڈر جاؤں گی تو مس ایکس وائے ذی۔۔۔۔۔۔ فار یور کائنڈ انفارمیشن ______ میں ناں تو ایک بے وقوف سی کم عقل لڑکی ہوں ناں ہی ایک بدماغ سر پھری ۔۔۔۔ جو بنا وجہ ہی تم جیسے ہر ایرے غیرے کی باتوں میں آ جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے شوہر کو بتا کر تمہارا خشر بگاڑوں نکلتی بنو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔”
گرے آنکھوں میں بلا کی سرد مہری لئے وہ چہرے کے تاثرات حدردجہ سنجیدہ بنائے لیزن کے سامنے چٹکی بجاتے اسے پل بھر میں سرخ کر گئی۔۔۔
” آج سے ایک ہفتہ پہلے شفیع نامی ایک آدمی آیا تھا میرے ہاسٹپل جو یقینا آج سے انیس سال پہلے ہمارے ہاسٹپل سے غائب ہوئی بچی کی معلومات لینے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس بچی کی پیدائش کے بعد اسے مردہ قرار دیا گیا حالانکہ کے ریکارڈ کے حساب سے وہ زندہ ہے اور اس وقت رافع اظہر علی نامی ایک شخص کی اڈاپٹٹ بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
شٹ اپ جیسٹ شٹ اپ یو۔۔۔۔۔۔۔ خبردار جو میرے ڈیڈ کے خلاف کچھ بھی کہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ ایک منٹ میں تمہاری زبان کھینچ لوں گی میں ۔۔۔۔۔۔ کب سے تمیز سے بات کر رہی ہوں مگر تم۔۔۔۔۔۔ جانے کہاں سے کہانی بنا کے کے آئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اگر اب ایک لفظ بھی کچھ فضول کہا تو اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔۔'
اپنے سے چند قدم کے فاصلے پہ کھڑی لیزن کی جانب غصے سے بڑھتے وہ غراتے لہجے میں طیش سے جبڑے بھینجتے سرخ آنکھوں سے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا بس نہیں تھا کہ ابھی اس لڑکی کو ٹھکانے لگا دیتی۔۔۔۔ جو اب اسکے ڈیڈ کو بھی ان سب میں نشانہ بنا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
” مجھے معلوم تھا کہ تم نہیں مانو گی ایسے۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لڑکا ہے ، یہ اسی دن کی وڈیو ہے جس دن یہ انکل ہاسپٹل میں آئے تھے اپنی گمشدہ بیٹی کی تلاش میں ، مگر جانے اس لڑکے نے ان کو کیا کہا کہ وہ خاموشی سے جھکے کندھوں سے واپس چلے گئے۔ اب تم بتاؤ کیا اس لڑکے کو تم جانتی ہو۔۔۔۔ عیناں کی حیرت و بے یقینی سے پھیلی آنکھوں کو دیکھتے وہ ایک نظر اپنے موبائل میں دکھتے ویام کو دیکھتے پوچھنے لگی،
نن نو یہ یہ سب ویڈیو میں موجود ویام کو دیکھتے ہی اسکے چہرے کا رنگ سفید پڑ گیا وہ ایک دم سے موبائل پھینکتے بےیقینی سے بڑبڑائی لیزن نے ایک نظر اسکی خوف سے پھیلی آنکھوں اور سفید پڑتی رنگت کو دیکھ جھکتے اپنے موبائل کو اٹھایا۔
تمہارے موبائل فون کو ٹریس کیا جا رہا ہے اور تم پر بھی نظر رکھی گئی ہے ، میں تمہیں ان انکل سے ملوا سکتی ہوں جو اس دن آئے تھے تمہارے سارے ٹیسٹ کیے جائیں گے تمہاری آنکھوں کے سامنے ، پھر یہ تم پہ ہوگا کہ تم اسے سچ مانتی ہو یا نہیں۔۔۔۔۔۔”
لیزن نے جلدی سے اسے سمجھایا تھا۔ وہ جانتی تھی ویام کی نظریں عیناں پہ ہونگی مگر وہ محتاط ہوتے پوری پلیننگ کے ساتھ آئی تھی ۔۔
رکو ۔۔۔۔۔۔۔ تم یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہو اور میں کیوں تمہاری بات پہ یقین کروں ۔۔۔” عیناں نے اسے جاتا دیکھ آواز دیے روکا تو لیزن نے گہری سانس کھینچتے مڑتے عیناں کو دیکھا
پہلی بات میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں اپنے مفاد کیلئے کر رہی ہوں جسکے وہ انکل مجھے پیسے دے رہے ہیں اور دوسری بات پہلے تم کسی طرح سے مجھ تک پہنچو ،مگر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ تم کہاں جا رہی ہو ۔۔۔اسکے بعد سارے ثبوتوں کے ساتھ اپنے موم ڈیڈ سے پوچھنا مجھے یقین ہے وہ جھوٹ نہیں بولے گے۔۔۔”
لیزن نے پر یقین لہجے میں عیناں کی نم پلکوں کو دیکھتے کہا تھا اسے برا بھی لگا عیناں کا اداس ہونا مگر وہ مجبور تھی اسے پیسے چاہیے تھے جو اسے شفیق دے رہا تھا عیناں سے ملوانے کیلئے۔۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
وہ گہرا سانس لیتے خود کو پرسکون کیے اندر بڑھا تھا ۔ مگر سامنے کا منظر دیکھ اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔ انزِک نے سر کو جھٹکتے بغور سامنے دیکھا یہ اسی کا کمرہ تھا مگر اسکی حالت دیکھ وہ شدید پریشان ہوا تھا۔ پورا کمرہ تہس نہس ہوا پڑا تھا اسکی وارڈروب کھلی پڑی تھی آدھے کپڑے نیچے فرش پہ بکھرے ہوئے تھے جبکہ بیڈ کا خشر برا ہوا تھا ۔ تکیوں کو بری طرح سے ریزہ ریزہ کیا گیا تھا کہ پورا کمرہ ہی کسی سٹور کا تصور پیش کر رہا تھا۔ اپنے کمرے کی حالت کو دیکھ پہلا خیال ہی اسے روز کا آیا تھا وہ اپنی چیزوں کو لے کر بے حد نفاست پسند تھا مگر اب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھ اسکا غصہ حدردجہ تیز ہوا تھا ، اسنے غصے سے کوٹ اچھالتے بیڈ کی جانب پھینکا اور ٹھاہ سے دروازے بند کیے وہ باہر نکلتا اس روم کی جانب بڑھا جہاں وہ اسے چھوڑ گیا تھا۔
روز ۔۔۔۔۔ روز ۔۔۔۔ وہ چلاتے اسے اونچی آواز میں مخاطب کرنے لگا مگر پورا کمرہ حالی پڑا تھا۔۔ انزِک نے ماتھے پہ بل ڈالے واشروم کا دروازہ کھولتے چیک کیا وہ وہاں بھی نہیں تھی ، تو کیا وہ بھاگ گئی مگر کیسے۔۔۔۔۔ دماغ میں مختلف سوچیں مختلف وہم آنے لگے وہ تیزی سے روم سے نکلتا سارے رومز چیک کرتا اسے ناں پاتے کافی پریشان ہوا تھا مگر ایک دم سے اوپر سے آتی ٹھاہ کی سی آواز پہ انزِک نے گردن اٹھائے اوپر ٹیرس کی جانب دیکھا ۔ کچن کا خیال آتے ہی وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا سیڑھیاں عبور کیے اوپر کچن کی جانب بڑھا تھا ۔
کیا کر رہی ہو تم جاہل لڑکی۔۔؟" کچن کی تباہ کن حالت دیکھ وہ اپنی جانب پشت کیے فرش پہ بیٹھی روز پہ غراتے ہوئے لہجے میں چلاتے بولا تو وہ ڈرتے ایک دم سے بدکی۔۔۔۔ اسکی گولڈن بڑی بڑی سے آنکھوں میں چمکتی نمی دیکھنے والے کو مبہوت کر گئی ، انزِک ساکن سا کھڑا اپنی بلیک پینٹ اور شرٹ میں ملبوس اس چھوٹی سی خوبصورت لڑکی کو دیکھتا رہ گیا۔۔ جس کے ماتھے پہ چوٹ کا واضح نشان اسکی آنکھوں میں جھلکتی نمی اسی چوٹ کی وجہ سے تھی شاید۔۔۔۔
انزِک آنکھیں بند کرتے کھولتے اپنے غصے پہ قابو کیے آگے بڑھتے گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھا تو روز نے سہمی نظروں سے اسے دیکھا اور بلا ارادہ ہی پیچھے ہوتے وہ کاؤنٹر سے جا لگی اسکی احتیاط پر انزِک کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری ، وہ ائبرو اچکاتے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
جو سردی سے ٹھٹھرتے کپکپاتے گلابی ہونٹوں سے سہمی سی نظریں جھکائے آج ایک معصوم سی لڑکی لگی اسے ۔۔۔ ایک دم سے اسے شرمندگی سی ہوئی شاید ٹھنڈ سے بچنے کیلئے وہ اسکے کمرے میں گئی تھی اور پھر اپنا غصہ بھی بھرپور طریقے سے نکالا تھا۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے روز۔۔....؟” بھاری گھمبیر مگر سرد لہجے میں وہ کچن کی جانب نگاہ دوڑائے سوال گو ہوا۔۔۔۔
واٹ ۔۔۔۔۔ واٹ آر یو سیئنگ۔۔۔۔۔؟ انزِک کے ہلتے ہونٹوں کو دیکھتے وہ عجیب سے زاویے بنائے مشکوک سی ہوتے پوچھنے لگی تو انزِک نے سر جھٹکتے اپنی اردو پہ قابو کیا۔۔۔
" I'm asking what all this is about ۔ "
"میں پوچھ رہا ہوں یہ سب کیا ہے؟ ”
ابکی بار انزِک نے انگلش میں سوال کیا جسے وہ سمجھ گئی تھی جبھی ماتھے پہ آتے اپنے گولڈن بالوں کو ہاتھ سے پیچھے وہ اپنی چوٹ کو چھونے لگی انزِک کی تیز نظریں اسکی ہر حرکت پہ تھیں۔
مجھے ٹھنڈ لگی تھی اور میرے پاس پہننے کو کوئی کپڑے نہیں تھے تو اس لئے یہ پہن لیے میں نے ۔۔۔ ” دو دن سے اسکا بھوک اور ٹھنڈ سے برا حال تھا وہ جانتی تھی اگر اس وقت بھی غصہ یا نخرہ دکھایا تو نقصان اسکا اپنا ہی ہوگا جبھی وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے نرمی سے بولی ۔۔
میں کپڑوں کا نہیں کچن کا پوچھ رہا ہوں ۔۔ انزِک نے انگلی اٹھائے اسے کچن کی جانب متوجہ کیا جسکا نقشہ وہ بری طرح سے بگاڑ چکی تھی ۔ روز کا چہرہ پل بھر میں سرخ پڑ گیا ۔
”I was hungry and I started making rice but I got hurt here and the bowl of rice fell down which caused the water to spread and the rice also fell on the floor and I slipped and fell and I got hit on the forehead and I.....”
”مجھے بھوک لگی ہے اور میں چاول بنانے لگی تھی مگر مجھے یہاں چوٹ لگ گئی اور چاولوں کا باؤل نیچے گر گیا جس وجہ سے پانی پھیل گیا اور چاول بھی سارے فرش پہ گر گئے اور میں سلپ ہو کے گر گئی اور مجھے ماتھے پہ چوٹ آئی اور میں۔۔۔۔۔”
بس بس ٹیک اٹ ایزی اتنی لمبی تفصیل نہیں مانگی تھی میں نے۔۔۔ اسے یوں نان سٹاپ بولتا دیکھ انزِک نے ایک دم سے اسے اشارہ کرتے روکا تو معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے سر ہلا گئی ۔ انزِک کو خود بھی شرمندگی سی ہوئی وہ اسکی ذمہ داری تھی اسے خود سے اسکا خیال رکھنا چاہیے تھا مگر اپنے غصے میں وہ بنا سوچے ایسا بھاگا تھا کہ پورے دو دن تک اسکی خبر نہیں لی۔۔
انزِک نے کف فولڈ کرتے اسے دیکھا جو اسے ہی آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اسے اگنور کرتے آگے بڑھا تھا ۔ کاؤنٹر سے سارا بکھرا ہوا سامان سمیٹنے کے بعد وہ احتیاط سے برتن ایک جانب رکھتے اسے دیکھنے لگا جو ایسے ہی بیٹھی تھی۔ انزِک گہری سانس بھرتے اسکے قریب گیا تھا اور جھکتے اسے بازوؤں میں بھرتے اٹھائے وہ ایک جانب کاؤنٹر پہ بٹھائے دوبارہ سے اپنے کام میں مشغول ہوا۔۔۔
پلیز کچھ اچھا سا بنا دو۔۔۔۔۔۔” وہ جو سامان دیکھتے ابھی کچھ بنانے کا سوچ ہی رہا تھا اچانک سے اسکی فرمائشی آواز پہ انزِک نے ترچھی نگاہوں سے گردن گھمائے اس چھوٹی سی آفت کو دیکھا۔۔۔
بلیک شرٹ جس کے بازوؤں لمبے ہونے کی وجہ وہ گولڈ کیے ہوئے تھے جینز کو بھی کافی اوپر تک فولڈ کیے گولڈن کندھوں تک جاتے کھلے بال، گولڈن ہی بالوں سے مشابہت رکھتی خوبصورت آنکھیں ، سفید دودھیا رنگت میں وہ مغربی حسن کی مالک واقعی میں حسین دوشیزہ تھی۔
انزِک نے اسے سر تا پاؤں دیکھ اپنے کپڑوں میں گم ہوئے اسکے نازک وجود کو دیکھتے مسکراتے گردن گھمائی۔۔۔
ویسے اتنا برا آئیڈیا بھی نہیں تھا ویام کا۔۔۔۔۔۔” فریج سے بوائل چکن نکالتے وہ گہری سانس لیتے مسکراتے بڑبڑایا۔
💥💥💥💥💥💥
تیمور کہاں جا رہے ہو بات سنو ۔۔۔!”۔ وہ جو جلدی میں نک سک سا تیار اپنی نئی گرل فرینڈ سے ملنے ہوٹل جا رہا تھا اچانک سے اپنے ڈیڈ کی آواز سنتے تیمور کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے ۔۔
آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتا میں ۔۔۔۔۔۔ میری لائف۔۔۔ میں جو مرضی کروں اپنے کام سے کام رکھیں آپ۔۔.... انتہائی بدتمیزی سے اُنہیں جواب دیتے وہ باہر کی جانب بڑھنے لگا کہ شیرازی صاحب نے اٹھتے اسے اونچی آواز میں روکا۔۔۔
مسز شیرازی جو ابھی کلب سے آ رہی تھی دونوں باپ بیٹے کو آمنے سامنے دیکھ وہ متفکر سی ہوئی ۔۔
" جاتے ہوئے میری بات بھی سنتے جاؤ ، مسٹر دؤاد نے اپنی بیٹی میرب کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے ۔ "
انہوں نے ایک ساتھ دونوں ماں بیٹے کے پریشان چہرے کو دیکھتے بم پھوڑا تھا وہ دونوں ہی حیرت و بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھتے اب شیرازی صاحب کو دیکھ رہے تھے جن کا چہرہ حدردجہ سنجیدہ تھا۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے اس طرح کا جھوٹ بول کر آپ مجھے جانے سے روک سکتے ہیں۔۔۔" تیمور سنتے قہقہ لگاتے انکی بات کا مذاق اڑانے لگا جسے دیکھ شیرازی صاحب کا غصہ مزید بڑھا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ کبھی انکار نہیں کر سکتے ۔۔ تیمور نے غرور سے اپنے ہاتھ میں پکڑی اپنی ہیوی بائیک کی چابی کو گھماتے ہوئے کہا ۔
تم بس انہی خوش فہمیوں میں ڈوبے رہنا تیمور ۔۔۔۔۔۔ داؤد کی بیٹی میرب نے خود اپنے باپ کو کھلے لفظوں میں کہا ہے کہ وہ تم جیسا آوارہ اور عیاش لڑکے کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی ۔۔ اگر یقین نہیں تو جاؤ جا کر پوچھ آؤ ان سے۔۔۔۔”۔ اب کی بار وہ غصے سے چلاتے اسے سچ بتاتے بولے تو تیمور میرب کا نام سنتے ایک دم سے حیران ہوا تھا ۔۔۔۔
میں مان ہی نہیں سکتا کہ میر مجھ سے شادی کے لئے انکار کر رہی ہے میں خود جاوں گا اس سے پوچھوں گا کہ آخر کیا بات ہے ۔۔ "
تھوڑی دیر پہلے اپنی گرل فرینڈ کو ملنے کے لیے بے چین تیمور شیرازی اب اپنی ناقدری اپنے ناپسند ہونے پہ حیران سا میرب سے جوابدہ ہونے اسکے گھر کی جانب نکلا تھا۔۔۔ اسکے سخت تیوروں کو دیکھتے شیرازی صاحب سر تھامتے پیچھے صوفے پہ گرے۔۔
وہ تیزی سے بھاگتے اب کافی آگے نکل آئی تھی ۔ ایک سکون سا بھی تھا کہ اب وہ امن سے کافی دور ہو گئی تھی وہ چاہ کر بھی اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا مگر ایک خوف بھی تھا پکڑے جانے کا خوف۔۔۔۔ " میں نہیں ڈرتی اس سے۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ تک پہنچے میں بہت دور چلی جاؤں گی۔۔۔ اپنے چہرے پہ آتے پسینے کو صاف کرتے حیا نے جیسے خود کو حوصلہ دیا تھا ۔۔ وہ ایک درخت کے سہارے کھڑی بھاگنے کی وجہ سے پھولے سانس سے ہانپ رہی تھی ، شام کی گہری سرخی پھیلنے سے ہر طرف گھپ اندھیرا ہوا جا رہا تھا۔
معا وہ چونکی اسکا سانس سینے میں اٹک سا گیا جب اچانک اپنے پیچھے کسی جانور کے غرانے کی آواز حیا کے کانوں میں گونجتے اسے چیخنے پہ مجبور کر گئی ۔ وہ ڈرتی ہرن کی مانند اپنی بڑی بڑی گہری کالی آنکھوں کو پھیلائے ہراساں سی ایکدم سے مڑتے پیچھے دیکھنے لگی، امن کے ڈر سے وہ اندھا دھند بھاگتے وہاں سے چھپتے چھپاتے پچھلے گیٹ سے نکلی تھی مگر اسکے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس جانب جنگل ہو گا ۔ اور وہ ہمیشہ کی طرح پاگوں جیسے اب غلطی کرنے کے بعد پچھتا رہی تھی ۔
آس پاس سے آتی جنگلی جانوروں کی عجیب و غریب آوازیں سنتے حیا کا معصوم سا دل لرز گیا وہ کپکپاتے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھے اپنی سسکی دبائے اسی درخت کی اوٹ میں چھپتے بیٹھی تھی ۔ خوف و وخشت سے اسکی جان نکل رہی تھی ، اسے تو ایک کتے سے بھی ڈر لگتا تھا کجا کہ پوری رات ان جنگلی جانوروں میں گزرانا ۔۔
اللہ جی پلیز بچا لیں مجھے ۔۔۔ " وہ آنسوں سے بھری نظروں سے سیاہ آسمان کو دیکھتے اپنے اللہ سے مدد مانگنے لگی۔۔ معا اسے احساس ہوا کہ ابھی آسمان پہ چاند کی گہری چاندنی بکھری زمین میں اجالا کیے ہوئے تھی اگر رات گہری ہو گئی تو مکمل اندھیرے میں اسکا نکلنا زیادہ مشکل تھا ۔ مجھے ابھی یہاں سے نکلنا ہو گا ۔۔ خود سے عزم کرتے وہ اپنا دل مضبوط کیے خود پہ اوڑھی اپنی چادر کو مضبوطی سے تھامے درخت کی اوٹ سے نکلتے اپنے آگے پیچھے دیکھنے لگی ۔۔
اسکے پیچھے ایک کچا راستہ تھا جس سے گزرتے وہ یہاں تک آئی تھی جبکہ دونوں اطراف میں پھیلا گھنا جنگل تھا اور آگے کی جانب جاتا راستہ کچھ آگے جاتے باکل صاف ہو جاتا تھا۔۔ حیا نے اپنے دل کو مضبوط کیے تیزی سے قدم آگے کی جانب بڑھائے تھے ۔ وہ جلد از جلد اس جنگل سے نکلنا چاہتی تھی۔۔
ارے ارے میڈم سنبھل کے بسمل اللہ ۔۔۔۔۔ " وہ تیزی سے تقریباً دوڑتے وہاں سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک راستے کے بیچ پڑے پتھر سے اسکا پاؤں بری طرح سے ٹکرایا تھا ۔۔ درد کی شدت سے حیا کے منہ سے ایک دلدوز چیخ سی نمودار ہوئی ، وہ منہ کے بل نیچے گرے اپنی پانی بھری نظروں سے خود کو کوسنے لگی ، کہ اچانک سے اپنے قریب سے آتی آواز کو سنتے حیا اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پھیلائے سر اوپر کیے سامنے دیکھنے لگی جہاں تین چار لڑکے کندھوں پہ بیگز ڈالے حیا کے دیکھنے پر قہقہ لگا اٹھے۔
" ہائے صدقے جاؤں میڈم تو نہیں یہ تو دلربا حیسنہ جمیلا ہے۔۔۔۔ہائے توبہ تیرا حسن۔۔۔۔۔" حیا کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے ان میں سے ایک آگے بڑھتے گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھتا بغور اسے دیکھ بولا تھا۔۔۔ حیا کا سر گھوم سا گیا۔
یار یہ معصوم چہرا ارے ارے جانم رکو میں مدد کیے دیتا ہوں اٹھنے میں____" حیا جو اس طرح اچانک سے ان سب کو دیکھے حواس باختہ سی پیچھے کو ہوئی تھی کہ اسکے قریب بیٹھے لڑکے نے اسے یوں ڈرتے پیچھے کی جانب ہوتا دیکھ پچکارتے ہوئے مدد کرنے کی خاطر اپنا ہاتھ حیا کی جانب بڑھائا اور اب کندھے پر ڈالے بیگ کو اتار چکا تھا۔۔
وہ چاروں آؤٹنگ کے لیے گھر سے نکلے تھے مگر راستے میں ہی انکی گاڑی خراب ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ اب رات اس سنسان جنگل میں گزارنے کی خاطر یہاں آئے تھے ۔ مگر اچانک سے یہ لڑکی ان کے قدموں میں کسی بن مانگی نعمت کی طرح سے گری تھی۔
نن نہیں۔۔.." حیا نے لرزتے وجود کے ساتھ پیچھے ہوتے مقابل کے اپنی جانب بڑھتے ہاتھ کو دیکھ سسکتے کہا تھا ۔۔۔ ایک دم سے یوں نیچے گرنے پہ اسکے گھٹنوں پر بری طرح سے چوٹ آئی تھی پتھر سے ٹھوکر لگنے کی وجہ سے اسکا انگوٹھا بھی بری طرح سے زخمی ہو چکا تھا ۔
ڈرو نہیں جانم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو ہم چاروں کو اللہ نے تمہاری مدد کیلئے بھیجا ہے اس سنسان جنگل میں کیوں دوستو_________؟ ابکی بار وہ مڑتے پیچھے کھڑے اپنے دوستوں کو دیکھتے بولا تھا۔سب نے ہی تاسف سے سر ہلاتے ایک ساتھ قہقہہ لگایا ۔۔۔۔۔۔
ہر سوں پھیلی خاموشی میں سب کا بے ساختہ لگایا قہقہہ عجیب سی چلاہٹ ابھارنے لگا، حیا نے گھٹنوں کے بل اٹھتے اپنے ہاتھوں کی زخمی ہوئی ہھتیلیوں سے اپنے سر سے اترے زمین پہ گری اپنی چادر کو اٹھایا ، وہ ایک ہاتھ سے چادر تھامے جلدی سے اٹھتے ان سب کے سمجھنے سے پہلے ہی اندھا دھند پیچھے کی جانب بھاگی تھی ۔
اپنے پیچھے انکی آوازیں انکے قدموں کی آہٹ کو سنتے حیا کا چہرہ خوف سے سپید پڑ گیا۔۔ حیا نے ڈرتے اپنی چادر کو اپنے گرد لپیٹتے امن کو شدت سے یاد کیا تھا۔۔اسے اب اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا ۔۔ اپنے شوہر سے اپنی عزت کے خوف سے بھاگتی وہ ان غنڈوں ان آوارہ لڑکوں کے ہتھے چڑھ چکی تھی ۔۔۔ یا اللہ جی مدد کریں۔۔۔" وہ بری طرح سے روتے اپنے اللہ کا یاد کرتے تیزی سے بھاگنے لگی۔۔
ارے بھاگ گئی ہے سالی پکڑو اسے ۔۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک جس کی نظریں کب سے حیا پہ ٹکی تھی اچانک اسے بھاگتا دیکھ وہ غصے سے غراتے خود بھی بیگ پھینکے اسکے پیچھے بھاگا۔۔۔۔ وہ سب ہی اسکی ہمت پہ ششدر سے ہوتے بھاگے تھے۔۔۔
اسکے گھٹنوں پر بری طرح سے چوٹ آئی تھی درد کی شدت سے اسے دوڑنے میں دشواری ہو رہی تھی مگر وہ پھر بھی خود میں ہمت پیدا کیے تیزی سے بھاگتی جا رہی تھی ۔ ایہہ۔۔۔۔۔۔" ایک دم سے اسکی بےساختہ چیخ نکلی تھی جب ان میں سے ایک لڑکا تیزی سے آگے بڑھتے اسکے راستے میں حائل ہوا ۔
حیا کا چہرہ لٹھے کی مانند زرد پڑ گیا ۔ وہ خوف سے سانسیں روکے دھک دھک کرتے دل سے مڑی تھی کہ اچانک سے اسکے راستے میں حائل ہوتے اس لڑکے نے آگے بڑھتے اسکے بازوؤں کو کھینچتے اس کا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔۔ اور چٹاخ سے ایک زوردار تھپڑ اسکے چہرے پہ رسید کیے وہ بےدردی سے اسے نیچے کو دھکہ دیے اپنے بازوؤں کے کف فولڈ کرنے لگا۔
ایسے کرتے ہیں لڑکی کو قابو۔۔۔۔" وہ جو تینوں ہانپتے وہاں پہنچے تھے مقابل نے تینوں کو دیکھتے حیا کی جانب اشارہ کیا جو سن ہوتے دماغ سے اوندھے منہ زمین پہ گری پڑی تھی، پیچھے ہو جاؤ سب۔۔۔۔۔۔ ابکی بار وہ غرایا تھا وہ تینوں دو قدم پیچھے ہوتے دوڑنے سے پھولی سانس سے اسے دیکھنے لگے۔۔ یہ سب یقین کر پانا نا ممکن تھا ۔
کہ شعیب ایسا کچھ کرے گا وہ تو ان سب سے الگ خاموش طبیعت کا مالک تھا ، یار شعیب تو کیا کرنے والا ہے۔۔اسے حیا کی جانب بڑھتا دیکھ ان میں سے ایک نے پوچھا تھا مگر آگے بڑھنے کی غلطی نہیں کی ۔ کم دکھتا ہے تم تینوں کو رکو ذرا خود پتہ چل جائے گا۔۔۔
وہ عجیب سے لہجے میں بولتے آگے بڑھا تھا اور کھینچتے بےدردی سے حیا کی چادر کو اسکے وجود سے جدا کیے شعیب نے دور پھینکا کہ وہ تینوں منہ کھولے اسے دیکھنے لگے جس کے ارادے خطرناک تھے حیا نے کراہتے بےدردی سے چادر کے کھینچنے پر اپنی گردن کو چھوا تھا جہاں پر سرخ نشان بن چکا تھا۔
اہہہہ۔۔۔ پپ پلیز نن نہیں۔... اپنے قریب تر بیٹھتے شعیب کو دیکھتے وہ روتی اپنی عزت کے خوف سے بھیک مانگنے لگی۔ جبکہ مقابل سرد بے تاثر نظروں سے اسکے حسین وجود کو دیکھتے ایک دم سے جھکتے اسکی گردن پہ چادر کے کیھنچنے سے بنے نشان کو چھونے لگا۔
۔اسکے لمس پہ حیا کے پورے وجود میں سنسنی سے دوڑی تھی وہ ایک دم سے نفرت سے اسکے ہاتھ کو جھٹکتے اسکے منہ پہ تھوک گئی کہ شعیب نے غصے سے اسکے اچانک کیے ردعمل پر اپنے چہرے کو ہاتھ سے صاف کیا۔۔۔
اسکی آنکھوں کی سرخی دیکھ حیا لرز کے رہ گئی وہ یونہی گھٹنوں کے بل پیچھے کو کھسکنے لگی کہ مقابل نے اسکی ٹانگ سے پکڑتے اسے اپنی اور کھینچا اور الٹے ہاتھ کا ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پہ جھڑا کہ حیا کے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔۔ دماغ سناٹوں میں چلا گیا وہ سر کو تھامنے لگی مگر مقابل نے اٹھتے اسکے بازوؤں کو جکڑتے اپنے بھاری بوٹ کے نیچے رکھا کہ فضا میں گونجتی حیا کی کربناک چیخیں پیچھے کھڑے ان تینوں کو دہلا کے رکھ گئی۔۔
شعیب یار چھوڑ کیا کر رہے ہے توں۔۔۔۔۔ وہ تینوں ہی اس کے اس قدر بھیانک روپ پہ حیران تھے وہ تو بس اسے تنگ کر رہے تھے انکا ارادہ ایسا ویسا۔کچھ بھی کرنے کا نہیں تھا مگر شعیب کا یہ روپ وہ حیران سے ہو گئے۔
چپ کر جاؤ تم تینوں جانتے ہو یہ کون ہے۔۔۔۔؟ وہ غصے سے انکے ٹونکنے پہ حیا کے بازوؤں کو ہاتھ سے پکڑتے غرایا تھا حیا کا وجود بالکل سن سا پڑ گیا ہونٹ سے بہتا خون اسکی تھوڑی سے ہوتے گردن کی جانب بڑھ رہا تھا۔
کک کون ہے یہ ۔۔۔۔؟" سیف کو کچھ کٹھکٹا۔۔۔۔۔۔ " جانتے ہو یہ اس بھاوں کی عزت ہے اس بھاوں کی جس نے ایک ہفتہ پہلے میرے بھائی کو بے دردی سے دو ٹکڑوں میں کاٹا۔تھا۔۔۔۔مگر آج میں اسکی عزت کی بوٹی بوٹی نوچوں گا ۔۔۔۔
اور پھر اسے پتہ چلے گا کہ اسنے میرے بھائی کو مار کے جو تکیلف مجھے دی ہے وہ خود سہی جائے تو کیسا لگتا یے۔۔۔ " اسکی آنکھوں میں عجیب سے سرخی تھی ۔۔ وہ ہفتے سے بھاوں پہ نظر رکھے ہوئے تھا مگر وہ جان گیا تھا کہ بھاوں کو اس بابت پتہ چل گیا تھا۔
جبھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آج کچھ دنوں کے لیے گھومنے جا رہا تھا مگر اب راستے میں ہی حیا کو دیکھ وہ پہچان چکا تھا ۔ اسی لیے وہ اب اتنا اچھا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔ جو بھی ہو شعیب چھوڑ اس لڑکی کو ان سب میں اسکا کوئی قصور نہیں ۔۔ سیف کو اسکی حرکت اور اس معصوم پر ترس آنے لگا جو نیچے پڑی بری طرح سے کراہ رہی تھی۔۔ اچھا اب ترس آ رہا ہے تجھے جب خود اسے چھیڑ رہا تھا تب خیال نہیں آیا تجھے ۔۔۔۔۔" شعیب نے شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا تھا۔
جو سنتے مٹھیاں بھینچتے رہ گیا۔۔۔ اگر زیادہ ہی دکھ لگ رہا ہے تو وہ رہا راستہ نکلتے بنو یہاں سے۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے کہتے ساتھ ہی نیچے سن سی پڑی حیا کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔۔ سیف بپھرتے آگے بڑھنے لگا مگر اسکے دونوں دوستوں نے اسے سمجھاتے پکڑتے اپنے ساتھ لگایا اور اسے لئے دوبارہ سے جنگل سے نکلتے چلے گئے ۔ " چلا گیا تیرا یار۔۔۔۔۔اب دیکھتا ہوں کیسے بھاؤں تجھے بچاتا یے۔۔۔۔۔ تیرے وجود کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کر کے اس کے پاس قسطوں میں بھیجوں گا دیکھنا کتنا مزہ آئے گا۔۔۔جو تکلیف اس نے میرے باپ جیسے بھائی کو مار کے مجھے دی ہے اب وہ بھی اس تکلیف سے گزرے گا۔۔۔
شعیب نے دانت پیستے حیا کے دوسرے بازوؤں کو بھی نیچے زمین پہ رکھتے اپنا دوسرا پاؤں اسکے دوسرے بازوؤں پہ رکھا کہ درد سے حیا کی چیخ گونجی مگر وہ وخشی بنے اسکے دونوں بازوؤں کو بری طرح سے پھاڑتے اپنا وخشی پن دکھا رہا تھا۔۔۔۔ دیکھ اپنی موت کو کوئی نہیں بچانے والا تجھے آج ۔۔۔ ” حیا کی بند پڑتی آنکھوں کو دیکھتے اسنے غصے سے اسکے بالوں کو دبوچتے اسکا رخ اپنے سامنے کیا تھا ۔
وہ غصے سے اسکے چہرے کو دبوچتے اسکے چہرے پہ جھکنے لگا۔۔۔۔کہ اچانک سے کسی کے بھاری قدموں کا وار اسکی پشت پہ ہوا تھا۔۔۔۔وہ بے ساختہ کراہتا اس اچانک وار پہ اوندھے منہ دور جا گرا ، حیا نے ڈرتے آواز پہ اپنی میچی آنکھیں کھولی تو نظریں سامنے ہی بھپرے سے سرد طوفان بنا غضب ناک سے تاثرات سے کھڑے بھاؤں پر پڑی۔۔۔۔۔ امممن ۔۔۔۔۔۔" حیا کے ہونٹ اپنے مسیحا کو دیکھ پھڑپھڑائے تھے وجود میں جیسے کسی نے ایک دوسری جان پھونک دی ہو۔۔۔۔
حیا نے سن ہوتے دماغ سے اپنی جانب بڑھتے امن کے بھاری قدموں کو دیکھا جس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں گردن کی پھولی رگیں اسکے اندر کی وخشت طوفان کی صاف نشانی تھی۔۔ بھاؤں نے بھینجے جبڑوں سے لہو مانند نظروں سے اسے غیض و غضب سے دیکھا ۔۔ سیاہ بوٹوں میں مقید اسکے بھاری قدم حیا کا سانس روک گئے تھے وہ قدم قدم چلتا اپنی شاہانہ چال سے حیا کے قریب ہوا تھا۔
بھاؤں نے جھکتے اسکے کمر کے گرد بازو حائل کرتے اسے اپنے قریب تر کھینچا تو درد کی شدت سے حیا کے ہونٹوں سے سسکی سی نمودار ہوئی تھی۔ بھاوں نے بھینجے جبڑوں سے ایک نظر شعیب پہ ڈالی جو آنکھوں میں نفرت لیے اب اسے ہی گھور رہا تھا۔ اپنے دائیں ہاتھ کی بھاری انگلیوں سے وہ حیا کے ہونٹ کو سہلانے لگا جہاں سے خون نکلتے اسکی تھوڑی پہ بہہ رہا تھا اسکے لمس پہ حیا سسک سی پڑی ، بھاؤں نے ایک دم بے تاثر چہرے سے جھکتے اسکے ہونٹوں کو چھوتے اسکے ہونٹوں سے بہتے خون کو اپنے لبوں سے صاف کیا۔
حیا جو اسکے غضب سے ڈرے آنکھیں میچے اسکے مضبوط حصار میں کھڑی تھی ، اچانک مقابل کے شدت بھرے لمس کو محسوس کرتے وہ تڑپ سی پڑی ۔ شعیب نے غصے سے بھاوں کو دیکھا جو حیا کے چہرے پہ جھکا اسے ہر غم ہر تکلیف سے دور کرتے اپنی ذات میں الجھا رہا تھا ۔ بھاوں نے اپنے دونوں ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد حائل کرتے اسے خود میں بھینجا تھا اور چلتے وہ واپس جاتے اپنی جِیپ کی جانب بڑھا تھا۔۔
نرمی سے اسے جھکتے سیٹ پہ بٹھائے بھاوں نے ہاتھ بڑھاتے اپنی چادر اٹھائے حیا کے کپکپاتے وجود کی گرد لپیٹا۔۔۔۔۔ حیا نے سہمی نظروں سے اسکی بےتاثر نظروں کو دیکھا ، اسکی نظروں کی وخشت دیکھ حیا کا پورا وجود لرز پڑا تھا۔۔ بھاؤں نے آہستگی سے اسکا سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا۔ اور پھر بنا کچھ کہے وہ پیچھے کی جانب مڑا تھا۔ جہاں وہ نڈر سا کھڑا بھاؤں کو گھور رہا تھا۔۔
بھاؤں کے قریب جاتے ہی شعیب بری طرح سے غرایا۔۔۔
کیا تھا جو توں کچھ دیر انتظار کر لیتا۔۔۔ بس تیری بیوی کو آج میں اپنے ہاتھوں سے نوچن۔۔۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ اسکا جملہ مکمل ہوتا ایک دم سے اسکے سر پر بھاؤں کا بھاری ہاتھ پڑا تھا وہ سن ہوتے دماغ سے چکراتے نیچے گرا تھا کہ بھاؤں نے ہاتھ میں پکڑا اپنا چاقو اسکے کان کے گرد لے جاتے ایک جھٹکے سے اسے کان کو کاٹا تھا کہ فضا مقابل اسکی دہشت زدہ سی کربناک چیخوں سے گونج پڑا۔۔۔ بھاؤں کی شہد رنگ آنکھیں سرخ لہو رنگ تھی۔
شعیب کا بلکتا وجود لہو لہان ہو چکا تھا درد کی شدت سے وہ بے جان ہوتا بےہوش ہو گیا ۔ بھاؤں نے بے تاثر چہرے سے اسکی ٹانگ کو پکڑتے کھینچا تھا اسکا بپھرا ہوا روپ حیا دیکھتے دہل پڑی تھی ۔ اسکا وجود ایک دم سے نیلا پڑنے لگا یہ سوچتے ہی کہ اسکا خشر کتنا برا ہونے والا تھا ۔ خوف و وخشت سے اسکی آنکھوں بند ہونے لگی وہ سن پڑتے وجود سے ایک دم سے ہوش کھوتے ایک جانب لڑکھ گئی
بھاوں اپنے بھاری قدموں سے بڑھتے جیپ کی جانب جاتے شعیب کی ٹانگ کو پکڑتے پیچھا باندھا ، وہ چاہتا تو اسکا خشر ابھی ہی بگاڑ سکتا تھا مگر فلحال وہ غصے اسے آسان موت نہیں دینا چاہتا تھا ۔
بھاوں نے ایک سرد نظر حیا کے بےہوش وجود پہ ڈالی اور بنا کچھ کہے وہ گاڑی میں بیٹھتے تیزی سے وہاں سے نکلا۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
آہہہہہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دم سے بھاؤں کے یوں اچانک کندھوں پہ اٹھانے سے حیا جو بےہوش پڑی تھی اسکے ہونٹوں سے درد سے چیخ سی نمودار ہوئی تھی پورا وجود درد سے چور تھا۔۔ حیا نے دکھتی آنکھوں کو بمشکل سے کھولے اپنا جائزہ لیا تو خود کو مقابل کے چوڑے کندھے پر پاتے اسکا سانس جو بحال ہوا تھا وہ پھر سے سینے میں الجھ سا گیا۔
بھاوں کے اگلے قدم کا سوچتے ہی اسکا دم گھٹنے لگا جبھی کچھ ناں سوجھتے حیا نے دوبارہ سے اپنی آنکھیں بند کرتے بےہوش ہونے کا ناٹک کیا تھا۔۔۔ بھاؤں اپنے بھاری قدم اٹھائے اندر بڑھا تھا۔ حیا نے ذرا سی آنکھیں کھولے جگہ کو دیکھا ،مگر خود کو کسی اور انجان سی جگہ پہ پاتے اسکی آنکھوں میں خوف و دہشت دھر آیا ۔
اللہ جی اب کیا کروں میں۔۔۔۔۔" اسے لگ رہا تھا کہ اب اسکا وقت بہت کم تھا جبھی اسنے ڈرتے پانی بھری نگاہوں سے لب بھینجتے اپنے رب سے مدد مانگی۔۔۔ وہ یونہی اپنی مخصوص رفتار سے چلتے ایک دروازے کے سامنے رکا تھا دروازہ کھولتے ہی اندر پھیلی تاریکی نے اسکا استقبال کیا۔۔۔ تو حیا کا۔خوف مزید بڑھ گیا۔۔۔۔
بھاؤں چلتے بیڈ کے قریب پہنچا تھا حیا کا سانس بری طرح سے سینے میں الجھ سا گیا جب بھاؤں کے بھاری ہاتھ کو اپنے پیٹ کے گرد لپیٹتا محسوس کیا۔ بھاؤں نے مضبوطی سے اسے تھامتے جھکتے بیڈ پہ بٹھایا تو حیا چارو ناچار سیدھے دم سادھے بیٹھ گئی ۔ بھاوں کی چادر اسکے وجود کے گرد لپٹی تھی ۔ وہ بظاہر اپنے جسم پہ موجود زخموں کے درد کو بھلائے بھاؤں کے خوف سے کانپ رہی تھی ۔
بھاؤں کے ایک دم سے اپنے قریب بیٹھنے پر حیا کا سانس رک سا گیا وہ خود میں سمٹتے اندھیرے میں بھی خوف سے پیچھے ہونے لگی کہ معا بھاؤں نے اسے کھینچتے اپنے قریب تر کیا تھا حیا کی پشت بھاؤں کے سینے سے لگی تھی جو تیز تیز سانس لیتے ڈری ہوئی سی تھی۔ کہ اچانک سے بھاؤں کے بھاری ہاتھ کو اپنے گردن کے گرد لپٹتا محسوس کیے حیا نے خوف سے آنکھیں پھیلائی ۔۔۔ وہ کیا کرنے والا تھا یہ سوچتے ہی اسکا سانس رکنے لگا تھا۔
سیاہ آنکھوں میں ایک دم سے خوف سا چھانے لگا جب بھاؤں نے کھینچتے اپنی چادر اسکے وجود سے الگ کی تو حیا کی ڈر سے چیخ گونجی تھی ۔۔۔۔ امممنن۔۔۔۔" امن کے ہاتھوں کے بے باک لمس پہ وہ خوف سے سہمی ہوئی سی بولی تھی ۔
اششششش اگر اب آواز آئی تو پوری عمر بول نہیں سکو گی ۔۔۔۔۔" اسکے سسکنے پہ وہ دبے دبے لہجے میں اسکے کان کے قریب جھکتے غرایا تھا اور اپنی پہنی سفید شرٹ اتارتے حیا کو پہنائی تھی جو خوف و شرم سے لرزتے وجود سے اسکے ڈرانے سے مزید دہل سی گئی تھی ۔ سسسس ۔۔۔ امممنن ۔۔۔۔۔۔ خود پہ جھکتے امن کے چوڑے شانوں کو کھڑکی سے آتی ہلکی سے روشنی میں دیکھ وہ سسکتے بولی تھی ،
کہ امن نے سر اٹھائے اپنے شرٹ لیس کشادہ سینے پر دھرے اسکے نازک ہاتھ کو ہٹھایا ۔۔ حیا نے آنکھیں میچے، اپنی سسکیوں کو دبایا تھا مگر پھر اپنے قریب امن کو نا پاتے وہ پٹ سے آنکھیں کھولے تکیے سے سر اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔ کہ معا امن نے پاس پڑے لیمپ کو جلایا کمرے میں مدہم سی ہوتی روشنی پہ الماری کے قریب کھڑے بھاؤں کے چوڑے شانوں اسکی چوڑی پشت کو دیکھ حیا نے حلق تر کیا ۔
بھاوں یونہی بے تاثر چہرے سے مڑا تھا اسکے چہرے کے تاثرات سے اسکے غصہ کا اندازہ لگانا مشکل لگا تھا حیا کو۔۔۔ وہ کچھ کہہ نہیں رہا تھا مگر اسکی خاموشی کسی طوفان سے کم نہیں تھی اسی خاموشی کی وجہ سے تو حیا مزید ڈر گئی تھی ۔ بھاوں کے ہاتھ میں پکڑے فرسٹ ایڈ باکس کو دیکھے وہ تھوک نگلتے سہم سی گئی ۔
بھاؤں نے پاس پڑی کرسی کھینچی اور بیڈ کے قریب کرتے وہ حیا کے قریب بیٹھا تھا۔ حیا اسکے ماتھے پہ ابھرتے بلوں کو دیکھ رہی تھی، جو مزید بڑھ رہے تھے ۔۔ امممن........" حیا کے وجود پہ موجود اپنی شرٹ جو کہ اسکے گھٹنوں سے کافی نیچے تک تھی بھاؤں نے ہاتھ سے اسے اوپر سرکایا تو حیا نے ڈرتے اسے لرزتی آواز میں پکارا تھا اور ایک دم سے ہی اٹھ بیٹھی ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں خوف وخشت جانے کیا کچھ تھا ۔
بھاؤں نے سرد نظروں سے اسکی حرکت کو ناگواری سے نوٹ کیے اسے غصے سے دیکھا تو وہ دوبارہ سے بنا کچھ کہے تکیے پہ گرتے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینجتے خود پہ ضبط کرنے لگی ۔۔۔ سسسس_____" بھاوں نے مرہم نکالتے اسکے گھٹنوں پہ آئے زخموں پہ لگایا تو درد سے اسکی سسکی سی گونجی تھی بھاؤں نے جبڑے بھینجتے اسکے گھٹنوں پہ پڑی خراشوں کو دیکھا۔ اور ضبط کیے مرہم لگائے وہ جھکتے اسکے زخموں کو ہونٹوں سے چھوتے اٹھا تھا۔
ان سب میں وہ خاموش سی ان جان لیوا لمحوں پہ اسکے بے باک لمس سے اندر سے ڈری سی سانس روکے پڑی تھی۔ کمرے کی معنی خیز خاموشی نے ماحول کو اور بھی پرفسوں بنا دیا تھا، بھاؤں نے مرہم اسکے ہاتھوں اور پھر ہونٹ پر لگائے جھکتے اسکے ہونٹوں کو شدت سے چھوا تھا ۔۔ حیا کی گردن پہ پڑے سرخ نشان کو دیکھ وہ لب بھینجتے اپنے غصے کو کم کرنے کیلئے جھکتے اپنے سلگتے ہونٹ حیا کی گردن پہ رکھے اسکے زخموں پر اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔ تو حیا کانپتے رہ گئی۔
اسے بے انتہا غصہ آیا تھا جب گھر آتے اپنے کمرے میں اسے نا پایا مگر اس وقت اسکو دیکھ کر یہ کہہ پانا مشکل تھا کہ وہ غصے میں تھا۔
حیا جانتی تھی یہ بم پھٹنے والا ہے مگر کب اور کس طرح سے یہ سمجھنے سے وہ قاصر تھی ۔ بھاؤں کو واشروم کینجانب جاتا دیکھ وہ فورا سے اٹھی تھی وہ جانتی تھی اسکے ارادے ٹھیک نہیں اس سے پہلے کہ وہ اس کی جان لیتا وہ خود یہاں سے بھاگ کر کسی دوسرے کمرے میں چھپنا چاہتی تھی اور پھر صبح جب اسکا غصہ ٹھنڈا ہو گا وہ اس سے معافی مانگ لے گی۔۔۔
حیا پلین بنائے دبے قدموں سے باہر کی جانب بڑھی تھی کہ ایک دم سے امن جو ہاتھ دھوتے باہر نکلا تھا اسے یوں بھاگتا دیکھ وہ بھپرتے اسکی جانب بڑھا ، اور جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا۔۔
تمہیں کیا لگا مجھ سے دور جا پانا اتنا آسان ہے۔۔۔۔تم شاید ابھی انجان ہو میرے جنون سے ، میری وخشتوں کو ابھی کہاں سہا ہے تم نے لخت ِ جگر_______ اسکے پشت کو سینے سے لگائے وہ اپنے دہکتے ہونٹ اسکے کان کے قریب کرتے گہری سرگوشی کرنے لگا۔۔۔ " لیٹس بیگین دی گیم۔۔۔۔۔۔۔_____!”
امن نے پراسرا لہجے میں کہتے اپنے ہونٹ حیا کی گردن کی پشت پہ رکھے۔۔۔
"اممم امن پپ پلیز سسس سوری ۔۔۔۔ حیا نے صلح جو انداز اپناتے معافی مانگی تھی اسکا چھوٹا سا نازک وجود بھاؤں کی سفید شرٹ میں دمک رہا تھا بھاؤں نے فلحال کچھ دیر کے لیے اپنے منہ زور جذباتوں کو تھپکتے سلایا تھا ۔ " کس بات کی معافی۔۔۔۔۔" ہاتھ میں پکڑے تولیے سے اپنے ہاتھ صاف کرتا وہ حیرانگی سے اسے چھوڑتے پوچھنے لگا تو حیا نے لب بھینجتے اس ستم گر کو دیکھا جو اب قدم قدم اٹھائے حیا کی جانب آتے اسے مزید خوفزدہ کر رہا تھا۔۔۔
سوری مجھے گھر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا ۔۔۔" آخر وہ تھکتے اپنے انسوں صاف کرتی اپنی غلطی تسلیم کر گئی۔ مٹھو آیا تھا تمہارے پاس ۔۔۔۔۔" اسکی بات کو کاٹتے امن نے گہری نظروں سے اسکے نازک وجود کو دیکھا ، گھنے سیاہ آبشار اسکے کندھوں پر بکھرے پڑے تھے، گہری جھیل سی سیاہ آنکھوں میں درد اور شرم کی سرخی تھی، چہرہ خردرجہ سرخ تھی جبکہ ہونٹ کے قریب آیا زخم اسکے ہونٹوں کو سرخ کر رہا تھا۔ وہ مکمل قیامت خیز روپ دھارے مقابل کو بری طرح سے مدہوش کر رہی تھی ۔۔ بھاؤں کی گہری نظروں سے حاظف ہوتے حیا نے نظریں کسی مجرم کی طرح جھکا لی ۔ اور جھکے سر سے گردن ہاں میں ہلائی ۔۔
بیگ دیے تھے اس نے ۔۔" اسکے بھاری قدم حیا کے دل۔پر پڑ رہے تھے وہ لرزتی ٹانگوں سے سرخ چہرے سے پیچھے ہونے لگی ۔ کچھ پوچھا ہے میں نے ۔۔ اسکی خاموشی پہ وہ غرایا تو حیا نے فورا سے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔
پھر جب تمہیں معلوم پڑ چکا تھا کہ تمہارا شوہر تمہیں ان کپڑوں میں اپنے لیے تیار ہوا اپنے انتظار میں بیٹھا دیکھنا چاہتا ہے تو پھر تم اپنے ہی گھر سے کیا سوچ کے بھاگی ۔۔۔
بھاؤں نے آگے ہوتے اسکے بازوؤں کو جکڑتے اسکے چہرے پہ غراتے بھاری لہجے میں پوچھا تو حیا کانپ اٹھی اسکے روپ سے۔۔ وہ ڈرتے خوف سے آنکھیں میچ گئی ۔۔۔ جب بھاؤں نے ایک دم اسکے کھینچتے اپنے قریب کیا تھا اور شدت سے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں تھامتے وہ اسکے ہونٹوں پہ جھکتے اسکی سانسوں کو اپنی قید میں لے گیا ۔ حیا کا وجود ہولے ہولے کانپنے لگا اپنی تھوڑی پر اسکی بڑھی شیو کی جبھن کو محسوس کرتے حیا کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی تھی۔ مگر بھاؤں نے اسکے ہونٹوں پہ گرفت مضبوط کیے اپنی سانسوں میں اسکی مہکتی سانسوں کو انڈیلا تھا۔۔
اسکے لمس کی شدت جنونیت پہ حیا کا وجود سن سا پڑنے لگا مگر مقابل تو جیسے اسکی جان لینے کے در پے تھا۔ حیا نے اسکے کشادہ سینے پہ ہاتھ رکھتے اسے دور کرنا چاہا تھا مگر بھاؤں نے اسکے کپکپاتے نازک ہاتھوں کو اپنے بھاری ہاتھوں کی گرفت میں لیے اسکے ہونٹوں پہ گرفت مزید مضبوط کی تھی ۔۔۔۔۔ حیا کی رکتی سانسوں کو محسوس کرتے بھاوں نے پل بھر کو اسکے ہونٹوں کو آزادی دی ، حیا کے ہونٹ کے قریب آئی چوٹ سے خون پھر سے رسنے لگا تھا مگر اب ہوش کسے تھا ۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ تم سے شادی اپنے سکون کی خاطر کی ہے میں نے ۔۔۔۔ مگر تم بجائے ایک اچھی بیوی بن کر میرا انتظار کرنے کے الگ ہی سیر پہ نکل پڑی ۔۔۔ مگر تم بھول گئی ہو شاید لخت ِ جگر ۔۔۔۔۔۔۔ تم پہ اب تم سے زیادہ کس کا حق ہے ۔۔۔ مگر مجھے یقین ہے آج کی اس رات کے بعد تم خواب میں بھی نہیں بھولو گی کہ بھاؤں کون ہے اور اسکا تم پر کیا حق ہے ۔۔۔۔ اپنے دہکتے ہونٹوں سے حیا کی گردن کو چومتے وہ بھاری سرگوشیاں کرتے اسے لرزنے پہ مجبور کر گیا تھا۔۔۔
جس ڈر سے وہ اس سے دور بھاگی تھی اب پھر سے خود کو اسی مشکل میں گھرا دیکھ اسکی سیاہ آنکھوں میں ڈھیروں انسںوں آئے تھے ۔ امممن پپپپ پلیز ۔۔۔۔" اپنے کندھے پہ اسکے سلگتے ہونٹ محسوس کیے حیا تڑپتے اس سے دور ہونے لگی کہ امن نے جھکتے اسے بانہوں میں بھرا تھا ۔۔ اور چلتے اسے بیڈ پہ لٹائے وہ ہاتھ بڑھاتے کمرے میں موجود واحد روشنی کو بھی بجھا گیا۔۔۔۔
اممم پپپ پلیز مم مجھے چچچ چوٹ آئی ہے۔۔۔۔۔۔” اسکے بھاری ہاتھوں کا لمس اپنی کمر اور بالوں میں محسوس کرتے وہ تھوک نگلتے منمنائی۔۔۔ اسے روکنے کا فلحال اسکے علاؤہ اور کوئی بہانہ تلاشنہ مشکل تھا۔
ڈونٹ وری میں ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔ اسکی شرٹ کے اوپری بٹن کو کھولتے امن نے تسلی بخش جواب دیا تو حیا اسکی بے باک سرگوشی اپنے وجود پہ موجود اسکی شرٹ کے کھلتے بٹن پہ لب بھینجتے خاموش سی رہ گئی۔
تت تم ٹھیک نہیں کر رہے مم میرے ساتھ امممم امممنن۔۔۔۔۔۔" خود پہ جھکتے مقابل کی خوشبو کو اپنی سانسوں سے قریب تر محسوس کرتے وہ بری طرح سے روتے اختجاج کرتی اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔۔۔۔
" اپنا حق وصول رہا ہوں کچھ غلط نہیں کر رہا ۔۔۔ چپ چاپ ان لمحوں کو محسوس کرو نہیں تو اگر اب آواز آئی تو منہ پر پٹی باندھ دوں گا۔۔۔۔ اسکے دائیں کندھے سے شرٹ کھسکاتے وہ دبے دبے لہجے میں اسکے کان کے قریب سرگوشی کیے اسکے کان کی لو کو دانتوں میں دبا گیا۔۔۔۔
بھاؤں نے ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کیے اسے خود میں بھینجا تھا حیا کا لرزتا وجود بھاؤں کی من مانیوں کو سہتے اب سن سا ہوتا جا رہا تھا ۔۔ تمہیں رلانے ، تمہاری آنکھوں میں خوف، ڈر ،وخشت ، آنسوں یہ سب لانے اور دیکھنے کا حق صرف اور صرف میرے پاس ہے۔۔۔۔۔۔ تمہارے اس نازک وجود سے لے کر تمہاری روح تک کو چھونے محسوس کرنے کا سارا حق صرف اور صرف میں اپنے پاس رکھتا ہوں۔۔میرے علاوہ کوئی اور تمہیں رلائے تمہیں تکلیف دے میں اس وجود کو کاٹ کے پھینک دوں گا لختِ جگر ۔۔۔۔۔۔ "
اسکے کان کے قریب جھکتے اپنی جنون بھری بھاری سرگوشیاں کرتے امن نے ہونٹ اسکے سینے پہ دل کے مقام پر رکھے تو اسکے سلگتے ہونٹوں کے بے باک لمس پر حیا جی جان سے لرزی تھی اسکی بھاری جان لیوا سرگوشیاں اسکو لرزنے پہ مجبور کر گئی۔۔۔۔
بھاؤں نے ہونٹ اسکے بیوٹی بون پر رکھتے اسے خود سے قریب تر کیا تھا۔۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ اسکی بڑھتی جان لیوا شدتوں سے نڈھال ہوتے حیا نے اپنا آپ اسکے سپرد کر دیا تھا جس کی الفت جسکے عشق کو آج اپنی منزل مقصود ملی تھی۔۔۔ بھاؤں کے لمس میں جنونیت نہیں بلکہ الفت سموئی تھی ۔۔ اسکے وجود کو اپنی الفت سے چھوتے امن نے حیا کو خود میں قید کر لیا تھا۔۔۔ جو اسکی الفت اسکی شدتوں سے گھبرائی بھاؤں کی پناہوں میں چھپی پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
ویام تم اتنی جلدی کیسے اور کیوں واپس آ گئے ۔۔۔۔۔۔۔؟ کمرے میں داخل ہوتے ویام کو دیکھ کرپس نے حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھتے کہا تھا اسکے چیختے یوں حیران ہونے پر ویام نے ناگواری سے اسے سر تا پاوں گھورا تھا اور چلتے ماتھے پہ بل ڈالے اسکے قریب ہؤا ۔۔۔ الایہ سے کنٹیکٹ ہوا ۔۔۔۔ " اسکی بات کو نظر انداز کیے وہ سامنے بیڈ کی جانب بڑھتا لیپ ٹاپ اٹھائے جلدی سے اپنے کام میں مصروف ہوا تھا۔
ویام تم پارٹی پر اس ڈائنہ کو پکڑنے اور انکے پلین کے متعلق انفارمیشن لینے گئے تھے اس طرح سے کیوں اچانک واپس آ گئے ،۔۔۔۔۔" اسکا یوں اچانک آ جانا کرپس کے لیے ہضم کر پانا نا ممکن تھا انکے پلین کے حساب سے ویام وہیں پارٹی میں رہتے ڈائنہ کے ہر قدم پر نظر رکھنے والا تھا جس سے اسکے اگلے قدم کا انہیں بخوبی علم ہو سکے۔ مگر ویام تو پارٹی چھوڑتے واپس ہوٹل آ چکا تھا ۔ اب آگے کیا ہو گا یہی بات کرپس کو مزید پریشان کر رہی تھی ۔
کین یو شٹ یور ماؤتھ فار سم ٹائم ۔۔۔۔۔۔۔" ویام کا دماغ بہت سی چیزوں میں الجھا ہوا تھا۔ اس وقت کرپس کا فضول بولنا اسے غصہ دلانے کے مترادف تھا جبھی وہ خود سے ہی اسے ٹوک گیا۔جس پہ کرپس برے سے منہ بناتے صوفے پہ بیٹھا تھا۔۔۔۔ سارا پلین سب کچھ ہمشیہ کی طرح ویام ہی کر رہا تھا اور کرپس بس اسکے دیے ہر آرڈر کو پورا کر رہا تھا ۔۔۔۔
" ہاں الایہ ڈیوائس فیکسڈ کر دی ہے میں نے ۔۔۔۔ جلدی سے اسے ایکٹیویٹ کرو اور میرے موبائل سے کونیکٹ کر دو۔۔۔۔" وہ تیزی سے لیپ ٹاپ پہ انگلیوں کو چلاتے ایک ہاتھ سے فون تھامے الایہ سے بات کر رہا تھا ۔۔۔ ڈیوائس کے نام پر کرپس کے کان کھڑے ہوئے تھے وہ سمجھ گیا کہ ضرور ویام ایسا کچھ کر کے آیا تھا کہ اسکے وہاں نا ہونے کے باوجود بھی وہ بنا کسی کی نظروں میں آئے وہاں موجود ہو گا۔۔
" میں نے کر دی ہے ایکٹویٹ تم چیک کرو اپنا فون۔۔۔۔۔" الایہ نے تیزی سے بٹن کو کلک کرتے چئیر سے ٹیک لگاتے کہا۔۔۔
اوکے میں دیکھتا ہوں تم ایسا کرو پرنسز کی لوکیشن سینڈ کرو مجھے ۔۔۔۔۔۔" اسکا دل بےچین تھا کافی جب سے اپنے کام میں مصروف ہوا تھا حور سے ٹھیک سے بات تک نہیں ہو پائی تھی اوپر سے الایہ نے ضد کرتے حرمین کی لوکیشن بھی نہیں بھیجی تھی اسے کہ وہ خود دیکھ لے گی اگر کچھ پریشانی ہوئی تو اسے وقت پہ آگاہ کر دے گی۔۔۔
کک کیا ننن نہیں میرا مطلب یہ کہ حور کی لوکیشن کیوں چاہیے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" الایہ نے گڑبڑاتے بمشکل سے بات سنبھالی تھی۔۔۔۔ حرمین کے پاکستان اکیلا جانے کی بات صرف الایہ ہی جانتی تھی وریام اور نیناں نے یہ بات چھپائی تھی ویام سے۔۔۔۔ اسی وجہ سے نیناں نے الایہ کی منت کی تھی کہ وہ کسی طرح ویام کو اس بات کا علم ناں ہونے دے، وگرنہ دوسری بار حور کے یوں اکیلا جانے کا سنتے ویام یقیناً ہتھے سے اکھڑ جاتا۔۔۔
جبھی الایہ نے اسے ابھی تک حور کی لوکیشن نہیں بھیجی تھی اور وہ جب بھی مانگتا آگے سے ٹال دیا کرتی تھی مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ بری طرح سے پھنس چکی ہے۔۔۔۔ آتا جاتا کچھ ہے نہیں ضرور کچھ گڑبڑ کی ہے جو یوں سوچ میں ڈوب چکی ہے میڈم۔۔۔۔۔۔۔" بیڈ پر بیٹھے اپنی گن کو صاف کرتا اذلان جو کافی غور سے اسکی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہا تھا اب یوں اسے سوچوں میں الجھا دیکھ وہ جلے دل سے اونچی بڑبڑایا میں تھا۔۔۔۔
حالانکہ اسکا ناک آگے ہی سوجھا ہوا تھا اور ہونٹ کا کنارہ بھی پھٹ چکا تھا جبھی وہ جلے دل کے ساتھ اسے سلگا رہا تھا ۔ الایہ جو بے وقت ویام کی اس نئی فرمائش پہ تذبذب کا شکار ہوئے بیٹھی تھی اسکی بےسری آواز کو سنتے اسنے پاس پڑا پیپر ویٹ اٹھائے اسے کھینچتے دے مارا تھا کہ اذلان اس اچانک حملے پہ منہ کھولے شاک سا رہ گیا پیپر ویٹ سیدھا اسکے پیٹ پر لگا تھا ، کہ وہ کراہتا پیٹ پکڑ کر چلانے لگا۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا یہ آواز کیسی ۔۔۔۔؟ ویام نے اچانک اذلان کی کراہنے کی آواز سنتے ماتھے پہ بل ڈالے الایہ سے پوچھا ۔۔۔ کچھ نہیں بس میرے شوہر کو سر میں درد تھا اسی وجہ سے درد سے کراہ رہا ہے بیچارہ مگر فکر کی کوئی بات نہیں میں اسے اب دبا رہی ہوں مطلب اس کا سر دبا رہی ہوں اب وہ ٹھیک ہے۔۔۔" الایہ نے دانت پیستے بیڈ پہ الٹے پڑے اذلان کو دیکھتے کہا تھا ۔۔۔۔۔
اچھی بات ہے خیال رکھو اچھی بیوی بنو ۔۔۔۔ویسے بھی کوئی ڈھنگ کا کام تو آتا نہیں ایک فرمانبردار بیوی ہی بن جاؤ ۔۔۔۔۔" ویام نے جلے انداز میں ہنستے ہوئے کہا تو الایہ کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا ۔۔۔۔ تم انسان بنو بندر خبردار جو بدتمیزی کی مجھ سے بڑی سالی ہوں میں۔۔۔ بالکل بھی برادشت نہیں کروں گی یہ سب ۔۔۔۔۔"
الایہ نے گردن اکڑتے ایک روب سے کہا تھا ویام نے تاسف سے سر جھٹکا۔ فضول میں پانچ منٹ برباد کر دیے تم نے حور کی کولیشن بھیجو مجھے ۔۔۔۔۔" وہ بےزاری سے کہتے لیپ ٹاپ سے عین کی لوکیشن دیکھنے لگا مگر لوکیشن رافع کی گھر کی دیکھتے اسکے ماتھے پر بل نمودار ہوئے اس نے کہا بھی تھا نینان سے کہ عیناں اب سے انکے گھر اسکے کمرے میں رہے گی مگر وہ پھر سے اپنے موم ڈیڈ کے گھر چلی گئی تھی۔ اسکا حساب تو وہ اپنے طریقے سے لینے والا تھا عین سے۔۔۔
وو وہ وو ویام۔۔۔۔۔" الایہ نے تھوک نگلتے بمشکل سے پکارا۔۔۔۔۔ تو ویام نے آنکھیں چھوٹی کیے فون کو گھورا اگر الایہ بات کرتے اٹک رہی تھی تو اس کا مطلب وہ کچھ چھپا رہی تھی ۔۔
اگلے ایک منٹ میں مجھے پرنسز کی لوکیشن بھیجو بےوقوف عورت ورنہ بھول جاؤں گا کہ کیا رشتہ ہے میرا تمہارے ساتھ۔۔۔" اسکی گردن کی رگیں ابھرنے لگی یہ سوچتے ہی کہ الایہ اس سے اسکی پرنسز کے متعلق کچھ چھپا رہی تھی ۔کرپس اسکے اچانک سے چیخنے پہ ہربڑاتے اٹھا۔۔۔
" وو ویٹ وو ویام دد دیکھو تم آرام سے سنو مم میری بات۔۔۔۔۔۔!" الایہ اسکے گرجنے پہ موبائل کان سے دور کیے اسے سمجھانے لگی اسکے انداز پہ اذلان نے سر گھٹنوں سے اٹھائے ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے دیکھا جو لگاتار کمرے میں چکر کاٹتی ویام کے ترلے کر رہی تھی۔۔۔۔
" سنو تم الایہ آدھا منٹ ضائع کر دیا تم نے۔۔۔۔۔" اسکی بات کاٹتے وہ اور بھی اونچی آواز میں غرایا تھا۔۔۔ اس کے یہ وخشی روپ دیکھتے کرپس ڈر سا گیا اور الایہ کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی ۔۔ " ویام الایہ اس وقت پاکستان میں ہے مری میں اپنی دوست کے ساتھ گئی ہے۔۔۔ اور آنٹی نے مجھے تم سے یہ بات چھپانے کا پرامس لیا تھا اسی وجہ سے میں نے نہیں بتایا تمہیں۔۔۔۔" وہ ایک ہی سانس میں بنا رکے بولی تھی ۔۔۔ سانس سینے میں الجھ سا گیا اسکے غصے کا سوچتے۔۔۔۔
" میں نے اس کی لوکیشن مانگی ہے الایہ ۔۔۔دس سیکنڈ۔۔۔" ویام نے لب بھینجتے غصے سے غراتے کہا تھا اسکے گالوں پہ ابھرتے قاتل ڈمپل اسکے سرخ پڑتے چہرے پہ غضب کا حسن بکھیر رہے تھے۔۔۔ ماتھے کی تنی ہری رگیں پھول چکی تھی اور یہ سب الایہ کے دھوکے اور فریب کی وجہ سے تھا۔۔۔
" اسکی لوکیشن نہیں میرا پاس پتہ نہیں کیسے مگر جب سے وہ مری گئی ہے اسکی لوکیشن نہیں مل پا رہی اور چپ ڈس ایبل ہو چکی یے۔۔۔۔۔ الایہ نے مٹھیاں ڈر سے بھینجتے اسے بتایا تھا اور یہی تک تھی ویام کاظمی کی برداشت _______ اسنے غصے سے مڑتے بھپرے تاثرات سے ایک دم دھاڑ سے موبائل پیچھے دیوار پہ دے مارا تھا۔۔۔۔ کرپس اسکے اچانک اس وخشی روپ پہ گھبرا سا گیا تھا ۔۔۔
وہ جانور بنتا تھا مگر صرف دشمنوں کیلئے اسکا یہ روپ اسکے اپنوں میں سے آج تک کسی نے نہیں دیکھا تھا کیونکہ ویام کاظمی کبھی ان کو اپنی بیسٹ سائڈ نہیں دکھانا چاہتا تھا مگر آج اسکا یوں بھپرنا دھاڑنا یقیناً کچھ بہت برا اور بڑا ہوا تھا۔۔۔
" ویام کہاں جا رہے ہو تم ۔۔۔۔۔۔ پلیز رکو ہمیں میٹنگ کیلئے جانا ہے ابھی۔۔۔۔" اسے گن پینٹ کی پاکٹ میں رکھتے باہر کی جانب جاتا دیکھ کرپس کو چارو ناچار اس بپھرے شیر کے راستے میں آنا پڑا تھا۔۔۔ ویام نے غصے سے دانت پیستے اسکی گردن سے پکڑتے اسے ایک جانب کیا جسکا چہرہ ویام کی گرفت پہ سرخ پڑنے لگا۔۔۔۔
کونسی اور کیسی مینٹگ مجھے بچہ سمجھ رکھا ہے تم سب نے۔۔۔۔۔ آئی نو ڈیٹ الایہ اکیلے اتنا بڑا کام نہیں کر سکتی تم سب ملے ہو اس کے ساتھ۔۔۔۔۔ اب اپنے سر کو میرا میسج دے دینا کہ ویام کاظمی کے لیے سب کچھ ضروری ہو سکتا ہے مگر اپنی پرنسز سے آگے کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔ الایہ اور تم سب کو تو میں بعد میں دیکھوں گا مگر ایک بات یاد رکھنا اگر میری پرنسز کا ایک خراش بھی آئی تو تم سب اپنے خشر پہ روؤ گے۔۔ اپنی قہر برپا کرتی بھوری آنکھوں کو کرپس کی شربتی آنکھوں میں گاڑھتے وہ اس قدر غضب ناک لہجے میں بولا کہ کرپس اسکے روپ پہ لرز سا گیا۔۔۔
اوہ شٹ۔۔۔۔۔۔۔!" ویام اسے زور سے دھکہ دیے باہر کی جانب نکلا۔تھا۔۔۔۔۔ مگر کرپس جانتا تھا کہ وہ اب نہیں رکنے والا جب تک حور کو اپنی آنکھوں کے سامنے ناں دیکھ لیتا ۔۔۔۔ اب کیا ہو گا انکے پلان انکے مقصد کا۔۔۔۔۔۔اسی بات کا اسی صدمہ لگا تھا۔۔۔ کیونکہ اگر گیم کا ماسٹر مائنڈ ہی نہیں رہے گا تو گیم کون کھیلے گا۔۔۔۔۔۔اس وقت ویام کاظمی اس ریس کا وہ گھوڑا تھا جس کے ہاتھ میں سارے پیادوں کی بساط تھی۔۔۔۔
" ہیلو سر ویام کو معلوم پڑ چکا ہے کہ الایہ نے اس سے جھوٹ بولا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہم نے مل۔کے اس سے حور کی لوکیشن کے متعلق چھپایا ہے اب وہ واپس چلا گیا ہے اب آگے کیا ہو گا۔۔۔۔۔؟" کرپس نے فورا سے اٹھتے سر شمس کو کال کی تھی۔۔۔ جن کے ماتھے پہ ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے تھے۔۔۔
اسے کیسے معلوم ہوا ۔۔۔۔ کرپس اسے روکو اگر وہ گیا تو سارا کھیل تباہ ہو جائے گا تم جانتے ہو اسی وجہ سے ہم نے اس سے چھپایا تھا کہ حرمین کی لوکیشن ٹریس نہیں ہو پارہی۔۔۔" سر شمس کا اس صدمے سے برا حال تھا۔ اگر ویام چلا گیا تو پھر۔۔۔۔۔۔
سر وہ نہیں رکنے والا اور اگر میں نے اب دوسری بار اسے روکا تو ممکن ہے کہ میری لاش بھی میری بیوی کو ناں ملے۔۔۔۔" کرپس نے انکو سرئیس صورتحال سے آگاہ کیا تھا ویام کے بھپرے روپ کا سنتے وہ۔خود بھی سر ہاتھوں میں تھامے پیچھے کو بیٹھے تھے۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
کیا ہوا ہے اداس کیوں ہو۔۔۔۔۔؟" لیپ ٹاپ سامنے بیڈ پر رکھتے میرب نے ایک ہاتھ میں اپنے سارے بال تھامے دوسرے سے برش کو تھامے وہ زور لگاتے انہیں سلجھانے لگی۔۔۔ " ہاں کچھ نہیں ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔۔!"تم سناو تمھاری ڈیٹ کا کیا بنا ۔ " عیناں نے بجھے دل سے اپنے سنہری بالوں کو پیچھے کرتے کراؤن سے ٹیک لگائی تھی۔۔
کیا بننا ہے فلاپ ہو گیا سب کچھ ۔۔۔۔۔۔ ایک نمبر کا لوفر ہے وہ لڑکا۔۔۔۔" منہ بسورتے وہ تیمور کی بابت اسے آگاہ کرنے لگی۔
مقابل جو بمشکل پہلی بار چھلانگ لگاتے یوں کسی کے کمرے میں آیا تھا اچانک سے اپنے ذکر پر وہ چونکتے ہاتھ سے اپنے شرٹ کی سلوٹیں ٹھیک کرنے لگا۔۔۔
اچھا وہ کیسے کیا کیا ہے اس لڑکے نے _____؟" کیا خوبصورت نہیں تھا وہ۔۔۔۔۔۔" عینان کا دماغ اپنی ہی پریشانی میں الجھا تھا مگر اسے یقین تھا کہ وہ اس لڑکی کو غلط ثابت کر دے گی۔۔۔ یونی سے رافع اسے اپنے ساتھ لایا تھا۔۔۔۔۔ وہ سب سے ملی تھی فدک تو ابھی ہی اٹھ کے گئی تھی اس کے پاس سے۔۔۔۔ کتنی اداس تھی وہ ویام یوں اچانک سے اسکی عیناں کو لے گیا تھا۔۔۔۔ مگر آج اسکے کلیجے کو ٹھنڈ پڑی تھی اپنے جگر کے گوشے کو اپنے سینے سے لگانے پر۔۔۔۔۔۔
نہیںںںںںںںں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار پیارا تو وہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کام اچھے نہیں اسکے ۔۔۔۔۔۔۔" میرب نے غصے سے زور لگاتے بالوں کو کھینچا تھا کہ ایک دم سے ایک گھچا سا برش میں نمودار ہوا تھا ۔۔۔ جسے دیکھتے اسے دلی خوشی ہوئی تھی کہ چلو کچھ تو کمی ہوئی اس گھونسلے میں ۔۔۔۔۔"۔ سینے پہ ہاتھ باندھے وہ بخوبی اسکی حرکتوں اور اسکی باتوں کو سنتا دلکشی سے مسکرا رہا تھا۔۔
" میں تو بہت ہی معصوم سمجھتا تھا میر تمہیں مگر تم تو میری کیوٹی پائے نکلی۔۔۔۔۔ اففف یہ ظالم ادائیں۔۔۔۔۔۔ تیمور نے دل و جان سے مسکراتے اپنے بالوں میں ایک اسٹائل سے ہاتھ چلایا۔۔۔۔۔۔۔ معا اسکا فون رنگ ہوا، تیمور نے موبائل جیب سے نکالتے نمبر دیکھا تو سامنے ہی کیتھی کا نام جگمگا رہا تھا۔۔ ایک پل میں ہی اسکا سارا موڈ ذائل ہوا۔۔۔ اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا ہوٹل جانے کا اب ایک دم سے دل اور ارادہ اندر بیٹھی میر کی معصوم۔باتوں کو سنتے بدل سا گیا تھا۔۔۔ جبھی اسنے ناگواری سے فون کو گھورتے پاور آف کیا ۔۔۔اور خاموشی سے جیب میں ڈالے وہ دوبارہ سے ہاتھ سینے پہ باندھے ٹیک لگائے فرصت سے اسے دیکھنے لگا جو برش کرتے سامنے لیپ ٹاپ رکھے اپنی کسی دوست سے بات کر رہی تھی۔۔۔
"اچھا مجھے چھوڑو میں نے انکار کر دیا ہے پاپا کو۔۔۔ ویسے بھی اتنا خوبصورت نہیں تھا جو میری ٹکر کا ہو ،تم یہ بتاؤ کیسا گزرا تمہارا رومینٹک ٹرپ اس سڑئیل کے ساتھ، ویسے سڑئیل تو وہ صرف ہم سب کو دیکھ کے ہو جاتا ہے تمہیں تو دیکھ کے ہی اسکا چہرہ چاند کی طرح چمک جاتا ہے۔۔۔ میرب نے ٹھنڈی سانس بھرتے اپنے پاؤں کو دباتے لب بھنجے تھے۔۔۔
کہاں کھو رہی ہو میڈم واپس آ جاؤ ۔۔۔۔۔۔ کونسا رومینٹک ٹرپ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی وعدہ کر کے بھاگ گیا کام پر ۔۔۔۔۔ وہ تو اپنی کہی بات پہ بھی قائم نہیں رہ پاتا۔۔۔۔۔۔" عیناں کا دل کافی اداس تھا ویام سے۔۔۔۔ کچھ اسکے یوں چھوڑ جانے کا غصہ بھی تھا جبھی وہ جلے دل کے ساتھ بولی تو میرب کی ہنسی چھوٹی تھی۔۔۔
دانت اندر کر منحوس۔۔۔۔۔۔۔" اسکے یوں ہنسنے پر عیناں نے غصے سے کہتے ساتھ ہی منہ پھلائے اسے مارنے کا اشارہ کیا تو میرب نے تکیے کے نیچے ہاتھ لے جاتے اپنا کینڈی پاپ نکالا تھا ۔۔۔۔ کھاؤ گی ۔۔۔۔" عیناں کے سامنے کرتے اس نے ریپ اتارتے اسے جھوٹی صلح ماری ۔۔۔
منحوس دفع ہو جا ۔۔۔۔۔ اسی سے کر لے شادی۔۔۔۔۔۔ عیناں اسے یوں پھر سے پاپ کھاتا دیکھ جھنجھلاتے ہوئے بولی تھی اور غصے سے بنا اسکی بات سنے فورا سے لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کر دیا ۔۔۔۔
پنک کلر کی نائٹ شرٹ کے اوپر دونوں اطراف گھونسلے کی طرح آدھے سلجھے آدھے شہد رنگ بالوں میں وہ ریڈ کلر کا پاپ ہاتھ میں پکڑے دلجمعی سے کھاتی تیمور کی دھڑکنیں ساکت کر گئی۔۔۔۔وہ مبہوت سا منہ کھولے کھڑکی سے یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا اپنا دل تیزی سے دھڑکتا اسے اپنے کانوں میں بجتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
اسکی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں میں چمک تھی گلابی ہونٹ پاپ کے رنگ سے سرخ ہو رہے تھے جبکہ تھوڑی بھی کافی حد تک سرخ ہو رہی تھی ،کوئی دوسرا اسے دیکھ لیتا تو شاید ہی نخوت سے منہ پھیر لیتا مگر اس لڑکی کی ہر معصوم حرکت تیمور شیرازی کی دنیا تہہ و بالا کر رہی تھی۔۔۔ یہاں آنے کی اسے جتنی خوشی ہوئی تھی اتنی تو اس کیتھی کی بانہوں میں بھی نہیں مل سکتی تھی۔۔۔۔ تیمور مسکراتے گہری نظروں سے اسے دیکھتے اسکی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
سر ۔۔۔۔۔" ایچ اے آر کی پشت پر کھڑے ہوتے اسکے خاص آدمی نے ہاتھ باندھتے مؤدب سا سر جھکاتے اسے پکارا تو وہ غصے سے سرخ ہوئی آنکھوں سے سرد تاثرات لیے مڑا تھا۔
کیا خبر لائے ہو ۔۔۔۔۔ اسکی آواز میں چھپا غضب مقابل بخوبی محسوس کر پا رہا تھا جبھی اسکے گلے میں گلٹی سی ابھرتے معدوم ہوئی تھی وہ خوف سے پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
وو وہ سر ہم نے پوری کوشش کی ہے مگر روز میڈم کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ۔۔ ۔۔" ابکی بار وہ سر جھکاتے فرش پہ گردن آگے کو بڑھائے بیٹھا تھا۔۔۔ سیاہ آسمان میں چمکتی چاند کی روشنی اب معدوم ہوتے اندھیرے میں بدلنے لگی تھی۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا جیسے صف ماتم بچھا ہو کسی کا ۔۔۔۔۔۔۔ ایچ اے آر نے غصے سے اپنے بھاری قدم آگے بڑھاتے اپنی گن میز پر سے اٹھائی اور ایک دم سے ٹھاہ کے ساتھ مقابل کے ماتھے کے بیچوں بیچ نشانہ لگایا ۔۔۔۔۔۔
خاموش فضا میں ایک دم سے ہلچل سے مچ اٹھی جب مقابل بیٹھے اس شخص کی دلدوز چیخ کے ساتھ وہ ایک دم سے منہ سے ابلتے خون کے ساتھ زمین بوس ہوا تھا۔۔۔۔
رچرڈ ۔۔۔۔۔۔۔" ایچ اے آر دھاڑا تھا۔۔۔ جب سے روزی غائب ہوئی تھی اسکا حال ایسے ہی کسی بھوکے شیر کی مانند تھا جس سے اسکا قیمتی بچہ چھین لیا ہو کسی نے۔۔۔۔ لیلی کی بیس کالز آ چکی تھی اسے۔۔۔۔۔ مگر وہ اپنے ہوش میں ہی کہاں تھا۔۔۔۔۔ ایچ اے آر کی موجودگی کے بغیر لیلی کوئی بھی میٹنگ اسائن نہیں کر سکتی تھی جبھی میٹنگ کو فلحال کیلئے پوسٹ پونڈ کر دیا گیا تھا۔۔۔
مجھے انکار کرنے والے شخص سے سخت نفرت ہے ، رچرڈ ۔۔۔۔۔ مجھے میری بیٹی چاہیے تو مطلب چاہیے آگ لگا دو دنیا میں تہس نہس کر دو سب کچھ۔۔۔۔۔ جب تک میری بیٹی ناں ملے اٹھا لو سب کی بیٹیوں کو تباہ کر دو سب کا سکون بالکل ویسے ہی جس طرح سے کسی نے بہت بری طرح سے میرا سکون نوچ کھایا ہے ۔۔۔۔۔ جس کسی نے بھی یہ کیا ہے وہ دل سے نہیں دماغ سے کھیلا ہے۔۔ اس نے ایچ اے آر کے دل پر اپنے دماغ سے وار کیا ہے۔۔۔۔ اگر وہ روزی کو جانتا ہے تو جانے کیا کچھ جانتا ہو گا میرے بارے میں ۔۔۔۔جتنی جلدی ہو سکے روزی کو ڈھونڈو ۔۔۔۔۔ مجھے چاہیے اپنی بیٹی کسی بھی حال میں________!”
💥💥💥💥💥💥
یہ یہ کون ہے اور مجھے جانے کیوں نہیں دے رہا۔۔۔۔۔۔ وہاں سے بھاگتے وہ سیدھا اسی روم میں آئی تھی جہاں ایل اسے اپنے ساتھ لایا تھا ۔۔۔۔ ایل کی گستاخی پہ اسکا سانس ابھی تک پھولا ہوا تھا دھڑکنیں خوف سے تیز تر ہونے لگی ۔ وہ دروازہ لاک کیے اسی کے متعلق سوچ رہی تھی ۔۔
ایل کے یوں وخشیانہ جاہلوں کی طرح دبانے کی وجہ سے اسکے گال بھی بری طرح سے درد کر رہے تھے۔۔۔ کسی نا محرم کا اپنے گالوں پر لمس پاتے اسے خود سے نفرت سی ہونے لگی ۔۔ ایل کی نیلی آنکھوں میں چھپی نفرت اسے جانے کیوں خوف زدہ سا کر گئی تھی ۔ ۔۔۔
حور نے ہاتھ سے اپنے دہکتے گال کو چھوا تھا اور پھر تیزی سے واشروم میں جاتے وہ رگڑتے اپنے چہرے سے ایل کے نشان اسکے لمس کو مٹانے لگی ۔۔۔۔ کافی دیر چہرے کو اچھے سے دھونے کے بعد وہ ٹاول سے چہرہ واش کیے باہر نکلی تھی مگر بیڈ پر پڑے لال جوڑے کو دیکھ حرمین کے ماتھے پر ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے ۔۔۔۔۔
جبھی اسنے دبے قدموں سے بیڈ کے قریب جاتے اس سرخ اور گولڈن خوبصورت سے لہنگے کو اٹھایا اور اشتیاق سے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلائے وہ اسکی نرماہٹ کو محسوس کرنے لگی ۔۔۔یہ دلہن کا لہنگا یہ کس کا ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔" حرمین معصومیت سے آنکھیں پھیلائے خود سے ہی سوال کر رہی تھی ۔۔۔ ایک عجیب سی چمک تھی اسکی آنکھوں میں کتنا خوبصورت لہنگا تھا یقیناً جس دلہن کا ہو گا وہ بھی پیاری ہو گی ۔۔ وہ خود سے ہی سوچتی مسکرا اٹھی ۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر حرمین نے چونکتے مڑتے پیچھے کی جانب دیکھا جہاں ایک خوبصورت سی دبلی پتلی لڑکی کھڑی تھی۔۔۔۔ اسکے ہاتھ میں ایک باکس بھی تھا۔۔ ارے کس کی شادی ہے یہاں کتنا پیارا لہنگا ہے ۔۔۔۔ آپ بتا سکتی ہیں یہ کس کا ہے۔۔۔؟" بیوٹیشن جو ایل کے سمجھانے پر چپ چاپ اپنا کام کرتے سامان نکال رہی تھی اس معصوم لڑکی کی سوال پر اسے بے حد دکھ اور افسوس ہوا۔۔۔
مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اسکے لئے۔ ۔۔۔ " میم جلدی سے یہ لہنگا پہن آئیں پھر میں آپکو تیار کر دوں آپ کا نکاح ہے تھوڑی دیر میں۔۔۔۔۔۔ " بیڈ سے وہ لہنگا اٹھائے وہ حرمین کے ہاتھوں میں رکھتے سنجیدگی سے بولی تو حرمین نے حیرت سے اس پاگل لڑکی کو گھورا ۔۔۔۔
آپکا دماغ خراب ہے کیا۔ ۔۔۔؟ میرا نکاح کس سے اور آپ کو کس نے کہا______؟" حور نے غصے سے اسکے قریب جاتے حیرانگی سے پوچھا تھا ۔ میڈم مجھے کچھ نہیں معلوم مجھے بس یہی کہا گیا ہے کہ آپ کو تیار کر دوں نکاح کے لیے ___ بیوٹیشن نے اسے سپاٹ لہجے میں کہا تھا ۔۔۔
حرمین کو وہ پاگل لگی تھی۔ جبھی وہ غصے سے اونچی آواز میں بولی۔ " زبان سنبھالیں اپنی میں کوئی لاوارث نہیں ہوں جو کوئ بھی کہے گا اور کوئی بھی مجھے اٹھا کر نکاح کر لے گا ۔۔۔۔دور ہٹو میں ابھی اپنے گھر جا رہی ہوں۔۔۔۔ اسے ہاتھ سے ایک جانب کرتی وہ غصے سے آتش فشاں بنی وہاں سے نکلی تھی اچانک اسکے بڑھتے قدم دروازے کے بیچ تھمے تھے ۔۔۔جب نظریں مقابل پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے اطمینان سے خود کو دیکھتے ایل پر پڑی۔ ۔۔۔۔
دیکھیں آپ نے میری مدد کی اسکے لئے آپ کا بے حد شکریہ۔ ۔۔۔ مگر جو یہ لڑکی کہہ رہی ہے میں ایسا ویسا کچھ نہیں کر سکتی تو پلیز میرا راستہ چھوڑیں مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ ایل کو سخت نظروں سے دیکھتے وہ دانت پیستے ہوئے بولی تو ایل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔ ۔۔۔
گیڈ آؤٹ فرام ہئیر ________!” اسکے بازوؤں کو دبوچتے وہ بیوٹیشن پر دھاڑا جو کانپتی جلدی سے کمرے سے بھاگی تھی ایل نے اندر جاتے اسے کھینچتے بیڈ پر دھکہ دیا اور دروازہ لاک کیے وہ شرٹ کے بٹن کھولتے حرمین کی جانب بڑھا حرمین جو منہ کے بل گری تھی ایک دم سے وہ غصے سے اٹھی مگر سامنے اسے یوں شرٹ کے بٹن کھولتے سرد تاثرات سے اپنی جانب بڑھتا دیکھ اسکا دل لرز پڑا ۔۔۔۔۔
حور کا سانس بند پڑنے لگا وجود ایک دم سے لٹھے کی مانند ہوا تھا جسے ایل نے بخوبی محسوس کیا ۔۔۔۔۔ پہ پلیز جج جانے دو مجھے۔۔ اپنی جانب بڑھتے اسکے بھاری قدموں کی چاپ کو سنتے وہ خوف سے تھر تھر کانپتی پیچھے کو ہونے لگی ۔۔۔۔
تمہارے پاس دو آپشن ہے سن شائن۔۔۔۔۔۔۔ یاں تو میری قربت کو ابھی قبول کر لو یا پھر مجھ سے نکاح کر لو ۔۔۔۔ کیونکہ میں تمہیں حاصل کر کے رہوں گا یہ تو طے ہے یہ نکاح تو بس تمہاری فارمیٹلی کے لیے کر رہا ہوں ۔۔۔۔ مگر مجھے اس وقت صرف تمہاری طلب ہے اب تم خود بتاؤ کیسے میری قربت قبول کرو گی۔۔۔۔۔۔ اسے بھاگتا دیکھ ایل نے جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچتے اسکی کان کے قریب سرگوشی کی تو حور کا وجود کانپ پڑا ۔۔۔۔۔
اسکا وجود اس اچانک سے پڑتی نئی مصیبت پر دہل سا گیا تھا ۔۔۔۔ خوف و وخشت اسکے دماغ پر بری طرح سے حاوی ہونے لگا ۔۔۔ ایل نے شاطرانہ انداز میں ایک دم سے اسے خیالوں میں کھویا دیکھ کھینچتے بیڈ پر دھکہ دیا تو اسکی چیخ سی نمودار ہوئی تھی ۔۔۔۔
چچچ چھوڑو پہ پلیز نن نہیں تت تمہیں اللہ کا وو واسطہ مجھے جج جانے دو ۔۔۔۔۔۔" اپنی جانب بڑھتے ایل کے قدموں پر وہ لرز کے رہ گئی تھی ۔۔۔۔ اپنے ماں باپ اپنا بھائی کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا ۔۔۔۔جانے کیسی آزمائش تھی اسکی کہ یہ وخشی انسان کسی دردندے کی مانند اسکی زندگی میں آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
" آئی سویر چھوڑ دوں گا بس ایک بار اپنا تو بنا لو۔۔۔۔۔ تکیے پر اسکے دائیں بائیں ہاتھ جمائے ایک نے ہاتھ سے کھینچتے اسکا خجاب الگ کیا تو حور ایک دم سے اسے پیچھے کو دھکہ دیے بیڈ سے اترنے لگی مگر ایل نے ایک دم سے اسے اسکے بازو سے پکڑتے دوبارہ کھینچا تھا وہ بری طرح سے ڈرتی آنکھیں موندے بےتخاشہ تو رہی تھی۔۔۔ یہ سب کچھ کیا تھا اسکی زندگی جانے کن طوفانوں کا شکار ہونے والی تھی ۔۔
بتاؤ کیا فیصلہ لیا تم نے ۔۔ حور کےدونوں ہاتھوں کو اسکے دوپٹے کی مدد سے پیچھے باندھتے وہ اسکے رخسار کو پاس بیٹھے سہلاتے صلح جو انداز میں پوچھنے لگا۔۔۔۔۔ مگر اسکا جواب ناں پاتے ایل نے ناگواری سے اسکے حسین چہرے کو دیکھا ۔
" جیسی تمہاری مرضی بعد میں یہ مت کہنا کہ میں بنا کسی رشتے کے تمہارے قریب آیا۔۔۔۔۔" اسنے کندھے اچکاتے اپنے بالوں کو ہاتھ سے برابر کیا تو حور کی آنکھوں سے گرم سیال ابھرنے لگے۔۔۔ ایل کو خود پہ جھکتا دیکھ وہ تڑپ گئی۔۔۔۔"ننن نہیں ایسا ممم مت کک کرو مم میں تت تیار ہوں اس نکاح کیلئے۔۔۔۔" اپنی عزت کی خاطر وہ بلکتے بری طرح سے روتی مجبوراََ نکاح کی حامی بھر گئی ۔۔ جسپہ مقابل دل و جاں سے گہرا مسکرایا۔۔۔۔۔
دروازے کے وسط میں وہ سکائے بلیو کلر کی شرٹ جسکے بازوؤں دونوں اطراف سے فولڈ کیے ہوئے تھے ، کے ساتھ بلیو ہی جینز پہنے ، ڈارک گولڈن بال جو کہ آدھے پونی میں مقید تھے اور آدھے ایسے ہی کھلے چھوڑے اسکی گردن تک آتے تھے ، نفاست سے بندھے بالوں کے ساتھ وہ سنجیدگی سے ہاتھ پشت پر باندھے اپنی گہری نیلی سمندر جیسی آنکھوں میں محویت سموئے بیڈ پر اوندھے منہ پڑے اس نازک وجود کو دیکھ رہا تھا جو جانے کب سے رو رہی تھی ۔۔۔
ایل نے گہری سانس فضا کے سپرد کیے اندر قدم رکھے تو دروازہ بند ہونے کی آواز پر حور جو اس زبردستی کے نکاح کے بندھن کی وجہ سے اپنے بھائی اپنے ماں باپ سے دوری ان کی اجازت کے بغیر اپنی زندگی کے اتنے بڑے فیصلے پر اپنی قسمت کا رونا رو رہی تھی اچانک سے سہمتے اسنے گہری کالی آنکھوں میں خوف سموئے مڑتے مقابل کو دیکھا ۔۔۔۔ جسکے چہرے پر اپنے کیے کی شرمندگی کا شائبہ تک نہیں تھی۔۔۔
سرخ لہنگے میں دمکتا اسکا نازک وجود ایل کی آنکھوں میں غضب کی سرخی جھلکنے لگی اسکی خوف سے سہمی ہرن کی مانند بڑی بڑی نظروں میں چھپا اپنا ہی عکس اسے مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔ وہ قدم قدم اٹھائے اسکے قریب ہونے لگا کہ حور سہمتی پیچھے ہوتے خود کو اس بھاری کامدار دوپٹے سے ڈھکنے لگی۔۔۔۔۔ حرمین کی حرکت پر ایل کے چہرے پر ناگواری سی پھیلی ۔۔۔۔ وہ چلتے ایک دم سے فاصلہ سمیٹے اسکے قریب تر ہوا کہ حور سانس روکے انکھیں خوف سے پھیلی آنکھوں سے مقابل کی نیلی سرخ ہوتی نظروں میں دیکھ وہ سر کو نفی میں جنبش دینے لگی ۔۔۔۔
تو کیسا لگ رہا ہے حرمین وریام کاظمی سے حرمین عالیان سلمان شاہ بن کر۔۔۔۔۔۔" وہ ہاتھ اسکے قریب دیوار پر رکھتے گہری سرگوشی میں بولا تو حور کی آنکھوں میں ایک دم سے پانی دھر آیا ۔۔۔ وہ سہمتی پیچھے ہوتے دیوار سے جا لگی ۔۔۔ ایل نے والہانہ نظروں سے اسکے سرخ پڑتے چہرے اور پھر سرخ ہوئی چھوٹی سے ناک کو دیکھا۔۔۔ دل میں عجیب عجیب سے جذبات کا طوفان اٹھنے لگا کہ وہ ایک دم سے جھکتے اسکی ناک پر اپنے دہکتے ہونٹ رکھتے حور کو سہما سا گیا ۔۔۔۔
اپنے دونوں اطراف دیواد کی مانند حائل مقابل کے ہاتھوں پر اپنے نازک ہاتھ رکھے وہ اسے پیچھے کرنے لگی مگر ایل کے بھای مضبوط وجود کے سامنے یہ کوشش ںےکار تھی ۔ ۔۔۔ ایل نے چہرہ پیچھے کرتے اسکی بند لرزتی پلکوں اسکے شرم و حیا سے دہکتے چہرے کو دیکھا تو دل جیسے بےقابو ہوئے ہاتھوں میں دھڑکنے لگا تھا۔۔ یہ وہ پہلی لڑکی تھی جسے پانے کی چاہ اسے اتنا سب کچھ کروا رہی تھی ۔۔۔۔ وہ چاہتا تو اسے بہت پہلے ہی حاصل کر سکتا تھا یہ سب اسکے لئے چٹکیوں کا کھیل تھا مگر جانے کیوں اس لڑکی کا کسی دوسرے وجود کے قریب جانا بھی اسے جھلسا دیتا تھا۔۔۔۔
جبھی اسنے سوچ سمجھ کر داؤ کھیلا تھا ۔۔۔۔ اپنی مام کے بدلے کے ساتھ ساتھ وہ اسے ہمشیہ کے لیے اپنا پابند کر لے گا ۔۔۔۔۔اس پر صرف اور صرف ایل کا حق تھا وہ کسی دوسرے کو اس کے قریب بھی نہیں آنے دے گا ۔۔۔۔ایل نے ہاتھ تھامتے اسے پکڑتے بیڈ کی جانب لے جاتے بٹھایا ۔۔۔۔ تو حور خوف سے خود میں سمٹنے لگی حود کی آنکھوں میں موجود خوف ایل کو مزید جان لیوا لگا ۔۔۔۔۔
" یہ لو پیو اسے۔۔۔۔" وہ چلتا میز پر سے گلاس اٹھائے اسکے سامنے کرتے بولا تو حور نے گھٹنوں کے گرد اپنے دونوں بازوؤں مضبوطی سے باندھتے سر نفی میں ہلا دیا ۔۔۔" میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تمہیں جوس پینا یا پھر نہیں سن شائن میں نے کہا ہے کہ یہ لو اسے پیو ۔۔۔۔" ابکی بار وہ ایک پاؤں اٹھائے اسکے قریب بیڈ پر رکھتے ایک ایک لفظ ہر زور دیتے تیز لہجے میں بولا تو حور نے فورا س کپکپاتے ہاتھوں سے گلاس کو تھاما۔۔۔
پوچھو گی نہیں کہ اس میں کیا ہے ______" اسکی تابعداری پر وہ مسکرائے بنا ناں رہ سکا جبھی انعام کے طور پر اسے سچ بتانے کا فیصلہ کیے وہ جھکتے گھبیر لہجے میں بولا تو حور نے فورا سے سر اٹھائے خود پر جھکے ایل کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔
" کک کیا ہہ ہے اس مم میںں۔۔۔۔۔۔" وہ بمشکل سے گھٹی گھٹی آواز میں بول پائی تھی۔۔۔اسکا اٹکنا اسکا رونا ایل کو اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اسنے اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے حور کے آنسوں کو نرمی سے چنا تو وہ سہمتے پیچھے کو ہوئی ۔۔۔۔۔۔
" اس میں بےہوشی کی گولیاں ہیں ۔۔۔۔۔ اور اتنی مقدار میں ہیں کہ تم صبح تک آرام سے سو سکتی ہو ۔۔۔۔ پتہ ہے یہ سب صرف اور صرف اسلیے کہ تم مجھے میرے کام میں ڈسٹرب ناں کرو ، یو نو واٹ روتی دھوتی لڑکیاں مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی اور تم روؤ ناں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔ اور اب جب تم اس جوس کو پیو گی تو تم جلدی سے بےہوش ہو جاؤ گی۔۔۔ پھر میں اپنا کام آسانی سے کر سکوں گا ۔۔۔ اور تمہیں بھی کوئی پروبلم نہیں ہو گی۔۔
چلو سن شائن بی آ گڈ گرل اسے جلدی سے ختم کرو اب_____ وہ پچکارتے اسکے سر سے دوپٹہ اتارنے لگا کہ حور نے تڑپتے اس سے دور ہونا چاہا مگر اسکی نازک کلائی ایل کی دہکتی مضبوط گرفت تھی ۔۔۔وہ بےبسی سے روتے اس حیوان کو دیکھنے لگی ۔۔۔ جس نے چند ہی لمحوں میں اسکی زندگی بدتر بنا دی تھی ۔۔۔۔۔ اگر نہیں پینا تو اٹس اوکے کیونکہ یہ سب بعد میں تمہارے لیے اذیت بنے گا میرے لیے نہیں ۔۔۔۔۔" وہ کندھے اچکاتے بےحس بنے بولا تھا اسکے الفاظ اسکی سفاکی حور کو توڑ کے رکھ گئے تھے۔۔۔
وہ لڑکی جس میں اسکے گھر والوں کی جان بستی تھی آج اس جیسے حیوان ، جانور کے سامنے تڑپ رہی تھی۔۔۔۔۔ حور کے کانپتے ہاتھوں سے گلاس تھامے ایل نے اسکے ہونٹوں سے لگایا تو وہ پھڑپھڑاتے خود کو چھڑوانے لگی مگر ایل نے سختی سے اسکی گردن کو دبوچے اسے ڈرنک پینے پہ مجبور کیا ۔۔۔۔۔ وہ آنسوں بہاتی بری طرح سے کپکپاتے ہوئے اس ڈرنک کو پیتے خود کو چھڑواتے بری طرح سے کھانسنے لگی ۔۔۔
دیٹس لائک مائی گرل۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے گلاس پیچھے فرش کی جانب پھینکتے گہرا مسکراتے اپنے بالوں کو ہاتھ سے ٹھیک کرتا بیڈ کی جانب بڑھا تو حور نے نفرت سے اسے گھورا اور اس کے قریب آنے سے پہلے ہی وہ پیچھے ہوتے اٹھی تھی ۔۔ اور دوڑتے ٹیبل پر پڑے واس کو اٹھائے وہ سر پر مارنے لگی کہ ایل اسکی کوشش کو بھانپتے بیڈ پر سے چھلانگ لگائے اسکے قریب تر ہوا۔۔۔۔۔
ڈونٹ ڈو دز سن شائن۔۔۔۔۔ میرے ہوتے تم خود کو تکلیف کیسے دے سکتی ہو۔۔۔۔اسکے دہکتے انگارہ بنے گال میں ابھرتے ڈمپل کو اپنی سرخ پڑتی نظروں سے دیکھتے وہ ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کیے واس اسکے ہاتھ سے کھینچتے نیچے پھینک گیا ۔کہ حور ضبط سے لب بھینج گئی۔۔۔ اسکے لرزتے وجود کو گہری نظروں سے دیکھتے ایل نے حور کے ہاتھوں سے دوپٹہ آزاد کیے دور پھینکا تو حور کے وجود میں خوف سے سنسنی سی دوڑی تھی ۔۔۔۔
" دد دیکھیں پپپ پپلز مم مجھے جج جانے دد دیں ۔۔۔۔۔۔ ایل نے جھکتے اپنے سلگتے ہونٹ حور کی شفاف گردن پر ثبت کیے تو اسکے لمس پر وہ تڑپتی خود کو آزاد کروانے کیلئے منت کرنے لگی ۔۔۔۔۔ ایل نے غصے سے اسکے مزاخمت کرتے ہاتھوں کو تھامتے پیچھے کمر سے پن کیا تو حور نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ جو سب کچھ پلان کے مطابق دیکھ کافی مطمئن تھا۔۔۔
اگر تم مجھے کسی اور رشتے کے تحت ملی ہوتی تو آئی سویر اس دنیا کے ہر اس شخص کی آنکھوں کو اب تک میں نوچ چکا ہوتا جس نے تمہاری طرف غلطی سے بھی دیکھنے کی گستاخی کی ہے ۔۔۔۔ " اسکے گال پر اپنا دہکتا لمس چھوڑتے ایل نے معنی خیز سی سرگوشی کرتے حور کو سینے میں بھینجا تو وہ سانس روک گئی اسکی شدت بھری گرفت میں حور کا سانس ، خوف سے رک رہا تھا مگر آنکھیں شاید ڈرنک کی وجہ سے بھاری ہو رہی تھی ۔۔۔
حور کی بند پڑتی نظروں کو دیکھ ایل نے نرمی سے اسے گود میں بھرتے بیڈ پر لٹایا ۔۔۔۔۔ تم چاہے ہوش میں ناں ہو سن شائن مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا تمہاری روح اور تمہارے وجود پر میں کسی دوسرے کی نظر تک برادشت نہیں کروں گا۔۔۔۔ تم پر صرف اور صرف میرا حق ہے صرف ایل کا۔۔۔۔۔ حور کی گھنی پلکوں کو مدہوشی سے دیکھتا وہ اپنے دہکتے ہونٹوں سے اسکے نقوش کو چھونے لگا۔۔۔۔۔
حور اپنے ہونٹوں پر اسکی جان لیوا گرفت اپنی کمر سے ڈریس کی کھلتی ڈوریوں کو محسوس کرتے ہوئے بھی بےبس سی رہ گئی۔۔۔حور نے سر جھٹکتے اسکی گردن پر ہاتھ رکھے اسے دور کرنا چاہا تو مقابل نے اپنے بھاری ہاتھ اسکے دونوں نازک ہاتھوں میں الجھائے اسکی نازک پنکھڑیوں کو اپنے ہونٹوں کی دہکتی گرفت میں لیا۔۔۔۔ جذبات کا ایک طوفان سا تھا جو ایل کے اندر برپا سا ہوگیا۔۔۔۔اس نازک وجود کی جان لیوا مہکتی خوشبو کو پہلی بار اپنی سانسوں میں اتارتے وہ اسکے نازک ہونٹوں کے لمس پر مدہوشی سے اسکی کمر کے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے اسے خود سے لگائے حود کی ڈریس کی ڈوریاں کھولنے لگا۔۔۔۔۔
جبکہ ایل کا جنون اسکی قربت میں مزید بڑھتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔ رفتہ رفتہ سرکتی اس تاریک رات میں وہ اپنی ساری حدوں کو پار کیے اسکے نازک وجود کو خود میں سمیٹتے اسکے وجود کو اپنے ہونٹوں سے معتبر کرتے اپنے آپ کو تسکین دینے لگا۔۔۔۔
حور کی ساری مزاخمت بےہوش ہوتے ہی دم توڑ چکی تھی مگر ایل کی شدتیں اسکا جنون اس نازک جان کے لیے قبول کر پانا نا ممکن تھا۔۔۔۔ وہ مبہوت سا اسکے سرخ چہرے پر مٹے مٹے آنسوں کے نشانات دیکھتا اسکا سر اپنے چوڑے بازو پر رکھے اسکے گال کو سہلانے لگا۔۔۔۔ حور نے نیند میں ہی منہ بسورتے سر اسکے سینے میں دیا تو ایل نے سرد سی سانس فضا کے سپرد کی تھی۔۔۔ کتنا سکون ملا تھا آج اسے اس نازک جان کی قربت میں جیسے اسکا وجود اسکا اکیلا پن سب کچھ ختم ہو گیا تھا آج ۔۔۔۔۔
ایل نے نرمی سے اسکے سر کو تکیے پر رکھتے اسکے گھنے سیاہ بالوں کو چھوتے اپنی ناک کے قریب کرتے انکی مہکتی خوشبو کو سانسوں میں اتارا ایک الگ سا سرور تھا جو اسکے رگ و پے میں سرایت کر رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ جھکتے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر دائیں بائیں رکھتے اسکے چہرے کو بغور دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جہاں ایل کی محبت کی سرخیاں واضح تھی۔۔
" تمہیں چھوڑ کر جانے کا دل نہیں چاہتا میرا سن شائن۔۔۔ کیونکہ تم میری زندگی کا وہ اجالا ہو جسے میں اس ساری دنیا سے چرا کر اپنی زندگی میں بھر لوں گا ۔۔۔۔ تم میرا وہ جنون ہو جس کی دہکتی آگ تو میرے سینے میں کب سے بھڑک رہی تھی مگر اب جب تمہیں روبرو دیکھا تو اس جنون سے عشق ہو گیا ایل کو ۔۔۔۔۔ تم پر صرف اور صرف میرا حق ہے۔۔۔۔ میں چھین لوں گا تمہیں سب سے۔۔۔۔ کیونکہ تم صرف میری سن شائن ہو۔۔۔میری روح میرے وجود کا ایک حصہ۔۔۔۔۔ تم سے دور ضرور جا رہا ہوں مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔ تم ایل کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہو۔۔۔اگر کسی نے بھی آنکھ اٹھا کر تمہیں دیکھا تو اس انسان کو بھی دیکھنے والی کوئی آنکھ اس دنیا میں سلامت نہیں چھوڑوں گا میں۔۔۔"
اسکے کان میں جھکتے وہ جنون بھری اپنی گہری سرگوشیاں کرتے اپنے ہونٹ حور کے کان پر رکھے سکون سے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔ " اسکا دل اسے پھر سے بےحود کر رہا تھا اسے یہاں اپنی سن شائن کی قربت میں رہنے پر اکسا رہا تھا مگر اسے جانا تھا فلحال۔۔۔۔۔ اور یہی وہ سب سے بڑی مجبوری تھی جس کہ وجہ سے آج وہ خود کو پہلی بار بےبس محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔ مگر وہ جانتا تھا اس وقت اسے یہ سب کرنا تھا تبھی تو وہ اپنی سن شائن کو اپنی دنیا میں سب سے دور لے کر جا پائے گا۔۔۔۔۔
اسنے ضبط سے آنکھیں میچتے حور کی بند پلکوں اسکے کھلے نیم وا ہونٹوں کو دیکھا اور بیڈ پر لیٹتے اس نازک وجود کو اپنے سینے پر لٹائے وہ ہاتھ اسکے بالوں میں چلانے لگا ۔۔ابھی تو اسنے جی بھر کر ان زلفوں کے ساتھ کھیلا بھی نہیں تھا ، اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کی قید میں لیتے حور کو بے بس بھی نہیں کر پایا تھا۔۔۔ مگر یہ ہجر کی دوری وصال کے لیے ضروری تھی۔۔۔۔۔ وہ سوچتے گہری سانس بھرتے حور کے سر پہ ہونٹ رکھ گیا ۔۔۔ ۔۔۔
میں جانتا ہوں جب تم صبح اٹھو گی تو سب سے پہلی نفرت تمہیں تمہارے وجود میں رچی میری خؤشبو سے ہو گی۔۔۔ تم نفرت کرو گی تو سب سے پہلے ایل سے ہی کرو گی۔۔۔۔ اور اس نفرت کو محبت میں میں خود بدل لوں گا۔۔۔۔ سوری سن شائن تمہیں بےہوش کرنا بےحد ضروری تھا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ تم اس رات کے کسی بھی لمحے کو یاد کر کے اذیت سے گزرو۔۔۔۔ ہم اپنی یادیں بنائیں گے اور اتنی حسین بنائیں گے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے گی ۔۔۔
مگر تب تک کیلئے یہ بات کبھی مت بھولنا کہ تم عالیان شاہ کی امانت ہو ۔۔۔۔ میں دور ضرور جا رہا ہوں مگر ہمیشہ کیلئے لوٹنے کو ۔۔۔۔۔۔ مگر تم عالیان شاہ کا جنون ہو میرا پاگل پن۔۔۔۔۔ میں اس دنیا کو آگ لگا دوں گا اگر کسی نے مجھ سے میرے جنون کو دور کرنا چاہا تو۔۔۔۔اسکی آنکھوں میں شدت ضبط کی سرخی تھی۔۔۔۔ اسکے لفظوں میں چھپی وخشت خوف ڈر۔۔۔۔ کسی کو بھی دہلا سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اسکا جنون یہ پاگل پن ان سب سے وہ معصوم انجان تھی۔۔۔۔ جس کی روح پر اپنی چھاپ چھوڑتے وہ پھر سے اسکے چہرے پر اپنی محبت جنون کی بارش کرتا سرخ لال ہوئی نظروں سے خود پر ضبط کرتے وہاں سے نکلا ۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
ڈیڈ۔۔۔۔۔۔" بری طرح سے گیٹ کو زور سے کھولتے وہ اونچی تیز آواز میں چلاتے ہوئے بپھرے تاثرات سے اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔ ویام کی آواز پر نیناں جو میز پر ناشتہ سجا رہی تھی ایک دم سے اسکے ہاتھ تھمے تھے وہ تیزی سے باہر کی جانب بڑھی ۔۔۔۔ ویام کی آواز سنتے ہی اسکے دل میں سکون سا اترا ، ویام ۔۔۔۔۔۔ " نیناں نے بےساختہ ہی اپنے جگر کے گوشے کو پکارا تھا جو ہر دوسرے دن بعد اسے خفا چھوڑ کر چلا جاتا تھا مگر وہ جتنی بھی ناراض ہوتی اتنا وہ جانتی تھی ۔
کہ ویام اپنے فرض اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے اس سے دور تھا۔اسی لیے اسکا غصہ ناراضگی جلد ہی ختم ہو جاتی تھی۔۔۔
ویام میرے بچے _______ دروازے کے قریب پہنچتے ہی نیناں اسے اندر آتا دیکھ گھبراتے ہوئے بولی تھی۔۔ ویام کی آنکھوں میں پھیلی سرخی ، اسکی غضب سے سرخ پڑتی رنگت بکھرے بھورے بےترتیب سے ماتھے پر آئے بال، شرٹ کے اوپری کھلے بٹن ، اس چھبیس سالہ زندگی میں جب سے ویام نے ہوش سنبھالا تھا آج پہلی بار نیناں اسکا ایسا حلیہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
وہ فورا سے اسکے قریب جاتے اسکے کندھوں چہرے کو چھوتے متفکر سی ہوئی۔۔۔جسکی سرد نظریں سیڑھیوں پر مرکوز تھیں۔۔۔۔ ویام میرے بچے یہ کیا حال بنایا ہے تم ٹھیک تو ہو ناں کیاہوا میری جان خاموش کیوں ہو ۔۔۔۔۔۔ کچھ تو بولو۔۔۔۔۔نیناں نے محبت سے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھتے اسے اپنی جانب متوجہ کروایا مگر وہ ناراضگی سے نظریں چرا گیا۔۔۔
کہاں ہیں آپ کے ہزبینڈ۔۔۔۔۔۔ وہ بولا تو اسکا لہجہ بالکل اجنبی تھا آج پہلی بار وہ اپنی موم سے ایسے بات کر رہا تھا نیناں کو سینے میں درد سی اٹھتی محسوس ہوئی تھی ، مسٹر وریام کاظمی کہاں ہیں آپ ۔۔۔۔نیچے آئیں ابھی کے ابھی۔۔۔۔۔۔۔" وہ انہیں غصے کے باوجود احتیاط سے تھامے ایک جانب کرتے آگے بڑھا تھا ۔۔
کس بات پر جنگلیوں کی طرح شور مچا رہے ہو ، یہ میرا گھر ہے کوئی جنگل یا پھر چڑیا گھر نہیں ذرا آرام سے بولو۔۔۔۔۔۔ ہاتھ میں گھڑی پہنتے وہ اپنی روعبدار شخصیت سے نیچے اُترنے لگا۔۔۔۔ ویام نے اپنے جیسے دکھتے اپنے باپ کی ڈھٹائی پر بشمکل سے مٹھیاں بھینچتے خود پر ضبط کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ہاں اب بولو کہاں گولی لگی ہے تمہیں جو یوں گلا پھاڑے چیخ رہے ہو_____!" اسکے پاس سے گزرتے وریام اسے اگنور کرتا نیناں کے پاس جاتے اسکے کپکپاتے وجود کو اپنے حصار میں لیے محبت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے ویام کو دیکھتے پوچھنے لگا۔۔۔۔
نیناں نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے وریام۔کو روکنا چاہا تو وریام نے اسکے ہاتھ کو ہونٹوں سے چھوتے اسے ریلکس کیا ۔اسکی حرکتوں پر وہ شرمندہ سی ہاتھ چھڑواتے اسکے حصار کو توڑے ایک جانب ہوئی تھی۔۔۔۔۔
" حور کو آپ نے کس سے پوچھ کر پاک بھیجا۔۔۔۔!" وہ قدم قدم چلتا وریام کے سامنے رکا تھا ۔۔۔اسکی آنکھوں میں وہی سرخی وہی تاثرات تھے جو کبھی وریام کاظمی کی آنکھوں میں اپنوں کے لئے ہوا کرتے تھے۔۔۔۔ مگر اسکا قد وریام سے ذرا اونچا تھا جس کا وریام کو غصہ بھی تھا مگر وہ ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ " پہلے اپنے یہ ڈمپل کی نمائش کرنا بند کرو اور دوسری بات وہ میری بیٹی ہے اور مجھے اسے کہیں بھی بھیجنے کیلئے کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔ " وہ پہلے اسے تحکم بھرے لہجے میں بولتا آخر میں ایک جتاتی مسکراہٹ سے بولا تو ویام نے سرخ نظروں سے اپنی موم کو دیکھا۔۔۔۔۔
آپ نے اسے دوبئی بھیجا میں نے کچھ نہیں کہا مگر اس بار آپ نے مجھ سے چھپا کر بہت غلط کیا ہے مسٹر کاظمی________" ویام نے خود پر ضبط کرتے آواز دھیمی رکھتے اسے وارن کیا تو وریام نے ایبرو اچکاتے اسے سر تا پاؤں گھورا۔۔۔۔۔ " اچھا اگر تمہارے اتنے ریسورسز ہیں کہ تم یہ جانتے تھے کہ وہ دوبئی میں ہے پھر بھی تم نے ہمیں کچھ نہیں کہا مگر اس بار تمہیں کس بات کی آگ لگی ہے کیا تمہارے سارے ریسورسز فلاپ ہو گئے ہیں کیا ۔۔۔۔جو دندناتے ہوئے میرے گھر میں بنا لخاظ کے داخل ہوئے ۔۔۔۔۔"
وریام کا لہجہ اعتماد سے بھرپور تھا ۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی جیسے وہ کہنا چاہتا تھا کہ حور اسکی بیٹی تھی اور اسے بھیجنے کا فیصلہ اس نے اپنی مرضی سے کیا۔۔۔۔۔
وہ صرف آپ کی ہی نہیں میری بھی بیٹی ہے یہ بات آپ دونوں مت بھولیں کہ آپ دونوں سے زیادہ اسے میں نے اپنی بانہوں میں کھلایا ہے اسے اپنے پاس سلایا ہے اسکے لئے راتوں کو جاگتا رہا ہوں اور اگر اب اسے ذرا سی بھی آنچ آئی تو آپ سب کو ویام۔کاظمی کے قہر کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔" وریام کی آنکھوں میں اپنی شدت ضبط سے لال انگارہ بنی بھوری آنکھوں کو گھاڑے وہ ایک ایک لفظ پر زور دیے بولا تو وریام نے متاثر ہوتے سر کو حم دیا ۔۔۔۔۔
اور ایک بات وہ جاتے جاتے مڑا تو وریام نے منہ بسورا جیسے دانتوں کے نیچے کچھ آ گیا ہو۔۔۔۔ " آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کا دماغ مجھ سے زیادہ تیز ہے ؟ تو مسٹر وریام کاظمی آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جو چپ آپ نے حور کی باڈی میں فکسڈ کی تھی وہ دو ہفتوں سے ہی ڈسایبل ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔ جس کا آپ کو خود بھی علم نہیں اور اب میری بات یاد رکھیں میں جا رہا ہوں اپنی پرنسز کے پاس اگر اسے ذرا سی بھی تکلیف ملی ہوئی ناں تو آپ جانتے نہیں کہ میں کیا کر گزروں گا۔۔۔۔۔ وریام کے شاک رنگت اڑے چہرے کو دیکھتے وہ جیسے طوفان بنا داخل ہوا تھا اسی طرح سے وہاں سے نکلا تھا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
یہ سب کیا ہے کڈنیپر ۔۔۔۔۔۔۔۔ " انزِک جو دل جمعی سے اسکے سر پہ دوپٹہ سیٹ کر رہا تھا روز نے منہ بسورتے اسے پکارا تھا۔۔۔۔۔۔۔ انزِک نے ذرا کی ذرا سی نظریں جھکائے اسکی گولڈن آنکھوں میں دیکھ سر کو جھٹکا۔۔۔۔۔۔۔۔ بتایا تو تھا کہ ہمارا نکاح ہو رہا ہے۔۔۔۔" وہ اسکے قریب بیٹھتے ہاتھ تھوڑی پر سجائے اسکے کانوں میں اپنے لائے چھوٹے چھوٹے ٹاپس ٹھیک کرتے بولا تو روز نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔۔۔۔
یس میں جانتی ہوں مگر تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔۔۔ اسنے مدعے کی بات پوچھی تو انزِک نے اسکے خاضر دماغی پر ایبرو اچکاتے اسکے حسین چہرے کو دیکھا۔۔۔۔دراصل تمہارے بھائی کے کچھ دشمن نکل آئے ہیں جو ان کو نقصان پہنچانے کے لیے تمہیں مارنا چاہتے ہیں میں ایچ اے آر کا دوست ہوں ۔۔۔۔۔ ہم یہ ڈیل کر رہے ہیں مطلب کہ جب تک ایچ اے آر سب کو پکڑ نہیں لیتا تب تک ہمیں میرج کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔
پورے تین گھٹنوں سے وہ اسکا برین واش کر رہا تھا ویام کی توسط سے چند ایک تصاویر جو ایچ اے آر کے خاص آدمی کی تھی انکے ساتھ انزِک کی تصویریں لگائے اس انداز میں روز کے سامنے پیش کی گئی کہ اسے سچ میں انزِک کی باتوں پر یقین ہو گیا کہ اسے اسکے بھائی نے ہی بھیجا ہے ۔۔
مگر یہاں پر تو شادی ایسے نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ روز نے پھر سے اسے ٹوکا اسے یاد تھا وہ جب کچھ دن پہلے اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کرنے والی تھی تو اسنے انگلش شادی کا سارا طریقہ سرچ کیا تھا ۔۔۔۔ اور اس میں ایسے دوپٹہ لینا تیار ہونا اور یہ سب کچھ بولنا نہیں تھا ۔۔۔
آر یو مسلم۔۔۔۔۔۔" انزِک نے پاس بیٹھتے اسکے سر پر دوپٹے کے اوپر پن لگاتے پوچھا ۔۔۔ شکر تھا جو عیناں کی تیاری میں مدد کرنے سے اسے اتنا سب کچھ تو آ ہی گیا تھا۔۔۔ " یس میں مسلم ہوں اور پانچ سال کی تھی جب بھائی مجھے چھپا کر یہاں لائے تھے اور پھر اٹلی بھیج دیا جہاں سے تم مجھے اٹھا کر لائے ۔۔۔۔۔۔۔" اسنے دو منٹ میں اسے محتصر اپنی حقیقت سے آگاہ کیا تو اسکی معصومیت پر انزِک کو جی بھر کر پیار آیا مگر فلحال وہ ایسی کوئی بھی حرکت کر کے روز کو شک میں نہیں ڈال سکتا تھا۔۔۔
یہ سب کچھ تو مجھے ایچ اے آر نے بتایا تھا۔۔۔' وہ سنتا مسکراتے ہوئے بولا جیسے جانے کتنا بڑا جگری دوست تھا اسکا۔۔۔۔۔ " یہ تم بار بار ایچ اے آر کیوں کہہ رہے ہو بھائی کو نہیں پسند کے میں یا پھر ان کے دوست انہیں اس نام سے پکاریں ۔۔۔۔۔وہ منہ بناتے بولی آخر کار وہ اس سے شادی کرنے والی تھی چاہے مطلب کے لیے ہی سہی مگر کچھ عرصے کے لئے وہ اسکا شوہر تو بننا تھا تو پھر بھلا اسے اچھا لگتا کہ اسکا بھائی اسکے شوہر پر غصہ کرتا ۔۔۔۔۔۔
" تو پھر کیا بولوں یار تم ہی بتا دو ۔۔۔۔۔" انزِک نے ہنستے ہوئے بات کو مذاق کا رنگ دیا مگر اسکے حسیات اب روز کی طرف متوجہ تھے کیونکہ ایچ اے آر کو اسکے ٹھیک نام سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔۔ حصام بولو یا پھر راج ۔۔۔۔۔۔" وہ کندھے اچکاتے اسے ایک طرف کرتی اپنے آپ کو مرر میں دیکھنے لگی ۔۔۔۔ بلیک رنگ کی اس خوبصورت سی میکسی کے اوپر سفید آور سرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھے وہ بالکل کوئی الگ معصوم۔سی پری لگ رہی تھی۔۔۔۔
اسلام میں نکاح ایسے ہوتا ہے جیسے میں بتا رہا ہوں ۔ابھی میرے ساتھ جو آدمی آئے گا وہ جو جو بولے گا تم اسے دہراؤ گی اور پھر جب وہ میرا نام لے گا تب تم کہو گی قبول ہے۔۔۔ وہ بھی تینوں بار۔۔۔۔۔وہ اپنی کئی بار کہی بات پھر سے دہراتے بولا تو روز نے سنتے سر ہلایا ۔۔۔۔
گڈ چلو پھر میں اسے لاتا ہوں۔۔۔۔۔وہ اسکے سرد گالوں کو ہلکا سا چھوتے باہر نکلا تو روز نے الجھتے نظریں گھمائی۔۔۔۔ آخر کیا ہو رہا تھا اسکی لائف میں۔۔۔ مگر وہ خوش بھی تھی اسے ایڈوانچر بہت پسند تھے اور اب تو اسکی زندگی میں اتنا بڑا ایڈوانچر ہو رہا تھا ۔۔ ایڈوانچر کے گریز کی وجہ سے ہی تو وہ اپنے بوائے فرینڈ سے شادی کر رہی تھی مگر اب جو بھی ہو اسے شادی ہی تو کرنی تھی پھر چاہے وہ کوئی بھی کیوں ناں ہو۔۔۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچ میں گم تھی جب انزکِ مولوی صاحب کے ساتھ ہی گواہان کی موجودگی میں اندر آیا۔۔۔ روز نے دیکھتے ساتھ ہی فورا سے کھینچتے دوپٹہ اپنی آنکھوں پر کرتے چہرے کو بھی ڈھانپ لیا۔۔۔۔ انزِک اسکی فرمانبرداری پر لب دانتوں تلے دباتے اپنی ہنسی پر کنٹرول کیا۔۔۔
آئیے مولوی صاحب۔۔۔۔۔۔۔ خود پر مولوی صاحب کی گہری نظروں کو پاتے وہ بال سیٹ کرتے بولا تو مولوی صاحب اپنے ہاتھ میں پکڑے رجسٹر کو تھامے صوفے پر بیٹھے۔۔۔۔ چلیے نکاح شروع کریں مولوی صاحب______ سعد جو انزِک کی طرف سے گواہان میں شامل تھا اور انزک کا اچھا دوست بھی اسنے خوش دلی سے انزِک کے کندھے کو تھپکتے کہا تو انزِک مسکرا دیا۔۔۔۔
" روزائکہ علی راج آپ کا نکاح انزِک رافع اظہر علی سے بعوض دس کروڑ روپے سکہ رائج الوقت کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔۔"مولوی صاحب نے نکاح شروع کرتے ہی دعا پڑھاتے ساتھ ہی باقی کا سارا کام نپٹاتے پوچھا تو روز نے ذرا سا گھونگھٹ سرکاتے انزِک کو دیکھا ۔۔یہ مولوی تو اسے اردو میں کچھ پڑھا رہا تھا مگر کڈنیپر نے اسے سب کچھ انگلش میں بتایا تھا۔۔۔۔اسکے یوں دیکھنے پر انزِک اٹھتے فورا سے اسکے قریب گیا تو سب نے ہونقوں کی طرح منہ کھولے اس عجیب جوڑی کو گھورا۔۔۔
روز یہ سب کچھ وہی ہے جو تمہیں میں نے بتایا تھا بٹ یہ اردو میں ہے کیونکہ یہ میری خواہش تھی اس لیے۔۔۔۔۔۔ سب کے سامنے وہ اسکے گھونگھٹ کو اٹھائے چہرہ اندر کیے اسے سمجھاتے بولا تو روز نے سنتے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔۔ اب وہ بولو جو میں نے سکھایا تھا ۔۔۔۔۔ انزِک نے اسکے شفاف دودھیا ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں لیتے اپنے دہکتے ہونٹ اسکے ہاتھ کی پشت پر رکھے تو روز اسکے لمس پر گھبرا سی گئی۔۔۔اسنے بےچینی سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے کہا تھا۔۔قبول کیا ۔۔۔۔۔" اسکے قبول ہے کی جگہ قبول کیا کہنے پر کمرے میں معنی خیز سی ہنسی کی آوازیں گونجنے لگی ۔۔۔۔۔
شٹ اپ یو آل۔۔۔۔۔" روز کو یوں خاموش بیٹھا دیکھ انزِک نے غصے سے سب کو جھڑکتے خاموش کروایا، سب کی بیویاں قبول ہے کہتی ہے مگر میری بیوی سب سے الگ ہے اس نے قبول ہے نہیں اس نے مجھ کو قبول کیا ہے ۔۔۔۔۔ !"
انزِک نے سینہ چوڑا کیے بآواز بلند کہا تو سب ہی تائید کرتے اپنی ہنسی دبانے لگے۔۔ روز جو اپنی بڑی بڑی گولڈن آنکھیں پھیلائے گھونگھٹ اٹھائے دیکھ رہی تھی انزِک نے محبت سے اسکے گال کو تھپکتے دوبارہ سے گھونگھٹ اسکے چہرے پر برابر کیا۔۔۔۔ نکاح مکمل ہوتے ہی انزِک نے جلدی سے سب کو رخصت کیا ۔۔۔۔۔
چلو ایک کام۔تو آج مکمل ہو گیا تھا۔۔۔اخر کار وہ بھی بیوی شدہ ہو چکا تھا۔۔۔ سیٹی کی دھن پر اپنے بالوں میں ایک اسٹائل سے ہاتھ چلاتے وہ اپنے مخصوص کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ دروازہ کھولتے ہی وہ اندر داخل ہوا تو ایک دم سے اسکی سیٹی کہیں خلق میں دب سی گئی تھی جب اپنی نئی نویلی بیوی کو اس روپ میں دیکھا ۔۔۔
روز وہ بےچینی سے اسے پکارتے آگے بڑھا تو وہ جو دوپٹہ نیچے پھینکے اپنے کانوں سے جھمکے اتار رہی تھی ، وہ چیختے اسکے قریب ہوا ۔۔ روز یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔ اسنے دکھ افسوس سے اسکے ہاتھ کو تھامتے لب بھینجتے اسے دیکھا تو روز نے حیرانگی سے کندھے اچکائے بھلا کڈنیپر کو کیا ہوا۔۔۔۔؟
وٹس ہیپننگ ______ وہ حیرانگی سے انزک کے ہاتھ میں اپنے نازک ہاتھ کو دیکھتے بولی۔۔۔۔۔
بتاتا ہوں تمہیں ۔۔۔۔۔" اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ سر ہلاتے طیش سے بولا تو روز نے اسے منہ کھولے دیکھا ، جب تم اپنے اس بوائے فرینڈ سے شادی کرنے والی تھی تو کیا تم نہیں جانتی تھی کہ شادی کے بعد ایک امپورٹنٹ کام کیا جاتا ہے جس کے بنا شادی کمپلیٹ نہیں ہوتی۔۔۔۔ انزِک نے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی اپنا بھاری ہاتھ اسکی کمر میں حائل کیے روز کو اپنی جانب کھینچا تو وہ اسکے سینے سے لگی بغور اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔۔ بٹ وہ تو یہاں کی شادیوں میں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ کس بارے میں کہہ رہا تھا جبھی اسکی نظروں کو اپنے چہرے پر ٹکا پاتے وہ گڑبڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
روز بےبی یہ رسم یہاں سب کے سامنے ہوتی ہے مگر ہمارے کلچر میں یہ رسم روم میں کی جاتی ہے جہاں صرف میاں بیوی ہوں ، کوئی تیسرا ناں ہو۔۔۔۔۔۔جسے ابھی ہم کمپلیٹ کریں گے ۔۔۔" اسکی تھوڑی سے پکڑتے انزِک نے اسکا چہرہ اونچا کیے گھیبر لہجے میں کہا تو روز کا چہرہ سرخ پڑنے لگا یہ سب کچھ اسکے لیے بالکل الگ تھا ایک نیا احساس جس سے وہ نا واقف تھی ۔۔ مگر مقابل کی فرمائش وہ بھانپ چکی تھی۔۔۔۔۔۔ جبھی اسکے سینے پر ہاتھوں سے زور دیتے اسنے انزِک کو خود سے تھوڑا دور کیا۔۔۔۔۔
بٹ جب ہم ایک ساتھ رہیں گے ہی نہیں تو یہ سب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔" روز نے اسے خود سے دور کرتے رسانیت سے اسے سمجھایا تو انزِک نے سرد نظروں سے اسے دیکھا جو اطمینان سے کہتے کمرے سے نکل رہی تھی۔
انزِک نے ایک دم سے اسکے ہاتھ سے پکڑتے اسے کھینچتے اپنے قریب کیا ۔۔۔۔روز ہکا بکا سی اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھنے لگی کہ انزِک نے ہاتھ اسکی گردن کے گرد لپیٹتے اسے قریب تر کیا اور جھکتے اسکے نازک ہونٹوں کو قید کرتے وہ اپنی سانسوں میں اسکی مہکتی سانسوں کو انڈیلنے لگا۔۔۔۔ روز نے خود پر جھکے انزک کی شدت بھری گرفت پر ڈرتے اسکے کوٹ کو کالر سے اپنی مٹھیوں میں دبوچا جو اسکی سانسوں کو اپنی سانسوں میں الجھائے اسکی جان لینے کے دم پر تھا۔۔۔۔
آج کے بعد مجھے روکنے یا پھر انکار کرنے کی غلطی مت کرنا ۔۔۔۔۔۔ اسکی رکتی سانسوں کو محسوس کرتے انزِک نے سر پیچھے کرتے اپنی بانہوں میں گری اس نازک سی جان کے کپکپاتے بھیگے ہونٹوں کو دیکھ عجیب جنونی لہجے میں کہا کہ وہ سہمتی خوف سے آنکھیں میچیں سر ہاں میں ہلا گئی ۔۔۔۔ انزِک نے اسے جھٹکے سے بانہوں میں بھرتے بیڈ پر ڈالے کمفرٹر اسپہ برابر کیا تو وہ فورا سے دبکتے چہرہ اندر کیے خود کو اس سے چھپانے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔
اسلام علیکم ایوری ون ۔۔۔۔۔۔۔۔!" نیناں کا ہاتھ پکڑے وہ اندر ہال میں جاتے سب کو بآواز بلند پکارتے اندر بڑھا تو رافع فدک جو کہ شام کی چائے پی رہے تھے دونوں نے ہی اچانک سے وریام کی آواز پر خوشی سے چونکتے دروازے سے اندر آتے نیناں اور وریام کو دیکھا۔۔۔۔
ارے ارے واہ کیا بات ہے آج تو بڑے بڑے لوگ آئیں ہیں ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔ رافع کھڑے ہوتے وریام کو دیکھ گہرا طنز کرتے بولا تو وریام نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں اسے اگنور کیا اور چلتے فدک کے پاس جاتے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ کیسی ہو میری بہن ۔۔ ؟" وہ محبت سے اسے ہمیشہ کی طرح پوچھ رہا تھا اسکے انداز محبت ہر وہ نہال ہوتی آنکھوں میں محبت کی چمک عزت لئے اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی جب آپ جیسا اچھا بھائی ہو تو کوئی بہن کیسی ہو سکتی ہے۔۔۔۔؟" فدک نے ہمشیہ کی طرح اس کا مان بڑھایا جس پر رافع منہ بسورتے نیناں کے قریب جاتے اسے ملنے لگا ۔۔۔۔
ویسے یہ سورج مجھے لگتا ہے کہ آج نہیں چڑھا اسی وجہ سے یہ گرما گرم جلتا تندور میرے گھر بن بلائے ہی آیا ہے۔۔ وہ نیناں سے ملتے وریام پر چوٹ کرتا ہاتھ پشت پر باندھ گیا ۔۔ " دراصل ہماری بیٹی نے بلایا ہے تو پھر تو مجھے آنا ہی تھا۔۔۔؛' وہ کہاں سے کم تھا ہارنا تو اسنے سیکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اسے برابر کا جواب دیتے وہ غرور سے بولا تو رافع نے اسے آنکھیں چھوٹی کیے گھورا ۔۔
رافع چپ کر جائیں خدا کے لیے کبھی تو خاموش ہو جایا کریں ۔۔۔۔ فدک اسے جھڑکتے نیناں اور وریام کو ساتھ لیے بیٹھی۔۔۔ ذرا بلاؤ تو کہاں ہے ہماری عیناں ۔۔۔۔۔۔ " نیناں اسے کب سے ڈھونڈ رہی تھی حور کی دوری اوپر سء ویام کا ناراضگی سے جانا اسکا دل کافی اداس تھا اور اس وقت صرف عیناں اور اسکی معصوم باتیں ہی اسکا دل بہلا سکتی تھی ۔
وہ تو گھر پر نہیں….. کیوں کیا ہوا کیا کہا اس نے کوئی خاص کام تھا اسے۔۔۔؟ نیناں کو چائے سرو کرتی فدک نے تججس سے ہوچھا۔۔۔ عیناں کی ہر بات پر اسکا دل دھڑکتا رہتا تھا ۔۔۔ پتہ نہیں تھوڑی دیر پہلے کال آئی تھی اسکی کہہ رہی تھی کہ کوئی کام ہے ۔۔۔۔ جلدی آئیں۔۔۔ نیناں عیناں کے کہے الفاظ دہراتے بولی تو فدک نے خوف سے مڑتے رافع کو دیکھا جس نے اسے ریلکیس رہنے کا اشارہ کیا تھا وہ سہمتی گردن ہاں میں ہلا گئی ۔۔
پھر عیناں ہے کہاں آخر ۔۔۔۔۔؟" وریام نے چونکتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
میں یہاں ہوں ڈیڈ ____" عیناں کی آواز پر سب نے مڑتے اسکی جانب دیکھا ۔۔۔ جو وائٹ اور گرے کلر کے سوٹ میں ملبوس سر پر خوبصورت اپنے رنگ سے مشابہت رکھتا سفید سکارف اچھے سے لیے اپنے بڑی بڑی گرے کانچ سی آنکھوں میں سرد مہری لئے کھڑی تھی۔۔۔ عیناں میری جان کہاں تھے آپ آپ کو پتہ ہے ناں ایسے بنا بتائے جاتے ہو تو آپکی ماما کی جان اٹک جاتی ہے میری جان۔۔۔۔" فدک دوڑتے اسے قریب جاتے محبت سے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیے اسے خود میں بھینج لیا۔
خود کو تلاشنے گئی تھی ۔۔۔۔" فدک کو خود سے دور کرتے وہ سرد مہری سے بولی تو رافع نیناں اور وریام سبھی اسکے ایسے روکھے انداز پر حیرت سے کنگ تھے، عیناں میری گڑیا کیا ہوا۔۔۔۔؟ میری جان تمہیں کیا ضرورت ہے کسی کو تلاشنے کی ۔۔۔ تم تو اپنوں کے پاس ہو میری جان۔۔۔۔ اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے وہ تڑپتے بولی تھی۔
اپنے ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔ اپنے ہاہہاہاہاہاہہااہاہاہاہااہاہا۔۔۔۔ وہ ایک دم سے ہزیانی سی کیفیت میں قہقہہ لگاتے اپنی آنکھوں میں آتے انسںوں کو صاف کرنے لگی ۔۔۔۔ کیا واقعی میں آپ سب میرے اپنے ہیں ؟ وہ رافع کے قریب جاتے اسکی آنکھوں میں اپنی شکوہ کرتی گرے کانچ سی پانیوں سے بھری مبہوت کرتی نظروں سے اپنے ڈیڈا کو دیکھتے پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔
عیناں کیا بات ہے بیٹا ایسے کیوں بات کر رہی ہیں آپ ۔ ۔۔۔۔۔! " رافع نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے پوچھا تھا اسکے سوال پر اسکی اٹھتی سوالیہ نظروں پر رافع کا دل لہو لہان ہو رہا تھا یہ سب تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ اسکی عیناں اسے یوں دیکھے گی جیسے وہ اسکا اپنا نہیں کوئی بیگانہ ہو۔۔۔۔!
جی ڈیڈا کچھ بھی نہیں بس ناں یہ فائل یہ دیکھیں اس فائل میں لکھا ہوا ہے کہ آپ اور ماما میرے موم ڈیڈ نہیں ہیں۔۔۔ دیکھیں مجھے خود بھی یقین نہیں اس پر کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ ہی میرے موم اور ڈیڈا ہیں ۔۔۔۔۔۔ دیکھیں میرا ڈی این اے ٹیسٹ ہے یہ ۔۔۔۔ اس میں لکھا ہے کہ میں آپ کی بیٹی نہیں ہوں ڈیڈا ۔۔۔ وہ پاگلوں کے جیسے روتے اس فائل سے کاغذ نکالتے رافع کے سامنے کرتے بولی تو فدک کی جیس ساری دنیا تہہ و بالا ہوئی تھی۔۔
اسکی آنکھوں میں خوف و وخشت ناچنے لگا عیناں کو کھونے کا خوف اسکے دور جانے کا ڈر کیاکچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں۔۔۔۔نیناں کو لگ رہا تھا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ پائے وہ وریام کا سہارہ لیے کھڑی ہوئی تھی جبکہ وریام تو یہ سوچ رہا تھا کہ آخر انیس سالوں کے بعد یہ اتنی بڑی خبر آخر کیسے اور کس نے عیناں کو بتائی تھی۔۔
ڈیڈا موم ادھر آئیں تو ۔۔۔۔۔۔! وہ روتے ہوئے فدک کے پاس جاتے اسکے سن ہوئے وجود کو گھیسٹتے رافع کے پاس لے گئی۔۔ دیکھیں یہ رپورٹس ۔۔ آپ دونوں کو میری قسم ہے موم ڈیڈا پلیز مجھے سچ بتائیں ۔۔۔ کہیں۔ کہ عیناں میری بچی یہ رپورٹس غلط ہیں۔ تم ہمارا خون ہو ہماری بیٹی ۔۔۔۔۔۔ وہ سرخ چہرے سے ان دونوں کے سامنے اپنے ہاتھ جوڑے منت کرنے لگی ۔۔۔ جبکہ فدک کا وجود لرز رہا تھا ۔۔۔
مم میری ببب بچی ۔۔۔۔اسنے کپکپاتے ہاتھوں سے عیناں کے حسین چہرے کو چھونا چاہا جو فورا سے دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔ " یس موم میں آپ کی ہی بچی ہوں پلیز بتائیں کیا یہ رپورٹس سچی ہیں یا پھر جھوٹی ۔۔۔۔ " ؟ اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے ابھر رہے تھے گلابی بھرے بھرے پھولے گال رونے کی شدت سے سرخ ہورہے تھے جبکہ اسکا چہرہ دہکتے انگارہ بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
عیناں ڈیڈا کی ڈول میری جان پلیز ایسا مت کریں ۔۔۔۔۔!" رافع نے بے بسی سے اسکے چھوٹے سے نازک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں بھرتے ہونٹوں سے لگائے کہا جبکہ عیناں نے سانس روکتے ان دونوں کو دیکھا اور پھر ایک دم سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالتے وہ مضبوط لہجے میں بولی ۔۔۔۔ " مجھے جواب دیں ڈیڈا ۔۔۔ میں آپ کی بیٹی ہوں یا نہیں آپ کا خون ہوں یا نہیں ۔۔۔۔۔۔
" اسنے اٹل مضبوط لہجے میں اپنے انسںوں پونچھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔۔ فدک تو بس اسے دیکھ رہی تھی جس کی آنکھوں میں غیر شناسائی کے تاثرات اسے مزید توڑ رہے تھے ۔۔وہ تو اسکے کھو جانے کے خوف سے راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جایا کرتی تھی اور اب ۔۔۔۔۔اب تو وہ اسکے سامنے اپنی حقیقت کا سوال لیے کھڑی تھی ۔۔۔۔
ہاں یہ رپورٹس سچ ہیں۔۔۔۔۔!" خود پر ضبط کرتے رافع نے مٹھیاں بھینچتے انکھوں کو مضبوطی سے میچتے ہوئے کہا تھا عیناں کا سار مان سارا بھرم ایک پل میں چکنا چور ہوا تھا ، وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے کو گرنے لگی کہ اچانک سے اسکے کندھوں سے تھامے سلیمان شاہ نے اسے گرنے سے بچایا۔۔۔۔۔ میری جان سنبھل کر ۔۔۔۔۔" ان کے متفکر سے لہجے ، گرے کانچ سی آنکھوں میں اپنے لیے فکر محبت ، انکے چہرے کی مشابہت خود میں پاتے وہ ہنسنے لگی ۔۔۔۔
ہاہہاہا آپ نے کہا تھا ناں موم میں اپنے نانو کے جیسے دکھتی ہوں میری آنکھوں ان پر ہیں گرے کانچ سی شفاف گہرے پانی جیسی جو ٹہر جائے تو اسکا ٹہرنا بھی مبہوت ہوتا ہے جان لیوا منظروں کو خود میں قید کرنے والا ، دل کو اپنی جانب کھینچنے والا۔ ۔ ۔ مگر میں نے دیکھا ان کی آنکھیں تو بلیک ہیں آپ کی طرح ڈارک بلیک۔۔ الایہ آپی کی طرح اور انزِک بھائی انکی ہلکی کانچ مارون آنکھیں بالکل ڈیڈا کے جیسی ہیں اور میں میری آنکھیں اپنے ڈیڈا کی جیسی ہیں ۔۔۔۔
دیکھیں یہ ہیں میرے ڈیڈ۔۔۔۔ ان کی آنکھیں دیکھیں بالکل میری آنکھوں کے جیسی ہیں ناں ۔۔۔۔! اور اور یہ دیکھے۔۔۔۔۔ میرے دائیں چک پر یہ جو تل ہے ناں ڈیڈ کو بھی ہے یہاں یہ دیکھیں پر۔۔۔۔۔" وہ سلیمان شاہ کے گال پر موقف خوبخوا اپنے جیسے گاڑھے تل کو چھوتے ہوئے بولی تو رافع نے بے بسی سے اپنی آنکھوں کو میچتے رخ موڑا تھا بھلا کیسے وہ یہ سب برادشت کر لیتا کہ اسی چھوٹی سی ڈول اسکے سامنے ہی کسی اور کو اپنا ڈیڈ کہہ رہی تھی ۔۔
" عیناں میری بیٹی آپ ادھر آئیں ہم بیٹھ کر اس بارے میں بات کرہں گے۔۔۔ " وریام سچوئیشن بگڑتی دیکھ فورا سے آگے بڑھا تھا فدک کی بگڑتی حالت وہ بخوبی دیکھ پا رہا تھا۔ نہیں مسٹر اب بات کرنے کو کچھ نہیں بچا، میں یہاں اپنی بیٹی کو لینے آیا ہوں اتنے سالوں سے میں اپنی بچی کو ڈھونڈ رہا ہوں یہ تو میرے اللہ کا شکر ہے کہ میری بیٹی اس نے لٹا دی مجھے____!"
میں چاہوں تو تم سب لوگوں پر کیس کر سکتا ہوں کیونکہ تم سب لوگوں نے انیس سالوں سے میری بیٹی کو میری بیوی کے ساتھ مل کر چھپائے رکھا۔۔ مگر عیناں تم لوگوں سے بہت محبت کرتی ہے۔ اسی وجہ سے تم سب کو چھوڑ رہا ہوں میں ۔۔۔ چلو میری جان_____!" عیناں کو اپنے ساتھ لگائے وہ ایک تیز نظر سب پر ڈالے وہاں سے نکلا تھا ۔۔ ایک منٹ مسٹر______!" وریام نے آگے بڑھتے عیناں کو جاتے دیکھ تھاما تھا جبکہ رافع اور فدک تو ابھی تک اس صدمے میں تھے کہ جس بیٹی کو اتنے سالوں سے دنیا سے چھپا کر اپنی محبت بھری آغوش میں رکھا آج کیسے ایک شخص ان سے انکی بیٹی کو چھین کر لے جا رہا تھا۔۔۔
" آپ عیناں کو نہیں لے کر جا سکتے کیونکہ اب یہ ناں تو رافع کی بیٹی ہے اور ناں ہی آپ کی کیونکہ اب سے یہ ہمارے بیٹے کی بیوی اور ہمارے گھر کی بہو ہے۔۔۔ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسکا باپ کون ہے آپ یا پھر رافع مگر ایک بات تو طے ہے کہ عیناں کا شوہر میرا بیٹا ویام ہے ۔۔۔ ایسے آپ اسے نہیں لے کر جا سکتے۔۔۔!"
وریام نے اسے ہاتھ سے پکڑتے روکا تو سلیمان شاہ نے حیرانگی سے اپنی بیٹی کو دیکھا جس کی آنکھوں میں وہ سچائی واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔ " چاہے جو مرضی ہو عیناں میرا خون ہے میری بیٹی ، اور جہاں تک اس نکاح کی بات ہے بہت جلد میں ڈائیورس پیپرز بھیج دوں گا عیناں چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔ وریام کی بات کاٹتے سلیمان شاہ نے تیز نظروں سے وریام کو دیکھتے عیناں کو اس سے خود کرتے خود سے لگایا۔۔۔۔۔ ان کے کہے الفاظ پر عیناں نے جھٹکے سے سر اٹھائے وریام اور نیناں کو خوفزدہ سا ہوتے دیکھا تھا۔۔۔۔
" آپ جو کرنا چاہتے ہیں کر لیں مسٹر۔۔۔۔۔۔ مگر ایک بات یاد رکھیں جب میرا بیٹا واپس آیا تو اس کے بعد عیناں اگر ایک شام بھی آپ کے پاس رہی تو میں اپنا نام بدل دوں گا۔۔ ابھی ملے نہیں آپ اپنے داماد سے۔۔۔۔ اگر ملتے تو جان جاتے وہ کتنا پاگل قسم کا انسان ہے ۔۔ مگر خیر میں دعا کروں گا کہ آپ کی جب بھی اس سے پہلی ملاقات ہو نہایت ہی شاندار ہو۔۔۔ایسی کہ آپ سالوں تک اپنے داماد کو یاد رکھیں۔۔۔۔۔
خوش رہو بہو۔۔۔۔۔!" وہ جان بوجھ کر سلیمان شاہ کی جانب دیکھتے عیناں کے سر پر ہاتھ پھیرتے بہو لفظ پر زور دیتے بولا۔۔۔ چلو بیٹا۔۔۔۔!" سلیمان شاہ غصے سے عیناں کو کھینچتے وہاں سے نکلے۔۔۔
اور سنئیے ذرا طلاق کے کاغذات جلدی بھجوائیے گا۔۔ اب شیر کے آگے ڈالنے کو کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔۔۔۔وہ وریام کاظمی تھا ۔۔ اپنی پریشانی میں بھی دوسروں سے بدلہ لینا نہیں چھوڑتا تھا اب بھی وہ سلیمان شاہ کو سر تا پاؤں جھلسا گیا تھا۔۔۔ جو اسکی بات پر بری طرح سے ہلاتے عیناں کو لیے وہاں سے نکلے تھے۔۔۔۔۔
فدککک________! رافع کی زور دار چیخ پر وریام اور نیناں نے مڑتے پیچھے کو دیکھا جہاں فدک ہوش و حواس سے بیگانہ پڑی تھی۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
شئیرنگ کرنا بہت اچھی بات ہے میر مجھے اچھا لگا کہ تم اپنا پاپ شئیر کر رہی تھی۔ " وہ اطمینان سے کھڑکی سے اندر آتے میرب کے کھلے بالوں کو دیکھتا گہرے لہجے میں بولا کہ وہ ہڑبڑاتے اچانک تیمور کے یوں آنے پر ڈرتے جگہ سے اٹھی تھی۔۔۔
تت تم ۔۔۔۔۔ پلیز جائیں یہاں سے یہ کون سا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں آنے کا۔۔ ۔۔ وہ غصے میں اپنے بالوں کو آگے کرتے اپنے دوپٹے کو ڈھونڈنے لگی ، اسکی حرکت پر مقابل مخفوظ ہوتا سینے پر ہاتھا باندھ اسکے گھنگھریالے بالوں کو دیکھنے لگا۔۔۔
ڈونٹ وری ری لیکس رہو میں کچھ نہیں کر رہا ۔۔ اسکی ہربراہٹ بے چینی کو نوٹ کرتے وہ پرسکون ہوتے بولا میرب نے غصے سے اپنی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں سے اسے گھورا دیکھو مجھے بالکل بھی نہیں پسند کہ کوئی بھی یوں میری اجازت کے بغیر میرے کمرے میں آئے۔۔۔۔ وہ کھینچنے کے سے انداز میں کہتے ساتھ ہی اپنا بیڈ سے نیچے پڑا سٹالر اٹھائے خود پر لپیٹتے اسے تیز نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
دیکھیں آپ۔۔ نہیں میر جان دیکھو تم مجھے کہاں سے کم ہوں کیا شکل اچھی نہیں یا پھر آنکھیں بری ہیں یا پھر ہونٹ نہیں پسند یا پھر ناک کیا چیز نہیں پسند تمہیں وہ اسکی جانب قدم لیتا اپنے دائیں بازو کے کف فولڈ کرتا پوچھنے لگا جیسے بڑی خاص دوستی ہو اس سے اور اسکے پوچھنے پر وہ آرام سے اسے بتا دے گی۔۔
تم دور رہ کر بات کرو مجھ سے۔۔۔۔۔ تیمور کے اپنی جانب بڑھتے قدموں کو دیکھ وہ اپنی شہادت کی انگلی اس کے سامنے کرتے غصے سے تیز لہجے میں بولی تھی اس کی حرکات اور اس کے چہرے پر لگے سرخ رنگ کو دیکھتا وہ گہری نظریں اس کے چہرے پر جھکتے آگے بڑھا تھا ۔۔
میرب اس کے قریب ہوتے ہی اپنے قدم پیچھے لیتے دیوار سے جا لگی تیمور نے آگے بڑھتے اپنا بایاں ہاتھ اس کے قریب دیوار پر رکھا میرب نے گردن گھمائے اس کے مضبوط بھاری ہاتھ کو دیکھا، یقین جانو میر جاناں اگر تمہیں میرے نزدیک آنے سے مسئلہ نہ ہوتا تو میں تمہارے ان خوبصورت ہونٹوں پر لگے آگے اس رنگ کو میں بہت اچھے سے صاف کر سکتا تھا اس نے اطمینان سے اپنا چہرہ کے قریب لے جاتے بڑی بے باکی سے کہا ، میرب اس کی سلگتی دہلا دینے والی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ایک دم سے ڈرتی اپنی آنکھوں کو مضبوطی سے موند گئی۔۔۔
ڈونٹ وری جانِ تیمور یہ تجربہ بعد شادی کے بعد آرام سے کروں گا اپنے ہاتھ کی بھاری اٹھے سے میر کی تھوڑی کو صاف کرتے وہ گھبیرئ لہجے میں اس کے کان کے قریب جھکتے سر گوشی کے سے انداز میں بولا میرب نے ایک دم سے آنکھیں کھولتے تیمور کی جذبات کی حدت دیتی ان آنکھوں میں دیکھا ، دور رہ کر بات کریں آپ مسٹر شیرازی ، اس کے سینے پر رکھتے وہ اسے خود سے دور کرتی پراعتماد بلند لہجے میں بولی تھی ۔۔
تیمور نے آئی برو جھکاتے داد دینے والے انداز میں میرب کی جانب دیکھا۔ چہرے پر سخت تاثرات تھے ۔ مجھے بس ایک بات بتا دو میر تم نے کیا سوچ کر یا پھر کس وجہ سے اس رشتے سے انکار کیا ہے وہ ہاتھ سینے پر باندھے میرب کے سامنے کھڑا بغور اس کی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں میں دیکھتا اپنے آپ کے ریجیکٹ ہونے کا جواب طلب کر رہا تھا۔۔۔
مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا کوئی ایسا تعلق بنا ہے کہ میں آپ کو جواب دوں ، وہ کہاں سے کم تھی۔۔ وہ بولی تو تیمور شیرازی بالکل ساکت خاموش سا ہو گیا ۔ مجھے آپ جیسے سو کارڈ انسان سے شادی نہیں کرنی ، جو خود کو ہر کسی میں تقسیم کرتا ہو۔۔۔"! تم جانتی ہو میر تم نے آج تک صرف تیمور شیرازی کی محبت دیکھی ہے اگر میرے جنون سے واقف ہو گئی تو پچھتاؤ گی اپنے ان لفظوں پر ۔۔۔۔۔۔ وہ بمشکل سے خود پر قابو کرتا اس کے چہرے پر تقریبا جھکا ہوا تھا۔۔ !"
کچھ نہیں کر سکتے آپ سن لیں میرا جواب آج بھی وہی ہے اور کل بھی یہی رہے گا ۔۔۔ میں کسی بھی صورت آپ سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔۔!" خود پر جھکیے تیمور شیرازی کی آنکھوں میں دیکھتے وہ ایک عزم اعتماد سے بولی تھی مقابل کو اس کا ایٹیٹیوڈ، اعتماد بہت بھایا تھا۔۔۔ !"
بہت خوب مائی کیوٹی پائے آج سے ٹھیک دو دن کے بعد تم میرب داؤد سے میرب تیمور شیرازی بنوں گی ہے اور یہ تیمور شیرازی کا تم سے وعدہ ہے اور اس کے بعد میں تمہیں اپنے طریقے سے اپنے انداز میں بتاؤں گا کہ تم کیسے اور کب مجھے اچھی لگی تھی تیمور کی چمکتی تیز نظریں اب تک میرب کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی وہ اسکی آنکھوں میں ایک جنون دیکھتے ہی حیران سی رہ گئی گی ، تیمور شیرازی کے الفاظ اس کے دماغ اور دل پر بری طرح سے اثر چکے تھے ابھی چلتا ہوں میں میر جاناں تم ان دو دنوں میں اچھے سے ریسٹ کر لو ، کیونکہ شادی کے بعد تمہیں ریسٹ کرنے کا موقع نہیں ملنے والا وہ گہری بے باک لہجے اپنے ہاتھ کی پشت سے میرب کے سرخ ہوئے گال کو سہلاتا معنی خیز لہجے میں بولا تھا ۔۔
💥💥💥💥💥💥
ہاتھ کھولو میرے قالو وہ غصے سے چلاتے تیزی سے اپنے بندھے ہوۓ ہاتھ کھولنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولی تھی۔۔
مجھے لگتا ہے تمھاری چلتی زبان کو روکنے کے لیے مجھےم تمہارے منہ کو بھی باندھنا پڑے گا۔۔
وہ ترچھی نظروں سے الایہ کے لال بھبوکا چہرے کو دیکھتے ہوۓ مزے سے بولاتھا۔۔۔
تمھیں کیا لگتا ہے تم ایسا کر کے مجھ سے بچ جاؤ گے یا پھر میں تمہاری بات مان جاؤں گی۔۔
وہ اسے غصے سے دیکھتے ہوۓ بول رہی تھی۔
مگر سامنے والا بھی اس کے غصے کی پرواہ کیے بغیر اسے مخظوظ ہو کے دیکھ رہا تھا۔۔۔
قالو میرے ہاتھ کھولو۔۔
نہیں کھولوں گا جو کرنا ہے کرو۔ اذلان نے اسکے تپے چہرے کو دیکھتے لب دبائے کہا تھا۔۔۔
اُف تمھیں میری بات سمجھ کیوں نہیں آ رہی ہمارا وہاں جانا بہت ضروری ہے۔۔
اگر ھم نا گۓ تو ایچ اے أر(HAR)کچھ بھی کرسکتا ہے۔۔اس کی باتیں سن کر قالو بھی اس کی حالت پہ رحم أ جاتا ہے۔۔
اچھا چلو کھول دیتا ہوں تم بھی کیا یاد کرو گی کس ریئس سے پالا پڑا ہے۔۔ وہ فرضی کالر جھاڑتے اٹھتا الایہ کے قریب ہوا تھا الایہ کی سرخ نظریں اسکے براؤن لیدر شوز پر ٹکی تھی اسکا بس نہیں تھا کہ وہ اسے ایک لات رسید کرتے اپنے پاؤں میں گرا لے۔۔۔۔
اذلان نے آگے بڑھتے تیزی سے اسکے ہاتھوں کو کھولا تو الایہ ایک دم سے اٹھتے اسکے سینے سے بری طرح سے ٹکرائی۔۔۔ اففففف ماہی جانم اگر ایسے سانس روکنا ہے تو مجھے بتاؤ مجھے اس سے بھی اچھا طریقہ آتا ہے سانس روکنے کا۔۔۔۔۔۔ اسے یوں سانس روکتے دیکھ وہ جھکتے اپنی دہکتی سانسیں اسکے چہرے پر چھوڑتے بولا تو الایہ نے لب بھینجتے اسے دیکھا۔۔۔۔
پیچھے ہٹو ٹھرکی انسان۔۔ وہ اسے ہاتھ سے پیچھے کرتی تیزی سے اپنی چئیر کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ اذلان سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا تھا جو کسی ماہر کی طرح اپنی انگلیاں کی بورڈ پر چلاتے ایک منٹ میں سارا ڈیٹ نکال چکی تھی وہ واقعی سراہے جانے کی قابل تھی۔۔۔۔
ہمیں ابھی اسی وقت نکلنا ہے اس سے پہلے کہ۔ایچ اے آر کچھ نیا کرے ہمیں اے روکن ہو گا۔۔۔۔ وہ سامنے میز پر پڑی پانی گن اٹھاتے بولی تو اذلان نے فورا سے اپنے دونوں بھاری مضبوط ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھتے اسے اپنے حصار میں تنگ کیا۔۔
آج تمہارا قالو تمہارے دماغ پر فدا ہو گیا ہے منہ آگے کرو ذرا انعام دوں ۔۔۔۔ وہ بے باکی سے اسکے چہرے اور ہونٹوں کو دیکھتے آخر میں آنکھ دباتے ہوئے بولا تو الایہ نے دانت پیستے اسے گھورا۔۔۔۔۔ اگر اب کوئی فضول بکواس کی تو اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔۔ وہ شہادت کی انگلی اٹھائے اسے وارن کرتے مڑی تھی اور تیزی سے اپنی گن بیلٹ میں لگائے وہ باہر جی جانب بڑھی۔۔۔
انعام تو میں دے کر رہوں گا ماہی جانم۔۔۔۔۔۔ اذلان نے گن چیک کرتے الایہ کی پشت کو گھورتے شرارت سے کہا تھا۔۔۔۔
گاڑی نکالو اذلان ۔۔۔۔۔۔ اس وقت الایہ خاصی سنجیدہ تھی اسکا دماغ ایچ اے آر پر اٹکا تھا۔۔۔۔۔ اذلان نے ایک نظر مڑتے پیچھے کھڑی ہیوی بائیک کو دیکھ اور ہجر سیٹی بجائے وہ اپنی سائلینسر لگی گن سے اپنی گاڑی کے ٹائر کا نشانہ لیتے ایک دم سے مسکراتا گن واپس بیلٹ میں رکھ گئا۔۔۔۔
کیا ہوا نکالو تو۔۔۔۔۔ وہ چڑتے بولی تو اذلان نے معصومیت سے گاڑی کے ٹائر کو دیکھا ۔۔۔۔ وہ دیکھو ہیوی بائیک ہمیں جلدی نکلنا ہے اذلان گو فاسٹ۔۔۔؟۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھتے بول رہی تھی ۔۔۔ مگر مجھے تو یہ چلانی ہی نہیں آتی وہ کندھے اچکاتے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا تو الایہ نے غصے سے اسے مارنا چاہا مگر پھر اپنے غصے پر قابو کرتے وہ تیزی سے خود ہی بائیک پر بیٹھے اسے سٹارٹ کر گئی۔۔
مجھے بھی لے چلو ساتھ۔۔۔ وہ جلدی سے اسکے پیچھے بیٹھتا مضبوطی سے اسکی کمر کو تھامے اپنی تھوڑی اسکے کندھوں پر رکھتے بولا ۔۔۔ شٹ اپ کو اگر اب بولے تو یہی اتار دوں گی۔۔۔ الایہ نے چڑتے اسے ٹوکا تو اور اذلان نے اسے مضبوطی سے خود سے لگائے آنکھوں موندی۔۔۔
اذلان سٹاپ اٹ۔۔۔۔ اذلان کا بھاری ہاتھ اپنی کمر پر سرکتا محسوس کرتے وہ غصے سے اسے ٹوکنے لگی اسکا پورا وجود لرزنے لگا تھا وہ کوشش کے باوجود بھی اپنا دھیان ڈرائیونگ کی جانب نہیں لگا سکی۔۔۔۔ ماہی جانم میرا دل تمہیں انعام دینے کا کر رہا ہے اب کیا کروں میں۔۔۔۔ ہوا سے باتیں کرتی اس تیز سپیڈ میں بھی وہ اسے برابر کا زچ کر رہا تھا۔۔
اذلان نے اپنے سلگتے ہونٹ الایہ کی گردن پر رکھتے ہنے ہونٹوں کا تیز لمس اسکی گردن پر چھوڑا۔۔۔۔ تو الایہ نے جھٹکے سے سپیڈ کم کی، اذذذذ اذلان۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ کانپتے ہوئے لرزتے وجود سے بولی تو اذلان نے اپنے بھاری مضبوط ہاتھ اسکے ہاتھوں پر رکھتے سیپڈ ایک دم سے فل کی تو الایہ کی اچانک سے چیخ نکلی تھی۔۔۔۔ وہ تیزی سے رخ گھمائے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔۔ اذلان اب مہارت سے ڈرائیونگ کرتے وہئیل اٹھاتا اسے خوفزدہ کر رہا تھا۔۔۔۔
رات کی یخ بستہ ٹھنڈ میں الایہ کے بال جھولتے اسکے چہرے پر پڑتے اسکے جذبات کو دہکا رہے تھے۔۔۔ اذلان کیا کر رہے ہو سپیڈ کر کم کرو۔۔۔۔ وہ غصے سے کہتے ساتھ ہی اپنا چہرہ ڈرتے اسکی گردن میں چھپا گئی۔۔۔۔۔ انعام لینا ہے یا نہیں ۔۔۔۔وہ ریس بڑھاتے اونچی آواز میں بولا تھا اہہہ لینا ہے لینا ہے پلیز سپیڈ سلو کرو ۔۔۔۔۔ اسکے بھیانک انداز میں ڈرائیونگ کرنے پر وہ مضبوط دکھنے والی نازک سی لڑکی بھی روتے ہوئے بولی تو اذلان نے فاتحانہ انداز میں آہستگی سے بائیک کی سپیڈ کم۔کرتے اسے روک دیا ۔۔۔۔
" اپنے بھاری قدم زمین پر دونوں جانب رکھتے وہ گہری تاریک رات میں اپنے سینے سے لگی اپنی پٹاخہ بیوی کے خوبصورت چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھرتے وہ بغور اسکے کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔ اذلان نے جھکتے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنی دہکتی پر شدت گرفت میں لیا تو الایہ ایک دم سے ہوش میں آتے اسکی جذبوں کی آنچ سے چود آنکھوں میں دیکھتے اسے خود سے دور کرنے لگی کہ اذلان نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتے پشت سے لگایا تھا۔۔
الایہ کا سانس اسکے سینے میں اٹکا تھا جب اپنی سانسوں میں اترتی مقابل کی دیکھا دینے والی سانسیں اسے پاگل کر دینے کے دم پر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ الایہ کی بند آنکھوں کو دیکھتے اذلان نے ما چاہتے ہوئے بھی اسکے ہونٹوں کو آزادی دیے اسکے دہکتے گالوں کو شدت سے چھوا۔۔۔ ۔۔۔ تم جب جب اور جتنی بار مجھے روکو گی میں تمہارے اتنا ہی قریب آؤں گا۔۔۔۔۔۔۔
میری شدتیں میری دیوانگی اتنی کی بڑھے گی ماہی۔۔۔۔۔ اب یہ تم پر ہے کہ تمہیں میری الفت چاہیے یا پھر میرا جنون ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے ہاتھوں کو اپنی گردن میں حائل کرتے وہ نرمی سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے اسکے کان میں سرگوشی کرتے بولا تو الایہ نے تیز تیز سانس لیتے خود کو نارمل کیا۔۔۔۔۔ لیٹس گو فار دی وار۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سینے سے لگائے وہ اب کی بار نارمل سپیڈ سے بائیک چلاتے ان خوبصورت لمحوں کو محسوس کرنے لگا۔۔۔۔
💥💥💥💥💥💥
" درمیانے سائز کے مناسب کمرے میں ایک جانب دیوار کے دائیں جانب پڑے صوفے اور اسکے سامنے ہی سیدھے پاؤں سے جاتے سامنے ہی ایک درمیانہ سائز بیڈ پڑا ہوا تھا۔ بیڈ کے ساتھ والی دیوار کے تقریباً تھوڑے اگلے حصے پر نصب لکڑی کی آدھ کھلی کھڑکی سے آسمان پر روشنی کی کرنیں بکھیرتا خوبصورت سا سورج ہلکا سا نمودار ہوتے اللہ کی قدرت کا کرشمہ بنے ہر سوں ایک حسین سا منظر برپا کر رہا تھا۔۔
سورج کی ہلکی سے پھوٹتی کرنیں کھڑکی سے ٹکراتے کمرے میں روشنی بکھیر رہی تھی کہ معا بیڈ پر سکون سے پڑے اس وجود میں جنبش سی ہوئی ، مقابل نے اپنا بھاری ہاتھ اٹھاتے سامنے بیڈ کی دوسری رکھتے اپنے ساتھ موجود دوسرے وجود کو اپنی جانب کھینچ مگر ایک دم سے اس جگہ کو حالی پاتے مقابل کی شہد رنگ سرخی سموئی آنکھیں جھٹ سے کھلی تھی۔۔ اس کی آنکھوں میں رت جگے کی سرخی ، محبوب کی قربت کا سکون آباد تھا ۔۔۔۔
بھاوں نے اٹھتے ایک ہاتھ گھٹنے پر رکھتے گردن ترچھی کیے اسے ڈھونڈنا چاہا ، مگر پورا کمرہ حالی تھا ۔۔۔۔۔ وہ جگہ سے اٹھتے تیزی سے کمرے سے نکلنے لگا کہ ایک دم سے باتھروم سے آتی سسکیوں کی آواز سنتے اسکے بھاری قدم وہیں تھمے تھا۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے قدم واشروم کہ جانب بڑھتے اس جانب گیا ۔۔۔۔
حیا۔۔۔۔۔۔" گھٹنوں میں منہ دیے ایک جانب بیٹھی اپنی ہی شرٹ میں کھلے بالوں میں بےترتیب سی بیٹھی ہچکیاں بھرتی حیا کے لرزتے وجود کو دیکھ وہ ہلکی آواز میں غرایا تھا۔۔۔۔
مقابل کی بھاری آواز کو سنتے حیا نے غصے سے اپنی سرخ ہوتی کالی آنکھوں کو اٹھائے اسے دیکھا جو شرٹ لیس سا دروازے کے بیچ کھڑا اپنی من مانی کرنے کے بعد کافی پرسکون دکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ جاؤ یہاں سے مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے۔۔۔۔۔" وہ نفرت سے کہتی رخ پھیرتے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ اسکے یوں بے وجہ رونے پر بھاوں کو جی بھر کے غصہ آیا تھا جبھی وہ تیزی سے اسکے قریب جاتے اسے بازوؤں سے تھامے کھینچتے اپنے قریب تر کر گیا۔۔۔
" کیا رونا دھونا لگایا ہے صبح صبح ______ کس بات کا دکھ منا رہی ہو تم۔۔۔۔۔؟" بھاوں نے غصے سے اسکے بازوؤں کو دبوچا تھا حیا کی سسکی سی نمودار ہوئی مقابل کی اس قدر سخت گرفت پر۔۔۔۔۔" چچ چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔" حیا بنا کوئی جواب دیے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے لگی مگر ہمشیہ کی طرح ایسا کرنا نا ممکن تھا۔۔۔
اگر تو تم یہ سوچ رہی ہو کہ تمہارے ایسے رونے دھونے سے مجھے واقعی میں اپنے کیے پر افسوس کو گا تو تم بالکل غلط سوچ رہی ہو جانم______ اب کوئی پاگل ہی ہو گا جو اتنی خوبصورت رات گزارنے کے بعد صبح کو اسے اپنی غلطی یا پھر بھول قرار دے ۔۔ " امن نے جھکتے اسکے بھیگے چہرے سے اپنے ہونٹوں سے آنسوں چنتے حیا کے سن وجود کو دیکھ معنی خیزی سے کہا تو حیا نے لب بھنجتے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا۔۔۔۔۔
منہ دھو کے واپس آؤ ذرا۔۔۔۔ وہ فرمائشی اانداز میں کہتے ہنستا اسکے گال پر ہونٹ رکھتے سرگوشی نما آواز میں بولا تو حیا نے ہونٹ سکیڑتے اپنے آنسوں اور خود پر ضبط کیا ۔۔" بھاڑ میں جاؤ تم گھٹیا انسان ، مجھے رہنا ہی نہیں تمہارے ساتھ جنگلی جاہل انسان ہو تم ایک نمبر کے______!" امن کی پشت کو دیکھتے وہ اونچی آواز میں ہذیانی سی کیفیت میں چلاتے ہوئے بولی تو مقابل نے مڑتے ائبرو اچکاتے اسے سر تا پاؤں گھورا۔۔۔۔
" جاہل اور جنگلی تم نے اب تک دیکھے ہی کہا ہیں لخت ِ جگر ۔۔۔۔ میری شرافت اور نرمی کا بہت غلط فایدہ اٹھا رہی ہو تم۔۔۔۔ مجھے زبان در راز بیویاں بالکل نہیں پسند ۔۔۔ وہ چلتا اسکے قریب جاتے ایک جھٹکے میں اسے بالوں سے دبوچتے اسکا چہرہ اونچا کیے عجیب سے لہجے میں بولا تو اسکی تیز گرفت پر حیا کی آنکھوں میں پانی سا آنے لگا۔۔۔۔
شکر مناؤ کہ میرا موڈ اچھا ہے ورنہ تمہیں کافی اچھے سے بتاتا کہ جاہل اور جنگلی کسے کہتے ہیں۔ اگلے دو منٹ میں تیار ہو کر باہر آؤ ہم ابھی گھر جائیں گے۔۔۔۔وہ پھر سے سخت نفرت بھرے لہجے میں کہتا اسے خود سے دور کرتے باہر نکلا تھا۔۔
تم کبھی نہیں بدل سکتے امن۔۔۔مھھے نفرت ہے خود سے جو اپنا آپ تمہیں سونپ دیا۔۔۔وہ روتے ہوئے خود سے ہی بڑبڑاتے اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی۔
اپنے سر میں ہوتے درد پر وہ برے سے منہ بنائے اپنا بایاں ہاتھ سر پر رکھے ، حور نے کراہتے اپنے وجود میں اٹھتے درد کی وجہ سے بمشکل سے ایک ہاتھ بیڈ پر مضبوطی سے رکھتے اپنی سرخ ہوئی سوجھی آنکھوں کو کھولتے آگے پیچھے دیکھا ۔۔۔۔۔
اسکا سر بری طرح سے چکرا رہا تھا سوچنے سمجھنے کی ساری حسیات بالکل سن ہوئی پڑی تھیں ، وہ اپنی گردن پر ہاتھ رکھتے اپنے سر کو دائیں جانب گھمائے وہ خود کو پرسکون کرنے لگی۔۔۔۔ حرمین عالیان شاہ ۔۔۔۔۔ ایک دم سے ایل کی بھاری آواز میں کی گئی سرگوشی اسکے دماغ میں گھومتے اسے جھکٹے سے بیڈ سے اترنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔
حور نے سہمی نظریں پھیلائے اپنے سر کو نفی میں ہلایا کہ اچانک کسی غیر محسوس احساس کے تحت حور نے فورا سے نظریں جھکائے اپنے وجود کو دیکھا اسکا دل بری طرح خوف سے پھڑپھڑانے لگا اپنے وجود پر موجود ایل کی شرٹ دیکھتے ایک دم سے وہ ڈر و وخشت سے چیخی تھی ۔۔ وہ گھبراتے مڑی اور فورا سے آئینے کے سامنے جاتے اسنے اپنے وجود کو دیکھا اسکا دماغ بالکل سن سا پڑنے لگا خود سے آتی ایل کی خؤشبو اسے دہلنے پر مجبور کر گئی ۔۔۔۔ حور کی ٹانگیں بری طرح سے لرزنے لگی ۔۔۔۔
حور نے کپکپاتے ہاتھوں سے ، اپنی خوف سے پھیلی آنکھوں میں ویرانی سموئے نم آنکھوں سے اپنی گردن پر بکھرے بالوں کو سمیٹتے پیچھے کیا ننن نہیں ۔۔۔۔ اپنی گردن پر ایل کی شدتوں کے سرخ نشانات دیکھتے وہ بری طرح سے چیختے ایک دم سے پیچھے ہوئ تھی۔۔۔ حور نے اپنے دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے ایک دم سے وخشت زدہ سا اونچی آواز میں چیخنا شروع کر دیا کہ کمرے کے سنسان حالی پڑے درو دیوار میں اسکی آواز گونجتے ماحول میں وخشتیں بکھیرنے لگی ۔۔۔
اسے لاکھ کوشش کے باوجود بھی کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا وہ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی کچھ بھی یاد نہیں کر پارہی تھی سوائے اس آخری لمس اپنی ڈریس کی کھلتی ڈوریوں کو محسوس کرنے کے۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سے کسی بےجان گڑیا کے مانند پیچھے کو گری تھی اسکا وجود بالکل ساکت سن پڑ گیا تھا ۔۔۔۔
اللہ جییییییی________ " وہ ایک دم سے روتے ہوئے اپنے اللہ کو یاد کرنے لگی اسکی چیخیں اسکے رونے کی آواز کسی کا بھی دل چیر سکتی تھی اسکی آنکھوں میں ایک سمندر سا آباد ہوا تھا جو کسی بہتے جھرنے کی مانند اسکی سیاہ جھیل سی آنکھوں سے روانی سے بہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اسنے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تھا کبھی اپنے اللہ اپنے والدین کو ناراض نہیں کیا کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔۔۔ ۔
تو پھر میں ہی کیوں ۔۔۔۔ کیوں ہوا ایسا میرے ساتھ میرے اللہ مجھے بتائیں میں کیسے کس منہ سے اپنے ماں باپ اپنے بھائی کے پاس جاؤں گی مجھے موت دے دیں میرے رب میں اس طرح سے جی نہیں پاؤں گی یہ وخشتیں میرا اندر ختم کر دیں گی۔۔۔۔میں کہا جاؤں میرا مولا۔۔۔۔۔۔"
وہ ہاتھ گھٹنوں پر باندھے کسی پاگل کی سی مانند بلک رہی تھی اسکا نازک وجود بری طرح سے لرز رہا تھا گھنی سیاہ زلفیں اسکے دونوں اطراف سے ڈھلکتی اسکے چہرے پر سایہ سا کر گئی سرخ و سفید چہرہ آنسوں سے تر تھا ، وہ اس وقت کسی بھٹکے راہ کی وہ مسافر دکھ رہی تھی جس کے پاس اسکی منزل کا پتہ تو معلوم تھا مگر اس تک پہنچنے کے سارے راستے سارے در بند تھے ۔۔۔
ایک دم سے اسکی آنکھیں بھارئ ہونے لگی وہ بشمکل سے اپنے سر میں اٹھتی درد کی تیز ٹیسوں پر اپنے آپ پر ضبط کیے بیٹھی تھی۔۔۔
حور نے گھٹنوں پر زور ڈالے بمشکل سے اٹھتے واشروم کا ڈور کھولا اور پھر گھٹستے قدموں سے اندر جاتی وہ شاور کو ان کیے نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔۔ یخ بستہ ٹھنڈ میںں شاور کا ٹھنڈا ٹھار حواس شل کر دینے والا پانی اسکے وجود پر گرتے اسے بگھونے لگا جسکی آنکھوں سے بہتا گرم سیال شاور کے بہتے پانی میں شامل ہوتے انہیں بے مول کر رہا تھا ۔
اسکی آنکھیں ایک دم سے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے بند ہونے لگی وہ بمشکل سے اپنے آپ کو حواس میں رکھنے کی کوشش کرنے لگی، تم باہر ویٹ کرو ڈینی میں خود جاتی ہوں اندر ، ڈینی کو باہر انتظار کرنے کا کہتے وہ اندر داخل ہوئی ایل لیلی سے ملنے گیا تھا جب تک یہ ڈینی اور صوفیہ کی زمہ داری تھی کہ وہ کیسے بھی حور کا خیال رکھیں ۔۔۔
صوفیہ کمرے میں آتے حیران سی رہ گئی پورا کمرہ بکھرا پڑا تھا اسنے حیرت سے پورے کمرے میں نظریں دوڑاتے حور کو ڈھونڈا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی ۔صوفیہ نے گہرا سانس فضا میں خارج کرتے بیڈ کی جانب دیکھا، بیڈ کے قریب پڑے سرخ لہنگے کو دیکھتے صوفیہ کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا۔
جس شخص کو پانگ کا خواب وہ لڑکپن سے جوانی تک دیکھتی آئی تھی آج وہ ہمیشہ کے لیے اپنا آپ کسی اور کے نام کر۔چکا تھا کتنی تکلیف دہ تھا یہ سب ۔۔۔ مگر وہ جانتی تھی کہ وہ تو شروع دن سے ہی ایک سراب کے پیچھے بھاگتے آئی تھی یہ سب تو ہونا ہی تھا۔۔
اسنے مسکراتے اپنے آنسوں صاف کیے اور آسودگی سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کرتے وہ واشروم میں داخل۔ہوئی۔
حور ۔۔۔۔ فرش پر بے ہوش پڑی حور کو دیکھتے وہ گھبراتے اسکے قریب گئی۔۔ اور نرمی سے اسکے سر کو گود میں رکھتے وہ متفکر سی اسے دیکھنے لگی۔
اسے اندازہ تو تھا کہ جو کچھ ایل۔اس معصوم کے ساتھ کرنے کا سوچ رہا تھا یہ سب کچھ یہ معصوم برادشت نہیں کر پائے گی اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔
صوفیہ اسکے نازک وجود کو گود میں اٹھاتے باہر بیڈ تک لائی تھی اور نرمی سے اسے بیڈ پر ڈالے اسنے وارڈروب میں سے حور کے کپڑے نکالے جو ایل لایا تھا۔۔۔
صوفیہ نے اشتیاق سے اس خوبصورت خجاب کو دیکھا جو بالکل حور کے چہرے سے مشابہت رکھتا سفید رنگ کا نرم و ملائم کپڑے کا تھا۔۔
وہ کپڑے نکالتے اسکی جانب بڑھی۔
💥💥💥💥💥💥
کیا کر رہی ہو تم روز۔۔۔۔۔۔!" کمرے کا دروازہ کھولتے وہ اندر آیا تو نظر پورے بکھرے کمرے پر پڑی اسنے مخصوص روبعدار آواز میں پوچھا ۔۔ تو روز نے مصروف سے انداز میں اپنے منہ سے قینچی نکالتے اسے دیکھا۔
اپنے پہننے کیلئے کپڑے بنا رہی ہوں ۔"
اسکی شرٹ جسکے دونوں بازوؤں اسنے اچھے سے کاٹ لیے تھے وہ لہراتے اسکے سامنے کرتے بولی تو انزِک نے حیرت سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا جس کے ہاتھ میں پکڑی انزِک کی فیورٹ سکائی بلیو کلر کی شرٹ اب کوئی اور ہی نقشہ بیان کر رہی تھی۔
روزززز۔۔۔۔۔وہ چیختا دوڑتے اسکے قریب آیا تھا اور فورا سے اسکے ہاتھ سے اپنی شرٹ کو کھینچتے وہ سامنے پھیلائے دیکھنے لگا۔۔۔
یییی یہ کیا کیا تم نے پاگل لڑکی۔۔۔ وہ چیختے اسے بازوؤں سے پکڑتے جھنجھوڑنے لگا جو بیڈ پر گود بنائے بیٹھی تھی، انزِک کے یوں اچانک سے کھینچنے پر وہ ایک دم کسی کھلونے کی طرح بیڈ سے اوپر اسکے ہاتھوں میں لہرا رہی تھی۔
ککک کڈنیپر اسنے ڈرتے خود کو بیڈ سے اونچا پاتے انزِک کو مخاطب کیا تو انزِک نے اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھا جس پر اسے مکمل اختیار حاصل تھا۔
تم نے اپنے پہننے کیلئے میری یہ دو سال سے فیورٹ شرٹ تباہ کر دی۔۔۔وہ اسکے چہرے پر اپنی گرم سانسیں چھوڑتے بولا تھا کہ روز نے دو سال سنتے اسے گھورا۔۔۔
واٹ۔۔" تم دو سالوں سے اس شرٹ کو یوز کر رہے ہو، میں تو ایک بار پہنا کپڑا دوبارہ استعمال نہیں کرتی ، وہ ناک چڑھائے آنکھیں گھماتے بولی تو انزِک کے ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ بکھری۔
اسے کھینچتے اپنا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کیے انزِک نے اسے خود سے لگایا تو روز نے ناک چڑھائے اسے دیکھا ۔۔
تم دور رہ کے بات کیا کرو مجھ سے کڈنیپر ۔۔۔۔اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے وہ اسے وارننگ دینے والے انداز میں دیکھتے بولی تو انزِک کا اسکے ہاتھ کو ہونٹوں سے چھوا۔۔ جس پر روز نے فوراً سے ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
میں تمہارے لیے کپڑے لایا ہوں روز کی خوشبو تمہیں میرے کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں اور اب جب تم نے میری فیورٹ شرٹ خراب کی ہے اسکی سزا تو تمہیں دینی پڑے گی۔
وہ پرسوچ انداز میں اسے دیکھتے گود میں بھرتے ڈریسنگ کے سامنے گیا اور نرمی سے اسے چئیر پر بٹھائے انزِک نے اپنے لائے شاپنگ بیگز اسکے سامنے رکھے ۔۔ دیکھو ان کو۔۔۔۔اسکے چھوٹے چھوٹے گولڈن بالوں میں ہاتھ گھماتے وہ بھاری لہجے میں بولا تھا جبکہ آنکھوں میں خمار کی سرخی سی آنے لگی تھی۔جس سے وہ انجان بیٹھی اسی کے لائے کپڑے دیکھنے لگی۔
یہ سب کیا ہے کڈنیپر میں ایسے کپڑے نہیں پہنتی ۔۔۔" روز نے باری باری سبھی کپڑے نکالتے دیکھے تھے جن میں۔ شارٹ فراک اور ساتھ میں ٹائٹس موجود تھے۔اسے شروع دن سے ہی ایسے کپڑے سخت ناسپند تھے وہ تو شارٹ سکرٹ اور ساتھ میں شارٹ سی جینز پہنتی آئی تھی۔
ہمممم پہلے نہیں پہنتی تھی مگر اب سے تم یہی پہنو گی۔۔ اسکے سر کو پیچھے سے کھینچتے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے بولا تو روز کو حیرت ہوئی۔ نو نو نو ۔۔۔۔ " میں کبھی بھی یہ نہیں پہنوں گی ۔۔ " اسنے فورا سے انزِک کا ہاتھ جھٹکتے خود سے دور کرتے سیدھا ہوتے اسے گھورا۔
ہنہہہ زیادہ بننے کی ضرورت نہیں تم میرے ہزبینڈ نہیں ہو سمجھے تم ۔۔۔ یہ شادی صرف نام کی شادی ہے یاد ہے ناں ۔۔۔۔ اور اگر اب مجھے ٹچ کرنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہو گا تو مجھ سے دور رہ کر بات کرو ۔۔ " اسکے سامنے کھڑے ہوتے روز نے کہتے ساتھ ہی مرر کے سامنے رکھے کپڑوں کو ایک دم سے جھٹکے سے نیچے گرایا۔۔
انزِک نے جبڑے بھینجتے اپنے آپ پر کنٹرول کیا۔۔ چپ چاپ ان میں سے ایک سوٹ نکالو اور ابھی کے ابھی چینج کر کے آؤ وہ دانت پیستے ساتھ ہی اسے ہدایت دیتے بولا۔
تمہاری بھول ہے کبھی بھی نہیں۔۔۔" وہ بدتمیزی سے اونچی آواز میں کہتے ایک جانب سے ہوتے نکلنے لگی کہ معا اسکا نازک ہاتھ انزِک کے ہاتھ میں تھا ۔
چھوڑو کڈنیپر مجھے درد ہو رہا ہے آہہہہ۔۔۔۔ وہ درد پر چیختے اسے خود سے دور کرنے لگی مگر انزِک بھینجے جبڑوں کے ساتھ اسے کھینچتے باتھروم میں لے جاتے ایک دم سے اسکے بازو کو چھوڑے روم کو اندر سے لاک کر گیا۔
سمجھتی کیا ہو خود کو تم ۔۔۔۔ میری شرافت راس نہیں آئی تمہیں میں چاہتا تھا کہ تمہیں آرام سے سمجھاؤں مگر تم تو سمجھنے والی شے ہی نہیں ہو ۔ تم جو تھی مجھے اس سے کوئی تعلق یا سروکار نہیں مگر اب تم میری ہو میری بیوی میری ملکیت تمہارے پاؤں کے ناخن سے لے کر تمہارے سر کے بالوں تک میں ہر چیز کا مالک ہوں میرا حق ہے سمجھی تم۔۔۔۔
اپنا بھاری ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹتے وہ اسے اپنے بے انتہاء قریب کرتے بولا کہ اسکے لفظوں میں چھپی وخشت اسکے پاگل پن کو دیکھتے وہ سہم سی گئی۔ نن نو مجھے نہیں کرنا چینج تتت تم مجھے ڈرا نہیں سکتے سمجھے پیچھے ہٹو ۔۔۔۔۔" اپنے ڈر پر قابو پاتے روز نے وہاں سے نکلنا چاہا تھا کہ انزِک نے ہاتھ پیچھے سے اسکی گردن کے گرد لپیٹتے اسے کھینچتے اپنے سامنے کیا۔
میں ڈرا نہیں رہا صرف وارن کر رہا ہوں روز ڈارلنگ ۔۔۔ پہنو گی کہ میں خود پہناؤں۔۔۔۔ " اسکے چہرے کے قریب جھکتے انزِک نے پھونک مارتے اسکے ماتھے سے بال پیچھے کیے تو وہ ڈرتی آنکھیں میچ گئی۔
مجھے درد ہو رہا ہے ، پلیز مجھے چھوڑو کڈنیپر۔۔۔ " اپنی گردن کے گرد لپٹے انزِک کے بھاری ہاتھ کی سخت گرفت کی وجہ سے روز کی آنکھوں میں آنسوں سے آنے لگے تھے۔
اسکی رندھی آواز پہ انزِک نے ایک دم سے ہوش میں آتے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو روز کی گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا ۔۔ اپنے لفظوں کی سختی کا احساس ہوتے ہی انزِک نے جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کھینچا۔۔۔ تم بہت برے ہو آئی ہیٹ یو کڈنیپر۔۔۔وہ سوں سوں کرتے اپنی سرخ نظروں سے انزِک کو دیکھ کہتی وہاں سے جانے لگی کہ انزِک نے گھبراتے اسکا ہاتھ تھامتے اسے اپنی جانب کھینچا کہ وہ جھٹکے سے اسکے سینے سے آ لگی۔
میری جان سو سوری ویری سوری میں ایسا نہیں چاہتا تھا ایم رئیلی سوری میں نے درد دیا ۔۔۔۔۔ " اسکے چہرے کو تھوڑی سے پکڑتے اونچا کیے انزِک نے اسکی گردن پر پڑے اپنی انگلیوں کے نشانات دیکھے تو اسے مزید شرمندگی سی ہوئی جبھی اسنے جھکتے بلا ارادہ ہی اپنے ہونٹ اسکی شفاف گردن پر رکھے تو انزِک کے اچانک ایسا کرنے پر روز کا سانس رک سا گیا تھا۔
اسنے ڈرتے اپنے گردن پر جھکے انزِک کے کندھوں کو مضبوطی سے تھاما، جو اپنے دیے درد کا مداوا کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
کڈڈ کڈنیپر۔۔۔۔۔ " انزِک کی بڑھتی جسارتوں پر روز نے کپکپاتے ہوئے اسے پکارا تو انزِک نے سر اٹھائے روز کو دیکھا جسکی آنکھوں میں خوف سا تھا۔۔ انزِک نے جھٹکے سے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتے اسے قریب تر کیا اور ایک دم سے اسکے کپکپاتے ہونٹوں پر جھکتے وہ بے خود سا ہوتے اسکی سانسوں کی خوشبو کو خود میں انڈیلنے لگا ۔
روز اسکے حصار میں کپکپاتے ہوئے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے جو اسکے ہونٹوں پر جھکا مدہوش سا اسکی سانسوں کو خود میں اتار رہا تھا۔
میں باہر انتظار کر رہا ہوں تم جلدی سے چینج کر کے باہر آؤ ہم تمہارے سسرال جا رہے ہیں۔اسکے گال کو نرمی سے چھوتے وہ محبت سے بولا ، تو روز نے حیرانگی سے انزِک کی پشت کو گھورا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ باہر نکلتا دروازہ لاک کر گیا۔
💥💥💥💥💥💥
ماما ڈیڈ کہاں ہیں۔۔؟" اپنا بیگ کندھے سے اتارتے صوفے کی جانب اچھالتے میرب نے دعا کو مخاطب کیا جو کچن میں مصروف تھی ۔
جاؤ پہلے فریش ہو کے آؤ ، اس کے بعد کھانا کھاتے ہیں ۔۔۔" میرب کو کچن کی جانب آتا دیکھ دعا نے اسے دور سے ہی ٹوکا تو میرب نے منہ غبارے کی طرح پھلا لیا۔ ۔۔ میں آپ سے اپنے ڈیڈ کا پوچھ رہی ہوں ، اور آپ کیا کہہ رہی ہیں آگے سے۔۔۔
وہ وہیںں باہر فرش پر بیٹھتے کے سے انداز میں جھکتی ہوئی بولی تو اسکے طرزِ تخاطب اور یوں بچوں کی طرح حرکتوں پر دعا نے غصے سے دانت پیسے۔۔
تمہارا باپ گھر پر نہیں جانے کس کے گردے پھیپھڑے نکال رہا ہو گا اگر اگلے دو منٹ میں تم فریش ہو کے ناں آئی تو داؤد کے آنے تک تمہارا خشر بگاڑ دوں گی میں۔۔۔"
اپنی آنکھوں کو بڑا کیے پھیلائے وہ اس انداز میں بولی کہ میرب ایک دم سے اسکے غصے پر ڈرتی اپنے بیگ کی جانب بڑھی تھی ۔
ڈیڈ کے سامنے بھیگی بلی بن جاتی ہیں اور مجھ معصوم کو ستا کے رکھا ہے ۔ بیگ کو کندھے پر لٹکائے وہ بڑبڑاتے ہوئے اوپر روم کی جانب بڑھی تھی ۔۔۔
کچھ کہا تم نے میرب۔۔۔۔" دعا نے زور سے ہانک لگائی ۔۔نن نہیں تو میرا تو پرسوں سے گلا خراب ہے میں بھلا کیسے بول سکتی ہوں۔۔"
اسکے انتہائی معصومیت سموئے انداز میں کہنے پر دعا نے افسوس سے اپنے سر کو ہلایا۔۔خدا نے ایک ہی اولاد سے نوازا تھا اور وہ بھی انتہاء کی نکمی ۔۔۔۔۔" وہ بڑبڑاتی ہوئی چاولوں کو دم لگا رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک ست ڈور بیل پر دعا نے دانت پیسے۔۔
وہ جب بھی میرب کی کلاس لگانے کا سوچتی تھی اسکا مسیحا پہلے ہی پہنچ جاتا تھا۔
مجھے اندازہ تھا کہ آپ ہی ہوں گے ۔۔۔!' وہ دروازہ کھولتے ساتھ ہی داؤد پر تیز آواز میں چیخی مگر اسکے چہرے کی بدلی رنگت اسکے ساتھ اندر داخل ہوتے مسٹر شیرازی اور تیمور کو دیکھ وہ حیران سی رہ گئی۔۔
داؤد کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں یہ سب۔۔۔؟" میرب نے داؤد کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ڈرتے استفسار کیا اسکی چٹھی حس ضرور کچھ غلط ہونے کا اندیشہ دے رہی تھی۔
اسلام علیکم ساسوں ماں۔۔۔۔۔" تیمور نے سر آگے کرتے خوشی، محبت اور احترام سے سلام کیا تو دعا نے حیرانگی سے پہلے اپنے آگے سر کیے تیمور اور پھر داؤد کو دیکھا۔
و علیکم السلام بیٹا ۔۔۔۔ داؤد مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔۔ "
وہ تیمور کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی کیونکہ دعا کی نظر پیچھے سے داخل ہوتے لوگوں پر پڑ چکی تھی ۔۔۔
اسکی آنکھوں میں خوف بے چینی سے آئی تھی۔
ہمممم میرب کہاں ہے۔۔؟" داؤد کا لہجہ انتہائی روکھا تھا ۔۔ دعا کو ڈر سا لگا وہ پہلی بار داؤد کو یوں دیکھ رہی تھی وگرنہ وہ ایسا تو نہیں تھا۔۔
کیوں پوچھ رہے ہیں آپ میرب کا وہ گھر پر نہیں۔۔۔ دعا نے ڈرتے جھوٹ بولا تو داؤد نے غصے سے اسے گھورا۔۔
اوپر جاؤ اور میرب کو بولو پانچ منٹ تک تیار ہو جائے اسکا نکاح ابھی اور اسی وقت تیمور سے ہو گا۔۔۔
داؤد نے دعا کو وہاں سے بھیجنے کے سے انداز میں پیچھے کیا اور ساتھ ہی اپنا فیصلہ سنایا ۔
یی یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔ ددد داؤد آپ نے ہی تو کہا تھا کہ ہم یہ رشتہ نہیں کریں گے کیونکہ میرب نہیں چاہتی تو اب یہ سب کیوں ۔۔۔۔
دعا نے اسے بازو سے تھامتے رخ اپنی جانب کیے پوچھا تھا ،
میں نے جو کہا تھا اسے بھول جاؤ اور ابھی جو کہہ رہا ہوں اسے سنو۔۔ بلکہ تم رہنے دو میں خود جاتا ہوں۔۔اسے پیچھے کرتے وہ خود ہی میرب کے کمرے کی جانب گیا تو دعا نے اسے ڈرتے پکارا جو بنا جواب دیے میرب کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔
ڈیڈ آپ ۔۔۔۔۔ دیکھا میں جانتی تھی میرے ڈیڈ مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ۔۔اپ کو پتہ تھا ناں کہ آج آپکی بیوی میرا شکار کرنے والی ہے اسی لئے آپ پہلے سے آ گیے۔۔ وہ دوڑتے داؤد کے اندر آنے پر اسکے سینے سے لگتے چہکتے بول رہی تھی
داؤد نے اپنے دل کو مضبوط کرتے اپنی آنکھوں کو موندا۔۔۔
میرب میری پرنسز اگر آپ کے ڈیڈ آپ سے کچھ مانگیں تو آپ دو گے۔۔۔۔ داؤد نے محبت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیتے پوچھا تھا میرب نے مسکراتے اپنے ڈیڈ کے گال پر بوسہ دیا۔۔
یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے میرا عشق ہیں آپ ڈیڈ ۔۔۔اپ کیلئے تو یہ جان بھی قربان ایک بار مانگیں تو سہی۔۔۔ " وہ اتراتی اسکی گردن میں بازوؤں کا حصار بنائے کہنے لگی۔
داود کے دل میں درد کی ٹیس سی اٹھی تھی اسکی معصوم چہچہاتی چڑیا وہ بشمکل سے اپنے جذبات کو روک رہا تھا۔۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ اپنے ڈیڈ کی خوشی کیلئے تیمور سے شادی کر لیں ابھی تو کیا آپ تیار ہیں۔۔ " اسکے چہرے پر جھولتے گھنگھریالے بالوں کو پیچھے کرتے وہ ڈرے ہوئے لہجے میں پوچھنے لگا ایک خوف بھی تھا کہ کہیں وہ انکار ناں کر دے۔۔۔
ڈڈڈ ڈیڈ۔۔۔۔ " میرب کی آنکھوں میں بےیقنیی سی تھی اسے داؤد کے کہے الفاظ پر یقین نہیں تھا آیا۔۔ میں تمھارا جواب چاہتا ہوں میرب ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں بےیقنیی دیکھ داؤد نے اسے پہلے ہی آگاہ کیا تو میرب کو لگا کہ اسکا دل پھٹنے کو تھا ۔
میں میرب داؤد ہوں ڈیڈ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹوں گی میں تیار ہوں اس نکاح کیلئے۔۔۔۔" داؤد سے الگ ہوتے وہ مضبوط لہجے میں بولی تو داؤد نے آگے بڑھتے اسے سینے سے لگانا چاہا مگر میرب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنے قریب آنے سے روکا تھا
داؤد کا دل لہو لہان ہو کے رہ گیا آج پہلی بار اسکی پرنسز نے اسے یوں اپنے قریب آنے سے روکا تھا مگر اس وقت اسکا مضبوط بننا ضروری تھا وہ ٹوٹ نہیں سکتا تھا۔۔
میں تھوڑی دیر میں مولوی صاحب کے ساتھ آتا ہوں تم نکاح کیلئے تیار رہنا۔۔
اپنی آواز کو مضبوط بنائے وہ کہتے ساتھ ہی بنا میرب کو دیکھے وہاں سے باہر نکلا تھا ۔
💥💥💥💥💥
حور ۔۔۔۔۔ حور اٹھو یار۔۔۔ اسکا چہرہ تھپتھپاتے صوفیہ متفکر سی ہونے لگی ۔ حور کا پورا وجود آگ کی مانند گرم ہوا پڑا تھا یقیناً اسے تیز بخار تھا۔
صوفیہ اسکے کپڑے چینج کروانے کے بعد اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی جو بالکل سن بے ہوش پڑی تھی صص صوفیہ۔۔۔۔۔۔ حور جو بمشکل سے آنکھیں کھول پائی تھی اپنے سامنے صوفیہ کو دیکھتے وہ سرخ ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ پکارنے لگی۔ صوفیہ کو شرمندگی سی ہوئی اس معصوم کی حالت کی ذمہ دار کہیں ناں کہیں وہ خود بھی تھی ۔
حور تم کہاں چلی گئی تھی میں اتنے دنوں سے میں تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں اور اب یہ کونسی جگہ ہے اور تم ٹھیک تو ہو یہ سب کیا ہے۔۔۔؟' اسے ہوش میں آتا دیکھ صوفیہ نے ایک دم سے جانے کتنے سوال پوچھ ڈالے تھے جن کے جواب دینے سے فلحال وہ معصوم قاصر تھی۔
ممم مجھے ماما کے پاس جانا ہے ماریا۔۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے اپنا سر اسکی گود میں رکھتے کسی سہمے ہوئے بچے کی مانند بولی تھی کہ صوفیہ کا دل ایک دم سے پسیج گیا۔۔ اسے اپنے اور ایل کے کیے پر بے انتہاء افسوس ہوا ، اپنا ضمیر ملامت کرتا محسوس ہونے لگا ۔
ہاں ہاں میں لے چلوں گی تمہیں واپس پہلے تم یہ بتاؤ تم یہاں کیسے آئی اور تمہیں اتنا تیز بخار کیوں ہوا۔۔" اسکے گھنے ریشمی بالوں میں ہاتھ چلاتے وہ فکر سے پوچھنے لگی حالانکہ وہ سب جانتی تھی اچھے سے۔۔
ممم مجھے کچھ نہیں پتہ ہہ ہمیں نکلنا ہو گا یہاں سے وو وہ پہ پھر سے آ جائے گگ گا مم مجھے مام کے پاس جانا ہے۔۔۔"
وہ روتے ہوئے ایل کے تصور سے ہی کانپ اٹھی تھی اسکے چہرے کے بدلتے رنگ کو دیکھ صوفیہ نے اسکی پشت کو سہلایا ۔۔۔ جو بری طرح سے پینک ہو رہی تھی۔۔
اشششش ریلیکس کوئی نہیں یہاں پر صرف میں ہوں حور۔۔ " صوفیہ کے لیے اسے سنبھالنا نا ممکن ہو رہا تھا اسکا رونا بلکنا صوفیہ کو مذید شرمندہ کر رہا تھا۔
اچانک صوفیہ کا فون رنگ ہوا وہ حور کو بیڈ پر بٹھائے فون دیکھنے لگی ڈینی کا نمبر دیکھ وہ مزہد پریشان ہوئی تھی۔۔
ہاں بولو بھائی۔۔۔حود کی موجودگی کے احساس سے وہ بھائی کہتے بات کرنے لگی۔۔
صوفی حور کو لے کر جلدی سے باہر نکلو ویام کاظمی پہنچ آیا ہے وہ گھر میں داخل ہونے والا ہے اس سے پہلے کہ وہ اندر آئے تم بیک ڈور سے باہر نکلو جلدی گو فاسٹ۔۔۔"
وہ ہڑبڑاہٹ میں اسے جلدی جلدی آگاہ کرتے کال کاٹ گیا جبکہ صوفیہ کا وجود تو ویام کاظمی کے نام سے ہی کانپنے لگا تھا اس نے سنا تھا کہ جو کوئی اسے ایک بار دیکھتا تھا متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا تھا مگر صوفیہ کو اپنی موت اپنے سر تک پہنچی محسوس ہو رہی تھی۔۔
حور ہمیں۔۔۔۔۔۔" وہ حور کے پاس جاتے اسے اٹھانے لگی کہ اس سے پہلے ہی دروازہ ٹھاہ کی تیز آواز سے کھلتا چلا گیا۔
صوفیہ ایک دم سے چیختی جگہ سے اچھلی تھی اسکی آنکھوں میں ایک انجانا خوف تھا۔
پرنسز۔۔۔۔۔" وہ غضب ناک لہجے میں دھاڑتے بیڈ پر آڑھی ترچھی سرخ چہرے سے پڑی اپنی پرنسز کو دیکھ اسکی جانب بڑھا تھا۔صوفیہ کا پورا وجود سن سا ہونے لگا ۔۔ اسنے تھوک نگلتے اس بے ڈھنگے الجھے حلیے میں غضب ناک تاثرات سے اندر آئے ویام کاظمی کو دیکھا جس کی بھوری آنکھیں آگ ابل رہی تھی ۔۔
سرخ و سفید چہرہ بالکل سپاٹ بے تاثر تھا۔۔
ویام لپکتے اپنی پرنسز کے قریب پہنچا تھا حور جو اپنے بھائی کی آواز پر بشمکل سے آنکھیں کھولتے اسے دیکھ رہی تھی ۔ ویام نے جھٹکے سے اسکے قریب جاتے اسے بانہوں میں بھرا تھا ۔۔
ہیے بھائی کی پرنسز، میری زندگی کیا ہوا اتنا تیز بخار کیوں ہوا میری گڑیا کو۔۔۔۔ حور کی آگ میں جھلستی پیشانی پر لب رکھتے وہ متفکر سا ہوتے بولا تھا ۔۔ اسکے انگ انگ سے بے چینی محبت کے شرارے پھوٹ رہے تھے جو کبھی حور کے چہرے تو کبھی اسکے بازوؤں کو پکڑتے دیکھ رہا تھا۔۔
بب بھائی۔۔۔۔ حور نے ایک دم سے روتے اپنے سائبان اپنے مخافظ کو دیکھا۔۔ جس کی بانہوں میں وہ پل کے بڑی ہوئی تھی۔۔
بھائی کی جان کوئی کچھ نہیں کر سکتا میری اینجل کو ہم ابھی واپس جائیں گے۔۔۔وہ اسے سینے سے لگائے اسکے سر پر بوسہ دیتے بے چینی سے بول رہا تھا جبکہ آنکھوں۔ میں ابھی تک اپنی پرنسز کو اس حالت میں دیکھنے کی وجہ سے نمی جھلک رہی تھی۔"
ماریا۔۔۔۔۔ ویام نے کسی کانچ کی گڑیا کی مانند اپنی پرنسز کو بانہوں میں سمیٹتے ماریا کو پکارا ۔۔۔
صوفیہ کا چہرہ لٹھے کی مانند پڑ گیا وہ سمجھ گئی تھی کہ ویام سب کچھ معلوم کر کے یہاں پہنچا تھا۔
یس سر۔۔۔۔۔ ماریا اندر آتے ویام۔سے مخاطب ہوئی تھی ۔۔
مس ماریا کو لے چلو اور ہاں جب تک میں اپنی پرنسز کو ناں دیکھ لوں میڈم کو ذرا سی آنچ بھی ناں آنے پائے ۔۔
اسکا لہجہ سرد سپاٹ سا تھا جبکہ آنکھوں میں نفرت، غصے اور طیش کے شعلے لپک رہے تھے جیسے وہ ابھی اسے پکڑتے ختم کر دیتا۔۔۔
بھائی ممم مام کک کے پپ پاس لے چلیں۔۔۔۔۔" حور کی ہلکی سی آواز میں کی سرگوشی پر ویام نے جبڑے بھینجتے اسے خود سے لگایا تھا۔۔اور پھر تیزی سے گاڑی کی جانب بڑھتے اسنے مڑتے ایک نظر اس اپارٹمنٹ پر ڈالی۔۔
💥💥💥💥💥💥
ڈارک گولڈن گردن تک جاتے بالوں کو ترتیب سے پونی میں قید کیے آدھے کھلے بال دونوں کندھوں پر ڈالے بلیک شرٹ کے اوپر مارون لیدر جیکٹ اور ساتھ ہی میچنگ بلیک جینز پہنے اپنی بلیو آنکھوں میں اپنی محبت چاہت اپنی الفت کو حاصل کرنے کی ایک الگ سی چمک لیے وہ آج پہلی بار ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ لیلی کے روم میں داخل ہوا۔
ہائے موم۔۔۔۔۔ وہ ہمشیہ کی طرح لیلی کے قریب جاتے بولا جس نے ایل کی آواز پر مرتے اپنی نیلی سرخ ہوئی آنکھوں سے ایل کی جانب دیکھا۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔ کمرے کے خاموش ماحول میں ایک دم سے تھپڑ کی تیز آواز گونجی ایل بے جان سا نظریں زمین پہ گاڑھے کھڑا تھا جبکہ لیلی نے غصے سے اسے تھپڑ مارتے اسکے گریبان سے تھامتے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
تمہیں میں نے اس لیے اتنا پال پوس کے بڑا کیا تھا ایل۔۔۔ کہ تم میرے دشمن کی بیٹی کو توڑنے کے بجائے اسے اپنے نام کر کے آ جاؤ،میں نے سالوں اپنے بدلے کا انتظار کیا یہی سوچتی رہی کہ تم بڑے ہو کر میرا بدلہ لو گے اس وریام کی بیٹی کو تباہ و برباد کرو گے اسکو نوچو گے اور جب وہ اپنی بکھری حالت میں اپنے باپ کے سامنے جائے گی تو آسکا باپ ٹوٹ جائے گا اسے احساس ہو گا کہ اسکے مجھ معصوم کے ساتھ جو کچھ کیا اسکی بیٹی کو بھی بدلے میں یہی ملا۔۔"
مگر تم تم میرا غرور تھے ایل ۔۔۔۔۔ ایل کے ساکت وجود کو دیکھتی وہ غراتی اسے پیچھے کو دھکا دیتے بولی ۔۔
میں نے لاکھوں حسین چہرے تمہارے قدموں میں ڈالا جسے تم نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا میں نے تمہیں اتنا مضبوط بنایا کہ تمہارے اندر کا مرد وریام کاظمی کی بیٹی کے جھانسے میں ناں آ سکے مگر تم ,تم نے کیا کیا ایل۔۔۔۔۔ ہزراوں لڑکیوں کو ٹھکرا کے تم نے اس وریام کاظمی کی بیٹی سے شادی کر لی اسکے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ کے اپنی ماں کو ختم کر دیا تم نے آج ۔۔۔۔۔"
موم ریلکس میری بات سنیں آپ۔۔۔۔ وہ تڑپتے لیلی کے قریب جاتا اسے نرمی سے پکڑتے صوفے پر بٹھا گیا۔۔۔۔
موم میں نے حور سے شادی صرف اور صرف آپ کی وجہ سے کی ہے۔۔۔ " اسکے قریب گھٹنوں میں بیٹھے وہ نرمی سے اسکے ہاتھ تھامے اسکی نیلی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا ۔۔
اپنی مرضی کو میرے سر مت تھوپو تم ایل۔۔۔۔" لیلی نے ماتھے پر بل سجائے اسے خود سے دور کیا جب سے ڈینی نے اسے ایل کی حرکت کے متعلق آگاہ کیا تھا اسکی حالت ایسی ہی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ڈینی نے یہ سب ایل کے کہنے پر کیا ہے۔۔۔
میری بات سنیں موم پلیز۔۔۔ وہ لیلی کو خاموش کرواتے التجائیہ لہجے میں گویا ہوا تو لیلی خاموش ہوتے اسے دیکھنے لگی ۔
اگر میں وریام کاظمی کی بیٹی کو بنا کسی رشتے کے چھوتا یا تعلق بناتا تو کیا ہو جانا تھا زیادہ سے زیادہ۔۔۔۔ صرف یہی کہ اسکی بیٹی اندر سے ٹوٹ جاتی اور اسکا باپ اپنی بیٹی کی حالت سے کچھ عرصہ کیلئے بدنام ہوتے خاموش ہو جاتا ، مگر پھر کتنے سالوں تک وہ اسے پاس رکھتا وہ کسی ناں کسی طرح سے اسکی شادی کروا دیتا اور شادی کے ایک دو سال بعد وہ سب کچھ بھول بھال کے خوشی خوشی اپنی زندگی گزارنے لگتی۔
مگر اب اب وہ میری بیوی ہے موم میرے نام ہے وہ۔۔۔ میں ناں تو اسے اپناؤ گا ناں ہی اسے چھوڑوں گا۔۔ اور وہ پوری زندگی یونہی اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے گزار دے گی جس سے وہ پل پل مرے گا موم۔۔۔۔۔ " ایل نے شاطرانہ انداز میں اپنی سوچی کہانی لیلی کے گوش و گزار کی۔
لیلی کے ماتھے کے بل ایک دم سے غائب ہوئے تھے وہ زور دار قہقہہ لگاتے ایل کو اٹھتے گلے لگا گئی۔۔۔۔ میرا بیٹا میرا شیر ۔۔ تم نے آج ثابت کر دیا کہ تم لیلی کے بیٹے ہو ۔۔۔ مجھ سے بھی زیادہ آگے کی سوچی ہے تم نے شاباش میرے شیر۔۔۔۔ اسکے انگ انگ سے خوشی جھلک رہی تھی وہ خوشی سے قہقہے لگاتی اپنا پاگل پن دکھا رہی تھی۔۔۔
جبکہ ایل کی آنکھوں میں حور کا نازک سراپا بسا ہوا تھا وہ پاس نہیں تھی مگر اسکی خوشبو اسکا خمار ابھی تک ایل کے حواسوں پر طاری تھا۔
موم میں آتا ہوں۔۔۔۔ " فون کی اسکرین پر شو ہوتے ڈینی کے نمبر کو دیکھتا وہ لیلی سے اجازت لیے باہر نکلا تھا۔
ہاں ڈینی بول۔۔۔"حور کے ناخن کی وجہ سے اپنی انگلی ہر آئے زخم کو ہونٹوں سے چھوتے وہ مسرور سا بولا صرف چند گھنٹے اور پھر وہ اپنی سن شائن کو ہمیشہ کیلئے اپنی دنیا میں قید کرنے والا تھا ۔
" ایل وو وہ ویام حور کو لے گیا ۔۔۔۔اور اور صص صوفیہ کو بھی۔۔۔۔" ڈینی کی گھبراہٹ میں کہی بات پر ایل ایک دم سے چونکا تھا اسکے چہرے کے تاثرات سرد ہوئے بازوؤں اور گردن کی رگیں غصے سے تن سی گئی۔۔ جبکہ آنکھوں میں سرخ خون کی ڈوریاں نمودار ہونے لگیں۔۔۔
واٹ دا ہیل آر یو سئینگ۔۔۔۔۔۔ میری سن شائن کو وہ کیسے لے کر جا سکتا ہے وہ کیسے پہنچا وہاں اسے کیسے پتہ چلا سن شائن کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ وہ غصے سے اپنے بالوں کو نوچتے ڈینی پر دھاڑا تھا اسکے بس نہیں تھا کہ ابھی کہ ابھی اس ساری دنیا کو جلا کے راکھ کر دیتا۔۔۔
وہ ویام کاظمی ہے اسے کچھ بھی جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ طوفان کی طرح آیا میرے سمجھنے سے پہلے ہی وہ اپنا کام۔کرتے حور ۔۔۔۔شٹ آپ ڈونٹ ٹُک ہر نیم۔۔۔۔ " اسے بیچ سے ٹوکتے ایل غرایا تھا ڈینی نے ڈرتے فون کان سے دور کیا۔۔
ہاں ہاں سوری میرے سمجھنے سے پہلے ہی وہ بھابھی کو اٹھا کے لے گیا۔۔۔۔۔ " ڈینی نے معزرت کرتے ابکی بار حور کا نام لینے کی غلطی نہیں دہرائی تھی۔
اٹھا کے کیوں کیا ہوا میری سن شائن کو۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت کوئی جنونی پاگل سا شخص دکھ رہا تھا اسکے پاگل پن پر ڈینی حیران بھی تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا یہ تو مخض شروعات تھی اسکے پاگل پن کی۔۔۔۔
پپپ پتہ نہیں بھابھی کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا میں دیکھ نہیں سکا مگر وہ بچوں کی طرح انہیں سینے سے لگائے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھائے لے گیا۔۔"
ڈینی نے آنکھوں دیکھا حال اسکے سامنے بیان کیا تو ایل نے بےبسی سے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔
نننن نہیں وہ صرف ممم میری سن شائن ہے وو ویام اسے ننن نہیں لے کر جا سکتا ۔۔۔۔۔۔" اپنے موبائل میں موجود حور کی تصویر کو دیکھتے وہ عجیب جنونی سے انداز میں بولتا بنا لیلی کو بتائے وہاں سے باہر کی جانب نکلا۔۔۔۔
چلو میری بچی یہ تمہارا اپنا ہی گھر ہے ۔۔۔۔۔ آؤ اندر آؤ۔۔۔۔" عیناں کے ماتھے پر بوسہ دیے سلیمان شاہ بار بار خوشی سے نہال ہوتے اسے سینے لگا رہے تھے آج اتنے برسوں بعد انکی بیٹی آنہیں واپس ملی تھی بھلا اس سے بڑھ کر کوئی اور خوشی کی خبر کیا ہو سکتی ہے۔۔
سلیمان شاہ اسے ساتھ لئے اندر داخل ہوئے تھے عیناں بس خاموش سی انکے ساتھ چل رہی تھی ۔۔ رافع اور فدک کا دل دکھانے کی بعد وہ خود بھی کافی بے چین تھی مگر اسے شدید دکھ تھا کہ وہ کیوں اسے جھوٹ بولتے رہے اسکی سارا اعتماد سب کچھ چھین گیا تھا وہ جو خود کو اپنے گھر کی سب سے لاڈلی بیٹی سمجھتی تھی مگر اب ، اب اسے سمجھ آیا تھا کہ وہ سب تو بس نام کے رشتے تھے رافع اور فدک کا خون انکی اولاد تو الایہ اور انزِک تھے۔۔
یہاں آؤ میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں۔۔۔ اسکی خاموشی وہ بھانپ گئے تھے، جبھی اسے ساتھ لیے وہ ایل کے کمرے کی جانب بڑھے تھے اب وہ خوش تھے سرشار کیونکہ وہ جانتے تھے اب انکا بیٹا بھی واپس آنے والا تھا وہ جانتے تھے ،
کہ عیناں کا سنتے ہی ایل دوڑا چلا آئے گا ۔۔۔ آؤ بیٹا یہ دیکھو ۔۔۔۔۔ یہ ہے تمہارا بڑا بھائی۔۔۔" عالیان شاہ_____ سامنے ہی بیڈ کے اوپر لگی عالیان کی بڑی سی تصویر کی جانب اشارہ کرتے وہ مسکراتے بولے تو عیناں نے چونکتے ہوئے انہیں دیکھا۔۔۔۔
بب بھائی۔۔۔۔ وہ حیران تھی سامنے تصویر میں موجود خوبصورت لڑکے کو دیکھ وہ ہچکچاتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔ ہاں بیٹا بھائی۔۔۔ ابھی ایل کو معلوم نہیں کہ اسکی بہن واپس آ گئی ہے میں اسے بتا کر آتا ہوں ۔۔۔ دیکھنا تم سے مل۔کر وہ مجھ سے بھی زیادہ خوش ہو گا۔۔۔ سلیمان شاہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا آخر اتنے سالوں کے صبر اور تڑپ کے بعد رب نے انہیں ایک ساتھ انکی دونوں اولادیں واپس لوٹا دی تھیں۔۔۔
سفید رنگ کی ٹی شرٹ میں ملبوس براؤن لیدر جیکٹ کے ساتھ براؤن سی میچنگ شوز ، نیلی سمندر جیسی گہری آنکھوں پر چشمہ لگائے ، اپنے ڈارک گولڈن کندھوں تک جاتے بالوں کو سلیقے سے بنائے وہ اس وقت کسی بیچ پر کھڑا تھا جس کا نیلا پانی تصویر میی مقید اس منظر کو اور بھی زیادہ حسین بنا رہا تھا۔۔ وہ مبہوت سی اس حسین شخص کو دیکھ رہی تھی جو تصویر میں دیکھنے پر ہی اتنا مکمل اور خوبصورت تھا۔۔
آج پہلی بار عیناں کی نگاہ اپنے شوہر کے علاؤہ کسی مرد پر ٹہری تھی ۔۔مگر اسے خوشی تھی کہ وہ دوسرا اور آخری شخص اسکا بھائی اسکا محرم تھا
۔
💥💥💥💥💥
کڈنیپر تم نے تو کہا تھا کہ ہم کہیں جا رہے ہیں پھر یہ ہاسپٹل کیوں۔۔۔ ؟' انزِک نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے گاڑی سے باہر نکالا ، جو اس وقت چہرے پر انزِک کے زبردستی کے پہنائے خجاب میں بمشکل سے خود کو اتنی ہیوی کپڑوں میں سنھبال رہی تھی۔
میری ماما کی طبیعت خراب ہے روز تم چپ چاپ چلو پلیز میں آگے ہی پریشان ہوں بہت۔۔۔۔۔ اسے گھر جاتے ہی فدک کی طبیعت خرابی اور عیناں کی بابت پتہ چلا تھا یہ سچ تو وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ عیناں اسکی سگی بہن نہیں مگر انزِک نے کبھی بھی اس بات کو اہمیت نہیں دی کیونکہ اسکے مطابق ہر رشتہ احساس اور محبت کا ہوتا ہے ضروری نہیں کہ ہمارا اپنا وہی ہو گا جس سے ہمارا خون کا رشتہ ہو ،بعض اوقات یہ احساس سے گندھے رشتے بھی خون کے رشتوں سے زیادہ سکون دہ بن جاتے ہیں۔۔
روز نے آنکھیں پھیلائے اسکی سرخ پڑتی نظروں میں دیکھا اور پھر زور سے اسکے بازو کو کسی بچے کی مانند دبوچے وہ اسکے ساتھ لگے خاموشی سے کھڑی ہو گئی ۔۔۔
انزِک نے مسکراتے اس کے خجاب کو دیکھا۔۔ یہ لڑکی جانے انجانے میں کچھ ناں کچھ ایسا کر جاتی تھی جسکی وجہ سے انزِک کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ۔۔
انزِک نے جان بوجھ کے اسے خجاب پہنایا تھا وہ جانتا تھا کہ ایچ اے آر کے کتے جگہ جگہ روز کی بو سونگھ رہے ہونگے جبھی وہ اس کا حلیہ بدل کے اسے ساتھ لایا تھا۔
پاپا ماما کو کیا ہوا کیسی ہیں وہ_____؟' وہ روز کو ساتھ لیے اندر داخل ہوا جہاں سامنے ہی رافع بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔۔
انزِک کہاں تھے تم کچھ خبر بھی ہے کیا ہو چکا ہے بیٹا ۔۔۔۔ وہ فدک کی حالت بہت خراب ہے اور عیناں میری بچی عیناں وہ کوئی شخص آیا تھا عجیب سی باتیں کر رہا تھا اسنے میری بیٹی میری پرنسز کو جانے کیا کچھ کہا ہے جو وہ اسکی باتوں میں آ گئی اور اپنے ڈیڈا اور ماما کو چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔۔
رافع کی حالت اس وقت کسی بکھرے ہوئے مردہ ہوتے شخص کے جیسی تھی جس کے وجود میں جان تو تھی مگر روح باقی ناں ہو وہ ٹوٹ رہا تھا اندر سے اور یہی بات انزِک کو تڑپنے پر مجبور کر گئی۔۔
انزِک فدک کو بولو کہ ایک بار اٹھ جائے میں ابھی عیناں کو لے آتا ہوں وہ ہر بار میرے ساتھ ایسا کرتی ہے اب تو تم سب بھی ہو اسکے پاس میرے بچے میرا سکون وہ پھر بھی مجھے یونہی چھوڑ کر میرے صبر کو آزماتی ہے۔۔۔
رافع نے روتے ہوئے اسکے سینے سے لگتے کہا____!" تو اپنے پاپا کو یوں بکھرتا دیکھ انزِک مزید ٹوٹ سا گیا۔۔۔
روز سہمی نظروں سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو انزِک کے گلے لگے کسی پاگل کی طرح رو رہا تھا۔۔
💥💥💥💥💥
یہاں سے رائٹ کو اذلان۔۔۔۔۔" اپنے کان میں لگی منی مائکروپن سے آتی الایہ کی حکمیہ آواز سنتے اذلان نے نچلے فلور کو دیکھا جہاں وہ کسی غنڈے کی طرح اپنے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے آگے پیچھے دیکھتے اذلان کو حکم دے رہی تھی۔۔
تم بنا پونچھ کے فلپائنی چھپکلی مجھے اذلان علوی کو حکم دو گی ۔۔۔۔ میں تمہارا غلام نہیں ہوں ناں ہی تمہارا کوئی پالتو ہوں جو مجھے حکم دو گی۔ میں خود بم ڈھونڈ لوں گا۔۔۔۔ ہنہہہ خبردار جو اب بات کی ۔۔۔۔"
وہ غیض غضب سے دانت پیستے بمشکل سے اپنے لہجے ہر قابو پائے دبے دبے سے انداز میں بولا تو الایہ کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔ اچھا تو پھر ٹھیک ہے میں ان کتوں سے نمٹنے جا رہی ہوں دیکھتے ہیں پہلے تم بم ڈھونڈتے ہو یا پھر پہلے میں ان کتوں کو دوسرے کتوں کے پاس پہنچاتی ہوں۔۔
الایہ نے اپنا غصہ دوبارہ سے اس پر انڈیلا جو آگے ہی اس کی حرکتوں سے زچ آ چکا تھا۔۔۔
ایک بات یاد رکھنا ماہی صرف کچھ دن صبر کر لو بے بی اسکے بعد تمہاری سانسوں سے لے کر تمہارے اس نازک سے وجود کو اپنی دسترس میں ناں لیا تو اذلان علوی نام نہیں میرا ۔۔۔۔ تمہارے دیے ہر زخم کی کافی اچھی سزا ڈھونڈی ہے میں نے۔۔۔۔۔" اپنی گردن سے نکلتے خون کو انگلی پر لگائے دیکھتے وہ مضبوط لہجے میں بولا تو الایہ نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں آسکی بات کو اگنور کیا۔۔
اذلان کو کافی غصہ تھا اس پر وہ جب بھی اسکے قریب ہوتا تھا بدلے میں وہ اسے لازمی کوئی ناں کوئی زخم دیتی آئی تھی جیسے کہ ابھی اسکی گردن پر اچھا خاصا کاٹتے وہ اسے اپنے نزدیک آنے کی سزا دے چکی تھی۔۔
الایہ نے سر اٹھائے ایک نظر پیچھے سے اپنی جانب دیکھتے اذلان پر ڈالی اور پھر بنا کسی تاثر کے وہ وہاں سے مال کے پچھلے حصے کی جانب نکلی تھی ۔
اوکے اب تو کام ختم کر کے ہی تم سے ملوں گا۔ اسے جاتا دیکھ اذلان نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
💥💥💥💥💥
حور میری جان کیا ہوا ہے اسے ویام____؟" نیناں جو متفکر سی صوفے پر بیٹھے اپنے بچوں کی بابت ہی سوچ رہ تھی یوں اچانک سے ویام کو اتا دیکھ وہ جگہ سے اٹھی تھی اسکی بانہوں میں موجود اپنی بیٹی کو دیکھ نیناں کا پورا وجود بے جان ہوا تھا جیسے۔۔۔
وہ کپکپاتے ہوئے ویام کے نزدیک پہنچی جو سرد نظروں سے اپنی موم کی آنکھوں میں آتے آنسو کو دیکھ رہا تھا۔۔ موم کچھ بھی نہیں ہوا بس ڈر کیوجہ سے بخار ہوا ہے حور کو ، آپ پریشان نہیں ہوں۔۔۔۔وہ جھکتے اپنے ہونٹ اپنی موم کی پیشانی پر رکھتے محبت سے بولا ۔۔ جبکہ نیناں کا پورا وجود سن ہونے لگا تھا حور کا بےہوش پڑا وجود دیکھتے ہی اسکا دم گھٹ رہا تھا۔۔
ڈیڈ کہاں ہیں۔۔۔؟" حور کو اپنے روم میں لے جاتا وہ نرمی سے اسے بیڈ پر لٹائے محبت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے غصے سے استفسار کرنے لگا۔۔
نیناں تو آنسوں بہاتے حور کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو ہوش و حواس سے بیگانہ پڑی تھی۔۔ اسکے چہرے کی زرد پڑی رنگت نیناں مزید خوفزدہ ہوئی تھی ۔
وو ویام دد دیکھو حور کی رنگت کیسے بدل گئی ہے یہ دیکھومم میری بچی کا روشن چہرہ کک کیسے مرجھا گیا ہے ووویام دیکھو تو ممم میری غلطی ہے مم مجھے نہیں بھیجنا چاہیے تھا اپنی بچی کو ،دیکھو کک کیسی حالت ہو گئی ہے میری حور میری زندگی اٹھو میری جان۔۔۔۔۔ وہ پاگلوں کی طرح حور کے بےجان پڑے وجود کو دیکھتی اسکے چہرے پر بوسے دیے اسے جگانے لگی۔
جبکہ اسکا یوں رونا حرمین کی حالت پر خود کو تکلیف دینا ویام کو مزید بےچین کر گیا ۔۔وہ نرمی سے اپنی موم کے پاس بیٹھا جو بری طرح سے روتے حور کو جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
موم اچانک کسی خوف کی وجہ سے حور کو بخار ہوا ہے بس____ اور کچھ بھی نہیں آپ پلیز خود کو سنبھالیں۔۔ وہ محبت سے نیناں کو خود سے لگائے اسکی آنکھوں اور ماتھے پر بوسہ دیے اسے پرسکون کرنے لگا۔۔
ویام اپنی موم اور پرنسز کی حالت پر مزید اشتعال انگیز ہوا تھا ۔۔ اپنی بھوری سرخ ہوئی کو میچتے وہ اپنے اندر اٹھتے طوفان اشتعال کو دبانے کوشش کرنے لگا۔۔
💥💥💥💥💥
میرب داؤد حسین کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔۔؟"
آئینے کے سامنے بیٹھی وہ اپنی سرخ نظروں سے خود کو گھور رہی تھی ۔۔ اسے دیکھ اس وقت کسی پاگل کا سا گمان ہوتا تھا ۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ میرب داؤد سے میرب تیمور شیرازی بنی تھی ۔۔۔۔ اپنی بے بسی پر جانے کتنے ہی آنسوں اسکی آنکھوں سے بہے تھے ۔۔
اسے کیا معلوم تھا کہ اسکے ڈیڈ جن سے وہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتی ہے وہی اسکی عزت ِ نفس کو یوں کچل ڈالے گے۔۔۔ اپنے چہروں پر بہتے ان بے مول آنسوں کو بری طرح سے اپنے ہاتھ سے رگڑتے وہ غصے سے اپنے گھنگھریالے بالوں کو کیچر سے نکالنے لگی ۔۔
اسکا انداز غصے سے بھرا تھا جیسے وہ ابھی خود کو ختم کر لیتی ۔۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گی ڈیڈ آپ کو۔۔۔۔ آپ نے آج مجھ سے میرا مان میرا غرور چھین لیا۔۔۔" میرب نے کرب ناک لہجے میں اپنے عکس کو دیکھ کہا۔ تھا۔۔۔
آنسوں پلکوں کی باڑ توڑتے اسکے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔۔۔ مگر آج سہی معنوں میں میرب کی دنیا اجڑی تھی ۔ وہ باپ جس کے ہونے سے اسے سکون ملتا تھا آج اسی باپ نے اسے کسی تپتے صحرا میں لا جھونکا تھا ۔۔
اسے اس بات کا دکھ نہیں تھا کہ اسکے ڈیڈ نے اسکی زندگی کا فیصلہ کیا بلکہ دکھ تو اس بات کا تھا کہ ایسے شخص کو چنا اسکے لیے جسکے کردار سے وہ بخوبی واقف تھی۔
اگر تیمور کی جگہ وہ کسی گونگے یا اپاہچ سے بھی اس کی شادی کروا دیتے تو اسے دکھ نہیں تھا ۔۔۔۔۔ مگر اب اسکا دامن حالی تھا بالکل کسی سیاہ تاریک رات کی طرح جیسے آسمان پر چھائے گہرے سیاہ بادل چاند کو اپنے اندر چھپا دیتے ہیں وہیسے ہی آج اسکی شخصیت اسکا وقار سب کچھ فنا ہو گیا تھا۔۔
مجھے نفرت ہے تم سے تیمور شیرازی۔۔۔۔ تم پچھتاؤ گے اس نکاح پر۔۔۔" وہ غصے سے اب تیمور کو یاد کرتے اپنے پرفیوم کو اٹھائے شیشے پر مارتے چلائی۔۔۔۔
لاک کھولتے اندر داخل ہوتے تیمور نے بغور اپنی تعریف سنی ۔۔۔۔ اسکے ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ بکھری۔۔۔اج وہ پرسکون ہوا تھا ۔۔۔اسکی میر فائنلی صرف اسکی تھی۔۔
میں نے سنا ہے کہ نفرت جس قدر گہری ہو محبت کی جڑیں اس سے بھی زیادہ گہری ہوتی ہیں۔۔ تو میر جاناں اس دنیا کو بتا دو کہ تم دنیا کی وہ پہلی خوبصورت لڑکی ہو جو اپنے دس منٹ پہلے بنے نے شوہر سے دل و جان سے نہیں بلکہ روح کی گہرائی سے نفرت کرتی ہو۔۔۔۔
میرب کی پشت پر بکھرے بالوں سے ہوتے تیمور کی نظریں اسکی نازک کمر پر اٹکی تھیں ۔۔وہ بھاری قدموں سے اس فاصلے کو سمیٹتا بوجھل لہجے میں بولا۔۔ آنکھوں میں خمار کی سرخی آنے لگی۔۔۔ آج جو اختیار جو حقوق اسکے پاس تھے اسکے جذبات انگڑائی لیے منہ زور ہوتے اسے مجبور کرنے لگے کہ آج اس لڑکی کو بہت قریب سے چھو کر محسوس کرے جس کی جھلک پر ہی اسکا دل فدا ہوا تھا اسکی خوشبو اسکا لمس کیسا جادوئی ہو گا۔۔
تم ہمت بھی کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی نکلو ابھی کے ابھی باہر۔۔۔۔" میرب تیمور کی آواز پر سرد و سپاٹ چہرے سے مڑتے اپنی سوجھی ہوئی سرخ نظروں سے اسے دیکھ باہر جانے کا کہنے لگی۔۔۔
پہلے اختیار نہیں تھا حقوق نہیں تھا تم تب بھی نکال نہیں سکی مگر آج تو میں حق سے آیا ہوں تمہیں دور سے دیکھنے میں جو نشہ ہے آج چکھنے کا دل چاہتا ہے ۔۔میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ دنیا کی حسین سے حسین لڑکی کے ساتھ راتیں گزارنے والا تیمور شیرازی آخر اس کم سن حسن پر کیوں فدا ہوا۔۔۔ آخر کچھ خاص ہو گا تم میں جو آنکھیں دن رات اسی چہرے کو دیکھنے کی طلب کرتی ہیں۔۔۔۔
میرب کے سرخ چہرے کو نظروں کے حصار میں لیے وہ۔اب اسکے قریب کھڑا بے باکی سے۔کہتا میرب کو زہر لگا تھا۔۔
میرب نے سنتے نفرت سے منہ موڑ لیا۔۔ وہ دنیا کی حسین نہیں بدکردار لڑکیاں ہوں گی جو اپنا آپ تھالی میں سجا کر تم جیسے بھیڑیے کے سامنے پیش کرتی ہوں گی۔مگر میں میرب داؤد ہوں مجھے حاصل۔کرنا تو دور مجھے چھونے خواہش بھی پوری نہیں کر سکو گے تم۔۔۔۔۔ بہت جلد میں اس بےنام کے رشتے کو ختم کر دوں گی جیسے بنا ہے ویسے ہی ختم بھی ہو گا۔۔۔۔
آہا جانم اتنی جلدی کہاں ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے اپنے خوبصورت لفظوں کا انعام تو لے لو ، میرب غصے سے اسے سناتی اب وہاں سے جانے لگی تھی کہ اچانک سے تیمور نے اسکا ہاتھ تھامتے اپنی جانب کھینچا وہ آنکھیں پھیلائے اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی اور پھر اپنے دائیں کندھے کو جو اس وقت مقابل کے سینے سے لگا تھا ۔۔
تمہاری سب باتیں سچ ہیں میر جاناں____ تبھی تو ان سب تھالی میں پروسے لذیز کھانے کو چھوڑ میں سویٹ ڈش چکھنا چاہتا ہوں۔۔۔" تیمور نے دھڑکتے دل سے میرب کے سرخ بالوں کی گھنگھریالی لٹ کو اپنی انگلی میں لپیٹا۔۔ دل کے جذبات بدلنے لگے تھے۔
وہ مدہوش سا اس نازک وجود کی اپنے حواسوں پر طاری ہوئی خوشبو میں گہرے سانس بھرنے لگا کہ معا میرب نے اپنے بال اسکی گرفت سے آزاد کروانا چاہے۔۔ تیمور نے جھٹکے سے اسکے ہاتھوں کو اپنے ایک ہاتھ میں جکڑتے پشت سے لگایا ۔۔ تو کیا بس جھگڑا ہی کریں گے ہم یار۔۔۔۔
نکاح ہوا ہے کچھ تو خیال کرو اپنے نئے نویلے دولہے کا ۔۔۔چلو تمہیں تو خیال نہیں میں خود ہی کر لیتا ہوں۔۔۔ میرب اپنا چہرے پر پڑتی اس کی سلگتی سانسوں پر جھٹکے سے نفرت کے ساتھ رخ پھیر گئی۔۔۔
کہ تیمود نے اپنے کھردرے ہاتھ کی سخت انگلیوں سے اسکی نازک کمر پر دباؤ ڈال اسے اپنے قریب تر کیا۔۔ میرب نے بےبسی سے خود کو چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کی کہ تیمور نے اسے بے بس کرتے اسکا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔
نکاح مبارک ہو جانِ تیمور۔۔۔۔ میرب کے سمجھنے سے پہلے ہی وہ اپنے دہکتے ہونٹ اسکی پیشانی پر رکھتے محبت سموئے جذبوں سے چور لہجے میں بولا تو میرب نے ڈرتے اپنی آنکھیں موندئ۔۔۔ تیمور کئی سانیے اسکی خوشبو کو یونہی خود میں اتارتا پیچھے ہوا تو میرب بنا اسے دیکھ بھاگتے واشروم میں بند ہوئی ۔۔۔
مجھے لگا تھا کہ ایک بار دیکھ لوں گا تو دل کو صبر آ جائے گا مگر مسزز تیمور شیرازی آپ نے تو مجھے مزید بےبس کر دیا ہے اب تیمور شیرازی یہاں سے اکیلا کسی صورت نہیں جانے والا۔۔۔۔۔ واشروم کے بند دروازے کو دیکھ وہ گہرے لہجے میں کہتے ہنستے کمرے سے نکلا۔۔
💥💥💥💥💥
میں خود اتر جاؤں گی۔ " گاڑی کا دروازہ کھولتے وہ لنگڑاتی ہوئی بھاوں سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی ہوتے نفرت سے منہ پھیر گئی۔ تو اتر جاو اندر بھی چلی جاؤ مگر اپنی اس زبان کو اب میرے سامنے چلانے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔
سرخ رنگ کے سوٹ میں ملبوس وہ خفا خفا سی بھاوں کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی اسکا روٹھا روٹھا انداز بھاوں کو کافی بھا رہا تھا جبھی وہ اسے مزید چھیڑنے لگا ۔۔۔ حیا بنا کوئی جواب دیے لب بھینجتے آگے بڑھی تھی ۔۔کہ سامنے سے آتی سوہا کو دیکھ اسکے قدم تھمے تھے۔۔۔
حیا نے گردن گھمائے چور نظروں سے بھاوں کو دیکھا جو اپنے فون میں مصروف تھا ۔۔ حیا کا دل چاہا کہ اس سوہا کو کہیں پھینک آئے جو سجی سنوری نیلے رنگ کے چست سے سوٹ میں ملبوس حیا کو مزید آگ لگا گئی۔
بھاوں کہاں تھے تم رات سے میں تیرا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔" سوہا حیا کو اگنور کیے بھاوں کے قریب جاتے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے بولی تو بھاوں کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے ۔۔۔
کیوں کوئی کام تھا تجھے۔۔۔۔" وہ سرسری سا ایک نظر ڈالے پھر سے موبائل کی جانب مصروف ہوا ۔۔۔۔ ہاں ناں کام ہی تو تھا مجھے ۔۔۔۔۔۔ دیکھ میرا پیپر ہے آج آگے توں ہی پڑھاتا تھا مگر آج توں نہیں تھا مجھے اکیلے ہی پڑھنا پڑھا۔۔۔
وہ ناراضگی سے گویا ہوئی اسے لگا کہ بھاؤں اسے منائے گا۔۔
تو اچھا کیا جو خود سے تیاری کر لی اب سے خود پڑھنے کی عادت ڈال ویسے بھی آج کل میں ایک بہت بڑی فائل پر کام کر رہا ہوں کل بھی پوری رات نہیں سو سکا۔۔۔۔۔ وہ معنی خیزی سے حیا کی پشت کو نظروں کے حصار میں لیے بولا تو حیا کا چہرہ اسکی بے باکی پر دہکتے انگارہ ہوا تھا۔
مگر مجھے تو تیرے پاس پڑھنے کی عادت ہے۔۔" سوہا نے منہ بسورتے کہا تو حیا نے منہ ٹیڑھا کیے اسکی نقل اتاری اسے خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کیوں اتنا جیلس ہو رہی تھی مگر سوہا کا یوں امن کے قریب جانا اسے زہر لگ رہا تھا۔۔
اہہہہ۔۔۔۔' حیا جو غصے سے تیز قدم اٹھائے وہاں سے جانے لگی کہ معا اپنے گھٹنے پر آئی چوٹ کی وجہ سے اسکے منہ سے سسکی سی نمودار ہوئی تھی وہ لب بھینجتے اپنے انسںوں پر ضبط کرنے لگی۔۔ بھاؤں دوڑتا اسکے قریب آیا۔۔۔۔
حیا کیا ہوا ٹھیک ہو تم۔۔۔۔" اسکے قریب جاتے وہ متفکر سا اسکے کندھوں کو تھامے پوچھنے لگا۔۔ حیا نے بھینجے لبوں اور سرخ ہوئی خفا خفا سی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔
امن نے جھکتے اسے بانہوں میں بھرا تو سوہا نے جھلستے اس حیا کو دیکھا جو اسکے بھاوں کی گود میں خود کو جانے خود کو کیا تصور کر رہی تھی۔۔
اممم امن میں ٹھیک ہوں ، مجھے اتاریں نیچے ۔۔۔۔۔ امن کے چوڑے کندھے کو تھامے وہ نظریں جھکائے ہوئے بولی۔تو امن نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔ پتہ ہے تم ہمیشہ ٹھیک ہی ہوتی ہو اب خاموش ہو جاؤ چوٹ آئی ہے اور تمہیں ذرا بھی پرواہ نہیں۔۔۔۔
امن سیڑھیاں عبور کرتے حیا کی جھکی سیاہ پلکوں کو دیکھ بولا۔تو حیا نے حیرت سے اپنی گہری سیاہ آنکھوں کو اٹھائے اسے گھورا۔۔ آپ نے رات کو دکھا دیا جتنی آپ کو پرواہ ہے میری ۔۔" وہ خفگی ناراضگی سے اسے طعنہ دیے بولی تو بھاوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری۔۔
اگر رات کو فکر دکھاتا تو تمہیں خود میں کیسے اتارتا۔۔۔۔۔وہ جھکتے اسکے کان میں گہری رازدارانہ انداز میں سرگوشی کرتے بولا تو حیا کے پاس جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے، حیا نے لب بھنجتے اب مزید کچھ بھی کہنے سے گریز کیا جانتی جو بھی تھی اب اگر کچھ بھی کہا تو امن کو جھیلنا مشکل ہو جائے گا۔۔
اسے لئے وہ چلتا کمرے میں داخل ہوا اور نرمی سے اس نازک وجود کو بیڈ پر لٹایا امن نے کمفرٹر اسپر برابر کیا۔۔ معا دروازہ ناک کرتے مٹھو اندر آیا اسکے چہرے پر پھیلے ڈر کو دیکھ بھاؤں کو حیرانگی ہوئی۔۔۔۔ جبھی وہ اٹھتے اسکے قریب ہوا ۔۔۔
کیا ہوا ہے مٹھو پریشان کیوں ہے تُو۔۔۔ !" بھاوں نے ماتھے پر بل ڈالے پوچھا۔ وو وہ بھاون نیچے کمشنر اشعر علوی آیا ہے۔۔"
مٹھو نے ڈرتے اسے آگاہ کیا تو بھاوں کے ماتھے پر نمودار ہوئے بل ایک دم سے ختم ہوئے وہ مسکراتا مڑتے حیا کو دیکھنے لگا جو سنتی جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔ چلو پھر اتنے سالوں بعد آمنے سامنے ملاقات ہو جائے۔۔۔۔ اپنے کف فولڈ کرتا وہ چہرے پر سنجیدگی سجائے بنا حیا کو دیکھے کمرے سے نکلا۔
۔
جبکہ حیا تو اشعر اور امن کے آمنے سامنے ہونے کا سوچتے ہی خوف سے زرد پڑ گئی۔۔
💥💥💥💥💥
تم نے اچھا نہیں کیا ویام میری سن شائن کو مجھ سے دور لے جانے کی سزا تمہیں ملے اور ضرور ملے گی، اپنی گہری نیلی آنکھوں میں وخشتوں کا جہان آباد لیے وہ رش ڈرائیونگ کرتا ڈینی کی جانب جا رہا تھا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ویام حور کو ضرور واپس گھر لے گیا ہو گا اور وہاں سے حور کو نکالنا بہت مشکل تھا ۔۔
ایل کا چہرہ اس وقت بالکل سپاٹ تھا کسی بھی تاثر سے عاری کہ اسے دیکھ اسکے اندر کا حال جاننا ناممکن تھا۔ایل اچھے سے جانتا تھا کہ اب اسکا سامنا ویام سے جلد ہی ہونے والا تھا مگر اسے اس وقت صرف اور صرف اپنی سن شائن کی پرواہ تھی ۔۔ ویام نے اسے اٹھایا تھا تو اس کا مطلب وہ ٹھیک نہیں تھی۔۔۔ اور ایل کے علاؤہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ ٹھیک کیوں نہیں تھی جبھی وہ جلد ازجلد استک پہنچتے اسے بکھرنے سے پہلے ہی سمیٹنا چاہتا تھا۔
سامنے پڑے فون کی رنگ پر وہ جھٹکے سے اپنی سوچوں سے نکلا تھا۔۔۔ ایل نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اپنی سرخ پڑتی آنکھوں کو بند کیا اور گاڑی ایک جانب روکی ۔۔۔ وہ اتنا بے بس کبھی بھی نہیں ہوا تھا جتنا وہ آج خود کو محسوس کر رہا تھا۔۔
ایل نے موبائل اٹھائے نمبر دیکھا تو سامنے جگمگاتے سلیمان شاہ کے نام کو دیکھ اسکا موڈ مزید بگڑ گیا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کال کٹ کرتا ساتھ ہی میسج ٹیون رنگ ہوتے میسج شو ہوا ، ایل نے بلاارادہ ہی مسیج اوپن کیا تو سامنے اپنے ہی کمرے میں کھڑی کسی چھوٹی سے لڑکی کی تصویر تھی ۔
جس کی گرے آنکھیں اس وقت ایل کی تصویر کی جانب تھی۔۔ ایل نے فوراً سے کال پک کرتے موبائل کان سے لگایا۔۔
مسٹر سلیمان شاہ اس لڑکی کو ابھی کے ابھی میرے کمرے سے اور گھر سے نکالیں جب میں نے منع کیا ہے تو پھر آپ کیوں منہ اٹھائے میرے گھر آ جاتے ہیں۔۔ پلیز یہ جو کوئی بھی ہے اسے فوراً سے نکالیں میں نہیں چاہتا کہ میرے ہاتھوں کسی عورت کا نقصان ہو۔۔۔
اسکے لہجے کی توڑ پھوڑ اور یوں پہلی بار پلیز کہنے پر سلیمان شاہ چونک اٹھے ، انہیں یاد نہیں پڑتا تھا کہ کب آخری بار انہوں نے یہ پلیز لفظ اسکے منہ سے سنا ہے ۔ ایل میرے بچے ٹھیک ہو ناں کیا ہوا ہے تم ایسے کیوں بات کر رہے ہو۔۔۔۔ سلیمان شاہ اسکے لئے پل بھر میں ہی متفکر ہوئے تھے۔۔
ٹھیک ہوں کوئی زخم نہیں ملا سانسیں چل رہی ہیں نہیں ہوا یہ بے حس دل بند اب خوش جان چھوڑ دیں میری ۔۔۔۔" وہ چلاتے انتہائی بدتمیزی سے بولا تھا مگر اسکے لفظوں کی سختی سے زیادہ اسکے لہجے کی اکتاہٹ نے سلیمان شاہ کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
میں اس لڑکی کو نہیں نکال رہا ناں تو اس گھر سے اور ناں ہی تمہارے کمرے سے۔۔۔۔۔۔"
سلیمان شاہ نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے کہا تو ایل نے دانت پیستے خود کو مزید کچھ غلط کہنے سے روکا۔ کیونکہ یہ تمہاری چھوٹی بہن ہے۔۔۔ جس کے مرنے کا الزام تمہاری ماں نے مجھ پر لگایا تھا۔۔۔
واٹ آپ پاگل ہو گئے ہیں۔ مسٹر شاہ جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ کسی کو بھی اٹھا کر لے آئیں گے اور مجھے کہیں کہ یہ لو یہ ہے تمہاری بہن تو میں یقین کر لوں گا ۔۔۔۔۔" اپنے بالوں کو پیچھے کرتے وہ حیرت سے استفسار کرنے لگا۔۔
تمہیں ثبوت چاہیے تو آ کر دیکھ لو ، میرے پاس سادے ثبوت موجود ہیں اس کے بعد تم یہ فیصلہ لو گے کہ تم سے کس نے جھوٹ بولا تھا کہ تمہاری بہن مر گئی ہے۔۔۔"
سلیمان شاہ اپنی بات کہتے ساتھ ہی کال کاٹ چکے تھے جبکہ ایل تو جیسے بت کا ہو چکا تھا اسنے کپکپاتے ہاتھوں سے اس تصویر کو نکالتے دیکھا جو بلاشبہ اسکے ماں اور باپ سے مشابہت رکھتی اسکے سارے سوالوں کا کھلے عام جواب تھی۔۔
اگر تو تم واقعی میں میری بہن ہو تو پھر مجھے ایل سے عالیان شاہ بننے میں کوئی گریز نہیں ہے۔۔۔۔ وہ دھڑکتے دل سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کرتے گاڑی ریورس میں ڈال چکا تھا۔۔
اسکی آنکھوں میں عیناں کا عکس تھا جبکہ ہونٹوں پر ایک خوبصورت سی دل کو چھو لینے والی مسکان۔۔۔۔
ابھی تک بلاسٹ کیوں نہیں ہوا۔۔۔۔۔؟" وہ سب گاڑی سے ٹیک لگائے دھماکے کے انتظار میں تھے ۔۔۔۔ تاکہ اپنی آنکھوں دیکھا حال ایچ اے آر کو بتا سکیں ____ ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ ان میں سے ایک کے پوچھنے پر دوسرے نے بھی حیرت سے کہا تھا ۔۔۔۔
کوئی گڑبڑ تو نہیں ہو گئی اگر اب کی بار کچھ گڑبڑ ہوئی تو ایچ اے آر ہم سب کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی کتوں کو نہیں ملنے دے گا۔۔۔ ایزن نے اپنی باقی ساتھیوں کو دیکھتے کہا تھا جو ہاتھ میں پکڑے شراب کی بوتلوں کو منہ لگائے انجوائے کر رہے تھے۔۔
نہیں کوئی گڑبڑ نہیں تم سب کے باپ نے بوم کو ڈفیوز کر دیا ہو گا اور تمہاری ماں تم سب کی دنیا گھمانے پہنچ آئی ہے۔۔۔
سیاہ ہیل کی ٹِک ٹِک کی آواز کے بعد کسی لڑکی کی پراعتماد آواز سنتے وہ سب مڑتے اندھیرے کی جانب دیکھنے لگے ۔۔۔۔ جہاں گھپ اندھیرے میں وہ اونچی پونی ٹیل کیے ہمیشہ ہی کی طرح اپنی سیاہ آنکھوں میں بلا کا اعتماد لیے سینے پر دونوں ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔۔
کون ہو تم ڈارلنگ سامنے تو آؤ______ ان میں سے ایک نے اندھیرے میں دکھتے اسکے نازک سراپے کو دیکھتے قہقہ لگاتے کہا تو الایہ کے چہرے پر ناگواری پھیلی اسنے غصے سے اپنی آنکھوں میں میچتے گردن کو دائیں جانب گھمایا۔۔۔۔
بیٹا ماما سے ایسی باتیں ناٹ گڈ۔۔۔۔ وہ پچکارتے ہوئے دوبارہ سے اپنے موڈ میں آتی بولی تو سبھی نے دانت پیستے اسے گھورا جو اب آگے بڑھتے انکے سامنےف کھڑی تھی۔۔
تیری تو ابھی بتاتا ہوں تجھے _____ ان میں سے ایک الایہ کو یوں اپنا مذاق بناتے دیکھ
آگے بڑھتے اسے مارنے کی کوشش کرنے لگا کہ الایہ نے جھکتے اسکی کوشش ناکام بنا دی۔ کچھ اور ٹرائے کرو یہ سب کچھ تو پرانا ہو گیا ہے ۔۔ وہ سیدھے ہوتے مقابل کے پیٹ پر اپنی بوٹ سے وار کرتے اسے پیچھے کو گرائے بولی تو اسکے اچانک سے اس طرح سے مارنے اور پھر اپنے ساتھی کو نیچے گرا دیکھ وہ سبھی حیرانگی سے اسے گھورنے لگی جو اب اپنا۔کام کرنے کے بعد مہارت سے ہاتھ جھاڑتے مسکرا رہی تھی۔
تو کیسا لگا۔۔۔۔۔ !" اسنے ایک ادا سے اپنے بالوں کو جھٹکتے آنکھ دبائے سب کو دیکھ پوچھا جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔
مارو اسے____" ان میں سے ایک نے دانت پیستے کہا تو وہ سبھی ہوش میں آتے اسے مارنے کو دوڑے۔ الایہ مہارت سے حملوں کو سہتے ان سے برابر کا لڑ رہی تھی۔ اذلان کو مسکراتا اپنا کام کرتے الایہ کے پیچھے ہی نکلا تھا اسے یوں ان سب سے برابری کا کرتے دیکھ وہ تاکہ بجائے اسے داد دینے لگا۔۔ ۔ویری گڈ ماہی تم کر سکتی ہو ۔۔۔۔ وہ دور کھڑا اسے لڑتا دیکھ چہکتے ہوئے بولا تو الایہ نے دانت پیستے اس نام کے شوہر کو گھورا۔۔
وہ سبھی ہونقوں کی طرح اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے انہیں لگا تھا کہ وہ بھی ان سے لڑنے کو آئے گا مگر وہ تو دور کھڑی ایک گاڑی سے ٹیک لگائے مزے سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ مارو بھی یار ایک لڑکی نہیں سنھبال سکتے۔۔۔" ان سب کو اپنی جانب متوجہ پاتے اذلان نے جھنجھلاتے ہوئے تاسف سے گردن نفی میں ہلائے کہا تو وہ سبھی ہوش میں آتے الایہ کو مارنے کیلئے اسکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔۔
الایہ نے مہارت سے ان کو دھول چٹاتے اپنے ہاتھ جھاڑتے مڑتے اذلان کو دیکھا جو اسے داد دیتی نظروں سے دیکھتا ایبرو آچکا گیا ۔۔۔۔ آہہہ۔۔۔۔۔۔" اچانک سے کسی نے اٹھتے پیچھے سے اسکے سر پر وار کیا تھا وہ درد کی شدت سے چیختے آنکھیں میچ گئی کہ اذلان فورا سے سیدھا ہوئے الایہ کے درد کی شدت سے سرخ پڑے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔ اس سے پہلے کہ الایہ اس شخص پر وار کرتی باقی کے چاروں بھی اٹھ کھڑے ہوئے ان میں سے دو نے مضبوطی سے اسکے بازو کو تھامے اسے قابو کیا ہوا تھا جبکہ ایک آگے بڑھتے مسکراتا اسپر حملہ کرنے لگا کہ الایہ نے ڈرتے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کیں۔۔
تجھے کیا لگتا ہے کہ میری پٹاخہ بیوی کو میرے علاؤہ کوئی ٹچ کرے گا وہ بھی میرے سامنے اور میں خاموشی سے بیٹھا دیکھتا رہوں گا ۔۔۔ ناں کاکا ناں۔۔۔۔ یہ سولڈ پیس صرف میرے لئے ہے کوئی دوسرا اسے ٹچ کرنا تو دور آنکھیں بڑی یا چھوٹی کر کے گھورے گا بھی تو میں اسکی زبان کھینچ لوں گا۔۔۔ اب تم سب سوچ رہے ہو گے کہ میں آنکھوں کی جگہ زبان کا کیوں کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔وہ اس لئے کیونکہ اب یہ والا ڈائیلاگ پرانا ہو گیا ہے ۔۔۔۔اور مجھے پرانا ڈائیلاگ پسند نہیں۔۔۔۔۔وہ ہنستے اس شخص کے بازوؤں کو جھٹکے سے مڑورتا کمر سے لگا گیا کہ درد کہ شدت سے اسکی چیخیں نکل آئیں۔۔
الایہ حیرت زدہ سی اسے گھورتی رہ گئی ۔۔۔ جسکے الفاظ بھی اسے اسکی طرح چیپ لگے تھے مگر اسکا یوں بچانا بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔۔ ایک احساس نے دل میں چھپکے سے جگہ بنائی وہ سرخ نظریں پھیرے آگے پیچھے دیکھ اسے اگنور کیا۔۔۔ ارے ارے چھوڑو میری بیوی کو ۔۔۔۔۔ پہلے مجھے دیکھنے تو دو یہ ٹھیک ہے کوئی چوٹ ووٹ تو نہیں آئی۔۔۔ وہ غصے سے الایہ کو ان دونوں سے چھڑواتے خود سے لگائے بولا تو الایہ نے آنکھیں گھمائے اس ٹھرکی کو گھورا جو بار بار اسکے ماتھے اور رخساروں کو چھوتے اپنا ٹھرک چھاڑ رہا تھا۔
پیچھے ہٹو ٹھرکی انسان الایہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا جبکہ باقی سب تو حیرت زدہ سے کھڑے ان دونوں کو گھور رہے تھے جو بجائے ان سے لڑنے کے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ اتنا پیار کرنے والا شوہر تم سوئی لے کر ڈھونڈو گی تو بھی نہیں ملے گا ۔۔۔۔ بےوقوف لڑکی قدر کرو میری۔۔الایہ کے چلتے ہاتھوں کو تھامے اسکی پشت سے لگائے وہ نخوت سے اسے ڈانٹتے ہوئے بولا تو الایہ نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔اب کیا مجھے گھور رہے ہو منہ پھیرو سب اپنا میں ذرا بیوی کو منا لوں۔۔۔ الایہ کو اگنور کرتے اذلان۔ نے اپنی جانب متوجہ سبھی سے کہا جو سنتے سر ہاں میں ہلائے رخ پھیرتے کھڑے ہوئے ۔۔۔الایہ نے دانت پیستے ان بے وقوفوں اور پھر اس ٹھرکی کو دیکھا ۔۔ جو ایسے رومینس جھاڑ رہا تھا جیسے اسی کام کیلئے اتنی دور سے آیا ہو۔۔۔
اگر اب پھر سے کچھ الٹا سیدھا کیا تو سوچ لو اذلان میں چھوڑوں گی نہیں۔۔ اسکے حصار کو توڑنے کی کوشش کرتے وہ چہرہ پیچھے کی جانب لے جاتے ہوئے بولی ۔۔۔ ڈونٹ وری جانِ قالو تمہارے ان ہونٹوں سے ملنے والی سزا کو کون پاگل ٹھکرائے گا۔۔ اور ویسے بھی ایک وقت میرا بھی آئے گا بلکہ آنے والا ہے جب تم اپنے دیے ہر زخم کو اپنے لبوں سے چھوو گی۔۔۔وہ آنکھ دباتے بے باکی سے بولا تو وہاں موجود ان پانچوں نے ایک دوسرے کو گھورتے دیکھا وہ دونوں اب اردو میں بات کر رہے تھے جس کی انہیں بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر وہ پھر بھی ایمان داری سے اذلان کا ویٹ کر رہے تھے کہ وہ انہیں بتائے گا کہ اسنے بیوی کو منا لیا ہے۔۔۔۔
اذذذذ اذلان۔۔۔۔۔۔۔ اپنی تھوڑی میں موجود گھڑے پر اسکے سلگتے ہونٹوں کو محسوس کرتے وہ تڑپتے اسے پکارتے آنکھیں خوف سے میچ گئی۔۔۔۔۔ یہ شخص اسکا ہر انداز الگ ہوتا تھا وہ اسے ہر بار اس انداز سے چھوتا تھا کہ الایہ کا خود کو اس سے چاہت کرنے سے روک پانا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ خوبصورتی کا عکس ہو تم کیونکہ جانِ اذلان ہو تم۔۔۔۔۔۔ الایہ کی گردن پر اپنے سلگتے ہونٹ رکھتے وہ گہری سرگوشی کرتے اسے لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔ جو آنکھیں موندے لمبے لمبے سانس لیتی خود کو پرسکون کرنے کی نا کام سی کوشش کر رہی تھی۔ اذلان کی لمحہ بھر کی قربت پر اس کا نازک وجود کپکپا رہا تھا اور مقابل اسکے چہرے کی سرخ پڑتی رنگت کو دیکھ اپنی کامیابی پر گہرا مسکرایا اور جھکتے نرمی سے اسے بانہوں میں بھرے وہ انہی غنڈوں کی لائی ہوئی گاڑی میں نرمی سے بٹھائے اب ان سے حساب کتاب کرنے کو واپس مڑا۔۔۔
💥💥💥💥💥
انزِک کہاں تھے تم ۔۔۔۔۔۔ تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ تمہارے پیچھے سے کیا کچھ ہو چکا ہے ۔۔۔۔؟' وریام جو ابھی رافع کیلئے کچھ کھانے کو لاتے واپس آیا تھا سامنے ہی انزِک کو متفکر سا ٹہلتے دیکھ وہ رافع کو ایک نظر دیکھ چلتا اسکے قریب آتے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے بولا ۔۔۔ انزِک نے مڑتے وریام کو دیکھا ۔۔ انکل ۔۔۔۔۔!"وریام کو دیکھ وہ بس اتنا ہی بول پایا تھا کیونکہ اس سے زیادہ بولنے کی سکت اس میں نہیں تھی ۔۔۔ وہ کیا کہتا کہ جس وقت اسکی ماں اسکے باپ کو اسکی ضرورت تھی اس وقت وہ اپنا نکاح کرنے میں لگا تھا ۔وہ بھی اپنے ماں باپ کو بنا بتائے۔۔۔!"
سوری انکل مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنا سب کچھ ہو جائے گا۔۔ انزِک نے شرمندگی سے سر جھکائے کہا تو وریام نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اسکے کندھے کو تھپکا۔۔۔معا وہ چونکا جب نظریں سامنے ہی خود کو گھورتی اس انگریزن لڑکی پر پڑی۔۔۔ وریام نے سر جھٹکتے اسے اگنور کیا مگر پھر جب اسے بغور دیکھا تو وہ انزک کو گھور رہی تھی ۔۔۔ انن انزِک۔۔۔۔ " وہ گڑبڑا گیا اسے لگا شاید یہ لڑکی کچھ کرنے والی تھی اور اگر اسنے کوئی جھوٹ بول کر شور مچا دیا تو انزِک کا کیا بنے گا۔۔
جی انکل۔۔۔۔۔ انزِک نے حیرت سے وریام کے لہجے کی گھبراہٹ کو محسوس کیا ۔۔۔ وہ گوری تمہیں گھور رہی ہے ۔۔۔ وریام کا اشارہ روز کی جانب تھا انزِک نے مڑتے روز کو دیکھا جو اس وقت معصومیت سے آنکھیں پھاڑے اسے گھورتی کوئی بھٹکی روح لگ رہی تھی۔۔۔ انکل میں جانتا ہوں اسے۔۔۔۔۔انزک نے لب بھینجتے کہا تو وریام نے منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھا اسے یقین تھا کہ اب پکا اسے جوتے پڑنے والے تھے۔۔ توں کیسے جانتا ہے اسے۔۔۔۔وہ فورا سے غصے سے پوچھنے لگا کہ کوئی دوسرا انزک کو مارتا اس سے اچھا تو یہی تھا کہ وہ خود ہی اسے مار کر بات کو رفع دفع کر دیتا۔۔
انکل میری بیوی ہے روزائکہ۔۔۔۔۔۔!" انزِک نے مڑتے اسکی گولڈن سورج کی مانند چمکتی آنکھوں میں دیکھتے کہا تو وریام کو لگا کہ اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔ " کیا کہا پھر سے کہنا۔۔۔وریام نے ہاتھ سے کان کو صاف کرتے اسکے چہرے کے قریب کیا تو اتنی سیرئیس سچویشن میں بھی انزِک کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دگر آئی۔۔ایک وریام تھا جو ہر کسی کو اپنی شرارتوں سے ہنساتے پرسکون کر دیتا تھا اور ایک اسکا بیٹا ۔۔۔۔۔ جو بنا بولے بھی سب کو اپنی انگلیوں پر نچاتا سب کا چین سکون حرام کیے رکھتا تھا۔۔۔ انزِک نے افسوس سے سوچا کاش ویام بھی اپنے باپ جیسا ہوتا تو زندگی کتنی خوبصورت ہوتی۔۔۔۔۔
انکل یہی سچ ہے کہ روز میری بیوی ہے ۔۔۔۔۔ پاپا کو بتا دیا ہے اسی وجہ سے گم سم ہوئے بیٹھے ہیں۔۔۔۔اس نے دوسری جانب بینچ پر بیٹھے رافع کی جانب اشارہ کرتے بتایا ۔۔۔ تو وریام نے افسوس سے گردن نفی میں ہلائے ۔۔۔
تم جانتے ہو انزِک۔۔ تمہارا باپ بہت چالو چیز تھا۔۔۔۔اس نے میری بہن فدک سے زبردستی ہاسپٹل میں نکاح کیا اور مجھے بھنک تک نہیں پڑنے دی۔۔۔۔ آج مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اسکا بیٹا بھی اسکے نقش قدم پر چلا ہے۔۔۔ شاباش میرےلال۔۔ جگ جگ جیو۔۔۔۔!" وہ فخریہ اسکی کمر تھپکتے انزِک کو خود سے لگائے بولا تو انزِک نے حیرت سے وریام اور پھر اپنے ڈیڈ کو دیکھا۔۔۔۔
فدک ٹھیک ہے بالکل بس اچانک سے یہ سب کچھ ہوا تو شاک میں چلی گئی ہے دو تین دن تک ٹریٹمنٹ ہوا تو وہ ٹھیک ہو جائے گی تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔ وریام نے مسکراتے اسے پرسکون کرنا چاہا تو انزِک ہنس دیا۔۔ آپ جانتے ہیں اور میں بھی کہ ماما کا علاج دوائیوں سے نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ انہیں عیناں ہی ٹھیک کر سکتی ہے۔۔۔۔ انزِک نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے کہا تو وریام نے گہرا سانس کھینچتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔ اور عیناں کو صرف ویام واپس لا سکتا ہے۔۔۔۔۔ وریام نے بےبسی سے کہا تھا وہ جانتا تھا کہ ویام کو اگر معلوم ہوا تو بہت تباہی ہونے والی تھی۔ وہ گھر آ جائے میں اسے خود بتاتا ہوں ۔۔۔۔ وریام نے پرسوچ انداز میں سوچتے کہا تو انزِک بے ساختہ ہی مسکرا اٹھا۔۔۔
وریام نے اسے یوں پاگلوں کی طرح ہنستا دیکھ سختی سے گھورا۔۔۔اپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ انسان کچھ نہیں جانتا ہو گا۔۔۔ وریام کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے وہ اعتماد سے بولا جیسے اسے یقین تھا کہ وہ سب جانتا ہو گا۔۔۔ " جو انسان اپنے سے جڑے کسی بے جان وجود کے حصوں تک نظر رکھ سکتا ہے تو کیا وہ اس بات سے انجان ہو گا کہ اسکے ساتھ جڑی اسکی بیوی اس وقت کہاں ہو گی۔۔۔ " اسکے اعتماد ہر وریام دل مسوستے رہ گیا۔۔۔
تمہیں اتنا اعتماد کیوں ہے۔۔۔۔۔ کیا پتہ وہ کچھ بھی ناں جانتا ہو۔۔۔۔" وریام نے انزک کے چہرے کو بغور دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کیونکہ میرے کسی اپنے کا وہ ایسا راز تک جانتا ہے جو اس نے خود سے بھی چھپائے رکھا تھا۔۔۔" انزِک نے ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے افسردگی سے کہا وہ یہ نہیں کہہ پایا کہ وہ شخص وہ خود تھا جس کی ایک چاہت ایک خواب کو ویام کاظمی نے دو سالوں سے ڈھال بنائے اپنے ہر کام میں استعمال کیا تھا۔۔
💥💥💥💥💥
مجھے آپ سے بات کرنی ہے سسر جی۔۔۔۔۔۔" سیڑھیوں سے اترتا وہ ایک نظر صوفے پر بیٹھی روتی ہوئی فدک پر ڈالے اطمینان سے مسکراتے داؤد کے سامنے آتے بولا ، جو بھی بات کرنی ہوئی ہم بعد میں کریں گے آپ لوگ فلحال جا سکتے ہیں۔۔۔ داؤد نے بےزاریت سے کہا تھا کیونکہ اس وقت اسکا دل نہیں تھا کچھ بھی سننے کا ۔۔۔۔ وہ اپنی پرنسز کو۔ہرٹ کرنے کے بعد کافی دکھی تھا۔۔
بات ابھی کرنے کی ہے تو بعد میں کیسے کروں گا۔۔۔۔ دراصل مجھے رخصتی چاہیے ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔۔ " اسنے اطمینان سے کہتے داؤد اور دعا پر بم پھوڑا جو سنتے ہکا بکا سے رہ گئے۔۔۔۔ تمہارا دماغ تو نہیں خراب لڑکے۔۔۔۔۔۔ نکاح کا کہا تھا وہ ہو گیا دو سال تک مجھے کوئی بھی رخصتی نہیں کرنی شیرازی صاحب اپنے بیٹے کو لے کر چلیں جائیں فلحال۔۔۔۔۔۔" داؤد نے غصے سے اسے گھورتے شیرازی سے کہا تو تیمور نے اپنے ہاتھ کے انگھوٹے سے شیو کو مسلا۔۔۔۔
بات دراصل یہ ہے سسر جی۔۔۔۔۔ایک بار جس چیز پر میرا دل آ جائے میں اسے کسی دوسرے کے سائے تک میں برداشت نہیں کرتا مگر میر کی خوشی کیلئے میں تیار تھا ۔۔۔۔۔ اسے دو سال خود سے دور بھی رکھ لیتا مگر اب میرا اردہ بدل گیا ہے کیونکہ وہ میری جائز بیوی ہے حق رکھتا ہوں میں اس پر۔۔۔۔۔۔۔ میں۔ اسے جب چاہوں لے جا سکتا ہوں اب آپ بھی مجھے روک نہیں سکتے۔۔۔۔۔ " تیمور نے گہرے لہجے میں داؤد کی آنکھوں میں دیکھتے بے باک نڈر لہجے میں کہا ۔۔۔ دعا نے خوف سے تیمور کو دیکھا۔۔۔۔ بھلا کیا آسان تھا اپنی بیٹی کو یوں اس شخص کے ساتھ رخصت کر دینا۔۔۔
بھولو مت کہ یہ نکاح میں نے کس شرط کے تحت کروایا تھا۔۔۔۔۔داود بشمکل اپنے غصے پر ضبط کرتے کھڑا تھا اسکا بس نہیں تھا کہ وہ ابھی اسے جان سے مار دیتا۔۔ ری لیکس سسر جی ، شرطیں شرائط تو بعد میں دیکھیں گے پہلے ذرا مجھے اپنی بیوی کو دیکھنے دیں۔۔ وہ مزید اسے سلگاتا آنکھ دبائے دوبارہ سے میرب کو لینے اوپر کی جانب بڑھا تھا کہ داؤد نے فورا سے اسکے بازو کو گرفت میں لیے اسے جھٹکے سے پیچھے کھینچا۔۔۔۔
جب کہہ دیا کہ نہیں تو اسکا مطلب نہیں۔۔۔۔ میرب تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جائے گی تو وہ نہیں جائے گی۔۔۔۔ کون روکے گا مجھے میری ہی بیوی کو یہاں سے لے کر جانے سے ۔۔۔۔۔۔ " ابکی بار تیمور کا لہجہ بھی سخت ہوا تھا شیرازی صاحب اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے جو پل بھر میں ہی بپھر گیا تھا۔۔۔ داؤد چھوڑیں اسے۔۔۔۔۔۔
دعا حواس بافتہ سی داؤد کو تیمور سے جدا کرنے کی کوشش کرنے لگی، مگر اس وقت داؤد کو تیمور سے الگ کر پانا آسان نہیں تھا۔
ڈیڈ چھوڑیں میرے شوہر کو۔۔۔۔۔۔!" میرب کے چیختے کہنے پر تیمور ،اود داؤد دونوں نے ہی مڑتے ہی پیچھے کھڑی میرب کو دیکھا ۔ جس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے نمودار تھے وہ بےتاثر چہرے سے کھڑی داؤد کو دیکھ اسکے قریب آئی تھی اور پھر جھٹکے سے تیمور کا گریبان اسکے ہاتھ سے آزاد کروایا۔۔۔۔ میرب_______ داؤد بے یقینی سے اسے دیکھ بولا تھا مگر یہ بے یقینی اس درد اس ٹھیس سے بہت کم تھی جو اسنے میرب کو پہنچائی تھی۔۔
کیا غلط کہا میرے شوہر نے ۔۔۔ بس یہی کہ مجھے رخصت کروا کے لے جانا چاہتے ہیں تو نکاح کے بعد رخصتی ہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ سلک کی ہالف گھٹنوں تک جاتی شارٹ سی گول گھیرے دار فراق میں ملبوس ، چہرے پر آنسوں کے مٹے مٹے نشانات لیے، سرخ گھنگھریالی زلفوں کو خجاب کرتے چھپا دیا تھا جبکہ سرمئی بڑی بڑی سی آنکھوں میں کسی قسم کا تاثر جانچنا نا ممکن تھا ۔۔ تیمور کی سرخ نظریں میرب کے چہرے پر ٹکی تھی ۔۔ اسکے انداز میں ایک ٹہراؤ تھا جبکہ عنابی لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ تھی۔
میرب تمہیں کچھ بھی خبر نہیں ہے اوپر جاؤ کمرے میں اپنے۔۔۔!" داؤد نے سخت لہجے میں کہا جبکہ میرب سنتی جبڑے بھینج گئی۔ ایک منٹ سسر جی میں آگے خاموش تھا کیونکہ میں کوئی بکھیڑا نہیں چاہتا مگر اب جب میری بیوی خود ہی میرے ساتھ جانا چاہتی ہے تو پھر آپ کو کوئی مسلئہ یا پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ تم منہ بند کرو اپنا بدتمیز انسان ۔۔۔۔۔۔ داؤد نے بپھرتے اسے اونچی آواز میں غراتے خاموش کروایا۔۔ بہت ہو گیا بس کر دیں اب۔۔۔۔۔۔ جب نکاح اپنی مرضی سے کروا سکتے ہیں تو پھر رخصتی کیوں نہیں۔۔۔۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تھا میں نے اپنا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا مگر اب میرا کوئی ارداہ نہیں اس گھر میں رہنے کا ۔۔۔ سانس گھٹ رہا ہے ابھی سے ۔۔۔۔ " تیمور چلیں یہاں سے۔۔۔۔۔۔ وہ بنا دعا کی جانب دیکھ اپنے آنسوں صاف کرتے تیمور کا ہاتھ پکڑتے اسے فریز سا کر گئی۔۔۔ جبکہ داؤد تو سرد نظروں سے اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتی میرب کی پشت کو دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔۔
💥💥💥💥💥
آئیے آئیے آج تو بہت بڑے بڑے لوگ چل کے ہمارے غریب خانے میں تشریف لائے ہیں ۔۔۔۔۔ ڈارک بلیو کلر کی شرٹ جس کے اوپری دو بٹن کھلے ہوئے تھے کف دونوں جانب سے بےترتیب سے بند ہوئے پڑے تھے ، شہد رنگ آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں تھا ، ماتھے پر بکھرے بالوں میں وہ اپنے بائیں ہاتھ میں موجود لاتعداد بریسلیٹ اور دھاگوں میں اس وقت کوئی غنڈہ سا دکھ رہا تھا اسکی شخصیت میں ایک وقار تھا لہجے میں ٹہراؤ ، نظروں میں ایسی تپش کہ مقابل کو منٹوں میں خاکستر کر جائے ۔۔۔۔ اسکی آواز بالکل اشعر علوی کی طرح کی تھی اور بولنے کا انداز بھی بالکل اسی کے جیسا بالکل سپاٹ جب کسی بات کو عیاں کرنا ہو تو وہ منٹ بھی نہیں لگاتا تھا یہ سوچتا نہیں تھا کہ سامنے والا میرا اپنا ہے یا پھر بیگانہ۔۔۔۔
پیچھے سے آتی طنزیہ مگر وہی بھاری سرد آواز سنتے اشعر نے جھٹکے سے مڑتے پیچھے دیکھا۔۔۔ جہاں وہ مغرور سے انداز میں سیڑھیوں سے اترتا اپنے آگے پیچھے جمع لوگوں کو دیکھنے لگا۔۔۔
بالکل سہی کہا ہے کسی نے کہ انسان چاہے جو کچھ مرضی کر لے وہ اپنی شخصیت کو کبھی نہیں چھپا سکتا ۔۔۔۔ بھاؤں۔۔۔ اسے سر تا پاؤں دیکھتے اشعر نے دکھتے دل سے کہا تھا اسکا دل ٹوٹ سا گیا تھا ۔۔۔۔ اسے لگا تھا کہ اسکا بیٹا اسے جب ملے گا تو وہ اس قدر کامیاب اور قابل ہو گا کہ اشعر خود اس سے اپنے رویے کی معافی مانگتے اسے سینے سے لگائے گا۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب جب اسے بھاوں کے روپ میں غنڈہ بنے دیکھ لیا تھا تو اسکے اندر کا آفیسر جاگ آیا ۔۔۔ اسنے خود سے قد میں بڑے بھاوں کو دیکھ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔کئیں لمحے بھاوں خاموش سا اپنے باپ کو دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔ جبکہ اشعر اسکے نین نقوش میں رمشہ کی جھلک دیکھ جبڑے بھینجتے خاموش رہ گیا۔۔۔۔ ویسے آج بھی وہی خوشبو لگاتے ہیں عادتیں نہیں بدلی آپ نے اپنی کمشنر۔۔۔۔۔"اپنے باپ کو سامنے دیکھ اسکی آنکھوں میں بے بسی کی نمی آنے لگی پرانے سب زخم پھر سے ہرے ہوئے تھے اسنے سوچا نہیں تھا کہ اسکی پہلی ملاقات جب بھی اشعر سے ہوئی وہ خود کو یوں بےبس محسوس کرے گا۔۔۔۔ ہاں کچھ ناسور زندگی کا حصہ بن کے رہ جاتے ہیں انسان چاہے جتنا بھی ان کو کاٹ لے مگر وہ ہمیشہ تکلیف دینے کی بابت ساتھ رہتے ہیں۔ روح میں پیوست ہوئے کسی پیوند کی طرح۔۔۔۔۔۔" اشعر نے گہرا وار کرتے اسکی شہد رنگ آنکھوں میں جھانکا جہاں کچھ ٹوٹنے کی اذیت تھی کچھ کرب سا تھا مگر اپنے درد چھپانے بھاوں سے بہتر کسے آتا تھا۔۔
ناسور ناسور ہی رہتے ہیں کمشنر انہیں کاٹنے کے بجائے انہیں جلا کے بھسم کر دینا بہتر رہتا ہے خیر میرے غریب خانے میں کیسے آنا ہوا آپ کا۔۔۔۔وہ ہنستا بات بدلتے بولا تو اشعر نے اسکی سرخ پڑتی نظروں میں دیکھا ۔۔۔
حیا کو لینے آیا ہوں میں۔۔۔۔۔" حیا جو ڈرتے نیچے آئی تھی اشعر کو دیکھ اسکے الفاظ کو سنتے اسنے بےساختہ مقابل کھڑے اس شخص کی چوڑی پشت کو گھورا۔۔۔ بھولیں مت وہ بیوی ہے میری ۔۔۔۔جس پر صرف اور صرف میرا حق ہے۔۔۔۔ نکاح میں ہے وہ میرے۔۔۔۔" اپنے غصے اشتعال پر قابو پاتے وہ دبے دبے لہجے میں غرایا ۔۔ حیا نے کپکپاتے ہاتھوں سے ریلنگ کو تھاما۔۔۔اسے خوف تھا کہ کہیں بات مزید نا بگڑ جائے آگے بھی سب کچھ اسی کی وجہ سے ہوا تھا وہ اب ایک بار پھر سے ان دونوں باپ بیٹے کی لڑائی کی وجہ نہیں بن سکتی تھی۔۔۔
زبردستی کا نکاح کوئی نکاح نہیں ہے باقی کی کاروائی ہم عدالت میں کریں گے اگر تم نے ذبردستی کی یا پھر میرے کام میں مداخلت کی اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔ اشعر نے آگے بڑھتے حیا کا ہاتھ تھامے امن کو وارن کیا۔۔۔۔امن ساکت کھڑا حیا کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔ اسے یقین تھا کہ وہ نہیں جائے گی۔۔۔ اگر میری بیوی اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو آپ لے جاسکتے ہیں مگر اگر یہ نہیں جانا چاہے تو پھر میں اِسے یہاں سے لے جانے والے کو اپنے طریقے سے دیکھوں گا۔۔۔
امن نے اشعر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے حیا کا ہاتھ اسکے ہاتھ سے آزاد کروایا۔۔ زوہا دور کھڑی یہ منظر دیکھ خوشی سے نہال ہونے لگی ۔۔۔ " یہ تمہاری زندگی ہے اس کا فیصلہ بھی تم ہی کرو گی۔ اگر جانا چاہتی ہو تو ایک بات یاد رکھنا بھاوں سے سارے رشتے ناطے توڑ کے جانا ہو گا۔۔۔ کبھی مڑ کے آنے کی گستاخی بھی مت کرنا مگر میرا نام تمہاری اس آخری سانس تک تمہارے نام کے ساتھ رہے گا ۔۔۔۔ کوئی بھی تمہیں مجھ سے دور نہیں کر سکتا۔۔۔"
وہ اپنے لفظوں کا سحر حیا کے چاروں اطراف پھونکتے اسے بے بس کرنے لگا۔۔ اشعر کو یقین تھا کہ وہ ضرور اسکے ساتھ جائے گی جبکہ بھاوں کو اعتماد تھا کہ اب وہ کہیں نہیں جا سکتی۔۔ حیا نے آنکھیں بند کرے گزرے ہر لمحے کو محسوس کیا، جب وہ اسکے قریب آیا تھا اسے اپنی باتوں سے خود سے نفرت کروانے لگا ۔۔۔ اسے خود تک محدود کرتے اپنے نام کر لیا۔۔۔ اپنے لفظوں سے اسے اذیت دیتا تو اپنے لمس سے اپنی محبت سے اسکے ہر دکھ کو چن لیتا۔۔۔ حیا نے وہ لمحہ یاد کیا جب وہ کسی مخافظ کی طرح اسے کسطرح اس بھیڑیے سے بچاتے اپنی بانہوں کے مضبوط حصار میں بھرے خود میں بھینج گیا تھا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کی سرخی خوف حود کو کھو دینے کا خوف کیا کچھ نہیں دیکھا تھا حیا نے اسکی آنکھوں میں ۔۔۔۔۔ اسکی بانہوں کے مضبوط حصار میں گزاری رات اسکی بھاری سرگوشیاں اسکا لمس اسکی چاہت کیا کچھ نہیں تھا اسکی آنکھوں کے سامنے ۔۔۔۔۔۔ وہ جس خوف سے بھاگ رہی تھی اب جب وہ خوف نہیں تھا تو پھر وہ کیونکر اس سے بھاگتی جب امن نے اسے اپنے وجود میں شامل کر لیا تھا اسے اپنی روح کا حصہ بنا لیا تھا تو پھر وہ کیونکر اس سے دور جاتی۔۔۔۔ویسے بھی اس کے پاس اب کچھ بھی نہیں تھا جس کے لیے وہ اس سے دور جاتی ۔۔۔۔۔"
حیا ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا تم چلو ابھی کے ابھی میرے ساتھ ۔۔ اشعر نے فوراً سے اسکا ہاتھ تھامتے کہا ۔۔۔۔۔ کیا ہوا چلو بھی۔۔۔۔۔۔ اسے وہیں کھڑا دیکھ اشعر نے حیرت سے مڑتے کہا ۔۔ بھاوں کی سانسیں تیز ہو گئی ۔ دل میں جو خوف تھا ۔ اسکے دل کی دھڑکنیں ساکت ہو گئی۔۔۔۔ابھی تو اسے پایا تھا کیا وہ پھر سے اسے ان وخشتوں کے حوالے کرتے چلی جائے گی۔۔
بھاوں نے بے سی سے اپنی شہد رنگ آنکھوں کو میچا وہ ہار گیا تھا ایک بار پھر ۔۔۔۔۔اپنے دکھتے ہوئے دل کے ساتھ وہ بھاری قدم اٹھائے اوپر جانے لگا۔۔۔۔ کہ معا وہی خوشبو وہی نازک لمس اپنے ہاتھوں میں محسوس کرتے بھاوں نے چونکتے حیرت سے اپنے ہاتھ کو دیکھا ۔۔ اور پھر حیا کے خوبصورت چہرے کو ،جسکے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں انکل۔۔۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اس میں جتنی غلطی امن کی تھی اتنی ہی میری بھی ہے ۔۔۔۔ مگر پھر بھی امن نے مجھے اپنی بیوی ہونے کے سارے حقوق دیے۔۔۔ مجھے میری سوچ سے بھی زیادہ محبت عزت سب کچھ دیا۔۔۔۔۔اگر یہ چاہتے تو مجھے استعمال کر کے پھینک دیتے یا پھر جیسے مرضی چاہتے مجھے اذیتیں دے کر اپنا بدلہ لیتے مگر امن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔ انہوں نے مجھے ان بھیڑیوں کے منہ سے بچایا جنہوں نے ایک بار نہیں کئی بار مجھے نوچنا چاہا۔۔۔۔۔ مجھے فخر ہے اپنے شوہر پر اب تو یہ خود بھی چاہے گے تو بھی میں آنہیں چھوڑنے والی نہیں۔۔۔۔۔ امن کی بے یقین سی نظروں میں اپنا عکس دیکھتے وہ شرارت سے بولتے اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔
اشعر لب بھینجتے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا اگر وہ خوش تھے تو پھر اس کا وہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔۔۔۔ میں دعا کروں گا کہ تمہارا یہ فیصلہ تمہیں بعد میں پچھتانے پر مجبور ناں کرے ۔۔۔۔۔ " بنا امن کو دیکھے وہ زیر ِ لب بڑبڑاتے وہاں سے واپسی کی جانب نکلا۔۔۔۔۔
ہوا سے باتیں کرتی گاڑی فل سپیڈ سے آتے ایک جھٹکے سے رکی تھی۔۔۔۔ اندر بیٹھا وجود دھڑکتے دل سے تیز تیز سانسیں لئے گھبراہٹ کا شکار تھا اسے ڈر لگ رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اگر وہ لڑکی سچ میں اسکی بہن نکلی تو پھر وہ بدلے میں کیسا ری ایکشن دے گا کیا کرے گا وہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی کیفیت میں نہیں تھا دل و دماغ میں بس سلیمان شاہ کے کہے الفاظ گردش کر رہے تھے۔۔۔
ایل نے آنکھیں موندے گہرا سانس لیتے خود کو پرسکون کرنا چاہا تھا اور پھر جلدی سے باہر نکلتے ایل نے ایک نظر اپنے اپارٹمنٹ کو دیکھ اپنا بھاری قدم آگے بڑھایا۔ دل کی حالت ابتر ہو رہی تھی ایسے جذبات سے وہ بلکل نا واقف تھا اسے لگا تھا کہ اسکے جذبات اسکی محبت تو صرف اسکی سن شائن کے لئے ہے اسکی محبت کی حقدار صرف وہی ہے مگر اب وہ اللہ کے بتائے اس نئے راز سے روشناس ہوتا خود بھی حیران تھا اسے یقین نہیں تھا ایاں کہ اسکا رب اس پر اس قدر مہربان ہو رہا تھا ۔۔ وہ تو گناہ گار تھا ۔۔
گناہوں میں پلا بڑھا ایک ناپاک وجود کیسے اس پر اسکا رب اتنے گناہوں کے باوجود بھی مہربان ہو سکتا تھا۔۔۔۔
ایل تم باہر کیوں کھڑے ہو مجھے پورا یقین تھا کہ تم آؤ گے آؤ اندر آؤ۔۔۔ تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں میں۔۔۔۔۔!" وہ اسے بازو سے تھامے خوشی سے نہال ہوتے بول رہے تھے، نہیں مجھے کوئی ثبوت نہیں دیکھنا۔۔۔وہ گھبرا گیا وہ۔کیسے اپنے رب سے شرک اکرتا۔ کیا وہ اسے دیکھتے ہی پہچان نہیں گیا تھا کیا اسکے دل نے نہیں کہا تھا کہ ہاں یہ وہی تھی اسکی بہن۔۔۔"
چلو بیٹا اندر عیناں تمہارا انتظار۔کر رہی ہے____!" سلیمان شاہ مسکراتے خوشی سے نہال اسے حصار میں لیتے بولے تو ایل نے گھبراتے انہیں دیکھا ۔ وہ گھبرا رہا تھا پہلی بار کسی لڑکی سے ملنا اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ کہیں وہ کچھ غلط ناں کہہ دے۔۔۔۔ بیٹا تم گھبراؤ مت بس چلو میرے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔" وہ مسکراتے ہوئے اسے پرسکون کرنے لگے۔۔۔۔ وہ واقعی گھبرایا ہوا تھا جبھی تو سلیمان شاہ کے اس قدر قریب آنے کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔۔
سلیمان شاہ اسے ساتھ لگائے خوشی سے گردن اکڑائے ایل کے کمرے کی جانب بڑھے تھے ۔۔ایل کے دل کی دھڑکنیں ساکت ہونے لگیں۔ عیناں ۔۔۔۔ سلیمان شاہ دروازے کے قریب جاتے عیناں کو دیکھ بلانے لگے۔۔۔ عیناں جو بیڈ پر بیٹھے ایل کی تصویر کو تھامے بغور دیکھ رہی تھی ایک دم سے سلیمان شاہ کی آواز پر وہ گھبراتے اٹھی تھی۔۔
ایل بے حس و حرکت کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ جس کی گرے کانچ سی آنکھیں سلیمان شاہ جیسی تھی مگر ان میں رقم معصومیت اسے کوئی پری لگی تھی وہ ۔۔۔ اسکے پھولے گلابی گال بلکل چھوٹے بچوں کی سی طرح تھے ، باریک گلابی ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند تھے وہ دور سے دیکھنے میں ہی اتنی مبہوت تھی کہ ایل کو یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ اسکی چھوٹی بہن تھی۔۔ عیناں ایل کو دیکھ رہی تھی ۔۔جس کی ساکت نظریں اسی کے چہرے کا ارتکاز کر رہی تھیں۔۔
عیناں بیٹا یہ عالیان آپ کا بڑا بھائی____!" سلیمان شاہ چلتے اسکے قریب گئے تھے اور محبت سے اسے ایل کی بابت بتایا ، عیناں اسے مبہوت سی دیکھ رہی تھی وہ تصویر سے زیادہ حقیقت میں حسین تھا یا پھر اسکا بھائی اسکا محرم رشتے کی کشش اسے مزید خوبصورت بنا رہی تھی ۔ ایل ملو گے نہیں بہن سے۔۔۔۔۔ سلیمان شاہ اسکی کیفیت سے انجان اسے پکارتے اسکی جانب بڑھے ۔۔
ہہہ ہاں ممم۔میرئ ببب بہننن۔۔۔۔۔۔ وہ ایل جسکے ہاتھ کسی کی گردن اتارتے وقت کبھی نہیں کپکپائے تھے آج اپنی بہن کو سامنے دیکھ اسکی زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اسکے قریب جاتے اسے خود میں بھینج لے یا پھر اسے بانہوں میں بھرتے پوری دنیا کو بتا دے کہ دیکھو تم سب جو مجھے کہتے تھے کہ تمہارا کوئی نہیں دیکھو میرے پاس میری بہن ہے میرا خون کا۔رشتہ میری ہمدرد میری ساتھی ۔۔۔۔۔ عیناں خود بھی گھبرا رہی تھی انزِک کے ساتھ اسکا رشتہ اور تھا وہ بچپن سے ایک ساتھ پلے بڑھے تھے۔۔ انزک آدھے سے زیادہ کام اس کے کیا کرتا تھا اسکے کمرے کی صفائی بھی وہ فدک سے چوری چھپے کر دیتا تھا ۔۔۔ اور وہ فخر محسوس کرتی تھی اس پر ۔۔۔۔۔
مگر ایل کو دیکھ اسکے تاثرات عجیب تھے یا یوں کہا جائے کہ عجیب سی جھجھک تھی ۔
مممم میری ببب بہن ععععع عینننن عیننننااااںںںںں____!' اپنی نیلی آنکھوں میں آتے آنسوں پر ضبط کرتے وہ دھیمے قدم اٹھائے اسکے قریب جاتے بلکل مدہم سی سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔۔ تو عیناں اسکی نیلی سمندر جیسی آنکھوں میں آنسوں دیکھ بھاگتے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔۔ ایل کا سارا وجود سن سا پڑ گیا ہلنے کی سکت نہیں رہی تھی مانو۔۔۔۔وہ۔اپنے سینے سے لگے روئی جیسے نازک وجود کی خوشبو کو خود میں اتارتا ہنسنے لگا اسے اپنی ماں کی خوشبو محسوس ہوئی تھی عیناں سے ۔۔۔۔۔ عیناں ایک دم سے پیچھے ہونے لگی کی معا ایل۔نے وخشت زدہ سے ہوتے اپنے مضبوط ہاتھوں کا حصار تنگ کرتے اسے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔ اسکی دھاڑیں فلک شگاف تھیں وہ پچیس چھبیس سالہ جوان مرد آج رو رہا تھا ۔۔۔۔۔
اسکی آہ و بکا پر سلیمان شاہ کا وجود کانٹوں کی مانند ہونے لگا وہ جانتے تھے جو کچھ وہ اپنی زندگی میں برداشت کر آیا تھا ان دخشتوں نے اس معصوم بچے کو نوچ کھایا تھا اسے رشتوں سے دور کر دیا تھا وہ بے حس درندہ بن کے رہ گیا تھا مگر آج اسکا یہ روپ انہیں دہلا گیا تھا۔۔
وہ صوفے کا سہارہ لیے بمشکل سے کھڑے تھے ورنہ قدم اب بے جان ہونے لگے تھے۔۔ مممم میری بببب بہن مممم میررری بببب بچیہہیییییی ۔۔۔۔۔۔۔۔!" وہ دھاڑیں مارتے ہوئے روتا ہچکیوں میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ عیناں اسکے یوں دھاڑیں مارتے رونے پر سہم سی گئی ۔۔۔ مممم میری ببب بہن ڈڈ ڈیڈڈڈڈ ددددڈ دیکھیں ممم۔میررررری بببب بہنننن مممممم میری بببب بیٹیییی_____ وہ ہچکیوں میں روتا سلیمان شاہ سے کہہ رہا تھا ، سلیمان شاہ تو اسکے یوں برسوں بعد ڈیڈ کہنے پر ہی ساکت وجود سے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔ اس خاموش اپارٹمنٹ میں جہاں ایل کی وخشتیںں برپا تھیں جس کا کونہ کونہ اسکی اذیتیں سے بھرا تھا ۔ آج کسی اپنے کی آواز سے گونج رہا تھا۔
💥💥💥💥💥
مسٹر شیرازی آپ اتریں ۔۔۔۔۔۔ " وہ گاڑی ایک جانب روکتا لاپرواہی سے بولا۔۔۔۔۔۔ تو مسٹر شیرازی نے اسے گھورتے دیکھا کیوں اتروں میں نیچے۔۔۔۔۔ تم سیدھے گھر چلو گے ابھی کے ابھی ۔۔۔۔۔۔ " میرب خاموش بیٹھی تھی اسکے چہرے سے اسکے تاثرات جانچنا ناممکن تھا۔۔۔۔۔ آپ ابھی یہاں سے سیدھے اپنے گھر جائیں گے کیونکہ میں ابھی ہوٹل جا رہا ہوں میر کے ساتھ۔۔۔۔ وہ انگلیوں سے سٹرئنگ بجائے سیٹی کی دھن پر بولا ۔۔۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہاری بات کا ہوٹل میں کیا لینے جانا ہے اب آگے تھوڑی بے عزتی کروائی ہے جو اب نیا تماشہ کروانا ہے ۔ وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولے تو تیمور نے انہیں مرر سے گھورتے دیکھا۔۔۔
مسٹر شیرازی میری ویڈنگ نائٹ ہے آج اور میں ہوٹل میں گزارنا چاہتا ہوں امید ہے کہ اب آپ مجھے نہیں روکے گے۔۔۔" میرب کی جانب دیکھتے وہ مرر سے اپنے ڈیڈ کا دھواں دھواں چہرے کو دیکھ کہتے آنکھ دبا گیا۔۔
نہیں مجھے گھر جانا ہے ابھی اور اسی وقت میں کسی بھی ہوٹل میں نہیں جانے والی۔۔۔۔۔ میرب نے سنتے ساتھ ہی فورا سے اختلاف کیا ۔۔۔ تو تیمور نے بدمزہ ہوتے منہ بنایا۔۔۔
انہہہو یار تم چپ کرو کچھ بھی نہیں جانتی ۔۔۔۔۔۔ مگر فکر کی کوئی بات نہیں تیمور تمہیں اپنے اسٹائل سے بہت اچھے سے سمجھا لے گا۔۔۔ وہ قہقہ لگاتے آنکھ دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔
جبکہ میرب سنتے ضبط سے دانت پیستے رہ گئی۔۔
انکل میں بھی آپ کے ساتھ ابھی گھر جاؤں گی ۔۔۔۔۔ میرب نے بنا تیمور کی جانب دیکھ کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اوکے سینیوریٹا ہم گھر چلیں گے۔۔۔۔۔ وہ شیطانی مسکراہٹ مسکراتے اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے بولا تو اسکے فورا سے مان جانے پر شیرازی صاحب حیران تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بنا کسی غرض کے وہ کبھی بھی کوئی کام نہیں کرتا تھا۔۔۔
تیمور بارہا گردن گھمائے میرب کے حسین چہرے کو دیکھتے پھر سے مسکراتا ڈرائیونگ کی جانب متوجہ ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ لٹس گو میر جاناں۔۔۔۔۔" گاڑی پورچ میں روکتے وہ بھاگتے میرب کی جانب گیا اور فورا سے دروازہ کھولتے وہ مسکراتے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلائے بولا ۔۔۔۔ میرب نے نفرت سے اسکے ہاتھ کو جھٹکا۔۔۔ تو تیمور کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹ سی گئی۔۔۔۔
میرب فورا سے اترتے شیرازی صاحب کے پیچھے اس شاندار محل نما گھر میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔ اسکی نظروں میں ستائش بھی تھی کیونکہ۔ وہ پورے پلان کے تحت آئی تھی کہ کیسے تیمور کو سبق چھکانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کہاں تھے کچھ خبر بھی ہے کیا ہو رہا ہے تیمور گھر پر نہیں آیا اور۔۔۔۔۔" مسز شیرازی جو کہ شوہر کو دیکھتے ہی بڑبڑاتے بول رہی تھیں ایک دم سے پیچھے سے آتی میرب کو دیکھ انکے قدم تھمے تھے وہ حیرانگی سے اسے دیکھے گئی۔۔
مم میرب۔۔۔۔۔ یس مام میرب آپ کی بہو میرب تیمور شیرازی۔۔۔۔۔۔۔" تیمور نے خوشی سے چہکتے اونچی آواز میں کہا تھا ۔۔۔جںکہ میرب اسکے تعارف پر نظریں گھمائے لب بھینجتے رہ گئی۔۔۔۔ کک کیا کہہہ۔ررر رہے ہو تم تتت تیمور۔۔۔۔۔ مسز شیرازی کو لگا کہ انکو سننے میں غلطی ہوئی ہے جبھی وہ حیرت سے استفسار کرنے لگی تو تیمور مسکراتے میرب کے قریب کھڑا ہوا۔۔۔ آپ کو۔ہقین نہیں تو اپنے شوہر سے پوچھ لیں یہ چشم دید گواہ ہیں میرے نکاح کے۔۔۔۔ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے وہ نہایت آرام سے بولا۔۔۔
مگر یہ سب کیسے اور کیوں کیا تم نے، مسز شیرازی کو کسی بھی طور یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ بھلا وہ کیسے نکاح کر آیا اور سب سے بڑی بات داؤد کیسے مانا ہو گا اس نکاح کیلئے۔۔۔۔۔!" مام صبح بات کریں گے ابھی میں اور میرب ریسٹ کریں گے۔۔۔۔۔۔ " وہ مسز شیرازی کے گال کو تھپکتے میرب کا ہاتھ تھامے بولا ۔۔۔ تو میرب نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالا۔۔۔۔۔
انٹی مجھے کوئی الگ کمرہ دے دیں مجھے اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا۔۔۔۔۔ میرب نے مضبوط لہجے میں کہا تھا وہ۔کسی بھی طور تیمور کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی ۔
شٹ اپ میر کم وِد می۔۔۔۔۔۔" اسکی بات کاٹتے تیمور نے سنجیدگی سے اپنی آنکھوں میں سرخی لئے بولا ۔۔۔ تو میرب نے فورا سے سر نفی میں ہلایا۔۔۔ نہیں جانا مجھے تمہارے ساتھ ۔۔۔" وہ ایک دم سے قدم پیچھے کو لیے بولی۔۔۔۔ بیٹا چلو میں آپ کو کمرہ دکھاتی ہوں۔۔۔۔"
مسز شیرازی نے اسے ساتھ لگاتے محبت سے اسکی پیشانی چومتے کہا تھا ۔۔۔۔
نو مام سوچئے گا بھی مت میر کو۔مجھ سے دور کرنے کا ۔۔۔۔۔۔ یہ۔نکاح اسی لئے نہیں کیا میں نے۔۔۔۔۔" وہ دھاڑتے تیز لہجے میں بولا تو شیرازی صاحب نے اسے گھورا۔۔۔۔
نہیں جانا مجھے تم ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔" وہ جھنجھلاتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑاتے بولی تھی۔۔۔۔۔ تیمور نے ایک دم۔سے اسکے ہاتھ کو پکڑتے اسے غصے سے اپنی جانب کھینچا۔تو وہ تڑپتے تیمور کے کندھے سے جا لگی۔۔ ہاتھ چھوڑو میرا۔۔۔۔۔۔وہ چیخنے کے سے انداز میں بولی تھی کہ تیمور نے جھٹکے سے اسکی کمر کے گرد اپنا بھاری ہاتھ حائل کیے اسے اٹھائے کندھے پر ڈالا ۔۔۔ تتت تیمور یہ ککک کیا کر رہے ہو تت تم۔۔۔۔؟" مسز شیرازی حواس بافتہ سی ہوتے بولی تھی جبکہ تیمور سنی ان سنی کیے میرب کی پرزور مزاخمت کو اگنور کیے اسے ایسے ہی کندھے پر ڈالے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔
💥💥💥💥💥
ننن نہیں مممم موممممم۔۔۔۔۔۔۔۔ " حور میری بچی میں ہوں پاس میری جان کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ حور کے نیند میں بڑبڑاتے اور ایک دم سے ڈرنے پر نیناں نے بھاگتے اسکے قریب جاتے حور کو ساتھ لگائے کہا تھا۔۔۔۔ جو نیند میں بھی خود کو ایل کی قید میں پاتے ڈر گئی تھی ۔
مممم مومممم وو وہ ممم ممجھے ووو وہ____!' وہ توڑ توڑ کے لفظ ادا کرتی نیناں کو مزید پریشان کر گئی۔۔ حور میری جان کیا ہوا ہے میری بچی مجھے بتاؤ ۔۔۔۔۔ نیناں نے اسکے گھنے سیاہ بالوں میں ہاتھ چلاتے اسے سینے سے لگائے کہا ۔۔۔ مگر حور کا پورا وجود لرز رہا تھا ۔ وہ ہچکیاں بھرتے اپنی ماں کی آغوش میں خود کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
پرنسز ۔۔۔۔۔۔ ویام جو ابھی نیناں کیلئے چائے بناتا واپس آیا تھا حور کو یوں روتا دیکھ وہ تڑپتے اسے پکارتا اسکے قریب پہنچا۔۔ حور نے اپنی بھیگی سرخ سیاہ آنکھوں سے مڑتے ویام کو دیکھا۔۔۔ جس کی بھوری آنکھوں میں خون کی ڈوریاں دیکھ وہ سہم سی گئی۔۔ ویام بھاگتے اسکے قریب گیا اور نرمی سے بیڈ پر بیٹھتے اسنے محبت سے اسے خود میں بھینج گیا ۔۔۔۔ کیا ہوا میرے شیر بیٹے کو ۔۔۔۔۔۔ کس نے تکلیف دی ہے میری پرنسز کو۔۔۔۔۔۔ ویام نے ہونٹ حور کے سر پر رکھتے محبت سے پوچھا جبکہ لہجہ انتہائی سخت تھا جیسے وہ ابھی حور کو تکلیف دینے والے شخص کو برباد کر دے گا۔۔۔
حور کے سامنے ایل کا سراپا گردش کرنے لگا۔۔۔۔ جس طرح سے اسنے زبردستی نکاح کیا تھا اسکا چھونا اور پھر وہ خود ہی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اگر ویام کو پتہ چلا تو اس شخص کو جان سے مار دے گا مگر اس سے حور کو کیا حاصل ہوتا وہ تو اب اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔ اسکا مان غرور سب ختم تھا اپنی ذات پر سے۔۔۔۔ پھر وہ اپنے بھائی کو کیسے اس حیوان کے سامنے۔کر دیتی جو جانے کتنا طاقتور تھا۔۔
ککک کچھ ببب بھی نن نہیں ببب بس مممم مومم ڈڈڈڈ ڈیڈڈڈ ککک کی اوووور اہپ آپ کک کی یاد آ رررررر رہی تتت تھی۔۔۔"
وہ یونہی اسکے کندھے سے لگے بولی تو ویام نے سنتے گہرا سانس فضا کے سپرد خارج کیا۔۔۔۔۔
میری گڑیا اگر اتنی ہی یاد آ رہی تھی تو بھائی کو کال کر لیتے میں بھاگتا آ جاتا اپنی پرنسز کے پاس۔۔۔۔ ویام نے روتی ہوئی نیناں کو آنکھوں سے ہی ریلیکس رہنے کا اشارہ کرتے حور کو گود میں بھرتے کہا ۔۔۔ حور کیلئے اپنے آنسوں پر ضبط کرنا بے حد مشکل ہو رہا تھا دل چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کے روئے چیخ چیخ کے بتائے اپنے باپ جیسے بھائی کو کہ دیکھو تمہاری گڑیا جسے تم نے بچپن سے ہر سرد و گرم سے بچا کے اپنی آغوش کے مضبوط حصار میں پالا ہے آج وہ حالی ہاتھ رہ چکی ہے اسکی عزت اسکا مان سب کچھ لوٹ لیا کسی حیوان نے۔۔۔۔۔ اسکا غم بڑا تھا مگر اس سے زیادہ اسکے رب نے اسے سہنے کی ہمت دی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اللہ اپنے پیاروں کو ہی آزماتا ہے۔۔۔
حور میری پرنسز _______!" ویام کو اسکی خاموشی گھل رہی تھی آخر ایسا کیا ہوا تھا جو حور اتنا خاموش ہو گئی تھی کونسی ایسی بات تھی جس سے ویام انجان تھا۔۔۔
ججج جی بببھائی____!" حور نے آنکھیں موندے کہا وہ اس وقت ویام کی آنکھوں میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر ایسا ہوا تو اسکا بھائی اسکے تکلیف کو پڑھ لے گا۔۔۔۔۔
آپ جھوٹ تو نہیں بول رہے اپنے بھائی سے۔۔۔۔۔۔؟" ویام نے مدہم سے لہجے میں پوچھا تھا وہ چاہتا تھا کہ حور اسے خود سے ہی بتا دے کہ آخر ہوا کیا ہے______!" نننن نہیں بببھائی ایسی کک کوئی بببات ننننن نہیں۔۔۔۔۔۔ حور نے جلدی سے اپنی جانب سے اسے مطمئن کرنا چاہا ، ویام نے ہونٹ اسکے سر پر رکھے ۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے میری پرنسز اپنے بھائی سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گی۔۔۔۔ ویام کے لہجے میں گہری انچ تھی جیسے وہ اسے ڈرا رہا تھا مگر حور اس وقت کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔۔ جبھی اپنے دل اپنے غم پر ضبط کیے وہ چپ چاپ لیٹی رہی ۔
💥💥💥💥💥
ماہی زندہ ہو تم_____!" اذلان اسے بانہوں میں بھرتے اندر لایا تھا بیڈ پر لٹائے وہ اسکے پاس بیٹھتے شرارت سے لب دبائے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ میڈم بے ہوشی کا ناٹک کر رہی تھی جبھی وہ خود بھی اب اسے سبق چکھانے کے موڈ میں تھا۔۔۔۔
ماہی جانم اکیلے اکیلے سونے کا ارادہ ہے کیا۔۔۔۔۔ " اذلان نے ہاتھ اسکی قریب رکھتے ٹیک لگائے اسکے حسین چہرے کو دیکھتے استفسار کیا۔۔۔۔
یار اچھا ہی ہے تم سوئی رہو ۔۔ تمہاری نیند کا مجھے کچھ فائدہ تو ہو گا۔۔ " اذلان نے مسکراہٹ ضبط کرتے سوچا اور پھر ایک دم سے اسکے قریب نیم دراز ہوا۔۔۔ الایہ کو اسکی حرکتوں سے کوفت سی محسوس ہونے لگی ۔ مگر وہ آج اذلان کو پریشان کر کے ہی دم لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔ جبھی ماتھے پر بل ڈالے وہ بظاہر بےہوشی کا ناٹک کیے پڑی تھی۔۔۔
یو نو واٹ تمہارے اندر سبھی خوبیاں موجود ہیں جو مجھے میری بیوی میں چاہیے تھی سوائے چند ایک بری حرکتوں اور عادتوں کے۔۔۔ مگر کوئی بات نہیں وہ بھی میں سدھار دوں گا۔۔ مجھے یقین ہے میرے دو درجن چوزوں کو تم سے زیادہ اچھے سے کوئی اور کبھی بھی سنبھال نہیں پائے گا ۔۔۔۔ وہ قہقہ لگاتے اسے زہر لگا تھا الایہ کی سرخ رنگت اسکے غصے کی صاف نشانی تھی ۔۔
اسکی حالت پر اذلان کا دل بھنگڑا کرنے کو چاہا تھا مگر فل وقت وہ اپنے جذبات پر ٹھنڈا پانی ڈالے بیٹھا تھا۔۔
تمہاری یہ لمبی پونی ٹیل جب سانپ کی طرح لہراتی ہے تو میرا دل گڈ مڈ کرنے لگتا ہے۔۔۔ تمہاری ناک پر رکھا یہ غرور اکڑ بہت جچتا ہے تم پر ۔۔۔۔۔ تمہارے یہ قاتل نین کٹورے دل چاہتا ہے کہ ان میں ڈوبببب جاؤں۔۔۔۔۔۔ تمہارے شوز کی ٹِک ٹِک کی آواز میرے دل میں دھک دھک کرتی ہے۔
الایہ کے چہرے پر جھکے وہ جذبات سے چور لہجے میں گہری سرگوشیاں کرنے لگا ۔۔ اپنے چہرے پر اسکی سلگتی سانسوں کے پڑتے ہی الایہ نے لب مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے۔۔۔ اذلان نے جھکتے الایہ کی دونوں آنکھوں پر اپنے لب رکھے تو الایہ کا سانس بھاری پڑنے لگا ۔۔۔ اسکی ڈھول کی مانند چلتی سانسیں اذلان بخوبی سن رہا تھا۔
وہ سیدھا ہوئے بیٹھتا الایہ کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔۔۔اذلان نے ایک نظر اسکے نازک وجود پر ڈالی اور پھر ماتھے پر بل ڈالے وہ جگہ سے اٹھتا اسکے پاؤں کے قریب بیٹھا۔۔۔ اور نرمی سے اسکے دائیں پاؤں کو شوز کی قید سے آزاد کیا تو الایہ اپنا شوز اترتا محسوس کیے فوراً سے جگہ سے اٹھی۔۔۔۔
اذذذلل اذلان چچھوڑو یہ ککک کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔؟" وہ حواس باختہ سی اپنے پاؤں میں بیٹھے اذلان کو دیکھ چلاتے اپنے پاؤں پیچھے کھینچنے لگی کہ اذلان نے انہہ کرتے اسکے پاؤں دوبارہ سے کھینچے گود میں رکھے۔۔۔
اذلان یہ یہ کیا کک کر ررر رہے ہو چچچ چھوڑو ممم میرا پپپ پاؤں_____!" الایہ چیختی اپنا پاؤں چھڑوانے لگی مگر اذلان سنی ان سنی کرتا اسکے پاؤں سے شوز اتارتا نیچے پھینک گیا۔۔۔۔
پاگل انسان کیوں لگایا مہرے پاؤں کو ہاتھ چھوڑو میرے پاؤں۔۔۔۔۔" وہ غصے سے اسکے دیکھنے پر چینخنے کے سے انداز میں بولی۔ تو اذلان نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اسے دیکھا۔۔ اب یہ مت کہنا کہ تم شوہر ہو میرے پاؤں کو ہاتھ مت لگایا کرو مجھے گناہ ہو گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔" اذلان نے سر جھٹکتے کہا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے وہ اسکے دودھیا پاؤں کو پشت کو سہلا رہا تھا ۔۔۔ الایہ نے جھرجھری لیتے پاؤں پیچھے کیا۔۔
نن نہیں میرے لئے یہ رشتہ معنی نہیں رکھتا مگر مجھے اچھا نہیں لگا تم مت چھووں میرے پاؤں کو۔۔۔۔"
الایہ نے رخ موڑتے نظریں چرائے کہا اذلان نے سرد نظروں سے الایہ کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ اور جبڑے بھینجتے ایک دم سے اسکی گردن کو دبوچتے وہ کھینچتے اسے خود سے قریب کر گیا۔۔۔اس اچانک افتاد کر الایہ چیختی آنکھیں پھیلائے اذلان کو دیکھنے لگی جس کی آنکھوں حد ردجہ سرخ تھیں ۔
جیسے وہ خود پر ضبط کر رہا ہو۔۔۔۔ ڈونٹ یُو ڈئیر ٹُو سے ڈیٹ______ میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں مگر آئندہ یہ بات اپنی زبان پر کبھی مت لانا یہ رشتہ میرے لئے بہت معنی رکھتا ہے بیوی ہو تم میری اور آئندہ اس رشتے کی بابت میں کوئی فضول بات ناں سنوں۔۔۔۔۔ اسکے چہرے پر غرااتے وہ سرد ٹھٹرا دینے والے لہجے میں کہتا الایہ کی سانسیں خشک کر گیا۔۔
الایہ خوف سے سہمی بنا کچھ بولے اسے ہی دیکھ رہی تھی کہ ایک دم سے اذلان نے ضبط سے آنکھیں میچتے اپنی گرفت ڈھیلی کی اور جھٹکے سے اٹھتے وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
💥💥💥💥💥
اپنے مضبوط بھاری ہاتھ میں حیا کے نازک ہاتھ کو دبوچے وہ پھولی رگوں تنے اعصاب کے ساتھ چلتا اسے کھینچتے ساتھ لیے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔۔ حیا جانتی تھی کہ وہ کیا پوچھے گا مگر وہ خود کو اسکے ہر سوال کے جواب کیلئے تیار کر چکی تھی اب کسی بھی قسم کا کوئی شک کوئی وہم وہ اپنے رشتے میں نہیں آنے دینا چاہتی تھی ۔
بھاوں نے ٹھاہ کی زور دار آواز سے دروازہ بند کرتے حیا کا بازؤ پکڑتے اسے کھینچتے دروازے سے لگایا تو حیا نے آنکھیں پھیلائے مقابل کی سرخ ہوتی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھا۔۔ " میں پوچھ سکتا ہوں کہ جو کچھ بھی تم نے نیچے کہا اپنے پھوپھا کے سامنے کیا وہ سچ ہے یا پھر مجھے پھانسنے یا دھوکہ دینے کا کوئی جال ______!' امن کی آنکھوں میں حیرت تھی وہ دھیمے مگر کھردرے اکھڑ لہجے میں اپنا بایاں ہاتھ حیا کے قریب دروازے پر ٹکائے اسکے چہرے کے قریب جھکتے بولا۔۔۔
تو حیا نے اپنی سیاہ آنکھوں میں بلا کا اعتماد لیے سر اٹھائے امن کو دیکھا ۔۔مجھے ماما نے کہا تھا ایک بار کہ جو مرد عورت سے نفرت کے اظہار کے باوجود بھی اسے روندھنے کے بجائے اسے مان بخشے اس مرد کو کبھی بھی چھوڑنا نہیں چاہیے ۔۔۔۔۔" امن جو بغور اسکی بات سن رہا تھا اسنے گہرہ سانس فضا کے سپرد کیا۔۔
تو گویا تم اپنی ماما کے کہنے پر چلی ہو ۔ کچھ تھا جو اسکے اندر بہت بری طرح سے ٹوٹا تھا اسے لگا تھا کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کرے گی اسے بتائے گی کہ وہ کتنا ضروری ہے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔۔
نہیں میں ان کے کہنے پر نہیں چلی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کل رات تم نے جو کچھ بھی کیا میں اسے ڈھال بنا کے تمہں چھوڑ کے جا سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا پتہ ہے کیوں ۔۔۔۔۔؟" حیا نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا امن کو وہ آج جھٹکے پر جھٹکا دے رہی تھی اسے یقین نہیں تھا ہو رہا کہ یہ وہی لڑکی تھی جو اس سے بچنے کے بہانے ڈھونڈتی تھی۔۔
تم نہیں پوچھو گے میں ہی بتا دیتی ہوں۔۔۔۔وہ سر جھٹکتے گویا ہوئی امن کا پورا وجود حسیات بنے اسکی جانب متوجہ تھا۔۔۔ کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ سب سے افضل ہوتا ہے یہ شریک ِ حیات ہوتے ہیں ایک دوسرے کا لباس۔۔۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو ڈھانپنے والے ۔۔۔ جہاں کہیں ضرورت پڑے ایک دوسرے کے لئے لڑ پڑتے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کی قدر، محبت کرتے ہیں تم شوہر ہو میرے ۔۔۔۔ میں بھلا اپنے شریک ِ حیات کو رسوا کیسے کرتی۔۔۔ ہم لڑیں گے ایک ساتھ رہیں گے مگر کسی دوسرے کو کبھی موقع نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے رشتے کے متعلق بات کرے ہمارے رشتے کو برا بھلا کہے۔۔۔۔۔ "
امن کی آنکھوں میں دیکھ وہ ٹہرے لہجے میں رسان سے اسے سمجھاتے بولی تو امن کئی سانیے خاموش سا رہ گیا۔۔۔
اگر اتنی ہی قدر ہے اپنے اور میرے رشتے کی تو پھر تم کیوں کہتی ہو_____؟" ایبرو اچکاتے وہ اب اسے چھیڑنے کے موڈ میں لب دبائے بولا ۔۔۔
حیا نے منہ بگاڑا تو یہ تو شادی سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اب خود سے بڑی لڑکی سے شادی کرو گے تو ایسا ہی ہو گا۔۔۔۔" وہ کندھے اچکاتے اسے شرارت کے سے انداز میں بولی ۔۔۔ امن نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا تو روم کے خاموش ماحول میں حیا کی کھلکھلاتی میٹھی کھلکھلاہٹ بکھرنے لگی۔۔
امن کو یقین نہیں تھا کہ یہ لمحے سچ میں بھی اسکی زندگی میں آئے تھے بے ساختہ ہی اسنے دونوں ہاتھ حیا کے دائیں رکھے جھکتے اسکی پیشانی پر لب رکھے تو حیا ایک دم سے خاموش ہو گئی ۔۔ آنکھیں موندے وہ سکون اپنے اندر اترتا محسوس کرنے لگی۔۔۔ امن نے واقعی اسے پا لیا تھا کیونکہ حیا نے اسے پانے دیا تھا۔۔۔ عورت اگر ڈٹ جائے تو مرد چاہے جو مرضی کر لے اپنی انا کی تسکین تو حاصل کر لیتا ہے مگر وہ سکون کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتا جو اس عورت کے ساتھ ہونے کے احساس سے اسکے اندر پیدا ہوتا ہے۔۔۔
ایسا ہی کچھ امن کے ساتھ بھی تھا۔۔۔ زندگی ایک دم سے رنگین لگنے لگی تھی ۔امن نے ہونٹ حیا کی ناک پر رکھے تو حیا کا سانس بوجھل ہونے لگا کمرے کی معنی خیز خاموشی میں حیا کا سانس ڈھول کی مانند چل رہا تھا ۔۔ کبھی فرصت سے تمہیں بتاؤں گا کہ تم بھاوں کیلئے کیا ہو لخت ِ جگر_______؟" اسے کیس کے سلسلے میں جانا تھا اسکا دل حیا کو چھوڑ کر جانے کا بلکل بھی نہیں تھا مگر وہ جانتا تھا اس دوری کے بعد آنے والی وصل کی رات اسے سرور بخشے گی ۔۔۔۔ جبھی حیا کے رخساروں پر شدت بھرا لمس چھوڑتے وہ پیچھے ہؤا۔۔۔۔
حیا نے حیا سے بوجھل پلکیں جھکا لیں۔۔ معا دروازہ ناک ہونے پر وہ دونوں ہی جیسے ہوش میں آئے تھے امن نے اسے خود میں بھینجتے حیا کے سر پر ہونٹ رکھے حیا آنکھیں موندے اسکے لمس کو محسوس کرنے لگی جبھی وہ اسے چھوڑتا دروازہ کھول گیا۔۔۔۔
ببب بھاوں ووو وہ_____!" سامنے ہی مٹھو حواس باختہ سا بلکل فق چہرے سے کھڑا تھا امن کو گڑبڑ کا احساس ہوا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے مٹھو صاف صاف بول۔۔۔ ایک پل لگا تھا اسے دوبارہ سے اپنے پہلے روپ میں آتے۔۔۔
وو وہ آنٹی(رمشہ) کی طبیعت ٹھیک نہیں ابھی ابھی انکل انہیں گاڑی میں ڈال کر ہاسپٹل لے گئے ہیں۔۔۔
کیا بکواس کر رہا ہے توں ۔۔۔۔ اسکی گردن دبوچتے وہ غصے سے بپھرتے دھاڑا تھا حیا بھاگتے امن کے قریب ہوئی جو کسی وخشی کی طرح مٹھو کی جان لینے کے دم پر تھا۔۔اممم امن چھوڑو اسے ہمیں پھپھو کے پاس جانا چاہیے ۔۔۔ حیا نے فورا سے اسکے ہاتھوں کو تھامنے کی سعی کرتے کہا تو امن نے جھٹکے سے مٹھو کو پیچھے کی جانب پھینکا۔
ہاں چلو تم وہ پاگلوں کی طرح کہتا باہر کی جانب اندھا دھند بھاگا تھا حیا اسکے پیچھے ہی تیزی سے بھاگی مگر گاڑی کے قریب جاتے امن نے جیسے ہی دروازہ کھولنا چاہا گزرے لمحوں کی اذیتیں یاد آئی تھی۔۔۔۔ایک دم سے چہرہ پتھر کی مانند سرد بے تاثر پڑا ۔۔۔ وہ ہاتھ پیچھے کو کھینچ گیا۔۔۔۔
امن چلو جلدی کرو ۔۔۔ " حیا نے اسکے چوڑے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔ نن نہیں تم جاؤ میں نہیں جاسکتا وہ نظریں چرائے بولتا واپس جانے لگا کہ حیا نے آگے بڑھتے اسے روکا۔۔۔
پیچھے ہٹو حیا۔۔۔۔۔امن نے اسے راستے میں حائل دیکھ دانت پیستے کہا۔۔ جانتے ہو میری پھپھو کی کیا غلطی ہے _____؟" ان کی غلطی ہے کہ انہوں نے اتنے سال اپنے بیٹے کو بے قصور مانا ۔۔۔۔۔اسکے غم میں اپنے آپ کو مرض لگا لئے پہروں بیٹھ کر اسے یاد کرتے روتی رہی۔۔۔مجھے دیکھ کر کہا کہ میرے امن کے لئے میں نے تمہیں سوچا تھا میری شادی میں آئی تو مجھے دعا دی کہ تم میرے امن کی امانت ہو میری دعا ہے کہ میرے بچے کے نصیب میں اللہ تمہیں لکھ دے۔۔۔اپنی ماں سے گھنٹوں تمہاری باتیں کرتی رہی رات کو۔۔۔ تمہارے غم میں اپنے دوسرے بیٹے کو فراموش کر دیا اپنے شوہر کے ساتھ ایسی خفا ہوئیں کہ آج تک کبھی ایک ساتھ وہ دونوں مسکرائے نہیں۔۔۔۔ جب دنیا تمہارے خلاف رہی تب وہ تمہارے لئے ڈھال بنی اور اس دن جب تم مجھے ہاسپٹل ملنے آئے تھے۔۔ اس دن میری پیشانی پر بوسہ دیے انہوں نے میرے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔۔ " حیا ہچکیوں میں کہتے ایک پل کو رکی تھی امن کے پورے وجود کا لہو اسکے چہرے پر سمٹ آیا۔ دل چاہا کہ دھاڑیں مار کے روئے کیسا بدنصیب بیٹا تھا وہ جو اپنی ماں سے ہی بدگمان ہو گیا تھا۔۔۔۔
انہوں نے کہا ابھی۔امن ملا تھا مجھ سے باہر ۔۔۔۔ میں نے پہچان لیا تھا اسے۔۔۔۔ اپنی اولاد کی خوشبو کوئی ماں کیسے ناں پہچانتی ہو۔۔ " وہ رکا نہیں حیا اسنے ایک بار بھی پہلے کی طرح میری پیشانی پر بوسہ نہیں دیا مجھے یہ نہیں کہا کہ ماما میں ہوں آپکے ساتھ تو پھر کس بات کا غم ہے۔۔۔۔ " حیا پلیز بس کر دو۔۔۔ امن کی آنکھوں میں ضبط کے باوجود بھی آنسوں جھلکنے لگے دل جیسے بند ہونے کو تھا اسنے منت بھرے لہجے میں کہتے اسکے ہاتھوں کو تھاما مگر حیا نے جھٹک دیا۔۔۔
انہوں نے کہا کہ میں ماں ہوں اسکے لئے دن رات تڑپتی ہوں اپنا آپ اجاڑ لیا میں نے اپنے جگر کے گوشے کیلئے وہ اولاد ہو کے بھی رخ موڑ گیا مجھے بھی ساتھ لے جاتا یہاں اکیلا کیوں چھوڑ گیا۔۔میری تو زندگی بستی تھی اس میں اسے ماں کا خیال بھی ناں آیا۔۔۔۔۔" حیا کہتے ساتھ ہی اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔۔۔ بھاوں کا دل چاہا کہ خود کو شوٹ کر دے پوری عمر جس اذیت سے اپنی ماں کو بچانے کو دور رہا اسے کیا معلوم تھا کہ اسکی ماں کی سب سے بڑی اذیت ہی امن کی دوری تھی۔۔۔
چلو حیا ماما کے پاس جانا ہے مجھے۔۔۔۔۔ " وہ چلتا حیا کے قریب پہنچا جو زار و قطار رو رہی تھی۔۔۔اسکا ہاتھ تھامے امن نے کسی معصوم بچے کی طرح کہا تو حیا نے اسکے ہاتھ کی پشت پر لب رکھے۔۔۔ اور پھر اسکی سنگت میں چلتی وہ گاڑی میں بیٹھے آج ایک بیٹے کو اسکی ماں سے ملوانے کا سوچتے ہی دل سے اپنے رب کی شکر گزار ہوئی تھی۔
چھوڑو مجھے تیمور نہیں تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔" تیمور کے کندھے پر موجود وہ مسلسل اپنے ہاتھ پاؤں چلاتے چیختے ہوئے بول رہی تھی اسکا بس نہیں تھا کہ ابھی تیمور کا خون کر دیتی۔۔ لو چھوڑ دیا۔۔۔" تیمور نے اندر جاتے اسے بیڈ پر پھینکتے کہا تھا، میرب گرتی اپنے چکراتے سر کو ہاتھوں میں تھامے جھٹ سے سیدھی ہوئی۔۔۔جبکہ تیمور اسے نظر انداز کیے دروازے کی جانب بڑھا اور پھر شرٹ اتارتے وہ فرش پر پھینکتے دوبارہ سے بیڈ کی جانب آیا۔۔
ییی یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔۔" تیمور کو اپنی جانب آتا دیکھ میرب جو اٹھی ترچھی بیٹھی تھی جھٹ سے پیچھے ہوتے وہ ہذیانی سے ہوتے چلانے لگی۔۔ اپنی واچ اتارتے تیمور نے ناگواری سے اسے گھورا۔۔۔ اندھی ہو کیا میر کم دکھائی دیتا ہے یار واچ اتار رہا ہوں اور ایک بات شور مت مچاؤ کیا سوچیں گے سب کہ شادی کی پہلی رات تیمور نے ایسا کیا ظلم کر دیا کہ میرب کی چیخیں باہر تک سنائی دے رہی ہیں۔
وہ خاصی بےباکی سے ہنستے گھڑی اتارتے میز پر رکھتا بولا تھا۔میرب اسکے بےباک جملے کو سنتے سن سی ہو گئی۔۔وہ لب بھینچتے خود کو بچانے کا۔کوئی طریقہ سوچنے لگی جو کہ فلحال نا ممکن تھا۔
میں بتا رہی ہوں تتت تیمور مممم میرے نزدیک ممم مت آنا۔۔۔۔۔"اسے اپنی جانب آتا دیکھ میرب نے ڈرتے اسکے چوڑے سینے اور پھر پھولے مسلز کو دیکھ لہجہ مضبوط بنانے کی کوشش کیے کہا تو تیمور سنتے ایبرو اچکاتے آگے بڑھا۔۔ میر جاناں ایسے کیسے چلے گا یوں بچوں کی طرح رونے دھونے کی کوئی ضرورت نہیں بی بریو اب تم مسزز تیمور شیرازی ہو۔۔۔"
وہ بیڈ پر ٹانگ رکھے میرب کی سہمی سرمئی بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھتے مسکراتا بولا تو میرب نے دانت پیستے اسے دیکھا۔جانتی ہو آج کا دن میری لائف کا سب سے بیسٹ دن ہے۔۔"تیمور مسکراتے اسکے پاس بیٹھتے بولا تو میرب جھٹ سے پاؤں نیچے کیے بھاگنے لگی مگر تیمور نے اسے کلائی سے دبوچتے جھٹکے سے پیچھے اپنی جانب کھینچا۔وہ چیختی اسکے کھینچنے پر ایک دم سے تیمور کے کشادہ سینے پر آ گری۔۔
میرب حواس بافتہ سی ہوئے تیمور کو دیکھنے لگی جس کی آنکھیں حدردجہ سرخ تھی جو بغور میرب کے چہرے کو ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔تتتت تیمور۔۔۔۔۔"تیمور نے ہاتھ میرب کی کمر کے گرد سختی سے حائل کیے اسے جھٹکے سے اپنے نیچے گرائے اس پر سایہ سا کیا۔۔ میرب کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا۔۔وہ خوفزدہ سی نم آنکھوں سے تیمور کو دیکھ رہی تھی جو مسکراتے میرب کے بالوں کو کھولتا اب اپنی ناک کے قریب کیے ان کی خوشبو کو خود میں انڈیل رہا تھا۔۔
میرب کا سارے وجود بری طرح سے کپکپا رہا تھا۔۔وہ جھپٹتی اپنے آپ کو تیمور کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی مگر تیمور نے مسکراتے اپنی دونوں ٹانگیں میرب کی ٹانگوں سے الجھائے اسے بلکل بے بس کر دیا۔۔ تم ایک نمبر کے۔۔۔۔۔"تیمور جو مدہوش سا میرب کی گردن سے بال ہٹائے اپنے ہونٹوں سے میرب کی گردن کو چوم رہا تھا میرب نے غصے سے اپنی پوری قوت لگائے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔۔۔
جانتا ہوں ایک نمبر کا گھٹیا،کمینہ بےشرم انسان ہوں۔۔۔یہ ڈائیلاگ کافی پرانا ہو چکا ہے جاناں کچھ نیا بولو۔۔۔اگر نہیں ہے کچھ بولنے کو تو مجھے ڈسٹرب مت کرو میں ایک ایک لمحہ جینا چاہتا ہوں تمہاری خوشبو کو خود میں اتارنا چاہتا ہوں۔۔۔ تمہاری قربت کے نشے میں بہک جانا چاہتا ہوں۔"
میرب کے کان میں سرگوشی کرتے تیمور نے ہونٹ میرب کے کان کی لو پر رکھے تو میرب جی جان سے لرزی۔۔ تیمور کے ہونٹ اپنی آنکھوں پر محسوس کیے میرب نے آنکھیں مضبوطی سے میچی تھی۔ اسکا سانس بھاری ہو رہا تھا وجود بلکل سن سا پیسنے سے شرابور تھا،اسکی تیزی سے دھڑکتی دھڑکنیں تیمور کو اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔
کمرے کے ملگجے سے اندھیرے میں وہ بیڈ پر اس وقت کسی چڑیا کی مانند تیمور شیرازی کے مضبوط حصار میں تھی جسکی ہر مزاخمت وہ بآسانی توڑ چکا تھا۔۔ اپنی تھوڑی پر تیمور شیرازی کے دہکتے ہونٹوں کا لمس محسوس کیے میرب کی ہچکی سی بندھی تھی آنکھیں روانی سے بہہ رہی تھیں۔۔وہ جانتی تھی اسکی ہر کوشش بےکار تھی آج وہ خود کو کسی بھی طور تیمور شیرازی سے نہیں بچا سکتی تھی۔۔
تیمور نے کھینچتے کمفرٹر خود پر اوڑھا اور بے حد نرمی سے میرب کے پھڑپھڑاتے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چھوتے وہ پیچھے ہوتے میرب ہے آنسوں سے تر چہرے کو دیکھے گیا۔۔۔۔ تیمور نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے اپنے دہکتے ہونٹ میرب کی پیشانی پر ثبت کیے تھے۔میرب نے ڈرتے خوف سے اپنے نچلے لب کو دانتوں تلے دبایا۔۔ ڈونٹ جانِ تیمور تم چاہت ہو تیمور شیرازی کی تمہاری رضا کے بنا کبھی بھی تمہارے قریب نہیں آؤں گا مگر تمہیں چھونے محسوس کرنے سے تم خود بھی نہیں روک سکتی مجھے۔۔۔۔"
وہ مسکراتے میرب کی بند پلکوں پر ہلکی سے پھونک مارتے ہنستے اسکے چہرے پر اپنی جسارتوں کی بکھری سرخی دیکھنے لگا۔میرب نے جھٹ سے آنکھیں کھولے خود پر سایہ بنے تیمور شیرازی کو دیکھا۔۔ تم تب سیو ہو جب تک تم اس گھر کی چار دیواری کے اندر میرے نام سے میرے کمرے میں ہو، میں تب تک تمہارے نزدیک نہیں آؤں گا جب تک تم خود مجھے قبول نہیں کرو گی۔۔" وہ ہنستے ہوئے میرب کی بے یقینی سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔
اور یہ چھوٹی موٹی جسارتیںں کرنے سے مجھے کوئی بھی روک نہیں سکتا تم کمرے میں چاہے جیسے مرضی رہو مگر کمرے سے باہر سب کے سامنے تمہیں ایک اچھی بیوی ہونے کا۔ثبوت دینا ہو گا۔۔میرے خلاف جانے کا سوچنا بھی مت کیونکہ اگر میرا دماغ گھوم گیا تو پھر کیا کیا کروں گا یہ میں خود بھی نہیں جانتا، میں نہیں چاہتا کہ میری میر جاناں کو میری وجہ سے کوئی بھی تکلیف اٹھانی پڑے تو جو جو جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلے گا۔۔۔" میرب کی آنکھوں پر لب رکھتے وہ پیچھے ہوا تھا۔۔
میرب تو سن سی کئی لمحوں تک تیمور شیرازی کو دیکھے گئی جو اب رخ پھیرے بیڈ کے آخری کنارے پر لیٹ چکا تھا۔۔۔میرب کے لیے یقین کرنا ناممکن تھا کہ آخر یہ وہی تیمور شیرازی تھا جو تھوڑی دیر پہلے اپنی شدتوں سے اسکا سانس روکے ہوئے تھا اور اب کیسے رخ پھیرے لیٹا تھا مگر جو بھی تھا وہ خوش تھی کہ اللہ نے اسے بچا لیا تھا۔۔۔
بیڈ سے اٹھنے کی کوشش بھی کی تو ساری رات میرے تنگ حصار میں گزارنی پڑے گی اور یقین جانو میں اتنا شریف نہیں ہوں کہ بیوی حصار میں ہو اور میرے ہونٹ قابو میں رہیںں باقی تم سمجھدار ہو۔۔۔۔" وہ یونہی کروٹ کے بل لیٹے بولا تھا میرب نے جھٹ سے اپنا پاؤں فرش سے اٹھائے کمفرٹر میں کیا اور پھر جلدی سے دوسری جانب کروٹ لیے وہ سونے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔۔۔
💥💥💥💥💥
یہ کس کا گھر ہے کڈنیپر۔۔۔"روز نے گھومتے اس خوبصورت سے گھر کو دیکھتے اشتیاق سے پوچھا تو انزِک نے گردن گھمائے مڑتے روز کو دیکھ اپنے ساتھ لگایا۔۔یہ میرا گھر ہے مطلب ہمارا گھر۔۔۔۔"وہ جھکتے مسکراتا روز کے چہرے پر آتے گولڈن بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے محبت سے بولا تو ناچاہتے ہوئے بھی روز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سی بکھری وہ نظریں چرائے آگے پیچھے دیکھنے لگی۔۔۔جبکہ اسکا یوں شرمانا انزِک کے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کر گیا۔
اندر چلیں۔۔۔۔۔" وہ اسے ساتھ لگائے محبت سے بولا تو روز نے گردن ہاں میں ہلائی۔۔کڈنیپر تمہاری ماما کو کیا ہوا ہے۔۔۔" وہ اندر آئے تو انزِک اسے صوفے پر بٹھائے کچن کی جانب بڑھا تھا میرب کے سوال پر وہ رخ پھیرتا سرد سانس فضا کے سپرد کیے اپنی شرٹ کے کف فولڈ کرنے لگا۔۔
بیمار ہو گئے ہیں تم دعا کرو کہ ٹھیک ہو جائیں۔۔وہ چلتا روز کے قریب ہوتے بولا روز کئی لمحوں تک اسے دیکھے گئی جس کی آنکھوں میں نمی واضع جھلک رہی تھی۔۔ تم روؤ مت کڈنیپر وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔۔" اسکے پیچھے چلتی وہ پریشانی سے بولی تو انزِک نے مڑتے اس چھوٹی سی لڑکی کو بغور دیکھا۔۔
جو اس وقت شارٹ سی سکرٹ اور پاجامے میں ملبوس سرخ و سفید رنگت کے ساتھ کھلے کندھوں تک جاتے گولڈن بال جو اسکے شانوں پر لہرا رہے تھے دوپٹہ وہ باہر صوفے پر ہی پھینک چکی تھی۔۔۔۔ وہ کوشش کے باوجود بھی ٹانگیں پھیلائے عجیب سے طریقے سے چل رہی تھی ان کپڑوں میں روز کو چلنا محال لگ رہا تھا۔۔
انزِک مڑتے اسکے قریب گیا اور جھکتے اسے بانہوں میں اٹھائے وہ کچن کی جانب بڑھا۔۔میں رو نہیں رہا بس اداس ہوں۔۔"نرمی سے اسے کاؤنٹر پر ایک جانب بٹھائے وہ ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھتے گہری نظروں سے روز کے چہرے کو دیکھتے بولا۔۔اچھا تم کیا کرنے والے ہو۔۔۔"
انزِک کی نظروں کو اپنے چہرے پر ٹکا پاتے وہ گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔بھوک لگی ہے۔۔۔" انزِک نے الٹا اسی سے سوال کیا۔۔۔ روز نے گردن ہاں میں ہلائی تو تھوڑا سا ویٹ کرو آج تمہیں کڈنیپر کے ہاتھوں کا کچھ مزےدار کھلاتا ہوں۔۔۔۔ انزِک نے جھکتے روز کے گال پر لب رکھتے کہا اور پھر ہیچھے ہوتا وہ شیلف سے سامان نکالنے لگا۔۔ روز نے بےساختہ ہی اپنے ہاتھ سے گال کو چھوا۔۔۔عجیب سا احساس تھا جو اسکے اندر سرائیت کرنے لگا۔۔
وہ شروع دن سے ہی اکیلی رہی تھی۔۔۔ ہر دو ماہ بعد اسکے دوست بدل دیے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایچ اے آر کرتا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ روز کی دوستی کسی سے بھی زیادہ گہری ہو۔۔۔ وہ اکیلے رہنے کی عادی تھی۔ شاندار محل نما گھر میں صرف ایک وہی تھی جو خاموش دیواروں کے ساتھ باتیں کرتی اپنی تنہائی پر کبھی کبھار روتے خود کو نوچتی تھی۔
ایچ اے آر ہر بار اسے ساتھ لے جانے کا وعدہ کیے پھر سے جھوٹ بولتا واپس چلا جاتا تھا ویسے بھی وہ سال بعد آتا تھا وہ بھی صرف چند دنوں کیلئے اور یہ دن بھی روز کیلئے کسی عید سے کم نہیں ہوتے تھے وہ راتوں جاگ کر اپنے بھائی کے پاس بیٹھتی اسے دیکھا کرتی تھی اسکی کھلکھلاہٹ سے تاریک پڑے درودیوار بھی جیسے خوش ہوتے تھے۔
مگر یہ خوشی صرف چند دنوں کی ہوتی تھی وہ ہر بار بھائی کے جانے کے بعد روتی تھی راتوں گھر سے باہر گزارتی تھی ایچ اے آر سے نارضگی جتانے کو وہ لڑکوں سے دوستی کرنے لگی کہ شاید وہ ڈرتا اسے ساتھ لے جائے مگر وہ فون پر اسے وارن کرتا لڑکوں سے دور رہنے کی ہدایت دیتے کال کٹ کر دیا کرتا تھا۔۔۔
کیا ہوا روز۔۔۔۔" اسے کھویا دیکھ انزِک چلتا اسکے قریب آیا تو روز نے نم آنکھوں کو جھپکتے سر نفی میں ہلایا۔۔۔ انزِک محسوس کر چکا تھا مگر فلوقت وہ اسے تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔ جبھی وہ مسکراتا روز کو عیناں اور الایہ کی بابت بتاتے ساتھ ساتھ کام کرنے لگا۔۔
💥💥💥💥💥
بھائی مجھے نہیں کٹوانے پلیز۔۔۔۔۔" عیناں منت کرتی نگاہوں سے ایل کی جانب دیکھتے بولی جو ہاتھ میں قینچی لیے اسکے سر پر کھڑا تھا جبکہ پیچھے ہی اسکے قریب سلیمان شاہ کھڑے مسکراتے اپنے بچوں کو دیکھ رہے تھے۔
عیناں دو دن سے ایل اور سلیمان شاہ کے ساتھ تھی ان دو دنوں میں ایل نے کسی چھوٹی بچی کی طرح اسکا خیال رکھا تھا اسکا ہر لاڈ بخوشی اٹھایا تھا۔ وہ رات ایل کے کمرے میں سوتی تھی جبکہ ایل روز رات اسکے بالوں کی مالش کرتے اپنی گود میں اسکا سر رکھتے اسے سلاتا تھا مگر ان دو دنوں سے وہ ایک منٹ کیلئے بھی نہیں سویا تھا وہ عیناں کے سونے کے بعد بھی اسکے قریب بیٹھا بس اسے دیکھتا تھا۔ جسے رب نے کسی نیکی کے صلے میں ایل کی زندگی میں شامل کیا تھا۔۔
سلیمان شاہ تو ان دونوں کو ایک ساتھ خوش دیکھتے ہی جیسے جی اٹھتے تھے۔ ایل کی کھلکھلاہٹ جو وہ اتنے سالوں سے مس کر رہے تھے عیناں کی وجہ سے وہ مسکراتا تھا اسکی چھوٹی چھوٹی شرارتوں میں خود بھی حصہ دیتے وہ بھرپور کوشش کرتا تھا اسے خوش رکھنے کی۔۔
عیناں روز صبح اسکے بال سنوارتی تھی بقول اسکے یہ بال اسکے بھائی کا حسن تھے۔ ایل کئی بار اسکی بات پر مسکراتا سر جھٹک دیا کرتا تھا۔۔اسکی۔دنیا ان اڑتالیس گھنٹوں میں عیناں کےگرد مقید ہو چکی تھی۔۔لیلی سے اسکا کوئی رابطہ نہیں تھا مگر وہ اپنی سن شائن کو بھولا نہیں تھا ۔۔ وہ بس اس وقت کو کھونا نہیں چاہتا تھا اب اسکا ارادہ بدل چکا تھا وہ حور کے ساتھ ساتھ عیناں کو بھی لے کر جانا چاہتا تھا سب سے دور اپنی دنیا میں۔۔۔
بھائی پلیز ناں کاٹیں ایسے ہی پیارے ہیں۔۔!" ایل کے ہاتھ کو تھامتے وہ منت کرنے لگی جو اسکے بالوں برابر کیے بے بی کٹ کرنے لگا تھا۔ ڈونٹ وری گڑیا میں بہت اچھے سے کاٹتا ہوں اپنے بال بھی خود ہی برابر کرتا ہوں
بھائی نہیں وہ بات نہیں۔۔۔۔" عیناں نے جلدی سے کہا تھا وہ یہ ناں کہہ سکی۔کہ۔ اگر اسکے بال کاٹنے کی بھنک بھی ویام کاظمی کو پڑی تو وہ اسکے پور پور کو اذہت میں مبتلا کر دے گا وہ نہیں بتا سکی کہ دنیا کے سامنے شریف دکھنے والا وہ شخص کس قدر پاگل تھا عیناں کے معاملے میں وہ اپنے دل کی بھی نہیں سنتا تھا۔۔
بیٹا میں اپنی گڑیا کو بلکل گڑیا بنانا چاہتا ہوں، صرف تھوڑے سے کٹ کروں گا"، ایل نے محبت سے کہا اور پھر بہت ہی ماہرانہ انداز میں عیناں کے سنہری بالوں کو کاٹتے وہ برش سے برابر کرتے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
عیناں نے ڈرتے آنکھیں کھولی تو پہلی نظر اپنے کٹے ہوئے بالوں پر پڑی وہ تھوک نگلتے ایل کو دیکھے گئی جو مبہوت سی نظروں عیناں کو دیکھ رہا تھا۔۔ سیاہ کلر کی گھٹنوں تک جاتی سکرٹ جس کے گلے پر سرخ اونی کپڑے سے نفاست سے کڑھائی کی گئی تھی دونوں جانب کندھوں پر بکھری سنہری زلفیں ، گرے کانچ سی گہری آنکھوں میں بے چینی لیے ،پھولے پھولے گلابی گال،باریک خوبصورت سرخ ہونٹ, چھوٹی سی تیکھی ناک جو سرخ ہو رہی تھی اوپر سے ماتھے پر بکھرے سنہری بال وہ مبہوت کر دینے کی حد تک حسین تھی ، ایل کئی لمحوں تک ساکت سا اپنی گڑیا کو دیکھتا رہا جو حسن کا پیکر بنے آنکھیں گھمائے کبھی سلیمان شاہ تو کبھی ایل کو دیکھ رہی تھی۔
“میں نے کہا بھی تھا کہ مت کاٹیں ۔۔۔۔۔وہ رونے کی سی ہو گئی تھی ، ایل اور سلیمان شاہ کی خاموشی سے اسے لگا کہ بال بہت برے کٹے ہوں جیسے یا پھر اسے سوٹ نہیں کیے۔۔ اوپر سے ویام کا خوف پل بھر میں اسکے گرے آنکھیں جھلک پڑی۔
وہ جانتی تھی ویام کو اسکی حرکت کا علم ہو چکا ہو گا اور اگر وہ دو دن سے خاموش تھا تو مطلب وہ سخت ناراض تھا یا پھر وہ کچھ بڑا کرنے والا تھا۔۔ عیناں کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ ایل نے بےساختہ ہی اسے سینے میں بھینجا۔۔۔اور پھر مسکراتے اپنے ڈیڈ کو دیکھا جو خود بھی مسکرا رہے تھے۔۔
میری باربی ڈول بہت پیارے لگ رہے ہیں یہ بال ۔۔۔ میری سوچ سے بھی زیادہ" ایل نے مسکراتے عیناں کی پیشانی پر لب رکھتے کہا تو عیناں نے ہچکی دبائے سر اسکے سینے میں چھپایا۔۔۔
💥💥💥💥💥
آپ نہیں مل سکتے حور سے۔۔۔۔۔" ویام نے پیچھے سے آتے وریام کو دیکھتے اٹل لہجے میں کہا تو وریام نے مڑتے دانت پیستے اسے گھورا۔۔۔ کیوں نہیں مل۔سکتا میں اس سے بیٹی ہے وہ میری اور مجھے اس سے ملنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔۔" وریام نے جبڑے بھینجتے ویام کو دیکھا اور پھر غصے سے زور دار لات بند دروازے کو۔رسید کی مگر دروازہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔۔
کوشش کر لیں آپ مسٹر کاظمی یہ آپ کا نہیں میرے کمرے کا دروازہ ہے۔۔۔۔" ویام نے دیوار سے ٹیک لگائے مسکراتے کہا تو وریام نے غصے سے اسکے گالوں پر نمودار ہوتے ان قاتل ڈمپل کو گھورا۔۔ یہ مت بھولو کہ یہ میرا گھر ہے اور ثور میری بیٹی ہے اسکا باپ میں ہوں۔۔۔" وریام نے جتانا ضروری سمجھا تھا،ویام سنتے سر ہلا گیا۔تو پھر کھول لیں دروازہ اور مل لیں اپنی بیٹی سے ۔۔۔" وہ مسکراتا وریام کاظمی کو زہر لگا تھا۔
درواہ کھول دو ویام۔۔۔۔" وہ ہارتے مٹھیاں بھینجتے بولا تو ویام کا قہقہ گونجا تھا۔ زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں تمہارا کچھ ہے میرے پاس بہت خاص مگر وہ تبھی ملے گا جب تم مجھے میری بیٹی سے ملنے دو گے۔۔۔ "
ابکی بار وریام نے اپنی بھوری آنکھوں میں ایک الگ سی شیطانی چمک لیے گردن اکڑائے کہا۔۔
میں جانتا ہوں مسٹر بھورے کاظمی اور یہ رہی وہ چیز۔۔۔۔" اپنی بھوری آنکھوں کو وریام کی آنکھوں میں گاڑھتے وہ شاطرانہ مسکراتا پیپرز اسکے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔۔ یییی۔۔۔۔۔"" وریام نے حیرت سے اپنے میسنے بیٹے کو دیکھا جو اب وریام کی حالت سے لطف اٹھاتا مسرور سا تھا۔
یہ میری عین کے ڈیڈ نے بھیجے ہیں ، ڈرائیورس پیپرز جن پر میری جان کے سائن بھی ہیں مگر نقلی۔۔۔۔" وہ لہراتے کاغذ وریام کے سامنے کرتے بولا جو سن سا ہو گیا کیا سچ میں یہ کوئی عام شخص تھا ۔۔۔۔؟" اور ابھی میں اپنی عین کے پاس جا رہا ہوں اسے ہمیشہ کیلئے اپنا بنانے۔۔۔۔" وہ جھکتے وریام کو رازداری سے بتاتا اسکے دیکھنے پر بے باکی سے آنکھ دبا گیا۔۔۔
وریام نے سرخ چہرے سے مٹھیاں بھینجتے اپنے آپ پر ضبط کیا وگرنہ دل تو اپنے بگڑے بدتمیز بیٹے کو دو لگانے کا چاہ رہا تھا۔ دنیا اسے شریف کہتی تھی مگر وہ کس قدر شریف تھا یہ بات الایہ ، اذلان, انزِک اور وریام کاظمی جانتے تھے۔ اور ہاں اگر دروازہ کھل گیا تو پرنسز سے مل لیجیے گا دراصل شام ہونے والی ہے اور مجھے ابھی بہت سی تیاریاں کرنی ہیں۔۔۔۔ " وریام کے کندھے سے مصنوئی دھول اڑاتا وہ اسے مکمل آگ لگائے ہنستا مغرور چال چلتا وریام کی آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا۔۔۔
اپنے نام کی چیخ سنتے ویام نے مسکراتے اپنی ہیوی بائیک کو فل سپیڈ سے سٹارٹ کرتے ایک نظر اپنے گھر پر ڈالی اور پھر تیزی سے ہوا سے باتیں کرتی سپیڈ سے وہاں سے نکلا۔۔
💥💥💥💥💥
انکل کک کیا ہوا ہے پھپھو کو۔۔۔۔!" حیا اور امن جو بھاگتے ہاسپٹل پہنچے تھے حیا نے اشعر کو دیکھتے بھاگتے اسکے قریب جاتے پوچھا ، اشعر چونکتے حیا کو دیکھے گیا حیا کی موجودگی حیران کن تھی اسکے لئے۔۔۔ مگر جونہی نظریں امن پر پڑی اسکے چہرے کے تاثرات سرد ہوئے تھے آنکھیں سخت چٹان جیسی ہر جذبے سے عاری تھیں۔
کیوں کیا لینے آئے ہو تم دونوں کوئی رشتہ نہیں تمہارا مجھ سے اور میری بیوی سے دور رہو ہم سے۔۔۔۔۔" اشعر نے امن کو دیکھتے بے مہری سے کہا تو حیا نے ڈرتے امن کو دیکھا جو گردن جھکائے کھڑا تھا۔۔
میں نے کہا جاؤ یہاں سے۔۔۔" امن نے اشعر کی بات کو اگنور کرتے آگے بڑھا تھا اسے بازو سے دبوچے وہ غراتے بولا مگر امن نے لمبا سانس لیتے اشعر کے ہاتھ کو جھٹکا ۔۔۔۔ آپ سے نہیں اپنی ماں سے ملنے آیا ہوں۔۔ آپ تو کیا دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے میری ماں سے ملنے سے نہیں روک سکتی ۔۔۔"۔ اسکے لہجے میں چٹانوں کے جیسے سختی تھی جیسے وہ اپنی بات پوری کرنے سے ذرا سا بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔۔
اشعر لب بھنجتے رہ گیا جبکہ امن اسے اگنور کیے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں سامنے ہی رمشہ کا بے ہوش کمزور وجود اسکی آنکھوں کے سامنے تھا، امن کے قدم جیسے بےجان ہو گئے تھے وہ لڑکھڑاتے قدموں سے بمشکل سے آگے بڑھ رہا تھا اپنا ایک ایک قدم اسے من من کا بھاری محسوس ہو رہا تھا۔۔
نرس جو انہماک سے اپنا کام کر رہی تھی اس نے چونکتے اس جوان مرد کو دیکھا،جس کی آنکھوں میں نمی تو قدموں میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ امن چلتا رمشہ کے قریب تر ہوا اور کپکپاتے ہاتھوں سے اسکے بےجان ہاتھ کو تھاما ۔۔۔
اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا سانسیں سینے میں الجھ رہی تھیں، اور آنسوں ایسے تھے جیسے صدیوں سے بہنے کو بے تاب ہوں۔ نرس گھبراتے باہر کو نکلی جبکہ امن اپنی ماما کے خوبصورت چہرے کو دیکھ جھکتے اپنے ہونٹ رمشہ کی پیشانی پر ثبت کر گیا۔۔ رمشہ کی پلکوں میں لرزش ہوئی امن کی خوشبو کو اپنے اطراف میں بکھرتا محسوس کرتی وہ جیسے بے قرار ہوئی تھی۔۔ امن نے مضبوطی سے اپنے عنابی ہونٹوں کو سختی سے دانتوں تلے دبایا۔۔
عیناں ادھر آؤ یہ ڈریس دیکھو پیارا ہے۔۔۔۔؟"ایل نے اسے بازو سے تھامے اپنے قریب کیا جو سلیمان شاہ کے ساتھ ساتھ ہمقدم ہوتے چل رہی تھی۔۔۔
وائٹ کلر کے خوبصورت سے باربی ڈریس کو دیکھتے عیناں ہنستے ایل کو دیکھنے لگی جو اس وقت بلیک ہڈ اور بلیک ہی جینز میں ملبوس پاؤں میں ریڈ جوگرز ڈالے ہوئے تھا،جب سے عیناں آئی تھی
وہ دونوں ایک ہی کلر کی ایک جیسی ڈریسنگ کرتے آ رہے تھے۔۔۔۔۔
عیناں اس وقت بلیک ہی ہڈ اور جینز میں ملبوس تھی مگر فرق یہ تھا کہ اس کے سر پر بلیک خجاب تھا،
جبکہ ایل نے ہمیشہ کی طرح اپنے بالوں کو سلیقے سے باندھا ہوا تھا۔۔
بھائی یہ تو کسی چھوٹی بچی کیلئے ہے۔۔۔ہاہاہہاہا۔۔۔۔!" وہ مسکراتے شیشے سے اندر ہینگ اس چھوٹی سی باربی ڈریس کو دیکھتے ایل کے بازو کو تھامے اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔
ایل نے اپنی سرخ ناک چڑھائے اس ڈریس کو گھورا کیا تھا جو وہ تھوڑی بڑی ہوتی اس کی باربی کے لئے بلکل فٹ ،مکمل۔۔۔۔
تو کیا ہوا میری باربی بھی تو چھوٹی سی ہے۔۔" ایل نے مسکراتے محبت سے عیناں کی پیشانی پر ہونٹ رکھے کہا تھا۔
دور کھڑی دو سرخ لہو نما بھوری آنکھوں نے طیش شدتِ اشتعال سے یہ منظر دیکھا تھا۔۔۔
سلیمان شاہ فون کال کی وجہ سے دونوں کو چھوڑتے ایک جانب ہوئے تھے۔۔۔
بھئی میں آئی ہوں اس مال میں وہاں نیچے والے ایریا میں ایسی ہی ڈریسز ہیں اور مجھے فٹ بھی ہو گا۔۔۔"
عیناں نے ایل کے ہاتھوں کو دیکھا جن میں کافی تعداد میں شاپنگ بیگز تھے۔۔ ہاں میری ڈول کیوں نہیں چلو لفٹ سے چلتے ہیں ۔۔۔"
ایل تو سنتا خوشی سے سرشار ہوا تھا اسنے سوچ لیا تھا وہ گھر جا کر ایک چھوٹی سی پارٹی ارینج کرے گا جس میں صرف وہ اور اسکی باربی ڈول ہوں گے۔۔۔۔
سلیمان شاہ کا بندوبست بھی وہ کر چکا تھا۔۔۔
وہ مسکراتا اپنی زندگی کو ساتھ لیے سامنے موجود لفٹ کی جانب بڑھا تھا۔ معا کوئی وجود زور سے ایل سے ٹکرایا تھا ایل کے ہاتھ میں موجود سارے شاپنگ بیگز نیچے گرے تھے۔۔
بھائ۔۔۔۔۔" عیناں نے غصے سے اس شخص کی پشت کو گھورا جو بلیو ہڈ سے چہرہ کور کیے ہوئے تھا۔۔
بیٹا آپ جاؤ میں ابھی آ رہا ہوں۔۔۔۔۔!" ایل نے اسے محبت سے دیکھتے کہا تو عیناں سر ہلائے لفٹ میں داخل ہوئی۔۔۔
سامنے ہی ایل شاپنگ بیگز اٹھا رہا تھا اور وہ اندر کھڑی اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق۔۔۔۔؟"
جان کا روگ ہے، بلا ہے عشق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
اپنے پیچھے سے کسی کے بھاری ۔مگر سرد آواز میں کہنے پر عیناں کا وجود سن سا پڑ گیا،
دل کی دھڑکنیں تیزی سے رقص کرنے لگیں۔۔اس آواز کو تو وہ لاکھوں میں سے بھی پہچان سکتی تھی۔۔
کیسا لگا ڈئیر وائفی۔۔۔۔۔۔۔!" عیناں کے شل ہوئے وجود کو دیکھتا وہ ہنستے اپنا ہاتھ پیچھے سے اسکے کمر کے گرد حائل کیے اسے خود سے نزدیک تر کر گیا ۔
عیناں کی آنکھوں میں ڈر خوف کے سائے منڈلانے لگے۔۔جبکہ مقابل اطمینان سے پیچھے ٹیک لگائے عیناں کی پشت کو سینے سے لگائے ہوئے تھا۔۔
ووو ویامممم۔۔۔۔۔ عیناں ڈرتے اسے پکارتی اپنے خوف کو جھوٹ ثابت کرنے لگی۔۔۔۔ جی جانِ ویام۔۔۔۔۔۔"
ویام نے اپنا دایاں ہاتھ اسکی گردن کے گرد لپیٹتے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔
جانتی ہو پچپن گھنٹے بیالیس منٹ اور تیس سیکنڈ ہو چکے ہیں تمہیں میرے گھر سے میرے اپنوں سے دور یعنی ویام کاظمی سے دور____!"
وہ دھیمی آواز میں عیناں کے کان میں سرگوشی کرتے اسے جی جان سے لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔۔عیناں نے تھوک نگلتے اپنے خوف پر قابو پانا چاہا تھا جو کہ نا ممکن تھا۔۔۔۔
آگے تم بیٹی بن کر رہ رہی تھی اب وہ رشتہ تو تم نے ختم کر دیا اب سے تم مسز ویام بن کر میرے ساتھ جاؤ گی ایک نئے رشتے سے دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے۔۔۔۔ "
وہ نفرت سے ایل کو گھورتے پھنکارا۔۔۔۔۔
ووو قیام چھوڑو بببھائی۔۔۔۔"عیناں نے وخشتزدہ سا ہوتے ایل کو پکارنا چاہا تھا مگر قیام کے بھاری ہاتھ نے اسکی آواز اندر ہی دبا تھی۔۔
ایل بیگز تھامے سیدھا ہوا تو سامنے ہی عیناں کو ویام کاظمی کی گرفت میں دیکھ اسکا سانس رک سا گیا تھا۔۔
ایل کو لگا جیسے کسی نے اسکا دل نوچتے اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیا ہو،اسکا دماغ سن ہو چلا تھا
یہ بات ہی اسے مارنے کو کافی تھی کہ حور نے ویام کو سب بتا دیا تھا اور وہ ایل کا بدلا ایل کی بہن سے لے رہا تھا۔
نننن ننننہییں عععیناںںںں۔۔۔۔" وہ چیختا دھاڑتے آگے بڑھا تھا ویام نے ایبرو اچکائے اسکی تڑپ پر داد دیتے اپنے ہاتھ میں پکڑا کارڈ باہر اچھالا تھا لفٹ ایک دم سے بند ہوئی تھی۔۔۔
ایل ہانپتا لفٹ کو مکوں سے پیٹنے لگا۔۔ اسکی آنکھوں میں خوف وخشت کا جہاں آباد تھا۔
سانس سینے میں اٹک رہا تھا جیسے اب وہ سانس بھی نہیں لے پائے گا۔۔وہ بھاگتا نیچے کو جانے لگا،
کہ معا سلیمان شاہ نے اسکا ہاتھ تھامے حیرانگی سے اسے دیکھا۔ کیا ہو گیا ہے ایل کہاں جا رہے ہو۔۔۔؟"
سلیمان شاہ نے اسے سامنے کرتے متفکر سا ہوتے پوچھا تھا۔
ڈڈڈ ڈیڈ وو وہ ووویام وہ مم میری ڈول کو لے گگگیا۔۔۔ووو وہ مم مجھے جانا ہو گا۔۔۔ اپنی ڈڈ ڈول کو بچانے____"
وہ گھبرایا خوف زدہ سا کہتے جانے لگا کہ سلیمان شاہ نے اسے پھر سے جکڑا۔۔۔
کیا ہوگیا ہے ایل ری لیکس رہو_____وہ کچھ نہیں کرے گا عیناں کو۔۔۔"
سلیمان شاہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے ویام کبھی بھی عیناں کو تکلیف نہیں دے سکتا۔۔
ڈیڈ آپ نہیں جانتے وہ وہ میری ڈول کو تکلیف دے گا میں جانتا ہوں۔۔۔"وہ سنتا پاگلوں کی طرح بولا تھا۔۔۔۔ ایل پاگل مت بنو وہ شوہر ہے عیناں کا۔۔۔
کچھ نہیں کرہے گا وہ____!" اسے جھنجھوڑتے وہ اونچی آواز میں بولے تھے۔۔۔
ایل جو بپھرا پریشان سا تھا اب سنتا ایک دم سے جھٹکوں کی ضد میں آیا۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں ڈیڈ آپ __؟"
وہ حیرت زدہ سا اس انکشاف پر آنکھیں پھاڑے انہیں ڈرتے دیکھ رہا تھا آخر کیسا مذاق کیا تھا اس کی زندگی نے اسکے ساتھ۔۔۔
عیناں کی شادی ویام سے۔۔۔اگر ویام کو حور نے سب بتا دیا ہوا تو ۔۔۔۔۔۔! وہ اس وقت کوئی پاگل دکھ رہا تھا۔۔۔
اندر موجود ڈر ایک خوف تھا جو اس وقت اسکے دل و دماغ پر سوار تھا۔۔ ننننن نہیں میں اپنی ڈول کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"
وہ سر نفی میں ہلاتے بھاگتے لفٹ کے جانب گیا تھا اور فورا سے جھکتے اس ایڈریس کو اٹھایا جو ویام پھینک کر گیا تھا ۔۔
چلو ایک شرط لگاتے ہیں ویام کاظمی کے اپارٹمنٹ کا ایڈریس ہے، یہ تمہیں جگہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو گی،
اگر تم آدھے گھنٹے تک اپنی بہن کو یہاں سے ڈھونڈ کر لے گئے تو پھر میں کبھی اسے لینے نہیں آؤں گا اور اگر نہیں تو پھر تم اسے کبھی بھی لینے نہیں آؤ گے ۔۔۔"
ویام نے ایڈریس کے ساتھ واضخ چیلنج کیا تھا جسے پڑھتے ایل کی نیلی آنکھوں میں غصے کی سرخی سی دوڑنے لگی۔۔
میں آؤں گا ویام کاظمی اپنی بہن کو تو لے کر ہی جاؤں گا۔۔۔۔!" وہ غصے سے اس ایڈریس کو مٹھیوں میں دبوچتے سرد مگر مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔۔
💥💥💥💥💥
وووویامممم اتارو مجھے نہیں جانا میں نے تمہارے ساتھ،۔۔۔۔۔۔" وہ روتی خوفزدہ سی گاڑی سے باہر نکلنے کی سعی کرتے چلائی تھی اسکا پورا وجود سن سا تھا
ویام کاظمی کا خوف اسکے وجود کو سن کر رہا تھا۔
ویام نے شرر بار نظروں سے عیناں کے آنسوں سے بھیگے چہرے کو دیکھا تھا گردن کی رگیں ایک دم سے پھولیں تھی وہ مٹھیاں بھینجتے اپنے اشتعال کو دبا رہا تھا۔
گاڑی اپارٹمنٹ کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے ایک زور دار جھٹکے سے رکی۔۔
عیناں نے مضبوطی سے ویام کے کندھے کو اپنے نازک ہاتھوں سے جکڑا۔۔۔
ویام نے سرد سانس خارج لیے عیناں کے کپکپاتے نازک وجود کو دیکھا اور پھر جلدی سے بے دردی سے اسکے ہاتھوں کو جھٹکتا وہ تیزی سے باہر نکلا تھا۔۔
عیناں کی کانچ سی گہری آنکھوں میں خوف ہلکورے مار رہا تھا۔ وہ تھوک نگلتے ویام کو اپنی جانب آتا دیکھ دونوں ہاتھوں سے سیٹ کو مضبوطی سے تھام گئی۔
نننن نہیں مجھے نننہیں جانا ۔۔۔" وہ روتے بلکتے سوں سوں کرتے بولی تھی۔ ویام نے اپنے آہنی مضبوط ہاتھ میں اسکے نازک ہاتھ کو دبوچتے کھینچتے اسے باہر نکالا،
تو عیناں جھٹکے سے باہر نکلتی ویام کے کشادہ سینے سے جا لگی۔ڈارلنگ گھبراؤ مت تمہارے بھائی کو ایڈریس دے کر آیا ہوں اگر آج وہ تمہیں میری پناہوں سے چرا کے لے گیا،
تو وعدہ رہا ویام کاظمی کا کبھی مڑ کر تمہیں دیکھوں گا بھی نہیں۔۔۔
اور اگر آج رات وہ تمہیں ناں ڈھونڈ سکا تو آج رات تمہیں میری دسترس میں میری ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔۔!"
عیناں کے آنسوں سے تر چہرے کو اپنے ہاتھ کی مدد سے اٹھائے وہ شدت سے اسکے چہرے پر بہتے آنسوؤں کو اپنے ہونٹوں سے چنتا گھمبیر لہجے میں بولا ۔۔۔
عیناں اپنے چہرے پر ویام کے دہکتے آگ کی مانند گرم ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتی سانس روک سی گئی۔۔دل جیسے پسلیوں سے باہر آنے کو تھا۔۔
عیناں نے آنکھیں میچے خود پر جھکے ویام کے کندھوں کو مضبوطی سے تھاما تھا وہ جانتی تھی اگر ویام نے یہ بات کی ہے تو آج اسے ویام سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
وہ لرزتی اسے منانے کی ترکیب سوچنے لگی مگر آج ویام اسے کچھ بھی بولنے نہیں دینا چاہتا تھا جبھی وہ جھٹکے سے پیچھا ہوا۔۔
اور فورا سے عیناں کے ہاتھ کو جکڑتے وہ اندر داخل ہوا، ووو ویام پہپہ پلیز نہیں۔۔۔۔"
وہ ڈری سہمی سے اسکے ساتھ گھیسٹتی بول رہی تھی جو بنا سنے اسے ساتھ لئے سیڑھیاں چڑھتے اب اوپر چھت پر گیا تھا۔۔
ویام نے اوپر جاتے جھٹکے سے اسے کسی کانچ کی گڑیا کے مانند سامنے کیا ۔۔۔ کالے خجاب میں دمکتا عیناں کا سرخ و سفید چہرہ پھولے پھولے گلابی گال جو سرخ ہو رہے تھے،
ویام کو اپنے اندر جذبات کا طوفان سے اٹھتا محسوس ہوا وہ بھاری قدم اٹھائے اسکے قریب ہوا تھا۔
عیناں آنکھیں پھیلائے پیچھے دیکھ رہی جہاں سویمنگ پول بنا تھا۔۔۔پول کا نیلا پانی جس میں جگمگاتی روشنی کی کرنیں پڑ رہی تھی
عیناں نے حیرت سے اس منظر کو دیکھا ، وہ پہلے بھی ویام کے ساتھ یہاں رہ چکی تھی مگر اس پول کے بارے میں اسے کچھ علم نہیں تھا ۔۔۔
وہ حیرت زدہ سی گھبراتے یہ سوچ رہئ تھی کہ ویام اسے کمرے کے بجائے یہاں کیوں لایا تھا۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ ویام کاظمی تھا۔۔ اسے صرف انسان اتنا ہی جان پاتا تھا جتنا کہ وہ کسی کو اپنے متعلق جاننے کی اجازت دیتا تھا۔۔۔
عیناں کو یقین تھا کہ ایل اسے لینے آئے گا مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس بار اسکے سامنے ویام تھا۔۔
جانتی ہو مجھے جب علم ہوا ناں کہ تم کل کے آئے اپنے اس باپ کی وجہ سے سب کچھ چھوڑ کر چلی گئی ہو تو میرا دل یہ یہاں بہت درد اٹھا تھا۔۔
مگر پھر مجھے درد نہیں ہوا جانتی ہو کیوں۔۔۔۔" وہ قدم قدم اٹھاتا اسکے قریب ہو رہا تھا،
جو ڈرتی الٹے قدموں سے پیچھے ہوتی سہمی ہرن کی مانند لرزتئ ویام کی بھوری سرخ آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
سرخ و سفید روشنیاں ویام کے حسین چہرے پر جابجا پڑ رہی تھیں۔
عیناں نے سانس روکتے اسے دیکھا جسکے ہنسنے پر اسکے چہرے پر نمودار ہوتے وہ حسین ڈمپل اسکا سانس روک دیا کرتے تھے۔۔
کیونکہ مجھے جنون نہیں تمہارا۔۔۔۔۔۔۔" ویام نے فاضلہ سمیٹتے قدم آگے بڑھائے اور بائیں ہاتھ سے واچ اتارتے سامنے ایک جانب پھینکی۔۔۔
ویام کی بات پر عیناں کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔۔
کیونکہ مجھے الفت ہے تم سے اپنے عشق سے۔۔۔۔۔ میری یہ الفت میرے جنون کو ہرا دیتی ہے۔۔۔"
اپنی بھوری سرخ ہوتی آنکھوں کو عیناں کے لرزتے نازک وجود پر گاڑھے وہ سیکنڈوں میں ہڈ اتارتے دور اچھال گیا۔۔۔
وہ کیا کرنا چاہ رہا تھا۔ عیناں کا دل دھک دھک کرتا سینے سے پٹھک رہا تھا۔۔
آج سہی معنوں میں وہ ویام کاظمی سے ڈر رہی تھی۔۔ویام نے آگے بڑھتے اس فاصلے کو سمیٹا ، عیناں کا نازک سا سراپا اس خجاب میں چھپا تھا،
وہ بمشکل سے اسکے سینے تک پہنچتی کوئی چھوٹی بچی ہی دکھائی دے رہی تھی۔۔
جو چوڑے کندھوں تواناں وجود کے ساتھ کوئی دیو محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
لیٹس میک دِز نائٹ سم اسپیشل۔۔۔۔۔۔!" ویام نے جھٹکے سے اپنا بھاری ہاتھ عیناں کی نازک کمر میں حائل کیے اسے اوپر اٹھائے اسکے چہرے پر جھکتے کہا تھا۔
عیناں کی ریڑھ کی ہڈی میں اسکے انداز پر سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔ ویام نے مسکراتے عیناں کے نازک کپکپاتے لبوں کو چھوا اور پھر جھٹکے سے اسے اٹھائے پول میں پھینکا ۔
اہہہہہہ ووویاممممم۔۔۔" عیناں ایک دم سے خود کو پانی میں محسوس کرتی چیختے دخشت زدہ سی ہوتے اسے پکارنے لگی۔۔
جو اطمینان سے شوز اتارتے وہیں رکھتا اب پانی میں ڈوبتی عیناں کو دیکھ رہا تھا۔
عیناں اس ٹھنڈے پانی میں شل ہوئے وجود کے ساتھ خود کو ڈوبنے سے بچانے کو ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔
اسکی آنکھوں سے بہتے انسںوں پانی میں گرتے بے مول ہو رہے تھے۔ پورا وجود سنسنا رہا تھا، اس قدر ٹھٹرا دینے والی ٹھنڈ میں وہ یخ پانی میں ہچکولے کھاتی اس ستم گر کو بلانے کی کوشش کر رہی تھی،
جو پول کے قریب کھڑا عین کو دیکھ رہا تھا۔
معا عیناں کو اپنی آنکھیں بند ہوتی محسوس ہونے لگی۔۔۔۔ہونٹ نیلے پڑ گئے وہ سرخ چہرے سے بے سدھ سی ہوتے اب اپنے آخری سانس بھر رہی تھی۔۔۔
جب ایک دم سے ویام نے اسے دونوں ہازووں میں بھرتے اونچا کیا تھا۔۔۔
عیناں بری طرح سے کھانستے خود کو ہوا میں دیکھ سن ہوئے دماغ سے آنکھیں پھیلائے ڈرتی خود کو دیکھنے لگی کہ وہ کہاں تھی اس وقت ابھی تو وہ ڈوب رہی تھی۔۔
ابھی تو رات باقی ہے عین ایسے کیسے تمہیں تڑپا سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔ "
معا اسے کسی بچے کی مانند سینے سے لگاتے ویام نے اسے کان میں جھکتے گہری سرگوشی کی تھی۔
عیناں نے غصے سے اپنے دانت اسکی گردن پر گاڑھے تھے وہ جانتی تھی وہ اسے ستا رہا تھا خود سے دور رہنے کی سزا دے رہا تھا مگر وہ انجان تھی،
یہ نہیں جانتی تھی کہ آج ویام کاظمی کس طرح بارش بن کر اس پر برسنے والا تھا کیسے اپنے جذبات اپنی شدتوں سے اسے نڈھال کرنے والا تھا۔۔
ویام نے مسکراتے اپنی گردن پر اسکے تیز دانتوں کے لمس کو محسوس کیے، اپنا بھاری ہاتھ عیناں کی کمر پر سہلایا۔ عیناں اسکے پرحدت ہاتھ کے لمس پر ساکت سی ہو گئی۔۔۔
ابھی تو بہت سے حساب بے باک کرنے ہیں مجھے، ویام نے ہاتھ عیناں کی گردن کے گرد لپیٹتے عیناں کے کپکپاتے نیلے پڑتے ہونٹوں کو دیکھتے کہا تھا۔
اور پھر ایک دم سے جھکتے وہ ان نازک پنکھڑیوں کو اپنے ہونٹوں میں قید کرتا پول کی گہرائی میں جانے لگا۔۔
عیناں ڈر خوف سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ جو شدت سے اسکے ہونٹوں کو قید کیے ایک جانب بنے سٹیئرز کے قریب گیا۔
اور پھر ہاتھ سے کوئی بٹن کلک کرتے وہ یونہی اسے سینے سے لگائے عیناں کی سانسوں میں اپنی دہکتی سانسیں انڈیل رہا تھا۔۔
لمحوں کا کھیل تھا دیکھتے ہی دیکھتے پول کا سارا پانی غائب ہوا تھا ۔
عیناں کو نڈھال ہوتا دیکھ ویام نے نرمی سے اسکے ہونٹوں کو آزادی دی مگر اسکے نازک ہاتھوں کو تھامے،
وہ شانوں کے نیچے سے لے جاتا پیچھے سے اپنے کندھوں پر مضبوطی سے رکھ گیا۔۔ عیناں حیرت سے کنگ اس پول کو دیکھ رہی تھی جو یوں خشک تھا جیسے اس میں پانی کی ایک بوند بھی ناں ہو۔۔۔۔
کہا تھا ناں کہ اگر تمہارا بھائی تمہیں ڈھونڈ لے تو پھر کبھی دیکھوں گا بھی نہیں تمہیں۔۔۔۔ " حجاب میں لپٹی عین کی پیشانی پر بوسہ دیے وہ گہرے مگر پراسرار لہجے میں بولتا اسے ٹھٹکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔
ویام نے مسکراتے اسکی پھیلی آنکھوں کو دیکھا اور پھر اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ناخن کو اسکے سامنے کرتے دبایا۔۔
اسکی آنکھوں میں پراسراریت تھی جو عیناں کو سہما رہی تھی۔
عیناں نے غور سے اسکے ہاتھ کی انگلی کو دیکھا جسے وہ دبا رہا تھا
اور پھر معا ایک دم پیچھے پول کی دیوار سے کچھ گرنے کی آواز آئی عینان اسکے حصار میں کھڑی کپکپاتے ٹھنڈ سے لرزتے وجود سے گردن گھمائے پیچھے دیکھنے لگی ،
جہاں دیکھتے ہی دیکھتے ایک دروازہ نمودار ہوا تھا۔۔۔
عیناں کا وجود جھٹکوں کی ضد میں تھا۔ وہ منہ کھولے بھیگے سراپے میں اس کی پناہوں میں کھڑی اپنی آنکھوں میں حیرانگی سموئے ویام کو دیکھنے لگی۔۔۔
کہاں تھا دنیا مجھے اتنا جان سکتی ہے جتنی میں کسی کو اپنے بارے میں جاننے کی اجازت دوں۔۔۔۔"
وہ کندھوں اچکائے عیناں کی پھیلی آنکھوں میں دیکھ کہتا جھکتے اپنے ہونٹ عیناں کے سینے پر دل کے مقام پر ثبت کر گیا۔۔
ویام نے نرمی سے اسے بانہوں میں بھرا تھا۔۔۔ عیناں اسکے خوف سے ڈری سہمی اسکی بانہوں میں سر جھکائے ہونٹ کچل رہی تھی۔۔۔
ویام اسے یونہی اٹھائے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔۔ دروازے خودبخود بند ہوتے ساتھ ہی سویمنگ پول میں پھر سے پہلے کی طرح نیلا پانی لہرا رہا تھا۔۔۔۔
ویام راہداریوں سے گزرتا آگے بڑھ رہا تھا ہر سوں پھیلی یہ معنی خیز جتلاتی خاموشی عیناں کے اوسان خطا کر رہی تھی۔۔۔
ویام کا ہر اٹھتا قدم جیسے اسکے دل پر پڑ رہا تھا۔۔ویام نے پاؤں سے دروازے دھکیلا تو اندر بکھرے گلابوں کی تیز خوشبو نے ہوا کے جھونکے کے ساتھ ان دونوں کو چھوا تھا۔۔۔
عیناں کا دماغ چکرا سا گیا، وہ آنکھیں پھیلائے حیرت زدہ سی لرزتی پورے کمرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جہاں بیڈ کے نام پر فرش پر ایک جانب بیڈ کے جتنا اونچا میٹرس (گدا) لگایا گیا تھا۔ پورے کمرہ سرخ گلابوں سے ڈھکا پڑا تھا،
کوئی ایک بھی کونا اییسا نہیں تھا جہاں پر گلاب کے پھول ناں بکھرے ہوں۔۔ عیناں نے تھوک نگلتے اس خاموشی کو توڑنا چاہا تھا۔
وہ جلدی سے خود ہی اسکی گود سے نکلتے دور کھڑی ہوئی ویام نے ایک نظر عیناں کی بھیگے سراپے پر ڈالی اور پھر چلتا بورڈ کی جانب بڑھا۔۔
کمرے میں۔ ایک دم سے مدہم سی روشنی بکھرتے ماحول کو مزید فسوں خیز بنا گئی۔۔۔عیناں اسے پردوں کے ساتھ الجھا دیکھ دبے پاؤں بھاگنے لگی،
کہ معا اسے دروازے کے قریب سے جھپٹتے ویام نے بے دردی سے اسکی کمر کو دبوچا۔۔۔اور جھٹکے سے اسکے خجاب کو اتارتے دور پھینکا۔۔
عیناں کے سنہری بال جھٹکے سے کھلتے ویام کے چوڑے کندھوں پر بکھرے تھے وہ ڈرتی خوف سے آنکھیں میچ گئی۔۔اہہہہ____"
ویام نے اسکی کمر کے گرد گرفت سخت کی تو بے ساختہ ہی عیناں کے منہ سے چیخ نکلی تھی۔۔
کہا تھا ناں کہ اگر میری اجازت کے بغیر اپنے وجود کے کسی حصے کو بھی تبدیل کرنا چاہا تو تم ویام کاظمی کا وہ روپ دیکھو گی جس سے آج تک ناآشنا رکھا میں نے_____!"
عیناں کی کمر کے گرد گرفت مضبوط کرتے ویام نے جھکتے جارخانہ انداز میں عیناں کے نقوش کو چھوتے سرگوشی کی۔۔۔
عیناں خوفزدہ سی لب بھینجتے اپنے رخسار پر اسکے دانتوں کو گڑھتا محسوس کرتی رو دینے کو تھی۔
اسکا سانس بند ہو رہا تھا وجود ٹھنڈ سے لزر رہا تھا اس وقت ویام کی قربت میں آگ کی مانند سلگتا انگارہ ہو رہا تھا۔
ویام اسے تھامے یونہی مڑتے میٹرس تک گیا تھا۔۔ عیناں بے جان سی اس کے سہارے کھڑی تھی۔۔۔۔
عیناں کی لرزتی پلکوں ، بھیگے چہرے پر بکھری سرخی ، سرخ ہوئے پھولے پھولے گالوں سے ہوتے قیام کی نظریں اسکے بھیگے سراپے میں اٹکی۔۔۔۔
ویام نے مدہوشی سے اپنے سلگتے ہونٹ عیناں کی گردن پر رکھے تو عیناں نے ڈرتے ویام کے جان لیوا شدت بھرے لمس پر اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا،
کمرے کے معنی خیز خاموش ماحول میں عیناں کی تیز تیز چلتی سانسیں ویام کو مزید بہکا رہی تھیں۔
۔ اپنے سلگتے ہونٹوں سے عینان کی گردن کو چھوتا وہ آج ایک الگ ہی دنیا میں تھا۔۔۔۔
عیناں کا نازک وجود ویام کاظمی کی قربت اسکے شدت بھر دہکتے لمس پر لرزتا زمین بوس ہونے کو تھا وہ مکمل طور پر ویام کے سہارے کھڑی تھی۔۔جو آج اپنی شدتوں سے اسکی جان لینے کے دم پر تھا۔
عیناں کے لرزتے وجود کو دیکھ ویام نے کسی کانچ کی گڑیا کی مانند اسے بانہوں میں سمیٹتے میٹرس پر لٹایا جو بری طرح سے کپکپا رہی تھی۔۔
ویام اسپر جھکا اپنے دونوں ہاتھ اسکے اطراف میں رکھے عیناں کے ماتھے پر بکھرے ان سنہری کٹ ہوئے بالوں کو انگلی میں لپیٹ رہا تھا۔۔
جانتی ہو میں نے سوچا تھا کہ جب تک تمہاری سٹڈی مکمل ناں ہو جائے میں تم پر کوئی بوجھ نہیں ڈالوں گا،
تم آرام سے سٹڈی کمپلیٹ کرو گی تو پھر ہم اپنی زندگی کی شروعات کریں گے مگر وہ کیا ہے ناں کہ اب تم سے دوری ویام کاظمی کے لیے سوہان روح ہے جانم۔۔۔۔
اور کچھ تمہادی عنائتیں مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔۔۔۔"عیناں نے بھینجے لبوں سے آنسوں سے تر سرخ چہرے سے اسے گھورا۔۔۔۔
ووووو ویاممممم پپپپلیز۔۔۔۔۔" وہ روتے اسکے شرٹ لیس سینے پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے کرنے لگی ،
مگر ویام نے اپنی بھوری سرخ آنکھوں سے عیناں کو دیکھ اسکے ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لیتے، تکیے سے لگائے اس پر جھکتا بغور اسے دیکھنے لگا،
جو تیز تیز سانس لیتی خوفزدہ سی مچل رہی تھی۔۔۔
تم نے الفت دیکھی ہے میری، عشق دیکھا ہے میرا مگر جنون______!"ویام نے جھکتے سرد لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کرتے اپنے دیکھتے ہونٹوں سے عیناں کے کان کی لو کو چوما۔۔۔
جو جی جان سے لرزتے گھبرائی سی اسے خود سے دور کرنے کو مچل رہی تھی۔۔
ویام نے ایک ہاتھ سے عیناں کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے اپنے دوسرے ہاتھ سے میٹرس پر بکھری ان سرخ پتیوں کو سمیٹتے عیناں کے چہرے پر بکھیرا ۔۔۔۔
عیناں کی تیز ہوتی دھڑکنیں ویام کی دھڑکنوں سے ملتی ایک الگ ہی سُر بکھیر رہی تھی۔۔۔
ویام نے گہری نظروں سے عیناں کے حسین چہرے اسکے ہونٹوں پر بکھری ان سرخ پتیوں کو دیکھا ،
اور جھکتے اسکے چہرے کو اپنے دہکتے ہونٹوں سے چھوتے ویام نے ان گلاب کی پتیوں کو اپنے لبوں سے چنا تھا۔۔
عیناں کا نازک وجود ویام کے بوجھ سے سن ہو رہا تھا ٹانگیں بلکل بے جان تھیں،
سانس سینے میں الجھ رہا تھا مگر ویام کا یہ جنونئ روپ اسکے رونگٹے کھڑے کر رہا تھا۔۔۔۔ویام نے جھکتے اپنے ہونٹوں سے عیناں کے ہونٹوں پر پڑی
ان نازک گلاب کی پتیوں کو چنا تو عیناں کا چہرہ دہکتے انگارہ ہونے لگا۔۔ اپنے چہرے پر ویام کے پرحدت ہونٹوں کے لمس کو۔محسوس کرتی وہ آج روح تک کانپی تھی۔۔
تمہارے وجود کا حصول میرے لئے معنی نہیں رکھتا، تمہاری روح تک رسائی میری زندگی کا مقصد ہے۔۔۔۔۔
میں نہیں چاہتا عین کے اپنے جذبات جو اتنے سالوں سے میں نے چھپا کر رکھے ہیں ان سے آج تمہیں کوئی تکلیف دوں مگر اب یہ نا ممکن ہے،
کیونکہ آج تمہیں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے نام کر لینا چاہتا ہوں، اور میں کر کے رہوں گا۔۔۔"
عیناں کی شفاف گردن پر اپنے سلگتے ہونٹوں کا لمس چھوڑتا وہ گہرے لہجے میں بولا تھا۔۔
وییامممم اپنے کندھوں سے سرکتی ہڈ کو محسوس کرتے عیناں کا سانس دب سا گیا تھا،
اسے لگا کہ اب وہ سانس بھی نہیں لے پائے گی۔۔مگر ویام جھکتے اسکے ہونٹوں کو قید کرتے عیناں کی ساری مزاحمت کو اپنے لبوں سے چنتے اسے خود میں گم کرتا چلا گیا۔۔
ویام کی بڑھتی شدتیں اسکی جنونیت، پر وہ نازک سی جان ناچاہتے ہوئے بھی اپنے آپ اسکے سپرد کر گئی،
جو کسی بادل کی طرح عیناں پر سایہ کیے اس کے پور پور کو چھوتے اپنی الفت اپنے عشق کی الگ داستان رقم کر رہا تھا۔۔
اذلان واپس آؤ پلیز بات تو سنو میری،،"الایہ نا چاہتے بھی اسکے غصے اور ناراضگی سے بے چین سی ہوتی اسکے پیچھے ہی باہر نکلی تھی،،
چاروں طرف پھیلے گھپ اندھیرے میں جہاں رات کے اس وقت سخت برفباری کے بعد خون جما دینے والی ٹھنڈ تھی،،
وہیں الایہ بنا کوٹ پہنے، جوتوں کے بغیر اسکے پیچھے ہی باہر نکلی،اسے لگا تھا کہ شاید وہ قریب ہو گا مگر وہ اسے ڈھونڈنے میں ناکام ہوئی تھی،،
اذلانننننن_____ عجیب سے سرد موسم میں وہ گہرے اندھیرے میں اسے آوازیں دیے ایک سمت پاؤں کے نشانات کو دیکھ چلتی جا رہی تھی،،،
الایہ نے ماتھے پر بل ڈالے ہانپتے اپنے سینے پر ہاتھ لپیٹے سامنے دیکھا۔
اذلان اپنے پیچھے الایہ کی آہٹ پر فوراً سے چونکتے مڑا تھا،مگر سامنے ہی اسے ننگے پاؤں اور بنا جیکٹ کے یوں ٹھٹرا دینے والی ٹھنڈ میں دیکھ وہ بھاگتے اسکے قریب ہوا،،
پاگل ہو تم کیا کر رہی ہو باہر،،،"الایہ کو بازوؤں سے زور سے دبوچے وہ غصے سے چیختے سرخ چہرے سے پوچھنے لگا،
الایہ کے ہاتھ میں موجود منی ٹارچ اسکے یوں بے دردی سے کھینچنے پر نیچے جا گری،
کیا ہو گیا جانوروں کی طرح بیہیو مت کرو تم اذلان،،،!"الایہ کو برا لگا ایک تو وہ اتنی ٹھنڈ میں بیس منٹ لگاتار چلتی اس لاڈ صاحب کو ڈھونڈتی اسکے پاس آئی تھی۔
اوپر سے اسکے تماشے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے،، میں جانوروں کی طرح بیہو کر رہا ہوں،، تو اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا ماہی،،،
تم تو سرے سے مجھے اپنا شوہر ماننے سے بھی انکار کر چکی ہو،کیا تم نہیں جانتی کہ تمہارے کہے الفاظ کیسے تکلیف کا باعث بنتے ہیں،،؟"
اوہ واہ ہنیڈس آف ٹو یو مسٹر اذلان اشعر علوی،،،، "
اذلان کی بات کو کاٹتے وہ بیچ میں ہی اسے ٹوکتے تالی بجائے اسے داد دینے لگی،اذلان نے گھورتے اسے دیکھا،
ماتھے پر ایک ساتھ جانے کتنے بل نمودار ہوئے تھے مگر وہ خاموش ساکت نظروں سے الایہ کو دیکھ رہا تھا،،
اپنے پر بات آئی تو کچھ دن کی نفرت برادشت نہیں ہو رہی اور میں،میرا کیا؟ خود کی تکلیف یاد ہے تمہیں،مگر تم نے مجھے کب تکلیف دی تھی اذلان یاد ہے کچھ،،،
اسکے قریب پہنچتی وہ ہاتھ سے اسکے سینے پر دباؤ دیتی اسے پیچھے کرتے چیختے پوچھ رہی تھی،،
اذلان نے اپنی سیاہ سرخ ہوتی نظریں الایہ کے چہرے پر گاڑھے جبڑے بھینچ لئے وہ کچھ بھی بولنا نہیں چاہتا تھا،
مگر یہ ضرور دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر اسکے اندر کس قدر غبار تھا اذلان کو لے کر۔۔۔۔۔
تم نے تب توڑا مجھے جب میرے پاس تمہارے سوا کوئی دوست نہیں تھا تم نے تب دھتکارا مجھے جب میری زندگی میں تم صرف تم تھے،،"
تم نے صرف میرے منہ پر تھپڑ نہیں مارا میری روح پر بھی تمانچہ مارا تھا،،"
اس تھپڑ کی گونج آج تک ان کانوں میں گونجتی ہے تم نے کہا کہ میں تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہوں،،،"
تم نے مجھے آدھی رات کو گھر سے نکال دیا یہ بھی نہیں سوچا کہ اس وقت میں کہاں جاوں گی،،،"
تم سے ملنے آئی تھی ناں میں اتنی دور سے،،،ہاں پھر بھی مجھے مار دیا میرے اعتبار کو ایسا توڑا کہ آج تک میں کسی پر یقین نہیں کر پائی،،،"
تم نے مار دیا تھا مجھے آج سے بہت سال پہلے، میری تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔۔۔۔"
تمہیں آج اپنے پر بن آئی تو کیسے کہہ رہے ہو کہ میں نے تمہیں تکلیف دی۔۔۔"
اذلان کے گریبان کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے وہ اسے بری طرح سے جھنجھوڑتے چیخ رہی تھی،
اذلان جانتا تھا اس کا گناہ کتنا بڑا ہے،جبھی وہ خاموش الایہ کی آنکھوں سے بہتے ان آنسوں کو ساکت نظروں سے دیکھ رہا تھا،،
وہ جانتا تھا یہ صرف آنسوں نہیں جانے کتنے سالوں کا غبار،درد اور تکلیف جانے کیا کچھ نہیں تھا ان آنسوں کے اندر،،،،
الایہ کے جھنجھوڑنے پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹے الایہ کی سرخ آنکھوں، سردی کی شدت سے نیلے پڑتے کپکپاتے ہونٹوں کو دیکھ،الایہ کی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹے اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا،
الایہ غصے طیش نفرت کے ملے جلے تاثرات سے بپھرتے خود کو اذلان کی گرفت سے نکالنے کی سعی کرتے اسکے سینے پر بری طرح سے مکے مار رہی تھی،
دور رہو تتم۔۔"الایہ سردی سے ٹھٹھرتے اپنے سرد پڑتے ٹھنڈے ہاتھوں سے اسے خود سے دور کرنے لگی،
کہ اذلان نے ذرا سا جھکتے اسے کمر سے بری طرح سے دبوچتے اونچا کیا چھوڑو مجھے،الایہ غصے سے اذلان کے کندھوں پر مکے مارتے چلائی تھی،،
مگر اذلان نے اسے بے ساختہ ہی اپنے قریب کرتے اسکی پیشانی پر لب رکھے،الایہ کی قینچی کی طرح چلتی زبان ایک دم سے فریز ہوئی تھی۔
الفاظ جیسے گڈ مڈ ہو گئے وہ کچھ بولنے سمجھنے کی کیفیت میں نہیں تھی،
،اذلان کے اس بے ساختہ ردعمل نے الایہ کی زبان پر قفل لگا دیا،
میں جانتا ہوں کہ میری غلطی بلکہ میرا گناہ بہت بڑا ہے،میں نے دوستی کے رشتے کے مان کو توڑ دیا،"
اس رشتے کا سب سے پہلا پہلوں ہی اعتبار، بھروسہ ہوتا ہے جو کہ میں تم پر نہیں کر سکا ماہی،،"
مگر میرا خدا گواہ ہے کہ میں یہاں اتنی دور صرف تمہارے لیے آیا ہوں،"
تم سے معافی مانگنے مگر آج تک اس لیے نہیں مانگی کیونکہ میں چاہتا تھا کہ میں تب تم سے معافی مانگوں جب تمہیں یہ لگے کہ میں نے تمہارے ساتھ برا کیا ہے،
اور اپنے کیے کہ معافی بھی نہیں مانگی____!"
اذلان یونہی الایہ کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکائے اسے زمین سے اونچا کیے کسی چھوٹی بچی کی طرح اپنی بانہوں میں بھینچے ہوئے تھا،،
الایہ کی ٹھنڈ بستہ سانسیں اذلان کے چہرے پر پڑ رہی تھیں،جبکہ وہ خود ہنوز آنکھیں موندے ہوئے تھی،
اذلان نے پل بھر کو آنکھیں کھولے الایہ کی بند آنکھیں کو دیکھا اور پھر گہرا سانس فضا کے سپرد کیا،،
میں قالو پورے ہوش حواس میں اپنی ماہی سے اپنی کی ہر زیادتی ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں،"
مجھے یقین ہے کہ تم مجھے اتنی آسانی سے معاف نہیں کرو گی مگر میں یہ کوشش تا عمر جاری رکھنا چاہتا ہوں،
بشرطیکہ تم میرے ساتھ تاعمر ایسے ہی رہو، تمہارے بنا میں کچھ بھی نہیں ماہی،اتنے سال صرف یہ سوچ کر بڑا ہوا ہوں."
کہ ایک دن تم تک پہنچوں گا اور جب ملوں گا تو سب سے پہلے تم سے معافی مانگوں گا،
مگر جب پہلی بار تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو اس وقت تمہاری آنکھوں میں میرے لئے سوائے نفرت کے کچھ بھی نہیں تھا،
مگر اب اب میں اس نفرت کو الفت میں بدل دوں گا،تمہیں مجبور کر دوں گا کہ تم مجھے معاف کر دو،،،"
اپنے لفظوں کا سحر الایہ پر پھونکتا وہ اسے رفتہ رفتہ اپنے قریب تر کرتا چلا گیا،الایہ نے خود پر قابو پاتے جھٹکے سے اذلان کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اسے پیچھے کیا،
اذلان ایک دم سے پیچھے ہوا تھا،الایہ خود کو اسکے حصار سے چھڑواتئ واپسی کے لئے مڑی۔
اذلان نے ایک نظر برف میں دھنسے اپنے پاؤں کو دیکھا اور پھر سامنے الایہ کی جانب دیکھا،
مگر سامنے کا منظر دیکھ وہ سیکنڈ کے بیسویں حصے میں جیسے ہوش میں لوٹا الایہ کی جانب بڑھا تھا،
اذلان کے بار بار اونچی آواز میں پکارنے پر الایہ جو کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کی کہی باتوں میں الجھی تھی وہ چونکتے پیچھے کو مڑی،
اذلان کو وخشت زدہ سا اپنی جانب بھاگتا آتا دیکھ وہ حیران سی ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہی تھی،
اذلان بجلی کی سی تیزی سے اسکی جانب لپکا ،اچانک سے فضا میں ٹھاہ کی دل دہلا دینے والی آواز کے ساتھ آگ کے تیز شعلے آسمان کو چھونے لگے۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺
ممماما۔۔۔۔۔"رمشہ کے ہاتھ کو تھامے وہ بغور اپنی بھیگی سرخ ہوتی شہد رنگ آنکھوں سے اپنی ماما کو دیکھتا بھیگے لہجے میں بولا،
آواز میں صدیوں کی مسافت تھی ایک ایسی تڑپ، شرمندگی کہ اسکا لہجہ رندھ سا گیا،
امن کو سمجھ ناں آیا کہ وہ کس طرح اپنی ماما کو جگائے انہیں بتائے کہ صرف وہ ہی نہیں اتنے سالوں سے تڑپی بلکہ امن خود بھی انکی ممتا انکی چھاؤں کیلئے ترسا تھا،
اسکی تو زندگی کا کل اثاثہ اسکی ماں کی محبت تھی،
جسے سینے میں دبائے وہ ساری دنیا سے لڑتا آیا تھا،بھلا وہ کب بھولا تھا انہیں۔۔۔امن نے بے ساختہ لب بھینچتے رمشہ کے بےجان ہاتھ کو ہونٹوں سے چومتے اپنی آنکھوں سے لگایا،
ایک سکون سا تھا جو اسکے اندر تک اترتا محسوس ہوا،امن نے نم آنکھوں سے رمشہ کی لرزتی پلکوں کو دیکھا،
وہ جانتا تھا اسکی ماں اسکی خوشبو سے ہی اسے پہچان چکی ہے،جبھی امن نے جھکتے اپنے کپکپاتے ہونٹوں سے رمشہ کی آنکھوں پر بوسہ دیا،،
وہ سر اٹھائے پیچھے ہوا تو نظر اپنی ماما کے بھیگے آنسوں سے تر چہرے پر پڑی،
آپ بس ٹھیک ہو جائیں مام وعدہ کرتا ہوں آئندہ کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا،،"
رمشہ کی پیشانی پر بوسہ دیے آج وہ جانے کتنے سالوں بعد اس سکون کو محسوس کر رہا تھا جس ممتا کے سائے کے لئے وہ ترستا آیا تھا،
اس چھاؤں کے تلے آج جیسے سارے غم ساری تکلیفوں کا ازالہ ہو گیا تھا وہ سب کچھ بھولے اپنی زندگی کے ان خوبصورت لمحات کو جی رہا تھا،
جن کے ہونے کا تصور بھی اس نے نہیں کیا تھا،اپنے ہاتھ پر کسی کی نازک گرفت کو محسوس کرتا وہ خیال سے چونکتے اپنی شہد رنگ بھیگی آنکھوں سے گردن گھمائے پیچھے دیکھنے لگا،
جہاں حیا آنکھوں میں ڈھیروں فکر لیے اسکے ہمقدم کھڑی تھی،
امن نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیے اس نازک ہاتھ کو اپنی مضبوط انگلیوں میں دبوچتے اسے جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا،،
حیا لہراتی امن کے چوڑے سینے سے جا لگی،
اب تو آپ کی بیٹی کو بھی قبول کر لیا ہے اب تو معاف کر دیں مام،،،"
رمشہ کی جانب دیکھ وہ حیا کے بجھے بجھے چہرے کو دیکھ التجائیہ گویا ہوا،،
معا رمشہ کا سانس اکھڑنے لگا وہ تیز تیز سانس لیتی امن اور حیا کو ڈرنے پر مجبور کر گئی،،
حیا بھاگتے ڈآکٹر کو بلانے گئی، وہیں امن مسلسل اپنی مام کو آوزیں دے رہا تھا،
🔥🔥🔥🔥🔥🔥
وہ رش ڈرائیونگ کرتا جلدی سے اس اپارٹمنٹ پہنچا تھا جس کا ایڈریس اسے ویام دے کر گیا تھا،
ایل تیزی سے گاڑی سے نکلتا کھلے گیٹ سے اندر داخل ہوا تھا،
اسکا دل اور دماغ بری طرح سے منتشر تھے، نیلی سمندر جیسی گہری آنکھوں میں غضب کے سرخ ڈورے منڈلا رہے تھے،،
ڈوللللل،،ایل طیش سے مٹھیاں بھینچے عیناں کو آوزیں دیتے اسے بلانے لگا،،بے بسی کی انتہا تھی،
کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ڈول تک نہیں پہنچ پا رہا تھا،
ایل اندھا دھند بھاگتے آگے بڑھا تھا اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا تھا مطلب ویام جان بوجھ کر اسے راستہ بتا کر گیا تھا،،
ایل بے تاثر پتھریلے تاثرات سے تیزی سے دوڑتا اندر داخل ہوا،عیناں میری ڈول بھائی آ گیا لینے، ڈول آواز دو کہاں ہو تم۔۔۔۔"
سارا اپارٹمنٹ دیکھنے پر بھی اسے عیناں کہیں نہیں ملی تھی مگر اپنی ڈول کی خوشبو وہ محسوس کر چکا تھا وہ یہیں کہیں تھی اسکے آس پاس مگر نظروں سے اوجھل،،
کتنا مان تھا اسے اسکے پکارنے پر وہ دوڑتی چلی آئے گی اور شاید عیناں آ بھی جاتی اگر وہ اپنے بھائی کی تڑپ اسکی بےبسی کو سن پاتی،،
مگر اس وقت وہ خود ویام کے شکنجے میں تھی،بھلا کیسے اسے دنیا کا ہوش ہوتا وہ جنونی شخص اسے دنیا بھلائے اپنی دنیا میں لے جا چکا تھا،
اب یہاں فقط خاموشی کے اور کچھ بھی نہیں تھا جو کہ ایل کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی،
ویام کے لکھے الفاظ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرائے ایل نے شدت طیش سے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ لیا،
اور پھر ایک امید کے تحت وہ سیڑھیاں پھلانگتا اوپر کی جانب بڑھا تھا،
ایل نے ساکت نظروں سے چھت کے چاروں اطراف دیکھا سامنے بنے سوئمنگ پول کو دیکھ وہ بھاگتا اس جانب آیا،
عیناں ڈول،،،،،وہ مسلسل عیناں کو اونچی آواز میں پکار رہا تھا،
یونہی پول کی طرف جاتے اسکے پاؤں کے نیچے کچھ آیا ایل ٹھٹھک کے رکا اور اپنے پاؤں کو اٹھائے نیچے دیکھنے لگا،
ماتھے پر بل ڈالے ایل نے جھکتے اس گھڑی کو اٹھایا جو کہ یقیناً ویام کی تھی، ابھی وہ سوچ ہی رہا تھاکہ اسکی نظریں سامنے ویام کی پہنی اس ہڈ پر پڑی،
وہ بھاگتا اس ہڈ تک پہنچا اور پھر ان شوزز کو دیکھ وہ ایک حتمی فیصلہ لیتے ایک دم سے پول میں کودا،،
پول کا پانی غیر معمولی حد تک ٹھنڈا تھا، اس قدر ٹھنڈا کہ ایل جیسا شخص جو کہ بچپن سے ہی ان سب کا عادی رہا تھا،،
اسکے اعصاب چٹخنے لگے،مگر اپنی ڈول کو ڈھونڈنے کے جنون میں وہ پاگلوں کی طرح اپنے سن وجود کے ساتھ پانی میں تیرتا گہرائئ میں جاتا اسے ڈھونڈ رہا تھا،
بالآخر ناکام ہوتے وہ بے بس سا سرد لہو جھلکاتے چہرے سے پول سے نکلا،،
تم جیت گئے ویام مگر تمہاری سوچ ہے کہ تم مجھے میری ڈول سے ملنے سے روک سکتے ہو،
تم۔نے چیلینج کیا تھا مجھے اچھا لگا تمہارا چیلینج، اب میں تمہیں بتاؤں گا جب کسی کی روح پر ہاتھ ڈالا جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے،،
مگر اتنی جلدی نہیں،،،ابھی تم اپنی جیت کا جشن مناؤ،،پھر تمہاری نظروں کے سامنے ہی تمہاری بہن اپنی سن شائن کو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تم سے دور لے جاؤں گا،،
پھر دیکھتا ہوں تم کیسے اسے میری دنیا سے ڈھونڈتے ہو،،،،"
اپنے ماتھے پر آتے ڈارک براؤن بالوں کو دونوں ہاتھ سے پیچھے کرتا وہ اس بار چہرے پر ایک پراسرار سی مسکراہٹ سجائے بولا تھا،،
💥💥💥💥💥💥
حور میری جان آپ کچھ چھپا رہے ہو مجھ سے،،،"
نیناں محبت سے اپنی گود میں رکھے حور کے سر کو سہلاتے بہت ہمت سے پوچھ رہی تھی،
حور نے اپنی سیاہ بے تاثر آنکھوں سے سر اٹھائے اپنی موم کو دیکھا، نا چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرائی تو نیناں نے مبہوت نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھ دل ہی دل میں اسکی نظر اتاری تھی،
اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس وقت غم کی مکمل حسین مورت بنی نیناں کو مبہوت کر گئی تھی تو یہ غلط ناں ہو گا،،
موم آپ ایسا کچھ مت سوچیں ایسا کچھ بھی نہیں،،"دروازے سے آتی وریام کی آواز کو سنتے حور نے مسکراتے نیناں کو ٹالا،،،
تو مجھے کیوں لگتا ہے کہ تم میں کچھ تبدیلی آئی ہے حور،،،نیناں نے بغور حور کی حیرانگی سے پھیلی آنکھوں میں دیکھ کہا تو حور نے نظریں چرائی،
موم،،،،"نہیں حور مجھے تمہارے پاس سے کوئی اجنبی خوشبو محسوس ہو رہی ہے کسی دوسرے وجود کی خوشبو،،،،کیا کچھ ایسا ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو،،،،،؟"
نیناں نے اسے ٹوکتے اپنے دل میں چھپے اس وہم کو آشکار کیا جسے سنتی حور سناٹوں میں چلی گئی،
اپنے سرخ ہوتے ہونٹوں کو بھینچے وہ بمشکل سے اپنے آنسوں کو نگلتئ نیناں کو دیکھنے لگی،
تو اس کا مطلب میں کچھ دن اور دور رہتی تو آپ مجھے پہچاننے سے بھی انکار کر دیتی،،"
وہ جان بوجھ کر چہرے پر مصنوعی خفگی سجائے بولی تو نیناں نے جھٹ سے اسے ٹوکا،،
نہیں میری جان ایسا تو کچھ بھی نہیں،،، حور۔۔۔۔" وریام حور کو پکارتا بمشکل سے دروازہ کھول اندر آیا تھا،،
نیناں اور حور دونوں نے ہی مڑتے وریام کو دیکھا جو بری طرح سے ہانپ رہا تھا،
اپنے ڈیڈ کو دیکھ حور بے ساختہ ہی جگہ سے اٹھتے وریام کی جانب لپکی تھی،،،
وریام نے اسے سینے میں بھینچتے اپنے ہونے کا احساس دلایا،،
اششش میری گڑیا،ڈیڈ کی پری روتے نہیں میری جان میں ہوں ناں پاس،،،،،"حور کا رونا وریام کو بوکھلا سا گیا،،
ایک حور کے آنسوں ہی تو تھے جسے وہ برداشت نہیں کر پاتا تھا،،،
حور کا سنتے ہی وہ سیدھا ہاسپٹل سے گھر لوٹا تھا،،مگر ویام نے دروازہ لاک کرتے اسے اچھی سزا دی تھی،،
اب بمشکل سے وہ لاک توڑتا اندر آیا تھا،کتنا تڑپا تھا وہ اپنی بیٹی سے ملنے کیلئے،،،
نہی رو رہی ڈیڈ،،، وریام نے محبت سے حور کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے اپنی پری کے ماتھے پر بوسہ دیا،
تو اپنے ڈیڈ کی تڑپ کو دیکھ وہ فورا سے مسکراتے بولی،،کتنے لوگ تھے اس دنیا میں،،سبھی تو اتنی محبت کرتے تھے پھر وہ کیوں اتنی بدگمان ہو رہی تھی،،،
میں اب کہیں نہیں جانے دوں گا اپنی پرنسز کو،،،،وریام حور کو سینے سے لگائے مسلسل یہی الفاظ بڑبڑا رہا تھا،،،، جسے سنتی حور سرد سانس فضا کے سپرد کیے آنکھیں موند گئی،،،
💥💥💥💥💥
فون پر ہوتی مسلسل تیز بیل کی آواز پر وہ مندی مندی آنکھیں کھولے سامنے پڑے اپنے فون کو اٹھائے بنا دیکھے کان سے لگا گیا،،،
ہیلو کون،،،،،؟"میرب جو ابھی ابھی شاور لیے باہر نکلی تھی،تیمور کی آواز سنتے وہ نخوت سے گردن نفی میں ہلائے آگے بڑھی تھی،،
ہاں ڈارلنگ سوری جان رات کو ایک اہم کام تھا اس وجہ سے نہیں آ سکا،،،،مگر وعدہ آج دن کو ایک ساتھ وقت گزاریں گے،،،،"
تیمور کی بے باک گفتگو کو سنتے بالوں میں برش کرتا میرب کا ہاتھ بے ساختہ تھما تھا وہ مرر سے تیمور کی پشت کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگی،،
افکورس ڈارلنگ روم میں بھی چلیں گے،،،،"تیمور کی بے باک گفتگو کو سنتی وہ آنکھیں میچتی اپنے غصے کو قابو کرنے لگی،
جبکہ تیمور شاید اس بات سے انجان تھا کہ اب وہ اکیلا نہیں اس روم میں،جبھی وہ اس قدر اونچی آواز میں نہائت بےباکی سے بول رہا تھا،،،
اہہہہ۔۔۔۔۔۔"میرب جو کہ اپنا غصہ اپنے بالوں پر نکال رہی تھی ایک دم جھٹکے سے اپنے گھنگھریالے بالوں کو برش سے کھینچنے پر اس کی بے ساختہ ہی چیخ نکلی تھی،،
جسے سنتا تیمور ہوش کی دنیا میں لوٹے بھاگتا میرب تک پہنچا،،،
میر یار یہ کیا کر رہی ہو،،،چھوڑو انہیں،،،،وہ ہڑبڑاتا میرب کی آنکھوں۔ میں آئے موٹے موٹے آنسوں کو دیکھتا بول اسکے ہاتھ سے برش لیتے سامنے ڈریسنگ پر رکھ گیا۔۔
پیچھے ہٹو تم،،،،" میرب نے غصے سے دانت پیستے اپنے دونوں ہاتھ تیمور کے سینے پر رکھے سے پیچھے کو دھکا دیا،،
تیمور کے ہونٹ دلکشی سے مسکرائے وہ لب دباتے اس چھوٹی شیرنی کو دیکھنے لگا جو غصے سے لال پیلی ہو چکی تھی،،،
اششششش،،،،ری لیکس جاناں کالم ڈاؤن______!"میرب کے رخسار پر گرتے آنسوں کو دیکھ وہ تڑپتے اسکے نزدیک ہوتے میرب کے آنسوں کو صاف کرنے لگا،
کہ ایک دم سے میرب نے غصے سے اپنے ہاتھ کا مکہ بنائے تیمور کے جبڑے پر دے مارا،، یہ سب کچھ غیر متوقع اور اچانک ہوا تھا،،،
کہ تیمور میرب کے نازک ہاتھ کا اتنا زبردست پنچ پڑنے پر جھٹکے سے سر کو جھٹکتے میرب کو دیکھنے لگا،
جو خونخوار تیورں سے اسے گھور رہی تھی،،
تیمور ائبرو اچکائے داد دیتی نظروں سے اسے دیکھ آگے بڑھا تھا،،،کافی اچھا لگا مجھے تمہارا پنچ مگر کچھ محنت کرنی پڑے گی،،
ڈونٹ وری میں جم جا رہا ہوں آ جاؤ تیاری کرواتا ہوں،،،"وہ مسکراتے میرب کو حیران کرتا ساتھ میں فری کی آفر بھی دے گیا،،
میرب نے منہ موڑتے اسے اگنور کیا،جسے دیکھ وہ ہنستا میرب کے قریب ہوتا اسکے ہاتھوں کو بری طرح سے قابو کیا،،،
تیمور نے اسے حصار میں قید کیے مڑتے اسے بیڈ پر بٹھایا،،
چھوڑو مجھے تیمور میں تمہارا خون پی جاؤں گی،،،وہ غصے سے بپھری چیختے تیمور کو ہنسنے پر مجبور کر گئی،،
اسکے ہاتھوں کو تھامے تیمور گھٹنوں کے بل اسکے قریب جھکتے بیٹھا،اور بغور میرب کے بھیگے نم سراہے کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا،،،
جو اس وقت مارون کلر کی خوبصورت فراک ذیب تن کیے ہوئے تھی،یہ کپڑے شاید مسز شیرازی دے کر گئی تھیں،
ہائے جانم دل چاہتا ہے کہ تمہیں یونہی پہلو میں بٹھا کر تا عمر دیکھتا رہوں،،،"میرب جو کہ اپنے ہاتھوں کو چھڑانے کے جتن کر رہی تھی۔
تیمور کی بےباک گفتگو سنتے اسکے ہاتھ تھم سے گئے مگر پھر تھوڑی دیر پہلے کی اس کی فون کال کو یاد کرتے وہ غصے نفرت سے دانت پیستے اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی،،
خود کو تھکانے کی ضرورت نہیں میر_____تم خود کو مجھ سے تب تک دور نہیں کر سکتی جب تک میں ناں چاہوں،،،،،"
میرب کے رخسار سے چپکی بھیگی لٹوں کو نرمی سے پیچھے کرتے وہ بھاری گھمبیر لہجے میں بولا تو میرب نے پل بھر کو اسے دیکھا اسکی بولتی آنکھوں میں دیکھ،،
وہ جھٹ سے نظریں چرا گئی،،تیمور اسکی ادا پر مسکراتا نرمی سے اسکے ہاتھوں کو چھوڑتے پیچھے ہوا تھا،،
ڈریسنگ مرر سے برش اٹھائے وہ نرمی سے کمال مہارت سے میرب کے بال سہلانے لگا،، جو کہ نا چاہتے ہوئے بھی اسکے لمس پر خاموش بیٹھی تھی،
کڈنیپر یہ کس کا روم ہے،،،؟"روز کو کھانا کھلاتے ہی انزک اسے ساتھ اپنے دوم میں لایا تھا،،
یہ میرا روم ہے،،، وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالتے انزک نے مڑتے اسے دیکھ ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا،،
جو بغور سامنے لگی تصویر کو گھور رہی تھی،
اپنا روم ہے تو اسی لئے تمہیں یہاں لایا ہوں،،کیوں تم نے کیا سوچا،،؟
انزک کو حیرانگی ہوئی اسکے سوال پر،وہ چلتا اسکے قریب جاتے پوچھنے لگا
دراصل انکل آنٹی کی تصویر لگی ہے ناں تو مجھے لگا یہ انکا روم ہے،،،؟"اپنی گولڈن آنکھوں کو پھیلائے روز نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں الجھاتے کہا،،
انزک نے بغور اسکے ہاتھوں کی حرکت کو نوٹ کیا،،کچھ غیر معمولی لگا اسے،،،
میرے موم ڈیڈ میری زندگی ہیں انکو دیکھ کر ہی اپنے ہر دن کا آغاز کرتا ہوں میں،،، اور اب سے تم بھی میری زندگی کا ایک اہم حصہ ہو،،، میری فیملی کا ایک فرد،میری بیوی،،،،"
وہ گہری نظروں سے روز کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ اسکے ہاتھوں کو آزاد کروائے اسے سینے سے لگاتے بولا،،
انداز محبت سے بھرا تھا، ہیے آر یو اوکے روز،،،،؟"
روز کے لرزتے وجود کے ساتھ اپنی شرٹ کو بھیگتا محسوس کرتے انزک نے بے چینی سے اسے سامنے کرتے پوچھا،،،
ہہہ ہاں ٹھیک ہوں میں،،،!"انزک کے یوں پوچھنے پر روز کو اپنی بے اختیاری پر خفت سی ہوئی،وہ پیچھے ہوتے آنسوں صاف کرتے نظریں چرا گئی،،
مجھ سے یہ جھوٹ والی گیم مت کھیلو بےبی اتنا بچہ نہیں ہوں میں،،،،اب خاموشی سے بتاؤ کیا ہوا ہے،،"
اسے زبردستی بازوؤں سے تھامے بیڈ پر لے جاتے انزک نرمی سے اسے بٹھاتا اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا متفکر نظروں سے روز کو دیکھے گیا،،
کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو روز،،،!"روز کے چہرے کو تھوڑی سے پکڑتے اونچا کیے انزک نے متفکر سا ہوتے ہوچھا،،
اپنی سرخ ہوتی گولڈن بڑی بڑی آنکھوں سے انزک کو دیکھ وہ بمشکل سے آنسوں اپنے اندر اتار پائی تھی،،
کچھ نہیں، تمہارے پاس کتنی خوبصورت فیملی ہے کڈنیپر، موم ڈیڈ بہنیں سب کتنی محبت کرتے ہونگے تم سے، مگر میرے پاس صرف بھائی ہی ہیں،،
اور وہ بھی مجھ سے محبت نہیں کرتے،،،"اپنی آنکھوں کو رگڑتے وہ سوں سوں کرتے اپنے دل کی بات اسے عیاں کرنے لگی،،
ایسا نہیں ہے روز تم بھی میری فیملی ہو اب سے تم ہمارے ساتھ رہو گی،،،"
اپنے مضبوط ہاتھوں میں روز کے نازک ہاتھوں کو دبوچے وہ مضبوط لہجے میں بولا۔
مگر تم نے کہا تھا کہ تم مجھے چھوڑ دو گے جب خطرہ ٹل جائے گا تو تم مجھے طلاق دے دو گے،،،"
روز نے ہاتھ اسکی گرفت سے نکالتے انزک کو اسکی کہی بات یاد دلوائی،،،"
کیا تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو ساری زندگی کیلئے،،،؟"
روز کے چہرے کو گہری سوالیہ نظروں سے دیکھ انزک نے دھڑکتے دل سے خوفزدہ سا ہوتے پوچھا،،
یہ تو صرف وہ روز کے دل کی بات کنفرم کرنا چاہتا تھا ورنہ اب اسے چھوڑنے کا سوال بھی انزک کی ڈکشنری میں نہیں تھا،،
یہ چھوٹی سی لڑکی کب اسکے لئے اس قدر اہم ہو گئی تھی اسے خود اندازہ نہیں تھا مگر اب اسے چھوڑنا یا پھر اپنے نام سے اسکا نام الگ کرنا انزک کے لئے ویسے ہی ناممکن تھا جیسے دھڑکنوں کو دل سے جدا کرنا،،،
نننو میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں سب کے ساتھ،، مجھے اچھا لگتا ہے جب تم مجھے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے ہو،،
جب تمہیں تمہاری موم اور ڈیڈ سے ملتا دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ اس دنیا میں کتنے پیارے رشتے ہیں میں ہر رشتے ہر جذبے کو محسوس کرنا چاہتی ہوں،،،"
مگر تم تو چھوڑ دو گے مجھے آئی ہیٹ یو کڈنیپر۔۔۔۔۔"اپنی بات کہتی وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی،،
انزک جہاں اسکے دل کی باتوں کو سنتا دل سے خوش ہوا تھا وہیں روز کے ایک بار پھر سے رونے نے اسے بوکھلا دیا تھا،
ہیے یار روز،،،،" وہ فورا سے اسکے ہاتھوں کو چہرے سے الگ کرتے روز کے بھیگے آنسوں سے تر چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا ان بھیگی نم آنکھوں۔ میں دیکھے گیا،،،
جانے کونسا ایسا سحر تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھوئے جیسے خود سے بھی بے گانہ ہو گئے تھے،،
میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا روز، تم زندگی کے لئے ویسے ہی لازم ہو جیسے بدن کے لئے روح لازم ہوتی ہے یہ ساتھ چاہے جس مرضی مقصد کے تحت جڑا ہو،،،
مگر اب تم میری ہو صرف میری۔۔۔۔۔۔اب تم بھی چاہو تو خود کو مجھ سے الگ نہیں کر سکتئ،،،"
روز کی آنکھوں میں دیکھتے وہ گہرے مضبوط لہجے میں بولا تو ایک پل کو اسکے لہجے کی مضبوطی پر روز گھبرا سی گئی،،
اس سے پہلے کہ وہ اپنا آپ چھڑا کر پیچھے ہوتی انزک نے بے حد نرمی سے روز کے آنسوں کو اپنے لبوں سے چنا،،
اپنے رخسار پر انزک کے ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرتی وہ دھڑکتے دل سے خوفزدہ سی انزک کے سینے پر اپنا دونوں ہاتھوں سے دباؤ دیے اسے پیچھے کو دھکیلتی واشروم میں گھسی،،
💥💥💥💥💥💥💥
اپنے چہرے پر ویام کے ہاتھ کے کھردرے لمس کے ساتھ اپنے چہرے پر اسکی گہری چھبتی نظروں سے بے چین ہوتے عیناں نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی نیند سے بوجھل سرخ ڈوروں سے لبریز گرے آنکھوں کو کھولے اپنے بائیں جانب دیکھا،،
جہاں وہ ہاتھ سر کے نیچے ٹکائے لبوں پر ایک دھیمی سی مسکان سجائے،گہری نظروں سے عیناں کو دیکھتا اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر گیا،،
وہ شرم سے سرخ انگارہ ہوئے نظریں جھکانے لگی مگر برا ہو ان نگاہوں کا جو ویام کے رخساروں پر ابھرتے ان خوبصورت ڈمپل میں بری طرح سے الجھ چکی تھیں،،
خود کو لاکھ ڈپٹنے کے باوجود بھی نگاہوں کا زاویہ وہی قاتل ڈمپل تھے،،
تم مجھ پر اتنا ہی حق رکھتی ہو عین جتنا کہ میں تم پر،،،،اپنا مضبوط ھاتھ عیناں کی کمر کے گرد حائل کیے ویام نے اسے لمحوں میں خود میں سمیٹا تھا،،
وہ بری طرح سے گھبرائی اپنے ہاتھ ویام کے کندھوں پر رکھے نظریں جھکا گئی،
عیننن،،،،"ویام کے لہجے میں وارننگ تھی جسے محسوس کرتی وہ نا چاہتے ہوئے بھی نظریں اٹھائے ویام کو دیکھنے لگی،،
ویام عیناں کے دیکھنے پر پھر سے مسکرایا تو عیناں نے کن آنکھوں سے ان ڈمپل کو گھورا اور پھر اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے وہ خود کو روکتے نظریں چرانے لگی،،
وہ ناراض تھی ویام سے تو پھر بھلا وہ کیوں اسے کس کرتی،،،،
تمہیں اگر لگتا ہے کہ تمہیں چھونے کیلئے مجھے تمہاری اجازت یا پھر مرضی درکار ہے تو تمہاری غلط فہمی ہے جان۔۔۔۔"
تم مجھ میں ان دھڑکنوں کی طرح بسی ہو جنہیں میں جب چاہے محسوس کر سکتا ہوں،،
تم صرف میری ملکیت ہو میرا عشق میری الفت،، تو پھر کسی اور کا تم پر حق جتانا میں کبھی برادشت نہیں کر سکتا عین،،،"
عیناں اسکے لہجے کی مضبوطی پر سہمی نظروں سے اسے دیکھنے لگی،،،جس کی بھوری آنکھوں میں جنون کے شعلے لپک رہے تھے،،
وہ کوئی اور نہیں میرے بھائی ہیں ویام،،،"عیناں کو برا لگا ویام بھلا کیسے ایسی بات کر سکتا تھا،،
کیا اسکے باقی کے رشتوں کا اس پر کوئی حق نہیں تھا،،
تم میرے لئے طلب کی وہ حد ہو عین جس کے آگے سب کچھ بے معنی ہے،،،،!"
عیناں کے چہرے پر جھکتے ویام نے شدت سے اسکے رخساروں کو چھوتے سخت لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کی تو عیناں لرز سی گئی اسکے روپ اسکے پاگل پن کو دیکھ،،
بھلا وہ کہاں سے عادی تھی ان سب کی،اسے تو اپنا وہی ویام چاہیے تھا جو اس سے محبت کرتا تھا اسکا خیال رکھتا اسکی ہر بات کو بنا کہے سمجھ جاتا تھا،،
مگر کل سے جو ویام اسکے سامنے تھا اسکے جنون اور پاگل کو سہتی وہ سچ میں ڈر سی گئی تھی،،
عیناں کا اختججاج اسکے آنسوں بھی ویام کو روک ناں پائے تھے،،،،وہ اسے تسخیر کرتا آج آنکھوں میں اپنی فتح کی چمک لیے عیناں کو پھر سے مبہوت کر گیا تھا،،
ووویام۔۔۔۔۔۔"اپنے چہرے کے بعد اب گردن پر اسکے سلگتے ہونٹوں کے پرتپش لمس کو پاتے عیناں نے گھبراتے اسے دھڑکتے دل سے پکارا،،،
ہممممم،،،،"آنکھیں موندے وہ مدہوش سا عیناں کی خوشبو کو خود میں اتارتا مخمور لہجے میں بولا،،
ممممجھے ماما سے ملنا ہے،،،،"اپنے نازک ہاتھ ویام کے سینے پر رکھے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے وہ منمنائئ تھی،،،
اسکا دل سچ میں فدک سے ملنے کو بے چین تھا مگر وہ سلیمان شاہ یا پھر ایل کے سامنے انکا ذکر کرتے ان دونوں کو اداس نہیں کرنا چاہتی تھی،،
اب جب وہ ویام کے پاس تھی تو فدک سے ملنا آسان تھا،،،
لے چلوں گا مگر اس وقت خاموش رہو،،،،"جذبات سے بوجھل گھمبیر لہجے میں فرمائش کرتے ویام نے چہرہ عیناں کے بالوں میں چھپائے اسکی خوشبو کو سانسوں میں اتارا تھا،،
ویام کے شدت بھرے لمس سے گھبرائی وہ تھوک نگلتے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی،،،،
ووویاممممم،،اسکے شدت بھرے حصار میں کسمساتے اسے روکنے کی ناکام سی کوشش کی،،جو بنا اسکی مزاحمت کی پرواہ کیے عیناں کے نقوش کو محبت سے چھوتے بلکل مدہوش سا تھا۔
💥💥💥💥💥💥💥
ڈاکٹر کیا ہوا ہے میری ماما کو وہ ٹھیک تو ہیں،،،؟" امن جو بے چینی سے ٹہل رہا تھا اب ڈاکٹر کے باہر آنے پر وہ بھاگتے انکے قریب جاتے پوچھنے لگا،
اشعر لب بھنچے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہا تھا،،
اسکے ماتھے پر موجود بل اسکی اندرونی کیفیت کی غمازی کر رہے تھے،،
ڈونٹ وری ینگ مین،،،،اب وہ خطرے سے باہر ہیں،وہ امن کو پکار رہی ہیں آپ میں سے امن کون ہے۔۔۔۔۔؟"
ڈاکٹر نے پہلے امن اور اشعر کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا،،
حسن اور یسری جو ابھی ابھی حیا کے بتانے پر یہاں آئے تھے،،
امن کا نام سنتے چونکے ضرور تھے،،
جی ڈاکٹر مم میں ہوں،،،!"امن نے بے قراری سے کہا تھا،اسکی ماما ٹھیک ہوتے ہی اسے پکار رہی تھیں،،
یہ بات سنتے ہی جانے کس قدر خوشی ہوئی تھی اسے،،
امن نے گردن گھمائے اشعر کو دیکھا جو سرد نظروں سے اسے دیکھ رخ موڑ گیا،،امن نے آنکھیں ضبط سے موندیں اور پھر گہرا سانس فضا کے سپرد کیے وہ روم کی جانب بڑھا،،
کلک کی ہلکی سے آواز کو سنتے رمشہ نے کسلمندی سے اپنی سوجھی آنکھوں سے گردن گھماہے دروازے کی سمت دیکھا،
جہاں سے اسکا امن اسے ملنے کو آ رہا تھا، تو مطلب وہ سچ میں اپنی ماں کے پاس آیا تھا یہ سب اسکا وہم نہیں تھا،،
یہ سوچ آتے ہی رمشہ کی آنکھوں سے ایک ساتھ جانے کتنے ہی آنسوں بہے تھے،،
امن بھاگتے رمشہ کے قریب پہنچا۔۔۔۔ آپ رو کیوں رہی ہیں،،،،؟"
وہ بے چین سا ہوتا رمشہ کے ہاتھوں کو تھامے والہانہ عقیدت بھری نظروں سے اسکے بھیگے چہرے کو دیکھ مضطرب سا پوچھ رہا تھا،،،
امممن ببیٹا مممماما ببوللو یییہ کان تترس گئے ہیں تتتمہارے ممنہ سے اپنے لیے یہ الفاظ سننے کو۔۔۔۔۔۔!"
امن کے ہاتھ کو ہونٹوں سے چھوتے وہ بمشکل سے مگر مسکراتے خوشدلی سے بولی تھی،،
امن نے بے اختیار اپنی ماما کی آنکھوں میں دیکھا،،
جہاں محبت ،مممتا کا ٹھاٹا مارتا سمندر اسکی انا کے آگے بہت بھاری تھا،،،
وہ مسکراتے رمشہ کی آنکھوں پر جھکتے بوسہ دیے پیچھے ہٹا تھا، رمشہ نے لب بھینچتے آنسوں کو حلق میں انڈیلا،،،،
ماما مجھے معاف کر دیں میں آپ کو چھوڑ کر چلا گیا میں بہت برا بیٹا ہوں کبھی پلٹ کر دیکھا تک نہیں آپ پلیز مجھ سے خفا مت ہوں۔۔۔۔۔"
اپنے ہاتھوں سے محبت نرمی سے رمشہ کے آنسوں کو صاف کرتا وہ محبت سے اپنے کیے کی معافی مانگتا اس وقت رمشہ کو اپنا وہی چھوٹا سا امن لگا تھا،،
جو ہر بار اسے اپنی شرارتوں سے ستاتا اور پھر جب رمشہ ناراض ہو جاتی یا پھر رونے لگتی تو وہ ایسے ہی اسے راضی کیا کرتا تھا،
معافی صرف ایک قیمت پر ملے گی تمہیں اس بار،،،،"
امن کو نہارتے وہ محبت سے بولی تو امن نے الجھن سے ماتھے پر بل ڈالے انکو دیکھا،،
اس بار تم میرے ساتھ گھر واپس جاؤ گے،،بنا کچھ کہے بس بہت کر لی تم نے من مانی___اب اور نہیں،اس بار میں اپنے بیٹے اور بہو کو لے کر ہی گھر جاؤں گی۔۔
رمشہ کے مان۔سے کہنے پر امن خاموش ہو گیا،، وہ ناں تو اپنی ماما کو انکار کر سکا تھا،ناں ہی حامی بھری تھی،،
کیونکہ اسے ڈر تھا اشعر کا وہ ابھی اپنی وجہ سے اپنے ماما اور پاپا میں کوئی لڑائی نہیں چاہتا تھا۔
مگر یہ تو طے تھا کہ اس بار رمشہ اسے لئے بغیر جانے والی ہرگز نہیں تھی،
💥💥💥💥💥💥
جاناں_____"ایکسرسائز کرتا وہ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد دوبارہ سے روم میں آتا میرب کو پکارنے لگا،جو سامنے کہیں بھی نہیں تھی۔
تیمور نے ماتھے پر بل۔ڈالے چاروں اطراف دیکھا،،
لبوں پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ تھی، اسنے جلدی سے سیل اٹھایا اور بالکونی کی جانب بڑھا،،
ہاں بتاؤ کیسا جا رہا ہے سب،،،،، شہادت کی انگلی سے اپنے شفاف ماتھے کو مسلتے وہ دوسری جانب موجود شخص سے مخاطب ہوا،،،
ہاں تھوڑی دیر میں نکلوں گا تم روم بُک کروا دو۔۔۔۔۔"
سنجیدگی سے اسے جواب دیتے تیمور نے مڑتے پیچھے دیکھا، میرب کہیں بھی نہیں تھی،
اسے سکون ہوا، ہاں یار کنفرم ہے آج کسی بھی صورت کام ہو جائے گا۔۔"
سامنے سے کچھ کہا تھا جسے سنتا وہ چڑتے بےزاری سے بولا،،
ہاں سب ٹھیک چل رہا ہے تُو بتا فائل ہاتھ لگی تیرے۔۔۔۔۔؟"
ٹھیک ہے انتظار کر آج نہیں تو کل وہ واپس آئے گا اس فائل کو حاصل کر تاکہ تجھے آزادی ملے،اور تُو اپنا کام آسانی سے کر سکے۔۔۔"
تیمور نے اسے ساری بات واضح طور پر سمجھائی۔۔چل بات کرتا ہوں خیال رکھنا۔۔۔۔۔" دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے جلدی سے کہتے کال کٹ کی۔۔
آنٹی انکل بلا رہے ہیں تمہیں نیچے۔۔۔۔"
میرب جو ابھی ابھی ان دونوں سے ملتے اوپر روم میں آئی تھی،
اب تیمور کو فون پر مصروف دیکھ وہ اچھے سے سمجھ چکی تھی کہ وہ ضرور کسی لڑکی سے بات کر رہا ہو گا۔۔۔
جیزی۔تھی میری نیو گرل فرینڈ۔۔۔۔۔" وہ چلتا روم میں آئے اسے سرسری سا بتاتا کن اکھیوں سے میرب کے چہرے کی بدلتی رنگت کو دیکھنے لگا،،
تم پلیز کپڑے نکال دو مجھے آج ایمرجنسی میں جانا ہے۔۔۔"
فون کو بیڈ کی جانب پھینکتے وہ نہایت ادب سے بولا میرب کا دل چاہا کہ وہ ابھی اسکا منہ توڑ دے وہ شاید دنیا کا پہلا ایسا شوہر تھا جو اپنی گرل فرینڈ سے ملنے جانے کے لئے بیوی سے ڈریس نکلوا رہا تھا۔
ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں کیا تمہارے خود نکال لو ،،مجھے نوکرانی مت سمجھنا اپنی۔۔" وہ غصے سے چٹخ پڑی،،،
تیمور کی آنکھوں میں شریر سی چمک دھر آئی۔۔
وہ ایک ہی جست میں اسکی کمر کے گرد ہاتھ حائل کیے اسے کھینچتے اپنے نزدیک کر گیا۔
بس چھچھورا پن کروا لو تم سے۔۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔۔" اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں غصے لائے وہ روعب سے بولی۔۔
جیسے اسکے کہنے پر وہ اسے آزاد کر دے گا۔۔
کرنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں اگر تم اجازت دو تو۔۔۔۔۔۔"
وہ معنی خیزی سے کہتے جان بوجھ کر بات اُدھوری چھوڑ گیا۔۔
کیوں باہر مل جاتی ہیں انکے ساتھ منہ مار لیتے ہو کیا وہ کم ہے۔۔۔۔؟"وہ کہاں سے کم تھی جھکنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا اب بھی وہ بنا لخاظ کے اسے اچھی خاصی سنا گئی۔۔
تیمور نے لب دبائے جھکتے اپنے دانت میرب کی گردن پر گاڑھے۔۔۔
اہہہ پیچھے ہٹو تیمور۔۔۔۔" اسکے غیر متوقع ردعمل پر وہ ڈری سہمی سی اسے پیچھے کرنے لگی،جو پوری طرح سے اسے حصار میں قید کیے ہوئے تھا۔
اگر تم مجھے منہ لگا لو تو وعدہ کرتا ہوں باہر کبھی منہ نہیں ماروں گا۔۔۔
میرب کی گردن پر اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے تیمور نے گھمبیر لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسے بے بس کر دیا۔
جو تیمور کی جان لیوا گرفت پر اندر سے کانپ اٹھی تھی۔۔
تت تیمور چچچ چھوڑو۔۔۔' اپنے چہرے پر اسکے ہونٹوں کے آگ کے مانند جھلستے لمس کو پاتے وہ اندر تک لرزی تھی۔
اششششش سب کیا سوچیں گے رات کو اتنی چیخی تھی اب کیسے پرسکون ہے کیا میرے جیسے ظالم شخص نے اس معصوم لڑکی کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔
ناں ناں میں اپنا نام ہرگز بدنام نہیں ہونے دوں گا اس کا ایک ہی حل ہے کہ میں یہ ثابت کروں کہ میں نے تم پر بےتخاشہ ظلم ڈھائے ہیں۔
اسکی بے پرکی سنتے میرب نے جھٹ سے آنکھیں کھولے حیرانگی سے اسے دیکھا،
جس کے لبوں پر معنی خیز سے مسکراہٹ تھی,
اپنا شدِت بھرا لمس میرب کے ہونٹوں پر چھوڑتے وہ مسکراتا اسے فریز ہوا دیکھ وارڈروب سے کپڑے نکالتے ایک بار پھر سے اسکے گال پر اپنا لمس چھوڑتا ٹھک سے دروازہ بند کر گیا۔
ایک دم سے نیچے گرنے پر اسکی آنکھوں کے سامنے مکمل اندھیرا چھا گیا،وجود جو پہلے ہی سرد ہوا پڑا تھا،برف میں اوندھے منہ گرنے پر جیسے سردی سے جم چکا ہو،،،
اپنے سن ہو چکے وجود کو حرکت دیتی وہ بمشکل سے اپنی ہتھیلیوں کو ہاتھ کی سیدھی طرف سے برف کے ڈھیلوں پہ رکھے اپنی پوری قوت لگائے سیدھی ہونے لگی۔
وہ ایک اسپیشل فورس آرمی آفیسر تھی جس نے اپنے ساتھ کام کرتے دس نوجوانوں کو ہرا کر آج یہ جگہ یہ مقام حاصل کیا تھا۔
لوگوں کی کھڑی کی چھوٹی چھوٹی مشکلیں اسے توڑ نہیں سکتی تھیں۔
مگر یہ بھی سچ تھا کہ قدرت سے لڑ پانا انسان کے بس کی بات ہرگز نہیں ہے، انسان چاہے جتنا مرضی دانا عقلمند ہو جائے وہ اپنے خالق کی قدرت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہیں ناں کہیں کوئی ناں کوئی چیز ایسی ضرور آتی ہے جس کے آگے کی سوچ سمجھ اسکے دماغ کو معاوف کر دیتی ہے اور پھر وہ خدا پر چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا تھا۔۔
ایسا ہی اس وقت الایہ کے ساتھ تھا،وہ دنیا کی ہر مصیبت ہر طنز،اپنوں کے رویوں کا سامنا کرتی آج اپنے وجود میں اتنی طاقت بھی محسوس نہیں کر پا رہی تھی کہ خود کو سنھبال کے کم از کم سیدھی ہو سکے۔
اسکا دماغ بری طرح سے چکرا رہا تھا،انکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا مگر وہ کمال ہمت سے بمشکل سے خود کو اس بڑے سے برف کے ڈھیلے سے نکالنے میں کامیاب ہوئی تھی،
اسنے چکراتے سر کو تھامے اپنی کنپٹی کو انگلیوں کے دباؤ سے ہلایا اور آنکھوں کو زور سے بند کرتے کھولتی وہ آس پاس دیکھتی اذلان کو تلاشنے لگی۔۔
وہ بھی اس دھماکے سے ہوئی اتھل پھتل میں ضرور کہیں دور برف میں دھنسا ہوا ہو گا۔۔۔
الایہ نے سوچتے اپنا ایک جانب لڑکھتا سر تھامنا چاہا۔
مگر اسکے ہاتھ ایسے تھے جیسے ان میں جان تک باقی ناں ہو۔۔ اپنی بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ جو آخری منظر اسنے دیکھا تھا وہ اذلان کا دیوانہ وار اپنی طرف آنا تھا۔۔
وہ بھاگتا دھڑکتے دل سے اپنے سرخ ہو چکے چہرے پر گری برف کو بازوؤں سے اپنی جیکٹ پر رگڑتا اسکے قریب ہوا،
بے حد نرمی سے الایہ کا سر تھامے اذلان نے اپنے دائیں گھٹنے پر رکھا،،اور ہاتھ سے اسکا سرخ بےسدھ چہرہ تھپتھپایا۔۔۔
ماہی۔۔۔۔" اسکی پکار میں بے چینی تھی شدت الفت۔۔۔۔الایہ کی بند آنکھوں کو دیکھ اذلان کی حالت اسکی ایسی تھی جیسے کسی نے بے دردی سے اسکے دل کو سینے سے کھینچتے نکالا تھا،
ہیے۔۔۔۔۔ اٹھو یار تنگ مت کرو مجھے ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔"
الایہ کے ٹھنڈ سے نیلے پڑتے ہونٹوں کو دیکھ اذلان نے گال پر لڑکھتے ایک بے مول سے آنسوں کو بے دردی سے رگڑا،،
لہجے میں لڑکھڑاہٹ اسکے دل کی غیر ہوئی حالت کو عیاں کر رہی تھی، تمہیںں کچھ نہیں ہو گا سنا تم نے میں اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا تمہارا۔۔۔۔۔"
الایہ کی مدہم پڑتی سانسوں کی آواز سنتے اذلان کو لگا جیسے کسی نے اسکے دل کو پاؤں کے نیچے بری طرح سے کچل ڈالا ہو،
جبھی بے حد نرمی سے اس بے جان وجود کو اپنی بانہوں۔ کے شدت بھرے حصار میں۔ لیتے وہ ہمت کرتا آٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
مگر آنکھوں کے سامنے جلتے شعلے اسی کے فلیٹ کی تباہی کو آشکار کر ریے تھے،اذلان کا بس نہیں تھا کہ ابھی ان سب کو زندہ درگور کر دیتا جن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔
مگر اس وقت اسے اپنی بانہوں میں موجود اس نازک وجود کی پرواہ تھی۔۔۔۔
کوئی راستہ کوئی منزل نہیں تھی،مگر وہ جانتا تھا کہ اسے کسی بھی طور اپنی ماہی کو بچانا ہے۔۔
اسکی آنکھوں کے سامنے پھر سے وہی منظر لہرایا جب وہ چھوٹی سی اونچی پونی ٹیل کیے اسکے قریب بیٹھی اپنی انگلی سے اسے وارن کرتے کہہ رہی تھی کہ
" مجھے صرف تم ماہی کہہ سکتے ہو تم امن سے اور باقی سب سے کہو مجھے اس نام سے تمہارے سوا کوئی مت پکارے کیونکہ میں صرف تمہاری ماہی ہوں اور کسی کی نہیں۔۔۔۔۔!"
تم صرف میری ہو ماہی تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔" نم آنکھوں سے اس بے جان ہوتے چہرے کو دیکھتا جیسے وہ خود کو یقین دلا رہا تھا،
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
تم نے مان توڑا ہے میرا مجھے شرم آتی ہے تمہیں اپنا بیٹا کہتے۔۔۔۔۔"اسنے سرد بے تاثر نگاہوں سے اس گھر کی دہلیز کو دیکھا،،
ایک دم سے گزرے وقت کی کرچیاں وہ بھیانک لمحے یاد آتے ہی شہد رنگ آنکھوں میں ایک دم سے نمی سے گھل گئی،
شدتِ ضبط سے لب بھینچتے اسنے خود پر ضبط کیا وگرنہ دل اس وقت کہیں بھاگ جانے کا تھا،
معا اسے اپنے ہاتھ پر کسی کی نرم گرفت محسوس ہوئی، امن نے حالی حالی نگاہوں سے غائب دماغی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا، جہاں ایک کمزور سا ہاتھ اسکے بھاری ہاتھ کو گرفت میں تھامے ہوئے تھا،
امن نے ایک دم سے سامنے دیکھا،،جہاں رمشہ نے مسکراتی نظروں سے سر ہاں میں ہلائے اسے اپنے ہونے کا احساس دلایا،
ایک گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے امن نے اپنی ماما کے ہاتھ پر پکڑ سخت کی، دوسری جانب چلتی حیا پورے اعتماد سے اسکے ساتھ ہمقدم ہوتی آج اس گھر میں ایک بہو کی حیثیت سے آئی تھی،
اشعر کیس کی ایمرجنسی کا بولتے کراچی جا چکا تھا اور رمشہ اچھے سے جانتی تھی اسکے بہانے کو مگر اس بار وہ شوہر کی ںےجا کی ضد کے پیچھے اپنے جگر کے ٹکڑے کو چھوڑ نہیں سکتی تھیں۔
امن رمشہ کو تھامے اس گھر کی دہلیز عبور کرتا اندر داخل ہوا سب کچھ ویسا ہی تھا،کچھ بھی نہیں بدلا سب ویسے کا ویسے تھا۔۔ جیسا وہ چھوڑ گیا تھا،ایک سرد سانس فضا کے سپرد کرتے وہ آگے بڑھا،،
امن اب جاؤ گے تو نہیں مجھے چھوڑ کے۔۔۔۔۔؛" امن جیسے ہی رمشہ کو روم۔میں لے جاتے بیڈ پر لٹاتے باہر جانے لگا رمشہ نے ڈرتے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔
رمشہ کی بات سنتے امن کے شفاف ماتھے پر پڑے بل فوراً سے سمٹے تھے،
ماما کبھی نہیں جاؤں گا آپ بھروسہ رکھیں مجھ پر_____" رمشہ کی پیشانی پر بوسہ دیے وہ محبت سے بولا،،
تو پھر یہیں بیٹھ جاؤ،،،؛" رمشہ کی آنکھوں میں خوف کے تاثرات دیکھتے امن بنا کچھ کہے انکے پاس بیٹھا۔۔۔
حیا کہیں بھی نہیں تھی امن نے تھکن سے چور اپنی آنکھوں کو موندے پرسکون ہونا چاہا تھا،،جبکہ رمشہ اسے دیکھتے دیکھتے کب کی سو چکی تھی۔امن نے محبت سے اپنی ماما کو دیکھا اور پھر نرمی سے انکے ماتھے پر بوسہ دیے وہ حیا کو ڈھونڈتے روم سے باہر نکلا۔۔۔
کسی بھی کمرے میں جانے کی ہمت تو نہیں تھی جبھی وہ کچن کی جانب پانی پینے کی غرض سے گیا،،، تو سامنے ہی اسے پایا جو دوپٹہ کمر پر باندھے گھنے بالوں کو جوڑے میں قید کیے گلابی رنگ کے سوٹ میں ملبوس مصروف سے انداز میں جانے کیا تیار کر رہی تھی۔
امن کی آنکھوں میں ایک دم سے خمار دھر آیا وہ دھیمے قدموں سے چلتا اسکے قریب ہوا اور نرمی سے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا۔۔
حیا اچانک سے اسکے ردعمل پر چونکتے گردن گھمائے اسے دیکھنے لگی،،
جس کے لبوں پر مدہم سی مسکراہٹ تھی جبکہ آنکھوں میں خمار____
امممن پپپیچھے ہٹیں۔۔۔۔" اپنے پیٹ کے گرد لپٹے اسکے ہاتھ کو کھولنے کی کوشش کرتی وہ منمنائی۔۔۔"
امن نے لب حیا کی گردن پر رکھتے اس جان لیوا خوشبو میں گہرا سانس بھرا،،،
کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔؟" اسکی بات کو نظر انداز کرتے امن نے اسکے کان میں گہری سرگوشی کرتے ہونٹ حیا کے کان کی لو پر رکھے جو بری طرح سے کنفیوز ہو رہی تھی،
کک کچھ بھی نہیں آپ کے لئے اور پھپھو کے لیے کچھ بنا رہی ہوں کھانے کو۔۔۔۔!"
نظریں جھکائے وہ مدہم سی آواز میں بمشکل سے بولی تھی،،
امن نے اچانک سے اسکا رخ موڑتے اسے سامنے کیا،حیا کا دل امن کی بے باک حرکتوں پر بری طرح سے دھڑک رہا تھا،
وہ جلدی سے اپنی کمر کے گرد لپٹے اپنے دوپٹے کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی کہ امن نےفوراً سے ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھتے اسکی کوشش کو ناکام بنایا۔۔۔
مجھے حق ہے تمہیں ہر روپ میں دیکھنے کا،،تو اب چپ چاپ میرے قریب آؤ اور خاموشی سے میرے سینے سے لگتے مجھے سکون دے دو...."
اپنی بانہیں پھیلائے وہ اسے حکم دینے کے سے انداز میں بولا تو حیاء نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا۔۔۔
امن آپ جائیں پھپھو کے پاس مجھے کام کرنے دیں۔۔۔"
اسکا دھیان بھٹکانے کی خاطر حیاء نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے کرنا چاہا تھا،
مگر ایک ہی جھٹکے میں اسے بازو سے دبوچتے وہ کھینچتے اسے بے حد قریب کر چکا تھا۔۔
اپنے ہونٹوں پر امن کی شدت بھری گرفت پر حیاء کو اپنا سانس رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔۔۔"
جبکہ امن کافی دیر تک حیاء کی خوشبو کو خود میں اتارتا پیچھے ہوا،،جو نڈھال سی لمبے لمبے سانس بھرتے اپنا سر اسکے سینے سے ٹکا گئی۔۔۔
امن نے نرمی سے اسے حصار میں لیا۔۔
لبوں پر ایک مدہم سی مسکراہٹ تھی،، تمہاری جائے پناہ یہی بانہیں ہیں لختِ جگر تو مجھ سے ضد مت کیا کرو،،ابھی تک محبت نچھاور کی ہے اگر جنون دکھانے پر آ گیا تو تمہاری چھوٹی سی جان کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔۔۔۔"
حیاء کے چہرے پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑتے وہ گہری سرگوشی میں بولا تو حیاء کے کان سائیں سائیں کرنے لگی وہ خاموش خود کو اسکے سپرد کر گئی۔
جانتی تھی امن کا کہا ایک ایک لفظ سچ تھا اور اب وہ سوئے ہوئے شیر کو غصہ تو ہرگز نہیں دلا سکتی تھی۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
ویام تم نے کہا تھا کہ تم مجھے ماما سے ملانے لے جاؤ گے تو اب مجھے کیوں نہیں لے کر جا رہے تم۔۔۔۔؟"
آنکھوں میں ڈھیروں آنسوں لائے وہ خفا خفا سی اسے دیکھتی منہ پھلائے بولی، گاڑی پتھریلی روش پر روکتے ویام پوری طرح سے اسکی جانب گھوما تھا،
اپنی خوشبو میں مہکتے اس نازک سی گڑیا کو دیکھ ویام کا دل پھر سے بے ایمان ہو رہا تھا وہ خود پر سے اختیار کھوتا عیناں کی جانب جھکا مگر عیناں نے فورا سے رخ موڑتے ہاتھ سینے پر باندھے اپنی ناراضگی کا اعلان کیا ۔
مجھے ابھی جانا ہے عین کسی ضروری کام سے موم لے جائیں گے تمہیں____اب کیا دو منٹ تمہیں محسوس کر لوں،،،"
عیناں کی کمر کے گرد اپنا مضبوط حصار بنائے ویام نے اسے اٹھائے اپنے نزدیک تر کیا،جو ہاتھ اسکے سینے پر رکھتے اس سے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی،۔
کہاں جا رہے تم....؟ابھی آئے ہو تم پھر سے کیوں جا رہے ہو_____؟"
ویام کو دیکھتی وہ ایک دم سے حیرت زدہ سی عجیب سے تاثرات سے اسے دیکھتے پوچھنے لگی،، ابھی اسے آئے وقت ہی کتنا ہوا تھا جو وہ پھر سے جا رہا تھا،،عیناں کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا،،
دل پسلیوں سے پٹھک رہا تھا ابھی اسکے سنگ اسکی قربت میں کتنا عرصہ گزدا تھا جو وہ پھر سے جا رہا تھا
گرے کانچ سی آنکھوں۔ میں جھلکتے موتیوں نے پل بھر میں ویام کو مبہوت کیا تھا،
وہ بے حد نرمی سے عیناں کے چہرے کو تھامے شدت، محبت سے اسکے آنسوں چنتے دونوں آنکھوں پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑتے اسکے گال پر موجود تل پر لب رکھ چکا تھا،،
جانا ضروری ناں ہوتا تو میں کبھی بھی ناں جاتا، صرف کچھ دنوں کی بات ہے عین واپس آ جاؤں گا میرے جنون۔۔۔۔۔؛"
عیناں کی دھڑکنوں کی روانی ویام کو کمزور کر رہی تھی، وہ خود اسے چھوڑ کر کہاں جانا چاہتا تھا ابھی تو اسے بہت سے اہم کام سر انجام دینا تھے۔۔۔
مگر اب وقت آن پہنچا تھا اسے جلد از جلد پیرس جانا تھا،،
وعدہ کرتا ہوں جلدی آ جاؤں گا۔۔۔۔"عیناں کی تھوڑی کو چومتے وہ مٹھاس سے بھرپور گھمبیر لہجے میں اسکے کانوں میں رس گھولنے لگا۔۔۔
عیناں نے غصے،دکھ سے لب مضبوطی سے بھینچتے اسے پیچھے کو دھکہ دیا۔۔
اور بنا کچھ کہے گاڑی کا دروازہ کھولتے وہ اندھا دھند اندر بھاگی تھی۔۔
ویام نے دور تک اسے جاتا دیکھا اور پھر بے بسی سے سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا۔۔۔۔
وہ جانتا تھا یہ وقت یہ لمحے ان پر عیناں کا حق تھا،،
وہ خود بھی اس وقت کو خوبصورتی سے یادگار بنانا چاہتا تھا مگر اپنے فرض کے آگے وہ مجبور تھا،،
وہ شروع سے ہی اپنی جاب کو لے کر کافی اٹیچ تھا،، حب الوطنی کا جوش جذبہ اسکی رگوں میں دوڑتے خون کی مانند سرائیت کر رہا تھا ۔
مگر وہ اپنے رشتوں سے بے گانہ ہرگز نہیں تھا۔۔اسکا ہر فیصلہ کافی سوچا سمجھا ہوا کرتا تھا۔۔
پھر چاہے وہ عیناں سے نکاح کا ہو، اذلان اور الایہ۔کو ایک ساتھ پیرس بھیجنا ہو، انزک کو مجبور کرتے روز سے شادی کروانا، یا پھر امن کو حیاء سے نزدیک کرنے کے لئے حیاء کے سامنے ساری حقیقت آشنا کرنا تاکہ وہ اپنے اور امن کے رشتے کو دل سے قبولے اور امن کے لئے اپنے دل میں موجود نفرت کو نکال دے۔۔ اور اب اسنے جو فیصلہ لیا تھا وہ جانتا تھا یہ فیصلہ کس حد تک خطرناک تھا مگر اسکا نتیجہ کیسا نکلے گا وہ اس بات سے بھی آگاہ تھا۔۔۔۔
اسکے لئے اپنا ملک اور اپنے رشتے ایسے تھے جیسے دل میں دھڑکتی سانسیں ہوں۔۔۔وہ کسی کو بھی دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا تھا یہ بات اور تھی کہ وطن کے لئے وہ سب سے دور ضرور جاتا تھا مگر وہ اپنوں کے لمحہ با لمحہ قریب تر ہوتا تھا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
حور______!" وہ اندر آیا تو چہرے پر پھیلی سنجیدگی پریشانی اپنی پرنسز کو دیکھتے ہی کہیں دور جا سوئی تھی،
وہ مسکراتے اسے پکارتا اپنی بانہیں پھیلائے کھڑا ہوا،
تو حور جو پریشانی سے ویام کے کمرے کو دیکھ رہی تھی ویام کی آواز پر وہ چونکتے پیچھے کو مڑی۔۔۔
اپنی بھائی کو دیکھ وہ بھاگتے ویام کے سینے سے جا لگی ۔۔۔
بھائی کی پرنسز کیسی ہو۔۔۔۔۔" حور کے سر پر بوسہ دیے وہ محبت سے پوچھنے لگا۔۔۔ تو حور نے مسکراتے آنکھیں موندے اس سکون کو حود۔میں اتارا۔۔۔
کتنی مخفوظ پناہ گاہ ہوتی ہے بھائی کا حصار انکا سایہ، بلکل باپ کا دوسرا روپ جن کے سینے سے لگتے ہر لڑکی یہ بھول جاتی ہے کہ وہ کتنے غموں کتنی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔۔۔
صرف ایک بات یاد رہتی ہے کہ ہاں وہ اکیلی نہیں آسکا مخافظ اسکا دوسرا باپ اس دنیا میں موجود ہے ایک بھائی کے روپ میں،
جو انہیں دنیا کی ہر سرد و گرم سے بچائے گا کسی کی بری نظر تک اپنی بہن پر نہیں پڑنے دے گا۔۔۔۔
حور نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے سر ویام کے سینے سے نکالا۔۔۔۔
بھائی عین کو کیا ہوا وہ روتی ہوئی اندر بند ہو گئی۔۔حور کو یاد آیا تو فورا سے عیناں کے متعلق پوچھا ویسے بھی ویام۔کے سوا اسے عین کہنے کی جرت صرف حور ہی کر سکتی تھی۔۔۔
کچھ نہیں تمہاری بیسٹی کو عادت ہے بات بات پر منہ بنا کر روٹھنے کی،،"
ویام میری جان۔۔۔۔۔"ابھی وہ حور سے مزید کوئی بات کرتا اس سے پہلے ہی نیناں جو ویام کی گاڑی کی آواز سنتے نیچے آئی تھی اب اسے آنکھوں کے سامنے دیکھ وہ بھاگتے اسکے قریب جاتی اسکے سینے سے جا لگی۔
ویام نے لپکتے نیناں کو سینے سے لگایا۔۔
کہاں تھے تم اور عیناں کہاں ہے اتنی دیر کیوں لگا دی آنے میں۔۔۔؟"
ویام نیناں کے سوال سنتا ہلکا سا مسکراتے اسے سینے سے لگائے صوفے کی جانب بڑھا اور نرمی سے اسے صوفے پر بٹھاتے اسکے قریب بیٹھا۔۔
ماما عین اندر ہے آپ بے فکر ہو جائیں ٹھیک ہیں ہم دونوں۔۔۔۔"
نیناں کی پیشانی پر بوسہ دیے ویام نے اسے سینے سے لگائے تسلی دی تو وہ پرسکون سی ہوتے آنکھیں موند گئی۔۔
موم۔۔۔۔؛" اسے نکلنا تھا تھوڑی دیر تک کرپس کی بار بار آتی کالز کو نظر انداز کرتے ویام نے نیناں کو خود سے الگ کیا۔۔
موم مجھے ابھی نکلنا ہے تھوڑی دیر میں_______" نیناں کی آنکھوں میں دیکھتے وہ نیناں کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو جانچ رہا تھا، موم پلیز آپ عین کے جیسے مت کریں میں کمزور نہیں ہونا چاہتا آپ جانتے ہیں ناں کہ میری زندگی پر سب سے پہلا حق میرے ملک کا ہے اور میں کبھی بھی اپنی زمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔۔۔"
نیناں کے ہاتھوں کو تھامے وہ منت بھری نظروں سے اسے دیکھ التجائی لہجے میں بولا تو نیناں نے لب بھینچتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔
ڈیڈ کہاں ہیں۔۔۔؟"وریام کو ناں پاتے ویام نے جلدی سے انکا پوچھا۔۔
وہ فدک کو دیکھنے ہاسپٹل گئے ہیں۔۔۔۔!" اپنی آنکھوں کے گوشے صاف کرتی وہ نرم لہجے میں بولی،،
بھائی یہ رہی میری بیسٹی۔۔۔۔۔۔؛" حور جو عیناں کو ساتھ لیے باہر آئی تھی اب ویام کو دیکھتے چہکتے کہا تو نیناں اور ویام دونوں نے ہی رخ موڑتے اسے دیکھا۔۔
سرخ رنگ کی گھٹنوں تک جاتی خوبصورت فراک کے ساتھ بلیک ٹائٹس اور بلیک ہی دوپٹہ سر پر لئے،،سوجھی متورم گرے کانچ سی آنکھیں،پھولے پھولے نرم گلابی گال، کھلا کھلا مہکتا وجود نیناں نے دیکھتے بے ساختہ ہی ماشاء اللہ کہتے اسکے قریب جاتے عیناں کو سینے سے لگایا۔۔۔
عیناں جھینپ سی گئی۔۔۔ اپنے اوپر ویام کی گہری نظروں کو پاتے بھی وہ انجان بنی نظریں چراتی رہی۔۔
موم اب اپنی بہو کے ساتھ مل کر شاپنگ شروع کر دیں۔۔۔" وہ اٹھتے حور کے قریب جاتے اسے حصار میں لیتے بولا ۔
تو سبھی نے چونکتے اسے دیکھا۔۔۔
کس بات کی شاپنگ ویام۔۔۔۔۔۔؟" نیناں نے حیرانگی سے پوچھا جبکہ عیناں اور حور کا ری ایکشن بھی یکسر ایسا ہی تھا۔
موم میں نے اور ڈیڈ نے حور کی شادی کا سوچ لیا ہے ایک دو دن تک لڑکا آئے گا یہاں آپ اسے مل لیں دیکھ اور پرکھ بھی لیجیے گا،،"
اگلے ہفتے حور کی شادی طے ہے۔۔۔۔"
ویام کی کہی بات پر عیناں، نیناں اور حور تینوں ہی حیرت زدہ سی آنکھیں پھیلائے اسے دیکھے گئی ۔
ویام کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔!" موم ابھی کوئی بات نہیں کریں جب لڑکا آئے تو اسے دیکھنے کے بعد آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر مجھے یقین ہے آپ کا جواب بھی ہاں میں ہو گا اور حور کا بھی۔۔۔۔
حور کے سر پر ہاتھ رکھتے وہ محبت سے مان بھرے لہجے میں بولا تو حور لب بھینچتے اپنے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔
اچھا موم میں نکلتا ہوں ۔۔۔۔۔" نیناں کو حصار میں لیتے وہ ہونٹ نیناں کے سر پر رکھتے بولا تو نیناں بنا کچھ کہے اسے ڈھیروں دعائیں دیتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
ویام اپنی موم کی ناراضگی پر گہرے سانس بھرتے عیناں کی جانب متوجہ ہوا جو خود خفا سی حور کے روم کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔
ویام نے فورا سے اسکا نازک ہاتھ پکڑا۔۔۔۔
بیسٹ آف لک نہیں کہو گی زندگی_____" لبوں پر بھرپور مسکراہٹ سجائے وہ شاہانہ چال چلتا عیناں کے قریب تر ہوا۔۔۔۔؛"
میری ہر دعا ہر سانس پر تمہارا حق ہے ویام_____ تم فاتح ہو کر لوٹو گے مجھے یقین ہے اور میں انتظار کروں گی اس دن کا۔۔۔۔"
ویام کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے عیناں نے ہونٹ اپنے ڈمپلز پر رکھتے کہا تو ویام کے ہونٹوں پر جان لیوا مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔۔۔
خیال رکھنا اپنا موم اور حور کا۔۔۔۔۔" عیناں کی سانسوں کو خود میں اتارتا وہ نرمی سے ہونٹ عین کی تھوڑی پر رکھتے کہتا جلدی سے باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔
عیناں نے دور تک اسے دیکھا اور پھر گہرا سانس لیتے وہ حور کے روم کی جانب بڑھی۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
حور کیا ہوا ہے یار تم اس قدر پریشان کیوں ہو گئی ہو۔۔۔؟"
عیناں حور کے قریب جاتے اسکے پاس بیٹھی جو بیڈ کے قریب نیچے بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔
حور تم مجھ سے اپنی پرابلم شئیر کر سکتی ہو یار ہم دوستیں ہیں۔۔۔۔۔!" حور کو بازو سے تھامے عیناں نے نرمی سے اسکے بال سمیٹتے کاندھے پر ڈالتے محبت سے کہا۔۔
حور نے لب بھینچتے اپنی سسکیوں کو دبایا اسکا غم دن با دن بڑھتا جا رہا تھا اب ویام کا دوست اسے دیکھنے آ رہا تھا،
اور اگلے ہفتے اسکی شادی تھی یہ سب ویام کی ضد پر ہو رہا تھا جس کے بعد سے ہی حور کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب تھی،
عیناں میں یہ شادی نہیں کر سکتی یار تم بھائی کو سمجھاؤ پلیز۔۔۔۔۔"
حور نے بے بسی سے اپنی سوجھی سرخ نظروں سے عیناں کو دیکھتے کہا،
جان مجھے پہلے بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟" تم کیوں یہ شادی نہیں کر سکتی۔۔۔"
عیناں کو مختلف خدشات نے آن گھیرا بھلا ایسا کیا ہوا تھا کہ حور اتنی بے بس ہو گئی تھی۔۔
کیونکہ میں مجبور ہوں عین اس وقت کچھ مت پوچھو بس میری مدد کر دو پلیز۔۔۔۔۔۔!" عیناں کے ہاتھوں کو تھامے وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔۔۔
حور ویام چلا گیا ہے ابھی۔۔۔۔۔جب وہ آئے گا تو میں بات کروں گی یار تم پریشان مت ہو،،،اور یہ کیا حالت بنا لی ہے اپنی۔۔۔۔۔چلو اوپر آؤ،مجھے نیند آئی ہے ابھی ہم سوتے ہیں کچھ دیر کیلئے۔۔۔۔"
حور کی کمر کے گرد اپنا بازو لپیٹے وہ اسے ساتھ لیتی بیڈ کی جانب بڑھی۔۔۔۔
تم سوئی کیوں نہیں اور یہ آنکھیں کیوں سوجھی ہیں۔۔ عیناں کو دیکھتے وہ شرارت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی۔۔۔
وو وہ ایسے ہی انجان جگہ تھی تو نیند نہیں ائی۔۔۔" اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ بہانہ بنانے لگی۔۔۔
اوہ اچھا اچھا تو پھر یہ گردن پر نشان کیسے آئے لگتا ہے مچھر نے کاٹا ہو گا۔۔۔۔"
عیناں کی گردن پر بنے نشانات۔کو چھوتے وہ معصومیت سے آنکھیں مٹکاتے بولی تو عیناں نے اسے گھورا۔۔۔۔۔
جو عیناں کی سرخ رنگت کو دیکھتی قہقہ لگاتے ہنس پڑی تھی۔۔۔
جبکہ عیناں حور کے مسکرانے پر اسکی کی پریشانی کا سوچتے متفکر سی تھی۔
سر جیک آیا ہے۔۔۔۔۔؛" جورڈن نے جھکتے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسے آگاہ کیا۔ مقابل کے ماتھے پر ڈھیروں بل نمودار ہوئے ، کمرے میں ایک ساتھ ٹھاہ ٹھاہ کی دل دلدوز آواز گونجی جس میں نکلتی اس مردہ وجود کی چیخیں کسی کو بھی واضح سنائی نہیں دی تھی۔
ایچ اے آر نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑی گن کو دیکھا اور پھر سامنے ادھڑے بےجان ہو چکے وجود کو،،،
انگوٹھے کی مدد سے اپنے ماتھے پر لگے خون کو صاف کرتا وہ جھٹکے سے جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
گن بیلٹ میں لگاتے وہ تیزی سے باہر کی جانب نکلا۔۔۔۔
اسکے ساتھی تیز تیز قدم اٹھاتے اس کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہلکان ہو رہے تھے جو ہوا سے باتیں کرتا آگے بڑھ رہا تھا۔
آفس روم میں جاتے ایچ اے آر نے فورا سے اپنی جگہ سنبھالی____ کمرے میں ایک دم سے مکمل خاموشی چھا گئی۔۔
وہاں موجود ہر فرد ایک لائن میں کھڑا ہاتھ سینے پر باندھے احتراماً نظریں جھکائے ہوئے تھا،
جیک کیا بنا اس لڑکی اور لڑکے کا۔۔۔" اپنے ہاتھ پر سفید پٹی باندھتے ایچ اے آر نے بھاری لہجے میں پوچھا،
سر وہ دونوں شاید میاں بیوی تھے،جنہوں نے ہمارا پلان تباہ کر دیا _____ مجھے بار بار ایک ہی بات سننے کی عادت نہیں۔۔۔۔۔ جیک۔۔۔۔، کیا کیا تم نے انکے ساتھ یہ بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔"
ایچ اے آر غصے سے دونوں ہاتھ سامنے موجود ٹیبل پر پٹھکتا غراتے جگہ سے اٹھا۔۔
سر وہ دراصل میں نے اس اپارٹمنٹ کو اڑا دیا ہے جہاں وہ دونوں رہ رہے تھے،،،"
جیک اسکے غصے سے ڈرتا جلدی سے بولا۔۔۔
ہممممم____ مجھے دیکھنا ہے اس لڑکے اور لڑکی کو آخر ایسا کون تھا جس میں ایچ اے آر کا مقابلہ کرنے کی ہمت اس قدر ہے ۔۔۔؛"
ایچ اے آر نے جلدی سے کہا تو جیک فورا سے لیپ ٹاپ لینے بھاگا۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے جو کچھ بھی ہو رہا تھا اوپر سے روز کی کڈنیپنگ نے اسے مکمل طور پر جانور بنا دیا تھا،،۔
وہ انسانوں کو ایسے ادھیڑ رہا تھا جیسے وہ۔ںے جان شے ہوں۔۔۔ اگلے دو منٹ میں جیک لیپ ٹاپ لئے وہاں پہنچا۔۔۔
لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھے اسنے کلپ آن کی۔۔۔۔ ایچ اے آر مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ تھا،
کیا تم پاگل ہو یہ کونسی کلپ لگائی ہے تم نے۔۔۔۔۔" سامنے چلتی کلپ میں الایہ کو دیکھ ایچ اے آر ہتھے سے اکھڑ گیا ایک دم سے جیک کو گریبان سے تھامے وہ اونچی آواز میں غرایا۔۔۔۔
سسسر یہی ککک۔۔ کلپ ہے اور یہی وہ لڑکی اور ۔۔۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتا ایک دم سے ایچ اے آر نے اسکی دائی ٹانگ پر فائر کرتے اسے چیخنے پر مجبور کر دیا۔
جیک بری طرح سے بلبلاتا ہوا زمین پر کسی کیڑے کی مانند رینگ رہا تھا۔۔۔
جس لڑکی کو تو نے جلانے کی کوشش کی ہے جانتا بھی تو کہ وہ کون ہے۔۔۔۔۔"
وہ جنون ہے ایچ اے آر کا میرا نشہ ہے وہ۔۔۔۔۔۔؛" اگر اسے ایک زخم بھی آیا تو تیری بوٹیاں کتوں کو بھی نصیب نہیں ہونگی ۔۔۔؛"
جیک کی دوسری ٹانگ پر فائر کرتا وہ پاگلوں کی طرح چیختا کوئی جنونی پاگل شخص دِکھ رہا تھا،،
گاڑی نکالو مجھے ابھی اس جگہ پر جانا ہے جہاں وہ اپارٹمنٹ ہے۔۔۔۔۔؟"
جیک کے ماتھے کے بیچ فائر کرتے وہ بالکل سپاٹ چہرے سے مڑتا سامنے کھڑے جورڈن سے مخاطب ہوا جو جیک کے خشر کو دیکھ بری طرح سے کانپ رہا تھا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
روز فیس واش کرو اور جلدی سے نیچے آؤ۔۔۔۔۔" دروازے سے اندر جھانکتے انزک نے بیڈ پر بیٹھی روز کو مخاطب کیا جو ایل سی ڈی پر جانے کونسی انگلش مووی دیکھ رہی تھی۔۔
اوکے۔۔۔۔!"وہ جلدی سے ایل سی ڈی آف کرتے جگہ سے اٹھی تو اسکی فرمانبرداری پر انزک مسکراتا نیچے اترا۔۔۔۔
ایپرن اتارتے ایک جانب رکھتے وہ مسکراتے ٹیبل پر کھانا لگانے لگا۔۔
اسکے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ تھی، جب سے رافع نے اسے کال کر کے عیناں کے آنے کا بتایا تھا وہ بے حد خوش تھا۔
اسے یقین تھا کہ اب اسکی موم ٹھیک ہو جائینگی۔۔ روز کو کھانا کھلانے کے بعد وہ خود بھی ہاسپٹل جانے والا تھا۔۔
ہیے۔۔۔۔۔ تم سمائل کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔؛" سیڑھیاں پھلانگتے نیچے آتی روز نے حیرت سے اسکی خوبصورت سمائل کو دیکھتے کہا تو انزک نے انچ دیتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
وہ سٹپٹاتے اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسنے کی کوشش کرتی انزک کو کافی کیوٹ لگی۔۔۔۔
ادھر آؤ جلدی سے میں نے بہت محنت سے پاکستانی ڈنر تیار کیا ہے اب تم کھا کر بتاؤ گی کہ لندن کا کھانا مزے کا ہے، یا پھر ہمارے پاکستان کا۔۔۔۔"
اسے پاس بلاتے انزک نے روز کے قریب آتے اسکا ہاتھ تھامے اپنے سامنے بٹھایا۔۔۔
تو مطلب یہ تمہارا ملک نہیں ہے کیا تم بھی تو یہاں رہتے ہو۔۔۔۔"
اپنی گولڈن آنکھوں کو حد سے زیادہ بڑا کیے وہ سنجیدگی حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔
ہاں یہ میرا بھی ملک ہے مگر جو محبت پاکستان کے ساتھ ہے وہ یہاں نہیں۔۔۔ کیونکہ میں نے اپنی ہائیر سٹڈی وہاں سے کی ہے وہ بھی ضد کر کے۔۔۔؛"
بریانی کی چمچ اسکے منہ میں ڈالتا وہ رسان سے اسے سمجھانے لگا۔۔۔
اوہ واؤ یہ تو بہت اچھی بات ہے تم مجھے لے کر جاؤ گے کیا مجھے بھی پاک دیکھنا ہے۔۔۔۔؛"
بریانی کی بائٹ چباتے وہ ساتھ ساتھ فرمائش بھی کر رہی تھی۔۔
انزک نے ایک نظر وائٹ سکرٹ میں دمکتے روز کے میدے جیسی سپید رنگت میں گھلی سرخی کو دیکھا جو انزک کو بے خود کر رہی تھی۔۔۔
جبھی وہ جھٹکے سے اسے کھینچتے اپنی گود میں بٹھا گیا۔۔ روز اس اچانک افتاد پر آنکھیں پھیلائے اسکے کندھوں کو بری طرح سے دبوچ گئی۔۔
لُکنک پریٹی۔۔۔۔۔؛"
روز کے گال پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتے وہ اسکے کان کی لو کو لبوں میں دبائے سرگوشی نما گھبیر آواز میں بولتا اسے لرزنے پر مجبور کر گیا۔۔۔
کک کڈنیپر۔۔۔۔۔" انزک کے شدت بھرے لمس کو اپنے نقوش پر پاتے وہ سانس روکتے بری طرح سے گھبرائی اسے باز رکھنے کو پکارنے لگی۔۔۔
تمہارا سیل بج رہا تھا روم میں۔۔۔۔۔؛" انزک کو خود سے دور کرنے کو وہ جھٹ سے بولی اور یہ سچ بھی تھا کہ جب وہ نیچے آئی تھی تب انزک کا سیل بج رہا تھا۔
مگر نیچے آتے روز کو اسے بتانے کا یاد نہیں رہا۔۔۔
بجنے دو بعد میں دیکھ لوں گا۔۔۔"
روز کی ناک پر لب رکھتے وہ بھاری جذبات سے بوجھل لہجے میں بولا۔۔
نن نہیں کوئی اہم کال ہو گی جاؤ دیکھو جا کر۔۔۔۔؛"اسکے لبوں پر اپنی ہتھیلی رکھتے وہ آنکھیں کھولے بولی۔۔
اوکے تم کھانا کھاؤ میں آتا ہوں۔۔۔۔۔؛" وہ سرد سانس فضا کے سپرد کرتا پھر سے چھوٹی سی جسارت کرتا جلدی سے روم کی جانب بڑھا تو روز نے گہرا سانس اندر کھینچتے شکر کا سانس لیا۔۔۔
کافی دیر تک انزک کے واپس ناں آنے پر وہ فورا سے جگہ سے اٹھی کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔۔
جتنی جلدی ہو سکے ایچ اے آر کو موت کے گھاٹ اتار دو___ میں زیادہ دیر تک روز سے جھوٹ نہیں بول سکتا،،ہمیں جلد از جلد اسے مارنا ہو گا اس سے پہلے کہ۔۔۔۔؛"
انزک جو کال پر کرپس سے بات کر رہا تھا آہٹ پاتے ہی وہ تیزی سے پیچھے کو مڑا جہاں حیرت زدہ سی کھڑی روز کا چہرہ لٹھے کی مانند تھا۔۔
انزک سمجھ گیا کہ اسنے ساری سات سن لی ہے۔۔۔۔
روز ادھر آؤ میرے پاس۔۔۔:" اپنے لبوں پر زبان پھیرتے وہ ہاتھ سے اسے پاس آنے کا اشارہ کرنے لگا جو حیرت بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی،
جیسے جانے وہ کوئی انجان ہو۔۔۔
ہاؤ ڈئیر یو سٹوپڈ مین۔۔۔۔۔۔۔؛تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔۔۔۔۔؛ روز غصے طیش سے انزک کو گریبان سے دبوچتے اس پر چیخنے لگی،
جو لب بھینچے اپنی بے وقوفی پر خاموش سا کھڑا تھا۔۔۔
تم نے جھوٹ بولا مجھ سے تم میرے بھائی کو مارنے آئے ہو۔۔۔۔۔ اور مجھے کڈنیپ کر کے یہ گیم کھیل رہے تھے میرے ساتھ۔۔۔۔"
چٹاخ۔۔۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی روز نے ایک روز دار تھپڑ انزک کے منہ پر دے مارا،،، جو ہکا بکا سا شرر بار نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
میں ابھی جاؤں گی بھائی کو سب بتاوں گی۔۔۔۔؛" انزک کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھوں سے دباؤ دیتے وہ پیچھے کو دھکہ دیتے باہر کو لپکی۔۔۔
انزک نے جبڑے بھینچتے اسے بازو سے تھامتے پیچھے بیڈ کی جانب دھکیلا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
میں کیا جواب دوں ڈائنہ میم کو سر____؟" پچھلے ایک گھنٹے سے لگاتار پش اپس کرتے پیسنے سے شرابور ایل کو دیکھتے مائیکل نے جلدی سے پوچھا۔۔
اسے لیلی(ڈائنہ) نے بھیجا تھا ایل کو پاس بلانے کیلئے۔۔۔۔ کیونکہ ایل پچھلے کافی دنوں سے لیلی سے لاتعلق تھا۔۔
لیلی اسے کھو نہیں سکتی تھی۔ لڑکیوں کے بزنس کو چھوڑ باقی سارے کام کا ماسٹر مائنڈ ایل ہی تھا۔
ہر ڈیلیوری ٹائم ٹو ٹائم بھیجنا اسکی ذمہ داری تھی۔ مگر پچھلے کچھ دنوں سے جس طرح سے وہ لیلی کو اگنور کر رہا تھا اوپر سے اسکے فلیٹ میں سلیمان شاہ کی موجودگی نے اسے آگ لگا دی تھی۔۔
عیناں کی موجودگی اسکے زندہ ہونے ہر ایک چیز سے ایل نے اسے انجان رکھا تھا۔
وہ کیوں یہ تو صرف ایل ہی جانتا تھا مگر فل وقت اسکا ذہن عیناں اور حور میں اٹکا تھا۔۔۔
ہممممم کیا خبر ہے۔۔۔۔"
کان میں لگی ائیرپیس کو پریس کرتے ساتھ ہی دوسری جانب سے آواز ابھری۔۔
آگے سے ملنے والی خبر نے اسے فریز کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔مگر پھر ہوش میں آتا وہ ایک جھٹکے سے ہاتھوں کے بل سیدھا ہوتے قدموں پر کھڑا ہوا۔۔
نیلی آنکھیں حددرجہ سرخ تھیں،جو اسکے راتوں سے جاگنے کی غمازی کر رہی تھی۔
ڈارک گولڈن بال سلیقے سے دونوں کندھوں پر بکھرے پڑے اسے مزید حسین بنا رہے تھے۔۔
ایل سر ووو۔۔۔۔۔۔؛" اگر اگلے دو منٹ میں اپنی یہ شکل میرے سامنے سے دفع نہیں کی تو تجھے اس دنیا سے دفع کر دوں گا۔۔۔۔"
مائیکل کی آواز اسے ڈسٹرب کر رہی تھی،،جبھی وہ مڑتے اسے گردن سے تھامے زمین سے اونچا کر گیا۔ اور سرد نظروں سے دیکھتے وہ دھاڑا تو مائیکل کا سانس تک خشک ہو گیا۔۔۔
ایل نے اسے کسی بے جان شے کی طرح دور پٹکھا۔۔۔
جو دُم دباتا فورا سے غائب ہوا تھا۔۔۔ بہت کھیل لیا تم نے ویام کاظمی مگر اب میری باری ہے ۔۔ اب میں اپنی سن شائن کو۔ تمہارے پنجرے سے آزاد کروا کے لے اڑوں گا دیکھتا ہوں کہ تم کیا کرتے ہو۔۔۔؟”
سرد نظروں میں ویام کا عکس سجائے وہ مضبوط لہجے میں بولتا معنی خیز سا مسکرایا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
پھپھو آج میں آپ کے پاس سوؤں گی۔۔۔۔۔؛" رمشہ کے گرد اپنا حصار بناتی حیاء سر اسکے کندھے پر رکھتے لاڈ سے بولی۔
تو امن جو رمشہ کی میڈیسن چیک کر رہا تھا اسکی بات پر ٹھٹکا اور پھر بڑی غور سے اسے دیکھا۔
بیٹا میں ٹھیک ہوں تم دونوں بھی کافی تھک چکے ہو تم اپنے کمرے میں آرام کرنا اور ویسے بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں بلا لوں گی۔۔۔۔"
امن کا سنجیدہ چہرہ دیکھ رمشہ نے حیاء کو پیار سے سمجھایا۔۔۔۔ تو حیاء نے منہ بسورتے رمشہ کو دیکھا۔۔
پھپھو پلیز ناں ایک رات سونے سے کیا ہو جاتا۔ہے۔۔۔۔؛
چلو ٹھیک ہے پھر آج تم میرے پاس ہی سو جانا۔۔۔۔"اسے بار بار انکار کرنا رمشہ کو اچھا نہیں لگا جبھی حامی بھر دی۔۔
جبکہ حیاء اپنی چالاکی پر دل سے خوش ہوتے امن کو دیکھ مسکراہٹ ضبط کرنے لگی۔
ٹھیک ہے ماما رات کافی ہو چکی ہے آپ دونوں ریسٹ کریں میں بھی سوتا ہوں۔۔۔"
رمشہ کے ماتھے پر بوسہ دیے وہ بظاہر نارمل سا مسکراتا کہتے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلا۔۔
جبکہ حیاء تو اسکی خاموشی پر ہی حیرت زدہ سی تھی۔۔
تھوڑی دیر رمشہ سے باتیں کرتے جانے کب ان دونوں کی آنکھ لگی وہ گہری نیند میں خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی۔۔
رات کے گیارہ بجے وہ دھیمے قدموں سے چلتا بنا آہٹ کیے روم میں آیا تو سامنے ہی حیاء کو رمشہ کے گرد حصار بنائے سوتا دیکھ اسکا دل عش عش کر اٹھا۔۔۔
پھر آہستگی سے بیڈ کے قریب جاتے امن نے جھکتے حیاء کو گود میں اٹھایا جو اب بھی مزے سے سو رہی تھی۔۔
میری نیند حرام کر کے خود کیسے مزے سے سو رہی ہو۔۔۔
منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا وہ لب دبائے اسے اٹھائے دبے قدموں روم سے نکلا۔۔۔۔ اسکے نکلتے ہی رمشہ جو جاگ رہی تھی۔۔ اسنے ہنستے سر نفی میں ہلایا۔۔۔ بلکل باپ پر گیا ہے۔۔ اشعر کا تصور آتے ہی وہ مسکراتے بولی۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟
اپنی گردن پر کسی کے جھلسا دینے والے آگ کی مانند گرم لمس کو محسوس کرتے وہ نیند میں ہی بری طرح سے بے چین ہوتے کسمساتے رخ موڑنے لگی۔۔
مگر کمر کے گرد حائل امن کے بھاری ہاتھ نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔
امن کی بڑھتی جنون خیزیاں کمر کے گرد تنگ ہوتی گرفت پر وہ پوری طرح سے نیند سے بیدار ہوتی خود پر قابض ہوئے امن کو دیکھ بری طرح سے گھبرائی۔۔۔
وہ تو رمشہ کے پاس تھی یہاں کیسے۔۔۔۔"
اممم امننن۔۔۔۔۔۔" امن نے چہرہ حیاء کی گردن میں چھپائے اسکے ہاتھوں کو اوپر کی جانب کیا تو حیاء اندر تک کانپی تھی ۔۔
بری طرح سے ڈرتے اسے پکارا۔۔ جو مکمل طور پر اسکی قربت کے نشے میں بہکا ہوا تھا۔۔
اششششش_______ بولو مت بس محسوس کرو۔۔۔۔؛" حیاء کے ہلتے گلابی ہونٹوں پر انگلی رکھتا وہ گھبیر لہجے میں بولا۔۔۔
مجھے تو تمہارے اور اپنے بیچ یہ فاصلے بناتی سانسیں بھی رقیب لگتی ہیں کجا کہ تم خود مجھ سے دور جاؤ۔۔۔۔"
حیاء کے کان میں سرد آواز میں پھنکارتا وہ ایک لمحے میں اسکے ہاتھوں کو دوپٹے سے باندھتا اسے خوف زدہ کر گیا۔۔۔
حیاء کا سانس سینے میں کہیں دبنے لگا امن کا پاگل پن دیکھ وہ اندر تک لرزی تھی۔اب بھی بری طرح سے کسی بن پانی مچھلی کی مانند پھڑپھڑاتے وہ خود کو امن کی دہکتی آگ کی مانند گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی ۔ جو کہ نا ممکن تھا۔۔۔
تمہارا نشہ حواسوں پر حود سے طاری نہیں ہوا تھا جو چند پلوں میں اتر جائے گا۔۔یہ وہ نشہ ہے جسے میں نے قطرہ قطرہ اپنے حواسوں پر طاری کیا ہے۔۔۔ایسے کیسے تمہیں خود سے دور رہنے دوں گا لختِ جگر_______"
امن کی بھاری سرگوشیوں کے ساتھ اپنی کمر پر سرکتا اسکا بھاری ہاتھ حیاء کی جان ہوا ہونے لگی۔۔۔
وہ سہی معنوں میں اس سے ڈر چکی تھی۔۔۔ جو اسکی سانسوں کو اپنی دہکتی سانسوں میں قید کیے اپنا جنون اپنا پاگل پن اس پر عیاں کرنے لگا۔۔
حیاء کا روم روم اسکی جھلساتی قربت میں پھگل رہا تھا۔۔
مگر وہ ظالم بنا آج کسی بھی طرح کا کوئی رحم نہیں دکھانا چاہتا تھا ۔۔۔ جبھی اسکے بندھے ہاتھوں کو اپنی گردن کا ہار بنائے وہ کسی بارش کی طرح حیاء کو اپنی محبت اپنی قربت میں بھگونے لگا۔۔۔
جو خاموشی سے خود کو اس کے سپرد کرتے اپنے آپ کو اسکی ہر طرح کی شدتوں کو سہنے کے لئے تیار کر چکی تھی۔۔
سردی کی شدت سے اسکا پورا وجود بالکل سن سا پڑ رہا تھا،وہ بمشکل سے اپنے پاؤں ان برف کے اونچے نیچے ٹیلوں پر رکھتے آگے بڑھ رہا تھا،
اپنے چہرے سے نکلتے دھوئیں پر وہ بند ہوتی آنکھوں کو زبردستی کھولتا خود کو ہوش میں رکھنے کی کوشش کرنے لگا،،،
لگاتار ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا اسے برف میں یونہی چلتے ،، کوئی مدد کوئی وسیلہ نہیں تھا مگر اذلان جانتا تھا کہ ایسی جگہوں پر کوئی ناں کوئی خفاظتی جگہ ہو گی۔۔
جسے یہاں پر پھنسنے والے لوگوں کو رہنے کی سہولت میسر ہوتی ہو گی۔
جبھی وہ مغرب کی جانب ایک سیدھ سے چل رہا تھا۔۔۔ یہ سب اسے ٹریننگ کے دوران بتایا گیا تھا،، جو اسے اب کام آ رہا تھا۔۔
اس قدر سخت حالات میں بھی وہ ہمت نہیں ہارنا چاہتا تھا وہ خود کو مضبوط رکھے ہوئے تھا کیونکہ اسکی پناہوں میں موجود آخری سانس بھرتئ وہ لڑکی اسکے لئے انمول تھی۔
کسی قیمتی ہیرے سے بھی زیادہ انمول جس کے لئے اذلان اشعر علوی کسی کی جان لے بھی سکتا تھا۔
اور اپنی جان دینے سے گریز بھی ناں کرتا۔۔۔
سانس پھولنے پر وہ ایک ڈھلوان کے بیچوں بیچ کھڑا دو منٹ کو رکتے گہرے سانس بھرتا ایک نظر الایہ کو دیکھ مدد طلب نگاہوں سے اگے پیچھے دیکھتا اپنے رب کو یاد کرنے لگا۔
مگر کہیں کوئی راہ ناں دکھنے پر اس نے دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیا۔
بالآخر تھوڑی دور جاتے اسے ایک موہم سی امید کی کرن نظر آئی،
جب نظریں سامنے سے ایک جانب سے پڑتی روشنی پر پڑیں۔۔۔۔
اذلان نے بے ساختہ ہی اپنے رب کا شکر ادا کیا۔۔۔یہ سچ ہی ہے کہ ہم بندے اس دنیا کی رنگینیوں میں مگن اپنے پروردگار کو بھول جاتے ہیں مگر وہ سننے والا ہر کسی کی تڑپ ،دعا کو بے حد محبت سے سنتا ہے کہ اسکے بندے نے اس سے کچھ مانگا ہے کچھ طلب کیا ہے۔۔
اور پھر جو چیز جہاں تک اسکے بندے کے حق میں۔ بہتر ہو وہ اسے اس شے سے نواز دیتا ہے۔۔۔۔
اذلان بمشکل سے ہانپتا ہوا اس چھوٹی سی جھونپڑی کی طرح بنی کوٹھری تک پہنچا۔۔۔
یہ جگہ کافی دور تھی اور ممکن تھا کہ صبح تک کوئی بھی انہیں ڈھونڈ ناں پاتا۔۔
اب ویسے بھی اس میں مزید کسی کا سامنا کرنے یا پھر لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔۔
جبھی دروازے کو بمشکل سے پاؤں کی مدد سے کھولتا وہ اندر داخل ہوا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
ہمممممم تم یہی رکو میں خود دیکھ لوں گا آگے سے۔۔۔______" ڈینی کو اپنی سرخ ہوئی شعلہ بار نظروں سے گھورتا وہ بالوں کو پیچھے کرتا جلدی سے ماسک پہنتے بولا۔۔
ڈینی نے کچھ کہنے کو لب وا کیے مگر آگے سے ملتی گھوریوں پر وہ خاموشی سے سر ہاں میں ہلاتے خاموش ہو گیا۔۔
ایل نے ناگواری سے گردن کو نفی میں ہلایا۔۔۔اب اسکا رخ اپنے سامنے بنے اس شاہ پیلس پر تھیں ۔۔۔۔جس کے جگمگاتے نیم پلیٹ پر لکھے حروف کو پڑھتا وہ زیر ِِلب مسکراتا اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے بے تحاشہ مسکرانے لگا۔۔۔
ایک وقت تھا جب میں اس نام کو اس دنیا کی صحفہِ ہستی سے مٹا دینا چاہتا تھا۔۔
اور ایک آج کا دن ہے کہ اس نام سے جڑی وہ نازک سی جان میرے سکون کو چھین کر مجھے بے سکون کرتی اسی گھر میں پناہ گزین ہے۔۔
کیا کوئی در و دیوار یا پھر کوئی نام ایسا ہے جو ایل کو اپنی سن شائن سے ملنے سے روک سکے۔۔
وہ۔غرور سے سوچتا قاتلانہ مسکراہٹ اچھالتے ایک دم سے تھوڑا پیچھے ہوتے تیزی سے جمپ کرتا دیوار سے اندر کودا۔۔۔
لمحوں کا کھیل تھا ڈینی پلک جھپکتے اسے دیکھنے لگا جو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں کہیں غائب ہو چکا تھا۔۔
ایل دونوں ہتھیلیوں پر دباؤ دیتے ٹانگیں ہوا میں لہراتے ایک دم سے کلا بازی کھاتے سیدھا ہوا۔۔
ہاتھ جھاڑتا وہ ہڈ سر پر برابر کرتا حور کے کمرے کی کھڑکی کے نیچے جا کھڑا ہوا۔۔۔
مگر جیسے ہی اسنے پائپ کو چھونا چاہا اسکے دماغ میں جھماکا ساہوا۔۔۔
ایک سرخ رنگ کی باریک تار جو کہ بالکل باریکی سے دیوار کے ساتھ نصب کی گئی تھی۔۔
اسے دیکھتے ہی ایل کے جبڑے بے تحاشہ حد تک بھینچ گئے۔
وہ شعلے برساتی سرخ نگاہوں سے اس تار کو گھورنے لگا جیسے کہ سامنے ہی ویام کھڑا ہو۔۔۔۔
شدت ِِضبط سے اسنے اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچ لیا۔۔۔
سینے میں پاگل ہوتا وہ خون کا لوتھڑا اس پری وش کو دیکھنے اسکی سانسوں کی خوشبو کو محسوس کرنے کو بےتاب دھڑک رہا تھا۔
اہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔؛" ایل نے غصے سے جبڑے بھینچتے اپنے سر کو ہاتھوں میں دبوچا۔۔۔۔
اپنی سن شائن سے ملنے کے جنون میں پاگل وہ یہ تک نہیں سوچ سکا کہ اگر ویام اس گھر سے باہر گیا تھا۔تو بھلا وہ عیناں اور حور کو اکیلا چھوڑ کر کیسے چلا گیا۔۔۔۔
وہ تار کوئی عام سی تار نہیں تھی۔۔۔۔ وہ تار ہائی وولٹیج کی وائر سے کانیکٹ ہوتے اگے بجلی سے جڑی ہوئی تھی۔۔
یقیناً اگر ایل اسے چھو لیتا اسکا وجود منٹوں میں جھٹکوں کی ضد میں آتا بے جان ہو چکا ہوتا۔۔۔۔
شدتِ ضبط سے اسکی آنکھیں لہو ٹپکانے لگی۔۔۔یہ دوسری بار تم نے ایل سے ٹکرانے کی گستاخی کی ہے ویام کاظمی۔۔۔۔!"
تم نے مجھے میری سن شائن سے ملنے کو روکا اب میں دیکھتا ہوں کہ جب وہ پوری طرح سے میری پناہوں میں ہو گی تب تم کیا کرو گے۔۔۔
جب تم یہ جانو گے کہ۔تم نے اسے مجھ سے بچانے میں اتنی دیر کر دی ہے کہ اب تو وہ جو سانسیں۔بھر رہی ہے ان میں بھی میری خوشبو رچی ہوئی ہے۔۔
تو پھر دیکھتا ہوں کہ تمہارے یہ بےکار کے منصوبے کیا رنگ دکھاتے ہیں۔۔
کچھ دن صرف کچھ دن۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں اپنی سن شائن۔کو۔۔اتنا دور لے جاؤں گا کہ تم دیکھنے کو ترسو گے۔۔۔۔
اپنی آنکھوں میں ویام کے لیے بے تحاشہ نفرت سموئے وہ زہر خند لہجے میں غرایا۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
فون کی تیز چنگھاڑتی آواز پر امن نے تیزی سے ہاتھ بڑھاتے ساتھ پڑے میز سے سیل فون اٹھایا۔۔۔۔
ہمممم بول_______؟"
نیند سے بوجھل آواز میں وہ مندی مندی سے آنکھیں کھولتا بولا کہ سامنے سے ملتے جواب پر امن کی نیند بھک سے اڑی تھی۔
رات سے آنکھوں میں دھری وہ خمار کی سرخی اس وقت سرد برفیلے تاثرات میں بدلی ہوئی تھی۔۔۔
تُو پیچھا کر ان کا اکیلا مت چھوڑنا میں ابھی نکل رہا ہوں۔۔۔۔"
امن کی بھاری آواز سنتے اسکی پناہوں میں بکھری حالت میں موجود وہ ہلکے سے آنکھیں کھولتی اسے دیکھنے لگی۔۔
جو شرٹ لیس سا بیڈ کروان سے ٹیک لگائے ماتھے پر بکھرے شہد رنگ خوبصورت بال، آنکھوں میں جھلکتی سنجیدگی وہ اس وقت حیاء کو نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگا۔۔۔
مگر پھر گزری رات کی اسکی کارستانیاں یاد آتے ہی اسکے گال شرم سے دہکتے گلابی ہونے لگے۔پلکیں آرزوں پر سایہ فگن ہوئی تو کال کٹ کرتے امن نے شدت سے ان آنکھوں کا بوسہ لیتے اسے پھر سے خود میں سمٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔
وہ اٹھتے جلدی سے فریش ہوتے بیڈ کے قریب گیا اور حیاء کے ماتھے پر بوسہ دیے جانے لگا___
کہاں جا رہے ہیں______؟" اسے جاتا دیکھ حیاء نے جھٹ سے اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔
امن نے گردن گھمائے اپنی شرٹ میں چھپے اس نازک وجود کو دیکھا۔۔۔۔ دل پھر سے گستاخیوں پر اکسا رہا تھا مگر اس وقت اسے نکلنا تھا۔۔۔
کچھ کام سے جا رہا ہوں جلدی لوٹنے کی کوشش کروں گا تب تک تم اپنا اور ماما کا خیال رکھنا۔۔۔"
امن نے جھکتے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے اسے محبت سے سمجھایا تو حیاء نے پریشانی سے اسے دیکھا ۔۔۔
تب تک اچھے سے نیند پوری کر لو ورنہ میرے آنے کے بعد تمہیں یہ بھی نصیب نہیں ہو گی۔۔۔"
اسکا سر اچھے سے تکیے پر ٹکائے امن نے کمفرٹر اچھے سے برابر کرتے معنی خیز سی سرگوشی کی تو حیاء اسکے بے باک جملوں سے بچنے کو فوراً سے چہرہ کمفرٹر میں چھپا گئی۔۔
جبکہ امن مسکراتا اس کومل وجود کو دیکھتا ایک گہری سانس فضا کے سپرد کرتا باہر کی جانب بڑھا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
ہائے بھابھی_____!" آواز پر میرب جو بیڈ شیٹ درست کر رہی تھی ایک دم سے چونکتے مڑی تو سامنے ہی تانیہ کو کھڑا پایا ۔۔
جو کافی خوش دکھائی دے رہی تھی۔۔ اسلام علکیم ____" میرب نے روعب سے سلام پیش کیا جوابا وہ مسکراتی وعلیکم السلام کہتے اندر داخل ہوئی۔۔۔
پہچانا مجھے____؛"میرب کے اکھڑے اکھڑے رویے پر وہ خود سے ہی مسکراتی اپنی بابت پوچھنے لگی۔۔۔
جی آپ فہمیدہ آنٹی کی بیٹی۔۔۔۔۔؛" میرب نے ڈائریکٹ مسز شیرازی کی جانب سے اسکا تعارف لیا۔۔
جی ہاں اور آپ کے ہزبینڈ کی اکلوتی چھوٹی بہن۔۔۔۔ اور آپکی نند_____؛"
میرب کے گلے زبردستی لگتے وہ لاڈ سے بولی۔ تو میرب کو اپنے اکھڑے رویے پر شرمندگی سی ہوئی۔۔
آپ جانتے ہیں بھابھی میں پاک گئی تھی ٹور پر دوستوں کے ساتھ ابھی پہنچی تو موم نے آپ کے متلعق بتایا،سچ میں مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ۔اپ نے بھائی سے شادی کر لی۔۔
(شادی کر لی کہ اس کمینے نے زبردستی کی شادی..)دانت پر دانت جمائے تیمور کا سوچتے وہ بس دل ہی دل میں اسے خطابوں سے نواز سکی تھی۔۔
بھابھی میں آپ کے لئے کچھ لائی ہوں مجھے ماما نے بتایا تھا کال پر اور میں اسپیشل پاک سے آپ کے لئے گفٹ لائی ہوں..."
تانیہ نے سر خوشی سے اسے آگاہ کیا وہ سچ میں خوش تھی کہ اس گھر میں اب اسکے علاؤہ کوئی اور بھی لڑکی ہو گی جس سے وہ اچھے سے بات چیت کرے گی خوب ہلا گلا کر پائے گی۔۔
اچھا بھابھی آپ رکیں میں گفٹ لاتی ہوں۔۔“
تانیہ کہتی فورا سے کمرے سے بھاگی۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
وہ تیزی سے چلتا اندر داخل ہوا،یہ ایک چھوٹی سی ہٹ کی جیسی جھونپڑی تھی۔
جہاں ہر طرف گھاس بچھا ہوا تھا۔۔ سامنے ہی ایک سائیڈ پر بڑا سا خول بنا ہوا تھا ساتھ خشک لکڑیاں پڑی تھیں۔
اذلان نے فوراً سے الایہ کو ایک جانب گھاس پر نرمی سے لٹایا اور پھر جلدی سے لکڑیاں اکٹھی کرتے آگ جلانے لگا۔۔۔
اسکا اپنا وجود ٹھنڈ سے شل ہوا پڑا تھا مگر اس وقت اسے صرف الایہ کی فکر تھی۔
جبھی بمشکل سے آگ جلاتے اذلان نے تیزی سے اپنی جیکٹ اتارتے الایہ کے بے ہوش وجود کو پہنائی۔۔۔
اور اسے نرمی سے گود میں بھرتے وہ آگ کے قریب ہوتے بیٹھا۔
ماہی کیا ہوا ہے یار پلیزئ آنکھیں کھولو___" وہ خوفزدہ سا اسکے ٹھنڈ سے اکڑتے وجود کو اپنے حصار میں قید کرتا آگ کے مزید قریب تر کر گیا۔۔
جو ہوش و حواس سے بے گانہ ایک طرف لڑکھتی اذلان کے سینے سے جا لگی ۔
اذلان کی سیاہ آنکھوں میں۔ ایک دم سے نمی جھلکنے لگی۔۔ وہ ہر ممکن کوشش کر چکا تھا مگر الایہ کا باڈی ٹمپریچر ابھی تک ویسا ہی تھا۔
ازلان کا۔دل چاہا کہ خود کو شوٹ کر لے۔۔اتنی بے بسی کو اسے آج تک کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔۔
آج سہی معنوں میں اسے اندازہ ہوا تھا کہ جسم سے جب جان نوچی جائے تو کتنی تڑپ اور کیسی تکلیف ہوتی ہے جو کہ کسی کے لئے بھی ناقابلِ برداشت ہو۔۔۔۔
اگر تم نے ضد کی تو اچھا نہیں ہو گا ماہی آنکھیں کھولو اپنی۔۔۔۔"
وہ اپنی بے بسی پر تڑپتا اسے وارن کرنے لگا جیسے کہ اسکی دھمکی سنتے وہ ابھی اس سے لڑنے کو کھڑی ہو جائے گی۔۔
مگر الایہ کی سست پڑتی دل ہی دھڑکن کو اپنے سینے میں مدہم پڑتا محسوس کرتے اذلان نے بری طرح سے لب کچلتے اس بے جان وجود کو موڑتے اپنے سینے میں چھپایا۔۔۔
اسکا انداز اس قدر شدت بھرا تھا کہ اگر وہ ہوش میں ہوتی تو دم گھٹنے سے بے ہوش ضرور۔ہو جاتی۔۔۔
تم مجھے مجبور کر رہی ہو کہ وہ کچھ ایسا ویسا کروں جسکے لئے تم شاید ہی کبھی مجھے معاف کر پاؤ۔۔۔؛تو بہتر یہی ہے خود سے اٹھ جاؤ۔۔۔"
اسکے سردی سے یخ پڑے کان کی لو کو اپنے لبوں میں دبائے اذلان نے الایہ کو پہنائی اپنی جیکٹ سے چہرہ اندر کرتے شدت سے اپنے ہونٹ الایہ کے دل کے مقام پر رکھے۔۔
تو ایک دم سے اسکے شدت بھرے لمس پر الایہ کی سست پڑتی دھڑکنیں سینے سے سر پٹھکنے لگی۔۔۔۔مگر اب وہ اپنے ہوش گنوائے اس نازک سے وجود میں کھونے لگا تھا۔
ماحول میں چھایا فسوں اوپر سے اس نازک وجود کی خوشبو نے ملتے اذلان کو مدہوش سا کر دیا تھا۔۔۔
الایہ کی گردن پر اپنے سلگتے ہونٹوں کا لمس چھوڑتے وہ مدہوشی میں اسے خود میں بھیچنے لگا۔۔
اس وقت اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا دل و دماغ میں صرف یہ مدہوش کرتا نازک وجود بری طرح سے چھایا اسے پاگل کر دینے کو تھا۔۔۔
الایہ کے دل کی دھڑکنیں حد سے زیادہ تیز دھڑکن رہی تھی۔
اسکا وجود جو ٹھنڈ سے سرد ہوا پڑا تھا اب اذلان کی قربت میں بری طرح سے پگھلنے لگا۔۔۔
الایہ کا سانس بھاری پڑنے لگا۔۔۔مگر اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اسے روک پاتی۔۔۔
اذلان جو مدہوش سا اپنی شدتیں اس نازک سی جان پر لٹا رہا تھا،،الایہ کے اکھڑتے سانس کو محسوس کیے وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا۔۔۔۔
مممم۔۔۔ ماہییییی_____،اذلان بری طرح سے چیختے الایہ کے قریب ہوتے اسکا سر اپنے گھٹنے پر رکھتے اسے پکارنے لگا،،
جس کا پورا وجود جھٹکوں کی ضد میں تھا، اذلان نے وخشت زدہ سا ہوتے اپنے عنابی لبوں کو بری طرح سے کچلا۔۔۔
سیاہ آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ الایہ کا باڈی ری ایکشن اذلان کے قریب جانے کی وجہ سے تھا۔
مگر وہ بے چین ہو چکا تھا یہ سوچ دماغ میں بری طرح سے چبھ رہی تھی کہ الایہ اس ٹھنڈ میں مرنا تو قبول کر لے گی۔
مگر اذلان کا اسکے قریب ہونا اسے اس قدر ناگوار گزر رہا تھا۔۔
اذلان نے بری طرح سے بے دردی سے اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کو رگڑا۔۔۔
اتنی بڑی سزا دو گی تم مجھے ایسا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا ماہی۔۔۔۔کیا تمہیں مجھ سے میرے وجود سے میرے ہونے سے اس قدر نفرت ہے کہ تم میری قربت سے بہتر اس ٹھنڈ میں مرنا پسند کر رہی ہو۔۔۔۔“
الایہ کے ہلتے کپکپاتے لبوں پر اپنا انگوٹھا پھیرتے وہ عجیب سے سرد لہجے میں استفسار کرنے لگا،،
اسکے سوال پر الایہ کی پلکوں میں لرزش سی ہوئی۔۔
وہ بے چین سی ہوتی کچھ بولنے کی سعی کرنے لگی۔۔ جسے اذلان نے نوٹ کرتے بھی نظر انداز کر دیا۔۔
تمہیں لگتا ہے کہ میرا تمہیں چھونا تمہیں محسوس کرنا، تمہارے قریب آنا، تمہیں کسی گناہ کا مرتکب کر رہا ہے یا پھر تمہیں میرے لمس سے میرے چھونے سے نفرت محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟“
تو میں تمہیں کبھی نہیں چھوؤں گا تمہارے نزدیک نہیں آؤں گا۔۔۔۔۔“
الایہ کے کان کے قریب سرگوشی کرتے وہ اسے مزید بے چین کرنے لگا،،
وہ تیز تیز سانسیں لیتے اذلان کو لب بھینچنے ہر مجبور کر گئی۔۔ اذلان نے ایک آخری نظر الایہ کی لرزتی پلکوں اس حسین چہرے کو دیکھا__
آج اسے خود پر اپنے جذبات پر قابو پانا دنیا کا مشکل ترین امر لگا تھا مگر وہ مخض اپنی خواہش کے تحت الایہ کو مزید تکلیف دیتے وہ خود سے بدزن ہرگز نہیں کر سکتا تھا،،
ایک سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اذلان نے ہاتھ الایہ کے بالوں میں پھیرے اور جھکتے اپنے دہکتے لب اسکی پیشانی پر رکھتے آنکھیں موندے ان لمحات کو محسوس کرتا پیچھے ہوا۔۔۔
الایہ کا بھاری پڑتا سانس اذلان بآسانی سن پا رہا تھا نرمی سے اسکا سر نیچے رکھتے وہ اٹھتے باہر جانے لگا کہ ایک دم سے وہ چونکتے رک گیا۔۔
اذلان نے ماتھے پر بل ڈالے دھڑکتے دل سے پیچھے دیکھا۔۔
جہاں وہ مندی مندی سی آنکھیں کھولے اذلان کو دیکھتے کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی،،
اذذذ۔۔۔۔۔ اذذلانن۔۔ ممم۔۔۔۔ میری ببب۔۔۔بات سنو۔۔۔۔“ الایہ کی مدہم آواز کے ساتھ اسکے ہلتے ہونٹوں کو دیکھ وہ پریشانی سے جھکتا اسکے قریب بیٹھا۔۔۔
کیا ہوا ماہی ٹھیک ہو تم_____!“
درد ہو رہا کیا کہیں۔۔۔، فکر پریشانی سے اذلان کا برا حال تھا۔۔۔
اندر کا ماحول اب آگ کی وجہ سے قدرے بہتر تھا۔۔
اذلان نے ہاتھ کی پشت سے الایہ کی پیشانی اور پھر اسکے ہاتھ کو تھامتے چیک کیا اب اسکا ٹمپریچر قدرے نارمل تھا۔
مم۔۔ مجھے چھوڑ کر مم۔۔۔ مت جاؤ آئی نیڈ یو_____“الایہ کے چہرے پر جھکے اذلان بمشکل سے اسکی مدہم سی سرگوشی سن پایا تھا۔۔
شاید وہ خود اس وقت اذلان کی قربت اسکے ساتھ کی خواہاں تھی۔۔
اذلان کئی سانیے الایہ کی سرخ ہوئی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔۔شاید اسکے لئے ان سب باتوں پر یقین کر پانا نا ممکن تھا،،
ماحول میں چھایا معنی خیز فسوں فضا میں بکھری اس نازک سی جان کی سوندھی سوندھی خوشبو اذلان بے خود سا ہوتے الایہ کی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹے اسے اٹھائے ذرا سا اونچا کرتے اپنے نزدیک کر گیا۔۔
الایہ کی بھاری ہوتی آنکھیں اسی پر تھیں___وہ زیادہ دیر تک اسکی جذبات کی آنچ لٹاتی آنکھوں میں ناں دیکھ سکی۔۔۔۔۔،
جبھی آنکھیں موندے وہ سر آسودگی سے اسکے سینے پر رکھتے اپنا آپ اسکے سپرد کر گئی۔۔۔
اذلان کے چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔
جبھی نرمی سے الایہ کا سر اپنے ہاتھ پر رکھتے وہ محبت پاش نگاہوں سے اسکے ایک ایک نقش کو ازبر کرنے لگا۔۔۔۔
الایہ آنکھیں موندے اپنے چہرے پر اذلان کی گہری نگاہوں کی تپش کو محسوس کرتے بےچین سی ہونے لگی۔۔۔
اذلان نے جھکتے الایہ کے ہونٹوں پر اپنے تشنہ لب رکھے تو اذلان کی شدت پر الایہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی دوڑی۔۔۔
اسکا دل تیزی سے دھڑکتا جیسے پسلیوں سے باہر آنے کو بے تاب تھا۔۔
ہر گزرتے لمحے میں اذلان کی بڑھتی شدتیں اسکا جنون الایہ کو پاگل کرنے کے دم پر تھا۔ الایہ کا روم روم لرز تھا۔۔۔ جسے چھوتے اذلان اپنی الفت اپنے عشق کی داستاں کو۔مکمل کر رہا تھا۔۔۔
اپنی گردن پر سرکتے اذلان کی پرتپش ہونٹوں کے لمس پر الایہ نے بمشکل سے اسکے سینے پر دباؤ دیے اسے پیچھے کیا۔۔
اذلان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔ جو اسکی چند پلوں کی شدتوں کو سہتے ہی ڈری سہمی ہوئی سی تھی۔۔۔۔۔
اذذذ۔۔۔۔ ییہ غلط ہے ہمارے گھر والے سب ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔،“
الایہ خود پر اسکی سوالیہ نظروں کو پاتے پریشانی سے بولی اپنے ماں باپ کے یقین اعتماد کو کیسے توڑ دیتی۔۔۔!"
اشششش____تم جانتی ہوں تم نے کتنے سیکنڈ ضائع کیے اپنی اس فضول سی بات کے لئے۔۔۔۔ کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا کیونکہ میں صبح ہوتے ہی واپس جانا چاہتا ہوں تمہارے ساتھ لندن۔۔۔۔۔ اب میں ایک لمحہ بھی یہ دوری برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔
اگر تو شرافت سے سسر صاحب مانے تو ٹھیک ورنہ میں رخصت کر کے تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔۔۔“
الایہ کی تھوڑی میں موجود اس خوبصورت گھڑے کو اپنے لبوں سے چھوتے وہ مخمور لہجے میں بولا۔۔۔
اسکے انگ انگ میں خمار چھایا تھا،،، الایہ کا نازک سراپا اذلان کے جذبات کو دہکا رہا تھا۔۔۔۔
مجھے مت روکو ماہی میں تمہیں چھو کر محسوس کر کے تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے کیا ہو۔۔۔۔!“
الایہ کے بالوں کو سہلاتے وہ لب اسکے کان کی لو پر رکھتے بھاری لہجے میں بولتا اسے خود میں سمٹنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔
الایہ نے حیاء سے بوجھل پلکیں گرائے جیسے اسے اجازت دی تھی ۔۔۔۔
جسے سمجھتا وہ اس پر سایہ سا کرتے اسے خود میں گم کرنے لگا۔۔۔۔۔
اذلان کی شدتوں اسکے جنون پاگل پن کو سہتے وہ نازک سی جان آج سہی معنوں میں اس سے گھبرائی تھی۔۔۔۔
جو اسکی ہر طرح کی مزاحمت کو نظر انداز کیے اسے خود میں سمٹنے پر مجبور کر گیا۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
یُو باسٹرڈ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے دھکہ دینے کی،تم میرے بھائی کو مارو گے ہُو دا ہیل آر یُو_______؟“
روز تیزی سے بیڈ سے اٹھتے انِزک کے گریبان کو اپنی مٹھیوں میں دبوچتے غصے سے غراتے ہوئے بولی،،،
انزک نے جبڑے بھینچتے اپنا کالر ایک جھٹکے سے روز کے ہاتھوں سے آزاد کروایا۔۔۔۔
حد میں رہو اپنی____، وہ غصے سے پاگل ہوتا اس پر چیخ پڑا۔۔۔۔
روز نے لہو رنگ آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
آئی ہیٹ یُو کڈنیپر تم نے میرا ٹرسٹ توڑا ہے مجھے بھائی کے پاس جانا ہے نہیں رہنا تمہارے پاس_____،“
اپنے چہرے پر بہتے آنسوں کو ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے رگڑتے وہ نفرت سے غرائے باہر کی جانب بڑھی۔۔۔۔
آئی لو یو ٹُو سویٹ ہارٹ۔۔۔۔۔۔، اسے دوبارہ سے بازو سے کھینچتے انزک نے اسکے ہاتھ پکڑتے کمر سے لگائے اسے مزید قریب تر کرتے روز کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
چھوڑو مجھے______!“
وہ بری طرح سے جھٹپٹاتے اپنا آپ اسکی گرفت سے آزاد کروانے کو مچلنے لگی۔۔
انزک کو اس وقت وہ کسی شیرنی سے کم نہیں لگی تھی۔۔ جو اپنے بھئی کی موت کی خبر سنتے ہی بری طرح سے بپھر چکی تھی۔۔۔
چھوڑ ہی تو نہیں سکتا۔۔۔۔۔" مسلسل خود کو چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کرتے وہ نڈھال سی گہرے سانس بھرنے لگی۔۔۔۔۔
کہا تھا کہ اگر تم خود بھی چاہو تو بھی خود کو۔مجھ سے آزاد نہیں کروا سکتی تو سن لو میں آج بھی اپنی کہی بات پر قائم ہوں____،“
روز کے چہرے پر اپنی گرم سانسیں چھوڑتا وہ بھاری لہجے میں سرگوشی کرتا اسے سن سا کر گیا۔۔۔
روز نے سرخ لہو نما آنکھوں سے اس بے حس شخص کو دیکھا جو اسکے بھائی کو بےدردی سے مارنے کی بات کرتا اب دوسری طرف اپنی محبت جتا رہا تھا۔
آئی ہیٹ یو کڈنیپر تم نے مجھے چیٹ کیا ہے می_____“
وہ روتی بے یقینی، دکھ، درد ،تکلیف سے اسے دیکھتی بولی کہ ایک دم سے انزک کے اسکے ہونٹوں کو قید کرتے اسے کچھ بھی بولنے سے روک دیا۔۔۔
اپنے لبوں پر انزک کی جاخارنہ گرفت پر وہ غصے سے اسے خود سے دور کرنے کی سعی کرنے لگی۔۔
مگر وہ جس قدر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی انزک کی گرفت اسکے ہونٹوں پر سخت ہوتی جا رہی
تھی۔۔۔۔۔
روز آنکھیں موندے اپنی سانسوں میں اترتی انزک کی گرم سانسوں کو محسوس کرتے خاموش آنکھیں مچیے آنسوں بہانے لگی۔۔۔
تمہارا کہا کوئی بھی ایک غلط لفظ مجھے کچھ بھی غلط کرنے پر مجبور کر سکتا ہے روز ڈارلنگ۔۔۔۔۔ پیار دے رہا ہوں تو پیار لو،ورنہ اگر بدتمیزی کی تو اوقات دکھانا اور اوقات میں رکھنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔۔۔
روز کی گردن کو جارحانہ انداز میں دبوچے اسکا چہرہ اونچا کیے وہ بھاری سرد لہجے میں غرایا تو روز نے نفرت حقارت سے اسے گھورا۔۔۔۔۔“
ویسے انداذہ تو ہوگیا ہو گا جان میں کیا کیا اور کیسے کر سکتا ہوں۔۔۔۔“
اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اسکے لبوں پر پھیلی نمی چنتے وہ آنکھ دباتے بے باکی سے بولا تو روز نے نفرت سے رخ موڑا۔۔۔۔
گردن پر انزک کی جارحانہ گرفت کی وجہ سے اسے درد محسوس ہو رہا تھا جس کے سبب اسکی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔۔
مگر وہ نڈر بنی اپنے درد پر قابو پا رہی تھی۔۔۔
اگر تو تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے ڈرانے دھمکانے سے میں خوفزدہ ہو کر دبک کر بیٹھ جاؤں گی تو یہ تمہاری بھول ہے۔۔۔۔۔“
انزک کی آنکھوں میں دیکھتی وہ اس قدر اعتماد سے بولی۔
کہ انزک نے ائبرو اچکائے اسکے سرخ چہرے کو دیکھ سر کو ہاں میں ہلایا۔۔۔
لیٹس سی بے بی_____ مگر فلحال کے لئے مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے تو یہ کام میں واپسی پر کروں گا مگر تب تک کیلئے تم اس کمرے میں ریسٹ کر سکتی ہو۔۔۔۔
یقین جانو یہاں سے نکلنے کا صرف واحد راستہ یہ دروازہ ہے جسے یا تو میں کھول سکتا ہوں یا پھر میں ہی کھول سکتا ہوں۔۔۔۔۔“
روز کی گردن کو اپنی انگلی کے پوروں سے چھوتے وہ اپنی بات کہتے آنکھ دباتا اسے سخت زہر لگا تھا۔۔۔۔
اپنا خیال رکھنا ڈارلنگ اور زیادہ ہلکان ہونے کی کوشش مت کرنا اوکے ناں میں واپس آؤں گا تو ہم۔مل کر اس معاملے پر بات کریں گے۔۔۔۔"
روز کی گردن کو چھوڑتے وہ نرمی سے اپنے دیے زخم پر لب رکھتا اسے بیڈ پر بٹھائے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
اسکی آنکھ خود پر بھاری بھوج اور اپنی گردن پر کسی چیز کو رینگتا محسوس کرتے کھلی۔۔۔"
الایہ نے غائب دماغی پہلے آسمان کی جانب دیکھا اور پھر اپنی گردن کی جانب۔۔۔۔
جہاں اذلان جھکا خود کو سیراب کر رہا تھا۔۔۔۔
الایہ کے دماغ میں گزرے وقت کا ایک ایک پل لہرایا۔۔۔۔۔
تو اسنے ایک نظر اپنے آپ پر ڈالی اپنی حالت کو دیکھ وہ سر تا پاؤں سرخ ہوئی تھی۔۔۔۔
جبھی اپنے دونوں ہاتھ اذلان کے سینے پر رکھے وہ اسے خود سے دور کرنے لگی۔۔۔
جس کا الٹا ہی اثر ہوا تھا۔۔۔۔ اذلان نے تیزی سے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں الجھائے وہ ایک دم سے اسکے ہلتے لبوں پر جھک گیا ۔۔
الایہ تو رات کی اسکی شدتوں سے نڈھال تھی اب پھر سے اسے ایسا کرتے دیکھ وہ اندر تک لرزی تھی۔۔۔
خوبصورت زندگی کی نئی صبح مبارک ہو جانِ قالو_______“ الایہ کے کان میں جھکتے وہ بوجھل لہجے میں مسرور سی سرگوشی کرتے بولا۔
تو الایہ کی پلکیں لرز پڑی۔۔۔۔
اسکی فر فر چلتی زبان اس وقت تالو سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔“
اسکی حالت اسکا یوں شرمانا اذلان کو کافی بھا رہا تھا۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر رات کو جس طرح اسپر بھروسہ کرتے الایہ نے اپنے آپ کو پوری طرح سے اسکے سپرد کیا تھا۔۔۔
اذلان کا دل تو اسے خود میں کہیں چھپا دینے کا تھا۔۔۔
میرا بس چلے تو تمہیں اپنے دل میں ایسی جگہ چھپا لوں کہ میرے سوائے کوئی بھی تمہیں ناں دیکھ سکے_______“
الایہ کے گالوں پر اپنا شدت بھرا لمس چھوڑتے وہ مخمور لہجے میں بولا۔۔۔۔۔تو الایہ نے گہرے سانس لیتے سکون اندر تک اتارا۔۔۔۔۔
میری الفت میرے عشق کو معتبر کرنے کا بے حد شکریہ جان_______“ الایہ کی آنکھوں پر ہونٹ رکھے وہ شدتِ جذبات سے بوجھل لہجے میں بولتا الایہ کے چہرے پر ایک آسودگی بھری مسکراہٹ بکھیر گیا۔۔
اذذذلان ہمیں واپس جانا ہے ابھی_____" اذلان کو پھر سے اپنی گردن پر جھکتا محسوس کرتے وہ منمنائی تو اذلان نے انگلی الایہ کے ہونٹوں پر رکھے اسے خاموش کروا دیا۔۔۔
تمہیں لگتا ہے کہ یہ وقت یہ حسین لمحات ہمیں دوبارہ نصیب ہونگے جہاں پر ہمیں تنگ کرنے والا ہمیں ڈھونڈنے والا کوئی بھی ناں ہو۔۔۔۔۔۔“
واپس بھی چلیں گے مگر اس وقت تم خاموشی سے ان لمحات کو محسوس کرو____“ الایہ کی تھوڑی کو چومتے وہ اس قدر محبت بھرے لہجے میں بولا۔۔
الایہ خاموش سی ہوتے رہ گئی۔۔۔۔اسکی خاموشی پر اذلان اسے پھر سے خود میں گم کرتا چلا گیا۔۔۔
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
ہاں بتا کہاں دیکھا تُو نے انہیں______“ گاڑی سے نکلتا وہ گن لوڈ کرتے اپنے سامنے سے آتے مٹھو کو دیکھ بولا____“
مٹھو تیزی سے اسکے قریب ہوتا اسکے ساتھ ہمقدم ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔۔
مگر اسے ڈر بھی تھا کیونکہ اس وقت بھاوں کے چہرے پر پھیلی سرد مہری اسے کوئی عجیب سا وخشی بتا رہی تھی۔۔۔
وو وہ بھاوں اس روڈ پر آخری بار دیکھا تھا پھر پتہ نہیں انکی گاڑی نہیں ملی مجھے____“
لرزتی آواز میں اسکے ساتھ چلتا وہ ہاتھ اپنے گالوں پر رکھتے ڈر سے بولا۔۔۔۔
بھاوں نے ایک نظر پوری سڑک پر دوڑائی اور پھر چلتا اپنی جیپ کے قریب پہنچا۔۔۔۔۔۔
تو تُو ڈرائیو کر رہا تھا گاڑی_______ اپنی داڑھی کو انگوٹھے سے کھجاتے وہ جیپ کے پاس ہاتھ باندھے کھڑے اپنے آدمی سے مخاطب ہوا ۔۔۔
جس کے چہرے پر خوف پھیلا ہوا تھا مگر وہ پھر بھی ہاتھ باندھے نظریں جھکائے سر ہاں میں ہلا گیا ۔۔
چٹاخ_______“ اسکے سر ہلانے کی دیر تھی اگلے لمحے بھاوں کا بھاری ہاتھ اسکے چہرے پر اپنی چھاپ چھوڑ چکا تھا۔۔۔
وہ بری طرح سے بیلنس کھوتا لڑکھڑاتے دور جا گرا۔۔۔۔
جانتا بھی ہے تُو کون ہے وہ شخص_____“ اسکے قریب جاتے بھاؤں نے اسے گریبان سے دبوچتے اپنے سامنے کرتے غراتے سوال کیا۔۔۔۔
وہ آدمی گھومتے سر کو نفی میں ہلا گیا۔۔
سالے باپ ہے وہ میرا اگر ایک خراش بھی آئی ناں انکو___تو تیرے ٹکڑے گلی کے پاگل کتوں کو ڈالوں گا وہ بھی قسطوں میں _____“
بھاوں نے اسے زور سے پیچھے کو دھکہ دیا اور جیپ میں بیٹھتے مٹھو کو آواز لگائی۔۔
جو تھر تھر کانپتا آنکھیں میچے کھڑا تھا۔۔۔
اگلے بیس منٹ میں وہ اشعر کی لوکیشن ٹریس کروا چکا تھا۔۔۔۔۔
جس بات کی اسے فکر تھی وہ تھا اشعر کا اکیلے ایسی خطرناک جگہ پر جانا جبکہ بھاؤں اچھے سے جانتا تھا کہ یہ سارا دھندا اور لوگ راشد کے ہی ہیں۔۔۔۔۔
بھاؤں نے جلدی سے جیپ ایک سنسان سی مل کے قریب روکئ اور بھاگتے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔
تُو اگر میرے پیچھے آیا تو تیرا خشر میں دو منٹ میں بگاڑ دوں گا۔۔۔۔“
مٹھو کو اترتا دیکھ وہ غراتے لہجے میں انگلی اٹھائے اسے وارن کرتا دھاڑا تو مٹھو نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ بھاوں خود پر تو ہر زخم ہر چوٹ برداشت کر سکتا تھا۔
مگر اپنے کسی قریبی کو مشکل میں یا پھر تکلیف میں نہیں ڈال سکتا تھا۔۔
بھاوں تیزی سے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔ اندر سے آتی شیلنگ کی آواز سے وہ بخوبی سمجھ گیا تھا کہ اشعر اندر ہی ان غنڈوں سے مقابلہ کر رہا ہے ۔۔۔
ایک ہاتھ میں لوڈڈ گن کو تھامے وہ احتیاط سے قدم اٹھاتا اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔
گن پر سائلنسر لگائے اسنے احتیاط سے ایک کھنڈر بنی دیوار سے ٹیک لگائے اپنی جانب بڑھتے ایک غنڈے پر فائر کیا جو وہیں ڈھیر ہو گیا۔۔۔۔
بھاؤں کا دھیان اشعر میں تھا اسے خوف ڈر تھا کہ کہیں انہیں کچھ ناں ہو جائے۔۔۔۔۔
مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھا اسکی نظریں اسکے قدموں کے ساتھ ہی تھم گئی۔۔۔۔
اشعر اسکے سامنے تھا مگر اشعر کی پشت پر کھڑا ایک غنڈہ اشعر کا نشانہ لے چکا تھا ۔۔ ۔
امن کو اپنا سانس رکتا ہوا سا محسوس ہوا۔۔۔۔۔
پاپا۔۔۔۔۔وہ چیختے اشعر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔اشعر امن کی آواز پر چونکتے مڑا تو سامنے ہی اسے اپنے قریب آتا دیکھ وہ حیران رہ گیا۔۔
مگر امن بجلی کی سی تیزی سے اسکے قریب آتے اسے حصار میں لیتا ایک جانب ہوا کہ دوسری جانب سے نکلتی گولی سیدھی اسکے کندھے پر لگی۔۔۔۔
اسکے کندھے سے بہتے خون کو دیکھ اشعر وخشت زدہ سا اسکا نام لیتے دھاڑا۔۔۔۔
بھابھی آپ کہیں جا رہی ہیں_____؟“ تانیہ جو جلدی سے ایک گفٹ باکس تھامے دوبارہ سے کمرے میں آئی تھی۔
سامنے ہی میرب کو سکارف اوڑھتے دیکھ وہ افسردگی سے بولی۔۔
میرب نے آئینے سے ایک نظر تانیہ کے لٹکے چہرے پر ڈالی۔۔اور پھر خود بھی شرمندہ سی ہوتے اسکی جانب ائی۔
تانیہ دراصل مجھے ایک چھوٹا سا کام نکل آیا ہے اور ابھی جانا بھی ضروری ہے مگر میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں جلدی سے لوٹ آؤں گی،
پھر ہم ایک ساتھ بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کریں گے ۔۔“
تانیہ کے ہاتھوں کو تھامے وہ محبت سے گویا ہوئی تو تانیہ مسکراتے اسکے گلے لگی۔
ڈونٹ وری بھابھی آپ جائیں اور یہ آپ کا گفٹ اسے آپ رات کو پہنیے گا۔۔۔۔“
وہ ہاتھ میں تھاما ایک گفٹ اسکے ہاتھ میں رکھتے بولی تو میرب نے چونک کر اسے دیکھا،
رات کو کیوں میں تمہیں پہن کر دکھاؤں گی۔۔۔
میرب کو وہ کافی اچھی لگی تھی پہلی ملاقات میں جو تصور اس نے کھینچا تھا اب وہ کافی الگ لگ رہی تھی میرب کو۔۔۔۔۔
وہ تو آپ پہنیں گے تو میں دیکھ لوں گی۔۔۔۔ ابھی آپ جائیں ورنہ لیٹ ہو جائیں گی۔۔“ میرب کے گرد بازو حائل کیے وہ اسے یاد دلاتے بولی تو میرب بھی سر ہلاتے اسے خدا خافظ کہتے وہاں سے نکلی۔۔
_______________💖__________________
بیٹا کیسی طبیعت ہے ابھی فدک کی____؟“ نیناں عیناں کے قریب آتے صوفے پر اسکے پاس بیٹھتے پوچھنے لگی ۔
عیناں جو ابھی ہاسپٹل سے آئی تھی نیناں کے پاس بیٹھنے پر وہ چونکتے ہوش میں آئی۔۔۔
کیا ہوا ٹھیک ہو تم۔۔۔۔۔!“ عیناں کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی نیناں نے صبح بھی نوٹ کی تھی مگر پھر فدک کے لئے پریشان ہو گی اسی بات کا سوچتے وہ خاموش ہو گئی،،
مگر اب پھر اسے اس قدر سنجیدہ دیکھ وہ پوچھے بنا ناں رہ سکی۔۔۔۔۔
ہاں جی موم کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔، انگلیاں مروڑتے وہ جھوٹ بولتے سر جھکا گئی ۔
نیناں نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا ۔۔
اچھا تمہارے ڈیڈ نہیں آئے ساتھ۔۔۔۔،“دروازے کی جانب دیکھتی وہ پریشانی سے پوچھنے لگی
وریام کو ہاسپٹل میں گئے آج تیسرا دن تھا۔ اور یہ سچ تھا کہ نیناں کو اس کے بنا سب کچھ بے رنگ لگ رہا تھا۔۔۔
آئے ہیں موم گاڑی پارک کر رہے ہیں ۔۔۔ ہنسی چھپائے وہ شریر لہجے میں گویا ہوئی تو نیناں نے رخ موڑے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔
ارے کیا بات ہے میری نین یاد کر رہی تھی مجھے______“ دروازے کے قریب ہاتھ سینے پر باندھے وہ گہری دلچسپ نظروں سے نیناں ہے سرخ چہرے کو دیکھ بولا۔۔۔
جہاں نیناں نے حیرت سے آنکھیں پھیلائے وریام کو دیکھا تھا وہیں نیناں کی حیرت پر عیناں کیلئے اپنی ہنسی ضبط کرنا محال ہو گیا۔
نن۔۔۔۔ نہیں تو میں کیوں یاد کرنے لگی تمہیں_____؟“
نیناں نے جھٹ سے کہا جبکہ اسکے جواب پر وریام کا قہقہ گونجا تھا ۔۔
ڈارلنگ میں جانتا ہوں تم اپنے کمینے شوہر کو کبھی مس نہیں کر سکتی،مگر کیا کروں تمہارا کمینہ تمہارے بنا زیادہ وقت نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ دیکھ لو تم نے یاد کیا میں آ گیا_____“ بانہیں پھیلائے وہ اپنی بات کہتا آخر میں آنکھ دباتے بولا تو عیناں نے چور نگاہوں سے نیناں کے سلگتے سرخ ہوئے چہرے کو دیکھا۔۔۔
موم میں حور کے پاس جاتی ہوں۔۔۔ رات کافی ہو چکی ہے آپ بھی ریسٹ کریں۔۔۔۔،“ عیناں جلدی سے کہتے جگہ سے اٹھی تھی۔
وریام نے اسے دور سے ہی فلائنگ کس کرتے شکریہ کہا تھا اب کی بار عیناں کا فلک شگاف قہقہ فضا میں گونجا۔۔۔
وہ ہنستی حور کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔
نین جان ادھر آؤ ایک ہگ دو تاکہ میری ساری تھکاوٹ اتر جائے ۔۔“
وریام نے دور سے ہی بانہیں پھیلائے نیناں کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس آنے کا کہا۔۔ نیناں کے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔۔۔
یہ ٹھرک پن بند کر دو اب بھوڑے ہو چکے ہو کچھ تو شرم کرو۔۔۔۔“ نیناں نے مصنوعی غصے سے ناک چڑھاتے کہا تو وریام ہنستے اسکے قریب ہوا۔۔۔
یہ جو ادائیں دکھاتی ہو جان تو پھر کیا کروں ٹھرک پن تو خودبخود ہی آ جاتا ہے ویسے بھی دنیا میں سب کچھ بدل سکتا ہے مگر وریام کاظمی کبھی بوڑھا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔،“
نیناں کی ناک پر لب رکھتے وہ مسکراتے اسے گود میں بھرتے بولا ۔
تو نیناں نے تاسف سے سر نفی میں ہلائے اپنے بازوؤں وریام کی گردن میں حائل کیے۔۔
جانتی جو تھی اب اسے کچھ بھی کہنا بے کار تھا۔۔
فدک کیسی ہے آپ واپس آ گئے ۔۔۔ "
ہاں کیونکہ عیناں سے مل کر اب اس کی طبیعت سنبھل چکی ہے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کل تک اسے ہوش آ جائے گا خطرے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔!“
وریام اسے گود میں بھرے اپنے کمرے کی جانب جاتے ساتھ ساتھ آگاہ کر رہا تھا۔
شکر ہے اللہ پاک کا بس اب وہ بالکل صحت یاب ہو جائے۔۔۔۔۔ آمین وریام مجھے نیچے اتاریں، آپ کے لئے کچھ کھانے کو لاؤں____“
نیناں نے جلدی سے کہا تھا جانتی تھی وریام نے کچھ نہیں کھایا ہو گا۔۔۔
نہیں نین صبح کھا لوں گا فل حال تم خاموش ہو جاؤ___ وریام نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو نیناں نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا،،،
گھورنا بند کرو جان____!!! اتنے سالوں سے اگر تمہارے گھورنے کا اثر لیا ہوتا تو آج تمہارے پاس میرے دو دو بچے یوں ناں گھوم رہے ہوتے۔۔۔۔؛"
وریام نے قہقہ لگاتے بے باکی سے کہا تو نیناں کا منہ حیرت سے کھل گیا،
اس ٹھرکی بے باک شخص سے وہ ہر طرح کی بات کی امید رکھ سکتی تھی مگر وہ ایسا کچھ کہے گا اسے بلکل بھی امید نہیں تھی۔۔۔
وریام کمینے۔۔۔۔۔“ نیناں نے غصے سے دانت پیستے کہا تھا مگر اسے روم میں لے جاتے وریام نے کافی اچھے سے اسے اپنا کمینہ پن دکھاتے خاموش کروا دیا۔
_________________💖_________________
حور____!“ عیناں کمرے میں آئی تو کمرہ حالی تھا ۔۔۔
واشروم سے پانی گرنے کی آواز سنتے وہ سنجیدگی سے سرد سانس فضا میں خارج کرتے بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔
ارے عین یار آ گئی تم۔۔۔۔۔“ حور شاور لیتے روم میں آئی تو عیناں کو کسی گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ وہ چلتی اسکے قریب پہنچی۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔۔ ابھی آئی ہوں تم بتاؤ طبیعت ٹھیک ہے کافی ڈل لگ رہی ہو_____"
عیناں نے حور کے بجھی بجھی سی طبیعت کو دیکھ پوچھا۔۔
ہاں ٹھیک ہوں بس دل اکتا رہا ہے صبح سے تو سوچا کہ شاور لے لوں ۔۔۔۔۔!“
اپنے سیاہ گھنے بالوں کو تولیے سے رگڑتے وہ سرسری سا بولی۔۔
عیناں نے بغور اس مرجھائے گلاب کی پنکھڑی جیسی حسین لڑکی کو دیکھا اور پھر اٹھتے اسکے قریب ہوئی۔۔۔
اسکی حرکت پر حور کا بالوں کو خشک کرتا ہاتھ تھما ۔۔۔
کمرے میں پھیلی خنکی اس وقت حور اور عیناں کو بے معنی لگی۔۔
حور تم میری بیسٹ فرینڈ ہو جانتی ہو کہ تم مجھے کس قدر عزیز ہو۔۔۔۔میں نے تمہیں ہمیشہ بہنوں کی طرح مانا ہے ۔۔۔۔۔"
عین کچھ ہوا ہے کیا ایسے کیوں کہہ رہی ہو ____؟“
حور نے حیرانگی سے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے پوچھا۔
ادھر آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔ حور کو بازو سے تھامے وہ اسے ساتھ لے جاتے مرر کے سامنے لے گئی۔۔
کیا ہوا ہے یار____؟“ حور نے متجسس سا ہوتے پوچھا۔۔۔
عیناں کا سنجیدہ ہونا اسے سچ میں ڈرا رہا تھا۔۔۔۔
بتاتی ہوں۔۔۔۔"
عیناں نے کہتے ساتھ ہی حور کے سرخ ہوئے چہرے کو دیکھا اور پھر نرمی سے اسکے دائیں کندھے پر بکھرے ان آبشاروں کو اکھٹا کرتے پیچھے کیا ۔۔۔
یہ نشان کسی کے کاٹنے کا ہے حور یہ کیسے آیا______؟“ حور کے کندھے سے شرٹ کو نیچے کیے عیناں نے اس پرانے ہوئے نشان کو انگلی سے چھوتے پوچھا۔۔۔۔
کل رات جب وہ حور کے ساتھ سوئی تھی تب اچانک ہی اسکی نظر حور کی شرٹ کے پیچھے ہونے پر اس نشان پر پڑی اور اس نشان کا مطلب وہ اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔
فدک سے ملنے جانے کی وجہ سے وہ بات نہیں کر پائی۔
وہ پہلے خود بات کر کے حور سے ساری حقیقت جاننا چاہتی تھی۔۔۔
کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے جو حور سب سے چھپا رہی ہے.
کک کچھ ننن۔ نہیں عیناں پپ پلیز چھوڑو ۔۔۔۔!" پھر سے وہی زخم وہی یادیں وہی چہرہ حور کے چہرے پر سایہ سا لہرایا اسے سانس لینے میں دشواری سی محسوس ہوئی۔۔۔۔
جبھی عیناں کے ہاتھ کو پیچھے کیے وہ جلدی سے کھڑکی کی جانب بڑھی۔۔۔
حور میں عمر میں چاہے چھوٹی ہوں تم سے مگر تم جانتی ہو۔۔
کہ میں تم سے زیادہ سمجھدار ہوں مجھ سے ایسا کچھ بھی مت چھپاؤ جو تمہیں اندر سے کھائے جا رہا ہے ایک دوست سمجھ کر بتاو مجھے۔۔۔۔۔!“
حور کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے عیناں نے اسکی آنکھوں میں جھلکتے خوف کو دیکھ اسے اپنے ساتھ کا تخفظ دیا ۔۔۔۔۔
عین میں نے کچھ بھی نہیں کیا سچی بھی مجھے نہیں پتہ تھا یہ سب ہو گا میں تو اسے جانتی بھی نہیں ہوں مگر پھر بھی اس نے مجھے سزا دی ۔۔۔ عین تم بھائی کو مت بتانا وہ کیا سوچیں گے تم ایسا کرو مجھے کہیں چھپا دو ورنہ جان سے مار دو میں اس قابل نہیں ہوں کہ کوئی بھی مجھ سے محبت کرے پلیز عین ۔۔۔۔۔۔۔"
حور بری طرح سے روتے ہزیانی سے حالت میں پاگلوں کی طرح بول رہی تھی۔۔
اسکے ادا کیے جملے عیناں کو کچھ بھی خاص سمجھ ناں آیا مگر وہ حور کو بولنے دینا چاہتی تھی۔۔
وہ سننا چاہتی تھی کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ اس قدر وخشت زدہ ہو چکی تھی۔
کون کیا ہوا کون تھا وہ حور کس نے کیا۔۔۔۔مجھے بتاؤ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔“
حور کے انسںوں کو صاف کرتی وہ اسے ری لیکس کرنے لگی ۔۔۔۔
وو وہ تھا اس نے زبردستی ننن نکاح کیا اور پپ پھر مجھے کچھ کھلایا مجھے کچھ ہوش نن نہی رہی پھر جب ہوش آیا تو میں برباد ہو چکی تھی عین۔۔۔۔۔"
کچھ نہیں بچا میرے پاس ۔۔۔۔۔۔ میری آبرو میرا سب کچھ لوٹ لے کے گیا وہ درندہ بے حس انسان۔۔۔۔۔۔“
وہ چیخ رہی تھی۔۔ اپنے سینے میں اتنے وقت سے دبایا وہ غم ساری تکلیف آج لبوں سے بیاں ہوئی تو سینے میں درد کی ٹیسیس اٹھنے لگیں۔۔
دل تھا کہ مر جانے پر اکسا رہا تھا۔۔۔ بے تحاشہ روتی وہ اس وقت عیناں کا صبر آزما رہی تھی۔۔
عیناں کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ اتنا سب کچھ وہ معصوم سی جان اکیلے جھیل چکی تھی۔
اور ان سب کو اس کی خبر تک ناں ہونے دی۔۔۔
اب جو وہ بکھری تھی، عین کے لئے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔۔۔۔
اسکا شدت سے دل چاہا تھا کہ اس وقت وہ شخص اسکے سامنے ہوتا تو وہ اسے ایسی اذیت ناک سزا دیتی کہ کسی معصوم لڑکی کی زندگی برباد کرنے کی سزا وہ تا عمر یاد رکھتا۔۔۔۔
بات سنو حور میری جان کچھ بھی نہیں ری لیکس ہو جاؤ میں ہوں ناں ساتھ۔۔۔۔۔“
عیناں نے اسے سینے میں بھینچتے حور کے سر کو تھپکا۔۔
جس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔۔۔
شاور لینے کے باوجود بھی اسکا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔۔ عین کو محسوس ہوا کہ وہ بخار میں تپ رہی تھی۔۔۔
نن نہیں تھا کوئی بھی عین میں نے سب کو پکارا بھائی کو ڈیڈ کو۔۔۔۔۔۔ میں نے منتیں بھی کیں مگر کیا ہو گیا مجھے پامال کر دیا اس شخص نے روندھ کے رکھ دیا میری عزت نفس۔۔۔۔۔!“
وہ بری طرح سے چلا رہی تھی۔۔
اس شخص کا ذکر کرتے ایک عجیب سی نفرت تھی جو حور کے روم روم میں سرائیت کرنے لگی۔۔۔۔
مجھے نیند نہیں آتی عین۔۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پھر سے کہیں سے آئے گا مجھے مار دے گا وہ عین۔۔۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔۔“
وہ پاگلوں کی طرح روتے اپنے دل میں موجود سارا غم عیناں پر عیاں کر رہی تھی۔۔
جس کی آنکھیں خود بھی اشکبار تھیں۔ وہ لب بھینچے خود کو مضبوط بنا رہی تھی۔۔
اسے سنبھالنا تھا حور کو،،، اگر اسے کچھ ہو جاتا تو وہ سب ویام کیسے جی پاتے اسکے بنا۔۔۔۔۔۔۔؛"
حور میں ہوں تمہارے ساتھ کچھ بھی نہیں ہو گا تمہیں ہم مل کر سب دیکھ لیں گے تمہیں کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ اوکے ناں“
حور کی پیٹھ تھپکتے وہ اسے اپنے ہونے کا یقین دلانے لگی۔۔۔۔ مگر اسکا جواب ناں پاتے وہ پریشان ہوئی تھی۔۔۔
حور_______" مکمل خاموشی پاتے عیناں نے اسے پکارا جس کا سر بے جان ہوتے اسکے کندھے پر ڈھلک چکا تھا۔۔۔۔۔
ڈیڈڈڈڈڈ__________“ عیناں خوفزدہ ہوتے چیخی تھی۔۔
________________💖__________________
ڈھلوان سے اترتے اذلان نے اپنا ہاتھ الایہ کے سامنے کیا جسے خاموشی سے تھامے وہ نیچے اتری اسکے ساتھ ہمقدم ہوئی تھی۔۔۔
اذلان کے چھرے سے مسکراہٹ جدا نہیں ہو رہی تھی۔۔
ایک سکون تھا جو اسے اتنے سالوں میں پہلی بار محسوس ہو رہا تھا آج اپنا آپ اسے مکمل لگ رہا تھا۔۔
نگاہیں بار بار اس چاند سے چہرے پر اٹک رہی تھیں۔۔
جو آنکھوں کے سامنے تھا مگر اپنے اور الایہ کے درمیان یہ فاصلہ سخت زہر لگ رہا تھا اسے۔۔۔۔
ہو گیا تم دونوں کا______“ الایہ اور اذلان جو ایک دوسرے کو گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے انہیں دیکھتے ویام نے گہرا طنز کیا۔۔۔
ویام کی آواز پر وہ دونوں چونکتے سامنے دیکھنے لگے جہاں وہ جیپ کے اوپر بیٹھا آنکھوں پر سیاہ چشمہ چڑھائے ببل گم چبا رہا تھا۔۔
سلیو لیس براؤن جیکٹ سے جھلکتے اسکے کسرتی بازوؤں چہرے پر ابھرتے ڈمپل ماتھے پر بکھرے بھورے بال الایہ نے آج کافی عرصے کے بعد اسے ساکت سی نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
آج اسے کچھ الگ لگا تھا وہ۔۔۔۔۔ وہ ٹھٹکی تھی ویام کے اس انداز پر مگر اسے ایسا بھی محسوس ہوا تھا جیسے کہ وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کے کر رہا ہو۔۔۔۔ اسے دکھانے کو مگر کیوں_____؟“
تم کب آئے اگر آ ہی گئے تھے تو ہمیں ڈھونڈا کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔“
الایہ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے اذلان نے اسے کھینچتے اپنے حصار میں۔ لیے خفگی سے ویام کو گھورا۔۔۔۔
الایہ کا اسے یوں دیکھنا سخت برا لگا تھا اذلان کو۔۔۔۔
میں آیا تو رات میں ہی تھا رات مزے سے ہوٹل میں گزاری، پھر یہاں دو گھنٹے پہلے پہنچا پہلے ڈھونڈنے کا سوچا تھا پھر سوچا کہ تم دونوں کو کچھ سپیس دے دوں ۔۔۔۔ اذلان کو دیکھتا وہ چشمہ نیچے کرتا آنکھ دبائے معنی خیزی سے بولا ۔۔
تو الایہ نے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے ناک کے نتھنے پھلائے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔۔۔
اہ بے بی کو غشہ آ گیا ۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔۔۔“ اتنے دنوں کے بعد اسکا تپا تپا چہرہ دیکھ ویام کو کافی خوشی ملی تھی،
جبھی اسے بازوں سے کھینچتے وہ اپنے قریب کر گیا۔۔۔
پیچھے ہٹو انگریزی بندر_____“ الایہ کا بس نہیں تھا کہ اسکا منہ نوچ لیتی۔۔۔۔ جو ہر وقت اسے ستانے کو پہنچ آتا تھا۔۔۔
جبکہ اسکے برعکس اذلان اب ہاتھ سینے پر باندھے دو انگلیاں لبوں پر رکھے ان دونوں کو لڑتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
خوشبو آ رہی ہے میرے پاس سے۔۔۔۔۔۔“الایہ کا بندر کہنا اگنور کرتے وہ دلکشی سے مسکراتا اپنی جیکٹ کو ذرا سا پیچھے کرتے اسکی جانب جھکتے سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔۔۔۔
پہچانو اس خوشبو کو______؟' الایہ کے ماتھے پر بل دیکھ ویام نے پھر سے کہا تو الایہ نے متجسس سا ہوتے ایک لمبا سانس کھینچا۔۔
پہچانا میری عین کی خوشبو ہے یار۔۔۔۔۔ اس قالو کے ملتے ہی تم سب کچھ بھول گئی ہو_____!“
الایہ کو سن سا دیکھ ویام نے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی۔۔۔۔
الایہ نے شرر بار نظروں سے اسے گھورا۔۔۔ جو عین کا پرفیوم لگائے اسے ستا رہا تھا مطلب عین اسکے پاس تھی۔۔۔ اسی وجہ سے وہ اس قدر پرسکون اور خوش تھا۔۔۔
تم اتنی آسانی سے جیت نہیں سکتے مسٹر بندر کاظمی وہ میری بہن ہے تم دیکھ لینا میں اسے کبھی تمہارے ساتھ نہیں رہنے دوں گی۔۔۔“
ڈارلنگ اب دیکھنے کو کچھ نہیں بچا بس ویٹ کرو جلد ہی تم الایہ سے آنی بننے والی ہو۔۔۔۔۔“
الایہ کے کان میں معنی خیز سی سرگوشی کرتے وہ اسے جھٹکے پر جھٹکا دیتا ہلکا سا اسکے گال کو تھپتھپاتے خود اطمینان سے چلتا اذلان کی جانب بڑھا۔۔۔۔
کیا یہ کنفرم ہے کہ تیمور اندر ہے۔۔۔۔" گاڑی سے نکلتے سامنے کھڑے شخص کے پاس جاتے میرب نے یقین دہانی چاہی،،،
جی میم اندر ہی ہیں دس منٹ ہوئے ہیں ان کو آئے_____!"
آدمی نے اسے صورتحال سے آگاہ کیا تو بدلے میں میرب نے پرس سے چیک نکالتے اسکے کام کا معاوضہ دیتے اسے رخصت کیا۔۔
وہ شکریہ کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔تو میرب نے لمبا سانس کھینچتے خود کو پرسکون کیا اور اندر کی جانب بڑھی۔۔۔۔
ہوٹل کی نیم پلیٹ کو دیکھ اسنے خشک لبوں پر زبان پھیری اور پھر قدم آگے بڑھائے۔۔۔۔۔
یس میم کیا ہیلپ چاہیے آپ کو۔۔۔۔!“ ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نے اسے دیکھ پیشہ ورانہ انداز میں انگلش میں پوچھا۔۔۔۔
میں مسٹر تیمور شیرازی سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔۔“ گھبراہٹ چھپاتے وہ مضبوط لہجے میں بولی۔
اوہ ویلکم میم اپنا ہی ہوٹل سمجھیں۔۔۔۔" لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا تو میرب نے ماتھے پر بل ڈالے اسے گھورا۔۔۔۔۔
کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وہ کہاں ہیں اس وقت۔۔۔۔۔ ناگواری چھپائے وہ سنجیدگی سے بولی،
میم دراصل وہ اس ہوٹل کے آنر کے بیٹے ہیں اس ہوٹل میں وہ جہاں مرضی آئیں جائیں ہمیں اجازت نہیں کہ ہم ان پر نظر رکھیں۔۔۔۔
میرب نے سنتے سرد سانس فضا کے سپرد کی مطلب کہ وہ ٹھرکی شخص وہیں اپنا منہ کالا کرتا تھا جو اسکی اپنی ملکیت کی جگہ ہو ۔
وہ سوچتے دل ہی دل میں اسے گالیوں سے نوازتے اس لڑکی کو دیکھنے لگی۔۔
دیکھیں میں انکی وائف ہوں، کیا اب بھی نہیں بتائیں گی آپ ۔۔۔۔“ میرب نے تعارف کرواتے جھنجھلاہٹ سے اس ذکر پر کب بھینچے۔۔۔۔
میم وہ اوپر کے فلور پر ہیں مگر ایگزیکٹ جگہ مجھے نہیں معلوم______" وائف کا سنتے وہ نظریں جھکائے مؤدب سی گویا ہوئی۔۔۔۔
اوکے شکریہ میرب نے کہتے ساتھ ہی قدم آگے بڑھائے۔۔۔۔۔
وہ یہاں اسے رنگے ہاتھوں پکڑتے ذلیل کرنے آئی تھی۔۔۔
تاکہ اسکے بعد وہ اپنے ڈیڈ کو اسکی اصل شکل دکھا کر اس رشتے سے آزادی حاصل کر سکے۔۔۔
مگر یہاں کے عجیب سے ماحول میں اسے گھبراہٹ بھی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ دھیمے قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی اس بڑے سے ہوٹل کو گردن گھمائے دیکھ رہی تھی ۔
بلاشبہ یہ ایک سراہے جانے کے قابل جگہ تھی۔
میرب نے گلا کھنکھارتے قدم اوپر بڑھائے۔۔۔۔
سامنے کی سیڑھیوں کے احتتام پر دو راستے بنے ہوئے تھے ۔۔
جو کہ دونوں اطراف بنے کمروں کی جانب کا رہے تھے۔
درمیان میں ایک بڑا سا ہال نما ایریا تھا جو یقیناً پارٹیز وغیرہ کے لئے بنا تھا۔۔
گزرے وقت کے کچھ لمحات اسکی آنکھوں کے پردوں پر لہرائے تو وہ سر جھٹکتی آگے بڑھ گئی۔۔
ڈارلنگ روم میں چلیں_______" وہ دھیرے سے چلتے ایک جانب گئی تھی،، کچھ خاص سمجھ تو ناں آئی مگر وہاں موجود لڑکے لڑکیاں وہ سارا ماحول اسے خوفزدہ ضرور کر رہا تھا۔۔۔
روم میں بھی چلیں گے پہلے یہ بتاؤ تم کل کہاں تھی۔۔۔۔۔“ یہ آواز اپنے قریب سے دھیمی سی بھاری آواز سنتے میرب سیکنڈ کے دسویں حصے میں پلٹی آگے پیچھے دیکھنے لگی ۔
دل میں عجیب سی جلن ہوئی تھی بھلا وہ کیسے اسکے سوا کسی دوسری لڑکی سے اس قدر فری ہو سکتا تھا ۔
مگر دماغ نے فوراً سے جواز پیش کیا وہ تو ایسا ہی تھا پھر دکھ یا افسوس کیسا______!‚
سرد آہ بھرتے وہ لب مضبوطی سے آپس میں پیوست کرتے آگے بڑھی تھی۔۔۔
شیشے کی کھڑکی کے پاس کھڑی وہ ہاتھ سینے پر باندھے بے حس و حرکت سی اندر موجود تیمور کو دیکھ رہی تھی۔۔
جو ایک ہاتھ میں کسی لڑکی کے ہاتھ کو تھامے لبوں پر مسکراہٹ سجائے شاید اسکی تعریف کرتے اسے خوش کرنے میں مگن تھا ۔
میرب کا روم۔ روم جھلس اٹھا چہرہ احساس ذلت سے تپتے انگارہ ہو گیا۔۔۔۔ عجیب سی جلن تھی جس سے اسکا روم روم دہک اٹھا تھا۔
وہ بھول گئی کہ وہ یہاں کس مقصد سے آئی تھی اب اسے یاد تھا تو بس تیمور شیرازی کے ہاتھ میں موجود کسی دوسری لڑکی کا ہاتھ۔۔۔۔
وہ بنا کچھ کہے اپنی بھیگی پلکیں جھپکتی پیچھے کو مڑی،،
سس سوری______ اپنے ہی خیالوں میں مگن وہ انجانے میں ہی سامنے سے آتے رابرٹ سے ٹکرائی تھی۔۔۔
جس نے جان بوجھ کر میرب کی کمر سے اسے تھامے اپنے قریب کھینچا۔۔۔۔۔۔
کیا بے ہودگی ہے چھوڑو مجھے_____" غصے سے سیخ پا ہوئے میرب نے دانت پر دانت جمائے جاخارجہ انداز میں اپنی کمر کے گرد لپٹے اسکے ہاتھ کو دور جھٹکا اور ایک دم سے زور دار تھپڑ اسکے منہ پر جھڑا۔۔۔
رابرٹ کے لئے یہ سب غیر متوقع تھا وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنے سائیں سائیں کرتے کان میں بجتی سیٹی کو سنتا ایک دم سے غصے سے میرب کی جانب مڑا۔۔۔۔
تیری اتنی ہمت تو رابرٹ کو۔مارے گی تجھے تو میں ابھی بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں______“ میرب کے بالوں کو بری طرح سے اپنے سخت ہاتھوں میں دبوچے وہ غرایا تو میرب نے غصے سے اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔۔
جبکہ رابرٹ بنا اسکے بولے کا اثر لیے اسے گھسیٹتے روم میں لے جانے لگا،،
_______________💖___________________
کیا ہوا نہیں ملی تمہاری مس بیوٹی______!“ راکنگ چئیر پر جھولتا وہ ہاتھ میں پکڑے مشروب سے مسلسل اپنے اندر لگی آگ کو بجھانے کی کوشش میں مگن جونیفر کی آواز پر چونک سا گیا۔۔۔
سرخ آنکھوں سے کھڑکی سے باہر کے وخشت ناک عجیب سے مناظر کو دیکھتا وہ گرجا۔۔۔
کس سے پوچھ کر میرے روم میں آئی ہو____“
بنا دیکھے وہ سخت لہجے میں بے تاثر سا بولا ۔
تو جونیفر ایک ادا سے چلتی اسکے قریب تر آئی,اتنا کہ ایچ اے آر کے پرفیوم کی مہک اسکے نتھنوں سے ٹکراتی اسے مسرور کر گئی۔۔۔۔
میں کل سے تمہارا ویٹ کر رہی ہو جان اور تم ہو کے میری خبر تک ناں لی۔۔“
کرسی کے پیچھے کھڑے ہوئے ایچ اے آر کے گلے میں بانہیں حائل کیے وہ ناراضگی سے اپنے آنے کا جتلاتے بولی،،،،
دفع ہو جاؤ یہاں سے_____" عجیب سی بے چینی تھی وہ پاگل ہوتے اپنی گردن کے گرد حائل اسکی بانہیں کھولتا چلایا۔۔۔
مگر میں یہاں اتنی دور سے _____ اگر ابھی کہ ابھی یہاں ناں گئی تو تمہیں جان سے مارنے سے گریز نہیں کروں گا____!“.
ایچ اے آر کا لہو چھلکاتا چہرہ دیکھ وہ ایک پل کو ڈر سی گئی مگر پھر تھوک نگلتے وہ خود کو مضبوط بناتی اسکے قریب ہونے لگی،،،
جونی اس وقت یہاں سے چلی جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا___"
شدید طیش میں انگلی اٹھائے وہ غرایا تھا جونی ایک شکوے بھری نگاہ اس پر ڈالتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔
ایچ اے آر اس وقت سخت غصے میں تھا، ایک روزی کا کچھ اتا پتا نہیں تھا اوپر سے اسے الایہ اور اس لڑکے کے بابت کچھ خبر ناں مل پائی تھی۔۔۔۔
جس وجہ سے وہ سخت غصہ تھا۔۔۔
معا دروازہ ناک کرتے اسکا خاص آدمی اندر داخل ہوا۔۔۔
بولو شارک کیا خبر ہے_____؟" روزی کو ڈھونڈنے کا کام آسکے سپرد تھا ۔۔
ایچ اے آر کو یقین تھا وہ حالی ہاتھ نہیں لوٹا ہو گا۔۔
سر اچھی خبر ہے روزی میم کے ہرٹ میں لگی چپ ایکٹو ہوئی ہے وہ اس وقت لندن میں ہیں؛ اور شاید کسی کے گھر میں،،،،،"
ایچ اے آر کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچتے شارک کی جانب متوجہ ہوا ۔۔۔
تو ابھی تک تم اسے لائے کیوں نہیں۔۔۔۔؟"
اسے گریبان سے تھامے وہ غصے سے چیخا۔۔۔۔۔
سر اس جگہ جانا آسان نہیں ضرور کوئی بڑی بات ہے میں نے بارہا کوشش کی ۔
مگر اس گھر کی سیکیورٹی کو ڈی ایکٹیویٹ نہیں کر پایا۔۔۔۔"
شارک نے نظریں جھکائے سچ بتایا تھا وہ کئی دنوں سے انزک کے گھر کی سیکیورٹی کو توڑنے کی کوشش میں ہلکان ہوا تھا مگر نہیں کر سکا۔۔۔
اگر ایسی بات ہے تو میں ابھی جاؤں گا۔۔۔۔ چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔میں بھی دیکھوں ایسا کونسا شخص ہے جس نے ایچ اے آر سے بھڑنے کی جرت کی ہے ۔"
آنکھوں میں عجیب سی چمک لیے وہ سرد نظروں سے کھڑکی کی جانب دیکھ بولا۔
💖_______💖________💖
امم۔۔۔ امن تم یہاں کیسے کیوں آئے تم______“ امن کے کندھے سے پھوارے کی مانند ابلتے خون کو دیکھ اشعر غصے سے نم آنکھوں سے چلایا۔۔۔۔
اشعر کی آنکھوں میں فکر پریشانی دیکھ وہ سرخ آنکھوں سے مسکرایا۔۔۔
پاپا آپ نے مجھے معاف کر دیا ناں____“ اشعر کی بات کو نظر انداز کیے وہ اپنی ہی کہہ رہا تھا۔۔۔
اشعر نے ایک نظر آگے پیچھے دیکھا۔۔ اس وقت یہاں کوئی غنڈہ نہیں تھا وہ امن کو تھامے ایک کونے میں چلا آیا۔۔
بات سنو میری تم یہاں بیٹھو اپنی آنکھیں بند مت کرنا میں ابھی آیا۔۔
اپنا رومال امن کے کندھے پر رکھتے وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ نظریں چرا گیا۔۔
تو مطلب آپ نے مجھے معاف نہیں کیا ۔" وہ تلخ لہجے میں کہتا ہنس دیا تو اشعر نے جھٹکے سے سر اٹھائے اسے دیکھا
اور پھر سختی سے لب آپس میں پیوست کیے۔۔۔
کس بات کی معافی میں تو باپ تھا غصہ کیا گھر سے نکال دیا مگر تم تم نے ایک بار بھی میرا نہیں سوچا چپ چاپ چلے گئے ۔
اتنے سالوں تک مجھ سے دور رہے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ واپس چلا جاؤں،،
شاید سب میری راہ دیکھ رہے ہوں۔۔۔۔" امن نے سرخ چہرہ جھکائے درد کی شدت پر نچلا لب دانتوں تلے دبایا۔۔۔۔۔
میں تو باپ تھا غصہ کر دیا پہلے بھی تو کرتا تھا مگر تم کبھی دور نہیں ہوئے امن اس بار کیوں____“
اشعر غصے سے اسے دیکھتا افسوس سے بولا، تو امن لب بھینچ گیا۔۔۔۔
سچ ہی تو تھا کہ اگر اشعر نے غصہ کیا تھا اسکا تو فرض تھاکہ وہ اسے مناتا اس سے معافی مانگتا۔۔
مگر وہ تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ سب سے دور تن تنہا ہو گیا تھا،
تم آرام کرو میں آتا ہوں؛" اشعر جلدی سے کہتے وہاں سے جانے لگا کہ امن نے اسکا ہاتھ تھاما۔۔
نہیں پاپا آپ نہیں میں جاؤں گا آپ یہیں میرا انتظار کریں۔۔۔۔
اشعر کو روکتا وہ جلدی سے اٹھا تھا مگر امن نے فوراً سے اسے تھاما۔۔۔
پاپا آپ نہیں میں جاؤں گا آپ اندر جائیں یہاں نیچے تہہ خانہ ہے جہاں معصوم بچے قید ہیں آپ وہاں جائیں میں ان سب کو سنھبال لوں گا۔۔
نہیں امن میں کر لوں گا تمہاری حالت ٹھیک نہیں,اشعر نے اسے جلدی سے ٹوکا مگر امن نے فوراً سے سر نفی میں ہلایا۔۔۔
نہیں ٹھیک ہوں میں اتنی چھوٹی چھوٹی چوٹیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں آپ جائیں جلدی سے۔۔۔"
امن فورا سے بیٹھتے اپنی گن تھام بولا تو اشعر نے فخر سے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر امن کو خیال رکھنے کی تلقین کرتے وہ جلدی سے آگے کی جانب گیا۔
💖_________💖__________💖
کیا ہوا ہے عیناں سب ٹھیک تو ہے____" عیناں کی آواز پر وریام اور نیناں بھاگتے حور کے کمرے میں آئے،،
مگر سامنے ہی حور کا بےجان وجود دیکھ وریام پریشان سا ہوتا اسکی جانب لپکا۔۔
حور پرنسز____" گھبراہٹ سے اسے بانہوں میں بھرے وریام نے نرمی سے بیڈ پر لٹائے اسکا چہرہ تھپکا۔۔
جہاں مٹے مٹے آنسوں کے نشانات نیناں کو پریشان کر گئے۔۔۔
وریام اٹھائے اسے کیا ہو گیا تھوڑی دیر پہلے تک تو بلکل ٹھیک تھی میری بچی۔۔۔۔"
حور کے قریب بیٹھے وہ پریشانی سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے بولی۔۔۔۔
رکو میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔۔"
نہیں ڈیڈ ڈاکٹر کو ابھی مت بلائیں اتنی رات ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میری بات ہوئی تھی حور سے تو اس نے کہا کہ صبح سے کچھ ٹھیک سے کھایا پیا نہیں شاید اس وجہ سے___"
عیناں نے فوراً سے وریام کے ہاتھ سے موبائل چھینا وہ دونوں حیران ہوئے مگر پھر عیناں کی بات سنتے وہ سوچ میں مبتلا خاموش ہو گئے۔۔
اوکے تم دھیان رکھنا اس کا میں آتا ہوں۔۔۔۔" نیناں کو حور کے پاس رہنے کا کہتے وریام متفکر سا روم سے نکلا تو عیناں نے شکر کا سانس لیا۔۔
💖________💖__________💖
کہاں تھے تم کل رات سے گھر نہیں آئے____" ہال میں روشنی کرتے سلیمان شاہ چلتے ایل کے قریب آتے پوچھنے لگے۔۔۔
جو بکھرے سے حلیے میں ایک ہاتھ میں اپر تھامے سرد ساسن اپنے اندر لیتا سرخ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا۔۔۔
آ تو گیا واپس____ جبڑے بھینچے جواب دیتا آج انہیں وہ پہلے والا ایل لگا تھا ۔۔
کل میں عیناں سے ملنے جا رہا ہوں ویام کے گھر،،کیا تم جانا چاہو گے ساتھ____"
سلیمان شاہ کی بات سنتے ایل کے آگے بڑھتے قدم تھمے۔۔۔
آنکھوں کے سامنے ایک ساتھ عیناں اور حور کا سراپا لہرایا۔۔۔۔۔۔
ضبط سے آنکھیں میچے وہ کمال مہارت سے اپنے جذبات پر بندھ باندھے ہوئے تھا۔
وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اگر وہ حور کے سامنے گیا تو اسکا ری ایکشن کیسا ہوگا۔۔؟"
نہیں مجھے موم سے ملنے جانا ہے آپ مل آئیں میں پھر مل لوں گا۔۔۔
جبڑے بھینچے وہ سرد نگاہوں سے اپنے سیاہ بوٹوں کو دیکھ کہتا اوپر روم کی جانب بڑھا۔۔۔
چھوڑو مجھے غلیظ انسان _____ اپنے بالوں میں رابرٹ کی سخت گرفت پر میرب کی آنکھوں سے ایک ساتھ جانے کتنے آنسوں بہے تھے،،
وہ اپنے ڈر پر قابو پاتے غصے سے رابرٹ کے مضبوط ہاتھ پر مکے مارتے اسکی گرفت سے آزاد ہونے کی ناکام سی کوشش کرنے لگی۔۔۔
مگر رابرٹ نے ایک دم سے اپنے الٹے ہاتھ کا بھاری تھپڑ میرب کے چہرے پر رسید کیا____
وہ سن ہوتے وجود کے ساتھ چکراتی بری طرح سے پیچھے اوندھے منہ گری ۔۔
ہونٹ سے خون کی لکیر سی نمودار ہوئی ،، بے ساختہ اسکے لبوں نے تیمور کو پکارا ،وہ شدتِ تکلیف سی آنکھیں میچ گئی۔۔۔
تمہاری اتنی جرت کیسے ہوئی کہ تم مجھے، رابرٹ کو تھپڑ مار گئی۔۔۔۔
رابرٹ نے آگے بڑھتے میرب کے چہرے کو مٹھی میں دبوچے غصے سے کہا ،، چھوڑو مجھے _____" اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش میں ہلکان وہ رابرٹ کے ہاتھ کو غصے سے پیچھے کرنے کی کوشش کرتے چیخی ۔۔۔۔
رابرٹ نے ہنستے اسے پیچھے بیڈ کی جانب پھینکا ۔۔۔
بہت بہادر ہو تم تو سب مزہ آئے گا دیکھتا ہوں کیسے خود کو بچاتی ہو تم،،،،،
میرب کے سراپے کو للچائی نظروں سے دیکھتا وہ آگے بڑھتے ایک جھٹکے میں سکارف کو مٹھی میں دبوچے اسکے سر سے اتارتے دور پھینک گیا ۔
میرب کا وجود سن ہونے لگا تھا ہاتھ پاؤں مسلسل کپکپا رہے تھے،،
دماغ میں اٹھتی ٹیسوں سے اسے رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہونے لگی ،
یو باسٹرڈ دور رہو ،،،“ اپنے برہنہ سر کو دیکھ وہ غصے سے سیدھے ہوتے اپنی جانب بڑھتے رابرٹ کے پیٹ پر لات رسید کرتے فوراً سے بیڈ سے اترتی دروازے کی جانب لپکی۔۔۔
رابرٹ تیزی سے خود کو سنبھالتا میرب کی جانب بڑھا ۔۔ اسے بازوں سے تھامنے کی کوشش میں میرب کی سکرٹ ایک دم سے پھٹی تھی ۔۔۔
میرب آنکھیں خوف کی زیادتی سے پھیلائے اپنی سکرٹ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
مزاحمت کی ساری ہمت جواب دے گئی۔
جب رابرٹ نے ایک ساتھ دو تھپڑ اسکے نازک گالوں پر جھڑے اور اسے کھینچتے بیڈ پر بےدردی سے پھٹکا۔۔
لیٹس انجوائے بے بی_____ ہونٹوں کے قریب سے نکلتے خون کو دیکھ وہ شیطانیت سے کہتا میرب کے ہاتھوں کو بری طرح سے دبوچتے اس پر جھکنے لگا۔۔
میرب کی آنکھوں سے بہتا گرم سیال وہ بے بس سی اپنی موت کی دعا کرنے لگی ۔
کہ ایک دم سے دروازہ دھاڑ کی آواز سے کھلا تھا۔۔
اپنے ہاتھوں کو آزاد محسوس کرتے میرب نے دکھتی آنکھیں کھولی تو سامنے ہی رابرٹ کو گھسیٹتے وہ باہر لے جا رہا تھا۔۔
چند لمحے وہ یونہی چھت کو گھورتی رہی مگر ایک دم سے رابرٹ کی چیخوں کی آواز نے اسے ہوش میں لایا ۔۔۔
وہ یونہی لڑکھڑاتی باہر کی جانب لپکی ۔۔۔۔۔
جہاں سامنے ہی رابرٹ کا خون سے لت پت وجود تیمور کے شکنجے میں پھڑپھڑا رہا تھا۔۔
نیچے پڑے گلدان کے ٹکڑے دیکھ وہ سانس روک سا گئی ۔۔
رابرٹ کے سر سے بہتا خون فرش کو سرخ کرتا چلا گیا۔۔
جبکہ تیمور کسی جانور کی طرح اسکے چہرے پر لگاتار مکے جڑھ رہو تھا۔۔
جو شاید بےہوش ہو چکا تھا۔۔۔۔
بس کر دو تیمور خدا کے واسطے بس کرو وہ مر جائے گا_______!“ میرب گھٹنوں کے بل بیٹھتی اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپائے ہذیانی سی ہوتے چیخی تھی۔۔
رابرٹ کو مارنے کے لئے تیمور کا اٹھا ہاتھ فضا میں ہی تھم گیا۔۔۔
اسنے گردن موڑے میرب کے لرزتے وجود کو عجیب سی سرد نظروں سے گھورا۔۔۔
اسکی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا وخشت ناک تاثرات سے رابرٹ کو دیکھتے تیمور نے ایک ساتھ جانے کتنے ہی مکے اسکے جبڑے پر جڑھ دیے،
کہ وہ بےسدھ سا اوندھے منہ خون آلود چہرے سے زمین پر جا گرا۔۔
نو پلیززززز بس کرو_______“ رابرٹ کے خون آلود وجود کو ایک نظر دیکھتے میرب بری طرح سے چلاتے وہاں سے بھاگنے لگی۔
مگر تیمور نے اٹھتے ایک ہی جست میں اسکے قریب جاتے میرب کے بازو کو بری طرح سے جکڑا۔۔۔
میرب کا سانس سینے میں الجھ سا گیا۔۔
چہرے پر ایک تاریک سایہ لہرایا۔۔۔ اپنے ہاتھ میں دھنستی مقابل کی سخت انگلیوں کے لمس نے اسے اندر تک لرزا دیا تھا۔۔
ننن نہیں چچ چھوڑو مجھے تت۔۔ تیمور______" اپنے ناتواں ہاتھوں کو تیمور کے کندھے پر مارتی وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔۔
تیمور نے بےتاثر نگاہوں سے میرب کے بکھرے سراہے کو دیکھا۔۔۔
دماغ میں ایک عجیب سا کرنٹ بیدار ہوا ۔۔۔وہ جبڑے بھینچتے اسے گھسیٹتے روم میں لے جانے لگا ۔۔
سامنے کھڑی تیمور کی گرل فرینڈ منہ کھولے حیرانگی سے رابرٹ اور پھر تیمور کو دیکھ رہی تھی۔
تیمور کا اس قدر وخشی طریقے سے رابرٹ کو مارنا اسے بلکل سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔
جیولی نے حیرت سے ہوٹل روم کے دروازے کو دیکھا۔۔
جسے تیمور دھاڑ کی آواز سے بند کر چکا تھا ۔۔۔
جبڑے بھینچے اندر جاتے ہی تیمور نے میرب کے ہاتھ کو آزاد کرتے اپنے غصے پر قابو کرنے کی سعی کرتے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھاما ۔۔۔
میرب بمشکل سے گرتے گرتے سنبھلی تھی ۔۔
ایک نظر اپنے سرخ ہوئے ہاتھ کو دیکھ وہ لب کچلتے کمرے سے بھاگنے کا سوچ دبے قدموں سے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔
آہہہہ۔۔۔۔۔۔۔۔“ کہاں جا رہی ہو______؟“
میرب کا دماغ شل ہونے لگا تھا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے ہاتھوں کو دیکھے گئی جو کہ تیمور کی جارخانہ گرفت میں تھے۔۔
کان میں لگی منی مائیکرو چپ نکالتے تیمور نے دور پٹھکی۔۔
تتت۔۔۔ ممم مجھے جانے دو_____ “ اپنے ڈر پر قابو پاتی وہ مضبوط لہجے میں بولی جبکہ آواز میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔
مجھ سے ملنے ہی تو آئی ہو ایسے کیسے جانے دوں______“ میرب کے آنسوں سے تر چہرے کو گہری عجیب نظروں سے دیکھتے تیمور نے دائیں ہاتھ میں اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامے دروازے سے لگایا۔۔۔
اور پھر اپنے بائیں ہاتھ سے اسکے کندھے سے پھٹی سکرٹ کو چھوا۔۔۔
میرب نے لب بھینچتے خود کو چینخنے سے روکا تھا۔۔
سارا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔۔۔۔ڈر اس قدر حواسوں پر طاری تھا کہ اسے لگا وہ ابھی بےجان ہوتے گر جائے گی۔۔۔
میں نے کہا تھا ناں میر اگر تم مجھے اپنے قریب آنے دو تو میں باہر کسی دوسری کو دیکھوں گا بھی نہیں_____ مگر تم میرے پیچھے کیا لینے آئی___؟“
اپنی انگلی سے وہ میرب کی سکرٹ کے اس پھٹے حصے کو عجیب سے طریقے سے چھوتا اس وقت میرب کو کوئی پاگل لگا تھا ۔
جس کے سر پر کوئی جنون پاگل پن سوار ہو چکا ہو۔۔۔۔
تتت۔۔۔۔ تیمور پپ پیچھے ہٹو_____“ تیمور کے ہاتھ کو اپنی سکرٹ کے بٹن پر دیکھ میرب کا سانس سینے میں اٹکا۔۔
وہ بری طرح سے جھٹپٹاتی خود کو اس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
جسے محسوس کرتے تیمور نے بری طرح سے میرب کی کمر کو اپنے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں دبوچے اپنے قریب تر کیا ۔۔
تم یہی دیکھنے آئی تھی کہ میں یہاں کیا کرنے والا ہوں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ______رائٹ،،،،، تو اب میں تمہیں کر کے دکھاتا ہوں کہ میں کیا کیا کرنے والا تھا اس لڑکی کے ساتھ....
میرب کے نچلے ہونٹ کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے وہ معنی خیز لہجے میں کہتے جارخانہ انداز میں اسکے ہونٹوں کو اپنے لبوں میں قید کر گیا۔۔۔
اپنے ہونٹوں پر تیمور کی جارخانہ گرفت پر میرب کی سانس اکھڑنے لگی ۔۔۔
مگر تیمور اسکی سانسوں کو قید کیے انہیں رہائی دینا بھول گیا تھا شاید وہ ان چند پلوں میں اپنے اندر سموئے اس خوف میرب کو کھونے کے ڈر کو نکالنا چاہ رہا تھا۔۔
میرب کی آنکھوں سے بہتے آنسوں تیمور کو اپنے گالوں پر محسوس ہوئے تو نا چاہتے ہوئے بھی وہ تیزی سے پیچھے ہوا ۔۔۔۔۔
مگر میرب کو سنبھلنے کا موقع دیے بنا وہ اسے بانہوں میں بھرے بیڈ کی جانب لے گیا۔۔۔
جس کے چہرے پر واضح خوف تھا۔۔۔
پھڑپھڑاتے سرخ ہوںٹ التجا کر رہے تھے جبکہ سرمئی بڑی بڑی آنکھوں میں تیمور شیرازی کے لئے خوف واضح تھا ۔۔۔
تیمور نے اسے نرمی سے بیڈ پر لٹائے انگوٹھے سے ہونٹ کے پھٹے کنارے کو سہلایا ۔۔۔۔ تو درد سے میرب کی سسکی سی نمودار ہوئئ۔۔
تیمور نے سپاٹ نگاہیں اسکی بند ہوئی لرزتی پلکوں پر گھاڑے نرمی سے اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے میرب کی تھوڑی سے پکڑتے چہرہ اونچا کیا ۔۔۔
ایک نظر اس تیز تیز سانسیں لیتے وجود پر ڈالے وہ جھکتے اس زخم کو اپنے لبوں سے چھوتے جیسے مرحم لگا رہا تھا ۔۔
میرب نے بے ساختہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھے اسے دور کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔
جو جابجا اسکے چہرے پر اپنی شدتیں لٹاتا اسے مارنے کے در پر تھا ۔۔۔۔
سس ۔۔۔سورئ پپہ پلیز چچ چھوڑ دد دو اا اب ننننہیں کروں گی ۔۔۔۔۔“
میرب کی خوفزدہ سی التجا سنتا وہ نظر انداز کیے مدہوش سا اپنے بھیگے لبوں سے میرب کی گردن کو چومتا اسے پاگل کر دینے کو تھا۔۔۔
سزا ایسے نہیں دیتے مسز تیمور ۔۔۔۔۔۔
یہ پیار جتانا تھا،،، بہت ہو گئی تمہاری من مرضیاں ،اپنے چھوٹے سے دماغ میں ایک بات بٹھا لو اچھے سے۔۔۔۔
تم سر تا پاؤں صرف میری ہو۔۔۔تیمور شیرازی نے کی۔۔۔۔ تمہیں جیسے مرضی چھووں تمہارے قریب آؤں تم روک نہیں سکتی ۔۔
میرب کے کان کی لو پر لب رکھتے وہ اسے مزید ہراساں کر رہا تھا ۔۔
جو آگے ہی ڈری سہمی سی اسکی پناہوں میں سانس بھی بمشکل سے لے پا رہی تھی ۔۔۔۔
میرب کے ماتھے پر بوسہ دہے تیمور نے ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل کیے اسے نرمی سے ٹیک لگائے بٹھایا۔۔۔۔
جو خاموش نظریں جھکائے ہوئے تھی۔۔۔
اپنی جیکٹ اتارتے بے حد نرمی سے اسے پہناتے تیمور کئی لمحے اسکے جھکے سر کو دیکھتا رہا۔۔۔
کمرے میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی تھی،،
تیمور کی نگاہوں سے حائف ،وہ خود میں سمٹنے کی کوشش کرتی اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی۔۔۔
مجھے نکلنا ہے کسی کام سے__ شاید کچھ وقت لگ جائے واپس آنے میں ،،، تم خیال رکھنا اپنا اور کوئی اوٹ پٹانگ حرکت مت کرنا۔۔۔
میں واپس آ کر سب سچ بتاؤں گا،،، تب تک خود کا خیال رکھنا اور خود کو تیمور شیرازی کو سونپنے کے لئے تیار رہنا ۔۔۔'
میرب کی سوالیہ نظریں اسی پر تھیں ،،، جو بے تابانہ اسے پاگلوں کی طرح بنا پلکیں جھپکائے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
کک۔۔ کہاں جا رہے ہو؟" جانے کیوں مگر میرب کے لبوں سے پھسلا۔۔۔۔ وہ خود سے لب بھینچتی شرمندہ سی ہو گئی۔۔۔
تیمور نے لب دانتوں تلے دبائے اسے کمر سے تھامے گود میں بھرا ۔۔۔۔ اور نرمی سے اسے اپنی سانسوں سے قریب کرتے وہ سینے میں چھپا گیا۔۔۔
میرب کا چہرہ لہو جھلکا رہا تھا جبکہ تیمور پہلی بار خود کو اس قدر مشکل میں محسوس کر رہا تھا ۔
میرب سے دوری کس قدر سوہان روح تھی کوئی اس سے پوچھتا ۔۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میری پہلی نظر کی محبت اور میری آخری الفت صرف تم ہو،،وہ واحد لڑکی جس نے تیمور شیرازی کو اپنی نگاہوں سے گھائل کرتے اپنی الفت میں قید کر لیا ۔۔۔۔"
میرب کی آنکھوں کو لبوں سے چھوتے وہ اپنے لفظوں کا طلسم پھونکتا اسے سچ میں مان بخش رہا تھا ۔۔
لمحوں کا کھیل تھا اسے بیڈ پر بٹھائے وہ نرمی سے پیشانی پر اپنا لمس چھوڑتا دروازے کی جانب بڑھا ۔۔
میرب خاموش نظروں سے اسکی پشت کو گھورتی رہی۔۔۔
گھر پہنچا دو میر کو مگر خیال سے کہیں چوٹ ناں آنے پائے ۔۔۔“
ایک آخری نگاہ میرب پر ڈالے وہ انزک کو گائیڈ کرتا باہر نکلا۔۔۔۔
جبکہ میرب پھٹی پھٹی نگاہوں سے انزک کو اپنی طرف آتا دیکھ رہی تھی۔۔
💕_________💕___________💕
حیاء بات ہوئی امن سے کہاں گیا ہے وہ۔۔۔۔ اب تک واپس نہیں آیا میرا دل گھبرا رہا بہت بیٹا _____؛“
رمشہ نے بے چینی سے کمرے میں آتی حیاء کو دیکھتے پوچھا جو ہاتھ میں سوپ کا باؤل تھامے خود بھی کافی پریشان دکھ رہی تھی ۔۔۔
پھپھو آ جائیں گے آپ پریشان مت ہوں____"
ٹرے سائیڈ میز پر رکھتے حیاء چلتے رمشہ کے قریب آتے اسکے پاس بیٹھتے بولی۔۔۔۔
جبکہ رمشہ ٹھیک سے ارام بھی نہیں کر پا رہی تھی،،
ایک بار بیٹے کو کھونے کی سزا وہ بھگت چکی تھی اب دوبارہ سے وہی سب نہیں سہہ سکتی تھی ۔۔۔
مگر وقت دیکھو حیاء دس بج رہے ہیں صبح کا نکلا تھا کہہ کر گیا تھا دن کو آؤں گا اب تو رات ہو چکی ہے۔۔۔'
لب بھینچے وہ اپنے آنسوں پر ضبط کرتی حیاء کے ہاتھ کو تھامے بولی تو حیاء نے جلدی سے اسے سینے میں بھینچا ۔۔
پھپھو آپ کو لگتا ہے کہ من آپ کو تکلیف دے گا وہ اتنے سالوں سے دور صرف اسی وجہ سے تھا کہ اسے یہی لگتا تھا ۔
کہ آپ بھی انکل کی طرح اس پر یقین نہیں کرتے۔۔۔
مگر اب جب وہ ساری حقیقت سے واقف ہے تو وہ کہیں نہیں جا سکتا آپ کو چھوڑ کر___"
حیاء نے اپنی سی کوشش کرتے رمشہ کو تسلی دی،، جو خاموش تو ہو گئی تھی۔
مگر دھڑکنیں خوف سے اب بھی ویسے ہی سپیڈ سے دھڑک رہی تھی۔
معا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ دونوں مڑتے دروازے کی جانب دیکھنے لگیں۔۔
اششش اشعر یہ یہ خون کیا ہوا ہے آپ کو،،،،" ڈر و وخشت سے چیختی رمشہ اندھا دھند بھاگتی اشعر کے پاس جاتے اسکے سینے پر لگے خون کو سہمی نظروں سے دیکھتی ہراساں سی چلائی ۔۔۔
حیاء کا چہرہ خوف سے پیلا پڑ چکا تھا۔۔۔
اشششعر کک۔۔۔ کیا ہوا آپ کو کک کہاں لگی____؟یا خدا اتنا خون بہہ گیا۔۔۔؟"
رمشہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔۔۔۔ بیماری سے کمزور وجود گرنے کو تھا۔۔۔
جبکہ چہرہ آنسوں سے تر تھا۔۔۔ اشعر کو اس وقت وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار دکھی۔۔۔۔
اششش چپ کرو بیگم ٹھیک ہوں میں کچھ نہیں ہوا مجھے ___!“
رمشہ کو آپے سے باہر ہوتا دیکھ اشعر نے تھامتے اسے سینے سے لگائے سر تھپکا۔۔۔۔
جج۔۔۔۔ جھوٹ مت بب بولیں ____"خفگی سے اسکے سینے پر مکہ مارتے وہ بھڑاس نکالنے لگی تو اشعر نے حیاء کو دیکھا جو کافی خوفزدہ سی تھی۔۔
یار یہ میرا خون نہیں لڑکے کا خون ہے اسے گولی لگ گئی تھی اب ٹھیک ہے وہ بھی،،، بس اسے ہاسپٹل لے جاتے یہ خون لگ گیا وردی پر،،،،،“
اشعر نے رسان سے رمشہ کو سمجھایا تو وہ خاموش ہو گئی۔۔۔
مگر خوف اب بھی تھا۔۔۔ جبھی اشعر اسے تھامے بیڈ پر لے گیا۔۔۔
بیٹا آپ اپنے کمرے میں جاؤ ریسٹ کرو،،، امن سے بات ہو چکی ہے۔۔۔
میری وہ میرے ساتھ ہی تھا ابھی حالات خراب تھے تو میں اسے وہیں چھوڑ آیا۔۔۔۔
کک کیا آپ نے معاف کیا امن کو ووو۔۔۔۔ وہ واپس کیوں نہیں آیا۔۔۔؟ آپ سے کہاں ملا وہ۔۔۔۔؟“
رمشہ نے ایک ساتھ حیرت و خوشی سے استفسار کیا۔۔
تو اشعر نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔۔
بیٹا آپ روم میں جاؤ میں آپکی پھپھو کو دیکھ لوں گا ۔۔۔“
حیاء کو کہتے وہ پھر سے رمشہ کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
جبکہ حیاء پریشانی سے انگلیاں چٹخاتی کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔۔
مگر جیسے ہی نظر واشروم سے فریش ہوتے شرٹ لیس سا باہر نکلتے امن پر پڑی ،،،
حیاء کا سانس سینے میں اٹک گیا ۔۔۔۔ ڈر سے اسکا پورا جسم لرز رہا تھا۔۔۔ جبکہ امن اسکی پھیلی آنکھیں اپنے کندھے سے بہتے خون پر دیکھ لب بھینچے پھرتی سے اسکے قریب ہوا۔۔۔
خخخ۔۔۔۔ خخون____" حیاء کی لڑکھڑاتی آواز امن کا دل خوف سے دھڑکا تھا۔۔
مم من خخخ۔خون۔۔۔۔ سیاہ آنکھوں میں جھلکتی نمی میں واضخ خوف تھا امن کو کھونے کا خوف اسکے درد کو دیکھ وہ خود تکلیف محسوس کر رہی تھی۔۔۔
جج جھوٹ ہے امن تت تو ووو وہاں ____'؟
سر جھٹکتے اپنے قریب تر کھڑے امن کے چہرے کو چھونے کے لئے اٹھائے اپنے ہاتھ کو دوبارہ سے گرائے وہ خود کو تسلی دینے لگی۔۔۔۔
امن کا دھلا دھلا شفاف چہرہ اس وقت درد سے زرد پڑ چکا تھا۔۔
مگر وہ کمال مہارت سے اپنے درد پر ضبط کیے حیاء کے قریب ہوتے اسے تھامے سینے سے لگا گیا ۔
حیاء کی خوف سے دھڑکتی بے ہنگم دھڑکنیں امن کو اپنے سینے میں دھڑکتی محسوس ہو رہی تھیں۔
اشعر سے اس نے ہی کہا تھا۔۔۔
کہ وہ رمشہ کو فل حال کچھ ناں بتائے اسکی صحت کے پیش نظر وہ فل وقت اسے نہیں بتانا چاہتا تھا کہ اسے گولی لگی ہے۔۔۔
جبھی اشعر نے حیاء کو بہانے سے کمرے سے بھیجا تھا ۔۔۔
لخت جگر یقین کر لو ورنہ میرا یقین کروانا تمہیں بھاری پڑ سکتا ہے۔۔۔۔“
اپنے بھیگے لب حیاء کے کندھے پر رکھتے وہ بوجھل سی آواز میں سرگوشی کرتا اسے ہوش کی دنیا میں کافی اچھے سے لا چکا تھا۔
اامن یی۔۔ یہ کیا کر رہے ہو تت ۔۔۔۔۔ حالت دیکھو اپنی چلو میرے ساتھ،امن کے چھونے سے وہ ایک دم سے اسے بازو سے تھامے آنکھیں خوف سے پھیلائے اسے تھامے بیڈ کی جانب لے جانے لگی ۔
امن نے لب بھینچے ایک گہری نظر حیاء کے سراپے پر ڈالی ،
جو اس وقت لیمن کلر کے خوبصورت سوٹ میں ملبوس سر پر دوپٹہ ٹکائے گہری سیاہ جھیل سی آنکھوں میں ڈر کے ساتھ ساتھ نمی سموئے اسے بری طرح سے گھائل کر رہی تھی۔۔
کیسے آئی چوٹ کتنا خون بہہ رہا ہے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔۔“
حیاء اسکے کندھے سے بہتے خون کو اپنے دوپٹے سے صاف کرتی مسلسل پریشانی سے بول رہی تھی ۔
جبکہ امن کی نظریں اسکے سراپے پر اٹکی تھیں ۔۔
مجھے کسی طبیب کی ضرورت نہیں تم پاس آ جاؤ میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔۔۔"
حیاء کو ہاتھ سے پکڑے اپنے پاس بٹھاتا وہ مخمور لہجے میں بولا،
تو حیاء نے خفگی سے اسے گھورا ۔۔۔
جس کی سرخ آنکھیں درد کی شدت کو بیاں کر رہی تھی۔
ڈائیلاگ مت جھاڑو تم چپ چاپ بیٹھو____“ امن کو غصے سے دیکھتے وہ وارڈروب کی جانب بڑھی۔۔۔
فرسٹ ایڈ کٹ نکالتے وہ دوبارہ سے اسکے پاس آتے روئی سے خون کو صاف کرنے لگی۔۔۔
یار گیا تھا ڈاکٹر کے گولی نکال دی ہے ڈاکٹر نے،زخم بھی جلد ہی بھر جائے گا تم ٹینشن مت لو،،____“
حیاء کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ امن نے بے چینی سے کہا تو حیاء نے خفا نظروں سے اسے گھورا ۔۔۔
پٹی کیوں نہیں کروائی خون دیکھا کیسے بہہ رہا ہے اور بخار بھی کتنا تیز ہے۔۔۔“
امن کے ہاتھ کو جھٹکتے وہ مرہم لگاتی تیز لہجے میں بولی تو اسکی فکر پر امن کے لبوں پر گہری مسکراہٹ آئی۔۔۔
اگر سب کچھ ڈاکٹر کرتا تو تم کیا کرتئ،،،،،،“ حیاء کا موڈ فریش کرنے کو وہ شریر لہجے میں گویا ہوا تو حیاء نے ایک نظر امن کے سرخ ہوئے چہرے پر ڈالی۔۔
تمہیں پرواہ نہیں امن کسی کی کیوں کرتے ہو ایسے کام، اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو کیا ہوتا میرا کبھی سوچا ہے۔۔۔۔۔۔"
اسکے کندھے پر مرہم لگاتے وہ نم لہجے میں گویا ہوئی تو امن کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔۔
اسنے ایک دم سے اسے بازو سے تھامے اپنی گود میں گرایا۔۔
حیاء حواس بافتہ سی خود کو دیکھ رہی تھی ۔۔ جبکہ امن اطمینان سے اسے گود میں بھرے مسکراتا نہار رہا تھا۔
جانتی ہو یہ پہلی بار ہے کہ تم نے ایسا کچھ کہا ہے لخت جگر،،، یہ دل اسکی دھڑکنیں کچھ بھی بس میں نہیں رہا اب_____بس تمہارا ساتھ ہونا چاہیے۔
پھر مجھے اس دنیا کی کوئی چیز ہرا نہیں سکتی ۔۔۔ حیاء کی پیشانی پر بوسہ دیے، وہ محبت سے چور لہجے میں بولتا حیاء کے روم روم کو سکون بخش چکا تھا،،
اب ایک کام کرو یار بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو لاؤ مل کر کھاتے ہیں۔۔۔“ حیاء کے گالوں کو چھوتے وہ معصوم سی شکل بنائے بولا تو حیاء جلدی سے اسکی گود سے نکلی ۔۔
میں ابھی لاتی ہوں تم ٹھیک سے لیٹ جاؤ،، اب اٹھنا مت بستر سے میں ابھی آئی،،،‘
اسے جاتے ہوئے ہدایات دیتی وہ تیزی سے باہر نکلی تو امن نے مسکراتے سر نفی میں ہلائے اپنے زخم کو دیکھا پھر اٹھتے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔۔
💖__________💖____________💖
کچھ خبر ملی ایچ اے آر یا پھر ڈائنہ کی______“ اذلان نے کف لنکس لگاتے قدم اسکے روم میں رکھتے استفسار کیا۔۔۔
جو بیڈ پر بیٹھا مصروف سے انداز میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔۔۔
ہممم____ ڈائنہ کا سارا کام رکا پڑا ہے،،، کسی بھی ائیرپورٹ سے ابھی تک کسی بھی قسم کی ڈیلیوری کی کوئی رپورٹ نہیں آئی ،،،،“
کافی کا مگ اٹھائے ہونٹوں سے لگاتے وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔۔
اور ایچ اے آر _____“ کھڑکی کے قریب جاتے اذلان نے دیوار سے ٹیک لگائے پوچھا ،،،
ہنہہہ اسکا ابھی تک کوئی خاص ریسپانس نہیں ملا شاید وہ اب کی بار کچھ بڑا کرے گا____؟‘
ویام کا مصروف سے انداز ماتھے پر پڑے بلوں کو دیکھتا وہ متفکر سا چلتے بیڈ کے قریب آیا ۔۔۔۔۔
لیپ ٹاپ میں جھانکنے کی کوشش کرتے وہ دیکھنا چاہ رہا تھا۔
کہ بالآخر وہ کیا کام کر رہا ہے ۔۔۔۔ ویام نے ایبرو اچکائے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
کیا یار بس ریکھ رہا ہوں تم مصروف کہاں ہو____؟"
ویام کے سامنے پڑا کافی کا مگ اٹھائے لبوں سے لگاتا وہ اسکے پیچھے بیٹھتا سکرین کو دیکھنے لگا،،
جہاں مختلف کوڈز شو ہو رہے تھے۔۔۔
ماتھے کو انگوٹھے سے مسلتے وہ بے چینی سے سوچنے لگا کہ آخر وہ کر کیا کر رہا ہے ۔۔۔؟"
الایہ کو بلاؤ،،،،،
ویام نے ہاتھ روکتے اذلان کو دیکھتے جلدی سے کہا۔۔۔۔
اچھا میں بلاتا ہوں مگر ہوا کیا ہے____؟“ اذلان نے مضطرب سا ہوتے سوال کیا تو ویام نے اسے دیکھا۔
گھور تو مت بلاتا ہوں,ویام کو دیکھ وہ جلدی سے اٹھا تبھی الایہ کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے_____؟“
ویام کے چہرے پر اضطراب دیکھ وہ متفکر سی اسکے پاس آئی ،،،
کچھ ٹھیک نہیں،، پچھلے کچھ دنوں سے تمہارے گھر کے سیکیورٹی سسٹم کو ہیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،، میں نے جیسے تیسے مینیج کیا ہے مگر اب کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کوڈز خود سے ڈی ایکٹو ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔“
ویام نے لیپ ٹاپ اسکے سامنے کیا جہاں ریڈ سنگلز کے ساتھ ساتھ مختلف کوڈز تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔۔
پیچھے ہٹو میں کرتی ہوں۔۔۔۔۔“ وہ تیزی سے بیڈ پر بیٹھی،،، اب لیپ ٹاپ سنبھال چکی تھی ۔۔
جو بھی کرنا دھیان سے کرنا الایہ سیکورٹی ٹوٹنی نہیں چاہیے،،
ایچ اے آر کی بہن روزائکہ اندر ہے.....“ ویام نے اسکے سر پر بم پھوڑا۔۔۔ جو حیرت زدہ سی مڑتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
واٹ وہ وہ کیوں ہے ہمارے گھر،،، موم ڈیڈ ان کو علم ہے اس بارے میں ۔۔۔۔۔ اور انزک ۔۔۔۔۔“ الایہ کو گڑبڑ سی لگی۔۔۔
ایسے کیسے وہ اس کیس کیلئے اتنی خاص لڑکی کو اسکے گھر پر چھوڑ سکتا تھا ۔۔
یار دیکھو پہلے کیا ہوا ہے ایم ڈیم شیور ایچ اے آر لندن کو نکلا ہے۔۔۔۔ "
ویام کڑی سے کڑی ملاتا اب سہی معنوں میں پریشان ہوا تھا ۔۔۔
ویٹ میری بات ہوئی ہے انزک سے وہ گھر پر نہیں ۔۔۔۔۔“
اذلان نے کال کٹ کرتے جلدی سے ان دونوں کو آگاہ کیا۔۔۔
یار کچھ کرو الایہ۔۔۔۔۔ مجھے یہ لڑکی کسی بھی حال میں چاہئے جب تک انزک وہاں ناں پہنچے سسٹم ہیک نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔“
لیپ ٹاپ کو سرخ نظروں سے دیکھتا وہ سرد لہجے میں بولا تھا ۔۔۔
یہ کیس اسکی زندگی کا سب سے بڑا کیس تھا تین سال کی محنت وہ ایسے ہی سب پھر سے تباہ نہیں ہونے دے سکتا تھا ۔۔۔
اوکے رکو میں کچھ کرتی ہوں۔۔۔۔۔“ الایہ اب سنجیدگی سے لیپ ٹاپ کی سکرین کی جانب متوجہ ہوئی تھی ۔۔۔ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔۔
وہ سب بہت محنت سے اس مقام پر پہنچے تھے۔۔
شاید یہ مقام انہیں وقت سے پہلے مل چکا تھا ۔۔۔
مگر یہ انکی لگن انکی محنت کا نتیجہ تھا کہ انہیں ٹریننگ کے دوران ہی یہ کیس ملا تھا ۔۔
مگر ٹریننگ مکمل ناں ہونے تک یہ بات سیکرٹ رکھی گئی تھی۔
انکا سارا کام سب کچھ خفیہ رہا تھا اور اب وہ اپنی محنت کو کسی بھی طور ضائع نہیں کر سکتے تھے ۔۔۔
الایہ کی انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر گردش کر رہی تھیں ۔
جبکہ اذلان اور ویام دھڑکتے دل سے بےچین سے سکرین کی جانب متوجہ تھے ،،،
💖_________💖____________💖
انزک مجھے میرے گھر جانا ہے۔۔۔“ گاڑی میں پھیلی مکمل خاموشی کو میرب کی آواز نے توڑا ۔۔۔
تو انزک نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے اسے دیکھا۔۔۔
جو بےتاثر نگاہوں سے باہر دیکھ رہی تھی۔تو گھر ہی لے کر جا رہا ہوں۔۔۔۔
گلا کھنکھارتا وہ شریر لہجے میں گویا ہوا تو میرب نے اسے گھورا،،،
مجھے تیمور شیرازی کے گھر نہیں مجھے اپنے ڈیڈ کے گھر جانا ہے ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔۔“ میرب نے غصے سے حتمی انداز میں کہا تو انزک نے گہرا سانس بھرا ۔۔۔
اسے افسوس ہوا آخر اسے ہی کیوں سب کے حکم ماننے پڑتے تھے۔۔
دل ہی دل میں ہزار گالیوں سے تیمور کو نوازتے وہ میرب کی جانب متوجہ ہوا ۔۔
کیا چاہتی ہو____؟“ بے بس سا لہجہ تھا مگر مقابل اتنے ہی سخت تاثرات سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
سچ _____!“ یک لفظی جواب سنتے انزک نے ہونٹوں کو بری طرح سے دانتوں تلے کچلا ۔۔۔
تو سنو تیمور شیرازی کوئی لوفر لفنگا چور اچکا نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ایک اسپیشل فورس آفیسر ہے اور ویام ، الایہ لوگوں کے ساتھ انکی ٹیم کا ایک فرد ہے ۔۔۔۔“
انزک نے ایک ہی سانس میں اسے ساری بات بتائی جسکا اندازہ میرب کو تھوڑی دیر پہلے ہی ہو چکا تھا ۔۔۔
پورا سچ بتاؤ ۔۔۔۔۔ میرب نے پھر سے کہا تو انزک کا دل چاہا اسے بالوں سے پکڑتے جھنجھوڑ ڈالے یقیناً اب تیمور اسے چھوڑنے والا نہیں تھا تو پھر کیوں ناں پوری طرح آگ لگائی جائے۔۔۔
اسنے سوچتے میرب کو دیکھا جو اسی کی جانب متوجہ تھی۔۔۔
جس کیس کو وہ لوگ سالو کر رہے ہیں تمہاری یونی کا پرنسپل اور ہیڈ اسی میں ملوث تھا۔۔ اس دن جب تم اکیلی یونی گئی تھی کلاسز لگائے تھے تم نے۔۔۔۔ اور کوئی لڑکا تم سے ٹکرایا تھا جس نے تمہیں یہ کہا تھا کہ وہ میرا دوست ہے ۔۔۔ دراصل وہ تیمور شیرازی تھا۔۔
بھیس بدل کر وہ یونی میں گھسا تھا ۔ مگر تم سے ٹکرانے کے بعد تم اسے شاید اچھی لگی تو اسنے ساری انفارمیشن نکالی۔۔۔۔
پھر وہ میرے پاس آیا ۔۔۔۔۔
اور مجھ سے پوچھا کہ تم میرب کو جانتے ہو میرے ہاں کہنے پر اس نے کہا کہ میر صرف اسکی ہے تو تم اسکے بھائ بن سکتے ہو،،، اس سے زیادہ اگر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو آگے پہنچا دوں گا۔۔۔“
پھر ویام کی مدد سے اسنے داؤد انکل کو جانا اور ویام نے انکل کو فوراً شادی کیلئے منایا کیونکہ تیمور نے شرط رکھ دی تھی کہ وہ کیس چھوڑ دے گا۔
اگر اسکی شادی فورا تم سے ناں کی گئی۔۔۔ تو پھر جب ویام نے سارا سچ انکل کو بتایا تو وہ مان گئے۔۔
مگر تمہیں منانا مشکل تھا اسی لئے بلیک میل کر کے یہ شادی کی گئی۔۔۔۔
بس یہ ہے ساری کہانی کچھ اور ۔۔۔۔۔۔”
میرب کی جانب دیکھتے وہ آس بھری نظروں سے پوچھنے لگا ۔۔۔
تو مطلب تم سب ملے ہوئے ہو۔۔۔۔“ مجھے میرے گھر ڈراپ کرو اور مسٹر تیمور شیرازی سے کہنا اب کی بار آئے تو ذرا سنبھل کر آئے گا ورنہ ہاتھ پاؤں توڑنا میرب داؤد کو بہت اچھے سے آتے ہیں۔۔۔
سرخ چہرے سے اسے دیکھتی وہ فر فر بولی تو انزک نے تاسف سے سر ہاں میں ہلاہا۔۔۔
معا روز کا دلکش سراپا آنکھوں کے پردے پر لہرایا ، لبوں پر ایک جاندار مسکراہٹ رقص کرنے لگی،،
آج اسے خوشی ہوئی تھی کہ اسکے نصیب میں میرب جیسے طوفان کے بجائے ایک کھلتا مہکتا روز آیا تھا۔۔۔
لبوں پر رقص مسکراہٹ کو روکتے وہ چشمہ آنکھوں پر چڑھائے گاڑی داؤد کے گھر کی جانب لے گیا۔۔
میرب کو داؤد کے پاس چھوڑتے وہ سیدھا گھر لوٹا۔۔۔ اذلان کی کال کے بعد اسے کسی ناں کسی قسم کی گڑبڑ کا احساس ہو چکا تھا۔
جبھی وہ رش ڈرائیونگ کرتے گھر واپس آیا ۔۔۔۔
ساتھ ہی ویام کو اپنے واپس لوٹنے کا مسیج بھیجتے وہ ایک نظر اندھیرے میں ڈوبے لان پر ڈالتا اندر بڑھا ۔۔
روز کے ساتھ برتا اپنا رویہ یاد آتے ہی اسے ڈھیروں شرمندگی نے گھیر لیا،،
مگر اب وہ فیصلہ کر چکا تھا صبح ہوتے ہی وہ روز کو ایچ اے آر کی ساری اصلیت بتا دے گا اور شاید وہ خود ہی انکی مدد کرے اس کیس کو سالو کرنے میں۔۔۔۔
ماتھے کو مسلتے وہ بے چین سا سیڑھیاں عبور کرتا اوپر پہنچا،،
ایک نظر اپنے کمرے کے سامنے بند عیناں کے دروازے پر ڈال وہ اندر داخل ہوا۔۔۔
دروازہ کھولتے ہی دھڑام سے کچھ گرنے کی آواز پر انزک چونک سا گیا۔۔۔
ماتھے پر بل ڈالے وہ نیچے بیٹھا، اور فرش پر لگے خون کو ہاتھ سے چھوا ،دل تیزی سے دھڑکا تھا انزک نے ایک نظر پورے کمرے پر ڈالی سب کچھ ویسا ہی تھا بس پاس پڑا شیشے کا میز چکنا چور ہوا پڑا تھا۔۔
اور روز کہیں بھی نہیں تھی۔
وہ جلدی سے اٹھتے ڈریسنگ روم میں گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔
وہاں سے نکلتے اسنے باتھروم کو دیکھا جو کہ بند تھا۔۔
روز دروازہ کھولو۔۔۔۔۔ تیز تیز سانسیں لیتے بےحد ڈرتے کہا تھا ۔۔مگر آواز ناں سنتے وہ مزید خوفزدہ ہوا کہیں اسے کچھ ہوا تو نہیں ،،،
دروازہ کھولو روز ورنہ میں توڑ دوں گا۔۔۔"
انزک نے غصے سے کہا تھا مگر روز کا کوئی جواب ناں پاتے اگلے دو سے تین منٹ تک وہ دروازہ توڑتے اندر داخل ہوا۔۔۔
جہاں سامنے ہی روز مندی مندی سی آنکھیں کھول دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی،،
شاور سے گرتا پانی اسکے سر پر بہتے اسے بھگو رہا تھا ،،
انزک تیزی سے اسکے جانب بڑھا، اسکے قریب بیٹھتے شاور بند کر چکا تھا ،،
روز کیا ہوا ہے یار اٹھو تم نیچے کیوں بیٹھی ہو,,؟“
روز کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامے وہ متفکر سے پوچھنے لگا،،
روز نے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا،تو انزک نے اپنا سوال انگلش میں دہرایا،،،
جسے وہ سمجھ تو گئی مگر جواب دینے کی ہمت نہیں تھی اب ،،،،
اسی لئے سر خاموشی سے اسکے کندھے پر گرایا۔۔۔۔۔۔
ہیے کیا ہوا ہے یار اٹھو ،،،،،“
اسکی خاموشی انزک کو گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی تھی انزک نے ہاتھ اسکے کمر کے گرد حائل کیے اسے اٹھانا چاہا کہ روز کی سسکی نے انزک کو حیرت میں ڈالا ۔۔۔۔
وہ روز کا سر اپنے کندھے پر رکھتے اپنے ہاتھ پر کچھ محسوس کرتے روز کی کمر کو دیکھنے لگا جہاں سے بہتا خون انزک کے ہاتھ کو سرخ کر چکا تھا۔۔
روز یہ چوٹ اوہ گاڈ_____“ وہ پاگلوں کی طرح چیختا خود کو کوسنے لگا،،
روز کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھ انزک نے نرمی سے اسکا سر تھپکتے اس سینے سے لگائے بازوں میں بھرا۔۔۔۔۔۔
ککک۔۔۔ کڈنیپر درد ہو رہا ہے_____“ انزک کے سینے میں سر چھپائے وہ بچوں کی طرح روتے بولی،
تو انزک کا دل چاہا خود کو کچھ کر لے وہ ذمہ داری تھی اسکی وہ کیسے اس قدر لاپرواہ ہو گیا کہ مڑ کر اسکی خبر بھی ناں لی۔۔۔
ناجانے کب سے وہ اس درد میں مبتلا تھی۔۔
اشششش... میں آ گیا ہوں کچھ نہیں ہونے دوں گا ڈونٹ وری زندگی۔۔۔۔۔۔۔"
روز کے سر پہ ہونٹ رکھے وہ نم لہجے میں بولا،، شاید پہلی بار تھا وہ انجانے میں ہی اس لڑکی کو اپنی زندگی کہہ چکا تھا۔۔
جو ابھی تک اسکے جذبات اسکے احساسات سے بیگانہ تھی،،
انزک نے اسے نرمی سے بیڈ پر سہارے سے الٹا لٹائے وارڈروب سے اپنا کرتا نکالتے روز کو تھمایا۔۔
میں باہر ہوں تم ہمت کرتے چینج کرو پھر میں بینڈچ کرتا ہوں،،،،“
روز کی درد سے سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھ وہ نرمی سے اسکے بھیگے گالوں کو سہلاتا بولا ،،
تو روز نے بمشکل سے نظریں چراتے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔
انزک جلدی سے روم سے نکلتے دروازہ باہر سے لاک کر چکا تھا ،
تقریباً پانچ منٹ کے بعد وہ واپس آیا تو روز اسکے کرتے میں ویسے ہی سر تکیے میں چھپائے لیٹی تھی۔۔
وہ گہرا سانس بھرتے باتھروم میں گیا۔۔۔ فرسٹ ایڈ باکس وہیں تھا شاید روز یہی لینے باتھروم میں گھسی تھی اور بیلنس ناں رکھ پاتے وہ نیچے گری ہو گی۔
وہ سوچتا باہر آیا۔ حرارت بڑھنے کی وجہ سے ہیٹر آن کرتے وہ تیزی سے روز کی پشت کو دیکھتا اسکے پاس آیا،،،
میں بینڈج کرنے لگا ہوں تھوڑا بہت درد ہو گا تم ڈرنا نہیں اوکے_____“
اسکے پاس بیٹھتا وہ نرمی سے بولا تو روز نے لب سختی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے سر کو ذرا سی چنبش دی۔۔۔۔۔
انزک نے دھیان سے کرتا ہٹائے زخم کو دیکھا جو زیادہ بڑا تو نہیں مگر گہرا ضرور تھا خون ابھی بھی بہہ رہا تھا ،
وہ سمجھ گیا میڈم نے باہر نکلنے کی کوئی ترکیب آزمائی ہو گی مگر پیچھے پڑے شیشے کے ٹیبل سے ٹکرانے کی وجہ سے یہ چوٹ آئی ہو گی۔۔۔
وہ تاسف سے سر نفی میں ہلاتے روئی سے زخم کو صاف کرتے اب مرحم لگاتے نرمی سے بینڈج کر گیا ۔۔۔
روز خاموشی سے سر تکیے پر گرائے لیٹی تھی، درد برداشت کرنے کے چکر میں اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچا ہوا تھا ،،،
ایک دم سے اپنی کمر پر گرم سانسوں کو محسوس کرتی وہ جھٹ سے سیدھی ہوئی،،
خوف سے آنکھیں پھیلائے مڑتی انزک کو حیرت بے یقینی سے گھورنے لگی ،،
کیا____؟ مرحم لگا رہا تھا،،، کندھے اچکاتے اسکی حیرت سے پھیلی آنکھوں سے آنسوں کو لبوں سے چنتا وہ اسے ہکا بکا چھوڑتے باکس لیے جگہ سے اٹھا ،،
مجھے سونا ہے۔۔۔۔۔۔“ کمرے میں پھیلی معنی خیز خاموشی کو روز کی آواز نے توڑا۔۔۔۔
انزک جو لیپ ٹاپ تھامے ابھی صوفے پر بیٹھنے ہی لگا تھا،،۔
اسنے سنتے گردن گھمائے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔
جو درد کی وجہ سے غنودگی میں جا رہی تھی، مگر کمر میں درد کی وجہ سے وہ شاید ٹھیک سے سو نہیں پا رہی تھی ۔۔
لیپ ٹاپ میز پر رکھتے گہرا سانس بھرتے وہ بیڈ کی جانب بڑھا۔۔
ادھر آؤ،،“ اپنی سائیڈ سے ہوتے بیڈ پر جاتے اس نے بھاری لہجے میں روز کی پشت کو دیکھ پکارا جو چپ چاپ سے مڑتے اسکے پاس آتے اپنا سر خاموشی سے اسکے سینے پر رکھ گئی۔۔۔
انزک کا دل اس روئی جیسے نرم لمس پر زور سے دھڑکا تھا ،،، اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ چپ چاپ مان جائے گی۔
انزک نے ہاتھ سے تکیہ برابر کیا اور سیدھے ہوتے بیڈ پر نیم دراز ہوا۔۔۔
روز کی نرم گرم سانسیں اپنے سینے پر محسوس کرتا وہ ضبط کے کڑے امتحان سے گزر رہا تھا ،
اپنے جذبات پر بندھ باندھے اسنے نرمی سے روز کے سر میں ہاتھ پھیرتے اسے پرسکون کرنا چاہا،،
جو خاموش اسکے سینے پر سر رکھے سونے کی کوشش میں تھی ،،
تم نے بھاگنے کی کوشش کیوں کی،،،،“ روز کی تیز سانسوں کی آواز سے وہ سمجھ گیا کہ وہ جاگ رہی ہے ،
اپنے کھردرے ہاتھ سے اسکے بال سہلاتا وہ جواب طلب ہوا،،
کیونکہ مجھے یہاں سے بھاگنا ہے" اسکے سینے سے سر نکالتے وہ بنا ڈرے اسکی آنکھوں میں دیکھتی مضبوط لہجے میں بولی ،،،
ہمممم کافی بہادر ہو،،، انعام تو بنتا ہے اس دیدہ دلیری کا_____“
خالص اردو میں کہا جملہ روز کو خاک سمجھ ناں آیا ،، مگر اگلے ہی لمحے انزک کی حرکت سے وہ سیخ پا ہوئی سرخ چہرے سے اسے گھورنے لگی ،
جو اب دلکشی سے مسکراتا دوبارہ سے لیٹ چکا تھا،،
تمہیں لگتا ہے کہ تم اتنی آسانی سے مجھ سے جان چھڑا لو گی۔۔۔۔ تو یہ تمہاری بھول ہے روز ڈارلنگ ۔۔۔ تم وہ واحد لڑکی ہو جس کی آنکھوں میں میں نفرت تو دور کی بات ہے بے اعتباری بھی برداشت نہیں کر سکتا اپنے معاملے میں۔۔۔۔۔۔“
اپنے انگوٹھے اور انگلی سے روز کی تھوڑی کو سہلاتے وہ مخمور آنچ دیتے لہجے میں بولا۔۔۔
تو مقابل نظریں پھیر گئی۔۔۔ سو جاؤ صبح تم۔خود فیصلہ لو گی تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے یا پھر اپنے بھائی کے پاس جانا ہے اور آئی سویر وہی ہو گا جو تم چاہو گی،،،،“
اسکی تھوڑی پر اپنا لمس چھوڑتے وہ حتمی لہجے میں بولا ،،
تو روز نے حیرت سے مشکوک نظروں سے اسے گھورا ،،،
سو جاؤ ورنہ کچھ غلط ہوا تو میں ذمہ دار نہیں "
وہ جو بمشکل سے اسے اپنے اس قدر قریب محسوس کرتے بھی خاموش تھا اب اسکی آنکھوں کو خود پر ٹکا دیکھ وارننگ دیتے بولا، تو روز نے جلدی سے سر اسکے سینے میں چھپایا ۔۔۔۔
انزک مسکراہٹ ضبط کرتا اسکا سر سہلانے لگا۔۔۔
💖**********_____🔥_____**********💖
لیٹی رہو یار۔۔۔۔۔۔“ حور کو بستر سے اٹھتا دیکھ عیناں نے کمرے میں آتے اسے ٹوکا ۔۔۔۔تو حور نے گردن موڑے اسے دیکھا جو ہاتھ میں ناشتے کا ٹرے تھامے ہاف وائٹ سکرٹ کے ساتھ بلیو جینز پہنے سر پر میچنگ سکارف لپیٹے بے تحاشہ خوبصورت دکھ رہی تھی۔۔
حور کے ہونٹ اسے دیکھتے ہی مسکراہٹ میں ڈھلے،، جو سہی معنوں میں اپنی زمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش میں مصروف تھی ۔۔
تمہیں کس نے کہا میرا ناشتہ لاؤ میں خود کر سکتی ہوں ۔۔۔“
اپنے سیاہ بالوں کو جوڑوں میں مقید کرتی وہ آنکھیں چھوٹی کیے بولی تو عیناں نے اسے دیکھا ، جس کی رنگت میں زردیاں گھلی تھی ،
طبیعت کافی بوجھل سی محسوس ہو رہی تھی،،
یار کہنے کی کیا بات ہے یہ میرا گھر ہے اور دوسری بات آج کا بریک فاسٹ میں نے خود بنایا ہے ۔۔۔۔“ ٹرے اسکے پاس بیڈ پر رکھتے وہ اپنی گرے آنکھوں کو پھیلائے جوش سے بتاتے اسکے پاس ہی بیٹھی ۔۔
کیوں موم نے تمہیں روکا نہیں تم نے کیوں بنایا ۔۔۔؟“
حور نے حیرت سے اسے دیکھ پوچھا ،،
یار موم سو رہے تھے تو میں نے جب نماز پڑھی دوبارہ نیند نہیں آئی تھوڑا بہت پیپر تیار کیا اور پھر سوچا کہ کیوں ناں آج سب کیلئے اپنے ہاتھوں سے کچھ بناؤں۔۔۔۔
تو بس جلدی سے ناشتہ تیار کیا اور دیکھو میں نے سویٹ ڈش بھی بنائی ہے۔۔۔“
کیک کی پلیٹ اٹھاتے اسکے سامنے کرتی وہ چہکتے بولی ،تو حور کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ وہ جانتی تھی کہ عیناں کافی اچھا کیک بیک کرتی تھی،اور اب سامنے اپنے فیورٹ چاکلیٹ کیک کو دیکھ حور کے منہ میں پانی آنے لگا ،،
یار یہ میرے لئے بنایا تم نے______عیناں کے ہاتھ سے پلیٹ چھینتے وہ خوشی مسرت سے بولی تو عیناں نے سر ہاں میں ہلایا،
تم میری سچی والی دوست ہو عین اب سے میں انزک سے بات بھی نہیں کروں گی اتنے دن ہو گئے وہ آیا بھی نہیں مجھ سے ملنے ۔۔۔۔۔“
کیک کی بائٹ لیتے ساتھ وہ انزک کی شکایت بھی کر رہی تھی۔
دراصل اسکا دل اداس تھا انزک سے ملے ہوئے بھی کافی وقت ہو چکا تھا۔
آگے وہ کال کر لیتا تھا تو حور کا موڈ اس سے بات کرتے ہی فریش ہو جاتا تھا مگر اب تو کئی دنوں سے اسنے کال تک نہیں کی تھی۔۔
ہمممم یہ تو ہے لگتا ہے اس بار کافی زیادہ مصروف ہیں ورنہ تمہیں وہ کیسے بھول سکتے ہیں۔۔۔۔“
عیناں نے جلدی سے کہا اور پھر تھوڑی سی چاکلیٹ حور کی ناک پر لگائی ۔۔
جو کافی کیوٹ لگ رہی تھی۔
عین کی بچی رکو تم _____ اپنی ناک کو چھوتی وہ آنکھیں چھوٹی کیے بولی جبکہ عیناں خطرہ دیکھتے ہی بیڈ سے اتری تھی ۔۔۔
رکو ذرا تمہیں کرتی ہوں میں سیٹ۔۔۔۔۔“ عیناں کو دروازے کی سمت جاتا دیکھ وہ پہلے ہی چھلانگ لگاتے بیڈ اترتی دروازے تک پہنچی ۔۔۔
یار مذاق تھا حور جان______“ تم سیریس تو مت ہو' کیک کی پلیٹ پکڑے حور کو اپنی جانب آتا دیکھ عیناں نے آنکھیں پھیلائے کہا تو حور نے بمشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔۔
تو میں بھی مذاق کرنا چاہتی ہوں بس تھوڑا سا۔۔۔۔“ کندھے اچکاتے وہ سہی موڈ میں اسکی طرف بڑھی ۔۔
یار ایک گھنٹہ لگایا ہے ابھی پھر سے چینج نہیں ہوتا بال بھی ڈیڈ (وریام) سے بنوائے ہیں۔۔۔" وہ بیڈ کی دوسری جانب جاتی پھولے گالوں کے ساتھ معصوم سا چہرہ بنائے بولی،
تو حور نے ہنستے اسے دیکھا۔۔
بس تھوڑا سا۔۔۔۔۔“ آنکھ دبائے کہتی حور اسکی جانب بڑھی ہی تھی۔۔
کہ ایک دم سے وہ پلیٹ پھینکتے واشروم میں بند ہوئی ۔۔
عیناں پریشانی سے باتھروم کے پاس آئی ۔۔
حور کیا ہوا ہے یار تم ٹھیک تو ہو،،،“ دروازہ کھٹکھٹاتے وہ مسلسل بے چینی سے پوچھ رہی تھی ۔۔
ابھی تو وہ ٹھیک تھی عیناں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اس سے پہلے کہ وہ بھاگتے وریام اور نیناں کو بلاتی حور باہر آئی تھی۔۔۔
کیا ہوا ٹھیک ہو تم بخار ہو گیا ہے کیا پھر سے ____؟“
حور کے دھلے چہرے کو دیکھ عیناں متفکر سی بولی ،
یار کچھ نہیں بس دل متلا رہا ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔۔ شاید کیک کی وجہ سے___“
عیناں کے چہرے کو چھوتی وہ اسے ری لیکس کرتے بیڈ کی جانب بڑھی تھی مگر حقیقتاً حور خود بھی پریشان تھی کچھ دنوں سے اسے اپنی طبیعت ٹھیک محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
مگر وہ کسی سے بھی ذکر کرتے سب کو پریشان نہیں کر سکتی تھی۔۔
جبھی عیناں کو بھی ٹال دیا ۔
یار ایسے کیسے کچھ نہیں ،رات کو بھی تم بےہوش ہو گئی تھی بخار بھی تھا۔، اگر موم ڈیڈ کو نہیں بتانا تو کوئی ایشو نہیں ہم آج خود سے ہاسپٹل جائیں گے اوکے ۔۔۔۔۔“
مگر عین ۔۔۔۔۔ کوئی اگر مگر نہیں ہم تھوڑی دیر میں نکلیں گے پہلے یونی جائیں گے ڈاکومنٹس سبمنٹ کروا کے پھر ہاسپٹل اور پھر انزک بھائی کے پاس ۔۔۔۔۔“
کمر پر ہاتھ رکھے وہ حتمی انداز میں بولی تو حور مسکرا دی۔۔۔۔
اسے آج اندازہ ہو رہا تھا کہ واقعی میں انکی عین اب بڑی ہو چکی ہے۔۔۔۔
💖***********💖*************💖
کیا ہوا ہے تم کہاں جا رہے ہو____؟“ مسلسل دو گھنٹے کی محنت و کاوش کے بعد وہ سارا کام سمیٹتے اپنے روم میں آئی جہاں اذلان پہلے سے موجود پیکنگ کر رہا تھا ،،
اسے یوں پیکنگ کرتا دیکھ الایہ کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ چلتی اسکے قریب پہنچی ،،،
ہاتھ سینے پر باندھے وہ سوال کرنے لگی،،
میں نہیں ہم،، ہم دونوں واپس جا رہے ہیں" رسان سے اسے دیکھ کہتے وہ دوبارہ سے پیکنگ کرنے لگا ،،
اور تمھیں لگتا ہے اس قدر ٹف کنڈیشن میں، میں تمہارے ساتھ واپس جاؤں گی۔۔۔۔۔۔؟‘
الایہ نے حیرت سے استفسار کیا،،
تو اذلان نے مڑتے اسے دیکھا، جو پہلے سے زیادہ با اعتماد اسی حلیے میں آج اسے پہلے سے بھی زیادہ حسین لگی،،
ہممممم مجھے لگتا ہے کہ اس کنڈیشن کو سنھبالنے کے لئے یہاں بہت سے لوگ ہیں مگر میرے دل کی کندیشن کو سنبھالنے اور اسے بہتر کرنے کےلئے میرے پاس ایک ہی پیس ہے ،،،
جسے اب خود سے ایک لمحہ بھی دور نہیں کرنا چاہتا میں ۔۔۔۔۔“
الایہ کا ہاتھ تھامے وہ اسے اپنے بے حد قریب کرتا سرگوشی نما آواز میں بولا،،،
تو الایہ نے بمشکل سے اپنے بے قابو ہوتے دل کو سنبھالا ،،
اذلان یہ مذاق کا وقت نہیں ،،،،“ وہ خفگی سے گویا ہوئی۔۔۔
تو میں بھی مذاق نہیں کر رہا،، ہم جا رہے ہیں واپس اینڈ اٹس فائنل۔۔۔۔۔۔"
اسے خود میں قید کرتا وہ حتمی لہجے میں بولا ،،تو الایہ نے غصے سے کہنی اسکے پیٹ پر مارتے اسے خود سے دور کیا،،
کیا چاہتے ہو اذلان کہ میں بزدلوں کی طرح بھاگ جاؤں وہ کیس جس سے میری زندگی جڑی ہے اسے یونہی آدھے میں چھوڑ کر واپس اپنے گھر چلی جاؤں ،،،،
الایہ کا دماغ پھٹنے کو تھا وہ کسی بھی صورت واپس نہیں جانا چاہتی تھی ،،
اس سے پہلے کہ اذلان کچھ کہتا ویام ڈور ناک کرتے اندر آیا ،،
یار اسے سمجھاؤ ،،،، اذلان نے متفکر سا ہوتے ویام کو دیکھا جو سنجیدگی سے الایہ کا غصے سے ہانپتا وجود دیکھ رہا تھا ،،
تم منہ بند رکھنا بندر اگر کچھ بھی اس قالو کے حق میں بولا تو یاد رکھنا اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔“
انگلی اٹھائے وہ اذلان کے ساتھ ساتھ اب ویام کے بولنے سے پہلے ہی اسکی کلاس لے رہی تھی،،
اذلان نے فوراً سے ہاتھ منہ پر رکھتے ویام کے دیکھنے پر رخ موڑ لیا ،،،،،
فدک ماما ہاسپٹل میں ہیں الایہ،،، اب سے نہیں دو ہفتے ہو چکے ہیں انکی کنڈیشن سٹیبل نہیں ،
اشعر انکل، آنٹی اور امن اور حیاء آپی آج صبح کی فلائٹ سے لندن کیلئے نکل آئے ہیں۔۔۔۔
وہ رخصتی لینے آئے ہیں۔۔۔۔۔ اب تم بتاؤ تم کیا چاہتی ہو،،،“
ویام کے بتانے پر الایہ نے بے یقینی سے رخ موڑتے اذلان کو دیکھا جو اب تک سب چھپائے ہوئے تھا۔۔۔
ماما کو کیا ہوا ہے ویام ہاؤ ڈئیر یو بوتھ۔۔۔۔۔ کیوں چھپایا مجھ سے،،، وہ غصے سے غراتی پاس پڑے شیشے کے ٹیبل کو ٹانگ مارتے چکنا چور کر گئی۔۔
اذلان کا دل اچھلتے منہ کو آنے کو تھا۔۔۔
شاید وہ بری طرح سے ہرٹ ہو چکی تھی،،
ری لیکس الایہ وہ ٹھیک ہیں اب ایک دو دن میں انہیں ڈسچارج کر دیا جائے گا۔۔۔۔
تم ملے ہوئے ہو سب انزک نے پاپا نے کسی نے بھی نہیں بتایا مجھے ،،،، تم سب بھگتو گے۔۔۔۔۔۔ایک ایک سے بدلہ لوں گی میں اس کا۔۔۔۔
ماہی جان۔۔۔۔۔۔۔" شٹ اپ یو ،،، تمہیں تو میں سب سے پہلے سیدھا کروں گی تم بچ کے رہنا،،،،“
اپنے فون ٹیبل سے اٹھاتی وہ غصے سے گرجتے وہاں سے پیر پٹھکتی نکلی ۔۔۔۔
جاؤ اسکے پیچھے غصے میں ہے ۔۔۔۔ ہینڈل کر لینا ،،،“
ویام نے اذلان کے اترے چہرے کو دیکھ کہا جو گردن جھکائے ہوئے تھا۔۔
مگر تم اکیلے کیسے مینج کرو گے،،،،،؟“
اذلان کے پریشانی سے پوچھا ،،، اکیلا نہیں ہے یہ۔۔۔۔۔اس کیس کا مین پارٹ کیپٹن تیمور شیرازی از ہیئر۔۔۔۔۔“
ویام کے کچھ کہنے سے پہلے ہی تیمور دروازے سے اندر آیا،،،
اتنے عرصے کے بعد تیمور کی آواز سنتے ویام کے لب مسکائے۔۔۔۔۔۔
اب یہ کون ہے۔۔۔۔۔؟" ہونقوں کی طرح منہ کھولے اذلان نے تیمور کو دیکھتے ویام سے سوال کیا۔۔۔
اپنا تعارف میں خود کرواتا ہوں۔۔
میں ہوں دی ون اینڈ اونلی تیمور شیرازی،،،، لڑکیاں مجھے ٹی ایس کے نام سے جانتی ہیں،، دنیا میں سب سے زیادہ گرل فرینڈز بنانے کا اعزاز حاصل کرنے والا دوسرا شخص کیونکہ پہلا تو وریام انکل ہیں،،، اور سب سے خاص بات کائنات کے اس اکیلے بے سُرے پیس کا جگری یار ،،،، ویام کی آن بان شان دی کیپٹن تیمور شیرازی۔۔۔۔۔“ ویام کے کندھے پر ہاتھ رکھتے تیمور نے مسکراتے ہر بار کی طرح اپنا تعارف دیا۔۔۔۔
جس پر اذلان کے پلے تو کچھ خاص نہیں پڑا سوائے ایک بات کے ،، کہ ویام جیسی انوکھی مخلوق کا وہ انوکھا اکلوتا دوست تھا۔۔۔۔
اچھا میری بیوی روٹھ گئی ہے میں نکلتا ہوں باقی تم مجھے گائیڈ کرتے رہنا ہم دونوں وہاں سے بھی سب ہینڈل کر لیں گے ۔۔۔“
ویام سے کہتا وہ تیزی۔سے باہر نکلا۔۔۔۔۔
🔥•••••••••••🔥••••••••••••🔥
میرب میری پرنسز اپنے ڈیڈ سے بات نہیں کرو گی کیا______؟“
وہ جب سے آئی تھی خاموش کمرے میں بند ہو کر بیٹھی تھی،، دعا اور داؤد اسکے رویے سے پریشان تھے۔
مگر انزک نے کال پر داؤد کو جیسے ہی ساری بات بتائی وہ اصل حقیقت جانتے ہی سر پکڑ چکا تھا۔۔۔۔
اب دن سے رات ہو چکی تھی ، وہ کب سے انتظار میں تھا کہ وہ آئے گی چلائے گی غصہ ہو گی مگر میرب نے تو کچھ کہنا تو دور بات تک نہیں کی تھی۔۔۔۔
بیٹا پاپا کی ڈول ایسے تو مت کرو میں مر جاؤں گا تمہاری ناراضگی سے۔۔۔۔۔۔“
اسکے پاس بیٹھتے داؤد نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا تو میرب نے شکوے بھری نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔۔۔
مجھے یقین تھا ڈیڈ آپ پر ، میں یہ کہتی تھی کہ چاہے ساری دنیا میرب سے جھوٹ کہے مگر میرے ہیرو کبھی بھی مجھ سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔۔۔۔۔اور آپ آپ نے میرا یقین توڑ دیا۔۔۔۔
آنسو صاف کرتی وہ رخ پھیرتے اپنی ناراضگی ظاہر کرنے لگی ۔۔۔۔
صحیح کہہ رہی ہے میرب ناں تو وہ ناں ہی میں آپ کو معاف کروں گی ۔۔۔۔
آپ نے کیا سوچ کر ہم دونوں ماں بیٹی کو اتنی اذیت دی اب جائیں یہاں سے۔۔۔۔"
ہاتھ میں کھانے کا ترے تھامے دعا اندر آتے غصے سے بولی ۔۔۔۔ تو داؤد نے بے بسی سے اسے دیکھا۔۔۔
یار یہ غلط ہے میں نے تو ویام کے کہنے سے کیا اور اس میں کوئی بڑی بات بھی تو نہیں ۔۔۔۔
تیمور ایک اچھا انسان ہے یار ،،، اسی لئے تو ویام کے بھروسے میں نے اسے اپنی بیٹی اپنی جان سونپی ۔۔۔۔۔“
داؤد نے اپنا مدعا بیان کیا۔۔۔
جسے فل وقت وہ دونوں ماں بیٹی سننے کے موڈ میں نہیں تھی،،
ڈیڈ ایک بات یاد رکھیں اب مجھے اس سر پھرے انسان کے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا اور جس طرح سے ویام کی باتوں میں آ کر آپ نے میری شادی کی اب آپ میری باتوں میں آ کر تیمور کو انکار کریں گے۔۔۔
میرب بیٹا یہ نا ممکن ہے ۔۔۔۔" داؤد بے بسی سے بولا،،،،
تو پھر بھول جائیں میرب آپ کی بیٹی ہے ۔۔۔۔ حتمی انداز میں اپنا فیصلہ سناتی وہ اٹھتی واشروم میں بند ہوئی ۔۔۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔“
و علیکم السلام کون ہیں آپ اور کس سے ملنا ہے۔۔۔۔؟“سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے نیناں نے الجھتے پوچھا ،،
جی میں ویام کا دوست کرپس وریام انکل جانتے ہیں مجھے ،،،،، کندھے پر رکھے اپنے چھوٹے سے بیگ کو ہاتھ میں لیتے وہ مسکراہٹ سے بولا،،،
اوہ اچھا آئیے بیٹا آؤ اندر آؤ،
نیناں سمجھ گئی کہ یہی لڑکا تھا جسے ویام اور وریام نے حور کیلئے چوز کیا تھا ،،،
شکریہ آنٹی ،،، کرپس مسکراتے نیناں کے ساتھ اس خوبصورت سے گھر میں داخل ہوا،،،
بیٹا آپ بیٹھو میں بلاتی ہوں وریام کو ۔۔۔۔ صوفے کی جانب اشارہ کرتی نیناں عجلت میں اپنے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔
سراہتی نظروں سے پورے گھر کو دیکھتے کرپس داد دیے بنا ناں رہ سکا۔۔۔۔
ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ مزے سے جھول رہا تھا کہ اچانک سے عیناں کی آواز پر کرپس نے ماتھے پر بل ڈالے سیڑھیوں کی جانب دیکھا،،،
جہاں عیناں مسکراتی حور سے بات کرتے نیچے اتر رہی تھی،،
کرپس کی آنکھوں میں اشتیاق ابھرا وہ مسمرائز سا ہوتے حور اور عیناں کو دیکھے گیا۔۔۔
حور کی بوجھل سی طبیعت کے سامنے عیناں کا ہشاش بشاش سا کھلکھلاتا چہرہ بے حد پر کشش دکھ رہا تھا ۔۔۔
اگر مجھے علم۔ہوتا کہ ویام کی بہنیں اس قدر خوبصورت ہیں تو میں اس گورئ سے شادی کبھی ناں کرتا ،،،،،
ان دونوں کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ ہاتھ پشت پر باندھے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا ،،،،
آپ کون۔۔۔۔۔؟“ اسے سر تا پاؤں گھورتے عیناں نے سخت تیوروں سے سوال کیا ۔۔
آپ کیا لگتی ہیں ویام کی،،،، عیناں کے سوال کو نظر انداز کیے وہ اپنے مطلب کی بات پر آیا اتنا وہ جانتا تھا کہ ویام کی بہن ایک ہی ہے مگر دوسری شاید اسکی کزن ہو گی۔۔۔۔
وہ سوچ چکا تھا ویام کا کام ہوتے ہی وہ اسکی کزن ان میں سے جو بھی ہوئی اسے پٹاتے شادی کر لے گا اور پھر اپنی اس گوری بیوی سے جان چھڑا لے گا ۔۔
ایکسکیوزمی کچھ پوچھا ہے آپ سے میں نے اور آپ بجائے جواب دینے کے اپنی ہی ہانک رہے ہیں۔۔۔
عیناں نے اس گورے کو خوب لتاڑا،،،
کرپس نے دانتوں کی نمائش کی اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا وریام اور نیناں روم سے نکلے،،،
ارے بیٹا اؤ آؤ۔۔۔۔۔”
وریام دور سے ہی پرجوش سا کرپس سے مخاطب ہوتے ہال میں آیا۔۔۔۔۔ حور اور عیناں حیرانگی سے وریام کو دیکھ اب ایک دوسرے کو دیکھتی کندھے اچکا چکی تھیں،،،
ہائے انکل کیسے ہیں آپ ،؟ وریام کے گلے ملتے وہ محبت سے بولا تو وریام مسکرایا ،،
موم یہ کون ہے ۔۔۔۔!“نیناں کے پاس آنے پر عیناں نے فورا سے پوچھا،، تو نیناں نے ایک پل کو حور کی مرجھائی صورت کو دیکھا اور پھر عیناں کو۔۔۔۔۔۔
ویام کا دوست حور کا ہونے والا شوہر ،،،،!“ نیناں نے سرد سانس خارج کرتے کہا تو عیناں اور حور نے حیرت سے اس گورے بلے کو گھورا ۔۔۔۔
واٹ موم یہ انگریزی لنگور کیا اس سے شادی کریں گے ہم اپنی حور کی ۔۔۔؛“
عیناں نے دبی دبی آواز میں مگر سخت لہجے میں پوچھا ۔ اسے حیرت تھی کہ ویام نے آخر کیا سوچ کر اس لڑکے کو حور کیلئے چنا ہو گا جو کہ شکل سے ہی ٹھرکی دکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
بیٹا تم دونوں اندر چلو میں بات کرتی ہوں،،،،“ نیناں نے اسے سمجھانے کو پیار سے کہا تو عیناں نے گردن موڑے حور کو دیکھا جس کا چہرہ زرد پڑ رہا تھا ،،
موم ابھی نہیں ابھی ہم میرب سے ملنے جا رہے ہیں۔ اس نے بلایا ہے۔۔۔“ عیناں نے فوراً سے انکار کیا وہ اس وقت حور کو ہاسپٹل لے کر جانا چاہتی تھی،،
شاید سٹریس کی وجہ سے اسکی حالت خراب تھی جبھی عیناں نے میرب سے ملنے کا کہا تو نیناں نے ایک نظر حور کو دیکھا ،،،۔
اچھا تم دونوں میرے کمرے میں چلو میں آتی ہوں،،،،“
نیناں نے حور کو دیکھ کہا تو عیناں جی سہی کہتی حور کو تھامے نیناں کے کمرے کی جانب بڑھی،،،
انکل بھابھی کہاں ہیں آئی مین،،، ویام کی وائف دراصل اتنے سالوں سے ویام نے کبھی تصویر نہیں دکھائی اور کہا کہ اب گھر جا رہے ہو تو دیکھ لینا تو بس اس لیے ،،،“
ہاتھ کو مسلتے وہ فوراً سے تصدیق کرنے لگا درحقیقت اسے یہ دیکھنا تھا،
کہ ویام جیسے شخص کی بیوی اسکی پسند کیسی ہو گی،،،،؟ بیٹا ابھی جو لڑکی یہاں کھڑی تھی وہی ہے ویام کی بیوی اور ساتھ میں جو پیچھے کھڑی تھی وہ حور ہے۔۔۔۔"
میری بیٹیاں ہیں دونوں ماشاءاللہ سے ،،،، وریام نے مسکراتے تصدیق کی تو کرپس آنکھیں پھاڑے بے یقین سا عیناں کو تصور میں سوچتا ہڑبڑا گیا،،،
ایک دم سے دل میں ابلتے سارے لڈوں بری طرح سے پھوٹے تھے،
وہ شیو کھجھاتا وریام کو بے حد سنجیدہ دکھا۔۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے بیٹا ،،،،!“ وریام نے پریشانی سے اسکا کندھا تھپکتے پوچھا،، ننن نہیں انکل سب ٹھیک ہے دراصل ویام نے کچھ کارڈز بھجوائیں ہیں،
اور کہا تھا کہ آپ کو جو ڈیزائن پسند آئے سیلکٹ کر کے سب کو اس جمعے نکاح کا انویٹیشن بھیج دیں ،،“
بیگ سے مختلف طرز کے خوبصورت کارڈز نکالتے وریام کے سامنے لہرائے تو وریام نے نیناں کو دیکھا،،
مگر کارڈز تو میں کل شام میں ہی بھجوا چکا ہوں,,
اس جمعے نکاح کا بولا ہے ویام نے مگر میں نے تو اگلے جمعے کی ڈیٹ دی ہے۔۔۔
ماتھا مسلتے وہ اب حقیقت میں پریشان تھا،،، آپ فکر مت کریں وریام ہم اگلے ہفتے ہی رکھیں گے ویسے بھی اشعر لوگ بھی آ رہے ہیں الایہ کی رخصتی کے لئے تو پھر فنکشن ایک ہی ساتھ کر لیں گے۔۔۔۔
نیناں نے مسکراتے اسکی فکر دور کی تو اشعر کا نام سنتے وہ منہ بگاڑتا سر ہاں میں ہلا گیا ۔۔
آپ باتیں کریں میں آتی ہوں ،،،،“ وریام اور کرپس کو وہیں چھوڑ وہ اب اپنے کمرے میں آئی،،،،
موم یار کیا ہوا یہ کون ہے آپ نے ہمیں بتایا نہیں کہ کوئی آنے والا ہے۔۔۔اور یہ لڑکا ویام نے ہماری حور کے لئے چنا ہے کیا یہ سچ ہے موم۔۔۔۔۔۔!“
عیناں کے لئے یقین کر پانا نا ممکن۔ تھا وہ جتنی بھی شاک ہوتی اتنا کم تھا ،،، جبکہ حور چپ چاپ صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی،
بیٹا یہی لڑکا ہے اسکا نام ایشان ہے جبکہ کرپس اسے ویام لوگ بلاتے ہیں کیونکہ وہ اس نام کے کسی شخص سے بہت انسپائر رہا ہے ،،،
اور یہ یہیں لندن میں رہتا ہے ۔۔“
عیناں کے ماتھے پر بکھرے بے بی کٹ بالوں کو چھیڑتے وہ محبت سے بتاتی کن اکھیوں سے حور کو دیکھ رہی تھی
جس کا چہرہ ہر تاثر سے عاری بلکل سپاٹ تھا،،
اوکے موم ہم آ کر اس بارے میں بات کریں گے ابھی ہمیں جانا ہے،،، “
عیناں جانتی تھی یہ مسلئہ کافی بڑا ہے یقیناً اس پر بات کرنا تھی اسے مگر گھر میں سب کے بیچ یہ مناسب نہیں تھا جبھی وہ جلد از جلد حور کے ساتھ باہر جانا چاہ رہی تھی۔۔
اوکے جلدی آ جانا اور تمہارے ڈیڈ نے کارڈز بھیج دیے ہیں سب لوگوں کو اگلے جمعے کو نکاح ہو گا حور کا ۔
عیناں جو مڑتی حور کی جانب بڑھ رہی تھی اب اس نئی خبر پر وہ چونکتی حیرت زدہ سی نیناں کو دیکھنے لگی ۔
جبکہ حور کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اسکے آس پاس سے سارا آکسیجن ختم ہو گیا ہو اور وہ بہت بری طرح سے سانس لے پا رہی ہو،،
ععیننن۔۔۔۔۔ مجھے بب باہر لے چلو ،،،،“ ماتھے پر ہاتھ رکھتے حور نے بند ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی بھرپور کوشش کرتے عیناں کو پکارا ۔۔۔
تو وہ تیزی سے اسکے پاس گئی ۔۔
موم پریشان مت ہوں میں اسے باہر کھلی ہوا میں لے جا رہی ہوں شام تک واپس آ جائیں گے ہم۔۔۔۔۔"
حور کو ساتھ لگائے وہ دروازے کی جانب بڑھتی بولی،،
تو نیناں نے آنسو چھپائے اپنی معصوم گڑیا کی نڈھال سی حالت کو دیکھا مگر یہ سب اسکے لئے ضروری تھا جبھی وہ ویام اور وریام کا ساتھ دے رہی تھی ،
خیر سے جاؤ میری ساری دعائیں اپنی گڑیا کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔“ حور کے قریب ہوتے نیناں نے ہاتھوں کے پیالے میں اس حسین مگر مرجھائے گلاب سے مکھڑے کو بھرا اور بے حد نرمی سے اسکے ماتھے پر بوسہ دیے،،، وہ عیناں کا سر چومتے ایک جانب ہوئی،،،
تو عیناں مسکراتی خدا خافظ کہتے کمرے سے نکلی،،
🔥💖💖💖🔥💖💖💖🔥
ہلیو ایل کہاں ہو تم___؟“ فون سے آتی چنگھاڑتی آواز پر آج پہلی بار ایل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے،،،
فون سائیڈ میز پر رکھتے اسنے ہئیر بینڈ اٹھائے اپنے بالوں کو شیشہ میں دیکھا۔۔۔
روم میں ہوں فلحال،،،،“ خاصہ اکتایا ہوا سا لہجہ سنتے لیلی نے موبائل کان سے ہٹاتے بغور دیکھا کیا یہ اسکا ایل تھا۔۔۔۔۔؟“
تمہیں خبر بھی ہے کہ کیا ہو رہا ہے تم کہاں ہو میرا آدمی گیا تھا تمہیں بلانے اور تم نے اسے مار کر بھگا دیا اور وہ بڈھا ڈاکٹر وہ کیوں ہے تمہارے گھر ۔۔۔۔۔۔ ضرور وہ تمہارا برین واش کر رہا ہو گا ۔۔۔“
غصے سے کمرے کے چکر کاٹتی وہ سلیمان شاہ کو تصور میں سوچتے ہی نفرت سے پھنکاری تو ایل کے ماتھے پر بل نمایاں ہوئے سیل اٹھائے کان سے لگایا۔ ۔ ۔
وہ یہاں ہیں کیونکہ ان سے میرا خون کا رشتہ ہے جسے میں جھٹلا نہیں سکتا اور جہاں تک بات ہے برین واش کی تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے ایسا کچھ کیا ہے کہ جو میں کسی کی باتوں میں آ جاؤں گا۔۔۔۔۔؟“
اپنی بھوری شیو کو انگوٹھا سے سہلاتے وہ ایک ہاتھ میں کافی کا مگ تھامے مسلسل ایک زاویے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جیسے سارا فوکس اسی پر ہو،،،
مجھے کچھ نہیں پتہ تم ابھی پہنچو سارا کام رکا پڑا ہے تم جانتے ہو ڈیلیوری تم کرتے ہو آج میرے دو آدمی پکڑا گئے ہیں،، ایل اب میں کوئی رزک نہیں لوں گی تم پہنچوں جلد از جلد _____،"
اتنے دنوں کے بعد لیلی کے کال کرنے کا مقصد بھی اسکا دھندا ہی تھا، وہ سوچتے تلخ سا مسکرایا۔۔۔۔
ابھی نہیں موم میں مصروف ہوں تھوڑا کل رات کو نکلوں گا۔۔۔۔"
پیچھے سے کمرے میں آتے سلیمان شاہ کو دیکھ اسنے بہانہ گھڑا ،، بنا اسکے حکم پر کان دھرے کال کٹ کر دی ۔۔۔۔
ڈیڈ آپ تو چھوٹی کے پاس جا رہے تھے، گئے نہیں اس سے ملنے ۔۔۔۔۔"
وہ چلتا سلیمان شاہ کے قریب جاتے پوچھنے لگا،،، جبکہ نگاہیں انکے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھیں۔
سلیمان شاہ نے اپنا چشمہ اتارتے سامنے موجود صوفے پر براجمان ہوئے ،،
ایل کی سنجیدہ نگاہیں انہی پر تھیں ۔۔
گیا تو نہیں کیونکہ آج انویٹیشن آیا ہے وہاں سے ،،، کارڈ ایل کی جانب بڑھاتے سلیمان شاہ نے کہا تو الجھن سے اس کارڈ کو پکڑتے کھولنے لگا،،
ڈیڈ یہ یہ کیا لکھا ہے اس میں۔۔۔۔۔!“ اندر لکھے حرمین کے نام پر ایل کو لگا جیسے اسکی سانسیں تھم سی گئی ہوں،،
بے یقینی سے اپنے ڈیڈ کو دیکھتے وہ استفسار کرنے لگا جبکہ کارڈ اسکے ہاتھوں سے نیچے گرتے زمین بوس ہو چکا تھا ،،
کیوں کیا ہوا ایل_______؟“سلیمان شاہ نے حیرت سے اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ پوچھا کچھ نہیں ڈیڈ مجھے ایک کام سے جانا ہے میں آتا ہوں۔؟”
نیچے گرے کارڈ کو اٹھائے وہ ہاتھ میں دبوچے باہر نکلا،
جبکہ سلیمان شاہ سوالیہ نظروں سے اسکی پشت کو گھورتے رہے جو انکی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا ،،
💗**********💗**********💗
حیاء سیدھی ہو کر بیٹھو ورنہ سب کے سامنے اگر میں نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو تمہیں اعتراض ہو گا۔۔۔۔۔۔۔،
امن نے نیم سرگوشی نما آواز میں کہا تو حیاء نے خفگی سے اسے گھورا ، جو اسکے یوں دیکھنے پر مسکراتا اسے سر ہلاتے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرنے لگا ،،،
حیاء نے بے بس نظروں سے اپنے سامنے والی سیٹ کی جانب دیکھا جہاں اشعر اور رمشہ بیٹھے تھے،
اگر آپ پھپھو کو بتا دیتے اپنی چوٹ کا تو وہ ہرگز بھی آپ کو اس حالت میں سفر کرنے کی اجازت ناں دیتی۔۔۔۔"
غصے سے اسے دیکھتے حیاء نے منہ پھلائے کہا تو امن نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں یار اور ویسے بھی اتنی چھوٹی موٹی چوٹوں کے لئے ماما کو پریشان کرنا کونسا ٹھیک بات ہے۔۔۔۔۔؛"
امن نے اپنی سی کوشش کرتے اسے سمجھایا جو صبح سے اس سے خفا بیٹھی تھی ،،،،،
اوپر سے اشعر نے بھی امن کا ساتھ دیا تھا اور اب وہ لوگ یوں لندن جا رہے تھے ایمرجنسی میں، یہ ایمرجنسی اذلان نے کروائی تھی،،
دو دن سے کال پر کال کرتے اسنے سب کا دماغ چاٹ دیا تھا کہ اب اسے بھی اپنی بیوی اپنے گھر چاہیے۔۔۔
جیسے حیاء اور امن ایک ساتھ ہیں وہ بھی الایہ کو اپنی زندگی میں چاہتا تھا،،
اب جب سب ٹھیک ہو رہا تھا تو اشعر اور رمشہ کو اس میں کوئی حرج ناں لگا جبھی تو وہ الایہ کو رخصت کروانے لندن جا رہے تھے،،
امن آپ کو چوٹ آئی ہے،،، حیاء کی آنکھوں میں ایک دم سے نمی دھر آئی وہ آنکھیں پھیلائے اسکے کندھے کو دیکھنے لگی ،
جہاں ابھی تک زخم تھا مگر رمشہ سے چھپانے کی خاطر امن نے پٹی کی بجائے شرٹ کے اوپر کوٹ پہنا تھا،،،
یار کچھ نہیں ہے تھوڑی دیر میں ہم لندن ہوں گے تم آرام سے اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا اوکے اب ادھر آؤ ،،،،“
اسے بازو سے کھینچتے امن نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھا تو حیاء نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے آنکھیں موندی ،،،
🔥*************🔥*************🔥
سر واپس چلیں۔۔۔۔۔۔" ایچ اے آر کی پشت کو گھورتے ڈائون نے ہلکی سی آواز میں کہا تو ایچ اے آر نے وائن کا گلاس لبوں سے لگایا ۔۔
ایک نظر اپنے سامنے والی عمارت پر ڈال ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں پھنسایا ۔۔۔۔
ہمممممم واپس کیا لینے جانا ہے،،،،" ڈائون کو دیکھتے وہ سوالیہ گویا ہوا تو ڈائون نے تعجب سے اسے دیکھا۔ ۔
سر ویام اپنی ٹیم کے ساتھ وہیں موجود ہے وہ کسی بھی وقت ہمارے اڈے پر حملہ کر دے گا ہمارا وہاں ہونا لازمی ہے۔۔۔۔۔
ڈائون نے اسے سنجیدگی سے سنگین حالات کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔
تو ایچ اے آر مسکرایا ۔۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ یہ جنگ اب پیسوں کی یا پھر مخض اس جوے کے کھیل کی رہی ہے۔۔۔۔۔
ڈائون نے نا سمجھی سے اسے دیکھا جو چلتا کرسی پر شان سے بیٹھا تھا،،
مجھے وہاں تب جانا پڑے جب میری بیوٹی ( الایہ) وہاں ہو جب وہ واپس آ رہی ہے تو واپس کس کے لئے جاؤں ۔۔۔۔۔
آنکھیں موندے الایہ کے سراپے کو سوچ اسکی نگاہوں میں حدت سے ابھری ،،،
وہ بے تابانہ مسکرانے لگا۔۔۔۔۔ مگر سر روزی میم۔۔۔۔ ڈائون نے اسے ٹوکا۔۔۔۔۔
تو ایچ اے آر نے اسے دیکھ قہقہ لگایا۔۔۔۔
تمہیں لگتا ہے کہ یہ لوگ مجھ سے کھیل رہے ہیں۔۔۔۔ کہتے ساتھ ہی اسنے ایبرو اچکایا تو ڈائون نے حیرانگی سے اسے دیکھا ،،
روزی ڈارلنگ انزک کے پاس پہنچی نہیں بلکہ میرے کہنے پر گئی ہے۔۔۔۔“ وہ میرے ساتھ نہیں بلکہ ایچ اے آر انکے ساتھ کھیل رہا ہے۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔“
اپنی چال کا سوچتے وہ ری لیکس سا پر زور سا قہقہہ لگا اٹھا ۔۔۔۔ جبکہ ڈائون پر یہ انکشاف کسی صدمے سے کم نہیں تھے۔۔۔
شاید اسنے ٹھیک سنا تھا ایچ اے آر دکھنے میں چھوٹا ضرور تھا مگر اندر سے وہ سب کا باپ کا تھا ۔۔۔
اسکی پشت کو دیکھ وہ مخض سوچ ہی سکا تھا۔۔۔
🟩🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🟩
عین اب کیا ہو گا مجھے سب کچھ بتانا ہو گا ڈیڈ کو وہ وہ کیا سوچیں گے میرے بارے میں،،،،۔ عین میں بری نہیں ہوں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔“
مسلسل آدھے گھنٹے سے حور کو سنبھالنے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو چکی تھی جو بس روتے ہوئے یہی سب دہرا رہی تھی۔۔
عیناں کو آج اس بے حس شخص سے شدید نفرت ہوئی تھی جس نے اسکی معصوم بہن کی زندگی نوچ دی تھی ۔۔۔۔
حور میری جان کچھ نہیں ہو گا میں ہوں تمہارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔" گاڑی میرب کے گھر کے سامنے روکتے اسنے جلدی سے حور کے آنسوں صاف کیے۔۔
میرب جلدی سے نکلی تھی ۔۔
عیناں نے ایمرجنسی کا کہتے اسے خاموشی سے باہر آنے کا کہا تھا جو دبے قدموں سے پچھلے گیٹ سے نکلتی اب گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔۔۔
کیا ہوا ہے یار اور حوری رو کیوں رہی ہے۔۔۔۔“
اسنے حیرت سے روتی ہوئی حور کو دیکھتے سوال کیا تو عین نے بے بسی سے اسے مرر سے دیکھا۔۔۔
یار ہاسپٹل چلنا ہے تم جانتی ہو میں کچھ بھی اکیلے سنھبال نہیں سکتی تم ساتھ ہو گی تو سہارا ہو گا۔۔۔۔
عیناں نے میرب کے ہاتھ کو تھامے کہا تو میرب نے اسے تسلی دی۔۔۔۔
یار اسے کیا ہو گیا۔۔۔۔“ میرب کی نظریں حور کے بے ہوش وجود پر پڑی تو وہ ایک دم سے چیخی جس پر عیناں کا دھیان بھی حور کی جانب ہوا ۔۔۔۔
جو ہوش و خرد سے بے گانہ تھی۔۔۔
یار پتہ نہیں اسکی طبیعت کچھ دنوں۔ سے خراب ہے میں نے تمہارے گھر کا جھوٹ بول کر اسے گھر سے نکالا ہے۔۔۔
عین گاڑی سٹارٹ کرو ہمیں حور کو ہاسپٹل لے کر جانا ہو گا ۔۔۔۔“
میرب نے جلدی سے کہا تو عیناں نے فل سپیڈ سے گاڑی بھگائی۔۔
🖤***********🖤*************🖤
سلیمان شاہ کی کہی باتیں اسکے ذہن میں گونجتی اسے پاگل کر دینے کو تھیں۔۔۔۔۔ وہ مسلسل سیٹ سے ٹیک لگائے آج صیحیح معنوں میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا ،،،
ویسے کتنی خوشی کی بات ہے کہ میری ہی بیوی کی شادی کا کارڈ کتنی عزت سے بھیجا گیا ہے۔۔۔۔“
اپنے ہاتھ میں موجود اس کارڈ کو کھولتے اسنے زخمی نظروں سے حور کے نام کے ساتھ لکھے اس نام کو دیکھا ایسے جیسے اگر وہ شخص سامنے ہوا تو اسے پل میں ہی جان سے مار دے گا۔۔۔۔۔
اسنے بے بسی سے اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا جو کہ نم تھیں۔۔۔ وہ حیران ہوا کیا وہ رو رہا تھا۔۔۔؟“
اسنے خود سے سوال کیا مگر جواب جانتے ہوئے بھی وہ انجان بنا ۔۔۔۔
کاش کہ وہ ناں ملا ہوتا سن شائن سے کیسے اسے خود سے دور دیکھ رہا تھا وہ،،ط یہ صرف ایل ہی جانتا تھا اسکی خوشبو تو اسے اپنے روم روم میں محسوس ہوتی تھی،،،
اب کیا یہ ہی دیکھنا باقی تھا کہ اسکا نام بھی اس سے جدا کر دیا جائے۔۔۔۔۔“
اپنی ہی سوچوں میں گم اسنے بار بار بجتے موبائل کو کان سے لگایا ۔۔۔۔
آگے سے ملنے والی خبر پر اسکی دھڑکنیں تیز ہوئیں تھی۔۔۔۔
سانس جیسے تھمنے لگا ہوں، دھڑکنوں میں ہوتی روانی جیسے زندگی کی نوید تھی، کیا دعائیں اتنی جلدی قبول ہوتی ہیں۔۔۔۔کون سے ہاسپٹل،،،،،!” لہجے میں بے قراری ہی بے قراری تھی ایسے جیسے کسی صدیوں سے بھٹکے مسافر کو اسکی منزل کا پتہ مل گیا ہو ۔۔۔
تم باہر ہی رکو نظر رکھنا کوئی خطرہ ناں ہو۔۔۔۔ میں آ رہا ہوں۔۔۔۔۔“ مقابل کو حکم دیتے ہی اسنے کال کٹ کی۔۔۔۔ ایک نظر اپنے ہاتھ میں موجود اس کارڈ کو دیکھا اگلے ہی لمحے اسکے ہزار ٹکرے کرتے وہ اسے ہؤا میں اچھالتا گاڑی سپیڈ سے بھگا لے گیا۔۔۔۔
میں بھی ساتھ آتا ہوں،،،،“ مائیکل جلدی سے تیز تیز قدم اٹھائے ایل کے ساتھ ہمقدم ہوتے بولا،، ایل جو ہڈ سر پر ڈالے ماسک سے چہرے کو مکمل طور پر کور کر چکا تھا اسنے قدم روکے۔۔۔
مائیکل نے تھوک نگلتے اسکے رکتے قدموں کو دیکھا اور پھر آنکھوں میں خوف سموئے اسے دیکھنے لگا جس کی آنکھیں بے تاثر تھیں۔۔۔
تمہارا سفر یہیں تک تھا جب تک میں اس ہاسپٹل کے اندر جاتا ہوں مجھے تمہارا نام و نشان بھی نہیں دکھنا چاہیے ۔۔۔۔ باقی تم سمجھدار ہو،،،“
مائیکل کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے وہ کچھ ناں کہتا بھی اسے بہت کچھ سمجھا چکا تھا۔۔
جو بنا ایل کی جانب دیکھے سپیڈ سے گاڑی کی جانب بھاگا۔۔۔۔
ایل نے دور تک گاڑی کو جاتا دیکھا اور پھر سرد سانس اپنے اندر اتارتے ایک نظر سامنے موجود عمارت کو دیکھ وہ تیزی سے آگے بڑھا۔۔۔۔
******___________******
ڈاکٹر پلیز اسے جلدی سے ٹھیک کر دیں،،، پلیز میرے حور کو ٹھیک کر دیں آپ______, عیناں نے روم میں داخل ہوتے ڈاکٹر سے انگلش لب و لہجے میں کہا۔۔
تو اسنے ایک نظر سامنے بے ہوش پڑے وجود پر ڈالتے اس روتی ہوئی چھوٹی سی لڑکی پر ڈالی۔۔
Don't worry little girl, it will be fine.
(پریشان مت ہو چھوٹی لڑکی یہ ٹھیک ہو جائے گی)
عیناں کی آنکھوں میں خوف دیکھتے ڈاکٹر نے مشفقانہ انداز میں کہا،، تو عیناں نے بے ساختہ ہی ڈر اور خوف سے اپنے پھڑپھڑاتے لبوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا۔۔
گرے کانچ سی آنکھیں رونے سے سرخ ہو رہی تھیں، جبکہ چھوٹی سی ناک پر جھلکتی لالی اسکی فکر کو عیاں کر رہی تھی ۔
نچلے لب کے کونے کو دانتوں تلے دبائے عیناں نے مٹھیاں بھینچتے حور کو دیکھا جو اس وقت اس چھوٹے سے بیڈ پر نیم بے جان سی حالت میں تھی۔
سرخ و سفید رنگت میں۔ گھلتی زردیاں عیناں کو ڈرانے کے لئے کافی تھیں ۔۔۔
اسے رہ رہ کے ویام یاد آ رہا تھا ، کاش وہ پاس ہوتا تو ہر مشکل سے نپٹنا کتنا آسان ہو جاتا ،،، اپنی پرنسز پر اپنی عین پر آتی ہر مصیبت کو وہ پہلے سے ہی قید کر لیتا ۔۔۔
مگر اب وہ کہیں نہیں تھا عیناں کو شدید دکھ نے آن گھیرا ،،، آنکھوں کے سامنے آتا اسکا وجہیہ چہرہ اسے دوہری اذیت میں مبتلا کر گیا۔۔
مگر وہ انجان تھی کہ اس وقت وہ جس دکھ جس اذیت کو برداشت کر رہی ہے ۔۔
وہ تو آنے والے اس بھیانک طوفان کے سامنے کچھ بھی نہیں ، جس سے اس معصوم کا مان سارا وقار بری طرح سے کرچی کرچی ہونے والا تھا ،،
معا کندھے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتے کانوں میں گونجتی آواز پر عیناں نے ٹیک چھوڑتے نم نگاہوں سے پیچھے دیکھا ،،
جہاں میرب ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے کھڑی تھی ۔ عیناں نے بمشکل ضبط کرتے اپنے پہلے سے سرخ ہوتے لبوں کو بری طرح سے کچلا ۔۔۔
وہ کیا بتاتی سب کو اگر حور کو کچھ ہو جاتا، تو پھر کیا ہوتا۔۔۔۔ وہی تو تھی جو اسے گھر سے نکال لائی تھی ۔
اوپر سے حور کی روح پر پیوست ہوئے زخموں کی وہ اکیلی ہم راز تھی،،، عیناں کو اپنا آپ کسی گہرے کنویں میں گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ،،،
جہاں سے وہ باوجود کوشش کے بھی نہیں نکل پا رہی تھی،،
ری لیکس وہ ٹھیک ہو گی ۔۔۔ چلو یہاں سے۔۔۔۔۔“
زبردستی اسکے بازو کو دبوچے میرب بنا اسکی سنے اسے ساتھ لیے ویٹنگ ایریا میں داخل ہوئی۔۔۔
میرب چھوڑو وہ اکیلی ہے وہاں۔۔۔۔“ اپنا بازو چھڑاتی وہ نم آواز میں بولی لہجے میں گھلی نمی کے ساتھ اذیت رقم تھی جسے میرب بخوبی محسوس کر پا رہی تھی۔۔ مگر اسے لگا شاید حور کی حالت کی وجہ سے پریشان ہے وہ ۔۔۔۔۔
عیناں میں نے انکل (وریام) کو کال کر دی ہے وہ کسی بھی وقت پہنچتے ہونگے۔۔۔ اگر تم نے خود کو ناں سنبھالا تو میں دو تھپڑ لگاؤں گی ابکی بار ۔۔۔۔۔“
میرب کے لئے اسے یوں روتا دیکھنا نا ممکن سی بات تھی،، جبھی فورا سے دھمکی دی ۔۔عیناں نے ناک سکوڑتے اسے گھورا ۔
صرف باتوں سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی یہ ثابت کرنا بے حد ضروری ہے کہ تم سٹرانگ ہو۔۔۔“ زندگی ہر موڑ پر امتحان لیتی ہے عیناں۔۔۔ کوشش کرو کہ سمٹ جاؤ ورنہ بکھیرنے والے تو آگے ہی بہت ہوتے ہیں۔۔۔“
میرب نے رسان سے سمجھاتے نرمی سے اسکے گالوں کو صاف کیا تو ایک لمبا سانس لیتی عیناں اسے یونہی گھورتی رہی ۔۔
اگر ویام ہوتا تو جل جل کر مر جاتا ہائے ،،۔۔۔۔“ بہت اچانک میرب نے بے ساختہ ہی ان سرخ ہوتے رخساروں پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے شرارت سے آنکھیں مٹکاتے کہا۔۔۔
تو عیناں کی آنکھوں میں سرخی سی تیرنے لگی۔۔۔ وہ سرخ چہرے سے پلکیں جھپکتی سر جھکا گئی۔۔۔ جبکہ میرب اسکے یوں شرمانے پر مسکراتی اسکے گلے لگئ۔۔۔
********_______________********
کیا ہوا ہے اسے_______؟“ کمرے کا دروازہ بے حد اچانک اندر سے بند ہوا تھا۔۔۔ٹھک کی آواز پر ڈاکٹر نے رخ موڑتے ماسک میں چھپے اس انجان شخص کی نیلی آنکھوں میں دیکھا ۔
جن کے پپوٹے رت جگے سے سوجھ چکے تھے۔۔
کون ہیں آپ ____!“ سر تا پاؤں اسے گھورتے ڈاکٹر نے سخت لہجے میں پوچھا ۔۔۔
ہاتھ میں تھامی رپورٹس کو میز پر رکھتے اسنے ایک نظر دوائیوں کے زیرِ اثر اس بے ہوش نازک سے وجود پر ڈالی۔۔۔ اور پھر خود سے سات یا آٹھ قدموں کے فاصلے پر کھڑے ایل پر۔۔۔۔۔۔
یہ جاننا تمہارا کام نہیں۔۔۔۔جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دو۔۔۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں مضبوطی سے بھینچتے گویا وہ اپنے غصے پر ضبط کر رہا تھا ۔۔۔
صرف تب تک جب تک وہ حور کی حیریت کی بابت ناں جان لیتا۔۔۔۔اسکے بعد اس ڈاکٹر کے خشر سے ایل خود بھی انجان تھا ۔۔۔۔
سوری انکے ساتھ لڑکی آئی ہے ایک آئی تھنگ بہن ہے وہ انکی۔۔۔۔ آپ ایسے روم میں نہیں آ سکتے ابھی کے ابھی نکلیں یہاں سے ۔۔۔۔۔“
بلیک ہڈ سے جھلکتی ان کھا جانے والے نظروں کو دیکھتا ڈاکٹر اٹل لہجے میں بولا۔۔۔تو ایل کے ہونٹ مسکرائے ۔۔۔
کمرے میں ایک دم سے اسکے بھاری قدموں کی آہٹ گونجنے لگی ۔۔۔ اسکی آہٹ کو اپنے قریب محسوس کرتی وہ بے ہوشی میں بھی بے چین ہوئی تھی ۔۔
ماتھے پر ایک ساتھ ڈھیروں بل نمایاں ہوتے حور کی اندرونی حالت کی غمازی کر رہے تھے۔۔۔
ایک نظر قریب آتے ہی اس وجود پر ڈالے وہ ڈاکٹر کی جانب متوجہ ہوا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
ایل نے سیل نکالتے کچھ بٹن دبائے اور سیل ڈاکٹر کی جانب گھمایا۔۔۔۔۔ یک بارگی ڈاکٹر کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔۔۔۔ آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ گھبراہٹ ڈر بے بسی سی تیرنے لگی۔۔۔۔
جو ایل کو اپنی بے بسی سے بے حد کم لگی تھی۔۔ جانتے ہو ایک اشارہ اور تمہاری بیوی اوپر ۔۔۔۔۔موبائل پیچھے کرتے وہ بے تاثر لہجے میں بولا ۔۔۔۔ جیسے کوئی احساس کوئی جذبات باقی ناں ہوں۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اس سفاک شخص کو گھورتے لب آپس میں مضبوطی سے پیسوت کیے ۔۔۔۔
کافی سمجھدار ہو۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں بے بسی دیکھتے وہ مڑتے تین قدموں کے فاصلے کو سمیٹتا بیڈ کے قریب تر ہوا۔۔۔
آنکھوں میں سرخی کے ڈورے تیرنے لگے ۔۔۔۔ سینے میں موجود خون کے لوتھڑے کی گردش تیز تر ہوئی تو دھڑکنوں کا شور اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگا ۔۔۔
ایل نے دھیرے سے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا ۔۔۔ اسے احساس ہوا کہ اسکا ہاتھ کپکپا رہا ہے ۔۔۔ وہ ایک ہاتھ بیڈ کے سرہانے پر رکھتے سارا وزن اس ہاتھ پر ڈالے قدرے جھک سا گیا ۔۔۔۔
بے حد آہستگی سے حور کے پیٹ پر دھرے ہاتھ کو چھونا چاہا ۔ وہی خوشبو تھی وہی لمس جو آج بھی اسے خود میں محسوس ہوتا تھا،، کیسا سرور تھا کہ آنکھوں میں حرارت بڑھنے لگی ۔۔۔۔
دیدار یار کی طلب اس قدر حاوی تھی کہ ایل بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھے گیا ۔۔۔
جو بنا کسی ہار سنگھار کے، نیم مردہ حالت میں آنکھوں کے گرد ہوتے ہلکے چہرے کی اتری رنگت میں بھی اسے اپنے دل کی ملکہ لگی تھی۔۔۔۔۔۔
اسنے آنکھیں موندے جذب کے عالم میں اس خوشبو میں لمبا سانس بھرتے اپنی سانسوں کو سرور بخشا۔۔۔۔
دل کی دھڑکنیں اس قدر تیز تھیں کہ انکا شور اسے کمرے میں گونجتا محسوس ہوا۔۔۔۔
بتاؤ ڈاکٹر یا پھر میں کچھ کروں ،،،، نظروں کو ہنوز ایک ہی زاویے پر گھاڑے وہ دیوانہ وار اس چہرے کا دیدار کرتا غرایا ۔
تو ڈاکٹر کو اندازہ ہوا کہ وہ لاعلم نہیں تھا جبھی اسنے لب بھینچے اس سفاک شخص کی چوڑی پشت کو گھورا جو اس معصوم بچی کے سامنے کوئی درندہ دکھ رہا تھا ۔۔
شی از پریگنینٹ ۔۔۔۔۔۔ سٹیریس اس قدر حاوی ہے کہ اگر انہوں نے اپنا خیال ناں رکھا تو انکا مس کیرج ہو جائے گا اور ابھی بھی بمشکل سے انکی حالت سنبھلتے ہی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔“
ڈاکٹر کے کہے لفظوں نے ایل کو مڑنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔ وہ ایک ہی جست میں اسکے قریب جاتے اسے گریبان سے تھام چکا تھا ۔۔
کیا کہا تم نے دوبارہ کہو۔۔۔۔“ اس بار وہ دھاڑتے بولا تو ڈاکٹر نے گڑبڑاتے اس پاگل کو دیکھ اپنا آپ چھڑوانا چاہا جو کہ بنا اسکی رضا کے نا ممکن تھا۔۔۔
میں نے کہا یہ ماں بننے والی ہے اور اسکے بچے کو خططط ۔۔۔۔۔۔____!“
اشششش کیا خطرہ میرے ہوتے میرے بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔ ناں ہی میری سن شائن کو ناں ہی میرے بچے کو۔۔۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔“
ابکی بار وہ دھاڑا کم گرجا تھا۔۔ ڈاکٹر نے پاگلوں کی طرح سر ہاں میں ہلایا اسے سچ میں اس پاگل شخص سے خوف آ رہا تھا۔۔
حل بتاؤ کیسے ٹھیک ہو گی میری سن شائن ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ پر ضبط کرتے ڈاکٹر کو جھٹکے سے چھوڑ وہ بڑبڑایا ۔۔۔۔۔ ہاتھ سے اپنی آنکھوں کو موندتے وہ سرد سانس فضا کے سپرد کرتا خاصا بے چین تھا ۔۔۔
اسے ابھی تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ باپ بننے والا ہے ایک الگ سا احساس تھا ایک الگ سا کچھ انوکھا مگر دل کے قریب ،، ایل کو لگا جیسے وہ کسی خواب کے زیر اثر ہو اور یہ خواب اس قدر قلیل مدت ہو گا کہ آنکھ کھولتے ہی ہر طرف ویرانی ہو گی ۔۔۔۔
انکا خیال رکھیں ہر پریشانی سے دور کسی ایسی جگہ جہاں وہ ہر پریشانی سٹریس سے بچ سکیں ۔۔۔۔!“
ڈاکٹر کی آواز پر وہ چونکتے ہوش میں لوٹا ۔۔۔۔۔ ایک سرد سانس فضا کے سپرد کیا آنکھوں کے سامنے باہر بیٹھی متفکر سی روتی عیناں کا چہرہ لہرایا ۔۔۔۔
وہ ایسا نہیں چاہتا تھا عیناں کو روتا دیکھ ہی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ چند لمحے اپنی سن شائن کا دیدار کرتے اسے نظروں سے اپنی روح میں اتارتا خاموشی سے چلا جائے گا۔۔
مگر اب اسے یہ سب کچھ کرنا نا ممکن سا لگا ۔۔۔۔کیا حور کے گھر والے کسی ایسے بچے کو اپنائیں گے جس کے باپ کا نام و نشان ناں ہو۔۔۔۔
کیا گارنٹی تھی کہ اس کی سن شائن اپنوں کے بیچ ٹھیک۔ہو گئ۔۔۔۔
لبوں کو میچتے اسنے آخری فیصلہ کیا۔۔۔۔ میز سے پیپر اور پن اٹھائے اسنے تیزی سے لکھنا شروع کیا۔۔۔۔ ایک سرد سانس فضا کے سپرد کیے اس ڈاکٹر کو دیکھا ۔۔۔۔
یہ وریام کاظمی کو دے دینا، ڈاکٹر نے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔ وریام کاظمی کو وہ اچھے سے جانتا تھا۔۔۔ایل نے اسکے ہلتے سر کو دیکھا اور چلتے بیڈ کے قریب جاتے نرمی سے اپنی متاعِ جاں کو اپنی آغوش میں بھرا ۔۔۔۔
اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا اسکا شوہر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔۔۔
اپنے بے انتہاء قریب موجود اس نازک وجود کو اپنے سینے میں سر دیے دیکھ وہ غرور سے بولا ۔۔۔ یہ غرور کچھ عام سا نہیں بلکہ کسی بہت اپنے کو پا لینے کا غرور تھا ۔۔۔
وہ جانتا تھا عشق کے سفر کی منزل میں ابھی اسے جانے کتنے سخت راستوں سے گزرنا ہے مگر وہ عشق ہی کیا جو آزمائے تڑپائے ناں ۔۔۔۔۔۔“
ایک گہری نگاہ اس موم کی گُڑیا پر ڈالے وہ تیز تیز قدم اٹھاتا باہر کی جانب نکلا۔۔۔
******___________******
**** میں نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
اس کے روشن چہرے پر نظر ٹھہرتی ہی کب تھی
اس کے چاند سے چہرے کو کتنا دیکھا جا سکتا تھا
دیکھنے یوں تو اس کو جانیں کتنی دنیا آئی تھی
لیکن جتنا میں نے دیکھا، کب اتنا دیکھا جا سکتا تھا
اس کو دیکھوں چار سو اپنے خوابوں اور خیالوں میں
لیکن چند خوابوں میں بھی کتنا دیکھا جا سکتا تھا
**
آسمان پر پھیلے سیاہ بادلوں میں جگمگاتا وہ روشن ٹکرا اپنی روشنی کی کرنیں بکھیرتا زمیں میں بسے مقمیوں کے دلوں کو روشن کرنے کی اپنی سی کوشش میں مگن تھا،،
کھلی کھڑکی سے آتی یہ چند روشنی کی کرنیں بیڈ پر بے سودھ لیٹے اس وجود کے صبیح چہرے پر بکھرتے مقابل کو دیدار یار میں جلا بخش رہی تھیں ۔
معاً حور کے وجود میں جنبش پیدا ہوئی،، شفاف ماتھے پر لکیروں کا جال ایل کو بے حد پیارا لگا ، بے اختیار وہ صوفے سے اٹھتے بیڈ کی جانب بڑھا۔
ڈارک براؤن بال بے ترتیبی سے کندھے پر بکھرے ہوئے تھے، دن سے رات کے اس وقت تک وہ بنا پلکیں چھبکائے اپنی آنکھوں کے سامنے موجود اس ساحرہ کو یک ٹک دیکھتا رہا تھا،
جو ہوش و خرد سے بے گانہ ایل کو پھر سے اپنے سحر میں مکمل طور پر جکڑ رہی تھی، ایک انجانی سی کشش تھی جو آج پھر سے اسے بے اختیار اس نازک جان کی طرف مائل کر رہی تھی،،
سیاہ بوٹوں میں مقید پاؤں دھیرے سے آگے بڑھ رہے تھے ،
آنکھوں کی سرخی اسے دیکھتے ہی حددرجہ گہری ہوتی جا رہی تھی ۔۔
ایل نے اختیار اپنے نچلے لب کو دانتوں تلے دبایا،، ہاتھ چہرے پر پھیرے وہ دو قدموں کے فاصلے پر رکتا خود کو ڈپٹ رہا تھا،
وہ کیسے خود سے کیا وعدہ توڑ دیتا کیسے پھر سے اپنی سن شائن کی بے ہوشی کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔۔
ایل نے جیسے خود کو یاد دلایا، مٹھیاں بھینچے وہ بے چین ہوتی حور کے قریب بیٹھا ،، سانس روکے بے حد اچانک سے اپنا دایاں ہاتھ حور کے بالوں میں لے جاتے نرمی سے انہیں سہلانے لگا،،
وہ جو نیند کے زیر اثر بے چین سی دکھ رہی تھی۔۔۔
اب پھر سے پرسکون ہونے لگی ،، جسم ڈھیلا چھوڑتے وہ لمبے لمبے سانس لیتی ایل کو نگاہ چرانے پر مجبور کر گئی۔۔۔
ایل نے بے بسی سے کھڑکی کی اوٹ سے جھانکتے چاند کو دیکھا۔۔
اور ایک ٹانگ اٹھائے دھیرے سے قدرے فاصلے پر بیڈ پر رکھی اور سر بیڈ کراؤن سے ٹکایا،،
نظریں پھر سے بغاوت کرتی اسی دشمن جاں پر اٹک گئیں ، آج وہ اتنا تو جان چکا تھا کہ دنیا کے بے تحاشہ حسن کو قدموں تلے روندھنے والا وہ مضبوط اعصاب والا شخص اس چھوٹی سے لڑکی کے سامنے بلکل لاچار بے بس تھا ،،،
حور کی گھنی پلکوں تلے بند ان سیاہ جھیل سی آنکھوں کو دیکھ وہ تصور میں ہی اپنے لئے ان میں خوف دیکھ سرد سانس فضا کے سپرد کرتا پھر سے بغور اس چاند سے مُکھڑے کو فرصت سے دیکھے گیا۔۔۔
اسکا انداز بلکل پرسکون تھا جیسے اسے یقین ہو کہ ویام یا پھر کوئی اور اسے چاہ کر بھی ڈھونڈ نہیں سکے گا۔۔۔۔
یہ چھوٹا سا گھر صرف ایل کی ملکیت تھا جہاں وہ اکثر کچھ وقت سکون سے گزارنے کے لئے آتا تھا،،
ڈاکٹر کے کہے الفاظ اسکے کانوں میں گونجتے ایل کو بے چین کر گئے وہ حور کو لے تو آیا تھا مگر کیا وہ اسکے ساتھ رہنے کو مان جائے گی اگر حالات کچھ اور ہوتے تو وہ اسے منا لیتا بھیک مانگ لیتا مگر اب اسکے دور جانے کی سوچ ہی ایل کا سانس روک رہی تھی۔
اور سب سے بڑھ کر یہ سوچ اذیت ناک تھی کیا وہ اس بچے کو اپنائے گی_____؟ کیا اسکی طرح اسکا بچہ بھی اپنے ماں باپ کے پیار سے محروم رہے گا کیا اسے بھی اپنی ماں سے اس معاشرے سے وہی نفرت ملے گی جو اسے ملتی رہی۔۔۔۔۔۔
ایل کی آنکھوں میں خوف کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے لئے نمی تھی بے اختیار ہاتھ بڑھاتے اسنے حور کے پیٹ پر رکھا۔۔۔
اپنے بچے کو محسوس کرنے کی کوشش۔کرتا وہ آنکھیں موندے گہرے سانس بھرنے لگا۔۔۔۔
اپنے آس پاس بکھری وہی خوشبو محسوس کرتی وہ بری طرح سے نیند میں بھی بے چین سی رہی تبھی بمشکل سے خود میں ہمت پیدا کرتے حور نے آنکھیں کھولی۔۔
تو پہلی نظر خود پر جھکے اسی چہرے پر پڑی ۔۔۔ وہ پلک جھپکتی اس بھیانک خواب سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی ۔
ہوش آتے ہی وہی اذیت جاگی تھی ۔۔ حور نے لب بھینچے پلکیں جھپکی مگر منظر اب بھی وہی تھا۔۔۔ سیکنڈ کے دسویں حصے میں وہ حقیقت کو تسلیم کرتی ایک جھٹکے سے اٹھی ایل کے ہاتھ کو نفرت سے اپنے پیٹ سے جھٹک گئی۔۔۔
ایل جو آنکھیں موندے سکون حاصل کر رہا تھا ایک دم سے آنکھیں کھولی تو خود کو نفرت سے گھورتی حور کو دیکھ اعصاب ڈھیلے پڑے ۔۔۔
وہ پھر سے اسے تھامنے کو قریب ہوا مگر ابکی بات حور نے زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر دے مارا ۔۔۔۔
یہ سب اس قدر بے اختیار ہوا تھا کہ حور بے یقین سی اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی آنکھوں میں خوف تھا اسنے جھٹ سے آنکھیں بند کئے کھول سرخ چہرے سے خود کے قریب کھڑے ایل کو دیکھا۔۔
ایل نے بمشکل سے خود پر ضبط کیا وہ مستحق تھا اس سلوک کے۔۔۔
خود کو باور کرواتے دوبارہ سے حور کو دیکھا جس کا نازک وجود بری طرح سے کپکپا رہا تھا آنکھوں میں خوف تھا جسے ایل نے بخوبی محسوس کیا۔۔۔۔
بنا کچھ کہے وہ چلتا اسکے قریب ہوا ہاتھ اسکی کمر کے گرد مضبوطی سے حائل کیے اسے جھٹکے سے سینے سے لگایا ۔۔۔۔
حور سن وجود سے ساکت کھڑی تھی۔۔۔۔ وہ ابھی تک شاک میں تھی،وہ تو عین کے ساتھ تھی پھر وہ اس شخص کے پاس کیسے۔۔۔۔۔
ذہن پر زور ڈالتے وہ بے بسی سے اپنی گردن پر ایل کی گرم سانسوں کو محسوس کرتی آنکھیں موند گئی۔۔۔۔
تمہیں اتنا مضبوط ہونا چاہیے پرنسز کہ تم میرے یا ڈیڈ کے پاس ناں ہونے پر اپنا دفاع خود کر سکو،،، یاد رکھو ایک لڑکی کی سب سے بڑی طاقت اسکا خود پر یقین ہے۔۔۔۔تمہیں جب بھی بے بسی محسوس ہو تو اپنی آنکھوں کو بند کرنا اور اللہ کو یاد کرنا دیکھنا کتنی طاقت ملے گی۔۔۔۔۔“ وہ ہنستا اسکے بالوں پر بوسہ دیے حور کی ناک کو محبت سے چھیڑتے بولا۔۔۔ حور مسکراتی ویام کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
حور نے فوراً سے آنکھیں کھولی اپنے اللہ سے مدد مانگتی وہ بھرپور مزاحمت کرتے اپنے دونوں ہاتھ ایل کے سینے پر رکھے دباؤ دیے اسے خود سے دور کر گئی ۔۔۔۔
ایل لڑکھڑاتا پیچھے ہوا حور کا آتش فشاں روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ جو لائٹ پنک کلر کے ڈھیلے ڈھالے ڈریس میں ملبوس دوپٹے سے بے گانہ سیاہ بال جو اسکے دونوں کندھوں پر جھول رہے تھے۔۔۔ سرخ نم آنکھیں لیے ایل کو لب بھینچنے پر مجبور کر گئی۔۔۔
اگر ہاتھ لگایا تو ہاتھ توڑ دوں گی۔۔۔۔“ دانت پر دانت جمائے وہ غصے سے انگلی دکھاتے بولی،،، تو ایل نے بغور اس نازک سی جان کو سر تا پاؤں دیکھا بائیں ہاتھ سے اپنے بکھرے بالوں کو کاندھوں سے پیچھے کیا ۔۔۔
سر اثبات میں ہلا دیا جیسے بتایا ہو کہ سمجھ گیا ہوں۔۔۔۔۔۔ درواز کھولو۔۔۔۔۔
ایل کے سر ہاں میں ہلانے پر حور نے نیا حکم صادر کیا تو ایل نے ماتھے پر بل ڈالے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔
سنا نہیں تم نے گھٹیا انسان دروازہ کھولو ___“ اتنے عرصے بعد وہ اپنا غصہ اس پر نکال رہی تھی اسکا گھٹیا شخص کہنا بھی ایل کو ایسے لگا جیسے پھول برسائے ہوں کسی نے۔۔۔۔ وہ ڈھیٹ بنا مسکرا دیا۔۔۔
حور کے تم بدن میں آگ لگی اسکا مسکرانا حور کو احساس بے بسی میں ڈبا گیا۔۔۔۔
جبھی اسے چھوڑ وہ خود دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔ تو ایل نے افسوس سے گردن نفی میں ہلائی۔۔۔۔۔
ایک جھٹکے میں حور کی نازک کلائی اسکی گرفت میں تھی۔۔۔ ایل نے اسے بازو سے دبوچ جھٹکا دیا وہ لہراتی ایل کے چوڑے سینے سے آن لگی ۔۔۔
ایل کی دھڑکنوں کا شور قیامت خیز تھا جسے محسوس کرتی حور نے نفرت سے اسے دھکا دیے قدم پیچھے کیے۔۔۔۔
کیا چاہتے ہو کچھ کمی رہ گئی تھی مجھے نوچنے میں جو پھر سے اٹھا لائے ہو۔ دل نہیں بھرا تھا ایک بار تباہ کر کے۔۔۔ پھر سے نوچنے آئے ہو اس بار کتنے دنوں تک دل بھرے گا تمہارا ۔۔۔۔۔“
حور کے تلخ الفاظ ایل کے سینے پر کسی تیز خنجر کی طرح پیوست ہورہے تھے۔۔۔ جبڑے بھینچے وہ سرخ نگاہوں سے حور کو دیکھے گیا ۔۔۔ جو پوری طرح سے ہانپ رہی تھی۔۔
مگر آج ڈر خوف کہیں نہیں تھا۔۔۔۔ اب میں کمزور نہیں ہوں جانتے ہو کیوں۔۔۔۔“
ایل کی آنکھوں میں دیکھتی وہ غرائی تو ایل کو اندازہ ہوا شاید وہ اسکی سوچ سے بھی زیادہ اس سے نفرت کرتی تھی ۔۔
کیونکہ اس بار میرے پاس کچھ بھی نہیں عزت بھی نہیں جس کے چھن جانے کا خوف ہو۔۔۔۔۔۔ ہاہاہا_____۔تم نے ذلیل انسان، درندے ،جانور، وخشی بھیڑیے کہیں کے ۔۔۔۔ تم نے میرا سب کچھ چھین لیا میرا مان میرا غرور میری ذات کو مٹا دیا تم نے ۔۔۔۔۔ تمہیں موت ناں آئی دردندے تم پھر سے میرے زخموں کو ہرا کرنے پہنچ آئے۔۔۔“
حور نے طیش سے آگے بڑھتے ایل کے چہرے پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی۔۔۔ہر تھپڑ کے ساتھ اسکے منہ سے نکلی ہر تلخ حقیقت ایل کے دل کو بری طرح سے گھائل کر رہی تھی۔۔۔
ایل نے نظریں جھکا لیں وہ مجرم تھا آخر ایسا تو ہونا ہی تھا۔۔۔
کیوں کیا تم نے ایسا کیوں مار دیا مجھے ۔۔۔۔۔“ تھک ہار کر وہ روتی بلکتی گھٹنوں کے بل فرش پر گرتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔
ایل اسے یوں روتا دیکھ تڑپتے اسے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھا ۔۔۔۔۔
سس سن شائن۔۔۔۔۔“ بمشکل سے اس لرزتے وجود کو پکارا مگر چھونے کی غلطی نہیں کی تھی۔۔۔۔
دور رہو اگر ہاتھ بھی لگایا یا تو تمہیں مار دوں گی یا پھر خود مر جاؤں گی۔۔۔۔“
ایل کے بڑھتے ہاتھ کو دیکھ وہ خود میں سمٹتی پیچھے ہوتے پھنکاری ۔۔۔۔۔
ایل اس بے حس لڑکی کو دیکھے گیا کیا وہ اس سے دور رہ سکتا تھا ۔
بمشکل سے ہاتھ پیچھے کھینچتا وہ بے بسی سے گویا ہوا ۔۔۔ میں جانتا ہوں جو میں نے کیا وہ ناقابلِ معافی ہے مگر۔۔۔۔۔۔“
چپ ایک دم چپ__ مجھے کوئی ڈائیلاگ نہیں سننے کوئی صفائی نہیں چاہئے۔۔۔ مجھے گھر چھوڑ دو میرے ۔۔۔۔۔“
آنسوں صاف کرتے حور نے اسے فوراً سے ٹوکا۔۔۔ تو ایل لب بھینچ گیا۔۔۔
یہ نا ممکن ہے اب تم کہیں نہیں جا سکتی ۔۔۔۔۔“ ایل نے فوراً سے کہتے نظریں چرائی ،، تو حور تلخی سے مسکرائی ۔۔۔
تو پھر کتنے دنوں تک دل بھر جائے گا اس وجود سے_____؟“ وہ لڑکی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ ایل کو نوچ رہی تھی۔۔۔۔ جو احساس شرمندگی سے نظریں تک نہیں ملا پا رہا تھا۔۔۔
بیوی ہو تم میری اب یہی تمہارا آخری ٹھکانہ ہے پوری زندگی میرے ساتھ یہیں رہو گی تم۔۔۔!“ اسکی بات کاٹتے وہ حتمی انداز میں بولا جیسے جتا رہا ہو انکے مابین رشتے کی اہمیت کیا تھی ، حور نے اسے غصے نفرت سے دیکھا۔۔۔
اگر چاہتے ہو کہ میں خود کو کچھ ناں کروں تو ابھی اور اسی وقت میری نظروں سے اوجھل ہو جاؤ۔۔۔۔“
دانت پیستے حور نے سرد لہجے میں کہا ایل نے بے ساختہ اسے دیکھا جسکی آنکھوں میں سب کر جانے کا جذبہ تھا مگر چہرہ سپاٹ ہر تاثر سے عاری۔۔۔۔
ایل نے سرد سانس فضا کی سپرد کی اور ایک دم سے اُٹھتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
اس کی آنکھ اپنے چہرے پر کسی کی گرم سانسیں محسوس کرتے کھلی،روز نے مندی مندی آنکھیں کھولی تو نظریں خود پر سایہ فگن ہوئے انزک پر پڑیں ،، بے اختیار لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھری ،، فل وقت وہ سب بھولے بیٹھی تھی،
یاد تھا تو اتنا کہ کس طرح سے اس جنونی شخص نے اسے رات بھر اپنی پناہوں میں مخفوظ رکھا تھا ۔۔
اپنے لئے اسکا اندازِ فکر ، پریشانی اسکے چہرے کی اڑی رنگت دیکھ کتنا اچھا لگا تھا کتنا خاص تھا یہ سب۔۔۔
ایک انوکھا سا احساس_____ کسی سے چاہے جانے کا احساس ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان بے پناہ محبت،کسی کا سارا وقت حاصل کرتا ہے تو اس شخص سے اپنے سارے لاڈ اٹھانا وہ اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔۔۔۔
مارننگ جان ۔۔۔۔۔“ انزک کی سحر انگیز میٹھی سرگوشی کے بعد اپنی پیشانی پر محبت بھرا ایک مہکتا لمس محسوس کرتے وہ کتنی ہی دیر آنکھیں موندے اس احساس اس لمس کی خوشبو کو خود میں اتارتی رہئ۔۔۔
کیسا فیل (محسوس) ہو رہا ہے درد تو نہیں زیادہ،،، انزک نے متفکر سے لہجے میں اس صبیح چہرے کو دیکھتے پوچھا تو روز نے گہرا سانس بھرتے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔
سچ میں اسے اب بلکل درد محسوس نہیں ہو رہا تھا ،،
اوکے تم فریش ہو جاؤ میں کچھ کھانے کا بندوست کرتا ہوں پھر ہمیں کہیں جانا ہے،“
روز نے اسے بغور دیکھا شاید وہ ابھی فریش ہوا تھا۔
کہاں جانا ہے مجھے کہیں بھی نہیں جانا کڈنیپر_____!“ انزک کے ہاتھ کو تھامے روز نے سر نفی میں ہلایا،،
اسے یاد تھا اب اسے کیا کرنا ہے مگر اب وہ انزک کی کسی بھی بات کو سننا نہیں چاہتی تھی آگے ہی دھڑکنوں نے جو بغاوت مچا رکھی تھی،،
وہ جانے کب سے اپنے احساسات سے منہ موڑ۔رہی تھی،، اب خود کو کسی بھی طرح سے کمزور نہیں کر سکتی تھی۔۔
کچھ نہیں بس تمہیں کچھ دکھانا ہے۔۔ پھر جلد ہی ہم واپس لوٹ آئیں گے۔۔۔۔“
روز کے رخسار ہو سہلاتے وہ محبت سے بولا مگر روز نے فورا سے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔
نو نو نو ایسا نہیں ہو گا میں کہیں نہیں جا رہی ۔۔۔ وہ کسی ضدی بچے کی طرح سر کو مسلسل نفی میں ہلاتے اونچی آواز میں چیخی تو انزک نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔۔۔"
روز بچوں کی طرح ضد مت کرو اور اٹھو گیٹ اپ فریش ہو جاؤ ،،“
اسے بازو سے پکڑتے بیڈ سے اتارتے انزک نے جیسے حکم صادر کیا تھا جسے سنتی وہ برے سے منہ بنائے اسے گھورنے لگی ۔۔
مجھے نہیں جانا تو مطلب نہیں جانا ،،، روز نے گردن اکڑائے حتمی لہجے میں کہا تو انزک نے لب دانتوں تلے دبائے۔۔۔
اوکے پھر مجھ سے شکایت مت کرنا ،، کندھے اچکاتے وہ مسکراتے بولا اور ایک دم سے اسکی جانب جھکا کہ ساتھ ہی دروازہ ٹھاہ کی آواز سے کھلا۔۔۔۔
انزک اور روز دونوں ہی چونکتے ہوش میں آئے دروازے کی جانب دیکھنے لگے۔۔
مگر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ انزک جھٹکے سے روز سے دور ہوا۔۔
روز نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جس کے چہرہ بلکل سپاٹ تھا اور وہ غصے سے انزک کو گھور رہی تھی۔۔
جبکہ انزک شاید اس اچانک آمد پر بوکھلاہٹ کا شکار تھا۔۔۔ جبھی چہرہ پسینے سے تر ہونے لگا۔۔
آ آ آپی اااپ ککک کب آئی۔۔۔۔۔۔؟“ وہ بوکھلاتے خشک حلق کو تو کرتا کسی بچے کی طرح سہم چکا تھا۔۔۔
اسی وقت جب تم اس گوری سے عشق فرما رہے تھے۔۔۔ اب اسکی تیز کاٹ دار نظریں روز کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی تھیں۔۔۔
روز اسے یوں خود کو گھورتا دیکھ گھبرا سی گئی۔۔۔ بلیک پینٹ کے ساتھ میچنگ شرٹ زیب تن کیے،،اونچی پونی ٹیل میں لہراتی سیاہ زلفیں تیکھے نین نقوش کے حامل ہر طرح کی آرائش سے عاری خوبصورت چہرہ، دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وہ اونچی ہیل پر اعتماد سے چلتی جیسے ہی روز کے قریب ہوئی روز جھٹ سے انزک کے پیچھے چھپی تھی۔۔
اسکی حرکت پر الایہ نے قدم روکتے ہونٹ او شیپ (طرز) میں موڑتے انزک کو دیکھا ۔۔۔
جو لب بھینچ چکا تھا ۔۔
یہ لڑکی اس کیس کا حصہ ہے میں اسے ابھی اور اسی وقت اپنے ساتھ لے جا رہی ہوں ،،
ماما کے بیمار ہونے کی خبر اور یہ لڑکی تمہارے نزدیک تمہارے کمرے میں کیا کر رہی تھی ان سب باتوں کے جواب تیار رکھو ۔۔“
روز کا دودھیا ہاتھ الایہ کی مضبوط گرفت میں تھا ۔۔۔
ایک جھٹکے سے اسے کھینچتے وہ اپنے سامنے کر گئی ،،روز نے متاثر ہوتے اسے دیکھا الایہ کا اعتماد بلا کا تھا مگر فل وقت وہ اپنا متاثر ہونا اسے دکھا نہیں سکتی تھی۔۔
جبھی معصومیت سے انزک کو دیکھا ۔۔انزک نے مٹھیاں بھینچتے پیچھے سے آتے اذلان کو دیکھا جو اسکے دیکھنے پر کندھے آچکا گیا کیسے کہہ رہا ہو خود بھگتو مجھے معاف کرو____“
آپی بات سنیں میری پلیز آپی ۔۔۔۔!“ روز کو گھسیٹتے الایہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی انزک بے تاب سا اسکے پیچھے آیا ۔۔۔۔
کڈنیپر سیو می۔۔۔۔۔“ روز نے روتے ہوئے انزک کو پکارا تو وہ بھاگتے سرعت سے الایہ کے آگے اتے راستہ روک گیا۔۔۔۔
الایہ نے قدم روکتے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ آپ اسے نہیں لے جا سکتی۔۔۔۔“
خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ روز کی نم نگاہوں میں دیکھ بے چینی سے بولا۔۔۔۔
کیوں______؟“ الایہ نے ایک نظر روتی ہوئی روز اور پھر اپنے بھائی پر ڈالی جو اسکی نظر میں معصومیت کا ڈھونگ کرتا ایک نمونہ تھا۔۔۔
کیونکہ یہ یہ میری بیوی ہے اس لئے ۔۔۔۔۔“ الایہ کے ہاتھ سے روز کا بازو چھڑاتے وہ اسے اپنی طرف کرتا بولا جیسے ڈر ہو کہ الایہ کچھ کر ہی ناں دے۔۔۔۔”
الایہ نے سرد نظروں سے اس گوری بلی کو گھورا ۔۔۔۔ اسے سخت بری لگی تھی وہ پہلی ہی نظر میں... اور اب کیسے آتے ہی اسکے بھائی پر قبضہ جما لیا تھا اسنے۔۔۔۔۔؛“
اس گھٹیا شخص کی بہن بھی اسی کی طرح دو نمبر ہو گی دیکھو اسکے چہرے سے مکاری جھلک رہی ہے۔۔۔۔۔ اسے تو میں چھوڑوں گی نہیں_____“
خطرناک انداز میں کہتی الایہ ایک دم سے اسکی جانب جھپٹی۔۔۔۔۔۔۔
اذلان اور انزک ایک دم سے ہڑبڑا اٹھے ۔۔۔۔
جبکہ انزک نے بے ساختہ ہی روز کو اپنے مضبوط حصار میں بھینچتے اپنے سینے میں چھپایا،،، وہیں اذلان نے بھاگتے الایہ کو قابو کرنا چاہا تھا جو کہ روز کا منہ نوچنے کے در پر تھی۔۔۔۔
ماہی بیہیو یور سیلف_____“ اذلان اسے یونہی ساتھ لگائے اسکے دونوں ہاتھوں کو قابو کیے باہر لایا اور ایک دم سے دیوار سے اسکے ہاتھ اوپر کی جانب لگاتے وہ قدرے سخت لہجے میں بولا۔۔۔
تو الایہ نے پھولے تنفس سے اسے گھورا۔۔۔۔
بس نہیں تھا کہ ابھی اس گوری کا منہ نوچ لیتی ۔۔۔
ہاتھ چھوڑو فون بج رہا ہے۔۔۔۔۔“ اذلان کے پیٹ پر ٹانگ رسید کرنے کی کوشش کرتے وہ پھنکاری تو اذلان نے پھرتی سے اسکی کوشش ناکام بنا دی مگر اس کوشش سے اب وہ آذاد اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔۔
اذلان نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا کتنا بدل گئی تھی وہ کہیں سے بھی وہ بچپن کی وہ نرم و نازک مسکراتی نرم دل کی الایہ نہیں لگتی تھی۔۔۔۔
ہاں بولو کرپس____ الایہ کے منہ سے کرپس کا نام سنتے اذلان جھٹ سے خیالوں سے واپس ہوش کی دنیا میں لوٹا،، ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھے گیا۔۔۔
واٹ کیا پاگل ہو تم، کہاں ہو اس وقت۔۔۔۔۔ رکو ہم ابھی آتے ہیں۔۔۔۔“
الایہ نے چیختے بے یقینی سے کہا تھا جسے سنتا اذلان بھی اب متفکر سا ہوا۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے ۔۔۔۔؟ الایہ کو دوبارہ سے کمرے میں جاتا دیکھ اذلان نے استفسار کیا مگر وہ بنا جواب دیے انزک کے روم میں دوبارہ سے داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔
انزک..... الایہ کی آواز پر انزک جو روتی ہوئی روز کو سنبھال رہا تھا ایک دم سے مڑا،،، وہیں ہچکیںوں سے روتی روز نے بھی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔
تم سے کہا تھا ناں کہ حور کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتی وہ ضبط کی انتہاء پر تھی۔۔۔
اذلان اور انزک نے حور کے نام پر چونکتے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔۔
اسے کڈنیپ کر لیا گیا ہے اور یہ سب کچھ تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے ہوا ہے جاہل انسان تم بجائے اپنی ہونے والی بیوی کو بچانے کے اس لڑکی کے ساتھ لگے ہو۔۔۔۔۔“
الایہ نے جان بوجھ کر انگلش لب و لہجے میں کہا تاکہ روز ناں صرف سنے بلکہ اسکا کہا سمجھ بھی سکے۔۔۔۔
بیوی کے نام پر روز کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا اسنے بے یقینی سے انزک کو دیکھا مگر انزک تو حور کے کڈنیپ ہونے کا سنتے ہی شاک کی کیفیت میں تھا۔۔۔۔
وہ بنا کچھ کہے باہر کی جانب بھاگا تو روز نے پھڑپھڑاتے لبوں نے بے یقینی سے اسے خود سے دور جاتا دیکھا ۔۔۔ دھڑکنوں میں ہوتی بے چینی اسے درد میں مبتلا کر رہی تھی۔۔
تھوڑی دیر پہلے بہنے والے جھوٹے آنسوں کی جگہ اب ان میں جھل مل کرتے وہ سچے آنسوں تھے ۔،
جو ہونے والی بیوی کا نام سنتے ہی اسکے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑ چکے تھے۔۔۔مگر اب ان آنسوں کو دیکھنے والا کوئی ناں تھا
تم بھی چلو ہمیں حور کو بچانا ہے ۔۔“ طنزیہ نگاہوں سے روز کو دیکھتی وہ بت بنے اذلان سے مخاطب ہوئی جو فورا سے سر ہاں میں ہلاتا باہر کی جانب نکلا ۔۔۔۔
جاتے جاتے الایہ دروازہ لاک کرنا نہیں بھولی تھی۔
💖💖💖💖💖💖💖
مسلسل ایک گھنٹے سے وہ اسکا پیچھا کر رہا تھا سنسان گلیوں سے گزرتے وہ اسکے پیچھے ہی چند قدموں کے فاصلے پر تھا جو کہ مکمل طور پر بھیس بدلے ہوئے تھا۔۔۔۔
تیمور نے ایک دم سے گھڑی پر وقت دیکھا جو رات کے ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی۔۔۔
اچانک اسکا دھیان بٹنے سے پاؤں کے نیچے آتے کسی پتھر کی وجہ سے وہ بیلنس ناں رکھ سکا مگر گرنے سے پہلے ہی خود کو سنبھال لیا۔۔
معا کچھ فاصلے پر چلتے ویام نے آنکھوں کو تیزی سے گھمایا اور پُھرتی سے پیچھے مڑا مگر اسکے دیکھنے سے پہلے ہی تیمور ایک جانب دیوار سے لگا چھپ چکا تھا ۔۔
تیمور نے کب سے روکا سانس بحال کیا اور سر آگے نکالتے آگے کی جانب دیکھا جہاں ویام کا نام و نشاں بھی نہیں تھا۔۔
شاید وہ آگے نکل گیا تھا۔۔۔۔
مگر آج وہ کسی بھی قیمت پر اسکا راز فاش کر کے رہے گا۔۔۔ حتمی انداز میں فیصلہ لیتے وہ تیز تیز قدم اٹھائے آگے بڑھا تھا۔۔۔
مگر سامنے سے جاتی گلی میں سے گرزتے چار راستوں کو دیکھ تیمور کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔
اب وہ کس رستے پر جائے گا ۔۔۔۔ بالوں کو نوچتے وہ ہونٹ چباتا کافی متفکر تھا۔۔۔
اسنے ہاتھ میں پہنی برینڈڈ واچ میں وقت دیکھا جہاں رات کے بارہ بجنے والے تھے،، کم وقت میں بھی وہ کافی تیاری مکمل کر چکا تھا۔۔
اسنے ایک تیز نظر اپنے چاروں اطراف دوڑائی اور ہاتھ ڈور بیل پر رکھا۔۔۔
آگے جیسے اسی کے منتظر تھے بیل ہوتے ہی دروازہ کھول دیا گیا۔۔۔۔
اسلام علیکم میری___ ہمیشہ کی طرح ویام نے انہیں دیکھ سلام پیش کیا تو سامنے موجود ادھیڑ عمر عورت کے چہرے پر مسکان بکھری۔۔۔۔
بابا اتنے لیٹ ہو گیا آپ جلدی آو،،،، !” میری نے اسے ہاتھ سے پکڑے اندر کھینچا تو وہ بنا کچھ کہے انکے ساتھ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
چہرے پر سے ماسک اتار اسنے چھوٹے سے صوفہ پر پھینکا اور اوور کوٹ بھی اتار دیا۔۔۔۔
کہاں ہے وہ،،،،، بے تاب نگاہوں سے اسے چاروں اطراف ڈھونڈتے وہ بے چینی سے بولا تو میری مسکائی۔۔۔
ناراض ہے آپ سے کہ اس بار بھی آپ نہیں آئے ۔۔۔۔۔“
میری نے کوٹ اٹھائے ایک جانب رکھتے اسے آگاہ کیا جو شوز اتارتا اب آرام دہ چپل پہن چکا تھا۔۔۔
اسکی ناراضگی کا سنتے ہی ویام کے لبوں پر مسکراہٹ گہری ہوئئ۔۔۔
اسے منانا تو ضروری تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ خود ہی مان جائے گی۔۔
ویام نے مسکراتے سر نفی میں ہلایا اور ایک دم سے پیچھے سے قدموں کی ہلکی سی آہٹ پر وہ لب دبائے مسکراہٹ ضبط کرتا گویا ہوا۔۔
میری اگر اینجل نہیں ملنا چاہتی تو کوئی پروبلم نہیں میں واپس چلا جاتا ہوں۔۔۔۔“ ویام نے معصومانہ شکل بنائے کہا مگر اسکے واپس جانے کا سنتی پیچھے کھڑی اس خوبصورت گڑیا کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی۔۔۔
نو ڈیڈا میں ناراض نہیں ہوں________“ ویام کی طرف اندھا دھند بھاگتی وہ فوراً سے بولی تو ویام مڑتے گھٹنوں کے بل جھکا اور ایک دم سے اپنی نازک سی گڑیا کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖💖💖
انکل کچھ تو بتائیں آپ ایسے کیوں کر رہے ہیں۔ یار ہمیں ڈھونڈنے تو دیں حور کو________!‘
وہ سب ہی اس وقت وریام کے گھر میں۔ موجود تھے،،
امن کا بے چینی سے حال برا تھا وہ جیسے ہی آئے تھے حور کے کڈنیپ ہونے کی خبر نے سب کو شاک کر دیا تھا۔۔۔
اوپر سے اسکے ماں بننے اور شادی کی خبر نے نیناں کو شاک کر کے رکھ دیا۔۔
مگر جو کچھ ڈاکٹر نے اور رپورٹس میں۔ لکھا تھا اسے جھٹلا پانا کسی کے بس میں نہیں تھا۔۔۔
دو دنوں سے سبھی اپنی طرف سے پوری کوشش کر چکے تھے مگر حور کو نہیں ملنا تھا وہ نہیں ملی۔۔۔۔
میرب مسلسل عیناں کے ساتھ تھی جو ان سب کا قصور وار خود کو ٹہرا رہی تھی۔۔ حور کے جانے کی بعد سے ہی اسکی حالت کافی خراب تھی ویام کا سوچتے ہی وہ شرمندگی سے اندر ہی اندر مر رہی تھی۔۔
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب اسکی غلطی ہے مگر اب سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اور جو ٹھیک کر سکتا تھا وہ سب سے دور تھا بہت دور ،،،،
اس سب عرصے کے دوران اشعر اور رافع کو وریام کی خاموشی نے ڈرا دیا تھا۔۔
وہ دونوں ہی اپنی اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر چکے تھے مگر وریام کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا ۔۔۔
نیناں ایک زندہ لاش کی طرح ہو کے رہ گئی تھی ناں کوئی آواز ناں ہی آنسوں ناں ہی کچھ اور بس بت بنے ایک ہی نقطے کو گھورتے رہتی تھی۔۔۔
اس کی حالت پر سب کا دل کٹ کے رہ گیا تھا مگر وریام نے سختی سے منع کیا تھا کہ جب تک ویام کا مشن مکمل ناں ہو جائے اسے اس بارے میں کوئی بھی آگاہ ناں کرے۔۔
ڈاکٹر نے ایل کے کہے مطابق وہ خط وریام کو دے دیا تھا جس میں کیا لکھا ہے یہ وریام کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
مگر سب اتنا ضرور جانتے تھے کہ وریام کی خاموشی کسی بڑے طوفان کو جنم دینے والی ہے۔۔
آج جب وریام نے ان سب کو حور کو ڈھونڈنے سے منع کیا تو سبھی اپنی اپنی جگہ پاگل ہو چکے تھے۔۔۔
وہ کیسے سکون سے بیٹھ جاتے انکی بہن کو سرعام کوئئ اٹھا کر لے گیا تھا،
اور اب انہیں ڈھونڈنے سے بھی منع کیا جا رہا تھا ۔۔۔حیاء اندر لے جاؤ امن کو،،، دوا دو تاکہ یہ سو سکے۔۔۔۔۔”
اشعر نے امن کے بپھرے روپ کو دیکھ حیاء سے کہا جو ایک بار اسے دیکھتی نگاہیں چرا رہی تھی۔۔۔
جب سے وہ لندن آئے تھے تب سے امن ناں تو اس سے ملا تھا ناں ہی اسے دیکھنا گنوارہ کیا تھا۔۔۔اب بھی اشعر کی بات سنتے وہ لب بھینچے کھڑا تھا۔۔۔
اذلان نے ایک نظر حیاء پر ڈالی جو معصوم سی بلکل کسی نازک گڑیا جیسی تھی اب کیسے وہ امن کو ساتھ لئے روم میں لے جا رہی تھی ایک اس کی بیوی تھی۔۔
جو جانے کہاں تھی اور کس کس کا جینا حرام کر رہی تھی۔۔۔
الایہ کا سوچتے ہی وہ تاسف سے اپنی حالت پر خود ہی افسوس کرتا اپنے روم کی جانب بڑھا اتنا تو وہ جانتا تھا
کہ وہ دن اسکے نصیب میں کبھی نہیں آئے گا جب اسکی بیوی اسے تھامے اپنے ساتھ اچھی بیویوں کی طرح روم میں خود سے لے کر جائے اور ساتھ ہی خدمتیں بھی کرے ۔۔۔
تم سب بھی سو جاؤ صبح فدک کو لینے جانا ہے۔۔۔۔“
وریام نے جگہ سے اٹھتے بلند آواز میں کہا تو اشعر نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔
اور دور تک اسے جاتا دیکھ وہ سر ہاتھوں میں تھام گیا۔۔
💖💖💖💖💖💖💖
عیناں یار کچھ کھا لو کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو تم______“ میرب کئی بار اسکی منتیں کر چکی تھی ،،
جو دو دن سے بھوکی پیاسی بس رو رو کر خود کو ہلکان کیے ہوئے تھی۔۔
کچھ نہیں کھانا مجھے ، چھوڑ دو مجھے اکیلا____ چہرے پر آتے بکھرے بالوں کو پیچھے کرتی وہ غصے سے بولی،
تو میرب نے سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اسے بے بسی سے دیکھا۔۔
دیکھو عیناں اگر تم یونہی خود کو قصوروار ٹہراؤ گی تو پھر باقی سب کے سامنے کیسے خود کو بے گناہ ثابت کر پاؤ گی۔۔۔
مجھے کچھ بھی ثابت نہیں کرنا میرب یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے اگر میں حور کو ہاسپٹل ناں لے کر جاتی تو ایسا کچھ بھی ناں ہوتا۔۔۔۔
آج وہ صحیح سلامت ہمارے پاس ہوتی۔۔۔۔۔“ بخار سے اسکا بدن بری طرح سے درد کر رہا تھا،،
بمشکل سے کہتے وہ سرخ چہرے سے رخ موڑ گئی ۔۔۔
کیا میں اندر آ سکتی ہوں_____؟“
دروازے پر دستک کے ساتھ ہی الایہ کی آواز ابھری تو میرب اور عیناں دونوں نے ہی دروازے کی سمت دیکھا۔۔۔
آپی آئیں آپ۔۔۔۔“ میرب کو اسے دیکھ حوصلہ ملا وہ فوراً سے اٹھتے اسکی جانب بڑھی ۔۔۔۔
جو دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے ویام کے کمرے کو جانچتی نظروں سے دیکھتئ آگے بڑھ رہی تھی۔۔
کیا ہوا ہے کھانا کیوں نہیں کھایا تم نے _____؟“ عیناں کے پاس کھڑے ہوتے الایہ نے نرمی سے اسکے بالوں کو سمیٹتے جوڑے کی شکل دیتے ساتھ ہی پوچھا ۔۔۔
جو لب بھینچے آنسوں پی رہی تھی مگر زبان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا،
جبکہ میرب اب ری لیکس انداز میں صوفے پر پھیلتے لیٹ گئی،، وہ جانتی تھی اب الایہ سنبھال لے گی ۔۔
اپپی وو وہ حح حور مم میری وو وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔،“ عیناں اسکے پوچھنے پر ایک دم سے روتی گویا ہوئی تو الایہ جو اسے گہری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔
فورا سے اسکے قریب بیٹھی۔۔۔ اششش رونا بند کرو یار اتنی سی بات پر تین دنوں سے آنسوں بہا بہا کر اپنی انرجی ویسٹ کر رہی ہو۔۔۔۔“
دیکھو مجھے میں تمہاری بڑی بہن ہوں کتنی بریو ہوں، کبھی روتے دیکھا ہے مجھے نہیں ناں،،، وہ اس لئے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ رونا کسی بھی مسلئے کا حل نہیں ۔۔۔۔
اور اب تم سب سے پہلے کھانا کھاؤ گی اسکے بعد مجھے ساری بات بتاو گی۔۔۔۔۔ “
عیناں کے گالوں کو چھوتے وہ محبت سے اسے حصار میں لیتے بولی تو عیناں نے نم نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
مگر انکار نہیں کر سکی۔۔۔ بے ساختہ ہی الایہ کے ہونٹ مسکرائے پھر بے حد محبت سے وہ اسے کھانا کھلاتے ساتھ ہی میڈیسن دیتے اسکے قریب ہی لیٹ گئی۔۔۔۔
آپی ویام کہاں ہے وہ نہیں آیا اسے بتایا نہیں کک کسی نے۔۔۔۔۔“
الایہ کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے وہ نیند میں جاتے بڑبڑائی تھی۔۔۔
الایہ نے اسے نیند کی دوا بھی دی تھی تاکہ وہ سکون سے نیند لے سکے ۔۔۔۔۔ کافی دیر تک اسکا سر سہلاتے جب اسکے سونے کا یقین ہوا تو الایہ نے نرمی سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیے کمفرٹر برابر کیا۔۔۔۔
میرب خیال۔رکھنا اسکا اب صبح تک یہ سکون سے سوئے گی تم بھی کھانا کھا کر عیناں کے پاس ہی سو جانا۔۔۔۔۔“
میرب کے گال تھپکتے وہ محبت سے کہتے کمرے سے نکلی ،،،
💖💖💖💖🍂💖💖💖💖
اے میرے مالک میں نہیں جانتی کہ مجھ گناہ گار سے کون سا گناہ سر زد ہوا ہے جس کی سزا اتنی طویل ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی مگر تو تو دلوں کے حال سے واقف ہے میرے مولا۔۔۔۔۔
مجھ گناہ گار کو بخش دے مجھے اس اذیت سے دوبارہ مت گزارنا جس سے ایک بار گزرتے میری سانسیں تو چل رہی ہیں مگر یہ وجود حالی ہو گیا ہے۔۔۔
مجھے میرے والدین میرے بھائی سب کا گناہگار مت بنانا میرے مالک میری مدد فرما بے شک تیرے ہر کام میں ہمارے لئے مصلحت ہوتی ہے جسے سمجھنے میں ہمیں وقت ضرور لگتا ہے مگر اس طویل انتظار کے بعد صبر کا پھل انعام کی صورت ہمارے ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔مجھے ثابت قدم رکھنا میرے مولا اپنے سوا کسی کے آگے جھکنے مت دینا آمین.....“
دعا مانگتے ہی اسنے ہاتھ چہرے پر پھیرا ۔۔۔۔ ایک طویل سکون کا سانس خود میں اتارا ایک یہی وہ لمحات ہوتے تھے جہاں۔ اسے سکون میسر آتا تھا دنیاوی چیزوں سے دور اپنے رب کی بارگاہ میں ۔۔۔۔“
جائے نماز ایک جانب الماری میں رکھتے وہ چلتے کھڑکی کی جانب بڑھی ۔۔۔
چاروں اطراف پھیلے گھنے جنگل سے اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ کسی سنسان جگہ پر ہے۔۔۔۔ بے تاثر نگاہوں سے ایک ہی زاویے کو دیکھتی ایک دم سے حور کی آنکھیں تیزی سے پھیلی ۔۔۔۔
دھڑکنوں کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔۔۔
وہ جو دو دن سے خود کو اسی کمرے میں مقید کئے ہوئے تھی ۔
آج پاگلوں کی طرح باہر کی جانب بھاگی تھی۔۔۔۔۔ آنکھوں میں ایک انجانا سا خوف تھا۔۔۔۔ مونیٹر پر اسکی ایک ایک حرکت کو ابزرو کرتا ایل بے چین ہوا جیسے ہی اسے دروازہ کھولے گھر سے نکلتا دیکھا۔۔۔
ایل تیزی سے جگہ سے اٹھتے گن ہاتھ میں تھامے بیسمنٹ سے باہر آیا اور گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔۔۔
مگر اسکے پہنچنے سے پہلے ہی حور سیڑھیاں اترتے جنگل کی جانب بھاگی تھی۔۔۔
جسے دیکھ ایل کا سانس رک سا گیا وہ پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے بھاگا رات کے اس پہر وہ اسکے یوں جنگل میں جانے سے خوفزدہ ہو گیا تھا۔۔۔
کیا وہ اس سے دور جانے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس جنگل میں موجود خطرناک جنگلی جانوروں سے زیادہ خطرناک فل وقت کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔
چاند کی تیز روشنی میں وہ تیزی سے قدم بڑھائے آگے کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔
نگاہیں اسے بے چینی سے ڈھونڈ رہی تھیں ،جو جانے کہاں اوجھل ہو گئی تھی۔۔۔
خشک پتوں پر ایل کے بھاری قدموں سے سرسراہٹ سی پیدا ہونے لگی۔۔۔
آسمان پر چمکتا چاند ایک دم سے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں غائب ہوا،تو بے اختیار ایل نے آسمان کی جانب دیکھا ۔۔۔
دونوں ہاتھوں سے گن کو مضبوطی سے دبوچتے وہ چوکنا سا دماغ کو خاصر رکھتے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔
ایک دم سے اپنی دائیں جانب سے بھیڑیے کی غراہٹ سنتے ایل کا سانس تھم سا گیا ۔۔۔
وہ اندھا دھند اس جانب بھاگا تھا۔۔۔۔
سن شائن_______!“ زمین پر اوندھے منہ پڑی حور کے سر پر سے بہتے خون کو دیکھ وہ ایک دم سے چیخا تھا،،، مگر پھر نظریں حور کی جانب بڑھتے بھیڑیے پر پڑیں تو ایل کا وجود سن سا ہو گیا۔۔۔۔
حور نے بمشکل سے بند ہوتی آنکھوں سے ایک نظر ایل کو اور پھر اپنی طرف آتی موت کو دیکھ آنکھیں مضبوطی سے بند کر لیں ۔۔۔۔
میں ناراض ہوں آپ سے_____“ ویام نے جیسے ہی اسے گود میں بھرا تو آگے سے ہمیشہ کی طرح سے شکوہ آیا جسے سنتے ویام مسکرایا تو اسکے چہرے پر نمودار ہوتے گھڑوں کو دیکھ ،،
عنایت نے ہونٹ اسکے رخسار پر رکھے،،
وہ جیسے ہی پیچھے ہوئی ویام نے دوسرا گال بھی سامنے کیا جس پر وہ مسکراتی فوراً سے اپنے لبوں کا بوسہ دیے کھلکھلا اٹھی،،
اپنے اطراف میں بکھرتی اس مدہم سی کھلکھلاہٹ پر وہ دل و جان سے مسکراتا نرمی سے عنایت کی پیشانی پر لب رکھے اسے خود میں بھینچ گیا۔۔
میری نے مسکراتی نم نگاہوں سے اس حسین منظر کو دیکھا۔۔۔
اور پھر واپس سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔
ڈیڈا آپ نے کہا تھا کہ آپ اس بار میرے پاس ہی رہیں گے۔۔۔۔۔۔“
اپنا ننھا سا ہاتھ ویام کے کندھے کے گرد حائل کیے وہ سر ہلاتے اسے یاد دلانے لگی۔۔
یس بے بی مجھے یاد ہے مگر اس بار میرے پاس آپ کیلئے اس سے بھی بڑا ایک سرپرائز ہے۔۔۔۔“ ویام اسے بانہوں میں بھرتے اب دوبارہ سے گھر سے باہر نکل آیا تھا۔۔
جبکہ سرپرائز کا سنتے ہی عنایت کی خوبصورت آنکھیں پھیل گئیں،، سچ میں کونسا سرپرائز_____!“خوشی سے چہکتے وہ جھٹ سے بولی تو ویام نے بغور اس خوبصورت مسکان کو دیکھا اسکے چند لمحات کی محبت اس معصوم گڑیا کو سنوار دیتی تھی۔۔
تھوڑی دیر پہلے جن خوبصورت آنکھوں میں نمی ڈیرا جمائے ہوئے تھی اب وہاں خوشی کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔
سرپرائز تھوڑی دیر میں بتاؤں گا ابھی میری اینجل اپنی آئز بند کرے گی۔۔۔۔“
ویام نے ہاتھ عنایت کی آنکھوں پر پھیرتے کہا تو وہ مسکراتے آنکھیں موند گئی۔۔
ویام کا کہا ہر لفظ بہت معنی رکھتا تھا اس معصوم کے لئے ۔۔۔
مگر شاید وہ معصوم اس بات سے انجان تھی کہ جس قدر محبت اور لاڈ اسکے نصیب میں تھے۔۔
اس سے زیادہ کئی زیادہ نفرتیں اسکی آنے والی زندگی کو زہر کرنے والی تھیں۔۔۔۔
ویام اسے یونہی اٹھائے ایک جانب بنے پل پر سے گزرتے اپنی منزل کی جانب گامزن ہوا،،،
تھوڑی دور جاتے ویام نے اسے دھیمے سے نیچے اتارا ۔۔
ڈیڈا میں ائز اوپن کر لوں۔۔۔۔“ عنایت کے گردن موڑتے آنکھیں بند کیے ہی معصومیت سے پوچھا ،
تو اس قدر معصومیت پر ویام کا دل چاہا کہ اس ننھی سی جان کو خود میں چھپا دے کہیں۔۔۔
یس میری جان آپ آئز کھول سکتے ہو۔۔۔۔
گھنٹوں کے بل جھکتے اپنے لب عنایت کی آنکھوں پر رکھتے وہ محبت سے بولا تو عنایت نے فوراً سے آنکھیں کھول دی۔۔۔
ڈیڈا آپ کو یاد تھا۔۔۔۔!“ چاروں اطراف جگمگاتے خوبصورت غباروں اور قمقموں میں جگمگاتا عنایت کا نام اور درمیان میں لگی عنایت اور ویام کی تصویر دیکھ عنایت جھٹ سے اسکے سینے سے جا لگی۔۔
ویام نے نرمی سے اپنی اینجل کے بالوں کو سہلایا جو کمر تک جاتے کافی خوبصورت تھے۔۔۔
بھلا تمہارے ڈیڈا اپنی اینجل کی برتھ ڈے بھول سکتے ہیں ۔۔۔۔ویام نے مسکراتے اسے بانہوں میں بھرتے میز کے قریب رکھی چئیر پر کھڑا کیا۔۔۔
سامنے ہی خوبصورت سا کیک پڑا تھا جسے میز پر روشنیوں اور پھولوں کے بیچ رکھا گیا تھا
۔۔
ڈیڈا آپ بھی ساتھ آئیں۔۔۔۔۔ “ چاقو تھامے عنایت نے اپنے پیچھے کھڑے ویام کو حکم دیا،
جو مسکراتا اسکے قریب ہوا اور اسکے چھوٹے سے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے کیک کٹ کرنے لگا ،،،
ہیپی برتھڈے اینجل ہیپی برتھڈے مائی اینجل ہیپی برتھڈے ٹو یو ،،،،“ کیک کٹ کرتے ویام مدہم سی آواز میں گنگنا رہا تھا۔۔۔
عنایت کے لبوں پر خوبصورت زندگی کے رنگوں سے بھری خوبصورت مسکراہٹ تھی۔۔۔
ویام نے کیک کا ٹکڑا اسکے منہ میں ڈالا اور پھر تھوڑا سا اسکی چھوٹی سے ناک پر لگایا تو عنایت کی کھلکھلاہٹ قہقہوں میں بدل گئی۔۔۔۔
ویام نثار جاتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا کہ ایک دم سے کسی نے اسے پیچھے سے دبوچے اسکے جبڑے پر بنا اسکے سمجھنے کے وار کیا،
وہ بیلنس ناں رکھ پاتے پیچھے کو بری طرح سے گرا ،،
جبکہ کسی کو یوں ویام کو مارتا دیکھ عنایت سہم سی گئی۔۔۔ لب بری طرح سے پھڑپھڑانے لگے ،،
اسکا نازک وجود مکمل طور پر کپکپا رہا تھا ،، جبکہ ویام نے سنبھلتے فوراً سے عنایت کو دیکھا جس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔۔
منہ سے نکلتی سفید جھاگ دیکھ وہ پاگلوں کی طرح تیمور کو دھکا دیے اسکی جانب بڑھا۔۔۔۔
✪✪✪✪✪✪✪✪
ڈیڈڈڈڈڈ______“ فضا میں گونجتی فائر کی آواز پر حور جو موت کے ڈر سے آنکھیں موندے ہوئے تھی۔۔۔
ایک دم سے خوف سے وریام کو یاد کرتی چیخی تھی۔۔
گولی بھیڑیے کے سر پر لگی تھی جس کے باعث وہ غرغر کی آواز کرتا ایک طرف گرا ۔۔ سر سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔۔۔
وہیں حور خود کو ٹھیک دیکھ جھٹ سے آنکھیں کھول گئی۔۔۔
سامنے ہی چند قدموں کے فاصلے پر پڑا بھیڑیا تڑپ رہا تھا اسکا وجود حرکت کر رہا تھا مگر آنکھیں حور کی طرف تھی۔۔۔
جسے دیکھ حور کی آنکھیں ایک دم سے خوف سے پھیل گئیں۔۔
اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی وہ ہاتھوں پر زور دیے اٹھی اس سارے عرصے میں اس نے ایک بار بھی ایل کی طرف نہیں دیکھا یا پھر شاید جان بوجھ کر اگنور کر رہی تھی ۔۔
ایل نے ہاتھ سینے پر باندھے، اور بالکل پرسکون سا اسے دیکھنے لگا۔۔۔
جس کا دوپٹہ شاید راستے میں گر گیا تھا۔۔
سیاہ بال جوڑے کی قید سے آزاد ہوتے کمر پر کسی گھنی آبشار کی مانند بکھرے الگ سا منظر برپا کر رہے تھے ۔۔
ایل نے بے ساختہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور قدم آگے کو بڑھائے،،،
سن شائن کہاں جا رہی ہو یار واپس آؤ ،،،،!“ حور کو مزید آگے کو جاتا دیکھ اب کی بار وہ تقریباً بھاگتا اسکے قریب ہوا،،
مگر حور نے سرے سے اسکی بات پر کان دھرے بنا متلاشی نگاہوں سے آگے پیچھے دیکھا۔۔۔
اسے یاد تھا اسنے اسی طرف آتا دیکھا تھا۔۔
دور ایک جھاڑی کے نیچے حرکت محسوس کرتی وہ فوراً سے اس جانب لپکی مگر اسے اس قدر خطرناک جھاڑیوں میں گھستا دیکھ ایل ایک دم سے اسکے قریب ہوا۔۔۔۔
اسے بازو سے کھینچتے قدرے جھک سا گیا تھا اس پر، جو بے خوفی سے اسکی نیلی حددرجہ سرخ آنکھوں میں بے خوف دیکھے گئی۔۔
یہ خطرناک ہیں تمہیں ہرٹ کریں گی گھر چلو ،،،
حور کو غصے میں ناک کے نتھنے پھلاتا دیکھ ایل کے اعصاب ڈھیلے پڑے ،،، لب جو ایک دوسرے میں سختی سے پیوست تھے۔۔
اب ایک دم سے ان پر مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔۔۔ ہاتھ چھوڑو میرا وہ مر جائے گی۔۔۔“
ایل کو غصے سے دیکھتے حور نے زور سے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا ،،،
تو ایل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے فوراً سے ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔
کس کی بات کر رہی ہو سن شائن میں دیکھتا ہوں کون ہے یہاں_____"
ایل آگے ہوتے بولا وہ کسی بھی صورت اسے اندر جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔۔
کیوں بچاؤ گے تم میں خود دیکھ لوں گی تم جاؤ اب_____!”
غصے سے گھورتے وہ گویا اسے حکم دے رہی تھی،،
ایل نے آنکھیں میچ لیں دنیا کو قدموں کی نوک پر رکھنے والا وہ سفاک آدمی آج خود اپنی رضا سے اس نازک سی لڑکی کے سامنے بے بس ہوا تھا۔۔۔۔
اور وہ شوق سے یہ سب کروا رہا تھا۔ حور کو ان جھاڑیوں میں گھستا دیکھ ایل نے بے بسی سے مٹھیاں بھینچ لیں کچھ بھی کہنا بے کار تھا۔ ۔۔
تھوڑی دیر بعد حور باہر نکلی تو اسکی گود میں چھوٹا سا ہرن کا بچہ تھا۔
جو شاید زخمی تھا خون حور کے بازو پر لگ چکا تھا جھاڑیوں میں اٹکنے سے دونوں بازوؤں پر خراشیں بلکل واضح تھیں۔۔۔
مگر وہ چاہ کر اسے سینے سے لگا نہیں سکا،،، مجھے دو،،،،“
حور کے سامنے ہاتھ کرتے مدہم لہجے میں پچکارتے ہوئے کہا،
تو حور نے ہاتھ پیچھے کھینچا ۔۔۔
وہ کھڑکی سے اس زخمی ہرن کے بچے کو دیکھ بھاگی تھی مگر اس کے پہنچنے تک وہ اندر کہیں بھاگ گیا تھا ۔
جس وجہ سے وہ اسکے پیچھے ہی جنگل میں گھسی تھی۔۔۔
تمہارا ہی ہے گھر جاتے لے لینا ۔۔اسکی احتیاط پر ایل نے اسے چھیڑا اور فورا سے بچے کو ہاتھوں میں بھرا ۔۔۔
حور لب بھینچے اسے دیکھے گئی مگر اب کی بار بنا کچھ کہے پیر پٹھکتے وہ تیزی سے گھر کی طرف بڑھی۔۔۔
✪✪✪✪✪✪✪✪
شرٹ اتاریں اپنی_____!“ ائٹمنٹ نکالتے وہ چلتی بیڈ کے قریب آتے بولی،،
امن نے بغور ان جھکی پلکوں کو دیکھا ناک پر دھرا غصہ وہ لب دبائے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
خود پر امن کی گہری نظروں کو محسوس کرتے حیاء نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔
خود اتار دو ورنہ ایسے ہی ٹھیک ہے،،،“ کندھے اچکاتے وہ دونوں ہاتھ بیڈ کے پیچھے کی جانب رکھتے بولا تھا۔۔
دائیں جانب ایک بڑی سے کھڑکی تھی جس سے باہر کا سرد منظر کافی دلکش دکھ رہا تھا،
امن لاپرواہی سے باہر دیکھنے لگا جبکہ حیاء کو اسکا غصہ سمجھ ناں آیا پھر خود سے ہی فرسٹ ایڈ باکس ایک سائیڈ پر رکھا
اور اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔۔ سیاہ شرٹ میں سے جھانکتا اسکا شفاف سینہ دیکھتے وہ شرم سے نظریں چُرا گئئ۔۔
گال ایک دم سے دہک اٹھے اب وہ بنا دیکھے سارے بٹن کھولنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
امن نے چور نگاہوں سے اسے دیکھا جس کا چہرہ انگارہ ہو چکا تھا___!“
اور پھر ایک دم سے حیاء کی کمر کے گرد بازو حائل کیے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی جھٹکے سے اسے اپنے اوپر گرایا۔۔۔
اممم____“ کیا تم بتا سکتی ہو مسز امن کہ یہاں آنے کے بعد سے تم کہاں غائب ہو ایک بار بھی اپنے اس بیمار شوہر کو دیکھنے کا خیال ناں آیا تمہارے ذہن میں۔۔۔۔۔“
کروٹ بدلتے وہ ہاتھ حیاء کے دائیں بائیں رکھتے سنجیدگی سے سوال گو ہوا تو حیاء نے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا۔۔۔
اب ایسے مت دیکھو پیار ہو گیا تو تمہاری جان خطرے میں پڑ جائے گی۔۔۔“
امن نے جھکتے شدت سے ان آنکھوں پر لب رکھتے نیم سرگوشی نما آواز میں کہا تو حیاء خود میں سمٹ سی گئی۔۔۔۔
تت تم جھوٹ مت بولو میں یہیں تھی تم خود نن نہیں ملنے آئے ،،،اپنی گردن پر اسکے دہکتے لمس کو محسوس کرتے وہ ناچاہتے ہوئے بھی کپکپا رہی تھی۔۔۔۔
امن نے شکایت پر سر اُٹھائے خمار آلود نظروں سے اسے دیکھا۔۔
مگر اب آ تو گیا ہوں ملنے اب ساری شکایتیں دور کر دوں گا۔۔۔“
حیاء کی گردن میں لپٹے دوپٹے کو کھینچتے دور اچھالتے وہ گہرے لہجے میں بولا۔
تو حیاء نے ہاتھ اسکے سینے پر رکھے اسے خود سے دور کرنا چاہا ، نو بے بی ایسی کوشش کرنا فضول ہے تو سوچنا بھی مت۔۔۔۔۔امن نے جھٹ سے اسکے نازک ہاتھوں کو اپنے سینے سے ہٹائے
گرفت میں لیا،،،،
امم امن تمہاری چوٹ ،،، وہ پوری طرح سے اسکے حصار میں قید ہو چکی تھی،، دھڑکنوں کا شور امن کو بے قرار کر رہا تھا،،
اسنے جھکتے حیاء کی بولتی بند کی تو وہ سرخ چہرے سے رخ پھیر گئی۔۔
تم اپنے لبوں کا مرحم لگا دینا سارا درد ختم ہو جائے گا۔۔۔۔“ اسے خود میں قید کرتے وہ دھیرے سے اسکی سانسوں کو قید کرتا مدہوش لہجے میں بولا،،
تو حیاء کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہریں سی ابھری،،، کیا ہوا قریب ناں آؤں ،، حیاء کی پیشانی پر پیسنے کی بوندیں دیکھ وہ متفکر سا اسکی پیشانی چومتے سر اپنے بازو پر رکھتے بولا۔
تو حیاء نے جھٹ سے اسے دیکھا۔۔
میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔۔ “ اسکے ناراض ہونے کے ڈر سے وہ ہلکی آواز میں منمائی،
مگر پھر امن کی پرشوق نگاہوں کو خود پر ٹکا پاتے ہی وہ اپنا سرخ چہرہ امن کے سینے میں چھپا گئی ۔۔
امن نے مسکراتے اسے خود میں بھینچ لیا جیسے اسے خود میں جذب کر لینا چاہتا ہو،،،
میں جانتا ہوں میری زندگی اب تمہاری ہر آتی جاتی سانس میری پابند ہے اسے مجھ سے ہو کر تم تک جانا ہے تو آج کا ٹاسک آسان کرتے ہیں تمہارے لئے ،،،
حیاء کا سر اپنے سینے سے نکالتے تکیے پر رکھے امن نے ہاتھ سے ان آبشاروں کو سہلاتے کہا۔۔
جبکہ حیاء کی آنکھیں پھیل گئی وہ جانتی تھی امن کا کوئی بھی ٹاسک اسکی شدت اسکے جنون کو دکھائے بنا ممکن نہیں تھا جبھی سر کو نفی میں ہلایا۔۔
جس کی پرواہ امن کو ذرا برابر بھی نہیں تھی،،
آج تم اپنی ساری سانسیں میری سانسوں میں بھرنا میں قطرہ قطرہ تمہیں خود میں اتاروں گا تم بس میری آغوش میں سکون سے آنکھیں موندے سو جانا ،،، تم میری نیندیں لے لو اور اپنی مہکتی سانسیں مجھے دے دو“
حیاء کی آنکھیں میں دیکھ وہ ری لیکس انداز میں بولا تو حیاء نے حیرت سے اسے دیکھا مگر اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ اسکی سانسوں پر دسترس لیتے اسے خود میں الجھا گیا۔۔
اینجل آنکھوں کھولو گڑیا،،،،“ عنایت کا سر اپنے ہاتھوں میں لیے وہ دھندلائی نگاہوں سے اسے دیکھتے بولا تھا ،،
تیمور خود اس بچی کی حالت دیکھ گھبرا سا گیا،
اینجل کچھ نہیں ہو گا میری گڑیا کو،،،“ بازوؤں سے آنکھوں کو رگڑتے ویام نے تیزی سے اسے گود میں بھرا اور پھر واپس گھر کی طرف دوڑ لگائی ،،
آنکھوں سے بہتا گرم سیال اسکی اندرونی تکلیف کو بیان کر رہا تھا، اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں بھول جاؤں گا تیمور کہ تمہارا مجھ سے کوئی رشتہ ہے۔۔۔۔!“
تیمور کو دیکھ ویام سرد لہجے میں گویا ہوا تو تیمور نے اسے حیرت سے دیکھ مٹھیاں بھینچ لیں۔۔۔۔
تو مطلب وہ ویام کی بیٹی تھی، پھر عیناں کا کیا ہو گا۔اسکی آنکھوں کے سامنے عیناں کا معصوم چہرہ لہرایا۔۔۔۔
دل چاہا کہ اسے گریباں سے پکڑتے جھنجھوڑ ڈالے مگر فل وقت حالات کے پیشِ نظر وہ خاموش رہا، مگر اتنا تو طے تھا ۔
وہ یوں نہیں چھوڑے گا ویام کو جبھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا ،،
ویام دوڑتے اندر داخل ہوا ،،، پاؤں سے دروازہ کھولے وہ اندر موجود ایک چھوٹے سے بیڈ کی جانب بڑھا اور نرمی سے عنایت کو بیڈ پر ڈالے، وہ ایک جانب پڑی چھوٹی سے الماری کی طرف گیا۔۔۔
تیمور نے قدم دروازے کے بیچ ہی روک دیے اور ایک نظر ویام اور بیڈ پر زرد پڑے اس ننھے وجود پر ڈالی جو شاید دو تین سال کی تھی۔۔۔
ایک بار دل نے ملامت کی اگر وہ ویام پر ہاتھ ناں اٹھاتا تو آج یہ بچی ٹھیک ہوتی۔۔۔
مگر پھر ویام کی کرتوت یاد آتے ہی اسے اپنا نہیں آسکا قصور لگا۔۔۔
جبھی بے حس بنے یونہی کھڑا رہا۔۔۔
ویام ایک ڈبہ الماری سے نکالتے بیڈ کی جانب بڑھا تھا اور پھر گھنٹے کو فولڈ کیے وہ عنایت کے قریب بیٹھا۔۔
جس کا گلاب سا چہرہ زرد پڑ چکا تھا ،، ہونٹوں سے بہتی سفید جھاگ دیکھ ویام نے بری طرح سے لب کچلے اور پھر شرٹ کے بازو سے اسکا چہرہ صاف کرنے لگا۔۔
جسے دیکھتے ہی تیمور کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں،،،
کیا ویام جیسا سوبر شخص بھی ایسا کچھ کر سکتا تھا جسے دیکھ تیمور شیرازی صدمے میں چلا جاتا۔۔۔
ایک ہاتھ کی مٹھی بند کیے دوسرے کو سینے پر باندھے وہ بند مٹھی کو ہونٹوں سے چھوتا کسی گہری سوچ میں تھا۔۔۔
آنکھوں کے سامنے ویام ہی گھوم رہا تھا،،، جو آج اپنی حرکتوں سے اسے سچ کا کوئی باپ لگ رہا تھا۔۔۔
ویام نے ہاتھوں سے عنایت کا منہ کھولے ایک چھوٹی سی گولی اسکے منہ میں رکھی،،، اور کمفرٹر گردن تک اوڑھا دیا۔۔۔
تیمور نے اسے دیکھا جو آج کافی زیادہ پریشان تھا شاید اس بچی کی حالت کی وجہ سے۔۔۔۔۔ مگر ایسا کیسے ممکن تھا وہ بچپن سے جانتا تھا۔۔
ویام کو ،اسکے ہر راز ہر بات کا وہ اکیلا رازدار تھا،
عیناں سے اسکی محبت تیمور کیا کسی سے بھی چھپی نہیں تھی مگر اب اچانک سے یہ بچی کہاں سے آ گئی ۔۔۔۔
جسے وہ اپنی بیٹی کہہ رہا تھا۔۔۔۔
ویام مجھے بات کرنی ہے تجھ سے۔۔۔۔“ تقریباً دس منٹ تک یونہی کھڑا ہونے کے بعد تیمور نے اسے پکارا جو سر جھکائے عنایت کا چھوٹا سا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔۔۔
باہر پڑے صوفے پر جا کر سو جا نہیں تو میرے گھر سے نکل جا،، جو مرضی آئے وہ کر مگر اب صبح تک مجھے نظر مت آنا ،،،“
ویام نے بنا دیکھے غصے سے کہا تو تیمور نے دانت کچکچائے،،
پھر چارو ناچار کھا جانے والی نظروں سے اسکی پشت کو گھورتے وہ باہر موجود چھوٹے سے صوفے پر لیٹ گیا۔۔۔
جہاں اسے ٹھیک سے لیٹنے میں کافی مشکل ہوئی تھی مگر آج کی رات گزارنا مجبوری تھی وہ سوچ چکا تھا صبح ہوتے ہی ویام سے ساری بات کلئیر کرے گا۔۔اور پھر آگے کیا کرنا ہے وہ دیکھ لے گا۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
وہ شاور لیتے جیسے ہی باہر نکلی کسی نے ایک دم سے پیچھے سے اسکے منہ پر زور سے ہاتھ رکھتے اسکا منہ مضبوطی سے دبوچ لیا۔۔۔
الایہ کی آنکھیں حد سے زیادہ پھیلی وہ پوری طرح سے کوشش کرتے اپنے پاؤں کو ہلاتے خود کو آزاد کرنے لگی۔۔
مگر سب کچھ بے سود گیا۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ بری طرح سے نا چاہتے ہوئے بھی مقابل کی گرفت میں آ گئی۔۔۔
الایہ نے ہانپتے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔۔۔ سیاہ نم بال پشت پر بکھرے مقابل کے حواس سلب کر رہے تھے وہ بے خودی سے ان کی خوشبو کو خود میں اتارتا بے قرار ہونے لگا۔۔۔
اپنی گردن پر کسی کی گرم سانسیں محسوس کرتے الایہ نے ہمت کرتے پوری طاقت لگائے اپنے دائیں ہاتھ کو آزاد کروایا،،
اور ایک دم سے جھٹکے سے مڑتے وہ جیسے ہی اسکے منہ پر وار کرنے لگی، اذلان نے پشت کے بل جھکتے اسکا وار ضائع کیا،،
اور بائیں ہاتھ کو مضبوطی سے کھینچتے اپنا دوسرا ہاتھ الایہ کی کمر کے گرد حائل کر دیا۔۔۔
الایہ ایک دم سے اذلان کے چوڑے سینے سے آ لگئ، سانسیں اس بے وقت لڑائی سے بری طرح سے اتھل پتھل ہوئی پڑیں تھیں ،،،
جن کی بڑھتی رفتار اذلان کو مخمور کر رہی تھی،
یوُ_____“
اپنے چہرے کو گہری نظروں سے دیکھتے اذلان کو دیکھ الایہ غصے سے گویا ہوئی مگر اذلان نے شدت سے جھکتے اسکے الفاظ چن لیے،، اسکی مضبوط گرفت میں وہ بن پانی مچھلی کی طرح پھڑپھڑانے لگئ،
مگر اسکی ہر کوشش مقابل کے جنون کو بڑھا رہی تھی آخر تھکتے وہ بالکل بے حس و حرکت کھڑی رہی_____“
اذلان نے دھیمے سے اسکی تھوڑی پر پُرشدت لمس چھوڑا ،،، الایہ کا وجود سنسنا اٹھا ،،وجود میں اٹھتی سرد لہریں اسے کانپنے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔
جن مردوں کی بیویاں تم جیسی ظالم ہوتی ہیں ان کے ہاں بچے اسی وجہ سے لیٹ ہوتے ہیں کیونکہ وہ میری طرح بیوی سے محبت کرنے سے بھی ڈرتے ہیں ۔
کیا پتہ ایک چھوٹی سے جسارت پر کون سا اعضاء ٹوٹ جائے ،،،
الایہ کے نازک کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے وہ آنکھیں مٹکاتے اس قدر معصومیت سے بولا کہ الایہ نے آنکھیں پھیلائے حیرت سے اسے گھورا،،
تم اور معصوم توبہ کرو اذلان اللہ کو جھوٹ بولنے والے انسان سخت نا پسند ہیں_____“
اسکے ہاتھوں کو جھٹکتی وہ خفگی سے کہتے ڈریسنگ کی جانب بڑھی ،،
تو اذلان نے تھوڑی اسکے کندھے پر ٹکائے آئینے سے نظر آتے اس خوبصورت عکس کو دیکھا۔۔۔
گھورو مت نکلو میرے روم سے______“
بالوں میں برش کرتے اذلان کی نظروں کو خود پر گھڑا دیکھ وہ دانت پیسے بولی تو اذلان نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا۔۔
کہاں جاؤں سب اپنی اپنی بیویوں کے پاس گھسے ہیں مجھے اکیلے بیڈ پر نیند نہیں آ رہی ،، تو سوچا کہ اپنی بیوی کے ساتھ شیئرنگ کر لوں ،،،
اپنے بازوؤں میں اسے سمیٹتے وہ محبت سے کان کی لو پر لب رکھتے بولا،
تو الایہ نے رخ موڑتے اسے دیکھا،،، تم کیسے جاؤ گے ٹانگوں پر یا پھر سٹریچر پر______!“ ڈارلنگ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ لوگ مجھے ساری عمر رخصت نہیں کریں گے آئی مین میری اور تمہاری رخصتی نہیں کرنے والے،، اتنا تو میں جان گیا ہوں_____ اب میں اس کمرے سے تبھی نکلوں گا جب تمہارا پیر بھاری ہو گا۔۔۔۔۔۔“
الایہ کی طرف دیکھتے وہ بے باکی سے کہتا آنکھ دبا گیا۔۔
جبکہ الایہ بےبسی سے اسے گھورتی مٹھیاں بھینچ گئی۔۔۔۔
بکواس مت کرو اذلان اور جاؤ یہاں سے،،،“ سرخ چہرے سے نظریں پھیرے وہ لہجے کو سخت بنائے بولی مگر اذلان پر بلکل اثر نہیں ہوا،،
لگتا ہے تمہیں سمجھ نہیں آئی عموماً لڑکیاں ایسی بات پر شرماتی ہیں ،،، پاؤں بھاری ہونے کا مطلب جب میرا چھوٹا سا ننھا سا بے بی تمہارے ٹمی میں آئے گا پھر ،،،،“
الایہ کو کھینچتے وہ زور سے اسکے گال پر بوسہ دیے بولا تو الایہ نے دانت کچکچائے،،،
اذلان پلیز تنگ مت کرو ۔۔۔۔۔۔ " الایہ نے بے بسی سے کہا تو اذلان نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی ۔
وائٹ کلر کے نائٹ ڈریس میں دھلا دھلا فریش چہرہ،،،
پونی کی قید سے آزاد مہکتی بھیگی زلفیں جو اسکے کندھوں پر بکھری اذلان کو کسی جسارت پر اکسا رہی تھی،،سیاہ آنکھوں میں جھلکتی تھکن کو دیکھتا وہ لمبا سانس کھینچتے اسکے قریب ہوا۔۔۔
اذذذ اذلان پلیز ننن نہیں،،،،،“
اذلان نے قریب آتے اسے بانہوں میں سمیٹا تو الایہ نے خوف کے تحت اسے آنکھیں پھیلائے انکار کیا،،
اذلان نے سر نفی میں ہلائے قدم بیڈ کی جانب بڑھائے اور نرمی سے اسے لٹایا ،،
اششششش لیٹی رہو ماہی،،، دوسروں میں اتنا مت الجھ جاؤ کہ اپنی ذات کو فراموش کر بیٹھو، اتنا یاد رکھو یہ زندگی ، یہ وجود یہ روح امانت ہے اذلان اشعر علوی کی،،،اس پر ہوا ستم میں ہرگز معاف نہیں کروں گا پھر چاہے وہ تم ہی کیوں نا کرو۔۔۔۔۔“
الایہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے وہ اس قدر شدت سے بولا کہ الایہ کئی لمحوں تک دم سادھے اسے دیکھتی رہی،، کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں ،،، شدت، الفت، محبت، جنون، پرواہ، کیا وہ واقعی اس قدر اہم تھی اسکے لئے ،،،“
اپنا آپ تو وہ اسے سونپ چکی تھی،مگر دل میں آج بھی اسی چھوٹی بچی کی طرح سے ڈر موجود تھا،،
جو اسے پھر سے اذلان کے اس قدر قریب ہونے اسپر جان سے بڑھ کر بھروسہ کرنے سے ڈرا رہا تھا،،
اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مت بولو،،“ وہ ہنستی اسکی بات کو اگنور کرتے ایسے ہی پیچھے کو گرے سر تکیے پر ٹکا گئی،
اذلان نے نرمی سے اسکی پیشانی پر شدت بھرا میٹھا لمس چھوڑا،،
اور پھر بنا کچھ کہے وہ دروازے کی جانب بڑھا___،
اسے دروازے کی جانب جاتا دیکھ، الایہ کا دل بری طرح سے تڑپا تھا، مگر خود سے اسے روکنے کی ہمت کہاں تھی اب،،،اسے جاتا دیکھ وہ بری طرح سے لب کچلنے لگی ،،
وہ بھی لاڈ اٹھوانا چاہتی تھی ویسی ہی محبت ویسا ہی حصار وفا چاہتی تھی جیسا حیاء کو میسر تھا جیسا عیناں کو حاصل تھا،،
مگر وہ الایہ تھی سب سے الگ،، اپنے اندر پنپنتے ان خوفوں میں گری وہ آج بھی وہی سات آٹھ سالہ بچی تھی،
جس کا مان بری طرح سے ٹوٹا تھا ،،
مگر اب وہ اپنے جذبات پر اس قدر قابو پا چکی تھی کہ کسی کے سامنے جھکتے پھر سے اپنے ذات کو بےمول نہیں کر سکتی تھی ،
الایہ نے کمفرٹر کو مٹھیوں میں جکڑا آنکھیں سختی سے میچ لیں_
اذذلان،،،اپنی آنکھوں پر اذلان کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرتی اسکی خوشبو کو خود میں اُترتا محسوس کیے،، بے ساختہ ہی دل کی دھڑکنیں بے ہنگم ہوئیں لبوں نے اسے پکارا۔۔۔
جو مسکراتے کمفرٹر اُٹھائے اسکے قریب ہوا ،، اور نرمی سے الایہ کا سر اپنے سینے پر رکھا۔۔
پاگل سمجھا ہے،، جو یونہی چھوڑ کر چلا جاؤں گا،، میں وہ جذباتی بچہ نہیں رہا اب ماہی جو کسی کی بھی باتوں میں آ جائے گا_
میں اب وہ مرد بن چکا ہوں جسکی ہر آتی جاتی سانس اپنی ماہی کی خوشبو کو ہر بار بنا دیکھے بھی پہچان سکتی ہے،
جس کے خلاف اگر یہ سارا جہان بھی گواہی دے تو بھی اذلان علوی کبھی اپنی مسز پر شک نہیں کرے گا،،تم زندگی کے ہر مقام پر مجھے اپنے قریب پاو گی اور یہ تمہارے قالو کا وعدہ ہے تم سے۔۔۔“
وہ دھیمے سُروں میں اسکے کان میں اپنا سحر لفظوں سے پھونکتا اسے خود میں سمیٹ گیا ۔
الایہ نے گہرا سانس بھرتے اس دلفریب خوشبو کو خود میں سمیٹا،،
آنکھیں ہنوز بند تھیں، مگر جو سکون اذلان کے پاس ہونے سے ملا تھا شاید وہ اس سکون سے کافی عرصے سے محروم رہی تھی۔۔
لبوں پر دھیمی مسکراہٹ رینگی تو آنکھیں سکون ملتے ہی بند ہونے لگی،
بے ساختہ ہی اک خوف کے تحت اذلان کے گرد اپنا حصار باندھے وہ ٹانگ اس پر چڑھائے استحقاق سے اسے کے سینے پر پھیلے نیند کی وادیوں میں اتر گئی،،،
جبکہ اذلان یونہی بیڈ کراون سے ٹیک لگائے اسے ساری رات دیکھتا رہا تھا،
جو دنیا کے لئے غصے، گھمنڈ سے بھری ایک عجیب لڑکی تھی۔
مگر اذلان کیلئے وہ ایک ایسی خوبصورت لڑکی تھی جسکے لئے دنیا کے سامنے خود کو ظاہر کرنا معنی نہیں رکھتا تھا وہ ایک انمول ہیرا تھی جو اسکے خدا نے اسکی قسمت میں شاید اسکی کسی نیکی کے صلے میں ڈالا تھا۔۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕
تمہیں معلوم ہے ڈائنہ آج میں بہت خوش ہوں،،، کل کا دن سب کی زندگیوں کو تباہ کر دینے والا دن ہو گا۔۔
لبوں سے جام لگائے آج وہ کافی خوش دکھ رہا تھا،، لیلی نے فون کان سے دور کیے بے زاری سے سر جھٹکا ،
اچھا ایسا بھی کیا ہونے والا ہے جو اتنے خوش ہو تم،،، اپنے پاس بیٹھے ایڈم کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے وہ سنجیدگی سے استفسار کرنے لگی،،
ایڈم کا سارا دھیان لیلی میں تھا ، وہ بار بار اسکا چہرہ تھامے اسے اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہا تھا،،
جو پیار سے اسے سہلاتے ایچ اے آر سے بات کر رہی تھی،،
ایڈم اسکا نیا شکار تھا، جو کینیڈا کے سب سے امیر باپ کا اکلوتا بیٹا تھا،اسکی ملاقات لیلی کے پلان کے مطابق ایک پارٹی میں ہوئی ۔۔
بس پھر لیلی کے حسن سے متاثر وہ پچھلے کئی دنوں سے اسکے ساتھ تھا،،
مگر اسے حاصل کرنے کی چاہ تھی کہ وہ اسے ساری عیاشی کروا رہا تھا،، جبکہ لیلی اسکی آدھی جائیداد اپنے نام کروا چکی تھی،،
جو کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح اسکے آگے پیچھے گھوم رہا تھا ،،
ایک کام کرو ایڈم روم میں ایک لڑکی تمہارا ویٹ کر رہی ہے تم جاؤ آج کی رات حسین بناؤ مجھے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں میں صبح ملاقات کروں گی۔۔۔
ایڈم کے گال پر بوسہ دیے وہ اسے ہر بار کی طرح ٹالنے لگی۔۔
ایڈم نے آنکھیں سکوڑے اسے گھورا اور پھر بے دردی سے اسکی گردن کو دبوچا ، لیلی کے منہ سے مدہم سی سسکی نمودار ہوئی مگر وہ عادی تھی ان سب کی،،
اگلے ہی لمحے نیلی آنکھوں میں بے حد آنسوں تھے، اسکا حسن ابھی تک کسی بیس سالہ دوشیزہ جیسا تھا۔
جس کے آگے بڑے بڑے دم بھرتے تھے،مجھے تم چاہیے ہو یہ دو ٹکے کی تو میرے بستر پر ہوتی ہیں روز ،،،“ الایہ کے جبڑے کو دبوچے اسنے غصے سے دانت لیلی کی گردن پر گاڑھے ،،
وہ درد برداشت کرتے لب مضبوطی سے بھینچ گئی،،
اسکی مجبوری تھی اس امیر کتے کو برادشت کرنا،، وگرنہ دو منٹ کا کھیل تھا اسکی جان لینا کون سا مشکل تھا اسکے لئے ،،
لیلی نے ایک نظر فون پر ڈالی جہاں ایچ اے آر دوبارہ کال کر رہا تھا شاید کوئی ضروری کام تھا وگرنہ ایک بار کال کاٹنے کے بعد وہ دوبارہ کبھی نہیں کرتا تھا ،،
انف ایڈم میں تمہاری رکھیل نہیں ہوں، جب اپنے اتنے قریب آنے دیا ہے تو تھوڑا سا انتظار نہیں کر سکتے یوں درندگی مت دکھاؤ، تم جانتے ہو میرا جوان بیٹا میرا بزنس سنبھال رہا ہے،
میرا شوہر ہاسپٹل ایڈمٹ ہے، مگر پھر بھی میں تمہیں وقت دے رہی ہوں اور تم ہو کہ یوں کر رہے ہو کیا یہ ہے تمہاری محبت،،
اپنی سکرٹ ٹھیک کرتے وہ نم لہجے میں سمندر سی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں لائے اس قدر معصومیت سے بولی کہ ایڈم کو پل بھر کے لئے افسوس اور دکھ ہوا۔۔۔
ڈارلنگ کیا پیسے کم ہیں کیا تمہارا بیٹا میٹنگ ہینڈل نہیں کر پا رہا مجھے بتاؤ میں کرتا ہوں کچھ ،،“ الایہ کے چہرے کو تھامے وہ فکر سے گویا ہوا،
نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ،، وہ ٹھیک ہے بس کچھ دن نہیں آ جائے گا اور میرا دوسرا شوہر وہ بھی ہاسپٹل میں ہے بس اس وجہ سے پریشان ہوں ۔۔۔ وہ یہ ناں بتا سکی کہ اسے ہاسپٹل پہچانے میں اسکا اپنا ہاتھ تھا۔۔
یقیناً اب تک وہ دم توڑ چکا ہو گا ،، وہ سوچتی پھر سے ایڈم کو دیکھنے لگی،،،
جس کی ساری توجہ لیلی پر تھی۔۔۔
تم پریشان مت ہو میں ویٹ کر لوں گا جب تک تم ٹھیک محسوس ناں کرو میں تمہیں اب فورس نہیں کروں گا۔۔۔۔“
اسکے لبوں کو چھوتے وہ مسکراتا اسے ری لیکس ہونے کا کہتے اپنے محسوس کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔
ایک زہر بھری نظر اس پر ڈالے، لیلی نے گالی سے نوازتے اپنے ہونٹوں کو صاف کیا،،،
اور فون کی جانب متوجہ ہوئی،،،
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
سر ایک بری خبر ہے،،،،“ ایچ اے آر کو مصروف انداز میں لیلی کو کال کرتا دیکھ ڈائون اسکے قریب ہوا ۔۔
چہرے کی رنگت کچھ غلط ہونے کا پتہ دے رہی تھی ،،
کیا ہوا ہے کوئی بری خبر مت سنانا ،،“ وہ جو آگے ہی اپنے بیرون ملک اپنے ہر اڈے پر ایک دم سے اسپیشل فورس کے اٹیک سے پریشان ہو چکا تھا۔
بے حد سنجیدگی سے گویا ہوا تو ڈائون نے تھوک نگلا ،سر ہمیں لگا کہ یہ سب کچھ ویام اور اسکی ٹیم کر رہی ہے ،
اسی وجہ سے آپ کے کہنے پر ہم نے ان سب پر نظر رکھی،
مگر ابھی خبر ملی ہے کہ ہمارے ہر اڈے پر فورس نے اٹیک کر دیا ہے تقریباً سارے اڈوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے اور_____“
ڈائون کہتا ایک پل کو رکا،، اس میں مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی، اپنی زندگی کے پندرہ سال اس شخص کے ساتھ گزارنے کے بعد آج پہلی بار اسکے چہرے کا رنگ سفید پڑتا دیکھا تھا،،
شاید کھیل اچانک پلٹا تھا،
یا پھر مقابل کھیلنے والے نے بازی ایسی چلی تھی کہ ایچ اے آر کے حواس سلب ہو کے رہ گئے،
سانس سینے میں اٹکتا محسوس ہوا تو تیزی سے کوٹ کو اتارے فرش پر پھینکا، بائیں ہاتھ سے اوپری بٹن کھولتے ماتھے پر شکنوں کا گہرا جال نمودار ہوا۔۔۔۔
اور کیا ڈائون سب بتاؤ ، قسطوں میں کیوں شاک دے رہے ہو،،،
حلق کو تر کرتے وہ پھنکارا تھا، بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی ویام کاظمی اسکے سامنے ہوتا اور وہ اسکے اتنے ٹکرے کرتا کہ گنتے گنتے لوگوں کو صدیاں لگ جاتی،،
سر ہمارا سارا مال ضبط کر لیا گیا ہے اور ویام اور اس کی ٹیم کے سارے ممبر بہت پہلے سے آپ کو پہچانتے ہیں،،
آپ کو ناں دیکھنے کا ڈرامہ گھڑا تھا اُنہوں نے،، بلکہ بہت سی تصویریں انکے پاس پہلے سے تھیں، اور ثبوت بھی،،،،______“
ایچ اے آر کو اپنی اور الایہ کی ملاقات یاد آئی ، اسکا بلانا اسکی مسکراہٹ اسکی ادائیں اور سب سے بڑھ کر جان لیوا خوشبو، اسنے مٹھیوں کو مضبوطی سے جکڑ لیا،
دماغ کی نسیں سنسنا اٹھی ، اس وقت وہ ضبط کی آخری انتہاء پر تھا،،
شاید وہ کھیل جیت گیا تھا ایسا اسے لگا تھا مگر اصل بازی تو اب پلٹی تھی،،،
وہ جن کو اس کھیل کا بچہ سمجھتا رہا وہ سب اسکی ناک کے نیچے بڑے سکون سے اسکی سالوں کی ریاضت کو برباد کر چکے تھے،
سر بہت جلد فورس آپ کو ڈھونڈ کر مار دے گی ،
اور آپ کے تصویریں ہر جگہ وائرل کر دی گئی ہیں اب ہمارا بچ پانا نا ممکن ہے۔۔۔۔" کہتے ڈائون کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا جن ٹھوس ثبوتوں کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا تھا اس کے بعد کوئی بھی دیکھتے ساتھ ہی انہیں مارنے میں وقت نہیں لگائے گا۔۔
تتتت تم کک کیسے جانتے ہو یہ یہ سب_____” ایچ اے آر جس کا دماغ ہر وقت ایک الگ منصوبہ بنائے ہوتا تھا،،
اب وجود کے ساتھ ساتھ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا جیسے،،
ڈائون کو گریبان سے دبوچے وہ اس پر غرانے لگا۔۔۔
سس سر ہمارا آدمی جو فورس میں بھیس بدل کر شامل تھا۔۔۔
فورس نے اسے سارا سچ بتا کر بھیجا تھا۔۔۔ میں سب جانتے ہی اسے آپ کے پاس لانے لگا مگر وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔۔۔
ڈائون نے اسے حقیقت سے آگاہ کیا تو ایچ اے آر نے جھٹکے سے اسے چھوڑا
اور بے بسی سے چہرے پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔۔
لیلی ,اسے امید کی کرن نظر آئی،، لبوں پر زبان پھیرتے جیسے ہی نمبر ڈائل کیا،، آگے سے کسی مرد کی آواز اُبھری ،،
ایچ اے آر نے لیلی کے متعلق سوال کیا تو اسنے بتایا کہ وہ کسی گہرے صدمے کی وجہ سے بے ہوش ہو چکی ہے ۔۔۔
کال کٹ کرتے ہی اسنے ڈائون کو دیکھا ،، سر آپ کے ساتھ ملوث ہر شخص کو مار دیا گیا ہے ایک آپ اور لیلی میڈم بچے ہیں۔۔۔۔ انکا سارا دھندا تہس نہس ہو گیا ہے بلکل ہماری طرح ،،،
ڈائون کے بتانے پر ایچ اے آر نے افسردگی سے آنکھوں کو میچا ،،
سانس بند ہونے لگا تھا وہ وخشت زدہ سا بالوں کو نوچنے لگا۔۔۔
روزی،،،، ڈائون روزی اب صرف وہی ہے جو سب ٹھیک کر سکتی ہے تم جاؤ گے اس کے پاس کل کل کا دن وہ دن ہو گا جب میں ان سب کا دھیان بھٹکانے کو کچھ ناں کچھ کرؤں گا تب تم روزی کے پاس جاؤ گے جہاں پر ملنا طے ہوا تھا تم وہیں ملو گے اس سے۔۔۔۔۔
اور پھر جب ویام اور اسکی ٹیم کو انزک کے مرنے کی خبر ملے گی تب تک سب ختم ہو جائے گا، ۔
انکے صدمے سے ابھرنے سے پہلے ہی میں ایک ایک کرکے ان سب کو تباہ کر دوں گا۔۔۔۔
سب سے زیادہ اذیت ناک موت اس لڑکے کی ہو گی جس کی وجہ سے میری بیوٹی نے میرے ساتھ یہ کھیل کھیلا،،،
مٹھیوں کو بھینچے وہ حتمی لہجے میں بولتا،، اذلان کو یاد کرتے ہی نفرت سے دانت پیسنے لگا،،
کل کا دن ان سب کی زندگی میں ایسی تباہی لائے گا کہ یہ سب اور حصوصا وہ ویام پچھتائے گا کہ اس نے مجھ سے بھڑ کر کتنا غلط کیا ہے،،
یہ لو اسے بینڈج کر دو،” فرسٹ ایڈ باکس حور کے سامنے کرتے ایل نے نرم نگاہوں سے اسکے سراپے کو دیکھا۔
جو بنا دوپٹے کے کھلے بالوں میں ہاتھ میں موجود ہرن کے چھوٹے سے بچے میں مگن اپنے آپ سے بیگانہ تھی ،
نہیں میں خود دیکھ لوں گی تم اب جاؤ یہاں سے،، ایل کو یوں خود کو دیکھتا پاتے وہ نا محسوس انداز میں رخ موڑتے خود میں سمٹ سی گئی۔
اسے کوفت سی ہو رہی تھی اسکی نظروں سے، عجیب سی وخشت گھٹن طاری تھی اعصاب پر____،
سن شائن مجھے بات کرنی ہے یار پلیز ایک دفع میری بات سن لو،،،“
حور جیسے ہی کمرے کی جانب جانے لگی ایل نے بے ساختہ ہی ہاتھ تھامے اسے روکنا چاہا ،
خبردار جو آئندہ مجھے اس نام سے بلایا کوئی رشتہ نہیں میرا تم سے دور رہو مجھ سے،، اپنے ہاتھ جھٹکتے وہ غصے سے چیختے بولی،
تو ایل نے بے ساختہ لب بھینچ لئے ،،
اوکے اوکے میں کچھ نہیں کہہ رہا مگر پلیز تم ایسے مت کرو ،،مجھے ہرٹ کر رہا ہے تمہارا ایسا رویہ ،،“
ایل نے بےبسی سے کہا تھا حور کا رویہ اسے اندر سے مار رہا تھا، وہ ہر کسی کی نظر اندازگی برداشت کر سکتا تھا مگر صرف ایک وہ تھی جسکا نفرت سے دیکھنا ان آنکھوں میں جہاں وہ اپنا عکس دیکھنا چاہتا تھا۔
اب ان آنکھوں میں نفرت دیکھتا وہ بے بس ہو گیا تھا،
دل بے اختیار اس ستم گر کی چاہ کر رہا تھا جو اس سے پوری طرح سے بے رُخی برت رہی تھی ،
پلیز ایک بار معاف کر دو میں ساری زندگی تمہیں کبھی ہرٹ نہیں کروں گا یار پلیز صرف ایک بار،،،“
حور کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑتے وہ التجائی لہجے میں گویا ہوا۔
تو حور نے ایک بار اسکی نگاہوں میں دیکھا،اور پھر تلخی سے مسکرائی۔
کتنا آسان ہوتا ہے مردوں کیلئے۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی لڑکی کو لمحوں میں تباہ کر دینا،فقط ایک لفظ کیا ان کا سوری کہنا کسی بھی لڑکی کی اجڑی زندگی کو رنگوں سے بھر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔؟"
اگر مرد کرے تو مردانگی اور اگر عورت کرے تو بے حیا۔۔۔۔۔۔!"
اسکے چہرے کو طنزیہ نگاہوں سے دیکھتی وہ تلخ لہجے میں گویا ہوئی۔
ایل دم سادھے کئی لمحوں تک اسے دیکھتا رہا، یہ تو وہ جانتا تھا کہ اسکا ارادہ کیا تھا،کیوں کیا تھا اسنے یہ سب مگر اب اب اسے احساس ہوا تھا کہ شاید اسکی غلطی اتنی بڑی تھی۔
جس کی تلافی وہ چاہ کر بھی نہیں کر پا رہا تھا ،
اب کبھی میرے سامنے مت آنا تمہیں دیکھ کر میرے سارے زخم ہرے ہو جاتے ہیں،،،
ایل کے چہرے کو نفرت سے دیکھتی وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی،اور ٹھاہ سے دروازہ بند کر دیا۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
امن پلیز چھوڑو مجھے فریش ہونا ہے،،اپنی گردن میں لپٹے اسکے بھاری ہاتھ کو نکالنے کی کوشش کرتی وہ جھلاتے ہوئے بولی،
تو امن نے بمشکل نیند سے بوجھل آنکھیں کھولی،نظریں جیسے ہی بےحال ہوئی حیا پر پڑی ،شہد رنگ آنکھوں میں سرخی سی دوڑنے لگی ،
چھوڑنے کیلئے تھوڑے ہی قبول کروایا تھا تمہیں اپنا آپ،،،
اپنے ہاتھوں سے اسکی گردن پر دباؤ دیے اسنے جھٹکے سے اسے خود پر گرایا ، کروٹ بدلتے حیا پر سایہ سا کیے وہ مخمور لہجے میں بولا،
تو حیا کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔۔
ابھی تو اس سے رہائی ممکن ہوئی تھی ، وہ پھر سے اسے قید کرنے کے ارادے لیے شوخ نظروں سے اسے گھور رہا تھا،
اممن_____ حیا نے آنکھیں پھیلائے سر نفی میں ہلائے انکار کیا، تو امن نے مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھا جسکے چہرے پر پھیلا خوف اسے مزہ دے رہا تھا،
میری نیند خراب کر کے اب کہاں جانے کا ارادہ ہے ،،،اسکے بالوں میں۔ ہاتھ الجھائے اسکے چہرے کو اونچا کیے وہ گھبیر لہجے میں گویا ہوا تو حیا نے تھوک نگلتے خود پر سایہ فگن ہوئے اس شخص کو دیکھا،
جس کے آنے سے زندگی کا ہر رنگ ہر معنی بدل گیا تھا، کب سوچا تھا اسنے کہ خدا یوں بھی اسکی ہر تکلیف کا مداوا کرے گا۔۔۔
میں تم سے بڑی ہوں اور تم میری بات ماننے سے انکار نہیں کر سکتے،،،______!“
شہادت کی انگلی سے امن کی ناک کو چھوتی وہ بے حد سنجیدگی سے بولی،،،
اسکے برعکس امن پہلے اسے غور سے دیکھے گیا جیسے اسکی باتوں کا مطلب سمجھ رہا ہو اور پھر ایک دم سے ہنسنا شروع کر دیا۔۔
حیا کی پلکیں بھیگ گئی یہ سوچتے ہی کہ وہ اس پر ہنسا تھا۔۔
لب بھنچے وہ بے یقینی سے امن کو ہنستا دیکھ رہی تھی ، شاید آج سے پہلے وہ اس قدر اس طرح سے کھل کر کبھی نہیں ہنسا تھا یا پھر ہہلی بار حیا کے سامنے ایسے ہنسا تھا،
جب تم میری سرگوشیوں پر شرما کر پلکوں کی جھالر گراتی ہو ناں تب تب مجھے احساس ہوتا ہے کہ واقعی میں تم مجھ سے کتنی بڑی ہو ،،،
اسکے رخساروں پر اپنی شدت کی سرخی بکھیرتے وہ مسرور سا بولا،،
لہجے میں امڈتی شدت، چاہت ، الفت نے حیا کو حیا سے لبریز کر دیا۔۔
واقعی ایک چاہنے والا شوہر عورت کے ہر دکھ ہر غم کو ایک ایک کر کے اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے، وہ خوش تھی اسکی قسمت میں چاہا جانا لکھا تھا، ایک ایسا شوہر جس کی وفا کے حصار نے حیا تک آتے سارے غموں ساری تکلیفوں کو اس تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا تھا۔۔
اپنے ماتھے پر مان بھرا لمس محسوس کرتی وہ پرسکون سی خود کو اسکے سپرد کر گئی،، جس کی چاہت نے اسے ایک نئی دنیا دکھائی تھی جہاں صرف الفتِ عشق تھا امن کا حیا کے لئے وہ عشق جسے وہ چاہ کر بھی نفرت میں نہیں بدل سکا۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
ویام میں کل رات سے ویٹ کر رہا ہوں تمہارا_____ یار اب تو بتا دو کون ہے یہ بچی اور تمہیں ڈیڈا کیوں کہہ رہی ہے یہ کل سے۔۔۔“
تیمور جھنجھلا چکا تھا۔
کل رات سے سوچوں نے اسے پاگل کر دیا تھا۔۔
اب صبح سے ویام عنایت کے پاس تھا اسے کھانا کھلاتے ہی وہ میڈیسن دے کر تیمور کے پاس آیا ۔۔۔۔
کہیں یہ تمہارے کسی دوست کی بیٹی تو نہیں ،،___؟"
تیمور نے ماتھے پر بکھرے سیاہ سلکی بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے پوچھا آنکھوں میں تجسس ہنوز برقرار تھا۔۔
اسکے برعکس ویام کھڑکی کے پاس کھڑا ہاتھ میں تھامے کافی کے مگ سے گھونٹ بھرتے باہر کے نظارے میں مگن تھا۔۔۔
کیا میں نے آج تک اپنی دوستی میں کوئی دغا کیا ہے تمہارے ساتھ ،،،،؟"
تیمور نے گہری نظروں سے اسکی چوڑی پشت کو دیکھا۔۔۔
گرے شرٹ کے اوپر سلور کورٹ پہنے وہ ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے ایک دم سے مڑا، تیمور نے سرد سانس بھرتے ماتھے پر بکھرے ان بھورے بالوں کو دیکھا،
آنکھوں کے تاثرات وہ ہمیشہ سے پڑھنے میں ناکام رہا تھا، اب نظریں بار بار اسکے چہرے پر ابھرتے ڈمپل پر پڑ رہی تھیں۔۔۔
تیمور نے سر نفی میں ہلا دیا ۔۔ بلاشبہ وہ ہر رشتے کو مضبوطی سے نبھانے کے فن سے مالا مال تھا۔۔
تو تمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں اپنی سانسوں سے بغاوت کروں گا،، کیا تم نہیں جانتے کہ میرے گھر میں میری ملکیت میں موجود وہ چھوٹی سے لڑکی ویام کاظمی کے لئے کیا حیثیت رکھتی ہے____؟“
اسکے سوال پر تیمور کا سکون ملا تھا ویام کی آنکھوں سے نکلتے شعلے اسکے جنون کو عیاں کر رہے تھے آنکھوں میں عکس واضع تھا عیناں کا عکس۔۔۔۔۔
تو پھر اس حساب سے عیناں کی اینجل کو تین چار سال بعد اس دنیا میں آ کر تمہیں ڈیڈا بولنا چاہیے یہ ایڈوانس اینٹری کیسے_____!"
اب وہ پرسکون ہو چکا تھا جبھی اپنی ہلکی بڑھی بئیرئڈ کو کھجاتے سوال داغا ،،،
وہ بھی آ جائے گی ان شاء اللہ____ اور ضروری نہیں کہ رشتے خون کے ہی ہوں کچھ رشتے دل سے قریب ہوتے ہیں ایسا سمجھ لو کہ یہ ننھا سا وجود ایک سال سے تمہارے دوست کے دل کا سکون بن چکا ہے۔۔۔۔۔"
ویام نے محبت سے کمرے سے نظر آتی عنایت کو دیکھتے کہا تو اسی محبت پر تیمور کو رشک ہوا تھا ،،
اگر ایسی بات ہے تو آج سے اینجل میرے دل کا بھی سکون ہے۔۔۔۔۔"
تیمور مسکراتے ویام کے قریب ہوا تو اسکے جواب پر ویام نے اسے سینے سے لگایا ،،،
دل میں شدت سے عیناں کو دیکھنے کی چاہ نے کروٹ بدلی تھی مگر اینجل کی ایسی حالت کے پیشِ نظر یہ ممکن نہیں تھا۔۔۔۔
میرا ایک کام کرو گے تیمور_____" تیمور جیسے ہی اس سے الگ ہوا،،
ویام نے بے قراری سے کہا،،، اب جب سب کچھ ٹھیک تھا تو وہ عیناں کو چاہ رہا تھا اپنے قریب اپنی دھڑکنوں سے بھی زیادہ قریب ابھی تو اسنے قربت کا قرار بھی نہیں چکھا تھا،، پھر سے یہ دوری اسکا مقدر بنی تھی۔
وہ جلد از جلد عیناں کو اپنے قریب چاہتا تھا بے حد قریب______"
تم حکم کرو یار میں تمہارے کس کام آ سکتا ہوں ،،،______"
تیمور نے مسکراتے سر کو حم دیتے اسے چھیڑا ورنہ عیناں کے نام سے اسکے چہرے پر پھیلی بے قراری وہ نوٹ کر چکا تھا۔
عین_______" ویام نے شدت سے اس نام کو لبوں سے ادا کیا آنکھوں میں سرخی سی چھانے لگی______ آخری بار اسکا گلابی گلال سا چہرہ اپنی بانہوں میں بھرے وہ لمحات یاد آئے تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی نظریں جھکا گیا۔۔
ایک صرف وہی تھی جس کے آگے وہ بے بس تھا دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچانے والا لوگوں کے دماغ سے کھیلنے والا ویام کاظمی صرف اس کے آگے ہار جاتا تھا جس کے آگے سب کچھ بے کار تھا، بےضرر،،
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
تم کیوں نہیں بتا رہے مجھے کڈنیپر_____ کیا وہ لڑکی تمہاری منگیتر ہے اور تم اسے پسند کرتے ہو،،؟"
تم کیوں ایک ہی سوال دہرا رہی ہو روز____ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہو یار______!“
گاڑی پارکنگ ایریا میں روکتے انزک پوری طرح سے رخ موڑے اسکی جانب متوجہ ہوتے بولا تھا
۔۔
جس کی آنکھوں میں ایک انجانا سا ڈر ہلکورے مار رہا تھا،،
تم بس اتنا بتاؤ کیا تم اسے پسند کرتے ہو،،،؟“ روز نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا__
کل سے دل و دماغ میں جو بے چینی سوار تھی اب وہ دل و دماغ سے نکلتے لبوں کی زباں سے ادا ہو رہی تھی ،
وہ جانتی تھی وہ بہت کم وقت تک اسکے پاس تھی پھر شاید آج آخری مرتبہ مگر پھر بھی دل اس کی کسی دوسری لڑکی سے محبت پر تڑپ رہا تھا ،
ایک انجانا سا خوف تھا جو اسکی رگوں میں زہر بن کر پھیل رہا تھا۔۔۔
ہاں میں کرتا تھا اسے پسند وہ میری بیسٹ فرینڈ ہے روز اور یہ جذبات صرف میری طرف سے تھے، مگر گزرتے وقت میں جب قمست تمہیں میری زندگی میں لائی۔۔۔۔۔
تب مجھے احساس ہوا کہ نہیں وہ سب سچ نہیں وہ مخض آنکھوں کا دھوکہ ایک فریب تھا اصل محبت تو فقط تم سے ہے ایسی محبت جس میں شدت ہے۔۔
اتنی کہ اب تم بھی چاہو تو مجھے خود سے دور نہیں کر سکتی ،،،
روز کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ ایک ایک نقش کو ازبر کرتا اس قدر جذب کے عالم میں بولا۔۔۔۔
کہ روز سانس روکے اسکی آنکھوں میں جھلکتے اپنے عکس کو دیکھ کھو سی گئی۔۔۔
دل کی دھڑکنوں نے بغاوت پکڑی تھی اس شخص کا ساتھ عزیز ہوا جا رہا تھا جس کے ساتھ گزارا ہر لمحہ مخض ایک فریب تھا۔۔۔
وہ فریب جسے وہ جان بوجھ کر کھیلتی آ رہی تھی ،،
احساسِ ندامت سے پہلے احساس نفرت نے زور پکڑا تھا۔۔۔
یہ سب لوگ مجھے جھوٹے کیسز میں پھنسا کر جان سے مار دینا چاہتے ہیں روز میں پچھلے چار سالوں سے مارا مارا پھر رہا ہوں بچے مجھے اب صرف تم ہی بچا سکتی ہو______!“
ایچ اے آر کی آواز اسکے دماغ کے پردوں پر سرسرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دم سے انزک کے ہاتھوں کو جھٹکتے وہ رخ پوری طرح سے گھمائے باہر کے منظر میں کھو گئی۔۔۔
انزک نے حیرت سے اسکے اس روپ کو دیکھا اور پھر سرد سانس فضا کے سپرد کیے گاڑی سے باہر نکلا______،
بس کچھ پل کا وقت اسکے بعد وہ روز کو ایچ اے آر کا سچ بتا کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوچ آتے ہی انزک کے لبوں کو دلکش مسکراہٹ نے چھوا،،
اسنے اپنے ہاتھ میں موجود اس نازک ہاتھ پر گرفت مضبوط کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر شاید وہ انجان تھا کہ جس لڑکی کو اپنی زندگی میں سب سے اونچا مقام دینے کو وہ بے تاب تھا۔
درحقیقت وہ لڑکی اسے موت کے قریب لے جا رہی تھی ۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
میں کہہ تو رہا ہوں یار اب بس کریں مجھے آج ابھی اور اسی وقت رخصتی چاہیے______!“
اذلان نے دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے اپنا مدعا امن اور اشعر کو بیاں کیا۔۔۔۔۔
جس نے صبح ہی صبح دونوں کو اپنے کمرے میں بلاتے عدالت لگا رکھی تھی۔۔
حالت دیکھو یہاں کی کمینے انسان،،، تجھے ذرا شرم نہیں آ رہی اتنی نازک حالت میں بھی تجھے اپنی رخصتی کی پڑی ہے۔۔۔۔۔“
امن نے ایک ہاتھ پاس بیٹھے اشعر کے کندھے پر پھیلائے رکھا اور پھر دوسرے ہاتھ سے صوفے پر پڑا کشن اٹھائے سامنے کھڑے اذلان کی طرف اچھالا۔۔۔۔۔
کیا مطلب کون سی نازک حالت۔۔۔۔یار حور سیو ہے اپنے شوہر کے پاس جب وہ بندہ اسے لے گیا ہے تو مطلب اسنے اپنا لیا ہے اسے،،،،اسی وجہ سے وریام انکل بھی خاموش ہیں۔۔۔
آج نہیں تو کل وہ گھر واپس آ جائے گی ۔۔۔۔مگر اس سے میری رخصتی کا کیا تعلق ہے۔۔۔۔۔!“
اب اسکا نشانہ اشعر پر تھا۔۔۔
چہرہ پر انتہائی درجے کی معصومیت سجائے وہ اسکے گھٹنوں کے قریب بیٹھتے بولا ۔۔۔
تو اشعر نے محبت سے اسکے بال سہلائے۔۔۔۔۔۔معاملہ بنتا دیکھ وہ پورے دانتوں کی نمائش کرتا ہنسنے لگا۔۔۔
بیٹا جب حور واپس آئے گی تو تب ہم۔رخصتی کر لیں گے ابھی کون سا ہمیں جلدی ہے ۔۔۔۔۔“
اشعر نے مسکراہٹ ضبط کرتے کہا تو امن نے بمشکل سے قہقہ ضبط کیا اور آگے پیچھے دیکھنے لگا ۔۔۔
تو مطلب جب وہ اپنے دو تین بچوں اور شوہر کے ساتھ واپس آئی تب کریں گے آپ میری رخصتی_______؟“
صدمے سے اسی سانولی رنگت میں گھلتی سرخی اسے مزید پرکشش بنا رہی تھی ۔
سیاہ آنکھوں میں کشش تھی جو اسے سب سے الگ بناتی تھی۔۔
ہاں بیٹا ہمیں کوئی پروبلم نہیں تبھی کر لیں گے رخصتی ،،،،“ امن نے اسکے سرخ پڑتے گالوں کو پیار سے کھینچتے کہا،،
تو اذلان کا منہ لٹک گیا ۔
پروبلم ہے ڈیڈ میرے بیس بچیس بچے اوپر بیٹھے رو رہے ہیں کہ ڈیڈ اب نیچے بلا لو اور آپ کہہ رہے ہیں پروبلم نہیں آخر جلدی پروسیس شروع ہو گا تو ہی تو وہ سارے میرے پاس آ سکے گے۔۔۔۔!“
انتہائی بے باکی سے کہتے وہ آخر میں سر نفی میں ہلاتے اٹھا۔۔۔۔
جبکہ اشعر اور امن تو ایسے تھے جیسے بولنے کے لئے لفظ ہی ناں بچے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔اتنے گھٹیا پن کی توقع ان دونوں کو نہیں تھی۔۔
معا ڈور ناک کرتے الایہ اندر داخل ہوئئ۔۔۔۔۔
بظاہر وہ تاثرات چھپا چکی تھی مگر آنکھوں کی بدلتی رنگت چہرے پر بکھرتا گلال دیکھ اذلان کافی اچھے سے سمجھ چکا تھا کہ محترمہ سب سن چکی ہیں۔۔
ویسے بھی دروازے سے کان لگانا اسکی پرانی عادت تھی۔۔۔۔
اذلان ایمرجنسی ہے ہمیں نکلنا ہے____ میں نیچے ویٹ کر رہی ہوں جلدی آو۔۔۔۔۔۔"
امن اور اشعر کو مسکراتے سلام کیے وہ ازلان سے کہتے فورا سے بھاگی تھی۔۔۔
تجھے کیا ضرورت ہے کمینے رخصتی کی جا تیری بیس بچیس بچوں کی ماں تجھے یاد کر رہی ہے۔۔۔۔۔!“
امن نے ہنستے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے لقمہ دیا تو وہ برے سے منہ بناتا روم سے نکلا۔۔۔۔۔
اشعر اور امن کے قہقہوں کی آوازیں اسے دور تک سنائی دی تھی جسے سنتے وہ پرسکون سا مسکرایا ____
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
کیا لینے آئے ہو یہاں تم نکلو اس سے پہلے کہ کسی کو بھی تمہارے آنے کے بارے میں پتہ چلے___!“
بیڈ پر آرام سے لیٹے تیمور کو دیکھ میرب پہلے تو چونکی پھر اپنا وہم سمجھتے سر جھٹک کر ڈور لاک کیے بیڈ کی جانب آئی ،
مگر اسکا وہم وہ سیکنڈوں میں دور کر چکا تھا ،،
جب خوبصورت من چاہی بیوی گھر سے بنا بتائے غائب ہو جائے تو شوہر کو اس کے پیچھے خوار ہونا پڑتا ہے بلکل میری طرح______"
ایک دم سے اسے ہاتھ سے پکڑتے وہ خود پر گرائے مخمور لہجے میں بولا،
ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی تھی جبکہ ہاتھ میرب کے گھنگھریالی زلفوں کو سہلا رہے تھے،
دد دیکھو تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے تو اب میں تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جا رہی۔۔
تم چھوڑو مجھے_______!“ اپنے چہرے پر تیمور کا محبت بھرا لمس میرب کے حواس شل کرنے لگا،
وہ بمشکل سے سر پیچھے کیے۔ جھکی نگاہوں سے بولی۔۔۔۔
تو تیمور نے ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھا اور پھر میرب کو دیکھا۔۔۔۔
تمہیں مجھ سے لڑنے کی اجازت ہے میر مجھے مارنے کی پیٹنے کی مگر_____خود سے دور جانے کی اجازت تیمور شیرازی کبھی نہیں دے گا تمہیں۔۔۔۔۔!“
لمحوں میں اسکی کمر کے گرد ہاتھ حائل کیے وہ اسے بیڈ پر لٹائے سایہ سا کر گیا ۔۔۔
میرب نے لب مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست کیے۔۔۔۔
بولنے کو جیسے کچھ بھی نہیں تھا پاس یا پھر وہ بے فضول کی بحث سے بچنا چاہ رہی تھی۔۔۔۔۔
تیمور پلیز____ اسکی بڑھتی وارفتگی میرب کی سانسوں کو تیز تر کرنے لگی ۔۔
اپنی گردن پر اسکا دہکتا لمس اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر گیا۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ اچھے سے اپنے کیے کی معافی مانگوں تم سے اور یہ سب تبھی ممکن ہو پائے گا جب تم خود سے میرے ساتھ جاؤ گی ۔۔۔۔۔
میرب کے کان کی لو پر لب رکھتے عجیب سی فرمائش کی تھی ۔۔
ایک سکون سا تھا جو تیمور شیرازی اس قربت میں آنکھیں موندے ہوئے محسوس کر رہا تھا ،
تیمور تم کچھ نہیں جانتے یہاں کیا کچھ ہو گیا ہے حور کہیں چلی گئی ہے۔۔
مطلب کسی نے اسے کڈنیپ کر لیا ہے اور اب مجھے عیناں بھی نہیں دکھ رہی کہیں بھی ۔
مجھے اتنا ڈر لگ رہا ہے،،
وہ رات تک روم میں تھی میں ابھی گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔میں نے ہر جگہ دیکھ لی سب سے پوچھ لیا مگر وہ کہیں بھی نہیں۔۔۔۔۔"
سرمئی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک دم سے آنسوں جھلک پڑے تھے۔۔
بھلا وہ کیسے اتنی بڑی بے وقوف ہو سکتی تھی،
اسکا۔خیال بھی نہیں رکھ پائی۔۔۔۔
فکر مت کرو میر _____ حور مل جائے گی بہت جلد اور عیناں کی بھی فکر مت کرو تم صرف اپنے شوہر پر دھیان دو۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسکی آنکھوں سے بہتے آنسوں کو لبوں سے چنتے وہ گھبیر لہجے میں بولا تو میرب نے گہرا سانس اس خوشبو میں بھرا۔۔۔۔
کیونکہ عیناں اپنے شوہر کے پاس پہنچ چکی ہے جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔۔
اب تم صرف اور صرف مجھ پر توجہ دو۔۔۔۔انکھوں سے رخسار کا فاصلہ طے کرتے وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔۔۔
مگر میرب نے کوئی بھی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔۔
اوکے اب تم بنا کسی قسم کی فضول بحث کے میرے ساتھ چل رہی ہو ورنہ ہنی مون بھی اسی روم میں منا لیں بعد میں شکایت مت کرنا۔۔۔۔۔۔“
اپنا ایک ہاتھ شرٹ کے بٹنوں پر رکھتے وہ وارننگ دیے انداز میں بولا ۔۔
تو میرب نے آنکھیں پھیلائے فورا سے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اسے روکا۔۔۔۔
تیمور نے مسکراتے اسکی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
اور ایک دم سے اسکے لبوں پر جھکتے اسے خود میں الجھا گیا۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
اسکی آنکھ کھلی تو خود کو انجان جگہ پر دیکھ وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی ،،
آنکھوں میں خوف سموئے وہ اپنے چاروں اطراف دیکھنے لگی____
چھوٹے سے بیڈ کے سامنے موجود ایک چھوٹا سا ٹو سیٹر صوفہ موجود تھا،، جس کے علاؤہ ایک چھوٹی سی الماری تھی سامنے ایک جانب درمیانی سائز کی کھڑکی میں سے جھانکتی چاند کی روشنی کمرے کو نور بخش رہی تھی،
دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔۔۔۔
پورے کمرے کا تصدیقی جائزہ لینے کے بعد وہ گھٹنوں کو فولڈ کیے خود میں سمٹ سی گئی۔۔۔
اسے لگا شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔۔۔ڈر سے آنکھوں میں وخشت ناچنے لگی،،،
سنہری بال پوری طرح سے اسکے چہرے پر لپٹے ہوئے تھے،
جبکہ وہ اپنے حال سے بےگانہ ایک انجانے سے خوف میں مبتلا اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ رہی تھی۔۔۔۔
رنگت زرد پڑنے لگی تھی،، جیسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہو،،،،انکھوں کے سامنے برے خواب کی مانند وہ دماغ کی سلیٹ سے چپکے لمحات لہرائے تھے____
یقیناً وہ جانتی تھی اگر اس وقت اسے بچایا ناں گیا ہوتا تو آج شاید ہی وہ زندہ بچ پاتی___
اسکے لب پھڑپھڑانے لگے،، گرے کانچ سی آنکھوں میں دھند سی چھانے لگی۔۔
عیناں نے بمشکل سے اپنے ہلتے لبوں کو پیوست کیا،،
اسے لگا شاید وہ کسی برے خواب کے زیر اثر ہے ۔۔۔۔مگر یہ حقیقت کسی خواب سے بھی بری ثابت ہونے والی تھی ۔
معاً دروازہ کھولتے کوئی اندر داخل ہوا، قدموں کی چاپ پر وہ خوف سے کسی سہمی ہرن کی مانند اس سائے کو دیکھ پھڑپھڑانے لگی مگر ہونٹوں سے ایک لفظ بھی ادا نہیں ہو پا رہا تھا__
نو نو______"وہ سر زور شور سے نفی میں ہلاتے بڑبڑا رہی تھی ۔
ویام اسے بڑبڑاتا دیکھ گھبراتے بیڈ کی جانب بڑھا اسکے قریب بیٹھا۔۔۔۔
عین کیا ہوا ہے یار میں ہوں ویام____!" اسے سینے میں بھینچے وہ رونے سے اسکے لرزتے وجود کو تھپکنے لگا،،،
ایک دم سے وہ بالکل ساکت ہو گئی جسے محسوس کرتے ویام نے اسکا چہرہ اپنے سامنے کیا___
جو بے ہوش ہو چکی تھی ،، ویام نے حیرت سے اسے دیکھا جس کی رنگت زرد پڑ چکی تھی ،،
آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ رہے تھے ،، اسنے بے احتیار نچلا لب دانتوں تلے دبایا اور انگلی کے پوروں سے ان آنکھوں کو چھوا۔۔۔۔۔
اسکا دل بے چین تھا وہ سمجھ ناں پایا عیناں کے اس قدر خوف اور ڈر کا سبب______ بے حد نرمی سے اسے گود میں بھرتے وہ بیڈ کروان سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
یقین ہے مجھ پر_______!" اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے مسکرایا گویا جانتا ہو جواب کیا ہو گا_____
روز نے نرم مسکراہٹ سے سر ہاں میں ہلایا اور نظریں جھکا لیں__
انزک نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھاما جیسے یقین کرنا چاہا ہو کہ وہ اسکے ساتھ ہو گی ہر قدم پر______
لفٹ کا بٹن دبائے وہ روز کو حصار میں لیتے اندر بڑھا اور پیچھے ٹیک لگانے کے سے انداز میں کھڑا ہوا۔۔
روز کا دل گھبرا رہا تھا اپنی حالت سمجھنے سے وہ خود ہی قاصر تھی۔۔۔۔
کیا ہوا جان اتنا پریشان کیوں ہو_____؟“
روز کے چہرے کے بدلتے رنگ انزک کو حیرت میں ڈال رہے تھے ،
اسنے ہاتھ روز کی گردن میں ڈالے اسے کھینچتے اپنے نزدیک کیا۔۔۔۔۔
جو بمشکل سے مسکرائی اور سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔
نتھنگ____" اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کرتی وہ دھیمی آواز میں بولی ،
تو انزک نے اسے تھامے رخ اپنی جانب کیا۔
اور شدت سے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا،روز کئی لمحوں تک اس لمس کو اپنے ماتھے پر محسوس کرتی رہی،
وہ گھبرانا نہیں چاہتی تھی مگر وہ گھبرا رہی تھی، ٹانگیں بری طرح سے شل ہو چکی تھی۔
چہرہ پسینہ سے تر تھا
روز یار کیا ہو گیا ہے آر یو اوکے_____؟" بیچینی سے اسکے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے وہ پریشانی سے پوچھنے لگا،،
چلو ہم پہنچ آئے،،،
سرد سانس خارج کیے وہ بات اگنور کرتے لفٹ سے باہر نکلی۔۔۔
انزک اسکے پیچھے ہی باہر نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں رائٹ سائیڈ روم میں داخل ہوئے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔۔۔
انزک نے ہاتھ بڑھاتے لائٹ آن کی۔۔۔۔۔ کمرہ سفید روشنیوں سے جگمگا اٹھا،،
اچانک کچھ غیر معمولی احساس کے تحت وہ اچانک سے مڑا تو نظر کمرے پر پڑی روز دور کھڑی تھی اسکے چاروں اطراف گارڈز تھے۔۔
آنکھوں میں اجنبی سے تاثرات لیے وہ ڈائون کے قریب کھڑی ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
انزک نے کئی لمحوں شل ہوئے دماغ سے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم سب ایچ اے آر کو برباد کر لو گے اور وہ خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھتا رہے گا،،،،
اگر تمہاری سوچ ایسی ہے تو بہت غلط ہے مسٹر انزک_____!"
ڈائون نے کہتے ساتھ ہی گن نکالتے روز کی جانب بڑھائی جسے وہ تھام چکی تھی مگر نظریں ہنوز انزک پر تھیں۔۔۔
گن تھامے دھیرے سے چلتی انزک کی جانب آئی،،،انزک کی آنکھوں میں اب تمسخر تھا اپنی ذات اپنی محبت کے لیے ۔۔۔۔اسکے لبوں پر زخر حند سی طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔
تو سب کی بات سچ ثابت ہوئی ایک مکار شخص کی بہن کبھی بھی معصوم نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔تو مس روزائکہ علی راج آپ کامیاب ہوئی میرے جذبات میری محبت کا مذاق بنانے میں______جب سب کچھ ایک کھیل ہی تھا دیکھ کیا رہی ہو چلاؤ گولی۔۔۔۔۔۔!“ بانہیں پھیلائے اسے دیکھ انزک نے سنجیدگی سے کہا تو روز نے گن اسکے سینے پر رکھی۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو تمہیں روز ڈارلنگ بالآخر وہ کام کر ہی لیا تم نے جس کے لئے یہاں آئی تھی۔۔۔
انزک کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی کرچیاں تھیں۔۔۔انکھوں میں عیاں ہوتے جذبات وہ دیکھ کر بھی نظر انداز کرنے لگی ۔۔۔۔۔
مارو روزی ایچ اے آر ویٹ کر رہا ہے۔۔۔ ڈائون نے اکتاہٹ سے کہا تو روز نے گردن موڑے اسے دیکھ سر ہاں میں ہلایا اور پھر گن انزک کے سینے پر رکھتے ایک دم سے آنکھیں بند کیے فائر کیا۔۔۔۔۔
بیسمنٹ کی دیواروں میں کئی لمحوں تک اس کی آواز گونجی۔۔۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
کہاں جانے کا ارادہ ہے بیگم______!“ کمرے میں داخل ہوتے ہی نظریں مرر کے سامنے کھڑی حیا پر پڑی جو بالوں کو برش کر رہی تھی،
چہرے پر خوبصورت رنگ تھے امن کی محبت اسکے ساتھ کے حسین رنگ، جس نے حیا کو مہکا دیا تھا اپنی خوشبو میں____ اس قدر کہ وہ خود کو اسی کا حصہ سمجھنے لگی تھی۔۔۔
میں پھپھو اور انکل کے ساتھ جا رہی ہوں فدک آنٹی کو لینے،،،،
وہ مسکراتی رخ موڑے چہکتے اسے آگاہ کرنے لگی، امن نے ہاتھ سینے پر باندھے اسے بغور دیکھا جو سکائے بلیو کلر کی گھٹنوں تک جاتی گھول گھیرے دار سکرٹ پہنے بالوں کو باندھنے کی تیاری کرتی بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔۔
امن نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیے اسے ہاتھ سے پکڑتے اپنے قریب کیا۔۔۔۔حیا نے آنکھیں سکوڑے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
تم وہاں آنٹی سے ملنے جا رہی ہو شوہر تمہارا اکیلا گھر پر ہے تو کیوں ناں یہ ساری تیاری گھر واپس آ کر کرنا تاکہ میں تمہیں اچھے سے سراہ تو سکوں______"
حیا کے ہونٹوں پر لگے پنک لب گلوز کو اپنے انگوٹھے سے صاف کرتے وہ گہرے بے باک لہجے میں بولا تو حیا نے منہ بسورا۔۔۔۔۔
تو تم بھی ساتھ چلو۔۔۔۔ چہرہ پیچھے کرتے وہ فری کی آفر دینے لگی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اتنی محنت سے وہ تیار ہوئی تھی۔۔
اور دو منٹ میں وہ اسکی ساری تیاری اب ایک ایک کر کے خراب کر رہا تھا۔۔۔۔۔
نہیں مجھے کچھ ضروری کالز کرنی ہیں وہاں جا کر بھی مصروف ہی رہوں گا تو اس سے اچھا یہ ہوا ناں کہ تم ہو کر آ جاؤ تب تک میں بھی اپنے کام سے فارغ ہو جاؤں گا اور پھر تم اچھے سے تیار ہونا صرف میرے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حیا کے کانوں سے جھمکے اتارتے وہ کان کی لو کو لبوں سے چھوتے مخمور سے لہجے میں فرمائش کرنے لگا۔۔۔۔
مگر امن مجھے پھپھو نے کہا ہے کہ اچھے سے تیار ہو کر چلو ہم آج اذلان کی شادی کی بات بھی کریں گے تو میں اس کی اکلوتی بھابھی اور بہن بھی تو ہوں_______"
اسنے یاد دلانے والے انداز میں اسے روکنا چاہا جو دھیرے سے اسکے گالوں کو صاف کر رہا تھا۔۔۔۔
تمہاری شادی ہو چکی ہے لخت جگر_____ اور یقین جانو مجھے دوبارہ سے تم سے شادی کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں کیونکہ پھر مجھے مجبورا تم سے کچھ دنوں تک دور رہنا پڑے گا
اور اب تم سے ایک پل کی دوری سوہان روح ہے میرے لئے اور میں ایک شادی سے بے حد خوش ہوں ۔۔۔۔۔ اسکے گالوں کو باری باری چومتے وہ محبت سے بولا۔۔۔
تو حیا نے سر افسوس سے نفی میں ہلایا ۔۔
اور اگر میں ناں رہی تو پھر کیا کرو گے پھر تو تو دو دن بھی نہیں رہو گے فورا سے شادی کر لو گے مگر ایک بات یاد رکھنا اگر میرے سوا کسی دوسری لڑکی کے بارے میں سوچا بھی ۔۔۔۔
تو پہلے تمہارا دماغ اڑاؤں گی اور پھر تمہیں_____" امن کی گردن میں بانہوں کا ہار ڈالے وہ استحقاق سے بولی تو امن کی آنکھوں میں حرارت پیدا ہوئی۔۔۔۔۔
تمہارے سوا کوئ دوسری امن علوی کے دل میں تو آ سکتی ہے مگر بھاوں کے لئے اسکی لخت جگر واحد پیس ہے جسے بہت پاپڑ بیل کر اپن نے حاصل کیا ہے______!"
اسکی تھوڑی پر لب رکھے وہ اسے خود میں سمیٹتے گھمبیر لہجے میں بولا تو حیا نے مسکراتے سکون سے آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
دیکھو تمہاری ماما تمہیں ڈھونڈ رہی ہو گی اب تم ٹھیک ہو گئے تو بس جلدی سے اپنی ماما کے پاس بھاگ جاؤ ،،،
اور ہاں میں تمہیں بہت یاد کروں گی۔۔۔۔!“ اسے گلے سے لگائے وہ نم آنکھوں سے بولی ،
دل میں ابھی بھی خوف تھا مگر اس وقت سورج ڈھلنے کے نزدیک تھا۔۔۔۔۔اسنے جلدی سے ہرن کے بچے کو نیچے اتارا جو فورا سے چھلانگیں لگاتا جنگل میں کہیں گم ہو گیا۔۔
حور کافی دیر اس جگہ کو دیکھتی رہی سیاہ آنکھوں میں آنسوں تھے مگر اس بات کی بے حد خوشی بھی کہ وہ بے بی اپنی ماما کے پاس ہو گا اسکی ماں بھی تو اسے ڈھونڈ رہی ہو گی۔۔۔
گہری سانس کھلی فضا کے سپرد کرتے حور نے آنسوں اپنی ہاتھ کی پشت سے رگڑے اسے شدت سے نیناں اور وریام کی یاد آ رہی تھی ۔
تھکاوٹ سے جسم ٹوٹ رہا تھا شاید دو دن سے کچھ ناں کھانے کی وجہ سے ایسا تھا۔۔۔۔
ایل دو دن سے اسکے سامنے نہیں آیا پہلے چند دن تو کھانا وقت پر اسکے کمرے میں پہنچ آتا تھا۔۔۔
ساتھ میں دھمکی بھی کہ اگر کھانا ناں کھایا تو وہ اپنے ہاتھوں سے کھلائے گا ملازمہ اپنا آپ کرتے چپ چاپ چلی جاتی تھی اور دو دن سے کوئی نہیں تھا ۔۔۔
ناں ہی اسنے کھانے کے بارے میں سوچا تھا اس شخص کے دیے ہر لقمے کو وہ زہر سمجھ کر کھا رہی تھی ۔۔
جانتی جو تھی کہ بھاگنے کے لئے خود میں اتنی ہمت ہونا ضروری ہے کہ وہ اس جگہ سے نکل کر واپس اپنوں کے بیچ جا سکے۔
وہ آہستگی سے چلتی اندر آئی،،،دروازے کو اندر سے لاک کرتے نظریں جب کچن کی جانب اٹھی تو بھوک سے پیٹ میں چوہے کودنے لگے۔۔۔۔
حور نے ایک نظر آگے پیچھے ڈالی اور پھر کسی کے ناں ہونے کا یقین کرتے وہ دبے قدموں سے کچن میں آئی۔۔۔
کھانے کا کوئی خاص سامان تو اسے نظر نہیں آیا مگر پھر بھی وہ چٹ پٹا سا ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔
سارے کیبنٹ چیک کرتی وہ نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھی سامان باہر نکالے دیکھنے لگی
اچانک نظر ایک بند پیک پر پڑی،وہ یونہی گود بنائے بیٹھ فرصت سے پیک کو کھولنے لگی۔۔۔
املی کو دیکھ ہی حور کے منہ میں پانی بھر آیا۔۔ اب وہ مزے سے کھانے میں مگن تھی ایسے جیسے اس سے زیادہ اہم کوئی اور کام ناں ہو۔۔۔۔
وہ کمرے میں آیا مگر غیر ارادی طور پر کمرہ حالی تھا_____
ایل کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ تیزی سے نیچے اترا چاروں اطراف جنگل تھا یقیناً وہ اندر ہی کہیں تھی ۔۔۔
مگر اس وقت اسے سامنے ناں پاتے وہ کسی پاگل کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
ہر جگہ تلاشنے کے باوجود بھی اسے ناں پاتے ایل نے سرد سانس فضا کے سپرد کی اور پھر اپنے اطراف میں پھیلی خوشبو میں گہرا سانس بھرا۔۔۔
قدم خود بخود کچن کی جانب اٹھے تھے لیکن سامنے کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔
ایل کے ہونٹ دلکشی سے مسکرائے وہ چلتا کاؤنٹر کی دوسری جانب گیا،،
اپنی پہنی جینز کو ہاتھ سے اوپر کیے وہ گھٹنوں کے بل جھکتا نیچے بیٹھا۔۔۔۔
حور کی پشت ایل کی جانب تھی،، کھلے سیاہ گھنے آبشار حور کی کمر سے نیچے تک بکھرے کسی سنہری رات کا سا منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔
ایل نے پہلی بار ان سیاہ زلفوں کو یوں کھلا دیکھا تھا۔۔
آنکھیں جزبات کی حدت سے بوجھل ہونے لگی،، دھڑکنوں کی رفتار مدہم سی ہوئی۔۔۔غیر ارادی طور پر اسکا ہاتھ خود سے اٹھا تھا دل میں اٹھی خواہش کے تحت وہ ان سیاہ آبشاروں کو چھوتے محسوس کر لینا چاہتا تھا۔۔۔
مگر اپنے پیچھے کسی کو محسوس کیے حور جھٹکے سے مڑی۔۔۔۔
ایل کے ہاتھ کو دیکھ ان سیاہ جھیل سی آنکھوں میں خوف منڈلانے لگا۔۔۔۔
ایل نے ایک نظر حور کے ہاتھ میں تھامے اس باکس کو دیکھا اور پھر حور کے چہرے کو،،جو پوری طرح سے بے ترتیب سا املی سے بھرا تھا۔۔
کوئی اور ہوتا تو شاید ناگواری سے رخ موڑ لیتا۔۔۔مگر وہ ایل تھا جسے اپنی سن شائن کی ایک ایک سانس سے عشق تھا ناگواری تو کوسوں دور تھی اس کے معاملے میں۔۔۔
وو وہ مممجھے ببببھوک للگی۔۔۔۔۔" حور کا چہرہ شرم اور ڈر کے ملے جلے تاثرات سے دہک اٹھا،، دو دن سے کچھ ناں کھانے پر اب اسے جو املی دیکھ ہی بھوک نے آن گھیرا۔ اور وہ اسی کو کھا رہی تھی۔۔۔
جبکہ ایل اسکی کنڈیشن سے بخوبی آگاہ تھا۔۔۔جبھی بے حد نرمی سے کسی کانچ کی گڑیا کی مانند اسنے نرمی سے اس نازک سی جان کو اپنی بانہوں میں سمیٹا۔۔۔۔
حور کے چہرے پر تاریک سایہ لہرایا۔۔۔۔۔ جسے ایل نوٹ کرنے کے باوجود بھی اگنور کر گیا۔۔
ایل نے دھیمے سے اسے کاؤنٹر پر اپنے روبرو بٹھایا۔۔۔۔
جو نظریں جھکائے بھاگنے کو پرتول رہی تھی۔۔۔
ایل نے بنا کچھ کہے بےحد شدت سے اس معصوم چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔۔۔۔
حور ہمیشہ کی طرح خوفزدہ سی بنا اختججاج کے لرزتے وجود سے اسکے سامنے بے بس سی بیٹھی تھی۔۔۔۔
ایل نے شدت سے اپنے ہونٹوں سے حور کے گالوں کو صاف کیا جو سانس روکے اس شدت بھرے لمس پر وخشت زدہ سی تھی۔۔۔
ایل کے سلگتے ہونٹ بے باکی سے حور کے چہرے پر جابجا اپنا لمس چھوڑتے اسے بے بس کر رہے تھے۔۔
جانتا ہوں میری قربت تمہیں بے چین خوفزدہ کر دیتی ہے،،مگر میرا عشق ہر بار مجھے مجبور کر دیتا ہے ورنہ میں پہلے کسی کے معاملے میں اتنا خودغرض نہیں تھا۔۔۔
وہ سمجھ نا پایا کہ وہ کیسے اپنے دل کا حال کن لفظوں میں عیاں کرے،،
حور کی جھیل سی سیاہ آنکھوں میں جھلکتے آنسوں ایل کے خوف کی نشاندھی تھے۔۔۔جنہیں دیکھ بے ساختہ ہی ایل نے اپنے لبوں سے چنتے جیسے اس درد کو کم کرنا چاہا تھا۔۔
حور نے بری طرح سے اپنے کپکپاتے لبوں کو میچا۔۔۔۔ اپنے روم روم میں بسی اس شخص کی خوشبو سے اسے نفرت تھی،جو آج پھر سے اسکے بے حد قریب تر تھا،،
ددد دور رہیں آپپپپ۔۔۔۔۔"بے اختیار ہی سانس گھٹنے پر حور نے اپنے نازک ہاتھ ایل کے کشادہ سینے پر رکھے سے پیچھے کرنا چاہا تھا،،
جو ذرا سا بھی ٹس سے مس ناں ہوا،،
اگگر اب میرے نزدیک آئے تو میں جان لے لوں گی اپنی۔۔۔۔
ایک ہی جست میں پاس پڑی چھری اٹھائے وہ اپنے بازو پر رکھتے بولی تو ایل نے بے یقینی خوف سے اسے دیکھا۔۔۔
سن شائن اسے دے دو مجھے یہ لگ جائے گی تمہیں۔۔۔۔۔۔ حور کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرنے کی کوشش کرتا وہ دو قدم چلتا اسکے قریب ہوا ۔۔۔
خوف سے اسکا سانس بند ہونے کو تھا۔۔ ایل نے بے بسی سے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔
مم مجھے ہاتھ مم مت لگاؤ ورنہ میں ہاتھ کاٹ لوں گی اپنا سنا تم نے۔۔۔۔۔۔“
چھری کا دباؤ ہاتھ پر بڑھاتے اسنے طیش نفرت کے ملے جلے تاثرات سے کہا تو ایل کا سانس رک سا گیا۔۔۔
بے ساختہ ہی قدم آگے بڑھائے تھے مگر حور کو پیچھے ہوتا دیکھ وہ تھم گیا ۔۔
سن شائن چھوڑو اسے۔۔۔۔۔" لہجے میں خوف ڈر کیا کچھ ناں تھا۔۔۔۔اس نے منت سے حور کو دیکھا جس کی گرفت چھری پر تیز ہو چکی تھی۔۔۔
تم مجھے میرے گھر چھوڑ کر آؤ گے یا نہیں ۔۔۔۔۔؟“
حور نے پھر سے اپنا سوال دہرایا کیونکہ جس طرح سے وہ پھر سے اسکے قریب آیا تھا اب وہ کسی بھی طور اسکے پاس نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایل نے بے بس نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔۔
تم میری ملکیت ہو عالیان شاہ کی بیوی اب تو کسی صورت چھوڑنے کا سوال نہیں اٹھتا ۔۔۔۔۔"
بالوں کو پیچھے کرتے اسنے سخت لہجے میں کہا تو حور نے سپاٹ نگاہوں سے اس درندے کو گھورا ۔۔۔۔
تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔"
سن شائنننن۔۔۔۔۔۔ تیزی سے بہتے خون کو دیکھ ایل بھاگتا اسکی جانب بھی ۔۔۔
یہ کیا کیا تم نے سن شائن______اگر تمہیں کچھ ہو گیا یا پھر میرے بچے کو تو میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا۔۔۔۔۔"
ایل نے تیزی سے اسے تھاما خوف سے روتے اسکے ہاتھ سے پھوارے کی مانند بہتے خون پر اپنا ہاتھ رکھتے وہ شدتِ ڈر سے بولا۔۔۔
نیلی آنکھوں میں آنسوں بہنے کو بے تاب تھے۔۔۔
حور نے بند ہوتی آنکھوں سے بے یقینی سے اسکے چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
بے ہوش ہونے سے پہلے اسکے ذہن میں صرف ایک لفظ گونج رہا تھا۔۔۔۔بچہ_________
ایل نے بے دردی سے آنکھوں کو رگڑتے اسے بانہوں میں بھرا ___
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
اسنے ایک نظر گھڑی پر ڈالی رات کے گیارہ بجنے والے تھے۔۔۔۔۔۔ سردی کی حدت میں تیزی سے اضاقہ ہو رہا تھا۔۔۔ کھڑکی کے باہر دھند نے ڈیرہ جمایا تو باہر کے مناظر دھندلا سے گئے۔۔۔۔۔۔
اسکا ایک ہاتھ نرمی سے عیناں کے بالوں کو سہلا رہا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ اسکی کمر کے گرد حائل تھا۔۔۔
اپنے سینے پر سانسوں کی گرم تپش محسوس کرتے ویام نے سر نیچا کیے اسے دیکھنا چاہا۔۔۔۔
جو کسی بچے کی طرح اسکی گود میں چھپی آج جیسے کتنے عرصے کے بعد سکون سے سوئی تھی ۔۔۔۔
اسکے معصومانہ انداز پر ویام کے لب مسکرائے،،،، دماغ سوچوں میں الجھا تھا ۔۔۔
مگر دل بغاوت پر اکسا رہا تھا،،،، اپنی بے بسی پر وہ سر کو نفی میں ہلاتا ہنسا اور پھر ہمت ہارتے بے حد نرمی سے اسے بیڈ پر ڈالا۔۔۔۔
ہاتھ ہنوز سر کے نیچے تھا۔۔۔۔ اسکے انداز میں احتیاط تھی وہ اسے جگانا نہیں چاہتا تھا باقی اسکی سانسوں پر دسترس تو آرام سے حاصل کر سکتا تھا۔۔۔۔
وہ ایک جانب جھک سا گیا۔۔۔۔ عیناں کے چہرے کو دیکھتے وہ نقش نقش کو ازبر کرتا رہا،،،،
دل میں اٹھتے جذبات نے جب شدت پکڑی تو بے اختیار ہی اسنے جھکتے ان بند آنکھوں پر اپنے دہکتے لبوں کا لمس چھوڑا_____
وہ جانتا تھا اس نازک سی جان کے سامنے اسکا خود کو روک پانا ناممکن سا تھا جبھی اتنے وقت سے اپنے منہ زور جذباتوں پر بندھ باندھے ہوئے تھا۔مگر اب اپنے نزدیک موجود اس نازک سی لڑکی سے دوری سوہان روح ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔
جبھی خمار آلود بھوری نگاہوں سے ان نرم و نازک گلابی گالوں کو دیکھ وہ شدت سے اپنا لمس چھوڑتے اسے بانہوں میں قید کر گیا ۔۔۔
اسکے چہرے کو اپنے دہکتے لبوں سے چھوتے اسنے چہرہ گردن میں چھپائے گہرے سانس بھرے،
اس خوشبو کو خود میں اتارا ایک سرور سا تھا۔۔۔ جو روح کی بے چینی کو مٹا رہا تھا۔۔۔
اسکی بڑھتی شدتیں، لبوں کا دہکتا لمس عیناں کی نیند میں ہلچل برپا کرنے لگا۔۔۔۔
ماتھے پر شکنوں کا جال نمودار ہوا وہ بے چینی سے اپنی گردن پر کسی کا دہکتا لمس محسوس کرتے پہلے پہل تو خواب کے زیر اثر رہی۔۔۔۔
مگر پھر اپنی سانسوں کو کسی قید میں محسوس کرتے وہ بڑھتی جنوں خیزیوں سے گھبراتی پل میں آنکھیں کھول گئی۔۔۔۔
ووو ویام______اسکے سینے پر ہاتھ رکھے ذرا سے احتجاج پر ہی وہ سرعت سے پیچھے ہوا پریشانی سے اسے دیکھے گیا۔۔۔۔
جو گہرے سانس بھرتی بے حال سی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
اپنی بے اختیاری کا سوچتے ہی وہ بنا جھجھکے اسکے چہرے پر جھکا ۔۔۔انکھوں میں عجیب سے سرد تاثرات تھے۔۔۔۔۔۔
ویام کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کرتی عیناں نے خوف سے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں دبوچا______ اسے لگا شاید وہ حور کا سچ چھپانے پر اسے مارے گا۔۔۔۔
وہ ڈر سے آنکھیں میچنے لگی کہ گردن میں لپٹے اسکے ہاتھ نے پل میں ہی عیناں کا چہرہ روبرو کیا۔۔۔۔
سانسیں دھونکنی کی مانند چلنے لگی۔۔۔۔ جب وہ بے انتہا قریب ہوتے اسکے آنکھوں میں جھانکتے جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔۔۔
ووو ویام ۔۔۔۔۔۔وہ لرزتی سہمی سی اسکی بولتی آنکھوں پر اپنا چھوٹا سا نازک ہاتھ رکھتے چیخی تھی،۔
چہرے پسینہ سے شرابور تھا۔۔۔ اسکی بولتی نگاہوں کا مقابلہ کرنا کہاں عیناں کے بس میں تھا،
ویام کے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ بکھری،، بے حد نرمی سے اسکے ہاتھ کو آنکھوں سے ہٹائے ہتھیلی پر اپنے لبوں کی مہر لگائی۔۔۔
تو عیناں کی پلکیں بے ساختہ لرز پڑی۔۔۔
ناراض ہو زندگی_____ مسکراہٹ دبائے اسنے جھکتے کان میں بھاری لہجے میں سرگوشی میں استفسار کیا۔ عیناں کی بوکھلاہٹ کو وہ اسکی ناراضگی سمجھ رہا تھا۔
عیناں نے لب دانتوں تلے دبائے، دل کہیں بھاگ جانے کو اکسا رہا تھا۔جبکہ دماغ کہہ رہا تھا اسے سچ بتا دو۔۔اسی شش و پنج میں مبتلا وہ لبوں پر قفل لگائے ہوئے تھی۔۔
میں تمہیں کسی سے ملوانا چاہتا ہوں عین___ کچھ ایسا ہے جو تم نہیں جانتی اور میرا فرض ہے کہ تمہیں اس بارے میں آگاہ کروں۔۔۔۔۔۔"
اسکی شہہ رگ پر لبوں کا جان لیوا لمس چھوڑتے وہ گھبیر لہجے میں بولا۔۔
تو عیناں کے سارے وجود کا لہو جیسے سمٹ کر چہرے پر بکھر گیا ہو،
بتانا تو وہ بھی چاہتی تھی مگر اب ڈر نے ایسے پنجے گاڑھے تھے کہ اسکی ناراضگی کا سوچتے ہی وہ خاموش ہو گئی۔۔۔۔
میں نے بہت مس کیا تمہیں ویام______" اسکے سینے پر سر رکھے وہ بے آواز روتی شدت سے بولی تو ویام کی دھڑکنوں میں روانی تیز تر ہوئی۔۔۔۔
بے ساختہ ہی مضبوطی سے حصار بنائے اسے خود میں سمیٹ لیا جیسے اپنے ہونے کا یقین دلایا ہو۔۔۔۔
ہیے اگر ایک آنسو بھی بہا تو اچھا نہیں ہو گا عین_____"
اپنی شرٹ کو بھیگتا محسوس کرتے اسنے لمحوں میں اسے روبرو کرتے وارن کیا۔۔۔۔
میرے علاؤہ کوئی اور بھی ہے جو بہت دنوں سے تم سے ملنے کو بے تاب ہے۔۔۔ اب آنسوں صاف کرو تاکہ ہم اس سے مل سکیں_"
اسکے آنسوں کو چنتے وہ لب تھوڑی پر رکھتے مسرور سا بولا ۔۔
تو عیناں نے گہرہ سانس بھرتے سر ہاں میں ہلایا۔۔
تم ویٹ کرو میں ابھی لاتا ہوں اسے____!"
عیناں کے چہرے کو ہاتھوں میں لیے وہ لب ماتھے پر رکھتے بولا تو وہ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔
ویام ایک نظر اسے دیکھتا باہر نکلا تو وہ بیڈ کراون سے ٹیک لگائے اپنا حلیہ درست کرتے گہری سوچ میں مبتلا تھی۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
کیا بکواس کر رہے تھے تم اندر_____!" سینے پر ہاتھ باندھے وہ ترچھی نگاہوں سے اسے گھورتی غصے سے گویا ہوئی ۔۔
اذلان جو سیٹی بجاتا باہر آیا تھا اب سیٹی کا گلا گھونٹتے وہ معصوم چہرہ بنائے الایہ کو دیکھنے لگا ۔۔۔
میں اور بکواس توبہ کرو ماہی جان ایسا کچھ بھی نہیں______کانوں کو ہاتھ لگاتے وہ واضح طور پر انکار کرتا زہر لگا تھا الایہ کو۔۔۔۔۔۔
اچھا تو بیس پچیس بچوں کی بات کیا تمہارا بھوت کر رہا تھا کیا_______" وہ چلتی اسکے روبرو ہوتی غصے سے گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔
اذلان کے لبوں کو شریر مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔۔
آج کل کے بھوت بھی بہت فاسٹ ہیں ویسے ہو سکتا ہے تمہاری بات سچ ہو۔۔۔۔۔"
سر ہاں میں ہلاتے وہ الایہ کے قریب ہوتے ذرا سا اسکی جانب جھکتے رازداری سے بولا۔۔۔
تو پھر یہ تمہارے بھوت کی خواہش ہی رہے گی کیونکہ بیس یا پچیس تو دور مجھ سے تمہیں ایک بھی بچہ نہیں ملنے والا تو اگر تمہیں اپنا گھر سنبھالنے اور بچے پالنے کے لئے آیا کی ضرورت ہے تو کسی ایسی سے شادی کر لو جو اچھے سے تمہارے بچوں کو سنھبال سکے اور ساتھ میں تمہیں بھی ۔۔۔۔۔۔"
اپنی ہیل کو زور سے اسکے پاؤں پر مارتی وہ دانت پر دانت جمائے کہتے ساتھ ہی گاڑی کی جانب بڑھی،،
بچے تو میرے تم سے ہی ہونگے اور سنبھالو گی بھی تم ہی اپنے بچوں کو بھی اور اس بچے کو بھی،،، بس تم دیکھتی جاؤ ماہی ڈارلنگ تمہیں کیسے اپنے رنگ میں رنگتا یے یہ اذلان علوی_____"
مسکراتے اسکی پشت کو دیکھ وہ اعتماد سے کہتے خود بھی پاؤں پکڑتے گاڑی کی جانب بڑھا۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
سو سوری ڈارلنگ مگر اب خود کو تم سے مزید دور رکھنا بے حد مشکل تھا تم سمجھ رہی ہو ناں میری بات______"
لیلی کے چہرے کو ہاتھ میں دبوچے وہ شیطانی انداز میں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیلی نے ضبط سے لب بھینچے آنکھیں موند لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح سے لمحوں میں دنیا اس پر تنگ ہوئی تھی صرف ایڈم ہی تھا جس نے اسے پناہ دی تھی مگر بدلے میں وہ اسے اچھے سے استعمال کر رہا تھا۔۔۔
لیلی پہلی بار اتنی بری طرح سے پھنسی تھی وگرنہ اپنی مرضی کے خلاف کسی مرد کو اسنے اپنے قریب نہیں آنے دیا تھا ۔۔۔
کیا ہوا ڈارلنگ اب ایسے تو مت کرو،،، کتنی راتوں سے ہم ایک ساتھ ہیں تمہیں عادت ہو جانی چاہیے تھی۔۔۔۔۔ہاہاہا____"
اسکے بالوں کو بے دردی سے کھینچتے وہ غصے نفرت سے بولا۔۔۔
لیلی وہ پہلی عورت تھی جسنے ایڈم کو اتنے مہینوں سے خوار کیا تھا اب جب وقت نے کھیل بدلا تھا ۔
وہ بھرپور طریقے سے اسے ذلیل کر رہا تھا۔۔۔۔اسکے زخموں کو روز تازہ کرتے خود کو خوشی بخشتا تھا۔۔۔۔۔
ایڈم مجھے جانا ہے پلیز مان جاؤ میں کچھ دنوں تک واپس آ جاؤں گی تم بھی جانتے ہو کہ اب تمہارے علاؤہ میرا کوئی ٹھکانہ نہیں۔۔۔۔۔"
لیلی نے غصے نفرت ہو بالائے طاق رکھتے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔۔۔۔۔
ایچ اے آر اسکی آخری امید تھا ۔۔۔۔ یہاں سے نکلنا اسکے لئے بے حد ضروری تھا پھر اس ایڈم کو تو وہ بعد میں بھی دیکھ سکتی تھی۔
ڈارلنگ ایک بات یاد رکھنا میرے گارڈز ہر جگہ تمہارے ساتھ رہے گے تم بھاگ تو ویسے بھی نہیں سکتی ۔۔۔۔ اور اب اگر اپنی آزادی چاہتی ہو تو کوئ ایسی لے کر آنا جس کا حسن تم سے بھی جوان اور نشیلا ہو۔۔۔۔۔۔!"
لیلی کے رخسار پر دانت گاڑھتے وہ وخشت بھرے لہجے میں بولا تو لیلی نے دانتوں تلے زبان دبائے اپنے آپ پر ضبط کیا۔۔۔۔۔
آنکھوں سے بہتے آنسوں نے اسے آج پھر سے وریام سے نفرت کرنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
تم مجھے زیادہ دن قید نہیں رکھ سکو گے تیمور۔۔۔۔۔۔تو بہتر یہی ہے ہاتھ کھولو میرے ورنہ میں منہ نوچ لوں گی تمہارا_____"
اپنے بندھے ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش کرتی وہ غصے سے چلائی۔۔۔۔۔۔
تیمور کو چکما دے کر وہ وریام کے گھر سے تو بھاگ نکلی تھی مگر راستے میں ہی تیمور نے اسے نا صرف پکڑا تھا بلکہ اسے باندھ کر گاڑی میں ڈالے اپنے ساتھ کسی اجنبی جگہ پر لے آیا۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی کوزی کیبن تھا۔۔۔(آفس کے طرح ایک چھوٹا سا گھر نما مکان جو زیادہ تر جنگلات میں آرام دہ ماحول کے لئے بنایا جاتا ہے جس میں رہنے کی ساری سہولیات موجود ہوتی ہیں۔)
تیمور مصروف سے انداز میں سبزیاں کاٹ رہے تھا۔۔۔۔۔
تیمور میں تم سے ہوں کھولو مجھے گھٹیا انسان______"
خود کے یوں اگنور ہونے پر وہ سرخ چہرے سے پھر سے چلائی۔۔۔۔
سبزیاں کٹ کرتا تیمور کا ہاتھ پل بھر کو تھما سیاہ آنکھوں میں عجیب سی کشش ابھری ۔۔۔۔
میرب جو بار بار خود کو چھڑوانے کی کوشش میں اب ہانپ رہی تھی۔۔
اسکے یوں دیکھنے پر گڑبڑائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیمور چھری اٹھائے اسکی جانب آیا تو غیر محسوس انداز میں وہ کرسی میں گھسنے کی کوشش کرتی آنکھیں موند گئی۔۔۔
میر ڈارلنگ تم مسلسل ایک گھنٹے سے اپنے شریف پلس معصوم شوہر کو نا صرف تنگ کر رہی ہو بلکہ جھوٹے اور برے الزامات سے بھی اچھے خاصے طریقے سے نواز رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ اب تمہیں خاموش کروانا میری ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔!"
چھری کی نوک اسکے ہونٹوں پر رکھتے وہ قدرے جھکتے سایہ سا کر گیا اس پر۔۔۔۔۔
میرب نے خوف سے پھیلی آنکھوں سے اس چھری کو دیکھا اور پھر تیمور کو جو گہری نگاہوں سے اسکے ہونٹوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
دیٹس لائک مائی گرل______" میرب پل بھر کو سہمتی خاموش ہو گئی،،، تو تیمور نے مسکراتے اسے شاباش دی اور جھکتے نرمی سے اپنا شدت بھرا لمس اسکے ہونٹوں پر چھوڑا ۔۔۔
میرب کلس کے رہ گئی مگر کچھ کر پانا نا ممکن تھا۔۔۔۔
تیمور نے لب دانتوں تلے دبائے کرسی کو گھسیٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچن میں پاس روکتے وہ گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھا۔۔۔۔۔۔
یہ چند دن صرف تیمور شیرازی کے ہیں اگر ایک ہفتے میں میں تمہارے منہ سے اپنی محبت کا اقرار ناں کروا پایا تو تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ آؤں گا کبھی مڑ کر نہیں دیکھوں گا یہ تیمور شیرازی کا وعدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"
اسکی آنکھوں میں دیکھتا وہ آج اسے جھٹکے پر جھٹکا دے رہا تھا ۔۔۔۔
میرب کو اسکی بولتی نگاہوں سے الجھن ہونے لگی ۔۔۔۔
خوش فہمی ہے تمہاری ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔" دو ٹوک انداز میں کہتے اسنے جیسے خود کو یقین دلایا تھا ۔۔۔۔
تیمور مسکراتے سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔۔
اوکے ڈارلنگ پھر اس سارے عرصے میں تم خاموش رہو گی بھاگنے کی کوشش نہیں کرو گی پھر آخری فیصلہ تمہارا ہو گا۔۔۔۔۔"
کرسی پر دائیں بائیں ہاتھ رکھے وہ گھبیر لہجے میں کہتا اسکی آنکھوں میں دیکھے گیا ۔۔۔۔۔
منظور ہے مجھے کھولو میرے ہاتھ۔۔۔۔۔۔" میرب نے جلدی سے کہا وہ بس خود کو آزاد کروانا چاہ رہی تھی۔۔۔
جبکہ تیمور جانتا تھا بہت جلد وہ اسے اس طرح سے قید کرے گا کہ وہ خود اسکی الفت کی قید سے رہائی نہیں چاہے گی۔۔۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
موم_____!" آنکھیں بند کیے وہ خود میں ویام سے سچ کہنے کی ہمت پیدا کر رہی تھی کہ اچانک کسی چھوٹی بچی کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی____
عیناں نے حیرت سے آنکھیں کھولے دروازے کی جانب دیکھا،،،
جہاں دو یا تین سال کی بچی خوبصورت باربی فراق پہنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔
عیناں نے آگے پیچھے دیکھا مگر اس کے سوا کوئی اور نہیں تھا روم میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے حیرت ہوئی وہ بچی شاید اسی کو موم کہہ رہی تھی۔۔۔
ابکی بار عیناں نے انگلی اپنے سینے پر سر رکھے پوچھا تو وہ بچی خوبصورتی سی کھلکھلاتے اسکی جانب اندھا دھند بھاگی۔۔۔۔۔
میں نے بہت ویٹ کیا آپ کا موم اور آپ کو بہت یاد بھی کیا۔ ۔ اینجل مسڈ یو موم______"عیناں کے پاس بیڈ پر چڑھتے وہ فوراً سے اسکے سینے سے لگتے بولی۔۔۔۔
حیرت در حیرت تھی۔۔ وہ منہ کھولے اس معصوم کی باتوں سے الجھ سی گئی۔۔جب اپنی گردن پر کچھ گرم سا محسوس ہوا ۔۔۔
ہیے بے بی آپ رو کیوں رہے ہو____" عنایت کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے عیناں نے بے چینی سے پوچھتے اسکے آنسوں کو صاف کیا۔۔۔۔
کس قدر پیاری تھی وہ بچی۔۔۔۔۔اور اس کی سنہری آنکھیں چمک رہی تھی،،،،،،۔
کیونکہ آپ پاس نہیں تھی اس لئے میں نے مس کیا آپ کو اتنا زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔" عیناں کے پھولے گالوں پر باری باری بوسہ دیے وہ بانہیں پھیلائے بولی۔۔۔
پل بھر کو عیناں بھول چکی تھی کہ وہ بچی کون ہے بس اسکی باتوں سے اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔
جسے دروازے پر کھڑا وہ گہری نگاہوں سے دیکھتا مسرور سا تھا۔۔۔۔۔
عیناں کی نظریں جیسے ہی ویام پر پڑی اسکی آنکھوں میں سوال دیکھ ویام نے نرمی سے سر ہلایا ۔ ۔
موم مجھے ڈیڈا نے کہا تھا کہ آپ بہت پریٹی ہو مگر میں نے کہا تھا کہ ڈیڈا آپ سے زیادہ ہینڈسم ہیں۔۔۔۔ بٹ آپ دونوں ہی بیوٹیفل ہیں۔۔۔۔"
وہ اب عیناں کی گود میں بیٹھی اسکے چہرے کو دیکھتے بول رہی تھی۔
جب ویام مسکراتا دھیمے قدموں سے چلتا انکے پاس آیا۔
ویام____ عیناں نے الجھن سے اسے دیکھا سوال زبان پر آنے سے پہلے ہی ویام بولا ۔
عین یہ ہماری اینجل ہے ہماری بیٹی__" عیناں کی گود سے عنایت کو اپنی بانہوں میں بھرتے وہ محبت سے اسکے ماتھے پر بوسہ دیے بولا۔۔
عیناں کو ایک دم سے اسکی سرگوشیاں یاد آئی اینجل تو انکی بیٹی کا نام تھا جسے ویام نے خود سوچا تھا۔
مگر یہ بچی کیا یہ وویام کی بیٹی تھی۔۔۔ آنکھوں میں سوالوں کے ساتھ نمی تھی،
وہ کیسے کسی دوسری بچی کو اپنی بیٹی کے لئے سوچا نام دے سکتا تھا۔۔۔۔
عیناں اٹھتے باہر جانے کو بڑھی، مگر ویام نے اسکے ہاتھ کو فوراً سے تھاما۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڈا۔۔۔۔۔۔۔۔"عیناں کو یوں اچانک سے اٹھتے جاتا دیکھ عنایت نے سہمتے ویام کو پکارا۔۔۔۔
جو عنایت کے چہرے پر خوف دیکھ اسے سینے میں بھینچ گیا ۔۔
کیا یقین نہیں اپنے ویام پر۔۔۔۔۔۔۔"عنایت کا سر تھپکتے اسنے عین سے سوال کیا ۔۔۔
جو فورا سے مڑی تھی مگر ہاتھ اب بھی ویام کی گرفت میں تھا ۔۔۔۔
وہ بنا بولے چلتی اسکے قریب آئی مگر اسکے سینے سے لگی عنایت کو دیکھ جلن سی ہوئی تو فوراً سے سر اسکے سینے پر رکھے آنکھیں موند لی ۔۔۔۔۔
اسکی جیلسی پر ویام کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔
جبھی ایک طرف عنایت کا سر اپنے سینے پر رکھے وہ تقریباً نیم دراز ہونے کے انداز سے لیٹا اور دوسرا ہاتھ عیناں کی کمر کے گرد حائل کیے اسے سینے میں بھینچا۔۔۔۔۔
ڈیڈا آپ کس سے زیادہ محبت کرتے ہو مجھ سے یا موم سے_____"
چند لمحوں بعد عنایت کی آواز ابھری تو ویام نے چونکتے اسے دیکھا اور پھر حلق تر کرتے عین کو دیکھا جو اسے ہی سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جیسے اسے انتظار تھا ۔
کہ ویام کیا جواب دے گا۔۔۔۔"
بیٹا آپ سے اور موم دونوں سے_____عیناں کو دیکھ اسنے لب اینجل کے سر پر رکھے تو عیناں نے مٹھیاں بھینچے غصے سے دانت اسکے سینے پر گاڑھے۔
ویام اس اچانک حملے پر سی کرتا اسے دیکھنے لگا جو اسکے سینے پر دانٹ گاڑھے اور تیزی سے کاٹ رہی تھی۔۔۔۔
ویسے اگر تم سینے کی بجائے لبوں پر کاٹو گی تو بھی میں برا محسوس نہیں کروں گا۔۔۔۔"
ویام نے جھکتے اسکے کان میں جان لیوا سرگوشی کی تو عیناں ایک دم سے سرخ چہرے سے لب بھینچے پیچھے ہوئی۔۔۔
مگر اب دیکھنے سے گریز تھا۔۔۔۔۔ویسے یہ لالی میری بخشی ہوئی ہے کیا مجھے حق نہیں کہ اسے سکون سے دیکھ سکوں ،،،،"
عیناں نے جیسے ہی کروٹ بدلی ویام نے کمر پر دباؤ بڑھاتے اسے مضبوطی سے خود میں بھینچ لیا۔۔۔
لب اسکے کان کی لو پر رکھے تو عیناں نے بمشکل سے اپنی بے ہنگم ہوئی دھڑکنوں کو سنبھالا ۔۔۔
آئی ہیٹ یو ویام ۔۔۔۔۔۔" وہ مڑتی سر اسکے سینے میں دیے زور شور سے مکے مارتے بولی۔
تو ویام مسکرایا اسکا غصہ بھی بے حد عزیز تھا اسے۔۔۔۔۔جبھی محبت سے اپنے مضبوط ہاتھوں سے اسکے بالوں کو سہلایا۔
آئی لو یو ٹو عین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم میری زندگی کا وہ قیمتی اثاثہ ہو جسے رب نے اپنی نوازش کے طور پر مجھے نوازا ہے اور میں تمہارے حق میں کبھی تقسیم یا تفریق تو دور ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔"
تو اب میری چھوٹی سی جان اپنی جان جلانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ویام کاظمی صرف تمہارا ہے۔۔۔۔۔ جس طرح سے تم میری ہو اسی طرح سے میں صرف تمہارا ہوں۔۔۔۔"
اسکے سر پر ہونٹ رکھتے وہ اسے اپنی طرف سے تو سکون بخش رہا تھا مگر عیناں مزید بے چین ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔
اب وہ سوچ چکی تھی وہ بھی ویام سے کچھ نہیں چھپائے گی صبح ہوتے ہی اسے سب بتا دے گی ۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
ایک بات یاد رکھو چاہے کچھ بھی ہو جائے گولی کوئی بھی نہیں چلائے گا۔۔۔۔۔" کرپس اور اذلان کو دیکھتے اسنے حکمیہ انداز میں کہا۔۔
جو سنتے ہی سر ہاں میں ہلا گئے۔۔۔۔۔ انفارمیشن کے مطابق اس بحری جہاز میں ایچ اے آر اپنا سمگلنک کا سامان اور کچھ لڑکیوں کو پاکستان ٹرانسفر کر رہا تھا۔۔۔۔۔
الایہ کو جیسے ہی اس بارے میں خبر ملی وہ کرپس اور اذلان کو ساتھ لیے بنا کسی کو بتائے وہاں کیلئے نکلی تھی۔۔۔۔
مگر وہ تینوں انجان تھے کہ یہ ایچ اے آر کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا جسے اسنے الایہ اور اذلان کیلئے بچھایا تھا ۔۔۔
الایہ نے قدموں کی آواز پر گن پر دباؤ بڑھایا ۔۔۔۔۔۔ اذلان اور کرپس الگ الگ جگہوں سے ہوتے سب کو گھیر رہے تھے۔۔۔
وہ پوری طرح سے جھکتے سر فرش پر ٹکائے کہنیوں کے بل لیٹی تھی۔۔۔جب قدموں کی تیز دھمک اپنے قریب سے آتی محسوس ہوئی اور پھر ساتھ ہی سیاہ بوٹوں میں مقید کسی کے پاؤں اسکے سامنے تھے۔۔۔۔
الایہ نے بنا وقت ضائع کیے ایک دم سے اس شخص کے پاؤں پر وار کیا۔۔۔جو شاید اس حملے سے پہلے ہی چوکس ہو چکا تھا ۔۔۔
اسنے ماہر فائٹر کی طرح ہاتھوں کے بل کروٹ بدلی اور دونوں ہاتھوں کے مکے بنائے وہ پانچ سے چھ قدموں کے فاصلے پر رکا۔۔اور گردن کو دائیں بائیں گھمائے ایک ہاتھ سے الایہ کو حملہ کرنے کی دعوت دی۔۔
الایہ سپاٹ چہرے سے کھڑی ہوئی اور دونوں ہاتھوں کو بلند کیے مسکراتے کندھے اچکا دیے۔۔۔
اسکرین کے سامنے بیٹھا یہ سب دیکھتا وہ گہرا مسکرایا۔۔۔۔۔۔
الایہ نے قدم پیچھے کو لیے اور دیوار سے ٹیک لگائے ببل چبانے لگی۔۔۔۔
سامنے کھڑا آدمی کوئی امریکن فائٹر تھا جس کی باڈی اور جسامت الایہ سے چار گناہ زیادہ تھی۔۔ اور اس وقت وہ غصے سے لال پیلا ہوتے الایہ کو گھور رہا تھا۔۔۔۔۔
ایچ اے آر کی آنکھوں میں چمک ابھرنے لگی بس چند پل اسکے بعد وہ اسکے پاس ہو گی یہ سوچ ہی اسکے سارے خساروں کے زخموں کو مندمل کرنے لگی۔۔۔
وہ آدمی الایہ کو دیکھ بے بس ہوتا اب خود ہی غصے سے اسکی جانب بڑھا اور جیسے ہی اسے مکہ مارنا چاہا الایہ نے ایک جانب ہوتے اسکا وار ضائع کیا ۔۔۔
وہ آدمی اپنا ہاتھ دیکھ رہا تھا جو دیوار میں دھنس چکا تھا۔۔۔
اسکے بعد بھی وہ باز ناں آیا اور پھر بائیں ہاتھ سے حملہ کیا مگر اب کی بار بھی الایہ نے اسکا حملہ ضائع کر دیا۔۔۔۔
اب وہ غصے سے اونچی آواز میں چیختا آگے بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے وار کرنا چاہا مگر الایہ نے اسکے سمجھنے سے پہلے ہی اسکی گردن کو دبوچتے اسکے اوپر سے چھلانگ لگائی اور دوسری جانب سے اسکی پیٹھ پر حملہ کیا وہ بیلنس ناں رکھ پاتے لمحوں میں ڈھیر ہوا تھا۔۔۔
بیٹا پہلے لڑنے کا ہنر تو سیکھ لینا تھا___ اسکے ہاتھوں کو الٹی سائیڈ سے پاس پڑی ایک رسی سے باندھتے وہ بڑبڑائ۔۔۔۔۔تو ایچ اے آر نے تیزی سے گالوں کو سہلایا۔۔۔۔
دھڑکنوں کی رفتار تو اسے دیکھتے ہی بغاوت پر ابھر رہی تھیں۔۔۔
اور ہر بار کی طرح اس کا یہ نیا روپ بھی ایچ اے آر کو بے پناہ مسرور کر گیا۔
اسکے بعد اسنے سائلنسر لگی گن کو اس شخص کے سر پر رکھا اور ایک پاؤں اسکی گردن پر اور بنا گھبرائے دو سے تین فائر کیے۔ پھر گن سے نکلتے دھوئیں پر پھونک مارتئ وہ آگے بڑھی تھی۔۔۔۔
دھیان رکھنا یار میری بیوی کا میں اکلوتا شوہر ہوں اگر کچھ ہو گیا تو وہ بیچاری کہاں جائے گی ۔۔۔۔۔
اذلان جو کہ سنجیدگی سے محتاط سے آگے بڑھ رہا تھا اچانک کرپس کی گھبرائی سی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔۔ ۔
تو اسکے ماتھے پر بل نمودار ہونے لگے ۔۔ فکر مت کر میں تجھ سے اچھا، نیک اور حسین شوہر کروا دوں گا اسے____"
سنجیدگی سے کرپس کے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ رازداری سے بولا تو کرپس نے جلتے بھنتے اسکے ہاتھ کو پرے کیا ۔۔۔
دفع ہو جا تیری والی تو تجھے منہ لگاتی نہیں میری والی کو اور کروائے گا تو۔۔۔۔۔۔" کرپس نے اسکی دھکتی رگ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔تو اذلان نے دانت پیسے اور پھر ایک دم سے مسکرایا۔۔۔۔
وہ منہ لگائے یا ناں میں تو لگا لیتا ہوں بات تو ایک ہی ہوئی ناں ۔۔۔۔۔"
کرپس کے گال کو کھینچتے وہ جان بوجھ کر اسے جلانے کے سے انداز میں بولا ۔۔۔۔ وہ دونوں کب سے آگے بڑھ رہے تھے مگر سارا راستہ بالکل صاف تھا کہیں کوئی گارڈ نہیں تھا۔۔۔
اب وہ باتیں کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔۔
الایہ تیزی سے چلتے اندر داخل ہوئی اور ایک جانب بنے کمرے کو دیکھا جس کا دروازہ بند تھا۔۔۔اندھیرا ہونے کے باعث وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں پا رہی تھی
مگر اسکا اندازہ کافی بہتر تھا۔۔۔۔۔ اندر واقعی کوئی نہیں تھا۔۔
سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اسنے گن بیک پر لگائی کہ اچانک سے دروازہ خود سے بند ہوا ۔۔۔
وہ منٹوں میں چوکس ہوئی،،، اندھیرے کے باعث کچھ بھی واضع دکھ نہیں رہا تھا۔
اچانک سامنے ایک جانب کسی ٹیبل سے روشنی نمودار ہوئی ۔۔۔۔۔
الایہ نے فوراً سے رخ موڑا تو سامنے ہی چھوٹی سے ایل ای ڈی پڑی تھی ۔۔
اسکرین کے سامنے ایچ اے آر کا چہرہ دیکھ وہ نفرت سے مٹھیاں بھینچ گئی۔۔۔
آں آں ڈارلنگ اتنا غصہ _____ میری جان اگر اتنا غصہ کرو گئ تو اور بھی کمزور ہو جاؤ گی اور میں نہیں چاہتا کہ میری ڈارلنگ کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے کچھ ہو،،،،"
گہری نظروں سے الایہ کو دیکھتے وہ بڑبڑایا تو الایہ نے نفرت سے دانت پیسے۔۔۔
منہ بند کرو گھٹیا انسان اگر ہمت ہے تو میرے سامنے آؤ تمہاری یہ غلیظ زبان اور یہ گندی آنکھیں سبھی نوچ لوں گی میں ۔.....!"
وہ غیض و غضب سے پھنکاری تو ایچ اے آر قہقہ لگائے ہنسنے لگا۔۔۔۔
چلو تمہاری مشکل آسان کر دیتا ہوں اس شِپ کے تہ خانے میں قریب سو سے زائد لڑکیاں ہے جان من اور انکی جان خطرے میں ہے اب صرف تم ہی انکو بچا سکتی ہو۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں تم کیسے سب کو بچاتی ہو۔۔۔۔۔ ویسے جلدی آنا میں بے صبری سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔۔"
ایک دم سے اسکرین سیاہ ہوئی تو الایہ کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔۔۔۔
وہ گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی ۔۔۔۔۔
کہ اچانک کسی چیز کی آواز اسکے کانوں میں گونجئ۔۔۔۔
الایہ فورا سے حرکت میں آئی۔۔۔ بھاگتے آگے پیچھے ٹٹولنے لگی ۔۔۔
دو تین ڈبوں کے نیچے اسے وہ بوم نظر آ گیا ۔۔۔۔۔ جس کی سوئیوں کی حرکت سے پیدا ہوتی تیز آواز اسے سنائی دے رہی تھی۔
وہ اس وقت خوف اور پریشانی کے زیرِ اثر یہ بھی سوچ ناں سکی کہ آخر کار بوم اسی کمرے میں کیوں چھپایا گیا تھا جہاں ایچ اے آر خود اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا ۔۔۔
الایہ نے ہاتھ سے ماتھے پر چمکتے پیسنے کے قطروں کو صاف کیا اور بوم کو ہاتھوں میں تھام لیا جہاں وقت صرف تین منٹ تھا۔۔۔
وہ بری طرح سے گھبرا چکی تھی مگر ان سامنے معصوم لڑکیوں کا سوچ وہ ضبط کرتے اٹھی اور باہر کو دوڑ لگا دی۔۔۔
کرپس تو ادھر دیکھ میں اوپر جاتا ہوں شاید الایہ اوپر ہو اسے بتانا ہو گا کہ لڑکیاں سیو ہیں۔۔۔۔"
اذلان اور کرپس نے ان لڑکیوں کو ڈھونڈ لیا تھا جو کہ نشے کے زیر اثر بے ہوش پڑی تھیں۔۔۔۔
اذلان کا دل بے چین ہوا تو وہ بے اختیار اسے ڈھونڈنے لگا مگر الایہ کو کہہ بھی ناں پاتے وہ سہی معنی میں خوفزدہ ہوا اب اوپر چھت کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔
ماہی______ چھت پر جاتے ہی الایہ کو آگے بڑھتا دیکھ اذلان نے اسے اونچی آواز میں پکارا۔۔۔۔
جو سن ہوئے دماغ سے بوجھل قدموں سے رکتے پیچھے مڑی۔۔۔۔۔
تو اسکے ہاتھ میں موجود بوم کو دیکھ کر اذلان کا سانس سینے میں اٹک سا گیا۔۔ دل بے چینی سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔۔
الایہ یہ مجھے دو تم جاؤ یہاں سے ،،،،،“ اذلان نے دانت پیستے اس ضدی لڑکی کو گھورتے حکمیہ کہا۔۔۔
جو بنا اسکی بات پر کان دھرے چھت سے کودنے کو تیار کھڑی تھی ۔۔۔
ماہی میں مر جاؤں گا یار مت کرو ایسا ،،،،،“ الایہ کا آگے بڑھتا قدم تھما تھا رخ موڑتے اسنے اذلان کو دیکھا جو شکست خوردہ سا زمین پر بے بس سے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
الایہ نے نم نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔ اگر میں ناں رہی تو ایک بات یاد رکھنا تم قالو____ تم وہ واحد شخص ہو جس سے الایہ اذلان علوی نے بے حد نفرت کی ہے اور الفت انتہا سے بھی زیادہ ۔۔۔۔۔۔
اذلان کا سانس تھم سا گیا وہ جھٹکے سے سر اٹھائے اسے دیکھنے لگا جو دور دور تک کہیں نہیں تھی۔۔۔
ماہیییییییییی_______“ اذلان کی دلدوز چیخیں فضا میں ارتعاش برپا کرنے لگی ۔۔۔
وہ بھاگتے چھت کی جانب بڑھا اس سے پہلے کہ وہ پانی میں کودتا کرپس نے اسے تھام لیا ۔۔۔جو پاگلوں کی طرح اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
مم مماہییی____ کرپس کو دھکہ دیے وہ آگے بڑھا تو نظریں ساکت سی ہو گئی۔۔۔۔۔ایچ اے آر بوٹ میں موجود اذلان کے دیکھنے پر اسے ہاتھ ہلاتے چھیڑ رہا تھا۔۔۔
الایہ کا بے ہوش وجود ایک جانب پڑا تھا جو پوری بھیگی ہوئی تھی مگر وہ زندہ تھی۔۔۔۔
ایچ اے آر نے اذلان کی نگاہوں کے تعاقب میں الایہ کو دیکھ آنکھ دبائی تو اذلان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی۔۔۔۔۔۔
بوٹ لمحوں میں پانی کو چیرتی غائب ہوتی چلی گئی۔۔۔ جبکہ اذلان کئی لمحوں تک ساکت سا پانی کو گھورتا رہا۔۔۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
اسے ہوش آیا تو سر میں ہلکی سی درد کی ٹیسیں محسوس ہوئی۔۔۔۔وہ ساکت نظروں سے چھت کو گھورتی رہی____ پھر ہاتھ کا خیال آتے ہی اسنے دائیں ہاتھ کو سامنے کیا جس پر سفید پٹی بندھی تھی ۔۔۔
ایک ایک کرتے سارا منظر آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا ۔۔ وہ جھٹ سے سیدھی ہوئی کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے پیٹ کو چھوا۔۔۔۔
لب بری طرح سے پھڑپھڑا رہے تھے جبکہ آنکھوں میں آنسوں بھرے پڑے تھے ۔۔۔۔دل و دماغ میں وحشتوں نے اس قدر ڈیرا جمایا کہ وہ بے بسی سے روتے چہرہ گھٹنوں میں چھپا گئئ۔۔۔۔
اچانک ڈور کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر حور خود میں سمٹ سی گئی۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسا ری ایکشن دے وہ کیا کرے کہاں جائے۔۔۔
ایل فریش ہوتے بالوں میں انگلیاں چلاتے روم میں آیا تو نظریں بیڈ پر پڑیں جہاں وہ گھٹلی بنی سر گھٹنوں میں چھپائے رونے کا شغل فرما رہی تھی۔۔۔
بے ساختہ ہی افسوس سے سر نفی میں ہلائے وہ چلتا بیڈ کی جانب آیا۔۔۔۔ کسی کے قدموں کی چاپ کو محسوس کرتے حور آنکھیں مضبوطی سے موندے خود میں سمٹ سی گئئ۔۔۔۔
ایل چلتا بیڈ پر اسکے قریب بیٹھا۔۔۔ آر یو اوکے سن شائن______"
نرمی سے اپنی مضبوط انگلیوں سے حور کے بالوں کو سہلاتے وہ محبت سے پوچھتا زہر لگا تھا حور کو۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے سر اٹھائے اسے گھورتی پیچھے ہوئی۔۔۔۔اور کراؤن سے ٹیک لگائے نفرت سے منہ موڑ گئی۔۔۔
ایل نے سرد سانس فضا کے سپرد کیے بائیں ہاتھ سے اپنے بالوں کو سیٹ کیا اور پھر سے اٹھتے اسکے قریب ہوا۔۔۔۔
حور کا سانس اسکے بار بار قریب آنے پر رک رہا تھا خوف نے ایسے پنجھے گاڑھے تھے۔ ڈر کو چھپانے کے باوجود بھی اسکے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا۔۔
مگر اس بار ایل اسے چھوڑنے کی غلطی نہیں دہرا سکتا تھا جبھی اسنے سوچ لیا تھا اب سے وہ چوبیس گھنٹے اسکے سر پر سوار رہے گا۔۔
اسے خوف تھا حور کچھ غلط ناں کر دے،،، وہ اپنے بچے کو یا اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
اس ننھی سی جان کے ساتھ جڑے جذبات کچھ اس طرح سے شدت بھرے تھے۔
کہ وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اس بات سے انکار نہیں کر پا رہا تھا کہ ہاں اللہ نے اسے اپنی رحمت سے نوازا تھا۔۔۔
اسنے ایک موقع دیا تھا تو کیوں ناں وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزارتا۔۔۔!
بخار تو اب کافی کم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ اور ہاتھ کا درد کیسا ہے ابھی_____؛؟" وہ بالکل نارمل سے انداز میں حور کے ماتھے کو چھوتے اب ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے انگلی سفید پٹی پر گھماتا استفسار کر رہا تھا۔
حور کو الجھن سی ہونے لگی اسکے لب و لہجہ سے____، ٹھیک ہوں میں تم جاؤ میرے سامنے سے۔۔۔۔!'
جان چھڑانے والے انداز میں ہاتھ کو کھینچتے وہ نفرت بے زاری کے ملے جلے تاثرات سے بولی تو ایل نے نظریں اٹھائے اسے دیکھا اور پھر ایک دم سے رہا سہا فاصلہ طے کیے وہ بالکل اسکے قریب ہوا ۔۔۔
ہاتھ دیوار کی مانند اسکے دائیں بائیں رکھے وہ جھک سا گیا اس پر۔۔۔۔۔ حور آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی جس کی گرم سانسیں حور کے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔۔۔
پپ پیچھے۔۔۔۔" وہ بمشکل سے بولی مگر ایل کی انگلی اسکے ہونٹوں پر رکھتے اسے خاموش کروایا دیا۔۔۔۔
اشششش___ ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے میری۔۔۔ بے بی کی کنڈیشن ٹھیک نہیں۔۔۔۔ اگر تم یونہی لاپرواہی کرتی رہی تو ہم اپنے بچے کو کھو دیں گے اور میں ایسا کبھی بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔۔!"
حور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔
خوف سے ماتھے پر چمکتے ننھے پسینے کے قطرے ایل کو اپنی جانب راغب کر رہے تھے۔۔
جو کچھ بھی ہوا میں جانتا ہوں کہ اس میں صرف میری غلطی ہے تمہاری اس حالت کا ذمہ دار بھی میں یوں مگر ہمارا بے بی اسکا کوئی قصور نہیں اور میں جانتا ہوں کہ میری سن شائن کبھی نہیں چاہے گی کہ اس کی وجہ سے اسکے بے بی کو کچھ ہو______"
وہ گھبیر لہجے میں اسکے بے حد قریب جھکا سرگوشی نما آواز میں اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔۔انداز بالکل دوستانہ تھا۔۔۔
حور کا یوں ڈرنا اسے تکلیف دینے کا سبب بن رہا تھا۔۔۔۔۔
حور نے فوراً سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ وہ بس ایل سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی مگر اب یہ نا ممکن تھا۔۔
ایل نے مسرور سے ہوتے اسے دیکھا جس کی خوشبو سے وہ سانسوں کو معطر کرنا چاہتا تھا نگاہیں انگلی کے نیچے موجود ان نازک پنکھڑیوں جیسے لبوں پر ٹہری۔۔۔۔
گلے میں پھندہ سا اٹکا تھا۔۔۔ وہ حور کو تخفظ دینا چاہتا تھا مگر اس وقت وہ خود ہی بے خود ہوتے اسکے ہونٹوں پر جھکا مگر انگلی ہنوز اسکے ہونٹوں پر تھی ۔۔۔
ایل نے نرمی سے اپنے ہونٹ اسکے لبوں پر رکھے تو حور نے ڈرتے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں دبوچا۔۔۔۔۔ دل کی دھڑکنیں اسے کانوں میں گونجتی اسے پاگل کر رہی تھیں۔۔۔۔
ایل کئی لمحوں تک یونہی بے حسی و حرکت بیٹھا رہا مگر پھر حور کی حالت کا سوچتے اپنے جذبات پر قابو پائے وہ پیچھے ہوا تو نظریں حور پر پڑی جو آنکھیں بند کیے سانس روک چکی تھی ۔۔۔
ایل نے جھٹکے سے اسے کھینچتے سینے سے لگائے کمر کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے سہلایا ۔ ۔۔
حور اب ہچکیوں سے رونے لگی تھی اسکا ڈر حاوئ ہو چکا تھا وہ رونا نہیں چاہتی تھی وہ ڈرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔
مگر ایل کو دیکھتے ہی اسکے اندر پنپتا خوف غالب آ جاتا تھا۔۔۔۔
حور نے غصے بے بسی سے خود پر مضبوط ہوتی اسکی گرفت محسوس کی تو وہ جیسے ہوش میں آئی تھی۔۔
برے طریقے سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی وہ اسکے سینے پر مکوں کی برسات کرنے لگی ایل سنجیدگی سے اسے خود میں بھینچ رہا تھا۔۔۔۔
اس چٹان جیسے آدمی کے سامنے بالآخر وہ ہمت ہارتی اسکے کندھے پر سر رکھے غصے سے اسکے کندھے پر کاٹنے لگی۔۔۔۔
اپنے کندھے پر حور کو غصہ نکالتے دیکھ بے ساختہ ہی ایل کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا__ مگر وہ اب بھی خاموشی سے حور کے بالوں اور کمر کو سہلا رہا تھا ۔۔
جو ڈر سے بری طرح سے لرز رہی تھی۔۔۔ ساتھ ساتھ اپنا تشدد بھی جاری تھا جس کی تسکین پر ایل کے چہرے پر کافی دیر سے ایک خوبصورت سی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی ۔۔
ایل نے اسے دھیمے سے خود میں سمیٹتے گود میں بھرا اور پاس پڑا کمفرٹر اٹھائے حور پر احتیاط سے اوڑھایا اور خود بیڈ کروان سے ٹیک لگائے اسکے سر کو سینے سے لگائے مسلسل سہلا رہا تھا۔۔
حور جو کچھ دیر پہلے ڈر سے کانپ رہی تھی اب وہ نارمل ہونے لگی ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد اپنی گردن پر پڑتی حور کی بھاری ہوتی سانسیں محسوس کرتے ایل نے بے ۓ اختیار نگاہیں اٹھائے آسمان کی جانب دیکھ دل سے اپنے رب کا شکر ادا کیا ۔۔۔
اس سے ڈرتی، خوف سے کانپتی تو کبھی غصے سے اسے کاٹتی اب تھک ہار کر اپنے ستمگر کی بانہوں میں سو چکی تھی ۔۔۔
بے ساختہ ہی ایل کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔۔۔
وہ سوچ چکا تھا اب وہ جان دے دے گا مگر وہ حور کو خود سے جدا نہیں ہونے دے گا۔۔۔ ایک پل کے لئے بھی نہیں ۔۔۔۔۔ایل نے سوچتے اسے اور مضبوطی سے خود میں بھینچا اور ہونٹ اسکے سر پر رکھے اور خود بھی سکون سے آنکھیں موند گیا۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
وہ کمرے میں آیا تو کمرہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا تھا۔۔۔۔۔۔ اندھیرے کے باوجود بھی وہ محسوس کر سکتا تھا کہ نیناں کہاں ہے۔۔۔
سرد سانس فضا کے سپرد کرتے وریام چلتا بیڈ کے قریب جاتے نیچے بیڈ کے قریب بیٹھا۔۔۔
نین زندگی_____" اسے حصار میں لیتے وریام نے تشویش سے اسے پکارا جو بخار میں پھنک رہی تھی۔۔۔
حور کے جانے کے بعد آج وہ پہلی بار نیناں کے پاس آیا تھا اب اسکی حالت دیکھ وریام کو خود پر بے انتہا غصہ آ رہا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا کتنی لاپرواہ ہے وہ اپنے معاملے میں اوپر سے وریام نے بھی اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا تھا یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔۔۔
وریام نے اسے گود میں بھرتے بیڈ پر لٹایا اور دھیمے سے اسکی آنکھوں پر لب رکھے_ وہ سسک اٹھی ۔۔۔
وو وریام میری بچی۔۔۔۔۔اسکے سینے سے لگتی وہ بے آواز روتی کسی پھڑپھڑاتے پرندے کی مانند بولی تو وریام نے اسے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔
نین ٹھیک ہے حور تم پریشان مت ہو_____!" اسے دلاسہ دیتے وہ خود بھی اسکے قریب نیم دراز ہوا ۔
اور سر اٹھائے اپنے سینے پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔ آپ آپ کو کیسے پتہ آپ آپ نے سنا سس سب کہہ ررہے کک کوئی لے گیا مم میری بچی کو اور وہ مم ماں بننے والی ہے وریام۔۔۔۔ آپ سب کو بتاؤ یہ جھوٹ ہے ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔!"
نیناں نے روتے ہوئے اسکی یقین دہانی چاہی اندھیرے میں بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو محسوس کر سکتے تھے مگر اس اندھیرے میں ایک بھرم تھا ۔
جو وہ ایک دوسرے کا رکھنا چاہ رہے تھے۔
یہ سچ ہے نین۔۔۔۔۔" مجھے جو لیٹر ملا۔۔۔۔
وہ اسی لڑکے نے لکھا تھا جس نے ہماری بچی کے ساتھ زبردستی شادی کی ہے اور وہ کوئی اور نہیں لیلی کا بیٹا ہے اسنے بدلہ لینے کے لئے یہ سب کیا تھا نین۔۔۔۔۔"
نیناں نے خوف سے سہمی نگاہوں سے وریام کو دیکھنا چاہا مگر اندھیرے کے باعث وہ دیکھ ناں پائی ۔۔۔۔
وو وریام وو وہ لڑکا میری بب بچی کو مار دے گا آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ہہ ہم نے لیلی کو کچھ نہیں کیا پھر وہ کیوں ابھی تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ۔۔۔"
نیناں روتی پاگلوں کی طرح اپنے بالوں کو نوچنے لگی ممتا کی تڑپ اسے اندر ہی اندر کھا رہی تھی اب تو ایسا خوف تھا کہ اسکا بس نہیں تھا کہ وہ ابھی اپنی بچی کو واپس لے آئے۔۔۔۔
نین پوری بات سنو یار کچھ نہیں ہو گا حور کو اگر اسنے نقصان ہی پہنچانا ہوتا تو وہ پہلے کبھی بھی حور کو ناں چھوڑتا۔۔۔۔ تمہیں یاد ہے ناں حور کا عجیب رویہ اسی وجہ سے تھا شاید _______!"
وریام نے سرد سانس لیتے نیناں کو قریب کیا اور اسے آرام سے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔۔
مگر وریام آپ کیسے خاموش ہیں اتنے دنوں سے۔۔۔؟ مجھے لا کر دیں میری بچی واپس مجھے حور چاہیے وریام سنا آپ نے ۔۔۔۔۔۔!"
اسے کالر کو مٹھیوں میں دبوچتی وہ بے بسی سے بولی تو وریام نے بے ساختہ لب بھینچ لیے۔۔۔۔۔
نین حالات کو سمجھنے کی کوشش کرو تم جانتی ہو حور اب ماں بننے والی ہے اور اسکا شوہر اسے اس شرط پر ساتھ لے گیا ہے کہ وہ اسکا خیال رکھے گا اور جیسے ہی وہ ٹھیک ہو جائے گی وہ اسے چھوڑ جائے گا ہمارے پاس ______"
نیناں نے سانس روکتے وریام کو دیکھا.... آپ کو لگتا ہے کہ لیلی کا بیٹا ہماری بیٹی کو واپس کرے گا وہ انسان جو اسے برباد کرنے سے باز نہیں آیا کیا وہ ہماری بچی کو چھوڑ دے گا ۔"
نیناں کو کسی بھی طرح سے یقین نہیں آ رہا تھا وہ کس طرح سے مان لیتی کہ جو انسان بدلہ لینے کے لئے اسکی بیٹی ہو برباد کر سکتا تھا وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔
نین ذرا سوچو اگر وہ ہماری بیٹی سے نکاح نہیں کرتا اسے برباد کر کے چھوڑ دیتا، یا پھر جان سے مار دیتا تو کیا ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل تھے ۔۔
ہم کہاں سے اپنی بچی جو لاتے واپس ۔۔۔۔۔۔۔"وریام نے اسے سمجھانا چاہا جو بات اسے خاموش رکھے ہوئے تھی اب وہ نینان کو بھی اسی طرح سے سمجھا رہا تھا۔۔۔
مانا کہ اسکا طریقہ غلط ہے شاید لیلی نے اس دل میں ہمارے لئے اتنی نفرت بھری ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر گیا مگر پھر بھی اسنے حور سے نکاح کیا ۔۔۔۔
اب مجھے انتظار ہے کہ کب وہ میری پرنسز کو واپس لائے گا میرے پاس ۔۔۔۔"
وریام نے سوچتے سرد سانس اپنے اندر تک اتارا۔۔۔۔
اگر وہ ناں لایا تو۔۔۔۔۔۔" نیناں نے اپنا ڈر اسپر عیاں کیا تو وریام نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ آئے گا مجھے یقین ہے اور پھر حور کی رضا کے مطابق فیصلہ ہو گا اگر وہ اس کے ساتھ رہنا چاہے گی تو میں اسے رخصت کر دوں گا نہیں تو ہم خلع لیں گے ۔۔۔۔"
وریام نے حتمی لہجے میں اپنا فیصلہ سنایا ۔۔۔۔۔ تو نیناں نے آنکھیں موند لی اب یہ تو وقت بتائے گا کہ کیا ہو گا آگے چلتے۔۔۔۔ وہ صرف اپنی بچی کیلئے دعائیں ہی کر سکتی تھی ۔
جو کہ وہ صبح شام کرتی آ رہی تھی۔
◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕◕
رروززز_____" بے یقینی سے اپنے سینے سے ابلتے خون کو دیکھتا وہ نم نگاہوں سے بمشکل سے بولا اسکا بے جان وجود جیسے ہی زمین پر گرا۔۔۔
روز نے جھٹ سے کانپتے ہاتھوں سے گن نیچے پھینکی۔۔۔۔
انزک ساکت نگاہوں سے سپاٹ چہرے سے اسے دیکھ رہا تھا جو ڈائون کی لاش کو دیکھتی اب کپکپا رہی تھی ۔۔۔۔
لے جاؤ سب کو____" اندر داخل ہوتے اپنے ساتھیوں کو اجازت دیتا وہ دو قدم چلتا اسکے نزدیک ہوا...
روز نے سن ہوتے دماغ سے مڑتے انزک کو دیکھا اور پھر ایک دم سے اسکے سینے میں سر دیے وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔۔۔
انزک نے ایک نظر روم سے نکلتے سولچرز پر ڈالی اور پھر نرمی سے روز کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنایا۔۔۔
وہ پہلے سے ہی سب جانتا تھا یہ بھی کہ آج روز کو اپنے بھائی اور اس میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا وہ دیکھنا چاہتا تھا۔
کہ اس کی الفت کا صلا وہ نفرت سے دے گی یا پھر وہ بھی اسے چاہنے لگی تھی ۔کیونکہ جو جذبات وہ روز کی آنکھوں میں دیکھ چکا تھا انہیں زباں پر لانا بے حد ضروری تھا ۔۔۔۔
انزک نے دھیرے سے روز کی پشت کو سہلایا۔۔۔۔جو بے جان سی ایک جانب لڑکھ گئی ۔
انزک سمجھ گیا شاید خوف کے باعث ایسا ہوا تھا۔۔۔
اس نے جھکتے نرمی سے اسے بانہوں میں بھرا اب روز کو پوری طرح سے اپنی الفت میں قید کرنا تھا تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے اس حصار کو توڑ ناں سکے۔۔۔۔
وہ سوچتا سنجیدگی سے قدم اٹھائے باہر کی جانب بڑھا۔۔
ویام کون ہے یہ بچی تم نے بتایا نہیں______!" عنایت اور عیناں کے سونے کے بعد ویام انہیں چھوڑتا باہر بالکونی میں چلا آیا۔۔۔۔
اسکی غیر موجودگی محسوس کرتے ہی عیناں فوراً سے اٹھی اور اسکے پیچھے ہی دبے قدموں سے بالکنی میں آئی۔
جہاں وہ سرد ٹھٹھرا دینے والے والی ٹھنڈ میں بالکل پرسکون سا کھڑا تھا۔۔
عیناں جیسے ہی اسکے قریب ہوئی ویام نے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیے اسے کھینچتے اپنے حصار میں لیا۔۔
یہ سب اس قدر جلدی میں ہوا تھا کہ عیناں سمجھ ہی ناں سکی کہ ویام نے کب اسے خود میں قید کر لیا تھا ۔۔۔۔
وہ کافی دیر آنکھیں موندے ایک دوسرے کے سنگ اس دنیا سے دور ایک دوسرے میں کھوئے رہے۔۔۔جب عیناں کی بے چین سی آواز پر وہ بنا آنکھیں کھولے اسکے بالوں میں چہرہ چھپائے مخمور سا بولا۔۔۔۔۔
کیوں تمہیں کس بات کی اتنی بے چینی ہے_____؟" عیناں نے سنتے سر گھمائے اسے دیکھا۔۔۔اگر مجھے نہیں ہو گی تو کسے ہو گی تم نے اسے میری بیٹی کا نام دے دیا اسکا مطلب۔۔۔۔۔۔،"
وہ سخت خفا تھی کتنا برا لگا تھا ویام کا اسے اینجل کہنا ۔۔۔۔۔۔۔۔؛
عین ایک بات یاد رکھو جاناں اس معصوم کا میرے سوائے اس دنیا میں کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔ اسکا باپ اسکی ماں سب کچھ میں تھا مگر اب سے تم اس کی ماں ہو۔۔۔۔۔۔ جیسے میں اسکا ڈیڈا ہوں ۔۔۔۔؛"
میں نہیں چاہتا عین کہ وہ کبھی بھی ماں باپ کے سائے سے محروم ہو۔۔۔۔
ایک سال پہلے یہ بچی کسی حادثے کا شکار ہوتے مجھے ملی تھی تب اس بچی کی عمر تین سال تھی۔۔۔۔
پورا ایک سال کومہ میں رہنے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا میں نے اسے بتایا کہ میں اسکا ڈیڈا ہوں۔۔۔۔۔۔اور وہ معصوم میری بات پر یقین لے آئی مگر یہ سچ ہے عین کے میں نے اسے بیٹی کہا نہیں مانا ہے۔۔۔۔۔اور میری پہلی بیٹی ہے اینجل اور دوسری عنایا ہو گی دونوں اپنے بابا کی ڈولز_____ عیناں کے گال پر لب رکھتے وہ گھبیر لہجے میں بولا ۔۔
تو عیناں کی پلکیں حیا سے لرز پڑیں۔۔۔۔۔ دل پسلیوں سے پٹھک رہا تھا۔۔۔۔۔
ویام کی اتنی سی قربت اسکی جان پر بن رہی تھی۔۔۔۔
اب تم بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔!"
اسکی گردن میں بازو حمائل کرتے وہ لب اسکی شہہ رگ پر رکھتے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔
ٹھنڈ کے باوجود عیناں کا وجود پسینے سے تر ہونے لگا۔۔۔۔ اسکی بات سنتی وہ بری طرح سے کپکپائی ۔۔۔
ووو وہ_____ عیناں کا دل بری طرح سے دھڑکا تھا مگر وہ آج ہمت کرتے اسے سب بتا دینا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
وویام ححح حور کک کو کسی نے کڈنیپ کک کر لیا۔۔۔۔۔۔:"
ہونٹوں پر زبان پھیرتی وہ ہلکی سی آواز میں منمنائی۔۔۔۔۔۔
جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ بہت جلد وہ ہمارے پاس ہو گی تم پریشان مت ہو۔۔۔۔۔۔۔!" سرد سانس فضا کے سپرد کیے اسنے ہونٹ عیناں کی پیشانی پر رکھتے کہا۔۔۔۔
عیناں نے لب بھینچ لیے۔۔۔۔
شاید جو وہ اب بتانے والی تھی یہ بات ویام کو ہرٹ کرتی مگر جو بوجھ اس وقت اپنے دل پر اٹھائے پھر رہی تھی ۔۔
کسی بھی طرح سے اس سے رہائی چاہتی تھی وہ ۔۔۔۔جو صرف ایک ہی صورت مل سکتی تھی جب وہ خود سارا سچ ویام کو بتاتی۔۔
ووو ویام شش شاید تم نہیں جانتے مگر میں کچھ اور بھی بتانا چاہتی ہوں تمہیں۔۔۔۔۔"
خوف سے اسے دیکھتی وہ لب دانتوں تلے دبا گئی تو ویام کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ شش و پنج میں مبتلا اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔
حور کی کڈنیپنگ کے متعلق اسے وریام نے بتایا تھا اور ساتھ میں اچھے سے سمجھایا بھی تھا کہ وہ اسکی بیٹی ہے اور اسکا آخری فیصلہ وہ۔خود کرے گا ۔۔
جس وجہ سے ویام بنا کچھ کہے کال کاٹ گیا مگر تب سے لے کر اب تک وہ کافی ناراض تھا وریام سے۔۔۔۔۔۔شک تو اسے پہلے ہی تھا مگر اب حور کے دوبارہ سے غائب ہونے سے گویا اسکے شک کی تصدیق ہو گئی ہو۔۔۔۔
عین بولو یار میں سن رہا ہوں۔۔۔۔؛" اسکے بالوں کو سہلاتے وہ دھیمے محبت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔۔
تو عیناں نے تھوک نگلتے اسے دیکھا ۔۔۔
دراصل حور نے ممم مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کسئ نے اسے کڈنیپ کر کے زبردستی شادی کی اور پھر جب وہ ہوش بھی آئی تو تم اسے وہاں سے لے آئے ۔۔۔۔۔ اسنے مجھے منع کیا تھا کہ میں یہ بات کسی کو ناں بتاؤں۔۔۔
میں نے اسے سمجھایا اور۔۔۔۔۔۔"
اششششش .... کیا تم یہ بات پہلے سے جانتی تھی کہ حور کے ساتھ کیا کچھ ہو چکا ہے۔۔۔۔ "
اسکے بات کاٹتے وہ سرد پتھریلے لہجے میں بولا تو عیناں نے خوف سے آنکھیں میچتے لرزتے وجود سے سر ہاں میں ہلا دیا ۔۔۔۔
ویام ساکت نگاہوں سے اسے دیکھے گیا بے یقینی سی بے یقینی تھی وہ جھٹکے سے اس سے دور ہوا تو عیناں نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھتے لب بھینچ لیے ۔۔۔۔۔
وو ویام ۔۔۔۔۔ صرف ہاں یا ناں میں جواب دو__" سرد نظروں سے عیناں کی ط جانب دیکھتا وہ سرسراتے لہجے میں استفسار کرتا بلکل کوئئ اجنبی لگا تھا عیناں کو___؛'
عیناں نے بے بسی سے ویام کو دیکھا جس کی آنکھوں سے وخشت ٹپک رہی تھی، پھر لب دانتوں تلے دبائے اپنے آپ پر ضبط کرتے وہ سر بمشکل سے ہاں میں ہلا پائی۔۔
ویام لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ہوتے بے یقینی سے اسے دیکھے گیا۔۔۔۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
کہ جس لڑکی سے الفت نبھاتے نبھاتے وہ لڑکپن سے جوانی کی دہلیز تک پہنچا تھا وہ لڑکی یوں اسکی بہن کے متعلق اتنی بڑئ بات سے اسے انجان رکھے گی ۔۔۔
ووو ویام مممم میں نے ججان بوجھ کر نہیں کیا پپلز مممم مجھے معاف کر دو۔____ وہ روتی اسکے قریب ہوتے التجا کرنے لگی۔۔۔
ویام نے فوراً سے قدم پیچھے کو لیتے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنے قریب آنے سے روکا۔۔۔۔۔
تم جانتی ہو عین اس میں تمہاری غلطی نہیں ۔۔۔۔تم ٹھیک ہو اپنی جگہ،،،، غلطی صرف میری ہے صرف میری ۔۔۔۔ تم نے ہمیشہ سب کا سوچا کون کیا کہے گا۔۔
کون تمہارا اپنا ہے کون بیگانہ ۔۔۔ میں تو شروع دن سے ہی کہیں نہیں تھا۔ ۔ ۔ میں تو بس اندھا دھند ایک سراب کے پیچھے بھاگتا رہا ۔۔
میری محبت شاید گےث مول تھی مگر میری الفت کبھی بے مول نہیں تھی جسے تم نے بے مول بنا دیا۔۔۔۔میںں نے اپنے جنوں کو سینچ کر اسے الفت میں ڈھال دیا کہ کہیں میرا جنون میری ضد تمہیں غلطی سے بھی تکلیف ناں دے مگر تم..... تم نے تو کبھی مجھے اپنی زندگی میں اہمیت نہیں دی۔۔۔۔میں تو کبھی اہم تھا ہی نہیں.....!"
دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں کو بے دردی سے رگڑتے وہ آج عیناں پر پے در پے وار کر رہا تھا۔۔
عیناں نے دل میں اٹھتی ٹیسوں کو دبائے قدم اسکی جانب بڑھائے۔۔۔۔
پپ پلیز ویام ایسا مت کہو میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا مجھے حور نے مم منع کک کیا تھا۔۔۔ ؛"
تم خوش ہو میرے بنا بھی اپنی زندگی میں ___ میرے ہونے یا پھر ناں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا جاؤ انجوائے کرو اپنی زندگی ۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں روکوں گا تمہیں ....
کبھی نظر نہیں آؤں گا انجوائے کرو اپنی زندگی کو۔۔۔۔۔۔؛"
ویام نے سرد لہجے میں کہتے ایک نظر نڈھال سی ہوئی عیناں پر ڈالی اور پھر مڑتے جانے لگا مگر عیناں نے فوراً سے اسے تھام لیا۔۔۔۔۔
پپ پلیز وو ویام میں مر جاؤں گی ایسا مت کہو میں نہیں رہ سکتی تمہارے بنا ۔۔۔۔!"
اسکے سینے سے زبردستی لگتے وہ روندھی آواز میں بولی ۔۔
عادت کی بات ہے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ جاؤ گی ۔ ۔۔۔۔" سرد لہجے میں لفظوں کی کاٹ سے اسے جھلنی کرتے وہ بنا رکے تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔ ۔
عیناں بے بس سی وہیں بیٹھتی چلی گئی۔۔۔
شاید ویام ٹھیک کہہ رہا تھا اسنے واقعی بہت غلط کیا تھا اس کے ساتھ مگر اب سوائے حسارے کے اور کچھ نہیں تھا اسکے نصیب میں۔۔۔۔۔۔۔؛"
•••••••••________•••••••••
حور کی آنکھ کھلی تو کمرے میں وہ اکیلی تھی ایل کہیں بھی نہیں تھا۔۔۔
رات کو اسکے ساتھ ہوئی تکرار یاد آئی وہ فوراً سے اٹھ بیٹھی۔۔۔بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے اسنے ہاتھ بالوں میں الجھایا۔۔۔۔
اتنا تو وہ سمجھ چکی تھی کہ اب وہ شخص آسانی سے اسکی جان نہیں چھوڑنے والا، اوپر سے بے بی کی بات اسے ایک وہم یا جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں لگا تھا۔۔۔۔
اسے لگ رہا تھا کہ حور کے دل کو موم کرنے کے لئے اسنے یہ اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے وگرنہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ماں بننے والی ہو اور کوئی احساس تک اس کے اندر ناں پنپا ہو ۔۔
وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ ہوش ایل کے بلانے پر آیا ۔۔
وہ چونکتی اسے دیکھنے لگی جو ایپرن گلے میں ڈالے بریک فاسٹ کی ٹرے لیے اسکے قریب بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ حور نے فوراً سے سمٹتے فاصلہ بنایا۔
گڈ مارننگ ڈئیر ۔۔۔۔۔" فل حال وہ ناشتے کے وقت اسکا موڈ خراب نہیں کر سکتا تھا ۔۔
بہت محنت سے اسنے ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد سب تیار کیا تھا۔۔
اب حور کو یوں منہ موڑتا دیکھ وہ سرد سانس فضا کے سپرد کیے لب بھینچ گیا۔۔۔۔
میں نے بہت محنت سے بنایا ہے اگر تم نہیں کھاؤ گی تو مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلانے میں کوئی ایشو نہیں ہے۔۔۔۔۔
جوس کا گلاس ہاتھ میں لیتے وہ لبوں پر جان لیوا مسکراہٹ سجائے بولا تو حور نے ایک نظر اسے دیکھ پھر ایل کے دیکھنے سے پہلے ہی نظریں پھیر لیں۔۔۔۔
مجھے یہ نہیں کھانا _____" اپنے منہ کی طرف آتے اسکے ہاتھ کو جھٹکتی وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولی۔۔
کیا کھانا ہے بتاؤ میں ابھی بنا کر لاؤں گا۔۔۔۔۔“ حور کے گال کو سہلاتے وہ مخمور لہجے میں بولا آنکھیں جذبات کی حدت سے دہک رہی تھیں۔
مجھے آلو کا پراٹھا کھانا ہے_____!" اسکی جانب تکتی وہ جان بوجھ کر بولی۔۔۔۔
واٹ یہ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟" حیرت سے ماتھے پر بل ڈالے وہ پہلی بار اس عجیب سے نام کو سنتے سوالیہ نگاہوں سے حور کو دیکھنے لگا۔۔
حور کو اندازہ تھا جبھی بامشکل سے مسکراہٹ پر سے ضبط کیے وہ معصومانہ انداز میں کندھے آچکا گئی۔۔۔
تمہیں نہیں پتہ مگر میں وہی کھاتی ہوں ناشتے میں۔۔۔۔۔۔۔۔ تم گوگل سے سرچ کر کے بناؤ تب تک میں سو جاتی ہوں۔۔۔۔'
منہ پر ہاتھ رکھتے وہ اونگ روکتے دوبارہ سے کمفرٹر اوڑھنے لگی۔۔
ویٹ ویٹ میں بنا لوں گا تمہارا آلو پرا تم سو گی نہیں تم جلدی سے اٹھ کر فریش ہو جاؤ پھر کھانے کے بعد میڈی بھی لینی ہے____"
اسکے انداز میں واضح حکم تھا جبھی منہ پھلائے وہ رخ پھیر گئی ۔۔۔
مجھے امید ہے کہ میرے فارغ ہونے سے پہلے تم اچھے سے فریش ہو کر میرا ویٹ کرو گی۔۔۔۔"
گہری نگاہوں سے اس نازک وجود کو دیکھتا وہ ہلکے سے گال سہلاتا اٹھتے ٹرے تھامے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔
چارو ناچار حور برے برے منہ بنائے وارڈروب کی جانب بڑھی ۔ ۔ وارڈروب کھولتے ہی آنکھوں میں اشتیاق سا ابھرا ۔۔۔۔۔
مشرقی کپڑوں کی بھرمار تھی ہر قسم کے دیدہ زیب لباس موجود تھا جسے دیکھتے ہی حور سراہے بنا ناں رہ سکی ۔۔
مگر ایک چیز جو اسے بے حد بری لگی تھی وہ ان سوٹوں کے ساتھ خجاب کا ناں ہونا تھا۔۔۔
بالآخر ایک گلابی رنگ کی گھٹنوں تک جاتی فراک جو اسے کافی اچھی لگی تھی۔
وہ نکالتے ہی فریش ہونے واشروم چلی گئی۔۔۔۔۔۔
ایل نے ویڈیو آن کرتے سامنے ایک جانب رکھی وہ دو بار دیکھ چکا تھا سامان تو سارا گھر میں موجود تھا مگر اسے یہ سب بنانے کا اندازہ بالکل بھی نہیں تھا ۔۔
ناں ہی اسنے یہ آلو پرا کبھی کھایا تھا ناں ہی اسکا نام آج سے پہلے سنا تھا۔ آٹا برتن میں نکالتے اسنے درمیان سے گول دائرہ بنایا اور پورا پین پانی سے بھرتے اس میں سارا پانی ڈال دیا۔۔۔۔
وہ آٹا کم اور پانی والا آٹا زیادہ دکھ رہا تھا۔۔
ایل نے عجیب نظروں سے وڈیو کو دیکھا اور پھر اپنے آٹے کو ۔۔
اسکا ڈھیلا تو دور پانی ہی پانی تھا۔۔۔۔ ایل نے سوچتے خشک آٹا پلیٹ بھرتے ڈالا اور پھر سے ہاتھ گھمانے لگا۔۔۔
بالوں کو پونی کیے وہ اس وقت کوئی گھریلو عورت دکھ رہا تھا جو انہماک سے اپنے کام میں مصروف ہو ۔۔۔
دنیا کا سب سے بڑا گینگسٹر اس وقت جس طریقے سے کام کر رہا تھا کہ اگر کوئی دیکھ لیتا غش کھاتے بے ہوش ضرور ہو جاتا۔۔۔
آلو دھوتے وہ بوائل کرنے کے لیے رکھ چکا تھا ۔۔۔
بے شک وہ بے ڈھنگے طریقے سے کام کر رہا تھا مگر اسکا خلوص اسکی محبت میں ذرا برابر کمی نہیں تھی ۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد حور بالوں کو برش کرتے دوپٹہ اسکارف کی طرح سر پر لپیٹے فریش سی روم سے نکلی تو سیڑھیوں سے اترتے ہی راستے میں ایل سے ٹکرائی۔۔۔۔
بریک فاسٹ بن چکا ہے تم روم میں چلو______؛"
دونوں بازوؤں اسکے سامنے حائل کیے وہ راستہ بلاک کئے بولا۔۔۔۔
حور نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا ۔۔۔۔۔۔ چہرے پر آٹا لگا ہوا تھا ناک پر بھی اور بالوں پر بھی۔۔ ۔۔۔ وہ لب دباتی سر ہاں میں ہلائی سرخ چہرے سے واپس کمرے میں گھسی۔۔۔۔
ایل ٹرے اٹھاے کمرے میں آیا تو حور سنجیدگی سے سیدھی ہوتے بیٹھی۔
تو آج پہلی بار میں نے اپنی سن شائن کے لئے اپنے ہاتھوں سے آلو پرا بنایا ہے ہوپ سو کہ تمہیں اچھا لگے گا ۔۔ "
اسکے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھتا وہ محبت سے گویا ہوا۔۔۔۔
آج پہلی بار حور کی آنکھوں میں خوف یا ڈر کے بجائے ایک شرارتی سی چمک تھی۔۔۔۔لبوں کے کونے بھی مسکرا رہے تھے ۔۔۔
ایل نے بھرپور نظر اس کے نکھرے نکھرے سراپے پر ڈالی ۔۔۔ اور پھر خود پر کمپوز کرتا وہ اسے دیکھنے لگا۔۔۔
جس کا سارا دھیان ڈھکی ہوئی ٹرے کی طرف تھا۔۔۔۔۔
••••••••__________•••••••••
بیٹا آپ کس کے ساتھ آئی ہو میری جان____!" عیناں کو سینے سے لگائے رافع نے خوشگوار حیرت سے پوچھا ۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی فدک کو وہ گھر لایا تھا۔
الایہ کی رخصتی کی بابت اشعر اور رمشہ سے بات وہ ہاسپٹل میں ہی کر چکے تھے۔۔۔
اب بس سب کے ایک ساتھ ہونے کا انتظار تھا پھر چھوٹے سے فنکشن میں وہ الایہ کے ساتھ ساتھ عیناں کو بھی اچھے سے رخصت کرنا چاہ رہے تھے۔۔۔
ممم موم۔۔۔۔۔" نم نگاہوں سے رافع کو دیکھتی وہ بامشکل سے بول پائی تھی۔۔۔
اسکی اجڑی ویران آنکھیں دیکھ رافع کو دھچکا سا لگا۔وہ سو چکی ہے زندگی ۔۔۔۔۔صبح مل لینا۔۔۔۔۔!"
رافع نے نرمی سے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا__ تو عیناں نے دھندلائی نگاہوں سے اپنے بابا کو دیکھا ضبط کی انتہاء تھی ۔۔۔
وہ بس دھیما سا زخمی مسکراہٹ سے مسکرائی۔۔۔۔۔
بیٹا آپ تو ویام کے ساتھ تھے وہ کہاں ہے آیا نہیں آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔!؟"
رافع کو کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا تو بہانے سے استفسار کرنے لگا۔۔
لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی عیناں کے قدم ایک دم سے تھمے تھے۔۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسوں ایک دم سے بہنے لگے۔۔۔۔
وو وہ چھوڑ گیا مجھے ڈیڈ ہمشیہ کے لئے اب وہ کبھی نہیں آئے گا آپ کی بیٹی نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی تباہ کر دی۔۔۔۔۔"
بے تاثر لہجے میں اسے جواب دیتی وہ اسے صدمے میں گھرا چھوڑ خود اپنے کمرے کی جانب بڑھی ۔۔۔۔
" امید کروں گا کہ تمہاری شکل مجھے آج کے بعد کبھی نہیں دیکھنے کو ملے گی۔۔۔۔!" بے جان ہوئے قدموں کے ساتھ وہ اجڑی ویران شکست خوردہ سی لڑکھڑاتی ہوئی واشروم میں جاتے شاور آن کیے نڈھال سی ڈہ گئی ۔
کتنی خاموش ہیں ہجر کی راتیں میری
دل کی دھڑکن سے کان پھٹتے ہیں ۔!
آنٹی آپ بس جلدی سے ٹھیک ہو جائیں پھر ہم دھوم دھام سے اپنی الایہ کو اپنے ساتھ رخصت کرا کے لے جائیں گے۔۔۔۔۔!"
وہ سبھی اس وقت فدک کے پاس تھے جو کافی بہتر تھی اور خوش بھی نظر آ رہی تھی۔۔۔
مگر الایہ کے دور جانے کی بات سے جو ٹیس اس کے دل میں اٹھتی تھی وہ چاہنے کے باوجود بھی اسے دبا ناں سکی ۔۔
درد کیسے آنسوں کے رستے بہتا آنکھوں سے باہر نکلا اسے اندازہ بھی ناں ہو سکا ۔۔۔۔
رمشہ گھبراتے اسکے قریب بیڈ پر بیٹھتے اسکا ہاتھ تھام گئی جو زاروقطار رو رہی تھی۔
آپی آپ سے ایک التجا ہے میری الایہ بہت معصوم ہے بچپن سے اسنے بہت کچھ سہا ہے ایک ماں ہونے کے ناطے جو ممتا جو پیار مجھے اسے دینا چاہیے تھا میں وہ ناں دے سکی مگر وجہ آپ سب لوگ اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔
عیناں چاہے میرا خون نہیں مگر اس کے چھن جانے کا خوف اور بچپن میں جن حالات سے وہ معصوم گزری تھی میں نا چاہتے ہوئے بھی اپنے باقی کے بچوں سے غافل ہو گئی۔۔۔۔
مگر میرا خدا گواہ ہے مجھے الایہ جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔۔ وہ بس غصے کی تیز ہے دل کی بری نہیں وہ ۔۔۔۔ آپ پلیز اسے بیٹی بنا کر رکھئے گا مجھے یقین ہے کہ وہ آپ سب کو بہت عزت اور محبت دے گی ۔۔۔"
رمشہ کے ہاتھوں کو تھامے وہ جس قدر خلوص سے بولی وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔۔۔۔
بھائی ہمیں تو وہ عزت بھی دے گی اور پیار بھی مگر ہمارے قالو کا پتہ نہیں وہ بیچارہ رخصتی کے لیے جتنا اتاولا ہے لگتا ہے ہماری بیٹی اسے خوب ٹھیک کرے گی ۔۔۔۔
اشعر نے ماحول کا بوجھل پن دور کرنے کو شوشا چھوڑا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔
میں سب کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں____؛" سب کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھ حیا نے مسکراتے ہوئے کہا تو سبھی اسکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔۔
ہاں بیٹا مگر کچھ بھی لے آنا اور جلدی آ جانا ورنہ تمہارا شوہر فون پر فون کرتے کان کھا دے گا میرے۔۔۔۔۔۔!"
نرم نگاہوں سے حیا کو دیکھ اشعر نے ہلکے پھلکے سے انداز میں کہا تو وہ لب دباتی سر ہلائے باہر کو گئی۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ سے امن کی محبت اور ساتھ نے بچی کو الگ ہی روپ سے نواز دیا ہے۔۔۔۔؛" فدک نے اسے دیکھتے دل سے تعریف کی تو رمشہ نے بھی مسکراتے اسکی تصدیق کی ۔۔۔
حیا باہر نکلی کینٹین نچلے فلور پر تھی وہ لفٹ کی جانب بڑھی___ جونہی اسنے ہاتھ لفٹ کی جانب بڑھایا اچانک کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔
وہ چونکتی پیچھے کو مڑی،،، تو کسی نے بجلی کی تیزی سے کلوروفارم لگا رومال اسکے منہ پر رکھا۔۔۔۔ حیا کی آنکھیں حددرجہ گہری ہوئی وہ بھرپور احتجاج کرتی رہی مگر نشے کے زیر اثر وہ بے ہوش ہوتے مقابل کے کندھے سے جا لگی۔۔۔۔
پسینہ صاف کرتے اسنے ایک نظر آگے پیچھے دوڑائی ۔۔۔
اور پھر ہاتھ میں پکڑی شال حیا کے بے ہوش وجود پر ڈالے وہ جلدی سے لفٹ میں داخل ہوا۔۔۔۔
🍂🍂🍂🍂
مسلسل ایک گھنٹے سے مٹھو سے بات کرتے وہ اسے تمام ضروری معاملات سمجھا چکا تھا، سن زوہا کا کیا بنا ۔۔۔۔۔۔۔؟"
لیپ ٹاپ سکرول کرتے اسنے نارمل سے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکی وجہ سے وہ معصوم اپنی زندگی تباہ کرے ۔۔۔
ہونا کیا ہے اسکا داخلہ ڈاکٹروں والے ہسپتال میں ہو چکا ہے اور آج کل عادل نامی ایک لڑکا اس سے کافی اچھی دوستی بھی ہو گئی ہے اسکی۔۔۔۔"
مسکراہٹ دباتے مٹھو نے اسے معاملات کی سنگینی سے آگاہ کیا تو بھاوں کا سکرولنگ کرتا ہاتھ تھم سا گیا۔۔۔۔
کون ہے وہ لڑکا اور کیسے ہوئی اسکی دوستی زوہا سے ۔۔۔۔۔!" لہجے میں فکر عیاں تھی ہوتی بھی کیوں ناں اپنے خاندان کے ہر فرد سے اسکا تعلق ایسا ہی گہرا تھا ۔
چاہے وہ دور تھا مگر وہ ایک پل کے لیے بھی ان سب سے غافل نہیں ہوا تھا ۔۔۔
اسنے سوچ لیا تھا ۔۔۔
جیسے ہی معاملات اچھے سے نمٹ گئے وہ واپس جاتے ہی اپنے گھر کو ایک ادارے میں تبدیل کرے گا جہاں پر نا صرف رہنے بلکہ علاج معالجہ کی سہولیات بھی دستیاب ہونگی۔۔۔۔۔
اسکے خاندان کا ہر فرد مسکراہٹ بھری پرسکون زندگی گزار سکے گا۔۔
بھاوں ساری تحقیقات کر لی ہیں میں نے۔۔۔۔۔ لڑکا یتیم ہے آگے پیچھے کوئی بھی نہیں ۔۔۔۔۔ اور بے حد شریف ہے میں نے اسے کہا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ہمارے گھر رہ سکتا ہے مگر اسنے منع کر دیا وہ پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا ہے اور ایک کرائے کے مکان میں عزت کی زندگی گزار رہا ہے۔۔۔۔
مٹھو نے اسے تمام تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ قدرے پرسکون ہوتے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔۔۔
اسے اپنے ساتھ کام کا بول اور کہہ کہ تنخواہ بھی اچھی ہو گی اور اسے کہہ اگر زوہا کو سچ میں پسند کرتا ہے تو ہمارے گھر میں شفٹ ہو جائے ۔۔۔"
ٹھیک ہے جیسا تم کہو میں اس لڑکے سے بات کرکے تمہیں بتاؤں گا۔۔۔۔۔!"
چل ٹھیک ہے ابھی مجھے ذرا کام ہے خیال رکھنا اپنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ساتھ ہی امن نے کال کاٹ دی۔۔۔۔۔
اسکے ذہن کے پردوں پر اس وقت حیا کا عکس چھایا ہوا تھا۔۔۔۔جبھی بے قراری سے فون کاٹتے اسنے اشعر کو کال کی۔۔۔۔۔
🍂🍂🍂🍂
ہاں امن یار کب سے کال کر رہا ہوں کہاں بزی ہو______!" اشعر کی گھبرائی سے آواز فون سے ابھری تو امن کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ فوراً سے جگہ سے اٹھتا کھڑکی کی جانب بڑھا۔۔
ڈیڈ ضروری کال تھی آپ بتائیں کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے پریشان لگ رہے ہیں آپ مجھے،،،،،؟"
اپنی شیو کو مسلتے وہ حقیقتاً گھبرایا تھا ۔۔
یار حیا کہیں نہیں مل رہی آدھے گھنٹے سے باہر کچھ کھانے کو لینے گئی تھی ۔۔
ہر جگہ چیک کر چکا ہوں مگر وہ کہیں بھی نہیں ۔۔۔۔۔!"
اشعر نے بے چینی سے اسے آگاہ کیا وہ مسلسل باہر اسے ڈھونڈ رہا تھا جبکہ رمشہ اور باقی سب اس خبر سے انجان تھے ۔۔۔
ڈیڈ ایسا کیسے ہو سکتا ہے آپ اچھے سے دیکھیں وہ وہیں کہیں ہو گی۔۔۔۔۔
بالوں کو مٹھیوں میں بھینچتے وہ دبے دبے لہجے میں غرایا تھا۔۔۔ سامنے والا اسکا باپ تھا جس سے بدتمیزی وہ ہرگز نہیں کر سکتا تھا۔
یار میں نے دیکھ کر ہی کال کی ہے تمہیں۔۔۔۔مجھے کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے امن کہیں یہ تمہارے کسی دشمن کا کام تو نہیں۔۔۔۔!_
اشعر نے اپنا خوف اسپر عیاں کیا تو امن ایک پل کو چونکا اور پھر لب بھینچ لیے۔۔
آپ کسی کو اس متعلق کچھ نہیں بتائیں گے میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔؛" کہتے ساتھ ہی وہ کال کاٹ گیا ۔۔۔
کہ ساتھ ہی اسکا فون دوبارہ سے رِنگ ہوا۔۔۔۔۔امن نے فوراً سے فون اٹھائے کان سے لگایا ۔۔۔
ہیلو کون۔۔۔۔۔۔؟"
امن نے مضطرب سی کیفیت میں پوچھا تو دوسری جانب سے قہقہ سا ابھرا ۔۔۔
تیری بیوی اس وقت میرے پاس ہے اگر ہمت ہے تو ڈھونڈ لے اسے چوبیس گھنٹے کا وقت دیتا ہوں تجھے جس طرح سے تو نے میرے بیٹوں کو مارا تھا ویسے ہی تجھے تڑپا تڑپا کر ماروں گا بھاوں سالے۔۔۔۔۔۔ اگر تُو چوبیس گھنٹوں تک ناں ڈھونڈ سکا اپنی بیوی کو تو اگلے ایک گھنٹے میں وہ کسی کے بستر کی زینت بنے گی یہ وعدہ رہا لطیف کا تجھ سے۔۔۔۔۔۔!"
زہر خند لہجے میں آگ اگلتا وہ سامنے بندھی حیا کی جانب دیکھتے بولا تو بھاوں نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔۔
تُو چوبیس گھنٹے دے گا سالے بھاوں کو ۔۔۔۔تُو رک اگلے ایک گھنٹے میں میں تیرے پاس ناں ہوا تو کہنا کہ مرد کا بچہ نہیں تھا تُو۔۔۔۔۔ تیرے بیٹوں نے تو میرے ملک سے غداری کی سزا بھگتی تھی ۔۔
لگتا ہے انکا انجام بھول گیا تُو۔۔۔۔۔۔۔ بھاؤں کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے کا بھاؤں کیا کیا اکھاڑتا ہے یہ تجھے میں مل کر بتاتا ہوں سالے دو ٹکے کے آدمی______!"
غصے طیش سے کہتے امن نے فوراً سے کال کاٹی تھی۔۔۔
حیا کے لیے ایسے الفاظ اس غلیظ انسان کے منہ سے سنتے بھاؤں کا فشار خون بڑھا تھا اب یہ تو وہ لطیف کو مل کر بتانے والا تھا کہ اس نے کس سے پنگا لیا تھا ۔۔۔
ہاں سن ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے بیس منٹ میں لطیف کا ٹھکانہ ڈھونڈ ورنہ تیری ہڈیوں کا سرمہ بنا کر مفت میں بیچوں گا۔۔۔۔۔؛"
ہلیو ہیلو بھاوں ۔۔۔۔۔۔۔جعفر نے گھبراہٹ سے بند ہوچکے موبائل کو دیکھا ۔۔۔ بھلا بیس منٹ میں وہ کیسے لطیف کا پتہ نکالتا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؛
•••••••_________••••••••
وہ بجلی کی سی تیزی سے گاڑی سے اترتا اس بلڈنگ نما کھنڈر عمارت میں داخل ہوا،دل کی دھڑکنیں ابتر ہو رہی تھیں ۔
پچھلے پچاس منٹ سے وہ لگاتار لطیف کو ہر ممکنہ جگہ ڈھونڈ چکا تھا ۔۔ اب جعفر سے ملنے والی معلومات کے مطابق اسکی موبائل کی آخری لوکیشن اسی عمارت سے ٹریس ہوئی تھی۔
بیٹوں کو کھو دینے کے غم سے وہ اس قدر پاگل ہو چکا تھا کہ یہ تک ناں سمجھ سکا جس سے وہ جھگڑا مول لے رہا ہے ۔۔
وہ اس کا باپ تھا۔۔۔۔
بھاوں نے غصے سے لوڈڈ گن اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے کف فولڈ کرنے لگا۔۔۔۔۔
ماتھے پر شکنوں کا جال اسکی اندرونی تباہ کن حالت کی غمازی کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ بپھرے تاثرات سے آگے بڑھتا دو تین قدموں میں سیڑھیوں کا سارا راستہ طے کر چکا تھا۔۔۔
دور دراز ہر طرف اندھیرے کا ڈیرا تھا۔۔۔
رات کے دس بج رہے تھے۔۔۔۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بھاؤں کے دل کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔۔
نچلے لب کو شدت سے دانتوں تلے دبائے اسنے دو ٹھوکروں میں دروازے کو زمین بوس کیا اور خود لمبے لمبے ڈھگ بھرتا وہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔
جہاں طویل اندھیرے نے اسکا استقبال کیا۔۔۔۔
عمارت کے حالی ہونے کی وجہ سے بھاوں کے بھاری بوٹوں میں مقید قدموں کی چاپ دور دور تک چھاپ چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔
لطیف جو یوں بھاوں کی اچانک آمد سے گھبراہٹ کا شکار ہوا تھا۔۔۔
اسنے مچلتی حیا کے منہ پر زور سے ہاتھ رکھتے اسے خاموش کیا۔۔ جو بھاوں کی آمد سے بخوبی واقف ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
حیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہو تم ۔۔۔۔۔؟" گن کو تھامے وہ دھیمے قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا اسکی پکار میں چھپی تڑپ پر حیا کی آنکھوں سے دو آنسوں پھسلتے اسکے گال پر لڑکھے تھے ۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو کئی لوگ آئے تھے اسے دیکھنے۔۔۔۔۔ مگر انکی قیمت لطیف کی خواہش کے مطابق نہیں تھی ۔۔۔
پھر لطیف نے انہیں دوسرا موقع دینے کا وعدہ کیا تھا اور آج کی رات وہ خود حیا کو پامال کرنے والا تھا ۔۔
مگر ان لوگوں کے نکلتے ہی امن پہنچ آیا تھا۔۔۔ حیا کو نفرت سی محسوس ہو رہی تھی اس شخص سے ۔۔۔۔۔وہ بس بھاگ جانا چاہتی تھی اپنے امن کے پاس مگر وہ نازک سی لڑکی اس درندے کے شکنجے سے نکلنے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔۔۔
جو بھرپور طریقے سے اسکی بے بسی کا مزہ لوٹ رہا تھا ۔۔
تیرے شوہر کو جانے دے پھر تیری ساری اکڑ نکالوں گا ۔۔۔"
امن کو اوپر کی جانب بڑھتا دیکھ حیا نے بھرپور مزاحمت شروع کر دی جسے دیکھ وہ غصے نفرت سے اسکے کان میں غرایا ۔۔۔
تو حیا کا وجود سن سا ہو گیا ۔۔۔وہ خوف سے زرد پڑنے لگی۔۔۔۔
حیاء کہاں ہو تم________؟“ وہ پاگلوں کی طرح اسے آوازیں دیتا ڈھونڈ رہا تھا جو کہیں بھی نہیں تھی،،،
امن نے بے بسی سے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اپنی نم آنکھوں کو میچا ۔۔۔۔۔۔
معا اسے آہٹ محسوس ہوئی۔۔۔۔
رخ موڑتے اسنے گن کو مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔۔ میرے بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار کر تمہیں کیا لگا تھا کہ تم یہاں لندن میں مجھ سے بچ جاؤ گے۔۔۔۔۔۔ لطیف نے گن کا دباؤ حیاء کے ماتھے پر بڑھایا ۔۔۔
جبکہ امن کی لہو آنکھیں حیاء کے پھٹے ہونٹ پر تھیں جہاں سے خون رس رہا تھا ۔۔
اسے چھوڑو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے مجھے مار دو۔۔۔۔ “
حیاء کی آنکھوں میں دیکھ امن نے ہاتھ میں تھامی گن دور پھینکی ۔۔۔۔
ابھی کہاں ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے اب تو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ میں کیسے تیری بیوی کو پامال کرتا ہوں ۔۔۔۔"
غصے سے اسے دیکھ وہ نفرت سے پھنکارہ ۔۔۔۔امن کی آنکھوں میں خون اترا تھا۔۔۔۔
اگر تو نے غلطی سے بھی اسے چھونے کی کوشش کی تو بخدا میں بھول جاؤں گا کہ تجھے موت انسانوں والی دینی ہے ۔۔۔۔"
امن کا لہجہ بے لچک تھا حیا کا کانپتا وجود اسے مزید تکلیف دے رہا تھا اسکی وجہ سے وہ معصوم اس لطیف جیسے شیطان کے ہاتھوں میں تھی۔۔۔۔
تجھے لگتا ہے کہ اتنی آسانی سے چھوڑ دوں گا اسے ۔۔۔۔۔تیرے آنے سے پہلے اسکی قیمت لگی ہے جانتا ہے پورے دس کروڑ لگے ہیں صرف ایک رات کے۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا مگر مجھے قیمت پسند نہیں آئی آخر کار کو یہ ہمارے بھاوں کی بیوی جو ٹہری اوپر سے ایسی حیسن اففففففف۔۔۔۔۔۔۔؛
تو میں نے سوچا کہ کیوں ناں پہلے اسکے معصوم حسن کو میں سراہوں اسکے بعد سب کو موقع ملے گا۔۔۔۔ ہاہاہاہا دیکھا کیسی رہی میری ڈیل ۔۔۔۔۔۔؛"
خباثت سے حیا کی گردن کو دبوچتا وہ امن کا فشار خون بڑھا رہا تھا۔۔۔
امن نے ضبط سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچتے دانت آپس میں جما دیے ۔۔۔۔۔
چل تجھ سے شروعات کرتا ہوں آج تیرے سامنے ہی تیری بیوی کو_______ اہہہہہہہہہہہ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛"
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور مغلظات اپنے منہ سے نکالتا
فضا میں ایک دم سے فائر کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔۔
لطیف ایک دم سے اپنا ہاتھ پکڑتا کراہنے لگا ۔۔۔۔
بھاوں نے سرد نگاہوں سے اسکے غلیظ خون کو دیکھتے ایک نظر پیچھے سے آتے جعفر پر ڈالی ۔۔۔۔
حیا اندھا دھند بھاگتی امن کے سینے سے جا لگی ۔
امن نے اس کپکپاتے نازک وجود کو سینے سے لگائے اپنے ہونے کا احساس دلایا اور پھر ایک دم سے اسے پیچھے کرتے وہ آگے بڑھا اور زمین پر تڑپتے لطیف کو گریبان سے پکڑتے اپنے سامنے کیا۔۔۔۔۔
اس ہاتھ سے تو نے چھوا میری بیوی کو۔۔۔۔۔ اسکے دائیں ہاتھ کو دیکھتے وہ بہتے خون والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں دبوچتے غرایا۔۔۔۔
تو لطیف کی دردناک چیخیں عمارت میں گونجتی وخشت ناک ماحول برپا کرنے لگی۔۔۔۔
امن نے غصے سے اسکے ہاتھ کو شدت سے دبوچا کہ امن کا چہرہ لہو چھلکانے لگا۔۔۔
مممم مجھے مممعاف کر دو بببب بھاوں______؛ موت کو اپنے قریب دیکھ وہ بے بسی سے معافی مانگنے لگا۔۔۔
جعفر ایک طرف ہاتھ پشت پر باندھے کھڑا تھا۔۔۔
جبکہ حیا مسلسل روتی یہ سارا منظر نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
معاف تو واقف نہیں کہ بھاوں کیا چیز ہے تو رک ابھی ۔۔۔۔۔۔ لطیف کا معافی مانگنا اسی پر بھاری پڑ گیا وہ غصے سے آگے پیچھے دیکھتا دور پڑے ایک بھاری پتھر کو اٹھا لایا ۔۔
لطیف کے پیٹ پر لات مارتے بھاوں نے اسکے دائیں ہاتھ کو پاؤں کے نیچے مسلا اور پھر وہیں پتھر بے دردی سے اسکے ہاتھ پر مارنے لگا۔۔۔۔۔
لطیف کی کربناک چیخیں وخشت ناک منظر برپا کرنے لگیں۔۔۔
پورا ہاتھ بری طرح سے ادھڑ چکا تھا خون سے لت پت ہاتھ کی بوٹیاں تک پرزہ پرزہ ہو چکی تھیں ۔ وہ اسی پر تھکا نہیں تھا۔۔۔
اسی طرح سے اسکے بائیں ہاتھ کو پاؤں کے نیچے رکھتے اسنے بری طرح سے اسے بھی ادھیڑ کر رکھ دیا۔۔۔
جعفر نے نظریں پھیر لیں ۔۔۔ لطیف کے منہ سے خون پھوارے کی مانند بہہ رہا تھا دونوں ہاتھ ابتر ہو چکے تھے۔۔۔۔۔
جبکہ بھاوں کسی وخشی کی طرح اب اسکے پاؤں کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
چچچ چھوڑ دو۔۔۔بب بس کک کرو اممن۔۔۔۔۔۔۔۔؛" حیا کی وجود اسکا ساتھ چھوڑ رہا تھا امن کا اتنا بھیانک روپ وہ آج دوسری بار دیکھ رہی تھی اور آج بھی وجہ وہ خود ہی تھی۔۔۔۔
نم آنکھوں کے سامنے لہراتا امن کا خون سے لت پت وجود دھندلا سا گیا ۔۔۔
امن حیا کے بلانے پر جیسے واپس ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا۔۔۔۔
سرخ نگاہوں سے اسے دیکھتا وہ پاگلوں کی طرح اسکی طرف لپکا جو بے جان ہوتی گرنے کو تھی۔۔۔۔
اٹھا کر لے جاؤ اسے دھیان رکھنا اگر اسکے جسم کا ایک حصہ بھی سلامت ملا تو تمہاری جان میں اپنے ہاتھوں سے نوچوں گا۔۔۔۔۔
حیا کو مضبوطی سے بانہوں میں دبوچے وہ جعفر پر غرایا جو سر فوراً سے ہاں میں ہلاتا لطیف کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔۔
•••••••____________•••••••
شی از اوکے بس سٹریس کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے بس آپ کو ان کی صحت کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔!"
مسکراتے مضطرب بکھرے حلیے میں کھڑے امن کو دیکھتے ڈاکٹر نے نرم مسکراہٹ سے کہا تو امن نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے کمفرٹر میں چھپے اس نازک سی جان کو دیکھا ۔۔۔
جس کا شاداب حسین چہرہ بے رونق سا لگ رہا تھا۔۔۔
اشعر کو وہ کال پر حیا کے ملنے کی خبر دے چکا تھا اور خود اسے لیے وہ ایک ہوٹل میں آیا تھا۔۔۔۔ جہاں آتے ہی سب سے پہلے اسنے لیڈی ڈاکٹر کو بلایا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر آپ ٹھیک سے چیک اپ کریں اس کا رنگ دیکھیں کیسے پیلا پڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔ کہیں کوئی گھبرانے کی بات تو نہیں ۔۔۔۔۔!"
امن نے بے چینی سے کہا تو ڈاکٹر مسکرائی۔۔۔۔۔ ارے نہیں مسٹر آپ کی وائف ٹھیک ہیں اور آج تو کافی رات ہو چکی ہے آپ کل میرے ہاسپٹل لے کر آئیے گا میں انکا تفصیلی چیک اپ کروں گی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ماں بننے والی ہیں۔۔۔۔۔"
ڈاکٹر نے بھرپور مسکراہٹ سے کمفرٹر میں دبکی اس معصوم گڑیا کو دیکھتے امن سے کہا ۔۔۔۔جو پہلے سر ہاں میں ہلا گیا اور پھر ایک دم سے چونکتے ڈاکٹر کو دیکھا ۔۔
اسکی آنکھوں میں حیرت ڈاکٹر بھانپ گئی ۔۔۔۔۔۔ امن کئی لمحوں تک ساکت سا کھڑا ڈاکٹر کو دیکھتا رہا۔
ڈاکٹر آپ کو کتنے پرسینٹ یقین ہے کہ جو آپ کہہ رہی ہیں وہ سچ ہے______؟"
شہد رنگ آنکھوں میں ابھرتی حرارت جان لیوا تھی وہ لبوں سے ایسے الفاظ ادا کر دیا تھا جن سے جھلکتی بے یقینی کسی کو بھی بوکھلا سکتی تھی بھلا بھاوں نے کبھی اتنی عزت اتنی عاجزی سے کسی سے بات کی تھی ناممکن سی بات تھی۔۔۔؛
مجھے سو فیصد یقین ہے مسٹر ۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی ایک بار تسلی کے لئے آپ میرے پاس آ جائیے گا اور پھر انکا ڈائیٹنگ شیڈول بھی آپ سے شئیر کر لوں گی۔۔۔۔؛"
مسکراتے لہجے میں کہتی ڈاکٹر نے اپنا بیگ سنبھالتے ایک الوادعی نظر اس روئی جیسی نرم و نازک لڑکی پر ڈالی۔۔۔
جو ہوش و خرد سے۔ بیگانہ پل میں ہی امن علوی کی دنیا تہ و بالا کر چکی تھی ۔۔
ڈاکٹر یہ ہوش میں کب آئے گی۔۔۔۔۔؛"
ڈاکٹر کو روم سے باہر چھوڑتے امن نے بے تابی سے پوچھا تو ڈاکٹر اسکی بے تابی پر کھل کر ہنسی ۔۔۔
ڈونٹ وری تھوڑی دیر تک وہ ہوش میں آ جائیں گی ۔۔۔!"
کہتے ساتھ ہی وہ الوداعی کلمات کہتے باہر کو بڑھی ۔۔۔۔
امن نے مڑتے دروازہ اندر سے لاک کرتے دروازے کی پشت سے ٹیک لگائی اور ایک بھرپور نظر اس نازک سی جان پر ڈالی۔۔
•••••••••••
اپنے وجود پر کسی کے بھاری سخت ہاتھوں کا لمس اسے کسمسانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔
وہ نیند اور غنودگی سے بوجھل نگاہیں ہلکی سی وا کیے نیم اندھیرے میں اسے دیکھنے کی سعی کرنے لگی۔۔۔۔۔
دماغ بالکل سویا ہوا غافل تھا۔۔۔۔ جبھی بے چینی سے مقابل کے ہاتھوں کو تھاما۔۔۔۔
ڈونٹ وری لخت جگر حق رکھتا ہوں۔۔۔۔۔؛" اسکی شرٹ کا کالر ٹھیک کرتے امن نے محبت سے بھری سرگوشی کرتے اسکے حسین چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ بکھیر دی۔۔۔۔
جانتی ہوں سارے حق تمہارے ہیں۔۔۔۔۔۔؛" بند ہوتی آنکھوں سے وہ بازو کا ہار اسکے گلے میں ڈالے سکون سے بولتی بے حد پیاری لگی تھی امن کو۔۔۔۔۔ امن نے اسے حود میں بھینچ لیا اور پھر چند سانیے خاموشی کے بعد اسے بانہوں میں بھرتے وہ جگہ سے اٹھا ۔۔
تو حیا نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہاں۔۔۔۔۔
امن نے آنکھوں سے ہی خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔۔ تو وہ سر ہاں میں ہلاتی خاموش ہو گئی۔۔۔۔
کمرے میں موجود مدہم سی روشنی بھی بند ہو چکی تھی۔۔۔
امن اسے اٹھائے روم سے باہر نکلا اور ساتھ ملحقہ کمرے میں جاتے ڈور کو پاؤں سے لاک کیا۔۔۔۔
حیا کو کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا مگر کیا وہ سمجھ ناں پائی ۔۔۔
لطیف یا پھر دن والا واقعہ اسکے ذہن سے بے حد دور تھا کیونکہ فل وقت امن نے اسکے ہوش و حواس کو جکڑ رکھا تھا۔۔۔۔۔ اور وہ خود بھی کچھ سوچنا نہیں چاہ رہی تھی۔۔۔
روم میں تھوڑا آگے جاتے اسنے نرمی سے حیا کو نیچے اتارا تو حیا خود کو کسی نرم گرم گدے پر محسوس کرتے چونکی ۔۔۔
اور اب پہلی نظر اسکی اپنے وجود پر موجود اس سرخ نائٹ ڈریس پر پڑی تھی جسے امن نے پہنایا تھا۔۔۔۔
شرم سے دہکتے اسکے گال سرخ انگارہ ہوئے تھے کیونکہ یہ پہلی بار تھا کہ وہ ایسے لباس میں امن کے سامنے موجود تھی ۔۔
جبکہ امن تو یک ٹک بنا لمحہ ضائع کیے اپنی لخت ِِجگر کو آنکھوں کے رستے دل میں اتار رہا تھا۔۔۔۔
سرخ نائٹ ڈریس میں وہ کھلی سیاہ زلفوں والی نازک اندام سی خوشبو میں بسی بے حد دلفریب لگی تھی اسے۔۔۔۔
امممننن ۔۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح حیرت سے کمرے میں ہوئی جگمگاہٹ کو دیکھ وہ گھبراہٹ میں اسکے نام کو پیس کر بولی ۔۔۔
تو امن نے اپنا بھاری ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد حائل کیے اسے بے حد قریب کر لیا اتنا کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کو جھلسانے لگی ۔۔۔۔۔
سفید شرٹ میں ملبوس وہ وجاہت کا شاہکار کھلے بٹنوں سے جھانکتا اسکا کشادہ سینہ حیا کو نگاہیں جھکانے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔۔۔
لخت جگر آج بھاوں صرف تمہیں سننا چاہتا ہے چاہے تو گالیاں دے لو جو مرضی کہو مگر خاموش مت ہونا ۔۔۔۔۔؛"
اسکی بے باک نگاہوں سے جھلکتے جذبات حیا کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں پسینے سے نم ہونے لگیں۔۔۔۔۔
دل کی دھڑکن تو جیسے پہلے سے ہی مقابل کے سینے میں دھڑک رہی تھی۔۔۔۔
ییی یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔؟" لبوں پر زبان پھیرتی وہ جزبز سے روشنیوں سے جگمگاتے کمرے کی بابت استفسار کرتی بے حد معصوم لگی۔۔۔
امن کئی لمحوں تک بنا کچھ کہے اسے دیکھے گیا۔۔۔۔۔ حیا جو پہلے ہی اسکی قربت اسکی بے باک نگاہوں سے گھبرائی تھی اب یوں دیکھنے پر بلا وجہ ہی بال کان کے پیچھے اڑسنے لگی ۔۔۔۔
ایک تو ظالم نے کمر سے بھینچتے دور جانے کا راستہ بھی بند کر دیا تھا۔۔۔۔
امن نے ایک دم سے ہاتھ ڈائرکٹ حیا کے پیٹ پر رکھا تو وہ گھبرائی سی پیچھے ہونے لگی۔۔۔۔۔۔ مگر اسے مضبوطی سے دبوچے امن نے بے حد اچانک سے جھکتے لب اسکے پیٹ پر رکھے یہ سب حیا کیلئے اس قدر اچانک اور حیران کن تھا۔۔۔
کہ وہ ششدر سی اپنے مقابل گھٹنوں کے بل بیٹھے شخص کا لمس اپنے پیٹ پر محسوس کرتی اپنی بے ہنگم ہوئی دھڑکنوں کو شمار کرتی رہی۔۔۔۔
میں بڑے بڑے دعویٰ نہیں کروں گا لخت جگر ناں ہی گھما پھرا کر بولوں گا۔۔۔۔"
وہ سیدھا ہوا تو حیا نے اسکی چمکتی شہد رنگ آنکھوں سے جھلکتی نمی کو دیکھا۔۔۔اور اپنے ہاتھوں میں مقید مقابل کے بھاری ہاتھوں پر گرفت مضبوط کر دی ۔۔۔
جس پر اسے سکون ملا تو وہ مسکرا دیا ۔۔۔
میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش میرے بچپن کی الفت تم ہو ۔۔۔۔ جس سے چاہنے کے باوجود بھی میں نفرت ناں کر سکا۔۔۔۔۔میری ماں کے بعد تم وہ پہلی عورت ہو جس سے امن علوی اور بھاوں نے سب سے زیادہ الفت کی ہے۔۔۔ مگر شاید آخری نہیں ۔۔۔۔۔؛"
اسکی آخری بات پر حیا کے ہونٹوں پر پھیلی پرسوز سی مسکراہٹ سمٹ سی گئی ۔۔۔۔
امن نے دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ بھرتے اسے نزدیک کیا۔۔۔۔
جس کی بھیگی نگاہیں اسکے اگلے الفاظ کی منتظر تھیں ۔۔۔
کیونکہ شاید میرا خدا مجھ جیسے گناہ گار پر اس قدر قادر ہو چکا ہے کہ وہ مجھے اولاد جیسی نعمت سے نواز رہا ہے ۔۔۔۔۔۔"
اسکے لبوں سے نکلتے الفاظ اس قدر میٹھے،، مخمور کرتے تھے کہ حیا کو کئی لمحوں تک یقین ناں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔۔۔
اسکی بے یقینی سے پھیلی نگاہوں میں دیکھتے امن نے شدت سے اسکی پیشانی کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تو جیسے وہ ساکت سی کھڑی ہوش میں لوٹی ۔۔۔۔
ہاں ہم ماں باپ بننے والے ہیں۔۔۔۔۔۔؛"
حیا کی آنکھوں میں سوال دیکھ وہ نم نگاہوں سے تصدیق کرتا اسکے دل کی دھڑکنوں کو بے ہنگم سا کر گیا ۔۔۔۔۔
وہ اس اچانک سے ملتی خبر پر حیرت سے ششدر حیرانگی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھی احساس تو تب ہوا جب خود کو کسی کی مہرباں آغوش میں پایا۔۔۔۔۔۔۔
حیا نے آسودگی سے سر امن کے سینے سے ٹکا دیا ۔۔۔۔۔
جو اسے اٹھائے ایک جانب پھولوں سے سجے بیڈ کی جانب بڑھا ۔۔۔۔اور بے حد نرمی سے اسے بیڈ پر بٹھائے وہ اسکے سامنے دوزانو ہوا۔۔۔۔
اممنننن تممم سچچ کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔! بالکل مدہم سی آواز میں کہتی وہ جیسے غائب دماغی سے بول رہی تھی ۔۔۔
شاید وہ یہ سب کچھ ایک خیال تصور کر رہی تھی اتنی خوشیاں ایک ساتھ کیسے رب نے اسکی جھولی میں ڈال دی۔۔۔۔۔
تشکر بھرے آنسوں آنکھوں سے جدا نہیں ہو پا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اتنا بڑا اعزاز اتنی بڑی خوشی ایک انوکھا سا سرور تھا جو اسکے رگ و پے میں سرایت کر رہا تھا۔
تمہیں یقین دلانے کو میں خود ہی کافی ہوں آج کی رات کافی اچھے سے تمہیں ادراک ہو جائے گا کہ یہ سب سچ ہے۔۔۔۔"
اسے کھینچتے بانہوں میں بھرتے وہ شریر لہجے میں بولا تو حیا نے گلال ہوتا چہرہ اسکے سینے میں چھپایا۔۔۔۔
ویسے اب تم مجھے بات بات پر چھوٹا نہیں بولو گی کیونکہ اب اس عمر میں چھوٹے نے بہت بڑا کام کر دیا ہے مطلب اب یہ الزام بند ۔۔۔۔۔۔"
اسکے گال پر لب رکھتے وہ قہقہ لگاتے ہنسا تو حیا نے غصے سے اسکے سینے پر مکے جھڑے۔۔۔۔۔
قمست ان پر مہربان ہوئی تھی وہ دونوں ایک طویل دکھ بھری مسافت کو طے کرنے کے بعد اب اپنی حقیقی خوشیوں کو پا چکے تھے وہ خوشی وہ سکون جو خدا نے ان دونوں کے ایک دوسرے کا ساتھ عطا کرتے نصیب کیا تھا ۔۔۔
آسمان پر چمکتا وہ سنہری چاند بھی ان دونوں کی الفت پر مسکراتا بادلوں کی اوٹ میں ہوا۔۔۔۔
یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟" ٹرے کی جانب دیکھتی وہ سوالیہ نگاہوں سے ایل کی جانب دیکھنے لگی۔۔۔
جس نے نا جانے کس قسم کی عجیب سی ڈش بنائی تھی ۔۔۔
کیا ہوا یار کھا کر دیکھو بے شک دیکھنے میں اچھی نہیں مگر ٹیسٹ بہت زبردست ہے اسکا۔۔۔۔۔؛"
ایک نظر حور کے حیرت سے کھلے منہ پر ڈالے اسنے اپنی آلو پرا ڈش کو دیکھتے کہا۔۔۔۔
جو کہ ریزہ ریزہ ہوا پڑا تھا۔۔۔۔
حور کو وہ پراٹھا کم حلوہ زیادہ لگا تھا۔۔۔۔ وہ برے سے منہ بناتے کھانے سے انکار کرنے لگی کہ نظر ایل کے ہاتھ پر پڑی جو کافی زیادہ جل چکا تھا۔۔
افففف یہ کیا تم نے یہ کیسے جل گیا۔۔۔۔۔۔؟" فوراً سے اسکے ہاتھ کو تھامے وہ خوف سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
جبکہ اسکی اس قدر توجہ فکر پر ایل کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہونے لگا تھا ۔۔
واقعی وہ نازک سی معصوم دل کی لڑکی تو چاہتوں کی امین تھی اسکے پامال کرنے کے باوجود بھی آج وہ اسی کے ہاتھ کی تکلیف میں خود بے چین ہو چکی تھی۔۔
نتنھگ تھوڑا سا ہے ٹھیک ہو جائے گا تم کھا کر بتاؤ کیسا بنا ہے۔۔۔۔۔"
اپنا ہاتھ پیچھے کرتا وہ جبرا مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولا تو حور نے اسے گھورا اور ٹرے ایک طرف سرکاتے وہ فورا سے اٹھی۔۔۔۔
فرسٹ ایڈ کٹ ڈھونڈتے وہ دوبارہ سے بنا کسی خوف و ڈر کے اسکے بالکل قریب بیٹھی اسکے ہاتھ کو تھام گئی ۔۔۔
سن شائن تمہارا یہ رویہ مجھے بے موت مار رہا ہے مجھ سے نفرت کرو میں اسی کا حق دار ہوں یوں اتنی پرواہ اتنی فکر مت کرو مجھے عادت ہے ان سب کی ۔۔۔۔!"
نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھوں میں سرخی سی اترنے لگی۔۔۔ وہ خود کو چھپانے والا مرد آج ذرا سی محبت فکر میں ریت کی مانند پگھل رہا تھا۔۔۔
حور کو احساس ہوا وہ شاید ہمدردی میں اسکے زیادہ قریب ہو رہی تھی۔۔۔
نظریں جھکائے وہ پھر سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔ تو اب کی بار ایل نے ہاتھ سامنے کیا۔۔۔۔
اب دیکھ لیا ہے تو مرہم بھی لگا دو۔۔۔۔۔؛" اسکا لہجہ اس قدر امید بھرا تھا کہ وہ خوشبو میں بسی نازک سی جان گلابی چہرہ جھکائے آرام سے مرحم کپکپاتے ہاتھوں سے اسکے زخم پر لگانے لگی۔۔۔۔
تھینک یو میری زندگی کی روشنی ۔۔۔۔۔" بے اختیار اچانک سے جھکتے ایل نے ان گلابی ہوتے رخساروں کو نرمی سے چھوتے کہا تو حور کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔۔۔
مگر اس بار اسکے قریب آنے سے اسے نفرت محسوس نہیں ہوئی کوئی کراہت کا احساس نہیں ابھرا ۔۔۔۔
وہ بس خاموشی سے لب بھینچ گئی ۔۔۔۔ ایل کو احساس ہوا تو وہ سوری کرتا واپس پہلے کی پوزیشن میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔
اب تم آلو پرا کھا کر بتاؤ پلیز _____؛" کافی دیر دونوں نے درمیان خاموشی چھائی رہی جسے ایل نے توڑا تو وہ سر ہلاتے چمچ اٹھائے آلو پرا کھانے لگی ۔۔۔۔
اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" جانے کیوں مگر اسکا اسے دیکھ وہ چاہنے کے باوجود بھی وہ سچ ناں ہول پائی جبکہ اسکے جواب پر نیلی آنکھوں والا جوان مرد آنکھیں جھپکتے نمی چھپانے کو چہرہ ہاتھوں میں چھپا گیا ۔۔
حور کو اسکا یہ روپ عجیب لگ رہا تھا۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ جسے وہ پہلے جانتی تھی وہ اصلی عالیان شاہ تھا یہ پھر یہ جو ان چند دنوں میں اس کے سامنے پرت در پرت کھلتا جا رہا تھا۔۔۔۔
جانتی ہو مجھے پاکستانی کھانے بہت پسند تھے بچپن میں ۔۔۔۔بٹ موم کو بنانے نہیں آتے تھے اور ڈیڈ انہوں نے تو ایسے ہی چھوڑ دیا۔۔۔۔
اہہہہہہہ پھر جیسے تیسے زندگی گزاری تم وہ پہلی اور آخری خواہش ہو زندگی جسے ایل نے غلط طریقے سے ہی سہی مگر اپنی زندگی کا اثاثہ بنا لیا ہے۔۔۔۔
مجھے دنیا کے ہونے سے فرق نہیں پڑا کبھی مجھے صرف تمہارا ساتھ چاہیے۔۔۔۔۔ "
حور جو بغور اس کے حسین نقوش میں کھو سی گئی تھی اسکے اپنی طرف بڑھے ہاتھ کو دیکھ وہ پلکیں جھپکتی جگہ سے اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔؛"
ایل نے ایک نظر واشروم میں بند ہوتی حور پر ڈالی اور پھر اپنے حالی ہاتھ پر وہ زخمی سے انداز سے ہنسا۔۔۔۔۔۔
اسے لیلی سے آخری بار ملنے جانا تھا مگر اس سے پہلے حور کو اپنے جانے کی بابت بتانا ضروری تھا۔۔۔
🍂🍂🍂🍂
رکو تم_______!" پشت سے ابھرتی بھاری آواز سے ویام کے قدم تھمے نا چاہتے ہوئے بھی اسے رکنا پڑا ۔۔۔۔
جی کہیں کوئی کام تھا_____؟" بنا سلام دعا کیے وہ دو ٹوک الفاظ میں بولا ساتھ ساتھ مسلسل دائیں پاؤں کو حرکت دیے جا رہا تھا۔۔۔۔
وریام نے سرد سانس فضا کے سپرد کی اور چلتا اسکے قریب ہوا۔۔۔
جس کی نظریں سیڑھیوں پر مرکوز تھی وہ بس بھاگنے کو پرتول رہا تھا جو کہ وریام بخوبی جانتا تھا ۔۔
تم نے عیناں کو کہاں چھوڑا ہے ۔۔۔۔۔۔؟" سینے پر ہاتھ باندھے وہ سخت لہجے میں سوال گو ہوا۔۔۔
رافع نے فون کرتے اسے سب بتا دیا تھا۔۔
اور یہ بھی کہ جب سے وہ آئی تھی خود کو لاک کیے بیٹھی تھی رافع کافی پریشان ہو چکا تھا۔۔۔۔ جبھی اسنے وریام سے ویام کے متعلق پوچھا ۔۔۔
جسے کسی حد تک معاملے کی سنگینی کا علم تو تھا۔۔۔
اسی وجہ سے اسے تسلی دیتے وہ کب سے ویام کے آنے کا انتظار کر رہا تھا جانتا جو تھا کہ اب آیا ہے تو نیناں سے ملے بنا نہیں جائے گا ۔۔
وہیں چھوڑا ہے، جہاں اسے ہونا چاہیے تھا ۔۔۔ سپاٹ دو ٹوک لہجے میں کہتا وہ پر اعتماد سا وریام کی آنکھوں میں دیکھتے بولا۔۔۔۔
تو وریام نے بغور اسکی سرخ ہوئی بھوری آنکھوں میں جھانکا ۔۔۔۔
اس گھر کی بہو ہے وہ اور اسکا اصل گھر یہ ہے تو اس حساب سے اسے یہاں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔!"
وریام نے بھی بنا کسی لگی لپٹی کے اسے جھاڑا تو وہ زخمی سا ہنسا ۔۔۔۔
اسکے لبوں پر بکھری مسکراہٹ میں آج جو اذیت تھی اسے دیکھ وریام چونک سا گیا۔۔۔
بہو۔۔۔۔۔۔ کچھ معنی نہیں رکھتا اس لڑکی کے لئے ۔۔۔۔۔ ناں میں ناں آپ ناں ہی مجھ سے جڑی کوئی بھی شے۔۔۔ "
دانت پر دانت جمائے وہ لہجے کو حتی الامکان طور پر دھیما رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔۔
جبکہ اسکی بات پر وریام کو شاک سا لگا۔
کیا بکواس ہے یہ سب۔۔۔۔۔ فضول انسان اگر میاں بیوی میں کوئی ناراضگی یا جھگڑا ہو جائے تو اسے اتنا تول نہیں دینا چاہیے ورنہ رشتے کی خوبصورتی مانند پڑ جاتی ہے۔۔۔"
ابکی بار لہجے میں لچک تھی اسنے نرمی سے ویام کا کندھا تھپتھپاتے کہا۔۔۔۔
جبکہ وہ بنا جواب دیے اپنے کمرے میں بند ہو گیا۔۔
وریام نے لب بھینچے بند دروازے کو دیکھا اور پھر کچھ سوچتے وہ خود بھی اسکے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔
کمرہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔ وریام کو گھبراہٹ سی ہوئی۔۔۔
وریام نے ایک نظر نیم روشنی میں بیڈ کے قریب بیٹھے ویام پر ڈالی اور پھر چلتا اسکے قریب ہوا اور بیڈ پر بیٹھتے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
آپ جانتے ہیں ڈیڈ۔۔۔۔۔ جس عمر میں بچہ صحیح غلط کی پہچان سیکھتا ہے اس عمر میں ،میں نے محبت کرنا سیکھی۔۔۔۔۔
وریام کے لمس کو پاتے وہ آج جیسے اپنے اندر کے سارے دکھ کو اس سے بانٹ دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
مجھے اچھے برے کا علم نہیں تھا مگر پھر بھی میں روز اپنی نیند خراب کر کے میلوں دور جاتا رہا۔۔۔۔
صرف اسکی نیند اسکے چہرے پر وہ مسکراہٹ واپس لانے کے لئے جو کہ ایک حادثے نے چھین لی تھی۔۔۔
میں کلاس میں لیٹ جاتا تو مجھے پنش ملتی میرے مارکس کم آئے کیونکہ میں نے پڑھائی پر توجہ کم کر دی تھی میرا سارا وقت صرف اس لڑکی کے گرد گھومتا تھا ۔۔
جس نے کبھی نہیں کہا کہ مجھ سے محبت کرو مجھے اپنا وقت دو۔۔۔۔ خدا گواہ ہے کہ میرے جذبات کتنے پاک اور شفاف رہے ہیں اسکے لئے۔۔۔۔۔میں نے سب کے خلاف جا کر آپ سب کو مجبور کیا۔۔۔
جسکے نتیجے میں آپ سب نے اسے میرے نام سے جوڑ دیا۔۔۔۔ اس نے تب بھی کبھی نہیں کہا کہ ہاں اسکے دل میں بھی وہی الفت ہے جو میرا دل اس کے لیے بچپن سے محسوس کرتا ہے۔۔۔
میں نے ہر اس شخص کو اس سے دور کر دیا جو اسے مجھ سے دور کر سکتا تھا آج یا کل یا پھر مستقبل میں۔۔۔۔۔۔
میں نے چار سال اسے بنا دیکھے اپنی ماں سے دور سارا وقت کانٹوں پر گزارا ۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر جب ایک دن اسکا باپ اور بھائی آئے۔۔۔۔ وہ سب کچھ بھلائے ان کے سنگ چلی گئی۔ میری محبت اسے یاد نہیں تھی ہوتی بھی کیوں محبت ہوتی تو یاد ہوتی۔۔۔
صرف ایک احساس کا بے نام رشتہ تھا جسے میں الفت سمجھتا رہا ۔۔
میں نے پھر بھی اسے معاف کر دیا اسے دوبارہ سے ایک مضبوط رشتے میں باندھ لیا کہ شاید میرا عشق اسکے پاؤں میں ایسی بیڑھیاں ڈال دے کہ وہ تا عمر صرف میری ہو کر رہے۔۔۔۔
مگر پھر اسنے میرے بھروسے کو توڑا۔۔۔۔
مجھے اس بات کا دکھ نہیں ڈیڈ کہ اسنے مجھ سے حور کی بابت سچائی چھپائی مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ اسے آج تک مجھ سے چھپانا پڑتا ہے۔۔۔۔
جبکہ میں نے تو کسی بھی رشتے میں ناانصافی نہیں کی سب کو انکا حق محبت انکی جگہ دی جسے وہ ڈیزرو کرتے تھے ۔۔
پھر بھی وہ ہر بار ایسا ہی کرتی ہے جس کا مطلب صاف ہے کہ اسے مجھ سے کوئی محبت کوئی الفت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔" ویسے بھی رشتے زبردستی نبھائے نہیں جاتے اسی لئے میں اسے چھوڑ آیا ہوں۔۔۔۔۔!"
اسکا دماغ جانے کیا کچھ سوچ چکا تھا جبکہ اسکی ایسی باتیں سنتا وریام گھبرا سا گیا۔
یار سنبھالو خود کو تم کب سے اتنی اتنی باتیں سوچنے لگے۔۔۔۔۔"
اسکی پیٹھ تھپکتے وہ موضوع بدلنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
نو ڈیڈ میں ایسی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا مگر شاید غلط کرتا رہا ہوں میں ایسی سب باتوں کو ہی اہمیت دینی چاہیے۔۔۔۔ اچھا آپ سو جائیں رات ہو چکی ہے کافی ۔۔۔۔۔۔"
وہ پل میں ہی بات بدلتا خود پر ضبط کرتے گویا ہوا تو وریام نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا ۔۔۔ اور پھر اسے سونے کا کہتے وہ بے بسی سے کمرے سے نکل گیا۔
🎶🎶🎶🎶🎶🎶
سنا نہیں تم نے پچھلے آدھے گھنٹے سے میں نے پزا منگوایا تھا ابھی تک نہیں پہنچا____"
کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھولتی وہ نہایت بلند آواز میں بدتمیزی سے غراتے بولی۔۔
تو ایچ اے آر نے گردن موڑے اسے دیکھا۔۔۔ وہ اس وقت کسںی اہم میٹنگ میں تھا اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی بنا اجازت کے ناصرف اسکے کمرے میں آیا تھا بلکہ اب یوں اونچی آواز میں بات کر رہا تھا۔۔۔
ایچ اے آر نے خون آشام نگاہوں سے اپنے گارڈز کو گھورا جو شرمندہ سے سر جھکا گئے۔۔۔۔
میں آتا ہوں ویٹ۔۔۔۔!" کوٹ کے بٹن لگاتا وہ پروفیشنل انداز میں بولتا جگہ سے اٹھا اور الایہ کی جانب بڑھا۔۔۔
جو اعتماد سے ہاتھ سینے پر باندھے بالکل نڈر سی اسے ہی دیکھ ری تھی۔۔
یہاں آئے اسے ہفتہ ہو چلا تھا مگر آج تک وہ اس لڑکی کا ڈرا سہما روپ دیکھنے سے محروم تھا ۔۔
وہ ایسے اعتماد سے اسے نچا رہی تھی جیسے وہ اسے کڈنیپ کر کے نہیں لایا بلکہ کہیں اوئٹنگ پر لایا ہو۔۔۔۔۔
ڈونٹ ہاتھ لگایا تو ہاتھ کاٹ دوں گی۔۔۔۔۔"
اپنی جانب بڑھے ایچ اے آر کے ہاتھ کو دیکھتی وہ قدم پیچھے ہوتے اونچی آواز میں اسے انگلی دکھاتے بولی۔۔۔
تو ایچ اے آر کی آنکھوں میں حرارت ابھری ۔
لبوں کے کونے مسکرائے تھے__
افففف ظالم ہاتھ مت کاٹنا ابھی تو جی بھر کر چھونا باقی ہے ابھی ان ہاتھوں کو محروم مت کرنا ابھی تو یہ تمہاری زلفوں کو چھونا چاہتے ہیں ان حسین آنکھوں کو چھو کر محسوس کرنا چاہتے ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔؛"
اور ابھی تو تمہارے دوسرے ہاتھ اور جسم کے باقی ٹوٹے پھوٹے پرزوں کو بھی تو اس ہاتھ نے اٹھانا ہے بھلا وقت سے پہلے توڑنا کہاں کی عقلمندی ہوئی ۔"
اسکی طرف جھکتی وہ ہاتھ نچاتی ایک ادا سے بولی تو پاس کھڑے گارڈ نے بمشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔۔۔۔
جسے خونخوار نظروں سے گھورتے ایچ اے آر اب الایہ کے پیچھے ہی کمرے سے نکلا تھا۔۔۔ یہ تو طے تھا کہ وہ الایہ سے شادی ضرور کرے اور پھر ہی اسے مکمل طور پر اپنائے گا۔۔۔
اسکی سوچ کیا تھی کیا نہیں اس بات سے الایہ کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ خود اپنا دفاع کافی اچھے سے کر سکتی تھی۔۔
اذلان سے اسے امید تھی مگر بھروسہ ابھی تک قائم نہیں ہو پایا تھا۔۔
وہ دونوں جیسے ہی ہال نما کمرے میں پہنچے ایک کے بعد ایک ملازم ہاتھوں میں ڈشز تھامے سر جھکائے کھڑے نظر آئے۔۔۔
الایہ نے گردن گھمائے داد دیتی شریر نظروں سے ایچ اے آر کو دیکھا ہونٹوں پر رقص کرتی جان لیوا مسکراہٹ کو اسنے ہاتھ پشت پر باندھے اعزاز سے قبول کیا ۔۔
یہ کیا ہے یک اتنا ٹھنڈا پیزا۔۔۔۔۔۔!" سہج سہج کر چلتی وہ آگے بڑھی اور جیسے ہی پہلی ٹرے میں پڑے پزے کو دیکھا فورآ سے منہ بناتے بولی، کھانا پھینک کر وہ بے حرمتی نہیں کر سکتی تھی ۔۔
اسکے چہرے کے بگڑے زاویے دیکھ ایچ اے آر کی مسکراہٹ سمٹی اسنے گردن سے اشارہ کرتے اس ملازم کو واپس بھیج دیا۔۔۔۔
جو سر ہاں میں ہلاتا چلا گیا۔۔۔
اففففف اتنا گرم اگر اسے میں منہ میں رکھتی تو میرا خوبصورت منہ جل جاتا کہتے ساتھ ہی اسنے ادا سے کندھوں پر بکھرے سیاہ بالوں کو جھٹکا۔۔۔
ایچ اے آر نے اسے بھی جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
اففففففف اتنا زیادہ چیززززز______" اب کی بار وہ برابر مڑتی ایچ اے آر کو دیکھ ناگواری سے تاسف بھرے لہجے میں بولی تو ایچ اے آر نے لب مضبوطی سے میچ لیے۔۔۔۔
کیا اتنا بچہ تھا وہ___کہ ایک ہفتے سے چلتے اس قاتل حسینہ کے ناٹکوں کو جان ناں سکتا۔۔۔۔۔
لے جاؤ اسے اور اب میرے لئے پاستہ لاؤ وہ بھی بالکل فریش ۔۔۔۔؛"
اپنے بڑے بڑے ناخنوں پر پھونک مارتی وہ بے حد سنجیدگی سے تحکم بھرے انداز میں بولی یہ صبح سے چوتھی بار ہوا تھا مگر پرواہ کسے تھی۔۔۔
کیا میں تمہیں بچہ دکھتا ہوں بے بی۔۔۔۔۔۔؟"
اسکے برابر کھڑے ہوتے وہ حیرت سے گویا ہوا۔۔۔
جو اسے اگنور کرتی اپنے ناخنوں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔۔
کیا نہیں تو تم مجھے بالکل بچے نہیں دکھتے وہ بات الگ ہے تھوڑا ہائٹ پرابلم ہے۔۔۔۔۔اور ویسے بھی اگر تمہیں یہ سب دکھ رہا ہے تو اسکے پیچھے کی وجہ یہی ہے کہ میں تمہیں یہ سب دکھا رہی ہوں۔۔۔۔۔"
اسکے قد پر طنز کرتے وہ پھر سے اسے لاجواب کر گئی۔۔۔
یہی تو وہ خاص بات تھی جو اسے ایچ اے آر کی نظروں میں سب سے الگ بناتی تھی۔
خوب بہت خوب______؛" دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے شیو کو مسلتا وہ مسرور سا بولا۔۔۔۔۔
جانتی ہوں تمہیں تعریف کرنے کی ضرورت نہیں _____؛"
اسکی بات کو ہوا میں اڑاتی وہ جیسے ہی جانے کو مڑی۔۔۔ایچ اے آر نے اسے پیچھے سے پکڑنا چاہا مگر وہ تیزی سے جھکتی فورا سے ایک جانب ہوئی اور پھر سے چند قدموں کا فاصلہ بنائے اسے گھورتے انگوٹھے سے لوزر کا اشارہ کیا۔۔۔۔
جسے دیکھ ایچ اے آر پاگلوں کی طرح ہنسا۔۔۔۔۔ یہ لڑکی واقعی میں اس کی پہنچ میں اتنی آسانی سے نہیں آنے والی تھی ۔۔۔
مگر جو سکون ان سات دنوں میں اس سے بحث کرتے اسکے ناز نخرے اٹھاتے وہ حاصل کر چکا تھا بھلا ایسا سکون کہاں ملا تھا اسے۔۔۔۔ دنیا جہاں کے حسن کو پاؤں تلے روندھنے والا آج ایک نازک سی لڑکی کے آگے اپنا دل اپنا آپ وارنے کو تیار کھڑا تھا۔۔۔
مگر فل وقت وہ بھول چکا تھا کہ جو کچھ وہ ان معصوم لڑکیوں کے ساتھ کرتا آیا ہے اسکا مکافات عمل تو خدا نے اس دنیا میں ہی پورا کرنا ہے۔۔۔۔
🎶🎶🎶🎶
یہ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو دیکھو رات ہو رہی ہے تیمور ہمیں واپس چلنا چاہیے۔۔۔۔" اسکے مضبوط ہاتھ سے اپنا نازک ہاتھ کھینچتے وہ احتجاج کرتی ایک دم سے رک گئی۔۔
میر جاناں بس تھوڑی دور ہے پھر ہم پہنچ جائیں گے۔۔۔۔؛"
اسکے چہرے پر پھیلے خوف کو دیکھتا وہ جھکتے نرمی سے اسکی ناک کو دباتا اسے کھینچتے حصار میں لیتے گویا ہوا۔۔۔
مگر میرب نے غصے سے اسکے ہاتھوں کو جھٹک دیا۔۔۔
تمہیں کیا سوجھی جو اتنی رات کو مجھے اس ویران جنگل میں لے آئے ہو ۔۔!" اسے غصے سے گھورتی وہ سخت لہجے میں بولی۔۔
ایک تو ویسے ہی چوبیس گھنٹے تیمور کا سر پر سوار رہنا اسے الگ سی الجھن بے چینی میں ڈال چکا تھا اوپر سے اب یہ نیا شوشہ۔۔۔۔
ڈارلنگ یہ دن میرے ہیں تو حکمرانی بھی میری ہوئی میں جب چاہے جہاں چاہے تمہیں لے جا سکتا ہوں۔۔۔؛"
میرب کے سر پر تھوڑی جمائے وہ محبت بھرے لہجے میں بولا تو وہ خاموش ہو گئی۔۔
مگر اس جنگل سے آتی جانوروں کی عجیب سی آوازیں اسے خوفزدہ کر رہی تھیں۔ڈرو نہیں تمہارے پاس سب سے بڑا جانور ہے جسے دیکھتے ہی باقی کے سارے جانور بھاگ جائیں گے___"
میرب کی اڑی رنگت دیکھ وہ شرارت سے گویا ہوا تو میرب نے مسکراہٹ سجائے اسے دیکھا اور پھر لب دانتوں تلے دبائے۔۔
ہاں یہ بات تو ٹھیک کہی تم نے تم سے بڑا کوئی جانور ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔" تیمور کی جانب دیکھتی وہ اس قہقہ لگاتے کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔
تیمور نے جان لیوا مسکراہٹ لبوں پر سجائے اسکے ہنستے روپ کو آنکھوں میں بسایا ۔ اور پھر اسکا ہاتھ دوبارہ سے تھامے آگے بڑھا ۔۔۔۔
تھوڑی دور سے آتی تیز جگمگاتی روشنی نے میرب کو اپنی جانب راغب کیا وہ آنکھیں چھوٹی کیے بغور دیکھنے لگی۔۔
جھاڑیوں کی دوسری جانب بالکل حالی میدان تھا۔۔۔۔
جہاں ایک جانب ٹینٹ لگا ہوا تھا جس سے آتی تیز روشنی اطراف میں بکھر رہی تھی تو ساتھ ہی چھوٹی سی جھیل تھی۔۔۔
جسے پر روشنی کی بکھرتی کرنیں مسحور کن تھی۔۔ وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں چلتی آگے بڑھی۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے وہ ٹرانس میں چلتی اس جھیل کے قریب پہنچی۔۔۔۔
کیسا لگا سرپرائز۔۔۔۔۔۔ ہاتھ پشت پر باندھے میرب کے کندھوں پر تھوڑی جمائے وہ مدہم لہجے میں بولا۔
تو میرب کے لب مسکرائے، آنکھوں میں جھلمل کرتی چمک اسکی اندرونی خوشی کی غمازی تھی۔۔۔۔
مسز تیمور کیا آپ اپنے خوبصورت، ہنڈسم پلس کیوٹ شوہر کے ساتھ آج رات ڈیٹ پر جانا پسند کریں گی۔۔۔۔!"
تیمور کے الفاظ نے اسے چونکتے مڑنے پر مجبور کیا میرب حیرانگی سے ششدر سی اسے دیکھے گئی جو گھٹنوں کے بل جھکا ہاتھ میں تھامے کینڈی پاپ کو میرب کے سامنے کرتا ڈنر ڈیٹ کیلئے پرپوز کر رہا تھا۔۔
میرب کے دل میں ایک عجیب سے گدگدی ہونے لگی۔۔ پاپ کو دیکھتے ہی منہ پانی سے بھر آیا وہ للچائی نگاہوں سے تیمور کے ہاتھ میں موجود کینڈی پاپ کو دیکھتی جھٹ سے چھیننے کے انداز میں لیتی سیکنڈوں میں اسے کھول منہ کی۔میں دبا گئی۔۔
جبکہ تیمور شیرازی گھٹنوں کے بل بیٹھا حونقوں کی طرح اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو شوہر کو بھلائے کسی ترسی روح کی طرح پاپ کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اسے منہ میں دائیں بائیں گھماتی انصاف کر رہی تھی۔۔۔
میر۔۔۔۔ مجبوراً اسے خود ہی میرب کو پکارتے اپنے ہونے کا احساس دلانا پڑا۔۔۔
جو بڑی بڑی آنکھوں کو گھمائے غصے سے اسے دیکھنے لگی مگر اسے اب تک گھٹنوں کے بل جھکا دیکھ ایک پل کو شرمندگی سی ہوئی۔۔
جبھی خود بھی اسکے پاس ہوتی وہ گود بنائے بیٹھ گئی۔۔۔
تیمور کی حالت ایسی تھی جیسے اب گرا یا اب۔۔۔۔۔۔؛"
جھٹکے پر جھٹکہ کھاتا وہ منہ پھاڑے اپنی الگ مخلوق مطلب بیوی کو دیکھنے لگا۔۔۔
خود پر تیمور کی گھڑی تیز نظروں کو محسوس کرتے میرب نے ائبرو اچکائے جیسے پوچھا ہو کیا ہے؟؟؟'
تیمور کو ہنسی تو بہت آئی مگر پھر اپنی قسمت پر رشک کرتا وہ سر نفی میں ہلائے اسکی جانب جھکتے تھوڑی کو انگوٹھے اور انگلی میں دبوچے چہرہ اونچا کرتے ان بڑی بڑی سرمئی نگاہوں میں دیکھتے گویا ہوا۔۔۔
دنیا کی کسی لڑکی میں اتنی ہمت نہیں جو تیمور شیرازی کو اس کے گھٹنوں پر لا سکے ماسوائے تمہارے______اسی وجہ سے تو تیمور شیرازی بےکار کے حسن پر نہیں مرتا،کیونکہ میرے والا پیس صرف ایک ہے جسے خدا نے بہت فرصت سے صرف میرے لئے بنایا ہے۔۔۔؛"
اسکی چمکتی آنکھوں میں جھلکتے بے باک جذبات میرب کا سانس روک چکے تھے ۔۔
وہ ٹک ٹکی باندھے، منہ میں پاپ ڈالے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو کھولے جنگل کے بیچوں بیچ اس سنسان سی جگہ میں بیٹھی اس شخص کا انوکھا اظہارِ محبت سن رہی تھی ۔۔۔
واقعی اسکی قسمت الگ تھی یا پھر اسکی قسمت میں آیا یہ شخص الگ تھا جس کو سمجھنا میرب کے بس میں کبھی بھی نہیں رہا۔۔۔۔۔
تمہیں یہ پاپ صرف خوش کرنے کے لیے دیا تھا وگرنہ وہ ہر چیز جسے تم مجھ سے زیادہ اہمیت دو تیمور شیرازی اسے تمہارے قریب بھٹکنے بھی ناں دے۔۔۔۔؛"
میرب کے منہ سے پاپ کو نکالتے دور پھینکتا وہ آنکھوں میں الگ سا جنون لیے اب رومال سے اسکا چہرہ بہت توجہ سے صاف کرتے بولا۔۔۔
تو میرب نے اندھیرے میں آگے پیچھے دیکھ اپنے پاپ کو ڈھونڈنا چاہا ۔۔۔
تیمور کی یہ حرکت اسے بے حد بری لگی تھی۔۔
وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورنے لگی،
جس کا اثر تیمور شیرازی کو بالکل بھی نہیں تھا۔۔
اسنے نرمی سے اسے بانہوں میں سمیٹا،، اور پھر سے اس ٹینٹ کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔۔
آئی ہیٹ یو تیمور ٹھرکی انسان میرا پاپ دو واپس_____؛"
اسکے سینے پر مکے جھڑتی وہ اونچی آواز میں چلائی ۔۔۔
بٹ آئی سٹل لو یو______؛" اسکی کمر پر دباؤ دیے اسنے چہرہ اپنے قریب کرتے لب میرب کی سرخ ہوتی ناک پر رکھتے شریر لہجے میں کہا۔۔۔۔
تمہیں بہت مہنگا پڑے گا یہ سب_______!"
اپنی ناک کو ہاتھ سے صاف کرتی وہ غصے سے بڑبڑائی مگر تیمور نے سخت نگاہوں سے اسکی حرکت کو دیکھا آنکھوں میں سرخی سی اترنے لگی۔۔۔
وہ اسکے لمس کو مٹا رہی تھی کیا یہ ممکن تھا کہ وہ تیمور شیرازی کی ملکیت میں ہوتے اس سے اس قدر نفرت جتاتی۔۔۔۔۔۔
ڈارلنگ ہلکا تو میں بھی نہیں ہوں جسٹ ویٹ اینڈ واچ کیسے تمہیں اپنے سحر میں جکڑتا ہے یہ تیمور شیرازی۔۔۔۔۔۔"
خود سے کہتا وہ پختہ ارادہ کیے قدم اُٹھاتا اندر داخل ہوا۔۔۔
موم مجھے ایک ضروری کام ہے رات کو لیٹ ہو جاؤں گا آپ پریشان مت ہونا اوکے______؛"
فدک کے سر پر بوسہ دیتا وہ محبت سے بولا،
روز نے گھبرائی نظروں سے انزک کی جانب دیکھا جو اسے مکمل طور پر اگنور کر رہا تھا ۔۔
بیٹا کھانا کھا کر جانا بیٹھو یہاں۔۔۔۔۔؛" فدک نے فوراً سے اسکا ہاتھ تھامے پاس بٹھایا۔۔۔۔
آج ایک ہفتہ ہو چلا تھا،، روز اور انزک کو گھر آئے انزک نے فدک کو سب سچ بتا دیا تھا ۔۔۔ کہ اسنے شادی کر لی ہے ۔ جس پر وہ کافی خوش ہوئی تھی ۔
معصوم سی روزائکہ اسے بے حد پیاری لگی تھی اپنے بیٹے کیلئے____!"
موم میں راستے میں کچھ کھا لوں گا آپ پلیز جانے دیں ابھی،"
معصوم سی شکل بنائے وہ اجازت طلب نگاہوں سے بولا،،
نہیں مطلب نہیں بیٹا کھانا سرو کرو شوہر کو____؛"اسکی بات کو کاٹتے فدک نے جلدی سے انزک کے پاس والی کرسی پر بیٹھی روز کو مخاطب کیا ۔۔۔جو فورا سے جی کہتے کھانا سرو کرنے لگی۔۔۔
انزک نے بمشکل سے ضبط کرتے جبڑے بھینچ لئے۔۔۔۔۔ ایک ہفتے سے وہ روز سے بالکل بات نہیں کر رہا تھا۔۔
مگر گھر والوں کے سامنے سب نارمل ہی تھا ۔۔۔ وہ فدک کو اپنی وجہ سے پریشان نہیں کر سکتا تھا ویسے بھی یہ اسکا اور روز کا اپنا پرسنل میٹر تھا ۔۔
جسے وہ جلد ہی اپنے طریقے سے حل کرنے والا تھا۔
نہی مجھے نہیں کھانا موم بس کافی پی لیتا ہوں۔۔۔۔۔"
اسنے جلدی سے کرخت لہجے میں روز کو ٹوکا مگر پھر فدک کی موجودگی کا علم ہوتے ہی اسنے کافی کا کہتے بات سنبھالی ۔۔
کیا ہو رہا ہے بھائی کس بات پر آج صبح صبح شور ہو رہا ہے ۔۔۔
سیڑھیوں سے اترتا وہ ریسٹ واچ دائیں بازو میں پہنتے نیچے اترا تو سبھی نے گردن موڑے رافع کو دیکھا۔۔
جو یقیناً عیناں کے کمرے سے آ رہا تھا،
آپ کا لاڈلا بھوکا جا رہا ہے کام پر کھانا نہیں کھا رہا۔۔۔۔!"
انزک کو گھورتے فدک نے اسکی شکایت لگائی جو منہ کھولے اپنی موم کو دیکھ سر جھکا گیا ۔۔
گڈ مارننگ ڈاٹر____ ارے کیا بات ہے یار جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔۔
تو میں تو کئی مہینے گھر سے نکلا ہی نہیں تمہارے دادا جب بھی کام پر جانے کا کہتے تو بہانے بنا کر جان بوجھ کر لیٹ کر دیتا تھا۔۔
ایک تم ہو جو بھاگنے کو پر تول رہے ہو ۔۔۔؛"
روز کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے وہ آج روز کے پاس ہی کرسی کھسکاتے بیٹھا،
اور پھر جان بوجھ کر انزک کو چھیڑا۔۔۔
انزک نے بلا ارادہ روز کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اور پھر نظروں کا زاویہ بدل دیا ۔۔۔
بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ نکھرا نکھرا روز کے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کر گیا۔۔۔۔
اسنے چور نگاہوں سے انزک کو دیکھ بال کان کے پیچھے اڑسے ۔۔۔
ڈیڈ عیناں کیسی ہے ۔۔۔؟" ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے انزک نے موضوع بدلنا چاہا۔۔۔
فدک عیناں کے آنے کی اصل وجہ سے انجان تھی رافع اسکی صحت پر کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا ۔
جبھی فدک کو یہی بتایا گیا تھا کہ عیناں فدک کے لئے کچھ وقت رہنے کے لیے آئی ہے ۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے آج بخار بھی کم ہے اسے سونے دو جب اٹھے گی تو ناشتہ کر لے گی ۔۔۔"
کھانا پلیٹ میں نکالتے رافع نے جیسے سب کو آگاہ کیا تھا ۔۔۔
آپ فکر نہیں کریں وہ جتنی دیر مرضی سوئے کوئی اسے تنگ نہیں کرے گا ۔۔۔۔
فدک نے ہنستے ہوئے کہا تو رافع بھی مسکراتے سر ہاں میں ہلا گیا۔۔
ڈیڈ میں چلتا ہوں ۔۔۔۔۔ پھر ملاقات ہو گی۔۔۔؛" مگ میز پر رکھتے وہ جلدی سے کہتا باہر کی جانب نکلا۔
روز نے دور تک اسکی آنکھوں سے اوجھل ہوتی پشت کو گھورا۔
•••••••••••
نین یار آپ یہاں کیوں آئی____ آپ واپس چلیں بس پانچ منٹ میں بریک فاسٹ لے کر آتا ہوں___؛"
مگر میری جان آپ کتنے دنوں سے ہر صبح بنا رہے ہو آج مجھے کرنے دو میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔۔!"
ویام کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرتے وہ لاڈ سے بولی تو جواباً وہ مسکراتے انکے ہاتھوں کو تھامے محبت سے بوسہ دیے سینے سے لگا گیا۔۔۔۔
ایک ہفتہ ہو چکا تھا اسے گھر آئے۔۔۔۔
عنایت کے کچھ ٹیسٹ وغیرہ تھے جس کی وجہ سے وہ فل حال اسے گھر پر نہیں لا سکتا تھا اور عیناں کی بابت تو اسنے بات کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔۔
نیناں وریام اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کر چکے تھے اسے منانے کی مگر وہ عیناں کے ذکر پر ہی فورا سے اٹھ جاتا ۔۔۔۔
اب تو نیناں نے بات کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ اس ایک ہفتے میں وہ وریام کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی پوری طرح سے نیناں کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔۔۔
ان قیمتی لمحات کو اپنی موم کے ساتھ وہ کسی قیمتی خزانے کی طرح سمیٹ رہا تھا جنہیں وہ کافی عرصے سے سمیٹ نہیں سکا تھا۔۔۔۔
نین اگر ایسا کریں گی تو آج کے بعد آپ کو کچن میں آنے بھی نہیں دوں گا پھر چاہے کوئی آپ کے ہاتھوں کے کھانے کے لیے کتنا ہی کیوں ناں تڑپے مگر میرے ہاتھ کا باسی کھا کر ہی جینا پڑے گا۔۔۔۔
نیناں کو حصار میں لئے وہ دھیمے قدموں سے لاؤنچ میں داخل ہوا۔۔۔
اور وریام کی جانب دیکھ جان بوجھ کر قدرے اونچی آواز میں کہا ۔۔۔
مجھے کیا نکما سمجھ رکھا ہے تُو نے___ اگر اتنے دنوں سے خاموش ہوں تو صرف اس لیے کہ تو سالوں بعد آیا ہے ماں کے ساتھ کچھ وقت صرف کچھ وقت اچھا گزار لے،،، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تُو مجھ سے میری نین کو دور کرے گا۔۔۔"
اخبار کو غصے سے میز پر پٹھکتا وہ بیچ و تاب کھاتے تلملاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
تو نیناں نے گردن موڑے اپنے شوہر کے سرخ تپے چہرے کو دیکھا۔۔۔ پورا ایک ہفتہ ویام نے جس طرح سے وریام کو تنگ کیا تھا ۔۔
وہ خود پریشان تھی کہ اتنے وقت سے وریام نا صرف خاموش تھا بلکہ کوئی ری ایکشن بھی نہیں دے رہا تھا۔۔
اوہ کم اون ڈیڈ____ عمر ہو گئی ہے اس عمر میں بیٹے سے بِھڑتے اچھے لگے گے آپ_____"
اپنی کھڑی مغرور ناک کو چڑھائے وہ دل جلے انداز میں اپنے دونوں گھڑوں کی نمائش کرتا اسے مزید سلگا گیا۔۔۔
عمر کے بچے مت بھول تیرا باپ ہوں میں____ تجھ جیسے بیسوں کو میں ابھی بھی دھول چکھا سکتا ہوں۔۔۔ اور یہ اپنے بے ڈھنگے گھڑے مت دکھایا کر مجھے ورنہ دونوں طرف سے منہ جلا دوں گا تیرا______!"
وریام کا غصہ کسی طور کم ہونے کو نہیں تھا اوپر سے نیناں کا بارڈر کے دوسری طرف ہونا اسکے جلے پر نمک چھڑک رہا تھا۔۔۔۔
نین بھولو مت شوہر میں ہوں تمہارا تو چھوڑو اس بد شکلے کو ادھر آؤ فوراّ_____!"
انگلی کے اشارے سے نیناں کو اپنی طرف آنے کا کہتا وہ ایک ہاتھ کمر پر ٹکائے بھوری آنکھوں میں غصے کی سرخی لیے ویام کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتے بولا ۔۔۔
جبکہ اسے ایک دم سے فارم میں دیکھ ویام نے شریر مسکراہٹ لبوں پر سجائے وریام کو چیلنجنگ نگاہوں سے دیکھا اور پھر نیناں کو تھامے آرام سے کرسی پر بٹھاتا وہ خود کچن کی جانب گیا۔
وہ جانتا تھا اسکی موم خود ہی اسکے باپ کو سنبھال لے گی اسے کوئی ضرورت نہیں تھی ان سے بھڑنے کی۔،
نین ادھر آ جاؤ میرے پاس____!"
نیناں کو یوں خاموش بیٹھا دیکھ وریام نے جلدی سے پکارا تو وہ منہ بسور گئی۔۔
وریام اتنے پیار سے میرے بیٹے نے کھانا بنایا ہے۔۔
آپ کو کھانا ہے تو آ جائیں ورنہ مجھے یہیں رہنا ہے۔۔۔ دوٹوک انداز میں کہتے وہ رخ پھیرے پلیٹس سیٹ کرنے لگی۔۔
ہاں ہاں رہو اپنے اس لاڈلے کے ساتھ میں تو کسی کا کچھ نہیں لگتا ۔۔۔ جا رہا ہوں مجھے نہیں کھانا کچھ بھی ۔۔۔۔۔سنا تم نے جا رہا ہوں؛؛؛'
غصے سے اونچی آواز میں کہتے نیناں کو یونہی آرام سے بیٹھا دیکھ اسنے پھر سے اپنی بات دہرائی۔۔
نین میں سچ میں جا رہا ہوں____"
بھوری آنکھوں میں سرخی سی دوڑنے لگی اسکی بیوی ہمیشہ اس نمونے کی وجہ سے اسے اگنور کرتی تھی ۔۔
بھلا وریام کاظمی کو یہ بات کہاں گنوارہ ہو سکتی تھی ۔۔
ہاں ہاں اللہ خافظ آرام سے جائیے گا۔۔۔۔۔؛"
نیناں نے مصروف سے انداز میں بنا اسکی جانب دیکھے کہا تو وریام نے سرخ چہرے سے دانت پر دانت جمائے اپنا غصہ کنٹرول کیا ۔۔۔
ہاں رہو تم دونوں میں جا رہا ہوں اپنی بیٹی کے پاس ۔۔۔۔
پیر پٹکھتے وہ غصے سے کہتا سامنے سے آتے ویام کو دیکھتا ہنہہہ کرتا منہ موڑے باہر کی جانب نکلا۔۔
جبکہ اسکے غصے سے جلے بھنے انداز پر ویام اور نیناں بے ساختہ قہقہ لگا پڑے۔
•••••••••••
امن کہاں تھے تم دونوں ٹھیک ہو تم_____" حیا کا ہاتھ تھامے وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا رمشہ بھاگتے اسکے قریب ہوتے بے چینی سے پوچھنے لگی ۔
چونکہ اذلان اور الایہ کے واپس آنے تک وہ لوگ یہی رہنے والے تھے اسی لئے رافع کے بے حد اصرار کے باوجود بھی وہ لوگ رافع کے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو چکے تھے۔۔۔
امن کو جیسے ہی معلوم ہوا تھا وہ سیدھا حیا کو ساتھ لئے اپارٹمنٹ میں آیا کیونکہ سب سے پہلے وہ اپنی ماما کے چہرے پر خوشی دیکھنا چاہتا تھا۔۔
مگر اس وقت رمشہ کی آنکھوں سے جھلکتی فکر کو دیکھ امن نے سرد سانس فضا کے سپرد کیا اور پھر کھینچتے اسے حصار میں لیا۔۔
حیا کا ہاتھ ابھی تک اسکے ہاتھ میں تھا۔
ماما ٹھیک ہیں ہم بس کچھ کام تھا تو اس وجہ سے آنے میں دیری ہو گئی ،،،"
مگر بتانا تو چاہیے تھا میں کس قدر پریشان ہو گئی تھی اندازہ ہے کچھ تم لوگوں کو۔۔۔۔؛" ابکی بار وہ حیا کو گلے لگائے شکوہ کن آواز میں بولی۔۔
امن نے ایک نظر سامنے صوفے پر براجمان اپنے ڈیڈ پر ڈالی اور پھر رمشہ کو دیکھنے لگا ۔
ماما آپ کے لئے گڈ نیوز ہے ایک۔۔۔ ۔؛" ہاتھ پشت پر باندھے وہ حیا کے نازک سراپے کو نظروں میں بھرے مسکراتے بولا ۔
تو اشعر اور رمشہ نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
آپ دادا دادی بننے والے ہیں بہت جلد_____!" امن کی بات پر حیا کے گال شرم سے دہکنے لگے_
کیا امن تم سچ کہہ رہے ہو اتنی بڑی خوشخبری ہے اور تم ابھی بتا رہے ہو یہ بات_____!؛"
رمشہ ایک دم سے سنتی چونک سی گئی۔۔
حیرت خوشی سے حیا کے گلنار ہوئے چہرے کو دیکھتی وہ مسرت سے اسے خود میں بھینچ گئی۔۔۔۔
اب بس کوئی میری بیٹی کو تنگ نہیں کرے گا وہ صرف اور صرف ریسٹ کرے گی۔۔۔
چلو حیا میرے ساتھ میں ابھی دودھ لاتی ہوں تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔؛"
خوشی کے مارے رمشہ کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ بوکھلائی ہوئی سے بولے جا رہی تھی ۔
جبکہ امن نے پرشوق نگاہوں نے حیا کی جانب دیکھا جو اشعر اور رمشہ کے بیچ بری طرح سے پھنسی شرم سے لال ہو رہی تھی ۔۔۔
اللہ میرے بچوں کو خوشیاں نصیب کریں اور جلدی سے ہماری اولاد بخیر و عافیت کے اس دنیا میں آئے آمین ثم آمین ____؛"
اشعر نے حیا کے سر پر ہاتھ رکھتے دعاؤں سے نوازا اور ایک ساتھ جانے کتنے نوٹ اسکے سر پر سے وار دہے۔۔۔۔
اتنے سالوں کے بعد یہ خوشیاں نصیب ہوئی تھیں سب کی آنکھوں میں خوشی اور تشکر کے آنسوں تھے۔۔۔
بے شک مشکلات کے بعد آسانیاں ہیں۔۔۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو اللہ کے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ اور دکھ، غم اور تکلیف میں صبر سے کام لیتے ہیں۔۔۔
••••••••••••
صوفیہ کی کال کے بعد وہ کافی پریشان سا تھا۔۔۔
کیونکہ وہ جانتا تھا ویام نے اگر اسے آزاد کیا ہے تو ضرور کسی نا کسی مقصد سے کیا ہو گا۔۔
مگر وہ پھر بھی اسے انکار ناں کر سکا ۔۔
اس وقت وہ بیسمنٹ کے دروازے پر کھڑا صوفیہ کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
حور سو رہی تھی اور وہ اسے کچھ بھی بتا کر خود سے بدظن نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
جبھی خاموشی سے یہاں ملنے کا کہتے وہ خود گھر سے باہر بیسمنٹ میں آ چکا تھا۔۔۔
کیسے ہو___؟" صوفیہ کی آواز پر ایل چونکتے ہوش میں لوٹا۔۔۔
تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔؛" اسکے سوال کو نظر انداز کرتے ایل نے اپنا سوال پوچھا ۔۔
ہاں کیا بات ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔؛"
گرے چیک شرٹ کے اوپر گرے ہی لائننگ والا کوٹ پہنے آدھے بال پونی میں مقید ترتیب سے کاندھوں تک جا رہے تھے۔۔۔ نیلی آنکھوں میں فکر کا جہاں سموئے وہ آج ایک الگ ہی ایل لگ رہا تھا ۔۔
صوفیہ نے مدہم مسکراہٹ سے اسکے نکھرے روپ کو سراہا بلاشبہ وہ حسین مرد تھا جسے حور کے ساتھ نے الگ ہی روپ سے نواز دیا تھا۔۔۔۔
ہاں ضرور اندر آؤ______؛" حور کو دیکھنے کی خواہش کو دل میں دبائے وہ ایل کے پیچھے ہی اندر داخل ہوئی۔۔۔
مجھے سچ سچ بتاؤ صوفی تم سچ میں ٹھیک ہو____؟"
ایل نے متفکر سے لہجے میں پوچھا تو صوفی کی کمرے کا جائزہ لیتی نگاہیں پل بھر کو تھمی۔۔۔۔۔
ہاں میں ٹھیک ہوں ایل ۔۔۔۔دراصل ویام نے مجھے اریسٹ نہیں کیا تھا۔۔ یہاں سے نکلتے ہی اسنے مجھے چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حور کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے اسکے پیچھے میرا ہاتھ نہیں اور میں صرف ایک مہرہ ہوں۔۔۔"
یہ کیسے ممکن ہے صوفی______؛" ماتھے پر بل ڈالے اسمے فوراََ سے اسے ٹوکا۔۔۔
مجھے تھائلینڈ بھیج دیا گیا تھا ایل، جہاں اسکے کوئی فریںڈ پہلے سے میرا ویٹ کر رہے تھے ۔۔۔۔
تب سے میں ان لوگوں کے بیچ ہوں ۔۔۔۔۔
میرے ہر قدم پر ان کی نظر ہوتی ہے اور وہ لوگ مجھے ٹرین کرتے رہے ہیں اسپیشل ایجنٹ کے طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔"
مگر ویام نے یہ سب کیوں کیا تم پر اتنا یقین کیسے۔۔۔۔۔؟"
ایل حیران تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ویام جیسا بندہ اسکی اپنی بہن کی مجرم کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کرے گا۔۔۔۔
کیونکہ اسے میرا ماضی معلوم ہے۔۔۔۔!
مجھ پر بیتے ہر ظلم کو وہ جانتا ہے۔۔۔ اس نے مجھے دو آپشنز دیے تھے یا تو اسکا ساتھ دے کر اپنی بے نام زندگی کو سنوار دوں یا پھر ایک بے نام زندگی کے ساتھ کسی اور درندے کا نشانہ بن کے خود کو فنا کر دوں ۔۔۔۔"
جانتی ہوں وہ اچھا نہیں ہے بلکہ وہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔ جیسا وہ دکھتا ہے وہ ویسا نہیں ہے ایل۔۔۔۔۔۔؛"
He is a good man.
ایل بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں میں ویام کاظمی کے نام سے ایک الگ سی خوشی کی چمک تھی۔۔۔۔ ایک ایسی چمک جو کسی بے حد خاص شخص کے لیے ہوتی ہو۔۔۔
اسے احساس ہوا صوفی اسکے ساتھ تھی مگر وہ کیوں ناں دے سکا اسے یہ سب۔۔۔۔۔۔؟"
وہ خود بھی تو ایک لاحاصل نفرت کے پیچھے تباہ ہوا تھا روندھا گیا تھا نوچا گیا تھا مگر افسوس اسکے پاس تو اس وقت کوئی بھی ناں تھا۔۔۔۔۔
پھر یہاں کیسے آنا ہوا اتنے عرصے بعد میری یاد کیوں آئی۔۔۔۔۔
بالوں میں ہاتھ چلاتے اسنے سلگتے لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
اسکے دل میں چھبن سی ہوئی تھی کیا وہ پرفیکٹ بن سکتا تھا ۔۔۔ کبھی بھی نہیں وہ کب رہا تھا پرفیکٹ ۔۔۔۔!_"
تم سے آخری بار ملنا تھا تو بس چلی آئی۔۔۔۔۔
تم بہت اچھے ہو ایل____ اور حور بہت خوش نصیب کہ اسکی قسمت میں تم آئے،،،"
اسکے گلے میں بانہیں ڈالے وہ نم لہجے میں اپنے درد کو چھپانے کی سعی کرتی لب مضبوطی سے میچ گئی ۔۔۔
وہ یہ ناں کہہ پائی کہ اسے دیکھنے کو دل گے چین تھا اسی لئے تو بھاگی چلی آئی۔
ایل ساکت کھڑا اسکے لفظوں میں چھپے کرب کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔
شاید کسی دوسرے سے محبت کرنا ہمارے اختیار میں کبھی نہیں ہو سکتا۔۔
وگرنہ جس قدر صوفیہ نے اسے چاہا تھا شاید ہی کوئی اسے چاہ سکتا تھا۔۔۔
جانتی ہوں تمہارے لئے وہ کیا ہے مگر آئی سٹل لو یُو____؛"
اندر آتی حور صوفیہ کے آخری الفاظ سنتے جیسے سرد سی پڑ گئی۔۔۔۔۔
بے جان سے ہاتھوں سے دیوار کا سہارہ لیے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھنے لگی۔۔
اوکے اب بہت اوور ہو رہا ہے میں جا رہی ہوں،،، زندگی رہی تو پھر ملاقات ہو گی۔۔۔۔۔؛"
چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ آنکھوں کو جلدی سے صاف کرتے نگاہوں کا زاویہ بدل گئی۔
تم بہت اچھی ہو صوفی آئی ول مس یُو ____؛"
اسکا درد کہاں چھپا تھا عالیان شاہ سے۔۔۔جبھی بولا بھی تو بس اتنا ہی۔۔۔۔۔
جس پر وہ پاگل لڑکی ہلکا سا مسکرا دی۔۔۔۔
ادھر حور کا چہرہ ایک دم سے دہک اٹھا تھا۔۔وجود جیسے انگاروں پر لوٹ رہا ہو اسنے مضطرب سی کیفیت میں ہونٹوں کو میچ لیا۔۔
سیاہ جھیل سی گہری آنکھوں میں نمی کی الگ سی جھلک تھی شاید ایک کسک ایک درد تھا جو آنکھوں سے بہنے کو بے تاب تھا۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی دروازہ کھولے صوفیہ اور اسکے پیچھے ہی ایل نکلا۔۔۔ حور؛؛؛؛؛"
صوفیہ اسے یوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھے جھکا دیکھ پریشانی سے آگے بڑھی ۔۔۔
وہیں رک جاؤ تم دونوں____ بہت اچھا کھیل لیتے ہو تم دونوں۔۔۔۔۔۔
تم صوفیہ ہو یا پھر صوفی کہوں تمہیں۔۔۔۔۔۔ ماریا _____" خود میں ہمت پیدا کرتی وہ غصے سے آگے بڑھتے خونخوار نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھتی صوفیہ پر طنز کرنے لگی۔۔
جو شرمندگی سے سر جھکا گئی۔۔ایل نے اسے سنبھالنا چاہا مگر وہ سن ہی کہاں رہی تھی۔۔۔
پیچھے رہو مسٹر عالیان شاہ بہت استعمال کر لیا تم دونوں نے میرا۔۔۔۔۔
پہلے دھوکے سے مجھے میرے اپنوں سے دور لے گئی تم۔۔۔۔ پھر وہاں اس شخص نے مجھے ہراساں کر کے نکاح جیسے پاک بندھن میں زبردستی باندھا ارے ناصرف باندھا بلکہ میری عزت کو روندھ کے رکھ دیا ۔۔
اور اب جب میں سب کچھ بھولنے کی کوشش کر رہے تھی تم پھر سے اپنی جھوٹی محبت کا ڈھونگ رچانے چلے آئے۔۔۔"
یاد رکھنا تم دونوں مجھے تکلیف دے کر تم خود بھی کبھی خوش نہیں رہو گے۔۔۔۔۔"
اپنے لفظوں کے وار سے ایل کے سارے زخموں کو ہرا کرتی وہ اندھا دھند باہر کو بھاگی۔۔۔ تو ایل کو لگا جیسے اسکا سانس رک سا گیا ہو۔۔۔
وہ فوراً سے اسکے پیچھے لپکا ۔۔۔۔ جو آنسوں بری طرح سے رگڑتی ایک انجانے رستے پر گامزن ہو چکی تھی۔۔۔
سن شائن تم جیسا سوچ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے یار ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز یار میری بات سنو۔۔۔"
وہ بھاگتے اسکے آگے کی جانب ہوتے اپنی صفائی دینے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
مگر حور نے جھٹ سے سر نفی میں ہلاتے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔
نہیں سننا مجھے کچھ بھی جھوٹے ہو تم کوئی محبت نہیں تمہیں مجھ سے تم بس اپنی ضرورت کا سامان سمجھ کر استعمال کرنا چاہتے ہو مجھے_____!"
اسکی نگاہوں میں دیکھتی وہ اس قدر سفاکی سے بولی کہ ایل کا چہرہ شرم سے لہو چھلکانے لگا ۔۔
جانتا ہوں تمہارا مجرم ہوں چاہے جتنی مرضی گالیاں دے دو افف تک نہیں کہوں گا مگر میری محبت کو گالی کبھی مت دینا سن شائن۔۔۔۔۔۔"
اسے بازو سے پکڑتے ایل نے غصے سے چہرہ اسکے نزدیک کرتے وہ لہجے کو حتی الامکان طور پر دھیما رکھے بولا۔۔
مگر اسکی آنکھوں سے جھلکتے جنون کی سرخی کو دیکھ ایک پل کو حور سہم سی گئی۔۔۔
چھوڑ مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔"
دوسرے ہی پل وہ برے طریقے سے ہاتھ کھینچتی بے رخی سے بولی ۔۔۔
تو ایل نے آنکھیں موندے خود پر ضبط کیا جو کہ بے حد مشکل تھا اسکے لئے۔۔۔
کیا کر رہے ہو تم چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔ مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ چھوڑو ہیلپ ہیلپ۔۔۔۔"
ایل نے اسے جکڑتے کسی بے جان گڑیا کی طرح کاندھوں پر ڈالا اور پھر سے قدم واپس گھر کی جانب موڑے ۔۔۔
یہ تو طے تھا کہ وہ کسی بھی قیمت اسکے چاہنے کے باوجود بھی اسے خود سے دور نہیں کرنے والا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
وہ گھڑی میں وقت دیکھتا تیزی سے سیڑھیاں عبور کرتے گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک سے وہ ہانپتی ہوئی پیچھے سے آتے اسکے بازو کو دبوچے گہرے سانس بھرنے لگی ۔۔
انزک نے ماتھے پر بل ڈالے رخ موڑے اپنے بازو اور پھر روز کو دیکھا۔۔۔
جو ابھی بھی لمبے لمبے سانس بھر رہی تھی۔
واٹ_______؟"
اسنے ناگواری سے اپنی شہادت کی انگلی اور ساتھ والی انگلی سے اسکے نازک دودھیا ہاتھ کو اپنے بازو سے تھامے الگ کرتے سوال کیا۔۔۔۔
تمہارا موبائل رہ گیا تھا اندر______!"
مکمل اردو میں کہا جملہ انزک کے ضبط کو توڑنے کا باعث بنا۔۔۔
جبھی اسنے بری طرح سے اسکے شانوں کو دبوچے ایک دم سے کسی کانچ کی گڑیا کی مانند اسے جکڑتے گاڑی سے پن کر دیا ۔۔۔
اہہہہہ_______!" انزک کے اس اچانک حملے پر ایک دم سے روز کے منہ سے چیخ سی نکلی۔۔۔۔۔ موبائل ہاتھ سے گرتے زمین بوس ہو گیا تھا۔
شٹ اپ۔۔۔۔۔۔ چپ کرو تم۔۔۔۔۔۔ تم نے کہا تھا کہ تمہیں اردو نہیں آتی اب مسلسل ایک ہفتے سے تم میرے گھر والوں کے ساتھ اردو میں بات کر رہی ہو۔۔۔۔۔؛"
مسلسل مجھے خود سے نفرت کی وجہ دے رہی ہو۔۔۔۔ تم ایک ہی بار میں کیوں نہیں بتا دیتی اور کیا کیا چھپایا ہے تم نے۔۔۔۔۔؛"
اسکے دائیں بائیں گاڑی پر پوری قوت سے ہاتھ جمائے وہ دھیمے مگر سخت لہجے میں غرایا تھا۔۔
روز کا دل خوف سے بے ہنگم سا دھڑکنے لگا۔۔۔۔ سنہری آنکھوں میں آنسوں ایسے تھے جیسے بہنے کو بے تاب ہوں ۔۔۔۔۔
ناک غصے اور آنسوں کو ضبط کرنے کے باعث سرخ ہو رہی تھی۔۔
تم ایسے بات مت کرو پلیز_______؛"
انزک کا غصہ اس معصوم کے صبر کو توڑ رہا تھا,
انزک کے غصے سے سرخ ہوئے چہرے سپاٹ تاثرات کو دیکھتے وہ بے بسی سے رونے کو تھی۔۔۔۔
تو کیسے بات کروں مس روزائکہ علی راج_____؟ جانتی ہو مجھے لگا تھا کہ شاید تم مجھے اپنا رہی ہو تو تم اس مقدس رشتے کے ہر پہلوں کو سمجھو گی۔۔
میاں بیوی تو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں... جو ایک دوسرے کا عیب ڈھکنے کا کام کرتے ہیں، مگر تم نے تو کبھی مجھے اپنا شوہر نہیں مانا۔۔۔۔۔!٫
ایسا نہیں ہے کڈنیپر______؛"
اسکی بات پر وہ تڑپ کے رہ گئی جو ظالم بنا بے حسی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
نہیں ایسا ہی ہے روز تم ناں ایک ہی بار میں مجھے سچ سچ بتا دو اور کیا کیا چھپایا ہے تم نے۔۔۔۔؛"
خشک لبوں پر زبان پھیرتا وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تو روز نے کرب بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
لبوں کو میچتے اسنے بمشکل سے سسکیوں کو دبایا تھا۔۔۔۔۔ وگرنہ اس ظالم کا کیا بھروسہ اسکے رونے کا مذاق بنا دیتا ۔۔۔۔۔۔
ڈونٹ وری بیوی ہو تم میری ____ کہا تھا ناں کہ تم خود بھی چاہو تو مجھے خود سے دور نہیں کر سکتی_____؛
ابھی بھی اپنے کہے پر قائم ہوں میں ۔۔۔۔۔۔ اب ایک آنسوں بھی مت دیکھوں میں ان آنکھوں میں۔۔۔۔۔؛ جاؤ ریسٹ کرو ۔۔۔۔۔۔!"
وہ پل میں ہی روپ بدلتا اب اپنے ہی دیے آنسوں کو انگلی کے سخت پوروں سے چنتے آنکھوں پر باری باری لب رکھ گیا۔۔۔۔
کئی لمحوں تک وہ آنکھیں موندے اس حسین لمحے کو محسوس کرتی رہی مگر جب آنکھ کھلی تو کوئی نہیں تھا پاس ۔۔۔۔۔ وہ اسے الجھا کر جا چکا تھا بہت دور۔۔۔۔۔۔۔؛"
کبھی بات نہیں کروں گی تم سے،،،،، بہت برے ہو تم کڈنیپر_____؛"
گیٹ سے تیزی سے نکلتی اسکی گاڑی کو دھندلائی نگاہوں سے تکتی وہ سرخ آنکھوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتی اندر کی طرف بھاگی۔۔
عیناں اٹھی نہیں ابھی تک_____؛" کمرے کا دروازہ کھولتے وہ جیسے ہی اندر آئی نظر بیڈ پر لیٹی عیناں پر پڑی۔۔۔۔
لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔۔ ایک سکون سا تھا کہ ہاں اسکی بیٹی اسکے پاس محفوظ تھی ۔
وہ محبت سے اسے پکارتے اسکے سرہانے بیٹھی ۔
جو کمفرٹر میں دبکی لیٹی تھی ۔
عیناں بیٹا جواب تو دو____؛" فدک کئ متفکر سی آواز سنتے عیناں نے جلدی سے آنسوں صاف کیے ۔۔
وہ اپنی موم کو نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ روئی ہے،،،
جی موم بس اٹھ گئی ۔۔۔؛"
لبوں پر زخمی سی مسکراہٹ سجائے وہ پوری طرح سے کروٹ بدلتے سر فدک کی گود میں رکھ چکی تھی۔۔
فدک نے جھکتے اسکے سر پر بوسہ دیا اور بے حد نرمی سے اسکا چہرہ سامنے کیا ۔۔۔
میری جان کیوں روئی ہو تم کیا ہوا ہے عیناں......؟'
اسکی سرخ ڈوروں سے لبریز گرے آنکھوں میں امڈتے آنسوں دیکھ وہ گھبراہٹ زدہ سی چہرہ ہاتھوں میں بھرتے بولی۔۔۔۔۔
مگر وہ پھیکا سا ہنس دی ۔۔
موم کچھ نہیں یار کہاں روئی ہوں بس رات کو نیند سہی سے ناں آ سکی تو اسی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔۔۔"
اسنے نرمی سے بازو فدک کی گردن کے گرد حمائل کرتے لاڈ سے کہا تو فدک کا ڈر قدرے کم ہوا۔۔۔
تمہارے ڈیڈ منع کر کے گئے ہیں کہ تمہیں کوئی ڈسٹرب ناں کرے مگر نیچے بھائی آئے ہیں تمہیں لینے۔۔۔۔۔۔۔ تو اس وجہ سے مجھے اٹھانا پڑا تمہیں ۔۔۔۔۔"
عیناں کے سنہری بالوں میں انگلیاں چلاتی وہ خوشی اور دکھ کی ملی جلی سی کیفیت میں بولی۔۔۔
کیا ہیرو آئے ہیں مجھے لینے ۔۔۔۔۔!"
وریام کی آمد کا سنتے وہ جھٹکے سے سر اٹھائے حیرت سے ماں کو دیکھ استفسار کرنے لگی۔۔۔
ہاں بیٹا انکا کہنا ہے کہ رات کو ویام گھر لوٹا ہے تو اس سے پہلے کہ وہ پھر سے میری بیٹی کو اٹھا کر لے جائے۔۔
اس سے اچھا ہے کہ میں خود ہی ساتھ لے جاؤں۔۔۔۔۔"
فدک نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔۔۔۔ تو عیناں سمجھ گئی شاید وریام فدک کی طبیعت کی باعث جھوٹ بول رہا تھا۔
چلو اٹھو میری جان جلدی سے فریش ہو جاؤ تاکہ سب بریک فاسٹ کر سکیں۔۔۔۔۔
تمہارے شوہر نے میرے بھائی کو نہیں کرنے دیا تو اسی وجہ سے وہ یہاں آئے ہیں کہ بیٹی اور بہن کے ساتھ کریں گے اب تم فریش ہو کر آو ہم ویٹ کر رہے ہیں...
بیڈ شیٹ درست کرتے فدک نے خوشی سے بتایا کتنے وقت کے بعد وہ پہلے کی طرح خوش تھی۔۔
جی موم آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔۔۔۔!"
فدک سے کہتے وہ کبرڈ سے اپنا ہلکا سا سوٹ نکالتے واش روم کی جانب بڑھی۔۔۔۔
اس وقت اسکا ذہن مختلف سوچوں میں گم تھا۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر جو ڈر اسے لاحق تھا کیا ویام اسے معاف کرے گا اسکے واپس جانے کا کیا تاثر دے گا وہ ۔۔۔۔۔۔؛"
سرد سانس اپنے اندر انڈیلتی وہ شاور لینے لگی۔
*********
چھوڑو مجھے تم گھٹیا انسان چھوڑو______؛" اسکے کندھے پر جھولتی وہ نازک ہاتھوں کے مکے بنائے اپنی طرف سے پورا زور لگاتی اسے مار رہی تھی۔۔
ایل بنا رکے جبڑے مضبوطی سے بھینچتے سیڑھیاں عبور کرنے لگا ۔
صوفئ نے ایک افسوس بھری نظر ان پر ڈالی اور پھر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔۔
وہ مزید کوئی ہنگامہ نہیں چاہتی تھی جبھی جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے وہاں سے چلی گئی۔
دروازہ پاؤں سے کھولتے اسنے بیڈ کے قریب پہنچتے نرمی سے اسے بیڈ پر بٹھایا ۔
جو خونخوار نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔ ایل گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھا اور نرمی سے اسکے دودھیا ہاتھ کو تھاما۔۔۔
میری پہلی اور آخری محبت تم ہو سن شائن۔۔۔۔۔۔ اس لئے جیلس ہونے کی ضرورت نہیں اس سے تمہارے اور بے بی کی صحت متاثر ہو گی۔۔۔؛"
دوسرا ہاتھ اسکے پیٹ پر رکھتے وہ محبت سے بولا ۔۔
لفظوں میں اس قدر سادگی تھی کہ وہ کلس کے رہ گئی۔۔
پیٹ پر اسکے ہاتھ کا لمس ایک عجیب سا کرنٹ دوڑا گیا پورے بدن میں۔۔۔۔۔
پہلی بات میں تمہاری محبوبہ نہیں ہوں جو کسی سے بھی جلوں گی میری طرف سے تم جس مرضی کے ساتھ رہو جو مرضی کرو مجھے بس اس نام نہاد رشتے اور اس قید سے آزاد کر دو______ ؛"
پیٹ پر رکھے اسکے ہاتھ کو پیچھے کرنے کی کوشش کرتی وہ سرخ تپے چہرے سے جان چھڑانے والے انداز میں بولی۔۔۔۔
ایل نے گہرہ سانس بھرتے پیٹ پر رکھا ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد حائل کیا اور اسے کھینچتے خود سے قریب تر کیا ۔۔۔۔۔
منہ لگانے کو تو بہت سی ہیں مگر جب سے تمہیں منہ لگایا ہے کسی اور کو لگانے کا دل ہی نہیں چاہتا______؛"
اسکی نیلی آنکھوں میں جھلکتے جذبات کی شدت، اور کچھ لبوں سے ادا ہوئے بے باک جملے نے حور کو خاموش سا کروا دیا۔۔۔۔
چھوٹی سی ناک غصے سے سرخ ہو رہی تھی۔۔ ایل کی گرفت کی وجہ سے وہ اسکے چہرے پر جھک سی گئی تھی۔۔۔۔
وہ مخمور نگاہوں سے ان گلاب کی پنکھڑیوں کو دیکھتا کھو سا گیا ۔۔۔
آج کے بعد دوڑنے کی کوشش بھی مت کرنا میں نہیں چاہتا ہمارے بے بی کی صحت پر کچھ بھی برا اثر پڑے۔۔۔۔۔"
اسنے لمحوں میں بات بدلتے حور کے چہرے کے تاثرات کو جانچا۔۔۔۔۔
اس نازک وجود کی خوشبو اطراف میں بکھری اس قدر جان لیوا تھی کہ وہ مضبوط اعصاب کا مالک بامشکل سے جذبات پر قابو پائے ہوئے تھا ۔۔
میرا بچہ ہے یہ،،،، تمہارا مجھ سے یا میرے بچے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔ بہت جلد میں اس نام کے رشتے کو بھی ختم کر دوں گی۔۔۔۔۔ ناں تو مجھے تمہاری ضرورت ہے اور ناں ہی میرے بچ۔۔۔۔؛"
اسکے الفاظ منہ میں ہی دم توڑ گئے جب ایل نے بے ساختہ اسکی سانسوں پر دسترس حاصل کی۔۔۔۔
حور کے ہوش و حواس میں وہ پہلی مرتبہ اسکی سانسوں سے بھی قریب آیا تھا۔۔۔
جو حیرت و بے یقینی کے کیفیت سے ایل کے کورٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی۔۔۔۔
ایل بے خودی سے آنکھیں موندے ان مہکتی سانسوں کو خود میں اتارتا حور پر حاوی ہو گیا۔۔
جو پیچھے ہوتی بیڈ پر جا گری۔۔۔
سانس رکنے پر وہ بری طرح سے جھٹپٹاتے اس ظالم شخص کو خود سے دور کرنے کو ہاتھ پیر چلانے لگی ۔۔
جس کا اثر بھی ہوا ،،،، ایل نے آنکھیں کھولے حور کے چہرے کو دیکھا جو انگارہ ہوا تھا پھر پل میں ہی پیچھے ہوتے دونوں ہاتھ اسکے سر کے قریب دیوار کی مانند ٹکائے۔۔۔۔۔
اور بغور اسے دیکھنے لگا جو سانس بحال کرنے کے چکر میں ہلکان ہو رہی تھی ۔۔
لائٹ پنک کلر کے کرتے میں اسکا مہکتا وجود اوپر سے یہ دوری ایل کو جان کا وبال لگا تھا۔۔۔
جبھی جذبات کو تھپکنے کی سعی کرتے اسنے بائیں ہاتھ سے اپنے بال سیٹ کیے۔
اور پھر حور کے چہرے پر گرے جان کا آزار بنے سیاہ بالوں کو شہادت کی انگلی پر چنتے تکیے پر بکھیر دیا۔۔۔
کمرے کا ماحول خوابناک سا ہو گیا ۔۔۔ معنی خیز سی خاموشی میں یہ سرسراتے لمحے ایل کو مشکل میں ڈال رہے تھے۔۔۔
اور دوسری طرف حور خود پر جھکے اس ظالم شخص کی دہکتی گرم سانسوں کو چہرے پر محسوس کرتی کبوتر کی طرح آنکھیں موندے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔۔۔
یہ بچہ میرا ہے مسز عالیان شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے تم سر تا پاؤں صرف اور صرف عالیان شاہ کی ہو،،،، تم ہوش و حواس میں نہیں تھی مگر میں نے پورے ہوش و حواس میں تمہیں اپنایا تھا۔۔۔
تمہاری روح تک کی خوشبو کو اپنے اندر سمیٹا ہے اور تم پوری کی پوری میری ہو ۔۔ صرف اور صرف عالیان شاہ کی۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ ننھا وجود جو تمہارے اندر سانسیں بھر رہا ہے۔۔
یہ میری اولاد ہے میں دنیا کے ہر اس شخص سے بھڑ جاؤں گا جو مجھے میری بیوی میرے بچے سے دور کرنا چاہے گے۔۔۔
چاہے تو وہ پھر تمہارا بھائی ویام کاظمی ہی کیوں ناں ہو۔۔۔۔۔۔۔؛"
اپنے بھائی کے نام پر حور نے غصے حیرت سے نگاہیں اٹھائے اس ظالم شخص کو دیکھا،،
جس کی آنکھوں میں اپنے کہے الفاظ کو پورا کرنے کے لیے بلا کا اعتماد جھلک رہا تھا۔
خبردار جو آئندہ میرے بھائی کا نام بھی لیا تو ورنہ اچھا نہیں ہو گا تمہارے لئے۔۔۔۔۔؛"
اسکے سینے پر اپنے ہاتھوں سے دباؤ دیتے وہ شیرنی بنائی اونچی آواز میں غرائی۔۔۔۔
اسکا یہ روپ ایل کو مسرور کر گیا۔۔ سینے پر رکھے مومی ہاتھوں کا لمس دھڑکنوں میں اودھم برپا کرنے لگا۔۔۔
بے اختیار اسنے جھکتے حور کی پیشانی کو شدت سے چوما۔۔۔۔ اسکے اچانک ایسا کرنے پر حور کی زبان لڑکھڑا سی گئی۔۔
الفاظ منتشر ہونے لگے_______
جانِ عالیان۔۔۔۔ چھوٹی سی بات پر اتنا غصہ۔۔۔۔ نہیں لوں گا آپ کے بھائی کا نام ۔۔۔۔ اب سے سالا بولوں گا اسے_______؛"
حور کے کان کی لو پر لبوں کا لمس چھوڑتے وہ مسرور سا سرگوشی کرتے اسکی کمر کے گرد حصار بنائے ایک دم سے سیدھا ہوا۔۔۔
اور کھینچتے سینے پر گرایا۔۔۔۔
حور بری طرح سے جھٹپٹائی خود کو آزاد کروانے کی ناکام سی کوشش کی۔۔۔
مگر پھر تھک ہار کر سر مقابل کے سینے پر گرا دیا۔۔۔۔۔
جو دلکشی سے مسکراتے اسے مزید خود میں بھینچ گیا۔۔۔
اچھا سنو کب تک معاف کرنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔؟"
اپنے سینے پر حور کی نرم گرم سانسیں محسوس کرتا وہ شریر ہوا۔۔۔۔۔
بایاں ہاتھ ان حسین زلفوں میں دھیمے دھیمے سے چلاتے وہ ایک سکون سا خود میں اترتا محسوس کرنے لگا۔۔۔۔
جب تم اس بے نام رشتے سے آزاد کر دو گے تب معاف کر دوں گی تمہیں_______!"
ڈھٹائی سے جواب دیتی وہ کرخت لہجے میں کہتے خاصا تپا گئی ۔۔
یہ رشتہ بے نام نہیں ہے جان۔۔۔۔۔ اس بات کا ثبوت تمہارے اندر موجود میرا بچہ ہے۔۔۔ اب اس خوبصورت رشتے کو کبھی بے نام مت کہنا ۔۔۔"
حور کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے اسنے چہرہ روبرو کرتے دوٹوک الفاظ میں کہا مگر وہ سنتی گہرہ مسکرائی۔۔۔۔
جس رشتے کا دنیا کے سامنے کوئی وجود ناں ہو یا تو وہ بے نام ہوتا ہے یا پھر ناجائز______؛"
ایل کی آنکھوں میں اپنی سیاہ آنکھیں گاڑھے وہ بے تاثر لہجے میں سفاکی سے گویا ہوئی۔۔۔۔
حور کے اس قدر ہتک آمیز جملے پر وہ سلگ سا گیا۔۔۔
حور بنا اسکی سرد ہوتی نیلی آنکھوں میں دیکھے اپنی کمر پر بندھے ایل کے ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
ناں تو یہ رشتہ بے نام ہے ناں ہی ناجائز____ عالیان شاہ بہت جلد اس ساری دنیا کے سامنے بتائے گا کہ تم میری بیوی ہو میرے بچے کی ماں۔۔۔۔۔۔۔ میرا قرار میرے دل کا سکون_____؛ پھر دیکھوں گا۔
کہ کس میں ہمت ہے جو ہمارے رشتے کو بے نام یا ناجائز کہتا ہے۔۔۔۔۔"
حور کی پچھلی گردن کے گرد ہاتھ حائل کیے وہ اسے جھکا گیا خود پر۔۔۔۔
اس کی الجھی سیاہ جھیل سی آنکھوں میں اپنی بے تاثر نیلی آنکھیں گاڑھے وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولا۔۔۔۔
تب کی تب دیکھیں گے ۔۔۔۔۔۔؛"
حور ہنستے اسکی بات کا مذاق اڑاتے چہرہ پھیرے دیوار کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
ایل کے کہے الفاظ اسکے دل میں ہلچل مچا رہے تھے،، کہی ناں کہی اسے سکون محسوس ہو رہا تھی اور ایسا کیوں تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی ۔۔۔
دماغ جانتا تھا کہ یہ شخص مخض اسے بہلا رہا ہے اپنی باتوں کے جال میں پھانس کر وہ مخض اسکی ذات کی توہین کر رہا ہے ۔۔
مگر دل تو جیسے ہمک ہمک کر اس ظالم ستمگر کی آنکھوں سے جھلکتے ان آنچ دیتے جذبات، لبوں سے نکلے ان معتبر کرتے الفاظ پر لہک رہا تھا۔۔۔
وہ نا سمجھی سی کیفیت میں اپنے عنابی لبوں کو کاٹنے لگی۔۔۔
یہ جانے بنا کہ اسکا یہ فعل مقابل کے دل کی دُنیا تہہ و بالا کر رہا تھا ۔۔۔
ڈونٹ ڈو دِز اگین مسز۔۔۔۔" ایل نے انگوٹھا حور کے ہونٹوں پر رکھتے بے تاب نگاہوں سے ان پنکھڑیوں کو نہارتے مخمور سے لہجے میں کہا ۔۔۔
جبکہ وہ الجھی سی نگاہوں سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے ذرا سا سر اُٹھائے اسکی سمندر جیسی گہری آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔۔
تمہاری یہ ادا مجھے بہکا رہی ہے۔۔۔ میرے جذبات منہ زور ہو رہے ہیں۔۔۔ اور یہ میں ہی جانتا ہوں کہ تمہاری طلب کو کس طرح سے خود تک رکھتے میں نے اپنی جان کو وبال بنا رکھا ہے۔۔۔" سو ایسا کچھ بھی مت کرو کہ ایل عالیان شاہ بن کر ہمارے درمیان حائل اس نازک سی دیوار کو گرا دے۔۔۔۔۔ پھر تمہاری اس نازک سی جان کیلئے کے ہوش و حواس میں میری گستاخیوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔۔؛"
گہرے بے باک سے لہجے میں وہ مسلسل ان نازک ہونٹوں کو سہلاتے اپنے دل و دماغ میں حاوی اس نازک وجود کے لیے جذبات کو عیاں کرتے حور کے پورے وجود میں کرنٹ سا دوڑا گیا۔۔۔
یہ پہلی بار تھا کہ وہ شخص اس قدر بے باک ہوا تھا اور وہ مسلسل آدھے گھنٹے سے اسکے حصار میں تھی ۔
اسکی من مانیوں کو سہہ رہی تھی۔۔۔ مگر آج اسکے الفاظ، اسکے لمس سے حور کو کراہت کوئی نفرت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔
ایک الگ سا احساس تھا جو اس شخص نے اسکے دل و دماغ پر طاری کر دیا تھا۔۔۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔۔۔۔۔
دماغ اس شخص سے دوری کو اکسا رہا تھا مگر دل کو اسکی باتیں سچ لگ رہی تھیں۔۔۔
مجھے بہت سی باتیں کرنی ہیں اپنی جان سے۔۔۔۔۔۔ وہ سب بتانا ہے جو صرف اور صرف ایل جانتا ہے جسنے اسے عالیان شاہ سے ایل بننے پر مجبور کیا وہ سب بتانا ہے۔۔۔۔____ میرا انتظار کرنا رات تک واپس لوٹ آؤں گا۔۔۔۔۔۔"
حور محسوس کر سکتی تھی اسکی گردن پر عالیان شاہ کا دہکتا لمس تھا اسکے آنسوں جو بے اختیار حور کی گردن میں جذب ہو رہے تھے ۔۔
حور نے اسے خود سے دور نہیں کیا تھا ۔۔۔
وہ آنکھیں موندے اپنے نقوش پر اس ستمگر کے ہونٹوں کا عقیدت بھرا لمس محسوس کرتی رہی۔۔۔
ہاں اسے محسوس ہوا تھا وہ شخص اسے عقیدت سے چھو رہا تھا۔۔۔۔
اسکے وجود کی خوشبو حور کے اندر تک اتر رہی تھئ۔۔۔
یہ لمحے بے حد بھاری تھے ان دونوں کے لئے؛؛؛؛؛
خیال رکھنا اپنا،، بہت جلد واپس لوٹوں گا زندگی اس بار سب کچھ ٹھیک کر دوں گا وعدہ کرتا ہوں میں_______!"
اپنے جذبات پر بندھ باندھے وہ پھر سے حور کی پیشانی پر ہونٹ رکھتے سکون خود میں اتارتے اس نازک سی جان کو دیکھنے لگا۔۔
جو ایل کی قربت میں پسینے سے شرابور آنکھیں موندے ہوئے تھی۔۔بے اختیار اسکے لب مسکرائے۔۔۔۔۔
اور ہاں عالیان شاہ اپنی سن شائن سے بے حد محبت کرتا ہے اتنی کہ یہ دنیا میرے الفاظ میرے جذبات کم پڑ جائیں میری محبت کی حد ماپنے کو۔۔۔۔۔"
دوبارہ سے بیڈ پر ایک گھٹنہ ٹکائے وہ حور کے ہاتھ پر بوسہ دیے شدت سے بولا ۔۔۔
حور نے آنکھیں کھولے اس حسین شخص کی آنکھوں میں جھانکا جہاں صرف اور صرف محبت ہی محبت تھی۔۔
وہ پھر سے نگاہیں جھکا گئی ۔۔
ایل اس پر کمفرٹر دیے،ایک بھرپور نظر ڈالے کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔۔
ویام میں سوچ رہی تھی کہ اب تمہیں چھٹیاں مل گئی ہیں تو کیوں ناں تم عیناں کے ساتھ کہیں گھوم پھر آؤ......"
نیناں کافی ایکسائڈڈ سی ہوتے بولی تھی ویسے بھی کافی دنوں سے عیناں فدک کے پاس تھی۔
اب اسے گھر آ جانا چاہیے تھا۔۔۔۔۔
جوس کا سپ لیتے ویام نے ایک نظر نیناں پر ڈالی اور گلاس میز پر رکھتے ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست کیے ۔۔
نین ایکچوئلی عین ابھی رہنا چاہتی ہے کچھ وقت کیلئے ماما (فدک) کے پاس تو اچھا نہیں لگتا میں ایسے ڈسٹرب کروں۔۔۔".
کندھے اچکاتے وہ نارمل سے انداز میں بولا۔۔
کیا ہوا یار ایسے کیوں گھور رہی ہیں آپ______؛"
نیناں جو کافی حیرانگی سے بیٹے کو دیکھ رہی تھی ویام نے حیرت سے اسکے گھورنے کی بابت پوچھا_
دیکھ رہی ہوں کہ یہ میرا وہی بیٹا ہے جو راتو رات اپنی بیوی کو اٹھا کر لے آیا تھا یہ کہہ کر کہ وہ خود رخصتی کروا کر لے جا رہا ہے۔۔۔ اور اب ایک ہفتے سے وہ نا صرف اپنی عین سے دور ہے۔۔ بلکہ اسے اور بھی وقت دے رہا ہے کہ وہ اپنی ماما کے ساتھ گزار سکے۔۔۔۔"
کہیں بخار وخار تو نہیں ہو گیا ناں،،، طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔۔!"
ویام کے ماتھے پر ہاتھ رکھتی وہ سنجیدگی سے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھتی شرارت سے بولی۔۔
اہہہہ موم ایسا کچھ نہیں بہت بریو ہو گیا ہے آپ کا بیٹا_____ اب یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مجھے بے چین نہیں کرتی۔۔۔۔؛_
مسکراتے ہوئے وہ اپنا ہی مذاق اُڑاتے دوبارہ سے ناشتہ کرنے لگا۔۔
نیناں کو کافی عجیب لگا تھا مگر وہ بولی کچھ نہیں۔۔۔۔
نین،،،،،،،_____؛"
ہاں کیا ہوا ہے___؟" ویام کے بلانے پر وہ چونکتی ہوش میں لوٹی۔۔۔۔۔
میں کام سے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے رات کو آتے ہوئے دیر ہو جائے آپ خیال رکھئے گا اپنا…...'
نیناں کی پیشانی پر بوسہ دیتے وہ موبائل پر میسج ٹائپ کرتے بولا۔۔
دھیان سے جانا اور ہاں رات کو جلدی لوٹ آنا میں انتظار کروں گی____؛"
آنکھوں سے اوجھل ہوتی اسکی پشت کو دیکھتی وہ سرد سانس بھرتے بولی۔۔۔
**********
وہ رات کافی دیر سے گھر لوٹا تھا،،، عنایت کے ٹیسٹس رپورٹس دیکھنے کے بعد وہ کافی پریشان تھا۔۔۔
سب سے زیادہ فکر تو اسے اس بات کی تھی کہ گزرتے وقت کے ساتھ وہ کیسے اپنی اینجل کو دنیا کا مقابلہ کرنا سکھا پائے گا۔۔۔
ایک حادثے صرف ایک حادثے نے اس معصوم کو اس قدر حساس بنا دیا تھا۔۔
وہ ہاسپٹل اور ڈاکٹرز کو دیکھتے ہی بری طرح سے چیخنا شروع کر دیا کرتی تھی ایسے حالات میں صرف ویام ہی تھا۔۔
جو اسے قابو کر سکتا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹرز نے اسے استھما بتایا تھا،،، مگر ایک سال کے عرصے سے اسکے پراپر ٹریٹمنٹ کے باعث وہ کافی بہتر ہوچکی تھی۔۔
اب وہ قدرے نارمل تھی سانس اکھڑنا بھی کم ہو چکا تھا۔۔۔
مگر کسی اجنبی کو دیکھنے کے بعد جو ری ایکشن اسکی باڈی اور دماغ ظاہر کرتا تھا۔۔
وہ کافی جان لیوا تھا،،، تیمور کو دیکھ کر جیسی حالت ہوئی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے وہ کافی پریشان تھا۔۔۔
اوپر سے عنایت کے ڈاکٹر نے اسے انڈر ابزرویشن رکھنے کا کہا تھا ابھی بھی وہ ہاسپٹل سے لوٹا تھا۔۔۔
پورا دن وہ اپنی معصوم بیٹی کے پاس رہا تھا۔۔۔
جو دوائیوں کے زیرِ اثر بے ہوش تھی۔۔۔
وہ بالکل نڈھال سا ہو چکا تھا ۔۔بھوری آنکھوں میں شدید سرخی کے ڈوریاں تیر رہی تھی۔۔۔ دم گھٹنے پر اسنے شرٹ کے اوپری بٹن کھول دیے ،،
مضطرب سی کیفیت میں دروازہ کھولے اسنے بے دھیانی سے کورٹ صوفے پر پھینکا۔۔
اور فوراً سے شاور لینے چلا گیا۔۔۔۔
شاور کا یخ بستہ پانی اسکے اعصاب جھنجھلا رہا تھا۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے وہی سال پہلے والا منظر گھوم رہا تھا۔۔۔
جب وہ معصوم گڑیا اسے ملی تھی۔۔۔ویام نے بے بسی سے اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں جکڑا۔۔۔۔
کیوں کیوں ہوا مجھ سے ایسا۔۔۔۔۔" کیوں نہیں پہنچ پایا میں وقت پر؛؛؛؛؛"
گزرے لمحات کی دردناک کرچیاں تھیں۔۔۔۔ ایسے کربناک لمحات جن کی وجہ سے ایک معصوم کو بے دردی سے مار دیا گیا تھا۔۔۔
اس معصوم تین سالہ بیٹی کے سامنے اسکی ماں کو نوچا گیا تھا،، کیسے برداشت کیا ہو گا اسنے یہ سب۔۔۔۔۔"
اہہہہہ کاش میں سب ٹھیک کر پاتا کاش میں وقت پر پہنچ جاتا تو آج میری اینجل ایسی ناں ہوتی۔۔۔۔۔"
خود سے لڑتا لڑتا وہ تھک چکا تھا۔۔۔ دنیا کے سامنے مضبوط دکھنے والا وہ مغرور شخص اندر سے بے حد کمزرو باپ تھا ۔۔۔
ایک ایسا باپ جو چاہ کر بھی اپنی بیٹی کو اس ٹراما سے نہیں نکال پا رہا تھا ۔۔۔
ویام نے بے بسی سے اپنے دونوں ہاتھ سامنے موجود دیوار پر رکھے،،، لمبے لمبے سانس بھرتے وہ کافی دیر تک شاور کے نیچے کھڑا خود کو پرسکون کرتا رہا ۔۔۔
***********
وہ ناخن منہ میں ڈالے بری طرح سے پزل ہوتی ناخن کتر رہی تھی۔۔ نگاہیں مسلسل باتھ کے بند دروازے پر ٹکی تھیں۔۔۔
جتنی زور سے اسنے دروازہ بند کیا تھا عیناں اتنا تو سمجھ ہی گئی تھی کہ وہ کافی غصے میں ہے۔۔۔
شاید اسی غصے کی وجہ سے وہ اسکی موجودگی کا نوٹس بھی نہیں لے پایا تھا۔۔۔
ایک دم سے دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔ عیناں فورا سے سیدھی ہوتے بیڈ پر بیٹھی سامنے کی جانب دیکھنے لگی ۔۔۔
گیلے بالوں میں انگلیاں چلاتا وہ شرٹ لیس باتھ روم سے باہر نکلا۔۔۔۔
جونہی نظر بیڈ کی جانب اٹھی،، وہ ساکت سا ہو گیا ۔۔۔
بالوں میں چلتا ہاتھ وہیں تھم سا گیا۔۔۔۔اسنے آنکھیں سکیڑتے بغور سانس روکے عین کو دیکھا۔۔۔۔
پھر اسکی موجودگی کا یقین ہوتے ہی ویام نے سرد سانس فضا کے سپرد کی اور چلتا بیڈ کی جانب آیا۔۔۔۔؛
اسے یوں غصے سے اپنی طرف آتا دیکھ عیناں نے ڈر سے کمفرٹر دونوں ہاتھوں میں دبوچ لیا ۔۔
اپنے چہرے پر سایہ محسوس کرتی وہ بری طرح سے لزرتی کپکپاتے لب ایک دوسرے میں پیوست کر گئی۔۔۔۔
معا ویام کی دوری کا احساس ہوا۔۔۔۔۔۔ وہ پٹ سے آنکھیں کھول گئی۔۔۔
یہ وہاں کیوں گیا۔۔۔؟؛" روم کے ساتھ اٹیچ روم کی جانب اسے جاتا دیکھ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔۔۔۔
اسے لگا تھا کہ وہ غصہ ہو گا مارے گا کمرے سے نکال دے گا مگر وہ تو خود ہی ایکسرسائز روم میں چلا گیا تھا ۔۔
کیا کروں جاؤں یا ناں......؟"
کافی دیر تک وہ خود ہی سے مخاطب بری طرح سے الجھی سوچ رہی تھی۔۔
ویام کا غصہ تو وہ دیکھ چکی تھی اگر اب وہ پھر سے اسکے سامنے گئی تو جانے وہ کیا کرے۔۔۔
زیادہ سے زیادہ چاٹا مارے گا کھا لوں گی۔۔۔۔ کیا ہو جائے گا_____؟ مگر آج میں کسی بھی حال میں اسے منا کر رہوں گی۔۔۔۔۔۔؛"
بالوں کو جوڑے میں مقید کرتی وہ خود سے ہی کہتی چپل پاؤں میں اڑستی اسکے پیچھے گئی۔۔۔۔۔
عیناں نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا سامنے کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔
مشینوں کو دیکھ اسنے حلق تر کیا۔۔۔ پھر اللہ سے مدد مانگتی وہ دھیمے دھیمے سے چلتی دروازہ اندر سے آہستگی سے بند کرتی ایکسرسائز روم میں گئی۔۔۔۔
وہ کہیں بھی نہیں تھا عیناں نے منہ پھولائے اپنے سر کو کھجایا ۔۔۔۔ کتنا مشکل تھا اسے راضی کرنا۔۔۔۔ یہ اسے اب سمجھ آ رہا تھا ۔۔۔"
عیناں نے نگاہیں پورے کمرے پر دوڑائی،، اور پھر چلتے ایک جانب کاؤچ پر بیٹھ گئی۔۔۔
وہ دن میں ہی وریام کے ساتھ لوٹ آئی تھی۔۔۔
وریام نے اسے بتایا تھا کہ ویام کس قدر ڈسٹرب ہے اور ایسے حالات میں اسے اچھی بیوی ہونے کا ثبوت دینا تھا۔۔۔۔
ایک دم سے کھٹاک سے کچھ گرنے کی آواز پر وہ ہڑبڑاتے چیختی جگہ سے اچھل پڑی۔۔۔۔۔۔
عیناں کے چیخنے پر ویام جو ابھی پول والے ایریا سے آیا تھا ۔۔
اسنے چونکتے سامنے اسے بت بنے کھڑا دیکھ تاسف سے سر نفی میں ہلایا اور پھر جان بوجھ کر پنچنگ بیگ کی طرف بڑھا،،،
عیناں نے حلق تر کرتے اسے دیکھا۔۔۔
جو پیٹھ اسکی جانب کیے،،، زور زور سے بیگ کو ہٹ کر رہا تھا ۔۔
اسکی ہر نئی ہٹ پرانی ہٹ سے زیادہ زوردار ہوتی تھی۔۔۔ کہ عیناں خوفزدہ سی ہوتے لمبے لمبے سانس بھرنے لگی۔۔۔
اسے یونہی پاگلوں کی طرح مکے مارتا دیکھ وہ دوڑتی اسکے قریب ہوئی اور باکس کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔
پپپ پلیز مت کک کرو______؛"
ڈر سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے آنکھیں زور سے بند کرتی وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔
ویام نے ایک نظر اس سہمی سی لڑکی پر ڈالی،،
اسکا خوف سے لرزتا وجود ہی اس شخص کو بے قرار کرنے کو کافی تھا۔۔۔
ویام نے غصے سے ایک بار پھر سے ایک زور دار پنچ مارا،، اور پھر تیز تیز قدم لیتا وہ دوبارہ سے سوئمنگ ایریا کی جانب چلا گیا۔۔۔۔۔
فل وقت وہ عیناں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا،،،
دماغ تو ویسے ہی سوچوں میں الجھا ہوا تھا اوپر سے عیناں کی موجودگی اسے گھل رہی تھی۔۔۔اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔۔!
اندر جاؤ عیناں_____؛"
اسکی بھاری آواز میں کہنے پر عیناں نے چونکتے حیرت سے اس شخص کی پشت کو بے یقینی سے دیکھا ۔۔۔۔
جب مان دینے والا شخص ہی روٹھ جائے تو زندگی ہر طرف سے بے رنگ لگنے لگتی ہے۔ اور اس وقت عیناں کو اپنا نام زہر لگ رہا تھا۔۔
جسے وہ بار بار لیتا اسکی تکلیف میں اضافہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔
تم جان بوجھ کر رہے ہو ناں یہ سب مجھے تکلیف دینے کیلئے.......؛"
وہ دھیمے قدم اٹھاتی اسکے روبرو ہوتے سوال گو ہوئی،،
کیا کر رہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔؛" سینے پر ہاتھ باندھے وہ مکمل اسکا سر تا پاؤں جائزہ لیتے ائبرو اچکاتے استفسار کرنے لگا۔۔۔۔
سرخ کھلی سکرٹ کے ساتھ میچنگ ٹاپ پہنے،،، سنہری بال جو بے ترتیبی سے دونوں کندھوں پر الجھے پڑے تھے،،،
متورم آنکھیں، سرخ ہوئی چھوٹی سی ناک پھولے گلابی گال جو رونے کی شدت سے اس وقت بے تحاشہ سرخ ہو چکے تھے،،،"
وہ جان لیوا حد تک حسین تھی مگر اس وقت وہ خود سے لاپرواہ بے گانہ سی پہلے سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔
تم جانتے ہو مجھے پسند نہیں کہ تم میرا نام لو تم پھر بھی بار بار لیتے ہو،،،،،"
وہ سوں سوں کرتی خفا نگاہوں سے اسے دیکھتے ناک کو ہاتھ سے رگڑتی بالکل کوئی چھوٹی بچی دکھ رہی تھی۔۔
جس سے اسکی کوئی قیمتی چیز چھین لی گئی ہو اور وہ رو کر اسے واپس مانگ رہی ہو۔۔۔۔۔
اچھا تو مجھے بھی بہت کچھ اچھا نہیں لگتا مگر تم بھی تو وہ سب کرتی ہو،،،،"
تو میں کونسا جان بوجھ کر کرتی ہوں اگر تمہیں اچھا نہیں لگتا میرا کچھ بھی کرنا میں اب سے کچھ بھی نہیں کروں گی۔۔۔؛"
آنکھوں کے کنارے سرخ ہو رہے تھے وہ دو قدموں کے فاصلے پر کھڑی انتہائی معصومیت سے بولتی ویام کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہی تھی۔
مگر وہ خود پر سخت خول چڑھائے ہوئے تھا۔۔۔
مستقبل میں وہ پھر کبھی بھی عیناں سے دور نہیں جانا چاہتا تھا جسکے لئے یہ سب کرنا بے حد ضروری تھا۔۔۔۔
مگر جو بھی ہو، تمہیں مجھ سے محبت نہیں اور بنا محبت کے کسی کو زبردستی کے رشتے میں باندھنا بے وقوفی کے سوائے کچھ بھی نہیں ،،،،؛"
اسکے چہرے کا جائزہ لیتی ویام کی شارپ نگاہیں اب اسکے ننگے پاؤں پر پڑی،،،
وہ ٹھنڈ کے باعث پاؤں اوپر کر رہی تھی،،، دودھیا پاؤں سرخ پڑ چکے تھے وہ بجلی کی تیزی سے اسکے نزدیک ہوا اور ہاتھ اسکی کمر کے گرد حمائل کرتے اسے زمین سے تھوڑا اونچا کیے پاؤں اپنے پاؤں کے اوپر رکھے۔۔
یہ سب اس قدر اچانک اور تیزی سے ہوا تھا کہ عیناں ویام کی گردن میں بانہیں لپیٹے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اس گھورنے لگی۔۔۔۔
ویام کئی سانیے اسکے چہرے کو دیکھتا رہا جو حیرانگی سے اسے ہی گھور رہی تھی ۔۔
ناک اسکی ناک سے مس ہو رہی تھی،،، ویام کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کیے وہ آنکھیں پٹ سے بند کر گئی۔۔
تمہیں فیور کب سے ہے......؛" ویام کا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد اسے سہارہ دیے ہوئے تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ اسکے لرزتے ہونٹوں کو چھوتا اب گردن پر ہاتھ رکھتے پریشانی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔
اس اچانک سوال پر وہ جو آنکھیں موندے ہوئے تھی فوراً سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ خشک پڑتے لبوں پر زبان پھیرتے نگاہیں جھکا گئی۔۔
میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے،،،،،فیور کب ہوا تمہیں.....؟"
ووو وہ جج جس رر رات تم چھوڑ کک کر گئے تھے اسی رات۔۔۔۔۔۔؛"
کمر پر مضبوط ہوتی ویام کی گرفت واضح وارننگ تھی جبھی وہ فوراً سے سچ بولنے لگی۔۔۔۔۔
ووو ویام..... " ویام نے جبڑے بھیںچتے اسے کسی کانچ کی گڑیا کی مانند بانہوں میں بھرا تو عیناں گھبرا سی گئی۔۔۔
مگر پھر اسکے بے تاثر چہرے کو دیکھ وہ خاموش ہو گئی۔۔
اس وقت ویام کے دماغ میں کیا چل رہا تھا،، یہ جاننا عیناں کے لئے ہمیشہ کی طرح نا ممکن تھا۔۔۔
اسی لئے خاموشی کا مظاہرہ کرتی وہ ویام کے اگلے ری ایکشن کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
ویام بنا کچھ کہے تیزی سے اسے اٹھائے کمرے میں داخل ہوا،،،،
اور نرمی سے اسے بیڈ پر لٹائے تکیہ ٹھیک سے اسکے سر کے نیچے رکھتے وہ ڈرا چیک کرنے لگا۔۔۔
عیناں اسکی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی تھی۔۔۔
جو بے تاثر سے چہرے سے اپنے کام میں مصروف تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد مطلوبہ سامان ملتے وہ دوبارہ بیڈ پر آیا اور گھٹنہ فولڈ کیے اسکے قریب بیٹھا۔۔
تھرمامیٹر عیناں کے منہ میں ڈالے وہ بخار کی نوعیت چیک کرنے لگا ۔۔۔
عیناں بس آنکھیں ٹکائے اسکے مغرور تنے نقوش کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
میڈیسن لو؛؛؛؛؛؛؛" بخار کافی زیادہ تھا جبھی وہ بخار کی میڈیسن نکالتے حکمیہ انداز میں بولا۔۔۔۔
عیناں نے پھولے منہ سے اسے گھورا ۔۔
اسکی وارننگ دیتی نگاہوں کو دیکھ بالاخر وہ اٹھتی مڈیسن لینے لگی ۔۔۔۔
سو جاؤ اب۔۔۔۔۔!"
میڈیسن دینے کے بعد اب نیا حکم دیا تھا۔۔۔۔
تم کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔۔؛ اسے جاتا دیکھ عیناں نے فوراً سے اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔۔
سٹڈی میں ہوں اگر کچھ چاہئے ہوا تو بتانا۔۔۔۔!"
مگر۔۔۔۔۔۔ اسکی بات بنا سنے وہ تیزی سے سٹڈی میں چلا گیا۔۔۔
اسکا یوں جانا عیناں کو کافی برا لگا تھا۔۔
آنکھوں میں آنسوں خود بخود ہی آ رہے تھے،،، جنہیں بے دردی سے رگڑتے وہ کمفرٹر میں منہ دیے غصے سے لیٹ گئی۔۔
کافی دیر تک کروٹیں بدلتی وہ سونے کی کوشش کرتی رہی مگر نیند وہ جاتے ہوئے ساتھ جو لے گیا تھا۔۔ اب کہاں سے آنی تھی ۔
جبھی سٹڈی کے دروازے کو گھورتی وہ تیزی سے کمفرٹر خود سے ہٹائے جگہ سے اٹھی اور سٹڈی کا دروازہ بنا آواز کے کھولا۔۔۔۔
سامنے ہی وہ ایک ہاتھ ماتھے پر ٹکائے کاؤچ پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔
عیناں نے بنا آواز کیے آہستگی سے دروازے کو اندر سے لاک کیا اور اسکے قریب جاتے وہ تھوڑی سی بچی جگہ پر لیٹتی ہاتھ اسکے گرد حمائل کیے اسے حصار میں لیتے چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔۔۔۔
جانتی تھی وہ جاگ رہا ہے جبھی چہرہ چھپائے اس سے بچنے کی نادان سی کوشش کی۔۔۔۔
ویام نے گہرا سانس بھرتے اس نازک وجود کو خود سے لپٹے دیکھ سرد سانس فضا کے سپرد کی ،
وہ جتنا اس سے بچنا چاہ رہا تھا وہ خود ہی اسکے قریب آ رہی تھی۔۔۔۔
عیناں کے بائیں ہاتھ کو تھامے اسنے دوسرا ہاتھ کمر کے گرد لپیٹا اور ایک دم سے اسے اپنے نیچے گرایا۔۔۔۔۔!"
عیناں گہرے سانس بھرتی اس کی بھوری سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔۔۔
جو بمشکل سے اس نازک وجود سے خود کو غافل رکھنے میں ہلکان تھا۔۔۔
چاہتی کیا ہو تم_____؛ کمر پر دباؤ دیے اسنے مزید اسے خود سے قریب کرتے سرد سرسراتے لہجے میں غصے سے اسے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔۔
وہ پاگل ہونے کو تھا،،،،، حواسوں پر طاری عیناں کی جان لیوا مہک نے اسے جھنجھلاہٹ میں ڈال رکھا تھا۔۔۔۔
وہ چاہ کر بھی اس سے غصہ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔۔
تمہیں_____؛" یک لفظی جواب دیتی وہ چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔۔
جب ویام نے بری طرح سے اسکی گردن کو دبوچے چہرہ روبرو لایا ۔۔۔
نگاہیں ان نازک پنکھڑیوں پر بری طرح سے اٹک چکی تھی ۔۔
عیناں اسکی نظروں کا رخ دیکھ اپنے دونوں ہاتھ اسکی گردن کے گرد لپیٹے اسکے گال پر بوسہ دینے لگی۔۔۔ ویام نے آنکھیں موندے اس لمس کو محسوس کیا۔۔
اور پھر بے ساختہ ہی خود سے قابو کھوتے وہ ان نازک ہونٹوں پر جھک گیا ۔۔۔
عیناں کی مہکتی سانسیں اسے سرور بخش رہی تھی۔۔۔۔۔ ماحول میں پھیلی معنی خیز سی خنکی اسے مزید بے باکیوں پر اکسا رہی تھی۔۔۔
مگر وہ خود پر ضبط کرتے اس سے دور ہوا۔۔۔۔
بنا اسکی طرف دیکھے عیناں کا سر سینے پر رکھے تھپکنے لگا۔۔۔
وو ویام سسوری میں نے بہت ہرٹ کیا تمہیں مگر اب ایسا کچھ نہیں کروں گی پکا،،،،،،، میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر پلیز معاف کر دو مجھے۔۔۔۔۔۔؛"
اسکے ایک دم سے دور ہونے کو وہ اسکی ناراضگی گردان اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں بھینچے سوں سوں کرتی بولی،،،
ویام نے اپنے بھاری ہاتھ سے اسکی نازک کمر کو سہلایا ۔۔۔۔۔۔
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں سو جاؤ صبح بات کریں گے۔۔۔۔۔!؛"
وہ قدرے نارمل لہجے میں بولتے اسکے بالوں کو سہلاتے اسے پرسکون کرنے لگا ۔۔
ویام کے سینے سے لگے وہ آج کافی دنوں کے بعد سکون کی نیند سو پائی تھی ۔۔ ویام نے ایک نظر اپنی سوتی ہوئی بیوی پر ڈالی اور پھر شدت سے جھکتے جان لیوا انداز سے اسکے نقوش کو اپنے بے تاب ہونٹوں سے چھونے لگا۔۔۔
عیناں نیند میں بھی اسکے لمس پر کسمسائی تھی۔۔۔ جس پر وہ فوراً سے سیدھا ہوتے خاموشی سے چہرہ اسکے بالوں میں چھپائے خود میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔
کیا ہوا پتہ کرو اس لڑکے کا،،،، مجھے جلد از جلد ایل سے ملنا ہے۔۔۔!"
کرسی پر بیٹھی وہ بیچ و تاب کھاتی تلملاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
دو دن سے وہ اسے ڈھونڈ رہی تھی جو جانے کہاں گم ہو گیا تھا۔۔۔
مجھے دھوکہ دے گا یہ لڑکا،،، جسے عالیان شاہ سے ایل بنانے کے لیے میں نے جانے کیا کچھ نہیں کیا،،،،؛"
لیلی کی نفرت آمیز بلند آواز پر اندر جاتے ایل کے قدم تھم سے گئے ۔۔۔
وہ سن سا ہو گیا ۔۔۔ ماتھے پر بل تیزی سے بڑھنے لگے۔۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں،،،، "ایڈم جو لیلی کے ساتھ ہی آیا تھا،،،
ہاتھ میں تھامے حرام مشروب کا سپ لگاتے اسنے حیرت سے پوچھا،،،
اس ایل کو کڈنیپ کروا کر کے میں نے۔۔۔۔۔ میں نے اسے ڈان کو دیا تھا تاکہ وہ اپنے باپ سے نفرت کرنے لگے،،،
پھر جب ڈان نے اسے مارنا چاہا تب میں اچھی ماں کی طرح اسے بچانے چلی گئی۔۔
اور اسے وہاں سے آزاد کروا کر اپنے جال میں قید کر لیا۔۔۔
پوری زندگی وہ میرے ہر حکم کی آنکھیں بند کئے تعمیل کرتا رہا ۔۔
میں نے سب کچھ تباہ کر دیا اپنی پیدا ہوتی بیٹی کو مرا دیا،،
ایل کی نظروں میں اسکے باپ کو برا ثابت کیا۔۔۔
اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی میں حالی ہاتھ ہوں،،،،
لیلی نے غصے سے کہتے پاس میز پر پڑی بوتل کو فرش پر پٹھک دیا ۔۔۔
اسکا غصہ کسی بھی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
سالوں کی محنت صرف اور صرف ایل کی لاپرواہی کی وجہ سے اسکے ہاتھوں سے چلی گئی تھی،،،
جسے وہ ہضم نہیں کر پا رہی تھی اوپر سے اس ایچ اے آر نے اس برے وقت میں اسے پیٹھ دکھائی تھی کہ سب سوائے ایڈم کے اسکا کوئی آسرہ نہیں تھا ۔۔۔
ری لیکس ڈارلنگ،،،،"
ایڈم نے اسے بانہوں میں بھرتے محبت سے کہا،،
ری لیکس نہیں ہو سکتی میں،، میری زندگی برباد کرنے والا وہ وریام کاظمی ہے ۔۔
جس نے اپنی اس سو کالڈ کزن کے لیے مجھے لیلی کو ٹھکرایا،،،،
میری زندگی جہنم بنا دی اس شخص نے ۔۔۔۔"
وہ نفرت سے وریام کا سوچتی پھنکاری تھی۔۔۔
تبھی میں نے اس ایل سے جھوٹ بولا کہ اس وریام نے مجھے برباد کیا ہے۔۔۔
مگر اس بے کار لڑکے نے آج تک مجھے اس وریام کی لڑکی نہیں لا کر دی۔۔۔۔۔ کیا فائدہ ایسے بے وقوف بیٹے کا۔ ۔۔۔۔۔؛"
لیلی کے منہ سے نکلتے الفاظ ایل کے پیروں کے نیچے سے زمین تک ہلا گئے تھے،،،
وہ بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ نیچے بیٹھتا چلا گیا ۔۔
جس ماں کے لیے اس نے اپنی جان کو وار دیا تھا آج وہ ماں اسے ایک پالتو کتے سے مشابہت دے رہی تھی۔۔
اسکی آنکھوں میں سرخی اتنی گہری تھی جیسے وہ ضبط کی آخری انتہا پر ہو۔۔۔۔۔
دماغ ایسے تھا جیسے ابھی پھٹ پڑے گا۔۔۔۔
ایل نے منہ پر زور سے ہاتھ رکھے سسکیوں کو دبایا۔۔۔۔۔
وہ رونا نہیں چاہتا تھا مگر جانے کیوں دل اس قدر تکلیف میں تھا کہ آنکھیں بہنے کو بے تاب تھیں۔۔۔۔
اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اسکا دماغ سناٹوں کی ضد میں تھا۔۔۔۔
پھر آنکھوں کے سامنے دھند سی چھانے لگی۔۔۔ آخری بار اندھیرے میں ڈوبتی نگاہوں سے جو چہرہ اس نے دیکھا تھا ۔۔ وہ ڈینی کا تھا ۔۔۔
جو اسے سہارہ دیتے وہاں سے دور لے جا رہا تھا۔۔۔۔
میم یہ ہے وہ لڑکی جو ایل سر کے اپارٹمنٹ میں انکے ساتھ رہی تھی،،،
گارڈ کے بتانے پر وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگی۔۔۔
گزشتہ دو دنوں میں اسنے ایڈم کے گارڈز کے ذریعے ایل کی ساری معلومات نکالی تھیں۔۔
جہاں سے اسے اس بات کا علم ہوا تھا کہ ایک لڑکی کافی دن اسکے ساتھ اسکے اپارٹمنٹ میں رہی تھی۔۔۔
سلیمان شاہ تو شروع دن سے معنی ہی نہیں رکھتا تھا مگر اس لڑکی کے آنے کے بعد اسکا بیٹا اس کا پالتو ہاتھوں سے پھسل گیا تھا۔۔۔
جسے وہ چھوڑنے والی تو ہرگز نہیں تھی ۔۔۔
دو مجھے اسنے تصویریں جھپٹنے کے سے انداز سے چھینی اور میز پر پھیلائی،،،
تصویروں میں نظر آتے عکس کو دیکھ اسنے بے ساختہ اپنے چہرے کو چھوا،،،۔
آنکھوں میں حیرت کا جہاں امڈ آیا،،،
حسین لب پہلی بار کپکپائے تھے،،
ایل کے قریب کھڑی اس لڑکی کی آنکھوں کے سوا وہ ساری کی ساری لیلی کی کاپی ہی تو تھی ۔۔
لیلی نے تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ فوراً سے اس تصویر کو اٹھائے گھورا،،،،
ییی یہ للل لڑکی ککک کون،،،،_____" اسنے حیرت سے پاس کھڑے گارڈ سے پوچھا ۔۔
یہ ایل سر کے ساتھ تھی میم اور جس ایریا پر ان کو دیکھا گیا ہے وہ لوگ اسے بہن بتا رہے ہیں ایل سر کی ۔۔۔۔۔؛"
گارڈ نے شاپ کیپر کا رٹا رٹایا جواب لیلی کو سنایا،،، جو اپنے اندازے کے سہی ہونے پر بت سی ہو گئی۔۔۔
تصویر ہاتھوں سے گرتی زمین بوس ہو گئی تھی۔۔۔
جبکہ اس کے اس قدر گہرے صدمے پر ایڈم نے بے تابی سے میز پر سے ایک تصویر کو اٹھایا،،،،۔
جہاں شاپ میں کھڑی وہ خجاب والی کانچ سی آنکھوں کی گڑیا اسے مبہوت سا کر گئی ۔۔۔
وہ بت بتا اس تصویر کو گھورتا رہا،،، آنکھوں میں شعلے سے لپکے تھے،،،
لیلی مجھے یہ لڑکی چاہیے،،،، کسی بھی قیمت پر۔۔۔۔۔۔۔!"
ضد سے بھرپور ایڈم کی بے قرار سی آواز نے لیلی کو مزید چونکا دیا۔۔۔
جو مدہوش نگاہوں سے عیناں کی تصویر کو بہکی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
@@@@@@@@@
کیا ہوا چوزی کھانا کیوں نہیں کھا رہی،،،، اپنی ہلکی بڑھی بئریڈ کو انگوٹھے سے مسلتے وہ مسرور سا میرب کے پھولے منہ کو دیکھ بولا،،،
تم سے مطلب۔۔۔۔۔۔؛" میرب نے تڑخ کر جواب دیتے کرسی سے ذرا سا اوپر ہوتے کرسی کو نیچے سے تھام پورا گھما دیا ۔۔
اب وہ دوسری طرف منہ کئے بیٹھی مکمل ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی،،،
تیمور نے حیرت سے منہ کھولے اسکی حرکت پر آنکھیں چھوٹی کیے اس کی پشت کو شعلہ بار نگاہوں سے گھورا۔۔۔۔
ہیے میر...... وٹس رانگ وِد یُو_____ میری طرف دیکھو فورا۔۔۔۔۔" وہ جگہ سے اچھلتا میز کی دوسری جانب بیٹھی اپنی ناراض بیوی کو دیکھ انگلی کے اشارے سے بولا۔۔۔۔
میرب نے بنا کان دھرے اسکی بات پر کندھے اچکائے اور ہاتھ اطمینان سے سینے پر باندھے۔۔۔۔
تیمور نے غصے سے اسکی حرکت پر دانت پیسے اور پھر فوراً سے جگہ سے اٹھا وہ کرسی کو ہاتھ میں اٹھاتا،،
بالکل اسکی کرسی کے سامنے پٹکھتا خود بھی ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا ۔۔۔
میرب نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا،،،
خوبصورتی سے سجی اس ڈنر نائٹ میں جہاں کپل ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رومینٹک سے ماحول میں کھانا کھاتے تھے،،،
وہیں وہ دونوں مسلسل آدھے گھنٹے سے جھگڑ رہے تھے۔۔۔
میر......."
کوئی میر شِیر نہیں میرب نام ہے میرا،،،،!" اسکی بات ٹوکتی وہ شہادت کی انگلی اسکی ناک کے قریب کرتی خود بھی جگہ سے تقریباً کھڑی ہوتے غصے سے بولی تھی۔۔۔
اففففف یار ایک پاپ ہی تو تھا واپس جائیں گے تو بہت سے لا دوں گا۔۔۔۔۔؛"
وہ اس خوبصورت رات کو بے کار تو ہرگز نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔ جبھی سرینڈر کرتے محبت بھرے لہجے میں کہتے اسے منانا چاہا ۔۔
تمہارے لئے وہ پاپ ہو گا وہ۔۔۔۔۔میری جان بستی ہے ان میں۔۔۔۔۔۔ پتہ ہے کتنے دنوں سے نہیں کھایا تھا میں نے،،،،!"
تیمور کی بات پر اسے دکھ ہوا وہ کیسے اسکے پاپ کو صرف ایک پاپ ہی تھا کہہ سکتا تھا،،،، اسی لیے جتانا ضروری سمجھا ،،،
موٹی موٹی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں تیرنے لگے ،،
جنہیں برداشت کرنا تیمور شیرازی کے بس سے باہر تھا ۔۔۔۔
اوکے میری جان، میں اپنی جان کی جان لا دوں گا اسے،،،، پلیز ابھی کھانا کھا لیں____؛"
تیمور نے محبت سے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرا،، نرمی سے لب ماتھے پر رکھتے وہ لاڈ اٹھاتا بے حد اچھا لگا تھا میرب کو،،،،
اوکے مگر مجھے روز چاہیے پاپ، وہ بھی بہت زیادہ،،،،"
آنسوں کو رگڑتی وہ لگے ہاتھ اپنی بات منوانے لگی،،،
تیمور نے لب دبائے ،،، ضرور جاناں جتنے چاہو گی لا دوں گا،،،؛"
تیمور نے جھکتے اسے بانہوں میں سمیٹتے کہا،،،۔
اور ڈانٹو گے بھی نہیں کبھی،،،،،!"
اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے وہ لاڈ سے بولی،،،
بالکل جاناں کبھی نہیں ڈانٹوں گا،،، اسنے تصدیق کرتے میرب کو بیڈ پر اتارا۔۔۔۔۔
تیمور کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ میرب کو کھٹک رہی تھی وہ تو اسے غصہ دلانے کو اتنا کچھ بول رہی تھی،
مگر وہ تو آگے سے ہنس رہا تھا۔۔۔۔
میرب نے سر کجھاتے اسکی چوڑی پشت کو گھورا جو ٹرے میں کھانا رکھتے اب دوبارہ سے بیڈ کی طرف آ رہا تھا۔۔۔۔۔
آج میں اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گا،،،
پینٹ کو ہاتھ کی مدد سے اوپر سرکاتے وہ اسکے سامنے دوزانو بیٹھ محبت سے بولا،،،،
تم ہنس کیوں رہے ہو،،،،!؟"
تجسس کے مارے وہ پوچھے بنا ناں رہ سکی،،،
تو کیا رونا چاہیے،،،!" پلیٹ میں رائس نکالتے اسنے آبرو اچکاتے پوچھا ۔۔
نہیں مطلب مجھ پر غصہ نہیں آ رہا تمہیں ،،،،؛"
آنکھیں چھوٹی کیے وہ بغور الجھن سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
غصہ کس بات کا ،بلکہ مجھے تو خوشی ہے کہ میری جان پوری زندگی میرے ساتھ رہنے کو تیار ہے۔۔۔۔!"
چمچ میں رائس بھرتے اسنے میرب کے منہ کے قریب کرتے مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔
کب میں نے کب کہا،،،،؛"
وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھتی سوالیہ ہوئئ،،،،
ابھی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد تمہیں روز بہت سے پاپ لا کر دینے ہونگے اور پھر تمہیں ڈانٹوں گا بھی نہیں،، تو مطلب ہم ایک ساتھ رہیں گے۔۔۔۔!"
زبردستی چمچ اسکے منہ میں ڈالے وہ آنکھ دباتے بولا۔۔۔۔
بھول ہے تمہاری،،،!" نوالہ نگلتے وہ پہلو بدلتے بولی ،،
بھول نہیں ہے بلکہ یقین ہے اپنی الفت پر،،،،؛"
اسکی طرف سنجیدگی سے دیکھتا وہ پراعتماد سا بولا،،
میرب نے منہ بگاڑا،،،،، جس پر وہ پھر سے ہنسنے لگا۔۔۔۔۔
ہم واپس کب جائیں گے ۔۔۔۔۔؛"
وہ اکتا چکی تھی اس جگہ سے جنگلی جانوروں کی خطرناک آوازوں نے ویسے ہی جان خشک کی ہوتی تھی ۔۔۔اوپر سے رہی سہی کسر تیمور شیرازی پوری کر دیتا تھا،،
جب تمہیں مجھ سے الفت ہو گئی تب۔۔۔۔۔!" اسنے پھر سے چمچ میرب کے منہ میں ڈالتے مخمور نگاہوں سے اسے دیکھتے سرسری سے انداز میں کہا،،،
کیا...... مطلب اب یہاں سے نکلنے کے لیے مجھے تمہیں آئی لو یو بولنا پڑے گا۔۔۔۔۔؛"
میرب کو لگا کہ شاید اسنے غلط سن لیا ہو جبھی پھر سے دہرایا،
افکورس ڈارلنگ مگر اس کے علاؤہ بھی کچھ ہے،، جب تم آئی لو یو کہو گی تو میں ایسے ہی تھوڑی واپس جاؤں گا،، کچھ وقت ایک ساتھ ایک دوسرے کی بانہوں میں گزارے گے،،،
کچھ حسین یادیں بنائیں گے اور پھر واپس جائیں گے۔۔۔!"
ٹشو سے میرب کا چہرہ صاف کرتے وہ اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کرتا ہلکا سا مسکرایا۔۔۔
تو مطلب اس جنم مجھے ان جانوروں کے بیچ ہی رہنا ہو گا۔۔۔۔؛"
وہ صدمے سے چور گھومتے سر پر ہاتھ رکھے اختجاجاّ چیخئ،،،
واٹ جنم۔۔۔۔۔!" تیمور نے حیرت سے اسکی اول فول سنتے سوال کیا۔۔۔۔
اور پھر ٹرے سائیڈ کرتے اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹے اسے گود میں بھرتے وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ پوچھنے لگا،
ارے انڈین ڈراموں میں کہتے ہیں چھوڑو اسے تم یہ بتاؤ کیا تم واقعی سیرئیس ہو،،،،؛؟"
وہ اب گھومتی اسکی گود میں بیٹھی جانچتی نظروں سے اسکے صبیح چہرے کو دیکھتی پوچھنے لگی۔۔۔
میرب کے گھنگھریالے بالوں میں چلتی تیمور کی انگلیاں تھم سی گئیں، میں تو واقعی بے حد سئریس ہوں بس تم ہی مذاق میں لیتی ہو ہر بات۔۔۔۔۔"
اسکی گردن پر جھکتے وہ خمار آلود لہجے میں بولا،
میرب کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی ہوئی ،،، اس شخص کو بدلتا روپ دیکھ تھوک حلق میں ہی اٹک گیا تھا ۔۔۔
میرب نے کپکپاتے ہاتھ تیمور کے کاندھوں پر رکھتے اسے خود سے دور کرنا چاہا،،،
جو مدہوش سا اسکی خوشبو کو خود میں سمیٹ رہا تھا۔
تت تیمور،،،، کمر پر اسکے سخت ہاتھوں کی حرکت نے جان لبوں پر لائی تھی، ٹانگیں بے جان سی ہونے لگی،،،
مگر وہ سن ہی کہاں رہا تھا ۔۔۔۔ میرب نے دونوں ہاتھ اسکی گردن سے نکالتے بالوں میں لے جاتے بال زور سے کھینچے،، جو اس پر گھیرا مزید تنگ کر رہا تھا،،
پپ پیپلیز مم مت کرو،،،،میرب نے جیسے ہی اسکے بالوں کو کھینچا،،
وہ خمار آلود بے باک نگاہوں سے اسے دیکھتا نگاہیں جھکانے پر مجبور کر گیا ۔۔۔
تمہیں اب بھی لگتا ہے میر کہ میں اچھا انسان نہیں ہوں،،،
اس کی طلب حواسوں کو جھنجھوڑ رہی تھی،، وہ سرخ ہوتی نگاہوں سے اسے دیکھ پوچھنے لگا ۔۔۔
آج خود کو روک پانا اسکے بس میں نہیں تھا۔۔
اسکا یوں اچانک سے سیریس ہو جانا میرب کو اپنے چاروں اطراف خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہونے لگی،،،
تت تیمور تت تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ہہ ہم بعد میں بات کریں گے۔۔۔"
سینے پر دباؤ دیتی وہ اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے سنجیدگی سے بولی،،
مگر وہ بنا سنے اسکے ہر اختجاج کو اپنے لبوں پر چننے لگا،،
اسکی شدت بھری گرفت میرب کی سانسیں روک چکی تھی ۔۔۔
وہ بری طرح سے مچلتی اسے خود سے دور کرنے لگی،،
جو آج واقعی ہوش میں نہیں تھا۔۔۔۔
تیمور نے سر اٹھائے اسے گھورا،،، جو آزادی ملنے پر گہرے سانس بھر رہی تھی۔۔۔۔
تیمور پلیز ناں کرو، مجھے واپس ،،،؛ اسکے ہلتے لبوں سے ادا ہوتے جملے کو وہ انگلی ہونٹوں پر رکھے روک گیا ۔۔۔
صرف چند پل اگر میرا قریب آنا میرا چھونا تمہیں برا لگا تو آئی سویر میں کچھ نہیں کروں گا،،،"
میرب کی پھیلی نگاہوں میں دیکھتا وہ اس قدر شدت بھرے انداز سے بولا کہ اسکی آنکھوں سے جھلکتے جذبات پر وہ نگاہیں چرا گئی۔۔۔
دل جیسے پسلیوں سے باہر آنے کو تھا ۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ اسے یقین نہیں تھا تیمور شیرازی پر وہ اسے ہر طرف سے ہر طریقے سے پرکھ چکی تھی۔۔
مگر ایک ڈر تھا جو دل میں کنڈلی مارے بیٹھا تھا،،،
وہ جانتی تھی اپنے حقوق و فرائض وہ شوہر تھا اسکا اگر وہ قریب آنا چاہتا تھا۔
تو وہ اسے بار بار خود سے دور کر کے گناہگار نہیں ہو سکتی تھی،،،،
میرب نے خوف سے آنکھیں میچ لیں جب پیشانی پر سلگتا لمس محسوس ہوا ،،،
وہ محبت سے اسکے نقوش کو چھوتا میرب کو پرسکون کرنے لگا،،
اجازت ہے۔۔۔۔۔۔؛" اسے خود میں سمیٹتے اسنے کان میں جان لیوا سرگوشی کرتے وہاں موجود ہلکی سے روشنی کو بھی بھجا دیا،،،
میرب نے سر اسکے سینے پر رکھتے جیسے اسے اجازت دی تھی۔۔۔۔
اسکی جان لیوا ادا پر آج تیمور شیرازی کا انگ انگ مہک اٹھا تھا،اسنے مضبوطی سے اسکی کمر کے گرد حصار بنائے اسے سینے میں بھینچ لیا ۔۔
گزرتی رات کے ہر لمحے کے ساتھ وہ دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب آئے تھے،،
تیمور شیرازی کا محبت بھرا لمس میرب کو محبت کی الگ دنیا میں لے گیا ۔۔ آج محبت کی تکمیل ہوئی تھی،، تیمور شیرازی کی الفت نے بے حد شدت سے اس شوخ مزاج چنچل سی لڑکی کو اپنی الفت سے سمیٹا تھا،،،
@@@@@@@@@@
میری فائل کب دو گے تم،،،،،!" اپنے سارے سورسز استعمال کرنے کے باوجود بھی وہ حالی ہاتھ لوٹا تھا۔۔۔
غصے سے مٹھیاں بھینچے انزک نے گاڑی کا ڈور زور سے بند کیا۔۔۔
اس نے ایک نظر اندر اپنے گھر کی طرف ڈالی اور وہیں کھڑا ہوتے وہ برستے آسمان کو دیکھتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔۔۔۔"
میری ڈیل یاد ہے ناں تمہیں،،،؛" دوسری جانب سے وہی سوال دہرایا گیا۔۔۔
انزک نے غصے سے دانت پیسے۔۔۔۔ یاد ہے مجھے سب،،،، میرے پاس ہے روز اور آپ اسکے لئے کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔۔۔ میری بیوی ہے وہ ، میں ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔؛"
انزک نے کڑھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ جس پر ویام مسکرایا،،
شاید تم بھول رہے ہو انزک اس کی عمر کیا ہے،،؟"
ویام نے یاد دلانا ضروری سمجھا،،
مجھے یاد ہے سب بھائی،،، مگر شاید آپ بھول رہے ہیں جس لڑکی سے آپ ناراض ہیں وہ بھی ابھی انیس سالہ لڑکی ہے،،، تو پھر آپ کو بھی اتنا غصہ نہیں دکھانا چاہیے،،،
میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے تم اپنے کام سے کام رکھو ،،،،"
ویام نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا، انزک محفوظ ہوتے بالوں میں ہاتھ چلانے لگا۔۔۔۔
تو یہی بات آپ پر بھی سوٹ کرتی ہے اب روز آپ کے کیس کا حصہ نہیں بلکہ میری بیوی ہے اور میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے،،،"
گرجتے بادلوں کی آواز نے اسکی توجہ کھینچی وہ سر اٹھائے سیاہ بادلوں میں ڈھکے برستے آسمان کو دیکھنے لگا۔۔۔
میں تجھے بتا نہیں رہا انزک بس سمجھا رہا ہوں،، وہ لڑکی بہت معصوم ہے اسے جتنی محبت اور نرمی سے اپنے قریب کرو گے۔
وہ اتنی ہی تمہارے ساتھ اٹیچ ہوتی جائے گی،،
یہ ناراضگی ختم کر دو اور تمہاری فائل میرے پاس محفوظ ہے،،۔
جو تمہیں پرسوں ملے گی ۔۔"
مرر وال سے اندر کی جانب دیکھتا وہ ایک ہاتھ پاکٹ میں ڈالتا سنجیدگی سے گویا ہوا،،،
کیوں کل کیوں نہیں مل سکتی۔۔۔۔۔ اسکی بے چینی حددرجہ گہری تھی ۔۔
جس پر مقابل مخفوظ سا ہوا ۔۔۔۔
یار کل اپنی بیوی کا ایڈمیشن کراؤ اسکی سٹڈی مکمل ہونی چاہیے، اور یہ بات تم بھی جانتے ہو کہ آج کل کے دور میں تعلیم کس قدر اہم ہے۔۔۔۔۔؛"
ہممممم ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ میں کل روز کا ایڈمیشن کروا دوں گا۔۔۔۔۔۔۔ بس آپ اپنا وعدہ یاد رکھئے گا ۔۔۔"
پھر سے تنبیہی انداز اپناتے اسنے وارن کیا تو ویام ہلکا سا ہنسا ۔۔۔۔
ڈونٹ وری یار تمہیں کچھ زیادہ ہی ملے گا پریشان مت ہو ۔۔۔۔۔؛"
اسنے محبت سے لبریز لہجے میں کہا مگر انزک الجھ سا گیا اسکے جواب پر اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ پوچھتا،،
دوسری طرف سے وہ فون رکھ چکا تھا۔۔۔۔
انزک نے ایک نظر موبائل پر ڈالی اور پھر ٹھنڈی سانس بھرتے اس بے موسم برسات کو دیکھ وہ اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔
_______
کھانا وہ میٹنگ کے بعد ہی کھا کر آیا تھا،، اسی لئے کورٹ کے بٹن کھولتا وہ ویام کی کہی باتوں کو سوچتا قدم قدم سیڑھیاں چڑھتا اوپر کی جانب بڑھ رہا تھا۔
بائیں ہاتھ سے ناب گھمائے وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا نظر سامنے شیشے کی بنی وال پر پڑی،،
جہاں سے پردے سرکے ہوئے تھے،، آسمان پر چمکتی تیز بجلی کی روشنی کافی بری طرح سے شیشے سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔۔
اسنے چاروں اطراف دیکھا کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔۔۔۔
موبائل نکالتے اسنے لائٹ آن کی تو نگاہیں بکھرے ہوئے کمرے پر پڑی ،،،
روز_____ انزک نے پریشان ہوتے اسے پکارا،، لائٹ آن کی مگر شاید فیوز اڑ گیا تھا۔۔۔۔
لیمپ نیچے گرا ہوا تھا،،
وہ مضطرب سی حالت میں بے چینی سے باتھروم میں داخل ہوا،،،
جہاں روز کو ناں پاتے اسکا سانس اکھڑنے لگا تھا۔۔۔
کہاں جا سکتی تھی یہ لڑکی،،،
انزک نے پریشانی سے بالوں کو مٹھیوں میں دبوچ لیا،،،
بے قراری سے اسے پکارتے وہ تیزی سے بھاگتا اتھل پتھل ہوئی سانسوں کے ساتھ چینجنگ روم میں داخل ہوا۔۔۔۔
روز ۔۔۔۔۔ دیکھو میں انزک یار کہاں ہو تم..... میں آ گیا ہوں۔۔۔۔۔ سامنے آؤ۔۔۔۔۔"
وہ جو کافی دنوں سے ناراضگی کا اظہار کر رہا تھا،
اب دو منٹ اس لڑکی کے آنکھوں سے اوجھل ہونے پر جیسے اسکی ساری دنیا ہی تہ و بالا ہو گئی تھی۔
اتنا تو وہ جانتا تھا کہ وہ یہیں کہیں ہو گی مگر کمرے کی حالت نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا۔۔۔۔
پورا کمرہ چھان مارا۔
مگر وہ لڑکی اس کے ضبط کا کڑا امتحان لے رہی تھی ۔۔۔ تبھی تو اسکے لاکھ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملی،،،،
وہ تیزی سے کمرے سے نکلا تو نظر عیناں کے کمرے پر پڑی،،،
کسی خیال کے تحت وہ پاگلوں کی طرح بھاگتا کمرے میں داخل ہوتے اسے پکارنے لگا۔۔۔روز دیکھو میں کڈنیپر کہاں ہو تم یار،،، تم سن رہی ہو مجھے،،،"
اسکی حالت کسی شکست خوردہ شخص جیسی ہو رہی تھی،،
مخض اسکے آنکھوں سے اوجھل ہونے پر اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
کہاں جا سکتی تھی آخر وہ،،،، نچلے لب کو شدت سے دانتوں تلے دباتے وہ نا امید سا باہر کی جانب بڑھا،،،
مگر جسیے ہی دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھا،،، اچانک اسکے دل میں خیال لپکا وہ دھیمے قدم اٹھاتا صوفے کی جانب بڑھا،،،
گھپ اندھیرے میں کچھ بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا،،
مگر جیسے ہی وہ دیوار کے قریب رکھے صوفے کے پاس پہنچا ایک سایہ سا نظر آیا۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا،،، روز۔۔۔۔۔۔۔؛ اسنے اسے پکارا جو سر گھٹنوں میں چھپائے بری طرح سے لرز رہی تھی۔۔
اسکی حالت دیکھ انزک بے چین سا ہوا تھا،، اسنے پھر سے روز کے بازو پر ہاتھ رکھے اسے ہلکی آواز میں پکارا،
آہہہ......" انزک کا ہاتھ لگانا تھا کہ وہ بری طرح سے چیخنے لگی۔۔۔۔
روز کیا ہوا میں ہوں انزک......؛" پہلے تو وہ خود چونک گیا تھا روز کے ایسے ری ایکشن پر مگر پھر اسکی چیخوں کی آواز زیادہ ہونے پر۔۔۔۔ اسنے دونوں کندھوں سے تھامے اسے جھنجھوڑا۔۔۔۔
جو ویران آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی،،
اور پھر ایک دم سے اس کے سینے سے لگتے وہ بچوں کی طرح رونے لگی۔۔۔
کک ککڈنیپپر پپپ پلیز سس سیو مممی۔۔۔۔۔؛"
ہچکیوں کے درمیان اسکا ادا ہوا یہ جملہ انزک بمشکل سے سمجھ پایا تھا ۔۔۔
اششش ڈونٹ وری میں آ گیا ہوں کچھ نہیں ہو گا،،، ؛"
انزک نے اسے خود میں بھینچتے اپنے ہونے کا احساس دلایا،
جو جانے کس وجہ سے اس قدر خوفزدہ ہو گئی تھی ۔۔۔
وہ کافی دیر اسے سینے سے لگائے یونہی بیٹھا پرسکون کرتا رہا ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد روز کے حواس بحال ہوئے،،
تو انزک نے نرمی سے اسے بازوؤں میں سمیٹا،،،
وہ پوچھنا چاہتا تھا اس سے کہ وہ کیوں ڈری ہوئی ہے مگر اس وقت کچھ بھی پوچھنا مناسب نہیں تھا،۔
اسی لیے وہ اسے بانہوں میں بھرتے اپنے روم میں داخل ہوا ۔
ننن نو مجھے یہاں نہیں رر رہنا کک کڈنیپر پپ پلیز چلو ییی یہاں سے____؛ اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے وہ پھر سے پینک ہو رہی تھی ۔۔
اششش روز میں ہوں پاس۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا یار ری لیکس رہو ۔۔۔۔۔۔!"
انزک نے محبت سے اسے سمجھایا جو مسلسل سر نفی میں ہلا رہی تھی ۔۔
مسلسل رونے کی وجہ سے آنکھیں سوجھ چکی تھی،،
ننن نو ووو وہ ببب بارش ہیں یی یہاں.....؛" اسکی بات کاٹتی وہ پھر سے رونے لگی۔۔۔۔
انزک نے حیرت سے روتی ہوئی روز کو دیکھا اور پھر شیشے کی بنی وال کی طرف،،،
جہاں سے بجلی کی چمک اور گرج صاف دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔
چچ چلو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔"
روز بارش ہو رہی ہے یار اس میں اتنا ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اور ویسے بھی میں ہوں ناں ساتھ۔۔۔۔۔!"
اسکا یوں ڈرنا انزک کو عجیب لگا تھا زیادہ تر تو لڑکیاں بارش ہوتی دیکھ خوش ہوتی تھیں اور ایک طرف اسکی بیوی تھی
جو اس قدر ڈر رہی تھی،
نننن نہیں ممم مجھے نہیں رہنا چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔" انزک کی بات سنتی وہ پھر سے چلاتی اسکی گود سے اترنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
انزک تیزی سے بیڈ کی جانب گیا اور آرام سے اسے بیڈ پر اتارتے وہ خود وال کی جانب بڑھا اور فوراً سے پردے برابر کیے،،،
اب کمرہ مکمل اندھیرے میں ڈوب چکا تھا،،،، اسنے سرد سانس فضا کی سپرد کی اور پھر بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔۔
**********
کہاں گیا تمہارا وہ چھوٹا باس۔۔۔۔۔۔ بلاؤ اسے بولو کہ کام ہے مجھے بات کرنی ہے کچھ اہم......."
ایچ اے آر کے پرائیوٹ روم کے باہر کھڑے گارڈز نے جیسے ہی الایہ کا راستہ روکا،،، وہ غصے سے ہاتھ سینے پر باندھتی نتھنے پھلائے بولی،،،
تھارے کو اندر نئی جانے دے گا........!
سامنے کھڑے ان دو گارڈز میں سے ایک نے نہایت اونچی آواز میں کہا ۔۔
جبکہ دوسرا بالکل خاموش کھڑا تھا۔۔۔
ابے کھجور تُو نے اسے بتایا نہیں کہ مجھے فضول بولنے والے مرد بالکل پسند نہیں،،،،"
الایہ نے اس لمبے چوڑے بڑی بڑی مونچھوں والے نئے گارڈ کو غصے سے گھورتے پیچھے کھڑے گارڈ سے کہا،،
جس کی ایک آنکھ سوجھی ہوئی تھی۔۔۔۔
جی میں نے اسے سمجھایا ہے کہ آپ کو روکنے کی خطا مت کرے مگر یہ مانا ہی نہیں ۔۔۔۔۔!"
ایک طرف سے سوجھے چہرے پر ہاتھ رکھتے وہ مدہم آواز میں بڑبڑایا تھا۔۔۔
ہمممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"تو مطلب یہ بھی لاتوں کے بھوت والی بات ہے ۔۔۔۔۔۔؛"
اس ہٹے کٹے گارڈ کو گھورتی وہ طنزیہ لہجے میں گویا ہوئی اور ہاتھ برابر جینز کی پاکٹ میں ڈالے اسنے گردن ذرا سی ترچھی کیے اس عجیب سے گارڈ کو گھورا۔۔۔۔۔
موڑا تم جاؤ ذرا ان سے مارے کو کچھ جروری باتاں کرنی اے رے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
مگر تم ان سے کیا بات کرو گے اس لڑکی کے منہ سے زیادہ اسکے ہاتھ اور ٹانگیں چلتی ہیں،،،،، تم ایسا کرو چلو میرے ساتھ،،،، اسے رہنے دو۔۔۔۔۔"
اس مونچھوں والے آدمی کے کان میں گھستے دوسرے گارڈ نے ہمدردی سے اسے کہا۔۔۔
تھارے کو کا لگے رے مورا کم رے کسی سے۔۔۔۔۔ اس کڑی کو مارا خود دیکھ لیوے گا۔۔۔۔۔"
اسکے کندھے کو جھٹکتے وہ ذرا سخت لہجے میں بولا۔۔۔۔
ارے میں تو تیرے بھلے کو کہہ رہا تھا تو رک یہی میں تو چلا۔۔۔۔۔۔؛"
ایک نظر الایہ پر ڈالے وہ تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ؟
ہاں تو کیا بکواس کر رہے تھے اس سے ذرا مجھے تفصیل سے بتاؤ،،،!"
اپنی دائیں بازو کے کف کو فولڈ کرتی وہ سر کو تیزی سے دائیں بائیں حرکت دیتی اس عجیب سی مونچھوں والے سے گویا ہوئئ۔۔۔۔
موڑا بکواس نئی بکواسات کی اے ناں مارے نے،،، تم چلو مارے ساتھ کونے میں جا کر باتاں کرتے اے نے۔۔۔۔۔۔!"
وہ بے شرمی سے الایہ کی طرف دیکھتا آنکھ ونک کرتے بے باکی سی بولا،
یُو ایڈیٹ انسان چلو میرے ساتھ تیری تو۔۔۔۔۔۔!"
الایہ آگ بگولہ ہوئی اس بدتمیز انسان کو کالر سے کھینچتی اپنے ساتھ دھلائی کیلئے لے جانے لگی۔۔
مگر مقابل کے لبوں پر ایک شریر سی معنی خیز مسکراہٹ تھی جو اتنی بڑی بڑی مونچھوں میں الایہ کا دیکھ پانا ناممکن تھا۔۔
💛💛💛💛💛💛
سورج کی روشن کرنیں چھپکے سے کھڑکی سے ٹکراتی کمرے میں مدہم سی روشنی بکھیر رہی تھی،،
کمرے کا خنکی بھرا ماحول یکساں خاموش عجب سا منظر برپا رہا تھا،،،
وہ شاور لیتا جیسے ہی بالوں میں ہاتھ پھیرتا کمرے میں آیا نظریں سیدھا ماتھے پر بل ڈالے اس سوئی ہوئی گڑیا پر پڑیں،
دل کی رفتار پھر سے سست ہوئی تھی۔۔۔
وہ یکسر اسے نظر انداز کرتا مرر کے سامنے گیا،،،
مگر نگاہوں کا زاویہ اب بھی وہی لڑکی تھی ۔
جو پوری رات اسکی بے چین حالت سے نا واقف بڑے مزے سے اسکی بانہوں میں سوتی رہی تھی۔۔۔
کنٹرول ویام تم کر سکتے ہو،،،،" آنکھوں میں خمار تب بڑھا جب وہ کروٹ کے بل ہوتے رخ اسکی طرف کر گئی۔۔۔
کمفرٹر ٹانگوں میں الجھا ہوا بے ترتیبی سے نیچے ڈھلک رہا تھا ۔
سنہری بال دونوں اطراف سے تکیوں پر بکھرے الگ سا منظر برپا کر رہے تھے،،، سرخ رنگ میں دمکتا وہ گلاب چہرہ ویام کاظمی کو پھر سے بہکا رہا تھا۔۔۔۔
وہ ساری دُنیا سے لڑنے والا مضبوط اعصاب کا مالک صرف اس نازک سی لڑکی کے آگے ہار جاتا تھا ۔۔
ہاں اسے کوئی عار نہیں تھا یہ ماننے میں کہ اسکا عشق، اسکا جنون ، اسکی الفت کبھی لفظوں کی محتاج نہیں رہی تھی ۔۔۔۔۔ وہ اس عمر سے اس عشق کا مریض بنا تھا ۔۔۔۔
جب لوگ اس لفظ کے مطلب سے دور دور تک ناواقف ہوتے ہیں،،،،،
وہ خود کو جھڑکتے نگاہیں پھیرے ڈریسنگ پر پڑے اپنے پرفیوم کو اٹھائے خود پر چھڑکنے لگے،،،
اور پھر سے دل نے بغاوت کی تھی وہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے لگا۔
جو دنیا جہان سے غافل دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے سکون سے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔
اب کی بار نگاہیں ان بند قاتل نگاہوں سے ہوتی اس چھوٹی سی خوبصورت ناک پر اٹکی اور پھر وہاں سے ان نازک پنکھڑیوں پر،،،،
ایک دم سے گلا خشک سا ہونے لگا ،،،
وہ پرفیوم کو ایک طرف رکھتے میز کی طرف بڑھا،،،
سائیڈ میز پر سے کپکپاتے ہاتھوں سے جگ اور گلاس اٹھائے اسنے تیزی سے پانی بھرتے گلاس لبوں سے لگایا۔۔۔
ایک ہی سانس میں سارا پانی پیتے اسنے گلاس واپس رکھا اور ایک نظر اس ساحرہ پر ڈالی جسکے چہرے پر آتے بال ویام کاظمی کو ڈسٹرب کر رہے تھے۔۔
وہ پرفیکٹ مرد اس وقت انوکھی حرکات کرتا بالکل کوئی بچہ دکھ رہا تھا،،
وہ آہستگی سے تھوڑا جھکا اور نرمی سے انگلی پر سمیٹتے ان زلفوں کو پیچھے کیا،،
بند آنکھوں چہرے پر پھیلی دنیا جہاں کی معصومیت کو دیکھ جانے کب اسکے حسین لب مسکرائے وہ پیچھے ہونا بھول گیا تھا جیسے،،،
کتنے لمحات وہ یونہی اسے دیکھتا رہا ،،،،
ناراضگی، غصہ جیسے سب بھول گیا تھا وہ ۔۔۔۔۔ شاید اسی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر آیا تھا کہاں ممکن تھا۔
کہ وہ اس کے پاس ہونے پر اس سے غصہ ہو پاتا یا پھر ناراضگی جتا پاتا۔۔۔۔؛"
دل میں اٹھتی خواہش پر وہ فوراً سے جھکا اور سلگتے لبوں کا شدت بھرا لمس اپنی نازک سی جان کی پیشانی پر چھوڑا۔۔۔۔
جذبات بہکنے لگے ،،، بھوری آنکھوں میں خمار کی سرخی امڈنے لگی،،،
اس نازک سی لڑکی کی خوشبو ویام کاظمی کو دنیا جہاں بھلانے کی صلاحیت رکھتی تھی،،،
ویام نے گھنٹہ فولڈ کرتے اسکی چھوڑی جگہ پر رکھا اور پھر ان قاتل نگاہوں پر باری باری اپنے لبوں کا دہکتا لمس چھوڑا۔۔۔۔
وہاں سے ہوتے اسنے شدت سے چھوٹی سی ناک کو چوما اور پھر اسکے پھولے خوبصورت گالوں پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑا،،،
اپنے چہرے پر عجیب سی چبھن کو محسوس کرتی وہ نیند میں ہی کسمسائی ،،، تھوڑی پر کسی کا جارخانہ لمس محسوس کرتے اسکی نیند پھک سے اڑی تھی۔۔۔
وہ ہوش میں آتی فورا سے ہاتھ مقابل کے کشادہ سینے پر رکھتے اسے خود سے دور کرتی سرکتے بیٹھ سی گئی۔۔
گرے کانچ سی آنکھوں میں ایک انجانہ سا خوف تھا ایسا ڈر جسے ویام کاظمی محسوس کر سکتا تھا،،
اسکی خوفزدہ حالت پر وہ خود بھی بے جان سا ہوتا اسے کھینچتے خود سے لگا گیا۔۔۔
میں ہوں ویام کیا ہوا ڈرو مت......" اسے خود سے لگائے وہ اپنے ہونے کا احساس دلاتے نرمی سے ہونٹ اسکی سر پر رکھ گیا۔۔۔
وہ جو کسی برے خیال کے زیرِ اثر اٹھی تھی اب سامنے اپنے اس شخص کو وہ بھی اس قدر قریب پاتے وہ آنکھیں موند گئی۔۔
دل میں اٹھا ڈر کہیں سو گیا تھا،،
اس شخص کا ساتھ ہی اسکی طاقت تھی، اسکے حصار میں تو غم بھی مسکرا دیا کرتا تھا،،،
اب بھی تو ایسا ہی ہوا تھا وہ سہمی ہوئی گھبرائی سے اٹھی تھی مگر اس شخص نے لمحوں میں اس نازک سی لڑکی کا ڈر خود میں سمیٹ لیا تھا،،
سسس سوری ممکن مجھے لگا......؛" اششش کچھ نہیں لگا تمہیں میرے ہوتے کچھ بھی الٹا سیدھا سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔؛"
اسکا چہرہ روبرو لاتے وہ شدت انتہاء سے بولتا اسکی کانچ سی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔۔
جہاں مدہم مدہم سی سرخی آنکھوں کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔۔
تم نے معاف کر دیا ناں مجھے،،، ایم سوری اب نہیں کروں گی کبھی بھی۔۔۔۔۔۔۔!"
معصوم سا چہرہ بنائے وہ بکھرے سراپے میں، خود سے بیگانہ کان پکڑتے معصومیت سے بولتی اس قدر پیاری لگی کہ ویام نے جھٹکے سے اسے کھینچتے خود میں سمیٹ لیا ۔۔۔۔۔
تم میرے پاگل پن کی آخری حد ہو عیناں ویام کاظمی...... ایسی حد جس کے آگے ویام کاظمی کی ساری حدیں سارا ضبط جواب دے جاتا ہے۔۔۔۔؛"
اسنے نہیں کہا تھا کہ میں ناراض نہیں ہوں یا میں نے معاف کر دیا ہے مگر اس کے الفاظ اسکا شدت بھرا لہجہ اسکا تنگ ہوتا حصار،، عیناں کو یہ سمجھانے کے لئے کافی تھا۔
کہ وہ آئندہ ایسی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرنے والا ۔۔
تم میرا پاگل پن ہو عین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اچھا صرف تب تک ہوں جب تک تم میرے پاس ہو اگر تم نے غلطی سے بھی اب مجھ سے دور جانے کا سوچا تو یہ دنیا ویام کاظمی کا ایسا روپ دیکھے گی،، جس سے لوگ پناہ مانگے گے۔۔۔
اور تم جانتی ہو مجھے جھوٹ بولنا اور جھوٹے دعوے کرنا نہیں آتے،،،،،
اسے سینے میں بھینجے وہ ایک ایک لفظ اسکے کان میں پھونکتا کوئی جنونیت سے بھرا جنونی شخص لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
شاید آج تک اسکے بہت سے روپ ایسے رہے تھے جن سے عیناں خود ناواقف تھی۔۔۔۔۔
مگر وہ خاموش اسکے سینے سے لگی اس دھڑکنوں کی بڑھتی گھٹتی رفتار کو خود میں اُترتا محسوس کر رہی تھی۔
میں نے اسے ڈان کے پاس پہنچایا تھا میں چاہتی تھی کہ وہ اپنے باپ سے نفرت کرنے لگے میرا پالتو بن کر رہے۔۔۔۔۔۔۔؛"
زہر کی طرح ڈستے یہ الفاظ اسکے کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی مانند گونج رہے تھے،،،
صبیح چہرہ پسینے سے تر تھا۔۔۔۔
وہ گہرے سانس بھرتا وجود اپنی تنگ پڑتی کیفیت کے زیر اثر دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں کمفرٹر دبوچ گیا۔۔۔
عنابی لب بار بار ہل رہے تھے جیسے وہ کچھ کہنے کی کوشش میں ہو،،،،،
چھوٹے سے کمرے میں بیڈ کے سامنے ہی ایک ٹو سیٹر صوفہ اور دائی جانب چھوٹی سے کھڑکی تھی،،،
جس کے پاس کھڑا وہ ہاتھ پاکٹ میں ڈالے باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
صوفے پر گھٹلی بنی وہ جانے کب سے ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔۔
سفید بڑی سے چادر میں لپٹی وہ پوری طرح سے خود کو ڈھانپے ہوئے تھی ،صرف ایک ہاتھوں کے سوا باقی سارا بدن چادر کے اندر تھا۔۔۔
دودھیا نازک ہاتھوں سے وہ بار بار آنسوں رگڑ رہی تھی ۔۔۔
دل اس قدر تکلیف میں تھا کہ آنسوں تھمنے کا نام تک نہیں لے رہے تھے،،،
وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ اس ستمگر کے لیے کیوں اس قدر رو رہی ہے جس نے اسکی ساری زندگی تباہ کر دی تھی۔۔۔
سیاہ جھیل سی آنکھوں میں سرخی کی ڈوریاں تیر رہی تھی ۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔؛"
ایل ایل کیا ہوا تم ٹھیک ہو.....!" کمرہ اسکی دلخراش چیخ سے گونج اٹھا۔۔۔
جب وہ پسینے سے لت پت خود سے بیگانہ سی کیفیت میں چیختا اٹھ بیٹھا۔۔۔
اسکے چیخنے پر ڈینی بجلی کی سی تیزی سے اسکی طرف لپکا ۔۔
جو ویران نگاہوں سے لمبے لمبے سانس بھر رہا تھا ۔۔۔
کیا ہوا ایل تم ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔؟" اسکے چہرے پر ہاتھ رکھتے وہ بے چینی سے گویا ہوا!
ایل فورا سے خود کو سنبھالتے بیٹھا، اب چہرہ بالکل سپاٹ تھا بنا کسی تاثر کے۔۔۔۔؛
ہممممم ٹھیک ہوں میں،،، اسنے ایک نظر ڈینی پر ڈالی اور پھر بالوں میں ہاتھ پھیرتے جیسے ہی حسیات کو کسی تیسرے فرد کی موجودگی کا علم ہوا،،،
وہ فوراً سے چاک و چوبند ہوئے مڑا۔۔۔۔۔۔ نیلی نگاہوں میں بلا کی سرخی تھی،،۔جو درد اپنے اندر چھپانے کے سبب تھی،
سن شائن_____ " اسکے ہونٹ دھیرے سے بالکل مدہم آواز میں ہلے تھے،،،
سامنے بیٹھی وہ روتی ہوئی لڑکی واقعی میں اسکی سن شائن ہی تو تھی۔۔۔
اسکا پکارنا تھا کہ وہ فوراً سے روتی اٹھتے اسکے پاس بھاگی ۔۔۔۔
سر اسکے سینے پر رکھتی وہ بے تحاشہ رونے لگی ۔۔
دوپٹہ سر سے ڈھلک چکا تھا،، جسے ایل نے محبت سے دوبارہ سے اسکے سر پر رکھتے بازو کا گھیرا بنائے تھوڑی اسکے سر پر رکھی ۔۔
تم بے ہوش ہو گئے تھے ایل تو میں تمہیں بھابھی کے پاس لے آیا میں چلتا ہوں اب۔۔۔۔۔؛"
ڈینی کہتے روم سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔ ایل نے ایک نظر بند دروازے پر ڈالی گزرے دردناک لمحات جیسے ہی آنکھوں کے سامنے لہرائے درد بڑھتا چلا گیا۔۔۔
تم کیوں رہی ہو سن شائن......؛" خود کو سنبھالتے ایل نے خود سے لگی اپنی زندگی کو روبرو کرتے متفکر سے لہجے میں پوچھا اور بے حد نرمی سے اسکے آنسوں صاف کیے۔۔۔
تم بھی تو رو رہے ہو.....؛" سرخ نگاہوں سے ان نیلی آنکھوں میں تیرتے آنسوں کو دیکھتی وہ بولے بنا ناں رہ سکی۔۔
اسکے یوں سادگی سے کہنے پر ایل کو بے تحاشہ پیار آیا اپنی نازک سی جان پر۔۔۔۔۔؛"
بے ساختہ اسنے جھکتے حور کی پیشانی پر لب رکھے،،،
احساسِ ندامت نے اسے برا طرح سے جھنجھوڑا تھا۔
بے ساختہ ہی وہ آنکھیں موندے سر حور کی گود میں رکھ گیا ۔۔
حور حیران بھی تھی مگر خاموشی سے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے اسے پرسکون کرنے لگی،،
@@@@@@@@@@@@
وہ فریش ہوتی نیچے آئی تو وہاں جمی مخفل دیکھ چہرہ خودبخود شاداب ہوا تھا۔۔
امن حیا، اور میرب تیمور کو ایک ساتھ اپنے گھر میں دیکھ وہ بے حد خوش ہوتے انکے پاس آئی۔۔
السلام علیکم کیسے ہیں آپ سب۔۔۔۔۔۔؛" عیناں کی چہکتی آواز پر سبھی نے مڑتے اسے دیکھا۔
و علیکم السلام آئیے آئیے محترمہ اسے کہتے ہیں عید۔۔۔۔۔۔۔ یہ لمبی تان کر سوئے جب دل کیا تب اٹھے اور عیش کی،،،
شوہر ویسے ہی دیوانہ ہے ساس اور سسر تو ویسے ہی بیٹی مانتے ہیں اسے کہتے ہیں خوش قسمتی.......؛"
اسکا سامنے آنا تھا کہ میرب جو حیا کے پاس بیٹھی کب سے گپیں ہانک رہی تھی۔۔۔
فوراً سے جگہ سے اٹھتے اسکے قریب ہوتے جان بوجھ کر اونچی آواز میں سب کو سناتی۔۔۔۔ وہ ہاتھ عیناں کے کندھے پر رکھتی گویا ہوئی،،،
تیمور نے فوراً سے اثبات میں سر ہلاتے اپنی بیوی کی بات کی حامی بھری،،
جس پر پاس بیٹھے ویام نے زبردست سا مکہ اسکے پیٹ پر دے مارا۔۔۔۔۔
ہاہاہاہا..... اسے کہتے ہیں جورو کا غلام.....!" وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتے پھر بھی ویام کو تنگ کرنے سے باز نہیں آیا۔۔۔۔
ابے یار اب بس کرو خبردار جو میری بہن کو تنگ کیا کسی نے ۔۔۔"
امن ماحول کو گرم ہوتا دیکھ فوراً سے میرب اور تیمور کو جھڑکنے لگا۔۔
جس پر ویام نے ایک نظر اپنی شرمائی ہوئی بیوی پر ڈالی،،، اسکا ہنستا چہرہ دیکھ انگ انگ میں سکون اترا تھا۔۔۔
ادھر آؤ تمہیں گڈ نیوز دوں میں۔۔۔۔؛""
باقاعدہ عیناں کے کان میں گھستے وہ پرجوش سے لہجے میں بولی اور پھر اسے بازو سے پکڑتے سامنے بیٹھی حیا کے پاس لے گئی۔۔۔
آپی کیسی ہیں آپ.....!" حیا سے ملتی وہ مسکراتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔۔۔۔
ارے ایسے ناں پوچھو ، بلکہ یہ پوچھو کہ ہونے والی ماما کیسی ہیں آپ....!"
عیناں کو ٹوکتے میرب نے لقمہ دیا اور پھر سے دبی دبی سی ہنسی ہنسنے لگی۔۔۔
کیا مطلب....؟ کیا آپی سچ میں۔۔۔۔۔؛" وہ پہلے الجھن سے پوچھنے لگی مگر پھر جیسے ہی میرب کی کہی بات سمجھ میں آئی وہ خوشی سے چیخ پڑی۔۔۔۔
جس پر مرد خضرات بھی ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔۔۔۔
یار اس میں چیخنے کی بات نہیں تھوڑا سکون کر۔۔۔۔۔"
میرب سب کی نظریں خود پر پاتی بتیسی دکھاتی منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔۔۔۔
آپی بہت بہت مبارک ہو آپ کو۔ ۔۔۔۔ یار کتنی بڑی خوشخبری ہے میں ماما اور ہیرو کو سناتی ہوں۔۔۔۔۔"
عیناں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے، وہ حیا کے گلے ملے اسے مبارک باد دیتی اٹھنے لگی تاکہ نیناں اور وریام کو آگاہ کر سکے۔۔
او میڈم سب نے مل ملا کر مبارک باد بھی دے دی ہے اور اس وقت تمہاری ماما اور ہیرو اپنے ساتھیوں کے ساتھ پارٹی کر رہے ہیں۔۔
جیسے ہم بچہ لوگ یہاں کر رہے ہیں۔۔۔
میرب نے اسے رسان سے سمجھایا تو عیناں اوہ کرتی خاموش ہو گئی۔۔۔۔
یار کیا تھا اگر الایہ آپی، اذلان بھائ اور انزک بھائی بھی ہوتے,,, سب ہوتے تو کتنا مزہ آتا۔۔۔۔!"
عیناں نے گہرہ سانس بھرتے کہا۔
میری لٹل ڈول نے بھائی نے کو یاد کیا،،،،"
دروازے کے بیچ کھڑا وہ ہاتھ پاکٹ میں ڈالے محبت بھری نگاہوں سے عیناں کو دیکھتے بولا ۔۔۔
اسکی آواز سنتے ہی عیناں فورآ سے مڑی دروازے کے بیچ کھڑے انزک کو دیکھ وہ بھاگتی اسکے پاس پہنچی۔۔۔
کیسی ہے میری گڑیا.....؟"
سر پر پیار دیتے وہ بے حد محبت سے بولا ۔۔۔
جل مت اسکا بھائی ہے.....!" خونخوار نگاہوں سے انزک کو گھورتے ویام کو ٹوکتے تیمور نے لقمہ لگایا۔۔۔۔
جس پر وہ سخت نگاہ تیمور پر ڈالتا جگہ سے اٹھ گیا ۔۔۔
تمہارا ہی بھائی ہے چلو میرے ساتھ...!" عیناں کو ہاتھ سے تھامے وہ وہاں موجود اکیلے صوفے پر لے جاتے اسے بٹھا گیا ۔۔۔
اسکے پاگل پن پر وہاں موجود سبھی غش کھانے کو تھے،،،
جبکہ انزک اسکی پہلے جیسی کئیر پر دل سے مطمئن ہوا تھا۔۔۔
انزک یہ گوری کون ہے تمہارے ساتھ....؟"
اسکے پیچھے کھڑی روز کو گھورتی میرب بنا پوچھے ناں رہ سکی۔۔
یہ میری وائف ہے روزائکہ۔۔۔۔۔۔۔یہاں آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں ہم۔۔۔۔۔ آؤ روز______"
مسکراتے روز کو دیکھتا وہ بلند آواز میں بولا۔۔۔
تو روز فوراً سے آگے بڑھی۔۔
انزک نے ہاتھ تھامے اسے نزدیک کیا،،، جو سہمی نگاہوں سے سب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ڈرو نہیں یار ، ہم سب تمہارے اپنے ہیں ادھر آؤ،،،،!"
میرب کو وہ معصوم سی لڑکی بہت پیاری لگی تھی۔۔۔۔ وہ اٹھتی انکے پاس گئی اور روز کو تھامے خود سے لگائے وہ محبت سے بولی۔۔۔۔
آؤ ہم سب اندر چلتے ہیں ۔۔۔۔!"
حیا کو کہتی میرب روز اور عیناں کا ہاتھ تھامے اوپر کی جانب بڑھی۔۔
عیناں نے گردن موڑے ویام کی طرف دیکھا کہیں وہ ناراض ناں ہو جائے۔۔۔۔۔
ویام نے مسکراتے اسے ری لیکس رہنے کا کہا جس پر وہ کھل اٹھی تھی۔۔۔۔
تم سب لڑکے لوگ پارٹی کے لئے اپنی تیاری مکمل کر لو اور ہم سب تمہیں سرپرائز کریں گی۔۔۔۔؛"
میرب نے کمر پر ہاتھ ٹکائے حتمی انداز سے کہا اور پھر حیا کے پاس جاتی وہ اسکا ہاتھ پکڑے اوپر کی جانب بڑھ گئی۔۔
یار الایہ اور اذلان کو تو آنے دو۔۔۔۔۔؛" تیمور نے ٹوکا......وہ چاہتا تھا کہ سب کی موجودگی میں وہ الایہ اور اذلان کی رخصتی کی پارٹی بھی وصول لے۔۔۔۔
وہ آ جائیں گے دو دن تک تم لوگ تیاری مکمل رکھو،،،،؛"
ویام نے انہیں آگاہ کیا تو میرب پھر سے خوش ہوئی تھی۔۔
اب تو ایک گرینڈ فنکشن ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ ہم اپنے اپنے ڈریس اونلائن سیلیکٹ کرتی ہیں اور پیمنٹ ان کے اکاؤنٹ سے کریں گی۔۔۔۔۔؛"
میرب نے سرگوشی میں سبھی لڑکیوں سے کہا جس پر سب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔۔۔
وہ سبھی مسکراتی ہوئی اوپر عیناں کے روم کی جانب بڑھی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ شاپنگ کر سکیں۔۔۔
@@@@@@@@@@
ہاں اب بولو تم یہاں کیسے پہنچے قالو......؛"
اسے تھامے وہ سیدھا اپنے کمرے کے ساتھ اٹیچ واشروم میں گئی تھی ۔۔
روم میں رہنا خطرناک تھا اور وہ جانتی تھی کہ ایچ اے آر نے پوری طرح سے اس پر نظر رکھی ہو گی۔
تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ میں ہوں۔۔۔۔۔!" حیرت سے اسے دیکھتا وہ پریشانی سے پوچھنے لگا۔
جس پر وہ مسکرائی تھی ۔۔۔۔
تمہیں پہچاننے کیلئے مجھے کسی آلے کی ضرورت نہیں تم چاہے تو یہ نقلی مونچھیں لگا لو یا پھر داڑھی،، مگر تمہاری یہ شکل صرف میں ہی برادشت کر سکتی ہوں۔
اتنا تو میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔" ایک ہاتھ سے اسکی مونچھوں کو کھینچتی وہ شرارت سے بولی۔۔۔۔
جس پر اذلان مسکرایا تھا۔۔۔۔
آنے میں زیادہ وقت تو نہیں لگا مُجھے۔۔۔۔۔۔؛" اسے خود سے لگائے وہ ہونٹ سر پر رکھتے سکون خود میں اتارتے بولا۔۔۔۔
اہننہہ ۔۔۔۔۔ میں نے سنبھال لیا سب کچھ۔۔۔۔۔!" آنکھیں موندے وہ جانے کس قدر پرسکون ہوئی تھی،
اذلان کا ہونا اسکی طاقت تھا ۔۔۔۔ ہاں دل کو سکون ملا تھا اس بار وہ اکیلی نہیں تھی۔
بلکہ وہ شخص اسکے ساتھ تھا اور اب تو وہ ہر مصیبت سے لڑ سکتی تھی ۔۔
سنو.......!"
ہممممم......؛"
ہماری رخصتی کی تیاریاں مکمل ہیں وہاں وہ سارے انجوائے کر رہے ہیں اور تو اور امن باپ بننے والا ہے۔
ایک میں ہی ہوں جو پیچھے رہ گیا۔۔۔۔"
جلے انداز میں اسے آگاہ کرتے وہ خاصا افسردہ سا بولا۔۔۔
فضول مت بولو۔۔۔؛" الایہ نے ٹوکا جس پر وہ ہنسا تھا۔۔۔
میں سوچ رہا تھا آج ہی اس ایچ اے آر کا کھیل ختم کر کے واپس چلتے ہیں ۔۔
میں تھک چکا ہوں اب اس زندگی سے،، سکون سے کچھ پل تمہارے ساتھ گزرانا چاہتا ہوں۔۔۔۔!"
اسکے کندھے پر سر رکھے وہ تھکے لہجے میں بولا۔۔۔۔
تھک تو وہ خود بھی بہت چکی تھی۔۔۔۔ زندگی کی تلخیوں نے اسے تھکا دیا تھا۔۔۔۔
لڑ لڑ کر وہ اب تھکن زدہ ہو چکی تھی۔۔۔
سکون تو زندگی میں کبھی حاصل نہیں ہوا تھا مگر اب وہ خود بھی چاہتی تھی۔۔
سکون حاصل کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عام انسان جیسی خوش آئند زندگی گزارنا ۔۔۔۔۔۔"
میں نے پولیس کو انفارم کر دیا ہے بس تھوڑی دیر میں وہ لوگ پہنچ آئے گے.... پھر وہ خود اس ایچ اے آر کو سنبھال لیں گے۔۔۔۔"
ہمممممم...... ہوپ سو کہ ایسا ہی ہو۔۔۔۔۔!" سرد سانس فضا کے سپرد کرتی وہ بس اتنا ہی کہہ سکی تھی۔۔
@@@@@@@@@@
یہ تم مجھے گھور کس بات پر رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟"
اشعر نے آنکھیں چھوٹی کیے وریام سے پوچھا جو مسلسل اسے گھور رہا تھا۔۔
لو تمہارے بھائی کی نظر خراب ہو گئی ہے بڈھا ہو گیا ہے۔ اسے نظر نہیں آ رہا میں اسے کیوں گھوروں گا ۔۔۔۔۔!"
سر نفی میں ہلاتے وریام نے ساتھ بیٹھی نیناں سے کہا۔۔۔۔۔
اوئے کون بہن ۔۔۔۔۔۔۔ دوست ہے نیناں میری۔۔۔۔ بہن مت بول ۔۔۔۔۔۔۔!" اشعر پھر اسے چڑھانے سے باز نہیں آیا تھا ۔۔۔
نیناں نے بے زاری سے رمشہ اور فدک کو دیکھا جو اسے اشاروں سے خاموش رہنے کا کہہ رہی تھیں۔۔۔
جبکہ انکے چہرے پر بکھری ہنسی سے نیناں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دونوں خود اس چھیڑ خانی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔۔
میں منہ توڑ دوں گا تیرا جو اپنی چھوٹی بہن کو دوست بولا۔۔۔۔!"
دانت کچکچاتے وریام نے خونخوار نگاہوں سے اشعر کو گھورتے کہا۔۔۔
یار بس کر دو کیوں بچوں کی طرح جھگڑ رہے ہو؛؛"
رافع کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر یہ دونوں کیوں بچوں کی طرح لڑتے رہتے تھے۔۔۔
بچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے بچہ، عمر دیکھو اس کی ۔۔۔۔۔ دادا بننے جا رہا ہے سر کے بال جھڑ رہے ہیں۔
گنجا ہو گیا ہے تُو گنجا ____!"
وریام اچھلتا انگلی نچاتے اشعر کو کھا جانے والی نگاہوں سے گھورتے بولا۔۔۔
اپنے بارے میں کیا کہے گا تو تیرے تو سارے بال چٹے ہو گئے ہیں۔۔۔ ۔۔ابے تُو مجھ سے بھی زیادہ بڈھا لگتا ہے۔۔۔۔!"
اشعر کہاں سے کم تھا اور جہاں معاملہ وریام کاظمی کو تنگ کرنے کو ہو ،وہاں تو وہ صف اول پر کھڑا نظر آتا تھا۔۔۔
واٹ چٹا......!"بھوری آنکھوں میں حیرت لیے وہ نیناں سے پوچھنے لگا۔۔۔
نیناں نے غصے سے کندھے اچکائے...... کونسا اس سے پوچھ کر لڑ رہے تھے وہ دونوں جو وہ مطلب بتاتی پھرتی۔۔۔
ابے مجھ سے پوچھ،،،، میری دوست کو بیچ میں مت لا۔۔۔۔ چٹا مطلب سفید ۔۔۔۔۔۔ سفید ہو گئے ہیں تیرے بال یہ دیکھ یہاں سے ۔۔۔۔۔۔ ماتھے کے پاس سارے بال ۔۔۔۔۔۔۔..... چہ چہ ۔۔۔۔۔۔ !٫"
تاسف سے جگہ سے اٹھتے وہ وریام کے قریب جاتے اسکے سر کو چھوتے بتانے لگا ۔۔۔
دور کر اپنے گندے ہاتھ ۔۔۔۔! اور ایک بات سن لے...... یہ تیرے جیسوں کی خواہش ہی رہے گی کہ تُو وریام کاظمی کو بڈھا دیکھ سکے۔۔۔۔۔۔ میں پردادا بن کر بھی جوان ہی رہوں گا۔۔۔۔۔!"
کالر جھاڑتے وہ اٹیٹیوڈ دکھاتے بولا۔۔۔۔
رافع نے خاموش نظر دونوں پر ڈالی اور پھر منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھی فدک ، نیناں اور رمشہ کو دیکھا۔۔۔
جو ایک گھنٹے سے ان دونوں کی لڑائی دیکھ دیکھ تھک چکی تھیں۔۔۔
رافع نے ان تینوں کو باہر لان میں چلنے کا اشارہ کیا اور خود بھی جگہ سے اٹھ گیا۔۔۔۔
تم دونوں تسلی سے جھگڑ لو۔۔۔۔۔۔۔۔ جب دل بھر گیا تو بتا دینا ہم لوگ باہر ہیں۔۔۔۔!"
اشعر اور وریام جو ہونقوں کی طرح منہ کھولے ان سب کو جاتا دیکھ رہے تھے...... ان کو دیکھتے رافع نے اطمینان سے کہا اور پھر رمشہ، نیناں اور فدک کے پیچھے وہ بھی باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
ان سب کو کیا ہوا......!'
اشعر نے حیرت سے وریام کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھ پوچھا۔۔۔۔۔۔
جلتے ہیں ہماری بونڈنگ سے اور کچھ نہیں......"
وریام نے آنکھ دباتے کہا ۔۔۔
ہاہاہاہاہاہاہا.......؛" کمرے میں کافی دیر تک ان دونوں کا جاندار قہقہ گونجتا رہا۔۔۔
سن شائن….........؛" ماحول میں چھائی خاموشی کو ایل کی آواز نے توڑا،،،
اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتی وہ پوری طرح سے اسکی جانب متوجہ تھی ۔۔
مگر لبوں سے کچھ نہیں کہا۔۔
ایل کروٹ کے بل سیدھا ہوا اور بغور اسکی نگاہوں میں دیکھنے لگا۔۔۔۔
حور گھبرا سی گئی ۔۔۔۔ اسکا یوں دیکھنا اسے جُز بُز کر رہا تھا۔۔۔
جانتی ہو میری ماما کون ہیں؟" اسکا ہاتھ تھامے وہ جانے کیوں مگر آج اسے سچ بتا دینا چاہتا تھا
دل کا بوجھ اس قدر بڑھ رہا تھا کہ اس سے سانس لینا محال ہو گیا تھا ۔
حور نے سر نفی میں ہلایا ۔۔
میری ماما کا نام لیلی ہے،،، تمہارے ڈیڈ وریام کاظمی کو وہ پسند کرتی تھیں انکی کلاس میٹ تھیں وہ.....؛"
اسکا بتانا حور کی آنکھوں میں حیرت کے تاثرات ابھار گیا ۔
مگر تمہارے ڈیڈ نے اپنی کزن سے شادی کر لی ، اسکے بعد میری ماما کی شادی میرے ڈیڈ سلیمان شاہ سے ہوئی،،
جنہوں نے پوری طرح سے ان کو سدھارنا چاہا ،،
میں بہت چھوٹا تھا ماما کا رویہ بہت برا تھا میرے ساتھ۔۔۔۔۔
وہ مجھے روز مارتی تھیں۔۔۔۔۔ ڈیڈ ہاسپٹل چلے جاتے تھے۔۔
اور پیچھے سے وہ مجھے روز مارتی تھیں مجھے دھوپ میں کھڑا دیتیں ۔۔۔۔ میں بچہ تھا، ہمیشہ سوچتا رہتا کہ میری ماما مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں۔۔
پھر ایک روز میں باہر کھیل رہا تھا مجھے کسی آدمی نے بلایا میں جیسے ہی باہر نکلا،،،
مجھے آگے کچھ یاد نہیں رہا کہ کیا ہوا ہے پھر جب مجھے ہوش آئی تو میں ایک ویران جگہ پر تھا۔۔۔۔
ایک بڑا سا آدمی تھا ۔۔
جس کا نام مجھے معلوم نہیں تھا۔۔۔اسنے پہلے دو چار دن مجھے ٹارچر کیا..... بچہ تھا پہلے ہی عادی تھا۔۔۔۔
خاموشی سے صبر کر لیا۔۔۔!!" کہتے ایل کے لہجے میں درد کی کرچیاں آباد تھیں۔۔۔
حور کو لگا کہ اسکا سانس رک جائے گا۔۔۔۔۔ اسکا ہاتھ کپکپا رہے تھے۔
ایل نے سرد سانس اپنے اندر انڈیلا شاید آگے کا سچ بتانے کےلئے خود میں ہمت پیدا کر رہا تھا وہ......
پھر ایک رات آئی،، میرے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے،،، درد کی شدت سے مجھ سے ہلا تک نہیں جا رہا تھا،،
مجھے رات کے ایک بجے گھیسٹتے دوبارہ سے اس ڈان کے کمرے میں لے گئے،،،
میں ہمت کرتا رہا مگر وجود اس قدر درد میں تھا کہ مجھ سے اٹھا نہیں گیا،،،
پھر وہ ڈان اچانک سے کہیں سے کمرے میں داخل ہوا....... اسکے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی اور آنکھیں بالکل سرخ ہو چکی تھیں ۔۔
شاید وہ نشے میں تھا،،
مجھے اسے دیکھتے ہی خوف آنے لگا،،، میرے منہ سے آوازیں نکلنا بند ہو گئی،،
مجھے پیچھے ہوتا دیکھ وہ غصے سے میرے پاؤں سے گھیسٹتے مجھے کمرے کے بیچ لے گیا ۔۔ اور پوری رات اپنی حوس کا نشانہ بناتا رہا۔۔۔۔
وہ رات ایک عذاب کی طرح کاٹی میں نے،،،،، موت بھی منہ موڑ چکی تھی، ورنہ اتنی تکلیفوں کو برادشت کرنے کے بعد موت کیسے نہیں آتی،،،
اسکے بعد بھی یہ عمل رکا نہیں،،، بہت سوں نے اپنی حوس پوری کی،، میں ہر رات موت مانگتا مگر موت کو بھی مجھ پر رحم نہیں آیا سن شائن۔۔۔۔۔۔؛"
حور کا سانس بند ہونے لگا تھا وہ تصور بھی نہیں کر پا رہی تھی جو کچھ وہ شخص خود پر سہہ چکا تھا ۔
پھر ایک دن میری ماں آئی،،، مجھے کہا تمہارے باپ نے تمہیں بیچا ہے اور میرے دل میں انکے لئے نفرت بھر دی،،
مجھے پانچ سالوں تک ہر برے کام میں ٹرین کرتی رہی اور پھر ایک دن مجھے تمہارے ڈیڈ کی تصویر دکھائی اور تمہاری بھی،،،،
میں اس وقت پوری طرح سے ان کے قابو میں تھا۔۔۔
انہوں نے کہا کہ وریام کاظمی کی بیٹی کو برباد کرنا ہے میں مان گیا۔۔۔۔
مگر خدا گواہ ہے سن شائن..... مجھ میں اتنی ہمت پیدا نہیں ہو پائی کہ میں تمہیں گندہ کر پاتا،،،،،
میرا دل ایک انجانے احساس سے واقف ہوا تھا جب پہلی بار ان آنکھوں میں ڈر کو تیرتا دیکھا تھا،،،
میں بھول گیا تھا میں کس لئے آیا ہوں اور یہ پہلی بار تھا کہ اس رات میں خالی ہاتھ لوٹا تھا۔۔۔
اس کے بعد تم جانتی ہو کیا ہوا سب کیسے ہوا،،،، مگر ایک بات شاید تم بھی نہیں جانتی،،، وہ یہ ہے کہ میں عالیان شاہ سچ میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں ۔۔۔۔
تم سے نکاح اسی وجہ سے کیا تھا کہ تمہیں کہیں کھو ناں دوں،،، سب سے چھپا کر صرف اپنے لیے رکھوں گا تمہیں..... مگر میں غلط تھا سن شائن...... میں نے غلط رستہ چنا۔۔۔۔ میں نے تم سے تمہارا تشخص ، تمہارا غرور تمہاری انا چھین لی ۔۔۔۔۔۔۔!"
وہ سرخ آنکھوں والا نڈھال سا شخص روتے ہوئے اسکے روبرو بیٹھا اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے اپنا غم بیان کر رہا تھا،،
اسکا غم حور کو اپنے اندر اُترتا محسوس ہو رہا تھا.....
جانے کیوں عالیان شاہ کے الفاظ اسکے دل کو تکلیف دینے کا سبب بن رہے تھے۔۔۔۔۔
سن شائننننن....... وہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ واقعی میں اسکے قابل نہیں،، وہ خواب نگر کی شہزادی .... بھلا وہ کہاں سے اسکے قابل تھا۔
اسکی جلتی آنکھوں پر باری باری لب رکھتے وہ چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے اسے دیکھے گئی،،، جو بے یقینی سے اس ساحرہ کو دیکھ رہا تھا۔
میں آپ کے ساتھ ہوں آپ پریشان مت ہوں.....،" سیاہ جھیل سی آنکھوں میں فکر کا جہاں لیے وہ اسے اپنے ساتھ کا یقین دلاتی اسکے ہر زخم پر مرحم رکھ گئی تھی۔۔۔
ایل نے شدت ضبط سے اپنے ہونٹوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا اور اسے کھینچتے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔
اسکے آنسوں حور کی گردن پر جذب ہو رہے تھے،، وہ چاہتی تھی ۔۔
جتنا درد جتنا غم اس شخص کے اندر بھرا پڑا تھا آج وہ اپنا سارا کرب نکال دے،،
ہاں وہ ایک اچھی بیوی تھی ایک اچھی ہمسفر______ جو اسکے برے وقت میں اسکی اذیتوں میں اسکے ساتھ تھی۔۔
°°°°°°°°
الایہ اوپن دی ڈور......" دروازہ ناک ہوتے ہی ایچ اے آر کی بھاری آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔۔
الایہ نے ایک نظر سامنے کھڑے اذلان پر ڈالی اور پھر دروازے کو دیکھا۔۔۔۔۔
تم باہر چلو میں آتی ہوں.......؛"
لبوں پر زبان پھیرتی وہ خود کو کمپوز کرتے بولی،،، جبکہ اذلان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی۔۔۔
اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی اس دو فٹ کے آدمی کو زمین میں گاڑھ دیتا۔۔۔۔۔
ابھی مطلب ابھی.....اوپن کی دی ڈور۔۔۔۔۔۔۔ ڈیم اِٹ.......!"
وہ غصے سے دھاڑا تھا،،، جس سے الایہ اور اذلان سمجھ چکے تھے کہ وہ جان چکا ہے۔
کہ الایہ کے ساتھ کوئی اور بھی موجود ہے.....؛"
الایہ نے دانت پیستے دروازے کو دیکھا اور پھر گہرہ سانس لیتی وہ دروازہ کھول گئی۔۔۔
ایچ اے آر نے سخت نگاہ دروازے کے بیچ کھڑی الایہ پر ڈالی اور پھر دوسرے ہاتھ سے دروازے کو دھکیلتا وہ سارا دروازہ کھول گیا ۔۔۔
میں دس تک گنوں گا مجھے سچ سچ بتاؤ کون تھا تمہارے پاس.....!"
اسنے سیکنڈوں میں تیزی سے ہاتھ چلاتے گن نکال الایہ کے ماتھے پر رکھتے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔
دیکھ لو کون ہے ویسے میرے خیال سے تمہارا باپ تھا.......؛"
خاصا زچ کرنے والے انداز میں دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے وہ کندھے اچکاتے لاپرواہی سے بولی۔۔۔
یُو…....!"
اہاں ہاتھ اٹھانے کی غلطی بھی مت کرنا ۔۔۔۔۔؛"
الایہ کو تھپڑ مارنے کے لیے ایچ اے آر کا اٹھا ہاتھ بیچ میں ہی روک لیا تھا اذلان نے ۔۔۔۔'
ایچ اے آر نے حیرت سے ششدر ہوتے اپنے ہاتھ پر مضبوط ہوتی اذلان کی گرفت کو دیکھا ۔
اور پھر اسکے چہرے کو جو حددرجہ سنجیدہ تھا ۔۔۔
لڑکی پر ہاتھ اٹھانے والا مرد مرد نہیں ہوتا.... سالے چوہے۔۔۔۔۔۔۔۔!" اسکے بازو کو جھٹکے سے مروڑتے وہ پیچھے لگاتے دل جلانے والے انداز میں بولا ۔۔۔؛
الایہ نے نفرت بھری نگاہ اس شخص پر ڈالی جو محبت کا دم بھرتے نہیں تھکتا تھا۔۔۔۔
گھٹیا انسان تم جیسے انسان کبھی کسی سے محبت نہیں کر سکتے جانتے ہو کیوں.......! کیونکہ وہ شخص جسکا ضمیر مر چکا ہو ،،، جو کسی کی بہن بیٹیوں کو جانوروں کی طرح بیچے وہ انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں....... محبت تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!"
زمین پر گرا وہ بری طرح سے غصے سے کھول رہا تھا ۔۔۔
تم دونوں کو میں چھوڑوں گا نہیں.... کیا لگتا ہے تمہیں کہ مجھے ٹھکرا کر تم یہاں سے زندہ چلی جاؤ گی۔۔۔۔۔۔!"
گارڈز.......؛" نفرت سے پھنکارتا وہ فوراً سے جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔۔
کپڑے جھاڑتے اسنے زہر بھری نگاہوں سے اذلان اور الایہ کو دیکھا۔۔۔
پکڑ لو ان دونوں کو ، میری محبت اور نرمی کا بہت غلط فائدہ اٹھا لیا تم نے، مگر اب حساب ہو گا۔۔۔۔۔۔
ایچ اے آر تم دونوں کو ایسی عبرت ناک موت دوں گا کہ رہتی دُنیا تک لوگ میرے نام سے کانپیں گے۔
چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے وہ کاٹ دار نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھتے بولا……
سنا نہیں تم لوگوں نے کیچ دیم.......!' وہ مڑا اور خاموش کھڑے اپنے گارڈز کو دیکھتے چلانے لگا۔۔۔۔
ہم ان کو کچھ نہیں کہیں گے…………ان میں سے ایک نے اونچی آواز میں کہتے گن کا رخ ایچ اے آر کی جانب کیا۔۔۔
تو ایچ اے آر نے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا،،، اسکی دیکھا دیکھی باقی سب گارڈز نے بھی گن ایچ اے آر پر تان لی…
ییی یہ ککک کیا کر رہے ہو٬ " وہ غصّے سے اپنے گارڈز کو گھورتے بولاـ
نیچے کرو سب انہیں…. ہاتھ کے اشارے سے انہیں گنز نیچے کرنے کا کہتے وہ پسینے سے شرابور چہرے کو صاف کرنے لگاـ
جب تک بات ہماری بہنوں تک نہیں تھی ہم سب چپ تھے مگر اب تم ہماری ہی بہنوں کو بیچو گے۔اور ہم چپ رہیں گے،،،، ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔؟!"
البرڈ جو گارڈز کا چئیر پرسن تھا اسنے آگے بڑھتے گن ایچ اے آر کے ماتھے پر رکھتے کہا۔
تتت تم مجھے مارو گے،،،، دور رہو پیچھے ہٹو سارے………………!"
وہ ہذیانی سی کیفیت میں چلانے لگا۔۔۔۔
آنکھوں کے سامنے وہی بے بس لڑکیاں گھوم رہی تھیں؛ جن کو اس نے بے دردی سے مارا پیٹا تھا ان کی آبرو کو سرے بازار بیچا تھا۔
وہ سبھی اس پر ہنستی اسکی بے بسی کا مذاق اڑا رہی تھیں۔۔
رکو تم سب؛ اس جیسے گھٹیا انسان کی موت اتنی آسان نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔!"
اذلان نے نفرت بھری نگاہ ایچ اے آر پر ڈالتے کہا،،
تو وہاں موجود سبھی سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔۔۔
چلو میرے ساتھ،،،!"
گریبان سے اسے گھسیٹتے وہ کھینچتے کمرے سے باہر لے گیا۔۔۔۔۔۔الایہ اور وہ سبھی گارڈز حیرت سے اذلان کو دیکھتے اسکے پیچھے ہی باہر نکلےـ
جو قدم قدم سیڑھیاں اُترتا نیچے بنے تہہ خانے کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
چپ کر جاؤ تم ۔۔۔۔۔۔!" ایچ اے آر پاگلوں کی طرح خود پر ہنستی ان لڑکیوں کو ڈانٹ رہا تھا جو اس پر ہنس رہی تھیں۔۔۔
یہ ہے تمہارا موت تک کا ٹھکانہ....... یہ وہی جگہ ہے جہاں تم ان معصوم بچیوں کو زندگی سے دور اپنی قید میں جانوروں سے بدتر سلوک کرتے رکھتے رہے ہو، اور اب سے یہی تمہارا ابدی ٹھکانہ ہے۔۔۔۔۔۔!"
ہتھ کڑی سے اسکے ہاتھوں کو دیوار سے باندھتے اذلان نے تاسف سے اس شخص کو دیکھتے کہا، جو پاگلوں جیسی حرکات کر رہا تھا،
نننن نہیں چھوڑو مجھے،،،، اے لڑکی دور رہو تم.....؛"
ایچ اے آر نے وخشت بھری نگاہوں سے اپنی طرف بڑھتی لڑکی سے کہا،،،
الایہ افسوس سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی،، جو مخض اتنی سی شکست برداشت ناں کر سکا تھا۔۔۔۔
کہاں کی دولت،، کہاں کا پیسہ ،،،، آج کوئی بھی چیز اسکے کام نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔
جس بے رحمی سے معصوموں پر ظلم کرتا رہا تھا اسکے سامنے تو یہ سزا کچھ بھی نہیں تھی۔۔
مگر وہ شخص تو خود ہی پاگل ہو چکا تھا اپنی شکست وہ بھی اس طرح سے اسے ملے گی ۔۔۔۔
اسی بات کی وجہ سے وہ پاگل ہو چکا تھا اور اس وقت وہاں موجود ہر شخص کی آنکھ میں سوائے نفرت اور افسوس کے کچھ بھی نہیں تھا اسکے لئے۔۔۔۔۔۔!"
تم سب کا بے حد شکریہ جو تم سب نے سچ کا ساتھ دیا.......؛"
تہ خانے کا دروازہ بند کرنے کے بعد وہ الایہ کے ساتھ کھڑا ممنون سے لہجے میں بولا،،،
شکریہ ادا مت کریں،،،، یہ انسان ہمارے لئے سب کچھ تھا ہم نے سالوں اسکی خدمت کی ہے اور آج یہ اپنے برے وقت میں ہماری ہی بہنوں اور بیٹیوں کو بیچنے کی سکیم بنا رہا تھا۔۔۔۔
یہ تو اچھا ہوا کہ الایہ میڈم نے ہمیں وہ ویڈیو دکھا دی۔۔
جس میں ایچ اے آر کسی شخص سے ڈیل کر رہا تھا تبھی ہماری آنکھوں پر بندھی پٹی ہٹ گئی۔۔۔۔
البرڈ کے بتانے پر اذلان نے چونکتے الایہ کو دیکھا ۔۔۔۔۔
مجھے شک تو پہلے ہی تھا اسی لئے میں بار بار ہنگامہ کر کے اس کے میٹنگ روم میں جاتی تھی۔۔۔
اور پھر وہاں پر کیمرہ لگا دینے کے بعد میرا کام ختم تھا ۔۔۔۔۔۔
اب یہ تم لوگوں پر تھا کہ تم سب اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کرو گے اسے معاف کرو گے یا پھر چھوڑ دو گے......؛"
پھر بھی آپ کا بے حد شکریہ آپ نے ہماری آنکھیں کھول دی۔۔۔۔۔
اب سے ہم سب کوئی برا کام نہیں کریں گے بلکہ ایمانداری سے روزی کمائیں گے۔۔۔۔ نیک کام کریں گے۔۔۔۔"
مجھے یقین ہے کہ تم سب آئندہ کوئی برا کام نہیں کرو گے،،،، تھوڑی دیر میں پولیس آنے والی ہے اس سے پہلے ہی تم سب لوگ یہاں سے چلے جاؤ اور ایک اچھی زندگی گزارو۔۔۔۔۔"
الایہ نے کہتے ساتھ ہی ایک نظر اپنے ساتھ کھڑے اذلان پر ڈالی جس کے لبوں کے کونے مسکرا رہے تھے۔۔۔
اور اس ایچ اے آر کا کیا ہو گا؟" البرڈ نے پریشانی سے پوچھا کیونکہ اگر پولیس آئی تو وہ لوگ اسے بچا لیں گے۔۔۔
اس بات کی فکر مت کرو ،،، ہم اس جگہ کو اچھے سے بند کر دیں گے یہاں آنے کا ہر رستہ بند ہو جائے گا پھر کوئی بھی چاہ کر یہاں نہیں آئے گا ۔۔۔"
اذلان نے تاسف بھری نگاہ اس تہ خانے کے بند دروازے پر ڈالتے کہا۔۔۔۔۔"
جس پر سبھی متفق ہوتے وہاں سے نکل گئے۔۔۔۔۔
مگر ایچ اے آر چیخ چیخ کر اب تھک چکا تھا ۔۔۔۔پاوں سے خون رس رہا تھا اور وہ لڑکیاں اس پر مسلسل ہنسے جا رہی تھیں۔۔۔۔۔
جب جیت کا سرور انسان کے سر پر سوار ہو جائے تو وہ ہار برادشت نہیں کر پاتا،، مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے کیے ہر اچھے اور برے کام کا صلہ اس دنیا اور آخرت دونوں میں ملے گا۔۔۔۔۔۔
اور سزا اس قدر سخت ہو گی کہ ہم گناہ گار برادشت نہیں کر سکے گے۔۔۔۔۔!
@@@@@@@@@@@
******* دو ہفتے بعد*******
امن آپ ریڈی نہیں ہوئے وہاں سب تیار کھڑے ہیں اور ایک میرے شوہر ہیں ان کی تیاری ہی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔!"
پاؤں تک جاتی اس سنہری پوشاک میں وہ ہلکا سا سجی سنوری ،،، ایک ہاتھ میں بریسلٹ ڈالے،، بالوں کو دونوں کندھوں پر ڈالے ، پنک لپ اسٹک لگائے ،، جھیل سے آنکھوں میں کاجل لگائے وہ سادگی میں بھی قیامت برپا کر رہی تھی۔
ڈریسنگ کے سامنے کھڑا وہ بالوں کو برش کرتا جانے کب سے اسے نہار رہا تھا جو کرسی پر بیٹھی کافی خفا خفا سی دکھ رہی تھی۔۔۔
لختِ جگر آج تمہارے اکلوتے بھائی پلس دیور کی شادی ہے تو پھر اتنی تیاری تو بنتی ہے۔۔۔۔"
پرفیوم ہاتھ میں تھامے وہ قدم قدم چلتا لبوں پر جان لیوا مسکراہٹ سجائے اسکے قریب آیا ۔۔۔
ہاتھ کرسی پر رکھتے امن نے پرفیوم حیا پر اسپرے کرتے شرارت سے کہا۔۔۔۔
جس پر وہ منہ بسور گئی۔۔
تو اسکا کیا مطلب، جب اذلان اور الایہ پاکستان پہنچ جائیں گے ہم لوگ تب جائیں گے فنکشن پر؟"
حیرت سے اسے دیکھتی وہ منہ کھولے بولی، جس پر امن گہرہ ہنسا۔۔۔
ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے جیسے،،، تم اس وقت مجھے بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو اور میرا دل چاہ رہا ہے،، کہ میں تمہیں خود میں قید کر لوں......"
تھوڑی سے پکڑتے حیا کا چہرہ روبرہ لاتے وہ مخمور آنچ دیتے لہجے میں بولا۔۔۔۔
دور رہیں زیادہ فری مت ہوں؛؛؛؛؛ نیچے سب ویٹ کر رہے ہیں اور آپ بھی جلدی سے نیچے آ جائیں......!"
امن کے سینے پر دونوں ہاتھوں سے دباؤ دیتی وہ اسے خود سے دور کرتے بولی،،،
یار دیٹس ناٹ فئیر……………………………واپس آؤ حیا،،،، "
حیا کو روم سے نکلتا دیکھ وہ اونچی آواز میں پکارتا خود بھی اسکے پیچھے ہی روم سے نکلا۔۔۔
°°°°°°°
کڈنیپر جلدی کرو ،،،،!"
ہاں بس تھوڑا سا رہ گیا........" ہاتھ میں پکڑی پن سے بالوں کو سیٹ کرتے انزک نے عجلت سے کہا،،،
جس پر روز منہ بسورتے خاموش ہو گئی۔۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ اس کا ہیئر اسٹائل بنا رہا تھا،،،
اور روز بیچاری بس خاموشی سے اسکے آگے بیٹھی تھی۔۔۔۔
جو بڑے مصروف سے انداز میں بال بنا رہا تھا۔۔۔۔
مارون کلر کے ڈارک غرارہ پہنے، ڈارک گولڈن بالوں کا دونوں اطراف سے اسٹائل بنائے۔۔۔۔۔ لبوں پر سرخ لپ اسٹک سجائے،، آنکھوں میں ہلکی سی کاجل کی لکیر کھینچے وہ بے حد خوبصورت دکھ رہی تھی ۔۔
پرفیکٹ.......!" ہاتھ سینے پر باندھے گہری نگاہوں سے اسکا تفصیلی جائزہ لیتے وہ مسکراتے بولا،،،
جس پر روز نے ائبرو اچکاتے اسے دیکھا۔۔۔۔
جو خود بھی اس وقت بلیو تھری پیس میں نکھرہ نکھرہ سا کافی ہینڈسم لگ رہا تھا…
روز کا ایڈمیشن یونی میں ہو چکا تھا،، ایچ اے آر کے متلعق اسنے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔۔۔۔
کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ اسکا بھائی جس طرح کے کاموں میں ملوث تھا۔
اسکے بعد اسکے بچنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے۔۔۔۔!
انزک کے علاؤہ باقی سب گھر والوں کا رویہ بھی بے حد اچھا تھا اسکے ساتھ،،، الایہ بھی اب اچھے سے پیش آتی تھی اسکے ساتھ اور عیناں تو اتنے دنوں سے اپنے گھر میں ویام کے ساتھ تھی۔۔۔۔۔
انزک ابھی اپنے رشتے کو وقت دینا چاہتا تھا۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ وقت سے پہلے کسی قسم کا کوئی بوجھ ڈالے روز پر ۔۔۔۔۔ !"
اسکے ہر فیصلے پر روز پوری طرح سے اسکے ساتھ تھی ۔۔۔
اسے یقین تھا کہ اسکا ہمسفر اسے ہر برے سائے سے بچا لے گا اور اسی وجہ سے وہ بے حد پرسکون تھی۔۔
چلیں......؛'" ہاتھ اسکے سامنے پھیلائے وہ مان سے بولا،، جس پر روز نے مسکراتے اسکے ہاتھ کو تھام لیا،،
°°°°°°°
آنٹی تیمور نے مجھے تھپڑ مارا......؛" آنکھوں میں آنسوں لئے وہ ہھل بھل کرتی معصوم سا چہرہ بنائے سیڑھیوں سے اترتی مسز شیرازی کے پاس آئی۔۔۔۔۔۔
جو والہانہ نگاہوں سے اپنی بہو کے دمکتے روپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
نیوی بلیو کلر کی نائیٹی میں وہ سجی سنوری بے حد حسین لگ رہی تھی ـ
ارے کیوں مارا اس نے میری بچی کو؛؛؛؛؛ میرب کو سینے سے لگائے وہ خفا نگاہوں سے سیڑھیوں سے اُترتے تیمور کو دیکھ بولی ۔۔۔
ماما میں نے کچھ نہیں کیا میری اتنی مجال ہے کہ میں آپ کی لاڈلی کو کچھ کہوں،،،،،!"
وہ سرینڈر کرنے کے سے انداز میں ہاتھ اٹھاتا آنکھیں پھیلائے بولا۔۔۔
تو کیا یہ جھوٹ بول رہی ہے بچی۔۔۔۔۔۔!" مسزز شیرازی نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔۔۔۔
جس پر تیمور نے دانت پیستے اس ڈرامے باز کو گھورا،،، جو صرف اور صرف پاپ ناں ملنے کی وجہ سے اب ڈرامہ کر رہی تھی۔
ماما یار میں نے کچھ بھی نہیں کہا اسے ،، اگر آپ کو تسلی نہیں ہو رہی تو میں ابھی سوری کر دیتا ہوں میر سے.......!"
شوخ نظروں سے اسے دیکھتے وہ کہتے ساتھ ہی لب دانتوں تلے دبا گیا۔
میرب جانتی تھی کہ اسکا معافی مانگنا بعد میں اسی پر بھاری پڑنا تھا،
نہیں معافی کیوں مانگنی میں نے ایسے ہی معاف کیا تمھیں_____!"
وہ جھٹ سے مڑتی فراخ دلی سے بولی جس پر تیمور کے لبوں پر جان لیوا مسکراہٹ بکھری ـ
ارے ایسے کیسے معافی مانگے گا تیمور ، چلو معافی مانگو تیمور۔۔۔۔۔۔!"
مسز شیرازی نے اسے گھورتے کہا ۔۔
اوکے ماما ۔۔۔۔ وہ مسکراتے سر کو خم دیتے بولا ۔۔۔۔
نہیں نہیں آنٹی کوئی معافی نہیں لینی مجھے..... ہم چلتے ہیں فنکشن کے لیے دیری ہو رہی ہے۔۔۔۔۔!"
اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پھیلائے وہ صلح جو انداز میں بولی۔۔
جس پر تیمور نے آنکھیں مٹکائی۔۔۔۔۔؛
اوکے اگر تم اتنا منع کر رہی ہو تو میں نہیں مانگتا وگرنہ مجھے معافی مانگنے میں کوئی حرج نہیں......!"
دونوں ہاتھ کھڑے کیے اسنے سارا الزام اسی پر ڈال دیا۔۔۔۔
ہاں ہاں مجھے معافی نہیں چاہیے اوکے آنٹی ہم نکلتے ہیں خیال رکھیے گا اپنا.....!"
وہ جلدی سے کہتی مسز شیرازی کے گلے ملتی فورا سے جگہ سے اٹھ گئی۔۔۔
جس پر تیمور بھی مسکراتا جگہ سے اٹھا تھا۔۔
عیننن........ ٹائی کی ناٹ لگاتے وہ عجلت میں کمرے میں داخل ہوا مگر نظریں جیسے ہی اپنی بیوی پر پڑیں ،،
وہ مبہوت سا رہ گیا الفاظ جیسے منہ سے ختم ہو چکے تھے،
بھوری نگاہوں میں آنچ دیتی تپش تھی، سراہتی نگاہوں سے اس کے دمکتے روپ کو دیکھتا وہ دھیمی چال چلتا ڈریسنگ کے سامنے اسکے پیچھے کھڑا ہوا۔۔
جو ہاتھ میں تھامے چھوٹے سے ائیرنگ کانوں میں ڈالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی،،،
بلیک سلک کی ساڑھی میں اسکا نازک سراپا غیر معمولی حد تک حسین دکھ رہا تھا،،، لبوں پر ڈارک ریڈ لپ اسٹک،، آنکھوں میں گہرہ کاجل لگاے،، بالوں کو ہیڈ شپپ دیتے پیچھے سے جوڑا بنایا گیا تھا۔۔۔۔
آج پہلی بار وہ اس قدر تیار ہوئی تھی اور شاید پہلی بار ویام کاظمی کی بے قرار نگاہیں حد سے تجاوز کرتے کوئی بڑی گستاخی کرنا چاہتی تھیں،،
مے آئی..........!" اسکے کان کے قریب جھکتے بھاری لہجے میں کہتے ویام نے ہاتھ سے ائیرنگ تھام لیا۔۔۔
عیناں کی نازک کمر اسکے سینے سے مس ہو رہی تھی دھڑکنوں کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ وہ اس سے نگاہوں چرا رہی تھی۔۔۔۔
یُو آر لکنگ سو ہاٹ…..........." وائٹ ڈائمنڈ کے وہ نفیس سے ٹاپس جو رافع نے اسے برتھڈے پر گفٹ کیے تھے۔۔۔
اسکے حسن کو چار چاند لگا رہے تھےـ ویام کی آنکھوں میں حرارت ابھری،،،، ہاتھ اسکی نازک کمر کے گرد حمائل کرتے اسنے تھوڑی عیناں کے نازک کاندھے پر ٹکائی،،،،۔گہرہ سانس اس جان لیوا خوشبو میں بھرتے وہ آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔
ووو ویام ہم لیٹ ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔!"
اسکا تنگ پڑتا حصار دیکھ عیناں منمائی مگر حصار توڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ناں جائیں......!"
آنکھیں موندے وہ مخمور سے لہجے میں عجب سی فرمائش کرتا عیناں کو چونکا گیا۔۔
وہ تو آگے ہی اسکی قربت سے گھبرا رہی تھی،، ہتھیلیاں پیسنے سے عرق آلود تھیں،،
اسکے ساتھ گزارے شب و روز کسی حسین خواب کی طرح آنکھوں کے سامنے سرایت کرتے اسے گلال کرنے لگے،،،،
آنکھیں حیا کے بھار سے بوجھل ہوئیں تو رخسار دہکتے انگارہ ہو چلے تھے۔۔۔
ہمارا جانا ضروری ہے ویام مگر ہم جلدی لوٹ آئیں گے ۔۔۔۔۔۔!"
اسکے چہرے پر اداسی دیکھ عیناں نے ہاتھ اسکی گردن میں حمائل کرتے شرمیلی مسکراہٹ سے کہا اور پھر منہ اسکی گردن میں چھپا دیا۔۔۔
تم اپنی اداؤں سے مجھے پاگل کر دو گی عین.......؛" اسکے گرد مضبوط حصار بناتے ویام نے گھمبیر سرگوشی کرتے ہونٹ اسکے کان کی لو پر رکھے ،،
جس پر وہ خود میں سمٹ سی گئی۔۔۔۔۔
پھر دھیرے سے ایک نفیس سا نیکلس اسکی گردن میں ڈالے دہکتے لب اسکی گردن پر رکھے۔۔۔
اسے مت اتارنا کبھی بھی.........." پرتپش نگاہوں سے اس جھلمل کرتے ڈائمنڈ کے خوبصورت سے نیکلس کو دیکھتے ویام نے تنبیہہ کی جس پر عیناں نے مسکراتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔
کون..........؛" دروازہ ناک ہونے کی آواز پر وہ دونوں ہی جیسے ہوش میں لوٹے تھے ۔۔
ویام نے غصے سے کھا جانے والی نگاہوں سے دروازے کو گھورا۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا تیرا باپ ہوں،،،،، غصہ بعد میں ہو لینا ابھی جلدی نکل آ....... بارات پہنچ چکی ہے اور رافع تجھے گالیاں دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔"
وریام کی شرارت سے بھرپور آواز سنتے ہی وہ برے سے منہ بناتے عیناں کو دیکھنے لگا جو بالکل تیار کھڑی اسکی جانب متوجہ تھی۔۔۔
ویام نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالے ہاتھ آگے بڑھایا،،،
جسے وہ مسکراتے تھام گئی۔۔۔۔۔
°°°°°°°°°
یار اپنی بیوی سے کہہ دے کہ پیچھے ہٹ جائے خوامخواہ میرا خون مت جلائے.........؛"
ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہ میرب کو سخت نظروں سے گھورتے پاس کھڑے تیمور کے کان میں غرایا،،
جو ہنستے کندھے آچکا گیا۔ میرب بہنا مجھے آنے دو اپنی بیوی کے پاس پلیز......!"
اسکا التجا کرنا محفل میں دبی دبی سی ہنسی بکھرنے لگی ۔۔۔۔
سرخ لہنگے میں وہ سجی سنوری لبوں پر قفل لگائے آج اذلان کے دل میں اتر رہی تھی اوپر سے متضاد یہ دوری۔۔۔۔ وہ بری طرح سے کھول رہا تھا۔۔۔۔۔
بھیا آپ کو بیٹھنے دیا جائے گا مگر آپ کو نیک دینا ہو گا۔۔۔۔۔۔؛"
میرب نے جلدی سے اپنا مدعا بیان کیا عیناں اور ویام آنے میں لیٹ ہو گئے تھے جس کی وجہ سے میرب اکیلی ہی اذلان سے نمٹ رہی تھی۔۔۔
یار آگے اندر آنے کا لیا تھا اب بیٹھنے کا لے رہی ہو یقین جانو میں ایک مظلوم سا انسپکٹر ہوں جس کی تنخواہ بیس سے تیس ہزار ہے تم نے آگے ہی پچاس ہزار لے لیا۔۔۔۔"
اذلان کا اپنا الگ ہی دکھ تھا وہ جلے بھنے انداز میں خاصا بدمزہ ہوتے بولا۔۔۔
جس پر تیمور اور انزک کا جاندار قہقہ گونجا۔۔۔
فکر مت کر ابھی عیناں کا حصہ بھی نکال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؛"
کندھے پر ہاتھ رکھتے ویام نے اونچی آواز میں کہا تو اذلان کا چہرہ لٹک گیا۔۔۔۔۔
تجھ سے یہ امید نہیں تھا کمینے........!"
ویام کو دیکھتے اذلان نے منہ بناتے کہا ۔۔
یار چِل کر تجھے ہی جلدی مچی ہوئی تھی رخصتی کی ،،، اب جلدی سے پیسے دے ۔۔۔۔ تاکہ ہم اپنی اپنی بیویوں کے پاس جا سکے۔۔۔۔۔؛"
اب کی بار امن نے لقمہ لگایا جس پر سبھی کا جاندار قہقہ گونج اُٹھا۔۔۔۔
آپی....... بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ.........!"
مبہوت نگاہوں سے الایہ کو دیکھتی عیناں چہکتی الایہ کے گلے لگی ،،، جو اسی کا انتطار کر رہی تھی۔۔۔
کہاں تھی تم میں کب سے ویٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔" وہ خفا خفا سی بولی......
آپی سوری آ گئی ناں میں.......!" اپنی بہن کو اس روپ میں دیکھ عیناں بے تحاشا خوش ہوئی تھی ـ
سرخ رنگ میں اسکا دمکتا روپ دیکھ پل بھر میں ہی عیناں کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔۔۔
میری جان اب رونا مت،،، یار رخصتی میری ہے تمہاری نہیں_______؛"
عیناں کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ الایہ نے ہاتھ پر دباؤ دیتے جھکتے کان میں سرگوشی نما آواز میں کہا؛
جس پر خوبصورت سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر بکھر گئی۔۔۔۔
ہاں بھئی پیسے دیں اور اپنی دلہن کے پہلوں میں بیٹھ جائیں،،،،
ہاتھ پھیلائے اب کی بار عیناں نے روعب سے کہا جس پر برے سے منہ بناتے اذلان نے جیب سے پیسے نکالتے عیناں کے ہاتھ پر رکھے،،،
عین________؛" وہ کونے میں کھڑی اپنے ائیرنگز اتار رہی تھی،،
جب ویام نے پیچھے سے حصار میں لیتے بھاری سرگوشی میں پکارا۔۔۔۔۔
جی.......؛" وہ فوراً سے رخ موڑتے اسکے روبرو ہوتے فرمانبرداری سے بولی۔۔۔
جس پر مقابل کے ہونٹوں پر مسکان رینگی_____
کھانا کھایا.......؛" رخصتی میں ابھی وقت تھا وہ کافی دیر سے عیناں کی بجھی بجھی طبیعت نوٹ کر رہا تھا ۔۔
اور اب موقع دیکھ اسکے پاس آیا تھا۔۔۔
نہیں ویام کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کر رہا_____!"
منہ کے زاویے بناتی وہ صاف گوئی سے بولی۔۔
گھر چلیں....... مخروطی انگلیوں کو لبوں سے لگاتے وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔۔
ابھی رخصتی میں وقت ہے ویام_____؛" اسکی بولتی بے باک نگاہوں پر ہاتھ رکھتے وہ گھبرائے ہوئے سے لہجے میں بولی ۔۔
ہممممم ڈونٹ وری میں کہہ دوں گا کہ عین کی طبیعت ٹھیک نہیں______"
آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹاتے اسنے لب اسکی ہتھیلی پر رکھتے کہا۔۔۔
مگر ماما چاہتی ہیں آج میں ان کے پاس رک جاؤں.......؛"
عیناں نے ڈرتے ڈرتے اسے آگاہ کیا مبادا وہ ناراض ناں ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔
آج نہیں تم کل ان کے پاس رک جانا کل مجھے اینجل کو لینے جانا ہے .......؛"
ہاتھ کمر کے گرد حائل کرتے اسنے کھینچتے اسے قریب کیا،،، نگاہیں اسکے حسین چہرے کا بے قراری سے طواف کر رہی تھیں ۔
چلیں.........!" اسنے پوچھا نہیں بتایا تھا اور عیناں جانتی تھی اسے انکار کرنے کا جواز پیش ہی نہیں ہو سکتا،
ویسے بھی وہ الایہ سے مل چکی تھی اب کسی بھی طور اپنے شوہر کو ناراض کرنا بے وقوفی تھی۔۔۔۔۔
°°°°°°°°°°
عیناں کہاں ہے _______؟ رخصتی کا وقت ہو چکا تھا۔ رافع اور انزک نے الایہ کو دونوں اطراف سے تھام رکھا تھا ۔۔
رمشہ نم نگاہوں سے اپنی حور کو دیکھ رہی تھی جو دلہن کے سراپے میں کوئی اُپسرا معلوم ہو رہی تھی ۔۔
اذلان کے چہرے کی چمک ہی نرالی تھی آج اتنے سالوں بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا اس لڑکی کو واپس لانے میں جسے اسنے خود اپنے ہاتھوں سے توڑا تھا۔۔۔
ویام اسے لے گیا ہے تم جانتی ہو اس کی ضد کو...... ویسے بھی ہم سب اگلے ہفتے پاکستان آ رہے ہیں ولیمہ وہی ہو گا ۔۔۔۔تو تم مل لینا عیناں سے.......!"
انزک نے اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسے سرپرائز دیا تھا ۔۔
جس پر وہ واقعی خوش ہوئی تھی۔۔۔
میری جان اللہ تمہیں ہر خوشی عطا کریں جس پر میری جان کا حق ہو۔۔۔۔ ہمشیہ خوش و آباد رہو،،، جانے انجانے میں میں نے بہت نا انصافی کی ہے تمہارے ساتھ،،،،،، ہو سکے تو معاف کر دینا اپنی ماں کو........!"
اسکے گلے ملتے رمشہ نے دکھی دل سے کہا جس پر الایہ کی آنکھیں نم ہوئیں تھی۔۔۔
ماما میں ناراض نہیں ہوں آپ سے،،،، اور عیناں مجھے جس قدر عزیز ہے یہ آپ بھی جانتی ہیں اور آپ کا اسکے لیے پیار نہیں اسے کھونے کا ڈر زیادہ رہا ہے۔۔۔
مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے آپ ایسا مت سوچیں......؛"
انکے آنسوں صاف کرتی وہ جاتے ہوئے بھی انہیں مطمئن کرگئی تھی۔۔۔
رافع نے عقیدت سے اپنی بہادر بیٹی کی پیشانی چومتے اذلان کے ساتھ اپنی دعاؤں میں اسے رخصت کیا۔۔۔۔۔
جو اپنے ماں باپ کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ زندگی کی نئی شروعات کرنے جا رہی تھی۔۔
°°°°°°°°°°
آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے،،،، کھڑکی سے ٹکراتی تیز ہوائیں چھناک سے اندر داخل ہو رہی تھی ۔۔
ایک دم سے تیز ہوا کے باعث کھڑکی کا کھلا حصہ زور دار آواز سے پٹکھا تھا ۔۔۔
جس پر وہ ہڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھی ۔۔۔
دھڑکنیں ایک دم سے اٹھنے سے کافی تیز ہو چکی تھیں.....
عیناں نے سینے پر ہاتھ رکھتے سانس بحال کی۔۔۔۔ نظریں بیڈ پر پڑی تو وہاں جگہ حالی تھی۔۔۔
ایک دم سے آنکھوں میں اداسی چھا گئی ۔۔
ویام بنا اس سے ملے ہی چلا گیا تھا۔۔۔
وہ منہ پھلائے بالوں کو کیچر میں قید کرتے بیڈ سے اتری تو نظر سائیڈ میز پر رکھے نوٹ پر پڑی۔۔۔۔
میں رات تک آ جاؤں گا ،،، میرے آنے تک ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور چیک اپ کروا لینا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔۔۔"
دو لائن کی تحریر میں فکر عیاں تھی۔۔۔عیناں کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے____ رات بھی اسکی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی ۔۔۔
جس وجہ سے ویام کافی پریشان تھا ابھی بھی اینجل کی وجہ سے اسے جانا پڑا تھا مگر وہ پھر بھی اسے وارن کر چکا تھا۔۔۔۔
وریام اور نیناں رات رافع کے گھر پر ہی رکے تھے،،، اور اب وہ پریشان ہوئی تھی کہ میڈیسن لینے کیسے جائے۔۔۔
سب سے پہلے وہ فریش ہوتے دوبارہ سے روم میں آئی۔۔۔۔
گھڑی پر وقت دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے،،، وہ جلدی سے حجاب اوڑھتی روم سے نکلی ،،،
میڈ نے کھانا بنا دیا تھا مگر بوجھل طبیعت کے باعث اسنے صرف جوس کے دو سپ لیے ،،،
اور پھر ڈرائیور کے ہمراہ ہاسپٹل جانے کو نکلی____
ہیلو ماما میں آ رہی ہوں،،، آج ایک ساتھ مووی دیکھیں گے سب.......... "
فدک کے فون اٹھاتے ہی وہ چہکتے ہوئے بولی۔۔جس پر فدک کافی خوش ہوئی تھی۔۔۔بیٹا آ جاؤ ہم سب ویٹ کریں گے۔۔۔۔۔!"
فدک نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر عیناں نے ایک دو بات کے بعد فون کاٹ دیا۔۔۔۔
انکل آپ یہیں رکیں میں آتی ہوں۔۔۔۔۔۔!"
آسمان پر بادل کافی گہرے ہو رہے تھے۔۔۔ جیسے ابھی بارش برسنے والی ہو،،، عیناں نے ڈرائیور کو رکنے کا کہا اور خود ہاسپٹل میں داخل ہو گئی۔۔۔۔
ایکسکیوزمی...........؛ مجھے ڈاکٹر سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔۔"
وہ پہلی بار اکیلی آئی تھی اوپر سے نروس بھی تھی،،، ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی نے ایک نظر اس خوبصورت لڑکی پر ڈالی اور پھر کیبن کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
آئیے مسز کاظمی کم..........!" ڈاکٹر جولی نے اسے اندر آتے دیکھ خوشگواری سے کہا جس پر عیناں چونکی تھی۔۔۔۔
گھبرائیے مت آپ کے ہزبینڈ نے بتایا تھا مجھے۔۔۔۔۔۔ عیناں کی گھبراہٹ دیکھ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر جگہ سے اٹھ گئی۔۔۔
کیا پروبلم ہے آپ کو۔۔۔۔۔!"
اسکے قریب جاتے وہ نرمی سے پوچھنے لگی ۔۔۔ جس پر عیناں نے انہیں اپنی عجیب طبیعت کے بارے میں آگاہ کیا۔۔۔۔
آپ کے کچھ ٹیسٹ کرنا ہونگے مجھے شک ہے کہ آپ پریگننٹ ہیں.......؛"
ڈاکٹر نے کافی سنجیدگی سے اسے سر تا پاؤں دیکھ کر کہا۔۔۔
جس پر عیناں کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔۔۔۔
نو ڈاکٹر ایسا کیسے ہو سکتا ہے......" وہ بے یقینی سے بولی جس پر ڈاکٹر مسکرائی۔۔۔۔
گھبرائیں مت اتنا بڑا مسلئہ نہیں ہے۔۔۔۔مجھے ٹیسٹ کرنے دیں۔۔۔۔۔"
ڈاکٹر نے اسکا گال تھپکتے نرمی سے کہا،، جس پر وہ گھبرائی تھی۔۔۔
مزید کچھ دیر انتظار کے بعد ڈاکٹر اسکے پاس آئی تھی۔۔
مبارک ہو مسز کاظمی آپ سچ میں ماما بننے والی ہیں۔۔۔۔۔!" ٹیسٹ رپورٹ اسکے سامنے کرتے ڈاکٹر نے جاندار مسکراہٹ سے اسے دیکھتے کہا۔۔۔
عیناں کے ہاتھ کپکپانے لگے،،،
اسے سمجھ ناں آیا وہ کیسے ری ایکٹ کرے۔۔۔۔اسنے تیزی سے رپورٹ تھام لی اور پھر بھاگتے ہوئے بنا ڈاکٹر کو دیکھے باہر نکل آئی۔۔۔۔
رپورٹ اسکے ہاتھ میں قید تھی۔۔
وہ تیز تیز سانس لیتی جلدی سے گاڑی میں بیٹھی۔۔
اور پھر بے ہنگم ہوئی دھڑکنوں سے کپکپاتے ہاتھوں سے اس رپورٹ کو کھولا۔۔۔۔
جیسے جیسے اس رپورٹ کو وہ دیکھ رہی تھی آنسوں اس کے چہرے پر گر رہے تھے۔۔۔
وہ بے یقینی سے اپنے آنسوں رگڑتی تو کبھی پیٹ کو ہاتھ سے چھوتی ۔۔۔۔۔۔۔"
کتنا عجیب احساس تھا یہ ۔۔۔۔۔ووو ویام........؛" اسکی برستی آنکھوں کے سامنے وہ شخص پوری طرح سے جگمگا رہا تھا۔۔۔
وہ سب سے پہلے اپنی خوشی اس سے شئیر کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
آنسوں ہاتھ سے صاف کرتے عیناں نے تیزی سے ویام کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔۔
جو آف تھا۔۔۔ عیناں نے پھر سے دوسری مرتبہ نمبر ڈائل کیا مگر کوئی بھی جواب ناں ملنے پر وہ افسردہ سی ہو گئی۔۔۔۔
میں کیسے بتاؤں گی ویام کو........" اسکے گال شرم و حیا سے دہک اٹھے تھے،،، اسکی پر شوق نگاہوں کا سوچتے ہی چہرہ لال انگارہ ہو چکا تھا۔۔۔۔
معا کھڑکی پر ناک ہوا ۔۔۔۔ جس پر عیناں نے چونکتے باہر کی جانب دیکھا جہاں ایک شخص کھڑا تھا۔۔۔۔
عیناں نے شیشہ نیچے کیا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی مقابل نے تیزی سے ہاتھ اسکے منہ پر رکھا ،،، اسکا سانس رکنے لگا تھا۔۔۔۔
وہ بری طرح سے تڑپنے لگی۔۔۔۔ مگر مقابل شخص کا ہاتھ مضبوطی سے اسکے چہرے کو دبوچے ہوے تھا۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھیں بند ہونے لگی۔۔۔۔ گرے کانچ سی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی،،، ہاتھ میں موجود رپورٹ ایک جانب لڑکھتے گر گئی۔۔۔
مقابل کھڑے شخص نے تیزی سے دروازہ کھولا اور اس بے جان وجود کو کندھے پر ڈالے وہ بھاگتا اپنی وین کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
بیٹا ریسٹ کرو تم لوگ بھی کافی رات ہو چکی ہے۔۔۔۔!"
اپنے سامنے صوفے پر براجمان امن اور اذلان کو دیکھتے اشعر نے محبت پاش لہجے میں کہا،، جس پر وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھتے جگہ سے اٹھے اور پھر اپنے ماما اور پاپا کے قریب جاتے گھٹنوں کے بل انکے پاس بیٹھے۔۔۔۔
تھینک یو ٹو بوتھ آف یو۔۔۔۔۔۔۔ آپ دونوں نے ہم دونوں کو بنایا ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ آپ دونوں کا سر کبھی ناں جھکنے دیں ۔۔۔۔۔"
انکے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھے وہ سالوں بعد آج پھر سے ایک آواز ، ایک لہجے میں ایک ہی جیسی آنکھوں میں چمک لیے اپنے ماں باپ کا سر فخر سے بلند کر گئے ۔۔۔
اشعر نے نم نگاہوں سے اپنی ہمسفر کو دیکھا جس کی آنکھوں کے گوشے نم تھے ۔۔۔
پھر دونوں نے جھکتے اپنے متاعِ جاں کی پیشانیوں پر باری باری لب رکھے۔۔۔
ہمیں فخر ہے اپنے بچوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یقین بھی ہے کہ ہمارے بیٹے کبھی ہمارا سر جھکنے نہیں دیں گے۔۔۔۔۔۔۔؛"
اشعر نے نم نگاہوں سے امن کو دیکھتے مضبوط لہجے میں کہا جس پر وہ بے ساختہ ہی مسکرا دیا۔۔۔۔
یار اب جاؤ بچیاں تھک چکی ہونگی۔۔۔ جاؤ تم آرام کرو۔۔۔۔۔۔!"
اشعر نے وقت دیکھا تو صبح کے دو بج رہے تھے،،،،
پاکستان پہنچتے انہیں کافی وقت لگ چکا تھا_____اور اب حیا اور الایہ کو کمرے میں بھیجتے وہ کافی دیر سے اشعر اور رمشہ کے پاس بیٹھے تھے۔۔۔۔۔
اوکے باس اینڈ تھینک یو کہ آپ لوگوں نے میری بات مان لی_____؛'
اذلان نے جلدی سے رمشہ کے گال پر کس کرتے اپنی رخصتی کی خوشی اس پر عیاں کی جس پر اشعر اور امن کا جاندار قہقہ ماحول کو رونق بخش گیا ۔۔
اب بس کر جا، جا کر ریسٹ کر.......؛"
امن نے اسکے کندھے کو تھپکتے کہا جس پر وہ مسکراتا امن کے گال کو کھینچتا تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔۔
°°°°°°°°
وہ کمرے میں آیا تو کمرہ حالی تھا۔۔۔۔۔۔ شرٹ کے بٹن کھولتے وہ سیدھا بیڈ کی جانب بڑھا اور کروٹ کے بل گرنے کے سے انداز میں لیٹا باتھروم کے بند دروازے کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
پانچ منٹ کے بعد وہ فریش ہوتی تھکن زدہ سی بوجھل سے طبیعت سے ، بھاری ہوتی آنکھوں کو کھولنے کی سعی کرتے چہرہ تھپتھپاتے باہر آئی ۔۔
امن نے بھرپور نگاہوں سے اسکے سراپے کا جائزہ لیا۔۔۔۔
ون منتھ پریگنینسی کے بعد بھی حیا کا وجود بالکل پہلے جیسا تھا۔۔۔۔۔ بس چہرے کی رنگت شاید تھکن کے سبب زرد پڑ رہی تھی۔۔۔
گلابی رنگ کے ڈھیلے ڈھالے سوٹ میں بجھی بجھی سی وہ امن کو دل کے بے حد قریب لگی۔۔۔
اسنے ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔۔
جسے حیا نے مسکراتے ہوئے تھام لیا تھا۔۔۔۔ امن نے نرمی سے اسے پاس گرایا اور سر اپنے بازو پر رکھتے اسکے بالوں کی جڑوں کو سہلانے لگا ۔۔۔
پہلے کی نسبت اسکے انداز ، اسکے عمل میں بے حدّ نرمی دھر آئی تھی اور کچھ بے بی کی وجہ سے وہ کافی پوزیسو ہو چکا تھا ۔۔
کیا ہوا.........."
حیا کی جلتی آنکھوں پر انگلیاں رکھتے وہ متفکر سے استفسار کرنے لگا ۔۔
آنکھوں پر مقابل کے ہاتھ کا ٹھنڈا لمس راحت بخش تھا ۔۔۔
وہ دھیمے سے مسکرائی ۔۔۔اور یونہی کروٹ کے بل ہوتے اسکی شہد رنگ جذبات کی آنچ سے لبریز نگاہوں میں اپنے لئے فکر کا جہاں دیکھ ایک سرور سا تھا جو رگ و پے میں سرایت کرنے لگا۔۔۔
کچھ نہیں من ....... بس تھک گئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔؛" نرم نگاہوں سے اسے دیکھتی وہ آخر میں نگاہیں چرا گئی۔۔۔۔ امن نے ہاتھ اسکے سر سے نکالتے تکیہ سر کے نیچے رکھا اور پھر اٹھتے وارڈروب کی جانب بڑھا ۔۔۔۔
حیا الجھن سے اسے دیکھنے لگی ،،، اسکی چوڑی پشت حیا کی طرف تھی جس سے وہ انداذہ نہیں لگا پا رہی تھی۔۔
کہ وہ کیا کر رہا ہے ؟"
نیچے آؤ ۔۔۔۔۔۔۔" کشنز سے جگہ برابر کرتے اسنے ہاتھ تھامے حیا کو نیچے بلایا۔۔۔۔۔
جو فوری طور پر نیچے اتر آئی مگر آنکھوں میں حیرانگی واضح تھی۔۔۔
امن نے کندھوں سے تھامے اسے نرمی سے نیچے بٹھایا اور پھر خود بیڈ پر کونے پر اٹک کر بیٹھ گیا۔۔۔
من کیا کر رہے ہیں آپ.......!" حیا نے حیرت سے سوال کیا۔۔۔۔۔
امن کی حرکتیں اسے عجیب لگ رہی تھیں ۔۔۔
کچھ نہیں کر رہا بس خاموشی سے بیٹھی رہو۔۔۔ دونوں ہتھیلیوں پر تیل نکالتے اسنے سختی سے وارن کیا جس پر حیا خاموش ہو گئی۔۔۔۔
پھر وہ کسی ماہر خاتون کی طرح حیا کے سر کی مالش کرنے لگا ۔۔
اسکی بھاری انگلیاں حیا کے بالوں کی جڑوں کو سہلاتی اسے سکون دے رہی تھیں۔۔۔۔
وہ آگے سے کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔۔
امن کافی دیر تک اسکا سر گھٹنے پر رکھے سہلاتا رہا۔۔۔۔
پھر اسکی بھاری ہوتی سانسوں سے اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ سو چکی ہے۔۔۔۔
ایک جان لیوا مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں کا احاطہ کیا۔۔۔۔
بوتل ایک طرف رکھتے اسنے احتیاط سے اپنی متاعِ حیات کو بانہوں میں بھرا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر نرمی سے اسے بیڈ پر لٹاتے اسکی بند آنکھوں کو عقیدت سے چھوتے وہ خود بھی اسکے قریب نیم دراز ہوا۔۔۔۔۔
میری چھوٹی سی دنیا...... حیا کے ہاتھ کی پشت کو لبوں سے لگاتے وہ گھبیر لہجے میں بولتا نیند کی وادیوں میں گم ہوتا گیا۔۔
°°°°°°°°°
اذلان دروازہ کھولے جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا،، نظریں ڈریسنگ کے سامنے کھڑی الایہ پر پڑیں،،،
جو مصروف سے انداز میں جیولری اتار رہی تھی،،
سرخ رنگ میں دمکتا نازک وجود دوپٹے کی قید سے آزاد خود سے بے گانہ اسکی دھڑکنوں کو منتشر کرنے کو کافی تھا۔۔۔۔
وہ دروازہ لاک کرتے آہستگی سے آگے بڑھا اور ہاتھ پشت پر باندھے وہ بغور اسے دیکھنے لگا جو ماتھے پر سجا مانگ ٹیکا اتارنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔
اسکا انداز بچوں جیسا تھا شاید پہلی مرتبہ ایسی جیولری پہننے کے سبب اب وہ کافی ڈسٹرب ہو رہی تھی۔۔۔
دیکھ کیا رہے ہو ہیلپ کرو میری.........!" اپنی پشت پر کھڑے اذلان کو دیکھتی وہ اکتاہٹ سے بولی،،
جس پر سر کو ہلکی سی جنبش دیتے اذلان آگے بڑھا اور کندھوں سے تھامے الایہ کا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔
پھر نرمی سے مانگ ٹیکے کی پنوں کو نکالتے وہ بے حد آرام سے مانگ ٹیکا اتارتے ڈریسنگ مرد پر رکھتے ہونٹ الایہ کی پیشانی پر رکھ گیا ۔۔۔
جو اسکی موجودگی سے کافی گھبرانے لگی تھی،،، نظریں حیا کے بوجھ سے بھاری ہونے لگیں۔۔۔۔۔۔ اب کی بار اذلان نے نتھ اسکے ناک سے نکالتے ہونٹ اسکی چھوٹی سی ناک پر رکھے،،، ماحول میں بڑھتا فسوں الایہ کو اپنا پورا وجود جھلستا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔۔
قق قالو________!" اپنی تھوڑی پر اسکی انگلیوں کا نرم لمس محسوس کرتی وہ ہلکا سا منمنائی،،،،،
جی جانِ قالو______!" خمار آلود بھاری آواز میں کہتے اسنے گھیرا تنگ کرتے اسے حصار میں بھر لیا۔۔۔
جس کا دل بے تحاشا تیز دھڑک رہا تھا_______
ممم مجھے نیند آئی ہے....... اپنے سرخ اناری ہوا چہرہ اسکے سینے میں چھپائے میں مدہم سی آواز میں بڑبڑائی۔۔۔
جس پر مقابل کے لبوں پر دلنشیں سی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔
آج کا دن میری زندگی کا سب سے یادگار دن رہے گا ماہی______ آج کے دن میری اس بے رونق سی ادھوری سی زندگی میں میری زندگی کی آمد ہوئی ہے۔۔۔۔۔
جس نے میری ویران سی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا ہے یہ اذلان علوی کا وعدہ رہا کہ اب سے وہ ایسی الفت نبھائے گا کہ تم ناز کرو گی اپنے قالو کی الفت پر______!"
اذلان نے کہتے ساتھ ہی اسے بانہوں میں بھرا تھا۔۔۔
جسکے چہرے پر متسبم سی مسکراہٹ تھی ۔
سر اسکے سینے سے ٹکائے وہ پرسکون سی آنکھیں موند گئی ۔۔۔
آنے والی خوبصورت زندگی اسکی منتظر تھی،،، ایک طویل عرصے کے درد تکالیف سہنے کے بعد وہ نازک سی لڑکی اب اس قدر نکھر چکی تھی کہ اسے پانے والا وہی شخص آج اسکے ساتھ پر نازاں تھا۔۔۔۔
وہ خوش تھی کہ اس کے رب نے اسے صحیح راہ پر چلنے کی توفیق دی تھی۔۔۔
آج وہ ایک عزت دار زندگی گزار کر اپنی ازدواجی زندگی میں قدم رکھ چکی تھی ۔۔۔
جہاں آنگن پر کھڑی ڈھیروں خوشیاں اسکی منتظر تھیں۔۔۔
@@@@@@@@@@
عععع عالیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی مندی مندی سے خوفزدہ آواز پر ایل نے ہاتھ میں موجود اس کے نازک ہاتھ کو مضبوطی سے دبوچ لیا،
ایک نظر خود سے چپکی اس نازک جان پر ڈالے اسنے سامنے شاہ مینشن کی جانب دیکھا۔۔۔۔
آج نہیں تو کل اسے وعدے کے مطابق یہاں واپس آنا تھا۔۔
اور اب تو اسکی سن شائن اسکے ساتھ تھی پھِر جو گناہ اس سے ہو چکا تھا وہ اس کی سزا میں اسے اپنوں سے دور نہیں رکھ سکتا تھا۔۔
حور نے نم نگاہوں سے اس ستمگر کو دیکھا جو اپنی الفت کا جال اسکے چاروں اطراف بچھائے اب اسے اپنی محبت کا پابند کرتا پھر سے چھوڑنے چلا آیا تھا۔۔
آئی ہیٹ یُو________" اسنے رندھی آواز میں اسے مخاطب کیا جو قدم آگے بڑھانے والا تھا ۔
مقصد صرف اپنا غصہ نکالنا تھا۔۔
ایل کے ہونٹوں پر جان لیوا مسکراہٹ بکھری ۔۔۔
بٹ آئی سٹل لو یو مور دھین اینی تھنگ________!"
اسکی نم نگاہوں میں دیکھتے وہ پر شدت لہجے میں کہتا ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتا آگے بڑھا۔۔۔۔
ڈیڈ_________!" وریام جو صوفے پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا،،، حور کی آواز پر چونکتے ایک دم سے مڑا ،،
تو دروازے پر کھڑی اپنی پرنسز کو دیکھ وہ حیرت زدہ سا اٹھا۔۔۔۔
حور بھاگتی اسکے سینے سے جا لگی،، جبکہ دوسری طرف وہ وہم و گماں کی کیفیت میں گھرا ماتھے پر بل ڈالے ساکت سا کھڑا تھا۔
نیناں جیسے ہی کافی کا مگ تھامے کچن سے باہر آئی تو حور تو دیکھ بے یقینی سے مگ اسکے ہاتھ سے گر گیا۔۔۔۔
وہ دھڑکتے دل سے بے جان سی نم آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھے گئی جو باپ کے سینے سے لگی ،، بے تحاشہ رو رہی تھی۔۔
حور میری جان........…....!" نیناں نے ممتا سے لبریز بے قرار لہجے میں اسے پکارا جو باپ کے سینے سے لگی خود سے بھی بیگانہ ہو چکی تھی۔۔
ایل ساکت سا دروازے کے بیچ نظریں جھکائے کھڑا تھا۔۔
وہ جانتا تھا اب آگے کا سفر بہت کٹھن ہونے والا تھا شاید اسے دور کر دیا جائے اسکی سن شائن سے مگر وہ اس بار کوئی غلط راہ نہیں چننے والا تھا۔
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؛" حور جونہی نیناں کے سینے سے لگی وریام کی نگاہیں دروازے کے بیچ کھڑے ایل پر پڑیں۔۔۔
وہ حیرت زدہ سا اسے دیکھ استفسار کرنے لگا۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ حور کے ساتھ خود بھی سب کے سامنے آئے گا۔۔۔۔
انکل اپنا کہا پورا کر دیا میں نے_______ اب آپ سب جو مرضی سزا دے دیں ۔۔۔"
نگاہیں جھکائے وہ جھکے کندھوں سے اسکے سامنے کھڑا گویا ہوا۔۔۔
حور نے دھڑکتے دل سے خوفزدہ سا ہوتے اپنے ڈیڈ کے چہرے پر آئے سرد تاثرات کو نوٹ کیا۔۔۔ جو شاید زندگی میں پہلی بار اس قدر سنجیدہ دکھ رہا تھا۔۔
وریام چلتے اسکے نزدیک گیا جو ڈھلے کاندھوں سے بے بس سا کھڑا تھا۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
ڈیڈ۔۔۔۔۔ پلیز عالیان کو کچھ مت کہیں.......!" وریام کا بھاری ہاتھ ایل کے چہرے پر نشان چھوڑ چکا تھا۔۔۔
جس پر وہ تڑپتی بھاگتے اپنے ڈیڈ کے پاس آتی بے بسی سے التجائی لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔
ایل کے ساتھ ساتھ وریام اور نیناں بھی اسکے ردعمل پر چونکے تھے۔۔۔
وہ معصوم اپنے ہی گناہگار کی تکلیف پر خود تکلیف دہ ہو رہی تھی۔۔
سن شائن رو مت میں ٹھیک ہوں........." اسے یوں روتا دیکھ و بےقراری سے بولا جس پر حور نے ضبط سے جبڑے بھینچے اس ستمگر کو خفا نظروں سے گھورا۔۔۔۔
نکلو میرے گھر سے۔۔۔۔۔۔۔؛" اس سے پہلے کہ وریام کوئی تاثر دیتا پیچھے سے آتے ویام نے ایک جھٹکے میں اسکے گریبان کو تھامے سپاٹ لہجے میں غراتے ہوئے کہا۔۔۔
اور پھر اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانے لگا۔۔۔۔
ببب بھائی پپپ پلیز ببب بھائی ننننن......."
ویام رکو ویام کیا کر رہے ہو......" حور، وریام نیناں سبھی ہکا بکا سے اسکے پیچھے لپکے تھے۔۔
جو ایل کو دیکھتے ہی غصے سے بپھر گیا تھا۔۔ ببب بھائی۔۔۔۔۔۔۔؛"
چپ ایک دم چپ آواز نہیں آئے کسی کی۔۔۔۔۔!"
بتا کہاں ہیں میری عین_____________٬" غصے سے وخشت ناک انداز میں دھاڑتا وہ اس وقت کوئی پاگل دکھ رہا تھا۔
جبکہ ویام کے عجیب سے سوال پر ایل سمیت سبھی حیران ہوئے تھے ۔۔
کیا کہہ رہے ہو تم ویام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈول تو تمہارے پاس تھی۔۔۔۔۔؛" ایل نے حیرت سے ناک سے بہتے خون کو انگوٹھے سے رگڑتے کہا۔۔۔
بے چینی حد سے سوا تھی۔۔۔
مجھے پاگل بنائے گا تُو____ تجھے لگتا ہے کہ میں انجان تھا تیری کالی کرتوتوں سے،،، نہیں سب جان گیا تھا میں ،، مگر اپنے ڈیڈ کے کہنے پر چپ رہا۔۔۔۔۔۔"
اور تجھے کیا لگا کہ تُو حور کو واپس لائے گا سب کے سامنے اچھا بن جائے اور مجھ سے میری عین کو چھین لے گا تو مجھے خبر تک نہیں ہوگی۔؟۔۔"
نفرت چھلکاتی نگاہوں سے ایل کو سر تا پیر گھورتے وہ بپھرے سے انداز میں دھاڑا تھا۔۔۔
بکھرا حلیہ ،، سرخ رنگ آنکھیں اسکے اندرونی تباہ کُن کیفیت کی غمازی تھی ۔۔۔
میں سچ بول رہا ہوں ویام...... مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز یقین کرو میرا ۔۔۔۔۔۔؛"
ایل نے بےبسی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا جو کچھ بھی سننے کو تیار ناں تھا۔
ویام بتاؤ تو ہوا کیا ہے تم یوں پاگلوں کی طرح ری ایکٹ کر رہے ہو ..... عیناں کہاں ہے۔۔۔۔۔۔؟"
وریام نے آگے بڑھتے ایل کو اس سے دور کیا اور بے چینی سے اس سے سوال گو ہوا۔۔۔۔
ڈیڈ عین ہاسپٹل گئی تھی مگر اب اسکی لوکیشن نہیں مل رہی وہ کہیں بھی نہیں ۔۔۔۔ یہ ضرور اس آدمی کا کام ہے اسے چھوڑوں گا نہیں میں۔۔۔۔۔!"
ویام غراتے ہوئے بولتا اسکی طرف لپکا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وریام نے اسے تھام لیا تھا۔۔۔۔
ایل.........!"
ڈینی کی پریشان کن آواز پر وہاں موجود وہ سبھی اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے جو ہانپتا ہوا اندر آیا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے ڈینی سب کچھ ٹھیک تو ہے.........؟"
ایل تیزی سے اسکی طرف لپکتے استفسار کرنے لگا جس پر ڈینی نے سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔
لیلی میڈم نے عیناں کو کڈنیپ کروا لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات مجھے ابھی پتہ چلی ہے اور وہ اسے کسی شخص کے آگے بیچنے والی ہیں.......!
ڈینی کے بتائے سچ پر وہاں موجود ہر شخص کا چہرہ فق پڑ گیا ۔۔۔
ویام کی آنکھوں کے سامنے لیلی کا سراپا لہرایا اسنے غصے سے جبڑے بھینچتے اپنے اشتعال پر ضبط کیا ۔۔۔۔
رکو ویام مجھے بھی ساتھ لے چلو.........؛" اسے باہر جاتا دیکھ ایل نے بے قراری سے کہا تھا ۔۔۔۔
مگر وہ بھپرا شیر کھا جانے والی نگاہوں سے اسے دیکھتا باہر بڑھ گیا ۔۔۔
تم جاؤ ایل اسکے پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا اپنی ماں کو تم جانتے ہو کوئی نہیں جان سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاں مجھے میری بیٹی سہی سلامت چاہیے..........!"
وریام نے اسے دیکھتے تنبیہی لہجے میں کہا جس پر وہ ایک نظر حور پر ڈالتا تیزی سے ویام کے پیچھے بھاگا تھا۔۔
@@@@@@@@@@@
صوفے پر براجمان وہ کب سے نگاہیں ایک ہی زاویے پر گاڑھے اسے گھور رہے تھے،،، جس کے بے ہوش وجود میں ہلکی سے جنبش ہوتی دیکھ مائیکل کی سیاہ آنکھیں چمک اٹھی ۔۔۔
لیلی نے ہاتھ میں تھاما مشروب کا گلاس ایک ادا سے جھکتے میز پر رکھا۔۔۔۔
اور پھر ایک دم سے جگہ سے اٹھتی وہ بیڈ کی جانب بڑھی۔۔۔۔
ایک گھٹنہ بیڈ پر رکھتی وہ بغور ہوش و خرد سے بےگانہ اس حسین دوشیزہ پر جھکتی سایہ سا کر گئی۔۔۔۔
سر میں ہوتی عجیب سے درد اور بھاری پن کو محسوس کرتی وہ بمشکل سے آنکھیں کھول پائی مگر جیسے ہی نگاہیں خود پر جھکی کسی انجان لڑکی پر پڑیں وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔
کک کون ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔اور میں ییی یہاں کیسے.......؟"
بڑی بڑی آنکھوں میں خوف سموئے وہ ہاتھوں کے بل سرکتی کراؤن سے لگتی خوفزدہ سی بولی۔۔۔۔
جس پر مائیکل اور لیلی ایک دوسرے کو دیکھ مسکرائے۔۔۔۔
ویسے جس قدر تم حسین ہو اسی طرح تمہاری آواز بھی حسین ہے افف میٹھی بالکل شہد جیسی...........!"
مائیکل بے باک نگاہوں سے اسکے سراپے کو جانچتا بے ہودگی سے کہتا بیڈ کی طرف آیا ۔۔۔
اس شخص کی نگاہیں عیناں کو کراہت بھری لگیں ۔۔۔۔وہ غیر متوقع طور پر خود کو کمفرٹر میں لپیٹنے لگی ۔۔
جس پر لیلی کا قہقہ کمرے کے ماحول کی خاموشی کو توڑ گیا۔۔۔
جانتی ہو میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔؟" اسکے سنہری دراز بالوں کو انگلی پر لپیٹتے وہ گہرے رازدارانہ انداز سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
گرے کانچ سی آنکھوں میں خوف کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔۔۔
دل کسی انجانے خوف سے لرز رہا تھا اس عجیب سے ماحول میں اسے وحشت ہو رہی تھی۔۔۔
اسنے بے بسی سے ویام کو دل ہی دل میں پکارا جو اسے ہر مصیبت سے بچا لیتا تھا۔۔۔
تمہاری ماں ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔لیلی۔۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو جب تم ہوئی ناں تو میں نے تمہیں بیچ دیا تھا مجھے لگا جان چھوٹ جائے گی، تمہارے باپ سے جھوٹ بولا کہ مری ہوئی بیٹی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
ارے ارے رو کیوں رہی ہو ڈارلنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھا یقین نہیں ہو رہا ناں کہ اتنی جوان لڑکی کی بیٹی ہو تم.......!" عیناں کو روتا دیکھ وہ بالوں کو ایک ادا سے جھٹکتے آنکھ دبائے بولی۔۔
جبکہ عیناں کا سانس بند ہونے لگا تھا۔۔۔
اس عورت کے الفاظ۔۔۔۔۔۔اسکی نظریں سب کچھ عجیب تھا۔۔۔۔
اوہو ڈارلنگ رو مت یار۔۔۔۔۔۔۔قسم سے اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ تم اتنی قاتل حسینہ نکلو گی تو تمہیں بیچنے کی بجائے اپنے پاس رکھ لیتی ۔۔۔۔۔۔ ویسے اب بھی کہاں دیر ہوئی ہے۔۔۔۔۔ تمہارے چاہنے والے اب بھی بہت ہیں۔۔۔۔۔۔!"
اپنی بات کہتی وہ گردن موڑے مائیکل کو دیکھتی بے باکی سے ہنسنے لگی ۔۔۔
جبکہ عیناں کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا ،، خوف سے آنکھیں سیاہ پڑنے لگی ۔۔۔۔۔
اسنے خوفزدہ ہوتے اس شخص کو گھورا جو عجیب نگاہیں اسکے سراپے پر گاڑھے کھڑا تھا۔۔۔۔
ددد دیکھیں مممم میں نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا ممم مجھے جج جانے دیں پپپ پلیز......."
ہاتھ کی پشت سے آنسوں رگڑتی وہ رندھے ہوئے لہجے میں بےبسی سے گویا ہوئی۔۔
۔
جس پر لیلی نے افسوس سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
جانتی ہو تمہارا وہ بھائی ایل ______ کتنا پالتو بنایا تھا میں نے اسے۔۔۔۔۔۔۔ صرف اس لیے کہ وہ اس وریام کاظمی کی بیٹی کو نوچے گا میرا بدلہ لے گا مگر وہ۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی کسی کام کا نہیں نکلا۔۔۔
الٹا میرے سارے دھندے بند ہو گئے اس ناکارہ شخص کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب ۔۔۔ اب میں اپنا بدلہ وریام کاظمی کی بہو سے لوں گی۔۔۔۔۔۔!"
گھبراؤ نہیں....... مائیکل کافی اچھے سے تمہارا خیال رکھے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنی جلدی تمہیں چھوڑے گا بھی نہیں..........! تم اچھے سے انجوائے کرنا اس کے ساتھ.........!"
مائیکل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتی وہ بڑے آرام دہ انداز سے اسے اپنا پلان بتا رہی تھی ۔۔۔
جبکہ اسکی بات سنتی عیناں کا چہرہ تاریک سا پڑ گیا۔۔۔۔
لب بے یقینی سے پھڑپھڑانے لگے،،، یہ عورت بھلا کیسے اس کی ماں ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔
ددد دیکھیں پپ پلیز مجھے ججج جانے دیں مممم میں ماں بننے والی ہوں آپ پلیز مجھے ججج جانے دیں_______؛"
عیناں نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ لیلی کے سامنے جوڑ دیے۔۔۔۔
جس کے چہرے پر یہ بات سنتے ہی حیرانگی کے تاثرات ابھرے تھے ۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ لیلی......!" مائیکل اسکے ماں بننے کی خبر سنتے ہی بپھر گیا تھا،،،
اسنے غصے سے لیلی کو دیکھ چلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔
تم ری لیکس رہو مائیکل میں اس بچے کا کھیل ختم کر دوں گی______؛" لبوں پر زبان پھیرتی وہ اسے سکون کرنے کا کہنے لگی ۔۔۔۔۔
جو اس وقت کوئی پاگل بھپرا ہوا شخص معلوم ہو رہا تھا۔۔۔۔
کل تک کا وقت ہے تمہارے پاس .......یہ لڑکی مجھے میرے بستر پر چاہیے کسی کا بچہ نہیں چاہیے وگرنہ اپنے انجام سے تم واقف ہو..........؛"
وائن کا گلاس دیوار پر مارتے وہ جس قدر بے باک لہجے میں بولا تھا عیناں کا چہرہ خوف سے سیاہ پڑ گیا۔۔۔۔
اسنے بے بسی سے اپنے اللہ کو پکارا۔۔۔۔۔۔ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتی وہ غیر محسوس انداز میں پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔
خوف اسکی انگ انگ سے عیاں تھا۔۔۔۔۔
دروازہ دھاڑ سے بند کرتا مائیکل وہاں سے نکلا تھا۔۔۔۔
جبکہ لیلی اب نفرت سے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔
دن سے اسکے ہوش میں آنے کا انتظار کیا تھا اور اب جب وہ ہوش میں آئی بھی تو کیسی منحوس خبر سنائی تھی۔۔۔
عیناں لیلی کو اکیلا دیکھ بیڈ کی دوسری طرف سے اتری اور اندھا دھند دروازے کی طرف لپکی ۔۔۔۔۔۔
مگر لیلی نے بیچ میں ہی اسکے پیٹ کے گرد ہاتھ باندھتے اسے بے دردی سے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔
جو کسی بے جان سی گڑیا کی طرح اسکی طرف ڈھلک آئی تھی ۔۔
یہ بچہ سارے فساد کی جڑ ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گی ۔۔۔۔۔!"
عیناں کی آنکھوں میں دیکھتی وہ پاگلوں کی طرح بولی ،،،،،
عیناں نے خوف سے گردن نفی میں ہلائی تھی۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے بچاؤ میں کچھ کر پاتی ،،،، لیلی نے تیز دھار چاقو اسکے پیٹ میں مارا تھا۔۔۔۔۔
عیناں درد سے چیختی پیٹ سے ابلتے خون کو دیکھتی ایک دم سے پیچھے فرش کی طرف گری تھی ۔۔۔۔۔
اس کا وجود خون سے لت پت ہو چکا تھا،،، مگر وہ بار بار غصے سے اسکے پیٹ پر ضربیں لگا رہی تھی۔۔۔۔
نفرت اور غصے نے جیسے اسے آج مکمل طور پر پاگل کر دیا تھا،،،
وہ یہ تک نہیں سمجھ سکی کہ جس لڑکی پر وہ یہ ستم کر رہی تھی وہ اسکا اپنا خون تھی اسکی اپنی اولاد......؛"
نفرت کا ناگ اسکے سر پر بری طرح سے منڈلاتا سوچوں کو معاوف کر چکا تھا۔۔۔۔
اندھیرے کمرے میں صرف ایک سرخ روشنی جل رہی تھی،،
سامنے میز پر پڑا کافی کا مگ ٹھنڈا ہو چکا تھا،،،،
کمرے کے خاموش ماحول میں اس بے جان وجود کی تھمتی سانسوں کی آواز اب تھم رہی تھی۔۔
جیسے زندگی ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسل رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔؛"
گرے کانچ سی آنکھوں میں چند سنہری پل لہرا رہے تھے۔۔۔
جن میں وہ بھوری آنکھوں والا شہزادہ اسے برے لڑکوں سے بچا رہا تھا۔۔۔
اسکا راتوں کو چھپ چھپ کر آنا ،،، اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانا،،،، پھر اسکا برف میں آخری سانس بھرنا،،، جہاں وہ پاگل دیوانہ اسے ڈھونڈتا نڈھال سا اسے موت سے چھین لایا تھا۔۔۔۔
مگر کاش کہ وہ تب ہی مر جاتی تو آج اس دوہری اذیت ناک موت کا سامنا ناں کرنا پڑتا....."
خون کی لیکر اسکے منہ سے نکلتی گردن تک بہہ رہی تھی۔۔۔۔
دونوں ہاتھ بے جان ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔ بھوڑی متفکر نگاہیں دروازے پر آس لگائے کھڑی اسکی منتظر تھیں۔۔۔۔
مگر وہ دور جا رہی تھی بہت دور ......"
پھر وہ عورت اسے روتے ہوئے پکار رہی تھی۔۔۔۔دھنلا سا عکس واضع ہوتا جا رہا تھا ،،،،
وہ پہچان چکی تھی اس کو۔۔۔۔۔۔۔ اپنی پالنے والی ماں کو...... جس نے اپنی سگی اولاد سے زیادہ اسے چاہا تھا ۔۔۔۔۔
زمین پر تڑپتی اس معصوم کے لب تھوڑے سے ہلے ،،،
خشک لب سرد پڑ چکے تھے،،،، وہ ماما کہنا چاہ رہی تھی، انہیں پکارنا چاہ رہی تھی،،،،، مگر سانسوں نے مہلت چھین لی تھی جیسے۔۔۔۔ سرخ انگارہ نگاہیں بند ہونے لگی.... اور پھر ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا گہرہ سکوت موت سا گہرہ......!"
کہانیوں کی شہزادیوں ہجیسی ہے
اک عام لہجے کی لڑکی فلسفے جیسی ہے
دلوں میں اتر جاتی ہے اپنی شرارتوں سے
وہ پگلی دیوانی محبتوں جیسی ہے
وہ اندھا دھند پاگلوں کی طرح اسے مارتی بری طرح سے ہانپ چکی تھی،،ایک دم سے عیناں کے وجود میں کوئی بھی جنبش ناں ہوتی دیکھ وہ گہرے سانس بھرتی ایک پل کو رکی__
خون سے لت پت وہ بے جان سی مردہ حالت میں پڑی خود پر بیتی ایک منہ بولتی قیامت کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔
کیا یہ مر گئی ،،، چہرے پر آئے پسینے کو کہنی سے صاف کرتی وہ خود سے بڑبڑاتے گھٹنوں کے بل جھکتے عیناں کا سانس چیک کرنے لگی۔۔۔
مگر اس سے پہلے کہ وہ اسے چھوتی کسی نے بے دردی سے اسے جھٹکے سے پیچھے کھینچا اور اسکے سنبھلنے سے پہلے ہی ایک زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر رسید کیا۔۔۔۔۔۔۔
لیلی جھٹکے سے منہ کے بل پیچھے کو گری۔۔۔۔۔
مقابل خون آشام نگاہوں سے اسے نفرت سے گھورتے ایک دم سے عیناں کی طرف لپکا۔۔۔
لیلی نے چکراتے سر پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کی،،،،
مگر اسکے سر پر گن رکھتے ایل نے اسکی کوشش ناکام بنائی تھی۔۔۔
عین۔۔۔۔۔۔۔ جاناں عین۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی اٹھو دیکھو تمہارا ویام آ گیا ہے پلیز آنکھیں کھولو عین۔۔۔۔۔۔!"
اس نازک سی جان کو خود میں سمیٹتے ویام پاگلوں کے جیسے اسے پکارنے لگا۔۔۔۔
جس کا پورا وجود خون سے لت پت بے ہوش تھا۔۔۔۔
اپنی زندگی کو اس حالت میں دیکھ ویام کو لگا جیسے کسی نے اسکے جسم سے روح کھینچتے نکال لی ہو،،،
پیٹ سے ابلتے خون کو دیکھ اسنے جلدی سے ہاتھ اسکے پیٹ پر رکھتے خون کے بہاؤ کو روکنا چاہا تھا۔۔۔۔۔
تم تو نفرت کی قابل بھی نہیں ہو کم ظرف بدکردار عورت۔۔۔۔۔۔۔ مجھے شرم آتی ہے تم جیسی عورت نے مجھے جنم دیا ہے__________؛"
عیناں کی تباہ کن حالت کو دیکھ ایل آپے سے باہر ہوتے غصے سے اونچی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔
باس یہ ہے وہ شخص______" ڈینی مائیکل کو گریبان سے دبوچے انکے سامنے لایا۔۔۔۔
ویام نے سرخ لہو رنگ آنکھوں سے اس شخص کو گھورا۔۔۔۔۔۔۔
ایل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؛" ویام کے پکارنے پر وہ اسکی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
میری زندگی اب تمہاری امانت ہے یاد رہے اس کی سانسوں کی ڈور مجھ سے جڑی ہے میں نے خود سے زیادہ اسکی خفاظت کی ہے بہت یقین سے اسے سونپ رہا ہوں میری عین کو بچا لو________؛"
اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ جذبات سے چور نڈھال سے لہجے میں بولا ۔۔۔
ایل نے جھکتے اپنی ڈول کو بانہوں میں بھرا۔۔۔۔۔ جس کی حالت دیکھ وہ خود بھی بے تاب ہو چکا تھا۔۔۔
تم فکر مت کرو ۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری عین کو کچھ نہیں ہونے دوں گا یہ ایک بھائی کا وعدہ رہا۔۔۔۔۔۔؛"
ایل نے ایک نظر اس ٹوٹے ہوئے شخص پر ڈالے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔۔۔
جس پر ویام نے سر کو ہلکی سی جنبش دی۔۔۔
اس کے بعد ایل تیزی سے کمرے سے نکلا تھا۔۔۔
ویام نے اپنے چہرے پر بہتے آنسوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑا۔۔۔۔
اور بے تاثر چہرے سے قریب پڑے خون آلود چاقو کو ہاتھ میں پکڑا۔۔۔۔۔۔
اور پھر چلتا ڈینی کے قریب آیا۔۔۔۔۔
تمہیں لگتا ہے کہ تم لوگ میری عین کو کچھ برا کرو گے اور میں تم لوگوں کو آسانی سے چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔"
وخشت ناک نگاہوں سے لیلی اور مائیکل کو گھورتے وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے غصے سے غرایا تھا۔۔۔
لیلی خاموش نگاہوں سے اسے گھور رہی تھی۔۔۔ وہ اسے دیکھتے ہی پہچان چکی تھی۔۔
ہوٹل میں ہوئی ملاقات اسے یاد تھی،،، مگر اب وہ جان چکی تھی کہ وہ لڑکا اسے وریام کاظمی جیسا کیوں لگا تھا ۔۔۔
تیری اتنی اوقات ہے کہ تُو اپنی ان گندی نگاہوں سے میری عین کو دیکھے گا۔۔۔۔۔۔"
وہ چلتا مائیکل کے روبرو ہوا اور چاقو اسکی آنکھوں کے قریب کرتے وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے چباتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
ننننن نہیں ممم میں نے کککک کچھ بھی ننن نہیں کیا یییی سب اسس للل نے کیا ہے تتت تم مجھے چھوڑ دو،،،،،،؛"
مائیکل ویام کو اپنی طرف آتا دیکھ وخشت زدہ سے لہجے میں گڑگڑانے لگا وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکے گارڈز کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔
وہ بری طرح سے اس شخص کے پنجے میں جکڑ چکا تھا۔۔
اشششششششش........ آواز نہیں..... تُو نے عین کو چھوا ہے۔۔۔۔۔۔۔"
چاقو کی نوک سے پیشانی کو رگڑتے وہ سرسراتے سے لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
مائیکل حواس باختگی سے سر مسلسل نفی میں ہلانے لگا اس وقت ویام اسے پاگل لگ رہا تھا جو اپنے حواس میں نہیں تھا۔۔۔۔
ننننن۔ نہیں ممممم میں نننن ........." گڈ اسی لیے تیری موت آسان ہو گئی"
چاقو نیچے کرتے اسنے دوسرے ہاتھ سے بیلٹ میں لگی لوڈڈ گن نکالتے اسکے ماتھے کے بیچ نشانہ باندھا ۔۔۔
مائیکل پسینے سے شرابور موت کو آنکھوں کے سامنے دیکھ خوفزدہ سا ہو گیا ۔۔
چہرے پر تاریک سا سایہ لہرایا_____
ویام نے گن آسکے ماتھے کے بیچ رکھتے ایک ساتھ جانے کتنے فائر کیے ۔۔۔۔۔
خون اسکی پیشانی سے ابلتا نیچے بیٹھی لیلی کے چہرے پر نشان چھوڑنے لگا۔۔۔۔
لیلی خوفزدہ سی مائیکل کو دیکھنے لگی جس کی آنکھیں باہر کو ابلی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ اسے اپنے گرد پھندا کستا ہوا محسوس ہونے لگا۔۔۔
وہ تھوک نگلتے بھاگنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنے لگی۔۔۔۔۔
ویام نے چہرے پر گری خون کی چھینٹوں کو کوٹ سے رگڑا اور پھر پاس پڑا صوفہ گھسیٹتے وہ لیلی کے قدموں میں اسکے قریب بیٹھا ۔۔۔۔
لیلی جو بیٹھی بیٹھی بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی اب اپنے سامنے اسے یوں سپاٹ چہرے سے براجمان دیکھ اسکا سانس خشک ہونے لگا۔۔۔۔
وہ پیچھے کو بھاگی مگر وہاں مائیکل کی لاش اسے مزید خوفزدہ کرنے لگی۔۔۔
اشششششش خاموشی سے بیٹھی رہو....... جانتی ہو تمہاری بیٹی کیا نام تھا اسکا ۔۔۔۔۔؟ ہاں زویا…......... جسے تم نے دنیا سے چھپا کر رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد ہے ناں لیلی....... تمہارے دوسرے شوہر سے ہوئی وہ بیٹی جس کا حسن تمہارے دل کو للچا گیا تھا ۔۔۔۔۔ جس کے بعد تم نے اسے سولہ سال کی عمر تک دنیا سے چھپا کر پالا اور پھر اسے امریکہ کے ڈان کے بیٹے کو بھاری معاوضے پر بیچ دیا۔۔۔۔۔"
ویام کی بات سنتے لیلی کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ لہرایا وہ خوفزدہ سی اپنے خشک پڑے ہونٹوں پر زبان پھیرتی غرائی ،،،
ججج جھوٹ ممم میری کوئی بیٹی نہیں _________؛" اسکی بات کاٹتے وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگی ۔۔۔
اششششش........ نہیں آ رہا یاد ارے وہی بیٹی،، جس کے بھاگ کر شادی کر لینے پر تم نے بے دردی سے اپنے ہی ہاتھوں سے اسکے شوہر اور اسے موت کی گھاٹ اتارا تھا،،، مگر افسوس اسکی تین سالہ معصوم بچی جس نے اپنی آنکھوں سے اپنے ماں باپ کو مرتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
وہ بچ گئی،،، کیونکہ تم نہیں جانتی تھی کہ زویا کی ایک تین سالہ بیٹی بھی ہے ورنہ تم اسے بھی یونہی بے دردی سے مار دیتی______؛"
نفرت سے اسے دیکھتا وہ سرد لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے غصے سے چیخا۔۔۔۔
ننننن نننن_______"
میں وریام کاظمی نہیں ،، جو غلطیوں کے باوجود بھی آسانی سے معاف کر دے ،میں ویام کاظمی ہوں اپنی فیملی کی طرف اٹھتی ہر گندی نظر کو میں جڑ سے اکھاڑ دیتا ہوں ۔۔۔۔
جیسے کہ اب تم________؛" ہاتھ سے لیلی کی گردن کو دبوچے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھامے چاقو کو اسکے گال پر پھیرتے سرسراتے ہوئے سے لہجے میں کہا۔۔۔
لیلی کا سانس خشک پڑنے لگا ۔۔۔ ایک ساتھ جانے کتنے چہرے آنکھوں کے سامنے لہرائے تھے۔۔۔۔
تم جیسی گھٹیا عورت ماں بننے کے کیا انسان بننے کے بھی قابل نہیں........؛"
کہتے ساتھ ہی ویام نے اسکے دائیں گال پر رکھے چاقو کو زور سے پیوست کرتے نیچے کی طرف کھینچا تھا۔۔۔۔
کمرے میں لیلی کی وخشت ناک چیخیں گونجنے لگیں۔۔
وہ بن پانی مچھلی کی طرح پھڑپھڑانے لگی مگر خود کو مقابل کی گرفت سے آزاد نہیں کروا پائی،،،
ڈینی اسکا جانوروں جیسا روپ دیکھ لرز کے رہ گیا مگر وہ کسی بھی معاملے میں بولنے کا حق دار نہیں تھا ۔۔۔
ویسے بھی جو کچھ اس عورت نے کیا تھا شاید یہی اسکی سزا تھی ۔۔۔۔۔
ویام نے اسی طرح سے اسکے دوسرے گال پر بھی کٹ لگایا،،،۔ جس سے لیلی کا پورا چہرہ لہو ہو گیا،،، وہ بری طرح سے جھپٹتی چیخنے چلانے لگی ۔۔
مگر اسکی چیخوں کو سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔
اب آخری بار اس کے بعد کبھی درد نہیں ہو گا۔۔۔۔۔
زمین پر تڑپتی لیلی کو پچکارتے ویام نے جیسے دلاسہ دیا تھا ۔۔۔
لیلی خوف زدہ سی سانس روکے اس پاگل شخص کو دیکھنے لگی ۔۔۔
جس نے جھکتے چاقو اسکی گردن پر رکھا ۔۔۔
یہ میری عین کو تکلیف دینے کیلیے ،،، بھوری آنکھوں میں وخشت سموئے وہ جھٹکے سے چاقو اسکی گردن پر چلا گیا۔۔۔۔
لیلی کا تڑپتا وجود ہچکولے کھانے لگا ۔۔۔
خون کا پھوارا سا اسکے منہ سے نکلا۔۔۔ آنکھیں باہر کو ابل پڑیں ،،، وہ تڑپتی آخر کار دم توڑ گئی ۔۔۔۔۔
اسے ٹھکانے لگا دینا ورنہ تمہارا باس ایل اس قتل کی سزا بھگتے گا ۔۔۔۔۔۔؛"
چاقو نیچے پھینکتے وہ سپاٹ لہجے میں ڈینی کو دیکھ گویا ہوا۔۔۔۔
جو ہکا بکا سے اسکی چوڑی پشت کو آنکھوں سے اوجھل ہونے تک گھورتا رہا ۔۔۔۔
•••••••
پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو گا_____؛" انزک نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے پرسکون کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔
جو ایک گھنٹے سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا آپریشن تھیٹر کے دروازے کو گھور رہا تھا…
عیناں ٹھیک ہو جائے گی ناں........؛" ایل کے مضبوط بازو کو دبوچتے حور نے خوفزدہ سا ہوتے استفسار کیا،،
ایل نے مخض سر ہاں میں ہلایا تھا۔۔۔۔۔میں آتا ہوں۔۔۔۔۔۔"
حور سے کہتا وہ دور کھڑے وریام کی طرف بڑھا ،،,
انکل________؛" اسنے دھیمی آواز میں اسے مخاطب کیا جو بے حد پریشان تھا۔۔۔
ہمممم....."
حور کب سے یہاں کھڑی ہے اسکی طبیعت ٹھیک نہیں آپ پلیز اسے گھر لے جائیں........!"
اسنے عاجزانہ سا ہوتے درخواست کی جس پر وریام نے ائبرو اچکائے اسے گھورا۔۔۔۔
ایل پریشان ہو گیا حور کی نظریں اسی پر تھیں ۔۔۔اسے لگا شاید وہ جانے والا تھا اسے چھوڑ کر،،،، اسنے مضبوطی سے دوپٹہ ہاتھوں میں دبوچا ۔۔۔۔۔
جھیل سی نگاہوں میں آنسوں تیرنے لگے۔۔۔
بیوی تمہاری ہے تو خیال بھی تمہیں رکھنا ہو گا جاؤ اسے لے جاؤ...... خیال رکھنا میری بیٹی کا اور تمہارا فیصلہ عیناں کے ٹھیک ہونے کے بعد کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔؛"
وریام نے سخت لہجے میں کہا جس پر ایل نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔۔۔
اور پھر حور کے پاس جاتے وہ اسے ساتھ لیے وہاں سے نکلا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر کیا ہوا کیسی ہے میری عین.......؛" دروازہ کھلتے ہی وہ بھاگتا ڈاکٹر کے پاس پہنچا ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے تاسف سے اس دیوانے کو دیکھا جو ابتر بکھری حالت میں بے قراری سے سوال پوچھ رہا تھا۔۔
آپ میرے ساتھ آئیں.......؛" ڈاکٹر نے ویام کو اپنے کیبن میں آنے کا کہا جس پر سبھی پریشان ہوئے تھے ۔۔
ویام خود کو مضبوط بنائے ڈاکٹر کے پیچھے ہی اسکے کیبن میں داخل ہوا۔۔۔۔۔
دیکھیے مسٹر کاظمی ،،، آپ کی وائف اب خطرے سے باہر ہیں مگر........."
ڈاکٹر نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دیا،،، ویام جسے یہ سنتے ہی سکون ملا تھا اب ڈاکٹر کی اگلی بات پر وہ پریشان سا ہو گیا۔۔۔
مگر کیا ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ٹھیک ہے ناں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
ماتھے پر بل ڈالے وہ حیرانگی سے استفسار کرنے لگا ۔۔۔
ہم آپ کے بے بی کو نہیں بچا سکے،،،، پیٹ پر چاقو لگنے کی باعث عیناں کا مِس کیرج ہو گیا ہے........؛ اور اب شاید ہی وہ کبھی ماں بن سکے.......!"
ڈاکٹر کی بتائی بات کسی دھماکے کی طرح اسکے اعصاب پر نازل ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بے یقینی سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگا،،،،، بھوری آنکھیں بے انتہا سرخ تھیں،،،،
ایک پل میں ہی اسے دماغ میں شدید درد کی لہر اٹھتی محسوس ہوئی تھی،،، بے بسی کی انتہا تھی کہ وہ رو نہیں سکتا تھا،،
جس نعمت کی خوشیاں بھی اس نے منائی ناں تھی وہی نعمت اس سے چھین لی گئی تھی۔۔ بھلا وہ کیسے بھول سکتا تھا یہ کرب۔۔۔۔۔؟ یہ تکلیف........؛
وہ بے جان سا مردہ قدموں سے باہر نکل گیا۔
°°°°°°°°°
******ایک سال بعد******
وہ بکس سمیٹتے بیگ کندھے پر ڈالے تیزی سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔ انداز میں عجلت واضح تھی آج اینجل کی برتھڈے تھی اور وہ اسے جلدی جاتے سرپرائز کرنا چاہتی تھی،،،
السلام علیکم ہیرو......." وہ باہر آئی تو ہمیشہ کی طرح وریام اسکا منتظر کھڑا تھا۔۔۔
و علیکم السلام میری ہیروئن کیسا گزرا دن......؛" وریام نے فرنٹ ڈور کھولتے ساتھ ہی پوچھا جس پر مقابل کا منہ پھولا وہ سوچنے کی اداکاری کرتی بے حد معصوم لگی وریام کو ۔۔۔۔۔؛
کافی اچھا گزرا..... بس مزید ایک ہفتہ رہ گیا ہے اس کے بعد آپ کی بیٹی ڈاکٹر عیناں کاظمی کے نام سے جانی جائے گی ۔۔۔۔۔۔!"
وہ سیٹ بیلٹ باندھتی فخر سے گردن اکڑائے بولی ۔۔۔۔۔
جس پر وریام مسکرایا تھا۔۔۔
یاد ہے ناں آج کیا دن ہے۔۔۔۔؟" گاڑی ریورس کرتے وریام نے اس سے پوچھا ،،، جو پہلے سے کافی کمزور ہو چکی تھی۔۔۔
گرے کانچ سی آنکھیں اب ویران دکھتی تھیں۔۔۔ پھولے پھولے نرم و نازک گال اب بے رنگ سے ہو چکے تھے۔۔۔۔
ہاں یاد ہے آج اینجل کی برتھڈے ہے اور اسے سرپرائز بھی کرنا ہے ہمیں.......؛"
وہ مسکرانے کی کوشش کرتی خوشگواری سے بولی جس پر وریام ہنسا ۔۔۔۔
ہاں اور اس دفعہ تمہاری دوست بھی نہیں آ پائے گی۔۔۔۔۔؛"
وریام نے اسے حور کی بابت آگاہ کیا جس پر عیناں کا منہ پھول گیا۔۔۔۔
کیوں نہیں آئے گی وہ میں بھائی سے کہوں گی وہ لے آئیں گے۔۔۔۔۔ بے بی کو اور حور کو۔۔۔۔۔؛" عیناں نے جلدی سے موبائل نکالتے کہا تھا۔۔۔
کتنا وقت گزر چکا تھا۔۔۔
اب تو حور کا بے بی تین چار ماہ کو ہو چکا تھا اور وہ ایک بار بھی نہیں مل پائی تھی ۔۔
اس حادثے کے بعد عیناں کی ضد پر وریام، نیناں اینجل اور عیناں کے ساتھ پاکستان شفٹ ہو چکا تھا۔۔۔۔
عیناں مزید اس ملک میں نہیں رہنا چاہتی تھی جس نے اس سے اسکا سب کچھ چھین لیا تھا ، سبھی اسکے فیصلے سے متفق تھے۔۔۔
مگر اس نے وریام سے وعدہ لیا تھا کہ وہ کبھی بھی ویام کے سامنے نہیں جائے گی اور اگر وہ ان لوگوں کے پاس رہی تو ویام کبھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔۔۔۔
اسکے فیصلے پر سبھی حیران تھے فدک نے ہر ممکن کوشش کی تھی اسے سمجھانے کی جو جانے کیوں مگر ایک ہی ضد پر اڑ چکی تھی۔۔
بلآخر اسکے فیصلے پر حامی بھرتے وریام اسے لئے پاکستان آ گیا تھا۔۔۔
انزک پچھلے ایک سال سے پائلٹ کے طور پر ائیر فورس میں تھا ۔۔۔۔ اسکا خواب پورا ہو چکا تھا،،، اپنی خواہش کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسنے اپنے ڈیڈ کے کام کو بھی سنبھالا ہوا تھا۔۔۔
حور اور ایل کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی جو کہ بالکل عالیان جیسا تھا وہی آنکھیں ویسے ہی ڈارک گولڈن بال مگر اس میں ایک خاص کشش تھی جس سے وہ حور جیسا بھی دکھتا تھا اسکا نام عالیحان شاہ رکھا گیا تھا۔۔۔۔
وریام نے اسے معاف کر دیا تھا اور اب وہ اپنے ڈیڈ کے کاروبار کو سنھبال رہا تھا بالکل ایک عام انسان جیسی زندگی گزار رہا تھا ۔۔۔
امن اور حیا کے ہاں بھی بیٹا پیدا ہوا تھا جس کا نام ابیر امن علوی رکھا گیا تھا ۔۔۔ جو عالیحان شاہ سے ایک ڈیڑھ ماہ چھوٹا تھا۔۔۔۔
سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش اور مطمئن تھے
سوائے ویام کاظمی کے______؛"
بیٹا ایک سال گزر چکا ہے میں اب ویام کو مزید نہیں روک سکوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ تم سوچو اس بارے میں زندگی یونہی تو نہیں کٹ سکتی____“
وریام نے آج پھر سے اپنی سی کوشش کرتے اسے سمجھانا چاہا ۔۔۔۔۔
ڈیڈ پلیز مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی_____"
عیناں نے فوراً سے اسے ٹوکا جس پر وریام نے ایک نظر آسکے دھواں دھواں ہوتے چہرے کو دیکھ سرد سانس فضا کے سپرد کیا۔۔۔
°°°°°°°°°°
ماما..........؛" وہ جیسے ہی گاڑی سے باہر نکلی، عنایت بھاگتی اسکے پاس ائی ،،،
مائی بے بی..…...؛" اسے بانہوں میں بھرتے عیناں نے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔
مس کیا میری جان نے ماما کو_______" اسکے گالوں پر محبت بھرا بوسہ دیتی وہ اسے یونہی اٹھائے اندر بڑھی،،،
وریام نے ایک نظر گھڑی پر وقت دیکھا ،،،۔ اسے اشعر سے ملنے جانا تھا جبھی وہ بنا رکے گاڑی سٹارٹ کرتا وہاں سے نکل گیا۔۔۔
یس بہت مس کیا میں نے آپ کو؛؛؛؛؛؛" سر کو ہاں میں ہلاتی وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پھیلائے مسکراتے ہوئے بولی،
ہممممم....... اسی لیے میں بھاگتی ہوئی واپس آ گئی،،،، کیونکہ میری اینجل، ماما کو مس جو کر رہی تھی، اسکے گالوں پر پیار دیتے وہ محبت سے گویا ہوئی ۔۔۔
جس پر عنایت کھلکھلا اٹھی۔۔۔
ایک سال کے عرصے میں وہ ویام سے زیادہ اب عیناں سے اٹیچ ہو چکی تھی ۔۔۔ اسکی غیر موجودگی میں وہ بری طرح سے رونے لگتی تھی۔۔۔۔
اور پھر عیناں کے سوا کوئی بھی اسے سنبھال نہیں پاتا تھا۔۔
مائے بے بی آپ یہاں بیٹھو میں جلدی سے فریش ہو کر آتی ہوں،"
صوفے پر اسے بٹھاتے وہ دونوں گالوں پر پیار دیتی وہ اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھی،،،
بکس اور بیگ ایک طرف سٹڈی ٹیبل پر رکھتے اسنے سکارف اتارتے بیڈ پر رکھا ۔۔۔
ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذلان انکل آئے ہیں میں جاؤں ابیر کے پاش........؛"
انگلی منہ میں ڈالے وہ معصوم سا چہرہ بنائے بولی۔۔۔۔
عیناں نے مڑتے اسے دیکھا ۔۔۔۔ بے بی کل چلیں گے میں بھی جاؤں گی ابھی انکل کو جانے دو،،،،"
وہ لاڈ سے اسے پچکارتے ہوئے بولی۔۔۔۔
مگر اینجل کا اداس چہرہ دیکھ وہ سرد سانس فضا کے سپرد کرتے اسکے قریب ہوئی۔۔۔
اوکے آپ جاؤ مگر آپ رات کو جلدی آ جاؤ گے،،، پتہ ہے ناں ماما کو نیند نہیں آتی آپ کے بغیر........٬"
برا سا منہ بناتی وہ محبت سے بولی ۔۔۔۔۔ عنایت نے آنکھیں مٹکاتے اپنی ماما کو دیکھا اور پھر کچھ سوچتے سر ہاں میں ہلایا۔۔۔۔ اوکے میں جلدی آ جاؤں گی........٬*
وہ کچھ سوچتے سر ہاں میں ہلاتی حامی بھر گئی ،، کیا دادو بھی جا رہی ہیں ساتھ،،،،" وہ نیناں کے متعلق پوچھنے لگی،،
ہاں ناں ہم دونوں جائیں گے۔۔۔۔۔۔"
ہمممم...... مطلب میں اکیلی ہوں گھر پر......؛ "
عیناں نے منہ بگاڑتے ہوئے عنایت کو دیکھا جو بھاگتی ہوئی باہر کی طرف چلی گئی تھی۔۔۔
سرد سانس فضا کے سپرد کرتے وہ کپڑے نکالتے شاور لینے باتھروم میں چلی گئی،
°°°°°°°°°°°
بلیک کلر کا ڈھیلا ڈھالا سوٹ زیب تن کیے وہ ٹاول سے بالوں کو خشک کرتے ڈریسنگ میز کی طرف بڑھی ،،،
شاور لینے کے بعد اب کافی بہتر محسوس کر رہی تھی وہ،،،
ٹاول ایک طرف رکھتے اسنے ہاتھ میز کی طرف بڑھاتے ڈرائر اٹھانا چاہا ،، تو نظریں مرر کی طرف اٹھی۔۔۔۔۔ آنکھیں خوف سے پھیل گئی وہ جھٹکے سے مڑی،،،
اس سے پہلے کہ وہ باہر کی طرف بھاگتی....... مقابل نے پُھرتی سے آگے بڑھتے اسے مضبوطی سے تھاما۔۔۔۔۔
چچچ چھوڑو مم مجھے......" اسکے حصار میں مچلتی وہ اونچی آواز میں دھاڑی، مگر مقابل بنا اثر کیے.....اسکے ہاتھوں کو برق رفتاری سے پیچھے کی طرف جکڑتے بیڈ پر پڑے عیناں کے دوپٹے کو اٹھائے مضبوطی سے باندھ گیا۔۔
ویام چھوڑو مجھے_______؛" وہ بری طرح سے خوفزدہ ہو چکی تھی،، اسکے ری ایکشن پر وہ لرزتی اسے خود سے دور کرنے لگی ۔،۔،
جو بے تاثر نگاہوں سے اسے گھورتے کندھوں پر ڈالے بیڈ کی طرف بڑھا.......؛۔ اور جھٹکے سے اسے پھینکنے کے سے انداز میں بیڈ پر ڈالا۔۔۔۔۔
عیناں کا چہرہ لہو چھلکانے لگا اسکی اچانک آمد اوپر سے ایسا ردِعمل وہ بری طرح سے ڈر چکی تھی۔
اس سے پہلے کے وہ پیچھے کی طرف بھاگتی ویام نے اسے بے دردی سے کمر سے دبوچے چہرہ اپنے مقابل کیا۔۔۔
جو اسکی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی۔۔۔۔
کوشش بے کار ہے جانم.......؛ اسے گہرے سانس بھرتا دیکھ وہ دل جلے انداز میں مسکراتا گہری نظریں اسکے بھیگے سراپے پر ڈالتے گویا ہوا،،
ہاتھ کھولو میرے ویام۔۔۔۔۔۔۔۔!" تند و تیز لہجے میں کہتی وہ نظریں جھکائے اپنے ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش کرنے لگی،،
جو کہ ناممکن سا تھا۔۔۔۔
ایسا کوئی شخص تو دل کا مکیں نہ ہو
جو ہر جگہ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ ہو
حسرت سے سوچتے ہیں تجھے دیکھ کر یہ ہم
بندہ وفا پرست ہو، چاہے حسیں ناں ہو۔۔۔!
اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ طنزیہ لہجے میں بولا.......
اسکے یوں کہنے پر ایک پل کو عیناں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں ،،، جس کے چہرے پر صدیوں کی تھکن رقم تھی ۔
بے اختیار ہی آنکھوں میں نمی سے تیرنے لگی،، مگر وہ اس شخص کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
ووو ویام..........؛" اپنی گردن پر اسے جھکتا دیکھ وہ بے ساختہ ہی ڈری تھی،،، جو آج کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں تھا ۔
ویام پلیز مت کرو ،،، میں کچھ نہیں دے سکتی تمہیں،،،، نہیں ہوں میں تمہارے قابل ،،،،، تم چھوڑ دو مجھے، دوسری شادی کر لو۔۔۔۔۔۔!"
اسکی بھیگی آواز جیسے ہی سماعتوں سے ٹکرائی ، وہ چہرہ روبرو لاتے حیرت سے آنکھیں پھیلائے اسے گھورنے لگا ،،،
جو لہو چھلکاتے چہرے کے ساتھ آنکھیں موندے آنسوں پر پہرہ بٹھائے ہوئے تھی ۔
ویام جو یہ سمجھے ہوئے تھا کہ شاید وہ اس سے اس وجہ سے ناراض ہے کہ وہ وقت پر اسکے پاس نہیں پہنچ سکا۔۔۔۔ اپنے بچے کو نہیں بچا سکا مگر اب اسکی بات کو سن وہ حقیقت میں غصہ ہوا تھا۔۔۔
تو کیا یہ تم مجھے بتاؤ گی کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ،،،،،،!"
اسکی تھوڑی کو دبوچے وہ اس قدر سخت لہجے میں گویا ہوا کہ عیناں ایک پل کو اسکی آنکھوں کے بدلتے رنگ کو دیکھ سہم سی گئی ۔۔۔۔
تم نے مخض اپنی اس بے بنیاد سوچ کی وجہ سے خود کو اور مجھے سزا دی،،،
اسے اب تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ لڑکی مخض اتنی سی بات پر خود کو اور اسے اتنے عرصے سے سزا دے رہی تھی۔۔۔
بے بنیاد نہیں،،،، میں کبھی بھی تمہیں اولاد جیسی خوشی نہیں دے سکوں گی ویام ،،، تم اپنی زندگی کو میری وجہ سے تباہ مت کرو،،،،"
۔وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھتی سنجیدگی سے بولی۔۔۔۔
یہ بات تم یا کوئی دوسرا انسان طے نہیں کرے گا عین کہ مجھے بے بی چاہیے یا نہیں ،،، ہمارے پاس ہماری بیٹی ہے اینجل ،،، مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے تمہارے،،، میری زندگی تم سے مکمل ہے عین ،،،، مجھے آئندہ یہ بات کبھی مت کہنا......؛"
اسکی آنکھوں میں دیکھتے وہ اس قدر سنجیدگی سے بولا کہ عیناں کچھ ناں کہہ سکی۔۔۔ اپنی آنکھوں پر اسکا محبت بھرا لمس محسوس کرتی وہ خاموشی سے اپنا آپ اسکے سپرد کرتی آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔
@@@@@@@@@@@
*****چار سال بعد*****
وہ آپریشن تھیٹر کے باہر بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا،،، وہاں موجود ہر شخص ہی کافی پریشان تھا ۔۔
مگر سب سے زیادہ فکر اس وقت عنایت اور ویام کو تھی،،، جو آپریشن تھیٹر کے اندر موجود عیناں کے لیے پریشان تھے۔۔۔
چار سال کے صبر کے بعد آج آخر کار وہ باپ بننے والا تھا آنکھوں کے گوشے نم تھے،،
ڈیڈ پھپھو ٹھیک ہونگی ناں_______؛ عالیان کے ساتھ بیٹھا عالیحان نیلی آنکھوں میں فکر سموئے بولے،،،
حور اور ایل نے ایک ساتھ اپنے بیٹے کو دیکھا جو پھپھو کی فکر میں نڈھال ہو رہا تھا۔۔۔
ڈونٹ وری چیمپ وہ ٹھیک ہونگی ______, اسکے کندھے تک جاتے بالوں کو بکھیرتے وہ محبت سے ناک کھینچتے بولا۔۔۔ جس پر عالیحان کی نیلی آنکھوں میں چمک ابھری تھی۔۔۔
الایہ پریشانی سے ٹہل رہی تھی ،،، جبکہ اذلان اس وقت گھر میں اپنی افلاطون کو سنبھال رہا تھا۔۔۔۔
اسکی خواہش پوری ہوئی تھی اللہ نے اسے دو جڑواں بیٹیوں سے نوازا تھا جو کہ شکل و صورت سے ماں کی جیسے تھیں مگر حرکتوں سے بالکل باپ کی کاپی تھی۔۔۔۔
ان کی شیطانیوں سے تنگ آتے الایہ اکثر دونوں کو باندھ دیا کرتی تھی۔۔۔ اس وقت بھی وہ دونوں ایک سال کی ہوئی تھی مگر ہر کسی کی ناک میں دم کیے رکھتی تھیں۔۔۔
امن اور حیا کو اللہ نے ایک اور پیارے سے بیٹے سے نوازا تھا جس کا نام انیل امن علوی تھا۔۔۔۔ جو اذلان کی بیٹیوں سے چھ ماہ عمر میں بڑا تھا
۔
جبکہ میرب کے ہاں تین سالہ تبریز شیرازی تھا جو شکل و صورت سے باپ کی کاپی تھا مگر حرکتوں میں ماں سے بھی دو ہاتھ آگے تھا ۔۔۔
میرب ہی کی طرح اسکے منہ میں بھی ہر وقت باپ پایا جاتا تھا ۔۔اور اگر غلطی سے کسی نے تنگ کر دیا تو پورا ہفتہ اسکی شامت تھی۔۔۔
روز اور انزک اپنی زندگی کی شروعات کر چکے تھے،، انکا پیارا سا دو سال کا بیٹا تھا جو انزک کی ہی طرح شریف اور معصوم تھا۔۔۔۔
حیا ابیر نہیں آیا _______" امن نے پریشانی سے اپنے بڑے بیٹے کے بارے میں پوچھا ،،،
جو سکول سے سیدھا یہیں آنے والا تھا۔۔۔۔۔ اسکا مزاج سب سے نرالا تھا،،
بہت کم گو ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت ضدی طبیعت کا مالک تھا۔۔۔۔
ماما کہہ رہی ہیں کہ وہ نہیں آئے گا اسکا کہنا ہے کہ وہ عیناں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔
کندھے اچکاتے حیا نے اپنے چار سالہ بیٹے کے کارنامے بتائے جو پیدا ہونے کے بعد سے ہی صرف اور صرف عیناں کا دیوانہ تھا۔۔۔
عیناں کے سوا بہت کم کسی سے بنتی تھی اس کی اور اب جب سے وہ پریگننٹ ہوئی تھی،،
اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ عیناں کا زیادہ وقت اپنے آنے والے بے بی کو ملے گا جس وجہ سے اسکا موڈ آف تھا۔۔۔۔
مبارک ہو مسٹر کاظمی بیٹی ہوئی ہے________؛"
کمبل میں لپٹا ایک نازک سا نرم و ملائم وجود اسکے سامنے کرتے ڈاکٹر نے خوشی سے اسے بتایا۔۔۔
سبھی بے قراری سے ویام کی طرف لپکے تھے،، جو کپکپاتے ہاتھوں میں اپنی پرنسز کو تھامے مبہوت سی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے تھے بے ساختہ ہی اسنے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا ۔۔
جس نے اسے اس نعمت سے نوازا تھا۔۔۔۔
گلابی چہرے والی معصوم پری جو کہ بالکل عیناں کی جیسی تھی اسے دیکھتے ہی سب نے بے ساختہ ماشاء اللہ کہا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر میری وائف۔۔۔۔۔۔۔؛ "
ڈونٹ وری وہ ٹھیک ہیں آپ تھوڑی دیر میں ان سے مل لیجیے گا۔۔۔"
ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔۔۔
ڈیڈا مجھے دیں پرنسز_______؛ اینجل نے ہاتھ پھیلائے فرمائش کی،،، جس پر سبھی مسکرائے تھے۔۔۔۔
سوائے عالیحان شاہ کے جو عجیب سی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔
نو ماموں یہ میری پرنسز ہے اس لڑکی کی نہیں تو سب سے پہلے میں اٹھاؤں گا اسے........؛"
عنایت کو گھورتے وہ سخت لہجے میں بولا تو سبھی چونک سے گئے۔۔۔
اسکے غصے کی وجہ سمجھنے سے سبھی قاصر تھے۔۔۔۔ مگر عنایت خوفزدہ سی ہوتی ہاتھ پیچھے کو کھینچ گئی۔۔۔
وہ نو سالہ بچی خود سے چار سال چھوٹے عالیحان شاہ سے خوف محسوس کرتی تھی اور وجہ تھی اینجل کا ڈرا سہما رہنا،،،، جس بات پر عالیحان کو خاص چڑ محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔
بیٹا آپ دونوں ابھی بے بی کو نہیں اٹھا سکتے کیونکہ بے بی ابھی چھوٹی ہے جب تھوڑی بڑی ہو گی تو آپ اٹھائیں گے کیونکہ یہ آپ دونوں کی بہن ہے ۔۔۔۔"
ایل نے نرمی سے دونوں بچوں کو سمجھایا،،، اور ویام کو اشارے سے وہاں سے جانے کا کہا جو سر ہاں میں ہلاتے عیناں کے پاس چلا گیا۔۔۔۔
دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا تو نظر بیڈ پر نڈھال سی لیٹی اپنی الفت پر پڑی۔۔۔۔
ویام دھیمے قدموں سے چلتا اسکے قریب ہوا اور پھر بے حد آہستگی سے اسکی بند آنکھوں پر بوسہ دیا۔۔۔
ووو ویام______؛ وہ ایک دم سے ہڑبڑاتی ہوئی آنکھیں کھول گئی،، مگر آنکھوں کے سامنے ویام کو دیکھ اور اسکے ہاتھ میں موجود ننھے وجود کو دیکھ آنکھیں بے اختیار بہنے لگیں ۔۔۔۔۔
دیکھا میں نے کہا تھا ناں مجھے انسانوں پر نہیں اللہ پر یقین ہے،،،، اسنے ہمیں نامراد نہیں لوٹایا_____"
اسکی گود میں اس نازک جان کو رکھتے وہ بھیگی نگاہوں اس اپسرا پر ڈالے بولا۔۔۔۔
جو بے قراری سے اس نازک سی جان کو تھامے بے تحاشہ چومنے لگی،،،،
ووو ویام اینجل_____ " اسکے لبوں پر اپنی اینجل کا ذکر تھا جسے اسنے بیٹیوں کی طرح چاہا تھا۔۔۔
جو محبت اسے فدک سے ورثے میں ملی تھی اتنی ہی محبت اس نے عنایت پر لوٹائی تھی۔۔
تو کیا ہوا وہ اسکا خون نہیں تھی،،، کیا خون کے رشتے جذبات کے رشتوں سے بڑے ہو سکتے تھے بالکل بھی نہیں ،
اسکی سگی ماں جس نے اسے جنم دیا تھا وہی اسکی خوشیوں کی قاتل نکلی تھی جبکہ پالنے والی ماں نے اسے اپنی سگی اولاد سے بڑھ کر چاہا تھا۔۔۔۔
اب ہوئی ہماری فیملی مکمل..........، ویام جیسے ہی عنایت کو تھامے اندر لایا،،،،، اپنی بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دیتی وہ مسکراتے ہوئے بولی،،،
زندگی آج مسکرا رہی تھی،،،، انکے صبر ،توکل کو خدا نے حالی دامن نہیں لوٹایا تھا۔۔۔
بے شک مشکل کے بعد آسانی ہے اور آج اتنے غموں کے بعد ان کی زندگی میں خوشیوں نے دستک دی تھی۔۔۔
°°°°°°°°°°
********تین سال بعد*********
ڈڈڈ ڈول ڈول........" وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے تالی بجاتی عنایت کے ہاتھوں میں موجود ڈول کو دیکھتی خوشی سے چہکتی بولی تھی،،
بارہ سالہ عنایت نے مسکراتے اپنی جان سے پیاری بہن کو دیکھا جس کی بھوری آنکھیں ڈول کو دیکھتے ہی چمک پڑی تھیں۔۔۔۔۔
اوکے یہ ڈول میری ڈول کی ہے۔۔۔۔۔؛" عنایت ڈول عنایا کے ہاتھ میں دیتی اسے اٹھائے جھولے پر بیٹھ گئی ۔۔۔
تین سالہ عنایا۔۔۔۔۔۔۔اینجل کی نسبت کافی شریر طبیعت کی مالک تھی ،،،
اسکی شرارتوں سے عیناں کافی تنگ آ چکی تھی،، جو ہر کسی سے ضد لگا کر بیٹھ جاتی تھی۔۔۔۔ اسکی بگڑی طبیعت میں زیادہ اثر وریام کاظمی کا تھا۔۔
اور کوئی شک نہیں تھا کہ وہ دوسرا وریام کاظمی ہی تھی ۔۔۔جبکہ اسکے برعکس اینجل کافی معصوم اور نرم دل کی مالک تھی۔۔۔۔
بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس میں شعور بیدار ہو رہا تھا۔۔۔ جس کے ساتھ ساتھ عیناں کے ساتھ اسکا رشتہ مزید گہرہ ہوا تھا۔۔۔
ٹیڈی_______!" اپنی پشت پر عالیحان شاہ کی سخت آواز سنتی عنایت ایک دم سے جگہ سے اچھلی تھی ۔۔
سیاہ جھیل سے آنکھوں میں خوف لہرانے لگا جبکہ اسکے برعکس اسکی گود میں بیٹھی عنایا چہکنے لگی ۔۔۔۔۔
عالیحان کے سفید چہرے پر سرخی دوڑنے لگی وہ تیزی سے آگے بڑھا اور جھپٹنے کے سے انداز میں عنایا کو اسکی گود سے اٹھاتے وہ سخت نظروں سے اسے گھورنے لگا ۔۔۔
کتنی بار کہا ہے کہ دور رہو ٹیڈی سے سمجھ نہیں آتی کیا______" وہ دانت پر دانت جمائے سخت لہجے میں بولا جس پر عنایت انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔
دور کھڑا ابیر اس کی حرکت کو ناگواری سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
آئندہ خیال رہے چھونا مت اسے.......؛" اینجل کو وارن کرتے وہ عنایا کو اٹھائے وہاں سے نکل گیا۔۔
رو کیوں رہی ہیں آپ آپی_______؛" ابیر چلتا اسکے پاس آیا اور اسکے قریب بیٹھتے نرمی سے عنایت کے آنسوں صاف کرنے لگا۔۔۔۔
جو اسکی موجودگی دیکھ جھٹ سے سیدھی ہوتے بیٹھی ۔۔۔۔۔
عیناں کے بعد عنایت وہ دوسرا اور آخری انسان تھی جو ابیر علوی کے لئے خود سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔۔۔
بچپن سے ہی عالیحان کا عجیب رویہ دیکھ وہ بے حد اٹیچ ہو چکا تھا عنایت سے۔۔۔۔۔۔"
دور کھڑا یہ منظر دیکھتا عالیحان شاہ غصے سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ گیا۔۔
اب یہ تو آنے والا وقت بتانے والا تھا۔ کہ عالیحان شاہ کی بے وجہ کی نفرت اور ابیر علوی کی ہمدردی کونسا رخ لینے والی تھی۔۔
°°°°°°°°°
یہ ڈول تمہاری تو نہیں..…... واپس کرو آپی کو_______؛ عنایت کو کچن میں جاتا دیکھ وہ موقع پاتے فرش پر بیٹھی عنایا کے پاس بیٹھے دبے دبے لہجے میں بولا،،،
عنایا نے بھوری غصّے سے پھیلی آنکھوں سے اسے گھورا ،،،، اور لب بھینچے ڈول پیچھے چھپا دی۔۔۔۔۔
میلی آپی تئ اے________،" وہ واحد لڑکی تھی جو ابیر علوی کے سامنے نہایت بدتمیزی سے جواب دیتی تھی۔۔۔۔
اسکا یہ تیز لہجہ مقابل کو سخت برا لگتا تھا مگر وہ مجبور تھا کہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔۔۔
آہی کی ہے تمہاری تو نہیں ،،، اگر واپس ناں کی تو چاٹا ماروں گا۔۔۔۔۔!"
شہد رنگ آنکھوں میں سرخی سموئے وہ لفظوں پر زور دیتے تین سالہ بچی سے جھگڑتے بولا۔۔۔۔
جس پر وہ بجائے خوفزدہ ہونے کے اپنے چھوٹے چھوٹے دانتوں کو زور سے دباتی ایک دم سے ہاتھ میں تھامی ڈول اسکے منہ پر مار گئی۔۔۔
یہ سب کچھ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ ابیر آنکھ پر ہاتھ رکھتے ایک دم سے چیخ پڑا ۔۔۔۔
جبکہ اسکو یوں چیختا دیکھ عنایا نے ہونٹ پھیلائے اس سے پہلے کہ ابیر کوئی غصہ دکھاتا ،،،، مقابل بیٹھی اس چھوٹی سی لڑکی نے گلا پھاڑے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔۔
ابیر ہاتھ آنکھ سے ہٹائے اسے حیرانگی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔
جو یوں رو رہی تھی جیسے کسی نے جانے کتنا ظالم مارا ہو،،،،،
حیا بھاگتی ہوئی وہاں پہنچی ،،،، اور ایک دم سے ہڑبڑاتے ہوئے عنایا کو گود میں اٹھایا۔۔۔
ابیر شیم آن یُو ،،،، کیوں اس معصوم کو ہر وقت ٹارچر کرتے رہتے ہو،،، تم گھر چلو بتاتی ہوں تمہارے باپ کو میں........؛"
حیا بنا اسکی سنے اسے سختی سے ڈانٹتی عنایا کو گلے سے لگائے بڑبڑاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔
ابیر نے غصے سے اس ڈرامہ کوئین کو گھورا جو حیا کے کندھے پر سر رکھے اپنی چھوٹی سی سرخ زبان دکھاتی اسے چڑاہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
یُو نوٹنکی دیکھ لوں گا تمہیں________!" غصے سے لال بھبھوکا ہوئے وہ اسے آنکھوں سے اوجھل ہونے تک گھورتا منہ ہی منہ میں بڑبڑایا ۔۔۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسکا بڑھتا غصہ اور عنایا کے لیے چڑ جانے کون سا روپ لینے والی تھی۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Ulfat E Ishq Junoon Ishq Season 2 Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ulfat E Ishq Junoon Ishq Season 2 written by Zainab Rajpoot .Ulfat E Ishq Junoon IshqSeason 2 by Zainab Rajpoot is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment