Ik Chand Tha Sar Asman By Frishtay Salaar Zai New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 31 August 2024

Ik Chand Tha Sar Asman By Frishtay Salaar Zai New Complete Romantic Novel

Ik Chand Tha Sar Asman By Frishtay Salaar Zai New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Ik Chand Tha Sar Asman By Frishtay Salaar Zai New Complete Romantic Novel

Novel Name: Ik Chand Sar Asman 

Writer Name: Frishtay Salaar Zai

Category: Complete Novel

" بھائی آنا ہے تو بتائیں نہیں آنا تو بھی بتائیں"

وہ غصے میں اونچا اونچا بول رہا تھا

"او یار ہم کیسے سارا کام کاج چھوڑ کر آ جائیں, پہلے ہاں تو ہو لینے دو"

جمال بیرون ملک اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم تھے اور جلال اپنے متوقع شادی میں بلا رہا تھا

"ہاں ہو جائیگی آپ لوگ آ جائیں بس"

اس نے غصے اور یقین سے کہا

"ہو ہی نہ جائے, میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ وہ لوگ انکار کر چکے ہیں, بلکہ لژکی نے خود صاف صاف انکار کر دیا ہے, اب ہاں نہیں ہو سکتی"

پیچھے بیٹھی انکی ماں نے بیٹے کی زخموں پہ نمک پاشی کی

"ہوں وہ ب___* "

جلال نے موٹی سی گالی دی

"آج تک جو چاہا وہ حاصل کیا ہے میں نے اور اب بھی حاصل کر کے رہوں گا*

وہ بہت غصے میں تھا جب سے اسے انکار کی وجہ پتہ چلی تھی وہ آگ بھگولہ ہوا پھر رہا تھا

" بیٹا جی وہ کسی کی لڑکی ہے کوئی چیز نہیں"

انھوں نے بگڑے ہوئے بیٹے کو باور کرایا

"پاپا میں بتا رہا ہوں کہ اگر میری شادی اسی لڑکی کے ساتھ نہ ہوئی تو میں کسی عزت بے عزتی کا لحاظ نہیں کروں گا"

اس نے کریم علوی کو باور کرایا,

"او یارا میرا کیا قصور ہے میں تو کئہ دفعہ جا چکا ہوں وہ لوگ تیار ہی نہیں تو میں کیا کروں

ویسے بھی میرے بیٹے کو لڑکیوں کی کمی تو نہیں , شہر بھرا ہوا ہے جس لڑکی پہ ہاتھ رکھے گا اسی کی ہو جائیگی"

انھوں نے اسے ہمیشہ کی طرح پچکار کر جان چھڑانی چاہی, یہ انھی کے بے جا لاڈ پیار کا نتیجہ تھا کہ اب اسے دین دنیا کی کوئی ہوش نہ تھی

"شہر کی لڑکیاں نہیں چاہیں مجھے , مجھے صرف وہی لڑکی چاہیے , اگر آپ لوگ عزت سے شادی کرا دیں گے تو ٹھیک ورنہ میں کوئی اور طریقہ سوچ لوں گا, تب جو اس خاندان کی بدنامی ہو گی اسکی ذمہ داری میری نہیں"

وہ بار بار انھیں بدنامی کےخوف سے دھمکا رہا تھا

"یار ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی ہے ہمارے سرکل میں,اور ویسے بھی اس مڈل کلاس لڑکی میں کیا نظر آ گیا تمہیں¿"

وہ لائٹ موڈ کرنے کے جتن کر رہے تھے

"ایک سے بڑھ کر ایک نہیں چاہیے مجھے, صرف وہی چاہیے, وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں"

پچھلے دو روز سے اسکی ایک ہی ضد تھی عام طور پہ وہ ایسا نہ تھامگر نجانے اس لڑکی کے لیے اتنا سنجیدہ کیوں ہو گیا, ورنہ لڑکیاں اسکی زندگی میں آتی جاتی رہتی تھیں

کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا

مگر اب تو اس نے ماں باپ کے ساتھ ساتھ بہن بھائیوں کو پاگل کر رکھا تھا

"سوچ لیں بیٹا چاہیے یا عزت اور یہ سوسائٹی"

میز کو پاوں کی ٹھوکر سے نوازتا ہر راہ میں آنے والی چیز کو تہس نہس کرتا وہ گھر سے باہر نکل گیا

"مجھے سمجھ نہیں آتی اسے کیا نظر آیا ہے وہاں¿"

اسکی ماں بے زار ہو چکی تھی وہ تو پہلے روز سے ہی کچھ خاص رازی نہ تھی یہ تو کریم صاحب کا خیال تھا کہ اچھا خاندان ہے اوربچیاں بھی سلجھی ہوئی ہیں,جلال کچھ سدھر جائیگا"

مگر اب نہ وہ لوگ مان رہے تھے نہ انکا اپنا ذہن راضی تھا

پھر اتنا سر پہ سوار کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی

اور جلال کی حرکات و سکنات تو پورا شہر جانتا تھا

مگر یہ کوئی ایسی بھی خوفناک بات نہ تھی جتنا ان لوگوں نے اسے اچھالا تھا

"آجکل کے لڑکے تو یہی سب کرتے ہیں

یہ کوئی اٹھارویں صدی تھوڑی تھی¿"

انھوں نے بیزار ہو کر شوہر سے پوچھا

"اس لڑکے کے سر پہ سوار ہو گئی ہے بات"

لڑکی انھیں سر پہ سوار کیے جانے کے قابل نہ لگی تھی,معمولی سی لڑکی تھی جوایم اے سائیکالوجی کی سٹوڈنٹ تھی

"او میڈم جی وہ لڑکی اپکے بیٹے کے دل کو لگ گئی ہے, وہ اسے حاصل کیے بغیر ٹلےگا نہیں"

کریم صاحب نے خود بھی پسند کی شادی کی تھی اور بیٹوں کی بھی ہر قسم کی موج مستی کے مکمل حق میں تھے نا صرف حق میں تھے بلکہ پوراپورا ساتھ بھی دیتے

اب بھی وہ کوئی ایسا طریقہ سوچ رہے تھے جس سے وہ لوگ ہاں کر دیتے

جبکہ جلال کے ذہن نے اپنا منصوبہ پہلے سے بنا رکھا تھا

کالج وین اسے گلی کے کونے پہ اتارتی تھی جہاں سے چلتے ہوئے وہ ویران گلی پار کر کے اپنے گھر پہنچتی , آج اسکا چوتھا پیپر تھا جب وہ معمول کے مطابق اپنی ہی سوچوں میں گم چلتی آ رہی تھی

"کیسی ہیں محترمہ¿"

کوئی بھاگتا ہوا اسکے ہم قدم ہو گیا

"کیا بدتمیزی ہے یہ¿"

وہ ششدر ذہن کے ساتھ اس جرات پہ یہی کہہ سکی

"بدتمیزی تو ابھی کی ہی نہیں"

وہ آدمی نہایت گھٹیا انداز میں مسکرایا

"شٹ اپ"

وہ لعنت بھیج کر پھر سے چلنے لگی

"کدھر¿ میڈم میں گھنٹے سے ادھر آپ کا انتظار کر رہا ہوں"

اس نے دیدہ دلیری سے اسکا بازو پکڑا منیحہ نے بے یقینی سے اپنے آس پاس ویران گلی کو دیکھا 

"پاگل ہیں کیا چھوڑیں میرا ہاتھ"

وہ دبی آواز میں غرائی یوں انجان آدمی, پہلی مرتبہ آمنہ سامنہ ہوا اور یہ جہالت بھرا انداز

"چھوڑ دوں گا اتنی جلدی کیا ہے¿"

وہ اسکے بلکل ساتھ کھڑا تھا, بلکل ساتھ منیحہ کی روح کانپ گئی

"اے میرے اللہ!"

"سنا ہے مادام نے رشتے سے انکار کر دیا ہے ¿"

وہ اب اپنا مدعا بیان کر رہا تھا

"ہاتھ چھوڑیے میرا"

اس نے غصہ دبا کر حتمی انداز میں کہا

تو جلال نے حیرت اور دلچسپی سے اسے دیکھا,ننھے ننھے نقوش تن گئے تھے

"ہاتھ چھوڑیے"

اب کی بار اس نے زور لگایا, جلال نے بھرپور قوت سے اسکا ہاتھ جھکڑے رکھا اور چند لمحوں میں جب وہ بے بس ہو گئی تو مسکرا کر ہاتھ آزاد کر دیا

"ارے بتائیے تو سہی کس بات کا غرور ہے¿"

وہ اپنا اندرونی غصہ چھپا کر بظاہر خباثت سے بولا مگر _اسکی رفتار دھیمی نہیں ہوئی

"میں آپکے گھر آ جاوں گا"

وہ اسکے گھر کے دروازے کے آگے جم گیا منیحہ_بے بس ہو گئی یہ صورتحال قطعی غیر متوقع اور اسکے لیے حیرت انگیز تھی , زندگی میں پہلی بار یوں ہوا تھا کہ اسکی ساری خود اعتمادی ہوا ہو گئی

"میرے فادر آپکے پیرنٹس کو سب بتا چکے ہیں"

ساتھ ہی ہاتھ کے اشارے سے اسے ہٹنے کا کہا

گہری نظروں سے اسے گھورتا جلال پیچھے ہٹ گیا, اسکی نظروں میں دھمکی آمیز اور ڈرا دینے والی سختی تھی

جبکہ منیحہ سارا دن اور ساری رات ایک شاک میں رہی اگلے دن اسکا پیپر نہ ہوتا تو وہ کبھی نہ جاتی مگر اسے جانا پڑا

اور سارا دن اسکا نہایت برا گزرا پیپر میں نجانے کیا کیا لکھا اسے سمجھ نہ آئی

اور واپسی پہ پھر سے جلال علوی اسکا منتظر تھا گزشتہ روز کی طرح وہ اسکے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگا

"آپکو شرم نہیں آتی*

اسکے یکدم ہاتھ پکڑنے پہ اس نے ملامتی انداز میں کہا ساتھ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی

" گاڑی میں بیٹھ کے میری بات سنو"

گلی میں کھڑی اپنی گاڑی کے کھلے دروازے کی طرف اشارہ کیا

"پاگل ہیں کیا¿"

اسے اس بے حیا اوربے شرم انسان کی دیدہ دلیری چونکا گئی

"گاڑی میں بیٹھو ورنہ"

وہ اپنے رذلیل  انداز میں پلٹا, منیحہ جانتی تھی اس نے انکار کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا جبکہ انکل کریم اور انکی بیوی روزانہ کی بنیادوں پہ آ آ کر اسکے ابا اماں کی منت سماجت کر رہے تھے

انکا کہنا تھا کہ انھیں اپنے لاپرواہ بیٹے کے لیے کسی اچھے گھر کی نیک سیرت اور نیک طبیعت لڑکی کی تلاش تھی 

اور اب انھیں انکی مراد کا گھر ملا تھا تو وہ کسی صورت خالی ہاتھ نہ لوٹنےوالے تھے

چچا جی کا بھی یہی کہنا تھا کہ لڑکا صرف لا پرواہ ہے ورنہ تو کوئی برائی نہیں, گھر بار دولت جائہداد کا مالک تھا, پڑھا لکھا بھی تھا

انکے خیال میں امیر گھروں کے لڑکے ایسے ہی ہوتے تھے

جبکہ منیحہ اس کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کسی شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی جسکے نزدیک دین کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو

کہ اسے شکل و صورت اور روپیہ پیسہ نہیں بلکہ کسی نیک سیرت شخص کے ساتھ زندگی گزارنی تھی تاکہ دنیا و آخرت دونوں میں فائدہ ہو

"اور آواز مت نکالنا ورنہ میرا کچھ نہیں بگڑے گا"

ایک جھٹکے سے اس نے منیحہ کو گاڑی میں پچھلی سیٹ پہ پھینکا اور ساتھ ہی خود بیٹھ گیا

گاڑی کا دروازہ لاک ہو چکا تھا

اور منیحہ بے یقین پھٹی آنکھوں کے ساتھ اپنے منہ سے اس ظالم شخص کا ہاتھ ہٹانے کے ناکام جتن کر رہی تھی

"مجھے جانیں دیں"

وہ لپک کر دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہی تھی

"تو میں ہاں سمجھوں¿"

جلال نے اسکا چہرہ اپنی جانب موڑا

"ہاں مگر مجھے جانے دیں"

متوقع بدنامی کی صورت میں اسکا باپ جیتے جی مر جاتا اسکے ذہن میں فی الوقت ایک ہی خیال تھا وہ بے جان کمزور چڑیا کی مانند پھڑپھڑا رہی تھی جلال نے اسکا خوف سے سفید پڑتا چہرہ دیکھا اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا 

وہ بھاگی تھی, مگر پیچھے سے جلال کچھ بول رہا تھا 

"آج بھی اقرار نہ ہوا تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی"

"خدا کا قہر نازل ہو تم پر,کتے کی موت مرو"

دروازے کو عبور کرتی وہ بدعا دینا نہ بھولی

جلال نے مکہ گاڑی کی چھت پہ مارا

یہ عورت اسکے لیے انا کا مسئلہ بن گئی تھی

___________________

بارش کی بوندیں ہولے ہولے زمین پہ اترتیں اور پہلی بوندوں کے ساتھ یک جان ہو کر آگے بہنے لگتیں 

قدرت کی اس حسین رحمت کے زمیں پہ اترنے کے سر انوکھے اور دلفریب تھے

سر سبز پودے اور درخت جو انکے گھر کے باہر لگے تھے اس ابر باراں میں نہا دھو کر چمک دمک رہے تھے, گیلے پروں والے پرندے نیم کے اس گھنے درخت کی شاخوں میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے نجانے کتنے ذی روح کمروں کے اندر دبکے , لحاف اوڑھے کھڑکیوں سے اس حسین نظارے کو دیکھ رہے تھے اور کچھ_جیسا کہ اسکی اماں اس بارش کو بے وقت کی بارش قرار دے کر خوامخواہ میں قدرت سے الجھ رہے تھے 

اور ایک وہ تھی جو اس ٹھنڈی یخ ہوا میں چھت پہ بنے کمرے کی دیوار کے ساتھ جائے نماز بچائے سر بسجود تھی

بارش کی کبھی ہلکی اور کبھی تیز بوندیں اس کے سفید دوپٹے میں لپٹے وجود کو پوری طرح بھگو چکی تھیں جبکہ اسکا سر سجدے سے اٹھنے سے انکاری تھا

*کتنا لزیز احساس تھا یہ برستی رحمت میں بھیگتے ہوئے اپنے رب کو پکارنا, اسکی مزید رحمت طلب کرنا*

منیحہ اسے یہ احساس ہمیشہ بہت بھاتا تھا گوکہ اس برستی رحمت کی تیز پھوار کو اپنے جسم پہ سہنا. اور نماز کی ادائیگی کرنا وقتی طور پہ اس پہ غفار و جبار اور قادر و قہار کی دہشت طاری کر دیتا ,مگر پھر بھی بارش کی پہلی بوند گرتی تو اسکا لاشعور اسے سرخ سگنل دینا شروع کر دیتا اور وہ جھڑی لگ جانے کی دعا کرتی اور جوں ہی ایک سلسلہ بندھ جاتا وہ اماں کی گالیوں کے باوجود اوپر بھاگ جاتی

اسکی اماں کو ہر  موسم کی بارش بن موسم کی لگتی تھی انھیں گیلا گھر, گلی سے جوتوں کے ساتھ آنے والا کیچڑ اور اندر بندھ ہو جانا کبھی بھی اچھا نہ لگتا

ابھی بھی وہ ابا کا گیلا جائے نماز پھیلا کر رکھ کر نیچے آ گئی

ابھی شام کو اسے ابا سے سخت ڈانٹ سننی تھی کیونکہ اس نے آج پھر انکا جائے نماز گیلا کر دیا تھا 

پچھلی مرتبہ بھی ابا سخت غصہ ہوئے اور اس نے کچھ ڈرتے ڈرتے اعتراف کیا تھا کہ یہ غلطی اسی سے سرزد ہوئی

"ابا وہ میں باہر لے کر گئی تھی تو بارش میں گیلا ہو گیا

" الو کی پٹھی یہ کوئی چھتری ہے جو تم بارش میں لے کر گئی تھیں"

ابا کا پارہ آسمان تک پہنچ گیا, وہ سمجھے کہ اس نے بھیگنے سے بچنے کے لیے جائے نماز اوڑھا

اور حسب معمول اماں کی بلند گالیاں شروع ہو گئیں

آج بھی ایسا ہی ہوا

"ہائے اللہ اتنی کم اولاد دی, مگر جودی وہ تو کوئی سواد کی دی ہوتی"

"باہر رہو خبردار جو یہ گیلے کپڑے لے کر اندر آئیں تم "

اماں نے اسے ہال کے مرکزی دروازے کے باہر رکنے پہ مجبور کیا

"کیا ہے اماں¿ سردی لگ رہی ہے مجھے اندر جانے دیں"

وہ جھنجھلائی

"ہاں تو کیوں گئی اوپر, کتنی دفعہ کہا ہے یہ مراسیوں والے شوق ختم کر, اچھے گھروں کی  لڑکیاں یوں برستی بارشوں میں چھت پہ کدکڑے نہیں بھرتیں"

اماں کو اس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں برائیاں بیک وقت نظر آ جاتی تھیں

"خدا کا خوف کریں اماں "

اس نے کچھ دیر پہلے کے اس مخظوظ کن احساس کو یاد کرنے کی کوشش کی, منہ میں پانی بھر آیا, مگر خود کو کچھ کہنے سے باز رکھا ویسے  بھی اماں کو اس کے اس *شغل*کا کہاں پتہ تھا

"تو مجھے خوف نہ سکھا اور باہر ہی رہ جب تک تیرے کپڑے سوکھ نہیں جاتے"

اماں نے اپنے موضوع سے ہٹنا مناسب نہ سمجھا

"ایک تو یہ بن موسم کی بارش سارا نظام زندگی درھم برہم کر دیتی ہے"

اماں کی بڑبڑاہٹیں پھر سے شروع ہوئیں اور وہ مجبورا کپڑوں کے سوکھنے کا انتظار کرنے لگی

_________________

شام میں ابا گرمی ہو یا سردی چھت پہ کھلی ہوا میں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اسی لیے سہ پہر ہوتے ہی اماں کا حکم ہوتا کہ اوپر سے چھت کی صفائی کردی جائے

یہ حکم ہوتا تو سیمعون کے لیے تھا مگر وہ کم ہی ذہن میں بٹھاتی, اول تو جاتی ہی نہیں اور اگر جاتی بھی تو تب جب ابا جا کر اوپر بیٹھ چکے ہوتے ایسے میں صفائی کرنا کہاں اچھا لگتا تھا¿

منیحہ کی اپنی بھی دلی خواہش یہی ہوتی کہ سیمعون نہ ہی جائے اس لیے وہ ابا کے آنے سے آدھا گھنٹہ پہلے جا کر پوری چھت پہ پانی چھڑک کر جھاڑو لگا آتی

اسے بڑا بننے کا ہرگز کوئی شوق نہیں تھا بلکہ

یہ اسکا ابا سے اپنی پوشیدہ محبت ظاہر کرنے کا ایک طریقہ تھا  کیونکہ اسکا ماننا یہ تھا اظہار محبت زبان سے نہیں بلکہ عمل سے کرنا چاہیے

ابھی بھی وہ جھاڑو لگا کر فارغ ہوئی کمر کے گرد باندھا دوپٹہ کھول کر جھاڑا   اور جھاڑ کر فلمی انداز میں ہوا میں اچھال کر اپنے اوپر اوڑھا

وہ اپنے دھیان میں تھی لیکن لاشعوری طور پر اس نے مڑ کر پیچھے چچا جی کی چھت پہ دیکھا وہاں تو کوئی نہیں تھا

مگر  کچھ عجیب احساس کے تحت اس نے آس پاس چاروں جانب نظریں دوڑائیں چچا جی کے گھر سے اگلے دومنزلہ مکان کی چھت پہ ایک لڑکا ہاتھ میں سگریٹ لیے کھڑا اسکی سکینگ* کر رہا تھا

وہ ایک لمحے میں شدید بے زار ہوئی اور شاید یہی تاثرات اسکے چہرے سے بھی ظاہر ہورہے تھے 

مگر عجیب ڈھٹائی کے ساتھ اس لڑکے نے بجائے شرمندہ ہونے کےایک  ادا سے سگریٹ کا ایک کش لگا کر دھواں اسکی جانب اچھالا ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ, ہاتھ میں دبا سگریٹ اور منہ سے اچھالا گیا دھواں

"کتے کا بچہ*

بے اختیار اسکے منہ سے پھسلا اور وہ جھاڑو اٹھا کر نیچے جانے والی سیڑھیوں کی جانب تیز قدموں سے بڑھ گئی نجانے کیوں اسے لگا کہ وہ آدمی مخظوظ ہنسی ہنسا تھا

" او اللہ میرا وضو تڑوا دیا اس ___* نے "

یکدم اسے یاد آیا کہ وہ تو وضو میں تھی پھر اسے گالی دینے کا بھی احساس ہوا

"خیر ساری غلطی میری بھی نہیں, وہ نہ کرتا گھٹیا حرکت تو میں بھی اسکے باپ کو گالی نہ دیتی"

ضمیر کی آواز کو دبایا

اور دیر تک اسے گالی کا تو نہیں مگر  اپنا وضو ٹوٹنے کا دکھ رہا

_______________

جمعے والے روز دوپہر کے گیارہ بجے ہی کریم علوی کے  دومنزلہ کوٹھی نما مکان کی چھت آباد ہو جاتی جب سب لوگ جمعے کی نماز اور سورت کہف کی تلاوت میں مصروف ہوتے

اس مکان کی چھت پہ آوارہ لونڈے جمع ہوتے اور پھر 

*شیشہ پیندے آں تے جیندے آں"کی عملی تفسیر پیش کی جاتی

شیشہ نوشی کا تمام سامان خوشبو بلکہ بدبو اڑاتے دھویں کے کش اور یہ سارا محلہ اس "غیر مسلم" گھر کی حالت دیکھ دیکھ کر استغفار کرتا

غرض یہ کہ ایمان تازہ ہو جاتا

دوسری منزل کی چھت پہ بنا وہ بڑا سا کمرہ ان آوارہ لڑکوں کی آماجگا ہوتا 

اسی لیے جمعے کے روز منیحہ کے گھر کی چھت پہ بڑے چھوٹے تمام  لوگوں کا جانا ممنوع ہوتا

آج بھی جمعہ تھا نماز اور تلاوت کے بعد فارغ ہوئے تو یکدم بارش برسنے کے آثار نظر آنے لگے اور منیحہ کی بے چینی عروج پہ پہنچ گئی کیونکہ ان آوارہ لونڈوں کے ہوتے ہوئے تو وہ اوپر جا کر اپنا *شغل *نہیں کر سکتی تھی

وہ لوگ علوی ہاوس نہ جاتے تھے بس امی ہی کبھی کبھار کسی میلاد یا ختم قرآن وغیرہ پہ جاتیں, نہ ہی وہ لوگ اس محلے کے کسی گھر زیادہ آتے جاتے تھے

منیحہ ,لوگوں نے تو ابھی دو سال پہلے ہی یہاں گھر بنایا اور منتقل ہوئے تھے اس لیے بلکل کوئی جان پہچان نہ تھی نہ ہی اماں ابا جوان بیٹیوں کا یوں ہر ایرے غیرے کے ہاں جانا پسند کرتے

بلکہ وہ تو اولاد کو شیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے

اس لیے وہ کچھ بھی نہ جانتی تھیں ماسوائے اس کے کہ اس صاف ستھری کالونی کے اس چھوٹے سے محلے کا سب سے امیر خاندان وہی دو منزلہ مکان کا رہائشی تھا جسکے بیرونی اطراف گہرے بھورے رنگ کا ماربل لگا تھا

مگر اسکی دعائیں رنگ لائیں اور بارش کا سلسلہ طویل ہوا مغرب کی اذان کے بعد نماز پڑھ کر وہ خود پہ قابو نہ رکھ سکی اور چپکے سے چھت پہ چلی گئی

توقع کے برعکس بے حیائی کی وہ محفل اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی اور اب وہ چھت ویران تھی

اس خبیث نے اس دن وضو بھی تڑوا دیا

جائے نماز بچھا کر اس نے دو نفل ادا کیے اور ابھی وہ دعا ہی مانگ رہی تھی جب ابا اوپر آ گئے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پہ پھیر کر وہ کانپتے ہوئے اٹھی تو ابا نے حیرت بھری مسکان سے اسے دیکھا

"ارے پگلی پوری بھیگ گئی ہو"

انھیں یہ اتفاق محسوس ہوا

"تمہیں نظر نہیں آ رہا تھا کہ بارش ہو رہی ہے¿"

انھوں نے اپنی حیرت پہ قابو پا لیا, وہ سر جھکا کر مسکرائی

*ابا بارش میں اللہ کی رحمت پکارنے کا ہی تو اصل مزہ ہے"

چہرہ جھکا ہوا تھا مگر اسکے لہجے میں جو سرور تھا وہ ابا سے چھپا نہ رہ سکا

"اچھا تو تمہیں لگتا ہے بارش میں بھیگ کر دعا مانگی جائے تو زیادہ جلدی قبول ہوتی ہے¿"

انھوں نے مسکرا کر اسے چھیڑنے والے انداز میں پوچھا

ابا بہت سنجیدہ طبیعت تھے, منیحہ نے خوشگوار حیرت سے انھیں مذاق میں بات کرتے سنا

"جی بلکل دادی تو یہی کہتی تھیں"

اسے دادی کی باتیں انکی وفات کے چھ سال بعد بھی یاد تھیں

"اچھا توکیا دعا مانگی میرے بیٹے نے¿"

ابا شاید مخظوظ ہوئے تھے

"میں نے ,میں نے بہت سی دعائیں مانگیں

آپکے لیے صحت اور ایمان والی زندگی مانگی, اور یہ دعا مانگی کہ اللہ آپکے روزگار میں برکت اور آسانیاں پیدا کرے"

وہ مزے سے سوچ سوچ کر بول رہی تھی, اور ابا بھی توجہ سے اسے دیکھ رہے تھے

"اور اماں کے لیے ,عدیل اور سیمعون کے لیے بھی دعا مانگی"

"تو میرے بیٹے نے اپنے لیے دعا نہیں مانگی¿"

انھیں خوشی ہوئی تھی انکی بظاہر لاابالی سی بیٹی اندر سے سمجھدار تھی وہ تو باقی گھر والوں کی طرح یہی سمجھتے تھے کہ وہ بارش میں بھگینے جاتی ہے

"اپنے لیے بھی مانگی تھی"

اس نے ابا کو مسکرا کردیکھا, وہ اسے ہی دیکھ رہے تھے

"اچھا چلو اب بھاگو نیچے کپڑے تبدیل کرو, ورنہ ٹھنڈ لگ جائیگی"

یکدم انھیں بہت زیادہ تشویش ہوئی اور اسے جلدی جانے کا کہا

اماں نے حسب معمول اسے اندر داخل ہونے سے منع کر دیا اس سے پہلے کہ وہ بحث مباحثہ کر کے اندر جاتی,کیونکہ اسے بھی اب  سردی لگ رہی تھی ابا نے آواز سن کر اماں کو ڈپٹا اور انھیں کہا کہ بچی کو سردی لگ جائیگی 

"چلو میرا بیٹا جلدی سے گرم کپڑے پہنو"

ساتھ ہی اسے تاکید کی

اور خلاف معمول اماں نے اسے اندر جانے بھی دیا

"لگتا ہے بیٹی کے ساتھ ساتھ باپ کا دماغ بھی الٹ گیا ہے"

اماں کی بڑبڑاہٹیں جاری تھیں

اور منیحہ پہ ایک سرشاری کی کیفیت طاری رہی

جو کہ کئی دنوں تک رہی ابا کے لیے اسکے دل میں بہت محبت تھی 

شاید ہر بیٹی کو ہی باپ سے بے انتہا محبت ہوتی ہے

یا شاید ہر لڑکی کا پہلا پیار اسکا باپ ہی ہوتا ہے

کئی دنوں تک وہ دن میں کئی کئی بار ابا کے لیے دعا مانگتی رہی

اور اسکی خوشیوں کو بریک اس وقت لگے جب علوی ہاوس سے انکے گھر "رشتہ" ڈالا گیا

پہلے پہل تو اماں ابا نے آپس میں ہی بات رکھی مگر ایک گھر میں رہتے ہوئے کب تک بات پوشیدہ رہ سکتی تھی

اور خاص طور پہ تب جب کریم انکل اور انکی بیوی تین دن بعد دوبارہ آ پہنچیں, ابا نے کچھ تامل سے کام لیا تو ان لوگوں نے بیچ میں چچا جی کو ڈالا , ابا جی تو کچھ خاص رضامند نہ تھے مگر چچا جی کا خیال تھا کہ یہ رشتہ بہت اچھا تھا خاص طور پہ اس وقت جب دونوں بھائیوں کو بٹھا کر کریم علوی نے یہ توجہح پیش کی کہ 

*بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ گھر بسانا ہو تو کوئی خاندانی, نیک سیرت عورت گھر لاو, وہ تمہارے تباہ حال گھر کو بھی جنت بنا دے گی*

ابا تو صاف کہہ گئے کہ آپکے اور ہمارے گھر کے ماحول میں بہت فرق ہے ,ہماری بچیاں اس انداز زندگی کو نہ اپنا سکتی ہیں نا ہی انکی اسکے مطابق تربیت کی گئی ہے

مگر کریم صاحب تو بضد ہی ہو گئے ,کالونی کے چند ایک اور بزرگ بھی انکی طرف سے آئے تو ابا نے فیصلے تک پہنچنے کا ارادہ کیا

اور جب منیحہ سے پوچھا گیا تو ابا کے سامنے تو وہ نہ بولی مگر اماں کو صاف منع کر دیا

بے شک وہ علوی فیملی کوجانتی نہ تھی مگر انکی غائبانہ شہرت تو اس تک بھی پہنچ چکی تھی 

جمعے کے روز وہاں جو شیشے کا اڈہ آباد ہوتا تھا وہ بھی کسی کی آنکھوں سے ڈھکا چھپا نہ تھا,  اوپر سے اس روز اس لڑکے نے جس طرح نہایت واحیات حرکت کی تھی اسکے بعد تو وہ ایسے کسی آدمی کو بحثیت شوہر ہرگز قبول نہ کرتی

مگر ابا تک اسکا انکار پہنچا تو انھوں نے صاف انکار کر دیا اور جب علوی فیملی کا اصرار بڑھا تو ابا نے صاف کہہ دیا کہ ہماری بچی اس رشتے پہ راضی نہیں

اور تب یہ انکار اسکے گلے کی ہڈی بن گیا جلال علوی نے منیحہ کی توقعات کے مطابق نہایت گھٹیا برتاو کیا

وہ بری طرح خوفزدہ ہو گئی  اب اسکو بلکل اندازہ نہیں تھا کہ اسے کہا کرنا چاہیے

اصل زندگی کہانیوں سے بہت مختلف تھی

اسکی ایک ذرا سی غلطی یا بھول چوک اسکے باپ کی برسوں کی بنائی عزت تباہ کر سکتی تھی اور ایپ مرتبہ انکار کے بعد اسکے پاس اب دوسرا کوئی راستہ بھی نہیں بچا تھا

اور اگر کوئی راستہ تھا , تو وہ اس سے لاعلم تھی, اگر اماں کو اسکی حرکت کے بارے بتاتی تو انھوں نے سارا ملبہ اسکے سر پہ رکھ دینا تھا اور ابا کو بتاتی تو وہ نجانے کیا کرتے یقینا بے حد پریشان ہو جاتے ایسے میں وہ کیا کر سکتے تھے

علوی خاندان ہر لحاظ سے ان سے طاقتور تھا اور اس معاشرے میں مرد قتل بھی کر دے تو بدنام نہیں ہوتا 

لیکن عورت کی آہ بھی سنائی دے تو لوگ ہزار کہانیاں گھڑ لیتے ہیں

____________________________

آخر حالات ابا تک بھی پہنچ گئے, اور حسب توقع وہ عزت دار آدمی اتنا پریشان ہوا کہ منیحہ کو اپنا آپ مجرم لگنے لگا

مگر ایک بات کی اسے ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی کہ انکے انکار کا اتنا مسئلہ کیوں بنایا گیا

ابا کی تشویش اسکی سمجھ میں آ چکی تھی 

وہ آہ بھی نہ کرنا چاہ رہے تھے کیونکہ معاملہ انکی بیٹی کا تھا

لوگ تو لڑکی ہی کو قصور وار ٹھہراتے

اور تب انکی پھول سی, پاکیزہ معصوم بچی معاشرے میں بدنام ہو جاتی

تو وہ کس کس کو وضاحت دیتے¿

کس کس کو بتاتے کہ انکی بیٹی بے قصور ہے

اور وہ آوارہ امیر زادہ انکے انکار کو اپنی انا کا مسئلہ بنا چکا تھا

کریم علوی اور انکے بیٹوں خصوصا جلال کی حرکتیں ان سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں

پھر جب انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اس بات کے متعلق اپنے بھائی مشورہ کیا تو اس نے اپنا موقف دہرایا

انکے خیال میں رشتہ اچھا اور منیحہ سعادت مند اور نیک بچی تھی وہ یقینا اس لڑکے کو سدھار لیتی

مگر وہ یہ بھول گئے کہ

جو شخص اپنے ماں باپ کے کہنے پہ راہ راست پہ نہیں آتا وہ ایک عورت کے لیے کیونکر آئیگا¿¿

اور جب ابا نے اسے بلا کر مجبور لہجے مین سمجھانے کی کوشش کی تو وہ کچھ نہ بول سکی

جو مجبوریاں ابا اسے بتانا چاہ رہے تھے

ان سے تو وہ پہلے سے آگاہ تھی

اسے پتہ تھا کہ علوی ہاوس والے بہت اثر و رسوخ والے تھے اسے یہ بھی پتہ تھا کہ بدنامی صرف اسکی ہوتی اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اسکے ساتھ ساتھ اسکی بہن کی زندگی بھی تاریک ہو جاتی

اور ایسے میں اس ایک کی خوشی کی حاطر اسکا سارا خاندان تباہ ہو جاتا

اس نے اپنی زندگی اور اپنی خوشی کی قربانی خاموشی سے قبول کر لی

اسے ابا کے جھکے کندھے قبول نہیں تھے

اسی لیے اس نے اپنا سر جھکا کر نکاح نامے پہ دستخط کر دئیے

شادی جس طرح سے آنا فانا ہوئی تھی کچھ بھی ڈھنگ سے نہ ہو سکا مگر اس مختصر تقرہب کے بعد جوں ہی اس نے علوی ہاوس میں قدم رکھا تو جانا کہ وہ لوگ تو بہت سی تیاریاں کر چکے تھے مرکزی دروازے سے سیژھیوں کے سامنے تک سرخ پھولوں کی روش بنائی گئی تھی

وہ جو رو رو کر نڈھال ہو چکی تھی اب حیران پریشان تھی اپنے گھر سے یہاں تک کا مختصر سا فاصلہ صدیوں کی مسافت محسوس ہوا

پورا راستہ وہ "الروف" کے اسم حسنی سے اپنے رب کو پکارتی رہی گوکہ اس گھر سے, اس شادی سے اسکی کوئی اچھی امید وابستہ  نہ تھی مگر اسے اپنے رب سے ابھی بھی بہت سی امیدیں تھیں

جلال علوی,جسکے نام اس نے اپنے تمام حقوق لکھ دئیے تھے,

اسکا جذبات کا خانہ ابھی بلکل خالی تھی نہ دل میں محبت تھی نا ہی   نفرت

لیکن ایک جذبہ بہت زور آور تھا اور وہ تھا "خوف".

وہ بے حد خوفزدہ محسوس کر رہی تھی 

گھر میں کافی سارے لوگ تھے

جلال کی بہن, بھابھیاں, بھائی اور بہنوئی اسکے کچھ کزنز اور انکے خاصے کھلے ڈھلے مذاق اسے مزید خوفزدہ کر رہے تھے صوفے پہ اسکے قریب جو دوسرا وجود بیٹھا تھا وہ لاشعوری طور پہ اس سے دور بیٹھنے کی کوشش کر رہی تھی, اور اسکو جلال کا سامنہ کرنے سے خوف آ رہا تھا

"چلو بھئی دلہن کو اسکے کمرے میں چھوڑ دو کمزور سی ہے تھک گئی ہو گی"

آنٹی نے نجانے مذاق کیا تھا یا احساس مگر سب کے قہقہے اسے مزید ہولائے دے رہے تھے

ایسی صورتحال میں شاید دلہنیں شرماتی ہوں گی مگر اسکی جاں  لبوں تک آ گئی تھی

سیژھیوں پر  پھولوں کی روش کو روندتے ہوئے جو لڑکی اسے اسکے کمرے میں پہنچانے گئی تھی وہ شاید اسکی نند تھی

اسے صوفے پہ بٹھایا, اور کمرے کا تنقیدی جائزہ لیا

"امید ہے کمرہ پسند آیا ہو گا¿"

خوش اخلاقی سے دریافت کرتی وہ اسے سر اٹھا کر دیکھنے پہ مجبور کر گئی

"جج جی!"

اسکے الفاظ گلے میں دم توڑ گئے

"اگر تم چاہو تو بیڈ پہ ریلکس ہو کر بیٹھ جاو کیونکہ ہم لوگ اسے اتنی آسانی سے نہیں آنے دیں گے"

"کسے¿"

غائب دماغی میں بے اختیار اسکے لبوں سے پھسلا

"کیا ہو گیا بابا, تمہارے دلہے کو اور کس نے آنا ہے ادھر¿"

انھیں حیرت ہوئی

"میں کیا جیولری اتار دوں, مجھے چھب رہی ہے "

اس نے اجازت طلب نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا

"پاگل ہو گئی ہو,یہ لاکھوں کا ڈریس اور یہ میک اوور اس لیے کرایا ہے کہ میرا بھائی ڈھنگ سے جی بھر کے دیکھے بھی نا"

اسنے آگے بڑھے کے اسکے سر سے چادر اتاری جو عروسی دوپٹے کے اوپر اوڑھ رکھی تھی

"بلکہ میں تو کہتی ہوں تھوڑا میک اپ فریش کر لو, رونے کی وجہ سے فنشنگ خراب ہو گئی ہے"

انھوں نے خود ہی کہنے کے ساتھ کی آگے بڑھ کر کہیں سے میک اپ کا سامان نکالا اور اسکا چہرہ پف کیا

"دھیان سے دلہن میرا بھائی ذرا امپلسو طبیعت کا مالک ہے, گھبرانا نہیں"

اکنے کام سے فارغ ہو کر انھوں نے بظاہر شرارت سے آنکھ دبا کر کہا تو منیحہ کی رہتہ سپتی ہمت بھی جواب دے گئی

اور اسکے بعد جو انھوں نے مزید چند باتوں کی تاکید کی اس سب تو تو منیحہ کے کانوں سے دھواں نکال دیا

وہ تو چلی گئیں مگر اسے محسوس ہوا جیسے وہ کچھ دیر میں بے ہوش ہو جائیگی

نجانے اسکے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے¿

وہ جلال کے ساتھ کس طرح پیش آئیگی اسے اس بات کا بھی کوئی اندازہ نہ تھا

اگر اسکی شادی کسی "نارمل" طریقے سے ہوئی ہوتی تو اسکے پاس بہت سے پلینز ہوتے, اسکے پاس ہمیشہ ہر کام کے لیے ایک سے زائد منصوبے ہوتے تھے مگر پہلی بار ہوا تھا

وہ مکمل گھبرائی ہوئی یہ جوا جیسا ہی تھا

ہو سکتا کہ وہ اچھی بازہ کھیل جاتی ہو سکتا تھا سب کچھ ہی ہار جاتی

اسے اپنے مستقبل کا کچھ پتہ نہ تھا

انھی سوچوں میں غلطاں اسے دروازہ کھلنے کا احساس نہ ہوا

پتہ تب چلا جب وہ دروازہ لاک کر رہا تھا

دروازے کے بعد وہ کھژکی کی جانب گیا , اسے لاک  کیا اور تب تک منیحہ کا دل سینے کی دیوار توڑ کر باہر نکلنے کو بیتاب تھا

"یا میرے رب تو بہت رحیم ہے, میرہ رہنمائی کرنا, مجھ پہ فضل کرنا"

تیزی سے دعا مانگتا اسکا دل اور حرکت کرتے اسکے لب تب تھمے جب وہ  اسکے سامنے آن براجمان ہوا

اسکے بیٹھتے ہی وہ اپنے آپ میں مزید سمٹی

شاید وہ شاطر انسان محسوس کر گیا تھا

چند پل وہیں جما رہا پھر ہنستے ہوئے بیڈ پہ ڈھے گیاشیروانی کے اوپری بٹن کھلے تھے منیحہ نے نگاہیں لاشعوری طور پہ مزید جھکا لیں

"ویلکم مادام" بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی سے اسکی تھوڑی اوپر کی

وہ کچھ نہ بول سکی, مگر غیر دانستہ طور پہ نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا, وہ مسکرارہا تھا

"جی تو مادام منیحہ جلال علوی"

وہ لیٹے لیٹے کچھ اسکی جانب کھسکا اور سر کو دائیں ہتھیلی کے سہارے کچھ اوپر کیا

منیحہ نے لب دانتوں سے کاٹے

سینے کے اس پار دل بے قابو رہا

"بندہ آپکو ویلکم کرتا ہے"

, بایاں ہاتھ سینے پہ ٹکا کر یوں کہا جیسے دونوں کی برسوں کی محبت ہو, اور قربانیوں کے بعد یہ وقت دیکھنا نصیب ہوا ہو

"خوبصورت بھی ہیں آپ"

منیحہ کو محسوس ہوا وہ اسکی حالت کا مزہ لے رہا ہے, دل ڈوب کے ابھرا

"مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ مغرور بدمزاج لڑکی حسین بھی ہے"

آگے بڑے کر اسکے گلے میں موجود ہار کو چھوا,وہ تڑپ کر پیچھے ہوئی

(اتنی دست درازی)

اور اس آدمی کا قہقہہ بہت بلند تھا

چند پل ہنسنے کے بعد وہ سیدھا ہو بیٹھا

"آپی کہہ رہی تھیں کہ تم کچھ ان کفمرٹ ایبل ہو, کیا خوش نہیں ہو¿"

ایسے پوچھا جیسے ہر بات سے لاعلم ہو منیحہ نے اپنی دھڑکن پہ قابو پاکر اسے دیکھا

وہ اسی کی جانب متوجہ تھا

"مطلب خوش نہیں ہو"

اسے مسلسل خاموش دیکھ کر اس نے خود ہی اندازہ لگایا

"جی نن نہیں"

وہ ہکلا کر رہ گئی, تو وہ کچھ نہ بولا

"میں بڑا اکسائٹڈ تھا تمہیں دیکھنے کے لیے"

بڑے سکون سے بتایا جیاے تذکرہ کر رہا ہو ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اسکے کان کے بندھا چھوا منیحہ ابکی بار پھر کچھ پیچھے ہوئی , وہ  پھر مخظوظ ہوا

اور اسکے بعد اس نے کوئی چھوٹی موٹی گستاخی کرنے کی بجائے براہ راست اسکا گال چوما

سارا لحاظ بالائے طاق رکھ کر وہ جنگلی انداز میں بستر پہ پیچھے کو کھسکی

"جلال پلیز نہیں"

ساتھ ہی بے ساختہ اس سے درخواست کی, دوسری جانب وہ بھی یوں بیٹھ گیا جیسے اسے بھی کوئی جلدی نہ ہو

"کیوں ابھی بھی کوئی اعتراض ہے¿"

وہ آنکھیں سکیڑ کر پوچھ رہا تھا منیحہ نے لاشعوری طور پہ براپ راست اسکی آنکھوں میں دیکھا وہاں سختی نہیں تھی

وہ سرشارتھا

شاید اسکی ضد* پوری ہو گئی تھی

جو اسے چاہیے تھا وہ اسکی دسترس میں تھا ,اسکے بستر پہ وہ عورت بیٹھی تھی جو اسے پر صورت چاہیے تھی

مرد کے لیے اس سے زیادہ سرشاری کا لمحہ کیا ہو سکتا تھا

"نن نہیں"

اس نے دوپٹہ پھر سے سر پہ جما کر اسکا کونا تھاما

"تو پھر¿"

وہ شیروانی  کے باقی ماندہ بٹن کھولنے لگا

"میری ایک شرط ہے مطلب میری ایک وش ہے*

یکدم اسے احساس ہوا کہ شرط کا لفظ اسے برا بھی لگ سکتا تھا

" او سیرئسلی¿"

وہ حیران ہوا,منیحہ نے تھوک نگلا, اور اپنے بے قابو ہوتے دل کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کی

"جی میرا مطلب آپ پہلے میری بات مانیں پھر جو آپ کہیں گے میں وہ مانوں گی"

سر جھکا کر اس نے اپنا سرخ چہرہ چھپانے کی ناکام سی کوشش کی

"اور اگر نہ مانوں تو¿"

شرط اسکی انا پہ کاری لگی, مگر منیحہ نے خود کوکمزور نہیں پڑنے دیا

اللہ اسکی مدد کر رہا تھا, اگر یہ آدمی پرانی کوئی بات بیچ میں نہ لارہا تھا تو اسے کیا ضرورت تھی بیکار کا جھگڑا کھڑا کرنے کی

اسکے ہاتھ میں صرف ایک کوشش تھی جو اسے اس بدحال اور آزادمنش انسان سے بچا سکتی تھی اور وہ یہ کوشش کر رہی تھی

اس نے کوشش کرنے کا فیصلہ کر لیا

"اگر آپ میری بات نہیں مانیں گے تو میں بھی نہیں مانوں گی"

دلفریب سے انداز میں طرح دکھایا

"او واقعی¿ اور اگر میں اپنی منوا لوں تو¿"

"آپ ایسانہیں کریں گے"

منیحہ نے یقین سے کہا

اور یہ یقین جلال پہ نہیں بلکہ اسے اپنے اللہ پہ تھا

وہ یقینا اسے یوں ضائع نہ کرتا

جلال کو بھی اب دلچسپی ہو رہی تھی اس لڑکی سے ایسے کسی رویہ کی امید لگائے تو نہ بیٹھا تھا

وہ تو یہی سوچ رہا تھا کہ لڑکی اسے لعنت ملامت کرے گی اور وہ اپنی طاقت ثابت کرے گا

یا یہ بھی سوچا کہ شاہد وہ اپنے سابقہ رویہ کی معافی مانگے اس صورت میں بھی جلال نے یہی سوچا تھا کہ پہلے.اسے اپنا آپ دکھائے گا

مگر یہ تو "شرطیں" رکھ رہی تھی جو کہ اسے نے قطعی طور پہ گمان نہ کیا تھا

یہ تو "شرطیں" رکھ رہی تھی جو کہ اسے نے قطعی طور پہ گمان نہ کیا تھا

"دلچسپ"

*تم ٹھیک طرح سے جانتی نہیں مجھے"

شیروانی کے سارے بٹن کھل چکے تھے اور اب وہ اسکے جواب کا منتظر تھا

"شاید "

منیحہ نے نہ جاننے کا اقرار کیا

"لیکن بہتر نہیں کہ آپ میری خواہش پوری کریں اور میں , آپکی بات* مانوں"

اس نے دانستہ اسکی" خواہش" نہ کہا

"چلیں جی وہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں پوری رات پڑی ہے"

اور مس منیحہ نے جس خواہش کا اظہار کیا وہ جلال علوی کے چودہ طبق روشن کر گئی

کم از کم ایسا اس نے کچھ بھی نہ سوچا تھا

بہت دیر تک وہ کچھ نہ بول سکا اسکے پاس بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں

اور جب وہ حواس میں لوٹا تو اس نے قہقہہ لگا کر منیحہ کی بات ہوا میں اڑانے کی کوشش کی, اسکا مذاق بھی بنایا

مگر وہ تو شاید سوچ کر آئی تھی کہ پہلے اپنی منوائے گی پھر ہی اسکی مانے گی

اور اتنی *اہم تو ابھی وہ تھی کہ جلال اسکے دیدار خاص کے لیے اسکی شرط مان لیتا

تاریخ گواہ ہے مرد اپنےطلب کی عورت کو خوش کرنے کے لیے, محض ایک دفعہ اسکی قربت حاصل کرنے کے لیے جان تک کی بازی لگا  دیتا ہوتا ہے

اور منیحہ توصرف جلال علوی کو دو نفل پڑھنے کے لیے کہہ رہی تھی

کچھ پس و پیش کے بعد وہ مان ہی گیا ویسے بھی فی الوقت اسکی توجہ منیحہ صاحبہ کو یہ بات ثابت کرنے پہ تھی

کہ اب وہ اسکا کل مالک* تھا

اب منیحہ سلمان نہ چاہتے ہوئے بھی جلال علوی کے حق ملکیت میں جا چکی تھی اور جلال کو یہ بات اس پہ آج رات ہی ثابت کرنی تھی پھر چاہے اسکے لیے اسے یہ بونگی سی بات ہی کیوں نہ ماننی پڑتی

اور ویسے بھی دو نفل پڑھنے سے کیا ہو جانا تھا

دو نفل بھی کبھی کسی کو بدل سکے ہیں کیا¿¿¿.خود کو تسلی دے کر وہ وضو کرنے چلا گیا

منیحہ وضو میں تھی , شاید وہ پوری تیاری کر کے آئی تھی جبکہ جلال ابھی وضو کرکے آیا

اس نے دو چادریں بچھائی

"آپ آگے کھڑے ہوں"

وہ جو پیچھے کھڑا ہو گیا تھا,منیحہ نے اسے امامت کا کہا

"ارے بابا میں کوئی نمازی وازی نہیں ہوں تم پژھو میں بھی پیچھے پڑھ لوں گا*

وہ جہالت کے نجانے کونسے مرتبے پہ تھا اور اس میں نجانے کس کا قصور تھا¿

اسکے ماں باپ کا یا اسکا اپنا ¿¿

",عورتیں امامت نہیں کرتیں,آپ کا مرتبہ زیادہ ہے آپ پڑھائیں میں پیچھے پڑھوں گی"

کچھ دیر پہلے اتاری گئی چادر اس نے پھر سے عروسی لباس کے اوپر لپیٹ لی اسکا دل خوش ہوا تھا

کہ اسکے اللہ نے اسے اکیلا نہیں چھوڑا تھا

اللہ تو کبھی بھی کسی کو اکیلا نہیں چھوڑتا ہم ہی امید ہار جاتے ہیں اورمایوس ہو کر رب کو ناراض کر بیٹھتے ہیں

اور وقت نے دیکھا کہ اس رات جلال علوی کے اس پھولوں سے سجے کمرے میں وہ شاید پہلی مرتبہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اسکی سہاگ رات تھی کیونکہ عروسی ملبوس میں لپٹی اسکی سجی سنوری بیوی اسکے پیچھے سجدے میں گری رب سے کہہ رہی تھی

"میرے اللہ تو کہتا ہے نیک عورتیں کے لیے نیک مرد ہیں اور بری عورتوں کے لیے برے مرد,میرے رب تو جانتا ہے میں نے ہر کبیرہ گناہ سے اپنے آپ کو بچایا اور یہ سب تیرے فضل سے ہوا,اب بھی تو اس آدمی کو میرے لیے نیک اور مبارک کر دے

میرے رب میں اسکو تیرے در تک لائی ہوں اب تو چاہے تو ہمیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لے اورچاہے تو دھتکار کر واپس کر دے

اے ستر ماوں سے زائد محبت رکھنے والے ہمیں شیطان کے شر سے بچا کر اپنی رحمت میں لے لے"

آنسو اسکی سجدہ گاہ کو تر کر رہے تھے جبکہ جلال علوی کا جوش و جذبہ عروج پہ تھا دعا کے بعد اس نے ہاتھ منہ پہ پھیرا اور چادر اسے پکڑاتا اٹھ کھڑا ہوا

اس نے منیحہ سلمان کی خواہش پوری کر دی تھی

اب منیحہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا سوائے اسکے کہ اسکی خواہشات پوری کرتی

اور اس معاملے میں جلال علوی بہت بے صبرا تھا

"کوئی ضرورت نہیں چینج کرنے کی اچھی لگ رہی ہو"

وہ جو کپڑے تبدیل کرنے میں کچھ وقت لگانے کے پر تول رہی تھی جلال نے روک دیا 

اب وہ مکمل طور پہ اپنے بس سے باہر جلال کے بس میں تھی

اس نے خود کو دانستہ جلال کے حوالے کر دیا

اگر اللہ نے اس شخص کو  منتخب کیا تھا تو ضرور اسی میں بہتری تھی*

اس نے خود کو ایک بار پھر باور کرایا

اور رات اپنی تاریکی میں گہری ہوتی قطرہ قطرہ ڈھلتی رہی

اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو منیحہ سلمان اپنے آپ میں سمٹی ہوئی تھی جبکہ جلال علوی سر سے پاوں تک سرشار تھا.ایک سرور سا اسکے انگ انگ سے جھلک رہا تھا

منیحہ کو تو ڈھنگ سے نیند ہی نہیں آئی بلکہ نیند کے باوجود وہ سو نہ پائی

نئی جگہ, نئی زندگی, نیا بستر اور پھر وہ سب

اسے خود میں سمٹنے پہ مجبور کر رہا تھا اوپر سے گھڑی نے نو بجا دئیے مگر کوئی انکے کمرے کی جانب نہیں آیا

خود سے منہ اٹھا کر باہر جانے کی ہمت نہ تھی

"پتہ نہیں سب کیا سوچ رہے ہوں گے"

نئی نویلی دلہن کی طرح اسے یہ خیال کھائے جا رہا تھا پھر اسکی سن لی گئی اور دروازے پہ دستک ہوئی کوئی نئی خاتون تھیں شاید جلال کی بھابھی

"اٹھ جاو بھئی تم لوگ اب تو دن بھی آدھا گزر گیا"

انھوں نے کمرے میں قدم رکھتے ساتھ ہی ہلچل مچا دی 

"کیسی ہو ولیمہ برائڈ¿"

انھوں نے اسے آگے بڑھ کر گلے لگایا , فارمل سا شرارتی انداز

"ٹھیک"

وہ خجل سی یہی کہہ سکی

"جلدی کرو ڈارلنگ دن کا فنکشن ہے اور ابھی ناشتہ بھی رہتا ہے اور تمہاراپارلر سے اپائمنٹ بھی ہے"

انھوں نے آس پاس نگاہ دوڑا کر اسے الرٹ کیا

"جی میں تو کب سے انتظار کر رہی ہوں یہ اٹھ ہی نہیں رہے"

اپنے گرد دوپٹہ لپیٹے کھڑی وہ شرمندہ ہوئی

اتنی آسانی سے نہیں جاگتا یہ اسے جگاو پھر اس نے بھی سیلون جانا ہو گا اوپر سے انتظامات میں بھی کیڑے نکالنے ہیں اٹھاو اسکو"

اسے کہتی وہ واپس چلی گئیں جانتی تھیں جلال نے جس طرح شادی کی تمام تیاریوں میں نقص نکالے تھے ولیمے کی تیاری میں بھی نکالے گا

جبکہ منیحہ سوچتی رہ گئی کہ وہ اسے کیسے جگائے, اسے شرم محسوس ہو رہی تھی

اوپر سے نجانے وہ کس طرح سے پیش آتا

"اٹھ جائیے"

اسنے بمشکل ہمت کر کے اسکے پاوں کے تلوے چھوئے

مگر رتی برابر اثر نہ ہوا کچھ دیر وہ مزید آوازیں دیتی رہی مگر جلال صاحب عام دنوں میں گیارہ بجے اٹھتے تھے آج تو دلہے میاں تھے

"بھابھی کہہ رہی ہیں دیر ہو گئی ہے اب اٹھ جائیں"

اس نے پھر سے انگوٹھا ہلایامگر اثر ناپید

وہ سخت مایوس ہوئی کیونکہ اسکا اٹھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا

"جلال"

قدم قدم چلتی وہ بستر کے سرہانے کی جانب آ گئی مبادا اسے پائنتی سے آواز نہ سنائی دی ہو

"جلال اٹھ جائیے"

اسکا بازو دو انگلوں سے ہلایا

مگر جواب پھر ندارد

(اب کیا کروں)

*پتہ نہیں کیسے جاگتے ہیں¿"

اس نے خود کلامی کی اور جھک کر اسکا بازو ایک اور مرتبہ ہلایا اور خلاف معمول اس نے کروٹ بدلی منیحہ وہیں  منتظر کھڑی رہی

"اٹھ جائیں پلیز"

دبی دبی سی التجا کی  جو شاید اس نے سن لی

"کیا زلزلہ آ گیا صبح صبح¿"

اس نے بند آنکھیں بمشکل تھوڑی سی کھول کر جھری میں دیکھا سامنے ایک انجان نسوانی وجود نظر آیا تو آنکھیں کچھ مزید وا کیں

"کیا ہے بھئی"

دماغ کی بتی جلی, تار سے تار ملے تو گزشتہ رات کے سارے  واقعات ذہن کی سکرین پہ گھوم گئے

بے ساختہ سی مسکان نے اسے چھوا اور وہ اٹھ بیٹھا

"صبح صبح کیا آفت آ گئی ہے¿"

اب کی بار موڈ معمول کے مطابق تھا,بے زاری جاتی رہی

"بھابھی کہہ رہی ہیں کہ دیر ہو گئی پھر   تیار ہو نے سیلو ن بھی جانا ہے"

"ارے یار بھابھی کو کہو کہ ابھی کل والی تیاری تو سمیٹ لینے دیں"

ٹراوزر کھینچ کر وہ پھر سے اوندھے منہ لیٹ گیا

کچھ دیر ویسے ہی دراز رہا منیحہ صوفے پہ جا بیٹھی

*بات سنو"

پھر جلال کو شاید کچھ یاد آیا تو سیدھا ہو کر اسے دیکھا

"ہو تو تم کافی پیاری,"

اسکی آنکھوں میں ستائش تھی منیحہ پانی پانی ہوئی

"ادھر آو"

بالوں میں ہاتھ پھیر کر وہ سیدھا ہوا, منیحہ

آہستگی اور نا سمجھی سے اپنی جگہ پہ کھڑی ہو گئی

"آ بھی جاو"

اصرار کیا تو وہ قدم قدم چلتی دوپٹہ سنبھالتی بستر کے قریب آ رکی

"بیٹھ جاو, یا اب نہیں بیٹھنا"

شرارت سے کہتا وہ اسے مزید خجل کر رہا تھا.

"میں نے سوچا تھا کہ شادی کی پہلی صبح تمہں یاد دلاوں گا کہ تم نے مجھے کیا کیا کہا تھا"

اسے کھینچ کر بستر پہ بٹھا دیا

"مگر ابھی میرا ارادہ بدل گیا"

اسکا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایاوہ لاشعوری طور پہ ہاتھ چھڑانے کی سعی کرنے لگی 

"بے فکر رہو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا تمہیں, جتنی محنت تم پہ کی ہے ڈبل وصول کروں گا"

اسے بستر پہ گرا کر خود نیچے اتر آیا

"بھابھی کہہ رہی تھیں ناشتے کے لیے آ جانا"

اسے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا جائزہ لیتے دیکھا تو مجبورا بتایا

"اچھابھئی جو حکم سرکار"

وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا اور دروازے کی چٹخنی گرائی,منیحہ نے بستر سمیٹا

کچھ دیر بعد دروازے کی چٹخنی گری تو اس نے سراٹھا کر دیکھا 

وہ جھانک رہا تھااسکے سر اٹھا کر دیکھنے پہ بولا

"کم آن لیٹس ٹیک آ باتھ ٹو گیدر"

"بے ہودہ انسان"

وہ رخ موڑ کر کھڑی صرف سوچ ہی سکی جبکہ وہ قہقہہ لگا کر واپس اندر گم ہو گیا

ناشتے کی ٹبیل تک پہنچنے میں انھیں خاصہ وقت لگا مگر بچت ہو گئی کہ سب ناشتہ کر چکے تھے اور اب ولیمے کی تیاریوں میں لگے تھے  کسی نے بھی زیادہ توجہ ان دونوں کی جانب نہ کی  مگر منیحہ کو تو حیاء کے مارے نوالہ نگلنامشکل لگ رہا تھا

"آج کی کیا کوئی خصوصی تیاری ہے ¿"

جوس کا آخری گھونٹ بھر کر وہ اٹھ کھڑا ہوامنیحہ نے نا سمجھی سے سوال سنا

"پتہ نہیں"

"ویسے تیاری نہ بھی کرو تو کام چل جائگا"

بھرپور نگاہ اس پہ ڈال کر پھر سے کہا اور جس طرح وہ سرخ ہوتی تھی

جلال جان بوجھ کر بار بار یہی بات کرتا 

"اب رات میں ملیں گے"

بھابھی کے ساتھ پارلر کے لیے نکلتے دیکھا تو وہ سلیپرز میں پاوں گھسیٹتا انکی جانب آیا

"زیادہ جلدی ہے تو ابھی مل لو"

بھابھی نے جواب دیا وہ تو ڈھٹائی سے ہنسا مگر منیحہ کی جان ہوا ہونے لگی

"نہیں ابھی کے لیے کافی ہے, میں رات تک انتظار کر لوں گا, بھائی کی طرح نہیں ہوں"

شان بے نیازی سے کہا اور دیور بھابھی کا اس قدر واہیات قسم کا مذاق منیحہ کو سر جھکانے پہ مجبور کر گیا شکر ان دونوں مزید ایک دوسرے کی ذاتیات پہ روشنی نہیں ڈالی

ولیمے کا فنکشن ان لوگوں نے اپنے حساب سے رکھا ہوا تھا

مہمانوں کی ایک بڑی تعدار موجود تھی گیدرنگ نہ تو مکمل سیپریٹ تھی نا ہی مکس بس ملا جلا سا ماحول تھا

آزادانہ طور پہ مرد عورتوں کی طرف اور عورتیں مردوں کی طرف آ جا رہے تھےرسم کے مطابق اسے اپنے گھر جانا تھا  منیحہ جانا بھی چاہتی تھی مگر آنٹی اور اسکی بہن نے ڈھٹائی سے اسے رات وہیں  روکنے پہ اصرار کیا اور کہا کہ صبح خود چھوڑ جائیں گے 

حالانکہ منیحہ جانا چاہتی تھی

اسکی فطری سی خواہش تھی کہ اپنے گھر جائے گوکہ مستقبل میں اسے وہیں رہنا تھا مگر پھر بھی پہلا دن بہت مشکل تھا

اور یہ رات پچھلی رات سے زیادہ مشکل تھی

گزشتہ رات اسے انجان ہونا ڈرا رہاتھا  اور آج کی رات کچھ باتوں کا علم ہونا اسکا خون پتلا کر رہا تھا

جلال گزشتہ شب کی طرح اج کی رات بھی اسکی خواہش پوری کرنے پہ آمادہ ہو گیا

منیحہ نے گھنٹہ بھر لگا کر میک اپ اتارا کپڑے تبدیل کیے وضو کیا  اور پھر گزشتہ شب کی طرح آگے پیچھے چادریں  بچھائیں وہ مجبورا ہی سہی دو منٹ دینے پہ راضی ہو گیا

اور ان دو منٹوں کے بدلے اس نے منیحہ کو صبح صادق تک جگائے رکھا  اور وہ جو بچنے کے لیے ہر کام آرام و سکون سے کر رہی تھی اسکی کوئی کوشش بار آور نہ ہوئی اور آخر ہوا وہی جوجلال.کی خواہش تھی

وہ نہ بھی مانتی تو وہ بذریعہ طاقت اپنے مطالبات منوا لیتا یوں دونوں کی وقعت کم ہوتی

اس نے خود کو اللہ کے فضل.کی امید دے کر جلال.کے حوالے کر دیا

اور جلال نے درست کہا تھا وہ اپنی پوری محنت وصولنے کا ارادہ رکھتا تھا

_______________

اگلے دن خلاف معمول وہ بھی کچھ دیر سے اٹھی نماز فجر قضا میں ادا کی اور پھر جلال کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی

خود سے اٹھ کر باہر جانا اسے برا لگ رہا تھا کچھ شرم بھی محسوس ہو رہی تھی

"جلال پلیز اٹھیں نا"

اس نے نو بجے کے قریب اسکا کندھا ہلایا وہ بغیر اثر لیے دراز رہا

"جلال پلیز"

"اتنی دیر ہو گئی ہے سب انتظار کر رہے ہوں گے"

ابکی بار وہ اسکے سرہانے ٹک گئی

"صبح صبح کیوں بور کر رہی ہو اگر تمہیں نیند نہیں آ رہی تو باہر چلی جاو"

اس نے بات ہی ختم کر دی انداز کچھ ایسا بے زاری لیے ہوئے تھا جی دوبارہ جگانے کی منیحہ کی ہمت ہی نہ ہوئی

کچھ دیر بعد وہ ایک سادہ سے لباس میں دوپٹہ لپیٹے جھجکتی ہوئی باہر آ گئی

انکا کمرہ اوپری منزل پہ تھا سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ بہت سست رو تھی جبھی جلال کی بہن نے اسے دیکھا

"ارے گڈ مارننگ آجائیے دلہن صاحبہ"

انھوں نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا

سلام کرتی وہ بھی ان سب کے بیچ ہی ٹک گئی

"جلال نہیں اٹھا¿"

"نہیں وہ نہیں اٹھے"

اس نے کچھ خجل ہو کر بتایا جلال کا بہنوئی اپنی بیوی کے برابر میں بیٹھا تھا

"دلہے صاحب نہین اٹھتے اتنی جلدی"

اس نے بیوی کو آنکھ مار کر معنی خیزی سے کہا منیحہ نے پہلو بدلا

"اچھا بھابھی یہ بتائیں کیسا رہا شادی کا تجربہ¿"

"جی¿"

وہ جو بیوی کے کندھے  پہ سر رکھے نیم دراز سا تھا اٹھ بیٹھا

"مطلب بھابھی کیسا لگا آپکو ہمارا سالا"

اس نے شاید سوال اسان کیا تھا یا مزید فضول 

"اچھے ہیں"

وہ بمشکل یہی کہہ سکی

"صرف اچھے ¿ بھئی مجھے تو لگتا تھا ہمارے سالے صاحب بڑے جذباتی طبیعت کے مالک ہیں"

دونوں میاں بیوی نے قہقہہ لگایا

"بھئی تم ذرا وقت تو دو بیچارے کو ابھی تو شادی کی تیاریوں میں پھنسا رہا"

بہن نے شوہر کو ڈپٹا جبکہ منیحہ کو لگ رہا تھا اس نے یوں اکیلے نیچے آ کر غلطی کی

انکے ہاں تو ابا کے سامنے اونچی آواز نکالنا بھی ممنوع تھا کجا کہ واہیات مذاق کر کے اونچے قہقہے لگانا

"اچھا بھئی بیچاری کو ناشتہ واشتہ دو بھوکی ہو گی"

شوہر نے بیوی کی توجہ اسکی جانب دلائی وہ جو انکار کرنے لگی تھی کہ بعد میں سب کے ساتھ ناشتہ کر لے گی ان دونوں کے ایک اور قہقہے پہ کنفیوز ہو گئی پتہ نہیں وہ دونوں کیسی معنی خیز باتیں کر کر کے ہنس رہے تھے

اسے کچھ شرمندگی بھی ہو رہی تھی جو بھی تھا موضوع گفتگو تو وہی تھی بلکہ اسکی اور جلال کی نجی زندگی 

اللہ اللہ کر کے جلال گیارہ بجے تک اٹھ کر آ ہی گیا

پھر اپنے بھائی اور بہنوئی کے ساتھ بیٹھ کر وہ نجانے کون کونسے قصے سناتا رہا اور وہ لوگ قہقہے لگاتے رہے 

مگر سہ پہر تک جلال اسے لے کر اسکے گھر بلکہ اب اسکا گھر تو نہ تھا وہ تو اب صرف اسکا میکہ تھا 

جلال کی امی بھی ساتھ جانا چاہ رہی تھیں مگر وہ عجیب آدمی تھا کھرا کھرا انکار کر کے اسے آنے کا کہہ کر چلتا بنا وہ کنفیوز اور کسی حد تک شرمندہ ہوتی اسکے پیچھے آئی 

"پیدل ہی چلے جاتے ہیں دومنٹ کا تو راستہ ہے"

اسے گاڑی نکالتے دیکھ کر منیحہ نے رائے دی

"سویٹ ہارٹ تمہیں چھوژ کر ایک کام سے جانا ہے مجھے ,اتنے دنوں سے سارے کام کاج چھوڑ کر بیٹھا ہوا ہوں میں"

وہ سمجھ کر سر ہلاتی گاڑی میں آ بیٹھی

ایک جھٹکے سے اس نے گاڑی ریورس گئیر پہ گھر سے باہر نکالی اور منیحہ اسکے عیجب و غریب انداز و اطوار دیکھتی ہی رہ گئی اسکے کسی کام کسی بات میں ٹھہراو نہیں تھا ایک عجیب سی ٹین ایجرز والی امپلسو نیس (جذباتیت) تھی 

"آپ اندر نہیں جائیں گے"

اسکے گھر کے سامنے گاڑی روک کر وہ اسکے اترنے کا منتظر تھا

"میرا جانا ضروری ہے کیا¿"

اس نے ہونٹ سکیڑ کر پوچھا 

"جی اب میں اکیلی تو نہیں جا سکتی شادی کے بعد فرسٹ ٹائم"

اس نے اپنی مجبوری بتائی وہ کچھ بے زار ہو گاڑی سائیڈ پہ کرتا بایر نکل آیا

"اچھا اب وہاں مجھے بیٹھنے کا مت کہنا"

اسے تاکید کرتا وہ بیل پہ ہاتھ رکھ چکا تھا

"کچھ ہی لمحوں بعد ابا نے دروازہ کھولا

" ارے ما شاء اللہ ما شاء اللہ میرے بچے آئے ہیں"

ابا ان دونوں کو چوکھٹ پہ دیکھ کر خوشدلی سے کہتے انھیں اندر لے آئے

سلام دعا اور سب گھر والوں سے ملنے کے بعد وہ اندر کچن میں آ گئی جبکہ امی ابا اور جلال کو چائے سرو کر رہی تھیں

تبھی اسے یاد آیا جلال نے کہا تھا کہ اسے بیٹھنے کا نہ کہاجائے

",اماں انھوں نے کسی کام سے جانا ہے مجھے تو زیادہ دیر نہیں بیٹھیں گے"

اس نے جھجھک کر اماں سے کہا

"ٹھیک ہے ہر چائے تو پئیے گا نہ,بلکہ تم بھی آ جاو"

اماں ٹرے سجائے باہر نکل گئی بھاری کامدار جوڑے اور خوبصورت سے دوپٹے  کو اپنے گرد لپیٹتی وہ بھی انکے پیچھے آ گئی

ڈرتے ڈرتے جلال کو دیکھا

جن حالات میں یہ شادی ہوئی تھی منیحہ کو ڈر تھا ابا کی کسی ناصحانہ بات پہ جلال برا ہی نہ منا جائے

"جلال مرتا کیا نہ کرتا کے مترادف چائے بس ختم کر رہا تھا"

منیحہ کی جانب دیکھا تو وہ دانستہ نگاہیں چرا گئی

آخر وہ بمشکل پندرہ منٹ بیٹھ کر چلا گیا ابا بھی نماز کے کیے چلے گئے وہ امی اور بہن کے پاس کمرے میں آ بیٹھی

کچھ دیر وہ لوگ مختلف موضوعات اور شادی کے مہمانوں پہ گفتگو کرتے رہے

وہ اماں کو تسلی بخش جوابات دینے کی کوشش کرتی رہی

پھر وہ بھی نماز کے لیے اٹھ گئی

اماں نے اسکا یوں سجا سنورا روپ دیکھا تو اندر تک اطمینان ہوا

اوپر سے منیحہ جس طرح جھجھک کر اور شرما کر انکی باتوں کے مخےصر جوابات دے رہی تھی اسکا مطلب بھی یہی تھا کہ وہ خوش ہے

نماز کے بعد ان دونوں کے لیے چائے لانے کا کہتیں وہ کچن میں چلی گئیں

جبکہ سیمعون نماز پڑھ کر آئی تو وہ بستر پہ نیم دراز سو چکی تھی

"ہا آپی کیسے سو بھی گئیں"

خود کلامی کرتی وہ دیکھتی رہ گئی تبھی امی چائے لے آئیں

*ارے یہ تو سو بھی گئی فٹا فٹ"

امی کو خوش گوار حیرت ہوئی

"

"جگائیں اپنی لاڈلی کو ایسے سو رہی ہے جیسے سونے کے لیے آئی ہے"

اس نے آگے بڑھ کر اسے جگانا چاہا

"رہنے دو سونے دو اسے کچھ دیر آرام کرلے"

امی نے محبت سے اسکا چہرہ چھوا اور چائے کا کپ ایک طرف رکھ دیا

"مہارانی صاحبہ اتنے دنوں سے ارام ہی کر رہی ہیں شادی کے سارے کام تو ہم اگلے پچھلوں کو کرنے پڑے"

سیمعون کو ابھی تک تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی جبکہ منیحہ کیسے مہارانی بن کر دلہن بنی بیٹھی رہی

"تھک گئی ہے میری بچی"

اماں کی محبت کو تو شاید زیادہ ہی جوش آ رہاتھا

"ہاں سارے گھر کے اور ولیمے کے برتن اسی نے دھوئے ہیں نا"

طنز کرتی وہ اپنا کپ اٹھا کر بڑے بڑے گھونٹ بھرنے لگی

"شادی میں تھک جاتی ہیں بچیاں".

امی نے سرسری سے لہجے میں کہا

" ہاں بستر پہ بیٹھ بیٹھ کر تھکنا ہی ہے"

صدا کء کام چعر سیمعون کو ہمیشہ یہی لگتا کہ اس سے زیادہ کام کرایا جا رہا ہے

"بی بی جب تمہاری شادی ہو گی پتہ چلے گا کہ تھکتی ہق یا نہیں فلحال شور کر کے میری بچی ڈسٹرب نہیں کرو"

امی اسے باہر انے اور کمرے کی بتی بجھانے کی تاکید کرتیں باہر چلی گئیں

جبکہ سیمعون کو سخت اعتراض تھا اسے خوامخواہ کو پروٹوکول ملنے پہ

جبکہ امی نے رات تک اس بات کو یقینی بنایا کہ مادام منیحہ کو نہ جگایا جائے

اورسیمعون جو یپ سوچ رہی تھی کہ منیحہ خود ہی اٹھ کر ہمیشہ کی طرح اپنے لیے کچھ پکا لے گی سخت بدمزہ ہوئی امی نے نجانے کیاکیا بنوایا تھا اس سے وہ بجیصرف منیحہ کے لیے

"پتہ نہہں ایک دن میں کونسے ہیرے لگ گئے ہی جو امی اسکا احساس کرتے نہیں تھک رہیں"

_______

جلال آج کافی دنوں بعد نکلا تھا پہلے تو ولیمے کی تقریب کے باوجود دوست اٹھا کر چائے خانہ لے گئے کہ شادی کی خوشی میں ٹریٹ دو

وہاں سے رات گئے موج مستی کرتے وہ نکلے تو گھر تک پہنچتے ساڑھے گیارہ ہو گئے

جلال نے گاڑی باہر کی کھڑی کر کے آنکھیں مسل کر بمشکل کھولیں اور گھر کے اندر داخل ہوا

لاونج میں ابھی محفل جمی ہوئی تھی نجانے کون کون تھا اس نے ذہن پہ زور نہیں دیا

*ارے تم تو ابھی سے اپنی پرانی روٹین پہ چلے گئے کچھ دن تو دلہے بنو"

پتہ نہیں کس نے اسے دیکھ کر نعرہ لگایا

"اس وقت آپ لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتا میں"

ہاتھ اٹھا کر انھیں دور رہنے کا کہتا وہ اپنے کمرے میں آ گیا

بستر پہ ڈھے گیا کچھ دیر بعد ذہن اس کھلی کھلی فضا کا عادی ہوا تو آنکھیں کھول کر پورا کمرہ ٹٹولا

وہ نیا وجود اسے کہیں نظر نہ آ رہا تھا اٹھ کر واش روم میں جھانکا

پھر موبائل نکال کر اسکے گھر کا نمبر ملایا تیسری بیل پہ اٹھا لیا گیا

"کدھر ہو¿"

بغیر کسی رسمی سلام دعا کے براہ راست پوچھا

"جی¿,میں ادھر اپنے گھر میں"

اس نے اچنبھے سے جواب دیا

"کیا مطلب اپنے گھر میں تم ابھی تک آئی نہیں¿"

وہ نا چاہتے ہوئے بھی بےزار ہوا

*مجھے تو کل آنا تھا نا جلال"

اس نے یاد کرانے کی کوشش کی

"کیا مطلب.کل آنا تھا ,¿"

اسکی اواز بلند ہوئی

"جلال شادی کے بعد پہلی دفعہ جائیں تو ایک دن رہتے ہیں"

وہ سادگی سے اطلاع دے رہی تھی

"کونسی کتاب میں لکھا ہے یہ ¿"

اس نے غصے سے کہا منیحہ ڈر سا گئی

"کیا مطلب جلال"

"مطلب یہ کہ بس رہ لیں سارا دن, ہو گئی رسم پوری ٹب واپس او"

"جی ٹھیک ہے میں صبح آ جاوں گی"

تھوک نگل کر اس نے اسکا حکمیہ انداز ملاحظہ کیا

"کیا مطلب صبح ,,ابھی واپس آو"

اس نے بات مکمل کی

"جلال اس وقت کیسے آوں گی میں ,آدھی رات گزر گئی ہے"

اسکے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں

"ادھہ گزری ہے نا پوری تو نہیں ,اس لیے ابھی واپس او میں انتظار کر رہا ہوں"

منیحہ کو تین دنوں میں اج پہلی دفعہ جلال کا یہ روپ دیکھنے کا موقع ملا اور وہ خود طور پہ شاکڈ تھی

جلال کے لیے یہ شاید عام سی بات ہوتی مگر وہ اٹھ کر اپنے باپ کو کیسے کہے گی کہ اسے گھر چھوڑ آئیں وہ صبح کا انتظار نہیں کر سکتی

وہ لوگ کیا سوچتے¿

اس سب میں اسکا کوئی قصور نہیں تھا مگر اسے اپنا آپ قصور وار لگ رہا تھا

مجرموں جیسی کیفیت  میں وہ موبائل کو گھورتی رہ گئی

منیحہ آدھی رات کے قریب اب پریشان بیٹھی تھی جلال نے تو سخت الفاظ میں واپس آنے کا کہہ دیا تھا مگر وہ کیا کرتی¿ کیسے جاتی¿

وہ بہت دیر تک سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہی

دوسروں کی باتوں کو ہوا میں اڑانے کی عادت اسے نہ تھی کہ لاپرواہی سے بیٹھی رہتی اوپر سے جلال جیسا جذباتی طبیعت کا حامل انسان

شادی کی شروع کے ہی دنوں میں وہ کوئی مسئلہ نی بنانا چاہتی تھی

تھک کر اس نے اماں کو بتانے کا سوچا

جھجھکتی ہوئی وہ انکے کمرے کے دروازے پہ آ کھڑی ہوئی ہاتھ بڑھا کر دستک دینی چاہی

پھر ہاتھ خلا میں رک گیا

"ابا کو کیا کہوں کہ ابھی مجھے گھر چھوڑ کر آئیں¿"

(وہ پیشان ہو جائیں گے)

اسکی صجان بلب ہونے لگی

شرمندگی تو اپنی جگہ مگر ابا کو کس قدر فکر ہوتی 

جلال جیسا داماد قابل بھروسہ اور تسلی تو نہ تھا بس مجبوری ہی تھی جو سب نے مل کر منیحہ کے گلے ڈال دی اور وہ مجبورا اب یہ ڈھول پیٹنے پہ رضا مند بھی تھی

کچھ دیر بعد اماں کے کمرے کا دروازہ کھلا وہ بدحواسی میں بجلی کی تیزی سے کچن میں داخل ہو گئی

"منیحہ یہ تم ہو¿"

اپنا تنفس بحال کر کے اس نے اماں کی جانب دیکھا

"جی امی,پیاس محسوس ہو رہی تھی"

ساتھ ہی تاویل پیش کی

"اچھا اچھا میں تو ڈر گئی تھی"

منیحہ نے سوچا اماں کو جلال کے مطالبے کا بتا دے مگر وہ اتنی ہمت جمع نہ کر سکی

وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہو رہی تھی شاید یا یہ شادی کے فورا بعد کی جھجک تھی

وہ کچھ نہ کہہ سکی

اماں  اسکے واپس کمرے کی جانب جانے تک وہیں کھڑی رہیں

ساری رات وہ چاہ کر بھی نہ سو سکی

جلال نے بھی دوبارہ کال نہیں کی

صبح اٹھ کر اماں نے سب کو اکٹھا ناشتہ دیا

*ابا آج آپ ہمیں گھمانے لے کر جائیں گے"

سیمعون نے ابا کے اچھے موڈ کا بروقت فائدہ اٹھانا مناسب سمجھا

"لیکن ابھی کل تو تم شادی کے کاموں کی وجہ سے تھکی ہوئی تھیں"

ابا نے اسکا واویلا دہرایا

"ہاں تو اسی لیے تو کہہ رہی ہوں, باہر جائیں گے,گھومیں پھریں گے تو تھکاوٹ دور ہو جائے گی".

لاپرواہی سے اس نے عقلمندی جھاڑی

" باہر جانے سے تو انسان مزید تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے پگلی"

ابا نے ہنس کر اسکی بے وقوفی کی داد دی

"گھومنے سے انسان کا ذہن فریش ہوتا ہے ابا"

سیمعون نے بھی کچھ ڈپٹ کر کہا

ابا ہنسنے لگے, انکا مزاج آج خوشگوار تھا

"یہ الٹی پیدا ہوئی ہے,لوگوں کی بچیاں دیکھو اتنی عقل مند ہیں,اور ایک یہ ہے"

امی نے حسب معمول و توقع اسکی کم عقلمندی کا رونا رویا

"اماں آپ تو پیچھے پڑ جاتیں ہیں میرے, آج گھومنے جانا ہے, ٹھیک ہے نا منیحہ میڈم¿"

اس نے منیحہ کو بھی شامل گفتگو کرنا چاہا وہ جو کسی گہری فکر میں تھی چونکی

"اوں ہاں,ٹھیک ہے"

وہ کہنا چاہتی تھی کہ اسے واپس گھر جانا ہے,نجانے جلال کا مزاج کس نہج پہ پہنچ چکا ہوتا ,رات بھی وہ کتنا بے زار ہوا تھا اسکی غیر موجودگی پہ

مگر وہ فی الوقت اپنے بہن بھائیوں کے پلان کو بھی مسترد نہ کر سکی

ابھی وہ لوگ گھر سمیٹ کر تیاری ہی کر رہے تھے کہ بیرونی دروازے پہ تیز دستک نے ان سب کو متوجہ کیا

"صبح صبح کون آ گیا¿"

اماں نے خود کلامی کی اور اسکا اکلوتا چھوٹا بھائی دروازہ کھولنے کے لیے گیا

ابا شاید چچا جی کی جانب گئے تھے

"اسلام علیکم, جلال بھائی آئے ہیں"

وہ کچھ حیران اور پرجوش سا بولا

"کیسے ہو بیٹا¿"

امی بھی فورا آگے بڑھیں

"منیحہ کو لینے آیا ہوں"

بغیر کسی سلام دعا کے رات کے لباس میں وہ شاید ابھی سو کر اٹھا تھا

"اتنی جلدی کیا بیٹا, رات کو لے جانا ". امی نے مسکرا کر اسے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی

" نہیں آنٹی بیٹھوں گا نہیں ابھی میں ذرا جلدی میں ہوں "

اس نے بیٹھنے سے انکار کیا سیمعون کمرے کے دروازے پہ جمی تھی وہ چاروں نفوس اس وقت جلال علوی کی جانب متوجہ تھے

مگر جلال تو جیسے ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہو کر آیا تھا

"چلو"

یک لفظی حکم منیحہ کے لیے تھا ,اسکا دل ڈوب کر ابھرا اوپر سے جس طرح سب متوجہ تھے

نجانے وہ کیا کچھ کہہ دیتا

اپنی بے عزتی کا اسے بہت خوف محسوس ہوتا تھا

"جج جی"

وہ جلدی سے اندر سے چادر اٹھا لائی جو کپڑے وہ کل پہن کر آئی تھی وہ اٹھانے بھی یاد نہ رہے,گھر کے ایک معمولی سے لباس میں ملبوس وہ اسکے پیچھے پیچھے جانے کو تیار تھی

اماں بھی موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے چپکی ہو رہیں ساتھ ہی منیحہ کو جانے کا اشارہ دیا

لیکن انھیں جلال کا ایسا رویہ نا مناسب ہی معلوم ہوا

مگر شکر تھا منیحہ سیمعون کی طرح ضدی طبیعت کی مالک نہ تھی

وہ لوگ تو چلے گئے مگر وہ تا دیر تشویش میں مبتلا رہیں

ان گنت دعائیں کیں جو کہ منیحہ کی پرسکون اور خوشگوار زندگی کے حصول پہ مبنی تھیں

ابا آئے تو وہ بھی حیران ہوئے مگر جب اماں نے بتایا کہ جلال لینے آیا تھا اور جلدی میں تھا تو انھوں نے بھی مزید کوئی سوال نہ کیا

بیٹی اب کسی اور کی امانت تھی 

اسکی صوابدید تھی چاہتا تو رکنے دیتا چاہتا تو لے جاتا

گھر سے وہ اسے ہاتھ پکڑ کر قریبا کھینچتا ہوا لایا لیکن گلی میں پہنچ کر اسکی کلائی اپنی گرفت سے آزاد کر دی

منیحہ اسکے تنے ہوئے نقوش دیکھ دیکھ کر ڈر رہی تھی وہ کوئی بات نہ کر رہا تھا پہلے دو دن اس خوش فہمی میں گزرے کہ جلال کا رویہ اسکے ساتھ برا نہیں تھا مگر اب حقیقت اور گمان شاید بدلنے والے تھے

"اسلام علیکم ارے اتنی صبح صبح آ گئیں تم¿"

وہ بغیر کسی سوال کا جواب دئیے اوپر اپنے کمرے میں چلاگیا

"و علیکم اسلام, جی آنٹی"

وہ بس منمنا کر رہ گئی

"ہم تو سب شام کو تمہیں لینے جانے کا پروگرام بنا رہے تھے".

انٹی کو جیسے افسوس سا ہوا

" وہ  لینے  چلے گئے تو اماں نے کہا چلی جاو"

اس نے خجل ہو کر وضاحت دی

شادی کی کوئی ایک بھی تو رسم ڈھنگ سے نہ ہوئی تھی

اوپر سے ان سب کے سوالات و جوابات

"میری جان اب کمرے میں چلی جاو ورنہ سختی نہ آجائے تمہاری"

جلال کی بہن کو شاید اسکی فکر ہوئی تھی

یا مذاق میں کہا

منیحہ مسکرا بھی نہ سکی

"میں چینج کر آوں"

اس نے اپنے لباس کو دانستہ چادر میں چھپا رکھا تھا

جس حلیے میں وہ کل یہاں سے گئی تھی اسکے برعکس اب تو بہت عجیب لگ رہی تھی

وہ نہیں چاہتی تھی کوئی اس پہ غلط ریمارک پاس کرے

اللہ کا شکر ہوا آنٹی نے سر سے لے کر پاوں تک گھورا تو سہی مگر کہا کچھ نہیں وہ سیڑھیاں تو چڑھ آئی مگر کمرے میں داخل ہوتے اسکے قدم چوکھٹ پہ جم گئے

"یا میرے اللہ مجھے تنہا نہ چھوڑنا" کبھی کہیں داخل ہونا اتنا مشکل نہ لگا تھا جتنا اس وقت اپنے کمرے میں داخل ہونا لگ رہا تھا

دل آگے بڑھنے سے انکاری تھا

من من بھر کے قدم اٹھاتی وہ نہایت حفیف سی آواز میں دروازہ بجاتی اندر داخل ہوئی

چند پل تو شدید نروسنس کا شکار رہی پھر اے سی کی کولنگ اور تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا

وہ بستر پہ سویا ہوا تھا

"شکر ہے اللہ تیرا"

نا دانستہ لبوں سے کلمہ شکر ادا کیا

کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے تو فطری سا غصہ جاگا

"اگر سونا ہی تھا تو مجھے اٹھا کر کیوں لے آئے¿"

اس نے خفگی سے خودکلامی کی جلال اوندھے منہ مزے سے سویا ہوا تھا

"جن ہے یہ انسان ,پورا"

یقینا اسکی آنکھ کھلی ہو گی اور منیحہ کو کمرے میں نہ پا کر وہ بنا ہاتھ منہ دھوئے چھلاوے کی طرح اسے لینے پہنچ گیا

عجیب جناتی خصلت والا انسان تھا

اے سی کی کولنگ نے کمرے کے ساتھ ساتھ اسکا دماغ بھی ٹھنڈا کر دیا

اس موسم میں بھلا اے سی کی کیا ضرورت تھی مگر جلال صاحب کو کون سمجھا سکتا تھا

وہ تھک کر بیڈ پہ بیٹھ گئی چند گہرے سانس لے کر خود کو پرسکون کیا پھر کچھ کچھ ہڈیوں کو سردی  محسوس ہوئی

وہ کچھ احتیاط سے کچھ جھجکتے ہوئے بیڈ پہ اسکے قریب ہی نیم دراز ہو گئی

نگاہیں اس پہ جمی تھیں

عیجب لاپرواہی بھراانداز تھا وہ مزے سے سو رہا تھالمبے سیاہ چمکدار بال چہرے پہ بکھرے تھے منیحہ نے لاشعوری طور پر اسکے چہرے سے بال ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا

وہ سو رہا تھا مگر جوں ہی منیحہ کی انگلیاں اسکے چہرے سے مس ہوئیں وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا

"ہاتھ مت لگاو مجھے"

جھٹکے سے اسکا ہاتھ پرے کیا

وہ سہم کر رہ گئی

"جلال"

خفگی بھری پکار تھی

"کیا جلال"

وہ اٹھ کر دہاڑا منیحہ کو اتنے سخت انداز کی عادت نہیں تھی

"آپ کیوں خفا ہو رہے ہیں"

"کیا مطلب خفا ہو رہا ہوں,,تمہیں پرواہ ہے میری¿"

وہ واقعی غصے میں تھا

"جلال پلیز ہوا کیا ہے یہ تو بتائیں"

اس نے تمام تر عزت نفس کو بھلا کر اسکی ناراضی کی وجہ جاننی چاہی

"جب تمہیں کل کہا تھا کہ واپس آو تو کیوں نہیں آئیں تم"

وہ اسے گردن سے دبوچ چکا  تھا

آنکھیں لال انگارے کی طرح تھیں

منیحہ کو وحشت ہونے لگی

"پلیز جلال میں کیسے آتی,اتنی رات ہو چکی تھی"

وہ بستر پہ ڈھے گئی, دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن چھڑانا چاہی

 "آنا چاہتیں تو آ سکتی تھیں,کیسے اور کیوں کیا ہوتا ہے"

وہ کچھ سننے کو تیار نہ تھا

عجیب شخص تھا

اتنی سی بات پہ اتنا غصہ

"دفعہ ہو جاو یہاں سے"

اسکی گردن چھوڑ کر وہ اب اسے بستر سے اٹھنے کا کہہ رہا تھا

اور وہ کانپتے ہوئے اٹھ بھی گئی

چند پل وہ خوف اور انتہا کی بے بسی محسوس کرتی رہی

یہ عجیب اور قطعی نئی صورتحال تھی

ایک جوان آدمی جو اب اسکا شوہر بھی تھا

اکیلے کمرے میں بستر پہ بیٹھا اس پہ دھاڑ رہا تھا

اور ایسی صورتحال سے نکلنے کا اسکے پاس راستہ بھی نہ تھا

انسانی نفسیات کہتی تھی کہ اگر سامنے والا غصے میں تو خاموش رہنا چاہیے مگر یہاں جلال اسکی خاموشی کو بھی غلط رنگ دیتا

کہ اسے "پرواہ ہی نہیں"

"جلال آئم سوری, آئندہ ایسا نہیں ہو گا"

اس نے اپنی فطرت کے خلاف جا کر معافی مانگ لی کس بات کی¿ اسے نہیں پتہ تھا

مگر جلال نے توجہ نہ کی

"جلال پلیز ناراض نہ ہوں"

وہ ڈرتے ڈرتے بستر کے کنارے پہ ٹک گئی

مگروہ پھر بھی بے اعتنائی برت رہا تھا

"میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ آپکی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کروں گی"

اس نے ایک انگلی سے اسکا کندھا چھونا چاہا اور ابکی بار یہ اسکے لہجے کی پستی تھی یا التجا کہ جلال علوی نے مڑ کر اسے دیکھا چند پل اسے گھورتا رہا

پھر غصہ گہری سانس لے کر جھٹک دیا 

"منیحہ میرا میٹر مت گھمایا کرو, منہ زور اور جاہل عورتوں والی حرکتیں چھوڑ دو"

وہ اسے وارن کرتا بستر سے اٹھ گیا

اس نے سکون کا سانس لیا

بظاہر اسکا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تھا دور اندر کہیں دماغ میں ایک سوال ہتھوڑے کی طرح برستا رہا

"اس نے منہ زور اور جاہل عورتوں والی کونسی حرکت کی تھی"

شام تک وہ دو تین دفعہ وقتا فوقتا کمرے میں آ کر اس سے چھوٹی موٹی بات چیت کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ یا تو فون پہ بزی رہا یا پھر ٹی وی پہ.

وہ غصے میں تھا بھائی بھابھی کے ساتھ بھی نہ بیٹھا

اور منیحہ کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اسکے غصے کے باعث کسی نے بھی اسے ڈسٹرب کرنے یا سمجھانے کی کوشش نہ کی تھی

شاید وہ اسے زیادہ بہتر طور پر جانتے تھے

کہ شہد کی مکھیوں کا چھتہ تھا وہ شخص جو ہاتھ ڈالتا وہ خود ہی بھگتتا

دوپہر کا کھانا اور ناشتہ وہ اکٹھا کرتا تھا

جو کہ اس نے کمرے میں ہی کیا ,شام کو وہ دوستوں کے ساتھ نکل گیا حالانکہ کل اسکے بھائی بھابھی نے واپس جانا تھا

مگر اسے شاید پرواہ نہ تھی 

یا شاید اسکی تربیت تھی

رات دس بجے وہ آیا تو منیحہ اسکے پیچھے ہی آ گئی

وہ کافی فریش لگ رہا تھا

"اسلام علیکم"

کچھ سمجھ نہ آئی تو اس نے سلام ہی جھاڑ دیا

"یہ دن میں کتنی دفعہ سلام کیا کرو گی تم مجھے¿"

منیحہ نے سر اٹھا کر صوفے پہ بے ہنگم انداز میں دراز اس آدمی کو دیکھا

مگر مزاج اچھا معلوم ہو رہا تھا

"آپ پر سلامتی بھیج رہی ہوں ,کچھ غلط تو نہیں کر رہی"

وہ کہے بغیر نہ رہ سکی

"بیگم صاحبہ کچھ غلط کر سکتی ہیں¿,جو بھی غلط کرنا ہے ہم نے ہی کرنا ہے"

اس نے کشادہ دلی کا کوئی عالمی درجے کامظاہرہ کیا

"کھانا لادوں¿"

وہ موضوع بدلنے پہ مجبور ہوئی,ذہن کچھ الرٹ سا تھا

"لا دو"

دیکھے بغیر کہا,وہ فون پہ مصروف تھا

"اچھا سنو کیا بنایا ہے¿"

پھر کچھ یاد پہ اواز دی وہ دروازے پہ رکی

"چکن کڑاہی اور رائس"

مینیو سن کر وہ بدمزہ ہوا

"یہ میرے بھائی بھابھی ,پورے بنگالی ہیں,چاول کھاکھا کر انکا دل نہیں بھرتا"

تبصرے میں واضح نا پسندیدگی تھی

مگر منیحہ کا جی نہ چاہا اس سے بات کرنے کا

"رہنے دو"

"اگر نہیں کھانا تو کچھ اور بنا دیتی ہوں"

مجبورا اس نے آفر کی

"نہیں رہنے دو"

مگر اسکا انکار انکار ہی رہا

"بنا دوں گی,اب ساری رات بھوکے رہیں گے کیا¿"

اسے فطری طور پہ برا محسوس ہوا

لیکن جلال نے فون سائیڈ پہ رکھ کر اسے بغور دیکھا

وہ اسے نہ دیکھ رہی تھی

"ادھر آو"

لہجہ بلکل بدل گیا تھا

"جی¿"

اس نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا

"بات تو سنو مائی لیڈی"

وہ اب پیار جتا رہا تھا

"آپ کہیں میں سن رہی ہوں"

اسے ہلتا نہ دیکھ کر وہ بستر پہ آ گیا

ساتھ اسے بھی کھینچ لایا

"پیاری لگ رہی ہو"

وہ سر جھکا گئی

جبکہ جلال کو اب اسکا تفصیلی جائزہ لینے کی فرصت میسر ہوئی تھی

"لپ اسٹک لگایا کرو ,زیادہ پیاری لگتی ہو"

اسکے ہونٹوں کو ایک انگلی سے چھوا

وہ نا دگےانستہ پیچھے ہو گئی

"کیا کھائیں گے ,بتائیں میں لا دیتی ہوں"

جلال نے محسوس کیا وہ جان چھڑانا چاہ رہی تھٹی

"تمہیں کھاوں گا"

بغور اسے دیکھتا وہ شرارتا بولا

منیحہ نے ناچاہتے ہوئے بھی اسکا چہرہ دیکھا

وہ دیکھنے میں خوبصورت اور مطمئن لگتا تھا

وہ نظر جھکا گئی

پتہ نہیں لوگ اتنی جلدی اپنا کیا کیسے بھول جاتے ہیں¿

وہ بس یہی سوچتی رہی

"سنو لائٹ آف کر دو"

اسے یونہی کمرے کی چیزوں سے چھیڑ خانی کرتے دیکھ کر جلال نے حکم جاری کیا

وہ حکم کی پابند ثابت ہوئی

"بستر پہ نہیں آنا¿

تشویش یا سوال نہی بس یونہی  چھیڑ رہا تھا

" نہیں میں ادھر ہی ٹھیک ہوں "

وہ صوفے پہ ہی ڈھے گئی

کچھ پل جلال اسے گھورتا رہا پھر جب مایوسی ہوئی تو ٹھنڈا سانس لیا

مگر اسکا ذہن اتنی جلدی ہار ماننے والا نہ تھا

کچھ پل کے بعد کمرے میں ای سی کی وجہ سے شدید ٹھنڈ ہو چکی تھی اور ریوٹ جلال کے پاس تھا

خود تو وہ مزے سے بستر پہ کمبل اوڑھے بیٹھا موبائل میں مصروف تھا مگر منیحہ کا جی چاہنے لگا کہ دہاڑیں مار مار کر روئے

نئی جگہ اوپر سے تنہائی اور ایک غیرمعمولی مزاج کا مالک شخص

بس بھاگ کر اپنے گھر جانے کا خیال ہی اسے بار بار ستا رہا تھا

مگر وہ جانتی تھی اب اسکے لیے ایسا ممکن نہیں 

اب وہ منیحہ سلمان سے منیحہ جلال علوی تھی 

اس شخص نے اے سی کی کولنگ کچھ اور بڑھا دی

کوئی بھی ہوتا کانپنے ہی لگتا 

(دیکھتا ہوں کتنی اکڑ ہے میڈم کے اندر) 

جلال نے دل ہی دل میں میں سوچا

مگر وہ بھی بلا کی انا پرست ثابت ہوئی صوفے پہ ہی خود میں سمٹی چلی گئی 

عورت کی فطرت میں اللہ نے معمول سے زیادہ صبر دیا ہے وہ انا پرست بھی زیادہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ برداشت کر لیتی ہے تکلیفیں بھی اور نا مناسب رویے بھی

لیکن جلال فطری طور پہ نہ تو صابرتھا نہ ہی اتنا عقل مند اوپر سے دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے بھی آگاہ نہ تھے اسی لیے اپنی اپنی جگہ تکلیف میں ہونے کے باوجود اظہار نہ کر پا رہےتھے

اندر ہی اندر جلال چاہتاتھا منیحہ اسکی چاہت اور والہانہ جذبات کا جواب ویسی ہی چاہت سے دے

جبکہ منیحہ کو امید تھی کہ جلال. اسے ویسی ہی عذت اور مقام دے جیسا وہ اسے دے رہی تھی 

مگر شخصیات کے علاوہ تربیت میں بھی فرق تھا

ایک کو اپنی منانا سکھایا گیا تھا جبکہ دوسری کی دوسروں کی ماننا سکھایا گیا تھا

لیکن اسکے اندر کا جذباتی مرد زیادہ دیر نئی نویلی بیوی کا یہ خاموش احتجاج برداشت نہ کر سکا اور وہ موبائل ایک طرف رکھتا بستر سے اٹھا

سوفے پہ اسکے قریب آکر کھڑا ہوا خود میں سمٹی وہ آنکھیں بند کیے پڑی تھی آنکھوں کے نیچے ننھے ننھے قطرے بھی چمک رہے تھے

وہ شاید اس سے ناراض تھی اور ماں باپ تک کی پرواہ نہ کرنے والے جلال علوی پہ پہلی دفعہ کسی کہ خاموش ناراضگی کا اتنا اثر ہوا تھا کہ اس نے اسے اسی حالت میں اپنی بانہوں میں اٹھایا اور بستر پہ لا رکھا

"بے وقوف عورت" 

وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا

کیونکہ اسکے اپنے دل کی حالت پہلی دفعہ کچھ عجیب سی ہوئی تھی

وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا 

"یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم¿" 

نیم اندھیرے کمرے کی تاریکی میں اس پہ جھکا وہ پوچھ رہا تھا 

مگر اسکے وجود سے اٹھتی سگریٹ اور پرفیوم کی ملی جھلی مہک بھی منیحہ کو پلکیں واہ کرنے پہ مجبور نہ کر سکی 

اس وقت منیحہ کو بس رونا آ رہا تھا اور اس مغرور بد مزاج شخص کے سامنے رونا نا چاہتی تھی جس نے دن بھر اسے سولی پہ لٹکائے رکھا اور اسکا ہاتھ یوں جھٹکا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو

"آنکھوں کو بند رکھ کر اگر تم مجھے یہ بابت کرنا چاہتی ہو کہ تم. ناراض ہو تو یہ اور بات ہے ورنہ مجھے غصہ دلانے کے لیے ڈھیٹ مت بنو" 

اس نے اسکا چہرہ تھپتھپایا

مگر جواب ندارد

"جاہل عورتوں کی طرح منہ پہ تالا کیوں لگایا ہوا ہے، اگر کوئی تکلیف ہے تو بتاو" 

اسکےآنسووں سے وہ کچھ غیر آرام دہ ہوا تھا

" منیحہ آنکھیں کھولو "

اپنی منوانےکا عادی شخص جھنجھلا رہا تھا

" ٹھیک ہے مت کھولو مگر صبح تیار ہو جانا ہم فجر کے وقت نکلیں گے" 

کہنے کے ساتھ ہی اس نے باری باری اسکے دونوں گال. چومے

ایک عجیب سی شدت تھی اسکے انداز میں 

جو اسکی شخصیت کا حصہ تھی شاید

پھر اسکا ماتھا چوم کر وہ برابر میں ہی دراز ہو گیا

منیحہ اب بھی اسکے مضبوط حصار میں تھی

اور اوپر سے فجر کے وقت وہ نجانے اسے کہاں لے جانے والا تھا

فکر اور بد ترین خدشات کے مارے اسے نیند بھی نہ آئی اوپر سےاسکے اتنے قریب ہونا بھی تنگ کر رہا تھا

اسکی اتنی قربت کی وہ عادی کہاں تھی ابھی

لیکن جلال کچھ دیر بعد سوگیا

وہ مکمل پر سکون تھا اور نیند میں بھی منیحہ کے وجود کے اردگرد اسکی گرفت مضبوط تھی

وہ چاہ کر بھی دور نہ ہو سکی

وہ اسے جگانا نہ چاہتی تھی

لیکن اسکا غصہ اب بھی خوف بھی دلا رہا تھا

) مجھے کیا ضرورت تھی اتنا ڈھیٹ بننے کی جب وہ خود نارمل تھے تو مجھے بھی دن والی باتیں بیچ میں نہیں لانا چاہیے تھیں) 

اس نے خود کو بھی ملامت کرنا شروع کر دیا

ساری رات شدید بے آرامی میں گزارنے کے بعد صبح فجر کو تو نہیں لیکن دس بجے وہ اسے اپنا سامان پیک کرنے کا آرڈر جاری کر کے خود نہانے گھس گیا

اور ٹھیک پندرہ منٹ بعد سب اسے روکتے ہی رہ گئے مگر وہ خود پرست آدمی اپنا *ہنی مون منانے نکل چکا تھا

منیحہ کو تو بیٹھے بٹھائے اس شوشے پہ یقین ہی نہیں آیا وہ تو کچھ سامان بھی نہ رکھ سکی

اپنا سامان بھی اس نے خود ہی پیک کیا

کچھ منیحہ کی چیزیں کھڑے کھڑے بیگ میں ٹھونسی اوراسکا ہاتھ پکڑ کر پیچھے گھسیٹا ہوا.گاڑی میں جا بیٹھا 

"ارے بھائی چلے جانا ہنی مون پہ مگر ہمیں تو سی آف کرجاو شام کو" 

اسکے بھائی پکارتے رہ گئے

"اس لڑکےکو ہر شے کی جلدی ہے، تمہاری بیوی تمہارے پاس ہی جہاں چاہے لے جانا مگر صبر تو کرو" 

آنٹی بڑبڑاتے رہ گئیں

"یار پری بکنکنگز تو کرا لو" 

البتہ کریم علوی نے کوئی خاص اعتراض نہ کہا تھا سوائے بکنگ کے وہ دھیما دھیما مسکراتے ہوئے بیٹے کی بلا وجہ ہی جذباتیت دیکھتے رہے 

اور منیحہ کو تو لگ رہا تھا کہ یقیناً جلال اسکے رات والے گستاخانہ رویے کی سزا دینے اسے کہیں لے جا رہا تھا

راستے میں بھی وہ زیادہ دیر سنجیدہ ہی رہا وقتا فوقتاً نظر گھما مر اسے دیکھتا گاڑی میں اونچی آواز میں بے ہنگم میوزک چلتا رہا

دو تین جگہ گاڑی روک کر اس نے ریفریشمنٹ کا کچھ سامان لیا وہ بھی صرف اپنے لیے اسے مروتا بھی نہ پوچھا

وہ جو پہلے سے خدشات کا شکار تھی مزید ڈر گئی

جلال کو سمجھنے کی اسکی تمام کوششیں ناکام ہو رہی تھیں 

رات کو وہ دونوں ایک طرح سے خاموش لڑائی لڑتے سوئے تھے گزشتہ تمام دن وہ اس سے نا صرف ناراض رہا بلکہ. اسکا موڈ گھر والوں کے ساتھ بھی خراب رہا

ایسے میں وہ ہنی مون جیسا رومینٹک پلان تو بنا کر یقیناً نہیں نکلا تھا

اور منیحہ کو طرح طرح کے وہم گھیر رہےتھے

اسی خوف کی وجہ سے وہ اس سے کچھ بھی نہ پوچھ سکی

دوسری طرف جلال. منیحہ اس مسلسل چپ کو اسکی ضد اور ہٹ دھرمی پہ. محمول کر رہا تھا

ساتھ ہی ساتھ وہ اسے کوئی ڈھیٹ قسم. کی لڑکی لگ رہی تھی جو *چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنا لمبا مسئلہ بنا کر بیٹھی تھی

اسلام آباد پہنچ کر وہ اسے ایک ہوٹل میں لے گیا آج کی رات اس نے وہیں رکنے کا ارادہ کیا تھا

دوسرا منیحہ کی مسلسل چپ اسے گاڑی چلانے میں مشکل پیدا کر رہی تھی

اسے کمرے میں چھوڑ کر وہ. خود نجانے کہاں چلا گیا

اس سارے عرصے میں منیحہ کی. خود اعتمادی ختم ہو چکی تھی

اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسے کوئی اغواء کر کے لے آیا ہو اور اسکے گھر والے بھی اسکی. خیریت سے لاعلم ہوں 

نمازوں کی ادائیگی کے بعد وہ اسکا انتظار کرنےگی

شام کے قریب وہ ہوٹل بکنگ کے بعد کھانے وانے سے فارغ ہو چکے تھے

جلال کا موبائل مسلسل بج رہا تھا مگر اس نے ایک بھی کال. رسیو نہ کی

رات کے دس بجے وہ سونے کے لیے کپڑے تبدیل کر چکا تھا 

ارادہ. صبح سویرے مری کے لیے نکلنے کا تھا

جب منیحہ نے پہلے تو اسکے لیٹنے کا ا نتظار کیا. وہ. بھی جلال. کے گھر والوں کی طرح اس کے موڈ سے در چکی تھی

پھر اس نے چپکے سے اٹھ کر بیگ میں سے کوئی کپڑے نکالنے کی کوشش کی ایک تو اندھیرا اوپر سے سارے کپڑے ہی کام والےتھے کیونکہ جلال. نے بس ایسے ہی الماری کھول کر دو تین جوڑے ہینگر سمیت بیگ میں رکھ لیے تھے دوسرا گھر سے دور اکیلے کہیں جانے کا یہ اسکا پہلا تجربہ تھا اسے تویہ بھی اندازہ نہ تھا  کہ کیا کچھ سامان لے جانا ضروری ہوتاہے

اسے سوچ میں مبتلا وہیں کھڑا دیکھ کر جلال. بھی جھنجھلا گیا

"اب کیا ساری رات وہیں جمے رہنے کا ارادہ ہے¿"

اسکاانداز واضح جھنجلاہٹ لیے ہوئے تھا

 ننن نہیں وہ مجھے کپڑے نہیں مل رہے"

وہ اچھا حاصہ ہکلا کر بولی

" کپڑے لوئی ہو جو مل نہیں رہے¿"اس نے طنز کیا

" آپکو ہی جلدی پڑی ہوئی تھی مجھے سمجھ ہی نہیں آئی"

وہ روہانسی ہو کر گلہ کرتی ساری ناراضی بھلا گئی

"تو بتاتیں نا آپ کہ بیگم صاحبہ کو ہفتہ پہلے خط لکھتا میں

اس نے طنز بھرا تبصرہ کیا جو منیحہ صبر سے پی گئی

" اب کیا کروں ¿:

وہ مجبور تھی اسکے علاوہ کوئی اسکی مدد نہ کر سکتا تھا اسی لیے جلال ہی سے مدد مانگی

" اب اس وقت میڈم کو شاپنگ تو کرا نہیں سکتا، نہ ہی اتنا امیر ہوں میں "

اسے اپنی غربت کا کتنا بروقت خیال آیا تھا

" تو کیا کروں پھر ایسے تو نیند نہیں آئیگی"

نئی نویلی دلہن ہونے کے باعث وہ کام دار لباس پہنے ہوئے تھی

"مہرا کوئی ٹراوزر شرٹ پہن لو"

سہولت سے آئڈیا دیا ساتھ ہی سائیڈ لیمپ روشن کر دیا

اس بیگ میں وہ صرف ٹراورز شرٹس ہی لایا ہوا تھا

حیرت کی بات یہ تھی کہ بیگ میں اسکا کوئی ایک بھی فارمل ڈریس نہ تھا وہ ایک سیاہ شرٹ اور چیک ٹراورز اٹھا کر واش روم میں چلی گئی

مگر چینج کر کے خود کو آئینے میں دیکھا تو محسوس ہوا

کہ اسکے ادھار کپڑے پہننا اتنا بھی آسان نہ تھا

اسے خود کو آئینے میں دیکھ کر اندر ہی اندر کچھ جھجک سی محسوس ہوئی

دونوں چیزیں اسے کافی لمبی تھیں مگر پھر بھی اس. طرز کا لباس اس نے کبھی نہ پہنا تھا

پھر آدھی آستینیں اور بند گلا... 

کچھ عجیب سا ہی لگا

شاید اس تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے وہ کتنی ہی دیر مزید یہ سوچنے میں لگا دیتی کہ اسے یہ پہن لینے چاہیے یا واپس اپنے کپڑے پہن لے جبھی دروازے پہ زور دار دستک ہوئی

"سو گئی ہو کیا وہاں 🐵¿"

(یہ ابھی تک جاگ رہے ہیں)

"ننن نہیں"

"تو پھر باہر آو"

"نہیں"

اس انکار پہ وہ حیران ہوا

"لیکن کیوں ¿"

"عجیب لگ رہے ہیں یہ مجھے"

روہانسی ہو کر بتایا

"اچھا باہر تو آو"

وہ جھنجھلایا 

عجیب ہی لڑکی مل گئی تھی اسے

اسکی زندگی میں پہلے کوئی اتنی پاگل لڑکی نہ آئی تھی یہ پہلی تھی جو کسی عجیب دنیا میں ہی رہتی تھی

بہت دیر کے بعد وہ باہر نکلی خود کو دوپٹے سے یوں ڈھانپ رکھا تھا جیسے ابھی نماز ادا کرنے لگی ہو

"کوئی سادہ کپڑے تو لینے پڑیں گے"

وہ انجان وجوہات کی بناء پر شرمندہ محسوس کر رہی تھی اور نروس بھی تھی دوپٹہ سنبھالنے کے باوجود سنبھل نہ رہاتھا 

جلال نے غور سےدیکھا

تو بے ساختہ. قہقہہ لگایا

اسکی نروسنس بلاوجہ نہ تھی

وہ واقعی *عجیب لگ رہی تھی

اسکے اندر کی ساری جھنجھلاہٹ دور ہو گئی ایک عجیب سی جناتی قسم کی جذباتیت نے اسے اپنے حصار میں لیا اور جس طرح وہ اسےنظروں کے حصار میں رکھے ہوئے تھا منیحہ مزید خجل ہوئی

"ابھی تواتنی رات نہیں ہوئی،، کوئی سادہ سے کپڑے لا دیں پلیز مجھے ان میں نیند نہیں آئیگی"

اس نے درخواست کی مگر جلال. کی دلچسپی اسی میں تھی مگر دھیان اسکی باتوں کی جانب نہ تھا

"تو نہ سوو، سونا ضروری تو نہیں"

"میں کل بھی ساری رات نہیں سوئی"

اسکے منہ سے بے اختیار پھسلا

" کیوں "

جلال اب اسکے عین سامنے کھڑا تھا منیحہ نے دوپٹے کو اپنے گرد مزید  پھیلایا 

"آپ جو ساتھ تھے" 

اس نے نروس ہوکر دو قدم پیچھے کو کیے

"میں تو آج بھی ساتھ ہوں گا" 

اسکا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا

" بلکہ اب تو ہمیشہ ساتھ ہوں گا" 

وہ اسکا دایاں ہاتھ لبوں سے لگا کر بولا

"جلال پلیز بات تو سنیں نا" 

اس نے غیر شعوری طور پہ اپنا ہاتھ  چھڑانا چاہا مگر وہ اسکے دونوں ہاتھ تھام چکا تھا

"سنا نا میری جان، تمہیں سننے کے لیے ہی تو یہاں لایا ہوں" 

اسکی آواز کا تاثر بہت بدل گیا تھا

اسکے کان کے قریب سرگوشی کی

"اچھا پیچھے تو ہوں نا" 

وہ کسی بھی طریقے سے جان چھڑانے کی کوشش میں تھی

مگر جانتی نہ تھی کہ اب وہ اپنی ہی غلطی کے باعث پھنس چکی تھی

جلال کے انداز اطورا منہ زور تھے

اسے سامنے والے کی حالت سمجھنے سے کوئی سروکار نہ تھا

اور منیحہ کو لگا غلطی اسکی تھی

نہ وہ پرسوں رات ابا کے ہاں رہتی نہ کل کا دن وہ اس سے ناراض ہوتا نہ منیحہ ضد کرتی اور نہ آج اسے یہاں لانے کی سزا دی جاتی

اور جلال کو تو ویسے بھی کوئی تمیز نہ تھی 

وہ اپنے آپ میں بہت کمفرٹایبل تھا

منیحہ کو گھر سے دور اسلام آباد کے اس ہوٹل میں رکنا قید لگ رہا تھا

اوپر سے جلال کے پل پل بدلتے انداز و اطوار

صبح ہوتے ہی وہ بنا ناشتہ کیے ہوٹل سے نکلنے کو تیار تھا

منیحہ بھی بحالت مجبوری اسکا ساتھ دے رہی تھی مگر اندر ہی اندر وہ بہت گھبرائی ہوئی بھی تھی

 شادی کے محض چار دن بعد یوں آٹھ کر اتنی دور چلے آنا اتنا آسان نہ تھا

"اب کیا تم نے قسم کھا لی ہے کہ مجھ سے بات نہ کرو گی¿

جلال نے گاڑی چلاتے ہوئے اسکی جانب سرسری سی نگاہ کی

" نن نہیں تو"اس نے اپنی وضاحت دی

" تو کوئی بات کرو"

کیا بات کروں ¿"

اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ اس پل اس سے کیا سننے کا متمنی تھا

"کچھ بھی، لڑکیوں کے پاس بہت باتیں ہوتی ہیں کرنے کو"

(یہ تو جیسے لڑکیوں پہ اعلی تعلیمی ریسرچ کر چکے ہیں)

منیحہ نے سوچا مگر کہا کچھ نہیں 

"مجھے عادت نہیں اتنی باتیں کرنے کی"

"عادت نہیں یا مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی"

کبھی کبھی وہ عجیب طرز پہ گفتگو کرتا تھا

"ایسی بات نہیں ہے بس میری دوستی اتنی جلدی نہیں ہوتی کسی سے بھی"

وہ گڑبڑ آ گئی، جلال کا مزاج برہم ہوتا تو سختی اسی کی آتی

"اوکے تو میں ابھی تک *کسی ہوں میڈم کے لیے¿

منیحہ نا چاہتے ہوئے بھی اسکی طرف دیکھنے پہ مجبور ہوئی

" میں نے یہ کب کہا"

" تمہیں یہ کہنا بھی نہیں چاہیے میڈم"

وہ خوامخواہ اسے وارن کر کے کوئی انگلش دھن گنگنانے لگا

وہ صدا کی حساس لڑکی کڑھی رہ گئی 

" اے اللہ میرے کو سے گناہوں کی سزا ہے یہ¿نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ دل میں سر اٹھانے لگا

پھر اس نے خود کو سڑک پہ دو رویہ درختوں کی قطاروں میں مگن کرنے کی کوشش کی

نظارے بہت حسین تھے 

اونچی نیچی گہری سبز پہاڑیاں، خوبصورت سیاہ تارکول کی سڑک، ایک اچھی گاڑی یہ سب اسکے خوابوں اور ارمانوں کا حصہ تھا

اور یہ احساس بہت خوش کن تھا کہ وہ جن نظاروں کو کبھی ٹیلی-ویژن پہ دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتی تھی اب حقیقت میں اسکے سامنے آنے والے تھے 

سب کچھ حسب خواہش اور خوش کن تھا اور اگر کچھ نہیں تھا تو..... 

اس سے آگے وہ ایک لفظ بھی نہ سوچ سکی

اس کم عمری میں بھی اس نے اپنی خواہشات اور خوابوں کو اتنا بے لگام نہ چھوڑا تھا کہ وہ منہ زور ہو جاتے

چہرے پہ زبردستی کی مسکان سجا کر اس نے ساتھ والی سیٹ پہ موجود اس شخص کو دیکھا جو بہت مطمئن اور خوش و خرم تھا اور اب اسکے کل جہان کا مالک اور ضامن بھی تھا

جلال. نے بھی اسکی نگاہوں کا انہماک محسوس کرکے اسکی جانب دیکھا اور ہونٹوں کو سکیڑ کر اپنی محبت کا احساس دلایا

نا چاہتے ہوئے بھی منیحہ کے ہونٹوں پہ ایک خجل. سی مسکان کھیل گئی

بھلا کیا ضرورت تھی مجھے انھیں گھورنے کی)

ساتھ ہی وہ اپنی غلطی پہ دل ہی دل میں نادم ہوئی

مگر اب یہ سب بے ثمر تھا جلال. نے ہاتھ بڑھا کر اسکا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا جسے وہ مسلسل دبا رہا تھا شاید اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا

مگر منیحہ کو سارے بدن میں چیونٹیاں رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں 

بنا کچھ کہے اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش بھی کی لیکن بے ثمر وہ اس بات سے بے نیاز رہا

آخر سڑک پہ ایک اوپننگ ائیر ہوٹل کو دیکھ کر منیحہ کی توجہ اس کے انوکھے ڈیزائن کے تحتوں اور انکے نیچے بہتے پانی پہ پڑی تو وہ اندر تک سرشار ہو گئی

یہ نظارہ بہت حسین تھا اور یہاں پر وقت گزارنا کتنا دلفریب ہو سکتا تھا یہ تو سوچ سے اوپر کی بات تھی

یہی وہ پل تھے جب جلال نے اسکی نظروں کے زاویے اور اسکے انہماک کو محسوس کر کے گاڑی روک دی 

"میرا خیال ہے ہے کہ یہیں کچھ دیر رکتے ہیں ناشتہ واشتہ کر کے آگے چلیں گے"

منیحہ سر ہلانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی

لیکن درحقیقت وہ بنا مانگے اس خواہش کے پورا ہونے پہ کافی خوش تھی

وہاں بیٹھ کر جب تک جلال نے پراٹھوں اور قیمے کے گرما گرم ناشتے کا آرڈر دیا وہ تمام وقت منیحہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا خلاف توقع جلال بھی خاموشی سے بیٹھا رہا اور اس نے بیوی کے اس شغل میں حلل  نہ ڈالا

جب ناشتہ آیا تو بھی منیحہ کی توجہ ناشتے کی بجائے آس پاس کی ہر شے کو توجہ سے دیکھنے پہ تھی

اور وہ اس بات سے آگاہ نہ تھی کہ جلال. اسے مسلسل دیکھ رہا ہے

"میں تو سوچ رہا ہوں کہ تمہیں یہیں چھوڑ جاں، کم از کم یہاں بیٹھ کر تم خوش تو لگ رہی ہو،، میرے ساتھ تو سانپ سونگھ جاتا ہے تمہیں"

منیحہ نے چونک کر اسکا گہری جانتی نگاہوں میں دیکھا 

یہ آدمی بہت زیادہ تیز تھا ہر شے فوراپرکھ لیتا تھا 

سامنے والے کی سوچ پڑھنا بھی اسکے لیے مشکل نہ تھا

 اچھی جگہ ہے یہ نیچرل بیوٹی"

اس نے دوسرے الزام کی وضاحت دینا بے کار خیال کیا

یا تو جلال اسکی وضاحت قبول کرتا تو بھی کچھ فائدہ ہوتا لیکن یہاں تو وہ وہی سوچتا تھا جو اسکا جی چاہتا

لیکن جب جلال نے اسکے منہ میں لقمہ ڈالنے کی کوشش کی تو یہ سب وہ برداشت نہ کرسکی

اور یوں جلال کے الزام پہ مہر تصدیق ثبت ہو گئی

"کہ منیحہ کو جلال کے ساتھ اچھے طریقے سے وقت گزارنا پسند ہی نہیں"

"جلال اتنے سارے لوگ آس پاس دیکھ رہے ہیں آپکو کیا ہو جاتا ہے¿

 کون لوگ بھئی ادھر صرف میں اور تم ہیں اور کوئی لوگ نہیں ہیں"

وہ ہنوز بے پرواہ تھا اور منیحہ کو مزید ادھر بیٹھنا دور ہو گیا

وہ ہر دفع اسکے الزامات پہ یوں ہی پریشان ہو جاتی تھی

جو بھی تھا اسکی کوشش یہی تھی کہ جلال اس سے خوش رہے تب ہی وہ َاس بدلنے میں کامیاب ہو سکے گی

مگر جلال تھا کہ خوش ہو کے نہ دیتا

اور حقیقت یہ تھی کہ جلال اسکے ساتھ خوش تھا 

یہ الزامات اور اپنا ہی موقف منانا اسکی عادت تھی یوں اگلا. اسکے سامنے سر ہی اٹھا نہ پاتا

وہاں سے اٹھ کر وہ واپس گاڑی میں سوار ہو کر پھر مری جا کر ہی رکے ایک مقامی 4سٹار ہوٹل میں انھیں ایک اچھا کمرہ مل گیا

لیکن اندر ہی اندر منیحہ کو حیرت تھی کہ جلال. جیسا شاہانہ مزاج آدمی 5سٹار کی بجائے 4سٹار میں کیوں رہنے والا تھا 

پیسے کہ کمی یا فراوانی سے قطع نظر اسے پیسے کی پرواہ ہی نہ تھی کجا کہ وہ بچت وچت کرتا

 وہ یہی سب سوچتے ہوئے اسکے پیچھے کمرے میں آ گئی

سفید اور نیلی چادروں، پردوں اور کس زیادہ کی آرائش میں سفید فرش والا یہ کمرہ اچھا تھا

بیچ میں پرانی وضع کا ایرانی قالین بچھا تھا جو کافی قدیم محسوس ہو رہا تھا

"جلال ہم یہاں کب تک رہیں گے"

ڈرتے ڈرتے اس نےپوچھ ہی لیا مگر جلال نے سن کر ان سنی کر دی

اس نے اپنا سوال دہرایا

 اگر تم جانا چاہو تو ابھی جا سکتی ہو"

اس آدمی نے حسب عادت الٹا ہی جواب دیا

وہ دل ہی دل میں دوبارہ سوال کرنے پہ. پچھتائی 

" میرا یہ مطلب تو نہیں تھا،، آپ تو غصہ ہو جاتے ہیں" 

ناگواری اسکے لہجے سے عیاں تھی مگر دوسری جانب پرواہ نہ کی گئی 

" جلال"

سامان ایک طرف رکھ کر وہ بستر پہ بیٹھ گئی

" بولو"

😮عجیب روکھا سا انداز تھا پل. پل. اسکا مزاج بدلتا تھا

اور یہ بات ان چار دنوں میں منیحہ کو کافی حد تک سمجھ آ گئی تھی

" کچھ نہیں "

اس نے کچھ نہ کہنا ہی مناسب سمجھا

لیکن باقی کا سارا دن اس نے خوب انجوائے کیا کافی حد تک جلال کا خوف بھی کم ہوگیا

وہ اسے مال روڈ لے کر گیا چھوٹی چھوٹی چیزیں دیکھنے اور خریدنے میں وقت کا احساس ہی نہ ہوا جب شام. ڈھلنے لگی تو انھوں نے واپسی کا سوچا

" جلال رکیں مجھے کوئی سادہ سے کپڑے خرید دیں" 

"رہنے دو اتنے کپڑے ہیں تو سہی" 

اس نے ٹال دیا

"لیکن وہ رات کو پہننے والے نہیں ہیں نا" 

وہ دہائیاں دیتی رہ گئی مگر جلال اسکا ہاتھ پکڑے واپس ہوٹل کی طرف چلا گیا

شام کے کھانے کے بعد اس نے ایک دفعہ پھر تیاری پکڑی ہوٹل کے چوکیدار نے اسے بیوی کے ہمراہ باہر نکلتے دیکھا تو خبردار کیا

" صاحب رات کو باہر نکلنا خطرناک ہو گا زیادہ دور مت جانا"

اور منیحہ ڈر بھی گئی، وہ فطرتاً محتاط طبیعت کی مالک تھی

"جلال صبح چلے جائیں گے" 

اس نے ڈرتے ڈرتے تجویز دی

"کچھ نہیں ہوتا سویٹر ہارٹ میں ہوں نا تمہارے ساتھ" 

اس نے منیحہ کا ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگایا

اتنی تسلی اسکے لیے کافی  تھی 

خوامخواہ کی آوارہ گردیوں کے بعد وہ رات ایک بجے واپس آئے چوکیدار نے انھیں ملامتی نظروں سے دیکھا 

صبح تک وہ گھوڑے بیچ کر سوتے رہے اور دس بجے وہ اٹھے تو منیحہ کو خیال آیا کہ. جلال کی سنگت میں وہ بھی نماز وغیرہ کی ادائیگی بھول ہی چکی تھی شرمندگی کے احساس نے اسے اپنے حصار میں لے لیا

پتہ نہیں ہم گھر سے باہر یہ کیوں سوچتے ہیں کہ نماز صرف گھر میں ادا کرنا ضروری ہے،، سفر کے دوران نہ بھی ادا کی تو معافی مل جائیگی

حالانکہ نماز تو ہر حال میں فرض. چاہے تلواروں کے سائے میں ہی کیوں نہ ہو مگر اسے  جوچھوڑ دینے کا حکم نہیں 

یہی تو وہ چیز ہے جو ہجوم کے مومن اور کافر میں خاموشی سے فرق کر دیتی ہے

اپنی چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا ادائیگی کے بعد اس نے اپنے رویے کےلیے جی جان سے توبہ کی اور آئندہ کے لیے مستقل. ہدایت کی دعا بھی کی

اسی اثناء میں جلال موصوف بھی جاگ اٹھے

اور منیحہ کو واپس نماز پڑھتے دیکھ کر طنز سے سر کو. جنبش دی

"یہ عورت نہیں بدل. سکتی چاہے جو بھی ہو جائے" 

کہتے ساتھ ہی وہ پھر سے سو گیا 

اسے واپس جگانا بھی ایک مشقت طلب مرحلہ تھا 

پھر. جب تک وہ اٹھ کر ناشتے کے لیے تیار ہوا تب تک اسے عشقیہ قسم کے مکالمے جاری رہے جنھیں سن سن کر منیحہ کبھی شرم سے سر جھکا لیتی کبھی الجھن کر اسے گھورنے لگتی اور کبھی اسکی طرف سے رخ موڑ لیتی

عجیب سا انسان تھا نا قابل بیان اور نا قابل اعتبار سا

"آج کیا کرنا ہے¿اسکے سوال. کے جواب میں جب جلال نے برش رکھ کر اسے اپنے حصار میں لیا تب احساس ہوا کہ اسکا سوال کچھ زیادہ مناسب نہ تھا

" جلال پلیز"اس نے خاموش دہائی دی

" کیا پلیز"

وہ مزید بے تکلف ہوا

اور منیحہ کی جان لبوں تک آ گئی

" آپ نے کل وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے تنگ نہیں کریں گے" 

اسکے یاد دلانے پہ وہ کچھ پل اسے گھورتا رہا پھر ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہو گیا

"تب مجھے پتہ نہیں تھا کہ بیگم صاحبہ مجھ سے بھی تنگ ہوتی ہیں" 

خلاف توقع مسکرا کر کہتا وہ اسکا ہاتھ تھامے باہر کی جانب ہو لیا

"کدھر جانا ہے ناشتہ تو کرلیں 

اسے پارکنگ کی طرف رخ کرتے دیکھ کر منیحہ نے دہائی دی

 ارے اس تھرڈ کلاس ہوٹل میں کون ناشتہ کرے گا یہاں تو صرف سامان رکھنا یے "

وہ اسے لیے پہلے تو ناشتے کی کوئی مناسب جگہ تلاش کرتا رہا پھر آخر انھیں ایک جگہ پسند آ ہی گئی ہلکی ہلکی بوندا باندی میں کھلی فضاء اور گرما گرم پراٹھا چائے 

دونوں نے خوشی سے ناشتہ کیا پھر وہ اسے لے کر آگے کو چل دیا جہاں وہ منیحہ کی دلچسپی محسوس کرتا وہیں گاڑی روکتا اسکی تصاویر بناتا اکثر اسے دھکا دینے کی دھمکی دیتا اور یوں وہ شام تک اپنے ہوٹل سے بہت دور نکل آئے تھے منیحہ جو سارا دن بے حد خوش تھی اچانک فکروں میں گھر گئی

لیکن جلال کو کوئی فکر نہ تھی اس نے وہیں ایک. جگہ گاڑی ایک طرف کھڑی کی سامنے چند رہائشی مکانات تھے اور اکا دکا لوگ سڑک سے اس طرف جا رہے تھے

چلو بھئی ریلکس ہو جاو"

" کیا مطلب ہم رات کو کہاں رہیں گے¿"

اسے اپنے خیال پہ یقین نہ آیا

" یہیں گاڑی میں رہیں گے "

سہولت سے جواب دیا گیا

" کیا مطلب،، میں نہیں رہوں گی یہاں "

وہ صاف انکاری ہوئی

مگر جلال اسے تسلیاں دیتا گاڑی سے باہر نکل آیا

" پھر وہ اسے زبردستی نکال کر باہر لے آیا وہاں موجود ایک آدمی سے اس نے نجانے کیا کہا کہ وہ انھیں ساتھ لیے اپنے گھر کی جانب چل دیا

منیحہ نے راستے میں اس آدمی کے پیچھے چلتے ہوئے اس سے اشاروں میں پوچھا بھی کہ وہ لوگ کہاں جا رہے ہیں مگر جلال نے اسے تسلی رکھنے کا اشارہ دیا اور آدھے گھنٹے بعد وہ اس گھر کی عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ ساتھ والے کمرے سے جلال اور اس گھر کے مردوں کے قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں 

منیحہ کو مکمل یقین ہو گیا کہ یہ لوگ جلال کے جاننے والےتھے اور وہ اسے جان بوجھ کر یہاں لایا تھا مگر رات کے دس بجے وہ اسے واپس چلنے کا کہہ رہا تھا

"اب کہاں جانا ہے¿

وہ بے زار ہوئی

" کیا مطلب،، یہیں ڈیرے ڈالنے کا ارادہ ہے،، یہ کیا تمہارے رشتے دار ہیں جو تمہیں کھانا بھی کھلائیں رات بھی رکھیں 😂؛ "

وہ. طنزیہ بولا تو منیحہ اپنی جگہ خجل ہو گیی

" تو پھر آپ انکے گھر کیوں گئے تھے"

خفگی سے کہا تو جلال نے اسے اپنے حصار میں لے لیا

"بھی میں نے سوچا تمہی مقامی لوگوں کی مہمان نوازی کا مزہ چکھایا جائے "

وہ گاڑی کو لے کر کچھ دور نکل آئے سامنے قسمت سے ایک ہوٹل کی عمارت نظر آئی وہ لوگ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا سمجھ کر اندر گئے مگر یہ انکی دوسری غلطی تھی کہ نا تو منیحہ کے پاس شناختی کارڈ تھا اور نہ ان لوگوں کے پاس نکاح نامہ اسی لیے انھوں نے انھیں کمرہ دینے سے انکار کر دیا

جلال اجنبیوں کو دوست بنانے کا ماہر سہی مگر وہاں کچھ نہ کر سکا "اب ہم کہاں جائیں گے" 

تھنڈی ہوا پسلیوں تک محسوس ہو رہی تھی اور اس سے ایک قدم بھی نہ اٹھایا جا رہا تھا 

"کہیں نہیں یہیں انھی کی پارکنگ میں سوئیں گی

گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ نیم دراز وہ اسے بھی پیچھے آنے کا مشورہ دے رہا تھا 

مگر منیحہ بضد رہی کہ وہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے بیٹھے ہی سو جائے گی لاکڈ ہونے کے باوجود لوہے کی درازوں سے ٹھنڈی ہوا منیحہ کی ٹانگیں شل کر رہی تھی 

آخر گھنٹہ بھر صبر کرنے کے بعد وہ مزید برداشت نہ کر سکی اور دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پہ آ گئی 

وہاں موجود جلال نے اسے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا تھا

کچھ دیر وہ بے چین رہی مگر پھر اسکے سہنے پہ سررکھ کر سکون سے سو گئی

یہ پہلی دفعہ تھا اسے جلال کے قریب ہونا اچھا لگ رہا تھا رات بہت سکون میں گزرگئی بلکہ یوں کہا جا سکتا تھا کہ اسے ہوٹل کے کمرے میں شاید اتنی اچھی نیند نہ آتی

اور اسکا دل مطمئن ہو گیا تھا

اللہ نے اس آدمی کو اسکے لیے چنا تھا تو یقیناً کوئی بہتری ہی تھی 

جو رات کے اندھیرے میں اسکو اپنی آغوش میں لے سکتا تھا وہ دن کے اجالوں میں بھی اسکی طاقت بن سکتا تھا 

مگر اسکی یہ خوشیاں عارضی ثابت ہونے والی ہیں،، اس رات وہ اس بات سے لاعلم تھی

اگلے دن صبح کا ناشتہ وہ اسی ہوٹل میں کرنے گئے مینیجر نے خجل ہو کر انھیں دیکھا مگر جلال کی نگاہوں کا تاثر فاتخانہ تھا جیسے کہتا ہو 

ہاں بھئی تم. نے نہیں رکھا تو ہم. کونسا مر گئے

ناشتے کے بعد بجائے واپس جانے کی اس نے ناراض کاغان کا پلان بنا لیا

"لیکن سامان¿

" سامان وہیں سے مل. جائے گا "

وہ عجیب لا ابالی سا انسان تھا وہاں پہنچ کر منیحہ نے قدرت کے حسین معجزے دیکھے

رنگ برنگے جھرنے اور آبشاروں سیاہی. مآئل سبز پہاڑ لاتعداد درخت اور فطرت کا سکون

یہاں وہ. جس ہوٹل میں ٹھہرے وی ایک لگژری ہوٹل تھا سامان وغیرہ رکھ کر وہ شام. کے قریب ایک جھرنے کی سائٹ دیکھنے چلے گئے 

بہت خوبصورت جگہ تھی جہاں تنہائی اور خاموشی تھی

"یہ. پانی کتنا اچھا لگ رہا ہے اس سبزے میں" 

جھرنے کا پانی. نیچے ایک. جگہ جمع ہو. کر. چھوٹے سے تالاب کا نمونہ پیش کر رہا تھا

جسے دیکھ کر. جلال. سراہے بنا. نی. رہ سکا

"ہاں لیکن مجھے سبزہ پسند ہے،، پانی سے مجھے ڈر لگتا ہے" 

اس نے سرسری انداز میں اپنے ہائڈرو فوبیا کا ذکر کیا پانی کے ریزروائرز کے قریب منیحہ کو محسوس ہوتا کہ پانی اسے اپنے اندر کھینچ کے گا

یا وہ اس میں گر کر. ڈوب جائے گی 

"پانی بھی کوئی ڈرنے والی چیز ہے بے وقوف لڑکی "

جلال نے رخ موڑ کر اسے دیکھا مگر وہ جھرجھری لے کر پیچھے یو گئی

 "بس ایسے ہی مجھے نہیں اچھا لگتا" 

اس نے جان چھڑانے کو کہا اور دور جا کھڑی ہوئی 

"اچھا دھر تو آو نا" 

جلال نے اسے دور بیٹھے دیکھ کر پکارا مگر اس نے نفی میں سر ہلایا

" ارے یہ تھوڑا سا پانی ہے جو کہ گہری جگہ ہونے کی وجہ سے رک گیا ہے، ادھر تو آو نیچے سے پتھر نظر آ رہے ہیں "

مگر وہ انکاری رہی

"پاگل ہو تم پانی سے کون ڈرتا ہے" 

جلال نے اسے اٹھانا چاہا

" نہیں جلال پلیز آپ دیکھیں میں ٹھیک ہوں" 

اس نے جلال. کا اصرار بڑھتے دیکھ کر التجا کی مگر وہ بھی اسکی طرف آ گیا

" پاگل ادھر تو آو،، ا چھا ایک تصویر تو بنواو"

" نہیں پلیز"

اس نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا، یکدم. وحشت ہونے لگی تھی

" پاگل میں تمہارا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا"

مگر وہ اسے زبردستی اٹھا کر لے آیا منیحہ نے ڈرتے ڈرتے اسے دیکھا پھر بند آنکھوں سے پانی کی. جانب دیکھا

"آنکھیں تو کھولو کتنا اچھا لگ رہا ہے"

اس. نے بمشکل آنکھیں کھولیں یہ ایک گہری پانی سے بھری قبر جیسا محسوس ہو رہا تھَا

" ابھی جب زیادہ لوگ یہاں آنا شروع ہو. جائیں گے تو تمہیں یہاں لوگ چھلانگیں لگاتے نظر آئیں گے" 

"توبہ میں تو مر کر بھی پانی میں نہ جاں" 

جلال کے بتائے پہ منیحہ نے جھرجھری. لی

لیکن قسمت کو شاید کچھ اور منظور تھا 

"پاگل لڑکی چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ ڈرا کرو" 

ابھی وہ جلال کا. ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہونا ہی چاہتی تھی یکدم اسکے پیروں سے زمین. نکل. گئی اور اسکا. وجود ہوا میں اچھلتا ہوا اس گہری قبر میں گھر گیا

منیحہ نے چلانا چاہا مگر آواز اسکے حلق میں بند ہو. کر رہ. گئی تھی 

اس نے آگے پیچھے دیکھا مگر وہ. تنہا تھی اور شاید کسی ماورائی قوت نے اسے اس قبر میں دھکیل. دیا تھا

وہ. مدد. کے لیے کسی کو. پکارنا  چاہتی تھی مگر وہاں کوئی نہ تھا 

یکدم. اسے جلال کے قہقہوں کی آواز سنائی دی جو. اسکی طرف ہاتھ کا اشارہ کر. کے ہنس رہا تھا شاید وہ اسکی ڈوبتی صورت دیکھ کر مزہ لے رہا تھا

"آپکو اللہ کا واسطہ ہے جلال مجھے نکالیں یہاں سے"

وہ اب بے چینی اور تیزی سے ہاتھ پاوں مار رہی تھی ساتھ ہی ساتھ چیخ چیخ کر اسے مدد کے لیے پکار رہی تھی

"جلال آپکو اللہ اور رسول کا واسطہ ہے، بس اس دفعہ مجھے معاف کر دیں آئندہ آپکی ہر بات ہر حکم مانوں گی میں"

اس کی آواز یکدم بیٹھ گئی تھی اور اسکے چہرے پہ موت کی سی سختی تھی اسے لگا جلال جے اسکی منہ زوری کا بدلہ لیا ہے

"کوئی ہے تو میری مدد کرے"

آخری کوشش کے طور پہ اس نے رہی سہی قوت کے ساتھ چلا کر کہا

کیونکہ اوپر ٹیلے پہ کھڑے اس. سفاک شخص پہ اسکی پکاروں کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا

جو بد قسمتی سے اسکا شوہر منتخب کیا گیا تھا

"پلیز مجھے نکالیں میں مر جاؤں گی"

اسکے ذہن میں موت کا اس قدر خوف تھا

یہ حقیقت اس پہ آج ہی عیاں ہوئی تھی

اور جلال. کے چہرے پہ خباثت بھری ہنسی کچھ اور گہری ہو رہی تھی

دیکھتے ہی دیکھتے منیحہ کی آنکھیں باہر کو ابل آئیں

مگر جلال دلچسپی سے اوپر کنارے پہ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا

مشکل اسے اٹھانے یا نکالنے کی نہ تھی بلکہ مشکل یہ ہوئی تھی کہ وہ دو منٹ میں ہی بے ہوش ہو گئی تھی

"منیحہ اٹھو یار تم تو بہت ہی بزدل ہو"

اٹھ جاو کچھ نہیں ہوا مرنے نہیں لگیں تم،، پانی سے کون مرتا ہے ¿"

مگر کوئی جواب نہ. ملا وہ اسکا چہرہ تھپتھپا کر تھک گیا مگر وہ سن رہی

اور اب ہاتھ پاوں چھوڑے پڑی تھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ گاڑی اسکے پاس تھی ورنہ تو نجانے کیا ہو جاتا

ایک چھوٹے سے نجی کلینک پہ جب وہ اسے لے کر گیا تو ڈاکٹر اور وہاں موجود نرس چند لمحے تو اسے ایک معمول کا کیس سمجھ کر دیکھتے رہے  مگر اسے ہوش میں نہ آتے دیکھ کر وہ بھی الجھ کر رہ گئے

"یہ کہاں سے ملیں آپکو¿"

نرس نے مشکوک نظروں سے جلال کو دیکھا

"کیا مطلب کہاں سے ملیں,,یہ میری وائف ہیں"

وہ بھی الجھ کر رہ گیا

"کیا آپکا کوئی جھگڑا ہوا تھا¿"

دوسرا سوال پہلے سے زیادہ مشکوک کرنے والا تھا

"جی یہ کیسےسوال کر رہی ہیں آپ مجھ سے,,میں آپکو بتا چکا ہوں کہ یہ پانی میں پھسل گئی تھیں"

آخری بات اس نے نظر چراکر کہی مگر نرس نے دھیان نہ دیا

"پھسل کر گرنے سے دس منٹ میں ہوش آ جاتا ہے انھیں ایک گھنٹہ ہو گیا ہے اور ہوش ہی نہیں آ رہا "

نرس بھی اب سٹپٹا کر جواب دے رہی تھی

مگر پھر وہ دونوں خاموش رہے اتنے میں دوسری نرس اور ڈاکٹر بھی انکی طرف متوجہ ہوئے

"میں نے انجکشن دے دیا ہے,,شاید یہ ڈر گئی ہیں لیکن کچھ دیر میں ہوش آ جائیگا"

ڈاکٹر تسلی دے کر کسی دوسرے مریض کو بھگتانے چل دیا

مگر جلال کو پہلی مرتبہ اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا

تھوڑی دیر تو کیا دو گھنٹے گزر گئے مگر منیحہ میڈم ہوش میں آ کر نہ دی

جلال فطرتا بے صبرا تھا اس سے زیادہ وہ صبر نہ کر سکتا تھا 

"ڈاکٹر یار دیکھو تو سہی نا ,,اگر تمہارے بس کی بات نہیں تو بتاو میں کہیں اور لے جاوں"

وہ اسکے بستر کے سامنے بیٹھ بیٹھ کر تھک چکا تھا,,اوپر سے شرمندگی بھی گھیر رہی تھی

"جلال صاحب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں  یہ شاید ٹراما میں ہیں میں حیران ہوں کہ محض تین فٹ پانی کے گھڑے میں گرنے سے کوئی کیسے اتنی دیر بے ہوش رہ سکتا ہے"

ڈاکٹر اپنی حیرت کااظہار کر رہا تھا جلال نے سر کھجایا

"یہ اصل میں پانی سے ڈرتی ہے اور اسی وجہ سے جلدی ہوش میں نہیں آ رہی "

جلال نے کچھ سوچ کر ڈاکٹر کو بتایا

"مطلب,ڈرتی ملطب انھیں ہائڈرو فوبیا ہے¿"

ڈاکٹر نے کسی نتیجہ پہ پہنچنے کی کوشش کی

"جی شاید وہی ہے"

جلال سخت بیزار ہو چکا تھا

"تو پھر یہ پانی میں گئی ہی کیوں".

اب وہ افسوس کر رہا تھا جبکہ اسکے بال کی کھال اتارنے پہ جلال چڑا

" اصل میں مجھے لگا کہ پانی میں جا کر اسکاڈر کم ہو گا,کیونکہ ادھر تھاہی کتنا سا,,,تھوڑا سا بلکل,,,مجھے کیا پتہ تھا یہ محترمہ بے ہوش ہی ہو جائے گی"

اس نے کچھ خفگی سے چبا چبا کر کہا ساتھ ہی ایک خفا سی نگاہ اسکے بے سدھ وجود پہ ڈالی

"جلال صاحب آپ کیا پاگل ہیں جو انکا ڈر ختم کرنے کےلیے انھیں زبردستی پانی میں اتارتے رہے"

"مجھے کیا پتہ تھا یہ بے ہوش ہی ہو جائے گی"

وہ تنگ آ چکا تھا اتنی طویل بے ہوشی سے اندر سے ڈر بھی گیا تھا

"لیکن جلال صاحب میں حیران ہوں آپ اتنے پڑھے لکھے آدمی ہیں آپ ایک نفسیاتی بیماری کا اس طرح کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں"

"ڈاکٹر بہتر ہے آپ مریض کا علاج کیجیے,,نا کہ میرا علاج شروع کر دیں"

اس نے ڈاکٹر کو کچھ سخت کہنے سے روکا ورنہ جی تو چاہ رہا تھا اسکی ساری ڈاکٹری نکال کر رکھ دے

وہ ایسا ہی تھا غیر مستقل مزاج اور غصیلہ  اپنی غلطی سامنے والے پہ ڈالنے والا.

اب بھی غلطی اسکی تھی مگر اسکا جی چاہ رہا تھا کہ ڈاکٹر کو ایک چمانٹ لگائے

منیحہ میڈم تو بے ہوش پڑی تھی,,اسے تو وہ کچھ کہہ نہ سکتا تھا

اور یہ اسکی بری قسمت تھی کہ اسی وقت پاپا کی کال آ گئی

"کہاں بزی ہو یار,,تم تو فون بھی نہیں اٹھاتے..ہنی مون کا مطکب یہ تو نہیں کہ باقی دنیا سے کٹ جاو"

"کیا ہنی مون,,بینڈ بج گئی سارے ہنی مون کی"

وہ چڑا ہوا تھا جبکہ 

حسب معمول وہ گرم جوشی سے بولے

وہ دونوں باپ بیٹے کے اس امیج سے بہت دور تھے جسکے مطابق باپ بیٹا جب اکٹھے بیٹھتے ہیں تو وہاں خاموشی رہتی ہے

ممتاز مفتی نے بھی اسکی جانب کسی زمانے میں اشارہ کیا تھا کہ اگر دو جوان اور کچھ کم جوان آدمی اکٹھے خاموش بیٹھے ہوں تو سمجھ جاو یہ باپ بیٹا ہیں

جلال اور کریم علوی ایسے نہ تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے تمام جرائم اور سیاہ و سفید سے نا صرف آگاہ تھے بلکہ برابر کے شریک بھی تھے

منیحہ کو تو دونوں کی اتنی فرینکنس پہ رشک آتا تھا

"یار کوئی اور کہے تو ماننے والی بات ہے مگر تم تو کافی تجربہ کار ہو , بینڈ تو نہیں بجنے دو گے "

علوی صاحب ہنوز غیر سنجیدہ تھے

آپکی بہو نے سارا پلان خراب کر دیا"

اسکے غصے میں کہنے پہ کریم علوی بھی سنجیدہ ہو ہی گئے

تب جلال نے انھیں مجبوراً ہی سہی ساری روداد سنا دی 

" اس وقت کہاں ہو تم. لوگ ¿"

" ہم اس وقت ہاسپٹل میں ہیں "

" ڈاکٹر کیا کہتا ہے¿

جلال نے کچھ مجبوری کی حالت میں منیحہ اور پاس موجود نرس کو دیکھا

"ڈاکٹر کہتا ہے وہ ٹرانس میں چلی گئی ہے شاید دیر سے ہوش میں آئے گی"

تب کریم علوی کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا

"اچھا اب تم لوگ صبح ہوتے ہی گھر پہنچو،، ہو گیا ہنی مون" 

انھیں بھی تشویش ہو رہی تھی، جلال کے ساتھ تو اسکے دوست بھی مشکل سے گزارا کرتے تھے،، منیحہ تو پھر ایک سیدھی سادھی بچی تھی

دن کے اجالے ڈھلے تو اندھیرے نے اپنے پر پھیلائے رات آہستہ آہستہ ڈھلنے لگی تھی 

اور جلال. کو پہلی مرتبہ اپنی غلطی کا صحیح معنوں میں احساس ہوا

وہ واقعی غلط تھا اسے منیحہ کے ڈر کو ختم کرنے کے لیے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا

انھی سوچوں میں غلطاں وہ کرسی پہ. جما اکڑ چکا تھا زندگی میں پہلی دفعہ شاید وہ یوں صبر سے کسی بات کے ہونے کا انتظار کر رہا تھا

تبھی اسکی پلکوں میں جنبش ہوئی

"تھینک گاڈ تم نے آنکھیں تو کھولیں" 

وہ بے قراری سے اسکا ہاتھ تھام چکا تھا

"میں کہاں ہوں" 

وہ رک رک کر دریافت کر رہی تھی لیکن اس سے پہلے کہ جلال. کوئی تسلی بخش جواب دیتا اسکے دماغ کے تار آپس میں ملے اور سارا قصہ اسے یاد آ گیا

یکدم وہ چیخی تھی باہر موجود نرس بھی بھاگ کر اندر آئی مگر منیحہ تو بے قابو ہو رہی تھی

"یہ اتنا چیخ کیوں رہی ہیں ¿

اسے سنبھالنے کے جتنے کرتی نرس نے بے چارگی سے پوچھا مگر منیحہ نے اب باقاعدہ ہاتھ پاوں مارتے ہوئے رونا شروع کر دیا تھا، جلال تو پہلے ہی بوکھلا چکا تھا

" ریلکس ریلکس آپ سیف ہیں "ڈاکٹر نے اسے تسلی دی تو کچھ پل میں وہ پرسکون ہو گئی مگر بولی کچھ بھی نہیں 

اسکے بعد بھی ڈاکٹر اسکی توجہ بٹانے کو مختلف سوالات پوچھتا رہا مگر اس نے ہوں، ہاں کے علاوہ کوئی جواب نہ دیا

اسے ذہنی دباؤ سے بچنے کی ایک گولی دے کر ڈاکٹر نے انھیں رخصت کی اجازت دی

بل ادا کر کے وہ بھی باہر اسکے پیچھے آ گیا وہ اپنے آپ میں سمٹی ہوئی گاڑی کے پاس بت بنی کھڑی تھی

جلال نے چپ چاپ اسے دیکھتے ہوئے دروازہ کھولا تو وہ مشینی انداز میں بیٹھ گئی جلال اسے ہوٹل لے آیا وہ چاہتا تھا کہ باقی کی رات وہ لوگ آرام کر کے صبح واپسی کے لیے نکل. جائیں مگر کمرے میں آ کر جلال خود بھی دبا کا شکار ہو گیا

منیحہ دروازے کے پاس آ کر جس صوفے پہ بیٹھی تھی وہیں بیٹھی رہی

حتیٰ کہ جلال نے چینج کر کے منہ ہاتھ دھوئے سارا دن کچھ کھانے کا اسے پوش نہ تھا اب پریشانی کچھ کم ہوئی تو بھوک بھی محسوس ہونے لگی

مگر وہ پیٹ کی آگ کو نظر انداز کرتا سونے کے لیے دراز ہو گیا

"منیحہ آ کر سو جاو بیڈ پہ" 

اسے یوں ہی جمے دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا منیحہ اسکے پکارنے پہ چونکی تھی، سر اٹھا کر اسے دیکھا بھی مگر اپنی جگہ سے ہلی نہیں 

(یا اللہ کیا مصیبت گلے ڈال لی ہے میں نے) 

اس وقت وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ. مصیبت منیحہ تھی یا اسکی اپنی غلطی. 

چند منٹ وہ بستر پہ بلکل سیدھا چت دراز چھت کو گھورتا رہا

پھر نگاہ پھیر کر منیحہ کو دیکھا وہ پتھر کی مورتی محسوس ہوتی تھی

"اٹھو" 

بستر سے آٹھ کر اس نے اپنا سامان بیگ میں ٹھونسا جیکٹ پہنی ایک ہاتھ سے بیگ گھسیٹتا دوسرے میں جاگرز پکڑے وہ اسکے سر پہ کھڑا تھا

چند منٹ میں اس نے اپنا سارا سامان سمیٹ لیا تھا

منیحہ نے اسے پتھریلے تاثر سے دیکھا لیکن جلال نے محسوس کیا دو آنسو اسکی شفاف آنکھوں میں چمکے تھے احساس شرمندگی نے اسے نئے سرے سے گھیرا

"اٹھو" 

جوتے دوسرے ہاتھ میں منتقل کر کے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچ چکا تھا 

وہ بے جان شے کی مانند اسکے پیچھے گھسٹتی ہوئی چلتی جا رہی تھی جوتے اور بیگ ڈگی میں پھینک کر اسے فرنٹ سیٹ پہ بٹھا کر وہ دوسری جانب سے ڈرائیونگ سیٹ پہ آ براجمان ہوا 

ساری رات  خاموشی سے وہ ڈرائیو کرتا رہا

گاڑی میں جامد سکوت تھا پہلی دفعہ تھا کہ وہ بغیر میوزک بلکہ تیز میوزک کے گاڑی چلا رہا تھا

صبح تک وہ اسلام آباد سے نکل چکے تھے اور اس ٹھنڈک نے سلیپرز میں موجود اسکے پاوں سن کر دئیے تھے

اور منیحہ کی خاموشی اسکا دماغ بھی سن کر رہی تھی

زندگی میں پہلی بار اس نے دل سے اپنی غلطی کی ذمہ داری قبول کی تھی اور زندگی میں پہلی بار ہی اسے یہ. محسوس ہوا تھا کہ اس نے زیادتی کی ہے 

اور یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس زیادتی کا مداوا کیسے کرے 

کیونکہ اسکے گھر والوں کے لیے تو جلال کا پنی غلطی زبانی طور پہ قبول. کر لینا ہی بہت ہوتا تھا

مگر اب سامنے جو شخصیت تھی وہ اسکی بیوی تھی من چاہی اور زور سے حاصل کی گئی 

چند گھونٹ چائے اور ایک کلب سینڈوچ سے اپنا پیٹ بھر کر وہ واپس گاڑی میں آ بیٹھا منیحہ نے اسکی لائی ہوئی چیزوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا

اور جلال کا جی چاہا ایک تھپڑ اسکے منہ پہ لگائے جو بھولنا بھول ہی گئی تھی کم از کم بولے تو سہی 

مگر اسکے دل نے اس بات کی بھی اجازت نہ دی

"اب کیا تم بات ہی نہیں کرو گی ¿"

وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا

اور جواب وہی جان لیوا خاموشی 

اللہ اللہ کر کے طویل سفر اختتام پزیرائی ہوا  اور یہ شاید زندگی میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ وہ. اتنے کم وقت میں مری سے گھر واپس پہنچ گیا تھا

گھر آ کر انکا استقبال کرنے کوسب موجود تھے

پاپا، ماما، اسکی ایک بہن اور انکی آنکھوں میں موجود حیرت 

کریم علوی نے کچھ دیر قبل صرف یہی بتایا تھا کہ منیحہ کی طبیعت خراب ہو گئی جس وجہ سے وہ لوگ واپس آ رہے ہیں

اب ظاہری طور پہ سب کے ذہن میں کئی سوالات تھے 

"ہوا کیا ہے اسکے ماتھے پہ کیا ہوا¿"

ماما نے اسکے ماتھے پہ لگا ننھا سا سنی پلاسٹک دیکھا جو کہ کسی پتھر کا کونا چھننے کے باعث زخم پہ لگایا گیا تھا

"کچھ نہیں ہوا"

جلال نے سخت بے زاری سے کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا

"کچھ تو ہوا ہے اسکی حالت دیکھو" 

جلال کی ماں میں صبر بلکل نہ تھا

جبکہ خالی پیٹ، پریشانی اورخوف کی وجہ سے منیحہ کو  کر آ رہے تھے

اس نے صوفے کا سہارا لیا

"ماما اسکی بیٹھنے تو دیں کیا کھڑے کھڑے سب پوچھ لیں گی"

بیٹی نے ماں کو ڈپٹا اور منیحہ کو سہارا دے کر بٹھایا

" پانی پلاو اسے "

کریم صاحب نے بیٹی کو کہا،، بہو کی حالت واقعی تشویش ناک ہو رہی تھی اور بیٹا سخت بے زار نظر آتا تھا. ضرور کوئی نا کوئی بات تو تھی

"اب بتا بھی چکو کہ کیا ہوا ہے ¿"

ماما نے الجھ کر کہا

" وہ میں گر گئی تھی" 

مجرمانہ انداز میں سر جھکا کر وہ بمشکل بتا پائی

" کیسے گر گئیں¿" 

انھوں نے بہو کو مشکوک نظروں سے دیکھا

"پانی میں گر گئی تھی" 

وہ بس یہی کہہ سکی ساتھ ہی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے

ٹھیک ہے اسے کمرے میں چھوڑ آو، اور جلال کو نیچے بھیجو"

کریم صاحب نے بیٹی کو اشارہ کیا تو وہ منیحہ کو سہارا دے کر اوپر لے گئی،، جلال واش روم سے نہا کر نکلا

بہن نے ایک گھوری سے نوازا ساتھ ہی پاپا کا پیغام بھی دیا

"تم آرام کرو تھوڑی دیر میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں "

" نہیں میرا جی نہیں چاہ رہا"

منیحہ کا جی تو بس یہی چاہ رہا تھا کہ اڑ کر اپنے اماں ابا کے پاس چلی جائے

آپی کمرے سے گئیں تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

جلال نے جو کچھ اسکے ساتھ کیا تھا اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا اسے تو یہ بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بچ گئی ہے

" جلال میں آپکو کبھی معاف نہیں کروں گی"

اس نے خود کو تسلی دینے کو کہا مگر درحقیقت وہ اب جلال سے بہت خوفزدہ ہو چکی تھی اسی لیے وہ اسکے سامنے خاموش رہی نا روئی اور نا ہی شکوہ کیا

جبکہ دوسری جانب جلال کی پیشی ہو چکی تھی کریم صاحب بضد تھے کہ وہ انھیں حقیقت بتائے جبکہ وہ مسلسل یہی کہہ رہا تھا کہ اسکا پاوں پھسل گیا اور وہ نیچے گر گئی 

"کیا پہاڑ سے گری تھی جو اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا¿"

ماما کو سو فیصد یقین تھا کہ اصل بات کچھ اور ہے 

"ماما فار گاڈ سیک اب آپ سر نہ کھائیں میرا"

اس نے بے زاری کا اظہار کر کے ان سے جان چھڑانا چاہی اور یقین نہ ہونے کے باوجود وہ خاموش ہو رہیں 

مگر سہ پہر تک منیحہ کے گھر تک بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ وہ لوگ واپس آ گئے ہیں فون اسکے پاس تھا نہیں کہ وہ رابطہ کر پاتے اسکی امی خود ہی آ گئیں  

مگر بیٹی کو یوں بے سدھ پڑا دیکھ وہ گھبرا گئیں 

"اسے کیا ہوا ہے،، یوں ایک دم سے اتنی کمزور کیوں ہو گئی ہے¡

انھوں نے آپی سے پوچھا

؛" آنٹی پریشان نہ ہوں بخار ہے اسے،، جلال ڈاکٹر کو لینے گیا ہے؛

آپی تسلی ہی دے سکتی تھیں لیکن ڈاکٹر کی دوا سے بھی وقت طور پہ کوئی خاص اثر نہ ہوا

اور یہ تو منیحہ کا سابقہ ریکارڈ تھا کہ اول تو اسے بخار ہوتا ہی نہ اور جب ہوتا تو بہت تیز ہوتا تھا

شام تک سب گھر والے اسکے کمرے میں جمع ہو چکے تھے

جلال کے بھائی بھابی جا چکے تھے آپی کے شوہر بھی چلے تھے اب صرف وہی بچی تھیں

مگر منیحہ کے ابا اماں، سیمعون اور اسکا بھائی اسکی عیادت کرنے پہنچ چکے تھے امی ابا تشویش کا شکار تھے

وہ تو انکے یوں بنا بتائے جانے پہ ہی؛ تشویش کا شکار ہو گئے تھے اب تو فکر حد سے سوا تھی مگر سیمعون کے لیے یہ سب منیحہ کی غلطی تھی آپی نے بتایا کہ آبشار کے کنارے کھڑی وہ پھسل کر پانی میں جا گری اور اب اسے تیز بخار ہو رہا تھا اسی لیے کوئی جلدی واپس آنا پڑا

(جب پتہ تھا کہ پانی کے پاس جام نکلتی ہے تو ضرور آبشاروں دیکھنی تھیں)

امی ابا کو تشویش میں دیکھ کر سیمعون کا بس نہ چل رہا تھا کہ منیحہ کا گلا گھونٹ دے موقع پاکر وہ اسکے قریب بستر پہ جا بیٹھی

کریم علوی سلمان صاحب کو تسلیاں دے رہے تھے

"ویسے منیحہ میڈم جب آپکو پتہ تھا کہ پانی کو دیکھ کر آپ کی روح فنا ہو جانے والی ہوتی ہے تو آپ پانی کے قریب گئیں ہی کیوں ¿

سیمون نے طنزیہ اسے ٹوکا دیا وہ جو بستر پہ دراز تھی ایک لفظ نہ کہہ سکی

" ہاں بیٹا آپکو احتیاط کرنی چاہیے تھی"

دور کرسی پہ بیٹھے ابا نے بھی سیمعون کی بات سن لی تھی

اسی لیے لاڈلی بیٹی کا زرد چہرہ تشویش سے دیکھا

منیحہ کوئی جواب نہ دے سکی لیکن اس نے محسوس کیا کسی کی دو الجھی ہوئ متفکر نگاہیں اسی پہ. جمی تھیں

منیحہ نے آنسوؤں کا ایک گولہ اپنے حلق میں پھنستا ہوا محسوس کیا

 "ابا، میرا پاوں پھسل گیا تھا، ایک دم،، پتہ ہی نہیں چلا"

تر لہجے میں اس نے وقفے وقفے سے بمشکل جملہ مکمل کیا

جلال نے شکر ادا کیا کہ منیحہ نے رونا نہیں شروع کر دیا ورنہ تو جس طرح اسکی آنکھیں صبح سے رونے کو بیتاب ہو رہی تھیں وہ اپنے اما‍ں ابا کے سامنے رو کر کوئی اور تماشہ بنوا دیتی

تھوڑی دیر بعد سب اسکے کمرے سے چلے گئے آپی نے کارن سوپ کے چند چمچ زبردستی اسکے حلق میں انڈیکس کر اسے دوا دی اور وہ بھی کمرے سے چلی گئیں 

بہت دیر سے رکے آنسو تنہائی پاتے ہی تواتر سے بہہ نکلے تھے

"ابا آپکی بیٹی بہت بری طرح پھنس گئی ہے"

اسے محسوس ہو رہا تھا جلال کسی دن واقعتاً اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا

روتے روتے اور خود سے الجھتے اسے نیند آ گئی 

مگر ذہن. نیند میں بھی پرسکون نہ ہوا تھا یکدم اسے محسوس ہوتا وہ پانی میں گر کر ڈوب گئی ہے

وہ اپنے ابا کو پکارتی ہے مگر اسکے حلق سے آواز ہی. نہیں نکل پاتی

خوف سے اسکی آنکھ کھل جاتی اور خود کو کمرے میں پا کر وہ سکون کا سانس لیتی یوں ہی ایک دم اسے محسوس ہوا اسکا گلہ دبایا گیا ہے،، اور مرنے سے پہلے اسکی آنکھیں باہر کو ابل رہی ہیں 

یکدم ہی وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی

جلال جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا اسکے یوں اٹھنے پہ اسکی. جانب بھاگا

"کیا ہوا منیحہ¿آر یو اوکے¿"

"چھوڑیں مجھے، خدا کے لیے مجھے چھوڑ دیں"

وہ بنا اسکی بات سنے چیختی جا رہی تھی

جلال نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے

"منیحہ ریلکس یار میں ہوں جلال"

وہ اذیت سے اسے اپنے حصار میں لینے کی. کوشش کر رہا تھا مگر وہ شاید ابھی بھی نیند میں تھی

" منیحہ! "

غصے سے اس نے اسکا نام پکارا دونوں کلائیاں مضبوطی سے جھکڑ رکھی تھیں 

"پاگل ہو گئی ہو،، چپ کرو"

وہ غصے اور سختی سے اسے دیکھتا جھٹک کر سیدھا بٹھا رہا تھا

"منیحہ نے ایک پل کو چیخنا چھوڑ کر اسے دیکھا

وہ یکدم. کمزور پڑ گیا

" کیا ہو گیا ہے یار "

جلال نے اسے سینے سے لگا کر خود میں چھپانے کی کوشش کی

کچھ پل وہ ساکت رہی

تو جلال نے خیال. کیا وہ ہوش میں آ چکی ہے اسی لیے ایک دفعہ زور سے بھینچ کر اسے اپنے حصار سے آزاد کر دیا

"میری جان کیا ہو جاتا ہے تمہی ¿"

ایک ہاتھ سے اسکا. چہرہ چھوتا دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پی رکھتا وہ اسکے بہت قریب بیٹھا پوچھ رہا تھا آواز میں بھی بلا کی سنجیدگی اور درد بھر آیا تھا وہ سارا دن بہت زیادہ ذہنی اذیت کا شکار رہا تھا منیحہ کی خاموشی نے اسے خود کو مجرم سمجھنے پہ مجبور کر دیا تھا

مگر منیحہ اسکی آواز کا زیرو بم محسوس ہی نہ کر سکی 

جلال نے اسکی جامد نظروں سے بچنے کے لیے اسے گلے لگانا چاہا مگر وہ بجلی کی تیزی سے بستر سے نیچے اتر گئی 

"مجھے نہیں رہنا ادھر"

وہ بھاگ کر دروازے کی جانب چلی گئی لمحے کے ہزارویں حصے میں جلال. کو اسکے جملے کا مطلب سمجھ آیا تو وہ بھی برقی رفتار سے اسکے پیچھے لپکا اور دروازے کو ان. لاک کرتے منیحہ کے ہاتھ وہیں جم. گئے خوف سے اس نے جلال. کو دیکھا 

کچھ برا ہونے کا خوف اسکی جان کھا رہا تھا

"اس وقت باہر نہیں جا سکتیں تم". جلال نے ایک محتاط سختی اے اسے باور کرانا چاہا

 "مجھے معاف کر دیں پلیز،، مجھے جانے دیں"

اس نے ابھی تک دروازے کی کنڈی نہیں چھوڑی تھی

اور اسکی آنکھوں میں موجود خوف جلال کو. بہت برا لگ رہا تھا

کوئی اور موقع ہوتا تو وہ گھٹیا ہنسی ہنس کر اسے قابو کر لیتا مگر اس وقت اسے منیحہ کی بے اعتباری بلکل. اچھی نہ لگی

"پاگل ہو کیا،، اس وقت کہاں جانا ہے تم. نے¿"

جلال نے اسکے ہاتھ تھامنے چاہے مگر وہ تو اسکے قریب آنے کو تیار ہی نہیں تھی

"نہیں مجھے نہیں رہنا اس کمرے میں"

اونچی آواز میں دہاڑی آخر میں وہ رونے لگی تھی 

جلال کو یکدم غصے نے گھیرا..... 

جلال نے اسے تو کمرے سے نہ جانے دیا مگر خود چلا گیا تھا

جلال کے جانے کے بعد بھی وہ ساری رات جاگتی. رہی 

شاید نیند آنکھوں سے روٹھ گئی تھی 

روح بے سکون ہو تو جسم. کو سکون. کیونکر میسر آ سکتا ہے¿

منیحہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا اسے لگا تھا کہ وہ. جلال. کو بدل. ہے گی،، وہ اسکے ساتھ گزارا کر لے گی

لیکن یہ سب اسکی خام خیالی ثابت ہوئی 

موجودہ حالات کا تو اسے اندازہ ہی نہ تھا

اس. نے بڑی محدود سی سوشل لائف دیکھی تھی دوستی بھی صرف انھی لوگوں کے ساتھ رکھی جو اسکے مزاج کے مطابق تھے وہ. دھیمے مزاج کی تھی،، فطرتاً حساس تھی اور کم بولتی تھی اسی لیے زیادہ بولنے والے لوگوں کے ساتھ کبھی اسکے اچھے تعلقات نہ. بن سکے

لیکن اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں اتنی سختیاں اور پریشانیاں اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں 

"یا. اللہ میں نے آپکے سہارے اس رشتے،، اس تعلق کو قبول. کر لیا تھا،، صرف اس وجہ سے کہ میرے گھر میرے باپ کی عزت سلامت رہے، لیکن آپ نے بھی مجھ سے توجہ ہٹانے لی"

نا چاہتے ہوئے بھی شکوہ اسکی زبان پہ امڈ امڈ آتا مگر وہ اسے روک دیتی

ساری رات وہ زمین پہ پڑی رہی ایک دفعہ بستر پہ دراز ہونے کی کوشش بھی کی مگر بستر نے اسے پناہ. نہ دی

یہ زمین ہی تھی جو ہر ظالم اور ہر. مظلوم کو پناہ دیتی تھی

ایک عجیب سی کشش، ایک عجیب سی وسعت تھی اس زمین کے اندر جو ہر چیز جذب کر. لیتی ہے 

جب رب العالمین کہتا ہے کہ زمین اور آسمان کے بنانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں تو وہ سچ ہی کہتا ہے بت شک وہ رب بڑا عظیم سچا ہے

وہ انسانی نفسیات کی طالبہ رہ چکی تھی

اس نے کئی مقامات پہ پڑھا تھا کہ جب آپکو. محسوس ہو کہ آپکے کندھوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے،، کہ اب آپ. اسکو. مزید نہیں اٹھا سکتے تو فورا زمین پہ پناہ. لو

امتحانات اور دوسرے مشکل روٹین والے شب و روز میں اکثر پروفیسر انھیں تھراپی سیکھاتے 

بلکہ جوتے اتروا کر، آنکھوں کو بند کرنے کا کہتے اور زمین پہ بٹھا دیتے 

لیکن تب اسے کبھی سمجھ نہ آئی کہ اسکی کیا افادیت ہے آج انجانے میں ہی سہی وہ بستر سے آٹھ کر زمین کی پناہ میں آ گئی

اللہ اللہ کر کے یہ طویل رات گزری صبح کی اذانیں سنائی دیں جو اسکا دماغ کچھ بہتری کی طرف گامزن ہوا

نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اس نے تلاوت قرآن کریم کی کوشش کی مگر وہ بمشکل ایک رکوع ہی پڑھ پائی دل اس طرف مائل ہی نہ ہو رہا تھا

قرآن مجید کا. نسخہ جزدان میں رکھ کر وہ کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی نیم اندھیرے میں کچھ دکھائی نہ دیتا تھا وہ فضاء کی خوبصورتی کو بھی محسوس نہ کر سکی

اگر انسان کے اندر گھٹن ہو تو باہر کی تازہ ہوا بھی حبس زدہ محسوس ہوتی ہے

اسکے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا

شدید بھوک اور نیند نہ آنے کے باوجود وہ کتنی ہی دیر چت پیٹی رہی مگر دل باہر جانے سے خوفزدہ تھا 

وہ جلال. کا سامنہ نہ کرنا چاہتی تھی وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہ پاتی تھی کہ کل رات اسے اسی کے کمرے سے نکال کر اسکا سامنہ کرے

گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک اسے اپنے دماغ پہ ہتھوڑے کی طرح محسوس ہو رہی تھی

مگر وہ اٹھ کر نیچے نہ جا پائی بخار کا احساس بھی مر چکا تھا عجیب مایوسی اور بے دلی کی کیفیت طاری تھی

آخر دس بجے وہ اٹھ کر نیچے آ ہی گئی جھجکتے ہوئے وہ. باورچی خانے میں گئی وہاں خلاف معمول کوئی بھی موجود نہ تھا

اس نے اپنے لیے چالان کپ بنانے کا ارادہ کیا تبھی آپی آن وارد ہوئیں 

"ارے میری جان تم اٹھ گئیں مجھے اٹھا لیتیں"

وہ تازہ دھلے چہرے کے ساتھ بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے بولیں 

"نہیں میرے سر میں درد تھا تو سوچا چائے بنا لوں" پہلی دفعہ وہ یوں خود سے ہی کچن میں کچھ بنا رہی تھی عجیب بھی محسوس ہوا

"آپکے لیے بھی بنا دوں ¿

کچھ دہر بعد خیال آنے پہ اس نے پوچجا تو آپی نے اسے ایک مسکراہٹ سے نوازا

" بنا دو تو اچھی بات ہے،، ویسے تم کچھ بہتر لگ رہی ہو"

سرسری سے انداز میں کہتیں وہ فریج سے ڈبل روٹی کا پیکٹ نکالنے لگیں 

دو کپ چائے کے ساتھ ڈبل-روٹی کا ایک سلائس کھا کر منیحہ کو کچھ بہتر محسوس ہوا

تھوڑی دیر وہ آپی کے ساتھ بیٹھی رہی پھر کام والی آ گئی 

تو آپی اس سے صفائی کرانے لگیں 

" آنٹی کدھر ہیں ¿

بہت دیر بعد منیحہ کو آنٹی کی غیر  موجودگی کا احساس ہوا

" انکا بلڈپریشر  ہائی تھا صبح دوا دے کر سلایا ہے انھیں"

آپی اسے آگاہ کر کے واپس اپنی سابقہ مصروفیت میں مگن ہو گئیں 

منیحہ کو وہاں بیکار بیٹھنا عجیب لگا

تبھی آپی کے لا کر رکھے کپڑے وہ پریس کرنے لگی. "ارے تم رہنے دو،، ابھی تو بخار ختم بھی نہیں ہوا تمہارا"

انکے کہنے کے باوجود وہ لگی رہی

" میں کر دیتی ہوں ایسا کوئی مشقت والا کام تو نہیں ہے"

گو کہ اسکا سر ابھی بھی درد کر رہا تھا اور مسلسل پریشانی اور بخار کی وجہ سے کندھوں میں بھی درد تھا مگر اسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنا بھی گوارا نہ تھا

انکل کے تین چار جوڑے اچھی طرح سے پریس کر کے وہ جلال کے کپڑوں کی طرف متوجہ ہوئی ٹاور شرٹس کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ دو تین شلوار سوٹ بھی تھے

اس نے شادی کے علاوہ اسے شلوار سوٹ میں نہ دیکھا تھا

"شاید جمعے کو پہنتے ہوں گے"

اس نے آہستہ آواز میں خود کلامی کی "لیکن جمعہ تو پڑھتے ہی نہیں"

اسکے اندر سے کسی نے اسے یاد کرایا مایوسی کی ایک شدید لہر اسکے اندر اٹھی

کوئی اور ہوتا تو شاید اسے فرق نہ پڑتا مگر جلال. کوئی تو نہ تھا 

اسکا زندگی کا ساتھ،، اسکی روح تک. کا حصے دار تھا

استری وہیں رکھ کر وہ میز کا کونا تھام کر کھڑی ہو گئی 

دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاہا

کتنی خواہش تھی اسکی کہ اسکا شوہر امیر ہو. یا نہ ہو،، خوبصورت ہو یا نہ. ہو مگر دیندار ہو

"باجی کیا ہوا ہے آپکو¿

سب سے پہلے ملازمہ کی نظر اسکے زرد ہوتے چہرے پہ پڑی منیحہ نے سر اٹھا کر اسے تسلی دینا چاہیے مگر جی اتنا خراب ہو رہا تھا کہ میز کا کونا چھوڑتے ہی وہ لہرا کر نیچے گھری

" او مائی گاڈ،، میں نے کہا بھی تھا تم رہنے دو"

آپی بھی بجلی کی سی تیزی سے اسکی جانب لپکیں

جبکہ سیڑھیوں پہ کھڑے آنکھیں ملتے جلال کی چیخ بھی بے ساختہ تھی اسکے دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے گری تھی

"کیا ہوا ہے اسے¿

لمبے لمبے ڈگ بھرتا

بھاگ کر وہ اسکے قریب پہنچا

آپی اسکا سر گود میں رکھے تھپتھپا رہی تھیں 

ملازمہ پانی کا گلاس اٹھا لائی جلال نے چھینٹے مارنے کے چکر میں آدھا گلاس اس پہ انڈیلا

جلد ہی اسے ہوش آ گیا

" کیا ہوا تھا تمہیں ¿

وہ ہمدردی کی بجائے غصے سے پوچھ رہا تھا

منیحہ جو انھیں تسلی دینے والی تھی اس دھاڑ پہ چپ ہی رہ گئی

آپی نے اسے یوں خاموش ہوتے دیکھ کر جلال. کو گھورا

اور اسے اٹھا کر صوفہ پہ بٹھایا

" کہا بھی تھا کہ نہ کرو تم رہنے دو"

" میں ٹھیک ہوں بس سر میں درد تھا اسی وجہ سے چکر آ نے لگے" 

وہ خجل ہو رہی تھی

"گھنٹے سے کھڑی ہو  کر تو آنے ہی تھے نا" 

آپی نے پانی کا گلاس اسکی جانب بڑھایا جسے اس نے تھام لیا اب وہ سیدھی ہو کر بیٹھ چکی تھی جلال بنا منہ دھوئے ابھی تک سامنے کھڑا تھا

وہ ایک دفعہ آٹھ کر. نیچے آتا پوتے گھر کا  چکر کاٹ کر دوبارہ. منہ دھو کر آتا 

اب بھی شاید وہ عادت اٹھ کر نیچے آ گیا

شاید وہ اوپر کسی کمرے میں سویا ہوا تھا

"نہیں اس وجہ سے نہیں ہوا بخار نہیں تھا مجھے" 

اس نے وضاحت دینا چاہی مگر جلال نے اسے بات مکمل نہ کرنے دی

"اگر یہ صفائی ستھرائی کا تمہیں اتنا ہی شوق ہے تو کام والی کو فارغ کر دو" 

زہریلا،، چبھتا ہوا طنز تھا

منیحہ کے منہ کو تو تالا ہی لگ گیا جبکہ جلال تن فن کرتا اوپر. چلا گیا آپی نے ٹھنڈی سانس لی

" اب میری خیر نہیں" 

انھیں اپنی فکر ہونے لگی تھی

"جاو بھئی تم جا کر اوپر ریسٹ کرو تمہارا میاں پہلے ہی تپا ہوا ہے "

انھوں نے گویا اپنی جان چھڑائی 

اور جب جب جلال کے گھر والے اسکے متعلق یوں بات کرتے وہ مزید ڈر جاتی جو شخص اپنے گھر والوں کا سگا نہیں تھا وہ اسکا سگا کیوں ہوتا¿

یہی بات اسے خوفزدہ رکھتی تھی اسکا باپ اس سے بات منوانے کو اسکی خوشامدیں کرتا تھا سختی کی جگہ بھی نرمی برتتا تھا ایسے میں منیحہ کی بدتمیزیاں تو جلال کے لیے نا قابل قبول ہی ہوتیں 

مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ غصے میں نا چاہتے ہوئے بھی اسے چڑا دیتی بعد میں احساس ہوتا تو پچھتاتی رہتی

اب بھی وہ. جلال. کی موجودگی میں کمرے میں نا جانا چاہتی تھی

مگر آپی نے اسے اٹھنے پہ مجبور کر دیا

"جاوں یا نہ جاوں" 

دروازے پہ کھڑے ہو کر اس نے پل. بھر کو سوچا

"یا اللہ مجھے اس آدمی کے جلال سے بچا لے" 

بے اختیار آنکھوں میں نمی بھرنے لگی مگر آہستہ سے دروازہ ناک. کر کے وہ اندر آ گئی سامنے وہ بڑے معمول. کے انداز میں آئینے کے سامنے کھڑا منہ پہ کچھ مل رہا تھا

جینز پہن رکھی تھی مگر شرٹ غائب تھی وہ یوں بنا اجازت آنے پہ خجل ہوئی پھر خود کو مصروف اظہر کرتے ہوئے کپڑوں کے الماری کھول کر کھڑی ہو گئی 

جلال بڑے اطمینان سے کریم لگا کر اب بال سیٹ کر رہا تھا

منیحہ کو اب مزید سمجھ نہ آ رہی تھی کہ پہلے سے سیٹ شدہ الماری میں کیا کرے کہ کچھ وقت گزر جائے 

"اب تم. کیا الماری میں سر دئیے پورا دن گزارو گی" 

کچھ دیر بعد کمرے میں اسکی آواز سنائی دی منیحہ کا دل. حلق میں اچھل آیا اسے امید نہ تھی کہ جلال اسے خود سے یوں پکارے گا

اسے لگا وہ ناراض ہو چکا ہو گا

کل رات والی حرکت تھی بھی ناراض ہونے والی

اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب سوچ پاتی وہ اسکے سر پہ آن کھڑا ہوا

" کیا ابھی تک غصہ. ختم نہیں ہوا تمہارا ¿

بڑا عام سا انداز تھا

 "نن نہیں "

پتہ نہیں وہ. کیوں گھبرا رہی تھی

" ادھر دیکھو "

جلال. نے بازو سے پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب موڑا

پھر کچھ دیر اسکی جھکی پلکوں کو دیکھتا رہا منیحہ پلکیں اٹھا کر اسے دیکھنا چاہتی تھی مگر اندر اتنی ہمت نہ تھی اس سے نظریں ملا پاتی

"بہت ضدی ہو تم" 

کچھ دیر بعد جلال کا تبصرہ سنائی دیا آواز میں شرارت تھی

" اچھا دیکھ تو لو" 

اس نے بائیں ہاتھ سے اسکی تھوڑی اوپر کی

"رات کو. کیا ہوا تھا¿" 

وہ قدرے نارمل ہو چکا تھا شاید وہ اس سے زیادہ دیر سنجیدہ رہ ہی نہ سکتا تھا

"جنات کا سایہ تو نہیں ہے تم پر "وہ شاید اسے چھیڑنے کو کہہ رہا تھا مگر منیحہ کو پھر سے سارے واقعات یاد آنے لگے

بمشکل اپنی نم پلکیں اٹھا کر اس نے جلال کو دیکھا وہ بلکل نارمل اور فریش دکھائی دیتا تھا باڈی سپرے اور کسی کریم کی ملی جلی مہک اور اسکی آنکھوں میں چھپی شرارت منیحہ کو رونے پہ مجبور کر گئی

(تم کیسے سب بھول جاتے ہو) 

وہ صر سوچ ہی سکی

جبکہ اسے ایک دفعہ پھر سے روتے دیکھ کر جلال نے اسے سینے سے لگایا

(عجیب عورت ہے رونے والی بات پہ  روتی ہے اور ہنسنے والی بات پہ بھی روتی ہے) 

اسکے بالوں کو سہلاتا وہ سوچ کر رہ گیا

اس سے پہلے اسکی زندگی میں جتنی لڑکیاں آئی تھیں ان میں سے کافی کو اس نے روتے دیکھا تھا

مگر وہ سب روتے ہوئے ساتھ ساتھ اسے مغالظات بھی بکتی تھیں یہ پہلی تھی جو روتی تھی اور بس روتی ہی جاتی تھی

"منیحہ مجھے لگتا ہے میں بہت جلد تمہارے اس رونے سے تنگ پڑ جاوں گا" 

اسکی کمر کے گرد حصار باندھ کر جلال نے اسے خود سے جدا کیا

"مجھے نہیں رہنا آپکے ساتھ" 

جو باتیں کہنے پہ وہ صبح سے پچھتا رہی تھی اب پھر وہی کہہ رہی تھی مگر اسے احساس نہ ہوا

"کہاں رہنا میڈم نے¿"

جلال نے شرارت اسے مزید قریب کیا

" مجھے اپنے گھر جانا ہے؛

اسکی پھر وہی تکرار تھی

" ٹھیک ہے چلی جاو،، شام کو واپس آ جانا"

جلال نے کھلے دل سے اجازت دی ساتھ ہی اسکا ماتھا چوما

" پیچھے ہٹیں"

منیحہ اسے ہاتھ لگائے بغیر پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا

اس نے ابھی تک شرٹ نہ پہنی تھی

عجیب بے شرم سا انسان تھا

"اور کتنا ہٹوں"

اسے الٹا اثر ہوتا تھا اب بھی اس نے اسکی کمر کے گرد حصار مزید تنگ کیا

"میں اب اپنے گھر رہوں گی"

کچھ دیر آنسو بہانے کے بعد وہ بہت ہلکا محسوس کر رہی تھی چہرہ صاف کرتی ہوئی محتاط انداز میں جتا رہی تھی

"یہ کس کا گھر ہے¿

جلال ایک دم سنجیدہ ہوا

" یہ آپکا"

فورا اسکے منہ سے پھسلا 

" میری جان جو میرا ہے وہ سب تمہیں دے دیا ہے "

وہ فراخدلی سے بولا مگر منیحہ اسکی نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی ماہر ہو چکی تھی

" مجھے نہیں چاییے"

اسکی گرفت سے نکلنا چاہا

مگر جلال اسے لے کر صوفے پہ جا بیٹھا

"سوچ لو"

"مجھے نہیں سوچنا"

وہ ابھی بھی سوں سوں کر رہی تھی

مگر اب کی بار جلال نے جواب نہ دیا نہ ہی اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا

"مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم سے شادی کر کے میں پھنس جاوں گا"

وہ مصنوعی افسوس سے بولا مگر منیحہ کے تو سر پہ لگی

"تو آزاد. ہو جائیں کس نے کہا ہے پھنسے رہیں "

جلال اسے مصیبت سمجھ رہا تھا،،، یہ بات اسے بری لگی

"آزاد نہیں ہونا چاہتا نا"

وہ آنکھ دبا کر بولا

"چھوڑیں مجھے "

اسے چوڑا ہوتے دیکھ کر منیحہ نے مزاحمت کی

مگر اس پہ کر بات کا الٹا اثر ہوتا تھا

"لگا لو جتنی طاقت ہے" 

زبردستی خود کو چھڑانے کے چکر میں جلال نے اسے ہلکان کر دیا تھا اب حال یہ تھا کہ وہ ہنستے ہوئے صوفے پہ نیم دراز تھا اور منیحہ اسکی گرفت میں اسکے اوپر ہلکان ہو رہی تھی

تھوڑا سا وہ اپنی گرفت ڈھیلی کرتا وہ اٹھنے کے لیے ہوتی طاقت لگاتی اور جلال جھٹکے سے اسے نیچے گرا دیتا

تھوڑی دیر بعد وہ واقعی رونے والی ہو چکی تھی کچھ بخار کی وجہ سے بھی کمزوری ہو رہی تھی

"اچھا اب رونا مت شروع ہو جانا" 

اسے پھر دے آنسو بہانے کی تیاری کرتا دیکھ کر جلال نے اسے آزاد کر دیا

"کرتی اپنی مرضی ہو اور پھر کہتی ہو کہ میں ظلم کرتا ہوں تم پر" 

وہ بآواز بلند تبصرہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا

شرٹ پہنی،، پھر سے بال بنائے اور کمرے سے باہر نکل گیا

" اچھا سنو تیار ہو جاو تمہی ڈاکٹر کے لے چلوں" 

کچھ یاد آنے پہ وہ واپس. مڑا

"" نہیں میں ٹھیک ہوں "

اس نے عادتاً انکار کیا

" پورے گھر میں گرتی پھر رہی ہو،،، اورٹھیک ہو"

جلال نے طنز کیا

" جلدی کرو منیحہ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے "

تھوڑی دیر تک وہ دیکھتا رہا مگر منیحہ کو اثر نہ ہوا تبھی کچھ سختی سے کہا اور توقع کے عین مطابق وہ اٹھ بھی گئی

کپڑے تبدیل کر کے بڑی سی چادر اوڑھی جسے جلال نے کچھ ناگواری سے دیکھا مگر نکتہ چینی کرنے سے باز رہا

نجانے کہاں سے اتنا رحم آ گیا تھا

منیحہ آپی کو بتاتی اسکے پیچھے آ گئی وہ اپنی گاڑی نکال. چکا تھا

سارے راستے جلال فضول. قسم کے مذاق کرتا رہا مگر منیحہ نے کسی بات کا جواب نہ دیا

وہ کوشش کرتی تھی جلال کے سامنے زیادہ دیر خاموش رہے کیونکہ اسے یکدم کوئی بات بری لگی جاتی تھی اور وہ غصے ہو جاتا

ڈاکٹر کو. بتایا کہ ابھی بخار نہیں اترا اس نے دو چار ٹیسٹ لکھ دئیے ساتھ ہی دوائیوں کی ایک طویل لسٹ جسے دیکھ کر ہی منیحہ کا دل. برا ہونے لگا 

جلال نے اسے کہا بھی کی ٹیسٹ وغیرہ کرا لو مگر 

"میں ٹھیک ہوں کی رٹ لگائے وہ واپس گاڑی میں آ بیٹھی" 

مجھے گھر چھوڑ دیں ". واپسی اس نے کہا

" میں کونسا تمہیں کلب لے کر جا رہا ہوں "

وہ طنزیہ بولا منیحہ خجل ہوئی

" مطلب میری امی کے گھر"

" رہنے دو کل چلیں گے"

جلال نے فورا منع کر دیا

" نہیں مجھے آج ہی؛ جانا ہے"

وہ ضدی ہوئی

"کل رات کو سب سے مل تو لیا تھا اب جا کر کیا کرنا ہے "جلال نے ناگواری سے کہا

" میرے امی ابو ہیں وہ اور مجھے ملنا ہے ان سے"

اس نے جتانا ضروری سمجھا

"آج ریسٹ کرو،،، رات کو تمہی ایک جگہ ڈنر پہ لے کر جاوں گا.،،کل اپنے ماں باپ سے مل لینا"

وہ کوئی اپنا پلان سیٹ کر کے بیٹھا تھا

اگر منیحہ اسکی مان لیتی تو کوئی گناہ تو نہ تھا لیکن وہ رات جلال کے ساتھ نہ رکنا چاہتی تھی

" نہیں مجھے آج ہی جانا ہے"

اسکی ضد پہ وہ کچھ پل اسے گھورتا رہا،، وہ بخار میں سرخ چہرے کے ساتھ کچھ کمزور لگ رہی تھی،، بار بھی تو جلال. کی وجہ سے ہی ہوا تھا

"اچھا ٹھیک ہے شام کو تیار رہنا وہیں سے پک کر لوں گا تمہیں"

کشادہ دلی کا. مظاہرہ کرکے جلال نے اجازت دے دی

" نہیں مجھے نہیں جانا"

سڑک سے باہر دیکھتے ہوئے وہ ڈھٹائی سے بولی

"کیوں ¿"

جلال کا. موڈ خراب ہوا

"مجھے اپنے گھر رہنا یے،، واپس نہیں آنا میں کچھ دن وہیں رہوں گی "

دانستہ اسکی جانب نہ دیکھا

مبادا وہ آنکھیں نہ دکھائے 

کیونکہ جلال کے انداز بتا رہے تھے اسے برا لگا ہے

" ابھی تو دس دن نہیں ہوئے تمہیں آئے ہوئے اور ادھر رہنے کے شوق چڑھ آئے ہیں"

اسکے انداز میں واضح نا پسندیدگی تھی

اسے لگا منیحہ اس سے جان چھڑا رہی ہے

" وہ میرے ماں باپ ہیں.،، میں انکے پاس جا کر رہ سکتی ہوں"

منیحہ کو بھی اسکا ناز برا لگا اسی لیے لہجہ کچھ سخت ہو گیا تھا

" ٹھیک ہے چلی جاو،،، مگر ایک بات یاد رکھنا میں لینے نہیں آوں گا'"

جلال نے سخت لہجے میں دھمکی لگائی منیحہ نے کچھ خوف محسوس کیا

کچھ غلط ہونے کا ہلکا سا احساس ہوا مگر وہ جھٹک گئی

" مجھے جانا ہے "

پورے اعتماد سے کہتی وہ جلال. کا فشار خون اوپر چڑھا گئی ایک جھٹکے سے اس نے بریک لگائی ٹائر دلدوز آواز نکال کر جیم ہو گئے وہ سلمان احمد کے گھر کے سامنے کھڑے تھے

"نکلو"

جلال نے سامنے گھورتے،، گاڑی کی بریک سے ہاتھ ہٹائے بغیر کہا

وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نکل گئی 

امی ابا اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے

سیمعون نے اسے سر سے پاؤں تک گھورا

"بخار میں بھی سیر سپاٹے ہو رہے ہیں"

پھر اس نے تبصرہ کیا اسکے ہاتھ میں دواوں کا تھیلا موجود تھا

تھوڑی دیر تک تو وہ خود کو جنت میں محسوس کرتی رہی

پھر دل بے چین ہونے لگا

"منیحہ رات کو رکو گی¿" 

اماں نے باورچی خانے میں سے آواز لگائی 

"نہیں امی کچھ مت بنائیں میں چلی جاوں گی"

اسے امید تھی کہ جلال شام. کو اسے لینے آ جائے گا

"اچھا چلو ٹھیک ہے" 

امی اب روایتی ماوں کی طرح اسکے آنے پہ اہتمام کرنا شروع کر دیتی تھیں 

"تم سناو میڈم بخار ٹھیک ہو گیا تمہارا" 

سیمعون اسکے پاس ہی آ جمی،، وہ لڑتی بھی تھی مگر دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا بھی نہ ہوتا تھا

"اچھا یہ بتاو کدھر کدھر گئے تھے تم. لوگ،، مزہ تو آیا ہو گا،، جلال بھائی تو لگتے بھی رومینٹک سے ہیں" 

پچھلے سوال کا جواب دینے کا موقع دئیے بغیر اب وہ نہایت پرجوش سی پوچھ رہی تھی 

(رومینٹک پونے کا مطلب پتہ نہیں ہے میری بہن تمہیں ورنہ اتنی ایکسائٹمنٹ نہ ہوتی تمہیں) 

منیحہ نے دل میں سوچا" ہاں دو تین جگہ گئے تھے اچھی جگہیں تھیں قدرت کا حسن بہت مسخور کن ہوتا ہے" منیحہ نے ان نظاروں کو تصور کی آنکھ سے محسوس کیا

تو ٹھنڈی سانس بھری

"اچھا یہ بتاو،،، فائیو سٹار میں سٹے کیا تھا یا سیون سٹار میں ¿؛" 

منیحہ نے حیرت سے اسے دیکھا مگر سیمعون کا جوش و خروش دیکھنے لائق تھا

" تھری سٹار میں"

جان. بوجھ کر سنجیدگی سے کہا

" ارے چلو جھوٹی اتنے امیر آدمی ہیں تمہارے سسرال والے.،،،شادی کے دوسرے دن اٹھا کر ہنی مون پہ لے گئے،، تھری سٹار میں تو نہیں رکھا ہو گا نا"

علویز کی ٹریول ایجنسی تھی اسکے علاوہ بھی بہت سے تجارتی کاروباروں میں شراکت تھی 

" تو اور کیا سیون سٹار میں رہتے،، ایک دن تھری سٹار میں رہے،، ایک دن تو ہوٹل. ملا ہی نہیں ساری رات گاڑی میں ٹھٹھرتے رہے اور آخری دن ایک ریسٹ ہاوس میں رہے "

منیحہ نے اسکی الوژن توڑنا چاہا

"ہائے کتنا مزہ آیا ہوگا نا ساری رات،، ایک سڑک کے کنارے گاڑی میں وہ بھی ناردرن ایریاز میں "

سیمعون کے لیے تو یہ تصور ہی خواب ناک تھا

منیحہ نے کچھ حیرت کچھ خجالت سے اسے دیکھا

" سیمعون کچھ شرم. کرو،، اور کم. ناولز پڑھا کرو"

منیحہ نے اسے ڈپٹا،،، سیمعون نے برا سامنہ بنایا

سارا تصور خراب  کر دیا منیحہ نے

" خود تو اکیلے گھوم آئی ہو اتنی دور تک اب مجھے شرم کرا رہی ہو،،، خود تو شرم نہیں آئی تمہیں" 

وہ ہاتھ ہوا میں نچا کر طعنے دے رہی تھی

" تو کیا تمہیں بھی لے کر جاتے"

منیحہ نے حیرت سے اسکا خفا انداز ملاحظہ کیا

"ہاں تو میں نے کونسا زیادہ خرچہ کرا دینا تھا تم لوگوں کا،،، بہن کو لے جاتیں تو مر تو نہیں جاتیں تم"

" سیمعون یہ کوئی کالج کا ٹرپ نہیں تھا کہ ہر دفعہ کی طرح تمہیں بھی لے جاتی". 

منیحہ کو تو سیمعون کو ساتھ لے جانے کا سوچ کر ہی خجالت ہونے لگی

جب انھیں ساری رات گاڑی میں رکنا پڑا،، تب اگر سیمعون ساتھ ہوتی تو.... 

" پاگل ہو گئی ہو تم "

اس سے زیادہ وہ. نہ سوچ سکی،، آٹھ کر امی کے پاس چلی گئی 

شام. میں ابا بھی آ گئے

پھر شام رات میں ڈھل گئی مگر جلال اسے لینے نہ آیا اسے تو جو فکر تھی سو تھی امی کو بھی تشویش ہونے لگی

"کال کر لو ہو سکتا ہے کہیں مصروف ہو گیا ہو" 

ابا نے اسے کہا وہ امی کا فون ہاتھ میں لیے بے بسی سے کبھی اماں کو دیکھتی کبھی ابا کو

اگر انکے درمیان سب نارمل ہوتا تو شاید جلال. کا اسے نہ لینے آنا اتنی بڑی بات نہیں تھی مگر جس طرح وہ پچھلی بار اسے لے کر گیا تھا وہ سب تشویش میں مبتلا تھے

" امی شاید نہ لینے آئے صبح چلی جاوں گی" 

اس نے تسلی دینی چاہی

"اچھا کال. کر کے پوچھو تو سہی اگر نہیں آنا تو ٹھیک ہے" ابا کو سب سے زیادہ فکر تھی

منیحہ نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق دل پہ جبر کر کے اپنی انا کا گلہ گھونٹ کر اسے کال ملائی

بیل جانے لگی تھی سب اسکے چہرے کا طواف کر رہے تھے

" بیل جا رہی ہے¿" 

اماں سے صبر نہ ہو سکا

" جی جا رہی ہے"بمشکل وہ یہی کہہ پائی مگر دوسری بیل پہ جلال نے فون کاٹ دیا

اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب گھڑ پاتی ابا نے پوچھا

"کیا نہیں اٹھایا¿" 

"کاٹ دیا ہے" 

اسکے منہ سے پھسلا 

"اچھا،، چلو کوئی بات نہیں مصروف ہو گا آتا ہو گا"

ابا نے شاید خود کو بھی تسلی دی،، اکلوتے داماد کی حرکتیں ان سے پوشیدہ نہ تھیں 

مگر منیحہ کو تواب سخت پریشانی نے گھیرا سب سب کے فکر مند چہرے اسے شرمندہ کر رہے تھے

" امی دروازہ بند کر دیں وہ نہیں آئے گا دس بجے آخر اس نے کہہ ہی دیا

"آ جائے گا،، کہیں بیٹھ گیا ہو گا،، تھوڑی دیر انتظار کر لو"

ابا نے اماں کو منع کر دیا

امی بھی رک گئی اور کمرے میں آ کر اسکے پاس بیٹھ گئیں سیمعون بے زار ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئی ابا ابھی تک باہر برآمدے میں بیٹھے تھے

اماں منیحہ سے تو کچھ نہ کہہ رہی تھیں مگر بار بار گھڑی کو دیکھتیں 

" امی وہ نہیں آئے گا"

منیحہ نے بے بس ہو کر کہا

"کیوں نہیں آئے گا ¿" 

امی کو سمجھ نہیں آئی،، کیونکہ دن میں منیحہ نے کہا تھا کہ وہ آئے گا

 "امی میں وہاں نہیں رہ سکتی" 

یکدم وہ رونےلگی تھی امی بھی پریشان ہو گئیں 

 "امی میرا جلال کے ساتھ گزارا نہیں ہے" 

وہ روتے ہوئے انکے سینے سے لگ گئی 

"ارے میری جان کیا ہوا منیحہ میری. بچی"

امی نے اسے خود سے جدا کیا.. انکا دل. ہو لانے لگا تھا

 "امی وہ بہت عجیب ہیں،، ایک دم سے غصہ آ جاتا ہے انھیں ایک دم سے مذاق کرنے لگتے ہیں" 

اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کیا بتائے اور کیا چھپائے 

"تو میری جان لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں "

امی نے تسلی دینی چاہی مگر منیحہ جس طرح بلک بلک کر رو رہی تھی یہ بات انھیں بہت کچھ سمجھا رہی تھی.،،وہ سب کچھ جانتی تھیں ان خدشات سے پہلے ہی انکا دل بھرا ہوا تھا

" امی مجھے لگتا ہے مجھے کچھ ہو جائے گا وہاں" 

اسکی پریشانی اسکے انداز سے عیاں تھی

" منیحہ وہ شوہر ہے تمہارا،، کچھ نہیں ہوتا تمہیں" 

"امی نہیں پلیز،،، مجھے نہ بھیجیں وہاں،، امی وہ بہت عجیب ہے،، اس بندے کو کسی کا کوئی ڈر نہیں،،، اسے خدا کا بھی کوئی خوف نہیں" 

وہ توڑ توڑ کر جملے ادا کر رہی تھی 

" تو تم اسکو خدا کی طرف متوجہ کرو،،، اسے اللہ کا خوف سناو"

وہ ماں تھیں تسلی ہی دے سکتی تھیں جانتی تھیں کہ بیٹی کو ایک اندھے کنویں میں پھینک چکی ہیں 

انھوں نے اپنی بیٹیوں کی تربیت اس ماحول کے مطابق نہ کی تھی جس ماحول میں اسے بھیجا تھا وہ تو انھیں ہمیشہ   زمانے کی نظروں سے چھپا کر رکھتی تھیں 

" امی مجھے بہت ڈر لگتا ہے ایک دم سے وہ اتنے خوفناک ہو جاتے ہیں،، مجھے لگتا ہے وہ کسی ک وار دیں گے" 

اپنے پانی میں نے ہوش ہونے کے واقعات اسکی روح پہ رقم ہو چکے تھے

"منیحہ محبت بھی تو کرتا ہے تم سے،،، ساری اسکی برائیاں تو نہ دیکھو نا،،، ہر انسان میں برائیاں ہوتی ہیں مگر اچھائیاں بھی تو ہوتی ہیں تم اسکی اچھائیاں دیکھو،،، کچھ دنوں کی بات ہے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا" 

، "امی محبت سے کچھ نہیں ہو گا،،، میں مر جاوں گی بس،،، لیکن کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا"

وہ پھر سے رونے لگی تھی

" منیحہ ایسا نہ. کرو،، مجھے پتہ ہے مہری بیٹی بہت صابر ہے اس وحشی کو تہذیب سکھا دے گی"

امی نے اسے حوصلہ دینا چاہا،، اسکے نازک. کندھوں پہ بھاری ذمہ داری لادنی چاہی

" اامی میں خود سب بھول جاوں گی،، میرا دل بند ہو جائے گا کسی دن"

اور وہ. ماں تھیں جانتی تھیں تینوں اولادوں میں سے سب سے حساس تھی منیحہ اتنا سب برداشت کرنا اسکے لیے مشکل تھا

. گر وہ اس وقت سوائے اسکے اچھے نصیب کی دعا کے کچھ نہ کر سکتی تھیں ابھی دس دن پہلے تو شادی ہوئی تھی اسکی

اور ابھی ایک اور بیٹی بیٹھی تھی گھر

" امی نہیں پلیز میرا گزارا نہیں ہے اسکے ساتھ" 

اس نے نفی میں سر ہلا کر انکی گود میں چھپنا چاہا مگر اب ماں کی گود اسے پناہ نہ دے سکتی تھی 

"منیحہ میں مانتی ہوں کہ وہ اچھا آدمی نہیں لیکن یوں تو نہ کہو"

"امی میرا گزارا نہیں ہے اسکے ساتھ،، آپکو نہیں پتہ اسکا" وہ پھر سےرو دینے کو تھی

 "منیحہ میری بات سنو،،، اگر بی بی آسیہ  فرعون کے ساتھ گزارا کر سکتی ہیں تو تم جلال کے ساتھ گزارا کیوں نہیں کر سکتیں ¿"

امی کے سوال نے اسے ششدر کر دیا

بہت دیر تک وہ کچھ نہ بول سکی

" امی میں بی بی آسیہ  جیسی نہیں ہوں"

وہ بے بسی اور کمزوری کے احساس سے رو دی

" لیکن منیحہ تمہیں بی بی آسیہ  کے نقش قدم پہ چلنے کا کہا گیا ہے "

امی نے اسے دو ٹوک انداز میں یاد دلایا

چند لمحے وہ انھیں دیکھتی رہی پھر

وہ اپنا سر ہاتھوں میں گرا گئی

شاید اسکی ماں کو اس سے ہمدردی نہ تھی

پھر امی نے اسے دوبارہ جلال کو فون کرنے کا کہا پھر اسے بتانا ہی پڑا

" انھوں نے کہا تھا خود آ جانا،، میں لینے نہیں آوں گا"

امی بھی خاموش ہو کر رہ گئی 

اگلے دن صبح ناشتے وغیرہ کے بعد انھوں نے پھر سے منیحہ کو سمجھانے کا سلسلہ شروع کر دیا

"منیحہ میری جان اب اپنے باپ کی عزت تمہارے ہاتھوں میں ہے،،، اور شوہر کے ساتھ ضدیں نہیں لگاتے چلو شاباش اسے کال. کرو اور کہو کہ مجھے لے جاو"

امی کے لیکچر کا اختتام اسی بات پہ ہوا تھا

مگر وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اسے کال کرنی چاہیے...

اور بالفرض جلال اسکے بلانے پہ آ بھی جاتا تو کیا اسکا گزارا ہو پاتا اسکے بعد¿

جلال بدلنے والوں میں سے نہ تھا یہ وہ خود کہتا تھا

پھر منیحہ کیسے بدل جاتی،، 

اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی 

بلکہ اسے تو یہی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کیا اسے جلال کو خود سے کال. کرنے چاہیے جبکہ رات کو اس نے اسکی کال کاٹ دی تھی¿

اس وقت اسے مشورے کے لیے کسی ہمدرد کی ضرورت تھی

بہت دیر تک وہ یہی سوچتی رہی کہ آیا جلال کو کال کرے یا نہ کرے

آخر دل تھا کہ کہتا کر لو کم از کم گھر والوں کی فکر تو کم ہو اور دماغ کہتا کہ اگر وہ نہ آیا،، یا اس نے کال رسیو نہ کی تو ¿

یہ بڑا سا سوالیہ نشان اسکی جان ہلکان کر رہا تھا

"منیحہ میری بچی سوچو مت،، کرو کال اور بلاو اسے، میاں بیوی میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ تم دل میں پہاڑ جیسے فاصلے کھڑے کر کے بیٹھ جاو

" کرتی ہوں نا "

وہ. کچھ خفگی سے بولی

فون ہاتھ میں پڑا تھا بس دماغ کو قائل کرنا تھا" اے اللہ مجھے شرمندہ مت ہونے دینا"

اس نے اللہ کو پکارا وہ جو سمیع ہے، وہ جو علیم ہے اور وہ جو پکاروں کا جواب دینے والا ہے

اور ہمت کر کے نمبر ملایا 

"اس اسلام و علیک"

بمشکل وہ سلام کر سکی دوسری جانب سے جلال کی سوئی سوئی سی آواز ابھری

"جلال"

اس نے الفاظ جمع کرنے کو سانس لی

" ہممم¿"

وہ سویا ہوا تھا آواز بہت بھاری تھی

"میں منیحہ"

اس نے کچھ نہ سمجھ آنے پہ اپنا تعارف ہی کرا دیا

"جانتا ہوں آگے بولو"

وہ شاید بے زار ہو رہا تھا منیحہ نے اماں کی جانب دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھیں 

"مجھے لے جائیں آ کر"

کچھ پل وہ خاموش رہا منیحہ کا جی چاہا اپنی بے بسی پہ روئے نجانے وہ کیا جواب دیتا

" میں سویا ہوا ہوں تم خود ہی آ جاو"

وہ گہری ٹھنڈی سانس لے کر بولا

" خود کیسے ¿"

"مطلب اکیلے کیسے آوں"

وہ جو کہنا چاہتی تھی وہ کہہ نہ پائی

"تو امی کے ساتھ آ جاو یا اپنے بھائی کے ساتھ آ جاو"

کچھ کہے بنا اس نے فون بند کر دیا 

امی نے اسکا سنجیدہ چہرہ بغور دیکھا

" کیا کہتا ہے¿"

منیحہ کے کچھ نہ کہنے پہ انھوں نے پوچھا

"کہتے ہیں خود سے آ جاو"

اس نے اسی سنجیدگی سے کہا

"تو چلی جاو"

امی کے کہنے پہ اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا 

یہ کوئی عجیب بات نہ تھی لیکن جلال کے انکار کے بعد خود سے منہ اٹھا کر جانا اسے کچھ عجیب ہی لگا

امی کے کہنے کا اس نے کوئی جواب نہ دیا اور کمرے میں چلی گئی دوسری جانب وہ بھی ماں تھیں بیٹی کی بے بسی اور اسکی آنکھوں میں موجود شکوہ سمجھتی تھیں مگر وہ اسکا گھر بھی بگاڑنا نہ چاہتی تھیں 

وہ کہ چاہتی تھیں کہ شادی کے چند ہی دنوں بعد اسکے سسرال میں اسے لے کر کوئی جھگڑا کھڑا ہو

دوسرا وہ منیحہ کو شہ نہ دینا چاہتی تھیں 

تاکہ اسے گھر اور گرہستی کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے 

اسی لیے دل پہ جبر کیے بیٹھی رہیں

منیحہ نے خود کو قائل کرنے میں دو بجا دئیے 

"جلال سمجھے گا میرے گھر والے اب مجھے رکھنا نہیں چاہتے"

یہ سوچ اسے ڈسے جا رہی تھی کچھ وہ تھی بھی آنا پرست 

"منیحہ باہر آو آنٹی آئی ہیں"

سیمعون نے اسے آواز لگائی 

وہ پکار پر باہر چلی آئی 

"اسلام وعلیکم"

جلال کی ماں کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی

"کیسی ہو اب¿"

منیحہ کو دیکھ کر انھوں نے اسکی خیریت دریافت کی

" جی ٹھیک ہوں"

"بھئی تم کل بغیر بتائے ہی ادھر چلی آئیں، ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے "

انھوں نے شکوہ کیا منیحہ نے ہونق پن سے انکا چہرہ دیکھا انھیں بتانے کا تو اسے خیال بھی نہ آیا

"وہ جلال چھوڑ کر گئے تھے"

اس سے زیادہ وہ کوئی توجیہہ نہ پیش کر سکی

"وہ تو بھگوڑا ہے تم تو بتا دیتیں "

انھوں نے بیٹے کو ذمہ داری سے آزاد کیا

" جی مجھ لگا انھوں نے بتایا ہو گا"

وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی

"اور سنائیں باقی سب کیسے ہیں ¿"

امی نے منیحہ کی مشکل آسان کی

" جی سب ٹھیک ہیں ہم تو بس ابھی ابھی کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو جلال نے رٹ لگا لی کہ منیحہ کو لے آئیں"

وہ اسکے سامنے مجبور ہو کر آئی تھیں جیسے

" اچھا گھر پہ ہی ہے¿"

امی نے مسکرا کر سمدن سے پوچھا جو کہ شاید بیٹے بہو کی کل والی حرکت سے لاعلم تھیں 

"نہیں کھانا کھا کر نکل گیا کہیں دوستوں کے ساتھ،، میں نے کہا بھی کہ واپسی پہ لیتے آنا مگر ہماری کون سنتا ہے کہہ رہا تھا ابھی جائیں ابھی جائیں"

وہ مسکرا کر کئی باتیں کر کے چائے کا کپ نوش فرما کر بہو کے ساتھ رخںصت ہوئیں منیحہ کی امی نے بھی سکون کا سانس لیا

"چلو خود نہیں آیا ماں کو تو بھیج دیا"

منیحہ گھر آئی تو وہ حسب توقع گھر پہ موجود نہ تھا

مگر وہ کسی حد تک شکر گزار محسوس کر رہی تھی کہ جلال. نے اسے لینے کسی کو تو بھیج ہی دیا

لہذا اب وہ مطمئن تھی 

شام تک وہ گھر نہ آیا،، آپی نے بھی ایک دو روز میں واپس چلے جانا تھا تب وہ گھر پہ بلکل اکیلی رہ جاتی انکل تو صبح آٹھ نو. بجے تک چلے جاتے پھر لنچ میں واپس آتے اور پھر شام یا رات کو لیکن جلال کی کیا روٹین تھی یہ بات اسے معلوم نہ آیا تھی یا پھر شاید اسکی کوئی روٹین تھی ہی نہیں 

شام وہ آیا تو منیحہ باورچی خانے میں تھی مگر بیرونی گیٹ کی اٹخ پٹخ کی وجہ سے آدھی کالونی کو یقیناً پتہ چل گیا ہو گا کہ جلال صاحب گھر تشریف لے آئے ہیں 

"ماما، ماما" کی پکار کے ساتھ ہی وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا جب تک آنٹی سامنے آئیں وہ کمرے میں جا چکا تھا

"عجیب لڑکا ہے یہ میں سمجھی پتہ نہیں کیا ہو گیا¿"

"کچھ نہیں ہوا وہ عادتا آپکو پکار رہا تھا"

جواب آپی نے دیا

"جاو منیحہ تم کمرے میں جاو" جلال. کی بہن کافی نرم. طبیعت کی مالک تھیں انکی عمر تیس بتیس سال تھی لیکن ابھی انکی کوئی اولاد نہ تھی

منیحہ نے نا سمجھی سے انھیں دیکھا 

" اگر وہ بلا نہیں رہا تھا تو جانے کی کیا ضرورت ہے ¿)

یہ سوال وہ صرف دل میں خود سے ہی پوچھ سکی

"چلی جاو" انھوں نے اسکی ھیرت پہ مسکرا کر کہا وہ سلاد کی چیزیں وہیں رکھتی ہاتھ دھوتی سیڑھیاں چڑھ گئی

پیچھے سے آنٹی نے کچھ کہا تھا مگر وہ نہ سن سکی لیکن شاید اسی کے بارے میں کہا تھا کیونکہ اسے اپنا نام سنائی دیا

"اسلام وعلیکم"

دستک دے کر کمرے میں آئی تو جلال الماری کھولے کھڑا تھا مڑ کر اسے دیکھا 

وہ خوامخواہ میں شرمندہ ہوئی

"شوق پورا ہو گیا تمہارا ¿"

وہ جتا کر بولا

منیحہ نے سر مزید جھکا لیا ساتھ ہی رخ موڑ لیا

جلال نے اسکی خاموشی کو زیادہ نوٹس نہیں کیا اور واش روم میں چلا گیا تب تک منیحہ کمرے کی چیزوں کو اپنی جگہ جھاڑ کر دوبارہ رکھ چکی تھی

جلال نے حسب معمول سب سے پہلے آ کر چہرے پہ کوئی کریم ملی

(بعد میں دیکھوں گی کہ کیا لگاتے ہیں ¿)

منیحہ نے دل میں سوچا

شاید کوئی کلینزنگ کریم لگاتا تھا یا کوئی سن بلاک

پھر نا دانستہ وہ آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو گھورتی رہی

وہ ایک درمیانے قد کا خوش شکل انسان تھا نہ بہت لمبا تھا نہ چھوٹے قد کا 

رنگت بھی صاف تھی( کچھ وہ. دھیان بھی رکھتا تھا یقیناً) آنکھوں میں ایک چمک ہوتی تھی اور چہرے پہ صرف دو ہی تاثرات ہوتے تھے یا شرارت یا بے زاری

ابھی بھی اسکے چہرے پہ شرارت نظر آنے لگی تھی 

جلال نے بھی منیحہ کا انہماک محسوس کیا تبھی ایک مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پہ کھیلنے لگی کچھ سوچ کر وہ مڑا مگر منیحہ کا دھیان ابھی بھی وہیں تھا

حتی کہ جلال کے مڑنے پہ بھی دھیان نہ ہٹایا

"کیا بات ہے آج میری بیگم مجھے دیکھے جا رہی ہیں ¿"

اسکے شرارت سے سکڑتے ہونٹ منیحہ کو خجل کر گئے

"نہیں بس ویسے ہی"

اسے سمجھ نہ آیا اقرار کرے یا انکار

"کیا ویسے ہی"

وہ دو قدم اسکی جانب آیا وہ بستر پہ بیٹھی تھی

"کچھ نہیں"

وہ مسکرا کر سر جھکا گئی

بحث سے بچنے کا یہی واحد ذریعہ تھا 

ویسے بھی وہ تہیہ کر کے آئی تھی اب نہ تو جلال سے بحث کرے گی نا ہی ناراض ہو گی بلکہ اسکے ساتھ اچھے سے رہنے کی کوشش کرے گی

اب اسکی کوششیں کہاں تک کامیاب ہونے والی تھیں یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا

"لگتا ہے ایک دن دور رہ کر میری قدر ہو گئی ہے¿"

وہ بلکل بھی غصہ نہ تھا

وہ. خوامخواہ ڈر رہی تھی

ایک سکون سا اسکے اندر اترا

"نہیں،، ہاں یہی سمجھ لیں"

وہ نظر نہ ملا رہی تھی

"تو پھر کل اتنا اکڑ کیوں رہی تھیں ایسے لگ رہا تھا جیسے تم مجھے جانتی ہی نہیں"

وہ اسکے سامنے بستر پہ دراز ہو گیا اور منیحہ کو واقعتاً شرمندگی ہوئی 

"مجھے لگا آپ لینے  آ جائیں گے،، میں تیار تھی"

،"عزت سے کہا تو تھا کہ تیار رہنا،، تب میڈم کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے،،، پھر رات کو جب تم نے کال کی مجھے مزید غصہ آ گیا"

وہ ہنس کر اپنا کارنامہ سنا رہا تھا منیحہ ایک لفظ نہ کہہ سکی

وہ سب کچھ بہت جلد بھول جاتا تھا

" چلیں اب تو آ گئی ہوں نا"

اس نے اس قصے کو ختم کر کے نئی بنیاد ڈالنا چاہی

" نوازش ہے آپکی "

جلال نے اسکا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا 

نا چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرائی 

"منیحہ صاحبہ کوئی بات تو کریں"

کچھ دیر وہ خود پہ جبر کر کے وہیں اسکے پاس بیٹھی رہی اندر ہی اندر وہ اسکے یوں مسلسل دیکھنے پہ کنفیوز بھی ہو رہی تھی دوسری جانب جلال اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں سے مخظوظ ہو رہا تھا کچھ دیر بعد وہ اسکا ہاتھ دباتا یا ہونٹوں سے لگاتا تو وہ بحالت مجبوری اسکی جانب چونک کر دیکھتی

پھر نگاہیں جھکا لیتی اوپر سے وہ باتیں کرنے کی فرمائش کر. رہا تھا

"آپ ہاتھ چھوڑیں پھر"

وہ دبی سے مسکراہٹ سے بولی جلال نے قہقہہ لگایا 

اسے اسی جواب کی امید تھی

 "چلو چھوڑ دیا،، کیا یاد کرو گی"

پھر اس نے اسکا ہاتھ کمال. کشادہ دلی سے ہوا میں لے جا کر آزاد کر دیا

جو اس نے فورا گود میں رکھا

"آپ کدھر تھے سارا دن¿"

بہت سوچ سمجھ کر اس نے اسکی دن کی مصروفیت پوچھی

"آپکی یادوں میں گم تھا"

آنکھ دبا کر کہا منیحہ بے ساختہ ہنسی

" میں نے مصروفیت پوچھی ہے ڈائیلاگ مارنے کا نہیں کہا"

"اب میری بیوی کو میرا اظہار محبت ڈائیلاگ لگتے ہیں تو کیا کروں"

وہ مظلوم بنا

" اچھا آپ بیٹھیں میں کچن میں جا رہی ہوں"

وہ اس سے اجازت طلب کرتی اٹھ بیٹھی

" تمہیں اپنے لیے لے کر آیا ہوں گھر کاموں کے لیے نہیں "

اس نے صاف انکار کر دیا

" عجیب لگتا ہے آنٹی اور آپی کچن میں ہیں آپ بھی نیچے ہی آ جائیں "

وہ اسکے پیچھے ہی نیچے آ گیا

انکل آنٹی لاونج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے جلال بھی انھی کے قریب بیٹھ گیا منیحہ باورچی خانے میں آ گئی 

آپی کھانا بنا چکی تھیں اب اسکا چھوڑا ہوا سلاد بنا رہی تھیں 

" لائیں میں بنا دیتی ہوں "اس نے ان سے سامان واپس لے لیا تو وہ فریش ہونے کا کہتیں اپنے کمرے میں چلی گئیں 

"کام والی بہت چھٹیاں کرنے لگی ہے" 

آنٹی دوسری بہت سی باتوں کے بعد اب انکل کو کام والی کی شکایت لگا رہی تھیں 

"تو کوئی اور رکھ لو" 

انکل نے چینل تبدیل کرتے ہوئے مشورہ دیا

" میں سوچ رہی ہوں فارغ کر دوں ویسے بھی اب کام والی کی ضرورت نہیں ہے" 

انھوں نے اپنا خیال ظاہر کیا

" کیوں اب کیوں ضرورت نہیں رہی¿" 

انکل نے سرسری انداز میں پوچھا

"بھئی اب بہو جو آ گئی ہے وہ گھر سنبھال لے گی بلکہ ہم دونوں مل کر سنبھال لیں گی" 

منیحہ نے غیر ارادی طور پہ مڑ کر دیکھا انکل آنٹی ایک ٹو سیٹر پہ بیٹھے تھے جبکہ سامنے تھری سیٹر پہ دراز جلال. موبائل فون میں گم تھا

اس سے پہلے کہ منیحہ مڑتی جلال نے جھٹکے سے آٹھ کر ماں کو گھورا

" ایکسکیوزمی ماما.،،،وہ میری بیوی ہے کوئی آپکی کام والی کی ریپلیسمنٹ نہیں ہے" 

وہ ناگواری سے جتا رہا تھا

"ارے تو تمہاری بیوی ہے تو تمہارے کام تو کرے گی نا"،، تمہارے کاموں کے لیے ملازمہ رکھی تھی"

آنٹی نے بھی جواب دوٹوک جتایا

" ہاں تو کوئی اور رکھ لیں مگر میری بیوی سے یہ جھاڑو پوچا مت کروانے کا سوچیے گا بھی" 

بڑی سہولت سے وارن کرتا وہ دوبارہ دراز ہو گیا 

انکل نے قہقہہ لگانا کافی سمجھا جبکہ آنٹی لاڈلے بیٹے کو گھورنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکیں 

منیحہ نے حیرت سے اسکا یہ روپ دیکھا

وہ اسکی غیر موجودگی میں اسکا دفاع کر رہا تھا

وہ اسکا شوہر ہونے کا حق ادا کر رہا تھا

زندگی اتنی مشکل بھی نہ تھی اور جلال اتنا برا بھی نہ تھا کہ وہ نا امید ہو جاتی

اسے گھر کے کاموں سے مسئلہ نہ تھا بلکہ کسی حد تک اسے صفائی ستھرائی کا شوق بھی تھا لیکن جس طرح آنٹی کہہ رہی تھیں کوئی بھی ہوت اسے برا لگتا مگر جلال نے انھیں جس طرح منیحہ کی حیثیت واضع کی تھی اسنے اسے سکون پہنچایا

سسرال میں لڑکی کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے جتنی اسکا شوہر اسکی عزت کرتا ہے

بہت پہلے پڑھی ہوئی بات اسے یکدم یاد آئی

کھانا لگایا تو سب نے مل. کر کھایا وہ حسب معمول خاموش ہی تھی

کھانے کے بعد اسی نے سارے برتن اٹھائے پھر آپی نے اسکے ساتھ مل کر کچن صاف کرایا ابھی وہ برتن دھونے لگی تھی جب جلال نے اسے کمرے میں آنے کا حکم صادر کیا 

"میں برتن دھو کر آتی ہوں آپ بیٹھیں" 

اس نے اسے باہر بیٹھنے کا اشارہ کیا مگر وہ باورچی خانے میں پہنچ چکا تھا

"چلو" 

"جلال آپ چلیں میں آتی ہوں" 

"تم آ جاو آپی دھو  لیں گی" 

وہ سہولت سے بولا

"عجیب لگتا ہے اس طرح میں چلی جاوں" 

اس نے بنا آواز کے سرگوشی کی جسکا جواب جلال نے بآواز بلند دیا

" کیا. عجیب لگتا ہے،، بھئی میری اپنی بیوی کے ساتھ کوئی پرائیویٹ لائف بھی ہے "

اسے کب کسی کی پرواہ تھی جو وہ سوچتا منیحہ نے 

بے بسی سے آپی کو دیکھا جو شرارتا مسکرا رہی تھیں 

" کل کی بیوی تمہیں عزیزہو گئی اور بہن کی کوئی پرواہ نہیں" 

وہ برا منائے بغیر بولیں 

" یار آپ جب تک ہو ادھر تب تک تو کرو نا یہ سب،، پھر اسی نے کرنا ہے "

وہ بہن کا کندھا تھپک کر منیحہ کا ہاتھ پکڑے باہر نکلتا چلا گیا

وہ شدید شرمندہ ہوئی

اسکی شرمندگی اسکے چہرے سے عیاں تھی

جلال نے کمرے میں لا کر اسکا ہاتھ چھوڑا خود بستر پہ دراز ہو گیا

وہ کچھ دیر بیٹھی رہی پھر اسے موبائل میں مگن دیکھ کر 

بستر سے اٹھنے میں عافیت جانی

اسکی اجازت کے بغیر وہ. جانا نا چاہتی تھی 

اور یوں اسکی نظروں کے سامنے بیٹھنا بھی عجیب سا لگ رہا تھا اوپر سے وہ اسے تنگ بھی کر رہا تھا

" صبح کے لیے کونسے کپڑے نکالوں آپکے¿"

" کیوں صبح کوئی خاص بات ہے،، کوئی ڈیٹ ویٹ کا. پلان تو نہیں ہے ¿

صبح جمعہ تھا وہ اسکے لیے کپڑے نکالنے کے خیال سے الماری کھول کر کھڑی ہو گئی 

مگر اسکا جواب قدرے  تسلی بخش تھا

اس نے گہری سانس جذب کی

" صبح جمعہ ہے"

اس نے حتی المقدور نارمل لہجے میں کہا

"تو¿" 

وہاں کسی کو فرق ہی نہ پڑا 

لیکن اس تو کا جواب دینا منیحہ کے لیے ممکن نہ تھا اسی لیے سوال. بدلا

"آپ جمعہ نہیں پڑھتے¿" 

"پڑھ لیتا ہوں کبھی کبھی" 

وہ موبائل فون میں مصروف ہو چکا تھا

انداز بلکل سرسری تھا

منیحہ نے بے بسی بھری سانس خارج کی 

وہ اس وقت اسے نصیحت کر کے نئی بحث شروع نہ کرنا چاہتی تھی

اسی سوچ میں گم تھی جب جلال نے اسے پکارا

" منیحہ ادھر آو تمہیں ایک مزے کی چیز دکھاوں" 

وہ حیرت سے اسکی جانب آئی

"یہ دیکھو یہ کون ہے¿"

اس نے ایک تصویر اسکے سامنے کی ایک. لمحے میں اسکے ہاتھ پاوں میں پسینہ آیا

جبکہ جلال دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھاوہ نظر چرا گئی

ایک نسوانی وجود کی نہایت قابل اعتراض حالت میں لی گئی تصویر  تھی جو منیحہ کے اٹھائیس طبق روشن کرنے کے لیے کافی تھی 

"پہچانا¿"

اسکے تاثرات کو بغور دیکھتا وہ پوچھ رہا تھا منیحہ سے کوئی جواب نہ بن پایا

موبائل کی سکرین پہ چمکتی تصویر دیکھ کر منیحہ کے اٹھائیس طبق روشن ہو گئے

"یہ کیا ہے جلال¿"

وہ نظر چرا گئی

"تم. نے نہیں پہچانا؛ ¿

اسکی آنکھوں میں شرارت تھی

" کون ہے یہ اور آپکے پاس کہاں سے آئیں "

" غور سے دیکھو،، یہ تم. لوگوں کے سامنے ایک گھر چھوڑ کر رہتی ہے "

جلال. نے حوالہ دینے کے ساتھ ساتھ موبائل اسکے مزید قریب کیا 

" اسکو تو پیچھیں ہٹائیں"

تصویر کسی اور کی تھی شرمندگی منیحہ کو ہو رہی تھی

وہ اس لڑکی کو زیادہ نہ سہی لیکن جانتی تھی جو کہ نہایت قابل اعتراض حالت میں بیٹھی مسکرا کر کیمرے کی جانب دیکھ رہی تھی

یقیناً اس نے تصویر خود ہی بنوائی ہو گی

(استغفراللہ)

منیحہ نے جھرجھری لی 

" کہاں سے آئی آپکے پاس¿"

وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی

جلال اب پھر سے تصویر دیکھ رہا تھا

سر اٹھا کر منیحہ کو دیکھا

"میرے ایک دوست کے ساتھ افئیر چل رہا ہے اسکا"

وہ بنا کسی خجالت یا ناپسندیدگی سے بتا رہا تھا ساتھ ساتھ کسی کو میسج بھی کر رہا تھا 

"تمہیں کیا ہو گیا ہے،، شاک لگا ہے کیا¿"

کچھ دیر وہ بت بنی وہیں بیٹھی رہی اسے اپنے عورت ہونے کے باعث ایک عورت کی ان نازیبا تصاویر دیکھ کر شرم آ رہی تھی

" نن نہیں کچھ نہیں،،"

اس نے چونک کر وضاحت دینا چاہی

"جلال"

بہت دیر بعد وہ بولی

"ہممم¿"

یہ کیسے آپ تک پہنچی مطلب آپکے دوست تک ¿"

پتہ نہیں کس خیال کے تحت اس نے سوچا شاید یہ غلطی سے لی گئی یا ایڈٹ شدہ ہو

" کیوں تمہیں کیا یقین نہیں آ رہا¿"

اسکی آنکھوں میں چھپا سوال شاید وہ پڑھ چکا تھا

" نہیں مطلب یہ ایڈٹ شدہ بھی تو ہو سکتی ہے"

اسکے توجہیہ پیش کرنے پہ جلال کا قہقہہ بلند تھا

" او بے وقوف لڑکی یہ اصلی تصویر ہے غور سے دیکھو،، اور اس نے خود بھیجی ہے"

"مطلب کوئی اپنی ایسی تصاویر خود کیوں بھیجے گا¿"

منیحہ کے پاس کوئی دلیل نہ تھی

"لسٹ ہے میری جان،،، عورتیں مردوں کو بہکاتی ہیں مرد عورتوں کو استعمال کرتے ہیں"

"لیکن مطلب ٹھیک ہے مان بھی لیا کہ افئیر ہو گا لیکن ایسی چیزیں مطلب اپنے ہاتھوں سے اپنا اشتہار کون لگاتا ہے،، اور وہ بھی شریف گھر کی لڑکی "

اسکی شرمندگی سوا تر ہوتی جا رہی تھی نیم برہنہ جسم. کے ساتھ مسکرا کر تصویر خود دینا... 

منیحہ کے لیے تو یہ معمولی بات نہ تھی

"ارے یار آجکل ایکس ایرا ہے،، اور یہ جو شریف گھروں کی لڑکیاں ہوتی ہیں نا انھیں تو پیار محبت کے نام. پہ بھی آسانی سے پھانسا جا سکتا ہے،، دو چار دفعہ آئی لو یو اور مس یو کے میسج کرو تیسرے دن ملنے پہ راضی ہو جاتی ہیں" جلال نے دائیں آنکھ دبا کر معنی خیز اشارہ کیا

وہ شدید بے آرام ہوئی

" یہ بھی تو ہو سکتا ہے آپکے دوست نے زبردستی یہ تصویر بنائی ہو"

اس نے کمزور لہجے میں تردید کرنا چاہی

آنکھوں دیکھا جھٹلانا آسان نہ تھا مگر پھر بھی 

جلال نے موبائل فون ایک طرف رکھ دیا

" منیحہ سلمان صاحبہ یہ جو شریف گھر کی لڑکی سمجھ رہی نا آپ،،، یہ اس سے پہلے بھی اسی محلے کے دو تین لوگوں کے ساتھ وقت گزار چکی ہے"

" توبہ کریں جلال میں نے تو کالج کے علاوہ اسکو کبھی گھر سے نکلتے بھی نہیں دیکھا،،، قریب ہونے کے باوجود کبھی یہ ہمارے گھر بھی نہیں آئی"

منیحہ نے فورا اسکو ٹوکا

" ہاں تو میں کب کہہ رہا ہوں کہ یہ ان سے ملنے جاتی تھی،،، یار جو ملنے نہیں جا سکتی وہ یوں فون پہ ہی کام. چلا لیتی ہیں،، یو نو اب ٹائم تو گزارنا ہے نا"

ایک گندہ سا اشارہ کر کے وہ بستر پہ دراز ہو گیا،، 

" مجھے یقین نہیں آ رہا"

اسکے مرغے کی ابھی بھی ایک ہی ٹانگ تھی،، کہتی وہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی 

" تم پتہ نہیں کس دنیا میں رہتی ہو ورنہ دنیا تو کدھر سے کدھر نکل گئی ہے"جلال نے اسکی کلائی پہ گرفت کرکے اسے دور جانے سے روکا

"پتہ نہیں پر مجھے یقین نہیں آ رہا" 

"چلو کہ کرو تم. یقین "اس نے اسے اپنے قریب کھینچا"آپ نے کیوں لی¿

اس نے اسکے موبائل کی طرف اشارہ کیا 

وہ سمجھ گیا تھا

"اس نے خود بھیج دی،، پتہ نہیں اور کس کس کے پاس ہو گی،،، میں نے پوچھا یار کدھر بزی ہو جواب اس نے تصویر سینڈ کر دی" 

وہ سرسری انداز میں بولتا اسکی کلائی کی چوڑیوں سے کھیل رہا تھا

" آپکو اسے منع کرنا چاہیے تھا" 

"کس بات سے¿" 

جلال کا دھیان بٹ چکا تھا مگر منی کی سوئی وہیں اٹک گئی 

" یہی کہ اپنی اور اسکی (لڑکی) کی غلطی پہ سب کو گواہ کیوں بنا رہا ہے ساتھ اسے بدنام بھی کر رہا ہے" 

"او میری بیوی کو انکی فکر ہو رہی ہے" وہ غیر سنجیدہ تھا

"آجکل کی لڑکیاں نہیں بدنامی ودنامی سے،،، ٹائم اچھا پاس ہو جائے عزت تو آتی جاتی رہتی ہے" 

وہ طنزیہ قہقہہ لگا کر بولا

" کس قدر بد قسمت ہے یہ لڑکی،، اپنے آپکو بدنام. بھی کرا رہی ہے اور گناہ کر کے اللہ کو بھی ناراض کر رہی ہے" منیحہ نے افسوس کیا

"گناہ ثواب کس نے دیکھے ہیں یار"

اس نے منیحہ کو شرارت سے مزید قریب کیا وہ لاشعوری طور پہ اپنے آپ میں سمٹ گیی

"آجکل تو سب یہی کر رہے ہیں جسکا ڈائریکٹ بس نہیں چلتا یا ماں باپ کے ڈر سے جو براہراست نہیں افئیر چلا سکتیں وہ فون سوشل. میڈیا پہ ہر حد پار کر جاتی ہیں "

جلال مسلسل. اسے شاک پہنچا رہا تھا

 "یہ کیسی محبت ہے جو جہنم کی طرف دھکیل دے"

منیحہ اس سب کو. محبت سمجھ رہی تھی

" اے پاگل،، کونسی محبت سب ضرورت ہے دونوں پارٹیوں کو پتہ ہوتا ہے کہ جہاں کوئی بہتر شکار ملے وہیں پچھلے کو کک کراو اگلا پھنساو"

" توبہ"

اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا

"ساری لڑکیاں تو ایسی نہیں ہوتیں "

بہت دیر بعد وہ بولی تھی

، "چلو. مان لیا ساری نہیں ہوتیں مگر اسی فیصد ایسی ہی ہوتی ہیں ایک مہینہ میرے ساتھ پھر کسی اور کے ساتھ پھر کسی تیسرے کے ساتھ" وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے بولا

" آپ بھی یہ سب کرتے ہیں ¿"

بے ساختہ اسکے منہ سے نکلا مگر پھر وہ پچھتائی

"ہاہہاا.،،،نہیں یار پہلے کرتا تھا اب مجھ سے آن لائن اور ٹیلی فون افئیرز والے نخرے نہیں اٹھائے جاتے"وہ بنا کسی شرمندگی کے بولا

" چلیں اچھا ہے اب آپ یہ سب نہیں کرتے"

منیحہ نے اپنی طرف سے اسے سراہنا. چاہا

مگر وہ جو ہاتھ بڑھا کر سوئچ بورڈ سے بتی بجھانے لگا تھا یکدم قہقہہ لگا کر ہنسا

" ہاں اب میں ڈائریکٹ ڈیٹ مارتا ہوں "

بتی بجھ چکی تھی اور کمرے میں نیم اندھیرا پھیل چکا تھا مگر منیحہ کے ذہن پہ دیر تک جلال کا قہقہہ گونجتا رہا 

اسکے کھلے عام. کیے گئے اعتراف نے اسکا دماغ سن سا کر دیا تھا

وہ کافی دیر تک غائب دماغ بیٹھی رہی حتی کہ جلال کی کسی پیش قدمی کا بھی جواب نہ دے پائی

(کبھی کبھار نماز پڑھنے والا وہ بندہ اپنے ناجائز تعلقات کا کس قدر فخریہ اعتراف کر رہا تھا)

منیحہ کا دماغ دیر تک سائیں سائیں کرتا رہا

____--____-________-_______---_____________

صبح فجر کی نماز کے کافی دیر بعد اسکی آنکھ کھلی، جلال بے سدھ بستر پہ سویا ہوا تھا جبکہ منیحہ کے بال اسکے کندھے کے نیچے تھے 

بمشکل اسے ہلا جھلا کر وہ اپنے بال آزاد کرانے میں کامیاب ہوئی

فریش ہو کر آئی تو وہ ابھی بھی سو رہا تھا جائے نماز تلاش کرکے اس نے نماز ادا کی

رات عشاء بھی چھوٹ گئی تھی

(جلال تو کیا نمازوں پہ لگتا خود منیحہ کی کوئی نا کوئی نماز چھوٹ جاتی تھی😭؛)

جائے نماز بچھا کر نجانے کیا خیال آیا وہ واپس بستر پہ آ گئی "جلال جلال"

ہلکے سے اسکا کندھا ہلایا

مگر وہ بے سدھ سویا ہوا تھا

"جلال اٹھیں نا" ابکی بار کچھ زور سے اسکا بازو ہلایا وہ کسمسا کر سو گیا

"جلال اٹھیں نماز پڑھ لیں"

اب کی بار کچھ جھجک کر ہی سہی اس نے اسکا چہرہ تھپتھپایا

اور وہ کچھ جاگا تھا"کیا ہے" مگر بجائے اٹھنے کے وہ اسے بھی اپنے ساتھ لٹانے لگا

 جلال چھوڑیں مجھے اٹھیں نماز پڑھ لیں" منیحہ نے بمشکل خود کو اس سے آزاد کرایا

" یار تم پڑھ لو میرے لیے بھی دعا کر دینا" منیحہ کے دور ہٹنے پہ اس نے ناگواری سے آنکھیں کھلیں پھر اسے دیکھ کر دوبارہ آنکھیں موند لیں

" دعا تو میں کر دوں گی لیکن آپ نماز تو پڑھ لیں "

ابکی بار منیحہ نے ذرا. نرمی سے کہا ساتھ ہی اسکا کندھا تھاما

جلال نے اب پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا

براون دوپٹے میں لپٹی وہ اسی کی جانب متوجہ تھی

"تم پڑھ لو پھر میں پڑھ لوں گا" کہہ کر وہ کروٹ لے کر پھر سے سو گیا

" اچھا فریش تو ہو جائیں "

" اوں"

غنودگی میں ہی جواب دے کر وہ سویا رہا

"اعتبار نہ کرتے تو کیا کرتے"

کے مصداق منیحہ واپس جائے نماز پہ جا پہنچی 

مگر نماز کی ادائیگی کے بعد اس نے مڑ کر دیکھا وہ ہنوز سویا ہوا تھا

مختصردعا مانگ کر وہ پھر سے قسمت آزمائی کے لیے اسکی جانب آ گئی 

" جلال اٹھیں نا پلیز" یہ بھی ڈرتھا کہ بجائے نماز پڑھنے کے کہیں وہ غصہ ہی نہ ہو جائے

"آٹھ جائیں نا پلیز"

اسکی ڈھٹائی پہ اندر سے غصہ بھی آ رہا تھا مگر آواز میں محبت اور نرمی ہی تھی

(جی تو چاہ رہا ہے بازو سے پکڑ کر زمین پہ کھڑا کر دوں)

اس نے بے بسی اور غصے سے اس سوئے ہوئے وجود کو گھورا 

"جلال پلیز اٹھ جائیں نا"

اب کی بار اس نے منت کی

اور وہ اٹھ بھی گیا تھا کروٹ بدل کر اسے دیکھا

"تم پڑھ چکی ہو ¿"

ہاتھ بڑھا کر نیند میں ہی منیحہ کا ہاتھ تھاما

اپنی بات منوانے تھی اسی لیے چپ چاپ ہاتھ بڑھا دیا

(اور جلال تو گویا اس محبت پہ قربان ہی ہو گیا اسی لیے اٹھنے کا ارادہ بننے سے پہلے ہی ترک کر دیا"

منیحہ کا ہاتھ تھام کر اسے بستر پہ کھینچا

وہ جو اس کی امید نہیں کر رہی تھی جھٹکے سے اسکے اوپر گری

" جلال"

شکوہ کناں پکار تھی

" یار ہنی تم صبح صبح کیوں بور کر رہی ہو"

جلال نے زبردستی اسے بھی بستر میں کمبل کے اندر گھسیٹا

وہ بے بس ہو کر رہ گئی 

جلال ایک سخت ذہن آدمی تھا 

منیحہ میں نہ اتنی ہمت تھی نہ اتنی ڈھٹائی کہ اسکی ڈھٹائی کا جواب اسی کے انداز میں دے سکا

وہ دیر تک کھلی آنکھوں کے ساتھ چھت کو گھورتی رہی مگر اٹھنے سے قاصر تھی کہ جلال نے اسے اپنے مضبوط حصار میں لے رکھا تھا

(امی میں کیسے اللہ کا ڈر سناوں انکو¿)

اس نے اپنے لاشعور سے سوال کیا 

مگر فی الوقت اسے کوئی جواب نہ سوجھ رہا تھا

پھر اسے جلال. کی رات والی باتیں یاد آنے لگیں 

دل عجیب سا ہونے لگا 

اسے ذرا لحاظ نہ تھا کہ بیوی کے سامنے اپنی سابقہ عشق و معشوقیوں کا ذکر تو نہ کرے

(اگر یہاں میں کہوں کہ میری کسی کے ساتھ سلام دعا بھی تھی تو یقین مجھے قتل کر دیں گے)

اس نے خفگی سے اسے گھورا مگر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا

"جلال مجھے تو چھوڑیں نا سورت کہف پڑھنی ہے مجھے" 

اس نے سوئے ہوئے شوہر کا کندھا اب کی بار ذرا زور سے جھنجھوڑا 

مگر اثر الٹا ہوا تھا وہ اس کو مزید اپنے قریب کر کے سو گیا

سات بجے منیحہ نیچے آ گئی، انکل ناشتہ کر کے باہر جانے والے تھے. 

"بیٹا جلال کو اٹھ بجے جگا کر بھیج دینا"

سلام دعا کے بعد نکلنے سے پہلے انھوں نے تاکید کی 

(میرے کہنے سے تو وہ فورا اٹھ جائیں گے)

"جی اچھا"

سعادت مندی سے سر ہلا کر انھیں تسلی دیتی وہ خود پہ ہنسی

جلال کو جگانا بھی ایک کارنامہ سے کم نہ تھا

پونے آٹھ بجے اس نے جلال کو جگانا شروع کیا اور ساڑھے نو تک وہ اپنی جگہ مزے سے سویا ہوا تھا 

اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر وہ تھک کر بیٹھ گئی

(کوئی اتنا ڈھیٹ کیسے ہو سکتا ہے)

اس نے مایوسی سے اسکی پشت کو گھورا

(منیحہ بی بی تم تو اسے جگانے کے معاملے میں ہی ہمت ہار گئیں، ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں)

اسکے اندر سے کسی نے اسکا. مذاق اڑایا

اعصاب یکدم الرٹ ہو گئے

اور اگلے دو منٹ بعد وہ ٹھنڈے پانی کا گلاس ہاتھ میں اٹھائے اسکے سر پہ کھڑی تھی

"جلال میں آخری دفعہ کہہ رہی ہوں آٹھ جائیں ورنہ یہ پانی کا گلاس آپکے اوپر آنے والا ہے"

دھمکی کے ساتھ ہی اسنے ثبوت کے طور پہ چند قطرے پانی اس پہ گرایا

وہ ناگواری سے آنکھیں ملتا آٹھ بیٹھا

"کتنی جاہل ہو تم اس طرح جگاتے ہیں ¿"

پھر اسے ایک گھوری سے نواز کر دوبارہ دراز ہو گیا

" آپ پیار سے اٹھ نہیں رہے تھے،، لیکن جہالت سے فورا اٹھ گئے"

منیحہ نے بھی جواب آنکھیں دکھائیں

"یار میں نے تو سنا تھا شادی کے بعد بیویاں گیلے بالوں سے جگاتی ہیں تم نے تو جہالت عظیم. کا مظاہرہ کیا ہے"

جلال نے افسوس سے کہہ کر اسکے ہاتھ میں موجود پانی کے گلاس کو ملامتی. نظروں سے دیکھا

منیحہ کی. نا چاہتے ہوئے بھی ہنسی نکل گئی

(حرکتیں دیکھو اور خواب دیکھو اس آدمی کے)

" جب گیلے بالوں سے جگا رہی تھی تب تو اٹھے نہیں اب دوسرا طریقہ استعمال کرنا پڑا "

منیحہ نے اپنی فجر والی ناکام کوششوں کا حوالہ دیا

"کیا یار بہت ہی بور عورت ہو تم،، ابھی شادی کو چار دن ہوئے نہیں تم الووں کی طرح آدھی رات کو جاگتی ہو اور دوسروں کو بھی تنگ کرتی ہو "

اس سے مایوسی کا اظہار کرتا وہ بستر سے اٹھ ہی گیا

تیار ہو کر جب تک وہ نیچے آیا منیحہ ناشتہ بنا چکی تھی

"ناشتہ تو کرلو" اسے بالا ہی بالا باہر نکلتے دیکھ کر ماما نے پکارا

" میں پہلے ہی لیٹ ہوگیا ہوں "

وہ ان سنی کر کے نکل گیا

" لیکن میں ناشتہ بنا چکی ہوں "

منیحہ بھی حیرت سے اسکے پیچھے آ گئی 

"تو تم کر لو"وہ بے نیازی. سے بولا

"آپ بھوکے جائیں گے¿" 

وہ تشویش سے . بولی

" مجھے بھوک لگی تو کچھ کھا لوں گا"

"اچھا سنیں جلدی آ جائیے گا"

اسے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے آواز سنائی دی

"کیوں آج کوئی ڈیٹ ویٹ کا پلان ہے¿"

شرارت سے پوچھا وہ خجل ہوئی

"آج جمعہ ہے،، اور مجھے یقین ہے کہ چھت پہ علیحدہ جماعت کھڑی کرنے کی بجائے آپ مسجدجا کر جمعہ پڑھیں گے"

اس نے اسکی سابقہ عادات کا. طنزیہ حوالہ دیا

اسے گھور کر بنا کچھ کہے جلال گاڑی میں سوار ہو گیا 

دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی باہر. نکل گئی وہ. نجانے کیا کیا پڑھ کر آس پہ غائبانہ پھونکتی رہی

" اے میرے اللہ ہم دونوں کو ہدایت دے،، اور ایک دوسرے کے لیے باعث برکت بنا"

کچن میں کام کرتے ہوئے تا دیر وہ یہی دعا مانگتی رہی

پھر دن میں انکل تو آگئے مگر جلال. صاحب کا کوئی نام و. نشان نہ تھا

دو دفعہ انکل سے پوچھا بھی مگر انھوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا

پھر تنگ آ کر اس نے لینڈ لائن سے جلال کا نمبر ملایا

بہت دیر بعد کال رسیو کی گئی 

"ہیلو کون¿"

پیچھے ایک چیخ و پکار چل رہی تھی

"اسلام وعلیکم میں منیحہ" اس نے اپنا تعارف کرایا

"بولو"

ایسے کہا جیسے مجبورا سن رہا ہو

"آپ. نے جمعہ نہیں پڑھنا ¿" 

"نہیں" 

صاف انکار پہ وہ ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گئی 

اسکے لیے جمعے کا دن بہت خاص تھا جلال کے لیے تو ویسے ہی تھا جیسے ہفتے کے باقی چھ دن

"جلال نماز نہ پڑھیں کم از کم جمعہ تو پڑھا کریں بہت فضیلت والا دن ہے یہ" 

"اچھا میں پڑھ لوں گا،، تم جا کر پڑھ لو"

اسکی بات لمبی ہوتی دیکھ کر جلال نے ٹوکا

ساتھ ہی فون بند

کئی لمحے وہ سن ہوتے ہاتھوں میں مردہ رسیور اٹھا کر کھڑی رہی

پتہ نہیں اسکا امتحان کتنا طویل تھا

اور یہ بھی تو نہ پتہ تھا کہ وہ اس امتحان میں کتنی دیر ثابت قدم رہتی

شام تک وہ قلبی بے چینی کا شکار رہی

" اے میرے اللہ مجھے انکے لیے مبارک ثابت کر" مسلسل یہی دعا اسکے لبوں پہ رواں رہی

شام وہ گھر آیا تو کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا

منیحہ نے دانستہ اس سے کوئی بات نہیں کی مگر رات میں عشاء کے بعد بستر پہ آ کر؛ وہ اپنی خاموشی قائم نہ رکھ سکی

"کیا بات ہے بیگم صاحبہ کچھ خفا خفا لگ رہی ہیں "

وہ ایک بھرپور محبتی قسم کے شوہر کے روپ میں آ چکا تھا جسکے لیے اسکی بیوی اور اسکی خوشی ازحد ضروری تھی

"نہیں تو" 

اسے ٹال کر وہ اپنی جگہ پہ دراز ہو گئی

"ادھر تو آئیں جناب،، اتنی جلدی نیند آ گئی" 

کمال. بے تکلفی سے اسے کھینچ کر اپنے قریب کیا 

" ویسے یار ایک بات ہے،،، یہ کم از کم. اب تم. میرے سامنے یہ دوپٹے لینے چھوڑ دو" 

جلال نے کھینچ کر اسکا دوپٹہ اتارا،، اور وہ جو سونے سے قبل کے وظائف پڑھ رہی تھی یکدم بے چین ہوئی

دوپٹہ واپس اوڑھ لیا

" آپ یہ بتائیں جمعہ پڑھا تھا آپ نے¿" 

نا چاہتے ہوئے بھی اسکا انداز تفتیشی تھا

" اووو یاررر،،،، میں بھول گیا"جلال نے سر پہ ہاتھ مارا" منیحہ کو شاک لگا

اسنے خود کال. کرکے یاد کرایا تھا دن میں 

" میں نے یاد کرایا تو تھا آپکو"وہ شاک میں ہی جتا رہی تھی

" ہاں مگر بعد میں میں بھول گیا" 

اس نے برا سا منہ بنایا

منیحہ ایک لفظ ادا نہ کر سکی

"اچھا چھوڑو یار اگلی دفعہ پڑھ لوں گا،، میں کونسا کہیں جا رہا ہوں" اس. نے ناک سے مکھی اڑائی

(انھیں کیسے یقین ہے کہ یہ اگلی دفعہ تک زندہ رہیں گے") 

منیحہ. نے افسوس سے سوچا 

انسان نے ہر اچھا کام کل پہ چھوڑا ہوتا ہے یہ جانے بغیر کہ کل تو کبھی آتی ہی نہیں 

بے شک انسان خسارے میں ہے 

" اچھا چھوڑو یار کل تمہیں میری باتوں کا یقین نہیں آ رہا تھا نا،،، آج میں تمہارے لیے ایک زبردست چیز لایا ہوں "اس نے سائیڈ سے موبائل اٹھا کر آن کیا

منیحہ الرٹ ہو گئی اب نجانے وہ کیا انکشاف کرنے والا تھا

آج سارا دن اس نے جن لوگوں کے ساتھ گزارا تھا ان سے خیر کی امید تو نہ کی جا سکتی تھی

" اچھا بس اب منہ تو نہ بناو کہہ تو رہا ہوں کہ اگلی دفعہ پڑھوں گا"

جلال نے اسکے بالوں کی لٹ کھینچی

مگر اس نے فیصلہ کیا تھا وہ اس بات کو لے کر جلال سے بحث نہ کرے گی

"اب یہ دیکھ لو تاکہ تمہی یقین آ جائے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا تھا"

اسکے موبائل کی سکرین پہ وہ کوئی ویڈیو چل رہی تھی شاید کوئی ویڈیو چیٹ تھی

بے زاری سے سرسری انداز میں دیکھتی منیحہ کو جھٹکا لگا

آج اسکے موبائل سکرین کی زینت کوئی اور نہیں بلکہ منیحہ کی چچا زاد کزن تھی

سارا کو دیکھ کر اسے ایک جھٹکا لگا

وہ کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی

جلال کے سر کے نیچے آئے بال کھنچے تو ان کی تکلیف کا احساس بھی اسے نہ ہو سکا

اسکی ساری انا،، سارا فخر اور مان ڈھیر ہو گیا

مگر سکرین پہ سارا بڑے خوشگوار موڈ میں کسی سے باتیں کر رہی تھی

اسکے کان سائیں سائیں کرنے لگے

شوہر ہونے کے باوجود وہ جلال کے سامنے کبھی اتنے دھڑلے سے نہ بیٹھی تھی. مگر سارا... 

اور وہ بھی وہ سارا جو شروع سے ہی روایتوں کی پابند تھی

جس کی مثالیں اسے ابا دیتے تھے

وہ سارا،،،، 

"اے میرے اللہ یہ فتنہ میرے گھر تک پہنچ گیا ہے"

جبکہ جلال کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پہ دلچسپی تھی

جلال کے موبائل کی سکرین پہ سارا کی تصویر دیکھ کر منیحہ درحقیقت حیران رہ گئی تھی

"جلال یہ سب کیا ہے ¿" 

نا چاہتے ہوئے بھی اسکا انداز ناگواری بھرا ہو چکا

"یہ خاتون آپکی کزن ہوتی ہیں شاید" 

وہ ڈھٹائی سے ہنس کر بولا

"لگتا ہے تمہاری کزن کی ویڈیو تمہیں اچھی نہیں لگی" 

اسکا سنجیدہ چہرہ اور طویل خاموشی پہ جلال نے مڑ کر اسے دیکھا 

"آپکو یہ مجھے نہیں دکھانی چاہیے تھی بلکہ آپکو کسی کی بھی کوئی ایسی چیز مجھے نہیں دکھانی چاہیے جس سے اس شخص کی عزت کم ہو" 

وہ بہت زیادہ سنجیدہ ہو چکی تھی

جلال نے اچنبھے سے اسے دیکھا" کیا ہو گیا بھئی تم تو واقعی برا منا گیی ہو" 

جلال کے لیے یہ سب قطعی نارمل تھا

" مجھے اس سب کا اندازہ نہیں تھا اور میں سارا کی بہت عزت بھی کرتی ہوں بلکہ شاید کرتی تھی،، لیکن اب آپ. نے اسکا راز کھول دیا" 

منیحہ نے اپنی حیرت کا اظہار کرنا بے معنی جانا،، جلال الٹا اسکا مذاق اڑاتا

" تو بھئی وہ لوگ خود اپنے راز پبلک کر رہے ہیں تو ہم کیا کریں "

وہ کندھے اچکا کر لاپرواہی سے بولا

" جلال ہمیں صرف اس امید پر ہی کسی کا پردہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کل کو اللہ ہمارے گناہوں اور غلطیوں کا پردہ رکھ لے" 

جو وہ محسوس کر رہی تھی وہ نا قابل بیان تھالیکن حقیقت یہ تھی سارا نے اسے جلال کے سامنے شرمندہ کرا دیا تھا

وہ اگر چاہتا تو منیحہ کو اسکی کزن کا طعنہ دے سکتا تھا

" توبہ ہے تم تو ہر بات کو کدھر لے جاتی ہو"

موبائل ایک طرف رکھ کر وہ بستر پہ دراز ہو گیا

منیحہ تو مدنی چینل کے مولویوں کی طرح ہر بات پہ ڈرانا شروع کر دیتی تھی

"جلال میں غلط تو نہیں کہہ رہی" 

وہ غلط واقعی نہیں کہہ رہی تھی مگر اس وقت جلال. کو اسکا. یہ انداز غلط ہی لگا،، بھلا. اس میں اتنی سنجیدہ ہونے والی کونسی بات تھی

ویسے بھی جب اسکی کزن کو مسئلہ نہیں ہے تو یہ اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہے¿"

وہ لاپرواہی سے سوچ رہا تھا

"اچھا بھئی ٹھیک ایک تو تم تبلیغ کا کوئی موقع جانے نہیں دیتیں "

اس نے منیحہ کو اپنی طرف کھینچا

مگر وہ بھرپور ڈھٹائی سے اپنی جگہ جمی رہی

آخر جلال کو اس سے پوچھنا ہی پڑا

" مجھے ابھی نیند نہیں آ رہی آپ سو جائیں "

وہ جان چھڑانے کو بولتی الماری کھول. کر جا کھڑی ہو ئی

اور اتنا بچہ تو جلال کہ تھا کہ اسکی یہ ھے رخی محسوس نہ کر سکتا (سٹوپڈ وومن،،، ب*) 

اس نے موٹی سے گالی سے نوازا

اور بتی بجھا کر سو رہا منیحہ نیم تاریکی میں نجانے الماری میں کیا تلاش کرتی رہی

اور حقیقت میں اسے وہ سارے واقعات یاد آ رہے تھے جب چچا اکثر سیمعون کو ڈانٹتے منیحہ تو خود بھی محتاط رہتی تھی مگر سیمعون پھٹا ہوا ڈھول تھی اور تب چچا تو چچا ابا بھی اکثر اپنی بھتیجی کی سمجھداری، اور سلیقے کی مثالیں دیتے نہ تھکتے

وہ اپنی زندگی میں سارا بننے کی کوشش کرتے ہوئے بڑی ہوئی تھیں اور سارا چچا کی ناک کے نیچے کیا کر رہی تھی

(یا اللہ یہ کتنا خوفناک ہے) وہ کانپ کر رہ گئی مگر اندر سے وہ جلال سےاتنی خائف تھی کہ اگلے دن بھی وہ اس سے دانستہ دور دور رہی تاکہ جلال کو دوبارہ وہ بات کرنے کا موقع نہ ملے

حالانکہ یہ اسکی غلط فہمی تھی جلال اتنی دیر تک باتیں یاد رکھنے کا عادی نہ تھا اور منیحہ نادانستہ طور پہ اسے اگنور کر کے مزید چڑا رہی تھی

"میری بات سنو کس بات کا اتنا نخرہ ہے" 

وہ خاموشی سے اسکے کپڑے نکال رہی تھی جبکہ جلال ابھی ابھی شاور لے کر نکلا تھا شیشے کے آگے کھڑا وہ معمول کی تیاریوں میں مصروف تھا ساتھ وقتا فوقتاً ایک نگاہ منیحہ کے چہرے پہ بھی ڈال لیتا

 منیحہ نے اسکی جانب دیکھنا البتہ گوارا نہ کیا جلال کے ایک دو دفعہ پکارنے پر بھی وہ دانستہ اگنور کر گئی

اسی لیے جلال مزید برداشت نہ کر سکااب منیحہ نے اس دھاڑ پہ اسے دیکھا

"کیا ہوا ہے آپکو،، میں نے تو کچھ نہیں کہا" 

وہ انجان بنی

"میں کل سے دیکھ رہا ہوں تمہارا ایٹیٹیوڈ ہی ختم نہیں ہو رہا" 

وہ اسکے مقابل آ کھڑا ہوا ماتھے پہ بل واضح تھے

"میں کوئی ایٹیٹیوڈ نہیں دکھا رہی" 

منیحہ نے جان چھڑانی چاہی مگر جلال کے اندر تو گویا کوئی جن آباد تھا جو ایک دم وحشی ہو جاتا

" تو پھر کیا تکلیف ہے تمہی،، منہ کیوں بنایا ہوا ہے¿"

وہ بنا کسی رعایت کے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے روکتے ہوئے بولا

منیحہ کو بھی اسکا انداز ازحد برا لگا

تبھی چہرہ دوسری جانب موڑ لیا

اسکا دل. جلال کی طرف سے بہت برا ہو رہا تھا

وہ شدید غیر آرام دہ. محسوس کر رہی تھی

"مجھے کوئی تکلیف نہیں "

دوسری جانب جلال. کے لیے منیحہ کا لیا دیا رویہ نا قابل برداشت تھا

اسکی بہت سے وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ یہ امید رکھتا تھا جنتی اہمیت اور محبت وہ منیحہ کو دے رہا ہے اتنی ہی اہمیت اور محبت منیحہ بھی دے

بلکہ یہ دنیا کے ہر مرد کی حواہش ہوتی ہے کہ اسکی عورت اسکی تعریف کرے اسکی بڑائی اور اچھائی کی معترف ہو

اور شادی جیسے سنجیدہ رشتے میں وہ یہ سمجھ نہ پا رہا تھا کہ ایک سائیڈ افئیر اور پراپر میرج میں فرق ہوتا ہے

اسی لیے منیحہ کو جھٹکے سے دور کرکے اسے صوفے پہ گرا کر وہ بکتا جھکتا کپڑے تبدیل کر کے نکل گیا

(جہنم. میں جائے یہ عورت زیادہ ہی چوڑی ہو رہی ہے،، پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے جیسے یہ کوئی اللہ کی ولی اور میں کافر ہوں) 

دوران ڈرائیونگ بھی وہ یہی سوچتا رہا اسی لیے گاڑی ہوا سے باتیں کر رہی تھی 

دوسری جانب اسکے منہ سے نکلنے والے مناسب اور غیر مناسب الفاظ سن کر منیحہ تو شاہ میں آ گئی تھی نتیجتاً وہ سارا دن اس بات کو نہ جھٹک سکی جلال دن میں بھی نہیں آیا تھا آپی واپس جا چکی تھیں 

اور آنٹی زیادہ وقت یا تو ٹی وی دیکھتی رہیتی یا پھر فون پہ لگی رہتیں

منیحہ سے زیادہ بے تکلفی برتنے کی انھوں نے کبھی کوشش ہی نہ کی نتیجتاً منیحہ بھی محتاط انداز میں ہی انھیں مخاطب کرتی

اب بھی وہ پریشانی میں کھانا بھی نہ کھا سکی 

کھانا بنا کر کچن سمیٹ کر وہ اپنے کمرے میں سونے کی نیت سے آ گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی

پھر وہم، خدشات جو اب اسکی شخصیت کا حصہ بنتے جا رہے تھے

اوپر سے جلال کا پل پل بدلتا رویہ، اسکی عجیب و غریب حرکات و سکنات

وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ اسکا امتحان ہے یا سزا

وہ. ایک. لمحے کو بھول. جاتی کہ وہ رب بڑا مہربان ہے وہ اپنے بندوں سے ستر ماوں سے زائد محبت رکھتا، اسی لیے وہ بدلے نہیں لیا کرتا 

دوسرے ہی پل وہ خود کو مایوسی سے نکال. کر امید کی راہ دکھاتی مگر اوور تھنکنگ نے اسے نڈھال کر دیا تھا وہ کب ہوش و حواس سے بیگانہ ہوئی، اسے اندازہ ہی نہ ہو سکا

کچھ دیر بعد اسے اپنا آپ بہتر محسوس ہوا تواس نے چاہا کہ نیچے جا کر آنٹی سے سر درد کی کوئی دوا لے آئے مگر اتنی سستی اور بےزاری محسوس ہوئی کہ وہ اس ارادے پہ عمل نہ کر سکی

اور جب وہ نیچے آئی تو حالات کچھ یوں تھے کہ

جلال صاحب گھر پہ موجود نہ تھے،

ہوتے بھی تو وہ اس سے بات نہ کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی، آنٹی کا بلڈ پریشر ہائی تھا اور انکل لاونج میں بیٹھے تھے

"اے میرے اللہ میں کیا کروں ¿"

وہ واپس کمرے میں آ گئی 

وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو بخار ہونے پہ یوں آنسو بہاتی ہیں گویا مرض الموت کا شکار ہو گئی ہوں

ابھی بھی وہ رو ہی رہی تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ لہرا کر گر گئی

وہ جسمانی طور پہ ہی نہیں ذہنی طور پر بھی نہایت کمزور واقع ہوئی تھی

جلال اتفاق ہی سے گھر آ یا تو اسے بے ہوش پایا

کچھ دیر کی تگ ودو کے بعد بھی وہ نہ جاگی تو وہ اپنا سر پکڑ کر رہ گیا

"میری زندگی کا سب سے زیادہ اور شاید پہلا غلط فیصلہ تھا وہ جب میں نے تم سے شادی کا ارادہ کیا"

سر ہاتھوں میں گرائے وہ مکمل بے بس ہو چکا تھا

ابھی صبح ہی وہ منیحہ اور اپنے بیچ ہونے والی شدید جھڑپ کے بعد اس تعلق پہ لعنت بھیج کر گیا تھا اور اب پھر سے وہ اسی مقام پہ کھڑا تھا"

(یا الہی میری غلطیوں کی یہ کیسی سزا ہے¿) 

اس نے بے بسی سے. سوچا پھر پانی کا پورا گلاس اٹھا کر اس پہ انڈیلا تو اس نے آنکھیں کھول لی تھیں 

پھر آنکھیں کھلنے پہ اس نے خود کو زمین پہ دراز پایا جبکہ اسکا سر جلال کے گھٹنے پہ تھا وہ صبح والے لباس میں تھا اور شرٹ کی اوپری دوبٹن کھول رکھے تھے

پریشانی میں بالوں میں ہاتھ پھیرنے کے باعث بال. الجھے ہوئے تھے اور وہ تشویش زدہ. نظر آ رہا تھا

جبکہ منیحہ ایک پل کے لیے ساری ناراضگی بھول. کر اسکی گود میں سر چھپائے رونےلگی دوسری جانب وہ جو اسے ڈانٹنے کے پر تول رہا تھا ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا

یہ لڑکی واقعی عجیب سی تھی،، بس عجیب ہی تھی

 اٹھو "کافی دیر بعد بھی اسکا رونا. بند نہ ہوا تو جلال. نے اسے بازو سے پکڑ کر زبردستی بٹھا دیا

" پیچھے ہٹو"مگر وہ تو جیسے اسکا سامنہ کرنے کو تیار ہی نہیں تھی

جلال نے اسے اٹھا کر بستر پہ پھینکنے والے انداز میں پہنچایا

" یا تو تم خود پاگل ہو یا پھر مجھے پاگل کرنے کا ارادہ ہے"

وہ چاہ کر بھی غصہ نہ کر پایا

"اب کیا کیا ہے میں نے¿" 

وہ خفگی سے بولی جبکہ جلال نے اسکے سرخ ہوتے چہرے کی طرف دیکھا

مسلسل رونے کی وجہ سے ناک اور ہونٹ سرخ ہو رہے تھے

"ایک تو تم ایک منٹ میں بے ہوش ہو جاتی ہو"

جلال جے اسکے پانی میں بے ہوش ہونے کی طرف اشارہ کیا دس بارہ دنوں میں دو دوسری بار بے ہوش ہو رہی تھی

" صبح سے طبیعت خراب تھی میری" 

اس نے "ایک منٹ" والے طعنے کی تردید کی 

"تو کال کر. دینی تھی مجھے" 

وہ اب کپڑے نکال رہا تھا

"کسی دن میں گھر آوں گا اور کیڑے مکوڑے تمہاری لاش کو کھا رہے ہوں گے" 

(آف اتنی گندی سوچ) 

منیحہ نے جھرجھری لی

"مجھ سے نیچے جانے ہی نہیں ہوا کال کرنے اس نے غلط بیانی سے کام لیا"

کیونکہ وہ نیچے گیی تھی لیکن کال اس لیے نہیں کی کہ وہ صبح والی بدزبانی کے باعث جلال سے ناراض تھی

" سیل فون نہیں ہے تمہارے پاس ¿ 

اس نے اچنبھے سے پوچھا منیحہ نے جواب خفا نظروں سے گھورا

(یا تو یہ ڈرامہ کر رہے ہیں یا پھر کوئی زیادہ ہی انجان ہیں) 

"کب دیکھا آپ نے میرے پاس ¿"

مگر وہ خود کو سوال کرنے سے باز نہ رکھ سکی

" دیکھا تو نہیں ویسے ضرورت تو نہیں ہے تمہیں" 

اس نے سرسری انداز میں خود کلامی کی

اور غسل خانے میں چلا گیا

جبکہ منیحہ کو اسکی یہ بات بھی ناگوار ہی لگی

خود بیس گھنٹے فون استعمال. کرنے والے شخص کی رائے میں اسے فون کی ضرورت ہی نہیں تھی

(دوہرے معیار) 

وہ سوچ کر رہ گئی 

شاید جلال بھی انھی مردوں میں سے تھا جنکے خیال میں عورتوں کی ضروریات بہت محدود ہوتی ہیں اور نہیں ہوتیں تو بھی ہونی چاہییں

اس سے زیادہ وہ جلال کی سوچ پہ افسوس نہ کر سکی کیونکہ اسکا سر چکرا رہا تھا

جبکہ جلال رات گئے تک اس بات پہ زور دیتا رہا کہ منیحہ کو اب خود کو بدلنا چاہتے غرض یہ کہ اس نے اتنی چیزوں کے بدلنے پہ زور دیا کہ منیحہ کو گمان ہونے لگا کہ اسکے اندر خوبیاں نایاب اور خامیاں بہتات سے تھیں 

مگر اس نے جلال سے بحث کرنے سے خود کو باز رکھا درحقیقت وہ اسکے بارے میں کوئی حتمی رائے نہ قائم کر پا رہی تھی کبھی وہ اتنا خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا بن جاتا کہ منیحہ ہو اپنا آپ غلط لگتا اور کبھی وہ اتنا عجیب ہو جاتا کہ اسے جلال سے خوف آنے لگتا

اس نے آج تک اپنے باپ کو اپنی ماں کو گالیاں دیتے نہ سنا تھا مگر صبح جلال نے جس طرح اسے گالیاں دی تھیں وہ ہضم نہ کر پا رہی تھی جبکہ دوسری جانب وہ اسے بے ہوش دیکھ کر جس طرح پریشان ہو گیا تھا یہ بات بلکل متضاد تھی 

جلال. کی شخصیت کے کونسے پہلو پہ وہ یقین کرے اور کونسے پہلو پہ یقین نہ کرے وہ یہی سوچتی رہ گئی 

دوسری جانب منیحہ کے بے ہوشی اور مسلسل خاموشی کا مطلب اب وہ اسکی حساس طبیعت لے رہا تھا جبکہ پہلے دن اسکی خاموشی جلال. کو غصہ دلا گئی تھی

اب اسے احساس ہونے لگا کہ اسے منیحہ کے ساتھ اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے تھا جو بھی تھا جب جلال غصہ کرتا تھا تو منیحہ آگے سے روایتی عورتوں کی طرح جواب نہ دیتی تھی وہ چپ چاپ سن لیتی تھی

ایسے میں جلال. کو لگا کہ اسے بھی منیحہ کا خیال. کرنا چاہیے 

سارا دن وہ اتنا ڈسٹرب رہا کہ شام. کو گھر جانے کے بجائے وہ دوستوں کی طرف چلا گیا

اور کسی بزرگ نے سچ ہی کہا ہے کہ برے دوستوں سے تنہائی اچھی 

برے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اچھا رہنا ناممکن تھا کہ جب آپ. خود چل کر برائی کے پاس آ جاتے ہیں تو برائی دونوں بازو پھیلا کر آپکا استقبال کرتی ہے

آج بھی وہی ہوا تھا سب نے اسے پر جوش طریقے سے خوش آمدید کہا

پھر وہ جو گھنٹہ دو گھنٹہ بیٹھنے کے لیے آیا تھا

وہیں بیٹھ کر رہ گیا

رات گئے ان سب کو گھر جانے کا خیال آیا،، ایک دوست کو اسکے گھر تک چھوڑ کر وہ بمشکل. گھر پہنچ سکا گاڑی آڑھی ترچھی باہر ہی کھڑی کر دی تھی پھر نکلتے ہوئے اسے یاد آیا اس نے منیحہ کے لیے دن میں کچھ خریدا تھا

"مجھے دیکھ کر خوش ہو جائے گی)اس نے بآواز بلند اظہار خیال. کیا

اس بات سے بے خبر کہ جس حالت میں وہ تھا اسے دیکھ کر کوئی بھی خوش نہیں ہو سکتا تھا انکل نے اسکے تیسری دفعہ بیل پہ ہاتھ پہ رکھنے اور پھر نہ اٹھانے پہ دروازہ کھول ہی دیا

" کدھر تھے تم¿"

انھوں نے کچھ بے زاری سے بیٹے کو واپس اپنی پرانی حرکتوں کی طرف جاتے دیکھ کر پوچھا

"قبرستان" 

وہ قہقہہ لگا کر ہنسا  پھر باپ کے کندھے پہ ایک ہاتھ رسید کیا اور

 چابی وہیں پھینک کر ریلنگ کا سہارا لے کر سیڑھیاں چڑھ گیا

کریم علوی وہیں کھڑے اسے گھورتے رہ گئے

" اس کا کچھ نہیں ہو سکتا" 

وہ سمجھدار ہو جائے 

یہ خواہش شاید وہ دل میں لے کر مرنے والے تھے

باقی دونوں بیٹے اپنی اپنی زندگیوں میں سیٹ ہو چکے تھے سمجھدار تھے اپنی اپنی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے تھے مگر جلال تھا کہ اسے عقل. آ کر نہ دے رہی تھی

پہلے وہ یہ سوچتے تھے کہ وقت کے ساتھ وہ خود ٹھیک ہو جائے گا اسی لیے اسے ہر جائز نا جائز کی چھوٹ دے رکھی تھی مگر اب تو انکی اس امید پہ بھی پانی پھر چکا تھا ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مزید عیاش اور لاپرواہی ہوتا جا رہا تھا

جو کہ درحقیقت انھی کی غلطیوں کا نتیجہ تھا

جو کہ اب بھگتنا اسکی بیوی کو پڑ رہا تھا

افسوس سے سرہلاتے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے 

جبکہ جلال. اپنے کمرے میں داخل ہو گیا

منیحہ ابھی تک جاگ رہی تھی نجانے کیوں اسے فیر ہو رہی تھی کہ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور جلال ابھی تک گھر نہیں آیا تھا نو بجے وہ انکل سے پوچھنے گئی بھی تھی تب انھوں نے لا پرواہی سے کہا کہ

" وہ دوستوں کے ساتھ ہو گا آ جائے گا"

تب سے آدھی رات گزرنے تک منیحہ کو طرح طرح کے وہم ستا رہے تھے جو بھی تھا اور جیسا بھی تھا وہ اسکا شوہر تھا

اور حد درجے کا لاپرواہ بھی 

اسی لیے اسکی فکر. بجا تھی

"منیحہ ادھر تو آو دیکھو یہ کیا ہے¿"

وہ ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا اور اسے کچھ دکھانے والا تھا

 اب تو منیحہ اسکے اس جملے سے ڈرنے لگی تھی

(یا اللہ خیر ہی ہو)

دل میں دعا کرتی وہ اسکی جانب آئی

"یہ کیا ہے¿"

چھوٹا سا شاپنگ بیگ اسکے اندر کچھ ڈبہ سا تھا جسکے اوپر باقاعدہ ربن وغیرہ لگا کر سجاوٹ کی گئی تھی

" سوچو کیا ہو سکتا ہے¿

جلال نے تجسس بڑھانا چاہا

" کیا ہو سکتا ہے اس میں،، پتہ نہیں مجھے کچھ اندازہ نہیں "

اس نے فورا ہار مان لی

جلال نے اسکا بازو پکڑ سے اسے اپنی طرف کھینچا

وہ جو ہنستے ہوئے اسے دور ہٹانے لگی تھی ایک دم. چونکی

جلال کے منہ سے ایک عجیب سی بدبو آ رہی تھی

"جلال یہ کیا ہے¿" 

"یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے ¿"

وہ عجیب بے ہنگم انداز میں ہل جل رہا تھا

سیدھا کھڑا نہ ہو پا رہا تھا

منیحہ کے دل میں بدترین خدشات نے جنم لیا. 

اسکا دل. کسی چڑیا کے بچے کی ماند کانپ رہا تھا

ساتھ ہی یہ دعا بھی کر رہا تھا

کہ اسکے خدشات غلط ہوں 

" جلال آپ کہاں تھے¿"

اب کی بار اس نے سوال بدلا

"میں سوئٹزرلینڈ" 

وہ یوں ہنسا جیسے کوئی بہترین لطیفہ سنایا ہو

"جلال پلیز آپ. کہاں تھے¿،، اپنے ان آوارہ دوستوں کے ساتھ تھے نا" 

وہ مشکوک نظروں سے اسے گھورتی ایک قدم. پیچھے ہوئی بو شاید اسکے لیے ناشناسا تھی مگر جلال کی باڈی لینگویج پڑھنا اسکے لیے مشکل نہ تھا

" کونسے آوارہ دوست،، میرے سارے دوست اچھے ہیں آئی سوئیر" 

اس نے کچھ منا بنا کر کہا ساتھ ہی ہنسلی کی ہڈی پہ انگوٹھا اور انگلی جنا کر قسم. کھائی 

"اور تم. بھی اچھی ہو،، میں سچ کہہ رہا ہوں" 

وہ اسکی جانب بڑھا مگر منیحہ نے برقی رفتار سے پیچھے قدم اٹھائے تین قدم. اٹھانے کے بعد وہ بستر سے جا لگی

جبکہ اسے یوں بے یقینی سے خود کو گھورتے پا کر جلال نے پر اسرار سا قہقہہ لگایا

"کیا ہوا تم ڈر رہی ہو،، تم ڈرتی ہو،، مجھے تو تم اچھی لگتی ہو"

منیحہ نے بے یقینی سے سر نفی میں ہلایا

سب کچھ جاننے کے باوجود اسے ہہ امید نہ تھی کہ جلال کبھی یوں ایک حرام. چیز کو منہ لگا کر دھڑکے سے گھر ہی آ جائے گا

"آئی سوئیر تم مجھے بہت پیاری لگتی ہو" 

وہ شاید اسکی آنکھوں میں چھپی بے یقینی پڑھ پا رہا تھا اسی لیے قسمیں کھا کر یقین دلانے لگا

منیحہ نے خود کو اسکی گرفت میں بے بس پایا

"چھوڑیں مجھے" آنسو بے بسی اور دکھ کے آنسو اسکی آنکھوں سے رواں تھے

"تم میری بیوی نہی ہو¿" 

جلال کو پتہ نہیں شک گزرا یا وہ اسے یقین دلا رہا تھا

"چھوڑیں مجھے پیچھے ہٹیں" 

منیحہ کو لگا اسکا دل، گردے، ہر شے حلق کے رستے باہر آ جائیں گے خود کو چھڑانے کے لیے وہ بری طرح تڑپی

وہ جلال کے ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتی وہ پھر سے اسپہ گرفت کرتا وہ پھر زور لگا کر نکلنے کے کوشش کرتی

چند پل کے بعد شاید اسکے دماغ میں شعور جاگا تھا" چھوڑیں مجھے" وہ آنکھیں سختی سے بند کیے روتے ہوئے زور لگا رہی تھی خود کو آزاد کرانے کی تگ و دو کر رہی تھی اور یہی وہ لمحہ تھا جب اسے اچنبھے سے گھورتے ہوئے جلال. کی گرفت کمزور ہوئی

منیحہ جے اسے پوری قوت سے پرے دھکیلا وہ جو دھیان میں نہیں تھا چکرا کر پیچھے گرا

منیحہ دور جا کھڑی ہوئی اسکی ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں وہ. زمین پہ بیٹھتی چلی گئی مچند پل. گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھے رہنے کے بعد اسے کچھ ہوش آئی تو اس نے جلال کو بستر پہ اوندھے منہ گرے کراہتے ہوئے پایا

منیحہ نے چونک کر دیکھا اسکے سر سے خون نکل رہا تھا اور بستر کی چادر لال ہو رہی تھی

اسکی چیخ بے ساختہ تھی...... 

جلال کے ماتھے پہ سرخ خون بہہ رہا تھا 

یقیناً اسکا سر پھٹ چکا تھا 

دروازے کے قریب کھڑی وہ منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی دہشت زدہ. چیخ روکنے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی

یوں لگا جیسے اسکے پیروں سے زمین نکل چکی ہو

اور چل کر اسکے پاس جانا چاہتی تھی مگر پاوں جیسے جھکڑے گئے تھے

نجانے کتنے پل. یوں ہی ہوا میں معلق گزر گئے 

پھر منیحہ نےے اسے خود ہی سیدھے ہوتے پھر ایک ہاتھ سے اپنا ماتھا چھوتے دیکھا 

وہ پھر بھی اپنی جگہ سے نہ ہل پائی

وقت رک گیا تھا

دوسری جانب جلال تو ویسے ہی اپنے حواس میں تھا چوٹ کے ہلکے سے احساس کے تحت وہ سیدھا ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے سر سے کوئی گاڑھا سیال. مادہ بہہ رہا ہو ہاتھ لگا کر دیکھا تو نمی سی محسوس ہوئی اور اب اسکے ہاتھ پہ سرخ سرخ نشان تھے

"یہ کیا ہے¿" 

اس نے خود سے پوچھا پھر کچھ خاص سمجھ نہ آنے پی واپس وہیں ڈھیر ہو گیا

ادھر منیحہ نے اسے واپس گرتے دیکھا تو بھاگ کر اسکے قریب آئی

(یا اللہ یہ. میں نے کیا کر دیا¿) 

وہ کبھی اسکے بےسدھ پڑے وجود کو دیکھتی کبھی خون کی اس لکیر کو جو اب اسکے ہونٹوں تک پہنچ چکی تھی اور کبھی اپنے ان ہاتھوں کو جن سے اس نے جلال کو دھکا دیا تھا

"جلال. پلیز اٹھیں" 

بلک. بلک.کر روتی وہ اسکا چہرہ تھپتھپا رہی تھی 

جب بھی وہ اپنی طرف سے کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتا نتیجہ ہمیشہ کسی بہت بڑی غلطی کی صورت نکلتا تھا پچھلے صرف تیرہ چودہ دنوں میں اسکے ساتھ اتنے عجیب و غریب واقعات ہو چکے تھے کہ اکیس بائیس سالہ.زندگی میں مل. ملا. کر بھی اتنے انوکھے واقعات نہ ہوئے ہوں گے

"جلال پلیز اٹھ جائیں" 

وہ بے بس ہو کر کہہ رہی تھی

"منیحہ ہوش کرو تم اتنی جاہل کیسے ہو سکتی ہو،، کہ ایک زخمی انسان کے پاس بیٹھ کر محض روئے جا رہی ہو" 

اسکے اندر سے کوئی چیخا تھا

"لیکن میں کیا کروں ¿،، میں نے یہ کیا کر دیا" 

اسکے آنسووں میں روانی آ گئی 

"ہمت کرو اور پہلے اسے ہوش میں لاو پھر جوہو گا دیکھا جائے گا"

کسی نے اسکی ہمت بندھانے کی کوشش کی تھی اور یہ واقعی کام کر گیا تھا چند پلوں کے بعد وہ اپنا چہرہ صاف کرتی جلال. کو سیدھا کرنے کے جتن کر رہی تھی

وہ بھاری بھرکم اور صحت مند نوجوان تھا پھر مکمل بے سدھ ہو چکا تھا منیحہ نے بمشکل تمام. اسے وہیں سیدھا کر کے اسکا سر تکیے پہ رکھا پھر کمرے کی درازیں تیزی سے چھانیں مگر ابتدائی طبی امداد (فرسٹ ایڈ باکس) کا کوئی سراغ نہ لگا پائی

"کم از کم زخم کو تو بند کر دو" 

پھر سے اندر کی آواز نے ادکی ہمت بندھائی 

اور اپنے دوپٹہ اتار کر اس نے کس کر جلال کا سر باندھ دیا پھر اور تو کچھ میسر نہ ہوا مگر واش روم میں ڈیٹول کی ایک شیشی پڑی تھی وہ لاکر اس نے کاٹن بڈز سے اسکا خون اور زخم صاف کیا

اور دوبارہ سے دوپٹہ باندھ دیا وہ بستر پہ آڑھا ترچھا پڑا مکمل بے ہوشی میں خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا

ساری رات وہ بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے اسکے پاس بیٹھی رہی 

کبھی اسکا چہرہ دیکھتی،، کبھی ماتھے کو چھو کر محسوس کرتی اسکا جسم آہستہ آہستہ تپ رہا تھا

منیحہ کو وہ ہلکی سی حرارت بھی بہت زیادہ. محسوس ہوئی کیونکہ اسکے اپنے ہاتھ پاوں ٹھنڈے برف ہو رہے تھے بیٹھے بیٹھے وہ اونگتی پھر وہ دیکھتی کہ صبح ہو گئی ہے اور جلال بہت غصے میں اس پہ حملہ آور ہے اور خوف سے اسکی آنکھ کھل جاتی پھر سے وہی جان. لیوا خیالات 

پھر سے آنکھ لگتی اور وہ. دیکھتی  کہ. کسی ویرانے میں جلال اسے بری طرح پیٹ رہا ہے اور وہ اس سے معافیاں مانگ رہی ہے مگر جلال اسکی ایک نہیں سنتا

کبھی اسے یہ خیال آتا جلال اسے اسکے ماں باپ. کے گھر چھوڑ آیا ہے اور اسکی ماں اونچی اونچی آواز میں رو رہی ہے

ساری رات اسی حالت میں گزر گئی بے چینی اور اضطراب اس قدر تھا کہ ایک ایک پل. صدیوں پہ. بھاری تھا

(یا اللہ مجھے معاف کر دے) 

اس نے بے بس ہو کر معافی مانگی،، اسکی ساری دعائیں، ساری کوششیں رائگاں جا رہی تھیں 

"فجر کے قریب اسکی آنکھ لگی

یہ رات بھی اس پہ بہت بھاری تھی

زندگی کو اس نے جس قدر سہل. جانا تھا 

یہ اسکی غلط فہمی ہی تھی اسکی زندگی میں بھی سب کچھ الٹ پھلٹ ہو رہا تھا کبھی وہ تیرنے لگتی اور کبھی ڈوبنے لگتی

کبھی کنارا نظر آتا اور کبھی یوں محسوس ہوتا کہ سمندر کی وسعتوں نے اسے اپنا شکار کر لیا تھا

ایک بات جو اسے بھول رہی تھی وہ یہ تھی

کہ جب انسان کی زندگی پہ اسکا کوئی اختیار نہیں رہتا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ رب نے اسکی زندگی کو اپنے اختیار میں لے لیا ہے 

مگر وہ یہی نہیں کچھ اور بھی بھول بیٹھی تھی 

اسے سب علم تھا مگر ان لمحات میں اسے کسی ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو اسے سیدھے رستے پہ چلتے رہنے میں مدد دیتا

اسے تو یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ اسے اللہ سے مانگنا کیا چاہیے

حالانکہ وہ. جانتی تھی

کہ جب انسان  سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ اللہ سے کہا مانگے ¿

تو اسے چاہیے وہ. اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے کیونکہ یہی بہترین دعا ہے

جلال کے سر سے نشے کا خمار اترا تو اس نے اپنی آنکھیں زبردستی کھول کر ادھر ادھر دیکھا 

شاید وہ اپنے کمرے میں تھا 

نہیں وہ یقیناً اپنے کمرے میں ہی تھا اس نے تسلی کر. کے اٹھنا چاہا مگر منیحہ اسکے بازو پہ سر رکھے اسکے قریب ہی سو رہی تھی منہ اسکی سائیڈ میں چھپا رکھا تھا "یہ ادھر کیا کر رہی ہے¿" 

جلال نے یاد کرنے کی کوشش کی وہ بیڈ پہ آڑھے ترچھے سوئے ہوئے تھے

"منیحہ اٹھو" 

اس نے منیحہ کو پرے دھکیلنے کی کوشش کی

مگر سر میں فردر کی ایک. تیز لہر نے اسے ماتھا چھونے پہ مجبور کر دیا

"what the hell is this?" 

منیحہ کا دوپٹا اسکے سر کے گرد لپٹا تھا جسے جلال نے جھٹکے سے کھینچ کر اتارا

خون کے چند قطرے اس پہ جم. چکے تھے اور اسکے ماتھے پہ گھومڑ سا بنا ہوا تھا

منیحہ کو احتیاط سے پرے ہٹاتا وہ اٹھ کر آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا 

"یہ کیا ہے¿" 

اپنی ابھری ہوئی نیلی پڑتی پیشانی کو اس نے اچنبھے سے چھوا

مگر دماغ میں کوئی خاص بتی نہ جلی 

پھر اس نے مڑ کر منیحہ کو دیکھا وہ ٹانگیں لپیٹے سو رہی تھی

منیحہ کے لیے لایا گیا کل والا تحفہ نیچے گرا ہوا تھا جلال نے اٹھا کر میز پہ رکھا وہ اسکے لیے موبائل فون لایا تھا 

مگر شاید وہ دیر سے آیا تھا کچھ خاص یاد نہ آنے پہ وہ سر جھٹکتا واش روم میں چلا گیا نہاتے ہوئے بھی وہ اپنی کل شام. کی مصروفیات کے بارے میں سوچتا رہا تھا پھر اسے یہ فکر بھی ہو رہی تھی کہ

جب وہ کل واپس آیا تھا تب پتہ نہیں منیحہ نے کیا سوچا ہو گا

"آئندہ کے بعد رات کو جلدی آ جایا کروں گا" 

جو بھی تھا اسے اب کچھ کچھ شرمندگی بھی ہو رہی تھی 

پتہ نہیں منیحہ نے کیا سوچا ہو گا¿¿¿

یقیناً اسے پتہ. چل گیا ہو گا کہ میں ڈرنک کرکے آیا ہوں 

شاید اسے نہ بھی پتہ چلا یو

ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی سو چکی ہو

لیکن یہ میرے سر پہ کیا ہوا ہے ¿¿¿

کیا کل میری کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی

لیکن سر پہ تو منیحہ کا دوپٹہ تھا کیا اس نے مجھے نشے میں دیکھا تھا¿¿¿

اففف میرے اللہ میں کتنا ڈفر ہوں 

اس وقت اسے یاد نہ تھا کہ نہ صرف وہ اسے نشے میں دیکھ چکی ہے بلکہ اسکا سر پھاڑنے کی  ذمہ دار بھی وہی ہے میڈم ہے 

نہا کر آیا تو دماغ کافی حد تک ٹھکانے پہ آ چکا تھا جو تھوڑی بہت شرمندگی ہوئی تھی وہ بھی اب ختم ہو چکی تھی وہ. کافی حد تک نارمل تھا مگر ایک بات اسے چھب رہی تھی

کیا کل وہ کسی کے ساتھ لڑ کر آیا تھا

اکثر شراب نوشی کے بعد وہ بدمست ہاتھیوں کی طرح ایک دوسرے سے ہی لڑ پڑتے تھے 

اسے ایک طرف کرتا وہ پھر سے بستر پہ دراز ہو گیا جلد ہی وہ. سو گیا 

کسی بھی بات ہو وہ اتنا نہ سوچتا تھا کہ. نتیجے اخذ کر پاتا وہ فورس نتیجہ اخذ کرتا یا پھر بات پہ مٹی ڈال کر پرسکون ہو جاتا

دوسری جانب منیحہ کی آنکھ کھلی تو جلال سو رہا تھا کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے تو اس نے محسوس کیا کہ دن چڑھ چکا ہے اور وہ نماز چھوڑ چکی ہے 

افسوس سے سر ہلاتی وہ بستر سے اٹھی

تبھی نظر پڑی کہ. جلال شاید نہا دھو کر دوبارہ. سویا تھا اس نے کپڑے تبدیل کر لیے تھے اور بال بھی گیلے تھے

ایل بار پھر سے اسکا دل کانپنے لگا

(ابھی یہ اٹھیں گے اور پھر جواباََ میرا بھی سر پھاڑ دیں گے) 

اس نے خود کو آنے والے وقت کی سنگینی سے باور کرایا

"یا اللہ یہ میں نے کیا کر دیا ¿" 

انتظار اور خوف کی سولی پہ لٹکی وہ نیچے آ گئی 

آنٹی نے اسے کچھ ناگواری سے گھورا

"میں تو سمجھی آج اٹھنے کا  ارادہ ہی نہیں" 

انکا تبصرہ سراسر طنزیہ تھا

منیحہ نے شرمندگی سے سر جھکایا

"جلال نہیں اٹھا ابھی¿" 

"جی نن نہیں" 

وہ. ہکلا کر رہ گئی 

(ابھی وہ عادت کے مطابق اٹھ کر نیچے آ جائیں گے اور پھر جلال تو جلال آنٹی ہی مجھے نہیں چھوڑیں گی) 

اسکا دل اسکے دماغ کو بھی ڈرا رہا تھا

چند ہی منٹوں میں اسکا سر درد سے چکرانے لگا

جو چائے وہ بنا رہی تھی اسے وہ پینا بھی نصیب نہ ہوئی 

(ابھی جلال غصے سے نیچے آئیں گے اور کام والی کے سامنے مجھے...) 

اس نے تصور میں خود کو. جلال. کے ہاتھوں پیٹتے پایا 

اسی طرح کے ہولناک خیالات نے اسے اپنی گرفت میں لیے رکھا 

خود کو مگن کرنے کے لیے وہ گھر کے کاموں میں لگ گئی ابھی چند پل ہی گزرے تھے کہ لاونج میں پڑے فون کا رسیور چیخا

"فون دیکھو منیحہ" 

آنٹی نے ٹی وی کی آواز کم. کیے بغیر چیخ کر کہا

وہ خاصی آرام پسند واقع ہوئی تھیں 

"ہیلو اسلام و علیکم" 

"وعلیکم السلام میری بچی کیسی ہے¿" 

دوسری جانب امی تھیں 

اس نے سکون کا سانس لیا جب سے وہ انکے گھر سے آئی تھی آبھی پہلی مرتبہ انکی آواز سن کر اچھا لگا

" میں ٹھیک ہوں خیریت آپ جے اس وقت کال کی¿" 

ایک دم. کسی برے خیال. نے اسے اپنے حصار میں لیا

" ہاں خیریت ہے بس میرا دل ہول رہا تھا"

" کیوں امی کیا ہوا ¿" 

اسکے اعصاب اب کچھ بھی برداشت کرنے کے قابل نہ تھے

"کچھ نہیں ہوا بس ساری رات سو نہیں سکی میں،، بہت برا خواب دیکھا رات کو تمہارے بارے میں "

انکی آواز میں بھی پریشانی اور فکر تھی

"کیسا خواب¿" 

اسکے منہ سے پھسلا

" بس یونہی تم بہت پریشان تھیں رو رہی تھیں،، پھر میری آنکھ کھل گئی تو اسکے بعد میں نے شکر ادا کیا کہ وہ خواب تھا،، مگر آنکھ نہیں لگی ساری رات،، تم ٹھیک تو یو نا؛ ¿"

انھوں نے اپنی رات بھر کی اذیت مناسب لفظوں میں بیان کی

اور منیحہ ششدر رہ گئی 

تو کیا. واقعی ماوں کو الہام. ہوتے ہیں 

اسے تو لگتا تھا اسکی ماں کو اس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے

تو پھر انھیں ساری رات نیند کیوں نہ آئی¿¿¿

شاید اس لیے کہ انکی بیٹی ساری رات نہ سوئی تھی اور اگر بیٹی تکلیف میں تھی تو ماں کیسے سو سکتی تھیں 

"آف اللہ میں کتنا غلط سوچ رہی تھی،، استغفراللہ" 

اس نے دل ہی دل میں اپنی غلطی تسلیم کی

"امی میں ٹھیک ہوں" 

بہت دیر بعد اس نے ماں کو تسلی دی

"اچھا چلو شکر ہے اللہ کا،، بس مجھے وہم ہو رہے تھے" انھوں نے سارا الزام اپنے وہمات کے سر ڈالا

منیحہ. کچھ نہ کہہ سکی

"اچھا جلال. کیسا ہے،، ناراض تو نہیں ہوا¿"

انھوں نے سابقہ. مسئلہ کا حوالہ دیا 

(امی پچھلےکو چھوڑیں جو اب میں کر چکی ہوں اس پہ تو قتل ہی کر دیں گے) 

اس نے خوف سے جھرجھری لی

" نن نہیں "

اسکے نہیں سے شاید اماں کی تسلی نہ ہوئی

"اچھا چلو تم. پریشان نہ ہو اللہ سے دعا کیا کرو وہ تمہارے دل میں اسکے لیے اور اسکے دل میں تمہارے لیے عزت اور محبت ڈالے" 

"جی" 

پتہ نہیں کیوں اس بات پہ اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے 

دعاوں میں کہاں کوئی کمی چھوڑی تھی اس نے

"منیحہ میری جان تم کوشش کرو گی تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا،، اور اس نے چاہا تو جلال راہ راست پہ آ جائے گا،،، ان شاء اللہ"

امی نے اسے شاید سمجھانا چاہا

مگر اسے لگا جیسے وہ اسے کوشش نہ کرنے کا الزام دے رہی ہیں 

وہ جو پہلے سے پل پل مر رہی تھی مزید الجھی

پھر پھٹ پڑی

"کوشش اور کتنی کوشش کروں میں امی"

 بیچ لاونج میں کھڑی آہستہ آواز میں جھنجھلائی

"امی میں دعا اور کوشش کر کے تھک گئی ہوں مگر نہ تو اسکا کوئی نتیجہ نکل رہا ہے نہ میری کوئی غیبی مدد ہو رہی ہے"

وہ ہار مان رہی تھی

جو کچھ رات ہوا تھا وہ اماں کو نہ بتانا چاہتی تھی مگر وہ مکمل. بے بس ہو چکی تھی کچھ بھی ٹھیک ہونے میں نہ آ رہا تھا

تھوڑی دیر تک دونوں جانب خاموشی چھائی رہی

"منیحہ ابھی تم ایک چیز بھول رہی ہو

جانتی ہو اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے جو سیڑھیاں چڑھنی پڑھتی ہیں تم ان کو نہیں چڑھ پا رہیں "

وہ حیران ہوئی

دعا اور کوشش کے علاوہ وہ کیا کس سکتی تھی

انسان کے ذمہ تو کوشش اور دعا ہی ہے نتیجے کی ذمہ داری تو اللہ کے سپرد ہے

"امی کونسی سیڑھی،، کیسی سیڑھی¿"

وہ شکل سے ہی نہیں آواز سے بھی اچنبھے کا شکار لگتی تھی

" منیحہ دعا، کوشش اور مدد کے درمیان ایک صبر کی سیڑھی بھی ہوتی ہے

تم اس پہ رک گئی ہو میری بچی صبر کرو اگر صبر بھی کر گئیں تو اللہ تمہاری غیبی مدد بھی کرے گا اور معجزے بھی ہوں گے تم کامل ایمان تو رکھو "

اسکے پاس الفاظ ختم ہو چکے تھے اسکے دماغ میں بس یہی بات گردش کر رہی تھی

دعا اور کوشش کے ساتھ صبر کرنا بھی ضروری ہے تبھی اللہ کی مدد پہنچتی ہے

چھوٹی چھوٹی باتوں پہ. جھنجھلانے والی اماں اب نجانے کیوں اتنی ٹھنڈے مزاج کی ہو گئی تھیں 

عجیب ہی تھا آجکل اسکی زندگی میں سب عجیب چل رہا تھا

بارہ اور پھر ایک بج گیا

"منیحہ کھانا بن گیا¿" 

آنٹی نے کچن میں جھانکا

وہ بمشکل وہاں کھڑی دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی

"اچھا،، جلال. کو تو جگاو کیا وقت ہو گیا ہے اور وہ ابھی تک سو رہا ہے" 

"جج جی میں ¿" 

وہ تو صبح سے دوبارہ اوپر گئی ہی نہ تھی

"ہاں تو اور کیا سکینہ جگائے گی اسے¿ 

انھوں نے الٹا سوال جھڑ دیا

" میں یہ ختم کر کے،،،، "

چولہے کی طرف اشارہ کر کے وہ اتنا ہی بول سکی

(یا اللہ میں کیسے جاوں¿) 

اسے اپنی موت قریب نظر آ رہی تھی

اسکا جی چاہا آنٹی خود ہی تنگ آ کر اوپر چلی جائیں 

اور ویسے تو شاید آنٹی بھی چلی ہی جاتیں مگر صبح کریم علوی جاتے ہوئے انھیں انکے لاڈلے کے کرتوتوں کے بارے میں نا صرف بہت کچھ سنا کر گئے تھے بلکہ اسکے رات کے حلیے و حالت پہ بھی خاصی روشنی ڈال کر گئے تھے 

اس صورتحال میں انھیں اپنا اسکے کمرے میں جانا بیکار ہی لگا اسی لیے منیحہ کو بھیجا

( یقینا وہ. نشے میں ہو گا اسی لیے ابھی تک نہیں اٹھ رہا) 

یہی سوچ کر وہ منیحہ کو جگانے کا کہہ کر پھر سے ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ گئیں 

"بھئی ہمارا کیا لین دین دونو میاں بیوی جانیں" 

انھوں نے خود کلامی کی

گویا اب جلال کی ساری حرکتوں کی ذمہ داری منیحہ پہ تھی

اور وہ اپنی جگہ مر مر جارہی تھی

(یا اللہ میں کیا کروں) 

اس نے اپنا چکراتا ہوا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں گرایا

جو بھی ہونا تھا وہ ہونا ہی تھا مگر اس وقت اسکی مثال اس کبوتر جیسی تھی جو خطرے کی وجہ سے آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا

لیکن آدھے گھنٹے بعد انکل. کے گھر آنے اور جلال. کا پوچھنے پر اسے جاتے ہی بنی

ڈر ڈر کر قدم اٹھاتی وہ اندر داخل ہوئی 

بستر خالی تھا چند پل. اسکے دماغ نے کام. کرنا چھوڑ دیا پھر اسے سمجھ آئی کہ جلال بستر پہ نہیں بلکہ واش روم میں تھا وہ اٹھ چکا تھا

پھر وہ معمول کی طرح پہلے نیچے کیوں نہیں آیا¿

ابھی وہ کچھ دیر کے لیے یہی سوچ رہی تھی جب اچانک واش روم. کا دروازہ کھلا اور گیلے چہرے کے ساتھ وہ تولیہ ہاتھوں میں پکڑے باہر آیا

لاشعوری. طور پہ منیحہ نے اپنا. چہرہ دوسری جانب موڑ لیا

وہ اس وقت اسکی نظروں سے بھاگ جانا چاہتی تھی

جلال نے اسکی یہ حرکت واضح ملاحظہ کی

پھر اس نے مڑ کر ٹیبل پہ رکھا وہ ڈبہ اٹھایا جس میں منیحہ کا تحفہ تھا 

"ادھر آو" 

اسے ہاتھ میں لیے وہ آئینے کے سامنے جا کھڑا ہو؛ا

مگر اسکی آواز منیحہ. کے کانوں میں یوں پہنچی جیسے کسی نے تپتا سیسہ ڈال دیا

"یا میرے اللہ) 

اس نے آنکھیں سختی سے بند کر کے آخری مرتبہ. کلمہ پڑھنا. چاہا

وہ دیکھ نہ سکتی تھی لیکن اسکا چہرہ. بلکل زرد ہو رہا تھا

دوسری جانب اسکے کوئی جواب نہ دینے پہ جلال نے حیرت سے اسے گھورا

" آواز نہیں آ رہی¿"

اب کی بار اسکا لہجہ کچھ سخت تھا منیحہ کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا

جلال نے مڑ کر اسکے سامنے خود پیش ہونا ہی مناسب خیال کیا

مگر اس سے پہلے کہ وہ. کچھ کہتا منیحہ کے نظر اسکے ماتھے پہ موجود اس نیلے گھومڑ پہ پڑی جس کے درمیان میں زخم کا چھوٹا سا نشان تھا 

اسکی اڑتی ہوئی سفید پڑتی رنگت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ہی جلال کو حیرت کا جھٹکا لگا وہ لہرا کر نیچے گر چکی تھی

منیحہ اسکے قدموں میں بری طرح ڈھیر ہو چکی تھی

منیحہ جلال کے قدموں میں گر کر بے سدھ ہو چکی تھی

"اسے کیا ہوا ایک دم"

وہ حواس باختہ ہو کر ادے جھنجھوڑ رہا تھا پھر حسب سابق و روایت اسکے اوپر پانی کا آدھا گلاس ڈالا تب جا کر اسے کچھ ہوش آیا

"مجھے یہ. سمجھ نہیں آتا،،، تمہارے ساتھ مسئلہ آخر کیا ہے ¿

اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر جلال نے سکھ کا سانس لیا 

منیحہ جبکہ ابھی تک سفید لٹھے کی مانند رنگت لیے زمین پہ پڑی تھی جبکہ سر جلال. کے گھٹنے پہ تھا

" یہ تم جان بوجھ کر کرتی ہو یا ہو ہی  اتنی نازک"

وہ الجھ کر رہ گیا پچھلے پندرہ. دنوں میں وہ دو شاید تین بلکہ لاتعداد بار بے ہوش ہو چکی تھی

ایسا جلال نے پہلے کبھی کسی کے ساتھ ہوتا نہ دیکھا تھا

"آئم سوری" وہ حجل یو کر دوپٹہ درست کرتی اٹھ گئی

جلال نے اسے گھورا (پتہ. نہیں میں کیا کہہ رہا تھا)

پھر اس نے یاد کرنے کی کوشش کی

مگر کچھ یاد نہ آیا کہ وہ اسے رات والا گفٹ دینے والا تھا

کپڑے تبدیل کرکے اسکی نظر پھر سے اس ربن شدہ تحفے پہ پڑی

"یہ میں تمہارے لیے لایا تھا" بستر پہ اسکے قریب پھینکا

ابھی کچھ دیر پہلے جو ہوا تھا اگر نہ ہوا ہوتا تو اس وقت وہ بڑے رومانوی انداز میں اسے اپنا کارنامہ. پیش کرتا لیکن ابھی تو منیحہ نے اسے اچھا خاصہ غیر آرام. دہ کر دیا تھا

"اٹھو تیار ہو جاو"

کچھ دیر بعد اسے حکم صادر کیا گیا تو وہ جو ذہنی طور پہ پوری. طرح چوکس بیٹھی تھی چونک کر جلال. کو دیکھا

"کیوں ¿"

سوال. لبوں سے پھسلا 

"ڈاکٹر کے لے جاوں تمہیں مجھے لگتا ہے بخار تمہارے سر میں چلا گیا ہے،، جس اوسط سے تم بے ہوش ہو ہو کر گر رہی ہو، بہت جلد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھو گی" 

وہ طنزیہ بولا 

"میں ٹھیک ہوں بس بی پی لو ہو گیا تھا" 

منیحہ نے فورا وضاحت دی، وہ اسکا سامنہ کرنے سے ہچکچا رہی تھی

مبادا جلال کو اسکا رات والا کارنامہ بیان کرنے کا موقع نہ مل جائے 

" اتنا تمہارا بی پی لو رہتا ہے،، تم کیا بلڈ پریشر کی مریضہ ہو¿"

جلال کا ماتھا ٹھنکا

"نن نہیں، لیکن پہلے بھی  کبھی کبھی بی پی لو ہو جاتا تھا میرا" وہ الفاظ توڑ توڑ کر ادا کر پائی

"کیا تم. پہلے بھی یوں دھڑام سے نیچے گرتی رہتی تھیں" 

وہ. سنجیدہ انداز میں پوچھ رہا تھا لیکن منیحہ کو اسکا انداز طنزیہ محسوس ہوا

" نہیں، تو"وہ حصوں میں جملہ مکمل کیا جلال نے محسوس کیا منیحہ اس سے آنکھیں نہ ملا رہی تھی

کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا

ابھی تک اسے یہ یاد نہ آیا تھا کہ رات کو. جو کچھ اسکے ساتھ ہوا تھا اس کارنامے کی ذمہ دار منیحہ بی بی ہی تھیں 

"ٹھیک ہے چلو پھر، یہ نہ ہو کل کو تم مر مرا جاو اور الزام میرے سر آئے" 

وہ بہت بد لحاظ ہو رہا تھا کہتا نیچے چلا گیا

(یا اللہ اب کیا کروں) 

منیحہ نے اللہ سے مدد طلب کی

پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق تیار ہو کر نیچے آ گئی نیچے نئی ہی عدالتی کاروائی چل رہی تھی 

آنٹی نے اسے سیڑھیوں سے اترتے مشکوک انداز میں دیکھا 

وہ پاوں پاوں چلتی انکے پاس ہی  ڈائننگ ٹیبل پر آ گئی 

"منیحہ اسکے سر پہ چوٹ کیسے لگی" 

کریم انکل نے اسے براہ راست مخاطب کیا

وہ ہڑبڑا کر رہ گئی 

"کہہ تو رہا ہوں کل رات دوستوں کے ساتھ لڑائی ہو گئی تھی" 

جلال نے ناگواری سے جواب دیا

وہ. نہیں چاہتا تھا بابا منیحہ کے سامنے اس مسئلے کو ڈسکس کریں یا سوال کریں کہ لڑائی کی وجہ کیا تھی

" لیکن رات کو تو تم بلکل ٹھیک تھے" انکل کو الجھن ہونے لگی

رات انھوں نے اسے ڈرنک دیکھا تھا لیکن تب وہ ٹھیک تھا

اب کہہ رہا تھا کہ کل دوستوں کے ساتھ چھوٹی موٹی لڑائی ہو گئی 

"مم مجھے نہیں پتہ" اس نے دانستہ نظریں ملائے بغیر جواب دیا

انکل نے ملامتی نظروں سے بیٹے کو گھورا جو نجانے کہاں سے چوٹ لگوا بیٹھا تھا مگر کچھ کہنے سے خود کو باز رکھا 

"جلال نیکسٹ ٹائم ایسا بلکل نہ ہو" ساتھ ہی اسے درپردہ وارننگ دی

وہ جو منیحہ کے کانپتے ہونٹ اور ہاتھ دیکھ رہا تھا باپ کی جانب متوجہ ہوا

"کیسا¿" 

پھر جان کر انجان بنا

"وہی سب جو رات کو ہوا آئندہ ایسا نہ. ہو" انھوں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زور دے کر کہا مطلب جلال.تک واضح پہنچ چکا تھا مگر وہ دانستہ نظروں کا رخ موڑ گیا سب دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے جلال کا ابھی ناشتہ ہو رہا تھا

مگر منیحہ ایک نوالہ بھی ڈھنگ سے نہ نگل سکی اسے لگا جلال کی شک کرتی نگاہیں اس پہ جمی ہوئی تھیں 

"وہ سب کیا تھا¿" 

کچن میں اسکے پیچھے کھڑا وہ محو سوال تھا منیحہ نے جھٹکے سے مڑ کر اسے دیکھا

وہ اسکے کھانا نہ کھانے کی وجہ پوچھ رہا تھا مگر وہ. کچھ او رسمجھی

"مم. میں نے کچھ نہیں کیا، قسم سے میری کوئی غلطی نہیں آپ خود گر گئے تھے" مجرمانہ انداز میں سر جھکا کر کھڑی وہ جیسے اعتراف جرم کر رہی تھی 

جلال کے دماغ میں بتی جلی

"کیا مطلب میں گر گیا تھا¿" 

بات جیسے اسکی سمجھ میں آ بھی گئی تھی اور نہیں بھی آئی تھی

اس نے تصدیق کرنا چاہی

" میں نے کچھ نہیں کیا آپ عجیب سے ہو رہے تھے، آپ سے بیٹھنے بھی نہی ہو رہا تھا پھر آپ گر گئے اور آپکو چوٹ آ گئی" اس نے سر جھکا کر جلدی جلدی اعتراف مکمل کیا جان سولی پہ ٹنگی تھی

جلال کے ذہن کی ساری بتیاں باری باری جل اٹھیں 

(مائی گاڈ اس نے  ڈرنکdrunk دیکھ لیا تھا مجھے) اپنے سر کی طرف جاتے ہاتھ کو اس نے فورا روکا

منیحہ نے اسکی خاموشی پہ کچھ پل. بعد ڈرتے ڈرتے اسکو دیکھا وہ اسے ہی گھور رہا تھا وہ فورا نظریں جھکا گئی

اور جلال ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا یہ پہلی بار ہوا تھا کہ منیحہ کو جلال کی شراب نوشی کا عملی نمونہ دیکھنے کو مل گیا تھا ورنہ اسکی جیت منیحہ کو ایسی حرکتوں سے لاعلم رکھنے کی تھی

(یہ تو ویسے ہی مجھ سے نماز نہ پڑھنے پہ بیزار رہتی ہے) وہ چپ چاپ اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس جا رہا تھا مگر اسکا ذہن بہت تیزی سے ان باتوں کو سوچ رہا تھا جو منیحہ نے اسے شراب کے باعث بے ہوشی ہی حالت میں دیکھ کر سوچی ہوں گی

جو بھی تھا اور جیسا بھی تھا مگر اسے یہ برا لگ رہا تھا

اسکی بیوی تک اسکی شخصیت کی ایک تاریک جہت واضح ہوئی تھی یہ اسکے لیے قطعی غیر آرام دہ تھا کیونکہ منیحہ صبح سے چپ تھی اور پھر وہ ٹینس بھی تھی اس نے کھانا بھی نہیں کھایا شاید اسی وجہ سے،شاید اسی وجہ سے وہ بے ہوش ہو کر گری تھی) 

وہ اوور تھنکنگ کا عادی نہ تھا مگر ابھی اسکا ذہن کڑی سے کڑی ملا رہا تھا 

اور وہ اس بات سے بلکل خوش نہ تھا  وہ خود سے بلکل خوش نہ تھا بلکہ دل ہی دل میں خود کو کوسے جا رہا تھا

دل کے اندر ایک. خواہش سی تھی کہ منیحہ اسے اچھا سمجھے اس خواہش کا خون شاید ہو چکا تھا

ہر مرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی نظروں میں ہیرو بنا رہے،

ہر مرد یہی چاہتا ہے کہ اسکی بیوی اسے اچھا، ایک. عظیم انسان خیال کرے

جلال کریم علوی کے اندر بھی یہ چھپی ہوئی خواہش تھی جسے وہ بظاہر کوئی نام نہ دے پا رہا تھا

دوسری جانب منیحہ کو یہ فکر لاحق تھی کہ  یقینا جلال سخت غصہ تھا اور وہ. اس وقت منیحہ سے یقیناً بدلہ  لینے کے بارے سوچ رہا ہو گا کیونکہ وہ گاڑی. بھی اچھے سے نہ چلا رہا تھا جسکا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ کچھ سوچ رہا تھا یا وہ غصے میں تھا منیحہ نے دانستہ اسکا چہرہ نہ دیکھا حتی کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی اسی ڈر کے باعث انکار نہ کر سکی

وہاں ایک اور معجزہ انکا منتظر تھا پہلے تو ڈاکٹر نے ان سے بھرپور تسلی کی کہ وہ. دونوں میاں بیوی ہی ہیں 

حتی. کہ. جلال کو غصہ آ گیا

"بی بی یہاں میرج رجسٹریشن کے لیے نہیں آئے،، انکی طبیعت خراب ہے یہ بار بار بے ہوش ہو کر گر رہی ہیں آپ انکا چیک اپ کیجیے"

اسکا انداز خاصہ طنزیہ تھا جیسے وہ. بمشکل خود پہ ضبط کر رہا ہو اسکا چہرہ دیکھ کر ڈاکٹر بھی فارمل ہو گئی

"جی. بے ہوش ہو کر تو گریں گی ہی نا،، اتنی ویک ہیں یہ اور اوپر سے اگر احتیاط 

نہیں کریں گے آپ. دونوں تو اس کنڈیشن ملمیں ایسا تو ہوتا ہی ہے"

ڈاکٹر نے جلال کو طنزیہ سنایا

" واٹ¿"

اسکی آنکھیں سکڑ کر چھوٹی سی ہو گئی تھیں اور آواز میں حیرت نمایاں تھی

"جی بلکل کیا آپکو نہیں پتہ کہ اس کنڈیشن میں آپ لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے، پیرنٹس بننے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ جے بس بے بی پیدا کر لیا،، اسکا. مطلب ہوتا ہے کہ آپ. کو ایک ذمہ داری دی جا رہی ہے اور یہ کہ آپکو اس ذمہ داری کے لیے سیکریفائس کرنا پڑے گا"

ڈاکٹر شاید جلال کے طنز کا موقع پہ. جواب دینا چاہتی تھی اسی لیے شروع ہی ہو گئی مگر جلال ابھی پچھلی بات پہ اٹکا ہوا تھا

"آپکے کہنے کا کیا مطلب ہے کہ کیسی کنڈیشن"

وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا

" کیا مطلب مسٹر علوی آپ اتنے بھی بچے نہی کیا آپکو نظر نہیں آتا کہ. آپکی وائف کی کنڈیشن کیا ہے،، کیا آپکو ایسے میں انکی صحت کے بارے میں کانشئس نہی ہونا چاہیے"

نوجوان سی خاتون ڈاکٹر جلال کو سنانے کا کوئی موقع جانے نہ دے رہی تھی جلال ہونق بنا کبھی اسے دیکھتا کبھی منیحہ کو جو نچلا لب دانتوں تلے دبائے سر جھکا کر بیٹھی تھی

" خیر میں یہ ٹیسٹ لکھ کر دے رہی ہوں باقی ڈیٹیلز تو اسکے بعد ہی پتہ چلیں گی"

اس نے نسخہ جلال کی جانب میز پہ گھسیٹا "لیکن فلحال آپ ذرا احتیاط کیجیے ورنہ بے بی کے ساتھ ساتھ مدر کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے

اسکی. آنکھوں میں دیکھ کر وارن کرتی وہ سر اٹھا کر اپنی کرسی پہ بیٹھی تھی

کوئی اور وقت ہوتا تو جلال وہیں دو دو ہاتھ کر لیتا مگر اس وقت وہ شاکڈ تھا

حتی کہ ٹیسٹ کرانے کے لیے بھی منیحہ کے ساتھ نہ جا سکا وہ خود ہی نرس کے ساتھ گئی اور واپس آ گئی جلال تب تک گاڑی کے پاس جا پہنچا تھا

گاڑی میں بیٹھ کر بھی وہ الجھا الجھا سا رہا 

پھر منیحہ کو دیکھتا وہ خاموش تھی مگر جلال کو. عجیب سا محسوس ہوا اسکے چہرے پر وہ. الجھن نہ تھی جسکا شکار جلال ہو رہا تھا 

"یہ کیا کہہ رہی تھی مطلب کیا یہ سچ تھا¿" 

آخر وہ مزید چپ نہ رہ سکا

"پتہ نہیں کنفرمیشن کے لیے ٹیسٹ کرایا ہے صبح رپورٹس ملیں گی" اس نے گود میں پڑے اپنے ہاتھوں کا طواف کرتے ہوئے کہا

"کیا مطلب،،، کیا تم یہ چاہتی ہو ¿"

وہ کچھ الجھا الجھا تھا منیحہ نے بھی  اس عجیب و غریب سوال پہ اسے الجھ کر دیکھا

"مطلب میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا تھا،، کیا تم خوش ہو"

وہ شدید نروس اور کنفیوز بھی محسوس کر رہا تھا مگر منیحہ اس طرح کیوں نہ لگ رہی تھی

"مجھے بھی اندازہ نہیں تھا"

وہ بمشکل سر اٹھا کر اتنا ہی کہہ سکی

جلال نے اسکی سرخ ہوتی رنگت بغور دیکھی

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے خوش ہونا چاہیے یا خوش نہیں ہونا چاییے

سارا راستہ وہ اسی کش مکش کا شکار رہا

"کیا ہوا ¿" 

گھر پہنچے تو

آنٹی نے دونوں کے سرخ چہرے دیکھ کر دریافت کیا

" شی از ایکسپیکٹنگ" وہ یکدم بنا کسی تمہید کے یوں بولا جیسے سارا جرم اسکے سر ڈال رہا ہو

"کیا¿" 

آنٹی کو حیرت کا جھٹکا لگنا فطری تھا

"ہاں ڈاکٹر نے یہی کہا ہے" وہ شکل سے ہی الجھا ہوا لگ رہا تھا جیسے ہقا بقا ہو

"اتنی جلدی" 

پتہ نہیں یہ سوال تھا یا تبصرہ مگر آنٹی کی بات پہ منیحہ زمین میں گڑ کر رہ گئی 

پھر انکل. بھی پہنچ گئے 

اور اصل مشکل  منیحہ کو اس وقت ہوئی جب آنٹی نے بنا کسی شرم و حیا کے انکل کو بھی موقع پر آگاہ کیا

 "کیا یہ سچ ہے¿"

انھوں نے بہو بیٹے سے تصدیق چاہی منیحہ تو سر ہی نہ اٹھا پائی 

جھجک اور شرم کے باعث ڈوب مرنے والی کیفیت ہو رہی تھی

جلال نے کندھے اچکائے 

"ارے واہ مبارک ہو میرے شیر" انکل نے بھرپور مسرت سے جلال آگے بڑھ کر گلے لگایا

جبکہ وہ سٹپٹا کر رہ گیا

پھر انکل تو جو خوشی کا اظہار کرنا شروع ہوئے کہ پندرہ منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا انکل کی باتیں، جلال کو میچیور ہونے کی وارننگ، پھر سے اظہار مسرت اور مستقبل کی طویل پلاننگ

اسکے ساتھ ساتھ آنٹی. کی. نگاہوں کا تاثر ایسا سخت تھا کہ منیحہ کو سمجھ نہ آئی. کہ کیسے وہاں سے غائب ہو جائے

اور جلال جو پہلے سٹپٹا رہا تھا بابا کے انداز دیکھ کر مزید مایوس ہوا

(چلو ماما بابا تو ہیں ہی ایسے، اتنے اکسائٹڈ ہو رہے ہیں یہ منیحہ سر کیوں نہیں اٹھا رہی¿)

وہ رہ رہ کر یہی سوچتا رہا حتی کہ سر جھکا کر اسکا چہرہ بغور دیکھنے کی کوشش بھی کی مگر تسلی نہ ہوئی بالآخر آنٹی کو محتاط ہو جانے کی پر زور تاکید کے بعد انکل نے انھیں اجازت دے ہی دی

جوں ہی انکل. بیرونی دروازے سے باہر ہوئے منیحہ نے اپنے کمرے میں بھاگنے کی کی

دروازہ بند کیا چادر اتار کر ایک طرف رکھی اور سکون کا سانس لیا

یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے نجانے کتنی مشقت کاٹ کر آئی ہو

مگر اسکا سکھ وقتی ہی تھا جلال. بھی فورا ہی کمرے میں آیا 

منیحہ دوپٹہ اتارے صوفے پہ پرسکون سی آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی

اسکی موجودگی محسوس کر کے ہڑبھڑا کر سیدھی ہوئی

اور چادر اٹھا کر کندھوں پہ پھیلانے لگی وہ عادت ہی سہی جلال کے سامنے بھی بنا دوپٹے کے نہ رہتی تھی سر پر نہ سہی کندھوں اور سینے پہ دوپٹہ ہمیشہ پھیلا کر رکھتی کمرے سے باہر تو سر بھی کور رکھتی تھی

جلال نے نا کبھی اس بات کی مذمت کی نا تعریف تو اسکی یہ عادت قائم تھی

"منیحہ یہ سب کیا ہے¿" 

وہ اسکے پاس ہی آ بیٹھا پھر اسکے جواب کا انتظار کیے بنا بولا

"مطلب یار حد ہے نا،،، ایسا کیسے،، مطلب یہ کیسے ہو سکتا ہے"

وہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہا تھا منیحہ نے کچھ حیرت اور بے چارگی سے اسے دیکھا

 "یہ سب کیا ہے منیحہ¿"

وہ اسکے دونوں بازو پہ گرفت کیے اسکے مقابل کھڑا ہو چکا تھا

منیحہ کا سر مزید جھک گیا، چہرہ الگ سرخ ہو رہا تھا

" مطلب یار مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ یہ سب کیا ہے"

وہ پھر بھی کچھ نہ بول سکی اور یہ اسکی سرخ ہوتی رنگت اور خاموشی ہی تھی جو جلال کو مزید کنفیوز کر رہی تھی

"کیا آپ کو بر الگا¿"

بمشکل وہ اتنا ہی کہہ پائی کیونکہ جلال اسے خفا لگ رہا تھا 

جلال نے مزید الجھ کر اسے دیکھا

"ہاں نہیں مطلب،، تم نے دیکھا نہیں وہ ڈاکٹر کس طرح بات کر رہی تھی،، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ چاہتی ہے میں تمہی دیکھوں بھی نا"

جلال کو اس ڈاکٹر پہ شاید زیادہ غصہ تھا مگر منیحہ اب بھی کچھ نہ بولی، نہ ہی اسکا سر اٹھا

اور ڈاکٹر سے زیادہ منیحہ کا یہ انداز جلال کو الجھا رہا تھا

(یہ اتنا بلش کیوں کر رہی ہے¿)

وہ سوچ کر رہ گیا

" تم خوش ہو¿"

مشکوک نظروں کے حصار میں رکھ کر پوچھا

" نہیں ، معلوم نہیں،، شاید" ایک سوال کے تین مختلف جواب دییے گئے

نفی

لا علمی

یا پھر نیم اقرار یا انکار

"مگر میں خوش نہیں ہوں" وہ آگاہ کرنے والے انداز میں بولا منیحہ نے اسے گڑبڑا کر دیکھا

"جی¿" 

کیا خوش ہونے یا نہ ہونے کی چوائس تھی اس معاملے میں ¿

وہ سمجھ نہ پائی 

" I don't want this,, means I haven't thought about this yet" 

(میں یہ نہیں چاہتا،، میرا مطلب میں نے ابھی تک اس بارے میں نہیں سوچا) 

منیحہ کی پھیلتی آنکھوں کے جواب میں اس نے واضح کیا

جبکہ اسکا جواب اور حتمی انداز منیحہ کے لیے بلکل غیر متوقع تھا

"جلال!"

اس نے حیرت سے جلال کا نام پکارا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا 

"آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ¿"

وہ. ابھی تک حیرت زدہ لگتی تھی

"منیحہ یار ابھی تو دس پندرہ دن ہوئے شادی کو، اللہ اللہ کر کے شادی ہوئی اب ایک دم. سے یہ مصیبت گلے ڈال لوں"

وہ پوچھ نہیں رہا تھا بلکہ بے رحمی سے اپنی منشا بتا رہا تھا

منیحہ ہزار جواب ہونے کے باوجود کچھ نہ بول سکی

(جلال شادی کے بعد یہ خوشخبری نعمت یا رحمت سمجھی جاتی ہے مصیبت نہیں

آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں 

کوئی آدمی اپنی بیوی سے ایسے کیسے بات کر سکتا ہے 

اپنی اولاد پہ خوش ہونے کی بجائے یہ شخص غصہ کر رہا ہے)

ایسے اور بھی لاتعداد سوالات اسکے ذہن میں گردش  کر رہے تھے مگر وہ چپ رہی اسکی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر جلال نے اسے وہیں چھوڑا اور خود واش روم میں بند ہو گیا پندرہ منٹ بعد وہ غسل کر کے باہر نکلا تب تک وہ فیصلہ کر چکا تھا

جبکہ منیحہ گم سم سی ابھی تک وہیں بیٹھی تھی

"ٹھیک ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا"

اس نے تولیہ سے سر کے بال رگڑتے ہوئے منیحہ کو تسلی دی

تو منیحہ نے چونک کر اسے دیکھا 

"تم فکر نہیں کرو،، سب ٹھیک ہو جائے گا"

اسے بے یقینی سے گھورتے پا کر جلال نے اپنی بات دہرائی

(شکر ہے نہا کر انکا دماغ کچھ ٹھیک ہوا ہے)

منیحہ نے بے اختیار شکر ادا کیا

وہ آئینے کی جانب رخ کیے کھڑا تھا ساتھ ساتھ بالوں کو. تولیہ کی مدد سے سکھا رہا تھا

شرٹ سے بے نیاز، جینز میں ملبوس وہ اپنے دھیان میں تھا

(اتنے برے نہیں ہیں نجانے ایک دم. کیا ہو جاتا ہے انھیں)

وہ اسکی پشت کو دیکھ کر خود کو تسلی دے رہی تھی

(شکر ہے ورنہ ڈرا ہی دیا تھا،، آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گے، انکل بھی کہہ رہے تھے اب  بچے کی ذمہ داری پڑے گی تو مزاج میں ٹھہرا بھی آ جائے گا)

وہ لا شعوری طور پہ نظریں اس پہ جمائے سوچتی چلی گئی 

وہ اتنا برا نہیں تھا جتنا اسکا رویہ برا ہو جاتا تھا

دیکھنے میں بھی کافی خوش شکل تھا،، اپنی ذات کی پرواہ بھی بہت کرتا تھا

بس مزاج میں کمی بیشی بڑی سخت ہوتی تھی

(کاش جلال جتنی آپکی صورت اچھی ہے اتنا آپکا دل بھی سیدھی راہ پہ ہوتا)

وہ سوچ کر رہ گئی

جلال اپنے شغل سے فارغ ہوا شرٹ زیب تن کی اور اسکی جانب مڑا 

"میں ماما سے بات کرتا ہوں تم ٹینشن نہیں لو"

پھر اسکا چہرہ تھپتھپا کر  کمرے سے نکل گیا

منیحہ نے سکون کا سانس لیا ورنہ صبح بلکہ. کل رات سے ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ ہوئے جا رہا تھارات  کو جلال کو اس حال. میں دیکھ لینا ہی اسکے لیے اعصاب شکن تھا اور اوپر سے جس طرح منیحہ نے نا چاہتے ہوئے ہی سہی اسے زخمی کر دیا تھا ساری رات اور سارا دن اسکی جان لبوں تک آئی رہی اور اوپر سے سونے پہ سہاگہ یہ "خوش خبری" اور اس سے بھی بڑھ کر انکل، آنٹی اور سب سے بڑھ کر جلال کا نا قابل فہم رویہ اسے تو اپنا آپ مجرم لگ رہا تھا

کچھ دیر وہ یوں ہی کمرے میں ٹہلتی رہی 

پھر آہستہ آہستہ اسکا ذہن معمول کی کیفیت میں آیا تو ایک ناقابل فہم سی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گئی

ایک عجیب سا احساس تھا جسے وہ کوئی نام نہ دے پا رہی تھی

جلال سے جو ساری ذہنی مایوس اسے ہوئی تھی وہ  یکدم کہیں پس منظر میں چلی گئی تھی 

بہت دیر وہ اس تنہائی میں بیٹھی پراصرار سا مسکراتی رہی پھر بستر پہ دراز ہو گئی حتی کہ شام. کے کھانے کی تیاری کے لیے آنٹی نے اسے نیچے بلایا تب جا کر وہ حقیقت کی دنیا میں واپس لوٹی

شرمندہ سی وہ نیچے آ گئی 

"کیا خیال ہے آج کھانا نہیں بنے گا¿" 

آنٹی نے عجیب سپاٹ سے انداز میں پوچھا وہ. منیحہ کو کافی ڈرا دیتی تھیں نا تو خوش دلی سے بات کرتیں نا بد دلی سے بس عجیب لیا دیا سا انداز ہوتا تھا انکا

انکل سے اسے ویسے ہی جھجھک محسوس ہوتی لے دے کر جلال ہی بچتا تھا اسکا بھی کبھی تولہ کبھی ماشہ والا مزاج تھا سننے پہ آتا تو سنتا ہی چلا جاتا اور اگر سنانے پہ آتا تب بھی بنا لحاظ کے کچھ بھی کہہ جاتا تھا 

اوپر سے اماں کا حکم تھا کہ اگر منیحہ کوشش کرے گی تو سب لوگ اسکے ساتھ اچھے ہو جائیں گے

(پتہ نہیں مجھے کتنی کوششیں کرنی پڑیں گی تب سب ٹھیک ہوں گے) 

وہ صابر تھی، انتظار کر سکتی تھی لیکن یہ اسکا سسرال تھا ایک عجیب سا خوف اسکے سر پہ سوار رہتا اوپر سے جس طرح وہ اس گھر میں آئی تھی وہ بھی حالات بھی کافی غیر معمولی تھے

شام تک وہ آرام سے کھانا وانا بنا چکی تھی

آنٹی نے ایک دفعہ سرسری سا ذکر کیا تو منیحہ کی جان فنا ہونے لگی

وہ. حیران تھیں اتنی جلدی سب کیسے ہو گا

اور اس بات کا تو منیحہ کے پاس بھی جواب نہ تھا

لیکن صد شکر انھوں نے خود ہی یہ ذکر ختم کر دیا

شام کے کھانے کے بعد چائے وغیرہ اور پھر باورچی خانے کی صفائی تک وہ کمرے میں نہ گئی لکن اس دوران دو غیر معمولی واقعات ہوئے 

اول انکل نے شام کو بھی دن والی خبر پہ خوشی کا اظہار کیا نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ اپنی جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکال کر منیحہ کے ہاتھ میں تھمایا 

وہ سر جھکائے شرم و حیا سے سرخ ہوتی بیٹھی رہی

دوم جلال کا رویہ بلکل معمول کا تھا

دن میں جس طرح وہ الجھن اور بے چینی کا اظہار کر رہا تھا اب اسکا شائبہ بھی نہ تھا 

منیحہ نے شکر ادا کیا

کم از کم اب اسے جلال کو تو وضاحتیں نہ دینی پڑتیں

وہ ٹی وی دیکھتے ہوئے اپنی ماں کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا جبکہ انکل اسے چھیڑ رہے تھے کہ اب اسکی ساری لاپروائی ختم ہو جائے گی ساتھ ہی ساتھ وہ منیحہ کو اس پر سختی کرنے کی تلقین بھی کر رہے تھے

پتہ نہیں ہمارے معاشرے میں لوگوں کو یہ کیوں لگتا ہے کہ جو لڑکا اپنے ماں باپ کی نہیں سنتا وہ شادی کے بعد نیک مومن ہو جائے گا

لڑکیاں تو گویا شادی نہیں کرتیں بلکہ کوئی مشن امپاسبل اپنے سر لیتی ہیں 

ایک بگھڑے آدمی کو سدھارنے، نیک بنانے اور راہ راست پہ لانے کا مشن امپاسبل۔

رات کو وہ کمرے میں آئی تو جلال حسب عادت اپنے موبائل فون میں مصروف تھا

اسے دیکھا بھی مگر کوئی نوٹس نہیں لیا وہ چپ چاپ وضو کر کے نماز پڑھنے لگی نماز پڑھ کر وہ بھی بستر پر آ گئی جلال تب بھی خاموش رہا

یہ پہلی بار ہو رہا تھا ورنہ اس وقت وہ مکمل طور پہ ایک محبتی قسم کے جان نچھاور کرنے والے شوہر کا کردار ادا کر رہا ہوتا

"تم ٹھیک ہو¿" 

وہ اسکی بے توجہی محسوس کرتی بستر پہ دراز ہو گئی

گھر کا کام کاج کوئی ایسا مشکل تو نہ ہوتا تھا مگر گھر کافی بڑا تھا اوپر سے وہ ذہنی طور پہ اس قدر الرٹ رہتی کہ رات کے اس پہر تک وہ اسکا جسم تھکن سے چور ہو جاتا اوپر سے جلال کو روز کوئی نہ کوئی مووی دیکھنا ہوتی یا پھر وہ کوئی موبائل گیم لگا کر بیٹھ جاتا کہ اسے تو رات دیر تک جاگنے کی عادت تھی کیونکہ وہ صبح دیر تک سوتا تھا ساتھ منیحہ کو رگڑتا

ابھی بھی اسکا سوال سن کر وہ بیٹھ گئی

"جی میں ٹھیک ہوں" 

پھر سے خاموشی کا ایک طویل وقفہ

"میں نے ماما سے بات کی ہے وہ کل تمہیں ڈاکٹر کے لے جائیں گی" 

اس نے موبائل ایک طرف رکھ کر اسے مخاطب کیا

"کس لیے¿" 

اسکے کان ایک دم کھڑے ہوئے 

"یہی اسی وجہ سے" جلال نے بیزاری سے اسکی جانب اشارہ کیا

"کیا مطلب¿

وہ سراپا سوال بن گئی

" مطلب سمپل ہے.. فلحال ہمیں بے بی ویبی کیا کرنا ہے جان چھڑا اس سے،، ابھی بہت ٹائم ہے بعد میں پلان کر لیں گے"

وہ کچھ خفا ہو کر کہہ رہا تھا 

"آپ کیا کہنا چاہتے ہیں "

اسکے دماغ نے جان چھڑانے کا جو مطلب اخذ کیا تھا وہ نا قابل یقین تھا

"یار منیحہ ابھی تو لائف میں بہت کچھ ہے کرنے کو، ابھی تو ہم نے ڈھنگ سے ہنی مون بھی نہیں منایا، ابھی سے اس مصیبت میں پڑ کر کیا ملے گا،، ہم ایک دو سال تک سوچ لیں گے بے بی کا ابھی نہیں "جلال نے اسے دونوں بازوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا وہ حیران سی یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی

" لیکن اب کیا کر سکتے ہیں یہ تو اللہ کا ڈسیژن ہے"

" فار گاڈ سیک اللہ کا کہاں سے آ گیا یہ ہماری اپنی غلطی ہے،، "

اس نے فوری تردید کی

" اور ابھی تو شاید کچھ ٹائم ہی ہوا ہے،، تم ماما کے ساتھ ڈاکٹر کے جانا آرام سے جان چھوٹ جائے گی"

یہ کیسا حل ڈھونڈ نکالا تھا اس نے منیحہ حیران رہ گئی وہ ایسی کیفیت کا شکار تھی کہ ایک لفظ نہ بول پائی

جلال جبکہ لائٹ آف کرکے بستر پہ دراز ہو چکا تھا منیحہ وہیں جمی رہ گئی گھپ اندھیرے میں اسے صرف ایک بات محسوس ہوئی جلال اس سے بلکل بے نیاز تھا یہ آج پہلی بار ہوا تھا

ورنہ وہ سوتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے کر سوتا تھا صبح تک وہ. اسی حیرت بھری بے چینی کا شکار رہی

پھر آنٹی نے کافی عام سے انداز میں بتایا کہ رات جلال ان سے ضد کر رہا تھا کہ منیحہ کو ڈاکٹر کے لے جائیں اور اسکی جان چھڑائیں

اور انکا انداز بتا رہا تھا کہ وہ شاید اس کے لیے رضامند تھیں 

منیحہ اپنے کمرے میں آ گئی جلال ہنوز سو رہا تھا

کچھ دیر وہ بے چینی سے صوفے پہ بیٹھی سوچتی رہی  ذہن میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے

پھر اس نے کچھ سوچ کر وہ ربن شدہ ڈبہ نکالا اس میں ایک برینڈ نیو سمارٹ فون تھا 

نکال کر منیحہ نے آن کیا اگلے پندرہ منٹ میں وہ اس موبائل کو قابل استعمال بنا چکی تھی

اور گوگل پہ اپنی ہی اولاد سے "جان چھڑانے" کے احکامات پڑھ رہی تھی

اور جوں جوں پڑھتی جاتی اسکی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں

اسلام بنا کسی شدید خطرے یا جانی نقصان کے اندیشے کے  اس قبیح فعل کی اجازت قطعی نہیں دیتا 

اور یہاں تک لکھا تھا کہ اگر شوہر بیوی کو ایسا فعل. کرنے پہ مجبور کرے تو بیوی پہ اسکی اطاعت لازم نہیں 

اور پیدائش سے قبل بچے کی حفاظت اور اسکا خیال. رکھنے کی ذمہ داری ماں کی ہے کیونکہ اللہ نے یہ ذمہ داری اسے امانتا سونپی ہے

ساتھ ہی ساتھ یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کر سکتے چاہے تم مفلس اور غریب ہی کیوں نا ہو

قرآن مجید میں واضح حکم یے

"" اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، بے شک ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں، یقینا انکا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے"" 

سورہ اسراء سورت نمبر 17 آیت نمبر 31

منیحہ نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا وہ اس وقت ایک ایسی مشکل میں پھنس چکی تھی جسکا اس نے کبھی گمان تک نہ کیا تھا

جلال کا غصہ اور ناراضی وہ نہ مول لے سکتی تھی

لیکن سوال یہ تھا کہ کیا وہ اللہ کا غصہ اور ناراضی مول لے سکتی تھی

جب کہ اللہ صاف الفاظ میں اس سے منع کر رہا تھا،، اسے ایک عظیم گناہ قرار دے رہا تھا 

کیا وہ اپنے شوہر کے خوش کرنے کے لیے رب کو ناراض کر سکتی تھی

کیا عورت بیوی کے روپ میں اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اسے اللہ اور اللہ کے بندے میں سے کسی ایک کا چناو کرنا پڑے

وہ بہت فکر مند تھی ڈاکٹر نے کہا تھا اسے ذہنی سکون اور کئیر کی ضرورت تھی 

جلال کہتا تھا کہ وہ اس "مصیبت سے نجات چاہتا ہے

آنٹی جلال کی خوشی چاہتی تھیں 

انکل اس بات سے پر امید تھے کہ جلال بچے کے آنے سے سدھر جائے گا

سب اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے

اور منیحہ کیا چاہتی تھی اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا 

اوپر سے ایک ایسا کام کرنے کی امید کی جا رہی تھی جس سے وہ اپنے بچے کے ساتھ ساتھ اللہ کی بھی مجرم ٹھہرتی اور نہ صرف یہ بلکہ تمام دنیا کی ماوں اور ممتا کے جذبات کے لیے ایک گالی بن جاتی 

بات تو چھوٹی سی تھی ابھی تو اسے اس بات کا مفہوم بھی واضح نہ ہوا تھا مگر پھر بھی وہ جلال کے موقف کی تائید کے لیے راضی نہ ہو پا رہی تھی

جلال بھی اٹھ گیا اس نے معمول کے برعکس منیحہ کو سرسری سا دیکھا تھوڑی دیر سستی سے دراز رہا پھر اٹھ بیٹھا واش روم گیاوہ عام طور پہ اس وقت اسکے کپڑے نکال کے اسکے ناشتے کی تیاری میں لگ جاتی 

مگر آج شاید وہ غائب دماغ تھی جلال اسے جہاں چھوڑ کر گیا تھا وہ وہیں بیٹھی رہی

 "تمہاری طبیعت پھر خراب ہے!" 

وہ استفسار کر رہا تھا منیحہ ہڑبڑا کر اٹھی

؛"نہیں، نہیں تو" وہ اٹھ گئی پھر اسکے لیے کپڑے نکالے اور اسکا ناشتہ بنانے کا کہتی نیچے جانے لگی

"رہنے دو تم،، ماما سے کہتا ہوں وہ بنا دیں گی" دروازے کی چوکھٹ پہ اس نے منیحہ کو روکا

"اور تم تیار ہو جاو تم لوگوں کو ہاسپٹل ڈراپ کر دوں گا" اس پہ ایک نگاہ ڈالتا وہ نیچے چلا گیا آج وہ کافی سنجیدہ تھا منیحہ چاہ کر بھی اس سے اس معاملے میں کوئی بات نہ کر سکی

جلال ناشتہ کر کے اسے بلانے کے لیے اوپر کمرے میں آ گیا تو حیران ہوا وہ وہیں بیٹھی تھی دراصل وہ جلال سے بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہی تھی

"چلو،، تم تیار نہیں ہوئیں ¿

" نن نہیں "وہ چونکی

" تو جلدی کرو کتنا ٹائم لینا ہے"وہ اپنا والٹ اٹھا کر جیب میں ڈالنے لگا منیحہ بیٹھی رہی جلال نے سوالیہ اسے دیکھا وہ سر جھکا گئی

اسی لمحے سے اسے ڈر لگتا تھا جب اسے جلال کی آنکھوں میں دیکھ کر اپنا موقف سمجھانا پڑتا

 "کیا بات ہے¿

وہ فورا سمجھ گیا تھا شاید اسکی طبیعت خراب ہے تبھی پوچھا

"جلال میں نہیں جاوں گی،، ہاسپٹل "بمشکل وہ کہہ پائی

" کیوں¿"

اسکے ماتھے پہ بل پڑے

" جلال یہ صحیح نہیں ہے،، یہ بہت بڑا گناہ ہے"

" کیا گناہ ہے "

اس نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا

" یہی جو آپ چاہتے ہیں،، ایک جان کا قتل کرنے کے برابر ہے یہ"

اسکی آواز کانپ رہی تھی، جلال نے برا سا منہ بنایا

" فار گاڈ سیک منیحہ قتل کہاں سے ہو گیا کس. نے کہا یہ سب تم سے"اس نے اپنا لہجہ نارمل رکھ کر کہا

" جلال اپنی ہی اولاد کی جان لینا وہ بھی اسکے پیدا ہونے سے پہلے یہ قتل ہی تو ہے اللہ کو جان بوجھ کر یہ عمل کرنا سخت ناپسند ہے" پہلی بار وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہی تھی

" پاگل ہو گئی ہو تم کونسی اولاد، تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں ت. کاری گود سے بچہ نکال کر کسی کو دے رہا ہوں " اسکی آواز یکدم بلند ہوئی

" یہ کونسا قتل ہو گیا کس نے تمہیں پاگل بنایا ہے،، یہ اولڈ ڈیٹڈ تھنکنگ سے جان چھڑاو اپنی"

وہ غصے میں آ چکا تھا منیحہ کا دل. خوف سے کانپنے لگا

" جلال یہ قرآن میں لکھا ہے کوئی بھی شخص اپنی اولاد کی جان. نہیں لے سکتا چاہے وہ. بہت. مفلس. ہی کیوں نا. یو،،آپ تو ما شاء اللہ بہت امیر ہیں "

اس نے سمجھانا چاہا 

" ہاں میرا باپ پرائم منسٹر ہے یہاں کا،، کونسی فیکٹریاں چل رہی ہیں میری،، اور بھئی بتایا تو ہے ابھی میں یہ ذمہ داری نہیں لے سکتا بور مردوں کی طرح میں بچے دودھ پیمپرز میں زندگی نہیں گزار سکتا فار گاڈ سیک، سمجھو میری بات"

وہ بری طرح خفا ہو رہا تھا

شراب پینے، عیاشیاں کرنے کے پیسے تھے اس کے پاس، گاڑی رکھ سکتا تھا لیکن بچے کے لیے باپ کا پرائم منسٹر ہونا یا فیکڑیوں کا چلنا ضروری تھا

کیسی عجیب سوچ ہے 

"یار میں کہہ رہا ہوں نا کہ ایسا کچھ نہیں ہے،، ہم بعد میں کر لیں گے بے بی پہلے مجھے سیٹل تو ہو لینے دو،،" اس نے اپنی آواز دھیمی کی

"لیکن جلال اللہ سخت ناراض ہو گا مجھ سے" اسے یہ فکر سب سے زیادہ تھی

"منیحہ یار میں ذمہ داری لیتا ہوں جو گناہ ہو گا مجھے ہو گا تم اسکی ذمہ دار نہیں ہو گی"

اس نے خود کو اس گناہ کی ذمہ داری کے لیے پیش کیا

منیحہ سوچ میں پڑ گئی

کیا واقعی وہ اللہ کے سامنے اس گناہ کی ذمہ داری لےگا¿

 لیکن اسکے دماغ نے فوری نفی کی

قیامت کا دن تو وہ ہو گا جب نہ اولاد ماں باپ کو پہچانے گی نا ماں باپ اولاد کو بلکہ چاہیں گے کہ کسی کے بھی بدلے بس انکی اس سخت عذاب سے جان چھوٹ جائے 

"جلال جیسا لا پرواہ انسان جو دنیا میں ذمہ داری لینے سے دور بھاگتا تھا آخرت میں اسکی ذمہ داری لیتا؛¿"

(نہیں منیحہ ہر گز نہیں)

کوئی اسکے اندر چیخا تھا باہر جلال مسلسل اسے تسلیاں دے رہا تھا 

اسکے خیال میں یہ عام سی بات تھی

روزانہ ہزاروں لوگ یہ کرتے تھے

اللہ انھیں کچھ نہ کہتا تھا تو منیحہ کیوں ڈر رہی تھی

" منیحہ پاگل ہو تم اب دنیا بدل گئی ہے،، لڑکیاں نجانے کتنی بار یہ سب کراتی ہیں اٹس ناٹ آ بگ ڈیل" وہ دنیا داری کا ماہر تھا وہ. جانتا تھا آجکل معاشرے میں کون کیا کیا کر رہا تھا مگر منیحہ کو تو دنیا سے کوئی لینا دینا نہ تھا

"جلال ہر کسی نے اپنے گناہوں کا حساب دینا ہے،، اپنے گناہوں کا حساب مجھے خود دینا ہو گا،، کوئی. میری جگہ حساب نہیں دے گا،، اور آپ کن لڑکیوں کی مثالیں سے رہے ہیں، وہ جو اپنے گناہوں کو مٹانے کے لیے یہ کبیرہ گناہ کرتی ہیں،، جلال ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا ہماری سب کے سامنے شادی ہوئی تھی "

وہ تو خود کو ایسی لڑکیوں سے ملائے جانے پہ ہی پھٹ پڑی تھی جو روزانہ. خفیہ طور پہ یہ سبکراتی تھیں اور اکثر اخباروں اور ٹیلی ویژن کی زینت بنتی تھیں 

" کیا جاہل عورت ہو تم  شادی کہاں سے آ گئی بس کہہ رہا ہوں نا مجھے فلحال بچہ نہیں چاہیے،، ابھی تو میرے سارے دوست کنوارے بیٹھے ہیں اپنی زندگی کا مزہ لے رہے ہیں اور تم چاہتی ہو میں ابھی سے ان مصیبتوں میں پڑ جاوں،،بس کہہ دیا تم جاو اور فلحال اس مسئلے کو ختم کرو ہاں اگر تمہیں بے بی چاہیے ہو گا تو ہم ایک سال تک اس بارے میں سوچیں گے ڈیٹس اٹ"اس نے بات ختم کرکے اسکی جانب پشت کر دی منیحہ نے بے بسی سے اسے دیکھا وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھا

اللہ جانے اسے بچے سے کیا کیا خدشات لاحق ہو گئے تھے ورنہ ہر شادی شدہ جوڑے کا اگلا گول تو بچہ ہی ہوتا تھا مگر جلال تو چڑ ہی گیا تھا

" جلدی کرو اور مت  بھولو کہ تم میری بیوی ہو میری ہر بات ماننا تم پہ فرض ہے" پھر اسے یہ طرہ امتیاز یاد آیا تو سمجھانا ضروری سمجھا

"جلال میں آپکی ساری باتیں مانوں گی"

وہ اسکی ساری باتیں ماننے پہ راض تھی وہ بولا

 "ٹھیک ہے پھر،،،"

مگر منیحہ نے جلال کی بات کاٹ دی

"لیکن میں یہ نہیں کروں گی،، میں یہ نہیں کر سکتی پلیز"وہ سرجھکائے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے بولی

جلال اس ڈھٹائی پہ حیران رہ گیا وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ آنسوؤں کی ندیاں بہاتی تھی آج کتنی ڈھیٹ اور ہٹ دھرم بنی تھی اسکے چہرے کے تاثرات سخت ہو گئے تنے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے منیحہ کو فیصلہ کن انداز میں گھورا

"ٹھیک ہے اچھی طرح سوچ لو،، اگر تمہارا فیصلہ بدل جائے تو ٹھیک ورنہ میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا" وہ ایک ایک لفظ پہ زور دے کر بولا منیحہ نے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنی چاہی مگر جلال نے ہاتھ اٹھا کر چپ رہنے کا اشارہ دیا

"سوچ لو تمہیں میرے اور اس -_____ میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا"

وہ ایک موٹی سی گالی دے کر اب اسکے جواب کا منتظر تھا منیحہ نے اپنا سر چکراتے ہوئے محسوس کیا

"دو دن ہیں تمہارے پاس اچھی طرح سوچ لو" 

کہتا وہ باہر نکل گیا 

منیحہ نے صوفے کی پشت کا سہارا لے کر خود کو زمین پہ گرنے سے بچایا

اسے کیا فیصلہ کرنا تھا اسے بلکل سمجھ نہ آ رہی تھی

جلال جا چکا تھا جبکہ منیحہ اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی 

اس نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اس پہ قائم تھی مگر جلال اسے کب تک قائم رہنے دیتا یہ سوچنے والہ بات تھی اسکی زندگی کے اگلے چند دن بہت تکلیف دہ ہونے والے تھے

شادی اور شادی شدہ زندگی اسکی توقع سے زیادہ مشکل ہونے والی تھی 

وہ نڈھال ہو کر بیٹھ گئی

پورا دن گزر گیا جلال گھر نہ آیا وہ سوچ سوچ کر پاگل ہوتی رہی نجانے اسکا ردعمل کیا ہوتا

رات کو وہ دیر سے آیا تھا انکل نے اسے سوال بھی کیا مگر وہ ڈھٹائی سے بغیر کوئی تسلی بخش جواب دئیے اوپر آ گیا منیحہ نماز ادا کر رہی تھی

جلال واش روم میں چلا گیا جب تک وہ واپس آیا منیحہ نماز پڑھ کر اب اس سے کھانا وانا پوچھنے کے لیے کھڑی تھی

"کھانا لاوں آپکے لیے" 

اس نے سوال کیا وہ صوفے پہ دراز ہو گیا "جلال آپ کھانا کھائیں گے¿" 

اس نے سوال دہرایا مگر جواب ندارد 

"کیا ہوا ہے آپ جواب کیوں نہیں دے رہے" وہ صوفے کے قریب آ کھڑی ہوئی وہ صوفے سے آٹھ کر وارڈ روب کی جانب چلا گیا

پھر جیب سے کوئی کاغذ نکال کر اسکے منہ پہ مارنے والے انداز میں بستر پہ پھینکا

منیحہ چند لمحے اسے خاموشی سے دیکھتی رہی پھر کاغذ اٹھا کر دیکھا اور بے یقینی سے اسے گھورا اسکی رپورٹس مثبت تھیں 

"جلال پلیز سمجھنے کی کوشش کریں" وہ اسے مکمل نظر انداز کر رہا تھا ساری توجہ میز پہ موجود خوشبو کی شیشیاں اپنے اوپر انڈیلنے پہ تھی

"بس" ہاتھ اٹھا کر منیحہ کو کچھ کہنے سے روکا

"جلال پلیز" منیحہ نے اسے بازو سے تھام کر روکا

"منیحہ خبردار پہلے اپنا فیصلہ کر لو پھر مجھ سے بات کرنا "اس نے منیحہ کی آنکھوں میں دیکھا انداز ایسا تھا کہ میری بات مان لو پھر جو کہو گی سن لوں گا"

دونوں چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے امید سے، آس سے پھر منیحہ اسکا بازو اپنی گرفت سے آزاد کر کے بستر پہ جا بیٹھی

یہ اسکا فیصلہ تھا جلال نے بے یقینی سے اسے گھورا پھر سر دائیں سے بائیں ہلا کر خود کو کنٹرول رکھنے کی کوشش کی

مگر یہ نا ممکن تھا سامنے موجود میز کو لات مار کر پرے کرتا وہ صوفے پہ جا گرا منیحہ بستر پہ بیٹھی رہ گئی

کمرے کی بتی جل رہی تھی جلال اپنے موبائل میں مگن تھا اور منیحہ اذیت کی انتہا پہ تھی وہ اتنی دیدہ دلیر نہ تھی کہ آرام سے جلال پہ تین حرف بھیج کر سو جاتی اگر اتنی دیدہ دلیر ہوتی تو شاید آج پرسکون ہوتی 

رات اسی طرح بیتنے لگی نجانے کس وقت جلال ہی نے اٹھ کر کمرے کی بتی بجھائی تھی وہ بستر پہ. جبکہ جلال صوفے پہ سویا رہا 

یہی انکا معمول بنتا گیا جلال صبح بنا ناشتہ کیے جاتا رات گئے گھر آتا

انکل اسے ڈانٹتے تو وہ کوئی نہ کوئی توجہیہ پیش کر دیتا 

منیحہ کے وہی معمولات تھے گھر کے کام کاج، کچن اور تلاوت قرآن پاک جو اس نے پہلے کی نسبت زیادہ کرنا شروع کر دی تھی

دراصل وہ اپنی زندگی کی پریشانیوں سے پناہ حاصل کرنے کے لیے قرآن پاک کا سہارا لیتی 

ایک اور اضافہ جو ہوا تھا وہ بار بار جی خراب ہونے اور الٹی اور متلی کی کیفیت کا رہنا تھا اسکی طبیعت کبھی کبھی اتنی خراب ہو جاتی کہ انکل نے آنٹی کو ڈانٹا اور وہ اسے ہسپتال لے کر گئیں 

ڈاکٹر نے اسے معمول کی کاروائی قرار دیا اور خطرے کی کوئی بات نہیں کہہ کر بات ختم کر دی

جلال کا وہی ضدی ہٹیلا پن تھا منیحہ بات کرنے کی کوشش کرتی تو وہ مشروط طور پہ بات کرنے کے لیے راضی ہوتا عجیب سی ضد سوار کر بیٹھا تھا ادھر منیحہ کی طبیعت  کچھ خراب ہوتی ادھر جلال کا پارا آسمان کو چھونے لگتا 

وہ چڑ جاتا اور ایسا عموما صبح کے وقت ہوتا 

"مجھ سے اس وقت بات کرنا جب میں تمہارے لیے اہم ہو‍ں گا" 

وہ سخت لہجے میں کہہ کر بات ختم کر دیتا 

(شاید انھیں اب مجھ میں دلچسپی نہیں رہی) وہ یہ سوچ کر پریشان ہو جاتی اپنے ماں باپ کے گھر بھی وہ کم ہی جاتی اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی مگر آخر کہاں تک کامیاب ہوتی 

(جو بھی ہو جائے میں اپنے بچے کا قتل کسی صورت نہیں کروں گی) 

شادی کے فقط ایک مہینے بعد اگر اسکا جلال. کے ساتھ گزارا تنا مشکل ہو گیا تھا تو ایک سال بعد تو شاید کچھ غیر معمولی ہو چکا ہوتا 

جلال کمرے میں آتا وہ بستر پہ ہوتی تو صوفے پہ بیٹھ جاتا،، صوفے پہ بیٹھی ہوتی تو بستر پہ بیٹھ جاتا موبائل میں نجانے کیا دلچسپ دنیا آ بسی تھی کہ اسکا سر اٹھتا ہی نہیں پھر کبھی کال آ جاتی تو وہ باہر بالکونی میں چلا جاتا جو بھی تھا اور جیسا بھی تھا مگر جلال کی ایسی حرکتیں اور خود کا نظر انداز کیا جانا اسے بلکل قبول نہ تھا دوسر ااب اسے جلال کی توجہ کی عادت بھی ہو گئی تھی بحثیت بیوی یہ اسکا حق بھی تھا مگر جلال شاید اسے سبق سکھا رہا تھا انکل اس سب سے آگاہ نہ تھے مگر آنٹی کو انداز ہ تھا کہ جلال منیحہ سے خوش نہیں 

"منیحہ اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو شوہر کو خوش کرے نا کہ وہ جسکی وجہ سے شوہر  گھر سے باہر رہنے پہ مجبور ہو جائے" 

آنٹی نے اس پہ طنز کیا وہ پی گئی 

(اگر اس کبیرہ گناہ میں اسکا ساتھ دوں تو آپکا بیٹا یقینا مجھ سے خوش ہو جائے) 

وہ زہر آلود سوچ اسکے لبوں پہ ہنسی بکھیر گئی

اس نے جلال اور اللہ کے حکم میں سے اللہ کا حکم چن لیا تھا 

(یا اللہ مجھے استقامت دینا، مجھے تنہا نہ چھوڑنا) 

وہ دن رات یہی دعا کرتی

ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی تسلی ہوتی کہ جلال کا رویہ جیسا بھی تھا وہ اسکے حقوق پورے کرنے کی کوشش کر رہی تھی 

اب بھی وہ آنٹی کا طنز پی کر کچن صاف کر کے کمرے میں آ گئی جلال اپنی ماما کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا وہ نماز پڑھنے کے لیے جائے نماز سنبھال کر کھڑی ہو گئی 

جلال کمرے میں آیا سرسری نگاہ اس پہ ڈالی

اور جوتے اتارنےگا

وہ ابھی ابھی واش روم میں گیا تھا اور اب اسکا فون مسلسل چلا رہا تھا بے ہنگم ٹیون نے رات کے اس پہر منیحہ کو مجبور کیا کہ وہ جائے نماز سے اٹھ کر فون سائلنٹ کر دے

"sweet heart calling"

منیحہ نے نا چاہتے ہوئے پھٹی آنکھوں سے فون اٹھا کر اپنے سامنے کیا

(شاید میں غلط پڑھ رہی ہوں)

اس نے بغور دیکھا جینز شرٹ میں ملبوس لڑکی کے جسمانی خدوخال بلکل واضح تھے اور واٹَس ایپ کال آ رہی تھی

واش روم کا دروازہ کھلا اور لاشعوری طور پہ فون سائیڈ ٹیبل پہ پھینکی وہ پرے ہٹی

جلال نے آ کر فون چیک کیا پھر ایک ناقابل فہم سی مسکان اسکے لبوں پہ کھیلنے لگی

منیحہ نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا

نچلا لب دانتوں تلے دبائے وہ میسج ٹائپ کر رہا تھا

پھر سے فون بجا اس نے کاٹ دیا

پھر تحریری پیغام،، پھر کال

پھر کچھ ٹائپ کیا گیا

وہ ضبط اور صبر سے یہ سب دیکھتی رہی

"میں کچھ دیر کے لیے کام. سے جا رہا ہوں تم سو جانا"

وہ شرٹ نکال کر پہنتا جاگرز چڑھاتا تیار تھا

"اس وقت¿"

رات کے ساڑھے دس ہو رہے تھے

"تمہیں اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے میں کب اور کس وقت کہاں جاتا ہوں" زہر آلود لہجے میں اسے اسکی اوقات یاد کراتا وہ باہر نکل گیا

وہ ساری رات کڑھتی رہ گئی 

صبح اسکی آنکھ کھلی تو وہ بستر کے دوسرے کونے پہ سو رہی تھی 

جی چاہا سارا لحاظ مروت ایک طرف رکھ کر اسے جھنجھوڑ کر کھڑا کر دے. 

اور سوال کرے کہ وہ رات کہاں گیا تھا اور شاید وہ اس ارادے کو عملی جامہ پہنا بھی دیتی مگر پھر اس نے خود اسکے اٹھنے تک کے لیے باز رکھا لیکن یہ وہ. طے کر چکی تھی کہ آج جلال سے ضرور بات کرے گی چاہے وہ غصے میں اسے دو چار جڑھ ہی دے

(اگر میں جلال کے ساتھ وفادار ہوں تو جلال کو کوئی حق نہیں وہ میرے ساتھ یہ سب کریں) 

رہ رہ کر غصہ بھی آ رہا تھا اور اپنی بے بسی پہ رونا بھی  وہ منتظر ہی رہی لیکن جلال بارہ بجے کے قریب جا کر اٹھا وہ بھی تب جب انکل نے اسے تیسری بار کال کی

"اوفوہ پاپا آ تو رہا ہوں" آنکھیں ملتا وہ کال کاٹ کر اٹھ بیٹھا 

آج وہ ہمیشہ کی طرح اسکی جانب متوجہ نہ ہوئی تھی یہ بات جلال کو محسوس بھی ہوئی

"میرے کپڑے نکالو" 

براہراست حکم جاری کیا گیا مقصد اسے چڑانا تھا 

(جی تو چاہتا ہے صاف انکار کر دوں) 

منیحہ سوچتے ہوئے بھی اسکے کپڑے نکالنے لگی وہ منہ ہاتھ دھو کر واپس آیا تو وہ کپڑے نکال چکی تھی

"جوتے اٹھا کر لاو" بلا وجہ کا سخت لہجہ مگر منیحہ بہادر بنی کھڑی رہی

"رات کہاں گئے تھے¿" 

نا چاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ تفتیشی تھا 

"کیا مطلب کہاں گیا تھا اب تمہاری اجازت لے کر. جاوں گا" اسکے سادہ سے سوال کا جواب خاصی بے زاری سے دیا گیا

"اجازت نہ سہی لیکن مجھے پتہ ہونا چاہیے نا کہ گیارہ بجے آپ کہاں گئے تھے" 

وہ عام. سے لہجے میں بولی جلال اسکی اس دیدہ دلیری پہ عش عش کر اٹھا

"میں کہاں اور کس وقت جاتا ہوں اٹس نن آف یور بزنس،، تم اپنی لائف انجوائے کرو" 

دو ٹوک سا نے مروت لہجہ منیحہ کے اندر کچھ ٹوٹا

" جلال آپ کی ہر بات اب میرا بزنس ہے"

اس نے اسے سمجھانا چاہا 

" اسی لیے،، اسی لیے میں کہتا کہ تم عورتوں کو اوقات میں رکھنا چاہیے ورنہ وہی ٹیپیکل قسم کے سوال. جواب شروع کر دیتی ہو"

وہ کھل کر اپنی ناگواری کا اظہار کرنے لگا

"جلال پلیز" اس ہتک پہ منیحہ نے جلال کو تنبہی  پکارا

" اپنی اوقات میں رہا کرو، یہ جو سب تم کر رہی ہو نا مجھے اس سےکوئی فرق نہیں پڑتا"ناک سکیڑتا اسکا جبڑہ پوری قوت سے دبوچ کر بول رہا تھا

" جلاااال"وہ بمشکل پکار سکی

"یہ کیا بدتمیزی ہے" اسکے چھوڑنے پہ وہ شاکی نظروں سے اسے دیکھتی بولی

"میں ایک اینڈپینڈنٹ اور آزاد زندگی گزارنے کا عادی ہوں اور کبھی میرے ماں باپ نے مجھ سے یوں تفتیش نہیں کی میرے آنے جانے کی،، تم کون ہو" وہ خوامخواہ میں بات کا بھتنگڑ بنا رہا تھا

"خواب میں بھی یہ مت سوچنا کہ میں تمہیں خوش کرنے کے لیے مولوی بن جاوں گا یا پھر نمازیں پڑھوں گا،تم. اپنی زندگی اپنے سٹائل سے جی رہی ہو میں اپنی مرضی سے گزاروں گا،، تمہیں اگر رہنا ہے رہو نہیں رہنا تو دفعہ ہو جاو یہاں سے لیکن اپنا منہ بند رکھو " 

اس تذلیل پہ اسکی آنکھیں موتیوں سے بھر گئیں جلال ایک ملامتی نگاہ اس پہ ڈال باہر نکل گیا

راستے میں آنے والی ہر شے کو ٹھوکروں پہ رکھتا وہ جلال کا شکار ہو چکا تھا

منیحہ کا جی چاہا ہر چیز کو فراموش کر کے بس اپنا سوچے اور اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے 

اس فیصلےپہ اس نے فوری عمل بھی کیا آنٹی کو بتاتی وہ اکیلی ہی گھر سے نکلی تھی یہ آج پہلی مرتبہ ہو رہا تھا. گر اسکا دماغ بری طرح 

فلوج ہو چکا تھا ایک تو جلال بے شرمی سے خود آدھی رات کو بنا کچھ بتائے باہر گیا اوپر سے باتیں بھی اسے سنائیں 

"جلال آپ بہت ظالم ہیں،، میں آپکو کیسے معاف کروں گی" 

وہ راستے میں سوچتی اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی 

اماں اسے دیکھ کر حسب توقع بہت حیران اور خوش ہوئیں وہ اتنے دنوں بعد جو آئی تھی 

پھر اسکی زرد ہوتی رنگت دیکھ کر انھیں کچھ انہونی ہونے کا احساس ہوا لیکن انھوں نے دانستہ خود کو باز رکھا 

اور منیحہ سے کوئی سوال نہ کیا 

مگر منیحہ زیادہ دیر صبر نہ کر سکی وہ اس بات کا بھی انتظار نہ کر سکی کہ اماں کھانا پکانے سے فارغ ہو لیں 

"امی مجھے بات کرنی ہے آپ سے" 

"ہاں ہاں کرو لیکن پہلے کچھ کھا تو لو" امی نے اسے بیٹھنے کا کہا وہ ناچار بیٹھ گئی

پھر ابھی وہ کھانا بنا ہی رہی تھیں جب سیمعون اور اسکا بھائی بھی آن وارد ہوئے 

وہ دونوں غیر متوقع طور پہ اسے وہاں دیکھ کر خوش ہو گئے سیمعون کی شوخیاں جاری تھیں جو کہ منیحہ کو بلکل اچھی نہ لگ رہی تھیں اس نے منیحہ کے برے موڈ کا بھی لحاظ نہ کیا 

حتی کہ اسی مصروفیت میں شام ہو گئی ابا بھی اسے دیکھ کر خوش ہو گئے اور ان مروتوں کو نبھاتی وہ اپنا مسئلہ کچھ دیر کے لیے بھول ہی بیٹھی

"منیحہ کیا ادھر ہی رکو گی¿" 

"سیمعون امی والا موبائل فون اٹھائے پوچھ رہی تھی منیحہ نے سوالیہ اسے دیکھا

" آنٹی کی کال. ہے پوچھ رہی ہیں کہ گھر واپس کیوں نہیں آئیں"سیمعون رسیور پہ ہاتھ رکھے چیخ کر پوچھ رہی تھی

" میں ادھر ہی رہوں گی"وہ خفا سے لہجے میں بولی تو اماں کے کان کھڑے ہو گئے 

"کہہ دو آنٹی کو آج ادھر رکے گی کل صبح آ جائے گی" 

امی نے بھی تصدیق کر دی سیمعون اگلے تین چار منٹ نجانے آنٹی کو کون کونسی کہانیاں سنا کر فون بند کر کے واپس لوٹی

پھر رات گئے اماں نے اسکی بات سننا گوارا کیا تب اسے احساس ہوا منہ اٹھا کر چلے آنا آسان تھا اور سیدھے سبھاو اپنا مسئلہ بیان کرنا از حد مشکل 

" امی اصل میں جلال کو، امی اصل میں میری طبیعت ٹھیک نہیں" 

وہ کہ کہہ سکی کہ جلال کو انکے ہونے والے بچے سے شدید مسائل تھے اور اس نے منیحہ کا. جینا حرام. کر رکھا تھا

"اللہ خیر کیا ہوا تمہاری طبیعت کو" 

"امی میں ٹھیک ہوں" 

وہ چڑ کر رہ گئی 

اور یہ بھی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اپنے اور جلال کے جھگڑے کا کیسے بتائے 

کیونکہ جھگڑے کی وجہ بتانی ضروری تھی اور فطری طور پہ اسے ماں کے سامنے حیا آ رہی تھی

مشرقی معاشرے کی عورت کو حیا گھٹی میں دی جاتی ہے 

وہ چاہے جو بھی کر لے اپنی شرم و حیا سے جان نہیں چھڑا سکتی کیونکہ حیا کسی بھی عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے اور بنا زیور کے عورت کہ تکمیل نہیں ہو پاتی

" امی اب میں کیا کیا بتاوں" 

وہ جھنجھلا کر رہ گئی 

"منیحہ میری بیٹی کیا ہوا ہے" 

امی کا تو ویسے ہی دل ہولنے لگتا

"اصل میں،، امی میں،، نہیں آپ اصل میں آپ امید سے،، نہیں مطلب آپ نانی بننے والی ہیں" 

پانچ کوششوں میں اس نے جملہ مکمل کر ہی لیا 

امی جو اسکی آپ اور میں کے بیچ جھول رہی تھیں حیران ہی رہ گئیں منیحہ نے کچھ الجھ کر انھیں دیکھا تو انکا سکتہ ٹوٹا پھر جو صدقے واری جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو منیحہ مزید اس موضوع پہ ایک بات بھی نہ کر سکی

مگر شکر ہے اماں نے آنٹی کی طرح یہ نہ کہا کہ

"اتنی جلدی ¿" 

وہ مجبوراً وہیں بیٹھی رہ گئی 

(صبح ضرور اماں کو بتا دوں گی،، اور اب میں اس گھر میں ہرگز نہیں جاوں گی جہاں میری کوئی عزت ہی نہیں) 

___________-__________

کریم علوی کافی دیر تو کمرے میں نیم درازرہے پھر باہر لاونج میں آ بیٹھے خلاف معمول آج ڈنر ابھی تک تیار نہیں تھا اورانکی بیگم بھی لاونج میں نظر نہ آتی تھیں 

"منیحہ کدھر ہے ¿" 

عموما منیحہ ہی اس وقت کچن اور ڈنر کے معاملات دیکھ رہی ہوتی تھی

"پتہ نہیں اپنے میکے سدھاری تھیں دن میں" انھوں نے کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا

"اچھا،، واپس نہیں آنا اس نے¿" 

انکل کو حیرت ہوئی منیحہ کم ہی اپنے ماں باپ کے گھر جاتی تھی

"پتہ نہیں مجھے تو یہی کہہ کر نکلی تھی کہ امی کی طرف جا رہی ہوں" 

"اچھا کال تو کرو" انھوں نے موبائل بیگم کی جانب بڑھایا 

" کرتی ہوں نا" 

انھوں نے ٹالنا چاہا

"ابھی کرو، پتہ تو کرو طبیعت تو ٹھیک ہے اسکی" 

انھیں اسکی طبیعت کی فکر ہوئی 

"وہ کہہ رہی ہے میں وہیں رکوں گی "

پانچ منٹ تک اسکی بہن سے گفتگو کرنے کے بعد انھوں نے شوہر کو اطلاع دی

" خیریت اس طرح تو نہیں جاتی وہ" 

کریم علوی کی حیرت برقرار تھی یا شاید وہ زیادہ سوچ رہے تھے

" بڑے موڈ میں گئی تھی "انھوں نے اسکا غصیلہ چہرہ یاد کیا

"کیوں تم نے کچھ کہا ہو گا"

علوی صاحب وہیں کھڑے تھے

"توبہ ہے آپ تو بال کی کھال اتارتے ہیں،، میں کیوں کچھ کہوں گی،، جلال نے کچھ کہا ہوگا،، وہ بھی ہر شے تہس نہس کر کے گیا ہے،، وہ سیڑھیوں کے پاس جو گلدان پڑا تھا جو آپ دبئی سے لائے تھے وہ بھی توڑ گیا جاہل" 

انھیں گلدان کا غم کھائے جا رہا تھا

 کہاں ہے یہ¿"

کریم صاحب کا پارہ چڑھا

"ابھی تک تو نہیں آیا" 

"کہاں ہو فورا گھر آو،، فورا" انھوں نے فورا جلال کو کال ملائی دوسری جانب وہ کوئی کہانی سنا رہا تھا جسے سنے بغیر انھوں نے کال کاٹ دی

آدھے گھنٹے بعد وہ گھر تھا

"منیحہ کے ساتھ کیا جھگڑا ہوا ہے تمہارا¿"

انھوں نے براہ راست سوال کیا

"میر اکیا جھگڑا ہوا ہے "وہ الٹا ان سے سوال. کر رہا تھا

" جلال میں تمہارا باپ ہوں تم میرے باپ نہیں ہو،، کچھ ہوا ہے تب ہی وہ بچی اتنی پریشان ہو کر گئی ہے" 

اسکے غیر سنجیدہ انداز پہ انھوں نے آنکھیں دکھائی 

" کیا مطلب کہاں گئی ہے"وہ واضح حیران ہو کر سنجیدہ ہوا

" اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہے" کریم صاحب نے لاڈلے بیٹے کو جتایا

وہ. حیرت سے انھیں بے یقینی سے دیکھ رہا تھا

" آئی سوئیر میرا جھگڑا نہیں ہوا

"

وہ صاف جھوٹ بول رہا تھا یا جان چھڑا رہا تھا

(او بے وقوف عورت سچ میں چلی ہی گئی) اس نے  دل میں سوچا اسے منیحہ سے اس اقدام کی امید نہ تھی

" جلال جھگڑا نہیں ہوا تو پھر صبح جو سب تم نے کیا وہ سب کیا تھا" 

انھوں نے گھورا 

تو وہ جو دل میں چور لیے بیٹھا تھا واضح گھبرایا

"پاپا میرا کوئی جھگڑا نہیں ہوا،، وہی فضول میں ٹیپیکل عورتوں کی طرح تفتیشیں کر رہی تھی" وہ لاپرواہی سے بولا

"تو بیوی ہے وہ تمہاری،، سوال کرنا اسکا حق ہے"

کریم صاحب منیحہ کی سائیڈ تھے

" پاپا فار گاڈ سیک بیوی ہے تو بیوی بنے،، تھانیدارنی نہ بنے،، کیوں گئے کہاں گئے،، رات کو دیر سے کیوں آئے،، یہ سب تو نہ کرے"

وہ جھنجھلایا

" ہاں تو ٹھیک ہے نا اب تم بیوی بچوں والے ہو اب تمہیں وقت کا خیال رکھنا چاہیے"

" پاپا فار گاڈ سیک کونسے بچے،، آپ نے تو مجھے عمر قید سنا دی ہے جیسے،، میں نہیں برداشت کر سکتا یہ انٹیروگیشن "وہ اصل وجہ صاف چھپا گیا جانتا تھا کریم علوی اچھی خاصی بےعزتی کریں گے

"ٹھیک ہے اگر تم انٹیروگیشن نہیں برداشت کر سکتے تو اپنی حرکتیں درست کرو"

کریم صاحب کو پوری امید تھی منیحہ جیسی صابر بچی جلال کو بدل ہی لے گی 

" ٹھیک ہے"

اس نے جان چھڑانے کو ہامی بھری

" ٹھیک ہے پھر کل جاو اور اس سے اپنی جہالت کی معافی مانگو" انھوں نے بات ختم کر دی

؛" واٹ پاگل ہو گئے ہیں آپ معافی مانگو¿،، اور میں؛¿"

اس نے سینے پہ ہاتھ رکھا اور یقین کرنا چاہا

"ہاں تو اور کون، تم. جاو گے اور اسے لے کر بھی آو گے اور اپنے رویے کی معافی بھی مانگ کر آو گے "انھوں نے اپنی طرف سے اسے تڑی لگائی 

" بابا میں کسی سے معافی نہیں مانگوں گا آپ نے مانگنی ہے تو جا کر مانگ کر آئیں،، میں کس چکر میں مانگوں" 

"وہ تمہاری بیوی ہے اور تمہارے بچے کی ماں بھی اور اب تم اسے صرف ایک  معمولی لڑکی سمجھنا چھوڑ دو"

" فار گاڈ سیک،، میں نے اسے نہیں کہا مجھے بچے پیدا کر کے دے،، بچے کی ماں نہ ہو گئی میری مالک ہو گئی"وہ تن فن کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا

جلال تو مکمل ڈھٹائی کا مظاہرہ کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن کریم صاحب کو تفکر کا شکار کر گیا

انھوں نے جلال کی تمام تر بے وقوفیوں کے باوجود اگر اسکی شادی منیحہ سے کروانے میں اسکا ساتھ دیا تھا تو اسکے پیچھے انکی یہی سوچ تھی کہ کسی سلجھے ہوئے غریب خاندان کی بچی اسکے ساتھ صبر تحمل سے گزارا کر لے گی لیکن جس طرح جلال نے شادی کے کچھ روز بعد پہ بے شرمی سے شراب نوشی کا سلسلہ ہگت سے شروع کر دیا یہ انکے لیے باعث شرم تھا

جبکہ وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ منیحہ کافی خد تک انکی توقعات پہ پورا اتری تھی

(یہ لاپرواہی لڑکا اپنی زندگی خراب کر لے گا)

وہ ساری رات یہی سوچتے رہے لیکن صبح 5ک وہ فیصلہ کر. چکے تھے کہ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر بات کریں گے 

اسی لیے وہ نو بجے منیحہ کو لینے پہنچ گئے ابا کام پہ جانے کو تیار تھے بہن بھائی جا چکے تھے

ایسے میں کریم صاحب کا آنا باعث مسرت تھا

دس پندرہ منٹ بیٹھ کر ابا کے ساتھ گپ شپ لگا کر انھوں نے منیحہ کو تیار ہونے کا کہا ابا تو ابھی تک منیحہ کی آمد کی وجہ سے بے خبر تھے اسی لیے انھیں تو کچھ محسوس نہ ہوا  مگر اماں کو منیحہ کی گھبراہٹ بہت کچھ سمجھا گئی انکل تو ویسے ہی ساری بات جانتے تھے

"منیحہ بیٹا جلدی کرو ابھی ہاسپٹل بھی جانا ہے،، آپکا اپائمنٹ ہے"

انھوں نے حوصلہ افزا انداز میں زور دے کر کہا تو منیحہ کو سمجھ نہ آئی انھیں اپنے فیصلے سے کیسے آگاہ کرے،، وہ تو واپس نہ جانے کا ارادہ کر کے آئی تھی

"منیحہ بیٹا چلی جاو" اماں نے کافی دیر اسے چپ بیٹھے دیکھ کر آخر مداخلت کی

" خیریت ہسپتال کیوں جانا ہے¿"

ابا نے مداخلت کی

"جی نن نہیں ویسے ہی" یہ منیحہ تھی جس نے فورا جواب دی مبادا انکل ان کو بھی قصے کہانیاں سنانے پہ نہ اتر آئیں 

"اماں" 

اس نے اماں کو شکایتی انداز میں پکارا اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی تھوڑی دیر بعد وہ ایک دفعہ پھر سے اماں سے ناراض ہو کر انکل کے ساتھ جا رہی تھی 

دوسری جانب کریم علوی کو پورا یقین تھا کہ منیحہ انھیں انکار نہ کر سکے گی

"منیحہ بچے آپ ٹھیک ہو¿" گاڑی میں بیٹھ کر وہ باہر گھورتے ہوئے مکمل چپ تھی کریم صاحب نے اسے خود سے مخاطب کیا 

"جی میں،، ٹھیک ہوں" 

وہ پھر سے باہر دیکھنے لگی اصل میں وہ اپنا اندرونی خلفشار قابو کرنے کی کوشش میں مصروف عمل تھی

"منیحہ آپ ناراض ہیں مجھ سے" 

انکل نے دھیمے لہجے میں شفقت سے دریافت کیا

"نہیں میں ناراض نہیں ہوں" وہ نروس ہوئی

"منیحہ بچے میں جانتا ہوں جلال کچھ بے وقوف ہے، کم عقل بھی ہے" 

انھوں نے تمہید باندھی

"اصل میں اسکا بھی قصور نہیں،، اسکے بگڑنے میں زیادہ قصور ہمارا ہے،، "

وہ اب مجرمانہ لہجے میں قبول کر رہے تھے

"اصل میں ہمیں ہم نے کبھی اس پہ سختی کی ہی نہیں،، یہی کہتے رہے کہ بچہ ہے، چھوٹا ہے "

انھوں نے منیحہ کو رخ موڑ کر کہا منیحہ گود میں رکھے اپنے ہاتھ مروڑ رہی تھی

" منیحہ تم یہ مت سمجھو کہ ہم اسکی حرکتوں سے آگاہ نہیں یا پھر کم اسکو ڈیفنڈ کر رہے ہیں" 

"جی" 

وہ یہی کہہ سکی

" تمہارے معاملے میں بھی،، میں بنا کسی شک و شبے کے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ تم. بہت پیاری اور صابر بچی ہو" انھوں نے سٹیرنگ سے ایک ہاتھ ہٹا کر منیحہ کے سر پہ رکھا  اسکا جی چاہا پھوٹ پھوٹ کر روئے مگر اس نے ضبط کیا

"منیحہ جلال کی شخصیت میں بہت سی کمیاں ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی اچھی لڑکی ایسی باتیں برداشت نہیں کر سکتی "

منیحہ کی آنکھوں سے اشک رواں ہو چکے تھے

"رو  نہیں منیحہ،، سب ٹھیک ہو جائے گا" 

 "انکل میں اپنی طرف سے سب اچھا کرنے کی کوشش کرتی ہوں مگر کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا وہ کبھی بھی خوش نہیں ہوتے"

اتنے دنوں سے جو بات اسے پریشان کر رہی تھی آج اسکے لبوں پر آ ہی گئی 

انکل چپ رہے یوں کہ اسے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا

"میں جب بھی یہ کوشش کرتی ہوں کہ وہ سب غلط حرکتیں چھوڑ دیں تب ہی وہ برا منا جاتے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتا میں ایسا کیا کروں کہ وہ سب ٹھیک ہو جائے" 

وہ بے بسی سے ہاتھ ہلا کر کہہ رہی تھی عجیب سی کیفیت تھی کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا کل جب وہ گھر چھوڑ کر آئی تھی تب بھی غصے کے زیر اثر تھی آج جب واپس جا رہی تھی تب بھی بے بس تھی 

بوجہ اس بے بسی کے اسکا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کر رہا تھا

"مجھے لگتا ہے وہ مجھے پسند ہی نہیں کرتے، وہ بدلنا ہی نہیں چاہتے" پھر اس نے اس ساری بات چیت کو بے مول جان کر گلہ کیا

"اچھا باقی تمہاری باتیں سب ٹھیک ہیں لیکن یہ تمہیں پسند نہ کرنے والی بات سے میں اتفاق نہیں کرتا،، پسند تو وہ کرتا بلکہ. پیار بھی کرتا ہے بس تھوڑا بے وقوف ہے "

( نہ صرف بے وقوف بلکہ کا ہنجار ہے لیکن میری بچی اب میں کیا کروں) 

آخری جملہ وہ صرف سوچ ہی سکے

"منیحہ میں صرف ایک بات کرنا چاہتا ہوں "

" جی¿"

کچھ دیر رونے کے بعد اسکا دل ہلکا ہو چکا تو وہ بولی

" تم جو بھی مسئلہ ہو مجھ سے بات کرو گی اور کبھی بھی پریشان نہی ہو گی" 

وہ منیحہ کی باتیں سننے کے بعد پرسکون محسوس کر رہے تھے

وہ. لڑکی جلال سے ہزار ہا بہتر تھی کم از کم گھر تو سنوارنا چاہتی تھی اور جلال کے لیے فکر مند بھی تھی

"منیحہ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں اور ایک بات کی میں گارنٹی دیتا ہوں وہ کچھ ہی عرصے میں بلکل ٹھیک ہو جائے گا،، بس ابھی اس پہ بچے کی ذمہ داری پڑے گی نا تو درست ہو جائے گا،، اس سے بڑے بڑے سیدھے ہو جاتے ہیں ، اولاد ہوتی ہی ایسی چیز ہے" 

(یہ اور بات کہ وہ نہ اپنے ماں باپ. کے لیے سیدھا ہوا نہ بیوی کے لیے،، پھر بھی امید رکھنے میں کیا حرج ہے) 

" جی"وہ اوپرے دل سے انکی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی

(کس بچے کی بات کر رہے ہیں انکل،، اس نے کیا بچے کے لیے سیدھا ہونا ہے،، آپکے بیٹے کو بچہ چاہیے ہی نہیں) 

وہ دونوں ایک دوسرے کو جھوٹی امیدیں لگا رہے تھے مگر یہ پھر بھی تسلی بخش تھا

پھر انکل اسے لے کر ایک اوپن ائیر ٹرک ریسٹورنٹ گئے وہاں منیحہ کے ناں ناں کرنے کے باوجود انھوں نے تگڑا سا ناشتہ آرڈر کیا

"چھوڑو ان ماں بیٹے کو بریڈ جام کھانے دو،، ہم سسر بہو ادھر سا اچھا ناشتہ کرتے ہیں" 

انھوں نے ہنس کر اسے تسلی دی وہ عام آدمیوں سے ہمخاصے مختلف مزاج کے تھے یا کم از کم وہ منیحہ کے ابا کی طرح کم گو نہ تھے  منیحہ کی آج پہلی مرتبہ ان سے اتنی لمبی باتیں ہوئی تھیں 

انکل واقعی زمانہ ساز تھے

نہ صرف زمانہ ساز بلکہ زمانہ شناس بھی، 

پتہ نہیں جلال کے معاملے میں اتنی لاپرواہی کیوں کی انھوں نے

"ویسے منیحہ بچے میں تمہیں ایک بات بتاوں" وہ اب خاصی بے تکلفی سے اس سے گفتگو کر رہے تھے جیسے آج دونوں کی بہت دوستی ہو

"جب میری شادی ہوئی تھی نا تب میں بھی ایسا ہی تھا" پراٹھے کی کترتی وہ رک گئی 

"مطلب کیا مطلب¿" اسے سمجھ نہ آ سکی وہ کیا کہنا چاہتے تھے 

"مطلب میں بھی جلال جیسا ہی تھا لا پرواہ کسی حد تک عیاش،،؛" انھوں نے نظر اٹھا کر منیحہ کا حیرت زدہ چہرہ دیکھا جہاں واضح رقم تھا

" پھر آپ کیسے بدلے¿"

،" مگر پھر تمہاری آنٹی نے مجھے بدل ہی دیا،، ویسے بڑا صبر کیا انھوں نے،، لیکن جب بلال (انکا بڑا بیٹا) دو سال کا ہوا تب وہ خاصی دلیر ہو گیی تھیں پھر مجھے زندگی کو سنجیدگی سے لینا ہی پڑا،،، اسی لیے کہتا ہوں جلال بھی سدھر جائے گا،، جب اسکا بچی اس سے ضد کرے گا کہ میں بھی پاپا آپکے ساتھ جاوں گا تو اسے خود ہی سمجھ آ جائے گی کہ جہاں وہ جاتا وہاں وہ اپنے بچے کو کے کر نہیں جا سکتا"

وہ سرسری سے انداز میں منیحہ کو مزید صبر کی تلقین کر رہے تھے

____==______

جلال دس بجے سو کر اٹھا تو حس معمول نیچے آ گیا

" خیریت آج تمہاری آنکھ اتنی جلدی کیسے کھل گئی "ماما نے اسے دیکھ کر طنز کیا ورنہ اسکا روزمرہ کا وقت گیارہ اور ساڑھے گیارہ کے درمیان ہوتا تھا

"میں تو کب سے اٹھا ہوا ہوں" 

منہ پہ ہاتھ رکھ کر جمائی روکتا وہ لاونج میں صوفے پہ ڈھے گیا

"پاپا کدھر ہیں" 

وہ تو صبح کی صبح چلے گئے تھے ناشتہ بھی نہیں کیا

" کیوں،، او اچھا زیادہ غصہ تھے ¿" پھر اسے رات والی اپنی ڈھٹائی یاد آئی

"نہیں بہت خوش تھے" ماما نے طنز کیا

" فار گاڈ سیک اب وہ عجیب و غریب باتیں کریں گے تو پھر ایسا ہی ہو گا" 

وہ ناک سے مکھی اڑاتا ہوا بولا

"کیا ارادے ہیں تمہاری بیوی کے دس بج گئے ابھی تک نہیں آئی"

ماما نے اس سے استفسار کیا

"پتہ نہیں گاڈ نوز" 

وہ بھی لاعلم تھا

"شو اتر گیا تمہارا ایک ہی مہینے میں،، کتنا کہا تھا میں نے کہ اتنی جلدی مت مچاو ایک سے بڑھ کر ایک لڑکیاں ہیں مگر تمہیں تو بس آگ لگی تھی" انھوں نے بے تکلفی سے بیٹے کو طنز کا نشانہ بنایا

" ہاں تو آپکو کیا ایشو میری لائف ہے میں اپنی مرضی سے جیوں گا" 

"لیٹس سی،، شی کین نیور میچ یور ٹیسٹ"ماما نے ناک چڑھا کر کہا تو جلال کی نگاہوں میں منیحہ کا خفا خفا چہرہ لہرا گیا

آدھے سے زیادہ وقت تو وہ خفا ہو کر خاموش ہی رہتی تھی اور باقی وقت وہ جلال کی باتوں پہ ہوں ہاں کرتی رہتی 

اور پھر جب کبھی جلال اسکی تعریف کر دیتا وہ وقت تو منیحہ کے لیے خاص طور پر کڑا وقت ہوتا تھا

"کیا ہوا اب پچھتا رہے ہو" ماما نے اسکی خاموشی کو اکسے پچھتاوے پہ محمول کیا 

"میں کیوں پچھتاوں گا،، میں ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں" وہ پوری ڈھٹائی سے بولا

تو انھوں نے بیٹے کو ملامتی نظروں سے دیکھا 

"آپ جائیں نا تو لے آئیں اسے" بہت دیر کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہنے کے بعد اسے خیال آیا

"واٹ،، میں کیوں جاوں،، آفٹر آل شی از یور وائف،، اور تم جانو تمہارے معاملات مجھ سے پوچھ کر تو شادی نہیں کی تھی نا مجھ سے پوچھ کر لڑائی کی تھی" 

وہ تو بھری بیٹھی تھیں 

جلال کو سخت مایوسی ہوئی 

،" جائیں گی تو آپ ہی" وہ ڈھٹائی سے انھیں چیلنج کرتا وہیں ڈھیر ہو گیا

" میں تو ہرگز نہیں جاوں تم جانو تمہارا باپ،، "

وہ اس سارے معاملے سے ہمیشہ لاتعلقی کا اظہار کرتی آئی تھیں 

" چلوں ٹائم پہ آفس تو چلا جاوں،،" تھوڑی دیر بعد اسے خیال آیا تو اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا

بظاہر لاپرواہی دکھنے والا جلال کریم علوی ساری رات شدید بے چینی کا شکار رہا تھا پتہ نہیں یہ عادت تھی یا ضرورت نگر اب اسے بھی منیحہ کو دیکھے بغیر چین نہیں مل رہا تھا اسکی موجودگی کو سرسری لینے والا اسکی غیر موجودگی میں بے آرام ہو گیا تھا 

مگر انا اسے جھکنے کی اجازت کہ دے رہی تھی وہ آج تک کبھی نہ جھکا اب اگر جھکتا بھی تو کس کے آگے 

اس منیحہ کے آگے جو اسکو ذرا اہمیت نہ دیتی تھی

ہر گز نہیں 

____________________________

شام کو وہ سخت بے چینی محسوس کر رہا تھا طبیعت بھی بوجھل سی تھی 

دراصل اسے کسی بھی بات کو سر پہ سوار رکنے کی عادت نہ تھی مگر منیحہ جس طرح ہر چیز حتی کہ موبائل بھی چھوڑ چھاڑ کر چلی گئی تھی اس سے وہ بے چین ہو گیا تھا اب اسی بے چینی نے اسے بخار میں مبتلا کر دیا تھا 

گھر پہنچ کر وہ سیدھا اوپر اپنے کمرے میں آ گیا 

مگر کمرے میں موجود شخصیت کو دیکھ کر اسے حیرت کا واضح جھٹکا لگا

وہ الماری کھولے کھڑی تھی

"آہمم" اس نے گلا کھنکار کر کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا

اور اس دشمن جاں کے انداز دیکھ کر تو وہ عش عش کر اٹھا

جس نے آواز پہ فورا پیچھے دیکھا پھر اسے پہچان کر کمال بے نیازی سے واپس اپنے سابقہ شغل میں مصروف ہو گئی 

"میرے کپڑے نکال دو" پانچ منٹ بعد وہ سراسر اسے مخاطب کرنے کی نیت سے رعب سے بولا مقصد اس سے گفتگو کا آغاز کرنا تھا 

. مگر خیرت اس وقت ہوئی جب وہ چپ چاپ اسکے کپڑے نکال کر صوفے پہ رکھ گئی 

دوسری ٹی شرٹ نکالو،، روز یہ پہن پین کے تھک گیا ہوں میں "انداز تحکم بھرا تھا 

وہ دوسری ٹی شرٹ نکال کر رکھ گئی 

(ہاو انسلٹنگ یہ بات کیوں نہیں کر رہی¿) 

جلال کے دماغ میں کھجلی ہوئی 

"واش روم میں رکھو یہاں تو نہیں چینج کروں گا "وہ. ناگواری بھرے طنز سے بولا 

منیحہ ضبط سے سب برداشت کر رہی تھی انکل نے کہا تھا جلال پیار کی زبان زیادہ آسانی سے مان لیتا ہے 

اب بحث مباحثے میں وہ نہ پڑنے کا فیصلہ کر کے آئی تھی (یہ جو بھی کہیں گے جو بھی کریں گے میں برداشت کروں گی کم از کم جب تک میرا بچہ صحیح سلامت اس دنیا میں نہیں آ جاتا) 

اس نے اپنے بڑھتے ہوئے دوران خون کو قابو کیا

ورنہ اسکی ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری برداشت سے باہر تھی

"ادھر آو" وہ اسکے کپڑے واش روم میں لٹکا آئی تو جلال نے اگلا حکم صادر کیا

دل کے انکار کے باوجود وہ قدم قدم چلتی اس تک آ گئی 

"بیٹھو" اپنے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا

وہ ایک لمحے کا توقف کر کے بیٹھ گئی  چہرہ ہنوز سنجیدہ اور سپاٹ تھا

"تم رات کو گھر کیوں نہیں آئیں ¿"

" بس ایسے ہی" یہ پہلا جملہ اسکے لبوں سے نکلا تھا

 "پچھلی دفعہ بتایا تھا نا کہ دن میں جا سکتی ہو رات نہیں رک سکتیں" 

(اور کل یہ کہا تھا کہ بے شک چلی جاو تمہاری ضرور نہیں مجھے) 

اسکے لبوں پہ آیا جواب بمشکل رک سکا

"جانتی بھی ہو میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر،، یار دن تو گزر جاتاہے رات نہیں گزرتی" شرٹ سے بے نیاز کیمل براون جینز میں ملبوس وہ شخص کس قدر خود اعتمادی سے پھر سے فلرٹ کر رہا تھا منیحہ یک ٹک اسے دیکھے گی پھر زہر آلود ہنسی اسکے لبوں پہ رینگ گئی

"مجھے وہاں رہنے کا دل کر رہا تھا تو رک گئی "وہ سرسری لہجے میں بولی

" میرے بغیر بور نہیں ہوتیں تم¿" 

اسکے گرد حصار بنائے بیٹھا وہ اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا 

(کس قدر آسانی سے تم سب کچھ بھول جاتے ہو) یہی خیال ایک بار پھر سے منیحہ کو جھنجھوڑ گیا

"نہیں میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بہت انجوائے کر رہی تھی)" 

وہ بظاہر سادے سے لہجے میں جتا کر بولی جلال کو البتہ اپنی محبت کا یہ جواب خاصہ ناگوار گزرا نگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا دروازے پہ دستک کے ساتھ ہی پاپا نے اپنا چہرہ دکھایا

منیحہ برقی رفتار سے اسکے قریب سے اٹھی

کریم علوی جلال کو دیکھ کر حیران ہوئے 

" تم کب آئے" 

"ابھی آیا ہوں" ماتھے پہ سجے بل ہنوز موجود تھے

"منیحہ بچے اچھی سی چائے تو پلاو،، اور تم نیچے آ کر میری بات سنو" 

وہ جو منیحہ کو کمرے سے نکالنے کی غرض سے آئے تھے بیٹے کو حکم دے کر واپس ہولیے

منیحہ فورا انکے پیچھے ہو لی جلال البتہ خوامخواہ میں دس منٹ لگا کر آیا 

منیحہ کے اس ٹھنڈے ٹھار انداز نے اسے ناگواری کی کیفیت میں ڈالا تھا

اوپر سے بابا نے جو احسان جتانے شروع کیے تو رکے ہی نہیں 

"ٹھیک ہے اب بس کر دیں احسان ہے آپکا جو آپ میری غلطیوں پہ پردہ ڈال کر اسے واپس لے آئے

میرا اور میری بیوی کا خرچہ اٹھا رہے ہیں 

مجھے آکسفورڈ میں پڑھایا(یہ طنزیہ کہا) 

اور پھر پی سی کے رائل ہال میں میری شادی کرائی" 

وہ ہاتھ باندھ کر بولا پاپا تو بچپن سے اب تک کی روٹیاں گننے پہ آ گئے تھے

" ہاں تو یہ تو میں تھا جس نے جیسے تیسے تمہیں یہاں تک. پہنچا دیا خود کچھ کر کے دکھا تو پتہ چلے آٹے دال کا بھاو"وہ برابر کے جواب دی رہے تھے

" اور یہ آخری دفعہ ہے جو تمہارا گھر بنانے کے چکروں میں میں خوار ہوا ہوں اگلی دفعہ مجھ سے ایسی امید نہ رکھنا اور اگر اس بچی کو مزید کوئی شکایت ہوئی تو تم میرا بہت برا روپ دیکھو گے"

وہ شاید آج پہلی بار اس سے اتنے سخت انداز میں بات کر رہے تھے 

جلال نے خاموش ہونے میں ہی عافیت جانی

" اب اگر تم نے آہنی جہالت کا مظاہرہ اس بچی کے ساتھ کیا تو میری طرف سے تم فارغ سمجھنا اپنے آپکو.. کیونکہ میں تمہاری وجہ سے مزید بدنامی افورڈ نہیں کر سکتا "اسکی خاموشی کو اسکی ڈھٹائی جان کر کریم علوی نے مزید کہا 

"اور یہ مت سمجھنا کہ جو تم. کرو گے مجھے اسکا علم نہیں ہو گا"

انگلی اٹھا کر وارن کیا

" اتنی سگھی ہے آپکی تو وہیں رہنے دیتے لے کر کیوں آئے ہیں،، میں تو ویسا ہی ہوں جیسا کل تھا"

وہ تن فن کرتا اٹھ گیا

" میں صرف تمہیں آخری موقع دے رہا ہوں" پیچھے سے کریم علوی صاحب کی آواز اسکے کانوں میں سنائی دی

" ہوں بچی کو تنگ کیا،، بچی نا ہو گئی کوئی مصیبت ہی ہو گئی"اپنے پیچھےکمرے کا دروازہ پٹخ کر وہ بڑبڑاتے ہوئے بستر پہ ڈے گیا حتیٰ کہ ماما کے بلانے کے باوجود کھانا بھی نہ کھایا 

منیحہ بے مروت کو بلانے بھی نہ آئی جلال کومزید برا لگا

"جہنم. میں جائے میری طرف سے،، میں تو مرا جا رہا ہوں اسے منہ لگانے کو"

" اور پاپا کو دیکھو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور وہ مجھ سے زیادہ عزیز ہو گئی" 

اسے رہ رہ کر دکھ ہو رہا تھا

ہمیشہ سے وہ اپنے گھر کا پرنس تھا اب ایک دن. منیحہ کہاں سے آ گئی تھی کہ پاپا اسے ڈانٹتے ۔

منیحہ کمرے میں آئی 

تو وہ اونچی آواز میں ٹی وی لگا کر بستر پہ اوندھے منہ دراز تھا 

وہ چپ چاپ وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھنے لگی جلال نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اور آواز کم نہ کی وہ بمشکل چار سنتیں ادا کر پائی

پھر سوچا جلال سے کہے کہ آواز کم کرے مگر خیال آیا نماز پڑھنا اسکا ذاتی فعل تھا جسکی ادائیگی کے لیے وہ جلال. کا فری وقت خراب کرنے کا حق نہیں رکھتی 

اسی لیے وہ جائے نماز اٹھا کر باہر چلی گئی جلال کے اچنبھے سے اسے دیکھا پھر اسے کافی دیر بعد اسکے یوں جانے کی وجہ سمجھ آئی پہلے وہ خجل ہوا پھر اسکا سنجیدہ اور خاموش چہرہ یاد کر کے ہنس دیا 

(وچ،، کہہ بھی تو سکتی تھی کہ آوازکم کر دیں، اکڑ تو ختم نہیں ہو سکتی اس عورت کی) 

وہ بڑبڑاتا رہا پھر وہ نماز ادا کر کے کمرے میں آئی جلال ہنوز فل والیوم پہ ٹی وی دیکھ رہا تھا یہ شاید اسکا احتجاج کا کوئی انوکھا طریقہ تھا

منیحہ کپڑے تبدیل کر کے کمفرٹر  اوڑھ کر سو رہی کمرے میں بتی جل رہی تھی،، ٹی وی کھلا تھا ایسے میں نیند کا آنا محال ہی تھا مگر ہو آنکھوں کو موند کو سونے کی کوشش کرنےلگی

جلال نے اسکی اس بے رخی پہ نا صرف ٹی وی کا والیوم بڑھایا بلکہ اے سی بھی آن کر دیا

منیحہ کو ٹھنڈ کا احساس ہوا کچھ دیر آنکھیں بند کیے وہ اندھوں کی طرح اس اچانک سردی کی وجہ سوچنے میں لگی رہی اے سی خنکی  بہت زیادہ تھی وہ مزید اپنے آپ میں سمٹ گئی جلال کی طرف سے رخ موڑے کروٹ لیے وہ بستر کے آخری کونے پہ ٹکی ہویی تھی

جلال نے اسکی اس ڈھٹائی کو ملاحظہ کیا

(جہنم میں جائے اگر اسے میری ضرورت نہیں تو میں کونسا مرا جا رہا ہوں،، کیسے احسان کر کے آئی ہے،، اسے یہ لگ رہا ہو گا کہ پاپاکی طرح میں بھی اس سے سوری کروں گا"

کریم صاحب نے جلال سے یہی کہا تھا کہ اسے سوری کر کے بمشکل لائے ہیں 

" نہیں تو نا سہی جہنم میں جائے مجھے لڑکیوں کی کمی ہے کیا"

اس نے خود کو تسلی دے کر گردن اکڑای

دوسری جانب منیحہ نے کمفرٹر سر تک اوڑھ کر خود کو اس بے موسم کی ٹھنڈک سے بچانا چاہا

جلال کے ذہن میں ایک شر انگیز خیال آیا کمفرٹر کھینچ کر وہ اپنے پیچھے گھسیٹتاصوفے پہ چلا گیا 

منیحہ نے حیرت سے نادانستہ مڑ کر اسے دیکھا تو جلال نے نظر انداز کر دیا چند پل وہ خود پہ ضبط کرتی رہی پھر الماری سے دوسرا کمفرٹر ڈھونڈ کر لائی جلال کا قہقہہ بے ساختہ تھا جبکہ منیحہ کا منہ پھولا ہوا تھا

"اب تمہیں مجھ پہ غصہ نہیں آتا؛ َ¿"

صوفے پہ اوندھے منہ دراز وہ مکمل توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا

"آتا ہے"

وہ سادہ سے لہجے میں بولی

"تو پھر اب تم روتی کیوں نہیں ¿"

وہ قہقہہ لگا کر دریافت کر رہا تھا

(کس قدر سنگ دل ہے یہ شخص)

"اب میں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ دوسروں کے غلطیوں کی سزا مجھے خود کو نہیں دینی چاہیے"

وہ جواب ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولتی اسے مزید دیوانہ بنا گئی

وہ جو صوفے پہ سونے کا ارادہ کر کے وہاں آیا تھا، صوفہ چھوڑنے پہ مجبور ہو گیا

جلال صوفے سے اٹھ کر بستر پہ آ گیا

"ایک دن میں اتنی عقلمندی کہاں سے آ گئی"

وہ اب ساری ناراضی بھلا کر اس کے ساتھ بے تکلفی برتنے لگا تھا

منیحہ نے سر جھٹکا

(یہ آدمی کمال کی یادداشت رکھتا ہے،، اپنی ہر غلطی فورا بھول جاتا ہے)

وہ اسے دل ہی دل میں داد دئیے بنا نہ رہ سکی

"بات سنو"

جلال نے دیکھا وہ بنا کوئی جواب دیئے دراز ہو چکی تھی تو اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا

"جی" وہ متوجہ ہو گئی

(یہ اتنی فرماں بردار کیوں ہو گئی ہے)

"پاپا پتہ کیا کہہ رہے تھے"

وہ اب اسکے سر سے سر جوڑے سیدھا چت دراز تھا

"ہممم¿"

وہ کچھ نہ بولی

"وہ کہہ رہے تھے کہ میں تم سے معافی مانگوں"

منیحہ کو حیرت ہوئی انکل جلال سے اس طرح کا مطالبہ کریں گے اسے اندازہ نہیں تھا 

جلال نے طویل خاموشی پہ سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ چھت کو گھور رہی تھی

"تم بھی یہی چاہتی ہو¿"

"اوں ہوں.، نہیں" وہ چونکی پھر فورا انکار کیا

(میں پاگل ہوں جو آپ سے ایسی کوئی امید رکھوں)

وہ خود پہ ہنسی

"اگر تم یہ چاہو تو میں سوری کر سکتا ہوں ¿"

وہ شاید آفر دے رہا تھا یا سوال پوچھ رہا تھا

منیحہ نے لاشعوری طور پر سر نفی میں ہلایا

"میں ایسا کچھ نہیں چاہتی"ساتھ ہی وہ اپنا ہاتھ جلال کے ہاتھ سے چھڑا چکی تھی

"منیحہ" بہت دیر کے بعد وہ بولا درحقیقت وہ اسکے یوں چلے آنے پہ شرمندہ ہوا تھا، منیحہ پھر بھی اسکا احساس کرتی تھی مگر اسے نجانے کیا ہو جاتا تھا

"منیحہ میں نے ایک بات سوچی ہے،، مطلب کل رات میں نے ایک بات سوچی"

وہ تمہید باندھ رہا تھا

(بڑی بات ہے آپکو بھی کچھ سوچنے کی توفیق ہوئی) 

اس نے دل ہی دل میں طنز کیا

"پوچھو گی نہیں کہ کیا سوچا¿" 

وہ شاید یہ محسوس کر رہا تھا کہ منیحہ اسے توجہ نہیں دے رہی

"آپ بتا رہے ہیں "

ٹھنڈا ٹھار سا انداز،، اس نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ جلال کی باتوں پہ نہ تو چڑے گی نا ہی بحث کرے گی

"ہاں میں کیا بتا رہا تھا،، میں بتا رہا تھا کہ کل میں نے سوچا کہ اب میں سارے فضول کام چھوڑ دوں گا" 

وہ بس اتنا ہی بول سکا

اپنی بیوی کے سامنے اپنی غلطیاں قبول کرنا عجیب سا لگ رہا تھا

(اللہ کی شان) وہ واضح حیرت کا شکار ہوئی

"مطلب میں اب سب غلط کام چھوڑ دوں گا،، شاید سب،، مطلب یہ دیر سے گھر آنا اور ڈ،، ڈرنک وغیرہ"

وہ بمشکل کہہ سکا پہلی دفعہ اپنے منہ سے قبول کر رہا تھا

"لیکن یہ مت سمجھنا میں یہ سب تمہارے لیے کر رہا ہوں" وہ ایک دم اسکے اوپر جھکا 

منیحہ بے ساختہ مصنوعی سا مسکرائی

"میں یہ سب اپنے لیے چھوڑوں گا،، اور پاپا بھی چاہتے ہیں کہ یہ سب چھوڑ دوں،، تو انکے لیے بھی"

وہ اب اپنی مردانگی کو حوصلہ دے رہا تھا

(بھلا بیوی کی کیا وقعت تھی کہ اسکے لیے وہ اپنے شب و روز بدلتا،، اب منیحہ اتنی اہم بھی نہیں ہے)اس نے خود کو تسلی دی

"اچھی بات ہے،، میں دعا کروں گی آپکے لیے"

وہ عام سے لہجے میں بولی مگر انداز بہت سچا سا تھا 

یقیناً وہ اسکے لیے دعا کرتی جلال چند پل اسکے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھے وہیں جما رہا پھر سر ہلا کر دور ہو گیا

"ہاں تم دعا کرنا،، مگر آئندہ کبھی مجھ سے تفتیش نہ کرنا"آخر میں وہ اپنی انا کو تسکین پہنچاتے ہوئے اسے وارن کرنا نہ بھولا مگر منیحہ حیرت اور خوشی سے سو نہ سکی

جبکہ جلال کچھ ہی دیر میں بے سدھ ہو چکا تھا (نیند اس شخص پہ کتنی مہربان ہے) اپنے برابر میں سوئے اس شخص کو اسکی جاگتی آنکھوں نے رشک سے دیکھا وہ جو عجیب سا انسان تھا بلا کا خود اعتماد، بلا کا محبتی اور بلا کا بد لحاظ بھی 

صرف چند ہفتوں میں اس نے جلال کے کتنے روپ دیکھے تھے

اسکا بے تحاشہ پیار اور توجہ،، اسکے سستے جان لیوا ایڈونچر(جب اس نے منیحہ کو پانی میں پھینک دیا، ایک لمحے کے لیے تو اسکی جان نکل ہی گئی تھی) 

اسکا اپنی ماں سے منیحہ کے لیے بحث کرنا،، دھڑلے سے "میری بیوی آپکی کام والی کی ریپلیسمنٹ نہیں ہے" کہنا

پھر اسکا جلال

اسے آدھی رات کو ہر صورت گھر واپس آنے کا حکم دینا

پھر بیک وقت اسکا غصہ اور اسکی بے قراریاں

اور سب سے بڑھ کر اسکا اپنے بچے کا ہی دشمن بن جانا

وہ اس آخری سوچ پہ کانپ کر رہ گئی 

"منیحہ اب بس کرو مجھے گھورنا" 

یکدم جلال نے آنکھیں کھول کر کہا اور  اسے ڈرا دیا

اسکا دل اچھل کر حلق میں آ گیا

"کیا ہوا" اسکے سینے میں موجود دل بے ہنگم انداز میں دھڑک رہا تھا

جلال بھی گھبرا گیا

"آپ نے مجھے ڈرا دیا" 

وہ بمشکل اپنی سانسوں پہ قابو کر پائی

"تو تم کبھی یوں مجھے جاگتے ہوئے دیکھو تو فائدہ بھی ہو" 

وہ ڈھٹائی سے آنکھ دبا کر بولا

"ساری فرصتیں تمہیں رات کو میسر آتی ہیں، وہ بھی تب جب میں سو رہا ہوتا ہوں " جلال نے اسے اپنی گرفت میں لیا 

وہ کسمسا کر پھر پرسکون ہو گئی

"منیحہ میں اپنی زندگی میں سکون چاہتا ہوں" کچھ دیر بعد وہ بولا تو اسکی آواز بہت گھمبیر تھی منیحہ کا دل اتھل پتھل ہو گیا

" میں چاہتا ہوں بس میری زندگی میں پیس ہو،، میں تمہارے ساتھ دور تک کا سفر کروں،، پہاڑوں پہ جاوں، میں تمہیں پوری دنیا میں ہر ہر اچھی جگہ لے کر جاوں،" 

وہ بہت سکون سے ٹھہرے ہوئے لہجے میں اپنے خواب اسے بتا رہا تھا

اور وہ اتنا حیران ہوئی ابھی صبح تک وہ کبھی دوبارہ جلال کا منہ نہ دیکھنے کا ارادہ کر رہی تھی

اب کس قدر پرسکون محسوس کر رہی تھی

" واقعی اللہ تعالٰی نے میاں بیوی کے اس رشتے میں سکون رکھا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس سکون پہ توجہ ہی نہیں دیتے،، اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہم اسکے لیے شکر گزار ہی نہیں ہوتے"

جلال نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا جبکہ منیحہ کا ذہن کہیں اور ہی سوچوں میں پرواز کر رہا تھا

"۔۔۔منیحہ اگر تم میرے ساتھ ماوئنٹ ایورسٹ پہ چلو تو تمہیں پتہ یے میں وہاں جا کر کیا کروں گا "

وہ پتہ نہیں کیا کہہ رہا تھا جب اسکے خاموش ہونے پہ منیحہ نے سوچوں کو الوداع کہہ کر اسے دیکھا

"کیا¿" 

"میں وہاں جا کر تمہارے لیے بہت ساری برف پگھلاوں گااور۔۔" 

جذباتیت سے کہتے وہ یکدم رکا

منیحہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا شاید وہ اسکے پینے کے لیے پانی پگھلانے کی بات کر رہا تھا پہاڑوں پہ برف جو ہوتی ہے 

اسکا ذہن اندازے لگا رہا تھا مگر جلال کی آواز نے رکنے پہ مجبور کر دیا

"میں بہت سا پانی پگھلا کر وہاں ایک تالاب بناوں گا اور پھر" 

 چہرہ موڑ کر اسے دیکھ رہا تھا منیحہ نے اسے منتظر نظروں سے دیکھا

(یہ آدمی اتنا برا بھی نہیں،، اسکے مستقبل کے ہر خواب، ہر اچھے پلان کا حصہ ہوں میں) 

بے اختیار یہ خیال منیحہ کے ذہن میں آیا

وہ سرشار ہو گئی

"پھر میں تمہیں اس پانی میں،،،، دھکا دے دوں گا" 

پر اسراریت سے کہتے ہوئے جلال کا قہقہہ بہت بلند تھا

(اففففف) 

اسکے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی 

وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکی جبکہ جلال مسلسل ہنسے جا رہا تھا

"اور پھر وہاں اگر تم بے ہوش ہوئیں تو میں تمہیں وہیں پھینک آوں گا" وہ کہہ کر پھر سے ہنسنے لگا

جیسے مزہ لے رہا ہو اسکی سابقہ کیفیت کا۔

(کس قدر گھٹیا مذاق ہے یہ) اس نے ناگواری سے سوچا 

اسکے بعد اسکا سکون ناپید ہو گیا

جلال کچھ دیر ہنسنے کے بعد اور چند مزید باتیں کرنے کے بعد سو گیا تھا مگر منیحہ ایک مجسمے کی مانند اسکی گرفت میں ساکت دراز رہی  ساری رات اسے برے برے خیالات آتے رہے کیسا عجیب شخص ہے بیٹھے بٹھائے اسے پوری دنیا گھما کر آخر پہنچایا بھی تو کہاں¿¿¿¿

"اس سے تو بہتر ہے میں ساری زندگی گھر ہی بیٹھی رہوں "

رات کے کسی پہر سے اس نے زیر لب کہا

اور اگلے کچھ  دن جلال نے واقعتاً شریفانہ ہی گزارے وہ وقت پہ  گھر آ جاتا،، نو بجے تک آ ہی جاتا تھا پھر گھر ہی رہتا اسکے ساتھ بھی گپ شپ لگاتا رہتا

بلکہ دو ایک دفعہ تو آفس سے اسے کال بھی کی پھر انکل نے اسے ایجنسی کے کسی کام سے دبئی بھیج دیا دو ہفتے وہ وہاں گزار آیا 

وہاں جا کر البتہ کال نہیں کرتا تھا 

دو تین دفعہ ہی کال کی 

منیحہ کے لیے یہ بھی کافی تھا شادی کے بعد ایک طرح سے اسکی زندگی ایک ڈگر پہ چلنے لگی تھی

منیحہ پرسکون تھی کم از کم اب بچے کو لے کر انکا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا تھا لیکن کسی التفات کا اظہار جلال اب بھی نہ کرتا تھا

بچہ انکے لیے ایک ممنوع موضوع کے حیثیت اختیار کر گیا تھا جلال نے خود سے کبھی اس بات کو نہ چھیڑا منیحہ بھی کوشش کرتی اسکے سامنے ہنستی مسکراتی رہے کیونکہ اگر کبھی اسکی طبیعت خراب ہوتی یا اسے پریگننسی کی وجہ سے متلی ہونے لگتی تو اسکی حالت دیکھنا جلال کے لیے خاصہ ناگوار ہوتا تھا 

وہ خوامخواہ غصے ہو جاتا 

آنٹی بھی بس اپنی دنیا میں مگن تھیں مگر اب منیحہ کو انکے رویے سے زیادہ تکلیف نہ ہوتی تھی وہ اپنا دھیان اس طرف سے ہٹائے رکھتی

وہ دو مہینے اچھے گزر گئے 

بلکہ جلال دبئی سے اسکے لیے کافی سارے تخائف بھی لایا تھا بہترین پرفیوم، لیڈیز کے اسیسریز اور کچھ ملبوسات گو کہ وہ جینز شرٹس نہ پہنتی تھی یا پھر رات کو سوتے ہوئے بھی معمول کے لباس ہی پہنتی تھی مگر جلال اسکے لیے اپنے ساتھ میچنگ نائٹ سوٹ لایا وہ خوش بھی تھی اور حیران بھی 

اس آدمی کے محبت کے اظہار کے طریقے بہت مختلف تھے وہ جانتی تھی کہ وہ چیزیں شاید کبھی اسکے استعمال میں نہ آتیں مگر پھر بھی وہ خوش تھی وہ خوش رہنا چاہتی تھی 

انکل البتہ اسکی صحت کے حوالے سے آنٹی اور جلال کو تاکید کرتے نظر آتے 

وہ کافی پرجوش اور خوش بھی تھے انکا کم عقل بے وقوف بیٹا، باپ بننے جا رہا تھا یہ انکے لیے باعث مسرت تھا 

انکے خیال میں جلال اچھی قسمت لے کر پیدا ہوا تھا جس نے بچپن سے لے کر اب تک جو چاہا وہی پایا اب اولاد بھی بنا کسی انتظار کے مل رہی تھی وہ جلال کے مستقبل کے حوالے سے پر امید تھے جبکہ وہ جو اچھا انسان بننے کے اپنے ارادے پہ خاصی حد تک قائم تھا اور شاید قائم رہتا بھی اگر وہ تاریک رات اسکی زندگی میں نہ آتی

جلال کل رات ہی آیا تھا اور اسکے بعد وہ گھر ہی رہا مگر اسکے دوست اسے مسلسل کال کر رہے تھے عباس اور صائم نے دبئی سے کچھ چیزیں منگوائی تھیں شاید وہ چاہتے تھے کہ جلال اسی وقت انکا سامان دے جاتا اسی لیے مسلسل اسکا فون بج رہا تھا

منیحہ نماز کی ادائیگی کے بعد بستر پہ آئی تو پھر سے اسکا فون بجنے لگا، غیر ارادی طور پہ اسکے کان کھڑے ہو گئے 

(یقینا کوئی ہوتی سوتی کال کر رہی ہو گی،، اتنے دن تشریف لے کر جو نہیں گئے) 

خالصتاََ بیویوں والا خیال اسکے ذہن میں سر اٹھا رہا تھا

"ہاں کرو بکواس۔۔۔" 

جبکہ دوسری طرف وہ تپا بیٹھا تھا موٹی سی گالی سے نواز کر بولا 

(کس قدر بدتمیز ہیں اب اللہ جانے کس کو ایسے القابات سے نواز رہے ہیں) 

منیحہ نے بے ساختہ جھرجھری لی

"کیوں تم لوگ کیا دو ہفتوں میں بدل گئے ہو،،" 

وہ شاید تھکا ہوا تھا اسی لیے بےزار تھا

" یار میں تم لوگوں کی طرح آوارہ کتا نہیں ہوں،، میرا گھر ہے اور ایک بیوی بھی" 

وہ اسے صائم کے فارم ہاوس آنےکا کہہ رہے تھے مگر آج اسکا بلکل موڈ نہیں تھا اسی لیے بد لحاظ بنا بیٹھا تھا 

اب ویسے بھی وہ ان لوگوں سے کم ہی ملتا تھا

دوسری جانب انھوں نے بھی شاید اسے کسی ایسے ہی القاب سے نوازا تھا جو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا

" یار ابھی نہیں صبح چکر لگاوں گا ابھی بہت تھکا ہوا ہوں،، کچھ ریسٹ کرنا چاہتا ہوں" 

پھر وہ دھیمے لہجے میں اپنی معذوری بیان کر رہا تھا دوسری جانب شاید کچھ ویسا ہی کہا گیا جو اس نے" شٹ اپ" کہہ کر کال بند کر دی

منیحہ کو البتہ اتنی تسلی ہو چکی تھی کہ وہ "کسی ہوتی سوتی" سے بات نہیں کر رہا تھا 

" جلال آپ بہت گالیاں دیتے ہیں "وہ پوائنٹ آوٹ کیے بنا نہ رہ سکی 

"لاتوں کے بھوت لاتوں سے ہی مانتے ہیں" 

وہ لاپرواپی سے بولا

پھر سیدھا چت دراز ہو گیا منیحہ البتہ معمول کے مطابق سونے سے پہلے کے مختصر وظائف پڑھنے کے بعد چاروں قل پڑھ کر اپنے ہاتھوں پہ پھونک کر ہاتھ پورے جسم پہ پھیر رہی تھی

" آج تم جو مرضی پڑھ لو،، مگر اس جن سے نہیں بچ سکتیں"

وہ قہقہہ لگا کر بولا

ایک دفعہ پوچھنے پہ منیحہ نے بتایا تھا کہ اس طرح انسان ساری رات جنات اور بلاوں سے مخفوظ رہتا ہے

منیحہ حیرت سے بس مسکرا ہی سکی وہ خود کو جن کہہ رہا تھا

(عجیب آدمی ہے یہ) 

وہ سوچتے ہوئے اپنی مصروفیات مکمل کرتی رہی 

اگلا دن بظاہر معمول کا تھا مگر انھیں اندازہ نہ تھا کہ. آنے والی رات کیا انہونی کے کر آنے والی ہے

دن میں اس نے منیحہ کو ایک دفعہ کال بھی کی تھی

شام میں دیر سے آنے کا ذکر بھی کیا تھا انکل نے کھانے کے دوران استفسار کیا تو منیحہ نے انھیں بھی بتا دیا 

مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ گیارہ بج جائیں گے اور وہ تب بھی نہیں آئے گا

دوسری جانب اسکے اتنے دنوں کے بعد جانے کے سبب دوستوں نے خصوصی دعوت کا انتظام کر رکھا تھا 

نہ چاہتے ہوئے بھی وہ وہاں رک گیا 

پھر جس وقت وہ گھر گیا اس وقت اسکی حالت بے حد خراب تھی عباس اسے اپنی گاڑی میں گھر ڈراپ کر کے آیا تھا بیرونی دروازہ چوکیدار نے کھول دیا اندرونی دروازہ کھلا ہوا تھا

اسے کسی نے کمرے میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا ورنہ سوال ضرور کرتا 

___________________________________

دوسری جانب انتظار کر کرکے منیحہ کی حالت خرابہونے لگی تھی باعث تشویش اسکا دیر سے گھر آنا نہیں بلکہ اسک اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ ہونا تھا اسکا دل کسی خدشے کے تحت دھک دھک کر رہا تھا بستر پہ ٹکنا محال ہو گیا تبھی ساڑھے بارہ کے قریب وہ کمرے کے دروازے پہ دستک سے چونکی برقی رفتار سے آگے بڑھ کر اس نے دروازہ کھولا

سامنے وہی تھا 

"جلال کہاں رہ گئے تھے آپ،، میں پریشان ہو گئی تھی" فوری طور پہ وہ اسکی ظاہری حالت پہ بھی غور نہ کر سکی

"پیچھے ہٹو" اسے پرے ہٹاتا وہ چوکھٹ پار کے کرے اندر داخل ہوا پھر صوفے پہ ڈھے گیا 

"جلال آپکو کیا ہوا ہے،، اور یہ کیا ہے" 

منیحہ کو اپنے آنکھوں دیکھے پہ یقین کرنا مشکل لھ رہا تھا اسی لیے ششدر سی اسی سے دریافت کر رہی تھی

"یہ،، یہ بہت اچھی ہے" اسکی زبان میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی وہ درست طور پہ بات نہ کر  پا رہا تھا

"جلال" منیحہ نے اسکا چہرہ تھپتھپا کر اسے ہوش میں لانا چاہا

" ادھر آو یہ دیکھو یہ م،، میں تمہارے،،،لیے لایا ہوں" وہ بمشکل بول پایا

منیحہ نے ہوا میں لہراتے اسکے ہاتھ سے بوتل چھیننی چاہی 

جسکا ڈر تھا وہی ہوا تھا جلال سے وعدہ ایفا نہ کیا گیا

"پھینکیں اسکو" وہ ناگواری سے اس کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کر رہی تھی

 "یو بچ،، تم خود کو بہت پاک باز سمجھتی ہو،،، تم کو لگتا ہے میں گھٹیا ہوں" وہ بوتل والے ہاتھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا منیحہ اسکے الفاظ پہ ہکا بقا رہ گئی 

"جلال پلیز" اذیت اسکے انداز سے عیاں تھی

"ادھر آو یہ دیکھو یہ تم بھی پیو" 

وہ مشکوک نظروں سے اسے گھورتے گھورتے یکدم اسے اپنی طرف گھسیٹ رہا تھا منیحہ صوفے پہ لڑکھڑا کر گری

"جلال پلیز چھوڑیں مجھے" اس نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کرانا چاہا

"تم اسکو دیکھو،، تمہیں،،، ببببہہہہت اچھا لگے،، گا" مگر وہ اسکے تڑپتے وجود کو آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا

یہ منیحہ کی زندگی کی سب سے زیادہ تاریک رات تھی 

"یہ پیو" وہ بوتل اسکے منہ سے لگاتے ہوئے بولا

" جلال پیچھے کریں اسے" ابکی بار وہ غصے سے بولی

"تم اسکو پیو"وہ بھی جوابات غصے سے دہاڑا بوتل میز پہ رکھ کر منیحہ کے مزاخمت کرتے ہاتھ پاوں کو بمشکل قابو کیا 

وہ اسکے قابو میں بے بس ہو چکی تھی اتنی سی دیر میں غصے، حیرت اور بے بسی کے باعث وہ ہانپنے لگی تھی

"یو بچ،، خود کو نیک سمجھتی ہو" 

وہ اب اسے طعنے دے رہا تھا پھر یکدم اس نے ایک گھٹنا منیحہ کی کمر پہ ٹکایا، اسکے دونوں ہاتھ دائیں ہاتھ میں دبائے اور بائیں ہاتھ سے بوتل اٹھا کر بہت سا غلیظ محلول اسکے اوپر انڈیل دیا

اسکی چیخ بہت بلند اور اذیت زدہ تھی جلال نے اسکے چہرے پہ دھاروں کی صورت میں بہتا محلول اپنے ہونٹوں سے چنا

مگر منیحہ کی چیخیں بہت دلخراش تھیں وہ بن آب کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی

کریم علوی اور انکی بیگم بھی گھر میں موجود ہلچل اور چیخ و پکار سے جاگ چکے تھے کمرے سے باہر نکلنے پہ انھیں احساس ہوا کہ یہ چیخیں اوپر جلال کے کمرے سے آ رہی تھیں 

کریم صاحب برقی رفتار سے سیڑھیاں چڑھ کر جلال کے کمرے کے سامنے تھے

انھوں نے بری طرح دروازہ دھڑدھڑایا

"منیحہ بچے دروازہ کھولا"

انھوں نے پھر سے دروازے پہ دستک دی 

ساتھ ہی کھا جانے والی نظروں سے بیوی کو گھورا جو خود پریشان نظر آ رہی تھیں

دوسری جانب دروازے پہ موجود دستک پہ شاید جلال دھیان نہ دیتا مگر پاپا کی آواز پہ اسکے کانوں پہ کچھ دستک ہوئی

"جلال چھوڑیں مجھے"

انکل کی آواز پہ اس میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑی جلال کا دھیان بٹا تھا اور وہ پوری قوت لگا کر اسے پرے دھکیلتی اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہو چکی تھی بنا دوپٹے کے ہی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی ورنہ آج تک ایسا نہ ہوا تھا کہ وہ یوں بے پردگی میں کمرے سے باہر نکلی ہو یا انکل آنٹی کے سامنے بھی گئی ہو

دروازہ کھلا تو کریم صاحب ششدر رہ گئے انکا لاڈلا اور سب سے زیادہ عزیز بیٹا صوفے پہ سیدھا بیٹھنے کے چکروں میں ہلکان ہو رہا تھا انکی بہو کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں

اور سامنے میز پہ پڑی وہ بوتل ساری کہانی اپنی زبانی سنا رہی تھی

"منیحہ" وہ بری طرح کانپتے ہوئے انکے سینے سے لگ گئی

"بس بچے پریشان نہیں ہو تم" انھوں نے اپنا بے بس لہجہ توٹتا ہوا محسوس کیا اسکے سر پہ دست شفقت رکھا مگر انھیں یہ سب بیکار محسوس ہو رہا تھا جلال صوفے پہ بیٹھا اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کے جتن کر رہا تھا

اور اسکی ظاہری حالت۔۔۔

"منیحہ تم باہر جاو"

"اسکو باہر لے جاو"

انھوں نے بیوی کو اشارہ کیا مگر منیحہ تو گویا انتظار کر رہی تھی وہ بجلی کی سی تیزی سے باہر کی جانب بھاگی اور سیڑھیوں کے پاس جا کر دم لیا

اسکا جسم ابھی بھی بری طرح کانپ رہا تھا اور وہ دہشت زدہ تھی

وہیں ریلنگ کے پاس زمین پہ بیٹھ گئی کریم صاحب نے آگے بڑھ کر جلال کو کالر سے پکڑ کر کھڑا کیا 

وہ حیران تھا اور کچھ پریشان بھی

"ڈوب مرو جلال،، ڈوب مرو" انھوں نے کھینچ کر ایک تھپڑ اسکے منہ پہ رسید کیا وہ چہرے پہ ہاتھ رکھے حیرت سے باپ کو دیکھ رہا تھا

 "آج تم نے مجھے اپنے ہی گھر میں شرمندہ کرا دیا ہے،،" وہ افسوس سے بولے

"تم میری توقعات سے زیادہ گھٹیا ہو،، مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے بیٹے ہو"

انھوں نے اسے ایک اور تھپڑ رسید کیا

اور پرے دھکیلا جلال اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور میز پہ جا گرا بوتل جو کہ کھلی ہوئی تھی نیچے گری اور محلول باہر بہنے لگا

"ڈوب مرو تم جلال"وہ اسے ملامتی نظروں سے دیکھتے باہر نکل گئے انکی بیوی جو انکے پیچھے کھڑی انھیں روکنا چاہتی تھی مگر انکے خوف سے خاموش کھڑی تھی 

انکے نکلتے ہی تیزی سے بیٹے کی جانب بڑھیں اور اسے سہارا دے کر اٹھایا

وہ بے سدھ تھا اپنا آپ سہار نہ پا رہا تھا 

دوسری جانب کریم صاحب نے منیحہ کو سیڑھیوں کے پاس گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھے پایا وہ بری طرح ہچکیوں سے رو رہی تھی 

"منیحہ" انھوں نے جھک کر منیحہ کے سر پہ ہاتھ رکھا وہ برقی رفتا سے چونک کر سیدھی ہوئی

"بچے یہاں کیوں بیٹھی ہو اٹھو تم نیچے والے کمرے میں جا کر سو جاو" 

انھوں سے اسے اٹھنے کا کہا اور خود وہیں کھڑے رہے منیحہ چند لمحوں بعد اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ لڑکھڑا گئی

"چھوڑ دو اس خبیث کو وہیں" پھر انھوں نے دہاڑ کر اپنی بیوی کو پکارا وہ بھاگتی ہوئی باہر چلی آئی تھیں 

" اس بچی کو لے جا کر نیچے لٹاو اور اسے کوئی میڈیسن دو" 

انھوں نے بیوی کو گھورا وہ نا چاہتے ہوئے بھی شوہر کے حکم کی تعمیل میں منیحہ کو لے کر نیچے چلی گئیں 

مگر پھر تھوڑی دیر میں انھوں نے دیکھا منیحہ کا دوران خون بہت کم ہو چکا تھا اسکے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ رہے تھے 

" اسکی طبیعت خراب ہو رہی ہے،، ڈاکٹر کو کال کر لی‍ں" 

وہ کچھ محتاط انداز میں کہہ رہی تھیں 

کریم صاحب کا اپنا بلڈ پریشر بھی بڑھ گیا تھا 

انھوں نے کال کرکے فیملی ڈاکٹر کو بلایا وہ آدھے گھنٹے میں وہاں موجود تھا مگر منیحہ کی طبیعت سنبھلنے میں نہ آئی تو انھیں اسکو ڈاکٹر کو لے کر جانا پڑا 

وہاں جا کر بھی چوبیس گھنٹے وہ پریشان ہی رہے حتی کہ انکل کو سلمان صاحب کو کال کر کے بلانا پڑا 

منیحہ صدمے کا شکار تھی اسی لیے بچے کو بھی خطرہ تھا کئی انجکشنز اور دواؤں کے بعد وہ خطرے سے باہر تھی 

اماں اسے دن رات تسلیاں دیتی رہتیں ڈاکٹر بھی یہی کہہ رہے تھے کہ وہ ذہنی دباو کا شکار ہے 

"منیحہ ٹینشن نہیں لو سب ٹھیک ہو جائے گا" وہ تین دن سے ہاسپٹل میں تھی انکل روز دن میں دو مرتبہ آ رہے تھے آنٹی بھی چکر لگا رہی تھیں

جلال صرف ایک مرتبہ آیا تھا وہ بھی بس چند منٹوں کے لیے

مگر منیحہ تو دنیا و مافیا سے بے خبر تھی

ابھی بھی اماں نے اسے تسلی دی

تو وہ خالی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انھیں گھورے گئی

"کل تم گھر چلی جاو گی،، "انکل نے اسکے سر پر. دست شفت رکھا

تو وہ ہسٹریائی انداز میں چیخی

"نہیں میں ہرگز اب اس گھر میں نہیں جاوں گی"

منیحہ نے وہاں جانے سے صاف الفاظ میں انکار کر دیا تھا ہسپتال سے چھٹی مل جانے کے بعد انکل اسے لینے آئے تھے مگر وہ بضد تھی کہ وہ اب اس گھر میں نہیں جائے گی انکا زرد چہرہ اور مسلسل دباو کے باعث آنکھوں کے گرد موجود حلقے اماں کو بھی اس مرتبہ چہ رہنے پہ مجبور کر رہے تھے

 "بھائی صاحب ڈاکٹر صاحبہ بھی کہہ رہی تھیں کہ کچھ دن اسکا ماحول بدلیں اور ابھی یہ خود بھی نہیں جانا چاہتی تو بہتر یہی ہے کہ اسے ابھی یہیں رہنے دیں" اماں نے مجرمانہ انداز میں درخواست کی

اور انکل خاموش ہو رہے منیحہ البتہ بجلی کی سی تیزی سے گاڑی سے نکل کر گھر کی چوکھٹ عبور کر گئی مبادا وہ لوگ اسے زبردستی نہ لے جائیں 

ابا ہمیشہ سے لاعلم تھے لیکن انکے دل میں بھی خدشات موجود تھے سونے پہ سہاگہ جب اماں نے انھیں جزوی طور پہ تفصیلات سے آگاہ کیا تو وہ بھی بیٹی کے ہمنوا ہو گئے "بے وقوف عورت ہم نے اسے بیاہا ہے وہاں کوئی بیچا نہیں کہ مجبور کر کے اسے وہاں بھیجیں"

انھیں صرف منیحہ کی طبیعت خرابی کا پتہ تھا جلال کی حرکتوں یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ ہنوز لاعلم تھے

دوسری جانب وہ جو پچھلے تین چار دنوں سے شاید شرمندگی کے باعث خاموش تھا منیحہ کے نہ آنے پہ. چونکا 

دو دن گزر گئے مگر گھر میں کسی نے بھی اسکو لانے کی بات تک نہ کی تب وہ مزید خاموش نہ رہ سکا اوپر سے مسئلہ یہ تھا کہ منیحہ نے فون بھی بند کر رکھا تھا

"پاپا،، آپ اسے لے آئیں اب" رات کے کھانے سے قبل وہ کمرے آیا اور لاونج میں بیٹھے باپ کو براہ راست مخاطب کیا بنا کسی تمہید کے

انھوں نے چونک کر لاڈلے کو دیکھا

"کیوں"

سوال چھبتا ہوا اور طنزیہ تھا 

وہ پریشان ہوا پھر سنبھل گیا

"کیا مطلب کیوں،، اب اسے آ جانا چاہیے جب ہاسپٹل سے آ گئی ہے تو وہاں رہنے کی کیا تک ہے"

جھنجھلا کر بولا

"ہاں اب اسے آ جانا چاہیے تا کہ پھر سے تمہاری جہالت برداشت کرے" انھوں نے اپنے غصے کو کنٹرول کیا

"پاپا" 

تنبہیی پکار تھی کریم صاحب کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی 

" کیا جلال،، تم شکر ادا کرو کہ اس بچی کو کوئی نقصان نہیں ہوا،، ورنہ اس وقت میں تمہارا دماغ ٹھکانے لگا دیتا "

وہ انگلی اٹھا کر زندگی میں پہلی مرتبہ اس سے اتنی سختی سے پیش آ رہے تھے 

کاش یہ سختی پہلے کر لی ہوتی 

"ٹھیک ہے،، اب جو ہونا تھا ہو گیا،، بات ختم اسے کر آئیں " حکم جاری کرتا وہ واپس اپنے کمرے میں جانے کے لیے مڑا 

اس وقت پاپا سے بحث کرنا بیکار ہی محسوس ہوا

" وہ یہاں نہیں آنا چاہتی اور نہ میں اس دفعہ اسے لینے جاوں گا، اگر وہ آنا چاہے گی تو آجائے گی،، اگر نہیں آنا چاہے گی تو وہیں رہے گی"

انھوں نے صاف انکار کیا 

انھیں ذاتی طور پر بھی اب جلال سے خوف محسوس ہونے لگا تھا یہ تو شکر تھا وہ وقت پہ منیحہ کو ہسپتال لے گئے اور بچے کی جان بچ گئی ورنہ جلال سے تو کسی بھی جاہلیت کی توقع کی جا سکتی تھی

" کیا مطلب کہ نہیں آنا چاہے گی تو وہیں رہے گی¿"

وہ تڑپ کر مڑا 

"مطلب وہی جو تمہیں سمجھ آ چکا ہے" جلال کا یوں کہنا کریم صاحب کو اچھا لگا کم. ازکم اسے احساس تو ہو رہا تھا کہ اسے اپنی غلطی کی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے 

(غلطی میری تھی پچھلی دفعہ ہی اگر منیحہ کو. نہ لے کر آتا تو چند. دن میں صاحب زادے کو اسکی قدر ہوتی ، چلو اب کچھ دن رہے تا کہ اسے احساس ہو بیویوں کو کس طرح رکھا جاتا ہے) 

وہ سوچ کر رہ گئے جلال انھیں خوش دیکھ کر تن فن کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا 

جبکہ وہ خوش فہمیوں بلکہ غلط فہمیوں میں ڈوبے رہ گئے

_______________________---__________

منیحہ کو یہاں آئے آج تیسرا دن تھا کافی حد تک وہ خود کو سنبھال چکی تھی ابا بھی اس سے بہت محبت سے پیش آ رہے تھے دوسرا انھیں نانا بننے کی متوقع خوشخبری کا بھی علم ہو چکا تھا 

ویسے بھی انھیں منیحہ باقی دونوں بچوں سے زیادہ عزیز تھی 

وہ لوگ کھانا کھا چکے سیمعون بحالت مجبوری چائے بنانے گئی تھی سلمان صاحب، اماں، منیحہ اور اسکا بھائی ٹی وی لگائے خبریں سن رہے تھے خبریں تو ابا سن رہے تھے وہ لوگ خبرنامہ ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے 

تبھی دروازے پہ زور دار دستک ہوئی سب کی توجہ ٹی وی سے ہٹ گئی

"جاو علی دیکھو جا کر" سلمان صاحب نے اکلوتے صاحب زادے کو روانہ کیا

تھوڑی دیر بعد آگے آگے جلال جو کہ تنے ہوئے نقوش لیے ہوئے تھا اور پیچھے پیچھے حیران علی تھا 

"آو بیٹا،، بیٹھو" سلمان صاحب اسے دیکھ کر ایک. لمحے کو گڑبڑا گئے 

وہ اس وقت اسکی آمد کی امید لگائے نہ بیٹھے تھے

جلال کے تاثرات کچھ نرم پڑے اور وہ بیٹھ گیا

"بھائی چائے لیں گے یا کافی بنا لاوں" سیمعون چائے لے آئی 

جلال نے نوٹ کیا منیحہ نے اسکی آمد پہ کوئی تاثر نہ دیا تھا وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کر رہی تھی

"نہیں میں چائے وائے نہیں پیوں گا" 

وہ انکاری ہوا

"میں منیحہ کو لینے آیا ہوں" پھر منیحہ کو ایک نظر دیکھ کر اپنا مدعا بیان کیا 

جوابات جن بے یقین. نظروں سے منیحہ نے اسکو دیکھا تھا وہ مزید حیران کن تھیں پھر منیحہ نے ابا کو دیکھا اسکے چہرے پہ ایک سایہ سا لہرایا

" میں نہیں جاوں گی"ڈرتے ڈرتے اس نے فورا انکار کیا مبادا ابا اسے جانے کے لیے ہی نہ کہہ دیں

"کیوں تم کیوں نہیں جاو گی" نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آواز میں ناگواری تھی 

"میں نہیں جاوں گی وہاں کسی صورت" اس نے جلال. کی بجائے ابا کو دیکھ کر ملتجی سے انداز میں کہا 

"کیا مطلب کسی صورت نہیں جاو گی،، یہ تمہارا گھر نہیں ہے اب تمہارا گھر وہ ہے اور تمہیں جانا ہو گا"وہ ایک لمحے کو بھول چکا تھا کہ اس وقت اپنے کمرے میں نہیں بلکہ منیحہ کے باپ. کے گھر میں کھڑا ہے 

غصے نے اسکا دماغ مفلوج کر رکھا تھا 

پہلے پاپا اور اب منیحہ 

دونوں اسکی بات سننے کو تیار نہ تھے

" وہ میرا گھر نہیں ہے"وہ سر جھکا کر اتنا ہی کہہ. سکی 

جلال چڑ کر رہ گیا

"بہر حال ہم یہ بحث گھر جا کر بھی کر سکتے ہیں" 

اس نے آگے بڑھ کر منیحہ کا ہاتھ تھام کر اسے اٹھانا چاہا

وہ خوفزدہ نظروں سے سب کو دیکھنے لگی

"ابا پلیز مجھے وہاں نہیں جانا" وہ رو دینے کو تھی

" ٹھیک ہے بچے کچھ دن اسے رہنے دو پھر یہ آ جائے گی" سلمان اپنی بیٹی کی یہ خوفزدہ کیفیت دیکھ کر خود بھی الجھ گئے تھے

البتہ جلال نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا

"ٹھیک ہے ابھی چلے پھر کل واپس آ جائے گی" وہ بضد تھا

جبکہ منیحہ اپنی جگہ سے ہلنے سے انکاری تھی

"جلال بیٹا ابھی اسکی طبیعت ٹھیک نہیں،، اور یہ کچھ دن یہیں رہنا چاہتی ہے تو آپ رہنے دو،، آپکے پاپا سے بھی بات کی تھی میں نے تو انھوں نے اجازت دے دی تھی"

اماں کا انداز کچھ خوشامدانہ سا تھا مگر جلال پہ اثر نہ ہوا اس وقت تو وہ ویسے بھی پاپا کی کسی بات کو ماننے کو تیار نہ تھا 

" آنٹی آپکو پاپا کی بجائے مجھ سے سے پوچھنا چاہیے تھا " زور دے کر کہتا وہ قدم باہر کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا

" میں نہیں رہوں گی آپکے ساتھ،، اللہ بار بار موقع نہیں دیتا انسان کو"

وہ بہت دیر بعد بولی تھی

(وہ تو شکر ہے جو بچے کو کچھ نہیں ہوا اگر خدانخواستہ بچے کو کچھ ہو جاتا توآہکے ساتھ ساتھ میں بھی اس قتل میں شریک ہوتی)

منیحہ کے ذہن میں اس وقت صرف بچے کی خیریت تھی اور وہ اس پہ کسی قسم. کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنا چاہتی تھی 

بچے کی حفاظت قدرت نے ماں کے ذمے لگائی ہے اور وہ اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا چاہتی تھی

"فار گاڈ سیک،،میں کہہ رہا ہوں نا ابھی تمہیں چلنا ہے" وہ غَصے سے بولا

"جلال بیٹا ابھی آپ جائیں، صبح میں آپکے پاپا سے بات کروں گا" سلمان صاحب کو کسی انہونی کا احساس ہوا

"یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میں اس میں پاپا یا کسی کو بھی انوالو نہیں کرنا چاہتا" وہ بدلحاظی سے بولا تو سلمان صاحب کو اپنے بدترین خدشات دسرت ثابت ہوتے نظر آئے

"یہ آپکا ذاتی معاملہ نہیں ہے،، یہ ہماری اور آپکی فیملی کا معاملہ ہے اور آپ صبح اپنے پاپا کے ساتھ آئیے گا پھر جو بھی آپکا مسئلہ ہے اسکا حل. نکالا جائے گا"سلمان صاحب عادت کے مطابق دھیمے سروں میں مخاطب تھے مگر جلال کو کہاں سمجھ آنے والی تھی

"انکل منیحہ میری بیوی ہے اور میں اسے لے کر جاوں گا"وہ ابھی بھی اسکا ہاتھ تھامے ہوئے تھا

" لیکن وہ آپکے ساتھ جانا نہیں چاہتی اور اب میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ وہ آپکے ساتھ نہ. جائے" نا چاہتے ہوئے بھی سلمان صاحب کا لہجہ طنزیہ ہو گیا

مگر جلال تو اس وقت بپھرا ہوا شیر بنا ہوا تھا اونچی آواز میں چیخنا چلانا اسکے لیے معمولی تھا مگر سلمان صاحب کے لیے نہیں سیمعون اور علی بھی ہونق بنے کھڑے تھے اماں کے چہرے پہ تشویش تھی جبکہ منیحہ اب باقاعدہ کانپنے لگی تھی 

بالآخر اس سے جان چھڑانے کے لیے سلمان صاحب کو کریم علوی کو کال کرنا پڑی وہ جو مزے سے دراز خبرنامہ سن رہے تھے چونک کر اٹھے مگر انھیں زیادہ تردد نہ کرنا پڑا پیچھے سے آتی جلال کی آواز نے انھیں سب کچھ سمجھا دیا برقی رفتارسے جوتے پہنتے وہ گھر سے نکلے وہاں شاید علی اور جلال کی بحث ہو رہی تھی سلمان صاحب بیٹے کو اندر جبکہ جلال کو گھر جانے کا کہہ رہے تھے

مگر جلال کو باپ کا لحاظ نہ تھا سسر کا کہاں سے ہوتا 

اگلے پانچ منٹ اس نے  وہاں وہ طوفان بدتمیزی مچایا کہ ساتھ والے گھر سے منیحہ کے چاچو بھی آ گئے

کریم صاحب نے اسکے چہرے پہ تھپڑ جھڑا مغلظات بکتا اور منیحہ کو سخت نتائج کی دھمکیاں دیتا وہ وہ وہاں سے نکل گیا 

"اگر تم آج میرے ساتھ نہیں جاو گی تو پھر مجھ سے کسی اچھائی کی امید نہ لگانا

میں تمہیں سبق سکھا کر رہوں گا

تمہیں جلد پتی چل جائے گا کہ تمہارا پالا کس جلال سے پڑا ہے "اور بھی نجانے کیا کیا دھمکیاں دیتا وہ بمشکل وہاں سے نکلا

"سلمان میں بہت شرمندہ ہوں،،،"

یہ طوفان تھما تو  کریم صاحب نے معذرت کرنی چاہی

" بھائی صاحب فلحال آپ گھر جائیے میں اس وقت مزید کچھ نہیں سننا چاہتا"سلمان صاحب نے عاجزی سے انھیں جانے کا کہا

اور وہ سر جھکائے چلے بھی گئے 

غلطی سراسر انکے بیٹے کی تھی پہلی مرتبہ پورے محلے میں انھیں شرمندگی اٹھانا پڑی

منیحہ کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا

"بس کرو منیحہ رونا بند کرو"

کچھ دیر بعد حواس بحال ہونے کے بعد انھوں نے منیحہ کو اپنے ساتھ لگایا

"چلو اب مجھے ساری بات بتاو شروع سے لے کر آخر تک،، جو سب وہ کہہ کر گیا ہے وہ سب" منیحہ نے سر اٹھا کر ایک نظر باپ اور چچا کو دیکھا پھر سر جھکا لیا

"منیحہ بچے بولو،، تمہیں کچھ بھی چھپانا نہیں چاہیے تھا جو کچھ بھی تمہارے ساتھ ہوا تمہیں ہمیں بتانا چاہیے تھا"

اسکی خاموشی پر سلمان نے کہا بالآخر پندرہ منٹ بعد وہ اسے بولنے پہ راضی کر چکے تھے تب منیحہ نے سب تو نہیں لیکن چیدہ چیدہ باتیں بمشکل انھیں بتائیں

جس میں سر فہرست جلال کا آوارہ لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اور شراب نوشی تھی 

ہاں اسکا بچے کے متعلق پاگل پن وہ چھپا گئی

یا شاید بتا نہ پائی 

سلمان صاحب یہ سب جاننے کے بعد حیران بھی تھے اور خفا بھی پھر انھوں نے منیحہ کو یہ سب پوشیدہ رکھنے پہ اچھی خاصی ڈانٹ پلائی 

ساری رات اس گھر کا کوئی بھی فرد سو نہ سکا انکے لیے یہ قیامت صغریٰ جیسا تھا

اتنی بدتمیزی اوربد لحاظی کرنا تو دور کی بات انھوں نے یہ سب دیکھا بھی پہلی بار تھا منیحہ کی حالت الگ خراب تھی وہ رات اس گھر پہ بہت بھاری تھی

صبح تک سلمان صاحب اس معاملے کو دو ٹوک زیر بحث لانے کے متعلق فیصلہ کر چکے تھے

انکی بچی ان پہ بھاری تو نہ تھی کہ وہ اسےیوں لاوارث چھوڑ دیتے 

یہ سب سہنے کے لیے 

انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا وہ. کچھ بھی منیحہ کی مرضی کے خلاف نہ کریں گے

______________________

دوسری طرف جلال کمرے میں خود کو بند کیے پاگل ہو چکا تھا اسکا دماغ کام کرنا بند ہو چکا تھا اور اسکی انا پہ کاری ضرب لگی تھی

منیحہ کا صاف انکار

اسکے باپ کے طنزیہ سوال

اسکے بھائی کا الجھنا 

اور سب سے بڑھ کر پاپا کا سب کے سامنے اسے بے عزت کرنا 

بجائے اسکا ساتھ دینے کے سب کے سامنے اسے تھپڑ مارنا

سوچ سوچ کر وہ پاگل ہو رہا تھا 

اس سب میں اسے اپنی کوئی بھی غلطی دکھائی نہ دے رہی تھی

اسے اپنے علاوہ ہر کوئی قصوروار دکھائی دے رہا تھا 

اسکے دوست سچ ہی کہتے تھے منیحہ خود کو ستی ساوتری اور اسے گھٹیا مرد سمجھتی تھی 

یہ خیال اسکے دل میں گھر کر چکا تھا 

"ہوں اتنی نیک تھی تو کیوں کی مجھ سے شادی،، اس وقت انکار کر دیتی نا" وہ اسے گندے گندے القابات سے نواز کر خود اذیتی کی انتہا پہ تھا صبح تک وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ منیحہ اور اسکے گھر والوں سے ہر صورت اپنی بے عزتی کا بدلہ لے گا 

اور انھی خیالات کا اظہار اس نے باپ کے سامنے بھی کیا تھا 

وہ جو پہلے ہی شرمندہ تھے اب مزید فکر مند ہو گئے

رہی سہی کسر دو دن بعد اس وقت نکل گئی

جب انھوں نے جلال کو کسی سے فون پہ بات کرتے  سنا تھا 

"تم تیاری پوری رکھو،،، دو دن میں اسکا دماغ ٹھیک ہر دونگا میں" پھر وہ دوسری جانب سے ہونے والی گفتگو سننے لگا

"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،، اب اس عورت کو دوبارہ اپنی زندگی میں کبھی شامل نہیں کرونگا میں،،" 

پھر سے وہ خاموش ہو رہا پھر اس نے گھٹیا سا قہقہہ لگایا

"ہاں پھر دیکھتے ہیں اسکا باپ کیسے اکڑتا ہے،،، معافیاں مانگے گا مجھ سے" وہ گھٹیا ہنسی ہنستے ہوئے بولا اور کریم صاحب کا بی پی شوٹ کر گیا اس وقت تو انھوں نے اسے کچھ نہیں کہا مگر انھوں نے منیحہ کے گھر جا کر انھیں محتاط رہنے کا عندیہ ضرور دے دیا سلمان صاحب تو پہلے ہی منیحہ کو بھیجنے پہ راضی نہ تھے نہ منیحہ جانا چاہتی تھی اب تو وہ صاف انکاری ہو گئے البتہ جلال کا بندوبست بھی کریم صاحب نے سوچ لیا تھا 

اس ملک میں وہ انکے قابو آنے والی شے نہ تھا واحد حل. جو انھیں نظر آیا وہ یہی تھا کہ اسے ملک سے باہر بھیج دیا جائے 

دبئی سعودیہ بھیجنے کا فائدہ نہیں تھا وہ اگلے روز ہی واپس آ جاتا جمال نہایت سست تھا اس سے انھیں کوئی امید نہ تھی باقی بڑا بلال ہی رہ جاتا تھا جو سالوں سے جرمنی میں سیٹل تھا 

اور کافی سمجھدار تھا 

اب یہی حل تھا جلال کو کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر بھیج دیا جاتا کم از کم اس وقت تک جب تک بچے کی پیدائش نہ ہو جاتی اور تب تک یقیناً اسکا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ورنہ یہاں تو اکسے دوست ہی اسے اکساتے رہتے 

________________

"بلال مجھے کہانیاں نہیں سننی، تم جو بھی کرو اور جیسے بھی کرو مگر مجھے وہ. دس دنوں میں تمہارے پاس چاہیے"

کریم صاحب نے بڑے بیٹے کو رعب سے کہا

"پاپا ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ اول تو اتنی جلدی ویزہ لگ ہی نہیں سکتا لیکن اگر میں ویزہ لگوا بھی لوں تو بھی وہ نہیں آئے گا"

بلال کو بیٹھے بٹھائے مصیبت پڑ گئی تھی

" اسکا تو باپ بھی آئے گا،، تم اسکی فکر نہیں کرو"

کریم صاحب کا ذہن بہت تیزی سے چل رہا تھا

"لیکن پاپا ہوا کیا ہے¿"

بلال اصل حقائق سے لاعلم تھے

" وہ خبیث روز نت نئے ڈرامے لگا رہا ہے،، ابھی کل وہ انکے گھر جا کر شور شرابہ کر کے آیا ہے،، میں محلے میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا"

کریم صاحب نے افسوس سے کہا

"ہو سکتا ہے وہ غصے میں ہو،، ٹھیک ہو جائے گا پاپا"بلال اپنی جان چھڑانا چاہتے تھے

"یہ لڑکا ایک دن اس گھر کو تباہ کر دے گا، میں صرف یہ جانتا ہوں "

وہ جلال کی حالیہ حرکتوں سے عاجز آ چکے تھے لیکن بلال کو سب بتانے کا مطلب اسے بھی پریشان کرنا تھا اسی لیے وہ چپ ہو رہے

مگر کریم صاحب نے اس پہ اتنا زور دیا کہ وہ اپنے تمام تر ریسورس استعمال کرنے پہ مجبور ہو گیا اور اگلے بیس دنوں میں جلال کا وزٹ ویزہ لگ چکا تھا 

اصل امتحان اس وقت شروع ہوا لیکن انھوں نے احتیاطاً اسکا کریڈٹ کارڈ بلاک کرانے کے علاوہ اسکے اکاونٹ سے رقم بھی نکوا لی تھی خالی جیب وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا

نہ وہ اس دن کے بعد سے گھر سے کھانا کھا رہا تھا نہ ان سے بات کر رہا تھا جبکہ ماما خود سے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتیں تو وہ غصہ دکھاتا پھر اس دن وہ پھٹ پڑا

"وہ کیا سمجھتے ہیں میرا کریڈٹ کارڈ بلاک کرا کر اور پیسے نہ دے کر وہ مجھے سیدھا کر لیں گے" بات کچھ اور ہو رہی تھی اور جواب یہ تھا ماما بیچاری تو دونوں طرف سے پس رہی تھیں شوہر سے بھی ڈرتی تھیں اور بیٹے سے بھی

"میں ان سے بات کروں گی جلال،، -تم کھانا تو کھا لو" وہ منت سماجت کرنے لگی تھی

" ان سے کہیں میرا کریڈ'ٹ کارڈ ریچارج کر کے ایکٹو کرائیں "ہر چیز کو ٹھوکروں پہ رکھتا وہ باہر نکل گیا درحقیقت وہ خود بھی اس غربت سے تنگ آ چکا تھا سارے پلانز پیسے سے ہونے والے تھے اور پاپا نے پہلی دفعہ اس طرح کیا تھا شاید بھائی کو. بھی منع کر دیا جو وہ بھی پیسے نہ بھیج رہا تھا

ایجنسی کے اکاوئنٹ وہ خود دیکھتے تھے 

" میرے پاس صرف یہ ہے اسے کہو اگر وہ مجھ سے یا اس گھر سے تعلق قائم رکھنا چاہتا ہے تو یہاں سے فلحال. چلا جائے،، ورنہ مجھے ایسی نالائق اولاد کی ضرورت نہیں" زوجہ محترمہ جو بیٹے کی سفارش کرنے آئی تھیں اپنے سامنے پڑے پاسپورٹ کو دیکھ کر حیران ہو گئیں

"یہ کیا ہے"

"جلال کا پاسپورٹ ہے،، جرمنی کا ویزہ لگ گیا ہے اسکا،، اسکو کہو بلال کے پاس چلا جائے تو شاید میں اس سے تعلق رکھنے کے متعلق سوچوں ورنہ جتنا اس نے کیری عزت کا جنازہ دھوم. دھام. سے نکالا ہے میں اس سے مکمل مایوس ہو چکا ہوں" ہ. بیوی کو دھمکیاں لگاتے ہوئے بولے 

" تو لاڈ بھی تو آپ ہی دیتے تھے اب بھگتیں "

" میں اس لیے لاڈ نہیں دیتا تھا کہ مجھے ذلیل کرائے"وہ تیز لہجے میں جتا کر بولے توبیگم خاموش ہو رہیں

پھر جس طرح انھوں نے جلال کو منایا تھا وہی جانتی تھیں 

" جلال تم صرف ایک آدھ مہینے کے لیے چلے جاو،، پھر تمہارے پاپا کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو واپس آ جانا"اور نجانے کس خیال کے تحت وہ راضی ہو گیا تھا

پھر ایک شام وہ بنا کسی کو بتائے جرمنی روانہ ہو گیا

کریم صاحب نے سکون کا سانس لیا

"بلال کسی بھی بہانے سے اس سے پاسپورٹ لے لینا"انھیں یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ واپس ہی نہ آ جائے

" پاپا آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے  میں مانگوں گا اور وہ مجھے دے ہی دیا" بلال نے چڑ کر کہا

"اسی لیے کہہ رہا ہوں کسی بہانے سے لے لینا مگر اسکےپاس مت رہنے دینا کسی دن تمہیں پتہ بھی نہ چلے گا اور وہ لاہور پہنچا یو گا"

انھوں نے بیٹے کو تاکید کی

دوسری جانب بلال کے بیوی بچے بھی پہلی بار جلال کے آنے پہ اکسائٹڈ تھے 

یہ اور بات کہ وہ جانتے نہ تھے کہ ایک مستقل بھونچال انکی زندگیوں میں آنے والا ہے

سکون صرف پاکستان والوں کوآیا تھا انکا امتحان تو اب ہونے والا تھا

نمرہ بھابھی جو کہ اسکی مہمان نوازی کرنے کے لیے پرجوش دکھائی دیتی تھیں دوسرے ہی روز انکے ماتھے پہ بل تھے جب انھوں نے اپنے شوہر کو جلال کے سامنے بے بس دیکھا

یہ پہلی بار تھا جو بلال انکے سامنے یوں وضاحت دے رہے تھے 

"تم اسے نہیں جانتی نمرہ وہ بس ایسا ہی ہے" بلال نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی

جلال کو یہاں آئے آج دوسرا روز تھا ایک تو نئی جگہ اوپر سے وہ ذہنی دباو کا بھی شکار تھا وقت میں بھی فرق تھا اس لیے جس وقت وہ سو کر اٹھا دن کے ایک بج رہے تھے وہ عادت آٹھ کر باہر آیا تو گھر پہ کوئی نہ تھا دروازہ لاکڈ تھا 

گھوم پھر کر خالی فرج کو ملامتی نظروں سے دیکھتا وہ واپس آ گیا 

"کس قدر گھٹیا جگہ ہے یہ" اسکے پاس بلکل چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک عدد سنگل بیڈ، دو عدد کرسیوں اور ایک چھوٹی سے میز کے علاوہ کوئی قابل ذکر چیز نظر نہ آتی تھی ایک طرف پوری دیوار میں کبرٹس بنی تھیں

اس نے وقت گزاری کو دو تین کھول کر دیکھیں ساری کی ساری سامان سے اٹی ہوئی تھیں کچھ دیر بور ہونے کے بعد وہ پھر سے سو گیا

کچھ دیر بعد اٹھا بستر سے آواز دی

"منیحہ پانی پلاو"

مگر جواب ندارد 

"منیحہ پانی پلاو"

اب کی بار وہ ذرا چیخ کر بولا

(یہ آ کیوں نہیں رہی)

وہ آنکھیں بند کیے سوچ رہا تھا تبھی دروازے پہ دستک ہوئی 

"جلال کچھ چاہیے¿"

بھابھی نے ہلکا سا منہ دکھا کر پوچھا

جلال انھیں دروازے پہ دیکھ کر حیران ہوا وہ بھی حیران تھیں 

" اوو آپ ہیں،، میں بھول گیا تھا"وہ آنکھیں ملتا اٹھ بیٹھا

"کوئی بات نہیں" 

وہ سمجھ کر سر ہلاتیں مسکرا کر واپس چلی گئیں 

جلال تھوڑی دیر بعد اپارٹمنٹ کے اکلوتے واش روم میں منہ ہاتھ دھو کر واپس آیا

بچے اور نمرہ بھابھی لنچ کر رہے تھے

"ہے چاچو" فارس اسے دیکھ کر خوش ہو گیا

" واٹس اپ مین"جلال نے اسکے بال بگاڑے پھر ساتھ ہی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا چھوٹی سی گول میز تھی جسکے گرد چار کرسیاں تھیں 

"میں تو نہیں کھاوں گا یہ پاستہ" وہ سب پاستہ کھا رہے تھے جلال نے منہ چڑایا 

نمرہ نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا

"کوئی بات نہیں میں کچھ اور بنا دیتی ہوں.. کباب فرائی کر دوں ¿" 

وہ آداب میزبانی نبھا رہی تھیں 

"نہیں میں ناشتے میں ملک شیک اور پراٹھا کھاتا ہوں" وہ اب فارس کے ساتھ باتیں کر رہا تھا نمرہ بھابھی نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا پھر مجبوراً آٹھ کر صاحب بہادر کے لیے پراٹھا اور ملک شیک بنانے چلی گئیں 

کھا پی کر وہ باہر نکل گیا نمرہ نے خدا کا شکر ادا کیا البتہ وہ اس سب کا بلال سے ذکر کرنا نہ بھولیں 

" ایک بجے تک تو وہ سویا رہا،، میں بچوں کو سکول سے لے کر آئی تب بھی سو رہا تھا" 

وہ بچوں کے سکول میں ہی آرٹ ٹیچر کے طور پر کام کرتی تھیں 

"چلو کوئی نہیں اصل میں ائیر ٹریول کی وجہ سے تھک گیا ہو گا" بلال نے کافی دونوں کپو‍ں میں انڈیلی ایک نمرہ کی جانب بڑھایا

دوسرا لے کر اسکے سامنے کی کرسی پہ بیٹھ گئے بچے ویڈیو گیم کھیل رہے تھے 

" ویسے ممی پاپا نے اسکی کافی اچھی گرومنگ کی یے،، مطلب ہی از گڈ لکنگ اینڈ ویل مینرڈ،، وہ. ہمارے سر پہ سوار نہیں ہوا بلکہ باہر نکل گیا پھر کچھ دیر بعد واپس آیا کچھ دیر بچوں کے ساتھ بیٹھا رہا اور پھر اسکا کوئی دوست آ گیا تو بتا کر چلا گیا" 

نمرہ اس سے متاثر لگ رہی تھیں بلال نے سکون کا سانس لیا 

(چلو کچھ دن تو اچھے گزر جائیں گے" 

"ویسے وہ برا نہیں ہے بس کبھی کبھی امپلسو ہو جاتا ہے،، لیکن اب تم کوشش کرنا اسکا دل لگ جائے،، واپس کسی صورت نہیں جانے دینا اسے پاپا نے سختی سے کہا ہے کہ وہ یہیں رہے" بلال نے بیوی کو بھی پاپا کے فرمان سے آگاہ کیا بہت دیر تک وہ باتیں کرتے رہے پھر رات کافی بیت گئی نگر جلال واپس نہیں آیا بلال نے نمرہ کو سونے کا کہہ دیا البتہ خود وہ جاگتے رہنے کی کوشش کر رہا تھا تا کہ جلال کے آنے پہ دروازہ کھول سکے

(کل ایک چابی اسے بھی بنوا دوں گا) رات کے بارہ بجے جمائی روکتے ہوئے انھوں نے سوچا

تبھی بیل ہوئی تھی اور ہشاش بشاش سا جلال سامنے تھا

"اتنی دیر یار" دیکھتے ساتھ بلال نے پہلی بات یہی کی

"ہاں میں فیاض ماموں کے گھر چلا گیا تھا،، انکا بیٹا لینے آیا تھا". وہ خوش لگ رہا تھا

"آتے ساتھ ہی رابطے ہو گئے تمہارے" 

بلال اسکی پھرتیوں سے متاثر ہوئے 

"سوشل میڈیا کا دور ہے بھائی" 

وہ اطمینان سے کہتا منہ ہاتھ دھو کر اپنے کمرے میں چلا گیا "کھانا کھا کر آئے ہو¿"

بلال کو فطری سی فکر تھی

یورپ آنے کے بعد ان میں احساس ذمہ داری بڑھ گیا تھا

"کھا آیا ہوں "

ہانک لگا کر وہ بستر پہ ڈھے گیا

لیکن ایک بات اسے شدت سے محسوس ہوئی

یہ جگہ نہایت گھٹیا تھی جہاں اسے رہنے کا کہا گیا تھا

بستر چھوٹا تھا کہ اسکے پاوں بستر سے نیچے جاتے 

اور کمرے میں شدید حبس تھی 

گوکہ اس ٹھنڈ کے موسم میں حبس محسوس ہونا عجیب تھا مگر اسے بند جگہوں کی عادت نہ تھی 

صبح اسکی آنکھ بھی جلدی کھل گئی 

"ارے واہ آج تو تم جلدی اٹھ گئے" افراد خانہ اپنے اپنے کاموں کو. جانے کو تیار تھے

"اٹھنا کہاں سے تھا سویا ہی نہیں ہوں" وہ بے زاری سے کہتا واش روم میں چلا گیا نمرہ نے اس کو ہوم سکنس پہ محمول کیا  کچھ دیر بعد وہ منہ ہاتھ دھو کر واپس آ چکا تھا بچے ناشتہ کر رہے تھے نمرہ انکا لنچ تیار کر رہی تھی 

ہلکے پھلکے سنیکس ہی دیتی تھیں 

بلال فارمل سوٹ میں تھے وہ مکینیکل انجینیر تھے اور ایک فرم میں جاب کرتے تھے 

"آج کا کیا پلان ہے" 

بلال نے اس سے پوچھا 

"کچھ بھی نہیں" وہ بے زار تھا 

گھر میں صبح اگر وہ بےزار ہوتا تو ماما اپنے کمرے میں چلی جاتیں مبادا وہ انھی سے نا الجھ پڑے اور منیحہ ہائی الرٹ سی اسکے آگے پیچھے پھرتی تھی

یکدم اسے خیال آیا تو بےزاری سواتر ہو گئی

"ناشتہ کر لو" بلال نے محتاط انداز میں اسکی توجہ ہٹانے کی سعی کی

"میں بریڈ نہیں کھاتا" وہ واپس پلیٹ کھسکاتے ہوئے بولا

"اچھا.." 

بلال نے نا سمجھی سے ایک نظر اسے دوسری نظر بیوی کو دیکھا نمرہ کے ماتھے پہ بل آ چکے تھے

"اچھا میں بنا دیتی ہوں" پھر وہ خود ہی بولتے ہوئے واپس برنر کی طرف چلی گئی بلال نے سکون کا سانس لیا ورنہ اس ہپڑ دپڑ میں وہ اپنا اور بچوں کا ناشتہ ہی بمشکل بنا پاتی تھی پھر لنچ باکسز بھی ریڈی کرتی اتنا ہی عبث تھا 

پراٹھے تو مہینوں بعد بنتے تھے اس گھر میں.. 

ناشتہ کر کے وہ وہیں بیٹھا رہا وہ سنجیدہ تھا بچوں نے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن بلال جلدی جلدی کا شور مچاتا انھیں لے کر نکل گیا پیچھے وہ بلکل اکیلا رہ گیا تھا 

کہیں جانے کا بھی دل نہیں تھا سارا دن وہ گھر بیٹھا مختلف چیز کھنگالتا رہا کمرے میں جانے کا بھی دل نہ تھا پھر بچے اور بھابھی آ گئیں اسے وہیں اسی حلیے میں بیٹھے دیکھ کر انھیں شدید ہمدردی ہوئی بلال نے بتایا تھا کہ پاپا نے اسے زبردستی بھیجا ہے 

دوسرا وہ جانتی تھیں جلال باہر نہ آنا چاہتا تھا وہ شروع سے پاکستان میں ہی رہا تھا اور رہنا چاہتا تھا 

"جلال کوئی کورس وغیرہ کر لو" باتوں باتوں میں انھوں نے ہمدردی میں اسے وقت گزاری کے لیے مشورہ دینا چاہا 

"کیوں ¿" جبکہ توقع کے برعکس جلال کے ماتھے پہ بل دیکھ کر وہ چونکیں

"مطلب.. اچھا ہے تمہارا سی وی اپروو ہو جائے گا.،، اور وقت بھی اچھا گزر جائے گا" وہ نروس ہو کر رہ گئیں 

" میں نے کونسا نوکریاں کرنی ہیں سی وی امپروو کرکے" جلال نے ناک سے مکھی اڑائی

نمرہ مزید ایک لفظ نہ بول سکیں 

بس اسے اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر رشک کرتی رہیں 

_______________________

" منیحہ بچے کریم صاحب کل بھی آئے تھے اب تمہیں چلے جانا چاہیے" 

اماں نے منیحہ کا موڈ اچھا دیکھ کر اسے سمجھانا چاہا

مگر اسکا منہ ہی بن گیا

"میری بچی تمہیں جلال سے مسئلہ تھا،، اور اب تو وہ یہاں نہیں ہے تو تمہیں اپنے گھر چلے جانا چاہیے،، کریم صاحب اتنا اصرار کر رہے تھے تمہارے ابا کا بار بار انکار کرنا اچھا تو نہیں لگتا نا" 

"اماں مجھے جلال سے کوئی مسئلہ نہیں ہے" 

اسکا انداز سنجیدہ تھا اماں نے حیرت سے اسے دیکھا 

" مجھے انکی حرکتوں سے مسئلہ تھا اور اب بھی ہے"وہ زور دے کر بولی 

" تو اب تم کیا چاہتی ہو"

وہ جان کر. انجان بنیں

" میں بس یہ چاہتی ہوں کہ یا تو وہ اپنی حرکتیں بدل لیں یا پھر بہتر ہے میں یہیں رہوں،، کیونکہ میں اس طرح وہاں نہیں رہ سکتی مزید" وہ. کچھ غصے سے بولی آجکل وہ اس موضوع پہ کوئی بات نہ سنتی تھی 

" منیحہ تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہاری یہ ناراضگی اور نفرت اسے بدل دے گی¿

مہرہ بچی ایسا نہیں ہے

کسی کو بدلنے کے لیے محبت کی ضرورت ہوتی ہے، ساتھ کی ضرورت ہوتی،، نفرت سے کوئی کسی کو نہیں بدل سکتا"

اماں کا فلسفہ اپنا ہی تھا

منیحہ کو البتہ انکی بات گراں گزری

"اماں میں کیسے سمجھاوں آپکو کہ مجھے ان سے نفرت نہیں ہے،، اور اگر میں انھیں بدلنا چاہتی ہوں تو یہ ایک بیوی کی محبت ہی ہے"وہ عاجز آ چکی تھی

بعض دفعہ کسی کو اپنی محبت کا احساس دلانے کے لیے کچھ فاصلہ. قائم کرنا پڑتا ہے ضرورت سے زیادہ اور ان چاہا ساتھ کبھی کبھی اپنی وقعت کھو دیتا ہے 

مگر وہ یہ بات اپنی ماں کو نہ سمجھا سکتی تھی 

اسی لیے چپ ہو رہی 

اماں کے گھر اسے ایک اطمینان ضرور تھا کہ اب یہاں کوئی اسکے بچے کا دشمن نہ تھا 

نہ ہی اسے ہر وقت ذہنی طور پہ الرٹ رہنا پڑتا اس نے سب کچھ اللہ پہ چھوڑ دیا تھا 

ہاں جلال کے تمام تر برے رویے کے باوجود وہ اسے بےحد یاد آتا تھا ابا کو پانی پلاتے ہوئے اسے جلال. کا پانی کے لیے چیخنا یاد آ جاتا صبح علی کو جگاتے ہوئے اسے جلال کی ڈھٹائی یاد آ جاتی 

پھر رات کو سونے سے پہلے اسکی لایعنی باتیں جو ختم ہونے میں نہ آتی تھیں 

اسکے ڈراونے مذاق پھر فضول باتوں پہ پہروں ہنسنا 

کبھی زبردستی کا رومینس 

اسکا چھیڑنا سب اسے یاد آتا تھا اور یہ یادیں بہت تکلیف دہ تھیں مگر وہ اپنے دل پہ صبراور ضبط کا پتھر رکھ چکی تھی اسے اپنا اور جلال کا رشتہ زہریلا نہ بنانا تھا 

وہ اسکی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی لانا چاہتی تھی مگر یہ شاید اتنا آسان نہ تھا جتنا منیحہ نے خیال کیا تھا (میں اپنے بچے کو کیا جواب دوں گی کہ اسکا باپ کہاں ہے وہ کیسا ہے) 

شروع شروع میں اسے یہ فکر کھائے جاتی کہ اگر جلال واقعی نہ پلٹا جیسا کہ وہ اسے دھمکی دے کر گیا تھا کہ اگر اب تم میرے ساتھ نہ گئیں تو پھر کبھی نہیں آسکو گی 

وہ ایسے میں فکر مند ہو جاتی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسے زیادہ سے زیادہ خوش رہنا چاہیے تا کہ بچہ بھی ایسا ہی اچھے مزاج کا مالک ہو 

مگر خوش رہنا اسے جتنا مشکل اس وقت لگ رہا تھا شاید ہی کبھی لگا ہو 

وہ وہموں اور وسوسوں کا شکار تھی

_______-___________________-____________

"میں اس کمرے میں نہیں رہوں گا" رات کو جب بلال نے اسے سونے کا کہا تو وہ ہنوز ٹی وی کے آگے جما بیٹھا تھا آج کا پورا دن اس نے ٹی وی دیکھنے میں گزار دیا تھا 

 کیوں؟ بلال کو اچنبھاہوا

"وہ کمرہ ہے یا قبر میرا تو دم گھٹتا ہے اتنے چھوٹے سے کمرے میں" 

وہ ناگواری سے کمرے کی شان میں قصیدہ پڑھ رہا تھا 

شکر اس وقت نمرہ بچوں کو سلانے گئی ہوئی تھی مگر دروازہ کھلا ہوا تھا

"جلال اصل میں تمہیں اپارٹمنٹ میں رہنے کی عادت نہیں نا اسی لیے" 

بلال نے سرسری سا تبصرہ کیا

" آپ کوئی ڈھنگ کا گھر کیوں نہیں لے لیتے" پہلی بار اس نے نگاہ اٹھا کر بھائی کا چہرہ دیکھا

"اچھا خاصہ تو ہے گھر" 

یہ اپارٹمنٹ ایک اچھے مہنگے علاقے میں لے رکھا  تھا 

"یار آ ھا خاصہ کمرہ ہے تمہارا،، اور اکیلے ہی تو ہو تمہاری کونسا بیوی ہے جو کمرہ چھوٹا لگ رہا تمہی "بلال نے سرسری سا تبصرہ کیا تھا مگر بیوی نہ ہونے کی بات اسے طعنہ ہی لگی یکدم اسکا چہرہ تن گیا تھا 

" خیر یہ میرا مسئلہ ہے،، فلحال میں آپکو بتا رہا ہوں میں اس کمرے میں نہیں رہوں گا "

" تو کہاں جاو گے تم"بلال بھی الرٹ ہو گئے اسکا پل پل بدلتا موڈ اففف

" کیا مطلب کہاں جاوں گا، یہیں رہوں گا لیکن اس قبر میں نہیں رہوں گا" 

وہ صاف انکاری ہو گیا

"یار تو رہو گے کہاں "نمرہ کے آنے کا ڈر نہ ہوتا تو وہ بھی اتنی ہی اونچی آواز میں جھنجھلاتے جیسے جلال کر رہا تھا 

"کسی دوسرے کمرے میں رہ لوں گا،،، آپکے بچوں والا کمرہ بھی اس کمرے سے تو بہتر ہے "

" لیکن بچے کہاں رہیں گے،، تم. انکے کمرے میں نہیں رہ سکتے" 

انھوں نے سمجھانا چاہا

" تو نیا گھر لے لیں اس وقت آپکو ہی شوق چڑھا ہوا تھا مجھے یہاں بلانے کا" 

کمرےکا دروازہ ابھی بھی کھلا ہوا تھا یقینا آوازیں اندر تک جا رہی ہوں گی 

اور ابھی کل. ہی نمرہ جلال. کی تعریفیں کر. رہی تھی کہ 

ویل. مینرڈ ہے

سر پہ سوار نہیں ہوا 

اور یہ وہ

"جلال یار ابھی افورڈ نہیں کر سکتا میں بڑا گھر" بلال نے کمرے کا دروازہ ہلکا سا بند کر کے سرگوشی کے انداز میں سمجھانا چاہا

"بھائی مجھے کہانیاں نہ سنائیں،، میں نہیں رہ سکتا یہاں"جواباََ جلال پہلے سے زیادہ بلند آواز میں مخاطب ہوا

بلال نے کچھ غصے کچھ بے بسی سے دروازہ مکمل بند کر دیا

" تو پھر کیا کروں میں ¿"

وہ اب تنگ آ کر سنجیدہ چہرے سے اسکو گھور رہے تھے

جلال نے چند پل اسے دیکھا

پھر مکمل اعتماد کا مظاہرہ کیا

" ہاں تو آپ اپنے بچوں کو اس ڈربے میں شفٹ کر دیں"

تین کمروں کا اپارٹمنٹ یہاں لگژری مانا جاتا تھا جسکا تیسرا کمرہ جلال کو تن تنہا رہنے کے لیے دیا گیا گیا تھا مگر وہ اس کمرے میں رہنے کو تیار نہ تھا عجیب مسائل تھے اس شخص کے

"جلال. میں بتا چکا ہوں بچوں کو وہاں شفٹ نہیں کر سکتے،، وہاں دو بستر نہیں لگ سکتے،، ٹرائی ٹو انڈر سٹینڈ،، بچے بڑے ہو رہے ہیں الگ الگ بستر پہ سوتے ہیں،، اور ویسے بھی نمرہ کبھی نہیں شفٹ کرے گی انھیں وہاں"

بلال نے لمبی چوڑی وضاحت دی

"ہاں تو ٹھیک ہے آپ اور بھابھی اس کمرے میں شفٹ ہو جائیں. ،،میں آپکے کمرے میں رہ لوں گا،، بچے ایک بستر پہ نہیں سو سکتے،، آپ دونوں تو سو سکتے ہیں نا"بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہتا وہ باہر نکل گیا

دوسری جانب کچن کے دروازے میں کھڑی نمرہ نے شوہر کو کینہ توز نگاہوں سے گھورا

عجیب ہے یہ جلال بھی اسے کسی دوسرے کی پرواہ ہی نہیں...

وہ بس یہی سوچ سکی

جلال نے اپنی ضد برقرار رکھی حتی کہ وقتی طور پر بلال کو اسے خوش کرنے کے لیے نمرہ کو منا کر دوسرے کمرے میں لے جانا پڑا 

"بلال مطلب ٹھیک ہے،، وہ تمہارا بھائی ہے مگر یہ سب بہت عجیب نہیں ہے¿" 

نمرہ اور بلال کی آپس میں بہت بنتی تھی وہ دونوں کی پریکٹیکل سوچ کے مالک تھے اسی لیے بے جا کے جھگڑوں اور بحث مباحثے میں نہ پڑتے تھے 

یہ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا کہ وہ دونوں چڑے ہوئے تھے 

جلال سکون اوت خاموشی سے کہیں بھی نہیں رہ سکتا تھا 

اس بات کا احساس بلال کو شدت سے ہو رہا تھا 

"نمرہ دیکھو میں بہت زیادہ شرمندہ ہوں،، مطلب میں اس بات کا واضح علم رکھتا ہوں کہ یہ سب نا مناسب ہے  اور تم اور بچے اس سب سے ڈسٹرب ہو رہے ہو، لیکن پلیز میرے لیے تم جلال کو برداشت کرو پلیز" وہ اپنی ذات کے آرام کے لیے دوسروں کو تکلیف دینے کے عادی نہ تھے اسی لیے کچھ زیادہ ہی شرمندہ ہوئے 

بوجہ اس شرمندگی کے نمرہ نے بھی زیادہ بحث نہیں کی جو بھی تھا بلال ایک محبت کرنے والا اور ذمہ دار شوہر تھا 

اور وہ اسکے لیے جلال کی مہمان نوازی کرنے کے لیے تیار تھیں 

ویسے بھی یہ انکی جلال کے ساتھ دوسری ملاقات تھی انکی شادی جرمنی میں ہی ہوئی تھی جس میں صرف انکل آنٹی نے ہی شرکت کی تھی اسکے بعد وہ صرف ایک ہی دفعہ پاکستان گئی تھیں وہ. بھی فارس کی پیدائش کے بعد،، جلال کی شادی میں بھی نہ جا سکیں 

اور درحقیقت یہی وجہ تھی کہ بلال،، ہر صورت جلال کو یہاں روکے رکھنا چاہتے تھے پاپا نے سختی سے اسے وہیں رکھنے کے لیے کہا تھا 

اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ جللا. کسی بھی وجہ کی بنیاد پر پاکستان واپس چلا جائے 

وہ پہلے سے ہی پاپا کے سامنے شرمندہ اور شکر گزار تھے کہ پاپا نے انکا راز افشاء نہ کیا  اب دوبارہ وہ انھیں مایوس نہ کرنا چاہتے تھے 

پچھلی دفعہ کی حالت ابھی بھولی نہ تھی 

وہ جلال کو برداشت کرنے کے لیے ہر قیمت پہ تیار تھے 

"نمرہ صرف دو تین ماہ کسی طریقے سے وہ یہاں گزار لے اسکے بعد بے شک واپس چلا جائے،، تب کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ ہماری وجہ سے واپس گیا ہے" سونے سے پہلے وہ پرسوچ انداز میں بولے دوسری. جانب نمرہ بھی اس چھوٹے سے میٹریس پہ بہت تنگ آ چکی تھیں یہ کمرہ زیادہ چھوٹا نہ تھا مگر مہمان خانے کے حساب سے یہاں ایک ہی شخص کے رہنے کا انتظام تھا گو کہ انکے ہاں ایسا کوئی مہمان نہ آتا تھا جو زیادہ دن قیام کرتا مگر پھر بھی یہ بہت مناسب تھا لیکن دو لوگوں کے لیے یہ بستر بلکل بھی مناسب نہ تھا سارے دن کے تھکے ہارے وہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو جگہ دینے کے چکر میں سمٹے پڑے تھے 

دانستہ ایک ہی پوزیشن میں کئی گھنٹوں تک پڑے رہنے سے پورا جسم بھی اکڑ گیا تھا مگر وہ خون کے گھونٹ پینے پہ مجبور تھے جلال البتہ صبح کافی فریش نظر آ رہا تھا 

معمول کے مطابق وہ تیار ہوییں بچوں اور شوہر کو ناشتہ پہنچا کر جلدی جلدی لنچ باکس بنانے لگیں صد شکر کہ بلال لنچ باکس نہ لے کر جاتا تھا پھر جلال کا شاہی ناشتہ تمام لوازمات سمیت تیار کی اتب تک باپ کے کہنے پہ فارس جلال کو جگا لایا تھا صاحب بہادر نے اطمینان سے ناشتہ کیا اس دوران وہ سارا خاندان اپنے اپنے کاموں پہ روانہ ہو چکا تھا نمرہ ناشتہ نہ کر پائیں جسکا بلال کو ملال تھا 

"میں فری ٹائم میں کچھ کھا لوں گی" انھوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے شوہر کو تسلی دی دوسری جانب وہ صاحب ناشتے سے فارغ ہو کر اٹھے نہا دھو کر بریف کیس سے کپڑے نکال کر پہنے صد شکر کہ ٹی شرٹس اور جیمز کو پریس کرنے کی ضرورت نہ تھی پھر وہ کچھ دیر بیٹھا رہا بور ہوا تو باہر نکل گیا برتن جہاں رکھے تھے وہیں رکھے رہے 

واپسی پہ نمرہ کا منہ چڑا رہے تھے مگر وہ صبر کر گئیں 

اگلے چند روز اسی طرح گزر گئے اپنے تمام جاننے والے اور دوستوں سے جلال مل چکا تھا غرض یہ کہ اب اسکے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہ تھا پڑھائی لکھائی یا شارٹ ہینڈز میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی بلال اور نمرہ اسی سنگل بیڈ پہ ایڈجسٹ ہونے پہ مجبور تھے نمرہ تو کبھی احتجاجاً بچوں کے کمرے میں چلی جاتیں 

جلال اپنے سازو سامان کے ساتھ ماسٹر بیڈ روم میں رہ رہا تھا گھر میں وہ فارس اور شامین کے ساتھ کبھی کبھار وقت گزارتا نمرہ کے ساتھ وہ کم ہی بات کرتا تھا مگر اسکا بات کرنے کا انداز فارمل کی بجائے دوستانہ ہوتا تھا زیادہ وقت وہ فون پہ بزی رہتا بلال کی نسبت وہ روز کپڑے تبدیل کرتا تھا اور نتیجتاً ہفتے بھر میں اسکے کپڑوں کا انبار اکٹھا ہو جاتا جو نمرہ کو ہی ٹھکانے لگانا پڑتا اسکے علاوہ وہ لکس کانشئس بھی تھا جبکہ بلال صرف سونے کے کپڑوں اور کام کے کپڑوں تک محدود بندہ تھا کبھی نمرہ کے میکے کوئی دعوت یا گیٹ ٹو گیدر ہوتی تو نمرہ اسے بمشکل کوئی اچھا ان فارمل پہننے پہ راضی کر پاتیں

وہ وائٹ کالر ورکنگ کلاس کا نمائندہ تھا 

جبکہ جلال کسی ایسی کلا سکا نمائندہ تھا جو کم از کم نمرہ کے لیے نئی ہی تھی 

اسکا کھانا پینا، گھر کی صفائی، اسکے ملبوسات کون کب اور کیسے دیکھتا تھا اسے اس سب سے کوئی سروکار نہیں تھا جرمنی جیسے ملک میں جہاں بلال بھی بچوں کو کہنے کی بجائے خود آٹھ کر پانی پیتا تھا جلال کریم علوی اپنے کھانے کے برتن دھونا تو دور اٹھانے میں بھی کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا بچے البتہ اسکے آنے سے خوش تھے شاید خون کی کشش کے باعث وہ صرف ماں کے رشتے داروں سے ہی. ملتے رہے تھے پہلی. مرتبہ باپ کے رشتے داروں کے ملنے پہ پر جوش تھے  نمرہ جہاں اسکی. کچھ خوبیوں کی معترف تھیں وہیں اسکی عجیب سی عادتوں سے نالاں نظر آتی تھیں 

"جلال میں سوچ رہا ہوں تم کوئی ٹائم پاس کے لیے چھوٹی موٹی جاب کر لو" 

جلال بیزار سا بیٹھا تھا جب بلال نے مشورہ دیا

"جاب واب میں نہیں کر سکتا" اس نے سفید انکار کر دیا 

"شامین آ جاو پارک چلیں" اس نے فوری طور پر پارک جانے کا ارادہ بنا لیا فارس بھی اپنی گیم چھوڑ کر اب جوتے چڑھانے میں مگن تھا 

چند منٹ بعد دونوں بچے اسکے ساتھ جانے کو تیار تھے بلال وہیں بیٹھے منہ دیکھتے رہ گئے 

" لیکن اگر ٹریول اینڈ ٹوور ایجنسی میں چند گھنٹوں کی کوئی جاب مل جائے تو تمہارا اچھا وقت گزر جائے گا،، دوسرا تمہارا اس میں تجربہ بھی ہے" 

وہ کافی دنوں سے جلال کے لیے کوئی مصروفیت ڈھونڈ رہے تھے بالآخر انھیں ایک جاب مل ہی گئی تھی اب جلال کو کنونس کرنا باقی تھا 

اسی لیے وہ بھی انکے پیچھے ہی پارک میں آ گئے 

" میں نائن ٹو فائیو نہیں کر سکتا بھائی "وہ منہ بنا کر بولا

" اتنی مشکل جاب نہیں ہو گی،، اور کرنا نہ کرنا تو تمہاری مرضی ہے تم جا کر دیکھ لو اگر سیٹ ہو گئے ٹھیک ورنہ کچھ اور دیکھ لینا" بلال نے اپنا لہجہ حتی المقدور سرسری رکھنے کی کوشش کی

مگر جلال نے جواب نہیں دیا وہ اب بچوں کے ساتھ گپیں ہانک رہا تھا کچھ دیر میں وہ انکے ساتھ بچہ بن چکا تھا بلال کو اپنا آپ. غیر ضروری ہی محسوس ہوا 

کچھ دیر وہاں گزار کر وہ واپس آ گئے کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے نمرہ بھابھی کبھی کبھار ٹی وی دیکھتی تھیں لیکن جب جلال  ریمووٹ ہاتھ میں لے لیتا تو پھر کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ اسے چینل چینج کرنے کا کہہ سکے اسی لیے وہ سارے افراد خانہ اپنے کمروں میں چلے گئے جلال دیر تک وہیں بیٹھا رہا تھا 

صبح البتہ کام کے لیے نکلتے وقت وہ سب سے پہلے باہر موجود تھا سب نے حیرت سے اسے دیکھا

"کونسی ٹریول ایجنسی کی بات کر رہے تھے آپ¿" 

وہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہوئے بولا گول گلے کی سیاہ ڈھیلی سی ٹی شرٹ اور گرے جینز میں ملبوس بالوں کو پیچھے کی طرف سیٹ کیے وہ کام پہ جانے کے لیے تیار تھا شاید

"تم جاب پہ جانا چاہتے ہو¿، کوئی سوٹ پہن لیتے" بلال نے حیرت سے کہا 

" میں کونسا عدالت میں پیش ہونے جا رہا ہوں کہ سوٹ پہن کر جاوں" وہ اطمینان سے بولا "چاچو جاب پہ جا رہے ہیں" شامین نے تبصرہ کیا 

"مشن امپاسبل پہ جا رہا ہوں" وہ ہنس کر بولا اور بلال نمرہ اور بچوں کو سکول ڈراپ کر کے اسے لے کر اس انٹرنیشنل توور ایجنسی کے آفس پہنچے 

" جلال ذرا دھیان سے یہ ایک انٹرنیشنل ٹوور ایجنسی ہے،، یہ اسکا ریجنل آفس ہے،، اگر وہ لوگ تم سے مطمئن ہوئے تو شاید تمہیں ایک اچھے عہدے پہ. جاب مل جائے" 

بلال. نے آہستہ آہستہ اسکا ذہن بنانے کی کوشش کی وہ دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا

"آپ نے بات کی ہے ¿" 

پھر اس نے بھائی سے پوچھا جواباََ بلال ہکلا کر رہ گئے

(جو بات میں نے کی ہے وہ تو رہنے ہی دو) 

بلال نے اپنی ایک دوست ایلی سے فیور مانگا تھا کہ کچھ دن اسکے بھائی کو ساتھ رکھ لے ساتھ جلال کے تجربے کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تھے 

تب کہیں جا کر ایلی اس بات پہ تیار ہوئی تھی کہ وہ ایک ہفتے کے لیے اسے اپنا اسسٹنٹ رکھ سکتی ہے اسکے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی 

اور تب بلال. نے شکر ادا کیا تھا مگر اب جس طرح وہ تیار ہو کر دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا

تو بلال کو لگا کہ وہ الٹا غصے ہی ہو گا 

"یہ بندہ کسی کو چائے کافی تو سرو نہیں کر سکتا" 

انھوں نے دل میں کہا جبکہ اسسٹنٹ کو تو یہ سب ہی کرنا پڑتا تھا 

(یا اللہ جو میں نے کیا ہے وہ غلط نہ ہو) 

انھوں نے اللہ سے دعا کی 

جلال لڑ جھگڑ کر واپس چلا جاتا تو شاید پاپا بلال سے بہت ناراض ہو جاتے 

پہلی دفعہ پاپا نے کوئی کام کہا تھا اور وہ اس میں ناکام نہ ہونا چاہتے تھے 

جس وقت دفتر میں داخل. ہوئے ماحول جلال. کی توقع کے برعکس بہت اچھا اور خواب ناک سا تھا  ایسا معلوم. ہوتا تھا کہ ایجنسی واقعی کافی بڑی اور مہنگی تھی 

جلال خوشگوار حیرت کا شکار ہوا ورنہ بلال بھائی سے ایسی کوئی امید نہ تھے اسے 

"کافی بڑی ایجنسی لگ رہی ہے" 

اس نے تبصرہ کیا 

"اوں¿،، ہاں انٹرنیشنل ایجنسی ہے،، سروس بھی کافی اچھی ہے،، ہم بھی گئے تھے انکے ساتھ ایک دفعہ ترکی" باتوں بارو میں انکے منہ سے نکلا 

"آپ. کب گئے تھے ترکی؟" 

جلال. نے اچنبھے سے انکی جانب دیکھا تو بلال کو اپنی غلطی کا احساس ہوا 

" اوں ہاں،، نہیں کافی عرصہ،،، پہلے گئے تھے"وہ بمشکل وضاحت کر پائے البتہ جلال نے دھیان نہیں دیا 

" چلو دیکھتے ہیں کیا سیٹ اپ ہے"

وہ دلچسپی لے رہا تھا 

بلال بے شکر ادا کیا اس نے ترکی کے متعلق مزید استفسار نہ کیا 

"ہاں سسٹم بہت اچھا ہے انکا،، بس تم ذرا تمیز اور نرمی سے کچھ دن گزار لو ایک دفعہ سیٹ ہو گئے تو پھر مسئلہ نہیں،، مگر شروع شروع میں جاب میں بندے کو برداشت کرنا پڑتا ہے "

بلال نے غیر واضح الفاظ میں اسے جاب ڈپلومیسی سکھانا چاہی

یہ جانتے ہوئے بھی کہ جلال کبھی بھی" یس باس" ٹائپ کا آدمی نہیں بن سکتا 

" مس ایلی مارگریٹ" ریسیپشن پہ اس نے اپنا تعارف کرایا

" کیا آپکی انکے ساتھ اپائمنٹ ہے "

جرمن زبان میں لڑکی نے پوچھا وہ قابل اعتراض قسم. کے لباس میں ملبوس تھی جلال نے سرسری سی نگاہ اس پہ ڈالی 

"جی ہاں وہ میری دوست ہیں" بلال نے خوشگوار انداز میں کہا

تو لڑکی کنفرم کرنے لگی دو منٹ بعد اس نے انکی دفتر کی جانب راہنمائی کی

بلال آگے آگے تھا جبکہ جلال ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اسکے دو قدم پیچھے تھا 

"ہیلو" دروازہ. ناک کر کے اندر جھانکا اور ایلی کو خوشگوار انداز میں ہیلو کہا جلال بھی پیچھے ہی داخل ہوا

کمرے میں. ختلف مشہور ٹورسٹ سپاٹس  اور عمارتوں کے چھوٹے چھوٹے نمونے بطور سجاوٹ رکھے گئے تھے پوری دیوار پہ نقشے اور تصویریں چسپاں تھیں 

میز کے دوسری جانب ایک اٹھائیس  تیس سال کی خوش شکل، سمارٹ سی لیڈی نما عورت براجمان تھی 

"جلال شی از ایلی،، ایلی ہی از جلال مائی برادر" 

بلال نے بہ زبان انگریزی ان دونوں کا تعارف کرایا 

اس عورت نے انھیں نشست پہ بیٹھنے کا اشارہ دیا 

"تو یہ ہیں وہ جنکی تم بات کر رہے تھے" ایلی نے ایک تفصیلی نگاہ ڈھیلی سیاہ شرٹ اور گرے جینز میں ملبوس اس لڑکے پہ ڈالی جو شکل سے تئس چوبیس سال کا لگ رہا تھا اور گردن موڑ کر اسکا دفتر طائرانہ دیکھ رہا تھا پھر اسکی جانب متوجہ ہو کر حفیف سا مسکرایا 

"جی ہاں یہ جلال ہے جنکے بارے میں میں نے بات کی تھی،، پاکستان میں میرے فادر کی ایک ٹریول اینڈ ٹورر ایجنسی ہے جو جلال ہی دیکھتا تھا، اب یہ کچھ عرصے کے لیے ہمارا مہمان ہے" بلال نے محتاط انداز میں ایلی کو دیکھتے ہوئے جلال. کا تعارف کرایا ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایلی سے بھی ہاتھ ہولا رکھنے کی التجا کی

جسے وہ نظر انداز کر گئی

" اوکے،، ،تو مسٹر جلال آپکی ایجنسی کن کنٹریز میں آپریٹ کرتی ہے "

" ہم لوگ ادھر گلف میں اور لوکلی پاکستان میں آپریٹ کرتے ہیں" وہ اعتماد سے بھرے سرسری لہجے میں جواب دے رہا تھا

"اوکے تو اکس امطلب ہے آپکا اس پروفیشن میں کافی تجربہ ہے تو آپ کافی ملکوں میں گھومے پھرے بھی ہوں گے"ایلی توجہ سے اسکی جسمانی حرکات دیکھ رہی تھی

خصوصاً جس ڈھیلے ڈھالے انداز میں وہ کرسی پہ. پھیل کر بیٹھا تھا ایک بازو کرسی کی پشت پہ پھیلا رکھا تھا دوسرا گھٹنے پہ تھا اور وہ آنکھوں میں دیکھ کر جواب دے رہا تھا 

" کافی ساری جگہیں دیکھ چکا ہوں میں، اکثر ہائی پروفائل لوگوں کے ساتھ خود جانا پڑتا ہے تو پھر یہ سب مینج کرنا پڑتا ہے" 

وہ اطمینان  بھرپور لہجے میں سرسری سے انداز میں  بولا 

بلال نے نغور اسکا انداز ملاحظہ کیا 

ایلی اور بلال الرٹ سے بیٹھے تھے جبکہ جلال یوں بے تکلفی سے بیٹھا تھا جیسے گھر کے لاونج میں بیٹھا یو

(اس آدمی کا کچھ نہیں ہو سکتا) 

بلال سوچ کر رہ گیا 

انھیں پوری امید تھی ایلی اسے ابھی واپس جانے کا کہے گی 

اسسٹنٹ کی باڈی لینگویج جلال جیسی تو ہرگز نہیں ہو سکتی تھی

بلال سخت مایوس ہوئے

"اوکے مسٹر جلال مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ آپکا اس شعبے میں تجربہ ہے اور مجھے خوشی ہو گی اگر آپ اس ادارے کے لیے کوئی اچھا کام کر سکیں" اب وہ فارمل انداز میں بات کر رہی تھی

"لیکن حتمی طور پر ہم آپکو کچھ نہیں کہہ سکتے،، ہم ایک ہفتے تک آپکے کام کو دیکھیں گے پھر ہی فیصلہ کر سکیں گے"

ایلی نے بلال. کے سامنے بھی یہی شرط رکھی تھی کہ وہ ایک ہفتے اسکے بھائی کا. کام. دیکھے گی اگر مطمئن ہوئی تو ٹھیک ورنہ پھر وہ اسے اپنا اسسٹنٹ بھی نہیں رکھے گی 

اور بلال نے اسے یقین دلایا تھا کہ اسکا" بھائی نہایت فرض *شناس اور محنتی *   لڑکا تھا جو یقینا ایلی کا دل اپنی محنت سے جیت لے گا" 

"اوکے، ،بٹ فرسٹ مجھے یہ بتائیں کہ آپ مجھے پے کیا دیں گی¿"  

وہ یوں بولا جیسے ہاورڈ کا ٹاپر گریجویٹ کسی انٹرنیشنل. کمپنی کے آفر لیٹر کو جانچ رہا ہو 

ایلی نے واضح حیرت سے اسے پھر بلال کو دیکھا جائے کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا 

" ویل ہم اس بات کا فیصلہ ایک ہفتے بعد ہی کر سکیں گے،، لیکن آپکو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اگر آپ محنتی اور فرض شناس ثابت ہوئے تو ہم آپکو اچھا ہے کریں گے" ایلی نے خود کو سنبھال کر کہا 

"جلال بہتر ہے ابھی تم باہر جا کر ایجنسی کا دفتر دیکھ لو باقی باتیں ہوتی رہیں گی"بلال نے اسے مشورہ دیا ایلی نے بھی سر ہلایا تو وہ کندھے اچکاتا  ایلی سے مصافحہ کرتا باہر نکل گیا

ایلی نے حیرت اور ناگواری سے بلال کو دیکھا 

" یہ لڑکا تک جاب پہ رکھوانا چاہتے ہو ¿"

اسے جیسے یقین نہ آیا یو

" دیکھو ایلی مائی ڈیر وہ تھوڑا سا عجیب ہے نگر کام بہت اچھا کرتا ہے سپیشلی کلائنٹ ہینڈلنگ بہت زیادہ اچھی ہے اسکی ٹرسٹ می" بلال نے ایلی کو منانا چاہا اگلے پانج منٹ وہ جلال کی دیدہ و نادیدہ خوبیاں بیان کرتا رہا 

پھر نکلنے سے پہلے وہ ایلی کو تاکید کرنا نہ بھولا

" ہاں اگر وہ ہمارے ترکی کے ٹور کے بارے میں پوچھے تو اسے مت بتانا پلیز"نکلتے ہوئے اس نے کہا ایلی نے مزید کوئی سوال کیے بنا سر ہلایا 

__________-----_____________

شام کو بلال اسے خود لینے گئے تھے یہ اور بات کہ جب وہ وہاں پہنچے تو جلال وہاں سے جا چکا تھا مگر پھر وہ ایلی سے اسکے دن بھر کی تفصیل سننے کو وہاں آ گئے

" وہ کام کا بہت اچھا ہے،، بس تمہیں اس سے کام. لینا آ جائے تو سمجھو وہ تمہارا آدھا کام سنبھال لے گا" انھوں نے جھوٹی سچی تسلی دی

"اوکے تم. ٹھیک کہہ رہے ہو گے،، مگر اسکو جاب پلیس کے رولز بلکل نہیں پتہ،، وہ بہت ان فارمل انداز میں بات کرتا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے"ایلی نے منہ بنایا" دیکھو پلیز میری اور اپنی دوستی کی وجہ سے فیور دو صرف دو ڈھائی مہینے اسے برداشت کر لو صرف دو ڈھائی مہینے" بلال عجیب بے بس محسوس کر رہے تھے اتنا بے بس وہ کبھی اپنی وجہ سے بھی نہ ہوئے تھے 

" ویل رولز رولز ہوتے ہیں میں صرف ایک ہفتہ دیکھوں گی اگر اسکا رویہ کچھ بہتر ہوا تو ٹھیک ورنہ میں معذرت خواہ ہوں "

یورپی لوگ بہت بدلحاظ ہوتے ہیں ایلی اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی خیر بلال نے جلال ہو سمجھانے کے وعدے پہ اسے قائل کر ہی لیا 

صد شکر کہ وہ اگلے دن صبح بھی جگانے پہ نا صرف اٹھ گیا بلکہ کام پہ جانے پہ بھی تیار تھا 

بلال کے لیے یہ بھی تسلی بخش تھا البتہ اس دن مصروفیت کی وجہ سے وہ اسکی دوسرے دن کی کارکردگی نہ معلوم کر سکے  تیسرے دن شام کو انھوں نے تہیہ کیا تھا کہ آج ضرور ایلی کے ہاس جا کر جلال کی دو دن کی کارکردگی پوچھیں گے مگر وہ وہاں گئے تو نہ جلال وہاں تھا نہ ایلی سب کام ختم کر کے جا چکے تھے انھوں نے ایلی کو کال کی مگر وہ شاید غصے میں تھی بات سنے بغیر کال بند کر دی

تشویش زدہ سے وہ گھر آئے مگر جلال  گھر نہیں پہنچا تھا

نمرہ نے جلا. کی جاب کی خوشی میں آج رات باربی کیو کا پلان کررکھا تھا

شام کو وہ آیا تو کافی مطمئن تھا بلال بھی مطمئن ہو گئے البتہ وہ ایلی کے غصے کے باعث اپنے خدشات کر اظہار نہ کرسکے

"جلال آج تمہاری جاب کی خوشی میں ہم نے باربی کیو پلان کیا ہے" نمرہ نے خوشی سے اسے اطلاع دی وہ حیران ہوا پھر مسکرایا 

"چلیں کر لیں آپ پارٹی" 

"ویسے تم نے جاب کو انجوائے تو کیا ہو گا تین دن،، کم از کم اب تم طور تو نہیں ہو رہے" 

نمرہ نے تبصرہ کیا 

اسے جلال کی بورعیت کی وجہ سے اس سے بہت ہمدردی ہوتی تھی

" ہاں یہ تو ہے "اس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی

"جلال اگر تم دو ڈھائی ماہ ادھر اچھے سے کام کرو گے تو وہ تمہیں کنفرم کر دیں گے"

بلال نے خوشدلی سے کہا آج جلال کا تیسرا دن تھا جاب پہ اور وہ جلال کو مطمئن دیکھ کر خود بھی بہت مطمئن تھے

"کونسی جاب¿ اور کون کنفرم. کر دے گا"

وہ کچھ حیران ہو کر پوچھ رہا تھا بلال کا منہ کھلنا فطری تھا

"کیا مطلب کونسی جاب وہی جہاں ایلی نے تمہیں دلوائی تھی،، جلال کیا آج تم ایلی کے ساتھ جاب پہ نہیں گئے؛ ¿"

بلال سیدھا ہو بیٹھا

جلال کا انداز ہی ایسا تھا 

کتنی منتوں سے اس نے ایلی کو کہا تھا کہ اسے جاب دلوائے اور اسکا خیال رکھے

"گیا تھا،، لیکن میں نے وہ جاب چھوڑ دی ہے" 

(یقینا ایلی مجھے قتل کر دے گی،، میری وجہ سے اسکی بھی ریپیوٹ خراب ہوئی ہو گی،،، شٹ مجھے جلال کو اسکے پاس نہیں بھیجنا چاہیے تھا)

تمام برے خیالات نے پھر سے بلال کو گھیرا

"بھائی پتہ ہے کیا میں سوچ رہا ہوں کہ کوئی بزنس کروں..، مطلب یہ جاب واب میرے بس کا کام نہیں اور اس میں کوئی فائدہ بھی نہیں"

وہ بڑے دھیان سے اسے سمجھا رہا تھا

"جلال تم پاگل ہو کیا،، وہاں اس ایجنسی میں جاب ملتی ہی نہیں،، میں نے کس طرح ایلی سے ریکوسٹ کر کے تمہیں وہ جاب دلوائی اور تم وہ چھوڑ آئے ہو،، مائی گاڈ ایلی کتنا غصہ ہو گی مجھ پہ" بلال نے اپنا سر پکڑ لیا ایلی اسکی پرانی دوست تھی جو کہ ایک ٹریول ایجنسی میں کام کرتی تھی اور جلال کو بھی وہ وہاں جاب لگوا کر آیا تھا 

"بھائی ٹینشن نہیں لیں،، ہم نے ایک بزنس دیکھ لیا ہے بلکہ اگر آپ کو آپریٹ کریں تو ہم جلد اسے سٹارٹ کر لیں گے "

" ہم،، ہم کون¿"

کوآپریٹ کرنے والی بات پہ بلال کا دھیان ہی نہیں گیا

"بھائی میں اور ایلی اور کون؟"

وہ سٹپٹا کر بولا

"اور اسکی جاب¿"

بلال ششدر تھے

"بھائی بتا تو رہا ہوں ہم دونوں ہی جاب چھوڑ آئے ہیں"

وہ کچھ بےزار ہوا

"لیکن جلال جاب کیوں چھوڑ دی تم نے،، ایک ہفتہ تو پورا کرتے نا¿"

بلال کے لیے جلال کی جاب چھوڑنے والی بات کا قابل یقین تھی۔کل تک تو وہ بلکل بھلا چنگا تھا ۔

"ویٹ آ سیکنڈ بھائی میں آپکو بتاتا ہوں، مطلب میں نے سوچا تھا کہ میں یہ جاب کروں گا، اور میں ذہنی طور پر اسکے لیے تیار تھا مگر یو نیور نو کہ آپکی قسمت میں کیا لکھا ہے"

"کیا مطلب کیا لکھا تھا تمہاری قسمت میں یہ کہ تم نے جاب چھوڑ دینی ہے¿"

بلال طنزیہ ہوئے ۔

"نہیں بھائی پتہ ہے کیا ہوا آج¿"

پھر وہ پوری کہانی دہرانے لگا۔

ہوا یوں کہ آج صبح ایک نفسیاتی سی عورت اپنے دس گیارہ سال کے بیٹے کے ساتھ آئی وہ افریقہ جانا چاہتی تھی مطلب حقیقت میں اسکا بیٹا افریقہ جانے کی ضد کر رہا تھا تو وہ مجبورا آ گئی ۔

تو اسکی شرط یہ تھی کہ صحرا کے ایریا میں بھی وہ گاڑی پہ ہی سفر کرے گی۔اور جب اسے بتایا گیا کہ کچھ علاقوں میں گاڑیوں کا بندوبست کرنا ناممکن ہے تو انھیں پیدل یا پھر اونٹوں یا گھوڑوں پہ سفر کرنا ہو گا۔

بحث مباحثہ ہوا سٹاف اسکی جاہلیت بھری ضد پہ تنگ آ گیا اور جس وقت وہ عورت پور سروس کو گالیاں بکتی اپنے بیٹے کو کھینچ کر لے جا رہی تھی تبھی کمپنی کے کنٹری ہیڈ نے اچانک وزٹ کیا ۔

اور پھر کیا ہونا تھا ایلی سمیت تمام سٹاف کی اچھی خاصی عزت افزائی ہوئی۔

"ششش کیا ہوا ¿" 

جلال جو ایک گیسٹ کو باہر گاڑی تک چھوڑنے گیا تھا واپسی پہ اس تماشے کو دیکھ کر حیران ہوا

"چپ رہو" 

جیہ نے اسے اشارے سے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔سب پیچھے ہاتھ باندھے بے عزتی کو جذب کر رہے تھے ۔

"جاب کلچر کی یہی بات مجھے پسند نہیں" 

وہ ایک کونے میں جا کر کرسی پہ بیٹھ گیا اور افسوس سے سوچا۔

ایسی باتیں اسکی طبیعت پہ گراں گزرتی تھیں ۔

"سر پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کیجیے.." 

ایلی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو سر نے اسے سختی سے چپ کرا دیا۔

اپنے جونئیر سٹاف کے سامنے اس درجہ عزت افزائی پہ وہ بہت شرمندہ اور بے چین نظر آتی تھی۔

جلال سب کو دھیان سے دیکھتا وہیں بیٹھا افسوس اور ہمدردی کا نمونہ بنا ہوا تھا

"کھڑے ہو جاو" جیک نے اسے آنکھیں دکھائی مگر وہ ڈھیٹ بنا وہیں بیٹھا رہا، کنٹری ہیڈ اس سے انجان تھا یا شاید اسکی جلال پہ نظر ہی نہ پڑی تھی اس وقت دفتر میں کوئی خاص شخص موجود نہ تھا صرف دفتری عملہ ہی تھا ۔

"اففف بہت انسلٹ ہوئی آج" بہت زیادہ بکنے جھکنے کے صاحب بہادر انھی قدموں واپس چلے گئے ۔

کسی نے گہری سانس لے کر کندھوں کا. بوجھ کم کتنا چاہا۔

ایلی کا منہ سوجھ گیا تھا سب ڈرے سہمے ہوئے خاموش تھے. یقینا اب ایلی نے بھی اپنا غصہ انھی بے چاروں پہ نکالنا تھا۔اور جونہی  ایجنسی کے کنٹری ہیڈ ایلی سمیت پورے دفتری عملے کو کتے کی ٹھیکری میں پانی پلانے کے مترادف بے عزت کر کے گئے جلال بھی انکے بیچ آن کھڑا ہوا

منظر کچھ یوں تھا کہ سب کے منہ لٹکے ہوئے تھے

صرف ایک فرد تھا جو ابھی بھی ڈھیلی سی سفید شرٹ اور پینٹ میں بال پیچھے کیے سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑا اطمینان کا نشان تھا

"تم ہنس کیوں رہے یو؟"

ایلی کو کچھ سمجھ نہ آئی تو اسی پہ چڑھ دوڑی

جلال نے اول کچھ حیران ہو کر پھر بے پرواہی سے کندھے اچکائے

"ایڈیٹ" ایلی اس پہ ملامتی نگاہ ڈالتی ٹک ٹک کرتی اپنے دفتر میں چلی گئی

اسے سخت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اور وہ غصے میں بھی تھی۔

کتنی محنت کرتی تھی وہ اور ایک منٹ میں بے عزت کر کے رکھ دی گئی ۔

"میں سوچ رہا تھا کہ سامنے والے کیفے کی کیپیچینو ٹرائی کی جائے"

ایلی کے دفتر کے دروازے سے جھانکتا وہ یوں بولا جیسے دونوں کے درمیان سالوں پرانی دوستی ہو

حیرت کا اصل مقام یہ تھا کہ پانچ منٹ بعد وہ دونوں فضول کی بحث میں مصروف تھے اور کیفے کا مالک انکے پاس آرڈر لینے کے انتظار میں کھڑا سوکھ رہاتھا۔

جلال ایک گڈ لکنگ آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی حس مزاح کا بھی مالک تھا اور یہ بات ایلی پہ چند ہی منٹوں میں واضح ہو گئی تھی۔

اسکا اعتماد اور انداز بہت قابل تعریف تھا چند پل کے لیے تو ایلی کچھ دیر قبل ہونے والی نوازشات کو بھول ہی گئی۔

"آپ کیا لو گی بلیک کافی یا پھر پھر کچھ اور" 

اس نے ایلی کو متوجہ کیاکچھ دیر بعد وہ دونوں کیپیچینو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

جلال اسے اپنے پاکستانی ایڈوینچر اور ایجنسی کے کام کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔

اور ایلی اسے اپنے اس جاب سے پہلے کی جاب کے متعلق بتا رہی تھی۔کہ وہ کسی آفس میں رسیپشنسٹ کے طور پر  کام کرتی تھی۔

تبھی ایک شور سا اٹھا تھا۔

"میں قسم کھاتا ہوں میں نے جان بوجھ کر نہیں گرائی" 

کوئی اردو زبان میں قسمیں کھا رہا تھا۔

اور دو تین لڑکے اس پہ چڑھے ہوئے تھے جلال نے سرسری سا دیکھ کر نگاہ موڑنا چاہی تبھی اس شور شرابا ڈالنے والے لڑکے پہ اسکی نظر پڑی جو وضاحتیں دے رہا تھا ۔

وہ شاید مسلمان تھا اسکے چہرے پہ سیاہ داڑھی تھی جلال لاشعوری طور پر اپنی جگہ پہ کھڑا ہو گیا۔

"ایک منٹ" ایلی کو اشارہ کرتا وہ تیزی سے اس جانب بھاگا جہاں تین مقامی لڑکے اب اس داڑھی والے لڑکے کو بری طرح پیٹ رہے تھے اور ایک چالیس پینتالیس سال کا پریشان حال آدمی بھی بھاگتا ہوا اسے چھڑانے آن پہنچا تھا۔

"جلال رکو تم کیوں جا رہے ہو" ایلی نے اسے روکنا چاہا۔مگر وہ ایک پکا اور سچا پاکستانی تھا ۔دوسروں کے مسائل میں پاوں رکھنا اسکا فرض منسبی تھا۔

"ارے چھوڑو اسے چھوڑو" اس نے جاتے ساتھ یوں کہا جیسے علاقے میں امن و امان کا قیام اسی کی ذمہ دار ہو۔دو تین منٹ تک وہ ان تینوں کے درمیان گھسنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب حالات یہ تھے کہ وہ داڑھی والا لڑکا حیران پریشان سا کھڑا تھا اور تینوں لڑکے جلال کے ساتھ لڑ رہے تھے۔

" میں پولیس کو کال کر رہا ہوں" کیفے کے مالک نے پولیس کا نمبر ملا کر سکرین انکی جانب کیاوت نتیجتاً دو منٹ بعد وہ لڑکے بھاگ چکے تھے۔

ساتھ ہی ساتھ جلال کے اندر چھپے جنگلی کو بھی تسکین مل چکی تھی۔

واقعہ صرف یہ تھا کہ وہ داڑھی والا لڑکا جو خود کو کراچی پاکستان کا بتا رہا تھا۔تیزی سے گزر رہا تھا جب کافی کا کپ ایک لڑکی کی برینڈڈ شرٹ پہ گر گیا اور دوسرا غضب یہ ہوا کہ موسی نامی اس لڑکے نے اس صورتحال میں رک کر معذرت کرنے کی بجائے بھاگنے کی کوشش کی۔

"یہ بتاو تم ان جرمن لڑکوں کو اردو میں کیا سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔" جلال نے اسکو روکتے ہوئے کہا۔

"بھائی وہ میری بات سن ہی نہیں رہے تھے۔میں نے جرمن، انگلش پھر اردو زبان میں بھی انھیں بتانے کی کوشش کی کہ میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا" وہ خجل سا ہنس رہا تھا۔

" چلو آج بچ گئے ہو لیکن مجھے یقین ہے وہ پھر تمہیں سبق ضرور سکھائیں گے" 

جلال نے اسکا کندھا تھپکا۔

" بھائی بہت شکریہ آپ نے میرے لیے یہ سب کیا،، آپ بہت اچھے انسان ہیں "

موسی شکر گزار تھا ۔

"نہیں ایسی ہرگز کوئی بات نہیں،، میں کوئی اچھا آدمی نہیں ہوں" 

وہ جو پلٹ رہا تھا مڑا اور قہقہہ لگا کر موسی کی غلط فہمی دور کی۔

" میں بلکل بھی کوئی اچھا آدمی نہیں ہوں" 

بنا کسی شرمندگی کے وہ زور دے کر بولا،، موسی اس انداز پہ نا فہمی کا شکارہوا 

"چلو آ جاو اب تم،، پہلے تھوڑے مسائل ہیں جو تم نے یہ تماشہ کر دیا"

ایک چالیس بیالیس سال کا پریشان حال آدمی موسی کو بیزاری سے اپنی جانب بلا رہا تھا۔

" جی جناب میں آ رہا ہوں "

وہ اسے تسلی دیتا جلال سے الوداعی مصافحہ کرنے لگا۔

"یہ کون ہے اجڑا ہوا انسان¿" 

جلال نے اس آدمی کی حالت کا مذاق اڑایا ۔

" یہ نصراللہ بھائی ہیں یہ بیچارے آجکل پریشان ہیں انکی بیوی نے انکو چھوڑ دیا ہے" موسی افسوس سے بتاتے ہوئے مڑ گیا مگر جلال کی مسکراہٹ ایک دم سمٹ گئی

(یہ عورتیں کتنی بے وفا اور ناقابل اعتبار ہوتی ہیں) 

جلال کو غصے کی ایک نادیدہ لہر نے چھوا۔اسکے لیے اب دنیا کی ہر عورت ہی ناقابل اعتبار اور بے وفا تھی کیونکہ منیحہ نے جو اسکے ساتھ بے وفائی کی تھی۔

"نصر اللہ بھائی کیا بات ہے" وہ لمبے ڈگ بھرتا نصراللہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ چکا تھا۔نصراللہ کا غم اسے اپنے جیسا ہی محسوس ہوا تھا۔

"کیا ہوا ہے بھائی ¿"نصراللہ جو خود سے بھی بیزار تھا اس بے تکلفی پہ متحیر رہ گیا۔آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔

"آپ پریشان لگ رہے ہیں ¿"وہ لڑکا کچھ ایسی بے تکلفی اور ہمدردی سے پوچھ رہا تھا کہ نصر اللہ جو کہ بس کسی ہمدرد کندھے کی تلاش میں تھے بے قابو ہو گئے۔

"بھائی میں برباد ہو گیا،،، سترہ سال کا ساتھ تھا ہمارا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا" 

وہ اتنے بےبس تھے کہ بس سرپیٹنے کی کسر باقی تھی۔

جلال نے ایلی کو بھی پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

_______________________-----_______----

"آپی سارا باجی کی شادی میں جاو گی تم¿" 

کچھ دن بعد چاچو کی بیٹی سارا کی شادی تھی۔

" نہیں شاید میں نہ جاو پاوں "منیحہ نے سبزی کاٹتے ہوئے سرسری سے انداز میں کہا۔

"ابا بتا رہے تھے کہ بڑا اچھا رشتہ ہوا ہے سارا باجی کا،، چکو شکر ہے انکی شادی ہو گی تو ایک طرح سے ابا کی مثالیں تو ختم ہو جائیں گی"سیمعون نے شکر ادا کیا تو منیحہ کو کچھ حیرت ہوئی 

" کس قسم کی مثالیں سیمعون¿"

"منیحہ میڈم آپکی تو شادی ہو گئی مگر مجھے ابا اور اماں ہر وقت سارا کی مثالیں دیتے رہتے تھے کہ دیکھو سارا کا فلاں جگہ سے رشتہ آیا،، تو اسکا مطلب ہے سارا میں خوبیاں ہیں تو یہ خوبیاں تو وہ خوبیاں ابا تو تھکتے نہیں انہی خوبیاں بیان کر کر کے"سیمعون کو سگھڑ عورتوں سے اتنی ہی چڑ تھی جتنی مردوں کو ہوتی ہے

" اماں کا تو بس نہیں چلتا تھا مجھے سارا کی کاربن کاپی بنا دیں،، اتنی مثالیں تو کبھی تمہاری نہیں دیں جتنی سارا کی دیتے ہیں "

وہ بےزار تھی

" اللہ نہ کرے سیمعون جو تم سارا جیسی بنو"

منیحہ نے بے ساختہ کہا نگاہ میں جلال کے موبائل کی سکرین پہ واہیات حالت میں لی گئیں سارا کی تصاویر نظر آ رہی تھیں 

" کیوں آپی تمہیں بھی سارا باجی پسند نہیں ¿"

سیمعون کو حیرت ہوئی ورنہ منیحہ بھی اماں کی طرح نصیحتیں کرنے کی شوقین تھی

" ہاں نہیں پسند مجھے"

منیحہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے اسے وہ ہل یاد آ ہرے تھے جب سارا کی وجہ سے اسے جلال کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا 

"کیوں ایسا کیا ہو گیا"

سیمعون کی سوئی اٹک گئی تو منیحہ کو احساس ہوا اسے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا

"کچھ نہیں ہوا بس ایسے ہی" 

وہ ٹال گئی ۔اب وہ سارا کا راز فاش نہ کرنا چاہتی تھی ویسے بھی اللہ راز رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے 

آج ہم کسی کی غلطیوں کا پردہ رکھیں گے ہو سکتا ہے کل اللہ کریم ہمارا پردہ رکھ لے

"کچھ تو ہوا ہے" سیمعون نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا منیحہ جو گہری سوچوں میں تھی چونکی 

"نہیں بس ایسے ہی،، لوگ جیسے نظر آتے ہیں حقیقت میں ویسے نہیں ہوتے" 

 "تمہیں کیسے پتہ ¿" 

"جلال نے بتایا تھا" بے ساختہ اسکے منہ سے پھسلا 

"کیا بتایا تھا جلال بھائی نے" 

یکدم سیمعون کی دلچسپی بڑھی

"کچھ نہیں یہی کہ لوگ اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں باہر سے کچھ نظر آتے ہیں،، ہمیں دھوکا نہیں کھانا چاہیے"

منیحہ نے بات کو ٹالنے کی کوشش میں فلسفہ جھاڑا

تبھی اماں کے آنے پر سیمعون کی تفتیش رکی 

"منیحہ بچے باہر کریم صاحب آئے ہیں "

امی پیغام دے کر باہر چلی گئیں ۔

تو منیحہ دوپٹہ اپنے گرد لپیٹتی باہر آ گئی 

" کیسی ہے میری بیٹی¿"

" جی ٹھیک ہوں "وہ سعادت مندی سے بولی

انکل ہر ہفتے دس دن بعد چکر لگاتے تھے اور ہر فلدفعہ اسے ساتھ چلنے کا کہتے آج بھی انکی تان وہیں آ کر ٹوٹی تھی 

" انکل میں ٹھیک ہوں یہاں،،" وہ اسی فیصلہ کن انداز میں بولی جو وہ اس معاملے میں ہمیشہ اپنا لیتی تھی

اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی

"منیحہ میاں بیوی میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے لیک. اسکا مطلب یہ نہیں کہ رشتے یوں ختم کر دئیے جائیں" امی بھی پیچھے ہی آ گئی تھیں وہ شاید سب کچھ بھول چکی تھیں یا شاید انھیں واقعی اب منیحہ بوجھ لگنے لگی تھی

"امی میں آپکو بتا چکی ہوں کہ میں واپس نہیں جاوں گی اور نہ ہی آپ مجھے فورس کیا کریں "وہ کچھ بے زار ہوئی۔

" تو کیا ساری عمر یہیں بیٹھی رہو گی،، میاں بیوی کا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہوتا کہ کہ بس ایک غلط فہمی یا ایک غلطی سے بے وقعت ہو جائے" امی بھی جواباََ سخت لہجے میں بولیں 

" امی ایک یا ہزار غلطیوں کی تفصیلات میں نہیں دینا چاہتی مگر ایک بات یاد رکھیں میں کسی بھی وجہ سے آپکے پریشر میں آ کر اس گھر میں نہیں جاوں گی،،، میں جلال کو معاف نہیں کروں گی،، بے شک وہ خود بھی آئے یہاں "

وہ ہسٹری آئی انداز میں چلائی اور اماں کو. بھی غصہ آ گیا۔منیحہ ایسے بات نہ کرتی تھی۔

" کیا چاہتی ہو تم کل کو سارا کی شادی میں پورا خاندان اکٹھا ہو گا تو ہم سب کو کیا جواب دیں گے کہ شوہر اسکا یہاں ہے نہیں اور وہ ناراض ہو کر میکے بیٹھی ہے "

" امی آپکو مجھ سے میری عزت سے زیادہ لوگوں کو جواب دینے کی پرواہ ہے" 

وہ شاکی نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی 

" منیحہ میاں بیوی کو اللہ نے ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے،، لباس کا مطلب ایک دوسرے کو ڈھالنے والے ایک دوسرے کی غلطیوں کو ڈھانپنے والے ہوتا ہے،، تم کیوں نہیں سمجھ رہیں ¿"

،" امی میں بھی بس یہی سوچ کر سب برداشت کرتی رہی کہ میاں بیوی کا رشتہ لباس جیسا ہوتا ہے مگر امی اسکا مطلب یہ نہیں کہ شوہر اپنی طاقت کے زعم میں بیوی کو پورے خاندان کے سامھے ذلیل کرے اور بیوی یہ سب بے شرمی سے برداشت کرے"

" منیحہ تمہیں نہیں پتہ لوگوں کے شوہر کیا کچھ ظلم کرتے ہیں مگر پھر بھی عورتیں برداشت کرتی ہیں "

امی نے اسے تاریک رخ دکھانا چاہا 

" امی میں نے بھی بہت برداشت کیا ہے، جب تک بات میرے اور انکے درمیان تھی،، جب تک بات ہمارے کمرے میں تھی میں برداشت کرتی رہی کہ انکا مجھ پہ حق ہے،، لیکن انھوں نے اپنے ماں باپ کے سامنے جو سب کیا،، وہ میرے لیے قابل برداشت نہیں ہے.. امی شوہر اور بیوی کا رشتہ صرف جسمانی رشتہ نہیں ہوتا،، اگر ایسا ہوتا ت رو ہم. بھی جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہوتے،، میاں بیوی کا تعلق عزت کا، مان اور بھروسے کا تعلق ہوتا ہے،،، اور جب میرا شوہر مجھے اس معاشرے میں اپنے گھر میں عزت سے نہیں رکھ سکتا تو اسے میرا شوہر کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے"

آج وہ چپ ہونےکو تیار نہ تھی،، اسے یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ نہ بولی تو شاید اسکا دماغ کام. کرنا چھوڑ دے گا،، اسکی نسیں پھٹ جائیں گی

" امی مجھے لوگوں کی پرواہ نہیں ہے،، مجھے اپنی عزت سے زیادہ کسی کی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی میں اس بات پہ لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوں گی،،" 

وہ ڈھیٹ بن چکی تھی اماں نے افسوس سے اسے دیکھا

"لوگ ایسی ایسی باتیں بنائیں گے کہ تمہارا سینہ چھلنی ہو جائے گا وہ ایسے ایسے سوال اٹھائیں گے کہ تمہیں خود پہ اپنے وجود پہ شرم محسوس ہو گی،، کل. کو جب تمہارا بچہ ہو گا لوگ اسکے وجود پہ سوال اٹھائیں گے،، دے کو گی جواب ¿¿¿¿" 

اما‍ں کی آواز میں دکھ تھا 

"مجھے جواب دہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے،،، امی وہ لوگ میرے لیے اہم نہیں جو صرف مجھے دکھ دینے کو میرے پاس آئیں جب میں وہاں ہسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان تھی تب کوئی نہیں آیا اس سے سوال کرنے تو اب مجھ سے سوال کیوں کریں گے وہ لوگ.، اور اگر کریں گے تو مجھے ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں،، میں کیوں ناحق بے عزتی برداشت کروں صرف اس لیے کہ میں بیوی، ایک عورت ہوں،،، امی آپ سمجھیں جب تک ہم عورتیں اس طرح سر عام شوہروں کے ہاتھوں زلیل ہوتی رہیں گی وہ ہمیں ذلیل کرتے رہیں گے"وہ بول بول کر تھک چکی تھی آنسو اسکی آنکھوں سے رواں ہو چکے تھے۔

" میں ان. گناہوں کی سزا ہرگز نہیں بھگتنا چاہتی جو میں نے کیے ہی نہیں،، میرا شوہر تنہائی میں مجھے مارے یا بے عزت کرے میں قبول کر لوں گی لیکن وہ سب کے سامنے مجھ پہ انگلی بھی اٹھائے یہ میں برداشت نہیں کر سکتی بلکہ کسی بھی عورت کو یہ برداشت نہیں کرنا چاہیے" 

"منیحہ تم نے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا ہے وہ صرف اور صرف تباہی کی طرف جاتا ہے"

اماں مایوس ہو کر باہر چلی گئی تھیں 

مگر وہ وہیں بیٹھی رہ گئی خالی ہاتھ اور خالی دل۔۔۔

_____________________

پانچ منٹ بعد ایلی، جلال، موسی اور نصراللہ بھائی جو دنیاو سماج کی بے وفائی و زیادتی کا شکار تھے ایک میز کے اردگرد بیٹھے نصراللہ بھائی کی دکھ بھری داستان سن رہے تھے۔

تحقیق کہتی ہے کہ جب انسان خود دکھی ہوتا ہے تو وہ قدرتی طور پر دوسرے کا دکھ بھی محسوس کر پاتا ہے ۔ایک خوش اور مطمئن انسان کسی دکھی انسان کی حالت اس طرح سے نہیں سمجھ پاتا جس طرح کوئی اس جیسا ہی دکھی انسان سمجھ سکتا یے۔

نصراللہ ایک ترکش مسلمان تھے جو سالوں سے یہیں رہائش پزیر تھے، دنیا میں ماں باپ کے بعد بس ایک بیوی ہی تھی جسکے گرد نصراللہ بھائی کی. زندگی گھومتی تھی مگر اب بیوی بھی چھوڑ گئی اسکے خیال میں وہ ایک مایوس طبیعت کے مالک شخص یعنی نصراللہ کو مزید ایک دن بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

"ویسے یہ سب بہانے ہیں اصل میں تو اسکی نظر اسکی دوست کے رنڈوے بھائی پہ تھی" 

آنکھیں رومال سے پونچھتے ہوئے نصراللہ نے آخر میں دکھ سے کہا۔جلال نے بھی ہمدردی کا اظہار کیا،، ایلی بھی اداس تھی موسی تو پچھلے ایک ہفتے سے یہ سب سن رہا تھا۔

"چلیں دفعہ کریں ایسی عورت کو جو آپکو سمجھتی ہی نہیں "

جلال کا تو بس نہ چلتا تھا ایسی تما عورتوں کو کسی ٹوٹی کشتی میں بٹھا کر سمندر برد کر دیتا۔

"آپ اپنے سٹور کو سنبھالیے،، زندگی کا مزہ لیں دوستوں کے پاس جائیں" جلال نے اسے مختلف سجیشنز دئیے جیسا کہ وہ خود منیحہ کو بھلانے کے لیے مصروفیات ڈھونڈتا ہوا ملک بدر ہوا تھا۔

(عورتیں واقعی بے وفا ہوتی ہیں) 

وہ اس سوچ پہ پکا ہو چکا تھا۔

"نہیں میں یہ شہر بلکہ یہ منحوس ملک ہی چھوڑ دوں گا"نصر اللہ کسی صورت مزید اس ملک میں رہنے کو آمادہ نہ تھے۔

"تو کہاں جائیں گے آپ بھائی¿" 

موسی١ کو اپنی نوکری کی  فکر تھی کتنی مشکل سے اسے نصراللہ بھائی کے پاس شام کی ملازمت ملی تھی ۔ورنہ تو شاید وہ یہاں بھوکا مر جاتا ۔

" میں کوئی شپ لے کر ایمسٹر ڈیم چلا جاوں گا میں اس منحوس دنیا، اس زمین پہ رہوں گا ہی نہیں" انھوں نے مایوسی سے کہا۔ایمسٹر ڈم میں دریا کے اندر کئی کشتیوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں لوگ وہاں کرائے پر آیا اپنے یارڈ کے کر رہتے تھے۔

"تو یہ سٹور کا کیا ہو گا بھائی ¿"

موسی نے بے چینی سے پوچھا جلال نے بھی اس انداز پہ بغور اسے دیکھا مگر وہ نصراللہ کو دیکھ رہا تھا۔

"میں یہ بیچ دوں گا اسی ہفتے میں بیچ دوں گا پھر میں کبھی اس شہر میں دوبارہ نہیں آوں گا" 

جلال نے ہانی کا گلاس بھر کر اس بیچارے انسان کی جانب بڑھایا جو بیوی کی بے وفائی برداشت نہ کر پا رہا تھا.

"یہ عورتیں ہوتی ہی ناقابل اعتبار ہیں" کچھ دیر بعد وہ سڑک پہ ایلی کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے بولا۔

" ہاں، شاید کیا تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہے¿"

ایلی نے اسکی جانب دیکھا،، جلال نے ایک پل کو سوچا پھر نفی میں سر ہلایا ۔

"نہیں،، میں عورتوں پہ اب اعتبار نہیں کرتا،، میری زندگی میں اب کسی عورت کی کوئی جگہ نہیں" 

ایلی نے حیرت سے اس منطق کو سنا، ویسے تو جلال بڑا مثبت سوچ کا حامل دکھتا تھا مگر عورتوں کے متعلق ایسے خیالات عجیب ہی تھے۔مگر ایلی کی انھی جلال سےاتنی دوستی نہ ہوئی تھی کہ بحث مباحثہ کرتی ۔

" کیا تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ہے ¿؛؛ "وہ اب ایلی سے پوچھ رہا تھا۔

"نوپ، ،میرا تھا،، مگر اب ہمارا بریک اپ ہو گیا" وہ مسکراتے ہوئے بولی،، یہ سب معمولی باتیں تھیں جیسے،،، 

"اسکا مطلب ہے میرا چانس بن سکتا ہے" 

وہ شرارت سے ہنسا اور ایلی نے بھی اس ہنسی میں اسکا ساتھ دیا۔

" جلال میں سوچ رہی ہوں کہ کیوں نا ہم مسٹر نصر اللہ کا سٹور خرید لیں "

چلتے چلتے ایلی کو یکدم خیال آیا تو رک کر جلال کی رائے لینا چاہی

وہ جلال جسکی رائے اسکے گھر میں کوئی نہ لیتا تھا ایلی مارگریٹ اسکی رائے لے رہی تھی

"تو کیا تم جاب چھوڑنے کا ارادہ کر چکی ہو ¿"

جلال نے کچھ حیران ہو کر پوچھا 

" ہاں اب اس بے عزتی اور سٹاف کے سامنے ہتک کے بعد میں ان کو سب اورڈینیٹ نہیں کر سکتی" 

اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا. 

"تمہارے پاس پیسے ہیں؟" 

"ہاں نہیں کچھ تھوڑے سے ہیں،، ہم شراکت پہ خرید سکتے ہیں "وہ پہلی بار کچھ کنفیوز ہوئی اتنی تفصیل تو انھی اسنے سوچی ہی نہ تھی۔

" مگر میرے پاس پیسے نہیں ہیں "جلال نے اپنے کنگلے ہونے کا اعتراف کیا۔اسکے پاکستان والے بینک اکاونٹ میں بھی کوئی پیسہ نہیں تھا۔

پاپا نے اسکا اکاونٹ بلاک کرا دیا تھا۔

" تو تم بزنس لون لے لینا" 

ایلی نے اسے مشورہ دیا مگر اتنی پریشانی لینا جلال کے بس کی بات نہ تھی۔

دوسری جانب بلال پوری داستان سن کر سر پکڑے بیٹھے تھے۔

"تو اب کیا کرنے کا ارادہ ہے تمہارا ¿" 

بلال نے اسے گھور کر پوچھا 

"کیا مطلب کیا کرنا ہے با اب صبح جا کر استعفیٰ دیں گے اور بات ختم مجھے تو استعفیٰ دینے کی بھی ضرورت نہیں بس ایلی کو دینا پڑے گا" 

"میں حیران ہوں ایلی اتنی سمجھدار ہو کر تمہاری باتوں میں کیسے آ گئی ¿"

بلال کی حیرت اپنی جگہ درست تھی

جلال نے قہقہہ لگایا

"بھائی آپ مجھے کسی کام کا نہیں سمجھتے ورنہ باہر تو لوگ میری بہت قدر کرتے ہیں "اس نے فرضی کالر کھڑے کیے۔

" مگر سوال یہ ہے کہ تم پیسے کہاں سے لَاو گے،، تم. وزٹ پہ ہو تمہیں لون نہیں ملے گا"

وہ ایک سیاح کی حیثیت سے یہاں موجود تھا۔

 "بینک سے نہیں ملے گا،، آپ سے تو مل سکتا ہے نا"

" واٹ کیا کہہ رہے ہو تم¿"

" سمپل ہے بھائی آپ کچھ پیسے مجھے ادھار دے دیں کچھ میں جمال بھائی سے لے لوں گا"

" لیکن جلال میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں،، دوسر اگر تم. پیسے ارینج کر بھی لو اور ہفت بعد تمہارا موڈ نہ بنے تو پھر ¿بلال کو یقین تھا جلال پیسے ڈبو دے گا

" خیر اب بھائی اتنا بھی بے وقوف نہیں ہوں کہ پیسے انویسٹ کر کے آگ لگا دوں" اس نے ناک سے مکھی اڑائی۔

"میں دیکھ لوں گا" 

اسکا اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا۔

"بھابھی،، بھابھی"یکدم اس نے آوازیں دینا شروع کر دیں بھابھی شاید بچوں کے ساتھ تھیں 

"کیا ہوا¿" 

کچھ دیر میں وہ باہر آئیں تو پوچھا۔

" بھابھی آپکے شوہر کے پاس کتنی سی سیونگز ہوں گی¿" 

نمرہ نے حیرت سے اسے پھر بلال کو دیکھا جو نجانے کیا اشارے کر رہے تھے۔

"اچھا بتائیں نا پھر بتاتا ہوں" 

اس نے زور دیا نمرہ سمجھ نہ پائیں 

"پتہ نہیں شاید آٹھ دس ہزار یوروز"

وہ سوچتے ہوئے بولیں ۔

"یہ تو کم ہیں مجھے بائیس تئس ہزار یورو چاہییں "

" کیا کرنے ہیں،، دو تین. ہزار یورو میرے پاس بھی ہوں گے" 

نمرہ نے کہا بلال نے اپنا سر پکڑ لیا

"او واو مطلب تیرہ چودہ ہزار یورو ہوں گے آپکے پاس" 

وہ پرجوش ہوا اس سے پہلے کہ نمرہ مزید راز کھول کر جلال کے سامنے رکھتی بلال نے گفتگو میں حصہ لیا۔

" جلال جو نمرہ کے پاس پیسے ہیں وہ اسکی ذاتی سوینگز ہیں اور میرے پا سبھی سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوں گے،، اور میں بھی انھیں انویسٹ کرنے کے لیے جمع کر رہا ہوں" 

بلال نے اسے باور کرایا۔مگر جلال اس وقت اپنے ذہن میں سوچ کے گھوڑے دوڑا رہا تھا، ان سنی کر گیا

"بھائی ٹینشن نہیں لیں آپکو پیسے واپس چکاوں گا میں "

" جلال تم کہاں سے واپس کرو گے،، تم اس بزنس میں نئے ہو اتنا سا سٹور پینتالیس ہزار یورو کا لے کر تم کرو گے کیا¿" 

وہ تڑپ کر رہ گئے۔

"بھائی بزنس کروں گا اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں، ورکنگ سٹور ہے تو پرافٹ بھی آ جائے گا،، آپکو پریشان ہونے کی نہیں "

جلال اپنے طور پر اب یہ سب طے کر چکا تھا۔

بلال. نے کھا جانے والی نظروں سے نمرہ کو دیکھا جو اب شرمندہ سے شوہر کو نظر انداز کر رہی تھیں ۔

کیا عورت کو صرف اس لیے ہر بات برداشت کرنی چاہیے کہ وہ عورت ہے؟

دو ڈھائی سال بعد

"جلال یار جمال کے پیسے بھی واپس کر دئیے تم نے،، اب میرے بھی کر دو"

فارس ٹینس ریکٹ اور بال کے ساتھ تیار تھا دوسرا ریکٹ جلال کی جانب بڑھایا۔

ہفتے کو وہ دونوں ایک دو گھنٹے کے لیے ٹینس کھیلتے تھے اور بلال بھی انکے ساتھ آیا تھا۔

"کونسے پیسے¿"

تجاہل عارفانہ سے کام لیا گیا۔

" یار کیا بات کر رہے ہو پندرہ ہزار یورو تمہارے خیال میں کوئی رقم ہی نہیں" 

بلال کو جھٹکا لگا تھا۔

"بھائی کونسے پندرہ ہزار یوروز¿ "

وہ کھیل کے دوران اس سے بھی بات چیت کر رہا تھا۔

"جلال وہی پندرہ ہزار یورو جو تم نے دو ڈھائی سال پہلے مجھ سے لیے تھے۔"

بلال نے آنکھیں پھاڑے اسے یاد کرایا۔

" وہ تو کب کے واپس کر چکا ہوں آپکو،،، وہ بھی سود سمیت،، یقین نہ آئے تو اپنی بیگم سے پوچھ لیں "

بلال کچھ دیر کے لیے ایک لفظ نہ بول سکے وہ تو پچھلے دو سال سے اس امید پہ تھے کہ جلال انھیں پیسے لوٹا دے گا کیونکہ وہ پیسے ادھار لیے گئے تھے۔

اب وہ سرے سے پیسے دینے سے نا صرف انکاری تھا بلکہ سود سمیت واپسی کا دعویٰ بھی کر رہا تھا۔

(کمال ہے اگر جلال اتنی بڑی رقم نمرہ کو دیتا تو نمرہ مجھے ایک بار بتاتی تو ضرور)

سارے وقت میں وہ یہی سوچتے رہے۔

"آ جاو فارس کچھ کھاتے ہیں" واپسی گھر کی جانب جانے کی بجائے وہ فوڈ سٹریٹ کا رخ کر رہا تھا۔

"مام نے آپکی فیورٹ نہاری بنائی ہے" 

فارس نے چٹکی بجا کر اسے یاد کرایا۔نمرہ جمعے کو جلال کی پسند کا کوئی نہ کوئی بھاری بھرکم کھانا بناتی تھیں ۔اور خوشی سے بناتی تھیں ۔

" نمرہ جلال نے تمہیں ادھار والے پیسے واپس کیے تھے¿" 

گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی بلال نے سوال کیا ۔وہ جو ایکسائٹڈ سی انھیں کھانا ریڈی ہونے کی اطلاع دینے والی تھیں ایک پل کو ششدر رہ گئیں ۔

"وہی ادھار جو سٹور سٹارٹ کرنے سے پہلے جلال نے ہم سے لیا تھا،، یو ریمببر؟ اس میں تمہاری سیونگز بھی تھیں "بلال نے اسکی خاموشی کو اسکی لاعلمی پہ تعبیر کیا۔

جلال کہہ رہا ہے کہ اس نے وہ پیسے لوٹا دئیے تھے وہ بھی سود سمیت "

بلال کی حیرت زدہ ذہنی کیفیت اسکے چہرے سے عیاں تھی۔

"ہاں تو سچ کہہ رہا ہے" 

نمرہ نے اقرار کیا تو بلال بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔

"تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ¿¿¿¿¿¿ کب دئے تھے اس نے تمہیں پیسے ¿¿"

انکے چہرے پہ غصے اور حیرے کے ملے جلے تاثرات تھے۔

" پچھلے سال" نمرہ کہہ کر کچن میں چلی گئیں کہنا کیا تھا بم پھینکنا تھا بلال بھی فورا انکے پیچھے ہو لیے۔

 "مطلب ایک سال ہو گیا اور تم نے مجھے بتایا ہی نہیں "

ناگواری انکے لہجے سے عیاں تھی

" آپکے سامنے ہی تو دی تھی اس نے" 

نمرہ کو سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کیسے بتائے 

" کیا؛ ¿¿کیا دیا تھا اس نے جو میرے سامنے تھا اور مجھے آج تک معلوم نہ ہو سکا" 

پچھلے دو سال میں وہ بہت پریشان رہے تھے کہ نجانے جلال انکے پیسے لوٹانے کا ارادہ رکھتا بھی ہے یا نہیں ۔۔۔

اور نمرہ ایک سال سے پیسے لے کر بیٹھی تھی اور انھیں اطلاع دینا بھی ضروری نہ سمجھا۔

یہ بات برا منانے کی ہی تھی

" بلال پچھلے سال جو GTR اس نے گفٹ کی تھی،، وہ انھی پیسوں کی تھی" 

نمرہ نے ہمت جمع کر کے بلال کی آنکھوں میں دیکھے بغیر کہا۔جو منہ کھولے ہونق بنا کھڑا تھا۔

"تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ جو گاڑی اس نے دس ماہ پہلے تمہیں گفٹ کی ہے جسکی باقی کی قسطیں تم ابھی تک ادا کر رہی ہو،،، وہ ان پیسوں کی تھی جو جلال نے ہمیں واپس لوٹانے تھے" 

بلال نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر اپنا سوال مکمل کیا۔انھیں لگا کہ وہ سمجھ نہیں پائے یا ان سے سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔

" جی" نمرہ نے اسکی تصدیق کی تو بلال سر پکڑ کر رہ گئے پچھلے سال نمرہ کی سالگرہ کا دن انکی یادسشت کی سکرین پہ ناچنے لگا

صبح کا وقت تھا جب جلال اسکے سامنے تھا۔

"تم سٹور پر نہیں گئے؟"

بلال نے اسے خلاف معمول گھر پر دیکھا تو پوچھا ورنہ ایلی اسے صبح سات بجے پک کر لیتی تھی

"نہیں بس جا رہا ہوں،، بھابھی کی برتھ ڈے کا کیا پلان ہے؟"

"کچھ نہیں بس شام میں سیلیبریٹ کریں گے" بلال سرسری لہجے میں بولے

"گفٹ کا کیا پلان ہے؟"

وہ ٹوکری سے کیلا اٹھاتے ہوئے بولا۔

"کیک لے کر آوں گا شام کو،، کوئی ڈریس وغیرہ دلوا دوں گا،، اللہ اللہ خیر سلا"

بلال نے ناک سے مکھی اڑائی

" اتنے بڑے انجینیر بن گئے،، مہینے کے لاکھوں کماتے ہیں مگر مڈل کلاس والی سوچ نہیں بدلی"

اس نے بھائی کی شخصیت پہ بے لاگ تبصرہ کیا۔

"دماغ ٹھیک ہے تمہارا" بلال گڑبڑا کر رہ گئے۔

" یار بھائی،، اتنی پیاری بیوی ہے تمہاری اور تم اسے کوئی ڈھنگ کا گفٹ نہیں دے سکتے؟ "

وہ ایسے بولا جیسے اپنی بیوی کو سونے میں تول رکھا ہو۔

" کیا مطلب اور کیا ڈھنگ کا گفٹ ہوتا ہے،،، میں تمہاری طرح نہیں ہوں کہ کمایا اور اڑایا،، میں بہت محنت کرتا ہوں،، میرا ایک گھر ہے، ایک فیملی دو بچے ہیں جنکی ضروریات کا مجھے خیال رکھنا ہوتا ہے"

" چچ چچچ افسوس ہے آپکی سوچ پہ،، مطلب بس یہی سڑی ہوئی زندگی گزارنی ہے،، کوئی. زندگی میں آوٹ آف وے جا کر کچھ نہیں کرنا"وہ افسوس سے بولا" تو تم کیا چاہتے ہو کہ میں کیا کروں آوٹ آ دا وے جا کر،، پھر فارس کے لیے جاوں،،پھر اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے "بلال طنزیہ ہوئے۔

"آپ ایسا کریں کہ بھابھی کو گفٹ میں یہ ڈائننگ دے دیں "

وہ  قہقہہ لگا کر بولا مگر بلال نے ملامتی نظروں سے اسے گھورا۔

"بیٹا جب تمہارے دو بچے ہوں گے نا تب پوچھوں گا تم سے"

" کم از کم میں آپکی طرح کنجوس نہیں ہوں گا کبھی بھی"جلال نے جواباََ اسے چیلنج کیا۔

شام کو بلال نے کہے کے مطابق ایک اچھا سا جوڑا معہ ایک عدد کیک کے پیش کیا اور جتنا وہ مصروف رہتا تھا نمرہ کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔

وہ خوش تھی مگر اس سے پہلے کہ کیک کاٹتی جلال بھی گھر آ گیا۔

" تھینک گاڈ جلال سے پہلے کیک نہیں کاٹ لیا ورنہ وہ بر امناتا" انھوں نے شوہر کے کان میں سرگوشی کی۔

"آو جلال ہم تمہارا انتظار کر رہے تھے"

"ہیپی برتھ ڈے ٹو دا سویٹیسٹ وومن آن دا گلوب"

Happy birthday to the sweetest woman on the globe. 

"او بہت شکریہ"

نمرہ نے خوش دلی سے شکریہ ادا کیا

" آو کیک کاٹیں "

" ارے نہیں ابھی نہیں پہلے میرے ساتھ نیچے چلیں" وہ انکو نیچے لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔

" کیوں کیا ہوا"

وہ فطرتا پریشان ہو گئیں ۔

" آپکے کے لیے ایک چھوٹا سا کام ہے"

"چلو وہ میں کر دوں گی پہلے کیک تو کاٹ لیں" ان انھیں جلال کو برداشت کرنے کی عادت پڑ گئی تھی،، بلال درست کہتا تھا کچھ عرصے بعد سب صحیح ہو جائے گا اور اب واوری سب صحیح تھا۔جلال تو ویسے کا ویسا ہی تھا بس نمرہ کو اسے سہنے کی عادت پڑ گئی تھی۔

جلال کی شادی کو مس کرنے کی سزا اسے یہی ملی تھی۔تب انھوں نے مصروفیت کا بہانہ بنا کر شادی میں شرکت نہ کی اور درحقیقت وہ اس وقت ترکی کے ٹور پہ گئے ہوئے تھے۔

جس بات سے جلال لاعلم تھا ۔اور اس نے شرکت نہ کرنے پر ویسے ہی بہت ہنگامہ کیا تھا مگر بلال نے جاب سے چھٹی نہ ملنے کا جھوٹا بہانہ بنا کر جان چھڑائی یہ اور بات کہ انکل کو سچائی کا علم ہو گیا تھانمرہ کو یاد تھا اس دن جب انکل کو علم ہوا تب  وہ کتنا شرمندہ ہوئے تھے۔

اسی شرمندگی کو مٹانے کے لیے بلال نے جلال کی مہمان نوازی کو خود پر بھی اور اس پر بھی  فرض کر دیا تھا۔

__________________________

"فراس ادھر آو" 

اماں پیچھے پیچھے تھیں جبکہ وہ ماں کا موبائل پکڑے آگے آگے تھا۔منیحہ ابھی ابھی کالج سے آئی تھی اور اب نہانے چلی گئی تھی

"فراس" ایک منٹ بعد اماں تھک کر بیٹھ گئیں سارا دن یہ  بچہ انھیں تھکاتا تھا۔

"اب میں آپکی ماما کو بتاتی ہوں " پھر جب فراس نے اماں کو بیٹھتے دیکھا تو اطمینان سے وہیں کھڑا ہو کر موبائل کی سکرین پہ انگلیاں چلانے لگا لاکڈ سکرین پہ صرف اسے وال پیپر پہ موجود اپنی تصویر ہی دکھ رہی تھی جسے دیکھ دیکھ کر وہ خوش ہو رہا تھا ۔اسی لیے اماں نے چپکے سے اسکے قریب جا کر موبائل پکڑ کر اوپر میز پر رکھ دیا۔

جسکے جواب میں فراس صاحب نے ایک چیخ ماری تھی۔

"ابھی تمہاری ماں آتی ہے تو وہ ہی سنبھالے گی میں تو تھک گئی ہوں" 

سارے گھر کا کام کاج اور پھر فراس کی بھاری بھرکم ذمہ داری اماں کو تھکانے کے لیے کافی تھی۔

مگر اس فراس میں فراست کچھ زیادہ ہی پائی جاتی تھی۔

اس نے جب میز تک پہنچنا ناممکن خیال کیا تو میز پوش کا کونا پکڑ کر کھینچا اور میز پوش کے ساتھ ساتھ موبائل بھی زمین پہ آ رہا۔

ساتھ ہی اسکے معصوم چہروں پہ جیت کی خوشی چھا گئی۔

"افففف فراس بدتمیز یہ کیا کر دیا آپ نے" منیحہ اسی پل واش روم سے نکلی اور موبائل کی رہتی سہتی پسلیاں ٹوٹنے کی آواز نے اسکا استقبال کیا۔

ماں کے سامنے تو وہ اچھا بننے کی ایسی اداکاری کرتا تھا کہ ناقابل بیان،، اسی لیے اب یکدم اسکے چہرے پہ کامیابی کا نشہ یا خوشی ناپید تھی بلکہ وہ پریشان دکھتا تھا

" یہ دیکھیں یہ جو آخری کونا سلامت تھا وہ بھی ٹوٹ گیا" 

منیحہ نے اسے آنکھیں دکھائیں ساتھ ہی موبائل اسکی آنکھوں کے سامنے کیا جہاں سکرین کرچیاں ہو چکی تھیں اور جا بجا سینسر اور ٹرانسسٹر نظر آ رہے تھے۔

اور یہ ساری فراس کی  کارکردگی ہی تھی۔

"سوری ماما" اسکے چہرے پہ اب معصومیت کی نہریں بہہ رہی تھیں مگر منیحہ اسکی کر ہر ادا سے واقف تھی۔

اسی لیے چپ چاپ گھورتی رہی۔ تبھی احمر بھائی نے بیرونی دروازے سے اینٹری دی۔

"کیا ہو رہا ہے" انھوں نے دونوں ماں بیٹے کو یوں سنجیدہ دیکھا تو پوچھا 

"میں تھک چکی ہوں ان صاحب کو سمجھا سمجھا کر" 

منیحہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا۔احمر بھائی نے اسے اپنی گود میں لیا۔

"بھئی تو تم کیوں میرے بیٹے کو ڈانٹتی رہتی ہو" 

احمر بھائی سارا سے بڑے تھے۔

اور آجکل کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے ساتھ ہی ساتھ یہاں بھی کافی چکر لگا رہے تھے۔

"احمر بھائی نیچے اتاریں، میں انکو خود دیکھتی ہوں" 

وہ بل گیٹس کے سے اصول و ضوابط لاگو کرنے کی کوشش کرتی تھی مگر ابا اور علی ہمیشہ منیحہ کی کوششوں پہ پانی پھیرتے ہوئے اسے موبائل پکڑا دیتے،، وہ موبائل استعمال کرنے کی صلاحیت تو نہ رکھتا تھا مگر استعمال کرنے کی اداکاری خوب کرتا تھا۔

" ہو سکتا ہے غلطی سے گر گیا ہو" احمر بھائی نے فراس کی تائید حاصل کرنے کے لیے اسکی جانب دیکھا

جو اب بھی  احمر کا سہارا ہونے کے باوجود  سنجیدہ اور معصوم سی شکل بنائے ہوئے تھا۔

"جی نہیں یہ انھوں نے باقاعدہ دماغ استعمال کیا ہے اور میز کور کھینچ کر موبائل کو قریب کر رہے تھے" 

احمر نے اسکی اداکاری کو دیکھ کر قہقہہ لگایا جو اب بے قصور نظر آ رہا تھا

"تم کو کس نے کہا تھا اسکا نام فراس رکھو جیسا نام رکھا ہے ویسا ہی اثر ہو گا نا" 

منیحہ نے سر جھٹکا جتنی وہ فراس کی اچھی تربیت کرنے کی کوشش کرتی تھی اتنا ہی وہ بچہ لاڈ پیار سے خراب ہو رہا تھا۔

وہ شرارتی نہیں تھا بلکہ بولتا بھی کم تھا، زیادہ وقت وہ اپنے دھیان میں کھیلتا رہتا تھا اور وہ خاصہ بے خوف بھی تھا، کسی بھی چیز کو چھیڑنا، پنکھوں میں ہاتھ دینا حتی کہ بنا بتائے گھر سے باہر گلی میں چلے جانا اسکی عادتوں میں شامل تھا۔

باقیوں کے ڈانٹنے پہ وہ بلکل دماغ میں نہ بٹھاتا تھا ہاں ماں کے ساتھ اسکا رویہ مختلف تھا

"آپی یہ جلال بھائی پہ جائے گا آپ جو مرضی کر لیں" اسکا خوف مختارانہ رویہ دیکھ کر سیمعون اکثر کہتی تھی۔

اور یہ بات منیحہ کو فکر مند کر دیتی جتنا وہ اس سب سے دور جانے کی کوشش کر رہی تھی فراس اتنا ہی اسے واپس کھینچ لیتا تھا حالانکہ اسے تو اس سب کا علم بھی نہیں تھا۔

مگر اس بچے کے ایک ایک فیچر اور اسکی ایک ایک ادا میں اسکے باپ کی جھلک تھی

وہی زمانہ  مخالف اعتماد اور بے خوفی و بے پرواہی ۔اس چھوٹے سے بچے کی بھی اپنی دنیا تھی اور وہ کم بے تکلف ہوتا تھا ۔  ماں کے علاوہ ہر کسی کو کم اہمیت دیتا تھا 

بس وہ عجیب سا تھا جتنا وہ پیارا تھا اتنا ہی مشکل نفسیات کا مالک تھا۔

__________________________

"جلال ہوا کیا ہے بتا تو دو" نمرہ کے پیچھے جلال اور اسکے پیچھے بلال اور بچے تھے۔

وہ سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے نیچے پہنچے ۔

"ایک منٹ بھابھی"

اس نے آگے کو ہو کر انھیں انتظار کرنے کا کہا۔

"موسی"

"کیا ہوا ہے موسی کو کدھر ہے وہ"

نمرہ کو تشویش ہوئی۔

"ایک سیکنڈ"

جلال نے آگے بڑھ کر اندھیرے میں کچھ ٹٹولا

"یہ لائٹس کیوں آف ہیں" خلاف معمول بلڈنگ کی پارکنگ میں اندھیرا تھا۔

"ٹن ٹنا" یکدم چھپاکا سا ہوا اور کسی گاڑی کے بونٹ پہ فیری لائٹس چمکیں۔

"ہیپی برتھ ڈے ونس اگین"

جلا ل نے اشارہ کیا گاڑی کے اندر بیٹھا موسی باہر آ چکا تھا

"آو مائی گاڈ جلال کیا یہ تمہاری ہے،، کیا تم نے جی ٹی آر لے لی¿" نمرہ نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اپنی حیرت اور خوشی کے اس ہزار وولٹ کے جھٹکے کو روکا۔

"نہیں یہ آپکی ہے،،، آپکا برتھ ڈے گفٹ"اس نے عام سے لہجے میں کہا۔نمرہ نے بے یقینی سے اسے پھر شوہر کو دیکھا... یہ بھلا کیسا مذاق تھا۔

" بیٹھیں "اس نے گاڑی کے کھلے دروازے کی جانب اشارہ کیا۔

"بھابھی بیٹھ جائیں خواہشوں کو پورا کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے"

بلال خود ہونق بنا بیٹھا تھا

" جلال کیا یہ تم نے رینٹ آوٹ کی ہے ¿"

یہ نمرہ کی ڈریم کار تھی۔

اور انھیں اسے یوں آپ. ے سامنے دیکھ کر یقین نہ آ رہا تھا

"بھابھی فار گاڈ سیک یار یہ آپکا برتھ ڈے گفٹ ہے،، صبح بینک جا کر کنفرم کر لیجیے گا،، اندر پیپرز بھی موجود ہیں"

کوسی نے جھٹ سے پیپرز نکال کر اسکے سامنے کیے۔

" جلال "

وہ پھر سے بے یقین ہوئی

انھوں نے کبھی اسے خریدنے کا سوچا تک نہ تھا

"آپکو پسند تھی نا یہ¿"

جلال نے کچھ مشکوک ہوکر پوچھا ۔

" ہاں مگر "وہ کچھ بھی نہ بول پا رہی تھی انکی حالت کسی گونگے کی سی تھی

" آپکا ری ایکشن دیکھ کر مجھے شک سا ہو گیا ہے، بیٹھ جائیں یار "اس نے نمرہ کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ دیا۔

"جلال تم بہت بہت بہت زیادہ اچھے ہو "اگلے دس منٹ میں نمرہ گاڑی کے ایک ایک حصے کو چھو کر دیکھ چکی تھی۔

اور اسکے جذبات اسکے سرخ ہوتے چہرے سے عیاں تھے۔وہ بہت زیادہ خوش تھی، جیسے کوئی فقیر اچانک کوئی لعل پا لے۔

ایسی ہی کیفیت تھی اسکی۔

"اتنا بھی اچھا نہیں ہوں" اسے اپنی تعریف ہضم نہیں ہوتی تھی ۔

جس سے وہ سننا چاہتا تھا اس نے کبھی تعریف کی نہیں اور باقیوں کے منہ سے سنننا اسے اچھا نہ لگتا تھا۔

"تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں" نمرہ کو واقعی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی

"میرا نہیں اپنے شوہر کا شکریہ ادا کریں "

اسنے حیرت زدہ سے کھڑے بلال کی جانب اشارہ ہیا جو خود بھی چونک گئے تھے

"کیا مطلب¿ "

"بھابھی مطلب بعد میں سمجھاوں گا پہلے تو چل کر کچھ کھلائیں"

"جلال تم بہت فضول خرچ ہو.. پیسہ بہت محنت سے کمایا جاتا ہے" بلال نے کہا تھا۔

" بھائی فضول خرچ بھی انسان تب ہی ہو سکتا ہے جب اسکے پاس پیسہ ہو،، اور مجھے پتہ ہے پیسے کے آنے  کا تعلق محنت سے نہیں سخاوت سے ہے"

" یہ تم سے کس نے کہا¿"

نمرہ نے پوچھا 

اسکے منہ سے ایسی بات حیرت انگیز تھی ، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول تھا

"منیحہ کہتی،،،" پھر یکدم وہ رک گیا 

" خیر دفعہ کریں،، چلیں کچھ کھا لیں "

وہ واپسی کے لیے مڑ گیا تھا 

اس دن نمرہ ہی نہیں بلال بھی اسکے ایثار سے متاثر ہوا تھا۔اسکے بعد سے نمرہ اور جلال کی بہت دوستی ہو گئی تھی۔مگر بلال کو لگا بات ختم۔

اور نمرہ کو جلال نے اگلے دن لاپرواہی سے بتایا تھا

"مجھے پتہ تھا آپکا کنجوس شوہر پیسے خرچ نہیں کر سکتا تو میں نے سوچا کہ آپکو انکی. طرف سے اچھا سا گفٹ دے دوں"

"مگر جلال وہ بہت غصہ ہوں گے یہ انکی ذاتی سیونگز تھیں"

خوشی اپنی جگہ مگر نمرہ کو شوہر کی ناراضی کی بھی فکر تھی 

"فکر نہیں کریں بھابھی آپ بھی انکی ذاتی بیوی ہیں "

" مگر جلال وہ بہت غصہ ہو گااتنی فضول خرچی پر یہ. کوئی اچھی بات تو نہیں نا"

" کم آن بھابھی آجکل کڑوروں لگا کر بھی خوشی نہیں ملتی چند ہزار یوروز سے اگر آپکو خوشی مل رہی ہے تو اسے انجوائے کریں کل. جو ہو گا دیکھا جائے گا کل کا سوچ کر اس خوشی کو برباد نہ کریں،، اگر میں یہ پیسے انھیں واپس نہ کرتا تو انھوں نے کیا بگاڑ لینا تھا میرا ، شکر کریں واپس کر دیجیے ہیں ،"

وہ لاپرواہ تھا شاید یہی اسکی سب سے بڑی خوبی اور یہی اسکی خامی تھی۔

" فکر نہیں کریں بس اسکی باقی کی لون انسٹالمنٹس دیتی رہیں اور گاڑی کا مزہ لیں"

اور تب کچھ عرصے تک وہ پریشان رہیں مگر اس سفید جی ٹی آر میں بیٹھنے کا مزہ کچھ یاسا جن لیوا تھا کہ وہ بھولتی چلی گئیں ۔

اور آج یہ لٹکتی تلوار سر پر گرنے کو تھی۔

"نمرہ میں یقین نہیں کر سکتا کہ میں سالوں سے اس لیے نوکری کر کے جوتے گھسا رہا ہوں کہ میرے پاس کاروبار کے لیے  کیپٹل (سرمایہ) نہی اور میرے بیوی،، میری اپنی بیوی ایک لاکھ یوروز کی گاڑی میں گھوم رہی ہے"

بلال نے اپنے سر کے بالوں پہ گرفت کی،، انکا بس نہ چل رہا تھا سب تہس نہس کر دیں ۔

" بلال "نمرہ نے شکایتی انداز میں اسے پکارا مگر بلال کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔

بلال ایک لاکھ یورو کی تو نہیں" نمرہ نے فورا اسکی غلط فہمی دور کرنے کی نیت سے کہا

بلال نے کچھ اچنبھے سے اسے دیکھا

"صرف 65000 یوروز کی ہے باقی کچھ ٹیکسز وغیرہ،، یوزڈ گاڑی تھی یہ" 

"نمرہ، ،نمرہ میرا دماغ خراب مت کرو،، پینسٹھ ہزار یوروز کا مطلب  ہے تقریبا پاکستانی دو کروڑ روپے،، اور جنکو تم کچھ ٹیکس کہہ رہی ہو وہ بھی پندرہ بیس لاکھ تو کم از کم ہو گا" 

بلال نے خود کو چیخنے سے روکنا چاہا تھا مگر یہ مشکل تھا،، یہ بہت ََزیادہ مشکل تھا۔

"اچھا سوری نا،، بس اس وقت میں نے یہ سب سوچا ہی نہیں،، مجھے لگا بس میرا خواب پورا ہو گیا ہے اس سے زیادہ کیا چیز ہو سکتی ہے"

نمرہ نے بلال کا ہاتھ تھام کر اسے موم کرنا چاہا مگر بلال اپنے حواس میں نہیں تھا اپنا ہاتھ چھڑا کر وہ اب غصے سے ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد بچوں کو بھی پتہ چل چکا تھا۔

" دیکھا بھابھی میں نے کہا تھا نا کہ آپکے کنجوس شوہر کا دل بند ہو جائے گا"جلال نے قہقہہ لگا کر کہا، نمرہ نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

"خیال رکھیے گا یہ نہ ہو رات کو ہارٹ اٹیک آ جائے انھیں" 

بلال کے چہرے کی جانب اشارہ کر کے اس نے آنکھ دبا کر کہا ۔

"جلال میں اس وقت تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتا"

بلال نے ضبط سے کہا۔جلال کو تو فرق نہ پڑتا الٹا بچے بھی اسے جاہل باپ سمجھتے جو ایک پرانی بات پہ چیخ چلا رہا تھا۔

" بلال پلیز غصہ نہیں کریں،، آپ بے شک اسکو سیل کر دیں" رات کو کمرے میں آ کر بھی بلال کا موڈ بحال نہ ہوا تو نمرہ نے اسکا گھٹنا پکڑ کر معذرت کی۔

اس دفعہ البتہ انھوں نے اسکا ہاتھ جھٹکا نہیں تھا۔

"ٹھیک ہے آپ اسے سیل کر دیں،، ایم شیور کہ اچھے میں سیل ہو جائے گی" 

اس نے دل پر پتھر رکھ کر کہا ورنہ اب اسے یہ پیاری سی گاڑی بہت عزیز تھی۔

"نمرہ یہ بات نہیں یار مگر تمہیں سوچنا چاہیے تھا۔ہم ورکنگ کلاس کے لوگ ہائی کلاس لونگ افورڈ نہیں کر سکتے،، اور یہ گاڑی ایک ورکنگ کلاس کے بندے کے لیے نہیں ہے"

وہ بے بس تھا۔

 "بلال شاید میں کبھی بھی اسے نہیں خرید پاتی مگر بس جلال نے مجھے ہمت دی،، اور مجھے لگا کہ زندگی میں خوش رہنا زیادہ ضروری ہے"وہ بھی بہت اداس ہو گئی تھی

" ہاں میں صرف اپنی خوشی کا سوچ رہی تھی،، مجھے آپکی اور بچوں کے آسانی اور خوشی کا بھی سوچنا چاہیے تھا،، اس معاملے میں واقعی غلط تھی "

وہ اب اپنا احتساب کر رہی تھی ۔

بلال کا دل بھی نرم پڑنے لگا،، واقعی اگر نمرہ نے گاڑی خریدنا ہوتی تو وہ بلال سے مطالبہ کر سکتی تھی، جبکہ بلال اچھی طرح جانتے تھے کہ GtR اسکی پسندیدہ کار تھی۔

مگر اس نے کبھی اسے خریدنے کا خیال بھی ظاہر نہ کیا۔

یہ سب یقیناً جلال کی خباثت تھی۔

"نمرہ یار میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تمہارے تمام خواب پورے کروں مگر تم جانتی ہو اسکے لیے ابھی بہت محنت کرنا ہے ابھی.." 

بلال نے نمرہ کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا۔

"اور ان شاء اللہ میں تمہارے سارے خواب پورے کروں گا" 

وہ زور دے کر بولے تو نمرہ اداسی سے مسکرا دیں 

" یہ  جلال ہے نا وہ  شروع سے ہی بہت سیلف سینٹرڈ ہے وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے،، کیونکہ اس پہ کبھی کسی کی ذمہ داری نہیں پڑی،، اور جب پڑی تب وہ اٹھا نہیں پایا" 

بلال اب خود کا دفاع کرنے کے لیے جلال کی شخصیت پہ روشنی ڈال رہے تھے جبکہ نمرہ ابھی بھی جلال کے بارے میں اچھا ہی سوچ رہی تھی۔

جلال ابھی بھی اس معاملے میں اسکے نزدیک قابل ستائش تھا۔

" بلال وہ اچھا ہے،،، بس اس نے تو میرے بارے میں ہی سوچا،، ورنہ کون کسی کے لیے اتنا آوٹ آف دا وے جا کر کچھ کرتا ہے" 

اسکا لہجہ معمول کا تھا مگر بلال کے دل پہ لگی۔

"نمرہ وہ اچھا ہے مگر وہ اتنا اچھا نہیں ہے جتنا تمہیں لگ رہا ہے،، وہ ایک شر انگیز انسان ہے" 

بلال کا بس نہ چلا اسے موٹی موٹی گالیاں دیتے۔

" بلال اس میں کمزوریاں بھی ہونگی مگر تم اسکی اچھی باتوں کا انکار نہیں کر سکتے،، رشتوں کا احساس ہے اسے،، اور برائیاں تو ہر کسی میں ہوتی ہیں "

نمرہ اس وقت بلال سے بحث کرکے اسے مزید ناراض نہ کرنا چاہتی تھی مگر پھر بھی  وہ چپ نہ رہ سکی۔

(کاش جلال تو میرا سگا بھائی نہ ہوتا) بلال نے بے بسی سے سوچا۔

" اگر وہ اتنا ہی اچھا ہوتا تو اس وقت پاکستان میں اپنی بیوی کے پاس ہوتا اگر اس میں اتنا رشتوں کا احساس ہوتا تو اس وقت وہ اپنے بیوی بچوں کے حقوق پورے کر رہا ہوتا"

بلال کا لہجہ طنزیہ تھا۔دوسری جانب وہ اپنے کارنامے واضح کر رہا تھا کہ وہ نمرہ اور بچوں کا خیال رکھتا ہے ۔

"یہ اسکا ذاتی معاملہ ہے، ہمیں اسکو ڈسکس نہیں کرنا چاہیے" 

وہ جرمن نژاد تھیں انکی تربیت اسی معاشرے میں ہوئی تھی دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کی انھیں عادت نہیں تھی۔

(جلال اللہ پوچھے تمہیں خود تو تم شتر بے مہار کی طرح گھومتے ہو،، عیاشیاں کرتے ہو اور دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھول رہے ہو) 

نمرہ سو چکی تھیں یا شاید سونے کا دکھاوا کر رہی تھیں بستر کے دوسرے کونے پہ جس طرح وہ سمٹی  پڑی تھیں بلال جانتا تھا یقیناً وہ اسکے بارے میں اچھا نہیں سوچ رہی تھی

_____________________________

"آپی سارا باجی کا بیٹا ہوا ہے" سیمعون اپنی یونیورسٹی اسائنمنٹ مکمل کر لے بستر پر جانے سے پہلے منیحہ کو بتایا جو اپنے کالج کے طلبا کے پیپروں پہ نمبر لگا رہی تھی۔

پاس ہی فارس سو رہا تھا۔

"سیمعون یہ ہفتہ بھر پہلے کی خبر ہے جو تم سینکڑوں بار سنا چکی ہو" 

اس نے سر اٹھا کر سیمعون کو دیکھا جو اپنے بستر پہ جانے سے پہلے فراس کا منہ چوم رہی تھی۔

"ہاں نا ،،پوری بات تو سن لو"

وہ جھنجلائی

"انھوں نے اپنے بیٹے کا نام حیدر رکھا ہے،،"

وہ خفگی سے بولی 

"ما شاء اللہ اچھا نام ہے تمہیں کیوں دکھ ہو رہا ہے"

" دکھ تو ہو گا نا،، کتنا کہا تھا میں نے کہ اسکا نام حیدر رکھ دیں مگر آپکو ہی ٹھنڈا میٹھا نام رکھنے کا شوق چڑھا تھا"

وہ سخت ناراض تھی،، اس دن سے جب سے منیحہ نے فراس کا نام فراس رکھا تھا

منیحہ ہنس کر رہ گئی 

"توبہ ہے تو اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ اس نام پہ پابندی لگ گئی یا اب کوئی بھی یہ نام نہ رکھے،"

" اگر آپ رکھ لیتیں تو میں کبھی کسی کو نہ رکھنے دیتی "

وہ خفا ہوتی کروٹ بدل گئی ۔

منیحہ کے لیے مزید اپنا کام کرنا مشکل ہو گیا

یادوں کا ایک ریلا تھا جس نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا۔

" منیحہ بچے نام کیا سوچا ہے"

وہ ہسپتال کے بستر پہ تھی جب ننھا سا وجود اسکی بانہوں میں آیا تو سب تکلیفیں بھول گئی

" انکل آپ بتائیں "

کریم صاحب کے سوال کا جواب سیمعون نے دیا تھا۔

"پہلے آپ لوگ تو بتاو"

وہ بہت خوش تھے

"میں نے تو حیدر جلال سوچا ہے"

وہ سیمعون تھی 

" ما شاء اللہ بڑا پیارا نام ہے"

"اچھا آپ اپنا بتائیں"

منیحہ خاموش تھی

"میں نے تو دلدار سوچا ہے"

انکل ہنستے ہوئے بولے تو سیمعون کے ساتھ ساتھ اماں اور کمرے میں موجود نرس کی بھی ہنسی نکل گئی

" کیوں بھئی دلدار نام برا ہے کیا¿،، اتنا پیارا لڑکا ہے دلدار نام اچھا لگے گا اس پر"

انکل نے اپنے بتائے گئے نام کا دفاع کیا۔

"تم بتاو منیحہ بچے،، حیدر زیادہ اچھا ہے یا دلدار،، بلکہ یہ بتاو تم میرے والا نام رکھو گی یا سیمعون کا"

وہ دوستانہ انداز میں بولے،، جونہی اماں نے انھیں اطلاع دی تھی وہ برقی رفتار سے ہسپتال پہنچے تھے،، سبھی تھے بس وہ نہیں تھا جسے ہونا چاہیے تھا۔

"دونوں ہی نہیں،، میں کوئی ٹھنڈا میٹھا سا نام رکھنا چاہتی ہوں،، نہ کہ جاہ و جلال والا"

اسے اب بھاری ناموں سے ڈر لگنے لگا تھا۔

"کیوں بھلا لڑکوں کا نام  تو بھاری بھرکم ہونا چاہیے"

یہ ناولز کی دیوانی سیمعون تھی جو ہر ناول پڑھتے ہوئے ہیرو اور ہیروئین کے نام منیحہ کو بتاتی تھی کہ یہ نہ رکھ لیں..

" نہیں میں نہیں رکھوں گی کوئی بھاری بھرکم نام"اس نے ننھے بچے کا ہاتھ چوما۔

بچے کے باپ کے بھاری ھرکن. نام سے ہی وہ اتنا ڈر گئی تھی کہ اب مزید ایسا کچھ نہ سہنا چاہتی تھی 

اور تب اس نے فراس نام منتخب کیا تھا۔

ساتھ ہی اس نے ایک مزید کام کیا تھا 

اس نے جلال کا نام فراس کے ساتھ نہیں لگایا تھا۔

جو کچھ جلال نے کیا تھا وہ اسے یہ حق نہ دینا چاہتی تھی۔

فراس کا مطلب فہم و فراست رکھنے والا آدمی۔

ابا نے نام بہت پسند کیا تھا منفرد بھی تھا اور بلانے میں بھی پیارا تھا۔سب خوش تھے۔

مگر تب سے سیمعون کو شکایت تھی۔

جو آج بھی قائم تھی۔

" مما"

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔اور جب رات کے دو تین بجے وہ تھک کر آنکھیں موند کر دراز ہوئی تو فراس کی آنکھ کھل گئی۔

"جی بیٹا کیا ہوا آپکو" وہ اٹھ بیٹھی۔

"مجھے مصلا پڑھنا ہے" 

سارا دن اسے نماز پڑھنے کا خیال نہ آتا مگر صبح یا رات کو آنکھ کھلتی تو اسکی پہلی بات ہی مصلا یعنی نماز پڑھنے کی ہوتی تھی ۔

یہ بات بھی اماں نے ہی اسے سکھائی تھی۔

"ابھی آپ سو جاو کچھ دیر تک پڑھیں گے" 

منیحہ نے آنکھیں بند کر کے سونا چاہا۔مگر یہ اسکا وہم تھا۔

"نہیں" اس نے نفی میں سر ہلایا وہ بستر پہ بیٹھ چکا تھا کمرے میں دو واٹ کے بلب کی مدھم روشنی تھی

"فراس میری جان نماز صرف رات کو ہی نہیں دن میں بھی پڑھی جاتی ہے،، آپ سو جاو دن میں پڑھیں گے"

منیحہ نے اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لٹایا مگر وہ ضدی روح اٹھی اور بغیر کچھ کہے بستر سے اتر گئی ۔

وہ چلتا ہوا دروازے کی جانب جا رہا تھا۔

"فراس ادھر آئیں، مما پاس آئیں" 

اس نے کچھ سختی سے کہا تو وہ وہیں رک گیا مگر واپس نہیں آیا۔

وہ جانتی تھی کہ وہ جائے یا نہ جائے فراس جا کر چھوڑے گا۔

 شروع شروع میں اسکی اس عادت پہ وہ ہنستے پھر سیمعون نے اسکی حوصلہ افزائی کی اور اب یہ عجیب و غریب عادت وہ مستقل اپنا چکا تھا۔

" فراس مما پاس آو بیڈ پر" کچھ منٹ وہ اسکا انتظار کرتی رہی وہ اکڑو بچا وہیں اکڑ کر کھڑا تھا۔

اسکی جانب دیکھا مگر اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں ۔

اور منیحہ جانتی تھی جب تک وہ خود اسے اٹھا کر نہیں لائے گی وہ نہیں آئے گا۔

"تم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جتنا میں تمہیں اس شخص سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں اتنا ہی تم اس جیسے بنو گے" 

جھنجھلا کر کہتی وہ اسے گود میں اٹھا لائی تھی۔

وہ چپ چاپ آ بھی گیا تھا 

(کیا تھا جو آپ اچھے بچوں کی طرح میرے بلانے سے خود واپس آ جاتے) اس نے بے بسی سے سوچا ۔

" اس خاندان میں شاید کبھی کوئی معزز یا معقول شخص پیدا نہیں ہو سکتا"وہ اسے سینے سے لگاتی بڑبڑاتے ہوئے آنکھیں موند گئی۔

فراس اپنی تمام الٹی سیدھی عادتوں میں جلال پہ جائے گا"

شاید سیمعون ٹھیک پیش گوئی کرتی تھی۔

_________________

" جلال یار تم تو بزی ہو گئے ہو نا پاکستان جاتے ہو نہ کبھی ہمارے پاس آئے ہو" 

جمال کچھ دنوں کے لیے جرمنی آئے تو تینوں بھائی اکٹھے بیٹھے تھے۔

" پاکستان میں ہی رہا ہوں ساری زندگی "وہ بے زاری سے بولا۔

وہ اب پاکستان جانے کے لیے رضا مند نہیں ہوتا تھا۔

اسکے خیال میں اسکا وہاں ایسا کچھ نہیں تھا کہ وہ بھاگا بھاگا جاتا۔

کریم صاحب اس ضد کی وجہ جانتے تھے،، وہ ان سے ناراض تھا اسی لیے اب وہ واپس نہیں آنا چاہتا تھا۔

لیکن وہ بے بس تھے،، اس وقت جب انھوں نے اسے زبردستی جرمنی بھیجا تھا تبھی انکے دل میں خدشہ تھا کہ جلال ان سے بہت ناراض ہو سکتا ہےاور بعد میں یہ سچ ثابت ہوا مگر انکے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا 

وہ اپنے  گھر کی عزت کو جلال کی بے وقوفیوں کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

"یار ہمارے پاس چکر لگاو کبھی" 

جمال نے اسے غصہ ہوتے دیکھ کر بات بدلی۔

"ہاں سوچ رہا ہوں لگاوں کبھی چکر" 

اس نے سرسری انداز میں کہا۔

جمال آجکل دبئی میں تھے۔

"صرف سوچو نہیں اس سوچ پہ عمل بھی کرو" 

یہ بلال تھے جنھوں نے فورا کہا 

"ہاں ماہی اور بچے بھی تمہیں یاد کرتے ہیں "

انکی دو بیٹیاں تھیں ۔

(بیٹا جی ایک دفعہ جلال صاحب کچھ دن رہ آئے پھر کبھی یاد نہیں کریں گے) 

بلال نے سوچا تو انکے چہرے پہ مشکوک سی مسکرائٹ آ گئی 

" خیر ہے آج آپکا دل بحال لگ رہا یے"جلال نے بلال پہ طنز کیا۔

"مجھے کیا ہونا ہے میں ٹھیک ہوں،، بلکہ سوچ رہا ہوں کہ تمہیں جلد جمال کے ساتھ ہی جانا چاہیے تا کہ انھیں بھی تمہاری مہمان نوازی کا موقع ملے"

بلال نے خود کو سنبھالا۔

"انکی فکر نہ کریں آپ اپنی ٹینشن لیں،، بیوی کی گاڑی کب بیچ رہے ہیں ¿"اسکا انداز سراسر مذاق اڑانے والاتھا صد شکر کہ نمرہ اس وقت یہاں نہیں تھی۔

" یہ میرا اور میری بیوی کا مسئلہ ہے تم فکر نہ کرو"انھوں نے جتایا جواباََ وہ قہقہہ لگا کر ہنسا ۔

"کیوں کیا مسئلہ ہے کونسی گاڑی"

جمال کو سمجھ نہیں آئی

" لو بھلا ہمارا بھائی بیوی کی گاڑی بیچ کر بزنس مین بننے والا ہے" جواب بلال کی بجائے جلال نے دیا تھا

"میری اپنی بیوی ہے میں جو مرضی کروں ویسے بھی اسکا شوق پورا ہو گیا ہے،،، اللہ نے چاہا تو پھر لے لیں گے" 

بلال نے اپنادفاع کیا

" کیا کوئی مسئلہ ہے" جمال کو سب بھی انکی طنزیہ باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں 

" مسئلہ کوئی نہیں،، بھائی کو بزنس کرنے کا شوق چڑھا کے،، انوسٹمنٹ کر رہے ہیں "

" ویسے بھائی میرے پاس ایک آفر ہے بلکہ یوں کہیے کہ مجھے آپ پہ ترس آ گیا ہے"

" بڑی بات ہے تمہیں بھی شر انگیزی پھیلانے کے علاوہ کوئی جذبہ محسوس ہوا" نمرہ آجکل کھنچی کھنچی رہتی تھی اور بلال اسکا مجرم جلال کو گردانتے تھے

جمال کو بھی سمجھ آ رہی تھی قہقہہ لگا کر ہنسے 

" ویسے یہ بیوی کی گاڑی والا کام شرمناک ہے،، آپ ایسا کریں مجھ سے ادھار پیسے لے لیں،، بس کوئی گارنٹی رکھوانا ہو گی"بلال جو دھیان سے سن رہے تھے سر جھٹک کر رہ گئے وہ یقینا کوئی خباثت بھری بات کہنے والا تھا

"مجھ سے پیسے لیتے ہوئے جو گارنٹی تم نے دی تھی وہی میں تمہیں دے دونگا" 

مطلب یہ تھا کہ جب میں نے گارنٹی نہیں مانگی تو تم کیوں مانگو گے۔

" آپکو مجھ پہ اعتبار تھا اسی لیے آپ نے گارنٹی نہیں مانگی مگر مجھے آپ پر اعتبار نہیں" 

وہ آنکھ دبا کر بولا

"شرم کرو بڑے بھائی پہ بے اعتباری"یہ جمال تھے

" پیسے کے معاملے میں کوئی رشتہ داری نہیں" 

وہ شرارتاََبولا

"ویسے بھی میں انھی کا سوچ رہا ہوں.. میں نہیں چاہتا تھوڑے سے پیسوں کے لیے انکا گھر خراب ہو،،، یا انکی بیوی انکو چھوڑے"

" میری بیوی مجھے نہیں چھوڑے گی تم اپنی ٹینشن لو"بلال نے جواباََ طنز کیا 

وہ. خلاف توقع سنجیدہ ہو گیا تھا

" مجھے کیا ٹینشن ہے،، شکر ہے میرے ایسے جھنجھٹ ہی نہیں "

وہ ڈھٹائی سے بولا

" تو بیٹا جی بہت آزاد رہ لیا اب تم بھی ان جھنجھٹوں میں پڑنے کی سوچو"جمال نے اسے سمجھانا چاہا

" ٹینشن نہیں آپکے بھائی کے پاس بہت سی چوائسز ہیں" وہ جمال کا کندھا تھپک رہا تھا 

اور وہ دونوں اسکی ڈھٹائی اور خود اعتمادی پہ رشک ہی کر سکتے تھے

"ابھی پچھلی ریس میں جو لڑکی میری، ساتھی تھی نا اسکے ساتھ بھی کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے میری،، بس موڈ بن جائے میرا" 

اس نے شاہانہ انداز میں کہا۔

"ویسے جلال میرا خیال ہے اب تم کوئی فیصلہ. کر ہی لو،، نہیں جانا پاکستان تو نہ جاو مگر اپنی لائف سیٹ کرو کب تک گھومتے رہو گے تم"

یہ جمال تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ دنیا کے ہر موضوع پہ بے لاگ گفتگو کرنے والا جلال اس موضوع پہ بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔

"عورتوں کی جگہ نہیں ہے اب زندگی میں،،، بڑی بے اعتباری مخلوق ہے یہ "

اس نے بظاہر ہنس کر کہا تھا 

" تو بس آواہ گردیاں،، گاڑیاں ریسز،، اور دوست بس یہی کچھ ہے تمہاری زندگی" 

جمال کو اسکی فکر کو رہی تھی،، جتنا پیسہ وہ کماتا تھا اور جس طرح سے وہ سارا پیسہ اڑا رہا تھا.. یہ سب کے لیے تکلیف دہ تھا

مگر حیرت کی بات تھی کہ اسکے پاس پیسہ آتا بھی اسی سپیڈ سے تھا جس سپیڈ سے جاتا تھا۔

قسمت اچھی تھی اسکی۔

بس اسکی لاپرواہیاں دن بدن بڑھتی جا رہی تھیں ۔

"کچھ سوچو اپنے بارے میں" 

جمال نے پھر سے زور دیا

"ابھی تو میں کل کی ریس کے بارے میں سوچ رہا ہوں،، کوئی پارٹنر ڈھونڈ رہا ہوں" 

"کیوں ایلی اور موسی کدھر ہیں،،، ویسے تو وہی دونوں تمہارے زندگی کے ساتھی ہیں آجکل" 

بلال نے طنز کیا

"ایلی بزی ہے،، موسی کا پیپر ہے" 

وہ کچھ اداسی سے بولا۔

"تو کوئی اور ڈھونڈ لو،، سائیڈ لائن پہ بھی کسی کو رکھا کرو"

بلال کو بھی طنز کا موقع مل گیا تھا

" رکھ لوں گا آپ کیوں جیلس ہو رہے ہیں،، ویسے جمال بھائی آپ چلیں نا میرے ساتھ 

اچانک اسے خیال آیا تو جمال بوکھلا گئے انھوں نے آج تک یہ چیخ چنگاڑ والی کار ریسنگ فلموں میں ہی دیکھی تھی اصل میں تو کوئی تجربہ نہیں تھا۔

"یار میں تو کبھی ریسنگ میں نہیں گیا"

جمال کچھ الجھے تھے

"چلیں اب چلیں آپکو دکھاتے ہیں یہ دنیا کتنی رنگین ہے" 

"ہاں ہاں جاو بھائی،، میری دعا ہے زندہ سلامت واپس اپنے بیوی بچوں سے جا کر مل سکو" 

بلال کی دعا اسے ڈرا رہی تھی ۔

مگر اگلے دن وہ جوش میں بھرے وہاں پہنچ گئے تھے۔

ہر طرف لڑکے، جو عجیب سے حلیوں میں تھے،، کانوں میں بالیاں، گلے میں چینز،، آدھے ادھورے رنگین سے کپڑے،،،

کچھ لڑکیاں بھی تھیں،، جن میں نسوانی خصوصیات سے زیادہ مردانہ انداز و اطوار تھے۔

رنگ برنگی گاڑیاں جنکی قیمت لاکھوں ڈالرز تھی 

"یار یہ تو سارے امیر زادے ہیں،، گاڑیاں دیکھو انکی" 

جمال متاثر ہوئے ۔

"بھائی امیر زادے نہیں شوقین لوگ ہیں سارا سال یہ کتوں کی طرح کام کرتے ہیں،، اور سال میں ایک مہینہ انھیں اپنا ٹیلنٹ شو کرنے کا موقع ملتا ہے،، اور وہ بھی اگر یہاں پولیس آ گئی تو تین چار دن لاک اپ میں گزارنے پڑیں گے"

جلال کا حلیہ بھی ان سب سے زیادہ مختلف نہیں تھا،، اور حقیقتاً یہاں آ کر ایک دوگھنٹے ان لوگوں کے ساتھ گزار کر اور انکی باتیں سن کر جمال کو اندازہ ہوا تھا، کہ جلال پاکستان کیوں نہیں جاتا، یا پھر وہ شادی کیوں نہیں کرتا؟ 

اسے شاید اب واقعی کسی عورت یا بیوی کی ضرورت نہیں تھی،، یہ دنیا جمال اور بلال کی دنیا سے مختلف تھی۔

"اور جلال اگر کوئی یہاں مر جائے تو¿" 

جمال کو یکدم خیال آیا

"مر جائے تو مر جائے،، بندہ مرا کہانی ختم" 

وہ اطمینان سے بولا... 

"زندگی موت کی امانت ہے بھائی،، موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا،، زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا،، یہ سب پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے" 

"تم  پاگل ہو جلال"

جمال نے افسوس کیا۔

اور اس دن جس جس طرح جلال نے طوفانی ڈرائیونگ کی تھی جمال توبہ تلا کرتے رہے ۔

اور تب معلوم ہوا کہ بلال انھیں ایسی دعائیں کیوں دے رہے تھے۔

واپسی پہ جمال نے جو سب سے پہلا کام کیا تھا وہ پاپا کو کال کرنے کا تھا

" پاپا وہ پاگل ہو گیا ہے،، اسے واپس بلائیں ورنہ پھر ہم پچھتاتے رہ جائیں گے" 

"وہ بہت بدل گیا ہے،، آپ اسکی بیوی کو گھر لائیں،، اور اسے واپس بلائیں،، اگر اس نے بیوی کو نہیں لانا تو ختم کریں یہ معاملہ،، جو وہ کرنا چاہتا ہے کرے مگر اسے واپس بلائیں" جمال جتنے خوفزرہ خود ہوئے تھے اسی طرح پاپا کو بھی ڈرا رہے تھے۔

انھوں نے ایک بار منیحہ سے بات کرنے کی ٹھانی۔

_____________________________

" بھائی آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے"

موسی اور وہ شہر کی آوارہ گردی پہ نکلے ہوئے تھے،، آج موسی کے پیپرز ختم ہوئے تھے اور اب وہ جلال کے ساتھ گھوم پھر کر فرسٹریشن ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

"بس یار شادی بڑا مشکل کام ہے،، میرے بس کی بات نہیں" 

وہ ہنس کر ہتھیار ڈال رہا تھا

" کیوں بھائی آپ اتنے مشکل کام کرتے ہیں یہ بھی سہی" 

موسی دراصل اس سے اسکی سوچ اگلوانے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ جلال اس موضوع پہ کافی مبہم انداز میں بات کرتا تھا۔

"ہار یہ عورتیں بڑی آگے کی چیز ہوتی ہیں،، تم انکو نہیں سمجھ سکتے پیارے" 

جلال اس وقت موسی کے لیے  ایک ایسا گرو بن چکا تھا جو ہر فن مولا تھا موسی کی اس سے انسیت اب عقیدت کی حد اختیار کر چکی تھی۔

پورے جرمنی میں ہاسٹل فیلوز اور یونیورسٹی فیلوز کے علاوہ اگر کوئی اس کا پکا اور سچا دوست بلکہ صرف دوست نہیں بھائی*،، جلال اب اسکے لیے بھائی تھا

"بھائی آپکی پاکستان میں بھی ایک بیوی تھی نا¿¿" 

محتاط نظروں سے اسے جانچتے ہوئے موسی نے پوچھا۔وہ ہنسا،، عجیب سی ہنسی تھی پھر نفی میں سر ہلایا

"تھی نہیں،، ابھی بھی ہے" 

اسکے چہرے پہ عجیب سا تاثر تھا۔

"بھائی تو،،، پھر آپ پاکستان جاتے کیوں نہیں ¿" 

"مطلب سب لوگ سال دو سال بعد جاتے ہیں، مگر آپکو تو تقریباً تین سال ہو گئے آپ گئے ہی نہیں" 

اس نے اپنا سوال وضاحت سے بیان کیا،، انداز سرسری سا تھا۔حالانکہ ان دو تین سالوں میں موسی بہت سی باتیں بن کہے بھی سمجھ چکا تھا۔

" چھوڑ موسی یار،،، اچھی عورت بھی کسی کسی کے نصیب میں ہوتی،، تیرے بھائی کے نصیب میں سب ہے بس اچھی عورت نہیں شاید"

وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تیز تیز چلنے لگا،، اسکا انداز ایسا تھا کہ موسی ششدر رہ گیا

وہ تو ہنستے مسکراتے بات کرتا تھا 

اب اس بات کا کیا مطلب سمجھا جا سکتا تھا...... 

جلال موسی کو حیران پریشان چھوڑ کر اب آگے آگے چل رہا تھا

(شاید بھائی کی بیوی "ایسی ویسی" ہوں گی اسی لیے تو وہ بات نہیں کرتے انکی،، لیکن اگر ایسی بات ہے تو بھائی پھر شادی کیوں نہیں کر لیتے¿¿)

وہ جلال کی فکر میں گھلتا اس سے کافی پیچھے رہ گیا تھا ہوش تب آیا جب جلال کافی آگے نکل گیا تھا

اسی لیے تیز تیز قدم اٹھاتا اسکے پیچھے ہو لیا۔

"بھائی چھٹیوں کا کیا کرنا ہے ¿"

وہ اسکے قدم سے قدم ملاتا اس سے پوچھنے لگا۔

"چھٹیاں تمہیں ہیں مجھے تو نہیں ہیں"

"لیکن بھائی آپ نے وعدہ کیا تھا اگست میں ہم اکٹھے جائیں گے"

اس نے جلال کو اسکا پرانا وعدہ یاد دلایا۔

پچھلی دفعہ بھی موسی سے وعدہ کر کے جلال ایلی کے ساتھ کینیا چلا گیا تھا۔

اور وہاں جتنے دن جلال ایلی کے ساتھ گھومتا رہا اتنے دن موسی جل جل کر اپنا خون جلاتا رہا 

" ہاں لیکن پھر میں نے پچھلے دنوں جمال بھائی کے ساتھ اور ریسز میں اتنے دن چھٹیاں کیں،، اب ایلی بھی وینس جا رہی ہے،، اپنے ماں باپ سے ملنے تو یہاں کسی کو تو رہنا ہو گا نا"

وہ اب سٹور کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہو گیا تھا،، اپنے اور ایلی کے علاوہ وہ صرف موسی پہ ہی اعتبار کرتا تھا ۔

" Alvi's cash & carry " اب شہر کے اچھی شہرت کے سٹورز میں شمار ہوتا تھا۔

کریم علوی کی محنت رنگ لائی تھی جلال ایک طرح سے زندگی میں سیٹل ہو گیا تھا ورنہ وہ تو اس سے مایوس ہو چکے تھے۔

"بھائی سٹنٹ شو کب ہے"

موسی اسکے چہرے کے تاثرات بغور دیکھ رہا تھا، گوکہ جلال اب نارمل نظر آتا تھا مگر موسی کو اسکی کچھ دیر پہلے اپنی پاکستانی بیوی کے بارے کہی گئی بات چُب رہی تھی

"سٹنٹ شو شاید اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہو"

جلال نے اندازے سے بتایا

"آپ اسی لیے ابھی میرے ساتھ نہیں جا رہے نا"

وہ گلہ کر رہا تھا۔جلال نے اسے گھورا

"موسی ویسے تو تو غریب ترین شخص بنتا ہے، اور اب تجھے گھومنے کے دورے اٹھ رہے ہیں" موسی پیسوں کے معاملے میں کچھ زیادہ میانہ رو اور بقول جلال کے کنجوس واقع ہوا تھا

اور وہ جلال کو بھی پیسہ بچانے پہ مجبور کرنے کی سر توڑ مگر تقریباً ناکام کوششیں کرتا تھا

"بھائی پچھلے سال بھی نہیں گیا میں سوچ رہا ہوں پاکستان چلا جاوں"

وہ کچھ سنجیدگی سے بولتے ہوئے جلال کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں پاکستان کے نام پر ایک پل کو ایک سایہ سا لہرایا تھا پھر وہ ہنسنے لگا

"کیوں اگلے سال فارغ ہو کر ایک ہی دفعہ جائیں"

جلال نے اپنے مزاج کے مطابق مشورہ دیا

" ابو کی وفات پہ ایک چند روز کے لیے گیا تھا،، امی بھی بیمار رہتی ہیں"

جلال کو یاد تھا جب دو ڈھائی سال پہلے موسی کے ابو کی اچانک ہارٹ اٹیک سے وفات ہوئی تھی اور چند روز پاکستان میں رہ کر جب وہ واپس آیا تو چھوٹا سا لڑکا سمجھدار ہو کر آیا تھا  اپنی پڑھائی کے اخراجات بھی اسی پر آ گئے تھے ساتھ ہی ساتھ اسے اپنی بیوی ماں اور دو بہنوں کی بھی فکر تھی،، بڑے بھائی شادی شدہ اور اچھی جاب پر تھے مگر جب باپ کے بعد ان پر ذمہ داری پڑی تو دو ہفتوں بعد ہی وہ الگ گھر میں سدھار گئے،، چھوٹا مکرم تھوڑا لا پرواہ اور ضدی تھا بھائی نے کسی بات پہ ڈانٹا تو اس نے بھی چند باتیں سنا دیں جو تھیں تو سچ مگر کڑوی لگ گئی

اسی بات کو بنیاد بنا کر بھابھی نے کہا تھا کہ وہ اس گھر میں نہیں رہ سکتیں جہاں کسی کو بڑے چھوٹے کی تمیز ہی نہیں اور یوں مکرم کی ضد جیسی بے بنیاد بات کو وجہ بنا کر وہ دونوں میاں بیوی اس خاندان کو مسائل کے دریا میں اکیلا چھوڑ گئے

موسی یکدم اپنی عمر سے کئی سال بڑا ہو گیا تھا،، 

اور اگر جلال ایسے وقت میں اسے مالی، معاشی و جذباتی سہارا نہ دیتا تو شاید وہ اپنی پڑھائی بھی ادھوری چھوڑ چکا ہوتا۔

جلال کے نہ صرف اسے معاشی طور پر سہارا دیا تھا بلکہ زمانے کے گرم سرد کے مقابلے میں کچھ اس طرح اسے اپنے ساتھ لگایا کہ احسان اور تسلی کا ایک لفظ تک نہ کہا مگر موسی جانتا تھا آج اگر وہ اپنی ڈگری مکمل کرنے والا ہے تو اللہ اور ماں باپ کی دعاوں کے بعد یہ "جلال بھائی " کا وجود تھا ورنہ شاید یا تو وہ پاگل ہو جاتا یا پھر منشیات کا عادی۔۔

دوسرے لفظوں میں بھائی کی اس لہو سفیدی کا جتنا اسے گہرا صدمہ اور دکھ ہوا تھا،، جلال نے خود کو اسکا بڑا بھائی ثابت کر دیا تھا 

اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے کبھی یہ منہ سے جتایا بھی نہ تھا۔

موسی کی جلال کے ساتھ محبت ہی نہیں بلکہ عقیدت تھی۔

"ٹھیک ہے چلا جا" 

جلال نے گویا اجازت دی

"آپ نہیں جائیں گے¿¿،، چلیں نا کچھ دن کے لیے،، اگست میں کراچی میں بھی سٹنٹ شو ہوتا ہے اس میں شرکت بھی کر لیجیے گا،، مشہوری بھی ہو جائے گی" 

وہ دانستہ کچھ غیر سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسے منانا چاہ رہا تھا

"نہیں یار پھر کبھی،،،میرا کیا ہے پاکستان میں" 

ہو بظاہر ہنس رہا تھا،، مگر موسی کو اسکی ایسی باتیں آج زیادہ ہی چب رہی تھیں ۔

________________________

" آپی آج چچا آئے تھے"

سیمعون نے فراس کو کپڑے تبدیل کرائے تھے اور اب وہ علی کے ساتھ باہر جانے کو تیار تھا 

"پہلی دفعہ آئے ہیں یا آخری بار"

منیحہ نے طنزاً کہا

"اوفوہ مطلب وہ ابا سے آپکے بارے میں بات کر رہے تھے" 

سیمعون نے جھنجھلا کر کہا

"فراس ادھو آو تمہاری سپائکس بناوں"

ایک دم اسے فراس کا ہیر سٹائل تبدیل کرنے کا خیال آیا۔

"میرے بارے میں کیا بات" 

منیحہ نے اسے فراس کی جانب متوجہ ہوتے دیکھ کر کہا.. مگر سیمعون کا دھیان فراس کی جانب تھا

" ادھر آو"

وہ اسکے ہاتھ نہیں آ رہا تھا 

"میں نہیں اچھا لگتا"

اس نے منہ بنا کر پھر سے اپنے بال بگاڑ لیے تھے وہ سپائکس بنوانے کے لیے تیار نہیں تھا

" اچھے لگ رہے ہیں،، یہ دیکھو" 

سیمعون نے پھر سے قسمت آزمائی کر کے آئینے کا ٹکڑا اسکے سامنے کیا

"نہیں" ایک نظر دیکھ کر اس نے پھر سے ہاتھ مار دیا

"فراس،، بدتمیز آدمی اچھے لگ رہے ہو" سیمعون اسے مصنوعی غصے سے گھورتی پھر سے اسکے بال  کھڑے کر رہی تھی

مگر وہ ناگواری سے منہ بنائے کھڑا رہتا جونہی وہ اپنی طرف سے ٹھیک سے کر چکتی وہ ہاتھ مار دیتا

"تمہاری اماں مر جائے،، کیوں خراب کر رہے ہو" 

سیمعون نے اسکے گال کھنچے

" تم مرو"

فراس موقع ہی حساب برابر کرنے کا قائل تھا فورا سیمعون کو جواب دیا منیحہ نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کی

"تمہاری ماں مرے نا جس نے تمہیں تمیز نہیں سکھائی" 

سیمعون اب فراس سے باقاعدہ لڑ رہی تھی، وہ دونوں ایسے ہی لڑتے تھے

" تم، مرو،، میرے بالوں کو ہاتھ کیوں لگاتی ہو¿" 

وہ اط اس سے سارے رشتے توڑنے کے موڈ میں تھا

"تمہارے بال اتنے ہی پیارے ہیں،، بدتمیز شخص" 

سیمعون کو اسکا. خدا چہرہ دیکھ کر مزید پیار آ رہا تھا 

"تم گندی ہو" آنکھیں میچ کر کہتا وہ اس وقت ایک منتقم مزاج آدمی دکھائی دیتا تھا

" احسان فراموش ایک تو کڈز زون سے اتنے مہنگے برانڈڈ کپڑے لا کر دئیے اور اوپر سے مجھے ہی باتیں سنا رہے ہو،، تمہاری آنکھوں میں حیا ہی نہیں ہے" سیمعون بھی مصنوعی خونخواری دکھاتے ہوئے بولی منیحہ چچا کی آمد اور "خصوصاً اسکے بارے" میں بات کرنے کے متعلق سوچ رہی تھی ورنہ فراس کو ضرور ٹوکتی

" تم گندی ہو،، آنکھیں بھی"وہ باقاعدہ اسکی آنکھ میں انگلی دے کر بولا

" اففف،، مر گئی"

سیمعون کی چیخ بلند تھی وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا

"فراس" منیحہ نے اسے ڈانٹ کر پکارا 

"اس نے میرے بال کو ہاتھ لگایا" 

وہ ماں کو شکایتی انداز میں دیکھتے بولا

"مجھے اندھا کر دیا میں پولیس کو بلاوں گی اور وہ آپکو پکڑ کر لے جائیں گے" 

آنکھیں ملتی وہ فراس کو دھمکانے کی کوشش کر رہی تھی 

"تم کو پولیس بلائے گی" 

فراس نے قسم کھا رکھی تھی ہر. بات کا جواب دینے کی

"تم  نہیں کہتے،، آپ بولتے ہیں "

منیحہ نے اسے اپنی گود میں لیا،، وہ غصے میں تھا

" یہ گندی ہے "

وہ اسے آپ کہنے کو ہرگز رضامند نہ دکھتا تھا

"نہیں یہ آنٹی ہیں،، اور اس طرح نہیں کرتے یہ گندی بات ہے"

وہ چپ رہا،، مگر شکل سے متفق نہ دکھتا تھا

"فراس چلو شاباش میرا بیٹا سوری بولو خالہ کو"سیمعون آنکھیں دھو کر آئی تو منیحہ نے اسے سمجھانے بجھانے کے بعد کہا

وہ شکل سے منہ پھلائے ناراض لگ رہا تھا

"میرا بیٹا بہت اچھا ہے،، یہ میری ساری باتیں مانتا ہے"

حالانکہ بیٹا مانتا دکھائی نہ دیے رہا تھا

"اور یہ گندے کام بھی نہیں کرتا،، جو گندے کام کرتے ہیں وہ لڑکے مجھے بلکل پسند نہیں" منیحہ نے منہ بنا کر اداکاری کی

"سوری" تو جوانا اس نے محض ماں کو دکھانے کے لیے منہ بنا کر وہ لفظ ادا کیا

سیمعون البتہ سرخ آنکھ کے ساتھ شاکی تھا

"پورا جنگلی خاندان کے اسکا جو مرضی کر لو،، یہ نہیں بدلے گا،، ویسا ہی بنے گا"

" چلو ماموں کو دیکھتے ہیں "

منیحہ دانستہ سیمعون کی بات کو نظر انداز کرتی فراد کی انگلی پکڑے باہر آ گئی 

جانتی تھی آدھے گھنٹے بعد سیمعون اور فراس کی صلح ہو چکی ہو گی

سیمعون اور فراس کی محبت قابل رشک تھی

وہ اپنی پوری پاکٹ منی فراس پہ خرچ کر دیتی،، منیحہ سے زیادہ وہ اسکے بارے میں فکر مند رہتی تھی 

علی کا بھی وہ چہیتا تھا 

ابا تو اسے گھر کی رونق سمجھتے تھےغرض یہ کہ فراس خاندان بھر کی محبت کے مزے لوٹ رہا تھا

ہاں وہ بس وہ ستمگر تھا کہ ایک نظر دیکھنے تک کو نہ پلٹا

یہ تک نہ دیکھا کہ پیچھے کوئی زندہ ہے یا نہیں ۔

(کیا جلال کی وہ سب محبتیں میرے ایک انکار نے ختم کر ڈالیں ¿¿) 

حالات اس سوال کا جواب مثت دیتے تھے لگتا یہی تھا کہ جلال کو کچھ یاد نہیں  وہ تو اپنے ماں باپ کے پاس تک نہ آیا 

مگر اسکا دل اس جواب پہ مطمئن نہ ہوتا تھا گوکہ اب تو جلال کی یادیں بھی دھندلانے لگی تھینگر وہ ان دنوں کو کبھی فراموش نہ کر پائی تھی،، اسی لیے دل میں چھپی ایک کسک سی تھی

فراس اپنی حرکتوں سے اس کسک کو مزید بڑھا دیتا تھا

"کیا میرا بچہ ساری عمر بنا باپ کے تعارف کے رہے گا¿) 

وہ یہ سوال اکثر خود سے کرتی تھی

نجانے اس میں قصور کسکا زیادہ تھا

اسکی بد قسمتی کا کہ اسے جلال جیسا باپ ملا

یا پھر جلال کا

یا

منیحہ کی ضد کا۔۔۔

جلال تم نے اگر پاکستان نہیں جانا تو موو آن کرو" 

بلال اور جلال میں بحث چل رہی تھی باپ کے کہنے پر بلال نے جلال کو اپنے طور پر پاکستان جانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ کانوں پر سے اڑا رہا تھا

اور اسکی ہٹ دھرمی بلال کو طیش دلا رہی تھی

(ادھر سب پریشان ہیں  اور اس خود غرض آدمی کو پرواہ ہی نہیں) 

بلال نے غصے سے سوچا 

"کر جاوں گا موو آن آپ کیوں فکر کر رہے ہیں" 

وہ بھی لاتعلقی سے بولا

"مجھے فکر ہے،، تم اپنی زندگی کے ساتھ جو مذاق کر رہے ہو،، اس پر مجھے فکر ہے" 

وہ اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے بولے

"آپکو میری فکر نہیں کرنی چاہیے،، میں کوئی بچہ نہیں ہوں" 

"مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ تم بچے نہیں ہو،، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تم کوئی عقل مند شخص بھی نہیں ہو "

" میں نے عقل مند ہو کر کونسے قلعے فتح کرنے ہیں" 

وہ استہزائیہ ہنسا

"قلعے تم فتح کر بھی نہیں سکتے،، اپنی لائف سیٹ کر لو تمہاری مہربانی ہے" 

بلال کی بس ہاتھ جوڑنے کی کسر باقی تھی 

ورنہ وہ عاجز آ چکے تھے

" میں سمجھتا ہوں کہ اپنی زندگی میں آپ سے زیادہ سیٹل ہوں "

وہ ڈھٹائی سے بولا

" ہاں چار بچے، دو بیویاں تمہارے آس پاس پھرتی ہیں،، صبح کام پہ جاتے ہو شام پہ واپس آ کر فیملی کو وقت دیتے ہو"

بلال ابھی شاید مزید اسکی سیٹلمنٹ کا نقشہ کھینچتے مگر جلال کے فلک شگاف قہقہے نے انھیں رکنے پر مجبور کر دیا

" حد ہے یہ تو کسی مولوی کی زندگی کا نقشہ کھینچ رہے ہیں بھائی "

اسکو آنکھوں میں زیادہ ہنسنے کے باعث نمی اتر آئی تھی

" میں اتنا بور نہیں ہوں،، دو بیویاں کیا کم تھیں،، چار بچے بھی،، توبہ توبہ" وہ باقاعدہ آنکھوں کو پھیلائے کانوں کو ہاتھ لگاتا توبہ تلا کر رہا تھا

" بہر حال میں تم جیسے ڈھیٹ الڈھیٹ انسان سے بحث نہیں کر سکتا لیکن،، تمہارے پاس صرف ایک مہینہ ہے اپنا فیصلہ کر لو،، ورنہ پھر مجھ سے کسی اچھائی کی امید نہ رکھنا،، اور باقی سب بھی یہی چاہتے ہیں" 

بلال نے دھمکاتے ہوئے دانستہ *سب کا صیغہ استعمال کیا

"آپ سب اپنی زندگی انجوائے کریں میرے مرنے جینے کی فکر نہ کریں " سخت لہجے میں کہتا وہ تن فن کرتا نکل گیا

بلال اس ردعمل پر سر پکڑ کر رہ گئے وہ ہمیشہ اسی طرح کرتا تھا یا سنجیدہ ہی نہ ہوتا یا پھر یوں غصہ کو کر بات ہی نہ سنتا

(اللہ ہی حافظ ہے تمہارا) 

وہ مایوس تھے

____________----

" چچا میرے بارے میں کیا بات کر رہے تھے"

فطری طور پر اسے تجسس تھا اسی لیے رات کو سیمعون سے پوچھا،، فراس اسکے برابر میں بیٹھا تھا،، اسکے ہاتھ میں سرخ رنگ کی ایک بس تھی جو وہ آج ہی خرید کر لایا تھا اب اسی سے کھیلنے میں مصروف تھا

"میں نے پاپا کے پاس جانا ہے" 

اچانک اسے کوئی خیال آیا 

" کل چلے جانا"

منیحہ نے اسے چپ کرانا چاہا "نہیں مجھے ابھی جانا ہے" 

وہ ضدی ہوا 

"میرا بے بی کل جائے گا" 

منیحہ نے اسکا ہاتھ ہونٹوں سے لگایا

"نو" مگر وہ بستر سے اتر کر اب جوتے پہن رہا تھا

اسے بس کسی چیز کا خیال آنے کی دیر تھی یھر وہ پوچھنا غیر ضروری سمجھتا تھا اور تیار ہو جاتا تھا

"فراس" منیحہ نے اسے آنکھیں دکھانا چاہیں 

"میں کال کرتی ہوں کل وہ آپ سے ملنے آئیں گے" 

منیحہ نے اسے موبائل دکھا کر تسلی دینا چاہی 

"نو" 

مگر وہ انکاری تھا

"فراس،، اس وقت وہ نہیں آئیں گے اندھیرا ہے،، انھیں ڈر لگے گا" 

منیحہ نے باقاعدہ خوفزدہ چہرہ بنا کر کہا

"فون سے لائٹ کر لیں نا" 

مگر اس میں فراست کوٹ کوٹ کر بھری تھی 

" انکے پاس فون نہیں ہے" 

منیحہ نے مزید بہانہ گھڑا

"نو" 

اس نے نفی میں سر ہلایا

"فراس" 

وہ اسکی ڈھٹائی پہ خفا ہوئی

" مجھے اپنی گاڑی لینی ہے "

وہ بھی اب رونے والا منہ بنا کر بولا، ماں کے سامنے اسکی اداکاریاں دیکھنے لائق ہوتی تھیں 

"میں کال کرتی ہوں وہ آپکی گاڑی بجھوا دیں گے"

اس نے  موبائل نکالا مگر کال نہیں ملائی

"میں کروں گا" 

اسے شاید اندازہ ہو گیا تھا کہ ماں اسکے ساتھ دھوکا دہی کر رہی ہے 

فون پکڑ کر خود ملانے لگا 

تو منیحہ کو مجبور انکل کو کال ملانا پڑی 

نجانے اتنے سے بچے میں اتنی دلیلیں کہاں سے آ گئی تھیں 

تھوڑی دیر بعد آنے کا کہہ کر انھوں نے فون بند کر دیا اب نتیجتاً فراس باہر صحن میں جا کر کھڑا تھا منیحہ اس پہ نظر رکھنے کی نیت سے کمرے کی چوکھٹ پہ آ کھڑی ہوئی 

"سیمعون چچا کیا کہہ رہے تھے" 

وہ جو مارا مار کچھ لکھنے میں مگن تھی چونک کرسر اٹھایا

"ہاں وہ،، شاید انکو کسی نے بتایا ہے کہ جلال بھائی وہاں شادی کر رہے ہیں" 

سیمعون نے بے دھیانی سے کہا مگر منیحہ کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے

"کیا¿" 

اسکی حیرت فطری تھی 

"ہاں انکا کوئی دوست ہوتا ہے وہاں اسی نے بتایا تھا،، کہ جلال بھائی وہاں سیٹل ہو گئے ہیں، شاید شادی کر چکے ہیں یا پھر ابھی کرنے والے ہیں "

وہ سرسری انداز میں کہتی مسلسل اپنے نوٹ پیڈ پہ کچھ لکھ رہی تھی اسی لیے منیحہ کا سفید پڑتا چہرہ نہ دیکھ سکی

جو اپنی جگہ متحیر تھی،، چہرہ لٹھے کی ماند سفید ہو رہا تھا

یہ تو اسکے وہم و گمان سے بھی باہر تھا 

جلا ایسا بھی کر سکتا ہے؟؟؟؟ ؟

__________________________

جلال کے انداز بدلے ہوئے تھے اور موسی کو لگ رہا تھا کہ وہ شادی کر لے گا

یہ خبر اسے جس ذہنی پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی اس سے نجات مشکل تھی

اسی لیے جس دن اس نے پاکستان کے لیے فلائی کرنا تھا اسی دن اسے جلال نے بتایا کہ وہ وینس جا رہا ہے۔

"ویسے ہی کسی کام سے جا رہا ہوں"

پوچھے جانے  پہ جواب سرسری تھا مگر موسی کو حطرہ محسوس ہوا

"بھائی میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی آپکے ساتھ جاوں وہیں سے پھر پاکستان چلا جاوں گا"

اوپن بارڈر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بظاہر سرسری انداز میں بولا

"تم کیا کرو گے میں تو ویسے بھی بس تین چار دنوں کے لیے جا رہا ہوں"

جلال کے اندر جو بھی چل رہا تھا اس تک براہ راست رسائی کسی کو بھی نہ تھی 

نہ ہی وہ اتنی بے تکلفی کا موقع دیتا تھا 

موسی چاہ کر بھی اپنے خدشات کا اظہار کھلے عام نہ کر سکا

"آپ ایلی سے بھی ملنے جائیں گے¿¿"

سوال سادہ سا تھا،، مگر اسکے پوچھنے کے انداز میں کچھ ایسا تھا کہ جلال کو توجہ دینے پہ مجبور کر گیا

"کیوں ¿"

شرارت سے آنکھوں میں چمک اتر آئی تھی

"بس ایسے ہی" موسی خجل ہوا

"ویسے ایک بات بتا موسی کہ ایلی تجھے بری کیوں لگتی ہے،، مطلب اتنی بری نہیں ہے وہ"

موسی کی آج تک ایلی کے ساتھ نہ لگی تھی

اور موسی یہی سمجھتا تھا کہ جلال نے کبھی اس بات کو نوٹس ہی نہیں لیا

اسی لیے اس سوال پہ کچھ خفگی سے جلال کو دیکھا تو جلال نے ایک ہاتھ اسکے کندھے پہ ٹکایا

" مطلب یار اتنی پیاری لڑکی ہے،، مانتا ہوں تھوڑی عجیب ہے مگر بری نہیں،،، تم پتہ نہیں کیوں بیر باندھے بیٹھے ہو بیچاری سے"

وہ ہنس رہا تھا،، موسی کو ہمت فراہم ہوئی

"بھائی مجھے تو اس میں کچھ اچھا نہیں لگتا،،، بس آپ پی کو اچھی لگتی ہے"

ہو بچوں لی طرح منہ بنا کر بولا

" ہاں یار مجھے تو اچھی لگتی ہے،، میری دوست ہے کیوں اچھی نہیں لگے گی"

" دوست تو تین سال سے ہے،، اگر اتنی پسند ہے تو شادی کر لیں اس سے"

موسی کے منہ سے بے اختیار پھسلا

جلال نے اچنبھے سے موسی کو گھورا

پھر کندھے اچکا کر ہنس دیا

" سوچ رہا ہوں"

یہ الفاظ موسی پر بجلیاں بن کر گرے

اس کے اس تین لفظی جملے نے موسی کا اسکا ساتھ وینس جانے کا ارادہ پتھر کی طرح مضبوط کر دیا تھا

(بھائی میں اس چڑیل کے پاس آپکو اکیلے نہیں جانے دونگا)

جلال وینس چلا گیا تھا، جبکہ موسی نادیدہ وجوہات کی بناء پر ابھی تک پاکستان نہیں جا رہا تھا۔

مگر جونہی موسی کو یقین ہو گیا کہ جلال اب وینس پہنچ کر ایلی سے بھی مل چکا ہے تو وہ بھی ہوا کے گھوڑے پہ سوار وینس پہنچ چکا تھا 

بھائی کسی ہوٹل میں رکے ہوئے تھے جبکہ موسی اپنے ایک کلاس فیلو کے ساتھ اٹلی گیا تھا۔

"بھائی آپ ادھر کیا کر رہے ہیں" 

صبح سے وہ جلال کو ٹریس کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور آخر کار وہ دوپہر میں جلال اور ایلی کو ایک سٹریٹ کیفے میں کافی پیتے دیکھ کر حیرت سے بولا

"ڈرامے نہیں کر،،، تو کیا کر رہا ہے ادھر" 

جلال اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا

جو بھونڈے سے انداز میں حیران ہو رہا تھا

"میں،، بھائی میں میک کے ساتھ آیا ہوں" 

اس نے دور کھڑے میک کی طرف اشارہ کیا

جو بیچارہ صبح سے موسی کے ساتھ گھسٹ رہا تھا

" مگر تم پاکستان جا رہے تھے"

جلال نے اسے مشکوک نظروں سے گھورا ایلی ابھی بھی اپنی جگہ بیٹھی تھی

اور ان دونوں کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی 

"ہاں جا رہا ہوں پھر میک کے ساتھ اٹلی کا پلان بن گیا" 

"اگر اٹلی ہی آنا تھا تو میرے ساتھ آ جاتے" 

جلال نے اسے گھور کر کہا پھر میک کو بھی اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا

"بیٹھو" 

"نہیں بھائی آپ لوگ بیٹھیں میں تو بس ایسے ہی ادھر سے گزر رہا تھا،، آپکو دیکھا تو ہم رک گئے"

وہ عجیب بے ہنگم انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے،، اس سب کو اتفاقیہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا 

"چل اب فلمیں نہ کر بیٹھ جا،،، میک یو ٹو، ٹیک آ سیٹ" 

اس نے چوتھی سیٹ میک کو پیش کی،، تھوڑی دیر بعد کافی پی کر میک جان چھڑا کر بھاگ نکلا۔

اور وہ جو بس گزرتے گزرتے بھائی کو دیکھ کر رک گیا تھا اب اٹھنے اور جانے کا ارادہ بھلا کر بیٹھا تھا

"موسی کیا تو میرے ساتھ رہے گا¿"

آخر جلال نے اسے گھور کر کہا

" کیوں بھائی آپ کس کے ساتھ رہ رہے ہیں" 

اس نے جوابا جلال کو مشکوک نظروں سے گھورا

"میں جس کے ساتھ بھی رہ رہا ہوں،،، تم کہاں رکو گے" 

وہ کہاں اپنے پہ بات آنے دیتا تھا 

"آپکے ساتھ رکوں گا" 

(اصل میں تو آپکی چوکیداری کرنے آیا ہوں) 

وہ مزید اس کور کو برقرار نہیں رکھ سکا 

جلال نے اسے خشمگیں نظروں سے گھورا

تو وہ خجل سا کندھے اچکا کر رہ گیا

"اور وہ تیرا پہلا پیار میک کہاں رہے گا"

جلال کو یقین تھا کہ موسی اور میک دونوں اسکے پلے پڑنے والے ہیں 

" میک بھی کہیں رہ لے گا" 

اسے میک کی کوئی فکر نہیں تھی

"چلو ٹھیک ہے ایلی تم چلی جاو" 

اس نے ایلی کو گڈ بائے کہا،، وہ اسکے گلے لگتی اپنی گاڑی میں چلی گئی 

" بھائی اسکو کہتے کہ ہمیں بھی چھوڑ دے"

موسی نے ناگواری سے ایلی کو جاتے دیکھا جس نے گاڑی ہونے کے باوجود انھیں لفٹ کی آفر نہیں دی تھی

"وہ کسی کام سے جا رہی ہے" 

جلال نے راستے میں موجود ایک ننھے سے کنکر کو پاوں سے ٹھوکر مار کر سائیڈ پر کیا

لوگوں کے راستے سے کنکر ہٹانے کے لیے فکر مند شخص کواپنی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی

موسی اس رات اسی کے ساتھ رکا تھا،، مگر اسے جلال آج کچھ تھکا تھکا لگا تھا وہ زیادہ بول بھی نہیں رہا تھا 

ورنہ جب کبھی وہ دونوں کہیں ایک ساتھ ہوتے ساری ساری رات آوارہ گردیاں کرتے،، یورپ کی شاید ہی کوئی مشہور جگہ تھی جو انھوں نہ دیکھی ہو،، 

"بھائی،، کہیں باہر چلیں" 

موسی کو آدھی رات کو کجھلی ہوئی تو وہ اٹھ بیٹھا 

جلال بستر پر تھا جبکہ وہ کاوچ پر تھا

جلال کو بستر شئر کرنے کی عادت نہیں تھی

"کہاں باہر،، کسی نائٹ کلب میں ¿" 

وہ طنزیہ بولا تو موسی کوئی جواب نہ دے سکا

"بھائی آپ کا موڈ خراب ہے ¿" 

کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھا کر نیم اندھیرے میں جلال کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا 

"موسی سو جا،، ورنہ یہاں سے دفعہ ہو جا،، کیونکہ مجھے نیند آ رہی ہے"

وہ شاید آج سارا دن اس منحوس ایلی کے ساتھ گھومتا رہا تھا اسی لیے اب اسے نیند آ رہی تھی 

موسی کو ایلی ہمیشہ سے زیادہ بری لگی

(فضول عورت ،،پتہ نہیں بھائی کی جان کیوں نہیں چھوڑ رہی) 

وہ دیر تک بڑبڑاتا رہا 

پاکستان والے اسکا انتظار کر رہے تھے اور وہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مثال بنا جلال اور ایلی کے درمیان کسی بات کے ہونے کو روکنے کے جتن کر رہا تھا

___________________________

"مجھے یہ گاڑی نہیں لینی مجھے ریڈ گاڑی لینی ہے" 

کریم انکل کچھ دیر بعد ایک تھیلے میں فراس کی چند گاڑیاں ڈالے آ چکے تھے مگر اسے کوئی گاڑی پسند آ کر نہ دے رہی تھی 

"آپ بیٹھ جائیں،، فراس آپ بھی بیٹھ جائیں" 

وہ تھیلے میں سے گاڑیاں ایک ایک کر کے نکال کر پھینک رہا تھا اور نتیجتاً اسکا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر انکل بھی اسکے سامنے کھڑے تھے منیحہ نے فراس کو گھورا 

"یہ ریڈ ہے نا" ایک گلابی رنگ کی گاڑی اٹھا کر منیحہ نے اسکے سامنے کی،، مگر آجکل وہ کچھ زیادہ ہی کلرز میں فرق کرنا سیکھ رہا تھا ماں کو غصے سے گھورا

"نہیں" پھر منہ بنا کر جواب دیا

"انکل آپ نے خوامخواہ میں اتنی ساری لا دیں اسکو،، ایک آدھ لے آتے" 

"ارے یہ سب میرے بیٹے کی ہیں،، ادھر آو،، میں کل اپنے بیٹے کو اور بھی بہت ساری ریڈ گاڑیاں لا کر دونگا" 

انکل نے اسے بہلانے نے لیے گود میں لینا چاہا مگر وہ ضد کر رہا تھا،، اور جب کبھی کو ضد پہ اڑ جاتا پھر آسانی سے جان نہ چھوٹتی تھی

" فراس"منیحہ اس وقت اسے گھورنے کے سوا کچھ نہ کر سکتی تھی 

" ارے تم چھوڑ دو،، میں اپنے بیٹے سے خود بات کرتا ہوں "انکل کے ساتھ اسکی بہت دوستی تھی اگر دو دن وہ کبھی نہ آتے تو تیسرے دن وہ خود باہر نکلنے کی کوشش کرتا تھا 

ہفتے دو ہفتے بعد انکل اسے کچھ دیر کے لیے گھر بھی لے کر جاتے تھے،، شروع شروع میں منیحہ اس بات کے لیے راضی نہ ہوتی تھی پھر ابا کے سمجھانے پر اس نے دل پہ پتھر رکھ لیا 

اور اب وہ عادی ہو گیا تھا یہ اور بات کہ ہر دفعہ وہ کچھ نا کچھ توڑ کر اور آنٹی سے ڈانٹ کھا کر واپس آتا تھا 

آنٹی شازو نادر ہی یہاں آتی تھیں ایک دو دفعہ فراس کافی بیمار ہوا تب وہ بھی انکل کے ساتھ اسے دیکھنے کے لیے آئی تھیں ۔

منیحہ کا دھیان نہیں تھا،، وہ سیمعون کی بات پر سوچ رہی تھی اور چپ چاپ بیٹھی انکل کے تاثرات پہ غور کر رہی تھی 

(اگر واقعی *وہ کچھ ایسا ویسا کر رہا ہے، یا کر چکا ہے تو کیا انکل کو مجھے نہیں بتانا چاہیے تھا) 

وہ مسلسل انکے چہرے پہ نظریں گاڑھے بیٹھی تھی، جبکہ وہ فراس کو گود میں لیے اس سے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے دو ہم عمر لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہوں 

(کیا انکل اسے نہیں بتاتے ہوں گے، یہاں کے بارے میں کچھ،، میرے نا سہی فراس کے بارے میں) 

اسکا ذہن اس خبر سے بہت متاثر ہو رہا تھا دماغ یکدم دکھنے لگا تھا اسے یہ سب کیوں محسوس ہو رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی

جلال کی زندگی سے نکلنے یا اسے اپنی زندگی سے خارج کرنے کا فیصلہ تو اس نے اپنی مرضی سے کیا تھا پھر یہ سن کر اسے دکھ کیوں ہو رہا تھا 

وہ شاک میں کیوں تھی؟ 

"تو کیا اب میں اپنے فیصلے پر پچھتا رہی ہوں ¿" 

اس نے خود سے سوال کیا 

فراس اور انکل اب وہاں اسے نظر نہیں آ رہے تھے اسکا ذہن کہیں اور محو پرواز تھا

(کیا میرا فیصلہ غلط تھا؛ اگر میرا فیصلہ ٹھیک ہے تو مجھے فرق نہیں پڑنا چاہیے وہ جو بھی کرے) 

اس نے دل ہی دل میں خود کو ڈپٹا 

" میں اس سب سے آگے نکل چکی ہوں،، میری زندگی میں اب صرف میرا بیٹا ہے،، اس بے وفا اور بے مروت شخص کے لیے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے جس نے ان تین سالوں میں مڑ کر ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا" 

اس کا دماغ اسکے دل کو ڈپٹ رہا تھا،، سخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور شاید اسکا اندرونی اضطراب اسکے چہرے سے عیاں تھا 

" آپی! "

علی نے اسے زور سے ہلایا تو وہ بری طرح چونکی

" آں ہاں،، کیا ہوا"

اس نے ہڑبڑا کر دیکھا انکل صوفے پر بیٹھے تھے فراس سامنے میز پر ساری گاڑیاں تمیز سے رکھ رہا تھا اور علی اکسے ساتھ بیٹھا تھا

"کیا بات ہے، طبیعت ٹھیک ہے آپکی،،، فراس کب سے بلا رہا ہے آپکو" 

علی کو تشویش ہوئی 

"ہمم ہاں ٹھیک ہوں ویسے ہی کچھ سوچ رہی تھی،. کیا کہہ رہے ہیں آپ فراس" 

وہ بے ہنگم انداز میں وضاحت دیتی فراس کی جانب متوجہ ہوئی

"ماما کیا بمبلبی ہے نا¿" 

وہ ایک چھوٹی سے پیلی کار اسے سامنے کیے پوچھ رہا تھا

" کونسی بمبلبی، ،یہ ییلو کار ہے" 

وہ اسکے سوال کا پس منظر نہ سن سکی تھی اسی لیے گاڑی کا کلر بتایا 

آجکل وہ اسے کلر سینس کرنا سکھا رہی تھی 

"دیکھا میں نے کہا تھا نا یہ بمبل بی نہیں ہے"علی نے فراس کو چڑانے کو کہا

"نہیں یہ بمبلبی ہے" 

وہ برا منا کر چیخا تھا جب اسے غصہ آتا تو وہ آنکھیں سکیڑ کر اور ناک پھلا کر چیختا تھا،، اور دیکھنے میں بے حد پیارہ لگتا تھا

"یہ تو چھوٹی سی کار ہے بمبلبی تو بڑی ہوتی ہے"علی اور سیمعون بہت جی جان سے اسے چڑاتے تھے آج بھی وہ اسے چڑا رہا تھا 

بمبل بی کسی مشہور  فکشن ہالی ووڈ فلم کا حصہ ایک پیلے رنگ کی روبوٹک کار تھی جو فراس کو  بہت پسند کرائی گئی تھی علی کے موبائل میں اس کار کی بہت سی ویڈیو کلپس تھیں جو وہ روزانہ کی بنیادوں پر فراس کو دکھاتا تھا اور علی ہی نے اسے باور کرایا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے اچھی کار ہے 

اور اب فراس کو یہ کار پسند تھی جو اسے خرید کر بھی علی ہی نے دی تھی

"یہ تو گم گئی تھی،، کہاں سے ملی" 

کچھ دنوں سے یہ لاپتہ تھی اور منیحہ ہر جگہ تلاش کر چکی تھی 

"یہ ادھر گھر چھوڑ آیا تھا فراس" جواب انکل نے دیا تھا 

"ہم اتنے دن سے ڈھونڈ رہے ہیں" وہ گہری سانس لے کر بولی 

"ابھی میں کل بازار جاوں گا اور اپنے لیے ایک پیاری سی بڑی سی بمبلبی کار کے کر آوں گا"علی نے باقاعدہ ہاتھ پھیلا کر کار کا سائز بتایا 

"نہیں میری ہے وہ"فراد نے اسے فورا ٹوکا

" جی نہیں آپکی یہ چھوٹی سی ییلو کار ہے،، بمبلبی میری کار ہے،، میری" سلطان راہی مرحوم کی طرح علی اپنا سینہ بجا کر بولا

مقصد فراس کو چڑانا تھا

" میں ماروں¿"وہ توقع کے مطابق مرنے مارنے پر اتر آیا تھا 

"بے شک مارو،، مگر میں بڑی سی کار لوں گا" علی نے اسے چڑانا جاری رکھا انکل بھی اسکے غصیلے تاثرات دیکھ کر ہنس رہے تھے جو علی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا پھر اس سے پہلے کہ علی مزید کچھ کہتا یا منیحہ دونوں کو ٹوکتی فراس نے ایک بڑی بس اٹھا کر علی ہے رخ روشن کی طرف اچھالی جو عین نشانے پر لگی تھی. 

اسکی ناک مبارک سے ٹکرا کر اسکی گود میں گری جبکہ فراس ابھی بھی غصے اور منتقم مزاجی سے اسے گھور رہا تھا 

منیحہ اور انکل کی چیخ بے ساختہ تھی علی کو ناک کی ہڈی پہ وہ پلاسٹک کی بھاری گاڑی لگی تھی اور کافی دیر تک وہ کچھ بھی نہ بول سکا جبکہ منیحہ سر پکڑ کر رہ گئی 

فراس ابھی سے اتنا برا ردعمل دیتا تھا بڑا ہو کر نجانے کیا کچھ کرتا 

"کتنی دفعہ کہا ہے اسکے ساتھ تمیز سے پیش آیا کرو،، اس قسم کی حرکتیں اسے بگاڑ رہی ہیں؛" 

منیحہ چاہ کر بھی اپنا غصہ قابو میں نہ رکھ پائی علی کا دھیان اپنی ناک کی طرف تھا جبکہ انکل نے اسے ٹوکا

"کچھ نہیں ہوتا بچہ ہے،، آئندہ نہیں کرے گا،، ٹھیک ہے نا فراس" 

انھوں نے اسے اپنی گود میں لے کر دانستہ کہا 

مگر وہ ابھی بھی علی کو غصے سے گھور رہا تھا

" احسان فراموش آدمی،، میری ناک توڑ دی" 

"اچھا سوری بول رہا ہے فراس آئندہ نہیں کرے گا" 

انکل اسکی جانب سے سوری بول رہے تھے مگر فراس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا 

وہ ابھی بھی اپنی *بمبل بی *کو ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا 

"میں کیا کروں اسکا،، میں نہ اسکے باپ کو بدل سکی،، نا اسے بدل سکتی ہوں "

وہ سخت مایوسی کا شکار تھی 

اسکا دل بری طرح ٹوٹا تھا جو بھی تھا شاید ابھی اسکے دل کو شاید جلال سے کچھ امیدیں تھیں ۔

اگلے دن اس نے ابا کو تشویش زدہ لہجے میں اماں سے بات کرتے پایا 

وہ جلال اور اسکی مبنیہ شادی کے متعلق بات کر رہے تھے 

" اگر ایسا ہوا تو میں کریم صاحب سے سیدھی سیدھی بات کرونگا،، منیحہ اپنی زندگی کیوں لاپرواہی شخص کے لیے برباد کرے،، میری بچی کا بھی زندگی پہ کچھ حق ہے" 

منیحہ کے ناتواں دل پہ یہ آخری ضرب تھی ابا جس حق اور جس سیدھی بات کا ذکر کر رہے تھے وہ اتنی نا سمجھ نہیں تھی کہ سمجھ نا پاتی 

مگر مسئلہ اسکے دل کا تھا جسے ایک پل قرار نہ آ ٌٌ رہا

جو بھی ہوا تھا اور جیسے بھی ہوا تھا مگر ابھی تک اسنے جپپا کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا تھا 

اسے لگتا تھا مایوسی کی یہ کالی رات چھٹ جائے گی اور صبح کا سویرا ابھرے گا جلال اسکی جانب پلٹے گا ایک اچھا انسان بن کر 

مگر یہاں تو سب ایک سراپ ثابت ہوا تھا 

وہ تو زندگی کے مزے لوٹ رہاتھا

وہ سچ کہتا تھا 

"منیحہ میں زیادہ دیر چیزوں کا دکھ نہیں مناتا، میں منا ہی نہیں سکتا" 

"منیحہ مجھے رونے دھونے اور پچھتانے والے لوگوں سے چڑ ہے،، یار بندے کو اپنی زندگی انجوائے کرنی چاہیے۔" 

"میرا تو ایک اصول ہے،، زندگی میں ہر وہ کام کرو جو آپ کرنا چاہتے ہیں،، دنیا جائے بھاڑ میں "

وہ سب باتیں جب وہ اس وقت سرسری انداز میں کہتا تھا اب اس نے درست ثابت کر دی تھیں 

اسے واقعی لوگوں اور چیزوں کا غم منانے کی عادت نہ تھی 

جسے منیحہ نے اسکی محبت سے تعبیر کیا تھا وہ سب اسکا زندگی انجوائے کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا 

" منیحہ بی بی یہ سب تمہارا اپنا فیصلہ تھا اب کیوں دکھی ہو رہی ہو،، یہی چاہتی تھیں تم،، اب تو وہ خود ہی چلا گیا ہے اپنی زندگی جینے،، تم. بھی اپنی مرضی سے جیو" 

اسکے اندر سے کسی نے اسے جھنجھوڑا 

"نہیں میں نہیں چاہتی تھی یہ" 

اس نے اپنے دونوں کانوں پہ ہاتھ رکھ کر کہا 

" میں یہ سب نہیں چاہتی تھی"

اسکی بڑبڑاہٹ اور آنسووں نے کالج کے  سٹاف روم میں بیٹھی اسکی دوست اور ساتھی لیکچرر کو توجہ دینے پر مجبور کر دیا

" منیحہ کیا تم ٹھیک ہو ¿" 

"اوں. ہاں میں ٹھیک ہوں "

اسے ہوش کی دنیا میں آ کر احساس ہوا کہ وہ رو رہی تھی اور باقی سب بھی اسکی جانب حیرت سے دیکھ رہے تھے

"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے" 

سمیرا نے اسکا ہاتھ تھاما تو وہ بہت گرم ہو رہا تھا،، اس نے دو انگلیوں سے منیحہ کا ماتھا چھوا

"تم تو تپ رہی ہو "

" نہیں میرے سر میں درد تھا" 

وہ وضاحت دیتے ہوئے بولی

"تمہیں بخار ہو رہا ہے اور آنکھوں سے پانی بھی نکل رہا ہے "

سمیرا نے اسے گھورا 

" ہاں بس ہلکا ہلکا فیل ہو رہا یے" 

وہ چہرہ صاف کر چکی تھی نظریں چراتے ہوئے بولی 

"اگر بخار تھا تو آف کر لیتیں"

" نہیں ٹھیک ہوں میں "

اس نے ٹالنا چاہا

" ٹھیک کہاں ہو سر تپ رہا ہے تمہارا اور ہاتھ ٹھنڈے ٹھار ہو رہے ہیں،، "سمیرا کو اسکی بات پہ یقین نہیں آیا

"گھر چلی جاو"ایک دوسری ٹیچر نے مشورہ دیا تھا اور منیحہ نے محسوس کیا کہ یہی بہتر تھا اس وقت وہ اپنی اندرونی حالت کسی پہ بھی عیاں نہ کرنا چاہتی تھی اسی لیے وہاں سے فرار اختیار کرنا ہی بہتر تھا 

وہ کالج ہی کی گاڑی پہ گھر آ گئی 

مگر رات تک اسکا بخار شدت اختیار کر چکا تھا 

__________________________

صبح وہ معمول کے مطابق فریش تھا فیصلہ ہوا تھا کہ وہ وینس کی گلیوں میں گشت کریں گے اور وہاں کے مشہور کشمیری ریسٹورنٹ کو ٹریس کر کے وہاں پہ دوہر کا کھانا کھایا جائے گا جلال نجانے کس کام سے آیا تھا مگر موسی کا تو فقط ایک ہی کام تھا اور وہ تھا جلال کی چوکیداری اور وہ بخوبی کر رہا تھا 

صبح جلال اسے فریش ہونے کا کہہ کر کہیں گیا تھا اور کافی دیر بعد لوٹا 

موسی کو یقین تھا وہ ایلی کے ساتھ گیا ہو گا مگر کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو ایس حلیے میں تھا جس حلیے میں رات کو سویا تھا 

اسی لیے موسی کا شک دور ہو گیااگر وہ ایلی کے ساتھ جاتا تو اتنی جلدی واپس نہ آتا 

دوسرا بہتر حلیے میں جاتا 

صد شکر کہ ایلی سے جان چھوٹی ہوئی تھی وہ اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ رہ رہی تھی 

"جلال تم رکو میں ابھی کچھ دیر تک آتا ہوں" آخر جب انھوں نے کشمیری ریسٹورنٹ دریافت کر ہی لیا تو جلال کا فون یکدم بجا تھا فون پہ کچھ دیر بات کرنے کے بعد وہ تیزی میں دکھتا تھا

"بھائی میں بھی چلتا ہوں آپکے ساتھ"

"نہیں موسی میں بس تھوڑی دیر میں آ رہا ہوں" 

وہ تیزی سے چلتا ہوا مین سڑک کی طرف گیا وہاں ٹیکسی روکی اور اس میں سوار ہو گیا چند پل کوسی اس ریسٹورنٹ کی ایک میز کے گرد رکھی کرسیوں پہ بیٹھا اسے دیکھتا رہا اسکا انتظار کرنا موسی کی مجبوری تھی 

مگر پھر اسکے دل نے اسے اجازت نہیں دی وہ بہت تیزی سے بھاگتا ہوا آیا جلدی میں سڑک کے بیچ کھڑے ہو کر ٹیکسی روکی اور ڈرائیور کوجلالکا پیچھا کرنے کا کہا 

وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنی جلدی کیوں کر رہا ہے بظاہر اسکی کوئی وجہ بھی نہیں تھی مگر وہ پھر بھی جلال کے پیچھے جا رہا تھا 

اور کچھ ہی دیر میں جلال ایک سڑک کی طرف کھڑا اسے نظر آ گیا وہ کسی لڑکی کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا 

وہاں سے وہ اسے وہیں چھوڑ کر واپس اپنی اسی ٹیکسی میں بیٹھ گیا 

وہ لڑکی نجانے کون تھی جو جلال کو پیچھے سے آوازیں دے رہی تھی تب تک موسی کی ٹیکسی بھی قریب پہنچ چکی تھی 

وہ کوئی مقامی لڑکی تھی جو اب جلال کی ٹیکسی کو ناگواری سے دیکھ رہی تھی 

اور جب تک موسی پھر سے اس تک پہنچا 

وہاں موجود منظر دیکھ کر وہ لرز کر رہ گیا 

جلال دو لڑکوں کے ساتھ گھتم گھتا تھا ایلی خوفزدہ سی پاس کھڑی تھی راہگیر ان کو چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے 

مگر جلال پاگل ہو رہا تھا 

موسی نے چند پل کے لیے ہونقوں کی طرح اس عجیب و غریب صورتحال کو دیکھا پھر آو دیکھا نا تاو وہ اس جھرمٹ میں کود گیا 

کچھ دیر تک وہ جتنا ممکن تھا جلال کا ساتھ دیتا رہا 

اس پہ ایک جنون سوار تھا،، ایسا جنون جو آج سے پہلے کبھی محسوس نہ ہوا 

پانچ منٹ بعد پولیس کی گاڑی کا سائرن بجا 

تو ان سب نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا 

پولیس کی گاڑی اس سٹریٹ کے سرے پر نظر آ رہی تھی 

ان چاروں نے ہی دوڑ لگا دی دس منٹ بے وجہ اور تیز رفتاری سے بھاگنے کے بعد انھوں نے خود کو کسی عجیب ہی علاقے میں پایا پولیس کے سائرن اب سنائی نہیں دے رہے تھے 

اور وہ دونوں پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر ہانپ رہے تھے بکھرے بال،، پھٹے کپڑے، موسی کے ناک سے بہتا خون اور جلال کی ایک آنکھ سوجھ رہی تھی 

"بھائی یہ سب کیا تھا" 

پہلے ہوش موسی ہی کو آیا تھا 

جلال جے سیدھے ہوئے بغیر اسے دیکھا پھر چند پل دیکھتے رہنے کے بعد اسکے منہ سے قہقہہ پھوٹا 

"موسی تیری ناک" 

اس نے اہتھ کے اشارے سے موسی کی بہتی ناک کی طرف اشارہ کیا موسی نے حیرت اور ناگواری کے ملے جلے تاثر کے ساتھ ہاتھ لگایا تو اسکی ناک سے خون بہہ رہا تھا

اسکی آنکھیں باہر کو ابلیں

"بھائی خون نکل رہا ہے" 

وہ خوفزدہ ہو گیا تھا 

"ہاں اور تیرا ہونٹ بھی پھٹ گیا ہے" 

جلا ل نے مزید اطلاع دی وہ اب سیدھا کھڑا موسی کو دیکھ رہا تھا موسی نے ٹی شرٹ کے دامن سے اپنی ناک رگڑی وہ شاک میں تھا 

پھر جلال نے اسکے کندھے تھپک ہر اسے حوصلہ دیا 

اور جو قصہ کھلا وہ موسی کو اس ناک والے صدمے سے وقتی طور پر نکالنے کے لیے کافی تھا 

ایلی نے جلال سے جھوٹ بولا تھا وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے کسی پرانے دوست کے ساتھ رہ رہی تھی اور صبح جلال نے اسکا نمبر نہ ملنے پر. اسکی بہن سے رابطہ کیا تو وہ ایلی کی وینس میں موجودگی سے لاعلم تھی

پھر اس نے ایلی کو ٹریس کر کے جلال کو بھی اطلاع دی تھی

وہاں وہ دولڑکوں کے ساتھ تھی جنکو جلال نے پیٹا تھا

اور موسی بھی اس لڑائی میں سوچے سمجھے بغیر کود گیا تھا 

اتنی باتیں بتا کر جلال چپ ہو گیا تھا وہ اس پل پہ بیٹھ گئے موسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا 

اسے ایلی کی اس حرکت پہ یقین نہیں آ رہا تھا 

جلال نے بہت دیر تک کوئی بات نہیں کی

"موسی تمہیں بیچ میں نہیں آنا چاہیے تھا"

اسکا غصہ کچھ کم ہوا تو اس نے موسی کے ماتھے پہ موجود خون کو بوند کو دیکھا جہاں ایک کٹ بھی  لگ چکا تھا۔

"بھائی اب اتنا بھی بزدل نہیں ہوں میں" اپنے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہ برا منا کر بولا،،پھر پل پہ اسکے قریب آ بیٹھا

جلال سامنے دیکھ رہا تھا،، آستینیں چڑھا رکھی تھیں 

  کچھ خیال آنے پر پوچھا

"بھائی لیکن آپ نے اس بیچارے کے ساتھ یہ سب کیوں کیا"،، اسکا تو کوئی قصور نہیں تھا" 

(اصل تو وہ فضول ایلی کا قصور ہے) 

موسی کو ایلی پر بے تحاشہ غصہ آیا.. وہ یہی چاہتا تھا ایلی بھائی کو چھوڑ دے مگر آج برا بھی لگ رہا تھا 

حالانکہ اس بات کے لیے اس نے دن رات  نجانے کتنی دعائیں مانگی تھیں 

جلال نے گہری سانس لے کر ناک سکیڑی،، پھر ہنسا 

"میں اس کے گھٹیا خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنا چاہتا "

وہ بہت اداس لگ رہا تھا،، اسکے چہرے پہ کچھ ٹوٹنے کے آثار تھے

موسی کو سخت ہمدردی ہوئی

"بھائی آپ کا دل ٹوٹا ہے اس سب سے¿"

اس نے جلال کا دل ہلکا کرنا چاہا مگر اس شخص کے دل تک رسائی کسی کو نہ تھی کچھ پل وہ گردن موڑے موسی کو دیکھتا رہا،،بلکل سپاٹ انداز تھا، موسی کا اپنا دل دکھی ہوا

وہ بھائی کا دردکم کرنا چاہتا تھا

اس سے پہلے کہ کچھ بولتا جلال کے منہ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹا

" موسی خدا کا خوف کر تو کیوں عورتوں کی طرح دیکھ رہا ہے مجھے"

وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر ہنس رہا تھا مگر موسی اسکی ہنسی کے جھانسے میں نہیں آیا

اس ہنسی میں بہت کچھ مسنگ تھا

بھائی کی آنکھوں میں چمک ناپید تھی

اور موسی کو یقین تھا اسکی آنکھیں نم ہیں

وہ پچھلے تین سال سے ایلی کا دوست تھا، اسکے ساتھ پورا دن ہوتا تھا،، 

ایلی بھی اسکی دوستی کا دم بھرتی تھی  اور اب اچانک جبکہ وہ دوستی سے ہٹ کر کچھ سوچنا چاہتا تھا اس نے یہ سب کر دیا

"بھائی آپکو محبت تھی اس سے¿"

یکدم موسی کے دل کو دھڑکا سا لگا وہ اپنا جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا.. اس پہ کوئی عجیب سا خوفناک انکشاف ہوا تھا

جبکہ جلال کے چہرے پہ کچھ خاص تاثر نہیں تھا

موسی نے بے یقینی سے اسے دیکھا...

"بھائی کیا آپکو اس سے محبت تھی¿"

موسی اسکے سامنے کچھ جھک کر کھڑا اسکے چہرے پہ نظریں گھاڑے ہوئے تھا

"نہیں تھی کوئی محبت وحبت"

وہ جھنجھلا کر بولا

"پکی بات ہے بھائی ¿"

وہ پھر سے یقین کرنا چاہتا تھا 

"موسی بک نا،،، پیچھے ہٹ کہہ رہا ہوں نا محبت نہیں تھی،، بس اس نے مجھے چیٹ کیا تو مجھے غصہ آ گیا"

موسی نے کچھ بے یقینی سے اسکا قدرے معمول کا سا انداز دیکھا وہ شاید سچ ہی کہہ رہا تھا

اگر بھائی کو واقعی محبت ہوتی تو اتنی آسانی سے یہاں نہ بیٹھے ہوتے ۔

موسی نے اللہ کا شکر ادا کیا 

" بھائی یار اگر محبت نہیں تھی تو ایلی کو مارتے،، چیٹ تو اس نے کیا ہے اس بیچارے لڑکے کا کیا قصور تھا"

موسی کا ذہن پرسکون ہوا تو اپنی چوٹیں یاد آ گییں 

پھر اس بیچارے لڑکے کا خیال آیا جسے جلال نے زیادہ پیٹا تھا

"بھائی آپ نے اسے کتنی بے دردی سے پیٹا ہے"

وہ خفا تھا 

" جانتا ہوں کچھ زیادہ ہو گیا تھا مگر اس وقت غصے میں مجھے سمجھ نہیں آئی،، سبق اچھا ملے گا ان دونوں کو"

وہ کندھوں سے گرد جھاڑتے ہوئے بولا حالانکہ چھینا جھپٹی میں شرٹ پھٹ چکی تھی

 "ایلی کو سبق سکھاتے نا" موسی کی ایلی کے لیے نفرت آج کھل کر سامنے آ رہی تھی اسے ملال تھا کہ ایلی سبق سیکھنے سے رہ گئی

" بس کر دے موسی،،،تو تو سوتنوں کی طرح نفرت کرتا اس سے،،، عورت ہے وہ،،، تجھے کیا لگتا یے اتنی بے عزتی اور ٹھکائی کے بعد وہ ایلی کو ایسے ہی چھوڑ دے گا"

جلال چڑ کر بولا،، موسی نے سوالیہ اسے دیکھا 

"یار اسے مار تو ایلی کی وجہ سے پڑی نا،،، ورنہ ہماری اس سے کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں تھی،، اب وہ ایلی سے خود بدلہ لے لے گا"

جلال مکمل طور پر مطمئن تھا... ایلی عورت تھی اس لیے اس نے اپنا غصہ اسکے مرد عاشق پہ نکال دیا

اب وہ دونوں ایک دوسرے کو بھگت لیتے 

قصہ ختم۔

تھوڑی دیر بعد جلال پھر سے قدرے پرسکون تھا،، ایسے لگتا تھا جیسے اسکی ساری فالتو انرجی نکل گئی تھی اور اب وہ پرسکون تھا 

"بھائی تو پھر پاکستان کیوں نہیں جاتے،، دفعہ کریں اس ایلی کو اور پاکستان چلیں" موسی بچوں کی طرح پرجوش تھا

وہ ایلی سے نجات کو جشن کی طرح منانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔جبکہ جلال بس معمول کا سا برتاو کر رہا تھا جیسے کچھ خاص ہوا ہی نہ ہو۔

ہاں موسی کو مسلسل یہ محسوس ہو رہا تھا کہ بھائی اداس ہیں ۔

ورنہ شاید ایسی کوئی بات تھی نہیں ۔

" یار کیا کروں گا جا کر"

وہ کچھ بے زاری سے بولا "بھائی آپکی بیوی ہے،، پھر انکل آنٹی ہیں آپکے دوست بھی ہوں گے"

"یہ سب جو میں بھگت رہا ہوں نا یہ انھی منحوس دوستوں کی وجہ سے ہوا ہے،، اور بیوی کی تو رہنے دو تم"

وہ یکدم غصہ ہوا۔

"کیوں بھائی دوستوں کی وجہ سے کیوں "

موسی بیوی کی بات دانستہ نظر انداز کر گیا

"یہ سارا ان جاہل دوستوں کا ہی کارنامہ ہے جو آستین کا سانپ ثابت ہوئے میرے لیے"

جلال کی آنکھوں میں ماضی کی یاد نمی بن کر اتری تھی جسے وہ پی گیا

" بھائی کیا ہوا تھا"

وہ بیت دھیمے مگر محتاط انداز میں اتنا ہی پوچھ سکا 

"کیا نہیں ہوا یار،، میری بیوی نے مجھ پہ لعنت بھیجی،، وہ مجھے چھوڑ کر لی گئی،، میرے باپ نے مجھے اس وجہ سے گھر سے نکال دیا،، موسی مجھے جلال کریم علوی کو،، میرے باپ نے گھر سے نکال دیا. اور پورا ایک سال مجھ سے بات تک نہیں کی،، مجھ سے"

وہ سینے پہ شہادت کی انگلی رکھ کر شاکی لہجے میں بولا

یہ بہت عجیب تھا 

"وہ میری وجہ سے موت کے منہ میں چلی گئی،، موسی تم یقین کرو گے کہ میں اتنا ڈفر تھا میں اسے مارنے والا تھا... اور میرے وہ دوست جنھیں میں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا تھا وہ میری ہی جڑیں کاٹتے رہے اور میں انکے ہاتھوں فول بنتا رہا"

موسی بے یقینی سے اسکا ٹوٹتا چہرہ تکے جا رہا تھا 

" اور پھر جب مجھے رئلائز ہوا میں اسے لینے گیا۔مگر وہ نہیں آئی موسی میں نے اس سے معافی مانگی مگر اسے پرواہ نہیں تھی میری،،، وہ میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی"

اسکا حول ٹوٹ رہا تھا 

وہ اپنے اندر موجود لاوا باہر نکال رہا تھا 

اور موسی ششدر سا اسے سنے جا رہا تھا

" تم کہتے ہو پاکستان جاوں،، کیا کرنے جاوں میں وہاں کس کے لیے جاوں،، اس بیوی کے لیے جسے نا میری ضرورت ہے نا پرواہ،، یا ان ماں باپ کے لیے جنھوں نے پہلے خود مجھے بگاڑا اور پھر جب میں اپنی زندگی تباہ کر چکا تو مجھے گھر سے نکال دیا¿¿¿" 

وہ پھٹ پڑا تھا 

"بھائی ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو،، ہو سکتا ہے وہ سب آپکے واپس آنے کا انتظار کر رہے ہوں "

موسی کا لہجہ بے حد کمزور تھا 

" کیا ہو سکتا ہے موسی،، کچھ بھی نہیں ہے،،، سب اپنی اپنی زندگی میں بزی ہیں،، تو میں کیا انکے پیچھے پھرتا رہوں،، اگر کسی کو میری پرواہ نہیں تو میں کیوں سب کی پرواہ کروں "

وہ بے زاری سے سر جھٹک کر بولا موسی کو اسکا لہجہ نم محسوس ہو رہا تھا 

"بھائی تو کیا آپکی بیوی کو آپ سے محبت نہیں تھی مطلب،، وہ،، اچھی عورت... مطلب اچھی نہیں تھیں ¿"

موسی کو اپنا سوال بیان کرنے کو مناسب الفاظ نہ مل پا رہے تھے 

" نہیں یار،، وہ اچھی تھی،. بلکہ بہت اچھی تھی،، بس میں ہی اسکے قابل نہیں تھا" وہ بیک وقت دکھی بھی تھا اور غصہ بھی

موسی کو اس پر ترس آیا

" بھائی مگر اب تو آپ ٹھیک ہیں،، اب تو آپکو جانا،، چاہیے،،، نا"

وہ رک رک کر بول رہا تھا مبادا جلال اسکی کسی بات پہ برا منا کر موضوع ہی نہ بدل دے

" یار دفعہ کرو،، کیا کرنا ہے جا کر،، ٹھیک ہوں میں یہیں"

وہ مایوسی سے بولا

"بھائی ہو سکتا ہے اب سب بدل گئے ہوں،، ہو سکتا ہے آپکے دوست بھی بدل گئے ہوں "

موسی نہیں جانتا تھا وہ یہ سب کیوں کہہ رہا ہے مگر وہ واقعی چاہتا تھا جلال ایک نارمل زندگی گزارے،، ایک خوش باش نارمل زندگی 

اسکے خیال میں بھائی ایک اچھی زندگی ڈیزرو کرتے تھے

"وہ بدل بھی جائیں تو کیا ہو گا،، جو میری زندگی برباد ہونی تھی وہ تو ہو گئی نا،، تجھے پتہ ہے موسی میں کتنا ڈفر تھا...

اتنا ڈفر کہ وہ لوگ مجھے کہتے تھے کہ تمہاری بیوی تمہیں اچھا نہیں سمجھتی تو میں اس بات پہ یقین کر لیتا تھا۔

وہ. مجھے کہتے تھے کہ تمہاری بیوی تمہیں اپنے قابل نہیں سمجھتی... میں اس بات پر بھی یقین کر لیتا تھا،، وہ کہتے تھے کہ تمہاری بیوی جب تمہارے بچے کی ماں بن جائے گی تو تمہیں بلکل لفٹ نہیں کرائے گی... اور میں اتنا ڈفر تھا کہ میں* اس* سے اس بات پہ لڑا کہ مجھے بچہ نہیں چاہیے،، موسی میں نے اس سے کہا کہ وہ میرا،، میرا اپنا بچہ ختم کر دے"

وہ اپنی ہی باتوں پہ حیرت زدہ تھا 

جیسے یقین نہ ہو کہ یہ سب میں نے ہی کیا ہے۔

مگر وہ آج سب کچھ کہنا چاہتا تھا

اپنا دل ہلکا کرنا چاہتا تھا

وہ ساری باتیں جو. کرنا تو دور اس نے سوچنا بھی خود پہ حرام کر لیا تھا

وہ اب ان باتوں کا بوجھ کسی کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا 

" موسی وہ مجھ سے اس لیے لڑتی رہی کہ وہ ہمارے بچے کو بچانا چاہتی تھی،، وہ مجھ سے اسلیے لڑتی رہی کہ وہ. مجھے شراب پیتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی،،، وہ مجھے گناہوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے جتن کرتی رہی اور میں سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے غلط سمجھتا رہا"

وہ ہارا ہوا انسان اتنا بھی لاپرواہی.

 نہیں تھا جنتا دکھنے کی کوشش کرتا تھا

"بھائی آپ بھول جائیں نا سب باتیں، اس میں آپکا تو قصور نہیں نا.، ساری غلطی تو آپکی بری صحبت تھی،، جنھوں نے آپکو غلط باتیں سمجھائیں،، اسی لیے تو کہتے ہیں کہ آدمی اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے "

موسی اسے اس احساس شرمندگی اور جرم سے نکالنا چاہتا تھا،، مگر وہ اسکے تیار نہیں تھا

موسی کو ٹوک دیا

" موسی ساری غلطی میری ہے،، وہ میری بیوی تھی،، اسے میں جانتا تھا،،، مجھے سمجھنا چاہیے تھا،، کہ وہ میرے حق میں اچھی ہے یا نہیں،،، موسی میں اسے اپنے لیے فکر مند دیکھتا تھا مگر مجھے شرم

 نہیں آتی تھی... مجھے لگتا تھا بس سب ایسے ہی رہے گا... مجھے لگا وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مل گئی ہے،،، مجھے یہ خیال ہی نہیں آیا کہ میں اپنی حرکتوں سے اسے کھو دوں گا"

اس نے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔

آج اسے منیحہ کی وہ ساری فکریں،، اسکا ڈرا سہما انداز اور اسکی معصوم مسکراہٹ، سب یاد آ رہا تھا وہ سب جسے وہ دانستہ بھلانے کے جتن کرتاتھا 

" بھائی کیا آپ نے انھیں طلاق دے دی تھی¿"

جس طرح وہ بے بس ہارا ہوا بیٹھا تھا موسی کو خیال گزرا جسیے سب واقعی ختم ہو گیا ہو جلال نے اسکے اس عجیب  سوال پر سر اٹھا کر اسے دیکھا 

"نن نہیں،، طلاق نہیں لی تھی" 

وہ بے ہنگم انداز میں بولا،، موسی نے سکون کا سانس لیا

"تو پھر کیا ہے مسلہ ہے بھائی آپ جا کر ان سے معافی مانگ لیں" 

اس نے چٹکی بجاتے میں حل پیش کیا... مگر جلال گہری سانس لے کر رہ گیا

 مانگی تھی معافی،،، اسے لینے بھی گیا تھا مگر وہ میری شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھی،، وہ اپنے باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی کہ اسے میرے ساتھ نہیں رہنا،، موسی مجھے ایسا لگا جیسے میں کوئی جنگلی بھیڑیا ہوں،، بلکہ جنگلی بھیڑیا بھی شاید مجھ سے بہتر ہو گا،، کہ اسکی بیوی تو اس سے یوں نہیں نفرت کرتی ہو گی"

جلال کریم علوی خود ترسی کا شکار ہورہا تھا

شاید اسکی بیوی بھی دیکھتی تو پگھل جاتی

" بھائی یہ بھی تو ہو سکتا ہے انھوں نے آپکو معاف کر دیا ہو "

موسی امید کے محل تعمیر کر رہا تھا 

" چھوڑ یار موسی،، جھوٹی تسلیاں نہ دے مجھے "

جلال نے اس خیال کو جھٹکا

" بھائی آپ ایک کوشش تو کریں،، کوشش کرنے میں کیا برائی ہے"

" موسی میں اسکی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نہیں دیکھ سکتا،،، میں یہ برداشت نہیں کر پاوں گا،، اس سے بہتر ہے میں اسے دیکھوں ہی نا" جلال نے قصہ پہ ختم کر دیا۔

منیحہ تمہارے ابا پریشان ہو رہے ہیں اٹھو تھوڑی دیر انکے ساتھ بیٹھو"

اسے سخت بخار تھا،، دوا کھانے کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوا تھا 

بخار جسمانی نہیں ذہنی تکلیف کی وجہ سے تھا جبکہ طبیب نے جو دعا تجویز کی تھی وہ جسمانی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے تھی۔

اسی لیے علاج کامیاب نہ ہو رہا تھا۔

" جی اماں"

وہ ابا کی پریشانی کے خیال سے نڈھال سی اٹھ کر بیٹھ گئی

"ارے بھئی کیا ہو گیا میری بیٹی کو" 

ابا نے اسے دیکھ کر خوشدلی سے کہا 

"کچھ نہیں بس کچھ حرارت محسوس ہو رہی ہے" 

دوپٹے کو اپنے گرد لپیٹے وہ شکل ہی سے تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔

" کیا ہو گیا ہے ابھی تو کچھ دن پہلے ہی تمہارا بخار اترا ہے" 

ابا کی پریشانی بھی جائز تھی۔

"کچھ نہیں ابا بس ٹھیک ہو جاوں گی" 

اس نے ناک سے مکھی اڑائی 

"بھئی تمہیں کچھ نہیں محسوس ہو رہا مگر ہم تو پریشان ہیں دیکھو فراس بھی اداس بیٹھا ہے" 

انھوں نے خلاف معمول اداس دی شکل بنائے بیٹھے فراس کی جانب اشارہ کیا 

جو پچھلے کئی گھنٹوں سے منیحہ کے ساتھ ہی بستر میں گھسا ہوا تھا 

اب بھی سیمعون بمشکل اسے اٹھا کر لے گئی تھی 

" فراس کی ماما مرنے والی ہیں "سیمعون نے آنکھ دبا کر کہا

مگر وہ آج لڑائی کرنے کے موڈ میں بھی نہیں تھا

"منیحہ جب مر جائے گی تو ہم اسکو قبرستان میں چھوڑ آئیں گے" 

سیمعون کی کمنٹری جاری تھی 

منیحہ نے بے زاری سے اسے دیکھا

"پھر فراس میرا بیٹا بن جائے گا" 

سیمعون نے اسے گود میں لینے کی کوشش کی مگر وہ اسکا ہاتھ جھٹک رہا تھا 

"کیا بات ہے بھئی،، ماما روز ڈانٹتی ہیں،، اچھا ہے نا مر جائیں "

اس نے پہلے سیمعون پھر ماں کے چہرے کی جانب دیکھا... مگر منیحہ محسوس کر رہی تھی کہ وہ اسکو خاموش دیکھ کر پریشان ہو رہا ہے،، 

دوسرا منیحہ شکل ہی سے بیمار لگ رہی تھی

اور چھوٹے بچے کے لیے یہ پریشانی کا باعث تھا

" سیمعون نہیں کرو،، ادھر آئیں فراس"

منیحہ نے اسے گود میں لیا

"ارے تم کیوں پریشان ہو کر بیٹھ گئے ہو" 

ابا بھی فراس کی خلاف معمول اداسی پہ پریشان ہو گئے وہ بچہ عجیب سی شخصیت کا مالک تھا 

"کیا ہوا ہے آپکو،، میں ٹھیک ہوں"منیحہ نے اسکا ماتھا چوما 

مگر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ مغرور سا بچہ اسکے سینے سے لگا رونے لگا تھا 

" اففف فراس رو کیوں رہے ہو"منیحہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے

"میرا بے بی رو کیوں رہا ہے... میرے بے بی کو کا ہوا¿¿" 

وہ اسکو خود سے جدا کر کے چہ کرانا چاہتی تھی مگر نجانے کیوں وہ روتا جا رہا تھا ۔ننھا سا چہرہ سرخ تھا 

اور رونے سے اسکی آنکھیں بھی ہلکی ہلکی گلابی ہو رہی تھیں 

" اللہ کتنا ڈرامہ ہے یہ،، مجال ہے جوکبھی میرے بیمار ہونے پہ یہ رویا ہو"

سیمون پھر سے اپنا اور اسکی ماں کا تقابلی جائزہ لے رہی تھیغیر شعوری طور پر وہ فراس سے اپنے لیے بھی وہی جذبات چاہتی تھی جو وہ منیحہ کے لیے دکھاتا تھانگر قدرت نے نجانے کیسا جذبہ ودیعت کیا تھا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ بچہ صرف اپنی ماں کا خیال کرتا تھا اور اس قدر خیال کرتا کہ تین پونے تین سال کے بچے کا یہ رویہ حیرت میں مبتلا کر دیتا

"سیمعون چھوڑ دو،، وہ پریشان ہو رہا ہے... جاو فراس کے لیے ایگ نوڈلز بنا کر لاو"منیحہ نے اسکی توجہ بٹانے کو کہا

"میں نے نہیں کھانا" 

وہ دکھ منانے کے موڈ میں تھا 

رات کو بھی وہ منیحہ کے ساتھ لپٹا رہا 

اور وہ  سوچ رہی تھی کہ اسکا فیصلہ غلط نہیں تھا 

فراس اسکے لیے ہر دوسرے فرد سے اہم تھا 

ہر فرد سے ۔

(میرے لیے میرا بچہ اور اسکی محبت کافی ہے) 

اس نے خود کو باور کرایا ۔

مگر نجانے کیوں وہ خود کو *اسکی* یادوں سے روک نہ پائی

بے رنگ سہی بے کیف سہی، اک لہر تو اب بھی آتی ہے

دل لاکھ شکستہ ہو محسن، یادوں سے کنارہ مشکل ہے

"ماما یہ کون ہیں" 

فراس نے موبائل کی سکرین پہ موجود تصویر کو دیکھ کر کہا

"میں،،، آپکی ماما" 

اسنے اپنی تصویر پہ انگلی رکھی 

"یہ کون ہے" 

اس نے تصویر میں ساتھ موجود شخص کو سلجھ کر دیکھا 

نجانے کون تھا جو اسکی ماں کو اپنے حصار میں لیے مسکرا رہا تھا 

"یہ کون ہے.. آپ بتائیں "منیحہ نے اسکے چہرے پہ نگاہ رکھ کر الٹا اس سے سوال کیا

"یہ نہیں ہے"

وہ اکثر بے قاعدہ قسم کے جملے بولتا تھا 

"نہیں،، یہ ہیں" منیحہ نے اسے جلال کی ایک اور تصویر دکھائی 

ورنہ وہ خود تو اب ان تصویروں سے منہ موڑ چکی تھی

"مجھے دیں" فون اپنے ہاتھوں میں لے کر وہ ان تصویروں کو آگے پیچھے کر کے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا،، اسکے چہرے پہ حیرت اور تجسس بھی تھا 

منیحہ کا دل کسی نے مٹھی میں لیا

" فراس ادھر کرو" اس نے فراس کے ہاتھ سے موبائل لے کر پرانی تصویروں کا وہ فولڈر بند کر دیا،، اسکا دل بری طرح دکھا تھا 

"نہیں" 

وہ انکاری تھا 

"یہ دیکھو" منیحہ نے اسکی حالیہ تصویریں دکھائیں مگر وہ انھیں دیکھنے کی بجائے جلال کی تصویریں دیکھنا چاہتا تھا... حالانکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے 

وہ اپنے باپ سے انجان تھا 

ماں اور باپ کے آپس کے اختلافات میں پستا وہ بچہ تین سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے باپ کی شناخت سے انجان رکھا گیا تھا 

باوجودیکہ کہ وہ ایک جائز اور شرعی طور پر حلال اولاد تھی 

"نہیں وہ انکل،،" 

وہ اسی *انکل*کو دیکھنے پہ بضد تھا

"انکل نہیں ہے وہ،،" 

منیحہ نے کچھ خفگی سے کہا.. یہ خفگی جلال کے لیے تھی

"یہ آپکے پاپا ہیں" 

"نہیں" فراس نے فورا نفی میں سر ہلایا

"پاپا گھر ہیں" 

وہ کریم انکل کو پاپا کہتا تھا 

"ہاں وہ آپکے پاپا کے پاپا ہیں "

" نہیں "

فراس کے لیے دنیا وہی تھی جو وہ خود سمجھتا تھا کسی دوسری بات کو وہ سوچنا بھی پسند نہ کرتا تھا 

اب بھی وہ ایک اور باپ قبول کرنے کو تیار نہیں تھا.. منیحہ کو خوامخواہ غصے نے گھیرا

"فراس ادھر دیکھیں... یہ آپکے بابا ہیں،،، یہ جو لمبا چوڑا بے برواہ سا آدمی جو تمہیں نظر آ رہا ہے یہ تمہارا باپ ہے" 

وہ کہیں اور کی ناگواری اس بچے پہ نکال رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ فراس کو کیوں بتا رہی ہے حالانکہ یہ بات اس ننھے بچے کو کنفیوز کر رہی تھی 

" نہیں ہے پاپا"وہ منہ بنا کر آنکھیں سکیڑے اپنے موقف پہ ڈٹا ہوا تھا 

" یہ ہے تمہارا باپ،، اور بڑے ہو کر تم اس سے پوچھنا.. کہ اس شخص نے ہمارے ساتھ یہ کیوں کیا،،، فراس تک. ضرور پوچھنا اس سے" 

ہسٹری آئی انداز میں بولتی وہ

آخر میں وہ کمزور پڑ گئی تھی.. وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر کچھ بخار اور کچھ اوور تھنکنگ کی وجہ سے اسکی ذہنی  حالت خراب ہو رہی تھی 

فراس ناپسندیدگی سے اسے اور اس تصویر کو دیکھ رہا تھا جس میں موجود شخص دنیا و مافیا سے بے خبر اپنے آپ میں خوش باش دکھائی دے رہا تھا 

مگر کچھ تھا جو اس بچے کو عجیب لگ رہا تھا مگر وہ بتانے کا فن نہ جانتا تھا 

_____________________

"بھائی ویسے آپکو اپنے ان خبیث دوستوں سے بدلہ لینے ہی چلے جانا چاہیے"

موسی اس وقت سے جلال کو پاکستان جانے کے لیے راضی کرنے کے مختلف طریقے سوچ رہا تھا،، دوسرا تھوڑی بہت معلومات اسے نمرہ بھابھی سے بھی مل گئی تھیں... باقی کے لیے وہ جلال بھائی کے پاپا سے رابطہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا کیو کہ نمرہ بھابھی نے بتایا تھا کہ جلال ابھی تک اپنے ہاہا سے بات نہیں کرتا 

پاکستان ہو بس کبھی کبھارہی فون کرتا تھا اور وہ بھی اپنی ماں سے حال احوال کی بات کر کے فون بند کر دیتا پاپا کا فون تو وہ ابھی تک نہیں سنتا تھا 

اور نہ ہی وہ اپنی بیوی کے بارے میں کچھ سننے پہ راضی ہوتا تھا 

اس میں بھی اندرون خانہ حقیقت یہ تھی کہ جب بھی اسکی ماما سے بات ہوتی ماما منیحہ کا ذکر کچھ ایسے الفاظ میں کرتیں

"تمہاری بیوی کو لینے گئے تھے تمہارے پاپا مگر مہارانی کہتی ہے میں وہیں ٹھیک ہوں" 

"تمہاری بیوی کی طبیعت خراب تھی کل،، پھر تمہارے پاپا مجھے بھی لے گئے،، مگر مجال ہے جو اس نے مجھ سے سیدھے منی بات بھی کی ہو" 

تمہاری بیوی یہ تمہاری بیوی وہ... وہ نہیں آنا چاہتی.. وہ وہیں رہنا چاہتی ہے.. وہ اپنے ماں باپ کے گھر خوش ہے

یہ اور ایسے کئی طنزیہ جملے جو شاید ماما اسے غصے میں سناتی تھیں یا اسے منیحہ سے بدظن کرنے کے لیے نگر اسکا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ انھیں فون کرنا ہی چھوڑ چکا تھا اور نہ ہی وہ اسکا ذکر کرنے دیتا تھا 

دوسری جانب بہو کی نفرت اور ناپسندیدگی میں انھیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہ تو بیٹے کو بہو سے متنفر کرنا چا ہتی ہیں مگر بیٹا اپنی زندگی اور اپنے گھر سے ہی متنفر ہو گیا تھا 

اب اگر وہ منیحہ کا ذکر کرنے کی کوشش بھی کرتیں تو وہ فون کاٹ دیتا یا ہتھے سے اکھڑ جاتا

کچھ وہ تھا بھی جنونی کہ وہ اسکی مرضی کے خلاف کوئی بات کم ہی کرتی تھیں 

"بھائی آپکو ایک دفعہ پاکستان جانا چاہیے کم از کم ان دوستوں کو ہی سبق سکھا آئیں" 

جلال کمرے میں ٹی وی آن کیے بیٹھا کوئی ریس گ بیسڈ فلم دیکھ رہا تھا،، وہ نارمل دکھتا تھا  جبکہ موسی بستر پر دراز اپنا ذہن کھنگھال رہا تھا 

"کن دوستوں کو" جلال نے بے توجہی سے پوچھا 

" وہی جنھوں نے آپکو الٹے سیدھے مشورے دئیے"

موسی نے نیم رخ سے اسکا چہرہ دیکھا

"انکو سبق سکھا چکا ہوں میں" جلال کے چہرے پر کسی خیال کے تحت مسکراہٹ بکھر گئی

"وہ کیسے" موسی تجسس کی وجہ سے سیدھا ہو بیٹھا 

"بس جو ہم سے پنگے لے گا،، وہ اسی انداز میں بھگتے گا بھی"

وہ فخریہ بولا۔

" بھائی کیا کہہ رہے ہیں "

موسی کا تجسس عروج پہ پہنچ چکا تھا 

"یار ان میں سے ایک تھا وہ جو مجھے کہتا تھا کہ تیری بیوی خود کو نیک اور تجھے شیطان سمجھتی ہے،،، اس نے بہت غلط باتیں کی تھیں منیحہ کے بارے میں،،، اور جس دن ہماری آخری والی لڑائی ہوئی تھی اس دن زراب بھی مجھے اسی نے زبردستی پلائی تھی،، اور جب میں ڈرنک تھا تو میں نے اس سے کہا کہ میں اسکے گھر رکوں گا،، مگر وہ بلڈی ڈیول مجھے گھر چھوڑ گیا،، میں بلکل آوٹ تھا اور پھر بھی وہ مجھے چھوڑ آیا"

وہ طنزیہ خود پہ ہنس رہا تھا 

پرانی باتیں یاد کر رہا تھا 

" تو آپ نے کیا کہا اسے"

" میں نے اسے چھوڑ دیا موسی "

وہ بے زار ہو کر بولا

" بھائی بتائیں نا"

وہ اصرار کرنے لگا

" یار انکے ساتھ رابطے میں تھا میں،، اور پھر جس دن اسکی شادی ہوئی نا اس دن میں نے اسکی پرانی ویڈیو چیٹس اور تصویریں جو اس نے مجھے پہلے کبھی دی تھیں وہ سب اسکی بیوی کو بھیج دیں "

وہ سکون سے بولا

" بھائی نہیں کریں ،،آپ نے اسکی شادی والے دن اسکی بیوی کو اسکی پرانی تصویریں بھیج دیں ¿¿"

موسی اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے سامنے چلا گیا 

وہ متحیر تھا 

" نہیں.. شادی والے دن نہیں،، شادی والی رات کو،، اور تجھے پتہ ہے اسکی بیوی کے بھائی بڑے لوفر تھے،، بہت تماشہ لگا اسکے سالے اپنی بہن کو اسی رات واپس لے گئے... اور بہت مار پڑی شیری کو"

وہ مزے لے کر سنا رہا تھا 

"بھائی آپکو اندازہ نہیں تھا کیا¿¿"

موسی کا منہ کھلا ہوا تھا 

" نہیں مجھے پتہ تھا،، وہ لڑکی ایک زمانے میں میری بھی دوست ہوتی تھی"

وہ آنکھ دبا کر بولا

اور موسی اپنے خیالوں میں اس بیچارے دلہے کا تصور کر رہا تھا جسے اپنی شادی والی رات نا صرف دلہن کی ناراضی سہنا پڑی بلکہ سالوں سے مار بھی کھانا پڑی 

اور جو تماشہ لگا وہ الگ۔

" اف بھائی آپ بہت گھٹیا تھے"

موسی کے منہ سے بے اختیار نکلا

" بک نا موسی" 

جلال نے کشن موسی کے منھ پہ کھینچ کر مارا

"جو انھوں نے میرے ساتھ کیا اسکے بعد اتنا تو بنتا تھا نا" 

"بھائی تو اگر ایسی بات تھی تو آپ خود کو بدل لیتے،، نا سنتے انکی بات" 

بے دھیانی میں اسکے منہ سے نکلا... اسے بھائی کے دوست کے لیے افسوس ہو رہا تھا

"یار میں نے ان *__ کو بتایا تھا میں اب ڈرنک نہیں کروں گا،، انھوں نے مجھے مجبور کیا،، بلکہ زبردستی پلائی اور اتنی پلائی کہ میں ہوش کھو بیٹھا.. میں نے ان سے کہا میں وقت پہ گھر جایا کرونگا،، انھوں نے مجھے جانے نہ دیا،، غلطی میری تھی کہ میں دوستی اور بیوی کو ایک ساتھ چلانا چاہتا تھا"

وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کر رہا تھا،، یہ معجزہ تھا 

" اچھا بھائی پاکستان تو جائیں نا"

وہ بچوں کی طرح اصرار کرنے لگا 

جلال نے کوئی جواب نہیں دیا۔

" اچھا بھائی،، بھابھی کا نام تو بتا دیں "

موسی کو کچھ یاد آیا تھا

" کیوں تو کیا کرے گا نام جان کر"

جلال اسے کھانے کو دوڑا 

"توبہ ہے.. نام بتانے میں کیا حرج ہے بھلا" 

وہ بڑبڑا کر رہ گیا۔

_____________________

وہ گاڑی میں تھا،، موسی پاکستان جا چکا تھا،، اسکی روٹین وہی تھی سٹور، ریسنگ اور پھر سے سٹور 

ایلی ابھی تک واپس نہیں آئی تھی اس دن کے بعد سے ان دونوں کا سامنا نہ ہوا تھا 

شہر سے باہر جاتی ویران روڈ پہ وہ خوامخواہ میں گاڑی دوڑا رہا تھا ذہنی تو بھٹک کر وہاں جا رہی تھی جہاں وہ جانا نہ چاہتا تھا 

اچانک اس نے اپنا موبائل پکڑا،، نئے نکور زبردست سے موبائل میں ایک پرانا سا بوسیدہ کانٹیکٹ ابھی بھی کسی کونے میں موجود تھا

کیوں تھا¿¿ اس سوال کا اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا

مگر اسکی انگلیاں آج لاشعوری اور غیر ارادی طور پر اس کانٹیکٹ پہ جا رہی تھیں 

اور اس نے ڈائل کے بٹن پہ انگلی رکھ دی،،،تین سال دو مہینے اور اکیس دن بعد آج وہ اس کے کانٹیکٹ پہ موجود ڈائیل کے حصے کو دبا رہا تھا دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں

اور اس وقت اسکے چہرے کے جو تاثرات تھے کوئی دیکھ لیتا تو شاید اسے جلال کریم علوی کی شناخت سے پہنچاننے سے انکاری ہو جاتا۔

وہ لاپرواہی اور بے شرمی کی حد تک ڈھیٹ آدمی تھا مگر اس لمحے اسکی حالت کسی پندرہ سولہ سالہ لڑکے کی تھی جو اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام کرنے جا رہا ہو جو اس نے پہلے کبھی کرنے کی جرات نہ کی ہو

لمحے صدیوں کی مانند بیت رہے تھے

اسے لگا اسکا دل رک گیا تھا

دوسری جانب بیل جا رہی تھی مگر اس نے گھبرا کر کال ڈسکنیکٹ کر دی۔

گاڑی پوری سپیڈ کے ساتھ بھاگ رہی تھی 

اور وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا 

کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے تو اس نے خود کو ملامت کیا 

"حد ہے جلال،، تو کیوں عورتوں کی طرح گھبرا رہا ہے،، کال کرنے میں کیا برائی ہے،، ہو سکتا ہے نمبر کسی اور کے پاس ہو،، اور ویسے بھی اسے کیا پتہ کہ دوسری جانب تو ہے" 

اسکے دل نے اسے اس بزدلی پہ ٹوکا

اس نے اپنی پرانی شخصیت کو زبردستی خود ہی طاری کرنے کی کوشش کی 

(ڈوب کر ایک عورت کو سوچ کر تیری ایسی حالت کو رہی ہے) 

اسکے اندر چھپے مرد نے اسے شرم دلائی

بیل پھر سے جا رہی تھی 

(ون ٹو تھری) 

ناچاہتے ہوئے بھی پھر سے ذہن میں ہیجان بھرپا ہوا

"ہیلو"

دوسری جانب سے فورا فون اٹھا لیا گیا

"کک کون" وہ الجھا آواز کسی لڑکی کی نہیں تھی

"ہیلو ماموں¿" 

دوسری جانب کوئی باریک سی معصومانہ سی آواز میں بولا

پیچھے سے کوئی زنانہ آواز سنائی دے رہی تھی،، جلال کا دل دھڑکنا بھول گیا

"کون،، کون بات کر رہا ہے" 

اسکے منہ سے بے ساختہ چند الفاظ نکلے

"کون ہے فراس ¿ "

کوئی نسوانی آواز بہت قریب سے ابھری تھی

"کون... "

جلال کے الفاظ اسکے منہ میں ہی دم توڑ گئے

"میں فراس ہوں،، آپ کیوں نہیں آئے¿¿" 

دوسری جانب کوئی بچہ غصے سے پوچھ رہا تھا ۔

فون میں دھڑام کی آواز سنائی دی اور کال کٹ چکی تھی کتنی ہی دیر وہ ہونق بنا موبائل کی روشن ہو کر پھر سے تاریک ہوتی سکرین میں اس نادیدہ آواز کو تلاشتا رہا ۔

"ماموں.." 

"میں فراس" 

وہ لاشعوری طور پر وہ الفاظ دہرا رہا تھا

"آپ کیوں نہیں آئے¿¿¿" 

"فراس" 

اور آواز میں موجود واضح خفگی اور غصہ۔۔

"کیا وہ¿¿،، . کون تھا وہ؟؟؟؟" 

وہ آنکھیں پھاڑے متحیر سا وہاں موجود نہیں تھا وہ کسی اور عالم میں تھا 

انکشاف اور حقائق کے دروازے اس پہ ناچاہتے ہوئے بھی کھلتے جا رہے تھے

منیحہ نے ابھی ابھی اسے نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے تھے اور اب فراس صاحب شہر کا دورہ کرنے کے لیے تیار تھے جمعے کے روز علی اور فراس کو ابا کی خاص الخاص موٹر بائیک عنایت ہوتی تھی اور وہ دونوں پورے شہر کے چکر کاٹ کر شام کو پہ واپس آتے 

ابھی بھی علی بائیک میں پٹرول ڈلوانے کا کہہ کر نکلا تھا مگر فراس کے لیے انتظار کرنا خلاف شان تھا 

"ماموں نہیں آتے" وہ منہ بنا کر بولا تو منیحہ نے اسے تسلی دی ایک تو اسکی اپنی طبیعت خراب تھی اوپر سے فراس کو چوبیس گھنٹے ایک کئیر ٹیکر کی ضرورت رہتی تھی

"آ جاتے ہیں ابھی تھوڑی دیر میں"

موبائل چارج پہ لگا کر وہ خود نماز عصر کی ادائیگی کی نیت سے وضو کرنے چلی گئی

تبھی فون بجا تھا

"لگتا ہے ماموں آ گئے ہیں"یقینا علی تھا جو کہہ رہا ہو گا کہ فراس کو باہر لے آو میں پہنچ رہا ہوں

"ماموں" وہ لپک کر فون کی جانب پہنچا تھا منیحہ ابھی بھی واش بیسن پہ وضو کر رہی تھی

مگر فون کٹ گیا

"چلیں جی فراس صاحب آج آپ ماموں کے ساتھ گھومنے جائیں گے"

وہ اسے تسلی دیتی کمرے میں چلی گئی 

تبھی دوبارہ فوج بجا تھا 

اور خلاف اجازت اس بار فراس نے فون پک کر لیا تھا منیحہ نے جائے نماز بچھایا اس سے پہلے کہ نیت باندھتی فراس کی گفتگو کی آواز سنائی دینے لگی وہ جو اسے گلی تک چھوڑنے کی نیت سے باہر نکلی تھی

" کون ہے فراس"

مگر فراس ڈر گیا تھا جونہی اس نے ماں کو اپنی طرف آتے دیکھا ڈر کی وجہ سے موبائل فون وہیں پھینک دیا جو میز پہ گرنے کی بجائے زمین بوس ہو گیا

"او میرے اللہ"

فون کے تین ٹکڑے ہوتے دیکھ کر منیحہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا

یہ تو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا تھا،، آپ نے اسکو توڑ دیا ہے"

منیحہ کو نا چاہتے ہوئے بھی جھنجھلاہٹ نے گھیرا 

عین ممکن تھا وہ اسے ڈانٹ دیتی 

" ماموں  نہیں آئے"وہ شکایتی انداز میں منہ بنا کر بولتا روہانسا ہو رہا تھا

تبھی یکدم اسے اپنے نامناسب رویے کا احساس ہوا

(یا اللہ اب میرا بچہ مجھ سے خوف زدہ ہو رہا ہے)

فراس کا خلاف معمول منھ بن چکا تھا وہ سہما ہوا اسکی جانب دیکھ رہا تھا 

اور یہ ادراک کا لمحہ تھا اسے شدت سے احساس ہوا کہ وہ اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں اور کمیوں بیشیوں کا بدلہ اس معصوم سے لے رہی تھی پچھلے چند روز میں اسے جتنا فرسٹریشن تھا 

وہ اسی بیچارے پر تو نکلا تھا جو ابھی بہت چھوٹا اور معصوم تھا

"کوئی بات نہیں،، ماما کی جان رو کیوں رہے ہیں آپ"

بے ساختہ پنجوں کے بل بیٹھ کر وہ اسے سینے سے لگا چکی تھی

آنسو تھے کہ بے تاب تھے اور ہر صورت بہہ جانا چاہتےتھے مگر اس نے خود پہ قابو کیا

(میں بہت بے وقوف ہوں 

"" کیسی ماں ہوتی ہے وہ جو زمانے بھر کی نفرت اپنے ہی بچوں پر انڈیل سکتی ہے 

اگر میں ایک ماں ہو کر اسے محبت نہیں دے سکتی تو دنیا کو کیا پڑی ہے کہ کسی کی اولاد کو محبت، پیار اور مان دے"")

اس سوچ نے اسے فراس کے آنسو اپنے ہونٹوں سے چن لینے پر مجبور کیا تھا

"آپ پریشان نہیں ہوں، ماموں آتے ہی ہوں گے،، آج اگر وہ دیر دے آئے تو میں انھی بہت ڈانٹ پلانے والی ہوں"

وہ اسے گدگداتے ہوئے بولی 

اور اسے یوں دیکھ کر اس بچے کی آنکھوں میں وہی چمک آ گئی تھی جو اسکی آنکھوں میں ہمیشہ ہوتی تھی

جو دیکھنے والے کو متوجہ کر لیتی تھی

________________________

"جلال ایلی کی کال آئی تھی" وہ گھر پہنچا تو ذہن انتشار کا شکار تھا اوپر سے رہی سہی کسر بلال نے ایلی کا ذکر کر کے نکال دی

" تو میں کیا کروں،، دیگیں چڑھاوں یا کوئی اور طریقہ اپناوں جشن منانے کا"

وہ بے زاری سے جواب دیتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب جانے لگا

"خیر جو بھی مسئلہ ہے تم دونوں کا مگر تم لوگ بزنس پارٹنر ہو اور تم لوگوں کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیے"

بلال نے اسکی بیزاری کا نوٹس نہ لیا 

ویسے بھی اب انھیں عادت سی ہو گئی تھی جلال کو برداشت کرنے کی

" آپکے کہنے کا مطلب کیا ہے" وہ انھیں گھور کر بولا

"میرے کہنے کا یہی مطلب ہے کہ ایلی چاہتی ہے کہ وہ سٹور میں اپنے شئرز کے متعلق کچھ فیصلہ کر لے بہتر ہے تم اسکے لیے کوئی مسئلہ پیدا کیے بغیر اسے اسکے شئرز بیچنے دو"

بلال بھی دوٹوک مدعے پہ آئے جلال کے ساتھ تمہیدی بیان باندھنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا

"نہیں بیچنے دونگا میں کوئی شئرز،، جو کرنا ہے اس نے کر لے"

وہ غصے میں تھا 

" پاگل ہو تم،،، یہ قانونی طور پر اسکا حق ہے تم اسے نہیں روک سکتے "

بلال کو بھی اسکا یہ انداز برا لگا تھا 

"میں کیا کر سکتا ہوں کیا نہیں،، یہ تو میں بعد میں بتاوں گا آپ اسے کہیں مجھ سے بات کرے،، دلالی نہ کرائے کسی سے"

وہ اول فول بک رہا تھا 

"وہ بات کو بڑھانا نہیں چاہتی،، وہ تمہاری طرح بدھ مغز اور جاہل نہیں ہے اسی لیے عزت سے معاملہ سلجھانا چاہتی ہے"

نا چاہتے ہوئے بھی بلال اسے آئینہ دکھانے پر مجبور ہوئے 

" اس نے جو کرنا ہے کر لے،. میری طرح جاہل نہ سہی..،اگر اتنی وہ آپکی طرح تمیز دار تھی تو پہلے سوچتی، کہ جو کر رہی ہے اسکا نتیجہ کیا نکلے گا،، اب جو اس نے کرنا تھا کر لیا ہے آگے وہ ہو گا جو میں چاہوں گا "

وہ بستر سے اٹھ کر دہاڑا،، شرٹ وہ اتار کر پھینک چکا تھا اب  الماری سے کوئی دوسری شرٹ تلاش کر رہا تھا حسب معمول اسکی وارڈ روب کسی ایلیٹ کلاس کے بزنس ٹائکون کی طرح سیٹ رکھی گئی تھی ورنہ باقی تمام افراد کو تو اپنے کمرے کی ہر چیز خود درست رکھنا پڑتی اور نتیجتاً اسکی حالت خراب ہی ملتی تھی

"جلال پاگل نہیں بنو،، اس نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی،، جس طرح تم رکھنا چاہتے تھے اس طرح یورپ کی عورت نہیں رہ سکتی،، میں تو حیران ہوں وہ اتنا عرصہ بھی تمہارے ساتھ کیسے نکال گئی. یہ پاکستان نہیں ہے جرمنی ہے یہاں کوئی پیار محبت نہیں ہوتا صرف جسم ہوتا ہے اور معاشی فائدہ"بلال نے کچھ نرم ہو کر اسکو سمجھانا چاہا مگر اسکا ذہن پہلے سے تھکا ہوا تھا

وہ. کچھ سمجھنے کو تیار نہ تھا

" تم اسے دوست بنا کر رکھنا چاہتے تھے،، یہاں عورت گرل فرینڈ بن کر ناجائز تعلق تو بنا سکتی ہے مگر دوستی میں زیادہ دیر صبر نہیں کر سکتی "

اسے چپ دیکھ کر وہ مزید بولے

"مینے اس بچ کو کیا کچھ نہیں دیا،، اسے ہمیشہ عزت دی اور اپنے ساتھ عزت کے ساتھ تعلق بنا ہر رکھنے کا کہا مگر اس نے مجھے دھوکہ دیا،، اگر یہ سب غلط نہیں تھا تو اس نے کیوں چھپایا مجھ سے"

وہ بلال کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے جھوٹا اور غلط ثابت کر رہا تھا 

"تو جو اس نے  اسکے جواب میں تم نے کونسا کوئی نیکی کا برتاو کیا ہے،، میں انجان نہیں سب جانتا ہوں کہ تم اور وہ لوفر موسی کیا کچھ کرتے پھر رہے ہو"

انھوں نے اسے تڑی لگائی مگر سامنے بھی جلال کریم علوی تھا جسکے نام جیساتو شاید دنیا میں کوئی ہوتا مگر اس جیسا کوئی نہ تھا 

وہ سب سے الگ تھا   سب سے منفرد ۔

" وہ تو کچھ بھی نہیں تھا،، میں اس سے آگے بھی جاوں گا"

وہ بستر پہ ڈھے گیا

" اس سے کہیں مجھے ملے،، پھر میں اسے بتاوں گا کہ کس قانون کی بات کرتی ہے وہ اور کونسا قانون چلتا ہے یہاں" 

وہ طنزیہ انداز میں بولا تھا 

اور بلال جانتے تھے ایلی اسی وجہ سے اسکے منہ لگنا نہیں چاہتی ہے 

وہ ایسا ہی تھا اکھڑ،،. اپنے نقصان کی پرواہ نہ کرنے والا مگر ایلی ایسی نہیں تھی وہ اپنا محنت کا روپیہ اس اختلاف کی نظر کرنا نہ چاہتی تھی

" جلال یہ کوئی مذاق نہیں ہے سیریس ہو جاو اس سب میں تمہاری بھی محنت ہے جس طرح ایلی کی ہے اس لیے اپنی محنت کو ضائع نہ کرو۔

ویسے بھی ایلی نے بھی یہی کہا،، اور وہ سچ کہتی ہے" بلال ایک پل کو رکے

"اچھا کیا کہتی ہے آپکی وہ سچی فرشتی¿

وہ زہر میں بجھے تیر چلانے کی مہارت رکھتا تھا

"وہ کہتی ہے کہ اس نے تمہارا بہت انتظار کیا مگر تم نے آگے قدم نہیں بڑھائے،، ان فیکٹ اسکا کہنا ہے کہ تم ابھی بھی اپنی ایکس کو لائک کرتے ہو اور ایموشنلی اسی کے ساتھ ہو،، ایلی کی تمہاری زندگی میں کوئی جگہ نہیں تھی اسی لیے وہ آگے بڑھ گئی"

دوسری جانب وہ بھی اس بیان پہ ششدر سا اٹھ بیٹھا تھا

" جلال تم خود کو دھوکہ دے سکتے ہو مگر ایک جرمن عورت کو اس سے زیادہ دھوکے میں نہیں رکھ سکتے،، تم نے اس سے کوئی وعدہ نہیں کر رکھا تھا،، اور آگے بڑھنا اسکا حق تھا،، اور وہ تم سے زیادہ بہادر اور عقلمند تھی اسی لیے بڑھ بھی گئی" 

بلال حقیقت پسندی سے سارے معاملات کا تجزیہ کر رہے تھے 

(تو کیا ایلی کو بھی یہ محسوس ہوا تھا،، اور وہ اتنا ڈفر تھا کہ کبھی محسوس ہی نہ کر سکا)

وہ حیران تھا بلال اسکی خاموشی پہ تنگ آ کر اسے وارننگ جاری کرتے باہر کو ہو لیا

وہ ابھی بھی وہیں پڑا تھا

اوپر سے وہ آواز 

"آپ کیوں نہیں آئے¿¿

یہ جملہ جو شاید بلکہ یقیناً کسی اور تناظر میں کہا گیا تھا مگر اسکے سوئے ہوئے ضمیر پہ ہتھوڑی کی طرح برس رہا تھا

" او گاڈ میں کیسے اتنا لاپرواہ ہو سکتا ہوں،، میں کیسے بھول سکتا ہوں

میں ایک خود غرض انسان ہوں.. جو صرف اپنے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے،، جو کسی کے بارے میں کچھ نہیں سوچ سکتا" 

یہ احساس جان لیوا تھا 

اب تک کی زندگی میں اس کو پہلی بار اس حقیقت کا ادراک ہوا تھا

اور یہ اتنا وحشت ناک تھا کہ وہ ہر بات بھول گیا

_______________________

" بھائی میری منگنی ہو گئی"

وہ سٹور کھولے بیٹھا کاوئنٹر پہ اونگھ رہا تھا اسکو سوچ بچار کی عادت نہیں تھی مگر اب ذہن تھا کہ ان باتوں سے نکل ہی نہ پا رہا تھا 

کوئی معصوم سا لہجہ اس کو غصیلے اور روہانسے انداز میں کہہ رہا تھا 

"آپ کیوں نہیں آئے¿" 

وہ یہ بھی جانتا تھا یقینا اس جملے اور ناراضگی کا تخاطب کوئی اور تھا مگر اسے یہ اپنے لیے لگ رہے تھے تبھی موسی کی کال آئی تھی وہ باقاعدہ شرما کر بتا رہا تھا 

"کیا ہوا ہے.،،اچھا اچھا مبارک ہو"

وہ غائب دماغی سے بولا

"بھائی بس امی کو جلدی پڑی ہوئی تھی انھیں ڈر بیٹھ گیا ہے کہ کہیں میں یہاں بگھڑ ہی نہ جاوں"

وہ خجل سا مسکرا کر بولا

"ہاں اچھا ہے شادی بھی کر لے"

وہ چاہ کر بھی ہشاش بشاش نہ ہو پا رہا تھا 

"" توبہ کریں بھائی،. ابھی تو میں خود کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا کسی اور کی کیا اٹھاوں گا،، شادی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے"

موسی کی خوشی اسکے لہجے سے عیاں تھی مگر اسکی یہ بات بھی جلال کو طنز ہی لگی

وہ چپ رہا 

" بھائی کیا بات ہے آپ بزی تو نہیں¿"

موسی کو احساس ہوا وہ دھیان نہیں دے رہا 

"ہاں نہیں یَار"

وہ کنفیوز تھا

" اچھا بھائی ایک چیز بھیجتا ہوں دیکھیں "

موسی پر جوش تھا کچھ وقت بعد جلال کے موبائل پر اسکی منگنی کی تصاویر پہنچ چکی تھیں

"بیوی دکھا،، تیری شکل تو دیکھی ہوئی ہے"

جلال نے پیغام بھیجا

" بھائی آپ نے نام بھی  نہیں بتایا تھا،، میں کیوں دکھاوں "

اسکا شوخ سا وائس میسج آیا 

ساتھ کوئی ویڈیو بھی تھی 

(لگتا ہے موسی کے گدھے بھائی کو احساس ہو گیا)

ویڈیو کسی بچے کی تھی، جو شاید موسی کے بھائی کا بچہ تھا 

وہ اسے بند ہی کرنے والا تھا جب اچانک ایک آواز سنائی دی

" موسی اسکا باپ بھی ایک بھگوڑا آدمی ہے،، "

کوئی آدمی مزاقیہ لہجے میں شرارت سے کہہ رہا تھا ویڈیو میں موجود وہ بچہ چھوٹا سا تھا اور شاید کسی لاونج میں کسی گلاس ٹیبل پہ بیٹھا تھا 

اسکے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی پیلی کار تھی جسے وہ ہاتھ میں پکڑ کر باقی دوسری کاروں کو میز پہ اردگرد رکھے کھیل رہا تھا اس آواز پہ اس نے کیمرے کی جانب دیکھ کر گھورا

"یہ بھگوڑے کا بھگوڑا بیٹا ہے"

"میرے پاپا نہیں ہیں آپ"

وہ منہ پھلا کر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے بولا

مگر بیک گراؤنڈ پہ موجود آواز جانی پہچانی تھی 

"ہاں ہاں تمہارا باپ تو وہ گدھا ہے،، میں تو فارس کا پاپا ہوں"

"میرے بابا کو بلاوں¿¿"

اس نے جواباََ انھیں ڈرانے کو کہا

(یہ کیا بھیجا ہے موسی نے مجھے ¿) 

وہ زیر لب بڑبڑایا،، دوسری جانب موسی پر جوش سا ہاتھ میں موبائل پکڑے بیٹھا تھا

اسے بھائی کے میسج کا انتظار تھا اور بہت شدت سے تھا

" بلاو میں ڈرتا ہوں تمہارے باپ سے"

بزرگ آواز میں کوئی ہنستے ہوئے بولا تو موسی کی ہنسی کی آواز بھی سنائی دی جسے وہ اچھی طرح پہچان سکتا تھا

پہچان تو وہ باقی آوازیں بھی سکتا تھا مگر آنکھوں کو بند کرنا چاہتا تھا 

"میں ماروں"

اس نے کہنے کے ساتھ ایک گاڑی کھینچ کر خلا میں پھینکی جو پیچھے کی جانب گرتے ہوئے میز ہر سے ایک ڈیکوریشن پیس بھی لے اڑی تھی

موسی اور دوسرے آدمی کی ہائے اوئے سننے والی تھی

"یہ دیکھو ذرا،، آپ نے توڑ دیا،، یہ تو بری بات ہے"موسی کے بھاشن دینے کی آواز آئی تھی 

" می اپنی ماما کے پاس جا رہا ہوں" 

وہ اب وہاں رکنے میں انٹرسٹڈ نظر نہ آتا تھا

"اچھا اچھا مت جاو،، تمہارے بابا بہت اچھے ہیں" 

موسی نے معافی تلافی کرنا چاہی

"یہ اپنے بارے میں کوئی بات نہیں سنتا"

کسی کی فخریہ سی آواز ابھری تھی وہ بزرگ اس بچے کے ساتھ بہت خوش نظر آتے تھے

" ہمارے تو سارے ڈیکوریشن پیسز توڑ دئیے،، کچھ اسکے باپ نے اور کچھ اس نے"

کسی کی افسوس بھری آواز ابھری تھی بچہ منہ بنائے خفگی سے انھیں دیکھ رہا تھا جنکا صرف ایک ہاتھ نظر آ رہا تھا جس سے وہ بچے کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے

"یہ کون ہے موسی.. تیرے بھائی کا بیٹا ہے" 

اسنے بدترین خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے موسی کو پیغام بھیجا

وہ اس بات پہ یقین نہیں کرنا چاہتا تھا جو اسکا دماغ اسکے سامنے رکھ رہا تھا

" اسے یاد تھا گھر میں وہ کتنے ڈیکوریشن پیسز غصے میں توڑ دیتا تھا" 

اسے سب یاد تھا 

پھر وہ کیوں بھلائے بیٹھا رہا 

"بھائی آپکو کیا ہوا ہے" 

سٹور میں موجود دوسرے لڑکے بے سامان سیٹ کرتے ہوئے اسے پکارا 

وہ فق رنگت کے ساتھ خلا میں گھور رہا تھا 

پکارنے پہ بھی کوئی جواب نہیں دیا

" اچھا اچھا مت جاو، تمہارے بابا بہت اچھے ہیں "

اور وہ ناراض نظر آنے والا بچہ رک گیا تھا

وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں سنتا تھا مگر بات اسکے بارے میں تو نہیں ہو رہی تھی 

پھر وہ کیوں. ،،

"میں بابا کو بلاوں¿"

"آپ کیوں نہیں آئے"

مختلف کڑیاں ایک دوسرے سے مل رہی تھیں

وہ وحشت زدہ ہو کر اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر چلایا تھا 

"میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں" 

سٹور پر موجود لڑکے کے سوالات سے بچنے کے لیے وہ موبائل اٹھاتا تیزی سے باہر نکل گیا

  موسی نے کوئی جواب نہیں دیا تھا

جواب کی ضرورت بھی نہیں تھی

سارے جواب تو اسکے اپنے پاس تھے 

اسی لیے اس نے موسی' کو کال کر کے اپنے خدشات پہ مہر تصدیق لگانا قبول نہیں کیا 

"پاپا کو مجھے بتانا چاہیے تھا،، میں بھول گیا تو کیا ہوا ان سب کو تو مجھے باخبر رکھنے چاہیے تھا،،"

اس نے خود کو غصہ دلا کر ذہن میں موجود ملامت کو دور کرنا چاہا "اسے* بھی بتانا چاہیے تھا،،"

پھر منیحہ کا خیال آیا تو مایوسی سوا تر ہوئی

مگر جس طرح وہ آج تک ہر کسی پر غصہ کرتا آیا تھا اب بھی وہی کرنے کی کوشش کر رہا تھا 

وہ اپنی لاپرواہیوں کا سہرا کسی اور کے سر سجانا چاہتا تھا 

مگر حیرت کی بات تھی آج اسے کسی پہ غصہ نہیں آ رہا تھا

اسے کوئی مجرم نہیں لگ رہا تھا 

اسے صرف ایل فرد پہ غصہ تھا،، وہ صرف ایک فرد سے مایوس ہوا تھا 

اور پہلی بار اتنا مایوس ہوا تھا کہ ششدر تھا 

"اسے جلال کریم علوی پر غصہ آ رہا تھا" 

پھر نجانے کیا ہوا اس نے اس مصروف سڑک پر سر پٹ بھاگنا شروع کر دیا 

اسکے اردگرد بہت سے لوگ تھے مگر کوئی نہیں تھا 

وہ بلکل اکیلا تھا اور یہ اکیلا پن اسے کھانے کو دوڑ رہا تھا 

آج تک اسے تنہائی سے ڈر لگتا تھا 

اس نے ہمیشہ اپنے گرد لوگوں کا میلہ دیکھا تھا 

اور اسے اپنے گرد میلہ لگائے رکھنا ہی کی عادت تھی

چاہے وہ ماں باپ ہوں.. جنکے سامنے وہ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتا تھا کہ وہ. چوبیس گھنٹے اسی کی فکر میں لگے رہتے 

پھر اسکے دوست تھے،، جہاں وہ دوستوں کی محفل کی جان ہوا کرتا تھا.. کسی کا کوئی پلین جلال کی رضامندی کے بغیر بن ہی کہاں سکتا تھا 

پھر منیحہ اسکی زندگی میں آئی تو وہی یہی چاہتا تھا منیحہ بھی اسے اہمیت دے.. 

مگر وہ شاید نہ اہمیت لینے والوں میں سے تھی نہ اہمیت دینے والوں میں سے

اور تب آ سنے اسے بھی اتنا تنگ کیا کہ وہ بھی اسے اہمیت دینے پر مجبور ہو گئی

کیسے وہ اسکے آگے پیچھے پھرا کرتی تھی 

اسکی بچے سے جان چھڑانے والی ضد نے منیحہ کو کس طرح بدل دیا تھا 

لیکن وہ زیادہ عرصہ اسکے ساتھ گزارا نہ کر پائی

غلطی اسکی اپنی تھی کوئی بھی عورت ہوتی اسکے ساتھ گزارا نہ پاتی مگر اس نے سارا الزام. منیحہ کے سر رکھ دیا 

وہ تین سال سے یہی فرض کیے بیٹھا تھا کہ سب نے اسے ساتھ زیادتی کی ہے

اپنی زیادتیوں ل اتو اسے خیال بھی نہ گزرا تھا

اسے لگتا تھا کہ سب کرنے کے بعد اسکا سوری یا آئی لو یو کافی ہوتا تھا

مگر ایسا نہیں تھا 

اور جب اسکے ضمیر نے اسے احساس دلانے کی کوشش کی

تو وہ پھر سے اپنے اندر کی اس آواز کو دبا گیا 

اس نے پھر سے اپنے گرد میلا لگا لیا

ایلی،موسی'، نمرہ اور بلال کے بچے،، اسکے ریسنگ کے پارٹنر اور دوست

اسکے اندر ضمیر کی آواز اسکی حرکتوں کے بوجھ تلے کہیں پھر دب گئی تھی اور جو کوئی اسے احساس دلانے کی کوشش کرتا.. جلال اس سے بات کرنا ہی ترک کر دیتا 

پاپا نے ساری زندگی اسے دی بیسٹ اور اپنا ہیرو بنا کر رکھا اور جب انھوں نے منیحہ کے لیے اسے تھپڑ مارے وہ حواس کھو بیٹھا

وہ انکی ساری محبت بھلا بیٹھا 

وہ یہ بھی بھول بیٹھا کہ پاپا کا سارا کنسرن اسی کے لیے تو تھا ورنہ جلال کے رشتے کے بغیر منیحہ انہی کیا لگتی تھی مگر وہ ان سے نفرت کرنے لگا

اس نے خود کو دنیاوی موج مستیوں میں گم کر دیا 

آنکھوں کو بند کر لیا

مگر کیا بدقسمتی تھی آج اسکے پاس کوئی نہیں تھا جس میلے میں وہ اپنے ضمیر کی آواز کو بند کر دیتا 

وہ چھوٹا سا وجود جسکا شاید نام بھی اسے معلوم نہیں تھا مگر پہلی بار آواز سننے اور پہلی بار ایک جھلک دیکھنے نے ہی اسے پگلا کر رکھ دیا تھا 

وہ وہاں س بھاگ جانا چاہتا تھا 

اپنے احساسات کو کوئی نام نہیں دے سکتا تھا اسے نام دینا بھی نہیں تھا

اسے ان سے فرار ہونا تھا 

مگر کہاں ¿¿¿

بھرے پورے شہر کی ایک ویران سڑک پہ گاڑی دوڑاتے ہوئے اسکے دماغ کی شریانیں پھٹنے کو تھیں 

محفلوں کے جان رہنے والے آدمی کو تنہائی کا ناگ اتنی. بری طرح سے ڈس رہا تھا کہ کوئی تریاق بھی نہیں تھا 

یہ اسکے ساتھ پہلے بھی ہوا تھا تب وہ ایلی اور موسی' میں گم ہو گیا تھا 

اب نا ایلی  تھی نا موسی ۔

وہ اکیلا تھا اور اسکا بوجھ بڑھ رہا تھا 

وہ اپنا بوجھ انجانے میں بڑھا رہا تھا 

________________

منیحہ کی طبیعت کافی دنوں بعد کچھ بحال ہوئی تھی تو وہ اماں اور سیمعون کے ساتھ فراس کو بھی لے کر پارک چلی آئی یہ پہلی دفعہ تھا ورنہ وہ گھر سے باہر صرف کام سے ہی جاتی تھیقریبی 

سیمعون اس دریا دلی پہ حیران تھی 

جبکہ منیحہ نے یہ قدم دانستہ اٹھایا تھا 

وہ اپنا ذہن بدلنا چاہتی تھی

جو چیز اسے تکلیف دیتی رہی تھی

وہ اس سے نجات چاہتی تھی 

اس نے فیصلہ کیا تھا وہ اپنی زندگی میں صرف فراس کو اہمیت دے گی اسکی تربیت پہ توجہ دے گی 

اور اسی کے لیے اپنی تمام محبت کو وقف کر دے گی

اور اس فیصلے کے بعد سے وہ خود کو بہت مضبوط محسوس کر رہی تھی 

"فراس ادھر آو آپکو بٹر فلائز دکھاوں" 

وہ اسکی انگلی پکڑے ایک جانب پھولوں پہ منڈلاتی رنگ برنگی تتلیاں دکھانے لے آئی

وہ خود بھی بہت پرجوش دکھتی تھی

"یہ پکڑو گے آپ¿" 

اس نے مڑ کر فراس کو دیکھا جو اسکے برعکس زیادہ پرجوش دکھائی نہ دیتا تھا 

"میں نہیں پکڑتا یہ گندی ہیں "

وہ منہ بنا کر بولا

" نہی اتنی پیاری ہیں،، کلرز کتنے ہیں ان میں" منیحہ نے اسکی بات کی نفی کی مگر وہ کوئی جواب دئیے بغیر اس سے انگلی چڑا کر ادھر ادھر بھاگنے لگا 

سیمعون لیز کے پیکٹ کے ساتھ بھرپور انصاف کرنے کی نیت سے اماں کے پاس بیٹھی تھی

" مجال ہے جو فراس صاحب کو کوئی نازک چیز پسند آ جائے "

وہ خود کلامی کرتے ہوئے ان رنگ برنگی خوبصورت تتلیوں کا غول دیکھنے لگی 

جو آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہی تھیں 

"ماما ماما یہ پکڑو" 

چند قدم دور سے وہ پھولے سانس کے ساتھ پرجوش سا اسکی جانب بھاگ رہا تھا 

"کیا ہے یہ¿"

وہ بھی جوش سے اسکی جانب بڑھی جسکی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ گئی تھی

(شاید وہ کوئی تتلی پکڑ لایا تھا) 

"ماما یہ تم لے لو" 

اسکے قریب پہنچ کر اس نے مٹھی منیحہ کی جانب یوں بڑھائی جیسے قارون کے خزانے سے کچھ حاصل کر لایا ہو

"میری جان تم نہیں آپ بولتے،،، آآآآ"

اس سے پہلے کہ وہ اسکو تمیز کا بھاشن دیتی 

مینڈک کا ایک ننھا سا بچہ اسکی ہتھیلی پہ آتے ہی پھدک کر اسکے اوپر جا گرا 

" گرا دیا" 

وہ جو خوشی خوشی ماں کے ہاتھ پہ رکھ کر اب داد سمیٹنے کو تیار تھا ماں کی اس بزدلی پہ سخت رنجیدہ ہوا

منیحہ ابھی تک گھاس پہ اچھل کود کر اس مینڈک کے نیچے گر جانے کی تسلی کر رہی تھی

جبکہ فراس اب پھر سے زمین پہ اس 🐸 مینڈک کے ننھے بچے کو تلاش رہا تھا 

" افف جنگلی.. گندے بچے،، مینڈک کون پکڑتا ہے" 

منیحہ بہت دیر بعد بھی شاک سے باہر  نہ نکل سکی جبکہ فراس اب پھر سے گھاس پر اس مینڈک کے بچے کے پیچھے پیچھے گرتا پڑتا جا رہا تھا

"ادھر آو،، اب آپ نے ایسے گندے کام کیے تو میں بات نہیں کروں گی آپ سے" 

اسکے پیچھے پیچھے بھاگتی وہ زبردستی اسے بانہوں میں اٹھا چکی تھی 

"میرا بے بی ماوس گر گیا" 

وہ اسکے بازووں میں بے قابو ہو رہا تھا

"یہ آپکا بے بی ماوس نہیں فراگ ہے،، اور یہ اپنی فراگ ماما کا بے بی ہے آپکا نہیں "وہ اسے بمشکل اٹھا کر واپس سیمعون لوگوں کی طرف جا رہی تھی جبکہ فراس اسکی گود میں مچل رہا تھا 

"نہیں وہ میں نے پکڑا وہ میرا بے بی ہے"

وہ سخت ناراض لگ رہا تھا 

منیحہ کے لیے اسے اٹھا کر لانا مشکل ہو رہا تھا 

" افف کتنا غیر رومانوی اور جنگلی طبیعت کا بچہ ہے یہ"

اماں کے سامنے جا کر اس نے فراس کو زمین پہ لٹایا وہ ہانپ رہی تھی 

مگر فراس ناراض ہو گیا تھا

"میرا بے بی گُم کر  دیا "

وہ اب اماں کو ماما کی شکایت لگاتے ہوئے منہ بسور رہا تھا اسکی نظریں ابھی بھی وہیں تھیں جہاں" اسکا * بے بی گرا تھا۔

تتلیاں گندی تھیں اور مینڈک کا بچہ اسکا بے بی تھا 

(اسکا کچھ نہیں ہو سکتا) 

منیحہ اپنا سانس بحال کرتی یہی سوچ سکی

______________________

ایلی بلال سے بار بار رابطہ کر رہی تھی وہ جرمنی واپس آ چکی تھی اور اب اپنے شئرز بیچنا چاہتی تھی

مگر اسکے باوجود وہ براہ راست جلال سے ابھی تک نہ ملی تھی گوکہ وہ جرمن عورت تھی اپنے حقوق سے آگاہ تھی مگر پچھلے تین سال جلال کے ساتھ رہ کر وہ جلال کے مزاج سے بھی آگاہ ہو چکی تھی

اوپر سے جس طرح اس نے ایلی کے بوائے فرینڈ اور اسکے دوست کو بے دردی سے پیٹا تھا

وہ بھی ایلی کے لیے قابل تشویش تھا 

"بلال اگر وہ نہیں بات سنے گا تو میں اسکے خلاف لیگل ایکشن لوں گی" اس نے آخر میں بلال کو کہا

بلال یہ سب جانتے تھےوہ خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ چلا چلایا بزنس جلال کی بے وقوفی کی نظر ہو جائے مگر جلال سے کسی خیر کی امید بھی نہ تھی

"دیکھو ایلی تم بھی اسے اچھی طرح جانتی ہو،، لیگل ایکشن لینا چاہو تو ضرور لو مگر پہلے مجھے کچھ وقت دو،، میں اسے منا لوں گا ابھی وہ بہت غصہ ہے،، اور تم بھی جانتی ہو غصے میں وہ کم پہ کسی کی سنتا ہے،، ایسے میں تمہارے ہر ایکشن کا ری ایکشن وہ ایسا دے گا کہ معاملہ دونوں کے لیے خراب ہو جائے گا"

آخر میں بلال بھی اسے جتانا نہیں بھولے تھے 

اور اسی بات کی وجہ سے وہ بار بار بلال سے رابطہ کر رہی تھی اور جلد از جلد یہ معاملہ سلجھانا چاہتی تھی

یہ تو طے تھا کہ اس بدتمیزی اور جہالت کے بعد اسے جلال سے پیچ اپ نہیں کرنا تھا 

دوسرے الفاظ میں وہ اس کے اس روپ  سے ڈر گئی تھی 

" میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتی،، ڈیوڈ بہت غصے ہے اسکے فرینڈز بھی اسکا شکار ہوئے ہیں"

ایلی دونوں جانب سے پھنسی ہوئی تھی ڈیوڈ اسکا پرانا دوست اور اب ایک اسٹریٹ ڈانسر گروپ کا ممبر تھا

وہ سب لوگ جلال کے خلاف بھرے بیٹھے تھے انھوں نے وینس پولیس میں جلال کی اس غنڈہ گردی کے خلاف رپورٹ بھی کرائی تھی 

مگر ابھی تک پولیس اس معاملے میں کچھ خاص نہیں کر پائی تھی کیونکہ وہ دونوں موقع واردات سے بھاگ نکلے تھے اور وینس بھی چھوڑ گئے تھے دوسری اچھی بات یہ ہوئی نہ کہ اس سٹریٹ کا کیمرہ اس وقت مینٹینس ایشوز کے باعث ورکنگ نہیں تھا

اسی لیے زیادہ ثبوت میسر نہیں تھے سوائے ان ظاہری چوٹوں کے جو ڈیوڈ اور اسکے دوست کے جسم پہ موجود تھیں 

"میں اسے سمجھانے کی کوشش پہ کر سکتا ہوں باقی وہ خود مختار ہے،، میں اسکے کسی فعل کا ذمہ دار نہیں"

شکر ہے یہ پاکستان نہیں تھا ورنہ جلال نے ہاتھ آنا نہیں تھا اور پولیس بلال کو ہی اٹھا کر لے جاتی مگر یہاں کے قانون کے مطابق مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار تھا

ہر شخص اپنے کیے کا جواب دہ خود  ہوتا ہے اور قرآن کا یہ اصول اس غیر مسلم معاشرے میں اپنایا گیا تھا 

مگر بد قسمتی یہ تھی کہ مسلم معاشرے اس سے محروم تھے

_____________________

وہ ریسنگ ٹریک پہ رات کے دو بجے موجود تھے 

سب لوگ تیاریاں مکمل کر رہے تھے

"بڈی تمہارے پارٹنر کدھر ہے"

وہ کب سے اپنی گاڑی میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا،،، جبکہ آج وہ اکیلا بھی تھا مگر اس نے باہر نکل کر اپنے لیے کوئی ساتھی تلاش نہ کیا تھا

تبھی لیمب نے اس کی گاڑی کا شیشہ ناک کر کے پوچھا 

"نو پارٹنر ٹو ڈے" 

وہ سپاٹ لہجے میں بولا

"گڈ لیٹس سی ،،کیا ہوتا ہے "وہ اسکی جانب گھٹیا مسکراہٹ اچھالتا آگے کو ہو گیا

سب کی گاڑیاں سیدھی ہو رہی تھیں دو ایک لڑکیاں اسے ساتھ جانے کی آفر کرنے آئی تھیں مگر اس نے منع کر دیا 

وہ ایسا ہی تھا موڈی سا

وہاں بھی اکثر لوگ اسے جانتے تھے 

شور شرابہ تھا 

چیخ و پکار جاری تھی پولیس کسی بھی لمحے آ کر انھیں دبوچ سکتی تھی 

گاڑیوں کے انجن آن تھے ٹینکیاں بھری ہوئی تھیں 

وحشت بھرا جوش و خروش عروج پر تھا مگر وہ اپنی گاڑی سے نہیں نکلا

پھر سب نے ایک دوسرے کو چیلنج کیے اپنے اپنے حصے کی رقم جج کو تھمائی اور واپس گاڑیوں میں جا بیٹھے

باہر جتنا شور شرابہ تھا اکسے اندر اتنی ہی وحشت بھری خاموشی تھی 

اسے اپنے گرد میلا لگانے کی خواہش تھی مگر پہلی بار ہوا تھا کہ وہ چاہ کر بھی ایسا نہ  کر پا رہا تھا 

باہر کا شور اندر کی خاموشی اور ویرانی کو ختم کرنے میں یکسر ناکام تھا

"میں بلکل ٹھیک ہوں" 

اسنے آخری پل میں خود کو مضبوط لہجے میں تسلی دی

مگر اندر سے شدت سے نفی کیے جانے کی آواز سنائی دی 

اور پھر وہ خود سے مزید نہ لڑ سکا 

سب گاڑیاں چل پڑی تھیں مگر اسکی گاڑی وہیں رکی تھی

کچھ پل شور شرابہ ہوتا رہا 

سب نے اسکی جانب منتظر نظروں سے دیکھا جیسے ابھی وہ فراٹے بھرتا ہوا غائب ہو جائے گا مگر ایسا کچھ نہ ہوا سب اسکی جانب بھاگتے ہوئے آئے وہ سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا آہستہ آہستہ ہجوم میں خاموشی چھا گئی 

"میں ٹھیک نہیں ہوں" 

اس نے کمزور لہجے میں کسی کو دیکھے بنا کہا 

وہ. سب حیران تھے چہ میگوئیاں کر رہے تھے کچھ اسکا مذاق اڑا رہے تھے 

"مگر تم اپنا شئر دے چکے ہو" 

جج نے اسے یاد دہانی کرائی وہ اسے پیسے واپس نہیں دے گا

مگر وہ کچھ بھی سنے بغیر وہاں سے گاڑی کے کر بھاگ گیا تھا

پیسوں کی فکر تھی کسے

اسکا تو اندر خالی ہو گیا تھا ۔

ایک ویران سڑک پہ اندھیری رات میں گاڑی روک کر وہ کھڑا ہو گیا

آس پاس ویرانہ اور تنہائی تھی وہ گاڑی سے باہر نکل آیا گاڑی کا دروازہ کھلا تھا اس نے کھلا رہنے دیا 

پھر اسے  کچھ سمجھ نہ آئی وہ دونوں ہاتھوں میں سر دئے سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھا چلا گیا 

اسکا دماغ پھٹنے والا تھا 

اسے غم کا بوجھ اٹھانے کا قرینہ نہ تھا 

آنسو اسکے چہرے پہ تواتر سے بہہ رہے تھے مگر اسے کچھ ہوش نہ تھا 

وہ آج اکیلا ہو گیا تھا اور اسکی ذات کی ساری کمیاں اسکے سامنے آ رہی تھیں اور وہ انکا الزام کسی کے سر نہ رکھ پا رہا تھا 

کوئی اسکے ساتھ نہیں تھا جو اسے اس غم سے نجات دلا سکتا 

وہ بھول گیا تھا وہ کتنا غصیلہ ہے 

وہ بھول گیا کہ کتنے ہی لوگ اسکی ناراضگی کے ڈر سے اسکی زیادتیاں برداشت کر لیتے ہیں 

وہ بھول گیا ایک دنیا اسکی دیوانی تھی

یہ سب اسے اس وقت خود سے نہیں بچا رہا تھا 

آج اس نے جانا تھا کہ اسکی زندگی میں جس شخص سے اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچا تھا وہ شخص وہ خود تھا 

جلا کریم علوی کو سب سے زیادہ نقصان جلال کریم علوی سے پہنچا تھا 

آج وہ اس حقیقت سے نظریں نہ چرا پایا

سڑک کے بیچوں بیچ گھٹنوں کے بل بیٹھا وہ رو رہا تھا 

اور کوئی نہیں تھا جس سے وہ مدد مانگ سکتا 

اسے تو اللہ سے بھی مدد مانگنے کی عادت نہیں تھی 

تبھی ایک گاڑی اسکے پاس رکی تھی 

تین چار آدمی باہر نکلے وہ  اس سے کچھ پوچھ رہے تھے مگر رونے کے باعث اسکی آنکھیں اور دماغ سن ہو چکا تھا 

وہ انھیں نہیں پہچان پا رہا تھا 

پھر ہوا میں فائر کی آواز سنائی دی تھی

ان لوگوں نے اسے پیٹنا شروع کر دیا 

وہ اپنے دفاع میں ایک ہاتھ تک نہ اُٹھا سکا 

تب اسے احساس ہوا فضا میں چند مزید فائروں کی آواز  اور دور کہیں پولیس کے سائرن بجنے کے بعد وہ سائے واپس چلے گئے تھے 

چاند کی ہلکی روشنی ختم ہو چکی تھی

وہاں مکمل اندھیرا چھا گیا تھا 

_________________________

جس وقت اسے ہوش آئی وہ ہسپتال کے بستر پر تھا

کچھ پل بعد اس نے پاپا اور نمرہ بھابھی کو اپنے آس پاس موجود پایا

اس سے پہلے کہ اسکا دماغ تمام واقعات کو جوڑ کر صورتحال کا ادراک کر پاتا 

اس اپنے سڑک پر گرنے سے پہلے کے تمام واقعات یاد آئے 

پاپا اور نمرہ بھابھی شاید کچھ بول رہے تھے مگر اس نے نہیں سنا

ساتھ وہ ذہنی اذیت بھی جو اس وقت وہ محسوس کر رہا تھا

اس سے پہلے کہ وہ کچھ الفاظ بولنے میں کامیاب ہو پاتا نمرہ بلال کو واپس بلا لائیں جو جلال کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے آنے والے پراسیکیوٹر کو واپس چھوڑنے گئے تھے 

"یہ تمہاری سٹیٹمنٹ کے لیے آئے تھے" 

بلال بھائی نے کہا مگر جلال خالی خالی نظروں سے انھیں گھور رہا تھا

پولیس کی ایک گاڑی رات کے وقت ایک قیدی کو دوسرے شہر چھوڑنے کے لیے جا رہی تھی جب انھیں وہاں سڑک پہ فائرنگ کی آواز سنائی دی وہ وہاں پہنچے تو ایک شخص پہ چار لوگ بری طرح تشدد کرنے کے ساتھ ساتھ فائر بھی کر رہے تھے جونہی پولیس کے سائرن قریب آئے وہ لوگ بھاگ نکلے مگر سکیورٹی پہ موجود گاڑی نے کچھ تعاقب کے بعد اس گاڑی کا نمبر جان لیا 

اور تیز ترین رابطوں کے باعث وہ گاڑی اسی دن پکڑ لی گئی 

وینس سے آئے کچھ اٹالین لڑکوں نے اسکو کسی دل ذاتی دشمنی کی بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا 

جنھوں نے پولیس کے پاس اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا 

مگر جلال پچھلے دو دنوں سے بے ہوش تھا 

اور اب جب اسے ہوش آئی تمام کہانی سننے کے بعد اس پر ایک دماغی دورہ پڑا تھا 

اور اس نے یکدم  چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا ڈاکٹر اور سٹاف اسے قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ ہسٹری آئی انداز میں چیخ رہا تھا 

اسکے چہرے پہ نیلے نشانات تھے 

اور وہ بے قابو ہو رہا تھا

______-________

"جلال فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا"

کریم صاحب نے اتنے عرصے بعد اسے یوں دیکھا تو اپنے دل پر قابو نہ رکھ پائے تھے

اچانک انھیں محسوس ہوا وہ بہت بوڑھے اور کمزور ہیں

مگر جلال ابھی اپنے حواس میں نہیں تھا

اس نے انکا ہاتھ بے دردی سے جھٹک دیا

"کچھ نہیں ہو گا،، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا"

" نہیں یار ایسے نہ کہو،، روز دنیا میں نجانے کتنے لوگ یہ سب فیس کرتے ہیں مگر وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں وہ نارمل لائف کی طرف آ جاتے ہیں آہستہ آہستہ"

وہ کس دل سے یہ الفاظ کہہ رہے تھے یہ وہی جانتے تھے،، ورنہ دل تو اپنا بھی جواب خوبرو بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر خون کے آنسو بہا رہا تھا

"کچھ نہیں ہو ٹھیک،، یہ سب آپکی غلطیاں ہیں پاپا،، آپ نے میری زندگی تباہ کر دی "

وہ بے سدھ پڑا،، اونچی آواز میں رو رہا تھا

وہاں موجود ہر شخص کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا

کریم صاحب بھی ڈھے گئے

پاکستان سے جرمنی تو وہ آ گئے تھے مگر اب برداشت نہ ہو  پا رہا تھا جلال کو لگنے والی گولی سے اسکی سپائنل کورڈ پر بہت اثر ہوا تھا وہ شاید بیٹھنے اور کھڑا ہونے سے معذور ہو سکتا تھا.. 

یہ بہت تکلیف دہ تھا

بہت زیادہ

ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ کہ اسکے پیٹ پہ لگنے والی گولی پیچھے سے نکال تو کی گئی تھی مگر اس سے اسکی سپائنل کارڈ کو کافی نقصان پہنچا تھا 

انکا موقف تھا کہ اگر وہ اپنے سر پہ لگنے والی چوٹوں اور باقی جسم پہ موجود چوٹوں کو جلدی ریکور کر لیتا ہے تو اسی فیصد امید ہے کہ اسکی بیک بون انجری بھی وقت کے ساتھ بہتر ہو جائے گی

فی الوقت نہ وہ بیٹھنے کے قابل تھا نہ اٹھنے کے کم از کم تین ماہ تک اسے بستر پر رہنے کا کہا گیا تھا ۔

مگر سب سے بڑھ کر تشویش والی بات یہ تھی کہ جسمانی چوٹوں کے علاوہ وہ شدید ذہنی دباو کا بھی شکار تھا 

کسی بھی مریض کے صحت یاب ہونے کا تعلق دواوں اور علاج سے زیادہ اسکی ذہنی صحت سے ہوتا ہے

اگر ول پاور ہو تو مریض کینسر جیسی بیماری کے خلاف بھی مدافعت کرتا اور اگر ول پاور نا ہو تو معمولی سا ٹائیفائڈ بھی آپکو زندگی سے دور لے جاتا ہے 

مایوسی ناکامی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے 

اور جلال کریم علوی اسی سیڑھی پہ تھا وہ بلکل مایوس ہو چکا تھا

اسکی نفسیاتی حالت نہایت دگر گوں تھی

وہ عام طور پر بلکل چپ رہتا تھا 

کریم صاحب تو گئے ہی اسکے لیے تھے انکی چوبیس گھنٹے ہپی کوشش ہوتی کہ اسکے ساتھ رہیں،، یہاں تک کہ سٹاف کو انھیں زبردستی نکالنا پڑتا

نمرہ بھی روز ایک چکر لگاتیں،، کھانا بنا کر لاتیں

بلال بھی جاب، اور تیمارداری کے چکر میں بری طرح پس رہا تھا 

مگر یہی تو زندگی اور زندگی میں موجود رشتوں کی خوبصورتی ہے 

آپ جتنا جان چھڑانا چاہیں مگر انکے بغیر گزارا بھی نہیں ہوتا

بچے بھی جلال کے حادثے کے باعث بہت پریشان تھے فارس کی تو جلال کے ساتھ زیادہ دوستی تھی اسی لیے وہ اداس ہو جاتا تھا 

ماں کے ساتھ ہسپتال جانے کی ضد کرتا ۔

جلال کو البتہ اب زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی

ہسپتال کی ماہر نفسیات وہ خو رو سی ڈاکٹر روزانہ اسکے پاس آتی اسے اس مایوسی سے نکالنے کی کوشش کرتی 

اسکے مطابق یہ بہت خطرناک ہو سکتا تھایسی حالت میں اسکے دماغ کے ساتھ ساتھ جسم کے بھی مفلوج ہونے کے خدشات تھے

مگر اسے کوئی سروکار نہیں تھا

پہلے چند دن وہ بے بسی اور غصے سے رونے لگتا تھا 

یا پھر باپ پر چیخنے چلانے لگتا 

وہ اپنی بربادی کا ذمہ دار انھیں ٹھہرتا تھا 

یہ بہت تکلیف دہ تھا مگر اسکا آنسووں میں بھیگا چہرے دیکھنے سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا 

جب وہ رونے لگا تب تو کریم صاحب کو محسوس ہوتا انکا کلیجہ چھلنی ہو رہا ہے 

وہ اسے اکساتے کوئی بات کرنے پر مجبور کرتے وہاں پاکستان میں اسکی ماما کو ابھی تک اسکی حالت سے آگاہ نہ کیا گیا تھا وہ اکیلی تھیں پریشان ہو جاتیں 

مگر کریم صاحب نے جانا کہ آج تک زندگی میں جتنی بھی مشکلات آئی تھی،، جتنے دکھ انھوں نے اٹھائے تھے وہ سب معمولی تھے 

یہ غم سب سے زیادہ بھاری اور کٹھن تھا 

لاڈلے، محبوب بیٹے کو اتنے سالوں بعد اور اس حالت میں دیکھنا ناقابل بیان حد تک تکلیف دہ تھا 

اسکا دن بدن کمزور ہوتا مفلوج جسم.. نالیوں کے ذریعے دی جانے والی خوراک پہ انحصار کر رہا تھا

چھبیس ستائیس سال کا وہ نوجوان اب ایک دم سے مایوس اور معذور ہو گیا تھا

یہ ایک باپ کے لیے بہت تکلیف دہ تھا 

پہلا سال انھوں نے اس امید پہ نکال دیا کہ جب تک بچہ نہیں ہو جاتا وہ سیٹل ہو جائے گا 

دوسرے سال وہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ تھا کہ ناراضی بھلانے کو تیار ہی نہیں تھا 

سب نے کہا تھا اسے اسکے حال پہ چھوڑ دیا جائے تب ہی وہ سدھرے گا

اور انھوں نے وہ مان لیا 

اور اب وہ اس بات کو مان کر بھی پچھتا رہے تھے نہ وہ اس سے ناراض ہو کر اسے یہاں بھیجتے نہ یہ سب ہوتا ۔

انھیں آج پھر وہ چودہ پندرہ سال کا چھوٹا بچہ لگ رہا تھا 

سب سے چھوٹی اولاد ماں باپ کے لیے ہمیشہ چھوٹی ہی رہتی ہے وہ کبھی بڑی نہیں ہوتی 

جلال بھی انکے لیے ایک چھوٹا ساکم عقل جذباتی سا لڑکا تھا 

جسے وہ اپنی تمام اولادوں سے زیادہ چاہتے تھے 

"جلال یار اٹھ جا،، دیکھ موسی بھی تجھے دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا ہے"

موسی آیا بیٹھا تھا

اور جلال ان دونوں کی وہاں موجودگی سے واقف تھا مگر انجان بنا آنکھیں بند کیے پڑا تھا 

"بھائی اٹھ جائیں نا،، آپ ایسے اچھے نہیں لگتے" موسی کی تو شکل ہی ایسی بنی ہوئی تھی جیسے ابھی رو دے گا

" انکل یہ ایسے نہیں اٹھنے والے انھیں پاکستان لے کر جائیں اور فراس کے حوالے کریں،، یا پھر فراس کو ادھر لے آئیں"

اسے کوئی جواب نہ دیتا پا کر موسی نے بے بسی سے کہا 

" مجھے کیا پتہ تھا موسی یہ سب ہو جائے گا،، میں تو بہت خوش تھا کہ یہ میرے کہنے سے واپس نہیں آ رہا مگر اب فراس اور چند ماہ میں خود ہی اسے کھینچ لائے گا،، اب تو اسکو پتہ چلا تھا"

انکل کے چہرے پہ بے ساختہ نمی آرہی تھی انکی آنکھوں میں غم ہلکورے لے کر نکل رہا تھا 

جلال نے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا،، وہ کیسے بھول سکتا تھا 

" بھائی کو لے جائیں پاکستان بھابھی اور انکا بیٹا ہی سیٹ کر سکتے ہیں انھیں "موسی خفگی سے کہہ رہا تھا

" انکل آپ تو ہمت نہ ہاریں نا"

وہ انکل کا کندھا تھپکنے لگا جو اب اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کر رہے تھے

"یہ اٹھے تو سہی،، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہو سکتا ہے،"

انکل کہتے کہتے رک گئے جلال کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے

" میں نہیں جاوں گا کہیں"

وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا" جلال تم ایسا نہیں کر سکتے اب بس کر دو یار.. وہ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے"

پاپا کا لہجہ کمزور تھا 

جلال نے پھر سے رخ موڑ لیا تھا 

موسی اور کریم صاحب ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے

_________________________-

منیحہ اس مایوسی کے دور سے نکل چکی تھی 

اب اس نے خود کو پہلے سے زیادہ مگن کر لیا تھا 

کالج، فراس اور تھوڑی بہت توجہ گھر کو دینا

بس اب وہ مطمئن تھی۔

اب بھی فراس ضد کر رہا تھا کہ اسے پاپا کے ساتھ جانا ہے،. 

جبکہ پاپا ایجنسی کے کسی کام سے ملک سے باہر تھے ایسے وقت میں اسے بہلانا ایک عظیم مرحلہ تھا 

"فراس پاپا آپکے لیے بڑے والی گاڑی لینے گئے ہیں"

اسے چپ نہ ہوتے دیکھ کر منیحہ کمر پہ ہاتھ رکھے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی

یا لالچ دے رہی تھی وہ گھر کے بیرونی گیٹ کو پکڑے کھڑا تھا 

"مجھے جانا ہے،، میرے پاپا کدھر ہیں"

وہ رو رہا تھا یا رونے کی اداکاری کر رہا تھا 

سمجھنا مشکل تھا 

" پاپا بڑے والی بمبل بی لینے گئے ہیں"

اس نے ہاتھ پھیلا کر اشارہ کیا

"نہیں مجھے جانا ہے"

اسے عادت تھی ہر دوسرے دن انکے ساتھ گھر جانے کی۔

اب وہ انھیں مس کر رہا تھا 

" ایک تو اسکی دادی بھی نجانے کس دماغ کی عورت ہے،. یہ نا ہوا کہ اتنے دن میں ایک چکر ہی لگا جاتی"

اماں بھی اب فراس کے چپ نہ کرنے پہ چڑ رہی تھیں 

"اماں چھوڑ دیں چپ کر جائے گا"منیحہ نے سنجیدگی سے انھیں ٹوکا

انکل کے اصرار پر وہ انھیں فراس کو کچھ دیر کے لیے لے جانے کی اجازت دے دیتی تھی مگر اب اسکا. مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ ساری عزت نفس بھلا کر خود اسے لے کر وہاں جاتی جا اسکے گھر سے کوئی جاتا

"ادھر آو میں آپکے لیے ایک بڑی سی کار کا پوسٹر لائی ہوں"

وہ اسے زبردستی گود میں اٹھاتی اندر چلی آئی

وہ مچل رہا تھا،، چلا رہا تھا 

اور چڑ گیا تھا 

منیحہ نے علی کے کمرے سے ایک پوسٹر لا کر اسے دیا جو اس نے فورا ٹکرے ٹکرے کر دیا 

منیحہ بے بسی سے اسکا رویا رویا ناراض چہرہ دیکھ رہی تھی جو منہ پھلائے بیٹھا تھا 

" ادھر آئیں"

منیحہ نے اسے گود میں لینا چاہا مگر وہ پاپا کو مس کرنے کے موڈ میں مزید آنسو بہا رہا تھا 

"ادھر آو کال کریں پاپا کو"

منیحہ نے انکل کو کال ملائی

کچھ دیر بعد انھوں نے اٹھا لی تھی 

"میری جان میں بس کچھ دنوں میں آپکے لیے بہت سار گفٹس لے کر آوں گا"

منیحہ نے انھیں بتایا تھا کہ وہ کتنی دیر سے ضد کر رہا ہے اور رو رہا ہے اب وہ اسے بہلا رہے تھے

"میں نہیں جاوں گا "

وہ بے ربط انداز میں ضدی ہو رہا تھا

"ارے نہیں نہیں یار ایسے نہ کرو"

انکل اسکو منانے کی کوشش کرنے لگے منیحہ دونوں کو انکے حال پر چھوڑ کر خود اپنے کاموں میں مگن ہو گئی 

اور کال بند ہونے کے کچھ دیر بعد آنٹی فراس کو لینے آ گئی تھیں 

یقینا انھیں انکل نے کہا تھا 

منیحہ کا جی چاہا منع مردے پھر فراس کی خوشی کی خاطر منع نہ کر سکی

یہ اور بات کہ وہ آدھے گھنٹے بعد ہی واپس آ گیا تھا 

آنٹی بھی تھک گئی تھیں بقول انکے پورا گھر چیک کرنے کے بعد اس نے واپسی کی رٹ لگا لی

وہ شاید پاپا کی موجودگی کنفرم کرنے کی نیت سے گیا تھا 

منیحہ پیپر چیک کر رہی تھی 

"ماما"

اسے محسوس ہوا کہ ماں اسے توجہ نہیں دے رہی تو اسکا بازو پکڑ کر کھینچا

"جی فرمائیے"

وہ خوشگوار انداز میں اسے دیکھنے لگی

"کیا کر رہی ہیں"

وہ منہ بنا کر بولا

"اپنے بچوں کے پیپر چیک کر رہی ہوں"

منیحہ نے اسکا منہ چوما

"میں نے سونا ہے"

وہ اسکی گود میں آنے کی کوشش کر رہا تھا 

یہ صرف توجہ حاصل کرنے کی کوشش تھی

"اتنی جلدی نیند آ گئی میرے بے بی کو"

منیحہ نے پیپر ایک طرف کر کے اسے گود میں لیا

" نہیں"

وہ شرارت سے ہنس دیا 

" تو مجھے آپ نے کیوں کہا کہ آپکو نیند آ رہی ہے"

منیحہ نے مصنوعی خفگی دکھائی 

"میں جان جان کر کہہ رہا ہوں"

وہ بھرپور فراست کا مظاہرہ کر کے بولا،، آنکھیں سکیڑ رکھی تھیں 

اور بات سمجھانے کے لیے ہاتھوں کا استعمال بھی ہنوز کیا جا رہا تھا 

"ٹھہر جاو آپ،، جان جان کر ماما کا کام رکوا رہے ہیں چلیں جا کر اپنا کام کریں مجھے میرے بچوں کے پیپر چیک کرنے دیں "

اسکی اس ہوشیاری پر منیحہ نے اسے اپنی گود سے نکالنے کی کی جو پھیل کر لیٹا ہوا تھا 

"نہیں ماما"

اس سے پہلے کہ وہ اسے زور سے پکڑ لیتا منیحہ نے اسے نیچے کھڑا کر دیا 

آجکل اسکے انھی ڈراموں کے باعث روز منیحہ کا کام نا مکمل رہ جاتا تھا 

اب بھی اسے چھوڑ کر وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئی 

فارغ ہوئی تو کمرے میں غیر معمولی خاموشی کا احساس ہوا 

"فراس ادھر آئیں"

منیحہ نے اپنے پیپرز کا دستہ ایک طرف رکھتے اسے اپنے پاس بلایا جو نجانے کیا کر رہا تھا

"میں کام کر رہا ہوں"

وہ مصروف سے انداز میں بولا

"ایسا کیا کام ہو رہا ہے"

وہ اپنی ساری چیزیں ہٹاتی اسکے پاس آ گئی جو سیمعون کے جرنلز کے ساتھ لگا ہوا تھا

"میں اپنے بچوں کے پیپر لکھ رہا ہوں"

آستینیں چڑھائے وہ ویسے ہی بیٹھا تھا جیسے منیحہ کالج کے بچوں کے پیپر چیک کرتے ہوئے بیٹھتی تھی. ڈائیلاگ بھی ماں کا ہی کاپی کیا تھا وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنسنے لگی

"اچھا جی فراس صاحب اپنے بچوں کے پیپر چیک کر رہے ہیں دکھائیں" 

منیحہ نے اسکے ہاتھ سے وہ. جرنل لینا چاہا جو اس نے پیٹ سے لگا لیا تھا 

"نہیں میں لکھتا ہوں" وہ شاید ابھی مزید لکھنا چاہ رہا تھا

"اللہ کتنا پیارا لگ رہا ہے اگر ٹیچر بنا تو ماحول خراب کرے گا یہ،، سو فیصد پکا ہے یہ"

سیمون نے آتے ساتھ فدا ہو کر تبصرہ کیا 

بلیو جینز اور وائٹ ٹی شرٹ میں آستینیں چڑھائے وہ بہت پیارا لگ رہا تھا منیحہ نے اسکا منھ بے ساختہ چوم لیا

"لیکن ماما کو دکھائیں نا کہ آپکے بچوں نے کیسا پیپر لکھا ہے" 

منیحہ نے پیار سے مسکراتے ہوئے اس سے اصرار کیا

" ہاں جی ہینڈسم ٹیچر صاحب دکھائیں" سیمعون بھی آگے بڑھی مگر منیحہ کی ہنسی اور سیمعون کی چیخیں بیک وقت نکلی تھیں "یہ کیا کر دیا ہے تم نے؟" 

وہ شیر کی طرح دھاڑی تھی 

فراس کے ماتھے پہ اس نامناسب انداز گفتگو پر بل آ گئے تھے

جبکہ اسکے جرنل کے شروع کے چند صفحات ٹیچر صاحب نے کالے کر دئیے تھے

" یہ کیا کیا ہے آپ نے،، یہ تو خراب لکھا ہے نا" منیحہ منہ پہ ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے بولی

سیمون ابھی تک غیر یقینی انداز میں اپنا جرنل اس حالت میں دیکھ رہی تھی

"میرے بچوں نے گندہ پیپر لکھا ہے"

اس نے منھ بنا کر ماں کے علم میں اضافہ کیا

سیمعون کا منہ پھولا ہوا تھا

___________________________

جلال کا مزاج دن بدن خراب اور خاموش تر ہو رہا تھا 

وہ شدید مایوس ہو چکا تھا 

اسکی سرجری ایک حد تک کامیاب ہوئی تھی اب وہ بیٹھ سکتا تھا

مگر وہیل چئیر پر،، بستر پر بیٹھتا تو دس پندرہ منٹ بعد اسے تکلیف ہونے لگتی

نتیجتا ڈاکٹروں کے مشورے سے انھوں نے اسے پاکستان لے جانے کا فیصلہ کیا 

جلال راضی نہیں تھا

"پاپا اگر آپکو لگتا ہے کہ وہ خود کہے گا تو مجھے ایسا نہیں لگتا"

کریم صاحب نے بیٹے کو مایوس دیکھا

"وہ بہت انا پرست ہے،، تین سال نہیں گیا،، اب بھی کبھی نہیں جائے گا" 

بلال نے اپنا خیال ظاہر کیا سب اسے منا منا کر تھک گئے تھے پاپا بھی مایوس تھے پھر وہ ایک آخری کوشش کرنے کی نیت سے اسکے کمرے میں آئے

وہ سو رہا تھا 

تبھی انکا فون بجنے لگا تھا 

سلام دعا کے بعد وہ پریشان ہو گئے 

" ارے ارے کیا ہوا میرے بیٹے کو"

دوسری جانب شاید کچھ کہا جا رہا تھا 

"ارے نہیں بھئی،، میں بس کچھ دنوں تک آ جاوں گا"

پھر کچھ دیر خاموشی چھائی رہی

"میرا بیٹا مجھ سے ناراض نہیں ہوتا،، میں نے ویسے بھی بہت سی چیزیں لی ہیں اپنے بیٹے کی"

منیحہ نے انھیں اسی سے بات کرنے کا کہا اور فون اسکے سامنے رکھ دیا

"میں نے نہیں جانا"

دوسری جانب سے کوئی بولا تھا 

کریم صاحب نے دانستہ سپیکر آن کر دیا 

"ارے نہیں یار،، ناراض نہ ہو مجھ سے"

وہ گھبرا رہے تھے

" میں نہیں جاوں گا،، آپکو اپنی گاڑیاں بھی نہیں دونگا" 

وہ خفا لگتا تھا

"ارے یار نہ کرو تم تو میرے دوست ہو،، اور ویسے بھی میں تمہارے لیے بہت سی گاڑیاں لے کر آ رہا ہوں" 

"میری بمبل بی ہے" 

وہ بچہ  گاڑیوں کے لالچ میں بھی نہیں آ رہا تھا 

پھر پاپا بہت دیر تک اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہے،، بہت دیر بعد وہ کچھ راضی ہوا تھا 

اور بالآخر جلد واپسی کے وعدے پہ کال کاٹ دی گئی 

کریم صاحب نے مڑ کر دیکھا جلال انھیں ہی دیکھ رہا تھا

"تمہارا بیٹا تھا،، اتنے دنوں سے ملا نہیں تو یاد کر رہا تھا،، منیحہ بتا رہی تھی کہ ضد کر رہا ہے" 

وہ بولے تو انکا لہجہ قطعی معمول کا تھا. 

مگر جلال اس سے زیادہ نہیں سن سکتا تھا 

اس نے منھ موڑ لیا پھر پاپا نے وہیں کھڑے کھڑے ماما کو کال کر کے ڈانٹا تھا کہ فراس سے ملنے کیوں نہیں گئیں 

ساتھ ہی اسے لانے اور گھر میں کچھ دیر رکھنے کی تاکید کی گئی تھی 

جلال اس دوران آنکھیں بند کیے لاتعلقی سے بیٹھا رہا

کریم صاحب نے مزید اس سے *اسکے بچے* کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ وحشت زدہ ہو رہا تھا 

یہ باتیں اسے بہت عجیب لگ رہی تھیں 

"میرا بیٹا،،، میرا اپنا بچہ،، میرا بچہ کیسے ہو سکتا ہے" 

وہ بے یقین تھا 

مگر اس نے کریم صاحب کی کسی بات کا جواب دینے کی بجائے لاتعلقی ہی ظاہر کی 

مگر اسکا ذہن شدید بے قراری میں مبتلا ہو رہا تھا

اگلی صبح انکی تمام امیدوں پر پانی پھر چکا تھا

انکے توقعات کے برعکس جلال نے پاپا سے کہا تھا وہ پاکستان جانا چاہتا ہے

پاپا کو تو کتنی ہی دیر یقین  نہیں آیا مگر جلال  خود بھی نظریں نہ ملا رہا تھا

اس نے ایک لفظ نہ کہا تھا تمام تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں

سب پرجوش تھے بچے اداس ہو رہے تھے،، بلال بھی ساتھ جا رہے تھے

کریم صاحب کی خوشی دیدنی تھی

اور پھر جہاز میں سوار ہو کر جب وہ پاکستان لینڈ کر. ے واکے تھے تب اسکی چپ ٹوٹ گئی تھی

"پاپا وہ ملے گی مجھ سے اس حالت میں ¿¿¿" کریم صاحب سوئے جاگے سے تھے، فوری طور پر وہ کچھ بھی سمجھ نہ پائے جلال امید بھری نظروں سے انھیں دیکھ رہا تھا

یہ وہ جلال نہیں تھا جو تین سال پہلے لڑ جھگڑ کر دھمکیاں دے کر اور ہر چیز کو ٹھوکروں پر رکھ کر وہاں سے گیا تھا یہ کوئی اور ہی انسان تھا ،، مایوس، خاموش اور ڈرا ہوا

"ہاں کیوں نہیں ملے گی ضرور ملے گی؛" وہ. بے ہنگم انداز میں جوش سے اسے یقین دہانی کرا رہے تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ انھیں خود بھی اس بات کا یقین نہیں تھا

منیحہ نے آج تک انکی گھر واپسی کی بات نہیں مانی تھی

ماما تو اسے دیکھ کر پہ شاکڈ رہ گئی تھی،، جس وقت وہ لوگ گھر پہنچے رات کے دس بجنے والے تھے،، وہ جو صرف شوہر کی آمد کی امید کر رہی تھیں ساتھ بلال اور وہیل چئیر پر موجود جلال کو دیکھ کر تو ششدر رہ گئیں 

"یہ کیا ہوا ہے¿" 

انکے منہ سے بندبند سی آواز نکلی تھی

"ارے کچھ نہیں ہوا آگے سے تو ہٹو" 

کریم علوی نے بیوی کو آگے سے ہٹایا اور بلال وہیل چئر کو چھوڑ کر اب ماں سے مل رہا تھا وہ پانچ سال بعد واپس آیا تھا

جلال تین ساڑھے تین سال بعد مگر انھیں سمجھ نہ آ رہی تھی کہ خوش ہوں تو کیسے خوش ہوں 

وہیل چئیر پہ موجود سیاہ ٹی شرٹ پہنے وہ کمزور اور سنجیدہ سی شکل والا لڑکا انکا بیٹا تو نہیں تھا یہ تو کوئی اور تھا جلال تو غصیلہ، پر جوش اور جی دار سا بندہ تھا 

وہ بے ساختہ رونے لگی تھیں، بلال نے انھیں گلے سے لگا رکھا تھا اور جلال بھی انھیں تسلی دینے کو ہنسنے کی کوشش کر رہا تھا

"ماما کیا ہوا ہے" 

"جلال" 

وہ منہ پہ ہاتھ رکھے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھیں، کریم صاحب نے محسوس کیا کہ وہ بھی رو دیں گے،، اسی لیے وہ اندر کی جانب بڑھ گئے یہ اور بات کہ انکا چہرہ نم تھا

"اندر تو آنے دو انکو" 

پاپا کی آواز سن کر وہ لوگ بھی اندر کی جانب مڑ گئے 

کتنی ہی دیر تک ماما اسے پھٹی آنکھوں سے دیکھتی اور روتی رہیں 

ان تینوں کے لیے ماں کو تسلی دینا مشکل ہو گیا تھا 

"اللہ کی بندی کیوں اسے پریشان کر رہی ہو" 

پاپا نے انھیں آنکھیں دکھائی 

"اچھا چلو بھئی تم مجھے یہ بتاو کس کمرے میں رہو گے" 

کریم صاحب مصنوعی خوشگواری سے بولے

"اپنے کمرے میں رہوں گا بابا" 

اسکے چہرے پہ پھیکی سی اداس  مسکراہٹ تھی۔

"چلو لیکن تمہارا کمرہ تو اوپر ہے آج نیچے ہی رک جاو کل پھر دیکھتے ہیں" 

پاپا اسکی رضامندی لینے کے لیے رکے تھے

" ٹھیک ہے "

خلاف معمول وہ راضی ہو گیا تھا

"چلو پھر تم لوگ فریش ہو جاو میں کچھ کھانے کو منگواتا ہوں کیونکہ تمہاری ماں نے یقینا کچھ نہیں بنایا ہو گا" 

بیوی کو گھور کر کہتے وہ بیٹوں کی طرف متوجہ تھے 

" نہیں کھانا بنایا ہوا ہے میں نے" 

وہ سوں سوں کرتیں اٹھ گئیں 

بلال ماں کے پیچھے چلے گئے تھے اتنے سالوں بعد گھر آ کر وہ بہت عجیب سے احساسات کا شکار تھے 

ماں سے سب رشتے داروں کی تفصیلات جاننے کے ساتھ ساتھ کھانا نکالنے میں بھی مدد کر رہے تھے 

جبکہ کریم صاحب نے محسوس کیا جلال بار بار بیرونی دروازے کی جانب دیکھتا تھا 

"صبح جاوں گا ابھی تو کافی دیر ہو گئی ہے فراس سو گیا ہو گا" 

انھوں نے کہا جلال چونکا تھا پھر کچھ شرمندہ ہوا مگر اس نے کوئی سوال نہیں کیا تھا 

جیسے وہ بھی یہی پوچھنا چاہتا ہو 

"پاپا" 

کچھ دیر بعد جلال نے کسی سوچ میں گم انھیں پکارا تھا 

انکا دل کٹ رہا تھا، اسکی بے بسی دیکھنا جان لیوا تھا

 "ہاں بولو بیٹا"

"پاپا وہ،،" 

وہ چپ ہو گیا

"فراس،، فراس نام کس نے رکھا" 

"فراس نام منیحہ نے رکھنا چاہتی تھی ،، مجھے بھی اچھا لگا اپنے فارس کے ساتھ ملتا جلتا بھی تھا" 

وہ خوش ہو کر بتا رہے تھے 

"بڑا تیز ہے تمہارا بیٹا،، ہمارے تو قابو میں ہی نہیں آتا" 

وہ لاڈلے پوتے کی حرکات یاد کر کے ہنسے 

"تم دیکھو گے تو ہی اصل سمجھو گے"

انھوں نے جلال کی دلچسپی محسوس کر کے کہا

" پاپا وہ ملنے دیں گے مجھے اس سےا¿"

وہ پریشان تھا،، اور خوف زدہ بھی. 

اسے جانے سے پہلے کی اپنی حرکتیں یاد آ رہی تھیں 

"پاگل ہو گئے ہو تم،، وہ آتا رہتا ہے ادھر،، ابھی بھی آ جاتا مگر اب ہم لیٹ ہو گئے، اس وقت منیحہ سلا دیتی ہے اسے" 

وہ بہت اپنائیت سے منیحہ اور فراس کا ذکر کر رہے تھے 

جلال کے دل کی گھٹن بڑھ گئی تھی

"منیحہ" 

اس نے زیر لب اسکا نام دہرایا تھا ۔

ساری رات وہ اپنے بستر پر بیٹھا رہا ۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی 

یادیں اسے کاٹنے کو دوڑ رہی تھیں 

_______________________-_

منیحہ معمول کے مطابق کالج اور سیمعون اور علی یونی تھے

ابا کام پر اور فراس کی بھاری ذمہ داری تن تنہا اماں کے کندھوں پہ تھی 

"فراس ادھر بیٹھ جاو" 

انھوں نے فرش دھوتے ہوئے تیسری دفعہ اسکے ہاتھ سے وائپر لے کر ایک طرف کو رکھا 

"میں کرتا ہوں" 

وہ بازو چھڑوا کر ڈھٹائی سے اپنے کام میں مصروف تھا 

"فراس خدا کے لیے کام ختم ہونے دو" 

اماں نے جھنجھلا کر کہا

"ادھر آ جاو" 

اسے سنتے نہ دیکھ کر وہ تنگ آ گئیں،، ڈانٹنے کو دل بھی نہ چاہتا تھا  کہ وہ بہت چھوٹا سا تھا

اسے وہیں وائپر کے ساتھ چھوڑ کر وہ کپڑے دھونے کی نیت سے باہر لے آئیں مشین میں پانی ڈالا اور کپڑے رنگوں کے حساب سے علیحدہ کیے 

وہ اپنے دھیان میں تھیں جب چونکی فراس انھیں خفگی سے دیکھ کر چیخا تھا

"میری ماما کی چیزیں نہ لیں" 

"کونسی تمہاری ماما کی چیزیں" 

اماں کو بلکل سمجھ نہ آئی کہ اسکی ماں کو کونسا خزانہ وہ چرا چکی ہیں جو وہ یوں انھیں گھور رہا ہے

"یہ میری ماما کا ہے" 

فراس نے انکے ہاتھ میں دبا منیحہ کا دوپٹہ لے لیا تھاوہ ہکا بکا سی اسے ماتھے پہ بل ڈالے کھڑا دیکھ رہی تھیں 

" فراس کتنے بدتمیز ہو تم،، میں نے کیا کرنا ہے تمہاری ماں کا لال دوپٹہ" 

انکے لیے یہ بے مروتی ناقابل یقین تھی اتنی بے مروت تو انکی اپنی اولاد نہیں تھی جتنی یہ اولاد کی اولاد بے مروت تھی 

"تم نہیں بولتے،، ماما بولتی* آپ* بولو"

وہ انکی غلطی نکال رہا تھا، انھیں تمیز سکھا رہا تھا 

اماں اپنا سر پکڑ کر رہ گئیں 

"کل رات  تو تمہارے دادا بھی واپس آ گئے ہیں،، آ کر لے ہی جاتے تمہیں،، کم از کم میں اپنا کام تو کر لیتی سکون سے" 

کچھ دیر بعد انکا سکون غارت کرنے انکی دیورانی آ چکی تھیں 

اور جو باتیں اور جس انداز میں وہ کر رہی تھیں یہ سب انکے لیے بھی حیرت انگیز تھا 

انھیں شدید فکر مندی نے گھیر لیا تبھی منیحہ اور سیمعون بھی آگے پیچھے گھر میں داخل ہوئی تھیں 

چچی کے منہ سے یہ انکشافات ان سب کے لیے ہی ششدر کرنے والے تھے مگر منیحہ کے لیے وہ سب خصوصی طور پر نا قابل یقین تھا

اس سے پہلے کہ وہ فوری طور پر اپنے ذہن کو کسی فیصلے پہ راضی کرتی 

(تو کیا وہ واقعی آ گیا ہے،، اب آیا اور ایسے کیسے؟)

اسکا ذہن ماننے کو تیار نہیں تھا 

چچی کا زہر اگلنے کا سلسلہ تیز ہوا تھا 

"میں تو یقین ہی نہیں کر رہی تھی مگر رشیدہ (محلے کی ایک عورت) خود دیکھ کر آئی ہے،، اور اسکی ماں کہہ رہی تھی کہ کل رات ہی آئے ہیں" 

اماں خاموش تھیں 

"رشیدہ نے تو پوچھا بھی کہ شادی کر کے آیا ہے یا ابھی وہ شادی بھی ہار لگاآیا ہے،، تو اسکی ماں کہنے لگی کہ شادی کیوں کرے گا بال بچوں والا ہے پہلے سے،، ما شاء اللہ نے چاند سے بیٹا دیا ہے"

وہ نقل اتارتے ہوئے بولیں کسی نے کوئی جواب نہ دیا تھا 

"یہ اچھا قانون ہے بھئی،، جب بھلے چنگے تھے تو یاد نہ آئی اور اب ہر جگہ عیاشیاں کر کے کسی کام کے کہ رہے تو بیوی بچوں کی یاد آ گئی"

چچی کی زبان زہر کے نشتر چلا رہی تھی ۔

منیحہ ابھی ابھی کالج سے لوٹی تھی اسکے آنے کی خبر ہی اسکے لیے ایک بہت بڑا شاک تھی کجا کہ کسی حادثے کا یقین آنا.. 😲

وہ چچی کو ان سنا کرتی اپنے کمرے میں آ گئی۔

ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے، 

سیمعون بھی ابھی ابھی یونی سے لوٹی تھی اور وہ بھی حیران تھی 

منیحہ کا لٹھے کی مانند سفید پڑتا چہرہ تشویش ناک تھا 

"اگر ایسا ہوتا تو انکل بتاتے تو سہی نا،، اور اگر چچی ٹھیک کہہ رہی ہیں تو بھی مجھے تو یقین نہیں آ رہا"

اسکی آواز کمرے میں گونج رہی تھی منیحہ تو جیسے یہاں تھی ہی نہیں فراس علی کے ٹیبلٹ پہ قبضہ جمائے صوفے پر لیٹا ہوا تھا

"منیحہ،، انکل کو کال تو کرو"

سیمعون کو شدید الجھن ہونے لگی

"ایسا نہیں ہو سکتا،، اگر *وہ* آتا..، تو انکل بتاتے.. نا"وہ کھوئے کھوئے لہجے میں جیسے خود کو تسلی دے رہی تھی 

"فراس تم گئے تھے¿¿،. کیا ادھر تمہارے پاپا مطلب تمہارے ڈیڈ بھی تھے¿"

منیحہ کو نہ سنتے دیکھ کر وہ فراس کے سر پر آن کھڑی ہوئی کہاں تو سنا تھا کہ وہ شادی کر رہا ہے اور کہاں وہ راتوں رات آ گیا¿¿¿

" فراس میں کچھ پوچھ رہی ہوں کیا ادھر کریم. انکل کے گھر کوئی انکل آئے ہوئے ہیں..،تمہارے پاپا¿¿"

اس نے اسکا بازو پکڑ کر کھینچا

تو وہ اسے غصے سے گھورنے لگا

"کیا ہے سمون"

وہ اسکا غلط نام پکار رہا تھا،، اظہار ناراضی کا انوکھا طریقہ تھا

"سیمعون کے باپ یہ بتاو کہ تمہارا باپ آیا ہوا یے¿"

سیمعون نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورا

"ہاں آئے ہیں "

منھ بنا کر کہتا وہ پھر سے ٹیبلٹ میں گم ہو گیا مگر منیحہ اور سیمعون نے لاشعوری طور پر ایک دوسرے کو دیکھا 

"وہ میرے بابا نہیں ہیں"

کچھ یاد آنے پر وہ سر اٹھائے بغیر بولا تھا 

" میرے بابا تو بڑے ہیں"

وہ پھر سے سکرین میں گم ہو گیا تھا

"آپ کس کے ساتھ گئے تھے¿"

منیحہ نے براہ راست سوال کیا تھا ایک پل کو اس نے توجہ نہیں دی پھر شاید اسے محسوس ہوا کہ بات سیمعون  نے نہیں اسکی ماں نے کی ہے تو وہ متوجہ ہوا 

"میں بہرام بھائی کے ساتھ گیا تھا"

اس نے کریم انکل کے آفس میں کام کرنے والے اس لڑکے کا نام لیا جو گھر کا سودا سلف بھی لاتا تھا 

"بہرام بھائی کے ساتھ کیوں گئے آپ"

وہ خوامخواہ میں غصے کا شکار ہوئی

"وہ گلی میں کھڑے تھے" وہ اسکے غصیلے انداز میں بولی تو فراس روہانسا ہو  گیا

منیحہ نے خود کو قابو کیا ، وہ فراس پہ فرسٹریشن نہیں نکالنا چاہتی تھی 

"اوکے ٹھیک ہے،، مگر آپ مجھے بتائیں وہ کون تھے کیا آپ نے انھیں دیکھا تھا پاپا تھے گھر میں ¿"

وہ گھٹنوں کے بل اسکے سامنے آ بیٹھی

" نہیں،،  دو انکل ہیں"

وہ دو دکھانے کے لیے تین  انگلیاں اٹھائے بتا رہا تھا

منیحہ نے سر جھٹکا

"دادو بولتی میرے پاپا ہیں"

وہ اب ناگواری سے دادی کا کہا بتا رہاتھا جیسے وہ اس بات سے اتفاق نہ کرتا منیحہ کا دل رک رک کر دھڑکا تھا 

" چلو جی اب تو کنفرم ہو گیا"

سیمعون نے ہاتھ جھاڑے 

"تیاری کر لو منیحہ بی بی"

سیمعون گہری سانس لے کر پیچھے ہو گئی

"میں کیا تیاری کر لوں "

وہ ناچاہتے ہوئے بھی ناگواری سے بولی

"کیا مطلب تم نے جانا نہیں ہے ¿"

سیمعون یوں حیران ہوئی جیسے یہ بات پہلے سے طے ہو کہ منیحہ اسکے آنے کر چلی جائے گی

"کیا مجھے جانا تھا¿"

وہ الٹا سیمعون  سے پوچھنے لگی اسکو عجیب سی وحشت نے گھیرا تھا 

"ہاں تو سنا نہیں بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے،، تو کیا اب تم دیکھنے بھی نہیں جاو گی ¿"

سیمعون نے مڑ کر اسے گھورا 

(تو کیا اب میں چلی جاوں،، منہ اٹھا کر؟)

منیحہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا مگر اسے ایک انجانے سے غصے نے گھیرا تھا 

(نہ آنے کی اطلاع اور نہ کوئی اور بات،، اور فراس کو بلا کر مل بھی لیا.. اب یاد آیا ہے کہ کوئی بچہ بھی تھا)

اسے غصے سے کھولتے دیکھ کر سیمعون چپ ہو گئی

"تو منیحہ بی بی تم بھی وہی ہو جو ایک دفعہ ہاتھ چھڑا کر پھر دوبارہ تھامنے کے لیے بے تاب ہو"

اس نے خود کو ملامت کیا

وہ نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا تھا مگر اسے بہت عجیب سا غصہ آ رہا تھا 

عجیب سی جھنجھلاہٹ طاری ہو رہی تھی دھیان چاہ کر بھی ہٹا نا پا رہی تھی 

______________________________

" پاپا جائیں نا جلال کی بیوی کو لینے"بلال کو کچھ زیادہ ہی اکسائٹمنٹ ہو رہی تھی

جبکہ کریم صاحب ابھی ابھی ڈاکٹر کے پاس سے ہو کر آئے تھے انکی طبیعت رات کو  بہت خراب ہو گئی تھی صبح ہوتے ہی وہ چلے گئے ڈاکٹر نے انھیں چند گھنٹے کے لیے آبزرویشن میں رکھ لیا تھا

"یار وہ ابھی کالج ہو گی، لیکچرار ہے وہ"

انکا لہجہ تھکاوٹ زدہ تھا

"تین بج گئے آ گئی ہو گی"

بلال نے گھڑی کو دیکھا 

"اچھا جاتا ہوں ابھی دن میں شاید فراس سویا ہوا ہو،، میں سوچ رہا تھا شام میں جاوں،، سلمان بھی گھر ہی ہو گا"

وہ صوفے پہ دراز ہو گئے

"وہ تو ابھی آیا ہوا تھا،، پوری فلم ہے وہ لڑکا"بلال بہت خوش لگتے تھے

"اچھا کس کے ساتھ آیا،، اسے انتظار ہو گا میرا"

انھوں نے کچھ اوپر سر اٹھا کر بلال کو دیکھا 

" بہرام کو بھیجا تھا وہ لے کر آیا،، مگر رکا نہیں اپنی گاڑیاں اٹھا کر بھاگ گیا،، جلال کے تو پاس بھی نہیں گیا"بلال پرجوش سے تھے

" ہاں وہ گھبرا گیا ہو گا اتنی جلدی تو بچے نہیں گھلتے ملتے نا، ویسے بھی جب وہ آتا ہے تو گھر میں تمہاری ماں اور میرے علاوہ کوئی نہیں ہوتا آج تو دو دو جن تھے"

انھوں نے ہنس کر بیٹوں کو جن کا خطاب دیا 

" گھبرایا تو نہیں میں نے کہا ایک. گاڑی مجھے دے دو، وہ تو مرنے مارنے پر آ رہا تھا،، یے بہت پیارا ماشاءاللہ میں تو سمجھا چھوٹا سا کوئی بچہ ہو گا وہ تو کافی بڑا ہے"

وہ حیران تھےاور پر جوش بھی.. جلال خاموش بیٹھا تھا 

" یہی تو مسئلہ ہے تم لوگوں کا وہاں جا کر تم لوگ سمجھتے ہو یہاں وقت رک جاتا ہے،، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا"

انکی آواز میں گلہ تھا 

" تین سال کا بچہ گود میں کھیلتا تو نہیں مل سکتا نا، ماشاءاللہ سے جوان ہو گیا ہے کبھی کبھی تو آفس جاتا ہے میرے ساتھ،، یہ بہرام تو رکھا ہوا ہے اسی کے لیے ہے میں نے"

وہ معمول کے سے انداز میں بتانے لگے

" میں بھی چلوں آپکے ساتھ¿"

بلال. فورا جانا چاہتے تھے 

"ویسے میں نے اسکی بیوی کو دیکھا تو نہیں تصویریں ہی دیکھی تھی وہ بھی شادی کی لیکن پھر بھی ہو آتا ہوں "

انھوں نے جلال کو گفتگو میں شامل کرنا چاہا

" ہاں چلو بھئی بڑی پیاری بچی ہے. جلال تم نہیں چلو گے¿" 

وہ اٹھ کر بیٹھ چکے تھے

جلال نے کوئی جواب نہ دیا 

کریم صاحب نے اسکی خاموشی کو نیم رضا مندی سمجھا 

مگر آخر وقت پر اس نے جانے سے انکار کر دیا تھا 

" آپ لوگ جائیں"وہ وہیل چئر کے پہیے گھماتا واپس اندر کی جانب چلا گیا 

اسکا دل کہہ رہا تھا وہ نہیں آئے گی

(مجھے اس سے یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ اسے اس حالت میں میرے پاس آنا چاہیے) 

اس نے خود کو متوقع صورتحال کے لیے تیار کرنا چاہا 

"دوسری جانب منیحہ بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہی تھی

(میں نہیں جاوں گی ایسے،، اس سب کے بعد کیا میرا سارا جھگڑا اس لیے تھا کہ اسکے گھر سے کوئی بھی آتا اور میں اسکے آگے چل پڑتی) 

اسکا دماغ اس فیصلے پہ پکا تھا مگر دل تھا کہ مطمئن نہ ہو رہا تھا 

وہاں ہنوز تلاطم بھرپا تھا 

"اگر اچھے دنوں میں نہیں تو اب برے دنوں میں کیوں مجھے چاہتا ہے وہ" 

"جو کچھ ہمارے درمیان ہوا اسکے بعد دوبارہ واپسی کی کوئی صورت نہیں" 

اسکا دماغ مسلسل اسے سمجھا رہا تھا 

"میں نہیں جاوں گی،، اس نے جو غلطیاں اور زیادتیاں کی ہیں وہ قابل معافی یا تلافی نہیں ہیں "

دماغ کے کسی کونے سے آواز سنائی دی

" جب اسکا بچی اس دنیا میں آنے والا تھا،، ہسپتال کے اس ٹھنڈے یخ کمرے میں جب کہ مجھے اسکی ضرورت تھی اور وہ نہیں تھا،، تو کیا میں مر گئی؟ 

نہیں نا.. تو اب بھی نہیں مروں گی.. اب تو میں مضبوط اور بہادر عورت ہوں.. میں اپنی باقی زندگی بھی اسکے بغیر گزار سکتی ہوں" 

اسکے اندر چھپی کوئی منتقم مزاج عورت پوری طاقت سے سر اٹھا چکی تھی 

جلال کی غلطیوں کی معافی ناممکن تھی اور تلافی کی کیا صورت ہو سکتی تھی؟ 

جلال نہ گیا تھا۔

وہ اتنا نروس اور کمزور کبھی بھی نہیں تھا جتنا وہ اس وقت محسوس کر رہا تھا 

پاپا نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا، وہ اور بلال بھائی چلے گئے تھے، ماما کچن میں تھیں اور وہ لاونج میں وہیل چئر پر ہی بیٹھا خلاوں میں کچھ کھوج رہا تھا ۔

نادیدہ نکتے اسے چلتے پھرتے دکھ رہے تھے۔

اذیت سی تھی،اور جان لیوا مایوسی۔

"جلال ٹی وی لگا دوں ¿، ایسے کیوں بیٹھے ہو"

ماما نے اسے یوں خاموش کھویا کھویا دیکھا تو پوچھا وہ چونکا مگر کچھ نہ بولا ماما ٹی وی آن کر کے اسکا ریموٹ جلال کے ہاتھ میں پکڑا گئی تھیں 

"میں کیسے سامنا کروں گا، اسکا اس حال میں ¿" 

وہ خود کو قصوروار سمجھ رہا تھا۔

مگر اس سوچ سے راہ فرار نہ مل سکتی تھی۔

____________________________

"سیمعون  ایک پیپر تو بنا دو" 

وہ بہت کھوئی کھوئی تھی اچانک اسکا ٹوٹا پھوٹا سا موبائل بجا، اسکے کالج کے کوآرڈینیٹر اس سے طلبہ کے لیے ترتیب دیا جانے والا سوالنامہ طلب کر رہے تھے 

"کونسا¿، ،خود بنا لو میرا اپنا بہت کام ہے" سیمعون بھی جب سے یونی سے لوٹی تھی اسی چکر میں پڑی ہوئی تھی 

" میں کیا کروں" 

منیحہ خود کلامی کر کے رہ گئی ہر شے اسکے سامنے کھلی پڑی تھی مگر ذہن انتشار کا شکار تھا۔

ابھی انھیں بیٹھے کچھ دیر کی گزری تھی جب اماں نے اسے باہر آنے کا کہا۔

" کریم صاحب اور انکا بیٹا آیا ہے تم سے ملنے" 

"پاپا، میرے پاپا¿" 

جواب سب سے پہلے فراس نے دیا تھا جو بستر پہ اوندھے منہ دراز اس وقت شدید بوریت کا شکار ہو رہا تھا کیونکہ علی اپنا ٹیبلٹ بھی لے گیا تھا، منیحہ کے بغیر اس وقت وہ ٹی وی بھی نہیں دیکھتا تھا ۔

اسی لیے اسکی توجہ کا منتظر بنا پڑا تھا فورا اٹھ کر باہر بھاگا۔

منیحہ حیران ہوئی،، انکا بیٹا... تو کیا واقعی *وہ* آیا تھا 

یکدم اسکے دل کی دھڑکن تھم گئی تھی فراس پاپا پاپا کرتا انکے پاس پہنچ گیا تھا 

مجبوراً اسے بھی باہر جانا ہی پڑا انکل بلکل سامنے بیٹھے تھے

اور وہ غالباً سائیڈ پہ بیٹھا تھا 

منیحہ کی نظر نہ اٹھ سکی

"اسلام و علیکم،، کیسی ہے میری بیٹی" 

انکل اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

"واسلام میں ٹھیک،، آپ کیسے ہیں" وہ اتنا ہی بول سکی

"ٹھیک ہوں میں بھی بس ابھی وہی بتا رہا ہوں سلمان صاحب کو" 

وہ تھکے تھکے سے لگتے تھے

"میں نے آپکو دیکھا تھا،، آپ نہیں تھے" 

فراس منھ بنا کر بولا تو پاپا نے اسے گود میں اٹھا لیا تھا، منیحہ کا دل بری طرح باغی ہو رہا تھا 

" اسلام و علیکم "

وہ بری طرح نروس ہوئی تھج

" منیحہ یہ بلال ہے، بلال یہ منیحہ "

پاپا نے بلال کا تعارف کرایا، لاشعوری طور پر منیحہ نے چونک کر اس طرف دیکھا تھا جہاں ایک خوش شکل سا آدمی کھڑا اسکی جانب دیکھتا مسکرا رہا تھا 

وہ بمشکل سلام کے جواب میں سر ہلا سکی

مگر وہ وہاں کسی اور کی امید کر رہی تھی۔

"کیسی ہیں آپ"

دوسری جانب سے پوچھا گیا 

وہ جلال کے مقابلے میں کچھ دبلے اور لمبے تھے 

اور عمر میں بھی کچھ میچیور دکھتے تھے 

منیحہ نے خود کو زمانہ حال میں واپس کھینچا 

"میں ٹھیک ہوں" 

بمشکل منھ سے نکلا تھا 

"میں صبح سے آپ سے ملنے آنا چاہتا تھا مگر پاپا کی طبیعت خراب تھی" سب خاموش تھے منیحہ بھی سلام کا جواب د ے کر خاموش ہو گئی تھی تو بلال کو کچھ سمجھ نہ آئی اب کیا کہیں پاپا فلحال مکمل طور پر فراس میں بزی تھے 

"آپ نے اچھا کیا،، ویسے بہت عرصے بعد آمد ہوئی" 

ابا نے ہی انکی بات کا جواب دیا تھا پھر اسی متعلق باتوں کا سلسلہ چلتا رہا 

سب سرسری سی باتیں کر رہے تھے 

بس وہی کھوئی کھوئی لگ رہی تھی 

"میں منیحہ کو لینے آیا ہوں" 

یکدم اپنا نام سن کر اسکا دھیان حال میں لوٹا تو وہ حیران ہوئی اور پھر اسی پل اسے احساس ہوا وہ آج یہاں واپس آ کر بھی اس سے، اپنے بچے سے ملنے نہیں آیا تھا... 

"میں نہیں جانا چاہتی" لاشعوری طور پر اسکے منھ سے نکلا تھا آواز خاصی بلند تھی

سب نے چونک کر اسے دیکھا 

"کیوں بیٹا، اب بھول جاو سب اب ایسے حالات نہیں کہ ہم پرانی باتوں کو دہراتے رہیں،، اب بہت کچھ بدل چکا ہے" 

کریم صاحب ہی سب سے پہلے سنبھلے تھے 

"منیحہ" 

اماں نے تنبہی انداز میں اسکو اس بدتمیزی پہ پکارا 

"سوری مگر میں نہیں جانا چاہتی فلحال" وہ سب کے حیرت زدہ چہروں پہ ایک نگاہ ڈالتی وہاں سے بھاگ گئی تھی کچھ دیر تک کمرے میں آ کر وہ لمبی لمبی سانسیں لیتی رہی سیمعون شاید کچن میں چائے بنا رہی تھی مگر منیحہ کو تو سب کچھ کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا 

نا چاہتے ہوئے بھی دوپہر سے اسے امید لگ گئی تھی کہ جلال پرانی باتیں بھول چکا ہو گا وہ بدل چکا ہو گا

مگر وہ نہیں آیا تھا 

اس بات سے اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی ۔

"میں نہیں جاوں گی،، اب یہ میری اہمیت اور عزت ہے اسکی نظر میں" 

بے ساختہ بہنے والے آنسو اس نے رگڑ کر صاف کر دئے تھے 

"اب تین سال رنگ رلیاں منا کر پاکستان آیا تو یہاں بیوی کا بندوبست کیا جا رہا ہے" 

اس نے نفرت سے سوچا تھا 

"جہنم میں جائے،، مجھے پرواہ نہیں" 

وہ زیر لب خود کو تسلی دے رہی تھی

" یہ اچھا ہے جو مرضی کرو، اور پھر سالوں بعد یوں کرو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں" 

"جلال کریم علوی میں منیحہ سلمان تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی،، کبھی بھی نہیں،، بے شک تمہیں میری پرواہ نہیں مگر میں تمہیں معاف نہیں کرونگی"

وہ فیصلہ کر چکی تھی یکدم اسکا دل ڈھیر ساری نفرت سے بھر گیا تھا ۔

دوسری جانب جلال ایک ایک پل گن گن کر گزار رہا تھا۔

اسے یقین ہو چلا تھا منیحہ واپس نہیں آئے گی

(یقینا اسے معلوم ہو گا جو کچھ میں وہاں کرتا رہا ہوں ۔) 

وہ اپنے کمرے میں چلا گیا 

وہ پاپا کا مایوس چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا

منیحہ غصے سے کھولتے ہوئے ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی

اسے انکل پر غصہ آ رہا تھا جو یوں اٹھ کر اسے لینے آ گئے

(جو بھی ہو انکے لیے صرف اہم انکا بیٹا ہے، بہو کبھی بھی اہم نہیں ہو سکتی) 

تبھی ابا کمرے میں آئے تھے، دوپٹہ سر پر اوڑھ کر وہ سیدھی ہو گئی

"منیحہ بیٹھو، مجھے بات کرنی ہے" 

ابا سیمون کے بیڈ پر بیٹھ گئے تھے

وہ بھی مجبوراً ٹک گئی

"منیحہ کریم صاحب بتا رہے ہیں کہ جلال کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے کافی سوئر قسم کا" 

ابا تمہید باندھ رہے تھے

"منیحہ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں پرانی باتوں کو بھلانا پڑتا یے"

وہ سر جھکا گئی

"اگر ہم پرانی باتوں کو دل سے لگائے بیٹھے رہیں گے تو کبھی خوش نہیں رہ سکتے"

" ابا آپ ٹھیک کہہ رہے مگر میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی، پلیز ابا" 

وہ بے بسی سے انھیں روک رہی تھی 

" منیحہ میری بیٹی اپنے دل میں کشادگی پیدا کرو،، میں جانتا ہوں میری بیٹی بہت بڑے دل کی مالک ہے جو سب سے بہت زیادہ پیار کرتی ہے، سب کا بہت زیادہ خیال کرتی ہے"

ابا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا 

آنسووں کی ایک گھٹلی سی اسکے گلے میں پھنسی تھی

"ابا میں اسے معاف نہیں کر سکتی، میں نہیں کر پا رہی "

وہ بے بسی سے بولی وہ جانتی تھی ابا اس سے ہرٹ ہوں گے مگر اسکا دماغ بری طرح دکھ رہا تھا 

" منیحہ معاف کرنے والا سب سے  جیت جاتا ہے وہ سب سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے،، کمزور معاف نہیں کرتے" 

"ابا آپکو لگتا ہے وہ سب بھولنے کے قابل ہے،، کیا آپ بھول گئے جو سب میرے ساتھ ہوا تھا" 

وہ شاکی نظر آتی تھی۔

"تو میری بیٹی کو لگتا ہے کہ وہ اسے معاف نہیں کر سکتی" 

ابا نے اسے دلچسپی سے دیکھا وہ کچھ کنفیوز ہوئی تھی۔

نا سمجھی سے ابا کو دیکھا جو مسکرا رہے تھے

"منیحہ کتنی عجیب بات ہے نا، ہم ہزاروں گناہ کرتے ہیں،، اور پھر جب کبھی سالوں بعد توبہ کرتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہم معاف کر دئیے جائیں گے"

وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی تھی، مگر اسکے اندر ایک تلاطم سا بھرپا تھا

"میرے بچے تم جانتی ہو ایسا کیوں ہوتا ہے"

ابا نے بغور اسکا جھکا سر دیکھ کر پوچھا تھا اسے سر اٹھانا ہی پڑا

" شاید اس لیے کہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اللہ ہمیں معاف کر دے گا"

وہ کچھ سوچ کر اتنا ہی بول سکی، ابا نے نفی میں سر ہلایا

"یہ بھی ہے،، لیکن اسکی وجہ یہ ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے تمام گناہ قابل معافی ہیں،، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جتنی بھی غلطیاں کرنے کے بعد معافی مانگیں،، تو معافی مل جانا ہمیں اپنا حق لگتا یے"

ابا کے چہرے پہ ایک عجیب سی پر اسرار سی مسکان تھی

منیحہ نے الجھ کر انھیں دیکھا

" اور میں سوچتا ہوں تب رب العالمین بھی فرشتوں سے کہتا ہو گا،، کہ دیکھو انسان کو کیا ہوا، یہ انسان  امید رکھتا ہے کہ اسکے ہزاروں گناہ میں معاف کر دونگا،، مگر جب کوئی دوسرا انسان معافی اس سے مانگے  تو یہی انسان کسی کی ایک غلطی بھی نہیں بھلا سکتا،، ایک غلطی بھی معاف نہیں کرتا"

ابا چپ ہو گئے تھے مگر وہ ششدر سی انھیں دیکھ رہی تھی

یہ اسکے ابا تھے..

" منیحہ بیٹا، ہم انسان ایسے ہی ہوتے ہیں اپنے لیے بہترین وکیل اور دوسروں کے لیے سخت دل جج،، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہمارے گناہ معاف کر دے تو کیا ہمیں اس کے لیے لوگوں کی غلطیوں ہو معاف نہیں کر دینا چاہیے؟

اگر ہم دوسروں کو معاف نہیں کر سکتے تو خود معافی ملنے کی امید کیوں رکھتے ہیں؟ "

ابا بہت پیار وہ وہ سب کہہ رہے تھے جو اسکے ذہن میں آیا ہی نہیں تھا مگر وہ حیران اور فق چہرے کے ساتھ خلا میں گھور رہی تھی

تو کیا اسے جلال کی غلطیاں اس لیے معاف کرنی تھیں کہ وہ. خود بھی زندگی میں کئی غلطیوں کی معافی حاصل کر چکی تھی..؟؟

اسکے ذہن میں بہت سی وجوہات تھیں مگر وہ چپ رہی

وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر نہ کہہ سکی

"منیحہ میں اور تمہاری اماں اسے دیکھنے جانا چاہتے ہیں،، کیا تم چاہو گی کہ تمہارے ماں باپ اس بیمار بچے کو دیکھنے بھی نہ جائیں¿" 

وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر آنسو نکل رہے تھے روانی سے بہہ رہے تھے 

"منیحہ بچے دل کو ہر بوجھ سے آزاد کر دو،، ہم جا رہے ہیں،، اگر چاہو تو تم بھی چلو بے شک مت رکنا،، مگر یوں رشتے ناطے نہیں توڑے جاتے"

ابا نے اسے ساتھ لگا کر تسلی دی تھی 

وہ سسک کر رہ گئی 

"ابا میں اتنی اچھی نہیں ہوں جتنے آپ ہیں" 

اس نے قبول کر لیا تھا کہ وہ کمزور تھی

کچھ دیر بعد وہ اس بنا پر کریم صاحب کے ساتھ جانے کو تیار تھی کہ 

اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے 

اسکا دل بوجھل تھا

ابا اور اما‍ں بھی تھے 

وہاں پہنچنے تک اسکا دل بس بے دلی کا شکار تھا مگر اس گھر میں اتنے سالوں بعد داخل ہونا ایک عجیب مرحلہ تھا 

وہ اس کو اپنے دل پر گزرتا محسوس کر سکتی تھی

ابا اماں کے ساتھ وہ بھی مہمانوں کی طرح ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئی،، آنٹی آئی تھیں 

انکل انھیں بیٹھنے کا کہہ رہے تھے 

مگر وہ کہیں نہیں تھا 

کچھ دیر بعد بلال بھائی نے ماں سے پوچھا تھا 

"ماما جلال کہاں ہے" 

"اپنے کمرے میں گیا تھا، سو گیا ہو گا" 

آنٹی نے سرسری انداز میں کہا 

"جاو بلا کر لاو اسے" 

انکل نے بیٹے کو روانہ کیا

اور کچھ دیر بعد اماں ابا اٹھ کر اسکا استقبال کر رہے تھے فراس پاپا کے پاس تھا منیحہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہ گئی 

اسکا سر جھکا ہوا تھا بس ایک پل کو اس نے اسے دیکھا تھا جو بلال کو کچھ کہہ رہا تھا 

اور وہ ششدر رہ گئی تھی

وہ یقینا جلال نہیں تھا 

اسکے بعد سے اسکی پلکیں نہ اٹھی تھیں وہ خود کو پر اعتماد ظاہر کرنے کے جتن کر رہی تھی 

"اب کیسے ہو،، کافی کمزور لگ رہے ہو" 

ابا کی آواز گونج رہی تھی 

"ٹھیک ہوں انکل،، آپ کیسے ہیں سیمعون اور علی کیسے ہیں" 

وہ بہت ٹھنڈے، ٹھہرے ہوئے انداز میں بولا تھا 

منیحہ اپنے دل کی دھڑکنوں کو اعتدال پہ لانے کی کوشش کرنے لگی

کچھ دیر سب بیٹھے رہے تھے،، وہ وہیں جمی رہی بلال بھائی نے ایک دفعہ اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی تھی 

" منیحہ آپ ٹھیک سے بیٹھو نا"

" میں ٹھیک ہوں "

صرف ایک پل،، ایک پل کے لیے اس نے بلال کے چہرے کی جانب دیکھا تھا پھر واپس مراقبے کی کیفیت میں چلی گئی 

آنٹی چائے لائی تھیں 

فراس بھی چائے پینے کی ضد کر رہا تھا جبکہ سب جانتے  تھے منیحہ اسے چائے نہیں دیتی تھی 

"منیحہ یہ دیکھو اسے،، چائے پی رہا ہے "

انکل نے فراس کو ڈرانا چاہا

"ماما میں نہیں پیتا" 

وہ کچھ خفا ہو کر ماں کو تسلی دے رہا تھا ساتھ کپ چھوڑنے کو بھی تیار نہیں تھا 

"ادھر آ جائیں آپ" 

سب اس کی طرف متوجہ ہو چکے تھے منیحہ نے اسے اپنی طرف بلایا

وہ شرافت سے آ بھی گیا تھا 

" گھر چل کر دودھ پینا "

اسے گود میں لے کر وہ سرگوشی میں بولی۔

" ماما میں نے دیکھنا ہے" وہ لاڈ سے بولا

"کیا دیکھنا ہے،، چائے کو¿" 

وہ اسے خشمگی نظروں سے گھور کر بولی

" ماما ایک بار دیکھنا ہے" 

ہاتھ کی دو انگلیاں دکھاتے وہ  *ایک بار چائے کو *دیکھنا چاہتا تھا 

" کہہ رہی ہوں نا کہ نہیں،، دودھ پینا" منیحہ نے اسے سختی سے گھورا 

بلال نے اسے یوں گھوریاں کھاتے دیکھ کر اسکی توجہ بٹانی چاہی

"میں سوچ رہا ہوں کہ وہ سامنے جو پورا ریک چھوٹی چھوٹی گاڑیوں سے بھرا ہوا ہے اس میں سے پانچ چھ گاڑیاں اپنے بیٹے کے لیے لے جاوں" 

بلال نے دن میں بھی اس سے گاڑیاں مانگی تھیں اور وہ مرنے مارنے پر اتر آیا تھا 

"یہ تو فراس کی ساری،، تمہارے بیٹے کو کیوں دیں ہم" 

انکل نے انکار کیا تھا 

فراس کے کام بھی کھڑے ہو چکے تھے 

" میں اپنی گاڑیاں نہیں دیتا"

وہ بھاگ کر جا کر ایک طرف رکھے قدم آدم ریک کی طرف گیا جہاں بے شمار گاڑیاں رکھی تھیں 

"تو یار ایک دو میرے بیٹے کو دے دو،، آپ اور لے لینا"

" میں ماروں آپکو ¿"

وہ باپ سے دس سال بڑے باپ کے بھائی کو دھمکا رہا تھا 

یہ کام وہی کر سکتا تھا 

" فراس"منیحہ نے سنجیدگی سے اسے پکارا

"دے دو یار دو چار گاڑیاں بھائی کو" 

ابا نے اسے سمجھانا چاہا

"یہ میری ہیں"

وہ آنکھیں گھماتا منہ اوپر اٹھا کر اطلاع دے رہا تھا 

" مجھے نہیں دینی پھر" 

بلال نے ہنس کر دریافت کیا

"جائیں اپنے گھر" 

وہ تایا کو باہر کا راستہ دکھا رہا تھا 

"فراس" 

ابکی بار منیحہ نے اسے گھورا تو وہ منہ بنا کر واپس ماں کے پاس آ گیا 

"اچھا ہم گھر چل رہے ہیں جانا ہے یا نہیں" 

اماں نے اسے ڈانٹ کھاتے دیکھ کر پوچھا وہ منیحہ کو دیکھنے لگا تھا جو سنجیدہ تھی 

"ہاں بھئی چلنا ہے یا ادھر ہی رہنا ہے" 

ابا بھی اب اٹھ کھڑے ہوئے تھے 

مطلب انکا ارادہ منیحہ کو یہیں چھوڑ کر جانے  کا تھا 

"میں نے اپنی ماما کے ساتھ جانا ہے "

وہ ماں کا پلو پکڑ کر کھڑا تھا،، یعنی اسے جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی

"ارے نہیں میرا بیٹا اپنے گھر رہے گا"کریم انکل نے اسے پچکارا 

ابا اماں چلے گئے تھے اور اب وہ منیحہ کا گھٹنا پکڑے بیٹھا تھا 

"ارے ادھر آو نا.،یہ تمہارے ڈیڈ پوچھ رہے ہیں کہ انھیں کوئی گاڑی دو گے" 

کریم انکل اب آرام سے صوفے پہ نیم دراز تھے اور فراس کو اپنی طرف بلا رہے تھے 

جو اب منیحہ کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھا منیحہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اور کسے دیکھے 

"جلال یہ جو میرا بیٹا ہے نا یہ بڑا پیارا ہے یہ میرا سر بھی دباتا ہے اور میری ساری باتیں بھی مانتا ہے" 

انکل اسے پچکار رہے تھے، مگر خلاف معمول وہ بھاگ کر ان پر چڑھ نہیں دوڑا تھا بلکہ شرمیلی سی مسکراہٹ سجائے سب کو دیکھ رہا تھا 

"ادھر آو، بات سنو" 

جلال نے اسے پہلی بار پکارا تھا،، 

وہ اسے مسلسل گھور رہا تھا مگر اپنی جگہ سے اٹھنے کی بجائے منیحہ کا دوپٹہ پکڑ لیا

"بات سنو نا اپنے ڈیڈ کی" 

بلال نے اسے حوصلہ دیا 

"ماما ¿" 

وہ اجازت طلب نظروں سے ماں کو دیکھ رہا تھا منیحہ نے سر اقرار میں ہلایا 

" ارے ادھر آو شرما کیوں رہے ہو،، اچھا میرے پاس تو آو نا" 

اسکی حرکتیں دیکھ کر انکل بھی حیرت سے اٹھ بیٹے تھے 

جسکا انداز معمول سے ہٹ کر تھا 

" نہیں "

وہ نفی میں سر ہلا کر منیحہ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کرنے لگا

"ماما گھر چلیں" 

وہ اب وہاں سے بھاگنے کے ارادے کر رہا تھا 

" ارے کیوں ادھر نہیں رہنا کیا،، "کریم انکل اٹھ کر کھڑے ہو گئے 

کوئی بعید نہیں تھا وہ آدھی رات کو ضد کرنے لگتا کہ اسے واپس جانا ہے 

"ماما دودھ پینا ہے" 

منیحہ جانتی تھی وہ اس وقت صرف وہاں سے جانا چاہ رہا تھا ورنہ اسے دودھ پلانے کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے تھے 

" تو ادھر ہی دودھ پی لو،، جاو بھئی میرے بیٹے کا دودھ گرم کرو" 

انکل. نے آنٹی کو کھڑا کیا 

"نہیں میں کر لیتی ہوں" منیحہ نے فورا انکار کیا 

وہ وہاں سے فراس کی طرح ہی بھاگنا چاہتی تھی بس نگاہوں سے اوجھل ہونا چاہتی تھی 

اس وقت سب فراس کہ وجہ سے انھیں ہی دیکھ رہے تھے اور یہ بہت عجیب تھا 

اس نے ابھی تک دوبارہ جلال کی جانب نہ دیکھا تھا 

وہ دیکھ ہی نہ سکی تھی

" آپ بیٹھو میں لاتی ہوں" 

وہ اسے وہیں چھوڑ کر کچن کی جانب جانا چاہتی تھی مگر وہ اسکے لیے تیار نہیں تھا 

"فراس یار ادھر تو آو،، یہ دیکھو یہ کون ہیں ¿ یہ آپکے ڈیڈ ہیں نا"

بلال اسے کنونس کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر صبح کے برعکس وہ اب خاصہ شرمیلا بچہ نظر آنے کی اداکاری کر رہا تھا موقع کی مناسبت سے وہ معصوم بنا ہوا تھا 

فراس اور منیحہ کو دیکھ کر بجائے خوشی یا اطمینان ہونے کے جلال کو مزید وحشت ہونے لگی تھی اور اب بھی جب سے وہ آیا تھا جلال کا دل بہت بے چین تھا

فراس اور منیحہ کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر وہ اچھوتے سے جذبات کا شکار ہو رہا تھا 

وہ چاہتا تھا دہاڑیں مار مار کر روئے اور چلائے مگر لب خاموش تھے

اسکی آنکھوں میں بھی اسکی روح کا سناٹا نظر آتا تھا

 "مجھے لگتا ہے یہ فیمیلئر نہیں ہے تم سے اسی لیے کمفرٹ ایبل نہیں ہو رہا"

بلال اسکے یوں خاموشی سے جلال کو دیکھنے پہ یہی نتیجہ نکال سکے

"سب ڈرامے ہیں اسکے سب پتہ ہے اسے،، تم لوگ نہ پہنچ سکتے اسکی حرکتوں تک"

آنٹی نے خوشگوار انداز میں فراس کا درست تجزیہ پیش کیا

جو اب ماں کے کان میں کچھ کہہ رہا تھا 

"ماما یہ *میرے* بابا "

پوچھنے سے زیادہ بتانے والا انداز تھا اور زور میرے" پر تھا

" ہممم"منیحہ نے بے ساختہ سی مسکان کو روک کر اقرار کیا

اور اب اسکی آنکھوں کی چمک بڑھ چکی تھی

منیحہ کو اپنا وہاں کھڑا ہونا بھی عجیب لگ رہا تھا

وہ کچن کی جانب جانے لگی

فراس نے ہنوز کسی شرمیلے بچے کی طرح اسکی قمیض کا پلو پکڑ رکھا تھا جبکہ وہ پیچھے مڑ مڑ کر جلال کو دیکھ رہا تھا

جو عجیب بات تھی وہ یہ تھی کہ اسکی آنکھوں میں کوئی اجنبیت نہ تھی

نجانے وہ اتنا شرمیلا کیوں بننے کی کوشش کر رہا تھا؟🙈👩‍👦😚

جلال کا تو ویسے ہی دماغ اپنی جگہ پر ابھی تک نہیں آیا تھا۔

وہ شاک میں تھا

مگر منیحہ کے دل کی دھڑکنوں میں بھی تلاطم بھرپا تھا

____________________________

کھانا لگایا گیا اور سب نے کھایا جلال نے کھانے سے انکار کر دیا تھا

وہ لاونج میں بیٹھا تھا 

آنٹی نے اسے سوپ بنا کر دیا تھا منیحہ کی تو ویسے ہی بھوک پیاس مر چکی تھی

وہ بس ان سب کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہی تھی بلال بھائی چھوٹی چھوٹی بے ضرر باتیں کر رہے تھے.، انکل بہت زیادہ خوش تھے وہ فراس کے ساتھ لگے ہوئے تھے

جو کہ اب پھر سے بلکل نارمل تھا 

آنٹی جلال کے پاس بیٹھی تھیں 

میز پر وہی چاروں تھے 

آج یکدم یہ سونا سونا گھر بھر سا گیا تھا 

زندگی دوڑنے لگی تھی 

ورنہ روز یہاں اتنی خاموشی ہوتی کہ کریم صاحب تنگ آکر فراس اور منیحہ سے ملنے چلے جاتے  یا پھر فراس کی مختلف مواقع پر بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز جن سے انکا موبائل بھرا پڑا تھا 

وہی دیکھتے رہتے 

"منیحہ یہ رات کو کچھ کھاتا تو نہیں کوئی خاص چیز¿،، یہ نہ ہو شور کرنا شروع کر دے" 

انکل کو اسکی ہی فکر کھائے جا رہی تھی

"نہیں بس دودھ ہی پیتا ہے" 

وہ بس اتنا ہی بولی 

 "میں اٹھا لیتی ہوں" کھانے کے بعد بلال بھائی برتن اٹھانے لگے تو وہ فورا اٹھ گئی 

"کوئی بات نہیں آپ بیٹھیں میں اٹھا دونگا"

وہ خوشگوار انداز میں بولے 

" نہیں آپ بیٹھیے"

وہ شروع ہو چکی تھی مگر بلال وہ سب نہیں کرنا چاہتے تھے جو جلال نمرہ کے ساتھ کرتا تھا 

انھوں نے برتن اٹھا کر کچن تک پہنچانے میں منیحہ کی مدد کی تھی

وہ تو دھلوانے میں بھی مدد کی پیش کش کر رہے تھے مگر منیحہ شدید خجل ہو کر رہ گئی 

"دیکھ لو  تمہاری بیوی کی کچن سمیٹنے میں مدد کر کے آیا ہوں،، ورنہ تم تو ہمیشہ بیچاری میری بیوی سے خدمتیں ہی کراتے تھے" 

لاونج میں جا کر وہ جلال کو جتانا نہ بھولے 

وہ چونکا پھر  ہنسا تھا 

"تو دھلوا کر بھی آنا تھا نا،، دھو تو وہی رہی ہے" 

جواباََ وہ شرمندہ ہوئے بغیر بولا

" میں نے تو آفر کی مگر وہ تو مجھے کچن سے نکالنے پر بضد تھی، اس نے دھونے کی نہیں دئیے"

بلال اب بیٹھ چکے تھے 

"میری بیوی آپکی بیوی کی طرح نہیں ہے"وہ فخریہ بولا تو بلال نے ہھٹی نگاہوں سے اسے دیکھا 

" ڈونٹ ٹیل می کہ اتنے سال خدمتیں کرانے کے بعد تم اپنی بیوی کی تعریف اور میری بیوی کی برائی کر رہے ہو"

وہ ہنسا تھا 

بہت دنوں بعد اسکے چہرے پر ہنسی دکھی تھی گوکی یہ اداس سی ہنسی تھی اس میں وہ پہلے جیسی زندگی نہ دوڑتی تھی 

"آپکی بیوی نے کبھی مجھے یوں کہا کہ جلال تم رہنے دو میں یہ کر لوں گی"

وہ مکمل ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا تھا 

" تو تم کبھی ہل کر کچھ کر تے تو اس بیچاری کو منع کرنے کا موقع ملتا نا.. خیر بیٹا جی میں بتاوں گا نمرہ کو اور اگلی دفعہ تم آنا پھر وہ تمہیں سبق سکھائے گی"

بلال منتقم مزاجی سے بولے تو وہ سر جھٹک کر رہ گیا 

پہلے تھوڑی ذلالت ہوئی تھی جو اس نے دوسری بار پھر جانا تھا ¿¿

" فراس تھوڑی دیر بعد سونے کی ضد کرنے لگا تھا انکل نے منیحہ کو آواز دی

"ارے تم چھوڑو سارے کام،، فراس کو سلاو،" 

انھیں اسکے ضد کرنے کی فکر تھی مبادا وہ وہاں رکنے سے ہی انکاری ہو جائے 

" ادھر آئیں "اسکی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں فراس اسکے پاس آ گیا تھا 

" مجھے اٹھا لیں نا" 

وہ لاڈ سے بولا تو منیحہ کو اسے اٹھاتے ہی بنی 

"یہ ابھی تو تم. لوگوں کو کچھ عرصہ نیچے ہی رہنا پڑے گا،، یہ لیفٹ والے کمرے میں" انکل اب اسے کمرہ دکھا رہے تھے ساتھ یہ بھی بتا رہے تھے کہ جلال کی وجہ سے اب انھیں اپنے کمرے کی بجائے نیچے رکنا ہو گا

پھر وہ کمرہ دکھا کر واپس چلے گئے 

"افففف" 

آج تین سال اور کم و بیش پانچ مہینے بعد وہ اس گھر میں داخل ہوئی تھی اور اتنی نروس وہ اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب شادی کے بعد پہلی دفعہ آئی تھی، . جتنی اس وقت ہو رہی تھی

"ماما گھر نہیں جانا" 

وہ پوچھ رہا تھا 

"نہیں یہیں رہنا ہے اب" وہ ٹھنڈی سانس لے کر اسکی جانب متوجہ ہوئی 

کمرے میں نیا سامان موجود تھا 

جلال کی چیزیں، قدرے چھوٹی میز پر کچھ کتابیں، موبائل اور ایک عدد لیپ ٹاپ،، 

اور بھی کچھ سامان تھا ایک شرٹ تڑی مڑی سی صوفے پہ پھینکی گئی تھی 

مل ملا کر وہ کافی صاف ستھرا کمرہ تھا 

" ماما فون" 

فراس کو تو گویا قارون کا خزانہ ہاتھ لگا تھا 

وہ بھاگ کر میز سے موبائل فون ا ٹھا لایا

"ارے ارے چھوڑو، یہ بابا کا ہے" 

منیحہ نے جلدی سے فون اسکے ہاتھ سے لے لیا 

کافی قیمتی معلوم ہوتا تھا

"واپس رکھ دو یہ بابا کا ہے" سرسری سا دیکھ کر اس نے احتیاط سے واپس وہیں رکھ دیا 

"میرے ڈیڈ¿" 

وہ کنفرم کر رہا تھا 

"ہاں وہ آپکے  بابا ہیں آپ  نے پہچانا نہیں انھیں،، وہ آپکے بابا ہی ہیں "منیحہ نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر کہا وہ خوش ہو گیا تھا جیسے ماں کی تصدیق کا انتظار کر رہا ہو 

منیحہ نے دیکھا تھا جب سب اسے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ تمہارے ڈیڈ ہیں تب بھی اس نے ماں کو دیکھا تھا اور جب منیحہ نے سر اثبات میں ہلایا 

تب ہی وہ اکسی جانب متوجہ ہوا تھا 

سچ کہتے ہیں بچہ اسی کو اپنا مانتا ہے جسے اسکی ماں اپنا مانتی ہو 

"میرے بابا" 

وہ سینے پہ ہاتھ رکھے کنفرم کر رہا تھا 

منیحہ نے اسے گود میں اٹھا لیا 

"ہاں آپکے بابا" 

وہ دونوں کمرے کے بیچوں بیچ کھڑے تھے 

"ماما" 

وہ پر جوش  تھا 

شاید کچھ سوچ بھی رہا تھا منیحہ نے بغور اسکا چہرہ دیکھا

"جی" 

"میں پاپا کے پاس جاوں¿" 

"نہیں اب آپ سو جاو"

وہ ابھی پھر سے وہاں ان لوگوں کے پاس جانا چاہتا تھا 

"میری پینٹ اتاریں" 

منیحہ نے اسکا بیلٹ اتارا تو وہ عادتا اب سونے سے پہلے چینج کرنا چاہ رہا تھا 

"نہیں یہی پہن کر سو جاو،، کپڑے تو لائے ہی نہیں" "

منیحہ نے اسے سمجھانا چاہا 

"نہیں" 

مگر وہ صاف انکاری تھا 

اور کپڑے اتارنے کے پر تول رہا تھا 

" فراس شیم آن یو "

منیحہ نے اسے گھورا تو وہ رک گیا 

" ابھی یہ سوجاو کل اتار دینا"

" نہیں " وہ ضدی ہوا

" کہہ رہی ہوں نا ابھی سو جائیں پھر میں چینج کر دونگی" 

منیحہ اب اسے آنکھیں دکھا کر منانا چاہ رہی تھی مگر وہ کہاں تیار تھا اس بد تمیزی کو سہنے کے لیے

"ارے کیا ہوا"

دروازہ آدھ کھلا تھا بلال بھائی جلال کی وہیل چئر گھسیٹتے آئے تھے اور وہ دونوں ماں بیٹا طبل جنگ بجا رہے تھے 

" کچھ نہیں، نائٹ سوٹ پہننا ہے انھیں "

مگر منیحہ نے دیکھا اب وہ کافی مدھم ہو چکا تھا 

ورنہ ایک دم تو اسکے اندر کوئی جن بیدار ہوتا تھا

"میں گھر جانا ہے" 

وہ اب معصومیت سے رونی شکل بنا کر کہہ رہا تھا 

"میں لے آتا ہوں" 

بلال بھائی نے اپنی خدمات پیش کیں 

منیحہ دانستہ انکی طرف نہیں دیکھ رہی تھی 

"نہیں رہنے دیجیے اب آپ اس وقت کیا جائیں گے" 

وہ خجل ہو رہی تھی اندازہ نہیں تھا فراس پہلے دن ہی اس طرح شرمندہ کرا دے گا 

"میں نے گھر جانا ہے" 

وہ اپنی ہی دھن میں تھا 

" فراس"

وہ اسے تنبہی پکار رہی تھی مگر وہ اب روہانسا ہونے لگا تھا 

"اچھا ڈانٹیں مت میں لے آتا ہوں،، آپ کال کر دیں جو کچھ لینا ہے "

" نہیں ابھی یہ اسی طرح کرے گا،، میں فون نہیں لائی،، میں چلی جاتی ہوں" 

اسکا بس نہیں چل رہا تھا ڈوب کر مر جائے وہ جلال کو اسکی حرکتوں کے طعنے دیتی آئی تھی اور اب فراس۔۔۔

"میرے فون سے کر لو" یکدم کسی نے پیش کش کی تھی انداز میں واضح بے قراری تھی 

وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے لگی 

اور دیکھتی ہی چلی گئی

منیحہ اسے دیکھتی رہ گئی،، بس کچھ عجیب سا تھا 

جس نے اسکا دھیان ایک جگہ ساکت ہی کر دیا تھا۔

"لینڈ لائن سے کر لیں "

اسے خاموش دیکھ کر بلال نے مشورہ دیا تو وہ زمانہ حال میں واپس آئی۔

"جی"

کہتی وہ فراس کو وہیں چھوڑتی باہر نکل گئی تھی 

جلال اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔

"ماما"

کچھ دیر ان دونوں کو دیکھ لینے کے بعد  اسے ماں کا خیال آیا تھا۔

"ارے ادھر تو آو،، بھئی بڑے تیز ہو تم"

بلال نے اسے گود میں اٹھا لیا تھا جبکہ وہ مچل رہا تھا 

"میری ماما"

"ماما آ جاتی ہیں آپکی،، پہلے میری بات تو سنو، یہ دیکھو اپنے ڈیڈ سے تو مل لو،، انکی بات ہی نہیں سن رہے تم"

بلال نے ہنستے ہوئے اسے جلال کی گود میں لٹا دیا تھا 

" نہیں "

جبکہ وہ اس قید سے رہائی کے لیے ہاتھ پاوں مار رہا تھا ۔

"فراس ادھر آ جائیں"

منیحہ نے اسکی چیخ و پکار سنی تو اسے آواز دی تھی۔

جبکہ جلال اپنی جگہ بوکھلا گیا تھا 

" میری ماما "

وہ جانا چاہتا تھا بلال ہنستے جا رہے تھے جبکہ جلال ہونق بنا اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

آخر وہ اسکی گود نکل کر اب وہیل چئر کے پاس  کھڑا تھا

" میں ماروں آپکو¿"

بلال کو گھور کر دھمکی لگائی اور باہر بھاگ گیا۔جلال نے جھرجھری لی۔چند سیکنڈز میں اسکے جسم کے سوئے ہوئے مسلز بھی ہڑبڑا اٹھے تھے۔

"جلال بھئی تیار ہو جاو تم،، مجھے تو لگتا ہے یہ تمہاری کاربن کاپی ہے"

بلال خود کو ملنے پر سنگین دھمکی پر ہنستے جا رہے تھے۔جلال بس مسکرا پہ رہا تھا۔

چند پل پہلے اس کے اوپر جو زلزلہ آیا تھا اسکے بعد سے وہ خاصہ بہتر محسوس کر رہا تھا

"بہت فلمی ہے تمہارا بیٹا"

"آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپکے اپنے بچے مسجد کے امام لگے ہوئے ہیں"

جلال فورا فراس کے دفاع میں میدان میں آیا تھا ۔

"خیر اب یہ تو نہ کہو،، میرے بچے تو ایسے نہیں ہیں بیت دھیمے مزاج کے اور سلجھے ہوئے بچے ہیں میرے"

بلال نے بھی پتھر سے جواب دیا تھا، مقصد جلال کو چڑانا تھا 

آج بہت دنوں بعد اسے فریش دیکھ کر وہ بھی اچھا محسوس کر رہے تھے۔

"ہاں ہاں جانتا ہوں کتنے سلجھے ہوئے ہیں باپ کی طرح.،میرے سامنے ہی ہوتے تھے "

وہ اس موضوع پہ شاید طویل بحث کرتے مگر فراس واپس آ چکا تھا۔

دروازے میں وہ رک گیا تھا

"ماما"

"آ جاو اندر آجاو"

بلال نے اسے اشارہ کیا مگر وہ انھیں مشکوک نظروں سے گھورتا نفی میں سر ہلا رہا تھا 

" ماما "

ساتھ ماں کو بھی پکار رہا تھا۔

" آ رہی ہوں "منیحہ کی ہلکی سی آواز سنائی دی تھی۔

"اچھا یہ تو بتاو آپکا نام کیا ہے"

 "نہیں"

"کیا آپکا نہیں ہے¿"

بلال مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولے۔

 "نہیں"

وہ اب شرارتی انداز میں انھیں دیکھ رہا تھا۔

"اچھا ادھر تو آو نا"

انھوں نے اسے پھر سے اٹھانے کی کوشش کرنا چاہی مگر وہ پھرتی سے واپس بھاگ نکلا تھا۔

" بھائی مجھے بیڈ پہ لیٹا دیں "

جلال نے تھک کر کہا آج اسکا سارا دن شدید ذہنی اذیت میں گزرا تھا۔

انتظار بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے یہ اسے آج ہی سمجھ آئی تھی۔

"چلو اب تم ریسٹ کرو میں چلتا ہوں فراس کا نائٹ سوٹ بھی لانا ہے ۔ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گا وہ"

بلال نے جانے سے پہلے اسے فراس کے متعلق تسلی دی۔

انھیں ڈر تھا کہ کہیں جلال فراس کے رویے سے مزید مایوس ہی نہ ہو جائے ۔

اسی لیے بار بار فراس کو اسکے قریب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

دوسری جانب جلال اسے دیکھ دیکھ کر ایک عجیب سی وحشت کا شکار ہو رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔

خوش ہو دکھی۔

شرمندہ ہو یا اس سب کے لیے ناراض ۔

وہ بس حیران تھا۔

اسکا گمان تھا جیسے وہ منیحہ کو چھوڑ کر گیا تھا وہ ویسی ہی ہو گی 

مگر یہاں سب بدل چکا تھا ۔

اور اس بدلاو کو قبول کرنے میں اسے مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

منیحہ نے بلال کو منع کر دیا تھا۔علی اسکا ضروری سامان دے گیا تھا۔

"جلال بھائی سو گئے ہیں ¿" 

اس نے بہن سے دریافت کیا

"نہیں، شاید سو گئے ہوں" 

اسکا جواب واضح نہیں تھا

"چلیں میں پھر کبھی مل لوں گا"۔

وہ کہتا واپس چلا گیا۔

تین سال پہلے اسکے اور جلال کے درمیان جو ناخوشگوار بحث و مباحثہ ہواتھا کچھ اسکی بھی حجالت تھی۔اسی لیے وہ پھر کبھی دیکھنے کا کہتا واپس ہو لیا۔

"آ جاو" منیحہ نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی اور ساتھ ہی دروازہ کھول دیا تھا

جلال آنکھوں کو بند کیے دراز تھا،، فورا آنکھیں کھولیں

فراس کمرے میں آنے کے لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

"آ جائیں"

اسے مڑ کر فراس کی انگلی پکڑنا پڑی،، بڑے ڈرامائی انداز میں شرماتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا منیحہ کے لیے اپنی مسکراہٹ روکنا مشکل ہو گیا۔

"ماما کدھر سونا ہے" کمرے میں داخل ہو کر وہ کچھ سرگوشی میں بولا۔

"پہلے چینج کر لیں"

وہ اسے لیے واش روم میں چلی گئی ۔

"میں کیوں سوؤں گا،،"

بے قاعدہ سا سوال تھا۔کہنے کا مقصد کہاں سوؤں گا تھا 

"آپ بھی کمرے میں سوئیں گے،، ادھر *بابا* کے پاس"

منیحہ نے بابا پر زور دیا تا کہ وہ ان اسکے ساتھ آرام دہ ہو جائے ورنہ یہ اسکے لیے خاصہ ڈراسٹک بدلاو تھا

راتوں رات انکی زندگی میں اتنا بدلاو آیا تھا ۔چند گھنٹے پہلے تک وہ *اسکی یہاں موجودگی سے ہی بے خبر تھی اور اب کہاں سے کہاں آ گئی تھی۔

وہ اتنی زیادہ نروس اور غیر آرام دہ تھی 

یقینا فراس کے لیے یہ سب زیادہ مشکل تھا۔

اسی لیے وہ ڈرامے کر رہا تھا ۔

"ڈیڈ  میرے بابا ہیں"

بلال اور پاپا کے بار بار ڈیڈ کہنے سے وہ جلال کا نام ہی ڈیڈ سمجھ رہا تھا 

"ہاں یہ آپکے بابا ہیں،، انکو بابا بولنا ہے ٹھیک ہے¿"

وہ دونوں واش روم میں کانفرنس کر رہے تھے باہر جلال کب سے منتظر تھا کہ وہ لوگ واپس آتے۔

"میں نہیں بولتا"

وہ آہستہ آواز میں بولا

" کیوں ¿"

منیحہ نے توجہ سے اسے دیکھا،، وہ ذہنی طور پر سٹرگل کر رہا تھا، اسے توجہ کی ضرورت تھی

" میرے بابا فون پر ہیں"

وہ کچھ خفگی سے بولا۔

اسکے لیے باپ صرف فون کی چند تصاویر تک محدود تھا۔

"وہ واپس آ گئے ہیں،، پہلے وہ دور گئے تھے کام سے،، اب آپکے پاس واپس آ گئے ہیں"

"نہیں"

اسے یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔

"کیوں ¿"

منیحہ نے اس صاف انکار پر ہنستے ہوئے اسے دیکھا

"میرے بابا"

وہ بس اتنا ہی بولا تھا مگر چہرے سے وہ کچھ خفا خفا لگتا تھا۔

"ہاں نہ یہ آپکے بابا ہیں اب آپ انکے ساتھ رہیں اور پاپا کے ساتھ بھی اور آنٹی مطلب دادو کے ساتھ بھی"

وہ آہستہ آہستہ اسکی برین واشنگ کر رہی تھی۔

وہ اب چینج کر چکا تھا اور واش بیسن کے ساتھ بنے سلیب پہ بیٹھا تھا منیحہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔

"وہ دوسرے.."

"کون بلال بھائی ¿"

" وہ گندے، میری گاڑی نہیں دینی"

بلال کی شان میں قصیدہ پڑھ کر وہ اب ماں کو سمجھا رہا تھا۔

"ایسے نہیں بولتے وہ، انکل ہیں"

 نہیں گاڑی نہیں دینی"وہ زور دے کر بولا

" ہاں ٹھیک ہے، لیکن انکو انکل بولنا ہے،،، کیا¿ انکل"

" تو ابو کہاں ہیں"

کچھ دیر بعد اسے ابو کا خیال آ گیا تھا

"وہ اپنے گھر ہیں، ہم صبح جائیں گے گھر ٹھیک ہے نا¿"

" چلو اب آرام سے سو جانا ٹھیک ہے تنگ نہیں کرے گا میرا بے بی اور لڑنا بھی نہیں ہے ٹھیک ہے،،"

وہ سکھا رہی تھی مگر اسکا دھیان نہیں تھا

" خدا کے لیے اب بدتمیزی نہ کرنا آرام سے بات کرنا"

منیحہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فراس کے آگے ہاتھ جوڑ دے۔

" مجھے اٹھا لو"

وہ ننھا بچہ بن رہا تھا ۔

" نہیں آپ بڑے ہیں چل کر جائیں "

واش روم سے ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں وہ دونوں نجانے کیا باتیں کر رہے تھے۔

جلال کے کان وہیں لگے تھے مگر سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا ۔

"یہ کیا کر رہے ہیں ¿"

اس نے کچھ بے صبری سے سوچا ۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں باہر نکلے تھے۔

منیحہ بہت بدل گئی تھی

اکیس بائیس سال کی کم عمر کمزور اور حساس سی لڑکی کی جگہ اب ایک پر اعتماد، خوبصورت اور دلنشین سی میچیور خاتون تھی۔

وہ پہلے سے شاید زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی یا یہ جلال کا وہم تھا۔

اسکے چہرے پر ایک متانت تھی۔جسے ہضم کرنا جلال کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔

"چلیں آپ سو جائیں،،"

اس نے اسے بستر کی طرف روانہ کیا ۔

وہ کچھ جھجھک کر بستر پر چڑھ بھی گیا تھا۔

جلال نے اسے دیکھا مسکرانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوا 

وہ عجیب غائب دماغ سا ہو رہا تھا 

فراس کچھ جھجک کر اسے اوپر چڑھا تھا البتہ وہ اسے مسلسل بڑے اعتماد سے دیکھ رہا تھا 

جلال صرف خوش آمدیدی انداز میں مسکرا سکا۔

منیحہ نماز کے لیے وضو کرنے کی نیت سے مڑ گئی

"ماما" یکدم وہ چیخا تھا،، انداز میں خوف کی بجائے ایک ڈرامائی عنصر نمایاں تھا

"کیا ہوا"

وہ تیزی سے پلٹی وہ بازو پھیلائے اسے دیکھ رہا تھا

"فراس کیا ہوا ہے"

اسے اسکی طرف پلٹنا ہی پڑا 

کمرے میں موجود تینوں نفوس شدید نروسنیس کا شکار تھے۔

جو وہ کرنا چاہتے تھے وہ کر نہیں پا رہے تھے اور جو غیر دانستہ کر رہے تھے وہ کرنا نہیں چاہتے تھے 

"ماما "

اس نے منیحہ کے پاس پہنچنے پر سکون کا سانس لیا

"سو جاو" منیحہ کو بستر کے کونے پہ ٹک کر اسے لٹانا پڑا

وہ آرام سے دراز ہو گیا تھا

"کیا ہے سو جاو نا،، ڈرامے کیوں کر رہے ہو،، میں نماز پڑھ کر آتی ہوں آپ ادھر لیٹ جاو"

وہ سرگوشی میں اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی

" بابا"

یعنی اس ڈرامہ بازی کی وجہ اسکے بابا تھے۔

" ہاں نا،بابا ہیں، سو جاو اب"

"میں نماز پڑھ کر آتی ہوں،، بابا کچھ نہیں کہیں تم ادھر لیٹے رہو"

جلال چاہ کر بھی الفاظ نہ سمجھ پا رہا تھا 

(پتہ نہیں کیا سرگوشیاں کر رہے ہیں)

اسے شدید الجھن ہوئی

تھوڑی دیر کے مذاکرات کے بعد منیحہ اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی

پھر جب وہ وضو کر کے جائے نماز ڈھونڈ کر لائی اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوئی تب تک وہ دونوں بستر کے کونوں پہ دراز بس ایک دوسرے کو شرمیلی مسکان سجائے دیکھتے رہے

اس نے ٹراوزر کا پائنچہ گھٹنوں تک اوپر کر رکھا تھا اور اب تکیے پر سر رکھے گردن موڑ کر جلال کو دیکھ رہا تھا ۔

جلال چاہ کر بھی اپنی توجہ نہ ہٹا پا رہا تھا 

اور کچھ دیر بعد وہ اس تجزیے پہلر پہنچا کہ کہ چھوٹا سا تین سالہ بچا اول درجے کا اٹینشن  سیکر تھا۔

اور دوسری بات یہ کہ وہ خاصہ پر اعتماد بچہ تھا جو جان بوجھ کر اسے یوں دیکھ رہا تھا کہ کوئی بھی ہوتا اسی کی جانب متوجہ ہو جاتا

"تم کیا کرتے ہو"

جلال کے منھ سے پھسلا پہلی ملاقات میں کسی انسان سے اسکا نام پتہ اور کام ہی پوچھا جاتا ہے وہ بج اس تین سالہ بچے سے یہی پوچھ رہا تھا 

"تم نہیں بولتے"

فراس نے اسے ٹوکا۔

جلال ایک پل کو حیران ہوا پھر اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔

"سوری" کچھ دیر بعد اسے خیال آیا کہ اسے اپنی گستاخی کی معافی بھی مانگنی چاہیے

جواباََ وہ ننھا سا بچہ  بڑی کشادہ دلی سے مسکرایا تھا

"آپ نے دودھ پی لیا ہے¿"

کچھ دیر بعد اسے ایک اور سوال مل ہی گیا البتہ اس نے آپ جناب کا خیال ضرور رکھا تھا 

"میں دودھ پیتا ہوں" وہ مہان انداز میں بولا جیسے بڑا عظیم کارنامہ سر انجام دیتا ہو 

"او اچھا، دیٹس گڈ،،" 

جلال ستائش کرنے کے علاوہ کیا کہہ سکتا تھا 

کوئی پتہ نہیں تھا وہ کوئی اور غلطی نکال لیتا اسی لیے جلال محتاط سا ہو گیا

" دودھ نہیں پیتے ہیں" 

وہ شاید پوچھ رہا تھا 

(یہ ضرورت سے زیادہ جسچرز نہیں دیتا¿) 

جلال نے خود سے سوال کیا.. وہ بہت منھ گھما گھما کر بات کرتا تھا

"ہاں،. نہیں ،،. نہیں میں دودھ نہیں پیتا" 

پہلی بار جلال کو اپنی اس عادت پر مجرمانہ سی شرمندگی محسوس ہو رہی تھی

" دودھ پی لو"

کچھ بے قاعدہ سے جملے میں غالباً وہ اسے نصیحت کر رہا تھا 

"ہاں. ،ہاں پی لوں گا،، میں پی لونگا" 

جلال کچھ ہونق سا بنا تھا،،

 (اپنے سائز سے بڑی باتیں کرتا ہے یہ) 

یہ تیسرا خیال تھا۔

"سو جاو" 

کچھ دیر بعد اس نے جلال کو تاکید کی۔

جیسے خود تو وہ سو ہی گیا تھا۔

 دوسروں کو آپ کہنے کی تلقین کرنے والا خود سو جاو پہ آ رہا تھا۔کیا دوہرے معیار تھے اس بچے کے۔

جلال کو اعتراض ہوا

"میں سو جاوں گا تم.. میرا مطلب آپ سوجائئیں" 

جلال نے اپنا جملہ درست ادا کر کے منیحہ کی جانب دیکھا جو اب دعا مانگ رہی تھی 

"ماما آ جاو نا" اس نے جلال کو ماں کی طرف متوجہ دیکھ کر اسے ماں یاد آ گئی تھی منیحہ نے سر ہلایا 

"چلیں اب سو جائیں" 

وہ جائے نماز رکھتی اسکے پاس آ گئی 

" بابا دودھ نہیں پیتے "کچھ دیر پہلے اسے بابا کہنے کو تیار نہیں تھا اب شکایت لگا رہا تھا 

"اچھا ٹھیک ہے اب سو جائیں "

منیحہ نے اسے سیدھا کر کے لٹایا

کچھ دیر وہ مختلف باتیں پوچھتا رہا 

انداز سرگوشیانہ تھا منیحہ بھی جواب دیتی رہی 

جلال الفاظ تلاشتا رہا 

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بات کرے کس سے شروع کرے 

آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اسکے پاس کرنیں کو باتیں ہی نا ہوں 

یا الفاظ کم پڑ جائیں 

دوسری جانب منیحہ اس سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی. پرانے قصے گلے شکوے، بہت سے سوالات اور نہیں تو اسکے ساتھ ہوئے اس ہولناک حادثے کی بابت پوچھا چاہتی تھی مگر نا دانستہ طور پر اسکی امید تھی کہ بات جلال شروع کرے 

بظاہر وہ فراس کے ساتھ مگن تھی

(شاید اسکو پاپا زبردستی لے کر آئے ہیں) 

اسکی بے توجہی دیکھ کر جلال اسی نتیجے پر پہنچا

اسی کشمکش میں وہ پڑا رہا منیحہ نے اُٹھ کر لائٹ آف کر دی تھی  

تین سال اور چند ماہ بعد وہ اس آدمی کے پاس واپس آ گئی تھی جسکے ساتھ نے اسے کئی دفعہ اذیت سے دو چار کیا تھا 

آج وہ اسی آدمی کے ساتھ ایک ہی بستر پر موجود تھی 

مگر فرق یہ تھا اب وہ پہلے کی طرح ڈر پوک اور جذباتی لڑکی نہیں بلکہ ایک میچیور ماں تھی 

وہ آدمی جو تین سال پہلے اسے چھوڑ گیا تھا 

آج لوٹا تھا تو بیوی کے ساتھ ساتھ ایک بچہ بھی مل گیا تھا ۔

اسکے ذہن میں پھر سے غصہ اترنے لگا 

مگر وہ چپ رہی 

فراس بستر پر بے سدھ ٹانگیں پھیلائے سویا تھا 

جلال تکیوں کے سہارے نیم دراز تھا 

شاید سو گیا تھا منیحہ نے مڑ کر اسکی طرف نہیں دیکھا تھا 

اسے ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔

تھک کر وہ وہیں فراس کے گرد بازو پھیلائے سو گئی 

"حد ہے یار میں بھی نا اگر وہ نہیں بات کرنا چاہتی تو خود ہی کر سکتا تھا" 

اس نے خود کو ملامت کیا مگر منیحہ کا انداز کی کچھ ایسا لیا دیا تھا کہ وہ ہر دفعہ کچھ کہنے سے پہلے سوچ میں پڑ جاتا ۔اسے خود پہ جھنجھلاہٹ بھی ہو رہی تھی 

گردن گھما کر دیکھا وہ دونوں بے سدھ سوئے ہوئے تھے 

" منیحہ! "

اس نے سرگوشی کی۔

" منیحہ! "

اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے سر کے بال چھوئے 

"کتنے سکون سے سو رہی ہے" 

اسے رشک ہوا تھا.. ساتھ ساتھ اسکا اعتماد بھی لوٹا تھا 

کچھ احتیاط سے اسکے چہرے کے خدوخال کو اپنی انگلیوں کے پوروں سے محسوس کیا 

"کیا ہوا" 

وہ ہڑبڑا کر جاگی تھی، جلال نے بجلی کی تیزی سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا

"کک.، کچھ نہیں،، مجھے پانی پینا ہے "

وہ بوکھلا گیا تھا 

منیحہ کے دل کی دھڑکن منتشر تھی وہ ڈر کر جاگی تھی کچھ سکون کا سانس لیا اٹھ کر دوسری طرف جا کر اسے پانی گلاس میں ڈال کر تھمایا 

جسے ا سنے نگاہیں جھکا کر تھاماتھا 

وہ وہیں کھڑی رہی شاید گلاس واپس لینے کے لیے ایک گھونٹ پی کر جلال نے گلاس واپس کر دیا ویسے بھی پانی تو وہ خود بھی لے کر پی سکتا تھا 

"مجھے وہ ادھر سے کشن دے دو" 

صوفے کی طرف اشارہ کیا وہ مڑی تو جلال نے خود کو ٹہاکو دے کر بات کرنے کے لیے تیار کیا

وہ بنا کچھ کہے ایک کشن اسکے قریب رکھ کر واپس فراس کی طرف چلی گئی تھی

"تم ٹھیک سے لیٹ جاو" 

وہ دونوں ایک کونے پر تھے،، آدھے سے زیادہ بستر جلال کے لیے چھوڑا ہوا تھا 

پھر جلال کو اسکے جواب میں کچھ نہ کہنے پر اپنے سوال کے فضول ہونے کا احساس ہوا 

پھر سے وہ بات ڈھونڈنے لگا

"منیحہ" بہت دیر بعد وہ ہمت جمع کرنے کے قابل ہو ہی گیا 

مگر مڑ کر دیکھا وہ سو چکی تھی 

(لعنت ہے تجھ پر بزدل آدمی) 

اس نے خود کو کوسا

ساری رات وہ دونوں سوئے رہے مگر وہ شدید وحشت اور اذیت کا شکار رہا 

پتہ نہیں اب کیا ہونے والا تھا اسکی زندگی میں 

اسکی مایوسی کے برعکس وہ آ تو گئی تھی مگر اب بات پتہ نہیں کیوں نہیں کر رہی تھی ¿¿¿¿¿

وہ اذیت سے دوچار تھا

ساری رات وہ بے چین رہا عجیب سی وحشت نے اسے گھیرے رکھا۔

چہرہ دوسری جانب موڑتا تو دل خراب ہوتا اور انھیں دیکھنے کو جی چاہتا اور اگر دیکھنے لگتا تو پھر سے دل بے چین ہونے لگتا۔

اسے آج احساس ہو رہا تھا۔کہ اس نے کیا کھویا تھا اور کیا پایا تھا۔

منیحہ کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں 

وہ چند پل تک سمجھ نہ پائی کہ وہ کہاں ہے 

بہت دیر بعد اسے سمجھ آئی تھی فراس ٹانگیں پھیلائے آدھے بستر پر پھیلا ہوا تھا، جلال بیٹھے بیٹھے سو رہا تھا۔

اسکی گردن ایک طرف کو لڑھکی ہوئی تھی منیحہ نے گہری سانس لی۔

(اٹھ جاو منیحہ بی بی، یہ تمہاری اماں کا گھر نہیں ہے)

اس نے اٹھ کر فراس کو کمفرٹر سے کور کیا۔

اور وضو کرنے کی نیت سے واش روم کی جانب بڑھ گئی جلال بغیر کمفرٹر کے پڑا تھا۔

مگر اس نے جلال کو نہیں دیکھا تھا 

اب اتنا بھی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں نہ مار رہا تھا کہ وہ بے چین ہوتی رہتی

آرام سے وضو کر کے آئی اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئی 

مگر بمشکل ایک منٹ ہوا تھا اور فراس اٹھ کر اب دھاڑیں مار مار کر رونے لگا تھا۔

جلال ہڑبڑا کر اٹھا اس قیامت صغری کی وجہ جاننے کی کوشش کی، پھر اسکا ذہن فورا اس تبدیلی کو سمجھ گیا

"کیا ہوا ہے فراس"

اس نے ہاتھ بڑھا کر فراس کو تھامنا چاہا اور وہ چپ ہو گیا تھا 

اب منھ بنا کر اسے نیم اندھیرے میں دیکھ رہا تھا 

"کیا ہوا ہے آپکو،، سو جاو"

جلال کو یاد تھا کہ اسے آپ کہنا ہے اسی لیے نہایت ادب سے اسے سلانے کی کوشش کی 

مگر اب وہ اسے بغور دیکھ کر پھر سے رونے لگا تھا ۔

یہ عجیب سی صورتحال تھی

"کیا ہوا ہے فراس،، آرام سے"

سلام پھیر کر وہ بھی آ گئی تھی، یقینا فراس ڈر گیا تھا نئی جگہ کو سمجھنا اسکے لیے مشکل تھا۔

"کیا ہوا ہے فراس"

وہ پیار سے بولتی اسے گود میں اٹھا چکی تھی۔

"میں نے بھی مصلہ پڑھنا ہے"

وہ خفا تھا اسکے سینے سے لگ گیا

"اچھا اچھا ٹھیک ہے پڑھ لینا،، لیکن روئیں نہیں"

وہ اسے گود میں لے کر وہیں جلال کی جانب پشت کر کے بیٹھ گئی تھی

وہ حیران تھا 

"ابھی آپ بیٹھو میں پڑھ لوں پھر آپ پڑھنا" تھوڑی دیر بعد وہ اسے وہیں چھوڑتی اٹھنے لگی تھی

" نہیں "

وہ صاف انکاری تھا 

صبح صادق کے وقت وہ ایک پکا نمازی بنا ہوا ہوتا تھا 

" چلیں پھر آپکو وضو کراوں"

وہ اسے اٹھائے واش روم میں لے گئی

جلال وہیں بیٹھا اب انھیں دیکھ رہا تھا 

وضو کرنے کے بعد اسکی نئی ضد تھی

"میری کیپ لینی ہے"

اب اسے ٹوپی بھی چاہیے تھی 

"وہ تو لائے ہی نہیں وہ بعد میں لے لیں گے، ابھی ایسے ہی پڑھ لو"

"نہیں"

صاف انکار، وہ بحث مباحثے کی گنجائش تو چھوڑتا ہی نہیں تھا، جو اس نے نہیں کرنا تھا وہ نہیں تھا. 

"فراس"

وہ ہار کر رہ گئی 

فراس صبح ہی صبح اسے تھکانا شروع کر دیتا تھا 

"پاپا کے پاس ہو گی کیپ"

جلال نے اسے فراس کو گھورتے دیکھ کر فورا مشورہ دیا، مگر منیحہ نے اسے دیکھا تک نہیں تھا

" چپ کر کے اب پڑھ لیں ورنہ پھر جا کر سو جائیں"

اس نے سخت مگر دھیمے انداز میں اسے گھورا 

اور چند برے برے منھ بنا کر اب وہ اسکے برابر میں آن کھڑا ہوا تھا 

جلال نے دیکھا پائنچوں سے ہلکے ہلکے گیلے ٹراوزر کے ساتھ سیاہ ٹی  شرٹ پہنے وہ بچہ جائے نماز پہ کھڑا تھا

یہ شاید اسکی تربیت تھی

یقینا منیحہ نے اسکی اچھی تربیت کی تھی

ورنہ جلال کو یاد نہیں پڑتا تھا کبھی بچپن میں اس نے یوں صبح سویرے اٹھ کر فجر ادا کی ہو

وہ انھیں دیکھتا رہا 

منیحہ معمول کے مطابق نماز کے بعد کے وظائف میں مشغول تھی اپنے چہرے کی سائیڈ پہ کسی کی گہری نگاہیں اسے محسوس ہو رہی تھیں 

فراس اب کچھ دیر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کے بعد منھ پہ پھیر کر منیحہ کی گود میں لیٹ گیا تھا

وہ روز ایسے ہی کرتا تھا

اب بھی اسکی گود میں لیٹا وہ اسکے چہرے پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا 

ابھی غالباً اسکی بیٹری پوری طرح چارج نہیں تھی

جلال وہیں بیٹھا انھیں دیکھے جا رہا تھا 

جبکہ وہ دونوں شاید اسکے وجود سے بے نیاز تھے۔

اس نے تھک کر آنکھیں موند لیں

"اب سو جائیں آپ"

منیحہ نے اس سوتے جاگتے کو بستر پر لٹایا 

مگر وہ اسکا بازو پکڑے ہوئے تھا 

عجیب ڈرامے تھے اسکے 

منیحہ کے لیے اپنی مسکراہٹ روکنا مشکل ہو گیا تھا وہ مسکرا دی

"میں ادھر ہی ہوں آپ سو جاو"

وہ ہنس دی چند پل وہیں کھڑی رہی پھر جب وہ سو گیا تو کمرے سے باہر نکلی

گھر میں تو اماں کے ہاتھ کا بنا بنایا ناشتہ مل جاتا تھا مگر اب یہاں ایسا ممکن نہیں تھا 

تو وہ کچن میں آ گئی کچن ویران پڑا تھا 

اس نے سب سے پہلے اپنے لیے چائے بنائی تو بلال بھائی بھی اٹھ کر وہیں آ گئے 

"آپ جلدی اٹھ گئیں" 

انھیں حیرت ہوئی پاکستانی عموما اتنی جلدی نہیں اٹھتے تھے 

"جی میں فجر کے وقت تک اٹھ جاتی ہوں" 

وہ سادہ سے انداز میں بولی

"آپکے لیے چائے بنا دوں یا کافی" 

پھر اس نے انھیں آفر کی

"نہیں آپ پئیں میں بنا لیتا ہوں" بلال بھائی ایک طرف سے ہو کر اب خود چولہے کے سامنے کھڑے ہو رہے تھے

"بھائی میں بنا دیتی ہوں،، آپ بتائیے جو بھی کھانا ہے آپکو"

وہ شرمندہ ہو رہی تھی 

اسکے لیے یہ عجیب تھا 

جلال تو پانی بھی خود نہیں پیتا تھا پھر بلال بھی تو اسی کے بھائی تھے 

وہ یہی سمجھی کہ بلال بھائی مروت میں اسے کام نہیں کہہ رہے 

"میں سمپل سا ناشتہ کرتا ہوں اور آپ پریشان نہیں ہوں،، ویسے بھی فارغ ہوں تو ناشتہ تو بنا ہی سکتا ہوں بلکہ اگر آپ پسند کریں تو آپکے لیے بھی بنا دونگا" 

وہ دوستانہ انداز میں بولے 

مگر منیحہ کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا 

اس نے انھیں خود ہی ناشتہ بنا کر دیا اور دس پندرہ منٹ تک وہ سرسری طور پر اسے نمرہ اور اپنے دونوں بچوں کے بارے میں کافی کچھ بتا چکے تھے

وہ جی، اچھا اور ہوں ہاں سے زیادہ نہیں بولی تھی 

پھر اسے کالج جانا تھا۔جب تک انکل اٹھے وہ فراس کو جگا چکی تھی ۔

پھر انھیں کالج کا بتاتی وہ اماں کے گھر واپس آ گئی 

پچھلے چند گھنٹوں میں اسکی زندگی تین سو ساٹھ کے زاویے پر گھوم گئی تھی 

فراس سویا جاگا تھا 

منیحہ نے اسے اماں کے پاس لٹایا اور خود کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگی

پہلی بار اسے احساس ہوا تھا ملازمت کرنا خالہ جی کا گھر نہیں 

فراس کچھ زیادہ لاڈلا بن رہا تھا اسے بہلانے اور تیار ہونے کے چکروں میں اسکی کالج کی وین مس ہو گئی مجبوراً اسے ابا سے لفٹ لینا پڑی

اور کالج جا کر اسے پہلی دفعہ کوآرڈینیٹر سے ڈانٹ پڑی پھر امتحانات کے انچارج نے اسے چند باتیں سنائی 

جلدی جلدی اس نے سوالنامہ تیار کیا جو اسے کل تیار کر کے انھیں بھیجنا تھا 

اور سارا دن وہ بوکھلائی بوکھلائی اپنے کام نمٹاتی رہی

دو بجے جب وہ گھر لوٹی اسکی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی 

آتے ساتھ وہ دھڑام سے بستر پر گری 

فراس بھی اسکے پیچھے ہو گیا تھا

مگر اس وقت اسے چند منٹ سکون کی ضرورت تھی

_________________

"یہ کس وقت کالج آف ہوتے ہیں"

جلال جھنجھلا کر رہ گیا

انتظار کرتے کرتے وہ تھک گیا تھا اور وہ دونوں ابھی تک گھر واپس نہیں آئے تھے 

بلال بھائی ابھی ابھی پاپا کے آفس سے واپس آئے تھے اسکی بے چینی دیکھ کر ہنس دئے

"پتہ نہیں،، ادھر ماں کی طرف رک گئی ہو گی ورنہ تین بج گئے اب تو"

آنٹی کو بھی اتنی دیر ہونے پر ناگواری ہو رہی تھی

"پاپا کب آئیں گے"

جلال کو خوامخواہ میں غصہ آ رہا تھا

"انھیں دیر ہو جائے گی" بلال نے اطلاع دی

"کھانا دوں تمہیں ¿"

ماما نے بلال کے سامنے لا کر رکھا تھا اور اب جلال سے پوچھ رہی تھیں 

" نہیں مجھے بھوک نہیں "وہ شدید بےزاری سے بولا

"اچھا جب کھانا ہو تو بتانا"

وہ بلال کے برابر آ بیٹھیں 

اب وہ دونوں بھی ایک دوسرے سے باتوں میں اتنے مگن ہو گئے تھے کہ کسی تیسرے کی یہاں موجودگی کا انھیں احساس ہی نہ رہا

ماما ہمیشہ سے بلال بھائی کے ساتھ یونہی مگن ہو جاتی تھیں اور اب تو وہ ویسے بھی سالوں بعد آئے تھے تو انکی اتنی محبت جائز بھی تھی 

جلال کو شدید وحشت ہوئی

وہ اپنے کمرے میں چلا گیا میز سے ایک کتاب اٹھائی اور دھیان بٹانے کی کوشش میں اسے پڑھنے لگا

کچھ بہتری آئی تھی مگر یھر بھی وہ ہر چند منٹ بعد دروازے کی جانب دیکھتا اور مایوس ہو کر کتاب پہ نگاہ جما دیتا

اللہ اللہ کر کے وہ دونوں چار بجے کے قریب آئے تھے مگر اتفاق تھا کہ اسی وقت کچھ مہمان بھی آ گئے تھے جلال چاہ کر بھی ان دونوں سے کوئی بات نہ کر سکا

مہمان خاص اسے دیکھنے آئے تھے مجبوراً اسے انکے ساتھ بیٹھنا پڑا 

فراس کچھ دیر بعد لاونج میں آ گیا تھا جبکہ منیحہ نے شاید کچن سنبھال لیا تھاکیونکہ وہ اسے نظر نہ آئی تھی

"ادھر آو" وہ کافی دیر سے اسکے سامنے کچھ فاصلے پر کھڑا مسکرا رہا تھا

جلال کو اسے پکارنا ہی پڑا

"نہیں"

نفی میں گردن ہلاتا وہ انکار کر رہا تھا 

"میری بات تو سنیں نا"

اسکے ہاتھ میں پیلے رنگ کی ایک چھوٹی گاڑی تھی 

"آپکو گاڑیاں پسند ہیں ¿"

وہ اسے دیکھ رہا تھا، مسکرا بھی رہا تھا مگر جواب نہیں دے رہا تھا 

"گاڑیاں اچھی لگتی ہیں آپکو کیا آپ گاڑی لینا چاہتے ہو¿"

جلال اب بے ساختہ ہی اس سے ہم کلام تھا 

"میری بمبل بی ہے"وہ فحریہ اپنی پیلی گاڑی دکھا رہا تھا جلال کو خوشگوار حیرت ہوئی

(تو شوق میرے والے ہیں اسکے)

"ارے واہ تو آپکو بمبل بی پسند ہے"

جلال متاثر ہوا تو اسکے چہرے کی چمک میں اضافہ ہوا تھا 

" ادھر دکھائیں آپکی بمبل بی تو دیکھیں" اس نے ہاتھ بڑھایا اور مقام حیرت تھا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکے پاس آیا اور گاڑی اسکو تھما دی. 

جلال کو اسکی امید نہیں تھی

چند پل وہ حیران سا اسے دیکھتا رہا 

" او واہ یہ بہت پیاری ہے" 

جلال کے تعریف کرنے پر وہ خوش ہوا تھا 

" یہ میری ہے میں اسکو بڑا کر دونگا،، ابھی یہ چھوٹی ہے،، اسکو دودھ پی کر بڑی کر دونگا" 

وہ اب شروع ہو چکا تھا 

اس نے گاڑی جلال کے ہاتھ سے لے لی تھی 

اور اب اسکے فیچرز گنوا رہا تھا 

"گاڑیاں بھی دودھ پیتی ہیں😀 "

یہ جلال کی معلومات میں نہیں تھا 

وہ کچھ گڑبڑایا 

"میں اسکو دودھ دیتا ہوں "

پھر اعتماد بحال کر کے لمبی چھوڑی 

جلال کا قہقہہ بے ساختہ تھا، فراس نے اسے اچنبھے سے گھورا

"اچھا تو یہ بڑی ہو رہی ہے،، امیزنگ" 

وہ سنجیدہ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بولا

تو فراس کی گردن غرور سے اکڑ گئی تھی 

(اففف کیا چیز ہے یہ) 

"اچھا جی،، یہ تو دھاندلی ہے مجھے تو گاڑی نہیں دی آپ نے اور ڈیڈ کو دے دی" بلال نے دیکھا تو احتجاج کیا 

فراس نے مڑ کر اسے دیکھا تھا پھر منھ بنایا 

" یہ میرے بابا ہیں،، ڈیڈ نہیں ہیں" 

بلال کی کم عقلی پہ اسے افسوس ہوا تھا 

"ارے نہیں یہ ڈیڈ ہیں" 

بلال نے اسے چڑایا تو وہ جلال کی جانب مڑا 

" ماما بولتی یہ بابا ہیں "

بلال کو منھ چڑا کر کہتا وہ اب باپ کو دیکھ رہا تھا جو دلچسپی سے اس بات کو سن رہا تھا 

یہ حیرت انگیز تھا،، کیا منیحہ نے اسے قبول کر لیا تھا ¿¿

"نہیں جی یہ تو ڈیڈ ہیں آپکے،، بابا تو نہیں ہیں" 

بلال کو بھی اسے چڑانے میں مزہ آ رہا تھا، کم از کم وہ اب بات تو کر رہا تھا 

"آپکا نام بابا ہے نا" 

اس نے بلال سے مزید بحث کرنے کی بجائے جلال سے رجوع کیا 

وہ یکدم حیران ہوا 

پھر ایک حجل سی مسکراہٹ اسکے لبوں پہ دوڑ گئی 

" ہاں،، ہاں ،میرا نام بابا ہے"

وہ اس لمحے بلکل گھبرایا ہوا سا لگ رہا تھا 

یہ بچہ بہت بڑی چیز تھا جو اب اس جواب کو سن کر پھر سے بلال بھائی کی جانب فاتحانہ دیکھ رہا تھا 

تھوڑی دیر اس طرح مزید بات چیت کرنے کے بعد وہ اس وحشت سے نکل چکا تھا جو کل سے اسے ہو رہی تھی 

اب وہ حیرت زدہ تھا 

(اوہ مائی گاڈ،، یہ میرا بچہ ہے،، یہ میرا بچہ کیسے ہو سکتا ہے،، کیا میں یہ سب ڈیزرو کرتا تھا ¿) 

اسکا ذہن اس خوشگوار ترین حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا 

کچھ تھا جو اس بچے میں بہت،. بہت زیادہ خاص تھا 

اس میں بہت کشش تھی،، ایک عجیب سی چمک تھی اسکی آنکھوں میں 

بچے سارے ہی پیارے ہوتے ہیں مگر اسے کبھی ان احساسات نے نہ چھوا تھا جو اب اسے حیرت  زدہ کر رہے تھے 

(یہ میرا بیٹا ہے¿) 

یہ سوال اسے عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا 

بلال اسے چڑا رہے تھے جبکہ وہ اب انھیں نو لفٹ کا سائن دے کر اپنی گاڑیوں کے ساتھ لگا ہوا تھا 

کمرے میں جاتے جاتے بہت رات ہو گئی تھی کچن سمیٹ کر جس وقت وہ کمرے میں آئی فراس اسکے پیچھے پیچھے تھا 

اسکا روز مرہ کا رویہ کافی بدل چکا تھا نجانے کیوں منیحہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ یہاں آ کر خوش ہے 

آنٹی سے اسکی اب بھی کچھ خاص نہیں بن رہی تھی 

انکل بہت زیادہ خوش تھے وہ جب سے گھر آئے تھے مسلسل فراس کے ساتھ لگے ہوئے تھے بلال بھائی اور آنٹی مہمانوں کے ساتھ بیٹھے رہے پھر خاندان بھر کے قصوں میں مگن ہو گئے 

جلال کوئی کتاب لے کر بیٹھا ہوا تھا 

کھانے وانے کے بعد چائے شکر آنٹی نے خود بنائی تھی 

منیحہ کی کمر البتہ اس ایک ہی دن میں تحتہ ہو گئی تھی اچانک سے کھانا پکانا، مہمان، جاب، فراس اور جاب کا ڈھیر سارا کام اسکے سر پر اکٹھا ہو کر گرا تھا 

اور اسکی مت خراب ہو چکی تھی 

"ماما" 

اب فراس صاحب کو ماں فارغ نظر آئی تو پیار بھی بہت آ رہا تھا 

"جی آ جاو" وہ اسے لیے کمرے میں داخل ہوئی

کچھ دیر وہ اب آرام کرنا چاہتی تھی 

بستر پر دراز ہو گئی 

"ماما یہ دیکھو" وہ کوئی نئی گاڑی دکھا رہا تھا 

"اچھی ہے" منیحہ نے غائب دماغی سے کہا

"ماما" 

وہ سخت لہجے میں دھاڑا تھا منیحہ نے مڑ کر دیکھا تو اسے تسلی ہوئی 

"یہ پاپا نے دی" 

اب پھر سے وہ مطمئن سا اسے گاڑیاں دکھا رہا تھا 

"اچھا دیکھ لی ہے میں نے" 

وہ شرارت سے خفا منھ بنا کر بولی 

فراس کو ذرا سی توجہ ملی تو وہ کھل اٹھا تھا 

"ماما گھر چلیں" 

اب اسے واپس گھر چلنے کا خیال آ رہا تھا 

"کونسے گھر، ،اب یہیں رہنا ہے"وہ ٹھنڈی سانس لے کر فراس سے زیادہ خود کو باور کرا رہی تھی

"نہیں سیمعووون کے پاس جانا ہے"

وہ لاڈ سے بولا

"اللہ خیر آج سیمون کی اتنی قدر کہاں سے ہو گئی آپکو" 

عموما اسکی سیمون یا کسی کے ساتھ بھی زیادہ نہیں بنتی تھی 

سوائے ماں کے۔

" سیمعووون پاس جانا ہے"

وہ وو کو لمبا کھینچ کر بولا 

"ابھی تو ماما بہت تھک گئی ہیں،، اتنا کام کیا ہے،، پیپرز بھی چیک کرنے ہیں" 

منیحہ نے اپنی مجبوری اسے سمجھانا چاہی مگر وہاں کوئی سمجھنا چاہتا تو سنتا نا

"نہیں ماما" 

وہ اب بستر سے اتر کر نیچے کھڑا تھا مطلب وہ تیار تھا 

" فراس میرا بے بی ایسے نہیں کرتے ابھی سہ پہر میں تو آئے ہیں "

" نہیں "وہ ناراضی سے چیخا 

" اوکے میں آپ سے بات نہیں کر رہی" 

وہ بھی خفا ہو گئی اب وہ اسے پھٹنے سے قبل والے انداز میں منھ بسورتے ہوئے دیکھ رہا تھا اگر کوئی اورہوتا تو وہ لڑنا شروع کر چکا ہوتا یہ منیحہ تھی اسی لیے وہ صرف منھ بسورتا دیکھ رہا تھا 

منیحہ نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا مگر وہ نہیں آیا 

" ٹھیک ہے ،، تو میں بھی ایک لڑکے سے بات نہیں کر رہی میں بھی ناراض ہوں،، میری بات نہیں مانے گا جو تو میں ناراض ہو جاوں گی" 

اس نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا جو خفا سا اسے گھور رہا تھا 

"میں ناراض ہوں ایک لڑکے سے اب اپنے ساتھ نماز بھی نہیں پڑھاوں گی" 

وہ اسے سنا رہی تھی یا دھمکا رہی تھی مگر وہ نہیں دب رہا تھا 

تبھی وہ جو بیڈ پر پھیل کر گری ہوئی تھی ہڑبڑا کر اٹھی 

جلال کمرے میں داخل ہوا تھا منیحہ نے سنبھل کر رخ موڑ لیا 

"کیا ہوا" جلال کو فورا ہی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا تھا 

منیحہ نے کوئی جواب نہیں دیا 

اسے یہ بے رخی شدت سے محسوس ہوئی تھی

" فراس" 

وہ ڈمی بنا اکڑ کر کھڑا تھا 

"کیا ہوا آپکو ¿" 

جلال نے وہیل چئر اسکے قریب جا کر روکی 

وہ ناک منھ پھلائے گہرے سانس لے رہا تھامنیحہ وضو کرنے چلی گئی تھی 

"فراس" 

اسکے لہجے میں بہت نرمی اور محبت تھی، نجانے اتنی محبت کہاں سے آ گئی تھی

"کیا ہوا" 

جلال نے اسکا بازو چھوا 

"آپ" وہ ناراضی سے غصیلے انداز میں بولا

"کیا¿" 

(میں کیسے ہو گیا¿) 

مگر اب وہ کچھ لمحے منھ بسورنے کے بعد دھاڑیں مار مار کر رونے لگا تھا 

"ارے ارے کیا ہوا،، فراس کیا ہوا ہے" جلال بوکھلا گیا تھا 

"کیا ہوا ¿" 

پاپا بھی باہر سے گزرتے ہوئے آ گئے تھے

"پتہ نہیں رونے لگ گیا ہے،،" 

(کہیں میرا وجہ سے تو نہیں رونے لگا) 

جلال کو پریشانی نے گھیرا 

"کیا ہوا" منیحہ بھی باہر آ چکی تھی 

وہ مسلسل رو رہا تھا 

جلال کا چہرہ ہونق پن لیے ہوئے تھا 

منیحہ نے اسے یوں دیکھا کہ جلال کو لگا وہ اس پر شک کر رہی ہے

"میں نے کچھ نہیں کہا،،، یہ ایک دم سے رونے لگ گیا" 

وہ لاشعوری طور  پر وضاحت دینے لگا

پاپا اسے اٹھا چکے تھے اور اب بہلا رہے تھے کبھی کبھی وہ بہت چھوٹے بچوں کے جیسی حرکتیں کرتا تھا 

"اوکے اب چپ کر جائیں آپ" چند لمحوں بعد منیحہ نے اسے اٹھایا تو وہ جو بے انتہا آنسو بہانے میں جتا ہوا تھا فورا اسکی گود میں جا کر چپ ہو گیا 

"ہوا کیا ہے اسے" 

انکل نے سکون کا  سانس لیا 

"کہہ رہا ہے ادھر نہیں رہنا" 

منیحہ نے قدرے توقف کے بعد کہا 

جلال جو شرمندگی محسوس کر رہا تھا 

چونک گیا 

انکل کو بھی یہی فکر تھی کہ وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا 

"لیکن کیوں فراس تو میرا بیٹا ہے،، اس نے تو میرے ساتھ رہنا تھا نا" 

"نہیں میں ماما پاس رہنا ہے"وہ فورا بولا تھا مبادا انکل اسے لے ہی جاتے 

"تو پھر رو کیوں رہے ہو،، ماما تو آپکے پاس ہیں نا" 

انھیں فکر ہونے لگی تو بہلانے کو بولے 

"یہ دیکھو اور تم نے اپنی چیزیں تو بابا کو دکھائی ہی نہیں" 

وہ منیحہ کے سینے میں سر چھپائے منھ بنا رہا تھا 

" اب نہیں آئے گا"انکل کافی دیر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر اس نے تو جیسے قسم کھا لی تھی کہ نگاہ تک نہیں ڈالے گا  منیحہ کو کہنا ہی پڑا 

" اچھا چلو اب دیکھو کیا کرتا ہے رات کو تنگ نہ کرے کہیں "

وہ کچھ دیر وہیں کھڑے رہے پھر چند باتیں کر کے واپس ہو لیے 

" چلو اب آپ بیٹھو میں نماز پڑھ  لوں" منیحہ نے اسے بستر پر اتارنا چاہا اس نے سر اٹھا کر دیکھا جلال ابھی تک وہیل چئر پر تھا اور نا چاہتے ہوئے بھی انھیں ہی دیکھ رہا تھا 

جب سے وہ لوگ سامنے آئے تھے سوائے انھیں دیکھنے کے وہ کچھ کر بھی نہیں رہا تھا 

"نہیں آپ بیٹھو"

وہ تیار نہیں تھا،، ویسے بھی صبح سے منیحہ نے اسے اٹھایا نہیں تھا تو اب یقینا وہ اتنی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں تھا 

"میرے پاس آ جاو آپ" جلال نے آفر کی تو فراس نے اسے دیکھا تھا اور پھر سے اسکے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ آن سجی تھی 

"میں ماما پاس سوتا ہوں "

چند پل جلال کو بغور دیکھتے رہنے کے بعد اس نے منیحہ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا 

" ماما آپ بھی سو جاو"

وہ بستر کی طرف اشارہ کر رہا تھا 

منیحہ شدید خجل ہوئی اسے گھور بھی نہیں سکتی تھی 

" آپ سو جائیں میں نماز پڑھ لوں "

وہ اپنی ساری تھکن اور رہ جانے والے کام فراموش کر بیٹھی تھی

"ادھر میرے پاس آجاو" 

جلال نے اسے اپنی جانب بلایا 

مگر وہ نئی نویلی دلہن کی ماند جھجھک رہا تھا 

"ماما،، میں آپکے پاس سونا ہے" پھر سرگوشی میں ماں کو دیکھ کر کہا 

"ابھی میرے پاس سو جاوُ"

جلال نے آفر کی، گو کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اور جلال زبردستی گھسنے کی کوششوں میں تھا

"نہیں میں ماما پاس سوتا ہوں" 

ابکی بار اونچی آواز میں اسے جواب دیا تھا 

" تو میرے پاس کون سوئے گا" 

جلال نے پھر سے کہا ساتھ کن انکھیوں سے منیحہ کو دیکھا۔

(ہوں اب یاد آ گئی،، دیکھو ذرا کتنے اعتماد سے باتیں کر رہا ہے،، اسے خود پہ شرم نہیں آ رہی کیا) 

منیحہ نے دل میں سوچا مگر بظاہر لا تعلق رہی 

" ماما انکے پاس کون سوئے گا¿" 

فراس کو اب اسکی فکر ہونے لگی تھی 

منیحہ کو شدید نروسنیس نے گھیرا 

(حد ہے بھلا مجھے گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے فراس تمہیں) 

مگر اسکے برعکس جب وہ بولی تو اسکا لہجہ خاصہ سپاٹ تھا 

"فراس اب آپ سو جائیں" 

جلال مزید کچھ نہ کہہ سکا،، اور وہ ماں کے حکم کا پابند سو بھی گیا تھا

" سنو"

وہ اسے سلا رہی تھی کمرے میں خاموشی تھی 

فراس نے آنکھیں موند لی تھیں اور منیحہ اب اٹھنے کے پر تول رہی تھی جب  ہمت جمع کر کے بول ہی پڑا 

منیحہ کے دل نے ایک دھڑکن چھوڑ دی تھی

بے ساختہ نگاہ اسکے چہرے کی جانب اٹھی 

جو اسے ہی دیکھ رہا تھا 

اسکا محرم تھا مگر پھر بھی بہت فاصلہ آ گیا تھا 

دلوں کے فاصلے پاٹنا آسان نہیں ہوتا 

"میں جانتا ہوں تم خوش نہیں ہو"

اس نے سر جھکا لیا تھا،، ایک نگاہ ڈالنے کے بعد اب وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی،، کمرے کی فضا میں یکدم بوجھل سی خاموشی چھا گئی 

"منیحہ" 

بہت توقف کے بعد اسکی سرگوشی سنائی دی تھی

منیحہ کے سینے میں دل کی دھڑکن بے اعتدال ہوئی

"شاید تم مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہتیں "

وہ دل گرفتگی سے  یہی کہہ سکا وہ جواب بھی تو نہ دے رہی تھی

منیحہ کو لگا کہ شاید اب وہ سوری کہے گا

(جو مرضی کہے میں ہر گز معاف نہیں کرونگی،، پہلے میرے تین سال جو میں نے انتظار میں کاٹے،، وہ مجھے لوٹائے پھر سوری کو دیکھوں گی) 

اس نے دلیری اور خفگی سے سوچا

جبکہ جلال اپنی پکار کے جواب میں اسکے سپاٹ چہرے کو دیکھ کر اپنے سوچے گئے الفاظ بھول گیا تھا 

"اگر تمہیں زیادہ زخمت نہ ہو تو، مجھے بیڈ پر لیٹنے میں ہیلپ کر دو" 

وہ اسکی بات سن کر ششدر رہ گئی 

بے یقینی سے اسے دیکھا 

پھر اسکی بے یقینی سختی میں بدل گئی تھی 

"کیوں نہیں" 

وہ اٹھی اسکا ہاتھ تھاما اسکی کمر کو سہارا دے کر اسے بستر پر لیٹنے میں مدد دی 

تین سال اور پانچ ماہ بعد وہ شخص آج اسکے قریب تھی مگر قربت کہیں نہ تھی 

"ایک مسلمان بیوی کے طور پر میرا فرض ہے کہ شوہر کی خدمت گزار رہوں،، اور اسی کو اپنے لیے سعادت سمجھوں"

اسکا لہجہ پتھر جیسا سپاٹ تھا بنا اسکی آنکھوں میں دیکھے، چبا چبا کر ایک ایک لفظ کہتی وہ واپس مڑ گئی

(پکا اسے پاپا زبردستی لے کر آئے ہیں،، شکل سے ہی بے زار لگ رہی ہے،،، بدل گئی ہے،مجھے لگتا تھا یہ نہیں بدلے گی.. خیر اب اس میں اسکا تو کوئی قصور نہیں ، ساری دنیا بدل گئی،، یہ بھی بدل سکتی تھی) 

وہ نماز کی ادائگی کے دوران آنکھوں میں آنے والے بے بسی کے آنسوؤں اور دماغ میں چلنے والے غصے کے جھکڑ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی 

(او تو یہ میری خوش فہمی تھی کہ یہ شخص شاید بدل گیا ہے،، یا یہ کہ اپنی کسی غلطی کی معافی مانگے گا،، ہر گز نہیں منیحہ بی بی وہ مرد ہے مرد کیوں معافی مانگے گا،، معافی تو تم مانگو گی کیونکہ تم عورت ہو،، ہوں،،، تمہاری کیا اہمیت ہے کہ وہ تم سے معافی مانگے،، تم جاو جہنم میں) 

وہ شدید ذہنی خلفشار کا شکار تھی 

منیحہ وہاں سے جا چکی تھی مگر جلال بے بس سا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ منیحہ کو کیسے منائے. روٹھنا منانا تو اسکے بس سے باہر کا کام تھا نہ اسکا کوئی تجربہ تھا 

بس عجیب سی صورتحال تھی۔

فراس بستر پر ٹانگیں پھیلائے سو رہا تھا۔

(او گاڈ،، میں بہت بڑا ڈفر ہوں)

اس نے سر پر ہاتھ مارا پھر شدید جان لیوا جدو جہد کے بعد وہ بستر پر دراز ہو گیا منیحہ نماز پڑھ رہی تھی۔وہ شکل سے ہی بے زار اور غصے میں لگتی تھی ۔

(یقینا یہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی)

پندرہ منٹ مسلسل اسے گھورتے رہنے کے بعد اور سوچ بچار کر کے وہ اس فیصلے پر پہنچا تھا۔

فراس نے کھینچ کر ادے ٹانگ ماری تو اسے کچھ ہوش آیا تھا۔

(تم بہت تیز ہو یار! )

جلال کو اسکی مختلف باتیں یاد آئیں تو وہ اقرار کیے بنا نہ رہ سکا ۔

"منیحہ" 

لاشعوری طور پر اس نے پکارا تھا مگر منیحہ نے صرف اسے گردن موڑ کر دیکھا مگر بولی کچھ نہیں ۔

(اتنا غرور ہے کہ ایک سوری نہیں کہہ سکتا یہ شخص۔بلکہ یقینا یہ سوچ رہا ہو گا کہ میں معافی مانگوں گی اس سے) 

جائے نماز تہہ کرتی وہ بستر پر آ گئی۔

پہلے سوچا صوفے پر سو جائے

(ہوں میں کیوں بے آرام ہوں،، صبح سے تھکی ہوئی ہوں،، رلیکس ہو کر بیڈ پہ ہی سووں گی) 

اسکے اندر کی باغی عورت نے سر اٹھایا

وہ بستر پر آنے سے پہلے بتی بجھا آئی۔جان بوجھ کر فراس کو جلال کی طرف کیا ۔تا کہ وہ رات کو چار چھ دفعہ ٹانگیں مار کر جلال کے ہوش ٹھکانے پر لائے. مگر وہ سوتے میں بھی اسکی طرف مڑ گیا تھا۔

فراس نے اسے پکڑ رکھا تھا۔. وہ جلال کے رویے پر کڑھتی سو گئی۔

اگلے دو تین دن بھی بس بھاگتے دوڑتے گزر گئے، وہ بیچاری صبح صبح فراس کو جگا کر اماں کی طرف چھوڑتی اور کالج چلی جاتی وہاں سے آ کر تین بجے فرا س کو لے کر گھر آتی 

فریش ہو کر رات کا کھانا بنا کر رکھ دیتی شام میں کچھ دیر فراس کو وقت ضرور دینا ہوتا تھا

اسکے بعد انکل گھر آ جاتے تو وہ انکے ساتھ بزی ہو جاتا بلال بھائی دو دن میں واپس جانے والے تھے۔

جلال کی بہن نے کل رات کو آنا تھا۔بلال بھائی انھی کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔

آنٹی گھر کی صفائی کرا رہی تھیں ساتھ ساتھ جلال اور بلال سے ملنے کے آنے والے رشتے داروں کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔

رات کو کچن صاف کر کے وہ کالج کا کام لے کر بیٹھ جاتی تھی۔

ایسے میں اسے سوچنے کا بلکل وقت نہیں ملتا تھا۔

ہاں جلال اسکی غیر موجودگی میں نجانے کیا کرتا تھا۔

مگر اسکے سامنے وہ زیادہ تر کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا۔اسکی مطالعہ کی عادت منیحہ کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی 

پھر وہ فراس کے ساتھ لگا رہتا۔جتنی دیر منیحہ کچن میں گزارتی فراس جلال کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔

اور وہ اس پر بھی حیران تھی ورنہ اسکے گھر میں موجودگی کے وقت وہ زیادہ تر منیحہ کے ساتھ پی رہتا تھا یا اسکے پیچھے پیچھے پھرتا رہتا 

شام میں جلال ٹی وی لگا کر بیٹھا رہتا ۔پھر بلال بھائی اور انکل آتے تو وہ چاروں خوامخواہ کے بحث مباحثے کرتے رہتے ۔

گھر میں فراس کے کھلونوں کا ڈھیر لگا دیا گیا تھا۔

بجائے سدھرنے کے وہ عجیب سا ہوتا جا رہا تھا۔

انکل روز رات کو اسکے لیے کوئی نا کوئی کھلونا، گاڑی اور کھانے پینے کی چیزیں لے کر آتے منیحہ نے منع بھی کیا تھا مگر وہ ہنس کر ٹال دیتے۔

سب سے حیرت انگیز بات تب ہوئی تھی جب پرسوں رات کو وہ نماز پڑھنے لگی تھی،، فراس بلا وجہ رو رہا تھا۔اور جلال اسے چپ کرانے میں لگا تھا۔

"فراس تم میرے ساتھ آ جاو،، ماما بابا کو نماز پڑھنے دو" 

کریم انکل انکے کمرے کا دروازہ بجاتے وہیں آ گئے تھے۔جہاں وہ زور و شور سے رو رہا تھا۔

"میں تو نہیں.. منیحہ نماز پڑھ رہی ہے" 

جلال کا حال برا ہو رہا تھا۔کیونکہ وہ عام بچوں کی طرح بہلنے کی بجائے پورے دھیان اور توجہ سے رو رہا تھا

وہ جب ایک بات پہ اڑ جاتا تو پھر وہ بھولنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ اور بلال سب سے زیادہ اسکی یہ عادت محسوس کرتے تھے 

 "تم کیوں نہیں پڑھ رہے ¿کیا تم نے پھر نماز چھوڑ دی¿" 

پاپا حیران ہوئے تھے۔

جلال گڑبڑا گیا

"نن نہیں،، پڑھ لوں گا" 

"تو ابھی کیوں نہیں پڑھ رہے،، بلکہ ایسا کرو فراس چلو تم بھی وضو کر کے آو ماما بابا کے ساتھ نماز پڑھو" 

انھوں نے جلال کی وہیل چئیر واش روم کی جانب موڑی اور خود فراس کو گود میں اٹھایا

منیحہ جو ابھی ابھی مکمل کر کے اٹھ رہی تھی  حیران رہ گئی۔

(تو یہ نمازی بھی ہو گیا ہے¿) 

وہ صرف سوچ رہی تھی بولی کچھ نہیں ۔

جلال وضو کرنے چلا گیا تھا اور فراس اسکی گود میں آ کر غیر مشروط طور پر رونا بند کر چکا تھا۔

انکل چند منٹ کھڑے رہ کر چکے گئے جلال اب اس میز کے قریب آ کر وہیل چئر پر بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہا تھا۔

مگر اسکے کپڑے خاصے گیلے تھے،، شاید اسے وضو کرنے میں مشکل ہوئی تھی۔

اس کے بعد دے وہ اب منیحہ کے سامنے بھی نمازیں پڑھ رہا تھا ۔

جلال کو منیحہ کے سامنے نماز ادا کرنے میں خاصی جھجھک ہو رہی تھی۔

ادی لیے نہ وہ بس دوپہر کی نماز ہی پڑھ پا رہا تھا۔باقی اوقات میں وہ گھر ہوتی تو جلال نماز نہ پڑھتا۔

ساری زندگی نماز نہ پڑھنے والے کو یہ بات بھی نماز سے روکے رکھتی ہے 

کہ اگر اب مجھے نماز پڑھتا دیکھیں گے تو لوگ کیا سوچیں گے

اسے لوگوں کی پرواہ نہیں تھی مگر *اسکی* تھی جو اب اس سے بات کرنے کی روادار بھی نہیں تھی

جلال خود ترسی کا شکار نہیں تھا مگر پھر بھی کبھی کبھی اسے خیال آتا کہ شاید اسکی معذوری کی وجہ سے منیحہ زیادہ بےزار ہو رہی ہے.. وہ اسے کوئی کام بھی نہ کہتا تھا۔

جو وہ کر دیتی، کر دیتی ورنہ جلال چپ رہتا، پاپا یا بلال بھائی بھی موجود ہی رہتے تھے 

مگر اب منیحہ اسے وضو کرا دیتی تھی۔

صبح جگا بھی دیتی تھی ۔کھانا پانی بھی لا کر دے دیتی۔مگر جو اسے کرنا چاہیے تھا اس طرف وہ نہیں آتی تھی۔جلال اس وقت کا منتظر تھا جب وہ اسے منا پاتا،، جسکا فی الوقت کوئی چانس نظر نہ آتا تھا 

وہ یادوں میں اتنی ڈوبی تھی کہ سامنے ابلتی چائے پتیلے سے باہر آ گئی تب اسے ہوش آیا 

"افففف" اسکا ہاتھ بھی جل گیا تھا۔

پھونکیں مارتی وہ فورا پانی کے نل کے قریب پہنچی 

"حد ہے میں بھی پاگل ہو رہی ہوں" 

اس نے خود کو ملامت کیا۔

"اففف منیحہ نماز کا وقت بھی نکل رہا ہے" 

تھوڑی دیر جلے ہوئے ہاتھ کو تشویش سے دیکھنے کے بعد اسے خیال آیا تو ہاتھ کو بھول کر وہ کمرے کی جانب بھاگی ۔

پتہ نہیں جلال نے نماز پڑھی تھی یا نہیں 

یہی سوچتی وہ کمرے میں داخل ہوئی تو دروازے پہ رکنے پر مجبور ہو گئی

جلال وہیل چئر پر ہی بیٹھا تھا،، فراس دونوں ہاتھ اسکے ہاتھوں میں دییے کہنیاں اسکی رانوں پہ ٹکائے اسکی گود میں جھکا ہوا اسکے چہرے پر نظریں جمائے کچھ بول رہا تھا جبکہ جلال پوری توجہ سے اسے سن رہا تھ

دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے کمال بے تکلفی سے کوئی رازو نیاز کررہے تھے۔منیحہ کو یوں دروازے میں جما دیکھ کر چونکے ۔

"ماما" باپ سے ہاتھ چھڑا کر وہ ماں کا نعرہ لگاتا آگے بڑھا تو منیحہ کو ہوش آیا۔

جلال کے چہرے پر ہشاش بشاش سی مسکراہٹ کی جگہ اب اداس سی مسکان تھی 

"جی" منیحہ نے اسے بغور دیکھا وہ بہت خوش تھا۔بہت مگن سا۔

اسے کچھ بے آرامی سی محسوس ہوئی

"ماما میں آپکو دیکھ رہا تھا"

منھ بنا کر اب وہ سرگزشت اسے سنانے لگا تھا

"اچھا¿. ،میں کچن میں تھی۔" 

وہ سنجیدگی سے بولی 

"ماما بابا کہتے میں بمبل بی لوں گا" 

وہ اب باپ کا کیا گیا کوئی حالیہ وعدہ ماں کو بتا رہا تھا 

"ہمم" منیحہ آگے بڑھ آئی 

"ماما میری بمبل بی بڑی ہے نا"

وہ شاید تصدیق کرانا چاہ رہا تھا۔

منیحہ وضو کرنے کی نیت سے واش روم. جانا چاہتی تھی مگر فراس نے اسکی قمیض کا پلو پکڑ لیا تھا 

کیسے ہو سکتا تھا کہ منیحہ اسکی بات سنے بغیر چلی جاتی

"فراس کی بمبل جی دودھ پیتی ہے،، بڑی ہو رہی ہے" 

جلال نے مصنوعی متاثر لہجے میں کہا۔

منیحہ نے اسے سپاٹ انداز میں بس ایک نظر دیکھا 

پھر فراس کو دیکھا جو اب دفاعی پوزیشن میں ماں کا ہاتھ پکڑ کر کوئی نیا شوشا چھوڑنے کی تیاری میں تھا

"ماما میری بمبل بی بڑی ہے نا" 

وہ ایسے بولا جیسے چاہتا ہو منیحہ اسکی بات کی تصدیق کر دے 

"پتہ نہیں" 

وہ اسے ٹالتی جلال کی جانب بڑھی 

جبکہ فراس کو یہ جواب زیادہ پسند نہیں آیا تھا۔اسکے چہرے پر ناگواری بھرا تاثر تھا

"میں بھی مصلی پڑھوں گا" 

منیحہ جللا کو وضو کرا رہی تھی جب وہ بھی واش روم میں چلا گیا

یقینا توجہ نہ ملنے پر اس نے دوسرا کام شروع کرنے کا سوچا تھا 

"بابا ساتھ پڑھوں گا" وہ اب خوش ہو کر جلال کو دیکھ کر بولا، جیسے بابا کو بیت بڑی سعادت حاصل ہونے والی ہو 

جلال بھی جواب ہنسا تو ہو خوش ہو گیا

(او تو منیحہ بی بی دو چار روز میں فراس *اسکا* اتنا عادی ہو گیا ہے کہ اب اسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں) 

جلال اور فراس کی اتنی شدید بے تکلفی اور فراس کا باپ کے ساتھ خصوصی اپنائیت بھرا انداز برداشت کرنا اسے لیے کبھی بھی آسان نہیں تھا 

آج تو حد ہو گئی تھی اس وقت وہ جانتی نہ تھی کہ وہ تو پہلے روز سے ہی باپ کے ساتھ ایسا ہی ہے۔

اور یہ کہ ابھی آنے والے دنوں میں اسے اس سے زیادہ بے تکلفی بھرے سین دیکھنے کو ملیں گے

(میں یہ کیسے مان لوں،، کہ بس چند ہی دنوں میں یہ بچہ جو کسی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتا،، *اسکے ساتھ اتنا اٹیچ ہو گیا یے) 

منیحہ نے غیر دانستہ طور پر فراس کو اگنور لسٹ پر رکھا اور جلال کو وضو کراتی رہی دماغ مسلسل چل رہا تھا اور اسے بھی ہلکان کر رہا تھا 

نجانے کیوں اسے امید تھی کہ اگر وہ. جلال سے سیدھے منھ بات نہیں کرے گی تو فراس بھی نہیں کرے گا

مگر یہاں تو وہ اپنا ریکارڈ توڑ کر دوستیاں بنا کر بیٹھا ہوا تھا ۔

جلال کی نظر اسکے سرخ، نیلے ہوتے ہاتھ پر پڑی تو وہ چونکا

چونکی تو منیحہ بھی تھی جب جلال نے اپنے ہاتھ دھوتے دھوتے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا 

خیالوں کی دنیا سے نکل کے اس نے جلال کو بے یقین کھا جانے والی نگاہوں سے گھورا 

"کیا ہوا ہے تمہارے ہاتھ پر" مگر وہ تشویش سے اسکا ہاتھ دیکھ رہا تھا۔

منیحہ نے دیکھا اسکا ہاتھ اب  سفیدی بھرا نیلا ہو رہا تھا۔مگر ابھی اسکی مت اتنی خراب تھی کہ اسے بلکل خیال نہیں تھا

جلال اب اسے کچھ غصے سے دیکھ رہا تھا 

"کچھ نہیں ہوا تم اپنا کام کرو" 

یکدم اس نے اپنا ہاتھ چھڑا کر کچھ ناگواری سے کہا 

یہ بھی احساس نہ ہوا کہ اسکا لہجہ خاصا گستاخ تھا اس سے پہلے کہ جلال اس بے رخی پہ احتجاج کرتا فراس نے ٹوکنا  ضروری سمجھا 

"تم نہیں بولتے، آپ بولتے ہیں" 

وہ ماں کو ناصحانہ انداز میں دیکھتے بولا

تو منیحہ بس بمشکل خو دہر ضبط کر سکی ۔

اسی کے اسباق اسی کو پڑھائے جا رہے تھے۔

جلال اس صورتحال میں اب سنجیدہ تھا وہ وضو کر چکا تھا اس نے پاوں دھونے تھے 

مگر اس نے اپنے پیر ہلانے کی کوش نہیں کی تھی

منیحہ چند پل اسکے پاوں ہلانے کا انتظار کرتی رہی پھر نیچے جھکی بنا کچھ کہے اسکے پاوں دھوئے  اور اسے کمرے میں چھوڑ گئی

ابھی تلقین شاہ عرف فراس کو بھی وضو کرانا تھا جو خود ہی بڑا بن کر پوری شرٹ گیلی کر چکا تھا 

وہ واپس آئی تو فراس بے فخریہ اسے دیکھا 

 "یہ کیا کیا ہے ¿" 

وہ سر سے پیر تک گیلا ہو چکا تھا 

"ماما میں منھ دھو لیا،، خود" آخر میں اس نے اس کارنامے کا کریڈٹ لینا ضروری خیال کیا تھا 

"یہ سارے کپڑے گیلے کر کے منھ دھوتے ہیں،، چلیں آئیں نا پہلے کپڑے تبدیل کریں آپکو معلوم ہو " 

"نہیں ماما،، میں بابا ساتھ مصلا پڑھنا ہے" 

وہ اسکی سائیڈ سے نکل کر بھاگ جانا چاہتا تھا مگر منیحہ نے اسکے فرار ہونے کے اسباب کو مسدود کیا اور اسے اٹھا لیا وہ مچل رہا تھا 

منیحہ کو اس پہ جی بھر کر غصہ آیا مگر دبا گئی 

اسے کپڑے تبدیل کرائے،، وضو کرایا اور جائے نماز پر کھڑا کر گئی

پھر خود وضو کر کے آئی تو جلال پڑھ چکا تھا

منیحہ مجھے مارکیٹ تک جانا ہے نمرہ اور بچوں کے لیے کچھ چیزیں لینی ہیں کیا تم چلو گی" 

شام کو بلال بھائی اسکے پاس آئے تو وہ فراس کو گود میں لیے بیٹھی تھی،، یہ ان دونوں کا آپس میں باتیں کرنے کا وقت ہوتا تھا 

 "جی بھائی نگر مجھے شاپنگ کا کوئی تجربہ نہیں میں کبھی اتنا بازار نہیں گئی"

اس نے ادب سے کہا 

" ارے بھئی لڑکیوں کو تو بہت شوق ہوتا ہے "

وہ سامنے بیٹھ گئے تھے 

ساتھ ہی فراس کو اپنی طرف بلایا جو نو لفٹ کا سائن دے رہا تھا

"نہیں بھائی مجھے رش والی جگہوں پہ جانا اچھا نہیں لگتا"

" ادھر آئیں فراس انکل کے پاس آو نا"

انھوں نے اسے اپنی جانب بلایا مگر وہ انکی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا

" جاو فراس، ،انکل کی بات سنو" 

منیحہ نے اسے گود سے اتارا 

تو وہ  شدید مجبوری کی حالت میں بلال کی جانب گیا،، انکے ساتھ ہاتھ ملایا اور پھر فرض پورا کر کے واپس آ گیا 

" بھئی میرے دوست تو بن ہی نہیں رہے آپ" 

بلال بھائی اسکی جانب متوجہ تھے جبکہ وہ بلکل نہیں تھا اسکا دھیان زبردستی منیحہ کی گود میں فٹ ہونے پر تھا 

"بس ایسا ہی ہے،، آپ جلال کو لے جائیں یا آنٹی کو" 

منیحہ نے انھیں آئڈیا دیا 

"ہاں یہ بھی اچھا آئڈیا ہے، فراس آپ چلو گے میرے ساتھ ¿"

وہ پھر سے اسکی جانب متوجہ ہوئے جس نے جواب دینا ضروری خیال نہیں کیا

"فراس انکل کی بات سنو" 

منیحہ کو ایسے ہی اسے ٹوکنا پڑتا تھا 

" میں نہیں جاتا "

اس نے ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔

تو وہ بے بسی سے مسکرا دی 

بلال بھائی کندھے اچکاتے اب انکے کمرے کی جانبجا رہے تھے 

دس منٹ بعد جب وہ جلال کی وہیل چئر دھکیلتے باہر آئے تو فراس کی نظر بھی پڑ گئی تھی

" میرے بابا کو نہیں لے کر جائیں" 

ایک دم اسے خیال آیا جیسے اس کے  باپ کو اغواء کیا جا رہا ہے 

وہ چیخا تھا 

منیحہ کو بھی متوجہ ہونا پڑا 

بلال بھائی کا قہقہہ خاصہ بلند تھا 

"نہیں بھئی تمہارے بابا کو لے جا رہا ہوں میں" 

انھوں نے گاڑی 🚗 کی فرنٹ سیٹ پر جلال کو بٹھایا 

تو فراس اس اچانک افتاد پر پریشان ہو گیا 

"ماما میرے بابا" 

اس نے اڑی رنگت کے ساتھ منیحہ کو ہونے والے مبینہ حادثے کی طرف متوجہ کرنا چاہا

"فراس وہ باہر جا رہے ہیں تھوڑی دیر بعد آ جائیں گے"

وہ خشمگی نظروں سے اسکی بے قراریاں دیکھ کر رہ گئی 

"نہیں میرے بابا ہیں" 

مگر وہ اسکے لیے ہرگز تیار نہیں تھا، بلال بھائی نے وہیل چئیر پیچھے تہہ کر کے رکھی اور اسے دیکھ کر آنکھ دبائی جو شاک اور غصے کی کیفیت میں انھیں ہی دیکھ رہا تھا 

پھر جلال نے کچھ کہا تھا 

"آ جاو،،ادھر آپ" منیحہ نے اسے واپس بلایا مگر وہ انکاری تھا ان سنا کر گیا 

"اچھا چلو آ جاو آپ بھی" 

جلال جے بھی اسے اشارہ کیا تھا وہ بھاگ کر گاڑی تک پہنچا

"ماما میں جاوں" 

پھر اسے بیٹھنے سے پہلے خیال آیا کہ اسکی کوئی ماں بھی تھی جسکی اجازت لینا مناسب تھا 

"جائیں "

وہ حیران سی بیٹھی تھی اتنا ہی کہہ سکی

بلال بھائی اور *وہ،، دونوں ایک جیسے ہی ہیں مگر انکے سوتیلوں جیسا رویہ ہے فراس کا اور *اس میں نجانے کیا ہیرے نظر آ گئے

منیحہ کی نگاہوں کے سامنے جلال کی ٹانگوں پہ کہنیاں جمائے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولتا فراس کا چہرہ گھوم رہا تھا 

______________________

"یہ فراس آپکی ہیلپ کرنے گیا تھا یا اپنی شاپنگ کرنے گیا تھا" 

انکی چیزوں سے زیادہ فراس کی چیزیں خریدی گئی تھیں 

"بس جو جو فراس کو پسند آتا رہا ہم لیتے رہے" 

جواب بلال بھائی نے دیا تھا 

"خوامخواہ میں اتنی چیزیں کیوں دلا دیں،، اب اس نے سکول سٹارٹ کرنا ہے، ان کھلونوں کا کیا کرنا ہے اس نے"

وہ ایک عدد بڑی سی پیلی کار بھی لایا تھا جس پر اب وہ بیٹھا ہوا تھا 

"چلو بھئی واپس آ کر کھیل لیا کرے گا"

کریم انکل نے پوتے کی طرف داری کی

"ارے یہ کیا ہے" 

وہ لوگ خاصی دیر بعد واپس آئے تھے ،، کھانا بھی کھا آئے تھے،، اب شاپنگ دیکھی جا رہی تھی 

اس لیے سب وہیں بیٹھے تھے 

جب ایک چھوٹے چھوٹے  سرخ ہیلز والے سینڈلز کی جوڑی پر منیحہ کے منھ سے بے ساختہ نکلا 

بلال بھائی نے دیکھا 

اور قہقہہ لگایا 

"یہ فراس نے ضد کر کے لیے ہیں" 

انھوں نے ننھی ننھی سرخ ہیلز منیحہ کے ہاتھ سے لے لیں 

جو اب تک بے یقینی سے ان کو دیکھ رہی تھی 

بچیوں والے سینڈلز بھلا فراس نے کیا کرنے تھے 

"یہ کیا کرنے ہیں" 

اس نے فراس کو خوشگوار حیرت سے دیکھا 

جو پوری طرح گاڑی میں مگن تھا 

"یہ دیکھیں یہ پہن کر سکول جائے گا" بلال بھائی نے آگے بڑھ کر ایک. سینڈل اسکے ننھے سے پاوں میں پہنا دیا تھا جو بلکل فٹ تھا 

"سائز بھی پورا لیا ہے" 

آنٹی نے بے ساختہ ستائشی انداز میں کہا

" ہاں تو پہن کر چیک کر کے لائے ہیں،، شاپ پہ سارے ورکرز اکٹھے کر لیے آپکے پوتے نے کہ میں ایڑھی والا سینڈل ہی لوں گا"

بلال وہاں ہونے والے تماشے کو یاد کر کے ہنسے

ایک دو نے تو اسکی تصویریں بھی بنا لی تھیں جب وہ سرخ جوتے پہن کر چیک کر رہے تھے 

"حد ہے ویسے" منیحہ کے چہرے پہ لطف لینے والے تاثرات تھے

" فراس یہ لڑکیوں کے ہیں "وہ کچھ نہیں بولا

" تو یہ پہن لے گا "

بلال نے لقمہ دیا تو وہ ناگواری سے برا منا کر بولا، آواز خاصی بلند تھی 

"یہ میں، ماما کے لیے ہیں" وہ جتا رہا تھا 

اور منیحہ حیرت اور انبساط  بھرا قہقہہ نہ روک  سکی

وہ منھ پر ہاتھ رکھ کر ہنس رہی تھی

جلال نے بغور اسکے چہرے پہ موجود رنگوں کو دیکھا 

کتنے خوبصورت تاثرات تھے،، وہ محویت سے اسے دیکھے جا رہا تھا 

"کیا یہ آپ میرے لیے لائے ہو "

وہ چھوٹے سے سینڈلز اس نے ہوا میں لہرا کر فراس سے پوچھا جو اب فخریہ، معصوم مسکراہٹ سجھائے ہوئے تھا 

"حد ہے،، تو بتاتے نا،، وہاں تو نہیں بتایا آپ نے" 

بلال کو مایوسی ہوئی 

" پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے،، یہ ہمیشہ سرخ جوتے لینے کا کہتا ہے "

منیحہ نے جوتوں کو خوشگوار حیرت سے دیکھا تھوڑی دیر پہلے کی جو کلفت تھی وہ دور ہو گئی 

"اسے سرخ رنگ پسند ہوں گے" 

کریم انکل نے محبت سے فراس کو دیکھا 

" خیر،، اب تو ضائع ہو گئے جوتے، بتاتا تو بڑے سائز کے لیتے "بلال کو مگر افسوس ہوا تھا 

" چلو بھئی،، سنبھال کر رکھ دو،، اگلی دفعہ کام آ جائیں گے،،" 

انکل نے سکون سے تبصرہ کیا۔وہاں موجود حاضرین اگلی دفعہ کا مطلب نہ سمجھ سکے مگر انکی اگلی بات نے سب کو سمجھا دیا تھا

" بھئی میری تو ایک ہی بیٹی تھی جو سالوں سے باہر بیاہ کر چلی گئی ، بلال جمال ویسے ہی بچوں کو یہاں نہیں لاتے،، اب جلال ہی ہے، میں تو دعا کر رہا ہوں اب ہمارے گھر بیٹی ہو "

انکل دراز ہو گئے تھے۔

منیحہ نے کچھ ہونق پن سے منھ اوپر اٹھایا اب یہ بد قسمتی تھی کہ اسکی نظر جلال پر پڑی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا

" ویسے تو میں دعا کرتا تھا کہ پہلی بیٹی ہو اسکی،، مگر پھر فراس کے بعد تو یہ میرا دل، جان سب کچھ ہے "

انھوں نے فراس کو محبت پاش نظروں سے دیکھا 

جلال کو انکے سب بچوں میں سے انکی  زیادہ محبت ملی تھی اور اب فراس تو اس معاملے میں باپ سے بھی زیادہ خوش قسمت واقع ہوا تھا 

منیحہ نے گھبرا کر نگاہیں فراس پر جمائیں بلال بھائی نے ہنسنا فرض خیال کیا

" پھر تو سنبھال کر رکھو،، تب تک" 

پھر یقینا اس بات کو لے کر بہت بحث ہوئی ہو گی مگر منیحہ چائے لانے کا کہتی وہاں سے بھاگ گئانکل بھی کچھ زیادہ ہی کھلے ڈھلے مزاج کے مالک تھے

"پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہا ہو گا وہ" 

اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی،، اتنے عرصے بعد کچھ ایسی بات سننا، اسکے لیے خاصہ عجیب تجربہ تھا

اوپر سے انکل اور بلال بھائی کے سامنے،، 

____-_______

سب اپنے اپنے کمروں میں تھے، مگر منیحہ کو کالج کا کافی کام کرنا تھا،، فراس اپنی نئی گاڑی کے ساتھ بہت مصروف تھا۔

وہ اسے وہیں چھوڑتی احتیاط سے کمرے کا دروازہ بند کرتی باہر لاوئنج میں آ گئی ۔

تب اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس نے کتنا کام کرنا تھا

"حد ہے ایک ہفتے میں ہی میں پاگل ہو گئی ہوں،، کیسے مینج کرونگی" 

اس نے خود سے سوال کیا

"اس سے تو بہتر ہے جاب کی چھوڑ دوں" 

دل عیاشی پہ آمادہ تھا 

پھر شاید وہ یہ عیاشی کرنے کا سوچ بھی لیتی مگر دماغ کو دل کا یہ خیال زیادہ نہ بھایا

"منیحہ بی بی یہ تمہاری جاب ہی ہے جسکی وجہ سے تم بزی رہتی ہو،، کچھ وقت مل جاتا ہے،، ورنہ گھر میں رہ کر تو تم پاگل ہو جاو گی،، کیا تم جلال کو اس حالت میں دیکھ سکو گی سارا سارا دن¿" 

وہ بات جس سے وہ پچھلے ایک ہفتے سے نظریں چرا رہی تھی آخر اسکے دماغ نے اسکے سامنے رکھ ہی دی

" منیحہ بی بی شکر کرو خدا کا، یہ جاب بھی تمہارے لیے ایک نعمت ہے"

خود کو ملامت کر کے وہ کام کی طرف متوجہ ہونے کے جتن کرنے لگی 

کچھ ہی دیر بعد وہ اسکے پیچھے پیچھے پہنچ چکا تھا 

اسکا دن ماں کے بغیر کٹ جاتا تھا شام کو اسے ماں کا خیال آ جاتا تھا 

"ماما" 

ہاتھ پیچھے باندھے وہ اسے ڈھونڈ کر وہیں آ چکا تھا 

اس نے جوش سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اپنے ہاتھ سامنے کیے 

"ارے ارے ارے،، یہ بابا کا ہے،کیوں لے کر آئے ہو "

وہ کمرے سے جلال کا موبائل اٹھا لایا تھا اب فاتحانہ انداز میں منیحہ کو دکھا رہا تھا

"کیوں"

منیحہ کے اس ردعمل پر اس نے نا پسندیدگی سے منھ بنایا

"فراس بابا بہت ڈانٹیں گے، جاو شاباش رکھ کر آو"

کبھی منیحہ کی اتنی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ جلال کا موبائل بنا اجازت کے دیکھتی بھی

وہ اتو چارج پر بھی تب لگاتی تھی جب وہ کہتا تھا. ورنہ کبھی اتنی بھی جرات نہیں کی تھی

"نہیں نا"

وہ اپنی اس کامیابی کو یوں ڈر کر خراب نہ کرنا چاہتا تھا.. ویسے بھی اب تو کوئی اسے موبائل بھی نہیں دیتا تھا

بڑے دنوں بعد اکسے ہاتھ لگا تھا

"فراس رکھ کر آو،، جاو میری جان"

اسے سمجھا کر کہتی وہ پھر سے اپنے کام میں مگن ہو گئی

"ماما بابا کا فون نہیں ہے"

کچھ دیر بعد فراس کی پرجوش سی آواز سنائی دی

وہ تو اسے بھول ہی بیٹھی تھی

"ارے کدھر گیا،، رکھ آئے ہو¿"

"نہیں ہے"

ایک ہاتھ ہوا میں اٹھا کر ماں کو یقین دلایا

" کدھر رکھ کر آئے ہو¿"

منیحہ نے کام کاج چھوڑ کر ادھر ادھر موبائل دیکھا مبادا کہیں وہ جلال کا موبائل ادھر ادھر ہی نہ رکھ دے

"نہیں ہے بابا کا فون، نہیں ہے"

اس نے اپنا بیان قائم رکھا

منیحہ نے پیپرز اٹھا کر آگے پیچھے کیے۔

مگر فون کہیں نہیں تھا اور فراس چمکتی آنکھیں اس پر جمائے کھڑا تھا

"فراس ادھر آو" منیحہ نے دونوں بازوں سے اٹھا کر اسے گود میں اٹھانے کی کوشش کی۔

اور شرٹ کے نیچے چھپایا گیا موبائل دھڑام سے نیچے گر گیا

"او میرے اللہ،، یہ کیا کر دیا"

منیحہ کی آنکھوں میں شدید وحشت تھی،، وہ ششدر سی زمین پر پڑے اس قیمتی موبائل کو دیکھ رہی تھی

"کیا ہوا یے"

بلال بھائی جو کچن میں تھے، بھاگے بھاگے آئے

"او کیا ہوا¿"

وہ بھی پریشان ہو گئے

"جلال کا فون"

منیحہ کا شاک کم ہوا تو اس نے موبائل کو نیچے جھک کر اٹھایا

"او مائی گاڈ،،"

انکے چہرے پہ حیرت تھی اور منھ کھل گیا تھا

پھر انھوں نے دونوں ماں بیٹے کو حیرت زدہ اور خوفزدہ. دیکھا تو قہقہہ لگا کر ہنسے

"چلو جی اچھا ہوا جلال صاحب کا فون اللہ کو پیارا ہو گیا،، بہت دنوں سے میں کہہ رہا تھا مجھے دے دو مگر اس نے نہیں دیا"

وہ جان بوجھ کر خوشگوار لہجے میں بولے

مگر بجائے ریلکس ہونے کے منیحہ کو مزید فکر ہونے لگی

جلال تو بہت ٹچی ہوتا تھا اپنے فون کے بارے میں ۔

"چلیں جی دیکھتے ہیں،، کیا کرتے ہیں اب جلال. صاحب،، پچھلے دنوں فارس کے ہاتھ سے گر گیا تھا تو بڑا اوور ری ایکٹ کیا تھا اس نے،، اب فراس صاحب کے ساتھ کیا ہو گا"

وہ سامنے صوفے پر بیٹھ چکے تھے،، موبائل اب انکے ہاتھ میں تھا

منیحہ کی رنگت سفید پڑنے لگی تھی

اچھا خاصہ قیمتی موبائل تھا،، پہلے منیحہ کے فون کی وفات کا ذمہ دار بھی فراس ہی تھا

اب نجانے کیا کرتا جلال

" افف یہ کیا کر دیا ہے فراس آپ نے¿"

اسے سارا کام بھول چکا تھا

اور جلال بھی باہر سے مسلسل قہقہوں کی آواز سن کر کمرے سے باہر آ گیا تھا

"آئیں آئیں جناب"

بلال بھائی نے خوش آمدید کہا

جبکہ فراس اسے دیکھتے ہی منیحہ کی گود میں گھس گیا تھا

"کیا ہوا ¿"

وہ حیرت سے سوال کر رہا تھا

" نہیں ماما"

فراس نے اپنا چہرہ منیحہ کے سینے میں چھپا لیا تھا

اور دونوں ہاتھوں سے اسے سختی سے پکڑ رکھا تھا

جبکہ منیحہ کی شکل بھی دیکھنے لائق تھی

فراس اسکے ساتھ چپکا ہوا تھا 

"کیا ہوا ہے،، فراس کو کیا ہوا ہے" 

اسکی توجہ ڈرامے کرتے بیٹے پر سب سے پہلے پڑی تھی

" فراس نے کارنامہ سرانجام دیا یے" 

بلال نے شرارت سے ماں کی گود میں منھ چھپائے اس ڈرے ہوئے شریر کو دیکھا 

جو باپ کا سامنا نہ کرنا چاہتا تھا اور چور نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا 

" ماما"

وہ احتجاجی انداز میں گھٹی گھٹی آواز میں بولا

"فون کدھر ہے تمہارا ¿ " 

"میرا فون¿،، پتہ نہیں کیوں "

اسے کچھ عیجب ہونے کا احساس ہوا تو ان دونوں کو سوالیہ دیکھا منیحہ بہت سنجیدہ تھی 

"تمہارا فون اللہ کو پیارا ہو گیا ہے" 

بلال نے بغور جلال کو دیکھا جو کچھ حیران ہوا پھر اسے کچھ سمجھ آئی تو فراس کو دیکھا 

"تو یہ اس لیے چھپا ہوا ہے، فراس ادھر آو"

اسکا انداز غیر سنجیدہ تھا، منیحہ نے بے یقینی سے اسکا ردعمل دیکھا 

"نہیں" 

وہ چور نظروں سے باپ کو دیکھ رہا تھا

" فراس"

منیحہ نے سرگوشیانہ اسے پکارا

"نہیں ماما" 

منیحہ نے اسے سیدھا کر کے گود میں بٹھایا 

اب اس نے چہرہ چھپانے کے لیے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے تھے اور انگلیوں کے درمیان وقفے سے اسے دیکھ رہا تھا 

(اب یہ نہیں چاہتا کہ جلال اسے ڈانٹے)منیحہ نے سمجھ کر ٹھنڈا سانس لیا 

"ادھر تو آو" 

جلال نے کچھ ہنس کر اسے اپنے پاس بلایا

مگر وہ اس ہنسی کو بھی ٹریپ سمجھ رہا تھا

"جلال بابا کو سوری بولیں، سیدھے ہو کر بیٹھیں" 

منیحہ نے کچھ سخت انداز میں اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹائے 

اپنے ڈراموں کے برعکس وہ ڈرا ہوا نہیں لگ رہا تھا 

"چلیں سوری بولیں،، کیوں لے کر آپ انکا فون،، بغیر پوچھے" 

منیحہ کو حجالت ہو رہی تھی، خوامخواہ جلال بیزار ہوتا۔

" میں نہیں کیا ماما"

وہ اب ذمہ داری لینے سے انکاری ہو رہا تھا 

منیحہ کو لگا وہ اس پر ذمہ داری ڈال دے گا اٹھایا تو منیحہ نے ہی تھا 

فراس سے ہر بات کی امید کی جا سکتی تھی

" چلو بھئی اب بولو تم،، دوسروں کے بچوں کو تو تم بڑی باتیں سناتے تھے" 

بلال نے صورتحال کا مزہ لیا 

منیحہ کو یہ خوشگوار جملہ بھی برا لگا تھا اسی لیے اس نے فراس کو سیدھا کیا 

" تو کس نے کیا ہے، فراس سیدھے ہو کر بیٹھو اور سوری بولو" 

وہ اب منھ بنا کر جلال کو دیکھ رہا تھا 

وہ سوری نہیں کہنا چاہتا تھا،، اوپر سے جلال کے ہنسنے نے اسکا اعتماد بحال کر دیا تھا 

مگر مجبوری یہ تھی کہ منیحہ بات کو پکڑ ہی لیتی تھی تو اس بیچارے کو منیحہ کی بات ماننا ہی پڑتی 

" اچھا چھوڑ دو کوئی بات نہیں سکرین اور پینل چینج ہو جائے گا" جلال نے اسے روہانسا ہوتے دیکھ کر اسکی سفارش کی 

"انکو پتہ ہونا چاہیے کہ اپنی غلطیاں انھیں اکسیپٹ کرنی ہیں" 

منیحہ نے جلال کو دیکھے نا جواب دیا تھا 

"اچھا کوئی بات نہیں بچہ ہے ابھی،، بس گر گیا تو گر گیا،، اب کیا جان لو گی اسکی"

اس نے منیحہ کو سمجھانا چاہا مگر وہ تو تپی بیٹھی تھی الٹا جلال پر غصہ آنے لگا 

" کیا مطلب گر گیا تو گر گیا،، جب غلطی کی جاتی ہے تو اسے غلطی ماننا بھی پڑتا ہے" 

اس نے جلال کی آنکھوں میں دیکھ کر ناگواری سے کہا 

" بچہ ہے ابھی،، منیحہ "

جلال اور وہ اب آمنے سامنے ہو چکے تھے 

بلال کو بھی ایک دم صورتحال بدلتی دیکھ کر تشویش ہوئی 

"اچھا اٹس اوکے "

انھوں نے رفع دفعہ کرنا چاہا 

" بھائی اگر آج اسکو غلطیاں ماننے کی عادت نہیں ڈالیں گے تو کل اسے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ جب غلطی ہو تو اسے مان کر سوری کرنا چاہیے" کہہ وہ بلال کو رہی تھی اور جتا جلال کو رہی تھی 

(یہ کیا کہنا چاہتی ہے،، مطلب اب  میں اس سے معافی مانگوں¿)جلال پر ایک دم انکشاف ہوا تھا 

معافی مانگنے کا خیال تو اسے آیا ہی نہیں تھا 

یعینی اب اسے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا پڑنی تھی ۔

فراس اب معصوم بنا، منھ لٹکائے ماں باپ کو لڑتا دیکھ رہا تھا 

"چلیں سوری بولیں، بابا کو"

منیحہ نے اسے سخت لہجے میں کہا وہ شدید مجبوری کی حالت میں کبھی ماں اور کبھی باپ کو دیکھتا وہیں جما ہوا تھا

"جائیں،، موبائل واپس کریں اور سوری بھی بول کر آئیں"

اس نے فراس کو صوفے سے نیچے اتار دیا تھا 

بلال بھائی نے وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت جانی 

"منیحہ بس ٹھیک ہے،، گلٹی فیل کر رہا ہے نا،، تو سوری بولنا ضروری تو نہیں"

جلال نے در حقیقت اسکی رائے لینا چاہی تھی 

اب بھلا یہ ضروری تھا کہ وہ معافی کے الفاظ ادا کرتا تو ہی سوری اکسیپٹ کی جاتی

"جائیں فراس"

بلال بھائی ہنستے ہوئے کچھ حجل ہو کر چلے گئے تھے اب وہ تینوں ہی لاوئنج میں موجود تھے، منیحہ کی ڈھٹائی پہ جلال اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔

(مطلب اب میں بھی معافی ہی مانگوں گا) 

" اچھا ادھر آو یار"

پھر اس نے دلہن کی طرح سہج سہج چلتے فراس کو دوستانہ انداز میں اپنی طرف بلایا 

"موبائل لینا ہے آپ نے¿"

جلال کا بس نہیں چل رہا تھا دنیا کی ہر چیز اسکے سامنے لا کر رکھ دیتا

"ماما دیتی نہیں ، ماما بولتی رکھ دو" 

اس نے تو شکر کیا دنیا میں کوئی اسکے دکھ سننے والا نظر آیا تھا 

"اچھا ماما کیوں نہیں دیتیں" 

"ماما بولتی رکھ دو،، ایسے کرتیں ہیں "

وہ ماتھے پہ بل ڈالے خونخوار سا منھ بنا کر دکھا رہا تھا ۔نا چاہتے ہوئے بھی جلال نے قہقہہ لگایا 

" ماما ایسے دیکھتی ہیں آپکو¿"

جلال نے مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کیا۔اور اس طرز سوری پر منیحہ کا خون کھول رہا تھا ۔فراس نے مزید منھ لٹکا کر باپ کی ہمدردی حاصل کرنا چاہی

" او، ویسے،،آجکل آپکی ماما سب کو ایسے ہی دیکھ رہی ہیں" 

پھر کن انکھیوں سے منیحہ کو دیکھا جو بظاہر لا تعلقی سے بیٹھی تھی 

"فراس سوری بولیں اور ادھر آئیں " 

منیحہ نے اسے گھورا جو اب پھر سے جلال کی گود میں اوندھے منھ لیٹا، اسکی ٹانگوں پہ کہنیاں جمائے لاڈ کر رہا تھا.. جلال نے کچھ ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوئے فراس کو دیکھا 

" سوری بابا،، میں نے نہیں کیا" 

وہ بھی موضوع پر واپس آ گیا تھا 

" تو کس نے کیا ہے¿"

جلال کو اس اقبال جرم پر ہنسی آنا فطری تھا 

"ماما نے کیا ہے" 

منیحہ نے بے یقینی سے اس ننھے فراڈہے کو دیکھا 

"ماما بولتی بابا کو دو" 

وہ اب فون ٹوٹنے کی ذمہ داری منیحہ کے کہے پر ڈال رہا تھا ۔جیسے اس نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا 

"اچھا کوئی بات نہیں،، ہم نیا لے لیں گے" 

وہ پورے دل سے اسے تسلی دے رہا تھا ۔

ایک پل کو اپنے الفاظ پہ حیران بھی ہوا۔

(کیا مجھے واقعی برا نہیں لگا¿) 

اس نے خود سے سوال کیا اور جواب حیران کن تھا

(یار مجھے غصہ کیوں نہیں آ رہا اس ننھے سے بچے پر،، اچھا خاصہ میرا فون توڑ دیا) 

اس نے خود کو جھنجھوڑا ۔

"بابا" 

فراس کی پکار نے اسے زمانہ حال میں واپس کھینچا 

"میں نا بڑا فون لے لوں،،سمعووون کا" 

اسے کوئی نیا آئڈیا آ گیا تھا 

"کونسا نیا،، سیمعون تو نہیں بولتے نا" 

جلال نے ساتھ ہی اسے یا دکرایا،، یاد کیا کرانا تھا دوستانہ سی منت سماجت تھی 

"سمعووون کا فوج بڑا ہے،، تیبلٹ" 

آنکھیں مٹکا کر کہتا وہ باپ کی نصیحت کو نظر انداز کر گیا تھا 

" آپ نے ٹیبلٹ لینا یے ¿" 

منیحہ پٹخ پٹخ کر چیزیں اکٹھی کرتی وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلی گئی تھی 

(دونوں کیسے مجھے نظر انداز کر رہے ہیں) 

اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔جلال تو تھا ہی بے وفا،، فراس سے ایسی امید نہ تھی۔

اسکا دل شدید دکھی ہوا

"فراس تم بتاو،، مطلب آپ بتاو یہ منیحہ کو کیا ہوا ہے" 

اس کی نگاہ  نے دور تلک اسکا پیچھا کیا، اسی لیے وہ ادب آداب کا خیال نہ رکھ سکا

"میری ماما ہیں" 

اس نے باپ کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"منیحہ یار بس کر دو" 

اس نے زیر لب کچھ بے بسی سے کہااب منیحہ کا رویہ اسکی برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔

"آپکی ماما ہیں،، "

اس نے فراس کی طرف توجہ دی جو اب اسکا ڈیڈ فون الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا 

"میری ماما،، میں ماما پاس سوتا ہوں" 

یکدم اسے خیال آیا تھا کہ اسے سونے کے لیے بھی جانا تھا 

"اچھا،، تو آپ میرے پاس سو جاو نا یار،، ماما کے پاس تو روز سوتے ہو نا" 

جلال نے اسے مشورہ دیا 

"کچھ پل وہ سوچ بچار کرنے کے بعد نفی میں سر ہلا رہا تھا 

" ماما پاس سوتا ہوں میں،،" 

وہ فون اسکی گود میں پھینکتا بھاگنے کی تیاری میں تھا مبادا جلال اسے اپنے پاس ہی نہ رکھ لے۔

"او یار مجھے بھی لے جاو،" 

جلال نے اسے آواز دی تھی،، پہلے وہ نہیں رکا پھر وہ یکدم رک گیا تھا۔

شاید اسے احساس ہوا کہ اسے بلانے والا

 کوئی اور نہیں اسکا باپ تھا۔

پھر وہ آیا ایڑھیاں اونچی کر کے اسکی وہیل چئر کے ہینڈل پکڑے دھکیلنے کے جتن کرنے لگا۔

جلال نے محسوس کیا کوئی کام کرتے ہوئے وہ بولتا نہیں تھا، بس پوری توجہ سے کام کرتا.، اب بھی وہ بنا کچھ کہے جان توڑ کوشش کر کے جلال کی وہیل چئر دھکیلنے کی کوشش میں تھا 

جلال کا دل دکھی ہوا 

وہ بہت چھوٹا تھا، اسکے باوجود وہ باپ کا بوجھ بانٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اسے نئے سرے سے اپنی زیادتیوں کا احساس ہوا

حق تو یہ تھا کہ جلال اسے اپنی بانہوں میں اٹھاتا، کھلاتا، اسکو محبت دیتا، مگر وہ اس پر بوجھ بنا ہوا تھا 

"فراس،، آئم سوری" 

جلال نے ہاتھ رکھ کر چئر دروازے پر روک دی تھی، وہ جو خوش تھا کہ اس نے آخر وہیل چئیر دھکیل ہی لی تھی یکدم رکا،، اسکے چہرے کی چمک میں اب سوالیہ پن تھا 

"ادھر آو یار" 

جلال نے اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا، وہ حیرت سے باپ کا بھیگا ہوا چہرہ دیکھ رہا تھا 

"فراس،، آئم سوری یار" 

وہ رونا نہیں چاہتا تھا مگر، آنسو اسکے چہرے پر بہتے جا رہے تھے 

فراس اپنی جگہ ششدر تھا 

"بابا" 

وہ ڈر چکا تھا 

"یار میں تمہارا بھی مجرم ہوں،، میں نے منیحہ کے ساتھ بھی زیادتی کی،، اور تمہارے ساتھ بھی زیادتی کی ہے" 

"میری ماما ہیں" 

وہ اپنی سمجھ کے مطابق اسے تسلی دینے والے انداز میں بولا

جلال اس ننھے سے انداز پر اپنی ہنسی نہ روک سکا۔دھوپ میں بارش جیسا موسم تھا۔فراس کے چہرے پر بھی محتاط سی مسکراہٹ آئی تھی

" میں جانتا ہوں یار تیری ماں ہے وہ،، مگر میں اچھا باپ بھی نہیں بن سکا"

اسے شدید پچھتاوا ہونے لگا

سمجھ نہیں آ رہی تھی مداوا کیسے کرے۔

یہ وہ بچہ تھا جسکی جان لینے کے در پہ تھا وہ 

اور آج وہ بلکل ننھا سا بچہ اسکا بوجھ دھکیل رہا تھا 

(فراس میں کیسے معافی مانگوں، اور کیسے اپنی زیادتی کا مداوا کروں) 

جلال نے اسے دونوں بازو کی طاقت لگا کر بانہوں میں اٹھا لیا تھا 

وہ حیران سا،، سمجھدار بھی تھا 

بغور باپ کے تاثرات دیکھ رکا تھا

"یار آئی ایم رییلی ان لو ود یو،، آئیو فالن ان لو،،" 

وہ اسکا منھ چوم رہا تھا

یہ اسکی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا جب اس نے ایک نئے، عجیب سے جذبے کے تحت اس بچے کو اٹھایا تھا، اور اسکا منھ چومنا سب غیر ارادی تھا 

اور یہ سب توڑ دینے والا تھا

وہ بہت جذباتی ہو گیا تھا 

وہ منیحہ سے محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ منیحہ بھی اسی طرح اس سے محبت کرے 

لیکن منیحہ کی محبت بھی ایسے ہی اچانک اسکے دل میں پیدا ہوئی تھی،، غیر ارادی اور خود سر قسم کی

لیکن اب فراس کو ملنے کے بعد وہ عجیب سے احساسات کا شکار تھا 

(یہ *میرا* بیٹا ہے) 

یہ احساس بہت جان لیوا تھا۔

کتنا غیر مشروط سا پیار تھا اسکا ۔وہ جلال کو غیر محسوس طور پر بھی احساس دلاتا تھا کہ وہ کتنا خاص ہے 

اور منیحہ کے ساتھ، اسکا خصوصی لگاو،، پیار اور طوفانی قسم کی اٹیچمینٹ دیکھ کر تو جلال کو مزید احساس زیاں گھیر لیتا

وہ خود کو الزام دینے لگتا 

"ماما پاس چلیں نا" 

کچھ دیر وہ سانس روکے اسکی بانہوں میں دبا اسکے سینے سے لگا رہا تھا 

ہھر جیسے وہ گھبرا گیا 

جلال نے اسے چھوڑ دیا، تبھی دروازہ کھلا تھا ۔

جلال نے جلدی سے اپنا چہرہ رگڑا۔منیحہ کچھ حیران ہوتی رک گئی 

"ماما مجھے اٹھا لو" 

فراس اسے دیکھ کر اسکی ٹانگیں پکڑ چکا تھا۔

وہ خشمگی نظروں سے اسے گھورتی اٹھا چکی تھی 

(یاد آ گئی ماں کی) 

وہ مڑ گئی تھی، جلال اسے رویا رویا سا لگا تھا مگر اس نے کوئی سوال نہیں کیا۔

"ماما میں نے بلیو شرٹ پہننی ہے" 

نائٹ سوٹ اسے پسند نہیں آتا تھا، اسے روز کوئی نا کوئی نئی شرٹ پہننی ہوتی تھی۔

 "یہی پہن لیں، یہ زیادہ اچھی ہے" 

منیحہ نے اسے پہنانا چاہی مگر وہ بھاگ نکلا

"فراس کیا ہوا ہے" 

منیحہ کو ویسے ہی ڈپریشن کا دورہ پڑنے والا تھا،، اسی لیے اسکو غصہ آنے لگا 

" میں نے وہ والی پہننی ہے" 

"کونسی" 

منیحہ نے اسکے ہاتھ سے کیے گئے اشارے کی جانب دیکھا 

"بابا کی"

وہ کچھ شرما کر بولا

" آپ اپنی پہنیں اور سو جائیں" 

"نہیں" 

وہ باپ کی وہیل چئیر کے قریب چلا گیا تھا۔منیحہ وہیں رک گئی ۔

جلال اب اسے یقینا سپورٹ کرنے والا تھا

"اوکے،، میں بات نہیں کر رہی آپ سے"

اس نے ٹھنڈی سانس بھری،، ہاتھ میں موجود شرٹ وہیں صوفے پر رکھی اور خود بستر پر جا کر دراز ہو گئی 

" ادھر آو میں پہنا دیتا ہوں آپکو" 

جلال نے اپنی خدمات پیش کرنا چاہیں مگر وہ سنجیدگی سے منیحہ کو دیکھ رہا تھا جو اسے بلکل نظر انداز کر رہی تھی۔

"ماما"

" میں نہیں بات کر رہی" 

اس نے فراس کو دیکھے بنا کہا

"میں بلیو شرٹ لینی ہے" 

وہ اب اپنی مجبوری بتا رہا تھا

" فراس ادھر آئیں یہ نئی شرٹ پہن لو" 

جلال نے اسکا منھ بنتا دیکھ کر اسے بہلانا چاہا

"نہیں" مگر اب فراس کو ماں کی فکر ہو رہی تھی

"یار یہ بھی نئی ہے،، بلکہ ایسا کرو وہ دوسرے شاپنگ بیگ سے میری شرٹ لیکر آو ہم دونوں ایک جیسی پہنتے ہیں" 

اس نے وہیل چئیر دھکیل کر اسے اپنے پاس بلایا 

اور منیحہ جو امید کر رہی تھی کہ فراس اسکی ناراضی کے خوف سے ہمیشہ کی طرح بات مان لے گا تو منھ دیکھتی رہ گئی 

وہ دونوں باپ بیٹا ایک جیسی شرٹس پہن چکے تھے اور اب آئینے میں ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے

___-___________-______

فراس بستر پر دراز ایک گاڑی ہاتھ میں پکڑے کھیل رہا تھا۔ٹراوزر گھٹنوں تک اوپر کیا ہوا تھا۔

اسکی آدھی سے زیادہ عادتیں اتفاقی طور پر باپ سے ملتی تھیں 

جلال نماز پڑھ چکا تھا۔منیحہ ابھی دعامانگ رہی تھی،، اسکی دعائیں بہت لمبی ہوتی تھیں 

جلال کو تو سمجھ ہی نہیں آتی تھی دعا مانگے تو کیا مانگے۔سوائے توبہ اور گناہوں کے اقرار کے اسکے یاد کچھ نہیں تھا۔

پھر وہ معافی (منیحہ کی خواہش کے مطابق) مانگنے کے لیے الفاظ جوڑنے لگا۔

"منیحہ" 

ابھی اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرے ہی تھے جب وہ اسے پکار بیٹھا

"کیا ہے" 

اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے بحالت مجبوری اسکی طرف دیکھا 

"منیحہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں تم سے" 

بات شروع بھرپور اعتماد سے کی تھی مگر پھر یکدم رک گیا

"کیا بات" 

وہ الرٹ ہو چکی تھی

"یار مطلب،، اب مجھے نہیں پتہ مجھے کیسے کہنا چاہیے" 

وہ کچھ الجھا ہوا تھا

" کیا کہنا ہے" 

وہ جائے نماز تہہ کر کے اٹھ چکی تھی، اس نے شدید مشکل کے عالم میں منیحہ کو دیکھا 

"مطلب یار مجھے سوری کرنا ہے تھا تم سے" 

آخر اس نے ہمت کر کے کہہ ہی دیا

"کیوں،، سوری کی کیا ضرورت پڑ گئی ¿"

منیحہ نے طنزیہ کہا

" وہ تم کہہ جو رہی تھیں کہ غلطیاں مان کر سوری کرنا ضروری ہے" 

اس نے یوں کہا جیسے منیحہ کے کہے کے علاوہ ذاتی طور پر اسے سوری کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہو

" مطلب تم صرف اس لیے سوری کہنا چاہ رہے ہو کہ میں نے کہا تھا،، جبکہ میں نے تم سے ایسا کچھ نہیں کہا" 

اس بیچاری کا بس نہیں چل رہا تھا اپنا سر پیٹ لے

" ہاں، نہیں یار مطلب میں خود بھی چاہتا تھا کہ تم اب یہ سارا اٹیٹیوڈ ختم کر دو" 

اپنی طرف سے وہ اسے منا رہا تھا،، درحقیقت اسے مزید غصہ دلا رہا تھا

" اوکے،، تو جلال صاحب کو لگتا ہے کہ میں فضول کا اٹیٹیوڈ دکھا رہی ہوں،" 

وہ شاکی ہو رہی تھی،، جلال کا منھ کھل گیا

" ہیں¿. نہیں تو میرا یہ مطلب نہیں تھا"

وہ شدید گڑبڑا چکا تھا۔کتنے اچھے الفاظ سوچے تھے اس نے اور اب پتہ نہیں کیا واہیات گفتگو کر رہا تھا 

"منیحہ یار سمجھنے کی کوشش کرو نہ اب،، مطلب تم ناراض ہو بات بھی نہیں کر رہیں اتنے دنوں سے" 

منیحہ نے اسے صرف گھورنے پر اکتفا کیا

تو اس نے ہاتھ اٹھا کر ہار مانی

"اوکے ٹھیک ہے،، یار میں ٹھیک سے کہتا ہوں" 

اس نے ایک گہرا سانس لیا،، یہ سب بہت مشکل کام تھا

"ٹھیک ہے میں یہ کہنا چاہتا ہوں منیحہ پلیز ساری باتیں بھول جاو،، وہ سب جو بھی ہوا ہے پاسٹ میں وہ سب بھول جاو" 

منیحہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا 

(کتنا آسان لگ رہا ہے اسے بھولنا،، کتنی آسانی سے کہہ دیا اس نے) 

وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کس آسانی سے کہہ رہا تھا

"مطلب میں جانتا ہوں یہ سب آسان نہیں ہے تمہارے لیے"

اسکے چہرے کی بے یقینی جلال کو مزید کنفیوز کر رہی تھی

" وہ سب بہت برا تھا،، اور تم نے بہت قربانی بھی دی ہے. میں یہ جانتا ہوں" 

وہ چاہتا تھا منیحہ بنا کہے اسکی ساری باتیں سمجھ جائے.. یہ اسکی معصوم سی خواہش تھی جو اس وقت پوری ہوتی نظر نہ آ رہی تھی

" لیکن منیحہ تم یہ بھی تو دیکھو کہ میں نے بھی تو بہت سفر کیا ہے" 

وہ تھک چکا تھا۔

" ہاں میں دیکھ سکتی ہوں "

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی طنز سے بولی 

(ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزار کر،، پورے یورپ میں گھوم گھام کر اب یہ اپنی سفرنگز کی داستان سنا رہا ہے.. ہوں) 

اسکا جی چاہا جلال کی کسی بات کا یقین نہ کرے، اسکی کوئی بات نہ سنے۔. مگر وہ صبر سے اسکی سنتی رہی

" منیحہ پتہ نہیں تم یقین کرو گی یا نہیں مگر میں قسم کھاتا ہوں،، میں بھی خوش نہیں تھا،، میں یہ سب بہت مس کرتا تھا،، بس مجھے غصہ آ گیا" 

وہ اب ہار مان رہا تھا،، اسکے چہرے پر بھی بے بسی نظر آ رہی تھی۔

"مجھے لگا کسی کو میری  ضرورت نہیں،، نہ تمہیں، نہ ماما پاپا کو،، بس مجھے سب سے نفرت ہو گئی تھی"

وہ ایک لفظ نہیں بولی بس سپاٹ انداز میں اسے سنتی رہی۔گوکہ یہ سب بہت عجیب تھا

" وہاں بھی بس میں سب بھولنے کی کوشش کرتا رہا، منیحہ ایک وقت تھا میں اپنی زندگی ختم کر لینا چاہتا تھا،، مگر میں وہ بھی نہیں کر پایا"

جو اقرار اس نے خود سے بھی نہیں کیے تھے آج اسکے سامنے کر رہا تھا۔مگر پتہ نہیں وہ یقین کر بھی رہی تھی یا نہیں ۔

کیونکہ اسکا چہرہ بہت سپاٹ تھا

وہ بدل گئی تھی،، جو تاثر جلال کے دل و دماغ میں نقش تھا اسکے مقابلے میں وہ بہت بدل چکی تھی

"جب تم نے میری بات نہیں سنی،، میرے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا، تب میں سب بھول گیا،، مجھے لگا کہ مجھے تم سے کبھی محبت نہیں تھی اور نہ ہی تمہیں مجھ سے محبت تھی" 

آخر میں وہ رکا، اسکا سنجیدہ سا چہرہ دیکھا 

پھر اداسی سے مسکرایا

"مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ تمہیں مجھ سے محبت وحبت ہوئی بھی تھی یا نہیں "

(توبہ استغفار اس شخص کو ابھی بھی میری محبت پر شک ہے) 

منیحہ کا جی چاہا سر پھاڑ دے اس ڈرامے باز کا

" لیکن جب تم نے میرے ساتھ آنے سے انکار کیا تو میں پاگل ہو گیا تھا.،مجھے بہت برا لگا تھا منیحہ،، میں تم سے اس سب کی امید نہیں رکھتا تھا"

(تمہارے اپنے کام تو بڑے شاندار تھے نا،، ہوں،، مجھ سے امید نہیں رکھتا تھا،، کیسے سب میرے سر ڈال رہا ہے) 

وہ چپ رہی اب اسے دیکھ بھی نہیں رہی تھی. سر جھکائے کھڑی تھی

"منیحہ صرف تمہاری وجہ سے.، صرف تمہاری وجہ سے میں وہاں بندھا رہا"

اس الزام پر اس نے تڑپ کر جلال کو دیکھا

"میں نہیں کہتاکہ میں اچھا ہوں یا میں نیک ہوں،، منیحہ میرے پاس اللہ کے علاوہ کوئی گواہی نہیں،،لیکن تم میری زندگی میں آنے والی آخری عورت ہو"

وہ بہت ٹوٹے لہجے میں کہہ رہا تھا

منیحہ نے ان الفاظ کو بے یقینی سے سنا تھا

اسے ان پر اعتماد کیسے ہو سکتا تھا ۔۔۔

"میں چاہ کر بھی کسی کے قریب نہیں جا پایا۔میں جانتا ہوں "

اس نے مجرمانہ انداز میں سر اٹھا کر منیحہ کو دیکھا

" میں جانتا ہوں تم میرا یقین نہیں کرو گی مگر،، منیحہ ایک لڑکی تھی وہاں، وہ دن کے سولہ سولہ گھنٹے میرے ساتھ رہتی تھی،،ہم کئی کئی دن اکٹھے کام کرتے رہے مگر میں اسکے پاس نہیں جا پایا،، میں جب بھی سب بھلانے کی کوشش کرتا تھا،، آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تھا، تمہارا بارش میں جائے نماز پر بھیگتا چہرہ میرے سامنے آ جاتا تھا،میں ڈر جاتا تھا منیحہ ، میں جیسے گیا تھا،، جہاں سے گیا تھا،، وہیں جم گیا،میں کبھی آگے بڑھ ہی نہیں پایا"

وہ خود ترسی سے بولا۔یہ پہلی دفعہ تھا وہ اسے مسلسل دیکھ رہی تھی

تین سال پانچ ماہ بعد اس نے اسے اچھی طرح سے دیکھا تھا

تو جلال کو یاد تھا وہ بارش میں بھیگتے ہوئے نوافل ادا کرتی تھی 

اور اس پل اسکی آنکھوں میں چھپے دکھ کو دیکھنا آسان نہیں تھا

وہ آدمی جسکے پیچھے ایک دنیا گھومتی تھی اسے اس طرح ٹوٹا ہوا دیکھنا آسان نہیں تھا

اور وہ تو بھول ہی بیٹھی تھی

 (خبردار اسکی کسی بات میں نہ آنا) 

اسکے دماغ نے اسکے دل کو ٹوکا تھا 

"منیحہ تمہیں میرا یقین کرنا چاہیے، میں سچ کہہ رہا ہوں" 

(کیا یہ ٹھیک کہہ رہا ہے،، جھوٹ تو نہیں بولتا، ویسے بھی میرے سامنے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے اسے) 

وہ ملتجی انداز میں مخاطب تھا،، اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے پاتی یا کچھ کہتی اسے ایک جھٹکے سے ہوش کی دنیا میں لایا گیا

" ماما"

فراس ننگے پاوں فرش پر اسکا ہاتھ پکڑے کھڑا اسے خفگی سے دیکھ رہا  تھا،وہ چونکی،، اسے تو وہ بھول ہی بیٹھی تھی

"سونا نہیں ہے" 

وہ شاید خفا ہو کر طنزیہ پوچھ رہا تھا 

 "نہیں، ہاں ہاں سونا ہے آپ چلو" 

وہ اسے گود میں لیے بستر پر آ گئی. 

جلال وہیں بیٹھا رہ گیا.. 

(کس وقت اینٹری دی ہے اس نے) 

پہلی دفعہ اسے فراس سے الجھن ہوئی تھی۔

اور وہ لاعلم تھا کہ ابھی اسے مزید بہت کچھ دیکھنے کو ملنے والا تھا

"میں سوتا ہوں تم بیٹھ گئی ہو" 

وہ غالباََ اسکے لیٹ آنے پر خفا تھا

"تم نہیں آپ بولتے ہیں فراس" 

اس نے غائب دماغی میں اسے یاد دہانی کرائی 

"میں سموون کا ٹیبلٹ لوں گا ماما" 

اسکے حواس پر ٹیبلٹ سوار ہو چکا تھا۔

یا شاید اسے جلال نے لارا لگایا تھا،، کیونکہ رات کو وہ دن کی ساری باتیں دہراتا تھا

"نہیں.، ابھی آپ سکول جایا کریں گے پھر بڑے ہو کر لیں گے"

" نہیں"

وہ صاف انکاری تھا ماں کا یہ خیال اسے بلکل اچھا نہ لگا تھا.. جبکہ منیحہ بھی ذہنی طور پر الجھی ہوئی تھی

" کیوں، میں جب کہہ رہی ہوں کہ آپ پہلے سکول جائیں گے پھر لیں گے تو نہیں کہاں سے آگیا" 

منیحہ نے اسے گھورا وہ دونوں سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔

جلال کے سامنے وہ اس سے بڑی آہستہ آواز میں باتیں کرتا تھا 

"ابھی آپ چھوٹے ہیں" 

منیحہ نے اسکا برین واش کرنے کی کوشش کی

مگر وہ بہت ٹیڑھی کھیر تھا فورا منھ پھلا کر بولا

" تو پھر سیمون کیوں لیا ہے"

وہ اسکے احتجاج پر عش عش کر اٹھی

" آپ کو سیمعون کے لینے یا نہ لینے سے کیا مسئلہ ہے،، سیمعون بڑی ہے آپ چھوٹے ہیں" 

"نہیں، میں دودھ پیتا نہیں ہوں¿"

وہ اب اپنی وکالت کر رہا تھا۔ماتھے پہ بل پڑ چکے تھے

"دودھ پیتے ہیں،، ابھی بڑے تو نہیں ہوئے نا"

" نہیں میں بڑا نہیں ہو رہا،، میں دودھ نہیں پیتا" 

وہ اب بڑا نہ ہونے کی وجہ سے دودھ کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دینا چاہ رہا تھا 

" فراس اب بس کر دیں اور سو جائیں "

"منیحہ میری بات سنو"

جلال کو اپنی باتیں سنانی تھیں جبکہ فراس کے پاس بھی ابھی بہت سی باتیں تھیں 

" فراس آپ سو جائیں اور مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی"

دونوں کو ایک ہی جملے میں بھگتا کر وہ کروٹ بدل گئی.. دونوں نے ایک دوسرے کا منھ دیکھا۔

کچھ دیر بعد فراس اسکو دونوں ہاتھوں سے پکڑے سو چکا تھا جبکہ جلال کے لیے نیند حرام ہو چکی تھی. وہ فراس کی طرح اسے زبردستی نہیں پکڑ سکتا تھا

"منیحہ پلیز یار بات تو سنو"

جلال نے ہاتھ بڑھا کر اسکا کندھا ہلایا۔

مگر وہ نہیں ہلی

"منیحہ پلیز، ،فار گاڈ سیک کچھ تو بولو"

وہ لاچاری سے بولا، منیحہ کا چپ رہنا اسکو اذیت دے رہا تھا۔

"کیا چاہتے ہو تم مجھ سے"

وہ پھٹ پڑی تھی 

"جلال فار گاڈ سیک ،رحم کرو مجھ پر،، مت صبر توڑو میرا "

وہ اٹھ بیٹھی تھی 

"تم لوگ سارے ایک ہی فطرت کے ہوتے ہو،، تم لوگوں کو سب چیزیں معمولی لگتی ہیں "

وہ بند جو تین سال سے اس نے خود پر باندھ رکھے تھے آج ٹوٹنے والے تھے

" تم لوگوں کو لگتا ہے تم لوگ کچھ بھی کرو گے،، کیسے بھی کرو گے تو کوئی نقصان نہیں ہو گا"

وہ اذیت کا شکار تھی، نجانے اتنے دنوں سے کیسے چپ تھی

" عورت جو ہے نا وہ پاوں کی جوتی ہے تمہاری "

" ایسے تو نہ کہو"

وہ لاشعوری طور پر اسے ٹوک بیٹھا،، مگر اسے تو کرنٹ لگا تھا

"کیوں نا کہوں میں،، مجھے بتاو میں کیوں نا کہوں،، کیا یہی اوقات نہیں تھی میری تمہاری زندگی میں ¿"

وہ دھاڑی تھی، بس نہ چلتا تھا جلال کا گریبان پکڑ لے

" تم نے تین سال پیچھے مڑ کر دیکھا نہیں مجھے اور بات کرتے ہو محبت کی،، کونسی محبت اور کہاں کی محبت"

وہ استہزائیہ ہنسی 

" محبت کس چڑیا کا نام ہے یہ تو شاید اس معاشرے کا مرد جان بھی نہیں سکتا"

" منیحہ ٹرسٹ می،، میں جھوٹ نہیں بول رہا،، اور تم بھی تو یہی چاہتی تھیں کہ میں چلا جاوں"

وہ ابھی بھی سمجھتا تھا کہ منیحہ اس بنیاد پہ اسے معاف کر دے گی

مگر وہ تو اچھی تھی،، فراس کو ایک طرف کر کے وہ اسکی طرف مڑی

" میں چاہتی تھی،، جلال میں یہ چاہتی تھی کہ تم میری طرف مڑ کر دیکھو بھی نہیں ¿"

اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر وہ سوال کر رہی تھی

" منیحہ، بس غلطی ہو گئی نا مجھ سے اب کیا کروں"

وہ فورا غلطی مان گیا تھا مبادا وہ مزید غصہ نہ ہو جائے مگر نتیجہ الٹ نکلا

"غلطی ¿تم اسے غلطی کہتے ہو،، کیا تمہیں یاد ہے کس حالت میں چھوڑ کر گئے تھے تم مجھے ¿،. کیا تم نے سوچا کہ میں زندہ ہوں یا مر گئی ہوں ¿، جلال کیا تم نے اپنے بچے کے بارے میں سوچا"

وہ تو اسے چلو بھر پانی میں ڈبونے پہ تلی تھی

"یہ جسے آج تم فخر سے اپنا بیٹا کہتے ہو نا،، یہ اسے میں نے اکیلے پالا ہے،، جلال اسے میں نے تکلیفیں اٹھا کر اس دنیا میں بحفاظت لانے کے لیے کوششیں کی تھیں.. میں مری ہوں پل پل.. معاشرے کے طعنے میں نے سنے ہیں،، شوہر ہوتے ہوئے بھی ایک بیوہ کی سی زندگی میں نے گزاری ہے،، اور تم کہتے ہو کہ تم اس لیے چلے گئے کہ میں چاہتی تھی¿¿"

اسکا جا چاہا ایک تھپڑ کھینچ کر مارے اس بے شرم ڈھیٹ انسان کو،، جو اب بھی اسے ہی قصور وار ٹھہرا رہا تھا۔دوسری جانب وہ مطمئن تھا کم از کم جو منیحہ کے دل میں تھا وہ سب جاننے کا موقع تو مل رہا تھا۔

" منیحہ، میں بہت بڑا ڈفر ہوں، بہت بڑا،، میں جانتا ہوں سب میں نے کیا ہے بس مجھے لگا کہ اگر تم. مجھے پسند نہیں کرتیں تو مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے"

آج تو اسکے رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے،، ہر بات قبول کر رہا تھا 

ورنہ منیحہ کو تو لگا کہ معافی کا فرض بھی اسے ہی ادا کرنا ہو گا

مگر اس وقت وہ ہسٹریائی انداز میں چیخنا چاہتی تھی، اپنے اندر دبا غبار نکالنا چاہتی تھی

" جلال. اگر تم. میری خوشی اور میری پسند کے لیے یہ سب کرتے رہے تو تم وہ سب باتیں کیوں بھول گئے جو مجھے پسند تھیں،، جن چیزوں کا جھگڑا تھا انھیں دور کرنے کی بجائے تم خود چلے گئے"

وہ طنز اور صدے کے ملے جلے اثر کے تحت باتیں کرتی جا رہی تھی۔

"منیحہ، پلیز سب باتیں بھول جاو میں وعدہ کرتا ہوں میں سب ٹھیک کر دونگا"

" کیا ٹھیک کرو گے تم،، کیا ٹھیک کر سکتے ہو تم،، کیا تم ان لمحوں کی تکلیف بھلا سکتے ہو جب ہسپتال کے اس ٹھنڈے یخ کمرے میں یہ میری گود میں تھا،، اور تم نہیں تھے،، تم. کہیں نہیں تھے جلال"

وہ رونا نہیں چاہتی تھی مگر آنسو بہہ نکلے تھے،، فراس کے بالوں سے بھرے سر پر ہاتھ رکھتے وہ اپنے دل پہ قابو نہ رکھ پائی تھی

" کیا تم وہ ختم کر سکتے ہو جب اس نے پہلا قدم اٹھایا،، جب اس نے پہلی دفعہ بابا کہا،، جلال میں اکیلی تھی اس سب میں،، تم کہیں بھی نہیں تھے،، کہیں بھی نہیں"

اس سب کا اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا 

"تم ہر اس لمحے میں نہیں تھے جب ہمیں تمہاری ضرورت تھی،، اب تم کہتے ہو تم بدل دو گے،، کیا بدلو گے کیا تم وہ سارے پل مجھے واپس لا کر دے سکتے ہو،، کیا وہ ساری راتیں جو تمہاری وجہ سے اذیت میں گزاریں میں نے،، کیا وہ ساری راتیں تم لا کر دے سکتے ہو¿"

"منیحہ.."

جلال نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہا تھا 

" خبردار،، ہاتھ مت لگاو مجھے،، تمہاری اب ضرورت نہیں مجھے،، اپنی زندگی اپنے مطابق سیٹ کر لی ہے میں نے"

اس نے اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑا لیا تھا جلال ہکا بکا اسکے الفاظ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

" مجھے نہیں پتہ میں یہاں کیوں ہوں مگر مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے،، جلال اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں "وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر زور دے کر بولی

وہاں موجود خوف اسے خوشی دے رہا تھا

جلال ششدر تھا،، اسکی زبان سن ہو چکی تھی۔

منیحہ چہرہ صاف کر کے سو گئی تھی،، یا شاید جاگ رہی تھی مگر جلال وہیں تھا 

وہ نہیں سو پایا تھا

(کیا میں نے بہت دیر کر دی¿")

اس نے خود سے سوال کیا اور جواب تسلی بخش نہیں تھا۔

فزیو ٹھراپسٹ نظر نہیں آ رہا ¿"

پاپا آج آفس نہیں گئے تھے اور صبح سے سو رہے تھے، دوپہر میں جلال کے لیے تھراپسٹ آتا تھا جس سے انکی دو چار دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی تھی

" وہ تو دو دن سے نہیں آ رہا"

بیوی نے معمول کے سے انداز میں انکی معلومات میں اضافہ کیا

"کیوں نہیں آ رہا '؟

انکی آواز میں حیرت نمایاں تھی

" پتہ نہیں جلال کو پتہ ہو گا"

" جلال تمہارا تھراپسٹ کیوں نہیں آیا کل سے¿"

وہ اسکے سر پر پہنچ چکے تھے، فراس بستر پر بیٹھا کھیل رہا تھا۔منیحہ ابھی ابھی آئی تھی،، وہ کالج سے معمول کے مطابق اماں کی طرف گئی تو پتہ چلا فراس گھر جا چکا تھا۔وہ وہاں نہیں رکی اور فورا گھر آ گئی

کچھ دیر اسکے پاس بیٹھنے کے بعد وہ اب چیزیں سمیٹ رہی تھی۔رات کے بعد سے جلال کے ساتھ بات چیت پھر سے بند تھی. تبھی انکل کمرے میں داخل ہوئے 

"نکال دیا ہے میں نے اسے"

وہ بے زار ہو کر بولا مگر انکل کو تو شاک لگا تھا

شاک تو منیحہ کو بھی پہنچا تھا 

"کیوں نکال کیوں دیا" 

"بس نکال دیا تو کال دیا" وہ اب گود میں رکھی کتاب کی طرف متوجہ ہو چکا تھا 

"کیا مطلب نکال دیا،، نیکسٹ منتھ سرجری ہے تمہاری کیا چاہتے ہو تم"

انکے لہجے میں غصہ اور ناگواری تھی 

اچھا خاصہ جوان آدمی انھیں بچوں کی طرح رکھنا ہڑ رہا تھا 

"مجھے کوئی سرجری نہیں کرانی میں ٹھیک ہوں ایسے ہی"

وہ تو گویا ساری دنیا سے ناراض بیٹھا تھا 

منیحہ نے نظر انداز کیا اور خاموش رہی 

فراس نے پاپا کو دیکھ کر جو جوشیلہ نعرہ لگایا تھا، انکے خاص توجہ نہ دینے پر اب بیٹھ کر کھیل میں مگن ہو گیا تھا بستر کے پرنٹ کے مطابق گاڑیاں رکھنے کا سلسلہ جاری تھا

" کیا مطلب سرجری نہیں کرانی،، دو تو سرجریز رہ گئی ہیں،، اور ڈاکٹر کہہ بھی رہے ہیں کہ تم ٹھیک ہو جاو گے" 

"میں کہہ رہا ہوں نہیں کرانی،، تو بس پھر نہیں کرانی،، نہ سرجری نہ تھراپی" 

اس نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا

فراس بھی متوجہ ہو چکا تھا

"تو کیا کرو گے تم،، کیا اسی طرح پڑے رہو گے ساری زندگی،، مجھے سمجھ نہیں آتی اپنی زندگی کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہو تم"

انکل کی جھنجھلاہٹ جائز تھی مگر فراس کے لیے پریشان کن صورتحال تھی وہ بستر سے اتر آیا تھا 

اب کچھ حیرت سے ماتھے پہ سوچ کے بل ڈالے صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا

" میرے بابا ہیں "

کریم انکل کا ہاتھ پکڑ کر وہ انھیں نجانے کیا جتانے کی کوشش کر رہا تھا 

منیحہ نے چونک کر اسکی طرف دیکھا 

"فراس ادھر آئیں آپ" 

اس نے اسے موقع سے ہٹانا چاہا

مگر وہ انکاری تھا 

"میرے بابا ہیں نا،، جائیں نا" وہ براہ راست اب کریم انکل سے مخاطب تھا جو نالائق بیٹے کے اس بہترین دفاع پر ٹھنڈا سانس بھر کر رہ گئے 

جلال نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا جو خفا لگتا تھا

تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں جیسا تھا وہ بچہ جو *اسکا تھا 

" ٹھیک ہے بھئی میں تو چلا جاوں گا مگر اپنے اس گدھے باپ کو سمجھا،، اب زندگی میں کچھ سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے" 

"سوری انکل"منیحہ نے فراس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا ساتھ شرمندگی سے اس باپ کے وکیل کے رویے پر  معذرت بھی کی

(ہوں یہ تو خوش ہو رہی ہو گی میری بے عزتی پر) 

جلال نے فورا سوچا تھا، رات کو اسکی" مجھے تمہاری ضرورت نہیں " والی بات جلال کے دل میں کھب گئی تھی۔

" تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں میرے بچے،، اور تم "

اسے تسلی دیتے وہ جلال کی جانب پلٹے 

"اپنا نہیں سوچ سکتے،. نا سوچو،، مگر انکا کچھ سوچ لو" انھوں نے فراس کو منیحہ کی طرف اشارہ کیا تھا اور چلتے بنے 

(جیسے میرا سوچا ہوا تو آپکی لاڈلی قبول کر لے گی نا)

اس نے منیحہ کو کن انکھیوں سے دیکھا جو کل سے اسے اگنور لسٹ پر ڈالے ہوئے تھی

انکل جا چکے تھے۔منیحہ نے سوچا وہاں سے چلی جائے مگر پھر وہ کچھ سوچ کر رک گئی ۔

"جلال تم انکل کو مزید تنگ کرنے کی بجائے کچھ بہتر کرو انکے لیے"

نجانے کس سوچ کے تحت اس نے یہ کہا تھا۔جلال نے حیرت سے اسے دیکھا ۔

"وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں"

اسکی بے یقینی کے جواب میں منیحہ کو وضاحت دینا پڑی تھی،، مگر جلال کو شدید مایوسی ہوئی 

"تو تمہیں کیا مسئلہ ہے،، تمہارا تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے نا"

منیحہ نے حیرت سے اسکا خفا انداز دیکھا پھر کندھے اچکا دئیے، وہ اب کچن میں جانے کی تیاری کر رہی تھی 

"اور یہ تم مجھے تم تم کیا کہتی رہتی ہو،، تمیز سے بات کیا کرو" 

منیحہ کو توجہ نہ دیتے دیکھ کر اس نے ماتھے پر بل ڈال کر ناگواری سے اسے ٹوکا تھا

جبکہ منیحہ کا منھ کھلا رہ گیا تھا

فراس، کی حرکتیں اور جلال کی حرکتیں دونوں پہ قابل ستائش ہیں

مگر یہ جو آپ لوگ قسط قسط کہہ کر مجھے پریشرائز کرتے ہیں یہ بلکل قابل ستائش نہیں ہےمجھے قسط دینے کے لیے اتنی جلدی کرنی پڑتی ہے

جلال اسے گھورے جا رہا تھا جبکہ منیحہ ایک لفظ نہ کہہ سکی۔وہ شاکڈ تھی

(اب یہ شخص مجھے تمیزیں سکھائے گا،، شکر. نہیں کرتا میں اسے تم کہہ کر ہی سہی بلاتی تو ہوں ورنہ اس قابل بھی نہیں ہے یہ) 

وہ صرف سوچ ہی سکی بولی کچھ نہیں تھی درحقیقتاََ وہ خجل ہوئی تھی اسی لیے اسے ایک گھوری سے نواز کر باہر چلی گئی 

(شکر نہیں کرتا کہ ماں باپ اتنا خیال ک رہے ہیں اوپر سے ہر بات اپنی ہی کرنی ہے صاحب بہادر نے) 

جلال کے اس طرح بے زاری سے ٹوکنے پر وہ خاصی ڈسٹرب ہوئی تھی۔

وہ اپنے پرانے انداز و اطوار کی طرف پلٹ رہا تھا۔

"فضول انسان" 

آخر اس نے اس سوچ کو ذہن سے جھٹکنے کے لیے کہا،، ہھر فراس کو آوازیں دینے لگی جو جلد ہی اسے ڈھونڈتا کچن میں آ چکا تھا۔

"کھانا نہیں کھانا آپ نے¿" 

منیحہ نے اسے اٹھا کر کاوئنٹر ٹاپ پر بٹھایا

 "میں نوڈل کھاتا ہوں" 

وہ خوش ہو کر ماں کو دیکھ رہا تھا۔منیحہ اپنی بھوک بھول کر نوڈلز بنانے لگی

" یہ گاڑی کسی کی ہے" 

"یہ میری ہے، میرے بابا دی ہے" 

وہ فخریہ بتا رہا تھا۔

"ماما تم گاڑی پہ بیٹھتی ہو¿"

" فراس آپ بولتے ہیں، تم نہیں بولتے" 

وہ بے دھیانی میں بولی تھی

" یہ تم کیا مجھے تم تم کرتی رہتی ہو" یکدم اسے دماغ میں سنسناہٹ ہوئی تھی😐

اس نے فراس کو دیکھا جو ٹوکے جانے پر منھ بنا رہا تھا

ویسا ہی منھ جیسا منیحہ نے جلال کے ٹوکنے پر بنایا تھا۔

(اللہ بچے بیچارے کا کیا قصور ہے ہم خود ہی دھیان نہیں کرتے)اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا 

(ویسے اگر میں جلال کو آپ کہوں گی تو وہ سمجھے گا میں ڈر گئی ہوں "

اسے شدید خدشہ لاحق ہوا تھا 

تبھی اس سے پہلے وہ اسکا. کوئی توڑ سوچ پاتی نوڈلز بن گئے تھے اس نے باول میں نکالے اور چمچ اور کانٹا رکھ کر فراس کے سامنے رکھے

" ماما تم بھی نوڈل کھاتی ہو"

وہ آنکھیں مٹکا کر پوچھ رہا تھا۔بات کے دوران وہ آنکھوں سے بہت کام لیتا تھا 

"فراس آپ،، آپ،، اور میں نہیں کھاتی یہ آپکے لیے ہیں" اس نے زور دے کر جتایا

"میں تو کھاتا ہوں نا" 

اس نے باول پیچھے کر دیا تھا۔

"تو کھائیں" 

منیحہ نے باول ہاتھ میں پکڑ کر اسے کھلانا چاہا،، فراس کو کھانا کھلانا آسان کام نہیں ہوتا تھا

 "نہیں میں بابا ساتھ کھاتا ہوں نا"

" کیا¿، اب ہر چیز بابا ساتھ کریں گے آپ¿"

منیحہ نے اسے گھورا 

"میں بابا ساتھ کھاتا ہوں میں چاکلیٹ بھی کھاتا ہوں" 

وہ اب روہانسا ہو رہا تھا ۔جبکہ منیحہ اسے زبردستی کھلانے پر تلی تھی تبھی اسکی چیخ و پکار سن کر آنکہ بھی اسی طرف آ گئے

"ارے میرے بیٹے کو کیا ہوا"

" ماما نوڈل کھاتی ہے"

وہ شکایت لگا رہا تھا۔

نہایت مسکینی سے بولا

" ارے منیحہ نہ کھاو نا"

انھوں نے ہنستے ہوئے کہا

"اچھا ہھر خود کھائیں" 

منیحہ نے باول اسکے سامنے رکھا 

"میں بابا ساتھ کھاتا ہوں نا" 

منیحہ نے اسے گھورا جو اب بلند آواز میں مزاخمت کر رہا تھا 

"ارے منیحہ اس نے جلال کے ساتھ کھا لیے تھے،، ابھی بلال نے ان دونوں کو نوڈلز بنا کر دیے تھے" 

کریم صاحب کو یاد آیا تو منیحہ نے سوالیہ فراس کی طرف دیکھا جو اب جتانے والے انداز میں ماں کو دیکھ رہا تھا 

"کھا چکے ہیں آپ" 

منیحہ نے اس سے پوچھا 

"میں بابا کے ساتھ کھاتا ہوں نا"

وہ. ناراض ہو کر بولا،، ہر بات میں بابا کرنا ضروری تھا جیسے 

اور منیحہ کے حواس پر تو کچھ ایسے سوار تھا وہ کہ فراس کی بات وہ سمجھ ہی نہیں سکی۔

"اچھا ٹھیک ہے اب بیٹھیں" 

"نہیں میں پاپا ساتھ جاتا ہوں "

وہ کریم انکل کو کہیں لے کر. جانا چاہتا تھا۔

اور وہ. شرافت سے اسکے ساتھ چل بھی پڑے تھے۔جو اب باہر جا کر گاڑی میں بیٹھ چکا تھا 

یقنا وہ شہر کے گشت پر جانا چاہتا تھا۔

منیحہ کا ذرا دل نہیں تھا مگر سستی کے باعث وہ وہی ٹھنڈے نوڈلز کھانے پر مجبور ہوئی 

" ہوں غلطیاں مان لیں، معافی پھر بھی نہیں مانگی اس شخص نے" 

وہ منتقم مزاجی سے جلال کے بارے میں سوچنے لگی

____________________________________

وہ کمرے میں بستر پر دراز تھی، رات کے نو بج رہے تھے مگر اس کمرے میں کسی کو سکون میسر نہیں تھا،، پچاس کے والیوم پر ٹی وی لگائے وہ دونوں باپ بیٹا فاسٹ اینڈ فیورس دیکھ رہے تھے۔

"ماما گاڑیاں اڑتی ہیں" 

گول گول آنکھیں پھیلائے وہ جوش و خروش سے پاگل ہو رہا تھا۔ ساتھ ساتھ منیحہ کو بھی گھسیٹتا تھا۔

منیحہ نے بے بسی سے اسے دیکھا.وہ.سارے دن کی تھکی ہوئی تھی اب سونا چاہتی تھی مگر یہ فارغ ہستیاں مزے سے ٹی وی دیکھ رہی تھیں 

"فراس آ کر سو جائیں "

منیحہ نے جمائی روک کر فراس کو پکارا 

"ماما گاڑیاں اڑتی ہیں" 

وہ تھرتھلی مچانے کی نیت سے منیحہ کو انوالو کر رہا تھا

منیحہ نے بحالت مجبوری اسکی بات مان کر ٹی وی  کو دیکھا جہاں جہاز سے گرنے والی گاڑیاں پیرا شوٹ سے اڑ رہی تھیں 

وہ سخت بیزار ہوئی

" فورا سے آ جائیں اس سے پہلے کہ آپکو اڑاوں" 

اس نے اسے دھمکایا جو اب فورا رونے والا ہو گیا تھا 

"تم بیٹھے رہو،، میرا مطلب آپ دیکھو ہم بعد میں سو جائیں گے" 

جلال نے منیحہ کی طرف ناراضی سے دیکھ کر فراس کو حوصلہ دیا  مگر باپ کو دیکھنے کے بعد 

پھر مجبوراً ڈھیلے انداز میں صوفے سے اتر کر اسکے پاس آ گیا 

جلال نے اس بے وفائی پر شاکی انداز میں اسے دیکھا 

منیحہ کے لبوں پر بھی فخریہ مسکان آ چکی تھی 

" میری جان سو جائیں اب."

منیحہ نے اسے نیچے سے اٹھا کر گود میں لیا تھا۔جو اب گاڑیاں بھول بھال کر ماں کے ساتھ لگا ہوا تھا جلال کو سخت بے قراری ہوئی

"ماما میں گاڑی لے لوں" 

وہ اب خوامخواہ کے لاڈ کر رہا تھا 

"فراس بس کر دیں ہر وقت گاڑیاں گاڑیاں کوئی اچھی بات تو نہیں،، اب آپ نے میرے ساتھ سکول بھی جانا ہے" 

وہ اسکی برین واشنگ کرنے کو سرگوشی میں بولی 

جبکہ اتنی دلچسپ فلم میں اب جلال کی دلچسپی بھی صفر ہو چکی تھی 

" میں سکول نہیں جاتا،، میں پاپا کے ساتھ آفس جاتا ہوں "

وہ اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں دیتا تھا

" نہیں سکول جائیں گے،، اتنے پیارے بے بیز ہوتے ہیں ادھر" 

منیحہ نے اسے لالچ دینا چاہا مگر وہ جو دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا

فورا الرٹ ہوا 

"ماما بے بی نہیں لیتے،، بے بی گندے ہوتے ہیں "

وہ ماں کو سمجھا رہا تھا 

منیحہ نے اسے خشمگی نگاہوں سے گھورا 

"گندے نہیں ہوتے،، بے بی تو بڑے پیارے ہوتے ہیں آپکے دوست بن جائیں گے،،" 

"بابا بے بی گندے ہوتے ہیں،، بے بی نہیں لیتے نا" 

وہ اسکی گود سے سر اٹھا کر اب باپ کو بھی شامل گفتگو کر رہا تھا 

جلال ایک پل کو کچھ حیران ہوا 

"ہاں ہوتے تو گندے ہی ہیں" 

وہ عام سے لہجے میں فراس کے ساتھ اتفاق کر رہا تھا مگر منیحہ نے اسے زہر آلود نظروں سے دیکھا 

تو وہ گڑبڑا گیا

" میں ویسے ہی کہہ رہا ہوں "

بے ساختہ گڑبڑا کر اس نے وضاحت دی تھی 

"بے بی نہیں لینا" 

جبکہ فراس کا تو باپ کے تصدیق کرنے سے کام آسان ہو گیا تھا 

" میں پاپا ساتھ آفس جاتا ہوں" 

اس نے اپنا پلان ماں کو بتایا 

جسکا چہرہ سپاٹ تھا 

جلال نے گہرا سانس لیا

"منیحہ میں ویسے کہہ رہا تھا"

جلال نے اپنی وضاحت دہرائی تھی 

"کوئی اچھی بات نہیں سکھانا کسی کو" 

وہ یہی کہہ سکی

"کیا غلط سکھایا ہے،، چھوٹا سا تو ابھی ہے، چلا جائے گا سکول"

فراس اب ماں کو متوجہ نہ دیکھ کر بستر پر کھڑا ہو کر اپنی گاڑی کے ساتھ کھیل رہا تھا جبکہ وہ دونوں بحث ک رہے تھے 

" جلال مجھے اپنے حساب سے رکھنے دو. ، اسکو خراب مت کرو،، ضرورت سے زیادہ توجہ مت دو اب اسے"

وہ اب پر زور دیتے ہوئے بولی 

جلال کو سیدھی دل پر لگی تھی 

"منیحہ،. میں کمپن سیٹ کرنا چاہتا ہوں کیا اب کمپن سیٹ بھی نہیں کر سکتا میں" 

"ہر چیز کی کمپنسیشن نہیں ہوتی،، کچھ چیزیں کمپن سیٹ نہیں ہو سکتیں "وہ غیر ارادی طور پر اس سے بحث کر رہی تھی، حالانکہ اس نے ایسا کچھ  سوچا نہیں تھا 

"کیوں کیوں نہیں ہو سکتیں،، اگر تم.ذرا سا مجھے سپیس دو،، میری بات سننے کی کوشش کرو تو کیوں نہیں ہو سکتا "

اسکی آواز غیر دانستہ طور کچھ بلند ہوئی تھی.. منیحہ اسے قہر آلود انداز میں دیکھ رہی تھی جیسے جان لے کے گی 

تبھی جلال کی چیخ کمرے میں بلند ہوئی تھی اس نے اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا ۔

فراس شاکڈ سا کھڑا تھا 

اور جو کچھ ہوا تھا اس پر شاکڈ تو منیحہ بھی تھی 

فراس نے بے یقینی سے منیحہ کو دیکھا جو خود بھی پھٹی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی 

"یہ کیا کیا ہے¿¿" 

فراس کا منھ ایک دم سے بنا تھا 

"میری گاڑی اڑتی ہے" اس نے اپنی گاڑی ہوا میں لے جا کر اڑائی تھی مگر بدقسمتی سے پیرا شوٹ نہ. ہونے کی وجہ سے اسکی گاڑی زمین کی بجائے اسکے باپ کے سر پر لینڈ کر چکی تھی ۔

"افففف..، حد ہے فراس،،" 

وہ جلال کی جانب بھاگی تھی ۔

جو ابھی تک سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا 

" کیا خون نکل رہا ہے" 

منیحہ نے پاوں میں پڑی گاڑی کو ٹھوکر مار کر جلال کے ہاتھ اسکے سر سے ہٹائے 

جو نچلا ہونٹ دانتوں تلے دباۂے ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا 

"او مائی گاڈ"

سٹیل اور پلاسٹک سے بنی گاڑی اپنا نشان چھوڑ کر. جا چکی تھی

منیحہ نے اپنا دوپٹہ اکٹھا کر کے اپنے منھ پر رکھ کر چند گہرے سانس لیے اور پھر جلال کے ماتھے پر رکھ دیا۔

ساتھ فراس کو غَصے سے گھورا بھی تھا 

"اٹس اوکے ٹھیک ہے" جلال نے ایک ہاتھ اٹھا کر فراس کو تسلی دی جو خوفزدہ نظروں سے ماں کو دیکھ رہا تھا ۔

"تم یہ دوپٹہ یہاں رکھو میں کچھ گرم کر کے لاتی ہوں" چند سیکنڈز بعد ہی اسکے ماتھے پر ایک گھومڑ نمودار ہو چکا تھا ۔

منیحہ کو سخت خجالت ہوئی

کچھ دیر پہلے جو ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے تھے اب فکر میں پاگل ہو رہے تھے۔پل میں توشہ پل میں ماشہ رشتہ بن گیا تھا  وہ اسکے لیے فکر مند تھی 

مگر اس سے پہلے کہ وہ جاتی فراس دھاڑیں مار مار کر رونے لگا تھا 

"اب کیا ہوا ہے¿" دروازے پر جا کر وہ پلٹی تھی جو اسی کو دیکھ کر بستر پر کھڑا رو رہا تھا 

منیحہ گہرا سانس لے کر رہ گئی 

پھر وہ پلٹی اور ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی طرف بلایا

"ماما" فراس اسکے ساتھ لگا رو رہا تھا 

"اچھا بس کریں اب،، روئیں نہیں" اس نے اسے اپنے سینے سے لگایا جو دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑے سسک رہا تھا 

"ماما" 

پھر وہ اسکی گود میں چڑھ گیا منیحہ بس مسکرا ہی سکی 

"اچھا اب بس کریں رونا" وہ اسے گود میں اٹھا چکی تھی مگر اس نے اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا رکھا تھا 

اور وہ جو اس تشدد کا شکار ہوا تھا اپنا سا منھ لے کر رہ گیا، جو دوپٹہ وہ اسے پکڑا کر گئی تھی وہ اب ٹھنڈا ٹھار اسکے ہاتھوں میں موجود تھا 

اور فراس صاحب بجائے باپ سے سوری کرنے کے ماں کو راضی کرنے میں لگا ہوا تھا 

اور منیحہ جو بنا دوپٹے کے جلدی میں بھاگی تھی اب سکون سے بستر پر بیٹھی فراس کو گود میں لیے بہلا رہی تھی 

فراس نے ایک نظر ان دونوں کو مگن دیکھا ہھر اپنے ہاتھ میں موجود اس دوپٹے کو 

اور بے بسی سے ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا 

(اب یہ اوقات ہے میری) 

اس نے منیحہ کی کمر پر جھولتی چٹیا کو دیکھا اور دوپٹہ گود میں رکھ لیا ۔

(جلال تو صبر کر اور معافیاں مانگ،، اور کوئی کام نہیں ہو سکتا تجھ سے) 

فراس اس وقت اسے ایک ولن لگ رہا تھا 

_________-___________

رات کا پچھلا پہر تھا وہ دونوں ایک جان دو قالب بنے سو رہے تھے۔جبکہ جلال بیچارہ آنکھوں میں رات بتا رہا تھا۔دن رات فارغ رہنا اور ایک جگہ پڑے رہنا مشکل کام تھا اور اس جیسے انسان کے لیے تو مشکل ترین تھا۔اسکے مزاج میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں اور فراس اور منیحہ کے آجانے کے بعد سے تبدیلیاں کچھ زیادہ مثبت تھیں، 

شروع کے دنوں کی طرح وہ چیختا چلاتا نہیں تھا

نہ خود اذیتی کی کوشش کرتا بلکہ وہ پہلے کی طرح نارمل ہو رہا تھا

فراس کو ملنے کے بعد وہ عجیب و غریب جذبات کا شکار تھا۔منیحہ تو خیر توقع کے مطابق اس سے سخت ناراض تھی 

(چلو جو بھی میرے پاس تو ہے) 

وہ خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتا 

مگر منیحہ کے مقابلے میں اپنے جذبات کی شدت سے وہ خود بھی مکمل آگاہ نہ تھا۔کسی بچے کی مانند اسکا دل خواہش کرتا کہ منیحہ اسے دیکھے اسے توجہ دے اور یہ تو اسکی پرانی خواہش تھی وہ جہاں بھی ہوتا تھا توجہ کا مرکز ہی ہوتا تھا مگر اب روایات بدل رہی تھیں اب وہ سائیڈ لائن کر دیا گیا تھا کسی اور نے اسکو اوور رول کر دیا تھا

اور فراس وہ بلا کا خود اعتماد بچہ تھا 

بچہ تو وہ بس لگتا تھا اندر سے پورا تھا 

اگر وہ پاپا کے سامنے ہوتا تو پاپا اسکے تھے، اگر وہ جلال کے سامنے ہوتا تو جلال اسکا تھا۔اور اگر وہ منیحہ کے سامنے ہوتا تو بس منیحہ اسی کی تھی۔

اس نے جلال جیسی عادتیں لی تھیں 

ماما جلال سے زیادہ بلال بھائی سے پیار کرتی تھیں اور اسی غصے میں جلال ان پر ہمیشہ پاپا کو فوقیت دیتا تھا 

ویسے ہی ماما فراس کو زیادہ توجہ نہیں دیتی تھیں مگر فراس اس سے زیادہ تیز تھا وہ بھی جواب انھیں توجہ نہیں دیتا تھا ۔

اسکی دوستی صرف انکے ساتھ تھی جو اسے اہمیت دیتے تھے. اور جو اسے اہمیت نہیں دیتے تھے وہ اسکی زندگی میں وجود ہی نہیں رکھتے تھے 

یہ سب اچھا تھا خوش کرنے والا تھا 

جو بات اچھی نہیں تھی وہ یہ تھی کہ وہ منیحہ کو ہمیشہ جلال سے دور کر دیتا تھا 

اسے یہ بات بری نہیں لگتی تھی مگر اسے یہ بات اچھی بھی نہیں لگ رہی تھی 

منیحہ کی اسکی جانب پشت تھی فراس پھر بھی اسکے ساتھ لپٹا ہوا تھا 

جلال نے گردن موڑ کر بغور ان دونوں کو دیکھا 

سامنے موجود وہ دنیا کی سب سے اچھی عورت اسکی تھی،، وہ اسکی بیوی تھی جسے وہ تین چار سال پہلے اپنی بے وقوفی کے باعث چھوڑ گیا تھا

وہ اسے ہمیشہ سے واپس پانا چاہتا تھا 

مگر واپس پلٹا تو اسے ایک اور نعمت بھی دی گئی تھی، شاید اللہ کو اسکا کوئی عمل پسند آ گیا تھا 

جو اسے اسکی نعمتیں لوٹا دی گئی تھیں 

وہ خوش تھا، حیران تھا اور سب سے بڑھ کر اللہ کے سامنے شرمسار تھا 

مگر اب مسئلہ ہو رہا تھا 

منیحہ بے سدھ، پرسکون سو رہی تھی 

(کتنی عجیب ہے یہ،، اسے کوئی ہوش نہیں کی ہمیں کچھ وقت ایک دوسرے کو بھی دینا چاہیے) 

وہ بڑبڑا کر رہ گیا۔

براون ٹراوزر، بلیو ٹی شرٹ میں وہ ننھا سا بچہ بے حد معصوم صورت تھا ۔

اس نے اسکا سر پھاڑنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔

جلال نے بے ساختہ اپنے ماتھے پر موجود گھومڑ کو چھوا 

مگر شرمندہ وہ ماں کے سامنے ہوا تھا۔

جلال کی طرف اسنے دیکھا بھی نہیں تھا

اور وہ بدتمیز،، بے وفا لڑکی جو اسے تکلیف میں دیکھ کر ساری ناراضگی بھلائے اسکے پاس آئی تھی۔

اسکی فکر جلال کی جان لے گئی تھی کتنی تشویش تھی،، کتنی خفگی تھی اسکے چہرے پر 

اور اس ننھے شیطان سے سارا منظر خراب کر کے رکھ دیا 

(باپ کا دشمن) 

جلال نے بے اختیار خوشگواری سے سوچا

ہھر ہاتھ بڑھا کر اس سوئے ہوئے کو اپنی طرف کھینچا

"اگر یہ میرے ساتھ نہیں رہ سکتی تو تم کونسے شہزادے ہو" 

وہ بڑبڑایا اور اسے منیحہ سے دور کر کے اطمینان کا سانس لیا۔مگر وہ کسمسا کر پھر سے نیم اندھیرے میں آنکھیں بند کیے ماں کو ٹٹول رہا تھا 

جلال نے اسکا بازو پکڑ کر اسے سلانا چاہا 

(سو جاو لاڈلے،، میری بیوی پر قبضہ کر لیا ہے تم نے،، ہر وقت فراس فراس،، میری ماما میری ماما) 

وہ شیطانیت سے مسکرایا مگر ایک دن اسکے ہاتھ پیر پھول گئے 

فراس دہاڑیں مارمار کر. رونا شروع ہو چکا تھا

"سو جاو فراس کیا ہوا ہے" 

اس نے دبی آواز میں اسے ہلایا وہ بستر پر بیٹھا رو رہا تھا 

"کیا ہوا" منیحہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی 

فراس نے بانہیں پھیلا دیں وہ مسلسل رو رہا تھا 

"کیا ہوا ہے آپکو، ماما ادھر ہیں نا،، ماما کی جان ادھر ہوں میں" 

وہ چپ ہونے میں نہیں آ رہا تھا اور آدھی رات کو ہوں اٹھنے پہ غصہ ہونے کی بجائے وہ اسے نہایت پیار سے چپ کرا رہی تھی 

" پتہ نہیں کیا ہوا ہے،،ایک دم سے رونے لگا" 

وہ جو حیرت سے اسے بیٹھا دیکھ کر گھور رہی تھی،، جلال نے نظریں ملائے بغیر وضاحت دی 

" میں تو چپ بھی کرا رہا تھا،، مگر تمہیں ڈسٹرب کر دیا" 

وہ غیر محسوس طور پر ہکلا کر رہ گیا تھا،، کچھ شاک بھی تھا 

جبکہ وہ اسے نظر انداز کرتی اب ننگے پیر کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی جبکہ فراس اسکی گود میں تھا۔

جلال نے خودکو ملامت کیا۔بجائے دور ہونے کے وہ اب نرا گود میں پہنچا ہوا تھا 

____________________________

منیحہ نے اس سے ایک بار پھر سے سرجری کے بارے میں بات کرنے کی. کوشش کی تھی مگر جلال اپنی باتیں اور شرطیں کے کر بیٹھ گیا

ایک دوسرے کو بے وفائی کے طعنے دینے کا ایک اور سیشن ہوا تھا اور اب وہ. دونوں بچوں کی طرح ضد لگائے بیٹھے تھے 

جاو فراس منیحہ کو کہو بابا کہہ رہے ہیں دو کپ کافی بنا کر لاو"

منیحہ کب سے غائب تھی جلال نے فراس کو اسے پیغام بھجوانے کا ذریعہ بنانا چاہا

"بابا میں کھیلتا ہوں نا"

وہ اٹھنے سے صاف انکاری تھا۔منھ بنا کر باپ سے رعایت مانگ رہا تھا

"پھر آ کر کھیل لینا یار، میں بھی کھیلوں گا پہلے یہ تو جا کر دیکھو یہ منیحہ آج چھٹی والے دن بھی کہاں غائب ہے، ہم کمرے میں بیٹھے اور وہ آئی ہی نہیں"

اس نے فراس کو بھی تشویش دلانا چاہی۔

جو اب منھ بناتا اٹھ گیا تھا

"میں جاتا ہوں"

کندھے ڈھیلے کر کے چلتا وہ بے دلی سے جا رہا تھا۔اور منیحہ تو جان بوجھ کر جلال کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لیے کچن میں پناہ لیے بیٹھی تھی

" منیحہ بابا کہتے دو کپ کافی لاو"

منیحہ نے جھٹکے سے پیچھے مڑ کر بے یقینی سے اسے دیکھا جو تین انگلیاں اٹھائے دو کپ کافی بنانے کا کہہ رہا تھا

"کیا کہا ہے آپ نے"

وہ جو پیغام دے کر بھاگ رہا تھا ماں کی دھاڑ پر واپس ہوا ۔

"بابا بولتے میرے دو کافی دو"

وہ روکے جانے پہ کچھ برا منا رہا تھا

" نہیں جو پہلے کہا ہے وہ بولیں" اسے تو شاک لگا تھا،، جلال جو منیحہ منیحہ کرتا رہتا تھا کچھ تو نتیجہ نکلنا ہی تھا

"بابا بولتے دو کافی بنا دو، "

وہ یہ بھول چکا تھا کہ جو گستاخی اس نے کی ہے اسکا کیا نتیجہ نکلنے والا تھا۔

(ہوں اس شخص کے ہر وقت منیحہ منیحہ کرنے کا کوئی نتیجہ تو نکلنا ہی تھا) 

" مجھے تمیزیں سکھاتا ہے یہ شخص اور خود منیحہ منیحہ"

اس نے لال پیلے ہوتے سوچا

اچھا خاصہ وہ جلال کے بارے میں مثبت سوچنے کی کوشش کرتی تھی مگر پھر کچھ کہ کچھ ایسا ہو جاتا کہ وہ لوگ دشمنوں کی طرح لڑنے پر مجبور ہو جاتے

زندگی ایک رولر کوسٹر کی طرح ان دونوں کو گھمائے دے رہی تھی

ہاں البتہ جلال اب اچھا خاصہ نارمل تھا

جلال سے کسی اچھائی کی امید تو اپنی موت آپ مر چکی تھی۔

اس نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا تھا۔مگر منیحہ سب ٹھیک ہے کہہ کر اسے معاف نہیں کر پائی تھی۔

کرتی بھی کیسے؟ 

معافی تو اس نے مانگی ہی نہیں تھی۔

آج شام کو وہ ویسے بھی مصروف ہی رہی۔کچھ دیر جلال کے ساتھ کھیلنے کے بعد اب فراس اسکے آگے پیچھے پھر رہا تھا۔وہ پاپا کے ساتھ گیا تھا اور واپسی پر تین بڑے بڑے پیکٹ بھنے ہوئے چنوں کے اٹھا لایا تھا ۔جنھیں اب وہ سینے سے لگائے پھر رہا تھا ۔

"میں پوچھتی ہوں کہ اتنے زیادہ چنے کرنے کیا تھے¿"

وہ چڑ چکی تھی ۔کیونکہ وہ نہ کسی کو دے رہا تھا نہ کسی پیکٹ میں ڈال رہا تھا۔الگ الگ سینے سے لگائے پھر رہا تھا 

"میں سارے کھاتا ہوں نا" 

وہ ماتھے پر بل ڈال کر وضاحت دے رہا تھا۔

"سارے کیسے کھائیں گے آپ، اور اب ایک طرف رکھ بھی نہیں رہے"

" پاپا لے کر دئے ہیں نا" 

وہ اب ماں کو خفا ہوتا دیکھ کر الزام دادا پر رکھ رہا تھا۔

"چھوٹا سا بچہ بیچ رہا تھا۔میں نے سوچا وہ بھی خوش ہو جائے گا یہ بھی خوش تو سارے ہی  لے دئیے" 

پاپا نے ہنس کر پوتے کی چالاکی کے جواب میں کہا کہا کیا تھا وضاحت دی تھی۔

وہ تو  خود بری ہو کر انھیں نامزد کر رہا تھا۔

" پھر اسے سنبھالیں بھی نا" 

اسکا اعتراض ختم ہو چکا تھا مگر پھر بھی فراس کو مشکل میں دیکھ کر وہ چڑ رہی تھی۔

" اچھا کر لے گا تم ٹینشن نا لو"

کریم انکل نے اسے تسلی دی اور فراس کو اپنے ساتھ لے گئے جسکے ہاتھ سے بار بار کوئی پیکٹ گر جاتا اور وہ اسے اٹھانے کے چکر میں کوئی دوسرا گرا دیتا۔

جلال لاوئنج میں تھا اس لیے منیحہ کچن میں تھی۔

اسکے پاس اسکے علاوہ کیا جائے پناہ ہو سکتی تھی۔

______________________

"انکل بھائی تو بھول ہی گئے ہیں،، سٹور کی بھی خیر خبر نہیں لی" 

جلال نے پاکستان آنے کے بعد سے موسی سے رابطہ نہیں کیا تھا۔پاکستان والا نمبر بھی اسکے پاس نہیں تھا ۔. وہ بیچارہ رابطہ کیا کرتا جب سے آیا تھا ذہنی طور پر اتنا مصروف تھا کہ نہ وقت ملا، جی موس سے رابطہ کیا

اسی لیے موسی نے اب تنگ آ کر انکل کو کال کی تھی۔ 

" یار بس بزی ہو گیا ہے  وہ فیملی کے ساتھ،، ٹھہرو کراتا ہوں تمہاری بات" 

"فراس ادھر آو بابا کو فون دو" 

انھوں نے زمین پر گاڑیاں سیٹ کرتے فراس کو آواز دی۔جو اب انھیں سوالیہ دیکھ رہا تھا

"جاو بابا کو فون دو،، انکے دوست کی کال ہے" 

انھوں نے موبائل انکے ہاتھ میں پکڑایا۔

"کون ہے "

وہ خود ہی باپ بن کر موبائل کان سے لگا چکا تھا۔

"ارے یہ کون ہے، کیا فراس ہے یہ"

موسی کو خوشگوار حیرت ہوئی ۔وہ اس سے مل چکا تھا

"میں فراس" 

وہ آنکھیں مٹکا کر بولا ۔

"فراس کیا کرتا ہے،، اور بھائی مطلب فراس کے بابا کیسے ہیں" 

"میرے بابا ہیں نا" 

اسکے پاس اپنے ہی جوابات تھے

"فراس کے بابا ہیں وہ¿" موسی اسکا اعتماد دیکھ کر حیران ہی ہو رہا تھا

"تم کون ہو " 

اس نے اس فرینکنس پر سوال کیا

"فراس کون ہے، کس کے ساتھ بات کر رہے ہو "منیحہ الرٹ ہو کر بھاگی تھی، مبادا اسکے ہاتھ کسی کا فون لگ گیا تھا.. موسی نے بھی پیچھے سے آواز سنی تھی۔ 

"میرے بابا سے بات کرنی ہے"

وہ بتا رہا تھا۔

موسی نے قہقہہ لگایا

 " کون ہے"

منیحہ کی آواز قریب سے سنائی دی تھی

"میرے بابا سے بات کرتے ہیں "

وہ شرافت سے موبائل اسکی جانب بڑھا رہا تھا منیحہ نے دیکھا کال چل رہی تھی۔

"اوکے ٹھیک ہے،، لے جائیں بابا کے پاس لیکن آرام سے گرانا نہیں "وہ اسے تاکید کرتی کمرے کا دروازہ کھول چکی تھی 

جلال شدید بور ہو رہا تھا، سکرین پر کوئی فلم چل رہی تھی 

" میرے بابا بڑے ہیں" 

وہ نجانے کس بات کے جواب میں کہہ رہا تھا

"تم کو پتہ میرے پاس بمبل بی ہے"

" فراس کون ہے¿"

جلال نے اسے یوں مصروف دیکھ کر پوچھا 

" بمبل بی بڑے والی ہے یا چھوٹے والی" 

موسی نے پوچھا تھا۔اسکا بمبل بی کا کریز وہ دیکھ چکا تھا 

"بمبل بی دودھ پیتی ہے،، بڑی ہے،، بابا لے کر دیتے ہیں" 

"کون ہے یار¿" 

جلال کا سوال وہ سن کر بھی ان سنا کر رہا تھا اس وقت بمبل بی کی تعریفیں کرنا ضروری تھا 

" میں نہیں دیتا،، میں ماروں ¿" 

دوسری طرف سے جلال کو قہقہے کی آواز سنائی دی تھی 

" نہیں بھئی میں تمہاری گاڑی لے لوں گا،، پھر تم روتے رہ جاو گے"

موسی کی ڈھٹائی پر وہ بے بس ہو گیا تھا، تو اسکی غلطی نکال کر اپنا دفاع کیا

"تم نہیں بولتے.. ماما بولتی آپ بولتے ہیں " 

" ہاہا، کس کی ماما بولتی ہیں یہ¿" 

" میری ماما "

اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا موبائل گرتے گرتے بچا تھا جلال نے اس سے لے لیا

" ہیلو کون" 

"شکر ہے بھائی آپ کی آواز بھی سننے کو ملی،، آپ تو بھول ہی گئے ہیں، کال کیوں نہیں کی¿"

ایک ہی سانس میں وہ بولتا چلا گیا 

جلال نے اسے پہچان تو لیا تھا اب یقین ہو گیا

" بس یار تیری یاد ہی نہیں آئی"اسکے جذباتی انداز کے جواب میں جلال نے ڈھٹائی سے اعتراف کیا 

" اللہ توبہ بھائی کتنے بے وفا ہیں آپ،، ایک ہفتے میں بھول بھی گئے"

موسی کو شاک پہنچنا بجا تھا.. وہ خود تو انھیں یاد کر کر کے باولا ہو رہا تھا 

اور وہ کہہ رہے تھے یاد ہی نہیں آئی

" یار بھولا تو نہیں ہوں،، ہاں یاد نہیں آئی یہ اور بات ہے" 

وہ اپنے بیان پر قائم تھا 

" ہاں تو اب بھابھی اور اس جینئس شیطان کے ساتھ ہمیں کیوں یاد کریں گے آپ" 

وہ روہانسا ہو کر گلہ کر رہا تھا 

جلال نے قہقہہ لگایا فراس ابھی تک اسی کے پاس کھڑا باتیں کرتا سن رہا تھا 

" یار میرے بیٹے کو شیطان نہ کہہ یہ تو شہزادہ ہےاس نے محبت سے چور لہجے میں کہا

" اچھا یہ ہے تو بڑی چیز.، چلتا پھرتا تربیتی سکول ہے" 

اسے اسکا تم نہیں بولتے یاد آیا تو قہقہہ لگایا

" ویسے مجھے ایک منٹ میں نصیحتیں کر رہا ہے تو اپنے بدتمیز باپ ہو. کیسے برداشت کرتا ہو گا" 

موسی کو یاد آیا جلال تو مذاق میں بھی اچھی خاصی گالیاں بک جاتا تھا 

"توبہ کر بھائی،، کوئی بدتمیزی نہیں،، ایک منٹ میں سنسر کرتا ہے یہ" 

جلال نے لاشعوری طور پر اعتراف کیا۔وہ خود بھی تو الرٹ رہتا تھا۔جملے بنا کر بولتا تھا۔

ورنہ تو وہ بنا سوچے بولنے کا عادی تھا 

"بھائی آپکی تو صحیح واٹ لگتی ہو گی"

موسی کو صحیح معنوں میں سوچ کر ہی لطف آیا تھا 

" بس کر یار نہ پوچھ،، پورا ولن ہے یہ "جو بات آجکل اسکے دل پر چھری کی طرح لگتی تھی موسی کے سامنے زبان پر بھی آ گئی 

"اچھا بھائی بھابھی کا سنائیں" 

وہ شرارت سے بولا تھا۔

"کیا سناوں ، بس نہ پوچھ یار " اس نے گہری ٹھنڈی سانس لی

"کچھ تو سنائیییییں"

وہ شرارتی ہوا تھا 

" تیرے لطف لینے والی کوئی بات نہیں فلحال۔" 

وہ کافی مایوس لگتا تھا 

"کیوں ¿¿" 

موسی کی کیوں خاصی لمبی تھی

"فراس جاو ماما کے پاس جاو"

جلال نے اسے روانہ کرنا چاہا مبادا کوئی بات سن کر آگے سے پیچھے نہ کر دے

اسکا کوئی بھروسہ نہیں تھا 

" توبہ ہے بھائی آپ دو چار سال کے بچے سے ڈر رہے ہیں "

موسی نے زور دے کر کہا

"یار بچہ نہ سمجھ اسے"

وہ اپنی اندرونی جذبات موسی سے نہ چھپا پایا، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ اسکے اندر اتنا غبار جمع تھا کہ اسے کوئی راستہ چاہیے تھا اس سے نجات کا 

" بہت آگے کی چیز ہے یہ،، ایسے بات کو گھماتا ہے،، کہ بندے کو یقین ہی نہیں آتا" 

موسی کے قہقہے بلند اور مسلسل تھے،، اس وقت کا اسے بہت انتظار تھا 

" اچھی ہوئی آپکے ساتھ،، میرا بچپن سے خواب تھا آپکو ایسے دیکھنے کا"

وہ مذاق اڑا رہا تھا پہلی دفعہ تو اسے موقع ملا تھا 

" کر لے انجوائے بیٹا، تیرے پہ بھی وقت آئے گا"

" اچھا بھائی بھابھی کا سنائیں" وہ گھما پھرا کر بھابھی پہ بات لے آتا۔

"کیا سناوں یار، ابھی تک تو بس بحث مباحثہ ہی چل رہا ہے.. پہلے جیسے نہیں رہی،، بدل گئی ہے"

وہ ٹھنڈا سانس لے کر بولا 

"ہاں نا، ،پہلے تو بہت نرم دل تھی،، زیادہ دیر ناراض نہیں رہتی تھی،، مگر اب تو ہفتہ ہو گیا دیکھتی بھی نہیں" 

"تو معافی مانگ لیں بھائی، اب یہ نہ کہیے گا کہ آپ سے اپنی بیوی بھی نہیں پٹائی جا رہی"

موسی نے اسے ملامت کی

" نا یار میں نے کوشش کی تھی پر توبہ وہ ایسے بولی ایک دفعہ تو میں بھی ڈر گیا"

اس نے اس رات منیحہ کے دئیے طعنے یاد کر کے کہا

" توبہ ہے بھائی اب آپ بھی اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں "

موسی کو مایوسی ہوئی،، اسے لگا تھا جلال ہر میدان کی طرح یہاں بھی کامیاب ہو گا 

"یار ڈرتا تو نہیں تھا،، پر اس وقت ڈر گیا میں "

" اور تجھے پتہ ہے اب وہ پہلے کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پہ روتی بھی نہیں،، بڑی بہادر ہو گئی ہے،، میں تو اسکا کانفیڈنس دیکھ دیکھ کر حیران ہوتا رہتا ہوں" 

جو سب وہ کئی دنوں سے اندر چھپائے بیٹھا تھا آج موسی سے کہہ ہی دیا

موسی بھی  اسکے خشاش بشاش انداز دیکھ کر خوش ہوا تھا 

منیحہ کو فراس زبردستی لے کر آیا تھا کہ بابا بلاتے ہیں 

مگر جلال کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تو اسکے قدم دروازے پر رک گئے تھے

" ماما چلونا"وہ اسکاہاتھ پکڑے ہوئے تھا

منیحہ نے اسے انگلی منھ پر رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا 

جانتی تھی کسی کی باتیں سننا اچھی بات نہیں مگر وہ پھر بھی دم سادھے کھڑی ہوئی 

"" یار بس نہ پوچھو،، سب سے بڑا مسئلہ تو میرے اپنے بیٹے کا ہے،، مجال ہے میں اسے دیکھ بھی سکوں،، فورا کٹ کا سائن دیتا ہے وہ"

(یہ کس کے ساتھ لگا ہوا ہے🤔) 

منیحہ نے سوچا

" نہ کرو یار،، رات کو بھی میں تو بات نہیں کر سکتا، دونوں ماں بیٹا ہی میرے دشمن بنے ہوتے ہیں "

وہ اپنے دکھ سنا رہا تھا 

جبکہ منیحہ کا چہرہ تن رہا تھا 

(شرم تو نہیں آتی اسے) 

" کیا خاک رومینس،، یہ سب ختم سمجھو،، تیرے بھائی کی قسمت میں کوئی رومینس نہیں" 

اس سے پہلے کہ وہ مزید دکھ سنا پاتا منیحہ کی برداشت ختم ہوئی تھی،، اسکے کانوں کی لوئیں بھی سنسناہٹ کا شکار ہوئی تھیں 

یہ بندہ نہیں بدل سکتا۔اس خیال نے اسے اندر جانے پر مجبور کیا 

جلال ہڑبڑا گیا تھا

منیحہ نے اسے زہر آلود نظروں سے گھورا 

(سن لیا ہو گا،، پکا سن لیا ہو گا اس نے،، جو یوں گھو ررہی ہے) 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ وضاحت دے پاتا فراس نے دونوں کی مشکل آسان کی تھی

"بابا بلایا نا¿" 

وہ اب ماں کو باپ سے تصدیق کرا کر دے رہا تھا۔کہ وہ باپ کے کہنے پر اسے بلا کر لایا ہے

جلال نے بے یقینی سے اسے دیکھا

اس نے تو صرف اسے باہر بھیجنے کے لیے کہا تھا

"اگر اپنے حالات حاضرہ پر  روشنی ڈال لی ہو تو بتا دو کیا کام ہے" 

اس نے جتانا ضروری سمجھتے ہوئے کہا

جلال صحیح معنوں میں گڑبڑا کر رہ گیا 

"میں بعد میں کرتا ہوں،، کال" 

وہ ہکلا رہا تھا۔اسے اندازہ نہیں تھا منیحہ نے کتنی گفتگو سنی تھی 

مگر اسکے انداز بتا رہے تھے کہ وہ سن چکی ہے

(اب انکار کروں یا اقرار¿) 

اس نے خود سے پوچھا

"تمہاری بات نہیں کر رہا تھا میں"پھر اسنے بات سنبھالنے کے چکر میں مزید مشکوک جواب دیا

"اچھا تو کوئی اور سلسلے بھی ہیں ¿"

طنز سے وار کر گئی جلال مزید سٹپٹا کر رہ گیا اوپر سے منیحہ کی نظریں 

(افف..، میں کیا بول رہا ہوں ) 

"منیحہ میرا مطلب میں کچھ اور کہہ رہا تھا،، جو تم نے سنا وہ ٹھیک نہیں" 

اس نے بے بس ہو کر کہا

"تو پھر کیا ٹھیک ہے" 

وہ اسی سخت مشکوک لہجے میں بولی، جلال پھنس گیا تھا،، بات اتنی نہیں تھی جتنی اس نے بنا دی تھی 

" حد ہے یار ویسے ہی بات کر رہا تھا میں،، دوست ہے میرا،، "

وہ بے بس ہو گیا 

" میں نے کب کہا دوست نہیں ہو گا"

وہ سینے پر ہاتھ باندھے بات بڑھانے کے موڈ میں تھی، اسے بھی جلال کے ساتھ بحث مباحثہ اچھا لگ رہا تھا 

" حد ہے حدہے"  وہ جھنجھلایا 

"کبھی میری کوئی اچھی بات سمجھ نہیں آتی تمہیں،، بس کوئی نا کوئی فضول بات پکڑنی ہوتی ہے تم نے"

" میں فضول باتیں پکڑتی ہوں "

اسے یقین نہیں آیا تھا۔جلال نے براہ راست اسے دیکھا 

" منیحہ فار گاڈ سیک یار کیوں تم ایسے ہی عجیب ری ایکٹ کر رہی ہو،، میں مذاق میں کہہ رہا تھا "

" ابھی تو تم کہہ رہے تھے تم کسی اور کی بات کر رہے ہو"

وہ واقعی اسکی باتیں پکڑ رہی تھی 

" ہاں. ،نہیں، میرا مطلب ہے ٹھیک ہے میں تمہاری ہی بات کر رہا تھا،، مگر کیا غلط بات کر رہا تھا"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا سوال کر رہا تھا 

منیحہ نے اسے گھورا 

" مطلب یار تمہیں خود احساس نہیں ہو رہا کہ اتنے عرصے بعد ملے ہیں ہم، تمہیں مجھ سے بات کرنی چاہیے،، ٹھیک ہے میں مانتا ہوں میری غلطی ہے،، تم بے شک مجھے برا بھلا کہو،، مگر اگنور تو نہ کرو "

وہ شاکی تھا

(ہوں کہہ تو ایسے رہا ہے جیسے غلطی مان کر احسان کر رہا ہے) 

یہ منیحہ کی سوچ تھی 

" جلال، تمہیں لگتا ہے میں تمہارے ساتھ غلط کر رہی ہوں ¿"

اسکا لہجہ سخت اور آواز بلند تھی، فراس جو دونوں کے درمیان ہوتی اس گرما گرم بحث کو سن رہا تھا، ماں کا پلو پکڑا 

"ماما،، بابا ہیں نا" 

وہ اسے یاد کرا رہا تھا، کہ وہ حد ادب پھلانگ رہی تھی،. منیحہ نے باپ کے اس وکیل کو گھورا 

"آپ چپ رہیں" 

پھر اسے چپ رہنے کا کہا.. مگر جلال نے تو اسے اپنی سائیڈ لیتے دیکھ کر شکر ادا کیا تھا 

"کیوں وہ کیوں چپ رہے،، اگر وہ دیکھے گا تو بولے گا،، وہ بھی دیکھتا ہے کہ تم مجھے کس طرح اگنور کرتی ہو"

کل تک وہ اسے ولن لگ رہا تھا، اب اپنا محسن لگا تھا 

"جلال تم اپنی بات کرو، ایک تین سال کے بچے کا سہارا مت لو" مگر وہ تو دھاڑی تھی،، وہ دونوں ہی بیچارے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے البتہ فراس کے دوبارہ باپ کی طرف داری کرنے کی کوشش نہیں کی تھی

" ٹھیک ہے پھر اسے باہر بھیجو مجھے تم سے بات کرنی ہے" 

کچھ توقف کے بعد وہ بولا تو منیحہ نے بغور اسے دیکھا 

" جو کہنا ہے کہو"

"نہیں فراس کو باہر بھیجو" 

جلال نے خود اسے کہیں بھیجنے کی غلطی نہیں کی تھی، چند منٹ پہلے ایک کر چکا تھا 

"یہ کہیں نہیں جائے گا" 

وہ کچھ الجھ کر بولی.. پتہ نہیں اب وہ کونسے رومینس کے خاتمے کے رونے روتا ۔

" کیوں نہیں جائے گا،، ہر وقت تو تم اسکے ساتھ لگی رہتی ہو،، کبھی تمہارے پاس دو منٹ نہیں ہوتے کہ میری بات بھی سن لو" 

وہ مسلسل شاکی لہجے میں بول رہا تھا 

"جلال میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی جو تم کہہ رہے ہو" 

جلال کا فراس سے چڑنا اسکے لیے سمجھ سے بالاتر تھا

"کیا مطلب میں غلط تو نہیں کہہ رہا.، مطلب ٹھیک ہے تم اسے توجہ دو مگر اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ باقی سب کو بھول جاو"

وہ شاکڈ تھی۔

جلال کا یوں شکوہ کرنا اسکے لیے عجیب تھا۔اس طرف تو اس نے دھیان ہی نہیں دیا تھا

(اب یہ چاہتا ہے کہ اسکے ساتھ رومینس۔۔۔) 

وہ بس یہی سوچ سکی، پھر اسے حیرت بھری ملامتی نظروں سے دیکھا اور فراس کے انگلی پکڑے باہر آ گئی.. فراس بھی خفا تھا

" اب آپکو کیا ہوا ہے"کچھ دیر بعد وہ نارمل ہوئی تو اسکا پھولا چہرہ دیکھا 

"میرے بابا ہیں نا" 

وہ باپ کو ڈانٹے جانے پر خفا تھا 

"تو جو آپکے بابا تنگ کرتے ہیں وہ¿" 

منیحہ نے اسے خشمگی نگاہوں سے گھورا 

کیسے اسے باپ کا غم کھائے جا رہا تھا

اور باپ جو ساری دنیا کے ساتھ ضدیں لگا کر بیٹھا تھا وہ نظر نہیں آ رہا اسے"

منیحہ بس سوچ ہی سکی.. فراس اب بھی خفا سا اسکے پاس کھڑا تھا 

" اچھا اب موڈ ٹھیک کرو،، نہیں کرتی کوئی گستاخی آپکے بابا کی شان میں "


جلال کی بہن عظمیٰ آپی کل سے آئی ہوئی تھیں اور صبح بلال بھائی نے واپس جانا تھا۔اس لیے سب لاوئنج میں بیٹھے تھے منیحہ ان سب کو پرائیویسی دینے کے چکر میں کمرے میں آ گئی نماز بھی پڑھنی تھی  فراس البتہ پاپا کی گود میں کل سے چڑھا ہوا تھا. وجہ کوئی بری نہیں تھی مگر فراس کے لیے تو زندگی کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔

آپی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔

انھوں نے اپنے دیور کا بیٹا اسید گود لیا تھا۔جو عمر میں فراس جتنا ہی تھا۔مگر اسید صحت مند بلکہ کچھ گھپلا اور ڈھیلا سا تھا۔

اور وہ بھی انکے ساتھ ہی آیا ہوا تھا۔

اور فراس کی حالت اس شیر کی سی تھی جسکے علاقے میں کوئی علاقہ غیر کا شیر گھس آیا ہو۔

پاپا نے اسید کو پیار کیا تو فراس خاصہ غیر آرام دہ تھا۔پہلی نظر میں تو وہ سب ہنسے تھے مگر اب کل سے حال یہ تھا کہ فراس سارا وقت اسکے سامنے رہتا اور اپنی ہر چیز کی ممکنہ حفاظت کرنے کے جتن کر رہا تھا۔

ابھی بھی وہ خلاف معمول منیحہ کے ساتھ کمرے میں جانے کی بجائے کریم انکل کا گھٹنہ پکڑے بڑوں میں بیٹھا بری طرح بور ہو رہا تھا۔

مگر بیٹھنا بھی ضروری تھا۔اپنے علاقے کی حفاظت کرنا اس وقت ضروری تھا۔

"تم نیکسٹ منتھ تک آ جانا پھر تو سرجری ہو جائے گی،، اللہ نے چاہا تو سب پھر سے معمول پر آ جائے گا" 

بلال نے باتوں باتوں میں جلال کو مشورہ دیا تھا

"میں نہیں آ رہا اب،اور سرجری کے بارے میں ابھی میں نے سوچا نہیں" 

سب سے اسے گھورا 

"یار مجھے سمجھ نہیں آتی جب ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ ساٹھ فیصد امکانات ہیں کہ تم ٹھیک ہو جاو گے تو پھر تم کیوں نیا مسئلہ بنانا چاہتے ہو.. بڑی سرجری تو ہو گئی ہے اب تو شاید ایک دو چھوٹی چھوٹی سرجریز ہوں گی اور اللہ نے چاہا تو آئرن پلیٹس کی مدد سے تم کھڑے ہونے اور چلنے کے قابل بھی ہو جاو گے"

" جواب پاپا نے دیا تھا

"میں اس ساٹھ فیصد کے چکر میں مرنا نہیں چاہتا" 

وہ بہت دیر بعد بولا تھا 

"جلال کیا ہو گیا ہے تمہیں" 

بلال بھائی نے اس مایوسی پر اسے ٹوکا تھا 

"بھائی کیا گارنٹی ہے کہ میں ٹھیک ہو جاوں گا،، یہ بھی تو ہو سکتا ہے میں مر جاؤں،، یا میں بلکل بستر پر چلا جاوں پھر سے"

وہ یکدم تیز لہجے میں بولا تھا 

" جلال یار اچھا اور مثبت سوچو گے تو اچھا ہی ہو گا۔اور پہلے تو تم ایسا نہیں سوچتے تھے،، اتنے تو بزدل نہیں ہو تم "

انھوں نے اسے اس مایوسی سے نکالنے کو کہا

مگر وہ سر جھٹک کر رہ گیا

" جلال اچھا سوچتے ہیں میرے بھائی،، سب اچھا ہو گا ہم سب تمہارے لیے دعا کریں گے،، تمہیں کچھ نہیں ہو گا"

آپی نے اسے سمجھانا چاہا

"آپی میں اب زندہ رہنا چاہتا ہوں میں مرنا نہیں چاہتا"

وہ سر جھکائے بہت ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا تھا

سب کے دل پر ہاتھ پڑا تھا.، وہ سب کا لاڈلا، سبکی آنکھوں کا تارا تھا اسے یوں دیکھنا آسان نہیں تھا

" جلال اللہ نہ کرے تمہیں کچھ ہو ابھی تو تم نے فراس کو سکول بھیجنا ہے،، اسکی شادی کرنی ہے ہم نے.. اور جتنا تم نے ہمیں تنگ کیا ہے،، اتنا ہی تمہیں فراس کے ہاتھوں تنگ ہوتے ہوئے دیکھنا ہے" 

آپی نے خوشگواریت سے کہنے کی کوشش کی 

اور فراس کو دیکھا جو باپ کو یوں پریشان دیکھ کر الرٹ سا ہو گیا تھا. پاپا نے بھی اسے چہرے پر سوال اور تشویش دیکھ لی تھی اسی لیے اسے گود میں لیا 

" ارے یہ تو میرا بیٹا ہے. ابھی تو کل یہ مجھ سے لڑنے والا تھا جب میں نے جلال کو ڈانٹا" کریم انکل نے اسکا منھ چوما تھا جو اب بھی باپ پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا 

"جلال اب بس کرو اور نارمل ہو جاو،، دیکھو فراس بھی پریشان ہو رہا ہے تمہیں یوں دیکھ کر" 

بلال بھائی نے اسے ڈپٹا تو جلال نے اسے حوصلہ افزاء انداز میں دیکھا 

" ادھر آو"ہھر اس نے اسے اپنے پاس بلایا تھا۔وہ کچھ جھجکتے ہوئے اسکے پاس آ گیا 

"نیند آ رہی ہے آپکو" 

اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں پھر بھی وہ بڑے سوبر انداز میں وہاں بیٹھا ہوا تھا 

" نہیں "مگر وہ نفی میں سر ہلا رہا تھا

"لیکن اب تو رات ہو گئی آپ جا کر سو جائیں نا"

جلال نے اسکا چہرہ تھپتھپایا وہ باپ کے گھٹنوں پر کہنیاں ٹکائے اب مٹھیاں گالوں کے نیچے رکھے باپ کو دیکھ رہا تھا

"یہ اتنی جلدی اٹیچ ہو گیا ہے جلال کے ساتھ" آپ. کے لیے یہ حیران کن تھا.. کیونکہ اسید کل سے یہاں انکے ساتھ چپکا بیٹھا تھا، وہ اتنی جلدی کسی کے ساتھ فرینک نہیں ہوتا تھا۔

"بھئی ہمارا بیٹا بڑا ذہین ہے،، تمہارے بیٹے کی طرح نہیں کہ مرغی کے بچے کی طرح دب کے بیٹھا رہے "

پاپا نے فخریہ پوتے کی تعریف کر کے بیٹی کو چڑایا

"یہ تو کل. میں نے جلال کو ذرا ڈانٹا تو بڑا برامنا رہا تھا۔مجھے کہتا کمرے سے جائیں میرے بابا کو کچھ نہ کہیں" 

پاپا فخریہ اسکے کارنامے گنوا رہے تھے۔

" تو آپ اسے پکڑ کر بیٹھے ہیں اگر اسید کو اپنے پاس بلائیں گے تو ہی یہ ریلکس ہو گا نا" آپی نے بھی گلہ کیا

"اچھا بھئی ادھر آو اسید،. میرے پاس آو"

انھوں نے بیٹی. کا گلہ دور کرنے کی کوشش کی اسید سہما ہوا لگتا تھا، ماں کو تھام لیا تو عظمیٰ خود اسے پاپا کی گود میں بٹھا آئیں وہ رونے لگا تھا 

" اوئے اوئے رونا نہیں "پاپا نے اسے چپ کرانا چاہا اس سے پہلے کہ وہ اسے بہلا پاتے فراس نے اس چیخ و پکار پر مڑ کر دیکھا اسے تو گویا شاک لگا تھا۔وہ باپ کو وہیں چھوڑتا بجلی کی تیزی سے پاپا کی طرف آیا تھا

"میرے پاپا ہیں نا" 

اس نے سخت انداز میں اسید کو پرے دھکیل دیا تھا جو پہلے ہی سہما ہوا تھا مزید رونے لگا

سب شاکڈ تھے جبکہ فراس اب پاپا کی گود میں چڑھ کر بیٹھنے کے بعد کینہ. توز نظروں سے اسید کو دیکھ رہا تھا 

"کیا ہوا میرے بیٹے کو¿" 

کریم انک کے پیار دے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر حیرت سے پوچھا 

"یہ بھائی ہے نا،، چھوٹا سا بے بی ہے، ،آپکا دوست" 

عظمیٰ آپی نے اسے سمجھانا چاہا

"بے بی میرا نہیں ہے،، میں نہیں لیتا بے بی،،" 

اس نے سخت برا منایا تھا 

"پاپا بے بی گندے ہیں،، بے بی نا لیں نا"

پھر وہ دادا کی جانب مڑا تھا،، کچھ منھ بنا کر انھیں سمجھانا چاہا 

انکا اور بلال کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ساتھ جلال نے بھی حیرت سے اسے دیکھا ابھی کل ہی تو اسکی اور منیحہ کی بحث ہوئی تھی اور وہ بھی صرف اس لڑکے کی وجہ سے۔

" حد ہے یہ ان سیکیور ہو رہا ہے "

انھوں نے حیرت سے تجزیہ کیا

"شاید اسی وجہ سے بیٹھا ہوا ہے" جلال نے نتیجہ اخذ کیا جبکہ پاپا نے اسے ساتھ لگا لیا تھا 

"اچھا اچھا بھئی میں نہیں لے رہا،، مگر آپ دوست بن جاو نا اسکے" 

انھوں نے لاڈلے پوتے کو سمجھانا چاہا

جسے یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی تھی 

" میں نہیں بے بی لیتا" 

وہ صاف انکاری تھا 

کراہیت سے کہا۔

" توبہ ہے یہ تو قبضہ گروپ بن گیا ہے" 

بلال بھائی کے لیے یہ محظوظ کن تھا 

" نہیں میرا بیٹا ایسا نہیں ہے،، یہ اسید کا دوست بن. جائے گا، ،پھر اسید اور فراس اکٹھے کھلیں گے،، پھپھو اسکے لیے گاڑی بھی تو لائی ہیں،، اسید کی ماما فراس کی تو پھپھو ہیں نا" 

اس نے حیرت سے دادا کا بیان سنا

" نہیں میں نہیں کھیلتا" 

اس نے عظمیٰ کو گھورا پھر رجیکٹ کر دیا 

" تو پھر ہم آپکو گفٹس بھی نہیں دے رہے "

عظمی نے اسے لالچ دینا چاہا 

" میں ماروں آپکو ¿"

جبکہ اسکے پاس آسان ہتھیار بھی تھے، وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولا 

تو وہ چونک گئیں 

"توبہ ہے جلال مجھے تو لگا تھا کہ یہ منیحہ کے ساتھ رہا ہے تو اسکے جیسا ہو گا، مگر یہ تو بلکل بھی اس پر نہیں گیا"

انھوں نے مایوسی سے بھتیجے کا تجزیہ کیا۔جو آنے والے دنوں میں انکا یہاں قیام ناممکن بنانے والا تھا۔

سب کا قہقہہ بلند تھا۔جلال نے خوشی سے سر ہلایا۔

اور فراس کو دیکھا جو پاپا کی گود میں اونگھ رہا تھا 

" آپکو آپکی ماما کے پاس چھوڑ آؤں ¿"

اسے یوں مشکل میں دیکھ کر انھوں نے پوچھا 

"نہیں" 

وہ سختی سے انکے ساتھ لپٹ گیا تھا۔وہ شدید ان سکیور ہو رہا تھا۔

"اب نہیں جاتا یہ" 

بلال بھائی نے قہقہہ لگایا

وہ کچھ دیر میں انکی گود میں ہی سو گیا تھا

"منیحہ کیوں کمرے میں چلی گئی ¿"

عظمیٰ کو احساس ہوا تھا کہ منیحہ کافی دیر سے غیر حاضر تھی 

"وہ بی بی انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند نہیں کرتی" 

ماما نے ہنس کر زہریلا سا تجزیہ کیا تھا مگر کریم صاحب کی گھوری پر وہ مزید کچھ نہ بولیں 

"اس نے کالج جانا ہوتا ہے،، وقت پہ سو جاتی ہے،، پھر فراس بھی صبح فجر سے پہلے اٹھ جاتا ہے اس بیچاری کی تو نیند بھی پوری نہیں ہوتی ہو گی"

انھوں نے بہو کی غائبانہ  طرف داری کی 

منیحہ جو ابھی ابھی اپنے لیے چائے بنانے کی نیت سے کچن میں آئی تھی، اس نے سنا تو کریم انکل کی قدر اور عزت کئی گناہ پڑھ گئی تھی 

" ہاں یہ تو ہے،، اور آپکا ہوتا تو ویسے بھی بے صبرا ہے"

انھوں نے درست تجزیہ کیا تھا 

" ارے میرا بیٹا تو شہزادہ ہے۔" 

"بس کر دیں پاپا تھوڑا چڑھائیں اسکو " 

انھوں نے برا منا کر کہا۔

اور یہ سچ تھا۔جس انداز میں اسکے باپ کو رکھا گیا تھا اب اسی انداز میں اسے رکھا جا رہا تھا۔

کسی شہزادے کی مانند،، جو کہ اسکے لیے مسائل کا باعث بن سکتا تھا 

مگر اس وقت وہ اسکے آنے کو منا رہے تھے۔

"خیر ابھی یہ جلال ٹھیک ہو لے تو پھر تمہیں بتائیں گے ہم، کہ میرا بیٹا کتنا ذہین ہے، ابھی تو وہ تھوڑا پریشان ہے باپ کی وجہ سے"

انھیں احساس تھا،، اس گھر کر ہر ایک فرد ہی جلال کی حالت کے پیش نظر پریشان تھا

" ویسے جلال تم نے کیا سوچا ہے، اب پاکستان رہو گے یا واپس جاو گے¿"عظمیٰ نے موضوع بدلنے کو کہا

" اب کہیں نہیں جا رہا میں،، بس یہی رہوں گا"

وہ خفا سے لہجے میں بولا،، بمشکل تو واپس پلٹا تھا اب تو ایسا خیال بھی سوہان روح تھا

"تو پھر کیا کرو گے یہاں،، وہی پاپا کے ساتھ¿"

" میں کوئی سٹور سٹارٹ کر لوں گا،، وہ والا سٹور سیل کر دیں بھائی" 

پھر اس نے بلال کو کہا تھا جو واضح حیران ہوئے 

" سیل کیوں کرنا ہے، اچھا خاصہ چلتا ہوا سٹور ہے،، اب تو کوئی پارٹنر کا جھنجھٹ بھی نہیں" 

ایلی کے شئرز بلال نے جلال کے نام ہی کروا دئے تھے، اسکی گاڑی پاپا نے بکوا دی تھی اور پاپا ہی کا مشورہ تھا کہ ایلی کا حصہ بھی جلال ہی کے نام کر دیا جائے 

اور یہ انھی کی وجہ سے بخیر و خوبی ہو گیا تھا 

"میں کیا کرونگا اب اسکا،، جب وہاں رہنا ہی نہیں تو سٹور کا کیا کرنا ہے" 

وہ جھنجھلا گیا 

"سٹور سیٹ کرنے میں تین سال لگے ہیں تمہیں اور اب جبکہ سیٹ ہو گیا تو اسکو سیل کر دو گے" 

بلال کو یہ بے وقوفی ہی لگی تھی 

"ہاں تو میں یہاں سٹور کر لوں گا،، اور کچھ پیسے بھی چاہیئے مجھے "

وہ آخر میں دھیما ہوا تھا 

" پیسے کیا کرو گے"

پاپا کی حیرت بجا تھی 

"مجھے پیسے چاہیے پاپا،، مجھے ضرورت ہے"

وہ کندھے اچکا کر بولا

" جلال مگر تمہارے اکاونٹ میں پیسے ہیں،، اور کرنا کیا تم نے اب مزید پیسوں کا"

وہ الرٹ ہو گئے تھے، یقینا پھر کو فضول خیال اسکے ذہن میں آ چکا تھا ۔اسکے علاج پہ جتنا خرچہ آ رہا تھا وہ انھوں نے خود سے ہی کیا تھا پھر جلال کو پیسوں کی ضرورت پڑنا عجیب تھا 

"پاپا میں سوچ رہا ہوں فراس کے لیے سٹڈی انشورنس لے لوں "

وہ کچھ دھیمے لہجے میں بولا تھا مگر سب کو واقعتاً شاک پہنچا تھا 

 "کیا مطلب ¿" 

یہ بلال بھائی تھے، فراس کا ابھی سکول بھی شروع نہیں ہوا تھا،، وہ سٹڈی انشورنس کی بات کیوں کر رہا تھا 

منیحہ کے بھی کان کھڑے ہو گئے 

" مطلب کل کو اگر حالات ٹھیک نہیں ہوتے تو اسکے پاس اتنے تو ریسورسز ہوں کہ اپنی تعلیم مکمل کر لے" 

وہ نہایت سنجیدگی سے بولا تھا.، سبکے چہروں پہ حیرت اسے بھی دکھائی دے رہی تھی 

"میں نہیں چاہتا میرے بعد منیحہ کو کوئی ایشو ہو، میں چاہتا ہوں انکے لیے کسی سکیورٹی کا انتظام کروں،، ایک گھر وغیرہ اور ایک اچھی اماونٹ "

" جلال پاگل ہو گیے ہو تم،، کچھ نہیں ہو گا تمہیں،، تم خوامخواہ میں پریشان ہو رہے ہو،، سب ٹھیک ہو جائے گا" 

پاپا نے اسے سختی سے ٹوکا تھا 

" پاپا آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ سرجری کے بعد جتنے میرے ٹھیک ہونے کے چانسز ہیں اتنے ہی ٹھیک نہ ہونے کے ہیں،،میں ابھی تک کچھ نہیں کر سکا ان دونوں کے لیے،، آپ لوگ سب انڈیپینڈنٹ ہیں آپکو میری ایفرٹس کی ضرورت نہیں،، مگر فراس ابھی چھوٹا،، اور منیحہ کیا کیا کرے گی"

وہ آج ایک عجیب سا انسان لگ رہا تھا. کچن میں کھڑی منیحہ نے اپنی سانس روک رکھی تھی.۔اسکا تنفس تیز تھا 

اسکے ماں باپ متحیر تھے، بہن بھائی عرصے سے یہ احساس ذمہ داری دیکھنے کے خواہش مند تھے مگر اب دیکھنا بہت مشکل لگ رہا تھا 

جو وہ سوچ رہاتھا، جو وہ دیکھ رہا تھا کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا 

کوئی بھی محسوس نہیں کر سکتا تھا 

ایک معذور انسان کی حالت سمجھنے کے لیے معذور ہونا شرط تھا وہ جس ذہنی کیفیت کا شکار تھا وہ اچھی نہیں تھی یہ تو فراس کی شرارتوں اور منیحہ کا سہارا تھا کہ اسکا ذہن کچھ بہتر ہوا تھا 

زندگی کی کوئی رمق ابھی اس میں باقی تھی 

بلکہ وہ اب جینا چاہتا تھا 

"جلال یہ خیال کیوں آ رہا ہے تمہیں،، ہمیں تمہارے پیسوں کی نہیں ہمیں تمہاری ضرورت ہے" 

پاپا نے اسے ٹوکا تھا، وہ بہت دکھی لگ رہے تھے 

"اسکی بیوی کا خیال ہو گا یہ،، اتنے سے بچے کی انشورنس کون خریدتا ہے" 

انھیں جلال سے ایسی کسی بات کی امید نہیں تھی، یقینا منیحہ نے ہی یہ بات اسکے ذہن میں ڈالی تھی

اس خیال. نے انکے اندر ناپسندیدگی بھر دی

" ماما"

تنبہی پکار تھی،، وہ اب انکے ساتھ بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا تھا ورنہ ضرور زیادہ سخت احتجاج کرتا اب بھی اسکا لہجہ ناگواری لیے ہوئے تھا

منیحہ نے ضبط کرنا چاہا 

وہ جلال کے الفاظ سے دکھی تھی.. اسکے ماں کے الفاظ تو سینہ چیر گئے تھے 

(تو کیا وہ مجھے اتنی لالچی اور بے حس سمجھتی ہیں کہ مجھے اس سے زیادہ السے پیسوں کی دلچسپی ہے) 

"میں نے خود سے سرچ کیا تھا،، اور مجھے یہ بلکل ٹھیک لگا ہے،، منیحہ کو اس میں مت لائیں" 

وہ سختی سے کہہ رہا تھا۔

انھوں نے بیزاری سے کندھے اچکائے 

اس لڑکی نے نجانے کونسا جادو کیا تھا اس پر۔

پہلے وہ اسکی وجہ سے ان سے دور چلا گیا اور اب بھی اسکی کی وجہ سے یوں خفا ہو رہا تھا 

"اور یہ میرا فرض ہے،، پہلے دن سے مجھے یہ سب کرنا چاہیے تھا،، میں گدھوں کی طرح ادھر ادھر گھومتا رہا اور آپ لوگوں نے بھی کبھی مجھے احساس نہیں دلایا" 

وہ غصہ ہو چکا تھا۔سب نے ہی خفگی سے ماں کو دیکھا جنھوں نے غلط موقع پر غلط بات کی تھی

"اچھا ٹھیک ہے جو کرنا ہے کر لینا،، تمہاری پراپرٹی ہے جو مرضی کرو،، بلکہ اگر تم چاہو تو میرے سے بھی اپنا حصہ لے سکتے ہو،، بلکہ تک چاروں اپنا اپنا حصہ لے سکتے ہو، کل بھی دینا ہے بہتر ہے اپنی زندگی میں دے دوں" 

یہ پاپا تھے،، انھیں جلال کی آنکھ میں آنسو تو دور ایک ناگواری کا بل بھی منظور نہ تھا 

" پاپا ٹھیک ہے آپ تو رہنے دیں جو کرنا ہے کر لے،، مگر میرا مشورہ یہی ہے کہ سٹور مت بیچے،، چار چھ مہینوں میں اتنا پرافٹ نکل آئے گا کہ یہ انشورنس خرید سکے اور اگر گھر وغیرہ خریدنا چاہتا ہے تو بھی کچھ شئرز بیچ کر کام ہو جائے گا،، بلکل ختم مت کرے" 

بلال بھائی نے تفصیلاً مشورہ دیا 

" ٹھیک یے جو اسکا دل یے وہ کرے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں "

انھوں نے بات ختم کر دی تھی۔

بیٹے کی ذہنی حالت اور خدشات کچھ کچھ انکے سمجھ میں بھی آ رہے تھے۔. 

منیحہ تو سن سی تھی۔

جلال کی سوچ کا یہ رخ تکلیف دہ تھا

وہ جس اذیت کا شکار تھا، وہ آشکار ہو رہی تھی۔

(جلال کریم علوی تم جو بھی کر لو،،، مگر تمہیں ٹھیک ہونا پڑے گا،، تم ایسے ہمیں چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے) 

"میں نہ تو تم سے بیزار ہوئی ہیں اور نہ ہی تم سے لاتعلق ہوں" 

اس نے خود سے اقرار کیا تھا ۔

اس نے مصمم ارادہ باندھا تھا 

اور ساتھ ہی جلال سے دوٹوک بات کرنے کی ٹھانی۔۔۔

___________==_________________

"منیحہ میں خود کو بدلنا چاہتا ہوں.. آئی وانٹ ٹو بی اے گڈ فادر" 

بڑی مشکل سے فراس کو سلا کر اب وہ جلال کی طبیعت صاف کرنے کے ارادے سے اس کے ساتھ مغز کھپائی کر رہی تھی 

"تو کیا گڈ فادر ہونے کے لیے پیسہ ہونا ضروری ہوتا یے¿"وہ حیرت سے استفسار کر رہی تھی 

جلال نے الفت سے سوئے ہوئے فراس کے سر پر ہاتھ پھیرا 

" منیحہ زندگی گزارنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، فائننشل سکیورٹی ملنا تم دونوں کا حق ہے" 

وہ زور دے کر بولا تھا

اسے اپنی ذمہ داریوں کا دیر سے ہی سہی ادراک ہو گیا تھا 

اور اب وہ ہر صورت کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا 

وہ نہیں چاہتا تھا کہ کل اگر وہ نہ ہو تو اسکا بیٹا اسے ایک غیر ذمہ دار اور بے حس باپ کے طور پر یاد کرے 

"جلال ہمیں تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں"

وہ جھنجھلا کر رہ گئی

"منیحہ میں کیا کروں پھر،، میں اسکا فیوچر سکیور کرنا چاہتا ہوں،، میں تمہارا فیوچر سکیور کرنا چاہتا ہوں"

وہ بے بس ہو کر بیٹھ گئی تھی

"جلال فیوچر ہمارا پیسوں سے سکیور نہیں ہو گا۔ہمارا فیوچر تمہارے ساتھ ہے"

جو بات وہ اتنے دنوں سے زبان پر نہ لا پا رہی تھی آخر کار آ ہی گئی

" فراس کو معاشی سے زیادہ جذباتی سکیورٹی کی ضرورت ہے،، اور یہ کہاں لکھا ہے کہ تمہیں خدانخواستہ کچھ ہو جائے گا"

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ غصہ کرے یا اسے سمجھائے.. 

(یہ سمجھ کیوں نہیں رہا)

" منیحہ میں اسکے علاوہ تم لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا،، میں تم لوگوں کے لیے آج تک  کچھ بھی نہیں کر سکا"

وہ شدید احساس جرم کا شکار تھا

" جلال پلیز، ،بس کر دو"

اسکا دل ٹوٹ رہا تھا، مگر جلال کی اپنی فکریں تھیں وہ بہت دیر بعد بولا 

" منیحہ میں کمپن سیٹ کرنا چاہتا ہوں"

جلال کے چہرے پر تھکن تھی۔وہ اس جلال سے بہت مختلف تھا جس نے منیحہ کو سر راہ آوارہ گردی کرتے ہوئے سڑک پر روکا تھا۔

وہ خود سر، ضدی اور بے شرم قسم کا لڑکا تھا

اور یہ ایک جھکے کندھوں اور احساس شرمندگی سے بوجھل دل کے ساتھ ایک بدلا ہوا شخص تھا

وہ کئی پل دم سادھے اسے دیکھتی ہی رہ گئی

اس آدمی کے بدلنے، اسکے لوٹنے کے لیے اس نے ان گنت وظائف کیے تھے 

اللہ سے ہزاروں دفعہ دعائیں مانگی تھیں 

اور رو رو کر اسکی ہدایت کے لیے دعائیں کی تھیں ۔

اور آج وہ اسے ملا تھا تو کتنا بدلا ہوا تھا،، کتنا کمزور تھا۔احساس محرومی کا شکار لگ رہا تھا۔

یہ وہ تھا جو اسکے فراس کا باپ تھا۔جسے دیکھ کر اسکا لاڈلا بیٹا جی اٹھا تھا 

اسکی آنکھوں کی چمک ہزاروں گنا بڑھ چکی تھی

وہ اس سے اپنی ماں سے باپ کے لیے خفا ہوتا تھا 

" جلال" اسکی آواز کہیں دور سے سنائی دی تھی۔

"تمہیں پتہ ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا جب وقت وصال قریب آیا تو انکے پاس کچھ بھی نہیں تھا، سوائے چند دینار کے.،اور تم جانتے ہو عمر بن عبدالعزیز کون تھے،، یہ ایک بہت بڑے رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے،، انکو اسلام کا پانچواں خلیفہ کہا جاتا ہے.خلیفہ ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتی "

وہ رکی تھی،، پھر چلتے ہوئے آکر اسکے قریب بیٹھ گئی، جلال توجہ سے سن رہا تھا 

"تو انکے پاس ایک شخص آیا کہ یا امیر المومنین اگر آپ چاہیں تو میں آپکو ایک لاکھ دینار بھیج دیتا ہوں، جس سے آپ اپنی اولاد کے لیے کچھ وصیت کر سکیں "

وہ پھر سے رکی تھی، جلال کو بغور دیکھا جو بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا

"تو پتہ ہے جلال انھوں نے کیا کہا ¿"

وہ جوش سے بولتی رکی تو وہ جو انہماک سے سن رہا تھا، اسکی گردن لاشعوری طور پر نفی میں ہلی

" انھوں نے کہا اگر میری اولاد نیک ہوئی تو اسے میری تربیت کافی ہے،، اور اگر وہ نیک نہ ہوئے تو مجھے ان سے کوئی سرکار نہیں "

وہ ایک لفظ نہ کہہ سکا۔منیحہ نے ایک ہاتھ سے اسکاگھٹنہ پکڑ لیا تھا 

"جلال جو اسکی قسمت میں ہے وہ اسے مل جائے گا، ہم صرف اسکی اچھی تربیت کر سکتے ہیں،، اور ہمیں اسی پر توجہ دینی چاہیے "

وہ اسکی آنکھوں میں امید سے دیکھ رہی تھی 

" اور ویسے بھی کیا پتہ تم ٹھیک ہوجاو اور میں مر جاؤں" یکدم اسکا انداز بدلا تھا۔جلال کی محویت پر اس نے شرارت سے کہا تھا

" اللہ نہ کرے، منیحہ یہ  تمہارے بغیر نہ رہ سکتا "

وہ اسکے کہے کا مطلب سمجھا تو جھرجھری لی،، منیحہ نے سنجیدگی سے اسے سنا تھا.. پھر توقف کے بعد بولی 

" جلال ہم تمہارے بغیر بھی نہیں رہ سکتے"

ایک پل کو وقت رک گیا تھا ہر ہر شے نے اس کو سنا تھا 

اور یہ اقرار اتنا خوبصورت تھا،، اتنا دلکش تھا کہ جلال کے اندر جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بے قرار ہوا تھا، بہت دیر شاک میں رہنے کے بعد وہ بولا 

" منیحہ،، تم پتہ نہیں کیا ہو،، مجھے نہیں پتہ کہ تم کون ہو مگر تم بہت عجیب ہو" 

اس نے بہت جذب سے اسے اپنے حصار میں لیا تھا 

ایک پل کو وہ حیران ہوئی تھی پھر مسکرا دی۔

جلال کے ہاتھ اسے اپنی کمر پر کانپتے محسوس ہوئے تھے۔منیحہ کا سر اسکی گردن سے لگا تھا 

چند پل بہت خاموشی سے بیت گئے تھے ۔

وہ سرشار تھا۔اور منیحہ پرسکون ۔

وقت نے انکا یہ انداز بڑی محبت سے اپنے اندر سمیٹ لیا تھا

برسوں کے بچھڑے مل رہے تھے۔

آخر انکا انتظار ختم ہوا تھا۔

یہ لمحات بہت خوب تھے،، امر ہونے کے قابل تھے. دلوں کے میل صاف ہو گئے تھے

"منیحہ" وہ بہت دیر بعد بولا تھا

منیحہ نے اسکی گردن سے سر ہٹائے بغیر "اوں¿" کیا

وہ ان لمحات کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔

یہ خاموشی بھی بہت مقدس معلوم ہو رہی تھی 

"منیحہ تم میری زندگی میں آنے والی تمام عورتوں سے مختلف ہو،، تم ان میں سے کسی جیسی بھی نہیں ہو" 

جلال کی حیران سی آواز ابھری تھی۔

منیحہ نے خفگی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو جلال کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا 

"اپنی ان ہوتی سوتیوں کا ذکر نہ بھولنا تم کبھی" 

وہ اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ قائم کر چکی تھی خفگی سے بولی 

" ارے ایک منٹ بات تو سنو "

جلال نے ہڑبڑا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا

"کوئی ضرورت نہیں تم پہلے یاد کر لو اپنی ان بچپن کی ناکام محبتوں کو" 

(سارا ماحول برباد کر دیا اس آدمی نے،، پھر رونے روتا ہے کہ رومینس نہیں رہا زندگی میں) 

"منیحہ میں نے کسی کا ذکر نہیں کیا،، میں تو تمہاری تعریف کرنے کی کوشش کر رہا تھا" 

وہ بیچارگی سے بولا۔

پتہ نہیں بیوی کو پٹانا اتنا مشکل کام کیوں تھا؟ 

" بڑی مہربانی آپ نے مجھے لائق تعریف سمجھا" 

وہ طنز سے کہتی فراس کو اسکے اور اپنے درمیان کر رہی تھی۔بہت ہو گئیں بے قراریاں۔

"منیحہ اب ایسے تو نہیں کرو تم"

وہ جھنجھلا گیا تھا

(ایک تو اتنے ڈائیلاگ اکٹھے کیے اور یہ لڑکی) 

"سو جاو جلال،، میں مزید تمہاری زندگی میں آنے والی *عورتوں * کا ذکر خیر نہیں سننا چاہتی "

ہر عورت کی طرح اسکی بھی یہی کمزوری تھی ۔وہ کسی دوسری کا ذکر بھی نہیں سننا چاہتی تھی 

اور اپنے خاص لمحات میں تو بلکل بھی نہیں ۔

 "منیحہ تم میری شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو"

وہ بستر پر دراز ہو کر آنکھیں موند چکی تھی۔

جلال نے درست تجزیہ کیا۔

" شرافت اور جلال کریم علوی دو متضاد چیزیں ہیں" اس نے آنکھیں کھولے بغیر اعتماد سے کہا جس کو جلال نے بھی محسوس کیا تھا 

"بہت لمبی زبان نہیں ہو گئی تمہاری ¿" 

وہ مصنوعی خفگی سے بولا تھا، جسکے جواب میں منیحہ کا قہقہہ شرارت بھرا تھا

"سو تو ہے" 

"مت بھولو کہ جلال کریم علوی ایک حد سے زیادہ ڈھیل نہیں دے گا تمہیں "

وہ بھی اسکی شرارت سمجھتے ہوئے  جلال کریم علوی پر زور دے کر بولا تھا،، منیحہ کے پرسکون چہرے پر بھی مسکراہٹ دوڑ گئی تھی،، جلال نے بغور اسے دیکھا 

"جلال کریم علوی پہلے سرجری کی تیاری کرے،، پھر دیکھتے ہیں کہ کون ڈھیل دیتا ہے اور کون نہیں "

اسکا انداز بے حد لطیف تھا، جلال کے اندر سے قہقہہ پھوٹا تھا

(ہے پوری ضدی عورت) 

" کیا گارنٹی ہے کہ میرے سرجری کے لیے مان جانے پر تم شریف ہو جاو گی¿" 

وہ محتاط لہجے میں بولا تھا، منیحہ نے اٹھ کر اسے گھورا 

" میرے پیچھے کونسی آٹھ ملکوں کی پولیس لگی ہوئی کہ پھر میں شریف ہو جاوں گی" 

وہ مصنوعی خفگی سے برا منا کر بولی

"پولیس تو بیچارے ہم جیسے معصوموں کے پیچھے لگتی ہے، آپ جیسے لوگ تو قانون کی نظر میں ہمیشہ معصوم شہری ہی رہتے ہیں "

وہ بھی جواباََ اسی انداز میں بولا تھا، منیحہ نے اسے گھورا

" میرے پاپا پر قبضہ کر لیا،، میرے بہن بھائی تمہاری تعریفیں کرتے ہیں اور مجھے ملامت کرتے ہیں،، اور تو اور یہ لوفر(فراس) بھی تمہاری ہی سائیڈ لیتا ہے"

اسکے دکھوں کی فہرست طویل تھی۔

اور وہ دونوں یہی سمجھتے تھے کہ فراس دوسرے کی سائیڈ لیتا ہے ۔

منیحہ کا کہنا تھا وہ باپ کی سائیڈ لیتا ہے 

اور جلال کا ماننا تھا کہ وہ ماں کی سائڈ لیتا ہے

منیحہ نے لطف لیا تھا 

" اپنا اپنا ٹیلنٹ ہے"

پھر وہ فرضی کالر اکڑاتے ہوئے بولی

"یہ ٹیلنٹ کسی اچھی جگہ پر دکھاو"

جلال نے اسکا دایاں ہاتھ اپنی گرفت میں لیا تھا، جسے اس نے چھڑا لیا تھا 

"انسان بنیں"

"بہت انسان بن چکا ہوں،، اب کافی ہو گیا ہے" 

وہ عاجز آیا 

"میں نے کہا نا،، پہلے سرجری کرائیں پھر بات ہو گی" 

وہ اپنی ضد کی پکی تھی 

"تو کیا یہ ڈیل ہے¿"

جلال کو مانتے ہی بنی 

"ڈیل ہی سمجھیں" 

"اور اگر سرجری کے بعد تمہیں رونا پڑ گیا تو پھر؛ ¿" 

منیحہ نے اسے غصے سے گھورا،، اچھی بات تو اس انسان کو کرنی ہی نہیں تھی 

مگر جلال کے چہرے پر شرارت تھی 

" یہ نہ ہو کہ تم باقی کی زندگی مجھے یاد کر کر کے پچھتاتی رہو کہ کیا اچھاااااا آدمی تھا، مگر افسوس میں نے قدر نہ کی"

وہ اچھا کو لمبا کھنیچتے ہوئے بولا تھا

" بے فکر رہیں اتنی آسانی سے جان نہیں چھوٹتی اب آپکی،، بڑی مشکل سے ہاتھ آئے ہیں اب جا نہیں سکتے" 

وہ پر اسراریت سے بولی

تو جلال نے چونک کر اسے دیکھا 

" کیا مطلب کیا کیا تھا تم نے،، جو مشکل سے ہاتھ آیا ہوں ¿"

وہ الرٹ سا بولا تھا، منیحہ نے بے جا ہنسی اڑائی،، بہت کنکھتی سی ہنسی تھی،، کتنے سالوں بعد وہ اس طرح سے ہنسی تھی 

فراس کسمسا رہا تھا 

" کچھ راز، راز ہی رہنے دیجیے جلال صاحب "

وہ ہنسی روک کر بولی تو جلال کا تجسس مزید بڑھا

"نہیں بتاو نا،، منیحہ کونسے راز¿" 

وہ پیچھے پڑ گیا تھا 

(ایسے ہی اپنے سارے وظائف بتا دوں تمہیں ¿) 

اس نے صرف سوچا تھا 

"کچھ چیزیں میرے اور میرے اللہ کے درمیان سیکرٹ ہیں" 

وہ دائیں کہنی کے بل سر کچھ اوپر اٹھائے اسکی جانب ہی دیکھ رہی تھی 

اسکے چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان تھا جس سے ہمیشہ جلال کو رشک آتا تھا 

پتہ نہیں یہ لڑکی اتنی مطمئن کیسے ہوتی تھی 

"چلو میں بھی پتہ لگا کر رہوں گا،، کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ہر اچھے مومنٹ پر مجھے تمہاری یاد آ جاتی تھی اور سارا مزہ خراب ہو جاتا تھا" 

وہ مصمم ارادے کا اظہار کر رہا تھا 

کچھ تھا جو ہمیشہ کسی برائی کی طرف جاتے اسکے قدم روک دیتا تھا ۔

وہ خود کو برائی کی طرف جانے والے راستے سے پلٹنے پر مجبور ہو جاتا تھا 

اور ایسا ہمیشہ اسکے ساتھ ہوتا تھا

کبھی اسے خود پر غصہ آنے لگتا، کبھی اسے ایلی پر غصہ آنے لگتا اور ساراماحول تباہ ہو جاتا 

شاید اسی وجہ سے ایلی اس سے مایوس ہو گئی تھی۔

(یہ عورت یقینا کچھ نہ کچھ کرتی ہو گی) 

جلال کو منیحہ پر شک تھا اب یقین ہو گیا تھا۔

___________-____________

رات کا نجانے کونسا پہر تھا جب اسے یوں محسوس ہوا جیسے زمین زلزلے کی ضد میں ہے، ہر شے بلندیوں سے اسے اپنے اوپر گرتی محسوس ہو رہی تھی۔

یکدم خوف کی کیفیت میں اس نے آنکھیں کھولی تھیں 

اور اپنا چہرہ چھوا، وہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔چند پل وہ اپنا دماغ حاضر نہ کر پایا۔

وہ بہت ڈرا ہوا تھا 

پھر آہستہ آہستہ تار سے تار ملے تو اسکا ذہن زمانہ حال سے مطابقت قائم کر چکا تھا

اسکے اوپر دو کشن گرے ہوئے تھے اور تیسرا اسکے دیکھتے دیکھتے گرایا گیا تھا 

فراس بستر کر کھڑا چھلانگیں لگا رہا تھا

ساتھ "اللہ اکبر" کی صدائیں بھی بلند کر رہا تھا غالباً اذان دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، یا کوئی جنگ جاری تھی

"فراس" 

وہ شدید صدمے کی کیفیت میں اسے پکار رہا تھا

"او بابا" 

اس نے اسے جاگتا دیکھ کر نعرہ مستانہ لگایا اور دھڑام سے اس پر گر گیا 

جلال اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھا 

"فراس یہ کیا کر رہے ہو¿آپ نے مجھے ڈرا دیا" 

وہ ابھی تک بے سدھ پڑا تھا 

"بابا میں اذان پڑھتا ہوں" 

وہ اذان پڑھ رہا تھا 

"حد ہے بیڈ پہ اچھل کود کر کے اذان کون پڑھتا ہے یار" 

اس نے اپنا چہرہ خشک کیا۔نجانے اسکی ماں کہاں تھی

"منیحہ کدھر ہے ¿" 

"منیحہ واش روم میں،، مانا بولتی بابا کو اٹھاو، اذان ہو گئی"

وہ فجر کی اذان سن کر اسے اٹھانے کی بجاۂے خود اذان پڑھنا شروع ہو گیا

حد ہے، آج  تک کسی نے اسے یوں نیند سے نہیں جگایا تھا 

" تو یار یہ کونسا طریقہ ہے اٹھانے کا،، آپ آرام سے بھی اٹھا سکتے تھے نا"

وہ کوشش کر کے سیدھا ہو گا فراس گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھا تھا، باپ کا گلہ نظر انداز کر گیا۔

" میری کیپ لی ہے"

اس نے سفید نماز والی ٹوپی پہن رکھی تھی،، غالباً یہی اسکے جوش و خروش کی. وجہ تھی 

"کہاں سے لی ہے"جلال نے آنکھیں ملتے ہوئے اسے دیکھا 

" میری ماما دی ہے نا"

وہ سوال کیا جانا پسند نہیں کرتا تھا، جواب کچھ جتانے والے انداز میں دیتا تھا 

"اچھا، منیحہ کدھر ہو"

اس نے منیحہ کو آواز دی تھی۔

"منیحہ" فراس نے بھی اسے آواز لگانا ضروری سمجھا تھا 

وہ باہر آکر تر چہرے کے ساتھ اسے گھور رہی تھی 

"نیچے آئیں نماز پڑھیں "وہ صبح صبح ہشاش بشاش تھا.. صبح وہ نارمل ہوتا تھا البتہ رات سونے سے پہلے ایک بار ضرور رونے کا شغل پورا کرتا تھا 

"ماما میں بڑا مصلا پڑھتا ہوں "

وہ چھوٹے جائے نماز پہ نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں تھا 

"آپ چھوٹے ہیں،، آپ چھوٹے پہ پڑھیں" 

منیحہ نے اسے سمجھانا چاہا پھر جلال کی وہیل چئیر پر بیٹھنے میں مدد کی ۔

"آپ پڑھو میں بابا کو وضو کرا لوں" 

منیحہ نے اسے شروع کرنے کا اشارہ دیا 

" نہیں میں جاتا ہوں "

وہ بھاگا تھا۔

ہر کام میں براہراست شامل ہونے کا اسے بہت شوق تھا 

" نہیں آپ پڑھیں "

منیحہ نے اسے منع کیا تھا 

"میرے بابا ہیں نا،" 

وہ سینے پر ہاتھ رکھے، ماتھے پر بل ڈالے اپنی اہمیت جتا رہا تھا 

جلال ابھی تک کچھ دیر پہلے والے صدمے سے نہیں نکلا تھا.، منیحہ نے اسے صرف گھورا، وہ مجبوراََ رک گیا تھا 

"میری بمبل بی نماز پڑھتی ہے "

وہ واپس آئی تو بڑے جائے نماز پر خود کھڑا وہ چھوٹے والے پر گاڑی رکھے اسے بھی نماز پڑھوا رہا تھا 

"منیحہ نے گاڑی ہٹا کر اسے بازوں سے اٹھا کر چھوٹے جائے نماز پر کھڑا کر دیا تھا 

" منیحہ! "

وہ غصے سے چلایا تھا،، جلال نے بے اختیار مسکرا کر اسکا غصیلہ چہرہ دیکھا جو ماں کو بنا پروٹوکول کا خیال کیا تنبہی پکار رہا تھا 

"فراس!" 

وہ خفا ہوئی تھی 

بابا کا لے لو نا ماما" 

وہ دوبارہ ماں کے جائے نماز پر کھڑا گاڑی چھوٹے والے پر رکھ کر قبضہ پکا کر چکا تھا  ساتھ اسے مشورے سے بھی نوازا

جبکہ جلال اپنا سا منھ لے کر بیٹھا تھا 

صبح اسکی آنکھ کھلنے سے پہلے اسکی زندگی زلزلوں کی ضد میں آتی تھی اور دن کا شاید ہی کوئی پہر سکون سے گزرتا تھا ۔

فراس کے دماغ کی بیٹری اتنی تیز تھی کہ سارا وقت فل رہتی تھی۔

جلال اور منیحہ بمبل بی کے نماز ختم کرنے کا انتظار کر رہے تھے

انکی شدید خواہش تھی وہ گڈ پیرنٹس بنتے مگر اس وقت وہ انھیں اپنے اشاروں پر نچا رہا تھا 

یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہ آ رہی تھی 

_____________________________

وہ سب بلال بھائی کو ائرپورٹ چھوڑ کر ابھی ابھی آئے تھے۔

جلال اور منیحہ گھر ہی رک گئے تھے جبکہ انکل آنٹی، آپی، اسید کے ساتھ فراس بھی گیا تھا آتے ساتھ وہ ماما ماما کرتا اپنے کمرے کی جانب بھاگا تھا تو منیحہ کو اسکے ساتھ باہر آنا پڑا 

"منیحہ بچے چائے بنا دو"

انکل کو چائے کی طلب ہو رہی تھی

؛"آپ لوگ بیٹھیں میں بنا لاتی ہوں"

وہ فراس کو وہیں چھوڑتی کچن میں چلی گئی تھی

"آپ ادھر کھیلو"

اس نے گاڑیوں کی کلیکشن کے پاس فراس کو جلد آنے کے وعدے پر چھوڑا تھا

"میں باہر کھیلتا ہوں"

وہ بیرونی دروازے کے سامنے پورچ کے سامنے سیڑھیوں پر اپنی گاڑیاں لے کر چلا گیا تھا 

" ماما میں بھائی "اسید نے بھی اپنی ماں کو فراس کے ساتھ جانے کا کہا تھا

" فراس یہ دیکھو یہ بھی آپکا بھائی ہے،، آپ اسکو بھی کھلائیں ساتھ"

انھوں نے اسید کو اسکے پاس کھڑا کیا تھا جو کہ پیلی گاڑی پر بیٹھا ہوا تھا 

"نہیں میرا بھائی نہیں"

اس نے منھ بنا کر کہا تھا 

" بھائی ہے آپکا میری جان،، ابھی تو ہم بھی آپکے ساتھ رہیں گے آپ دونوں کھیلو گے"

عظمی نے اسکا منھ چوما جس پر فراس نے ناگواری سے اپنا چہرہ رگڑا تھا 

"چلو شاباش میرا بیٹا،، دونوں بھائی دوست بن جائیں"

انھوں نے اسید کو اسکے پاس چھوڑ دیا،، مجبوراً ہی سہی وہ خاموش ہو گیا تھا 

منیحہ نے چائے بنائی، اور ساتھ ہی نگٹس فرائی کرنے لگی 

سب لاونج میں بیٹھے تھے، بلال بھائی کے جانے کے بعد سے آنٹی نے رو رو کر حال برا کیا ہوا تھا 

بڑی اولاد ہمیشہ ماوں کی آل ٹائم فیورٹ ہوتی ہے

فراس بھاگتا ہوا آیا تھا 

اور آتے ساتھ وہ پاپا کے پاس رکا تھا 

"پاپا یہ کس کا گھر ہے¿" 

اس نے دونوں ہاتھوں سے کریم علوی کا چہرہ تھام رکھا تھا 

"ہیں¿. یہ کیا بات ہوئی" 

وہ حیران ہوئے تھے

"یہ کس دا گھر ہے" 

وہ گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا 

"گھر،، یہ. میرے بیٹے کا گھر کے اور کس کا ہے" 

اپنی دانست میں انھوں نے بہترین جواب دیا تھا 

اور وہ فراس کو پسند بھی آیا تھا 

"یہ میرا گھر ہے¿، اسید کا گھر کونسا ہے تو¿" 

وہ سینے پہ ہاتھ رکھے تسلی کر رہا تھا 

"ہاں یہ میرے بیٹے فراس کا گھر ہے،،. اسید کا گھر تو دور ہے نا، وہ تو پلین پر بیٹھ کر آئے ہیں؛" انھوں نے اسکا منھ چوما تھا،، جسکی عجیب و غریب فکریں تھیں 

تین سال کے بچے کو یہ فکر تھی کہ گھر کس کا تھا

" اسید پلین پر بیٹھ کر گھر جاتا ہے، بڑے والے پلین پر،، اڑتا ہے پلین ¿"

وہ اب کہانی کو جوڑ رہا تھا 

کریم صاحب اسکی ذہانت پر فخریہ ہنسے تھے 

" ہاں بلکل پلین پر بیٹھ کر،، جب آپکے بابا ٹھیک ہو جائیں گے تو آپ بھی جانا انکے گھر" 

"عجیب ہی باتیں کرتا ہے یہ" 

انھوں نے ہنس کر تبصرہ کیا تھا 

ہھر وہ بیوی کو سمجھانے میں لگ گئے عظمی انکا سر دبا رہی تھیں 

"فراس کدھر ہے، ¿" 

جلال کو رونے کی آواز سنائی دی تو وہ بھی اپنے کمرے سے باہر آ گیا تھا 

"یہ ادھر کھیل رہا تھا" 

جواب عظمیٰ آپی نے دیا تھا 

"رو کون رہا ہے" 

"ٹھہرو میں دیکھتی ہوں" 

وہ بھی بھاگی تھیں،، باہر کوئی بلک بلک کر رو رہا تھا اور یقینا وہ فراس نہیں تھا کیونکہ وہ گلہ پھاڑ کر روتا تھا 

"چلو میں دیکھتی ہوں" 

وہ کسی خدشے کے تحت بھاگی تھیں 

"جاو اپنے پاپا پاس چلے جاو" 

وہ پورچ کی طرف اترتی سیڑھیوں پہ کھڑا بڑے پن سے مشورے دے رہا تھا 

جبکہ بلکتا ہوا اسید بیرونی دروازے کی طرف الٹے پاؤں چلتا اس قدر فراس کے رعب میں تھا کہ واقعی گھر سے باہر جا رہا تھا 

" پلین پر بیٹھ کے اپنے پاپا پاس گھر چلے جاو" 

وہ ساتھ ہاتھ کے اشارے سے بھی اسے سمجھا رہا تھا، 

"فراس" 

انھوں نے چیخ کر اسے روکا تھا جلال بھی اسے دیکھ چکا تھا 

"یہ کیا کر رہے ہو" 

وہ ششدر تھیں.، اسید رو رو کر باولا ہو رہا تھا 

"اپنے گھر جاو نا" 

وہ بیزار ہو کر بولا تھا 

" میرا بیٹا "

انھوں نے بیرونی دروازے پر کھڑے اسید کو اٹھایا تھا جو انکے سینے سے لگا ہوا تھا 

"فراس ایسے نہیں بولتے" جلال بھی اپنی جگہ حیران تھا اسید روئے جا رہا تھا 

"توبہ ہے،، کتنا یہ رجڈ بچہ ہے تمہارا،،"

"آئم سوری آپی"

منیحہ شرمندگی سے زمین میں گڑنے والی ہو رہی تھی۔

"میں بہت شرمندہ ہوں، مجھے دھیان رکھنا چاہیے تھا" 

وہ چہرے سے ہی شرمندہ لگ رہی تھی 

انکل نے منیحہ کی مبینہ ڈانٹ سے بچانے کے لیے فراس کو اپنے پاس بٹھا رکھا تھا اور ابھی بھی وہ اسید کو ماتھے پہ بل ڈال کر منتقمانہ نگاہوں سے گھور رہا تھا 

"اچھا چلو کوئی نہیں بچے لڑتے رہتے ہیں "

انکل نے بیٹی کا غصہ کم کرنے کی نیت سے کہا 

"پاپا اگر وہ اسکو گھر سے نکال دیتا تو¿، آپکو. پتہ ہے پاکستان میں آج کل کیا حالات ہیں میں کہاں ڈھونڈتی اسے" 

وہ صدماتی کیفیت میں بولیں 

"اچھا اب اتنی بھی سر پر سوار نہ کرو،، دونوں بچے ہی تو ہیں،، اور ویسے بھی بچے ایک دوسرے سے جیلس ہوتے ہی ہیں" 

وہ پوتے کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے 

" پاپا اس حد تک کوئی نہیں کرتا، اسکو لوگوں کو برداشت کرنے کے عادت ڈالیں، ورنہ ساری زندگی یہ یہی کچھ کرتا رہے گا" 

لاڈلے بھائی کا بیٹا بے شک انھیں عزیز تھا مگر اپنے بچے سے زیادہ عزیز تو نہیں تھا،، اسی لیے وہ شاکی ہو رہی تھیں 

"مجھے تو لگا تھا یہ جلال سے دور رہا ہے تو کچھ مختلف ہو گا مگر یہ تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے،، پہلے باپ ہمیں پاپا کے پاس بھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا اور اب بیٹا گھر سے نکال رہا ہے" 

یہ انھوں نے منیحہ کو سنایا تھا جو مزید خجل ہوئ تھی زندگی میں پہلی بار اتنا شرمندہ ہوئی تھی وہ بھی اپنے ہی لاڈلے کی وجہ سے جو ابھی بھی بلکل شرمندہ نہیں تھا 

منیحہ نے دانستہ اسے نظر انداز کیا تھا 

جس طرح وہ تنا ہوا بیٹھا تھا اگر منیحہ اسے کچھ کہتی بھی تو یقینا وہ آگے دے بدتمیزی ہی کرتا،، اسے چہرے کے تاثرات سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسکے ذہن میں بہت کچھ چل رہا تھا 

منیحہ نے تشویش سے فراس کو دیکھا 

"اچھا توبہ ہے آپی بس کر دیں بچہ یے وہ آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں کہ آپکو واقعی نکال دیا ہے اس نے" منیحہ کو یوں خوامخواہ میں شرمندہ ہوتے دیکھ کر وہ پہلی دفعہ بولا تھا 

ساتھ ہی اسے گھورا بھی 

"بھائی جو حالات ہیں نا اس نے واقعی کل کو یہی کرنا ہے،، جب سے ہم آئے ہیں میرے بچے کو ڈرا کر رکھا ہوا ہے اس نے"

انھوں نے اسید کو پیار کیا جو اب بھی خوفزدہ نظروں سے فراس کو دیکھ رہا تھا جو کسی سے بھی بات نہیں کر رہا تھا 

"اچھا بس کر دو عظمی اور تم اپنے بیٹے کو سمجھاو،، یہ گھر فراس کا ہے، تو اسکے ساتھ دوستی کر کے رہے"

کریم صاحب کے پوتے کو غصیلی چہرہ دیکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا تھا 

پھر اسے گدگدانے لگے

مگر وہ ہنس ہی نہیں رہا تھا 

"میری جان یہ اسکی ماما کے پاپا کا گھر ہے نا،، گیسٹ ہے،، آپ بھی تو سلمان ابو کے گھر جاتے ہو،، اسید بھی ملنے آیا ہے،، پھر چلا جائے گا،، آپ اس سے دوستی کر لو نا" 

انھوں نے اسے پیار سے نارمل کرنا چاہا تھا 

"اپنے گھر جائے نا،، اپنے بابا پاس جائے نا" 

وہ اتنے غصے سے بولا تھا کہ کریم صاحب نے مصنوعی خوف کے تاثرات چہرے پر سجا لیے 

" دیکھ لیا کس طرح سے اسکو برا لگ رہا ہے ہمارا یہاں آنا"اس وقت وہ اٹیک کر رہی تھیں منیحہ معافی تلافی کر رہی تھی

جبکہ کریم صاحب اور جلال سچویشن کو ڈائلیوٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے 

"میرا تو نہیں خیال یہ تم لوگوں کو نیکسٹ بے بی کی بھی اجازت دے گا،، اسکو سمجھاو ورنہ پھر ساری زندگی اسے ہی لے کر پھرتے رہنا"

انھیں فکر تھی کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی کچھ شئر نہیں کر سکے گا 

منیحہ کا سر شرمندگی سے جھک گیا تھا، جبکہ جلال نے جواب دینا ضروری سمجھا تھا 

"ہاں ہم نے کونسا پوری فوج پیدا کرنی ہے،، اسی کو لے کر پھرتے رہیں گے"

وہ اپنے حساب سے جواب  دے رہا تھا حالانکہ. اس وقت ایسے کسی جواب کی ضرورت نہیں تھی مسئلہ یہ تھا کہ منیحہ اس وقت اسے گھور بھی نہیں سکتی تھی

"اچھا کوئی نہیں،، اب بات کو ختم کرو،، بچے لڑتے رہتے ہیں "

انکل نے دونوں بہن بھائیوں کو بات بڑھاتے دیکھ کر ٹوکا تھا 

" جب بچہ ہو گا دیکھا جائے گا،ویسے بھی ایک بہن تو لینی ہے فراس نے"

انھوں نے اسکے تاثرات جاننے چاہے 

اور منیحہ اس سر عام چلتی فیملی پلاننگ پہ عش عش کر اٹھی

" آپ اسکو نہ اٹھائیں،، اسکو پلین پر بٹھا دیں"

وہ شعلے برساتی آنکھوں کے ساتھ اسید کو دیکھ رہا تھا 

منیحہ نے اسکا غصیلی چہرہ پریشانی سے دیکھا تھا جسکے حواس پہ اسید کی موجودگی سوار ہو چکی تھی 

"فراس ادھر آئیں میرے ساتھ چلیں کمرے میں" منیحہ نے اسے سپاٹ انداز میں پکارا تھا

ایک پل کو اس نے انھی نگاہوں سے ماں کو دیکھا پھر اسکی نگاہوں کا تاثر بدلا تھا 

"میں نہیں جاتا"

اور اب اسکا انداز بھی قدرے نارمل تھا، غصہ بہت حد تک کم ہو چکا تھا 

"ماما آپکو ایک اچھی سی سٹوری بھی سنائیں گی اور آپکی گاڑیاں بھی باہر پڑی ہیں وہ بھی اٹھائیں"

اس نے اسے موقع سے بمشکل ہٹایا تھا

"منیحہ اب ڈانٹنا مت اسکو"

جلال کو فکر ہو رہی تھی 

وہ ان سنا کر کے اسکی گاڑیاں سمیٹ کر اسے کمرے میں لے گئی

"میرا گھر ہے نا، پاپا میرے ہیں نا"

وہ اکیلا ہوتے ہی ماں کو و ضاحتیں دے رہا تھا مبادا منیحہ اسے ڈانٹنا ہی نہ شروع کر دے 

"لیکن فراس ایسے تو نہیں کرتے نا"اس نے خفگی سے کہا تھا

" سید اپنے پاپا پاس جائے نا،، دور اپنے گھر"

وہ بھی خفا سا منھ بنا کر اب منیحہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا

؛جان بوجھ  کر اسکا نام بھی غلط پکار رہا تھا

"سید نہیں اسید، اور وہ آپکی پھپھو ہیں نا،، بابا کی بہن ہیں نا،، ایسے تو نہیں بولتے نا"

وہ چپ رہا تھا مگر اسکا اس بات سے اتفاق نہ ہونا اسکے چہرے سے عیاں تھا 

"اور  اسید تو بے بی ہے، آپ بے بی کے ساتھ ایسے تو نہیں کرتے نا"

"میں نہیں لیتا گندے بے بی،، اپنی ماما پاس کھیلے نا،، میں مارتا ہوں "وہ دہشت پھیلا رہا تھا

منیحہ کی ہنسی بمشکل رک سکی 

" نہیں میرا بے بی نہیں مارتا،، فراس تو میرا بے بی ہے، ،"

اس نے اسے پچکارنا چاہا. اس وقت وہ غصے کا جواب غصے سے دیتا

" ماما تم گندے بے بی نہ لو،، "وہ اب ماں کو سمجھا رہا تھا

منیحہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہر جگہ اسے مشورے نجانے کیوں دئے جا رہے تھے 

پہلے آپی، پھر پاپا اور اب فراس 

" ٹھیک ہے جی میں بے بی نہیں لونگی کوئی اور حکم ¿" وہ سر تسلیم خم کر رہی تھی

"میں آپکا بے بی ہوں نا،، بابا بے بی نہیں لیتے،،"

وہ اسے پریشانی سے بچانے کے لیے تسلی دے رہا تھا مبادا وہ مایوس نہ ہو جائے 

"اچھا ٹھیک ہے ،بابا بھی نہیں لیں گے، مگر اب آپ اسید کے ساتھ نہیں لڑیں گے"

"ماما میں اسید کو نہیں دیکھتا،، میں نہیں لڑتا،، اسید گندا بے بی ہے"

وہ اب خود معصوم بن کر سارا الزام اسید پر رکھ رہا تھا 

(تم دونوں باپ بیٹا شریف ہو،، باقی ساری دنیا خراب ہے) 

"ماما اسید کی ماما سے نہ بولو"لچھ یاد آنے پر وہ ماں کو سمجھا رہا تھا کہ اسے اسید کی ماں سے بھی دور رہنا چاہیے 

" کیوں ¿"

منیحہ کی کیوں حیرت زدہ تھی 

"اسید کی ماما گندی ہیں،، اسید کی ماما سے نہ بولو" 

اسکی آج تک جرات نہیں ہوئی تھی کہ اپنے ماں باپ کو بتا سکتی کہ کس سے بات کرو اور کس سے نہ کرو 

مگر اسکا تین سالہ بیٹا اسے سمجھا رہا تھا. نجانے اسے تربیت کی ضرورت تھی یا فراس کو

" ایسے نہیں بولتے،، اسید کی ماما تو آپکی پھپھو ہیں "

" نہیں،، وہ اونچا اونچا بولتی ہیں" 

وہ اپنے موقف پر قائم تھا،، دلیلیں دے رہا تھا منیحہ ششدر تھی 

اسکے خیال میں عورت کا اونچا بولنا بھی ایک برائی تھی 

(یا اللہ میں کیسے تمیز سکھاوں گی اسکو) 

اسکا ذہن پریشان ہو گیا تھا 

جلال بھی کمرے میں آ چکا تھا 

اور آج انکی صلح بھی ہو گئی تھی، اور اس نے جلال کو سرجری کے لیے راضی بھی کر لیا تھا.. 

وہ شاید سن چکا تھا

"ایسے نہیں بولتے فراس"

"بابا میں آپکا بے بی ہوں" 

اس نے دونوں ماں باپ کو ایک موقف پر دیکھ کر بات بدلنا مناسب سمجھا 

"ہاں فراس میرا بے بی ہے، ،اور یہ میرا دوست بھی ہے،، اور یہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا" 

وہ اسے تسلی دے رہا تھا،، منیحہ فکر مند تھی چپ بیٹھی تھی 

کچھ دیر وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے 

" منیحہ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ پانچ پانچ بچے کیوں پیدا کرتے ہیں، اسی لیے میں کہتا ہوں بچوں کی لائن لگانے کی بجائے ایک بچے پر ہی توجہ دینا بہتر ہوتا ہے "

نجانے کس بات پر اس نے نتیجہ اخذ کیا تھا مگر منیحہ تو بھری بیٹھی تھی توپوں کا رخ اسکی طرف کیا 

"مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تم یہ فیملی پلاننگ ہر جگہ لے کر کیوں بیٹھ جاتے ہو"وہ دھاڑی تھی 

ایک پل کو جلال سہم گیا تھا 

" جلال تمہیں ذرا شرم نہیں آتی یوں سب کے سامنے یہ سب ڈسکس کرتے ہوئے ¿" 

"توبہ ہے میں تو ایسے ہی ایک بات کر رہا تھا" 

وہ اس ردعمل پر سخت بدمزہ ہوا تھا 

" یہ ایک بات تمہیں لاؤنج میں کرنے کا خیال کیوں آتا ہے "

وہ جھنجھلاہٹ کا شکار تھی 

"اچھا ہے آئندہ لاؤنج میں نہیں کرونگا،، اور تمہیں کیا جن پڑتے ہیں ایک دم ڈرا دیتی ہو "

وہ واقعی ڈرا گیا تھا ۔

منیحہ نے بے بسی سے ان دونوں کو دیکھا وہ شاید مرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا ہوتی تو ان دونوں کے ساتھ پوری نہیں ہو سکتی تھی۔

چھ ماہ بعد 💖

"ایک تصویر ہی بنا لیں یہاں" ایفل ٹاور کے سامنے کھڑے وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے جب  منیحہ ایک ناتمام خواہش کو تمام کرنے کی غرض سے کہا 

"ہاں کیوں نہیں" جلال نے فورا موبائل جیب سے نکالا تھا

"سیلفی نہیں،، ٹھیک سے فوٹو پیچھے پورا ایفل نظر آئے" 

منیحہ نے سیلفی سے انکار کیا تھا 

" اچھا،، چلو بلکہ فوٹو گرافر کی کیا ضرورت ہے ۔فراس ادھر آئیں یہ ذرا فوٹو تو بنائیں" 

اس نے کمرہ آپشن آن کر کے فون اسکے ہاتھ میں دیا اور خود دونوں اس سے تین فٹ کے فاصلے پر جا کھڑے ہوئے 

منیحہ کے چہرے پہ بہت شاندار مسکان تھی جلال نے اسے اپنے حصار میں لے لیا 

 چلو فراس بنا لو"وہ دونوں مسکراتے ہوئے کیمرے میں دیکھ رہے تھے 

منیحہ کا سر جلال کی گردن سے ٹکرا رہا تھا 

اور جلال نے ایک بازو اسکے گرد پھیلا رکھا تھا 

" اس میں میں تو آتا ہی نہیں ہوں"

وہ فکر مندی سے بولا تھا

" کوئی بات نہیں آپ کیمرے کے پیچھے سے آ جائیں گے ابھی ہماری فوٹو بنا دیں" 

جلال نے اسے تسلی دی 

کچھ دیر وہ ماتھے پر بل ڈالے تشویش سے موبائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہا 

"جلدی کرو فراس بنا بھی دو" وہ دونوں انتظار کر رہے تھے 

" بابا میں بناتا ہوں،، تم آتے نہیں پو"اس نے اب فون نیچے کر لیا تھا اور پریشان ہو کر چیک کر رہا تھا 

جلال بے منیحہ کا ہاتھ چھوڑ کر اسکے پاس جانا مناسب سمجھا 

"دکھائیں" موبائل اسکے ہاتھ سے لیا تو اسے گھورا بیک کمرہ کی جگہ اب فرنٹ کیمرہ آن تھا اور اس نے اپنی دو تین سیلفیز لی ہوئی تھیں ان دونوں کی ایک تصویر بھی نہیں تھی 

اور فرنٹ کیمرہ میں وہ بیک کیمرہ کے سامنے کھڑے ماں باپ کو تلاش رہا تھا 

"یار حد کرتے ہو آپ بھی،، ہماری فوٹو لو میری اور ماما کی" 

اس نے موبائل پہ پھر سے بیک کیمرہ آن کر کے موبائل اسے تھمایا 

"میں آتا نہیں ہوں نا" 

وہ بے زار ہو کر اب پھر انکے پاس آ گیا تھا 

"ہر جگہ تمہارا آنا ضروری نہیں ہے،،" جلال نے اسے گھورا 

"میری اور منیحہ کی فوٹو بناو جاو"اب اس نے کچھ سخت انداز میں کہا تھا 

" میں اپنی ماما پاس کھڑا ہوتا ہوں" 

وہ بھی منھ بنائے باپ کو اسی انداز میں جواب دے رہا تھا 

"نہیں آپ منیحہ کے پاس کھڑے نا ہوں پہلے فوٹو بنائیں،، میں آپکی ماما کے پاس کھڑا ہو جاوں گا" جلال نے فون اسے بڑھاتے ہوئے منیحہ کا ہاتھ تھاما تھا جو اس صورتحال پر ان دونوں کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی 

" تو میری ماما کو کیوں پکڑتے ہو" اس نے منیحہ کا ہاتھ جلال کے ہاتھ سے چھڑا لیا تھا 

" یہ میری بیوی یے "

جلال نے بھی اپنی اہمیت جتائی 

" تو میری بیوی ہے نا" اسکے پاس بھی جواب تھا 

"نہیں یہ آپکی ماما ہیں،، آپ اپنی بیوی کے ساتھ بنوانا، ابھی میری کو بیوی کو چھوڑو"جلال نے اسکے ہاتھ سے منیحہ کا ہاتھ لے لیا تھا جو اب ہنس رہی تھی مگر فراس روہانسا ہو گیا تھا 

"میں ماما کا بے بی ہوں" وہ اب جلال کو دھمکا رہا تھا 

" ٹھیک ہے جاو،، میں اور بے بی لے لوں گا"

وہ اس دھمکی میں نہیں آیا تھا 

" تو پھر مجھے  بیڈ سے کیوں گراتے ہو"

اسے جلال کا بے پرواہ انداز اچھا نہیں لگا تھا 

"ہیں ¿، یہ کس نے بتایا اسکو" 

جلال کو کرنٹ لگا تھا،، منیحہ نے شرارے سے اسے دیکھا رات جب وہ جلال نماز پڑھ رہا تھا تو فراس ضد کرنے لگا منیحہ اسے لے کر بیٹھی رہ گئی جلال تو اذان سنتے ہی نماز کے فرض کو پورا کر کے آزاد ہو جاتا تھا اور جب وہ پڑھ چکا تو منیحہ سوئے ہوئے فراس کو جلال کے پاس لٹا کر نماز پڑھنے چلی گئی اور جلال کی لاپرواہی کی وجہ سے سوتے ہوئے وہ نیچے گر گیا تھا رات کو اسے پتہ نہیں چلا تھا صبح منیحہ نے بتایا تھا تو اب وہ جلال کو طعنہ دے رہا تھا

"منیحہ تمہیں شرم نہیں مجھے ڈی فیم کرتے ہوئے" 

جلال کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ منیحہ کا کارنامہ ہے 

"میں نے کونسا جھوٹ بولا ہے گرایا تو تھا نا تم نے میرے بے بی کو" 

وہ اسکی سائیڈ پہ ہو گئی تھی فراس اب خفا نظروں سے جلال کو. گھورتا منیحہ کے پاس آگیا تھا 

"ہاں اور تم اتنی ہلکی بندی ہو کہ تم سے یہ بات دل میں نہیں رکھنے ہوئی" 

اسے منیحہ کا فراس کو بتانا برا لگا تھا بھلا کیا تھا جو وہ نہ بتاتی 

مگر امیج تو ضرور خراب کرنا تھا نا

"ہاں تو میں نے بتا دیا،، میں کیوں چھپاتی" جوابات وہ ڈھٹائی سے بولی 

"ماما نہ بولو بابا سے"فراس کو تو اب اس سے بات کرنا بھی گوارا نہیں تھا

" ماما اس طرف چلو" وہ جلال کی مخالف سمت میں چلنے کا کہہ رہا تھا 

"ٹھیک ہے جاو جاو،، بعد میں جب منیحہ سے ڈانٹ پڑے گی تو پھر باپ یاد آئے گا"

وہ بھی ان سے فاصلہ رکھ کر چل پڑا تھا 

اور اب حال یہ تھا کہ وہ لوگ سڑک کے دو مختلف کناروں پہ چل رہے تھے

اور منیحہ کی ایفل کے سامنے تصویر بنوانے کی ناتمام خواہش ناتمام ہی رہ گئی تھی

کچھ خواہشیں پوری نہیں ہوتیں 

وہ ہمیشہ ناتمام ہی رہتی ہیں ان پر ماتم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا 

"ماما بابا ساتھ نہیں بولنا،، بابا کو اٹھانا نہیں" 

وہ سارے تعلق ختم کرنے کی بات کر رہا تھا، ساتھ اس پر نگاہیں بھی جمائے ہوئے تھا جو ان دونوں کو  کینہ روز انداز میں گھور رہا تھا

منیحہ فراس کی باتوں کو بظاہر دھیان اور حقیقت میں بے دھیانی سے سن رہی تھی 

______________-----__________

" منیحہ اسے سمجھاو"

جلال اب تنگ آ چکا تھا۔جبکہ وہ اسکے پندرہ منٹ کے پہلے والے اور پھر دس منٹ کے بعد والے مذاکرات کو بھول بھال کر جلال سے پہلے بستر پر پہنچ چکا تھا۔

"میں کیا سمجھاوں"

کتاب کو ہٹاتی وہ لاتعلقی سے بولی، جلال کو مایوسی ہوئی 

"دیکھو فراس،، میری بات سنو،، جاو شاباش اپنے بیڈ پہ سوو جا کر"

اس نے اپنا لہجہ دوستانہ رکھتے ہوئے صبر سے کہا 

"نہیں میں ماما پاس سوتا ہوں نا"

وہ اطمینان سے زور دے کر بولا ۔

جلال کے برعکس نہ وہ غصے میں لگ رہا تھا اور نہ چڑا ہوا بلکہ پراعتماد اور مطمئن سا تھا۔

" یار اگر اس نے یہیں سونا تھا تو مجھے فیملی سویٹ لینے کی کیا ضرورت تھی"

وہ منیحہ سے کہہ رہا تھا مگر منیحہ یوں کتاب میں سر دئے بیٹھی تھی جیسے اس وقت مطالعہ سے ضروری کوئی چیز نہ ہو

"فراس اٹھو چلو شاباش"

منیحہ کو جواب نہ دیتے دیکھ کر وہ پھر سے فراس کو اٹھا کر کمرے کے دوسرے حصے میں چھوڑنے کے لیے جانا چاہتا تھا مگر وہ چیخا تھا

" ماما،، ماما پاس سونا ہے نا"

پھر کچھ منھ بنا کر کہا۔اور منیحہ کی گود میں گر گیا

"نہیں آپ اپنے بیڈ پہ سوئیں"

جلال نے نفی میں سر ہلایا

"میں نہیں جاتا.، میری ماما پاس سوتا ہوں نا"

وہ چیخا تھا اور منیحہ کو زور سے پکڑ لیا تھا

جلال بے بس ہو گیا اوپر سے منیحہ کی خاموشی پر بھی غصہ آ رہا تھا جو اسے سمجھانے کی بجائے چپ بیٹھی تھی

"منیحہ اب دیکھ لو تم،، یہ میری بات نہیں سن رہا اور تم اسے بلکل کچھ نہیں کہہ رہیں "

وہ غصے سے اسے تنبہیی انداز میں یاد دلا رہا تھا کہ اسے ہمیشہ کی طرح فراس کو منانا اور سمجھانا چاہیے

"میں کیا کہوں،، تم لوگ آپس میں بات کر رہے ہو،، میرا مطلب ہے آپ لوگ"

وہ نہایت اطمینان سے اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولی درحقیقت اسے جلال اور فراس کے درمیان یہ اختلاف بہت مزہ دے رہا تھا ورنہ سارا دن تو انکی دوستی بے مثال سی ہوتی تھی مگر *منیحہ * پر آ کر وہ ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے جو کہ منیحہ کے لیے پر لطف تھا 

" ٹھیک ہے میں اسے چھوڑنے جا رہا ہوں،، ساری دنیا کے بچے علیحدہ کمروں میں سوتے ہیں یہ کیوں نہیں سوسکتا" 

وہ زیر لب دہراتا فراس کو زبردستی بانہوں میں اٹھا چکا تھا جو اب مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا اور ساتھ ہائے اوئے بھی لگا رکھی تھی

مگر جلال اسے بستر پر لٹا کر برقی رفتار سے درمیانی دروازہ بند کر چکا تھا 

اب حال یہ تھا کہ دروازے کی ایک طرف وہ دروازہ بجا رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ جلال دروازہ کھول دے دوسری جانب جلال اس امید پر کھڑا تھا کہ وہ مجبور ہو کر واپس چلا جائے اور سو ہی جائے 

مگر وہ ننھا شریر جواباََ جوان حوصلوں کے ساتھ دروازے پہ قسمت آزمائی کر رہا تھا 

"منیحہ اب دیکھ لو تم اسکو،، کہا بھی تھا اسکو ماما پاپا کے پاس چھوڑ آتے ہیں" 

جلال کو سکون بھی نہیں آ رہا تھا

"ایسے ہی چھوڑ آتے" 😏

منیحہ نے کتاب ہٹائے بغیر اطمینان سے کہا 

"پھر دیکھ لو تم اسکو،، ذرا تمیز سکھائی ہوتی تو اسے پتہ ہوتا کہ باپ کیا کہہ رہا ہے "

وہ اب منیحہ کو طعنے دے رہا تھا 

" منیحہ دروازہ کھولو"

دوسری طرف فراس کی منت سماجت اور دہائیاں جاری تھیں، باپ سے مایوس ہو کر اب*منیحہ* کو پکارا جا رہا تھا 

"میرے ساتھ تو بدتمیزی نہیں کرتا وہ،، ہاں تمہاری ذمہ داری نہیں لے سکتی میں "

وہ برا منائے بغیر بولی، اپنا نام سننے کی اب اسے عادت ہو گئی تھی 

" جو تمہیں کرتا ہوا دیکھے گا وہی کرے گا نا،، سو دفعہ کہا ہے تم تم نہ کیا کرو،، خود تم سوچتی ہو نہیں اور اسے تمیزیں سکھا رہی ہوتی ہو" 

وہ چڑا ہوا تھا منیحہ کو ڈانٹا۔جسکی اس نے پرواہ نہیں کی۔

"فراس سو جاو"

پھر اسکی دہائی کے جواب میں کچھ سختی سے کہا

" بابا میں ماما پاس سونا ہے" 

دوسری طرف وہ بھی اپنی مجبوری بیان کر رہا تھا 

" جو میں کہہ رہا ہوں وہ نہیں سن رہا،، بس اپنی ہی چلاۂے گا"

"تو یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم اسے اتنا فری کر چکے ہو،، اب وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ نگوسی ایشنز کر سکتا ہے تو یہ تمہاری غلطی ہے"منیحہ نے اسکی جھنجھلاہٹ میں اضافہ کیا

"میرا دماغ خراب مت کرو تم،، اگر جا کر اسے کہو تو سو جائے گا وہ"

وہ کچھ دھیما ہوا تھا

" میں کیوں کہوں"

اسنے کندھے اچکائے

جلال کا جی چاہا ان دونوں کو کہیں بند کر دے

" تم سو جاو نا ،،تھک کر سو جائے گا"

منیحہ نے آنکھ دبا کر اسے چیلنج کیا جانتی تھی اس طرح جلال نہیں رہ پائے گا

اور وہ واقعی ٹھنڈا سانس لے کر رہ گیا 

" بابا میں نے آنا ہے نا" وہ پھر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا 

کوئی اور ہوتا تو اب تک وہ لڑ جھگڑ کر رو رہا ہوتا مگر اب وہ اطمینان سے ضد کر رہا تھا 

انھیں پیرس میں دوسرا دن تھا کل بھی اس نے یہی کیا تھا اور آج بھی یہی کر رہا تھا 

جلال نے مجبور ہو کر دروازہ کھول دیا

اب حال یہ تھا کہ باپ ایک طرف کھڑا گہری سنجیدگی سے گہرے سانس لے رہا تھا اور دوسری جانب وہ جو کچھ دیر قبل روہانسا لگ رہا تھا، فاتحانہ انداز میں مسکرا کر باپ کو دیکھتا اندر داخل ہوا 

پھر بھاگ کر بستر پر منیحہ کی گود میں گھس گیا

"ماما" 

ایسے گلے لگا جیسے سالوں بعد مل رہا ہو

"رو کیوں رہے تھے" 

منیحہ نے اس سے پوچھا 

"وہ میں جان جان کر کر رہا تھا" وہ شرما کر بولا جلال دونوں کو قہر آلود نظروں سے دیکھ رہا تھا 

"اچھا بس کر دو جلال ،،چھوٹا ہے وہ ابھی،، اکیلے کمرے میں نہیں رہ سکتا" 

منیحہ نے جلال کا غصہ کم کرنے کی نیت سے کہا 

"میں اسے کشمیر نہیں بھیج رہا تھا.، اسی کمرے میں دوسرے حصے میں سونا تھا اسے"

وہ کاٹ کھانے کو دوڑا جواباََ منیحہ چپ رہی

تھوڑی دیر بعد ماں کے ساتھ لپٹا وہ مطمئن سا سو رہا تھا 

لائٹ آف تھی جلال ناراضی سے دونوں کی طرف پشت کیے پڑا تھا 

منیحہ نے شرارت سے ہاتھ بڑھا کر اسکے بالوں میں پھیرا مگر جلال کو تو کرنٹ لگا تھا 

" چھوڑو مجھے"

 وہ فراس کی بجائے منیحہ سے خفا تھا 

" میں نے کیا کیا ہے¿"

وہ حیرت سے بولی،، مگر اسکی ہنسی کی جھنکار جلال کو مزید تپا رہی تھی 

"کہا بھی تھا اسکو چھوڑ آتے ہیں، چند دنوں کی تو بات تھی" 

وہ بہت خفا تھا

"جلال چھوٹا ہے وہ،، اور ویسے بھی آپ کیوں اتنے ڈسٹرب ہو رہے ہیں" 

وہ ایک تین ساڑھے تین سال کا بچہ تھا مگر کیا کیا جاتا کی اسکے ساتھ ہونے سے جلال کی پرائیویسی ڈسٹرب ہو رہی تھی وہ جو نجانے کیا کیا پلان کر کے بیٹھا ہوا تھا اب تپا ہوا تھا 

" میرا دماغ خراب مت کرو اب تم.، سو جاو"

وہ بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا سر کے نیچے سے کشن نکال کر اپنے اور ان دونوں کے بیچ میں رکھا،، یہ سخت ناراضی کا اظہار تھا 

"اچھا بات تو سنیں نا"

وہ شرارت سے کہتی پھر سے اسکے سر تک پہنچ چکی تھی 

"کوئی بات نہیں سننی، اور صبح واپس جانے کی تیار کرو"

اچانک واپسی کے پلان پر منیحہ کی حیرت بجا تھی 

"واپس،، اتنی جلدی ¿آپ تو کہہ رہے تھے پندرہ بیس دن رہیں گے یہاں،، کیا بور ہو گئے ہیں " 

" نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں اور میں جا بھی کہیں نہیں رہا" 

اس نے کاٹ کھانے والے انداز میں کہا 

" تو پھر کون جا رہا ہے"

" تم لوگ،، تم لوگ جا رہے ہو اور میں اپنا ٹور پورا کر کے آوں گا"

منیحہ کا قہقہہ بے ساختہ تھا 

" ہم تو کہیں نہیں جا رہے،، ہم تو بابا کے ساتھ گھومیں گے، انجوائے کریں گے"

وہ پیار سے فراس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی جو نیند میں بھی اسے یوں پکڑے ہوئے تھا جیسے جلال ابھی اسے واپس وہیں چھوڑ آئے گا

" میں بتا رہا ہوں تمہیں میں اسے چھوڑوں گا نہیں،، زندگی میں سے رومینس کا تو نام ہی ختم کر دیا ہے اس نے،، اسکو سکھاو کہ کسی کی پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے" 

وہ اٹھ بیٹھا تھا 

"چلو اب اسکو لٹا آوا ادھر اسکے بیڈ پر" 

اسکا غصہ کم ہو گیا تھا

"ہرگز نہیں میں اپنی جان کو دھوکا نہیں دونگی،، اتنی اس نے جنگ کی ہے اور اب میں اسے سوتے میں چھوڑ آوں"

اس نے فراس کو محبت سے ساتھ لگایا تھا 

وہ بہت مطمئن تھی 

" منیحہ تم میری بھی کچھ لگتی ہو" 

"بے شک لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ میرے بیٹے کے ساتھ اس طرح کریں "

" ٹھیک ہے پھر اسے رہنے دو ہم چلتے ہیں "

وہ بستر سے اتر کر اب جوتے پہن رہا تھا 

منیحہ نے اپنی بے ساختہ ہنسی کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی 

جبکہ جلال اسے زبردستی گھسیٹتا لیپ ٹاپ اٹھاتا نکل رہا تھا۔

ان دونوں نے ایک پرانی مووی دیکھنے کا پلان بنایا تھا

جلال نے اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا وہ کھلکھلا رہی تھی

جلال بے حد مطمئن تھا،، اتنے عرصے سے وہ وکیشنز پلان کر رہا تھا اور آخر انھیں موقع مل ہی گیا تھا

"سویٹ ہارٹ،، تم بیٹھو میں لیپ ٹاپ کی وائر کنکشن کے ساتھ لگا کر آتا ہوں"

اسے وہیں چھوڑ کر وہ اٹھ گیا تھا.. پھر وہ اسکے حصار میں اطمینان سے بیٹھی تھی 

جلال محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا

اور اس سے پہلے کہ وہ ڈوب جاتی کسی نے انھیں روکا تھا 

"ماما" فراس اٹھ کر آ گیا تھا،، اب خفا سا آنکھیں مل رہا تھا

جلال اور منیحہ نے بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا 

"میں سوتا ہوں تو تم آتی نہیں ہو"

وہ اب منیحہ کی گود میں فٹ ہو کر اس پہ اپنی خفگی کا اظہار کر رہا تھا

جلال کا چہرہ تن گیا تھا 

"لے جاو اسے"

اس نے ہاتھ اٹھا کر منیحہ کو باہر کا راستہ دکھایا

"جلال۔۔"

وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر جلال کا صبر جواب دے گیا تھا 

"ایک لفظ بھی نہیں،، بس لےجاو "وہ دونوں ہاتھوں سے سر کو پکڑتا وہیں ڈھے گیا تھا

جبکہ فراس منیحہ کی گود میں پھر سے سو گیا تھا

منیحہ اسے لے گئی تھی

جلال چند پل وہیں بے حس و حرکت دراز رہا پھر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا

"جلال تُو روزے رکھ اور تسبیحیں پڑھ، یہ رومینس وینس نہیں ہوتا اب تجھ سے "

وہ بڑبڑایا 

پھر اپنی بات سن کر خود ہی بے تحاشہ ہنسا 

جو آج اسکی حالت تھی کبھی اسنے خواب میں بھی نہ سوچی تھی۔

گہری سانس لیتا وہ واپس اٹھ گیا تھا

اس سب نے اسکی زندگی میں رنگ بھر دئے تھے۔ایسے کتنے کی دن تھے جب وہ اکیلا ہوتا تھا،، کبھی موسی کے پاس کبھی اسکے دوستوں کے ساتھ اور کبھی کچھ پلان کرتا، مقصد صرف یادوں سے جان چھڑانا تھا مگر اب سب کیسے بدل گیا تھا۔

اسکی زندگی میں اتنی خوشگواریت تھی کہ اسکا خواب بھی نہ دیکھا تھا 

وہ شکر گزار ہوتا ان دونوں کے پاس آگیا جو بے سدھ پرسکون نیند سو رہے تھے۔

جلال نے مسکراتے ہوئے انھیں احتیاط سے اپنے حصار میں لے لیا۔

وقت کی دو آنکھیں اسے یوں مطمئن دیکھ کر پر اسرار سی ہنسی ہنسی تھیں 

کون کہہ سکتا تھا یہ آدمی جو آج شکر ادا کرتا نہ تھکتا تھا

کل اتنا بھٹکا ہوا تھا کہ شراب، زیادتی اور اپنی ہی اولاد کا قتل اسکے لیے معمولی تھا

مگر آج وہ اپنے خاندان کے لیے سب سے بہتر تھا۔

اسکا مطلب وہ سب سے بہتر تھا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا 

"تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہے۔

اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم سب میں سے بہتر ہوں" 

وہ بھی اسی اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے خاندان کے لیے ایک بہتر فرد بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

______&______

"فراس آپ ادھر رکو میں اور ماما بس دو منٹ میں آتے ہیں" 

بیچ پہ بنے اس ہٹ کے نیچے رکھی دو کرسیوں میں سے ایک پر اسے بٹھا کر جلال نے منیحہ کا ہاتھ پکڑا تھا

"نہیں" وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا

"میں آپکے ساتھ جاتا ہوں نا" 

وہ ماتھے پہ تیوری چڑھائے باپ کو سمجھا رہا تھا

دونوں نے سی گرین پینٹس اور سفید ایک جیسی شرٹس پہن رکھی تھیں 

" نہیں فراس ابھی آپ ادھر بیٹھو،، ابھی ادھر پانی بڑا ہے نا، تو آپ ڈوب جاو گے" 

جلال نے اسے جواباََ خطرات سے آگاہ کرنا چاہا مگر اس میں بھی فہم و فراست کوٹ کوٹ کر بھری تھی 

"تو پھر مجھے ٹھا لو نا"

وہ بازو پھیلا کر کھڑا جلال کو اٹھانے کا کہہ رہا تھا 

"نہیں نا یار"

منیحہ کا ہاتھ چھوڑ کر وہ اسکے پاس ٹک گیا تھا،، نجانے اب اسے منانے میں کتنا وقت لگنا تھا،، جب سے وہ یہاں آئے تھے بس جلال فراس کے ساتھ مذاکرات ہی کر رہا تھا

وہ جرمنی آئے تھے وہاں سے سٹور کے معاملات ختم کر کے اب وہ جانے سے پہلے یورپ کے مختصر ٹورر پر نکلے ہوئے تھے اور فراس کباب میں بہت بڑی ہڈی بنا ہوا تھا جو نہ نگلی جا سکتی تھی نہ ہی اگلی جا سکتی تھی 

"دیکھو ابھی تو بابا نہیں اٹھا سکتے آپکو، ابھی تو بابا کی ٹانگوں میں بھی درد ہے" 

جلال نے زمانے بھر کی مسکینیت چہرے پر سجائی تھی مگر فراس کے نظروں میں وہ ابھی بھی قابل ہمدردی نہیں ٹھہرایا جا رہا تھا 

"جب میری ٹانگوں میں درد نہیں ہو گا نا پھر میں اپنے بے بی کو اٹھا کر دووووور لے کر جاوں گا"

وہ اسے لارے لگا رہا تھا مگر وہ فراس ہی کیا جو ایک منٹ کے لیے بھی منظر سے ہٹنا گوارا کرے 

جلال جتنا اسکے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتا تھا وہ اتنا ہی مزید پھیلتا جا رہا تھا 

منیحہ البتہ ان سے کچھ دور اب مزے سے سمندر کی ہوا کو اپنے جسم سے ٹکراتا محسوس کر رہی تھی۔

وہ ان باپ بیٹے کے مذاکرات کا حصہ بننے کی بجائے اپنا ٹورر انجوائے کر رہی تھی۔

(بہت شکریہ اللہ جی،، آپ نے مجھے وہ سب دیا جو میں ڈیزرو نہیں کرتی تھی) 

اس نے آنکھیں بند کر کے سکون سے سوچا تھا۔

یورپ گھومنے کا خواب کبھی خواہش نہیں بن سکا تھا۔کہ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خواب بھی نہیں دیکھتی تھی مگر اللہ کے ہاں تو کسی چیز کی کمی نہیں اسکی خواہشات بن مانگے پوری ہو رہی تھیں

"یار ادھر دس منٹ بیٹھو،، ہم ادھر سامنے ہی ہیں،، تم یہ میرے موبائل کے ساتھ کھیلو ہم آتے ہیں" 

جلال اسکی دلیلوں سے عاجز آ چکا تھا 

"تو ماما کو کیوں لے کر جاتے ہو ¿" وہ آنکھیں سکیڑے منھ اوپر اٹھائے تیز لہجے میں باپ کو جواب دے رہا تھا.، جلال اس انداز پر اپنا سا منھ لے کر رہ گیا 

"منیحہ دیکھو اسکو" 

جلال کے پاس آخری حل یہی ہوتا تھا، خود وہ اسے نہیں ڈانٹ سکتا تھا اسی لیے خفگی سے منیحہ سے مدد طلب کی 

"اوں؛¿" اس نے بنا مڑے اوں کیا تھا 

" اسکو سمجھاو"

" میں کیا سمجھاوں" 

وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے بولی

ساتھ جلال کے ناکام مذاکرات کا لطف بھی لے رہی تھی جو بے بس ہوا بیٹھا تھا 

"دیکھو فراس میری بات سنو،، ابھی میں آپکو نہیں اٹھا سکتا، اور ویسے بھی ہر جگہ تمہارا جانا ضروری نہیں ہے میرے باپ"

منیحہ کے جواب سے مایوس ہو کر 

اس نے ہاتھ جوڑے تھے جو اب منھ بنا کر باپ کو دیکھ رہا تھا 

"میں ماما ساتھ جاتا ہوں" 

باپ کو نہ مانتے دیکھ کر وہ بھاگ کر ماں کا پلو پکڑ چکا تھا 

"ماما مجھے ٹھا لو نا"

بازو پھیلا کر اٹھانے کی فرمائش کی ۔

جلال نے دونوں کو خفگی سے دیکھا 

کیا تھا جو دو منٹ یہ لڑکا،، اسے اپنی بیوی کے ساتھ گزارنے دیتا

"بابا کیا کہہ رہے ہیں "

منیحہ نے اسے گود میں اٹھا لیا تھا 

وہ خوش ہو گیا 

"بابا بولتے میں نہیں اٹھاتا" 

وہ باپ کی شکایت لگا رہا تھا 

"نہیں پہلے کیا بولا انھوں نے" 

منیحہ نے زور دے کر کہا تو مسکرایا وہ اتنا معصوم نہیں تھا.. بس اسی بات کا جواب دیتا جس بات کا جواب دینا چاہتا تھا 

؛" میں آپکا بے بی ہوں،،، میں ماما ساتھ جاتا ہوں" وہ اسے تسلی دیتا ساتھ ہی باپ کی طرف دیکھتا جتا رہا تھا 

جلال کی شکل ایسی بنی تھی کہ ابھی دونوں کو سمندر میں بہا دے گا 

"اچھا بس کر دو جلال،،سی کتنا کیوٹ لگ رہا ہے" 

منیحہ نے صلح صفائی کرانا چاہی، جلال نے خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا

"منیحہ اسکو مینرز سکھاو" 

ہر باپ کی طرح اس نے بھی منیحہ کے سر الزام رکھا 

"اچھا بس کر دو،،بی آ گڈ فادر، کیا ہو گیا ہے" 

وہ جلتی پر تیل چھڑک رہی تھی. اسکے گڈ فادر بننے کی خواہش کو منیحہ نے اسکی چھیڑ ہی بنا دیا تھا 

" تم دونوں ادھر بیٹھو میں اکیلا بوٹ پر جا رہا ہوں.. ہوں گڈ فادر،، میں نہیں بننا چاہتا گڈ فادر" 

وہ غصے میں انھیں وہیں چھوڑ اس چھوٹی سی بوٹ کی طرف بڑھا جہاں وہ سالوں پہلے آیا تھا،، تب اس نے سوچا تھا کبھی وہ منیحہ کے ساتھ ادھر ضرور آئے گا 

اور جب آیا تو ساتھ میں بائے ون گیٹ ون فری کی طرح فراس نے چڑا کر رکھ دیا 

" ارے نہیں ہمیں مت چھوڑ کر جائیں "

وہ دونوں ماں بیٹا بھی پیچھے پیچھے بھاگے تھے،، فراس منیحہ کی گود میں کھلکھلا رہا تھا ۔وہ دونوں جلال کے قریب پہنچنے کے چکر میں بھاگ رہے تھے اور جلال جان بوجھ کر اپنی رفتار بڑھا چکا تھا ۔

آخر وہ اس تک پہنچ ہی گئے تھے ۔

"فراس بابا کو پکڑ لو"

منیحہ نے جلال کو گھیرنے کے لیے فراس کو نیچے اتارا تھا جو اب اسکی ٹانگوں سے لپٹا کھلکھلا رہا تھا۔

جلال زیادہ دیر اپنی خفگی قائم نہیں رکھ سکا۔

نجانے اسے ابھی کتنا وقت لگنا تھا۔فراس کو اپنے اور منیحہ کے درمیان برداشت کرنے میں ۔۔

مگر یہ سب بہت پر لطف تھا 

وہ ان سب جگہوں پر کئی مرتبہ اکیلا آ چکا تھا مگر اب کے آنے میں اور اس وقت آنے میں بہت فرق تھا ۔

اسکی زندگی بدل چکی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ تھک کر وہیں ساحل کی ریت پر بیٹھ گیا تھا۔وہ ابھی مسلسل زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا ۔

فراس اسکے اوپر گرا تھا۔

اور منیحہ گھٹنوں کے بل اسکے قریب بیٹھ چکی تھی 

"منیحہ تم ہمیشہ اسکی وجہ سے بچ جاتی ہو" 

اس نے بغور منیحہ کو دیکھا تھا 

"اپنا اپنا ٹیلنٹ ہے" 

آجکل وہ اپنے ٹیلنٹ پر خاصہ اترا رہی تھی اب بھی ادائے بے نیازی سے بولی 

جلال نے اسے گہری نگاہوں کے حصار میں رکھا 

منیحہ بھی اسکی نگاہیں خود پر محسوس کر رہی تھی لیکن اس نے جان کر اسے نظر انداز کیا مگر فراس نہیں کر سکا تھا 

 "بابا کیا ہوا ہے¿" 

وہ اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں سے دوسری طرف موڑ کر اس سے اس مسلسل دیکھے جانے کی وجہ دریافت کر رہا تھا ۔

منیحہ اپنی مسکراہٹ نہیں روک سکی جلال البتہ اس انٹر فیرنس پر سخت بدمزہ ہوا تھا 

"فراس اپنا کام کرو تم،" 

وہ جھنجھلا کر رہ گیا 

"تم نہیں بولتے ماما آپ بولتے نا¿" 

وہ بھی جواباََ اسی انداز میں اوکھا ہو کر ماں سے تصدیق کرا رہا تھا جو منھ پہ ہاتھ رکھے ہنس رہی تھی

جلال نے جتنے گڈ فادر بننے کے ارادے بنا رکھے تھے،، فراس بڑی خوبصورتی سے ان پر پانی پھیر دیا کرتا تھا 

اور وہ بیچارہ کچھ نہ کر پاتا 

جس نے سب کو نچا رکھا تھا وہ آج اپنے بیٹے کے اشاروں پہ چلنے پر مجبور تھاپاپا کہتے تھے کہ تمہاری اولاد ہو گی تو تمہیں پتہ چلے گا۔

اور وہ واقعی ٹھیک کہتے تھے ۔

"جلال تھینکس فار بینگ آ بیسٹ ہزبنڈ اینڈ فادر" 

منیحہ نے اپنا موبائل نکالا اور پیغام ٹائپ کر کے جلال کو بھیجا تھا 

فراس کی موجودگی میں آنکھوں یا زبان سے گفتگو ناممکن تھی 

موبائل پر تو ہو سکتی تھی نا 

"اے¿" 

جلال نے پیغام دیکھ کر حیرت سے اسے دیکھا تھا. منیحہ صرف مسکرائی تھی

"آئم تھینک فل ٹو اللہ فار دس ونڈر فل ٹور 😉" 

اس نے شرارت سے اسے دوسرا میسج بھیجا 

 "اونلی اللہ! .، وائے ناٹ می ¿" 

اسکا فورا جواب آیا تھا 

"جی ہاں صرف اللہ کی،، آپکا تو یہ سب فرض بنتا ہے" 

وہ اپنے موقف پر قائم رہی 

"تمہارے بھی کچھ فرائض ہیں بی بی" 

وہ خشمگی نظروں سے اسے گھورتے ہوئے جواب بذریعہ موبائل دے رہا تھا 

"خیر اس بارے میں بات نہیں ہو سکتی فلحال،، جسٹ ٹرائی ٹو بی آ گڈ فادر😂" 

منیحہ نے اسے چڑایا تھا فراس اسکی گود میں لیٹا ہوا تھا اور لہروں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا.

" یہ سب تمہارے دئیے ہوئے لاڈ ہیں، "

اس نے فراس کو گھورا جو اب مگن تھا 

"تو آپ لاڈ نہ دیں نا،، ڈانٹ کر بھیج دیں" 

اس نے چیلنج کیا 

" ہاں تا کہ بعد میں برا بن جاوں اور تم سویٹ مدر😶"

اسے یہ بھی فکر تھی فراس منیحہ کی طرف نہ ہو جائے 

 "پھر شرافت سے بیٹھے رہو"😏

منیحہ نے جواب دے کر موبائل جیب میں ڈال لیا

فراس کو فلحال ماں باپ کی اس خفیہ خط و کتابت کا علم نہ تھا ورنہ ضرور رخنے ڈالتا 

(اللہ جی بے شک آپ نے درست کہا،، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے،، ،

تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور دونگا،، 

اور آپکا یہ وعدہ بھی سو فیصد سچا ہے کہ آپ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں) 

اس نے پلکیں موند کر اس یورپ کے ساحل پر اللہ کا شکر ادا کیا تھا ابھی اس وقت یہاں زیادہ رش نہیں تھا 

بقول جلال کے یہ ساحل رات کے وقت آباد ہوتا تھا 

اسی وجہ سے وہ لوگ دم میں آئے تھے 

اس نے صبر کیا،، اللہ نے اسکا ساتھ دیا 

اس نے جلال کی اس خراب حالت کے باوجود اسکا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ اللہ کا شکر ادا کیا 

اور اللہ نے اسے اپنے خزانوں سے بے حساب نوازا 

اس نے مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کیا اور اللہ نے اسکی مشکلات کو آسان کر دیا 

بے شک اللہ کا ہر ہر وعدہ سچا ہے۔

اور وہ تو یقین کرنے والوں میں سے تھی 

"(اور اللہ جی آپکا بہت بہت شکریہ آپ نے مجھے بھٹکنے نہیں دیا،، کبھی مایوس نہیں ہونے دیا،، ہمیشہ مجھے مایوسی سے نکال لیا) 

اسکے چہرے پر تشکر کے آنسو تھے ا

مگر وہ بہت مطمئن تھی بہت زیادہ مطمئن ۔

کچھ فاصلے پر وہ دونوں جو اسکی زندگی کا محور تھے وہ اب پیار محبت بانٹ رہے تھے 

جلال کی ٹانگوں سے لپٹا وہ گردن اٹھائے کچھ کہہ رہا تھا جسے جلال بہت توجہ سے سن رہا تھا ۔

وہ دونوں ایک دوسرے سے پیار بھی اسی طرح کرتے تھے اور کبھی کبھی چڑتے بھی بہت تھے 

وہ دھیرے دھیرے چلتی انکے پاس آ گئی 

"منیحہ میں سوچتا ہوں وہ کونسے لوگ ہوتے ہیں جنکے پاس بیوی، ماں باپ اور اولاد بھی ہوتی ہے مگر اسے باوجود وہ خوش نہیں ہوتے" 

جلال نے حیرت سے کہا تھا۔وہ زیادہ سوچنے والا کام نہیں کرتا تھا، بلکہ منیحہ کے سپرد کر دیتا تھا 

"ہوتے ہیں کچھ لوگ،، جو اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر نہیں کرتے،، بس ہر وقت ناشکری کرتے رہتے ہیں وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولی تھی 

کتنے بد قسمت تھے وہ لوگ،، جنھیں اپنے پاس موجود نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق نہیں دی گئی تھی 

" الحمد للہ "

اس نے جذب سے کہا تھا 

" الحمد للہ" جلال نے بھی اسکا ساتھ دیا 

"الحمد للہ فار ایوری تھنگ" 

وہ بہت زور سے بولا تھا 

فراس نے ان دونوں کو ایک جیسے الفاظ دہراتے سن کر اچنبھے سے گھورا 

"مجھے ٹھا لو نا" 

وہ بازو پھیلا رہا تھا، شاید اسے محسوس ہوا کہ باپ کے آئی لیول پر جا کر وہ زیادہ بہتر دیکھ سکے گا

 جلال نے اسے اٹھا لیا تھا..،پھر دوسرا بازو منیحہ کے گرد پھیلا دیا 

جس نے اپنی گردن اسکے کندھے پر ٹکا دی تھی

وہ ایک شکر گزار خاندان تھا  

"چلو سب بولتے ہیں اور اتنی اونچی آواز میں کہ ساحل کی لہریں بھی گواہ بن جائیں "

فراس ان دونوں کو گھورے جا رہا تھا، منیحہ نے اسکی مشکل آسان کر دی 

"کیا بولتی ہو ماما" 

اس نے ہونٹ سکیڑ کر پوچھا 

ایک تو وہ لڑکا آنکھوں سے بہت کام لیتا تھا 

"ماما بولتی ہیں،، الحمدللہ"

" الحمد للہ "

ان تینوں نے ہم آواز ہو کر کہا تھا 

فراس خوشی سے تالیاں بجا رہا تھا 

اسے یہ کہنا اچھا لگا تھا 

ختم شدجاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Ik Chand Tha Sar Asman Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ik Chand Tha Sar Asman written by Frishtay Salaar Zai . Ik Chand Tha Sar Asman by Frishtay Salaar Zai  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages