Yaar E Beraham By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 15 June 2024

Yaar E Beraham By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel

Yaar E Beraham  By Zeenia Sharjeel  New Romantic Complete Novel

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Yaar E Beraham By Zeenia Sharjeel Complete Romantic Novel 

Novel Name:Yaar E Beraham 

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

عام دنوں کی بانسبت آج اسپتال کے گیٹ پر کافی رش اور گہما گہمی نظر آرہی تھی۔۔۔۔ چار سال اسپتال کی سروس میں آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اُسے اسپتال کے گیٹ پر روک کر اس سے سوالات کیے گئے تھے اور آئی ڈی کارڈ چیک کرنے کے بعد اُس کو گیٹ سے اندر اسپتال میں جانے دیا گیا تھا۔۔۔ ایمرجنسی وارڈ میں سخت سیکیورٹی اور جگہ جگہ پولیس کو دیکھ کر وہ ظہور کے آنے کا انتظار کرنے لگی جس کی ڈیوٹی ایمرجنسی وارڈ میں لگائی گئی تھی

"کیا کسی خاص شخصیت کو آج یہاں پر لایا گیا ہے؟؟"

اتنی سیکیورٹی دیکھ کر وہ سامنے سے آتی نرس سے پوچھنے لگی

"تھوڑی دیر پہلے ہی ایمبولنس میں دو زخمی باڈیز کو اسٹریچر پر  ڈال کر لایا گیا ہے ایک مرد اور دوسری عورت۔۔۔ دونوں ہی خون میں لت پت بری طرح زخمی تھے،،

انہی کی وجہ سے یہ ساری سکیورٹی یہاں موجود ہے"

نرس جلدی میں لگ رہی تھی اس لیے بولتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔ تو اُسے سامنے سے ظہور آتا دکھائی دیا یہی سوال اُس نے ظہور سے بھی کیا

"تمہیں خبر نہیں ہوئی،، ارے اے سی پی بہرام عباسی اور اُس کی بیوی پر قاتلانہ حملہ کرکے ان دونوں میاں بیوی کی جان لینے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔ اے سی پی بہرام کو تو بچالیا گیا ہے مگر اُس کی بیوی تھوڑی دیر پہلے ہی دم توڑ گئی"

ظہور افسوس بھرے لہجے میں اُس کو بتانے لگا۔۔۔ 

بہرام کے دل کے تھوڑے قریب گولی لگی تھی جس کو نکال کر معجزاتی طور پر اُس کو تو بچالیا گیا تھا اُس کی حالت ابھی بھی سیریس تھی اِس لیے اُسے آئی سی یو میں شفٹ کردیا گیا تھا جبکہ اُس کی بیوی اینجل کو ایک گولی بازو میں اور دوسری سینے میں ماری گئی تھی، چند سیکنڈ پہلے ہی اُس کی ڈیڈ باڈی کو سرد خانے میں شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔۔ اے سی پی بہرام کے فلیٹ پر اِس وقت پولیس موجود تھی جو اس سارے واقعہ کی تفتیش کررہی تھی

"یہ وہی اے سی پی بہرام عباسی تو نہیں، جس نے چند ماہ پہلے ڈرگ مافیا گینگ کو گرفتار کیا تھا اور اِس کا انٹرویو بھی آیا تھا"

ظہور کی دی جانے والی خبر پر اُس نے حیرت زدہ ہوکر تصدیق کرنی چاہیے

"صحیح پہچانا وہی اے سی پی بہرام عباسی۔۔۔ یہ صلہ ملا ہے اُس بےچارے کو اُس کی ایمانداری اور بہادری کا۔۔۔ خود موت کے بستر پر موجود ہے اور گھر والی دنیا سے چل بسی جس کی اُس بےچارے کو خبر تک نہیں ہے"

ظہور ٹھنڈی آہ بھرتا ہوا بولا تبھی اچانک ایمرجنسی الارم تیز آواز میں بجنے لگے جس کی وجہ سے اچانک ہی پورے اسپتال میں بھک ڈر مچ گئی

"اسپتال میں بم ہے جلدی اسپتال خالی کرو"

شور و غل کی آواز کے بیچ یہ خبر سن کر لوگوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر اسپتال کے دروازے سے باہر نکلنا شروع کردیا۔۔۔ پورے اسپتال میں عجیب افرا تفریح کا عالم مچ گیا۔۔۔ تب انسپکٹر مہران صدیقی نے ڈپٹی کمشنر کو کال ملا کر ساری صورتالحال سے آگاہ کیا

"کسی گدھے نے گمراہ کرنے کے لیے جھوٹی افواہ پھیلائی ہوگی،، بہرام کے کمرے کی سیکیورٹی مزید سخت کردو۔۔۔ ڈاکٹرز کے علاوہ کوئی دوسرا شخص آئی سی یو وارڈ کی طرف نہ جاۓ از ڈیٹ آرڈر"

ڈپٹی کمشنر نے سخت لہجے میں انسپکٹر کو آرڈر دیا جو فوری طور پر الرٹ ہوگیا اور بہرام کے کمرے کی سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔۔۔۔ گھنٹہ بھر گزرنے کے بعد انسپیکٹر مہران صدیقی نے دوبارہ ڈپٹی کمشنر کو اپ ڈیٹ سے آگاہ کرنے کے لیے کال کی

"آپ کا کہنا بالکل ٹھیک تھا سر بم کی جھوٹی اطلاع جان بوجھ کر اسپتال میں پھیلائی گئی تاکہ ان لوگوں کا پلان کامیاب ہوسکے"

مہران صدیقی ڈپٹی کمشنر سے بولا

"تو یعنی میرا شک صحیح نکلا، ان لوگوں نے دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کی ہے بہرام پر، اب یہ نہ کہنا کہ تم لوگ اسے بچانے میں ناکام ہوگئے"

ڈپٹی کمشنر نے ڈپٹتے ہوئے مہران کو بولا

"سر اُن لوگوں کا ٹارگٹ اے سی پی بہرام صدیقی نہیں تھے وہ باحفاظت آئی سی یو میں موجود ہیں مگر اسپتال کے سرد خانے سے اے سی پی صاحب کی وائف کی ڈیڈ باڈی غائب ہوچکی ہے"

مہران نے جو اطلاع دی اسے سن کر ڈپٹی کمشنر کو شاک لگا ان لوگوں کا بھلا ایک پولیس آفیسر کی وائف کی ڈیڈ باڈی سے کیا لینا دینا تھا

*****

"آگئی اسکول سے بنو"

وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اسکول سے گھر آئی تھی تب نزہت چچی لہجے میں مٹھاس پیدا کرتی ہوئی حرم سے پوچھنے لگی مہینے کی پہلی تاریخ کو نزہت چچی کی زبان اِسی طرح میٹھی ہوجاتی 

"آپ سو رہی تھی اس لیے جگایا نہیں آپ کو، میں نے سوچا پہلے کھانا کھالو پھر گھر کی صفائی کرلوں گی"

حرم کچن میں موجود چپاتیاں ڈالتی ہوئی آہستہ آواز میں نزہت کو بتانے لگی۔۔ گندا گھر اور صبح کے کھانے کے جھوٹے برتن دیکھ کر اُس نے اندازہ لگالیا کہ کام والی نے آج پھر چھٹی کرلی تھی۔۔۔۔ اسکول میں چھوٹے بچوں کے ساتھ سر کھپانے کے بعد وہ گھر آئی تھی، گندا گھر دیکھ کر اب اُسے پورے گھر کی صفائی کرنا تھی جس کے بعد اُسے دوبارہ اپنی جوتیاں گِھساتے ہوئے شام میں ٹیوشن پڑھانے جانا تھا اُس کے بعد کہیں جاکر اسے آرام نصیب ہوتا

"بڑی ہی کام چور اور ہٹ حرام ہے یہ کام والی تو، ہر دوسرے دن اُس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتا ہے اور یہ کام سے چھٹی کرلیتی ہے اِس بار اُس کی تنخواہ سے ضرور پیسے کاٹوں گی۔۔۔ ارے ہاں تنخواہ سے یاد آیا آج تمہیں بھی تو تنخواہ مل گئی ہوگی اسکول سے"

نزہت چچی کام والی کو کوسنے کے ساتھ حرم سے تنخواہ کا پوچھنے لگیں

"تنخواہ مل گئی تھی روٹی ڈال کر پھر دیتی ہوں آپ کو" 

اپنے ساتھ ہی وہ نزہت اور نگی کی روٹی بھی ڈالنے لگی کیونکہ خالی چنگیر صاف بتارہا تھا کہ اُن دونوں نے بھی ابھی تک دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا

"دو دو کام بھلا کیسے کروں گی آرام سے روٹیاں ڈالو تمہارے بیگ سے تنخواہ میں خود نکال لیتی ہوں کون سا تنخواہ نکالنے کے لئے مجھے بینگ جانا پڑے گا"

نزہت اپنی بات پر خود ہی ہنستی ہوئی بولی اور کچن سے باہر جانے لگی تو روٹی بیلتے حرم کے ہاتھ وہی رک گئے

"چچی میں سوچ رہی تھی اِس بار سردیوں کے اگر دو گرم جوڑے بنالوں"

اپنی محنت کی کمائی ہوئی تنخواہ سے بھی وہ جھجھک کر ایسے پیسے مانگ رہی تھی جیسے بھیگ مانگ رہی ہوں اور حرم کی  بات سن کر تو جیسے نزہت پر بجلی آگری وہ ہولتی ہوئی سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی 

"ہائے میرے اللہ دو جوڑے۔۔۔ ارے کچھ زیادہ ہی ہوا نہیں لگ رہی تمہیں یا پھر تمہارے لیے سردیاں کچھ انوکھی آرہی ہیں۔۔۔۔ ابھی پچھلے سال ہی تو گرم جوڑا بنوا کردیا تھا تمہیں اور جو نگی نے تمہیں اپنے دو جوڑے دئیے تھے وہ کوئی میری نگی نے استعمال تھوڑی کیے تھے ایک دو بار کے پہنے ہوۓ جوڑے تھے دیکھو حرم تمہیں تو گھر کے حالات معلوم ہیں تمہارے چچا جان کی پینشن اور تمہاری کمائی سے ہی میں یہ گھر چلاتی ہوں۔۔۔ مجھے خود اچھا نہیں لگتا ہے یوں خوبصورت کنواری لڑکی کو ملازمت کے لیے بھیجتے ہوۓ مگر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تو کمر ہی توڑ ڈالی کیا کرو میں"

نزہت چچی آبیدہ ہوتی ہوئی بولی اور اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھوں میں نہ نظر آنے والی نمی صاف کرنے لگیں تو حرم شرمندہ سی ہوگئی

"اچھا آپ پریشان نہیں ہوں میں نے تو ویسے ہی کہ دیا تھا گرم کپڑوں کا، پہلے ہی میرے پاس بہت سارے کپڑے موجود ہیں۔۔۔ آپ کو معلوم ہے شفی کی امی نے ایک اور ٹیوشن کا بتایا ہے مجھے،، چار ہزار کی ٹیوشن ہے بچے کو گھر جاکر پڑھانا ہوگا"

حرم اپنی شرمندگی دور کرتی ہوئی نزہت کو خوشخبری سنانے لگی شاید اضافی 4000 ملنے سے اُس کی چچی خوش ہوجاتی اور پھر ایسا ہی ہوا چچی خوش ہوگیں

"اللہ بھلا کرے شفی کی امی کا بہت اچھی خاتون ہے نرم دل سی۔۔۔۔ چلو تم ایسا کرو اِس مہینے بجلی کا بل بھروا دو اگلے ماہ تم اپنے لئے ایک جوڑا بنالینا اب بچیوں کی چھوٹی چھوئی خواہشات کو مارتے ہوئے بھی تو اچھا نہیں لگتا" 

نزہت بولتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی جبکہ حرم پلیٹوں میں رات کا سالن نکال کر ٹرے میں روٹیاں رکھتے ہوئے کمرے میں جانے لگی جہاں نگی اور نزہت دونوں ہی موجود تھی

*****

رات کے پہر وہ اپنے بیڈ روم میں بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے، لیپ ٹاپ کو گود میں رکھے بڑے مصروف انداز میں ڈاکومنٹس کا فولڈر کھولے ضروری فائل تلاش کررہا تھا تب اُس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو اِس وقت بلیک کلر کی نیٹ کی نائٹی میں موجود ابھی ڈریسنگ روم سے باہر نکلی تھی۔۔۔ بہرام کی توجہ خود پر دیکھ کر وہ مسکراتی ہوئی بہرام کے پاس آنے لگی۔۔۔ 

کاندھے پر باریک سے اسٹیپ جس میں سے اُس کے عریاں اور دودھیا بازو چھلک رہے تھے، ساتھ ہی اُس کے خوبصورت خدوخال گہرے گلے سے پوری طرح نمایاں ہوتے نظر آرہے تھے۔۔۔ سڈول سی تھائیز، جو چلتے ہوۓ نائٹی سے چھلک رہی تھی وہ بہرام کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔۔۔ تبھی بہرام کی گود میں رکھا ہوا لیپ ٹاپ ہٹاکر بند کرتی ہوئی وہ خود بےتکلفی سے بہرام کی گود میں بیٹھ گئی

"تو اِس سے اندازا ہوا کل رات کی طرح آج رات بھی تم مجھے کوئی دوسرا کام نہیں کرنے دوگی"

بہرام اُس کی دونوں تھائیز پکڑ کر اُسے مزید اپنے جانب کھنچتا ہوا اینجل سے پوچھنے لگا

"رات یہ فضول کاموں کے لیے نہیں ہوتی اے سی پی بہرام عباسی۔۔۔ بلکہ رات میں انسان دن بھر کی تھکن اتار کر خود کو ریلیکس کرتا ہے"

وہ مزے سے بولتی ہوئی بہرام کے گلے میں اپنے دونوں بازو ڈال چکی تھی

"اور خود کو ریلکس کرنے کا یہ طریقہ اچھا ہے کہ آدمی اور کسی دوسرے کام کے قابل ہی نہیں رہے"

بہرام اپنی تھائیز پر بیٹھی ہوئی اپنی بیوی پر طنز کرتا ہوا بولا۔۔۔ جو شکل میں بےحد خوبصورت اور معصوم تھی مگر اس کا انداز کافی بولڈ تھا جس کا اندازہ اُسے شادی کے دوسرے دن ہی ہوچکا تھا

"تمہیں اچھا نہیں لگ رہا تو میں چلی جاتی ہو دوسرے روم میں، تم یہی اپنا بورینگ سا کام کرو"

بہرام کے طنز کرنے پر اینجل منہ بناکر بہرام کی گود سے اٹھنے لگی تبھی بہرام نے اپنی تھائیز پر رکھی اینجل کی تھائیز کو پکڑا

"یہ اے سی پی اتنا بھی بدذوق بندہ نہیں ہے جو خوبصورت بیوی کے اتنے قریب آنے پر اُسے نظر انداز کردے"

بہرام کی نگاہیں اُس کے چہرے سے ہوتی اُس کے خوبصورت ابھار پر ٹہر گئی۔۔۔ 

وہ اینجل کے کندھوں سے دونوں اسٹیپ گرا کر اُس کی گردن پر دیوانہ وار پیار کرنے لگا۔۔۔ ہر خوبصورت اور کشش رکھنے والی چیز پر مر مٹنا اُس کی عادت نہیں تھی مگر اینجل کو دیکھ کر وہ پہلی نظر میں ہی اُسے اپنا بنانے کا فیصلہ کرچکا تھا

"بہرام"

بےقرار سی تڑپتی ہوئی اینجل کی آواز پر بہرام نے سر اٹھاکر اُسے دیکھا جو اُس کی شدتوں کی تاب نہ لاتی ہوئی اپنے ہوش کھو دینے کو تھی

"مجھ سے محبت کرنے کا دعوا اور پھر شادی کرنے کا فیصلہ تمہارا تھا تو میری شدتوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی ڈال لو"

بہرام نے بولتے ہوئے اینجل کو بیڈ پر لٹا دیا اِس سے پہلے وہ اینجل کے اوپر جھکتا،، اینجل نے شرارت سے اپنے دونوں پاؤں بہرام کے سینے پر رکھ دئیے تاکہ وہ بہرام کی کوشش ناکام بناسکے۔۔۔ اینجل کی شرارت کو سمجھتا ہوا بہرام اُس کی دونوں ٹانگوں کو پکڑ کر اپنی جانب کھینچتا ہوا اینجل کے اوپر جھک گیا

"بہرام کبھی کبھار تمہاری محبت بڑھ کر شدت اختیار کرلیتی ہے اور میں اِس سے گھبرا جاتی ہوں"

وہ اینجل پر اپنی محبت کی شدت بھرپور طریقے سے نچھاور کیے دے رہا تھا تب اینجل اس کے ہاتھوں کو اپنے سینے سے ہٹاتی ہوئی مدہوش بھرے لہجے میں بہرام سے بولی

"تو پھر کیوں مجھے ڈمس کالز پر تنگ کیا کرتی تھی، محبت بھرے کارڈز، گفٹ تم نے مجھے بھیجے۔۔۔ اپنے پیچھے مجھے تم نے خود آنے پر مجبور کیا۔۔۔ اور اب تم سے یہ شدتیں برداشت نہیں ہورہی، ایک اچھے خاصے قابل اور شریف آفیسر کو تم نے اپنے پیچھے بری طرح خوار کیا ہے ڈارلنگ، اِس خمیازہ تو تمہیں بھگدنا ہی پڑے گا" 

بہرام اینجل کو پرانی ساری باتیں یاد دلاتا ہوا بولا اور اس کے گلابی ہونٹوں پر جھگا

اپنی محبت کی شدت اس پر نچھاور کرتا ہوا وہ دور ہوا، بیڈ پر لیٹی ہوئی اینجل گہرے سانس لیتی مدہوش نگاہوں سے بہرام کو دیکھنے لگی

"محبت ہو یا نفرت کوئی بھی دوسرا جذبہ، بہرام ڈوب کر کرنے کا عادی ہے اور ٹوٹ کر کرنے کا عادی ہے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا"

بہرام کی بات پر صرف ایک لمحے کے لیے اینجل کے چہرہ کا رنگ بدلا جسے وہ مسکراہٹ میں چھپا گئی۔۔ اور اس نے اپنی جانب دوبارہ بہرام کو کھینچ لیا

دو ماہ پہلے اتفاقیہ طور پر اُس نے ایک کونسرٹ میں بہرام کو دیکھا تھا کہ وہ اُس وقت یونیفارم میں موجود تھا تبھی اینجل اس کے نام اور عہدے سے واقف ہوچکی تھی باقی معلومات بہرام کے بارے میں معلوم کروانا اُس کے لئے مشکل نہیں تھا۔۔۔ جیسے ہی اینجل کو ساری معلومات فراہم ہوئی۔۔۔ اس نے بہرام کو کالز کرنا شروع کردیں،، 

شروع میں تو بہرام نے اس کی فون کالز کو بالکل سیریس نہیں لیا اکثر وہ اُس کو جھڑک دیتا ڈرانے کے لیے دھمکی بھی دی جس کا اینجل پر خاص اثر نہیں ہوا الٹا اینجل نے بہرام کو کارڈز اور گفٹ بھیجنا شروع کردئیے 

تب بہرام نے اُس سے ملنے کا ارادہ کیا اور اینجل کو اپنے سامنے آنے کو کہا،، جو لڑکی اُسے مہینے بھر سے کالز پر تنگ کررہی تھی بہرام اُس کو روبرو دیکھنا چاہتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ بہرام نے اُس کے بارے میں معلوم نہیں کروایا تھا

علینا عرف اینجل جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی، ماں باپ کی دنیا سے چلے جانے کے بعد انکل کی کسٹڈی میں پلی بڑھی۔۔۔ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہونے کی وجہ سے وہ گرلز ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی پہلی ملاقات میں ہی اس نے بہرام سے محبت کا اظہار کیا اور شادی کی خواہش بھی ظاہر کی، جس پر بہرام نے حیران ہونے کی بجائے اینجل کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔ 

پہلی ملاقات کے دو ہفتے بعد ہی شادی،، اپنے فیصلے پر وہ خود بھی حیران تھا مگر مطمئن بھی۔۔۔ اسے اور اینجل کی شادی کو بیس دن گزر چکے تھے مگر بہرام نے اندازہ لگایا اُس کی بیوی کافی حد تک موڈی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجانے والی یا برا ماننے والی لڑکی تھی لیکن اُس کے لیے حد سے زیادہ حساس طبعیت رکھتی تھی اس لیے وہ بہرام کے دل میں بہت جلد اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوچکی تھی

*****

"اینجل"

چاہنے کے باوجود ہو اپنی آنکھیں کھول نہیں پا رہا تھا  حواسوں نے ساتھ دینا شروع کیا تو یہی نام بہرام کے ہونٹوں سے ادا ہوا

"اے سی پی صاحب کو ہوش آگیا ہے۔۔۔ جاؤ جلدی سے ڈاکٹر کو بلاکر لاؤ" 

بہرام کے اسسٹنٹ مہران صدیقی نے سب انسپکٹر کو بولا تو وہ تیزی سے ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا۔۔۔

*****

ٹیوشن دینے کے بعد جب وہ گھر لوٹی تب اسے اسجد کی آمد معلوم ہوا۔۔۔ بیگ میں رکھا موبائل نکالا تب اسے پتہ چلا اس کے موبائل کی اسکریں پر بارہ سے چودہ مس کالز موجود تھی۔۔۔ وہ ایک نظر نگی کو اسجد کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھ کر دوسرے کمرے میں آگئی

اسجد اس کا خالہ ذات ہونے کے ساتھ ساتھ منگیتر بھی تھا یہ رشتہ اس کے ماں باپ نے تب طے کیا تھا جب وہ دونوں حیات تھے، حرم کو وہ دن یاد آنے لگے جب وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی ان کا گھرانا زیادہ کھاتا پیتا نہیں تھا چھوٹی مگر خوشحال فیملی تھی۔۔۔ کوئی بھی بہن بھائی نہ ہونے کی وجہ سے ماں باپ کا سارا پیار اُس نے خود ہی سمیٹا تھا اور پھر جیسے ہی اُس نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا تو صبیحہ یعنی اُس کی خالا نے اسے اپنی بہو بنانے کا ارادہ اُس کے والدین کے سامنے ظاہر کیا۔۔۔ 

صبیحہ کے مطابق اِس رشتے میں اسجد کی پسندیدگی شامل تھی یہی وجہ رہی تھی کہ اپنے جیسے متوسط لوگوں میں اس کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے حامی بھر لی۔۔۔ کیوکہ اسجد ان کے سامنے ہی پالا پڑا تھا نیک فرمانبردار لڑکا تھا جس کے پاس اچھی ڈگری بھی موجود تھی مگر وہ بے روزگار تھا وہ لوگ تب تک اسجد اور حرم کی شادی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے جب تک اسجد کی کوئی مناسب نوکری نہیں لگ جاتی لیکن آنے والی زندگی کا کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا 

ایسے ہی اس کے ساتھ بھی ہوا دو سال پہلے جب حرم انٹر کے پیپر دے کر گھر لوٹی تو اسے معلوم ہوا کہ کار ایکسیڈنٹ میں اس کا باپ چل بسا اور ٹھیک دو ماہ بعد عدت میں ہی اک معمولی بخار کی وجہ سے اس کی ماں بھی اپنی شوہر کی جدائی کا غم لیے اُس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ 

باپ کے بعد ماں دونوں کے گزر جانے کے بعد اصل مسئلہ اس کی رہائش کا ہوا۔۔۔ نکاح سے پہلے وہ خالہ کے گھر پر نہیں رہ سکتی تھی اور صبیحہ خالہ اتنی جلدی اسے بہو بناکر اپنے گھر میں لانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی کیونکہ ان کو ابھی اپنی دونوں بیٹیوں کو بیاہنا تھا۔۔۔ بڑوں کے فیصلے سے یہی طے پایا گیا کہ وہ اپنے چچا کے گھر تب تک رہے گی جب تک اسجد اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اور اُس کی دونوں بہنوں کی شادی نہیں ہو جاتی۔۔۔ پچھلے دو سالوں سے وہ چچی کے ساتھ رہ رہی تھی اُس کے چچا جان گورنمنٹ کی ملازمت کرتے جو اب ریٹائرمنٹ لے چکے تھے اور کافی زیادہ بیمار رہنے لگے تھے۔۔۔ ان کی پینشن میں گھر چلانا مشکل تھا اس لیے نزہت چچی کے کہنے پر حرم نے قریبی اسکول میں ملازمت شروع کردی تھی نگی اُسی کی ہم عمر تھی لیکن میٹرک کے بعد اُس نے پڑھائی کو خیرباد کہہ دیا تھا بچپن سے نگی اور اس کی اچھی دوستی تھی جو چیز نگی کو پسند آتی وہ فوراً حرم سے مانگ لیتی

کمرے میں آکر وہ بیگ رکھتی ہوئی چادر تہہ کرنے لگی تبھی اسجد نے اپنا گلا کھنگارا تو حرم جلدی سے بیڈ پڑا ہوا دوپٹہ اٹھاکر اوڑھنے لگی

"کیسی ہو،، اتنی دیر لگا دی واپس گھر آنے میں"

حرم کو دوپٹہ لیتا دیکھ کر اسجد کمرے میں آتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا منگیتر کی حیثیت رکھنے کے باوجود کے باوجود اس نے ایک حد تک حرم سے فاصلہ رکھا ہوا تھا وجہ حرم کا گرہیز تھا جو شاید حرم کی نیچر کی وجہ سے ان دونعں کے بیچ آجاتا

"ایک اور ٹیوشن مل گئی تھی اس لیے اب گھر آتے آتے آٹھ بج جاتے ہیں۔۔۔ آپ بتائیں آپ کیسے ہیں"

کمرے کے پاس سے گزرتی ہوئی نزہت چچی کو دیکھ کر وہ اسجد کو بتانے لگی۔۔۔ اسجد کی آمد اس گھر میں مہینے بعد ہی ہوتی جس میں ان دونوں کی ملاقات چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ اس کی چچی پرانے وقتوں کی سوچ کی حامل تھی اس لیے انہیں یہ ملاقات کچھ مناسب نہیں لگتی۔۔۔ وہ منہ سے تو کچھ نہیں بولتی مگر اپنے رویے سے ضرور یہ باور کروا دیتی

"میں ٹھیک ہوں تم نے اپنا حال نہیں بتایا میں نے بھی تم سے پوچھا تھا کہ تم کیسی ہو"

اسجد غور سے اُس کا خوبصورت چہرہ دیکھا ہوا پوچھنے لگا اس معاملے میں وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا تھا وہ خود اتنا لائق نہیں تو جتنی خوبصورت منگیتر اس کو مل گئی تھی اسجد کو اس کا جاب کرنا اور ٹیوشن دینے گھر گھر جانا ناگوار گزرتا تھا جس پر اس نے اعتراض بھی اٹھایا مگر وہ فی الحال صرف منگیتر تھا اور منگیتر اتنا ہی حق رکھتے تھے

"حال کیسا ہونا ہے کچھ بھی نہیں بدلا دو سال پہلے جیسی تھی ویسے ہی اب بھی ہو"

حرم کے لہجے میں آفسردگی شامل تھی وہ بد دل ہوتی اسجد سے بولی دوسرے کمرے سے نزہت چچی کی آوازیں آرہی تھی جو گھر کا کام نہ کرنے پر نگی کو ڈانٹ رہی تھی

"پہلے جیسی مطلب ہمیشہ کی طرح حسین اور خوبصورت یہ تو مجھے شروع دن سے ہی معلوم ہے" 

حرم کی افسردگی محسوس کرتے ہوۓ اسجد مسکراتا ہوا بولا تاکہ اس کی افسردگی کا اثر زائل ہوجائے مگر حرم اُس کی بات سن کر اسجد کو دیکھنے لگی۔۔۔ 

عام سی شکل اور نارمل قد اُس کا کزن ہونے کے ساتھ ہی وہ اُس کا منگیتر بھی تھا چار سال سے ان دونوں کے درمیان جو ایک تعلق باندھ گیا تھا وہ حرم کے دل میں الگ مقام رکھنے لگا تھا اس کی بات سن کر حرم اپنی نظریں جھکاگئی

"پلیز آپ یہاں سے چلے جائیں چچی کو پسند نہیں ہے ہم دونوں کا آپس میں اِس طرح ملنا۔۔۔ وہ بولتی ہیں ابھی شادی۔۔۔

حرم کی بات مکمل ہونے سے پہلے وہ سمجھ گیا جبھی بات کاٹتا ہوا بولا

"مجھے معلوم ہے انہیں پسند نہیں لیکن مہینہ بھر ہوگیا تمہیں دیکھے ہوۓ۔۔۔ اور میں ایسے ہی نہیں آیا ہوں بلکہ ساتھ ہی اچھی خبر بھی لے کر آیا ہوں تمہارے لیے۔۔۔ حرم نمرہ آپی اور حمنہ آپی کی ڈیٹ فکس ہوچکی ہے اگلے دو ماہ بعد ہی ان دونوں کی شادی ہے۔۔ حرم میری دونوں بہنوں کی شادی کی شادی ہوجاۓ اس کے بعد میں ذرا دیر نہیں کرو گا، تمہیں مکمل طور پر پورے حق سے اپنے گھر لے جاؤ گا یوں سمجھ لو ہیں دو ماہ کا وقت ہے جو تھوڑا مشکل ہے اس کے بعد میرا تم سے وعدہ ہے میں تم کو کبھی اداس نہیں ہونے دوگا"

اسجد حرم کو بولتا ہوا کمرے سے جاچکا تھا تب اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئے پورے دن کی تھکن جیسے ایک دم ہی اتر گئی۔۔۔ چھ ماہ پہلے ہی اسجد کی بینگ میں جاب لگی تھی اب ان لوگوں کے گھر کے حالات کافی بدلتے جارہے تھے یہ ساری مثبت باتیں تھی جو حرم کو خوش کرنے کے لیے کافی تھی

شاور کے نیچے کھڑا ہوکر وہ باتھ لیتا ہوا پورے دن کی تھکن مٹا رہا تھا۔۔۔ دو ماہ پہلے اس نے ڈرگ مافیا کے ایک بڑے گینگ پر ہاتھ ڈالا تھا، یعقوب نیازی کا چھوٹا بھائی ارسل نیازی عرف بوبی جس کی توسط سے ڈرگس کالجوں یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں سپلائی کی جاتی تھی یہ زہر نئی آنے والے نوجوان نسل کے لیے اور صرف بربادی کا ذریعہ تھا 

دو ماہ پہلے ایک صحافی (عفان) کی تیار کردہ مکمل رپورٹ، کچھ ویڈیوز تصویریں اور مختلف ثبوتوں کی مدد سے بہرام نے ارسل نیازی کو اریسٹ کیا تھا جس کی وجہ سے یعقوب نیازی یعنی بوبی کا بڑا بھائی بری طرح سے تلملایا ہوا تھا۔۔۔ اس کی لاکھ کوششیں اور جدوجہد ارسل نیازی کو پھانسی کی سزا سے نہیں بچا سکی تھی۔۔۔ لیکن اس کے باوجود یعقوب نیازی نے ہار نہ مانتے ہوۓ دو بار کوشش کی کہ وہ ارسل نیازی کو جیل سے فرار کروانے میں کامیاب ہوجاۓ مگر دونوں بار ہی اس کی کوششیں ناکام ہوئی تھی

جس کے بعد اے سی پی بہرام نے بھی ایک ڈرامہ کیا۔۔۔ یہ جھوٹ بول کر کہ ارسل نیازی عرف بوبی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوچکا ہے۔۔۔ وہ ارسل نیازی کو ایک سیف جگہ پر لے جاکر قید کرچکا تھا جس کا علم کمشنر صاحب کے علاوہ اُس کے اسسٹنٹ مہران کو تھا مگر یعقوب نیازی کو پورا یقین تھا کہ اس کے بھائی کو اے سی پی بہرام عباسی ہی غائب کروا کر کسی دوسری جگہ قید کرچکا ہے اس لیے وہ پوری پوری کوشش میں تھا کسی بھی طرح اپنے بھائی کا اے سی پی سے پتہ لگوا لے۔۔۔

بہرام شاور بند کرتا ہوا کمر سے تولیہ باندھ چکا تھا تب ایک دم واشروم کا دروازے کھلا اور اینجل باتھ گاؤن میں واشروم کے اندر آئی جسے دیکھ کر بہرام کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دوڑ گئی

"شاید میں لیٹ ہوگئی آنے میں"

اینجل افسوس کرتی ہوئی بولی تو بہرام نے زوردار قہقہہ لگایا اور اینجل اپنی جانب کھینچتا ہوا بولا

"تم کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے مت دینا مجھے بس اپنے پیچھے ہی لگائے رکھنا"

بہرام اینجل کو اپنے بازوؤں میں جکڑ کر اس کے گلابی ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ پہلے اسے لگتا تھا وہ بہت رومینٹک ہے مگر شادی کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ اُس کی بیوی اُس سے زیادہ رومینٹک تھی۔۔۔ اچھی خاصی ماڈرن لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کافی بولڈ بھی تھی جس کا اندازہ اُسے دن گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ ہورہا تھا۔۔۔ رومینس کے معاملے میں بھی وہ پیش قدمی کرتے ہوۓ مشکل ہی تھا کہ شرمانے سے کام لیتی

"یہ ہر بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا شوہر اُس کے پیچھے رہے" 

اینجل نے بہرام سے بولتے ہوئے معنی خیزی سے آنکھ دبائی اور بہرام کی طرف پشت کرکے کھڑی ہوگئی، اس کی بات پر بہرام کے ہونٹوں پر ایک بار پھر معنی خیز سی مسکراہٹ دوڑ گئی

بہرام اُس کا گاؤن شانوں سے نیچے گرا چکا تھا۔۔۔ سفید چکنی عریاں کمر بہرام کی نگاہوں کا مرکز بنی۔۔۔ اینجل کی کمر پر اُس کے نام کا ٹیٹو جگمگا رہا تھا جس پر جھک کر بہرام نے اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔ وہ اپنی کمر پر بہرام کے ہونٹوں کے لمس سے مدہوش ہونے لگی۔۔ اس سے پہلے وہ دوبارہ اپنا رُخ بہرام کی طرف کرتی بہرام اُسے دیوار کے ساتھ لگاکر شاور کھول چکا تھا

"اور اگر میرا انٹرسٹ پیچھے سے زیادہ آگے ہوا تو"

بہرام جھک کر اُس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔۔۔ پھر اینجل کا رُخ اپنی جانب کرتا ہوا اُس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔۔۔۔ جتنی شدت بہرام کے انداز میں تھی اتنی ہی شدت اپنے لبوں کی پیاس بجھاتے ہوئے اینجل کے انداز میں تھی

"بہت برا پھنسایا ہے اپنے جال میں تم نے مجھے، چاہ کر بھی میں تمہیں نظر انداز نہیں کرسکتا۔۔۔ معلوم نہیں آگے تم مجھے کسی کام کا رہنے بھی دو گی یا نہیں" 

بہرام خود بھی سرور کی کیفیت میں بولتا ہوا اس کی گردن پر جھک چکا تھا جبکہ اینجل اپنے دونوں بازو اس کے گلے میں ڈالتی ہوئی اپنی آنکھوں کو زور سے بند کیے بہرام کی شدت محسوس کرتی مدہوش ہورہی تھی۔۔۔ وہ دونوں ہی شاور کے نیچے کھڑے مکمل بھیگ چکے تھے۔۔۔ 

اینجل دیوانہ وار اس کے سینے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتی ہوئی بہرام کی بےقراری مذید بڑھا رہی تھی جبکہ بہرام انجیل کی کمر پر موجود ٹیٹو پر اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا

یہ ٹیٹو اُس نے اینجل کی کمر پر اپنی ویڈنگ نائٹ پر پہلی بار دیکھا تھا جو بقول اینجل کے شادی سے دو دن پہلے ہی اُس نے بہرام کی محبت میں اپنی کمر پر بنوایا تھا

"شاور شاور بہت ہوگیا میرے خیال میں اب بیڈروم میں چلنا چاہیے وہی جاکر کنٹینیو کریں گے"

بہرام اینجل کے ہاتھ اپنی کمر سے باندھے ٹاول سے ہٹا کر اس سے بولنے لگا

"نہیں۔۔۔۔ آج یہی"

اینجل کی بات سن کر وہ ہنس دیا اینجل ٹب کی جانب قدم بڑھانے لگی تب بہرام کو محسوس ہوا جیسے اس کے بیڈروم کے اندر کوئی دوسرا موجود ہے

"کیا ہوا بہرام"

بہرام کو واشروم سے باہر جاتا دیکھ کر اینجل اُس سے پوچھنے لگی

"گاون پہنو جلدی"

بہرام اسے بولتا ہوا تیزی سے باہر آیا۔۔ 

اُس نے بھاگتے ہوئے اپنے قدم مین ڈور کی طرف بڑھائے جوکہ کُھلا ہوا تھا۔۔۔ یعنی جو بھی کوئی اُس کے اپارٹمنٹ میں چوری چھپے آیا تھا وہ اب بھاگ چکا تھا

"بہرام کیا ہوا۔۔۔ کیا یہاں پر کوئی آیا تھا" 

اینجل گاؤن میں ملبوس ڈائینگ ہال میں آتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی۔۔۔ جو اُس کا جواب دینے کی بجائے اپنے لیپ ٹاپ کی طرف بڑھا لیب ٹاپ اَن دیکھ کر بہرام کا دماغ بری طرح گھوم گیا

"نرگس کام کرکے واپس گئی تھی تم نے دروازہ اچھی طرح چیک کیا تھا"

بہرام اینجل کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا 

آج دوسری بار وہ بہرام کو اتنے غصے میں دیکھ رہی تھی

"ہاں ظاہری سی بات ہے بہرام میں مین ڈور لاک کرنے کے بعد ہی تمہارے پاس آئی تھی، اچھا تم پریشان تو مت ہو ناں پلیز"

اینجل بہرام سے بولتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔۔ اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے اُس نے بہرام کے گلے میں اپنے دونوں بازو ڈالے جسے فوراً بہرام نے ہٹادئیے

"اینجل میں کچھ وقت اکیلا رہنا چاہتا ہوں،، ضروری کام ہے مجھے"

اس کے فلیٹ میں یوں کسی کا آنا، اس کا لیپ ٹاپ کا کھلا ہونا۔۔ کیا آنے والا ساری انفارمیشن لیپ ٹاپ میں موجود ڈیٹا حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا اُس نے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ کہاں سے حاصل کیا۔۔۔۔ بہرام تھوڑی دیر کے لئے واقعی پریشان ہوچکا تھا اس وقت اینجل میں بھی اس کی دلچسپی باقی نہیں رہی تھی۔۔۔ وہ بیڈ پر پڑی ہوئی اپنی ٹی شرٹ پہننے کے بعد اپنے موبائل پر ضروری کال ملانے لگا

"میں تمہارے لئے کافی بناکر لاتی ہو"

اینجل کی بات کا بہرام نے کوئی جواب نہیں دیا تو تھوڑی دیر بہرام کو دیکھتی رہی پھر کمرے سے باہر چلی گئی

*****

"بہرام ریلکس پریشان مت ہو تم کافی مضبوط اعصاب کے مالک ہو، ہمت والے اور مضبوط انسان۔۔۔ میں ہمیشہ ہی سارے جونیئرز کو تمہاری مثال دیتا ہوں پلیز حوصلہ رکھو اور اپنا بیان دو۔۔۔ اس رات تمہارے فلیٹ میں کتنے آدمی آئے تھے جنہوں نے تمہیں اور تمہاری بیوی کی جان لینے کی کوشش کی۔۔۔ کیا تمام لوگوں کے چہرے کی شناخت کرسکتے ہو، ایک ایک بات تفصیل سے بتاؤ" 

بہرام کے ہوش میں آنے کی خبر ملتی ہی کمشنر صاحب خود اسپیشلی بہرام کے پاس آۓ تھے اُس کے ڈاکٹر سمیت سب کو کمرے سے باہر بھیج دیا گیا تھا اس وقت کمرے میں کمشنر صاحب کے علاوہ بہرام کا اسٹینڈ مہران موجود تھا

"تین۔۔۔۔۔ تین آدمی تھے وہ" 

آکسیجن ماسک ہٹانے کی وجہ سے وہ گہری سانس لینے کے درمیان بولا۔۔۔ اسے اینجل کی موت کی خبر سنادی گئی تھی اور ساتھ ہی اس کی ڈیڈ باڈی کے غائب ہونے کا بھی بتادیا گیا تھا

"کیا تم تینوں کے چہرے کی شناخت کرسکتے ہو، گولی کس نے چلائی تمہارے اوپر"

کمشنر صاحب نے جلدی سے دوسرا سوال پوچھا۔۔۔ اُس کا بیان ریکارڈ ہورہا تھا، اس سوال پر بہرام کے چہرے کے تاثرات تکلیف دے ہوگئے تھے ساتھ ہی اس کے چہرے پر تاریخی چھاگئی۔۔۔ اسے لگا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں

"اُن تینوں میں سے کسی نے نہیں چلائی۔۔۔ گولی اُس بےرحم نے چلائی مجھ پر"

بولنے کے ساتھ ہی بہرام سے سانس لینا دشوار ہوگیا نظروں کے سامنے اینجل کا معصوم چہرہ آتے ہی اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔ بہرام کی حالت بگڑتے دیکھ کر کمشنر صاحب کے اشارہ کرنے پر انسپیکٹر مہران نے فوراً بہرام کو آکسیجن ماسک لگا دیا اور ڈاکٹر کو کمرے میں بلایا

"میں نے آپ کو پہلے ہی بتایا تھا یہ بات کرنے کی بیان دینے کی کنڈیشن میں نہیں ہیں ابھی"

ڈاکٹر جتاتا ہوا بولنے لگا۔ِ۔۔ کمشنر صاحب انسپکٹر مہران کو اشارہ کرتے ہوئے باہر نکل گئے

"تفتیش کے دوران جو ثبوت ملے ہیں اس کے مطابق ہمارا شک صحیح ہے۔۔۔ جب تک بہرام مکمل صحت یاب نہیں ہوجاتا اُس کی حفاظت کی ذمہ داری تمھاری ہے مزید سیکیورٹی سخت کردو بہرام کی جان ہمارے لیے قیمتی ہے، جنہوں نے بہرام کی جان لینے کی کوشش کی ہے وہ لوگ اتنے آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔۔۔ اور بہرام کی سسٹر کو اسکے بارے میں انفرم کردیا تھا"

کمشنر صاحب ساری باتیں انسپیکٹر مہران کو سمجھاتے ہوئے اُس سے بہرام کی بہن کے بارے میں پوچھنے لگے جو ملک سے باہر تھی

"سر آپ بےفکر رہئیں اے سی پی صاصب جب تک مکمل ہوش میں نہیں آجاتے اُن کی حفاظت کی ذمہ داری اچھے سے نبھانا میرا فرض ہے۔۔۔ ان کی سسٹر کو اے سی پی صاحب کے بارے میں بتادیا گیا تھا وہ کل کی فلائٹ سے پاکستان آرہی ہیں اُن کو باحفاظت ہسپتال تک لانے کی ذمہ داری میں نے انسپکٹر شیمل کو سونپ دی ہے"

انسپیکٹر مہران کی بات پر کمشنر صاحب مطمئن ہوکر وہاں سے چلے گئے۔۔۔ لیکن پورے ڈیپارمینٹ کے لیے اے سی پی بہرام عباسی کی بیوی کی ڈیڈ باڈی کا یوں ہسپتال سے غائب ہوجانا ایک مہمہ بن چکا تھا

*****

"میں جھوٹ کیوں بولوں گی آپ سے نزہت آپا جیسے میرے لیے حرم ہے ویسے ہی آپ کی نگی بھی مجھے عزیز ہے۔۔۔ اگر میرے اسجد کی بیوی حرم کی بجائے آپ کی بیٹی نگی بنتی ہے تو یقین جانیے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا"

ڈرائینگ روم کے باہر آتی آواز اس کی صبیحہ خالہ کی تھی جنہوں نے چار سال پہلے اُسے اپنے بیٹے کے لئے اُس کے ماں باپ سے بڑی چاہ سے مانگا تھا۔۔۔۔ صبیحہ خالہ کی بات سن کر حرم کی آنکھوں میں بےساختہ نمی اتر آئی ہوئی۔۔۔

"مجھے غلط مت سمجھنا صبیحہ بہن کہ میں حرم کا رشتہ ختم کرکے تمہارے بیٹے سے اپنی بیٹی کا رشتہ جوڑنے کا کہہ رہی ہوں مگر میں مجبور ہوں، سارے حالات تمہیں بتاچکی ہوں۔۔۔ نگی نے کل جب اپنی جان لینے کی کوشش کی میرے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔۔۔۔ اُس نے تو جیسے ضد ہی پکڑلی ہے وہ شادی کرے گی تو صرف اسجد سے ورنہ زہر کھاکر مرجاۓ گی۔۔۔ ہماری ایک اکلوتی بیٹی ہے اگر ہم اُس کی خواہش بھی پوری نہیں کرسکے تو لعنت ہے پھر ہم پر۔۔۔ یہ ہمارا گھر آخر کس کا ہے شادی کے بعد نگی کا ہی تو ہوگا میں اور نگی کے ابا آخر کتنے دنوں کے مہمان رہ گئے ہیں اب اس دنیا میں"

نزہت چچی نے اپنی مجبوری کی داستان سنانے کے کے ساتھ ساتھ آخر میں گھر والا شوشہ چھوڑ کر صبیحہ خالہ کو لالچ دی، جس پر دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوئی حرم تلخی سے مسکرائی 

دو مہینے پہلے صبیحہ خالہ اپنی دونوں بیٹوں کی شادی دھوم دھام سے کرچکی تھی۔۔۔۔ اسجد کی نوکری بھی اب پکی ہوچکی تھی جب صبیحہ خالہ نزہت چچی سے حرم اور اسجد کی شادی کے متعلق بات کرنے آئی تو ان کے جانے کے بات نگی کا سخت ری ایکشن سب کے سامنے آیا۔۔۔۔ نہ اُس نے چچا کا لحاظ کیا نہ حرم کا بلکہ سب کے سامنے بےباکی سے کہہ دیا کہ وہ صرف اسجد سے شادی کرے گی نہیں تو سب لوگ اس پر روۓ گے۔۔۔۔ اور کل جو نگی نے مرنے کا ڈرامہ کیا نزہت چچی بالکل جھوٹ نہیں بول رہی تھیں وہ سارا سین حرم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی

"وہ سب تو ٹھیک ہے آپا مگر میرا اسجد، مہں اس کو کیسے سمجھاؤ گی اور حرم وہ کیا سوچے گی"

صبیحہ خالہ نیم رضامندی ظاہر کرنے کے باوجود، ان کے دماغ میں جو خدشے پل رہے تھے وہ نزہت چچی کے سامنے ظاہر کرتی ہوئی بولی تو وہ کمرے میں بیٹھی ہوئی حرم اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاکر رونے لگی

"ان دونوں کی فکر مت کرو حرم تو بہت پیاری اور سمجھدار بچی ہے۔۔۔ ساری صورت الحال اس کے سامنے ہی ہے وہ خود ہی سمجھ جائے گی اور اسجد کو بھی اچھی طرح سمجھا دے گی کیوکہ نہ تو وہ اپنے چچا کو پریشان دیکھ سکتی ہے اور نگی سے بھی بہت پیار کرتی ہے۔۔۔ میں جلدی ہی اس کا رشتہ دیکھ کر بہت اچھی جگہ اس کی شادی کروا دوگی"

نزہت چچی صبیحہ خالہ کو مطمئن کرتی ہوئی بولی۔۔۔۔ دوسرے کمرے میں کل سے بخار میں پھکتی ہوئی حرم اپنے چہرے سے آنسو صاف کرنے لگی

*****

"ہارون کھانا کیوں نہیں کھایا اِس نے ابھی تک"

کھانے سے بھری پلیٹ دیکھ کر بہرام نے کمرے میں موجود بھیڑیوں سے باندھے بوبی کی بجائے بوبی کی نگرانی کرنے والے ہارون سے پوچھا۔۔۔ جو اس محکمے کا خاص وفادار تھا

"اے سی پی صاحب یہ بول رہا ہے کھانے میں اِس کو دال پسند نہیں"

ہارون کی جواب پر بہرام نے بوبی کو دیکھا جو اس کو خونخوار کھا جانے والی نظروں سے ایسے گھور رہا تھا جیسے ہی اس کی بیڑیاں کھُلے اور وہ اے سی پی بہرام پر جھپٹ کر حملہ کرے

"یہ دال لے جاؤ ہارون آج میں اس کو ایسا اسپیشل کھانا کھلاؤں گا دو دن تک اِس کے اندر سے بھوک کا احساس ہی ختم ہو جائے گا"

بہرام کے کہنے پر ہارون کھانے کی پلیٹ لیٹ گیا ہے جس کے بعد بہرام بوبی کے پیٹ میں پے در پے گھونسے مارتا ہی چلا گیا تکلیف کے مارے بوبی کے منہ سے چیجیں اور آنکھوں سے آنسو دونوں ہی نکل آۓ

"بول بیٹا پیٹ بھرا یا اور مزید کھانا ہے"

بہرام بوبی کی لمبی زلفیں مٹھی سے پکڑتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا

"جس دن میرے بھائی کو معلوم ہوگیا کہ تُو نے مجھے کہا چھپایا ہوا ہے وہ دن تیری زندگی کا آخری دن ہوگا اے سی پی یاد رکھنا"

بوبی تکلیف میں بری طرح کراہتا ہوا بولا بہرام نے اس کے منہ پر ایک زوردار مُکّا جڑا

"کون بتائے گا تیرے بھائی کو تیرے بارے میں،، قبر سے نکل کے تیرا باپ بتاۓ گا"

بہرام نے بوبی سے پوچھتے ہوۓ ہاتھ میں پکڑی اسٹک زور زور سے اُس کے پیٹ پر مارنا شروع کردی۔۔۔ جس سے بوبی کی چیخیں ایک بار پھر کمرے میں گونجنے لگی اور وہ تکلیف سے کراہا کر بےہوش ہوگیا

"ہارون دو دن تک اِسے کھانے کے لئے کچھ بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ دو دن بعد اگر یہ خود سے کھانا مانگے تو اِسے یہی دال کھانے کے لئے دے دینا"

بہرام ہارون کو ہدایت دیتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔۔۔

یہ دوسری خفیہ جگہ تھی جہاں پر اُس نے بوبی کو قید میں رکھا ہوا تھا۔۔۔ جس دن اُس کے فلیٹ میں کوئی داخل ہوا تھا تب سے وہ اور بھی زیادہ الرٹ ہوچکا تھا اپنے فلیٹ میں مختلف ہڈن کیمرے اور سیکیورٹی پرپس کے لیے ایسے الارم بھی فٹ کروا دیے تھے جس کی وجہ سے کوئی بھی اتنی آسانی سے اب اس کے فلیٹ میں داخل نہیں ہوسکتا۔۔۔ وہ آپ اپنے اپارٹمنٹ کی طرف نکل رہا تھا جبھی اس کے موبائل پر عفان کی کال آنے لگی۔۔۔ عفان وہی صحافی تھا جس نے اُسے بوبی کے متعلق تمام انفارمیشن دی تھی جس کی مدد سے بہرام بوبی کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوا تھا

"اے سی پی صاحب ایک بہت ضروری انفارمیشن جو میں موبائل پر نہیں دے سکتا آپ پلیز جلد سے جلد میرے گھر پر آجائیں"

عفان بولتا ہوا کافی زیادہ پریشان لگ رہا تھا جیسے وہ خبر اُس کے اپنے لیے بھی حیران کُن اور پریشان کُن تھی

بہرام نے آج اینجل سے وعدہ کیا تھا اُسے اُس کی فرینڈ کی طرف جانے کا اور پھر وہاں سے اُن کا باہر ڈنر کا پلان تھا۔۔۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ وہ عفان سے کل پر ملنے کا رکھ لے لیکن عفان کا لہجہ اُسے تشویش اور تجسس میں مبتلا کر گیا

"ٹھیک ہے میں پہنچ رہا ہوں تمہارے پاس لیکن تم نے کافی سسپینس کری ایڈ کردیا ہے تھوڑا بہت مجھے بتاؤ بات کیا ہے"

بہرام موبائل کان سے لگائے گاڑی میں بیٹھتا ہوا عفان سے بولا

"ارسل نیازی کے متعلق آپ کو ایک ایک انفارمیشن دینے کے باوجود ایک بہت بڑی خبر مجھ سے ناجانے کیسے مس ہوگئی جو شاید میری نظروں کے سامنے سے بھی نہیں گزری، اسی کے متعلق بتانے کے لئے آپ کو بلارہا ہوں۔۔۔ اُس خبر سے آپ کا بھی بہت گہرا تعلق ہے یہ سمجھ لیں کہ میں یعقوب نیازی کی گرل فرینڈ کے متعلق آپ کو بتانا چاہتا ہوں"

عفان تھوڑا رازدارانہ انداز میں تھوڑا سا گھبراۓ لہجے میں بولا

"چلو ٹھیک ہے میں آدھے گھنٹے میں پہنچتا ہوں تمہارے پاس"

بہرام نے عفان کو بول کر موبائل ڈیش بورڈ پر رکھ دیا گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا وہ عفان کی بات کو سوچنے لگا۔۔۔ یعقوب نیازی کی گرل فرینڈ۔۔۔ میرا کیا تعلق ہوسکتا ہے اس خبر سے۔۔۔ بہرام عفان کی باتوں پر غور کرتا ہوا ڈرائیونگ کرنے لگا

*****

"یعقوب آپ بی لیو کریں مجھ پر میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ میں کسی طرح سے بوبی کے متعلق اِس آدمی سے پتہ لگالوں مگر آپ یقین کریں یہ آدمی آپ کی پہنچ سے زیادہ شاطر اور چالاک ہے"

فلیٹ میں چھپے ہوۓ کیمرے جگہ جگہ نسب تھے اینجل کو یعقوب نیازی سے بات کرنے کے لیے اب واشروم میں موبائل لےکر جانا پڑتا۔۔۔ یعقوب نیازی کے بلانے پر بھی وہ بہرام کو اپنے انکل کی طعبیت خرابی کا بول کر، دس دن پہلے اُس کے فلیٹ سے باہر نکلی تھی۔۔۔ اور مسلسل دو راتیں یعقوب نیازی کو خوش اور مطمئن کرنے کے بعد یعقوب نیازی نے اُسے واپس جانے کی اجازت دی تھی

"یہ کام تم سے نہیں ہونے والا سوئیٹ ہارٹ، اپنے بھائی کے متعلق میں کسی دوسرے ذریعے سے معلومات حاصل کرلوں گا، بےکار ہی میں نے تمہیں اے سی پی کا بستر گرم کرنے پر لگادیا اور یہی کام تم پوری خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہوگی ہے ناں"

یعقوب نیازی کی بات جیسے اینجل کے منہ پر تپھڑ کی طرح پڑی مگر وہ ضبط کرتی ہوئی بولنے لگی

"ایسا نہیں ہے یعقوب میں بہت جلد بوبی کے متعلق پتہ لگاکر رہوگی"

اینجل کو اپنی بولی ہوئی بات پر خود بھی یقین نہیں تھا۔۔۔ کیوکہ بہرام اسے ان ساری چیزوں سے دور رکھتا تھا یہاں تک کہ اُسے بہرام کا لیپ ٹاپ یوز کرنے کی پرمیشن نہیں تھی۔۔ اور اب تو وہ دوبارہ اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ بھی چینج کرچکا تھا

"منع کررہا ہوں میں تمہیں۔۔۔ اب کوئی ضرورت نہیں اِس مسلئے میں پڑنے کی تم صرف میرا دل خوش کرو۔۔۔ بھائی کا بھائی پر اتنا تو حق ہوتا ہے کہ وہ اُس کی غیر موجودگی میں اُس کی رکھیل سے اپنا دل بہلا سکے۔۔۔ آج رات تم دوبارہ میرے فارم ہاؤس پر آرہی ہو وہ بھی پورے ایک ہفتے کے لیے۔۔۔۔ تین دن تک تم شیخ یامین کا دل خوش کرو گی تاکہ دبئی والا کانٹریکٹ شیخ مجھ کو دے، اور باقی کی چار راتیں تم میرے بستر پر گزارو گی۔۔۔ وہ کیا ہے ناں پچھلی بار صحیح سے دل نہیں بھرا تھا میرا اور اُس اے سی پی کی عزت کو اپنے بستر پر دیکھ کر سکون بھی ملتا ہے مجھے"

یعقوب نیازی کی بات سن کر اینجل پریشان ہوگئی یعقوب نیازی انکار سننے کا عادی نہیں تھا ایک ہفتے کے لیے وہ بہرام سے کیا بہانا کرکے یعقوب نیازی کے پاس جاتی

اپنی یونیورسٹی میں وہ بوبی کے کہنے پر ڈرگز یونیورسٹی کے دوسرے اسٹوڈینس کو سپلائی کرتی۔۔۔ بوبی کے بلانے پر کبھی کبھار وہ ہوسٹل کی بجاۓ اپنی راتیں بھی اُس کے پاس گزارتی۔۔۔ لیکن بوبی کی گرفتاری پر اینجل ٹینشن میں آگئی کہیں پولیس کے ہاتھوں وہ بھی نہ پکڑی جاۓ اِسی ڈر کی وجہ سے اُسے یعقوب نیازی سے ملنا پڑا

یعقوب نیازی نے اُسے یقین دلایا وہ اُسے کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔ بس بدلے میں جب جب یعقوب نیازی چاہے گا اُسے یعقوب نیازی کی رات کو رنگین بناکر اِس کا دل خوش کرنا پڑے گا جیسے وہ پہلے اس کے بھائی کا دل خوش کرتی تھی۔۔۔۔ پہلی بار یعقوب نیازی جیسے بڈھے شخص کے ساتھ رات گزار کر وہ بہت روئی تھی مگر پھر آئستہ آئستہ وہ عادی ہوگئی۔۔۔ یعقوب نیازی کے پلان کے مطابق اُس نے بہرام سے دوستی کی پھر بعد میں شادی بھی۔۔۔ لیکن بہرام کی قربت ایسی ہوتی جو تھوڑی دیر کے لیے اُسے اُس کے برے ماضی سے غافل کردیتی کبھی کبھی وہ سوچتی کاش بہرام اُسے بوبی سے پہلے ہی مل چکا ہوتا

اب یعقوب نیازی اُسے اپنے مطلب کے لیے بھی استعمال کررہا تھا اُس کی خوبصورتی کو کیش کروانے کے لیے ناجانے وہ اُسے کس شیخ کے پاس پھینکتا۔۔۔۔ کیا تھی اُس کی زندگی؟؟ اور وہ خود کیا بن چکی تھی مردوں کی بھوک مٹانے کا ذریعہ، وہ چاہ کر بھی بہرام کا اپنی اصلیت نہیں بتاسکتی تھی ایک ماہ بہرام کے ساتھ گزارنے پر اُسے بہرام کی طبعیت کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا۔۔۔۔ وہ اُس کو کسی صورت معاف نہیں کرتا۔۔۔ شاید اُسے خاموشی سے یعقوب نیازی اور بہرام عباسی سے دور کہیں چلے جانا چاہیے تھا یہی اُس کے لیے ٹھیک رہتا 

*****

اس کے گھر پہچنے پر ہمیشہ کی طرح اینجل نے فلیٹ کا دروازہ کھولا ویسے ہی چہرے پر حسین مسکراہٹ سجاۓ وہ اُس کو دیکھ رہی تھی بہرام بغیر مسکراۓ فلیٹ میں داخل ہوا اور دروازے کو اچھی طرح لاک کرنے لگا۔۔۔۔ 

آج جو کچھ اسے عفان سے اینجل کے بارے میں معلوم ہوا اُسے اس وقت اپنی بیوی کی اِس مسکراہٹ سے گِھن محسوس ہورہی تھی۔۔۔ دس دن پہلے اُس کی بیوی یعقوب نیازی کے فارم ہاؤس پر اُس کی عزت کا جنازہ نکال کر آرہی تھی جو شرمناک تصویریں عفان نے اُس کی بیوی اور یعقوب نیازی کی اُس کے سامنے رکھی تھی۔۔۔ اُس وقت شرمندگی کے مارے بہرام کا مرنے کا دل چاہا تھا۔۔۔ عفان خود بھی بہرام کے تاثرات دیکھ کر سخت شرمندہ ہوا تھا مگر اِن سب باتوں کا بہرام کے علم میں ہونے بھی ضروری تھا تاکہ بہرام آگے جاکر کوئی نقصان نہیں اٹھاسکے وہ آئستہ آئستہ بہرام کو اینجل کے بارے میں سب بتاتا چلا گیا۔۔۔ جسے سن کر بہرام کے بس رونے کی کسر باقی بچی تھی۔۔۔ دو بھائیوں کی استعمال شدہ لڑکی اُس کی بیوی۔۔۔۔

"آج پھر موڈ آف ہے تمہارا، کیا پھر کسی مجرم کو سزا دے کر آرہے ہو"

اینجل اُس کے خراب موڈ کا اندازہ بہرام کے چہرے کے تاثرات سے لگاچکی تھی جبھی بہرام سے پوچھنے لگی

"سزا دے کر آ نہیں رہا بلکہ سزا دینے والا ہوں۔۔۔ وہ بھی سخت سے سخت"

بہرام اینجل کا چہرہ دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا اور اپنی کیپ اور اسٹک ٹیبل پر رکھنے لگا

"ایک تو تمہاری یہ سخت طبیعت سے میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ کبھی کبھی تمھارا رویہ میرے ساتھ کتنا سخت ہوجاتا ہے تمہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا ہوگا"

اینجل بہرام کے قریب آکر اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی تو بہرام نے فوراً اُس کے ہاتھ اپنے سینے سے جھٹک کر دور کیے

"مجھے اپنی اِس وردی سے بہت محبت ہے اِسے اپنے ناپاک ہاتھوں سے چھو کر میلا مت کرو"

بہرام کے لہجے میں ایسی حقارت تھی کہ پل بھر کے لئے اینجل سناٹے میں آگئی

"کیا۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو تم۔۔۔کیا مطلب ہے تمہارا اس بات کا"

اینجل بہرام کے سامنے کھڑی ہوکر اُس سے اُس کی بات کا مطلب پوچھنے لگی 

"مجھ سے شادی سے پہلے کتنی راتیں یعقوب نیازی کے بستر پر اُس کے ساتھ گزار چکی ہو"

بہرام کے پوچھے گئے سوال پر لمحہ بھر لگا تھا اینجل کا رنگ فق ہوگیا مگر دوسرے ہی لمحے اُس نے گھبراہٹ اور اپنی اڑتی رنگت پر قابو پالیا

"کیا فضول بکواس کررہے ہو تم۔۔۔ کون یعقوب نیازی،، اتنی گھٹیا بات اپنی بیوی سے کہتے ہوئے شرم آنی چاہیے تمہیں"

اگر اُس کو کہیں سے بھنک لگی تھی تو اینجل نے اپنی طرف سے بھرپور اداکاری کرتے ہوئے بہرام کو شرمندہ کرنا چاہا مگر بہرام نے جوابی کارروائی منہ سے کرنا ضروری نہیں سمجھی اُس نے سخت ہاتھ کا ایک جاندار طماچہ اینجل کے گال پر رسید کیا جس سے وہ چاہ کر بھی خود کو سنبھال نہیں پائی اور فرش پر جاگری، بہرام نے مٹھیوں میں اُس کے بالوں کو بھر کر اُٹھایا اور اپنے سامنے دوبارہ کھڑا کیا

"تم ایک بدکردار اور بدچلن لڑکی ہو، کہہ دو کہ میں تمہارے بارے میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔۔ بول دو کہ تم یعقوب نیازی کی رکھیل نہیں ہو"

بہرام کے تھپڑ سے اُس کا ہونٹ پھٹ چکا تھا جس سے خون رسنے لگا وہ اینجل کے بالوں کو مٹھیوں میں پکڑے اُس سے پوچھنے لگا کہ بہرام کے خطرناک تیور دیکھ کر اینجل بری طرح خوفزدہ ہوچکی تھی اگر وہ سچ بولتی تو بہرام اُس کی جان لے لیتا اور اگر وہ جھوٹ بولتی تو بہرام تب بھی اُس کا حشر بگاڑ دیتا، آج وہ بری طرح پھنس چکی تھی

"بہرام اُس نے مجھے بلیک میل کیا تھا وہ چاہتا تھا کہ میں تم سے بوبی کے متعلق ساری معلومات۔۔۔

اِس سے پہلے اینجل اپنی صفائی میں کچھ کہتی غُصے کی شدت سے بہرام نے اُس کا سر سامنے دیوار پر نصب آئینے پر مار ڈالا جس سے شیشے میں لاتعداد دراڑیں پڑگئی اور اینجل کے منہ سے دردناک چیخیں نکلنے لگیں۔۔۔ اُس کے ماتھے، گال اور توڑی سے خون نکلنے لگا وہ روتی ہوئی ڈر کے مارے کمرے سے بھاگنے لگی مگر اس سے پہلے بہرام نے کمرے کا دروازہ بند کرکے اُسے بیڈ پر دھکا دیا

آج اپنی بیوی کا معصوم چہرہ دیکھ کر بہرام کو اُس کی حالت پر بالکل ترس نہیں آرہا تھا پیار تو بہت دور کی بات، آج بہرام کو اس لڑکی سے شدید نفرت محسوس ہورہی تھی، ایک استعمال شدہ لڑکی کو وہ اپنی عزت بنا چکا تھا۔۔۔ ایسی لڑکی جس نے کسی دوسرے غیر مرد سے ناجائز تعلقات قائم کرکے اُس کے اعتبار اور جذبات کی دھجیاں بھکیر دی تھی۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے بہرام کا خون کھولنے لگا۔۔۔۔ مجرموں کو وہ کبھی نہیں بخشتا تھا۔۔۔۔ اُس کے سامنے موجود یہ لڑکی اب اُس کی بیوی نہیں بلکہ ایک مجرم تھی

"بہرام نہیں پلیز مجھے معاف کردو، تم تو مجھ سے پیار کرتے ہو"

اپنی جانب قدم بڑھاتے ہوئے بہرام کو دیکھ کر اینجل پیچھے سرکتی ہوئی بہرام سے بولی۔۔۔ ساتھ ہی اُس نے خوف سے بہرام کے سامنے اپنے ہاتھ بھی جوڑ دیئے

"بےرحم کا مطلب جانتی ہو تم اینجل"

بہرام اُس پر ترس کھائے بغیر قدم بڑھاتا ہوا اینجل کے قریب آتا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ یعقوب نیازی اور بوبی دل ہی دل میں اس پر کس قدر ہنستے ہوگیں بہرام کا دل چاہا اس لڑکی کے جسم کے لاکھوں ٹکڑے کر ڈالے

"نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ بہرام مجھ سے غلطی ہوگئی تھی پلیز میں تم سے معافی مانگتی ہوں"

وہ اینجل کے نزدیک آیا تو کانپتی ہوئی آواز میں گڑگڑاتی ہوئی وہ بہرام سے معافی مانگنے لگی مگر اگلے ہی پل اینجل نے بہرام کے گن ہولسٹر سے ریوالور باہر نکالا اور پوری طاقت سے بہرام کو پیچھے دھکیلا

"بےرحم کا مطلب جانتے ہو تم اے سی پی بہرام عباسی"

ہونٹوں سے رستہ ہوا خون اپنی ہتھیلی کی پُشت سے صاف کرتی ہوئی وہ ریوالور کا رخ بہرام کی طرف کرتی، الٹا بہرام سے پوچھنے لگی جس پر بہرام استزائیہ مسکرایا

"بےرحم"

آئستہ آواز میں بولتا ہوا اچانک سے اُس نے ہوا میں لات اونچی کرکے گھمائی جو ریوالور پر لگی اور ریوالور دور جاگری اِس سے پہلے وہ اینجل کا دوسرا عمل دیکھتا اُس نے اینجل کا سر زور سے دیوار پر مارا جس سے وہ چکرا کر نیچے گری اور بےہوش ہوگئی

****

"ہاتھ کھولو میرے ورنہ میں کھانا کیسے کھاؤں گی"

آج دوسرا دن بھی گزر گیا تھا اُسے بہرام کی قید میں گزرے اینجل کو ہوش آیا تو اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو بندھا ہوا پایا اُس کے پاؤں میں ایک لمبی سی زنجیر ڈلی ہوئی تھی جس سے وہ صرف واشروم تک ہی جاسکتی تھی۔۔۔ واش روم میں بھی کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جس سے وہ اپنا بچاؤ کرسکتی۔۔۔ مہینے بھر سے اُس نے اپنے شوہر کو محبت بھرے روپ میں دیکھا تھا لیکن کل سے وہ جس روپ میں اُس کے سامنے نظر آرہا تھا گویا اس نے سفاکی اور بےرحمی کی حد ہی کردی تھی

بہرام جو چالوں سے بھری پلیٹ اینجل کے سامنے بیڈ پر رکھ کر کمرے سے باہر جانے لگا تھا اینجل کی بات نے اس کے قدم روک لیے۔۔۔ بہرام خاموشی سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا جس پر کل سے شرمندگی یا پشیمانی جیسی کوئی بھی چیز موجود نہیں تھی ایک ماہ سے اُسے اِس چہرے سے دلی اور جذباتی وابستگی سی ہوچکی تھی آج اُسے اِس چہرے پر تھوکنے کا دل چاہ رہا تھا

"کھانا میں تمہیں خود اپنے ہاتھوں سے کھلا دیتا ڈارلنگ، کل سے ہم دونوں کے بیچ کوئی پیار محبت والا سین بھی تو نہیں ہوا۔۔۔۔ تم کل سے کافی مِس کررہی ہو گئی میرے پیار والے اس روپ کو ہے ناں"

بہرام اس سے بولتا ہوا اینجل کے پاس آنے لگا تو اینجل اس کے تیور دیکھ کر ڈر گئی جو اس وقت پیار بھر ہرگز نہیں تھے

"نہیں میرے قریب آنے کی ضرورت نہیں ہے پلیز دور چلے جاؤ مجھ سے"

بیڈ کی جس سمت سے بہرام اینجل کے پاس آنے لگا تھا اُس کے مخالف سمت سے اینجل بہرام سے ڈر کے بیڈ سے نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔ بہرام نے بیڈ سے باندھی ہوئی زنجیر اپنی جانب کھینچی تو اینجل روتی ہوئی اُس کے پاس کھسکتی ہوئی خود چلی آئی۔۔۔ وہ بہرام سے اپنے ہاتھ کھولنے کا کہہ کر پچھتائی تھی

"کیا ہوا بےبی تم تو مجھ سے ایسے ڈر رہی ہو جیسے میں تمہیں ابھی مار ڈالوں گا۔۔۔ یہ اے سی پی بہت بےرحم ہے اپنے مجرموں کو اتنی آسان موت نہیں دیتا۔۔۔ وہ جو تمہارا پہلا عاشق تھا بوبی، اُس کا حال دیکھنا چاہوں گی۔۔۔ آج کیا کیا ہے میں نے اُس کے ساتھ"

بہرام اُس کے بکھرے ہوئے بالوں کو کانوں سے پیچھے کرتا ہوا پیار سے اینجل سے پوچھنے لگا اور پھر اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر اُس کے سامنے وہ ویڈیو اَن کی جس میں وہ خود بوبی کی وہ بری طرح درگت بنارہا تھا اور بوبی درد اور تکلیف کے مارے بری طرح چیخیں مار رہا تھا۔۔۔ اینجیل نے ڈر کے مارے بری طرح رونا شروع کردیا

"کیا ہوا بہت تکلیف ہورہی ہے اپنے عاشق کی کُتے جیسی حالت دیکھ کر۔۔۔ اِس سے بھی زیادہ برا حشر کروں گا میں تمہارا اور تمہارے اُس دلال یعقوب نیازی کا"

بہرام جبڑوں سے اینجل کا منہ دبوچے اُسے پیار بھرے لہجے میں بولا لیکن اُس کی آنکھوں سے حد سے زیادہ سفاکی چھلک رہی تھی

"ویسے تم سے ایک بات جاننا چاہوں گا، تمہیں تھوڑا سا عجیب سا نہیں لگتا تھا یوں کبھی میرے ساتھ میرے بستر پر کبھی یعقوب نیازی کے ساتھ اُس کے بستر پر"

بہرام نے بولتے ہوئے اُس کا منہ زور سے دوسری طرف جھٹکا

"بہرام پلیز مجھے معاف کردو میں اپنی غلطی پر گلٹی ہو"

اینجل نے بہت 

مشکلوں سے روتے ہوئے بہرام سے کہا تو بہرام نے اُس کے بالوں کو مٹھی میں بھر کر اُس کا چہرہ اپنے چہرے کے نزدیک کیا

"صرف گلٹی، تمہیں تو شرم سے ڈوب مر جانا چاہیے تھا کسی غیر مرد کے بستر پر میری عزت کو نیلام کرتے وقت"

بہرام غصے میں اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا جو وہ کل کافی حد تک بگاڑ چکا تھا۔۔۔ اب وہ خاموشی سے اینجل کے چہرے پر اپنی انگلیاں پھیر رہا تھا اینجل نے خوف سے لرزنا شروع کردیا

"یعقوب نیازی کے ساتھ تمہاری بغیر کپڑوں کی تصویریں دیکھ کر معلوم ہے میرا کیا دل کیا۔۔۔ کہ میں اپنے ریوالور سے خود کو شوٹ کر ڈالوں۔۔۔ کل مجھے دنیا کے اُن تمام مردوں پر رشک محسوس ہوا جن کی بیویاں اُپنی عزت کو اپنے شوہر کی عزت سمجھتی ہیں اور اپنے جسم کو اپنے شوہر کی امانت سمجھ کر اُس میں خیانت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ میں نے تم سے پہلے کبھی کسی دوسری عورت کو استعمال نہیں پھر بھی میرے نصیب میں تم جیسی غلیظ عورت لکھی تھی۔۔۔ کل میں اللہ سے اپنا وہ گناہ جاننا چاہا جس کے بدلے تمہیں میری زندگی میں بھیجا گیا"

بولتے ہوئے بہرام کے چہرے پر خود بھی تکلیف دے تاثرات نمایاں ہونے لگے۔۔۔ جبکہ اینجل ویسے ہی روۓ جارہی تھی

"کیا ہوا بور کررہی ہیں تمہیں میری باتیں۔۔۔ وہ تو کریں گیں میری جان، اگر تم اچھے کردار کی لڑکی ہوتی تو اِن باتوں کو سمجھ سکتی۔۔۔ خیر جانے دو چلو تمہیں کھانا کھلا دیتا ہوں"

بہرام نے اینجل سے بولتے ہوئے چاولوں سے بھری پلیٹ دوبارہ بیڈ پر اُس کے سامنے رکھ دی۔۔

اور اپنی مٹھی میں چاول بھر کر وہ اینجل کے منہ میں ٹھونسنے لگا۔۔ جس سے اینجل کو زور دار  پھندہ لگا اور کھانستے ہوۓ اس کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا مگر بہرام نے اُس کو پانی دینے کی بجائے مٹھی میں اس کے بالوں کو جکڑ کر اس کا سر چاولوں سے بھری پلیٹ میں ڈال دیا۔۔۔  

چہرے پر اچانک ہونے والی جلن سے اینجل بری طرح چیخنے لگی۔۔ ویسے ہی باہر دوڑ بیل کی آواز پر بہرام دروازے کھولنے چلاگیا یہ چیک کیے بغیر کہ اِس وقت اُس کے فلیٹ میں کون آسکتا ہے

*****

اسے یاد پڑتا تھا جب وہ دروازہ کھولنے کے لیے گیا تھا کسی نے کوئی بھاری چیز اُس کے سر پر ماری تھی جس کی وجہ سے وہ بےہوش ہوگیا تھا ہوش آنے کے ساتھ ہی اس نے اپنے آپ کو صوفے پر بیٹھا پایا۔۔۔ سب سے پہلی نظر اس کی اینجل کے مسکراتے ہوئے چہرے پر پڑی جس کے ہاتھ پاؤں کھول کر اسے آزاد کردیا تھا۔۔۔ بہرام کو ہوش میں آتا دیکھ کر اینجل چلتی ہوئی سامنے صوفے پر یعقوب نیازی کے پاس جا بیٹھی، یعقوب نیازی نے اینجل کے شانے پر اپنا بازو پھیلاتے ہوئے اسے اپنے مزید قریب کیا تو اینجل آنکھ دباتی ہوئی بہرام کو دیکھنے لگی۔۔۔ اپنے فلیٹ میں یعقوب نیازی کو اسکے دو گارڈز کے ساتھ دیکھ کر بہرام کا خون کھول اٹھا

"میں تم سے زیادہ سوال نہیں کروں گا اے سی پی بہرام عباسی مجھے صرف میرے بھائی کے بارے میں بتادو میں وعدہ کرتا ہوں یہاں سے جاتے جاتے تمہاری جان بخش دوں گا"

یعقوب نیازی ہاتھ میں موجود پستول سامنے ٹیبل پر رکھتا ہوا صلح جو انداز میں بولا۔۔۔ بہرام سامنے دیوار پر گھڑی میں وقت دیکھنے لگا تھوڑی دیر بعد اُس کے فلیٹ پر مہران کو آجانا تھا

"آج ہی مار ڈالا میں نے تمہارے بھائی کو کتے جیسی موت نصیب ہوئی ہے اُسے، اپنی رکھیل کو اٹھاؤ اور دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔ تم سے زیادہ بغیرت دلال میں نے اپنی زندگی میں آج تک نہیں دیکھا جو اپنی رکھیل کو۔۔۔

یعقوب نیازی کو اینجل کے اتنا قریب بےتکلفی سے بیٹھا ہوا دیکھ کر بہرام کا دل چاہا وہ ان دونوں کو جان سے مار ڈالے اور غصے کی شدت سے وہ ایسا کر ڈالتا کیونکہ جس صوفے پر وہ بیٹھا تھا وہی ایک منی سائز کے پسٹل بھی چھپی ہوئی تھی اس سے پہلے کہ وہ پسٹل نکاتا بہرام کی باتوں پر غصے میں آکر اینجل نے ٹیبل پر یعقوب نیازی کی رکھی ہوئی پستول اٹھائی اور اچانک سے بہرام پر فائر کیا

اینجل کے غصے  بھرے ردعمل پر جہاں سے یعقوب نیازی حیرت زدہ ہوا تھا وہی بہرام کو بھی صدمہ پہنچا اس کی آنکھوں اوپر چڑھنے کو دی اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی

"یہ کیا حماقت کی ہے تم نے بیوقوف لڑکی مجھے میرے بھائی کا پتہ کیسے چلے گا اب"

یعقوب نیازی غصے کی حالت میں اینجل سے بولا۔۔۔ چند منٹ کا کھیل تھا جب گارڈز سمیت اُن دونوں کی توجہ بہرام کے اوپر سے ہٹی جس کا فائدہ اٹھاتے ہی بہرام نے چھپی ہوئی پسٹل نکالی اور حواس کھونے سے پہلے اس نے پسٹل سے اُس بےرحم کا نشانہ لیا جس کی بےوفائی ثابت ہونے کے باوجود بھی اس نے اب تک اس کی سانسیں نہیں چھینی تھی

*****

"اسجد آپ۔۔۔۔ آپ یہاں پر کیا کررہے ہیں" 

چھٹی کے وقت حرم اسجد کو اپنے اسکول سے باہر دیکھ کر حیرت زدہ ہوکر اس سے پوچھنے لگی وہ بائیک پر بیٹھا ہوا اس کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا تھا 

"ضروری بات کرنا تھی تم سے"

اسجد روٹھے ہوئے لہجے میں شکوہ بھری نظروں سے حرم کا زرد اور بیمار چہرہ دیکھتے ہوئے بولا تو حرم سمجھ گئی کہ وہ کیا بات کرنے والا ہے۔۔۔ اس لئے خاموشی سے بناء کچھ بولے اُس کی بائیک پر بیٹھ گئی کیونکہ جو بات اُن دونوں کے درمیان ہوتی وہ گھر پر سب کی موجودگی میں ہونا ناممکن تھی

"منگنی ختم کرنے کا کیوں کہا تم نے اپنی چچی کو"

وہ جس کی ریسٹورینٹ میں حرم کو لےکر آیا تھا وہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا ویٹر جیسے ہیں جوس سے بھرے دو گلاس رکھ کر وہاں سے گیا اسجد حرم سے پوچھنے لگا

"نگی آپ کو بہت پسند کرتی ہے"

حرم اسجد کی آنکھوں میں دیکھے بغیر میز کی سطح کو گھورتی ہوئی آہستہ آواز میں بولی

"اور تم"

اسجد کے دوسرے سوال پر ایک نظر حرم نے سر اٹھاکر اسجد کو دیکھا پھر واپس اپنا سر جھکالیا۔۔۔ وہ آج اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بات نہیں کرسکتی تھی

"میری کیا حیثیت ہے بھلا تمام بڑے لوگوں کی خوشی اسی میں ہے کہ آپ کی اور نگی کی شادی ہوجائے"

حرم اپنا دل مضبوط کرتی ہوئی اسجد کو بتانے لگی۔۔ کیونکہ جب سے نزہت چچی نے اپنے گھر والی بات صبیحہ خالہ کے سامنے کی تھی تب سے صبیحہ خالہ بھی نگی کو اپنی بہو بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی۔۔۔  اس کے پاس تو نہ ہی ماں باپ تھے اور نہ ہی گھر جیسی نعمت

"مگر میری خوشی تمہارے ساتھ میں حرم"

اسجد بےبسی سے بولا حرم نے اس کی طرف دیکھا تو نہیں تھا مگر وہ اُس کے لہجے میں چھٹی بےبسی محسوس کرسکتی تھی

"نگی بہت اچھی لڑکی ہے اسجد آپ اُس کے ساتھ بہت خوش رہیں گے"

حرم اپنا دل بڑا کرتی ہوئی اُسے سمجھانے لگی وہ اپنے ضبط پر خود بھی حیران تھی اُس نے اپنے آنسوؤں کو آنکھوں سے باہر نہیں آنے دیا تھا کمال ضبط کا مظاہرہ کیا تھا آج اُس نے

"میں اُس لڑکی کے ساتھ خوش کیسے رہوں گا جس سے میرا دل نہیں ملتا میں جانتا ہوں رشتے سے انکار تم نے خود نہیں کیا یہ ہمارے بڑوں نے مل کر تم پر دباؤ ڈالا ہے۔۔۔ حرم پلیز تم میرا ساتھ دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا اگر ہم دونوں آج ہی نکاح کرنے کے بعد سب گھر والوں کو بتاتے ہیں۔۔۔۔

اسجد نے جو حرم سے آگے بھولنا چاہا تو حرم نے تڑپ کر اُسے دیکھا اسجد خاموش ہوگیا

"میں بہت زیادہ بزدل لڑکی ہو اسجد اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی اور اس طرح چھپ کر نکاح کرنے کے بعد کیا خالہ خالو آپ کی بہنوں کی نظروں میں میرا وہ مقام برقرار رہے گا،، آپ خود بھی اس بات کو بہتر سمجھتے ہیں جیسا سب چاہ رہے ہیں آپ مان جائے ضد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور آئندہ مجھ سے اس طرح ملنے اور بات کرنے سے گریز کیجئے گا میرے پاس ایک عزت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے"

حرم اسجد سے بولتی ہوئی اٹھ کر وہاں سے چلی گئی

*****

"ارے یار لے جاؤ واپس اِس یخنی کے باؤل کو، اب ٹھیک ہوگیا ہوں میں"

بہرام بےزار سے لہجے میں یخنی سے لبالب بھرے پیالے کو دیکھ کر جیاء سے بولا جو پچھلے ایک ماہ سے اُسے زبردستی یخنی پلائے جارہی تھی بہرام کی بات سن کر جیاء بہرام کو آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی

"میرے سامنے زیادہ نخرے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے روزانہ کی طرح شرافت سے ساری یخنی ختم کرو، معلوم ہے یہ کتنی فائدہ مند ہے تمہارے لیے۔۔۔ اپنی روانگی سے پہلے میں تمہیں پہلے کی طرح ہشاش بشاش خوش باش اور صحت مند دیکھنا چاہتی ہوں"

بہرام کے نخرے تو اُس نے شروع سے ہی برداشت نہیں کیے تھے وہ ابھی بھی روزانہ کی طرح اُس پر روعب جماتی ہوئی بولی۔۔۔ جو اُس کے منع کرنے کے باوجود لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ چکا تھا تنقیدی نگاہ جیاء نے لیپ ٹاپ پر ڈالی تو بہرام کو لیپ ٹاپ بند کرکے سائیڈ پر رکھنا پڑا۔۔۔۔ بہرام نے برا سا منہ بنایا جس کی پرواہ کئے بغیر جیاء نے اسی یخنی سے بھرا باؤل پکڑا دیا

"اب میں پہلے کی طرح مکمل صحت مند ہوچکا ہوں مگر پہلے کی طرح ہشاش بشاش اور خوش باش ہوجاؤ ایسا شاید ہی ممکن ہو"

بہرام نے پیالے میں چمچہ گھماتے ہوئے بولا بولا تو جیاء اس کی بات سن کر بہرام کے پاس ہی بیٹھ گئی

"بے فکر رہو میں کینیڈا جانے سے پہلے تمہیں پہلے جیسا کر کے ہی جاونگی"

جیاء مسکراتی ہوئی بہرام سے بولی تو بہرام نے اس کو آنکھیں دکھائی

"اب تم دوبارہ وہی سلی سا ٹاپک لے کر مت بیٹھ جانا کہ دوبارہ گھر بسالو شادی کرلو، توبہ کرلی ہے میں نے اِس کام سے اب"

بہرام جانتا تھا جیاء ایسا ہی کچھ بولے گی اس لیے وہ پہلے ہی اس کو ٹوکتا ہوا بولا

"کیوں کیا تمہاری زندگی میں ابھی بھی وہ بےشرم لڑکی اہمیت رکھتی ہے جس کے غم میں مبتلا ہوکر تم دوبارہ اپنی نئی زندگی شروع نہیں کرسکتے ہو"

جیاء کو جیسے آج پھر موقع مل گیا تھا بہرام کا دوبارہ برین واش کرنے کا، ویسے بھی یہ کام ضروری تھا اُس کی روانگی سے پہلے

"تم جانتی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ اپنی اہمیت اُسی دن کھو چکی تھی جب اُس کا کسی غیر مرد کے ساتھ ریلیشن کا پتہ چلا تھا مجھے۔۔۔لیکن اب ہزبینڈ وائف کے تعلق سے ڈر گیا ہوں میں اعتبار اٹھ گیا ہے میرا اِس رشتے سے"

بہرام اپنے دل میں چھپی ہوئی بات جیاء سے شیئر کرتا ہوا بولا ویسے بھی وہ شروع سے ہی اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات جیاء سے شیئر کرتا آیا تھا اور جیاء نے شروع سے ہی اُس کے ہر معاملے میں اپنی چلائی تھی اور بہرام نے ہر معاملے میں اُس کی سنی بھی تھی لیکن اینجل سے ملنا اور شادی کرنا زندگی میں پہلا اُس کا اپنا زیادتی فیصلہ تھا جو بہت غلط ثابت ہوا تھا

"پھر تم نے وہی عجیب سی باتیں شروع کردیں بہرام، اگر ایک لڑکی نے تمہاری زندگی میں آکر تمہیں چیٹ کیا ہے تو کیا ضروری ہے کہ ہر لڑکی ویسی ہی ہوگی ایسا ہر دفعہ نہیں ہوتا"

جیاء بہرام کی عقل پر ماتم کرتی ہوئی بولی یقیناً ایک ماہ کی میرڈ لائف نے اُس کے چھوٹے بھائی پر اچھے اثرات مرتب نہیں کیے تھے۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ بری طرح مینٹلی طور پر ڈسٹرب ہوچکا تھا

"مجھے یا تمہیں کیا معلوم کسی دوسری لڑکی کے کردار کے بارے میں، کوئی کسی کے کردار کی گرانٹی تو نہیں دے سکتا"

بہرام نے بولتے ہوئے یخنی سے بھرا باؤل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اُسے پہلے بھی یخنی میں دلچسپی نہیں تھی اب تو اور زیادہ اُس کا دل اُکتانے لگا

"جو لڑکی میں نے پسند کی ہے وہ ہر لحاظ سے تمہارے لیے پرفیکٹ ہے بالکل سیدھی سادھی سی، بھولی بھالی سی اور بہت پیاری سی۔۔۔ ویسے تو میں اُس سے ملی ہو اور رشتہ وغیرہ بھی تہہ کردیا ہے لیکن ہم دونوں کل اُس کے گھر جائیں گے تو تم دیکھ لینا اُسے۔۔۔ جو باتیں پوچھنا ہو پوچھ لینا اوکے۔۔۔ بہرام میں جانے سے پہلے میں تمہارا گھر بستا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں"

جیاء نے کتنے آرام سے اُس کے سر پر بم دے مارا تھا وہ آنکھیں نکالتا ہوا جیاء کو حیرت سے دیکھنے لگا

"واٹ ڈو یو مین تمہارے کہنے کا مطلب کیا ہے تم نے میرے لئے لڑکی دیکھی اُس کو پسند کرکے رشتہ بھی تہہ کردیا۔۔۔۔ جیاء پلیز یار میرا کوئی ارادہ نہیں ہے شادی جیسے جھنجھٹ میں دوبارہ پڑنے کا"

اِس خبر کو سنا کر وہ بہرام کو اچھا خاصا موڈ خراب کرچکی تھی لیکن بہرام بھی اچھی طرح جانتا تھا اُسکی بہن جو اپنے دل میں ٹھان کر بیٹھ جائے وہ کرکے ہی دم لیتی ہے

"فضول کی باتیں مت کرو بہرام اپنی مرضی سے اپنی پسند کی شادی کرکے دیکھ لی ہے ناں تم نے، اب تم وہی کروگے جیسا میں چاہو گی میں واپس کینیڈا جانے سے پہلے تمہاری طرف سے مطمئن ہوکر یہاں سے جانا چاہتی ہوں"

بہرام ہمیشہ سے اُس کی ہر بات مانتا آیا تھا۔۔۔۔ اور واپس جانے سے پہلے وہ چاہتی تھی کہ اپنے چھوٹے بھائی کا گھر بساکر یہاں سے جائے ورنہ تو وہ سالوں تک اِس فیس سے باہر نہیں نکل پاتا کہ اُس کی بیوی نے اُس کو دھوکا دیا تھا

"ابھی تم اپنے سے تین سال بڑے ہونے کا روعب چلا رہی ہوں مجھ پر، میری شادی کے وقت تو اپنی مجبوریوں کا رونا رو کر آ بھی نہیں سکی تھی"

بہرام اس پر چوٹ کرتا ہوا بولا جس پر جیاء نے اُس کے بازو پر بیڈ کر رکھا ہوا کشن مارا

"میرے سامنے زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں اس وقت میرے حالات کا اچھی طرح معلوم تھا مبشر کا کتنا سیریس ایکسیڈنٹ ہوا تھا اوپر سے مبشر کی مدر کی دیکھ بھال  بھی میں ہی کرتی تھی اور دونوں بچوں کے پیپرز ہورہے تھے۔۔۔ یہ میری وہ مجبوریاں تھیں جس کی وجہ سے میں بےبس ہوچکی تھی اور تمہارے لیے وقت نکال کر پاکستان نہیں آسکی تھی اس لئے اب فضول کی طعنے بازی سے گریز کرو نہیں تو پھر میں بھی شکوہ پر اتر آؤ گی کون سا تم نے اپنی شادی کی تصویریں مجھے بھیجوائی یا اُس اینجل سے اپنی بڑی بہن کا تعارف کروایا کبھی چہرہ تک نہیں دکھایا تم نے اپنی پہلی بیوی کا مجھے"

جیاء نہ چاہتے ہوئے بھی بہرام کی بات پر شکوہ کرگئی تھی فیس بک پر وہ جتنا ایکٹِو رہتی تھی بہرام اتنا ہی کم یوز کرتا تھا پرسنلی تصویریں بنوانا اسے زیادہ پسند نہیں تھا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جتنی بار بھی جیاء نے اینجل کو دیکھنے کی فرمائش کی تو بہرام نے پہلے اُس کے پاکستان آنے کی شرط رکھ دی۔

"اُس کا چہرہ دیکھ کر کیا کرتی اُس نے تو مجھے ہی کسی کے سامنے شکل دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا"

بولتے ہوۓ بہرام کے لہجے میں تلخی گُھل گئی جسے دیکھ کر جیاء افسوس کرنے لگی وہ یخنی کا باؤل اٹھاتی ہوئی بولی

"بھول جاؤ بہرام اُس بےکار سی لڑکی کو، چلو ہم دونوں حرم کے بارے میں بات کرتے ہیں معلوم ہے حرم بہت پیاری لڑکی ہے۔۔۔ فرحانہ انٹی نے مجھے بہت ساری لڑکیاں دکھائی تھی مگر مجھے تمہارے لئے ہر لحاظ سے حرم ہی پرفیکٹ لگی دکھنے میں اتنی انسوسینٹ، اتنی کیوٹ پیاری سی ہے کہ کیا بتاؤں۔۔۔ پرائیویٹ بی ایس کیا ہوا ہے اس نے، اسکول میں ٹیچنگ کرتی ہے عمر بیس سال ہے تم سے آٹھ نو سال چھوٹی ہوگی۔۔۔ فیملی میں بھی کوئی خاص بڑی نہیں پیرنٹس کی ڈیتھ کے بعد وہ اپنے چچا چاچی کے ساتھ رہتی ہے۔۔۔ سیدھے سادے اور بہت سمپل سے لوگ ہیں میں نے تو صاف بول دیا ہمیں کوئی لمبا چوڑا جہیز تو چاھیے نہیں۔۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے میرے بھائی کے پاس بس آپ سے آپکی بھتیجی چاہتے ہیں اور میں نے انہیں یہ بھی بول دیا کہ نکاح کی تقریب ہم لوگ بھی سادگی سے چاہتے ہیں۔۔۔ جب تم کل حرم سے ملو گے تو گرانٹی سے کہتی ہو وہ تمہیں بھی بہت پسند آئیں گی"

جیاء اُسے حرم کے بارے میں بتانے کے ساتھ یخنی پلائے جارہی تھی۔۔۔ وہ جیا کی باتوں کے ساتھ یخنی کے گھونٹ اپنے اندر تلخی سے اتار رہا تھا ایک دم سے بہرام جیاء کی آخری بات پر اس کا ہاتھ پکڑتا ہؤا بولا

"معصوم چہرے اکثر دھوکا دیتے ہیں یہ تجربہ ہوچکا ہے مجھے اگر وہ خوبصورت ہے انوسینٹ ہے یا کیوٹ ہے مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔  اور میں کل تمہارے ساتھ کہیں نہیں جارہا جو معاملات تہہ کرنے ہیں وہ تم اکیلے طے کرو، جو کرنا ہے وہ تم اکیلی کرو مگر پلیز مجھے مت گھسیٹو بیچ میں کیوکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں جتنا بھی تمہیں انکار کرلو تم میری شادی کروا کے ہی یہاں سے جاؤں گی"

بہرام بے زار سے لہجے میں جیاء ایسے بولا تو وہ خاموش ہوگئی

*****

"صبیحہ آپا بتارہی تھیں آپ نے کہیں اور حرم کا رشتہ طے کر دیا ہے"

گھر آئی محّلے کی خاتون نزہت چچی سے پوچھنے لگی دوسرے کمرے میں بیٹھی حرم کو اُن دونوں کی صاف آواز آرہی تھی تھوڑی دیر پہلے ایک لڑکی اُس کے ہاتھ پر مہندی لگاکر گئی تھی

"ہاں بھئی کہیں اور رشتہ بھی کردیا اور کل تو ماشاء اللہ سے اُس کی بارات بھی ہے خیر سے، نگی کی طرح وہ بھی اپنے گھر کی ہوجائے گی خدا کے حکم سے۔۔ بھئی جو کوئی کچھ بھی کہتا رہے میں نے تو حرم کو نگی سے الگ نہیں سمجھا جیسے ہی اُس نے بولا مجھے اپنے خالہ ذاد سے شادی نہیں کرنی وہی میں نے خاموشی سے حرم کے بجاۓ اپنی نگی کو بیاہ دیا۔۔۔ نگی کا تو تمہیں معلوم ہے اللہ میاں کی گائے ہے، مہینے بھر میں ہی صبیحہ کے پورے گھر کو اُس نے ایسے سنبھال لیا کہ صبیحہ تو گُن گاتے نہیں تھکتی میری نگی کے"

نزہت چچی اور بھی کچھ نگی کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں اور ادھر حرم تلخی سے مسکرانے لگی اُسے اپنے ہاتھوں میں لگی مہندی کافی بےزار کررہی تھی جو اُس کی ہونے والی نند کے کہنے پر اُسے لگائی گئی تھی

"ایسے ہی سننے میں آیا ہے کہ حرم کا ہونے والا شوہر پولیس والا ہے اور پہلے سے شادی شدہ بھی؟"

مُحلّے کی خاتون کی آواز پر حرم کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔

"آئے ہائے بہن کہاں سے سن لی تم نے ایسی خوفناک باتیں؟ کیا شادی شدہ آدمی کو پکڑا دوں گی میں جوان کنواری پھول جیسی نازک بچی کو۔۔۔۔ لوگ بھی دوسروں کی خوشیوں سے جل کر نہ جانے کیا کیا اول فول بکتے ہیں۔۔۔ پہلی بیوی مرچکی ہے اُس بےچارے کی۔۔۔ کوئی بھرے پلنگ پر تھوڑی نہ بھیج رہی ہوں میں حرم کو۔۔۔ اور پولیس والے کی نوکری کررہا ہے تو بہت اچھا عہدہ ہے اُس کا، کسی ٹچے یا نکھٹو کو پلے نہیں باندھ رہی ہو میں حرم کو"

نزہت چچی کی تپتی ہوئی آواز حرم کو سنائی دی۔۔۔ نگی کی اسجد سے شادی کے فوراً بعد ہی نہ جانے کہاں سے اُس کا رشتہ آگیا اُس کی ہونے والی نند پہلی نظر میں اُس کو اپنے بھائی کے لیے پسند کرکے چلی گئی تھی، بلکہ وہ جلد سے جلد واپس اپنے شوہر کے پاس جانے سے پہلے اُس کی شادی اپنے بھائی سے کروانا چاہتی تھی جیاء نے اُن لوگوں سے کچھ بھی نہیں چھپایا تھا۔۔۔ 

لڑکا 29 سال کا تھا اچھی آمدنی ذاتی گھر اچھے عہدے پر فائز لیکن حادثاتی طور پر اُس کی بیوی مر چکی تھی۔۔۔ جیاء نے جہیز کے نام پر ایک سِکّہ بھی لینے سے منع کردیا تھا اُسے صرف اپنے بھائی کے لیے حرم چائیے تھی جو اُس کے بھائی کو سنبھال سکے اور اُس کے بھائی کی زندگی میں خوشیاں بھر سکے۔۔۔ البتہ جیاء کے بھائی نے اُسے اتنی بھی اہمیت نہیں دی تھی کہ وہ حرم کو ایک نظر بھی دیکھ لیتا یا کوئی دیکھنے کی خواہش ظاہر کردیتا ہے۔۔۔ جیاء نے ہی ہفتے بھر پہلے اپنے موبائل میں اُسے بہرام کی تصویر دکھائی تھی جسے ایک نظر دیکھنے کے بعد اُس نے جلدی سے موبائل واپس جیاء کو دے دیا تھا۔۔۔ تصویر میں وہ شکل سے ہی کوئی مغرور سا انسان لگ رہا تھا مگر قد کاٹھ نین نقش اور شکل و صورت میں وہ اسجد سے کہیں زیادہ اچھا تھا۔

"ویسے نزہت آپا اُڑتے اُڑتے میں نے تو یہ خبر بھی سنی ہے کہ وہ پولیس والا کافی غضیلہ قسم کا مرد ہے اور تو اور اُس نے خود اپنی پہلی بیوی کو بھی مار ڈالا تھا"

مُحلّے کی خاتون کی کمرے میں آتی آواز پر حرم کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔۔۔ وہ شادی شدہ تھا اور اُس کی پہلی بیوی مرچکی تھی اِس بات کا تو حرم کو معلوم تھا مگر اُس نے پہلی بیوی کو خود مار ڈالا تھا یہ سن کر حرم کا دل بری طرح خوف سے لرزنے لگا

"ارے بہن یہ کون سی باتیں لےکر بیٹھ گئی ہو تم، آخر یہ کون سے لوگ ہیں جو یہ سب بکواس تم سے کرکے گئے ہیں اور تم یہاں آکر ہمارا دماغ خراب کررہی ہو،، کل بچی کی شادی ہے اور تم ہو کے کب سے الٹی سیدھی باتیں ہی ہانکے ہی جارہی ہو۔۔۔ کوئی کام کی بات کرنی ہے تو بیٹھو یہاں پر نہیں تو نکلو۔۔۔ شادی کا گھر ہے ہمیں بہت سارے کام کرنے ہیں"

نزہت چچی کی آواز اُس کے کانوں میں پڑ رہی تھی اور وہ وحشت بھری نظروں سے مہندی سے سجے اپنے ہاتھ دیکھنے لگی  پورا وجود اسکا زلزلوں کی زد میں آچکا تھا۔

ایک ایسا شخص جو اپنی پہلی بیوی کا قتل کرچکا تھا، ایسی جگہ پر اُس کو بیایا جارہا تھا یہ سوچتے ہوئے حرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔

"حرم۔۔۔۔ اے حرم ارے کیا ہوگیا بیٹا رو کیوں رہی ہو اُس منحوس ساجدہ کی باتوں پر دھیان نہیں دو ایک نمبر کی حرافہ عورت ہے وہ تو۔۔۔۔ یہاں وہاں کی سُن گُن لینے والی اور اپنی پیٹ سے باتیں بنانے والی۔۔۔ تمہاری نند تو منع کرکے گئی تھی کہ جہیز کے نام پر کچھ نہیں چاہیے انہیں لیکن تمہارے چچا کے کہنے پر میں تمہارے سات سے آٹھ جوڑے تین بیڈ شیٹیں اور ایک ڈنر سیٹ لےکر آئی ہو۔۔۔ منہ دکھائی میں بہرام کے لیے مہنگے سی گھڑی بھی خریدی ہے اور سلامی کے لیے بھی اچھے پیسے لفافے میں ڈال کر حفاظت سے رکھ دیے ہیں۔۔ارے کوئی بےمول تھوڑی ہے ہماری بیٹی جو تمہیں تمہارے چچا اور میں خالی ہاتھ بیاہ دیں گے۔۔۔ ارے میری نگی سے زیادہ خوش قسمت ہو تم، ہم نے تمہیں نگی سے کہیں زیادہ اچھے کھاتے پیتے لوگوں میں بیایا ہے لیکن یہ بھی قسمت قسمت کی بات ہوتی ہے۔۔۔ تم اِن چُوڑے چمار لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دو، نگی آنے والی ہے تھوڑی دیر میں اُس کے ساتھ مل کر جو پیکنگ کرنا ہو کرلینا۔۔۔ ابھی تو تمہارے مہندی لگی ہے آج رات کا کھانا اور روٹیاں میں ہی بنادیتی ہوں تم بس آرام کرو"۔۔

نزہت چچی بولتی ہوئی حرم کی شکوہ بھری نظروں کو نظر انداز کرکے کمرے سے باہر نکل گئیں

نگی کے مقابلے میں اُس کو اچھے کھاتے پیتے لوگوں میں بیاہ کر اُس کی چچی اُس پر احسان جتارہی تھی کیا وہ اپنی نگی کی شادی ایک شادی شدہ مرد سے کردیتی جوکہ اپنی بیوی کو بھی مار چکا تھا حرم سوچتی ہوئی دوبارہ رونے لگی

*****

"اے سی پی بہرام عباسی کہو کیسے مزاج ہیں اب تمہارے"

وہ پولیس اسٹیشن میں بیٹھا ہوا ٹیبل پر رکھی فائل دیکھنے میں مصروف تھا جب یعقوب نیازی اُس کے کمرے میں آتا ہوا بولا۔۔۔ بہرام یعقوب نیازی کی آمد پر غُصّے میں اُسے ضبط کرتا ہوا دیکھنے لگا۔

"اپنے آنے کا مقصد بتاؤ؟"

بہرام نے فائل بند کرتے ہوئے یعقوب نیازی سے کہا تو یعقوب نیازی بناء اُس سے اجازت مانگے اُس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔

"خوشی ہو رہی ہے تمہیں زندہ دیکھ کر یقین جانو جب نیوز پیپر میں تمہاری تشویشناک حالت کے بارے میں پڑھا تھا تو اندازہ نہیں تھا کہ تم بچ بھی سکو گے۔۔۔ موت کو شکست دے کر واپس آئے ہو قسمت والے ہو مگر قسمت بھی بار بار ساتھ نہیں دیتی تم بھی اچھی طرح جانتے ہو یہ بات"

یعقوب نیازی مسکراتا ہوا بہرام سے بولنے لگا تو اُس کی بات پر بہرام کی تیوری پر بل چڑھ گئے۔۔۔ وہ دائیں جانب کھڑے کانسٹیبل کو مخاطب کرتا ہوا بولا۔۔

"اگلی بار اگر اِس نے کوئی دھمکی دی تو اِسے لاک اپ میں ڈال دینا پولیس والے کو دھمکانے کے جرم میں"

بہرام کانسٹیبل سے بولتا ہوا دوبارہ یعقوب نیازی سے مخاطب ہوا

"آنے کا مقصد بتاؤ" 

وہ دوبارہ یعقوب نیازی سے ایک ایک لفظ چباکر بولا

"سنا ہے کل دوسری شادی ہے تمہاری، سوچا ایڈوانس میں مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ تمہاری پہلی مرحومہ بیوی کی تعزیت بھی کرلو۔۔۔ اچھی عورت تھی بیچاری مرنے سے پہلے بھی دل خوش کرکے دنیا سے گئی"

یعقوب نیازی نے اپنی گھٹیا گفتگو سے اُس کا خون کھلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جس کے نتیجے میں بہرام اپنی کرسی چھوڑ کر اٹھا اور یعقوب نیازی کو بھی گریبان سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کردیا۔۔۔ شدید غُصّے کی وجہ سے اُس کی رگیں تن گئی اور آنکھوں کے ڈورے غصے سے سرخ ہوگئے

"نا نا نا۔۔۔ دیکھو یہ تم تیسری بار غلطی کرچکے ہو میرا گریبان پر ہاتھ ڈال کر۔۔۔ پہلی اور دوسری غلطی معلوم ہے تمہاری کیا تھی؟پہلی غلطی تمہاری یہ تھی کہ تم نے میرے چھوٹے بھائی بوبی کو گرفتار کیا اور دوسری غلطی تم سے ہوئی کہ تم نے بوبی کی موت کی جھوٹی اطلاع مجھے دی"

یعقوب نیازی بہرام کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتا ہوا بولا۔۔۔بہرام خاموش کھڑا ضبط سے اپنے جبڑے بھینچے ہوئے تھا یعقوب نیازی دوبارہ بولا

"میں جانتا ہوں میرا بھائی زندہ ہے اور تمہاری قید میں ہے اُس کی سزا سے پہلے اگر تم نے مجھے میرا بھائی میرے حوالے نہیں کیا۔۔۔ تو تمہاری دوسری بیوی بھی بہت جلد میرے بستر کی زینت بن جائے گی"

یعقوب نیازی کے بولنے کی دیر تھی بہرام نے غُصّے کی شدت سے پاگل ہوتے ہوئے زور دار مُکّا یعقوب نیازی کے منہ پر رسید کیا

"یو باسٹرڈ"

بہرام نے یعقوب نیازی پر چیختے ہوۓ شدید طیش کے عالم میں ٹیبل پر رکھا ہوا ریوالور اٹھاکر یعقوب نیازی کی طرف رخ کیا مگر اُس سے پہلے ہی انسپیکٹر اور کانسٹیبل نے آگے بڑھ کر بہرام کو قابو کرلیا..

"چوتھی اور سنگین غلطی"

یعقوب نیازی ناک سے نکلا ہوا خون رومال سے صاف کرتا ہوا بہرام کو دیکھ کر بولا اور وہاں سے چلاگیا

*****

"یہ کیا حرکت کی ہے تم نے بہرام۔۔۔ یہ کوئی طریقہ ہے نکاح کے فوراً بعد تم مسجد سے واپس اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے میں کہتی ہوں فوراً حرم کے گھر پہنچوں وہ یہاں دلہن بیٹھی تمہاری منتظر ہے، تم یہاں آؤ گے تب ہی وہ رخصت ہوکر میرے اور تمہارے ساتھ فلیٹ میں آئے گی"

اپارٹمنٹ میں پہنچتے ہی آدھے گھنٹے بعد بہرام کے موبائل پر جیاء کی کال آئی جیاء اُس کی حرکت پر کافی غُصے میں لگ رہی تھی

"یار پلیز جیاء اب بس کردو میں تمہاری ضد کرنے پر شادی کرچکا ہوں اگر وہ لڑکی میرے انتظار میں رخصتی کے لیے بیٹھی ہے تو اُسے کہہ دو آج میرا رخصتی کروانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اگر اُسے آنا ہے تو وہ خود آجائے یا جب میرے پاس ٹائم ہوگا یا موڈ بنے گا تو میں اُسے لینے آجاؤں گا ابھی فی الحال ایمرجنسی میں میری ڈیوٹی لگادی گئی ہے وہی جانے کی تیاری کررہا ہوں"

اپنے اپارٹمنٹ میں آنے کے بعد اُس نے زیب تن کیا قمیض شلوار تبدیل کرکے یونیفارم پہن لیا تھا مگر یہ ڈیوٹی اُس کی لگی نہیں تھی آج رات نائٹ ڈیوٹی کے لئے اُس نے خود اپنا نام دیا تھا ناجانے وہ کس سے فرار چاہ رہا تھا 

ایک ماہ پہلے جب وہ اسپتال سے گھر آیا تھا تب اُس نے اپنے کمرے میں موجود اینجل کا سارا سامان لاؤنج میں پھینک کر اس سارے سامان کو آگ لگادی تھی۔۔۔ اُس کے اتنے شدید غصے پر جیاء بھی ڈر گئی تھی مگر کل جب حرم کے کپڑے اور دیگر سامان بہرام کے کمرے میں سیٹ کیے جارہا تھا تب وہ غصے میں خاموشی سے سب دیکھ رہا تھا

"تم ایک نمبر کے کمینے اور ذلیل انسان ہو تمہیں تو میں گھر آکر پوچھتی ہوں"

جیاء نے غصے میں بولتے ہوئے فون رکھ دیا تو بہرام بھی اُس کے غصے کی پرواہ کیے بغیر فلیٹ سے باہر نکل گیا

*****

جس کمرے میں اُسے بٹھایا گیا تھا وہ کافی کشادہ اور خوبصورت کمرہ تھا، کمرے میں موجود فرنیچر اِس کمرے کے مالک کا اعلٰی ذوق ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔ کمرہ کسی بھی قسم کی سجاوٹ سے پاک تھا یعٰنی کمرے کو نئی دلہن کی آمد کے لیے نہیں سجایا گیا تھا

"نئی دلہن"  

حرم یہ لفظ بڑبڑاتی ہوئی تلخی سے مسکرائی وہ نئی دلہن ضرور تھی مگر "پہلی" ہرگز نہیں۔۔۔۔ اور مرد دوسری یا تیسری بیوی لانے میں کہا اِس قسم کی فورمیلیٹیز کو پورا کرتا ہے۔۔۔۔ اور اس کے شوہر نے اُس سمیت اُس کے گھر والوں کو کو یہ بھی جتا دیا تھا کہ وہ رتی برابر دوسری شادی میں یا اپنی دوسری بیوی میں دلچسپی نہیں رکھتا جبھی نکاح کے بعد اُس نے رخصتی کے لیے گھر آنا ضروری بھی نہیں سمجھا

نزہت چچی نے جیاء کے سامنے اِس بات کو لےکر کافی اعتراض کیا تھا لیکن وہ بےچاری حرم سمیت سب سے معذرت کرکے اپنے بھائی کی مجبوری بیان کررہی تھی جو نائٹ ڈیوٹی کی شکل میں اُس پر اچانک لگادی گئی تھی۔۔۔۔ اُسے بہرام کے کمرے میں بٹھانے کے بعد جیاء اُس کو چینج کرکے آرام کرنے کا بول چکی تھی کیونکہ بہرام کو صبح ہی واپس لوٹنا تھا مگر حرم ابھی بھی عجیب کشمکش میں بیٹھی ہوئی تھی واقعی اُسے چینج کرلینا چاہیے تھا یا پھر اپنی شوہر کا یوں ہی دلہن بنے بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے تھا آج اُس کے روپ کو سب کس قدر سراہ رہے کہ اُس کے کانوں نے ہر کسی کے منہ سے اپنے لیے تعریفی جملے سنے تھے مگر وہ انسان جس کے لیے آج کے دن اُس کو سجایا گیا تھا وہ شخص اِس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا یہ بات وہ شخص اپنے رویے سے ظاہر کرچکا تھا نہ چاہتے ہوئے حرم کا دن اداس ہونے لگا اِس کے باوجود نہ جانے کیوں حرم کپڑے تبدیل کیے بغیر یونہی سجی سنوری بہرام کا انتظار کرنے لگی

*****

"یہ کوئی وقت ہے تمہارا گھر لوٹ کر آنے کا" 

صبح کے چھ بجے جب اُس نے اپنے فلیٹ میں قدم رکھا توقع کے برخلاف جیاء اس کا لاؤنچ میں جھولے پر بیٹھی ہوئی ملی لازمی وہ بہرام کی آمد کا انتظار کررہی تھی

"سیر و تفریح کرنے کے لئے نہیں نکلا ہوا تھا بلکہ ڈیوٹی کرکے واپس آرہا ہوں"

بہرام پولیس کیپ اتار کر ٹیبل پر رکھتا ہوا تھکے ہوۓ انداز میں جیاء سے بولا جو ابھی بھی شکل سے کافی غصے میں دکھائی دے رہی تھی

"تم جانتے ہو بہرام آج کی تمہاری اِس حرکت نے مجھے تمہاری بیوی اور تمہارے سسرال والوں کے سامنے کس قدر شرمندہ کیا۔۔۔ تمہیں کچھ احساس ہے اِس بات کا کہ تم کسی دوسرے کی عزت کا احساس نہیں کرتے مگر اپنی بہن کی عزت کا احساس کرلیتے۔۔۔ کتنی شرمندگی اٹھانا پڑی تھی مجھے وہاں سب کو جواب دیتے ہوئے ایک تم اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے رخصتی کے لیے وہاں نہیں پہنچ پائے۔۔۔ حرم اور اس کے گھر والے نہ جانے کیا سوچ رہے ہوں گے تمہارے بارے میں"

جیاء جھولے سے اٹھ کر بہرام کے سامنے آتی ہوئی اسے شرمندہ کرنے کی غرض سے بولی اور شرمندہ ہونا تو اس کی گُھٹی میں ہی شامل نہیں تھا تبھی وہ ریلکس موڈ میں جیاء سے بولا

"تم کچھ زیادہ ہی ایموشنل ہورہی ہو جیاء ڈیوٹی تھی تبھی نہیں آسکا کوئی بہانہ تو نہیں گڑا میں نے خود سے۔۔۔ اور تمہیں شرمندہ ہونے کی کیا ضرورت ہے وہ بیوی میری ہے، سسرال میرا ہے میں جیسے چاہو گا اُن لوگوں کو ڈیل کروں گا یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے اِس لیے اب تم ریلیکس ہوجاؤ"

بہرام جیاء سے بولتا ہوا جانے لگا مگر جیاء نے اُس کے سامنے سے ہٹنے کی بجائے بہرام کے سینے پر اپنی دو انگلیاں رکھ کر اُسے وہاں سے جانے سے روکا

"جانتی ہوں تمہاری بیوی اور تمہارا سسرال میرا مسئلہ نہیں ہے مگر تم جانتے ہو کہ تمہارا مسئلہ کیا ہے بہرام"

جیاء کے بولنے پر بہرام نے بیزار ہوکر نظروں کا زاویہ اُس کے چہرے سے ہٹاکر دوسری سمت کیا

"یار تھکا ہوا ہوں میں اس وقت جیاء پلیز اپنا یہ لیکچر شام کو پورا کرلینا"

دوسری سمت منہ پھیر کر بیزاری سے بولے گئے جملے پر جیاء نے جبڑوں سے اس کا منہ پکڑ کر اُس کے چہرے کا رخ اپنے سامنے کیا

"تم اُس اینجل کے کارناموں کی سزا حرم کو دینے کا کوئی حق نہیں رکھتے ہو بہرام، اگر تمہاری پہلی بیوی کے چال چلن ٹھیک نہیں تھے تو اِس میں اُس معصوم لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے جو اِس وقت تمہاری نکاح میں آچکی ہے۔۔۔۔ میں نے تمہاری شادی تمہارے گھر بسانے کے لئے کی تھی نہ کہ کسی دوسری لڑکی کی زندگی برباد کرنے کے لئے۔۔۔ بیشک تم میرے لیکچر سے بور ہورہے ہوں گے مگر میری بات غور سے سنو تم اپنے رویے سے حرم کو بلکل بھی ہرٹ نہیں کرو گے"

جیاء اُس کا چہرہ پکڑ کر ایک ایک لفظ بہرام کو باور کرواتی ہوئی بولتی رہی مگر وہ ڈھیٹ بنا ہوا یہی شو کررہا تھا کہ جیسے بہت مجبوری میں آنے والی جمائی کو روکے وہ اپنی بہن کی بات سن رہا ہو

"اب اجازت دو تو اپنے کمرے میں چلا جاؤں" 

جیاء کی بات مکمل ہونے پر بہرام اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹاتا ہوا اس سے کمرے میں جانے کی اجازت مانگنے لگا تو جیاء بہرام کو گھور کر رہ گئی جس پر بہرام مسکرایا مگر اگلے ہی لمحے اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتا ہوا جیاء سے بولا 

"اِس وقت جو میرے نکاح میں میرے کمرے میں موجود ہے مجھے نہیں معلوم وہ لڑکی کتنی انوسینٹ ہے لیکن اُس کا انوسینٹ ہونا بہت ضروری ہے جیاء، یقین جانو اگر اِس لڑکی کی بھی چال چلن میری پہلی بیوی جیسے ہوئے یا مجھے اِس کے بارے میں آگے جاکر کوئی بھی الٹی سیدھی بات معلوم ہوئی تو میں اِس کو شوٹ کرنے میں دیر نہیں لگاؤں گا"

بہرام سفاک انداز میں بولتا ہوا اپنے کمرے میں جانے لگا

"سنو۔۔۔ وہ جو میں نے تم سے منہ دکھائی میں دینے کے لیے ڈائمنڈ رنگ کا بولا تھا۔۔ خرید لی تھی ناں تم نے"

جیاء کی بات سن کر وہ پلٹ خار بھری نظروں سے اُسے دیکھتا ہوا بولا

"نہیں تم بولتی ہو تو میں اپنا یہ اپارٹمنٹ گاڑی اور بینک بیلنس بھی منہ دکھائی میں اُسی کے نام کردیتا ہوں"

بہرام جیاء پر گہرا طنز کرتا ہوا وہاں سے اپنے کمرے میں چلاگیا جبکہ جیاء افسوس سے نفی میں سر ہلاتی ہوئی گھڑی میں ٹائم دیکھ کر مبشر کو کال ملانے لگی

******

اپنے کمرے میں آنے کے ساتھ بہرام کے قدم وہی جم گئے اس کے بیڈ پر دلہن کے لباس میں موجود لڑکی جو اِس وقت گھونگھٹ کی آڑھ میں اپنا چہرہ چھپاۓ بیٹھی تھی بہرام اس پر  سرسری سی نگاہ ڈالتا ہوا وارڈروب سے اپنا لباس نکالنے لگا، اگر وہ اِس وقت جاگی ہوئی اُس کی آمد کا انتظار کررہی تھی تو لاؤنچ میں چند سیکنڈ پہلے ہوئی جیاء سے اُس کی گفتگو بھی سن چکی ہوگی۔۔۔ اچھا ہی تھا اِس لڑکی  کو اس کے خیالات کا پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا 

بہرام شرٹ کے بٹن کھولتا ہوا گھونگھٹ سے چہرہ چھپاۓ اُس لڑکی کو دیکھنے لگا فل الحال وہ تھکا ہوا تھا اُسے حرم کا چہرہ دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ یونیفارم ہینگ کرکے ٹی شرٹ پہنتا ہوا وہ اپنا ٹراؤذر لیے واشروم چلاگیا 

بہرام کے اتنے خشک رویہ پر حرم کے دل کو چوٹ پہنچی جو باتیں کمرے میں آنے سے پہلے وہ اپنی بہن سے کررہا تھا اس سے حرم کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ شادی اُس نے اپنی بہن کے کہنے پر کی تھی اور بہرام کی شوٹ کرنے والی بات پر وہی خوف سے سناٹے میں آگئی تھی  وہ شخص دکھنے میں ہی مغرور نہیں حقیقتاً مغرور تھا اور سخت گیر کی قسم کا بھی مرد تھا اگر وہ اسجد کے بارے میں جان جاتا ہے یہ سوچ ہی حرم کو ٹینشن میں مبتلا کرنے کےلیے کافی تھی۔۔۔ سوچوں کا سلسلہ دروازہ بند ہونے کی آواز پر ٹوٹا۔۔۔ بہرام واشروم سے باہر آچکا تھا 

حرم کو یوں گھونگھٹ نکال کر بیٹھنا فضول ہی لگا، اس سے پہلے کہ وہ اپنے چہرے سے گھونگھٹ سرکاتی ایک دم کوئی چیز بیڈ پر آکر گری۔۔۔ حرم نے غور سے دیکھا تو وہ ویلویٹ کا چھوٹا سا ڈبہ تھا

"یہ منہ دکھائی ہے تمہاری"

ساتھ ہی کمرے میں بھاری آواز گونجی اُس کا شوہر جس نے ابھی تک اُس کا چہرہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی مگر وہ فارمیلٹی نبھانے کی غرض سے اُس کا چہرہ دیکھے بغیر ہی اسے منہ دکھائی پھینک کر بھیگ دینے کے انداز دے چکا تھا یعنی کہ وہ اُس کا چہرہ دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا گویا ایک بار پھر اُس نے اپنے انداز سے یہ بات جتائی تھی۔۔۔ احساسِ توہین سے حرم کا دل چاہا کہ وہ اِس کمرے سے اٹھ کر چلی جائے

"کیا سوچ کر اب تک یوں بیٹھی ہو، تمہیں ایسا لگ رہا ہے میں تمہارے چہرے سے گھونگھٹ ہٹاکر تمہارے چہرے کا دیدار کروں گا۔۔۔ معصوم سوچ"

بہرام بول کر خود ہنسا پھر دوبارہ بولا

"جیاء نے مجھے بتایا تھا کہ تم بہت حسین اور بہت خوبصورت ہو لیکن میری ایک بات یاد رکھنا خوبصورتی میری کمزوری ہرگز نہیں ہے اگر تم یہ سوچ بیٹھی ہو کہ تم مجھے اپنے حسن کے جال میں پھنساکر اپنا غلام بناسکتی ہو تو یہ سوچ غلط ہے تمہاری۔۔۔ میں اُن مردوں کے جیسا ہرگز نہیں ہے جو بیوی کے آجانے کے بعد اُن کے تھلے لگ جاتے ہیں۔۔۔ شادی کا فیصلہ میرا نہیں میری بہن کا تھا لیکن اس بات کو لےکر تم اپنا دل ہرگز برا مت کرنا میں تمہیں تمہارے دوسرے حقوق کے ساتھ بیوی کا اصل حق بھی ضرور دوں گا۔۔۔ جب بھی تمہارا دل چاہے یا جب تمہارا موڈ ہو تم مجھے خود سے بھی بول سکتی ہو لیکن کبھی بھی اپنا دل بہلانے کے لیے کسی غیر مرد کے پاس مت جانا"

الفاظ تھے کہ تیزاب کے چھینے حرم کو اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہوا، تڑپ کر اُس نے اپنے چہرے سے گھونگھٹ ہٹایا

بہرام جو اُس کے دل کو ٹھیس پہنچانے کے بعد اب سونے کا ارادہ رکھتا تھا غیر ارادی طور پر گھونگھٹ ہٹانے پر اُس کی نظر حرم کے چہرے پر پڑی لمحہ بھر کے لئے وہ بری طرح سناٹے میں آگیا

"تم۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی دوبارہ میرے سامنے آنے کی"

شدید غصے کے عالم میں وہ چیختا ہوا حرم کی طرف بڑھا۔۔۔ حرم جو پہلے ہی اُس کی باتوں سے اپنے دل چھلنی کئے بیٹھی بہرام کو اتنے شدید غصّے کی کیفیت میں اپنے قریب آتا دیکھ کر وہ ڈر گئی اِس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی بہرام نے اُس کی گردن کو اپنے مضبوط ہاتھ کے شکنجے میں جکڑلیا

"اُس دن تم میری گولی سے بچ گئی تھی لیکن آج میں تمہاری سانس تم پر حرام کر دونگا مار ڈالوں گا تمہیں"

پوری طاقت سے وہ حرم کی گردن دباتا ہوا شدید غصّے میں وہ شاید پاگل ہونے کو تھا۔۔۔ اُس بےرحم کی گرفت سے میں اپنی گردن چھڑاتے ہوئے وہ بری طرح تڑپنے لگی

"بہرام یہ کیا کررہے ہو تم چھوڑو اِس کو" 

جیاء کمرے کا دروازہ کھول کر اندر بھاگتی ہوئی آئی اور بہرام سے حرم کو چھڑوانے لگی

"ِاس لڑکی نے مجھے چیٹ کیا دھوکا دیا ہے غیر آدمی سے تعلقات رکھ کر۔۔۔ اِس نے مجھ پر گولی چلائی جیاء۔۔۔ آج میں اِسے جان سے مار ڈالوں گا"

وہ غصّے میں چلاتا ہوا جیاء کو پیچھے دھکیل کر ایک بار پھر خوف سے تھر تھر کانپتی حرم پر بری طرح جھپٹا مگر جیاء فوراً بہرام کے سامنے آکر اسے بازو سے پکڑتی ہوئی بولی 

"تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو بہرام ہوش میں آؤ، یہ اینجل نہیں حرم ہے"

جیاء بھی بہرام کو غصے میں دیکھ کر اُسی کی طرح چیختی ہوئی بولی حرم مشکل سے بیڈ سے اٹھ کر خوف کے مارے بہرام کے ردعمل پر رونے لگی

"جھوٹ بولا ہے اِس نے تمہیں بھی، یہ حرم نہیں علینا ہے اِس کا اصلی نام۔۔۔ یہ حرم ہو ہی نہیں سکتی یہ اینجل ہے جیاء۔۔۔۔ میں پہلے ہی جان گیا تھا یہ عورت اتنی آسانی سے نہیں مر سکتی ہاسپیٹل سے ڈیڈ باڈی کا غائب ہوجانا مجھے پہلے ہی شک میں مبتلا کر گیا تھا کہ یہ لڑکی زندہ ہے۔۔۔ جسے تم میری دوسری بیوی بناکر لائی ہو، یہ لڑکی ایک ماہ پہلے سے میری بیوی بنکر میرے ساتھ رہ رہی تھی" 

بہرام غصّے کی کیفیت میں تیز آواز میں بولتا ہوا جیاء کو اپنی بات کا یقین دلانے لگا۔۔ جیاء بہرام کی بات سن کر کنفیوز ہوکر بہرام کو دیکھنے کے بعد روتی ہوئی حرم کو دیکھنے لگی

"میں کسی علینا یا اینجل کو نہیں جانتی۔۔۔ میں حرم ہو مجھے نہیں معلوم یہ کیا بول رہے ہیں۔۔۔ مگر میں بالکل سچ بول رہی ہو آپ میرے چچا چچی سے پوچھ لیں، میں اِن کے ساتھ شادی سے پہلے کیسے رہ سکتی ہوں،،، میں  تو آج اِن کو پہلی بار دیکھ رہی ہوں"

حرم روتی ہوئی بولی بہرام ایک بار پھر غصّے میں اُس کی طرف بڑھنے لگا تو جیاء نے بہرام کو ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا

*****

ڈرائنگ روم میں گہرا سناٹا چھا چکا تھا وہ تینوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے۔۔۔ بہرام نے آدھے گھنٹے کے اندر ہی حرم سے متعلق ساری انفارمیشن نکلوالی تھی جو اُس کے لئے مشکل کام ہرگز نہیں تھا۔۔۔ حرم نے اپنے متعلق جو کچھ بھی اُسے بتایا تھا بالکل ٹھیک بتایا تھا لیکن بہرام ابھی بھی شک وشبہات میں مبتلا تھا۔۔۔۔ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا تھا کہ یہ لڑکی اینجل کی شکل سے اتنی مماثلت رکھتی ہو۔۔۔ وہ عجیب سے شش و پنج میں مبتلا ابھی بھی حرم کو کسی مجرم کی طرح گھورے جارہا تھا اور حرم کا یہ حالت کہ وہ بہرام کے اِس طرح دیکھنے پر صوفے پر خوف زدہ سی ڈری سہمی بیٹھی تھی

"بس کردو بہرام اسے یوں دیکھنا۔۔۔ حرم کمرے میں جاکر ریسٹ کرلو تھوڑی دیر"

جیاء کافی دیر سے سر پکڑے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی حرم کی حالت پر ترس کھاتی ہوئی اس سے بولی، وہ بیچاری کل شام سے دلہن کے لباس میں موجود تھی اِس وقت صبح کے آٹھ بج چکے تھے جیا کی بات سن کر حرم کنفیوز ہوتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"کون سے کمرے میں جانا ہے" 

سامنے صوفے پر بیٹھا ہوا شخص اُسے جس طرح گھور رہا تھا حرم کا دل نہیں کیا کہ وہ اُس کے کمرے میں جائے

"بہرام کے کمرے میں بھئی اور کون سے کمرے میں جاؤ گی۔۔۔ کوئی بہرام کا یا تمہارا کمرہ الگ الگ تھوڑی ہے، جاؤ شاباش جاکر یہ جیولری اتارو کپڑے چینج کرو تھوڑی دیر ریسٹ کرو"

جیاء نے حرم کو بولتے ہوئے بہرام کو بھی جتایا جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا ہوا حرم کو مشکوک  نظروں سے گھورے جارہا تھا جیاء کے بولنے پر حرم بہرام کی طرف دیکھے بغیر خاموشی سے اٹھ کر اسی کے بیڈروم میں چلی گئی

"اگر حرم کی شکل تمہاری پہلی بیوی سے ملتی ہے تو یہ بہت حیرت انگیز بات ہے میں خود اِس بات کو لےکر شاکڈ ہوچکی ہو۔۔۔ بہرام لیکن اس حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اینجل اور حرم بےشک شکل میں دونوں ایک جیسی ہوں مگر وہ الگ الگ لڑکیاں ہیں"

جیاء کی بات پر وہ خاموشی سے جیاء کا چہرہ دیکھنے لگا جیاء اٹھ کر بہرام کے برابر میں بیٹھی اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتی ہوئی بولی

"آئی نو اِس وقت تم کیسا محسوس کررہے ہوگے لیکن بہرام پلیز حرم کا چہرہ اُس لڑکی سے ملتا ہے جس نے تمہیں دھوکا دیا تو اِس میں حرم کا کوئی قصور نہیں۔۔۔ اُس معصوم کو اِس بات کی سزا مت دینا پلیز شی از انوسینٹ"

جیاء نرمی سے بہرام کو سمجھانے لگی

"ریسٹ کرو تم بھی کافی تھک چکی ہوگی" 

بہرام جیاء کا اپنے کندھے پر رکھا ہوا ہاتھ تھپتھپاتا ہوا خود بھی صوفے سے اٹھ کر اپنے بیڈروم کی طرف چل دیا

*****

شیشے کے سامنے کھڑی ہوکر وہ اپنا عکس شیشے میں دیکھ کر غائب دماغی سے جیولری اتار رہی تھی اُس کی شکل بہرام کی پہلی بیوی سے مماثلت رکھتی تھی۔۔۔ یہ اُس کے کس گناہ کی سزا تھی وہ اپنے سارے گناہ یاد کرنے لگی۔۔۔ یاد کرنے پر بھی اُسے کوئی اپنا اتنا بڑا گناہ یاد نہیں آیا جس کے لیے اُسے یہ سزا دی گئی تھی کہ وہ اپنے شوہر کی پہلی بیوی کی ہم شکل تھی وہ بیوی جس کی اس کا شوہر خود اپنے ہاتھوں سے  جان لے چکا تھا۔۔۔۔ وہ ساری جیولری اتارتی ہوئی ایک ایک چیز ٹیبل پر رکھتی جارہی تھی جب دوبارہ بہرام ایک بار پھر دوبارہ اپنے کمرے میں آیا

اُس کو دروازہ لاک کرتا دیکھ کر حرم نے خوف کے مارے کانپنا شروع کردیا۔۔۔ وہ حرم کی حالت دیکھتا ہوا کارنر ٹیبل کے پاس آیا اور اس کی دراز میں سے کوئی چیز نکالنے لگا۔۔۔ حرم کو اُسے دیکھ کر ایک بار پھر خوف آنے لگا کیوکہ بہرام کے ہاتھ میں منی سائز کی چھوٹی سی پسٹل تھی جسے دیکھ کر حرم کی آنکھیں ایک بار پھر خوف پھیل گئی وہ خاموشی سے قدم بڑھاتا ہوا اُسی کی جانب آنے لگا

"میں بالکل سچ بول رہی ہوں میں حرم ہوں میں کسی اینجل کو نہیں جانتی آپ میرا یقین کریں پلیز"

حرم کسی معصوم بچے کی طرح اپنی آنکھوں سے نمی صاف کرتی ہوئی دوبارہ بہرام کو اپنا یقین دلانے لگی پستول کا رخ اُسی کی جانب تھا جسے دیکھ کر وہ پیچھے قدم اٹھاتی ہوئی دیوار سے چپک گئی بہرام اُس کے بےحد نزدیک آکر ٹھہر گیا اور حرم کا چہرہ غور سے دیکھنے لگا۔۔۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پسٹل حرم کی پیشانی پر رکھا تو حرم نے دوبارہ سے رونا شروع کردیا

"میں پولیس والا ہوں شک کرنا میری عادت ہے جلدی کسی بات پر بھی یقین نہیں کرسکتا نہ ہی کسی مجرم کا پیچھا اتنی آسانی سے چھوڑ سکتا ہوں"

بہرام بولتا ہوا اب پسٹل کی نال اُس کے چہرے پر پھیرتا ہوا توڑی تک لایا اور توڑی کے نیچے پستول کی نال رکھ کر اُس کا چہرہ اوپر کیا

"میں مجرم نہیں ہوں میں نے کوئی بھی جرم نہیں کیا" 

حرم رونے کے درمیان مشکل سے بولی۔۔۔ بہرام کے ہاتھ میں موجود پسٹل اب اس کی گردن سے سرکتی ہوئی سینے پر آکر ٹھہر گئی تھی حرم کو لگا اب اُس کی سانسیں چند سیکنڈ کی مہمان تھی

"اِس کا فیصلہ تم نہیں میں کروں گا۔۔۔ ابھی معلوم ہوجائے گا کہ تم مجرم ہو یا نہیں چیک کرلینے میں کوئی حرج نہیں"

بہرام سنجیدگی سے بولا اُس کی نظریں حرم کے روتے ہوئے چہرے پر جمی ہوئی تھی جبکہ اُس کی پسٹل آہستہ سے سرکتی ہوئی حرم کے پیٹ پر آکر ٹھہر گئی

"پیچھے گھوم جاؤ"

بہرام کے بولنے پر وہ کنفیوز ہوکر اسے دیکھنے لگی نہ جانے وہ اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا حرم روتی ہوئی بےبسی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی لیکن جب پسٹل کی نال اسے اپنے پیٹ کی اندر چھبتی ہوئی محسوس ہوئی تو حرم نے جلدی سے اُس کی بات مانتے ہوئے اپنا رخ دیوار کی جانب کرلیا۔۔۔ ساتھ ہی اُس کے رونے میں مزید شدت آ چکی تھی

"اے لڑکی رونا بند کرو اگر اب تمہارے رونے کی آواز منہ سے نکلی تو اس پستول سے گولی نکلے گی"

بہرام کی دی جانے والی دھمکی کو حرم نے اتنا سیریس لیا کہ وہ رونا ہی بھول گئی۔۔۔۔ بہرام حرم کا دوپٹہ اتار کر ایک طرف پھینکتا ہوا، اب اُس کے ہاتھ حرم کی شرٹ کی زپ کی طرف تھے جب اسے اپنی زپ کھلتی ہوئی محسوس ہوئی تو حرم کو سانس بھی اٹک اٹک کر آنے لگی

بہرام پسٹل کی نال سے اُس کی سفید عریاں کمر کو چھوتا ہوا ناجانے کیا کررہا۔۔۔ پسٹل کی نال جب حرم کی ریڑھ کی ہڈی پر چھبی تو حرم کے منہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی سسکی نکلی

"بالکل ایسے ہی کھڑی رہو مُڑنے کی کوشش مت کرنا"

اپنے بےحد قریب سے اُسے بہرام کی آواز سنائی دی ساتھ ہی وہ اُس کے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر جمع کر وہاں سے سائیڈ روم میں چلا گیا 

جب وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں اب پسٹل کی بجاۓ ایک بوتل اور کوٹن تھی۔۔۔

حرم نے ہلکی سی گردن موڑ کر دیکھا تو بہرام اُس کی پشت پر کھڑا بوتل میں موجود سلوش کاٹن میں بھر رہا تھا تھوڑی دیر بعد وہ سلوشن حرم کو اپنی ریڑھ کی ہڈی سے اوپر لگتا ہوا محسوس ہوا بہرام روئی کی مدد سے وہ سلوشن اس کی کمر پر مل رہا تھا حرم اپنی سانسیں روکے کھڑی تھی مگر تھوڑی دیر بعد حرم کو محسوس ہوا جیسے کمرے میں وہ تنہا کھڑی ہو اس نے مڑ کر دیکھا بالکل ایسا ہی تھا بہرام ناجانے کہاں جاچکا تھا حرم اپنی سانسیں بہال کرتی تھکے ہوۓ انداز میں بیڈ پر آکر بیٹھ گئی

*****

مسلسل اپنے چہرے پر ٹکی نظروں کو محسوس کر کے جرم نے اپنی آنکھیں کھولیں تو بیڈ پر تھوڑے ہی فاصلے پر بہرام کو بیٹھے دیکھا جو ٹکٹکی باندھ کر اُسی کو دیکھ رہا تھا حرم کی جاگنے پر بھی اُس نے اپنا مشغلہ ترک نہیں کیا تو حرم اپنی نظریں جھکاتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی صبح وہ کافی گہری نیند سوئی تھی اُسے بالکل بھی خبر نہیں ہوئی تھی کہ بہرام اس کے برابر میں سویا تھا کہ نہیں۔۔۔ وہ چور نظروں سے دوبارہ بہرام کی جانب دیکھنے لگی تب اُس نے اپنا موبائل بہرام کے ہاتھ میں دیکھا جو اب اُس کے موبائل میں نہ جانے کیا چیک کررہا تھا۔۔۔ اچانک ہی حرم کے موبائل پر چچا کے گھر سے کال آنے لگی تو حرم بہرام کا چہرہ دیکھنے لگی ہے

"ایسے ہی اسپیکر آن کرکے بات کرو"

وہ حرم کا موبائل اپنی چوڑی سی ہتھیلی پر رکھکر اپنی ہتھیلی اُس کی طرف بڑھاتا ہوا حرم کو حکم دیتا بولا تو حرم نے اس کے ہاتھ سے اپنا موبائل اٹھانے کی بجائے کال ریسیو کی بہرام نے فوراً اسپیکر آن کردیا

"ہاں حرم میں بول رہی ہوں نزہت اور سناؤ بیٹا کیسی ہو"

موبائل سے نزہت چچی کی آواز نکل کر کمرے میں گونجی تو حرم بہرام کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اپنے موبائل کو دیکھتی ہوئی بولی

"میں ٹھیک ہوں چچی آپ بتائیں چچا اور آپ ٹھیک ہیں"

بولتے ہوۓ ناجانے کیوں اسے ڈھیر سارا رونا آگیا اُس نے گھنٹوں بعد کسی اپنے کی آواز سنی تھی شاید یہی وجہ تھی رونے کی

"ہیں بھلا رو کیو رہی ہو تم جلدی سے بتاؤ کیا ہوا ہے،، نہیں تو میں پہنچ رہی ہوں ابھی تمہارے چچا کے ساتھ ان دونوں بہن بھائیوں سے دو دو ہاتھ کرنے۔۔۔ ایک منٹ کل رات بہرام گھر پہنچا بھی تھا کہ نہیں۔۔۔ یا پھر اُس کی بہن نے طعنہ وانا دے دیا ہوگا جہیز کا تمہیں، جلدی سے بتاؤ مجھے حرم میرا تو دل بیٹھا جارہا ہے۔۔۔ ارے نگی کہاں مرگئی میرا برقعہ لاکر دے اب اُس کی بہن کے سامنے جاکر بات کروں گی"

نزہت چچی کی بات سن کر حرم گھبرائی ہوئی نظروں سے بہرام کے بالکل سنجیدہ سپاٹ چہرے پر ڈالی پھر جلدی سے بولی

"ایسی بات نہیں ہے چچی جان یہاں سب بہت اچھے ہیں اور میں بھی بالکل ٹھیک ہوں آپ کی آواز سن کر امی کی یاد آگئی تھی اِس لئے رونا آگیا آپ بالکل پریشان نہیں ہوں"

حرم جلدی سے نزہت چچی کو تسلی دیتی ہوئی بولی کہیں نزہت چچی سچ میں چچا کو لےکر یہاں آکر جیاء سے لڑنے ہی لگ جاتیں

"ہائے میرے اللہ حرم تم نے تو سچ میں میری جان ہی نکال دی تھی میں تو تمہارے رونے سے ڈر گئی تھی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ بہرام کیسا ہے؟؟ کب پہنچا وہ گھر اور تمہیں دیکھ کر خوش ہوا کہ نہیں"

نزہت چچی کے تجسس بھرے سوالات پر ایک بار پھر وہ اپنے قریب بیٹھے بہرام کا چہرہ دیکھنے لگی

"بہرام اچھے ہیں رات میں ہی ان کا گھر آنا ہوگیا تھا اور مجھے دیکھ کر وہ خوش بھی ہوئے"

حرم نزہت چچی کے ایک ایک سال کا جواب دیتی ہوئی چاہ کر بھی اپنے لہجے میں چھائی اداسی ختم نہیں کرسکی۔۔۔ وہ اُس کا چہرہ دیکھ کر کتنا خوش ہوا تھا یہ وہ چاہ کر بھی چچی کو تو کیا کسی کو نہیں بتاسکی

"بھئی تمہیں دیکھ کر خوش کیوں نہیں ہوتا، گوری چمڑی کسی مرد کو بری لگتی ہے خوبصورت  بیوی دیکھ کر تو اُس کے بھاگ ہی جاگ گئے ہوگیں اور تم یہ بات اتنے مریل لہجے میں کیوں بتارہی ہو۔۔۔۔ اچھا اچھا اصل بات اب سمجھ میں آئی تم ٹھہری اسکول کی اُستانی علم و ادب سے واقفیت رکھنے والی آپ جناب کرنے والی۔۔۔۔ اور شوہر مل گیا پولیس والا، اب اُس کا عہدہ کتنا ہی اچھا ہو پالا تو اُس کا مجرموں کے ساتھ ہی پڑتا ہوگا ناں۔۔۔ عادت ہوگی اُسے پان چبانے کی یا پھر توُ تڑا کر کے مخاطب کردیا ہوگا تمہیں۔۔۔ بھئی یہ جو پولیس والے ہوتے ہیں ناں اسی طرح کی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں گالم گلوچ کرنے سے تو اِن کی بات کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔ اب اِن باتوں پر اپنا دل چھوٹا مت کرو بیٹا اِن سب باتوں کی تو عادت ڈال لو"

نزہت چچی کی اسپیکر سے باہر آواز پر حرم نے گھبرا کے بہرام کو دیکھا جو اس کو دیکھنے کی بجاۓ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے موبائل کو  ماتھے پر بل یے گھور رہا تھا۔۔۔ بہرام کو غُصے میں دیکھ کر حرم جلدی سے بولی

"نہیں نہیں چچی ایسی کوئی کوئی بات نہیں آپ بالکل غلط سمجھ رہی ہیں وہ ایسے بالکل بھی نہیں ہے وہ تو پڑھے لکھے ہیں ان کا طور طریقہ اور انداز بتارہا تھا وہ کافی مہذب انسان ہیں"

گھبراہٹ میں وہ نہ جانے کیا بولتی مگر جو بھی بولا اب بہرام اُس کو گھورنے لگا وہ بلاوجہ ہی شرمندہ ہونے لگی

"چلو پھر تو یہ اچھی بات ہے یہ بتاؤ منہ دکھائی میں تمہارے میاں نے ڈائمنڈ کی انگوٹھی ہی دی تھی ناں تمہیں۔۔۔ بھئی ہم نے تو نہ ہی کچھ پوچھا نہ ہی کچھ بولا۔۔۔ بہرام کی بہن نے کل خود ہی بتارہی تھی کہ بہرام نے حرم کے لئے بہت خوبصورت سی ڈائمنڈ رنگ خریدی ہے ذرا مجھے چیک تو کروانا انگوٹھی میں لگا ہوا ہیرا اصلی ہے یا نہیں میں خود سنہار کے پاس لے جا کے چیک کرلو گی"

نزہت چچی کی بات سن کر حرم اچھی خاصی شرمندہ ہوگئی تھی اس نے نظر اٹھا کر بہرام کو نہیں دیکھا

"اچھی نزہت چچی ابھی فون رکھتی ہوں ہم بعد میں بات کریں گے"

حرم نے مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے جو مناسب سمجھا وہی بولا

"ارے رکو تو سہی جس ضروری بات کے لیے فون کیا تھا وہ تو میں بھول ہی گیا یہ بتاؤ کوئی آس پاس موجود تو نہیں ہے اگر موجود ہے تو ذرا کھانس دو پھر میں فون رکھ ہی دیتی ہوں بعد میں بات بتاؤں گی"

نزہت چچی کی بات سن کر حرم کی سانسیں اٹک گئں کہیں وہ اسجد سے اس کی منگنی کے متعلق کچھ نہ کہہ دیں، چاہ کر بھی وہ کھانس نہیں سکتی تھی۔۔۔ نزہت چچی کی بات پر بہرام کے کان مزید کھڑے ہوئے وہ گھور کر حرم کو دیکھنے لگا تو حرم مری مری آواز میں بولی 

"نہیں کوئی بھی موجود نہیں ہے آس پاس آپ بولیں کیا کہنا چاہ رہی ہیں"

حرم گھٹی گھٹی آواز میں بولی اُس کی جان سولی پہ لٹک چکی تھی نہ جانے اب نزہت چچی اُس سے کیا بات کرنے والی تھی

"ہماری دو گلیاں چھوڑ کر جو سلطانہ کی امی ہے ناں، ان کو دو پرفیوم شیشیاں پڑنے کو دی تھی میں نے۔۔۔۔ ایک تمہارے لئے اور ایک نگی کے لئے بس وہی پرفیوم کی خوشبو کپڑوں میں لگاکر اپنے میاں کے آس پاس رہنا۔۔۔ 90 فیصد امکان ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کا دیوانہ بن جاۓ،، اور اُلّو کی طرح اس کے آگے پیچھے گھومے۔۔۔ میں آج ہی تمہیں وہ پرفیوم کی بوتل بالکل چیکے سے دے دوں گی بس اب تمہیں وہی خوشبو لگانی ہے۔۔۔۔ اچھا بھئی اب میں فون رکھتی ہوں عصر کی اذان ہونے والی ہے نماز بھی پڑھنی ہے اور شکرانے کے نفل ادا کرنے ہے کہ تم خیریت سے اپنے گھر کی ہوگئی"

نزہت چچی اپنی بات کہہ کر کال کاٹ چکی تھی ان کی بات سن کر حرم بہرام کے سامنے منو مٹی میں دھنس گئی۔۔۔ ناجانے اس کا شوہر اس کی چچی کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا حرم سے نظر اٹھاکر بہرام کی طرف نہیں دیکھا گیا

"انہی خوشبوؤں کے استعمال سے کہیں تمہاری چچی نے تمہارے چچا کو تو اُلّو نہیں بنایا میری بہن بتارہی تھی کافی آگے پیچھے گھومتے ہیں تمہارے چچا جان 

تمہاری چچی کے"

بہرام حرم کا موبائل اُس کو پکڑا ہوا اس کی چچی کے بارے میں گل فشانی کرتا ہوا ایک نظر حرم کے شرمندہ سے چہرہ پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گیا

*****

"کہاں ہو تم" 

بہرام ہوٹل پہنچ چکا تھا مگر جیاء حرم کو لےکر ابھی تک بیوٹی پارلر سے ہوٹل نہیں آئی تھی اس لیے بہرام جیا کو موبائل پر کال کرتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا

"سمجھو پہنچ چکے ہیں بس" 

جیاء نے مصروف سے انداز میں بولتے ہوئے کال کاٹ دی 

بہرام اینٹرنس پر ہی اُس کا ویٹ کرنے لگا آج اس نے ولیمے کی چھوٹی سی تقریب کے لئے ہوٹل کا پورشن بُک کروایا تھا اِس تقریب میں زیادہ لوگ نہیں تھے بہرام کے تین چار دوستوں کی فیملی اور حرم کے چچا چچی اور خالہ کی فیملی شامل تھی۔۔۔ بہرام کی نظریں سامنے دروازے پر اٹھی تو وہی کی وہی ٹھہر گئی بلیک کی پاؤں تک آتی میکسی میں وہ آئستہ آئستہ قدم اٹھاتی جیاء کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آرہی تھی بہرام پوری توجہ سے اس کو دیکھنے لگا جو آج کے دن کل سے بھی زہادہ دلکش دکھائی دے رہی تھی

"حرم"

اس کی کوئی کزن اُس کو پکارتی ہوئی بہرام کے پاس سے گزر کر جیاء اور حرم کے پاس پہنچی تو بہرام نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر جیاء کی طرف دیکھا جو اُسی کی دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔ حرم کی کزن حرم کو اپنے ساتھ ہوٹل کی اندر لےجا چکی تھی جبکہ جیاء بہرام کے پاس آکر ٹہر گئی

"کیسی لگ رہی تھی"

بلیک ڈنر سوٹ میں وہ اپنے بھائی کی شاندار سی پرسنلٹی کو دل ہی دل میں سرہاتی ہوئی اُس سے حرم کے متعلق پوچھنے لگی کیوکہ جیاء بہرام کا حرم کی طرف متوجہ ہونا اور اُس کو دیکھے جانا نوٹ کرچکی تھی

"کون"

بہرام انجان بنا ہوا جیاء سے پوچھنے لگا تو جیاء نے بہرام کو گھور کر دیکھا 

"وہی جس کا چند سیکنڈ پہلے دور سے ہی بڑے غور سے تفصیلی جائزہ لے رہے تھے"

جیاء تپ کر بولی تو بہرام مسکرادیا 

"آج کے دن کے لحاظ سے اُس کا ڈریس اچھا سلیکٹ کیا تم نے"

بہرام سنجیدگی جیاء کو بولتا ہوا حرم کے ڈریس پر تبصرہ کرنے لگا 

"جو اُس ڈریس میں موجود ہے اُسے بھی میں نے ہی سلیکٹ کیا ہے تمہارے لیے بتاؤ وہ پسند آئی یا نہیں"

جیاء کے پوچھنے پر بہرام خاموش نظروں سے جیاء کو دیکھنے لگا جیاء دوبارہ بولی

"حرم ایک سمپل سی اور بہت پیاری لڑکی ہے بہرام وہ آگے جاکر تمہارے لیے اچھی بیوی ثابت ہوگی۔۔۔ میں تمہیں تمہاری میرڈ لائف میں خوش دیکھنا چاہتی ہوں"

جیاء فکرمند سی ہوکر بہرام سے بولی

"میں خوش ہوں جیاء آؤ اندر چلیں"

بہرام اُس کا احساس کرتا ہوا بولا اور اسے اپنے ساتھ ہوٹل کے اندر لےگیا

*****

"کیسی ہو حرم"

نمرہ (اسجد کی بہن) تھوڑی دیر پہلے اسے صوفے پر بٹھاکر گئی تھی۔۔ تب اسجد حرم کے پاس آکر اس سے پوچھنے لگا

"اچھی ہوں"

حرم گھبراتی ہوئی بولی اُس کی نظریں اسجد کی بجاۓ بہرام کو تلاش کرنے لگی۔۔۔۔ آج اُسے نگی سے زیادہ بہرام کی ٹینشن تھی کہ کہیں اُس کا شوہر بھی نگی کی طرح اُسے اسجد سے بات کرتا ہوا دیکھ کر اعتراض نہ کر بیٹھے

"اچھی تو تم شروع سے ہو یہ بتاؤ بہرام کے ساتھ خوش ہو"

اسجد اُس کا دل کو چھو جانے والا روپ دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔ اُس نے اپنی ماں کے دباؤ میں آکر کیا کھویا تھا آج اُسے شدت سے اندازہ ہورہا تھا

"بہرام بہت اچھے ہیں"

حرم جلدی سے بولی

"اور بہت خوش قسمت بھی ہے وہ جو اُسے تم مل گئی"

اسجد حرم کے روپ کو حسرت سے دیکھتا ہوا بہرام کی خوش نصیبی پر رشک کرتا ہوا بولا 

"آپ پلیز جائیے یہاں سے اگر نگی نے دیکھ لیا تو وہ برا مانے گی"

حرم اسجد کو دیکھ کر ہمت کرتی ہوئی بولی کیوکہ اُس کی نظروں نے دور سے ہی بہرام کو اپنے اور اسجد کی جانب آتا ہوا دیکھ لیا تھا۔۔۔۔ اب حرم کو نگی سے نہیں اُس سے زیادہ اپنے شوہر سے ڈر لگ رہا تھا

اسجد سے شادی کے بعد ویسے تو نگی نے بھی کم تماشہ نہیں کیا تھا دو مرتبہ وہ اسجد سے لڑ کر گھر آکر بیٹھ چکی تھی اور وجہ اُس نے یہی بتائی تھی اسجد اُس کی ذات پر توجہ دینے کی بجاۓ پرانی یادوں میں کھویا رہتا ہے۔۔۔ کُھلے عام نگی نے چچا چچی کے سامنے حرم کو دیکھ کر یہ بات بولی تھی۔۔۔ تبھی سے چچا چچی نے اُس کے لیے رشتے دیکھنا شروع کردیئے تھے

جب تک اسجد کھڑا بہرام سے باتیں کرتا رہا حرم سانس روک کر کھڑی رہی اسجد کے وہاں سے جانے کے بعد حرم نے اپنی سانسیں بحال کی ساتھ ہی بہرام بھی اُس کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی جیب سے رومال نکال کر اُس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا

"لو ماتھے پر آیا ہوا پسینہ صاف کرلو"

حرم اُس سے رومال لینے کی بجاۓ خاموشی سے بہرام کو دیکھنے لگی۔۔؟ وہ شاید جان گیا تھا کہ وہ اِس وقت سخت گھبرائی ہوئی تھی

"نئی بات نہیں ہے مجھے دیکھ کر اکثر مجرموں کے ایسے ہی پسینے چھوٹتے ہیں"

بہرام بولتا ہوا حرم کے ماتھے پر اپنے رومال سے خود ہی پسینے کی ننھی ننھی بوندے صاف کرتا ہوا اُس کو بتانے لگا

"معلوم نہیں آپ کو کب یقین آۓ گا میں وہ نہیں ہوں جو آپ مجھے سمجھ رہے ہیں"

حرم ڈرنے کے باوجود اُس سے بولی جو رومال دوبارہ اپنی جیب میں رکھ چکا تھا

"جانتا ہوں تم اینجل نہیں ہوں ورنہ آج صبح ہی جب جیاء نے تمہیں میرے کمرے میں دوبارہ بھیجا تھا تب میں تمہاری جان لے لیتا"

بہرام نے بہت خوبصورت مسکراہٹ اپنے چہرے پر بکھرتے ہوۓ حرم سے ایسے کہا جیسے اُس نے کوئی بہت ہی رومینٹک سی بات بولی ہو، مگر بہرام کی بات سن کر خوف کے مارے حرم کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔۔ وہ کس قدر بےرحم تھا یوں مسکراتا ہوا کتنے پیار سے اُس کے سامنے اُسی کو مارنے کی بات کررہا تھا

"اپنے فیس ایکسپریشن ٹھیک کرکے چہرے پر اسمائل لاؤ۔۔ یہاں سب کی توجہ ہم دونوں پر ہے"

بہرام کی بات پر اُس کا دھیان باقی لوگوں کی طرف گیا تو حرم مسکرانے میں کامیاب ہوئی کیوکہ بہرام ٹھیک بول رہا تھا

"آؤ میرے ساتھ میرے کچھ دوستوں کی فیملی ہے تمہیں اُن سے ملواتا ہوں"

بہرام نے بولتے ہوۓاپنا بازو پھیلا کر شانوں سے نیچے اُس کی کمر کے گرد حمائل کیا تو بہرام کے چھونے سے حرم کے بدن میں بجلی کی لہر سی ڈور گئی باکل ویسے ہی جیسے آج صبح وہ پسٹل کی نال سے اُس کی کمر کو چھو رہا تھا تب بھی اُس کی یہی کیفیت تھی

اِس سے پہلے وہ بہرام کے ساتھ چلنے کے لیے آگے قدم بڑھاتی ایک ماڈرن سی لڑکی ان دونوں کی جانب آئی جس کے آنے پر بہرام بڑی خوشدلی سے مسکراتا ہوا اُس لڑکی سے ہاتھ ملا کر بڑی بےتکلفی سے مل رہا تھا۔۔۔۔ حرم باتوں سے یہی اندازہ لگا پائی وہ اس کے ڈپارمینٹ میں کام کرتی ہے

"بہرام تم نے دوسری والی بھی اُسی کی شکل کی ڈھونڈ لی۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا یہ اینجل نہیں ہے۔۔۔ کاش تم دوسری باری میں ہی سہی میری طرف بھی نظرِ کرم کرلیتے"

رومیلہ نام کی لڑکی حیرت ذدہ ہوکر اُس سے ملی تھی پھر وہ بہرام کو دیکھتی ہوئی اُس سے بولی معلوم نہیں اس نے آخری حملہ سیریس بولا تھا کے مذاقاً

"یہ اینجل نہیں، حرم ہے اِس کا نام۔۔۔ شکلاً اُسی سے ملتی ہے اگر عادتیں بھی وہی ہوئی تو تیسرا نمبر تمہارا ہی ہے انتظار کرو"

بہرام کے بولنے پر رومیلہ ہنسی ہوئی وہاں سے چلی گئی حرم سنجیدگی سے بہرام کا چہرہ دیکھنے لگی وہ شادی کے دوسرے دن ہی اُس کے سامنے اپنی تیسری شادی کی بات کررہا تھا کسی لڑکی سے

"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو تیسری شادی ابھی نہیں کررہا پریشان مت ہو"

بہرام اُس کا چہرا پڑتا ہوا اُسے اپنے دوستو کی فیملی کی طرف لے گیا۔۔۔۔ خوش اخلاقی کی اعلیٰ مثال قائم کرتا ہوا وہ اُس کا سب سے تعارف کروانے لگا۔۔۔ ایک دو مرتبہ ان دونوں کی کسی نے تصویر بھی لینی چاہی جسے بہرام نے وہی ٹوک دیا

"اتنے پیارے لگ رہے ہو تم دونوں ایک ساتھ کھڑے ہوکر، رکو مجھے ایک تصویر لینے دو"

بہرام حرم کا ہاتھ تھاما ہوا اُسے واپس صوفے پر بٹھانے کے غرض سے لے جانے لگا تب جیاء سامنے سے آکر اپنے موبائل کا رخ ان دونوں کی جانب کرتی ہوئی بولی 

"اسٹاپ اٹ جیاء تمہیں معلوم ہے اِن سب فضول حرکتوں سے مجھے کتنی چڑ ہے"

بہرام اپنی بڑی بہن کو حرم کے سامنے ٹوکتا ہوا بولا تو حرم کو اندازہ ہوا اُسے تصویریں بنانا پسند نہیں تھا جبھی اتنا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود یہاں پر فوٹو شوٹ کے لیے اُس کو کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا

"مائنڈ اٹ یہ فضول حرکتیں نہیں ہوتیں انہیں بعد میں حسین یادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔۔۔ اِس لیے بناء منہ بناۓ شرافت سے کھڑے رہو میرے موبائل سے تمہاری یا حرم کی تصویریں کہیں نہیں جانے والی۔۔۔ مبشر کے ساتھ دونوں بچے بھی بول رہے ماموں کے ساتھ نئی ممانی بھی دیکھنی ہیں انہیں"

جیاء بولنے کے ساتھ اُن دونوں کی تصویر لیتی ہوئی بولی۔۔۔ تصویر کی وجہ سے وہ حرم کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھ چکا تھا

"اتنی ہی زحمت کر ڈالی تھی تو تھوڑا سا مسکرا بھی دیتے خیر یہ بھی بہت ہے، چلو آؤ حرم ہم دونوں سلفی لے لیتے ہیں"

جیاء بہرام کو گھورتی ہوئی اس پر طنز کرتی پھر حرم سے بولی تو بہرام نے جیاء کو وہی ٹوک دیا

"کوئی ضرورت نہیں ہے یہ کوئی عجائب گھر میں رکھا ہوا نمونہ یا ڈیکوریشن پیس نہیں ہے۔۔۔ یہاں مت کھڑی رہو جاؤ جاکر اپنی جگہ پر بیٹھو"

وہ جیاء کو ٹوکنے کے بعد حرم کو ارڈر دیتا ہوا بولا اور خود اپنے دوستوں کے پاس چلاگیا

"یہ شروع میں تھوڑے دن ایسے ہی رہے گا پھر خود ٹھیک ہوجاۓ گا، تم اپ سٹ مت ہوا کرو اُس کی باتوں سے۔۔۔ دراصل بہرام کو شروع سے ہی تصویریں بنوانا پسند نہیں یہی وجہ تھی کہ میں خود بھی اینجل کو دیکھ نہیں پائی تھی"

جیاء حرم کو صوفے پر بٹھاتی ہوئی مسکرا کر بتانے لگی حرم اُس کی بات پر مسکرا بھی نہیں سکی

"کیا اِن کی پہلی وائف زندہ ہے۔۔۔ وہ صبح بول رہے تھے ناں"

حرم تھوڑا جھجھکتی ہوئی اپنا خدشہ ظاہر کرتی جیاء سے پوچھنے لگی

"ارے نہیں یار وہ کہاں سے زندہ ہوگئی۔۔۔ وہ تو یونہی بہرام نے تمہیں دیکھ کر اچانک بول دیا تھا۔۔۔ بہرام پر صرف تمہارا حق ہے کوئی بھی فضول سوچ اپنے دماغ میں پالنے کی ضرورت نہیں اوکے"

جیاء اُس کو تسلی دیتی ہوئی وہاں بھٹاکر چلی گئی تب نزہت چچی مسکراتی ہوئی حرم کے پاس آنے لگیں لازمی وہ حرم کو پرفیوم کی بوتل دینے والی تھیں   حرم نے پہلے ہی سوچ لیا تھا وہ یہ بوتل اپنے ساتھ لے جانے کی بجاۓ یہی چھوڑ جاۓ گی

*****

واپس آنے کے بعد وہ کمرے میں آکر اپنی جیولری اتار رہی تھی تب بہرام کمرے میں آیا، کمرے میں اس کی موجودگی پر حرم کی رفتار سُست ہوگئی صوفے پر بیٹھی ہوئی وہ آئستگی سے اپنی چوڑیاں اتارنے لگی تو بہرام پہنا ہوا کوٹ اتار کر ٹائی کی ناٹ ڈھلی کرتا ہوا حرم کے برابر میں ہی بیٹھ گیا جس سے ایک پل کے لیے حرم کے ہاتھوں کی حرکت وہی تھم گئی

بہرام چوڑیوں سے بھری حرم کی کلائی پکڑ کر اُس کی ہتھیلی پر مہندی کا ڈیزائن دیکھنے لگا۔۔۔ اپنا ہاتھ بہرام کے ہاتھ میں دیکھ کر حرم کا دل زور سے دھڑکنے لگا

"تم جاننا چاہو گی میں نے اپنی پہلی بیوی کی جان کیوں لی" 

بہرام مہندی کے ڈیزائن کو دیکھتا ہوا عام سے لہجے میں حرم سے پوچھنے لگا، اُس کی بات سن کر خوف سے حرم کا دل مدھم رفتار سے دھڑکنے لگا۔۔۔ حرم نے ڈر کے مارے بہرام کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بہرام بھی اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر مزید بولا

"اچھے کردار کی لڑکی نہیں تھی وہ، مجھ سے شادی سے پہلے اور بعد میں بھی اُس کے غیر آدمی سے ناجائز تعلقات تھے، میرے ساتھ رہنے کے باوجود وہ مجھے دھوکا دے رہی تھی۔۔۔ تم جانتی ہو مضبوط سے مضبوط طاقتور مرد بھی اُس وقت بری طرح ٹوٹ جاتا ہے جب اُسے معلوم ہو کہ اُس کی بیوی اُس کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے غیر مرد کے سامنے اپنی عزت لٹارہی ہو"

بہرام نے کرب سے بولتے ہوئے اپنے قریب بیٹھی حرم کا چہرہ دیکھا۔۔۔ حرم ڈبڈبائی آنکھوں سے بہرام دیکھنے لگی۔۔۔۔ بہرام نے محسوس کیا شاید ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے اُسے اینجل پر دکھ ہوا یا وہ اِس وقت بہرام کی آنکھوں میں دکھائی دینے والا کرب کو محسوس کررہی تھی۔۔۔ بہرام دوبارہ سر جھکا کر حرم کا پکڑا ہوا ہاتھ دیکھ کر بولا

"معلوم ہے اُس پر گولی چلانے سے پہلے میں نے اُس کا چہرہ بھی بگاڑ ڈالا تھا" 

بہرام کی اگلی بات سن کر حرم خوف کے مارے اُس سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی لیکن بہرام کی گرفت مضبوط تھی وہ صرف کوشش ہی کرسکی

"یہاں۔۔۔ یہاں سے خون نکلتا ہوا اُس کے گال کو بھگو رہا تھا"

بہرام حرم کی پیشانی پر انگلی رکھتا ہوا اُسے بتانے لگا پھر وہ اپنی انگلی حرم کے دائیں گال تک لے کر آیا اور پھر توڑی تک لاکر رک گیا۔۔۔ بہرام کی بات سن کر خوف کے مارے حرم کی حالت غیر ہونے لگی اُسے اِس وقت بہرام سے بہت زیادہ خوف آنے لگا

"دکھنے میں ہو بہو وہ تمہاری شکل تھی"

حرم کی تھوڑی پر انگلی رکھے بہرم اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا حرم کو بتانے لگا، حرم سے سانس لینا محال ہوگیا بہرام نے ابھی تک اُس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا جسے اب حرم نے چھڑوانے کی کوشش نہیں کی

"اچھی لگنے لگی تھی وہ مجھے میں چاہنے لگا تھا اسے، لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ بدکردار ہے کسی دوسرے مرد کے بستر پر لیٹ کر وہ میری عزت نیلام کررہی ہے تب میرا دل اُس کے حسین چہرے پر تھوکنے کو چاہا، اُس سے عجیب سی کرائیت سی محسوس ہونے لگی"

بولتے ہوئے اچانک بہرام کے تاثرات پتھریلے ہوئے اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر حرم نے آہستہ آواز میں رونا شروع کردیا

"جیاء بول رہی تھی کہ تم ایک انوسینٹ لڑکی ہو سیدھی سادی سی، اُس سے بالکل ہی مختلف"

بولتے ہوئے بہرام اپنا چہرہ حرم کے چہرے کے نزدیک لایا تو حرم نے رونا بند کردیا۔۔۔ بہرام کی نظریں اپنے ہونٹوں کی طرف دیکھ کر شاید اُس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔۔۔ بہرام کا ہاتھ اُس کے چہرے سے گزرتا ہوا اب حرم کے بالوں تک آچکا تھا۔۔۔ حرم کے بالوں کو اپنی انگلیوں میں پھنساۓ وہ مزید اپنا چہرہ حرم کے چہرے کے نزدیک لایا تو حرم کی جان نکلنے لگی اُس کی قربت کو محسوس کرکے حرم نے اپنی آنکھیں بند کرلیں

"لیکن میں کیا کروں میں بےبس ہوں، تمہارا چہرہ مجھے اُس بےرحم کی یاد دلاتا ہے۔۔۔ تمہارا چہرہ دیکھ کر میرا دل کرتا ہے کہ میں تمہارا چہرہ بھی اُسی کے چہرے کی طرح بگاڑ کر تمہیں اِسی کی طرح گولی مار ڈالوں"

بہرام نے غصے میں بولتے ہوئے حرم کے پکڑے ہوۓ بالوں کو زور دار جھٹکے سے چھوڑا تو وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور صوفے نیچے فرش پر گرگئی بہرام غُصے میں صوفے سے اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ حرم فرش پر بیٹھ کر رونے لگی

*****

صبح کے وقت یونیفارم میں موجود وہ ڈائینگ ٹیبل پر آیا تو جیاء کے ساتھ وہ پہلے سے ہی ڈائننگ ٹیبل پر موجود جیاء سے کچھ بول رہی تھی مگر بہرام کو آتا ہوا دیکھ کر فوراً خاموش ہوگئی۔۔۔ بہرام کو خود بھی اپنے کل رات کے رویے کا احساس ہو رہا تھا اگر اِس لڑکی کی شکل اینجل سے ملتی تھی تو اِس میں اِس لڑکی کا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔ کل رات جب وہ اپنے کمرے میں واپس آیا تب تک وہ سو چکی تھی

"ساری پیکنگ کرلی تھی تم نے اپنی"

بہرام کرسی پر بیٹھتا ہوا جیاء سے پوچھنے لگا آج اسکی کینیڈا کیلئے روانگی تھی

"ساری پیکنگ تو میں نے کل رات میں ہی کرلی تھی، یہ بتاؤ تمہارا حرم کو لےکر میرے پاس کب آنا ہو رہا ہے"

جیاء چاۓ سے بھرا ہوا کپ اُٹھاتی ہوئی ناشتہ کرتے بہرام سے پوچھنے لگی۔۔۔ بہرام نے ایک نظر اپنی بہن پر جبکہ دوسری نظر بیوی پر ڈالی جو جیاء کے جانے پر جیاء سے زیادہ افسردہ لگ رہی تھی

"دو سال تک تو میرا کینیڈا آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اگر اِس لڑکی کا تمہارے ساتھ زیادہ ہی دل لگ گیا ہے تو اِسے اپنے ساتھ شوق سے لے جاؤ"

بہرام ناشتہ کرتا ہوا جیاء سے بول تو حرم نے اپنا سر جھکالیا جبکہ چائے کا سپ لیتی ہوئی جیا بہرام کو گھورنے لگی

"یہ لڑکی نہیں ہے بیوی ہے تمہاری یاد رکھو"

جیاء نے گھورنے کے ساتھ بہرام کو جتانا بھی ضروری سمجھا بہرام شرمندہ ہوے بناء ہنسا

"یاد رکھنے کی کیا ضرورت ہے مجھے معلوم ہے تم وہاں کینیڈا میں بیٹھی ہوئی روز یہ بات موبائل پر کال کر کے مجھے یاد کرواتی رہو گی" 

وہ بولنے کے ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کررہا تھا کیونکہ جیاء کو ایئرپورٹ چھوڑنے کے بعد آج دوپہر میں اُسے ایک ضروری کام تھا اور شام میں کمشنر صاحب سے ارسل نیازی عرف بوبی کے متعلق ضروری بات کرنا بھی اب چند ہی دن رہ گئے تھے کہ جب ارسل نیازی پھانسی کے تختے پر چڑھتا

"انسان بن جاؤ بہرام، اپنی بیوی کے ساتھ کوئی بھی شادی کے دوسرے دن اِس طرح کا رویہ نہیں اپناتا۔۔ اگر مجھے آگے سے تمہاری شکایت ملی ناں تو میں بہت برے طریقے سے تمہارے ساتھ پیش آؤگی بتا رہی ہوں تمہیں"

جیاء ناراض نظروں سے اُسے دیکھ کر دھمکی دینے لگی تو بہرام ناشتے سے ہاتھ روک کر جیاء کو دیکھا

"کیا رویہ اپنایا ہوا ہے میں نے" 

بہرام نے جیاء کی بجائے ڈائریکٹ حرم کی طرف دیکھ کر اس سے سوال کیا جو چور نظروں سے اُسے دیکھتی ہوئی ساتھ ہی ناشتہ کررہی تھی وہ اچانک بولی

"میں نے آپی کو بتادیا ہے جیسے آپ مجھے کل رات ڈرا رہے تھے"

جیاء کی موجودگی میں حرم نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آہستہ آواز میں بہرام کو بتادیا

"یہاں میری طرف دیکھ کر بات کرو اور بتاؤ کیسے ڈرا رہا تھا میں تمہیں"

بہرام حرم کو آنکھیں دکھائے روعب دار لہجے میں پوچھنے لگا جس پر جیاء نے اپنی کرسی سے کھسک کر بہرام کے بازو پر زور سے ہاتھ مارا

"تم میرے سامنے اِس بےچاری کو ایسے ڈرا رہے ہو اکیلے میں نہ جانے کیا حال کروگے اس کا۔۔۔ تم دونوں ہی میرے بات کان کھول کر سن لو۔۔۔ میں یہاں سے جارہی ہوں اب تم دونوں کو ایک ساتھ رہنا ہے وہ بھی پیار سے جیسے ہزبینڈ اور وائف آپس رہتے ہیں"

جیاء ان دونوں کو دیکھ کر سمجھانے لگی۔۔ حرم میں ذرا سی نظریں اٹھا کر بہرام کو دیکھا جو اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا وہ بری طرح شرمندہ ہوکر دوبارہ نظریں جھکا گئی

"تم یونہی سر جھکا کر بیٹھی رہو میں جو بول رہی ہوں سمجھ میں آرہی ہے تمہیں"

جیاء اب کی بار مکمل طور پر حرم کی طرف دیکھتی ہوئی اس سے بولی تو حرم پریشان ہوکر جیاء کو دیکھنے لگی

"اگر تم ابھی سے ایسے ہی سر جھکا کر بیٹھی رہی ناں تو ساری زندگی ایسے ہی تمہارا سر اِس کے سامنے جھکا رہے گا۔۔۔ اور یہ اِسی بات کا فائدہ اٹھاکر تمہیں ایسے ہی ساری زندگی آنکھیں دکھائے گا۔۔۔ شادی ہوئی ہے اس سے تمہاری شوہر ہے تمہارا یہ۔۔۔۔ چلو شادی کے دن جو غلط فہمی تھی لیکن اب وہ دور ہوگئی ہے اس لیے اب تمہارا بھی فرض ہے اپنے شوہر سے خود سے بات کرو یہ آگے سے ایٹیٹیوڈ دکھائے تو اِس کا دماغ درست کردو اِس سے فرمائشیں کرو، اِس کے ساتھ گھومنے پھرنے باہر نکلو شاپنگ کرو"

جیاء نے سوچا جانے سے پہلے وہ حرم کو بھی تھوڑی عقل دلاکر جائے۔۔۔ جو دو دن سے اُسی کے ساتھ چپکی ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف بہرام اپنی بہن کے مشورے سن کر گھور کر جیاء کو دیکھتا ہوا بولا

"جیاء تمہاری فلائیٹ کی ٹائمنگ کیا ہے میرے خیال سے اب تمہیں نکلنا چاہیے تم لیٹ ہوجاؤ گی" 

بہرام بہت سنجیدہ انداز میں جیاء کو دیکھ کر بولا جو دنیا کی پہلی ایسی بہن تھی جو اپنی بھاوج کو الٹی پٹیاں پڑھا رہی تھی

"تمہیں ناں زیادہ میرے سامنے اسمارٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ اگر تمہیں اچھی بیوی مل گئی ہے تو اِس کی معصومیت کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے بہرام اگر تم نے آئندہ اِس کو ڈرایا یا اس پر بلاوجہ میں غُصہ کیا تو میں واقعی تم سے سخت ہوگیں۔۔۔ یار اتنی پیاری بیوی لاکر دی ہے میں نے تمہیں اِس کے ساتھ پیار محبت سے پیش آؤ مگر نہیں تمہیں تو اپنی نوکری کر ایک بندے پر روعب جھاڑنا ہے۔۔۔ ہر رشتے میں ایسا نہیں چلتا بہرام، بیوی کے دل میں شوہر اپنا مقام تب ہی پیدا کرسکتا ہے جب وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے جس طرح تم نے حرم کے ساتھ رویہ اپنایا ہوا ہے ناں اِس طرح تم اِس کے دل میں اپنے لیے ڈر اور خوف پیدا کررہے ہو اور اگر یہی ڈر اور خوف اِس کے دل میں جنم لے گیا تو پھر محبت کیسے پیدا ہوگی اس کے دل میں تمہارے لئے۔۔۔ ہزبنڈ اور وائف کے رشتے میں محبت ہی سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے میں تم دونوں کو ایک ساتھ خوش دیکھنا چاہتی ہوں" 

جیاء بہرام کو دیکھتی ہوئی سمجھانے کی کوشش کرنے لگی

"دو دن سے تمہاری یہی بات سن رہا ہوں اتنی پیاری بیوی لاکر دی ہے اتنی پیاری بیوی لاکر دی ہے ٹھیک ہے تمہارے جانے کے بعد ذرا غور سے چیک کرتا ہوں کہاں ںسے پیاری بیوی لاکر دی ہے۔۔۔ اور یہ فضول کی نصیحتوں کی مجھ کو ضرورت نہیں سارے سبق اچھے سے سیکھے ہوۓ ہیں میں نے"

بہرام کی بات سن کر جہاں حرم شرمندہ ہوئی تھی وہی جیاء دوبارہ سے بہرام کو گھور کر رہ گئی جو سکون سے آپ ناشتہ کرنے کے بعد بیڈ روم سے جیاء کے ہینڈ کیری لینے چلاگیا

*****

جیاء بہرام کے ساتھ صبح گھر سے روانہ ہوچکی تھی اُس کے تھوڑی دیر بعد ملازمہ آئی تھی جس نے سارے گھر کا کام کیا اور ساتھ ہی اُس نے حرم کو بہرام اور اُس کی پہلی بیوی کا بھی قصہ سنایا جس میں اُن دونوں نے ایک دوسرے کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔۔۔ حرم کے اوپر یہ انکشاف بہت حیران کن تھا کہ بہرام کی بیوی نے بھی اُس کے اوپر گولی چلائی تھی اور پہلے اُسی نے بہرام کی جان لینے کی کوشش کی تھی یہ بات سن کر حرم سناٹے میں آگئی کہ کوئی لڑکی اتنی بے رحم کیسے ہوسکتی ہے وہ بھی اُس سے ملتی ہوئی شکل کی

کیونکہ ملازمہ نئی تھی اِس لئے لوگوں کی سنی سنائی باتوں سے وہ یہ سارا واقعہ جانتی تھی مگر حرم میں اُس ملازمہ کو یہ نہیں معلوم ہونے دیا کہ یہ بہرام کی پہلی بیوی اُسی کی ہمشکل تھی۔۔۔ ملازمہ کے جانے کے بعد حرم نے کچن میں جاکر دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر تھوڑی دیر سونے کے لیے لیٹ گئی بہرام کی غیرموجودگی کا سوچ کر اُسے بڑی گہری اور سکون دے نیند آئی تھی

جب اُس کی آنکھ کُھلی تو شام ہوچکی تھی چائے کا کپ بناکر وہ ٹیرس میں آئی آج موسم کافی ابرآلود تھا تب اسے یاد آیا نیوز میں آج ہی کے دن طوفانی بارش کی پریڈکشن دی گئی تھی

"اوف اللہ جی اگر تھوڑی دیر میں بارش شروع ہوگئی تو لازمی سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجائے گا اور پھر بہرام واپس گھر کیسے آئیں گے یعنٰی مجھے رات تک اِس فلیٹ میں اکیلا ہی رہنا پڑے گا اور اگر یہاں لائٹ چلی گئی تو مجھے تو جنریٹر بھی چلانا نہیں آتا۔۔۔ کیا کروں بہرام کو کال کرکے بلالو لیکن اُن کے آنے سے کیا ہوگا وہ بھی تو مجھے ڈرا کر اور میری جان خشک کر کے رکھتے ہیں۔۔۔۔ ڈر تو مجھے ان کی موجودگی میں بھی لگا ہی رہتا ہے مگر کچھ بھی ہے وہ انسان تو ہے اگر یہاں پر بہرام کی پہلی بیوی کی روح آ گئی تو۔۔۔

یہ سوچ آنے کے ساتھ ہی حرم کی خوف سے ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ شروع ہوگئی

"باجی آپ نماز وغیرہ تو پڑھتی ہو ناں کیو سننے میں آیا ہے اگر کسی کو قتل کردیا جائے تو اُس کی روح اُسی گھر میں بھٹکتی ہے"

صبح کے وقت اُس نے ملازمہ کی باتوں کو بالکل سنجیدہ نہیں لیا تھا لیکن اِس وقت جب اُسے ملازمہ کی باتیں یاد آنے لگیں تو حرم کو خوف سا محسوس ہونے لگا

"نہیں مجھے بہرام کو فوراً کال کرنا چاہیے"

حرم نے اپنا موبائل اٹھاکر بہرام کو کال کرنے کا فیصلہ کیا وہ بھی شکر تھا کہ جانے سے پہلے جیاء اُس کے موبائل میں بہرام کا موبائل نمبر فیڈ کر کے گئی تھی

*****

آج صبح سے ہی اُس کا دن کافی مصروف گزرا تھا اِس وقت موسم کافی ابرآلود ہورہا تھا لگ رہا تھا کبھی بھی بارش برس سکتی ہے بہرام اپنی کار میں بیٹھا ہوا ڈرائیونگ کرتا اس وقت طے شدہ اپوائنمنٹ کے سلسلے میں کمشنر صاحب سے ملاقات کے لئے جارہا تھا بوبی کو پھانسی ہوجانے کے بعد اُس کا اگلا ٹارگیٹ یعقوب نیازی تھا جو اپنے بھائی کے غلط کاروبار کو آگے چلا رہا تھا اُس کے متعلق بھی بہرام نے ثبوت اکھٹے کرنا شروع کردیے تھے موبائل پر آئے ہوئے میسج نے اُسکی توجہ اپنے موبائل کی طرف کھینچی

بیوی اگر خوبصورت مل جائے تو اسے اکیلا گھر میں چھوڑنا بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے

اجنبی نمبر سے میسج پڑھ کر بہرام کا خون کھول اٹھا زیرلب میسج کرنے والے کو گالی دیتا ہوا اِس سے پہلے وہ اُس کے نمبر پر کال کرتا حرم کی کال خود اُس کے پاس آنے لگی۔۔۔۔ اسکرین پر حرم کا نام جگمگاتا ہوا دیکھ کر وہ کال ریسیو کرچکا تھا

"ہیلو بہرام میں حرم بات کررہی ہوں آپ کہاں پر ہیں اس وقت"

جانے سے پہلے جیاء اس کے موبائل میں حرم کا نمبر سیف کرکے گئی تھی اور یہ بات ایئرپورٹ جاتے وقت یا جیاء اُس کو بتاچکی تھی

"کال کیوں کی ہے تم نے سب ٹھیک ہے ناں" 

حرم کی گھبرائی ہوئی آواز سن کر وہ حرم سے پوچھنے لگا۔۔ ساتھ ہی وہ گاڑی کا رخ اپنے اپارٹمنٹ کی طرف موڑ چکا تھا ساتھ ہی اُسے اجنبی نمبر سے آیا ہوا میسج بھی یاد آیا

"خیریت نہیں ہے آپ پلیز جلدی سے گھر آجائے"

شاید خوف کے مارے وہ رو رہی تھی یا پھر بہرام کو ایسا لگا وہ ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا پایا

"میری بات غور سے سنو لاؤنج میں جو ڈیوائڈر کے ساتھ بڑا سا واس رکھا ہے اس میں ایک پستول ہے جلدی سے جاکر وہ پستول نکال کر اپنے پاس رکھ لو۔۔۔ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں"

بہرام نے حرم کو بولتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ بڑھادی اتنی آسانی سے تو اُس کے فلیٹ کے اندر کوئی زبردستی یا خوفیہ طریقے سے داخل نہیں ہوسکتا تھا اُس نے ایسے سکیورٹی الارم لگائے ہوئے تھے جو اُسے فوراً آگاہ کردیتے لیکن اُس نے حرم کا خیال کرتے ہوئے الارم بجنے کا انتظار نہیں کیا تھا بارش تیز اسٹارٹ ہوچکی تھی مگر بدنصیبی یہ ہوئی کہ اپارٹمنٹ کے دس منٹ کے فاصلے پر اُس کی گاڑی بند ہوگئی جسے وہ وہی چھوڑ کر تیزی سے بارش میں اپنے اپارٹمنٹ کی طرف بھاگا

*****

فلیٹ کے دروازے پر پہنچتے ہی اس نے ہولسٹر سے پستول نکال کر ہاتھ میں لے لیا بہت محتاط انداز میں بہرام نے فلیٹ کے دروازے کا لاک کھولا،،، سامنے کھڑے وجود کی طرف پھرتی سے پستول کا رخ کیا وہی ڈر کے مارے حرم کی چیخ نکل گئی

"کک۔۔۔ کیا ہوگیا آپ کو، یہ میں ہوں حرم۔۔۔ پلیز گولی مت چلائیے گا" 

وہ خوف سے  اپنی آنکھیں بند کرکے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو سرنڈر کرتی بولی۔۔۔ بہرام باہر کا دروازہ بند کرتا ہوا حرم کو اسی حالت میں چھوڑ کر سارے کمروں کا جائزہ لینے لگا۔۔ باہر تیز بارش کی وجہ سے وہ مکمل بھیگ چکا تھا

"یہاں تو کوئی بھی موجود نہیں ہے تم نے مجھے گھر آنے کا کیوں بولا"

بہرام تسلی کرنے کے بعد واپس لاؤنچ میں آیا تو حرم اسی پوزیشن میں آنکھیں بند کئے اور دونوں ہاتھ اونچے کیے کھڑی تھی۔۔۔ وہ غصہ ضبط کرتا ہوا حرم سے پوچھنے لگا

"میں نے فون پر آپ سے یہ کب بولا کہ یہاں کوئی دوسرا موجود ہے، میں نے تو صرف یہی بولا تھا کہ آپ جلدی گھر آجائیں"

حرم آنکھیں کھول چکی تھی مگر اس کے دونوں ہاتھ ہوا میں ابھی بھی بلند تھے کیونکہ بہرام کے تاثرات سے لگ رہا تھا وہ شدید غصے میں ہے اور اُس کے غصے سے حرم کو بہت ڈر لگتا تھا

"تم نے مجھے کال پر بولا خیریت نہیں ہے آپ پلیز جلدی سے گھر آجائے یاد کرو"

اب کی بار بہرام تیز آواز میں چیختا ہوا اُسے اُس کے لفظ یاد دلانے لگا

"بارش تیز ہوجاتی تو خیریت کہاں رہتی لازمی آپ ٹریفک میں پھنس جاتے اور گھر آتے آتے لیٹ ہوجاتے اِس لیے آپ کو جلدی آنے کا بول دیا۔۔۔ پھر میں نے پکوڑوں کے لیے بیسن بھی گھول کر رکھ لیا تھا  برسات میں ٹھنڈے پکوڑے کھانے کا کہاں مزہ آتا ہے"

حرم کی بات سن کر بہرام کا میٹر برے طریقے سے گھوما وہ غصے میں تیزی سے حرم کی طرف بڑھا تو حرم نے اوپر کئے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیا اور روہاسی لہجے میں بولی

"پلیز مجھ پر غصہ مت کریئے گا مجھے آپ کے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے"

حرم کے سہمے ہوۓ انداز پر وہ اپنا غصہ ضبط کرگیا ورنہ اِس وقت وہ اس لڑکی کا برا حشر کردیتا

"کمشنر صاحب کے ساتھ ضروری میٹنگ تھی جس کو چھوڑ کر میں تمہاری کال پر بھاگا چلا آیا۔۔۔ آگے کیا سننے کو مل رہا ہے بیسن گھول لیا ہے برسات میں ٹھنڈے پکوڑوں کا کہاں مزہ آتا ہے۔۔۔ لڑکی تمہارا دماغ درست ہے یا پھر میں درست کرو" 

بہرام ایک بار پھر اُس پر غصے سے چیخا حرم کو لگا آج اُس کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔۔۔۔ اپنے ڈر کو ختم کرنے اور ذہن کو بٹانے کے لیے اس نے بیسن گھول لیا تھا

"مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا ملازمہ نے بولا تھا جس گھر میں قتل ہوا ہو اس کی روح وہی منڈلتی ہے۔۔۔ مجھے لگا آپ کی پہلی بیوی کی روح کہیں مجھے اکیلا دیکھ کر میرے پاس نہ آجائے"

حرم اپنے چہرے سے دونوں ہاتھ ہٹاکر اسے اصل وجہ بتانے لگی جس پر بہرام کو اور بھی زیادہ غصہ آیا

"تم خود زندہ وجود رکھ کر ایک مرے ہوئے انسان سے ڈر رہی ہو بیوقوف لڑکی، میری بیوی کی رو سے زیادہ خطرناک میں تمہارے لئے ثابت ہوسکتا ہوں آئندہ تم نے الٹی سیدھی حرکتیں کی تو اس پائپ سے باندھ کر ہوا میں الٹا لٹکا دوں گا میں تمہیں"

بہرام کی غصے میں دی جانے والی دھمکی دینے پر، حرم خود کو تصور میں الٹا لٹکا ہوا سوچ کر مذید ڈر گئی

"آپ مجھے کسی مجرم کی طرح ٹریٹ نہیں کرسکتے بیوی ہوں میں آپ کی بیشک زبردستی کی ہی سہی"

ڈرنے کے باوجود حرم آئستہ آواز میں منمنائی تو بہرام اسے آنکھیں دکھاتا ہوا گھورنے لگا۔۔۔۔ جس پر حرم سر جھکا گئی۔۔۔ کل تک وہ اس سے ڈر رہی تھی۔۔۔۔ مگر آج اس کے سامنے اپنے دفاع کے لئے بول رہی تھی بہرام سمجھ گیا کہ یہ جیاء کا دیا ہوا کونفیڈنس تھا۔۔۔۔ وہ حرم کے جھکے سر کو گھورتا ہوا بیڈ روم میں چلا گیا۔۔۔ اس کا پورا یونیفارم بھیگ چکا تھا۔۔۔ بارش باہر کافی تیز ہورہی تھی اب بہرام کا واپس جانا بےکار تھا اس لیے کمشنر صاحب سے فون پر معذرت کرتا ہوا وہ یونیفارم کی شرٹ اتارنے لگا تو حرم بھی بیڈروم میں آگئی

"کیا ہاتھ میں پکڑا رہو گا میں یہ گیلا یونیفارم بیوی ہو تو معلوم نہیں ہے تمھیں بیویوں کے کام جاؤ جا کر اسے بالکنی میں ٹانگوں" 

بہرام کی گرجدار آواز پر حرم خاموشی سے یونیفارم لینے کے لئے اس کے پاس آئی بنیان سے نظر آتا اُس کا کسرتی سینہ اور ورزشی بازو دیکھ کر وہ بہرام سے نظریں چرا گئی۔۔۔۔ اس یونیفارم لیتی ہوئی وہ جلدی سے بالکونی میں چلی گئی تیز بارش اور ہوا کے زور دیکھ کر ٹھنڈ سے اس کے دانت بجنے لگے۔۔۔ واشروم سے پانی گرنے کی آواز پر حرم سمجھ گئی بہرام شاور لے رہا ہے وہ چائے کا پانی چڑھا کر دوسرے چولہے پر پکوڑے تلنے لگی

*****

وہ شاور لےکر باہر نکلا تو حرم ٹرے میں چائے کے ساتھ فرانچ فرائس پکوڑؤں سے بھری پلیٹ لیے کمرے میں داخل ہوئی جیسے ہی اس کی نظر سامنے بہرام پر پڑی تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے لرزنے لگی اُس کے چہرے کا رنگ شرمندگی سے سرخ ہونے لگا کیوکہ وہ بناء شرٹ کے،، صرف ٹراؤذر میں موجود خود پر باڈی اسپرے کرتا ہوا حرم کو دیکھ رہا تھا

"تمہیں کیا ہوا ہے"

بہرام اس کے ہاتھوں کی لرزاہٹ اور چہرے کا رنگ دیکھ کر حیرانی سے پوچھنے لگا

"وہ آپ شرٹ کے بغیر کھڑے ہیں نہ"

بے شرم انسان حرم نے اُسے دل میں بولا اور ساتھ ہی بہرام کو اُس کی حالت کا احساس بھی دلایا

"تو شرمندہ تو مجھے ہونا چاہیے تمہیں کیا ہورہا ہے"

ایک مرتبہ پھر وہ سیریس ہوکر حرم سے پوچھنے لگا۔۔۔ حرم نے منہ سے تو کچھ نہیں بولا سل میں اس کو اکڑو اور بدتمیز کے خطاب سے نوازتی ہوئی کمرے میں موجود چھوٹی سی شیشے کی گول ٹیبل پر ٹرے رکھنے لگی

"شرمانا تو چیک کرو میڈم کا"

بہرام بھی دل ہی دل میں بولتا ہوا شرٹ پہن کر بٹن بند کرتا ہوا اس کے بارے میں سوچنے لگا

"اور ابھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو بتا دیں" 

تھوڑی دیر پہلے بیوی اور کام کے طعنے کو یاد کرتی حرم بہرام کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی اور ساتھ ہی اس کے شرٹ پہننے پر شکر بھی ادا کرنے لگی مگر بہرام اس کی بات سن کر بری طرح چونکا۔۔۔۔ برساتی رات جوکہ رومانٹک سے سماں پیش کررہی تھی تین دن ہوئے اُس کی بیوی اُس سے "ضرورت" پوچھ رہی تھی۔۔۔ یا تو وہ ڈیڑھ ہوشیار تھی یا پھر بالکل ہی بے وقوف بہرام چلتا ہوا حرم کے پاس آکر ٹھہرا اور اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا

"میری ضرورتوں کے لیے تمہیں ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں، تم مجھے صرف اپنی ضرورتوں کا بتاؤ۔۔۔ اپنی خود کی ضرورت میں جب چاہے جس وقت چاہے پوری کرسکتا ہو اِس کے لیے مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں پڑے گی"

وہ گہری نظروں سے حرم کا چہرہ دیکھتا ہوا اُس کو بہت کچھ جتا چکا تھا لیکن حرم کے سر پر سے تو سب کچھ گزر گیا

"بھوک لگے اور کھانے کی طلب ہو تو بتا دیجیے گا میں دوسرے روم میں ہوں" 

حرم اس کی عجیب سی بات کا جواب دیئے بغیر کمرے سے چلی گئی۔۔۔۔ بھوک اور طلب جیسے الفاظ سن کر بہرام افسوس سر ہلاتا ہوا ٹرے میں سے چائے کا کپ اٹھاکر پینے لگا

*****

بارش کو رکے ہوئے دو گھنٹے گزر چکے تھے وہ تب سے دوسرے کمرے میں موجود تھی اپنے موبائل پر جیاء کی کال دیکھ کر خوش ہوگئی

"کیا آپ کو میری آواز نہیں آرہی"

حرم جیاء سے پوچھتی ہوئی بالکونی میں چلی گئی شاید یہاں سگنلز کا ایشو تھا

"پرابلم ہے تو رکیں لیپ ٹاپ سے کنیکٹ ہوجاتی ہوں میں"

موبائل کو کان پر لگائے حرم بیڈ روم میں آئی تو سامنے لیپ ٹاپ بیڈ پر موجود پہلے سے ہی آن تھا مگر کمرے میں بہرام موجود نہیں تھا۔۔۔ لیپ ٹاپ کی سکرین کو سامنے کرتے ہوئے وہ پہلے سے اوپن فولڈر اور فائلیز کو کلوز کرنے لگی ویسے ہی بیڈ روم میں بہرام آیا اُسے اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا دیکھ کر بہرام کے قدموں وہی ٹھٹک گئے

"کیا کررہی ہو تم"

بہرام پیشانی پر بل ڈالتا ہوا حرم کے پاس آتا ہوا اس سے پوچھنے لگا

"آپی کی کال آئی تھی اُن سے بات کرنے کے لیے۔۔۔ 

حرم نے بولنا چاہا ویسے ہی بہرام نے لیپ ٹاپ کی اسکرین کا رُخ اپنی طرف کیا اور حرم کی بات کاٹتا ہوا بولا

"یہاں جو فائل اوپن تھی وہ کہاں ہے"

بہرام کی بات پر حرم ایک سیکنڈ کے لئے خاموش ہوئی

"وہ تو میں نے کلوز کردی دراصل موبائل پر آپی آواز کلیر نہیں آرہی تھی تو۔۔۔

وہ بہرام کو بتانے لگی جس پر بہرام کا دماغ بھگ سے اڑ گیا

"کیا کلوز کردی تم نے وہ فائل" 

بہرام نے حیرت اور غُصے میں ملے جلے تاثرات سے حرم کو دیکھ کر پوچھا تو حرم ڈر گئی

"فائل کلوز کرنے سے پہلے کیا تم نے اُس کا سارا ڈیٹا سیو کیا تھا"

جس طرح وہ کی بورڈ پر تیزی سے انگلیاں چلاتا ہوا حرم سے پوچھ رہا تھا حرم کو لگا وہ اس کا کام بگاڑ چکی ہے۔۔۔ بہرام کے سوال پر حرم نے افسوس کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تو بہرام اپنا دونوں ہاتھوں میں سر پکڑ کر رہ گیا

"سوری آئی تھنک مجھ سے کچھ غلط ہوگیا"

حرم ڈرتی ہوئی بہرام سے بولی تو بہرام غصے میں سرخ آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگا 

"کچھ غلط ہوگیا۔۔۔۔ تم نے میری دو گھنٹے کی محنت ایک سیکنڈ میں ضائع کر ڈالی بیوقوف لڑکی۔۔۔ دل تو چاہتا ہے کہ میں تمہیں۔۔۔۔ 

بہرام نے غصے میں ضبط کرتے ہوۓ جیسے اپنی مٹھیاں کو بند کیا تو حرم سہم گئی

"آآآ۔۔۔پ  مجھ پر اِس طرح غصہ نہیں کرسکتے میں آپ کی بیوی ہو بیشک زبردستی کی ہی سہی"

حرم نے بہرام کو غصے میں دیکھ کر ڈرتے ہوۓ وہی بات دہرائی

"بیوی مائی فٹ، ہاتھ کیوں لگایا تم نے میرے لیپ ٹاپ کو۔۔۔۔ پہلے تم نے بیوقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے گھر بلالیا اور اب تم میری ساری محنت ضائع کر ڈالی"

بہرام غصے میں تیز آواز میں بولا تو حرم کو رونا آنے لگا جسے دیکھ کر بہرام مزید غُصہ ہوا

"رونا بند کرو اور جاؤ یہاں سے فوراً جاکر ٹیرس میں کھڑی ہوجاؤ اور جب تک میں دوبارہ یہ کام اسٹارٹ کرکے اسے وائنڈ اپ نہ کر ڈالوں، اگر اپنی جگہ سے ہلی تو میں ٹیرس میں آکر تمہاری ٹانگیں توڑ ڈالوں گا"

بہرام اسے بازو سے پکڑ کر ٹیرس میں لے آیا تھا شدید ٹھنڈی ہوا اور اوپر سے بارش بھی دوبارہ شروع ہوچکی تھی حرم کو رونا آنے لگا

"ایم سوری میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا"

حرم نے شرمندہ لہجے میں دوبارہ بولنا چاہا تھا 

"شٹ اپ خاموشی سے یہی کھڑی رہو اگر تم یہاں سے ذرا سا بھی ہلی میں تمہیں اٹھا کر اس پانچویں فلور سے نیچے پھینک دوں گا"

بہرام اُس کو دھمکی دیتا ہوا ٹیرس کا دروازہ بند کرکے جا چکا تھا جب کہ حرم نے سردی کی وجہ سے تھر تھر کانپنا شروع کردیا 

اسے اِس لڑکی کی بچکانہ حرکت کا سوچتے ہوئے شدید غصہ آ رہا تھا پہلےتو  اُس نے اسے گھر بلا لیا تھا جس کی وجہ سے وہ کمشنر صاحب سے مل بھی نہیں پایا تھا اگلے ایک ہفتے تک کمشنر صاحب کے شیڈول کے مطابق وہ بزی تھے اور اب تھوڑی دیر پہلے دو گھنٹے لگا کر اس نے جو بھی ڈیٹا کلیکٹ کیا تھا اس ساری انفرمیشن کو سیو کیے بغیر وہ لڑکی کلوز کرکے اڑا چکی تھی۔۔۔۔ غُصے میں سوچتے ہوئے بہرام کو اُس آدمی کا میسج بھی یاد آیا جو اجنبی نمبر سے کیا گیا تھا وہ جانتا تھا یہ میسج یعقوب نیازی نے اپنے کسی آدمی سے کروایا ہوگا تاکہ وہ بہرام کو ڈرا دھمکا کر کسی بھی طرح بوبی کے بارے میں معلوم کرسکے

زور دار آواز میں بادل گرجنے سے اس کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا تیز بارش اسٹارٹ ہوچکی تھی اُس کا ذہن ٹیرس میں کھڑی حرم کی طرف گیا مگر اگلے ہی پل اُس نے سر جھٹکا وہ لڑکی مستحق تھی کے اُسے سزا ملے تاکہ اگلی بار وہ اُس کے سامنے غلطی نہ کرے ۔۔۔ بہرام کے موبائل کی اسکرین پر جیأ کی کال آنے لگی اب بہرام اپنا باقی کا غصہ جیاء کی کو باتیں سنا کر اُس پر نکالنے کا ارادہ رکھتا تھا اِس لیے اُس نے جیا کی کال ریسیو کرلی

*****

لیپ ٹاپ پر اپنا سارا کام مکمل کرتے ہوۓ اسے احساس نہیں ہوا کب اُس کی آنکھ لگ گئی جب بہرام کی آنکھ کھلی تو اس وقت کھڑکی سے باہر ملکجا سا اندھیرا تھا۔۔۔  موبائل پر ٹائم دیکھا تو معلوم ہوا صبح کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے اچانک اُس کا دماغ ٹیرس کی طرف گیا تو بہرام کی نیند اڑن چھو ہوگئی۔۔۔ وہ کمرے میں موجود نہیں تھی کیا وہ ابھی تک رات سے ٹیرس میں کھڑی تھی بہرام بیڈ سے اٹھ کر جلدی سے باہر ٹیرس میں آیا حرم اُسی پوزیشن میں کھڑی سردی کے باعث بری طرح کانپ رہی تھی رات برسنے والی بارش کی وجہ سے اُس کے کپڑے بھی نم ہوچکے تھے۔۔۔ پتلی سی شرٹ میں اُس کو بری طرح کانپتا ہوا دیکھ کر بہرام کو پشیمانی نے آ گھیرا۔۔۔ کیا وہ رات سے اِسی طرح کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ بہرام کو رات میں اپنے سونے پر افسوس ہوا وہ اسے کمرے میں بلاۓ بغیر ہی سوگیا

"تم رات ہی یہاں کھڑی ہو کمرے میں کیوں نہیں آئی تم" 

بہرام اپنی شرمندگی چھپاۓ الٹا حرم کو ڈانٹتا ہوا اُس سے پوچھا لگا اُسے اپنی غلطی کا احساس تو تھا مگر وہ اپنی غلطی اِس لڑکی کے سامنے ماننے کے موڈ میں نہیں تھا

"کیسے آجاتی آپ نے کہا تھا اگر میں یہاں سے ہلی تو آپ مجھے اٹھا کر نیچے پھینک دیں گے اتنی اونچائی سے ڈر لگتا ہے مجھے" 

بولتے ہوئے حرم کے نیلے پڑتے ہونٹ بھی کانپ رہے تھے بہرام کو اُس کی حالت پر ترس آگیا وہ نرم پڑتا ہوا بولا

"چلو اب کمرے میں آجاؤ یہاں بہت ٹھنڈ ہے" 

بہرام نے بولتے ہوئے اگے بڑھ کر نرمی سے حرم کا ہاتھ پکڑا جو یخ برف ہورہا تھا

"واقعی ٹھنڈ بہت شدید ہے مجھے لگ رہا ہے تھوڑی دیر اور گزرتی تو میں ٹھنڈ سے مر جاتی" 

بہرام نے اُس کا ہاتھ پکڑا تو حرام کو ذرا سی گرمائش کا احساس ہوا جیسے اُس کے وجود پر پڑی برف ہلکی سی پگھلی ہوں لیکن ٹھنڈ اور بارش نے مل کر اُس کے حواس اتنے سلب کردیے تھے حرم نے اندر کمرے میں جانے کے لیے اپنے قدم بڑھائے تو وہ بےہوش ہوکر نیچے گرنے لگی مگر اِس سے پہلے بہرام نے اُسے اپنے مضبوط حصار میں لے لیا

"کیا ہوا تمہیں لڑکی۔۔۔ آنکھیں کھولو" 

بہرام حرم کے اچانک بےہوش ہونے پر بوکھلا گیا اپنا ایک بازو اُس کے گرد لپیٹا وہ حرم کو سینے سے لگائے اپنے دوسرے ہاتھ سے حرم کا گال تھپتھپانے لگا۔۔۔ 

حرم کے کپڑے اچھے خاصے نم تھے اور جسم بالکل ہی سر پڑا ہوا تھا بہرام اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ روم میں لے آیا

حرم کو اس حالت میں دیکھ کر اسے بےہوش دیکھ کر بہرام کو اچھی خاصی ندامت نے آگھیرا

"حرم پلیز اپنی آنکھیں کھولو" 

بیڈ پر حرم کو لٹانے کے بعد وہ ایک بار پھر بہرام اُس کے چہرے پر جھکتا ہوا بولا مگر حرم بےسود آنکھیں بند کیے لیٹی رہی۔۔ بہرام وارڈروب سے حرم کے کپڑے نکال کر لے آیا۔۔۔ اُس کے نم کپڑے بدن سے الگ کرتے وقت بھی وہ بےسود آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹی تھی اُس کا جسم برف کی مانند ٹھنڈا پڑا ہوا تھا بہرام اتنی جلدی ایسا کرنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا تھا اِس کے باوجود وہ اُس کے جسم کو گرمائش فراہم کرنے کے لیے اپنی شرٹ اتارنے لگا

وہ حرم کے بےہوش وجود پر مکمل جھکا ہوا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے حرم کے دونوں ہاتھوں کی  ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو سہلانے لگا۔۔۔ یہی عمل وہ اپنے پاؤں سے حرم کے پاؤں کو سہلاتے ہوئے کررہا تھا جس سے حرم کے ٹھنڈے پڑے وجود کو گرمائش ملے۔۔۔ 

حرم کو گرمائش دینے کے چکر میں اُس کے اپنے جذبات بہکنے لگے حواس پر عجیب سا نشہ طاری ہونے لگا جس کے سبب وہ حرم کی گردن پر جھکتا ہوا اپنے ہونٹ حرم کی گردن پر رکھ چکا تھا اُس کی گردن کو اپنے ہونٹوں سے مس کرتا ہوا وہ مزید نیچے جھکا۔۔۔ اُس کے جسم کی نرماہٹ کو محسوس کرتا وہ اُسکے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا۔۔۔ 

بہرام کے جذبات مکمل طور پر اُس کے دل و دماغ پر حاوی ہوچکے تھے تب اُس نے حرم کے بےہوش وجود میں ہلکی سی جنبش محسوس کی۔۔۔ وہ اپنی کلائیوں کو بہرام کے ہاتھوں سے آزاد کروانے کے لیے بےہوشی میں ہی احتجاج کرنے لگی تھی جس پر بہرام حرم کی پکڑی ہوئی کلائیوں کو چھوڑتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کو اُس کے بازو پر پھیرتا ہوا حرم کے کندھے سے نیچے لایا جبکہ خود وہ اُس کے پیٹ اوپر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا مکمل طور پر احساس سے بےگانہ ہوچکا تھا،، یہ وجود اِس وقت شاید بہرام کی طلب بن چکا تھا

"بہر۔۔ا ۔۔م"

حرم کی آواز پر وہ اٹھتا ہوا حرم کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔ حرم کی آنکھیں بھی بند تھی لیکن وہ بےہوشی میں بھی بہرام کے لمس کو محسوس کرکے بےچین ہورہی تھی بہرام نے ایک بار پھر حرم کی دونوں کلائیوں کو تھاما اور مکمل استحقاق سے حرم کے ہونٹوں پر جھکا۔۔۔۔ اُس کی سانسیں اپنی سانسوں میں منتقل کرتا ہوا وہ مزید بہکنے لگا۔۔۔ مدہوشی سے اُس کی اپنی آنکھیں بند ہونے لگی 

اچانک بند آنکھوں کے سامنے جیسے ہی اینجل کا خون سے بھرا ہوا چہرہ اسے دکھائی دیا جو مکرو مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے مسکرا رہی تھی ویسے ہی بہرام نے حرم کی کلائیوں کو آزاد کیا اور جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔۔۔ گہری سانس بھرتے ہوئے وہ حرم کا چہرہ دیکھنے لگا

"یہ تمہارا چہرہ کبھی کبھی مجھے جس اذیت میں مبتلا کردیتا ہے تم نہیں جانتی تم کبھی بھی نہیں جان سکوں گی" 

بہرام اُس پر کمفرٹر ڈالتا ہوا خود اپنی شرٹ پہننے لگا 

اُس کا دماغ بار بار اُسے سمجھا رہا تھا یہ وہ نہیں ہے جس نے تمہارے ساتھ دھوکہ کیا۔۔۔ یہ لڑکی معصوم ہے بے قصور ہے مگر وہ اپنی سوچوں کی نفی کرتا ہوا خود کمرے سے نکل کر ٹیرس میں چلا گیا

******

"کیا میرے بغیر یہ معاملات حل نہیں ہوسکتے اگر اتنا ہی ضروری ہے تو یہ فائل مجھے میرے فلیٹ تک پہنچا دو،،،، اور پہلی فرصت میں زلفی اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف پرچہ کاٹو اس معاملے میں کسی کے بھی ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی اور رعایت نہیں ہونی چاہیے مہران۔۔۔۔ اور جو کل میں نے تمہیں موبائل نمبر سینڈ کیا تھا فوراً مجھے اُس کی تمام تفصیلات دو"

حرم نے آہستگی سے اپنی آنکھیں کھولیں تو اُس نے بہرام کو کمرے میں چکر لگاتے اور موبائل پر باتیں کرتے ہوئے دیکھا وہ خود بھی حرم کو بیدار ہوتا دیکھ چکا تھا اِس لیے موبائل پر رابطہ منقطع کرتا ہوا بیڈ کے دائیں جانب صوفے پر آکر بیٹھ گیا اُس کی نظریں حرم کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں حرم کی آنکھ میں ڈھیر ساری شکایتیں تھی بہرام جن کی وضاحت دیتا ہوا بولا

"مجھے خبر ہی نہیں ہوئی کب میری آنکھ لگ گئی تھی مگر تم نے بھی تو بےوقوفی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اتنی دیر تک سردی میں فضول ہی کھڑی رہی خود کمرے میں آکر مجھے چیک کرلیتی"

وہ سارا معاملہ اُس کی بیوقوفی کے سر کرتا ہوا خود کو بری الذمہ ٹہرانے لگا۔۔۔ جس پر حرم کو شدید غصہ آیا وہ اپنا غصہ پیتی ہوئی اٹھ کر بیٹھنے لگی تو بہرام اپنی جگہ سے اٹھ کر حرم کے پاس آتا ہوا اس کا تکیہ درست کرتا ہوا بیٹھنے میں اُس کو مدد دینے لگا تو حرم کی نظریں اپنے کپڑوں پر پڑی وہ پوری آنکھیں پھاڑ کر اپنے کپڑوں کے بعد بہرام کو دیکھنے لگی۔۔۔ بہرام اُس کے چہرے کے تاثرات سے جان گیا اِس لئے بیڈ پر حرم کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا

"تمہارا پورا لباس نم تھا اِس لئے مجھے تمہارا دوسرا لباس تبدیل کرنا پڑا ایسا کرنا اِس لئے ضروری تاکہ تمہیں سردی نہ پکڑے"

بہرام اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا جو بخار اور شرم کی حدت سے سرخ ہوچکا تھا۔۔۔ 

کیا صرف اُس کے شوہر نے اُس کا لباس تبدیل کیا تھا یا کچھ اور بھی۔۔۔ حرم اپنے ذہن پر زور ڈالنے لگے پھر اُسے مزید کچھ کچھ یاد آیا حرم کو مزید شرمندگی نے گھیرے میں لےلیا۔۔۔ بہرام حرم کے سامنے بیٹھا اُس کے چہرے کے ایک ایک تاثُر کو دیکھنے لگا جو اُسے صاف پتہ دے رہے تھے وہ اِس وقت کیا سوچ رہی ہے۔۔۔ بہرام نے آہستگی سے حرم کی گود میں رکھا ہوا اس کا ہاتھ تھاما جو اب ٹھنڈا نہیں تھا بلکہ بخار کی حدت سے بری طرح جل رہا تھا

"ویسا کرنا بھی ضروری تھا میرا مطلب ہے تمہاری کنڈیشن کو دیکھ کر مجھے لگا کہ۔۔۔

بہرام مزید وضاحت دیتا ہوا بولا مگر اُس نے اپنی بات ادھوری چھوڑی حرم نے شکوہ بھری نظر بہرام پر ڈال کر اُس سے اپنا ہاتھ چھڑالیا

"اگر تم سمجھ رہی ہو میں نے تمہاری بےہوشی کا فائدہ اٹھایا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔ اب ویسا بھی کچھ نہیں ہوا"

بہرام کی بات پر مذید حرم کا چہرا سرخ ہوا

"آپ مجھے میرے چچا کے ہاں چھوڑ آۓ"

حرم سے بہت مشکل سے بولا گیا اُس کا گلہ بیٹھ چکا تھا اور آواز بھاری ہوچکی تھی

"کس لیے جانا ہے تمہیں اپنے چچا کے گھر؟؟ جیاء کی صبح سے اب تک تین بار کال آچکی ہے۔۔۔ تمہاری طبعیت کا سن کر اُس نے مجھے اب تک کتنی باتیں سنا ڈالی، تمہاری خاطر آج میں پولیس اسٹیشن نہیں گیا صرف تمہارے لیے صبح سے یہاں موجود ہوں۔۔۔ اور تمہیں اپنے چچا کے ہاں جانا ہے،، خاموشی سے یہی رہو۔۔۔ ویجیٹبل سوپ میں نے تمہارے لیے خود بنایا ہے لےکر آرہا ہوں اُسے پینے کے بعد میڈیسن دوگا پھر تم جیاء سے بات کرلینا تاکہ اُسے بھی تمہاری آواز سن کر تسلی ہوجاۓ"

بہرام اس سے دوستانہ لہجے میں بات کرتا ہوا بولا شاید اِس طرح وہ اپنے اندر کا گلٹ ختم کررہا تھا

"نہیں۔۔۔ نہ ہی مجھے سوپ پینا ہے نہ ہی کوئی میڈیسن لینی ہے۔۔۔ مجھے صرف اپنے چچا کے گھر جانا ہے"

وہ بہرام کا کل رات کا رویہ یاد کرتی ہوئی اُس کے دوستانہ لہجے کو خاطر میں نہ لاتی ہوئی دوبارہ بولی تو حرم کی بات سن کر بہرام کے ماتھے پر بل پڑا

"کیا تم نے اپنے چچا کے گھر جانے کی رٹ لگا رکھی ہے،، جو تمہاری اُس گھر میں حیثیت ہے۔۔۔ اُس سے اچھی طرح واقف ہوگیا ہوں میں ولیمے والے دن تمہاری چچی کی باتیں سن کر۔۔۔ اپنے سر سے بوجھ اُترجانے پر وہ کیسے شکر ادا کررہی تھی"

بہرام سخت لہجے میں کہتا ہوا بیڈ سے اٹھا

"آپ کی نظر میں جو میری حیثیت ہے اُس کا اندازہ بھی مجھے کل رات اچھی طرح ہوگیا ہے۔۔۔ بلکہ کل رات سے ہی کیوں آپ نے تو شروع دن سے ہی مجھ پر میری حیثیت واضح کردی تھی"

حرم زرد چہرے اور نم آنکھوں سے بہرام کو دیکھتی ہوئی بولی تو ایک پل کے لیے بہرام اُس کی بات پر لاجواب ہوگیا

"مانا کہ نزہت چچی زبان کی تلخ ہیں مگر دل کی اتنی بھی بری نہیں۔۔ ہاں تھوڑی بےحس ہیں اپنے لفظوں سے کبھی کبھی دل دکھا جاتی ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہوتا لیکن آپ۔۔۔ آپ تو پورے کے پورے بےرحم ہیں دل کو دکھانے کے ساتھ ساتھ آپ دل توڑنے کے فن سے بھی واقف ہیں اور یہ کام آپ نہایت خوبصورتی سے انجام دیتے ہیں"

حرم اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے ساتھ مزید آنسو بہاتی ہوئی دل کا غبار بھی نکالنے لگی تو بہرام چپ کرکے کھڑا ہوا اُسے آنسو بہاتا ہوا دیکھنے لگا۔۔۔ حرم اپنی آنکھوں سے آنسو پوچھتی ہوئی مزید بولی

"اَمّی اَبُو کے دنیا سے چلے جانے کے بعد معلوم ہوا اصل دنیا کیا ہے۔۔۔ رشتوں کی اصل حقیقت کا بھی آپ کو تبھی پتہ چلتا ہے جب آپ کے ماں بات دنیا میں نہیں رہتے مگر شوہر اور بیوی کے رشتے سے بالکل انجان تھی میں۔۔۔ اپنے اَبوّ اَمّی کو خالا خالو کو چچاچچی کو ہمیشہ ایک دوسرے کی عزت کرتے اور قدر کرتے دیکھ کر یہی ذہن میں آتا یہ رشتہ کافی معتبر ہوتا ہے۔۔۔۔ مگر آپ سے شادی کے بعد آپ نے مجھے اِس رشتے کی اصل حقیقت بتادی۔۔۔ عزت اور قدر تو بہت دور کی بات آپ نے تو ذرا لحاظ نہیں ہے پوری رات میں بارش اور سردی میں آپ کے خوف سے کھڑی رہی۔۔۔ اِس طرح کا سلوک تو کبھی نزہت چچی نے بھی نہیں کیا میرے ساتھ"

بولتے بولتے اُس کا گلا دکھنے لگا رونے میں شدت سے اندازہ ہوا تو بہرام نے حرم کی طرف اپنے قدم بڑھا کر بےاختیار اُسے باہوں میں لیا

"سوری رئیلی سوری۔۔۔ کل رات جو ہوا وہ میرے غُصّے کا عمل تھا۔۔۔۔ آئی پرامس میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ تم ساری رات باہر سردی میں کھڑی رہتی"

بہرام بیڈ پر بیٹھی ہوئی حرم کو باہوں میں بھر کر اُس سے معذرت کرنے لگا جو رونے کے ساتھ ساتھ اُس کی بازؤوں میں اب سسک بھی رہی تھی

"کیوں اندر لےکر آۓ آپ مجھے۔۔۔ نفرت ہے ناں آپ کو میرے چہرے سے تو وہی سردی میں مرجانے دیا ہوتا" 

وہ سِسکتی ہوئی بولی تو بہرام نے اُسے مزید اپنے بازؤوں میں بھرلیا

"اچھا رو مت خاموش ہوجاؤ پہلے ہی بخار ہو رہا ہے اپنے چچا کے گھر جانا چاہتی ہو، کل تک طبعیت میں بہتری آۓ گی تو میں تمہیں تمھارے چچا کے گھر چھوڑ جاؤ آؤ گا"

بہرام اُس کو بہلاتا ہوا بولا

"چچا کے گھر جانے سے پہلے میں قبرستان جانا چاہتی ہوں اَبُو اَمّی یاد آرہے ہیں بہت"

حرم اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی اُس کے حصار سے نکلتی ہوئی بولی تو بہرام اُس کا چہرا دیکھتا ہوا بولا

"ٹھیک ہے جہاں بولو گی وہی لے جاؤ گا۔۔۔ اب رو مت۔۔۔ میں سوپ لے کر آتا ہوں تمہارے لیے"

بہرام اُس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا اور کمرے سے باہر نکل گیا

*****

"ہاں بولوں خیریت ہے کیسے کال کی"

دو منٹ پہلے ہی وہ سینٹرل جیل سے پولیس اسٹیشن آکر بیٹھا تھا تبھی اُس کے موبائل کی اسکرین پر حرم کا نمبر جگمگانے لگا بہرام مصروف انداز میں کال ریسیو کرتا ہوا بولا

"شاید آپ ابھی بزی ہیں میں بعد میں کال کرلیتی ہوں"

کال کرتے وقت بھی حرم یہی سوچ رہی تھی کہ بہرام اِس وقت بزی نہ ہو مگر اُس کے انداز سے لگ رہا تھا وہ واقعی بزی تھا اس لئے حرم بولتی ہوئی کال کاٹنے لگی

"بزی تو ہوں مگر اتنا بھی نہیں، تم بات کرنا چاہ رہی ہو تو تمہارے لیے وقت نکال سکتا ہوں۔۔۔ ہاں اگر آدھا گھنٹہ پہلے تم فون کرتی تو شاید پھر میں تم سے بات نہیں کرپاتا"

بہرام نے بولتے ہوئے گویا اُس پر احسان جتاتے ہوۓ اُسے خود سے بات کرنے پر پرمیشن دی

"صرف میرے اکیلے کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے میں کال رکھ رہی ہو"

حرم بےدلی سے شکوہ کرتی ہوئی بولی 

بہرام پرسوں صبح اُسے اُس کے چچا کے گھر چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ دو دن سے اُس نے نہ تو بہرام کا چہرہ دیکھا نہ آواز سنی۔۔۔ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے باوجود اُسے بار بار بہرام کا خیال آرہا تھا اِس لئے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُس نے بہرام کو کال ملائی تھی مگر کال ملاتے وقت وہ یہی سوچ رہی تھی کہ نہ جانے اِن دو دنوں میں بہرام نے اُس کو یاد بھی کیا تھا یا کہ نہیں۔۔۔ مگر بہرام کی بےنیازی دیکھ کر اُس کا دل اداس ہوگیا

"تمہاری چاہت تمہاری مرضی ہے تو میٹر کرتی ہے ہمارے رشتے میں لڑکی"

اُسے اسپیکر سے بہرام کی آواز سنائی دی تو حرم اپنے موبائل کو گھورنے لگی پھر کان سے لگاکر بولی

"اِس بات کا مطلب"

اُس کی بات حرم کے سر سے گزر گئی تھی اِس وجہ سے حرم بہرام سے اُس کی بات کا مطلب پوچھنے لگی

"تمہیں اگر مطلب کی باتیں سمجھانے پر آگیا تو سارا وقت میرا اِسی چکر میں گزر جائے گا اور مطلب کی باتیں تب بھی تمہارے سمجھ میں نہیں آئے گیں، اِس لئے میرے "مطلب" کی باتوں کو اتنا سنجیدہ مت لیا کرو بس خوش رہا کرو"

بہرام کی بات پر وہ پھر سے اچھی خاصی کنفیوز ہوچکی تھی اِس لیے بولی

"بہت مشکل باتیں کرتے ہیں آپ، میرا ننھا سا ذہن آپ کی باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہے"

حرم بےچارگی سے بولی تو اُسے بہرام کے مسکرانے کی آواز سنائی دی

"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ساری باتیں خود ہی سمجھ جاتا ہے پریشان مت ہوا کرو یہ بتاؤ کیا کر رہی تھی، اور یہ تمہاری آواز کیوں اتنی خراب ہورہی ہے کیا فلو ہوگیا ہے تمہیں"

بہرام کے یوں اچانک پوچھنے پر حرم دنگ رہ گئی وہ کتنے آرام سے جان گیا تھا اُس کو فلو ہوگیا تھا۔۔۔ اب حرم اُس کو کیا بتاتی اُس کی آمد پر نزہت چچی نے دھونے والے کپڑوں کا ڈھیر جمع کرکے رکھا تھا اُس نے کل بھی کپڑے دھوئے تھے اور آج بھی بیڈ شیٹز اور تکیوں کے غلاف اور کشنز کے لئے کے لئے مشین لگائی تھی جس کی وجہ سے اُس کو فلو ہوچکا تھا

"موسمی نزلہ زکام تو چلتا رہتا ہے خود ہی ٹھیک ہوجائے گا یہ بتائیں آدھے گھنٹے پہلے آپ کیا کررہے تھے کہاں بزی تھے"

حرم نے بہرام کی توجہ اپنے زکام سے ہٹانے کی غرض سے اُس سے سوال پوچھ لیا

"سینٹرل جیل گیا تھا دو قیدیوں نے پچھلے 10 دن سے جیل کا ماحول کافی زیادہ خراب کیا ہوا تھا، ان دونوں کو سمجھاکر آرہا ہوں کہ جیل میں کس قاعدے سے انہیں رہنا ہے"

بہرام ریلیکس انداز میں حرم سے بات کررہا تھا تو حولدار کے آنے پر بہرام نے حرم کو ہولڈ کے لئے بولا

"اے سی پی صاحب جن دو قیدیوں کی آپ تھوڑی دیر پہلے مرمت کرکے آرہے ہیں ان میں سے ایک قیدی کے ہاتھ کی ہڈی مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے دوسرے کے سر سے ہونے والی بلیڈنگ نہیں رک رہی ہے۔۔۔ انسپکٹر مہران کہہ رہے ہیں کہ اُن دونوں کو اسپتال لے جانا ضروری ہے آپ کی پرمیشن چاہیے جی اِس پرچے پر سائن کردیں آپ"

حوالدار کی آواز حرم کے کانوں میں پڑی تو خوف کے مارے اُس کی ریڑھ کی ہڈی سنسنانے لگی

"ہیلو۔۔۔ کیا ہوا کیا تم سو تو نہیں گئی"

بہرام نے پرچے پر سائن کرنے کے بعد دوبارہ حرم کو مخاطب کیا

"کیا آپ کو اُن دونوں کو مارتے وقت اُن پر بالکل ترس نہیں آیا۔۔۔ مطلب آپ ایک آدمی کی ہڈی توڑ کر اور دوسرے آدمی کا سر کھول کر آرہے ہیں اور مجھے اِس وقت کس قدر ریلکس موڈ میں بات کررہے ہیں"

حرم افسوس کرتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی

"میرا پیشہ مجھے ایسے لوگوں پر ترس کھانے کی اجازت نہیں دیتا"

وہ حرم کو عام سے انداز میں سمجھاتا ہوا بولا

"جبھی تو میں آپ کو بالکل صحیح بےرحم بولتی ہوں"

بےساختہ حرم کے منہ سے نکلا تو دونوں طرف موبائل پر خاموشی چھاگئی جسے چند سیکنڈ بات بہرام کی آواز نے توڑا

"کیا میں تمہارے لئے بھی بےرحم ثابت ہوا ہوں"

بہرام خاموشی توڑنا ہوا حرم سے پوچھنے لگا

"یہ بات تو آپ کبھی خود اپنے آپ سے تنہائی میں پوچھیے گا آپ کو جواب مل جائے گا اپنے سوال کا"

حرم کے بولنے پر وہ بےساختہ بولا

"تو تم چاہتی ہو کہ میں تنہائی میں تمہاری ذات کے متعلق سوچوں اور تمہیں سوچتے سوچتے مجھے تم سے محبت ہوجائے" 

بہرام کے پوچھنے پر حرم ایک دم بولی

"اگر میں آپ سے بولوں ہاں،، تو کیا آپ تنہائی میں مجھے سوچیں گے مجھ سے محبت کریں گے بہرام"

معلوم نہیں موبائل پر کیسے حرم اُس سے یہ بات پوچھ بیٹھی روبرو تو وہ بہرام کے سامنے ایسا کچھ بولتے ہوئے بھی لاکھ بار سوچتی

"گھر واپس کب آنا ہے تمہیں"

اپنی بات کے جواب میں وہ بہرام کی بات سن کر اداسی سے مسکرائی

"یاد تو میری بالکل بھی نہیں آئی ہوگی آپ کو تو پھر واپس گھر آنے کا کیوں پوچھ رہے ہیں"

حرم کی بات سن کر وہ ایک بار پھر ضبط سے لب بھینچ گیا

"میرا ٹف اور بزی شیڈول تمہیں یاد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ کل ڈرائیور بھیج دوں گا اُس کے ساتھ واپس آجانا"

بہرام جیسے بات کو نبھٹاتا ہوا سپاٹ لہجے میں بولا

"ٹھیک ہے میں واپس آجاتی ہوں لیکن ڈرائیور کو مت بھیجیں آپ خود مجھے کل شام میں لینے کے لیے آجائیں۔۔۔ دراصل چچا جان چاہ رہے تھے کل رات کا ڈنر آپ یہی پر کریں"

وہ چاہ کر بھی اس کی طرح کا لہجہ نہیں اپنا سکی اور اپنے چچا کا مسیج دیتی ہوئی بہرام سے بولی

"کھانے والے کا چکر پالنے کی ضرورت نہیں ہے میں بالکل بھی نہیں آسکوں گا تم خود اپنے چچا چچی کو سمجھا دینا۔۔۔۔ اِس طرح کی ڈنر پارٹیز کا میں عادی نہیں ڈرائیور تمہیں شام میں لینے آجائے گا تو اُس کے ساتھ گھر آجانا"

بہرام نے بولتے ہوئے آگے سے حرم کی بات سننے کی زحمت نہیں کی اور کال کاٹ دی۔۔۔ 

بہرام کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اپنے رویے، باتوں اور لہجے سے اُس کے معصوم دل کو دوبارہ توڑ چکا تھا۔۔ مگر وہ بھی کیا کرتا آخر وہ کیو چاہ رہی تھی کہ وہ اُس کو سوچے اُس سے محبت کرے۔۔۔۔ آخر کیسے وہ اتنی وہ خود کو اپنے دل کو اُس سے محبت کرنے کے لیے آمادہ کرلیتا۔۔۔۔ بہرام نہ چاہنے کے باوجود حرم کو سوچنے لگا پھر اپنی سوچوں کو جھٹک کر لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔ تو اُس کے موبائل پر حرم کا ٹیکس آیا جسے ناچاہتے ہوۓ بھی وہ پڑھنے لگا

"آپ نے خود ہی مجھ سے کہا تھا میری چاہت میری مرضی میٹر کرتی ہے تو پھر کیوں اپنی بات سے خود ہی مُکر رہے ہیں۔۔۔۔ میں نے تو آپ کو اپنی مرضی بتادی کہ میں آپ سے آپ کی محبت چاہتی ہوں۔۔۔ مگر شاید آپ دوبارہ محبت کرنے سے ڈرتے ہیں۔۔۔ اِس کے بعد اب میں آپ سے کچھ نہیں بولوں گی کیوکہ آج آپ نے بتادیا ہے میری بےضرر سی ذات آپ کے سامنے اتنی بھی معنی نہیں رکھتی کہ میں آپ سے کچھ منوا سکو۔۔۔ آخری بات کل آپ کو اپنا ڈرائیور بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے میں چچا کے ساتھ خود آجاؤ گی"

ۂم چھین لیں گیں تم سے یہ شانِ بےنیازی۔۔۔

تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے۔۔۔

حرم کا میسج پڑھنے کے بعد بہرام نے اپنا موبائل ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔ چاہنے کے باوجود اُس کا کسی دوسرا کام میں دل نہیں لگ سکا صرف ایک بےضرر سی ذات کو سوچنے کے سوا

******

"سر آپ کے آرڈر پر ایس پی بہرام عباسی کی بیوی کے بارے میں تمام معلومات بمعہ اُس کی تصویر کے ساتھ اکٹھا کرکے آپ کے پاس لےکر آیا ہوں"

یعقوب نیازی کے آدمی نے بولنے کے ساتھ خاکی رنگ لفافہ یعقوب نیازی کو تھمایا تو یعقوب نیازی اس میں سے تصویر نکال کر دیکھنے لگا جسے دیکھ کر اس کا اچھا خاصا موڈ خراب ہوا

"ایک تو تم نئے آنے والوں کا یہی مسئلہ ہے کوئی کام تم لوگ ڈھنگ سے نہیں کر سکتے یہ ای سی پی کی دوسری بیوی کی نہیں  ہے بلکہ پہلی بیوی کی تصویریں ہیں جو دو ماہ پہلے مر چکی ہے"

یعقوب نیازی نے اپنے آدمی کو جھڑکتے ہوئے کہا اور غُصے میں ہاتھ میں موجود تصویریں بھی فرش پر پھینک دیں اُسے بھلا اِس مری ہوئی لڑکی میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی جو اس دنیا میں موجود نہیں تھی اُسے تو اے سی پی کی نئی بیوی چاہیے تھی وہ بھی اپنے بستر پر،، تاکہ وہ بہرام عباسی کو اذیت میں دیکھ سکے اور ساتھ ہی اپنے بھائی کا بھی اُس سے پتہ لگا سکے

"سر یہ لڑکی کیسے مر سکتی ہے میں نے دو دن پہلے ہی اسے اے سی پی بہرام کے ساتھ اُس کی گاڑی میں دیکھا ہے۔۔۔ یہ اے سی پی کی پہلی نہیں دوسری بیوی ہے معاف کیجئیے گا آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی یہ دیکھیے میں اِس لڑکی کی پوری معلومات لےکر آیا ہوں"

یعقوب نیازی کا آدمی اپنے موبائل میں جمع معلومات یعقوب نیازی کو بتانے لگا جس پر یعقوب نیازی حیرت میں ڈوب گیا

"ایک ہی شکل کی دو لڑکیاں اور دونوں ہی اے سی پی کی بیویاں۔۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے اب تو اس معاملے کی تہہ تک جانا ہوگا  ایسا کرو جتنی جلدی ہو سکے موقع ملتے ہیں اِس کی بیوی کو اُٹھا کر میرے فارم ہاؤس پر لے آؤ"

یعقوب نیازی اپنے آدمی کو حکم دیتا ہوا اُسے واپس کانے کا اشارہ کرنے لگا۔۔۔ کیوکہ اُس کی بیوی اسکے دونوں بچوں کے ساتھ واپس گھر آنے والی تھی  اور وہ اپنے بچوں سمیت اپنی بیوی کو اپنے کسی بھی برے کارناموں کی بھنک بھی نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا

*****

اسے ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ بہرام دوسرے دن اس کے چچا کے گھر آجائے گا وہ بہرام کی یوں اچانک آمد پر بےحد خوش تھی بہرام اُس کو خوش دیکھ کر مسکرادیا اپنے سسرال میں آج اُس کی پہلی بار آمد ہوئی تھی اِس لیے حرم کے چچا اور چچی نے اُس کا بھرپور طریقے سے استقبال کیا۔۔۔ حرم کی خوشی اُس کے چہرے سے چھلک رہی تھی بہرام صوفے پر بیٹھا اُس کے چچا اور چچی سے باتیں کررہا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد اُس کی نظر حرم پر اٹھتی تب حرم کو احساس ہوا اُس نے ابھی تک کپڑے تبدیل نہیں کیے تھے۔۔۔ آج اس کے چچا چچی نے کھانے پر بہرام کے علاوہ اپنے داماد اور بیٹی یعنی اسجد اور نگی کو بھی بلایا تھا اِس لئے حرم صبح سے ہی گھر کی صفائی اور کھانے بنانے کے چکروں میں خوار ہورہی تھی

اس نے سرسری سے انداز میں یہ بات پہلے ہی چچا چچی کے کانوں میں ڈال دی تھی کہ وہ دونوں بہرام کے سامنے اسجد سے اُس کی مگنی والی بات سے گریز کریں ویسے بھی اُس کے چچا چچی ایسے باتوں اور معاملوں کی اونچ نیچ کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اُس کو مکمل یقین تھا وہ دونوں ہی بہرام کے سامنے ایسی کوئی بات نہیں کریں گے جو بگاڑ کا سبب بنے بےشک اُن دونوں کو اس سے محبت یا لگاؤ اُس نوعیت کا نہ ہو مگر وہ دونوں نہیں چاہتے ہوگے کہ اس کے اور بہرام کے بیچ تعلقات خراب ہو۔۔۔ حرم وہاں سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں آگئی تاکہ کپڑے چینج کرکے اپنا حلیہ درست کرلے۔۔۔ وہ کپڑے تبدیل کرکے واش روم سے دوبارہ کمرے میں واپس آئی تو اس نے بہرام کو کمرے میں موجود پایا بیڈ پر رکھا ہوا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی وہ بہرام کو دیکھنے لگی

"شکریہ آپ نے میری بات کا مان رکھا اور آپ یہاں آگئے"

دوسری ساری باتوں کو نظر انداز کرکے وہ ہلکے انداز میں بہرام کا شکریہ ادا کرتی ہوئی بولی تو بہرام مسکرا کر چلتا ہوا حرم کے قریب آیا

"شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میری یہاں آمد کی وجہ یہی ہے کہ ایک لڑکی کو یہ بتانا ضروری تھا کے میں اُس کے معاملے میں اتنا بھی بےرحم نہیں ہوں جتنا وہ سمجھ بیٹھی ہے"

بہرام حرم کا چہرہ دیکھتا ہوا اُس سے بولا تو حرم بھی خاموشی سے بہرام کو دیکھنے لگی۔۔۔ اپنی بات مکمل کرنے پر بہرام نے حرم کا ہاتھ تھاما تو وہ حیرت ذدہ سی خواب کی کیفیت میں بہرام کو دیکھنے لگی

"میں اِس بات کو مانتا ہوں ہماری شادی کے پہلے دن سے میں نے جو رویہ تمہارے ساتھ رکھا بالکل غلط تھا۔۔۔ اپنے رویے سے میں تمہارا دل بہت زیادہ دکھا چکا ہوں۔۔ اگر تم اینجل کی ہم شکل نہیں ہوتی تو شاید حالات اِس سے مختلف ہوتے۔۔۔ اگر تم میری جگہ کھڑی ہوکر دیکھو تو شاید تم میری کیفیت پر غور کرسکو لیکن یہ بھی سچ ہے میرے لیئے تمہاری ذات بےضرر یا بےمعنی ہرگز نہیں کیونکہ تم ایک صاف دل کی لڑکی ہو۔۔۔ میں دل سے چاہتا ہوں کہ ہم دونوں کے بیچ سب ٹھیک ہوجائے، میں تم پر یقین کرنا چاہتا ہوں حرم۔۔۔۔ ایک حادثے نے میرے اندر ہزبنڈ اور وائف کے ریلیشن کو لےکر بہت زیادہ بےاعتباری بھر دی ہے۔۔۔ میں اِس بےاعتباری کو اپنے اندر سے ختم کرکے تمہارے ساتھ خوش حال زندگی گزارنا چاہتا ہوں مگر ایسا فوری طور پر تو ممکن نہیں، اپنے دل اور دماغ کو سمجھانے میں اور منانے میں مجھے تھوڑا وقت لگے گا۔۔۔۔ حرم تم مجھے تھوڑا سا وقت دوگی، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں ہم دونوں کے بیچ پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا"

کل شام حرم کی باتوں کو سوچ کر اور اُس کا میسج پڑھ کر۔۔۔۔ پھر کچھ بھی بہرام سے سوچا نہیں گیا وہ جس نتیجے پر پہنچا تھا اِس وقت حرم کے سامنے کھڑا سب اُس سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔ بہرام کے منہ سے ایسی باتیں سن کر حرم کو تو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ سب کچھ بہرام اُس سے کہہ رہا ہو حرم کو لگا کہ وہ ابھی اِس حسین خواب سے جاگ جائے گی

"آپ کے منہ سے میرا نام بہت اچھا لگتا ہے بہرام آپ مجھے اے لڑکی کہنے کی بجائے حرم ہی کہہ کر پکارا کریں مجھے بہت اچھا لگے گا" 

آج اُس کے شوہر نے اُس کا نام بھی تو اپنے منہ سے پہلی بار لیا تھا وہ خوش کیوں نہ ہوتی اُس کی ذات اسکے شوہر کے لیے معنٰی رکھتی تھی حرم مسکرا کر بہرام کو دیکھنے لگی۔۔۔ بہرام حرم کی بات سن کر خود بھی مسکرا دیا اور حرم بہرام کی مسکراہٹ کو غور سے دیکھنے لگی جو اُس کے چہرے پر کافی اچھی لگتی تھی۔۔ وہ حرم کا ہاتھ تھامے اُسے وہی ڈائمنڈ کے رینگ پہنانے لگا جو اُس نے منہ دکھائی میں دی تھی جس کو ڈبیا کھول کر حرم نے دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی بلکہ ویسے ہی دراز میں رکھ دی تھی آج وہ اپنے ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہوئی وہی ڈائمنڈ کی رینگ دیکھ کر بہت زیادہ خوش تھی

"تو تم یہاں اپنی طبعیت کو دیکھتے ہوۓ آرام کرنے کی بجاۓ کپڑے دھونے اور کھانا بنانے آئی تھی"

بہرام ہلکے انداز میں اُس پر طنز کرتا ہوا بولا جب تک وہ اُس کی چچی کے بعد بیٹھا رہا تھا تب وہ حرم کے گن کا کر پرسوں سے اُس کے کیے گئے سارے کاموں کا بتارہی تھیں۔۔۔ بہرام کی بات پر حرم گھور کر اسے دیکھنے لگی

"چچی اکیلا اتنا سب کچھ کیسے کرتی ہیں ان کی عمر تھوڑی رہی ہے یہ سب کام کرنے کی۔۔۔ اچھا آپ ایسا کریں ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھیں شاید نگی اور اسجد بھائی آچکے ہیں میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں"

باہر آوازوں سے محسوس ہورہا تھا کہ نگی اور اسجد آچکے تھے تبھی حرم بہرام سے بولی

"میرے یہاں سے جانے سے پہلے تو مجھے ویسے ہی شرما کر دکھاؤ جیسے تم مجھے دیکھ کر اکثر شرما جاتی ہوں"

بہرام کو چند دن پہلے وہ دن یاد آیا جب اُسے بغیر شرٹ کے دیکھ کر وہ شرما رہی تھی اس لئے اس نے مسکراتے ہوئے حرم سے فرمائش کر ڈالی

"ایسے کیسے خود سے کوئی شرما سکتا ہے آپ بھی عجیب سی بات کررہے ہیں"

بہرام کی بات پر حرم مزید آنکھیں پھیلاکر اُس سے ہنستی ہوئی بولی

"یہ بھی ٹھیک بولا تم نے کوئی بلاوجہ کیسے خود سے شرما سکتا ہے شرمانے کا کوئی جواز تو ہونا چاہیے"

بہرام نے بولتے ہوئے اچانک حرم کو تھام کر اُس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔۔ 

یوں اچانک بہرام کی کاروائی پر وہ بری طرح بوکھلا گئی کمرے کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا کوئی بھی اندر آسکتا تھا حرم نے سوچتے ہوئے بہرام کو پیچھے دھکیلنا چاہا مگر بہرام خود ہی پیچھے ہوا۔۔۔ حرم بہرام کی حرکت پر اُسے حیرت سے دیکھنے لگی، یہ آج بہرام نے اُس کے ساتھ کیا کیا تھا سوچتے ہوئے حرم کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا اور آہستہ آہستہ گلابی ہوتا سرخ پڑگیا بہرام بہت غور اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا حرم کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا

****

"کیسی ہو نگی" 

حرم تیار ہوکر ڈرائنگ روم میں آئی جہاں سبھی موجود باتیں کررہے تھے وہ اسجد کو سلام کرکے نگی کی طرف بڑھتی ہوئی اُس کا حال پوچھنے لگی

"تمہارے منگیتر سے شادی کرکے کیسی ہوسکتی ہو میں،، قسمت پھوٹ ہوچکی ہے میری"

نگی کی بات پر ڈرائیگروم میں سناٹا چھاگیا جہاں اس اسجد کے ساتھ چچا چچی بھی شرمندہ ہوۓ وہی نگی کی بات پر حرم سناٹے میں آگئی جبکہ بہرام کے چہرے پر ایک پل کے لیے حیرت کے تاثرات ابھریں جو آہستہ آہستہ غصے میں ڈھلنے لگے یہ انکشاف اُس کے لیے کسی شاک سے کم نہیں تھا کے اُس کی بیوی اپنے خالہ ذاد کی منگیتر رہ چکی ہے۔۔۔ حرم کے بارے میں سب معلومات کرواتے وقت بھی اتنی اہم بات اس کو معلوم نہیں ہوسکی تھی

"نگی تم ہوش میں تو وہ کیا اول فول بک رہی ہو"

کمرے میں ہوجانے والی خاموشی کو سب سے نزہت نے توڑا وہ نگی کے اِس طرح بولنے پر اُس کو سب کے سامنے ڈانٹتی ہوئی بولی

"مجھے کیوں ڈانٹ رہی ہیں دیکھا نہیں آپ نے اِس کو، کیسے خوش ہوکر مجھ سے میرا حال پوچھ رہی ہے جانتی نہیں ہوں میں اِس کی خوشی کی وجہ۔۔۔ مجھے ناخوش دیکھ کر یہ کس قدر خوش ہے" 

ایک بار پھر نگی نزہت کو دیکھ کر بولی تو نزہت نے اپنی بیٹی کی چلتی ہوئی زبان کو دیکھ کر اپنا سر پکڑلیا۔۔۔ اب اس کی زبان درازی سے صبیحہ بھی پریشان ہوچکی تھی او پچھتا رہی تھی کہ کیو اُس نے حرم کا رشتہ اپنے بیٹے سے ختم کرکے ایسی بد زبان لڑکی کو اپنی بہو بنالیا

"بہت ہوگیا نگی اب خاموش کرجاؤ"

اب کی بار اسجد خاموش نہیں رہا ہو وہ نگی کو آئستہ آواز میں سمجھاتا ہوا بولا۔۔۔ حرم صدمے کی کیفیت میں وہی بہرام کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ کے تاثرات دیکھ رہی تھی

"ہاں ہاں آپ کیوں نہیں بولے گیں اِس کی حمایت میں، ابھی تک اِس کے عشق کا بھوت جو نہیں اترا۔۔۔ اماں ابا میں نے آپ دونوں کو پہلے بھی منع کیا تھا جب یہ یہاں آیا کرے تو ہمہیں نہیں بلایا کریں۔۔۔ آپ پورا ایک وقت تک یہ شخص غمگین چہرہ لیے اِس کی یادوں کا سوگ بناتا رہے گا"

نگی جو نہ جانے کب سے بھری ہوئی بیٹھی تھی۔۔۔ آج پھٹتے ہوئے اُس نے حرم کے شوہر کا بھی لحاظ نہیں کیا۔۔۔ نگی کی بات پر اسجد بری طرح شمندہ ہوا۔۔۔ جبکہ بہرام کی بس ہوگئی وہ ایک دم صوفے سے اٹھا

"گھر چلو"

ناگوار تاثرات چہرے پر سجاۓ بہرام حرم کو دیکھ کر بولا۔۔۔ جبکہ چچا نے نگی کو بری طرح ڈاٹنا شروع کریا تھا۔۔۔ بہرام حرم کا انتظار کیے بغیر کمرے سے باہر نکل گیا

"بیٹا اِس کی بات کو محسوس مت کرنا میری بیٹی بہت کم عقل ہے" 

ماحول ایسا نہیں رہا تھا کوئی اُن دونوں کو روکتا۔۔ نزہت چچی کمرے سے نکل کر بہرام کے پیچھے آتی ہوئی بولیں مگر بہرام اُن کی بات کے جواب میں خاموشی سے گھر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔ حرم کے گاڑی میں بیٹھتے ہی بہرام نے گاڑی اسٹارٹ کردی

*****

کار ڈرائیو کرتے وقت حرم نے بس ایک بار نظر بہرام کے چہرے پر ڈالی اُس کے چہرے کے تاثرات کافی سخت اور پتھریلی تھے۔۔۔ جس کی وجہ سے حرم نے اُس سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔ فلیٹ کے اندر آنے کے بعد بہرام نے بیڈروم میں جانے کی بجائے دوسرے کمرے میں جاکر اندر سے دروازہ بند بند کرلیا جبکہ حرم بیڈروم میں آکر بیٹھ گئی

اس وقت گھڑی میں رات کے دو بج رہے تھے مگر بہرام ابھی تک دوسرے کمرے میں دروازہ بند کرکے بیٹھا تھا حرم ہمت کرتی ہوئی بیڈ روم سے اُٹھ کر بہرام کے پاس دوسرے کمرے میں گئی۔۔۔ حرم نے آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولا تو اُسے سامنے صوفے پر بہرام بیٹھا ہوا نظر آیا حرم آئستگی سے قدم اٹھاتی بہرام کے پاس چلتی آئی وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاکر آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔۔۔ کمرے میں کسی دوسرے کی موجودگی کے احساس سے بہرام نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے سامنے کھڑی حرم کو دیکھنے لگا

"سوئی نہیں تم ابھی تک جاؤ جاکر سو جاؤ"

بہرام اپنے سامنے خاموش کھڑی حرم کو دیکھ کر بولا۔۔۔ اس کا لہجہ کسی بھی احساس سے عاری تھا

"اور آپ یہاں بیٹھ کر میرے بارے میں الٹا سیدھا سوچتے رہیں گیں ساری رات"

حرم نرمی سے بولتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی جس پر بہرام کے ماتھے پر شکن ابھری

"اے لڑکی زیادہ زبان چلانے کی ضرورت نہیں ہے میرے سامنے، بولا ناں جاؤ یہاں سے جاکر سو جاؤ" 

بہرام کُھردرے لہجے میں اُس کو ڈانٹتا ہوا بولا تو اُس کے لہجے میں دوبارہ اجنبیت محسوس کرکے حرم کی آنکھیں نم ہونے لگی

"حرم سے دوبارہ لڑکی ہوگئی میں آپ کے لئے،، بس اتنا ہی کم اعتبار کیا آپ نے میری ذات پر بہرام"

حرم بولتی ہوئی چل کر مزید بہرام کے قریب آئی تو بہرام صوفے پر سیدھا ہوکر بیٹھا

"سمجھ میں نہیں آرہی تمہیں میری بات کیا بول رہا ہوں میں جاؤ یہاں سے"

بہرام دوبارہ اُس سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا تو حرم نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی

"یہی سوچ رہے ہوگے ناں آپ کہ دوسری شادی بھی آپ کی ایسی لڑکی سے ہوگئی۔۔۔ جو پہلے سے منگنی شدہ تھی۔۔۔ یقینناً اپنے منگیتر سے باتیں ملاقاتیں کرکے اب وہ آپ کے پلے سے باندھ گئی،،، جیسے اُس کا منگیتر اب تک اُس کو سوچتا ہے۔۔۔ ویسے شاید آپ کی بیوی کے دل میں بھی اپنے منگیتر کے خیالات آتے ہوگیں"

حرم کی بات بہرام سے برداشت کرنا مشکل ہوگئی جبھی وہ اُس کا نام پکار کر چیخ اٹھا

"میں تمہیں آخری بار بول رہا ہوں جاؤ یہاں"

بہرام کے غصے میں بولنے کی پرواہ کیے بغیر وہ بہرام کے سامنے نیچے فرش پر بیٹھ گئی

"اسجد بھائی سے اَمّی اَبّو نے میری منگنی تب کروائی تھی جب میں میٹرک میں تھی، شروع سے ہی انہیں اپنے کزن کے روپ میں دیکھا مگر منگنی کے بعد آہستہ آہستہ سوچ بدلنے لگی، اِس میں قصور میرا نہیں ایسا ہر عام انسان کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اِس کے باوجود میں نے کبھی خود کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔۔۔ نہ ہی حقیقتاً،، نہ ہی خیالات میں۔۔  کیوکہ منگنی کوئی مضبوط بندھن نہیں ہوتی۔۔۔ میری طرف سے گرہیز دیکھ کر اسجد بھائی نے بھی اپنے قدم آگے نہیں بڑھاۓ یوں سمجھ لیں ہمیشہ ہم دونوں کے درمیان عزت اور احترام کا رشتہ قائم رہا۔۔۔ منگنی سے پہلے بھی کبھی انہوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار میرے سامنے نہیں کیا تھا اور منگنی ہوجانے کے بعد بھی وہ ایک منگیتر کی بجاۓ کزن کی طرح ہی مجھ سے ملتے رہے۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان کبھی بھی تکلفانہ گفتگو نہیں ہوئی جیسے ہر منگیتر کے بیچ میں ہوتی ہے۔۔۔ پھر اچانک اَمّی اَبُو دونوں ہی مجھے چھوڑ کر چلے گئے تب چچا چچی مجھے اپنے ساتھ اپن گھر لے آئے اسجد بھائی یا خالہ میں کسی سے کوئی ایک بار مہینے میں مجھ سے ملنے آجاتا۔۔۔ لیکن پھر بیچ میں معلوم نہیں کیا ہوا،، نگی ناجانے کیسے اسجد بھائی کو پسند کرنے لگی میں نگی کے خیالات جان کر ڈر گئی، ماں باپ تو میرے پاس تھے ہی نہیں صرف ماں باپ کا تہہ کیا رشتہ تھا میرا بہت غصہ آیا نگی کی سوچ پر۔۔۔۔ لیکن جب نزہت چچی نے میرے سامنے رو کر یہ کہا کہ اسجد کے سامنے میں خود اپنے منہ سے اِس رشتے سے منع کردو تو میرا بہت دل دکھا۔۔۔ مگر چچا چچی کے احسان یاد آگیا، جو انہوں نے مجھ بےسہارا کو اپنے گھر رکھکر کیا تھا۔۔۔ وہ اپنے اِس احسان کا بدلہ اسجد بھائی سے رشتہ ختم کرنے کی صورت سے چاہتی تھی پھر مجھے ایسا کرنا پڑا۔۔۔ رشتہ ختم ہونے پر میں نے خود کو بہت اکیلا محسوس کیا۔۔۔ اَمّی اَبُو بھی اُس دن بہت یاد آئے۔۔۔ مگر اسجد بھائی بھائی سے دلی وابستگی کی اِس حد تک نہیں تھی کہ میں تاعمر اِس منگنی کا روگ دل میں پال کر بیٹھ جاتی۔۔۔ میرا خدا اِس بات کا گواہ ہے بہرام کہ نگی سے اُن کی شادی ہونے سے پہلے ہی میں اُن سے شادی کا خیال اپنے دل اور دماغ سے نکال چکی تھی۔۔۔ آپ سے نکاح ہونے پر آپ کا ساتھ میں نے مجبوری میں نہیں بلکہ دل سے قبول کیا ہے۔۔۔ میرے لئے اِس دنیا میں آپ سے بڑھ کر اور کچھ بھی اہم نہیں ہے بہرام۔۔۔ آج کے دن جب آپ نے مجھ سے کہا کہ آپ میرا یقین کرنا چاہتے ہیں اُس وقت مجھے اپنا آپ کتنا معتبر لگ رہا تھا یہ میں آپ کے سامنے بیان نہیں کرسکتی۔۔۔ بہرام پلیز اپنا یقین میرے اوپر سے ختم کرکے مجھے دوبارہ سے بےمول مت کیجیئے گا۔۔۔۔ میرے دل میں صرف آپ کی محبت ہے کیوکہ آپ شوہر ہیں میرے، میرے لیے ہر رشتے سے بڑھ کر۔۔۔ آپ کے نکاح میں رہ کر کسی دوسرے مرد کے بارے میں تصور کرنا میرے لئے گناہ ہے پلیز بہرام میں آپ کی آنکھوں میں اپنے اور آپ کے رشتے کے لیے بےاعتباری نہیں دیکھ سکتی مجھ پر اپنا اعتبار قائم رکھیں"

حرم بولتی ہوئی اپنا سر بہرام کے گھٹنوں پر رکھ کر رو دی۔۔۔ حرم کے رونے وہ اُسے بازوؤں سے تھام کر صوفے سے اٹھا اور حرم آنکھوں میں آنسو بھرے بہرام کا چہرہ دیکھنے لگی جو اِس وقت بھی بےتاثر تھا

"رات کافی ہوچکی ہے اب تمہیں سو جانا چاہیئے"

حرم کی ساری بات سننے کے بعد بہرام نے وہی ایک جملہ بولا جو اُس کو کمرے میں آتا دیکھ کر بولا تھا اور خود کمرے سے باہر نکل گیا

*****

وہ صبح سویرے یونیفارم میں تیار، ناشتے کے لیے ٹیبل پر آیا تو اُسے کچن سے برتنوں کے پٹخنے کی آوازیں سنائی دی۔۔۔ لازمی حرم کچن میں موجود صبح کا ناشتہ بنارہی تھی بہرام خاموشی سے کرسی کھسکا پر بیٹھتا ہوا ناشتے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ 

تھوڑی دیر میں حرم ٹرالی میں سارا سامان لےکر ڈائینگ ہال میں آئی اور باری باری ٹرالی میں موجود ناشتے کے برتن ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھنے لگی جس پر بہرام نے باقاعدہ سر اٹھاکر اُسے دیکھا مگر وہ بہرام کو دیکھنے کی بجاۓ کیٹل سے چاۓ نکال رہی تھی

بہرام نے چاۓ کا مگ تھامنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جو فضا میں ہی رہ گیا۔۔۔ حرم چاۓ کا کپ لےکر ٹیبل پر رکھتی ہوئی اپنے لیے کرسی کھسکاکر بیٹھ چکی تھی۔۔۔ بہرام سنجیدہ نگا اس پر ڈال کر اپنے لیے کیٹل سے خود چاۓ نکالنے لگا تب اُسے اپنی پلیٹ کے نیچے ایک پرچہ نظر آیا

"یہ کیا ہے"

بہرام حرم کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا

"چیپ لڑکیوں کی طرح کارڈ دینا، یہ لیٹر لکھنے کی عادت نہیں مجھے۔۔۔ پڑھ لیں اُردو اور انگلش دونوں میں لکھا ہے"

وہ بولتی ہوئی اُس پر کیا طنز کرگئی تھی بہرام ایک پل کے لیے چونکا۔۔۔ 

لیٹر لکھنے اور کارڈ دینے والی اینجل کی بات اُس نے جیاء کو بہت پہلے بتائی تھی بھلا کیا ضرورت جیاء کو یہ بات اُس کی دوسری بیوی کو بتانے کی۔۔۔ بہرام اُس کے طنز کو پیتا ہوا پرچہ پڑھنے لگا جوکہ گھر کے سودا سلف سے متعلق تیار کردہ لسٹ تھی

"دال ماش، ملکہ مسور، دال چنا۔۔۔ یہ اتنی دالیں کون کھاۓ گا"

بہرام لسٹ پڑھنے کے ساتھ ہی بولا

"میں۔۔۔ میں کھاؤ گی۔۔ اُن فضول لڑکیوں جیسی میری عادت ہرگز نہیں جن کو ہر وقت باہر کا کھانا منہ کو لگا ہو"

چبتھے ہوۓ لہجے میں دوسرے طنز پر بہرام نے ایک بار پھر حرم کی طرف دیکھا۔۔۔ کل وہ کس طرح روتی ہوئی اُسے اسجد اور اپنی منگنی کی وضاحتیں دے رہی تھی اور صبح ہوتے ہی وہ اُس کی پہلی بیوی کو لےکر اُسی پر طنز شروع کرچکی تھی۔۔۔ بہرام دوسرا طنز بھی نظر انداز کرتا ہوا ٹیبل پر پرچہ واپس رکھتا ہوا بولا

"دوپہر میں جمال کو بھیج دوں گا یہ لسٹ اُسی کو دے دینا جمال تمہیں یہ سارا سامان لاکر دے دے گا"

بہرام حرم سے بولتا ہوا ناشتہ کرنے لگا۔۔۔ پراٹھہ اُس نے کافی زیادہ آئلی بنایا تھا مگر حرم کے رویہ پر وہ اُسے ٹوکنے کی بجاۓ خاموشی سے کھانے لگا

"اِس لسٹ میں کچھ میرا بھی سامان ہے جو جمال لاتا ہوا اچھا نہیں لگے گا"

حرم کی بات پر ناشتہ کرتا ہوا بہرام اُسے دیکھنے لگا۔۔۔ جو اس کو دیکھنے کی بجاۓ بسکٹ چاۓ میں ڈبو ڈبو کر کھارہی تھی

"تو اپنا سامان لسٹ سے کاٹ دو وہ میں لے آؤ گا۔۔۔ باقی کی لسٹ جمال کو دے دینا"

بہرام بات ختم کرتا ہوا ناشتہ کرنے لگا

"آپ کو کیا معلوم کیا سامان ہے میرا پڑھنے کی زحمت تھوڑی کی ہے آپ نے"

حرم نراٹھے پن سے بولی

"پہلی شادی نہیں ہے تم سے میری تجربہ ہے مجھے"

بہرام اُسے دیکھ کر واضح انداز میں جتاتا ہوا بولا تو حرم خاموشی سے چاۓ پینے لگی۔۔۔ بہرام کو شادی کا پہلا دن یاد آیا۔۔۔ کیسے ڈر رہی تھی وہ اِس سے، یہ واضح تبدیلی لازمی اس کے اعتراف کا نتیجہ تھی جو اس نے اسی کے چچا کے گھر کل رات کو کیا تھا

"جب آپ میرا سامان لاسکتے ہیں تو باقی کا سامان جمال کیو لاۓ"

حرم چاۓ پیتی ہوئی پوچھنے لگی

"تمہیں سامان سے مطلب ہونا چاہیے اِس بات سے نہیں کہ سامان کون لےکر آرہا ہے۔۔۔ مجھے عادت نہیں ہے شروع سے اِن سب کاموں کی۔۔۔ اور کل سے پراٹھا اتنا آؤئلی بنانے کی ضرورت نہیں"

بہرام سنجیدگی سے اس کو دیکھتا ہوا بولا

"ہر انسان کو اپنی عادتیں بدلنی پڑتی ہیں میں آپ کی پہلی بیوی کی طرح نہیں جو آپ کی ہر بات پر کمپرمائس کرو اپنے اندر چینج لانے کی کوشش کریں" 

حرم کی بات پر اب کی بار پھر بہرام کافی دیر تک خاموشی سے اُس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر بناء کچھ بولے مسکراتا ہوا چاۓ پینے لگا۔۔۔۔ 

حرم نے بھی سوچ لیا تھا  اگر وہ ایسا ہے تو اب وہ بھی اپنے رویہ میں لچک نہیں لاۓ گی مگر بہرام کو مسکراتا ہوا دیکھ کر وہ تپ گئی

"بہت خوشی ہورہی ہے بار بار اپنی پہلی بیوی کا ذکر سن کر"

حرم کے بولنے کا انداز ہے ایسا تھا کہ بہرام اُس کی بات پر بےساختہ ہنس دیا

"میں نے روایتی شوہروں والا سلوک نہیں کیا تمہارے ساتھ کہ تمہاری منگنی کا معلوم ہونے کے بعد تمہیں تمہارے منگیتر کے طعنے دو لیکن تم تو مجھے ڈھنگ سے ناشتہ بھی نہیں کرنے دے رہی ہو روایتی بیویوں کی طرح بات بات پر مجھے میری پہلی بیوی کے طعنے دے رہی ہو اور یقین جانو ایسے کرتی ہوئی تم اِس وقت بالکل اپنی نزہت چچی کے جیسی لگ رہی ہو"

بہرام ہنستا ہوا اسے بولا تو حرم اپنے اوور ری ایکٹ پر خود ہی شرمندہ ہوگئی۔۔۔

اتنے میں دروازے کی ڈور بیل بجی اِس سے پہلے کہ وہ کرسی سے اٹھ کر دروازہ کھولتا حرم خود اٹھ کر دروازہ کھولنے چلی گئی۔۔۔ بہرام خود بھی کرسی سے  سوچتے ہوے اٹھا اتنی صبح بھلا کون آسکتا تھا

"جی کون ہیں آپ، کس سے ملنا ہے"

حرم اپنے بالوں کی لٹ کان کے پیچھے کرتی ہوئی آنے والے سے پوچھنے لگی جو اسٹیچو بنا ہوا اُسے حیرت سے گھورے جارہا تھا

"عفان تم یہاں اتنی صبح خیریت تو ہے"

اپنی پشت سے حرم کو بہرام کی آواز سنائی تھی مگر عفان نے صرف ایک نظر بہرام پر ڈالی تھی وہ ابھی بھی حیرت زدہ ہوکر حرم کو دیکھ رہا تھا جس پر حرم کو سامنے کھڑے لڑکے پر حیرت ہونے لگی وہ بناء کچھ بولے وہاں سے اندر چلی گئی۔۔۔۔ عفان ابھی بھی حرم کی پشت کو گھور رہا تھا تب بہرام نے اُس کو ٹوکا

"میری بیوی کو گھورنا بند کرو" 

بہرام اب کی بار عفان کو جتاتا ہوا بولا بہرام سمجھ چکا تھا عفان کی حیرت کی وجہ کیا تھی وہ حرم کو اینجل سمجھ رہا تھا

"سوری،،، اَئی ایم سوری سر۔۔۔ دراصل میں اتنا زیادہ۔۔۔ حیران ہو آپ کو آپ کی مسسز کے ساتھ دیکھ کر"

عفان نے ہوش میں آکر معذرت کرتے ہوئے بہرام کو وضاحت دینی چاہیے

"اندر آجاؤ پھر بات کرتے ہیں" 

بہرام عفان کی بات پر بولا اور اُس کو اندر آنے کی دعوت دے کر ڈرائنگ روم میں چلا آیا

"دراصل میں آپ کو یہی شاکنگ نیوز بنانے کے لئے آیا تھا کہ آپ کی وائف زندہ ہیں مگر یہاں آکر ان کو آپ کے ساتھ دیکھ کر خود شاکڈ ہوگیا" 

عفان بہرام کو اپنے آنے کی وجہ بتانے لگا مگر بہرام عفان کی بات سن کر سچ میں بری طرح چونکا

"کب اور کہاں دیکھا تم نے اینجل کو"

بہرام کا لہجہ دھیما مگر تجسس لیے ہوۓ تھا۔۔۔۔ بہرام کے سوال پر عفان بہرام کے تاثرات دیکھنے لگا۔۔۔ اُس کی بیوی اُس کے پاس ہی تو تھی پھر بھلا بہرام کو اتنا تجسس۔۔۔۔۔

"کل مرینا کلب میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کرنے کے لیے گیا تھا وہی آپ کی مسسز بھی موجود تھی ٹائم کچھ رات کے بارہ ساڑھے بجے کے درمیان تھا"

عفان بہرام کو بتانے لگا مگر اسے بہرام پر حیرت ہوئی۔۔۔۔ اُس نے خود بہرام کو سارے ثبوت دیئے اینجل کے خلاف، جسے دیکھنے کے باوحود وہ یعقوب نیازی کی (kept) سے اب تک تعلق رکھا ہوا تھا شاید سچا عشق اِسی کو کہتے ہو عفان نے دل ہی دل میں سوچا مگر کچھ بولنے کی ہمت نہیں کی

"یعنی میرا شک صحیح نکلا، ہاسپٹل سے ڈیڈ باڈی کا غائب ہوجانا مطلب وہ زندہ ہے"

بہرام سوچتا ہوا آئستہ آواز میں بولا۔۔۔ کل رات وہ حرم کو اُس کے چچا کے گھر سے اپنے ساتھ لے آیا تھا اور بارہ بجے سے حرم اُس کے ساتھ اِسی فلیٹ میں موجود تھی 

بہرام کی بات پر عفان کنفیوز ہوکر بہرام کو دیکھنے لگا تب بہرام نے عفان کی غلط فہمی کو دور کرنا ضروری سمجھا

"یہ اینجل نہیں ہے جسے تم نے ابھی دیکھا ہے۔۔۔ اینجل کی ہمشکل۔۔۔ مگر میری دوسری بیوی حرم ہے۔۔۔ اینجل وہ تھی جیسے کل رات تم نے دیکھا ہے"

بہرام کی بات سن کر عفان ہونق بنا ہوا بہرام کو دیکھنے لگا

*****

"او میرے خدا یہ تم ہو اینجل" 

زخمی حالت میں جب اسے اسٹریچر پر ہاسپٹل کے ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا تھا تب ڈاکٹر شازمین اُسے دیکھ کر حیرت زدہ ہوکر بولی۔۔۔۔ اینجل نے درد سے کرہاتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں تو شناسا سا چہرہ اپنے سامنے پایا

"اینجل تم گھبراؤ مت تمہیں کچھ نہیں ہوگا" 

شازمین اُسے تسلی دیتی ہوئی بولی ویسے بھی اُسے ایک ہی گولی ہی لگی تھی بازو پر جو کہ خطرے کا باعث ہرگز نہیں تھی

"وہ مجھے دوبارہ مار ڈالے گا شازمین، اگر اُسے معلوم ہوگیا کہ میں بچ گئی ہو"

اینجل خوف کے مارے گہرے سانس لیتی ہوئی بولی

"کون۔۔۔۔ کون مار ڈالے گا تمہیں،،، کس نے چلائی تم پر یہ گولی" 

شازمین نرس کی دی ہوئی کاٹن سے اُس کے بازو پر لگا ہوا خون صاف کرتی ہوئی اینجل سے پوچھنے لگی

"میرا شوہر۔۔۔ اے سی پی بہرام عباسی۔۔۔ اسی نے مجھ پر گولیاں چلائیں۔۔۔ میرے سینے میں بھی اُس بےرحم نے گولی اتاری ہے"

اینجل اُس وقت کو یاد کرتی ہوئی خوف سے شازمین کو بتانے لگی 

"تمہیں صرف ایک بولٹ لگی ہے اینجل وہ بھی بازو پر، تمہیں کچھ نہیں ہوگا بھروسہ رکھو۔۔۔۔ سینے پر گولی کھانے والا اِس طرح بات نہیں کرتا"

شازمین نرس سے اوزار مانگتی ہوئی مسکرا کر اینجل سے بولی

تبھی اینجل کو یاد آیا پہلی گولی بہرام نے اُس کے بازو پر چلائی تھی، اپنے گولی لگنے پر وہ کتنی زیادہ خوفزدہ ہوئی تھی جب دوسری گولی بہرام نے اُس کے سینے پر بھی چلائی وہ درد سے کرہاتی ہوئی نیچے گری۔۔۔ بقول شازمین کے اگر اُسے صرف ایک گولی بازو پر لگی تو دوسری گولی پھر کہاں گئی۔۔۔۔ اینجل نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنے گلے میں پڑا ہوا اسٹیل کا پینڈینٹ پکڑا جو اسے سینے پر لگنے والی گولی سے بچا گیا تھا لازمی وہ گولی اُس کے اِس پینڈنٹ پر لگی تھی جس کی وجہ سے وہ بچ گئی

"اینجل اب میں تمہارے بازو سے بولٹ نکالنے والی ہوں۔۔۔ اوکے"

شازمین نے اُسے ذہنی طور پر تیار کیا تو اینجل نے شازمین کا ہاتھ زور سے پکڑلیا

"کیا تم میرا ایک کام کرسکتی ہوں وہ کام ذرا سا رسکی ہے مگر اُس کے بدلے میں زندگی بھر تمہاری احسان مند رہو گی"

اینجل اپنے بازوں میں اٹھتی ہوئی تکلیف بھلا کر شازمین سے بولی۔۔۔۔ 

اینجل کو اپنا کیا ہوا احسان بھی یاد آیا جو ایک بار اس نے اچھی اماؤنٹ کی صورت، شازمین کے دےکر اس کے چھوٹے بھائی کی جان بچا کر اس پر کیا تھا

"تم بولو کیا کرنا ہے، اس وقت میرے اتنے لنکس اور کانٹیک ہیں میں تمہارے ہزبینڈ کو عمر بھر کے لئے جیل کروا سکتی ہو"

اُس نے شازمین کو خود سے کہتے سنا پھر اینجل اس نرس کو دیکھنے لگی جو اس وقت وہاں موجود ان دنوں کی باتیں سن رہی تھی

"تم اِس کی فکر نہیں کرو یہ کسی سے کچھ نہیں بولے گی" 

شازمین کی بات پر اینجل کو اُس وقت ڈھارس ملی تو اینجل نے سکون کا سانس لیا

اس کے لیے آسان بالکل نہیں تھا نظر بچا کر اسپتال سے فرار ہونا اس وقت اگر شازمین رپورٹ میں اس کی ڈیتھ ڈکلئیر کر کے اسے اسپتال کے مردہ خانے تک نہیں پہنچاتی تو آج وہ اتنے آرام سے یہ اس شہر سے دور ایک کاٹج میں مزے سے نہ بیٹھی ہوتی صرف اُس نے شازمین کے سامنے خود کو بےقصور ثابت کیا تھا اور بہرام کو شکی مزاج شوہر۔۔۔ جس نے اُس پر بد چلنی کا الزام لگا کر گولی چلائی تھی۔۔۔ وہ بہرام کو سزا دلانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی بےشک شازمین کے مطابق اس کا شوہر سزا کا مستحق تھا لیکن اگر وہ ایسا کرتی تو الٹا اس کو لینے کے دینے پڑجاتے بہرام کو سزا کروانے کے چکر میں الٹا اُسی پر کیس کھل جاتا یونیورسٹی میں ڈرگس سپلائی کرنے کا پھر اس کا بچنا ناممکن تھا  

اس کا مقصد بہرام کو جیل کروانا نہیں بلکہ اپنے آپ کو مردہ ظاہر کر کے اسپتال سے نکل جانا تھا جس میں شازمیں اور  ہسپتال کے عملے کے چند لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا۔۔۔ فائر الارم بجوا کر سارا میس کری ایڈ کرنا صرف اکیلی شازمین کے بس کی بات نہیں تھی اس کام میں اسپتال کے تیں اور لوگ بھی شامل تھے جن کی مدد سے وہ اسپتال سے باہر نکلی

"مائے ڈیئر ہینڈسم ہزبینڈ اپنی وائف کو مرا ہوا تصور کرکے صرف ایک ماہ بعد ہی تم نے دوسری شادی کرلی۔۔۔ سو سیڈ بےبی۔۔۔ مگر ماننا پڑے گا بہرام عباسی تمہاری محبت کو۔۔۔ پہلی بیوی سے اتنا عشق تھا کہ دوسری بیوی بھی اسی کی ہم شکل ڈھونڈ لی۔۔۔ متاثر کیا مجھے تمہاری اس بات نے۔۔۔۔ لیکن ایک بات تم اچھی طرح لو۔۔۔ میری جگہ صرف میری ہے وہ تمہاری دوسری بیوی ہرگز نہیں لے سکتی، میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوگی ڈارلنگ۔۔۔ تم صرف اینجل کے ہو۔۔۔ میں نے تم سے بےوفائی کی جس کی سزا تم سے پالی۔۔۔ بس اب کچھ دن اور،،، اس کے بعد میں اور تم دوبارہ ایک ہوجاۓ گیں"

اینجل اپنے موبائل میں بہرام کی تصویر دیکھ کر بولی جس میں اس کی دوسری بیوی بھی ساتھ ہی موجود تھی۔۔۔

یہ تصویر بہرام کے ولیمے کی تھی جو اُس کے کہنے پر وہاں موجود ویٹر نہیں نہایت خفیہ طریقے سے لی تھی۔۔ اپنی ہم شکل کو بہرام کے ساتھ دیکھ کر اینجل کو بےحد جلن محسوس ہوئی تھی اپنے چہرے پر بہرام کے دیئے جانے والے زخموں نے اسے ابھی تک بہرام کی زندگی میں شامل ہونے سے روکے رکھا تھا ورنہ وہ پہلی رات ہی بہرام کے پاس حرم کی جگہ موجود ہوتی

بہرام کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد کر کے وہ فیصلہ کرچکی تھی اسے اپنی باقی کی زندگی بھی بہرام کے ساتھ گزارنی چاہیے تھی جس  لئے اسے اپنی شناخت بھول کر حرم ہی بن کر کیوں نہ جینا پڑے

یعقوب نیازی جیسا ذلیل ڈرپوک انسان جو کہ اس کو گولی لگتے دیکھ کر فوراً وہاں سے دم دبا کر اپنے گارڈز کے ساتھ فرار ہوچکا تھا اس میں اینجل کو نہ پہلے دلچسپی تھی نہ اب۔۔۔ ویسے بھی وہ پکی عمر کا مرد بہرام عباسی جیسے شاندار مرد کا کسی بھی چیز میں مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اسے کسی بھی طرح بہرام کے پاس جانے کے لیے پہلے حرم کو بہرام کے فلیٹ سے باہر نکلنا تھا کیوکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی بہرام کے فلیٹ میں موجود ہڈن کیمرے کے علاوہ ایسے سیکیورٹی الارم بھی موجود تھے جس کی وجہ سے کوئی بھی کاروائی کرنا اس کے لیے باعث خطرہ ثابت ہوسکتا تھا وہ صرف اُس وقت کے انتظار میں تھی جب حرم بہرام کے بغیر اس کے فلیٹ سے باہر نکلے

*****

سینے پر گولی مارنے کے باوجود ناجانے کیوں اسے شروع سے ہی اینجل کی موت کا یقین نہیں تھا۔۔۔ ہاسپٹل سے ڈیڈ باڈی کا غائب ہوجانا اس کے پیچھے چھپی کہانی کوششیں کرنے کے باوجود وہ نہیں جان پایا تھا مگر وہ اتنا جان گیا تھا یہ کام یعقوب نیازی کا ہرگز نہیں تھا۔۔۔ یعقوب نیازی کے لیے اینجل وقتی دل بہلانے والا کھلونا ثابت ہوئی تھی اس کا انداز اسے اسی وقت ہوگیا تھا جب وہ اینجل کو زخمی حالت میں چھوڑ کر اس کے فلیٹ سے فرار ہوگیا تھا

اینجل کا زندہ ہونا اب بہرام کے لیے معنی نہیں رکھتا تھا جس دن اس کا اینجل سے سامنا ہوا وہ اس سے اپنا رشتہ بھی ختم کرلے گا ایسا بہرام نے سوچ لیا تھا۔۔۔ کیا اسے خود سے اینجل کو ڈھونڈنا چاہیے تھا یا پھر اس کی آمد کا انتظار کرنا چاہیے تھا نہ جانے کیوں بہرام کی چھٹی حس باربار اسے اشارہ دے رہی تھی اینجل اس سے ملنے یا پھر کانٹیکٹ کرنے کی ضرور کوشش کرے گی۔۔۔ پولیس اسٹیشن سے آج وہ جلدی گھر آگیا تھا کل کی طرح اس وقت وہ اپنے بیڈ روم کی بجاۓ دوسرے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ کل جب اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ اینجل زندہ ہے تب سے وہ اسی کو سوچے جا رہا تھا

دھیرے سے اُس کی سوچوں کا رخ اینجل سے حرم کی طرف چلا گیا پرسوں جب اُس کے چچا کے گھر اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ حرم پہلے اپنے خالا ذا سے منسوب رہ چکی ہے روایتی مردوں کی سوچ کی طرح یہ بات اس کو ذرا پسند نہیں آئی تھی، جس کا اظہار وہ اپنے رویے   سے حرم اور اس کے گھر والوں کے سامنے کرچکا تھا۔۔۔ جس کے بعد دوسرے دن صبح پولیس اسٹیشن جاتے وقت اس کے پاس حرم کے چچا اور اسجد کی کال بھی آئی تھی وہ دونوں ہی اس کے اور حرم کے رشتے کے لئے فکر مند تھے۔۔۔ اسجد نے تو اس سے نگی کی باتوں کو لےکر معذرت بھی کی تھی اور اسے یقین بھی دلایا تھا وہ صرف اور صرف نگی کی غلط فہمی تھی ایسا کچھ بھی نہیں ہے

حرم نے خود بھی گھر آکر اسے ہر بات کی وضاحت دی تھی جس پر فوری طور پر وہ حرم سے کچھ بھی کہہ نہیں پایا۔۔۔ کیونکہ اس موضوع کے علاوہ بھی اس کے دماغ میں دوسری سوچیں چل رہی تھی جیسے تین دن بعد بوبی کو پھانسی کی سزا ہوجاتی

یعقوب نیازی کا ان دنوں اتنا خاموش ہوکر بیٹھنا بھی عام بات نہیں تھی وہ اتنی آسانی سے اپنے بھائی کو مرنے نہیں دے گا، بہرام کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا۔۔۔ جب وہ ہسپتال میں زخمی حالت میں تھا تب بھی یعقوب نیازی نے جان توڑ کر کوشش کی تھی کہ وہ کسی طرح پتہ لگا لے کے بہرام نے اس کے بھائی کو کہاں چھپایا ہوا تھا۔۔۔ اس وقت یعقوب نیازی کیا سوچ بیٹھا تھا اسے خبر نہیں تھی۔۔۔ 

ان دنوں اسے اپنی جان سے زیادہ اُسے اس رشتے کی پروہ تھی جو رشتہ اُس کی بہن اُس سے جوڑ کر گئی تھی۔۔۔ لیکن حرم اُس کے پاس اس فلیٹ میں محفوظ تھی یہی ساری باتیں وہ سوچ رہا تھا تب حرم تیسری مرتبہ کمرے میں آئی

"آپ کو کھانا کھانا ہے یا یونہی پہلی بیوی کی یادوں میں کھوۓ رہنا ہے"

بہرام حرم کی بات پر چونکا پھر اُس کے جملے پر غور کرتا اسے گھورنے لگا۔۔ مگر حرم اس کے گھورنے کی پرواہ کیے بغیر کمرے سے چلی گئی

"مرنے والی تو خود قبر میں چلی گئی ہے اور یہ موصوف اس کی یادوں کا سوگ منارہے ہیں میں تو بیچ میں مفت میں ہی پھنس گئی جب سے آئے ہیں اس کی یادوں میں گم ہیں میں تو بس اس گھر میں کھانا بنانے کے لیے آئی ہوں جیسے"

حرم اپنا دل جلا کر بڑبڑاتی ہوئی بولے جارہی تھی یہ جانے بغیر اس کے پیچھے آتا بہرام اس کی ساری گفتگو سن چکا تھا۔۔ وہ لاؤنچ میں آکر جیسے ہی پلٹی سامنے بہرام کو دیکھ کر اُس کی زبان کو بریک لگا

"زبان کافی چل رہی ہے تمہاری کل سے، قابو میں رکھو اسے۔۔۔  ورنہ مسلہ کرے گی یہ تمہارے لیے"

بہرام حرم کو دیکھ کر سیریس ہوکر اسے وارن کرنے لگا کیونکہ وہ کل صبح سے اب تک اسے کتنی ہی مرتبہ پہلی بیوی کے طعنے دے چکی تھی

"کتنی ساری مرتبہ آپ کو کھانے کے لیے بول کر جاچکی ہوں مگر آپ نے تو میرے کمرے میں آنے کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا معلوم نہیں کس گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں"

حرم اس سے شکوہ کرتی ہوئی خود کرسی پر بیٹھ گئی کیونکہ کھانا وہ پہلے ہی ٹیبل پر رکھ چکی تھی

"کتنی ساری مرتبہ نہیں تم میرے پاس کمرے میں صرف تین دفعہ چکر لگا چکی ہوں پہلی بار تم نے صرف اتنا بولا کہ کھانا تیار ہے اور منہ بناتی ہوئی کمرے سے چلی گئی۔۔۔۔ دوسری مرتبہ تم دس منٹ کے وقفے کے بعد کمرے میں دوبارہ آئی اور طنز کرتی ہوئی بولی آپ کو کھانا کھانا ہے یا پھر برتن اٹھالو۔۔۔۔ پھر تم غصے میں دروازہ زور سے بند کرتی ہوئی دوبارہ کمرے سے چلی گئی۔۔۔۔ ابھی تم تیسری بار پورے پانچ منٹ 2 سیکنڈ گزرنے کے بعد آئی ہو اس کے بعد مجھے میری پہلی بیوی کی یادوں کا طعنہ دے کر منہ بناتی ہوئی واپس چلی گئی۔۔۔ اتنا بےخبر ہرگز نہیں ہوں جتنا تم نے مجھے سمجھ لیا ہے"

بہرام ایک ایک بات اس کو جتاتا ہوا خود بھی حرم کے سامنے کرسی پر بیٹھا

"چاول نکالو آپ کے لیے یا پھر روٹی کھائیں گے" 

وہ بہرام کو کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی

"جیسے کل صبح سے پٹخ پٹخ کر ناشتہ اور دوسری چیزیں دے رہی ہو اس سے بہتر یہی ہے جو مجھے کھانا ہے وہ اپنی پلیٹ میں میں خود نکال لیتا ہوں"

بہرام نے سالن کا باؤل اٹھاتے ہوئے اسے شرمندہ کرنا چاہا اور بہرام کی بات سن کر وہ دل سے شرمندہ بھی ہوگئی تھی اسے افسوس ہوا کہ وہ کیو نزہت چچی بنتی جارہی ہے۔۔۔ اس کے چچا تو سیدھے سادھے انسان تھے تبھی نزہت چچی کا ان کے ساتھ نبھا ہوگیا تھا مگر سامنے بیٹھا ہوا یہ اس کا شوہر اس کے چچا کی   طرح ذرا سا بھی سیدھا نہیں کافی ٹیڑھا بندہ تھا۔۔۔ اسے سنبھل کر رہنا چاہیے تھا

"آج دوپہر میں صبحیہ خالہ کی کال آئی تھی وہ ہم دونوں کو کل رات ڈنر پر اپنے گھر ڈنر پر انوائٹ کرنا چاہ رہی تھیں"

حرم نے چاولوں سے بھری ٹرے اٹھاکر دھیمے لہجے میں بہرام کو مطلب کی بات بتائی

"منع کردو اپنی خالہ کو ہم نہیں آرہے"

بہرام منہ میں نوالہ ڈالتا ہوا عام سے لہجے میں حرم سے بولا چاولوں میں چلتا چمچہ روک کر حرم بہرام کو دیکھنے لگی جو پرسکون انداز میں بیٹھا ہوا کھانا کھارہا تھا

"نگی کی بھی کال آئی تھی میرے پاس کافی زیادہ شرمندہ تھی وہ بول رہی تھی بہرام بھائی سے اپنے غلط رویہ کی خود معافی مانگو گی بس اس وقت۔۔۔

وہ مزید کچھ کہتی بہرام نے سنجیدہ نگاہ اس پر ڈالی تو وہ چپ ہوگئی

"خاموشی سے کھانا کھالو"

وہ حرم کو دیکھتا ہوا بولا پھر کھانا کھانے لگا

"ٹھیک ہے آپ مت جائیے گا میں کل شام میں خود چلی  گا جاؤ گی صبیحہ خالہ کے گھر آپ بس ڈرائیور کو بھیج دیجئے گا"

حرم اس کو مشورہ دیتی ہوئی چاولوں کا چمچی منہ میں ڈالنے لگی

"ہم کا مطلب صرف میں نہیں ہم دونوں ہوتے ہیں۔۔۔ نہ کل تم کہیں جارہی ہوں نہ ہی میں۔۔۔۔ اب اس موضوع پر کوئی دوسری بات نہیں ہوگی ہمارے بیچ"

بہرام اب کی بار تنبہی کرتا ہوا بولا وہ نہیں چاہ رہا تھا تین سے چار دن تک حرم فلیٹ سے باہر نکلے۔۔۔ حرم کو سمجھاتا ہوا وہ دوبارہ کھانا کھانے لگا

"ٹھیک ہے میرے رشتےدار تو اس قابل ہی نہیں ہے کہ آپ ان سے ملیں ایسا کریں آپ مجھے کل ایکسپو لے جائیں وہاں سیل لگی ہوئی ہے مجھے اپنے لئے کچھ خریدنا ہے پیسے ہیں میرے پاس"

حرم کی اگلی بات پر بہرام کے منہ میں جاتا ہوا نوالہ وہی رکا وہ خاموشی سے حرم کی شکل دیکھنے کے بعد بولا

"کیا چاہ رہی ہو تم اس وقت میں آرام سے کھانا کھاؤ یا پھر اٹھ کر یہاں سے چلا جاؤں"

اب کی بار بہرام بےحد سنجیدگی سے حرم سے پوچھنے لگا تو وہ خود کرسی سے اٹھ گئی

"آپ سکون سے کھانا کھائے میں ہی چلی جاتی ہو"

حرم نے صرف بولا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی بات پر عمل کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔ بہرام اس کی پشت کو گھورتا رہ گیا۔۔۔ مگر پھر اس نے کھانا سکون سے کھایا

*****

"نہیں سنیں گے وہ آپ کی بھی کوئی بات، بس دو دن سے دوسرے کمرے میں منہ پھلا کر اور ڈیرہ جما کر بیٹھے ہیں میں نے بتایا بھی تھا کہ وہ منگنی میرے پیرنٹس نے تہہ کی تھی جس کی مدت بےشک چار سال کا عرصہ رہی ہو مگر اُس منگنی کی حیثیت میری نظر میں ہمارے رشتے کے آگے زیرو پرسنٹ بھی نہیں ہے لیکن انہوں نے تو اچانک ہی ایک شکی مزاج شوہر کا روپ دھار لیا ہے۔۔۔ خالہ کے گھر دعوت پر جانے سے بھی منع کردیا اور مجھے باہر بھی نہیں لےکر جارہے ہیں۔۔۔ قسم سے آپی آپ نے کہا تھا کہ مجھے بہرام کی نہیں اپنی بڑی بہن سمجھنا جبھی میں آپ کے سامنے آپ کے پوچھنے پر اپنے دل کا حال آپ کو بتارہی ہوں مجھے تو یہ بھی لگتا ہے وہ اپنی پہلی بیوی کو بھی نہیں بھولے ہیں دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ ہم دونوں کے بیچ ہمیشہ زندہ رہے گی"

وہ صوفے پر دونوں پاؤں اونچے کرکے بیٹھی ہوئی ایک ہاتھ پکڑے ٹشو سے بار بار آنسو صاف کرتی دوسرے ہاتھ نے پکڑا موبائل کان سے لگائے یقیناً اس کی بہن سے اس کی برائیوں میں مصروف تھی،، یہ منظر دیکھ کر بہرام کا خون کھول اٹھا۔۔۔ وہ جو حرم کو کھانا کھانے کا بولنے بیڈ روم میں آیا تھا کمرے کے اندر داخل ہوتا ہوا اُس نے حرم سے موبائل لےکر اپنے کان پر لگالیا

"آخر کار مل ہی گئی تمہیں اپنی ہی جیسی،، بس یہی تو ایک کام ہے تم عورتوں کا۔۔۔ روز روز موبائل پر دو چار دکھڑے اِس کے سن لیا کرو، دو چار برائیاں مبشر بھائی کی اِس سے کر ڈالا کرو۔۔۔ مگر عقل کی بات اِس کو کبھی بھی نہیں سمجھا نا"

یوں اچانک موبائل اُس کے ہاتھ سے لینے پر حرم بہرام کو دیکھنے لگی یقینًا وہ چھپ چھپ کر اس کی اپنی بہن سے باتیں سن رہا تھا

"جیاء مرد کے دماغ میں دس طرح کی سوچیں چل رہی ہوتی ہیں یہ تمہارے اور اِس کے جیسی کم عقل عورتوں کی کم عقلی کا نتیجہ ہے جو خود سے ہر بات کا تّصور کر بیٹھتی ہیں کہ ہمہارا شوہر کسی دوسری عورت کے بارے میں سوچ رہا ہوگا"

وہ موبائل پر اپنی بہن کو سنا رہا تھا حرم سرجھکاۓ وہی کھڑی تھی۔۔۔ اسے اس وقت جیاء کو فون کرنا ہی نہیں چاہیے تھا بلکہ وہی اچھا وقت تھا کہ جب وہ بہرام کے پولیس اسٹیشن جانے پر کل دوپہر میں جیاء سے بات کرتی

"ابھی فوری طور پر جانے سے منع کیا ہے تو کچھ دماغ میں چل رہا ہوگا میرے۔۔۔ تعلق تو نہیں ختم کروا رہا میں اس کے حسین و جمیل رشتے داروں سے اِس کا۔۔ یار اچھا خاصا میں اکیلا رہتا بلاوجہ میری شادی کروا کے تم نے مجھے بھجوا دیا"

بہرام جیاء کو مذید جھاڑتا ہوا بولا اور لائن کاٹ کر موبائل اُس نے ٹیبل پر رکھ دیا۔۔۔ حرم ایک نظر بہرام کے چہرے پر ڈال کر کمرے سے باہر نکلنے لگی مگر اِس سے پہلے ہی بہرام نے اُس کا بازو پکڑلیا

"کیا فضول کی باتیں کررہی تھی تم جیاء سے کہ میں اپنی پہلی بیوی کو نہیں بولا ہوں۔۔۔ تم سے شیئر نہیں کیا تھا میں نے کہ وہ کس طرح کی لڑکی تھی، میرا معیار اتنا گرا ہوا نہیں ہے کہ میں ایسی لڑکی کو اپنی یادوں میں زندہ رکھو جس نے مجھ سے وفاداری نہیں نبھائی۔۔۔۔ کوئی بھی مرد خود چاہے جیسا بھی ہوا مگر وہ اپنے لیے اپنی بیوی سے وفاداری کی امید کرتا ہے مگر تم یہ باتیں نہیں سمجھو گی کیونکہ تم ایک ٹیپیکل سوچ رکھنے والی لڑکی ہو، اب اِس وقت کمرے سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ میں تم پر یہ بات ابھی اور اسی وقت واضح کردینا چاہتا ہوں کہ وہ ہم دونوں کے بیچ اب کہیں بھی نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ میں تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں"

بہرام نے حرم سے بولتے ہوئے اُس کے گلے سے دوپٹہ کھینچ کر صوفے پر پھینکا اور حرم کو بیڈ کی طرف دھکیلا۔۔۔ حرم ایک دم بہرام کے عمل پر بوکھلا گئی، بہرام اس کے قریب آکر حرم پر جھکا

"کک کیا ہوگیا ہے آپکو پیچھے ہٹیں پلیز"

حرم ایک دم گھبراتی ہوئی بولی مگر بہرام اُس کی بات اَن سنی کرتا ہوا حرم کی گردن پر جھکا۔۔۔ بہرام کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے حرم شرمندہ ہوگئی

"بہرام میری اُن باتوں کا وہ مطلب نہیں تھا آپ بالکل غلط معنوں میں لے رہے ہیں میری بات کو"

حرم بولتی ہوئی شرم سے پانی پانی ہوگئی وہ شاید اِس وقت اسی لئے اُس کے قریب آیا تاکہ دوبارہ وہ اُس کے منہ سے پہلی بیوی کا طعنہ نہ سن سکے

"باتوں کا جو بھی مطلب ہو اب سوچنا کیا۔۔۔ تم چاہتی ہو کہ ہم دونوں کے بیچ وہ کبھی نہ آۓ میں بھی یہی چاہتا ہوں اور جو میں کرنے والا ہوں اِس لیے وہ کرنا ضروری ہے"

وہ بولتا ہوا حرم کی قمیض کندھوں سے نیچے کرچکا تھا

"ہٹ جائیے بہرام پلیز پیچھے ہٹ جائیے"

حرم نے بولتے ہوئے اُس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر بہرام کو پیچھے کرنا چاہا۔۔۔ 

نہ جانے وہ اس کو کیسی لڑکی سمجھ رہا تھا جو اُس کی قربت کے لیے مری جارہی تھی۔۔۔ جبھی اس کی بہن سے اس کی شکایتیں لگا رہی تھی۔۔۔۔ حرم سوچتے ہوئی شرمندہ ہوۓ جارہی تھی۔۔۔ بہرام نے اُس کے دونوں ہاتھ اُسی کی پُشت پر لے جاکر اپنے ایک ہاتھ سے مضبوطی سے پکڑے۔۔۔ ذرا سا اٹھتا ہوا وہ اپنی پاکٹ سے کچھ نکالنے لگا جسے دیکھ کر حرم کی آنکھیں پھیل گئیں

"یہ کیا ہے۔۔۔ کیا کرنے والے ہیں بہرام آپ میرے ساتھ پلیز چھوڑیں مجھے"

بہرام کے ہاتھ میں نڈل کی طرح کوئی نوکدار لمبی سی چیز جو اپنی پاکٹ سے نکالنے کے بعد اُس نے حرم کے دل کے پاس رکھیں تو حرم کی آنکھیں خوف سے پھیل گئی اور سانس رُکنے لگی

"کبھی کبھی اپنی قیمتی چیز کو اپنے پاس رکھنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہو جاتا ہے، سمجھ لو کہ میں تمہارے لئے کوئی رسک نہیں لے سکتا جس کے لیے تمہیں تکلیف دینا ضروری ہے"

بہرام نے بولتے ہوئے نڈل اس کے دل کے اوپر رکھ کر اندر کی طرف دبائی تو تکلیف مارے حرم کے منہ سے چیخ نکلی

"نہیں بہرام پلیز نہیں"

حرم روتی ہوئی بولی اس نے اپنے دونوں ہاتھ بہرام کے مضبوط گرفت سے چھڑوانے چاہے مگر وہ نڈل سے نہ جانے کیا کررہا تھا جس سے حرم کو شدید تکلیف ہورہی تھی جب بہرام اس کے اوپر سے اٹھا تو حرم میں روتے ہوئے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنا رخ موڑ لیا۔۔۔ اُس کے جسم کا حصہ سن ہوچکا تھا

"دل نہیں ہے آپ کے سینے میں بےرحم ہیں آپ۔۔۔ چلے جائیں میری نظروں کے سامنے سے"

حرم جانتی تھی بہرام وہی موجود ہے جبھی اپنا رُخ ویسے ہی موڈے روتی ہوئی بولی تو بہرام خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا

*****

رات وہ روتے روتے سوچکی تھی اُسے نہیں معلوم تھا کہ رات میں اُس کے سونے کے بعد بہرام کب واپس بیڈ روم میں آیا، اِس وقت آہٹ سے اُس کی آنکھ کھلی تو اُس نے بہرام کو بیڈ روم میں موجود پایا۔۔۔۔ وہ یونیفارم میں ملبوس کلائی میں رسٹ واچ پہن رہا تھا، حرم کو جاگتا ہوا دیکھ کر وہ بیڈ کی طرف بڑھا تو حرم نے فوراً دوسری طرف کروٹ لےکر اپنا رخ پھیر لیا۔۔۔ وہ بہرام پر ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ کل رات وہ اُس کی دی ہوئی تکلیف کی وجہ سے اُس سے ناراض تھی۔۔۔ 

وہ بیڈ پر اپنے نزدیک بہرام کا بیٹھنا محسوس کرچکی تھی اپنے شانے پر بہرام کے ہاتھ کا لمس محسوس کر کے حرم نے آنکھیں بند کرلیں وہ اُس کی طرف نہیں دیکھنا چاہتی تھی نہ ہی اُس سے بات کرنا چاہتی تھی

"صرف تین سے چار دن صبر کرلو اُس کے بعد میں خود تمہیں تمہاری صبحیہ خالہ کے گھر لے جاؤں گا۔۔۔ اور جہاں سے چاہو اپنے لئے شاپنگ بھی کرلینا وہ بھی میرے پیسوں سے، اپنے پیسے تم اپنے پاس سنبھال کے رکھو"

بہرام اُس سے ناراضگی دور کرنے کے غرض سے صلح جُو انداز میں بولا

"نہ ہی مجھے اپنی خالہ کے گھر جانا ہے اور نہ ہی مجھے شاپنگ کرنی ہے۔۔۔ میں اب صرف اپنے چچا کے گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ اور اُس کے لیے نہ ہی آپ کو ڈرائیور بھیجنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں آپ کو خود زحمت دوگی۔۔۔ چچا خود آکر مجھے یہاں سے لے جائیں گے"

وہ بہرام کی حرکت پر فلحال اُس سے ناراضگی ختم نہیں کرنا چاہتی تھی اِس لئے رخ موڑے بغیر اُس سے بولی

"اگر تم مجھ سے خفا ہوکر یہاں سے جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں ہرگز جانے کی اجازت نہیں دوں گا۔۔۔ اور اگر تمہیں اپنے چچا سے ملنے کا دل چاہ رہا ہے، تب بھی تم فوری طور پر یہاں سے نہیں جاسکتی ہو مطلب تین سے چار دن تک تم اِس چار دیواری سے باہر نہیں نکلو گی"

بہرام آئستہ سے حرم کو سیدھا کرتا ہوا نرمی سے اُسے سمجھانے لگا تو حرم غصے میں اُسے دیکھنے لگی

"قید کرنا چاہتے ہیں آپ مجھے یہاں پر اپنے پاس"

اُس کے غُصے کی بھلا اہمیت ہی کیا تھی وہ بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی بہرام کو دیکھ کر شکوہ کرنے لگی

"ضد مت کرو حرم کوئی وجہ ہے جبھی ایسا بول رہا ہوں"

بہرام نے اُسے شکوہ کرتے دیکھا تو ایک بار پھر سمجھایا۔۔۔وہ بیڈ پر حرم کے بالکل قریب بیٹھا ہوا تھا، اِس نے اپنا ہاتھ پھیلا کر بیڈ پر اسطرح رکھ لیا کہ حرم چاہ کر بھی دوبارہ دوسری جانب کروٹ نہیں لے سکتی تھی 

"تو پھر آپ چلے جاۓ یہاں سے" حرم اُس کا چہرہ دیکھے بغیر سامنے دیوار کو دیکھتی ہوئی بولی

"اتنا برا لگ رہا ہوں تمہیں میں"

بہرام ذرا سا حرم کی جانب جُھکتا ہوا اُسے غور سے دیکھ کر پوچھنے لگا

"ابھی کے لیے۔۔۔ ہاں"

اُس نے ابھی بھی بہرام کو نہیں دیکھا تھا مگر اپنی جانب بہرام کے جھکاؤ سے وہ اُسکے پرفیوم کی خوشبو محسوس کرسکتی تھی۔۔۔ جو بےحد آہستگی سے اُس کے حواسوں پر سوار ہورہی تھی

"تو یہ بات میرا چہرا دیکھ کر بول دو، میں مان جاؤ گا"

بہرام نے بولتے ہوۓ اپنا ہاتھ حرم کے گال پر رکھا تو جیسے حرم کو کرنٹ چھوگیا۔۔۔

"کیو کیا تھا آپ نے میرے ساتھ کل رات اُس طرح"

اپنے اوپر جھکے بہرام کا چہرہ دیکھ کر حرم اپنے گال سے اُس کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی پوچھنے لگی تو بہرام کی نظریں اُس کی گردن سے ہوتی نیچے گئیں

"بہت سی باتیں انسان فوری طور پر سمجھ نہیں پاتا، یہ سمجھ لو جو کل رات کو ہوا وہ ضروری تھا۔۔۔ اُس بات کو لےکر تمہیں مجھ سے ناراض نہیں ہونا چاہیے"

بہرام کی بات حرم کو غصہ دلا گئی کیا وہ اِس جارحانہ سلوک کی مستحق تھی۔۔۔ اوپر سے وہ شکوہ کرنے یا ناراض ہونے کا بھی حق نہیں رکھتی تھی

"آپ کے بارے میں میری راۓ بالکل درست ہے آپ بہت بےرحم انسان ہیں" 

حرم اپنا غصہ چھپاۓ بغیر اُسے بولی

"اور اِس بےرحم انسان کو ناشتہ کروانے کا ارادہ ہے کہ نہیں"

اُسے حرم کی بات پر کم از کم شرمندہ ضرور ہونا چاہیے تھا مگر حرم نے دیکھا، بہرام چہرے پر مسکراہٹ لیے اُس سے ناشتے کا پوچھ رہا تھا

"باہر جاکر کسی اچھے سے ہوٹل سے کرلیں یہ وردی دیکھ کر کوئی پیسے بھی نہیں لےگا آپ سے"

بہرام کی مسکراہٹ دیکھ کر وہ جل کر بولی تو بہرام اُس کے ہونٹوں پر جھک گیا اِس اچانک عمل پر حرم اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکی۔۔۔۔ 

بہرام اُس کے گلابی ہونٹوں پر محبت بھری مہر لگا کر پیچھے ہوا تو شرم سے حرم کے گال سرخ ہوگئے

"میں مفت کھانے کی بجاۓ حلال کھانا پسند کرتا ہوں"

بہرام فریش سے انداز میں حرم کو جتاتا ہوا بولا

"آپ لیٹ ہورۓ ہیں اب جاۓ پلیز"

حرم پلکیں جھکاکر اُسے دیکھے بغیر بولی بہرام اُس کے شرمانے کے انداز سے اندازہ لگا چکا تھا کہ اب وہ کافی دیر تک اُس سے نظریں نہیں ملاۓ گی اِس لیے حرم کے شرمیلے روپ کو آنکھوں میں سماتا ہوا وہ کمرے سے نکل گیا

******

ملازمہ کام کرکے جاچکی تھی تو حرم شاور لینے چلی گئی جب وہ واپس آئی تو اُس کے موبائل پر آٹھ سے دس پرائیویٹ نمبر سے کال آئی ہوئی تھی وہ سمجھ گئی کہ یہ کال اسے بہرام کررہا تھا مگر اپنے نمبر سے نہیں پولیس اسٹیشن سے۔۔۔ وہ اپنے موبائل سے بہرام کا نمبر ڈائل کرنے لگی تبھی لینڈ لائن بجنے لگا حرم موبائل بیڈ پر رکھتی ہوئی لاؤنچ میں چلی آئی جہاں فون کی گھنٹی بج رہی تھی

"ہیلو"

وہی پرائیویٹ نمبر شو ہورہا تھا جسے دیکھ کر حرم فون کان پر لگاتی ہوئی بولی

"میں بہرام بات کررہا ہوں، حرم میری بات غور سے سنو تم فوری طور پر فلیٹ سے باہر نکلو، نیچے بلیک کلر کی مرسیڈیز میں ڈرائیور کو تمہیں لینے کے لئے بھیجا ہے جلدی سے جاکر اس گاڑی میں بیٹھو وہ ڈرائیور تمھیں میرے پاس لے آئے گا"

بہرام اتنی جلدی میں تھا کہ حرم اس کی بات سن کر بوکھلا گئی

"مگر آپ تو صبح ہی کہہ کرگئے تھے کہ تین سے چار دن تک  فلیٹ سے باہر نہیں نکلنا پھر اچانک کیا ہوا" 

حرم کنفیوز ہوتی ہوئی بحرام سے پوچھنے لگی

"جو میں بول رہا ہوں تم وہی کرو، دیکھو حرم اِس وقت بحث کرنے کا وقت نہیں ہے سمجھنے کی کوشش کرو کسی وجہ سے بول رہا ہوں میں"

بہرام اب کی بار ڈانٹتا ہوا بولا

"پھر وہ وجہ بتائیں ایسا کیوں بول رہے ہیں"

حرم اس کے ڈانٹنے کی پرواہ کیے بغیر بولی

"اس وقت فلیٹ میں تمہارے علاوہ بھی کوئی دوسرہ موجود ہے تمہاری جان خطرے میں ہے تم فوراً گھر سے باہر نکلو"

اب کی بار بہرام کی بات سن کر حرم کے ہوش اڑ گئے اُس کے علاوہ اور بھی کوئی دوسرا فلیٹ میں موجود تھا یہ سوچتے ہوۓ خوف سے اُس کے پسینے چھوٹنے لگے

لائن اب کٹ چکی تھی وہ وہی کھڑی چاروں طرف کمروں میں نظر دوڑانے لگی۔۔ خوف سے اُس کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا تبھی بیڈ روم میں اُس کا موبائل ایک بار پھر بجنے لگا۔۔۔۔ حرم وہی کھڑی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ وہ موبائل لینے بیڈ روم میں جائے یا سامنے مین دروازے کا لاک کھول کر جلدی سے باہر نکل جائے جو آٹھ سے دس قدم کی دوری پر تھا۔۔۔ اچانک پردہ ہلا تو وہ ڈر گئی، پردہ ہوا سے بھی ہل سکتا تھا کیونکہ لاؤنج کی کھڑکی بھی کھلی ہوئی تھی لیکن اگر اُس پردے کے پیچھے کوئی موجود ہوا۔۔۔ اِس سوچ سے ذہن میں آتے ہی اُس نے اپنا موبائل بجنے دیا اور تیزی سے پلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکلی

بہرام کی بات سن کر کو اتنی زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی کہ لفٹ کھلنے کا انتظار کیے بغیر تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی تبھی وہ کسی سے ٹکرائی

"ارے میم سنبھل کر تو چلیں"

عفان نے سیڑھیوں سے اترتی ہوئی لڑکی سے کہا جلدی میں تھی اور اُس سے بری طرح ٹکرا آئی تھی

"سوری"

حرم بولتی ہوئی رکی نہیں بلکہ سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی

"آپ اے سی پی بہرام عباسی کی وائف ہیں" 

عفان اُسے پہچان گیا تبھی جلدی سے بولا مگر وہ پہلی والی تھی اور دوسری والی عفان خود کنفیوز ہوگیا

"آپ بہرام سے ملنے آئے تھے ناں گھر پر۔۔۔ بہرام کہاں ہے اس وقت۔۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے" 

عفان کے بولنے پر حرم رکی، وہ اتنی زیادہ ڈری ہوئی تھی کہ عفان سے ہی بہرام کا پوچھنے لگی

"اے سی پی صاحب تو اس وقت تھانے میں ہونگیں، کیا کوئی پریشانی ہے آپ مجھے بتاسکتی ہیں"

یہ بہرام کی دوسری بیوی تھی جس کو اُس نے بہرام کے فلیٹ میں دیکھا تھا عفان اس کو پہچان گیا تھا جبھی وہ حرم سے پوچھنے لگا

"فلیٹ کے اندر کوئی موجود ہے بہرام نے فون پر کہا نیچے کھڑی مرسیڈیز میں بیٹھ کر میں اُن کے پاس آجاؤ"

معلوم نہیں اسے یہ سب سامنے کھڑے لڑکے سے بولنا چاہیے تھا کہ نہیں مگر وہ ڈری ہوئی تھی اسے رونا بھی آرہا تھا شاید اسے جلدی نیچے جانا چاہیے تھا بہرام کا ڈرائیور اُس کا انتظار کررہا ہوگا

"اے سی پی صاحب نے آپ کو خود بولا آپ اُن کے پاس آجائیں۔۔۔ میرے خیال سے تو اگر آپ کے فلیٹ میں کوئی موجود ہوتا تو اے سی پی صاحب خود آپ کے پاس پہنچتے یا کسی دوسرے کو بھیج دیتے۔۔۔ کیا آپ کو واقعی اے سی پی صاحب نے اپنے پاس آنے کو کہا"

عفان کے سوال کرنے پر حرم خود کنفیوز ہوگئی فون پر وہ آواز بہرام کی تھی یا شاید نہیں۔۔۔

"مجھے نہیں معلوم۔۔۔ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم"

حرم بری کنفیوز ہوگئی اسے سامنے کھڑا یہ لڑکا بھی مشکوک لگ رہا تھا یہ تیسرا فلور تھا جہاں وہ دونوں اس وقت کھڑے تھے

"آپ اس طرح پریشان مت ہو میں ابھی کال کرکے اے سی پی صاحب سے کنفرم کرلیتا ہوں۔۔۔ ساری بات ابھی کلئیر ہوجاۓ گی" 

عفان نے بولتے ہوئے اپنا موبائل نکالا اور اب وہ بہرام کو کال ملا رہا تھا

"عفان میں تم سے تھوڑی دیر بعد بات کرتا ہوں"

عفان کو لگا بہرام اس وقت مصروف تھا  اس کے کال کاٹنے سے پہلے عفان بول پڑا

"آپ کی مسسز بول رہی ہیں آپ کے فلیٹ میں کوئی موجود ہے اور آپ نے انہیں اپنے پاس بلانے کے لیے کوئی گاڑی بھیجی ہے" 

عفان کی بات سن کر بہرم کے قدم کمشنر صاحب کے کمرے میں جانے سے پہلے ہی رک گئے۔۔۔ وہ بری طرح چونکا

"عفان تم اِس وقت کہاں پر ہو اگر حرم اس وقت تمہارے پاس موجود ہے تو میری بات کراؤ اُس سے"

اب بہرام کمشنر کے پاس نہیں جاسکتا تھا۔۔۔ موبائل کان سے لگائے وہ بھاگتا ہوا باہر اپنی گاڑی کی جانب بڑھا

"ہیلو"

تبھی اُسے گھبرائی ہوئی حرم کی آواز اپنے موبائل پر سنائی دی

"میں نے تم سے کیا بکواس کی تھی کہ تم فلیٹ کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلو گی۔۔۔ حرم فوراً فلیٹ میں پہنچو میں تھوڑی دیر میں تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں"

بہرام آس پاس کی پرواہ کیے بغیر غصے میں حرم پر چیختا ہوا بولا اور گاڑی میں بیٹھا۔۔۔ اُسے ڈر تھا کہ آج نہیں کچھ غلط نہ ہو جائے

"بہرام آپ ہی نے تو مجھے گھر کے نمبر پر فون کرکے بولا"

حرم کو بہرام کی آواز سن کر اطمینان ہوا جبھی وہ بہرام سے بولنے لگی تبھی سامنے لفٹ کا دروازہ کھلا اور دو آدمی حرم اور عفان کی طرف بڑھنے لگے

"شیٹ اپ حرم فوراً فلیٹ کے اندر جاکر دروازہ اچھی طرح لاک کرو اور موبائل عفان کو دو"

بہرام ایک بار پھر زور سے بولا وہ گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا

"چلیے میڈم ہمارے ساتھ آپ کو اے سی پی صاحب بلارہے ہیں"

یہ اجنبی آواز بہرام اپنے موبائل پر واضح سن سکتا تھا اسے نہیں معلوم تھا موبائل اِس وقت عفان کے پاس تھا یا حرم کے پاس بہرام دوبارہ تیز آواز میں بولا

"عفان پلیز حرم کو اُس کے ساتھ کہیں مت جانے دینا میں پہنچ رہا ہوں وہاں"

بہرام نے کال ڈسکنیکٹ نہیں کی تھی وہ گاڑی تیز گرفتار سے چلاتا ہوا بولا

"یہ تم دونوں کے ساتھ کہیں نہیں جارہی ہے۔۔ میں ایک رپورٹر ہوں میرا تعلق میڈیا سے ہے تم دونوں کو ایکسپوز کرنے میں منٹ بھر نہیں لگاؤں گا چلے جاؤ یہاں سے"

عفان نے اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑے پاکٹ سے اپنا کارڈ نکال کر ان دونوں کو دکھاتا ہوا بولا۔۔۔ 

حرم اس صورتحال پر پریشان ہوکر عرفان کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔ اُن دونوں آدمیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اُن میں سے ایک آدمی نے اپنی جیب سے پستول نکالا اور عفان پر فائر کیا

"حرم"

بہرام کو اپنے موبائل پر فائرنگ کی آواز اور حرم کے چیخنے کی آواز صاف سنائی دی بہرام نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوۓ چیخ کر حرم کا نام پکارا۔۔۔۔ 

موبائل پر رابطہ خود بخود ختم ہوچکا تھا۔۔۔ بہرم نے گاڑی کو وہی بریک لگایا پیچھے گاڑی کو ٹکر لگنے سے کوئی آدمی اُس پر چیخ رہا تھا مگر بہرام کا دماغ ایک دم چکرا سا گیا۔۔ وہ اس پاس ماحول سے بےنیاز کچھ اور سوچ رہا پھر اس نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کی۔۔۔ اب کی بار اُس کی گاڑی کا رخ اپنے اپارٹمنٹ کی طرف نہیں بلکہ یعقوب نیازی کے گھر کی طرف تھا

*****

"آآآآ"

عفان گولی لگنے سے جیسے ہی نیچے گرا، حرم خوف کے مارے زور سے چیخی۔۔۔ عفان کے ہاتھ سے موبائل بھی نیچے گرچکا تھا

"چلو لڑکی ہمارے ساتھ"

وہ دونوں آدمی حرم کو اپنے ساتھ لے جانے لگے شاید اُس کے لئے آج بہت برا دن تھا وہ سوچتی ہوئی خوفزدہ سی عفان کے گرے ہوئے بےہوش وجود کو دیکھنے لگی۔۔ ہر فلور پر کیمرے لگے ہونے کے باوجود وہ دونوں بےخوفی سے حرم کو اپنے ساتھ لے جانے لگے

"اے سی پی کی بیوی ہمارے قبضے میں ہے پلان کامیاب ہوا"

اُن میں سے ایک آدمی فون پر بولا دوسرے آدمی اُس کے پیچھے تھا، جس نے حرم کی کمر پر پستول کی نال رکھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ لفٹ کی طرف قدم بڑھانے پر موجود تھی

"ٹھیک ہے اُس کی بیوی کو میرے فارم ہاؤس پر لے آؤ" 

دوسری طرف سے بول کر کال رکھ دی گئی 

عفان کو گولی لگ چکی تھی بہرام اُس کے پاس نہیں تھا۔۔۔ معلوم نہیں وہ اب بہرام سے دوبارہ مل بھی سکتی تھی یا نہیں۔۔۔۔ ایک لڑکے کو مار کر وہ دونوں اِس کو کہاں لے جارہے تھے اُس کے ساتھ آگے کیا ہونے والا تھا یہ ساری باتیں سوچتے ہوئے حرم گاڑی میں بیٹھی گاڑی اسٹارٹ ہوکر اپارٹمنٹ سے باہر نکل گئی

ساری عمر وہ ایسی خبریں اخبار میں پڑھتی آئی تھی یا نیوز چینل پر دیکھتی آئی تھی کہ دن دہاڑے لڑکی کو اغوا کرلیا گیا جس کے چار دن بعد زیادتی کرکے اُس کی لاش دریا میں بہا دی گئی یا کچرے میں پھینک دی گئی۔۔۔ کیا اُس کی بھی ان لڑکیوں جیسی قسمت تھی نہ جانے کیا کیا سوچیں اُس کے دماغ میں چلنے لگی پھر حرم کے حواسوں نے اُس کا ساتھ چھوڑ دیا۔۔ وہ خوف اور صدمے کے زیر اثر بےہوش ہوچکی تھی جبکہ گاڑی شہر سے دور یعقوب نیازی کے فارم ہاؤس کی طرف دواں تھی

*****

"ارے آپ ایسے کیسے اندر چلتے چلے آرہے ہیں"

یعقوب نیازی کی بیوی جو اپنی بیٹی کے ساتھ گھر کے بنے لان میں بیٹھی ہوئی تھی بہرام کو گارڈز سے لڑنے کے بعد اندر آتا دیکھ کر بولی

"اپنے شوہر کو بلاؤ ابھی اور اسی وقت" 

بہرام کا دماغ اتنا گھوما ہوا تھا سامنے سامنے لیڈی کھڑی ہے وہ بھول گیا غُصے سے چیختا ہوا بولا

"سر گھر پر موجود نہیں ہیں وہ صبح کے اپنے فارم ہاؤس پر موجود ہیں آپ کو یقین کیوں نہیں آرہا"

یعقوب نیازی کی بیوی کی بجائے وہاں کھڑا ملازم بہرام کو یونیفارم میں دیکھ کر احتراماً سیدھے منہ بات کرتے بولا۔۔۔ گیٹ پر کھڑا گارڈ اور دوسرا ملازم بھی وہی لان میں آگئے 

بہرام نے ملازم کی بات سن کر گن ہولسٹر سے ریوالور نکالا اور کسی کی پرواہ کیے بغیر یعقوب نیازی کی بیٹی کی کنپٹی پر رکھ دی

"ممی" 

وہ 15 سال کی لڑکی ڈر کر بولی جبکہ یعقوب نیازی کی بیوی خوف سے اپنی بیٹی کے بعد بہرام کو دیکھنے لگی

"اگر کسی نے بھی کوئی ہوشیاری دکھائی تو میں بغیر سوچے سمجھے اِس لڑکی کے دماغ میں گولی اتار دوں گا"

بہرام نے سارے ملازموں کو دیکھ کر انہیں وارن کیا پھر وہ یعقوب نیازی کی بیوی کو دیکھتا ہوا بولا

"تمہارے شوہر کے وفادار ملازم میری بیوی کو تمہارے شوہر کے کہنے پر اٹھاکر اُس کے فارم ہاؤس پر لے گئے ہیں۔۔۔ اپنے شوہر کو میرا میسج دے دینا اگر اُس نے میری بیوی کو اپنے گندے ہاتھوں سے چھوا بھی تو میں اُس کی بیٹی کا وہ حشر کروں گا، کہ وہ چیخ چیخ کر اپنے مرنے کی دعا کرے گا۔۔۔ اپنے شوہر کو فون کرکے بولو وہ میری بیوی کو باعزت طریقے سے میرے گھر چھوڑ جائے۔۔۔ نہیں تو تم دونوں کو تمہاری بیٹی واپس اِس گھر میں کبھی نظر نہیں آئے گی" 

بہرام اُس کی بیوی کو غصے میں بولتا ہوا۔۔۔ روتی ہوئی اُس لڑکی کو اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔۔اُس کے ہاتھ میں پستول تھی جس کی وجہ سے یعقوب نیازی کے ملازم بہرام کا کچھ بھی نہیں کرپائے۔۔۔ 

یعقوب نیازی کے گھر پہنچنے سے پہلے بہرام اپنے اسسٹینٹ مہران کو اپنے اپارٹمنٹ میں روانہ کرچکا تھا۔۔۔ جہاں سے زخمی حالت میں عفان کو اسپتال پہنچا دیا گیا تھا فلور پر لگے کیمرے میں ہوئی ساری کاروائی موجود تھی جسے بہرام کے آرڈر پر مہران اپنے پاس سے سیو کرچکا تھا

یعقوب نیازی کا ایک نہیں بلکہ تین چار فارم ہاؤس اِس شہر میں موجود تھے اسے خبر نہیں تھی کہ یعقوب نیازی کے آدمی حرم کو کون سے فارم ہاؤس لے کر گئے ہیں اِس وقت بہرام کو حرم کی فکر تھی اُس کو جو صحیح لگا اُس نے وہی کیا۔۔۔ وہ یعقوب نیازی کی بیٹی کو اپنے ساتھ لے آیا۔۔۔ جس کے آدھے گھنٹے بعد ڈپٹی صاحب کی کال اُس کے موبائل پر آنے لگی

"تم فوری طور پر یعقوب نیازی کی بیٹی کو یعقوب نیازی کے گھر چھوڑ کر میرے پاس آؤ۔۔۔ دس ازس مائے آرڈر"

کال ریسیو کرنے کے ساتھ ہی اُسے ڈپٹی صاحب کی آواز سنائی دی

"سوری سر میں آپ کے آرڈر تب تک فالو نہیں کرسکتا جب تک میری بیوی صحیح سلامت میرے پاس نہیں آجاتی"

بہرام ڈپٹی صاحب کے آرڈرز کو رد کرتے ہوئے احترام اًبولا۔۔۔ ابھی مشکل سے آدھا گھنٹہ گزرا تھا یقیناً یہ خبر اوپر تک پہنچ چکی تھی

"تم یعقوب نیازی کے ساتھ پرسنل نہیں ہوسکتے اے سی پی بہرام عباسی"

ڈپٹی صاحب کی بات سن کر بہرام کو آگ لگ گئی

"سر پرسنل میں نہیں، پرسنل پر وہ اتر آیا ہے۔۔۔ میں نے تو اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے ثبوتوں کے ساتھ اُس کے بھائی پر ہاتھ ڈالا تھا جس کے بدلے اُس نے میری وائف کو اٹھوالیا۔۔۔ اگر میری فیملی میری جاب کی وجہ سے متاثر ہوئی تو میں یعقوب نیازی کی فیملی کو بھی نہیں بخشوں گا"

بہرام نے بات کرتے ہوئے احترام کا دامن نہیں چھوڑا مگر غصہ اور غضب سے اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا

یہ پورا کا پورا نظام ہی ایسا تھا جبھی کوئی ایسے بڑے مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالتا پیچھے نہیں تو  پیچھے ان کی فیملی کو سفر نہ کرنا پڑتا۔۔۔ بہرام نے کال کاٹ کر اپنا موبائل بند کردیا

*****

یعقوب نیازی کمرے میں ٹہلتا ہوا بےتابی سے اپنے آدمیوں کا انتظار کررہا تھا کیوکہ اس کی کال ریسیو نہیں کی جارہی تھی۔۔۔ جیسا کہ اُس نے سوچا تھا وہی اُس کے آدمیوں نے کیا یعنی وہ اے سی پی کی بیوی کو اٹھاکر اُس کے پاس آرہے تھے۔۔۔ اُس کا پلان یہی تھا کہ اے سی پی بہرام عباسی کو بلیک میل کر کے اُس سے اپنے بھائی کے بارے میں معلوم کرے مگر اُس کا پلان تب الٹا جب یعقوب نیازی کی بیوی کی کال اُس کے پاس آئی

بہرام کی جرات پر اُس کا خون کھول اٹھا تھا وہ اے سی پی اس کی معصوم 15 سال کی بیٹی کو سرعام اُس کے گھر سے لے جا چکا تھا۔۔ جس کا اس سارے واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔۔۔ اُس کی بیوی نے یعقوب نیازی کو فون پر کافی لعن طعن کی تھی اور اسے بہرام کی دی گئی دھمکی بھی بتائی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر اُس کی بیٹی کو کچھ ہوا تو اُس کا ذمہ دار وہی یعنی یعقوب نیازی ہوگا۔۔۔ یعقوب نیازی بہرام کی چالاکی پر بری طرح پیچ و تاب کھاکر رہ گیا اب اسے اپنے بھائی بوبی سے زیادہ اپنی معصوم بیٹی کی پرواہ تھی۔۔۔ یعقوب نیازی ٹینشن سے کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا تب اس کے دونوں آدمی اے سی پی کی بیوی کو اپنے ساتھ لےکر آئے

"کیا ہوا ہے اسے"

ایک آدمی نے حرم کو بےہوش وجود کو صوفے پر ڈالا تو یعقوب نیازی ماتھے پر ڈالتا ہوا اپنے آدمی سے پوچھنے لگا

"سر یہ خوف سے بےہوش ہوچکی ہے"

اُس کا آدمی یعقوب نیازی کو بتانے لگا اِس سے پہلے یعقوب نیازی اپنے آدمیوں کو دوبارہ حرم کو واپس چھوڑ آنے کا حکم دیتا اُس سے پہلے حرم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور ٹیبل پر رکھے ہوۓ چند اوزاروں میں سے چھری اٹھالی

"اے لڑکی کیا کررہی ہو چھری واپس رکھ دو، تمھیں یہاں پر کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا"

یعقوب نیازی حرم کی پھرتی دیکھ کر بوکھلا گیا وہ اُس کے قریب آتا ہوا کہنے لگا

"دور ہو مجھ سے میرے قریب مت آنا"

حرم چھری کا رخ یعقوب نیازی کی طرف کرتی ہوئی تیزی سے صوفے سے اٹھکر اُس کے پیچھے دیوار سے چپک گئی۔۔۔ 

یعقوب نیازی کے دونوں آدمی بھی یعقوب نیازی کی طرح اُس کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔ حرم کو اُن تینوں سے خوف آنے لگا وہ اکیلی اور تین آدمی

"دیکھو لڑکی تمھیں ابھی فوراً تمہارے شوہر کے پاس پہنچا دیا جائے گا میرا یقین کرو یہ چھری پھینک دو"

اگر اے سی پی کی بیوی کو کچھ ہوجاتا تو اے سی پی کے پاس اُس کی بیٹی موجود تھی اور یعقوب نیازی اپنی بیٹی کو کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔۔۔ ڈپٹی کی کال کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا

حرم کو اُس آدمی کی بات پر یقین نہیں آیا اگر یہ آدمی اُس کو بہرام کے پاس پہنچانے کا ارادہ رکھے ہوئے تھا تو اِس کو یہاں پر لایا ہی کیوں گیا تھا۔۔۔ اِس سے پہلے وہ تینوں آدمی اُس پر حاوی ہوجاتے حرم نے چھری کر رخ اپنے پیٹ کی طرف کیا

"جلدی پکڑو اِسے چھری چھین لو اِس سے"

یعقوب نیازی اپنے دونوں آدمیوں سے بولا جنھوں نے حرم کو قابو کرنا چاہا

"نہیں"

حرم کے ہاتھ سے چھری لینے کے چکر میں حرم چھری سے اپنی کلائی کو زخمی کرچکی تھی

"یہ کیا ہوگیا اسپتال لےکر چلو اِس لڑکی کو۔۔۔ وہ اے سی پی میری بیٹی کے ساتھ کہیں کچھ نہ کردے"

یعقوب نیازی اپنے دونوں آدمیوں پر بری طرح چیخ رہا تھا حرم جو کہ پہلے ہی خوف زدہ تھی۔۔۔ اپنی کلائی سے تیزی سے خون نکلتے دیکھ کر وہ خوف کے مارے فرش پر گرتی ہوئی اپنے حواس کھونے لگی

*****

تین گھنٹے گزر چکے تھے مگر حرم کا کچھ آتا پتہ نہیں تھا۔۔۔ بہرام کے آرڈر پر مہران پولیس کو لےکر باری باری یعقوب نیازی کے تینوں فارم ہاؤس پر پہنچ کر تلاشی لےچکا تھا مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا تھا۔۔۔ بہرام کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں سے حرم کو ڈھونڈ نکالے اُسے یوں بیٹھنا فضول لگ رہا تھا یعقوب نیازی کی بیٹی جو اِس وقت اُس کے سامنے بیٹھی روتے روتے خاموش ہوچکی تھی لیکن اب اُس نے ایک بار پھر سے رونا شروع کردیا تھا بہرام کو اِس لڑکی کو دیکھ کر حرم کی فکر ہونے لگی تھی وہ بھی تو اِسی لڑکی کی طرح خوفزدہ اور پریشان ہوگی۔۔۔ بہرام کو اپنا غصہ کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا وہ ریوالور میں گولیاں چیک کرنے لگا اب وہ یعقوب نیازی کے گھر دوبارہ جانے کا ارادہ رکھتا تھا

"رونا بند کرو خاموش ہوجاؤ" 

بہرام اُس لڑکی پر غصے میں بری طرح دھاڑا تو وہ لڑکی سہم کر چپ ہوگئی

"تمہارا باپ ایک نمبر کا ذلیل کمینہ اور گھٹیا انسان ہے، جس کردار کا تمہارا باپ مالک ہے یہ گالیاں بھی اُس بےغیرت کے سامنے مہذب معلوم ہوتی ہیں اگر میں تمہارے باپ کے کارنامے اور رنگین مزاجی کے قصّے تمہیں سنانے بیٹھ جاؤ تو تمہیں اپنی پیدائش پر شرم آئے گی۔۔۔ عورتوں کے ساتھ کھیل کر ان کی دلالی کرنے والا غلیظ آدمی ہے تمہارا باپ جسے شاید اپنی بیٹی کی عزت اور جان کی پرواہ نہیں ہے، میری بیوی کو تمہارے باپ نے اٹھالیا ہے اگر اس نے میری بیوی کو ذرا سی بھی نقصان پہنچانا تو میں تمہارے باپ کی جان لے لوں گا اور اِسی طرح رونا تمہارے مقدر میں لکھ دو گا"

بہرام سہمی ہوئی اُس لڑکی سے بولا اور کمرے سے جانے لگا تبھی فلیٹ کی ڈور بیل بجی۔۔۔ دروازہ کھولنے پر یعقوب نیازی اور اُس کے گارڈ کو اپنے فلیٹ کے دروازے پر دیکھ کر بہرام کا خون کھول اٹھا وہ یعقوب نیازی پر بھوکے شیر کی طرح جھپٹ پڑا

"بتا مجھے کہاں ہے میری بیوی کیا کیا تُو نے اُس کے ساتھ بول"

بہرام اپنے شکنجے میں یعقوب نیازی کی گردن کو پکڑے شدید غّصے میں پاگل ہوچکا تھا۔۔۔ یعقوب نیازی خود اور اُس کا گارڈ چاہ کر بھی بچاؤ کرنے میں ناکام تھے

"کچھ نہیں کیا میں نے تمہاری بیوی کے ساتھ میرا یقین کرو۔۔۔ اُسے جیسا لےکر گیا وہ بالکل ویسی ہی ہے پاک اور اَن چھوئی مگر اُس نے ڈر کے مارے خود اپنی جان لینے کی کوشش کی"

بہرام کی مضبوط گرفت میں موجود یعقوب نیازی کافی مشکل سے اُسے بتا پایا۔۔۔ اُس کی بات سن کر بہرام اُسے اپنے شکنجے سے آزاد کرتا ہوا شاکڈ ہوگیا

"جان لینے کی کوشش کی۔۔۔ کہاں ہے اِس وقت حرم"

بہرام صدمے اور غصے کی کیفیت میں ایک بار پھر یعقوب نیازی کا گریبان پکڑ کر اُس سے پوچھنے لگا

"اُس نے اپنے ہاتھ کی کلائی کی نس کاٹ لی۔۔۔ خون زیادہ بہہ گیا ہے تو وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔۔ میرا یقین کرو میں اپنی بیٹی کی قسم کھاکر کہتا ہوں میں نے تمہھاری بیوی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے" 

یعقوب نیازی جو کافی ری سورسز رکھنے کے باوجود صرف اِس لیے بہرام کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا تھا کیوکہ اُس کی بیٹی اِس بےرحم اے سی پی کے پاس تھی۔۔۔ اُس نے بہرام کو ہسپتال کا ایڈرس بھی دیا جہاں حرم موجود تھی

"پاپا"

اتنے شور کی آواز سن کر یعقوب نیازی کی بیٹی کمرے سے باہر آئی اور یعقوب نیازی کے گلے لگ کر رونے لگی جبکہ بہرام اسپتال کے دیئے گئے ایڈریس پر کال کرکے ڈاکٹرز سے حرم کے بارے میں کنفرم کرنے لگا

ڈاکٹر کے مطابق حرم کے ہاتھ کی نس کافی گہری کٹ گئی تھی جس کی وجہ سے اُس کا کافی خون ضائع ہوچکا تھا وہ اِس وقت بےہوش تھی مگر خطرے سے باہر تھی

"میں تمہاری طرح کا نیچ ذات کا مرد نہیں جو دوسروں کی عزت پر غلیظ اور میلی نظر رکھتے ہیں، پوچھ لو اپنی بیٹی سے کوئی بھی اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہیں کی ہے میں نے اس کے ساتھ اور اِس کی عزت بھی محفوظ ہے لیکن تم نے میری عزت پر گندی نگاہ ڈالی اُس کے لئے غلیظ سوچ اپنے ذہن میں رکھی، اسے اپنے آدمیوں سے اٹھوایا، تمہاری وجہ سے وہ اس وقت تکلیف برداشت کررہی ہے اِن سب باتوں کے لئے تم سزا کے مستحق ہو اور وہ سزا میں تمہیں ضرور دوں گا"

بہرام نے ریوالور نکال کر یعقوب نیازی پر فائر کیا

"پاپا"

یعقوب نیازی گولی لگنے سے فرش پر گرا اُس کے جسم سے خون فوارے کی صورت نکلنے لگا جسے دیکھ کر یعقوب نیازی کی بیٹی خوف کے مارے چیختی ہوئی رونے لگی جبکہ یعقوب نیازی کا گارڈ اُسے سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا بہرام کو اِس سارے قصّے میں دلچسپی نہیں تھی اِس لیے وہ ان لوگوں کو وہی چھوڑ کر اسپتال کے لئے نکل گیا

*****

"حرم میری جان"

ہسپتال کے کمرے میں جیسے ہی حرم کو ہوش آیا اسے دیکھ کر بہرام بےساختہ کرسی سے اٹھا اور حرم کی طرف بڑھا۔۔ حرم کے بیڈ سے اٹھنے سے پہلے ہی وہ حرم کے چہرے پر جھکتا ہوا حرم کی پیشانی پر ہونٹ رکھ کر اُس کے قریب  بیڈ پر بیٹھ گیا

"میں آپ کو دیکھ سکتی ہو بہرام، مجھے یقین نہیں آرہا، مجھے آج لگ رہا تھا جیسے میں نے آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا اب ہم دونوں کبھی نہیں مل پاۓ گیں"

حرم ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی ہوئی بےیقینی کی کیفیت میں اپنے سامنے بیٹھے بہرام کو دیکھ کر بولی جو اُس کے لیے حد درجہ فکر مند نظر آرہا تھا اپنے لئے فکر مند ہونا وہ اُس کے چہرے سے محسوس کرسکتی تھی۔۔حرم کی بات سن کر بہرام نے حرم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگایا

"ایسی سوچ کیو لائی تم اپنے ذہن میں، ابھی تو تم کو پایا ہے ایسے ہی کھو دیتا ہے اپنی جان کی بازی لگا دینا مگر تم کو ڈھونڈ لیتا"

بہرام اُس کا ذرد ہوتا چہرہ دیکھ کر بولا۔۔۔ آج کہیں نہ کہیں اُس کی وجہ سے اُس کی بیوی پرابلم میں آئی تھی اور وہ جس تکلیف سے گزری تھی یہ سوچ کر بہرام کو تکلیف ہورہی تھی۔۔۔ ساتھ ہی اُس کے دور جانے کی سوچ، بہرام کو حرم کے قریب لے آئی تھی

"آپ مجھ پر غُصّہ تو نہیں ہوگیں یا پھر مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگیں میری بیوقوفی کی وجہ سے آج یہ سب کچھ ہوگیا آپ نے بھی مجھے سمجھایا بھی تھا۔۔۔ 

حرم کو یاد آنے لگا ایک بار نہیں بہرام نے اُسے کئی بار فلیٹ سے نکلنے کے لیے منع کیا تھا مگر اِس کے باوجود اس سے بےوقوفی سرذد ہوئی جس کا نتیجہ اُسے کس انداز میں برداشت کرنا پڑا

"میں چاہوں بھی تو تم سے ناراض نہیں ہوسکتا نہ ہی تم پر غُصہّ کرسکتا ہوں، صرف اور صرف اوپر والے پر شکرگزار ہوں کیوکہ تم اِس وقت میری آنکھوں کے سامنے موجود ہو"

بہرام اپنا ہاتھ حرم کے گال پر رکھتا ہوا پوری ایمانداری سے سچائی بیان کرتا حرم کا چہرہ دیکھنے لگا، آج اُسے یہ چہرہ ایک بار دوبارہ سے اپنے دل کے قریب محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ اِس وقت وہ اپنے دل میں کیا محسوس کررہا تھا شاید چاہ کر بھی وہ اُس سے شیئر نہیں کر پاتا

"بہرام میں یہاں کیسے آئی۔۔۔ اور اور وہ عفان اس کو تو اُن لوگوں نے گولی مار دی تھی"

حرم اپنے دماغ پر زور ڈالتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی خون بہتا دیکھ کر اپنے حواسوں میں نہیں رہی تھی بےہوش ہونے کی وجہ سے اسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا وہ کیسے یہاں تک پہنچی۔۔۔ اِس وقت وہ چہرے سے کافی پریشان لگ رہی تھی تب بہرام نے جھک کر اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما

"پریشان مت ہو عفان کو گولی ضرور لگی تھی لیکن بروقت ٹرٹمینٹ ملنے کی وجہ سے اب اُس کی طبعیت ٹھیک ہے۔۔۔ تم اب مزید کچھ نہیں سوچو، میں اور تم ایک دوسرے کے پاس ہیں اِس کا مطلب ہے اب سب کچھ ٹھیک ہے"

وہ کیسے یہاں پہنچی یا بہرام نے اُس کے پیچھے کیا کچھ کیا۔۔۔۔ یا تھوڑی دیر پہلے وہ کیا کرکے آرہا تھا یہ ساری باتیں وہ حرم کو بتانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا

"آپ کا مطلب ہے ہم دونوں کے ییچ اب سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے"

حرم اپنے چہرے کے بےحد قریب بہرام کا چہرہ دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگی جو اِس وقت اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام ہوا تھا

"ہم دونوں کے بیچ سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے کیا تم اس بات کا یقین چاہتی ہوں"

بہرام اُس کے گلابی ہونٹوں کو دیکھتا ہوا حرم سے پوچھنے لگا اُس کے گلابی ہونٹ جو خشک ہورہے تھے۔۔۔۔ 

وہ بہرام سے یقین بھی چاہتی تھی اور بہرام کا یقین بھی چاہتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ بہرام اُس کو اِس وقت کیسے یقین دلانے والا تھا اِس کے باوجود اُس نے بہرام کی بات پر اقرار میں سر ہلایا، حرم کے اقرار پر بہرام نے نرمی سے اپنے ہونٹ اُس کے گلابی ہونٹوں پر رکھ دئیے حرم نے اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کرلی وہ بہرام کے ہونٹوں کا لمس اور اس کی سانسوں کی مہک اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کررہی تھی بہرام نے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے چہرے سے بالوں تک لے جاتے ہوۓ اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھنساکر حرم کا چہرہ اونچا کیا وہ حرم کی توڑی پر ہونٹ رکھتا ہوا اُس کی گردن پر جھکا تب حرم نے ہسپتال کا احساس کرتے اُسے آہستگی سے پیچھے کیا۔۔۔ 

بہرام پبلک پلیس کا سوچ کر ہی شرافت کا مظاہرہ کرتا پیچھے ہوا تھا لیکن یوں حرم کے نظریں جھکانے پر وہ اُس کی گلابی پڑتی رنگت غور سے دیکھنے لگا جو اُس کے یوں دیکھنے سے سرخ ہوچکی تھی۔۔۔ بہرام اُس کے یوں رنگ بدلتی کیفیت سے لطف اندوز ہوتا ہوا مسکرا دیا پھر اُس کی نظر حرم کے ہاتھ کی کلائی پر پڑی جس سے وہ اب تک نظریں چرا رہا تھا اُس کی مسکراہٹ تھمی

"تم نے اُس دن کہا تھا تمہیں موت سے ڈر لگتا ہے تو پھر یہ کیا حرکت کی تم نے۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں تمہاری یہ حماقت تمہیں خطرے میں بھی ڈال سکتی تھی"

بہرام اُس کی کلائی دیکھتا ہوا سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔۔۔ لوجی پیار محبت ختم، آگئے اے سی پی صاحب اپنے پرانے والے اسٹائل میں واپس۔۔۔ حرم نہیں دل ہی دل میں سوچا

"تو اور کیا کرتی ڈر لگ رہا تھا مجھے اُن آدمیوں سے بےشک مجھے اپنی جان پیاری ہے مگر میری جان میری عزت سے بڑھ کر تو نہیں ہے ناں"

حرم نے عام سے انداز میں بہرام کو ایک بات بولی جو بہرام کے دل کو چھو گئی وہ خاموشی سے حرم کا چہرہ دیکھنے لگا اُس کی بولی ہوئی بات اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی

آج اسے اپنی پہلی اور دوسری بیوی میں واضح فرق محسوس ہوا تھا بےشک اُن دونوں کے چہرے ایک جیسے تھے مگر دونوں کے کرداروں میں زمین آسمان کا فرق تھا اینجل نے نہ تو اُس کی عزت کا پردہ رکھا تھا نہ ہی اپنی عزت کا،، وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود غیر مرد کو خوش کرتی آئی تھی جبکہ آج حرم نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اُس کے نزدیک اُس کی جان سے بڑھ کر اُس کی عزت تھی۔۔ یہی بات آج اس نے اپنے عمل سے ثابت کی تھی۔۔۔ 

وہ آج بہرام کی نظر میں کتنی بلند اور معتبر ہوچکی تھی اس بات کا اندازہ حرم نہیں لگا پاتی۔۔۔ نہ ہی بہرام نے اس کے سامنے اپنا خیال ظاہر کیا

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں بتائیں نہ کب جائیں گے گھر واپس"

حرم نے اُس کو اپنی طرف مستقل دیکھتے ہوئے پوچھا اور اٹھ کر بیٹھنا چاہا تو بہرام نے اُسے تکیے کے سہارے بیٹھنے میں مدد دی

"ابھی گھر جاکر تمہیں کیا کرنا ہے میرے ساتھ یہاں سے جاؤں گی، پھر وہاں پہنچ کر اپنے چچا کے گھر جانے کی ضد کروں گی بہتر یہی ہے کہ چپ کرکے یہی رہو"

بہرام اُس کو بولتا ہوا کمرے سے باہر ڈاکٹر سے بات کرنے نکل گیا 

*****

"تم ایک ذمہ دار پوسٹ پر بیٹھ کر اتنے کابل آفیسر ہونے کے باوجود آخر کیسے اتنی سنگین غلطی کرسکتے ہو بہرام۔۔۔ کیا یعقوب نیازی پر فائر کرتے وقت تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ تمہارا کیا کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے"

صبح ہی وہ کمشنر صاحب کے آفس میں موجود ہمیشہ کی طرح اُن کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا نہیں تھا بلکہ ہاتھ باندھے خاموش کھڑا تھا۔۔۔ کمشنر صاحب کی باتیں سن کر اُس نے اپنا سر نہیں جھکایا تھا

"سر کل میرا سب کچھ داؤ پر ہی لگا ہوا تھا میری وائف میری فیملی۔۔۔ آپ خود کو میری جگہ پر رکھ کر سوچیں"

بہرام نے اپنے سینئر آفسیر کے سامنے بولتے ہوئے تمیز کا دامن نہیں چھوڑا تھا مگر اُسے تعجب تھا اِس سارے معاملے میں وہ صرف اُسی کو کیسے قصور وار ٹہرا سکتے تھے 

"میرے سامنے یوں جذباتی باتیں کرکے مزید بےوقوفی مت ظاہر کرو مجھ پر۔۔۔ جو تمہاری سیٹ ہے اُس پر جمے رہنے کے لیے آدمی کو مینٹلی اسٹرونگ ہونا پڑتا ہے نہ کہ اموشنلی۔۔۔ تم نے ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر بھی اُن کے آرڈرز کو فالو نہیں کیا اب انہیں بھی تم سے کافی شکوے لاحق ہوچکے ہیں"

کیوکہ وہ لائق آفیسر تھا ہر کسی کا دل عزیز، اس لیے کمشنر صاحب نے بہرام کو اُس کی دوسری غلطی کے بارے میں بھی بتایا جس پر وہ ضبط نہیں کرسکا

"سر میں ڈپٹی صاحب کے آرڈر کو مانتے ہوئے کیسے یعقوب نیازی کی بیٹی کو چھوڑ دیتا جبکہ میری اپنی وائف اُس یعقوب نیازی کے۔۔۔

بہرام کی بات مکمل ہونے سے پہلے کمشنر صاحب نے انگلی دکھائی تو بہرام خاموش ہوگیا

"چلو میں مان لیتا ہوں جو تمہارے ساتھ ہوا ٹھیک نہیں ہوا مگر تم نے اُس کا پورا بدلہ لیتے ہوئے یعقوب نیازی کے فارم ہاؤس پر بغیر سرچ وارنٹ کے پولیس کو بھیجا، اُس کی بیٹی کو گھر سے زبردستی اٹھا لاۓ پھر اس کے بعد یعقوب نیازی پر گولی چلائی یعنی کہ رولز کو فالو کرنا تم نے ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ اب تک کے تمہارے اتنے شاندار کریئر کو دیکھ کر میرا دل نہیں کررہا مگر میں مجبور ہوں تمہیں ایک ماہ کے لیے سسپنڈ کرنے پر"

کمشنر صاحب نے بولتے ہوئے سامنے پرچے پر سائن کیے تو بہرام ایک دم بول اٹھا

"سر پلیز یہ میرے ساتھ زیادتی۔۔۔

ِاُس کا جملہ کمشنر صاحب کی تیز آواز کے آگے مکمل نہیں ہوسکا

"اے سی بی بہرام عباسی دفع 358 لگنے پر رولز کو فالو نہ کرتے ہوئے آپ کو ایک ماہ کے لئے نوکری سے معطل کیا جاتا ہے از ڈیٹ کلئیر"

اب کی بار کمشنر صاحب کا لہجہ بغیر لچک لیے ہوئے تھا بہرام ضبط کرتا ہوا بولا

"یس سر" 

کمیشنر صاحب کو سلوٹ کرتے ہوۓ وہ ٹیبل پر رکھا ہوا پرچہ اٹھاکر اُن کے کمرے سے باہر نکل گیا

اُس کو غصہ اِس قدر شدید تھا کہ ضبط نہ کرتے ہوئے اُس نے زوردار مکا سامنے دیوار پر مارا جس پر اسٹاف کے آفیسر اُس کی طرف متوجہ ہوئے وہ سب کو نظر انداز کرتا ہوں اپنی گاڑی تک پہنچا

کل کے واقعے کی پوری تفصیلات اُس کے ڈپارٹمنٹ میں پھیل چکی تھی کیسے اُس کی بیوی کو یعقوب نے اٹھوایا، جس کے بدلے میں اُس نے یعقوب نیازی کی بیٹی کو تین گھنٹے اپنے پاس رکھا۔۔۔۔ اپنی بیوی کے زخمی ہونے کی وجہ سے اُس نے غصّے میں یعقوب نیازی پر فائر کیا

یعقوب نیازی کی جان تو بچ گئی تھی مگر حالت ابھی بھی نازک تھی، دو دن بعد یعقوب نیازی کے چھوٹے بھائی ارسل نیازی عرف بوبی کو پھانسی ہوجاتی اور یعقوب نیازی کی حالات اسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی بھائی کی جان بچانے کے لیے اپنے ہاتھ پاؤں چلاتا۔۔۔ ایک طرح سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا تھا وہی اُسے اپنے معطل ہونے کا بھی شدید افسوس تھا۔۔۔۔ اپنی جاب کے آغاز سے یہ پہلی پنشٹ تھی جو اُس کو دی گئی تھی وہ بھی اُس آدمی پر فائر کرنے کے لیے جو پہلے ہی سے پولیس کے ریکارڈ میں اور فائلز میں موجود تھا جس پر چند ماہ بعد پولیس کو ایکشن لینا تھا

اگر یہی گولی وہ کسی چھوٹے آدمی پر چلاتا تو اِس کیس کو اُس کے بڑے افسران بہت آرام سے دبالیتے ڈرائیونگ کرتے وقت اُس کا موڈ کافی خراب تھا مگر کمشنر صاحب کی مجبوری تھی، انہیں بھی اپنے اوپر جواب دینا تھا بہرام ہاسپٹل کے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کرتے ہوئے سوچ رہا تھا تب اُس کی نظر اُس لڑکی پر پڑی جو اُس کے دیکھنے سے پہلے اپنا چہرہ آنچل سے چھپا کر گیٹ سے باہر نکل گئی تھی۔۔۔ لیکن وہ آنکھوں سے اسے پہچان چکا تھا

"حرم"

بےساختہ بہرام کے منہ سے نکلا۔۔۔ حرم یہاں کیا کررہی تھی زیادہ خون بہنے کی وجہ سے کل تک اُسے اتنی کمزوری تھی کہ وہ چار قدم بھی مشکل سے چل پارہی تھی اور اِس وقت وہ ہاسپٹل کے پارکنگ ایریا میں۔۔۔ بہرام سوچتا ہوا اُس کے پیچھے جانے لگا مگر اچانک اُس کے دماغ میں دوسرا خیال آیا

"او نو،، اینجل۔۔۔ شٹ"

وہ زور سے چیختا ہوا اُس کے پیچھے جانے کی بجائے بھاگتا ہوا اسپتال کے اندر حرم کے پاس جانے لگا۔۔۔ کل سے اُس کا ذہن کس قدر پریشان اور تھکا ہوا تھا اینجل کی طرف تو اُس کا ذہن بھی نہیں گیا تھا

ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم کے باہر اُس نے قمر (سپاہی) کی ڈیوٹی لگائی تھی جو اِس وقت وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔ بہرام تیزی سے کمرے کے اندر آیا۔۔۔ خالی کمرے میں نرس کو دیکھ کر اُس کا دماغ بری طرح چکرا گیا

"کہاں ہیں میری وائف"

وہ نرس کے پاس آکر اتنی زور سے چیخا کے نرس بری طرح سہم گئی

"بہرام"

تب اُسے اپنی پشت سے حرم کی آواز آئی بہرام نے دیکھا وہ واش روم کے دروازے پر موجود تھی جسے دیکھ کر بہرام نے اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کر کے خدا کا شکر ادا کیا

وہ تیزی سے حرم کی جانب بڑھا اور اُسے اپنے حصار میں لےلیا حرم جو واش روم جاتے ہوئے بری طرح ہانپ گئی تھی بہرام کے اِس انداز پر بری طرح بوکھلا گئی

"نرس یہی موجود آپ کو دیکھ رہی ہے بہرام پیچھے ہٹیں"

حرم نے خود بھی شرمندہ ہوکر آئستہ آواز میں بہرام کو ہوش دلایا

"دیکھنے دو، مجھے اطمینان کرنے دو کہ تم بالکل صحیح ہو" 

بہرام اُسے اپنے حصار سے آزاد کرتا ہوا حرم کا چہرہ تھام کر اُسے دیکھتا ہوا مزید تسلی کرنے لگا

"میں بالکل ٹھیک ہوں بہرام کیا ہوگیا ہے آپ کو"

حرم کو لگا وہ کچھ زیادہ ہی حساس ہورہا تھا اس لیے وہ حیرت زدہ ہوکر بہرام سے پوچھنے لگی

"آئی تھنک تم کل ٹھیک کہہ رہی تھی کہ ہمہیں اسپتال کی بجائے اپنے گھر چلنا چاہیے میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہوں"

بہرام حرم کو دیکھتا ہوا بولا کیونکہ وہ اُس کے لیے مزید کوئی خطرہ مول نہیں سکتا تھا

"ڈاکٹر ابھی راؤنڈ پر آئے تھے چیک کرکے گئے ہیں کل تک ہی ڈس چارچ کرے گیں وہ"

بہرام حرم کو تھام کر آہستہ سے قدم اٹھاتا ہوا بیڈ کی طرف لے جانے لگا تو حرم اُس کو بتانے لگی

"میں کرلیتا ہوں ڈاکٹر سے بات تم اپنے مائنڈ میں رکھو ہمیں تھوڑی دیر بعد یہاں سے نکلنا ہے"

بہرام اُسے بیڈ پر بٹھاتا ہوا بولا تو نرس انتظار میں کھڑی تھی حرم کے بیڈ پر بیٹھتے ہی وہ اُس کی کلائی کی ڈریسنگ کرنے لگی

"کہاں پر موجود تھے تم میں نے تمہیں روم سے باہر ڈیوٹی کے لئے کھڑا کیا تھا یا پھر آوارہ گردی کرنے کے لئے"

بہرام حرم کی کلائی پر چھری کا نشان دیکھتا ہوا غُصے میں اپنے موبائل پر قمر کو جھڑکنے لگا۔۔۔ نرس نے سر اٹھا کر اِس غصے کے تیز انسپکٹر کو ایک بار پھر دیکھا جو شاید صرف اپنی بیوی سے ہی سکون سے بات کرتا تھا

اتنے میں وارڈ بوائے روم میں کھانے کی ٹرے لےکر آیا جسے بہرام نے ویسے ہی واپس کروا دی۔۔۔ کیونکہ یہاں اینجل کا موجود ہونا اتفاق نہیں ہوسکتا تھا اُس کے پیچھے ضرور کوئی وجہ تھی۔۔۔ وہ ہر چیز کو شک کے دائرے میں دیکھ رہا تھا اور حرم کے معاملے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔ حرم کا ہسپتال کی بجاۓ اس کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ میں رہنا ہی ٹھیک تھا

"مجھے بھوک لگ رہی تھی بہرام آپ نے کھانا بھی نہیں کھانے دیا مجھے"

نرس کے وہاں سے جانے کے بعد حرم بہرام سے بولی

"کھانا باہر سے پیک کروا لیں گا یہاں معلوم نہیں کھانے کا کیسا ٹیسٹ ہو میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہوں تم جب تک ریسٹ کرو"

بہرام حرم کو بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ کمرے سے باہر موجود قمر بہرام سے معذرت کرنے لگا جسے وہ غصّے میں گھورتا ہوا ڈاکٹر کے پاس چلاگیا

*****

گھر آنے کے بعد غصّے میں اُس نے ہاتھ میں موجود بیگ ٹیبل پر پھینکا اور چادر اتار کر دور اچھالی۔۔۔ اُسے گھر آتے دیکھ کر جوجو اُس کے نزدیک آیا

"چلے جاؤ جوجو اِس وقت یہاں سے"

وہ بیزار ہوکر اپنے پلے ہوۓ کُتے سے بولی

آج اُسے کتنا زبردست چانس ملا تھا جو بہرام کے جلد اسپتال آنے پر وہ گنوا چکی تھی۔۔ اپنی کلائی پر موجود نقلی زخم کو دیکھ کر اینجل سوچنے لگی۔۔۔ اسپتال کے روم سے باہر کھڑے پہرے دار کو بھی وہ ڈرائیور کے ساتھ باتوں میں لگوا چکی صرف اُسے حرم کے کمرے میں جاکر حرم کو بےہوش کرکے اپنے آدمیوں کی مدد سے اُسے کمرے سے باہر نکلوانا تھا،، وہ آدمی جو پہلے سے ہی اُس کی مدد کے لیے اسپتال کے یونیفارم میں موجود وہی پر کام کرنے والے لگ رہے تھے۔۔۔

حرم کو اسپتال کی حدود سے نکالنے کے بعد بعد وہ لباس تبدیل کرکے بیڈ پر لیٹ جاتی۔۔۔ مگر اِس سے پہلے اسپتال کے مین گیٹ پر کھڑے اینجل کے آدمی نے کال کرکے اُسے بتایا کہ بہرام کی گاڑی اسپتال کے اندر داخل ہوچکی ہے۔۔۔ اِس لئے اینجل کو منہ چھپا کر اسپتال سے جلد سے جلد باہر نکلنا پڑا وہ اپنی طرف سے بہرام کو ذرا سا بھی شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ بات کی کھال نکالنے والا مرد تھا

"آج تمہاری بیوی بچ گئی مگر اگلی دفعہ میں کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دوں گی"

وہ سلوشن کی مدد سے نقلی زخم کو صاف کرتی ہوئی سوچنے لگی بہت مشکل ہورہا تھا اُس کے لیے حرم کو اپنی جگہ بہرام کے ساتھ برداشت کرنا

*****

پورا ہفتہ گزر چکا تھا حرم کو اسپتال سے بہرام کے ساتھ اُس کے فلیٹ میں آئے ہوئے۔۔۔ اِس ایک ہفتے میں اُس نے بہرام کو صرف اپنی کیئر کرتے ایک الگ ہی روپ میں دیکھا تھا۔۔ وہ پولیس اسٹیشن بھی نہیں جارہا تھا مسلسل ہفتے بھر سے گھر پر موجود تھا پورے ہفتے بعد آج وہ اپنے آپ کو گزرے دنوں کے مقابلے میں بہتر محسوس کررہی تھی وہ اِس قابل ہوچکی تھی کے اٹھ کر چلتی پھرتی۔۔۔ بہرام کے منع کرنے پر ہی حرم نے اِس واقعے کا ذکر نہ تو جیاء سے کیا تھا نہ ہی اپنے چچا جان کی فیملی سے

آج شام جب بہرام گھر سے نکلا تو اُس کے پیچھے نگی اور اسجد اُس سے ملنے آگئے۔۔۔ بہرام کی واپس لیٹ آمد پر وہ لوگ تھوڑی دیر اور بیٹھ گئے بہرام اُن دونوں سے بہت اچھے طریقے سے ملا خاص کر اسجد سے۔۔۔ اب معلوم نہیں اُن دونوں کے جانے کے بعد بہرام اُس کے ساتھ کیسا رویہ رکھتا حرم کے دل میں ویسے ہی خیال آیا

"کہاں چلے گئے تھے آپ شام میں اتنی دیر کے لئے"

اُن دونوں کے جانے کے بعد حرم بہرام سے پوچھنے لگی اور ساتھ ہی بہرام کا ڈرائے کلین ہوا یونیفارم وارڈروب میں رکھنے لگی

"ایک ضروری کام تھا کہ کسی کے بارے میں کچھ معلومات کروانی تھی پھر وہاں سے عفان کے پاس چلاگیا سوچا اُس کو بھی دیکھ آؤ" 

بہرام حرم کو بتاتا ہوا اُس کے پیچھے چل کر کچن تک آیا جہاں ٹرالی میں ریفرشمینت کا سامان موجود تھا جو تھوڑی دیر پہلے حرم نے اسجد اور نگی کے سامنے رکھا تھا حرم ساری چیزیں باکس میں ڈالتی ہوئی بولی

"کیسی ہے عفان کی طبیعت۔۔۔ آپ مجھے بھی ساتھ لے چلتے میں بھی دیکھ لیتی اُس کو" 

حرم کی بات سنتا ہوا وہ باکس میں رکھے ہوئے نگٹ اٹھاکر کھاتا ہوا بولا

"پہلے تم خود کی طبیعت تو ٹھیک کرلو پھر چلی چلنا کسی دن عفان کی امی بہت اچھی نیچر کی ہیں وہ پوچھ رہی تھی تمہارا،، عفان تو ہمارے ولیمے میں اپنے کسی پروجیکٹ کی وجہ سے نہیں آسکا تھا مگر انھوں نے شرکت کی تھی میں نے تمہیں اُن سے ملوایا بھی تھا معلوم نہیں تمہیں یاد ہے کہ نہیں"

بہرام نے حرم کو برتن واش کرتے دیکھا تو کچن میں چھوٹا موٹا پھیلا ہوا کام خود ہی نبھٹانے لگا

"تعارف کروایا تھا آپ نے میرا ان سے،، مجھے یاد آگیا ہے۔۔۔ اور آپ بار بار میری طبیعت کا بول رہے ہیں میں اب بالکل ٹھیک ہوں اچھا یہ بتائیں کھانا گرم کرو آپ کے لیے"

دوسرے کاموں میں لگ کر وہ بھول ہی گئی تھی بہرام کو کھانے کا بھی پوچھنا تھا۔۔۔ پانی کا ٹیب بند کرتی ہوئی وہ بہرام کے لئے پلیٹ میں کھانا نکالنے لگی ویسے ہی بہرام  اُس کے ہاتھ سے پلیٹ لیتا ہوا بولا

"میرے منع کرنے کے باوجود عفان کی امی نے زبردستی کھانا پر روک لیا میں کھانا کھا چکا ہوں تم اپنے لیے کھانا نکال لو" 

بہرام حرم سے بولتا ہوا اُس کے دونوں ہاتھ تھام چکا تھا جو برتن دھونے کی وجہ سے ٹھنڈے ہورہے تھے

"نگی اور اسجد بھائی کے ساتھ اچھا خاصا ریفرشمنٹ کرلیا تھا اب کھانے کی گنجائش بالکل نہیں ہے ایک بات پوچھوں آپ سے۔۔ نگی اور اسجد بھائی کا یہاں پر آنا آپ کو برا تو نہیں لگا"

حرم بہرام کا چہرہ دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی اُس کے دونوں ہاتھوں کو وہ اپنے ہاتھوں میں چھپائے اپنے سینے پر رکھ کر حرم کو دیکھنے لگا

"تمہیں میرے رویے سے محسوس ہوا کہ مجھے ان دونوں کا آنے پر برا لگا ہوگا۔۔۔ اگر اسجد نگی کے بغیر بھی تم سے یہاں پر ملنے آتا مجھے تب بھی اُس کے آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ تمہارا خالہ ذاد ہے۔۔۔ اور نگی تو ہے ہی تمہاری پکی والی سہیلی"

بہرام کی بات سن کر حرم مسکرا کر اُسے دیکھنے لگی

"سوری مجھے ایسا کچھ آپ سے پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا کیوکہ بقول آپ کے ہمارے درمیان تو سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے"

حرم مسکراتی ہوئی بولی تو بہرام بھی مسکرا دیا

"ہمارے درمیان تو سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے لیکن اب میں تمہارے ٹھیک ہونے کا ویٹ کررہا ہوں طبیعت ٹھیک کرلو اپنی"

بہرام نے بولتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی کمر پر لپیٹا خود بھی حرم کو اپنے حصار میں لےلیا

"میری طبیعت اب مکمل طور پر ٹھیک ہوچکی ہے بہرام کیسے یقین دلاؤں میں آپ کو" 

وہ اس کی طبیعت کو لےکر اتنا زیادہ فکر مند تھا حرم اُس کے حصار میں بہرام کو دیکھ کر یقین دلاتی ہوئی بولی

"سوچ لو تم خود ہی کہہ رہی ہو کہ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے"

بہرام حرم کو جتانے والے انداز میں بولا تو حرم اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جس پر معنی خیز مسکراہٹ تھی جس کی وجہ حرم کو سمجھ میں نہیں آئی

"جھوٹ تو نہیں بول رہی ہوں میں آپ سے، اب بالکل ٹھیک محسوس کررہی ہو تب بھی ایسا بول رہی ہوں، آپ ایسے مسکرا کیوں رہے ہیں"

حرم بہرام کو بولنے کے ساتھ اس کی مسکراہٹ پر ٹوکتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی

"مسکرا اِس لیے رہا ہوں جو میں اب کہنے والا ہوں مجھے پورا یقین ہے میری اُس بات پر تم بری طرح شرما جاؤں گی"

بہرام کے اِس طرح بولنے پر اور اُس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر حرم نے اُس کے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاۓ۔۔۔

وہ اپنا رخ موڑ کر کیبنٹ میں پلیٹیں سیٹ کرنے لگی۔۔ اُس کے ہاتھوں کی حرکت تب تھمی جب بہرام اُس کی پشت پر کھڑا ہوکر حرم کو اپنے حصار میں لےکر اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا

"میں آج رات ہم دونوں کے بیچ ساری دوریاں مٹادینا چاہتا ہوں۔۔۔ تمہارے ساتھ بہت زیادہ کلوز ہونے والا ہوں میں"

بہرام کی بات سن کر حرم کے ہاتھ میں موجود پلیٹ گرتے گرتے بچی،، بہرام نے پلیٹ کو پکڑ کر کیبنٹ میں رکھا اور اُس کا رخ اپنی طرف کیا۔۔۔۔ جو بہرام کی بات پر سرخ چہرے لیے اپنی نظریں جھکا گئی تھی

"پھر بتاؤ مجھے"

بہرام حرام کو اپنے حصار میں لیتا ہوا اُس سے اُس کی مرضی پوچھنے لگا

"کیا ہم دونوں ابھی کلوز نہیں ہیں"

حرم بہرام کے سینے میں منہ چھپاتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی وہ اُس سے یہ بات کیوں پوچھ رہا تھا بھلا وہ اِس معاملے میں کیا بولتی۔۔۔

"کلوز تو ہیں مگر اُس طرح نہیں۔۔۔ یہ تم بھی جانتی ہو میں کیا چاہ رہا ہوں تم سے۔۔۔ یہاں میری طرف دیکھ کر جواب دو"

بہرام حرم کو اپنے حصار سے آزاد کرتا ہوا اُس کا چہرہ اونچا کرکے اپنے چہرے کے قریب کرچکا تھا

"کیا جواب دوں آپ کو،،، مجھے نہیں معلوم آپ کیا بول رہی ہیں"

وہ اُس کی باتوں اور خاص کر نظروں سے نروس ہورہی تھی بھلا کیا بولتی

"تم سے تمہاری مرضی پوچھ رہا ہوں مسسز،، کیا تم راضی ہو"

بہرام حرم کو نروس دیکھ کر کُھل کر بولا لیکن ساتھ ہی وہ اُس کے چہرے کے بکھرے رنگ بھی انجواۓ کررہا تھا

"میری مرضی کا ہونا ضروری ہے کیا"

حرم کا چہرا ابھی بھی بہرام نے تھاما ہوا تھا اب کی بار اس نے نظریں اٹھاکر بہرام کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"آف کورس ضروری ہے میں زور زبردستی کا یا پھر اِس معاملے میں تو اپنی مرضی چلانے کا قائل نہیں"

بہرام حرم کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑھے سنجیدگی سے پوچھنے لگا

"تو پھر ٹھیک ہے"

حرم نے بولتے ہوئے جلدی سے اپنی نظریں واپس جھکالی تو بہرام کے لبوں پر جاندار مسکراہٹ دوڑ گئی

"کیا ٹھیک ہے۔۔۔۔ کیا مطلب اِس بات کا"

بہرام سنجیدگی سے حرم سے پوچھنے لگا

"مطلب جیسا آپ چاہ رہے ہیں تو ٹھیک ہے پھر"

حرم اپنے چہرے سے بہرام کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی

"مطلب میرے چاہنے پر تم ایگری ہوئی ہو، تمہارا خود کا اپنا دل نہیں کہ ہم اپنا ریلشںن اسٹارٹ کریں"

بہرام اپنے چہرے کی اسمائل چھپاتا ہوا اُس کی حالت سے لطف اندوز ہوتا بولا

"وہ مطلب نہیں تھا میرا بہرام آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہیں میری بات کو۔۔۔ کیا اپنا منہ پھاڑ کر بول دو میں کہ۔۔۔،، میں جانتی ہوں آپ جان بوجھ کر مجھے تنگ کررہے ہیں"

حرم شرمانے کی بجائے ناراض ہوکر کچن سے جانے لگی تب بہرام نے اُسے بازو سے کھینچ کر دوبارہ اپنے حصار میں لے لیا

"ٹھیک ہے میں یہاں تنگ نہیں کررہا اپنے بیڈ روم میں چلتے ہیں لیکن میرے وہاں تنگ کرنے پر تم اِس طرح سے ناراض نہیں ہوگی میں پہلے ہی بتارہا ہوں"

بہرام کی پیار بھری دھمکی پر وہ شرمانے کے ساتھ ساتھ ہنس دی

"ایگری"

حرم کی مرضی سن کر بہرام نے اُسے اپنے دونوں بازوؤں میں اٹھالیا

"کیا ہر شوہر کو اِسی طرح اپنی بیوی کو اٹھاکر بیڈ روم میں لے جانا ضروری ہوتا ہے"

اِسے بہرام کے اس عمل پر شرم تو بہت آرہی تھی لیکن اُس سے یہ جاننا اِس لئے ضروری سمجھا کیونکہ وہ اکثر فلموں میں ایسے سین دیکھتی آئی تھی اور شادی کی رسموں میں بھی اکثر دلہا اپنی دلہن کو ایسے ہی اٹھاکر کمرے میں لےکر جاتے تھے 

"ایسا ضروری تو نہیں ہوتا مگر رومنٹک ضرور لگتا ہے۔۔۔۔ میں نے تمہیں اِس لیے اٹھالیا تمہارا ویٹ زیادہ نہیں ہے اگر تم اچھی صحت مند لڑکی ہوتی تو میں یہ رسک ذرا سوچ سمجھ 

بہرام کے شرارت بھرے انداز پر حرم نے اُسے گھور کر دیکھا بہرام مسکراتا ہوا اِسے بازوؤں میں اٹھائے بیڈروم میں لے جانے لگا

*****

بیڈ روم میں لاکر حرم کو بیڈ پر بٹھاتے ہوۓ بہرام کا شرارت بھرا موڈ اب بالکل سیریس ہوچکا تھا۔۔۔ وہ لائٹ بند کرتا ہوا نائٹ بلب آن کرکے حرم کے پاس آیا تو حرم نروس ہونے لگی

"نروس؟؟؟"

نائٹ کلب کی مدھم روشنی میں وہ حرم کے تاثرات دیکھتا ہوا سوالیہ انداز میں اُس سے پوچھنے لگا

"نہیں۔۔۔ بلکہ ہاں نہیں بس تھوڑی تھوڑی"

وہ تھوڑی سی نہیں بہت زیادہ نروس تھی اُسے سمجھ میں نہیں آیا وہ بہرام کو کیا بولے۔۔۔ حرم کی کیفیت سمجھتے ہوئے بہرام نے اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں پر لگالیا جس پر حرم کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں

"اپنے ذہن میں یہ بات رکھو کے ہم دونوں ایک مقدس رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، جب ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آئیں گے تب ہی ہمارا رشتہ مضبوط ہوگا یہ ایک نیچرل سا تعلق ہے جو شادی کے بعد ہر شوہر اور بیوی کے درمیان پیدا ہوتا ہے، اِسی سے شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے کے لئے محبت، احساس، اعتماد کا رشتہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔ یوں سمجھ لو یہی اِس رشتے کی خوبصورتی ہے۔۔۔ حرم کیا تم چاہتی ہو میرے اور تمہارے درمیان پیار، محبت، اعتماد، اور احساس کا رشتہ مضبوط ہوجائے"

بہرام بیڈ پر حرم کے قریب بیٹھا ہوا اُس کا ہاتھ تھامے حرم سے پوچھنے لگا تو حرام نے بہرام کی بات پر اقرار میں سر ہلایا

وہ دل سے اپنے شوہر کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کر کے اُس کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی تھی، حرم کی رضامندی دیکھکر بہرام نے اُس کے گلے میں موجود دوپٹہ اتار کر اُسے سائیڈ پر رکھا۔۔۔ بہرام اپنی شرٹ اتارنے لگا تو حرام نے اپنا سر نیچے جھکالیا

اُس نے بیڈ پر لیٹنا چاہا تو بہرام نے اُسے بازؤوں سے پکڑ کر اپنے قریب کرلیا۔۔۔ بہرام حرم کو اپنے حصار میں لیے اپنے تشنہ لب اُس کے ہونٹوں پر رکھ کر اپنی پیاس کو بجھانے لگا۔۔۔ بہرام کے دونوں ہاتھ اس کے شانوں پر ٹکے ہوئے تھے۔۔۔ شانوں سے اپنی شرٹ نیچے سرکتی ہوئی محسوس کرکے حرم کی ڈھڑکنوں کی رفتار بڑھنے لگی۔۔۔ بہرام کے ہونٹوں کا لمس اپنی گردن اور شانوں پر محسوس کرکے وہ اپنی آنکھیں زور میں بند کرچکی تھی، بہرام کے ہاتھ اُس کی کمر کو چُھوتے ہوۓ۔۔۔ اُسے شرمانے پر مجبور کررہے تھے۔۔۔

ہر چیز سے غافل ہوکر وہ سارے شرم کے پردے گراتا ہوا۔۔ حرم اور اپنے درمیان ایک ایک کرکے سارے فاصلے سمیٹنے لگا۔۔۔ حرم کی قربت کا نشہ اُس پر ایسے طاری ہونے لگا۔۔۔ وہ اپنا آپ بھلاۓ اُس کے وجود میں خود کو بری طرح گم کرچکا تھا

"بہرام"

حرم بیڈ پر لیٹی ہوئی آنکھیں بند کرکے بہرام کو پکارنے لگی۔۔ کیا نہیں تھا اُس کی دسترس میں محبت، چاہت، اپنے پن کا احساس، اِس قدر شدت کہ حرم بےچین ہونے لگی۔۔۔

اپنی تھائس پر بہرام کی انگلیوں کا لمس، اور اپنے پیٹ پر بہرام کے ہونٹوں کی نرماہٹ کو محسوس کرکے، اُس کی بڑھتی ہوئی جراتوں اور شدتوں پر تاب لانا حرم کے لیے مشکل ہونے لگا۔۔۔ حرم کی جان نکلنے کے درپے تھی جب وہ مکمل طور پر اُس پر جکھتا ہوا پوری طرح قابض ہونے لگا۔۔۔۔ کلائیوں سے حرم کے دونوں ہاتھ پکڑے وہ اُس کے دل کے مقام پر اپنے کُندھے ہوۓ نام پر ہونٹ رکھتا ہوا اُسکے حواسوں پر قابض ہونے لگا

*****

"تم سمجھ کیو نہیں رہی ہو یہ سب میرے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے، پہلے میرے اوپر جھوٹا الزام لگانا کہ میں نے اے سی پی کی بیوی کو اغواء کروایا ہے، پھر اُس کے بدلے میں ہماری بیٹی کو گھر سے لے جانا اور بعد میں میرے اوپر حملہ کرکے جان لینے کی کوشش کرنا"

جیسے ہی یعقوب نیازی کی طبعیت بحال ہوئی سب سے پہلے اسے اپنے بھائی ارسل نیازی کی افسوس ناک خبر سننے کو ملی، جس کے صدمے سے وہ نکل بھی نہیں پایا تھا تب اُس کی بیوی نے اُس سے اپنا رشتہ ختم کرنے کے لیے کہہ دیا۔۔۔ اِس وقت وہ اپنا گھر بچانے کے لیے اپنی بیوی کو اپنی صفائی دے رہا تھا

"پولیس والوں کی آپ سے یا آپ کے بھائی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے یعقوب، دشمنی کرنے کے لیے قانون نے دنیا میں آپ کو اور آپ کے بھائی کو ہی کیوں چنا۔۔۔ پہلے آپ نے کہا بوبی کو جھوٹے الزام میں پھنسا کر اندر کیا گیا ہے میں نے اُس کو سچ مان لیا۔۔۔ آپ کے بارے میں جو اُڑتی اُڑتی افواہیں مجھے سننے کو ملتی میں نے اُن پر کان نہیں دھرے لیکن اب میں مزید آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگل سکتی۔۔۔ جوان بیٹی کے باپ ہوتے ہوۓ شرم نہیں آئی آپ کو کسی عزت دار غیرت مند آدمی کی بیوی کو اُس کے گھر سے اٹھواتے ہوۓ، مجھے آپ کے دوسرے کارناموں کا بھی علم ہوچکا ہے، جو اگر میں نے آپ کے بچوں کے سامنے کھول دئیے تو اُن کے سر بھی شرمندگی سے جھگ جاۓ گیں۔۔۔ آپ مجھے اِس سوال کا جواب دیں کہ میری محبت میں، خلوص میں یا وفا میں کہاں کمی رہ گئی تھی جو آپ اپنے فارم ہاؤس میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔۔

اُس کی بیوی سے جملہ مکمل نہیں ہوسکا وہ رونے لگی تو یعقوب نیازی خاموش ہی رہا اُس کے پاس بولنے کے لیے الفاظ ختم ہوچکے تھے

"ایک عرصہ آپ کے ساتھ وفا نبھاکر مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ جیسا شخص وفاداری تو دور رشتہ نبھانے کے بھی لائق نہیں۔۔۔ میں نے خلع لینے کا فیصلہ کرلیا ہے ہم دونوں کے بچے اتنے چھوٹے ہرگز نہیں کہ ہم دونوں انہیں زبردستی اپنے ساتھ رکھیں، وہ دونوں آپ کے ساتھ رہنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔۔ خلع کے بعد میں نیو یارک اپنے بھائی کے پاس جانا چاہتی ہوں اس لیے تمام تر معالات جتنی جلدی نمٹ جاۓ اتنا ہی اچھا ہے"

اُس کی بیوی اُسے اپنا فیصلہ سناتی ہوئی کمرے سے نکل گئی

"میرا بھائی تیری وجہ سے اِس دنیا سے چلاگیا میرا گھر بھی تیری وجہ سے برباد ہورہا ہے اے سی پی۔۔۔ اگر میری بیوی یہاں سے گئی تو تیری بیوی کو بھی تجھ سے الگ کردو گا، میں تیرا گھر بھی برباد کرڈالوں گا"

یعقوب نیازی کو اپنی بیوی کی فطرت کا اچھی طرح اندازہ تھا۔۔۔ بےشک وہ پیار محبت کرنے والی عورت تھی لیکن اب وہ ضد پر آچکی تھی اگر اُس کے بیوی بچے اُس کو چھوڑ کر جارہے تھے تو اُس نے سوچ لیا تھا وہ بہرام کو بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دے گا

*****

ہاتھوں کی مدد سے شاپنگ کارٹ کو آگے چلاتی ہوئی وہ ریک میں رکھا ہوا سامان اُس میں ڈال رہی تھی۔۔۔ آج وہ بہرام کو زبردستی اپنے ساتھ گروسری کرنے کے لئے اپارٹمنٹ کے قریب مارٹ میں لائی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے تک بہرام اُس کے ساتھ تھا مگر اُس کے موبائل پر کال آئی تو وہ باتوں میں مصروف ہوچکا تھا تبھی حرم نے سوچا وہ خود ضرورت کی اشیاء دیکھ لیں۔۔۔ آئل کا کین احتیاط کے ساتھ اٹھا کر شاپنگ کارٹ میں رکھتی ہوئی بےساختہ حرم کی نظر اُس خالی پورشن پر پڑی جہاں سے ابھی کین اٹھایا تھا

دوسری جانب بالکل اُسی کی شکل کی لڑکی جو پیچھے دوسرے پورشن میں کھڑی، وہ حرم کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی،، حرم پہلے حیرت سے پھر خوف سے اُسے دیکھتی رہی اُس لڑکی کی مسکراہٹ اتنی پراسرار تھی کہ حرم ڈر گئی

"بہرام"

اپنی جانب بہرام کو آتا دیکھ کر وہ بہرام کو پکارتی ہوئی اُس کی طرف تیزی سے بڑھی

"وہاں جاکر میرے ساتھ دیکھیں وہاں کوئی ہے"

اِس سے پہلے بھی بہرام اُس کے چہرے پر گھبراہٹ دیکھ کر حرم سے کچھ پوچھتا حرم پریشانی سے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتانے لگی۔۔۔ اُس کا اشارہ پاتے ہی بہرام لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں پہنچا جہاں ریک پر آئل کا کین رکھا تھا

"حرم ڈارلنگ تم بھی ناں یار، یہاں آؤ"

وہ مسکراتا ہوا حرم کو بلانے لگا۔۔۔ حرم پریشانی سے اُس کے قریب آئی تو بہرام نے اُسے شانوں سے تھام کر اُس جگہ پر کھڑا کیا جہاں سے دوسرے پورشن میں حرم کے سامنے آئینے میں اُسے اپنا عکس پریشان چہرہ لیے نظر آرہا تھا

"تم ایک انسپکٹر کی وائف ہو یار تھوڑی سی تو بہادر بنو، اِس کے بیک پر کاسمیٹک کا پورشن ہے جس میں یہ مرر لگا ہوا ہے۔۔۔ تم اپنے ہی عکس سے ڈر گئی۔۔۔ حد ہوتی ہے یار دکھاؤ کیا کیا سامان لے لیا ہے"

بہرام اُس کا مذاق اڑاتا ہوا شاپنگ کارٹ میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھنے لگا۔۔۔ حرم پریشانی سے دوبارہ مرر میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔۔۔ وہ بہرام کو کیسے بتاتی کہ تھوڑی دیر پہلے دیکھی گئی ہوبہو اُس کی شکل کی لڑکی کوئی اور تھی اُس کا عکس نہیں۔۔۔ وہ کس طرح اُس کو دیکھ کر عجیب سے انداز سے مسکرا رہی تھی بہرام کبھی اُس کی بات کا یقین نہیں کرتا الٹا مذاق اڑاتا اِس لئے حرم خاموشی رہی

"کیا ہوگیا یار اب تم خاموش کیوں ہوگئیں، چلو میں آئسکریم کھلاتا ہوں تمہیں"

سارا سامان گاڑی میں رکھوا ہوا وہ حرم کے شولڈر پر اپنا بازو دراز کرکے اُسے وہاں سے لے جاتا ہوا بولا جبکہ کاسمیٹک کے پورشن میں کھڑی اینجل کے تن بدن میں شرارے دوڑنے لگے وہ آج کسی دوسرے کام سے باہر نکلی تھی مگر بہرام اور اُس کی بیوی کو اس مارٹ میں جاتا دیکھ کر وہ بھی اپنے ڈرائیور کے ساتھ یہاں چلی آئی تھی

"بہت جلد میں تم سے اپنا بہرام واپس لے لو گی"

اینجل دل ہی دل میں بولتی ہوئی وہاں سے ایک خوبصورت شال اپنے لیے خرید کر مارٹ سے سے باہر نکل گئی۔۔۔ سامنے بڑا سا کافی بار تھا اینجل کے قدم اُسی کی جانب تھے

*****

"بہرام دو ہفتے ہوگئے آپ کو، پولیس اسٹیشن ہی نہیں گئے آپ"

ویٹر اُس کے سامنے آئسکریم اور بہرام کے سامنے کافی رکھ کر گیا تو حرم اُس سے پوچھنے لگی

"بتایا تو تھا یار تمہیں کہ لیو پر ہو تھوڑے دنوں کے لیے"

بہرام بھانپ اڑتی کافی کا سپ لیتا ہوا بولا اُس نے سسپینڈ ہونے کے بارے میں نہ تو حرم کو بتایا تھا نہ ہی جیاء کو، اپنی ذات سے متعلق بہت سی باتیں وہ اپنے اندر ہی رکھنے کا عادی تھا

"ہاں ناں وہی تو پوچھ رہی ہوں اور کتنی چھٹیاں باقی ہے ابھی آپ کی"

حرم آئسکریم کھاتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی جیاء نے اُسے بتایا تھا کہ بہرام کو آئس کریم بالکل بھی پسند نہیں تھی وہ کسی کے بھی اصرار کرنے یا فورس کرنے پر آئسکریم نہیں کھاتا تھا

"تم مجھ سے وہ بات بولو جو تمہارے دماغ میں چل رہا ہے اِس وقت"

بہرام حرم کے چہرے کے تاثرات سے جان گیا وہ اُس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی

"اگر چھٹیاں زیادہ ہیں تو ہم دونوں آپی کے پاس چلیں کینیڈا،،، انہوں نے کتنی بار بولا ہے آپ سے بھی اور مجھ سے بھی۔۔۔ ویسے بھی مجھے اُن کا پورا گھر دیکھنا ہے، بہرام کتنا بڑا گھر ہے ناں آپی کا۔۔۔۔ مبشر بھائی اچھے خاصے پیسے والے لگتے ہیں" 

حرم بچوں کی طرح ایکسائیڈ ہوکر بولی تو بہرام مسکرا دیا

"جیاء کا گھر بڑا اور بہت خوبصورت ہے یہ اتفاق کی بات ہے کہ مبشر بھائی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود واقعی شریف النفس انسان ہے لیکن اگر میں تمہیں کینیڈا لےکر چلاگیا تو مجھے ڈر ہے جیاء کا بڑا سا گھر دیکھ کر تم میرے چھوٹے سے فلیٹ کو نہ بھول جاؤ"

بہرام بولتا ہوا مزے سے کافی پینے لگا تو حرم اُس کو گھور کر دیکھنے لگی

"آپ کا فلیٹ اتنا چھوٹا سا بھی نہیں ہے اے سی پی صاحب۔۔۔ اگر چچا جان جیسے تین گھر مل جائیں تب بھی آپ کے فلیٹ جتنا ایریا نہ بنے۔۔۔ بےشک آپی کا گھر بڑا ہو، کتنا ہی خوبصورت کیو نہ ہو لیکن میرے لئے آپ کا گھر میری جنت ہے،، جو میرے لئے کافی زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اِس کے باوجود مجھے آپی کا گھر دیکھنا ہے بہرام پلیز مان جاؤ ناں"

حرم اس کو خوش کرتی ہوئی بولی لیکن آخری بات پر وہ ضد کرنے لگی

"میری ابھی جتنی چھٹیاں بچی ہیں وہ میں صرف تمہارے ساتھ اکیلے گزارنا چاہتا ہوں، تم جانتی تو ہو آج کل پرائیوسی ہمارے لیے کتنی معنی رکھتی ہے۔۔۔ جب صبح کام والی آتی ہے تو مجھے اُس ٹائم اُس کا گھر کی صفائی کرنا بھی کتنا برا لگ رہا ہوتا ہے۔۔۔ اِن دنوں میں صرف تمہیں اپنے نزدیک دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ میرا تو یہاں آنے کا بھی موڈ نہیں ہورہا تھا بلاوجہ کا اتنا ٹائم ویسٹ کیا تم نے اِس فضول سے کام میں"

بہرام کافی پیتے ہوئے معنی خیزی سے حرم سے بولا وہ بری طرح بلش کرگئی جس پر بہرام وہی بیٹھا اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔۔ ہفتے بھر سے اتنی نزدیکیوں کے باوجود وہ پہلے دن کی طرح اُس کے سامنے ایسے ہی شرما جاتی اور حرم کا اِس طرح شرمانا بہرام کو بہت خوبصورت لگتا

"ہم اِس وقت اپنے فلیٹ میں نہیں ہیں آپ کو خیال کرنا چاہیے"

حرم بہرام کے اِس طرح دیکھنے پر بولی۔۔۔ بہرام کا یوں دیکھنا اُس کو شرمانے پر اور نظریں چرانے پر مجبور کررہا تھا

"خیال ہی تو کررہا ہوں، ورنہ تمہیں کیا لگ رہا ہے ابھی تک یہ فاصلے قائم ہوتا ہمارے درمیان"

بہرام مسلسل اُسے معنی خیز نظروں سے دیکھتا ہوا بولنے لگا، حرم کا اُس کی باتوں پر ہی بلش کرنا اِسے لطف دے رہا تھا

"آپ دکھنے میں ویسے نہیں لگتے، جیسے آپ اکیلے میں ہوجاتے ہیں"

حرم چہرے پر سرخی لیے نظریں جھکاۓ بہرام سے بولی۔۔۔ اُس کی قربت اور کبھی کبھار بڑھتی ہوئی شدت حرم کو یونہی سرخ کردیتی

"کیسا ہوجاتا ہوں میں اکیلے میں"

بہرام مسکراہٹ چھپاۓ سنجیدگی اپناتا ہوا حرم سے پوچھنے لگا وہ کافی پیتا ہوا مسلسل حرم کے چہرے پر نظریں جماۓ بیٹھا تھا

"اب آپ جان بوجھ کر مجھے تنگ کررہے ہیں بہرام۔۔۔ پلیز یہاں مجھے ایسے مت دیکھیں میں کنفیوز ہورہی ہوں"

حرم آس پاس دیکھتی ہوئی بہرام سے بولی تو بےساختہ بہرام کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی 

"ٹھیک ہے مگر ایک شرط پر آج رات تم جیاء سے یا نگی سے موبائل پر لمبی چوڑی باتیں نہیں کروگی۔۔۔۔ بلکے آج ہم دونوں وہی کیک والی ریسیپی ٹراۓ کریں گے جو پرسوں شام ٹراۓ کی تھی"

بہرام کی بات پر پرسوں کا دن کرتے ہوۓ وہ مزید شرمائی

"وہ کیک نہ تو آپ نے مجھے پرسوں بیک کرنے دیا تھا نہ ہی آج بیک کرنے دیں گیں"

حرم صرف ایک نظر بہرام کو دیکھ کر بولی پھر آئسکریم میں چمچہ گھمانے لگی جو اب میلٹ ہورہی تھی

"کیک بےشک بیک نہ ہو مگر آج بھی ہمہیں ٹراۓ ضرور کرنا چاہیے۔۔۔ مجھے تو کیک کھانے سے زیادہ کیک بنانا مزا دے گیا تھا پرسوں"

بہرام کے بولنے پر حرم کو اپنے چہرے اور گردن پر لگی کریم اور چاکلیٹ یاد آنے لگی،، جس انداز میں بہرام نے وہ کریم اور چاکلیٹ صاف کی تھی۔۔۔ وہ سوچ کر رہ گئی

"حرم ڈارلنگ آنکھیں کھولو اپنی، ابھی ہم اپنے کچن میں موجود نہیں نہ ہی ابھی کیک بیک ہورہا ہے"

بہرام اسے چھیڑنے کے انداز میں بولا تو حرم نے انکھیں کھول کر اپنے آپ کو نارمل کیا بہرام نے بھی اسے مزید تنگ نہیں کیا تاکہ وہ سکون سے آئسکریم کھاسکے 

یقیناٍ وہ جیاء کے جانے کا شوشا چھوڑ کر پچھائی ہوگی۔۔۔ جسے ٹالنے کے لیے بہرام نے ایسی گفتگو شروع کی۔۔۔۔ جیاء کے پاس کینیڈا جانا مسئلہ نہیں تھا صرف حرم کا پاسپورٹ بنتا مگر سِسپینٹ کرتے وقت رولز کے مطابق اُس کے ڈاکومنٹس کسٹڈی میں لیے جاچکے تھے جو نوکری دوبارہ بحال ہونے کے صورت ہی اس کو ملتے 

"ارے واہ بھئی بہرام عباسی تو آج یہاں موجود ہیں کیا بات ہے بھئی"

اُس کا کلیک بولتا ہوا اچانک بہرام کی ٹیبل پر آیا تو بہرام اُس سے ملنے کے بعد حرم سے اُس کا تعارف کروانے لگا

"بھابی آپ پریشان مت ہوئیے گا اس کے معطل ہونے پر۔۔۔ ایک ہفتے بعد انکوائری بیٹھے گی تو مجھے پوری امید ہے کیس اِسی کے فیور میں جائے گا"

حرم کو تسلی دینے والے انداز میں بہرام کا کلیک اُس کا بھانڈا پھوڑ کر جاچکا تھا حرم خاموشی سے مگر افسوس سے بہرام کو دیکھنے لگی

"کیا ہوگیا حرم ریلکس ہوجاؤ اور آئسکریم کھاؤ پھر گھر کے لیے نکلتے ہیں"

اپنی طرف اٹھتی حرم کی نظروں کو دیکھ کر بہرام نارمل سے لہجے میں اس سے بولا

" آپ کو سِسپینڈ کیا گیا ہے اور آپ نے مجھ سے یہ بات چھپائی۔۔۔ کیوں"

حرم ناراض لہجے میں شکوہ کرتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی

"سِسپینڈ رولز کے خلاف ورزی کرنے پر سزا کے طور پر کیا جاتا ہے یہ کوئی فخریہ بات نہیں ہے جو میں تم سے یا پھر کسی دوسرے سے شیئر کرتا"

بہرام اس کو بتاتا ہوا کافی کا آخری گھونٹ منہ میں بھر چکا تھا

"کسی دوسرے سے نہیں لیکن آپ کو مجھ سے شیئر کرنا چاہیے تھا"

حرم اُس کو جتاتی ہوئی بولی

"یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے حرم پھر بھلا میں تمہیں کیوں پریشان کرتا۔۔۔ ویسے بھی اپیل کی ہے میں نے چند دنوں میں انکوائری بیٹھے گی تو معاملہ سیٹ ہوجائے گا"

بہرام حرم کو سمجھاتا ہوا بولا جو اُس کے مسئلے کو لےکر بہت زیادہ سیریس ہورہی تھی

"آپ کا ہر مسئلہ ہر پریشانی میرا مسئلہ اور پریشانی ہے بہرام کیوں کہ میرا اور آپ کا تعلق جڑ چکا ہے۔۔۔ اُس دن تو آپ ہزبینڈ اور وائف کے تعلق کو لے کر بڑا پیار محبت احساس اور اعتبار کی باتیں بتارہے تھے مجھے۔۔۔ آپ نے مجھ پر یقین کرلیا ہے، مجھ سے محبت کرلی ہے تو اعتبار بھی قائم کرکے دیکھیں۔۔۔۔ میں صرف آپ کی خوشیوں کی ہی ساتھی نہیں بننا چاہتی، دکھ اور سکھ دونوں کی ساتھی ثابت ہوگیں میرا یقین کر کے دیکھیے گا"

حرم نے بولتے ہوئے آخری بات پر بہرام کا ٹیبل پر رکھا ہوا ہاتھ پکڑا تو بہرام حرم کی بات پر اُس کو خاموشی سے دیکھتا رہ گیا جس پر حرم مسکرادی تو پھر بہرام بولا

"تم جیسی دکھتی ہو اس سے بالکل مختلف ہو، بہت جلد اے سی پی بہرام عباسی تمہارے عشق میں مبتلا ہوجائے گا یہ بات لکھ کے رکھ لوں"

بہرام حرم کی آنکھوں میں غور سے دیکھتا ہوا بولا تو حرم مسکرا دی اس نے آئسکریم چمچے میں بھر کر چمچہ بہرام کو منہ کے قریب کیا تو بہرام نے اُسے گھور کر دیکھا

"تم سے محبت کرنا اپنی جگہ، مگر یہ آسکریم میں بالکل بھی نہیں کھانے والا فوراً پیچھے کرلو اِس اسپون کو"

بہرام اُسے آنکھیں دکھاتا ہوا بولا کیوکہ آئسکریم سے اُسے خاص چڑ تھی۔۔۔ کوئی کتنے ہی مٹھے لہجے میں اس سے اصرار کیوں نہ کرتا وہ آئسکریم نہیں کھاسکتا تھا

"اور آج میں عشق کرنے کے دعوے دار کے عشق کی انتہا دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ جلدی سے منہ کھلیں بہرام یہ میلٹ ہورہی ہے"

حرم بولتی ہوئی مزید اُس کے منہ کے قریب چمچہ لائی تو معجزاتی طور پر بہرام نے 

غصہ کرنے کی بجاۓ منہ کھول کر چمچے میں بھری آئسکریم کھالی جس پر حرم کو حیرت انگیز خوشی ہوئی 

وہ یہ شرط جیت چکی تھی جیاء نے بولا تھا کہ بہرام کبھی بھی اس کے ضد کرنے کے باوجود بھی آئسکریم نہیں کھاسکتا۔۔۔ آئسکریم کی جگہ بہرام کو  کو بےشک وہ ہری مرچیں جتنی کھلا دے مگر آئسکریم کھانا ناممکن سی بات ہے۔۔۔ حرم کو اپنے کارناموں پر انجانی سی خوشی محسوس ہورہی تھی وہی بہرام نے آئسکریم کھانے پر برا سا منہ بنایا تھا کیونکہ اُس کے منہ میں کافی کا ذائقہ برباد ہوچکا تھا بہرام کے منہ بنانے پر ناچاہتے ہوۓ بھی حرم کو ہنسی آنے لگی

یہ حسین منظر دو شعلہ اگلتی آنکھوں کو اتنا زہر لگا کہ اُس کا دل چاہا وہ اِس لڑکی کے چہرے سے یہ ہنسی نوچ ڈالے اور اُس کا یہ حسین ہنستا ہوا چہرہ بگاڑ ڈالے۔۔۔ جسے بہرام بہت محبت سے دیکھ رہا۔۔۔ اور اب وہ اپنی جلن میں یہی کرنے والی تھی یعنٰی اُس چہرے سے ہنسی چھیننے والی تھی اس لیے کافی بار کے پچھلے دروازے سے باہر نکل گئی۔۔۔ اس کا رخ برابر والی شاپ پر تھا جو کیمیکل کی شاپ تھی

*****

اب بتائیں بہرام کیا ارادے ہیں آپ کے"

بہرام کی ہمراہ کافی بار سے باہر نکلتے ہوۓ وہ چہکتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی آج کا دن بھی اُس کے لیے بہرام کی ساتھ گزرے دونوں کی طرح خوبصورت تھا

"تم اپنے ارادوں کا بتاؤ ڈنر باہر کرنا ہے یا گھر پر۔۔۔ میں تو تمہیں اپنا ارادہ ڈنر کے بعد ہی بتاؤ گا"

بہرام موبائل کی اسکرین کو اپنی انگلی سے ٹچ کرتا ہوا بظاہر تو سنجیدگی سے بولا مگر یہ حرم جانتی تھی وہ کتنا سنجیدہ ہے۔۔۔ اِس لیے حرم اُسے گھورنے لگی مگر بہرام اُس کو آنکھ مارتا ہوا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔۔۔ اپنی نئی ماڈل سٹی اوریل پر اسکریچ دیکھ کر وہ تیزی سے گاڑی کی جانب بڑھا 

حرم اپنی پہنی ہوئی سینڈل کی وجہ سے آئستہ قدم اٹھاتی ہوئی بہرام کے پیچھے جانے لگی۔۔۔ اس لیے وہ اپنے سامنے سے آتی لڑکی کی طرف دھیان نہیں دے پائی جو شال سے اپنا چہرہ چھپاۓ ہاتھ میں ایسڈ کی بوتل پکڑے چلتی ہوئی حرم کے پاس آرہی تھی

"گاڑی اسٹارٹ رکھنا اور بالکل الرٹ رہنا"

اینجل موبائل پر اپنے ڈرائیور کو بولتی سامنے سے آتی اپنی ہم شکل کو زہریلی نگاہ سے دیکھنے لگی۔۔۔ 

وہ اِس لڑکی کے چہرے سے مسکراہٹ اور اس کی خوشیاں آج بھی چھین لینا چاہتی تھی تاکہ بہرام اِس لڑکی کے چہرے کی طرف کبھی بھی محبت سے نہ دیکھے۔۔۔ جس طرح بہرام کافی بار میں اِس حسین چہرے کو محبت بھری  نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اینجل کا دل چاہا کہ وہ بہرام کی محبت کو وہی بھسم کر ڈالے

اپنے سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑی حرم کے چہرے کی جانب جیسے ہی اُس نے ایسڈ پھینکا،، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حرم اپنی سینڈل کے اسٹیپ کو صحیح کرنے کے لئے نیچے جھکی جو اُسے کافی دیر سے چلنے میں مسئلہ کررہا تھا۔۔۔ وہی دل لرزا دینے والی چیخیں حرم کو اپنی پشت سے آتی سنائی دیں۔۔۔ حرم نے مڑ کر دیکھا اس کے پیچھے کھڑی لڑکی اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپاۓ درد اور تکلیف سے بری طرح سے چیخیں مار رہی تھی۔۔۔ ویسے ہی حرم نے اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جس کا چہرہ چادر میں چھپا ہوا تھا وہ تیزی سے وہاں سے بھاگ رہی تھی

چند قدم کے فاصلے پر بہرام کو بھی وہ چیخیں اپنی جانب متوجہ کرچکی تھیں۔۔۔ اُس نے ایک نظر چیخنے والی لڑکی کی جانب دیکھا جس کی جانب اب لوگوں کا ہجوم جمع ہورہا تھا وہی تھوڑی دور ڈری سہمی حرم بھی کھڑی تھی لیکن بہرام اگلے ہی پل تیزی سے اُس گاڑی کی جانب بھاگا جو اُس کے وہاں پہنچنے سے پہلے بہت دور جاچکی تھی۔۔۔

"سب سے پیچھے ہوجاؤ۔۔۔ کون ہے اِن کے ساتھ"

حرم سن ہوتے دماغ کے ساتھ بہرام کو دیکھنے لگی جو لوگوں کے مجموعے میں کو پیچھے ہٹاتا ہوا اُس لڑکی اور اُس کی روتی ہوئی فیملی کو کسی گاڑی میں بیٹھا رہا تھا

"حرم تم ٹھیک ہو ناں"

بہرام حرم کے پاس آیا جو خوفزدہ سی وہی سہمی ہوئی کھڑی تھی

"بہرام وہ۔۔۔ لڑکی۔۔۔ اس کا پورا چہرہ"

بہرام کے مخاطب کرنے کی دیر تھی حرم نے تیزاب سے متاثرہ اُس لڑکی کا چہرہ یاد کیا جس کی ساری اِسکن اور چہرے کی چربی وہی گُھلنا شروع ہوچکی تھی اُس کے چہرے کو یاد کرکے حرم نے رونا شروع کردیا

"حرم سب ٹھیک ہے میری جان تم پریشان مت ہو چلو ہم گھر چلتے ہیں"

حرم کے بری طرح رونے پر بہرام اُس کو اپنے ساتھ لئے گاڑی میں بیٹھ چکا تھا 

اُس کا دھیان حرم کے رونے پر اُس گاڑی کی طرف سے بالکل ہٹ چکا تھا جس میں کوئی شخص بیٹھ کر فرار ہوچکا تھا

وہ آئے دن ایسے کیس دیکھتا اور سنتا رہتا تھا اس لیے نارمل بی ہیو کررہا تھا مگر وہ جانتا تھا حرم نے یقینًا ایسے واقعات صرف سنے ہوگیں یہ سب کچھ اس نے پہلی بار دیکھا ہوگا جبھی وہ اتنا زیادہ ڈر کر بری طرح رو رہی تھی۔۔۔

"کھانا میں پیک کروا لیتا ہوں اوکے"

بہرام گاڑی روکتا ہوا بولا وہ جانتا تھا کہ حرم باہر ڈنر نہیں کرسکے گی وہ گاڑی سے اترنے لگا تو حرم نے اُس سے پہلے ہی بہرام کا ہاتھ پکڑلیا

"پلیز بہرام مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جائیے گا۔۔ میں گھر جانا چاہتی ہوں"

حرم روتی ہوئی اُس سے بولی

"کیا ہوگیا یار حرم بریو بنو، نہیں جارہا میں کہیں پر اب رونا بند کرو"

بہرام اس ٹوکتا ہوا بولا اور دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا

*****

"یہ روم کی کھڑکی کیوں کھولی ہے آپ نے"

حرم بیڈ روم میں صوفے پر بیٹھی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی

"وینٹیلیشن کے لیے کھول دی تھی سردی لگ رہی ہے تمہیں"

بہرام کمرے کی کھڑکی بند کرتا ہوا حرم سے پوچھنے لگا

"نہیں مجھے ڈر لگ رہا ہے بہرام"

حرم کی بات پر بہرام کمرے کی کھڑکی بند کرنے کے بعد پلٹ کر اُس کو دیکھنے لگا جو گھر آنے کے بعد بھی اُسی طرح خاموش اور غائب دماغ بیٹھی ہوئی تھی

"اٹھو یہاں آکر بیٹھو میرے پاس"

بہرام اُسے صوفے سے اٹھا کر اپنے ساتھ بیڈ پر لے آیا

"کیوں اتنا سوچ رہی ہو اُس واقعے کو حرم۔۔۔ مانا کے اُس لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ برا ہوا، میں نے مہران کو پورا واقعے کی تفصیل اور اسپتال کا پتہ بتادیا ہے بہت جلد اُس شخص کو حراست میں لےلیا جائے گا جس نے اُس لڑکی کے منہ پر تیزاب پھینکا"

بہرام بیڈ پر بیٹھتا ہوا حرم کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر اپنائیت بھرے لہجے میں اُس سے بولنے لگا

"شخص۔۔۔ وہ کوئی شخص نہیں بلکہ لڑکی تھی۔۔۔ جس نے اُس دوسری لڑکی کے منہ پر ایسڈ ڈالا"

حرام کی بات پر بہرام بری طرح چونکا اور حرم کو سیدھا کرتا ہوا اس سے پوچھنے لگا

"کیا تم نے دیکھا اُس لڑکی کا چہرہ،، تم پہچان سکتی ہو اُس کو"

بہرام کے پوچھنے پر حرم نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا

"اس نے اپنا چہرہ چادر میں کور کیا ہوا تھا بہرام مگر مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ لڑکی، اُس لڑکی کی بجائے وہ ایسڈ مجھ پر پھینکنا چاہتی تھی"

حرم کچھ سوچتی ہوئی تھوڑے سہمے ہوۓ انداز میں بہرام سے بولی تو بہرام پہلے سے بھی زیادہ بری طرح چونکا لیکن حرم کو خوفزدہ دیکھ کر فوراً اُس کی بات کی نفی کرتا ہوا بولا

"کیوں فضول کی باتیں سوچ رہی ہوں حرم۔۔۔ کوئی تم پر کیوں ایسڈ ڈالنا چاہے گا تمہاری کسی سے کوئی دشمنی تو نہیں۔۔۔ یہ کام تو بدلہ لینے کے لیے پھر دشمنی میں کیا جاتا ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے اُس لڑکی سے کسی نے اپنا کوئی بدلہ لیا ہو یا پھر کسی دشمنی کی وجہ سے اُس کے ساتھ ایسا ہوگیا ہو"

بہرام حرم کے دماغ سے اس خیال کو نکالنے کی غرض سے ایسا بولا ورنہ وہ کتنے دن اِسی بات کو سوچتی رہتی

"بہرام وہ لڑکی اپنا چہرہ چھپاکر بالکل میرے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ اچانک میں اپنی سینڈل کا اسٹیپ صحیح کرنے کے لیے جھکی تو میرے پیچھے چلتی ہوئی وہ لڑکی بری طرح چیخنے لگی اگر میں اُس وقت شوز کا اسٹیپ صحیح کرنے کے لئے نیچے نہیں جھکتی تو وہ ایسڈ میرا چہرہ بگاڑ دیتا ہے۔۔۔ بہرام کوئی میرا دشمن ہے یا مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے یا مجھ سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ وہ میرا چہرہ بگاڑ دینا چاہتا ہے۔۔۔ اگر آج وہ ایسڈ اُس لڑکی کی بجائے میرے اوپر۔۔۔

حرم اِس سے پہلے اپنی بات مکمل کرتی بہرام نے حرم کو اپنی پناہ میں چھپالیا۔۔۔ ایک لمحے کیلئے وہ خود بھی یہ بات سوچ کر ڈر گیا مگر دوسرے ہی لمحے اُس کا دماغ صرف ایک ہی نام پر اٹک گیا

"اینجل"

وہ یہ نام حرم کے سامنے لےکر اسے مزید ٹینشن میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔ اسے اس لڑکی سے مزید نفرت ہونے لگی۔۔۔ اپنی گاڑی کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ سارا سین نہیں دیکھ پایا تھا جو اس وقت حرم اُسے بتارہی تھی یعنی اسے اینجل سے جلد سے جلد پتہ لگا کہ وہ حرم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے

*****

"بہرام کھاؤ ناں ائسکریم میں نے صرف اپنے لئے نہیں منگوائی ہے"

اینجل پیار سے بہرام کے پاس آتی ہوئی اس سے بولی

"اینجل ضد مت کرو یار تمہیں بتایا تو ہے کہ آئس کریم مجھے پسند نہیں، میں نہیں کھاتا کام کرنے دو" 

وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا

"اچھا میرے ہاتھ سے صرف ایک اسپون لےلو، اگر تمہیں مجھ سے پیار ہے تو پلیز جلدی سے منہ کھالو"

اینجل بولتی ہوئی زبردستی اُس کے منہ کے قریب ائسکریم سے بھرا چمچہ لے آئی۔۔۔ جسے پیچھے کرنے کی بجائے غُصّے میں بہرام نے چمچا دور پھینکا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا

"دماغ تو خراب نہیں ہے تمہارا اینجل کیوں بچوں جیسا ری ایکٹ کرتی ہو تم جب ایک چیز مجھے پسند نہیں تو کیوں مجھ پر زبردستی اپنی مرضی چلارہی ہوں آئندہ ایسی حرکت مت کرنا میرے سامنے"

وہ اینجل پر غصہ کرتا ہوا بولا۔۔۔۔ جسے سوچ کر وہ اپنے کمرے میں مٹھیاں بند کیے ضبط کے باوجود چیخنے لگی

"اے سی پی بہرام عباسی تو اُس حرم سے محبت کرلی ناں تم نے،، آج میں نے وہ محبت دیکھ لی تمہاری آنکھوں میں جو کبھی اپنے لیے نہیں دیکھی۔۔۔ مانتی ہوں بہت برا کیا تھا اُس وقت میں نے تمہارے ساتھ لیکن اُس کی سزا دے دی ہے تم نے مجھے اب تم پر صرف اور صرف میرا اختیار ہے۔۔۔ نہیں برداشت کرسکتی میں اس لڑکی کو تمہارے ساتھ ہمارے بیڈروم میں،۔۔ وہ میری جگہ ہے صرف میری۔۔۔ اور اپنی جگہ پر اس لڑکی یا کسی دوسری لڑکی کو نہیں لینے دوں گی۔۔۔۔ اذیت دیتی ہے یہ سوچ مجھے کہ تم اُس کے ساتھ۔۔۔ اُس لڑکی کو تو میں نہیں چھوڑوں گی بہرام، تمہیں ہر قیمت پر میرا وہ ہوکر رہنا ہوگا صرف میرا" اینجل غصے کی شدت سے چیختی ہوئی بولی

*****

ٹینشن بھری رات گزر کے ایک نئی صبح کا آغاز ہوچکا تھا۔۔۔ حرم کی آنکھ کُھلی تو اُس نے اپنے قریب لیٹے ہوئے بہرام کو دیکھا۔۔۔ سوئے ہوئے بہرام کو دیکھ کر بےساختہ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

کل رات وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی اِس لیے بہرام اسے اپنی پناہوں میں لےکر سویا تھا تاکہ وہ اُسے ہر قسم کے ڈر اور خوف سے محفوظ رکھ سکے۔۔۔۔ محفوظ صاحبان کے احساس حرم اپنا ہر ڈر اور خوف بھلا چکی تھی۔۔۔ اچھا شوہر مل جانا قسمت کی بات تھی وہ جتنا خدا کا شکر ادا کرتی کم تھا

"اے سی پی بہرام عباسی آپ یہ بات نہیں جانتے ہوں گے کہ آپ سوتے ہوئے بہت پیارے لگتے ہیں"

حرم چاہ کر بھی یہ اظہار دل میں نہیں کر پائی تھی بہت آہستگی سے سرگوشی،،، جو وہ خود بھی مشکل سے ہی سن پائی تھی۔۔۔ سوئے ہوئے بہرام کے سامنے اعتراف کر کے محبت بھرا لمس وہ بہرام کی پیشانی پر چھوڑ کر واشروم چلی گئی۔۔۔ حرم کے واش روم جانے کے بعد بہرام نے اپنی آنکھیں کھولیں

"مسسز بہرام عباسی یعنی آپ بھی رومینس جیسی کسی شے سے واقف ہیں"

بہرام نے بولتے ہوۓ اپنی پیشانی کو انگلیوں سے چھوا جہاں ابھی اُس کی شرمیلی سی بیوی محبت بھرا لمس چھوڑ کر اُس کے اندر ڈھیر سارے احساسات بیدار کر کے واشروم جاچکی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر وہ بیڈ پر لیٹا رہا پھر کچھ سوچ کر کمفرٹر سے باہر نکل کر، اپنی پہنی ہوئی ٹی شرٹ اتار کر خود بھی واش روم کا رخ کرنے لگا

*****

اچھی طرح شاور لینے کے بعد وہ کندھوں سے نیچے بڑا فرق ٹاول لپیٹ رہی تھی تب سامنے بڑے سے آئینے میں اس کی نظر الفابیٹ "بی" پر پڑی بےساختہ حرم نے انگلیوں سے اُس لفظ کو چھوا۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس دن بہرام کے اتنی بے رحمی کا مظاہرہ کیا تھا، کیا وجہ تھی آخر جو بہرام نے اُس کو یہ تکلیف دی تھی حرم سوچ رہی تھی کہ اچانک باتھ روم کا دروازہ کھلا

"بہرام پلیز جائیے میں شاور لے رہی تھی، کیسے اندر آگئے آپ۔۔۔ آگے کیوں بڑھے جارہے ہیں پلیز جائیے ناں یہاں سے۔۔۔ بہرام کیا ہوگیا ہے آپ کو"

بہرام ٹی شرٹ کے بغیر،، صرف ٹراؤزر میں موجود۔۔۔ خاموشی سے حرم کی جانب بڑھے رہا تھا۔۔۔۔اور حرم اپنی پوزیشن دیکھ کر اتنا اکوورڈ محسوس کررہی تھی کے مسلسل بہرام کو ٹوکے جارہی تھی لیکن بہرام کو شاید اِس وقت اُس کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھی یا پھر وہ پھر جان بوجھ کر سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھا

حرم پیچھے کی جانب قدم اٹھاتی ہوئی واش روم کی دیوار سے جالگی تو بہرام اُس کے نزدیک آکر رک گیا

"کیا ہوا اتنے غُصّے سے کیوں دیکھ رہی ہو مجھے، کیا اپنا شوہر صرف سوتے میں ہی اچھا لگتا ہے تمہیں، جاگتے ہوئے پیار نہیں آتا اُس پر"

بہرام گہری نظروں سے حرم کا چہرہ دیکھتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ حرم نے بہرام کی بات سن کر جھینپتے ہوئے اپنی نظروں کا زاویہ دوسری سمت کرلیا۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ بہرام اُس کی کارستانی جان گیا تھا، حرم کے دوسری سمت دیکھنے پر بہرام کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی جسے محسوس کرکے حرم ناراضگی سے اُسے دیکھنے لگی

"آپ جاگے ہوۓ تھے ناں اُس وقت، بہت بدتمیز ہیں آپ۔۔۔ اِس طرح واشروم میں چلے آئے جانتے ہیں کہ مجھے کتنی شرم آتی ہے، جائیے ابھی یہاں سے پلیز"

اپنے بےحد نزدیک کھڑے بہرام کے سینے پر ہاتھ رکھتی ہوئی وہ اُسے پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی تو بہرام نے اُس کے دونوں ہاتھ کلائیوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگاۓ

"آج تمہاری شرم کا علاج کیے بغیر تو میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤ گا۔۔۔ اتنی شرم آتی کیوں ہے تمہیں ابھی تک جبکہ پچھلے ہفتے سے تم مجھے ہر وقت ہی اپنے اتنے قریب دیکھتی ہو،، کیا تمہاری طرف سے پیش قدمی دیکھنے کے لیے مجھے اِسی طرح سونے کی ایکٹیگ کرنا پڑے گی، جواب دو مجھے"

حرم کی دونوں کلائیاں پکڑے اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے نزدیک لائے بہرام اُس کا سرخ چہرہ دیکھ کر حرم سے پوچھنے لگا۔۔۔ رومینس کے معاملے وہ بہت زیادہ شاۓ نیچر کی تھی، بہرام کو حرم کا یہ روپ پسند ہونے کے باوجود، کبھی کبھی اُس کو تنگ کرتا  

"آپ جتنی بہادر نہیں ہوں میں، نہ ہی آپ کے جتنی ہمت رکھتی ہوں۔۔۔ آپ سمجھ جاۓ ناں بہرام"

حرم نظریں جھکاتی ہوئی بہرام سے بولی۔۔۔۔ وہ تو بہرام کی نظروں سے،، اور اُس کے ارادے جان کر لائٹ بند کرنے کے بعد اپنی آنکھیں بھی بند کرلیا کرتی تھی  اِس وقت واش روم میں اتنی روشنی تھی کیسے وہ اس کے اتنے قریب ٹاول میں کھڑی تھی یہی محسوس کرکے حرم کی حالت غیر ہورہی تھی

"تھوڑا بہت بہادر تو میں تمہیں چند دن گزرنے کے بعد بناہی ڈالوں گا"

بہرام اُس کی ایک کلائی چھوڑتا ہوا بولا۔۔۔ تو حرم کے دل کی دھڑکن وہی تیز ہوگئیں کیوکہ بہرام کا ہاتھ اُس کے دل پر الفابیڈ (B) پر ٹک گیا تھا

"تم جانتی ہو اِس (B) کا کیا مطلب ہے"

بہرام اپنا چہرہ حرم کے چہرے کی جانب جھکاۓ اُس کو غور سے دیکھ کر پوچھنے لگا

"بی سے بدتمیزی۔۔۔۔ جس پر آپ صبح صبح اترے ہوۓ ہیں۔۔۔ بہرام جائیے یہاں سے"

حرم نے بولتے ہوۓ بہرام کو آنکھیں دکھائی تو بہرام نے جھک کر الفا بیٹ( B) پر اپنے ہونٹ رکھے جس پر حرم سمٹ کر رہ گئی

"بالکل ہی غلط جواب۔۔ (B) سے بےشرمی جس پر میں تھوڑی دیر میں اُترنے والا ہوں"

بہرام نے بولتے ہوۓ اُس کا ٹاول اتارنا چاہا وہی حرم نے اُس کا ارادہ بھانپ کر اُسے روک لیا

"پھر میں (B) سے (bohat) سارا ناراض ہوجاؤ گی"

حرم بہرام کو دھمکی دیتی ہوئی بولی اور بہرام کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی تو بہرام نے شاور کھول دیا

"مجھے اُس وقت بتانے دو کہ تم ( B) سے کتنی بیوٹیفل ہو۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ اِس وقت میرا دل (B) سے کتنا بےایمان ہورہا ہے"

بہرام بولتا ہوا شاور کے نیچے کھڑا حرم کی گردن پر محبت کی مہریں نچاور کیے دے رہا تھا۔۔ اُس کی بڑھتی ہوئی شدت پر حرم گھبراتی ہوئی بولی

"آپ (B) سے بہت بےرحم ہیں بہرام"

اُس کی بڑھتی ہوئی وارفتگی سے حرم اپنی آنکھیں بند کرتی بولی، ٹاول جو اب بہرام کی بڑھتی ہوئی شدت سے نیچے گرچکا تھا۔۔۔ حرم اپنے وجود کو بہرام کے اندر چھپانے کی کوشش کرنے لگی

"بی سے بےرحم سہی مگر (B) سے بےوفا نہیں ہوں۔۔۔۔ تم نے میرے وجود کے اندر (B) سے (Bechaini) بڑھا کر مجھ کو (B) سے بہت زیادہ (Beqarar) کردیا ہے۔۔۔۔ اب (B) سے محبت کی (Barsaat) میں بھیگنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔۔۔ کیوکہ مجھے اس وقت (B) سے تمہارا (Bukhaar) چڑھ گیا ہے"

بہرام اس کا وجود اپنی باہوں میں چھپاۓ اُس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔۔۔ وہ دونوں شاور کے نیچے ایک دوسرے کے وجود میں بالکل گُم کھڑے تھے

"تم تو (B) سے (Bilkul) چپ ہوگئی ہو... (B) سے کچھ تو  (Bolo)"

بہرام حرم کو بولنے پر اُکساتا ہوا کندھے سے اُس کے بال ہٹاکر اُس کے کندھے کو چومنے لگا 

"آپ اِس وقت (B) سے میری بولتی بالکل بند کرچکیں ہیں"

حرم کے بولنے پر بہرام کو اُس پر ترس آگیا۔۔۔ وہ ٹاول کو دوبارہ اُس کے گرد لپیٹتا ہوا اسے بیڈروم میں لے جانے لگا

"مجھ سے کبھی بھی (B) سے بدگمان مت ہوئیے گا بہرام۔۔۔ میں آپ سے دور جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی"

روم میں آکر حرم نے باتھ گاؤن پہنا تو بہرام ٹاول سے اپنے بال خشک کرنے لگا تب حرم اُس کے سامنے آکر بولی

"تمہیں ہمیشہ (B)سے اپنی (Bahon) میں رکھو گا۔۔۔ یہ تصور اپنے زہن سے نکال دو کہ ہم دونوں ایک دوارے سے دور ہوسکتے ہیں"

بہرام حرم کو بانہوں میں لیتا ہوا بولا۔۔۔ معلوم نہیں حرم نے دوری یا بدگمانی کی کیوں بات کی تھی۔۔۔ کیا اُسے اینجل پر شک ہوگیا تھا یا پھر ویسے ہی۔۔۔ مگر بہرام نے سوچ لیا تھا وہ اینجل کا جلد پتہ لگا کر اُس سے اپنے تمام معاملے ختم کرکے یہ چیپٹر ہمیشہ کے لیے کلوز کردے گا

*****

"تمہیں حرم کے ساتھ اپنے گھر میں دیکھ کر اتنی خوشی ہورہی ہے کیا بتاؤں۔۔۔ وہ یہ بات تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں کہ تم ہماری حرم کو کس قدر خوش رکھا ہوا ہے۔۔۔ حرم کا کھلا کھلا روپ ہی یہ بات بتانے کے لئے کافی ہے۔۔۔ کسی سے بھی پوچھ لو میں تو ٹھوک بجا کر کہو گی اگر کسی کو داماد ملے تو بہرام جیسا۔۔۔ شکل و صورت میں عادت و اخلاق میں ہر چیز میں اعلی۔۔۔ برا تو اسجد بھی نہیں ہے مگر  تم سے تھوڑی مقابلہ کرسکتا ہے"

نزہت چچی بہرام کے سامنے بیٹھی آج اسی کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی

آج صبح ہی حرم کا ارادہ بن گیا تھا اپنے چچا کی طرف جانے کا اس نے بہرام کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو وہ حرم کو فوراً یہاں لے آیا۔۔۔ چچا جان تو اس وقت اپنے دوست کی طرف ملنے کے لیے نکلے ہوئے تھے مگر حرم کے ساتھ بہرام کو دیکھ کر نزہت چچی نے ان دونوں کا پرتپاک طریقے سے استقبال کیا تھا۔۔۔

سردیوں کی ہلکی ہلکی دھوپ بھلی لگ رہی تھی اس لئے وہ دونوں صحن میں کرسیوں پر بیٹھے باتیں کررہے تھے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب تھا کہ نزہت چچی بہرام کی  پرسنالٹی سے متاثر ہوکر اُس کی تعریفیں کئے جارہی تھی وہ خاموش بیٹھا تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسکرا دیتا جبکہ حرم کچن میں موجود چائے بنانے کے ساتھ ساتھ چچی کی باتیں بھی ملاحظہ فرما رہی تھی 

حرم چائے کے کپ اور بسکٹ کی پلیٹ ٹرے میں رکھ کر صحن میں آئی تو بہرام کی مسکراتی نظروں کے ساتھ نزہت چچی کی نظریں بھی اُس کے روپ پر آٹہریں۔۔۔  خوبصورت تو پہلے سے ہی تھی لیکن شادی کے بعد ایسا روپ نکھر کے سامنے آیا تھا کہ دیکھنے والا اُس کے اوپر اور اُس کی قسمت پر رشک کرتا

"اتنی پیاری بچی ہے حرم، بیٹا میں کیا بتاؤں تمہیں۔۔۔ شروع سے ہی نیک فرمابردار سعادتمند اور خوبصورتی میں تو اِس نے پورے خاندان کو مات دے رکھی ہے"

بہرام کی محبت بھری نظریں حرم پر دیکھ کر اب نزہت چچی حرم کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع ہوچکی تھی

"جی نزہت چچی یہ بات تو آپ نے سولہ آنے سچ کہی ہے" بہرام نے چچی ساس کی ہاں میں ہاں ملائی تو حرم کے گال گلابی پڑنے لگے وہ مشکل سے مسکراہٹ کنٹرول کر کے بہرام کی طرف دیکھنے لگی جو مسکراتی نظروں سے اِسی کو دیکھ رہا تھا

"ارے بیٹا تمہیں معلوم ہے اپنی حرم کو بچپن میں پولیس والوں سے اتنا ڈر لگتا تھا جہاں کہیں باہر یہ کوئی پولیس والا دیکھتی تو ایسے ڈر کر گھر بھاگ جاتی جیسے پولیس والا بس ابھی اِس کو اٹھا کر لے جائے گا"

نزہت چچی حرم کے بچپن کی بات بہرام کو مزے سے بتانے لگی جس پر حرم نے بہرام کی طرف نہیں دیکھا، نزہت چچی کے سامنے چائے رکھتی ہوئی یہ ضرور بولی کہ وہ چائے لے لیں ورنہ باتوں میں چائے ٹھنڈی ہوجائے گی

"ہیں یہ کیا تم نے چائے کے ساتھ سوکھے سے بسکٹ لاکر رکھ دیے ہیں۔۔۔  بیٹا تمہارا شوہر داماد ہے اِس گھر کا۔۔۔ نمکو نکال لیتی فرج میں کباب رکھے ہیں وہ تل لیتی۔۔۔ حد کرتی ہو تم بھی کبھی کبھی نگی کی طرح"

نزہت چچی حرم کو ٹوکتی ہوئی بہرام کے منع کرنے کے باوجود اٹھ کر خود کچن میں چلی گئی

"تو بچپن میں حرم صاحبہ پولیس والوں سے ڈرتی تھی"

بہرام چائے گا سپ لیتا ہوا حرم کو مسکراتی نظروں سے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا

"چچی بھی نہ جانے کون کون سے قصے لےکر بیٹھ جاتی ہیں وہ تو صرف بچپن کی بات تھی، اب تھوڑی کوئی پولیس والے سے ڈرو گی"

حرم پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتی ہوئی بہرام سے بولی

"ہاں اب تو حرم صاحبہ کو ڈائریکٹ پولیس والے پیار آجاتا ہے"

بہرام کی بات پر وہ بلش کرنے کے باوجود گھورتی ہوئی بہرام کو دیکھنے لگی

"اف بہرام ساری آوازیں کچن میں جاتی ہیں۔۔۔ آپ کی طرح نزہت چچی کے کان بھی بہت لمبے ہیں۔۔۔ کچھ تو خیال کریں"

حرم کے گھبرا کر بولنے پر بہرام مسکرانے لگا اتنے میں چچا جان گھر آگئے تو حرم انہیں سلام کرتی حال احوال پوچھ کر خود کچن میں چلی آئی

"چچی یہ کن کاموں میں لگ گئیں آپ، بہرام ابھی تھوڑی دیر میں اٹھنے کا کہہ دیں گے"

حرم کچن میں آئی تو نزہت پلاؤں کے لیے یخنی چڑھا چکی تھی اور قورمے کے لیے پیاز کاٹ رہی تھی حرم چچی کو دیکھ کر بولنے لگی

"ایسے کیسے اٹھنے کا بول دے گا، داماد کو ایسے سوکھے منہ رخصت نہیں کرتے ہم لوگ۔۔۔ دوپہر کا کھانا کھائے بغیر تو تمہارے چچا بھی اُس کو نہیں جانے دیں گے۔۔۔ اور تم نے فارغ مت کھڑی رہو، ایسا کرو فریج سے شامی کباب اور فرائی کرنے کے لیے مچھلی نکال کے لے آؤ۔۔۔ میٹھا بھی بہرام کی پسند کا بنالینا۔۔۔ ارے ہاں تو میں یہ تو بتانا بھول گئ کہ نگی بھی رات کو رکنے کے لیے آرہی ہے چاہو تو تم بھی رک جانا، بھئی تم دونوں ہی تو ایک دوسرے کی بچپن سے سکھ دکھ کی ساتھی ہو۔۔۔ بہرام اگر روکنے کی اجازت دے تو دیکھ لینا"

نزہت چچی کام میں مگن ہونے کے ساتھ ساتھ حرم سے بولی تو اُس نے اثبات میں سر ہلایا

 اتفاق سے کل نگی نے اسے موبائل پر بتایا تھا کہ یہاں رکنے آئے گی اسی نے حرم کو بلایا تھا۔۔۔ حرم نے رکنے والی بات بہرام سے تو نہیں کی تھی وہ چچا چچی سے مل کر واپس جانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر اب سوچ رہی تھی بہرام کی اجازت پر وہ رک جاۓ

"یہاں کھڑی کیا سوچ رہی ہوں کہیں ایسا تو نہیں کہ بہرام کا دل نہیں لگے گا تمہارے بغیر"

نزہت چچی کے ہنس کر بولنے پر حرم بری طرح جھینپ گئی

"نہیں نہیں چچی ایسی کوئی بات نہیں میں تو کچھ اور سوچ رہی تھی آج رات کو آپ کے پاس رکنے کے ارادے سے ہی آئی ہوں، کل نگی نے فون پر بتایا تھا کہ وہ رات میں خود بھی رکنے کے لیے آۓ گی"

حرم اپنی جھینپ مٹاتی ہوئی جلدی سے بولی

"شوہر کی نظر بتا دیتی ہیں کہ بیوی اُس کے دل پر راج کرتی ہے ایک عمر گزری ہے تجربے تو ہوگیا ہے مجھے، تم خوش نصیب ہو جو بہرام جیسا چاہنے والا شوہر ملا ہے تمہیں آگے بھی اُس کی چاہت برقرار رہے یہ سمجھ دار لڑکی کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے میری دعا ہے بہرام ساری زندگی تمہیں اپنی پلکوں پر بٹھا کر رکھیے۔۔۔ بس میری نگی۔۔"

نزہت چچی اس کے لئے دل سے دعا کرتی ہوئی آخر میں اپنی بیٹی کا سوچ کر ٹھنڈی آہ بھرنے لگی

"آپ نگی کے لیے پریشان مت ہو چچی"

حرم جانتی تھی نزہت چچی کیا سوچ رہی ہیں اِس لیے انہیں تسلی دیتی ہوئی بولی

"بنایا ہوگا تمہیں فون پر نگی نے، کل کس طرح وہ اسجد کی بہن کے ساتھ لڑی ہے۔۔ کتنا سمجھاتی ہوں میں اِس لڑکی کو کہ گھر بسانے کے لیے یہ لچھن اچھے نہیں مگر میری مانے تب ناں آج وہ رکنے آۓ گیں تو تم اسے سمجھانا"

نزہت چچی نگی کی فکر کرتی حرم سے بولی تو حرم اپنی چچی کو مزید تسلی دینے لگی

*****

وہ یہی سوچ کر چچا جان کے گھر رکی تھی کہ نگی بھی رات تک رکنے آجائے گی مگر ہوا کچھ یوں کے دو گھنٹے پہلے گھر کے نمبر پر نگی کی روتی ہوئی کال آئی۔۔۔ اسجد سے نگی کی لڑائی ہونے پر چچا اور چچی کو صبحیہ خالہ کے بلانے پر اُن کے پاس جانا پڑا۔۔۔۔ حرم کمرے میں ٹہلتی ہوئی چچا جان اور نزہت چچی کے واپس لوٹ آنے کا انتظار کررہی تھی تب اُس کے موبائل پر بہرام کی کال آنے لگی جو حرم نے سے جلدی سے ریسو کرلی

"اتنی بےتابی۔۔۔ کیا بات ہے بہت مِس کررہی ہو مجھے"

حرم کے ہیلو کہنے پر بہرام اُس سے پوچھنے لگا

"حقیقت ہے میں تو مس کررہی ہوں کافی دیر سے لیکن شاید آپ بہت خوش ہیں بیوی کے میکے رکنے پر"

حرم جو کافی دیر سے ٹہلتے ٹہلتے اب تھک چکی تھی کرسی پر بیٹھتی ہوئی بولی

"زیادہ فضول کے ڈائیلاگز بولنے کی ضرورت نہیں ہے میرے آگے۔۔۔ اگر میں مِس نہیں کررہا ہوتا تو کبھی بھی کال نہیں کرتا۔۔۔ اور اب تو میں نے یہ بھی سوچ لیا تمہارے کہنے پر تمہیں فوراً سے تمہارے چچا کے گھر نہیں لےکر جاؤں گا وہاں جاکر تمہاری رکنے کی فرمائشیں شروع ہوجاتی ہے اور تم بہت زیادہ پھیل جاتی ہو"

بہرام اُس کو ڈانٹتا ہوا بولا۔۔۔ دوپہر میں وہ حرم کے منہ سے روکنے کا سن کر حرم کے چچا چچی کے سامنے اُسے کچھ بھی نہیں بول پایا تھا اِس لیے اُس وقت کی جھنجھلاہٹ کو وہ اب اتار رہا تھا کیونکہ حرم کے بغیر وہ آج اپنے فلیٹ میں اُس کی کمی کو محسوس کررہا تھا

"بہرام رات میں نگی کو بھی رکنے آنا تھا اور پھر نزہٹ چچی بھی چارہی تھیں کہ میں آج یہاں رُک جاتی"

حرم بہرام کو آرام سے بتانے لگی

"اوہو تو اصل وجہ یہ تھی تم نزہت چچی کے کہنے پر وہاں رکی ہو۔۔۔ پھر تو سارے میلے کپڑے آج ہی دھولیے ہوگیں تم نے۔۔۔۔ اب کل ایسا کرنا کہ پورے ایک مہینے کا کھانا بناکر اُسے فریز کر کے یہاں میرے پاس آجانا"

بہرام تپے ہوئے انداز میں بولا تو حرم اُس کی بات سن کر ہنسنے لگی

"بہرام اِس طرح کسی کے خلوص پر شک نہیں کرتے، چچی نے مجھے اپنے گھر کے کام کروانے کے لئے نہیں روکا ہے بلکہ محبت میں روکا ہے۔۔۔ اور آپ یہ کس طرح ٹریٹ کررہے ہیں مجھے کسی سخت گیر شوہر کی طرح"

حرم موبائل کان پر لگائے کرسی سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی

"جس طرح تمہیں ابھی ٹریٹ کررہا ہوں ناں یہی میرا اسٹائل ہے خوش نصیب ہو تم جو تمہارا میرے جلاد والے روپ سے پالا نہیں پڑا، ناجانے تمہیں اپنے دیکھ کر میرے اندر کی سختی کہاں رفوچکر ہوجاتی ہے۔۔۔ اب تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ تمہیں ہر وقت میرے آس پاس رہنا چاہیے، اِسی میں تمہارا فائدہ ہے۔۔۔ بولو تو ابھی لینے آجاؤ تمہیں"

بہرام جیکٹ کی زپ بند کرتا ہوا حرم سے پوچھنے لگا

"ابھی نہیں بہرام چچا چچی کیا سوچیں گیں اور نگی بھی تو میری وجہ سے آئی ہوئی ہے۔۔۔  میں کل آ تو رہی ہوں آپ کے پاس"

حرم کو بہرام کی جذباتی پن پر جھوٹ بولنا پڑا کہ نگی یہاں رکی ہوئی ہے اگر بہرام کو معلوم ہوجاتا کہ نگی یہاں موجود نہیں تو وہ اِسی وقت اسے لینے کے لئے آ جاتا تھا۔۔۔ حرم نے سوچ رکھا تھا کہ وہ کل شام تک خود بہرام کے پاس چلی جائے گی

"ہاں مجھے اندازہ ہورہا ہے وہاں بیٹھ کر تم کتنا یاد کررہی ہو اپنے شوہر کو۔۔۔ بس میں ہی بلاوجہ خوار ہورہا ہوں تمہارے پیچھے"

بہرام اپنے اوپر پرفیوم چھڑکتا ہوا اُس سے شکوہ کرتا بولا

"ایسی بات نہیں ہے بہرام میں واقعی آپ کو یاد کررہی ہو، مگر اِس طرح رات میں آپ کے ساتھ آجانے پر، آپ خود سوچیں کتنا عجیب لگے کا کیا سوچیں گے سب لوگوں"

حرم بہرام کو سمجھاتی ہوئی بولی نگی کی اسجد سے لڑائی ہوچکی تھی۔۔۔ وہ بھی رات میں اِس طرح چلی جاتی تو چچا چچی نہ جانے کیسا محسوس کرتے

"ٹھیک ہے اگر مجھے مِس کررہی ہوں تو پھر موبائل پر ہی کِس دے دو۔۔۔ اب میں رات میں تمہارے تکیے سے تو رومینس کرنے سے رہا۔۔ اِسی کِس کو یاد کرکے کام چلالو گا"

بہرام کی فرمائش سن کر وہ بری طرح بلش کر گئی 

مگر آگے سے اُس نے کچھ بولنے کی بجائے بہرام کی خواہش کا احترام کر کے موبائل کی کال ڈسکنکٹ کردی۔۔۔ جس پر بہرام ہنس دیا،، وہ لازمی اپنے عمل پر خود شرما چکی ہوگی تبھی اُس نے رابطہ منقطعہ کردیا بہرام سوچتا ہوا گھر لاک کرنے لگا۔۔ اُسے باری صاحب کے ایڈرس پر جانا تھا۔۔۔ تاکہ اینجل کا معلوم کرسکے

*****

"اف بہرام بھی ناں اتنی عجیب فرمائشیں کرتے رہتے ہیں"

حرم موبائل رکھتی ہوئی خود سے بولی تو گھر کا دروازہ بجنے لگا

"آگئے چچا جان اور چچی واپس" 

حرم سوچتی ہوئی دروازہ کھولنے چلی گئی مگر سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کر وہ سکتے میں آگئی

یہ وہی اسٹور والی اُس کی ہم شکل لڑکی تھی۔۔۔ جو اُسی دن کی طرح اُسے دیکھ کر عجیب پراسرار طریقے سے مسکرا رہی تھی

اس سے پہلے حرم اُسے کچھ بولتی اینجل نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اسپرے اُس کے چہرے کے قریب لاکر کردیا۔۔۔ جس کے بعد حرم ہوش سے غافل ہوکر نیچے فرش پر گر گئی

"رشید جلدی سے اسے اٹھاکر گاڑی میں ڈالو"

اینجل حرم کے بےہوش نیچے پڑے ہوئے وجود کو دیکھ کر اپنے ڈرائیور کو حکم دیتی ہوئی بولی

*****

"آخر تم سمجھتے کیوں نہیں ہو اینجل اب اس دنیا میں نہیں رہی اور اگر بقول تمہارے وہ زندہ ہے تو اُس نے مجھ سے ابھی تک کانٹکیٹ نہیں کیا ہے اس لیے مجھے بالکل اندازہ نہیں ہے کہ وہ اِس وقت کہاں پر موجود ہے"

باری صاصب (اینجل کے انکل) اب کی بار بہرام کے پوچھنے پر ذرا تیز لہجے میں تھوڑا جھنجھلاتے ہوئے بولے

"اپنی آواز نیچی اور لہجہ درست رکھ کر میرے سوال کا جواب دیجیے۔۔۔ یہ مت سمجھئے گا اینجل کے رشتے کی حیثیت سے میں یہاں آپ سے اُس کے بارے میں پوچھنے آیا ہوں،، اُس کے اوپر کیس ہے یونیورسٹی ڈرگ سپلائی کرنے کا۔۔۔ اگر آپ نے اِس معاملے میں اس کی ہیلپ کی تو اُس کو سپورٹ کرنے کے جرم میں آپ کو بھی حراست میں لیا جاسکتا ہے"

بہرام بغیر نرمی برتے باری صاحب سے بولا تو وہ کچھ پریشان ہوکر سوچ میں پڑگئے

*****

جیسے ہی حرم نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس نے اپنے آپ کو اجنبی کمرے میں موجود پایا وہ تیزی سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھی۔۔۔ تو سامنے صوفے وہی اُس کی ہمشکل لڑکی  اُسی کے کپڑوں میں موجود تھی۔۔۔ حرم حیرت زدہ ہوکر اپنے کپڑوں کو دیکھنے لگی اُس کے بدن پر موجود لباس (ٹاپ اور کیپری) اُس کا ہرگز نہیں تھا وہ دوبارہ اینجل کو حیرت زدہ ہوکر دیکھنے لگی

"یوں بیوقوفوں کی طرح مجھے گھورنے کی ضرورت نہیں ہے کم عقل لڑکی۔۔۔ میں تمہارے شوہر کی پہلی بیوی ہوں اینجل"

اینجل صوفے سے اٹھ کر قدم اٹھاتی ہوئی حرم کے پاس آئی اور اُس کی کنفیوژن دور کرتی ہوئی اُسے بتانے لگی

"تمہیں تو بہرام نے۔۔۔ میرا مطلب ہے تم تو۔۔۔ تم کیسے زندہ ہوسکتی ہو"

حرم اینجل کو زندہ اپنے روبرو دیکھ کر پریشان ہوچکی تھی

"تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں مر گئی تھی اسٹوپڈ گرل، ایک بات میری ہمیشہ یاد رکھنا مجھے بہرام سے نہ تو موت دور کرسکتی ہے نہ خود بہرام مجھ پر گولی چلا کر اپنے آپ سے دور کرسکتا ہے۔۔۔ تمہارا شوہر تم سے پہلے میرا شوہر ہے۔۔۔ اُس پر میرا حق تم سے پہلے اور تم سے زیادہ ہے سمجھ آرہی ہے تمہیں میری بات"

اینجل حرم کے قریب آتی ہوئی اُس سے بولی تو حرم بیڈ سے اٹھ کر اُس کے سامنے کھڑی ہوگئی

"تم بیشک بہرام کی پہلی بیوی سہی مگر اُن پر اُسی کا حق زیادہ ہوگا، جس کی بہرام کے دل میں جگہ ہوگی اور یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو اِس وقت اُن کے دل میں تو کیا دل کے کسی کونے میں بھی تمہاری جگہ موجود نہیں ہے"

حرم اُس سے بغیر ڈرے بےخوف سے بولی تو اینجل بالکل خاموش ہوگئی

"جوجو"

اینجل نے غصے میں حرم کو دیکھ کر اپنے کُتے کو پکارا تو کمرے کے دروازے سے ایک بڑا سا کتا نمودار ہوا جسے دیکھ کر حرم ڈر گئی۔۔۔۔ 

جوجو نے ایک نظر حرم پر تو دوسری نظر اینجل پر ڈالی پھر اچانک ہی وہ حرم پر چھلانگ لگاتا ہوا بری طرح جھپٹ پڑا۔۔۔ حرم جوجو سے اپنا بچاؤ کرتی ہوئی خوف سے بری طرف چیخنے لگی جبکہ اینجل نے ہنستے ہوئے جوجو کی زنجیر پکڑلی اور اُسے کمرے سے باہر نکال دیا۔۔۔ حرم دوبارہ خوفزدہ نظروں سے اینجل کو دیکھنے لگی

"جوجو میرا وفادار ہے مجھ سے پیار کرتا ہے اِس لیے مجھے پہچانتا بھی ہے۔۔۔ لیکن بات تمہاری بھی غلط نہیں اِس وقت بہرام کے دل میں صرف حرم کی جگہ ہے۔۔۔ ایسا ہی ہے ناں"

اینجل حرم کو دیکھ کر اُس سے پوچھتی ہوئی ہنسنے لگی۔۔۔ حرم خاموشی سے اپنی ہم شکل لڑکی کو دیکھ رہی تھی جیسے دیکھ کر اُسے ناجانے کیوں خوف آرہا تھا

"لیکن بہرام حرم سے اتنی محبت تو ہرگز نہیں کرتا ہوگا کہ وہ اپنی حرم کو اُس کی خوشبو سے پہچان لے"

اینجل نے بولتے ہوئے دراز میں سے رسی نکالی اِس سے پہلے حرم کمرے سے نکلنے کی کوشش کرتی اینجل نے اُسے پکڑ کر بیڈ کی جانب زور سے دھکیلا۔۔۔ جس کی وجہ سے حرم کے سر پر بیڈ کا سراہ لگا اور اُس کے منہ سے کراہ نکلی

"کیا کررہی ہو تم میرے ساتھ۔۔ دیکھو مجھے چھوڑ دو یہاں سے جانے دو۔۔۔اگر بہرام کو معلوم ہوگیا کے تم زندہ ہو اور تم نے میرے ساتھ اِس طرح کا سلوک کیا ہے تو وہ تمہیں بخشے گے نہیں"

اینجل رسی سے حرم کے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھنے لگی۔۔ تو حرم اُس کو اُس کے عمل کے نتائج سے آگاہ کرتی ہوئی بولنے لگی

"کون بتائے گا یہ بات بہرام کو کہ اُس کے پاس حرم موجود نہیں بلکہ اینجل موجود ہے"

اینجل غصے میں حرم کا منہ جبڑے سے پکڑتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"بہت مزے کرلیے تم نے بہرام کے ساتھ اُس کے بستر پر۔۔۔ سمجھ لو آج کے دن سے تمہارے برے دن کا آغاز ہوا جاتا ہے اور میری رنگین راتوں کا"

اینجل حرم کے منہ پر بڑا سا ٹیپ لگاتی ہوئی بولی۔۔۔ حرم کے بیڈ سے اٹھنے پر اینجل نے اُسے دوبارہ بیڈ پر دھکا دیا۔۔ اور حرم کے ہاتھ سے اُس کی ڈائمنڈ کی رینگ اتار کر پہنتی ہوئی دوبار اس سے بولی

"اگر تم نے اِس کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا۔۔۔ باہر جوجو موجود ہے جسے نے دو دن سے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں دیا ہے، اِس کمرے سے باہر نکلنے کی صورت میں وہ تمہاری بوٹی بوٹی نوچ ڈالے گا اور تمہیں یہاں بچانے والا کوئی نہیں ہوگا"

اینجل حرم کو وارن کرتی ہوئی حرم کو بیڈ پر روتا ہوا چھوڑ کر باہر نکل گئی

اُس نے حرم کے لئے آگے سوچ رکھا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے مگر پہلے ایک مرتبہ وہ حرم کے روپ میں بہرام کے پاس اُس کے فلیٹ میں پہنچنا چاہتی تھی۔۔۔ وقتی طور پر اُس نے اپنے موبائل کا نمبر بند کردیا تھا۔۔ اور سارے ملازموں کو بھی فارغ کردیا تھا کیونکہ وہ بہرام کو کسی بھی قسم کے شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی ایک دم سے اُس کے ہاتھ میں حرم کا موبائل بجنے لگا جسے بےزاری سے دیکھنے لگی

"جی فرمائے"

بغیر سلام کے وہ کال ریسیو کرتی ہوئی نزہت چچی سے بولی

"بیٹا میں اور تمہارے چچا پریشان ہورہے ہیں آخر تم کہاں چلی گئی ہو گھر سے"

واپس گھر آنے کے بعد جب ان دونوں کو گھر خالی ملا تو شوہر کے کہنے پر نزہت نے حرم کے موبائل پر کال ملائی تھی

"میں کہاں جاسکتی ہوں بہرام کے گھر کے علاوہ بلاوجہ میں ہی آپ دونوں پریشان ہورہے تھے بہرحال اب آپ کو بتادیا ہے تو دوبارہ کال ملا کر مجھے یا پھر بہرام کو ڈسٹرب مت کرئیے گا" 

اینجل بےزار لہجے میں بولتی ہوئی خود ہی نزہت چچی کی کال کاٹ چکی تھی۔۔۔ حرم کا موبائل اُس کے بیگ میں ڈالتی ہوئی دوپٹے کو اچھی طرح خود سے کور کر کے وہ بہرام کے فلیٹ میں جانے کے لئے اپنے ہٹ سے نکل گئی

*****

ڈرائیونگ کے دوران سامنے ہٹ میں پولیس کی وین دیکھ کر بہرام سمجھ چکا تھا کہ یہاں کوئی واردات ہوئی تھی لیکن اِس وقت اُسے اس بات سے غرض نہیں تھی کیونکہ پولیس مجرم کو ہتھکڑی لگا کر پولیس وین میں بٹھا رہی تھی یہ وہاں کا ایریا تھا جہاں اینجل رہتی تھی۔۔۔ جس کا ایڈریس اُسے باری صاحب سے ملا تھا، اِسی ہٹ کے چار گھر چھوڑ کر اینجل کا ہٹ تھا

بہرام نے مطلوبہ ہٹ کے سامنے گاڑی روکی مگر دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔۔۔ اچھا ہی تھا کہ اینجل اِس وقت گھر پر موجود نہیں تھی بہرام اُس کے ہٹ کی اینجل کی غیر موجودگی میں تلاشی لینے کا ارادہ رکھتا تھا اس کے لئے باؤنڈری وال پھیلانگ کر ہٹ کے اندر داخل ہوگیا۔۔۔ جیسے ہی بہرام مین دوڑ کا دروازہ کھول تیزی سے دروازے کے سائیڈ میں ہوا ویسے ہی جوجو باہر لان کی طرف نکل کر بھاگا اُس سے پہلے جوجو غراتا ہوا بہرام کی طرف لپکتا بہرام نے پھرتی سے ہٹ میں داخل ہو کر اندر سے دروازہ بند کرلیا

"نفسیاتی عورت نے کُتا بھی اپنی جیسا نفسیاتی پالا ہے"

بہرام بڑبڑاتا ہوا بولا۔۔۔ جوجو کہ غراہٹ کی آواز پر وہ دروازہ کھولنے سے پہلے ہی محتاط ہوچکا تھا کہ اندر کوئی موجود ہے لیکن اِس وقت بھی ہٹ کے اندر داخل ہو کر اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ کوئی اور بھی اِس ہٹ میں موجود ہے بہرام ایک ایک کر کے تمام کمروں کے دروازے کھولنے لگا

*****

بند کمرے کا دروازہ کھول کر جیسے ہی اُس نے کمرے کی لائٹ آن کی تو اُس کی نگاہیں سامنے بیڈ پر گئیں۔۔۔ بہرام سے ایک پل کے لئے اُسے دیکھ کے چونکا، نہ صرف اُس کے منہ پر ٹیپ لگا کر اُس کی آواز کو بند کیا گیا تھا بلکہ دونوں ہاتھوں کو بھی پیچھے رسی سے باندھا گیا تھا۔۔۔ یہ کام لازمی گھر میں گھسنے والے اُن ڈکیتوں کا ہوسکتا تھا جن کو تھوڑی دیر پہلے پولیس گرفتار کرکے لے جارہی تھی

"کیا ہوا مجھے یہاں اپنے سامنے دیکھ کر خوشی اور حیرانگی ہورہی ہے۔۔۔ تھوڑی دیر میں تمہارے اِس چہرے سے یہ خوشی اور حیرت میں چھین لونگا، مجھے تمہارے اِس چہرے پر صرف اور صرف انسو، درد، تکلیف اور اپنے لئے خوف دیکھنا ہے"

بہرام اُس کی طرف قدم بڑھاتا ہوا آیا مٹھی میں حرم کے بالوں کو پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتا ہوا بولا۔۔۔ 

حرم جو تھوڑی دیر پہلے یہاں خوف سے ڈری سہمی بیٹھی تھی اچانک وہاں بہرام کی آمد اُسے کسی معجزے سے کم نہیں لگ رہی تھی جسے دیکھ کر حرم حیران ہوئی تھی بلکہ دل ہی دل میں شکر ادا کرتی ہوئی وہ خوش بھی تھی۔۔۔ مگر جب اُس نے بہرام کے سرد رویے کو دیکھا اور اپنے بالوں میں اٹھتی ہوئی تکلیف محسوس کی تو وہ نفی میں سر ہلانے لگی

"میرا نشانہ کبھی نہیں چونکتا نہ جانے کیسے تمہارے دل پر چلنے والی گولی، تم سے تمہاری سانسیں نہیں چھین سکی لیکن آج تم میرے قہر سے نہیں بچ پاؤ گی"

بہرام نے مٹھی میں جکڑے ہوئے اُس کے بالوں کو آزاد کرکے زوردار طمانچہ حرم کے منہ پر مارا۔۔۔ جس سے اُس کا دماغ بری طرح سنسنا اٹھا وہ چکرا کر نیچے فرش پر جاگری

بہرام اُسے اینجل کے گھر میں اور اُس کے کپڑوں میں اسے اینجل سمجھ رہا تھا حرم چاہ کر بھی منہ بند ہونے کی وجہ سے اُسے بتا نہیں پائی کہ وہ اینجل نہیں حرم ہے۔۔۔ اِس سے پہلے حرم خود کو سنبھال کر کھڑی ہو پاتی بہرام نے اُس کے بالوں کو دوبارہ مٹھی میں جکڑ کر اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔ حرم کوشش کرنے لگی اپنی پشت پر بنے ہوئے اپنے ہاتھ کھول سکے مگر ناکام رہی

"حرم کو نقصان پہنچانا چاہتی تھی تم، اُس کے چہرے پر ایسڈ پھینک کر اس کا چہرہ بگاڑنا چاہتی تھی، آج میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گا"

بہرام نے بولتے ہوئے دوسرا زوردار طمانچہ اُس کے گال پر مارا تو حرم کا سر دیوار پر جا ٹکرایا

وہ پہلے تھپڑ کی تاب نہیں لا پائی تھی پہلے ہی اُس کا دماغ بری طرح سنسنا رہا تھا دوسرے تھپڑ پر اُس کا دماغ مکمل طور پر ماؤف ہوچکا تھا اور سر میں بری طرح ٹیسیں سے اٹھنا شروع ہوچکی تھی۔۔۔ اِس کا شوہر بےرحم بنا ہوا انجانے میں نے اُس کے ساتھ بالکل مجرموں جیسا سلوک کررہا تھا

بہرام ایک بار پھر اُس کے قریب آیا اپنی جیکٹ کی پاکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے وہ اُس کے فرش پر گرے وجود کو دیکھنے لگا۔۔۔ جو اُس کے دو طماچوں میں ہی ڈھیر ہوچکی تھی۔۔۔ حرم کے فرش پر ٹکے ہوئے گال کو اپنے جوتے کی نوک سے اُس کے چہرہ مزید اوپر کرتا ہوا وہ حرم کے نڈھال وجود کو دیکھنے لگا۔۔ حرم خود بھی اپنی آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو لئے خاموشی سے بہرام کو دیکھ رہی تھی

"رحم کرنے لائق نہیں ہو تم، میں تمہارے اِس معصوم چہرے کو دیکھ کر، تم پر بالکل ترس نہیں کھا سکتا کیونکہ تمہارا دل اور کردار اس قابل نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے۔۔۔ بہت شوق ہے ناں تمہیں اپنے جسم پر ٹیٹو بنوانے کا۔۔۔ آج میں تمہارے جسم کے ایک ایک حصّے پر ایسے نیل ڈالوں گا کہ تمہارے سارے گھٹیا شوق اور آوارگی ہوا ہوجائے گی"

بہرام نے بولتے ہوئے جھک کر ایک بار پھر حرم کی گردن کو ہاتھوں میں جکڑے اپنے سامنے کھڑا کیا اور اُسے کمرے کے دروازے کی جانب دھکیلا اس سے پہلے حرم دوبارہ فرش پر نیچے گرتی بہرام اسے بالوں سے پکڑتا ہوا ہٹ سے باہر لے جانے لگا۔۔ لان میں کھڑا ہوا جوجو باہر زبان نکالے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا بہرام نے اپنی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولتے ہوئے حرم کو سیٹ پر دھکیلا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔۔ اُس کی گاڑی کا رخ سینٹرل جیل کی طرف تھا

*****

گاڑی کی پچھلی سیٹ پر حرم نڈھال وجود لیے پڑی تھی جب گاڑی سینٹرل جیل کے آگے رکی۔۔۔ وہ حرم کو بازو سے پکڑتا ہوا اندر کمرے میں لایا جہاں لیڈی انسپکٹر فرحت موجود تھی۔۔۔ انسپکٹر فرحت بہرام کو آتا دیکھ کر اپنی کرسی سے کھڑی ہوکر اسے سلوٹ کرنے لگی تبھی بہرام حرم کی طرح اشارہ کرتا اُس سے بولا

"انسپیکٹر فرحت لے جائیے اِسے اور لاک اپ کریئے اِس کے معصوم چہرے اور آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اِس پر ترس کھانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔۔۔ زمانے کی ہوا نے اِس پر کافی برے اثرات مرتب کیے ہیں میں چاہتا ہوں جب میں صبح واپس یہاں پر آؤں تو اِس کی اچھی طرح توازہ ہوچکی ہو مجھے امید ہے آپ یہ کام اچھے سے انجام دیں گیں"

بہرام نے لیڈی انسپیکٹر سے بولتے حرم کو بازو سے پکڑ کر اُس کی طرف دھکیلا

"آپ بے فکر ہو جائیں سر ایسی بگڑی ہوئی لڑکیوں کو مجھے سیدھا کرنا بہت اچھے سے آتا ہے۔۔۔ جب آپ صبح یہاں تشریف لائیں گیں تب تک یہ سیخ کی طرح سیدھی ہوچکی ہوگی"

انسپیکٹر فرحت نے ایک نظر روتی ہوئی حرم کو دیکھا جس کے ہاتھ اور منہ ابھی تک بند تھے۔۔۔ بہرام  لیڈی انسپکٹر فرحت کی بات سن کر وہاں سے چلا گیا

"منہ کالا کرتی ہوئی پکڑی گئی ہو یا پھر چوری چکاری کررہی تھی بی بی"

انسپکٹر فرحت حرم کے منہ سے ٹیپ ہٹاتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی

"بہرام غلط سمجھ رہے ہیں مجھے۔۔۔۔ پلیز آپ انہیں یہاں دوبارہ بلائیں انہیں بتائیں کہ میں حرم ہوں"

منہ کُھلتے ہی حرم روتی ہوئی انسپکٹر فرحت سے بولی جس کے جواب میں انسپیکٹر فرحت نے اُس کے گال پر کرارا تھپڑ رسید کیا

"گھر والی ہے تُو اے سی پی صاحب کی جو وہ تیرے یہاں بلانے پر دوبارہ دوڑے چلے آئیں گے۔۔۔۔ روقیّہ لے جاؤ اِس نازک کلی کو اور بھوری کے ساتھ لاک اپ میں بند کردو"

انسپکٹر فرحت کرخت لہجے میں روقیّہ کو آرڈر دیتی ہوئی بولی تو حرم رحم طلب  نظروں سے اُسے دیکھنے لگی

"انسپیکٹر صاحبہ بھوری کو دو دن سے انجکشن نہیں لگے ہیں وہ ہر ایک کو بری طرح پیٹ رہی ہے۔۔۔ سوچ لیں بھوری کہیں اِس نازک کلی کا کچومر ہی نہ نکال ڈالے"

روقّیہ حرم کے نازک سراپے کو دیکھتی ہوئی انسپکٹر فرحت سے بولی تو حرم اس کی بات سن کر خوفزدہ ہوتی بری طرح کانپنے لگی

"آپ میرا یقین کریں میں سچ کہہ رہی ہوں میں اے سی پی بہرام عباسی کی وائف ہوں آپ میری ایک بار اُن سے بات کروا دیں پلیز، وہ غلط فہمی کی بناء پر مجھے یہاں لے آئے ہیں" نہ جانے اُس کو کسی پاگل کے ساتھ لاک اپ میں ڈالا جارہا تھا، حرم روتی ہوئی انسپکٹر فرحت سے التجائی انداز میں بولی۔۔۔ جس پر انسپیکٹر فرحت کے ساتھ ساتھ روقیّہ بھی قہقہہ مار کر ہنس پڑی

"سن رہی ہوں رقیہ یہ اے سی پی صاحب کی وائف ہے، اُن کی پرسنالٹی دیکھ کر پجاری اپنا دل دے بیٹھی ہے اے سی پی صاحب پر، بی بی وہ تجھ جیسی کو منہ لگانا پسند نہ کریں۔۔۔ چلو بھئی رقیہ جلدی سے اُس کو بھوری کے لاک اپ میں بند کرو، اِس کے ارمان تو وہی نکالے گی"

انسپیکٹر فرحت کے حکم پر رقیہ حرم کو لاک اپ کی طرف لے جانے لگی

"پلیز میری بات سنیں صرف ایک مرتبہ میری بہرام سے بات کروا دیں"

حرم کے روتے ہوئے التجا کرنے پر بھی رقیہ اُس کی سنی اَن سنی کرکے اُسے لاک اپ کی طرف لے گئی

*****

واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آتے ہوئے اُس کو رات کے ڈھائی بج چکے تھے اینجل کو اُس کے صحیح ٹھکانے پر پہنچا کر بہرام کا مائینڈ ریلکس ہوچکا تھا کم سے کم اینجل سے اب حرم کو خطرہ نہیں تھا۔۔ کل وہ سینٹرل جیل میں جاکر اینجل کی حالت دیکھنے کے بعد اُس کو طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے اُس سے اپنا رشتہ ختم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، اچھا ہی تھا بنا حرم کے یا جیاء کے علم میں لائے بغیر اینجل کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوجاتا بہرام سوچتا ہوا بیڈروم میں آیا تو بیڈ پر کمفرٹر میں موجود وجود کو حیرت سے دیکھنے لگا

"تو مسسز احساس کرکے خود ہی رات میں چلی آئیں"

بہرام دل ہی دل میں مسرور انداز میں سوچ کر چینج کرنے چلاگیا جب وہ واپس آکر کمفرٹر اوڑھ کر لیٹا تو اُس نے حرم کو کھینچ کر اپنے سے قریب کرلیا

"میں یہی سوچ رہا تھا کہ آج رات تمہارے بغیر خود کو کتنا اکیلا محسوس کروں گا۔۔ مجھ سے دور مت جایا کرو میری جان، یہ دوری مجھے بےچین کردیتی ہے"

بہرام اس کے نازک سراپے کو باہوں میں لیے ہلکی آواز میں سرگوشی کرتا ہوا بولا تو بہرام کے سینے پر سر رکھے اینجل نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔

اِس وقت بہرام کی باہوں میں اُس کے قریب سینے پر سر رکھے وہ اندر سے کتنا اطمینان محسوس کررہی تھی اینجل چاہ کر بھی بہرام کو نہیں بتا پائی، اس وقت وہ اِسی طرح اُس کی دسترس میں رہنا چاہتی تھی۔۔۔ بہرام نے حرم کی نیند کی وجہ سے اُسے مزید ڈسٹرب نہیں کیا بلکہ اس کے وجود کو باہوں میں لےکر وہ خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا

*****

"سوری پاپا آپ سے محبت ہونے کے باوجود میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی میں نے ماما اور ارحم کے ساتھ نیویارک جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔۔۔ آپ کی حقیقت جاننے کے بعد بھی میں آپ سے محبت تو ختم نہیں کرسکتی کیونکہ آپ پاپا ہیں میرے مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز بھی لیکن اس کے باوجود میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی" یعقوب نیازی کو اپنی بیٹی کے بولے گئے جملے یاد آنے لگے جو اس نے جانے سے پہلے اُس ے بولے تھے۔۔۔ 

اُس کی بیوی خلع لےکر جاچکی تھی اُس کا بیٹا اُس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا اسے سب سے زیادہ محبت اپنی بیٹی سے تھی، یعقوب نیازی نے اسے لاکھ روکنے کی کوشش کی مگر وہ بھی اس کو چھوڑ کر چلے گئی۔۔۔ 

پورے خاندان میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ اُس کی بیوی اُس سے تعلق توڑ کر اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاچکی ہے۔۔۔ پورے خاندان میں اُس کی رسوائی ہوچکی تھی وہ صبح سے ہی سب ہمدردی میری کال ریسیو کر کر کے تھک چکا تھا اس وقت دوبارہ اُس کا موبائل بجنے لگا

"ہاں ہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں مجھے سب کے سب، اکیلا ہو چکا ہوں میں۔۔۔ اب مجھے کسی کی بھی جھوٹی ہمدردی کی ضرورت نہیں اس لیے بند کر دو تم سب لوگ اپنے یہ ڈھکوسلے"

یعقوب نیازی غُصّے کی شدت سے موبائل پر چیختا ہوا بولا اور اس نے اپنا موبائل دیوار پر زور سے دے مارا

"سر آپ ٹھیک تو ہیں"

شور کی آواز سن کر یعقوب نیازی کا وفادار ملازم اُس کے کمرے میں آتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا

"ٹھیک کیسے ہوسکتا ہوں میں سب کچھ برباد ہوچکا ہے میرا۔۔۔ بوبی ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کر چلا گیا، میرے بچے میری شکل دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، میری بیوی مجھ سے رشتہ ختم کرکے چلی گئی۔۔۔ سب نے اکیلا چھوڑ دیا ہے مجھے، پورے خاندان میں شرمندہ ہوچکا ہوں،، زلیل اور رسوا ہوچکا ہوں صرف اور صرف اُس اے سی پی کی وجہ سے۔۔۔ اب کسی بھی حالت میں مجھے اُس اے سی پی کی بیوی میرے اِس گھر میں چاہیے۔۔شرمندگی کیا ہوتی ہے رسوا ہونا کسے کہتے ہیں اِس کا ذائقہ وہ اے سی پی بھی چکھے گا۔۔۔ صبح ہوتے ہی آدمیوں کو ساتھ لے کر جاؤ اور اے سی پی بہرام عباسی کی بیوی کو اٹھا کر یہاں میرے گھر میں لے آؤ"

یعقوب نیازی انتقام کی آنکھ میں پاگل ہوتا ہوا اپنے ملازم کو حکم دینے لگا

*****

اپنے سینے پر ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے بہرام کی نیند ٹوٹی۔۔۔ نیند سے بیداری پر اُس نے اپنی بیوی کو اپنے بےحد قریب اپنے سینے پر جھکے پایا

"آج صبح ہوتے ہی اتنی مہربانی کہیں یہ خواب تو نہیں"

بہرام اُس کے اِس انداز پر حیرت زدہ ہوکر اُس سے پوچھنے لگا

"آپ کی دوری مجھے آپ سے بےحد قریب لے آئی ہے سمجھ لیں کہ اب مہربانیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے"

اینجل بہرام کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لاکر ایک ادا سے اُس سے بولی

تو بہرام نے اُس کو بانہوں میں لیتے ہوئے بیڈ پر لٹا دیا خود اُس کے اوپر جھکتا ہوا اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھتے ہوۓ اُس پر اپنی شدت لٹانے لگا لیکن بہرام نے محسوس کیا اُس سے زیادہ جذباتی آج وہ تھی یوں اچانک ہی بےتکلفی کا یہ انداز بہرام کو اپنے لیے کچھ نیا سا لگا

"صرف ایک رات کی دوری یہ رنگ لائی ہے میں حیران ہوں"

طویل معنی خیز خاموشی کے بعد بہرام اُس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹاتا ہوا شرارت بھرے لہجے میں بولا

"کیا صرف حیران ہونے میں ہی وقت گزارنے کا ارادہ ہے" 

بہرام نے اُس کو کہتے سنا۔۔۔ وہ اُس کی شرٹ کے بٹن بھی کھول رہی تھی بہرام ایک پل کے لئے اُس کے لہجے، لفظوں اور انداز پے غور کرتا ہوا کا چونکا

"رات جب میں تمہیں لینے کے لئے آرہا تھا تب تم نے مجھے کیوں منع کیوں کردیا۔۔۔ اور پھر اچانک خود سے آنے کا ارادہ کیسے بن گیا" بہرام اُس کا چہرہ دیکھتا ہوا سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگا

"منع کرنے کے بعد ہی تو پچھتائی تھی پھر چچا جان سے کہا، آپ مجھے یاد کررہے ہیں لینے آنا چاہ رہے تھے میرے بغیر آپ کا ایک رات بھی گزارا نہیں اِس لیے مجھے میرے شوہر کے پاس چھوڑ کر آجائیں"

اینجل بہرام کے چہرے پر اپنی انگلی پھیرتی ہوئی بولی 

بہرام اُس کی انگلی منہ میں لیتا ہوا چوم کر ایک نظر غور سے اس کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔۔ وہ اُس کی حرکت پر مسکرا رہی تھی شرمانے کی بجائے۔۔۔

"کیا ہوا اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہیں مجھے"

اینجل معصوم مسکراہٹ ،نرم لہجے میں اپنے اوپر جکھے بہرام کے گال پر ہاتھ رکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی۔۔۔ تو بہرام اُس کے اوپر سے اٹھتا ہوا اُس کے برابر میں بیڈ پر لیٹ

گیا

"صرف چہرا ہی نہیں میں تمہیں بھی پورا کا پورا غور سے دیکھنا چاہتا ہوں کپڑے اتار دو اپنے"

بہرام نے سوچ سمجھ کر یہ جملہ بولا تو اینجل اُس کی بات پر چونکی۔۔۔ بہرام نے اس سے تو پہلے کبھی ایسا کچھ کبھی نہیں بولا تھا شاید وہ حرم سے ایسے ہی۔۔۔ اینجل سوچ میں پڑگئی تو بہرام اُس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھنے لگا

"اتنا سوچ کیا رہی ہو کیا آج پہلی بار ایسا بولا ہے"

بہرام اُس کے چہرے کے آگے چٹکی بجاتا ہوا بولا تو اینجل بےساختہ مسکرائی

"نہیں وہ سوچ رہی تھی کہ آپ کے پولیس اسٹیشن جانے کا ٹائم ہوگیا ہے ناں"

اینجل جلدی سے بات بناتی ہوئی بولی۔۔۔ اُس کی بات سن کر بہرام پریشان ہونے لگا وہ سسپینٹ تھا۔۔۔ اور حرم کو معلوم تھا مگر اینجل یا کوئی دوسرا یہ بات نہیں جانتا تھا

اینجل نے جب بہرام کو خاموش دیکھا اُس کے موڈ خراب ہونے کے ڈر سے وہ بہرام کے سامنے بیٹھی  اپنی شرٹ اتارنے لگی۔۔۔ بہرام میں کندھے سے آتے اس کے بالکل پیچھے کیے، حرم کا روتا ہوا چہرہ اُس کی نظروں کے آگے گھومنے لگا اس وقت منہ پر ٹیپ لگے ہونے کی وجہ سے وہ بول نہیں پارہی تھی۔۔۔ بے خیالی میں بہرام نے اسکے شولڈر سے اسٹیٹ نیچے کیے اب شک کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی

"او بہرام لو یو سو مچ "

اینجل اُس کے بےباک انداز پر بولتی ہوئی اُس کی گردن پر جھک گئی

بہرام کو تھپڑ یاد آنے لگے جو وہ حرم کے گال پر لگا چکا تھا اُس وقت وہ کتنی بےبسی محسوس کررہی ہوگی جب وہ خود اس سے

جیل میں چھوڑ کر جارہا تھا۔۔۔ 

اِس وقت غُصّے سے وہ خود بےحال ہونے لگا، اپنے اوپر جھکے ہوۓ وجود کو حقارت سے اُس نے دور دھکیلا اور اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔ اگر اینجل بیڈ کا سراہ نہ پکڑتی تو شاید بیڈ سے نیچے گِر پڑتی

"کیا ہوا بہرام"

اینجل اُس کے خطرناک تیور دیکھ کر فوراً اپنا حلیہ درست کرتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی

"کافی بناکر لاؤ"

بہرام بناء تاثر کے اپنی شرٹ پہنتا ہوا بولا۔۔۔ اینجل اُس کے تاثرات دیکھتی ہوئی خاموشی سے بناء کچھ بولے کمرے سے نکل کر کچن میں چلی گئی بہرام نے کچھ سوچتے ہوۓ اپنا موبائل اٹھایا

"وعلیکم اسلام بیٹا سب خیریت ہے"

دوسری طرف اس کے کال کرنے پر نزہت چچی بہرام سے پوچھنے لگیں

"جی خیریت ہے، کل رات حرم کتنے بجے چچا جان کے ساتھ یہاں پہنچی تھی"

بہرام الُجھتا ہوا نزہت چچی سے پوچھنے لگا

"تمہارے چچا جا کے ساتھ تھوڑی وہ تو اکیلی نکل گئی تھی۔۔۔ جب میں اور تمہارے چچا نگی کے سسرال میں تھے"

نزہت چچی کے بولنے پر وہ مزید پریشان ہوگیا

"آپ دونوں نگی کے سُسرال۔۔۔ مگر کل رات نگی تو آپ لوگوں کے پاس تھی ناں"

کہاں پر کیا مسنگ تھا وہ کڑیاں نہیں ملا پایا۔۔۔ مگر نزہت اُس کو ساری باتیں بتاتی ہوئی آخر میں پوچھنے لگی

"سب خیریت تو ہے ناں بیٹا۔۔۔ حرم ٹھیک ہے ویسے کل پہلی بار اُس نے فون پر بہت عجیب طریقے سے بات کی تھی۔۔۔ آج سے پہلے کبھی اس بچی کا ایسا لہجہ محسوس نہیں کیا میں نے"

دوسری سمت سے نزہت کی بات پر وہ ہوش میں آیا

"جی وہ میرے اچانک کال کرکے بلانے پر، پریشان ہوگئی ہوگی۔۔۔ آپ زیادہ مت سوچیں"

بہرام بولتا ہوا کال رکھ تھا تھا

کل رات آخر کیسے وہ غصے میں حرم کو پہچان نہیں پایا تھا، اتنے بڑے بلنڈر پر وہ بری طرح پچھتاکر بےچین ہوتا ٹیرس میں چلا آیا اور موبائل پر دوسری کال ملانے لگا

*****

ساری رات اُس نے جاگتے ڈرتے اور بھوری کو سوتا ہوا دیکھ کر گزاری۔۔۔ سفید رنگ سفید سفید بھنویں اور بھاری بھرکم جسامت والی بھوری کے خوفناک خراٹوں کی آواز ہی اُس کے دل میں دہشت پیدا کررہی تھی۔۔۔ کل رات بہرام کا جلاد والا روپ دیکھ کر وہ بہرام سے بھی ڈر گئی تھی انجانے میں ہی سہی لیکن وہ کتنے برے طریقے سے کتنی سختی سے اُس کے ساتھ پیش آیا تھا

آخر وہ اُس کو کیوں نہیں پہچان پایا، جیل کی چار دیواری میں بیٹھی ہوئی اُسے بہرام سے شکوہ ہونے لگا پھر حرم کا دھیان اینجل کی طرف چلاگیا۔۔۔ اِس وقت انجل اُس کی جگہ پر موجود تھی بہرام کے ساتھ، اور بہرام اُس کو حرم سمجھ کر۔۔۔ آگے سوچ کر ہی حام کو رونا آنے لگا۔۔ کیا اب اسے اینجل بند کر ساری زندگی اِس چار دیواری میں رہنا ہو گا یہ سوچ ہی حرم کو خوف میں مبتلا کرنے لگی

"کیا سارا خون آج ہی چوس لےگا"

نیند میں ڈوبی ہوئی بھاری آواز میں بھوری نے بولتے ہوئے اپنے ہی بازو پر ہاتھ مار کر اُس مچھر کو مار ڈالا جو کافی دیر سے اُس کا خون چوس رہا تھا ساتھ ہی وہ بیدار ہوچکی تھی۔۔۔ اسے جاگتا ہوا دیکھ کر حرم ڈر گئی بھوری خود بھی بستر پر بیٹھ کر حرم کا جائزہ لینے لگی

"کون ہے تو"

پہلے اس نے حرم کو دیکھ کر ہنستے ہوئے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کی پھر کچھڑی جیسے بالوں کو کُھجاتی ہوئی حرم سے پوچھنے لگے

"حرم۔۔۔ میں حرم ہوں"

جو باتیں اُس نے رات میں روقّیہ کے منہ سے بھوری کے بارے میں سنی تھی اُس کی وجہ سے حرم کو سامنے بیٹھی پہاڑ کے وجود رکھنے والی اِس عورت کو دیکھ کر خوف آرہا تھا وہ ڈری ہوئی بھوری کو اپنا نام بتانے لگی

"حرم کہاں تُو تو چوہیا ہے ابھی میں تیری گردن دبوچ ڈالوں تو دو سیکنڈ میں تیری جان نکل جائے گی"

بھوری حرم سے بولتی ہوئی اپنی بات پر خود قہقہہ مار کر ہنسنے لگی جبکہ حرم اُس کی بات سن کر بری طرح ڈر گئی۔۔۔ بھوری بالکل سچ کہہ رہی تھی وہ سچ میں اُس کے توانا وجود کے آگے کوئی چوہیا ہی لگ رہی تھی

"ڈر رہی ہے مجھ سے مت ڈر۔۔۔ چل نہیں دبوچتی تیری گردن۔۔۔ وہ اتنی دور کیوں بیٹھی ہے یہاں قریب آکر بیٹھ میرے پاس"

بھوری حرم کو دیکھتی ہوئی بولی وہ بھوری کے جاگنے پر دیوار سے چپک کر بیٹھ گئی تھی

"نن۔۔۔۔ نہیں میں یہ ٹھیک ہوں"

بھوری کے پاؤں میں بیڑیاں دیکھ کر حرم اُس کی آفر ٹھکراتی ہوئی بولی۔۔۔ ویسے بھی بقول روقّیہ کہ اُس کو دو دن سے انجکشن نہیں لگائے گئے تھے، تو بھوری کے پاس جانا خطرے سے خالی نہیں تھا اگر بھوری اُس پر حملہ کردیتی تو اُس کو یہاں پہ جانے والا کوئی بھی نہیں تھا

"بھوری کو انکار کررہی ہے تُو، بھوری کو۔۔۔ یہاں آ"

حرم کے انکار کرنے پر بھوری کی شکل کے زاوئیے بگڑ کر مزید بھیانک ہوگئے۔۔۔ بھوری نے قریب رکھا کولر پر اسٹیل کا گلاس اٹھاکر حرم کو مارا جو اُس کے پاؤں پر زور سے لگا۔۔ وہ گلاس لگنے سے نہیں بلکہ بھوری کے خوف سے رونے لگی۔۔۔ بھوری کے پاؤں ڈلی بیڑیاں اگر بھوری چاہتی تو اپنی طاقت سے آرام سے توڑ سکتی ہے۔۔۔۔ حرم روتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھ کر بھوری کے حکم پر اُس کے پاس جانے لگی

"چل بیٹھ جا"

بھوری جو خود پاؤں پھیلا کر بیٹھی ہوئی تھی حرم کو اپنے پاؤں کے پاس اشارہ کرتی ہوئی بیٹھنے کا بولنے لگی حرم اُس کی بات مانتے ہوئے بھوری کے پاؤں کے پاس بیٹھ گئی

"باپ کہاں ہے تیرا"

بھوری حرم کو دیکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"انتقال ہوچکا ہے اُن کا"

حرم سانس روکتی ہوئی بھوری کو جواب دینے لگی وہ ناجانے کتنے دنوں سے نہیں نہائی تھی حرم سے سانس لینا دشوار ہونے لگا 

"تیرا باپ کو قبر سے نکال کر میرے پاؤں میں دبائے گا۔۔۔ یوں گھور کیوں رہی ہے ابھی تیرے دونوں دیدے نکال کر تیرے ہاتھ پر رکھ دوں گی چل دبا میرے پاؤں"

بھاری کے بولنے پر حرم کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اُس کی موٹی موٹی پنڈلیاں احتیاط سے دبانے لگی۔۔۔ کیوکہ بھوری کی پنڈلیوں پر جگہ جگہ بلیڈ سے کٹ کے نشانات موجود تھے

"ہل کم دبا زیادہ۔۔۔ جان نہیں ہے تیرے اندر"

بھوری گرج دار آواز میں چیخی تو حرم اُس کی آواز سن کر ڈر گئی۔۔۔ وہ اب اپنی پوری طاقت لگاتی ہوئی بھوری کی پنڈلیاں دبا رہی تھی جو اُس کے ہاتھوں میں مشکل سے ہی آپارہی تھی

"یہاں کون چھوڑ کر گیا تجھے"

بھوری حرم کو غور سے دیکھتی ہوئی اُس سے سوال پوچھنے لگی

"میرا شوہر" 

جواب دیتے ہوئے حرم کے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکنے لگا کل رات والا منظر یاد کرکے آنکھوں سے آنسو نکلنے کو بیتاب تھے

"کیا حرا** پن کیا تُو نے اُس کے ساتھ جو وہ تجھے یہاں چھوڑ گیا"

بھوری اُس کا ضبط سے سرخ چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگی

"کچھ،۔۔۔ کچھ بھی نہیں کیا تھا"

بولتے ہوۓ حرم کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے

"حسین تو تُو بڑی ہے کیا پیار نہیں تھا تیرے شوہر کو تجھ سے"

بھوری کے سوال پر اسے مزید رونا آنے لگا تو بھوری نے آگے بڑھ کر حرم کے بالوں کو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا، خوف کے مارے حرم کے منہ سے چیخ نکل پڑی

"تیری خوبصورتی کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ دیکھ تیرا شوہر بھی تجھے یہاں چھوڑ گیا اب اُس کے لیے آنسو مت بہا۔۔۔ واہ یہ تیرے بال تو بڑے خوبصورت ہیں دکھا ذرا کھول کر اِنہیں"

بھوری خود حرم کے بالوں کو کھول کر بکھیرتی ہوئی زور زور سے قہقے لگانے لگی جبکہ حرم ڈر اور خوف کے مارے رونے لگی

"اے چوہیا میری بات سن یہ جو تیرے بال ہیں نا بھوری کا دل آگیا ہے ان پر، انہیں میں اپنے پاس رکھ لیتی ہوں"

بھوری کی بات سن کر حرم کا رونا بند ہوگیا وہ خوف سے بھوری کو دیکھنے لگی جو بستر کے نیچے چھپایا ہوا بلیڈ نکال رہی تھی۔۔۔۔ حرم جلدی سے اٹھ کر بھوری کے پاس سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگی مگر اُس سے پہلے بھوری نے حرم کو اپنے شکنجے میں دبوچ لیا اور جِناتی قہقہے لگانے لگی

"نہیں پلیز مجھے چھوڑ دیجیے"

بھوری پر پاگل پن کا دورہ پڑ چکا تھا وہ لازمی بلیڈ سے اُس کے بال کاٹنے والی تھی حرم اس کی گرفت سے تڑپنے لگی

"بھوری چھوڑ دو اس کو"

اس سے پہلے بھوری حرم کے بالوں کی موٹی سی لٹ بیلڈ سے کاٹتی روقیّہ لاک اپ کھول کر اندر آئی اور بھوری سے بولی

بھوری نے روقّیہ کو دیکھ کر حرم کو چھوڑتے ہوئے اُس پر حملہ کرنا چاہا تو روقّیہ کے ساتھ آتی دو کانسٹیبل نے بھوری کو دونوں بازوؤں سے پکڑلیا۔۔۔ بھوری لی گالیوں کی آواز پورے لاک اپ میں گونج رہی تھی۔۔۔ حرم یہ خوفناک منظر دیکھ کر رونے لگی

"یہاں مت بیٹھو بی بی اے سی پی صاحب کا فون آیا ہے۔۔۔ وہ لینے آنے والے ہیں تمہیں، یہ بتاؤ بھوری نے تمہیں مارا تو نہیں جلدی سے نکلو یہاں سے"

روقیہ حرم کو اٹھاتی ہوئی اس کی فکر کرتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ اور اسے لاک اپ سے باہر لے گئی۔ حرم شکر ادا کرنے لگی کہ بہرام کو معلوم ہوچکا تھا کہ وہ غلط فہمی میں حرم کو یہاں چھوڑ گیا تھا

"یہاں ٹیرس میں کیوں آگئے بہرام"

اینجل اپنا اور اُس کافی کا مگ  پکڑے ٹیرس میں آتی ہوئی بہرام سے پوچھنے لگی

"اس لیے کہ میں یہاں ٹیرس میں کھڑے ہوکر تمہارے ساتھ تمہارے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی انجوائے کرنا چاہتا ہوں"

بہرام اسمائل دیتا ہوا اینجل کا چہرہ دیکھ کر بولا 

اینجل کے ہاتھ سے اپنا کافی کا مگ لیتا، اینجل کو محسوس ہوا جیسے وہ حرم کے ساتھ نہیں اِسی سے کہہ رہا ہو۔۔۔ بہرام کافی کی سپ لیتا مگ کو دیوار پر رکھتا ہوا اینجل کا چہرہ دیکھنے لگا پھر مسکراتا ہوا اُس کے قریب آیا اور اینجل کے ہاتھ سے بھی اس کا مگ لے لیا

"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو بہت پیارا لگ رہا ہوں"

بہرام اینجل کا مگ کارنر رکھتا ہوا اس کے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کرتا ہوا اینجل سے پوچھنے لگا

"پیارے کب نہیں لگتے، میں اب ایک پل کے لئے بھی آپ سے دور نہیں جاسکتی بہرام"

اینجل سچائی بیان کرتی ہوئی بولی اور اپنا سر اس نے بہرام کے سینے پر رکھ دیا۔۔۔ اینجل نے محسوس کیا تھوڑی دیر پہلے بیڈ روم کی بنسبت اب بہرام کا موڈ ٹھیک ہوچکا تھا، جس پر اینجل خود بھی ریلکس ہوگئی

"اور میرے پاس رہنے کے لیے تم کسی بھی حد تک جاسکتی ہو ہے ناں"

بہرام کو اُس نے بولتے سنا تو وہ اپنا سر بہرام کے سینے سے ہٹاکر اُس کا چہرہ دیکھنے لگی وہ ابھی بھی اینجل کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا

"کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا"

اینجل کو اُس کی بات سے کچھ شک سا گزرا تو بہرام نے ہنستے ہوئے اُسے گود میں اونچا اٹھالیا

"میری جان میں اپنے لیے تمہاری محبت آزمانا چاہتا ہوں، میرے پوچھنے کا مطلب تھا مجھ سے محبت کرنے کی خاطر تم کس حد تک جاسکتی ہو" بہرام نے اینجل کو بولتے ہوئے ٹیرس کی دیوار پر بٹھا دیا

"بہرام یہ کیا کررہے ہو مجھے ڈر لگ رہا ہے"

اینجل پانچویں منزل سے نیچے دیکھنے لگی تو اونچائی سے نیچے دیکھتے ہوئے اُسے چکر آنے لگے وہ گھبرا کر بہرام سے بولی

"پہلے بتاؤ نہ تم مجھ سے محبت کرنے کی خاطر کیا کرسکتی ہو" بہرام ضدی لہجے میں اینجل کے بےحد قریب کھڑا ہوا اُس سے پوچھنے لگا

"یہ بات میں نیچے اتر کر بھی آپ کو بتاسکتی ہوں"

اینجل نے بولتے ہوئے ٹیرس کی دیوار سے نیچے اترنا چاہا مگر بہرام نے اُس کا ارادہ بھانپتے ہوئے تیزی سے جھک کر اینجل کے دونوں پاؤں پکڑ کر اُسے دیوار سے پیچھے کی طرف دکھیلا۔۔۔ ویسے ہی اینجل کے منہ سے دلخراش چیخ نکلی

"بہرام۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو تم"

اینجل خوف کے مارے زور سے چیخی اُس کے دونوں پاؤں بہرام پکڑے ہوئے تھے جس کی مدد سے وہ الٹی ہوا میں لٹکی ہوئی تھی

"میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم محبت کی خاطر کس حد تک جاسکتی ہو۔۔۔ آرام سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنے مفاد کے لئے تم کچھ بھی کرسکتی ہوں مگر اسے محبت نہیں خودغرضی کہتے ہیں اینجل۔۔۔ تم مجھ سے تو کیا کسی سے بھی محبت نہیں کرسکتی، تم صرف اور صرف دھوکا دے سکتی ہوں دھوکے باز عورت ہو تم"

بہرام غصے میں اینجل سے بولا تو اینجل سمجھ گئی وہ اسے پہچان چکا تھا وہ اس سے صرف اور صرف ڈرامہ کررہا تھا

"بہرام پلیز مجھے خوف آرہا ہے میں مر نہیں چاہتی پلیز مجھ پر رحم کرو تمہیں حرم کی قسم ہے پلیز مجھے چھوڑنا نہیں"

یوں الٹا لٹکے نیچے دیکھتے ہوئے اسے بری طرح چکر آرہے تھے وہ بہرام سے التجا کرنے لگی، تبھی بہرام نے اسے اپنی جانب کھینچا تو بہرام کو شولڈر سے پکڑتی ہوئی وہ آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لیتے خدا کا شکر ادا کرنے لگی کہ وہ بچ گئی تھی

"آ آہ ہ"

مگر اگلے ہی لمحے جب بہرام نے اُس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا تو تکلیف کے مارے اینجل کے منہ سے سسکی نکلی

"یہ مت سمجھنا کہ میں نے تمہیں اس لیے بچایا ہے کہ تم سے حرم کا پوچھ سکو، حرم اِس وقت تمھاری قید میں نہیں بلکہ میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔ تمہیں بچانے کی وجہ یہی ہے کہ دوسری بار میں ایسی غلطی نہیں کرسکتا کہ تم سے میرا رشتہ جڑا رہے اور میں تمہیں موت دے دو، پہلے میں اپنے نام کے ساتھ جڑا تمہارا نام ہمیشہ کے لیے ہٹاؤں گا پھر تمہیں طلاق دینے کے بعد تم سے اپنا رشتہ ختم کرکے تمہیں مار دوں گا۔۔۔ اور اب کی بار میں تمہیں ایسی درد ناک موت دوں گا کہ اگر تم دوسری بار بھی بچ گئی تو میرے پاس آنے کی بجائے خود اپنے آپ کو مارنا پسند کروں گی"

بہرام اینجل سے بولتا ہوا اسے بالوں سے پکڑ ٹیرس بیڈ روم میں لے آیا اور زور سے اُسے بیڈ پر دھکیلا خود وہ ہاتھ میں موٹے چمڑے کی بیلٹ پکڑ کر اینجل کے سامنے آیا تو اینجل بہرام کے ہاتھ میں بیلٹ دیکھ کر بیڈ سے اٹھی

"میں تمہیں ہرگز نہیں روکو گی بہرام، اِس بیلٹ سے تم مجھے مارو اور اتنا مارو کے میری کھال تک ادھیڑ کر رکھ دو

میں اُف تک نہیں کروگی تم اپنا غصہ نکالنا چاہتے ہو ناں مجھ پر،، یہ سزا میرے گناہ کے آگے کچھ بھی نہیں ہے تم مجھے سخت سے سخت سزا دو مگر پلیز مجھ سے اپنا نام مت چھینو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھ سے اپنا تعلق مت ختم کرنا۔۔۔ میں جانتی ہوں میں کہیں سے بھی تمہارے قابل نہیں بہت گنہگار لڑکی ہوں میں، تمہارے نکاح میں رہ کر تم سے وفا نہیں نبھا سکی، تم پر اپنے ہاتھوں سے گولی چلاتے ہوئے مجھے احساس تک نہیں ہوا کہ میں کیا کررہی ہو مگر تم سے دوری نے مجھے احساس دلا دیا ہے کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں اور یہ بھی کہ میں نے بہت برا کیا تمہارے ساتھ۔۔۔ حرم کی جگہ یہاں تمہارے پاس آنے کا مقصد صرف تمہارے قریب آنا تھا تمہاری محبت حاصل کے لیے اور تمہارے پاس آنے کا کوئی دوسرا مقصد نہیں تھا میرا۔۔۔۔ بہرام میں بہت بری ہوں بہت گناہگار ہوں، تمہاری مجرم ہوں مگر تم دیکھو تمہارے چلنے والی گولی بھی میرے دل کو چھو نہیں پائی تمہارا ہی گفٹ کیا ہوا پینڈیٹ مجھے بچا گیا۔۔۔ تم حرم کے ساتھ رندگی گزارنا چاہتے ہو ناں بےشک اُسی کے ساتھ رہوں مگر مجھے اِس رشتے سے آزاد مت کرنا"

اینجل اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کے بعد آخر میں نیچے بیٹھ کر بہرام کے پاؤں پکڑتی ہوئی رونے لگی تو بہرام نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بیلٹ پر گرفت مزید سخت کردی وہ غصہ ضبط کرتا ہوا بیلٹ کو دور پھینک کر، بازو سے پکڑتا ہوا اینجل کو اپنے سامنے کھڑا کر چکا تھا

"کل رات میں تمہارے گھر پر حرم کو تو نہیں پہچان پایا مگر تمہاری خصلت میں اچھی طرح جان چکا ہوں۔۔۔ یہ ندامت، شرمندگی اور آنسو دکھا کر تم مجھے بے وقوف نہیں بناسکتی  تم وہ لڑکی ہو اگر دس بار بھی مر کر میرے سامنے دوبارہ زندہ ہو جاؤ میں تب بھی تمہارا یقین نہیں کرسکتا نفرت ہوچکی ہے مجھے تم سے اور تمہارے اِس گندے وجود سے۔۔۔ میں اس وقت حرم کو لینے جارہا ہوں اُسے یہاں لاکر، اُس کے سامنے تمہیں طلاق دے کر پھر میں تمہیں یونیورسٹی میں ڈرگ سپلائی کرنے کے جرم میں تمہیں اریسٹ کرواؤں گا، اپنا نام تمہارے نام کے ساتھ جوڑ کر میں اپنے نام کو زندگی بھر کے لئے بد نام نہیں کرنا چاہتا سنا تم نے"

بہرام نے اینجل کو بولتے ہوۓ اُس کے ہاتھ سے ڈائمنڈ کی رنگ اتاری اور اسے بیڈ پر دھکا دیتا ہوا خود حرم کو لینے کے لئے نکل گیا

اینجل چاہتی تو بہرام کے جانے کے بعد آسانی سے وہاں سے فرار ہوسکتی تھی مگر وہ آنسو بہاتی ہوئی بہرام کا انتظار کرنے لگی شاید یہی اس کی سزا تھی کہ بہرام اُس سے اپنا رشتہ ختم کرکے اُسے اریسٹ کروادیتا

*****

"کہاں ہے حرم"

وہ اِس وقت انسپکٹر فرحت کے سامنے کھڑا بےچینی سے اُس سے حرم کے بارے میں پوچھ رہا تھا

"اے سی پی صاحب جب آپ کا فون آیا تھا میں نے فوراً ہی ان کو لاک اپ سے باہر نکالنے کا آرڈر دے دیا تھا آئیے میں آپ کو خود اُن کے پاس لے چلتی ہوں"

انسپکٹر فرحت بہرام کے چہرے کے تاثرات جانچتی ہوئی اُس سے بولی

"وہ ٹھیک ہے" کوریڈور میں انسپکٹر فرحت کے ساتھ چلتا ہوا بہرام انسپکٹر فرحت سے پوچھنے لگا کل کتنی بری حالت میں وہ حرم کو یہاں لےکر آیا تھا

نہ تو اُس کے پاؤں میں جوتے تھے نہ ہی تن ڈھانپنے کے لئے کوئی چادر، طماچوں کے نشان سے سوجھے ہوۓ گال اور بکھرے بالوں میں وہ حرم کو یہاں چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ رات سے اب تک نہ جانے اُس کے ساتھ یہاں کیا سلوک ہوچکا ہوگا بہرام شرمندہ ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھا

"آپ بےفکر رہیں انہیں آپ کے آرڈر پر لاک اپ کیا گیا تھا لیکن ان پر جسمانی تشدد نہیں کیا گیا۔۔۔۔ اے سی پی صاحب وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ آپ کی۔۔۔

انسپکٹر فرحت ایک کمرے کے آگے رکتی ہوئی اپنی بات ادھوری چھوڑ کر بہرام کو دیکھنے لگی، بہرام جان گیا وہ کیا پوچھنے والی تھی

"یس شی از ماۓ وائف"

بہرام آئستہ لہجے میں بولا اُس کی بات سن کر انسپیکٹر فرحت ہونق بنی بہرام کا چہرہ دیکھنے لگی

"یہی روم ہے میں اُسے یہاں سے لے جانا چاہتا ہوں"

اپنے چہرے پر حیرت زدہ اٹھتی انسپیکٹر فرحت کی نظروں کو نظرانداز کرتا ہوا وہ بولا تو انسپکٹر فرحت سر ہلا کر سلوٹ کرتی ہوئی وہاں سے چلی گئی جبکہ بہرام ہمت جمع کرنے لگا کے کمرے میں جاکر حرم کا سامنا کرسکے

*****

لو یو ڈارلنگ لو یو سو مچ"

بہت پہلے اسی بیڈ پر اس کے بےحد قریب بہرام کے بولے گئے جملے اینجل کو یاد آنے لگے تو وہ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔ محبت کرنے والے شوہر کے ساتھ بےوفائی کرکے اُس نے خود سے اپنے شوہر کو  نفرت کرنے پر مجبور کیا تھا

"محبت ہو یا نفرت کوئی بھی دوسرا جذبہ، بہرام ڈوب کر کرنے کا عادی ہے ٹوٹ کر کرنے کا عادی ہے"

بہرام کا بولا گیا جملہ یاد کرکے وہ بیڈ کے کراؤن سے سر ٹکا چکی تھی

وہ بھلا کیوں اُس سے محبت کرتا یا اُسے معاف کردیتا اُس نے خود ہی اپنے شوہر کے آگے اپنے آپ کو دو کوڑی کا کر چھوڑا تھا۔۔۔ بہرام کو حرم کے ساتھ خوش دیکھ کر آخر وہ کیوں تکلیف میں مبتلا ہوگئی تھی جبکہ اِس سے بڑھ کر تکلیف وہ خود بہرام کو دھوکے بازی کی صورت دے چکی تھی جب بہرام کو معلوم ہوا ہوگا اُس کی عزت وہ کسی غیر مرد کے بستر پر لٹارہی تھی۔۔ اس وقت بہرام کس قسم کی اذیت میں مبتلا ہوا ہوگا، آج اسے بہرام کی تکلیف اذیت اور کرب کا اندازہ ہورہا تھا، تو آج اینجل کو اپنا آپ گرا ہوا محسوس ہونے لگا

وہ حرم کا موبائل اٹھاتی ہوئی اس میں بہرام کی تصویر دیکھنے لگی اُس تصویر میں بہرام ناراض دکھ رہا تھا شاید یہ تصویر بہرام نے حرم کے اصرار پر اسے لینے کی اجازت دی ہوگی

"تم اس قابل ہو کہ تمہیں صاف کردار کی بیوی ملے، اینجل تمہیں ڈیزرو  نہیں کرتی، حرم تمہارے لئے بنی ہے وہی اِس قابل ہے کہ تم اُس کے ساتھ اپنی ساری زندگی گزاروں وہ حق رکھتی ہے تمہاری محبت کا"

بہرام کی تصویر دیکھتی ہوئی اینجل بولی تو اسے اچانک فائر کی آواز آئی جس کے بعد لاؤنج میں الارم بجنے لگا انجل جلدی سے بیڈ سے اٹھی مگر وہ جو بھی کوئی تھا اب فلیٹ کے اندر داخل ہوچکا تھا اینجل گھبراہٹ میں ہاتھ میں موجود موبائل سے بہرام کو کال ملانے لگی مگر اُس کا نمبر بند تھا وہ پریشان ہونے لگی

****

جب وہ حرم کے پاس جانے کے لیے کمرے کے اندر داخل ہوا تو وہ سامنے صوفے پر آنکھیں موندے اپنے دونوں پاؤں پر کیے بیٹھی تھی اِس وقت اُس کے گرم چادر لپٹی ہوئی تھی، صوفے کے نیچے ایک عدد جوڑی سلیپر کی بھی موجود تھی اور سامنے ٹیبل پر ناشتہ بھی موجود تھا لیکن بہرام کو محسوس ہوا جیسے اِس وقت اُسے ناشتے سے زیادہ آرام کی طلب محسوس ہورہی تھی، اسلیے ناشتہ ویسے کا ویسے ہی رکھا ہوا تھا۔۔۔ بہرام نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور بغیر قدموں کی آواز کیے حرم کے پاس آیا تاکہ اُس کی نیند میں خلل نہ پڑے لیکن ویسے ہی بہرام کی پاکٹ میں رکھا ہوا موبائل بجنے لگا جسے بہرام نے نکال کر جلدی سے کال کاٹی اور اپنا موبائل بند کردیا لیکن حرم جاگ چکی تھی وہ سیدھی ہوکر بیٹھ جاتی ہوئی سامنے کھڑے بہرام کو دیکھنے لگی بہرام گہرا سانس خارج کرکے حرم کے پاس آکر بیٹھا اور فوراً ہی اُس نے حرم کو اپنے حصار میں لے لیا

"مجھے لگ رہا تھا شاید آپ میرے آنسو دیکھ کر مجھ پر ترس کھالیں مگر آپ مجھے نہیں پہچان پاۓ بہرام۔۔۔ آپ اتنے ظالم اتنے سخت دل ہوسکتے ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی جو سب آپ نے میرے ساتھ کیا وہی سب آپ اینجل کے ساتھ کرتے وہ بھی آپ کی بیوی ہے اُسے آپ یوں جیل میں چھوڑ کر چلے جاتے"

حرم بہرام کے حصار میں اس سے شکوہ کرتی ہوئی بولی بہرام اپنے ہاتھ اسکی کمر سے ہٹاتا ہوا حرم کا چہرہ تھام کر اپنی جانب کرتا ہوا اُس سے بولا

"اگر کوئی عورت ایک بار کسی مرد کے دل سے اتر جائے تو وہ دوبارہ کبھی بھی اُس مرد کے دل میں پہلا والا مقام نہیں پاسکتی اور اِس وقت جو میرے دل میں موجود ہیں اینجل نے اسے نقصان پہنچانے کا سوچا تھا، میری خوشی تمہارے ساتھ میں ہے حرم، اور اُس عورت نے خود مجھ سے بےوفائی کی اور اب وہ تمہیں مجھ سے دور کرنے کا سوچ رہی تھی۔۔۔ وہ تمہارا چہرہ بگاڑنا چاہ رہی تھی تمہاری جگہ پاکر حرم بن کر وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی تھی ان سب باتوں کے لئے میں اُس کو کبھی معاف نہیں کرنے والا، آج تمہارے سامنے اُس سے اپنا رشتہ ختم کرکے اُسے ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکال دوں گا میرے ساتھ گھر چلو"

بہرام نے سنجیدگی سے بولتے ہوئے حرم کو اٹھانا چاہا تو حرم نے بہرام کی شرٹ کا ایک دم پکڑا

"کل رات وہ میرے روپ میں میری جگہ آپ کے پاس موجود تھی بہرام تو پھر آپ نے اس کو حرم ہی سمجھا ہوگا"

حرام جو بہرام سے پوچھنا چاہ رہی تھی وہ پوچھ نہیں پائی مگر بہرام سمجھ گیا کہ حرم کیا کہنا چاہ رہی ہے اس لیے وہ حرم کے دونوں گالوں کو باری باری چومتا ہوا اُس کا چہرہ دیکھ کر اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتا ہوا بولا

"جب تمہیں غلطی سے اینجل سمجھ بیٹھا تو کیا اس کو حرم نہیں سمجھ سکتا تھا ظاہری بات ہے میں اُس کو حرم ہی سمجھا تھا اور وہ تو خود اپنے آپ کو ظاہر بھی حرم ہی کررہی تھی" 

بہرام اس قدر سیریس ہوکر بولا تم اُس کی آنکھوں میں پوشیدہ شرارت حرم نہیں دیکھ سکی اس لیے اس کے ذہن میں الٹے سیدھے خیالات گردش کرنے لگے

"کیا سوچ رہی ہو اتنا سیریس ہوکر گھر واپس نہیں چلنا" 

بہرام اپنی مسکراہٹ چھپاتا ہوا حرم سے پوچھنے لگا

"نہیں پہلے آپ بتائیں جب آپ نے کل رات اسے حرم سمجھا پھر اس کے بعد کیا ہوا"

حرم بالکل سیریس ہوکر بہرام کا چہرہ دیکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی۔۔۔ حرم کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر بہرام مشکل سے ہی اپنی آنے والی ہنسی کو روک پایا

"یار ہونا کیا تھا اب دونوں بیویوں کی ایک جیسی شکل اِس میں میری کیا غلطی ہے تم خود ہی سوچ لو تمہیں اپنے چچا کے گھر سے یوں اچانک اپنے پاس آتا دیکھ کر خوشی میں میرا کیا ری ایکشن ہوتا، موبائل پر کل رات تم سے ہی تو بات کر رہا تھا نان اندازہ نہیں لگایا تم نے تمہیں کتنا مس کررہا تھا میں"

بہرام اس کے چہرے کے پل پل پریشان کن زاویے دیکھتا ہوا سنجیدگی سے بولا

"خاموش کیوں ہوگئے بولتے جائے آگے، میں سن رہی ہوں"

حرم خود سے تصور کرکے سوچتی ہوئی اپنا دل برا کرتی بہرام سے بولی

"سن کر کیا کروں گی اپنا دل ہی جلاؤ گی اب جو کل رات کو ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا ہے پھر اُس کے بعد دوبارہ صبح بھی۔۔۔۔ چھوڑو ناں یار اب گھر چلو اپنے"

بہرام حرم کو افسوس سے بتاتا ہوا اٹھنے لگا حرم نے غصے میں بہرام کی شرٹ کھینچ کر اُسے واپس صوفے پر بٹھا لیا

"رات کے بعد دوبارہ صبح بھی۔۔۔ بہرام آپ۔۔۔ شرم نہیں آئی آپ کو"

حرم کو سوچ سوچ کر غصہ آنے لگا وہ صدمے کی کیفیت میں بہرام سے بولی

"تمہارے سامنے کبھی شرم آئی ہے جو اُس کے سامنے آتی۔۔۔ ویسے بھی میں اس کو تم ہی سمجھ رہا تھا اور صبح تو اس کی سب ڈیمانڈ پر۔۔۔ یار مت سوچو زیادہ بس گھر چلو"

بہرام حرم کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا جسے حرم نے بےدردی سے جھٹکا اور غصے میں بولی

"صبح اس کی ڈیمانڈ پر بہرام۔۔۔ آپ نے میرے منہ سے کب ایسی ڈیمانڈ سنی"

حرم غصہ ہونے کے باوجود جگہ کا احساس کرتی ہوئی دبی ہوئی آواز میں چیخی

"تو تم بھی ڈیمانڈ کر کے دیکھ لو اگر پوری نہ کروں تو شکوہ کرنا۔۔۔ اور اب اس بات کو بھی اچھی طرح اپنے دوپٹے سے گراہ لگالو کے آئندہ رات میں تم مجھے چھوڑ کر کبھی بھی اپنے چچا جان کے گھر نہیں رکو گی دیکھا دو بار تمہارا چانس پہلی والی لے گئی"

بہرام کے بولنے پر حرم نے جل کر اُسے دیکھا تو 

بہرام اپنی ہنسی روکتا ہوا دوبارہ بولا

"یار اب اتنے غصے میں مت دیکھو مجھے، جیسے ہی مجھے شک گزرا کہ وہ اینجل ہے ویسے ہی میں دوڑا ہوا تمہارے پاس چلا آیا۔۔۔ بس اب پریشان ہونا چھوڑو اپنے گھر چلتے ہیں"

بہرام نے بولتے ہوئے دوبارہ حرم کا ہاتھ پکڑا

"کیا آپ بار بار گھر چلنے کا بول کر میرا دل جلا رہے ہیں، کیا کروں گی اب میں آپ کے ساتھ اُس گھر میں جاکر۔۔۔ نہیں جانا مجھے اب کہیں بھی اُس بیڈ روم میں اس بیڈ پر جہاں آپ میری بجائے اُس کے ساتھ۔۔۔۔ شک گزرا تو تمہارے پاس دوڑا چلا آیا۔۔۔ دو بار اس کے قریب جاکر آخر کار شک ہو ہی گیا۔۔۔۔ تو پھر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی اب اِسی کو رکھیں اپنے پاس اور روز روز اُس کی ڈیمانڈ پوری کریں"

بولتے ہوئے حرم کو رونا آنے لگا بےشک بہرام وہ بھی بہرام کی بیوی تھی بہرام کا اس سے جائز تعلق تھا مگر اِس وقت حرم کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ بہرام نہیں جان سکتا تھا

"اگر اُس کو اپنے ساتھ رکھوں گا تو پھر تم کہاں رہوں گی"

بہرام حرم کا ضبط سے سرخ چہرہ دیکھ کر سنجیدگی سے اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ حرم کا ہاتھ ابھی بھی بہرام کی گرفت میں تھا جسے وہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھا اور حرم اُس سے چھڑوانے کی کوشش کررہی تھی

"روقّیہ سے کہہ کر مجھے بھوری کے لاک اپ میں بند کروادیں بھوری کے ساتھ رہ لوں گی میں"

بولتے ہوئے حرم کی آنکھوں سے اشک رواں ہونے لگے، ضبط نے جواب دیا تو اس نے بری طرح رونا شروع کردیا

"حرم پلیز یار کیا ہوگیا ہے تمہیں"

بہرام جو ابھی تک اس کی جلی کٹی باتوں کو انجوائے کررہا تھا حرم کو روتا ہوا دیکھ کر اس کا ہاتھ چھوڑتا ہوا حرم کو دوبارہ اپنے حصار میں لے چکا تھا

"آپ کیسے اس کے ساتھ وہ سب کرسکتے ہیں بہرام، ایک پل کے لئے آپ کو احساس نہیں ہوا آپ کے اتنے قریب جو وجود ہے وہ آپ کی حرم کا نہیں۔۔۔ آخر کیسے محسوس نہیں کیا آپ نے کہ وہ میں نہیں تھی کیوں نہیں پہچان پاۓ آپ اسے"

بہرام کے حصار میں حرم روتی ہوئی سسک پڑی بہرام نے اُسے خود سے الگ کرتے ہوئے حرم کا چہرہ تھام کر اپنے چہرے کے قریب کیا

"یہاں میری آنکھوں میں غور سے دیکھو حرم۔۔۔ نہ کل رات کو کچھ ہوا تھا نہ ہی آج صبح ویسا کچھ ہوا۔۔۔ میں صرف اور صرف اپنے لیے تمہاری محبت اور شدت جانچنا چاہ رہا تھا جبھی تم سے اسطرح بولنے لگا۔۔۔ لیکن یہ جو تم آنسو بہانے لگی ہو یہ نہیں دیکھ سکتا میں تمہاری آنکھوں میں۔۔۔ جو کچھ میں اینجل سمجھ کر میں تمہارے ساتھ کرچکا ہوں اُس سے بھی زیادہ تکلیف دے رہے ہیں یہ آنسو مجھے پلیز انہیں صاف کرلو۔۔۔ تمہیں لگتا ہے ناں بےرحم ہوں میں مگر بےوفا نہیں"

بہرام نے حرم سے بولتے ہوئے اپنی جیب سے ڈائمنڈ کے رینگ نکال کر اس کو پہنادی کیوکہ وہی اس انگوٹھی کی اصل مالک تھی۔۔۔ ڈائمنڈ رنگ اپنے ہاتھ کی انگلی میں واپس دیکھ کر حرم خوش ہوگئی یہ انگوٹھی اُس کے لیے معنی رکھتی تھی کیونکہ یہ بہرام کی طرف سے دیا گیا اُس کے لئے پہلا تحفہ تھا

"آپ سچ کہہ رہے ہیں ناں کہ بہرام"

حرم بہرام کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی لیکن اندر سے اُس کا دل گواہی دے رہا تھا بہرام اُسے بالکل سچ کہہ رہا تھا

"ہماری شادی کے پہلے دن سے آج تک میں نے تم سے جھوٹ نہیں بولا حرم لیکن اگر تم چاہتی ہو تو میں تمہیں ابھی یقین دلادیتا ہوں" 

بہرام نے بولتے ہوئے حرم کے گرد اپنے بازوؤں سے حصار بناکر پورے استحقاق سے اپنے ہونٹوں سے اس کے ہونٹوں کو چھوا تو حرم پیچھے ہٹتی ہوئی خود میں سمٹنے لگی۔۔۔ بہرام کی حرکت کر اس نے اپنے گرد لپٹی ہوئی شال کو مزید اپنے گرد لپیٹ لیا۔۔۔ بہرام اس کا شرمایا ہوا روپ دیکھ کر شکر ادا کرنے لگا کہ ایک باکردار لڑکی اُس کی بیوی ہے

"آپ کو بھی خیال نہیں رہتا کہیں بھی شروع ہوجاتے ہیں یہ ہمارا گھر نہیں ہے"

بہرام کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے حرم اس سے شکوہ کرتی ہوئی بولی

"جبھی تو بار بار گھر چلنے کا تم سے بول رہا ہوں تم سمجھ ہی نہیں رہی ہو"

بہرام اب کی بار شرارت سے بولا جس پر حرم نے آنکھیں پھیلا کر اس کو گھورا تو بہرام مسکراتا ہوا کھڑا ہوگیا اس کے ساتھ حرم بھی گھر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی

*****

"تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو سب خیریت ہے" بہرام حرم کو لے کر اپنے اپارٹمنٹ کی طرف نکل رہا تھا تبھی اسے انسپیکٹر مہران کے ساتھ انسپکٹر شیمل اور ندیم بھی اپنی طرف آتے دکھائی دئیے بہرام حرم کو لےکر اپنے اپارٹمنٹ کی طرف نکل رہا تھا تب اسے انپیکٹر مہران کے ساتھ انسپکٹر شیمل اور انسپیکٹر واصف اپنی طرف آتے ہوئے دکھائی دیے بہرام کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا انسپیکٹر مہران سے بولا۔۔۔ جو اسی کی طرح ان دونوں کے ساتھ سول ڈریس میں موجود تھا

"سر شاید آپ کا موبائل آپ کے پاس موجود نہیں تھا اس لئے آپ جان نہیں پائے کہ آپ کے پیچھے آپ کے فلیٹ میں کیا ہوا ہے"

انسپیکٹر مہران کے بولتے ہی بہرام اپنا موبائل پاکٹ سے نکال کر اَن کرنے لگا مگر اس سے پہلے انسپکٹر مہران اسے تمام تر واقعہ سنا چکا تھا جسے سن کر بہرام کا غصہ سے برا حال ہوگیا، یعقوب نیازی کی اتنی ہمت کے اُس کے آدمی اُس کے فلیٹ میں داخل ہوکر اُس کی بیوی اٹھالیتے

"پستول دو مجھے" 

بہرام غصے سے انسپیکٹر مہران سے بولا

"سر میں نے شیمل اور واصف نے فیصلہ کیا ہے ہم تینوں بھی اپ کے ساتھ یعقوب نیازی کے گھر جائیں گے"

انسپیکٹر مہران بہرام کو اپنے ساتھ باقی ان دونوں کے ارادے  سے بھی آگاہ کرتا ہوا بولا جس پر بہرام نے اُس کی بات فوراً رد کردی

"یہ میری اپنی لڑائی ہے میں اچھی طرح مقابلہ کرنا جانتا ہوں"

بہرام کے بولنے پر انپیکٹر شیمل اُس سے بولا 

"سر یہ آپ کے اکیلے کی لڑائی نہیں ہے یہ ہر اُس انسان کی لڑائی ہے جو اپنے جسم پر پولیس کی وردی پہنتا ہے، آج اگر یعقوب نیازی کو ہم سب نے مل کر اس کی گری ہوئی حرکت کا جواب نہیں دیا تو کل کو کوئی دوسرا یعقوب نیازی بن کر ہماری گھر کی عزتیں اچھالے گا۔۔۔ ہم نے مستقبل میں اپنی بہن بیٹیوں کی عزت بچانے کی خاطر یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے بےشک آگے سے ہمہیں معطل کرنے کا آرڈر بھی جاری کر دئیے جاۓ لیکن ہم اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے"

انسپیکٹر شیمل کے بولنے کے بعد انسپیکٹر مہران بولا

"سر سوچنے کا وقت نہیں ہے ہم تینوں اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے پلیز چلیں۔۔۔ میں نے یعقوب نیازی کے بنگلے کی تمام تر تفصیلات حاصل کرلیں"

اس نے انسپیکٹر مہران کو کہتے سنا

*****

"میں خود چل رہی ہوں چھوڑ میرا ہاتھ" اینجل زور سے خالد کا ہاتھ جھٹکتی ہوئی بولی جو اسے یعقوب نیازی کے کمرے میں لے جارہا تھا۔۔۔ اینجل سمجھ چکی تھی کہ  بہرام کے فلیٹ میں گھُس کر اسے اٹھانے کی گری ہوئی حرکت یعقوب نیازی کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تھا

"سر آپ کے حکم سے لے آئے اے سی پی کی بیوی کو دوبارہ۔۔۔ اُس دن تو بڑی ڈری ہوئی تھی آج بڑی نڈر بنی ہوئی ہے"

یعقوب نیازی کا وفادار اینجل کو اُس کے کمرے میں لاتا ہوا بولا تو یعقوب نیازی سر سے پاؤں تک اینجل کا جائزہ لینے لگا ساتھ ہی اُس نے خالد کو کمرے سے جانے کا اشارہ کیا

"آپ کا یہ بیوقوف آدمی مجھے بہرام کی دوسری بیوی سمجھ کر اٹھا لایا ہے شاید۔۔۔ آپ بھی مجھے حرم سمجھ رہے ہوں گے مسٹر یعقوب لیکن میں آپ کو کلئیر کردو کے حرم نہیں بلکہ اینجل ہوں"

اینجل یعقوب نیازی کی خباثت بھری نظروں کو نظر انداز کرتی ہو اسے حقیقت بتانے لگی تو یعقوب نیازی کے چہرے سے مکروہ ہنسی غائب ہوگئی وہ غور سے اینجل کو دیکھتا ہوا حیرت سے بولا

"تو تم زندہ ہو سوئیٹ ہارٹ پھر اُس اے سی پی کے فلیٹ میں کیا کررہی تھی تمہیں تو یہاں اپنے یعقوب کے پاس ہونا چاہیے تھا۔۔۔ اتنی دور کیوں کھڑی ہو مجھ سے" یعقوب نیازی مسکراتا ہوا اپنے بازوؤں کو کھول کر اینجل کی طرف بڑھا تو اینجل نے یعقوب کے قریب آنے پر اُس کے بازوؤں کو جھٹکا اور اُس سے چند قدم دور ہوئی

"اپنے حد میں رہیں مسٹر یعقوب مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب آپ مجھے گولی لگتا دیکھ کر وہاں مرنے کے لیے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔۔۔ اور آپ کو بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ میں اب بھی بہرام عباسی کی بیوی ہوں اس کے نکاح میں ہوں میں"

اینجل کی بات سن کر یعقوب نیازی نے زوردار قہقہہ کا مارا

"بول تو تم بھی ایک بات رہی ہو۔۔۔ یعقوب نیازی کی رکھیل رہ چکی ہو تم، یاد کرو وہ دن جب تم نے اے سی پی سے چھپ کر میرے بلانے پر میرے پاس آئی تھی۔۔۔ وہ گزرے ہوئے خوبصورت لمحات کیسے فراموش کرسکتی ہو تم" یعقوب نیازی کی باتیں سن کر اینجل کا چہرہ خجالت اور شرمندگی سے سرخ ہونے لگا۔۔۔ اُسے اپنے وجود سے نفرت اور سامنے کھڑے آدمی سے کراہیت آنے لگی

"کچھ نہیں بھولا ہے مجھے یعقوب نیازی ایک عزت دار مرد کی بیوی بننے کے بعد بھی میں گند میں منہ مارتی رہی یہ روگ تو اب ناسور بن کر شاید ساری عمر میرے اندر پلتا رہے گا۔۔۔ لیکن اب میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ میں اپنے شوہر کے نام اور عزت پر حرف تک نہیں آنے دوں گی"

اینجل یعقوب نیازی سے بناء ڈرے اُس کو جتاتی ہوئی بولی اور اُس کے کمرے سے باہر جانے لگی تبھی یعقوب نیازی نے اسے اپنی گرفت میں لےکر بیڈ کر دھکیل دیا

"چونٹی کے پر نکل آئے ہیں ہاں۔۔۔ اس آئی سی پی کی عزت بچاؤ کی تم۔۔۔ اُس کی عزت کی تو آج میں ایسی دھجیاں بکھروں گا کہ روئے گا وہ آج کا دن یاد کر کے"

یعقوب نیازی بولتا ہوا تیزی سے بیڈ کی جانب بڑھا اس سے پہلے وی اینجل کے اوپر جھکتا۔۔۔ اینجل نے پوری طاقت سے اسے لات ماری۔۔۔

اس کی لات اتنی اچانک اور زوردار تھی یعقوب نیازی پیچھے گرتا ہوا چیخ اٹھا جس کا فائدہ اٹھاتی ہوئی اینجل بیڈ سے اٹھ کر اپنا دوپٹہ ہاتھ میں لیتی ہوئی تیزی سے کمرے سے باہر نکلی

"کہاں مر گئے ہو تم سب گیٹ بند کرو باہر کا اور قابو کرو اس کمینی کو"

اینجل تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی تب یعقوب نیازی کمرے سے باہر نکلتا ہوا چیخ کر اپنے آدمیوں کو حکم دیتا ہوا بولا

*****

"ہاں ندیم بولو"

گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا انسپیکٹر مہران موبائل کان سے لگائے بولا تو اُس کے برابر میں بیٹھا ہوا بہرام اپنی سوچوں سے نکل کر چونکا

"سر یعقوب نیازی کے گھر کے مین گیٹ پر کافی سخت سیکیورٹی ہے وہاں سے آپ کا بنگلے کے اندر جانا ناممکن ہے۔۔۔ جبکہ گھر کے پچھلے گیٹ پر صرف ایک ہی سکیورٹی گارڈ موجود ہے"

ندیم انسپکٹر مہران کو انفارم کرتا ہوا بتانے لگا

"ٹھیک ہے پھر ہم پچھلے گیٹ سے ہی یعقوب نیازی کے گھر کے اندر داخل ہوں گے، مشکل سے پانچ منٹ میں ہم اس جگہ پر پہنچنے والے ہیں تم ایسا کرو اس سکیورٹی گارڈ کو تھوڑی دیر کے لیے گیٹ سے غائب کردو"

انسپیکٹر مہران ندیم کو آرڈر دیتا ہوا رابطہ منقطع کرچکا تھا جبکہ انسپکٹر شیمل نے مہران کی بات سن کر گاڑی پچھلی طرف موڑ لی بہرام سوالیہ نظروں سے انسپہکٹر مہران کو دیکھنے لگا تبھی انسپکٹر مہران بہرام کو بتانے لگا

"ندیم سے کہہ کر یعقوب نیازی کے گھر کے آس پاس کی ساری انفارمیشن لی ہے ہمیں گھر کی پچھلی طرف سے اندر جانا ہوگا"

انسپیکٹر مہران بہرام کو بتانے لگا جس پر اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ یہاں ان لوگوں کے ساتھ آنے سے پہلے بہرام نے حرم کو عفان کے گھر پہنچا دیا تھا جب تک اپنے فلیٹ میں وہ جب خود جاکر جائزہ نہیں لے لیتا حرم کو وہاں بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا 

صورتحال ایسی تھی کہ وہ حرم کو اس کے چچا کے گھر بھیجنے کا بھی رسک نہیں لے سکتا یعقوب نیازی کی حرکت جاننے کے بعد عفان نے میڈیا کے ذریعے اس خبر کو نشر کرنے کا بولا تھا مگر بہرام نے اسے فلحال اسے ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا تھا

******

پستول سے نکلی ہوئی گولی شیمل کے بازو پر لگی تو وہ زخمی ہو کر نیچے زمین پر گر پڑا۔۔۔ وہ تینوں الرٹ ہونے کے باوجود شیمل کی طرف متوجہ ہوئے ان کو چاروں طرف سے یعقوب نیازی کے آدمیوں نے گھیرلیا ان سب کے ہاتھوں میں اسلحہ موجود تھا

بہرام مہران واصف سے ان کے ہتھیار لے کر یعقوب نیازی کے آدمی شیمل سمیت ان تینوں کو یعقوب نیازی کے پاس گھر کے اندر لے آئے 

"آؤ اے سی پی آؤ۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا جیسے ہی تمہیں میرے کارنامے کے خبر ہوگی تم دندناتے ہوئے یہاں پہنچ جاؤں گے اس لیے تمہارے شاندار استقبال کی پہلے سے ہی میں نے تیاری کر رکھی تھی"

ان چاروں کو یعقوب نیازی کے آدمیوں نے ابھی بھی گھیرا ہوا تھا یعقوب نیازی سیڑھیوں سے اترتا ہوا بہرام کو دیکھ کر بولا

"اپنے ہی گھر میں تو کُتا بھی اپنے آپ کو شیر سمجھنے کی غلطی کرتا ہے یعقوب نیازی لیکن آج کا دن تم ہمیشہ یاد رکھنے والے ہو میں تمہارے ہی گھر میں تمہاری ہی آدمیوں کے سامنے تمہاری حالت گلی کے کتُے سے بھی بدتر کرکے جاؤں گا"

بہرام غصے میں یعقوب نیازی کو دیکھتا ہوا بولا تو یعقوب نیازی بہرام کی بات پر قہقہہ مار کر ہنسنے لگا

"کون کس کے آدمیوں کے سامنے کس کی حالت کُتے جیسی کرتا ہے یہ تو تمہیں ابھی اور اسی وقت معلوم ہوجائے گا۔۔۔ خالد ذرا اے سی پی صاحب کی بیوی کو تو یہاں لے کر آؤں"

یعقوب نیازی بہرام کو بولنے کے ساتھ ہی اپنے خاص ملازم کو بھی حکم دیتا ہوا بولا جس پر بہرام نے غصے میں یعقوب نیازی کی طرف بڑھنے کی کوشش کی مگر یعقوب نیازی کے آدمی اُسے پکڑ چکے تھے

"ارے بھئی ذرا مضبوطی سے پکڑو کیوکہ اب اے سی پی اپنی آنکھوں سے جو منظر دیکھنے والا ہے اس کے بعد اِس بچارے کو سہارے کی ضرورت پڑے گی"

یعقوب نیازی مکروہ ہنسی ہنستا ہوا اپنے آدمیوں سے بولا جس کی گرفت میں بہرام موجود تھا باقی کے آدمیوں نے ان تینوں کو بھی گرفت میں لیا ہوا تھا

"یعقوب نیازی اگر اپنی مردانگی دکھانی ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو اِسے چھوڑ دو"

یعقوب نیازی کا وفادار جب اینجل کو ہال میں لےکر آیا تو بہرام اینجل کی آنکھوں میں آنسو اور اُس کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر بولا۔۔۔ اینجل کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے اُس پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہو

"اے سی پی میں مرد نہیں بلکہ درندہ ہوں۔۔۔ آج تو میری مردانگی نہیں بلکہ درندگی دیکھو گے۔۔۔ اور پچھتاؤ گے نری طرح کہ کیو تم نے مجھ سے ٹکر لی۔۔۔ یہ لڑکی جو چند ماہ پہلے میری رکھیل رہ چکی ہے اب بھی تمہارے نکاح میں ہے۔۔۔ بے فکر رہو آج میں اِس کے ساتھ کچھ نہیں کرنے والا، میں تو صرف آج تمہاری شکل دیکھو گا جب میرے آدمی ایک ایک کرکے تمہاری بیوی کے ساتھ۔۔۔۔ ہاہاہا یقین جانو تمہاری عزت کے پراخچے اڑتے دیکھ کر مجھے بہت مزا آئے گا"

یعقوب نیازی کی بات سن کر بہرام غصے کی شدت سے بری طرح چیخ اٹھا اور ایک بار پھر یعقوب نیازی کے آدمیوں کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا جبکہ اینجل وہی گھڑی یعقوب نیازی کی بات سن کر ہوچکی تھی۔۔ اس کے ماتھے سے خون بہ رہا تھا آنکھوں کے پاس نیل کا نشان اور پھٹا ہوا ہونٹ اس کی ابتر حالت بیان کرنے کے لیے کافی تھا لیکن اب یعقوب نیازی اس کی کیا حالت کرنے والا تھا وہ بھی بہرام اور دوسرے مردوں کے سامنے

"چلو بھئی دیر مت کرو ایک ایک کر کے آؤ۔۔۔ باری باری آج سب کو موقع ملے گا خالد سب سے پہلے یہ نادر موقع تمہیں دیا جاتا ہے آجاؤ بھئی میدان میں"

یعقوب نیازی ساری صورتحال کو انجوائے کرتا ہوا بولا خالد گندی نگاؤں سے اینجل کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھنے لگا اینجل پیچھے قدم ہٹاتی آنسو بھری آنکھوں سے بہرام کی جانب دیکھنے لگی جسے یعقوب نیازی کے آدمی اب بری طرح مار رہے تھے یہی سلوک یعقوب نیازی کے دوسرے آدمی مہران واصف اور شیمل کے ساتھ بھی کررہے تھے

"میرے قریب مت آنا چھونا نہیں مجھے ورنہ مار ڈالو گی میں تمہیں"

اینجل چیختی ہوئی خالد کو دیکھ کر بولی جو تیزی سے اس کی جانب بڑھ رہا تھا

اینجل نے خالد کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو وہ بھاگتے ہوئے اپنے قدم بہرام کی جانب بڑھانے لگی۔۔۔ بہرام نے اینجل کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر، یعقوب نیازی کے آدمی کے ہاتھ سے اچانک اس کی پستول چھینی 

"اینجل"

اس سے پہلے وہ لوگ بہرام کے ہاتھ میں موجود پستول چھین لیتے بہرام نے پستول کو اینجل کی جانب اچھالا تاکہ وہ اپنا بچاؤ کرسکے

"خبردار آگے نہیں بڑھنا ایک بھی قدم میری طرف"

اینجل کانپتے ہوئے ہاتھوں میں پستول تھام کر پستول کا رُخ خالد کی طرف کرتی ہوئی بولی ایک منٹ کے لئے پورے ہال میں گہرا سکوت چھا گیا۔۔۔ یعقوب نیازی کے آدمی بہرام اور ان تینوں کو دوبارہ اپنی گرفت میں لے چکے تھے جبکہ اینجل کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر یعقوب نیازی کو غصہ آنے لگا

"جان سے مار ڈالو اس اے سی پی کو ابھی اور اسی وقت"

یعقوب نیازی نے غصے میں اپنے آدمیوں کو حکم دیا ویسے ہی ہال میں فائر کی آواز گونجی سب کچھ ایک پل کے لئے ساکت ہوگیا پل بھر میں اینجل کا وجود خون سے لبریز ہوکر لہراتا ہوا زمین بوس ہوا۔۔۔ 

وہ بہرام کی جان اور اپنی عزت بچانے کی خاطر خود کو گولی مار چکی تھی۔۔۔ 

اینجل کو گولی لگتے ہی بہرام کے دیکھا دیکھی مہران شیمل اور واصف نے بھی یعقوب نیازی کے آدمیوں سے ان کے ہتھیار چھین کر ان پر اسٹریٹ فائر کرنا شروع کردیئے، ان فائر کی ضد میں یعقوب نیازی بھی آگیا۔۔۔ ایک مرتبہ پھر پورے ہال میں گولیوں کی آواز گونجنے لگی

تھوڑی ہی دیر میں یعقوب نیازی سمیت اس کے آدمی بےجان وجود ہوکر زمین پر گر چکے۔۔۔ بہرام تیزی سے اینجل کی طرف بڑھا

"یہ کیا کردیا تم نے اپنے ساتھ میں نے تمہاری طرف پستول اس لیے اچھالی تھی تاکہ تم اپنی جان کی حفاظت کرسکوں"

بہرام اینجل کے زخمی وجود کو ذرا سا اٹھاکر اس کے شانے کے گرد اپنا بازو دراز کرتا ہوا بولا تو اینجل نے بند آنکھیں کھول کر بہرام کا چہرہ دیکھا

"آج اپنی جان سے پہلے اپنی عزت کی حفاظت کرنا ضروری ہوگیا تھا اگر ایسا نہیں کرتی تو تم زندگی بھر شرمندگی سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے دیکھو آج میں نے تمہیں دنیا کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچالیا"

اینجل تکلیف کی شدت سے تڑپتی ہوئی بولی پیٹ پر لگنے والی گولی سے اُس کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا بہرام اینجل کی بات سن کر ایک پل کے لئے بالکل خاموش ہوگیا پھر آہستگی سے بولا

"کچھ نہیں ہوگا تمہیں تم حوصلہ مت ہارنا ہم ابھی ہاسپٹل پہنچ جائیں گے تھوڑی دیر میں" بہرام اینجل کو ہمت دلاتا ہوا بولا، انسپیکٹر مہران موبائل پر ایمرجنسی میں ایمبولینس کو بلانے کے لئے کال کررہا تھا جبکہ شیمل خود زخمی زدہ ہونے کی وجہ سے بےہوش ہوچکا تھا واصف کی توجہ شیمل کی طرف ہی تھی

"شاید تب تک میری سانسیں میرا ساتھ نہیں دے سکے گیں ایک بات مانو گے میری بہرام" اینجل خون ہاتھ سے بہرام کا گال چھوتی ہوئی بولی

"تم پہلے ٹھیک ہوجاؤ پھر مان لوگا تمہاری بات ابھی خاموش ہوجاؤ"

بہرام نے اینجل کو دیکھ کر ایک بار پھر تسلی دی آج جو کچھ اینجل نے کیا تھا شاید بہرام کو ہرگز توقع نہیں تھی تبھی وہ اتنا نرم پڑگیا تھا

"میں تمہیں بےرحم سمجھتی تھی مگر تم بےرحم نہیں ہو۔۔۔۔ حرم سے محبت ہے ناں تمہیں، تم ساری عمر اُسی سے محبت کرنا بس میرے جانے کے بعد مجھ سے نفرت مت کرنا۔۔۔ محبت نہ سہی مگر نفرت بھی مت کرنا مجھ سے پلیز"

اینجل کی بات اس نے بہت ضبط کرتے ہوئے سنی تھی

"تم ڈھیٹ ہو مجھے معلوم ہے تم اتنی جلدی مجھے نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔ اینجل آنکھیں کھول کر رکھو شاید ایمبولینس آ چکی ہے"

بہرام نے انسپیکٹر مہران کو کہتے سنا تو۔۔۔ وہ اینجل کو ہلکے سے جھنجھوڑتا ہوا بازوؤں میں اٹھانے لگا تو اینجل نے اسے وہی روک دیا

"اتنی بھی ٹھیک نہیں ہوں جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔۔۔ بہت تکلیف میں ہوں میں اس وقت۔۔۔ لیکن اب تمہاری زندگی میں اینجل دوبارہ کبھی تمہیں پریشان کرنے نہیں آئے گی۔۔۔ بہرام میں تم سے واقعی۔۔۔ م۔۔ح۔۔ب۔۔ت"

اینجل کا جملہ ادھورا ہی رہ گیا اُس کی دھڑکن بالکل ساکت ہوگئی بہرام خاموشی سے اُس کا چہرہ دیکھے گیا جس پر تکلیف کے آثار کی بجائے اب سکون چھایا ہوا تھا 

تھوڑی ہی دیر میں وہاں ایمبولینس اور میڈیا کی ٹیم ان پہنچی تھی۔۔۔ اپنے شانے پر دباؤ محسوس کر کے بہرام نے سر اٹھاکر انسپکٹر مہران کو دیکھا

"آپریشن فیل ہوگیا"

انسپکٹر مہران کی مایوس کن آواز بہرام کے کانوں میں پڑی۔۔۔ اسٹریچر پر اینجل کے مردہ وجود کو ڈال کر ایمبولینس میں لے جایا جارہا تھا دوسری طرف یعقوب نیازی کا مردہ وجود بھی ابھی تک وہی پڑا ہوا تھا جسے دیکھتا ہوا بہرام انسپکٹر مہران سے بولا

"آپریشن کامیاب ہوا ہے یعقوب نیازی جیسے انسان کا انجام دیکھ کر کوئی بھی انسان کسی غیرت مند انسان کی عزت پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ضرور سوچیں گا"

بہرام انسپیکٹر مہران سے کہتے ہوئے ہال سے باہر جانے لگا۔۔۔ وہی عفان یعقوب نیازی کے گھر کے اندر کیمرے کے سامنے لائف کوریج دکھا رہا تھا

******

رات کے گیارہ بج چکے تھے مگر نیوز چینل پر ابھی بھی صبح ہونے والے واقعے کے بارے میں بتایا جارہا تھا حرم نے چور نگاہوں سے بہرام کی طرف دیکھا جو بالکل خاموشی سے اسکرین کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو کچھ آج صبح ہوچکا تھا اس کے بعد جب شام میں بہرام حرم کو لینے عفان کے گھر آیا تو حرم اس کے کپڑے پر خون دیکھ کر بری طرح گبھرائی تھی مگر جیسے جیسے سارے واقعات اس نے عفان سے سنے تب اسے اینجل کے دنیا سے چلے جانے کا معلوم ہوا جس پر اسے کافی دکھ ہوا تھا

عفان کے حددرجہ اصرار پر بھی بہرام اس کے گھر پر نہیں رکا، نہ ہی حرم کے چچا کے کہنے کے باوجود وہ حرم کو لے کر ان کے گھر پر کار۔۔۔ بہرام حرم کو اپنے ساتھ ریسٹ ہاؤس لے آیا تھا کیونکہ صبح یعقوب نیازی کے آدمیوں نے اس کے فلیٹ کی حالت رہنے کے قابل نہیں چھوڑی تھی اس لئے وہ حرم کو اپنے ساتھ اپارٹمنٹ میں لانے کی بجائے اس کا اور اپنا ضرورت کا سامان یہاں لے آیا تھا

"بہرام کیا آپ نیوز دیکھ رہے ہیں"

یہ شام سے اب تک تیسری بات تھی جو حرم نے اس سے پوچھی تھی

"نہیں تو ہٹادو یہ نیوز چائینل بلکہ آف کردو ایل ای ڈی"

بہرام ایک دم حرم کو دیکھتا ہوا بولا 

حرم نے انتظار کیے بغیر ریموٹ کنٹرول اٹھا کر ایل ای ڈی بند کردیا صبح سے اب تک یہی سب کچھ دیکھ کر اس کا دل گھبرانے لگا تھا اچانک حرم کے موبائل پر جیاء کی کال آنے لگی۔۔۔۔ حرم کے ساتھ بہرام کی بھی نظریں ٹیبل پر رکھے حرم کے موبائل پر گئیں

"میری شام میں آپی سے بات ہوچکی ہے وہ آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہوگیں بہرام"

حرم اپنا موبائل اٹھا کر بہرام کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی 

"جیاء سے کہو میں کل خود کال کر کے بات کرلوں گا اس سے"

بہرام حرم کو دیکھتا ہوا بولا تو حرم اپنا موبائل لے کر دوسرے کمرے میں چلی آئی

"معلوم نہیں آپی کیا سوچے جارہے ہیں۔۔۔ کیوں اتنے خاموش ہیں مجھے تو سچ میں سوچ سوچ کر گھبراہٹ ہو رہی ہے"

حرم بہرام کا رویہ دیکھکر ناجانے کیا کیا سوچے جارہی تھی جیاء سے شیئر کرتی ہوئی بولی

"اپنی طرف سے کسی بھی بات کا تصور نہیں کرنا چاہیے حرم اور اگر وہ خاموش ہے تو تم بات کرو اس سے، بیوی ہو اسکی۔۔۔ جاکر پوچھو اس سے کیا بات ہے"

جیاء حرم کو سمجھاتی ہوئی بولی تھوڑی دیر جیاء سے بات کرنے کے بعد حرم دوبارہ کمرے میں آئی تو بہرام ابھی بھی اسی پوزیشن میں بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا

"کہیں اینجل کے جانے کا کچھ زیادہ ہی صدمہ تو نہیں لے لیا انہوں نے۔۔۔ نہیں نہیں مجھے اس طرح نہیں سوچنا چاہیے آپی صحیح کہہ رہی تھی مجھے بات کرنی چاہیے بہرام سے"

حرم قدم اٹھاتی ہوئی بہرام کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔۔۔ اس نے بہرام کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا جس سے بہرام بےخیالی میں دیکھنے لگا پھر کچھ سوچ کر اس نے حرم کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھا۔۔۔۔ حرم بہرام کو اپنی اٹحاتی، اس سے پہلے بہرام نے حرم کو اپنی جانب کھینچا تو حرم اُس کے اوپر آگری

"بولو کیا کہنا چاہ رہی ہو مجھ سے"

بہرام حرم کا پریشان چہرہ دیکھ کر اسے اپنی گود میں بیٹھاتا ہوا بولا

"آپ شام سے ایسے ہی بیٹھے ہیں بہرام"

حرم فکرمند لہجے میں بہرام کو احساس دلاتی ہوئی بولی

"جانتی ہو ناں تم آج کیا ہوا ہے"

بہرام حرم کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ حرم نے اس وقت بھی صبح والی کشمیری شال اپنے گرد لپیٹی ہوئی تھی مگر اس شال کے نیچے کپڑے اینجل کے نہیں تھے وہ اس نے شام میں ہی تبدیل کرلیے تھے

"ہاں جانتی ہوں بہرام مگر آپ پلیز۔۔۔۔ 

حرم بولتے بولتے رک گئی اسے لگا شاید وہ اینجل کو سوچ رہا تھا اگر وہ کچھ بولتی تو وہ بہرام برا مان جاتا تھا اینجل بھی تو بہرام کی بیوی تھی جو آج اس کو چھوڑ کر چلی گئی تھی

"اب وہ ہماری زندگی میں کبھی بھی واپس لوٹ کر نہیں آئے گی حرم۔۔۔ آج اسے اپنے اِن ہاتھوں سے قبر میں اتار کر آرہا ہوں میں"

بہرام چہرے پر سنجیدہ تاثرات لئے حرم سے بولنے لگا تو حرم سانس روکے اسے خاموشی سے دیکھنی لگی

"اس کے دنیا سے چلے جانے سے آپ اداس ہیں بہرام"

یہ سوال پوچھتے ہوئے حرم کو اداسی نے گھیر لیا

"تمہیں کیوں لگ رہا ہے کہ میں اداس ہوں"

بہرام اپنے بالکل قریب حرم کا چہرہ دیکھ کر اسے پوچھنے لگا اس کے چہرے پر پریشانی کے ساتھ فکرمندی تھی

"کیونکہ آپ بالکل خاموش ہوگئے ہیں"

حرم بہرام کو دیکھتی ہوئی بولی

"تم جاننا چاہتی ہو کہ میں کیوں خاموش ہو۔۔۔ میری چپ کے پیچھے کیا وجہ ہے"

بہرام حرم کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا تو حرم میں جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا

"اگر آپ اس کے متعلق کوئی اعتراف کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اپنے خاموشی کی وجہ مت بتائیے گا بہرام، میں بہت کمزور دل کی لڑکی ہو"

حرم روہاسی لہجے میں بولی

ویسے بھی شوہر کو بیوی کی قدر اُس کے جانے کے بعد آتی ہے ایسا حرم میں سن رکھا تھا کہیں اس کے شوہر کے ساتھ بھی تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا یا وہ اس کے سامنے اینجل سے محبت کا اعتراض تو نہیں کرنے لگا تھا یہ سوچ کر حرم کا دل ڈوبنے لگا۔۔۔ مگر حرم کے منہ سے ایسی بات سن بہرام مسکرا دیا

"اچھا تو تمہیں لگ رہا میں تمہارے سامنے اپنی پہلی بیوی سے محبت کا اعتراف کرو گا۔۔۔ محبت ایک بار کی جاتی ہے جو میں تم سے کرچکا ہوں۔۔۔ اِس وقتی اداسی پر پریشان مت ہو، اس بات کا یقین رکھو میں صرف تمھارا ہوں"

بہرام نے حرم کے گرد اپنے بازوں حمائل کرتے ہوۓ اسے یقین دلایا تو حرم نے اطمینان سے بہرام کے شانے پر اپنا سر رکھ دیا

"بہرام میں آج آپکے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرنا چاہتی۔۔۔ آپ کو شاید اندازہ نہ ہو میں بہت زیادہ محبت کرتی ہوں آپ سے"

جاتے جاتے اینجل اپنی محبت کا اقرار اس کے سامنے نہیں کرپائی تھی، وقت نے اسے اجازت نہیں دی تھی مگر آج حرم نے اُس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرلیا جس کے بعد  وہ بہرام کے شانے سے اپنا سر ہٹاکر اُس کو دیکھنے لگی 

بہرام نے اُس کے اعتراف پر حرم کا چہرہ تھام کر اُس کی پیشانی پر محبت بھرا لمس اپنے ہونٹوں سے ثبت کیا تو حرم نے اطمینان سے انکھیں بند کرکے دوبارہ اپنا سر بہرام کے شانے پر رکھ دیا۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی یہ وقتی اداسی ہے جو کل تک غائب ہوجاۓ گی بہرام کا اصل سکون حرم میں تھا جو وہ اُسے باہوں میں لیے اِس وقت بھی محسوس کررہا تھا

*****

❣️ختم شد❣️

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Yaar E Beraham Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Yaar  E Beraham  written by Zeenia Sharjeel .Yaar E Beraham  by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages