Dayar E Wehshat By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 16 June 2024

Dayar E Wehshat By Zeenia Sharjeel New Romantic Complete Novel

Dayar E Wehshat  By Zeenia Sharjeel  New Romantic Complete Novel

Madiha  Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Dayar E Wehshat By Zeenia Sharjeel Complete Romantic Novel  

Novel Name:Dayar E Wehshat  

Writer Name: Zeenia Sharjeel 

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

گلگت سے دو گھنٹے کی مسافت پر ضلع غذر زمین پر کسی جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں۔۔۔ گہرا نیلا آسمان، روئی کی طرح بادلوں کے اڑتے ٹکڑے غذر وادی سے اونچائی پر بنے ہیر پیلس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے تھے۔۔۔ سفید سنگِ مرمر سے بنا ہوا ہیر پیلس باہر سے دکھنے میں جتنا خوبصورت اور دلکش پس منظر پیش کرتا، اندر سے اتنا ہی پراسرار نظر آنے والا یہ ہیر پیلس اپنے اندر نہ جانے کتنے اسرار چھپائے ہوئے تھا۔۔۔ ہیر پیلس کا اسرار بیدار ہوئی اِس رات کے ساتھ بھی اِس وقت بھی چاروں سُو پھیلنا شروع ہوگیا تھا، سناٹے میں دور سے آتی کسی جنگلی بھیڑیے کے رونے کی آواز ماحول میں ویسے ہی پُر اسراریت پیدا کرنے کے لئے کم نہ تھی

مائیکل کو دو ہی دن گزرے تھے یہاں پر ملازمت کرتے ہوئے یہاں اسے ہیر پیلس کے اندرونی حصّے کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لئے رکھا گیا تھا کیونکہ مائیکل سے پہلے یہ کام ماریہ کے ذمہ میں موجود تھا اور ماریہ کے اچانک غائب ہوجانے پر ماریہ کی جگہ مائیکل میں سنبھال لی تھی، 

ہیر پیلس کے تمام ملازمین کے ساتھ فرغب بی نے مائیکل کو بھی ہیر پیلس میں لاگو ہوئے اصول اور قوانین اچھی طرح بتادیے تھے۔۔۔ شام 7 بجے کے بعد تمام ملازمین کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہوجاتا تھا۔ تب رات میں کسی ملازم کو ہیر پیلس کے اندار آنے کی یا پھر بلاضرورت گھومنے کی اجازت نہ تھی

اِس وقت رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا جب مائیکل نے ہیر پیلس کے اندرونی حصّے میں قدم رکھا یہ ایک بڑا سا ہال نما گول کمرہ تھا، جس کی چھت پر ایک بڑا سا کرسٹل کا فانوس موجود تھا جو اِس وقت ہوا کے زور پر بےحد آہستگی سے ہلتا ہوا ماحول میں ایک خاص قسم کے ردھم پیدا کررہا تھا۔۔۔ اونچی اونچی دیواریں جن پر لگے جنگلی جانوروں کے سر ماحول کو عجب سنسنی پیدا کررہے تھے۔۔۔ اِسی طرح تھوڑے آگے دیواروں پر لگی عجیب و غریب وحشت سے بھرپور پینٹنگز ماحول کو اور بھی پراسرار بنارہی تھی۔۔۔ وہی بڑی بڑی کھڑکیوں سے اندر آتی چاند کی روشنی پراسراریت کو ایک الگ ہی تقویت بخش رہی تھی

اس ہال نما گول کمرے کے چاروں اطراف راہداریاں نکلتی ہوئی کہیں اندر غائب ہورہی تھی انہی میں سے ایک راہداری جو دائیں جانب موجود تھی، وہاں ہیر پیلس کے کسی بھی ملازم کو جانے کی اجازت نہیں تھی علاوہ فرغب بی کے اور ایبک کے۔۔۔ ہیر پیلس میں بسنے والے مکین کی لسٹ زیادہ طویل نہ تھی، اِس ہیر پیلس کا مالک جس کی عمر 28 سے 29 سال تھی۔۔۔ اُس نوجوان کی شخصیت بھی کسی پہیلی کی طرح محسوس ہوتی تھی اُس کے چہرے پر چھائی بلا کی سنجیدگی اور کرختگی۔۔۔ خاص طور پر اُس کی کالی گہری آنکھیں سامنے موجود شخص پر ایک خاص قسم کا تاثر چھوڑتیں، جس سے وہ شخص اُس کی شخصیت کے آگے دب سا جاتا 

مائیکل کو علم تھا آج ہیر پیلس کے مالک کو ضروری کام کے سلسلے میں کہیں جانا تھا۔۔۔ ایبک جوکہ اُس کا وفادار ملازم تھا وہ آج اپنے مالک کے ساتھ موجود تھا۔۔۔ تجُسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر مائیکل رات کے اِس پہر ہیر پیلس کے اندر داخل ہوگیا تھا تاکہ اس پیلس میں موجود اسرار کا پتہ لگا سکے

اِس وقت اُس راہداری میں کافی زیادہ اندھیرا تھا جہاں دن میں بھی کسی ملازم کو جانے کی اجازت نہ تھی۔۔۔ اس راہداری میں چار کمرے موجود تھے دو بائیں جانب اور دو دائیں جانب مائیکل نے اندازہ لگالیا دائیں جانب کونے والا کمرہ، کمرہ نہیں بلکہ یہ اس پیلس کے بیک یارڈ میں کھلتا دروازہ تھا جس میں ایک قبر بھی ہیر پیلس کے اسرار کا ایک حصہ تھی وہاں پر بائیں جانب کمرے میں مائیکل نے فرغب بی کو دن کے اجالے میں جاتے اور ہیر پیلس کے مالک کو اس کمرے سے باہر نکلتے دیکھا تھا مائیکل نے بےحد آئستگی سے اس کمرے کا دروازہ کھولا، یہ وہ کمرہ تھا جو اپنے اندر کئی راز چھپائے ہوئے تھا۔۔۔ مائیکل چہرے پر آیا پسینہ صاف کرتا ہوا اُس کمرے کے اندر پہنچ کر ٹارچ کی روشنی سے کمرے کے چاروں اطراف جائزہ لینے لگا۔۔۔ یہ بڑا سا کمرہ اندر سے بالکل خالی تھا مائیکل ٹارچ کی روشنی کی مدد سے دیوار پر لگے سوئچ بورڈ پر موجود بٹن آن کرچکا تھا سرخ رنگ کی بتی سے کمرہ روشن ہوگیا۔۔۔ خالی کمرہ دیکھ کر مائیکل تھوڑا سا حیرت زدہ ہوا تھا، اس کمرے میں ایک آدم قد آئینہ کے سوا کچھ بھی نہ تھا اُس کے باوجود مائیکل کی حیرانگی ایک دم پریشانی میں مبتلا ہوچکی تھی

"لالالالا۔۔۔۔" 

کیونکہ خالی کمرے میں اچانک سے نسوانی آواز پیدا ہونا شروع ہوگئی جیسے کوئی لڑکی بڑے مگن انداز میں گنگنا رہی ہو، خالی کمرے میں یوں اچانک پیدا ہونے والی آواز سے مائیکل خوف میں مبتلا ہوگیا، خوف کے باعث اس کے ہاتھ سے ٹارچ چھوٹ کر نیچے گرچکی تھی، مائیکل واپس باہر جانے کے لیے تیزی سے دروازے کی جانب بڑھا اس سے پہلے وہ کمرے کا دروازہ کھولتا دروازہ خود بخود باہر سے کُھل گیا سامنے موجود پچپن سالہ عورت موم بتی کا جلتا ہوا کینڈل ہولڈر ہاتھ میں پکڑے سفید چہرہ، کھلے شانوں سے آگے آتے لمبے بال لئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ دلخراش چیخ مائیکل کے منہ سے نکلی

"اس کمرے میں تم کس کی اجازت سے آئے ہو"

فرغب بی کے سخت لہجے میں پوچھنے گئے سوال پر مائیکل کے حواس بحال ہونا شروع ہوئے اپنے سامنے کھڑی فرغب بی اس وقت مائیکل کو اس پراسرار پیلس کا ہی حصہ معلوم ہورہی تھیں

"میں۔۔۔ وہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہاں پر۔۔۔" مائیکل گھبراتا ہوا فرغب بی سے بولا جو کینڈل ہولڈر ہاتھ میں پکڑے اُس کی جانب قدم بڑھاتی ہوئی کمرے میں چلی آئی تھی جس کی وجہ سے مائیکل پیچھے کی جانب قدم اٹھاتا واپس کمرے کے اندر بیج و بیج آگیا۔۔۔ گنگناتی ہوئی نسوانی آواز ابھی بھی آرہی تھی مگر اب وہ مدھم ہوچکی تھی لیکن مائیکل کا دل اِس وقت بھی خوف سے سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگا تھا

"یہ آواز۔۔۔۔ فرغب بی یہ آواز سنی آپ نے"

مائیکل خوف کے مارے اپنے سامنے کھڑی فرغب بی سے پوچھنے لگا۔۔۔ ویسے ہی ایک نسوانی چیخ کی آواز پورے کمرے میں زوردار طریقے سے گونجی

"بچاو یہ مجھے مار ڈالے گا"

اس چیخ پر مائیکل کا دل بری طرح خوف سے دھل اٹھا۔۔۔ فرغب بی بنا کوئی تاثر لیے وہی کھڑی تھیں مگر خوف کے سبب مائیکل کے اپنے حواس جاتے رہے وہ اسی کمرے میں گر کر بےہوش ہوگیا

***"""***

"اف مہنگائی تو دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔۔۔ دو لوگوں کی تنخواہ بھی کم پڑجاتی ہے سمجھ میں نہیں آتا پورا مہینہ تمہاری اور تمہارے ابو کی تنخواہ میں کیسے کھینچوں"

شہناس صبح سویرے ناشتہ بنانے کے ساتھ ٹینشن میں مسلسل بولے جارہی تھی تبھی کچن میں کھڑی امامہ اس کو دیکھتی ہوئی بولی

"دو کیا چار لوگ بھی اس گھر میں کمانے لگ جائیں تب بھی آپ کا مہنگائی کا رونا وہی کا وہی رہے گا، خرچے نہیں دیکھے آپ نے اِس گھر میں بلاوجہ کے"

امامہ یعنی شہناس کی سب سے بڑی فرمابردار بیٹی ناشتہ بنانے میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی ہوئے اس سے بولی

"یہ دونوں چھوٹی سچ میں ہر دوسرے دن پاکٹ منی کے علاوہ پیسے مانگ مانگ کر ناک میں دم کردیتی ہیں میں تو آگے مستقبل کا سوچتی ہوں تو اور بھی زیادہ پریشان ہونے لگتی ہوں کیسے بیاہو گی تم تینوں کو"

شہناس فکرمند لہجے میں بولتی ہوئی امامہ کو دیکھنے لگی وہ اس کی سب سے بڑی بیٹی تھی جو اگلے سال 26 سال کی ہوجاتی، اپنی باقی دونوں چھوٹی بہنوں سے بالکل مختلف شکل و صورت کی 

آرزو اور ہیر تو شکل و صورت کی خوبصورت تھی مگر امامہ کے دبی ہوئی رنگت اور پیدائشی دائیں پاؤں میں نقص کی وجہ سے شہناس اور صدیقی اس کے لیے کافی پریشان رہتے، تین جوان لڑکیوں کو دیکھ کر گھر میں جو بھی رشتہ آتا وہ امامہ کی بجائے آرزو یا پھر ہیر کو پسند کرکے چلا جاتا

"آپ نے آج صبح پھر وہی فضول موضوع شروع کردیا، کتنی بار بولا ہے میری بجاۓ آرذو اور ہیر کی فکر کیا کریں ان کے مستقبل کے بارے میں سوچا کریں۔۔۔ شادی جیسی فضول کی چیز مجھے نہیں کرنی اور نہ ہی اس گھر میں کوئی نارمل شخص مجھے بیاہنے آئیگا"

امامہ شادی کے موضوع پر کیبنٹ میں سے چائے کے کپ نکال کر زور سے کیبنٹ کا دروازہ بند کرتی ہوئی تلخی سے بولی

"ارے بھئی کیبنٹ کو تو آہستہ سے بند کرو توڑنا ہے کیا۔۔۔ چاہے اب کی بار کیسا بھی رشتہ آئے میں نے اس سال تم کو بیہانا ہی بیانا ہے تاکہ باقی دو کا بھی سوچو، اب اپنا موڈ مت خراب کرو جاؤ کمرے میں جاکر ان دونوں کو بھی اٹھاؤ جو بستر پر پڑی نہوست پھیلا رہی ہیں"

شہناس امامہ کے غصے کو خاطر میں نہ لاتی ہوئی بولی وہ اکثر اپنی شادی کے موضوع پر ایسے ہی چڑنے لگتی تھی

"کمرے کا اسپلٹ اور پنکھا دونوں بند کرکے آئی تھی مگر مجال ہے دونوں ٹس سے مس ہوئی ہو، آپ ہی کمرے میں جاکر اُن دونوں کے دن کا آغاز اپنی چپل اٹھاکر اچھے سے کریں مجھے تو ابھی آفس کے لیے بھی تیار ہونا ہے"

امامہ شہناس سے بولتی ہوئی اپنا سارا وزن دائیں ٹانگ پر ڈالتی ہوئی کچن سے باہر چلی گئی شہناس مایوسی سے امامہ کی چال میں خرابی دیکھنے لگی جو کتنی ہی علاج کرانے کے بعد صحیح نہیں ہوئی تھی اوپر سے اس کی دبی ہوئی رنگت، جو بھی کوئی اس کو دیکھنے آتا مایوس ہوکر چلا جاتا تھا شروع شروع میں تو ایسی صورتحال پر امامہ حساس ہوجاتی پر اب وہ اپنے آپ کو کافی مضبوط کرچکی تھی اور ساتھ ہی اُس نے ایک کمپنی میں ملازمت کرلی تھی۔۔۔ بس وہ شادی اور رشتہ جیسے موضوع پر اچھا خاصہ چڑھ جایا کرتی تھی

***"""***

"ہیر آرزو اب میں آخری بار تم دونوں کو بول رہی ہوں کہ جاگ جاؤ نہیں تو جوتی سے تم دونوں کے دن کا آغاز کروں گی، جلدی سے ناشتے کی ٹیبل پر آجاؤ"

شہناس ڈائننگ ہال سے ہی تیز آواز میں اپنی دونوں چھوٹی بیٹیوں کو ڈانٹتی ہوئی بولی

"کیوں صبح ہی صبح بچیوں پر غصہ کررہی ہو"

صدیقی اپنے بیڈروم سے نکل کر لاؤنج میں آتا ہوا شہناس سے بولا، اس نے محسوس کیا تھا کہ کل رات سے ہی شہناس کا موڈ کچھ خراب سا تھا

"آپ کی بیٹیاں اب کوئی چھوٹی بچیاں نہیں ہیں صدیقی صاحب بلکہ جوان ہوچکی ہیں تینوں کی تینوں۔۔۔ تین تین سیلیں میرے سینے پر پڑی ہیں اور آپ کہتے ہیں غصہ نہ کروں۔۔۔ کل زبیدہ آئی تھی بول کر چلی گئی ہے کہ جو لوگ امامہ کو دیکھنے آۓ تھے ہیر کو پسند کرکے چلے گئے ہیں آپ ہی بتائیے غصہ نہ کرو تو اور کیا کرو"

شہناس صدیقی سے جھنجھلاتی ہوئی بولی

"ہیر نے تو ابھی انٹر کیا ہے اتنی چھوٹی عمر میں کیسے شادی کردو اُس کی، ابھی تو وہ بیس سال کی بھی نہیں ہوئی ہے، زبیدہ سے کہہ دو ان لوگوں کو انکار کردے۔۔۔ اور اس کی نظر میں جب کوئی مناسب اور معقول رشتہ ہو تب ہی وہ دوبارہ یہاں آۓ"

صدیقی سر جھٹک کر بات ختم کرتا ہوا ساتھ ہی ناشتہ کرنے لگا جبکہ شہناس استہزائیہ انداز میں ہنسی

"وہ رشتہ ہر لحاظ سے معقول اور مناسب ہی ہے صدیقی صاحب لیکن آپ نے جو منطق پالی ہوئی ہے ناں کہ پہلے بڑی کی شادی کرنی ہے یہ ذرا بھی معقول اور مناسب نہیں ہے۔۔۔ امامہ کے چکر میں آگر باقی دونوں کی بھی عمریں نکل گئی تو ساری عمر اپنی چوکھٹ پر بٹھاکر رکھئے گا تینوں بیٹیوں کو، کیا ہوجاتا اگر اوپر والا تین بیٹیوں کی بجاۓ ایک بیٹا ہی دے دیتا" 

شہناس آخری بات ٹھنڈی آہ بھرتی ہوئی بولی تو صدیقی خاموش ہوگیا کیونکہ ہیر اور آرزؤ کے ساتھ امامہ بھی آفس جانے کے لئے تیار ہوکر لاؤنچ میں آچکی تھی

***""""***

باہر پوری طرح سے دن طلوع ہوچکا تھا وسیع و عریض باغیچہ، پیڑ اور پودے خوش دکھائی دے رہے تھے، سورج کی کرنیں غذر کے پہاڑوں کے اوٹ سے پورے ہیر پیلس پر پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ مرکزی گول کمرے کے بیچ و بیچ چھت پر لگا بڑا سا فانوس ابھی بھی ہولے ہولے ہل رہا تھا وہ ہال نما کمرے میں دائیں جانب صوفے پر بیٹھا ہوا اپنے سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے مائیکل کو دیکھ رہا تھا فرغب بی بھی اُسی کے پاس کھڑی تھی

"جب فرغب بی نے تمہیں تمہارے کام کے ساتھ یہاں کام کرنے کے سارے اصول سمجھا دیے تھے اس کے بعد تم رات کے وقت ہیر پیلس کے اندر اس کمرے میں کیا کررہے تھے، جہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے"

وہ صوفے پر بیٹھا اپنے سامنے سر جھکا کر کھڑے مائیکل سے پوچھنے لگا۔۔۔ اُس کی آواز دھیمی مگر لہجہ سخت تھا

"سر مجھ سے غلطی ہوگئی پلیز مجھے معاف کردیں" 

مائیکل نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ذرا سا سر اٹھا کر مقابل کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔ جہاں سنجیدگی کے ساتھ ایسا تاثر موجود تھا کہ مائیکل دوبارہ سر جھکانے پر مجبور ہوگیا۔۔۔ وہ مائیکل کی بات سن کر صوفے سے اٹھ کر چلتا ہوا مائیکل کے سامنے آکر کھڑا ہوا

"غلطی کی معافی نہیں بلکہ سزا دی جاتی ہے مائیکل، یہ بات یہاں جاب کرنے والے ہر ملازم کو معلوم ہے اور تم نے غلطی بھی وہ کی ہے جس کی سزا بہت بھیانک ہے"

مائیکل اُس کی بات سن کر خوف سے سامنے کھڑے اِس پیلس کے مالک کو دیکھنے لگا مائیکل کی نظروں کے سامنے کل رات والا وہی کمرے کا بھیانک منظر بھی گھوم گیا

"سر پلیز اسے میری آخری غلطی سمجھ کر مجھے معاف کردیں آئندہ میں آپ کو کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا وعدہ کرتا ہوں آپ سے"

مائیکل اُس کے قدموں میں جھکتا ہوا بولا تو وہ مائیکل کی بات سن کر ہلکی سی گردن موڑ کر فرغب بی کو دیکھنے لگا ہے جو اسی کو دیکھ رہی تھی

"یہ تمہاری پہلی غلطی تھی مائیکل اسے تم اپنی آخری غلطی سمجھنا، ورنہ اگلی بار تمہیں سزا تمہاری بیوقوفی دلوائے گی اب تم یہاں سے جاسکتے ہو"

اس کی آواز پر مائیکل نے اپنی سانس بحال کی اور مشکور نگاہوں سے ہیر پیلس کے مالک کو دیکھتا ہوا جانے کا ارادہ کرنے لگا۔۔۔ اس سخت گیر انسان سے مائیکل کو رعایت کی توقع ہرگز نہ تھی

"ٹہرو مائیکل سب سے امپورٹنٹ بات تو میں تم سے پوچھنا ہی بھول گیا"

اس کی آتی ہوئی آواز پر مائیکل کے باہر جاتے قدم تھمے مائیکل نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دیوار پر لگی تلوار اتار کر اسے میان سے نکلتا ہوا مائیکل سے پوچھنے لگا

"کل رات تم نے اُس کمرے میں کیا دیکھا"

تلوار ہاتھ میں پکڑے، قدم اٹھا کر چلتا ہوا وہ مائیکل کے پاس آ کر پوچھنے لگا۔۔۔ اُس کے تجسس بھرے لہجے اور سرد آنکھوں کے تاثر سے مائیکل کے پسینے چھوٹنے لگے

"کک۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں سر،۔۔۔ وہ کمرہ تو بالکل خالی تھا"

مائیکل رات والا منظر یاد کرتا ہوا گھبرا کر بولا 

"اس کمرے میں کچھ سنائی دیا تھا تمہیں"

دوبارہ فرغب بی کو دیکھنے کے بعد وہ مائیکل کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔ اُس کا پراسرار لہجہ اور کاٹ دار نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مائیکل اپنا سر جھکا گیا

"بچاؤ یہ مجھے مار ڈالے گا" 

مائیکل کو وہی نسوانی آواز یاد آئی۔۔۔ خوف کے مارے مائیکل نے جلدی سے نفی میں اپنا سر ہلایا

"نن۔۔۔ نہیں سر میں نے وہاں کوئی آواز نہیں سنی"

مائیکل اس سے نظر ملائے بغیر زمین میں اپنی نظریں گاڑھے بولا۔۔۔ مائیکل کی بات پر مقابل کے لہجے میں شامل پراسراریت اُس کی مسکراہٹ میں سما گئی۔۔۔ وہ ہاتھ میں پکڑی تلوار مائیکل کی گردن پر رکھ کر پراسرار مسکراہٹ چہرے پر سجائے آئستہ آواز میں مائیکل سے پوچھنے لگا

"یقیناً تم کل رات ہوئے حادثے کو برا خواب سمجھ کر بھول جانے کی کوشش کرو گے۔۔۔ اگر ایسا نہیں ہوا مائیکل تو سمجھ لو پھر۔۔۔۔

تیز دھار تلوار اپنے شہہ رگ پر محسوس کرکے مائیکل کی روح فنا ہونے لگی۔۔۔ وہ مقابل کی بات کاٹتا ہوا جلدی سے بولا

"ایسا ہی ہے سر کل رات میں اس کمرے میں گیا ہی نہیں تھا بلکہ ایک برا خواب جو میں نے کل رات دیکھا تھا، اب میں اسے یاد کرنا بھی نہیں چاہتا"

مائیکل سانس روکتا ہوا جلدی جلدی سے بولنے لگا۔۔ جب اس کی گردن سے تلوار ہٹی تب اس کی جان میں جان آئی

"صاحب جی انسپکٹر صاحب دوبارہ ماریہ کی گمشدگی کے سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں بولیں تو انہیں اندر لے آؤ" 

دوسرا ملازم ہال میں آتا ہوا بولا۔۔ وہ مائیکل کے خوف سے زرد چہرے پر نظر ڈال کر وہاں سے چلا گیا

***""""***

ہاشم اس وقت ہاسپٹل میں موجود ڈاکٹر فہمیدہ کے کمرے میں بیٹھا ہوا خالی دماغ سے ٹیبل پر اپنے سامنے رکھے اس فارم کو دیکھنے لگا جس پر اُس کے سائن سے وہ اپنی زندگی میں ایک بڑی نعمت سے محروم ہوجاتا

"مسٹر ہاشم خان آپ سوچنے میں وقت ضائع کررہے ہیں، آپ جلد کوئی ڈیسیجن لیں تاکہ ہم اپنا کام شروع کریں"

ڈاکٹر فہمیدہ کی آواز اسے سوچوں سے واپس حال میں لے آئی ماہ نور کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد کرکے اس نے اپنے ذہن کو ایک فیصلے پر آمادہ کیا اور ٹیبل سے پین اٹھا کر پیپر سائن کرنے لگا اس کے بعد ڈاکٹر فہمیدہ وہ پیپر لے کر روم سے باہر جاچکی تھی جبکہ ہاشم تھکے ہوئے انداز میں اپنے سر پیچھے کرسی سے ٹیک کر آنکھیں بند کرچکا تھا

ماہ نور اس کی بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی خالہ زاد بھی تھی ہاشم اور مانور کی پسند دیکھتے ہوئے ان دونوں کی فیملیز نے ان دونوں کی شادی کردی تھی۔ ہاشم کا باپ دنیا چھوڑ کر تب جاچکا تھا جب ہاشم کی عمر محض 12 سال تھی اس کی پرورش اس کی ماں گلنار کے ساتھ دادا ایوب خان نے کی

اولاد کی اکلوتی اولاد ہونے کے سبب ایوب خان نے ہمیشہ ہاشم خان کی جائز اور ناجائز خواہشات کو پورا کیا تھا۔۔۔ ماہ نور سگی بھانجی ہونے کے باوجود اپنی کچھ عادتوں کی وجہ سے گلنار کو خاص پسند نہ تھی لیکن بیٹے کی خواہش اور سسر کے فیصلے کے آگے گلنار خاموش ہوگئی اور یوں ہاشم کی زندگی میں ماہ نور دلہن بن کر آگئی

شادی کے تین سال بعد جب ماہ نور نے پہلی مرتبہ خوشی کی خبر سنائی تو ایوب خان کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی صدقہ خیرات کے ساتھ انھوں نے وارث آنے کی خوشی میں بڑی بڑی دعوتیں تقریبات کے انتظامات کیے مگر اوپر والے کو کچھ اور ہی منظور تھا چھ ماہ کی پریگنینسی کے بعد ماہ نور کا مس کیرج ہوگیا جس کے باعث سب کی خوشیاں پھیکی پڑ گئی۔۔۔ پورے تین سالوں کے بعد وہ دوبارہ ماں بننے کے عمل سے گزر رہی تھی مگر تقدیر نے اس بار بھی کچھ اور ہی ٹھان رکھی تھی ابھی ماہ نور کا پانچواں مہینہ شروع ہوا تھا تب اس کی اچانک طبیعت خراب ہونے کے سبب ہاشم ماہ نور کو ہاسپٹل لے آیا جہاں ہاشم کو یہ بری خبر سننے کو ملی کہ اس کا بچہ ہارٹ بیٹ رکنے کی وجہ سے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم ہوچکا ہے۔۔۔ 

ہاشم کو لگا تھا کہ اس بار بھی ماہ نور پچھلی بار کی طرح ڈی این سی کے عمل سے گزرے گی لیکن ڈاکٹر کے مطابق یوٹرس ویک ہونے کی وجہ سے اب اگلی بار ماہ نور کے لیے پریگنینسی خطرے کا سبب بن سکتی تھی، اس لئے ڈاکٹر نے یوٹرس ریموو کرنے کا مشورہ دیا تھا، یہ بہت بڑا قدم تھا جو ہاشم نے ماہ نور کا سوچتے ہوئے بغیر کسی کے مشورے کے اٹھایا

***"""***

"اوہو تبریز تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے جب میری کال نہ آئے تو سمجھ جایا کرو کہ اس وقت میں بزی ہوں جب فری ہوگی ویسے ہی تمہیں کال کرلوں گی، دیکھو میرے گھر میں تمہارے بارے میں ابھی کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی امی ابو کو نہ ہی میری بہنوں کو، اس لیے تمہارا یوں بار بار مجھے کال کرنا ان لوگوں کو شک میں مبتلا کرسکتا ہے اِس لیے تھوڑا احتیاط سے کام لیا کرو"

آرزو کمرے کے دروازے سے باہر جھانکتی ہوئی موبائل کان پر لگاۓ آہستہ آواز میں تبریز سے بولی جو کافی دیر سے اُس کو کال کیے جارہا تھا اور وہ شاور لینے کی وجہ سے اُس کی کال رسیو نہیں کر پارہی تھی

"تم سے زیادہ ڈرپوک لڑکی تو آج تک میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی جو پیار تو کرسکتی ہے مگر سب کے سامنے اقرار نہیں کرسکتی آرزو تم بیس سال کی عقل و شعور رکھنے والی ایک بالغ لڑکی ہو۔۔۔ اپنے فیصلے خود لے سکتی ہو، اگر اِس طرح ڈر ڈر کر مجھ سے باتیں کرتی رہی تو آگے کیسے کام چلے گا یار، کیسے ہماری بات آگے بڑھے گی"

تبریز ہمیشہ کی طرح اس کی بذدلی پر خائف ہوتا بولا۔۔۔ آرذو دو گلی چھوڑ کر اُسی کے مُحلے میں رہتی تھی کالج آتے جاتے آرزو کو دیکھ کر تبریز کا دل اُس پر آچکا تھا تھوڑی کوشش کرنے کے بعد آرذو اس کی محبت پر یقین بھی کرچکی تھی مگر وہ اپنے گھر والوں سے بےانتہا ڈرتی تھی 

ایک سال پہلے صدیقی صاحب اپنی فیملی کو لےکر اس علاقے میں شفٹ ہوئے تھے۔۔۔ ان کا ایک سے دو سال بعد کسی نئے علاقے کے دوسرے مکان میں شفٹ ہوجانے کا یہ سلسلہ جانے کب سے چل رہا تھا

"تم میرے ابو کو نہیں جانتے تبریز وہ دکھنے میں جتنے سادہ طبیعت کے مالک لگتے ہیں اگر کبھی تم ان کو غصے میں دیکھ لو تب تمہیں اندازہ ہو کہ میں اتنا کیوں ڈرتی ہو۔۔۔ ہم تینوں بہنوں کو بےشک انہوں نے بہت پیار محبت سے پالا ہے مگر اس کے باوجود کچھ باتیں ایسی ہیں یا اصول سمجھ لو، جو ہم بہنیں اس کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتیں"

آرزو آہستہ آواز اور محتاط انداز میں تبریز کو بات سمجھانے لگی کیونکہ اُس کا دماغ تبریز سے موبائل سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ لاؤنچ سے آتی اپنے گھر والوں کی آوازوں پر بھی لگا ہوا تھا

"تو تمہیں ان اصولوں کے بارے میں، اور اپنے ابو کی نیچر کے بارے میں مجھ سے محبت کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھنا آرذو میں تم سے شدید محبت کرتا ہوں۔۔۔ چاہے تمہارے گھر والے ہم دونوں کے رشتے کے لئے راضی ہو یا نہ ہو تمہیں ہر قیمت پر میرا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ میں اپنی ضد کا بہت پکا ہو ایک بار جو بات میرے دل میں سما جائے پھر وہ کام میں کرکے رہتا ہوں نتیجے کی پروا کیے بغیر"

تبریز کی نیچر کو آرذو آٹھ ماہ میں ہی سمجھ چکی تھی وہ انتہا کا ضدی لڑکا تھا اس لئے آرزو ایک پل کے لئے تبریز کی بات سن کر خاموش ہوگئی مگر اگلے ہی پل اسے محسوس ہوا جیسے کمرے کی جانب کوئی آرہا تھا وہ فوراً چوکنا ہوئی

"اوہو تبریز کیا تم اس وقت مجھے اپنی باتوں سے ڈرانے لگ گئے ہو بھلا میں کیوں تمہارا ساتھ چھوڑنے لگی۔۔۔ اچھا ابھی موبائل رکھو، رات میں بات کرتے ہیں"

آرذو تبریز سے اپنی بات بول کر بناء اس کا جواب سنے شہناس کے کمرے میں آنے سے پہلے کال کاٹ چکی تھی

"کب سے تمہارے ابو تمہارا پوچھ رہے ہیں، آ کیو نہیں رہی ٹیبل پر، چائے ٹھنڈی ہورہی ہے" 

شہناس کمرے میں آتی آرذو کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔۔۔ وہ شہناس کو دیکھ کر جلدی سے موبائل بیڈ پر اچھال کر بالوں میں لیٹا ہوا تولیہ اتارتی بال خشک کرنے لگی

"ارے ایسے کیسے آجاؤ چائے پینے چاۓ تو دوبارہ گرم ہوسکتی ہے بال خشک ہونے کے بعد مجھ سے نہیں سلجھتے معلوم تو ہے آپ کو"

آرزو شہناس کو دیکھ کر ہیئر برش اسی کو تھماتی ہوئی بولی تاکہ شہناس اس کے بالوں کو سلجھا دے۔۔۔ شہناس برش لےکر گھورتی ہوئی آرذو کو دیکھ کر بولی

"ابھی تم اپنی زلفیں سلجھا رہی تھی موبائل کان پر لٹکاکر باتیں مٹا رہی تھی"

آرزو اپنی چوری پکڑے جانے پر جھینپ مٹاتی ہوئی بولی

"سونیا کا فون آگیا تھا اسی سے سلام دعا کررہی تھی، آپ ناں امی ایسے مت شروع ہوجایا کریں، روز شام کی چائے رات کا کھانا گھر والوں کے ساتھ ہی کھانا ہوتا ہے اگر بندہ کبھی دسترخوان پر نہ آۓ تو اس میں ایسی کوئی قباحت نہیں"

آرزو شہناس سے بولی جو برش ہاتھ میں پکڑے اس کے بال سلجھا رہی تھی آرزو کی بات سن کر وہ فوراً اپنی بیٹی کو جتاتی ہوئی بولی

"قباحت اور کسی کو نہیں ہوتی تمہارے ابو کے علاوہ، گھر میں ایک اصول بچپن سے چلا آرہا ہے کہ کھانے کی میز پر سب کو موجود ہونا چاہیے تو آگے سے خیال رکھا کرو اس بات کا اور دوسرا یہ موبائل سہیلیوں سے سلام دعا کے لیے نہیں دیا گیا ہے تمہیں بلکہ کالج جانے میں کوئی مسئلہ نہ ہو اس لئے تمہارے ابو نے تمہیں موبائل لےکر دیا ہے اس کا استعمال محدود رکھو تو ہی یہ موبائل تمہارے پاس ٹکا رہے گا"

شہناس آرذو کے بالوں سلجھانے کے ساتھ اس کو باور کراتی ہوئی بولی تو آرزو خاموش ہوگئی

***""""***

"بچاؤ یہ مجھے مار ڈالے گا"

دو دن سے مائیکل کے کانوں میں اس کمرے سے آتی آواز گونج رہی تھی وہ چاہ کر بھی اس لڑکی کی آواز کو نظر انداز نہیں کر پارہا تھا وہ لڑکی جو بھی تھی لازمی مشکل میں تھی اور اس کو مدد کی ضرورت ہوگی لیکن اس لڑکی کی مدد کا سوچتے ہی مائیکل کا دھیان ہیر پیلس کے مالک شیر عباس کی جانب چلا جاتا تو وہ اس لڑکی کی مدد کا ارادہ ترک کردیتا پچھلے دو دن سے وہ اسی کشمکش میں تھا کہ کیا کرے۔۔۔ سوچو کے گھوڑے دوڑانے پر اتنا تو وہ جان گیا تھا کہ اسی کمرے میں کوئی ایسی چھپی ہوئی خفیہ جگہ تھی جہاں اس لڑکی کو قید کر رکھا گیا ہے پچھلے دو دن میں مائیکل نے ہیر پیلس کی نگرانی کے دوران وقفے وقفے سے باقی کے سارے کمروں کا جائزہ لےلیا تھا مگر اس پراسرار کمرے کا اسرار مائیکل چاہ کر بھی نہیں کھوج پایا تھا۔۔۔ ماریہ ابھی تک گم شدہ تھی اس کے بارے میں جاننے کے لیے پولیس پرسوں ہیر پیلس آئی تھی مگر ماریہ کا کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا 

آج رات بھی اتفاق سے شیر عباس ہیر پیلس میں موجود نہ تھا اور یہ بات مائیکل کے علم میں تھی، فرغب بی گہری نیند میں سوئی تھی مائیکل اس بات کی تسلی کرتا ہوا فرغب بی کے کمرے سے باہر نکلا اس وقت گھڑی کی سوئیاں بارہ بجے کا پتہ دے رہی تھی ہیر پیلس کی دیواریں، کھڑکیاں اور روشن دان، راہ داریاں سب کے سب خاموشی اور رات کے سناٹے میں ڈوبے ہوئے تھے

مائیکل آج رات بھی پرسوں رات کی طرح اسی کمرے میں موجود تھا آج اس نے اپنے پاس ٹارچ کے علاوہ ایک عدد منی پستول بھی رکھی ہوئی تھی، آج جب مائیکل نے اس کمرے کی سُرخ بتی جلائی تو کمرے میں گہرے سکوت کا عالم تھا۔۔۔ سرخ بتی میں چاروں طرف نظریں دوڑانے پر آج بھی مائیکل کو کچھ نظر نہیں آیا۔۔۔ وہ کمرے میں بچھے کالین کو اٹھاکر فرش کو اچھی طرح سے جانچنے کے بعد، کمرے کی چاروں دیواروں کو چھوتا ہوا اس بات کا جائزہ لینے لگا کہ آیا کمرے میں کوئی مشکوک چیز اس کی نظر سے گزرے مگر ایسا نہ ہوا تو مائیکل مایوس ہوکر کمرے سے باہر جانے لگا تب کسی خیال کے تحت وہ دوبارہ پلٹا اور شیشے میں اپنا عکس دیکھنے لگا۔۔۔ دیوار پر موجود بڑے سے آئینے کے قریب آکر ہاتھ شیشے کی طرف بڑھاتا ہوا شیشے کو ہلکا سا پُش کرنے کی دیر تھی، آئینہ کسی دروازے کی مانند کُھلتا چلا گیا

نیچے کی جانب جاتی ہوئی سیڑھیاں دیکھ کر مائیکل تھوڑا محتاط ہوا، یہ کوئی بیسمینٹ تھا، اپنی گھبراہٹ کو کم کرتا ہوا آستین سے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرکے، وہ ہاتھ میں پستول لئے سیڑھیاں نیچے اترنے لگا۔۔۔ مائیکل نیچے کا منظر دیکھ کر عجیب کشمکش میں مبتلا ہوا تھا یہ ایک بڑا سا خوبصورت کمرہ تھا مائیکل کو محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کمرہ کسی کے زیر استعمال ہے، اس کمرے کی خوبصورتی اور سجاوٹ کو دیکھتا ہوا مائیکل آگے کی جانب بڑھنے لگا ویسے ہی کوئی شے اُس کے پاؤں سے ٹکرائی مائیکل کی نگاہیں نیچے زمین پر پڑی ایک لمبی موٹی سی زنجیر جس کے سرے کو بیڈ کے پاۓ سے باندھا گیا تھا اگر مائیکل پلٹ کر دیکھتا تو زنجیر کا دوسرا سرا یقیناً مائیکل کی پشت پر موجود تھا اُسی لمحے مائیکل کو اپنی پشت پر سے کسی کے غرانے کی آواز آئی مائیکل جیسے ہی ہاتھ میں پستول لیے پیچھے مڑا۔۔۔ پوری شدت سے تیز دھار کے چاقو نے اس کی گردن پر وار کیا گیا

مائیکل کی درد ناک چیخ کی آواز ہیر پیلس کے سناٹے کو چیرتی چلی گئی جبکہ اس کی گردن کسی فوٹبال کی طرح ہوا میں اڑتی ہوئی روشن دان سے باہر نکل کر کافی دور جاگری جبکہ مائیکل کے باقی کے دھڑ سے خون فوارے کی مانند پھوٹنے کے ساتھ ہی مائیکل زمین بوس ہوچکا تھا۔۔۔ ہیر پیلس میں اترتی ہوئی یہ پراسرار رات اب آہستہ آہستہ وحشت زدہ رات میں ڈھل رہی تھی

***""""***

"میں نے بولا بھی تھا کہ اگلی بار تمہیں سزا میں نہیں خود تمہاری بیوقوفی دلوائے گی مگر میری بات تم سمجھ نہیں سکے مائیکل۔۔۔ افسوس ہوا مجھے تمہاری موت کا لیکن یہ راز جاننے کے بعد اب تمھارا زندہ رہنا بھی مناسب نہیں تھا"

تھرڈ فلور پر اپنے ہوٹل کے آفس کے کمرے میں بیٹھا ہوا شیر عباس لیپ ٹاپ پر بیسمینٹ میں ہوا سارا واقعہ دیکھتا ہوا تاسف سے بولا۔۔۔ آگے ٹیبل پر ہاتھ بڑھا کر شیر عباس نے اپنا موبائل اٹھایا اور ایبک کو کال ملانے لگا

"ہاں ایبک میں اس وقت ہوٹل میں ضروری کام کی وجہ سے موجود ہوں تم بیسمنٹ میں جاکر مائیکل کی لاش کو ٹھکانے لگادو یاد رہے پہلے کی طرح کام اب کی بار بھی بہت احتیاط سے کرنا ہے۔۔۔۔ مائیکل کی لاش کا بھی ماریہ کی لاش کی طرح کسی کو علم نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ فرغب بی کو بھی بتادینا کہ میں ہوٹل سے ہی کل شہر کے لئے روانہ ہوجاؤں گا"

شیر عباس اپنے خاص آدمی ایبک کو ضروری ہدایت دیتا ہوا کال کاٹ چکا تھا تبھی اس کے موبائل پر مظہر کی کال آنے لگی جسے شیر عباس رسیو کرچکا تھا اس کے کچھ بولنے سے پہلے مظہر نے بولنا شروع کردیا

"مجھے کوئی وضاحت مت دینا عباس کہ تم میری شادی پر نہیں آرہے ہو میری ایک بات کان کھول کر سن لو اگر تم پرسوں میری بارات میں نہیں پہنچے پھر مجھے اپنے دوستوں کی لسٹ میں شامل مت کرنا"

آج صبح جب مظہر کو عباس کی طرف سے شادی میں نہ آنے کا ایکسکیوز بھرا میسج ملا تھا تب سے مظہر کا موڈ خراب تھا وہ صبح سے ہی عباس کا نمبر ٹرائے کررہا تھا لیکن شاید عباس صبح سے اپنی رہائش گاہ پر موجود تھا جہاں اس کا عالیشان پیلس تھا وہاں شروع سے ہی سگنلز کا ایشو رہتا تھا اور اس وقت کال پر بات کرنا یقیناً وہ ہیر پیلس کی بجاۓ اپنے ہوٹل میں موجود ہوگا

"میرے دوستوں کی لسٹ لمبی چوڑی نہیں ہے یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو اور میں تمہاری بارات کا فنکشن ضرور اٹینڈ کرتا اگر مجھے بہت ضروری کام سے۔۔۔۔۔

عباس کی بات پوری بھی نہیں ہو پائی تھی مظہر اُس کی بات کاٹتا ہوا بولا

"میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا مجھے کوئی وضاحت مت دینا اگر تم اپنے قیمتی وقت میں سے میرے لئے وقت نکالو گے تو مجھے خوشی ہوگی اب آگے تمہاری مرضی ہے کہ تم آؤ یا نہ آؤ"

مظہر بولتا ہوا کال کاٹ چکا تھا عباس گہری سانس کھینچ کر اپنا موبائل میں واپس ٹیبل پر رکھتا ہوا اپنا پلان چینج کرنے لگا۔۔۔ 

کراچی کے لیے اسے صبح نکلنا ہی تھا لیکن اب وہ پہلے اپنے کام کو ترجیح دینے کی بجائے مظہر کی بارات کا فنگشن اٹینڈ کرتا کیونکہ مظہر اس کے کالج کے زمانے کا بہت اچھا دوست رہا تھا

***"""***

"امی مان جائیے نہ پلیز وہاں میری باقی کی دوسری دوستیں بھی موجود ہوگیں۔۔۔۔ آپ ابو سے میرے جانے کی پرمیشن لے لی گیں تو ابو مجھے خوشبو کی شادی میں جانے کی اجازت دے دیں گے۔۔۔ دیکھیں آپ نے آرزو کے لیے بھی تو ابو سے تھوڑے دن پہلے پرمیشن لی تھی وہ کالج کی طرف سے پکنک پر چلی گئی تھی میرے لیے میں اجازت مانگ لیں تاکہ میں بھی اپنی فرینڈ کی شادی اٹینڈ کرسکوں"

ہیر اپنی سہیلی کی بارات میں جانے کے لیے شہناس سے پرمیشن مانگ رہی تھی اور مسلسل شہناس کے انکار پر اب وہ شہناس کے سامنے منتوں پر اتر آئی تھی جبکہ امامہ اور آرزو بھی کمرے میں موجود تھی امامہ کل آفس کے لیے اپنا ڈریس آئرن کررہی تھی جبکہ آرزو کافی دیر سے موبائل پر میسج کرنے میں مصروف تھی۔۔۔ اپنے ذکر پر اس کی توجہ ہیر اور شہناس کی جانب گئی

"ہیر ہر وقت بچی بن کر ضد مت کیا کرو مجھ سے، اس دن یہ پکنک سے لوٹ کر کتنی دیر سے گھر پہنچی تھی تب تک کتنی باتیں سنتی رہی ہوں میں تم لوگوں کے ابو سے۔۔۔۔ اور اگر تمہیں جانے کی پرمیشن مل بھی گئی تو تمہارے دس مسئلے الگ طرح کے شروع ہوجاۓ گیں۔۔۔ کیا پہن کر جاؤ گی خوشبو کی برات میں،، اس کو کیا گفٹ دوں گی اِس لئے خاموش ہوکر چپ چاپ گھر میں بیٹھو"

شہناس اب کی بار اکتاۓ ہوئے لہجے میں بولی جس پر ہیر جلدی سے بولی

"میرے پہننے کا یا خوشبو کے گفٹ کا کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوگا۔۔۔ آپ بس ابو سے پرمیشن لے لیں گفٹ کے لئے پیسے مجھے آپی دے دیں گیں اور کل برات والے دن میں بلیک کلر کا آرذو کا ڈریس پہن لوں گی"

ہیر شہناس کو باقی چیزوں کا سلوشن دیتی ہوئی جلدی سے بولی تو امامہ اور آرذو گھور کر ہیر کو دیکھنے لگیں

"اوہ بہن ہوش میں آؤ، اپنا بلیک کلر والا فراک میں تمہیں پہننے کے لئے ہرگز نہیں دوگی کیونکہ وہ میں نے خود ابھی تک اسے استعمال نہیں کیا۔۔۔ اس لیے اس ڈریس کو پہننے کے متعلق خوابوں میں بھی مت سوچنا"

آرذو لحاظ کئے بغیر ہیر کو انکار کرتی ہوئی بولی اور واپس اپنا موبائل دیکھنے لگی کیونکہ وہ ڈریس اس نے اپنی برتھ ڈے میں پہننے کے لیے تیار کیا تھا جوکہ اگلے ماہ آنے والی تھی اس سے پہلے ہیر اسے کچھ بولتی امامہ بول اٹھی

"اور ہیر بی بی میں تمہیں تمہاری فرینڈ کے گفٹ خریدنے کے لئے پیسے کیوں دونگی مہینے کا آخر چل رہا ہے۔۔۔ ان دنوں تو مجھے کسی کی پیدائش ہو یا پھر برتھ ڈے اس پر شدید غصہ آتا ہے،، اس وقت تو میرے پاس تمہیں دینے کے لیے کھلے پیسے بھی نہیں ہیں اس لئے مجھے معاف ہی کرو"

امامہ اپنے کپڑے پریس کرتی ہیر کو صاف لفظوں میں انکار کرتی ہوئی بولی

"ایک نمبر کی مطلبی ہو تم دونوں میرے چھوٹے ہونے کا فائدہ اٹھاکر مجھ سے کتنے کام لیتی ہو اور خود ذرا سا بھی کام نہیں آسکتی۔۔۔ اب بنوانا تم کوئی بھی پسندیدہ کھانے اپنے بھوکے کلیکز کے لیے اور تم ایک نمبر کی مطلبی اب مکمل کرکے دوگی تمہیں تمہارے نوٹس اور اسائنمنٹ۔۔۔ اور آپ امی، آپ مجھے ایسے کیا دیکھ رہی ہیں آپ تو لگتا ہے صرف ان دونوں کی ماں ہیں مجال ہے جو آپ نے کبھی میری ایک مرتبہ میں کوئی بھی ضد کو پورا کیا ہو، مجھے تو پیدا کرکے بھی آپ نے دادی کے حوالے کردیا تھا کاش وہ زندہ ہوتیں تو مجھے آپ کی منتیں نہیں کرنا پڑتی"

ہیر باری باری امامہ اور آرزو کے ساتھ شہناس پر بھی اپنا غصہ نکال کر کمرے سے باہر نکل گئی

"ہائے میری چھوٹی سی بچی دوسرے کمرے میں جاکر رو رہی ہوگی میں دیکھ کر آتی ہوں اور تمہارے ابو سے بھی بات کرتی ہوں  اس کے لئے"

شہناس ہیر کے کمرے میں جانے پر امامہ اور آرذو کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔۔ ہیر کی پیدائش پر اس کی طبیعت کافی زیادہ خراب رہتی تھی اس لئے شروع کے دو سال ہیر کی پرورش اس کی ساس نے کی تھی اور ہیر کا نام بھی انہوں نے ہی رکھا تھا۔۔۔ ہیر نام سے ایک الگ قسم کی پرخاش ہونے کے باوجود شہناس اپنی ساس کا رکھا ہوا نام تبدیل نہیں کر پائی تھی

"امی سنیں چھوٹی سے بول دئیے گا اپنی سہیلی کا دو ڈھائی ہزار تک کا گفٹ لے لے، امامہ دے دوگی اس کو پیسے"

کمرے سے باہر نکلتی شہناس نے پلٹ کر امامہ کی بات پر اس کو اثبات میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر نکل گئی

"فل نوٹنکی باز ہے مجھے پورا یقین تھا امی اور تم تو فوراً ہی اُس کے آنسو دیکھ کر پگھل جاؤں گی"

آرزو اپنے موبائل کی اسکرین دیکھتی ہوئی امامہ سے بولی تو امامہ اس کی بات کا جواب دیئے بناء شہناس کے پیچھے ہیر کے پاس جانے لگی۔۔۔ اسے پورا یقین تھا آرذو بھی ہیر کو اپنا بلیک کلر کا ڈریس ضرور پہننے کے لئے دے دیں گی مگر بہن کی محبت میں نہیں بلکہ شہناس کے جوتوں کے ڈر سے

"اتنی سی بات پر میری گڑیا اپنے آنسو بہا رہی تھی اپنی امی کو کیوں بول رہی تھی، میری بیٹی اپنے ابو سے بولتی وہ اس کو کبھی بھی انکار نہیں کرتے"

شہناس سے پہلے ہی کمرے میں صدیقی پہنچا تھا جہاں ہیر بیٹھی روہی تھی۔۔ وہ ہیر کو چپ کرواتا ہوا اسے خوشبو کی شادی میں جانے کی اجازت دے چکا تھا

"اچھا اب رونا بند کرو میرے ساتھ ابھی چل کر خوشبو کے لیے کوئی بھی تحفہ لےلو۔۔۔ کل تمہیں اس کی برات میں جانا ہوگا تو بازار جانے کا ٹائم کہاں ملے گا" 

امامہ ہیر کو دیکھ کر مزید اُس کو بہلاتی ہوئی بولی اور صدیقی سے باہر جانے کی پرمیشن لینے لگی تاکہ ہیر کو اس کی سہیلی کے لیے کوئی گفٹ دلاسکے

"ٹھیک ہے ہیر کو اپنے ساتھ لے جاؤ لیکن اندھیرا ہونے سے پہلے دونوں واپس گھر آجانا" 

صدیقی امامہ کو اجازت دینے کے ساتھ جیب میں سے والٹ نکالنے لگا 

"رہنے دیں ابو پیسے ہیں میرے پاس"

امامہ صدیقی سے بولتی ہوئی ہیر کو اٹھنے کا اشارہ کرنے لگی کیوکہ ڈیڑھ گھنٹے میں ان کو واپسی بھی کرنی تھی 

"آرزو مجھے پہننے کے لئے اپنا بلیک والا ڈریس نہیں دے گی"

ہیر اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی شہناس کو دیکھ کر بولی

"اسے مجھ سے جوتے کھانا خاص پسند نہیں ہے وہ ضرور دے دے گی۔۔۔ دوپٹہ اچھی طرح سے لےلو اور جلدی گھر واپسی کرنا"

شہناس ہیر کو ہدایات دیتی ہوئی بولی

"سب خیریت تو ہے آپ کچھ خاموش لگ رہے ہیں"

امامہ اور ہیر کے کمرے سے جانے کے بعد شہناس اپنے شوہر صدیقی کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی 

"پچھلے چند دنوں سے نوٹ کررہا ہوں ایک لڑکا جو ہماری دو گلی چھوڑ کر رہتا ہے مگر کافی زیادہ اس کا ہماری گلی میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔۔۔ تین سے چار مرتبہ میں نے اُس کو ہمارے گھر کے پاس منڈلاتے ہوئے دیکھا ہے" 

صدیقی کچھ سوچتا ہوا شہناس کو بتانے لگا امامہ کی جاب کرنے پر بھی وہ بالکل آمادہ نہیں تھا مگر شہناس کے بہت زیادہ اصرار کرنے پر اس نے بہت مشکل سے امامہ کو جاب کرنے کی اجازت دی تھی۔۔۔ وہ بھی امامہ کی حساس ہوتی طبیعت کو دیکھ کر جب کوئی رشتے سے انکار کر کے چلا جاتا تب وہ کافی دنوں تک خاموش رہتی

"جوان بچیوں کا گھر ہے صدیقی وہ کہاوت تو سنی ہوگی آپ نے کہ جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہیں خیر سے میں بچیوں کو اور اچھی طرح سمجھاؤں گی کہ احتیاط کے ساتھ گھر سے باہر آیا جایا کریں آپ فکر مت کریں"

شہناس صدیقی کو دیکھتی ہوئی بولی 

"امامہ کو بول دو کل وہ ہیر کے ساتھ اس کی سہیلی کی برات میں چلی جائے۔۔۔ واپسی پر خود میں ان دونوں کو لے آؤں گا"

صدیقی شہناس سے بولتا ہوا ایل ای ڈی آن کرچکا تھا شہناس صدیقی کی بات پر اثبات میں سر ہلاکر ارزو کے پاس کمرے میں چلی گئی

اپنی تینوں بیٹیوں کو بہت پیار سے پالنے کے باوجود صدیقی کچھ معاملے میں کافی سخت گیر تھا جیسے اس نے اپنی تینوں بیٹیوں کو تعلیم گالز اسکول اور گرلز کالج میں دلوائی تھی، قران شریف بھی قاری کی بجائے معلمہ نے ان تینوں کو پڑھایا تھا۔۔۔ شروع میں امامہ آرزو یا ہیر کو نہ تو دوستوں کے گھر جانے کی اجازت تھی نہ ہی اپنی سہیلیوں کو گھر لانے کی مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی جارہی تھی شہناس کے کہنے پر صدیقی اپنی بیٹیوں کو ان کی دوستوں کے گھر جانے یا پھر کبھی کوئی فنکشن اٹینڈ کرنے کی اجازت دے دیتا

***"""***

کسی نومولود بچے کی رونے کی آواز ماہ نور کی نیند کو بری طرح خراب کرچکی تھی  اس لئے ماہ نور بگڑے ہوۓ موڈ کے ساتھ غصے میں اپنے کمرے سے باہر آئی۔۔۔ کام والی آج پھر اپنے چار ماہ کے بچے کو اپنے ساتھ لے آئی تھی

"اس مصیبت کو آج پھر تم اپنے ساتھ لے آئی ہو، فیڈر منہ میں ڈال کر منہ بند کرو اِس منحوس کا، میری ساری نیند خراب کردی ہے اِس کی ٹو ٹو نے"

ماہ نور شمع (نوکرانی) کے سر پر کھڑی ہوکر غصہ کرتی ہوئی اس سے بولی شمع جلدی سے اپنے چھوٹے بیٹے کو لےکر ہال سے باہر نکل گئی مگر اپنے کمرے سے ہال میں آتی گلنار ماہ نور کا لب و لہجہ اور اُس کی بات سن چکی تھی تبھی ماہ نور کو ٹوکتی ہوئی بولی

"یہ کون سا طریقہ ہے ماہ نور بات کرنے کا۔۔۔ شمع ایک ماں بھی ہے اپنے چھوٹے سے بچے کو کس کے پاس چھوڑ کر آئے کام کرنے آۓ گی۔۔۔۔ کام کرنا محنت کرنا اس کی مجبوری ہے جس سے وہ اپنے بچوں کا اور خود کا پیٹ بھرتی ہے۔۔۔ کسی مجبور اور بےبس انسان کو یوں باتیں سنانا کوئی معقول عمل نہیں ہے" 

گلنار اپنی بدمزاج نخریلی سی بھانجی اور بہو کو جتاتی ہوئی بولی

"کام کرنا، محنت کرنا مجبوری ہے یوں ہر سال بچہ پیدا کرنا تو مجبوری نہیں ہے اس کی۔۔۔۔ آنی آپ اس دو ٹکے کی ملازمہ کے لئے مجھے باتیں سن رہی ہیں۔۔۔ یہ گنوار جاھل عورتیں جن کو بچہ پیدا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ ہی نہیں"

ماہ نور کا گلنار کی باتیں سن کر مزید موڈ خراب ہوا تھا تبھی وہ گلنار سے بولی

"عورت کو بچہ دینا بھی اوپر والے کی دین ہے، اوپر والا بھی اس عورت کے پیروں تلے جنت کا درجہ دیتا ہے جو عورت اپنی اولاد کی قدر کرتی ہو اور اپنی اولاد کے لیے اچھی ماں ثابت ہو"

گلنار ماہ نور کی بدتمیزی اور بد مزاجی سے جواب دینے پر اس کو بولی جبکہ دوسری طرف گلنار کی بات سن کر ماہ نور کے پتنگے لگ گئے

"اوہ ہو تو اب آپ خالہ سے ساس بن کر مجھے یوں بےاولادی کا طعنہ دیں گیں" 

ماہ نور جبڑے بھینج کر غصہ کرتی ہوئی بولی آج اس نے سوچ لیا تھا ہاشم کے گھر آنے پر وہ ہاشم کو اُس کی ماں جی اور اُس کے دا جی کے رویے کا ضرور بتائے گی جب سے وہ اسپتال سے گھر آئی تھی ان دونوں کے تیور اور مزاج بالکل ہی بدل چکے تھے

"میں تمہیں بےاولادی کا طعنہ اس صورت نہ دیتی جبکہ تم نے خود ڈاکٹر کو آپریشن کرنے پر مجبور نہ کیا ہوتا تم تو وہ بدنصیب لڑکی ہو جس نے ماں بننے کا موقع خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا"

گلنار اب کی بار ماہ نور کے منہ پر ساری حقیقت کھلتی ہوئی بولی کیونکہ آپریشن ہونے کے بعد ساری کہانی کھل چکی تھی 

ایوب خان اور گلنار آپریشن ہونے کے بعد جب ہاشم کے خبر دینے پر اسپتال پہنچے تو ایوب خان نے اسپتال میں غصہ کرنا اور جھگڑا کرنا شروع کردیا تبھی بات مزید نہ بگڑے ڈاکٹر فہمیدہ نے پوری حقیقت کھول دی کہ وہ آپریشن اس نے کسی پیچیدگی آنے پر نہیں بلکہ پیشنٹ کی پوری آمادگی اور اسی کے کہنے پر کیا تھا حقیقت جاننے کے بعد ہاشم بھی ماہ نور سے وقتی طور پر ناراض ہوا تھا مگر ماہ نور کو ہاشم کی بھی پرواہ نہ تھی۔۔۔ بہرحال جو بھی ہوا تھا ماہ نور کے اس عمل سے ایوب خان اور گلنار کا کافی زیادہ دل دکھا تھا

"کیا چاہتی ہیں آپ۔۔۔ اس خاندان کو وارث دینے کے لیے بچہ پیدا کرنے والی مشین بن جاؤ میں۔۔۔ اپنی فگر کا ستیاناس تو کرلیا میں نے، کیا اب اپنی جان بھی خطرے میں ڈال لو آپ لوگوں کی خاطر۔۔۔ ارے نہیں ہورہا یہ بچہ وچہ مجھ سے پیدا"

ماہ نور ہال کے بیچ کھڑی تیز آواز میں بولی تبھی ہال میں ایوب خان بھی آگئے

"کیوں اتنی اونچی آواز میں چلا رہی ہو، اپنی آواز نیچی رکھو۔۔۔ گھر کی بہو بیٹیاں یوں گستاخ لہجے میں یوں بڑوں کے سامنے اس طرح بےادبی سے باتیں کرتی ہوئی ہمیں ذرا پسند نہیں ہیں"

ایوب خان ہال میں آکر ماہ نور کو دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں بولے تو آپ کی بار ماہ نور کو اپنی زبان بند کرنا پڑی ویسے ہی ہاشم بھی آفس سے چلا آیا

"کیا ہوا آپ تینوں کو یہاں ایسے کیوں کھڑے ہیں" 

ہاشم نے ہال میں قدم رکھا تو وہ ہال میں چھائی سنگینی محسوس کرتا ہوا ان تینوں کو مخاطب کرتا پوچھنے لگا، ماہ نور منہ بناکر بناء کچھ بولے وہاں سے چلی گئی تو ہاشم گلنار کو دیکھتا ہوا بولا

"مجھے کچھ معلوم ہوگا کہ میرے یہاں آنے سے پہلے کیا چل رہا تھا"

ہاشم کے پوچھنے پر گلنار بھی اپنے بیٹے کو شکوہ بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی بناء کچھ بولے وہاں سے چلی گئی

"تمہارے لئے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ یہاں کیا ہوا ہے اپنی بیوی کی بدمزاج طبیعت سے تم خود اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ یہاں کھڑی تمہاری ماں سے کیا کیا بول کر گئی ہے۔۔۔ ہاشم تم ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو مگر تمہاری شادی ماہ نور سے کرنے کا فیصلہ۔۔۔

ایوب خان ادھوری بات بول کر خاموش ہوگئے اب ان کو لگ رہا تھا کہ پوتے کی محبت میں آکر انہوں نے اِپنے خاندان کے لیے غلط لڑکی کا انتخاب کیا تھا۔۔۔ ایوب خان کو غصے میں خاموش دیکھ کر ہاشم بولا

"دا جی ماہ نور کی طرف سے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں آپ پلیز غصّہ تھوک دیں میں اُس کو سمجھاؤں گا"

ایوب خان کی بات سن کر ہاشم ان کو دیکھتا ہوا بولا چند دنوں سے وہ بھی ماہ نور کا عجیب رویہ محسوس کررہا تھا۔۔۔ ویسے تو شادی کے شروع دن سے ہی گلنار اور ماہ نور میں نہیں بنتی تھی لیکن اب ان دونوں کی بہت زیادہ لڑائیاں ہونے لگیں تھیں اور اس چکر میں وہ پس جاتا ایک طرف ماں تو دوسری طرف بیوی۔۔۔ ماہ نور کی غلطی ہونے کے باوجود وہ اس کو کافی اسپیس دے چکا تھا اور شاید یہی اُس کی غلطی تھی

"تم کب تک اپنی بیوی کی غلطیوں کی اس کے بدلے ہم سے معافی مانگتے پھرو گے ہاشم، اپنی بیوی کو اچھی طرح سمجھاؤ کہ وہ اصول اور قاعدے سے اس گھر میں رہے جو اس نے سب سے بڑی غلطی کی ہے اُس غلطی سے تو وہ اب ویسے بھی ہمارے دل سے اتر چکی ہے یہ نہ ہو کہ کل کو ہم کوئی سخت فیصلہ لینے کے لئے مجبور ہوجائیں" 

ایوب خان غصے میں ہاشم سے بولتے ہوۓ وہاں سے چلا گئے جبکہ ہاشم گہرا سانس کھینچ کر اپنے کمرے کی طرف دیکھنے لگا ابھی وہ کمرے میں جاکر ماہ نور کو سمجھاتا بھی تو لازمی ان دونوں کے بیچ لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا

***""""***

"اُف اِس آٹو والے کو بھی ہمیں یہی اتارنا تھا موت پڑ رہی تھی اِس کو شاپنگ پلازہ کے سامنے رکشہ روکتے ہوئے"

ہیر فٹ پاتھ پر امامہ کے ساتھ کھڑی سڑک پر سے گزرتی ہوئی گاڑیوں اور بائیکز کو دیکھ کر بھّناتی ہوئی بولی

"ابھی ٹریفک زیادہ نہیں ہے جلدی سے میرے ساتھ آجاؤ ہیر"

روڈ کراس کرتے ہوئے سامنے شاپنگ پلازہ تھا اور امامہ کی ساری توجہ سڑک پر گزرتی ہوئی گاڑیوں پر تھی، وہ ہیر سے بولتی ہوئی پھرتی سے فٹ پاتھ سے اترکر سڑک کراس کرچکی تھی جبکہ ہیر امامہ کی پھرتی دیکھ کر بیچ روڈ سے ہی واپس پلٹ کر دوبارہ فٹ پاتھ پر آگئی

"اوہو ہیر کیا کررہی ہو جلدی آؤ ناں"

روڈ کراس کرنے کے بعد امامہ ہیر کو دیکھ کر غصّہ کرتی ہوئی تیز آواز میں بولی، ہیر روڈ کراس کرنے کے معاملے میں ایسی ہی ساتھ والے بندے کو تپا دیا کرتی تھی

"اچھا یہاں پر کیوں غصہ کررہی ہیں روکیں میں آرہی ہوں آپ کی طرف"

ہیر امامہ کو غصہ کرتا دیکھ کر بولی اور سڑک پر اسے دوبارہ دو قدم ہی چلی تبھی ایک بائیک تیزی سے زن کرتی گزری 

"اوۓ لڑکی مرنا ہے کیا"

بائیک والا غصہ سے ہیر کو بولتا ہوا بائیک  تیزی سے لے جاچکا تھا جبکہ ڈر کے مارے ہیر دوبارہ اسی فٹ پاتھ پر آکر کھڑی ہوگئی

"پاؤں میں میرے خرابی ہے اور روڈ تم کراس نہیں کرسکتی۔۔۔۔ ہیر تمہیں گفٹ لینا ہے خوشبو کے لیے یا پھر ہم واپس گھر چلے جائیں"

امامہ ہیر کی حرکت دیکھ کر غُصہ کرتی ہوئی تیز آواز میں اس سے پوچھنے لگی

"جی جی بس آگئی آپ کے پاس دو منٹ صبر تو کریں ناں" 

ہیر اپنا دوپٹہ دوبارہ سر پر جماتی ہوئی گھبرا کر امامہ سے بولی اور ساتھ ہی  آنکھیں بند کرکے سورتیں پڑھنے لگی 

"وہی رکو پہلے اِس گاڑی کو گزرنے دو اُس کے بعد تیزی سے آجاؤ میرے پاس"

امامہ ہیر کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کو سمجھاتی ہوئی بولی جس پر ہیر ہونق بنی زور زور سے سر ہلانے لگی

"ہیر گاڑی گزر چکی ہے خدارا اب آ بھی جاؤ"

کیوکہ دوسری گاڑی کافی فاصلے پر تھی ہیر آرام سے روڈ کراس کرسکتی تھی، ہیر امامہ کو غُصہ کرتا دیکھ کر ہمت کرتی ہوئی دوبارہ روڈ تک آئی اور وہ جس رفتار میں آئی تھی تیزی سے اپنی طرف آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ہیر نے وہی کھڑے رہ کر زور سے چیخ مارتے ہوئے اپنا چہرہ اپنے ہی ہاتھوں میں چھپالیا 

"ہیر" 

وہی ہیر کی بےوقوفی پر امامہ اس کو پکارتی ہوئی فٹ پاتھ سے اتر کر ہیر کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔

وہ تو شکر تھا کار ڈرائیو کرنے والے نے بروقت اپنی گاڑی کو بریک لگادیئے تھے۔۔۔ عباس کو اُس بےوقوف لڑکی پر شدید غصہ آیا تھا۔۔۔ جو اِس وقت اس کی گاڑی کے سامنے اپنا چہرہ چھپاۓ کھڑی تھی۔۔۔ عباس گاڑی سے باہر نکل کر اس لڑکی کو اچھی طرح سنانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر جیسے ہی اُس لڑکی نے اپنے چہرے سے دونوں ہاتھ نیچے کیے اُس لڑکی کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر عباس کا غصہ جاتا رہا وہ ابھی بھی آنکھیں بند کئے عباس کی گاڑی کے آگے کھڑی تھی اور عباس پیچھے گاڑیوں کے ہارن کی پروا کیے بغیر اُس لڑکی کو دیکھے جارہا تھا

، جب اُس لڑکی کے پاس دوسری لڑکی آئی جو اُس کی سہیلی یا پھر بہن تھی وہ کافی غُصّے میں اُس کو ڈانٹتی ہوئی، اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگی۔۔۔ عباس ابھی بھی بےخود سا اس لڑکی کو شاپنگ پلازہ کے اندر جاتا ہوا دیکھ رہا تھا تب عباس کی گاڑی کا شیشہ بجا

"او بھائی کیا تم بیچ سڑک پر سوگئے ہو راستہ دو دوسری گاڑیوں کو بھی نکلنا ہے"

کوئی لڑکا اس کے پاس آکر غصے میں بول رہا تھا تب عباس نے ہوش میں آتے ہوۓ اپنی گاڑی اسٹارٹ کردی

***"""***

"کیا بات ہے کس بات پر اتنا موڈ آف ہے تمہارا"

کب سے تبریر محسوس کررہا تھا کہ آرزو اس سے موبائل پر ٹھیک طرح سے بات نہیں کررہی تھی بالآخر وہ آرزو سے پوچھ بیٹھا

"امی کی جوتیوں کے ڈر سے میں نے ہیر کو اپنا نیا ڈریس پہننے کو دیا ہے چڑیل کہیں کی، میرے ڈریس میں اتنی پیاری لگ رہی تھی اس کو دیکھ کر دس مرتبہ دل ہی دل میں ماشاللا بھی بولنا پڑا کہیں اس کو کسی کی نظر ہی نہ لگ جائے مگر اب اپنی برتھ ڈے پر میں خود کیا پہنوں گی"

آرزو برا سا منہ بناکر تبریز کو بتانے لگی جس پر تبریز ہنس دیا

"تمہارے محبت کرنے کا بھی انوکھا انداز ہے ایک طرف تو اس کو چڑیل بول رہی ہو دوسری طرف یہ بھی ڈر ہے کہیں اس کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔۔۔ تمہاری بہن چھوٹی بچی نہیں ہے جو دو سے چار گھنٹے میں تمہارا ڈریس خراب کردے گی"

تبریز آرزو کو سمجھانے لگا

"وہ خراب تو نہیں کرے گی میرا ڈریس مگر سچ بتاؤ تو آج ہیر ان کپڑوں میں اتنی پیاری لگ رہی تھی سوچ رہی ہو وہ ڈریس میں اسی کو دے دو" 

آرزو بیڈ پر لیٹی ہوئی پرسکون انداز میں موبائل پر بات کررہی تھی کیونکہ آج کمرے میں نہ ہی امامہ موجود تھی نہ ہی ہیر۔۔۔ جو اس کو چوری چھپے اسٹور روم میں، کچن میں یا پھر واش روم میں اپنا موبائل ساتھ لے کر جانا پڑتا

"ٹھیک ہے میری جان پھر تمہیں تمہاری برتھ ڈے سے پہلے ایک نیو ڈریس میں خرید کر دے دیتا ہوں مجھے تو بہت خوشی ہوگی جب تم میرا دیا ہوا ڈریس اپنی برتھ ڈے پر پہنوں گی"

تبریز کے اس طرح جان بولنے پر آرزو بری طرح جھینپتی ہوئی بولی

"کتنی بار بولا ہے تمہیں فضول کے ناموں سے مت پکارا کرو مجھے۔۔۔ اور تم سے ڈریس لےکر مرنا نہیں ہے مجھے اپنے گھر والوں سے"

نیو لباس دیکھ کر شہناس سمیت امامہ اور ہیر نے بھی کہی سوالات شروع کردینے تھے یہی وجہ تھی کہ آرزو نے آج تک تبریز کا دیا ہوا کوئی تحفہ بھی قبول نہیں کیا تھا 

"پھر وہی ڈرنے کی عادت نہ جانے کب تمہارا یہ ڈر دور ہوگا"

تبریز لمبی سانس کھینچتا ہوا آرزو سے بولا یہ وہ لڑکی تھی جس سے وہ بےمقصد فضول کی باتیں کتنی ہی دیر تک کرلیا کرتا تھا تب بھی اس کا دل نہیں بھرتا تھا

"جب تم میرا رشتہ لے کر میرے گھر پر آؤ گے"

آرزو بےساختہ بولی تبریز بھی فوراً اس کی بات پر بولا 

"اور پھر اس کے بعد میں تمہیں سارے فضول کے ناموں سے پکار سکتا ہوں ناں"

تبریز کے یوں ایک دم پوچھنے پر آرزو بلکل خاموش ہوگئی

"اچھا بس اب ٹاپک چینج کرو"

معنی خیز سی خاموشی کو محسوس کر کے آرزو ایک دم تبریز سے بولی 

"تمہاری خوشی کے لیے میں ٹاپک چینج کردیتا ہوں مگر اس سے پہلے تمہیں تمہارا پرامس یاد دلادو جو تم نے مجھ سے کیا تھا، یاد ہے ناں اپنے برتھ ڈے پر تم مجھ سے ملنے آؤں گی"

ایک ماہ پہلے جب تبریز نے آرزو سے ملنے کا بولا تھا تب آرزو نے لاکھ ہلے بہانے کرکے اسے ملنے سے انکار کردیا تھا تبریز بھی اس کے انکار پر صرف اس لیے مانا تھا کیونکہ چند دنوں پہلے تبریز کے خفا ہونے پر آرزو نے اس کو منانے کے چکر میں ملنے کی حامی بھرلی تھی مگر اپنی برتھ ڈے والے دن

"ہاں یاد ہے مجھے اچھا تم کال بند کرو ابو کی چائے گا وقت ہوگیا ہے تھوڑی دیر بعد تمہیں کال کرتی ہوں"

آرزو تبریز سے بولتی ہوئی کال رکھ چکی تھی اب وہ پریشان ہوکر سوچنے لگی کہ شہناس کے سامنے کس دوست کے گھر جانے کا بہانہ بناکر تبریز سے ملنے چلی جائے یا پھر تبریز کو ہی ملنے سے منع کردے

***"""***

"اب کوئی گلہ شکوہ نہیں کرنا صرف تمہاری شادی کا ایونٹ اٹینڈ کرنے کے لیے تمہارے بلانے پر یہاں آیا ہوں تمہیں اندازہ ہی نہیں تھا آج کتنا امپورٹنٹ کام تھا جسے چھوڑ کر مجھے یہاں آنا پڑا"

بینکوئیٹ میں چاروں طرف رونق چہل پہل دیکھتا ہوا عباس مظہر کے پاس آکر اسے شادی کی مبارکباد دینے کے بعد اس سے بولا

"اور میں زندگی بھر یاد رکھوں گا کہ تم نے میری شادی میں آکر میری سات نسلوں پر جو احسانِ عظیم کیا ہے"

مظہر عباس کی بات سن کر گہرا طنز کرتا ہوا بولا لیکن مظہر نے محسوس کیا جیسے عباس کی نظریں اور دماغ کسی اور طرف متوجہ تھا وہ عباس کی نظروں کا تعاقب میں بلیک کلر کے ڈریس میں موجود اس خوبصورت سی لڑکی کو دیکھنے لگا جو اپنی تین چار سہیلیوں کے ساتھ کھڑی ان سے باتیں کررہی تھی 

"کیسی لگ رہی ہے"

عباس کو پوری طرح گم سم دیکھتا ہوا مظہر شرارت بھرے انداز میں تھوڑا آہستہ سے عباس سے پوچھنے لگا

"غذر کے کسی حسین نظارے کی طرح بےانتہا خوبصورت اور پرکشش جسے دیکھتے ہی پہلی نظر میں عشق ہوجائے"

عباس کھوۓ ہوۓ لہجے میں دور کھڑی ہیر کو دیکھتا ہوا بولا، وہ اس لڑکی کو پہچان گیا تھا یہ وہی لڑکی تھی جو کل اُس کی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔۔۔ عباس کو اس لڑکی میں کوئی مقناطیسی کشش محسوس ہورہی تھی جس سے عباس کو اپنا آپ اس لڑکی کی طرف کھینچتا محسوس ہورہا تھا

"اُف میرے یار لگتا ہے تم تو گئے کام سے۔۔۔ اب مجھے ہی دوستی کا حق ادا کرنا پڑے گا یہ خوشبو کی فرینڈ لگ رہی ہے پھر میں خوشبو سے اِس لڑکی کا پورا بائیو ڈیٹا لےکر دیتا ہوں تمہیں تاکہ سیٹنگ کرنے میں آسانی ہو"

مظہر کی بات سن کر عباس ایک دم ہوش میں آیا اور گھور کر مظہر کو دیکھتا ہوا بولا

"انسان بنو میں نے ویسے ہی تعریف کی تھی اُس لڑکی کی، سیٹنگ ویٹنگ کے چکروں میں پڑ کر اپنے وائف سے کہیں اپنی سیٹنگ مت کروا لینا بلاوجہ میں میرا بھی امیج خراب ہوگا تم تو جانتے ہو میری نیچر کو، یوں لڑکیوں کے پیچھے خوار ہونے والا انسان نہیں ہوں میں بس وہ اچھی لگ رہی ہیں تو یونہی تعریف کردی"

عباس اپنی بےخودی پر قابو پاکر اپنی نظروں کا زاویہ ہیر کے چہرے سے ہٹاکر مظر کے سامنے لاپرواہ انداز میں بولا

"لو جی زندگی میں شاید پہلی بار عام لڑکوں کی طرح ری ایکٹ کیا تھا تم نے اور میں تمہارے نارمل ہونے پر میں خوش ہوگیا تھا۔۔۔ میرے خیال میں تو تمہیں اب اپنی زندگی میں چینج لانا چاہیے اور بلیک کلر کے ڈریس میں موجود آپشن برا بھی نہیں ہے میں تو بولتا ہوں ڈائریکٹ پرپوز کر ڈالو لڑکوں کو"

مظہر عباس کو اپنی طرف سے دوستانہ مشورہ دیتا ہوا بولا کیوکہ جتنا مظہر اپنے اس دوست کو جانتا تھا اس کے دوست کی زندگی میں کسی لڑکی کا نام تو کیا نشان بھی دور دور تک نہیں تھا

"تمہارا اپنی بارات والے دن کیوں مجھ سے پٹنے کا موڈ ہورہا ہے تمہارا۔۔۔ شاید وہاں فوٹو سیشن کے لئے تمہیں ڈھونڈا جارہا ہے"

عباس کو اپنی بےخودی پر غصہ آنے لگا، غلط انسان کے سامنے اس نے اپنی کیفیت کا اظہار کیا تھا مظہر کی توجہ اس ٹاپک سے ہٹانے کے لیے اس نے مظہر کو دوسری طرف متوجہ کیا جس میں وہ کامیاب بھی رہا

"میں تو خوشی خوشی تیار تھا میرا دوست صبح شام غذر جیسے حسین نظارے کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا خیر تمہاری مرضی،،، کوئی بھی ٹیبل ڈھونڈ لو تھوڑی دیر بعد چکر لگاتا ہوں دوبارہ تمہارے پاس" 

مظہر عباس کو بولتا ہوا وہاں سے اسٹیج کی طرف چلا گیا جبکہ عباس کونے میں آخری رو کی خالی ٹیبل دیکھ کر وہی بیٹھ گیا اس کی نظریں ایک مرتبہ پھر ہیر کو تلاش کرنے لگیں

***"""***

"ہیر وہاں لیفٹ رو کی آخری ٹیبل پر دیکھو، کافی دیر سے وہ بندہ تمہیں دیکھے جارہا ہے"

فبیحہ نے ہیر کی توجہ اُس کی جانب دلائی، ہیر پہلی نظر میں ہی اُس اجنبی کو دیکھ کر پہچان گئی تھی یہ وہی شخص تھا کل جس کی گاڑی سے اُس کی ٹکر ہوتے ہوتے بچی تھی۔۔۔ عباس سے ہیر کی نظر ملی تو ہیر نے فوراً اپنی نظروں کا زاویہ دوسری جانب کرلیا کیونکہ ہیر کے دیکھنے پر بھی عباس اپنی نظروں کا زاویہ ہیر کے چہرے پر ٹکایا ہوا تھا

"اگنور کرو اُسے تم لوگ"

ہیر اُس شخص پر سے اپنی نظریں ہٹانے کے بعد اپنی سہیلیوں سے بولی جو ابھی تک اس اجنبی شخص کو دیکھ رہی تھیں

"ہاۓ اگنور کرنے والی چیز تو نہیں ہے ذرا پرسنیلٹی تو دیکھو بندے کی"

ایک سہیلی نے عباس کو دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا تو ہیر اپنی سہیلی کو گھورنے لگی جبکہ ہیر کے برابر میں بیٹھی ہوئی دوسری سہیلی بھی بولی

"پرسنیلٹی چھوڑو بندے کا کانفیڈنیس چیک کرو ہمارے سب کے اِس طرح دیکھنے کے باوجود وہ ابھی تک کتنے مزے سے ہیر کو ہی دیکھے جارہا ہے" 

دوسری سہیلی کے کمنٹ پر ہیر نے دوبارہ ایک نظر عباس پر ڈالی پھر واپس اپنی نظریں ہٹالی کیونکہ عباس اپنی نظریں ہٹانے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔۔۔ اور ہیر نہ جانے کیوں اس شخص کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک نہیں دیکھ سکی تھی اُس شخص کی آنکھیں نہ جانے کون سا گہرا راز اپنے اندر چھپاۓ ہوۓ تھیں

"اسے کانفیڈینس نہیں بےغیرتی کہتے ہیں، اور تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کس قدر چھچھوری لگ رہی ہو تم سب کی سب اُس آدمی کو یوں گھورتے ہوۓ"

ہیر ان سب کو شرمندہ کرنے کی غرض سے بولی اور ایک نظر دوبارہ عباس پر ڈال کر وہ سٹپٹاکر اپنی نظریں دوبارہ عباس پر سے ہٹاچکی تھی کیونکہ وہ ابھی بھی اُسی کو دیکھے جارہا تھا

"ہاۓ آدمی کہاں سے آگیا بلاوجہ میں تم نے اُس بیچارے کو آدمی کہہ کر انکل ٹائپ کوئی چیز بنادیا غور سے دیکھو ینگ ہونے کے ساتھ ساتھ کافی ڈیشنگ بھی ہے"

دوبارہ سے عباس پر تبصرہ سن کر ہیر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی شاید اُس کی تمام فرینڈز آنکھ لڑانے میں اس شخص سے آج مقابلے بازی پر اتر آئی تھیں۔۔۔ صرف ایک وہی تھی جو عباس کو اگنور کررہی تھی لیکن وہ شخص ڈھیٹ پن کے تمام تر ریکارڈ توڑے ہیر کو ہی دیکھے جارہا تھا

"یار اس طرح سے دیکھنے میں مزا نہیں آرہا میں تو سیدھا سیدھا اس کے پاس جاکر اس سے پوچھ لیتی ہوں اُس کو پرابلم کیا ہے، جو وہ ہیر کی طرف دیکھے جارہا ہے"

فبیحہ بولتی ہوئی چئیر سے اٹھ گئی

"فبیحہ میری بات سنو، رکو کہاں جارہی ہو" 

ہیر اپنی سہیلی کو روکتی ہوئی بولی مگر وہ ہیر کی بات سنی ان سنی کرتی ہوئی عباس کی ٹیبل پر جاپہنچی

"ایکسکیوزمی مسٹر"

فبیحہ کانفیڈینس سے عباس کی ٹیبل پر پہنچ کر اسے مخاطب کرنے کی غرض سے بولی تب عباس نے اپنی نظروں کا زاویہ ہیر کے چہرے سے ہٹایا

"بولو"

اب عباس پوری طرح سے فبیحہ کی طرف متوجہ ہوکر اُس کو دیکھتا ہوا بولا

"کیا میں جان سکتی ہوں آپ کافی دیر سے ہماری ٹیبل پر ہمہیں کیوں دیکھ رہے ہیں"

عباس کو اپنی طرف متوجہ پاکر فبیحہ ایک ادا سے اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ شاید اس طرح ڈائریکٹ پوچھنے سے وہ شخص شرمندہ ہوجاتا

"تم سب کو بیک وقت کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں تم سب کو دیکھ رہا ہوں۔۔۔ میں اُس کو دیکھ رہا ہوں وہ جو بلیک کلر ڈریس میں موجود ہے"

عباس اعتماد سے باقاعدہ ہیر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا فبیحہ کو بتانے لگا اُس کی بات سن کر فبیحہ بری طرح شرمندہ ہوگئی۔۔۔ عباس کا انداز اور لہجہ صاف ظاہر کررہا تھا کہ وہ فبیحہ کو بالکل بھی لفٹ کرانے کا ارادہ نہیں رکھتا

"تو آپ اُس کو بھی کیوں دیکھ رہے ہیں وہ فرینڈ ہے ہماری، کتنی دیر سے آپ اس کو یونہی دیکھے جارہے ہیں وہ ڈسٹرب ہورہی ہے آپ کے اس طرح سے دیکھنے سے آخر پرابلم کیا ہے آپ کے ساتھ"

فبیحہ عباس کی بات کا برا مانتی ہوئی بولی

"میں اپنا پرابلم بھی اُسی کو بتاؤں گا، تم یہاں اپنا ٹائم ویسٹ مت کرو۔۔۔ جاؤ اس سے کہو آکر مجھ سے بات کرے"

عباس سنجیدہ لہجے میں بولتا ہوا فبیحہ پر سے اپنی نظریں ہٹاکر اپنی نظروں کا زاویہ دوبارہ ہیر کی جانب کرچکا تھا جبکہ فبیحہ اپنا سا منہ لےکر وہاں سے واپس اپنی ٹیبل پر چلی گئی

***"""***

آج آفس سے واپس گھر آکر وہ تیار ہوتی ہیر کی خوشی کی خاطر اُس کے ساتھ یہاں اس کی دوست کے بارات کے فنکشن میں آگئی تھی اگر امامہ یہاں آنے کی حامی نہ بھرتی تو ہیر کو اکیلے آنے کی کبھی اجازت بھی نہ ملتی لیکن اب امامہ کو اکیلے بیٹھے بیٹھے کافی بوریت کا احساس ہورہا تھا۔۔۔۔ دوسری لڑکیوں کو دلہن کے روپ میں دیکھ کر اپنے لئے اس نے ایسا سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا کیونکہ جیسے جیسے اس کی عمر گزرتی جارہی تھی وہ حقیقت پسند ہوتی جارہی تھی اور حقیقت بھی یہی تھی کہ آج کل کے لوگ اپنے نمونے جیسے لڑکے کے لئے کوئی حور پری جیسی لڑکی دیکھنا پسند کرتے تھے جبکہ اُس کے پاس عام نقوش، سانولی رنگت کے ساتھ ساتھ پیر میں بھی پیدائشی نقص تھا جو اس کی تمام تر خامیوں پر اور بھی نمایاں دھبہ تھا

"آپی آپ بور تو نہیں ہورہی تھیں"

ہیر اپنی فرینڈز کے پاس سے اٹھ کر امامہ کے پاس چلی آئی تو امامہ اپنے خیالوں سے باہر نکل کر اپنی چھوٹی بہن کو دیکھنے لگی

"کرلیا بھرپور انجوائے اب گھر چلیں" 

امامہ ہیر کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی تو ہیر امامہ کے برابر میں کرسی پر بیٹھ گئی

"اپی آپ کو یاد ہے کل میں جس شخص کی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔۔۔۔

ہیر کو اندازہ تھا امامہ دور بیٹھی نہ صرف اس کو دیکھ رہی تھی بلکہ اس کو دیکھتے دیکھتے وہ دور بیٹھے ہوئے اُس شخص کی حرکت بھی نوٹ کرچکی ہوگی تبھی ہیر خود سے امامہ کو بتانے لگی

"میں دیکھ چکی ہوں ہیر کل تمہارا اس کی گاڑی سے ٹکرانا اور آج بار بار نظروں کے ٹکرانے کے سلسلے کو"

امامہ لاپروہ انداز میں بولی وہ جانتی تھی کہ اس کی چھوٹی بہن کا حسن اس قابل تھا کوئی بھی آسانی سے اُس کی طرف متوجہ ہوجاتا مگر امامہ کی بات سن کر ہیر اُسے افسوس بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی

"میری نظریں کہاں ٹکراتی ہوئی دیکھ لی آپ نے"

وہ تو اُس شخص کے میسج پر جو اس نے فبیحہ کو دیا تھا سن کر گھبراتی ہوئی اٹھ کر یہاں آگئی تھی۔۔۔۔ اور یہاں اس کی بہن اُسی پر شک کررہی تھی

"تمہاری نظریں نہ سہی لیکن تمہاری دوستوں کی نظریں۔۔۔۔ بہت فضول قسم کی دوستی ہیں تمہاری،، خوشبو کی مدد سے مل کر آتی ہوں میرے خیال میں اس کے بعد ہم دونوں کو گھر چلنا چاہیے کال کرکے میں نے ابو یہاں بلوا لیا ہے وہ آتے ہی ہوگے ہم دونوں کو لینے کے لئے تھوڑی دیر میں" 

امامہ ہیر سے بولتی ہوئی کرسی سے اٹھ کر خوشبو کی امی کے پاس جانے لگی جبکہ ہیر کو اپنے دوپٹے پر داغ لگا نظر آیا

"اُف یہ کیسے خراب ہوگیا آرزو تو میری جان ہی نکال دے گی"

ہیر بڑبڑاتی ہوئی خود بھی کرسی سے اٹھ کر واش روم جانے لگی عباس ہیر کو واشروم کی طرف جاتا دیکھ کر خود بھی کرسی سے اٹھ گیا

***""""***

اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ایک پل کے لئے ہیر کی سانسیں اور نظریں دونوں تھم سی گئی تھی کچھ ایسا ہی یہی حال شیر عباس کا بھی ہوا۔۔۔ اتنا مکمل اور بھرپور حسن مزید قریب سے دیکھ کر وہ بھول چکا تھا کہ کس جگہ پر کھڑا ہے یہ پبلک پلیس سے ذرا دور واش روم کا احاطہ تھا جہاں وہ دونوں اِس وقت موجود تھے اتفاق سے اِس وقت یہاں زیادہ چہل پہل نہیں تھی

"مم۔۔۔ مجھے جانا ہے"

اپنے راستے میں لمبے چوڑے انسان کو دیوار کی طرح حاہل دیکھ کر ہیر کنفیوز ہوئی تھی اس نے آج تک کسی غیر مرد سے بات نہیں کی تھی اس لیے بےپناہ گھبراتی ہوئی وہ عباس کو دیکھ کر بولی۔۔۔ یہ گھبراہٹ اس کے چہرے اور لفظوں سے بھی عیاں ہورہی تھی

"کہاں جانا ہے" 

عباس قریب سے ہیر کے چہرے کا گہری نگاہوں سے جائزہ لیتا ہوا ہیر سے پوچھنے لگا

"واش روم"

ہیر آہستہ آواز میں بولی۔۔۔ نہ جانے کیوں سامنے کھڑے شخص کی آنکھیں دیکھ کر ہیر کی بولتی بالکل بند ہوچکی تھی، آنکھوں میں بےپناہ سنجیدہ تاثر لیے وہ ہیر کو دیکھنے کے ساتھ نہ جانے کیوں اُس سے بات کررہا تھا ہیر نے عباس کو جواب دینے کے ساتھ ہی سائیڈ سے نکلنا چاہا ویسے ہی عباس دوبارہ راستہ روکتا ہوا اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔۔ عباس کی اس حرکت پر ہیر مزید گھبرا گئی کیوکہ آج سے پہلے اُس کے ساتھ ایسا کسی نے نہیں کیا تھا

"کیا میں تمہارا نام جان سکتا ہوں"

عباس ہیر کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر ہیر سے اس کا نام پوچھ بیٹھا۔۔۔ یہ اُس لڑکی میں موجود مقناطیسی کشش تھی جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ خود کو روکنے کے باوجود اُس لڑکی کی جانب کھینچا چلا آیا تھا

"نہیں، میں کسی اجنبی کو اپنا نام نہیں بتاتی" 

ہیر اب کی بار اس کی بڑھتی ہوئی جرت کو دیکھ کر اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی ہوئی ذرا سا ہمت کرکے بول اٹھی جس پر عباس کے چہرے پر ایک پل کے لیے مسکراہٹ بھرا تاثُر ابھرا مگر دوسرے ہی پل اس نے اپنی مسکراہٹ کو سنجیدگی کے لبادے میں ڈھانپ لیا

"اچھا کرتی ہو"

عباس نے ہیر سے بولتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہیر کے کان میں موجود آویزے کو درست کیا جو کبھی بھی گرسکتا تھا جبکہ ہیر پوری آنکھیں کھولے عباس کی جرت پر حیرت زدہ ہوکر عباس کو دیکھتی رہ گئی۔۔۔ اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے سامنے تو اُس کی زبان خوب چلتی تھی مگر اِس وقت سامنے کھڑے اس اجنبی کی حرکت پر وہ گنگ رہ گئی تھی۔۔۔ شاید اس کی باروعب شخصیت کی وجہ سے

"مجھے جانا ہے پلیز راستہ دیجئے"

ہیر اپنی آواز میں موجود گھبراہٹ پر قابو پاتی ذرا سی نظریں اٹھا کر عباس سے بولی کیا معلوم کہ وہ دوبارہ اس کا راستہ روک لیتا

"تم غلط سمت آگئی ہو لیڈیز واش روم یہاں نہیں اُس طرف ہے"

عباس نے ہیر کو راستہ دینے کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے بتایا تو ہیر ہونق بنی عباس کو دیکھے گئی۔۔۔ عباس ہیر کے ہونق چہرے پر نظر ڈالتا وہاں سے چلاگیا یعنی کہ وہ اس کا راستہ تبھی روک رہا تھا کیونکہ وہ جینٹس واش روم کی طرف جارہی تھی اپنی کم عقلی پر افسوس کرتی ہیر آگے بڑھ گئی

***"""***

"بہت افسوس ہورہا ہے مجھے تمہارے آپریشن کا سن کر کیا تم اب کبھی ماں نہیں بن سکتی"

اِس وقت ماہ نور کی فرینڈ آئی ہوئی تھی جو اس کے ساتھ سٹنگ ایریا میں موجود تھی وہ لہجے میں مصنوعی افسردگی لائے ماہ نور کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی 

"اگر زیادہ ہی افسوس ہورہا ہے تو تم بچہ پیدا کرکے مجھے دے دو"

ماہ نور لاپرواہ انداز میں اپنے ناخنوں کے شیپ کو دیکھتی ہوئی اپنی دوست کو مشورہ دینے لگی جس پر خباثت سے لبریز مسکراہٹ اس کی دوست کے چہرے پر ابھری

"اپنے شوہر سے ڈائیورس لیے مجھے دو ماہ ہوچکے ہیں تمہیں بچہ دینے کے لیے مجھے تمہارا شوہر بھی چاہیے ہوگا سوچ لو پھر" 

اپنی دوست کا ہاشم کے لیے ایسا تبصرہ سن کر ماہ نور سے برداشت نہیں ہوا اُس نے صوفے سے کُش اٹھاکر کھینچ کر اپنی دوست کو مارا

"اس سے زیادہ گھٹیا بات شاید ہی تم نے اپنی زندگی میں کوئی کی ہوگی ہاشم کو کسی دوسری عورت کے حوالے کرنے سے بہتر ہے کہ میں خود اپنے ہاتھوں سے اُس دوسری عورت کی جان لےلو، اس لیے تم سوچنا بھی مت ایسا"

بےشک اب ماہ نور کے ہاشم سے تعلقات خوشگوار نہ ہو لیکن وہ ہاشم کو کسی دوسری عورت کے ساتھ شئیر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ کسی دوسری عورت کے ساتھ تو دور کی بات وہ ہاشم کی توجہ گلنار پر بھی دیکھ کر اندر ہی اندر جلتی رہتی

"ڈارلنگ برا مت مانو میری بات کا لیکن اتنا بڑا اسٹیپ اٹھانے سے پہلے تمہیں سوچنا چاہیے تھا اولاد کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی، ابھی تو نہیں لیکن عمر کے کسی حصّے میں تمہارے ہسبنڈ کو اور تمہیں خود بھی اولاد کی کمی محسوس ہونے والی ہے"

اب کی بار ماہ نور کی دوست سیریس ہوکر ماہ نور سے بولی

"میں نے جو اسٹیپ لیا ہے سوچ سمجھ کے لیا ہے مجھے بچے جیسے جھنجھٹ اپنی زندگی میں نہیں چاہیے، نہ ابھی نہ دس سال بعد اور رہی ہاشم کی بات تو اس نے مجھ سے محبت کی شادی کی ہے وہ بچے کے بغیر بھی میرے ساتھ چاہے تو اچھی زندگی گزار سکتا ہے"

ماہ نور اطمینان سے بولی

"اور تمہارے سسرال والے کیا انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا آگے چل کر"

اب کی بار اپنی دوست کے منہ سے اپنے سسرال والوں کا ذکر سن کر ماہ نور ناک منہ چڑھاتی بولی

"کوئی دوسرا اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہے یہ میری زندگی ہے اس میں کسی کا عمل دخل مجھے برداشت نہیں۔۔۔ مجھے بچہ نہیں چاہیے تو نہیں، جس کو چاہیے وہ خود پیدا کرلے بات ختم۔۔۔ میں بچے کے لیے ہلکان ہوکر بار بار تکلیف برداشت نہیں کرنے والی"

ماہ نور کندھے اچکا کر بولی ویسے ہی ہاشم ہال میں داخل ہوا ماہ نور کی باتیں نہ صرف وہ سن چکا تھا بلکہ وہی موجود گلنار بھی اپنی بھانجی کے خیالات سے واقف ہوچکی تھی۔۔۔ گلنار ہاشم کو جتاتی ہوئی نظروں سے دیکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی

"ماہ نور فری ہوکر روم میں آؤ" 

ہاشم ماہ نور کی دوست کو نظرانداز کرتا ہوا کمرے میں آکر ماہ نور سے بولا اور اپنے بیڈ روم کی طرف چلاگیا

***"""***

"کیوں ڈسکس کررہی تھی تم اپنی فرینڈ سے میرے گھر کے معاملات کو، دیکھو ماہ نود میں اس بات کی تم کو ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ تم ہر ایرے غیرے لوگوں کو یہاں بلاکر ان کے ساتھ اپنے پرسنل معاملات شئیر کرو"

ہاشم ماہ نور کے کمرے میں آنے کے ساتھ ہی اس سے بولا وہ اسی وقت آفس سے گھر لوٹ کر آیا تھا اور اب روز کا یہ معمول بن گیا تھا کہ کسی نہ کسی بات کو لے کر کوئی نہ کوئی ایشو نکل کر سامنے آجاتا

"تم ہوتے کون ہو مجھے اجازت دینے والے تم سے اجازت مانگ کون رہا ہے۔۔۔ میری فرینڈ کوئی ایری غیری نہیں ہے ہاشم، اسے میرا درد تھا میرا احساس تھا تبھی وہ یہاں پر موجود تھی میری دلجوئی کرنے کے لیے کم سے کم وہ تمہارے گھر والوں کی طرح مین نہیں ہے جنھیں بس بچے سے غرض ہے"

ماہ نور کو ہاشم کا رویہ بالکل اچھا نہیں لگا تھا جب سے اس نے ہاشم کی بغیر اجازت کی یہ قدم اٹھایا تھا ماہ نور نے محسوس کیا تھا تب سے ہاشم اس سے اکھڑا اکھڑا رہتا تھا اور اس کی باتوں پر کافی زیادہ اس کو ٹوکنے لگا تھا ورنہ تو پہلے وہ گلنار کو ہی چپ کروا دیا کرتا تھا اور سمجھا دیا کرتا تھا۔۔۔ ماہ نور کی بات سن کر ہاشم ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا۔۔۔ قدم بڑھا کر ماہ نور کے پاس آکر اس سے بولا

"میرے گھر والے مین نہیں بلکہ مین تم ہو ماہ نور تمہیں صرف اپنی ذات کی پرواہ ہے اور خود سے ہی محبت۔۔۔ تم نے تو اتنا بڑا اسٹیپ لینے سے پہلے مجھ سے اجازت لینا تو دور کی بات مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔۔۔ ویسے تو تمہاری ساری دوستیں تمہاری طرح بےعقل ہیں لیکن تمہاری اس دوست نے ایک بات بالکل سچ بولی ہے۔۔۔ تمہیں تو سچ میں بچے یا پھر اپنے شوہر کی ذات سے کوئی لگاؤ نہ ہو، مگر میں زیادہ عرصہ ایسے زندگی نہیں گزار سکتا" 

ہاشم ماہ نور سے بولتا ہوا اس کو خاموش کروا کر الماری سے اپنے لئے کپڑے نکالنے لگا

***"""***

"آبی وعدہ کرو مجھ سے کہ میرا کہا ضرور پورا کرو گے چاہے میں دنیا میں رہوں یا نہ رہوں بولو آبی جواب دو مانو گے میری بات"

اپنے کانوں میں گونجتی اس کی آواز پر سناٹے اور ویرانی سی عباس کو اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہونے لگی

اسے محسوس ہورہا تھا جیسے اس وقت وہ نرم بستر کی بجائے کسی قبر میں قید تھا قبر کی چھت بےحد آہستگی سے اسے اپنے اوپر سرکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی، جس سے آہستہ آہستہ اس کا سانس لینا دشوار ہونے لگا اس کا دم گھٹ رہا تھا۔۔۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر اس کی آواز حلق کا ساتھ چھوڑے دے رہی تھی، پسینے سے شرابور ہوتے وجود کے ساتھ اس نے اپنے ہاتھ پاؤں چلانے کی کوشش کی تاکہ اس کو سانس آسکے اسے زندگی کی رمق مل سکے

"ہیر"

عباس کی آنکھیں پوری طرح کھلی تو روشنی پوری شدت سے اُس کے چہرے سے ٹکرائی نیند کا سلسلہ ایک دم ٹوٹ گیا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا 

خواب کا اثر زائل ہونے میں چند سیکنڈ لگے تھے اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس آکر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔ سنہری چمکتی ہوئی دھوپ صبح ہیر پیلس کے احاطے میں اٹکیلیاں کرتی پھر رہی تھی۔ آسمان روشن اور چمکدار تھا اس نے گہری سانس لے کر قدرت کی ساری تازگی کو اپنے اندر اتار لیا

وہ ٹریک سوٹ پہن کر ہیر پیلس سے باہر نکل گیا، ہیر پیلس کے آگے ڈھلوانی سڑک تھی اور پھر اس کے آگے جنگل۔۔۔ عباس جاگنگ کرتا ہوا جنگل سے گزرتا تھا، لمبے قد آور درخت کہی سالوں سے اس سے آشنا تھے۔۔۔ چند سال پہلے غذر کے اِس جنگل نے اُسے چیخ کر دھاڑیں مار کر روتے دیکھا تھا، ٹریک سوٹ میں وہ جاگنک کرتا پرانی یادوں کو ذہن سے جھٹک کر جنگل کے بیچوں بیچ رک کر گہری سانس لینے لگا

جب وہ واپس جاگنگ کرکے ہیر پیلس لوٹا تو انسپیکٹر شاکر کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک گیا مگر وہ صرف ایک لمحہ تھا۔۔۔ اسے یہ فن حاصل تھا اس سے پہلے مقابل اُس کا چہرہ پڑھتا یا غور و فکر کرتا عباس پہلے ہی اپنے تاثرات چھپالیتا

"کہیے انسپیکٹر صاحب کیسے یہاں پر آپ کا دوبارہ آنا ہوا" 

عباس سنجیدہ تاثرات لیے انسپکٹر شاکر کے آگے مضافے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا انسپکٹر سے پوچھنے لگا تو انسپیکٹر شاکر عباس سے ہاتھ ملاتا ہوا مخاطب ہوا

"آج صبح جب وادی کے لوگوں کا ہیر پیلس اور جنگل کے درمیانی سڑک سے گزر ہوا تو اس سڑک پر انہیں مائیکل کا کٹا ہوا سر پڑا دکھائی دیا۔۔۔ یہاں کے ستر فیصد مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ مائیکل کا کٹا ہوا سر ہیر پیلس اور جنگلات میں بسے کسی آسیب کا کارنامہ ہے جبکہ 30 فیصد لوگ جن میں عقل و شعور باقی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ مائیکل کا سر کسی تیز دھار والے آلے سے قلم کیا گیا ہے ویسے آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں"

انسپکٹر شاکر اسے مائیکل کی موت کے بارے میں آگاہی دے کر عباس سے اس کی راۓ جاننے لگا 

دراصل یہاں کے مقامی لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ ہیر پیلس میں ایک لڑکی کو اُس کے شوہر نے قتل کر کے ہیر پیلس کے اندر ہی کہیں دفن کردیا تھا کیونکہ اُس لڑکی کے اپنے ملازم سے ناجائز تعلقات کا اُس کے شوہر کو علم ہوچکا تھا جبکہ اپنے ملازم کو بھی اُس آدمی نے جان سے مار کر اس ملازم کی لاش کو غذر کے جنگل میں دفنا دیا تھا۔۔۔ وادی کے لوگوں کا ماننا تھا کے ہیر پیلس کے اندر اور غذر کے جنگل میں اُس مرد اور عورت کی روحیں ابھی بھی بھٹکتی ہیں لوگوں کو نقصان پہنچاتی ہیں

"سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہیر پیلس آسیب زدہ نہیں ہے یہاں کے بسنے والے لوگوں نے ہیر پیلس کے متعلق ایسے ہی بےبنیاد کہانیاں بنالی ہیں کسی بھی غیر معمولی واقعہ کو دیکھ کر یہ لوگ ہیر پیلس سے منسلک کردیتے ہیں، رہی بات مائیکل کی موت کے بارے میں۔۔۔ جو بھی ہوا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے مائیکل کی دردناک موت پر مجھے بےحد افسوس ہے مگر اُس کی موت کا دور دور تک ہیر پیلس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ سات بجے کے بعد یہاں پر تمام ملازموں کی ڈیوٹی آرز ختم ہوجاتے ہیں اور دو دن پہلے ہی مائیکل ہفتے بھر کے چھٹی لےکر یہاں سے گیا تھا باقی یہ آپ کی ڈیوٹی ہے کہ آپ مائیکل کی موت کی پوری انویسٹیگیشن کریں اور اس سلسلے میں آپ کو مجھ سے کسی بھی قسم کی مدد درکار ہو تو میں حاضر ہوں"

عباس مکمل اعتماد کے ساتھ انسپکٹر شاکر کو دیکھتا ہوا بولا

***""""***

پورا ہفتہ گزر جانے کے باوجود نہ جانے کیو وہ شخص ہیر کے ذہن سے نہیں نکل پارہا تھا شاید یہ اُس کی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا جب کسی مرد نے اُس کو یوں بھرپور توجہ دی تھی ورنہ تو اُس کے گھر میں اس قدر سختی برتی جاتی کہ وہ اکیلی باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ وہ جو بھی کوئی تھا اِس میں شک نہیں اچھی پرسنیلٹی رکھنے والا ہینڈسم مرد تھا مگر اِس کے باوجود اس کی شخصیت میں ہیر کو کوئی اسرا چھپا نظر آیا خاص طور پر اُس مرد کی گہری کالی آنکھیں، اور ان آنکھوں کا سنجیدہ تاثر

ہیر بےخیالی میں اس مرد کے بارے میں سوچ رہی تھی تب اُسے غصے میں صدیقی کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔۔۔ ہیر اپنی سوچوں کو تالے لگاتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی

"آخر بات کیا ہوئی ہے، کیوں اِس قدر غصے میں ہیں آپ۔۔۔ کچھ بتائیں تو سہی آخر ہوا کیا ہے"

ہیر نے کمرے سے باہر آکر دیکھا شہناس صدیقی سے پوچھ رہی تھی آرزو پہلے سے ہی وہی پر موجود تھی

"آج کل کی نسل اس قدر بےباک بےہودہ اور بدتمیز قسم کی ہے اپنی عمر سے بڑے بزرگوں کا تو کوئی لحاظ ہی نہیں رہا ہے اِن لڑکوں کی نظر میں۔۔۔۔ ذکر نہیں کیا تھا میں نے تم سے اُس لڑکے کا جو دو گلی چھوڑ کر رہتا ہے اور اکثر ہماری گلی میں پایا جاتا ہے اسی کو اچھی طرح سبق دے کر آرہا ہوں"

صدیقی ابھی بھی غصے میں اور کچھ بول رہا تھا مگر صدیقی کی بات پر آرزو کے کان کھڑے ہوگئے اور اس کی ہارٹ بیٹ تبریز کے ذکر سے تیز ہوگئی۔۔۔ آرزو کو آگے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا وہ بس آج رات تبریز کی کال کا انتظار کرنے لگی

***"""***

"تم نے آج ابو سے بدتمیزی کی تھی"

رات میں جب تبریز کی کال آئی تب آرزو نے پہلا سوال اُس سے یہی پوچھا

"تمہارا باپ۔۔۔۔ 

تبریز غصے میں کچھ بولتے بولتے رکا

"بلاوجہ میں تمہارے ابو میرے پاس آکر مجھ پر بگڑنے لگے۔۔۔ آداب اور شرافت کا درس دینے لگے"

تبریز اپنا غصہ کنٹرول کرتا ہوا آرزو کو بتانے لگا تبھی آرزو اُس کی بات کاٹتی ہوئی بولی

"وہ اس لیے کیونکہ تم نے ضرورت سے زیادہ ہماری گلی میں بالخصوص ہمارے گھر کے سامنے اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا رہنا شروع کردیا ہے اور اگر ابو نے تم سے کچھ بولا بھی تو اُن کا مقصد تمہیں سمجھانا تھا مگر الٹا تم نے ابو سے بدتمیزی شروع کردی"

آرزو افسوس کرتی تبریز سے بولی ابتداء میں ہی تبریز کا آمپریشن اس کے ماں باپ کے سامنے خراب ہوچکا تھا اور آرزو ایسا ہرگز نہیں چاہتی تھی اس وجہ سے اس کو بےحد افسوس ہورہا تھا

"کوئی بدتمیزی نہیں کی ہے میں نے تمہارے باپ کے سامنے بلکہ انہوں نے میرے دوستوں کے سامنے میری ماں کی تربیت کو گالی دی۔۔۔ نماز کی ٹوپی پہنتے ہیں تمہارے ابو اتنی بڑی داڑھی رکھی ہے اور زبان دیکھو کیسی استعمال کرتا ہیں۔۔ انہوں نے جتنی باتیں بولیں وہ سب میں صرف تمہاری وجہ سے برداشت کرگیا ورنہ جس طرح وہ زبان استعمال کررہے تھے تمہارا خیال نہیں ہوتا تو میں اُن کو اُن کی اوقات اچھی طرح یاد دلا دیتا"

تبریز اب اپنا غصہ کنٹرول کیے بغیر آرزو سے بولا تو آرزو کو بھی تبریز پر غصہ آنے لگا 

"تمیز سے بات کرو میرے ابو کے بارے میں بلکہ اب تمہیں تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے مجھ سے۔۔۔ آئندہ کال مت کرنا مجھے"

آرزو غصے میں بولتی ہوئی موبائل کی کال ڈسکینیکٹ کرنے لگی 

"آرزو میری بات سنو"

تبریز ایک دم اس کی ناراضگی کے خیال سے بولا مگر اس کا بولنا بھی بےسود رہا 

"آرزو"

تبریز نے غصے میں اس کو پکارا مگر آرزو کال کاٹ کر موبائل آف کرچکی تھی تبریز کو مذید صدیقی پر غصہ آنے لگا

***"""***

"ایسی کوئی انہونی بات نہیں بول دی ہے ہم نے تم سے، جو تم ہماری طرف یوں پریشان ہوکر دیکھ رہے ہو"

اِس وقت ایوب خان کے کمرے میں ہاشم کے علاوہ گلنار بھی موجود تھی گلنار کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ ایوب خان کی بات سے پوری طرح متفق ہے جبکہ ہاشم ایک پل کے لئے ایوب خان کو دیکھتا رہ گیا اُس سے کچھ بولا ہی نہ گیا

"دا جی کیا اِس مسئلے کا یہی ایک حل ہے مطلب میری دوسری شادی" 

اب تک وہ ایوب خان کی بات کو ہضم نہیں کر پایا تھا اِس لیے ایوب خان سے پوچھنے لگا

"تو پھر تم اس مسئلے کا آسان سا کوئی دوسرا حل بتادو"

اب کی بار ایوب خان کی جگہ گلنار ہاشم سے بولی تو ہاشم گلنار کو دیکھ کر ایک دم بول اٹھا 

"ماں جی پلیز ماہ نور آپ کی سگی بھانجی ہے آپ اُس کے بارے میں تو سوچیں" 

ہاشم گلنار کو بےبسی سے دیکھتا ہوا بولا۔۔ اگر دا جی اِس وقت ایسی بات کررہے تھے تو ہاشم کو لگا کم ازکم اُس کی ماں کو اُس وقت اُس کے حق میں بولنا چاہیے تھا

"تم ماہ نور کے لیے سوچ رہے ہو کیا ماہ نور نے تمہارے بارے میں سوچا۔۔۔ ہمارے اِس خاندان کے بارے میں خیال کیا اُس نے۔۔۔ ہاشم تمہاری بیوی نے صرف اپنے بارے میں سوچا اُس کی خود سری تم دوسرے معاملات میں تو دیکھ ہی چکے ہو وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن اتنا بڑا قدم اُس نے تمہاری مرضی کے بغیر اٹھالیا۔۔۔ تم شوہر تھے اُس کے اُس نے بیوی ہوکر گوارا نہیں کیا کہ وہ تم کو کچھ بتادیتی بس ڈاکٹر سے کہہ کر اپنی مرضی کر آئی۔۔۔ بس ہم فیصلہ کرچکے ہیں اب تم ہماری پسند کی لڑکی سے دوسری شادی کرو گے ایسی لڑکی جو خاندانی ہوگی کیوکہ ہم اپنے خاندان کے لیے وارث چاہتے ہیں" 

ایوب خان جو کب سے بھرے ہوئے بیٹھے تھے اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے بولے تو ہاشم اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا

"دا جی آپ جس کسی لڑکی کو میری بیوی بناکر وارث کے چکر میں اِس گھر میں لائیں گے فرض کریں اگر وہ آپ کو وارث نہیں دے سکی تب کیا کریں گے آپ۔۔۔۔ جواب دیں میری بات کا اگر ماہ نور ٹھیک ہوتی اور آپ کے پوتے میں نقص ہوتا کہ وہ آپ کے خاندان کو وارث نہیں دے سکتا تب کیا کرتے آپ"

ہاشم کا لمبا چوڑا لیکچر ان سے ایک حد تک برداشت ہوا جب حد ختم ہوگئی تب ایوب خان تیز اور سخت لہجے میں بولے

"بس کرو ہاشم یوں مفروضوں کی بنیاد پر باتیں بناکر ہمیں مت بہلاؤں۔۔۔ اپنا اور اپنی بیوی کا ذہن تیار کرلو بہت جلد ہم اس گھر میں تمہاری دوسری بیوی اور اپنی دوسری بہو لےکر آئیں گے"

ایوب خان اپنا حتمی فیصلہ سناکر خود بھی اٹھ کھڑے ہوئے تو ہاشم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اِس وقت ماہ نور گھر پر موجود نہیں تھی بلکہ اپنی فرینڈ کے برائیڈل شاور میں گئی تھی یقیناً وہ یہ خبر سنتی تو گھر میں ایک بڑا طوفان آجاتا

***"""***

رات کا پہر تھا دھند نے ہیر پیلس کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔۔۔ اونچے لمبے گھنے درخت اس وقت تن کر کھڑے تھے جیسے وہ گہری نیند میں چلے گئے ہو اچانک کوئی ہوا کا تیز جھونکا آتا اور پہاڑوں کے سینے کو چیرتا ہوا آواز پیدا کرتا ہے یا پھر جنگل سے آتی کسی جنگلی جانور کی آواز ماحول کے سکون میں خلل پیدا کردیتی 

آج نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ جب جب سونے کے لئے اپنی آنکھیں بند کررہا تھا تب تب اس کی آنکھوں کے پردوں پر اس حسین مہ جبین کا چہرہ لہرانے لگ جاتا 

اتنے دن گزر جانے کے باوجود عباس چاہ کر بھی اس لڑکی کو بھلا نہیں پارہا تھا ایسا نہیں تھا کہ عباس اُس لڑکی کے بارے میں معلومات نہیں نکلوا سکتا تھا اُس لڑکی کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرنا اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر عباس نے خود سے ایسا نہیں کیا تھا کیونکہ وہ لڑکی اُس کی اولین خواہش تو ہوسکتی تھی مگر منزل نہیں۔۔۔ اُس کا مقصد کچھ اور تھا جو خواہشات کے حصول سے زیادہ ضروری تھا اپنے دل کے تہہ خانوں میں کیا کچھ پائے وہ نہ جانے کتنے سالوں سے جی رہا تھا مگر اب وقت قریب تھا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول تک پہنچ سکے

انہی سوچوں کو سوچتے ہوۓ اس کی طبیعت میں بےچینی اور اداسی ایک دم بڑھنے لگی اپنی سرخ گہری راز کا پتہ دیتی آنکھیں کھول کر وہ نرم بستر سے اٹھتا ہوا اسٹینڈ پر کنوس ایڈجسٹ کرکے حسین اور معصوم چہرے کو ذہن کے پردے پر لاتا ہوا سامنے فریم پر اتارنے کے بعد اس میں رنگ بھرتا چلاگیا شاید اِس طرح اُس کے اندر کی ویرانی کم ہوجاتی مگر ایسا کرنے سے اُس کے اندر کی اداسی اور سناٹے مزید بڑھتے چلے گئے اُس کی سرخ آنکھوں سے وحشت  ٹپکنے لگی تب عباس برش کو ایک طرف اچھال کر اپنے کمرے سے باہر نکل گیا

اِس وقت حال میں گہرا سکوت چھایا ہوا تھا وہاں موجود چھت پر بڑا سا کرسٹل کا فانوس اپنی عادت کے مطابق ہولے ہولے ہل رہا تھا چاند کی چاندنی چھوٹی کھڑکیوں سے ہال کے اندر آرہی تھی 

وہ ہال کو عبور کرتا ہوا ہیر پیلس کے بیک یارڈ پر پہنچا جہاں ایک قبر موجود تھی بناء کتبہ کے۔۔۔ وہ اکثر اوقات یہاں آکر کھڑا ہوجاتا اور اس قبر میں موجود ابدی نیند سوئی ہوئی ہستی سے دل ہی دل میں باتیں کرتا

"کیا ہوا آج پھر نیند نہیں آرہی ہے آپ کو"

اپنی پشت سے آتی آواز پر نہ تو عباس چونکا تھا نہ ہی اس نے پلٹ کر دیکھا تھا بلکہ وہ جانتا تھا اس کی پشت پر کون موجود تھا

"کتنے سال گزر چکے ہیں نیند کو آنکھوں سے روٹھے ہوئے، اب تو سکون کی نیند مجھے تب ہی میئسر ہوگی جب میرا مقصد پورا ہوگا"

عباس بناء مڑے قبر کو دیکھتا ہوا اور فرغب بی سے بولا اِس وقت اس کی آنکھیں کسی بھی احساس سے عاری تھی بالکل بےتاثر جیسے عموما ہوا کرتی تھیں۔۔۔ فرغب بی آئستہ قدم اٹھاکر چلتی ہوئی اُس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی 

"جب تلاش مکمل ہوچکی ہے تو مقصد بھی پورا ہوجائے گا۔۔۔آپ اس کا ٹھکانہ تلاش کرچکے ہیں تو یوں سمجھ لیں اب آپ کی منزل بہت قریب ہے" 

فرغب بی کے بولنے پر عباس نے ان کی طرف دیکھا یعنی فرغب بی اُس کا دیا ہوا کام کرچکی تھیں

"زبیدہ سے میری بات ہوچکی ہے میں نے اُس کو اچھی طرح ساری بات سمجھادی ہے کہ اسے کس گھر میں آپ کا رشتہ لے کر جانا ہے۔۔۔ لڑکے کے بارے میں کیا کچھ بتانا ہے ویسے وہاں تین لڑکیاں موجود ہیں"

فرغب بی نے بولنا چاہتا تبھی عباس ان کی بات کاٹتا ہوا بولا

"ان تین لڑکیوں میں سے کوئی ایک ہیر پیلس آئے گی۔۔۔ ہیر پیلس کی در و دیوار اُس کی آمد کا انتظار کررہی ہیں"

عباس فرغب بی کو دیکھتا ہوا بولا تبھی ہیر پیلس کے اندرونی حصے سے چیخ کی آواز بیدار ہوئی اس اچانک خوفناک چیخ سے درخت پر الٹی لٹکی ہوئی چمکادڑیں اور الو ایک دم اپنے پر کھول کر اڑ گئے

"شاید نیند میں ڈر گیا ہوگا میں دیکھتی ہوں"

فرغب بھی چیخ کی آواز پر عباس بولتی ہوئی ہیر پیلس کے اندر جانے لگی

"نہیں آپ آرام کریں میں دیکھ لیتا ہوں"

عباس فرغب بی سے بولتا ہوا خود وہاں سے چلا گیا

**"""**

"آرزو کب سے چھت پر موجود ہو۔۔۔ دھلے ہوئے کپڑے رسی پر سوکھنے ڈال دیئے تو نیچے آجاؤ مغرب ہونے والی ہے"

شہناس کی چھت پر آتی آواز اسے اچھا خاصا بےزار کرگئی تھی

"امی آرہی ہو بھئی صبر تو کریں"

آرزو چھت پر سے ہی بے زار لہجے میں بولتی ہوئی رسی پر اپنے گیلے کپڑے ٹانگنے لگی جو اس نے شاور لینے کے ساتھ ہی دھوئے تھے یہ وقت صدیقی کے گھر آنے کا وہ اِس وقت اپنی کسی بھی بیٹی کو چھت پر دیکھتا تو ناراض ہوجاتا۔۔۔ 

آرزو جانتی کی تھی شہناس اس کو اسی لیے بلارہی تھی، بالوں میں لپٹا ہوا تولیہ نکال کر بال اُس تولیے سے خشک کرتی وہ تولیہ رسی پر سکھانے کے لیے ڈال رہی تھی تب ایک چھوٹا سا باریک کنکر ہوا میں اُڑتا ہوا آیا جو آرزو کے شانے سے ٹکرایا آرزو چھت سے نیچے دیکھنے لگی جہاں تبریز اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کے اسٹائل میں کھڑا تھا، وہ غصے میں تبریز کو آنکھیں دکھاتی ہوئی پیچھے ہوکر واپس جانے لگی

"میں تب تک تنگ کروں گا جب تک تم بات نہیں سنوں گی" 

تبریز کی اونچی آواز میں دھمکی پر آرزو جلدی سے سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی چھت سے نیچے آگئی وہ اس دن سے ہی تبریز سے خفا تھی جب سے تبریز نے اُس کے ابو سے بدتمیزی کی تھی اور موبائل پر اُن دونوں کی بدمزگی ہوئی تھی۔۔۔ 

تبریز آرزو کو مسلسل کالز پر کالز کئے جارہا تھا مگر آرزو اُس سے بات نہیں کررہی تھی اس لیے پچھلے دو دن سے تبریز نے اس کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔۔۔ کبھی وہ لینڈ لائن پر بیلز دینے لگ جاتا تو کبھی رات میں اس کے گھر کی ڈور بیل بجاکر بھاگ جاتا۔۔۔ اور آج شام تو اُس نے گلابوں کا بکے جس میں سوری کا کارڈ موجود تھا اُس کے گھر بھیجوا کر حد ہی کردی تھی وہ تو شکر تھا کہ دروازہ اُسی نے کھولا تھا اگر اس کی جگہ پھول کا بکے شہناس کے یا گھر کے کسی دوسرے فرد کے ہتھے چڑھ جاتا تو گھر میں ایک الگ ہی طوفان آجاتا، تبریز کی اس حرکت سے آرزو کی جان خشک ہوچکی تھی اِس لیے آرزو نے سوچا تھا وہ رات میں تبریز کی کال ریسیو کرلے گی نہیں تو تبریز کے جذباتی پن کی وجہ سے وہ صدیقی یا شہناس کے آگے مشکوک ہوجاتی

***"""***

"ہائے نہ جانے کون کون لکھا ہے ہم تینوں بہنوں کے نصیب میں، معلوم نہیں کب اور کیسے اور کس کے ساتھ ملتے ہیں ہمارے ستارے" 

مووی کا ہیپی اینڈ دیکھ کر ایل ای ڈی سوئچ آف کرتی ہوئی ہیر ٹھنڈی آہ بھرکر بولی تو کمرے میں موجود امامہ اور آرزو اُس کو گھورنے لگی

"چھوٹی طبیعت ٹھیک ہے تمہاری یا پھر اَمی سے شرم کے اوپر پورا لیکچر سننے کا موڈ ہورہا ہے تمہارا"

امامہ ہیر کی بات سن کر اُس سے پوچھنے لگی

"لیکچر سننے کا نہیں اَمّی سے جوتے کھانے کا موڈ ہورہا ہے اس کا، میں نے نوٹ کیا ہے آپی جب سے یہ اپنی دوست کی شادی سے آئی ہے تب سے پر لگ گئے ہیں اِس کو کیسے ہوا میں اڑتی پھر رہی ہے سب نوٹ کررہی ہو میں"

اب کی بار اپنے موبائل کو سائیڈ پر رکھتی ہوئی آرزو نے بھی باتوں میں حصّہ لیا، تو امامہ آنکھوں کو چھوٹا کرتی ہوئی شک بھری نظروں سے ہیر کو دیکھنے لگے جس پر ہیر ایک دم سٹپٹا گئی

"ایسا کچھ بھی نہیں ہے آپی میں نے تو یونہی ایک نارمل بات بولی تھی ویسے بھی اَمّی سے جوتے اُس کو پڑنے چاہیے جس کو سرخ گلابوں کا بُکے ملا ہے۔۔۔ نوٹ تو میں بھی بہت کچھ کرتی ہو میڈم تمہارے متعلق"

ہیر کے یوں اچانک بولنے پر آرزو پہلے تو گھبرائی پھر ایک دم غصہ کرتی ہوئی ہیر سے بولی

"کیا بکواس کررہی ہو تم، وہ بکے غلط فہمی سے ہمارے ہاں آگیا تھا جسے میں واپس لوٹا چکی ہوں۔۔۔ اگر تم نے کچھ بھی بکواس کی تو منہ توڑ ڈالوں گی میں تمہارا" 

آرزو ہیر پر بھڑکتی ہوئی بولی امامہ کو اِس سارے قصّے کی خبر نہ تھی کیوکہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے گھر لوٹی تھی

"اوۓ ذرا تمیز سے بات کرو یوں غصہ دکھا کر تم دوسروں کو بیوقوف بناسکتی ہو مجھے نہیں، اپنے کرتوت تم دنیا سے چھپاسکتی ہو مجھ سے نہیں۔۔۔ گلی میں کھڑے ہانک لگاتے ہوۓ تمہارے اُس دو ٹکے کے عاشق اور تمہارے لچھن خوب جانتی ہوں میں بی بی"

ہیر کے بولنے کی دیر تھی آرزو غصّے میں اس کی جانب چیل کی طرح جھپٹی امامہ ہونق بنی اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جب شہناس نے کمرے کے دروازے سے ہی اپنی چپل اتاری۔۔۔ ہوا میں اڑتی ہوئی چپل جب آرذو کی کمر پر لگی تو آرذو ہیر کا بازو چھوڑ کر بری طرح بلبلا اٹھی جبکہ کمرے کے اندر آتی شہناس نے ہیر کی کمر پر بھی ایک زوردار ہاتھ جڑا "اوئی اَمّی" کرتی وہ بھی درد سے کراہ اٹھی

"شرم و حیا نام کی کوئی چیز ہے تم دونوں کے اندر جنگلی بلیوں کی طرح ایک دوسرے کو نوچ رہی ہو، کسی آۓ گئے کا لحاظ نہیں" 

شہناس ہیر کا بازو دیکھتی ہوئی آرذو سے بولی جس کے ناخنوں کے نشانات اس کی کلائی پر موجود تھے 

"اُس کی حرکتیں چیک نہیں کی آپ نے کب سے مجھے بلاوجہ چھوڑے جارہی ہے"

آرذو روہانسی لہجے میں بولی تو شہناس کے بری طرح آنکھیں دکھانے پر وہ سہم کر اس لیے خاموش ہوگئی کہیں اس کو بھی اپنے ماں کے ہاتھ کا کرارا گھونسا کمر پر نہ پڑجائے

"وہ چھیڑ رہی تھی اور تم ننھی کاکی بنی ہوئی اُس سے چھڑ رہی تھی اتنی کوئی حسینہ لگی ہوئی ہو۔۔۔ زبیدہ آئی ہوئی ہے دو منٹ میں اُس کے لئے چائے لےکر آؤ۔۔۔۔ اور ساتھ میں نمکو اور بسکٹ بھی لے آنا"

شہناس آرزو سے بولتی ہوئی ہیر کو گھور کر کمرے سے باہر نکلی

"یہ زبیدہ آنٹی کو بھی چین نہیں ہے ہر تھوڑے دنوں بعد اُونگے بونگے رشتے لےکر یہاں پر آجاتی ہیں۔۔۔ نمکو کے ساتھ سموسے بھی رکھ دینا اُن کے سامنے خوش ہوکر شاید کوئی ڈھنگ کا رشتہ ہی بتادیں، ویسے بھی کلیم کی دکان کے سموسے آج باسی تھے کسی نے بھی نہیں کھائے سارے کے سارے بچ گئے"

کمرے سے کچن میں جاتی ہوئی آرزو کو دیکھ کر ہیر نے ہانک لگائی تو امامہ بول اٹھی 

"ہیر بہت بری بات ہے دن بدن تم بدتمیز ہوتی جارہی ہو کتنی بڑی ہیں زبیدہ آنٹی تم سے ابھی اَمّی تمہارے خیالات سن لیتی تو وہ اپنی چپل سے تمہاری بھی اچھی طرح تواضح کرتیں"

امامہ ڈانٹتی ہوئی ہیر سے بولی تو ہیر منہ بناتی ہوئی چپ کر گئی

***""""***

"او گاڈ یہ کس قدر روتی شکل کا بچہ ہے ہاشم کو بھی ناجانے کیا سوجھی تھی اس مصیبت کو یہاں لاکر مجھے سونپنے کی، شمع۔۔۔ او شمع کہاں غرق ہوگئی ہو تم۔۔۔ لےکر جاؤ اسے یہاں سے فیڈر تیار کرو اس کا تاکہ اِس کا منہ بند ہو"

ماہ نور نیند سے بےحال ہوکر چیخ چیخ کر شمع کو پکڑنے لگی تاکہ کاٹ میں موجود بچے کو شمع لےکر چلی جاۓ ماہ نور کی چیخ و پکار سن کر گلنار اُس کے کمرے میں چلی آئی

"شمع یہاں گھر کے کام کاج کرنے کے لئے آتی ہے بچہ سنبھالنے نہیں، ہاشم حسن کو یہاں اِس لئے لےکر آیا تھا تاکہ اُس کمی کو پورا کیا جائے جس سے تمہاری بدولت ہم بھی محروم ہوگئے"

گلنار نے ماہ نور سے بولتے ہوئے کاٹ میں موجود 6 ماہ کے روتے ہوئے حسن کو گود میں اٹھالیا

"کیا آپ کوئی موقع ہاتھ سے جانے بھی دیں گیں مجھ پر طنز کرنے کا۔۔۔ اور یہ بچہ وچہ میں نہیں پال سکتی یہ میرے بس کی بات نہیں"

ماہ نور بےزار لہجے میں گلنار سے بولی

"طنز کرنے کا موقع بھی تم نے ہی فراہم کیا ہے، خیر حسن کے لیے فیڈر تیار کرکے میرے کمرے میں لے آؤ کیوکہ سچ میں بچے کی پرورش کرنا نہ تو مذاق بات ہے نہ تمہارے بس کی بات ہے" 

گلنار ماہ نور سے بولتی ہوئی حسن کو گود میں اٹھاۓ بہلاتی ہوئی کمرے سے لے گئی جبکہ ماہ نور دانت پیس کر فیڈر اٹھا کر حسن کا دودھ تیار کرنے لگی

"دو گھنٹے بعد بھوک ختم ہوگی تو اِس میں رونے کی بیٹری دوبارہ چارج ہوجاۓ گی۔۔۔ معلوم نہیں آخر کیوں یہ مصیبت ہاشم نے میرے گلے ڈال دی"

ماہ نور نے بڑبڑانے کے ساتھ فیڈر میں سلیپنگ پلس ڈال دی تاکہ حسن دیر تک سوتا رہے اور خود اُس کی نیند بھی ڈسٹرب نہ ہو

***"""***

"حسن نہیں میرا بچہ ایسے نہیں روتے"

فیڈر پلانے کے بعد فیڈر سائیڈ پر رکھتی ہوئی گلنار حسن کو گود میں لے کر ٹہلنے لگی تاکہ وہ بہل جائے تبھی اس کے کمرے میں ایوب خان چلے آئے 

"کیا حسن کی طبیعت خراب تو نہیں ہے یا پھر کوئی درد وغیرہ تو نہیں ہو رہا بچے کو، کس قدر رو رہا ہے یہ معصوم"

ایوب خان حسن کو دیکھ کر فکر مند لہجے میں بولے، جو اب گلنار کے کندھے سے لگا آئستہ آئستہ سسک رہا تھا۔۔۔ بےشک حسن اُن کا پوتا ان کا خون نہیں تھا مگر تھا تو وہ معصوم سا بچہ۔۔ اُس کے آجانے سے ایوب خان تھوڑے بہت بہل گئے تھے

"ارے نہیں ابا جی حسن بالکل ٹھیک ہے بس کافی دیر سے بھوکا تھا تو اس لیے بھوک کی وجہ سے روئے جارہا تھا اب دیکھیں دودھ پیتے ہی سکون میں آگیا"

گلنار ایوب خان کو بتانے کے ساتھ حسن کو بیڈ پر لٹا چکی تھی کیونکہ اب وہ اونگنا شروع ہوچکا تھا شاید تھوڑی دیر میں سو جاتا

"بن ماں باپ کا بچہ ہے اگر اِس کی صحیح سے دیکھ بھال نہ کی گئی یا اِس بچے کی پرورش میں کوئی کوتاہی رہ گئی تو اِس کا گناہ ہمارے سر آئے گا۔۔۔ تم ہاشم سے بول کر حسن کے لئے کسی آیا کا بندوبست کردو کیونکہ ہمہیں نہیں لگ رہا کہ ماہ نور اِس کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کر پائے گی" 

ایوب خان گلنار کو مشورہ دیتے ہوئے بولے جس پر گلنار سر جھٹک کر مسکرائی

"ماہ نور اپنے شوہر کی دیکھ بھال کر لے یہی بہت ہے۔۔۔ اُس کے لیے مجھے تو ماہ نور سے تب بھی کوئی اچھی امید نہیں تھی جب اُسے ہاشم کی بیوی بناکر آپ اس گھر میں لائے تھے"

گلنار ایوب خان سے شکوہ کرتی ہوئی بولی جس پر ایوب خان نے ٹھنڈی آہ بھری

"صرف ہاشم کی خوشی اور مرضی کو دیکھتے ہوئے ہم نے یہ قدم اٹھایا تھا مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہاشم کی ماہ نور سے شادی کرکے۔۔۔۔ مگر چاہ کر بھی ہم اپنی غلطی کو سدھار نہیں سکتے کاش ہاشم دوسری شادی کے لیے مان جاتا لیکن شاید اپنا پَر پوتا دیکھنا ہمارے نصیب میں نہیں لکھا"

ایوب خان مایوس کن لہجے میں بولے تو گلنار بھی افسردہ ہوگئی کیوکہ اُس کو بھی چاہ تھی اپنے پوتا پوتیوں کی

مگر ہاشم نے دوسری شادی کی بات سن کر نہ صرف دوسری شادی سے انکار کیا تھا بلکہ تین دن بعد ہی وہ اپنے دوست کے بڑے بھائی کا چھ ماہ کا بیٹا اپنے ہمراہ گھر لے آیا تھا کیونکہ ہاشم کے دوست کا بڑا بھائی یعنی حسن کا باپ اور اس کی بیوی ایک حادثے میں فوت ہوچکے تھے 

بےشک چھ ماہ کے حسن نے ایوب خان اور گلنار کی توجہ حاصل کی تھی مگر ان دونوں کو یہ قلق تھا حسن ان کا خون نہیں لیکن جتنا ہوتا ایوب خان اور گلنار حسن کو توجہ اور وقت دے رہے تھے۔۔۔ ہاشم بھی آفس سے آنے کے بعد فری ٹائم میں حسن کے ساتھ ٹائم گزارتا مگر ماہ نور کا اِن دنوں پارہ فل ہائی رہنے لگا تھا اُس نے ایک فیصد بھی اپنے آپ کو بدلنے کی یا پرانی روش چھوڑنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔ کل رات اپنی کزن کی پارٹی سے اس کا لیٹ آنا ہوا تھا اور صبح حسن نے اس کی نیند میں خلل ڈال دیا تھا حسن کو گلنار کے حوالے کر کے اب وہ سکون سے سو رہی تھی

***""""***

ماہ نور سو کر اٹھی تو اُس وقت رات کے دو بج رہے تھے اُسے حیرت ہوئی وہ صبح سے اب تک سوتی رہی تھی مگر اِس سے بھی زیادہ حیرت ماہ نور کو تب ہوئی جب اُسے پورے گھر میں کوئی نہیں دکھا اتنی رات کو سب لوگ آخر کہاں جاسکتے تھے ماہ نور حیرت سے سوچتی ہوئی ہاشم کو کال ملانے والی تھی کہ تبھی اسے کار پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی۔۔۔ ماہ نور جلدی سے اپنے کمرے سے باہر نکلی اس نے باہر جانے کے لیے قدم اٹھائے تو داخلی دروازے سے ایوب خان گلنار اور ہاشم اُس کو اندر آتے دکھائی دیئے

"آپ سب اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہیں"

ماہ نور ان سب کے اترے ہوئے چہرے اور سنجیدہ تاثرات دیکھ کر سوال کرنے لگی مگر اُن میں سے کسی نے بھی ماہ نور کو کوئی جواب نہیں دیا

"کیا ہوا آپ سب کو ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے"

جب اُس کو تینوں میں سے کسی سے کوئی جواب نہیں ملا تو وہ دوبارہ بولی کیونکہ وہ تینوں ہی اُس کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے ماہ نور کے سوال پر ہاشم آگے بڑھتا ہوا اُس کے پاس آیا

"حسن کے دودھ میں کیا ملا کردیا تم نے اُس کو"

ہاشم بےحد سنجیدہ لہجے میں ماہ نور سے سوال کرنے لگا تو ماہ نور بولی

"نیند کی گولیاں دی تھی تاکہ وہ سو جائے، میں ڈسٹرب ہورہی تھی اُس کے بار بار رونے سے۔۔۔ مگر ہوا کیا ہے آخر" 

ماہ نور کو ابھی تک ماجرہ سمجھ نہیں آیا تھا لیکن اُس کی بات مکمل ہوتے ہی ہاشم کا ہاتھ اٹھا اور ماہ نور کے گال پر اپنی انگلیوں کا نشانات چھوڑ گیا۔۔۔ وہ حیرت اور بےیقینی سے ہاشم کو دیکھنے لگی ہاشم کی نظروں میں اِس وقت نہ صرف غصہ تھا بلکہ اُس کے لئے ناگواری بھی تھی۔۔۔ ہاشم بناء کچھ بولے کمرے میں چلاگیا

"کوئی مجھے بتائے گا ہوا کیا ہوا ہے آنی پلیز بتائیے ناں ہاشم اتنے غصے میں کیوں ہے"

ماہ نور اب ایوب خان اور گلنار کی نظروں میں اپنے لئے ناگواری دیکھنے کے باوجود گلنار کے پاس آتی اُس سے پوچھنے لگے آخر اُس سے ایسی کیا غلطی ہوئی تھی جو ہاشم نے غصے میں اُس کے اوپر ہاتھ اٹھایا تھا

"مجرم ہو تم حسن کی جان لے لی تم نے اُس معصوم بچے کی۔۔۔ کتنی مقدار میں گولیاں ڈالی تھی تم نے اسکے دودھ میں، ارے اگر وہ تم سے پل نہیں رہا تھا تو ہاشم سے بولتی، وہ واپس حسن کو اپنے دوست کے پاس چھوڑ آتا کم سے کم وہ معصوم اپنی جان سے تو نہ جاتا۔۔۔ تمہارے سینے میں واقعی ماں کا دل نہیں ہے ماہ نور اِس سے زیادہ بڑا گناہ تمہارے حساب میں شاید ہی کوئی لکھا جائے۔۔ قتل کردیا تم نے ایک معصوم بچے کا"

گلنار ماہ نور کو بولے جارہی تھی جبکہ ماہ نور حیرت اور بےیقینی سے گلنار کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ کیا حسن مرچکا تھا اُس کے ہاتھوں۔۔۔ اُس کی کم عقلی اور بےوقوفی سے،،، کیا وہ سچ میں اُس بچے کی جان لے چکی تھی

"میں حسن کی مجرم نہیں ہوں سنا آپ لوگوں نے۔۔۔ میں نے اُس کو نہیں مارا، میں اُس کو سلانا چاہتی تھی مارنا نہیں چاہتی تھی، خبردار جو کسی نے مجھے اُس کا مجرم ٹھہرایا میں قاتل نہیں ہوں حسن کی" 

گلنار اور ایوب خان کب کے وہاں سے اپنے اپنے کمروں میں جاچکے تھے جبکہ ماہ نور ہال میں اکیلی کھڑی زور زور سے بول رہی تھی

***""""***

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی آخری تاریخوں کا ایک چوتھائی چاند قوس کی طرح آسمان کے شفاف سینے میں دمک رہا تھا۔۔۔ ستارے آہستہ آہستہ قریب ہورہے تھے، ہوا دھیمے سرووں میں دبے پاؤں چل رہی تھی۔۔۔۔۔ جنگل کی طرف سے جانوروں کی آوازیں آنا بند ہوچکی تھی

ہیر پیلس خاموشی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا راہداریاں دور تک ویران پڑی تھی ایسے میں بیسمنٹ سے آہستہ آہستہ سسکنے کی آواز پر عباس کی سماعت سے ٹکرانے لگی جس سے اُس کی نیند ٹوٹی وہ گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہوا خود پر سے کمفرٹر اتار کر اٹھ بیٹھا 

بیسمنٹ میں موجود وجود کو وہ نظر انداز کرکے سو نہیں سکتا تھا اِس لئے اپنے کمرے سے باہر راہداری عبور کرتا ہوا کمرے سے سیدھا بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترنے لگا جیسے جیسے وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا باریک سروں میں آتی رونے کی آواز میں اضافہ ہوتا جارہا تھا

"کیا ہوگیا اتنی دیر سے کیوں رونا آرہا ہے تمہیں معلوم ہے ناں تمہارے رونے سے میں پریشان ہونے لگتا ہوں" 

عباس سیڑھیاں اتر کر بیڈ پر بیٹھے بھاری بھرکم وجود سے بولا جس کے دونوں پیروں کو بیڑیوں سے باندھا گیا تھا۔۔۔ اُس کا سر بالوں سے خالی کسی چکنے سفید انڈے کی شیپ میں چمک رہا تھا وہ عباس کو دیکھ کر غرانے کی آواز نکالتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر جماکر دونوں پنجوں کی مدد سے کسی درندے کی مانند بیڈ سے نیچے اتر کر ہاتھوں اور پاؤں کی مدد سے چل کر عباس کے پاس آنے لگا۔۔۔ عباس خود بھی پنجوں تلے فرش پر جھک کر ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید اپنے پاس بلانے لگا وہ منہ سے غرانے کی آواز نکالنے کے ساتھ عباس کے پاس چلا آیا

"ناراض ہو مجھ سے مگر کیوں؟؟"

عباس اس کی ہری چمکتی ہوئی آنکھوں میں اپنے لیے ناراضگی دیکھتا ہوا اس سے ناراض ہونے کی وجہ پوچھنے لگا۔۔۔ عباس کے پوچھنے پر اُس کی غراہٹ میں مزید اضافہ ہوا

"نہیں تم غلط سوچ رہے ہو ایسے مت سوچو۔۔۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں تمہارے علاوہ اِس دنیا میں میرا کوئی نہیں" 

عباس اُس کے شکوہ کرنے پر نرم لہجے میں اِس سے بولنے کے ساتھ اپنی جیب سے رومال نکال کر اُس کے منہ سے نکلتا ہوا لہاب صاف کرنے لگا جو اس کے منہ سے نکل کر نیچے فرش پر ٹپک رہا تھا۔۔۔ عباس کی بات پر وہ مزید غرایا عباس شروع سے ہی اس کی ہر بات بہت آرام سے سمجھ جاتا تھا

"نہیں میں تمہیں اِس کمرے سے باہر نہیں لے جاسکتا، فرغب بی کو بھی ایسا کرنے سے میں نے ہی منع کیا ہے"

عباس اُس کو دوبارہ سمجھاتا ہوا بولا، جس پر اس کا ہیبت ناک وجود غصے میں لرزنے لگا اُس کی غراہٹ میں مزید تیزی آگئی اپنے غصّے کے سبب وہ اپنا ہاتھ کا پنجا عباس کے گال پر مارتا ہوا بڑے بڑے ناخنوں سے اُس کا گال زخمی کرچکا تھا عباس خاموشی سے ڈرے بغیر اُسے دیکھنے لگا۔۔۔ وہ عباس کے منع کرنے پر اپنی پشت عباس کی جانب کرتا آہستہ آہستہ لرزنے لگا۔۔۔ غرانے کی آواز بدستور اُس کے منہ سے جاری تھی عباس جانتا تھا یوں اپنا رخ دوسری طرف کرلینا اس کی ناراضگی کا اظہار تھا اُس کی ناراضگی کے احساس سے عباس بیڈ سے باندھی اُس کی بیڑیاں کھولنے لگا

***""""***

"لالالالا"

اِس وقت سناٹے میں چھایا ہوا ہیر پیلس باریک سے مگر ہیبت ناک قہقہوں سے گونج رہا تھا عباس اُس کو بڑے سے گول کمرے میں چاروں اطراف گھومتے گنگناتے اور چکر کاٹتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ ایسا چھ یا سات مرتبہ ہوا تھا کہ جب عباس اُس کو قید سے رہائی بخشتا اور اوپر ہال میں لے آیا تھا۔۔۔ بےفکر مگر ہیبت ناک قہقہوں میں خوف کی رمق تب شامل ہوئی جب اُسے ہال میں عباس کے علاوہ کسی دوسرے کا گمان ہوا

"منّا کیا ہوا ڈر کیوں گئے، میں ہوں فرغب بی" 

فرغب بی اپنے کمرے سے نکل کر اس کے پاس آتی ہوئی بولی جو اب ان کو دیکھ کر نارمل ہوگیا تھا۔۔ اور خوشی سے دوبارہ ہال کے چاروں اطراف چکر کاٹنے لگا

"خوش ہے اِس وقت"

فرغب بی صوفے پر بیٹھتی ہوئی عباس سے بولی جس پر عباس نے اقرار میں سر ہلایا

"وہ کام کہاں تک پہنچا آپ نے دوبارہ ذکر نہیں کیا"

عباس کچھ یاد کرتا ہوا فرغب بی سے پوچھنے لگا 

"زبیدہ گئی تھی وہاں رشتے سے متعلق بات کرنے، اب دیکھیں وہاں سے کب تک مثبت جواب آتا ہے انتظار تو مجھے بھی ہے"

فرغب بی جانتی تھی عباس اُن سے کس موضوع پر بات کررہا تھا تبھی وہ عباس کو جواب دیتی ہوئی بولی مگر عباس کی توجہ اچانک ہال میں آنے والی اُس بلی نے لےلی جس کو وہ خوف کے مارے اپنے پنجوں میں دبوچ چکا تھا

"اُس کو چھوڑ دو وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گی"

عباس ایک دم بولتا ہوا صوفے سے اٹھ کر اُس کی جانب آیا۔۔۔ وہ غصّے اور خوف سے بلی کی گردن بری طرح دبوچے ہوئے اپنے منہ سے عجیب وغریب خوفناک سی آوازیں نکال رہا تھا۔۔۔ کسی بھی اجنبی کو دیکھ کر وہ اُس پر خوف کے مارے یونہی حملہ کردیا کرتا

"منا اسے چھوڑ دو ڈرو نہیں اُس کو جانے دو وہ بلی ہے تمہیں کچھ نہیں کہے گی"

فرغب بی نے بھی اُس کے پاس آکر اپنی سی کوشش کی تھی مگر بلی اُس کے مضبوط شکنجے میں چند سانسیں مذید لے کر بےجان ہوچکی تھی۔۔۔ عباس کو اُسے ہال میں لانے پر پچھتاوا ہونے لگا

***"""""***

"اس وقت تمہیں اپنے سامنے دیکھ کر بتا نہیں سکتا میں کتنی خوشی محسوس کررہا ہوں"

آرزو اپنے کالج سے باہر کھڑی تھی تب تبریز بائیک اُس کے قریب روکتا ہوا بولا

"تمہیں خوشی ہورہی ہے اور مجھے تم سے اس طرح ملتے ہوۓ ٹینشن ہورہی ہے"

آرذو گھبرا کر تبریز سے نظر ملائے بغیر بولی کہیں اندر ہی اندر اسے چوری چپھے ملنے پر گلٹ بھی ہورہا تھا

"آج تمہاری سالگرہ کا دن ہے تمہیں ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں، قریبی ریسٹورنٹ میں ہم دونوں لنچ کریں گے اور پھر میں تمہیں گھر ڈراپ کردو گا"

تبریز آرذو کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر اُس کو اطمینان دلاتا ہوا بولا جس پر آرزو اقرار میں سر ہلاتی ہوئی بائیک پر تبریز کے پیچھے بیٹھنے لگی۔۔۔ 

آج اتفاق ہی تھا جو ہیر نے آف کیا تھا، وہ موجود نہ تھی اس لیے موقع دیکھتے ہی تبریز کی بےجا ضد پر آرذو نے اس سے ملنے کی حامی بھری تھی۔۔۔ آرزو بائیک پر بیٹھ رہی تھی تبھی تیزی سے آتی کار سڑک پر پڑے ہوئے پانی کے چھینٹے اُڑاتی ہوئی زن کرکے جانے لگی

"ابے اووو ..... آدمی"

تبریز نے گالی دیتے ہوئے گاڑی والے کو مخاطب کیا تھا جو تھوڑی دور جاکر گاڑی روک چکا تھا۔۔۔ گاڑی کو رکتا ہوا دیکھ کر تبریز بھی بائیک سے اترنے لگا

"تبریز چھوڑو بھی خدا کے لئے جانے دو اسے" 

آرزو تبریز کو غصّے میں دیکھ کر روکتی ہوئی بولی جبکہ گاڑی میں موجود شخص بھی گاڑی سے نکل کر غصّے میں تبریز کی طرف بڑھا

"کیا بولا تم نے ابھی۔۔۔ گالی کس کو دی تم نے" 

ہاشم تبریز کی جانب بڑھتا ہوا غصے میں آکر اس کا گریبان پکڑ کر تبریز سے پوچھنے لگا

"تمہارے باپ نے گاڑی خرید کر دینے کے ساتھ تمہیں گاڑی چلانے کی تمیز نہیں سکھائی" 

تبریز ہاشم کو پیچھے دھکیلتے ہوا بولا کیونکہ گندے پانی کے چھینٹے اُس کے کپڑے خراب کرچکے تھے۔۔۔ پیچھے دھکیلنے پر ہاشم اپنی گاڑی کے بونٹ پر گرنے سے پہلے سنبھل گیا اس نے غصے میں ہاتھ کا مُکّا بنایا اس سے پہلے وہ تبریز پر مُکا رسید کرتا راہ چلتے آدمی بیچ بچاؤ کروانے کے لیے آن پہنچے

"چھوڑو اُس کا دماغ میں ابھی درست کرتا ہوں لڑکی کو بائیک پر بٹھا کر خود کو ہیرو سمجھ رہا ہے، نو پارکنگ میں بائیک کھڑی کرکے مجھ پر روعب جھاڑ رہا ہے آج اسے اِس کا باپ نہیں تمیز میں سکھاؤ گا"

ہاشم غصہ کرتا ہوا ان دو آدمی سے بولا جنہوں نے اس کو پکڑ رکھا تھا اِس سے پہلے تبریز خود بھی ہاشم کو مارنے کے لیے آگے بڑھتا

"کیا ہوگیا ہے تبریز ہوش میں آؤ"

آرذو تبریز کو بازو سے پکڑتی ہوئی بولی

***""""***

ہاشم ریسٹورنٹ کے اندر آکر پہلے سے ریزو کروائی ہوئی ٹیبل پر بیٹھ چکا تھا اُس کا موڈ تھوڑی دیر پہلے ہوئے جھگڑے سے ویسے ہی خراب تو اوپر سے وہ مقصد بھی پورا نہیں ہوا جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔۔۔ اُس کا اپنا کلائنٹ کے ساتھ یہاں آفیشل میٹنگ اور لنچ تھا مگر تھوڑی دیر پہلے اس کے کلائینٹ کی معذرت بھری کال آئی تھی کہ وہ یہاں نہیں آسکے گا۔۔۔ ہاشم لنچ آرڈر کرنے کے بعد وہاں سے جانے کا ارادہ رکھتا تھا 

تب ہاشم کی نظر ریسٹورنٹ میں اسی کپل پر پڑی جس سے تھوڑی دیر پہلے اُس کی منہ ماری ہوئی تھی وہ بدتمیز اور بد زبان لڑکا تو نہیں البتہ اُس کے ساتھ موجود لڑکی ہاشم کو دیکھ چکی تھی، آرزو کے دیکھتے ہی ہاشم کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی وہ آرذو کو ناگوار نظروں سے دیکھتا ہوا اپنا رخ دوسری طرف پھیر چکا تھا

"تبریز تم تو غصّے میں بالکل ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہو"

تبریز جب آرزو کو ریسٹورنٹ میں لایا آرزو کی نظریں اُس شخص پر پڑی جس سے تھوڑی دیر پہلے تبریز کا جھگڑا ہوا تھا کیونکہ تبریز کی پشت اُس شخص کی طرف تھی، ممکن تھا کہ تبریز اُس شخص کو دیکھ نہیں پایا ہو، وہ شخص اپنے چہرے پر ناگواری کے تاثرات لاۓ چہرے کا رخ موڑ چکا تھا تب آرذو تبریز سے بولی مگر تبریز کی توجہ آرزو پر نہیں ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوتے صدیقی پر تھی جو اس کی جانب آ رہا تھا

"میں تم سے کیا بات کررہی ہوں اور تم وہاں کیا دیکھ رہے ہو" 

آرذو نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا خوف کے مارے نہ صرف اس کی آنکھیں پھیل گئیں بلکہ صدیقی کو دیکھ کر اُس کی روح فنا ہونے لگی

"اَبُو"

آرزو بےآواز بولتی ہوئی کرسی سے اٹھی مگر صدیقی اُس کی جانب نہیں بڑھ رہا تھا اس نے تبریز کے پاس آکر زور دار طماچہ تبریز کے گال پر رسید کیا جس پر ایک سیکنڈ کے لیے  نہ صرف تبریز بالکل سن ہوگیا بلکہ ہاشم بھی باہر سے آنے والے شخص کی حرکت نوٹ کرچکا تھا 

"ابو مجھے معاف کردیں" 

صدیقی کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر آرزو ڈر کے مارے بولی۔۔۔ صدیقی بناء کچھ بولے آنکھوں میں ڈھیر سارا غصہ لیے آرزو کو اپنے ساتھ وہاں سے لے جانے لگا

ہاشم دور سے ہی سارا ماجرا دیکھ رہا تھا ساری بات اس کی سمجھ میں آچکی تھی ناگواری سے سر جھٹک کر اپنا آرڈر کیا ہوا لنچ کرنے لگا

***"""***

"ٹھہرو ہاشم مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے"

کمرے سے باہر جاتے ہاشم کو دیکھ کر ماہ نور اس سے بولی۔۔۔ حسن والے قصّے کے بعد سے نہ صرف ایوب خان اور گلنار نے بلکہ ہاشم نے بھی اُس سے باتوں کا سلسلہ ترک کردیا تھا

"میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ذرا جلدی بولو جو بھی بولنا ہے"

ہاشم ماہ نور کی آواز سن کر رکا تھا وہ کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی میں ٹائم دیکھ کر ماہ نور سے بولا

"ہاشم تمہیں معلوم ہے آج کل گھر میں کیا چل رہا ہے دا جی اور آنی تمہارے لئے لڑکی دیکھ رہے ہیں تاکہ اس سے تمہاری دوسری شادی کروا سکے"

ماہ نور بغیر وقت ضائع کیے ہاشم سے بولی بےشک وہ اس سے ناراض تھا مگر ماہ نور جانتی تھی ہاشم اُس سے محبت کرتا ہے لازمی گھر میں ہونے والی سرگرمیوں سے ناواقف ہے۔۔۔ ماہ نور کو پورا یقین تھا یہ سب سننے کے بعد وہ ضرور اپنے دا جی اور ماں جی سے بات کرے گا

"ماہ نور جو جو تم نے چاہا وہ تم کرچکی ہو، اب باری دا جی اور ماں جی کی ہے۔۔۔ میں نے بہت کوشش کی تھی گھر کے حالات تمہارے مخالف نہ جائیں لیکن میرے اکیلے کے کوشش کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اِس معاملے میں تم نے میرا ساتھ ہی نہیں دیا۔۔۔ سچ پوچھو تو میں بہت پریشان ہوچکا ہوں ایک طرف تمہارے رویے سے دوسری طرف تم کو سمجھاتے ہوئے مگر اب اِن باتوں کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔۔۔ اِس لئے میں دا جی اور ماں جی کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہوں"

ہاشم تھکے ہوئے مگر سنجیدہ لہجے میں ماہ نور سے بولا تو اُس کی بات پر ماہ نور گنگ ہوکر ہاشم کو دیکھنے لگی۔۔۔ یعنی وہ ان سب باتوں سے باخبر تھا یہ الگ بات تھی کہ ایوب خان کے آگے اس نے تھوڑا سا احتجاج بھی کرنا چاہا مگر ایوب خان کے ساتھ گلنار نے بھی اس کو کافی زیادہ سنائی

"یعنی ہاشم تم۔۔۔۔ تم دوسری شادی کروگے اپنے دا جی اور آنی کے مجبور کرنے پر" 

ماہ نور لہجے یقینی سمائے ہاشم سے پوچھنے لگی اسے تو لگتا تھا وہ چاہے کتنی بھی غلطیاں کرلے ہاشم اُس کو اُس کی ہر غلطی پر اُس کو معاف کردے گا۔۔۔ یہی سوچ رکھتے رکھتے اُس نے ہاشم پر توجہ اور وقت دینا بھی کم کردیا تھا

"ماہ نور میں نے تم سے اپنی خوشی سے شادی کی تھی، ماں جی کو مناکر۔۔۔ ہمیشہ میں نے ہی تمہارے اور اپنے رشتے کو جوڑے رکھنا چاہا مگر ماہ نور کبھی تم اکیلے میں غور کرنا شادی کے اِن چھ سالوں میں تم نے کیا کیا۔۔۔ تم نے کبھی بھی کسی موقع پر میرا ساتھ نہیں دیا مجھے ہمیشہ میری فیملی کے سامنے شرمندہ کیا اور ہر بار یہی احساس دلایا کہ میرا انتخاب بالکل غلط ہے میں نے بہت ممکن کوشش کی تھی کہ میرے اور تمہارے رشتے میں کوئی تیسرا شخص نہ آئے لیکن یہ کوشش صرف میں نے ہی اکیلے کی تم نے کبھی بھی میرا ساتھ نہیں دیا۔۔۔ تم سے اپنی شادی کرکے میں اپنی مرضی کرچکا ہوں اِس لیے اب داجی اور ماں جی کی باری ہے"

ہاشم ماہ نور سے بولتا ہوا ماہ نور کو صدمے کی کیفیت میں چھوڑ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔ 

ہاشم چاہتا تھا کہ جب وہ واپس گھر لوٹے تو ماہ نور کو اپنے کیے کا احساس ہو، وہ معافی تلافی کرکے اپنا رشتہ بچانے کی خاطر ایک بار کوشش کرے مگر ماہ نور پر صدمے کی یہ کیفیت زیادہ دیر تک اس لیے نہیں رہی تھی کیونکہ اس کو اپنی کزن کی طرف بہت ضروری جانا۔۔۔ وہ ساری سوچوں کو جھٹک کر ہاشم سمیت اپنے سسرال پر لعنت بھیجتی ہوئی جانے کی تیاری کرنے لگی

***""""***

"آرذو ہیر تمہارے لیے کھانا لےکر آئی ہے اٹھو کھانا کھالو"

امامہ کمرے میں آتی ہوئی بیڈ پر لیٹی آرذو سے بولی کل پڑنے والی مار کی وجہ سے کوشش کے باوجود آرذو سے اٹھ کر بیٹھا نہیں گیا تھا۔۔۔ امامہ نے بیڈ کے قریب آکر آرزو کو بٹھانا چاہا تو وہ بیٹھ کر امامہ کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔ کل نہ صرف گھر آنے کے بعد صدیقی نے آرذو کو برے طریقے سے مارا تھا بلکہ آرذو کا کارنامہ سن کر صدیقی کے ساتھ شہناس نے بھی آرذو کا حشر بگاڑ دیا تھا 

کل امامہ اور ہیر اپنے ماں باپ کو خاص طور پر صدیقی کو اِس روپ میں دیکھ کر خوفزدہ ہوچکی تھیں ایسا پہلی بار ہوا تھا جب صدیقی نے اپنی کسی اولاد پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔ کل سے ہی صدیقی اور شہناس آرزو کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے

آرزو کا کھانا امامہ یا ہیر میں سے کوئی آرذو کی کمرے میں دے کر جارہی تھی کیونکہ اب صدیقی یا شہناس میں سے کوئی بھی آرزو کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے

"رونا بند کرو آرذو کھانا کھالو"

امامہ آرذو کو خود سے الگ کرتی ہوئی بولی بےشک غلطی آرزو سے ہوئی تھی مگر امامہ اور ہیر دونوں ہی اُس سے اپنا رویہ سخت نہیں کرسکی تھی۔۔۔ ہیر  کھانے کی ٹرے لےکر کمرے میں آئی اور آرذو کے پاس بیٹھ گئی

"آپی وہ برا نہیں ہے مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میں بھی"

آرزو روتی ہوئی ہیر کی موجودگی میں امامہ سے بولی تو امامہ سختی سے آرذو کو چپ کرواتی ہوئی بولی

"اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود تم ابھی تک وہی کی وہی اٹکی ہو، آرذو تمہیں خدا کا واسطہ ہے اب تم اُس لڑکے کا نام تک اپنی زبان سے نہیں لوگی اور نہ ہی اُس کے بارے میں کچھ سوچو گی"

امامہ سنجیدہ اور تھوڑا سخت لہجے میں آرذو بولی تو ہیر ایک دم امامہ سے بول اٹھی

"آپی اِس میں برا کیا ہے اگر آرزو اور تبریز ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔۔ امی زبیدہ آنٹی سے آرذو کے رشتے کے بارے میں بات کررہی تھی کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اِس کا کہیں اور رشتہ کرنے کی بجاۓ امی ابو تبریز کے لیے کوشش کرلیں"

ہیر کے بولنے پر آرزو رشتے کی بات سن کر چونکی۔۔۔ وہی امامہ اب ہیر کو دیکھ کر ٹوکتی ہوئی بولی

"تم چھوٹی ہو تم سے کسی نے مشورہ نہیں مانگا کہ کیا کرنا ہے اِس لئے اِس کے سامنے الٹی سیدھی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ یہ کوئی رومینٹک محبت بھری فلم یا کہانیوں کا حصہ نہیں بلکہ اصل حقیقتی زندگی ہے اور حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا" 

امامہ غصہ کرتی ہوئی ہیر سے بولی وہ نہیں چاہتی تھی ہیر کی ایسی باتیں سن کر آرذو کچھ بھی الٹا سیدھا سوچے کیونکہ صدیقی اور شہناس ایسا ہرگز نہیں ہونے دیتے

"اَمی اگر میرے لئے رشتہ ڈھونڈ رہی ہے تو اُن سے کہہ دیجئے کہ میں کسی دوسرے سے شادی ہرگز نہیں کروں گی اِس سے بہتر یہی ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے جان لے لو"

آرزو رشتے والی بات سن کر امامہ اور ہیر کو دیکھتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی

***"""***

"کیا سوچ رہے ہیں"

صدیقی کمرے میں اکیلا بیٹھا گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا شہناس اُس کے پاس آکر برابر میں بیٹھتی ہوئی صدیقی سے پوچھنے لگی وہ اپنی سوچوں سے باہر نکل کر لمبا سانس خارج کرتا ہوا بولا

"اپنی بیٹیوں کی تربیت میں، میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ دنیا کی بری نظروں سے بچاکر اپنی بچیوں کی پرورش کی تھی لیکن اِس کے باوجود۔۔۔۔ معلوم نہیں میرے کون سے اعمال کی سزا ہے"

صدیقی افسوس بھرے لہجے میں بولا اس کے آخری جملے پر شہناس نے صدیقی کو دیکھا تو صدیقی اُس سے نظریں چرا گیا تھوڑی دیر خاموشی کے بعد شہناس بولی

"چند دنوں پہلے زبیدہ آئی تھی تو ایک رشتے کا ذکر کررہی تھی لڑکے کا نام شیر عباس ہے عمر 28 سال ہے گلگت میں رہائش پذیر ہے وہاں پر اس کا اپنا ہوٹل ہے اچھا کھاتا کماتا ہے اس کی دو شادی شدہ بہنیں یہی کراچی میں رہتی ہیں، چاہتی ہیں کہ ان کے بھائی کی شادی اچھی شکل و صورت اور تعلیم یافتہ لڑکی سے ہوجائے میں نے زبیدہ سے بول دیا ہے آرذو کے لیے۔۔۔ شیر عباس کی بہنوں ایک دو دن میں ہماری طرف آئیں گیں میرے خیال میں اب ہمیں آرزو کی شادی میں دیر نہیں کرنی چاہیے آپ کیا بولتے ہیں"

شہناس زبیدہ کی دی ہوئی ساری معلومات صدیقی کو بتاتی ہوئی اُس سے اُس کی راۓ پوچھنے لگی 

"ہاں اگر یہ رشتہ ہر لحاظ سے مناسب ہے تو میرے خیال میں جلد سے جلد ہمہیں آرذو کی شادی کردینی چاہیے جو حرکت وہ کرچکی ہے اُس کے بعد دل نہیں کررہا اب اُس کی شکل دیکھنے کا،، یہی بہتر ہے کہ جلد سے جلد اُس کو رخصت کردیا جائے"

صدیقی ٹھنڈی آہ بھر کر اپنی رائے دیتا ہوا بولا

***""""***

"ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا تبریز یہ سب کچھ غلط ہوگیا بلکہ بہت زیادہ غلط ہوگیا"

موقع ملتے ہی آرذو نے ہیر کے موبائل سے تبریز سے رابطہ کیا کیونکہ اس کا اپنا موبائل صدیقی نے لینے کے بعد اُس کا کالج جانا بھی بند کردیا تھا

"غلط تو واقعی بہت زیادہ ہوگیا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ میں نے امی ابو سے بات کرلی ہے وہ ایک دو دن میں تمہارے گھر میرا پرپوزل لےکر آجائیں گے تم فکر نہیں کرو، سب ٹھیک ہوجائے گا"

تبریز روتی ہوئی آرذو کو تسلی دیتا ہوا بولا اس نے اپنے والدین سے آرذو کے گھر رشتہ لےکر جانے کی بات کرلی تھی اور وہ لوگ مشکل سے سہی مگر راضی ہوگئے تھے مگر صدیقی نے جو طماچہ تبریز کے منہ پر مارا تھا وہ چاہ کر بھی اس طماچے کو بھول نہیں پارہا تھا

"اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا تبریز میں اپنے اَمّی اَبو کو اچھی طرح جانتی ہوں وہ کبھی بھی تمہارا بھیجا ہوا رشتہ قبول نہیں کریں گے، بلکہ انہوں نے میرے لیے رشتہ دیکھنے شروع کردیے ہیں کچھ لوگ مجھے کل دیکھنے کے لئے آرہے ہیں"

آرذو مایوس لہجے میں تبریز کو بتانے لگی

"اگر وہ تمہیں پسند کرکے جائے تو تم ان لوگوں کے سامنے رشتے سے انکار کردینا، صاف بول دینا کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں۔۔۔۔ آرذو تمہیں یہ سب کرنا ہوگا اور اِن سب کے کرنے کے لیے تمہیں اپنی دونوں بہنوں کو اعتماد میں لینا ہوگا کیوکہ میں تمہیں کسی اور کا ہوتا ہوا ہرگز نہیں دیکھ سکتا"

تبریز اپنی بےبسی ظاہر کرتا ہوا موبائل پر آرذو سے بولا جبکہ وہ خود ہی جانتا تھا ایسا سب کچھ ناممکن سا ہے

"میں کچھ بھی نہیں کرسکتی تبریز۔۔۔ آپی اور ہیر کبھی بھی اِس معاملے میں میرا ساتھ نہیں دیں گیں کیونکہ وہ اَمی ابُو کو جانتی ہیں تم نہیں جانتے میرے اَمّی ابُو کو وہ کبھی بھی نہیں مانیں گے۔۔۔ اب کچھ بھی اچھا نہیں ہوگا"

آرذو اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی تبریز سے بولی تو آرزو کی بات سن کر تبریز کو غصہ آنے لگا

"آرذو میری بات یاد رکھنا اگر تمہارا رشتہ کہیں دوسری جگہ تہہ پاگیا تو واقعی پھر کچھ بھی اچھا نہیں ہوگا میں خود کو ختم کرلوں گا"

تبریز غصے اور بےبسی میں بول کر کال بند کرچکا تھا جبکہ دروازے پر کھڑی شہناس کو دیکھ کر آرذو کو سانپ سونگھ گیا

"اتنی بےعزتی سہنے کے باوجود اتنی مار کھانے کے باوجود تم نے اپنی روش نہیں بدلی تمہاری ہمت کیسے ہوئی اُس بےغیرت جہنمی لڑکے سے دوبارہ بات کرنے کی"

شہناس غصّے میں کمرے کے اندر آتی آرذو کی حرکت پر اس سے بولی اس سے پہلے شہناس کا ہاتھ اٹھتا بروقت کمرے میں ہیر بھی آگئی

"امی خدا کا واسطہ ہے آپ کو اب بس کریں، کیا جان سے مار ڈالیں گے آپ اور ابو اسے"

ہیر کمرے میں آتی شہناس سے بولی تو شہناس کو ہیر پر بھی غصہ آنے لگا

"میں سچ میں اِس بدبخت کی جان لےلوں گی اگر اِس نے اُس لڑکے سے دوبارہ رابطہ رکھا اور یہ تمہارے موبائل سے اُس لڑکے سے بات کررہی تھی مطلب تم بھی اِس گندے کھیل میں اِس کا ساتھ دے رہی ہو، میں اِس کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی جان سے مار ڈالوں گی ہیر سنا تم نے، دو یہ موبائل مجھے اب کل سے تم بھی کالج نہیں جاؤ گی"

شہناس ہیر پر غصہ کرتی ہوئی آرزو کے ہاتھ سے ہیر کا موبائل چھین کر کمرے سے باہر نکل گئی

***"""***

غذر کا موسم زیادہ تر سرد رہتا تھا لیکن راتیں یک بستہ ہوجاتی تھی، ہر چوتھے پانچویں دن یہاں بارش کا سلسلہ جاری رہتا تیز ہواؤں کا طوفان جب پہاڑوں سے ٹکراتا تو موسم کو اور بھی سرد کردیتا مگر آج صبح نکلی ہوئی دھوپ نے ہر منظر کو نکھار کر سر سبز و شاداب کردیا تھا

شیر عباس تھوڑی دیر پہلے جاگ کرنے کے بعد لباس تبدیل کرتا ہوا ناشتے کے لیے ڈائننگ ہال میں بیٹھا ہوا تھا ملازم تمام لوازمات ٹیبل پر چن کر جاچکا تھا تب فرغب بی کرسی کسکاکر بیٹھتی ہوئی عباس سے مخاطب ہوئیں

"کل زبیدہ کی کال آئی تھی وہ لوگ اپنے دوسرے نمبر کی بیٹی کے رشتے کی حامی بھر چکے ہیں۔۔۔ تم سے اور تمہاری بہنوں سے ملنا چاہتے ہیں"

فرغب بی عباس کو آگاہ کرتی ہوئی کیتلی میں سے عباس کے لئے چائے نکالنے لگیں فرغب بی کی دی جانے والی خبر پر عباس نے صرف ایک نظر فرغب بی کو دیکھا فرغب بی دوبارہ بولیں

"میں نے سارا معاملہ ریشماں اور مومنہ کو سمجھا دیا ہے وہ دونوں اچھے طریقے سے رشتے کی بات کرلیں گے"

فرغب بی چائے کا کپ عباس کو پکڑاتی ہوئی اسے بتانے لگیں

"اگر کہیں کچھ گڑبڑ ہوگئی یا پھر ریشماں اور مومنہ سے بات نہ سنبھل پائی تو،،، میرے خیال میں وہاں آپ کو خود بھی جانا چاہیے"

عباس معاملے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہوا فرغب بی سے بولا کیوکہ وہ اِس معاملے میں کسی قسم کا رسک نہیں چاہتا تھا

"میرے وہاں جانے سے بات زیادہ بگڑنے کے امکانات ہیں آپ اس کی فکر مت کریں ریشماں اور مومنہ اچھے طریقے سے سارا کام انجام دیں گیں۔۔۔۔ آرزو نام ہے صدیقی اور شہناس کی دوسری بیٹی کا۔۔۔ آپ کہتے ہیں تو میں زبیدہ سے بول کر اُس کی تصویر منگالو"

فرغب بی ناشتہ کرتے ہوئے عباس سے بولیں ان کا خیال تھا کہ شاید وہ آرزو کو دیکھنا چاہ رہا ہو، جس سے اُس کا رشتہ طے ہونے جارہا تھا

"تصویر رہنے دیں آرزو کو دیکھنے کی کوئی خاص آرزو نہیں ہے مجھے،، جب وہ یہاں آئے گی تب دیکھ لوں گا اسے" 

عباس ناشتہ کرنے کے ساتھ بےدلی سے فرغب بی سے گویا ہوا تھا اسے آرزو کو دیکھنے سے زیادہ دلچسپی آرزو کے ہیر پیلس آنے میں تھی۔۔۔ وہ سارا لالحہ عمل تیار کرنے لگا جب صدیقی اور شہناس کی بیٹی ہیر پیلس آجاتی

"اور اس پینٹنگ کا کیا کرنا ہے جو آپ کے کمرے میں موجود ہے"

فرغب بی کی بات پر عباس نے بےاختیار انہیں دیکھا ذہن کے پنوں پر اچانک سے اُس خوبصورت حسین اور معصوم لڑکی کا چہرہ بیدار ہوا، جس سے چند دنوں پہلے یونہی سرسری سی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔۔۔ ہیر کا چہرہ یاد کرکے عباس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی مگر دوسرے ہی پل وہ اپنے دل کو مضبوط اور چہرے کو بےتاثر کرتا ہوا بولا

"اس پینٹنگ کو احتیاط سے اسٹور روم میں رکھوا دیں وہ غیر ضروری ہے کب سے سوچ رہا تھا آپ سے بولوں مگر یاد نہیں رہتا تھا"

عباس فرغب بی سے بولتا ہوا ناشتہ کرنے لگا جبکہ فرغب بی طنزیہ مسکرائی تھی 

انہوں نے عباس کو بچپن سے اپنے سامنے بڑا ہوتے دیکھا تھا اِس وقت عباس بےشک اپنے چہرے کے تاثرات سے کچھ عیاں نہیں ہونے دے رہا تھا مگر اس کی آنکھیں الگ ہی انکشاف بیان کررہی تھیں۔۔۔ اِس وقت اُس کے دل میں کیا تھا فرغب بی اچھی طرح اندازہ لگا سکتی تھیں۔۔۔ اگر اس لڑکی کی پینٹنگ اتنی غیر ضروری ہوتی تو عباس اس پینٹنگ کو اتنے دنوں تک اپنے کمرے کی زینت بناکر کبھی بھی نہ رکھتا، وہ اس پینٹنگ کو غیر ضروری چیز بولتا ہوا احتیاط سے رکھنے کی ہدایت دے رہا تھا فرغب بی سر جھٹک کر کرسی سے اٹھ کر اب ناشتہ کے چند لوازمات ٹرے میں چنتی ہوئی بیسمینٹ میں جانے کی تیاری کررہی تھی۔۔۔ شام میں انہیں ریشماں اور مومنہ کو اچھی طرح سمجھنا تھا کہ ان دونوں کو صدیقی اور شہناس کے سامنے کیا کیا باتیں بولنی ہیں

***""""**

"زبیدہ یہ لڑکی کون ہے بہت پیاری لگ رہی ہے تصویر میں کیسی فیملی ہے اِس کی"

بہت ساری تصویریں دیکھنے کے بعد گلنار زبیدہ کی طرف ایک تصویر بڑھاتی ہوئی زبیدہ سے اُس لڑکی کے متعلق پوچھنے لگی

"ارے یہ تو آرزو کی تصویر ہے یہ ان تصویروں میں کیا کررہی ہے۔۔ اُس کی چند دنوں پہلے ہی بات پکی ہوگئی ہے خیر سے۔۔۔ اگلے مہینے کی شروع تاریخ میں اِس کی شادی ہورہی ہے۔۔۔ تصویر میں تو یہ بہت عام سی نظر آرہی ہے اصل میں اگر آپ اس کو سامنے دیکھتی تو تب آپ کو اندازہ ہوتا ہے اِس بچی کی خوبصورتی کا"

زبیدہ آرزو کی تصویر کو باقی لڑکیوں کی تصویروں سے الگ کرتی ہوئی گلنار کو بتانے لگی۔ گلنار اپنے شادی شدہ بیٹے کی دوسری شادی کرنا چاہ رہی تھی اسی سلسلے میں اُس نے زبیدہ کو طلب کیا تھا

"میرے ہاشم کے ساتھ اُس لڑکی کی جوڑی کافی ججتی کاش یہ میرے بیٹے کی قسمت میں لکھی جاتی تو کتنا اچھا ہوتا"

بناء دیکھے ہی گلنار کا آرذو کی تصویر کو دیکھ کر اُس پر دل آگیا تھا مگر آرزو کے بارے میں جان کر گلنار کو مایوسی ہوئی وہ حسرت بھرے لہجے میں زبیدہ سے بولی

"ارے یہ کوئی ایک ہی خوبصورت لڑکی تھوڑی ہے باقی تصویریں بھی دیکھیں، بہت اچھی اور خوبصورت لڑکیاں ہیں میرے پاس آپ کے بیٹے کے رشتے کے لائق"

زبیدہ تصویریں چھان چھان کر گلنار کو دکھانے لگی جس کو گلنار بناء دلچپی لیے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ اپنی دوسری بہو اپنے پسند کے مطابق چاہتی تھی

"اے بڑھیا یہ تصویریں اٹھاؤ اور یہاں سے نو دو گیارہ ہوجاؤ۔۔۔ قبر میں تمہارے پاؤں لٹک رہے ہیں اللہ اللہ کرنے کی بجائے گھر گھر ناچتی پھر رہی ہو خبردار جو تم نے اِس گھر میں آئندہ قدم رکھا۔۔۔ اٹھاؤ ان مسٹنڈی لڑکیوں کی تصویریں اور نکلو یہاں سے"

ماہ نور ہال میں آتی ہوئی بدتمیزی سے زبیدہ کو بولی تو زبیدہ ایک دم صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی

"یہ کیا بدتمیزی ہے ماہ نور، تمیز نام کی کوئی چیز نہیں ہے تمہارے اندر کسی گھر آئے انسان سے ایسے بات کی جاتی ہے"

گلنار ماہ نور کو دیکھ کر غصہ کرتی ہوئی اس سے بولی

"جیسا آپ چاہ رہی ہیں ناں آنی میں ویسا ہونے نہیں دوں گی یاد رکھیے گا آپ بھی اور دا جی بھی، مجھ سے ہاشم کو کوئی بھی اتنی آسانی سے نہیں چھین سکتا"

ماہ نور گلنار سے بولتی ہوئی سخت اور کاٹ دار نگاہ سے زبیدہ کو گھورتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

"برا مت ماننا زبیدہ اس کی بدزبانی کا اب تو تم جان ہی گئی ہوگی میں اپنے اکلوتے بیٹے کی دوسری شادی کروانے کی کوشش کیوں کررہی ہو" 

گلنار ماہ نور کے رویے پر شرمندہ ہوتی ہوئی زبیدہ سے بولی جو بیگ میں لڑکیوں کی تصویریں ڈال رہی تھی

"مجھے ہمدردی ہے آپ کے ساتھ، اوپر والے نے چاہا تو دوسری بہو آپ کو شکل و صورت کی ہی نہیں عادت و اطوار اور اخلاق کی بھی اچھی ملے گی۔۔۔ بہت جلد دوبارہ آؤں گی آپ کے پاس"

زبیدہ دل ہی دل میں ماہ نور پر لعنت ڈال کر خوش مزاجی گلنار سے بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

***""""***

جس دن شیر عباس کی بہنیں آرذو کو دیکھنے آئی تھی وہ نہ صرف آرذو کو دیکھنے کے بعد پسند کرکے چلی گئی تھیں بلکہ شادی کے لیے ان دونوں نے اگلے ماہ کی چار تاریخ بھی مقرر کردی تھی۔۔۔ صدیقی اور شہناس بےشک جلد سے جلد آرزو کے فرض سے سبکدوش ہونے کا ارادہ کیے بیٹھے تھے لیکن اس سے زیادہ جلدی شیر عباس کی بہنوں نے مچادی تھی یوں سرسوں کو ہتھیلی پر جمتا دیکھ کر شہناس تھوڑا بوکھلا ضرور گئی تھی مگر اچھے خاصے رشتے کو ہاتھ سے جانے بھی نہیں دینا چاہتی تھی، شیر عباس سے شہناس اور صدیقی کی ایک چھوٹی سے ملاقات شیر عباس کی بہن ریشماں کے گھر پر ہوئی تھی اُس کی شخصیت دیکھ کر اور اسٹیٹس کے بارے میں جان کر وہ دونوں ہی آرزو کی قسمت پر رشک کررہے تھے 

آج پورے ایک ماہ تین دن بعد آرذو کا مایوں تھا صدیقی کے گھر میں شیر عباس کی بہنوں کے علاوہ محلے کی چند خواتین بھی موجود تھیں، امامہ نے آفس سے دو سے تین دن کی چھٹی لی ہوئی تھی اور چھوٹی موٹی ذمہ داریوں کے ساتھ سارے کچن کو اُسی نے سنبھالا ہوا تھا

"شیر عباس کے آنے کے ساتھ ہی مایوں کی رسم شروع کردی جائے گی یہ سارے کام چھوڑو، جاکر دیکھو آرزو تیار ہوگئی تو اسے یہاں لے کر آؤ اور سنو اچھا بڑا سا گھونگھٹ نکال کر چہرہ چھپا دینا آرزو کو یہاں لانے سے پہلے"

شہناس ہیر کے پاس آکر عجلت بھرے انداز میں ہیر سے بولی۔۔۔ وہ مہندی رنگ کی کلیوں کی فراک میں خود بھی کوئی نازک سی کلی لگ رہی تھی، شہناس کی بات مانتی ہوئی وہ آرذو کے پاس کمرے میں جانے لگی 

آج صبح سے ہی اُس کی طبیعت موسمی بخار کی وجہ سے ناساز تھی لیکن اس کے باوجود اسے آج آرزؤ کے ہونے والے شوہر کو دیکھنے کی الگ ہی ایکسائٹمنٹ تھی کیوکہ آرزو کے ساتھ اس نے اور امامہ نے بھی ابھی تک شیر عباس کو نہیں دیکھا تھا

"آرزو کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو خدا کا واسطہ ہے کچھ بولو بھی"

ہیر کمرے میں آکر آرزو کو بری طرح روتا ہوا دیکھ کر پریشانی کے عالم میں اُس سے پوچھنے لگی

"تبریز نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے گھر والے اُسے ہسپتال لے گئے ہیں اِس وقت کی حالت تشویشناک ہے اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مر جائے گا میرے بغیر، ہیر اگر تبریز کو کچھ ہوا تو دیکھ لینا میں بھی مر جاؤں گی پھر"

آرذو مایوں کے پیلے رنگ کے لباس میں بےتحاشہ روتی ہوئی بولی

"اللہ نہ کرے تمہیں کچھ ہو، آج کے دن ایسی باتیں کیوں کررہی ہو۔۔۔ تبریز کو بھی کچھ نہیں ہوگا تم پریشان مت ہو۔۔۔ دیکھو عباس بھائی کی بہنیں آچکی ہیں وہ خود بھی بس پہنچنے ہی والے ہیں پلیز اپنے آنسو صاف کرلو امی تمہیں باہر رسم کے لئے بلا رہی ہیں"

ہیر کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ تھوڑی دیر پہلے نغمہ آرذو کے کمرے میں اس سے ملنے آئی تھی تبریز سے متعلق لازمی نغمہ نے ہی آرزو کو کچھ بتایا ہوگا کیوکہ نغمہ دو گلی چھوڑ کر ہی رہتی تھی، بےشک یہ ساری صورت حال پریشان کُن تھی لیکن ہیر بھی کیا کرسکتی تھی

"میں جب تک تبریز کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لوں گی تب تک چین نہیں آئے گا مجھے، پلیز میری خاطر مجھے پیچھے کے راستے سے تھوڑی دیر پہلے اسپتال تبریز کے پاس جانے دو، میں جلدی گھر لوٹ کر واپس آجاؤ گی پلیز انکار مت کرنا ہیر"

آرزو کی بات سن کر ہیر شاکڈ میں آگئی، تھوڑی دیر کے لئے اُس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا

"تم ہوش میں تو ہو آرزو، یہ تم کیا بول رہی ہو تم جانتی ہوں آج تمہارا مایوں ہے کل تمہاری شادی۔۔۔ اور تم تبریز کے پاس جانے کی بات کررہی ہو" 

ہیر کو شبہ ہونے لگا جیسے آرزو کا دماغ کام نہیں کررہا تھا تبھی ہیر اس کو سمجھاتی ہوئی بول

"تم نہیں جانتی میں اس وقت کس قرب سے کس اذیت سے گزر رہی ہوں، ہیر تم میری بہن ہو میری تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں وعدہ کرتی ہوں جلد سے جلد واپس آجاؤ گی پلیز میری مدد کرو تھوڑی دیر کی بات ہے"

آرذو نے بولتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ہیر کے سامنے جوڑ کر رونا شروع کردیا ہیر عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوکر آرزو کو دیکھنے لگی

***""""***

"ہیر تم بھی حد کرتی ہو قسم سے میں نے تم سے ایک گھنٹے پہلے آرذو کو ڈائننگ روم میں لانے کے لئے بولا تھا اور تم خود بھی یہاں آکر آرام سے بیٹھ گئی ہو 20 منٹ پہلے ہی شیر عباس آچکا ہے۔۔۔ اور یہ آرزو کہاں پر ہے نظر نہیں آرہی"

ایک گھنٹہ گزر چکا تھا آرزو کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا ہیر کمرے میں پریشان بیٹھی رو رہی تھی تبھی شہناس کمرے میں آکر چاروں طرف نظریں دوڑا کر ہیر سے آرذو کا پوچھنے لگی

"آرزو واش روم میں ہے امی میں اُس کو تیار کرکے ابھی باہر لے کر آتی ہوں" 

اس سے پہلے ہیر کچھ بولتی امامہ کمرے میں آتی ہوئی شہناس بولی ہیر اپنے آنسو صاف کرکے امامہ کو دیکھنے لگی

"ٹھیک ہے اُسے جلدی سے لےکر آؤ اور تم کو کیا ہوگیا ہے ایسے کیوں رو رہی ہو" 

شہناس امامہ سے بولنے کے ساتھ ہیر کی طرف متوجہ ہوکر اُس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر سوال کرنے لگی، اب کی بار بھی امامہ ہی شہناس بولی

"صبح سے دیکھ تو رہی ہیں آپ کتنا تیز بخار ہے اِسے ابھی ٹیبلٹ دی ہے تھوڑی دیر آرام کریں گی تو ٹھیک ہوجائے گی"

امامہ جلدی سے بولی تو شہناس اثبات میں سر ہلاکر کمرے سے چلی گئی 

"اب کیا ہوگا آپی"

ہیر نے امامہ سے پوچھتے ہوۓ دوبارہ رونا شروع کردیا تھوڑی دیر پہلے وہ ساری صورتحال امامہ کو بتاچکی تھی جس پر امامہ کا دل چاہا وہ ہیر کو خوب سارے جوتے لگائے 

"رونے کا وقت نہیں ہے جاؤ، آرذو کا مایوں والا ڈریس پہن کر جلدی سے باہر آؤ"

امامہ ہیر سے بولی تو ہیر ناسمجھی کے عالم میں آرزو کو دیکھنے لگی 

"مگر آپی۔۔۔" 

ہیر پریشان ہوکر امامہ سے بولی تو امامہ نے اُس کی بات کاٹ دی

"اگر مگر مت کرو میرے سامنے،، جو میں بول رہی ہو ویسے ہی کرو" 

امامہ اب کی بار سخت لہجے میں بولی تو ہیر آرذو کا اتارا ہوا مایوں کا جوڑا لےکر واش روم چلی گئی

***""""***

"ایکسیوزمی ذرا مجھے بتائیے گا تبریز جعفری نام کا پیشنٹ کس روم میں ہے" 

آرذو چادر میں منہ ڈھانپے گھبراتی ہوئی ریسیپشن پر موجود لڑکے سے پوچھنے لگی۔۔۔ اس لڑکے نے غور سے آرزو کو دیکھتے ہوئے روم کا نمبر بتایا تو آرذو تیز قدم اٹھاتی ہوئی اسپتال کے روم کی طرف جانے لگی

"ایسا نہیں ہے پیار تو مجھے آرزو سے ابھی بھی ہے لیکن اس کے بڈھے باپ نے جو طماچہ میرے گال پر مارا تھا اس کا بدلہ اگر آج کے دن نہیں لےسکا تو پھر کبھی بھی نہیں لے سکوں گا، مجھے پوری امید ہے جیسے ہی آرزو کو میرے بارے میں علم ہوگا کہ میں اسپتال میں زندگی اور موت کے بیچ جنگ لڑ رہا ہوں وہ میری خاطر یہاں دوڑی چلی آئے گی۔۔۔۔ شادی سے ایک دن پہلے بھاگی ہوئی لڑکی کے باپ کی کتنی بدنامی ہوتی ہے اچھا ہے وہ بڈھا صدمے سے ہی مر جائے تو میری زندگی کا سب سے بڑا کانٹا نکل جائے گا"

تبریز ہسپتال کے کمرے میں موجود موبائل پر اور بھی کچھ کہہ رہا تھا، تبریز کی باتیں سن کر آرذو کا دماغ بری طرح ہل چکا تھا 

وہ الٹے قدموں خاموشی سے اسپتال سے باہر نکل گئی اسے جلد سے جلد واپس اپنے گھر پہنچنا تھا تبریز کی بات یاد کرکے وہ روتی ہوئی سڑک پر چلی جارہی تھی، اپنے آس پاس کا ہوش اسے تبریز کی باتیں یاد کرکے جاتا رہا شاید کوئی گاڑی سامنے سے آرہی تھی وہ ڈرائیونگ کرتا شخص ہارن بھی دیئے جارہا تھا آرزو سن ہوتے دماغ سے گاڑی کو دیکھنے لگی اِس سے پہلے وہ اپنے حواس میں لوٹ کر سائیڈ پر ہوجاتی اچانک بےہوش ہوکر سڑک پر گر پڑی

ہاشم جو سامنے سے آتی لڑکی کو ڈرائیونگ کے دوران ہارن پر ہارن دے کر اسے الرٹ کررہا تھا اچانک وہ لڑکی اُس کی گاڑی کے قریب آکر بےہوش ہوچکی تھی چار و ناچار ہاشم کو گاڑی سے اتر کر اُس لڑکی کو دیکھنا پڑا۔۔۔ ہاشم آرزو کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا ناگوار تاثرات چہرے پر لائے وہ آرزو کو ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا

***""""***

آج اُس کا صدیقی کی بیٹی آرزو نامی لڑکی کے ساتھ مایوں تھا اس کے آنے پر صدیقی اور شہناس نے کافی اچھے طریقے سے اُس کا استقبال کیا۔۔۔ سامنے زرد کپڑوں میں ملبوس لڑکی جس کا گھونگھٹ نکال کر چہرہ کو پوری طرح چھپایا گیا تھا عباس نے اُس لڑکی پر سرسری سی نگاہ ہی ڈالی تھی مگر اُس کے ساتھ آتی دوسری لڑکی جو مایوں کی دلہن بنی لڑکی کے ہمراہ چلتی ہوئی اسٹیج پر آرہی تھی عباس اُس لڑکی (امامہ) کو دیکھ کر بری طرح چونکا

"یہ لڑکی کون ہے"

عباس اپنے چہرے کے تاثرات پر فوراً قابو پاتا ہوا آپنے برابر میں بیٹھی مومنہ سے پوچھنے لگا

"یہ آرذو کی بڑی بہن ہے امامہ نام ہے اِس کا"

مومنہ کے بتانے پر وہ سوچو کہ تانے بانے جوڑنے لگا۔۔۔ اگر امامہ آرزو کی بڑی بہن ہے تو وہ لڑکی جو مظہر کی شادی میں امامہ کے ساتھ آئی تھی، کیا اسی کا نام آرذو ہے یا پھر وہ کوئی اور لڑکی ہے۔۔۔ کیوںکہ صدیقی کی تین بیٹیاں ہیں امامہ، آرزو اور تیسری؟؟؟؟

عباس ابھی یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ مایوں کی دلہن کو اُس کے برابر میں لاکر بٹھایا گیا گھونگھٹ کی وجہ سے عباس اُس کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکا مگر سفید اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔۔۔ جیسے اِس وقت وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی بیٹھی ہو۔۔۔ ناجانے کون کون اس کے منہ میں آکر مٹھائیاں ڈال رہا تھا اور دعائیں دے رہا تھا عباس کو عجیب الجھن ہونے لگی مگر جلد ہی عباس کی توجہ اُس کے موبائل پر آنے والی کال نہیں لےلی۔۔ فرغب بی کی اِس وقت کال آنا ضرور کوئی اہم بات تھی عباس وہی بیٹھے بیٹھے کال ریسیو کرچکا تھا

"جی بولیے فرغب بی" 

عباس کی آواز ہیر کی سماعت سے ٹکرائی تو اُس کا دل دھڑک اٹھا

"کیا۔۔۔ کیسے، کب۔۔۔ آپ مجھے اب بتارہی ہیں۔۔۔ بھاڑ میں گئی شادی، میں آرہا ہوں واپس"

ہیر نے بہت قریب سے غُصے بھری آواز سنی اُس کے بعد اُس نے اپنے برابر میں بیٹھے شخص کو صوفے سے اٹھتا ہوا محسوس کیا۔۔۔ پردے کی وجہ سے وہ صرف اتنا ہی منظر دیکھ سکتی تھی کہ سفید کُرتے شلوار میں موجود شخص جس کی پشت ہیر کی جانب تھی وہ اس کے ابو سے بات کرتا ہوا وہاں سے جارہا تھا

***""""***

وہ کہتے ہیں ناں نیکی کبھی کبھی گلے پڑ جاتی ہے آج اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا تھا اپنی گاڑی کے سامنے آئی بےہوش لڑکی کو دیکھ کر ہاشم کو اسے نظر انداز کرکے جانا اچھا نہیں لگا۔۔۔ اُس کے دوست کا اپارٹمنٹ یہاں سے قریب تھا جو اتفاق سے اِس وقت خالی تھا ہاشم آرزو کو اٹھا کر وہی لے گیا جب آرزو ہوش میں نہیں آئی تو ہاشم کو وہی پر ڈاکٹر کو بلانا پڑا جس سے اُس کو معلوم ہوا یہ لڑکی کسی گہرے صدمے کے سبب بےہوش ہوچکی تھی وہ کب ہوش میں آتی یہ ہاشم کو کچھ معلوم نہ تھا

اس لڑکی کے پاس ہاشم کو کوئی موبائل نظر آیا تھا جو ہاشم اس کی فیملی کو کانٹیکٹ کرکے اُس لڑکی کے بارے میں آگاہ کردیتا۔۔۔ ہاشم اُس لڑکی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا اُسے صرف اتنا معلوم تھا کہ یہ لڑکی لڑکوں کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے والی لڑکی تھی جسے اُس دن اِس لڑکی کا باپ اس کے بوائے فرینڈ کو طماچہ مار کے اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لے جارہا تھا،،، اس آدمی کی آنکھوں میں غصہ بےبسی اور صدمہ یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی تھا کہ وہ بےچارہ آدمی اِس لڑکی کا باپ تھا، ہاشم کو اس قسم کی لڑکیاں سخت ناپسند تھی اور نہ ہی اِس بےہوش لڑکی میں اُسے کوئی خاص دلچسپی تھی سوائے اِس کے کہ وہ لڑکی ہوش میں آتی اور ہاشم اسے گھر چھوڑ آتا، صرف اِس لڑکی کے باپ کے بارے میں سوچ کر۔۔۔ ویسے بھی آج صبح ماہ نور سے ہوئی لڑائی کی وجہ سے وہ گھر نہیں جانا چاہتا تھا اس لیے اسی فلیٹ کے دوسرے کمرے میں چلاگیا

***""""***

"آرذو کہاں پر ہے ہیر"

ہیر اِس وقت لباس چینج کرکے کمرے میں آئی۔۔۔ امامہ دونوں ہاتھوں میں سر پکڑے بیٹھی تھی تبھی مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد شہناس کمرے میں آتی ہوئی ہیر سے پوچھنے لگی

"وہ امی۔۔۔ آرزو تھوڑی دیر پہلے تک تو یہی تھی، آپ کو کوئی کام ہے کیا، آپ مجھے بتادیں" 

ہیر اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی شہناس سے پوچھنے لگی

"آرذو کے بجائے تم اس کے کپڑوں میں مایوں کی دلہن بن کر کیوں آئی تھی دیکھو میرے سامنے اِس بات سے انکار مت کرنا کہ وہ تم نہیں تھی اور نہ ہی کوئی بھی جھوٹ بولنا۔۔۔ میں ماں ہوں تم لوگوں کی نو ماہ تک تم سب کو اپنے اندر رکھا ہے خوب پہچانتی ہوں میں تم لوگوں کو مجھے سچ سچ بتاؤ آرزو کہاں ہے"

مایوں کی رسم ادا کرتے وقت ہی شہناس پہچان چکی تھی کہ گھونگھٹ میں چہرہ چھپاۓ آرزو نہیں ہیر تھی مگر اُس وقت جان کر خاموش رہی تاکہ فنکشن عزت اور خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوجائے

"امی آرزو مجھے بول کر گھر سے نکلی تھی کہ وہ جلدی واپس آجائے گی مگر ابھی تک واپس نہیں آئی۔۔۔

شہناس کو بتاتے ہوئے ہیر کو رونا آنے لگا جبکہ ہیر کے منہ سے ایسی بات سن کر شہناس سکتے میں آچکی تھی

"امی۔۔۔۔ امی پلیز پریشان مت ہو، میں معلوم کررہی ہوں آرذو کے بارے میں آپ ہمت سے کام لیں وہ جلد واپس آجائے گی"

امامہ روتی ہوئی ہیر کو نظر انداز کرکے شہناس کے پاس آتی ہوئی بولی مگر سچ تو یہ تھا نغمہ سے اسپتال کا پتہ پوچھنے کے بعد وہ اسپتال کال کرچکی تھی مگر وہاں تبریز نام کا کوئی پیشینٹ نہیں تھا نہ ہی وہاں پر کوئی آرزو کی موجودگی کے بارے میں بتارہا تھا

"وہ گھر سے باہر نکلی کیسے، جانے کیسے دیا تم لوگوں نے اُسے، بتاؤ مجھے اُسے روکا کیوں نہیں تم لوگوں نے"

شہناس نے غُصّے میں بولتے ہوئے ہیر کو تھپڑ مارا اور ہمدردی دکھاتی ہوئی امامہ کو پیچھے دھکیلا

"تم تینوں اولادیں نہیں ہو میں سمجھ رہی ہوں کس گناہ کی سزا ہو تم تینوں، اتنے سالوں سے بنائی ہوئی عزت تم تینوں نے یوں مٹی کردو گی مجھے معلوم تھا۔۔۔ بھاگ جاؤ گی تم دونوں بھی اپنے اپنے یاروں اور عاشقوں کے ساتھ۔۔۔ ارے مر جاؤ تم سب کی سب"

شہناس روتی ہوئی صدمے سے زور زور سے چیخ کر بولی جبکہ اس کی آواز سن کر صدیقی کمرے میں چلا آیا۔۔۔ تمام صورت حال سمجھ کر وہ اپنی حواس بحال نہیں رکھ سکا اور دہلیز پر ہی کرگیا

"ابو۔۔۔۔"

امامہ اور ہیر صدیقی کو پکارتی ہوئی تیزی سے اُس کی جانب بھاگیں

***"""***

"کیا باتیں کررہے ہو تم دونوں"

ملازموں کو آپس میں چہ ماہ گوئیاں کرتا دیکھ کر جہاں کمرے سے باہر نکلتا شیر عباس محتاط ہوا تھا وہی فرغب بی ان دونوں کے پاس آتی ذرا سخت لہجے میں ان سے پوچھنے لگیں 

"کچھ نہیں فرغب بی یاسین بتارہا تھا کہ بستی کے کچھ لوگوں نے کل رات جنگل میں کسی عجیب و غریب مخلوق کو دیکھا تھا جو ہیر پیلس کے احاطے سے باہر نکل کر جنگلوں میں پھر رہا تھا شاید کوئی آسیب یا پھر کوئی بدروح ہوگی بستی کے لوگ ایسے ہی کچھ باتیں کررہے تھے آج"

فرحانہ (ملازمہ) فرغب بی کو بتارہی تھی کہ عباس غصے میں اُن لوگوں کے پاس آیا

"بکواس کرتے ہیں یہاں کے لوگ، کمزور ایمان اور کچے عقیدے کے لوگ بستے ہیں اِس آبادی میں زیادہ تر۔۔۔ یہ آسیب روح، بدروح سب فضول کی باتیں ہیں۔۔۔ ہیر پیلس میں ایسا کچھ نہیں ہے اب اگر میں نے تم لوگوں میں سے ایسی کوئی بات سنی تو نوکری سے فارغ کردو گا تم سب کے سب لوگوں کو"

عباس ملازموں پر غصہ کرتا ہوا بولا۔۔۔ فرغب بی کے اشارے پر دونوں ملازم وہاں سے چلے گئے تو عباس ناراضگی سے فرغب بی کو دیکھنے لگا

"آپ کو خیال رکھنا چاہیے تھا اُس کا، میں آپ کے سپرد کر کے گیا تھا اُس کو۔۔۔ کتنی بار بولا ہے زنجیریں مت کھولا کریں اس کی، ضدی ہوتا جارہا ہے وہ۔۔۔ اگر کل ایبک اسے واپس جنگل سے نہ لاتا تو جانتی ہیں آپ کیا ہوجاتا" 

عباس ناراضگی قائم رکھے فرغب بی سے گویا ہوا تو وہ شرمندہ ہونے لگیں جبکہ عباس بھی جانتا فرغب بی کی طبیعت تین چار دنوں سے ٹھیک نہیں تھی جیسے ہی کل رات فرغب بی نے اُس کو یہ بری خبر سنائی تھی کہ وہ ہیر پیلس کی دیوار پھلانگ کر باہر نکل چکا ہے ویسے ہی عباس پہلی فرصت میں غذر واپس آگیا تھا۔۔۔ یہاں واپس آنے سے پہلے وہ اپنے ہونے والے سُسر کو آگاہ کرچکا تھا کہ ایمرجنسی میں ضروری کام کی وجہ سے اُس کا غذر کے لیے نکلنا ہورہا ہے یہاں پہنچ کر جب اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اسے دیکھا تب عباس کو تھوڑا اطمینان ہوا

لیکن ایک مرتبہ پھر اُس کا دماغ دوبارہ اسی الجھن میں پڑگیا کہ آرزو کون ہے؟؟؟ کیا وہی لڑکی یا پھر کوئی اور؟؟؟؟ اِسی الجھن کو سلجھانے کے لیے آج صبح ہی اُس نے ریشماں سے کانٹیکٹ کرکے ان تینوں بہنوں کی تصویریں منگوائی تھی عباس ان تینوں لڑکیوں کو دیکھنا اور نام کے ساتھ جاننا چاہتا تھا

اور تھوڑی دیر پہلے ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا تھا تمام الجھنیں سلجھنے کے بعد عباس کے اندر بےچینی مزید بڑھ گئی تھی کیا ضروری تھا کہ وہ ان دونوں لڑکیوں کی تیسری اور سب سے چھوٹی بہن ہوتی۔۔۔ اسے تو صدیقی کی بیٹی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا اپنے دل کو لاکھ سمجھانے اور منانے کے باوجود اب وہ خود کو آرزو سے شادی کے لیے آمادہ نہیں کر پارہا تھا تبھی عباس کے موبائل پر مومنہ کی کال آنے لگی ہیر پیلس میں سگنلز کی پریشانی رہتی تھی عباس ہیر پیلس کے احاطے سے باہر جانے لگا

"ہاں بولو مومنہ کوئی کام تھا" 

عباس ڈھلوانی سے نیچے اترتے راستے پر قدم اٹھاتا ہوا موبائل پر مومنہ سے پوچھنے لگا۔۔۔ کالے گہرے بادلوں کے ٹکڑے آسمانوں پر رقصاں تھے غذر میں کسی بھی وقت بارش ہوسکتی تھی

"سر ایک بہت بری خبر سنانے کے لیے آپ کو کال کی ہے" 

مومنہ کی ہچکچائی ہوئی آواز عباس کے کانوں سے ٹکرائی تو جنگل کے راستے پر نکلتے ہوئے عباس کے قدم وہی تھم گئے

"شاید آج تم دونوں بہنوں نے ٹھان لی ہے بری خبریں سناکر میرا موڈ خراب کرنے کی، خیر جو بھی بات ہے بغیر تہمید باندھے جلدی سے بولو"

عباس بگڑے ہوئے موڈ میں بولتا ہوا تیری سے جنگل کی طرف قدم اٹھانے لگا موسم کے تیور دیکھتے ہوئے برساتی اُس نے پہلے ہی پہن رکھی تھی

"تھوڑی دیر پہلے آپ کی ہونے والی ساس شہناس بی بی کا فون آیا تھا وہ اب اپنی بیٹی کی آپ سے شادی پر انکار کررہی ہیں"

مومنہ کی دی گئی خبر پر عباس کے قدم دوبارہ رکے

"کیا۔۔۔ شادی سے انکار کررہی ہیں مگر کیوں"

وہ قدرے چونکا تھا آج اُس کی بارات تھی اور عین موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے انکار عباس ماجرہ سمجھ نہیں پایا

"دراصل شہناس بی بی کا کہنا یہ ہے کہ آرذو اِس شادی کے لیے تیار نہیں ہے اس وجہ سے اُن کے گھر میں کافی زیادہ ٹینشن ہوچکی ہے یہاں تک صدیقی صاحب بھی آرزو کے انکار پر اسپتال پہنچ چکے ہیں۔۔۔ لیکن یہ وہ بات ہے جو شہناس صاحبہ نے مجھے بتائی ہے جبکہ اندر کی اصل کہانی کا علم مجھے ہوچکا ہے۔۔۔ آرزو کل رات گھر سے بھاگ چکی ہے جس کی وجہ سے بےچارہ باپ اسپتال پہنچ گیا ہے۔۔۔ اب شہناس بی بی ایسی صورت الحال میں شادی سے انکار کے سوائے اور کیا کرسکتی ہیں اِس لئے معذرت کرتے ہوئے شادی سے انکار کررہی ہیں"

مومنہ عباس کو پوری رپورٹ دیتی ہوئی اصل حقیقت بتانے لگی جس کو اُس کا ڈھیر سارا معاوضہ دیا گیا تھا عباس بہت غور سے مومنہ کی ساری باتیں سنتا گیا اور آخر میں آئستہ سے بولا

"آرذو کل رات گھر سے بھاگ چکی ہے۔۔۔ ویری گڈ"

عباس نے بولنے کے ساتھ ہنسنا شروع کردیا وہ اب مومنہ کی بات پر اتنی زور سے ہنس رہا تھا کہ مومنہ کو حیرت ہونے لگی 

یہ دنیا کا پہلا ایسا مرد تھا جس کی ہونے والی بیوی شادی سے ایک دن پہلے بھاگ گئی تھی اور اُس لڑکی کا ہونے والا شوہر دیوانوں کی طرح ہنسے جارہا تھا عباس کو یوں بےتُکا ہنستا ہوا دیکھ کر وہاں سے گزرتے ہوئے مقامی لوگ بھی حیرت سے منہ کھولے وہیں رک کر عباس کو دیکھنے لگے۔۔۔

جیسے ہیر پیلس کے اِس مالک کے اندر کوئی بد روح یا آسیب سراہیت کرگیا ہو، عباس جب اپنی سنجیدہ کالی آنکھیں بڑی کرتا ہوا اُن لوگوں کے قریب آنے لگا تو وہ لوگ جنگل سے نیچے بستی کی طرف بھاگنے لگے۔۔۔۔ اب عباس ہنس نہیں رہا تھا بالکل سنجیدہ تھا

"مومنہ تم ایک کام کرو میری بڑی بہن ہونے کی حیثیت سے اور خاندان کی عزت و وقار اور ساخت کو دیکھتے ہوئے شہناس صاحبہ کو پیغام بھیجواؤ کہ اُس کے بھائی کی شادی آج کی تاریخ میں ہی ہوگی اگر آرذو اِس شادی کے لیے راضی نہیں ہے تو زبردستی کے ہم بھی قائل نہیں، شہناس صاحبہ سے کہہ دو اُن کی چھوٹی بیٹی ہیر کے لیے تم اپنے بھائی کا رشتہ چاہتی ہو"

عباس سنجیدگی سے بولتا ہوا واپس ہیر پیلس کی طرف لوٹنے لگا کیونکہ کالے گہرے بادلوں نے برسنے کے لیے شور مچانا شروع کردیا تھا

عباس کو نہیں معلوم تھا اس کا کیا گیا فیصلہ کس حد تک صحیح تھا لیکن جو بےچینی تھوڑی دیر پہلے وہ اپنے اندر محسوس کررہا تھا وہ اب ختم ہوچکی تھی بےچینی کی جگہ اُس کے اندر گہرا سکوت چھا گیا تھا جبکہ بادلوں نے زور سے گرجنے چمکنے کے ساتھ اب برسنا بھی شروع کردیا تھا۔۔۔۔ بارش تھی کہ زور پکڑتی جارہی تھی پورا جنگل جل تھل ہوچکا تھا جبکہ ہیر پیلس اِس طوفانی بارش میں پورا نہا گیا تھا

***"""***

رات سے اب صبح ہونے کو آئی تھی مگر وہ لڑکی ہوش میں لوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، ہاشم نے تشویش کے عالم میں آرزو کی نبض چیک کی جو بالکل نارمل رفتار میں چل رہی تھی

"ناجانے کتنا گہرا صدمہ لیا ہے جو ہوش ہی ٹھکانے پر نہیں آرہے ہیں محترمہ کے ابھی تک"

ہاشم دل ہی دل میں سوچتا ہوا ماہ نور کی موبائل پر آنے والی مسڈ کالز کو نظر انداز کرکے آفس جانے کے لیے نکل گیا کیوکہ اس کو اِس دردِ سر کہ علاوہ بھی دوسرے کام تھے شام تک صورتحال دیکھ کر وہ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروانے کا ارادہ رکھے ہوئے تھا

***"""***

"ہیلو عثمان کیسے ہو"

ہاشم کی کل رات سے غائب ہونے پر ماہ نور باری باری اُس کے سارے دوستوں کو کال ملا چکی تھی اب وہ عثمان سے ہاشم کے متعلق پوچھنے کا ارادہ رکھتی تھی

"میں ٹھیک ہوں بھابھی آپ سناۓ کیسے مزاج ہیں، ہاشم گھر پہنچ گیا"

عثمان کے پوچھنے پر ماہ نور ایک دم ٹھٹھکی

"نہیں ابھی تک نہیں آیا، تو کل رات رانیہ بھی میری طرح خالی بیڈ روم میں اُکتا رہی ہوگی، تم دوستوں کو اور کوئی کام نہیں بیویوں کو اکیلے چھوڑ کر ہلا گلہ کرنے کے علاوہ"

ماہ نور عثمان کی خبر لیتی ہوئی بولی اس کی کنفیوژن بھی دور ہوچکی تھی کل رات ہاشم لڑ جھکڑ کر عثمان کے پاس چلاگیا تھا

"ارے نہیں بھابھی آپ غلط سمجھ رہی ہیں میں اور رانیہ تو پنڈی آۓ ہوۓ ہیں، دراصل ہاشم نے کل رات مجھ سے میرے فلیٹ کی کیز مانگی جو ہمارے نیبرز کے پاس موجود تھی، آپ ہاشم کے لیے پریشان مت ہو میں ابھی اُس کو انفرم کر دیتا ہوں کہ وہ آپ سے کانٹیکٹ کرلے"

عثمان کو اندازہ ہوگیا ماہ نور کل رات سے لاعلم تھی کہ ہاشم اُس کے فلیٹ میں ہے، اب ناجانے ان دونوں ہسبنڈ وائف کا کیا مسئلہ تھا عثمان اپنی طرف سے ماہ نور کو تسلی دیتا ہوا بولا ماہ نور اوکے کہہ کر کال بند کرچکی تھی لیکن ہاشم کا یوں کسی دوسرے کے فلیٹ میں رات گزارنا ماہ نور کو ہضم نہیں ہورہا تھا کیونکہ اس سے پہلے اُن دونوں کے بیچ جتنی جھڑپ ہوئی ہو ہاشم نے باہر کبھی رات نہیں گزاری تھی۔۔۔۔ اِس لیے ماہ نور کچھ سوچ کر عثمان کے فلیٹ میں جانے کے لئے تیار ہونے لگی

***"""***

جیسے ہی آہستہ آہستہ اُس کے حواس واپس لوٹنے لگے آرزو اپنا بھاری ہوتا سر تھام کر اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی جیسے جیسے کل رات والے واقعات اُس کو یاد آنے لگے وہ پریشان ہونے لگی، خود کو انجانی جگہ پر دیکھ کر مزید پریشان ہوتی چلی گئی 

وہ کہاں پر موجود تھی نہیں جانتی تھی۔۔۔ اُسے یہاں کون لایا تھا اُسے کچھ یاد نہیں تھا۔۔۔ کھڑکی سے باہر صبح کا منظر دیکھ کر وہ صدمے سے گنگ رہ گئی تھی یعنی کل رات گزر چکی تھی اور وہ اپنے گھر سے لاپتہ تھی۔۔۔ چادر سے خود کو اچھی طرح لپیٹ کر آرزو کمرے سے باہر نکلی تو دوسرے کمرے میں سامنے ہی اُسے ٹیلیفون نظر آیا وہ دیر کیے بغیر لپک کر فون کے پاس آتی ہوئی ریسور اٹھاتی اپنے گھر کا نمبر ملانے لگی، وہاں پر بیلز جارہی تھیں مگر کوئی بھی کال ریسیو نہیں کررہا تھا آرزو نے امامہ کے سیل پر کال ملائی جو دوسری بیل پے رسیو کرلی گئی

"ہیلو آپی"

آرزو امامہ کے بولنے سے پہلے ہی جلدی سے بولی 

"بہت شور ہے کون بات کررہا ہے آواز نہیں آرہی ہے"

یہ آواز امامہ کی نہیں شاید اِس وقت امامہ کا موبائل کسی اور کے پاس تھا

"ہیلو میری آواز آرہی ہے آپ کو مجھے امامہ سے بات کرنی ہے پلیز اُن کو موبائل دیجئے"

آرذو ریسیور کان سے لگائے جلدی سے بولی

"وہ ابھی بزی ہیں اِس وقت اُن کی بہن کا نکاح ہورہا ہے آپ تھوڑی دیر بعد کال کرلیے گا" 

رسیور سے آواز نکل کر آرذو کے سماعت سے ٹکرائی تو وہ کنفیوز ہوگئی

"کس کا نکاح ہورہا ہے"

اپنی لڑکھڑاتی ہوئی آواز پر قابو پاتی آرزو اُس لڑکی سے پوچھنے لگی۔۔ شاید وہ امامہ کی کوئی آفس کلیک تھی

"امامہ کی چھوٹی بہن ہیر کا نکاح ہورہا ہے آپ کون ہیں اپنا میسج دے دیں میں امامہ کو دے دوں گی۔۔۔ یہ اسپتال ہے بات کرنے میں پرابلم ہورہی ہے یہاں"

اب کی بار لہجے میں اکتاہٹ شامل تھی مگر اسپتال کا لفظ سن کر آرزو مزید پریشان ہوگئی

"اسپتال میں نکاح ہورہا ہے۔۔۔ مجھے آپ کی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا"

آرزو اُس کی اُکتاہٹ بھری آواز کو نظر انداز کرتی ہوئی دوبارہ سوال پوچھنے لگی

"ارے بھئی امامہ کے فادر کو کل رات کو ہارٹ اٹیک آیا ہے اِس لیے اسپتال میں ایمرجنسی میں نکاح ہورہا ہے آپ بتائیں تو کہ آپ کون ہیں"

اب کی بار بڑے بےزار لہجے میں پوچھا گیا تھا۔۔۔ ساتھ ہی آرزو کو محسوس ہوا امامہ وہی موجود ہے

"بدنصیب اپنے گھر کی خوشیوں کو برباد کرنے والی" 

آرزو صدیقی کے بارے میں سوچ کر روتی ہوئی بولی اس کی ایک غلطی نے کیا سے کیا کر ڈالا تھا کاش وہ کل رات اپنی محبت کا گلا دبا کر گھر کی دہلیز کو پار نہ کرتی۔۔۔ تو آج اُس کا باپ اسپتال میں موجود نہ ہوتا

"کون بات کررہا ہے۔۔۔ آرزو"

اب کی بار آرزو کے کان سے امامہ کی آواز ٹکرائی

"آپی" 

زار و قطار روتے ہوئے آنسوؤں کا گولا آرزو کے گلے میں اٹک گیا، الفاظ منہ سے ادا ہونے کو انکار کرنے لگے

"آرزو کہاں پر ہو تم۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ ہے واپس گھر لوٹ کر آجاؤ، نہیں تو سب کچھ برباد ہوجائے گا"

امامہ آرذو کو روتی ہوئی آواز سن کر جلدی سے بولی

"برباد تو سب کچھ ہوچکا ہے اب بچا ہی کیا ہے برباد ہونے کو"

آرزو روتی ہوئی امامہ سے بولی

"دیکھو آرزو میری بات غور سے سنو تمہاری گمشدگی ہمہیں اِس مُحلّے میں ہی نہیں اِس دنیا میں بھی کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔۔۔تمہیں اللہ اور اُس کے رسول کا واسطہ ہے واپس آجاؤ تمہیں دیکھ کر لوگوں کی زبانیں بند ہوسکتی ہیں ہم ذلت اور رسوائی سے بچ سکتے ہیں ورنہ امی اور ابو دونوں صدمے سے مر جائیں گے۔۔ آرزو تم سن رہی ہو میری بات ہے"

امامہ بولے جارہی تھی مگر مین ڈور کھلنے پر آرزو آنے والے شخص کی طرف متوجہ ہوچکی تھی

"خدا کا شکر ہے کہ تم کو ہوش آیا"

ہاشم گھر کے اندر داخل ہوکر آرذو کو دیکھتا ہوا بےساختہ بولا۔۔۔ آرذو اُس کو پہچان چکی تھی مگر ہونق بنی خاموشی سے ہاشم کو دیکھتی رہی

"کل رات اپنے ماں باپ کو گہرے صدمے اور دکھ سے دوچار کرچکی ہوگی تم۔۔۔ یقیناً کل ساری رات وہ دونوں تم کو تلاش کرتے رہے ہوگے۔۔۔ اپنے اُسی عاشق کے پیچھے کل رات گھر سے نکلی ہوگی تم۔۔۔ ہے ناں" 

ہاشم قدم اٹھا کر آرزو کے سامنے آتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا تو آرذو کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھرنے لگی۔۔۔ اِس شخص کی اُس سے ایک سرسری ملاقات ہوئی تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی پھر بھی اِس شخص نے اُس کے بارے میں کتنا درست اندازہ لگایا تھا۔۔۔ لینڈ لائن دوبارہ بجنے لگا اب کی بار کال ہاشم نے ریسیو کی تھی اُس کے کچھ بولنے سے پہلے امامہ بول اٹھی

"تمہیں شیر عباس سے شادی نہیں کرنی تھی نہ۔۔۔ دیکھو تمہاری جگہ آج چھوٹی کی اُس سے شادی ہوگئی ہے یہی وجہ تھی نہ تمہارے گھر سے نکلنے کی اور تبریز کے پاس جانے کی۔۔۔ پلیز واپس لوٹ کر آجاؤ ہماری عزت یوں مٹی میں مت ملاؤ، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے"

امامہ اب کی بار روتی ہوئی منت کرتی ہوئی بولی تو ہاشم کو اپنے سامنے کھڑی لڑکی پر مزید غصّہ آنے لگا جو اتنا کچھ کرکے اب فضول کے آنسو بہا رہی تھی

"میں واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہو پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ آئیے"

آرذو روتی ہوئی ہاشم سے بولی تو ہاشم لائن کاٹ کر طنزیہ انداز میں ہنستا ہوا صوفے پر بیٹھا

"واپس گھر کیوں جانا چاہتی ہو، کیا تمہارے عاشق نے تمہیں دھوکہ دے دیا یا پھر تمہیں اپنی جھانسے میں پھنسا کر تمہارا فائدہ اٹھاکر چھوڑ دیا اُس نے تمہیں۔۔۔۔ لازمی ایسا ہی ہوا ہوگا تمہارے ساتھ، یہی صدمہ لےکر تو تم میری گاڑی کے سامنے آکر بےہوش ہوگئیں"

اب کی بار ہاشم کے لگائے ہوئے اندازے پر وہ تڑپ اٹھی

"شٹ اپ، خبردار جو آپ نے بےبنیاد اندازے لگاکر میرے کردار پر کیچڑ اچھالی، میرا کردار اتنا ہی صاف و شفاف ہے جتنا آپ کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کا"

آرذو اُس شخص کا دماغ درست کر کے فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر جانے لگی تو فلیٹ کے دروازے پر کھڑی لڑکی پہلے حیران ہوئی پھر فلیٹ کے اندر داخل ہوئی تو ہاشم ماہ نور کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوکر صوفے سے اٹھا

"تو یہ وجہ تھی رات بھر گھر سے دور رہنے کی، میں تمہیں خود غرض انسان سمجھتی تھی مگر تم تو کافی گھٹیا انسان نکلے"

ماہ نور ہاشم کو دیکھ کر بولی ماہ نور کو لگا ہاشم خود غرض بن کر اولاد کی وجہ سے دوسری شادی کررہا ہوگا مگر وہ یوں رات بھر ایک لڑکی کے ساتھ فلیٹ میں وقت گزار رہا تھا ماہ نور کو ابھی بھی یقین نہیں آیا

"شٹ آپ ماہ نور اپنی زبان کو لگام دے کر رکھو ورنہ آج تک تم نے میرا وہ روپ نہیں دیکھا جس کے دیکھنے کے بعد تم مجھ سے پناہ مانگو"

ہاشم ماہ نور کی بات پر غصّے بھرے لہجے میں بولا وہ ایک لڑکی کو اُس کے ساتھ دیکھ کر شک کررہی تھی اور خود اپنے میل کزنز اور فرینڈز کے ساتھ رات بھر پارٹیز اٹینڈ کرتی رہتی تھی

"جو روپ تم نے میں مجھے آج اپنا دکھایا ہے میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ اے لڑکی تم کہاں جارہی ہو پہلے مجھے اِس سے دو دو ہاتھ کرنے دو، تمہاری اوقات تو میں تمہیں اِس کے بعد اچھی طرح یاد دلاؤں گی"

ماہ نور کی نظریں دروازے پر کھڑی آرزو پر پڑی جو وہاں سے جانے کے لیے پر تول رہی تھی تبھی ماہ نور اُس کو دیکھ کر حقارت بھرے لہجے میں بولی

"ایکسکیوزمی آپ اپنے اور اِن صاحب کے معاملے میں مجھے مت گھسیٹیں، میرا اِن سے اور آپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے" 

آرزو اُس ماڈرن سی نظر آنے عالی لڑکی کو دیکھتی ہوئی بولی جو عمر میں امامہ کے برابر ہی ہوگی مگر وہ کافی بدتمیز اور منہ پھٹ تھی اُس کا لب و لہجہ شریفانہ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا

"کیوں کل رات یہ تمہارے پاس موجود نہیں تھا کیا کل ساری رات تم دونوں کا آپس میں کچھ لینا دینا نہیں ہوا۔۔۔۔ یا اپنی پیمنٹ کے ملتے ہی اِیسے ہر کسٹمر کو پہچاننے سے انکار کردیتی ہو تم"

ماہ نور چبھتے ہوئے لہجے میں بولی جبکہ آرذو شرم اور خجالت سے سرخ ہوگئی اُسے محسوس ہوا اِس لڑکی نے بھری محفل میں اُسے بےلباس کردیا تھا ماہ نور کی بات سن کر وہ رکی نہیں کی بلکہ ہاشم سے نظریں ملائے بغیر وہاں سے باہر نکل کر چلی گئی جبکہ ہاشم غصّہ ضبط کرتا ہوا ماہ نور کو دیکھنے لگا 

اُس کی بیوی نے ایک اجنبی لڑکی کے سامنے اُس کو کس قدر ذلیل کردیا تھا ہاشم کے یوں غصّے میں دیکھنے پر ماہ نور طنزیہ مسکرائی اور چلتی ہوئی ہاشم کے پاس آئی

"کب سے اِس طرح کی بازاری لڑکیوں کے ساتھ بند کمروں میں وقت گزارنا شروع کردیا تم نے"

ماہ نور کے پوچھے گئے سوال پر ہاشم کا دل کیا ذور دار تپھڑ وہ ماہ نور کے گال پر رسید کردے

"پہلے مجھے داجی اور ماں جی کے فیصلے پر تم سے ہمدردی ہورہی تھی، اب مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ تم ہمدردی کرنے لائق لڑکی نہیں ہو۔۔۔ آج سے تم ہاشم کے دل سے اتر گئی ہو ماہ نور۔۔۔۔ نظروں سے گری ہوئی عورت اور دل سے اتری ہوئی عورت کبھی بھی مرد کے دل میں دوبارہ اپنا مقام پیدا نہیں کر سکتی یاد رکھنا"

ہاشم ماہ نور سے بولتا ہوا رکا نہیں تھا وہاں سے چلاگیا

***"""***

جیسے ہی مومنہ نے عباس سے ہیر کی شادی کے متعلق بات کی شہناس نے سوچنے سمجھنے کا زیادہ وقت نہیں لیا وہ جھٹ سے ہیر کی شادی کے لیے اقرار کرچکی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ کل رات صدیقی کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر ان لوگوں کو ایمرجنسی میں اسپتال جانا پڑا اور غذر کے خراب موسم کے سبب ساری پروازیں منسوخ کردی گئی تھی اس لیے ایمرجنسی میں عباس کا ہیر سے موبائل فون پر اسپتال میں نکاح ہوا۔۔۔۔ 12 گھنٹے گزرنے کے بعد صدیقی کی حالت سنبھلی تھی۔۔۔ امامہ نے فی الحال آرزو کے فون کے متعلق کسی کو نہیں بتایا تھا شہناس کے کہنے پر امامہ ہیر کو اپنے ساتھ اسپتال سے گھر لےکر آگئی تھی تاکہ ہیر اپنی پیکنگ کرسکے یہ عباس کی منطق امامہ کو سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ جب وہ خود کراچی نہیں آسکتا تھا تو اس نے ہیر کو کیوں فلائٹ سے بلوایا تھا وہ بھی ایسی صورتحال میں جب صدیقی اسپتال میں ایڈمٹ تھا لیکن شہناس اِس وقت سوچنے سمجھنے سے کام نہیں لے رہی تھی صدیقی کی حالت نے اُس کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا اِس لیے جو ہورہا تھا جیسے ہورہا تھا وہ خاموشی سے امامہ کو کرنے کے لئے کہہ رہی تھی

"کیا ہوا تم خوش نہیں ہو" 

ہیر اپنی پیکنگ کررہی تھی تب امامہ اس کے اترے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر پوچھنے لگی ہیر کے پیکنگ کرتے ہاتھ امامہ کی بات سن کر رک گئے وہ عجیب نظروں سے امامہ کو دیکھتی ہوئی بولی

"مجھے کس بات پر خوش ہونا چاہیے آپی کوئی ایک جواز تو بتائیے مجھے خوش ہونے کا۔۔۔ میں اس بات پر خوش ہوجاؤ کہ بہن کی محبت میں آکر میں نے اُس کی غلط بات مانی یا پھر اِس بات پر خوش ہوجاؤ کہ میری بہن کی غلطی کا خمیازہ اُس کے ہونے والے شوہر سے شادی کرکے مجھے بھگتنا پڑ رہا ہے یا پھر اس بات پر خوش ہوجاؤ کہ میری ایسے اچانک شادی کروا کر مجھے ایک انجان جگہ پر انجان آدمی کے پاس بھیجوایا جارہا ہے"

ہیر بولنے پر آئی تو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو بیان کرتی ہوئی روہانسی لہجے میں بولنے لگی 

آرزو کے انتہا کے قدم سے سارا کا سارا ملبہ اُس کے سر پر آگرا تھا آج اس کو اچانک ہی خبر دی گئی کہ آرزو کی جگہ اب اس کی شادی آرذو کے ہونے والے شوہر سے ہورہی ہے۔۔۔ شہناس کہنے پر اور صدیقی کی خراب حالت کو دیکھ کر ہیر نے یہ کڑوا گھونٹ مجبوراً پی لیا تھا۔۔۔ اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوچکی تھیں جب اُس کے اوپر اگلا حکم صادر کردیا گیا کہ آج ہی اُس کی رخصتی ہے کیوکہ اُس کا شوہر چاہتا ہے وہ آج ہی کوسوں میل دور اُس کے گھر رخصت ہوکر اُس کے پاس چلی آئے

"اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے شادی تو ہر ایک لڑکی کی ایک نہ ایک دن ہوتی ہے، یوں سمجھ لو شیر عباس کی قسمت کا ستارہ تمہارے نام کے ساتھ چمک رہا تھا۔۔۔ قدرت نے اُس کا ملاپ آرذو کے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ لکھا تھا۔۔۔ یہ بھی خوب کہی تم نے کہ شادی کروا کے تمہیں انجان جگہ بھیجا جارہا ہے تم کوئی سات سمندر پار نہیں جارہی ہو یہی پاکستان میں موجود ہو اور تمہاری اطلاع کیلئے عرض ہے کہ شیر عباس اتنا بھی انجان نہیں اسے دیکھا ہوا ہے تم نے، یاد نہیں ہے جس کی گاڑی سے تم ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی وہی جو خوشبو کی شادی میں بھی مسلسل تمہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ کل جب میں تمہیں اسٹیج پر رسم کے لئے لے جارہی تھی تبھی میں اُس کو دیکھ کر پہچان چکی تھی۔۔۔ دیکھ لو یہ ہوتے ہیں قدرت کے فیصلے"

امامہ اور بھی نہ جانے کیا کیا بول رہی تھی اس کو بہلاتی ہوئی سمجھاتی ہوئی پر ہیر کا دماغ اُس بات پر بلکہ اُسی شخص پر اٹک گیا تھا ہوش اُسے تب آیا جب شہناس نے اسے گلے لگایا وہ چند سیکنڈ پہلے ہی اسپتال سے تھوڑی دیر کے لئے گھر آئی تھی کیونکہ مومنہ کے مطابق شیر عباس کا بھیجا گیا ڈرائیور ہیر کو لینے کے لیے پہنچنے والا تھا بھلا وہ بغیر ملے اپنی چھوٹی بیٹی کو کیسے رخصت کردیتی

"مجھے بالکل بھی خبر نہیں تھی کہ میری چھوٹی بیٹی سب سے پہلے اپنے گھر کی ہوجائے گی میں دعا کروں گی شیر عباس تمہارے لئے اچھا شوہر ثابت ہو، اور تم بھی کوشش کرنا کے اپنے شوہر کے لیے تم اچھی بیوی ثابت ہو" 

شہناس بولتی ہوئی ہیر کے ماتھے پر بوسہ دے کر اُس سے الگ ہوئی اور اپنی نم آنکھیں صاف کرنے لگی باہر گاڑی کا ہارن اطلاع دے رہا تھا کہ ڈرائیور ہیر کو لینے آچکا ہے ہیر امامہ کے گلے مل کر اپنے گھر کی چار دیواری کو دیکھتی ہوئی اداس دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے لگی

***""""***

چار گھنٹے بیس منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ کراچی سے گلگت پہنچ چکی تھی جہاں سے اسے عباس کے خاص ملازم ایبک نے پک کیا گلگت سے گاہکوچ 10 منٹ کی دوری پر تھا اس جگہ کو دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا تھا۔۔۔ ہیر قدرت کے حسین مناظر دیکھ کر اس کے سحر میں کھو چکی تھی یہ جگہ اسے جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں لگی تھی 

پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی جیپ ہر خوبصورت منظر کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتی جارہی تھی جگہ جگہ آبشاریں، قدرتی چشموں سے نکلتا ہوا شفاف پانی، اونچے بڑے بڑے پہاڑ، ہرے بھرے سبز جنگلات وہ ان مناظر میں کھو سی گئی اور بالآخر اپنی منزل پر پہنچی تو سامنے ہیر پیلس پوری طمطراق اور شان و شوکت سے کھڑا اُس کی آمد کا انتظار کررہا تھا ہیر پیلس پر گندھا ہوا اپنا نام وہ غور سے پڑھنے لگی

"آئیے بی بی جی اندر چلیں" 

ایبک ہیر کا بیگ ہاتھ میں پکڑے اس سے بولا تو ہیر اپنے نام سے نظریں ہٹاتی ہوئی۔۔  ہری آنکھوں والے اونچے لمبے ایبک کے پیچھے ہیر پیلس کے اندر داخل ہوئی

خوبصورت سے ہیر پیلس نے اپنے اندر عجیب سی کشش رکھی ہوئی تھی جو ہیر کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی، بڑا گول سا ہال نما کمرہ، قدیم طرز کی بنی ہوئی رنگین شیشے والی کھڑکیاں۔۔۔ اِس ہال نما کمرے میں مختلف رہداریاں تھی جو اندر کو جاتی تھی

ہیر کنفیوز ہونے لگی کہ وہ کہاں جائے ایبک نہ جانے اندر کس راہداری میں کھوگیا تھا، ہیر کو اندازہ ہی نہیں ہوسکا۔۔۔ وہ قدیم طرز کے بنے ہوئے اِس محل میں جدید طرز کا فرنیچر دیکھتی ہوئی دیواروں پر لگی پینٹکز اور جنگلی جانوروں کے سر دیکھنے لگی۔۔۔ جسے وہ جانور اُسی کو خونی آشام نظروں سے دیکھ رہے ہو، ہیر کو عجیب سی وحشت ہونے لگی 

ایک راہداری جو اندر کی طرف جاتی تھی اور باقی راہداریوں کی بانسبت وہ بالکل سنسان تھی وہاں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔ ہیر اُس راہداری کی طرف بڑھنے لگی تبھی اُسے اپنی پشت سے نسوانی آواز سنائی دی

"ہیر پیلس میں آپ کو خوش آمدید"

فرغب بی کی آواز پر ہیر کے راہداری کی جانب بڑھتے قدم رکے وہ پلٹ کر پچپن سالہ بوڑھی سی اُس خاتون کو دیکھنے لگی جو اپنے چہرے پر استقبالیہ مسکراہٹ سجائے اُس کے سامنے کھڑی اُسی کو دیکھ رہی تھی

ہیر نے آہستہ سے سلام کیا جس کا جواب دینے کے ساتھ فرغب بی اپنا تعارف کرواتی ہوئی بولیں

"امید کرتی ہوں آپ کا سفر اچھا گزرا ہوگا، میرا نام فرغب ہے یہاں تمام لوگ مجھے فرغب بی کہتے ہیں۔۔۔ آپ بھی مجھے اِسی نام سے بلاسکتی ہیں۔۔۔ آئیے میں آپ کو آپ کا کمرہ دکھادو" 

فرغب بی سنسان راہداری پر نظر ڈالتی ہوئیں خاموش کھڑی ہیر سے بولیں اور مخالف سمت پر جانے لگیں

"یہاں پر کیا ہے؟؟ مطلب ہال کا یہ حصِّہ اتنا ویران کیوں ہے"

ہیر کے پوچھنے پر فرغب بی نے مڑ کر ہیر کو دیکھا اب فرغب بی کے چہرے پر بالکل سنجیدگی طاری تھی

"ہیر پیلس میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی آپ غلط راستے کا تعین کر بیٹھی ہیں ہیر پیلس کے اِس حصّے میں کسی بھی ملازم یا فرد کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔ احتیاط اچھی چیز ہوتی ہے، آپ بھی کیجئے گا۔۔۔ آئیے اپنے کمرے میں چل کر تھوڑی دیر آرام کرلیں سفر کی تھکن اب آپ کے چہرے سے عیاں ہورہی ہے"

فرغب بی کا تنبہی کرنے والا انداز ایسا تھا ہیر کچھ بول نہیں پائی خاموشی سے فرغب بی کے پیچھے جاتی وہ دوسرے کمرے میں پہنچی، جو بالکل مخالف سمت پر تھا 

وہ بڑا سا کمرہ اندر سے بےحد حسین تھا اِس کمرے کی بناوٹ، تراش خراش اور سجاوٹ خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھی ہیر متاثر ہونے والے انداز سے کمرے کے چاروں اطراف نظر دوڑانے لگی تبھی فرغب بی نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے باہر سورج کی روشنی کو اندر آنے کی اجازت دی

"اس جگہ کو یہاں کی در و دیوار کو نہ جانے کب سے آپ کی آمد کا انتظار تھا، پورا ہیر پیلس نہ جانے کتنے سال سے آپ کے یہاں آنے کی راہ تک رہا تھا آج وہ انتظار بھی ختم ہوا"

فرغب بی بات پر ہیر نہ سمجھنے والے انداز میں فرغب بی کو دیکھنے لگی۔۔۔ ہیر کے چہرے کا الجھا ہوا تاثر دیکھ کر ایک پل کے لیے فرغب بی کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جسے وہ فوری طور پر سنجیدگی کے لبادے میں ڈھال گئیں

"آپ کے کہنے کا کیا مطلب تھا میں سمجھی نہیں آپ کی بات"

سامنے کھڑی یہ خاتون اُسے کافی پراسرار سی شخصیت محسوس ہورہی تھی بالکل اُس کے شوہر کی طرح۔۔۔ جس سے اُس کی ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی تھی

"آہستہ آہستہ جب وقت گزرتا جائے گا تب ساری گراہیں کُھلتی جائے گیں، سب کچھ اپنے آپ کو سمجھ آنے لگے گا۔۔۔ رات کے کھانے میں ابھی وقت ہے آپ تھوڑی دیر آرام کرلیں" 

فرغب بی ہیر سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر جانے لگیں

"وہ کہاں پر ہیں"

ہیر نے نام لیے بغیر کمرے سے باہر جاتی ہے فرغب بی سے عباس کے بارے میں پوچھا تو فرغب بی رک کر ہیر کو دیکھتی ہوئی بولی

"ان دنوں ٹورسٹ پر کافی رش ہے اس لیے ہوٹل سے روز رات کو دیر سے شیر عباس کا واپس آنا ہورہا ہے۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی شیر عباس کی کال آئی تھی رات میں وہ واپس نہیں آسکیں گے صبح ہی آپ کی ان سے ملاقات ہوگی"

فرغب بی ہیر کو بتارہی تھی عباس کے نام سے ہیر کے چہرے پر لالی سی بکھر گئی جسے وہ غور سے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں

***"""***

"اب کیسی طبیعت ہے ابو کی؟؟ ڈاکٹر سے آپ کی بات ہوئی وہ کب تک ڈسچارچ کریں گے ابو کو"

ہیر کے جانے کے بعد امامہ شہناس سے صدیقی کے بارے میں پوچھنے لگی کیونکہ امامہ ہیر کو اپنے ساتھ پیکنگ کے لیے گھر لے آئی تھی اِس لیے اُس کی صدیقی کے ڈاکٹر سے تفصیلی بات نہیں ہوسکی تھی

"ہیر کہ نکاح کے بعد سے قدرے سنبھل گئی ہے ورنہ تو آرزو میں ہمہیں کہیں منہ دکھانے لائق ہی نہیں چھوڑا، شکر ہے ہیر تو اپنے گھر کی ہوگئی۔۔۔ شیر عباس کی بہنوں نے بھی بڑے پن کا ثبوت دیا ہے جو باتیں سنائیں بغیر شریفانہ طریقے سے ہیر سے نکاح کا بول دیا ورنہ میں نے تو سوچ لیا تھا کہ اچھا خاصا رشتہ ہاتھ سے نکل گیا۔۔۔ کل یا پرسوں تک صدیقی کو ڈسچارچ کردیں گے ڈاکٹرز کنڈیشن دیکھ کر۔۔۔ میں بس ہیر کو رخصت کرنے کے لیے آئی تھی دروازہ اچھی طرح بند کرلینا صدیقی میرا انتظار کررہے ہوگے" 

شہناس امامہ کو ساری باتوں کی تفصیل بتاتی ہوئی صدیقی کے پاس واپس ہسپتال جانے کا ارادہ کرنے لگی

"آپ تھک گئی ہوگیں اسپتال میں چلی جاتی ہوں، میں نے آفس سے کل کی چھٹی لے لی ہے"

امامہ شہناس سے بول ہی رہی تھی ڈور بیل کی آواز پر دروازہ کھولنے چلی گئی سامنے کھڑی آرزو کو دیکھ کر اُس نے خدا کا شکر ادا کیا ہے وہی شہناس چلی آئی

"کون آگیا اِس وقت"

شہناس نے جیسے ہی آرزو کو دیکھا اُس کا غصّہ سے برا حال ہوگیا 

"اَمّی مجھے معاف کردیں"

آرزو روتی ہوئی شہناس کے پاس آکر بولی تو شہناس غصّے سے آرذو پر جھپٹ پڑی وہ آرزؤ کے دونوں گالوں پر پے در پے تھپڑ مارتی چلی گئی

"امی رکیں، خدا کے لیے چھوڑ دیں اُسے"

امامہ نے شہناس کو روکنا چاہا مگر شہناس روتی ہوئی امامہ کی بات سنے بغیر آرزو کو مار مار کر اپنا غُصّہ اور غبار باہر نکال رہی تھی۔۔۔ آرزو بھی روتی ہوئی بناء کسی احتجاج کے پڑنے والی مار کو سہہ رہی تھی

"یہ اولاد نہیں ڈائن ہے، اپنے باپ کو کھانا چاہتی تھی آج میں اس کو مار ڈالوں گی، کیو میں نے اِس کو پیدا کیا کیوں اِس بدذات کو دنیا میں لائی میں۔۔۔ یہ صلہ دیا اِس بےغیرت نے ہماری محبت ہمارے اعتماد کا، تمہارے باپ کو اور مجھے بیٹے کی چاہ رہی مگر اِس کے باوجود ہم دونوں نے تم لوگوں کو کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔۔۔ پڑھایا لکھایا اپنی حیثیت کے مطابق تم لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی زندگی گزار دی۔۔۔ جس کا صلہ اِس بےغیرت نے اپنی شادی سے ایک دن پہلے ہی گھر چھوڑ کر اپنی یار کے ساتھ بھاگ کردیا۔۔۔۔ پوچھو اِس سے امامہ یہ کیوں واپس لوٹ کر آگئی ہے، ہمارے نام پر تو اِس نے دھبہ لگادیا، پوچھو اِس بےشرم سے اِس کا اپنا دامن پاک ہے یا اِس کے یار نے اِس کو داغ دار کرکے چھوڑ دیا ہے"

شہناس آرذو کو مار مار کر اور مسلسل بول بول کر تھک گئی تو خود بھی فرش پر بیٹھ کر رونے لگی۔۔۔ 

آرذو میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ سر اٹھا پاتی وہ گھٹنوں میں اپنا چہرہ چھپائے بری طرح سے سسک رہی تھی۔۔۔ امامہ نے آرذو کو بازو سے پکڑ کر اندر کمرے میں جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ خود اپنے نقص زدہ پاؤں پر وزن ڈالتی ہوئی تھکے انداز میں روتی ہوئی شہناس کے پاس آئی اور اسے خاموش کروانے لگی

***""""***

ماہ نور عثمان کے فلیٹ سے غصّے میں گھر واپس آئی تھی ہاشم کا غصّہ اُس نے شمع پر چیخ چیخ کر اور کچن میں برتنوں کو توڑ کر نکالا۔۔۔ ہنگامے اور شور کی آواز سن کر ایوب خان اور گلنار دونوں ہی وہاں پہنچ گئے

"یہ کیا شور اور ہنگامہ مچا رکھا ہے تم نے۔۔۔ شرم عقل اور شعور جیسی صفات تم دن بدن کھوتی جارہی ہو"

ایوب خان گرجدار آواز میں غُصّے سے ماہ نور کو دیکھتے ہوئے بولے کیوکہ انہوں نے ماہ نور کو شمع کے سہمے ہوئے بیٹے کو تھپڑ لگاتے ہوۓ دیکھ لیا تھا جو اتنے شور کی وجہ سے ڈر کے مارے رو رہا تھا

"شرم عقل اور شعور جیسی صفات آپ کے پوتے میں بھی باقی نہیں بچی ہیں داجی، پوچھیں اپنے نیک اور شریف پوتے سے گھر سے باہر غیر عورتوں کے ساتھ وہ کونسی عیاشیاں کرتا پھر رہا ہے جو اس نے راتوں کو گھر آنا چھوڑ دیا ہے"

ماہ نور بناء لحاظ کے کافی بدتمیزی سے بولی تو گلنار نے فوراً اسے ٹوک دیا

"اپنی بےباک اور لمبی زبان کو لگام ڈال کر رکھو ماہ نور، گزرتے دنوں کے ساتھ تمہاری گستاخی اور بدمزاجی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور خبردار جو تم نے میرے بیٹے کے کردار کے متعلق کوئی بھی غلط بات بولی مجھے اپنی تربیت پر پورا یقین ہے ہاشم کبھی کوئی اخلاق سے گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتا"

گلنار ماہ نور کے منہ سے ہاشم کے لئے ایسی بات سن کر سختی سے اُسے ٹوکتی ہوئی بولی ویسے ہی ہاشم بھی گھر آگیا وہ جانتا تھا عثمان کے فلیٹ سے گھر پہنچنے کے بعد یقیناً ماہ نور کو گھر کا پرسکون ماحول برباد کرنا تھا

"یہ آگیا ہے آپ کا نیک، شریف عزت دار فرمابردار پوتا۔۔۔ ذرا پوچھیں اِس سے عثمان کے فلیٹ میں یہ کس لڑکی کے ساتھ رات گزار کر آرہا ہے"

ماہ نور ہاشم کو دیکھ کر کوئی لحاظ کئے بغیر چیخ کر بولی تو ایوب خان اور گلنار کی نظریں ہاشم پر ٹھہر گئیں۔۔۔ ہاشم اپنا غُصّہ ضبط کرتا ہوا ماہ نور کے سامنے آکر کھڑا ہوا

"شادی کرنے والا ہوں میں اُس لڑکی سے، وہ لڑکی میری بیوی بن کر اِس گھر میں آئے گی۔۔۔ اور اب اگر تم نے دوبارہ کوئی تماشا لگایا تو کھڑے کھڑے میں تمہیں اِس رشتے سے آزاد کردوں گا سنا تم نے"

ہاشم بےانتہا سنجیدہ مگر سخت لہجہ اپنائے ہوئے ماہ نور سے بولا تو ماہ نور سمیت گلنار اور ایوب خان بھی خاموش ہوگئے ہاشم سب کو خاموش دیکھ کر اپنے کمرے میں چلاگیا جبکہ گلنار افسوس سے ایوب خان کو دیکھنے لگی 

گلنار کو لگا تھا کہ مانور کو ویسے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی یا وہ جھوٹ بول رہی ہوگی۔۔۔ ہاشم کا کسی دوسری لڑکی سے تعلق نہیں ہوسکتا لیکن شاید اُس کا بیٹا دوسری شادی بھی اپنی مرضی سے کرنا چاہتا تھا

***""""***

دن کے اجالے میں یہ ہیر پیلس اُسے جتنا پرکشش اور خوبصورت لگ رہا تھا رات ہونے کے ساتھ اتنا اور پُراسرار وحشت ذدہ معلوم ہورہا تھا۔۔۔ رات کے سناٹے پوری طرح ہیر پیلس میں اترے ہوئے اسے احساس دلا رہے تھے کہ اِس جگہ وہ بالکل تنہا اور اکیلی تھی امامہ سے اُس کی سرسری سی بات بھی مشکل سے ہی ہو پائی تھی کیوکہ یہاں سگنلز کا کافی پرابلم تھا۔۔۔ رات کے کھانے کے بعد ہیر گرم شال سے خود کو لپیٹ کر باہر بننے لان میں چلی آئی جہاں موجود برگد، بیری اور پائن کے درخت مزید قد آور اور خوفناک لگ رہے تھے دور سے نظر آنے والے دیوہیکل پہاڑوں پر اِس وقت پوری طرح تاریخی اتری ہوئی تھی

ہیر آرزو کے بارے میں سوچنے لگی امامہ اُسے آرزو کی واپسی کے بارے میں اطلاع دے چکی تھی پھر اُس کی سوچوں کا رخُ صدیقی کی طبعیت کی طرف چلا گیا۔۔۔ اپنی فیملی کی طرف سے سوچوں کا رخُ خودبجود اپنے شوہر کی طرف آٹہرا، جس کی ابھی تک اُس کی ملاقات نہیں ہوپائی تھی 

ہیر سمجھ نہیں پائی تھی شیر عباس کے لئے اُس کی ذات غیر اہم تھی یا پھر اُس کا کام بہت زیادہ ضروری تھا جس کے بناء پر وہ اپنی مصروفیت میں سے چند گھنٹے بھی اپنی بیوی کے لیے نہیں نکال پایا تھا۔۔۔ ہیر شیر عباس سے اپنی دوسری ملاقات کا وقت سوچنے لگی جب وہ اُس کا نام جاننے کی خواہش رکھتا تھا، تب ہیر کو ذرا بھی اندازہ نہیں تھا اُس کی قسمت کے ستارے شیر عباس کی قسمت سے یوں جڑ جائیں گے۔۔۔ ہیر اپنی سوچوں میں گم تھی تبھی کسی کے غُرانے کی آواز پر وہ سوچوں کی دنیا سے باہر نکلی اور برگد کے درخت کو دیکھنے لگی۔۔۔ غُرانے کی آواز واضح طور پر اُس درخت کے پیچھے سے آرہی تھی جیسے اُس تناور درخت کی آڑھ میں کوئی چیز چھپی ہو

"کون ہے وہاں"

ہیر بولتی ہوئی درخت کی طرف بڑھی۔۔۔ جیسے جھاڑیوں میں ہاتھ پاؤں چلانے کے ساتھ کوئی چیز ٹٹول رہا ہو

"آآآآآ۔۔۔۔"

ہیر چیخنے کے ساتھ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر تیزی سے پیچھے ہوئی تو موٹا کالا بلا مری ہوئی چمکاڈر کو چھوڑ کر اپنی ہری ہری آنکھوں سے ہیر کو گھورنے لگا جیسے ہیر کی مداخلت اُس کو بھی پسند نہیں آئی تھی

"بلاوجہ میں ڈرا دیا مجھ کو بھاگو یہاں سے بدتمیز"

وہ کالا نِڈر بِلا جو ڈرنے کی بجائے ہیر کو دیکھ کر غُرا رہا تھا ہیر کے غصّے میں بولنے پر ہیر پیلس کی دیوار پھلانگ کر جنگل کی جانب بڑھ گیا

"ویسے تو یہ چار دیواری محفوظ ہے لیکن اِس سے آگے جنگل میں جنگلی جانور بھی بستے ہیں آپ اندر آجائیے تو بہتر ہوگا" 

فرغب بی ٹارچ ہاتھ میں لیے مین ہال کے دروازے پر کھڑی ہوئی ہیر سے تیز آواز میں بولیں تو ہیر اقرار میں سر ہلاتی ہوئی گرم شال کو مزید اپنے گرد لپیٹ کر اندر آنے لگی

"شام تک تو گیٹ پر پہرے دار موجود تھا اِس وقت وہ کہاں چلا گیا"

ہیر فرغب بی کے پاس آکر ان سے پوچھنے لگی

"شام سات بجے تک تمام ملازموں کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہوجاتا ہے رات کے وقت یہاں پر کسی بھی ملازم کو رکنے کی اجازت نہیں ہے سوائے ایبک کے"

ایبک وہی ہری انکھوں والا لمبا سا لڑکا تھا جو اُسے ائیر پورٹ سے یہاں لایا تھا۔۔۔ فرغب بی ہیر کو دیکھتی ہوئی اُسے بتانے لگیں کیونکہ ہیر پیلس میں وہ ایک نیا فرد تھی اُسے یہاں کے اصول اور قواعد کا معلوم ہونا چاہیے تھا ایسے عباس نے ہی فرغب بی سے بولا تھا

"اتنی بڑی اور سنسان جگہ ہے یہ، کم سے کم ایک گارڈ کو تو یہاں پر 24 گھنٹے کے لیے ہونا چاہیے تاکہ کسی قسم کی ٹینشن یا خطرہ نہ ہو"

ہیر لکڑی کے بڑے سے چوڑے دروازے کو دیکھتی ہوئی بولی بےشک ہیر پیلس کے احاطے پر خار دار تاریں لگائی گئی تھی مگر سیفٹی پرپز کے لیے یہ ناکافی تھی۔۔۔ ہیر کو محسوس ہورہا تھا فرغب بی سے باتیں کرتے کرتے اُن سے اِس کی اچھی دوستی ہوجائے گی

"اگر آپ چور اور ڈاکو کے خوف سے ایسا بول رہی ہیں تو پھر خطرے اور ٹینشن والی کوئی بات نہیں کیوکہ جہاں آسیب اور بدروحوں کا بسیرا ہو وہاں چور اور ڈاکو بھی آنے سے ڈرتے ہیں"

فرغب بی کے بولے گئے جملے سے ہیر کی شہہ رگ کے قریب سے خوف کی ایک سنسناتی ہوئی لہر اٹھی اور خون کے ساتھ پورے جسم میں پھیل گئی خوف کے سبب اُس کا چہرہ بالکل فق ہوگیا

"آپ شاید ڈر گئی ہیں میری بات سے، یہاں ایسا کچھ نہیں ہے آبادی کے لوگوں نے اِس جگہ کو دیکھ کر ایسے قصّے مشہور کردیئے ہیں ہر کوئی یہاں آنے سے ڈرتا ہے"

ہیر کی غیر ہوتی حالت فرغب بی کی نظروں سے چھپ نہیں پائی تھی جبھی فرغب بی ہیر کو تسلی دیتی ہوئی بولیں۔۔۔ نہ جانے اُن کی بات سے ہیر کو تسلی ہوئی تھی یا نہیں وہ لان میں موجود برگد اور بیری کہ درختوں کو دیکھنے لگی، جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ کھڑی تھی۔۔۔ ابھی اگر یہاں شہناس موجود ہوتی تو اُسے کبھی یوں رات میں اکیلے اِس وقت درختوں کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتی

"اب مجھے نیند آرہی ہے میں سونا چاہتی ہوں"

ہیر فرغب بی کو دیکھتی ہوئی آہستہ سے بولی اب تو ہیر کو ان خاتون سے بھی خوف آرہا تھا جن سے وہ تھوڑی دیر پہلے دوستی کا سوچ رہی تھی

"بالکل اب آپ کو سو جانا چاہیے آئیے میں آپ کو آپ کے کمرے تک چھوڑ دو"

فرغب بی کی بات سن کر ہیر فرغب بی کے پیچھے اپنے کمرے تک پہنچی اور کمرے میں آنے کے بعد اُس نے اندر سے دروازہ لاک کرلیا

"یہاں اکیلے رہ کر تو میں خوف سے ہی مر جاؤں گی"

ہیر خود سے بولتی ہوئی بیگ سے اپنا نائٹ ڈریس نکالنے لگی مگر اب سچ میں اُس کو سو جانا چاہیے تھا

اِس وقت عباس ہوٹل میں موجود تیسرے فلور پر اپنے آفس کے کمرے میں بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ کی اسکرین پر گہری نیند میں ڈوبی ہوئی اپنی بیوی کو کافی سے تکے جارہا تھا۔۔۔ وہ اُس کے کمرے میں موجود اُس کے بیڈ پر کافی گہرے نیند میں سو رہی تھی۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ ہیر کی ذات اُس کے لیے اہم نہ تھی یا پھر اُس کے لئے دوسرے کام زیادہ اہمیت کے حامل تھے لیکن عباس صبح سے کشمکش میں مبتلا تھا کہ ہیر کو اپنی بیوی کے روپ میں دیکھ اسے اپنی بیوی ‏سے کس طرح ملنا چاہیے۔۔۔ جبھی ہیر کو لینے کے لئے اس نے ایبک کو بھیج دیا تھا، وہ شام میں فرغب بی کو بھی پیغام دے چکا تھا کہ وہ ہوٹل سے واپس صبح دوسرے دن ہی آئے گا کوئی سمجھے یا نہ سمجھے وہ جانتا فرغب بی اُس کا ہیر سے گریز اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔۔۔۔ سامنے اسکرین پر گہری نیند میں سوئی ہوئی ہیر کی موجودگی سے اپنا ویران کمرہ آباد دیکھ کر عباس ابھی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا اُس کو کیا کرنا چاہیے۔۔۔ چند منٹ بعد وہ ایک فیصلے پر پہنچ کر ایبک کو کال ملانے لگا

***""""***

ہیر اِس وقت گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی تب اُس کو نیند میں محسوس ہوا کسی نے اُس کے پاؤں کی طرف سے کمفرٹر سرکایا ہو۔۔۔ اپنی نرم و ملائم ریشم جیسی پنڈلی پر انجانا سا ہاتھ کا لمس اُس کو حواس میں لانے کے جتن کررہا تھا یا پھر اُس کی ٹانگوں کی نرماہٹ کو اپنے اندر اتار رہا تھا۔۔۔ دروازہ اُس نے اندر سے لاک کیا تھا پھر یہ کون اِس وقت اُس کے کمرے میں موجود تھا۔۔۔ دماغ کے چلنے پر گہری نیند اُس کی آنکھوں سے رخصت ہونے لگی

اندھیرے میں اپنے پاؤں کے پاس کسی کی پرچھائی دیکھ کر ہیر نے بدحواسی میں چیخنے کی کوشش کی ویسے ہی اُس پرچھائی نے پھرتی سے آگے بڑھ کر ہیر پر جھکتے ہوۓ اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہیر کی چیخ کا گلا دبا دیا اور لیمپ آن کردیا۔۔۔ ہیر نے لیمپ کی مدھم روشنی میں عباس کا چہرہ دیکھا اور تین سے چار بار اپنی پلکیں جھپک کر خود کو عباس کی موجودگی کا یقین دلایا تو عباس نے آہستہ سے ہیر کے ہونٹوں پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا

"آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا"

ہیر کو گمان بھی نہیں تھا وہ عباس کو دیکھ کر پہلا جملہ یہ ادا کرے گی

"کوشش بھی یہی تھی کہ تم ڈر جاؤ سامنے والے کو حیران کرنا، پریشان کرنا، ڈرانا یا پھر چونکانا۔۔۔ عادت سی بن چکی ہے میری"

عجیب سا تاثر اپنی آنکھوں میں لئے وہ ہیر کو دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں بولا۔۔۔ ہیر کنفیوز ہوکر عباس کی آنکھوں کا رنگ دیکھنے لگی جہاں تک اُس کو یاد پڑتا تھا دوسری ملاقات میں عباس کی آنکھوں کا رنگ مختلف تھا شاید گہرا کالا رنگ۔۔۔۔ 

اِس وقت ہیر کو عباس کی آنکھیں دیکھ کر وہ بِلّا یاد آیا جو چند گھنٹے قبل اُس نے برگد کے پیڑ کے پیچھے دیکھا تھا وہی بِلا جو ہری چمکتی آنکھوں سے اُس کو گھور رہا تھا۔۔۔۔ ہیر کے دیکھنے پر عباس اُس کے اوپر جھکا ہوا ہیر کو بھی خاموشی سے دیکھنے لگا تب ہیر نے اُس سے پوچھا

"لیکن آپ مجھے ڈرانا کیوں چاہتے ہیں"

ہیر الجھتی ہوئی عباس سے پوچھنے لگی پہلی ملاقات میں جب وہ روڈ کراس نہیں کر پارہی تھی تب بھی یہ شخص تیزی سے اُس کے قریب اپنی گاڑی لایا تھا جیسے اُس کو مار ہی ڈالے گا اور وہ ڈر گئی تھی۔۔۔۔ اور دوسری ملاقات میں بھی وہ دور بیٹھا اُسے کافی دیر سے تکے جارہا تھا پھر خالی جگہ دیکھ کر اُس کا ہیر کو روکنا نام پوچھنا اور اب بھی اُس نے ہیر کو ڈرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی

"بتایا تو ہے اپنی عادت سے مجبور ہوں میں لیکن اِس وقت میں تمہیں ڈرانے نہیں بلکہ تم سے پیار کرنے آیا ہوں"

عباس نے ہیر سے بولتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اُس کا گال چھوا تو ہیر عباس کا لمس محسوس کر کے بدک کر پیچھے ہوئی

"تم تو ابھی سے ڈر گئی ہو مجھ سے، میں کچھ بھی غلط نہیں کررہا ہوں آجاؤ میرے پاس"

ہیر ابھی بھی عباس کی بےتاثر آنکھوں کو دیکھ رہی تھی جو اِس وقت کسی بھی جذبے کسی بھی احساس سے عاری تھی مگر عباس نے ہیر کی یہ کوشش لیمپ بند کر کے ناکام کردی۔۔۔ کمرے میں مکمل طور پر اندھیرا ہوجانے کی وجہ سے اب ہیر عباس کو دیکھ نہیں سکتی تھی

عباس ہیر کو اپنی جانب کھینچ کر اپنے حصار میں لے چکا تھا۔۔۔۔ وہ ہیر کی گردن پر جھکتا ہوا ہیر کی خوشبو محسوس کرنے لگا۔۔۔۔ مہکتا دہکھتا گرم سانسوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے ہیر شرم و حیا سے چور ہونے لگی اِس کے باوجود اُس کا ذہن کمرے کے بند دروازے کی جانب چلاگیا دروازہ تو اندر سے بند تھا پھر عباس اندر آیا کیسے۔۔۔۔

"آپ روم میں کیسے آئے"

اپنی گردن پر گرم سانسوں کی تپش محسوس کر کے ہیر اپنی الجھن دور کرنے کے لیے عباس سے سوال کرنے لگی

"ایسے سو بند دروازوں کو کھول کر میں تمہاری خوشبو محسوس کرتا ہوا تم تک کہیں بھی پہنچ سکتا ہوں، آج کے بعد تم مجھے ہمیشہ اپنے آس پاس محسوس کروگی کسی ساۓ کی طرح۔۔۔۔ میں ہر وقت تمہارے ساتھ رہوں گا مجھے تم اپنا اسیر کرچکی ہو پہلی نظر میں مجھے تم سے عشق ہوگیا تھا"

وہ ہیر کے کان کے قریب اپنے ہونٹ لاکر آئستہ آواز میں کوئی سحر پھونک رہا تھا۔۔۔ عباس کی باتوں سے ہیر کے حواس سلب ہونے لگے وہ ہیر کو بیڈ پر لٹاکر اس کی گردن پر جھکنے لگا تبھی ہیر جلدی سے بولی

"ڈرائیونگ کرنے کے دوران روڈ کراس کرتی ہوئی لڑکی سے عشق کر بیٹھے آپ۔۔۔ وہی دیکھا تھا آپ نے پہلی بار مجھے"

ہیر جھجھکتی ہوئی عباس سے سوال کرنے لگی

"پہلی بار میں نے تمہیں ابھی چند گھنٹے قبل دیکھا ہے، جب تم برگد کے درخت کے پاس کھڑی تھی"

اِس سے پہلے ہیر کچھ سوچتی وہ اپنے ہونٹ ہیر کے ہونٹوں پر رکھتا ہوا اُس کی سانسیں بند کرچکا تھا۔۔۔ عباس کی بےباکی پر ساری سوچیں اُس کے ذہن سے رفع دفع ہوگئی تھی

***""""***

"ابھی تک کل والی بات کو سوچ کر دل جلا رہی ہوں اپنا" 

ایوب خان ڈائننگ ہال میں آتے ہوئے گلنار یعنی اپنی بہو سے بولے جو خاموش ڈائننگ ہال میں کرسی پر بیٹھی ہوئی سبزی کاٹ رہی تھی۔۔۔۔ افسردہ موڈ کا اندازہ ایوب خان گلنار کی خاموشی سے لگاچکے تھے

"آپ ہی بتائیں دل نہیں جلاؤ تو اور کیا کروں۔۔۔۔ کل کتنے غرور کتنے فخر سے ماہ نور کے سامنے اپنی تربیت کا حوالہ دیتے ہوئے بول دیا تھا کہ میرا ہاشم اخلاق سے گری ہوئی حرکت کر ہی نہیں سکتا مگر ہاشم نے اپنے منہ سے خود اعتراف کر کے مجھے شرمندہ کردیا۔۔۔ مجھے تو سوچتے ہوئے شرم آرہی ہے کہ وہ پوری رات باہر کسی غیر لڑکی کے ساتھ گزار کر گھر آیا تھا"

گلنار افسردگی کے ساتھ شرمندگی سے ایوب خان کے سامنے بولیں جو اُن کے سامنے کرسی پر براجمان تھے

"ہمیں ابھی بھی یقین نہیں ہے اِس بات کا۔۔۔ ہاشم خان ہمارا خون ہے، وہ خاندانی ہے اور خاندانی مرد ایسی گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتے"

ایوب خان گلنار سے بول رہے تھے تب ہاشم ڈائنیگ ہال میں آگیا ہاشم کو وہاں آتا دیکھ کر گلنار کچھ بولتی ایک دم خاموش ہوگئی

"کیا کوئی خاص موضوع زیرِ گفتگو ہے جو میرے آنے پر یوں ایک دم خاموشی چھاگئی بولیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں" 

ہاشم خاص طور پر گلنار کو دیکھتا ہوا بولا کل سے وہ اُس سے بات نہیں کررہی تھی اُس کا رویہ عجیب اکھڑا اکھڑا تھا

"ایسی کوئی خاص بات نہیں ہورہی تھی جس کی وجہ سے تمہیں یہاں سے جانا پڑے بیٹھو شمع ناشتہ لانے والی ہے"

ایوب خان ہاشم کو دیکھتے ہوئے بولے جو ابھی تک کرسی کو پکڑے کھڑا گلنار کو دیکھ رہا تھا

"اگر ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے تو پھر ماں جی خاموش کیوں ہیں، دا جی ان سے بولیں کہ مجھ سے بات کریں۔۔۔ اگر میری کوئی بات اِن کی دل آزاری کا سبب بنی ہے تو مجھے بتائیں یوں خاموش نہ رہیں، گھر کے ایک فرد نے اِس گھر کا سکون برباد کرکے رکھا ہے کم سے کم اِن کو میرا احساس کرنا چاہیے" 

ہاشم ایوب خان سے شکوہ کرتا ہوا بولا تو گلنار نے غصّے بھری نظر ہاشم پر ڈالی اور ایوب خان سے بولیں

"ابا جی اِس کو اچھی طرح واضح سمجھادیں گھر کا سکون اور چین اِس کا ہی نہیں ہمارا بھی تباہ و برباد ہوچکا ہے، اِس گھر کا سکھ اور چین برباد کرنے والی کوئی دوسری نہیں اِسی کی اپنی بیوی ہے جو اِسی کا انتخاب تھی۔۔۔ اور اِس سے اُس لڑکی کا نام اور خاندان کا بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ کل اِس نے شادی کا اعلان کیا تھا۔۔۔ ایک کو تو آزما ہی چکے ہیں اب اِس کی دوسری پسند کو بھی آزمالیتے ہیں"

گلنار غصّے بھرے لہجے میں بولتی ہوئی سبزی کا تھال اٹھاکر کرسی سے اٹھ کر کچن کی جانب جانے لگی تو ہاشم راستے کی دیوار بن کر کھڑا ہوگیا

"اگر آپ کے غصّے کا سبب اُس لڑکی کی ذات ہے جس سے میں نے کل شادی کرنے کا اعلان کیا تھا تو اپنا غُصّہ تھوک دیں"

ہاشم نے بولتے ہوئے اپنا ہاتھ گلنار کے سر پر رکھا

"نہ میں اُس لڑکی کا نام جانتا ہوں، نہ اُس کے خاندان کا معلوم ہے مجھے۔۔۔ پرسوں رات ایک اکیلی لڑکی کو سڑک پر بےہوش دیکھ کر وہاں سے گزر جانا مجھے مناسب نہیں لگا تھا کیوکہ وہ لڑکی میری گاڑی کے سامنے آکر بےہوش ہوئی تھی اِس لیے اُس کو بےہوشی کی حالت میں عثمان کے فلیٹ لے گیا۔۔۔ یہاں میں اُس کو ماہ نور کی وجہ سے نہیں لایا تھا مگر قسمت میں کل اِسی بات کو موضوع بناکر ہنگامہ ہونا لکھا تھا، کل میں نے جو بھی اُس لڑکی کے متعلق بولا صرف اور صرف غصّے میں بولا۔۔۔ میرا اُس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں اور اتنی بڑی بات میں آپ کے سر کی قسم کھا کر جھوٹ بولنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا" 

ہاشم کے بولنے پر گلنار کے چہرے کے تنے ہوئے ہوئے نقوش نرم پڑگئے تو ہاشم کو سکون آیا

"ہم تم سے بول رہے تھے نہ ہمارا پوتا خاندانی ہے وہ کبھی بھی ایسی گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتا۔۔۔ اب تم جلدی سے اِس کے لیے کوئی خاندانی لڑکی کی تلاش کرو تاکہ ہم بھی اس گھر میں خوشیاں دیکھ سکے"

ایوب خان خوش ہوکر گلنار سے بولے تو کرسی پر بیٹھتا ہوا ہاشم گہرا سانس لےکر ایوب خان کو دیکھنے لگا

"کیا اِس گھر میں خوشیوں کا واحد حل میری دوسری شادی ہے دا جی"

وہ ایوب خان کو دیکھتا ہوا نرمی سے پوچھنے لگا تو ایوب خان سے پہلے گلنار بول اٹھی

"تم کیا چاہتے ہو ہاشم ہم دونوں تمہاری اولاد کو دیکھے بغیر دنیا سے چلے جائیں۔۔۔ ارے ہم دونوں تو حسن کی آمد پر بھی صبر کر کے اوپر والے کی رضا سمجھتے ہوئے خوش تھے۔۔۔ اُسی کو اِس خاندان کا وارث سمجھ لیتے مگر تمہاری بیوی کی نادانی نے اُس معصوم کی بھی ننھی سی جان لےلی۔۔۔ کیا تم دوبارہ  کسی دوسرے بچے کی جان کا رسک لے سکتے ہو، اُسے ماہ نور کی گود میں ڈال کر، کیا تمہیں لگتا ہے کہ ماہ نور اہلیت رکھتی ہے کہ وہ کسی دوسرے بچے کی پرورش کرسکے گی۔۔۔ ہاشم ایسا کرو کہ تم مجھے اور اپنے دا جی کو ہماری برداشت کا مادہ بتادو، ہمیں یہ سمجھا دو کہ ہم دونوں ماہ نور کا گستاخ بھرا لہجہ اور بدصورت رویہ کہاں تک برداشت کریں۔۔۔ ہمیں ہمارے ضبط کی حدود بتادو کتنا ضبط ہم کرچکے ہیں مزید اور کتنا ہمیں برداشت کرنا ہے"

گلنار کے بولنے پر ہال میں خاموشی چھاگئی جسے تھوڑی دیر بعد ہاشم کی آواز نے توڑا

"اگر آپ کی اور دا جی کی خوشی میری دوسری شادی میں ہے تو ڈھونڈ لیں میرے لیے اپنی پسند کی کوئی خاندانی بہو" 

ہاشم ڈھیلے ڈھالے انداز میں بول کر خاموش ہوگیا اُس کی آمادگی اور رضامندی جان کر ایوب خان اور گلنار خوشی سے مسکرائے

ہاشم خود بےدلی سے ناشتہ کرنے لگا۔۔۔ اُس کی دوسری شادی میں رضامندی صرف اور صرف ماہ نور کا بدصورت رویہ وجہ بنا تھا۔۔۔ ماہ نور اپنے بدصورت رویے سے نہ صرف دن بدن اُس کے دل میں اپنی محبت کم کرچکی تھی بلکہ اُس نے اُس کے گھر والوں کے سامنے بھی اپنا مقام کھو دیا گیا

***""""***

"امامہ۔۔۔ امامہ"

شہناس امامہ کو پکارتی ہوئی کمرے میں آئی تو بیڈ پر لیٹی ہوئی آرزو اٹھ کر بیٹھ گئی

"آپی چینج کررہی ہیں"

وہ اپنا سوجھا ہوا منہ کے ساتھ شہناس کو امامہ کے بارے میں بتانے لگی شہناس نے آرزو کی بات کا جواب دیئے بغیر نہوست سے اپنا منہ پھیرلیا تو امامہ کمرے میں چلی آئی

"جی آمی بلا رہی تھی آپ"

امامہ خود بھی آفس کے لئے تیار شہناس سے پوچھنے لگی

"تم آفس سے سیدھا اسپتال آجانا میں بھی صدیقی کے پاس جارہی ہو، اِس کو اچھی طرح سمجھادو کہ ہمارے پیچھے کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ہماری بچی کچی عزت مٹی میں مل جائے شاید صدیقی کو آج ڈاکٹرز چھٹی دے دیں گے اِس سے بول دینا اپنے باپ کی اگر زندگی چاہتی ہے تو ان کے کمرے میں نہ آئے انہیں اپنی شکل نہ دکھائے۔۔۔ اور یہ بھی اِس کو بول دو کہ یہ مجھے مخاطب نہ کیا کرے، میں کل رات اِس کو مرا ہوا سمجھ کر اِس پر رو لی ہوں۔۔۔ زبیدہ سے شام میں بات کرو گی اب جو بھی جیسا بھی رشتہ ہو فوراً بتاۓ تاکہ اِس کو جلد سے جلد فارغ کروں"

شہناس امامہ کو بولتی ہوئی گھر سے صدیقی کے پاس اسپتال چلی گئی جبکہ امامہ آرذو کا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھنے لگی یقیناً شہناس کی باتوں سے آرذو کو دکھ پہنچا ہوگا مگر اُس نے بھی تو شادی سے ایک دن پہلے گھر سے نکل کر کتنی بڑی حماقت کی تھی

"غلطی چھوٹی نہ ہو تو غصہ دیر سے اترتا ہے، امی ابو کو بھی وقت لگے گا۔۔۔ تمہارا ناشتہ بنادیا ہے کرلینا اور دروازہ اچھی طرح لاک کرلینا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ممتاز آجائے گی تو اُس سے گھر کا کام کروا لینا۔۔۔ میں آفس کے لیے نکل رہی ہوں واپسی پر اسپتال بھی جانا ہوگا رات ہوجائے گی" 

امامہ آرذو سے بولتی ہوئی آفس کے لیے نکل گئی

***""""***

پہاڑی پرندوں کی چہکار بھرنے کی سریلی آواز سے ہوتا صبح کا آغاز، ہیر پیلس میں سوئی ہوئی ہیر کو جگا گیا تھا۔۔۔ ہیر بیدار ہوکر بیڈ پر بیٹھ گئی بےاختیار اُس کی نظریں بیڈ پر اپنے برابر پر گئی جہاں اِس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا بےشکن بیڈ شیٹ دیکھ کر اُسے گمان ہورہا تھا جیسے یہاں رات میں کوئی سویا ہی نہ ہو، اتنی صبح صبح شیر عباس کہا جاسکتا تھا۔۔۔ ہیر تعجب کرتی بیڈ سے اٹھ کر واش روم چلی گئی شاور لینے کے ساتھ وہ اپنے سفر کی تھکان کے ساتھ کل رات کی تھکان بھی اتارنے لگی 

کل رات اُسے عباس کا رویہ تھوڑا عجیب لگا کیونکہ اُن دونوں کی سرسری سی ہی سہی دو ملاقاتیں تو ہوئی تھیں ہیر کو لگا تھا شیر عباس اُسے بیوی کے روپ میں دیکھ کر اُس سے بہت ساری بات کرے گا، اُس کے بارے میں پوچھے گا اپنے بارے میں بتائے گا شاید تھوڑا ٹائم بھی دے گا مگر وہ تو کل رات یوں اچانک ہی۔۔۔۔

شاور لینے کے بعد ہیر واپس روم میں آئی اُس نے کھڑکی سے پردے ہٹائے سورج کی کرن لہر کی مانند کمرے میں پھیل گئی۔۔ یہاں سے دور نہ صرف بڑے بڑے پہاڑوں پر پرندے اڑان بھرتے نظر آرہے بلکہ اِس جگہ سے غذر کی آبادی بھی نظر آتی تھی۔۔۔ اُس نے ہیر پیلس کے اندر مین گیٹ سے جیپ آتی دیکھی اِس وقت ہیر پیلس کے گیٹ پر پہرے دار موجود تھا جس نے گیٹ کھول کر جیپ کو اندر آنے کا راستہ دیا یہ کوئی اور نہیں بلکہ عباس تھا اُس کا شوہر ہیر کو تعجب ہوا اتنی صبح وہ کہاں سے آرہا تھا اور رات کو کب واپس چلا گیا اُس کو خبر بھی نہ ہوسکی تھی۔۔۔۔ ہیر اپنے دوپٹے کو پھیلا کر اوڑھتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی تو اُسے فرغب بی ہال میں ہی نظر آئیں

"تو پھر اکیلے کل رات نیند آگئی تھی آپ کو"

فرغب بی ہیر کو دیکھتی ہوئی اجنبیت کی دیوار کو سمیٹ کر ہیر سے مخاطب ہوئیں

"رات میں تو عباس آگئے تھے" 

ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہیر فرغب بی کو اطلاع دیتی ہوئی بتانے لگی شاید اُن کو علم نہیں تھا

"نہیں تو شیر عباس تو کل صبح سے ہی ہیر پیلس نہیں آئے ہیں بلکہ ابھی اُن کی جیپ کا ہارن سنائی دیا ہے"

فرغب بی ہیر کی غلط فہمی دور کرتی ہوئی ہیر کو بتانے لگیں اُن کی بات پر ہیر کے چہرے کی مسکراہٹ کی جگہ الجھن نے لےلی، وہ کنفیوز ہوکر ہال میں داخلی راستے پر عباس کو دیکھنے لگی جو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فرغب بی سے مل رہا تھا اُس کا حلیہ اُس کے کپڑے یہی بتارہے تھے وہ ابھی ہوٹل سے واپس لوٹا تھا مگر کل رات وہ کالے رنگ کی قمیض شلوار میں کمرے میں موجود تھا۔۔۔ ہیر مذید نروس ہوکر عباس کو دیکھنے لگی جو اب چہرے پر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی جانب آرہا تھا

"سوری میں کل سارا دن بزی رہا ہے اِس لیے تم سے ملنے نہیں آسکا پلیز تم اِس بات کو محسوس مت کرنا۔۔۔ اب میں تین دن تک بالکل فری ہوں میرا سارا وقت تہمارے لئے ہوگا" 

عباس جیسے دوستانہ لہجے میں ہیر کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا، ہیر حیرت سے اُس کی کالی گہری آنکھوں کے رنگ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ عباس کی بات سن کر ہیر کا ذہن ماؤف ہونے لگا کل رات والا منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگا

"نہیں مگر کل رات تو آپ آئے تھے"

ہیر کو اپنی آواز لڑکھڑاتی ہوئی تھوڑی گھبرائی ہوئی لگی تھی۔۔۔ ہیر کی بات سن کر عباس نے پہلے سیریس ہوکر غور سے ہیر کا چہرہ دیکھا پھر مسکراتا ہوا بولا

"ہاں کل رات میں تمہارے خوابوں میں آیا تھا لیکن ابھی تمہارے سامنے حقیقت میں موجود ہوں"

عباس کے بولنے پر ہیر کو لگا جیسے میں چھت پر لگا بڑا سا فانوس اُس پر گر پڑا ہو

"پہلی بار میں نے تمہیں چند گھنٹے پہلے دیکھا تھا جب تم برگد کے درخت کے پاس کھڑی تھی" 

کوئی آواز ہیر کو اپنے کانوں سے ٹکراتی ہوئی سنائی دی

"ہیلو کیا ہوا یہاں کھڑے کھڑے کہاں کھو گئی ہو"

عباس اُس کے سامنے کھڑا چہرے کے آگے چٹکی بجاتا ہوا بولا ہیر چکر کر فرش پر گری تو عباس نے ایک دم اُس کو تھام لیا، اپنی آنکھیں بند ہونے سے پہلے ہیر نے فرغب بی کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا اُس کے بعد ہیر کا دماغ تاریکی میں چلاگیا صرف کانوں میں آواز گونج رہی تھی

"آج کے بعد تم مجھے اپنے آس پاس محسوس کروں گی تمہارے ساۓ کی طرح ہر وقت میں تمہارے ساتھ رہوں گا، مجھے تم اپنا آسیر کرچکی ہوں پہلی ہی نظر میں مجھے عشق ہوگیا ہے تم سے۔۔۔۔

***""""***

شہناس اور امامہ کے جانے کے بعد آرزو دوبارہ بیڈ پر لیٹ گئی اُس کا دل ناشتہ کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا بلکہ ہر شے سے دل اچاٹ ہوچکا تھا، کام والی جب گھنٹی بجا بجا کر واپس جانے والی تھی تب اُس نے گھر کا دروازہ کھولا تھا صفائی کرنے کے دوران کام والی سے اُس کو معلوم ہوا کہ وہ اِس شادی کے لئے راضی نہیں تھی اِس لیے چھوٹی بہن کی شادی اُس کے ہونے والے شوہر سے کردی گئی

اب معلوم نہیں شہناس اور امامہ نے باقی محلے والوں سے کیا کہا ہوگا اور پتہ نہیں شہناس صدیقی کے پاس اسپتال میں جاکر اُس کے باپ کو اُسکی آمد کا بتاتی بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ آرزو اپنے کمرے میں موجود شیشے کے سامنے اپنا چہرہ دیکھنے لگی ایک طرف سوجھا ہوا گال دوسری طرف پھٹا ہوا ہونٹ تبھی تو صفائی کے دوران کام والی اُس کا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی کیوکہ کل شہناس نے اُس کو مار مار کر بری طرح اُس کے چہرے کا نقشہ بگاڑ ڈالا تھا۔۔۔ ابھی وہ مزید اپنے چہرے پر غور و فکر کرتی اچانک اسے یاد آیا وہ باہر کا دروازہ بند کرنا بھول چکی ہے اِس سے پہلے آرزو لاؤنچ میں جاکر دروازہ لاک کرتی تبریز گھر میں داخل ہوچکا تھا تبریز کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر، اُس کی گھر میں داخل ہونے والی جرٔت پر آرزو کو غُصّہ آنے لگا

"کیوں آئے ہو تم یہاں پر، ہمت کیسے کی میرے گھر میں قدم رکھنے کی تم نے"

آرزو تبریز کی دلیری پر غصّہ کرتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"میری بات سن لو آرزو میں تمہیں یہ بتانے کے لئے آیا ہوں تمہارے اَبو کے مارے ہوئے تھپڑ کا بدلہ لینے کے چکر میں میرا دماغ خراب ہوگیا تھا لیکن پیار میں تم سے شدید کرتا ہوں۔۔۔ یہ تمہارا چہرہ، کیا ہوا ہے تمہیں"

تبریز آرزو کے پاس آکر فکرمندانہ لہجے میں اُس سے پوچھنے لگا، جس کے بدلے میں آرزو نے تبریز کے گال پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا تبریز اپنے گال پر ہاتھ رکھے ہکابکا آرزو کو دیکھنے لگا

"یہ تھپڑ ہے تمہاری ساری باتوں کا جواب اُس دن میرے ابو نے تمہیں بالکل صحیح تھپڑ مارا تھا۔۔۔ تم اِس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے۔۔۔ محبت کرنے والے یوں رسوا کرنے کا سبب نہیں بنتے ہیں، تم نے فریب سے دھوکے سے مجھے بلوایا اور میں بےوقوف بنی اپنے ماں باپ کی عزت کی پرواہ کیے بغیر تمہاری محبت میں چلی آئی یہ میرا چہرہ دیکھ رہے ہو یہ انعام ملا ہے مجھے میری حماقت کا جو میں نے اپنی شادی سے ایک دن پہلے تمہارے پاس آکر کی، میں اب تمہارا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی ہو چلے جاؤ یہاں سے"

آرذو تبریز کو باتیں سناتی ہوئی باہر دروازے کی طرف اشارہ کرتی ہوئی اسے جانے کا بولی

"آرذو میں تمہارے ابو سے بلکہ تمام گھر والوں سے معافی مانگو گا میرے پیرنٹس تمہارے گھر پر میرا رشتہ لےکر آئیں گے، پلیز مجھے ایک موقع دے کر دیکھو میں سچ میں محبت کرتا ہوں تم سے"

تبریز نے بولتے ہوئے آرذو کا ہاتھ تھامنا چاہا جسے اُس نے بےدردی سے جھڑک دیا

"تمہیں میرے ابو یا گھر والوں سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتی ہوں، تمہاری محبت نے مجھے بربادی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے میرا کردار میری فیملی کی نظر میں اِس قدر مشکوک ہوکر رہ گیا ہے کہ میں کسی سے نظریں تک ملانے کے قابل نہیں رہی ہو میرے ابو موت کے منہ سے واپس آئے ہیں پلیز اگر تمہیں تھوڑی سی شرم رہی تو آئندہ مجھے ملنے یا رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا۔۔ چلے جاؤ تبریز تمہیں خدا کا واسطہ ہے چلے جاؤ یہاں سے اِس سے پہلے دوبارہ کوئی فسانہ بنے اور میں مکمل طور پر برباد ہوکر رہ جاؤ پلیز میری زندگی سے ہمیشہ کے لئے چلے جاؤ"

بولتے ہوئے آرذو اپنا چہرہ چھپا کر رو دی تبریز اُس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا اِس لئے شکستہ قدم اٹھاکر وہ گھر سے باہر نکل گیا

***""""***

"بس جی نصیب نصیب کی بات ہوتی ہے کس کی قسمت میں کیا لکھا ہوتا ہے اگر یہ پہلے سے معلوم ہوجائے تو انسان اپنے حالات ہی سدھار لیں۔۔۔ اب کسے معلوم تھا کہ لڑکے کی بڑی بہن کو آرزو کو پسند کر کے گئی اور عین شادی کے وقت پر لڑکے کو چھوٹی بہن پسند آگئی۔۔۔ ماں باپ کیا کرتے شریف عزت دار لوگ جن پر تین تین بیٹیوں کی ذمہ داریاں بس جی خاموشی سے چھوٹی کو بیاہ دیا۔۔۔ بےچاری لڑکی پر کیا گزری اُس سے کسی کو سروکار ہی نہیں۔۔۔ اور بےچارے صدیقی صاحب نے تو بیٹی کی محبت میں اِس قدر روگ لیا کہ سیدھا اسپتال ہی پہنچ گئے"

زبیدہ افسوس کرتی ہوئی پوری داستان کٹ جوڑ کرتی گلنار کو سنانے لگی جس پر گلنار افسوس کرتی ہوئی بولی

"بڑا ہی برا دور چل رہا ہے انسان بالکل بےضمیر اور بےشرم ہوچکے ہیں نہ تو اب کسی کو کسی کا احساس رہا ہے نہ ہی کسی میں لحاظ رہا ہے۔۔۔ مجھے تو پہلی ہی نظر میں وہ بچی اپنے ہاشم کے لئے بےحد پسند آئے تھی۔۔۔ تم ایسا کرو آرزو کی آمی سے پوچھ لو، جیسے اُن کو سہولت ہو تو پھر چلتے ہیں اُن کے گھر۔۔۔ مگر ذرا باتوں ہی باتوں میں انہیں بھی بتادینا کہ ہمارے بیٹے کو بھی رشتوں کی کمی ہرگز نہیں ہے بس ہمیں اُن کا گھرانہ شریف اور عزت دار لگ رہا ہے اور بیٹی پسند آگئی ہے تو سوالی بن کر اُن کی دہلیز پر آرہے ہیں" 

گلنار اچھے موڈ میں باقی ساری لڑکیوں کی تصویریں زبیدہ کو تھماتی ہوئی بولی۔۔۔ باقی دوسری لڑکیوں سے اب اسے دلچسپی نہیں تھی دل اور دماغ دونوں ہی آرزو کو اپنی بہو اور ہاشم کی بیوی بنانے کے لیے آمادہ ہوچکے تھے

"ارے وہ تو آپ فکر ہی نہ کریں یہاں آپ کے پاس آنے سے پہلے شہناس آپا کے سامنے آپ کے بیٹے کی تعاریفوں کے ایسے پل باندھ کے آئی ہوں کہ شہناس آپا تو خوش ہوکر شکر ادا کررہی تھی" 

زبیدہ گلنار کو بولتی ہوئی گلنار کے ہاتھوں میں نیلے نیلے نوٹ دیکھنے لگی جو وہ اپنے پرس سے نکال رہی تھی

"ابھی یہ رکھ لو زبیدہ باقی رشتہ کرنے کے مراحل طے ہوجاتے ہیں تو میں تمہیں تمہاری فیس دے دو گی سمجھو یہ میں تمہیں اپنی خوشی سے دے رہی ہوں"

گلنار سچ میں خوش تھی اور پیسے لینے کے بعد زبیدہ بھی خوش ہوگئی ہاشم کو ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی

"خیریت ہے آپ اکیلی بیٹھے بیٹھے مسکرا رہی ہیں"

ہاشم جو اُسی وقت آفس سے گھر لوٹا تھا گلنار کو دیکھتا ہوا بولا اور وہی صوفے پر گلنار کے پاس بیٹھ گیا

"مسکرا اِس لیے رہی ہوں کیونکہ میں خوش ہوں اور میں خوش اِس بات پر ہوں کہ جس لڑکی کو میں نے تمہارے لئے پسند کیا تھا بہت جلد اُس کے گھر تمہارا رشتہ لےکر جانے والی ہوں" 

گلنار خوشی خوشی ہاشم کو بتانے لگی

"اچھا تو یہ بات ہے، پھر دعا کریں گے اُن لوگوں کو بھی آپ کا بیٹا پسند آجائے"

ہاشم فل الحال تو اس ٹاپک میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا تھا مگر گلنار محسوس نہ کرے اِس لیے تبصرہ کرتا ہوا بولا

"ارے پسند کیوں نہیں آئے گا میرا بیٹا کیا نظر انداز کرنے والی شخصیت رکھتے ہو تم" 

گلنار تفّکر بھرے انداز میں ہاشم کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ 31 سالہ خوش شکل، خوش اخلاق پڑھا لکھا اچھی جاب پر فائز وہ سچ میں کہیں سے بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں تھا

"آپ شاید بھول رہی ہیں کہ آپ کا بیٹا پہلے سے شادی شدہ ہے اور یہ بات نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے"

ہاشم گلنار کی خوشی دیکھتا ہوا بولا کیونکہ وہ اِس رشتے کے لیے بہت زیادہ ایکسائیٹڈ نظر آرہی تھی اگر اِسی بات کو لےکر وہ لوگ رشتے سے انکار کردیتے تو لازمی بعد میں گلنار افسردہ ہوجاتی اور ہاشم ایسا نہیں چاہتا تھا

"آرذو کے گھر والوں کو پہلے ہی بتادیا ہے اور انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اب تم منہ سے کوئی بھی بری بات نکال کر میرا موڈ خراب مت کرنا تمہاری بیوی ویسے ہی دوپہر میں مجھے کافی باتیں سناچکی ہے خیر اب تم چل کر خود ہی لڑکی دیکھ لینا بہت خوبصورت ہے آرزو، گھرانہ بھی شریف اور انتہائی عزت دار لوگ ہیں۔۔۔ تم ساتھ چلو گے تو اچھا ہے وہ لوگ بھی تم کو دیکھ لیں گے ایسے ہی بات آگے بڑھے گی"

گلنار ہاشم کو سمجھاتی ہوئی بولی تو ہاشم اُس کی بات سے صاف انکار کرگیا

"لڑکی خوبصورت ہے فیملی عزت دار اور شریف ہے آپ اور دا جی مطمئن ہونے چاہیے۔۔۔۔ ماں جی آپ دونوں کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے۔۔۔ ابھی آفس کے سو بکھیڑے پڑے ہیں ایسی میٹینگز کے لیے شاید میں اسپیشلی ٹائم نہیں نکال پاؤ پلیز مائنڈ مت کیجئے گا اِس بات کو"

ہاشم بولتا ہوا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا گلنار نے اُس کی بات کا برا بھی نہیں مانا وہ ایوب خان کے ہمراہ آرزو کے گھر رشتے لےکر جانے کا ارادہ کر بیٹھی تھی یقیناً جب بھی ہاشم آرزو کو دیکھتا اُسے اپنی ماں کی پسند پر خوشی ہوتی گلنار کو پورا یقین تھا

***""""***

پورا ہفتہ گزر چکا تھا مگر وہ ابھی تک خوف کے حصار سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔۔ ہیر پیلس میں جو کچھ اُس کے ساتھ پہلی رات ہوا تھا نہ تو ہیر وہ سب چاہ کر بھول سکتی تھی، نہ ہی وہ سب کسی کو بتاسکتی تھی۔۔۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ صدمے کی کیفیت میں دیر تک روتی رہی تھی۔۔۔ فرغب بی اور عباس کے پوچھنے پر فیملی یاد آرہی ہے کہہ کر اُس نے رونے کا جواز بنایا تھا 

عباس نیچر کے لحاظ سے اچھا تھا اُسے اداس دیکھ کر اچھے دوست کی طرح ہیر کو ٹریٹ کررہا تھا، اُس رات کے بعد سے ویسا کوئی واقعہ اُس کے ساتھ دوبارہ پیش نہیں آیا تھا مگر وہ برگد کے درخت اور اُس کالے بِلّے سے کافی زیادہ ڈر گئی تھی

آج غذر کا موسم کافی خوشگوار تھا ہیر کی طبیعت فریش ہوجائے عباس اُسے پھندر ویلی لے آیا تھا یا اِس وقت ہیر بڑے سے چٹان نما پتھر بیٹھی ہوئی جھیل کے نیلے پانی کو دیکھ رہی تھی جو اتنا صاف اور شفاف تھا کہ اُس میں چھوٹے چھوٹے سائز کے پتھر  صاف دکھائی دے رہے تھے۔۔۔ یہاں آکر وہ قدرتی مناظر دیکھتے ہوئے اُن میں کھو کر کافی اچھا محسوس کررہی تھی تب اسے اپنی پشت پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وہ خوفزدہ ہوکر اِس سے پہلے مڑتی عباس اُس کو ایک دم شانوں سے تھام چکا تھا نہیں تو وہ سیدھی پانی میں جا گرتی

"یہ میں ہوں ہیر، یہاں میرے علاوہ آس پاس کوئی تمہیں دوسرا دکھ رہا ہے جو تم ایسے ڈر گئی ہو۔۔۔ کیا بچپن سے ہی اتنا چھوٹا دل ہے تمہارا کہ تم بات بات پر ڈر جاتی ہو"

عباس ہیر کو شانوں سے تھاما ہوا اس سے پوچھنے لگا۔۔۔۔ عباس نے اِن سات دنوں میں محسوس کیا تھا وہ بہت زیادہ ڈرپوک سی لڑکی تھی جو بات بات پر خوفزدہ ہوجایا کرتی تھی

"میں سمجھی کوئی اور تھا" یہ جملہ تو عباس کو جیسے رٹ چکا تھا وہ عباس کو اچانک دیکھ کر یہی بولتی تھی

"میں پہلے ڈرپوک نہیں تھی مگر یہاں آنے کے بعد اب ہوگئی ہوں"

وہ ابھی بھی عباس کی کالی گہری آنکھوں کو دیکھ کر اطمینان کرتی ہوئی بولی اور دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگی یہ عباس ہی تھا۔۔۔ عباس اُس بڑی چٹان پر ہیر کے قریب بیٹھ کر اُس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا

"یہاں پر ایسا کیا ہے جو تمہیں خوف میں مبتلا کرتا ہے"

عباس کے اِس طرح پوچھنے پر وہ عجیب کشمکش میں پڑگئی کہ عباس کو اپنے ساتھ ہوا واقعہ بتائے کہ نہیں، وہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کیوکہ وہ شوہر تھا۔۔۔۔ یہ سب کیسے سنتا ہیر بےبسی سے عباس کو دیکھے گئی تب عباس اپنا بازو پھیلا کر ہیر کے شانے پر دراز کرتا ہوا اُس سے بولا

"یہاں رہنے والے آبادی لوگوں نے ہیر پیلس کو لےکر ایسی ہی بےبنیادی کہانیاں گڑھ لی ہیں۔۔۔ اگر تم نے ایسا ویسا کچھ سن لیا ہے تو تمہیں اُن پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔۔ اوکے"

عباس ہیر کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھے آنکھوں میں اپنائیت بھرے تاثُر کے ساتھ بےحد نرمی سے بولا تو ہیر اُس کو بتا بھی نہیں سکی کہ وہ یہاں آکر کون سا نقصان پہلی ہی رات اٹھا چکی ہے

"یار کچھ بولا تو کیا کرو تم، باتیں کیا کرو مجھ سے،، بس ایسے ہی خاموشی سے دیکھتی رہتی ہو مجھے۔۔۔ تمہیں معلوم ہے نیچر کے لحاظ سے میں خود بھی کافی پرائیویٹ سا بندہ ہوں ہر کسی سے اتنی جلدی فرینک نہیں ہوتا مگر ہم دونوں کے بیچ بہت قریبی بہت بہت گہرا رشتہ ہے۔ِ۔۔۔ تمہارے ہر وقت ڈرنے سے میں اپنے اور تمہارے رشتے میں چاہ کر بھی اپنائیت محسوس نہیں کرپاتا جو اِس رشتے کی خوبصورتی ہے"

عباس نے ہیر کو اپنی باتوں سے احساس دلاتے ہیں ذرا سا جھک کر اُس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھے ویسے ہی ہیر خوف سے پیچھے ہوئی جس سے عباس ایک دم ہیر کا ری ایکشن دیکھ کر خاموش ہوگیا اور خود ہیر بری طرح شرمندہ ہوگئی

"ایم سوری عباس آپ پلیز برا مت مانیے گا"

ہفتے بھر سے ایسے ہی ہوتا آرہا تھا عباس جب جب ہیر کے قریب آنے کی کوشش کرتا، ہیر عباس سے ایسے ہی خوفزدہ ہوجاتی اور عباس ایک دم بناء کچھ بولے خاموش ہوجاتا

"چلو واپس چلتے ہیں اندھیرا ہونے والا ہے"

عباس اُس کی بات پر بناء کوئی جواب دیئے بولتے ہوئے اٹھنے لگا

"عباس"

ہیر نے عباس کو پکارنے کے ساتھ اپنے دونوں بازو اس کے گلے کے گرد حمائل کیے اور عباس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپالیا۔۔۔ آج سے پہلے اِن گزرے ہوۓ دنوں میں ہیر نے یہ عمل پہلے کبھی نہیں کیا تھا اور اِس وقت اِس لیے کیا تھا کیوکہ وہ عباس کو خود سے بدگمان یا ناراض نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔ ہیر کے اِس عمل سے عباس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی 

"اگر تم اِس اپنائیت کا اظہار نہیں کرتی میں تب بھی تم سے خفا نہیں ہوتا" 

عباس پتھر سے نیچے اترتے ہوئے ہیر سے بولا کیونکہ پتھر اونچا تھا وہ ہیر کو پکڑ کر احتیاط سے نیچے اتارنے لگا۔۔۔ 

سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی تیز سرد ہوا نے زور پکڑلیا تھا، ہیر عباس کے ساتھ چلتی ہوئی گرم شال اپنے گرد اچھی طرح لپیٹنے لگی عباس نے جیپ تھوڑی دور کھڑی کی تھی اِس لئے وہ دونوں ہی پیدل چل رہے تھے

عباس دونوں ہاتھ جیکٹ کے جیبوں میں ڈالا تیز قدم اٹھاتا ہوا جیپ تک پہنچ چکا تھا جبکہ ہیر اُس سے کافی پیچھے تھی دور سے ہی بہت سے مویشی آنے لگے جن میں بھیڑ اور بڑے سینگوں والے پہاڑی بکرے تھے

"ہیر ان کو مت دیکھو وہ ابھی بہت دور ہیں، جلدی سے آجاؤ"

عباس جیپ کے پاس کھڑا ہیر سے بولا جو ابھی سے کنفیوز ہوکر سڑک کراس کر کے دوسری طرف آنے کی بجائے سوچے جارہی تھی

"میں کیسے آسکتی ہوں آپ نہیں جانتے میں روڈ کراس کرنے سے ڈرتی ہوں"

ہیر بڑے بڑے سینگوں والے پہاڑی بکرے دیکھ کر تیز آواز میں عباس سے بولی

"نہیں یہ بات تو میں اچھی طرح جانتا ہوں اور تمہاری بیوقوفی کے مظاہرے بھی دیکھ چکا ہوں"

عباس بولتا ہوا وقت ضائع کیے بغیر ہیر تک پہنچا جب تک سارے مویشی سڑک پر اُن کے قریب آتے سیدھا اپنی منزل پر جانے لگے تھے۔۔۔ عباس نے ہیر کا ہاتھ پکڑا تاکہ وہ ہیر کو اپنے ساتھ جیپ تک لے جاسکے

"نہیں پہلے اِن سب کو گزر کر یہاں سے جانے دیں"

ہیر عباس کا ارادہ بھانپتی ہوئے ڈر کر بولی

"تعداد دیکھی ہے تم نے اِن سب کی"

عباس نے ہیر سے بولتے ہوئے اچانک اسے بازوؤں میں اٹھا لیا

"عب۔۔۔ باس یہ۔۔۔۔ یہ کیا کررہے ہیں آپ اُف"

ہیر عباس کے اس عمل پر بوکھلا گئی بےشک اِس وقت وہاں کوئی نہیں تھا اِس کے باوجود ہیر کو شرم آنے لگی۔۔۔ عباس اُس کے ڈر اور شرم کی پرواہ کئے بغیر اُسے مویشیوں کے بیچ سے بازوؤں میں اٹھائے اپنی جیپ تک لے آیا

"صرف دو منٹ کا کام تھا لیکن تم نے صبح کردینی تھی جیپ تک آتے آتے"

عباس نے جیپ کے پاس آکر ہیر کو نیچے اتارتے ہوئے بولا مگر شرم سے ہیر کچھ بول بھی نہیں پائی

شام کا ڈھلتا ہوا منظر یا ہیر کا شرمایا ہوا چہرہ عباس کو سمجھ نہیں آیا کون سے منظر زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا

"اب ایسے کیا دیکھنے لگ گئے ہیں آپ"

ہیر عباس کی نظروں سے نروس ہوتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"بہت جلد اپنا دیوانہ بنادو گی تم مجھے"

عباس کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولنے کے ساتھ ہیر کے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کرتا ہوا اُسے دیکھے گیا

"اور مجھے لگ رہا ہے بہت جلد آپ مجھے پاگل بنادیں گے"

ہیر نے عباس کی حرکت پر بولا کیونکہ وہ اُسے یوں کسی بچے کی طرح بازوؤں میں اٹھا لایا تھا کہ وہ سبنھل بھی نہیں پائی تھی۔۔۔ ہیر کے جملے پر عباس کے چہرے کے تاثرات ایک دم تبدیل ہوئے

"وہ تو بنا ہی دوں گا یہی تو پلان ہے"

عباس کی بےتاثر آنکھوں کو دیکھ کر ہیر سمجھ نہیں پائی یہ بات اُس نے مذاقاً بولی تھی یا پھر یونہی

واپسی پر ہیر تھکی ہوئی تھی اِس لیے سیٹ سے سر ٹیک کر اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلی جبکہ عباس اب خاموشی سے ڈرائیونگ کررہا تھا

***""""***

ہسپتال کے کاریڈور میں دور دور تک ہیر کی چیخوں کی آوازیں گونج رہی تھی اِس وقت وہ اپنے آپے میں نہیں تھی اور زور زور سے چلا رہی تھی

"کون ہے اِس پیشنٹ کے ساتھ خاموش کروائیے اسے دوسرے مریض بھی ڈسٹرب ہورہے ہیں اِس کی چیخنے سے"

ہسپتال کی نرس فرغب بی کے پاس آتی ہوئی بولی تو فرغب بی اٹھ کر ہیر کے پاس کمرے میں جانے لگیں

"پاگل ہے بےچاری کل رات کو بھی ایسے ہی چلا رہی تھی"

فرغب بی نے کاریڈور میں ایک عورت کو بولتے ہوۓ سنا۔۔۔ وہ اُس عورت کو بناء کچھ بولے کمرے میں ہیر کے پاس چلی آئیں

جہاں چار چار وارڈ بوائز نے ہیر کو پکڑ رکھا تھا مگر ہیر اِس کے باوجود بےقابو ہوکر ذور سے چلاتی ہوئی ان لوگوں سے اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش میں زور زور سے چیخیں مار رہی تھی

"ہیر رحم کھاؤ اپنی حالت پر، سنبھالو اپنے آپ کو خدا کے لیے خاموش ہوجاؤ"

فرغب بی روتی ہوئی ہیر کی حالت دیکھ کر بولی کُھلے بال ابتر حلیہ سچ مچ وہ پاگل ہی ہوچکی تھی اُس پریگنینسی کی حالت میں

"یہ کیا کررہی ہیں آپ۔۔ ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے کہ اِس کو کوئی بھی انجکشن دینے کے لیے۔۔۔ پریگنینسی میں یہ کتنا خطرناک ہے آپ کو اندازہ نہیں ہے"

فرغب بی اُس نرس کو ٹوکتی ہوئی بولیں جو سرنچ بھر رہی تھی

"بی بی ہمہیں مت سکھاؤ جاؤ جاکر باہر بیٹھو۔۔۔ بلکہ یہاں اِس کے شوہر کو بلاؤ، گیارہ ماہ سے اوپر ہوچکے ہیں بچے کی گروتھ دن بدن بڑھتی جارہی ہے ڈاکٹرز نے اوپریشن کرنے کا بول دیا ہے"

نرس فرغب کو بولتی ہوئی نئی مصیبت میں مبتلا کرکے ہیر کو انجکشن لگانے لگی

***""""***

"ماشاء اللہ ہمیں تو بہت زیادہ پسند آئی ہے آپ کی بیٹی"

گلنار اپنے ساتھ بیٹھی آرزو کو دیکھتی خوش ہوکر صدیقی اور شہناس سے بولی، ساتھ ہی ایوب خان کی راۓ لینے کے لیے اُن کی جانب دیکھنے لگی ایوب خان نے بھی مسکرا کر ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا یعنٰی اُن کو بھی اپنے پوتے کے لیے آرزو بہت زیادہ پسند آئی تھی

"الحمداللہ ہم نے اپنی تینوں بیٹیوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کا درس بھی دیا ہے۔۔۔ اوپر والے نے جہاں میری بچیوں کا نصیب لکھا ہے مجھے پوری امید ہے یہ تینوں ہمارا سر کبھی نہیں جھکائیں گیں"

کیوکہ شہناس کو زبیدہ بتاچکی تھی اِن کی پہلی بہو کافی بدتمیز اور منہ پھٹ قسم کی لڑکی تھی اِس لیے شہناس خاص طور پر اخلاقیات کا ذکر کرتی ہوئی بولی جبکہ آرزو سر جھکائے بیٹھی شہناس کا تبصرہ سننے لگی۔۔۔ شہناس اور صدیقی اُس کے لیے اِس رشتے پر خوش نظر آرہے تھے جو پہلے سے شادی شدہ ہونے کے ساتھ عمر میں اُس سے دس سال بڑا تھا

"اخلاق ہی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے جو اِس زیور سے آراستہ ہو تو آنے والی نسل بھی اچھی طرح پروان چڑھتی ہے۔۔۔ صدیقی صاحب ہمہیں آپ کی بیٹی اپنے پوتے کے لیے پسند آئی ہے ہم چاہیے گے کہ آپ بھی ہمارے گھر تشریف لاکر ہمارے پوتے ہاشم خان سے مل لیں، اُسے دیکھ لیں، اچھی طرح بات چیت کرلیں۔۔۔۔ ہم فضول کی رسموں میں پڑ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ اگر ہاشم سے ملاقات کے بعد آپ مطمئن ہوتے ہیں تو شادی کی تاریخ مقرر کرکے اگلے ماہ ہی اِس اہم فریضے کی ادائیگی کریں گیں"

ایوب خان بھی گفتگو میں حصّہ لیتے ہوۓ بولے۔۔۔ اتنی جلدی شادی کا سن کر صدیقی اور شہناس دونوں ہی بوکھلا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے آرزو کا سر کچھ اور نیچے جھک گیا آنکھیں نم ہونا شروع ہوگئیں

"امامہ بیٹا آرذو کو کمرے میں لے جاؤ"

شہناس چائے سرو کرتی ہوئی امامہ سے بولی۔۔۔ وہ آرذو کی دل کی کیفیت سے خوب انجان تھی اِس لیے بالکل نہیں چاہتی تھی آرذو کے کسی عمل سے گلنار کو کچھ علم ہو

"زبیدہ بہن نے آپ کے پوتے کی تصویر دیکھائی تھی ماشاللہ کافی سنجیدہ اور پروقار شخصیت ہے اُس کی، اُس سے مل کر یقیناً ہمیں خوشی ہوگی لیکن اتنی جلدی شادی۔۔۔۔ آپ ہمیں تھوڑا وقت دیں"

امامہ آرزو کو اپنے ساتھ لےکر جاچکی تھی صدیقی اپنی بوکھلاہٹ چھپاۓ ایوب خان سے بولا شہناس بھی فوراً گلنار کو دیکھتی ہوئی بتانے لگی

"دراصل ابھی دو ہفتے پہلے ہی ہم نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کی ہے اتنی جلدی دوسری کو بھی رخصت کردیں ایسا فوری تو ممکن نہیں، اِس لئے آپ ہمیں تھوڑا وقت دیں"

شہناس گلنار کو دیکھتی ہوئی سلیقے سے بولی ہوئی۔۔۔ وہ لوگ بھی جلدی آرذو کو بیانہ چاہتے تھے مگر ہاشم کے گھر والوں کو شاید اُن سے بھی زیادہ جلدی تھی

"ہمیں صرف آپ سے آپ کی آرزو چاہیے جہیز کے نام پر ایک سکہ ہم نہیں لیں گے ابا جی جہیز کے سخت خلاف ہیں، اُس طرف سے آپ بالکل مطمئن ہوجائیں"

گلنار بول ہی رہی تھی تبھی دو اجنبی لوگ ایک مرد اور ایک خاتون ڈرائنگ روم میں چلے آئے جسے دیکھ کر صدیقی اور شہناس کے تاثرات پر ناگواری در آئی

"جی بولیئے کس سلسلے میں آنا ہوا آپ لوگوں کا"

صدیقی سنجیدہ تھوڑے خشک لہجے میں اُن لوگوں سے بولا ایوب خان اور گلنار بھی اُن لوگوں کو دیکھ کر خاموش ہوگئے

"ہم آپ کی دو گلی چھوڑ کر رہتے ہیں اپنے بیٹے تبریز کا رشتہ آپ کی بیٹی آرزو کے لئے لے کر آئے ہیں آپ ابھی اپنے مہمانوں کے ساتھ مصروف ہیں ہم لوگ دوبارہ آجاتے ہیں"

ٹیبل پر چنے گئے لوازمات۔۔۔ ایوب خان اور گلنار کو دیکھ کر وہ خاتون بولی جو تبریز کی ماں تھی،،، ان خاتون کی بات سن کر میں ایک دم ماحول میں سنجیدگی چھاگئی گلنار بھی خاموش نظروں سے ایوب خان کو دیکھنے لگی

"معاف کیجئے گا آپ نے آنے میں کافی دیر کردی ہم اپنی بیٹی کا رشتہ اِن کے پوتے سے طے کرچکے ہیں"

صدیقی کی اب کی بار آواز گونجی تو جہاں آنے والوں کو اپنا یہاں آنے کا مقصد بےکار لگا وہی ایوب خان اور گلنار کو رشتہ پکا ہونے پر اطمینان ہوگیا

***""""***

آج طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہیر کی آنکھ کھل گئی اُس نے اپنے برابر میں سوئے عباس کو دیکھا۔۔۔ عادت کے مطابق آج ہیر نے روز کی طرح کھڑکی کے پردے نہیں ہٹائے تھے کہیں اس عمل سے عباس کی نیند خراب نہ ہوجاتی۔۔۔ بیس دن اُن دونوں کی شادی کو گزر چکے تھے، ہیر کا گرہیز سمجھتے ہوئے عباس نے ابھی تک اُس کو ٹائم دیا تھا جبر یا زبردستی کا وہ عادی نہیں تھا بلکے جتنا ممکن ہوسکتا تھا وہ ہیر کا خیال بھی رکھتا تھا 

اُس دن کے بعد سے ہیر نے کوئی ایسا واقعہ نہیں دیکھا، نہ کچھ اُس کے ساتھ ایسا ہوا اِس لیے ہیر کا ڈر اور خوف ختم ہوچکا تھا۔۔۔ ہیر بیڈ اٹھ کر لباس تبدیل کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی اِس وقت ہال بالکل سنسان تھا فرغب بی ابھی تک نہیں جاگی تھیں نہ ہی ابھی تک کوئی ملازم ہیر پیلس آیا تھا۔۔۔ بڑے سے ہال کا جائزہ لیتی ہوئی ہیر کی نظریں لکڑی کے اُس پیانو پر ٹھہر گئی۔۔۔ آج تک اُس نے عباس کو اِس پیانوں کو بجاتے نہیں دیکھا تھا نہ جانے اِس پیانو کو یہاں شوقیہ رکھا گیا تھا یا پھر سجاوٹ کے لئے۔۔۔ ہیر قدم اٹھاتی ہوئی پیانو کی طرف بڑھی اُس نے پیانو کی ایک کی کو انگلی سے دبایا تو پورے ہال میں آواز بیدار ہوئی۔۔۔ آہستہ سے وہ ساری انگلیاں پیانو کی کیز پر رکھتی ہوئی پیانو بجانے لگی، پورا ہال پیانو کی آواز سے گونج اٹھا 

"لالالالا"

ساتھ ہی کوئی نسوانی آواز ہیر کو سنائی دینے لگی۔۔۔ جیسے اُس کے پیانو بجانے کے ساتھ کوئی گا رہا ہو، ہیر نے اپنی انگلیوں کی حرکت کو وہی روک دیا تو آواز بھی آنا بند ہوگئی

چند سیکنڈ یونہی خاموشی سے گزر گئے اُس نے دوبارہ پیانو بجایا دوبارہ سے نسوانی آواز میں کوئی گنگنانے لگا اس نے ایک دم پیانو کی کیز سے اپنی انگلیاں ہٹالی ویسے ہی آواز بھی آنا بند ہوگئی۔۔۔ ہیر الجھ کر اُس سنسان راہداری کو دیکھنے لگی جہاں سے یہ آواز آرہی تھی

جب پہلے ہی دن سے فرغب بی نے اسے وہاں جانے سے روکا تھا تو ہیر نے بھی اُس جگہ پر دھیاں نہیں دیا تھا، نہ ہی اتنے دن گزرنے کے بعد اِس ویران راہداری نے اس کی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔۔۔ لیکن آج ہیر کو محسوس ہوا اس جگہ پر کوئی موجود ہے، خودبخود ہیر کے قدم اُس راہداری کی جانب بڑھنے لگے

"کون ہے یہاں پر"

ہیر اُس راہداری میں پہنچی جہاں چار کمرے موجود تھے اُن کمروں میں دائیں جانب موجود کمرے میں سرخ رنگ کی بتی جلتی اُس کو دروازے کی جھری سے نظر آرہی تھی جبھی وہ تیز آواز میں پوچھنے لگی مگر وہاں سناٹے کا عالم تھا وہ کشمکش میں پڑگئی اِس کمرے میں جاۓ یا نہ جائے۔۔۔۔ اس کمرے کو چھوڑ کر ہیر نے اُس کے برابر والا دوسرا کمرہ کھولا یہ راستہ باہر ہوجاتا تھا مطلب یہ ہیر پیلس کا پچھلا حصّہ جہاں اندر کی طرف دروازہ کھلتا تھا۔۔۔ ہیر وہی دروازے کے پاس کھڑی دس قدم کے فاصلے پر بڑے سے درخت کے نیچے اُس قبر کو دیکھنے لگے جس پر کوئی کتبہ موجود نہیں تھا

نہ جانے یہ قبر کس کی تھی اور اس جگہ کیوں موجود تھی ہیر نے سوچتے ہوۓ واپس دروازہ بند کردیا آگے جانے کی اُس کی ہمت نہیں ہوئی۔۔۔۔ بائیں جانب موجود کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوگئی اُس کمرے میں کاٹھ کباڑ پرانا سامان اور ایک کونے میں شیشے کی لاتعداد بوتلیں پڑی تھی، جن میں سے اُٹھتے بدبو کے بھبھکے کی وجہ سے ہیر کو دوپٹہ اپنی ناک پر رکھنا پڑا

وہ چاروں اطراف نظر دوڑاتی ہوئی پرانے اور بیکار سامان کو دیکھ رہی تھی تب اُس کی نظر اچانک اپنی تصویر پر گئی۔۔۔ ہیر اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھ کر چونکی کیا یہ عباس نے بنائی تھی؟؟؟ وہ حیرت زدہ ہوکر چلتی ہوئی اپنی تصویر کے پاس آکر اس کو قریب سے دیکھنے لگی

اُس پینٹنگ کے پاس ہی ایک چھوٹا سا صندوق بھی رکھا ہوا تھا ہیر کچھ سوچتی ہوئی صندوق کو کھولنے لگی۔۔۔ جس کے اندر سرخ رنگ کے کپڑے میں کچھ لپٹا ہوا رکھا تھا۔۔۔ تجسس میں آکر ہیر نے سرخ رنگ کے کپڑے کو ہٹایا یہ کوئی وزنی سے تھی کپڑا ہٹتے ہی اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔ خوف کے مارے جھرجھری لےکر وہ ایک دم پیچھے ہٹی اور کمرے سے باہر نکلتی ہوئی راہداری سے باہر نکلنے لگی تبھی اچانک وہ عباس سے ٹکرائی 

"کیا کررہی تھی تم اِس جگہ پر"

عباس ہیر کو اسٹوروم سے نکلتا ہوا دیکھ کر سخت لہجہ اختیار کرتا ہیر سے پوچھنے لگا

"عباس۔۔۔ وہ وہاں اِس کمرے میں باکس کے اندر میرا۔۔۔۔

ہیر گبھراتی  ہوئی آواز میں عباس کچھ بولتی اچانک فرغب بی نے عباس کو پکارا۔۔۔ ہیر نے پلٹ کر دیکھا فرغب بی اُسی کمرے سے باہر نکل رہی تھیں جہاں تھوڑی دیر پہلے اُس نے سرخ بتی جلتی ہوئی دیکھی تھی۔۔۔ عباس کی توجہ فرغب بی اپنی جانب مائل کرچکی تھیں

"ایک ضروری کام ہے شیر عباس، آپ کو میرے ساتھ آنا ہوگا"

فرغب بی نے عباس سے بولتے ہوئے ایک خاموش نظر ہیر کے چہرے پر ڈالی۔۔۔ ہیر اپنی پریشانی میں بھی محسوس کر گئی تھی جیسے فرغب بی اُس کی موجودگی کی وجہ سے عباس سے کھل کر بات نہیں کر پارہی تھیں

"فرغب بی نے تمہیں پہلے ہی دن سمجھایا تھا کہ یہاں اِس جگہ کسی کو آنے کی اجازت نہیں، تو یہ بات تمہیں سمجھ نہیں آئی"

عباس فرغب بی کی بات سن کر اُن کا اشارہ سمجھتا ہوا ایک مرتبہ پھر غصّے میں ہیر سے بولا

"عباس میری بات سنیں وہاں اُس کمرے کے اندر۔۔۔ 

ہیر آب روتی ہوئی اِس سے پہلے کچھ بولتی عباس اُس کی پوری بات سنے بغیر ہیر کو بازو سے پکڑ کر ہال سے باہر لے جانے لگا

"یہاں پر جو حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کو سزا دی جاتی ہے۔۔۔ اور تمہاری سزا یہ ہے کہ تم فل الحال مجھے ہیر پیلس میں نظر نہ آؤ"

عباس نے غصّے اور سخت لہجے میں بولتے ھوئے اسے ہال سے باہر نکال کر اندر سے دروازہ بند کردیا

"عباس پلیز دروازہ کھولیں۔۔۔ عباس"

ہیر پریشان ہوکر دروازہ بجاتی ہوئی بولی لیکن ہیر کو محسوس ہوا جیسے عباس اِس وقت وہاں موجود نہیں تھا وہ شاید فرغب بی کے پاس چلاگیا تھا

ہیر کو عباس سے اتنے سخت رویہ کی بالکل توقع نہیں تھی وہ پریشان ہونے لگی اتنی صبح کے وقت عباس اسے اپنے خوبصورت محل سے نکل چکا تھا وہ بھی اتنی چھوٹی سی بات کے لئے۔۔۔ ہیر کو مزید رونا آنے لگا

ہیر پیلس کے مین گیٹ سے باہر ایک عورت کھڑی دور سے ہیر کو دیکھ رہی تھی اِس وقت گیٹ پر پہرے دار موجود نہیں گیٹ زنجیر سے بند تھا مگر جھری سے ہیر صاف اُس عورت کو دیکھ سکتی تھی ہیر کو محسوس ہوا جیسے وہ عورت اُس سے کچھ بولنا چاہیے رہی تھی ہیر اُس عورت کے پاس چلی آئی

"بھاگ جاؤ یہاں سے، کہیں دور چلی جاؤ مار ڈالے گا یہاں کا آسیب تمہیں بھی۔۔۔ یہ جگہ منحوس ہے یہاں کوئی آباد نہیں ہوسکتا اس جگہ نے میرے بیٹے مائیکل کی بھی جان لےلی۔۔۔ تم بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گی میری مانو دور چلی جاؤ اِس منحوس جگہ کو چھوڑ کر"

وہ عورت ہیر سے بولے جارہی تھی ہیر پر عجیب خوف سا طاری ہونے لگا۔۔۔ ہیر کو محسوس ہوا وہ عورت بولتے بولتے اُس سے دور جارہی تھی پھر ایک دم ہوا میں تحلیل ہوگئی 

غذر کا جنگل سرکتا ہوا آہستہ آہستہ اُس کے قریب آنے لگا۔۔۔۔ ہیر خوفزدہ ہوکر اُس بھیانک ویران جنگل کو دیکھنے لگی اچانک ہیر کی توجہ برگد کے درخت نے لےلی

وہی اُس رات والا موٹا کالا بِلا اچانک اُس درخت کے پیچھے سے نمودار ہوا۔۔۔۔ خوف کے مارے ہیر کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔۔۔ وہ کالا بلّا ہیر کی جانب بڑھتا ہوا اچانک انسانی روپ میں خود کو بدل چکا تھا کالے لباس، ہری آنکھوں میں عباس کے روپ میں۔۔۔۔ وہ ہیر کو دیکھتا ہوا بولا

"تم اب یہاں سے کہیں نہیں جاسکتی۔۔۔ میں تمہیں بہت جلد یہاں سے اپنے ساتھ لے جاؤ گا اپنی دنیا میں ہمیشہ کے لیے"

اُس کی بات پر خوف کے مارے ہیر کے حواس کام کرنا چھوڑتے گئے وہ ہیر پیلس کے گیٹ کے پاس گر کر وہی بےہوش ہوگئی

***""""***

"کیا اَمّی کی ہیر سے بات ہوئی وہ آرہی ہے"

امامہ جو آفس جانے کے لیے تیار ہورہی تھی، آرذو اُس سے پوچھنے لگی کیوکہ صدیقی اور شہناس اُس سے بات چیت بند کرچکے تھے

"اَمّی کی ہیر سے نہیں عباس بھائی سے بات ہوئی تھی۔۔۔ اَمّی نے ہیر کے ساتھ اُن کو بھی آنے کی عادت دی تھی تاکہ تمہارے نکاح میں دونوں میاں بیوی کی شرکت ہوجاۓ مگر عباس بھائی نے اپنے آنے کا منع تو کیا ہی ہیر کو بھیجنے سے بھی انکار کردیا"

امامہ آئینے کی سامنے کھڑی بال بنانے کے ساتھ آرذو کو بتانے لگی

"ہیر نے خود منع کرنے کا بول دیا ہوگا اپنے شوہر کو، میں جانتی ہوں وہ مجھ سے ناراض ہے جبھی مجھ سے فون پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی تو میرے نکاح میں شرکت کیوں کرے گی" 

آرزو بیڈ پر پڑی چادر تہہ کرتی ہوئی بےدلی سے امامہ سے بولی۔۔ ویسے بھی اُس کی اپنی شادی کون سا اُس کی اپنی مرضی سے یا پسند سے ہورہی تھی، وہ خود اِس شادی پر خوش نہ تھی بس اُس نے اپنی شادی کو اپنی غلطی کی سزا کے طور پر قبول کرلیا تھا

"بھلے وہ تم سے موبائل پر بات نہیں کرتی لیکن وہ یہاں آنا چاہتی تھی اُس نے مجھے فون پر بات کرتے ہوئے خود بولا تھا، اب معلوم نہیں عباس بھائی ایسا کیوں نہیں چاہتے۔۔۔ خیر جو بھی بات ہو تم زیادہ محسوس مت کیا کرو، اچھا ذرا اَمی کے کمرے میں جاکر وہ پرچہ لے آؤ جس پر سامان کی لسٹ ہے میں واپسی پر لیتی آؤنگی"

امامہ آخری جملہ آرذو کا افسردہ چہرہ دیکھ کر اُس کا دھیان بٹانے کی غرض سے بولی

ہیر سے اُن لوگوں کی کم ہی بات ہوتی تھی کل امامہ کی ہیر سے بات ہوئی تب ہیر نے آرذو کی شادی کا سن کر اپنے کراچی آنے کا ارادہ بتایا تھا مگر آج صبح ہی شہناس کے فون پر دعوت دینے پر عباس صاف لفظوں میں انکار کرچکا تھا۔۔۔ اب معلوم نہیں یہاں آنے میں اُس کی کوئی مجبوری تھی یا ویسے ہی وہ کسی بات کا برا مان کر بیٹھا تھا

***""""***

"بہن کی شادی میں چھوٹی بہن شرکت نہیں کرسکتی ایسا کیسے ممکن ہے میں خود بات کرتا ہوں شیر عباس سے"

بیڈ پر لیٹے ہوئے صدیقی نے ہیر کے نہ آنے کی بات سنی تو وہ شہناس سے بولا

"کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو کال کرکے شیر عباس کو مجبور کرنے کی، آپ بھول رہے ہیں شیر عباس کی شادی ہیر سے پہلے آرذو سے ہونے والی تھی شاید اِس بات کی وجہ سے اُس نے خود آنے کا منع کردیا اور ہیر کو بھیجنے سے بھی انکار کردیا۔۔۔۔ صدیقی صاحب اگر دیکھا جائے تو اِسی میں ہی بہتری ہے کہ وہ دونوں آرزو کی شادی میں یہاں نہ آئیں اِس لیے میں نے خود بھی شیر عباس سے اِس موضوع پر زیادہ بات نہیں کی۔۔۔ ہمیں اِس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ اُس نے ہماری ہیر کو خوش رکھا ہوا ہے"

شہناس صدیقی کو بولتی ہوئی اُس کی میڈیسن دینے لگی تو صدیقی خاموش ہوگیا 

"کون ہے اندر آجاؤ"

کمرے کے دروازے پر دستک کی آواز پر آرزو کمرے کے اندر چلی آئی 

"آپی وہ لسٹ مانگ رہی ہیں جو آپ نے کل رات تیار کی تھی، بول رہی تھیں واپسی گھر آتے وقت سارا سامان لے آئیں گیں"

آرزو دھیمی آواز میں نظر جھکاۓ شہناس سے بولی۔۔۔ وہ جانتی تھی اِس وقت صدیقی کی اُس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہا ہوگا جبکہ شہناس کے تاثرات بھی ایک دم سخت ہوگئے ہوگے

"دراز میں رکھی ہے نکال کر امامہ کو دے دو اور اُس سے بول دو اپنے ابو کی دوائی بھی لیتی آئے ختم ہونے والیں ہیں"

شہناس بےلچک لہجے میں بولی۔۔۔ صدیقی کے بیمار رہنے کی وجہ سے اب گھر کے کاموں کی ذمہ داری بھی امامہ کے کندھوں پر آچکی تھی جسے وہ بناء شکایت کیے خوش اسلوبی سے نبھانے کی پوری کوشش کرتی

"آرزو یہاں آکر بیٹھو میرے پاس"

آرذو پرچہ ہاتھ میں پکڑے کمرے سے جانے لگی تک صدیقی کی آواز پر نہ صرف آرذو نے پلٹ کر صدیقی کو دیکھا بلکہ شہناس بھی چونک کر اپنے شوہر کو دیکھنے لگی۔۔۔ جو آرذو سے مخاطب اُسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ آرزو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چلتی ہوئی صدیقی کے پاس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی

"کوئی بھی مرد دنیا کے لئے چاہے کتنا بھی ظالم ہو، برا ہوں، دھوکے باز ہو مگر اپنی اولاد کے لیے وہ صرف ایک باپ ہی ہوتا ہے۔۔۔ باپ بن کر اپنی اولاد کے لیے سوچتا ہے، باپ بن کر وہ اپنی اولاد کے لیے وہ فیصلے کرتا ہے جس میں اُس کی اولاد کی بھلائی چھپی ہو۔۔۔۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری غلطی پر ہم تمہاری شادی ہاشم سے کررہے ہیں جو کہ پہلے سے شادی شدہ مرد ہے تو ایسی بات نہیں ہے۔۔۔ جو پچھلے دنوں ہمارے گھر کے حالات رہے ہیں زبیدہ کو اُن تمام حالات کی خبر تھی۔۔۔۔ اور جو رشتہ اُس نے تمہارے لیے بتایا  مطلب ہاشم کا رشتہ زبیدہ اُس کے گھر کے حالات سے بھی واقف ہے۔۔۔ ہاشم کے گھر جاکر اُس کو دیکھنا اُس سے بات چیت کرنا یہ سب دنیاوی تقاضے ہیں۔۔۔ میں اور شہناس تمہارے لئے ہاشم کو پسند کرچکے ہیں ہاشم کی پوچھ گچھ میں اپنے قریبی دوست سے کروا چکا ہوں، وہ کسی بری صحبت میں ملوث نہیں۔۔۔۔ ہاشم کی ماں اور دادا تمہیں بہت مان سے عزت سے رخصت کر کے یہاں سے لے جائیں گے میں چاہتا ہوں تم اُن کے ساتھ اپنے شوہر کے دل میں بھی اپنے لیے عزت اور مقام پیدا کرو۔۔۔ تم لوگوں کی ماں نے تم تینوں کی پرورش جس طرح کی اُس تربیت کو کسی غیر کی نظروں میں چھوٹا مت پڑنے دینا۔۔۔ ہاشم کے دل کے ساتھ اس کے گھر والوں کے دل میں بھی اپنے لئے مقام پیدا کرنا۔۔۔۔ اور آخری بات اولاد چاہے بڑی سے بڑی غلطی کرلے، ماں باپ کا چاہے کتنا ہی دل دکھا لے مگر ماں باپ کبھی بھی اپنی اولاد سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکتے"

صدیقی کی بات سن کر آرذو کو بےتحاشہ رونا آنے لگا۔۔۔ وہ صدیقی کے سینے پر سر رکھے آنسو بہانے لگی۔۔۔ شہناس خود بھی اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرنے لگی

***""""***

"بھاگ جاؤ یہاں سے کہیں دور چلی جاؤ مار ڈالے گا یہاں کا آسیب تمہیں بھی۔۔۔ یہ جگہ منہوس ہے یہاں کوئی آباد نہیں ہو سکتا،، میرے بیٹے مائیکل کی جان لے لی اِس جگہ نے تم بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گی۔۔۔ میری مانو تو دور چلی جاؤ اِس منہوس جگہ کو چھوڑ کر"

اُس بوڑھی عورت کی آواز ایک مرتبہ پھر ہیر کے کانوں میں گونجی، ہیر نے چکراتے ہوئے سر کے ساتھ اپنی آنکھیں کھولیں تو خود کو بیڈروم میں موجود پایا۔۔۔ اُس عورت کی باتیں یاد کرکے اسے عجیب سی وحشت ہونے لگی اُسے یہاں اِس جگہ پر نہیں رہنا تھا۔۔۔ ویسے بھی کل امامہ سے بات کرتے ہوئے اس نے اپنے کراچی آنے کی حامی بھرلی تھی، اپنی سوچوں میں گم کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس کیے بغیر وہ بیڈ سے اٹھ کر نیچے اترنے لگی

"کہاں جارہی ہو"

عباس جو دائیں جانب صوفے پر بیٹھا ہوا ہیر کو ہوش میں آتا دیکھنے کے ساتھ اُس کے تاثرات کو بغور جانچ رہا تھا ہیر کو بیڈ سے نیچے اترتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگا

"آپ نے تو مجھے یہاں سے نکال دیا تھا تو پھر واپس کیو لےکر آئے ہیں آپ مجھے یہاں پر دوبارہ"

ہیر کو عباس کا اپنے ساتھ کیا جانے والا سلوک ذرا پسند نہیں آیا تھا وہ عباس سے شکوہ کرتی ہوئی پوچھنے لگی

"تمہارے غلطی کرنے پر تمہیں سزا دی تھی، لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ تم یہی رہو"

بیسمینٹ میں اُس کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر عباس کو فرغب بی کے ساتھ بیسمنٹ میں جانا تھا کیونکہ اُس کو دورہ پڑنے کی صورت وہ زور زور سے چیختا چلاتا ایسے میں یا تو عباس یا پھر ایبک ہی اُسے قابو کرپاتے، یہ کام اکیلی فرغب بی کے بس کا نہ تھا۔۔۔۔ بہت سی پوشیدہ باتوں کے ساتھ عباس ہیر کو اُس کے متعلق ابھی کچھ نہیں بتاسکتا تھا تبھی عباس ہیر کو پیلس سے باہر نکال چکا تھا مگر جب اُس نے ہیر کو گیٹ پر بےہوش پڑے دیکھا تو ہیر کو بےہوشی کی حالت میں اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا

"لیکن میں اُس بھوت بنگلے میں نہیں رہنا چاہتی میں واپس جارہی ہوں"

ہیر بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور فیصلہ کن انداز میں عباس سے بولی۔۔۔ ہیر کی بات سن کر عباس کے سنجیدہ تاثرات میں ایک دم سختی در آئی وہ صوفے سے اٹھ کر چلتا ہوا ہیر کے پاس آیا

"یہ بھوت بنگلہ ہی اب تمہارا مستقل ٹھکانہ ہے اور یہاں پر میرے ساتھ رہنا تمہاری قسمت، جو تمہارے ماں باپ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ چکے ہیں۔۔۔ اب تم یہاں سے میری اجازت کے بغیر کہیں نہیں سکتی، بلکہ اِس جگہ سے ایک قدم بھی باہر نکال نہیں سکتی۔۔۔ تمہاری اَمّی کی تھوڑی دیر پہلے کال آئی تھی میرے پاس میں انہیں تمہارے آنے کا منع کرچکا ہوں"

عباس ہیر کو دیکھتا ہوا واضح انداز میں اُس کو جتاکر بولا

"مگر کیوں منع کیا آپ نے اَمّی کو، میری بہن کی شادی ہونے والی ہے میں آرزو کی خوشیوں میں شرکت کرنا چاہتی ہوں عباس"

ہیر عباس کی بات پر ایک دم بےبسی کا اظہار کرتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ اپنے آنے کے متعلق امامہ کے سامنے حامی بھر چکی تھی، عباس کے یوں انکار کرنے پر نہ جانے اُس کے گھر والے کیا سوچ رہے ہوں گے۔۔۔ ویسے بھی تھوڑے دن کے لیے وہ اِس پُراسرار جگہ سے خود بھی دور جانا چاہتی تھی

"تمہیں کیا معلوم کہ آرذو کی سچ میں شادی ہونے والی ہے کیا معلوم شادی کے وقت وہ پھر دوبارہ گھر سے چلی جاۓ۔۔۔ اب ہر کوئی تو شیر عباس جیسا نہیں ہوگا جو آرزو کے بدلے اُس کی دوسری بہن سے شادی کرنے کا بول دے"

عباس کے منہ سے ادا ہوئے الفاظ اُسے واضح طور پر طمانچے کے طور پر لگا ہیر خاموشی سے عباس کو دیکھتی رہی جبکہ عباس بھی خاموش نظروں سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہیر کو دیکھ رہا تھا

"تو نہ کرتے آپ اور آپ کی بہن یہ احسان ہم لوگوں پر۔۔۔ میری اَمّی نے بھیگ تو نہیں مانگی تھی آپ کے سامنے یا آپ کی بہن کے سامنے کہ میری دوسری بیٹی کو اپنالو"

بولتے ہوئے اچانک ہیر کے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا وہ تھوڑی دیر پہلے سارے ڈر اور خوف کو بھولے عباس کی باتوں کا نئے سرے سے افسوس کرنے لگی

"تمہاری زبان ہمیشہ اتنی بڑی ہے یا پھر آج میرے سامنے کچھ زیادہ ہی چل رہی ہے، لگام ڈالو اسے نہیں تو بہت بری طرح پچھتاؤ گی اپنے شوہر کا دوسرا روپ دیکھ کر"

عباس ہیر کی آنکھوں میں آۓ آنسو دیکھ کر اسے تنبہی کرتا بولا۔۔۔۔ صبح ہیر کو راہداری میں دیکھ کر اُس کا موڈ پہلے ہی آف تھا اوپر سے شہناس کی کال نے اُس کا موڈ مزید خراب کردیا تھا۔۔۔ آج ہوٹل کے لئے دیر ہوچکی تھی وہ ہوٹل جانے کی تیاری کرنے لگا

"مجھے آپ کے اِس روپ کو دیکھ کر بھی کوئی خوشی نہیں ہورہی عباس پلیز مجھے چند دنوں کے لیے کراچی جانے دیں۔۔۔ آپ کے اِس محل میں خوف آتا ہے مجھے"

ہیر ایک بار پھر اُس سے التجائی انداز میں بولی تو عباس نے غصّے میں اُس کے دونوں بازو کو سختی سے پکڑا

"یہاں خوف کھانے لائک ایسا کچھ نہیں، تم بار بار ایک ہی بات کو ریپیٹ کرکے مجھے غُصّہ دلا رہی ہو ہیر اگر تم نے اب مجھ سے کوئی فضول کی ضد کی تو میں بہت برے طریقے سے تمہارے ساتھ پیش آؤ گا"

عباس نے ایک بار پھر ہیر کو تنبہی کرنے کے ساتھ غُصّے میں بیڈ پر دھکیلا تو ہیر اوندھے منہ بیڈ پر گرتی ہوئی رونے لگی۔۔۔ کمرے میں دستک پر بھی ہیر نے رونے کا مشغلہ ترک نہیں کیا عباس نے بھی پرواہ کئے بغیر دستک دینے والے کو کمرے میں آنے کی اجازت دے دی

"کیا آج آپ کا ہوٹل جانا ضروری ہے"

فرغب بی کمرے میں آکر ایک نظر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر روتی ہوئی ہیر کو دیکھتی ہوئیں عباس سے مخاطب ہوکر پوچھنے لگیں

"جی آج ہوٹل میں ایک فنکشن ہے اسپیشل گیسٹ آنے والے ہیں عامر (مینیجر) اکیلے مینج نہیں کرپائے گا۔۔۔ ایبک کو اپنے ساتھ لےکر نہیں جارہا ہوں وہ یہی رہے گا میرے پیچھے کوئی پرابلم ہو تو سنبھال لےگا۔۔۔ ادر وائس میری ضرورت پڑے تو آپ مجھے انفارم کردیئے گا۔۔۔ اور آج ہیر اِس کمرے سے باہر نہیں نکلے گی اِس بات کا بھی آپ کو اچھی طرح خیال رکھنا ہے اِس کو کھانا یہی کمرے میں دیں گیں آپ"

عباس ایک سنجیدہ نظر روتی ہوئی ہیر پر ڈال کر فرغب بی کو ہدایت دیتا ہوا اپنے کمرے سے نکل گیا

"آپ کے لئے ناشتہ یہی بھجوا رہی ہو کرلیے گا ویسے تو شیر عباس بہت اچھے انسان ہیں لیکن ضدی لوگوں کے ساتھ وہ اچھے سے پیش نہیں آتے ہیں، آپ اِس بات کا دھیان رکھیں گی تو فائدے میں رہے گیں"

فرغب بی بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی ہوئی ہیر کے سِسکتے وجود کو دیکھ کر سمجھاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں

***""""***

صدیقی کی باتیں سن کر آرزو کا دل مزید بوجھل ہوگیا تھا دل پر ایک بوجھ سا لیے وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے میں چلی آئی جہاں امامہ آفس جانے کے لیے اُسے خدا حافظ کہہ کر نکل چکی تھی

آرذو کو لگنے لگا اب اُسے اپنی باقی کی ساری زندگی کسی روبوٹ کی طرح سب کا حکم مانتے ہوئے اور جی جی کرتے ہوئے گزارنی پڑے گی۔۔۔ ابھی کی اُس کی زندگی بھی پابندیاں سے گھری ہوئی تھی البتہ ذمہ داریاں اور فکروں سے آزاد تھی 

لیکن ذرا سی من مانی کر کے اپنے دل کی ماننے پر اُس کو جو سزا کے طور پر گہرے کنویں میں دھکیلا جارہا تھا کیا اچھا نہیں تھا اُس کے ماں باپ اُس کی خوشی کی خاطر تبریز کا لایا ہوا رشتہ قبول کرلیتے

تبریز اُس سے محبت کرتا تھا اُس سے مخلص تھا تبھی تو اُس نے اپنا رشتہ بھیجا تھا مگر نہیں۔۔۔۔ ضد میں آکر اپنی انا کو قائم رکھتے ہوئے اُس کے والدین اُس کی شادی ایسے مرد سے کروانے پر تلے تھے جو نہ صرف عمر میں بڑا تھا بلکہ شادی شدہ بھی تھا

"تمہارے ابو کے ساتھ اُن کے چیک اپ کے لیے اسپتال جارہی ہوں آکر دروازہ بند کرلو"

شہناس آرزو سے کہتی ہوئی جاچکی تھی وہ لمبی سانسیں کھینچتی دروازہ بند کرکے واپس کمرے میں چلی آئی

اُس نے ابھی تک ہاشم کو نہیں دیکھا تھا جس کو زبردستی اُس کے نصیب میں لکھا جارہا تھا ہاشم کی تصویر شہناس کے پاس موجود تھی آرذو اُس کے کمرے میں آکر وہ اینولپ لے آئی جس میں ہاشم کی تصویر موجود تھی جیسے ہی آرذو نے وہ تصویر سے باہر نکالی گھر کا دروازہ بجنے لگا۔۔۔ آرذو وہ تصویر بیڈ پر رکھ کر دروازے کے پاس آئی

"کون ہے"

آرذو نے دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھا

"آرذو پلیز دروازہ کھولو مجھے تم سے بات کرنی ہے"

تبریز کی آواز پر وہ بری طرح بوکھلا گئی

"تم۔۔۔۔ تم کیوں آئے ہو یہاں پر پلیز چلے جاؤ تبریز"

آرزو پریشان ہوکر تبریز سے بولی یعنی وہ خبر رکھے ہوئے تھا اِس وقت وہ گھر میں اکیلی تھی

"جب تک تم سے بات نہیں کرلیتا تب تک میں یہاں سے نہیں جاؤں گا آرذو دروازہ کھولو پلیز ایک بار میری بات سن لو تمہیں تمہارے گھر سے بلوانے کا مقصد تمہیں دھوکہ دینا نہیں تھا، سچی محبت کی ہے تم سے یار میں اس دن تم سے نکاح کرکے تمہیں اپنے ساتھ تمہارے امی ابو کے پاس لے جاتا"

تبریز کی بات پر اُس کا ہاتھ دروازہ کے لاک کی جانب بڑھا مگر صدیقی کی باتیں یاد کرکے وہ رونے لگی

"چلے جاؤ یہاں سے مت امتحان لو میری برداشت کا۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے تمہیں دور چلے جاؤ میری زندگی سے"

آرزو روہانسی لہجے میں بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تو لاونچ میں رکھا فون بجنے لگا۔۔۔ آرزو نے آنسو صاف کرتے ہوئے ریسیور اٹھایا

"تم میرے ساتھ بالکل اچھا نہیں کررہی آرذو اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔۔۔ تمہاری شادی کی بعد کی زندگی کسی اور کے ساتھ سہی مگر صرف مجھے یاد کرتے گزرے گی"

تبریز کی بات سن کر اس نے کال کاٹ کر ریسیور رکھ دیا یہ سچ بھی تھا باقی کی زندگی اُس کی شاید ایسی ہی گزرنی تھی اپنے کمرے میں آکر بےدلی سے وہ بیڈ پر بیٹھ گئی 

آرزو کی نظر بیڈ پر رکھے اینولپ کے اوپر رکھی تصویر پر پڑی، وہ شاکڈ کے عالم میں پوری آنکھیں اور منہ کھولے حیرت سے تصویر میں موجود شخص کو دیکھنے لگی

اپنے کاپنتے ہاتھوں سے آرزو نے تصویر کو اٹھایا وہ ابھی بھی شاکڈ کی کیفیت میں تصویر میں موجود اپنے لیے منتخب کیے جانے والے مرد کو نہیں بلکہ اپنے لیے منتخب کی جانے والی سزا کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے ماں باپ نے اُس کے لیے تجویز کی تھی ہاشم کی تصویر دیکھ کر آرذو کو اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا محسوس ہونے لگا

***""""***

پہلے بھی اُس کا یہی کام تھا جب وہ ہوٹل میں موجود اپنے آفس کے کمرے میں فری بیٹھا ہوتا تب لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ہیر پیلس کا جائزہ لینے لگ جاتا۔۔۔ حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس نے پورے ہیر پیلس میں جگہ جگہ خفیہ کیمرے نصب کیے ہوئے تھے تاکہ وہ شہر سے دور بھی ہو تو یہاں کی ہر پل کی خبر رکھ سکے

عباس نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا بیسمینٹ میں موجود وجود بےہوشی کا انجکشن دیئے جانے کے باعث اِس وقت بیڈ پر بےہوش لیٹا تھا جبکہ ایبک اِس وقت مین گیٹ پر پہرے دار کو کچھ سمجھانے میں لگا ہوا تھا ہال میں موجود فرغب بی معمول کی طرح تمام ملازموں پر نظر رکھے ہوئے انہیں صحیح سے کام کرنے کی تلقین دیتی نظر آرہی تھیں جبکہ اُس کے اپنے بیڈ روم میں اُس کی بیوی اِس وقت بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہوئی کسی گہری سوچ میں گُم تھی اس کا ناشتہ چار قدم کے فاصلے پر موجود میز پر رکھا ہوا تھا جس کو اُس نے ابھی تک دیکھنے تک کی زحمت نہیں کی تھی

"بہت ضدی ہے یہ لڑکی"

عباس نفی میں سر ہلا کر خود سے بولتا ہوا ہیر کی پکچر کو زوم کرتا اپنے موبائل سے فرغب بی کو کال ملانے لگا

"کیا کررہی ہیں آپ اِس وقت" 

عباس لینڈ لائن پر کال ملا کر فرغب بی کی آواز سنتا ہوا اُن سے پوچھنے لگا

"جیسے آپ کو تو علم ہی نہیں ہے۔۔۔ ایک منٹ توفیق اگر کمرے میں صفائی کرلی ہو تو لان میں جاکر خشک پتے اٹھاؤ اور پورے لان کی صفائی کرو۔۔۔ اور فرحانہ کو بول دو کہ شام کے لئے یخنی ابھی سے چڑھا دے سارے برتن دھو کر واپس اپنے گھر جائے۔۔۔ جی بولیے شیر عباس آپ نے کس لئے کال کی"

فرغب بی اپنی ہدایت ملازمہ کو دیتی ہوئی مصروف انداز میں عباس سے پوچھنے لگیں

"آپ نے ابھی تک چیک نہیں کیا کمرے میں جاکر اُس نے ناشتہ کیا بھی ہے کہ نہیں"

عباس کا جملہ فرغب بی کو چونکا گیا۔۔۔ اِس سے پہلے عباس ہوٹل میں بیٹھ کر ہیر پیلس کے صرف ایک ہی فرد کے بارے میں جاننے کے لیے فون کیا کرتا تھا جو اِس وقت بےہوشی کے انجکشن کے سبب ہوش میں نہ تھا

"آپ نے تو لازمی چیک کرلیا ہوگا بتائیے پھر میرے لیے کیا حکم ہے"

عباس فرغب بی کی بات پر چند سیکنڈ کے لئے خاموش ہوگیا

"وہ آج ضد کررہی تھی یہاں سے واپس جانے کے لئے"

عباس آہستہ لہجے میں فرغب بی کو بتانے لگا اُس کا لہجہ جذبات اور احساسات سے کندھا ہوا تھا جس پر فرغب بی دوبارہ چونکی

"اور آپ ایسا نہیں چاہتے ہے ناں"

فرغب بی عباس سے پوچھنے لگیں تو عباس فوراً سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور خود پر کنٹرول کرتا ہوا بولا

"میں ایسا کیوں چاہوں گا اسے اِس لئے تو اسے یہاں نہیں بلایا کہ وہ بھاگ کر دوبارہ اُنہی کے پاس چلی جائے۔۔۔ مجھ سے میری ہیر کو چھینا گیا تھا میں اُن سے اُن کی ہیر چھین لوں گا۔۔۔ ترسا ڈالوں گا جیسے خود اتنے برسوں سے ترستا آرہا ہوں"

عباس کا لہجہ اب کی بار کسی بھی احساس سے عاری تھا فرغب بی لمبی سانسیں کھینچتی ہوئی بولیں

"مجھے لگتا ہے وہ پریشان ہے آج اُس نے کچھ دیکھا ہے تبھی الجھ گئی ہے"

فرغب بی نے جو محسوس کیا وہ عباس کو بتانے لگیں تو عباس فرغب بی کی بات سن کر فوراً بولا

"تو آپ جاکر اُس کی پریشانیاں کم کریں اُس کی الجھنیں دور کریں"

عباس کی بات پر فرغب بی کو تعجب ہوا

"مطلب اُن کی ساری الجھنیں دور کردو"

فرغب بی عباس کو جملہ روانی میں دہراتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگیں

"فرغب بی میں نے صرف الجھنیں دور کرنے کو کہا ہے اُن الجھنوں کو سلجھانے کا نہیں بولا باقی آپ سمجھدار ہیں، میں کیا کہہ رہا ہوں آپ اچھی طرح سمجھ گئیں ہوگیں"

عباس پچھے کرسی سے ٹیک لگاتا ہوا بولا

"ٹھیک ہے میں کمرے میں جاتی ہوں ملازموں سے فارغ ہونے کے بعد"

فرغب بی فون رکھنے سے پہلے بولیں

"ناشتہ کروا دیئے گا اُس کو یاد سے"

عباس نے ہیر کی فکر میں بولتے ہوۓ خود فون رکھ دیا

***""""***

"ابھی تک ایسی ہی بیٹھی ہیں آپ، ناشتہ نہیں کیا آپ نے۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا بھی تھا کہ شیر عباس کو ضدی لوگ زیادہ پسند نہیں ہیں"

فرغب بی ہیر کے پاس آکر اُس سے بولیں۔۔۔ ناشتے کی ٹرے اٹھا کر انہوں نے ساتھ کھڑی فرحانہ کو دے دی۔۔۔ فرحانہ ٹرالی میں موجود دوپہر کا کھانا میز پر رکھ چکی تھی

"مجھے بھی ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں جو اپنے زبردستی کے فیصلے دوسروں پر مسلط کرکے خوش ہوتے ہو، عباس جو میرے ساتھ کررہے ہیں وہ بالکل ٹھیک نہیں ہے"

ہیر اُکھڑے ہوئے لہجے میں بناء ڈرے فرغب بی سے بولی۔۔۔ اِن چند دنوں میں اتنا تو وہ جان گئی تھی کہ عباس فرغب بی سے کافی قریب تھا

ہیر پیلس میں فرغب بی کا درجہ ملازموں جیسا ہرگز نہیں تھا بلکہ بہت سے اختیارات فرغب بی کو حاصل تھے وہ عباس سے بناء پوچھے ملازموں پر اپنی مرضی صادر کردیتی عباس کچھ نہیں بولتا

"ایسی کونسی اپنی مرضی شیر عباس آپ کے ساتھ کررہے تھے جس پر آپ خوش نہیں ہیں"

فرغب بی ہیر کو دیکھتی ہوئی صوفے پر بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگیں تو ہیر فوراً بولی

"وہ مجھے یہاں سے جانے نہیں دے رہے ہیں میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں تھوڑے دنوں کے لیے کیوکہ مجھے عجیب وحشت محسوس ہوتی ہے اِس جگہ پر"

ہیر اپنے ساتھ ہوا پہلے دن کا واقعہ اُن کو نہیں بتاسکتی تھی جو اس کے ساتھ یہاں پہلی رات ہوچکا تھا وہ خود بھی بھول جانا چاہتی تھی۔۔۔ ہیر کی بات سن کر فرغب بی صوفے سے اٹھ کر اُس کے پاس آئیں اور چاولوں سے بھری پلیٹ ہیر کو تھماتی ہوئی بولیں

"جب ایک لڑکی کو شادی کرکے رخصت کیا جاتا ہے تو اُس لڑکی کے والدین اُس کو یہی سمجھاتے ہیں کہ اب اُس لڑکی کا اصلی گھر اُس کے شوہر کا گھر ہے۔۔۔ اور ہر لڑکی نئی جگہ پر ایڈجسٹ کرنے میں تھوڑا پریشان ہوتی ہے، پھر آئستہ آئستہ اُس لڑکی کو اپنے شوہر کے گھر کی عادت ہوجاتی ہے"

فرغب بی ہیر کو سمجھانے کے ساتھ اُس کو کھانا کھانے کا اشارہ کرنے لگیں۔۔۔ وہ بڑی تھیں تبھی ہیر نے اُن کی بات رکھتے ہوئے چند لقمے منہ میں ڈال کر پلیٹ سائیڈ پر رکھ دی

"یہ جگہ منحوس ہے آسیب زدہ ہے۔۔۔ اِس بات میں کتنی سچائی ہے پلیز مجھے سچ جاننا ہے آپ سے"

ہیر اپنے اندر ابھرتے سوالوں کا جواب چاہتی تھی جو معلوم نہیں عباس اُس کو دیتا یا نہیں تبھی وہ فرغب بی سے پوچھنے لگی

"ایسا یہاں کے بسنے والے مقامی لوگ مانتے ہیں مگر ایسا کچھ نہیں ہے"

فرغب بی ہیر کو جواب دیتی ہوئی بولی تو ہیر نے فوراً دوسرا سوال داغا

"مائیکل کون تھا کیا اُس کی موت کا تعلق اِس جگہ سے ہے"

ہیر کے پوچھنے پر فرغب بی دوبارہ بولیں

"مائیکل کرسٹن لڑکا یہاں کام کرنے آیا تھا لیکن اُس کی موت کا اِس جگہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔ اُس کی موت کا ذمہ دار کوئی جنگلی جانور تھا مائیکل کا سر جنگل سے برآمد ہوا تھا جبکہ باقی کا ڈھر ابھی تک لاپتہ ہے لیکن مائیکل کی ماں ہر دوسرے شخص کو یہی کہتی پھرتی ہے کہ مائیکل کی موت کا ذمہ دار ہیر پیلس میں موجود آسیب ہے"

فرغب بی ہیںر کی الجھن دور کرتی ہوئی اسے بتانے لگیں جیسے کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا

"ہال میں اُس کاریڈور میں ایسا کیا ہے جو وہاں پر کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے اور آج صبح آپ اُس کمرے میں کیا کررہی تھیں"

ہیر کے ذہن میں مچلتا ہوا ایک اور سوال زبان پر آیا

"اگر کسی دوسرے کو کسی کام کے لئے منع کیا جاتا ہے تو وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ شخص نقصان نہ اٹھائے۔۔۔ ہال کے اُس پورشن میں موجود کمروں میں صرف پرانا، ناکارہ سامان موجود ہے اور کچھ ایسی بوتلیں ہیں جن میں ایسے خطرناک کیمیکلز اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کی دوائیں موجود ہیں جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔۔ جہاں برسوں پرانا سامان کاٹھ کباڑ رکھا ہو تو وہاں ملازموں کا کام، اِس لیے اُس حصّے میں کسی بھی ملازم کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔ اور رہی میرے اُس کمرے سے نکلنے کی بات تو اِس پورے ہیر پیلس کے چپے چپے کی نگرانی میری ذمہ داری ہے، آپ مجھے ہر اُس جگہ پر پائی گئیں جہاں باقی دوسروں کو جانے کی اجازت نہیں"

فرغب بی اپنے طور پر ہیر کو بہت کچھ جتاتی ہوئی بولیں مگر اُن کے تاثرات ایسے تھے ہیر کے دل میں ابھی بھی کوئی شک و شبہ باقی ہے تو وہ پوچھ لے

"آج صبح میں نے کسی کے گنگنانے کے آواز سنی اور وہ اُسی پورشن سے آرہی تھی، میری سماعتیں دھوکا نہیں کھا سکتی۔۔۔ جب اُس پورشن میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تو پھر وہاں پر کون گا رہا تھا"

ہیر فرغب بی کو غور سے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جیسے فرغب بی اُس کی بات پر اب کیا جواز پیش کرتی ہیں جبکہ فرغب بی ہیر کی بات پر مسکرائی جیسے اُس نے بچوں والی بات کی ہو

"یہ پہاڑی علاقہ ہے، چاروں طرف پہاڑ ہونے کی وجہ سے جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو اکثر ایسی ہی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جیسے کوئی گا رہا ہو۔۔۔ کچھ لوگوں کی الٹی سیدھی باتیں سن کر آپ نے بلاوجہ میں وہم اپنے دل اور دماغ میں پال لیے ہیں انہیں خود پر حاوی نہ ہونے دیں"

فرغب بی کی بات سن کر ہیر ایک دم بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی

"اور آج صبح جو اپنی پینٹنگ میں نے اُس کمرے میں دیکھی تھی،۔۔۔۔ اور صندوق میں رکھا ہوا وہ قطبہ جس پر میرا نام درج تھا اُس کے بارے میں آپ کیا بولیں گیں"

ہیر کی بات سن کر فرعب بی اُس کو حیرت سے انجان تاثر دیتی ہوئی بولیں

"آپ کی پینٹنگ اور قطبہ۔۔۔ مطلب قبر کا قطبہ، آپ کے نام کا۔۔۔ کہا دیکھ لیا آپ نے، ذرا مجھے بھی تو معلوم ہو"

فرغب بی حیرت کا اظہار کرتی ہوئی الٹا ہیر سے پوچھنے لگیں

"اسی کمرے میں جہاں وہ بوتلیں پرانا کاٹھ کباڑ کا سامان موجود ہے"

ہیر فرعب بی کے حیرت کرنے پر اُن کو بتانے لگی۔۔۔ قبر کے قطبے پر اپنا نام دیکھ کر وہ کس قدر خوفزدہ ہوگئی تھی

"ویسے تو شیر عباس نے منع کیا تھا کہ آج کے دن آپ اُن کے کمرے سے باہر نہیں نکلیں گیں لیکن آج میں آپ کی ساری الجھنیں دور کرکے رہوں گیں آپ آئیے میرے ساتھ بتائیے مجھے کہاں ہیں آپ کی پینٹنگ اور وہ قطبہ"

فرعب بی ہیر کو بولتی ہوئی اسے اپنے ساتھ اسی کمرے میں لے گئیں۔۔۔ ہیر اپنا دل مضبوط کیے فرغب بی کے ساتھ اُس کمرے میں موجود تھی مگر وہاں حیرت سے چپ کھڑی تھی اس کمرے میں نہ تو وہ پینٹنگ موجود تھی اور نہ ہی وہ صندوق۔۔۔

"میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتی وہ پینٹنگ اِسی جگہ پر موجود تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے"

ہیر مزید پریشان ہوکر فرغب بی سے بولی۔۔۔ صبح مائیکل کی ماں کا ہوا میں تحلیل ہوجانا، جنگل کا سرکتے ہوئے اُس کے جانب آنا، یہاں تک کہ برگد کے پیڑ میں چھپی اُس مخلوق کا اُس سے مخاطب ہونا۔۔۔ یہ سب اُس کا وہم ہوسکتا تھا مگر وہ پینٹنگ اور صندوق میں موجود قطبہ اُس کا وہم نہیں تھا

"کبھی کبھی آنکھوں کا دیکھا بھی دھوکہ ہوسکتا ہے آپ اپنے ذہن پر بوجھ نہ ڈالیں جائیے اپنے کمرے میں آرام کریں"

فرغب بی اُس کی الجھنیں دور کرنا چاہتی تھیں مگر وہ مزید الجھ گئی فرغب بی بولنے کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلنے لگیں تبھی ہیر ان کے پیچھے چلتی ہوئی راہداری سے باہر نکلی اچانک اسے وہ قبر یاد آئی بناء قطبے والی

"پچھلے حصّے پر وہ قبر کس کی ہے"

ہیر کی بات سن کر فرغب بی نے پلٹ کر اُس کو دیکھا اُن کے تاثرات میں تھوڑی دیر پہلے والی نرمی نہیں عجیب سی سنسنی تھی

"اب آپ کو آرام کرنا چاہیے آپ بلاوجہ اپنے دماغ کو تھکا رہی ہیں، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے"

فرغب بی ہیر کو بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔۔۔ ہیر کو بھی وہاں پر کھڑے رہنا بےکار لگا وہ اپنے کمرے میں آگئی

شاور لینے کے لیے اُس نے اپنے وارڈرب سے کپڑے نکالے کمرے کی کھڑکی کے پردوں سے اچھی طرح ڈھانپ دیا۔۔۔ اپنی شرٹ کی زپ کھولتے ہوۓ اُس نے محسوس ہوا

جیسے کوئی چھپی ہوئی آنکھ اُس کو دیکھ رہی ہو۔۔۔ ایسا اُسے آج ہی محسوس نہیں ہوا اکثر محسوس ہوتا تھا وہ جلدی سے اپنے گرد ٹاول لپیٹ کر وہاں سے واشروم چلی گئی

***""""***

اپنے کمرے میں آکر چکر کاٹتا ہوا شاید وہ پاگل ہونے کو تھا ہاتھ میں پکڑی ہوئی آرزو کی تصویر جو کہ وہ تھوڑی دیر پہلے گلنار سے مانگ کر یہاں کمرے میں داخل ہوا تھا اس نے پرزے پرزے کر کے ہوا میں تصویر کے ٹکڑوں کو اڑا دیا تھا

یہ باکردار نیک شریف اور خاندانی لڑکی دیکھی ہے ماں جی نے میرے لئے۔۔۔

دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ہاشم کو مزید غصّہ آنے لگا۔۔۔ آج کے دن خاص طور پر گلنار نے اُس کو آفس سے جلدی گھر آنے کو بولا تھا کیونکہ آرزو کے والدین شادی کی تاریخ فکس کرنے اور اُس سے ملنے آنے والے تھے

صدیقی کو پہلی نظر میں دیکھ کر ہاشم فوراً پہچان چکا ہے یہ وہی آدمی تھا جس نے ریسٹورینٹ میں اُس بائیک والے لڑکے کے تھپڑ مارا تھا جس سے اُس کا جھگڑا ہوا تھا اور اپنے ساتھ اُس لڑکی کو لے گیا تھا جو تھوڑے دنوں پہلے اُس کی گاڑی کے سامنے آکر بےہوش ہوگئی تھی

کیا آرزو وہی لڑکی تھی؟؟ کیا اُس لڑکی سے اُس کی شادی ہونے والی تھی جو اپنی شادی سے ایک رات پہلے گھر سے بھاگ گئی تھی۔۔۔۔ 

وہ عجیب کی کیفیت میں صدیقی اور شہناس کے سامنے بیٹھا ہوا اُن کے سوالات کا مختصر سا جواب دے رہا تھا اِس وقت ہاشم کا دماغ اتنا غیر حاضر تھا کہ ماہ نور نے صدیقی اور شہناس کے سامنے آکر بدتمیزی اور بد کلامی کرنا شروع کردی تب بھی وہ ماہ نور کو کچھ نہیں بول سکا

لیکن اِس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود باہر سے آتی ماہ نور، گلنار کی اور ایوب خان کی آوازوں کو نظر انداز کرتا ہے یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ ایسی لڑکی سے شادی ہرگز نہیں کرے گا جس کا کردار مشکوک ہو۔۔۔ ہاشم فیصلہ کرتا ہوا کمرے سے باہر نکلا تاکہ ایوب خان اور گلنار کو شادی سے منع کرسکے

***""""***

"تمہارے اندر سے لحاظ دن بہ دن ختم ہوتا جارہا ہے ماہ نور، تمہیں ذرا بھی تمیز نہیں ہے گھر آئے کسی مہمان کے سامنے کس طرح پیش آتے ہیں"

ایوب خان غُصّے میں کھڑے ماہ نور کو دیکھ رہے تھے جبکے گلنار غصّے میں ماہ نور کو دیکھتی ہوئی بولی

"وہ لوگ مہمان نہیں تھے بلکہ آپ دونوں بلاوجہ اُن لوگوں سے رشتہ داریاں جوڑنے میں لگے ہیں۔۔۔ ایسے کچرا قسم کے لوگوں کو آپ دونوں اگر اپنے تک محدود رکھیں تو مجھے کوئی پرابلم نہیں مگر آپ دونوں ان لوگوں کا ہاشم سے رشتہ جوڑ رہے ہیں یہ بات میں ہرگز برداشت نہیں کروں گی"

ماہ نور دو بدو گلنار کے مقابلے میں آتی اُس سے بولی تو ایوب خان خاموش نہیں رہ سکے

"اگر تم ہاشم کی فکر شروع دن سے کرتی تو آج ہمیں ہاشم کے لیے فکر مند نہیں ہونا پڑتا، پرپوتے کی خواہش بھی ہم اپنے سینے میں دبائے اِس دنیا سے رخصت ہوجاتے اور تمہاری گستاخیوں کو نظر انداز بھی کردیتے مگر تمہیں تو شاید ہاشم کی اور ہماری عزت کا احساس بھی نہیں ہے"

ایوب خان شدید غُصّے کے عالم میں ماہ نور سے بولے تو ماہ نور طنزیہ انداز میں مسکرائی

"دا جی آپ مجھ سے مخاطب نہ ہو تو اِسی میں آپ کی بھلائی ہے نہیں تو میری گستاخ زبان کے نشر برداشت نہیں کر پائیں گے آپ۔۔۔ ویسے ہی آپ کا ناتوان دل کمزور ہوچکا ہے اِس لیے تھوڑا سنبھل کر بات کریں۔۔۔ اُن لوگوں کے سامنے میں نے ایسا کچھ نہیں کہہ دیا جس پر آپ دونوں ہی مجھ پر ناراض ہورہے ہیں لیکن جس دن اُن لوگوں کی بیٹی ہاشم کی بیوی بن کر اِس گھر میں آئی تب دیکھئے گا میں کیسے اُس لڑکی کی اور آپ کے اِس خاندان کی عزت و وقار کی دھجیاں بکھیرتی ہوں"

ماہ نور ایوب خان کو دھمکی بھرے لہجے میں بولی جس سے ایوب خان کے چہرے پر ایک رنگ آتا ہوا اور دوسرا جاتا ہوا دکھائی دینے لگا۔۔۔ ہاشم جو اپنی پریشانی لےکر کمرے سے آیا تھا ماہ نور کی چلتی ہوئی زبان دیکھ کر وہ غُصّے میں ماہ نور کا رُخ اپنی جانب کرتا ہوا بولا

"معافی مانگوں دا جی سے ابھی اور اِسی وقت"

ہاشم کڑے تیوروں کے ساتھ غُصّے میں ماہ نور کو دیکھتا ہوا بولا

"میری جوتی بھی معافی نہیں مانگے گی تمہارے گھر والوں سے" 

ماہ نور کی زبان درازی پر اِس سے پہلے ہاشم کا ہاتھ ماہ نور پر ہاتھ اٹھتا

"ہاشم"

گلنار زور سے چیخی تب ہاشم ماہ نور کی طرف سے توجہ ہٹاکر فرش پر گرے ہوۓ ایوب خان کی طرف دوڑا

***""""***

رات کا پہر شروع ہوتے ہی چاروں طرف دھند اپنا ڈیرہ جمالیا کرتی اِس وقت بھی دھند نے ہیر پیلس کو اپنے اندر سمایا ہوا تھا۔۔۔ دور دور تک سناٹے پھیلے ہوئے تھے ایک دم کسی جنگلی جانور یا چمکاڈر کی آواز سناٹے کو چیرتی ہوئی خاموشی میں خلل پیدا کرتی، اُس کے بعد دوبارہ سناٹے اور خاموشی واپس اپنا ڈیرہ جمالیتے

آج شدید دھند اور یخ بستہ ہوا چلنے کے سبب کوئی ذی روح دور دور تک دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ ایسے میں شیر عباس بھی شام ڈھلے ہوٹل سے جلدی واپس آگیا تھا مگر اُس نے محسوس کیا ہیر کافی چپ چپ تھی شاید صبح والی بات کو لےکر وہ ابھی تک اُس سے خفا تھی۔۔۔ رات کھانے کے بعد جب عباس اپنے کمرے میں آیا تب اُس نے ہیر کو ایل ای ڈی کے سامنے بیٹھے دیکھا۔۔۔ ہیر عباس کی موجودگی کا نوٹس لیے بغیر اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھی تھی تبھی عباس خود ہیر سے گویا ہوا

"یہ بھلا کوئی دیکھنے کی چیز ہے مجھے تو کافی بور کردیتے ہیں ایسے پروگرامز"

عباس اسکرین پر اینیمل پلانٹ چائینل دیکھ کر تبصرہ کرتا ہوا ہیر سے بولا جو جانوروں کے متعلق معلومات کافی دلچسپی سے سن رہی تھی یا پھر عباس کو بھرپور طریقے سے نظرانداز کرنے کے لئے اسکرین پر چلتا ہوا پروگرام کافی غور سے دیکھ رہی تھی

"آپ کو تو شاید اپنے کمرے میں میری موجودگی بھی بور کردیتی ہوگی یہ اب آپ کی بدقسمتی ہے کہ آپ کو میری جیسی بیوی ملی"

ہیر عباس کی جانب دیکھے بغیر اس پر تبصرہ کرتی ہوئی بولی جس پر عباس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی

"تم مجھے میرے کمرے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہی کب ہو۔۔۔ یا تو اِس ایل ای ڈی کے آگے بیٹھ جاتی ہو یا پھر الماریوں میں گھس کر کچھ نہ کچھ کھنگالتی رہتی ہو۔۔۔ جب اِن دونوں چیزوں سے تمہارا دل بھر جائے تو موبائل پر فضول قسم کے گیم کھیلتی رہتی ہو"

عباس اُمڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپاتا ہوا سیریس ہو کر ہیر سے بولا تو ہیر اسکرین پر جمی اپنی نظریں ہٹاکر عباس کو دیکھنے لگی

"آپ تو مجھے بڑا ہی کوئی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں غلطی سے اگر ہوٹل سے جلدی واپس آجائے تو اپنا آفس یہی کمرے میں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔ اگر اِس بےکار سے لیپ ٹاپ سے آپ کو فرصت ملے تو اُس ایبک کے ساتھ یا پھر اکیلے ہی باہر واک پر چل نکلتے ہیں"

ہیر عباس کے شکوہ کرنے پر الٹا طنز کرتی ہوئی عباس سے بولی

"یہ تو غلط بات ہے یار واک پر چلنے کے لیے ہر بار میں ایبک سے پہلے تم سے پوچھتا ہوں اور تم ہر بار ہی مجھے منع کردیتی ہو"

عباس ہیر کو ٹوکتا ہوا بولا اور ساتھ ہی اس نے ریموٹ کنٹرول اٹھا کر ایل ای ڈی آف کرنا چاہی تو ہیر نے عباس سے ریموٹ چھین لیا

"کیوکہ مجھے اتنی سنسان جگہ پر اتنے سرد موسم میں واک کرنا پسند نہیں ہے اِس لیے نہیں جاتی میں آپ کے ساتھ، اب آپ خاموش ہوکر مجھے اِن ببر شیروں کو دیکھنے دیں"

ہیر عباس سے بولتی ہوئی اپنی توجہ دوبارہ اسکرین کی جانب کرچکی تھی۔۔۔ صبح وہ بگڑے ہوۓ موڈ میں کتنی دل دکھانے والی باتیں کررہا تھا اور اب کیسے فری ہورہا تھا اچھا ہی تھا جو وہ اِس وقت اُس کو لفٹ نہیں کروا رہی تھی

"تمہارے سامنے جو بیٹھا ہے وہ بھی ببر شیر سے کم نہیں میرے خیال میں تمہیں اس شیر پر زیادہ غور کرنا چاہیے جو تمہارا اپنا ہے تمہارے پاس موجود ہے"

عباس بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز ہوا ہیر کو دیکھتا ہوا بولا تو ہیر آئی برو اچکا کر عباس کو دیکھنے لگی

"اس شیر میں کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے مجھے اِن شیروں کے متعلق جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے"

ہیر اسکرین کی طرف انگلی سے اشارہ کرتی ہوئی عباس کو جتاتی ہوئی بولی

"تو ان شیروں کے متعلق ساری معلومات میں دے دیتا ہوں تمہیں، بتاؤ کیا جاننا چاہتی ہو تم"

عباس ہیر کے قریب تھوڑا سرکتا ہوا بولا تو ہیر نے بناء کچھ بولے ریموٹ کا والیوم تیز کردیا تاکہ عباس اسے مزید ڈسٹرب نہ کرے

"اب یہ نر اپنی مادہ کے پاس جانے کے لئے تیار ہے"

اسکرین پر ڈبنگ کی آواز کے ساتھ اب جو سین اسٹارٹ ہونے لگا تھا ہیر کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے وہ بری طرح شرمندہ ہوگئی جبکہ عباس ہیر کے فیس ایکسپریشن دیکھ کر محظوظ ہونے لگا۔۔۔ ہیر کا شرم سے سرخ چہرا دیکھ کر عباس نے ریموٹ ہیر کے ہاتھ سے لےکر سوئچ آف کا بٹن دبایا تو اسکرین پر تاریخی چھاگئی اب کی بار ہیر نے احتجاج نہیں کیا

"تمہارے شیر میں کیا خاص بات ہے اُس کا تم تبھی پتہ لگا سکتی ہو جب تم اپنے شیر میں دلچسپی لو۔۔۔ اور آج شیر عباس چاہتا ہے کہ اُس کی مادہ دل و جان سے اُس میں دلچسپی لے"

عباس نے بولتے ہوئے ہیر کو بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا 

"عباس"

عباس کے کھینچنے پر ہیر ایک ہی جست میں عباس کے سینے سے ٹکرائی۔۔۔ عباس بیڈ پر لیٹا ہوا تھا جبکہ ہیر مکمل طور پر اس کے سینے پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔ دونوں کے دل زور سے دھڑکے دونوں ایک دوسرے کی دھڑکنوں کو صاف محسوس کرسکتے تھے

"عباس چھوڑیں مجھے کتنا ٹائم گزر چکا ہے اب ہمیں سونا چاہیے"

ہیر عباس کے اوپر جھکی ہوئی مکمل طور پر عباس کی گرفت میں تھی۔۔۔ ہیر کے اٹھنے کی کوشش عباس ہیر کی نازک کمر پر اپنے بازو حمائل کرکے ناکام بناچکا تھا

"اِس بات کا تمہیں احساس کرنا چاہیے واقعی کتنا وقت گزر چکا ہے اتنے دنوں میں تمہاری شرم اور جھجھک کو ختم ہوجانا چاہیے"

عباس ہیر سے بولتا ہوا اسے نرمی سے بیڈ پر لٹاکر اُس کے اوپر جھکا

ہیر کا دل زور سے دھڑکا ساتھ ہی اُسے وہ بھیانک رات یاد آئی جب وہ پہلی بار ہیر پیلس آئی تھی اپنے چہرے پر عباس کی انگلیوں کا لمس محسوس کرکے وہ اپنی سوچوں سے واپس لوٹی

"عباس مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے، کچھ بہت ضروری"

ہیر کچھ سوچ کر فیصلہ کرتی ہوئی بولی یہ بات شاید کوئی شوہر برداشت نہیں کرسکتا مگر وہ عباس کو دھوکے میں کیسے رکھ سکتی تھی

"میں اِس وقت کچھ بھی سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ہیر۔۔۔۔ شروع دن سے میں نے تمہاری گریز کو محسوس کرکے تمہیں وقت دیا اب تمہیں میرا بھی خیال کرنا چاہیے"

عباس ہیر کے چہرے پر جھکا اُس کے ہونٹوں پر انگلیاں پھیرتا ہوا بولا تو ہیر خاموش ہوگئی

عباس گہری نگاہوں سے ہیر کا چہرہ دیکھتا ہوا اُس کے ہونٹوں پر جھکا عباس کے اِس عمل پر ہیر خود میں سمٹ کر رہ گئی۔۔۔ جذبات کا ایک طوفان تھا جو اُن دونوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا اگر دروازے پر دستک نہ ہوتی

"کون"

رات کے اِس پہر کسی کا بیڈ روم میں دستک دینا یعنی کوئی ایمرجنسی تھی عباس بیڈ سے اٹھ کر دروازہ کھولنے لگا تب تک ہیر بھی سنبھل چکی تھی 

"سر ایک بری خبر ہے ہوٹل میں آگ لگ چکی ہے، ابھی عامر کی کال آئی تھی اسی نے مجھے انفارم کیا ہے"

ایبک گھبراہٹ میں مبتلا عباس کو بتانے لگا 

"واٹ"

عباس شاکڈ کے عالم میں کچھ بول بھی نہیں سکا

"ہیر جیکٹ دو جلدی سے میری"

عباس کمرے میں آکر ہیر سے پریشان لہجے میں بولتا ہوا اپنا والٹ اور موبائل اٹھانے لگا جبکہ ایبک ابھی تک کمرے کے دروازے پر ہی موجود تھا

"عباس آگ کیسے لگ گئی ہوٹل میں پلیز مجھے بتائیے"

ہیر عباس کو جیکٹ تھماتی ہوئی خود بھی پریشان ہوکر پوچھنے لگی کیونکہ چہرے سے عباس کافی زیادہ ڈسٹرب لگ رہا تھا

"یہ تو وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا تم میرا انتظار مت کرنا سو جانا۔۔۔ معلوم نہیں کب واپس آنا ہو میرا"

عباس عجلت میں جیکٹ پہنتا ہوا ہیر کا پریشان چہرہ دیکھ کر اُس سے بولا اور کمرے سے باہر نکلا

"ڈرائیونگ میں کرلیتا ہوں دھند کافی ہے آج" ایبک عباس کے ساتھ چلتا ہوا بولا عباس تیز قدم اٹھاتا ہوا راہ داری سے ہال میں جارہا تھا تب ہیر کو عباس کی آواز سنائی دی

"نہیں تم یہی رکو، اگر تمہاری ضرورت ہوگی تو میں تمہیں کال کرکے بلالوں گا"

ہیر نے افسردہ دل کے ساتھ اپنے بیڈروم کا دروازہ بند کیا نہ جانے آگ سے ہوٹل کا کتنا حصہ متاثر ہوا ہوگا عباس کو کتنا نقصان ہوگا

ہیر لائٹ بند کرکے بیڈ پر لیٹ گئی نیند نہ جانے کب اس پر مہربان ہوئی ہیر کو خبر بھی نہ ہوسکی

لیکن اُس کا ذہن تب بےدار ہوا جب بھاری بھرکم وجود اُس پر مکمل قابض تھا۔۔۔ نہ جانے رات کا وہ کونسا پہر تھا ہیر اندازہ نہیں لگا پائی۔۔۔ وہ اُس کی گردن پر جھکا ہوا اپنے ہونٹوں سے دیوانہ وار اس کی گردن کو جگہ جگہ چوم رہا تھا

"عباس"

ہیر ماؤف ہوتے ذہن کے ساتھ عباس کا نام پکارتی ہوئی بولی۔۔۔۔ اپنی شرٹ کُھلتے بٹن محسوس کر کے ہیر نے اپنی آنکھیں کھولنی چاہی مگر کمرے میں اِس وقت مکمل اندھیرا تھا

"آپ واپس کب آئے۔۔ ہوٹل میں آگ کیسے لگی تھی زیادہ نقصان تو نہیں ہوا۔۔۔ سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔ آآآ"

ہیر عباس سے جاننا چاہتی تھی مگر اس نے ہیر کے بالوں کو مٹھی میں جھگڑا ہیر کے منہ سے سسکی نکلی 

وہ ہیر کے ہونٹوں پر جھکا اپنی گرم سانسیں ہیر کی سانسوں میں انڈیلنے کے بعد مکمل طور پر ہیر کو اپنی گرفت میں لیے اُس پر آہستہ آہستہ پورا قابض ہوچکا تھا۔۔۔ ہیر عباس کی دسترس میں بےچین ہونے لگی مگر وہ عباس کو پیچھے نہیں ہٹا پائی

***""""***

جب وہ صبح سویرے بیدار ہوئی عباس روز کی طرح اس کے برابر میں موجود نہیں تھا لیکن رات میں وہ کس ٹائم ہوٹل سے واپس آیا تھا ہیر کو خبر نہیں ہوسکی تھی۔۔۔ ہیر نے ٹیبل پر رکھا اپنا موبائل اٹھاکر دیکھا تو رات کے ساڑھے تین بجے عباس کے نمبر سے اُس کے موبائل پر مس کال شو ہورہی تھیں۔۔۔ ہیر نے عباس کا نمبر ملایا تو بےزاری کے عالم میں سگنل نہ ہونے کی وجہ سے اٹھ کر وہ کھڑکی کے پاس چلی آئی، کھڑکی کے پٹ کھولتے ہی تازہ خوشگوار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اُس کے چہرے سے ٹکرایا ہیر عباس کو کال کرنے لگی

"ہاں ہیر بولو"

کال ریسیو کرتے ہی اُس کی سماعت سے عباس کی آواز ٹکرائی تھی لہجہ صاف بتارہا تھا وہ اِس وقت مصروف تھا شاید ڈرائیونگ کررہا تھا

"آپ صبح ہوتے ہی دوبارہ ہوٹل کے لیے نکل گئے کم سے کم مجھے جگا تو دیتے"

ہیر اپنی طرف سے اندازہ لگاتی ہوئی عباس سے بولی

"دماغ سیٹ ہے تمہارا، رات کو ہوٹل جانے کے لیے نکلا تھا ابھی تو میں ہوٹل سے واپس آرہا ہوں راستے میں ہوں بس پہنچنے والا ہوں۔۔۔ کیا ابھی نیند سے جاگی ہو رات میں کال کررہا تھا تمہیں تاکہ بتادو واپس آنے میں لیٹ ہوجاؤ گا۔۔۔ ہیلو کہاں کھو گئی۔۔۔ سن رہی ہو میری بات۔۔۔۔ ہیر میری آواز آرہی ہے۔۔۔ ہیلو"

عباس بولے جارہا تھا جبکہ وہ خوفزدہ سی ایسے گھڑی تھی جیسے اُس کے جسم سے کسی نے روح کھینچ لی ہو۔۔۔ اگر عباس رات بھر ہوٹل میں موجود تھا تو پھر رات میں اُس کے قریب اُس کے کمرے میں کون آیا تھا۔۔۔ خوف کے مارے ہیر کے ہاتھ پاؤں کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔۔۔ وہ اپنی اُجاڑ حالت لےکر اپنے وجود کو گھسیٹتی ہوئی آئینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور خود کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر بےآواز رونے لگی

"مم۔۔۔۔ میں یہ سب برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔ بالکل برداشت نہیں کرپاؤ گی"

ہیر اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے کا دروازہ کھولنے لگی تبھی کالے رنگ کی قمیض شلوار میں کوئی شخص تیزی سے راہداری سے گزرتا ہوا ہال کی طرف جانے لگا

"رکو۔۔۔ میں کہتی ہوں وہی رک جاؤ"

ہیر زور سے چیخ کر بولی اور تیزی سے چلتی ہوئی اُس شخص کے پاس آئی، اپنے سامنے کھڑے ایبک کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی

"تم۔۔۔ تم آئے تھے کل رات میرے کمرے میں۔۔۔ تمہیں ہی تو عباس نے بولا تھا کہ تم اُن کے ساتھ ہوٹل نہیں جاؤ گے بلکہ یہی رہو گے۔۔۔ کیسے ہمت کی تم نے مجھے چھونے کی جواب دو"

ہیر شدید غصّے کے عالم میں ایبک کی ہری آنکھوں کو دیکھ کر اس کا گریبان پکڑتی ہوئی زور سے چیخ کر اس سے پوچھنے لگی۔۔۔ گھر کے نوکر سمیت فرغب بی ہیر کی تیز آواز پر اُس کی جانب متوجہ ہوکر وہی چلی آئیں

"آپ کو غلط فہمی ہورہی ہے۔۔۔ میں آپ کے ساتھ ایسی گری ہوئی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا آپ شیر عباس صاحب کی عزت ہیں"

ہیر کے لفظوں کا مفہوم سمجھ کر وہ اپنے اوپر لگنے والے الزام پر بوکھلا گیا اور نرم لہجے میں پریشان ہوکر بولا۔۔۔۔ اتنا سنگین الزام وہ بھی گھر کے ملازمین اور فرغب بی کے سامنے اپنے اوپر لگتا دیکھ کر ایبک بری طرح شرمندہ تھا

"بکواس بند کرو اپنی میں تمہیں اچھی طرح پہچان گئی ہوں تمہیں، آنے دو عباس کو تمہاری اصلیت اور تمہارا مکروہ چہرہ اُن کے سامنے لاؤں گی۔۔۔ سب بتاؤں گی عباس کو میں"

ہیر نے غصّے اور صدمے میں ابھی تک ایبک کا گریبان پکڑا ہوا تھا ایبک نے ہیر کے ہاتھوں کو اپنے گریبان سے ہٹانے کے لیے اُس کے ہاتھوں کو چھوا تک نہیں تھا۔۔۔ فرغب بی نے آگے بڑھ کر ہیر کے ہاتھ ایبک کے گریبان سے ہٹاۓ اور ساتھ ہی وہ ہیر سے بولیں

"آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ایبک شیر عباس کا وفادار ہے وہ اتنا سنگین جرم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور ویسے بھی کل رات شیر عباس نے فون کرکے اِسے اپنے پاس ہوٹل بلالیا تھا یہ تو تھوڑی دیر پہلے ہی واپس آیا ہے"

فرغب بی کی بات پر جیسے ہیر کو یقین ہی نہیں آیا تھا 

"کیا لگتا ہے آپ کو پاگل ہوں میں۔۔۔ جواب دیجیے مجھے، کیا پاگل ہو میں جو اتنی بڑی بات اپنی طرف سے بول رہی ہوں"

ہیر زور سے چیخ اٹھی تمام ملازمین، ایبک یہاں تک کہ فرغب بی بھی خاموش تھیں صرف دیوار پر لگے جنگلی جانوروں کے سر زور زور سے ہنس رہے تھے ہال میں بڑا سا کرسٹل کا فانوس آہستہ آہستہ رقص کرتا ہوا اُس کا مذاق اڑا رہا تھا۔۔۔۔ پینٹکز میں موجود خون آلود چہرے اُس کے دوبارہ لٹنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے

"خاموش ہوجاؤ تم سب، یوں مت ہنسو میرے اوپر"

ہیر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو بند کرتی ہوئی پوری شدت سے چیخی کیونکہ اُس پر ہنستی ہوئی، اُس کا مذاق اڑاتی ہوئی یہ آوازیں اس کو تکلیف دے رہی تھی

"کیا ہورہا ہے یہاں پر"

عباس کی آواز پر فرغب بی کے ہیر کی جانب بڑھتے ہوئے قدم رک گئے جبکہ ہیر عباس کو دیکھ کر کسی کی پرواہ کیے بغیر تیزی سے بھاگتی ہوئی عباس کی جانب آئی اور اُس کے سینے میں منہ چھپا کر بری طرح رونے لگی

"یہاں کیا کھڑے ہو تم سب کے سب جاؤ اپنا کام کرو"

فرغب بی کے ٹوکنے پر سارے ملازم اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے، ہیر ابھی تک عباس کے سینے میں منہ چھپائے بری طرح رو رہی تھی عباس خاموش کھڑی فرغب بی اور شرمندہ سا کھڑا ایبک کو دیکھتا ہوا ہیر سے بولا

"ہیر اپنے کمرے میں چلو"

عباس ہیر سے بنا کچھ پوچھے بنا کچھ جانے ہیر کو اپنے سے الگ کرتا نرمی سے بولا

"عباس دیکھیں ناں اِس کی آنکھوں کا رنگ بھی ہرا ہے۔۔۔ وہ بھی اُس رات ایسے ہی کالے لباس میں کمرے میں آیا تھا۔۔۔ یہ کوئی وہم نہیں ہے میرا، نہ ہی میں نے کوئی خواب دیکھا ہے میں سچ بول رہی ہوں میرا یقین کریں آپ"

ہیر روتی ہوئی عباس کو دیکھ کر اسے بتانے لگی

"اوکے تم سچ بول رہی ہو، ابھی اپنے کمرے میں چلو۔۔۔ یہاں سارے نوکر موجود ہیں ہم کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں"

عباس دوبارہ نرمی سے بولتا ہوا ہیر کے شانے پر اپنا ہاتھ دراز کیے اُسے اپنے ساتھ لگاۓ اپنے کمرے میں لے جانے لگا

***""""***

"تمہاری چھوٹی بیٹی نظر نہیں آرہی کیا وہ نہیں آئی اپنی بہن کی شادی میں"

پڑوس میں رہنے والی خاتون شہناس سے پوچھنے لگی جو بینکوئیت ہال میں ہر آنے والے مہمانوں سے مل رہی تھی

"لینڈسلایڈنگ کی وجہ سے راستے بند ہوگئے اِس لیے ہیر نہیں آسکی"

شہناس اُن خاتون کو بتاتی ہوئی صدیقی کے پاس چلی آئی۔۔۔ یہ سچ بھی تھا پہلے تو عباس نے خود سے ہیر کو بھیجنے سے منع کردیا تھا مگر پھر ہیر کے ضد کرنے پر اُس کی طبعیت خرابی کی وجہ سے عباس نے اپنا ارادہ بدلا مگر ہفتے بھر سے غذر میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد برف باری کی وجہ سے، شہر تک جانے والے راستے بند کرنے پڑے

"کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہے ہیں"

شہناس صدیقی کے پاس آتی ہوئی اُس کا چہرا دیکھ کر پوچھنے لگی

"ہاشم کی پہلی بیوی کیا وہ بھی آئی ہے یہاں پر" 

صدیقی فکر مند لہجے میں لوگوں کی گہماگہمی دیکھتا ہوا شہناس سے پوچھنے لگا

"کیا آپ کو ایوب خان اور گلنار صاحبہ اتنے بےوقوف لگتے ہیں کہ اپنی بےعزتی کا سامان یہاں خود لےکر آئے گیں۔۔۔ ابھی زبیدہ بتارہی تھی ہمارے اُس دن جانے کے بعد خوب ہنگامہ کیا تھا اُس چلتی پھرتی قینچی نے، ایسا تماشہ لگایا کہ ایوب خان کی طبعیت بگڑ گئی یہاں تک کہ انہیں اسپتال لے جانا پڑا ایمرجنسی میں، ہاشم نے اُسے چھوڑنے کی دھمکی دی تب جاکر وہ سنبھلی اور یہاں نظر نہیں آرہی ہے"

شہناس لوگوں کے خیال سے راز دارنہ انداز میں ساری روداد صدیقی کو بتانے لگی

"اتنی باتیں زبیدہ کو کہاں سے معلوم ہوگئیں"

صدیقی حیرت کرتا شہناس سے پوچھنے لگا

"ارے ہاشم کے گھر جو نوکرانی کام کرتی ہے شمع، اُسی کی زبانی زبیدہ کو سب معلوم ہوا۔۔۔ اللہ معاف کرے ایسی تیز طرار لڑکی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی کیسے منہ بھر بھر کر ہماری بےعزتی کررہی تھی پھر بس نہیں چلا تو ساس اور دادا سُسر کو کوسنے لگی"

شہناس اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی

"مجھے تو اُس لڑکی کے مزاج دیکھ کر اپنی آرذو کی فکر ہورہی ہے"

صدیقی شہناس سے فکرمندانہ لہجے میں بولا کیوکہ ہاشم کی پہلی بیوی حقیقتاً کوئی پہنچی ہوئی شے تھی جس کی زبان کے جوہر وہ تھوڑے دن پہلے خود دیکھ چکا تھا

"بلاوجہ کی ٹینشن مت لیں صدیقی صاحب اپنی دلی خوشی اور ہاشم کی آمادگی پر ہی گلنار صاحبہ ہماری آرذو کو اپنے گھر کی بہو بناکر لے جارہی ہیں۔۔۔ خیال تو اب ہاشم کو اور اُس کے گھر والوں کو ہماری آرزو کا رکھنا پڑے گا خیر سے ہمیں اوپر والے کا شکر ادا کرنا چاہیے آج ہم اپنی دوسری بیٹی کے فرض سے بھی سبکدوش ہوگئے"

شہناس صدیقی کو مطمئن کرتی دور کھڑی زبیدہ کے پاس جانے لگی جو اُسے اشارے سے بلارہی تھی

***""""***

"کیا کررہی ہو آرزو اِس طرح کیوں رو رہی ہو، خاموش ہوجاؤ شاباش پانی پیو"

تھوڑی دیر پہلے نکاح کا عمل انجام میں آیا تھا جس کے بعد روتے روتے آرزو کی سسکیاں بننے لگیں۔۔۔ امامہ نے جلد کمرے سے لڑکیوں کو باہر نکال دیا، خود وہ پانی کا گلاس تھامے آرزو کو پانی پلاتی ہوئی بولی

"آپی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میرا دل نہیں چاہ رہا کہ میں رخصت ہوکر اپنے گھر سے کسی دوسرے کے گھر چلی جاؤ"

آرذو دلہن کے لباس میں روتی ہوئی امامہ سے بولی تو امامہ اُس کی بات پر تعجب کرتی ہوئی بولی

"پاگل ہوگئی ہو آرذو شادی تو ہر لڑکی کی ہوتی ہے ایسے بھلا کون لڑکی بولتی ہے"

امامہ آرزو کو دیکھ کر سمجھانے لگی

"ہر لڑکی اپنی شادی پر خوش ہوتی ہے میری طرح کی قسمت نہیں ہر لڑکی کی" 

آرذو امامہ کو دیکھ کر شکوہ کرتی بولی تو امامہ اُس کی بات پر اداسی سے مسکرا دی

"کسی کسی لڑکی کی قسمت میں تو شادی کا سکھ ہی نہیں لکھا ہوتا بےقوف لڑکی، ایسے ناشکری کی باتیں کرکے اپنے نصیب کو برا بھلا نہیں کہتے۔۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ پچھلی ساری باتیں بھول کر تم دل سے ہاشم بھائی کو اپنا شوہر قبول کرو۔۔۔ انہیں خوش رکھو اور خود بھی خوش رہنے کی کوشش کرو"

امامہ آرذو کو سمجھاتی ہوئی بولی

"مجھے اُن سے بہت ڈر لگ رہا ہے آپی وہ۔۔۔ وہ مجھ پر غصّہ کریں گے میں جانتی ہوں، شاید وہ مجھے اچھی لڑکی بھی نہ سمجھے"

آرذو گھبراہٹ میں اپنے خدشے کا اظہار امامہ سے کرتی ہوئی بولی

"کیا الٹی سیدھی باتیں کیے جارہی ہو، ایسے ہی غصّہ کریں گیں۔۔۔ جس انسان کو اتنی پیاری لڑکی بیوی کی صورت مل رہی ہو وہ ایسے ہی غصّہ کرے گا، ایسی باتیں مت سوچوں اچھا اچھا سوچوں سب"

امامہ دوبارہ آرذو کو سمجھاتی ہوئی بولی

"ہیر نے کال بھی نہیں کی ناں کیا ہوجاتا اگر وہ آج کے دن ناراضگی ختم کرکے مجھ سے بات کرلیتی"

نہ جانے کون کون سی باتیں سوچ کر آرزو اپنا دل چھوٹا کیے جارہی تھی

"ارے یار ہیر کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اُس بےچاری کو کال ملائی تھی میں نے جب شام میں تم پارلر میں تھی۔۔۔ عباس بھائی بول رہے تھے وہ نیند کی گولی لےکر سو رہی ہے۔۔۔ اب تمہارا صبح گھر آنا ہوگا تو میں بات کروا دوگی چلو اب اٹھو باہر سب ویٹ کررہے ہیں"

امامہ آرذو سے بولتی ہوئی اُسے اٹھنے میں مدد دینے لگی تاکہ روم سے باہر اسٹیج پر لے جاۓ۔۔۔ جہاں ہاشم اور اُس کے گھر والوں کے ساتھ باقی گیسٹ بھی دلہن کا ویٹ کررہے تھے

***""""***

جب اُس نے ماہ نور سے شادی کی تھی تب اُس کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا تھا اُس کی قسمت میں دو شادیاں لکھی تھی کیوکہ اُسے ماہ نور سے محبت تھی۔۔۔ وہ محبت میں ماہ نور کی غلطیاں اور خطاؤں کو نظرانداز کرتا چلا گیا مگر ماہ نور نے ہمیشہ اُس کی محبت اور نرم مزاجی کا فائدہ اٹھایا۔۔۔ وہ کسی صورت کسی بھی بات پر کامپرومائیز کرنے کو تیار نہیں تھی

ماہ نور کا بدصورت رویہ دیکھ کر، اور ہر دوسرے دن لڑائی جھگڑے دیکھنے کے بعد ہاشم بری طرح اُکتا چکا تھا۔۔۔ ماہ نور کے ساتھ گزری چھ سالہ شادی شدہ زندگی میں مشکل سے دو یا تین ماہ کا عرصہ اُن دونوں کے بیچ خوشگوار وقت گزرا تھا یا پھر محبت کی مدّت اتنا ہی عرصے ہوتی ہے

ہاشم کی نظریں اسٹیج پر آتی اُس پری چہرہ پر پڑی جس سے گھنٹہ بھر پہلے اُس کا نکاح ہوا تھا۔۔۔۔ اُس دن اگر ماہ نور کے بدتمیزی کرنے پر دا جی کی طبعیت خراب نہ ہوتی تو وہ اِس لڑکی کو کبھی اپنی زندگی میں شامل نہیں کرتا۔۔۔ دا جی کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر وہ احتجاجاً ایوب خان یا گلنار سے کچھ نہیں بولا تھا کیوکہ وہ دونوں اِس رشتے پر راضی اور خوش تھے۔۔۔ اُن دونوں کے لیے اُس نے یہ گڑوا گھونٹ پیا تھا

"ہاشم بیٹا یہ کنگن ابّا جی کی طرف سے آرذو کی منہ دکھائی ہے۔۔۔ انہیں آرذو کے ہاتھوں میں ڈال دو"

گلنار کی خوشی سے چہکتی ہوئی آواز پر ہاشم نے فرمابرداری دکھاتے ہوۓ گلنار سے جڑاؤں کنگن لیے

"ہاتھ دو اپنا"

دھیما مگر نہایت کھردرا لہجہ آرزو کے کانوں سے ٹکرایا۔۔۔ ہاشم کی طرف اپنا نازک ہاتھ بڑھاتی ہوئی وہ اندر سے سہم گئی کیوکہ اُس کے ہاتھ پر ہاشم کے ہاتھ کی گرفت کافی سخت تھی 

"بہت اچھا ہوتا اگر آج بھی تم اُس دن کی طرح شادی سے بھاگ جاتی۔۔۔ کم سے کم میری قسمت تو مٹی ہونے سے بج جاتی"

دوسرا کنگن ہاتھ میں ڈالتے ہوۓ آرذو کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔ اتنی سختی سے اُس نے آرذو کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔۔۔ اوپر سے ہاشم کا طنز بھرا نشتر آرذو کے دل کو چھلنی کرگیا وہ سر جھکاۓ خاموشی سے صبر کے گھونٹ پی گئی

تھوڑی دیر بعد آرزو کی نظریں ہال کے انٹرینس پر گئیں تو وہی ٹہر گئیں تبریز کو وہاں آتا دیکھ کر آرذو کے جسم میں روانی سے دوڑتا خون خشک ہونے لگا۔۔۔ وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں لیے سامنے سے آتے تبریز کو دیکھنے لگی۔۔۔ برابر میں بیٹھا ہاشم آرذو کی حالت سے باخبر ہوا تو اُس نے آرزو کی تعاقب میں سامنے سے آتے اُسی بدتمیز بائیک والے لڑکے کو دیکھا، نہ چاہتے ہوۓ بھی ہاشم کا پارہ ہائی ہونے لگا 

مٹھی میں پھولوں کا ہار بھر کر اُس نے گلے سے کھینچ کر وہی پھینکا اور صوفے سے اٹھ کر اسٹیج سے نیچے اترا۔۔۔ آرذو کو لگا جیسے اگلا پل دیکھنا اُسے نصیب نہیں ہوسکے گا۔۔۔ ایک طرف تبریز دوسری طرف تبریز کی جانب بڑھتا ہوا اُس کا شوہر ہاشم۔۔۔ تیسری طرف دور کھڑے صدیقی اور شہناس جو تبریز کو نظروں میں سماۓ ہوۓ تھے مگر ہاشم کو تبریز کی جانب جاتا دیکھ کر صدیقی وہی رک گیا تھا

"کیوں آۓ ہو یہاں پر"

سخت اور پتھریلے لہجے میں ہاشم نے تبریز سے سوال پوچھا۔۔۔ وہ اتنے لوگوں کے ہجوم میں اپنا اور اپنی فیملی کا تماشہ نہیں چاہتا تھا

"اُس بےوفا کا دیدار کرنے جس نے زندگی میرے ساتھ گزارنے کا وعدہ کیا تھا اور سیج تمہاری سجا کر بیٹھ گئی"

تبریز کا لہجہ شور مچاتا اور درد سے بھرا تھا۔۔۔ ہاشم ضبط سے اپنی مٹھیاں بند کر کے رہ گیا

"وہ اب میری بیوی بن چکی ہے آئندہ اگر اُس کے بارے میں سوچا یا اُس کی طرف دیکھا بھی تو جان لےلو گا میں تمہاری۔۔۔ اگر تم چاہتے ہوں کہ میں تمہیں بخش دوں تو سیدھی شرافت سے یہاں سے چلے جاؤ نہیں تو تمہارے انجام پر رونے کے لیے تمہارے ماں باپ کو تمہاری لاش تک نہیں ملے گی"

ہاشم صرف اپنے خاندان کی وجہ سے اُس غمگین عاشق کا منہ توڑنے سے خود کو روکے ہوۓ تھا ورنہ وہ اُس کا یہی حلیہ بگاڑ دیتا

"یہ مت سمجھنا کہ میں تم سے یا تمہاری دھمکی سے ڈر کر یہاں سے جارہا ہوں، میں اُسے اور تمہیں صرف یہی بتانے آیا ہوں کہ مجھے بھولنا نہیں، یہ بات اپنی بیوی کو بھی بتادینا اُسے میں اتنی آسانی سے چھوڑوں گا نہیں اور نہ ہی چھوڑنے دوں گا"

تبریز ہاشم کو بولتا ہوا رکا نہیں خود ہی وہاں سے چلا گیا جبکہ ہاشم دانت پیس کر زیر لب تبریز کو گالی دیتا ہوا واپس اسٹیج پر جانے لگا

"کون تھا وہ بیٹا، کیا آپ جانتے ہیں اُسے"

صدیقی کی آواز پر ہاشم خار بھری نظروں سے اُس کو دیکھنے لگا اِس وقت صدیقی کے لہجے میں گھبراہٹ اور تجسس صاف عیاں تھا

"مجھ سے زیادہ اچھی طرح اُسے آپ جانتے ہیں"

ہاشم غُصے میں بےحال ہوکر بغیر لگی لپٹی رکھے روکھے لہجے میں صدیقی کو جتاتا ہوا بولا تو صدیقی اپنا سا منہ لےکر رہ گیا۔۔۔ خار بھری جتاتی ہوئی نظر ہاشم اپنے سُسر پر ڈال کر دس قدم کے فاصلے پر اسٹیج پر بیٹھی آرزو کو قہر برساتی نظروں سے دیکھنے لگا آرزو اس کے دیکھنے پر زمین میں گڑھ گئی

"کیا ہوا ہاشم سب خیریت ہے"

گلنار دور سے ہی اپنے بیٹے کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ چکی تھی مگر بات کیا تھی اُس کو اندازہ نہیں ہوا اِس لیے ہاشم کے پاس آتی اُس سے پوچھنے لگی

"اور کب تک چلے گا یہ ڈرامہ، بےذار آگیا ہوں میں ماں جی گھر چلیں اب"

ہاشم گلنار سے بولتا ہوا اسٹیج پر جانے کی بجاۓ بینکوئیٹ سے باہر نکل گیا

*****

آرذو رخصت ہوکر ہاشم کے ہمراہ اُس کے گھر آچکی تھی آرزو کی آمد پر ایوب خان اور گلنار دونوں جتنے خوش نظر آرہے تھے ہاشم اتنا ہی بےزار سا بیٹھا تھا

"یہ میری کوئی پہلی شادی نہیں ہے جو ابھی تک منہ دکھایاں اور رسمیں ہی ختم نہیں ہورہی ہیں، بس وائنڈ اپ کریں اِن چیزوں کو"

اپنے برابر بیٹھی آرزو کو مکمل نظرانداز کرتا ہوا ہاشم گلنار سے روکھے لہجے میں بولا جو کسی رسم کے لیے شمع سے تھال مانگوا رہی تھی

"یہ کیا بات ہوئی بھلا، شادی پہلی ہو یا دوسری ایسے لمحات کو یاد کرکے ہی تو خوش ہوا جاتا ہے۔۔۔ اور آرزو کی تو ماشاء اللہ سے پہلی خوشی ہے اُس کو تو انجوائے کرنے دو"

گلنار اپنے بیٹے کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر بولی تو ہاشم طنزیہ انداز میں ہنستا ہوا آہستہ آواز میں بڑبڑایا

"میں ایسے لمحات کو یاد کرکے زندگی میں کبھی خوش نہیں ہوسکتا"

ہاشم کی بڑبڑاہٹ ہلکی تھی مگر آرزو کو صاف سنائی دی، جس کے بعد ہاشم مکمل طور پر اُس کی طرف رخ کرتا ہوا آرزو کے کان میں سرگوشی سے بولا

"ارمان تو تم شادی سے پہلے ہی نکال چکی ہوگی یقیناً جوب انجوۓ بھی کیا ہوگا" 

زہر خواندہ لہجے میں پوچھے گئے سوال پر آرذو تڑپ کر رہ گئی مگر کچھ نہ بول پائی۔۔۔ آرزو کو نشتر چھبونے کے بعد وہ اپنے موبائل پر آنے والی کال ریسیو کرچکا تھا جسے سن کر ہاشم کہیں جانے کے لیے تیار ہوگیا

"ہاشم کہاں جارہے ہو تم اِس وقت" 

ایوب خان ہاشم کو گھر سے باہر جاتا ہوا دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگے

"دا جی ماہرہ کی کال آئی تھی بتارہی ہے کہ ماہ نور کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ایمرجنسی میں اُسے ہسپتال لےکر جانا ہے اس لیے مائرہ کے گھر ماہ نور کے پاس جارہا ہوں"

ہاشم آرزو کی پرواہ کیے بغیر مائرہ کی بتائی ہوئی صورت حال ایوب خان کو بتانے لگا۔۔۔ دو دن قبل ماہ نور اپنی دوست ماہرہ کے گھر پر قیام پذیر تھی وہ ہاشم کی شادی کی تیاریاں دیکھ کر یہ سب برداشت نہیں کر پارہی تھی اسی لیے اپنی دوست کے گھر چلی گئی تھی اور اب کی بار ایوب خان اور گلنار نے بھی ماہ نور کی حرکت پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا

"ارے بیٹا آج آرزو سے تمہاری شادی ہوئی ہے اپنی بیوی کو چھوڑ کر تم کیسے جاسکتے ہو"

گلنار آرذو کی موجودگی کی وجہ سے ٹھیک سے ہاشم کے سامنے اعتراض بھی نہیں کرپائی

"جو مرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے وہ بھی میری بیوی ہے، اگر یہاں اِسے کچھ ہوگیا تو آپ انفارم کردئیے گا میں واپس چلا آؤں گا"

ہاشم گلنار سے بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا جس پر گلنار کا منہ بن گیا

"یہ تو کبھی ماہ نور کے ڈھکوسلو کو نہیں سمجھے گا۔۔۔ اُس نے جان بوجھ کر ہاشم کو بلایا ہے میں خوب اچھی طرح سمجھتی ہوں اُس کو"  

آرزو کی موجودگی کو بھلاۓ گلنار خراب موڈ کے ساتھ ایوب خان سے بولی تو ایوب خان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارتاً مزید بولنے سے منع کیا

"بہو تھک گئی ہوگی اِس کو ہاشم کے کمرے میں چھوڑ آؤ۔۔۔ بچی تھوڑی دیر آرام کرلے گی" 

ایوب خان گلنار سے بولتے ہوئے خود بھی اپنے کمرے میں چلے گئے

***""""***

"میں جانتی تھی میرے لیے اتنی محبت تو تمہارے اندر ابھی بھی باقی ہوگی کہ میرے بارے میں کوئی خبر ملتے ہی تم پریشان ہوکر دوڑے چلے آؤ گے"

ہاشم ماہ نور کے پاس پہنچا تو وہ اُسے کمرے میں بالکل ٹھیک ٹھاک نائٹی میں ملبوس اُس کا استقبال کرتی ہوئی دکھائی دی

"کاش کہ تم نے محبت کا بھرم قائم رکھا ہوتا کاش کہ تم نے اپنے اور میرے رشتے میں فاصلے نہ پیدا کیے ہوتے"

ہاشم خوب جانتا تھا ماہ نور کی چال کو، چھ سال میں وہ ماہ نور کو اچھی طرح جان چکا تھا لیکن پھر بھی اُس کے پاس آج اِس لیے چلا آیا تھا کیونکہ اُس وقت وہ خود بھی راہِ فرار چاہتا تھا

"اگر فاصلہ پیدا ہوگئے ہیں تو اُن فاصلوں کو سمیٹ ڈالو آج"

ماہ نور نزاکت بھرے انداز میں ہاشم کے قریب آکر اُس کے گلے میں اپنے دونوں بازو ڈالے اُس سے بولی۔۔۔ ہاشم ہمیشہ اُس کے پیار کو ترستا آیا تھا مگر ماہ نور کے پاس کبھی اُس کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔۔۔ وہ من موجی اپنی ہی دنیا میں بسنے والی بالکل مختلف لڑکی تھی جسے رشتوں کا رتی برابر احساس نہیں تھا

"میں سکون چاہتا ہوں ماہ نور تھوڑی دیر کے لئے"

ہاشم اپنے گلے سے ماہ نور کے ہاتھ ہٹاکر بےذار سے انداز میں بولا۔۔۔ اب ماہ نور کے خود سے قریب آنے پر بھی یا پیشِ رفت پر اُسے کچھ خاص محسوس نہیں ہوتا تھا۔۔۔ شاید ماہ نور نے اسے اتنا اگنور کیا تھا کہ اب ماہ نور کے لئے اُس کے احساسات ہی مردہ ہوچکے تھے۔۔۔ اِس وقت ہاشم کی بےذار سی شکل دیکھ کر ماہ نور کو ہنسی آگئی

"اور سکون تمہیں تبھی حاصل ہوگا جب میں اِس کمرے میں موجود نہیں ہوگیں تم آرام کرو میں برابر والے کمرے میں ہوں"

ماہ نور کو بھی اُس کے قُرب کی کوئی خاص چاہ نہیں تھی بس وہ چاہتی تھی آج ہاشم اپنی دوسری شادی کی پہلی رات کم سے کم اپنی نئی بیوی کے پاس نہ گزارے اِس لئے وہ ہاشم کو یہاں اپنے پاس بلاچکی تھی۔۔۔ یہی ماہ نور کا مقصد تھا بےشک ہاشم یہاں آکر دوسرے کمرے میں رہتا ماہ نور کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں تھی ماہ نور کے کمرے سے جانے کے بعد ہاشم ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرکے پاؤں کو شوز سے آزاد کرتا ہوا بیڈ پر دراز ہوگیا

***""""***

چند دنوں سے بارش کا چلنے والا سلسلہ آج جاکر کہیں رکا تھا۔۔۔ آج مطلع بالکل صاف تھا تو سورج بھی مہربان ہوا پورے اختیار کے ساتھ آسمان پر چمکتا نظر آرہا تھا۔۔۔ ہیر لان میں آکر کرسی پر بیٹھ گئی تھی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ دھوپ کا امتزاج اُس کی طبعیت پر اچھا اثر چھوڑ رہا تھا

مسلسل دس دنوں سے اُس کے سائیکیٹرس کے پاس سیشن ہورہے تھے جو کچھ اُس نے دیکھا، جو کچھ وہ محسوس کرتی تھی عباس یا کوئی دوسرا اُن چیزوں یا باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔ عباس نے اپنے بزی شیڈیول میں سے اتنا ضرور کیا تھا کہ وہ روز ہیر کو سائیکیٹرس کے پاس لے جاتا۔۔۔ سائیکارٹس کی دی ہوئی گولیاں کھاکر ہیر کا ذہن ہر وقت سویا رہتا۔۔۔ اب آہستہ آہستہ ہیر کو بھی لگنے لگا تھا عباس اور فرغب بی کی بولی گئی بات سچ تھی وہ سب اس کا وہم تھا۔۔۔ اُس رات یا پھر اُس سے پہلے اُس کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا لیکن ان سب باتوں کے باوجود ڈر اور خوف ہیر کے دل میں گھر کرچکا تھا

"بی بی جی آپ بولیں تو آپ کے سر میں تیل کی مالش کردو سکون ملے گا اُس سے آپ کو" 

فرحانہ جوکہ کھانا بنانے کے بعد اب گھر جانے کا ارادہ رکھتی تھی لان میں بیٹھی ہوئی ہیر کو دیکھ کر بولی

"سکون ملے گا۔۔۔۔ ہاں سکون ہی تو چاہیے۔۔۔ ذہنی سکون۔۔۔ تم مالش کردو میرے سر میں" 

ہیر فرحانہ کو دیکھ کر بولی تو فرحانہ تیل کی شیشی لے آئی

"اچھا لگ رہا ہے آپ کو یہاں بیٹھے دیکھ کر آپ تھوڑا باہر بھی نکلا کریں ہیر پیلس سے تھوڑی دور آبادی کی طرف کافی گہماگہمی ہے وہاں مختلف مارکیٹ دوکانیں اور بہت سی دوسری چیزیں ہیں۔۔۔ بہت سارے لوگ نظر آئیں گے آپ کو وہاں تو اس سے آپ کو اچھا محسوس ہوگا"

فرحانہ ہیر کے سر میں تیل کی مالش کرتی ہوئی اسے مشورہ دینے لگی اُسے اپنی اِس چھوٹی سی مالکن سے کافی ہمدردی محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔ جب وہ ایک ماہ پہلے یہاں آئی تھی تو کس قدر مختلف تھی، خوبصورتی کے ساتھ ساتھ الگ ہی رونق تازگی اُس کے چہرے سے چھلکتی دکھائی دیتی تھی لیکن ایک ماہ کے اندر یہ رونق اور تازگی دونوں اُس کے چہرے ختم ہوچکی تھی صرف اس کے چہرے پر اب ڈر خوف آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے دکھائی دینے لگے پرانی ہیر تو جیسے کہیں کھو سی گئی تھی ایک ماہ کے اندر ہی اُس کا وزن بھی کافی تیزی سے کم ہورہا تھا

"گہما گہمی لوگوں کے ہجوم سے خوف آتا ہے مجھے، ڈر لگتا ہے اتنے لوگوں میں وہ کہیں کوئی حلیہ بدل کر میرے سامنے نہ آجائے۔۔۔ فرحانہ کیا یہ ہیر پیلس سچ میں آسیب ذدہ ہے"

ہیر فرحانہ سے وہی بات پوچھنے لگی جو کافی مرتبہ فرغب بی اور عباس اُس کو بتاچکے تھے کہ ہیر پیلس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ راتوں کو جو ہنسنے، رونے یا کبھی کبھی گنگنانے اور چیخنے کی آوازیں اُس کو سنائی دیتی تھی عباس اور فرعب بی ان آوازوں سے انکار کرتے تھے

"جی بی بی جی یہ جگہ اپنے اندر پراسراریت رکھتی ہے جبھی یہاں کے ملازموں کو بھی زیادہ غور و فکر سے منع کیا گیا ہے۔۔۔ ہم بھی روزی روٹی کی خاطر یہاں اپنا کام کرنے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں"

فرحانہ اُس کے سر میں مساج کرنے کے ساتھ اُس کے کندھوں کو دباتی ہوئی آہستہ آواز میں ہیر کو بتانے لگی

"یہاں ایسا کیا ہوا تھا فرحانہ جو یہ جگہ اتنی پراسرار سی ہے پلیز بتاؤ ناں مجھے"

ہیر کو اچانک جاننے کا تجسس ہوا تو وہ فرحانہ سے پوچھ بیٹھی شکر تھا کہ فرغب بی یہاں اِس وقت موجود نہیں تھی ورنہ وہ ہیر کو کبھی بھی کسی ملازم سے بات نہیں کرنی دیتی تھیں

"بی بی جی کافی عرصہ دراز ہوا ہیر پیلس میں دو لوگ بستے تھے ایک شوہر اور دوسری اُس کی بیوی۔۔۔ بظاہر تو وہ دونوں خوش باش اپنی زندگی گزار رہے تھے مگر ایک دن شوہر کو معلوم ہوا کہ اُس کی بیوی کا چکر اُس کے ملازم کے ساتھ چل رہا ہے پھر کیا تھا اُس آدمی نے اپنی بیوی کے  اُس عشق یعنی اپنے ملازم کو جان سے مار دیا۔۔۔ کہا جاتا ہے اپنے ملازم کو مار کر اُس آدمی نے ساتھ والے جنگل میں دفنا دیا تھا پھر اُس کے بعد سننے میں آنے لگا اُس مرنے والے ملازم کی روح اِس جنگل میں اور ہیر پیلس کے آس پاس ہی منڈلاتی ہے"

فرحانہ کی بات سن کر خوف کے مارے ہیر کی ریڑھ کی ہڈی سنسنانے لگی 

"اور اُس عورت کو کیا ہوا جو اُس آدمی کی بیوی تھی" 

خوف کے باوجود ہیر فرحانہ سے اُس آدمی کی بیوی کا پوچھنے لگی

"سننے میں آیا تھا اُس ملازم کو مارنے کے بعد شوہر نے اپنی بیوی کو ہیر پیلس میں موجود تہہ خانے میں قید کرلیا وہی تہہ خانے میں اُس کی بیوی سے سسک سسک کر اپنی جان دے دی"

فرحانہ کی زبانی کہانی سن کر ہیر نے خوف سے جھرجھری لی

اِس کہانی کے کردار اُسے کافی حد تک اپنی زندگی کی کہانی سے میل کھاتے محسوس ہوئے شوہر بیوی ملازم، یعنی وہ عباس اور ایبک۔۔۔۔ مگر عباس تو ایبک کو مجرم ماننے کو تیار ہی نہ تھا، الٹا وہ ہیر کو ایبک کے وفادار ہونے کا یقین دلاتا

"کیا تمہیں معلوم ہے فرحانہ پچھلے حصّے میں ہیر پیلس کے باہر وہ قبر کس کی ہے" 

عباس اور فرغب بی سے تو اُس کو کچھ معلوم نہیں ہوسکا شاید فرحانہ سے ہی معلوم ہوجاتا

"اتفاق کی بات ہے اُس قبر میں کوئی ہیر نام کی لڑکی دفن ہے۔۔۔ شیر عباس صاحب کو معلوم ہوگا اُس کے متعلق کیوکہ وہ قبر شروع سے اُس جگہ پر نہیں تھی۔۔۔۔ اور کچھ تو میں بھی اُس کے متعلق نہیں جانتی مگر شیر عباس صاحب تو ضرور جانتے ہوں گے اُس قبر کے بارے میں"

فرحانہ ہیر کے بالوں میں چوٹی کی صورت بل دیت ہیر کو بتانے لگی تو ہیر گہری سوچ میں چلی گئی وہ قطبہ جس پر ہیر نام درج تھا یقیناً وہ اُسی قبر کا قطبہ ہوگا جس پر اپنا نام دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔۔۔ ہیر اتنی گہرائی میں ڈوب کر سوچ رہی تھی کہ لان میں آتا عباس اُسے دکھائی نہیں دیا 

"اچھا بی بی جی میں چلتی ہوں" 

فرحانہ نے عباس کو دیکھ لیا وہ ہیر سے بولتی ہوئی جلدی سے وہاں سے جانے لگی ہیر تب بھی نہیں چونکی

"کیا بول رہی تھی تم اُس کے سامنے"

عباس چند قدم کے فاصلے پر لان میں موجود فرحانہ سے پوچھنے لگا جس کے ہاتھ میں تیل کی شیشی موجود تھی

"کچھ نہیں جی میں تو یہ مالش کررہی تھی بی بی جی کے سر میں تیل سے" 

فرحانہ عباس کی آنکھوں کے سخت اثر سے گھبراہٹ میں مبتلا اسے بتانے لگی

"کھانا بنالیا تم نے"

عباس فرحانہ کو دیکھتا ہوا سوال کرنے لگا جس پر اُس نے جلدی سے اقرار میں سر ہلایا

"اپنا کام مکمل کرنے کے بعد یہاں بلاوجہ روکنے کی اجازت نہیں ہے فرغب بی نے تمہیں نہیں بتایا جاؤ یہاں سے فوراً"

عباس تھوڑا اونچا کرختگی سے بولا تو ہیر چونک کر عباس کو دیکھنے لگی فرحانہ اپنا سا منہ لےکر وہاں سے چلی گئی جبکہ عباس ہیر کی طرف متوجہ ہوا 

عباس کے چہرے کے تاثرات اب غضیلے نہیں تھے بلکہ اُس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی، وہ ہیر کی طرف قدم بڑھانے لگا جبکہ ہیر چہرے پر وہ خوف دور سے ہی دیکھ چکا تھا۔۔۔ ہیر عباس کی پہنی ہوئی کالی شرٹ کو خوفزدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی

"ہیر کیا ہوا میری جان"

عباس ہیر کے قریب آکر خوف سے پڑتا اُس کا زرد چہرہ دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگا

"یہ کالا رنگ۔۔۔ تم۔۔۔ تم عباس نہیں ہو۔۔۔ مم میں جانتی ہوں تم عباس نہیں ہو"

ہیر خوف بولتی ہوئی عباس سے دو قدم دور ہوئی تو عباس نے ہیر کو بازو سے کھینچ کر اپنے سے قریب کرلیا

"یہاں غور سے میری آنکھوں میں دیکھو میں عباس ہو۔۔۔ صرف تمہارا شیر عباس"

عباس کے سنجیدگی سے بولنے پر ہیر نے واقعی اُس کی کالی آنکھوں کو غور سے دیکھا تب ہیر کو اطمینان ہوا۔۔۔۔ ہیر کو ریلیکس دیکھ کر عباس نے ہیر کو اپنے حصار میں لے لیا

"یہاں کیوں آگئی تھی اپنے بیڈروم سے"

عباس اپنا ایک بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کرتا دوسرا ہاتھ ہیر کے بالوں پر رکھ کر نرم لہجے میں ہیر سے پوچھنے لگا

"کمرے میں عجیب وحشت سی ہورہی تھی اِس لیے یہاں چلی آئی۔۔۔ آپ نے یہ رنگ کیوں پہنا ہے پلیز اپنی شرٹ کو چینج کریں عباس مجھے ذرا اچھا نہیں لگ رہا"

ہیر عباس کے حصار میں بولی تو عباس نے اپنے ہونٹوں سے آئستہ سے اُس کے بالوں کو چھوا

"اوکے میں ابھی چینج کرلیتا ہوں آؤ اندر چلیں۔۔۔ یہاں ہوا کافی ٹھنڈی ہے تم بیمار نہ ہوجاؤ" 

عباس ہیر سے بولتا ہوا اپنا بازو ہیر کے شانے پر دراز کیے اسے اپنے قریب کیے کمرے میں لے آیا

کمرے میں آنے کے باوجود عباس نے محسوس کیا ہیر اندر آنے کی بجاۓ وہی دروازے کے پاس کھڑی تھی۔۔۔ عباس وارڈروب سے دوسری وائٹ کلر کی شرٹ نکالنے لگا

"ہیر یہاں آؤ میرے پاس"

عباس آستینوں میں ہاتھ ڈال کر شرٹ کا کالر درست کرتا ہیر کو اپنے پاس بلانے لگا تو ہیر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اُس کے پاس چلی آئی

"میری شرٹ کے بٹن تو بند کردو یار"

عباس ہیر کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کرتا ہوا اپنائیت بھرے لہجے میں اس سے بولا تو ہیر کسی ربورٹ کی مانند عباس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی۔۔۔ عباس غور سے ہیر کا چہرہ دیکھنے لگا

اُس دن والے واقعے کے بعد سے ہیر صرف ایک حد تک عباس کو اپنے قریب آنے دیتی۔۔۔ عباس تھوڑا زیادہ اُس سے کلوز ہوتا تو ہیر رونے لگ جاتی یوں اُن دونوں کی شادی شدہ زندگی میں ایک ان دیکھی لکیر تھی جو اُن دونوں کو ملانے یا ایک ہونے سے روکے ہوئی تھی لیکن عباس نے اِس چیز کا برا نہیں مانا اُس کے لئے ضروری تھا کہ ہیر ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند ہوجائے

"اچھا یہ بتاؤ دوائی لی تم نے" 

شرٹ کا آخری بٹن بند کرتے ہوئے جیسے ہی ہیر عباس کے پاس سے جانے لگی عباس ہیر کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیے اُس سے پوچھنے لگا

"میں میڈیسن نہیں کھاؤں گی عباس اُس میڈیسن کے کھانے کے بعد مجھے بہت زیادہ نیند آتی ہے میں ہر وقت سوئی رہتی ہوں"

ہیر عباس کو دوا کھانے سے انکار کرتی بولی

"وہ میڈیسن اسی لئے ہے تاکہ تمہارا مائنڈ ریلکس رہے، میری جان کیا تم نہیں چاہتی کہ تم جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ ہم دونوں اپنی لائف اسٹارٹ کریں"

عباس ہیر کے دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے ہیر کا چہرہ تھامتا ہوا اس سے پوچھنے لگا

"یہ گزر تو رہی ہے ہماری لائف اور کیسی لائف چاہتے ہیں آپ جو میرے میڈیسن کھانے کے بعد آپ کے ساتھ گزرے"

ہیر اپنے چہرے سے عباس کے ہاتھ ہٹاتی ہوئی ناراضگی سے اُس سے پوچھنے لگی بار بار میڈیسن کے لیے بولنا اس کو اچھا نہیں لگ رہا تھا

"اوکے یار میڈیسن نہیں کھانی تو مت کھاؤ کم سے کم غصّہ تو مت کرو مجھ معصوم سے شوہر پر، میں تو تمہارے احساس سے بول رہا تھا"

عباس سمجھ گیا تھا اب وہ بولنے سے بھی میڈیسن نہیں کھائے گی اس لیے ہیر کا خراب موڈ دیکھ کر اُسے باہوں میں لےکر بہلاتا ہوا بولا

"عباس میری بات مانیں گے، اب تو راستے بھی مکمل طور پر کھل چکے ہیں پلیز مجھے تھوڑے دنوں کے لئے اَمّی اَبُو کے پاس بھجوا دیں"

ہیر عباس کے سینے پر سر رکھی ہوئی اس سے بولی تو عباس کے تاثرات بالکل سنجیدہ ہوگئے وہ ہیر کو خود سے الگ کرتا دوبارہ ہیر کا چہرہ تھام کر بولا

"ہماری شادی کو ابھی ایک ماہ ہوا ہے مگر مجھے تمہارے ساتھ کی اتنی عادت پڑگئی ہے کہ میں تمہیں اپنی نظروں سے دور کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔ دل اُداس ہونے لگتا ہے یہ سوچ کر کہ تم مجھ سے دور جانا چاہتی ہو۔۔۔۔ کیا تمہارے اندر میرے لیے ایسے احساسات بیدار نہیں ہوئے ہیں ابھی تک، کیا تم مجھ سے دور جاکر میرے بغیر رہ لو گی جواب دو"

عباس کے محبت بھرے لہجے پر وہ بےاختیار نفی میں سر ہلا گئی جس پر عباس نے مسکرا کر اپنے ہونٹ ہیر کی پیشانی پر رکھ دیے

"آئی لو یو میری جان شیر عباس کی جان ہو تم"

ہیر کے نازک وجود کو اپنی بانہوں میں سمائے عباس سرشاری سے بولا عباس کی اتنی محبت دیکھ کر ہیر خاموش ہوگئی مگر وہ اپنے گھر والوں کو آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے لئے ترس گئی تھی

"چلو واک پر چلتے ہیں ابھی اندھیرا نہیں ہوا"

عباس ہیر کو خاموش دیکھ کر اس کو بہلانے کے غرض سے بولا

"میں شاور لے کر آتی ہوں پھر آبادی کی طرف چلیں گے"

ہیر عباس سے بولتی ہوئی واشروم کی طرف جانے لگی شاید فرحانہ ٹھیک بول رہی تھی کہ اُسے لوگوں کے ہجوم سے گھبرانا نہیں چاہیے تھا۔۔۔ ایک ماہ سے وہ چند چہروں کے علاوہ اور دیکھ ہی کیا رہی تھی شاید یہ تبدیلی اُس کے اوپر اچھا اثرات ڈالتی

***""""*** 

"عباس میں نے سنا ہے کہ چند سالوں پہلے ہیر پیلس میں ایک آدمی نے اپنے ملازم کو قتل کردیا کیوکہ اُس ملازم کے اُس آدمی کی بیوی کے ساتھ تعلقات تھے اور اُس آدمی نے بعد میں اپنی بیوی کو بیسمنٹ میں قید کردیا۔۔۔ کیا ہیر پیلس میں کوئی بیسمینٹ بھی ہے یہ واقعہ کس حد تک سچ ہے"

وہ دونوں آبادی میں آکر مختلف مارکیٹ گھومنے کے بعد ایک ٹی اسٹول پر بیٹھ گئے تب ہیر عباس سے پوچھنے لگی ہیر کی بات پر عباس ہنسا

"سنی سنائی باتوں پر بناء تصدیق کے یقین کرلینا کم عقلی کی علامت ہے، یہاں کے مقامی لوگوں نے ایسے ہی بےشمار قصّے ہیر پیلس سے وابستہ کیے ہیں میں یہاں  پچھلے بیس سالوں سے رہ رہا ہوں ہیر پیلس میں کوئی بیسمینٹ میں نے تو نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھے کوئی یہاں پر کوئی آسیب یا بدروح وغیرہ کا سایہ دکھا"

عباس گرم بھاپ اڑاتی چائے کا کپ پکڑتا ہوا ہیر سے بولا

"بیس سال مطلب آپ چھوٹی عمر سے یہاں موجود ہیں شاید بچپن سے"

ہیر عباس کی بات میں دلچسپی ظاہر کرتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"بچپن سے نہیں لڑکپن سے، پہلے یہ جگہ گوہر پیلس کے نام سے مشہور تھی، مطلب میرے فادر نے جب اِس جگہ کا اِس کے مالک سے سودا کیا تب اِس پیلس میں رہائش پذیر شخص کی بیوی کا نام گوہر تھا۔۔۔ اِس محل کا نام اُس آدمی نے محبت میں اپنی بیوی کے نام پر رکھا تھا جو بعد میں تبدیل کروا دیا گیا"

عباس ہیر کی دلچسپی بھی دیکھ کر اُسے بتانے لگا

"بعد میں نام تبدیل کروا دیا گیا مطلب یہ کہ پھر آپ کے فادر نے نام تبدیل کروایا ہوگا، یعنی انہوں نے بھی محبت میں اِس جگہ کو یہ نام دیا ہوگا ہیر پیلس" 

ہیر کے بولنے پر عباس چائے پیتا ہوا غور سے ہیر کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا

"صحیح جج کیا تم نے ایسا ہی ہے بالکل"

عباس چائے کا گھونٹ بھرتا ہوا غور سے ہیر کا چہرہ دیکھ رہا تھا جیسے اُس کا دماغ پڑنا چاہ رہا ہوں جبکہ ہیر کا دماغ وہی اُس گمنام قبر کی طرف چلا گیا تھا

"عباس وہ جو ہیر پیلس کے بیک یارڈ پر۔۔۔

ہیر نے جیسے ہی بولنا چاہا ویسے ہی عباس نے ہیر کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے بات کاٹی

"چائے ختم کرو پھر چلتے ہیں ورنہ واپس پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہوجائے گا۔۔۔ میں ذرا مظہر کو کال کرلوں۔۔۔۔ تمہاری فرینڈ خوشبو کے ساتھ آج کل ہنی مون منانے میں بزی ہے معلوم نہیں مجھے کیوں کال کررہا ہے"

عباس کرسی سے اٹھتا ہوا ہیر سے بولا

"مجھ کو تو نہ ہی ہنی کا معلوم ہے نہ ہی مون کا معلوم نہیں۔۔۔ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو اتنے دن گھومنے پھرنے میں ضائع کرتے ہیں بلاوجہ میں"

ہیر ساری سوچوں کو دماغ سے نکال کر لمبا سانس لیتی بولی اور اپنی چائے ختم کرنے لگی جبکہ عباس دونوں ہاتھ ٹیبل پر جماکر ذرا سا ہیر کی طرف جھکتا ہوا بولا

"میری جان اگر یہ پبلک پلیس نہ ہوتا تو میں تمہیں ہنی اور مون دونوں کا مطلب ابھی سمجھا دیتا۔۔۔ ہنی مون پر لوگ بلاوجہ نہیں گھومتے بلکہ اُس کے پیچھے خاص مقصد موجود ہوتا ہے جو اگر تم مجھے کبھی سمجھانے دو تو میں خود کو شادی شدہ مردوں کی لسٹ میں محسوس کرسکو"

عباس کی لُو دیتی نگاہوں کو دیکھ کر ہیر بری طرح سٹپٹا کر پیچھے ہوئی تو عباس گہری نظروں سے ہیر کو دیکھتا ہوا وہاں سے چلا گیا

***""""***

کل رات ہاشم کے کمرے میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے آرذو سکون کی نیند سو گئی تھی۔۔۔ گلنار اور ایوب خان کا اس کے ساتھ سلوک کافی اچھا تھا یہ دوسرے دن شام کا وقت تھا اور ہاشم کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔۔۔ وہ مکمل تیار کھڑی تھی اپنے گھر جانے کے لئے تبھی اُسے کمرے سے باہر ہال میں باتوں کی آوازیں آنے لگیں

"مجھے بتاؤ ہاشم تم نے دوسری شادی کی حامی اسی لیے بھری تھی تاکہ تم اپنی دوسری بیوی کے سامنے مجھے بےعزت کرکے رکھ دو۔۔۔ کل رات سے گھر سے نکلے ہو دوسرے دن شام کو لوٹ رہے ہو ویسے تو دو گھنٹے ماہ نور کے ساتھ گزارنا تمہارے لئے مشکل ہوجاتے ہیں اور اب دوسری شادی کے بعد۔۔۔۔

گلنار ہاشم کو دیکھ کر دل کی ساری بھڑاس نکالتی ہوئی بولی

"کل رات سے ابھی تک اُس کے کھٹنے سے لگ کر نہیں بیٹھا ہوا تھا میں ماں جی، اتنا فالتو انسان سمجھ لیا ہے شاید آپ نے اپنے بیٹے کو، میں صبح آفس میں تھا واپس اب گھر آرہا ہوں تو آپ کے شکوے شروع ہوگئے ہیں"

گلنار کی بات پر ہاشم چڑتا ہوا بولا

"شاباش بیٹا شاباش۔۔۔ یعنی کل ہی تم اِس گھر میں اپنی بیوی لےکر آئے ہو اور اُسے دیکھے بناء باتیں کیے بغیر تم رات میں اپنی پہلی بیوی کے بلانے پر اُس کے پاس چلے گئے اور پھر وہاں سے آفس۔۔۔ کیا آرزو کی کوئی حیثیت ہے تمہاری نظر میں"

گلنار کو اِس وقت ہاشم پر شدید غصہ آیا تھا۔۔۔ ہاشم جو گلنار کو غصہ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا اُس کی نظر آرذو پر پڑی جو پلر کی آڑھ میں کھڑی ان لوگوں کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔ ہاشم گلنار کی بات کا جواب دیے بغیر چلتا ہوا آرذو کے پاس آیا اُسے کلائی سے پکڑ کر گلنار کے سامنے لا کھڑا کیا

"یہ آپ کے سامنے کھڑی ہے میری دوسری بیوی جسے بہت تلاشنے کے بعد آپ نے میرے لئے چنا ہے۔۔۔ کم عمر خوبصورت، شریف لڑکی اور عزت دار گھرانے سے تعلق رکھنے والی"

ہاشم کی ایک ایک لفظ چباتا ہوا آرزو کو دیکھ کر بولا تو آرزو کر رنگ خوف سے سفید پڑنے لگا نہ جانے وہ آگے گلنار کے سامنے کیا بولتا اُس کے بارے میں۔۔۔ کل سے گلنار اُس کے ساتھ بہت پیار محبت سے پیش آرہی تھی اگر اُس کی ساس کو اُس کے بارے میں معلوم ہوجاتا تو نہ جانے وہ اُس کے ساتھ کیسا سلوک کرتی شاید اپنے بیٹے سے بھی زیادہ توہین آمیز

"جانتی ہیں ماں جی اپنی دوسری بیوی یعنی اِس کی حیثیت کیا ہے میری نظر میں"

ہاشم گلنار کو دیکھتا ہوا اس سے پوچھنے لگا جو خاموش کھڑی ہاشم اور آرزو دونوں کو دیکھ رہی تھی پھر ہاشم آرزو کی طرف پلٹا

"بتادو ماں جی کو تمہاری حیثیت"

ہاشم آرزو کا چہرہ دیکھتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا آرزو نے جن نظروں سے ہاشم کو دیکھا اُس کی نظروں میں التجا تھی، درخواست کی کہ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے اُس کا بھرم قائم رہنے دے۔۔۔ ہاشم نے آرزو کو دونوں بازوؤں سے پکڑا

"اگر تم مجھ سے یہ توقع رکھو گی کہ میں خوبصورت، کم عمر، دوسری بیوی کو دیکھ کر دنیا جہاں کو بھلائے تمہارا پلُو پکڑ کر تمہارے آگے پیچھے دوڑوں گا تو یہ خوش فہمی اپنے دل اور دماغ دونوں سے نکال دو۔۔۔ اِس گھر میں میری دوسری بیوی کی حیثیت سے تم تبھی ٹک سکتی ہو جب تم میرا ہر حکم مانو گی، میری کسی بات کو رد نہیں کروں گی اور میرے آگے کوئی الٹا سیدھا جواب نہیں دو گی تب تمہارا گزارا اِس گھر میں ہوسکتا ہے جس دن میں نے اپنے مزاج کے خلاف کوئی بھی کام دیکھ لیا اُسی دن میں بناء کسی لحاظ کیے میں تمہیں اس گھر سے چلتا کرونگا"

ہاشم آرذو کے دونوں بازو پکڑے ایک ایک لفظ جتاتا ہوا بولا تو آرزو نم آنکھوں سے ہاشم کو دیکھنے لگی۔۔۔ ہاشم ایک نظر اُس کو پھر گلنار کو دیکھ کر اپنے کمرے میں چلاگیا۔۔۔ گلنار ہاشم کے رویے پر حیرت زدہ تھی، وہ آرزو کو دیکھ کر شرمندہ ہونے لگی

"اتنا غصہ والا یا پھر سخت مزاج کا نہیں ہے ہاشم، بس کسی وجہ سے غصّہ ہوگا اسے جبھی تم سے اِس طرح بول گیا ہے، تم پریشان مت ہونا غصہ اُترے گا تو ٹھیک ہوجائے گا"

گلنار آرزو کو دیکھ کر اسے تسلی دیتی ہوئی بولی تو آرذو اثبات میں سر ہلا کر کمرے کو دیکھنے لگی جہاں ابھی ہاشم گیا تھا۔۔۔ اُس کا دل نہیں چاہ رہا تھا وہ اُس کمرے میں جائے مگر کب تک وہاں کھڑی رہتی

"ہاشم سے پوچھ لو وہ چاہے لے گا آفس سے آیا ہے شاید اُس کا موڈ ہورہا ہوگا میں خانساماں سے کہہ کر بھجواتی ہوں"

گلنار کی بات پر آرزو جی کہتی ہوئی کمرے کی جانب بڑھ گئی 

کمرے میں آکر آرذو نے دیکھا تو وہ صوفے کی بیک پر سر ٹکاکر پاؤں دراز کیے آنکھیں بند کرکے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ آرذو نے جیسے ہی آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تو ویسے ہی کمرے میں آکر آئستگی سے دروازہ بند بھی کردیا

شکر تھا کہ اُس کی وجہ سے اِس شخص کے آرام میں خلل نہیں پڑا، کیا معلوم اسی بات کا بہانہ بناکر وہ اسے اپنے گھر سے آج ہی نکال دیتا

"میرا موبائل چارج پر لگادو" 

ہاشم کی آواز پر آرزو بری طرح اچھل کر رہ گئی وہ حیرت سے ہاشم کو دیکھنے لگی جو اُسی پوزیشن میں ابھی بھی آنکھیں بند کیے صوفے پر دراز تھا۔۔۔ 

وہ ہاشم کے سامنے ٹیبل پر اُس کا موبائل رکھا دیکھ کر موبائل لینے کی غرض سے اُس کے پاس آئی جیسے ہی آرزو نے موبائل پکڑا ہاشم نے اُس کی کلائی پکڑلی

"اتنا تیار ہوکر کس خوشی میں بیٹھی ہو یہاں کون سا تمہارا بوائے فرینڈ آنے والا ہے جس کو اپنی چمک دمک یہ تیاری دکھانی ہے تمہیں"

ہاشم کے چھبتے ہوئے لہجے میں پوچھے گئے سوال پر آرزو تڑپ گئی

"رسم کے مطابق آج اَمّی کی طرف جانا ہے تو آپ کی امی کے کہنے پر تیار ہوئیں تھیں"

آرزو ہاشم کے طنز کو نظرانداز کرتی ہوئی اپنے تیار ہونے کی وجہ بتانے لگی جس پر ہاشم اُس کی بات کاٹتا ہوا بولا

"اپنے ماں باپ کے گھر جانے کے بہانے مت ڈھونڈ خوب جانتا ہوں میں کیوں جانا چاہتی ہو تم اپنے گھر۔۔۔۔ تمہارے گھر سے دو گلی چھوڑ کر ہی رہتا ہے تمہارا بوائے فرینڈ، تم اُس کو دیکھ لو وہ تمہارا دیدار کرلے اِس لئے اتنا سج سنور کر اپنے گھر جانے کی تیاری کی ہے۔۔۔ اچھی طرح سمجھتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کی ذہنیت کو۔۔۔ اور سب معلوم کروا لیا ہے میں نے تمہارے بوائے فرینڈ کے بارے میں، ادھوری تعلیم، جاب لیس، آوارہ گردی کرنے والا تھرڈ کلاس لڑکا۔۔۔ دیکھ لوں گا میں اُسے بھی اور تمہیں بھی اچھی طرح سے۔۔۔ اگر میرے نکاح میں رہ کر میرا نام خراب کرنے کی کوشش کی تو گلا دبا کر مار ڈالوں گا میں تمہیں۔۔۔۔ منع کردو اپنے گھر والوں کو کوئی نہیں آرہی تم اُن سے ملنے، جاکر اپنے کپڑے تبدیل کرو اور چائے بناکر لاؤ میرے لئے"

سختی سے اپنی گرفت میں لی کلائی آزاد کرتا ہوا ہاشم غصّے میں آرزو سے بولا تو آرزو اپنے آنسو صاف کرتی کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی وہ سسکتی ہوئی اپنی کلائی پر ہاشم کے انگلیوں کے نشان دیکھنے لگی مگر یہ نشانات تکلیف کا سبب نہیں تھے بلکہ ہاشم کا بار بار حقارت سے لفظ بوائے فرینڈ کہنا اُسے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔ اپنا میک اپ صاف کرنے کے بعد لباس تبدیل کر کے بالوں کو باندھتی ہوئی وہ کچن میں چلی آئی تاکہ ہاشم کے لئے چائے بنادے

"ارے بیٹا یہ کپڑے کیوں چینج کرلئے تم نے، اپنے گھر نہیں جانا۔۔۔ اور تم کیوں بنانے لگی ہو چائے" 

گلنار کچن میں آکر حیرت زدہ سی آرزو کو دیکھ کر پوچھنے لگی

"ہاشم تھکے ہوئے لگ رہے ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے اُن سے کہنا کہ وہ مجھے میرے گھر لے جائیں اور چائے میں اُن کے لیے اپنی خوشی سے بنارہی ہوں آپ بتائیے آپ اور دا جی کے لیے بھی چائے بنادو"

آرزو مسکراہٹ میں اپنا درد چھپاۓ گلنار کے سامنے جواز پیش کرتی ہوئی مسکرا کر چائے کا پوچھنے لگی

"صدا خوش رہو بیٹا میں اور ابّا جی چائے پی چکے ہیں تم اپنے اور ہاشم کے لیے بنالو۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ تم میرے ہاشم کی زندگی میں اور اِس گھر میں خوشیاں لانے کا ذریعہ بنو گی، میں خود مناسب طریقے سے شہناس کو آج تم دونوں کے نہ آنے کا بتادیتی ہوں"

گلنار کی بات پر آرزو نے مسکراتے ہوئے سر ہلا کر اُس کی بات کی تائید کی گلنار کے کمرے سے جانے کے بعد مسکراہٹ آرذو کے ہونٹوں سے غائب ہوگئی آنکھیں ایک بار دوبارہ نم ہونے لگی

***""""***

"واپس گھر آنا بھی ہے ماہ نور نے یا اپنی سہیلی کے گھر پر ڈیرہ جمائے رکھنا ہے"

کھانے کی میز پر گلنار ہاشم کو دیکھتی ہوئی سوال کرنے لگی آرزو سر جھکاۓ بیٹھی تھی وہ جانتی تھی ماہ نور ہاشم کی پہلی بیوی کا نام تھا۔۔۔ وہی بدمزاج اور لڑاکا قسم کی لڑکی جسے اُس دن وہ فلیٹ پہ دیکھ چکی تھی۔۔۔ اب نہ جانے ماہ نور اُس کو اِس گھر میں ہاشم کی دوسری بیوی کے روپ میں دیکھ کر کیا ہنگامہ کرتی

"ایک دو دن میں آئے گی اپنی پیکنگ کرنے کے لیے، اُس کا پروگرام بن گیا ہے فیصل ماموں کے پاس دبئی جانے کا"

ہاشم کھانا کھاتا ہوا گلنار کو وہی بات بتانے لگا جو صبح ماہ نور نے اس کو آفس نکلنے سے پہلے بتائی تھی

"اور تم نے اپنی بیوی کو یوں اکیلے اتنی دور جانے کی اجازت دے دی"

ایوب خان کھانے کے دوران ہاشم کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔۔ ہاشم نے انہیں یوں دیکھا جیسے نظروں سے بول رہا ہو اُس نے اجازت کب مانگی تھی

آرزو سر جھکائے بیٹھی ساری باتیں خاموشی سے سن رہی تھی اُسے اپنے شوہر کے سلوک پر دکھ ہوا پہلی بیوی کو دبئی جانے کی اجازت دے دی اور اس کو اُس کے ماں باپ کے گھر جانے سے روک دیا

"ارے بیٹا آپ تو کھانا کھا ہی نہیں رہی ہو شرماؤ نہیں سہی سے کھانا کھاؤ"

ایوب خان مٹھاس بھرا لہجہ اپناۓ پوتے کی نئی نویلی دلہن سے بولے جو انہیں دکھنے میں ہی اللہ میاں کی گاۓ لگ رہی تھی۔۔۔ آرزو ایوب خان کی بات پر جی کہہ کر خاموش ہوگئی جبکہ ہاشم بناء آرزو کی طرف دیکھے کھانا کھانے میں مصروف تھا

"ہاشم کل آرزو کو اس کے میکے لے جانا اور بیٹا ایک بات یاد رکھو بےشک یہ شادی تمہاری اپنی پسند کی نہیں ہماری پسند کی ہے مگر ذمہ داری یہ تمہاری ہے، اِس کا اچھی طرح خیال رکھنا مجھے دوبارہ بولنا نہ پڑے"

گلنار شام سے ہی ہاشم کا لاپروا رویہ آرذو کے ساتھ دیکھ رہی تھی تبھی اُس کو باور کرواتی ہوئی بولی

"ٹھیک کہا آپ نے یہ ذمہ داری میری ہے اُس کا خیال اور دھیان اچھی طرح رکھنا ڈیوٹی ہے میری۔۔۔ آپ فکر نہیں کریں اب اِس پر پوری پوری نظر ہے میری"

ہاشم کی بات پر آرذو نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کرسی پر بیٹھے ہاشم کی جانب دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ آرذو سمجھ چکی تھی اب یہ شخص اُس کا شوہر بن کر اُس کا جینا حرام کردے گا

"روٹی بنا کر لاؤ میرے لئے"

آرذو کے دیکھنے پر ہاشم اُس کو دیکھتا ہوا بولا ساتھ ہی اُس نے چاولوں سے بھری پلیٹ پیچھے کردی گلنار نے فوراً ہاٹ پاٹ سے روٹی نکال کر ہاشم کی طرف بڑھائی

"باہر کی نہیں مجھے گھر کی بنی ہوئی تازہ روٹی کھانی ہے ماں جی۔۔۔ اور تم میری شکل کیا دیکھ رہی ہو کھڑی نہیں ہوئی ابھی تک"

گلنار کو جواب دینے کے ساتھ ہاشم گھور کر آرزو سے بولا تو وہ اپنا کھانا چھوڑ کر کھڑی ہوگئی

"آج اُس بچی کا پہلا دن ہاشم ہمارے گھر میں تمہارے لئے روٹی خانساماں بنادے گا وہ کھانا کھا رہی ہے اُسے کھانا کھانے دو" 

ایوب خان ہاشم کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر آہستہ آواز میں اسے سمجھاتے ہوۓ بولے

"ٹھیک ہے پھر آپ تینوں مل کر ڈنر کو انجوائے کریں میں باہر کسی ہوٹل میں ڈنر کرلیتا ہوں" 

ہاشم کا خراب موڈ دیکھ کر ایوب خان اور گلنار دونوں ہی خاموش ہوگئے

"آپ پلیز بیٹھئے میں روٹی بناکر لاتی ہوں آپ کے لیے"

آرزو ہاشم کو کرسی سے اٹھتا ہوا دیکھ کر جلدی سے بولی، کوئی کچھ بولتا وہ تیز قدم اٹھاتی کچن میں چلی گئی

"تمہاری ماں نے صرف تم سے اُس کا خیال رکھنے کا بولا تھا اور تم نے اس کو بیچ کھانے اٹھادیا۔۔۔ آخر بات کیا ہے ہاشم، بلاوجہ تو کوئی شخص کسی کے ساتھ اِس طرح کا سلوک نہیں کرتا"

ایوب خان ہاشم کو دیکھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگے۔۔۔ اپنے دا جی کے لہجے اور نظروں میں ابھرتا ہوا تجسس دیکھ کر ہاشم بولا

"ماں جی کا ہی کہنا ہے جو آدمی بیوی کو شروع میں ہی ڈھیل دے دے پھر ساری عمر بیوی سر چھڑی رہتی ہے، ویسے بھی پہلے تجربے سے سیکھ چکا ہوں میں" 

سارا ملبہ گلنار پر گراتا ہوا وہ گلاس اٹھاکر پانی پینے لگا

***""""***

اُس کا شوہر اُس کی سوچ سے بھی زیادہ سخت گیر اور غضیلہ انسان تھا۔۔۔ جس کا آرذو کو آج پہلے ہی دن اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا۔۔۔ دن تو جیسے تیسے گزر گیا تھا مسئلہ رات کا تھا۔۔۔ آرذو کمرے میں چکر کاٹتی ہوئی ٹینشن لینے لگی۔۔۔ 

ابھی تو ہاشم سیٹنگ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ موجود تھا جب وہ کمرے میں رات گزارنے کے لئے آتا تب وہ کیا کرے گی، کہاں جائے گی، کاش آج کی رات بھی وہ کل کی طرح اپنی پہلی بیوی کے پاس چلا جائے۔۔۔ آرذو دل ہی دل میں دعا کرنے لگی مگر جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھلا ہاشم کمرے کے اندر آیا آرزو جان گئی، اُس کی دعا رد کردی گئی تھی

"کمرے کی لائٹ آف کر سونا ہے مجھے"

ہاشم بولتا ہے چینج کرنے چلا گیا جب وہ چینج کر کے واپس آیا تو کمرے میں زیرو کا بلب روشن تھا۔۔۔ اُس نے آرزو کو بیڈ کے پاس کھڑا پایا، وہ عجیب کشمکش میں مبتلا تھی

"تمہیں کیا ساری رات میرے سر پر کھڑے رہنا ہے لیٹو فوراً"

خود بیڈ پر لیٹنے کے بعد ہاشم اُس کو جھڑکتا ہوا بولا

"کہاں۔۔۔ کہاں پر لیٹنا ہے مجھے"

آرذو گھبراتی ہوئی ہاشم سے پوچھنے لگی جبھی تو وہ کنفیوژ کھڑی تھی

"ابھی اٹھ کر بتاؤ میں تمہیں"

اندھیرے میں آرذو دور سے ہاشم کے واضح نقوش تو نہیں دیکھ پارہی تھی لیکن اُس کی آواز میں چھپا غصّہ صاف محسوس کرسکتی تھی اِس لیے خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی

"کب سے چل رہا تھا تمہارا اُس لڑکے کے ساتھ چکر"

خاموشی کو چیرتی ہوئی ہاشم کی آواز آرذو کے کانوں میں ٹکرائی تو اُس کی جان خشک ہونے لگی

"آپ کو معلوم نہیں شام میں تو آپ بول رہے تھے آپ نے سب معلوم کروالیا ہے اُس کے بارے میں"

خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر انہیں تر کرتی ہوئی آرذو فقط اتنا ہی بول پائی کہ ہاشم نے اُس کی بات سن کر آرذو کی نازک کلائی کو سختی سے اپنی گرفت میں لیا

"جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دو نہیں تو بہت برے طریقے سے پیش آؤ گا تمہارے ساتھ بتاؤ کب سے بےوقوف بناتی آرہی تھی اپنے گھر والوں کو"

ہاشم آرذو کی کلائی پر مزید اپنے ہاتھ کی گرفت سخت کرتا ہوا غصّے میں بولا

"آٹھ ماہ۔۔۔ آٹھ ماہ ہوۓ تھے پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں درد ہورہا ہے مجھے"

آرذو کرہاتی ہوئی ہاشم سے بولی تو ہاشم نے اُس کی کلائی چھوڑ دی

"پھر تو اکیلے میں بھی ملتی رہی ہوگی اُس لڑکے سے"

یہ سوال پہلے سوال سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا آرذو اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی

"یہ کیسا سوال ہے کیا مطلب ہے آپ کی اِس بات کا"

وہ مدہم روشنی میں ہاشم کا چہرہ دیکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی تو ہاشم بھی اٹھ کر بیٹھ گیا

"آسان لفظوں میں پوچھا ہے میں نے چلو تھوڑا اور واضح کردیتا ہوں اپنے سوال کو،، کتنی بار چھوا ہے اُس لڑکے نے تمہیں"

ہاشم کا لہجہ اور انداز صاف تذلیل کردینے والا تھا آرذو تڑپ کر رہ گئی

"شرم نہیں آرہی ہے آپ کو مجھ سے یہ پوچھتے ہوئے۔۔۔ اتنی گری ہوئی کمزور نفس کی لڑکی نہیں ہوں میں جس کو اپنے گھر والوں کی یا اپنی عزت کی فکر نہیں۔۔۔ اگر آپ کو میری ذات سے ایسے شک و شبہات لاحق ہیں تو ابھی اور اِسی وقت اپنا رشتہ ختم کر ڈالے مجھ سے"

آرذو ہاشم سے بولتی ہوئی ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی مگر ہاشم نے مٹھی میں اُس کے بالوں کو بھر کر اُسے خود سے قریب کیا

"یوں جھوٹے آنسو بہا کر تم میری ہمدردی حاصل نہیں کرسکتی نہ ہی میں تم جیسی لڑکیوں کو ترس کھانے کے قابل سمجھتا ہوں۔۔۔ اگر تمہیں اپنی یا اپنے گھر والوں کی عزت کا خیال ہوتا تو تم اپنے باپ کی عزت کو یوں ہوٹلوں اور ریسٹورینٹ میں جاکر نیلام نہ کررہی ہوتی۔۔۔ اور رشتہ ختم کرنے کی دھمکی مجھے بالکل مت دینا، تم جیسی لڑکی سے رشتہ جوڑے رکھنے کا مجھے کوئی خاص شوق بھی نہیں ہے جس دن میں نے تمہیں دوبارہ رنگے ہاتھوں پکڑلیا، میں اپنے اور تمہارے گھر والوں کے سامنے تمہارے کرتوتوں سے پردہ ہٹاکر تمہیں اُسی دن فارغ کردونگا آیا سمجھ میں" 

ہاشم نے بولتے ہوئے جھٹکے سے اپنی مٹھی سے آرذو کے بالوں کو آزاد کیا تو وہ بیڈ پر گرتی ہوئی سسکنے لگی

***""""***

"کیا سوچ رہے ہیں"

تھوڑی دیر پہلے ہی ہاشم اور آرذو اُن کے گھر سے رخصت ہوکر گئے تھے شہناس امامہ کے ساتھ کام نمٹاکر کمرے میں آئی تو صدیقی کو خاموش بیٹھا دیکھ کر اس سے پوچھنے لگی

"آرزو کافی خاموش خاموش سی لگ رہی تھی بجھی بجھی سی۔۔۔ محسوس نہیں کیا تم نے"

صدیق کی شہناس کو دیکھتا ہوا اُس سے بولا

"محسوس تو میں نے اور بھی بہت کچھ کیا ہے مطلب ہاشم کا رویہ، دیکھا نہیں آپ نے کیسا اکھڑا اکھڑا سا انداز تھا اس کے بات کرنے کا یا پھر شاید اُس کی نیچر ہی ایسی ہو"

شہناس اپنا خیال پیش کرتی ہوئی صدیقی سے بولی۔۔۔ پھر صدیقی کے چہرے پر سوچ اور فکر کے جال بنتا دیکھ کر خود ہی تسلی بخش انداز میں کہنے لگی

"ویسے جب نئی نئی شادی ہوتی ہے تو شوہر اور بیوی میں ایک جھجھک سی ہوتی ہے، شروع میں مانوس نہیں ہوتے ایک دوسرے سے، بعد میں ہی دونوں ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے لگتے ہیں پھر ایک دوسرے سے بےتکلف بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔ آپ فکر نہیں کریں سب ٹھیک ہوجاۓ گا آگے جاکر"

شہناس کے بولنے پر صدیقی نے اُس کو دیکھا وہ نہ جانے خود کو تسلی دے رہی تھی یا پھر صدیقی کو

"ہیر کی بات ہوئی تم سے، کافی دن گزر گئے ہیں میں سوچ رہا ہوں چند دنوں کے لیے ہیر کو یہاں بلالینا چاہیے، میری دونوں بچیوں کے جانے سے گھر بالکل بےرونق سا ہوگیا ہے"

صدیقی شہناس کے دل میں بات زبان پر لاتا ہوا بولا

"چلیں میں دوبارہ شیر عباس سے بات کر کے دیکھتی ہوں"

شہناس نے دوسرے داماد کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی وہ بھی عجیب روکھے مزاج کا انسان تھا جس کا اندازہ شہناس کو دو سے تین مرتبہ بات کرنے میں ہوگیا تھا۔۔۔ اور نہ ہی اب عباس کی دونوں بہنیں اُس کی کالز ریسو کرتی تھیں  جو شادی کے دنوں میں کافی اچھی بنی ہوئی تھیں

***""""***

"پپ۔۔۔ پانی پلیز مجھے پانی دےدو، میں مر جاؤ گی"

اُس کے شوہر نے چار دن سے اُس کا کھانا پینا بند کیا ہوا تھا، روٹی کا ٹکڑا تو دور حلق سے پانی کا ایک قطرہ نیچے نہیں اترا تھا۔۔۔ وہ نیم مردہ حالت میں چارپائی پر پڑی کراہ رہی تھی

"تم جیسی ڈھیٹ عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی، کیوں بھری جوانی میں اپنی جان گنوانا چاہتی ہو۔۔۔ میری بات مان لو تو ہی تمہاری جان بخش سکتی ہے نہیں تو ہونہی تڑپ تڑپ کر مرجاؤ گی کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تمہیں یہاں۔۔۔۔ اگر تم سوچ رہی ہو یہاں تمہارا باپ آجاۓ گا تو سن لو وہ بےغیرت آدمی پتھر دل بن چکا ہے تم سے تعلق ختم کرچکا ہے وہ کبھی یہاں پر نہیں آۓ گا"

 اُس کا شوہر اتنی سفاک طبعیت کا مالک ہوسکتا ہے اُس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا وہ اپنے شوہر کو انکار کرتی ہوئی بولی

"میرا باپ بےشک یہاں نہ آۓ لیکن جو تم چاہتے ہو وہ میں مر کر بھی نہیں کرو گی"

وہ نڈھال وجود کے ساتھ انکار کرتی بولی تو اُس کے شوہر نے جانوروں کی طرح اُس کو مارنا شروع کردیا۔۔۔۔ درد تکلیف سے نڈھال ہونے کے باوجود اُس کے وجود میں احتجاج کرنے یا چیخنے چلانے کی سکت بھی موجود نہ تھی

"تو پھر مر یہی پڑے پڑے منحوس عورت اچھا ہے تجھ سے جان چھٹے میری"

اُس کا شوہر جب اُس کو مار مار کر خود تھک گیا تب اُس پر بکتا جگتا گھر سے باہر نکل گیا

***""""***

"ہیر نہیں۔۔۔ پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ میں کیسے رہ پاؤ گا تمہارے بغیر۔۔۔ جو تم نے وعدہ لیا تھا میں پورا کرو گا پلیز تم مجھے چھوڑ کر مت جاؤ"

عباس کی آواز سے برابر میں سوئی ہوئی ہیر کی آنکھ کھل گئی، اُس نے اپنےقریب لیٹے ہوۓ عباس کو نیند میں بڑبڑاتے ہوۓ سنا

"کون سا وعدہ عباس کیا ہوا آپ کو میں یہی ہوں آپ کے پاس، آنکھیں کھول کر دیکھیں۔۔۔۔ یہ دیکھیں میں یہی ہوں آپ کے پاس کہیں نہیں جارہی ہوں آپ سے دور"

ہیر عباس کو نیند سے بےدار کرتی بولی، اِس وقت ہیر کو عباس کسی چھوٹے معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں ایک ڈر تھا کوئی قیمتی شے چھن جانے یا کھو جانے کا ڈر۔۔۔۔ 

عباس حواس میں آتا ہوا بیڈ پر بیٹھ کر لیمپ کی روشنی میں ہیر کا چہرا دیکھنے لگا، ہیر بیڈ پر رکھے اپنے دوپٹے سے عباس کے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتی اُس سے بولی

"آپ نے تو دل پر ہی لے لیا میرے کراچی جانے کی بات کو، میں اب دوبارہ آپ سے دور جانے کی بات نہیں کرو گی مگر آپ اس طرح پریشان مت ہو پلیز"

ہیر عباس سے بولتی ہوئی اپنا سر اُس کے سینے پر رکھ چکی تھی، تھوڑی دیر وہ عباس کے کچھ بولنے کا انتظار کرتی رہی مگر وہ یونہی خاموش بیٹھا تھا

"کیا ہوا سونا نہیں ہے آپ کو"

وہ اپنائیت بھرے لہجے میں عباس کے گال پر ہاتھ رکھتی اُس سے پوچھنے لگی تو عباس نے ہیر کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹایا۔۔۔ وہ بناء کچھ بولے ہیر کو خود سے دور کرتا ہوا بیڈ سے اٹھا

"عباس"

اس کو کمرے سے باہر جاتا دیکھ کر ہیر نے اسے پکارا

"اب مجھے فوری نیند نہیں آۓ گی، تم سو جاؤ"

وہ ہیر سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ اُس کے لہجے میں اجنبیت محسوس کر کے ہیر کو حیرت ہوئی، بیڈ پر لیٹنے کے باوجود اس کو نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔ وہ عباس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئی

اِس وقت بڑے سے ہال میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔ خاموشی نے پورے ہیر پیلس کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔۔۔ بڑا سا فانوس اِس وقت اپنی روشنی کھوۓ بند پڑا تھا چند لائٹس آن تھی جو پورے ہال میں روشنی دینے کے لیے ناکافی تھی ایسے میں دیوار پر لگی مختلف پینٹنگز اور جانوروں کے سر اِس ہال کو کافی پراسرار بنارہے تھے ہیر لکڑی کے پیانو کو چھوتی دروازے سے باہر نکلی

ہال کا دروازہ کھلا ہونے کا مطلب یہی تھا عباس یہاں سے باہر گیا ہوگا۔۔۔ ہیر نے باہر قدم رکھا تو سرد ہوا کے جھونکے سے اُس کے بدن میں جھرجھری پیدا ہوئی۔۔۔ رات کے اِس پہر سرد ہوا نے زور پکڑا ہوا تھا، روش پر سوکھے پتے درختوں سے جھڑ کر ہوا میں اِدھر اُدھر اڑتے پھر رہے تھے۔۔۔ تیز چلتی ہوائیں پہاڑوں سے ٹکرا کر ماحول میں عجیب ہیبت ناک سی آوازیں پیدا کررہی تھیں، جس سے ماحول میں پراسراریت پیدا ہورہی تھی

دور دور تک ہیر کو عباس کہیں نظر نہ آیا تو ہیر نے عباس کو پکارنے کا سوچا مگر پھر وہ ارادہ ترک کرتی ہوئی، پیلس کے پچھلے حصّے کی طرف بڑھی۔۔۔ عباس وہی موجود تھا، اُس بےنام و نشان قبر کے سامنے کیوکہ ہیر کی طرف عباس کی پشت تھی اِس لیے ہیر عباس کے تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی

کچھ محسوس کرتے عباس نے پلٹ کر دیکھا اُس سے پہلے ہی ہیر جلدی سے دیوار کی آڑھ میں چھپ گئی۔۔۔ کچھ دیر عباس وہاں کھڑا رہنے کے بعد واپس اندر چلاگیا۔۔۔ ہیر تھوڑی دیر بعد دبے پاؤں اُس کے پیچھے خود بھی پیلس کے اندر آئی

عباس کا رُخ اُس سنسان راہ داری کی طرف تھا جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔۔ ہیر نے چپکے سے دیکھا عباس اُس کمرے میں چلاگیا جس کمرے سے اُس دن فرغب بی نکلی تھیں۔۔۔جاسوسی کی نیت سے ہیر بھی ڈرتی ہوئی عباس کے پیچھے اُس کمرے میں چلی گئی، جہاں سرخ بتی جل رہی تھی مگر یہ کمرہ بالکل خالی تھا۔۔۔ نہیں وہاں ایک بڑا سا آئینہ موجود تھا

جب ہیر اُس آئینے کے پاس پہنچی اُس نے غور سے دیکھا وہ آئینہ نہیں بلکہ کوئی دروازہ تھا جو دیوار سے تھوڑا فاصلے پر تھا ہیر نے آئستہ سے اُس کو کھولنے کی کوشش کی تو سامنے اُسے سیڑھیاں نیچے کی طرف جاتی دکھائی دی

عباس نے تو بولا تھا یہاں کوئی بیسمینٹ موجود نہیں، کیا مجھے اِس وقت عباس کے پاس نیچے جانا چاہیے۔۔۔ ہیر ابھی صحیح سے فیصلہ نہیں کرپائی تھی کہ کیا کرے، تب اُسے محسوس ہوا کوئی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آرہا ہے

ہیر دیر لگاۓ بغیر کمرے سے نکل کر، راہداری عبور کرتی تیزی سے اپنے کمرے میں پہنچی اور اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر لیٹتی سوتی بن گئی

چند سیکنڈ بعد کمرے کا دروازہ کھلا عباس کے ہاتھوں کا لمس اسے اپنے بالوں پر محسوس ہوا تو ہیر نے اپنی تیز دھڑکنوں کی رفتار پر قابو پانے کی کوشش کی

"ہیر"

عباس نے اُسے پکارا ہیر تب بھی سوئی بنی رہی کچھ دیر عباس خاموشی سے کھڑا اُس کو دیکھتا رہا پھر اُس نے ہیر پر کمفرٹر ڈالتے ہوئے غیر محفوظ طریقے سے اس کے پیروں کو چھو کر دیکھا جو ٹھنڈے ہورہے تھے 

اِس وقت کمرے کا درجہ حرارت باہر سے مختلف تھا گرم کمرے میں اُس کے پاؤں ٹھنڈے ہونا یعنی وہ اُس کے پیچھا کرتے باہر نکلی تھی۔۔۔ عباس بناء کچھ بولے خاموشی سے اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا جبکہ دوسری جانب ہیر نے شکر ادا کیا کہ اُس کی پکڑ ہوتے ہوتے بچ گئی

***""""***

آج اُس کا ریسپشن تھا آسمانی رنگ کے لباس میں وہ بےپناہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ ڈرائیور اُسے ہاشم کے حکم سے پارلر سے پہلے گھر لے آیا تھا تھوڑی دیر بعد اُن لوگوں کو میرج ہال کے لیے نکلنا تھا۔۔۔ ایوب خان اور گلنار آرذو کو دیکھ کر بےپناہ خوش تھے 

گلنار نے اُس کے چمکتے دمکتے روپ کو دیکھ کر آرزو کی کئی بلائیں لے ڈالی تھیں۔۔۔ گلنار کے انتخاب پر ایوب خان بھی خوش نظر آرہے تھے۔۔۔ اُن دونوں کو خوش دیکھ کر آرزو کو تھوڑا اطمینان تھا کہ اُس کے لیے اس گھر میں اور اپنے دل میں کوئی جگہ تو رکھتا ہے

"بھوک نہیں لگ رہی بیٹا کچھ کھانے کے لئے منگوادو تمہارے لئے، ابھی ہاشم بھی تیار نہیں ہوا تھوڑی دیر لگے گی ہمیں نکلنے میں تم ایسا کرو اپنے کمرے میں تھوڑی دیر آرام کرلوں"

گلنار کے بولنے پر آرذو اپنے کمرے میں آکر صوفے پر بیٹھ گئی، واشروم سے آتی پانی گرنے کی آواز سے آرزو اندازہ لگا چکی تھی ہاشم شاور لے رہا تھا

وہ ہاشم کے رویہ کا سوچ کر جتنا افسوس کرتی اتنا کم تھا، کل ہاشم نے اپنے خشک رویے سے اُس کے ماں باپ کے سامنے بھی یہ باور کروا دیا تھا کہ جیسے دوسری شادی کا فیصلہ اُس کا اپنا نہیں بلکہ اُس کے اوپر مرضی تھوپی گئی ہے۔۔۔ آرزو ہاشم کے رویہ کو سوچ رہی تھی تب واشروم کا دروازہ کھلا

کیجول ٹی شرٹ اور ٹراؤذر میں تولیے سے بال رگڑتے ہوۓ ہاشم کی نظر صوفے پر بیٹھی آرزو پر پڑی اس کا حسین سراپہ دیکھ کر ایک پل کے لئے ہاشم وہی ساکت ہوگیا۔۔۔ آرذو ہاشم کا اپنی جانب دیکھنا اور قدم اٹھا کر ہاشم کا اپنی جانب آنا محسوس کرچکی تھی اُس لیے صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔ اپنے چہرے پر گڑھی ہاشم کی بہکی نظریں دیکھ کر آرزو کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا

ہاشم ہاتھ میں پکڑا ہوا تولیہ صوفے پر اچھال کر آرذو کی کمر میں اپنا بازو حماہل کرتا اسے کھینچ کر خود سے قریب کرچکا تھا۔۔۔ آرذو ہاشم کی حرکت پر حیران ہوئی۔۔۔ ہاشم اُس کے ماتھے پر موجود بندیا کو چھو کر، تراشی ہوئی آئی برو پر اپنی انگلی پھیرتا اُس بےپناہ حسن رکھنے والی لڑکی کے حسن میں کھویا اسے دیکھنے لگا۔۔۔ 

اپنی انگلیوں سے آرزو کے نرم ملائی جیسے گال کو چھوتا ہوا ہاشم آرذو کو توڑی سے پکڑ کر اُس کا چہرہ اونچا کرکے اپنا چہرہ اُس کے قریب لایا۔۔۔ آرذو ابھی تک ہاشم کے رویے پر حیران تھی مگر جب اُس نے ہاشم کو اپنے ہونٹوں پر جھکتے ہوئے دیکھا تو ایک دم بول اٹھی

"یہ کیا کررہے ہیں آپ"

آرزو کی آواز پر ہاشم پر چھائی سحر کی سی کیفیت ٹوٹی تو وہ اپنے حواسوں میں لوٹا

"گناہ نہیں کررہا ہوں، تمہارا محرم ہوں تمہیں چھونے کا حق رکھتا ہوں۔۔۔ لیکن اِس وقت تمہاری کیفیت بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، کہاں برداشت کر پاؤں گی تم میری قربت کو، تمہیں تو عادتیں ہی کسی دوسرے کی پڑی ہیں۔۔۔ میرا لمس تمہیں وہ سکون تھوڑی عطا کرے گا جس کی تم عادی ہو"

ہاشم زہر میں بجھے الفاظ آرذو کے کانوں میں انڈیلتا ہوا اپنا ہاتھ اسکی کمر سے ہٹاکر دور ھوا۔۔۔ ہاشم کے منہ سے ایسی بات سن کر آرذو تکلیف سے بلبلا اٹھی، ضبط کی انتہا نہیں رہی تو چیخ اٹھی

"خبردار۔۔۔۔ خبردار جو آپ نے اب میرے کردار پر کوئی بھی غلط جملہ بولا۔۔۔ نہیں تو میں۔۔۔

آرزو ہاشم کو بولتی ہوئی بےبسی سے وہی خاموش ہوگئی ہاشم نے اُس کی بات پر اُس کے بالوں کا بندھا ہوا جوڑھا دوپٹے سمیت اپنی مٹھی میں جھکڑا 

"نہیں تو کیا۔۔ جواب دو، نہیں تو کیا کروں گی تم۔۔۔۔ چیخ چیخ کر لوگوں کو یہ بتاؤں گی کہ میرا شوہر میرے کردار پر جملے کَس رہا ہے۔۔۔ کچھ بتانے لائق ہے تمہارا کردار، کون صحیح بولے گا تمہیں۔۔۔ نظریں مت جھکاؤ میرے آگے بلکہ جواب دو مجھے۔۔۔ کون صحیح بولے گا ایسی لڑکی کو جو اپنی شادی سے ایک دن پہلے گھر سے بھاگ گئی ہو۔۔۔ تمہارے ماں باپ اچھا سمجھتے ہیں تمہیں جنہوں نے تم جیسی اولاد سے جان چھڑانے کی خاطر تمہیں میرے سر منڈھ دیا"

ہاشم نے غصے میں بولتے ہوئے جھٹکے سے آرزو کے بالوں کو چھوڑا تو وہ صوفے پر جاگری بےبسی کے مارے اسے رونا آنے لگا

"خبردار جو تمہاری آنکھ سے آنسو بھی گرا اور آئندہ میرے آگے تمہاری آواز نکلی تو زبان کاٹ ڈالوں گا میں تمہاری"

ہاشم اپنی بےاختیاری پر لعنت بھیجتا ہوا آرزو کو دھمکی دےکر چینج کرنے چلا گیا۔۔۔ وہ کوئی دل پھنک مرد نہیں تھا جو اِس لڑکی کا حسن دیکھ کر پکھلتا ہوا اِس کی جانب متوجہ ہوا تھا یہ لڑکی اُس کی بیوی تھی مگر اتنا تو ہاشم بھی جان گیا تھا آرذو خود بھی اُس کی قربت کی چاہ نہیں رکھتی یقیناً وہ اپنی پہلی محبت کو اب تک دل سے لگاۓ بیٹھی تھی

***"""""***

طلوع آفتاب اپنی کرنیں چاروں اطراف پھیلا چکا تھا پورا ہیر پیلس دھوپ سے چمک رہا تھا پرندے چہکار بھرتے ہوئے آسمان پر اُڑ رہے تھے وہ ابھی تک نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔۔ نہ جانے یہ کیسی مدھوشی تھی جو اُس کو اپنے جسم پر انگلیوں کا لمس محسوس کرنے کے باوجود آنکھیں بند رکھنے پر مجبور کررہی تھی۔۔۔ مسلسل اپنے بازو اور تھائیز پر اس جانے پہچانے لمس کو محسوس کرنے کے باوجود ہیر اپنی آنکھیں کھول نہیں پارہی تھی نہ جانے اس وقت نیند کا اُس کے دماغ پر کیسا غلبہ طاری تھا

انگلیوں کا لمس گردن سے سرکتا مزید نیچے آیا تو ہیر نے وہی اُس ہاتھ کو پکڑا جو مزید گستاخی کرنے کو تیار تھا، نیند سے لڑتی ہوئی وہ اپنی آنکھیں کھولنے پر مجبور ہوگئی

بیڈ پر لیٹے سن ہوتے دماغ کے ساتھ وہ کمرے کی چھت کو گھورنے لگی، کمرے کی سفید گول چھت تھی یہ عباس کا بیڈ روم نہیں تھا جہاں وہ کل رات سوئی تھی۔۔۔ ہیر اچانک بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی وہ جانتی تھی یہ کمرہ ہیر پیلس کا ہی حصہ ہے جو خاص مہمانوں کے لیے گیسٹ روم کے طور پر زیر استعمال لایا جاتا ہے مگر یہاں وہ کیسے آئی، وہ تو کل رات اس کمرے میں نہیں سوئی تھی

ہیر چاروں طرف کمرے میں نظر دوڑانے لگی اُس کمرے میں فرنیچر سمیت ہر چیز سفید تھی ہیر کی نظر اپنے لباس پر پڑی وہ مزید پریشان ہوگئی۔۔۔ سفید رنگ کی گھٹنوں کو چھتی نائٹی۔۔۔ مگر رات میں اُس نے یہ لباس تو نہیں پہنا ہوا تھا بلکہ یہ نائیٹی تو اُس نے آج تک اپنے کپڑوں میں موجود ہونے کے باوجود استعمال نہیں کی تھی۔۔۔ ہیر یہ سوچ کر صحیح معنوں میں پریشان ہونے لگی وہ اِس حالت میں اپنے کمرے تک کیسے جائے

"عباس۔۔۔۔ فرغب بی۔۔۔۔ عباس کھولیں دروازہ میں یہاں ہوں۔۔۔ عباس"

ہیر بیڈ سے نیچے اتری جو چاروں طرف سے گول تھا اُسے اپنی سلیپرز کہیں نظر نہیں آئی، سفید ٹھنڈے ماربل کے فرش پر وہ ننگے پاؤں چلتی سفید دروازے تک آئی۔۔۔ عباس اور فرغب بی کو پکارتی ہوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی

کمرے میں موجود جھولے میں ایک دم آواز پیدا ہوئی جیسے کوئی جھولے پر آکر بیٹھا ہو، خوف کے مارے ہیر کی کنپٹی سے پسینہ لکیریں صورت نکلنے لگا، اُس کی پشت پر بڑا سفید رنگ کا جھولا جو تھوڑی دیر پہلے تک خالی تھا اب بھلا بند کمرے میں وہاں کون آسکتا ہے۔۔۔ خوف کے مارے ہیر نے مڑ کر نہیں دیکھا وہ اپنے ہونٹوں کو آپس میں  سختی سے دبائے بس خاموشی سے دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی

"نہیں کھلے گا یہ دروازہ چاہے کتنی بھی کوشش کرلو اس دروازے کو کھولنے کے لیے تمہیں میرے پاس آنا پڑے گا۔۔۔ اِس بند کمرے کی چابی میرے پاس موجود ہے"

عباس کی آواز ہیر کے کانوں سے ٹکرائی تو ہیر نے پلٹ کر اپنی پشت پر دیکھا دہشت کے مارے زوردار چیخ ہیر کے منہ سے نکل کر پورے کمرے میں گھونج اٹھی

وہ عباس نہیں تھا، صرف چہرہ عباس جیسا تھا۔۔۔ بڑے سفید جھولے پر کالے رنگ کی قمیض شلوار میں ہری آنکھوں میں اُس کو دیکھتا وہ عباس کے بھیس میں کوئی اور تھا۔۔۔ ہیر خوف کے مارے بری طرح کانپنے لگی

"ڈرو مت مجھ سے ہیر میں تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا میں تو صرف تمہارے پاس تمہیں پیار کرنے آتا ہوں"

وہ ہیر کو خوفزدہ دیکھ کر بولتا ہوا جھولے سے اٹھا

"نہیں پلیز۔۔۔۔ میرے پاس نہیں آنا، میرے قریب بالکل بھی مت آنا۔۔۔ دور ہو مجھ سے پلیز"

ہیر اُس کو جھولے سے اٹھتا ہوا دیکھ کر خوفزدہ ہوکر چیخ کر بولی۔۔۔ کسی غیر مرد کے سامنے برہنہ لباس میں وہ خود کو تصور کرتی بری طرح رونے لگی۔۔۔ وہ ہیر کے ڈرنے پر ہلکا سا ہنسا

"میں تمہارے پاس نہیں، ابھی تم خود چل کر میرے پاس آؤ گی ہیر۔۔۔ کیونکہ تمہیں اِس کمرے سے باہر بھی تو نکلنا ہے ناں"

وہ ہیر سے بولتا ہوا اپنے گلے میں سلور چین کی طرف اشارہ کرتا (جس میں  دروازے کی سلور چابی تھی) بیڈ پر بیٹھ گیا

"میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو"

ہیر خوف کے مارے دروازے سے چپک کر کانپتی آواز میں روتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی

"تم نے کچھ نہیں بگاڑا تم تو بہت معصوم ہو تم کسی کا کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتی لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ تمہارے کسی اپنے نے مجھے سے کچھ ایسا کچھ چھین لیا ہو، کوئی ایسی چیز جو میرے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی۔۔۔ اُس کے نقصان کا ہرجانہ تمہیں ادا کرنا پڑ رہا ہو۔۔۔ وہ کہتے ہیں ناں کرے کوئی بھرے کوئی، سمجھ لو تمہارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے" 

وہ ہیر سے بولتا ہوا بیڈ پر دراز ہوا۔۔۔ ہیر روتی ہوئی اُس کی بات سن کر بےبسی سے اُس کے گلے میں چابی دیکھنے لگی

"اِس طرح رونے میں تم وقت ضائع کررہی ہو ہیر، یہاں میرے پاس آجاؤ اور تھوڑی دیر کے لئے اِس دنیا کو بھول جاؤ۔۔۔ میں اپنی دنیا سے یہاں صرف تمہارے لئے ہی آتا ہوں تھوڑی دیر کے لیے سب کچھ بھلا کر مجھے اپنالو محبت دو مجھے اپنی اور پھر بدلے میں مجھ سے یہ چابی لےلو"

اپنے دونوں پاؤں بیڈ سے نیچے لٹکا کر وہ بیڈ پر لیٹا ہوا ہیر سے ایک مرتبہ پھر بولا

"مم۔۔۔۔ میں ایسا نہیں کرسکتی، میں کسی دوسرے کی بیوی ہوں پلیز رحم کرو مجھ پر"

ہیر اُسکی کی بات کا مفہوم سمجھ کر روتی ہوئی وہی دروازے کے پاس نیچے بیٹھ گئی

"بس اتنی سی بات کے لئے تم میرے پاس آنے سے انکار کررہی ہو کہ تم کسی دوسرے کی بیوی ہو، تو سمجھ لو ہیر کہ اب تمہارا شوہر دنیا میں نہیں ہے اُس کے مرنے کے بعد تو تم میرے پاس آسکتی ہو"

اس کے منہ سے ایسی بات سن کر ہیر رونا بھول گئی وہ خوف سے اُس کی ہری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔۔ جو دوبارہ بیڈ پر بیٹھ کر ہیر کا خوف سے زرد پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا

"ٹھیک پانچ منٹ بعد گھر کے نمبر پر ایک کال آئے گی، جس پر اطلاع دی جائے گی کہ ایک جیپ جس کا نمبر jRE 206 ہے گہری کھائی میں گر چکی ہے اُس جیب میں بیٹھے آدمی کی لاش کھائی سے نکال لی گئی ہے"

اُس کے بولنے پر ہیر نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا

"تم۔۔۔ تم ایسا نہیں کرسکتے عباس کے ساتھ پلیز عباس کے ساتھ ایسا مت کرنا"

ہیر بےبسی کے عالم میں روتی ہوئی اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی

"میں بالکل ایسا ہی کرونگا اگر دو منٹ کے اندر تم میرے پاس نہیں آئی، اپنی ضد کے پیچھے آج تم اپنے شوہر کو ہمیشہ کے لیے کھودو گی"

وہ اب کی بار ہیر سے سخت لہجے میں بولا تو ہیر سے اپنے دونوں پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔۔۔ ٹھنڈے سفید ماربل کے فرش پر چلتے اُس کے قدم من من بھر کے ہونے لگے، دو بار اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا بھی چھایا اُسے محسوس ہوا جیسے وہ  چل نہیں پائے گی بلکہ ابھی گر جائے گی

"اس طرح ڈرو مت مجھ سے ہیر گھبراؤ مت، میں پہلے بھی تمہارے بےحد قریب آچکا ہوں۔۔۔ یاد ہے ناں کسقدر پیار کرتا ہوں تم سے"

وہ فتح یات مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے، خماری کے عالم میں بولتا ہوا ہیر کو وہ لمحات یاد دلانے لگا۔۔۔ 

ہیر کے پاس آنے پر وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ ہیر کو دونوں شانوں سے تھام کر اپنے حصار میں لے کر بیڈ پر لٹانے لگا ہیر کسی ربورٹ کی مانند بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔ اپنے چہرے پر اُس کی انگلیوں کا لمس محسوس کرکے ہیر کو اپنے چہرے سے نفرت ہونے لگی

"اب جب جب میں چاہوں گا تب تب تمہیں بلاؤ گا۔۔۔ تم میرے بلانے پر ہمیشہ ایسے ہی میرے پاس آؤ گی، میں تمہیں بالکل اِسی طرح اپنے پاس دیکھنا چاہتا ہوں تم سے پیار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ بولو ہیر آؤ گی ناں میرے پاس"

وہ ہیر کے اوپر جھکتا ہوا اُس کے کان میں سرگوشی کرتا بولا۔۔۔ اُس کا ہاتھ ہیر کے سینے پر موجود ڈوری پر تھا، جس کو وہ کھول چکا تھا اِس کے بعد ہیر کو کچھ ہوش نہیں رہا وہ خوف کے مارے مکمل طور پر اپنے حواس کھو چکی تھی

***"""***

"ہیر آنکھیں کھولو اپنی، تم ٹھیک ہو ناں ہیر۔۔۔ آنکھیں کھولو"

اسے آپ نے بےحد قریب سے عباس کی آواز آرہی تھی ہیر نے آئستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں تو اُسے اپنے اوپر جھکا عباس کا چہرہ نظر آیا۔۔۔ کالی گہری آنکھیں جس میں ہیر کے لیے فکر تھی۔۔۔ عباس اُس کے آنکھیں کھولنے پر اُس کا چہرہ تھام کر اُس سے کچھ پوچھ رہا تھا وہ اِس وقت اپنے اور عباس کے کمرے میں موجود تھی۔۔۔ فرغب بی بھی وہی کھڑی تھیں

"عباس"

ہیر عباس کو پکارتی ہوئی بیڈ سے اٹھ کر عباس کے سینے سے لگتی ہوئی رونے لگی

"ہیر کچھ نہیں ہوا پلیز چپ کر جاؤ تمہیں کچھ بھی نہیں ہوا میں آگیا ہوں نا تمہارے پاس"

عباس ہیر کو روتا ہوا دیکھ کر اپنے حصار میں لیے اُسے کسی چھوٹے بچے کی طرح بہلاتا ہوا بولا تو ہیر آنسوؤں سے تر چہرہ لیے عباس کو دیکھنے لگی

"واقعی کچھ نہیں ہوا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ میں نہیں جانتی میرے ساتھ کچھ ہوا تھا۔۔۔ وہ کیوں آتا ہے میرے پاس، کیوں کرتا ہے وہ سب میرے ساتھ۔۔۔ میں ایسے مر جاؤں گی عباس یا پھر میں پاگل ہو جاؤں گی پلیز عباس مجھے اُس سے بچالیں"

ہیر روتی ہوئی عباس کے سینے سے لگی اُس سے کہنے لگی بےہوش ہونے کے بعد اسے کچھ خبر نہیں تھا اُس کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔ اُسے یہاں اِس کمرے میں کون لایا۔۔۔ اُس کا لباس کس نے تبدیل کیا۔۔۔ وہ بس عباس کے سینے سے لگی روئے جارہی تھی

"ہیر اب کچھ بھی نہیں ہوگا تمہارے ساتھ، میں اب کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ وعدہ کرتا ہوں تمہیں اب کوئی بھی نقصان نہیں پہنچائے گا نہ تنگ کرے گا"

عباس اِس مرتبہ ہیر کی حالت دیکھ کر فکر مند ہونے کے ساتھ پریشان لگ رہا تھا۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس کی اپنی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں وہ ہیر کو یقین دلاتا ہوا بولا

"آپ نے اُس کے ساتھ کیو برا کیا، کیوں اسکی قیمتی چیز چھینی جس کا بدلہ مجھے چکانا پڑ رہا ہے"

وہ عباس کے سینے سے لگ کر روتی ہوئی بولی جس پر عباس خاموش رہا

"آپ بتا کیوں نہیں دیتے شیر عباس کہ۔۔۔" 

خاموش کھڑی فرغب بی نے عباس سے کچھ بولنا چاہا تو عباس نے فرغب بی کی بات سننے سے پہلے اُن کی بات کاٹ دی

"فرغب بی یہ پریشان ہے اِس وقت پلیز جائیے یہاں سے آپ اپنے کمرے میں۔۔۔ اِس وقت یہ کافی زیادہ ڈری ہوئی ہے اور میں اِس کے لئے کافی زیادہ فکرمند ہوں۔۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہیں میری بات کو میں اِس کے لئے کافی سے زیادہ فکرمند ہوں"

عباس روتی ہوئی ہیر کو اپنے بازوؤں میں چھپائے فرغب بی کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ فرغب بی اب کی بار بناء کچھ بولے اُس کے کمرے سے چلی گئیں۔۔۔ عباس اپنے سینے سے لگی ہیر کا چہرا اوپر کرکے اُس کے آنسو پوچھنے لگا

"میں۔۔۔ میں سب کچھ کھو چکی ہو اپنا۔۔۔ سب کچھ ہار چکی ہوں، عبا۔۔۔۔س اُس نے میرے ساتھ آج پھر"

ہیر روتی ہوئی تکلیف سے بولی۔۔۔ اُس کی حالت دیکھ کر عباس کو تکلیف ہونے لگی عباس نے اُس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ہیر کو خاموش کردیا

"کچھ نہیں کھویا تم نے، تم عباس کو جیت چکی ہو۔۔۔ اپنے شیر عباس کو جیت چکی ہو، مت رؤ اِِس طرح سے ہیر مجھے تکلیف ہورہی ہے میں وعدہ کرتا ہوں اب تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں ہوگا"

عباس اپنے بازوؤں میں موجود ہیر کے آنسو صاف کرتا ہوا اُسے یقین دلانے لگا

"مجھے اِس جگہ پر نہیں رہنا عباس یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے" 

ہیر عباس کو دیکھتی ہوئی اُس سے بولی

"اوکے مجھے تھوڑا سا وقت پھر ہم یہاں سے چلے جائیں گے" 

عباس نے بولتے ہوئے ہیر کے بالوں پر اپنے ہونٹ رکھے

***""""***

"جب انسان دنیا کی رونقوں میں کھو کر اوپر والے کی ذات کو فراموش کر بیٹھتا ہے تب اوپر والا ایسے ہی اپنی قدرت کی جھلک دکھاتا ہے، جس سے انسان کی عقل دنگ ہوکر رہ جاتی ہے، خوف مت کھائیے اِس سے یہ کوئی دوسری مخلوق نہیں تھوڑی دیر پہلے اُس کو آپ کی بیٹی نے پیدا کیا ہے۔۔۔ میں بیس سال سے یہاں ڈاکٹری کے فرائض انجام دے رہی ہوں اور اِن بیس سالوں میں پہلا ایسا کیس میرے سامنے آیا ہے، لیکن پہلی بار آپ کی بیٹی نے ایسی چیز پیدا نہیں کی۔۔۔ اگر آپ ہسٹری اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ہاں مگر عجیب ضرور ہے" 

گائنی کی ڈاکٹر احمد عالم کو اور بھی ایسے واقعات بتارہی تھی کہ کب، کہاں، کس سن میں ایسی مخلوقات کو دریافت کیا گیا جو انسان کی پیداوار تھی۔۔۔ احمد عالم ڈاکٹر کی بات سننے کے ساتھ جھولے میں لیٹی ہوئی چھپکلی جیسی عجیب و غریب مخلوق کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جس کے رونے کی باریک آواز سے اُس کے منہ میں چھوٹے نوکیلے دانت بھی دکھ رہے تھے

***""""***

"نہ جانے کون ہے یہ پچھلے دو دن سے مسلسل اِس وقت فون پر بیلز دیتا ہے جب فون اٹھاؤ تو آگے سے کچھ بولتا ہی نہیں۔۔  آ جانے دو ہاشم کو آفس سے معلوم کرواتی ہو یہ کس کو مسئلہ ہورہا ہے"

گلنار لینڈ لائن پر بیلز دینے والے سے تنگ آکر جھنجھلا کر بولی تو اپنی ساس کی بات سن کر آرزو کے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔ دو دن سے اس نے خود بھی محسوس کیا تھا کہ کوئی مسلسل چار بجے سے سات بجے تک لینڈ لائن پر کوئی وقفے وقفے سے بیلز دیتا رہتا ہے ایک انجانا سا ڈر اس کو شک میں مبتلا کر گیا

"ارے بیٹا تم یہ کن کاموں میں لگی ہو، کچن سے نکل کر شام کی تیاری کرلو یاد نہیں ہے آج ہاشم کے دوست نے انوائٹ کیا ہے تم دونوں کو ڈنر پر اور تم یہاں گرمی میں محنت والے کام کررہی ہوں"

گلنار اب کچن میں آکر اس کو دیکھتی ہوئی بولی جو شامی کباب بنانے میں کافی دیر سے جتھی ہوئی تھی

"جی ماں جی مجھے یاد ہے آج ہم ڈنر پر انوائیٹ ہیں شمع سے صبح ہی کپڑے پریس کروا لیے تھے اور تو کوئی خاص تیاری نہیں کرنی۔۔۔ لیکن یہ کام زیادہ ضروری تھا ہاشم کے دوست کل گھر پر انوائٹڈ ہیں انہوں نے خاص تاکید کی تھی کہ کسی بھی چیز کی ڈنر میں کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے"

اُس کو بناؤ سنگار کرتا دیکھ کر ہاشم پھر کوئی دل دکھانے والی بات کرتا اِس لئے آرزو کا خاص تیار ہونے کا پروگرام نہیں تھا۔۔۔ لیکن آج صبح ہی آفس جانے سے پہلے ہاشم نے اُس کو حکم دیا تھا کہ وہ کل کے لیے سارا ڈنر کا ارینج گھر پر خود کرے گی اِس کے آنے والے دوستوں کے لئے

"دماغ خراب ہوچکا ہے ہاشم کا تو اِس سے پہلے جیسے سارا انتظام گھر میں ہوتا آرہا ہے، سب باہر سے آجائے گا جاؤ شاباش تھوڑی دیر اپنے کمرے میں جاکر آرام کرلو یہ باقی کا کام شمع سمیٹ لے گی"

گلنار آرزو سے بولی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ہاتھ دھونے لگی اُس کا شوہر جتنی سخت طبعیت رکھتا تھا، ایوب خان اور گلنار اتنے ہی نرم اور حساس طبیعت کے مالک تھے 

گلنار کے بولنے پر وہ کمرے میں جانے والی تھی تب لینڈ لائن پر دوبارہ بیل بجی آرذو وہی رک کر ٹیلیفون کو دیکھنے لگی۔۔۔ دو بیلز کے بعد اِس سے پہلے دوبارہ گلنار یہاں آجاتی آرزو نے جلدی سے فون اٹھالیا

"ہیلو"

فون اٹھاتی ہوئی وہ گھبراۓ لہجے میں بولی

"آرذو میں کب سے تمہاری آواز سننے کے لیے ترس رہا ہوں، اور تمہیں میری کوئی پرواہ ہی نہیں میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ ایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ اِس قید خانے سے باہر آجاؤ۔۔۔ مجھے اپنا چہرہ دکھادو تاکہ میرے دل کو سکون مل جائے"

تبریز کی آواز سن کر آرذو کا بدترین خدشہ سچ ثابت ہوا۔۔۔ وہی دو دن سے یہ بیلز دے رہا تھا تاکہ وہ کال ریسیو کرلے

"یہ سب بکواس کرتے ہوئے تمہیں ذرا شرم نہیں آرہی تبریز۔۔۔ تم بھول گئے ہو شاید کہ میں اب شادی شدہ ہوں۔۔۔ تم کیوں نہیں چاہتے ہو کہ میں تمہاری وجہ سے دوبارہ ذلیل اور رسوا ہوکر رہ جاؤ یہاں پر بھی، میرے ماں باپ کے سامنے تو تم میری عزت کا جنازہ نکال ہی چکے ہو۔۔۔ دیکھو آئندہ یہاں پر کال نہیں کرنا میں تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی"

آرزو کو گھبراہٹ ہونے لگی نہ صرف وہ اُس کے سسرال کا فون نمبر معلوم کرچکا تھا بلکہ گھر سے باہر بھی کھڑا اُس کا انتظار کررہا تھا۔۔۔ یہ ہاشم کے آنے کا ٹائم تھا اگر وہ تبریز کو اپنے گھر کے پاس دیکھ لیتا نہ جانے تبریز کے ساتھ کیا کرتا مگر آرزو کو تبریز کے زیادہ اپنی فکر تھی ہاشم تبریز کے ساتھ اُس کا بھی برا حشر کردیتا

"میرا اور تمہارا تعلق ختم نہیں ہوسکتا۔۔۔ میں تو ایسا کر ہی نہیں سکتا اور آرزو تم چاہوں بھی تو میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دو گا"

تبریز کا لہجہ دھمکی سے بھرا نہیں تھا مگر آرذو کو لگا۔۔۔ وہ پہلے کی طرح اپنی ضد پر اُترا ہوا تھا، آرزو کو اُس پر غصہ آنے لگا

"بھاڑ میں جاؤ مر جاؤ تم"

آرزو غصے میں بولتی ہوئی ریسیور پٹخ چکی تھی مگر اُس ڈھیٹ انسان کی دوبارہ کال آنے لگے آرزو نے غُصّے میں فون اٹھایا

"میں تمہارا منہ توڑ ڈالوں گی اگر اب تم نے میرے سسرال میں دوبارہ کال کی"

دوبارہ ریسیور اٹھا کر آرذو غراتی ہوئی بولی

"کس کا منہ توڑنے لگی ہو فون پر، کون کال کیے جارہا ہے تمہیں"

تبریز کی بجاۓ ہاشم کی آواز سن کر آرزو کے اوسان خطا ہوگئے

"وہ۔۔۔ و۔۔ہ۔۔ ہاشم مم۔۔۔ میری دوست سونیا جو ولیمے والے دن آپ سے اپنا تعارف کروا رہی تھی۔۔۔ میں بول بھی رہی ہو کہ ابھی بات نہیں کرسکتی مگر وہ پریشان کئے جارہی ہے"

آرزو خود کو سنبھال کر ریسیور کو مضبوطی سے پکڑے ہاشم سے بولنے لگی ہاشم اُس کی بات سن کر خاموش رہا جیسے اُس کی بات پر یقین کرے یا نہ کرے

"آپ نے کال کی ہے خیریت ہے" 

ہاشم کی خاموشی محسوس کرکے آرزو اُس سے پوچھنے لگی

"کال تو میں نے اپنے مسئلے کے لئے ملائی تھی لیکن اب میں گھر پہنچ رہا ہوں آکر تمہارا مسئلہ حل کرتا ہوں"

ہاشم بولتا ہوا کال کاٹ چکا تھا آرزو اُس کی کال ریسیو کر کے بری طرح پچھتائی تھی۔۔۔ اب ہاشم گھر آکر اس کے ساتھ نہ جانے کیا کرتا آرزو کی نظر مین گیٹ سے اندر آتی گاڑی پر پڑی 

جس میں ماہ نور یعنی ہاشم کی پہلی بیوی تھی۔۔۔۔ ماہ نور کو دیکھ کر آرزو اور بھی زیادہ گھبرا گئی۔۔۔ ہاشم نے تو ترس کھاکر اُس کا پردہ اپنی ماں جی اور دا جی کے سامنے رکھ لیا تھا مگر اپنی سوتن سے اُسے ایسی کوئی توقع نہیں تھی ماہ نور اگر اس کو پہچان جاتی تو لازمی اُس کے بارے میں گلنار اور ایوب خان کو بتاتی۔۔۔ کھڑکی سے ماہ نور کو گھر کے اندر آتا دیکھ کر آرزو تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی

"کیا کروں اس مصیبت کو بھی ابھی آنا تھا، ایک مصیبت پہلے ہی کم نہیں تھی جو دوسری بھی نازل ہوگئی"

آرزو اپنے کمرے میں موجود ماہ نور کا سوچ کر رو دینے کو تھی تبھی اسے باہر سے ماہ نور کی آواز آئی

"شمع اور شمع اسٹور روم سے ہینڈ کیری لاکر دو مجھے فٹافٹ، اور پیکنگ کرنے میں مدد کرو میری۔۔۔ مجھے جلدی واپس نکلنا ہے میں ذرا ہاشم کی دوسری بیوی کے دیدار تو کرو"

ماہ نور ہال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی بلند آواز میں شمع کو پکارتی ہوئی بولی اور آرزو کے کمرے میں جانے لگی۔۔۔ اپنے کمرے کی جانب بڑھتے قدم محسوس کر کے، آرزو جلدی سے واش روم کی جانب بڑھی 

جیسے ہی اس نے واش روم کا دروازہ اندر سے بند کیا ویسے ہی ماہ نور اُس کے بیڈروم کا دروازہ کھول کر بیڈ روم کے اندر چلی آئی۔۔۔ آرزو بری طرح بوکھلا گئی تھی کاش یہ لڑاکا لڑکی پیکنگ کر کے یہاں سے فوراً چلی جاتی آرزو اپنے ہونٹ دانتوں سے کاٹتی ہوئی بےبسی سے سوچنے لگی۔۔۔ کمرے سے آتی ہیل کی آواز سے آرزو کو اندازہ ہوگیا ماہ نور اس کے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اُس کے باہر آنے کا ویٹ کررہی تھی

"میڈم جی بیگ نکال دیا ہے کپڑے کون کون سے رکھنے ہیں"

آرزو کو باہر سے شمع کی آواز آئی تو وہ آنکھیں بند کر کے شکر ادا کرنے لگی

"ہاں تم چلو میں آکر بتاتی ہوں" 

ماہ نور شمع کو بول کر رخصت کرچکی تھی وہ دوبارہ آرزو کے باہر نکلنے کا ویٹ کرنے لگی

"یہ بلا ایسے نہیں ٹلے گی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا"

آرذو دل ہی دل میں سوچتی ہوئی شاور کی طرف دیکھنے لگی

واش روم سے پانی گرنے کی آواز پر ماہ نور کو کوفت ہوئی وہ ہاشم کی نئی بیوی کو دیکھ کر اُس کو زلیل کرنے کے بعد، بہت کچھ جتاکر واپس جانے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن شاید وہ لڑکی لمبا واش روم میں ٹائم گزارنے کے موڈ میں تھی۔۔۔ اور ماہ نور کا موڈ نہیں تھا کہ وہ گھر کے کسی دوسرے فرد سے ملے اِس لیے وہ واشروم کے دروازے پر خار بھری نظر ڈال کر وہاں سے اپنے بیڈروم میں چلی گئی تاکہ پیکنگ کر کے یہاں سے نکل سکے

اپنے کمرے میں طویل خاموشی محسوس کر کے آرزو شکر ادا کرتی، واشروم سے باہر نکلی تو کمرے میں ہاشم کو دیکھ کر بےساختہ ڈر گئی شاید وہ ابھی آفس سے گھر پہنچا تھا

"کیا ہوا ڈر گئی" 

ہاشم آرذو کی جانب قدم اٹھاکر اُس کے پاس آتا ہوا آرزو سے پوچھنے لگا

"نن۔۔۔ نہیں تو میں تو نہیں ڈری"

اپنے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ ہتھیلی سے رگڑ کر وہ ہاشم کو انکار کرتی ہوئی بولی۔۔۔ بھلا اُس کو کیا بتاتی اپنی سوتن کو یہاں دیکھ کر اُس کا آدھا خون خشک ہوچکا تھا

"اچھا۔۔۔ مگر تمہارا چہرہ تو صاف بتارہا ہے جیسے تمہاری کوئی چوری پکڑی گئی ہے"

ہاشم آرذو کے قریب آکر اُس کے چہرے کی اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر جتانے والے انداز میں بولا

"وہ تھوڑی دیر پہلے آپ کی وائف یہاں آئی تھیں شاید اِس لیے"

آرزو نظریں جھکا کر اپنے قریب کھڑے ہاشم کو بتانے لگی۔۔۔ کیونکہ بات کو گھمانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا سامنے کھڑا شخص بات کی تہہ تک نہ پہنچا جاتا تو شاید اُس کا رات کا کھانا ہضم نہ ہوتا

"تو پھر ملاقات ہوئی تمہاری اور اُس کی"

ہاشم غور سے آرزو کا چہرہ دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جس پر اُس نے ہاشم کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔ ہاشم کے گھر آتے ہی سرسری سی ملاقات ہاشم کی ماہ نور سے ہوئی تھی۔۔۔ ماہ نور جلدی میں تھی اِس لیے ہاشم سے ہائے ہیلو گیٹ پر کر کے وہ گھر سے نکل گئی

"تو پھر ریلیکس ہوجاؤ وہ جاچکی ہے تھوڑے دنوں کے لیے" 

ہاشم آرزو کے اور بھی قریب آتا ہوا اُسے بتانے لگا تو آرزو پیچھے ہونے کے چکر میں پوری دیوار سے چپک گئی۔۔۔ ہاشم کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر آرزو کی چلتی سانسوں میں مزید روانی آگئی

وہ بہت غور سے آرذو کا چہرہ دیکھتا ہوا اپنا ہاتھ آرزو کے گال تک لایا تو آرذو نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔ ہاشم کی انگلیوں کا لمس اپنے گال پر محسوس کر کے آرزو کے پورے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا

وہ ہاشم کی حرکت پہ نروس ہونے کے باوجود پلکیں اٹھاکر ہاشم کو دیکھنے لگی۔۔۔ گویا اپنی نظروں اُس نے جتانا چاہا کہ ہاشم کی ناپسندگی اُس کے اِس عمل سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔۔۔ اگر وہ اُس کو ناپسند کرتا تھا تو پھر یہ اُس کے ساتھ کیا کررہا تھا

جبکہ دوسری طرف ہاشم ڈھیٹ بنا ہوا اُس کی نظروں کا مفہوم سمجھنے کے باوجود پورے حق سے اپنا انگوٹھا آرذو کے ہونٹوں پر پھیرنے لگا جسے نظروں سے جتارہا ہو ناپسندیدگی اپنی جگہ مگر وہ اُس پر مکمل حق رکھتا ہے۔۔۔ ہاشم کا انگوٹھا اپنے لبوں پر محسوس کرکے نہ چاہتے ہوئے بھی آرذو کی پلکیں دوبارہ جھک گئی

اب ہاشم کا ہاتھ اُس کی صراحی دار گردن پر آکر ٹہر گیا۔۔۔ وہ بناء کچھ بولے یونہی خاموش کھڑی رہی کیوکہ ہاشم کو روک کر یا ٹوک کر وہ ہاشم کی کڑوی کسیلی باتیں سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔ مگر نہ جانے سامنے کھڑا شخص آج کس موڈ میں تھا

"تھوڑی دیر پہلے لینڈ لائن پر کس سے بات کررہی تھی تم" 

ہاشم آرذو کے قریب اپنا چہرہ لاتا ہوا اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ ہاشم کے سوال پر ایک مرتبہ پھر آرزؤ کا خون خشک ہونے لگا

"بتایا تو تھا آپ کو، میں اپنی دوست سے بات کررہی تھی"

منہ پر ہی جھوٹ بولنے کی وجہ سے نہ صرف اُس کی زبان لڑکھڑائی تھی بلکہ نظریں مزید زمین کی طرف جھک گئی تھی۔۔۔ اوپر سے ہاشم اس کے بےانتہا قریب تھا ہاشم کی قربت سے آرزو کو مزید گھبراہٹ ہونے لگی

"تم جانتی نہیں ہو شاید جھوٹ مجھے بالکل پسند نہیں ہے اگر تمہاری بات غلط ثابت ہوئی تو میں تمہارے ٹکڑے کر کے اُس کا پارسل تمہارے ماں باپ کے گھر بھجوا دوں گا۔۔۔ اور ایک غیرت مند شوہر ایسا آسانی سے کرسکتا ہے بتاؤ فون پر کون تھا"

ہاشم نے بولتے ہوئے آرذو کی گردن پر اپنے ہاتھ سے ہلکا سا دباؤ ڈالا تو آرذو اُس کے عمل کی بجاۓ اُس کی دھمکی پر بری طرح سہم گئی

"میں بالکل سچ بول رہی ہوں آپ پلیز میرا اعتبار کریں"

آرذو کی جان جانے لگی مگر وہ سچ بول کر اپنی موت کو بلاوا نہیں دے سکتی تھی اِس لیے بناء کوئی مزاحمت کیے ہاشم سے بولی

"اعتبار کرنے لائق لڑکی ہو نہیں تم، چلو میرے ساتھ اِسی وقت اپنی سہیلی سونیا کے گھر۔۔۔ وہ بات کرنا چاہ رہی تھی نہ تم سے فون پر ابھی اور اِسی وقت میں تمہیں اُس سے ملوا کر لاتا ہوں"

ہاشم آرذو کو بازو سے پکڑ کر کمرے سے باہر لے جانے لگا۔۔۔ ہاشم کی بات سن کر وہ مزید سہم گئی۔۔۔ سونیا کے گھر جاکر تو مزید اُس کا پول کھل جاتا

"ہاشم پلیز اِس طرح کریں مت سونیا نہ جانے کیا سوچے گی میرے بارے میں کہ میں یونہی اُٹھ کر چلی آئی اُس کے گھر اُس سے ملنے کے لیے۔۔۔ مجھے تو اُس کے گھر کا ایڈریس تک معلوم نہیں ہے۔۔۔ ہاشم میری بات تو سن لیں" 

ہاشم آرذو کے بولنے کی پرواہ کئے بغیر اسے کار کے پورچ میں اپنی گاڑی تک لے آیا جبکہ آرزو کی یہ حالت تھی کہ وہ ہاشم کی حرکت پر ابھی برے طریقے سے رو دے گی اگر اُس کا جھوٹ اِس شخص کے سامنے پکڑا جاتا۔۔۔ اسے تو ہاشم سے کوئی بعید بھی نہیں تھی وہ حقیقت میں سونیا کی بات سن کر اُس کے ٹکڑے سچ میں کردیتا

"یہ پکڑو امامہ کو فون کرو اور اس سے سونیا ایڈریس لو جلدی سے"

ہاشم آرزو کی بات سن کر اپنا سیل فون آرزو کو پکڑاتا ہوا بولا ہاشم کی آنکھیں اور لہجے میں سختی دیکھ کر آرزو مرے مرے ہاتھوں سے اُس کے سیل فون سے امامہ کو کال ملانے لگی

"آپی مجھے سونیا کا ایڈریس سینڈ کردیں اِسی نمبر پر، وہ مجھ سے بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن میرے فون پر بات نہ کرنے کی وجہ سے مجھ سے ناراض ہوگئی ہے تو ہاشم مجھے سونیا کے گھر لے کر جارہے ہیں"

آرذو ساری صورت الحال امامہ کو بتانے لگی

***""""***

سونیا کے گھر کی ڈور بیل پر ہاتھ رکھتے ہی آرزو شدت سے دعا کرنے لگی کاش سونیا گھر پر موجود نہ ہو اور ہاشم آرذو کا خوف سے سفید پڑتا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ مگر آرزو کی دعا رد ہوچکی تھی کیوکہ گھر کا دروازہ کھولنے والی سونیا ہی تھی

"ارے واہ بھئی کہاں تو تھوڑی دیر پہلے مجھ سے فون پر بات کرنے میں نخرے دکھارہی تھی کہ سسُرال ہے اچھا نہیں لگتا فون پر یوں باتیں کرنا لیکن میری ناراضگی کے ڈر سے آنا پڑا ناں"

سونیا چہکتی ہوئی آواز میں آرزو کا زرد پڑتا چہرہ دیکھ کر بولی تو آرزو حیرت سے جبکہ ہاشم جانچتی ہوئی نظروں سے سونیا کو دیکھنے لگا۔۔۔ سونیا خوش اخلاقی سے ہاشم کو اندر آنے کا بول رہی تھی

"تم سے زیادہ بہتر ایکٹنگ تو تمہاری دوست کرلیتی ہے کم سے کم اُس کے چہرے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے"

واپس گھر آنے کے بعد ہاشم آرزو سے بولا اب کی بار آرذو کو غصّہ آگیا

"میرے خیال میں آپ کسی بہانے کی تلاش میں ہے کہ میرا کوئی گناہ ظاہر ہوجائے جس کو دنیا کے سامنے لا کر آپ مجھے سولی پر لٹکا دیں"

آرزو کے بولنے کی دیر تھی ہاشم نے سختی سے اُس کا منہ جبڑوں سے پکڑ کر دبوچ لیا

"میرے سامنے زیادہ زبان چلانے کی ضرورت نہیں ہے، سب چالبازیاں سمجھتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کی، جاؤ جاکر تیار ہو ڈنر ہے میرے دوست کے گھر آج رات ہمارا"

ہاشم جھٹکے سے آرزو کا منہ چھوڑتا ہوا بولا تو آرزو بیڈ پر جا گری

جب وہ آفس سے گھر آرہا تھا تب ہاشم کو گمان گزرا کہ تبریز نامی لڑکے کو اُس نے اپنے گھر کے پاس دیکھا ہے لیکن ہاشم کنفیوز اِس لئے تھا کیونکہ وہ تبریز کا سائیڈ فیس دیکھ پایا تھا، اسے کنفرم نہیں تھا کہ وہ تبریر ہی ہے یا پھر کوئی اور۔۔۔ جبھی وہ بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے آرزو کو اُس کی دوست کے گھر لے کر گیا تھا لیکن سونیا کی باتیں سن کر بھی ہاشم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سونیا سچ بول رہی ہوگی کیونکہ آرزو کے چہرہ سے اِس وقت ظاہر ہورہا تھا اگر سونیا نے کچھ الٹا سیدھا بول دیا تو وہ وہی رو دے گی

"نہیں جاؤں گی میں کہیں بھی آپ کے ساتھ، چاہے آپ مجھے سولی پر لٹکا ڈالیں لیکن اب میں آپ کے دوست کے گھر نہیں جاؤں گی"

آرذو روتی ہوئی ہاشم سے بولی

امامہ کی وجہ سے آج وہ آنے والی شامت سے بچ گئی تھی۔۔۔ امامہ نے جب اپنے موبائل پر آرزو کی گھبرائی ہوئی آواز سنی تو سونیا کو فون کرکے اُس نے جو جو سمجھایا سونیا نے ہاشم کے سامنے ویسے ہی بول دیا۔۔۔۔ لیکن یہ شخص اتنے ٹیڑھے مزاج کا انسان تھا کہ کسی کی بھی بات پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا

"انکار کررہی ہو تم میرے آگے، جواب دو۔۔۔ ابھی میرے ساتھ میرے دوست کے گھر جاؤں گی یا تمہارے سامان کے ساتھ ابھی تمہیں تمہارے ماں باپ کی دہلیز پر چھوڑ آؤ"

ہاشم آرزو کو بازو سے پکڑتا ہوا غصّے میں پوچھنے لگا تو اُس کے بازو پکڑنے سے  

آرزو بولی 

"ہاشم پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں، نہیں کیا کریں ایسا سلوک مجھ سے"

اپنے بازو پر گڑھتی ہوئی ہاشم کی انگلیوں پر وہ احتجاج کرتی ہاشم سے بولی

"پھر دس منٹ کے اندر سیدھے شرافت سے تیار ہوکر کمرے سے باہر آؤ اور یاد رہے وہاں جاکر نہ تو چھچھوری لڑکیوں کی طرح ہنس ہنس باتیں کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کچھ زیادہ بولنے۔۔۔ شریف لڑکیوں کی طرح خاموش بیٹھی رہوں گی تم"

ہاشم اُس کو بولتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا تو آرزو اپنے لئے وارڈروب سے کپڑے نکالنے لگی کیونکہ ہاشم کی دھمکی پر ماں باپ کے گھر جاکر بھی اُس کو کون سا سکون ملنا تھا۔۔۔ شہناس اور صدیقی ہر بات کا اُسی کو قصور وار ٹھہراتے

***""""***

"وہ خطرناک جگہ ہے وہاں مت جاؤ" 

اونچی پہاڑی پر ہیر کو چڑھتے دیکھ کر صدیقی اُس کے پیچھے بھاگتا ہوا آواز دینے لگا لیکن ہیر اُس کی آواز سنے بغیر آگے بڑھتی چلی جارہی تھی

"ہیر رک جاؤ بیٹا واپس لوٹ آؤ" 

صدیقی نے ہیر کو ایک بار پھر ہانپتے ہوئے پکارا مگر وہ تیز رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو صدیقی کو بھی اپنی رفتار بڑھانا پڑی وہ ہیر تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا مگر چاہ کر بھی وہ ہیر تک پہنچ نہیں پارہا تھا کیوکہ ہیر کی رفتار اُس سے چار گنا زیادہ تھی۔۔۔ وہ بناء کسی رکاوٹ کی پرواہ کیے تیزی سے چلتی ہوئی اونچائی پر پہنچ چکی تھی

"ہیر پیچھے بہت گہری کھائی ہے واپس آجاؤ" 

صدیقی کے اندر مزید چلنے کی سکت نہیں تھی، اُس کی ہمت جواب دے چکی تھی صدیقی وہی اونچی آواز میں ہیر سے بولا جو اب بلندی پر پہنچ کر آنکھوں میں آنسو بھرے اُس کو دیکھ رہی تھی

"میں واپس لوٹ کر نہیں آسکتی ابو۔۔۔ اب میں واپس کبھی نہیں آسکتی"

ہیر آنسو بہاتی ہوئی ناامیدی سے بولی تو صدیقی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ہیر کو واپس لانے کے لئے دوبارہ اونچائی پر چڑھنے لگا۔۔۔ 

بری طرح ہانپنے اور تھکنے کے باوجود وہ انچائی پر چڑھتا چلا جارہا تھا کیونکہ ہیر جہاں کھڑی تھی مشکل سے دو قدم پہچھے ہی ایک گہری کھائی موجود تھی۔۔ وہ اپنی سب سے چھوٹی جان سے عزیز بیٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس گہری کھائی میں گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ بالآخر وہ ہیر تک پہنچنے میں کامیاب ہوچکا تھا

"اَبو"

جب صدیقی ہیر تک پہنچ گیا، اسے کہیں بہت دور نیچے سے ہیر کی آواز آئی۔۔۔ صدیقی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہیر کافی دور نیچے کھڑی رو رہی تھی

"اَبو واپس آجائیے وہ جگہ بہت خطرناک ہے، پیچھے بہت گہری کھائی ہے"

ہیر کافی دور سے روتی ہوئی صدیقی سے بول رہی تھی تب صدیقی تعجب کرتا دور کھڑی ہیر کو دیکھنے لگا۔۔۔ اگر یہ وہاں نیچے تھی تو پھر اُس کے سامنے کھڑی لڑکی کون تھی وہ اتنی دیر سے کس کے پیچھے بھاگ رہا تھا

"صدیقی"

سامنے کھڑی لڑکی نے اُس کو پکارا تو صدیقی نے ہیر کی طرف سے نظریں ہٹائی اور اُس لڑکی کو دیکھا

"ہیر"

بےساختہ صدیقی اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر بڑبڑایا۔۔۔ وہ بھی ہیر ہی تھی مگر اُس کی بیٹی نہیں

"آآآآ"

دئیے جانے والے دھکے سے اُس کا وجود گہری کھائی میں تہہ در تہہ گرتا نیچے کی جانب جارہا تھا

"نہیں ہیر۔۔۔ مجھے معاف کردو خدارا مجھے معاف کردو میں نے برا کیا تمہارے ساتھ مجھے مت مارو"

صدیقی نیند میں بڑبراتے ہوئے بولے جارہا تھا

"صدیقی کیا ہوا آپکو۔۔۔ صدیقی اٹھیں"

وہ شہناس کے برابر میں لیٹا نیند میں خوف سے بڑبڑاۓ جارہا تھا، شہناس کی آواز پر ہڑبڑاتا ہوا جاگ اٹھا اور خوف سے شہناس کو دیکھنے لگا

"کیا کوئی برا خواب دیکھ لیا تھا آپ نے"

شہناس صدیقی کے شانے پر ہاتھ رکھے اُس سے پوچھنے لگی

"برا نہیں بہت بھیانک خواب۔۔۔ شہناس تم مانو یا نہیں مانو لیکن میرا دل اندر سے بول رہا ہے جیسے ہیر پریشان ہے، معلوم نہیں مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ کسی مشکل میں ہے"

صدیقی شہناس کے سامنے بولتا اپنے خدشے کا اُس کے سامنے اظہار کرنے لگا

"ایسا کیوں لگ رہا ہے آپ کو صدیقی مجھے بتائیے کیا محسوس کررہے ہیں آپ"

شہناس صدیقی کی بات پر پریشان سی ہوگئی اُسے تو اندر ہی اندر آرزو کی بھی فکر ہوتی تھی کیوکہ شہناس نے محسوس کیا تھا ہاشم بھی کافی سخت طبیعت کا انسان ہے

"میں جو محسوس کرتا ہوں وہ اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا مگر میں نے سوچ لیا ہے میں ہیر کے پاس جاؤ گا اُسے جب تک اپنی آنکھوں کے سامنے نہ دیکھ لو سکون نہیں ملے گا مجھے"

صدیقی فیصلہ کرتا ہوا شہناس سے بولا تو وہ صدیقی کی بات پر خاموش ہوگئی

***""""***

دھند کے مرغولے میں چھپی ہوئی وہ رات، ایک مشکل ترین رات تھی۔۔۔۔ ہیر پیلس کا بیرونی حصّہ سناٹے اور اسرار کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔۔۔ اِس وقت پورا ہیر پیلس رات کی خاموشی اور اسرار میں ڈوبا ہوا تھا، یخ ہوا کہیں بادلوں کے ٹکڑے اڑا لائی تب اچانک گرج برس کے ساتھ تڑ تڑ بارش شروع ہوگئی۔۔۔ شاید یہ بارش صبح تک جاری رہنے والی تھی اچانک آسمان پر بجلی کڑکی اور گھنے بادلوں میں شگاف سا پڑ گیا

اِس وقت ہیر پیلس آسمان پر چمکتی ہوئی بجلی کی تیز روشنی میں نہا گیا۔۔ ایک بار دوبارہ بجلی کڑکی لیکن اب کی بار ہیر کے اعصاب پر گری۔۔۔۔ وہ نیند میں ڈوبی ہوئی تھی ڈر کے مارے جاگ گئی، رات کے اِس پہر کمرے میں اکیلی تھی عباس نہ جانے کہاں پر موجود تھا

"عباس کہاں ہیں آپ۔۔۔۔ عباس"

ہیر خوف کے مارے بیڈ سے نیچے نہیں اتری تھی اُس نے وہی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے عباس کو آواز دینا شروع کردیا

اچانک بیسمنٹ سے آتی بھیانک چیخ کی آواز ہیر کے کان سے ٹکرائی ساتھ ہی جیسے لاتعداد چمگادڑیں بھی مل کر چیخیں۔۔۔ ہیر خوف کے مارے عباس کو پکارتی بیڈ سے اتر کر کمرے کے دروازے کی طرف بھاگی۔۔۔ وہ بھاگتی ہوئی راہداری میں آئی تو کسی وجود سے بری طرح ٹکرائی خوف کے مارے ہیر کے منہ سے چیخ برآمد ہوئی

"ہیر کیا ہوا ریلیکس میری جان"

عباس ہیر کے ڈرے سہمے وجود کو بازوؤں میں بھرتا ہوا اُس سے بولا۔۔۔ ہیر خوف سے عباس کی آنکھوں کو، پھر عباس شانے اور سینے کو چھو کر تسلی کرنے کے بعد عباس کے سینے میں منہ چھپا گئی

"کیوں چلے گئے تھے مجھے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر۔۔۔ اگر وہ کمرے میں آجاتا تو"

ہیر ڈر کے مارے عباس کا گریبان مٹھی میں دبوچے اس سے بولی تو عباس نے ہیر کا خوف دور کرنے کے لیے مزید اپنی پناہوں کا گھیرا اُس پر سخت کردیا

"کوئی نہیں آئے گا میرے ہوتے ہوئے تمہارے پاس ریلیکس ہوجاؤ چلو اپنے بیڈ روم میں"

عباس ہیر سے بولتا ہوا اُسے اپنے بازوؤں میں بھر کر کمرے میں لے آیا۔۔۔ ایک مرتبہ پھر بیسمینٹ سے بھیانک چیخ کی آواز نمودار ہوئی۔۔۔ درخت کی شاخوں پر بیٹھے پرندے پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ گئے وہی ہیر نے دوبارہ اپنا منہ عباس کے سینے میں چھپالیا

"عباس یہ کون ہے۔۔ کون اتنے برے طریقے سے چیخ رہا ہے"

ہیر عباس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپاۓ اُس سے پوچھنے لگی

"کیسی چیخ مجھے تو کوئی آواز نہیں سنائی دی۔۔۔ میری جان تم ابھی نیند سے ڈر کر جاگی ہو اِس لیے تمہیں وہم گزرا ہوگا۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے"

عباس بہت پیار سے اُسے بہلاتا ہوا بولا بیڈ تک لے آیا اُس کے ڈر کو وہم کا نام دیتے ہوۓ عباس ہیر کو بیڈ پر لٹانے لگا تاکہ ہیر دوبارہ سو جائے۔۔۔ اور وہ خود بیسمنٹ میں جاسکے کیوکہ تیز طوفانی بارش کے خوف سے بیسمینٹ میں موجود وجود بھی ڈر کے مارے چیخ رہا تھا

"اس وقت تیز بجلی چمک رہی ہے، باہر طوفانی بارش ہورہی ہے کیا یہ بھی میرا وہم ہے۔۔۔ نہیں ناں تو پھر ہیر پیلس کے اندر سے آتی یہ چیخوں کی آوازیں جنھیں میں باآسانی سن سکتی ہوں یہ میرا وہم کیسے ہوسکتی ہیں۔۔۔ عباس میں پاگل نہیں ہوں، نہ ہی میں پاگل ہونا چاہتی ہوں لیکن میں اِس طرح سے پاگل ہوجاؤ گی"

ہیر عباس کی بات پر عباس سے بولی تو عباس نے دوبارہ سے اپنے حصار میں لے لیا

"ہیر پلیز اِس وقت ساری باتیں ذہن سے نکال دو اور بحث کیے بغیر سونے کی کوشش کرو۔۔۔ میں یہی ہوں تمہارے پاس"

عباس چاہتا تھا ہیر اس وقت سو جائے وہ ہیر کا سر اپنے سینے پر رکھ کر ہیر پر کمفرٹر ڈال کر خود بھی بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ باہر پھر ایک دم بجلی کڑکی جس کا عکس پردوں پر پڑا کمرہ یکدم روشن ہوکر پھر اندھیرے میں ڈوب گیا

بیسمنٹ سے مسلسل چیخنے کی آوازیں آرہی تھی عباس نے محسوس کیا کہ ہیر اُس کے سینے پر سر رکھے کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔ ہیر نے اُس کی شرٹ کو بھی سختی سے اپنی مٹھی میں دبوچا ہوا تھا۔۔۔ عباس جانتا تھا اِس طرح وہ خوف سے بالکل بھی نہیں سو پائے گی

"ہیر ایک منٹ" 

عباس ہیر کا سر اپنے سینے سے ہٹاکر بیڈ کی سائیڈ دراز میں سے کچھ نکالنے لگا 

"یہ کیا ہے عباس، کک۔۔۔ کیا کررہے ہیں آپ۔۔۔ نہیں یہ میں نہیں لگواؤں گی بالکل بھی نہیں لگواؤ گی۔۔۔ عباس میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔ میں پاگل نہیں ہوں عباس" 

عباس کے سامنے ہیر کا احتجاج زیادہ نہیں چلا عباس اُسے نیند کا انجکشن دے چکا تھا

"مجھے معاف کردو میری جان مگر ایسا کرنا ضروری ہے کیوکہ میں چاہتا ہو تم اِس وقت بناء خوف کے سکون سے سو جاؤ"

ہیر کی اپنے چہرے پر شکوہ کناں نظریں دیکھ کر عباس اُس سے بولا چند سیکنڈ بعد ہیر آنکھیں بند کئے سو گئی۔۔۔ اِس سے پہلے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلتا کمرے کا دروازہ بجا

"اُسے ابھی نیند کا انجکشن دیا ہے میں آرہا تھا"

فرغب بی کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر عباس وضاحت دیتا ہوا بولا۔۔۔ اسے وضاحت دینا خود بھی عجیب لگ رہا تھا کیوکہ پہلی بار ایسا ہوا تھا جب اُس نے فرعب بی کو وضاحت دی تھی

"شیر عباس اب آپ کے دل کی طرح آپ کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں میں آپ کو یاد دلادو کہ اِس وقت آپ کی پہلی ترجیح آپ کی بیوی نہیں بلکہ اُس کی ذات ہونی چاہیے جسے اِس وقت سب سے زیادہ ہے آپ کی ضرورت ہے اور اُس کا اِس دنیا میں آپ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں"

فرغب بی عباس سے بولتی ہوئی بیسمینٹ کی طرف چلی گئی عباس گہرا سانس لے کر ہیر پر نظر ڈالتا ہوا خود بھی فرغب بی کے پیچھے چلا گیا

***""""***

صبح کا آغاز ہوتے ہی آرزو کی آنکھ کھلی، آج ہاشم کو تھوڑا لیٹ آفس جانا تھا وہ آرزو سونے سے پہلے رات میں ہی بتاچکا تھا تاکہ آرزو اُس کو جلدی نہ جگائے۔۔۔۔ آرزو اپنے برابر میں سوئے ہوئے ہاشم کو دیکھنے لگی اچھی شکل و صورت اور جازب نظر آنے والا یہ شخص کافی غضیلا اور سخت طبیعت رکھنے والا انسان تھا۔۔۔ اتنے دنوں میں ابھی تک آرزو نے اُس کا مسکراتا ہوا خوشگوار موڈ نہیں دیکھا تھا

نہ جانے مسکراتا ہوا یہ کیسا لگتا ہوگا آرزو ہاشم کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی پھر خود ہی اپنی سوچ پر ملامت کرتی بیڈ سے اٹھ گئی بھلا اُس کو کیا ضرورت تھی ایسے بدتمیز اور بدتہذیب انسان کے بارے میں سوچنے کی، جو اُس کو پسند نہیں کرتا تھا، وہ فریش ہونے کے بعد ہال میں پہنچی ابھی تک گلنار اور ایوب خان بھی نہیں جاگے تھے۔۔۔ ہال بالکل سنسان پڑا تھا، ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی۔۔۔ آرزو ڈر کے مارے چند قدم کے فاصلے پر رکھے ٹیلی فون کو دیکھنے لگی۔۔۔ ِاِس وقت ہاشم بھی گھر پر موجود تھا۔۔۔ اس سے پہلے کوئی جاگتا آرزو فون کا ریسیور اٹھا چکی تھی

"میں اچھی طرح سے جانتا تھا جب رات میں مجھے بھی نیند نہیں آئی تو تم کیسے چین سے سو سکتی ہو۔۔۔ بےچینی ہورہی ہوگی تمہیں بھی جبھی تو اِس وقت جاگ رہی ہو میری طرح۔۔۔ تم کتنا بھی غصہ کرلو مجھ پر مگر اپنے دل میں چھپی میری محبت سے انکار نہیں کرسکتی آرذو"

تبریز کی باتیں سن کر آرزو کے تن بدن میں آگ لگ گئی

"میں ہر روز صبح اِسی ٹائم جاگتی ہوں کیوںکہ صبح کے وقت ہاشم کو آفس جانا ہوتا ہے، وہ تمہاری طرح بےکار آدمی نہیں ہے۔۔۔ تم بھی محبت کے چکر میں پڑ کر اپنی زندگی برباد مت کرو بلکہ کوئی جاب تلاش کرو اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لاؤ اپنے ماں باپ کا خیال کرو۔۔۔ اور اگر یہ سب نہیں کرسکتے تو خدارا مجھ پر ترس کھاؤ۔۔۔۔ یہاں فون مت کیا کرو تم ہاشم کی طبیعت نہیں سمجھتے وہ مجھے مار ڈالیں گے تم سے بات کرتا دیکھ کر۔۔۔ اب مجھے اپنی زندگی اُن کے ساتھ گزارنی ہے خدا کا واسطہ ہے مجھے سکون سے جینے دو۔۔۔ تمہاری محبت کو لے کر نہ جانے کتنی کڑوی کسیلی باتیں طنز اور طعنہ میں سن چکی ہوں۔۔۔ تمہیں اللہ کا واسطہ ہے یہاں بار بار فون کرکے میری پریشانیوں میں مزید اضافہ مت کیا کرو"

آرزو آہستہ آواز میں تبریز کو سمجھانے لگی نہ جانے وہ سن رہا تھا کہ نہیں مگر آرزو کو اپنی پشت پر آہٹ سی محسوس ہوئی۔۔۔ اُس نے فوراً پلٹ کر دیکھا جیسے ہی اُس کے بیڈروم کا دروازہ کھلا آرزو اِس سے پہلے ہی ریسیور رکھ چکی تھی۔۔۔ 

ہاشم کو کمرے سے باہر نکلتا تب تک آرزو اپنے گلے سے چین اتار کر، اپنے چہرے کے تاثرات بھی نارمل کرچکی تھی۔۔۔ ہاشم آرزو کو ٹیلی فون کے پاس کھڑا دیکھ کر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا

"کیا کررہی تھی اتنی صبح ہال میں"

ہاشم معمول کی طرح ماتھے پر شکن سجائے اُس سے سوال کرنے لگا وہ اِس قدر سخت گیر شکی مزاج انسان ہرگز نہیں تھا مگر جس طرح کا اِس لڑکی کا امیج اُس کے ذین میں بن چکا تھا وہ شوہر ہونے کی حیثیت سے اِس لڑکی کو ذرا بھی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں تھا

"یہ چین گرگئی تھی اسی کو تلاش کررہی تھی"

آرزو نے پہلے سے سوچی ہوئی بات اُس کے سامنے رکھ کر اپنی ہتھیلی بھی آگے کردی جس میں اُس کے گلے کی چین موجود تھی

مگر ہاشم سنجیدہ نظر اُس کی ہتھیلی پر ڈال کر شک بھری نظروں سے ٹیلی فون کو دیکھنے لگا جس کی گھنٹی بجی تھی کہ نہیں یہ بات اسے کنفرم نہیں تھی کیوکہ اُس وقت وہ گہری نیند میں تھا

"آپ پلیز مجھے یہ چین پہنادیں" 

ہاشم کے چہرے پر شک کی پرچھائیاں دیکھ کر آرزو اس کا دماغ دوسری طرف لگانے کے غرض سے بولی

"کیوں تمھارے ہاتھ نہیں ہیں کیا"

ہاشم سنجیدگی سے آرذو کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔ لڑکیوں کی یوں دل لبھانے والی اداؤں سے وہ خوب واقف تھا پھر بھلا کیوں اِس لڑکی کی باتوں میں آجاتا

"جی میرے پاس دو ہاتھ ہیں اور انہی ہاتھوں سے میں روز آپ کے کام بھی کرتی ہوں"

آرزو ہاشم کو دیکھ کر جتاتی ہوئی بولی

"تو میرے کام کرکے احسان کرتی ہو مجھ پر" 

ہاشم سنجیدہ نظر اِس پر ڈالتا ہوا پوچھنے لگا آرزو کا دل چاہا وہ اُس آدمی کا دماغ درست کردے

"احسان نہیں کرتی جانتی ہو آپ کے کام کرنا میرا فرض ہے میں نے بس یونہی آپ سے ایک بات کہہ دی تھی آپ دل پر مت لیں"

ہاتھ کی مٹھی میں چین دباۓ اُس کے ایٹیٹیوڈ پر لعنت بھیجتی ہوئی آرزو وہاں سے جانے لگی ویسے بھی وہ صرف اس کا ذہن فون کی طرف سے ہٹانے کے لیے ایسا کررہی تھی

"سنو" 

ہاشم کی آواز پر آرزو کے قدم تھمے وہ پلٹ کر ہاشم کو دیکھنے لگی تبھی ہاشم سنجیدہ تاثرات چہرے پر لائے اُس کے پاس آیا اور آرزو کے ہاتھ سے چین لیتا ہوا اُس کے گلے میں پہنا نے لگا

اِس وقت ہاشم کی نظریں آرزو کے چہرے پر جبکہ آرزو کی نظریں ہاشم کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں، ہاشم کی انگلیوں کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے وہ سانس لینا بھول گئی، وہی ہاشم کی نظریں آرزو کے چہرے سے ہوتی ہوئی اُس کے ہونٹوں پر ٹہر گئیں

"کیا ضرورت تھی کل اتنا بن ٹھن کر میرے دوست کے جانے کی، منع کیا تھا نہ تمہیں کہ اتنا تیار ہوکر باہر مت جایا کرو"

ہاشم نے کل رات تو اُس کی تیاری پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا مگر اِس وقت وہ آرزو کو چین پہنانے کے ساتھ اُس کے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ لیکن چاہ کر بھی وہ اپنے لہجے میں سختی کا عنصر نہیں لاسکا تھا

"کل آپ نے میری تیاری دیکھی حیرت کی بات ہے۔۔۔ مجھے تو لگا آپ نے میری طرف ایک بار بھی نہیں دیکھا"

آرزو مصنوعی حیرت کرتی ہاشم کو دیکھ کر طنزیہ بولی

"ڈیپ ریڈ کلر کی شرٹ کے ساتھ گرین شفون کا ڈوپٹہ جو تم نے کندھے پر ایک سائیڈ پر لیا ہوا تھا مجھے پسند نہیں آیا اِس اسٹائل میں تمہارا دوپٹہ لینا کیوکہ تمہاری شرٹ کی فٹنگ کافی زیادہ تھی آئندہ خیال رکھنا۔۔۔ بالوں کو ہلکا کرل کرکے تم نے اِنہیں باندھنے کی ذحمت نہیں کی تھی، آئندہ مجھے اِس بارے میں دوبارہ نہ بولنا پڑے کہ اب تم کہیں بھی جاؤ گی تمھارے بال بندھے ہوئے ہونے چاہیے۔۔۔ اور جو تم نے لپ اسٹک لگائی تھی ریڈ کلر کی وہ کافی ڈارک تھی بالکل سوٹ نہیں کررہی تھی تم پر اس لیے آئندہ تم ریڈ کلر کی لپ اسٹک بالکل نہیں لگاؤ گی"

ہاشم کی نگاہیں ابھی بھی اُس کے ہونٹوں پر مرکوز تھی وہ بولتا جارہا تھا اور آرذو کو حیرت ہورہی تھی۔۔۔ اتنا باریک بینی سے تفصیلی جائزہ آخر اُس نے کس وقت لیا وہ اُس کی لپ اسٹک کے رنگ سے کپڑوں کی فٹنگ تک نوٹ کرچکا تھا

"اگر آپ کو میرے تیار ہونے پر اعتراض ہے تو آپ ماں جی سے شکوہ کریں اُن کے کہنے پر ہی میں تیار ہوئی تھی۔۔۔ اِس بات کے لئے آپ مجھ پر سختی نہیں کرسکتے جس معاملے میں میں خود بےبس ہوں"

آرذو ہاشم کی نظریں اپنے ہونٹوں پر دیکھ کر اُس سے بولی ہاشم کی بہکی نظروں کو اپنے ہونٹوں پر دیکھ کر نہ جانے کیوں اُس کی اپنی نگاہیں ہاشم کے ہونٹوں کی طرف اُٹھنے کی گستاخی کر بیٹھی جن کو ہاشم کی نظروں نے جانچ لیا

"اور بےبس انسان مجبوری کے عالم میں وہ کر گزرتا ہے جو اُس نے سوچا بھی نہ ہو" 

ہاشم بولتا ہوا آرذو کے ہونٹوں پر جھکا اور اپنے تشنہ لبوں کی پیاس آرزو کے ہونٹوں سے بجھانے لگا جبکہ ہاشم کے اِس عمل پر آرزو کرنٹ کھا کر پیچھے ہٹنے لگی مگر اس سے پہلے ہاشم نے آرزو کے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا

"کیسا محسوس ہورہا ہے"

اپنے ہونٹ آرذو کے ہونٹوں سے جدا کرنے کے بعد ہاشم آرزو سے سوال کرنے لگا جبکہ ہاشم کے سوال پر آرزو نہ سمجھنے والے انداز میں ہاشم کو دیکھنے لگی

"میرا مطلب تھا صبح صبح اپنے بوائے فرینڈ سے فون پر بات کرکے کیسا محسوس کررہی ہو"

ہاشم اب کی بار چبھتے ہوۓ لہجے میں آرذو سے سوال کرنے لگا کیوکہ جب اُس نے آرزو کو چین پہنانے کی غرض سے آواز دی تھی وہ ٹیلی فون کا ریسیور دیکھ چکا تھا جو اِس وقت گھبراہٹ میں آرزو غلط رکھ چکی تھی۔۔۔ وہ آرزو کا خود سے مخاطب ہونا چین پہنانے کا بولنا سمجھ چکا تھا آرزو یہ سب اس کا مائینڈ ڈائیوڈ کرنے کے لئے بول رہی تھی

"آپ غلط سمجھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں۔۔۔

آرزو کا جملہ مکمل نہیں ہوا کہ اس سے پہلے ہاشم نے اُس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ لیا

"تم ابھی بھی مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو"

ہاشم آرزو سخت لہجے میں بولا اور اسے کھینچتا ہوا ٹیلیفون کے پاس لے آیا۔۔۔ جہاں اُس نے آرذو کی وائس ریکارڈنگ چلادی تبریز سے اپنی بات چیت سن کر آرزو اپنے جھوٹ پر زمین میں گڑ گئی۔۔۔ 

اُس کا تھوڑی دیر پہلے ہاشم سے باتیں بنانا، ہاشم کی توجہ ٹیلیفون کی جانب سے ہٹانا ساری محنت رائیگاں گئی تھی سامنے کھڑے آدمی کو وہ اتنی آسانی سے چلا نہیں سکتی تھی وہ اُس کی سوچ سے کہیں زیادہ چالاک تھا۔۔۔۔ آرذو نے ذرا سی نظر اٹھاکر دیکھا ہاشم اپنے ٹراؤذر کی پاکٹ سے موبائل نکال رہا تھا

"ہاں یار میں نے تم سے اس تبریز نامی لڑکے کا ذکر کیا تھا وہ کافی ڈھیٹ لڑکا ہے ایسے خالی دھمکی سے وہ سیدھا نہیں ہوگا۔۔ اب بھی باز آنے کی بجائے تنگ کیے جارہا ہے ایسا کرو چار پانچ دن کے لیے اُسے حوالات کی ہوا کھلادو جب ڈنڈوں سے اچھی طرح اُس کی خاطر مدارت ہوگی تو شاید کچھ عقل آجائے"

ہاشم موبائل پر بول رہا ہے جبکہ آرزو کی روح فنا ہونے لگی تبریز تو بچنے والا نہیں تھا نہ جانے اب ہاشم اُس کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔۔  آرزو سوچ ہی رہی تھی تب ہاشم نے بات ختم کر کے اپنا موبائل پاکٹ میں رکھتے ہوئے اس کو بازو سے پکڑا

"اب مجھے بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں، اُس کمینے انسان کی تو پولیس اچھی طرح تواضح کرے گی لیکن مستحق تم بھی ہو اصولًا تو تمہارے عشق کا خمار بھی ڈنڈو سے نکالنا چاہیے۔۔۔ میرے منع کرنے کے باوجود کیسے بات کرنے کی ہمت کی تم نے اُس گھٹیا قسم کی لڑکے سے"

ہاشم آرزو کو بازو سے پکڑے سخت لہجے میں بولا اور یونہی اس کو پکڑے اپنے کمرے میں لے جانے لگا۔۔۔ ہاشم آرذو کو کمرے میں لا کر بیڈ پر دھکیل چکا تھا۔۔۔ اور وارڈروب سے بیلٹ نکالنے لگا۔۔۔ جسے دیکھ کر آرذو کی خوف سے آنکھیں پھیل گئیں

"ہاشم پلیز میری بات سن لے آپ نے اُس ریکارڈنگ میں کہا سنا کہ میں نے اُس کی بات کو بڑھاوا دیا یا اُس کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کر کے روئی۔۔۔ ہاں میں نے آپ کے منع کرنے کے باوجود اُس سے بات کی لیکن صرف آپ کے ڈر کی وجہ سے اُس کو سمجھانے کی خاطر۔۔۔ پلیز مجھے پر ظلم مت کیجئے میری غلطی اتنی بڑی نہیں ہے آپ کی دی جانے والی اتنی سخت سزا مت برداشت نہیں کر پاؤ گی"

آرذو ہاشم کے ہاتھ میں بیلٹ دیکھ کر روتی ہوئی اپنے حق میں بولی تو ہاشم نے غصے میں بیلٹ دروازے پر ماری اور آرذو کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا

"میں کیسے یہ سب برداشت کرتا ہوں کبھی اُس بات کا تصور کر کے دیکھو، میری بیوی کا شادی سے پہلے افیئر رہا اور اب مجھ سے شادی کے بعد وہ اپنے بوائے فرینڈ سے کانٹیکٹ میں ہے سوچو اِس بات کو۔۔۔ محسوس کر کے دیکھو اِس اذیت کو جو مجھے ہوتی ہے"

ہاشم آرزو کو غصّے میں بولتا ہوا اس کو بیڈ پر دھکیل کر خود کمرے سے باہر چلا گیا

***""""***

"اوپر والے فلور کے سارے رومز کلین ہونے چاہیے۔۔۔ مقصود اگر بیمار ہوگیا ہے تو اُس کی جگہ کسی اچھے سے کُک کا فوری طور پر ارینج کرو۔۔۔ اور بارشوں کی وجہ سے جو ہوٹل کا پچھلا حصّہ متاثر ہوا ہے اُس کو آج ہی ٹھیک کرواؤ۔۔۔ پرسوں میرے اسپیشل گیسٹ آرہے ہیں جن کا ہوٹل میں تین سے چار دن تک قیام رہے گا، کسی چیز میں کسی بھی قسم کی لاپرواہی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ باقی تمام اسٹاف کو اچھی طرح سمجھادو تھوڑی دیر بعد میں خود تمام رومز کی صفائی اور کچن کا جائزہ لوں گا"

آج صبح ہوٹل میں آنے کے بعد عباس کافی مصروف رہا عامر (مینیجر) کو تمام باتوں کی ہدایت دیتا ہوا وہ ہوٹل کی لفٹ سے نیچے آرہا تھا۔۔۔ جہاں ریسیپشن پر ہیر کو دیکھ کر عباس ایک پل کیلئے بری طرح چونکا مگر دوسرے ہی پل وہ مسکراتا ہوا ہیر کے پاس پہنچا

"ایکسکیوز میم کیا آپ کسی کی تلاش میں یہاں تک آئی ہیں۔۔۔ مجھے ایسا لگا کہ مجھے آپ کی مدد کرنی چاہیے، اِس لیے آپ کے پاس آکر پوچھ رہا ہوں"

عباس ہیر کے پاس آکر مہذب لہجہ اختیار کرتا اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ آج مصروفیت کی وجہ سے صبح سے اُس نے اپنے لیپ ٹاپ یا موبائل پر ہیر پیلس کا جائزہ نہیں لیا تھا ورنہ ہیر کی تیاری دیکھ کر وہ اتنا تو سمجھ جاتا کہ ہیر کہیں جانے کا لئے تیار ہورہی ہے

"کیا آپ اِس ہوٹل کے مالک شیر عباس کو جانتے ہیں میں ان ہی کی وائف ہوں اور اپنے ہسبینڈ سے ملنے یہاں آئی ہوں کیا آپ مجھے ان تک پہنچاسکتے ہیں"

ہیر عباس کو انجان لہجے میں اجنبی تصور کرتی دیکھ کر بولی۔۔۔ اپنے تروتازہ چہرہ اور فریش طبعیت کے ساتھ وہ اِس وقت خود بھی کافی فریش نظر آرہی تھی۔۔۔ عباس ہیر کے اِس انداز پر مسکرایا

"مسٹر شیر عباس عالم تو کافی خشک طبیعت کے مالک ہیں، حسن کے معاملے میں اُن کا اتنا اعلٰی ذوق ہوگا آپ کی خوبصورتی کو دیکھ کر یقین آگیا۔۔۔ آئیے میں خود آپ کو اُن کی کمرے تک لے جاتا ہوں آپ کی مدد کرکے مجھے خوشی ہوگی"

عباس ہیر کا خوبصورت چہرہ دیکھ کر فلرٹ کرنے والے انداز میں بولا اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اُسے لفٹ کی طرف چلنے کا اشارہ کیا

اِس وقت آس کے پاس کھڑا ہوا اسٹاف بھی شیر عباس کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جو کسی خوبصورت لڑکی کے سامنے مسکرا کر باتیں کرتا۔۔۔ اپنی سنجیدہ طبیعت کے برخلاف کافی اس وقت کافی خوش دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ ہیر اپنی مسکراہٹ روک کر عباس کی آنکھوں میں ناچتی شوخی بھی دیکھتی ہوئی لفٹ کی طرف جانے لگی یقیناً وہ اُس کے اچانک ہوٹل آنے پر خوش تھا

"کیا آپ ہر آدمی کی خوبصورت بیوی کو دیکھ کر اسی طرح دل و جان سے اُس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں" 

لفٹ میں قدم رکھتی ہیر عباس سے پوچھنے لگی جو لفٹ کے اندر آکر بٹن پریس کرتا ہیر کے پاس آیا 

"ہر خوبصورت چہرے پر یہ نظریں نہیں ٹھہرتی میم۔۔۔ سمجھ لیے آپ کے ساتھ کچھ اسپیشل معاملہ ہے۔۔۔ آپ کو دیکھ کر میرے دل میں اچانک یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں آپ کے حسن کو اپنے ہونٹوں سے چھو کر خراج دو، ورنہ یہ آپ کے حسن کے ساتھ ناقدری ہوگی اور اِس ناقدری کے لئے میرے دل مجھے کوستا رہے گا"

عباس بند لفٹ میں ہیر کے قریب آکر اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا تو ہیر نے فوراً اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر عباس کو پیچھے ہٹادیا

"کیا کررہے ہیں عباس کیمرہ لگا ہے لفٹ میں"

ہیر عباس کو آنکھیں دکھا کر پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی تو ہیر کی بات پر عباس برا سا منہ بنا کر پیچھے ہوا لیکن تھرڈ فلور پر پہنچ کر وہ ہیر کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے آفس کے روم میں لے آیا کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے وہ ہیر کے نازک سراپے کو اپنے بازوؤں میں بھر کر اس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔۔۔ چند سیکنڈ گزرنے کے بعد ہیر نے شرم سے عباس کو پیچھے کیا تو عباس نے دوبارہ ہیر کو اپنے بازوؤں نے سمالیا

"یہاں کوئی کیمرا موجود نہیں ہے اور نہ ہی بغیر اجازت کوئی کمرے کے اندر آسکتا ہے مسسز شیر عباس اب آپ مجھے کھل کر اپنے ساتھ رومانس کرنے کا موقع دے دیں نہیں تو میرا اچھا موڈ اچھا خاصا خراب ہوجائے گا"

عباس ہیر سے بولتا ہوا لیپ ٹاپ کی اسکرین بند کرکے ہیر کو ٹیبل پر لٹاتا اس کے اوپر جھکا

"عباس کیا کر رہے ہیں"

اپنی گردن پر عباس کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے ہیر نروس ہوکر عباس سے پوچھنے لگی

"وہی جو تم مجھے اپنے ساتھ بیڈروم میں نہیں کرنے دیتی"

عباس ہیر کی گردن سے اپنے ہونٹ ہٹاکر اس کا چہرہ دیکھتا ہوا شکوہ کرنے والے انداز میں بولا تو ہیر گھور کر عباس کو دیکھنے لگی

"اچھا تو کل آپ نے میرے ساتھ کیا، میرے منع کرنے کے باوجود مجھے نیند کا انجکشن دیا"

ہیر کے شکوہ کرنے پر عباس ہیر کے اوپر سے اٹھا تو ہیر بھی ٹیبل سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی

"وہ انجیکشن میں نے تمہیں اِس لیے دیا تھا تاکہ تم ڈر کو اپنے اوپر حاوی نہ کرو اور سکون سے سو جاؤں۔۔۔ میں نے کوئی دوسری بیوی نہیں رکھی ہے جو تمہارے سونے کے بعد میں اُس کے پاس چلا جاؤں"

عباس ہیر کی نظروں میں شکایت دیکھتا اسے بتانے لگا ساتھ ہی اُس نے انٹر کام پر لنچ بھی منگوا لیا

"آج کیسے یہاں کر مجھے سرپرائز دینے کا سوچا تم نے"

عباس ہیر سے پوچھتا ہوا اُسے شانوں سے تھام کر اپنی چیئر پر بھٹا چکا تھا

"یہ بتائیں آپ کو میرا سرپرائز پسند آیا کہ نہیں"

الٹا ہیر عباس سے پوچھنے لگی جو اُس کے بالکل سامنے کھڑا تھا 

آج صبح بیدار ہونے کے بعد اُس کی شہناس سے بات ہوئی تھی اور شہناس نے اسے صدیقی کا ارادہ بتایا تھا اپنی خوشی عباس سے شیئر کرنے کے غرض سے وہ یہاں اُس کے ہوٹل آگئی تھی

"میں تمہیں یہاں اپنے پاس دیکھ کر کتنا خوش ہوں کیا تمہیں اندازہ نہیں ہورہا اِس وقت مجھے دیکھ کر"

عباس جھک کر ہیر کے ماتھے پر بوسہ دیتا ہوا اس سے بولا تو ہیر عباس کی بات پر مسکرائی

ہیر کرسی سے اٹھ کر عباس کے مقابل کھڑی ہوئی ہیر کی آنکھوں میں ابھرتے سوالات عباس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکے

"مجھ سے کوئی بھی ایسی بات مت پوچھنا میری جان جس کا تمہیں خود بھی اندازہ ہو کہ میں جواب نہ دے سکو، تمھیں یہاں اپنے پاس دیکھ کر میرا موڈ سچ میں بہت اچھا ہے اور میں تمہارے ساتھ اس وقت اچھا وقت گزارنا چاہتا ہوں"

ہیر کے کچھ بولنے سے پہلے عباس ٹیبل کے اوپر بیٹھ کر ہیر کو خود سے قریب کرتا ہوا بولا کیوکہ عباس کو اندازہ تھا ہیر اب کس بارے میں بات کرے گی

"مگر میں جانا چاہتی ہوں عباس کے آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ ہیر پیلس میں کوئی بیسمینٹ نہیں ہے"

عباس کے منع کرنے کے باوجود ہیر عباس سے پوچھ بیٹھی جس پر عباس نے نہ تو ہیر کی بات پر غصہ کیا نہ ہی اُس کی بات کو جھٹلایا بلکہ ہیر کا ہاتھ تھام کر نہایت آرام سے بولا

"کچھ باتیں ہم سے پوشیدہ رہے اِسی میں ہماری بہتری ہوتی ہے۔۔۔ اِس بات کا ادراک انسان کو تب ہوتا ہے جب انسان اُن پوشیدہ باتوں کی حقیقت کو جان لیتا ہے اور پھر حقیقت جان لینے کو لینے کے بعد اُس کے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔۔ پھر انسان کو افسوس ہوتا ہے کہ وہ لا علم ہی بہتر تھا"

عباس نرمی سے ہیر کا ہاتھ تھامے اُسے بولنے لگا

"لیکن میں جاننا چاہتی ہوں عباس وہ جو رات کو آوازیں آتی ہیں، کیا اُن آوازوں کا تعلق بیسمنٹ سے ہے پلیز عباس مجھے سچ بتائیے گا"

ہیر عباس کی بات سن کر مزید الجھ گئی تھی ایسا ہی ہوتا آیا تھا عباس اُس کو اپنی باتوں میں الجھا دیا کرتا ہیر کے اگلے سوال پر عباس سنجیدگی سے بولا

"ہیر میں تمہاری کسی بھی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا تمہیں اچھی طرح سمجھا چکا ہوں بلاوجہ کی باتوں سے خود کو مت الجھاؤ ورنہ تم پوری طرح سے الجھ جاؤں گی، جو چل رہا ہے جیسے چل رہا ہے چلنے دو خاموش رہو خاموشی ہی اِن سب باتوں کے جواب کا بیسٹ آپشن ہے"

عباس ہیر کا تھاما ہوا ہاتھ چھوڑ کر ٹیبل سے اٹھا اور گلاس وال کے آگے آکر کھڑا ہوگیا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان خوبصورت غذر کی وادی نظر آرہی تھی

"یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ انہونی باتیں میری نظروں کے سامنے سے گزرتی ہے اُن پر خاموش رہو، کچھ نہ بولو ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے عباس کوئی آپ کے روپ میرے قریب آجاتا ہے مجھے میری پینٹنگ کا اسٹور روم میں دکھنا پھر اچانک نظروں سے اوجھل ہوجانا۔۔۔ بیسمیٹ سے رات کو آوازیں آنا۔۔۔ میری موجودگی میں فرغب بی اور آپ کی اچانک باتوں پر خاموشی اختیار کرلینا یہ سب کچھ نارمل نہیں ہے۔   میں کیسے ان باتوں کے پیچھے خاموشی اختیار کرسکتی ہوں"

ہیر بولتی ہوئی عباس کی پشت پر آکر کھڑی ہوگئی کیونکہ وہ اِن سوالات کے جوابات چاہتی تھی جن سے یقیناً اُس کا شوہر واقف تھا

"تمہاری وہ پینٹنگ میں نے بنائی تھی، فرعب بی نے ویسے ہی لاعلمی کا اظہار کردیا ہوگا تمہارے سامنے"

عباس بناء ہیر کی طرف مڑے گلاس وال سے باہر دیکھتا ہوا ہیر کو بتانے لگا

"ٹھیک ہے مان لیتی ہوں وہ پینٹنگ آپ نے بنائی تھی لیکن وہ قطبہ جس پر ہیر کا نام درج تھا، کیا وہ بھی آپ نے میرے لیے بنوایا ہے۔۔۔ آگے کیا پلان ہے آپ کا مجھے اِس بیسمنٹ میں قید کرنا چاہتے ہیں پاگل کرنے کے بعد۔۔۔ میں پوچھتی ہوں کون ہے اُس بیسمینٹ میں جس کی چیخیں مجھے رات بھر سونے نہیں دیتی، یہ پیلس ہیر کے نام پر ہے۔۔۔ ہیر سے آپ کا کیا تعلق ہے وہ اِس وقت کہاں ہے بیسمینٹ میں یا پھر اُس گمنام قبر میں جو ہیر پیلس کے پچھلے حصّے میں موجود ہے"

ہیر کی باتیں سننے کے بعد عباس نے پلٹ کر ہیر کو دیکھا اُس کی آنکھوں میں غصّہ اور سختی دیکھ کر ہیر ایک دم خاموش ہوگئی جبکہ عباس نے سختی سے ہیر کے دونوں بازوؤں کو پکڑا وہ سسکتی ہوئی عباس کو دیکھنے لگی

"آج پھر بہت زیادہ بول گئی ہو تم میرے سامنے، اپنے آگے میں کسی کو اتنی زیادہ بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔۔۔ تم میری بیوی ہو تو اِس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تم شیر عباس کی نرمی کا فائدہ اٹھاؤ۔۔۔ آئندہ اگر تم نے اِس طرح کے سوالات اٹھائے یا اِن سوالات کی کھوج لگانے کی کوشش کی تو میں بھول جاؤں گا کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں"

وہ اپنی انگلیاں ہیر کے بازؤوں میں گاڑھے بولے جارہا تھا، اپنے بازو میں اٹھتی تکلیف سے ہیر کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے جسے دیکھ کر عباس نے اُس کے بازوؤں کو چھوڑا۔۔۔ وہ ہیر کے بازو پر اپنی انگلیوں کے سرخ نشان دیکھتا ہوا نرمی سے انہیں سہلانے لگا۔۔۔تبھی دروازہ بجا ہیر گلاس وال کی طرف رخ کر کے کھڑی ہوگئی اور آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرنے لگی جبکہ عباس دروازہ کھولنے لگا

"آجاؤ لنچ کرتے ہیں"

ویٹر کے کمرے سے جانے کے بعد عباس ہیر کے شانے پر اپنے ہونٹ رکھتا اُسے شانوں سے تھام کر بولا۔۔۔ اُس کے لہجے اور انداز میں دوبارہ نرمی آچکی تھی مگر ہیر کے چہرے پر چھایا خوف وہ اپنی مسکراہٹ اور محبت بھرے انداز سے بھی دور نہیں کر پایا

"فرغب بی کو یہی بول کر نکلی تھی کہ میں جلدی واپس آجاؤں گی ہوٹل سے، میرے خیال میں اب مجھے واپس چلنا چاہیے ڈرائیور بھی ویٹ کررہا ہوگا"

ہیر ناراض لہجے میں عباس سے بولتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تو عباس نے اُسے اپنے حصار میں لےلیا

"میری جان مجھ سے ایسے ناراض مت ہوا کرو پھر مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا، پہلے ہم لنچ کریں گے اُس کے بعد لانگ ڈرائیو پر چلیں گے۔۔۔ آج کا پورا دن میں تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ آگے تین چار دن میرے کافی مصروف ہوتے رہیں گے فرغب بی کی ٹینشن مت لو انہیں لنچ کے بعد انفارم کردوں گا کہ تم میرے ساتھ ہو اور ہم دیر سے گھر لوٹیں گے"

عباس ہیر کو پیار سے بہلاتا ہوا چھوٹی سی ٹیبل کے پاس لے آیا جہاں لنچ میں اُس نے کافی کچھ منگوایا تھا

"ایسے خالی نظروں سے مجھے دیکھ کر کیا سوچ رہی ہو، میں سچ میں اپنی بیوی سے بہت پیار کرتا ہوں یار"

عباس ہیر کی خاموشی پر اُس کا چہرہ تھام کر اپنے ہونٹ اس کے گال پر رکھتا پیچھے ہٹا تو ہیر صوفے پر بیٹھ گئی

"اَبُو ہم دونوں سے ملنے کے لئے یہاں ہمارے پاس آنے والے ہیں"

ہیر عباس کو بتانے لگی مگر اب دور دور تک اس کے لہجے میں ایکسائٹمنٹ نہیں تھی

"کیوں، میرا مطلب ہے کب۔۔۔ کب آرہے ہیں تمہارے اَبُو"

ہیر نے صاف محسوس کیا کہ عباس اُس کے ابو کے بارے میں سن کر اپنے چہرے پر آئی ناگواری چھپا کر بات بدل گیا تھا ہیر کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اُس کے اَبو کے یہاں آنے پر خوش نہیں تھا

"معلوم نہیں کب آنا ہے انہیں آج اَمّی سے بات ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا تھا"

ہیر بےدلی سے عباس کو بتاتی ہوئی گلاس میں موجود پانی پینے لگی

"اوکے چلو لنچ اسٹارٹ کرو"

عباس ہیر کو جواب دیتا ہوا کچھ سوچ کر خود بھی لنچ اسٹارٹ کرنے لگا

***""""***

"اٹھنا نہیں ہے کیا آج تمہیں، چلو اٹھو ناشتہ بناؤ میرے لیے لیٹ ہورہا ہوں میں آفس کے لیے"

ہاشم نے پہلے دو بار آرزو کو آرام سے جاگنے کا بولا لیکن اب تیسری مرتبہ بلند آواز میں آرذو کے سر پر کھڑے ہوکر وہ زور سے چلایا تو آرزو چیختی چنگھاڑتی آواز پر  آنکھیں کھول کر ہاشم کو دیکھنے لگی

"اترا نہیں تمہارا بخار ابھی تک ناشتہ بناؤ میرے لیے۔۔۔ میرے گھر سے نکلنے کے بعد تو تمہیں آرام کرنے کے سوا اور کرنا ہی کیا ہے"

ہاشم آرزو کی آنکھیں اور بخار سے اترا ہوا زرد چہرے کو دیکھ کر اُس کی حالت کو نظرانداز کرتا ہوا بولا۔۔۔

نہ جانے کل دوپہر اُس کے پیٹ میں اٹھتا درد اتنی شدت اختیار کر گیا تھا جس کے بعد رات کو اُس کو بخار چڑھ گیا۔۔۔۔ وہ ساری رات بخار میں جلتی اور درد سے کراہتی رہی مگر اُس پتھر دل انسان نے رات میں ایک مرتبہ بھی اُس کی طبیعت پوچھنے کی زحمت نہیں کی، الٹا صبح وہ اُس کو جگاکر اُس کو ناشتہ بنانے کا آرڈر دے رہا تھا۔۔ آرزو ہمت جمع کرتی بیڈ سے اٹھی

"اب اٹھ بھی چکو، کیا سُستی اور کاہلی کے سارے ریکارڈ آج ہی توڑنے ہیں تمہیں"

ہاشم اُس کی سُست رفتار کو دیکھتا ہوا چڑ کر بولا تو آرزو جلدی سے سلیپرز پاؤں میں ڈال کر واش روم چلی گئی

جلدی جلدی اُس نے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے تاکہ اُس کی آنکھیں کُھل سکیں۔۔۔ ساری رات جاگنے کی وجہ سے اِس وقت کا اُس کا دماغ مکمل طور پر ماؤف تھا۔۔۔ واش روم کا دروازہ بجنے پر آرذو نے جلدی سے واش روم کا دروازہ کھولا تو ہاشم غصّے میں ہاتھ میں اپنی شرٹ پکڑ اُس کو دیکھ رہا تھا

"کیا ہے یہ۔۔۔ آئرن نہیں کی تم نے کل رات میری یہ شرٹ۔۔۔ بس سارا وقت بستر پر پڑے آرام کرنے کے بہانے ڈھونڈنے ہیں"

ہاشم غصّے میں آرذو کو دیکھ کر اُس کی موجودہ حالت پر طنز کرتا اُسے باتیں سنانے لگا

"آپ شروع سے ہی اتنے بےحس انسان ہیں یا پھر میرے لئے کچھ اسپیشل فیلینگز رکھتے ہیں۔۔۔ بہانہ نہیں بنارہی ہوں کل سے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ورنہ ہر چیز آپ کو وقت پر ہی ملتی ہے۔۔۔ لائیے اپنی شرٹ پریس کردیتی ہوں"

آرزو اپنی طبیعت خرابی کا جتاتی ہوئی ہاشم سے شرٹ لےکر آئرن اسٹینڈ کے پاس جانے لگی

"ویسے کیا فیلینگز رکھنی چاہیے مجھے تمہارے لیے۔۔۔ آفس جانے کی بجاۓ تمہیں بانہوں میں لےکر ہر وقت بیڈ پر پڑا رہو یا پھر اپنے ساتھ لگائے تمہیں ہر جگہ لےکر پھرتا رہو"

ہاشم دوبارہ اس کے سر پر کھڑا ہوکر بولا اُس کا انداز تحقیر آمیز تھا۔۔۔ ہاشم کی باتیں سن کر آرزو کا خجالت سے چہرہ سرخ پڑنے لگا وہ بناء کوئی جواب دیئے اُس کی شرٹ پریس کرنے لگی

"ہر چیز آپ کو وقت ملتی ہے۔۔۔ جیسے کوئی

احسان کیا جاتا ہے میری ذات پر"

کمرے میں ٹہلتے ہوۓ ہاشم نے پہنی ہوئی ٹی شرٹ اتار کر آرذو کا بولا ہوا جملا دہرایا۔۔۔ آرذو ابھی بھی خاموشی سے بناء کچھ بولے اُس کی شرٹ پریس کررہی تھی وہ دوبارہ آرزو کے پاس آکر کھڑا ہوا

"سب اچھی طرح اندازہ ہے مجھے شوہروں کی توجہ پانے کے لئے طبعیت خرابی کی ایکٹنگ کرکے جو تم لڑکیاں یہ اوہچے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہو۔۔۔ میں اچھی طرح واقف ہوں اُن سب حرکتوں سے"

اب کی بار ہاشم کی بات سن کر آرزو کا دماغ بھناکر رہ گیا۔۔۔ یہ آدمی تو ایک ذرا سا کام نہ ہونے پر اُس کی طبعیت کو نظرانداز کرکے اُسے باتیں ہی سناۓ جارہا تھا۔۔۔ استری اسٹینڈ پر استری رکھتی ہوئی آرذو ہاشم کو دیکھ کر بولی

"کیا سمجھتے ہیں آپ خود کو۔۔۔ ارے ہیں کیا آپ جو میں آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے طبیعت خرابی کا بہانہ بناؤ گی۔۔۔ آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے اوہنچے ہتھکنڈے آپ کی پہلی بیوی نے آپ پر استعمال کیے ہوں گے، مجھے نہ تو آپ کی توجہ حاصل کرنے کا کوئی شوق ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ارمان کہ آپ مجھے بانہوں میں لےکر بستر پر پڑے رہے"

آرزو کے بولنے کی دیر تھی ہاشم نے اُس کے بالوں کو مٹھی میں بھر کر آرذو کا چہرہ خود سے قریب کیا وہ تکلیف سے بلبلا اٹھی اور چیختی ہوئی بولی

"چھوڑیں میرے بالوں کو، اِس طرح تو کوئی انسان اپنے گھر کے نوکروں کے ساتھ سلوک نہیں کرتا۔۔۔ میں انسان ہو کوئی بھیڑ بکری نہیں جو آپ مجھے اِس طرح ٹریٹ کررہے ہیں"

آرزو ہاشم کے رویے پر مزید برہم ہوئی تھی تبھی غصّے میں تیز آواز میں بولی

"اب اگر تمہارے منہ سے تیز آواز نکلی تو میں جانوروں سے بھی زیادہ بدتر تمہارا حشر کرو گا۔۔۔ خاموشی سے آئرن کرو اور اُس کے بعد میرے لیے ناشتہ بناؤ۔۔۔ نہیں تو آفس جانے سے پہلے میں تمہارا بخار تمہاری ہڈیوں میں بھردو گا"

ہاشم آرذو کے بال چھوڑتا ہوا اُس کو دھمکی دے کر واش روم چلا گیا

"بےحس جلاد صفت انسان"

آرزو بخار اور ضبط سے سرخ چہرہ لیے منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر اُس کی شرٹ آئرن کرنے لگی

***""""***

"ارے بیٹا تمہیں کیا ضرورت ہے ہاشم کے لئے ناشتہ بنانے کی تمہاری تو اپنی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ کل کا تمہارا بخار بھی ابھی تک نہیں اترا"

گلنار آرزو کو کچن میں دیکھ کر اُس کے پاس چلی آئی اُس نے آرزو کی کلائی چھو کر دیکھی تو فوراً بولی

"ماں جی پلیز مجھے ہاشم کا ناشتہ تیار کرنے دیں نہیں تو وہ خفا ہوگیں مجھ سے"

آرذو گلنار کو دیکھ کر بولنے لگی کیوکہ ہاشم جب اُس کو باتیں سنانے پر آتا تھا گھر میں موجود کسی فرد کا لحاظ کیے بغیر نان اسٹاپ سناتا چلا جاتا تھا۔۔۔ گلنار آرذو کی بات سن کر اُس کو کلائی سے پکڑ کر ہال میں لے آئی۔۔۔ جہاں ہاشم ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتے کا ویٹ کررہا تھا

"ہاشم یہ اتنے تیز بخار میں کھڑی ناشتہ بنارہی تھی۔۔۔ شمع سب کے ساتھ تمہارا ناشتہ بھی بنادے گی تم آفس جانے سے پہلے اِس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا چہرا دیکھو کیسے مرجھا سا ہوگیا ہے بےچاری کا"

گلنار آرذو کو کرسی پر بٹھاتی ہوئی ہاشم سے بولی

"اچھا تو اب میرا ناشتہ نہ بنانا پڑے، یہ آپ کے سامنے اپنی بیماری کا رونا رو رہی ہے فالتو کا وقت نہیں ہے میرے پاس جو میں اُس کو ڈاکٹر کے پاس لےجاؤ۔۔۔ گھر سے ہی کوئی میڈیسن دے کر اُس کی طبیعت ٹھیک کریں۔۔۔ ایسی بیمار مریضہ قسم کی بیوی مجھے نہیں چاہیے جو ایک وقت ناشتہ بھی مجھے نہ دے سکے"

ہاشم آرزو پر سخت نظر ڈالتا ہوا گلنار سے بولا تزلیل سے آرذو کا چہرہ کا چہرہ جلنے لگا وہی گلنار کو اپنے بیٹے کے رویہ سخت برا لگا

"ماہ نور نے تم کو چھ سالوں میں کتنی بار کا ناشتہ بناکر دیا ہے ذرا اپنی انگلیوں پر گن کے بتاؤ مجھے۔۔۔ دو ہفتے گزر چکے ہیں تمہاری شادی کو اور میں تمہارا آرزو کے ساتھ رویہ دیکھ رہی ہوں ماہ نور کو تم نے ناجائز چھوٹ دے رکھی ہے ہر کام کی۔۔۔ اور اِس بےچاری سے تم اپنا ہر کام کرواتے ہو اس کے باوجود تم اِس کو ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جاسکتے"

گلنار ہاشم کی اچھی طرح کلاس لیتی ہوئی بولی

"آپ مجھے ماہ نور کے نام کا طعنہ مت دیں، وہ میری پسند تھی اِس لیے اُس کی ہر کوتاہی برداشت کرتا رہا لیکن یہ لڑکی آپ کی چوائس ہے اِس کو ہنر سکھائیں کیسے شوہر کے دل میں جگہ بنائی جاتی ہے۔۔۔ ابھی ہوتا کوئی اِس کا من چاہا اِس کی مرضی کے مطابق شوہر تو اِسی خراب حالت میں یہ اُس آدمی کے لیے بغیر کسی بہانے کے اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنارہی ہوتی"

ہاشم طنز کرتا خونخوار نظروں سے آرذو کو دیکھ کر کرسی سے اٹھا تو گلنار کو ہاشم کی بدتمیزی پر مزید غصّہ آیا جبکہ آرزو اپنی قسمت پر اپنی آنکھیں نم کرنے سے خود کو نہ روک پائی

"آرزو کا اور ماہ نور کا کوئی مقابلہ نہیں، تمہاری پسند انتہا درجے کی تھرڈ کلاس تھی۔۔۔ جو کچھ پچھلے چھ سالوں میں تمہاری پہلی بیوی اس گھر میں کرتی آرہی ہے وہ تم سے یا کسی دوسرے سے ڈھکا چھپا نہیں۔۔۔ اور آرزو کو مجھے کچھ بھی سکھانے کی ضرورت نہیں یہ بچی تربیت، اخلاق اور کردار کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ ماہ نور کے پاس ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز نہیں"

گلنار بھی غصے میں کھڑی ہوکر ہاشم کو بولنے لگی۔۔۔ لیکن جب گلنار نے کردار کا لفظ استعمال کیا آرزو کا دل زور سے دھڑکا، یقیناً اس لفظ پر ہاشم اُس کے کردار کی اپنی ماں جی کے سامنے دھجیاں بکھیر دیتا۔۔۔ آرزو اِس وقت ہاشم کے چہرے پر غصّے بھرے تاثرات دیکھ کر گھبرائی اور کھڑی ہوکر گلنار کو مزید کچھ بولنے سے منع کرنے لگی مگر گلنار غصّے میں ہاشم کو سناتی چلی گئی

"گستاخی معاف کیجیے گا ماں جی آپ کی چوائس بھی کوئ فرسٹ کلاس نہیں ہے کیا جانتی ہیں آپ اِس کے کردار کے بارے میں"

جس کا ڈر تھا وہی ہوا ہاشم بول ہی رہا تھا آرزو کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا، جس کی وجہ سے ہاشم کی بات مکمل نہیں ہو پائی آرزو چکرا کر فرش پر گر پڑی

***""""***

"بی پی کافی زیادہ لو ہونے کی وجہ سے یہ بےہوش ہوگئی تھیں ویسے ٹینشن کی کوئی بات نہیں ہے، یہ کچھ میڈیسن دے رہا ہوں میں اِن کو پراپر ڈائٹ کے ساتھ دیجیئے گا انشاءاللہ جلد ٹھیک ہو جائے گیں"

ڈاکٹر نسخے کا پرچہ ہاشم کو پکڑاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ہاشم بیڈ پر آنکھیں بند کرکے لیٹی آرزو کو دیکھنے لگا جو اب ہوش میں آنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول رہی تھی۔۔۔ جانا تو اُس کو صبح سویرے آفس تھا مگر ناشتے پر ہوئی بدمزگی کہ بعد ہاشم کو خود ڈاکٹر کو گھر بلانا پڑا

"گلنار اور ہاشم تم دونوں میرے کمرے میں آؤ بچی کو تھوڑی دیر ریسٹ کرنے دو"

ایوب خان گلنار اور ہاشم سے بولتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔ گلنار اے سی آن ہونے کی وجہ سے آرزو پر چادر ڈال کر کمرے سے باہر نکلی

"پہلے یہ بخار کی میڈیسن لے لو پھر پراپر ریسٹ کرلینا"

آرزو آنکھیں بند کرکے لیٹی تھی تب ہاشم اُس کو دیکھ کر لہجے میں نرمی سمائے بولا جس پر آرزو نے آنکھیں کھولیں مگر اُس کی طرف دیکھا نہیں

"نہیں ایسا کرو، میڈیسن لینے سے پہلے تھوڑا سا کچھ کھالو، بتاؤ کیا بنواؤ شمع سے تمہارے لیے"

شاید یہ عنایت اُس کے بےہوش ہونے کی وجہ سے کی جارہی تھی۔۔۔ ورنہ وہ اِس کے لیے درد کہاں رکھتا تھا۔۔۔ آرزو نے افسوس بھری نظر ہاشم کے چہرے پر ڈالی تو ایک پل کے لیے وہ نظریں چرا گیا دوسرے ہی پل وہ آرزو کے پاس آکر اُس کو دیکھتا ہوا بولا

"ٹھنڈ تو نہیں لگ رہی اے۔سی بند کر دو"

ہاشم آرذو کا ماتھا چھو کر دیکھنے کے بعد خود ہی اے۔سی بند کرنے لگا

"اُس وقت ماں جی کی باتوں پر غصہ آگیا تھا، جبھی نوبت یہاں تک پہنچ گئی لیکن میں تمہارے بارے میں وہ سب نہیں بولتا جس کے ڈر کی وجہ سے تم بےہوش ہوگئیں"

نہ جانے کیوں اِس وقت اُسے اِس لڑکی کی بےبسی پر اپنا دل پگھلتا ہوا محسوس ہورہا تھا جبھی اُس کو وضاحت دینے لگا۔۔۔ ہاشم کی بات پر آرزو نے ملامت بری نظر اُس پر ڈالی تو اچانک ہاشم نے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا

"سوری"

اپنے رویے کی معذرت کرتا ہوا وہ آرزؤ کو دیکھ کر بولا

"اگر میں اِس قابل نہیں کہ اچھا شوہر ڈیزرو کرو تو آپ نے بھی ابھی تک اپنے سلوک سے یہی ثابت کیا ہے کہ آپ بھی اِس قابل نہیں جو اچھی بیوی ڈیزرو کریں پلیز یہاں سے چلے جائیے"

آرزو کے بات سننے کے باوجود اُس کو غصہ نہیں آیا وہ خاموشی سے  سے کمرے سے باہر چلا گیا

***""""***

"پہلے تو ہم سے سمجھتے تھے گھر کا ماحول ماہ نور کی وجہ سے خراب ہوتا ہے لیکن وہ اب یہاں پر موجود نہیں ہے تو تم دونوں نے اُس جگہ کو لیتے ہوۓ گھر کو پاگل خانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ ہم پہلے تم سے سوال کریں گے گلنار یہ سب کیا ہے"

ایوب خان کے کمرے میں اِس وقت گلنار اور ہاشم دونوں ہی موجود تھے ایوب خان تھوڑی دیر پہلے ہوۓ قصّے سے ناخوش انداز میں گلنار سے پوچھنے لگے

"جو کچھ آج صبح ہوا میں اُس کے لیے کافی شرمندہ ہوں ابّا جی۔۔۔ لیکن اِس سارے قصّے کا ذمہ دار میں صرف اور صرف ہاشم کو ٹھہراؤ گی کیونکہ اِس نے نہ صرف مجھے آپ کے سامنے شرمندہ کیا ہے بلکہ آرزو کے سامنے بھی میں اِس کی وجہ سے بری طرح شرمندہ ہوں۔۔۔ میں سمجھ رہی تھی یہ ماہ نور سے اپنی پسند کی شادی کر کے پچھتا رہا ہوگا اب میری پسند کی لڑکی سے شادی کررہا ہے تو اُس لڑکی کے ساتھ ہنسی خوشی اپنی زندگی کا آغاز کرے گا لیکن یہ شروع سے عادی ہے اپنی مرضی کرنے کا، اپنی پسند کو ترجیح دینا عادت ہے اِس کی۔۔۔ چاہے اِس کی پسند صحیح ہو یا غلط۔۔۔ اب مجھے محسوس ہورہا ہے میں نے اپنی مرضی سے اِس کی شادی کرکے بہت بڑی غلطی کردی۔۔۔ اُس بچی کا کوئی قصور نہیں ہے اَبّا جی جو صبح شام اُس کی جھڑکیاں کھانے کے باوجود خاموشی سے اِس کے کام کردیا کرتی ہے۔۔۔۔ آپ اس سے بولیں یہ آرزو کو بطور بیوی کو قبول نہیں کرسکتا تو اُس کو اِس رشتے سے آزاد کردے مگر یوں کسی کی بچی کی زندگی کو برباد نہ کرے۔ِ۔۔ جہاں میں آپ سے شرمندہ ہوں، آرزو سے شرمندہ ہوں، وہی میں آرزو کے والدین سے بھی شرمندہ ہوکر معافی مانگ لوں گی۔۔۔ آپ اس سے بول دیں کہ یہ آرزو کو آزاد کردیں۔۔۔ اب میں کبھی بھی اِس کے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچو گی"

گلنار شکوہ بھری نظر ہاشم پر ڈالتی ہوئی ایوب خان سے ساری باتیں کرگئی تو کمرے میں ایک دم خاموشی چھاگئی۔۔۔ آرزو سے رشتہ ختم کرنے کی بات پر ہاشم بھی گلنار کو خفگی بھر کر دیکھنے لگا مگر بولا کچھ نہیں

"ٹھیک ہے ہم نے تمہاری بات سن لی ہے اب تم کمرے سے جاؤ ہمہیں ہاشم سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے" ایوب خان کے حکم پر عمل کرتی گلنار ناراض نظر ہاشم پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل گئی

"دا جی آج صبح جو بھی ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا میں اپنے رویے کی آپ سے معذرت کرتا ہوں، آپ کا یا پھر ماں جی کا دل دکھانا میرا مقصد ہرگز نہیں تھا"

ہاشم صوفے پر بیٹھا ہوا ایوب خان کو دیکھ کر بولا

"اور اپنی بیوی کا دل تم کس مقصد کے تحت دکھا رہے ہو تم ہمیں بتانا پسند کرو گے ہاشم جہاں تک ہم تمہیں جانتے ہیں تم بلاجواز کسی پر سختی نہیں برتتے۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے جو تم نے شروع دن سے اُس بچی کے ساتھ عجیب و غریب رویہ اپنایا ہوا ہے"

ایوب خان کے پوچھنے پر ہاشم ان سے نظریں چرا گیا۔۔۔ وہ چاہ کر بھی ایوب خان کے سامنے آرزو کے بارے میں کچھ نہیں بول سکا

"ایسی کوئی بات نہیں ہے دا جی آپ اور ماں جی غلط سوچ رہے ہیں بھلا مجھے آرذو کے ساتھ کیا مسئلہ ہوگا، وہ بیوی ہے میری اگر میں اُس سے اپنے کام کروا لیتا ہوں یا ہلکا پھلکا اس کو ڈانٹ دیتا ہوں تو اس میں ایسی کوئی غلط بات نہیں"

ہاشم کو خود سمجھ نہیں آیا کہ وہ آرزؤ کے بارے میں ایوب خان کو کچھ کیو نہیں بتاسکا

"ہاشم جیسے تم نے گلنار کو خود سے مایوس کیا ہے ویسے ہم بھی تم سے کافی زیادہ مایوس ہوئے ہیں، اگر تمہیں سچ میں ماہ نور سے اتنی محبت تھی کہ تم اُس کی جگہ کسی دوسری لڑکی کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے تو اُسی وقت دوسری شادی سے منع کردیتے جب تمہاری ماں خوشی خوشی تمہارے لئے لڑکیاں دیکھ رہی تھی۔۔۔ کسی کی بیٹی کو اپنے گھر لانا اور اُس کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا کسی خاندانی مرد کو زیب نہیں دیتا،، بیوی پر حق جتانا اُس سے اپنے کام کروانا اور بات ہے لیکن تمہارے انداز میں لہجے میں چھپی تذلیل ہم کوئی بچے نہیں ہے جو محسوس نہیں کرسکے۔۔۔۔ اگر حقیقتاً تمہیں شرافت اور تمیز کے دائرے میں رہ کر اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے تو ٹھیک ہے نہیں تو گلنار بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے ایسی بیہودگی سے بہتر ہے کہ تم اُس بچی کو اِس رشتے سے آزاد کردو"

ایوب خان ہاشم کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بولے تو ہاشم ایک تم بول پڑا

"آپ دونوں کیوں ایک ہی بات کیے جارہے ہیں میں آرزو سے اپنا رشتے ختم کرنے والا نہیں ہوں نہ ہی ایسا کسی کو  کرنے دوں گا"

ہاشم ایوب خان سے بولتا ہوا ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آیا مگر کمرے میں مکمل اندھیرا کیے آرزو بےخبر سو رہی تھی وہ آہستہ سے اپنا موبائل اور گاڑی کی کیز جیب میں ڈالتا ہوا کمرے سے باہر آفس کے لیے نکل گیا

***""""***

"سر می آئی کم ان"

امامہ فائل ہاتھ میں پکڑے اپنے باس شاویز سے بولی تھوڑی دیر پہلے اسے شاویز نے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی تھی

"پلیز امامہ اندر آیئے"

شاویز اپنے آفس کمرے میں بیٹھا کسی کام میں مصروف تھا مگر امامہ کو اندر آتا دیکھ کر وہ تمام مصروفیات ترک کرتا امامہ کو دیکھ کو بولا

عام سے نقش رکھنے والی عام سی لڑکی جس کی چال میں بھی نقص تھا مگر شاویز کو وہ دوسری لڑکیوں سے سادہ اور مختلف لگتی۔۔۔شروع دن سے ہی شاویز کو اُس کی شخصیت پروکار لگی تھی

"بیٹھئے امامہ"

شاویز امامہ کو آفس میں آتا دیکھ کر اسے بولا تو امامہ کرسی پر اُس کے سامنے بیٹھ گئی، ٹیبل پر اس کا  ریزکنیشن لیٹر رکھا ہوا تھا۔۔۔ جو آج ہی اس نے ٹائپ کیا تھا کیونکہ اب وہ یہاں پر مزید جاب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی

"پوچھ سکتا ہوں آپ یہ جاب کیوں چھوڑ رہی ہیں"

شاویز امامہ کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا جبکی وجہ وہ بخوبی جانتا تھا

"سوری سر میں اپنے پرسنل ریژن ہر کسی سے شئیر نہیں کرتی جب تک مجھے لگا تھا کہ میں یہ جاب کر پاؤں گی تب تک میں نے یہاں جاب کی، لیکن اب مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میں مزید آگے یہاں جاب نہیں کرسکتی"

امامہ شاویز کو دیکھتی ہوئی بولی جس پر شاویز ہلکا سا مسکرایا

"آپ کو میرا پرپوز کرنا برا لگا۔۔۔ جبکہ میری نہ تو نیت غلط تھی نہ ہی ارادہ۔۔۔ اور نہ ہی میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا تھا اگر میرے عمل سے آپ کی فیلنگیز ہرٹ ہوئی ہیں تو میں اُس کے لئے آپ سے معذرت خواہ ہوں۔۔۔ اپنی تین سالہ بیٹی کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں شادی جیسا اسٹیپ لینے کا سوچا تو سب سے پہلے دماغ میں آپ کا خیال آگیا لیکن اگر آپ ایسا نہیں چاہتی تو اٹس اوکے لیکن آپ کا استعفٰی ہرگز منظور نہیں کروں گا میں کیوکہ آپ اپنی جاب سے مخلص ہیں اور ایک محنتی ورکر ہیں آپ کو کبھی دوبارہ میرے کسی عمل سے کوئی پرابلم نہیں ہوگی اب آپ اپنے کیبن میں جاسکتی ہیں"

شاویز امامہ کو ساری بات کلیئر کرتا دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوچکا تھا امامہ کرسی سے اٹھ کر شاویز کے روم سے باہر نکل گئی

***""""***

آج ہاشم کو آفس سے واپس گھر آنے میں دیر ہوگئی تھی جب وہ گھر لوٹا تو ہال میں سناٹا چھایا ہوا تھا صبح والے واقعے سے دا جی اور ماں جی دونوں ہی اُس سے ناراض ہوچکے تھے۔۔۔ آرذو کی طبعیت اب کیسی تھی ہاشم کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کیوکہ وہ گیارہ بجے کے قریب آرزو کو سوتا ہوا چھوڑ کر آفس کے لیے نکل گیا تھا

ابھی وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اُس نے آرذو کو الماری کے سامنے کھڑا پایا۔۔۔ صبح کی بانسبت وہ ابھی بہتر لگ رہی تھی اور اِس وقت اپنے کپڑے تہہ کررہی تھی۔۔۔ ہاشم کے کمرے میں آنے کا اُس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا وہ اپنے کام میں مشغول رہی لیکن ہاشم صوفے پر بیٹھتا ہوا آرذو کا مکمل جائزہ لینے لگا

اِس میں کوئی شک نہیں تھا وہ اچھی خاصی پُرکشش اور خوبصورت لڑکی تھی۔۔۔ اگر اُس کی زندگی سے تبریز نامی عنوان سرے سے ہی نکال دیا جاتا تو وہ کب کا اِس لڑکی کو بطور بیوی دلی طور پر قبول کرچکا ہوتا

"کیسی طبیعت ہے اب تمہاری"

دو ہفتوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا جب ہاشم نے اُس کی ذات میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے آرزو سے کوئی بات کی تھی وہ بھی بناء کسی طنز کے بالکل نارمل انداز میں۔۔۔ آرزو پہلے تو ہاشم کی بات پر چونکی پھر اُس کی طرف دیکھے بغیر اپنے کپڑے تہہ کرتی ہوئی بولی

"کام کرنے کے قابل ہوگئی تبھی آپ کو کھڑی ہوئی نظر آرہی ہو"

اگر وہ ٹیڑھا مزاج رکھتا تو سیدھا جواب اِس لڑکی کو بھی نہیں دینا تھا۔۔۔ ہاشم ساری ہمدردی ایک طرف رکھ کر گھورتا ہوا اُس کو دیکھنے لگا

"اپنے ہی کام کررہی ہو کسی دوسرے کی ذات پر تو احسان نہیں کررہی ہو، ایک گلاس پانی لاؤ میرے لیے"

ہاشم کو اُس کا لاپرواہ انداز تھوڑا بہت کھلا تبھی وہ روعب دار لہجے میں بولا آرزو ہاتھ میں پکڑی قمیص بیڈ پر رکھتی ہوئی ہاشم کو پانی دینے لگی

"اپنے کھانے کا بتادیں کھانا آپ ابھی کھاۓ گیں یا پھر میں پیکنگ کرلو"

پانی کا گلاس ہاشم کو دینے کے بعد آرزو اُس پر دوسرا احسان کرتی کھانے کا پوچھنے لگی

"پیکنگ۔۔۔ مطلب کس چیز کی پیکنگ"

کھانا وہ کھا کر آیا تھا لفظ "پیکنگ" پر چونکا اِس لیے پانی کا گھونٹ منہ میں بھرتا ہوا آرزو سے پوچھنے لگا

"جتنی میرے اندر برداشت تھی اتنی تزلیل آپ کے ہاتھوں سہہ چکی ہوں۔۔ اِس سے زیادہ ذلت سہنے کا میرے اندر مادہ نہیں ہے اِس لیے میں یہاں سے جارہی ہوں" 

آرذو ہاشم سے بولتی ہوئی الماری سے اپنا بیگ نکال کر اُس میں کپڑے ڈالنے لگی تو ہاشم اُس کے نئے ڈرامے پر اپنا غصّہ پیتا ہوا بولا

"یہ سوچ کر میرے گھر سے جانا میں تمہیں منانے یا تمہیں واپس لانے تمہارے ماں باپ کے گھر ہرگز نہیں آؤگا"

ہاشم صوفے پر بیٹھا ہوا آرزو کو جتاتا ہوا بولا تو آرزو نے فوراً ہاشم کو جواب دیا

"میں یہ سوچ کر اس گھر سے جارہی ہوں کہ اب میں یہاں پر دوبارہ کبھی واپس نہیں آؤں گی۔۔۔۔ میری طرف سے خلع کے کاغذات آپ کو جلد مل جائیں گے"

آرزو کی بات سن کر ہاشم کے چہرے پر ایک رنگ آیا دوسرا جانے لگا، اب اُس نے غصہ ضبط کیے بغیر پانی کا گلاس دیوار پر دے مارا

"کیا بکواس لگا رکھی ہے تمام لوگوں نے مل کر صبح سے ہی"

ہاشم غصے میں بولتا ہوا صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوا تو آرزو چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی

"میں نے تبریز سے اپنا تعلق جبھی ختم کرلیا تھا جب آپ کا مجھ سے رشتہ جڑا تھا۔۔۔ اور دل کا تعلق تبریز سے تب توڑ لیا تھا جب میں آپ کے نکاح کے بندھن میں باندھ گئی تھی۔۔۔ اب میرا تبریز سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ کبھی کوئی تعلق دوبارہ جڑ سکتا ہے لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ میں زندگی میں کبھی بھی آپ جیسے شخص سے محبت نہیں کرپاؤ گی اِس وجہ سے آپ سے بھی رشتہ ختم کرکے جارہی ہو۔۔۔ اگر کوئی انسان غلطی پر ہوتا ہے تو اُس کی غلطی سدھارنے کے لیے، اُس انسان کو صحیح راہ پر چلنے کا موقع دیا جاتا ہے، اُس کے کردار کی دھجیاں نہیں اُڑائی جاتی، بات بات پر اُس کو رسوا کرکے اُس کو طعنے دے کر یہ احساس نہیں دلایا جاتا کہ تم سے زیادہ گرا ہوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ مانا کہ ہر کوئی اعلٰی ظرف نہیں ہوتا جو کسی کے عیب کو دیکھ کر اُس کا پردہ رکھ لے مگر آپ کے اندر اعلیٰ تو دور کی بات ظرف نام کی بھی کوئی چیز موجود نہیں ہے، یہ بات میں آپ کے ساتھ رہ کر دو ہفتوں میں ہی جان گئی ہوں کہ آپ کس قدر بےحس اور خود پسند انسان ہے جسے اپنے علاوہ ساری دنیا غلط لگتی ہے۔۔۔ اپنے گھر والوں سے چھپ کر میں نے تبریز سے دوستی کی، غلط کیا۔۔۔ اُس سے ملنے جاتی تھی اُس سے بھی زیادہ غلط کیا۔۔۔ مگر میرا کردار صاف ہے میلا نہیں۔۔۔ یہ میرا اللہ جانتا ہے اِس بات کی گواہی میں آپ کے سامنے یا کسی دوسرے کے سامنے دے کر خود کو مزید نہیں گرا سکتی۔۔۔ آپ اپنی پہلی بلند کردار بیوی کے ساتھ خوش رہیئے میں اپنی دنیا میں خوش رہو گی۔۔۔ ویسے بھی جہاں آپس دل ہی نہ ملتے ہو وہاں بلاضرورت نباہ کرکے کوئی فائدہ نہیں ہوتا میں جانتی ہوں یہاں سے جانے کے بعد میرے والدین بھی مجھے مشکل سے ہی قبول کریں گے لیکن لعنتی ملامتی کے بعد اُن کو مجھ پر ترس آہی جائے گا لیکن میں آپ کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزار کر تمام عمر آپ کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہوسکتی جتنے دن آپ کے ساتھ رہی مجھے یہی سیکھنے کو ملا کہ ایک مرد شوہر کے روپ میں کبھی بھی کمپرومائز نہیں کرسکتا۔۔۔ نباہ کرنا صرف عورت کے حصّے میں آتا ہے جو عورت شادی شدہ مرد سے شادی کر کے بھی کر گزرتی ہے"

آرزو آنسو بہا کر ہاشم کے سامنے سب کچھ بول گئی ہاشم خاموشی سے اُس کی باتیں سننے کے بعد آنکھوں سے اشک صاف کرتی اُس لڑکی کو دیکھنے لگا جس سے اُس کی تھوڑے دن پہلے شادی ہوئی تھی وہ اپنا بیگ پیک کرکے کمرے سے باہر چلی گئی تو ہاشم کسی گہری سوچ سے جاگا

"آرذو۔۔۔۔ آرذو"

ہاشم کمرے میں آرزو کو موجود نہ پاکر اُس کے پیچھے کمرے سے باہر نکلا

"آرزو رکو"

ہاشم کے پکارنے پر بھی آرزو ہینڈ کیری ہاتھ میں لیے گیٹ عبور کر گئی ہاشم دونوں ہونٹوں کو آپس میں بھینچ کر دوبارہ اس کے پیچھے گیا 

"سنائی نہیں دے رہا تمہیں کب سے پکارے جارہا ہوں تم ایسے میرے گھر سے نہیں جاسکتی واپس چلو میرے ساتھ" 

ہاشم فٹ پاتھ پر چلتی ہوئی آرزو کے راستے میں آکر اس سے بولا تو آرزو روئی ہوئی آنکھوں سے اُس کو دیکھنے لگی

"کیوں واپس اپنے گھر لےکر جانا چاہتے ہیں آپ مجھے"

آرذو اپنے آنسو صاف کرتی ہاشم سے پوچھنے لگی وہ ارادہ کرچکی تھی اپنے ماں باپ کے پاس جانے کا۔۔۔ اُسے ہاشم سے ذرا توقع نہیں تھی کہ ہاشم اس کو جانے سے روکے گا

"یہ بات یہاں پر بیچ راہ میں نہیں بتاسکتا واپس چلو"

ہاشم آرذو کی نم روئی ہوئی آنکھیں دیکھ کر اُس سے بولا

"میں واپس نہیں چل رہی ہوں آپ کے ساتھ، نہیں تو آپ کو لگے گا کہ میں آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے میکے جانے کا ڈرامہ کررہی تھی"

آرذو ہاشم سے بولتی ہوئی دور سے آتی ٹیکسی کو ہاتھ کے اشارے سے روکنے لگی تو ہاشم نے اُس کے ہاتھ سے ہینڈ کیری لےلیا

"اب تم بلاوجہ کی فضول بحث میں پڑ رہی ہو میں اگر ایسا سوچتا تو یوں تمہارے پیچھے آکر تمہیں روکتا ہرگز نہیں"

ہاشم اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا آرذو سے بولا تو ٹیکسی قریب آکر رک گئی

"بھیا کہاں جانا ہے"

ٹیکسی والا کھڑکی سے باہر گردن نکال کر پوچھنے لگا تو ہاشم فوراً سے بولا

"ہمیں کہیں نہیں جانا ہے تم جاؤ یہاں سے"

ہاشم کے بولنے پر آرزو جلدی سے بولی

"بھائی آپ یہی پر رکھیے مجھے جانا ہے۔۔۔۔ ہاشم پلیز بیگ دیجئے میرا"

آرذو ٹیکسی والے کو روک کر ہاشم سے بولی ساتھ ہی اُس نے اپنا ہاتھ بیگ لینے کے لئے ہاشم کے آگے بڑھایا تو ہاشم نے اپنے دوسرے ہاتھ سے آرذو کا ہاتھ تھام لیا

"اب تم نخرے دکھانے میں ٹائم ویسٹ کررہی ہو جبکہ میں تمہیں بار بار واپس گھر جانے کا کہہ رہا ہوں"

ہاشم آرذو کا ہاتھ تھام کر سنجیدہ انداز میں اُس سے بولا

"اور واپس گھر جانے کے بعد آپ کا آیٹیٹیوڈ ویسا ہی ہوجائے گا جیسے شروع دن سے رہا ہے"

آرزو ہاشم کو بتانے کے ساتھ اپنا ہاتھ اُس سے چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی

"اب ایسا کچھ نہیں ہوگا"

ہاشم اس کا ہاتھ چھوڑے بغیر بولا ہاشم اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جبکہ آرذو بھی ہاشم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی

"بھیا جانا ہے یا نہیں جانا ہے۔۔۔ مجھے کیوں روکا ہوا ہے آپ لوگوں نے"

ٹیکسی والا اُن دونوں کو ایک دوسرے میں گم دیکھ کر دوبارہ پوچھنے لگا

"تمہیں کس نے روکا ہوا ہے یار جاؤ یہاں سے"

ہاشم ایک نظر ٹیکسی والے کو دیکھ کر بولا اور دوبارہ آرزو کو دیکھنے لگا جبکہ اُس نے ابھی تک آرذو کا ہاتھ بھی پکڑے رکھا تھا

"نہیں بھائی آپ دو منٹ دیں میں چلتی ہوں"

آرزو ہاشم کی آنکھوں میں دیکھ کر ٹیکسی والے سے بولی تو ٹیکسی والا خاموشی سے دوبارہ اُن دنوں کو دیکھنے لگا

"اتنا زیادہ کبھی میں نے ماہ نور کو بھی کسی بات کے لئے فورس نہیں کیا جتنا تمہیں کررہا ہوں تمہیں میری بات کا یقین کرنا پڑے گا کہ اب پہلے جیسا ہمارے بیچ کچھ نہیں ہوگا"

ہاشم آرذو کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اسے بولا اور یہ سچ بھی تھا 

"میں کیا کروں مجھے آپ کی بات کا بالکل بھی یقین نہیں"

آرزو ہاشم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُسے بولی۔۔۔ اتنا ٹیڑھے مزاج کا انسان اتنی جلدی سیدھا ہوجاۓ آرذو کو بالکل خوش فہمی نہیں تھی

"بہن آپ اِن کی بات کا یقین کرلو، یہ آپ کو جانے نہیں دیں گے بلاوجہ میں میرا وقت ضائع ہو رہا ہے"

ٹیکسی والے کی بات سن کر وہ دونوں ٹیکسی والے کو دیکھنے لگے ٹیکسی والا اپنی ٹیکسی وہاں سے لے گیا جبکہ ہاشم آرزو کا ہاتھ پکڑے دوسرے ہاتھ میں اُس کا بیگ اٹھائے آرذو کو اپنے ساتھ واپس گھر لے جانے لگا

***"""***

اپنے کمرے میں آرزو کو واپس لاتا ہوا ہاشم الماری میں اُس کا ہینڈ کیری رکھنے لگا جبکہ آرزو ایک کونے میں کھڑی ہوگئی۔۔۔ ہاشم آرزو کی طرف متوجہ ہوکر چلتا ہوا اس کے پاس آیا ہاشم کو اپنے پاس آتا دیکھ کر آرزو کی پلکیں بے اختیار جھگ گئیں

"میں کوئی بہت زیادہ جابر قسم کا سخت گیر انسان نہیں ہوں مگر ہماری شادی کے بعد کچھ حالات ایسے بن گئے تھے کہ تمہارے ذہن میں میرا امیج ظالم شخص کا بیٹھ گیا مگر میری اِس بات کو تم خود بھی تسلیم کرو گی کہ چاہے کوئی بھی مرد ہو خود چاہے کیسا ہو لیکن وہ چاہتا ہے اُس کی بیوی اُس سے فئیر رہے۔۔۔ جو تمہارا ماضی تھا اگر سچ میں تم اُس کو بھول کر میرے ساتھ مخلص رشتہ نبھاوں گی تو مجھے ہمیشہ اچھے شوہر کی صورت پاؤگی اِس بات کی میں تمہیں گارنٹی دیتا ہوں"

ہاشم نرم لہجے میں آرزو کو دیکھ کر اُس سے ساری بات کلیئر کرتا بولا تو آرزو پلکیں اٹھاکر ہاشم کو دیکھنے لگی وہ منتظر نگاہوں سے اُسی کی جانب دیکھ رہا تھا جیسے کچھ سننا چاہ رہا ہو

"آپ مجھے ہمیشہ مخلص بیوی کے روپ میں ہی پائیں گے یہ میرا آپ سے وعدہ ہے" آرزو کے بولتے ہی ہاشم نے آرزو کو اپنے حصار میں لے لیا جس پر آرذو کا دل زور سے دھڑکنے لگا

"میرا ماننا ہے کہ کسی کے دل میں اپنی جگہ بنالینا مشکل نہیں ہے مشکل ہوتا ہے تو اُس جگہ کو اُس شخص کو دل میں برقرار رکھنا۔۔۔ تم وعدہ کرو میرے دل میں عمر بھر اپنی بنائی گئی جگہ قائم رکھوں گی"

ہاشم آرذو کو اپنے حصار میں لےکر اس سے بولا۔۔۔ ماہ نور اپنا مقام اپنی جگہ اُس کے دل میں کھو چکی تھی ہاشم اپنی دوسری بیوی سے وعدہ لینا چاہتا تھا

"میں وعدہ کرتی ہوں ایسا ہی ہوگا آپ مجھے ہر قدم پر خود سے مخلص پاۓ گے"

آرزو ہاشم کی پناہوں میں اُس سے وعدہ کرتی ہوئی بولی اُس نے سوچ لیا تھا کہ یہ وعدہ وہ تاعمر وفا کرے گی ہاشم اُس کی بات پر آرذو کو خود سے الگ کر کے آرزو کا چہرہ تھام کر اونچا کرتا بولا

"اگر ایسا ہوا تو تم ساری عمر میرے دل پر حکومت کرو گی میں وعدہ کرتا ہوں تم سے"

ہاشم نے بولتے ہوۓ آرذو کے ہونٹوں پر محبت بھری مہر ثبت کی۔۔۔ محبت بھرا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کرکے آرذو کی پلکیں خود بہ خود جھگ گئیں اس نے شرم سے ہاشم کے سینے میں اپنا چہرا چھپالیا

***"""***

صبح کا آغاز ہونے پر ہیر نیند سے بیدار ہوئی جاگنے کے ساتھ اُس کی نظر اپنے قریب سوئے عباس پر پڑی مسلسل پانچ دن سے وہ ہوٹل سے کافی لیٹ واپس گھر آرہا تھا زیادہ تر عباس رات میں اُس کے سونے کے بعد واپس آتا۔۔۔ پچھلے دو دن سے وہ ہیر کے جاگنے سے پہلے ہی ہوٹل کے لیے نکل گیا تھا۔۔۔ ہیر اُس بات کا شکر ادا کررہی تھی کہ اُسے ہیر پیلس میں کوئی ایسی انہونی چیز یا پھر عجیب واقعہ نہیں دکھا جس سے وہ ڈر جاتی یا پریشان ہوجاتی۔۔۔

جاگنے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور کھڑکی کے پاس آئی معمول کے مطابق اُس نے کھڑکی کا پردہ ہٹایا سورج کی روشنی سے نہ صرف کمرہ روشن ہوا تھا بلکہ سورج کی روشنی نے عباس کی نیند میں بھی خلل ڈالا

"یار یہ پردے تو برابر کرو ہیر دیکھ بھی رہی ہوں کہ میں سو رہا ہوں"

نیند سے ڈوبی ہوئی آواز میں عباس بولا تو ہیر پردے برابر کئے بغیر عباس کے سر پر کھڑی ہوگئی

"جی بالکل میں وہی دیکھ رہی ہوں آپ کافی گہری نیند سو رہے تھے اِسی وجہ سے آپ کو جگایا ہے میں نے۔۔۔ عباس یہ سب چل کیا رہا ہے۔۔۔ یہ کوئی روٹین ہے آپ کے واپس آنے کا، پورے پانچ دنوں سے آپ بالکل ہی بھول بیٹھے ہیں کہ ایک عدد بیوی بھی ہے آپ کی، جس کو آپ شادی کرکے اس لیے تو نہیں لائے کہ اُس کو اپنے محل میں قید کرکے خود اُس کی ذات فراموش ہو کر بیٹھ جائے گے"

ہیر عباس کے سر پر کھڑی اُس کے جاگنے کے بعد اُس کی کلاس لیتی ہوئی بولی عباس نے نیند سے بھری آنکھوں سے ہیر کی جانب دیکھا اور ہیر کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنے اوپر گرالیا۔۔۔

"آؤچ کیا کررہے ہیں"

توازن برقرار نہ ہونے کی وجہ سے ہیر عباس کے سینے پہ آگری اِس سے پہلے وہ اُس کے اوپر سے اٹھتی عباس نے ہیر کو اپنے بازوؤں میں قید کرلیا

"صبح صبح یوں لڑتی ہوئی بالکل لڑاکا بیوی والا لُک دے رہی ہو میری جان۔۔۔ شیر عباس اپنی ذات سے تو فراموش ہوسکتا ہے مگر اپنی خوبصورت بیوی کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کرسکتا مگر مجبوری ہے کہ روزگار بندے کو اپنا اور گھر والوں کا خیال رکھنے کے لیے مشقت کرنا پڑتی ہے"

ہیر کو بازوؤں میں سمائے وہ پیار سے اُسے بتانے لگا اپنی نیند خراب ہونے کے باوجود ہیر کا شکوہ کرنا اُسے احساس دلایا گیا تھا کہ وہ اُس کو مِس کرتی ہے دنیا میں کوئی ایسا موجود ہے جو اُس کا انتظار کرتا ہے

"ایسی کونسی مشقتیں ہیں جو رات کو بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہوتی ہیں میں نے کل رات دو بجے تک آپ کا انتظار کیا تھا"

ہیر آج صبح عباس کو بیڈ روم میں پاکر اُس سے لڑنے کے موڈ میں تھی مگر ہیر کے انداز پر عباس کو ہنسی آنے لگی

"یار تمہیں بتایا تو تھا ہوٹل میں اِن دنوں کافی رش ہے ٹورسٹ کے ساتھ گیسٹ بھی آئے ہوئے ہیں، کچھ چینجس، کچھ کام بھی کرواۓ ہیں ہوٹل میں اِس لیے روٹین بالکل آؤٹ ہوگیا تھا لیکن اب تمہیں اپ سٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے آج میں ہوٹل کے لیے کافی لیٹ نکلنے والا ہوں"

عباس ہیر کو بتاتا ہوا اُسے بیڈ پر لٹا کر خود اُس پر جھک گیا

"میں آج آپ کو لیٹ بھی نکلنے نہیں دوں گی میں سارا وقت اتنے بڑے محل میں اکیلی رہتی ہوں۔۔۔ آج آپ سارا وقت میرے ساتھ گزاریں گے"

ہیر عباس کا قریب سے چہرہ دیکھتی ہوئی اُس سے بولی

"ایک شرط پر پھر آج ہم دونوں سارا وقت ایک دوسرے کے اتنا ہی قریب رہ کر گزارے گے جتنا اِس وقت قریب ہیں"

عباس کی آنکھوں میں شرارت کی بجاۓ سنجیدگی تھی شاید وہ اب اپنے اور اُس کے رشتے کو سنجیدگی سے گزارنے کے لیے خود کو آمادہ کرچکا تھا، جبکہ عباس کی بات پر ہیر نے اُس کو آنکھیں دکھائی

"ایسا نہیں ہوتا عباس دن رات میں فرق ہوتا ہے اتنے قریب رہ کر آپ نے شرافت کا مظاہرہ تو بالکل بھی نہیں کرنا پیچھے ہٹیں مجھے باتھ لینا ہے اُس کے بعد روم سے باہر بھی نکلنا ہے"

ہیر عباس کا ارادہ جان کر جھینپتی ہوئی بولی

"ایسا کرو تم جان لےلو اپنے شوہر کی"

شادی کو دو ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ اِس طرح جھجھک رہی تھی عباس ہیر کی بات سن کر ناراض ہوتا ہوا بولا تو ہیر نے فوراً عباس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ لیا

"اچھا مجھے تم یہ بتاؤ تمہیں پیار نہیں آتا اپنے شوہر پر"

عباس ہیر پر ہاتھ اپنے ہونٹوں سا ہٹاتا ہوا ہیر سے پوچھنے لگا تو ہیر شرارت میں انکار کرتی نفی میں سر ہلانے لگی جس پر عباس نے ہیر کو آنکھیں دکھائی

"بہت ہی خشک سی اَن رومنیٹک بیوی ملی ہے مجھ کو۔۔۔ سنو ایک کام کی بات، مجھے تم پر بہت پیار آتا ہے اور میں اِس وقت تم سے بہت سارا پیار کرنے کے موڈ میں ہوں"

عباس ہیر کو اپنا ارادہ بتاتا ہوا اس کی گردن پر جھکا۔۔۔ محبت بھرا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے ہیر نے ایک دم عباس کا نام پکارا تو عباس نے اپنی انگلی ہیر کے ہونٹوں پر رکھ دی

"آج تم مجھےمنع کرکے یا کچھ بھی بول کر بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کروں گی"

عباس نے جتنے سیریس انداز میں بولا ہیر بالکل خاموش ہوگئی

کیا سچ میں وہ اُس کی محبت کے لائق تھی، دو مرتبہ دھوکے میں اُس کے ساتھ کوئی دوسرا۔۔۔۔ کیا عباس کو اُس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا یا پھر یہ بات عباس کے لیے معنی نہیں رکھتی تھی کہ پہلے اِس کی بیوی کے ساتھ کوئی دوسرا۔۔۔

"ہیر پلیز اِس طرح سوچوں میں مت چلی جایا کرو یہاں دیکھو میری طرف"

عباس نے ہیر کو کھویا ہوا دیکھا تو وہ ہیر سے بولا ہیر اپنی سوچوں سے نکل کر عباس کو دیکھنے لگی عباس نے ہیر کا چہرا تھام لیا

"ہیر اِس وقت میں چاہتا ہوں تم کوئی دوسری بات مت سوچو۔۔۔ صرف مجھے اپنے شوہر کو اپنے ذہن میں رکھو"

عباس کی بات سن کر ہیر نے اقرار میں سر ہلایا وہ عباس کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی عباس خود کو بھی مسکرا کر اس کے ہونٹوں پر جھکا۔۔۔ آج وہ ہیر کو مکمل طور پر اپنانے کا ارادہ کر بیٹھا تھا ہیر نے بھی وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوۓ اپنا آپ عباس کے حوالے کردیا

آج صبح کا آغاز اُن کے ملاپ کے ساتھ جتنا حسین تھا۔۔۔ کل رات میں انجام اتنا خوفناک نکلے گا یہ اُن دونوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا

***""""***

امامہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس آئی تھی لیکن محلے کی برابر والی رابعہ آنٹی نے اُس کو موبائل پر جو خبر سنائی امامہ گھبرائی ہوئی شاویز کے آفس کے روم میں داخل ہوئی

"ریلیکس امامہ کیا ہوا آپ کو اِس قدر گھبرائی ہوئی کیوں ہیں" 

تیزی سے شاویز کے روم میں آتی ہوئی وہ لڑکھڑا کر گرنے والی تھی اگر شاویز اُس کو تھام نہ لیتا تو برے طریقے سے امامہ کو چوٹ لگتی

"مم۔۔۔ مجھے چھٹی چاہیئے مجھے واپس اپنے گھر جانا ہے سر، گھر میں معلوم نہیں کیسے آگ لگ گئی"

اُمامہ اپنا رونا کنٹرول کرتی ہوئی شاویز کو بتانے لگی

"او گاڈ ایسا کیسے ہوگیا آپ کو کس نے بتایا یہ سب آپ کے گھر میں سب سیو ہیں" 

شاویز خود بھی امامہ کے بات پر اُس کو پریشان دیکھ کر فکرمند سا امامہ سے پوچھنے لگا۔۔۔ امامہ روتی ہوئی خدا کا شکر ادا کرتی اثبات میں سر ہلانے لگی

"اتفاق سے ابو آج صبح ہی چھوٹی بہن کے پاس جانے کے لئے دوسرے شہر روانہ ہوئے تھے جس وقت یہ حادثہ ہوا امی کو محلے والوں نے گھر سے نکال لیا وہ اس وقت اسپتال میں موجود ہیں"

امامہ شاویز کو تمام صورت حال بتاتی ہوئی رونے لگی

"آچھا آپ اِس طرح پریشان مت ہو، آئیے میں آپ کو آپ کی مدر کے پاس لے جاتا ہوں"

اِس وقت شہناس کا سوچ کر امامہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی شاویز کو انکار نہیں کرسکی

جس وقت وہ ہسپتال میں شہناس کے پاس پہنچی شہناس اور امامہ ایک دوسرے کو دیکھ گلے لگتی ہوئی رونے لگیں

"امامہ آپ تو کافی بریو ہیں اس طرح کیوں ری ایکٹ کررہی ہیں شکر ہے آپ کی مدر بالکل ٹھیک ہیں، آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے"

شاویز ان دونوں کو روتا ہوا دیکھ کر بیچ میں مداخلت کرتا بولا

"سب کچھ برباد ہوگیا پورا گھر جل کر راکھ ہوگیا تمہارے ابو کو معلوم ہوگا، وہ تو ویسے ہی دل کے مریض بن گئے ہیں کیسے برداشت کر پائیں گے یہ بری خبر" 

شہناس آگے کا سوچ کر رونے لگی گھر ان کا اپنا نہیں مگر نقصان تو بڑا ہی تھا اس گھر کا سارا سامان فرنیچر دوسرا سازو سامان جل کر برباد ہوگیا تھا

"ابو کو یا ہیر فی الحال کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، ابھی وہ لوگ دور ہیں پریشان ہوگے۔۔۔ میں صائمہ سے بات کرتی ہوں وہ اپنے بھائی سے بول کر جلد کسی دوسرے رینٹ کے گھر کا ارینج کروا دی گی آپ پریشان مت ہو"

امامہ شہناس کے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی اور صائمہ کے موبائل پر کال ملانے لگی تو شاویز بولا

"امامہ پلیز آپ کو کسی چیز کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کسی دوسرے کو کچھ کہنے کی بجائے آپ اِس وقت اپنی مدر کو لے کر میرے ساتھ میرے گھر پر چلیں۔۔۔ پھر بعد میں جو آپ کو مناسب لگے گا آپ ویسا کرلیے گا"

شاویز کی پیشکش پر امامہ خاموشی سے شہناس کو دیکھنے لگی جبکہ شہناس مشکور نگاہوں سے 35 سالہ خوشکل اُس مرد کو دیکھنے لگی جو اِس برے وقت اُن کے لیے فرشتہ بن کر آیا تھا

***""""***

"اُف ہاشم کیا ہوگیا آپ کو یہ شاپنگ مال ہے آپ نے مجھے کو یہ ڈریس ٹراۓ کرنے کو کہا تھا اور خود بھی یہاں آگئے کیا کررہے ہیں آپ پلیز جائیے یہاں سے"

آرزو ہاشم کے کہنے پر ایک ڈریس ٹراۓ کرنے  ڈریسنگ روم میں آئی تھی چند سیکنڈ بعد ہاشم کو اُس چھوٹے سے باکس نما کمرے میں دیکھ کر پریشانی کے عالم میں آہستگی سے بولی

"مجھے پہلے ہی معلوم تھا اس ڈریس میں تم خوبصورت لگنے والے ہو اور سب کے سامنے تو یہ سب نہ کرنے والا نہیں"

ہاشم آرزو کو اپنے بازؤوں میں قید کرکے اُس کے ہونٹوں کو جھکا تو ڈر کے مارے آرذو نے اُس کو پیچھے دھکیلا

"توبہ ہے ہاشم کیا کررہے ہیں پلیز جائیے یہاں سے اِس سے پہلے کوئی آپ کی حرکت دیکھ لے اور یہاں ہماری کمپلین ہوجائے"

آرذو ہاشم کی بڑھتی ہوئی بےقراری کو دیکھ کر بولی ہفتے بھر سے ہاشم کی قربت میں ہاشم نے اُس کو یہی احساس دلایا تھا کہ وہ صرف چاہے جانے کے اور محبت کرنے کے قابل تھی آرذو ساری فکریں ساری پریشانیاں بھلاکر ہاشم کے ساتھ پر خوش تھی۔۔۔ اُن دونوں کو خوش دیکھ کر ایوب خان اور گلنار بھی خوش تھے یوں ہفتے بھر سے اُن لوگوں کی زندگی بےحد سکون سے گزر رہی تھی

"یہ ڈریس بالکل پرفیکٹ ہے جلدی سے باہر آجاؤ میں ویٹ کررہا ہوں"

ہاشم محبت بھری شرارت کرکے ڈریسنگ روم سے باہر نکل چکا تھا جبکہ آرزو سامنے بڑے آئینے میں خود کو دیکھ کر بلش کر گئی

"مطلب کیا ہے تمہارے کہنے کا آگ کیسے لگ گئی تم آنٹی اور انکل اِس وقت کہاں پر ہو۔۔۔ مجھے بتاؤ میں اور آرزو تھوڑی دیر میں پہنچتے ہیں تم لوگوں کے پاس"

اپنی سالی امامہ کی موبائل پر آنے والی کال سن کر ہاشم ان لوگوں کے لیے فکر کرتا امامہ سے پوچھنے لگا

"ابو تو ہیر سے ملنے کے لئے آج صبح ہی گلگت کے لئے روانہ ہوچکے تھے۔۔۔ اُن کو طبیعت خرابی کی وجہ سے ابھی کچھ بھی نہیں بتایا۔۔۔ ہم دونوں ٹھیک ہیں ویسے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے آپ کو جیسے مناسب لگے آپ ویسے آرذو کو بتادیئے گا، میں اور امی جہاں پر موجود ہے میں آپ کو وہاں کا ایڈریس سینڈ کردیتی ہوں"

امامہ اِس وقت شہناس کے ساتھ شاویز کے گھر پر موجود تھی شہناس کے کہنے پر ہی اس نے ساری صورتحال ہاشم کو بتائی تھی

"اوکے تم مجھے ایڈریس سینڈ کرو اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں بس تھوڑی دیر میں آرزو کو لے کر پہنچ رہا ہوں"

ہاشم بوتیک سے باہر کھڑا امامہ سے موبائل پر کہنے لگا

"کس سے بات کررہے ہیں، ابھی کچھ کھانے سے پہلے تو میں کہیں بھی جانے والی نہیں ہوں مجھے بہت سخت بھوک لگ رہی ہے"

آرزو کے بولنے پر ہاشم نے پلٹ کر اُس کو دیکھا

"اوکے چلو پہلے کچھ کھالیتے ہیں"

ہاشم اپنے تاثرات نارمل کرتا ہوا آرزو سے بولا ویسے بھی جو خبر اُس کے پاس آرزو کے لیے موجود تھی اُسے سن کر آرزو کی بھوگ مر جاتی اِس سے بہتر یہی تھا کہ آرذو پہلے کچھ کھالیتی

"ہاشم ایک بات تو بتائیے جب صبح دا جی مجھے دعائیں دیتے ہیں تو آپ میری طرف دیکھ کر مسکراتے کیوں ہیں"

فوڈ کورٹ میں بیٹھی ہوئی آرزو ہاشم سے سوال کرنے لگی جس پر ہاشم اِس وقت بھی مسکرا دیا

"تمہیں اُن دعاؤں کا پس منظر سمجھ نہیں آیا ابھی تک"

ہاشم مسکراتا ہوا آرذو سے پوچھنے لگا

"کیسا پس منظر"

آرذو کنفیوژ ہوکر ہاشم سے پوچھنے لگی

"میری عقلمند بیوی دا جی اور ماں جی دونوں ہی انتظار میں ہیں کہ کب تم اُن دونوں کو گڈ نیوز سنادو وہ والی"

ہاشم نے آرذو کو سمجھانے کے ساتھ دو بیٹھے کپل کی طرف اشارہ بھی کیا جس کی ٹیبل پر موجود کی کیری کارڈ میں نومولود بچہ موجود تھا، اشارہ اس لیے کیا تھا تاکہ آرذو گڈ نیوز کا مطلب اچھی طرح سمجھ جائے

"اُف سیریس ہاشم۔۔۔ دا جی اور ماں جی ایسا اتنی جلدی چاہتے ہیں"

آرزو نومولود بچے کو دیکھ کر بلش کرتی پوچھنے لگی

"صرف دا جی اور ماں جی ہی نہیں بلکہ تمہارا شوہر بھی ایسا ہی چاہتا ہے"

ہاشم آنکھوں میں محبت سماۓ آرزو کو دیکھ کر بولا تو آرزو پلکے جھکا گئی اُس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا

"اچھا شرمانہ بعد میں پہلے مینیو کارڈ دیکھو کیا لینا ہے پھر ہم دونوں کو ایک جگہ اور بھی جانا ہے"

ہاشم آرذو کے شرمانے پر اُس سے بولا

"آپ آرڈر کریں میں فریش ہوکر آتی ہوں تھوڑی دیر میں"

آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی کرسی سے اٹھ کر واش روم والے پورشن میں جانے لگی

***""""***

خالی شاپس جو (Toilet) کے راستے میں آتی تھیں اچانک وہاں سے کوئی لڑکا نمودار ہوا جس نے آرذو کو بازو سے پکڑ کر تیزی سے شاپ کے اندر کھینچا۔۔۔ منہ بند ہوجانے کی وجہ سے آرذو چیخ بھی نہ پائی

"شور مت مچانا پلیز یہ میں ہوں تبریز"

تبریز آرذو کے ہونٹوں سے اپنا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا ساتھ ہی اس نے شاپ کی لائٹ کھول دی۔۔۔ آرذو تبریز کو سامنے دیکھ کر پہلے تو ڈر گئی پھر ہمت کرتی ہوئی بولی

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ زلیل حرکت کرنے کی تمہیں میں نے فون پر بھی سمجھایا تھا کہ میرا پیچھا چھوڑ دو میں اب شادی شدہ ہو تمہیں میری بات سمجھ میں نہیں آتی"

آرذو تبریز کو دیکھ کر غصّہ کرتی ہوئی بولی

"ہاں نہیں سمجھ میں آتی تمہاری بات نہ ہی مجھے اِس بات کو سمجھنا ہے کہ اب تم میری نہیں کسی اور کی ہو۔۔۔ چاہے تو ہزار مرتبہ تمہارا شوہر مجھے اریسٹ کروا دے۔۔۔۔ آرزو بات تمہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ تم کسی دوسرے کی بیوی ہو محبت کرتا ہوں میں تم سے۔۔۔ دور جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔ تمہارے بغیر جی نہیں سکتا"

تبریز نے بولتے ہوئے آرزو کو بازو سے تھامنا چاہا تو آرذو اُس کا ارادہ بھانپ کر تبریز کو دور دھکیل چکی تھی

"اپنی حد میں رہو تبریز اور میری بات کان کھول کے سن لو ہاشم سے شادی ہونے کے بعد میرا تم سے اب کوئی تعلق نہیں ہے میں ہاشم کی بیوی ہوں انہی سے محبت کرتی ہو۔۔۔ تمہاری بھلائی اِسی میں ہے کہ میرا خیال اپنے دل سے نکال دو"

آرزو تبریز کو اچھی طرح باور کرواتی ہوئی بولی اور شاپ سے باہر جانے لگی۔۔۔ وہ اِس قدر ڈھیٹ تھا کہ پولیس کے ڈنڈے کھانے کے باوجود اُس کو عقل نہیں آئی تھی

"پیسے والے شوہر کو دیکھ کر بھلے تمہاری محبت مجھ سے ختم ہوگئی ہو لیکن لوٹ کر تمہیں میرے پاس آنا ہے، اور ایسا بہت جلد ہوگا"

تبریز اس کو جاتا ہوا دیکھ کر بولا آرذو بناء اُس کی بات کو سنجیدہ لیے شاپ سے باہر نکل گئی

***""***

"اَبُو آپ کو یقین کیوں نہیں آرہا ہے میں بہت خوش ہوں عباس بہت اچھے انسان ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں"

شام میں صدیقی کا ہیر کے پاس پہنچنا ہوا تھا تب سے تیسری مرتبہ وہ ہیر کو دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگا

"تمہارے چہرے پر نہ ہی پہلے جیسی رونق ہے نہ ہی تمہاری صحت پہلی جیسی رہی ہے"

صدیقی آرزو کو دیکھ کر بولا جیسے وہ اُس کی بات پر مطمئن نہیں تھا رات کے کھانے کی ٹیبل پر صرف وہ دونوں ہی موجود تھے

"پچھلے دنوں تھوڑی بیمار ہوگئی تھی اِس لیے آپ کو ویک لگ رہی ہوگیں آپ کھانا تو سہی سے کھائیے"

اب وہ اپنے ابو کو کیا بتاتی کہ پچھلے دنوں اُس کے ساتھ یہاں پر کیا کیا ہوچکا ہے صدیقی کا دھیان اپنی جانب سے ہٹانے کے لیے ہیر خود ہی صدیقی کی پلیٹ میں چاول نکالنے لگی

"اتنے بڑے محل نما گھر میں تم اکیلی رہتی ہو یہاں کوئی نوکر چاکر نہیں ہے شیر عباس بھی نہیں دکھائی نہیں دے رہا" 

صدیقی کھانا کھانے کے ساتھ ہیر سے پوچھنے لگا وہ شام میں یہاں پہنچا تھا تب سے اس نے اِس جگہ پر ہیر کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں دیکھا تھا جتنا بڑا یہ محل تھا اتنا ہی وحشت ذدہ معلوم ہوتا تھا

"ملازم تو سارے آپ کو اب صبح ہی یہاں پر نظر آئیں گے، شام تک سب کام ختم کرکے یہاں سے چلے جاتے ہیں۔۔۔ ہاں فرغب بی یہی پر موجود ہوتی ہیں لیکن آج وہ نظر نہیں آرہی ہیں، نہ جانے کہاں چلی گئی ہیں اور عباس اِن دنوں کافی مصروف ہیں اُن کا ہوٹل سے لیٹ ہی واپس آنا ہوتا ہے"

ہیر خود بھی کھانا کھاتی ہوئی صدیقی کو بتانے لگی اُس نے آج صبح ہی عباس کو بتایا تھا کہ اُس کے ابو شام تک یہاں پہنچنے والے ہیں اور یہ بھی کہ وہ آج جلدی ہوٹل سے آجائے، جتنی بےدلی سے عباس نے اُس کی بات سنی تھی ہیر کو یہی امید تھی عباس کا روز کی طرح آج بھی لیٹ آنے کا ہی پروگرام ہوگا۔۔۔۔ ہاں فرغب بی کہاں تھی وہ اسے کیوں نہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ہیر اِس بات سے لاعلم تھی۔۔۔ جب سے وہ یہاں آئی تھی اُس نے فرغب بی کو ہمیشہ ہی اِس پیلس میں موجود پایا تھا

"لگتا ہے شہناس کی کال آرہی ہے میں تمہاری امی کو بتادو کہ خیریت سے پہنچ گیا ہوں تم لوگوں کے پاس"

صدیقی اپنا کھانا ختم کرکے اپنے جیب سے بجتا ہوا موبائل نکالنے کے ساتھ بولا

"ابو یہاں سگنلز تھوڑا مسلہ کرتے ہیں آپ باہر لان میں جاکر اَمّی سے بات کرلیں" 

ہیر صدیقی سے بولی تو وہ موبائل باہر لے گیا۔۔۔ہیر ٹیبل پر سے برتن سمیٹنے لگی فرحانہ صبح ہی آکر اِن برتنوں کو دھولیتی

***"""'***

شہناس اور امامہ سے بات کرکے وہ ہیر کے بتائے ہوئے کمرے میں آرام کرنے کے غرض سے آگیا۔۔۔ ہیر سے باتیں کرتے کرتے سفر کی تھکان کی وجہ سے کب صدیقی کی آنکھ لگی صدیقی کو معلوم نہیں ہوا۔۔۔ نہ جانے اِس وقت کتنے بجے تھے جب اُس کی آنکھ کسی کے رونے کی آواز پر کُھلی۔۔۔

"ہیر"

پہلا خیال صدیقی کو ہیر کا ہی آیا وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکلا۔۔۔ رونے کی آواز اور بھی واضح ہونے لگی لیکن یہ آواز ہیر کے کمرے سے نہیں مختلف سمت سے آرہی تھی

اتنی سنسان جگہ وحشت پھیلا دینے والا ماحول صدیقی کو گھبراہٹ سی ہونے لگی لیکن تجسس ایسی چیز ہے جو انسان کو وہ کرنے پر مجبور کردیتا ہے جس میں رسک شامل ہو۔۔۔ تجسس کے ہاتھوں صدیقی اُس آواز کا پیچھا کرتا ہوا راہداری میں موجود اُسی کمرے میں چلا گیا

"کون ہے بھائی یہاں پر"

وہ خالی کمرے کو دیکھ کر بلند آواز میں بولا باریک قہقہے کی آواز صدیقی کے کانوں سے ٹکرائی تو صدیقی سرخ بتی میں سامنے دیوار پر موجود آئینے کو دیکھتا ہوا اُس کے پاس آکر کھڑا ہوگیا

"کیا اِس وقت یہاں پر کوئی ہے"

صدیقی اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر ایک مرتبہ پھر بولا اور آئینے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا

"یہ کیا ماجرہ ہے مجھے واپس جانا چاہیے یا پھر اِن سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دیکھنا چاہیے"

خفیہ راستہ دیکھ کر صدیقی عجیب کشمکش میں مبتلا ہوچکا تھا اگر اُس کا داماد اُس کو ایسے اپنے گھر میں بےتکلف گھومتا پھرتا دیکھتا تو یقیناً اُس کے بارے میں عجیب ہی سوچنا

لیکن اس طرح اُس کے داماد کی رہائش گاہ پر خفیہ جگہ کا ہونا اور یوں آوازوں کا آنا۔۔۔ عباس کے کردار کو بھی کافی مشکوک کرچکا تھا صدیقی خدا کا نام لے کر سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا نیچے بڑا سب بیسمینٹ کسی کمرے کی طرح سے سجا ہوا تھا صدیقی چاروں طرف نظریں دوڑاتا ہوا بیڈ کے پاس آیا۔۔۔ اس سے پہلے صدیقی بلند آواز میں کسی کو مخاطب کرتا ہے اچانک بیڈ کے نیچے سے دو ہاتھ برآمد ہوئے اور صدیقی کی ٹانگوں کو پکڑ کر اُسے اپنی جانب کھینچنے لگے 

دہشت ناک چیخ صدیقی کے حلق سے نکلی۔۔۔۔ چھپکلی اور انسان جیسی عجیب سی مخلوق جس کے منہ سے مسلسل رال ٹپک رہی تھی وہ صدیقی کے پکڑے ہوۓ پاؤں چھوڑ کر بیڈ کے نیچے سے نکل رہی تھی۔۔۔ صدیقی خوف کے مارے پھٹی آنکھوں سے اُس مخلوق کو دیکھ کر ڈر کے مارے سیڑھیوں کی جانب بھاگا

اپنی پشت سے آتی باریک چیخ کی آوازیں صدیقی کو مزید دہشت میں مبتلا کر گئی وہ سڑھیوں سے اوپر پہنچ کر خوف سے اتنا حواس باختہ ہوچکا تھا کہ اپنے کمرے میں جانے کی بجائے بھاگتا ہوا ہیر پیلس کے احاطے سے باہر نکل گیا جہاں اُس کی ٹکر انسانی وجود سے ہوئی وہ کوئی اور نہیں بلکہ اُس کا داماد شیر عباس تھا

"وہ وہاں نیچے تہہ خانے میں کوئی بہت بھیانک سی چیز ہے مار دے گی وہ مجھے مار ڈالے گی"

صدیقی ڈر کے مارے خوف سے عباس کے سامنے بولتا ہوا رکا نہیں بھاگتا ہوا جنگل کی سمت نکل گیا

"سر میں جاتا ہوں کہ اُس آدمی کے پیچھے وہ جنگل کی طرف گیا ہے اندھیرے میں وہاں جانا اُس کے لیے خطرہ ناک ہے"

ایبک جو کہ عباس کے ساتھ ابھی ہوٹل سے واپس لوٹا تھا عباس کو مخاطب کرتا ہوا اُس سے بولا

"نہیں اُس کو میں دیکھ لیتا ہوں تم بیسمینٹ میں جا کر دیکھو کچھ گڑ بڑ تو نہیں، تمام معاملات سیٹ ہیں"

عباس ایبک سے بولتا ہوا صدیقی کے پیچھے غذر کے جنگل میں نکل گیا۔۔۔۔ صدیقی جو کہ خوف میں مبتلا ڈر کے مارے اندھیرے میں سنسان جنگل میں بھاگے جارہا تھا وہ اونچائی پر چڑھنے لگا 

پتھریلی چٹان سے جیسے ہی اُس کا پاؤں پھسلا، دلخراش چیخ صدیقی کے منہ سے گونج کر غذر کے جنگل میں پھیل گئی۔۔۔ اُس نے درخت کے ایک موٹے سے تنے کو پکڑ کر نیچے گہری کھائی میں خود کو گرنے سے بچالیا

"شیر عباس۔۔۔ یہ تم ہو ناں شیر عباس۔۔۔۔ بیٹا مجھے اوپر کھینچو مجھے بچالو" 

اندھیرے میں صدیقی کو یہی گمان گزرا کہ اُس بڑی چٹان کے اوپر والے حصّے کھڑا اُس کا داماد شیر عباس ہی تھا صدیقی اپنے لیے شیر عباس سے مدد مانگنے لگا

"اگر آج تمہیں بچالیا تو خود کو زندگی بھر معاف نہیں کر پاؤں گا"

عباس چٹان سے بھی زیادہ سخت اور پتھریلے لہجے میں صدیقی کو دیکھتا ہوا بولا جو تنے کو پکڑا ہوا اُس کے رحم و کرم پر ابھی تک بچا ہوا تھا۔۔۔ صدیقی کا ہاتھ جیسے ہی اُس درخت کے تنے کو چھوڑتا وہ سیدھا نیچے گہری کھائی میں جاتا

"یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹا، میں ہیر کا باپ ہوں۔۔۔ میرا تم سے قریبی رشتہ ہے" صدیقی موت کو اتنا قریب دیکھ کر عباس کو اُس سے اپنا رشتہ یاد دلانے لگا

"یہ رشتہ تو ہمارے درمیان ابھی قائم ہوا ہے تمہارا مجھ سے ایک اور قریبی رشتہ جڑا تھا یہی کوئی بیس سال پہلے یاد کرو"

عباس چٹان پر پنجو تلے بیٹھتا ہوا تھوڑا سا جھک کر صدیقی سے بولا

"بیس سال پہلے۔۔۔ آبی،، تم ابی ہو۔۔ ہیر کے۔۔۔۔

صدیقی پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، وہی درخت کا تنا صدیقی کے وزن سے ہلنے لگا

"آبی مجھے بچالو خدا کا واسطہ ہے تمہیں، میں بہت شرمندہ ہوں میں ہیر کا مجرم ہوں مجھے معاف آہہہہہہہ"

صدیقی عباس سے بولتا ہوا درخت کا تنا ٹوٹنے کی وجہ سے کھائی میں گرتا چلا گیا۔۔۔ عباس اپنے دل میں رحم دلی یا ہمدردی کی بجائے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ لئے اُس انسان کا انجام دیکھنے لگا جس سے بدلہ لینا اُس کی زندگی کا اولین مقصد تھا جو آج تمام ہوا

"یا میرے اللہ ہیر پیلس کا آسیب کوئی اور دوسرا نہیں بلکہ خود شیر عباس صاحب ہیں جو انسانوں کی جان لیتے ہیں۔۔۔ توبہ توبہ"

جو منظر اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ اُس نے دور سے ہی اپنے پاس موجود کیمرے میں محفوظ کرلیا۔۔۔ رات کے وقت اِس جنگل میں رکنا اُس کے لیے بھی خطرے سے خالی نہیں تھا وہ وجود سوچتا ہوا تیزی سے قدم اٹھائے جنگل سے باہر نکل کر آبادی کی طرف جانے لگا

***"""***

جانے پہچانے لمس پر ہیر کا سویا ہوا ذہن آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگا۔۔۔ انگلیوں کا لمس جو تھوڑی دیر پہلے اُس کے چہرے کے نقوش کو چھورہا تھا اب وہی لمس اُس کی پنڈلیوں کو چھوتا ہوا تھائیس سے اوپر آنے لگا تو ہیر نیند سے لبریز آنکھوں کو کھول کر اپنے قدموں کے پاس بیٹھے شیر عباس کو دیکھ کر ڈر گئی

"اُف عباس آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا اِس وقت"

ہیر بیڈ سے اٹھ کر عباس کو غور سے دیکھتی ہوئی بولی ایک پل کے لئے اسے ہیر پیلس میں گزری تھی اپنی پہلی رات یاد آگئی

"آج مقصد ڈرانا نہیں تھا، یوں کنفیوژ ہوکر مت دیکھو مجھے۔۔۔ میں تمہارا شوہر ہوں کوئی جن یا آسیب نہیں"

عباس نے ہیر سے کہتے ہوۓ اسے اپنی جانب کھینچ کر بانہوں میں بھر لیا۔۔۔ ہیر اپنے شانے پر عباس کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔ جہاں ہیر کو آج ایک الگ ہی قسم کا اطمینان دکھائی دے رہا تھا

"آج کافی ریلکس لگ رہے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے"

ہیر عباس کا چہرہ غور سے دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگی ہیر کی بات پر عباس گہری مسکراہٹ کے ساتھ ہیر کو دیکھتا ہوا بیڈ پر دراز ہوگیا

"آہستہ آہستہ چہرہ پڑھنے کا فن آرہا ہے تمہیں میری جان، آج سچ میں بہت بڑا کام سر انجام دیا ہے بالکل صحیح پہچانا۔۔۔ آج میرا دل اندر سے پُرسکون ہوچکا ہے۔۔۔ ایک الگ ہی قسم کا اطمینان محسوس کررہا ہوں میں۔۔۔ بہت خوش ہے تمہارا شوہر آج"

عباس بیڈ پر لیٹا ہوا ہیر کو دیکھ کر بولا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے ہیر کو اپنے پاس بلانے لگا۔۔۔ ہیر عباس کے بلانے پر اس کے پاس آتی آپ سر عباس کے سینے پر رکھ کر لیٹ گئی

"آخر ایسا کونسا کام ہے جس کو انجام دینے کے بعد آپ اتنے پرسکون ہیں۔۔۔ کیا اپنی خوشی مجھ سے شیئر نہیں کریں گے"

ہیر عباس کے سینے پر سر رکھے اُس سے پوچھنے لگی تو عباس نے ہیر کے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر اُس کا چہرہ اپنے سامنے کیا

"نہیں کرسکتا میری جان کیوکہ میں تمہیں ڈرانا نہیں چاہتا نہ ہی تمہیں خود سے دور کرنا چاہتا ہوں"

عباس ہیر کا چہرہ دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں بولا تو ہیر عجیب نظروں سے عباس کو دیکھنے لگی

"کبھی کبھی بہت عجیب سی باتیں کرتے ہیں آپ جو مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آتی"

ہیر عباس کو دیکھ کر الجھتی ہوئی بولی تو عباس ہیر کو کمر سے پکڑ کر بیڈ پر لٹاتا ہوا ہیر کے اوپر جھکا

"اس وقت کوئی دوسری بات سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بس اتنا جان لو کہ میں تمہیں پیار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ مجھے جشن منانے دو اپنی خوشی کا اُس ٹھنڈک کو تم بھی محسوس کرو جو میں اپنے دل میں اترتی ہوئی محسوس کررہا ہوں"

عباس خمار بھری آواز میں بولتا ہوا ہیر کی گردن پر جھکا تو ہیر عباس کا لمس اپنی گردن پر محسوس کرکے تھوڑا کسمسائی

"کم سے کم آج تو آپ کو ہوٹل سے جلدی آنا چاہیے تھا اَبُو آپ کا انتظار کرتے کرتے سوگئے، اب صبح پلیز اُن سے مل کر ہوٹل جائے گا میری خاطر۔۔۔ عباس آپ سن رہے ہیں ناں میری بات"

ہیر عباس کو دونوں شانوں سے تھام کر پیچھے کرتی ہوئی پوچھنے لگی

"اف کورس میری جان میں تمہارے ابو سے ضرور ملنا پسند کروں گا، اگر تم چاہ رہی ہو تو ابھی مل لیتا ہوں اُن سے جاکر"

عباس ہیر  کی بات پر بولتا ہوا اٹھنے لگا تبھی ہیر نے عباس کو بازو سے پکڑلیا

"ابھی وہ سکون کی نیند سوچکے ہیں ڈسٹرب ہو جائیں گے"

ہیر صدیقی کی فکر کرتی ہوئی بولی تو پُر اسرار سی مسکراہٹ عباس کے لبوں کو چھو گئی

"بالکل ٹھیک کہا تم نے پُرسکون انسان کو گہری نیند سے جگانا کوئی اچھی بات نہیں۔۔۔ جیسے شوہر کا رومانٹک موڈ برباد کرنا کوئی اچھی بات نہیں"

عباس ہیر کو جتاتا ہوا بولا تو ہیر کو خاموش ہونا پڑا تھوڑی دیر بعد وہ ہیر کو اپنی جانب مکمل طور پر مائل کرکے خود بھی اُس کی ذات میں کھو چکا تھا

***"""***

"اَمّی آپ نے مجھے آفس کے لیے جگایا کیوں نہیں، کتنی دیر ہوچکی ہے"

امامہ کی نیند سے آنکھ تو وہ شہناس سے پوچھنے لگی جو پہلے سے ہی جاگی ہوئی تھی

"شاویز منع کرکے گیا تھا بول رہا تھا کہ تمہیں کہہ دو، دو چار دن آفس آنے کی ضرورت نہیں"

شہناس امامہ کو بیدار دیکھ کر بتانے لگی تو امامہ شاویز کے نام پر پورے کمرے کا جائزہ لینے لگی یہ شاویز کا ہی تو گھر تھا جہاں پر وہ اور شہناس کل سے قیام پذیر تھے

"شاویز سر کا یہی احسان بہت ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں ہمیں جگہ دی، آفس سے بھی آف کرلینا ٹھیک نہیں ہے میں آفس جارہی ہوں"

امامہ شہناس کو دیکھ کر اپنا ارادہ بتاتی ہوئی بیڈ سے اٹھنے لگی تو اُسے شہناس نے روکا

"اگر اس نے منع کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی تمہیں آفس نہ آنے کا بولا ہوگا کیوں اُس کی بات کی نفی کررہی ہو کہیں وہ برا ہی نہ مان جائے"

شہناس کے روکنے پر امامہ اُسے دیکھنے لگی

"شاویز سر کے گھر پر رہ کر اُن کا احسان لینے سے بہتر ہے کل ہم ہاشم بھائی کے ساتھ اُن کے کہنے پر اُن کے گھر چلتے، کتنا اصرار کررہے تھے وہ بار بار آپ کو کہ آپ اُن کے ساتھ چلیں لیکن معلوم نہیں کیوں آپ کو یہاں رکنے میں زیادہ دلچسپی ہے"

امامہ کو یہاں رکنے میں ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ شہناس سے بولی۔۔۔ رات میں ہاشم اور آرزو کا یہاں آنا ہوا تھا۔۔۔ ہاشم نے شہناس سے بہت زیادہ اصرار کیا کہ وہ اور امامہ اُس کے ساتھ اُس کے گھر چلے مگر شہناس نے ہاشم کو سہولت سے انکار کردیا

"مجھے تمہارے باس کے گھر رکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن سچ پوچھو تو یہ لڑکا مجھے پہلی نظر میں ہی بہت اخلاق والا لگا کیسے ہم دونوں کو پریشان دیکھ کر فوراً اپنے گھر لے آیا۔۔۔ ویسے تو ہاشم نے بھی اخلاقی تقاضہ نبھاتے ہوئے ہمیں اپنے ساتھ چلنے پر کافی اصرار کیا مگر وہ آرذو کا سسرال ہے اور ہاشم کی پہلی بیوی۔۔۔ اللہ معاف کرے اُس کی زبان سے تو"

شہناس ماہ نور کا تصور کرکے کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئی بولی۔۔۔ شہناس کی بات پر امامہ خاموش ہوگئی تو شہناس دوبارہ بولی

"بس تمہارے اَبُو کے واپس آنے کا انتظار ہے وہ آکر خود ہی کہیں ہمارے رہنے کا انتظام کرلیں گے"

شہناس کی بات سن کر امامہ اب کی بار حیرت سے شہناس کو دیکھتی ہوئی بولی

"آپ کا مطلب ہے ہم تین چار دن تک یہی پر رہیں گے، امّی کیا ہوگیا آپ کو۔۔۔ ہاشم بھائی داماد سہی مگر وہ اپنے ہیں اور شاویز سر سے تو ہمارا کوئی رشتہ بھی نہیں ایسے کیسے ہم دونوں یہاں رک سکتے ہیں"

اُمامہ شہناس کو سمجھاتی ہوئی بولی۔۔۔ وہ جانتی تھی شہناس آرزو کے  سُسرال میں اِس لیے بھی نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ شادی کے شروع دنوں میں ہاشم کا رویہ اُن لوگوں سے بےحد کھنچا کھنچا سا تھا۔۔۔ مگر یہاں شاویز کے گھر رہ کر اُمامہ کو عجیب لگ رہا تھا

"آج صبح ہی آفس جانے سے پہلے شاویز مجھے بول کر گیا ہے کہ میں اُسے اپنا بیٹا سمجھو اور جب تک گھر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوجاتا۔۔۔ بناء کسی ٹنشن کے یہی رہو۔۔۔ ویسے یہ شاویز کی بیوی کہاں پر ہے"

شہناس شاویز کی بات بتاکر امامہ سے اُس کی بیوی کے بارے میں پوچھنے لگی کیوکہ اُس نے کل شاویز کی تین سالہ بیٹی وانیہ تو دیکھی تھی مگر اُس کی بیوی نہیں دکھائی دی تھی

"ڈیتھ ہوچکی ہے اُن کی وائف کی وانیہ کی پیدائش پر۔۔۔ میں ذرا فریش ہوکر ابو کو کال کرتی ہو تاکہ وہ اپنے آنے کا پروگرام تو بتائے"

امامہ شہناس سے بولتی ہوئی بستر سے اٹھی۔۔۔ صدیقی کے بعد  اُس کا ارادہ صائمہ سے بات کرنے کا تھا تاکہ صائمہ اُسے بتاسکے کہ گھر کا کوئی انتظام ہوا کہ نہیں

***""""***

صبح سویرے آرذو کی آنکھ کھلی تو وہ روز کی طرح خود کو ہشاش بشاش محسوس نہیں کررہی تھی۔۔۔ بلکہ کل والے حادثے سے شہناس اور امامہ کی طرح اُس کا ذہن بھی کافی پریشان تھا۔۔۔ پھر اُس کی سوچ تبریز کی طرف چلی گئی تو آرزو مزید پریشان ہوگئی۔۔۔ تبریز کی کل والی حرکت غصّہ کرنے لائق تھی اِس کے باوجود اُس نے تبریز کی حرکت ہاشم کو نہیں بتائی تھی کیونکہ ہاشم کل اسے شہناس اور امامہ کے پاس لے گیا تھا ان دونوں سے ساری صوورت الحال جان کر وہ اپنی ٹینشن بھول گئی

اس وقت بیڈ پر لیٹی ہوئی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی تبھی برابر میں سویا ہوا ہاشم نیند سے بیدار ہوا۔۔۔ آرذو کو یوں گم سم لیٹا ہوا دیکھ کر ہاشم اُس کے قریب آکر اپنی کہنی آرزو کے تکیے پر ٹکائے ذرا سا اٹھ کر آرزو کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا

"یوں صبح سویرے گم سم کیا سوچا جارہا ہے"

ہاشم کو اپنے قریب دیکھ کر آرزو اپنی سوچوں سے باہر نکلی

"امی اور آپی کے لیے پریشان ہوں معلوم نہیں وہ کسی دوسرے کے گھر میں کس طرح ایڈجسٹ کررہی ہوگیں"

تبریز کی سوچ رفع دفعہ کرتی آرذو ہاشم سے بولی

"کتنا زیادہ تو بولا تھا کل آنٹی کو وہاں رہنے سے بہتر ہے یہاں آجائیں ہمارے پاس۔۔۔ معلوم نہیں کیا سوچ کر وہ نہیں مانی، خیر تم پریشان مت ہو میں اپنے دوست سے بولتا ہوں کہیں رینٹ پر دیکھ کر بتادے کوئی گھر"

ہاشم آرذو کو فکرمند دیکھ کر اُس کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا لیکن رینٹ کا گھر اُن لوگوں کے لئے ڈھونڈنے میں اُسے کوئی خاص دلچسپی اِس لیے نہیں تھی کیوکہ وہ کل اپنی ساس کو کئی مرتبہ اپنے ساتھ چلنے کا کہہ چکا تھا مگر وہ کسی طرح راضی نہیں تھی۔۔۔ جب وہ اُس کے ساتھ چلنے پر راضی نہیں تھی تو اُس کے ڈھونڈے ہوئے گھر میں کیوں رہتیں صدیقی صاحب یہاں پہنچ کر خود اپنا مسئلہ حل کرلیتے تو یہی بہتر تھا

"اے اٹھ کر کہاں جارہی ہو"

آرزو کو بیڈ سے اٹھتا ہوا دیکھ کر ہاشم اُس کا ہاتھ پکڑتا ہوا تو اُس سے پوچھنے لگا

"آفس جانے کے لیے تیار نہیں ہونا آپ کو"

آرذو ہاشم کو دیکھتی ہوئی حیرت سے پوچھنے لگی جس پر ہاشم نے ایسی نظروں سے آرزو کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا، جس پر آرزو ہاشم کو گھور کر دیکھتی ہوئی بولی

"تو پھر آپ ایسا کریں آج سارا دن اپنے کمرے میں یونہی لیٹے لیٹے آرام فرمائیں کیونکہ میں تو کمرے سے باہر جارہی ہوں"

آرذو اُس کا بدلتا ہوا موڈ دیکھ کر شرارتاً بولتی ہوئی دوبارہ بیڈ سے اٹھنے لگی۔۔۔ ہاشم اس کو دوبارہ بیڈ پر لٹاکر اب کی بار اُس کے چہرے پر جھکا

"اگر تم ہی کمرے سے باہر چلی گئی تو پھر میرے اکیلے کمرے میں رہنے کا کیا فائدہ"

وہ آرزو کے قریب اپنا چہرا لاکر رومانٹک موڈ میں کہنے لگا

"اچھا اور کمرے میں آپ کے پاس رہنے سے میرا کیا فائدہ"

آرذو اپنی مسکراہٹ چھپاکر انجان بنی ہاشم سے پوچھنے لگی

"وہ فائدہ ابھی نہیں نو ماہ بعد پتہ چلے گا"

ہاشم سنجیدگی سے بولتا ہوا آرزو کے چہرے پر جھکا ویسے ہی کمرے کا دروازہ کھلا

"یہ کیا بدتمیزی ہے ایسے کمرے میں کون آتا ہے" 

ہاشم ناگواری سے بولتا ہوا بیڈ سے اٹھا مگر کمرے کے اندر آنے والی ہستی کو دیکھ کر ہاشم اور آرذو دونوں ہی خاموش ہوگئے۔۔۔ ماہ نور کو دیکھ کر صحیح معنوں میں آرذو کی ہوائیاں اُڑنے لگیں اور ماہ نور بھی ہاشم کے ساتھ آرزو کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے شاکڈ ہوئی تھی

"اوہو تو یہاں فل موڈ آن ہے تمہارا۔۔۔ میں تمہیں سرپرائز کرنے اچانک یہاں چلی آئی تھی لیکن اِس لڑکی کو تمہاری بیوی کی صورت دیکھ کر تو میں خود سرپرائز ہوگئی۔۔۔ اب بھی انکار کرو گے کہ تمہارا اِس سے پہلے سے کوئی افیئر نہیں تھا"

ماہ نور ہاشم کے سامنے آتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی۔۔۔ وہ آج صبح ہی دبئی سے واپس آئی تھی۔۔۔ ہاشم کی دوسری بیوی کو دیکھنے وہ یہاں پہنچی مگر وہی فلیٹ والی لڑکی کو دیکھ کر ماہ نور کو بری طرح مرچیں لگی تھی

"تم ایسا کیوں سمجھتی ہو کہ میں تمہیں کوئی وضاحت دو گا تمہیں جو سمجھنا ہے تم سمجھو، اور جو کرنا ہے وہ کرو"

ہاشم ماہ نور کو دیکھتا ہوا اس سے بولا اگر وہ سارے اتفاقات ماہ نور کو سمجھانے بیٹھتا تب بھی ماہ نور وہی سوچتی اور سمجھتی جو اُس کے ذہن میں پہلے سے چل رہا تھا، تو پھر ہاشم کو کیا ضرورت تھی اپنی انرجی ویسٹ کرنے کی

"سمجھ تو میں تمہیں اور تمہاری اِس تھرڈ کلاس بیوی کو اچھی طرح گئی ہوں۔۔۔ اور اب میں جو کروں گی اُس کا تم دونوں ویٹ کرو"

ماہ نور ہاشم کو دھمکی بھرے انداز میں جبکہ اُس کے ساتھ کھڑی آرزو کو زہر بھری نگاہوں سے گھور کر وہاں سے چلی گئی

"ہاشم اب کیا ہوگا"

ماہ نور کے کمرے سے جانے کے بعد آرزو پریشان ہوکر ہاشم سے پوچھنے لگی

"ٹینشن نہیں لو وہ کچھ نہیں کرسکتی"

ہاشم آرزو کو ریلکس کرتا ہوا واشروم چلا گیا جبکہ آرذو ماہ نور کا سوچ کر اور بھی زیادہ پریشان ہوگئی۔۔۔ صرف تبریز ہی تو اُس کی زندگی میں مصیبت نہیں تھا۔۔۔ یہ لڑکی ہاشم کی پہلی بیوی بھی تو کسی مصیبت سے کم نہ تھی

***""""***

"ہیر نہیں۔۔۔ پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ میں کیسے رہ پاؤں گا تمہارے بغیر"

روتی چیختی اُس کی فریاد پر آج غذر کا جنگل بھی اُس کے ساتھ رو رہا تھا۔۔۔ ہیر کی ڈیڈ باڈی کو جب ہیر پیلس میں لایا گیا تب وہ سفید کفن میں ہیر کی ڈیڈ باڈی کو دیکھ نہیں پایا تھا، وہ بھاگتا ہوا جنگل کی طرف نکل گیا تھا تب فرغب بی نے ملازم کو بھیج کر عباس کو واپس ہیر پیلس بلوایا۔۔۔ احمد عالم خود جوان بیٹی کی موت پر غم سے نڈھال بیٹھے تھے باریک روتی ہوئی نومولود آواز بھی اُن باپ بیٹے اور فرغب بی کے رونے کی آواز سے دب چکی تھی۔۔۔ سب اُس ننھی سی ذات کو فراموش کیے بیٹھے تھے جیسے دو دن پہلے ہیر اِس دنیا میں لائی تھی

"صاحب جی بارش تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے اور قبرستان کے راستے پر جانا اِس وقت مسئلہ پیدا کرسکتا ہے پھر آپ حکم دیں کہ کیا کیا جائے"

احمد عالم غم سے چور اپنے ملازم کو دیکھنے لگے جو اُن سے سوال کرکے جواب کے انتظار میں کھڑا تھا 

" پچھلے حصّے پر کھدائی کا کام شروع کروا دو"

خراب موسم کے باعث زمین اتنی سخت اور پتھریلی ہوجاتی کہ کھدائی کرنا مشکل ہوجاتا۔۔۔ احمد عالم اپنے ملازم سے بولتے ہوۓ شکستہ قدم اٹھاکر بڑے سے فانوس کے نیچے بیٹھ گئے جہاں ہیر کی ڈیڈ باڈی کو لاکر رکھا گیا تھا

آخر کیوں انہوں نے اپنی اولاد سے غفلت برتی۔۔۔ کیوں اُس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کروایا۔۔۔ وہ کیا کیا اذیتیں برداشت کرتی اور تکلیفیں اُٹھاۓ اِس دنیا سے رخصت ہوچکی تھی۔۔۔۔ کاش وہ پہلے ہی جان پاتے کہ اُن کی نازوں میں پلی بیٹی کس قدر ظلم برداشت کرچکی ہے۔۔۔ آخر کیوں انہوں نے اُس کی غلطی پر اُس سے ناتا توڑ لیا تھا

"سر کراچی سے ڈی ایس پی شیراز بھٹی کا فون آیا ہے وہ آپ سے ضروری بات کرنا چاہتے ہیں کیس کے سلسلے میں"

ملازم ایک مرتبہ پھر احمد عالم کے پاس آتا ہوا اُن سے بولا

"ان سے بول دو کہ احمد عالم اپنا کیس واپس لے چکے ہیں"

احمد عالم سفید کفن میں لیٹی ہوئی ہیر کا چہرہ دیکھ کر بولے تو فرغب بی صدمے کی کیفیت میں احمد عالم کا فیصلہ سن کر انہیں دیکھنے لگیں

"یہ جو ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سوچکی ہے میں نے اُس کو ماں کی طرح اپنے ہاتھوں میں پال کر بڑا کیا ہے۔۔۔ اِس کے قاتل کو آپ سزا دلوائے بغیر معاف کردیں گے۔۔۔ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی"

فرغب بی رو کر جذباتی انداز میں احتجاج کرتی احمد عالم کے سامنے بولیں

"دنیا کی کوئی عدالت اُس شخص کو ایسی سزا نہیں دی گی جو سزا میں اُس کے لئے منتخب کروں گا جیسے میری بیٹی پل پل اذیتیں سہہ کر تکلیفیں برداشت کرتی ہوئی اِس دنیا سے جاچکی ہے۔۔۔ اُس شخص کو بھی اِن اذیتوں کا ذائقہ چکنا پڑے گا، وہی سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔۔۔ اسی کرب سے گزرنا پڑے گا اور اسی غم سے دوچار ہونا پڑے گا جس سے میں دوچار ہورہا ہوں۔۔۔ قانون کی سزا سے بڑھ کر وہ شخص سزا کا مستحق ہے جس نے میری ہستی کھیلتی بیٹی مجھ سے چھین لی"

احمد عالم فرغب بی سے بولتے ہوئے اشک بہاتے ہوئے شیر عباس کے آنسو دیکھ کر اُس سے بولے

"جتنا رونا ہے آج رولو، آج کے بعد میں کبھی بھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھوں گا۔۔ میں تمہیں مضبوط مرد دیکھنا چاہتا ہوں، اپنے سینے میں موجود دھڑکتے ہوۓ اِس پرزے کو اتنا سخت بنالو کہ کوئی اس دل کی نرمی کا فائدہ نہ اٹھا پاۓ"

احمد عالم شیر عباس سے بول رہے تھے باریک روتی آواز زور پکڑتی جارہی تھی۔۔۔ فرغب بی اُس آواز کے پیچھے کمرے میں جانے لگیں تو عباس بھی ان کے پیچھے چلا آیا۔۔۔ فرغب بی نے جھولے میں موجود سفید چادر میں کسی گٹری نما چیز کو گود میں اٹھالیا

"فرغب بی یہ۔۔۔۔

کم سن کم عمر شیر عباس فرغب بی کے پاس آیا اور حیرت زدہ ہوکر اُس عجیب و غریب مخلوق کو دیکھنے لگا جو چمکتی ہوئی ہری آنکھوں سے اُسی کو دیکھ کر اپنے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہی تھی

***"""***

"آپ۔۔۔ آپ کل کہاں غائب ہوگئیں تھی"

ہیر صدیقی کو کمرے میں نہ پاکر پریشان تھی سامنے سے آتی فرغب بی کو دیکھ کر ایک دم اُن سے پوچھنے لگی

"یہی آبادی میں میری ایک جاننے والی رہتی ہیں، اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی انہی کو دیکھنے گئی تھی۔۔۔ رات ہوتے معلوم ہی نہیں پڑا وقت کا تو وہی رک گئی۔۔۔ آپ صبح صبح اتنی پریشان کیوں نظر آرہی ہیں سب خیریت ہے"

فرغب بی ہیر کو دیکھتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگیں

"نہیں ایسی تو کوئی خاص بات نہیں ہے بس ابو کمرے میں نظر نہیں آرہے تھے تو اُنہی کے بارے میں سوچ رہی تھی"

ہیر اپنی پیشانی پر سے سوچو کا جال غائب کرتی مسکرا کر فرغب بی سے کہنے لگی

وہ سچ میں صدیقی کو کمرے میں نہ پاکر پریشان تھی مگر اپنی پریشانی کا اظہار اسے فرغب بی کے سامنے کرنا مناسب نہیں لگا۔۔۔ فرغب بی نے ہیر کی بات پر کوئی خاص تاثر نہیں دیا۔۔۔ اثبات میں سر ہلا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں تو ہیر بھی اپنے بیڈروم کا رخ کرتی عباس کو جگانے کے لیے جانے لگی

***""""***

"ہیر تھوڑی دیر سونے دو مجھے آج لیٹ ہی جاؤں گا ہوٹل"

ہیر کے جگانے پر عباس نیند میں بناء آنکھیں کھولے ہیر سے بولا

"عباس میں ابو کی وجہ سے پریشان ہوں آپ کو اپنی نیند کی پڑی ہے پلیز اٹھے ناں"

ہیر اب کی بار خفگی کا اظہار کرتی عباس سے بولی تو عباس آنکھیں کھول کر ہیر کو دیکھنے لگا، نیند کے خمار سے اُس کی آنکھیں ابھی سرخ ہورہی تھی

"اب کیا پریشانی ہوگئی ہے تمہارے ابو کو"

وہ بےزار لہجے میں ہیر کو دیکھتا ہوا بیڈ پر اٹھ کر بیٹھتا ہوا بولا۔۔۔ چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر تھا جیسے اُسے اپنی نیند میں مداخلت ذرا پسند نہیں آئی تھی

"پریشانی ابو کو نہیں پریشانی مجھے ہوگئی ہے اَبُو کمرے میں موجود نہیں ہیں نہ ہی اُن کا سامان کمرے میں موجود ہے، معلوم نہیں اتنی صبح کہاں چلے گئے ہیں موبائل بھی بند جارہا ہے"

ہیر عباس کے تاثرات نظر انداز کرتی فکر مند لہجے میں عباس کو بتانے لگی مگر وہ یونہی بےزار دکھائی دے رہا تھا جیسے اِس معاملے میں اُس کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی

"اُن کے ساتھ اُن کا سامان بھی غائب ہے تو اِس کا مطلب ہے وہ واپس چلے گئے ہوگے اِس میں اتنا پریشان ہونے والی کونسی بات ہے ہیر"

عباس جو بےدلی سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھا تھا واپس لیٹتا ہوا بولا

"وہ ایسے کیسے بتائے بغیر صبح صبح جاسکتے ہیں عباس"

ہیر دوبارہ پریشان لہجے میں عباس کے پاس بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی

"یہ بات تو تم اپنے ابو سے تب پوچھنا جب وہ اپنا موبائل آن کرلیں فل الحال کمرے کی لائٹ بند کردو یار"

عباس کے بولنے پر ہیر ناراضگی سے عباس کو دیکھنے لگی

"کیا میں تھوڑی دیر اور سو جاؤ ہیر" 

ہیر کے ناراضگی سے دیکھنے پر عباس اُس سے پوچھنے لگا

"جی بالکل آپ سکون سے اپنی نیند پوری کریں" 

ہیر عباس بولتی ہوئی کمرے کی لائٹ بند کرکے کمرے سے باہر چلی گئی

ہیر کے جانے کے بعد عباس دوبارہ بیڈ پر بیٹھتا ہوا سائیڈ ٹیبل پر رکھے اپنے موبائل پر ایبک کو کال ملانے لگا 

"سر علاقے کے ایس ایچ او سے بات کرلی ہے میں نے۔۔۔ باتوں سے وہ کافی پازیٹو لگ رہا ہے"

ایبک کی آواز شیر عباس کے کان سے ٹکرائی تو وہ بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا

"گڈ۔۔۔ تم اُس کو سمجھادو کہ معاملہ زیادہ طول نہیں پکڑنا چاہیے۔۔۔ اُس موت کو حادثے کا نام دے کر اگر فائل کلوز ہوجاتی ہے تو معاملہ میرے فیور میں آجائے گا اور جب معاملہ میرے فیور میں آ گیا تو اُس ایس ایچ او کی پرموشن کے لیے کمشنر سے فیور میں کروں گا۔۔۔ اُس کو بتادینا"

عباس ایبک سے بات کرکے واپس بیڈ پر لیٹ گیا تاکہ وہ سکون سے سو سکے لیکن تبھی اُس کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے میسج آیا۔۔۔ جو اُس کی نیند اور ہوش دونوں اڑانے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔

یہ وہ ویڈیو تھی جس میں صدیقی اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہوا اپنے لیے اُس سے مدد طلب کررہا تھا مگر شیر عباس چٹان پر پنجو تلے بیٹھا اُس کی مدد کرنے کی بجائے صدیقی کو کھائی میں گرتا ہوا دیکھ کر خوش ہورہا تھا

***"""***

"کیا ہوگیا بیٹا آپ کو، آپ تو کمرے سے باہر ہی نہیں نکل رہی ہو، پریشان مت ہو اپنے گھر والوں کے لئے۔۔۔ اوپر والا سب بہتر کرے گا۔۔۔ آپ شکر ادا کرو کہ نقصان صرف چیزوں کا ہوا ہے جانی نہیں"

آرذو ہاشم کے کہنے پر ڈائینگ ہال میں آئی تو ایوب خان آرذو کو دیکھ کر بولے۔۔۔ ایوب خان اور گلنار کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ اپنی فیملی کی وجہ سے پریشان تھی مگر اِس وقت ڈائننگ ہال میں ماہ نور کی موجودگی اُس کے لئے ٹینشن کا سبب تھی جو نہ جانے کیسے ابھی تک اپنا منہ بند کر کے خاموش بیٹھی کھانا کھارہی تھی

"جی بس اَمّی ابُو کے واپس آنے کا ویٹ کررہی ہیں، ابو کے آنے کے بعد ہی اوپر والے نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا"

آرذو آئستہ آواز میں بولتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔۔۔ ہاشم نے آرذو کے آتے ہی کھانا شروع کردیا تو گلنا نے بھی باتوں میں حصہ لیا

"میں نے آج شہناس سے فون پر بات کرتے ہوۓ بولا بھی تھا کہ وہ ہمارے پاس آجائے جب تک گھر کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا"

اِس سے پہلے آرزو کچھ بولتی ماہ نور بولی

"یہاں پر کس خوشی میں آنے کی دعوت دے رہی ہیں آنی آپ اِس کے پھٹیچر ماں باپ کو۔۔۔ ویسے بھی یہ لوئر مڈل کلاس لوگ تو موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی اِن سہارا بنے اور وہ عمر بھر کے لئے وہی ٹک جائیں"

ماہ نور کی بات پر جہاں ایک دم کھانے کی ٹیبل پر خاموشی چھاگئی وہی آرزو کا دل کیا وہ بھاپ اڑاتا ہوا گارلیک چکن اٹھا کر ماہ نور کے منہ پر دے مارے

"یہاں بیٹھ کر تمہیں کس نے منہ کھولنے کا مشورہ دیا ہے، باۓ دا وے اُس کے پیرنٹس کافی خود دار قسم کے لوگ ہیں۔۔۔ میرے آفر کرنے پر آنٹی یہاں آنے سے پہلے ہی مجھے سہولت سے انکار کرچکی ہیں اور جس گھر میں تم جیسی ہستی موجود ہوں وہاں عزت دار لوگ دو پل کے لیے آنے سے بھی گھبراتے ہیں"

ویسے تو ہاشم ماہ نور کی باتوں کو اگنور کردیا کرتا تھا لیکن اِس وقت آرزو کا ضبط سے شرمندہ چہرہ دیکھ کر وہ ماہ نور کو اچھی طرح جواب دیتا ہوا بولا

"ارے تم تو اپنے سسرال والوں کے بارے میں سن کر بیوی سے زیادہ خود برا مان گئے میں تو یونہی ایک بات کہہ دی تھی کول ڈاؤن۔۔۔ اور پلیز ہاشم آج میرے ساتھ سلینا کی طرف چلو اُس کے گھر لیٹ نائٹ پارٹی ہے مگر تم بس دو گھنٹے بعد واپسی کرلینا۔۔۔ نئی نئی شادی ہوئی ہے لیٹ نائٹ تو تمہارا اپنا پروگرام ہوگا اپنی پوری نائٹ تم میرے لئے تو بالکل بھی برباد نہیں کرو گے۔۔۔ اِس لیے تمھارے صرف دو گھنٹے مانگ رہی ہوں"

ماہ نور کسی کا لحاظ کئے بغیر آرذو کی طرف اشارہ کرتی بےباکی سے ہاشم سے بولی۔۔۔ آرذو نے شرمندگی کے باعث اپنا چہرہ نیچے کرلیا

"میں اپنے دو گھنٹے بھی تمہارے ساتھ جاکر برباد نہیں کرنا چاہتا تم اکیلے چلی جاؤ ویسے بھی مجھے آرذو کے ساتھ کہیں اور جانا ہے"

ہاشم ماہ نور کی بےہودہ بات کو نظر انداز کرتا اُسے بولا

"ماہ نور سب کے سامنے بات کرتے ہوئے تمیز اور اپنی حدود کا خیال رکھا کرو" 

گلنار ماہ نور کو تمیز سکھانے کا سوچا اس لئے ماہ نور سے بولی۔۔۔ ماہ نور گلنار کی بات کو ہوا میں اُڑاتی ہوئی آرزو کو زہر خواندہ نظروں سے دیکھتی ہوئی ہاشم سے بولی

"اِس کے ساتھ کہاں جارہے ہو تم۔۔۔ پہلی بیوی تو میں ہوں تمہاری، میرا تم پر زیادہ حق ہونا چائیے۔۔۔۔ تم میرے ساتھ جارہے ہو ہاشم" 

ماہ نور ہاشم پر اپنا حق جتاتی ہوئی بولی اور آرزؤ کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگی جیسے ابھی کچا چبا ڈالے گی

"ہاشم ابھی میرا کہیں بھی جانے کا موڈ نہیں آپ بیشک انہی کے ساتھ چلیں جائیے"

آرزو کو ڈر تھا کہ کہیں ماہ نور اُس کے کردار کو لےکر ایوب خان اور گلنار کے سامنے کچھ نہ بول دے اِس لئے ماہ نور کو غصّے میں دیکھ کر ہاشم کے ساتھ جانے سے انکار کرتی ہوئی بولی

"تمہیں اگر میرے ساتھ نہیں جانا تو مت جاؤ لیکن مجھے تمہارے یا کسی دوسرے کے مشورے کی ضرورت نہیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے کیا نہیں" 

ہاشم اب آرزو کو دیکھتا ہوا بولا ٹیبل پر دوبارہ خاموشی ہوگئی سب خاموشی سے کھانا کھانے لگے

***""""***

پانچ دن پہلے کھائی سے نکالی گئی شخص کی لاش کسی اور کی نہیں بلکہ اُس کے باپ کی تھی یہ سوچ کر ہیر کا دل غم سے پھٹے جارہا تھا اب اُس کا باپ اِس دنیا میں نہیں رہا تھا نہ جانے اِس خبر نے اُس کی ماں اور دونوں بہنوں کو کتنا بڑا دکھ دیا ہوگا وہ خود غم کی کیفیت میں اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی تھی تبھی عباس کے ہاتھوں پر لمس ہیر کو اپنے شانوں پر محسوس ہوا۔۔۔ ہیر نے مڑ کر اپنی پشت پر عباس کو کھڑا پایا ہے، ہیر کے پلٹنے پر عباس نے نرمی سے اُس کے گال کو چھوا

"آجاؤ ناشتہ کرلیتے ہیں"

عباس محبت سے ہیر کو بولا۔۔۔ تین دنوں سے وہ ہوٹل نہیں جارہا تھا صرف ہیر کی دل جوئی میں لگا ہوا تھا ہوٹل کے سارے معاملات ایبک نے سنبھالے ہوئے تھے

"ابو ایسے کیسے ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے عباس مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا ہے"

ہیر عباس کی طرف اپنا رُخ کرتی ہوئی اُس سے بولی

"انویسٹیگیشن سے یہی پتہ چلا ہے کہ پاؤں پھسلنے سے وہ کھائی میں گرے تھے یہ ایک حادثاتی موت ہے ہیر اور حادثے کسی بھی انسان کے ساتھ پیش آسکتے ہیں۔۔۔ مجھے تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے بےحد افسوس ہے لیکن اِس طرح تم ہر وقت اپنے ابو کے لیے افسردہ رہوگی تو اوپر انہیں بھی تکلیف ہوگی یوں تمہیں ہر وقت روتا ہوا دیکھ کر"

عباس ہیر کی آنکھوں میں آئی ہلکی سی نمی دیکھ کر اُس نمی کو صاف کرتا ہوا بولا کیوکہ وہ ہیر کو اداس دکھ کر خود اچھا محسوس نہیں کررہا تھا

"عباس پلیز اب تو میری بات مان لیں مجھے اپنی اَمی کے پاس جانے دیں"

بس ایک یہی نقطہ تھا جہاں اکر وہ محبت کی بجاۓ خود غرض دکھا جاتا تھا۔۔۔ اِس وقت بھی وہ خاموش کھڑا ہیر کی بات پر کچھ پل کے لیے ہیر کو دیکھنے لگا پھر تھوڑے وقفے کے بعد بولا

"اوکے تھوڑے دن ٹھہر جاؤ پھر ہم دونوں ساتھ چلیں گے۔۔۔ آؤ ابھی ناشتہ کرلو"

عباس کا انداز بہلانے والا اور ٹالنے والا تھا۔۔۔ ہیر عباس کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس کا شوہر اُس کو یہاں سے نکلنے نہیں دیتا، وہ کیوں اپنے گھر والوں سے نہیں مل سکتی تھی۔۔۔ کیا وہ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو کبھی بھی دیکھ نہیں پائے گی۔۔۔ ہیر عباس کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی

"میں سچ بول رہا ہوں ہیر تمہیں میرا یقین کرنا چاہیے"

عباس ہیر کی سوچ پڑھتا ہوا ہیر سے بولا اور اُس کے قریب آکر اُس کے بالوں کی لٹیں پیچھے کرنے لگا

"آپ ناشتے کی ٹیبل پر چلیں میں چینج کرکے آتی ہوں"

ہیر عباس سے بولتی ہوئی اُس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹا کر واش روم کی طرف بڑھ گئی جبکہ عباس کی نظر ہیر کے موبائل پر پڑی جس پر کال آرہی تھی عباس ہیر کا موبائل لےکر کمرے سے باہر چلا گیا

"آپ کو میں نے پہلے بھی بولا تھا روز روز ہیر کو کال مت کیا کریں وہ آپ سے بات کرکے مزید اَپ سیٹ ہوجاتی ہے، مجھے اُس کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے"

شہناس کی آواز سن کر عباس لہجے میں نرمی لائے بغیر بگڑے موڈ سے بولا

"بیٹا تم تو سمجھتے ہوگے ہمارا غم میری بچیوں نے اپنے باپ کو اور میں نے اپنے شوہر کو کھو دیا، اُن کے آخری وقت میں اُن سے بات کرنا تک ہمیں نصیب نہیں ہوا۔۔ خدارا تم چند دنوں کے لئے ہیر کو یہاں ہمارے پاس بھیج دو، اُس کو دیکھنے کے لئے آنکھیں بےتاب ہوچکی ہیں" شہناس التجائے انداز میں عباس سے بولی جس نے صدیقی کے باڈی پارٹس تو ان لوگوں کو تدفین کے لیے بھجوا دیئے تھے مگر ہیر کو وہ کسی صورت بھیجنے کو تیار نہیں تھا

"دیکھیے میں یہاں فارغ نہیں بیٹھا ہوں، جو فوری طور پر آپ کے کہنے پر ہیر کو آپ کے پاس لے آؤ یا بھجوا دوں۔۔۔ چند دنوں تک پروگرام بناتا ہوں لیکن آپ بار بار اُس کو آنے کے لیے فورس مت کیا کریں۔۔۔ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی کا گھر بسا رہے تو یہاں اُس کو میرے ساتھ سکون سے رہنے دیں اور خود بھی سکون سے رہیے"

عباس بےمروتی سے شہناس کو بولتا ہوا کال کاٹ کر ہیر کا موبائل اپنی پاکٹ میں رکھ چکا تھا۔۔۔ کیونکہ ہیر کمرے سے نکل کر ہال میں اسی کی طرف آرہی تھی

***"""***

"یہ کیا کررہا ہے میرے موبائل میں"

فرحانہ اپنے شوہر سے اپنا موبائل لیتی ہوئی بولی جو وہی ویڈیو دیکھ رہا تھا، جو چند دنوں پہلے  ایمرجنسی کی صورت میں جنگل سے گزرتے وقت اُس نے بنائی تھی

"تجھے معلوم ہے یہ عام ویڈیو نہیں بلکہ اِسے ہم پیسے کمانے کا ذریعہ بھی بناسکتے ہیں"

فرحانہ کا شوہر فرحانہ کو لالچ دیتا ہوا بولا

"خبردار جو تو نے ایسا سوچا بھی، یہ ویڈیو میں موقع ملتے ہی  شیر عباس صاحب کی بیوی کو دکھاؤ گی تاکہ اُس بےچاری کو معلوم ہوسکے جس انسان کے ساتھ وہ رہی ہے اصل میں وہی اُس کے باپ کا قاتل ہے"

فرحانہ سختی سے اپنی شوہر کی بات کو رد کرتی ہوئی بولی تو اُس کا شوہر خاموش ہوگیا۔۔۔ یہ ویڈیو تو وہ پہلے ہی مختلف نمبر سے ہیر پیلس کے مالک شیر عباس کو بلیک میل کرنے کے لیے اُس کے نمبر پر بھیج چکا تھا

***""""***

"میری گڑیا ضد کیوں کررہی ہے آنٹی سے کھانا نہیں کھانا تو بابا کے ہاتھ سے کھانا کھالو"

شاویز اپنی تین سالہ بیٹی وانیہ سے بولا جو اپنی گورنس سے کھانا کھانے کے لئے تیار نہیں تھی

"مجھے ماما آنٹی سے کھانا کھانا ہے جیسے روز وہ مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہیں"

وانیہ سے امامہ کا نام ٹھیک سے نہیں لیا جاتا تھا جبھی وہ اس کو ماما آنٹی بولتی تھی۔۔۔ شروع میں دو دن تو وانیہ امامہ کو اجنبی نظروں سے دیکھ رہی تھی مگر امامہ کو شاویز کی تین سالہ بیٹی اتنی معصوم اور پیاری سی لگی کہ اپنی اچھی نیچر کی وجہ سے امامہ نے جلد ہی وانیہ سے دوستی کرلی اب وانیہ سارا دن امامہ سے اپنے لئے وقت مانگتی تھی

"مگر گڑیا آج آپ کی ماما آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ اپنے بابا کی بھی تو اچھی بیٹی ہے اور اچھے بچے ضد سے نہیں کرتے۔۔۔ آج ماما آنٹی کو ریسٹ کرنے دیں بابا آپ کو کھانا کھلا دیتے ہیں"

شاویز وانیہ کو بہلاتا ہوا کھانا کھلانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ وانیہ ضد کرنے والی بچی نہیں تھی بلکہ کافی حساس طبیعت رکھتی تھی اس لیے امامہ کے لئے رونے لگی

"وانی کیا ہوا بیٹا آپ کو ایسے کیوں رو رہی ہو آپ۔۔۔ دیکھیں آگئی آپ کی ماما آنٹی،، لائیے سر یہ باؤل مجھے دیجئے وانی کو کھانا میں کھلاتی ہوں روز۔۔۔ بس امی کو میڈیسن دے رہی تھی اِس لیے آنے میں دیر ہوگئی"

وانیہ کے رونے کی آواز پر امامہ تیزی سے کمرے میں آتی ہوئی بولی اور اس نے شاویز سے کھچڑی کا باؤل لے لیا۔۔۔ صدیقی کی اچانک موت کی خبر نے شہناس اور اُس کو ہلا کر رکھ دیا تھا اپنے باپ کی موت کا اُس کو بےحد دکھ تھا مگر شہناس کو دیکھ کر وہ اپنا غم بھلائے رونے کی بجائے ہمت کا مظاہرہ کرتی ہوئی شہناس کو سنبھال رہی تھی

"آپ کی اپنی طبیعت بھی تو ٹھیک نہیں ہے کل سے، آپ کو بھی ریسٹ کرنا چاہیے"

شاویز امامہ کو دیکھتا ہوا بولا جو وانیہ کو اسمائل دیتی ہوئی کھچڑی کھلا رہی تھی۔۔۔ اور وانیہ خود بھی اب خاموش سے بنا روئے امامہ سے کھچڑی کھا رہی تھی

"اس معمولی سے بخار کو تو میں بالکل بھی خاطر میں نہیں لاتی، بس امی کی فکر ہے مجھے"

وانیہ کو کھلانے کے ساتھ ہی وہ شاویز سے بولی اتوار ہونے کی وجہ سے آج شاویز گھر پر ہی موجود تھا

"آنٹی کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے تو ہم انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں"

شاویز امامہ کو دیکھتا ہوا بولا لیکن وہ جانتا تھا امامہ لازمی منع کرے گی، یہاں رکنا بھی اُس کی مجبوری تھا کیوکہ ابھی تک گھر کا کوئی انتظام نہیں ہوا تھا اور اچانک ہی اُس کے فادر کے ڈیتھ ہوگئی تھی۔۔۔ 

اور ویسے بھی اگر گھر کا ارینج ہوجاتا تو شاویز امامہ کو کبھی بھی جانے نہیں دیتا کیونکہ جو وہ سوچ بیٹھا تھا آج شہناس سے شیئر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

"ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے سر امی کا خیال میں اچھے طریقے سے رکھ رہی ہوں۔۔۔ وہ جلد ٹھیک ہوجائیں گیں انشاءاللہ"

توقع کے عین مطابق امامہ شاویز کو انکار کرتی ہوئی بولی جس پر شاویز ہلکے سے مسکرایا

"وہ تو مجھے معلوم ہے آپ سب کا خیال اچھے طریقے سے رکھ سکتی ہیں، مگر ساتھ ساتھ اپنا خیال بھی رکھا کریں"

شاویز امامہ کو بولتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا امامہ نے ایک نظر کمرے سے باہر نکلتے شاویز پر ڈالی اور دوبارہ وانیہ کو کھانا کھلانے لگی

***""""***

باپ کا دنیا سے چلے جانا۔۔۔ یہ غم بہت بڑا ہوتا ہے ہفتے بھر سے وہ مسلسل صدمے کی کیفیت میں تھی۔۔۔ ہاشم کے ساتھ گلنار اور ایوب خان مسلسل اُس کا دل بہلانے اور دلجوئی میں لگے ہوئے تھے۔۔۔ آرذو نے اپنا ذہن بٹانے کے لئے کوکنگ کرنے کا سوچا وہ ہاشم کی پسند کا کھانا بنانے کا سوچ کر کچن میں چلی آئی

"سنو ایک کپ اسٹرونگ سی چائے بنا کر میرے کمرے میں بھجواؤ"

آرذو کو اپنے کانوں میں ماہ نور کی آواز سنائی دی اُس نے دیکھا ماہ نور کچن کی دہلیز پر کھڑی ہوئی اس سے مخاطب تھی لہجے میں عاجزی انکساری تو دور وہ اسے ایسے حکم دے رہی تھی جیسے آرزو اُس کی ملازمہ ہو

"میں بزی ہوں آپ شمع سے بول دیں وہ آپ کو چائے بناکر دے دے گی"

آرذو پین میں کوکنگ آئل ڈالتی ہوئی مصروف انداز میں بولی کتنے دنوں سے وہ ماہ نور کا رویہ محسوس کرتی اس کو نظر انداز کررہی تھی۔۔۔ اکثر ماہ نور اُسے مخاطب کیے بغیر  تسخیر آمیز رویہ اپناۓ اُس کا مذاق اڑا رہی ہوتی 

ماہ نور کی فضول حرکتوں کا جواب ابھی تک اس نے خاموشی سے دیا تھا آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا جب آرزو نے اُس کو جواب میں کچھ منہ سے بولا بھی تھا اور جتایا بھی تھا کہ وہ اس کی نوکر یا ملازمہ نہیں ہے

"کیا کہا۔۔۔ تم نے مجھے انکار کیا یعنی میرے کام سے انکار کرو گی تم،،، اوقات ہے تمہاری اتنی"

ماہ نور کچن میں آتی ہوئی آرذو سے بولی ماہ نور کے جلالی اور مرچیں لگنے والے انداز پر آرذو ہلکا سا مسکرائی

"اوقات اور حیثیت کی باتیں آپ کے منہ سے اچھی نہیں لگتی اس گھر میں تمام افراد کی نظروں میں، اور خاص طور پر ہاشم کی نظروں میں مجھے اپنی اوقات اور حیثیت بھی نظر آتی ہے اور آپ کی اوقات اور حیثیت کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے"

آرزو نے سوچ لیا تھا کہ وہ آج صحیح معنوں میں اِس سرپھری لڑکی کو اُس کی حیثیت بتائے گی۔۔۔ آرزو کے منہ سے ایسی باتیں سن کر ماہ نور کا چہرہ غُصّے سے سرخ ہوگیا۔۔۔ ماہ نور کا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا مگر اس سے پہلے کہ وہ آرزو کے گال پر پڑتا آرزو نے ماہ نور کا ہاتھ کلائی سے پکڑلیا

"ہاتھ میرے پاس بھی موجود ہے اور اپنے ہاتھ کا ایسا ہی استعمال میں بھی کرسکتی ہوں اِس لیے ذرا سنبھل کے رہیں"

آرذو ماہ نور کا پکڑا ہوا ہاتھ نیچے کر کے اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی

"اب تم الٹی گنتی گننا شروع کردو کیوکہ اپنی اس حرکت کے لیے تم بہت جلد پچھتانے والی ہو"

 ماہ نور غصّے میں بولتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی جبکہ آرزو سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔۔۔ جب ہاشم اُس کے ساتھ تھا تو پھر اسے ماہ نور سے یا کسی دوسرے سے ڈرنے کی کیا ضرورت تھی

***""""***

ہاشم تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے گھر آیا تھا۔ آرذو کو کچن میں مصروف دیکھ کر وہ بیڈروم میں چلا آیا شرٹ کے تمام بٹن کھولتا ہوا وہ ریلیکس موڈ میں آنکھیں بند کیے بیڈ پر نیم دراز تھا تب اسے بیڈروم کا دروازہ کُھلنے کی آواز آئی۔۔۔

"یار میری ٹی شرٹ اور ٹراؤزر وارڈروب سے نکال کر دے دو"

ہاشم یونہی آنکھیں بند کئے بیڈ پر لیٹا ریلیکس موڈ میں اس سے بولا اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھتا تو اُس کا موڈ خوشگوار نہیں رہتا 

دوسری طرف ماہ نور ہاشم کو بیڈ پر لیٹا ہوا دیکھ کر اُس کے قریب آتی ہوئی ہاشم کے اوپر  بےتکلفی سے جھکتی ہوئی اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھتی۔۔۔ ماہ نور کی اِس حرکت پر ہاشم نے اپنی آنکھیں کھولیں کیونکہ آرذو سے اُس کو اِس قسم کی بےتکلفی کی توقع بالکل نہیں تھی

"یہ کیا حرکت ہے ماہ نور"

ہاشم ماہ نور کو شانوں سے تھام کر پیچھے ہٹاتا ہوا پوچھنے لگا

"آج اچھی نہیں لگی یہ حرکت۔۔۔ پہلے تو تمہیں کبھی برا نہیں لگتا تھا"

ماہ نور ہاشم کے سینے پر ہاتھ رکھ کر مزید کچھ بولتی ہاشم اُس کا ہاتھ اپنے سینے سے ہٹاتا ہوا ساتھ ہی ماہ نور کے وجود کو اپنے اوپر سے ہٹاکر بیڈ پر دھکیلتا ہوا بولا

"شاید تم بھول رہی ہو میرے اور تمہارے ریلیشن میں دوریاں صرف تمہارے فاصلے رکھنے سے آئی ہیں، ان باتوں کا شکوہ تم مجھ سے نہ ہی کرو تو اچھا ہے"

ہاشم ماہ نور سے بولتا ہوا بیڈ سے اٹھنے لگا تبھی ماہ نور نے ہاشم کا ہاتھ پکڑلیا

" آج وہ خود اِن دوریوں کو ختم کرنا اور فاصلوں کو سمیٹنا چاہتی ہوں"

ماہ نور بیڈ پر لیٹی ہوئی ہاشم کا ہاتھ پکڑ کر بولی

"فی الحال تم یہاں سے جاؤ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے"

یہ آرزو کا اور اُس کا بیڈ روم تھا یہاں ماہ نور کا ٹھہرنا وہ بھی اِس بےتکلفانہ انداز میں۔۔۔ وہ ماہ نور کو انکار کرتا ہوا بولا

"ہاشم اگر تم نے دوسری شادی کرلی ہے تو یہ مت بھولو میں بھی تمہاری بیوی ہوں، میرا بھی تم پر حق ہے۔۔۔ تم میرے حقوق اور فرائض سے منہ نہیں موڑ سکتے۔۔۔ اِس بات کی اجازت نہ تو میں تمہیں دوں گی نہ ہی مذہب دیتا ہے۔۔۔ مجھے اُن تمام راتوں کا حساب چاہیے جو تم اپنی دوسری بیوی کے ساتھ گزار چکے ہو۔۔۔ آج کی رات سے آگلے 15 راتوں تک تم میرے کمرے میں رہو گے میرے ساتھ"

ماہ نور کی بات پر ہاشم استزائیہ انداز میں ہنسا ہوا بولا

"حقوق اور فرائض کی باتیں تمہارے منہ سے سن کر عجیب سی لگتی ہیں ماہ نور"

ہاشم بولتا ہوا ماہ نور کے قریب آیا اور اُس کو دونوں بازؤوں سے پکڑتا ہوا مزید بولا

"کبھی تم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایک بیوی کے کیا حقوق اور فرائض ہوتے ہیں۔۔۔چاہے مجھے تمہاری ضرورت ہو یا پھر میری طبعیت خراب ہو تم نے ہمیشہ اپنی انجواۓ مینٹ کو ترجیح دی۔۔۔ اپنے آپ میں اپنی ذات میں ہمیشہ مگن رہی کبھی میرے اور اپنے رشتے کے لیے نہیں سوچا"

ہاشم نے بولتے ہوۓ ماہ نور کے بازو چھوڑ کر اسے پیچھے دھکیلا

"مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے مجھے ایک موقع دے کر دیکھو ہاشم۔۔۔۔ میں اب سب ٹھیک کردو گی"

ماہ نور ایک مرتبہ پھر ہاشم کے قریب آتی ہوئی بولی اِس سے پہلے ہاشم کچھ بولتا ماہ نور نے اپنی انگلی ہاشم کے ہونٹوں پر رکھ دی

"تم شاید بھول گئے ہو مجھ سے پیار کرنا مگر میں کچھ بھی نہیں بھولی۔۔۔ مجھے وہ سب یاد ہے، ہم دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ گزرے ہوۓ حسین پل۔۔۔ آج رات میں تمہیں وہ سب یاد دلادوں گی"

ماہ نور نے بولتے ہوۓ ہاشم کی کھلی شرٹ گریبان سے پکڑی، وہ ہاشم کے بےحد نزدیک آنے لگی

"ماہ نور اِس وقت یہاں سے جاؤ میں رات میں تمہارے پاس کمرے میں آتا ہوں کچھ ضروری باتیں ہیں جو تم سے کرنی ہیں"

اب کی بار ہاشم نے نرمی سے ماہ نور کو کہا تو ہاشم کی بات پر ماہ نور ہلکا سا مسکرائی

"آج صرف خالی خولی باتوں سے ہی کام نہیں چلے گا۔۔۔ میں رات میں انتظار کرو گی تمہارا"

ماہ نور نے بولتے ہوۓ جیسے ہی اپنے ہونٹ ہاشم کے گال پر رکھے ویسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر آرذو بیڈروم میں چلی آئی

اپنے بیڈ روم میں آکر آرذو نے جو منظر دیکھا اُس کے قدم وہی رک گئے بلکہ کچھ پل کے لیے وہ ساکت رہ گئی جبکہ دوسری طرف ماہ نور بغیر شرمائے مسکرا کر پیچھے ہوئی۔۔۔ ہاشم اپنی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا

"آج رات میں تمہارا ویٹ کرو گی ہاشم، پوری تیاری کے ساتھ آنا"

ماہ نور ہاشم کو یاد دلاتی ہوئی معنی خیزی میں آنکھ دبا کر کمرے سے باہر جانے لگی، جانے سے پہلے وہ آرزو کو چہرہ دیکھ کر ہنسی اچھالنا نہیں بھولی

"مجھے کپڑے نکال کر دے دو تاکہ میں ایزی ہو جاؤ"

ہاشم آرذو کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا، جہاں اُس کو صرف اور صرف اداسی محسوس ہوئی آرذو بناء کچھ بولے الماری کی طرف بڑھی اور پٹ کھول کر ہاشم کے لیے کپڑے نکالنے لگے۔۔۔ تبھی اُسے اپنے شانوں پر ہاشم کے دونوں ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا

"ہاشم پیچھے ہٹیئے کچن میں جاکر مجھے کھانا بھی بنانا ہے"

اُس سے پہلے ہاشم کچھ بولتا آرزو ہاشم کے ہاتھ اپنے شانوں سے ہٹاتی ہوئی بولی

"بعد میں بنالینا پہلے یہاں آکر بیٹھو بات کرنی ہے مجھے کچھ تم سے"

ہاشم آرزو کے ہاتھ سے اپنے کپڑے لیتا ہوا اُس کا ہاتھ تھام کر آرذو کو صوفے تک لایا خود آرذو کے برابر میں بیٹھتا ہوا وہ آرزو کا دوسرا ہاتھ بھی تھام چکا تھا

"آرذو تمہیں اِس بات کو سمجھنا چاہئے کہ ماہ نور بھی میری بیوی ہے جیسے تم میری بیوی ہو"

ہاشم نے بولنا شروع کیا تب آرذو ہاشم سے اپنے دونوں ہاتھ چھڑا کر صوفے سے اٹھی

"مجھے یہ ساری باتیں مت بتائیے مجھے معلوم ہے کہ ماہ نور آپ کی پہلی بیوی ہے بلکہ پہلی بیوی ہی نہیں وہ آپ کی پہلی محبت بھی ہے، پسند کی شادی کی تھی نہ آپ نے ان سے ویسے بھی پہلی محبت کبھی نہیں مر سکتی۔۔۔ آپ بناء ٹینشن کے خوشی اُس کے پاس جائیے۔۔۔ میں آپ کو روکنے والی یا کچھ بولنے والی کون ہوتی ہوں"

آرذو ہاشم سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی ہاشم کپڑے بیڈ پر اچھال کر واش روم چلا گیا

***""""***

آرذو جانتی تھی ہاشم اُس وقت جو کچھ بول رہا تھا صحیح بول رہا تھا ماہ نور بھی اُس کی بیوی اور اُس پر حق رکھتی تھی لیکن پھر بھی ہاشم کا ماہ نور کے بیڈ روم میں جانا آرذو کا دل اداس کر گیا تھا۔۔۔ ہاشم تھوڑی دیر پہلے ہی اس کے کمرے سے ماہ نور کے کمرے میں گیا تھا وہ اداس بیڈ سے اٹھتی کمرے کی کھڑکی کھول کر کھڑی ہوگئی۔۔۔ 

باہر کا پُرسکون منظر پھر بھی اُس کی طبیعت پر اچھا اثر نہ ڈال سکا۔۔۔ تھوڑی دیر ہوئی وہ یونہی کھڑی رہی تب اُسے گھر سے باہر کی طرف تبزیر کا چہرہ نظر آیا وہ آرزؤ کے بیڈ روم کی کھڑکی کی طرف کھڑا آرزو کو ہی دیکھ رہا تھا

"محبت کبھی نہیں مرتی"

شام میں اُس نے یہ جملہ ہاشم سے بولا تھا لیکن خود کے لیے وہ اپنے دل میں بسی تبریز کی محبت کو مار چکی تھی۔۔۔ اب اُس کے دل میں تبریز نہیں اُس کا شوہر ہاشم تھا لیکن تب بھی وہ اِس وقت تہی داماں تھی۔۔۔ اِس سے پہلے ڈھیر سارے اشک آرزو کی آنکھوں سے رواں ہوتے، آرزو نے اپنے کمرے کی کھڑکی بند کر کے پردے برابر کرتی وہاں سے ہٹ گئی اچانک اُس کے موبائل پر میسج آیا یہ موبائل چند دن پہلے ہاشم نہیں اُس کو لاکر دیا تھا آرذو اجنبی نمبر سے آیا میسج پڑھنے لگی

"تم کمرے کی کھڑکی بند کرکے اپنے آنسو تو مجھ سے چھپاسکتی ہو لیکن تمہارے چہرے پر چھائی اداسی مجھ سے نہیں چھپ سکتی۔۔۔ میں ہمیشہ تمہارا منتظر رہوں گا آرزو، تمہارے دل میں میری محبت بےشک مر گئی ہو لیکن میرے دل میں تمہاری محبت تاعمر آباد رہے گی"

تبریز کا میسج پڑھ کر وہ آنکھوں میں آئے آنسو کو روک نہیں پائی تھی، تبریز کا میسج ڈیلیٹ کر کے نمبر بلاک لسٹ میں ڈالتی ہوئی آرذو اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو پڑی تبھی اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔۔۔ آرزو اپنے دونوں ہاتھ چہرے سے ہٹاتی ہاشم کو حیرت زدہ سی کمرے میں آتا دیکھنے لگی

"آپ اتنی جلدی واپس۔۔۔ میرا مطلب ہے کوئی کام تھا آپ کو"

اُس کو لگا تھا ہاشم اب صبح ماہ نور کے کمرے سے لوٹے گا۔۔۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوتی ہاشم سے سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگی

"شام میں تم نے بولا تھا کہ محبت کبھی نہیں مر سکتی تو مجھے تمہیں یہ بتانا تھا جہاں احساسات مردہ ہو جائیں اور دل تمام تر جذبات سے عاری ہوجائے تو وہاں محبت بھی زندہ نہیں رہتی۔۔۔ ماہ نور اور میرے رشتے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے چاہ کر بھی ہم دونوں ایک دوسرے سے پہلی والی محبت نہیں کرسکتے۔۔۔ نہ ہی ہمارا ریلیشن نارمل رہ سکتا ہے"

ہاشم آرزو کے نزدیک کھڑا اُس کے آنسو صاف کرتا ہوا آرذو سے بولا تو آرذو ہاشم کے سینے سے لگ گئی تھوڑی دیر پہلے چھائی اداسی کی کیفیت ختم ہونے لگی ہاشم کے سینے سے لگتے ہی آرزو کو اپنے اندر اطمینان اترتا محسوس ہوا۔۔۔ ویسا ہی اطمینان آرزو کو اپنی باہوں میں لےکر ہاشم نے بھی محسوس کیا

"اندر ہی اندر مجھ سے میرا دل بول رہا تھا کہ میری پیاری سی بیوی کا دل میرے بغیر بےحد اداس ہوگا، کیا میرا دل مجھ سے بالکل سچ بول رہا تھا یا پھر اِس کو میں اپنا وہم سمجھو"

ہاشم آرزو کو اپنے حصار میں لیے اُس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا آرزو سے پوچھنے لگا تو آرزو نے ہاشم کے سینے سے سر اٹھا کر اُس کو دیکھا

"میری آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو چند سیکنڈ پہلے آپ کو کیا بتارہے تھے" 

آرذو ہاشم کو دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگی

"یہی کہ تمہارا بھی دل میرے دل کی طرح نہ تو ہمارے درمیان دوری برداشت کرسکتا ہے نہ ہی کسی تیسرے کی موجودگی"

ہاشم آرذو کا چہرہ تھام کر اُس سے بولا تو آرزو نے مسکرا کر ایک مرتبہ پھر اپنا سر ہاشم کے سینے پر رکھ دیا

***""""***

سرسری سی نظر آج کیا دکھانے والی تھی اِس بات کا ہیر کو بالکل اندازہ نہیں تھا وہ تھوڑی دیر پہلے شاور لےکر نکلی تھی بالوں کو سلجھاتے اُس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے اوپر فینسی لائٹ پر پڑی، تب ایک دم اُس کو لگا جیسے سرخ شعاع فینسی لائٹ کے نچلے حصّے سے نکلی ہو۔۔۔ ہیر غور سے فینسی لائٹ میں لگے اُس چھوٹے سے لینس کو دیکھنے لگی۔۔۔ آج سے پہلے اُس کی نظر کبھی اِس لینس پر نہیں پڑی تھی۔۔۔ ہاں ایسا ہی لینس اُس نے ہال میں موجود پینٹنگ والی دیوار پر بھی لگا دیکھا تھا مگر اُس وقت ہال میں لگے اُس لینس کے بارے میں اتنی گہرائی میں جاکر مشاہدہ ہرگز نہیں کیا تھا جتنے غور و فکر سے وہ اب اپنے بیڈ روم میں موجود اِس لینس کو دیکھ رہی تھی

یہ لینس لازمی کیمرے کا ہوسکتا تھا یا یہ کوئی کیمرہ ہی تھا جس کو چھپا کر یہاں پر لگایا گیا تھا، مگر کیوں؟؟ کیا اُس کے ہر عمل پر، ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی تھی۔۔۔ یہ کیمرہ صرف بیڈ روم اور ہال میں لگایا گیا تھا یا پھر ایسے اور بھی کیمرے ہیر پیلس موجود تھے۔۔۔ عباس نے اُن کیمروں کے متعلق کبھی اُس سے ذکر کیوں نہیں کیا تھا؟؟ آخر یہ کیمرہ کب سے اُس کے بیڈ روم میں موجود تھا

اگر ہیر پیلس میں اُس کے آنے سے پہلے یہ کیمرہ اُس کے بیڈ روم میں لگایا گیا تھا تب تو اِس کیمرے میں وہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہوگی۔۔۔ ہیر کو وہی منظر، ہری آنکھیں کالے لباس میں موجود عباس کا عکس لیے ذہن میں ابھرنے لگا جو پہلی رات اس بیڈ روم میں آیا تھا۔۔۔۔ اگر کمرے میں وہ سب ویڈیو ریکارڈنگ موجود تھی تب عباس سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد مسلسل اُس کی بات سے کیوں انکار کرتا رہا، وہ ساری باتوں کو کیو ہیر کا وہم بتاتا رہا۔۔۔ کیا عباس ایسا جان بوجھ کر کرتا تھا اسے ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے لئے۔۔۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا وہ کوئی آسیب نہ ہو بلکہ خود عباس ہو جو کالے لباس میں اُس کے پاس آیا تھا

آہستہ آہستہ ہیر کے دماغ میں ایسی سوچے آنے لگیں جس سے اُس کا دل عباس سے بدگمان ہونے لگا فرغب بی ہیر پیلس میں غیر موجودگی آج اُس کے کام آئی تھی۔۔۔۔ ہیر نے ان تمام کمروں کا جائزہ لیا ہر کمرے میں جگہ جگہ چھوٹے کیمرے لگائے گئے تھے یہاں تک کہ ان دو کمرں میں بھی جہاں صدیقی رکا تھا اور اُس سفید گول کمرے میں جہاں ہیر نے خود کو سفید نائٹی میں پایا تھا۔۔۔ کاش وہ ویڈیو ریکارڈنگ میں سب کچھ دیکھ کر اپنے ابو کے بارے میں جان سکتی۔۔۔ وہ کب کیسے کیوں کس وجہ سے ہیر پیلس سے باہر نکلے تھے یہ ساری باتیں ان کے ساتھ ہی دفن ہوچکی تھیں۔۔۔ ہیر کا دھیان اچانک اُس بیسمینٹ کی طرف گیا جہاں عباس نے اُس کو سختی سے نہ جانے کی تاکید کی تھی

کیا اُسے ایک مرتبہ اُس بیسمینٹ میں جاکر دیکھنا چاہیے ہیر نے ذہن میں آئے خیال کو فوراً عملی جامہ پہنایا تھا۔۔۔ اُس کے قدم سنسان راہداری میں موجود کمرے کی طرف اٹھنے لگے تبھی ہال میں موجود لینڈ لائن چیخنے لگا۔ِ۔۔ کچھ سوچ کر ہیر فون کے پاس آئی وہ بری طرح بجے جارہا تھا یہ کال عباس کے موبائل سے آرہی تھی کیا وہ ابھی بھی کیمروں کی مدد سے اُس کو دیکھ رہا تھا جبھی عباس اُس کو کال کررہا تھا۔۔۔۔ کیا عباس اِس وقت اُسے بیسمینٹ میں جانے سے روکنا چاہتا تھا۔۔۔۔ ہیر نے عباس کی کال نہیں سنی بلکہ اُس کال کو نظر انداز کرتی ہوئی وہ دوبارہ اُس کمرے کی طرف بڑھنے لگی 

نیچے سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ خراٹوں کی آواز صاف سن سکتی تھی۔۔۔ بیڈ پر لیٹی اُس مخلوق کو دیکھ کر دہشت کے مارے ہیر کے منہ سے بھیانک چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی کیوکہ ہیر نے اپنا ہی ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا تھا۔۔۔۔۔ انسان نما حیوان یا پھر حیوان نما انسان، زنجیروں میں باندھی بیڈ پر سوتی ہوئی وہ جو بھی کوئی چیز تھی یا تھا، ہیر مزید وہاں ٹھہر کر اُس کو نہیں دیکھ سکتی تھی اس لیے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی واپس آگئی وہ خوف کے مارے تیزی سے راہداری سے نکل کر اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی تبھی کسی کے ٹکرانے سے ہیر کے منہ سے خوفناک چیخ برآمد ہوئی

"کیا بدتمیزی ہے تم نے ڈرا دیا مجھے"

سامنے کھڑی فرحانہ کو دیکھ کر ہیر کی ہارٹ بیٹ نارمل ہوئی، ہیر غصّے میں فرحانہ کو دیکھتی ہوئی بولی

"بڑے دنوں بعد آج ہی موقع ملا ہے جی آپ کو کچھ دکھانا چاہتی ہوں"

فرحانہ فرغب بی کو موجود نہ پاکر اپنا موبائل ہاتھ میں دبائے گھبرائے لہجے میں ہیر سے بولی

"فرحانہ بعد میں بات کرنا میں ابھی پہلے ہی بہت پریشان ہوں"

ہیر فرحانہ سے بول کر اپنے کمرے میں جانے لگی اسے یہ سب دیکھ کر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا

"بعد میں موقع نہیں ملے گا جی آپ کی جان کو خطرہ ہے آپ یہاں سے بھاگ جائیے"

فرحانہ کی بات سن کر ہیر کے اپنے کمرے میں جاتے قدم رکے وہ پلٹ کر فرحانہ کو دیکھنے لگی فرحانہ نے اپنے ہاتھ میں موجود موبائل ہیر کی جانب بڑھایا

***""""***

"میں تم سے ڈائیورس چاہتی ہوں"

ماہ نور کی آواز پر ناشتہ کرتے سب ہی ایک پل کے لیے ساکت ہوگئے تھے

"ایسے ہی اتنی بڑی بات بول دی تم نے، وہ بھی بناء کچھ سوچے سمجھے"

سب سے پہلے گلنار تھی جس نے ماہ نور کو ٹوکا۔۔۔ ایوب خان ہاشم اور آرزو ابھی تک خاموش تھے

"یہ میرا اور ہاشم کا معاملہ ہے اور میں ہرگز نہیں چاہو گی اِس معاملے میں کوئی دوسرا مداخلت کرے۔۔۔ پلیز آنی آپ بیچ میں کچھ نہ بولیں تو بہتر ہوگا"

ماہ نور گلنار کو ٹوکتی ہوئے بولی تو گلنار خاموش ہوگئی ماہ نور ہاشم کو دیکھنے لگی

"وکیل سے بات کرکے میں پیپر بنوا لیتا ہوں" ہاشم کی بات ماہ نور سمیت گلنار ایوب خان بھی ہاشم کو دیکھنے لگے صرف آرزو تھی جو سر جھکاۓ لاتعلق بنی چائے کے چھوٹے چھوٹے سپ لے رہی تھی

"آخر ایسی بات کیا ہوئی ہے ہاشم جو تم دونوں نے یوں اچانک اتنا بڑا فیصلہ لے لیا"

ان دونوں کے الگ ہونے کا فیصلہ گلنار کو ہضم نہیں ہوا تھا تبھی وہ اب کی بار ہاشم سے پوچھنے لگی تو ہاشم کی بجاۓ ماہ نور بولی

"جب ایک انسان کا دل اور دماغ دونوں ہی دوسرے انسان سے نہ ملتے ہو تو پھر وہ دونوں انسان آپس میں مل کر کیسے رہ سکتے ہیں۔۔ یہ آپ کو چہیتا بیٹا کل رات میرے پاس اگر صاف لفظوں میں مجھے بتا گیا ہے کہ یہ میرا شوہر بن کر میری ساری ذمہ داریاں تو پوری کرسکتا ہے مگر اپنے دل کا تعلق مجھ سے نہیں چھوڑ سکتا تو پھر آپ ہی بتائیے میں ایسے انسان کے ساتھ کیسے ساری زندگی گزارو جس کے دل پر میری حکمرانی نہ ہو"

ماہ نور گلنار کو دیکھتی ہوئی لفظوں کو چبکر اُس سے بولی تو ایوب خان بھی بول اٹھے

"ہاشم نے جو بات تم کو کل رات صاف لفظوں میں بتائی ہوگی وہی بات تم اُس کو پچھلے چھ سالوں سے اپنے رویے اور عمل سے بتاتی آرہی ہو تو پھر تعلق ختم کرنے کا الزام صرف ہاشم کو مت دو"

ایوب خان کے بولتے ہی ماہ نور نے صرف ایک نظر اُن پر ڈالی مگر بولی کچھ بھی نہیں۔۔۔ ماہ نور ہاشم سے دوبارہ مخاطب ہوئی

"وکیل سے ڈائیورس کے پیپرز کے ساتھ پراپرٹی کے پیپرز بھی تیار کروا لینا"

ماہ نور ہاشم سے بولتی ہوئی، کرسی سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ ماہ نور کی بات پر ایوب خان اور گلنار دونوں ہی ہاشم کو دیکھنے لگے

"کمپنی میں ٪30 شیئرز اور الہدا پروجیکٹ میں موجود بینگلو میں نے ماہ نور کے نام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ یہ مت سمجھئے گا ایسی ماہ نور کی شرط یا ڈیمانڈ تھی بلکہ یہ میرا خود کا فیصلہ ہے"

اِس سے پہلے ایوب خان یا گلنار اِس بات پر اعتراض کرتے ہاشم اُن دونوں کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔ آرذو جو سارے وقت خاموش بیٹھی تھی ابھی بھی خاموشی سے اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی

"آآہ ہ ہ۔۔۔ کیا مسئلہ ہے آپ کو" 

کچن کے راستے میں حائل ماہ نور نے جب آرزو کا بازو پکڑا تو آرذو اُس کو دیکھتی ہوئی بولی

"یہ مت سمجھنا کہ میں تم سے ہار کر یا ہاشم کو تمہارے حوالے کرکے یہاں سے جاؤں گی۔۔۔ اگر ہاشم میرا بن کر نہیں رہ سکتا تو میں اُس کو تمہارا بھی نہیں رہنے دوں گی"

ماہ نور زہر خواندہ لہجے میں آرذو سے بولی آرزو اس کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی اِس لئے خاموشی سے وہاں سے چلی گئی

***""""***

فرحانہ کے موبائل پر موجود ویڈیو دیکھ کر ہیر کا دل خوف سے کانپ اٹھا اُس کے باپ کا مجرم اُس کا شوہر۔۔۔۔ ابھی ہیر کھل کر صدمے کا اظہار بھی نہیں کر پائی تھی کہ ایبک اور عباس دونوں ہی داخلی راستے سے ہال کے اندر داخل ہوئے۔۔۔ اتفاق سے اِس وقت ہیر پیلس میں کوئی دوسرا ملازم موجود نہیں تھا، شاید عباس اِس بات سے واقف تھا یا پھر وہ کیمرے میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا تبھی عباس کے اشارے پر ایبک نے ہال کا بڑا سے دروازہ اندر سے بند کردیا تاکہ فرحانہ یا ہیر ہال سے باہر نہ جاسکے

ہیر صدمے اور غم کی کیفیت میں عباس کو دیکھنے لگی جو چہرے پر غضبناک تاثرات لاۓ قدم بڑھاتا ہوا ہیر کے پاس آرہا تھا مگر اُس کی نگاہیں فرحانہ پر ٹکی ہوئی تھی، کل ہی وہ فرحانہ کے شوہر کو منہ بند رکھنے کی اچھی رقم دے چکا تھا چاہتا تو اُس کے شوہر کو بلیک میلنگ کے الزام میں اندر کروا دیتا۔۔۔ عباس کے تاثرات دیکھ کر فرحانہ نے گھبراہٹ کے مارے ہیر کے ہاتھ سے اپنا موبائل لےلیا

"اِس سے یہ موبائل لےکر اِسے بیسمنٹ میں بند کردو اور بلاؤ اِس کے شوہر کو یہاں"

عباس قہر برساتی نگاہیں فرحانہ پر ڈال کر ایبک سے بولا

"آپ ایسا نہیں کرسکتے فرحانہ کے ساتھ وہاں بیسمینٹ میں وہ درندہ اِس کو نقصان پہنچا سکتا ہے"

اپنے شوہر کے ظلم پر ہیر بولتی ہوئی فرحانہ کی ڈھال بن گئی کیوکہ عباس کا حکم ملتے ہی ایبک تیزی سے خوف سے کانپتی فرحانہ کے پاس آیا تھا

"اِس کی چھوڑو تم اپنی فکر کرو، میرے منع کرنے کے باوجود تم بیسمنٹ میں کیسے گئیں اب دیکھو میں تمہارا کیا حشر کرتا ہوں"

عباس قہر آلود نظروں سے اب کی بار ہیر کو دیکھتا ہوا بولا ساتھ ہی ہیر کو کلائی سے پکڑ کر اُسے وہاں سے دوسرے کمرے میں لے جانے لگا

"بی بی جی مجھے بچالیں ان لوگوں سے یہ لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے مجھے بچالیں"

ہیر کا عباس کے سامنے احتجاج کر کے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش، فرحانہ کی چیخوں اور فریاد کے آگے دبنے لگی کیوکہ ایبک فرحانہ سے موبائل چھیننے کے بعد اس کو راہداری کی طرف  کھینچتا ہوا لے جارہا تھا

"عباس آپ ظالم انسان ہیں۔۔۔۔ آپ فرحانہ کو بھی مار ڈالیں گے جیسے آپ نے میرے اَبُو کو مار ڈالا میرے اَبُو کو بھی مار ڈالا آپ نے۔۔۔۔ قاتل ہیں آپ میرے اَبُو کے"

عباس ہیر کو ایک چھوٹے سے کمرے میں لا کر فرش پر دھکیل چکا تھا ہیر چیختی چلاتی احتجاج کرتی دوبارہ اٹھ کر عباس کے پاس آئی، غم کی کیفیت میں روتی ہوئی عباس کا گریبان پکڑ کر اُس سے بولنے لگی تبھی عباس نے ہیر کی دونوں کلائیاں اپنی مضبوط گرفت میں لے لی

"میں نے تمہارے باپ کو نہیں مارا ویڈیو میں واضح دکھائی دے رہا ہے درخت کا تنا ٹوٹنے سے وہ کھائی میں گرا اور اُس کی جان گئی"

عباس واضح لفظوں میں ہیر سے بولتا ہوا اُس سے اپنا گریبان چھڑوا چکا تھا

"مگر آپ نے انہیں مرنے دیا،، اُن کو بچانے کی بجاۓ آرام سے کھڑے اُن کو گرتا ہوا دیکھتے رہے"

ہیر روتی ہوئی عباس سے بولی تو غُصّے میں عباس نے ہیر کو دونوں بازوؤں سے پکڑا

"ہاں میں تمہارے باپ کو آسانی سے بچا سکتا تھا مگر وہ بچ جائے ایسا میں نہیں چاہتا تھا، سنا تم نے نفرت تھی مجھے تمہارے باپ سے، شدید نفرت۔۔۔ قدرت نے تمہارے باپ سے میرا انتقام لیا ہے نہیں تو وہ اگر زندہ ہوتا تو میں خود تمہارے باپ کو مار دیتا سنا تم نے"

عباس شدید نفرت کے عالم میں بولتا ہوا ہیر کے پکڑے ہوئے بازو چھوڑ چکا تھا 

"کون سا روپ ہے یہ آپ کا، بتائیے مجھے۔۔۔ وہاں بیسمینٹ میں عباس۔۔۔ ہیر پیلس میں جتنے لوگوں کے ساتھ حادثے ہوئے ہیں، وہی حیوان ذمہ دار ہے اُن سب کا جو اِس وقت بیسمینٹ میں موجود ہے۔۔۔ وہی وہ آسیب ہے جس سے لوگ خوفزدہ رہتے ہیں مائیکل کی موت اُس حیوان کی وجہ سے ہوئی جسے آپ نے بیسمینٹ میں قید کر رکھا ہے اُس حیوان کے ساتھ آپ بھی تمام معصوم لوگوں کی موت کے قصوروار ہیں"

ہیر کو اب خود بھی اپنے شوہر سے خوف آنے لگا تھا وہ عباس کو اُس کے جرم کے بارے میں بتاتی ہوئی مسلسل روئے جارہی تھی۔۔۔ عباس ہیر کی بات سن کر غُصّے میں دوبارہ بولا

"وہ حیوان نہیں ہے بلکہ تمہارے ہی باپ کے گناہوں کا ثمر ہے سنا تم نے۔۔۔ تمہارا بےغیرت  بےضمیر باپ آج اگر زندہ ہوتا تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گناہوں کا نتیجہ دیکھ کر ضرور خدا کے سامنے شرمسار ہوتا"

عباس غُصّے میں ہیر سے بولا تو ہیر بھی غصّے میں ایک مرتبہ پھر چلائی اُس نے دوبارہ عباس کا گریبان پکڑا 

"خبردار جو آپ نے میرے مرے ہوئے باپ کے بارے میں ایک بھی غلط جملہ مذید اور بولا۔۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے میں اتنا سب کچھ دیکھ کر خاموش بیٹھو گی میں یہاں سے جاکر پولیس میں آپ کے خلاف کمپلین کرونگی"

ہیر غصے میں عباس سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر جانے لگی تبھی عباس نے سختی سے اُس کا بازو پکڑا

"کتنی معصوم ہو تم میری جان، تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ سارے راز تم پر عیاں ہونے کے بعد میں تمہیں یہاں سے جانے دوں گا۔۔۔ جس دن تم نے ہیر پیلس میں قدم رکھا تھا میں نے تب ہی تہہ کرلیا تھا کہ اب تم یہاں سے کبھی بھی کہیں نہیں جاسکتی۔۔۔ اور اب تو تم میرے سارے راز جان چکی ہوں سمجھ لو تمہاری آزادی ختم۔۔۔ اب تم ہمیشہ اِس ہیر پیلس میں رہوگی اِس حیوان کے ساتھ جو تمہارا شوہر ہے"

عباس نے ہیر کو پیچھے فرش پر دھکیلا اور کمرے کا دروازہ باہر سے بند کرکے وہ وہاں سے چلا گیا 

"عباس دروازہ کھولیں پلیز دروازہ کھولیں" 

ہیر روتی ہوئی دروازہ بجا بجا کر جب تھک گئی تو اُسی کمرے میں بیٹھ گئی

***""""***

"کیا بولا ہے آپ نے میری امی سے"

شاویز جو اسٹیڈی روم میں موجود کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا امامہ کی آواز پر چونک کر اُسے دیکھنے لگا جو غصّے میں سلائیڈنگ ڈور کے پاس کھڑی اُسی سے مخاطب تھی

"اندر آجائیے امامہ ہم بیٹھ کر آرام سے بات کرلیتے ہیں"

شاویز اپنے گلاسز اتارکر کتاب بند کرتا ہوا دونوں چیزیں ٹیبل پر رکھ کر امامہ سے بولا

"میں یہاں بیٹھ کر بات کرنے نہیں آئی ہوں آپ کو بتانے آئی ہوں کہ میں امی کو لےکر یہاں سے جارہی ہوں، جتنے دن آپ نے مجھ سمیت میری امی کو اپنے گھر میں جگہ دی اُس کے لیے بہت بہت شکریہ"

امامہ شاویز سے بولتی ہوئی وہی سے پلٹ کر جانے لگی

"امامہ اگر آپ کے دل میں میرے لیے ذرا سی بھی رسپیکٹ ہے تو پلیز یہاں آکر بیٹھ جائیے"

شاویز کے جملے پر امامہ کو رکنا پڑا وہ نگاہوں میں خفگی بھر کر اُسے دیکھنے لگی بےشک وہ شاویز کی حرکت پر ناراض سہی مگر اُس کی عزت دل سے کرتی تھی اِس لیے اسٹیڈی روم میں آکر شاویز کے سامنے بیٹھ گئی

"وجہ جان سکتا ہوں آپ کے یہاں سے گھر چھوڑ کر جانے کی"

امامہ کے بیٹھتے ہی شاویز نے اُس سے پوچھا۔۔۔ ایک مرتبہ پھر خفگی بھری نگاہوں سے امامہ نے شاویز کو دیکھا

"آپ کو میرا جواب پہلے سے معلوم ہے لیکن اِس کے باوجود آپ نے امی سے پرپوزل والی بات کی"

آج شام ہی شاویز نے شہناس کے سامنے امامہ کے لیے اپنا پرپوزل رکھا تھا جس پر شہناس نے شاویز کے سامنے فوری ہاں کرنے کی بجاۓ سوچنے کے لیے وقت لیا تھا۔۔۔ مگر وہ امامہ کے لیے دل ہی دل میں خوش اور راضی تھی

"امامہ آپ یہاں میرے گھر پر پچھلے چند دنوں سے رہ رہی ہیں، مجھے بالکل سچ بتائیے گا آپ نے میرے اندر ایسی کون سی بری عادت دیکھی، یا میں نے کوئی غیر اخلاقی حرکت کی۔۔۔ یا پھر میں ایجوکیٹڈ نہیں ہوں۔۔۔ ایسی کون سی وجہ ہے جو آپ مجھے بار بار ریجیکٹ کردیتی ہیں"

شاویز کے پوچھنے پر امامہ خاموشی سے شاویز کا چہرہ دیکھنے لگی۔۔۔ شاویز خود بھی امامہ کو دیکھتا ہوا اُس کے جواب کا انتظار کررہا تھا

"آپ کو مجھ میں ہی ایسی کون سی خوبی نظر آتی ہے جو آپ بار بار پرپوز کرنے کے لیے مجھ کو چنتے ہیں"

امامہ اُس سے وہ سوال پوچھ بیٹھی جس کا جواب جاننے کے لئے تب سے بےقرار تھی جب شاویز نے اُس کو پہلی دفعہ آفس میں پرپوز کیا تھا

"حیرت کی بات ہے آپ کو اپنے اندر موجود خوبیوں کا معلوم نہیں میں تو آپ کو ایک ذہین لڑکی تصور کرتا تھا"

بات کرتے وقت شاویز کے لہجے میں ہلکی شوخی موجود تھی جسے امامہ نظر انداز کرتی اُس سے بولی

"میں اِس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں"

امامہ کی بات پر شاویز اب سنجیدہ ہوکر اُس کو دوبارہ بولا

"میں بھی آپ کیلئے بالکل سیریس امامہ، آپ اچھی لگتی ہیں مجھے۔۔۔ سنجیدہ طبیعت رکھنے والی سوبر لڑکی۔۔۔ ایسی لڑکی جو کسی کا احسان لینا پسند نہیں کرتی، اوپر سے مضبوط دکھنے والی جو اندر سے بےحد حساس اور نرم دل کی مالک ہے۔۔۔ اپنوں سے محبت کرنے والی وہ لڑکی جس کو اپنی ذات کے علاوہ ہر کسی کی فکر ہے"

شاویز دھیمے لہجے میں بولے جارہا تھا امامہ غور سے شاویز کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔ یہ ساری خوبیاں تو آج تک اُس کے اندر کسی نے نہیں دیکھی تھی جو سامنے بیٹھا شخص اسے گنوا رہا تھا۔۔۔ آج تک جو بھی اُس کا پروپوزل آیا تھا اُس کے پاؤں میں نقص دیکھ کر اور اس کی سانولی رنگت دیکھ کر سب ہی اس کو ریجیکٹ کردیتے تھے

"ایک ساتھ زندگی گزارنے کے لئے صرف باطنی خوبصورتی معنی نہیں رکھتی"

امامہ شاویز کو دیکھ کر بتانے لگی جس پر شاویز گہری سانس لےکر امامہ کو دیکھتا ہوا بولا

"میں 35 سال کا میچور مرد ہو امامہ۔۔۔ میرا دل کسی ٹین ایجر لڑکے کے دل کے جیسا نہیں، جسے بےپناہ حسن رکھنے والی لڑکی کی تلاش ہو۔۔۔ ہر انسان کی الگ سوچ الگ خیالات الگ نظریات ہوتے ہیں۔۔۔ میں اِس طرح کے انسانوں میں سے ہوں جو ظاہری خوبصورتی کی بجائے اندر کی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں لیکن آپ اس کا یہ مطلب ہرگز تصور مت کیجئے گا کہ آپ میں ظاہری طور پر کوئی کمی ہے۔۔۔ آپ خوش شکل اور اچھی پرسنلٹی رکھنے والی لڑکی ہیں، میں زندگی گزارنے کے لئے جس طرح کے لائف پارٹنر کا تصور کرتا ہوں آپ اس پر پوری اترتی ہیں۔۔۔ اگر آپ ان باتوں کو وجہ بنا کر میرے پرپوزل کو ریجکٹ کریں گیں تو مجھے برا لگے گا"

شاویز بولتا ہوا امامہ کو دھیمے لہجے میں سمجھانے لگا

" بابا"

تبھی نیند میں وانیہ اپنے بیڈ روم میں شاویز کو پکارنے لگی۔۔۔ شاویز کے ساتھ امامہ بھی اٹھ کر وانیہ کے بیڈروم میں چلی آئی۔۔۔ وانیہ کبھی نیند سے جاگ جاتی تو خود کو اکیلا پاکر شاویز کو پکارتی

"میری پرنسز جاگ گئی"

شاویز وانیہ کے کمرے میں آکر اس کو گود میں اٹھاتا ہوا بولا

"ماما آنٹی"

امامہ کو رات کے وقت اپنے کمرے میں دیکھ کر وانیہ شاویز کی گود میں ہاتھ پھیلا کر امامہ کے پاس آنے لگی تو امامہ نے وانیہ کو شاویز کی گود سے لےلیا۔۔۔ وانیہ امامہ کے کندھے پر سر رکھ کر پُرسکون نیند سو چکی تھی

"میں اور وانیہ دونوں کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ اِس گھر سے کہیں اور جائے باقی جو بھی آپ کا فیصلہ ہوگا میں دل سے اُس کا احترام کروں گا"

شاویز امامہ سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا

***""""***

"کھانا کھالیا اُس نے"

صبح سے اب رات ہوچکی تھی عباس نے ہیر کو ابھی تک اُس چھوٹے سے کمرے میں قید کر رکھا تھا خود وہ کسی ضروری کام سے چلاگیا تھا۔۔۔ اب رات کے وقت کھانے کی میز پر فرغب بی سے ہیر کے بارے میں پوچھنے لگا

"بہت ضدی ہیں آپ کی بیوی۔۔۔ نہ ہی انھوں نے دوپہر میں کچھ کھایا نہ ہی رات کا کھانا کھارہی ہیں"

فرغب بی عباس کو جواب دیتی ہوئی بولیں آج صبح اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تبھی ڈرائیور کے ساتھ وہ ڈاکٹر کے پاس چلی گئی تھیں جب ہیر پیلس میں اُن کی واپسی ہوئی تب ایک نیا باب کُھل چکا تھا

"میں دیکھتا ہوں جاکر"

فرغب بی کا جواب پاکر عباس سے بھی کھانا نہیں کھایا گیا، وہ صبح سے خالی پیٹ تھی عباس کرسی سے اٹھتا ہوا کمرے کی طرف جانے لگا جس میں اُس نے صبح ہیر کو بند کردیا تھا

گول گٹری بنی وہ نیچے ٹھنڈے فرش پر لیٹی تھی، کمرے کا دروازہ کھولنے پر ہیر میں کوئی ہل جھل نہیں ہوئی تھی صرف آنکھیں اٹھا کر وہ کالے لباس میں اپنی جانب آتے عباس کو دیکھنے لگی

"کھانا کیوں نہیں کھارہی ہو تم" 

عباس ہیر کی جانب قدم اٹھاتا ہوا ساتھ ہی ہیر سے پوچھنے لگا، ہیر اِس وقت بےسدھ نڈھال سی زمین پر لیٹی ہوئی تھی اور کمرہ بےانتہا ٹھنڈا ہورہا تھا

"آپ کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی ہوں میں چلے جائیے یہاں سے"

ہیر عباس کے جواب میں یونہی لیٹے لیٹے عباس کو دیکھ کر بولی آج اسے عباس کو کالے رنگ کے لباس میں دیکھ کر ڈر نہیں لگ رہا تھا آج اس نے اپنے شوہر کا جو روپ دیکھا تھا وہ اُس روپ سے بھی زیادہ بھیانک تھا جس سے وہ ابھی تک ڈرتی آئی تھی

"شکل تو میں اپنی تبدیل نہیں کرسکتا، ساری عمر تمہیں اسی شکل کے ساتھ گزارا کرنا ہے چلو اٹھ کر بیٹھو"

عباس اُس کو بولتا ہوا خود اٹھانے لگا کافی دیر سے ٹھنڈے فرش پر لیٹے رہنے کی وجہ سے اُس کے ہاتھ پاؤں کافی سرد ہورہے تھے عباس اپنے شانوں سے گرم چادر اتار کر ہیر کے گرد لپیٹنے لگا

"آپ نے میرے ساتھ وہ سب کیوں کیا تھا عباس۔۔۔ کون سا شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اِس طرح کرتا ہے، کیوں مجھے اتنے دنوں تک خوف میں ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا آپ نے، کیو مجھے باور کرواتے رہے وہ سب کرنے والے آپ نہیں کوئی دوسرا تھا، ترس نہیں آیا آپ کو میری ذات پر"

عباس جانتا ہیر اُس سے کس بارے میں بات کررہی تھی۔۔۔ وہ اسے کالے لباس میں دیکھ کر آج خوفزدہ نہیں تھی اس کا یہی مطلب تھا وہ سب کچھ سمجھ چکی تھی جبھی اُس سے سوال پوچھ رہی تھی جس کا جواب دینا عباس نے ضروری نہیں سمجھا

"لو کھانا کھالو" 

وہ چھوٹی سی ٹیبل پر رکھی کھانے کی ٹرے ہیر کے پاس لے آیا اور اپنے ہاتھ سے نوالہ بناکر اپنا ہاتھ ہیر کے منہ کی طرف بڑھاتا ہوا بولا

"یوں میری باتوں کو نظر انداز کردینے سے آپ کے جرم کم نہیں ہو جائیں گے بعد میں آپ کس کس بات کی معافی مانگیں گے مجھ سے"

ہیر عباس کا ہاتھ پیچھے کرتی ہوئی اُس سے بولی

"جانتی کیا ہو تم آدھا ادھورا سچ، مکمل حقیقت سے تم ابھی بھی ناواقف ہو میری جان جس دن تصویر کا دوسرا رخ تمہارے سامنے آگیا تو شاید خسارہ میرے حصّے میں نکلتا دیکھ کر معافی تمہیں مانگنی پڑے اپنے شوہر"

عباس ہاتھ میں پکڑا روٹی کا نوالہ واپس پلیٹ میں رکھتا ہوا ہیر سے بولا

"مجرم اور قاتل سے معافی نہیں مانگی جاتی ہے نہ ہی وہ معصوم ہوا کرتے ہیں"

ہیر اب کی بار تھوڑا تیز آواز میں احتجاجاً بولی

"اپنے کمرے میں چلو یہاں کافی ٹھنڈ ہے تم بیمار ہوجاؤ گی"

عباس ایک مرتبہ پھر اُس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا ہیر سے بولا اور خود اٹھ کر کھڑا ہوگیا

"مجھے آپ کے کمرے میں نہیں جانا اِس قید سے آزادی چاہتی ہوں میں"

ہیر کھڑی ہوئے بغیر عباس کو دیکھتی ہوئی بولی

"آزادی تمہارے مقدر میں نہیں لکھی ہے نہ ہی میں تمہاری کوئی فضول کی ضد پوری کرسکتا ہو"

عباس نے بولتے ہوئے جھک کر ہیر کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔۔ ہیر میں اتنی توانائی نہ تھی کہ وہ صبح کی طرح چیختی چلاتی یا پھر احتجاج کرتی۔۔۔ عباس ہیر کو اپنے بازوؤں میں اٹھاۓ بیڈروم میں لاکر بیڈ پر بٹھا چکا تھا

"فرغب بی کھانا لاکر دیں تو بغیر ضد کیے کھالینا" 

عباس ہیر کی نم آنکھیں دیکھتا سنجیدہ لہجہ اختیار کرکے بولا

"میرے ابو کی طرف فرحانہ بھی مر گئی۔۔۔ فرحانہ کو بھی مار ڈالا آپ نے عباس"

ہیر نم آنکھوں اور بھیگے لہجے کے ساتھ عباس سے پوچھنے لگی

"ہاں مار ڈالا اسے بھی اور اب تم کوئی بےکار سوال مجھ سے نہیں پوچھوں گی، صرف وہی کرو گی جو میں بولوں گا"

عباس ہیر کی نم آنکھیں دیکھ کر سخت لہجہ اختیار کرتا ہوا بولا

"نہیں تو کیا کریں گے آپ مجھے بھی مار ڈالیں گے"

ہیر آہستہ آواز میں عباس سے پوچھنے لگی تو عباس چلتا ہوا ہیر کے پاس آیا وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی عباس کی سنگدلی دیکھ رہی تھی۔۔۔ عباس ذرا سا اُس کے چہرے کی طرف جھکتا ہوا سنجیدہ لہجے میں بولا

"اگر تم نے ہیر پیلس سے باہر قدم رکھا یا پھر یہاں سے جانے کی ضد کی تو میں تمہیں بھی مار ڈالوں گا"

وہ سفاکی سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ہیر اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی

***"""***

"کتنا وقت لگا رہی ہو آرذو تیار ہونے میں چلنا ہے یا نہیں"

بیڈ پر لیٹے ہوۓ ہاشم نے ایک مرتبہ پھر آرزو سے پوچھا جو اُس کی جانب پشت کے آئینے کے سامنے کھڑی بڑے دل سے تیار ہو رہی تھی 

"ہاشم تھوڑا ٹائم تو لگے گا ایسے ہی اٹھ کر چلی جاؤ اپنی بہن کی خوشی میں"

آرزو ہاشم کی جانب رخ کرتی بولی تو ہاشم اُس کی تیاری دیکھ کر ایک پل کے لیے مہبوت سا رہ گیا

"جلدی جانے کا اِس لیے بول رہا ہوں کیوکہ امامہ کے نکاح کے بعد وہاں سے تمہیں سونیا کی منگنی میں بھی جانا ہے۔۔۔ یار کیا بہت ضروری ہے سونیا کی منگنی میں جانا"

ہاشم آرزو کے پروگرام کے مطابق اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ آج شاویز کے ساتھ امامہ کا نکاح سادگی سے گھر پر رکھا گیا تھا اور آرزو کی دوست سونیا کی منگنی بھی آج ہی کے دن مقرر کی گئی تھی جس میں شرکت کرنے کے لیے آرزو دل و جان سے تیار ہوئی تھی 

"بہت ضروری ہے ہاشم سونیا کی منگنی میں جانا نہیں تو وہ بہت زیادہ ناراض ہوجائے گی اچھا بس پانچ منٹ دے دیں میں بس تیار ہونے والی ہو"

آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی دوبارہ اپنی رُخ آئینے کی طرف مُڑنے لگی

"پانچ منٹ تو اب تمہیں مجھے دینے ہونگے"

ہاشم کی بات پر آرذو پلٹ کر ناسمجھنے والے انداز میں بیڈ پر نیم دراز ہوۓ ہاشم کو دیکھنے لگی

"پانچ منٹ سے زیادہ وقت لگنا بھی نہیں چاہیے آپ کو تیار ہونے میں، ڈریس آپ کا پریس ہے بلکہ آپ بھی تیاری شروع کریں"

آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے لگی تو ہاشم بیڈ سے اٹھ کر قدم اٹھ کر آرزو کے پاس آیا

"ہاشم میں آپ کو کیا بول رہی ہوں اور آپ ابھی کیا کررہے ہیں"

ہاشم نے جیسے ہی آرزو اپنے حصار میں لیا آرزو ہاشم کا بدلتا ہوا موڈ دیکھ کر اُس کو بولنے لگی

"پانچ منٹ میں تیار ہونے کے لئے نہیں بلکہ تم سے اپنے لئے وقت مانگ رہا تھا" 

ہاشم نے آرذو بولتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھکنا چاہا تو آرذو نے ہاشم کو بڑی بڑی آنکھیں دکھائی۔۔۔ ہاشم شرافت کا مظاہرہ کر کے اپنے ہونٹ اُس کے گال پر رکھ چکا تھا

"آپ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔ اگر میرا میک اپ خراب ہوا تو مجھے مزید دیر لگی کی تیار ہونے میں" 

ہاشم کی نظروں میں اپنے لیے بےقراری دیکھ کر آرزو اُس سے بولی

"سمجھو ابھی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے اگر موقعے کا فائدہ اٹھاتا تو تم غصہ کرنے لگ جاتی۔۔۔ اور یہ رعایت صرف ابھی دے رہا ہوں واپس گھر آنے کے بعد آج کوئی رعایت نہیں ملنے والی تمہیں"

ہاشم گہری نظروں سے آرزو کو دیکھتا ہوا بولا تو آرزو کی پلکیں حیا سے جھک گئیں۔۔۔ ہاشم آرزو کے حسین سراپے پر بھرپور نظر ڈال کر خود بھی چینج کرنے چلا گیا

***"""***

"شاویز بھائی بہت اچھے انسان ہیں آپی مجھے بہت خوشی ہے آپ کے لئے آپ کیوں اداس لگ رہی ہیں"

نکاح کے بعد آرزو امامہ سے بولی امامہ دلہن کی بجائے سادہ سے روپ میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور اُس کی گود میں وانیہ سو رہی تھی۔۔۔ شاویز اور شہناس کے اصرار پر امامہ بھی راضی ہوچکی تھی تبھی جلدی اور سادگی سے نکاح کی تقریب گھر پر ہی رکھ دی گئی

"میں بھی خوش ہوں بس ابو اور ہیر کی یاد آرہی تھی"

امامہ کے بولنے پر صدیقی کے ذکر سے آرذو بھی اداس ہوگئی وہی کمرے میں آتی شہناس امامہ کا جملہ سنتی ہوئی اُس سے بولی

"ہیر کی تو بہت فکر ہونے لگی ہے مجھے، میری سب سے چھوٹی بیٹی ایسے آدمی کو بیاہی جائے گی معلوم نہیں تھا۔۔۔ شیر عباس کو دیکھ کر ذرا گمان بھی نہیں ہوتا ایسا بےحس انسان نکلے گا وہ، پہلے تو اُس نے ہیر کو ہمارے پاس آنے سے روکا ہوا تھا لیکن اب تو اُس نے ہیر سے بات کرنے پر بھی پابندی لگادی۔۔۔ تین دن سے ہیر کی آواز نہیں سنی معلوم نہیں کس حال میں رکھا ہے اُس نے میری بچی کو"

شہناس ہیر کو یاد کر کے مزید افسردہ ہونے لگی

"امی آپ فکر نہیں کریں میں نے ہاشم سے ذکر کیا ہے اِس بارے میں، بس وہ اپنے دو سے تین ضروری کام نمٹالیں پھر ہاشم مجھے لےکر خود عباس بھائی کے پاس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔ ہم ہیر سے مل بھی آئیں گے اور عباس بھائی سے بات بھی کرلیں گے معلوم تو ہو آخر بات کیا ہے"

آرزو افسردہ بیٹھی شہناس کو دیکھ کر بولی جو صدیقی کے جانے کے بعد کافی کمزور ہوچکی تھی

"ارے وہاں جاکر بات کیا کرنی ہے بس سیدھا سیدھا وہاں سے میری بچی کو اپنے ساتھ لے آنا"

شہناس آرزو کو دیکھ کر بےقرار لہجے میں بولی تو امامہ نے بیچ میں مداخلت کی

"کیسی بات کررہی ہیں آپ امی، عباس بھائی ہیر کے شوہر ہے ان کی مرضی نہیں ہوگی تو یہ لوگ ہیر کو زبردستی تو اپنے ساتھ نہیں لاۓ گیں۔۔۔ آپ اپنے ذہن سے یہ وہم نکال دیں کہ عباس بھائی نے ہیر کو خوش نہیں رکھا ہوا، اگر ایسی بات ہوتی تو ہیر مجھ سے ضرور شیئر کرتی"

امامہ کے سمجھانے پر آرذو اور شہناس دونوں خاموش ہوگئیں

"تم سناؤ ہاشم کی پہلی بیوی کا رویہ تمہارے ساتھ کیسا ہے۔۔۔ اُس لڑکی کو دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں ہے کہ تمیز اور اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہوگی"

اب شہناس آرزو کی فکر کرتی اُس سے ماہ نور کے متعلق پوچھ رہی تھی۔۔۔ ماہ نور جو شہناس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی

"میں زیادہ بات نہیں کرتی ہوں اُن سے، وہ بھی اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔۔۔ آپ ماہ نور کی وجہ سے ٹینشن مت لیں"

آرزو زیادہ کچھ نہیں بولی نہ ہی اُس نے ابھی تک شہناس امامہ کو یہ بتایا تھا کہ ہاشم اور ماہ نور ایک دوسرے سے علیدگی چاہتے ہیں کیوکہ ابھی ڈائیورس کے پیپرز نہیں آۓ تھے۔۔۔ جب تک ماہ نور اس گھر میں تھی آرزو اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی وہ ماہ نور کے طنز، طعنوں کو نظر انداز کررہی تھی کیوکہ اُس کی زندگی سے ماہ نور نام کا کانٹا چند ہی دنوں میں نکلنے والا تھا

"ہاشم بھائی تمہیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے ہیں اب تم اپنے سسرال واپسی کیسے کروں گی"

امامہ بات کا رخ بدلتی ہوئی آرذو سے پوچھنے لگی کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہاشم امامہ کو نکاح کی مبارکباد کے ساتھ اپنے واپس جانے کا بھی اُس سے ذکر کرچکا تھا

"انہیں اپنے دوست کے پاس کسی ضروری کام سے جانا پڑگیا ہے ڈرائیور آنے والا ہے مجھے لینے کے لئے، پہلے سونیا کی طرف جاؤ گی پھر وہاں سے واپس گھر جاؤں گی"

آرزو امامہ کو اپنا پروگرام بتاتی ہوئی بولی

***""""***

"اف یہ ڈرائیور نے گاڑی اتنی دور اندھیرے میں کھڑی کی ہے"

آرزو قطار سے کھڑی گاڑیوں میں اپنی گاڑی تلاش کرنے لگی جو گلی ختم ہونے سے پہلے سب سے آخر میں کھڑی تھی آرذو جھنجھلاتی ہوئی پیدل چلتی گاڑی کی طرف بڑھی

اس نے سونیا کی طرف جانے کا اپنا پروگرام کینسل کردیا تھا کیونکہ رات کافی ہوچکی تھی۔۔۔ شہناس اور امامہ کے پاس اُس کو کافی ٹائم لگ گیا تھا مزید دیر کرکے وہ ہاشم سمیت گلنار اور ایوب خان کو خود سے شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی

"ایسا کرو گاڑی گھر کی طرف لے لو"

آرذو گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی ڈرائیور سے بولی کیونکہ بقول ہاشم کے وہ ڈرائیور کو سونیا کے گھر کا ایڈریس پہلے ہی سمجھا چکا تھا

"یہ کون سے ویران رستے سے لےکر جارہے ہو گاڑی۔۔۔ اور اتنا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے لائٹ آن کرو"

آرذو ڈرائیور کو ٹوکتی ہوئی بولی۔۔۔ اُس کی ساری توجہ اِس وقت امامہ کے ساتھ کھینچی اپنی تصویروں پر تھی جو اس نے اپنے موبائل سے لی تھی۔۔۔ تبھی اُس کے موبائل پر ہاشم کی کال آنے لگی

"جی ہاشم بولیے"

ہاشم کی کال ریسیو کرنے کے ساتھ ہی آرزو بولی ویسے ہی ڈرائیور نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کردی، آرزو ڈرائیور کو ٹوکنے سے رہ گئی کیونکہ ہاشم اُس سے کچھ بول رہا تھا

"کیا مطلب ہے آپ کا"

آرزو ہاشم کی بات پر الجھ کر بولی

"یار گاڑی خراب ہوچکی ہے بیچ راستے میں ڈرائیور گاڑی کو ٹھیک کروا رہا ہے تم وہی ویٹ کرو میں خود تمہیں تھوڑی دیر میں پک کرلیتا ہوں"

ہاشم نہ جانے اور بھی کیا بول رہا تھا لیکن آرزو کو تو جیسے سانپ سونگ گیا۔۔۔ اگر گاڑی خراب تھی اور ڈرائیور گاڑی کو ٹھیک کروا رہا تھا تو یہ کس کی گاڑی تھی جس میں وہ بیٹھی ہوئی تھی اور یہ آدمی۔۔۔

"گاڑی روکو"

آرذو گھبرائی ہوئی آواز میں اُس سے بولی تو آرذو کی بات سن کر وہ مزید گاڑی کی اسپیڈ تیز کرچکا تھا جس سے آرزو کا موبائل نیچے گر گیا۔۔۔ معلوم نہیں کال ابھی بھی کنیکٹ تھی کہ ہاشم اپنی بات بول کر کال کاٹ چکا تھا

"میں بول رہی ہوں گاڑی روکو کون ہو تم"

اب کی بار آرزو مزید اونچا بولی تو ڈرائیور نے گاڑی کی لائٹ آن کردی اور فرنٹ مرر کا رخ اُس نے اپنے چہرے کی طرف کیا۔۔۔ مرر میں اُس کا چہرہ دیکھ کر آرذو کی خوف سے آنکھیں پھیل گئی

***"""***

"تم ایسی بےزار شکل بناکر بیٹھی ہو ہیر جیسے موقع ملنے کی دیر ہے فوراً یہاں سے فرار ہوجاؤ"

عباس اپنے سامنے کرسی پر بیٹھی ہیر کو ٹوکتا ہوا بولا۔۔۔ اُس کی شادی کی خوشی میں یہ اُس کے اسٹاف کی طرف سے دی گئی چھوٹی سی دعوت تھی جس میں وہ ہیر کو بہت اصرار کر کے اپنے ساتھ لایا تھا مگر بےزاری ہیر کے چہرے سے چھلک رہی تھی اِس لیے عباس ہیر کو ٹوکتا ہوا بولا

"بے زار شکل کیو نہ بناؤ؟ میں یہاں کون سا کسی کو جانتی ہوں بلاوجہ مجھے اپنے ساتھ لے آئے اور خود اپنے دوستوں میں مگن ہیں آپ"

ہیر عباس کو دیکھ کر منہ بناتی ہوئی اُس سے شکوہ کرنے لگی جو اُس کو اپنے ساتھ یہاں لاکر اپنے دوستوں میں مصروف ہوگیا تھا وہ کب سے اکیلی بیٹھی بور ہورہی تھی

"تو یار وہ دوست ہیں میرے کیا جاکر ملوں گا نہیں اُن سے، اب آگیا ہوں ناں تمہارے پاس" عباس ہیر کو گھورتا ہوا بولا وہ دور سے ہیر کے اُکتائے ہوئے انداز سے ہیر کے خراب موڈ کا اندازہ لگا چکا تھا اس لیے اُسکے پاس چلا آیا اس سے پہلے ہیر عباس سے کچھ کہتی ضروری اناؤنسمنٹ ہونے لگی 

"لیڈیز اینڈ جنٹلمین اب پیش خدمت ہے آپ کے سامنے ایک خوبصورت گانا، یہ گانا دراصل ایک ہسبینڈ کے دل کی آواز ہے دیکھتے ہیں اُن کی وائف اپنے ہسبینڈ کے دل کی آواز کو پہچان سکتی ہیں یا نہیں"

ایک لیڈی مائیک پر اناؤنس کر کے چلی گئی تو ہال میں تالیاں گونجنے لگیں

"لوگ بھی بڑے عجیب و غریب ہوتے ہیں۔۔۔ ہسبیڈ خود اپنے دل کی آواز اپنی بیوی تک پہنچا دیتا گانا تو سنگر گا کے نکل جائے گا بلاوجہ یہاں ساری عورتیں خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ اُن کے لئے ان کے ہسبینڈ نے یہ سونگ ڈیڈکیٹ کیا ہوگا"

ہیر ناک چڑھا کر بولی تو عباس پہلے ہیر کی بات پر چپ رہا پھر وقفے کے بعد بولا

"یہ بھی تو ہوسکتا ہے اُس بےچارے آدمی نے پہلے کبھی کسی کے سامنے گانا نہیں گایا ہو وہ نروس فیل کررہا ہو اِس لیے اُس نے کسی دوسرے کو گانا گانے کے لیے کہہ دیا ہو"

عباس اُس ہسبینڈ کی حمایت لیتا ہوا ہیر سے بولا

"پہلی بات یہ کہ مرد بےچارے بالکل نہیں ہوتے اور نروس ہونے والی کون سی بات ہے بھئی جب شادی کرلی تو خود کی بیوی کی لیے تعریفی بول بولنے میں کیسی شرم۔۔۔۔ اتنا ہی تو بولنا ہے کہ تم اچھی لگتی ہو مجھے"

ہیر نے اپنی رائے دیتے ہوئے سر جھٹکا تو عباس کا دل چاہا وہ سنگر کو گانا گانے سے روک دے اور ہیر کو خود ہی بول دے کہ وہ اُس کو اچھی لگتی ہے مگر تب تک گانا شروع ہوگیا گانے کے بول ایسے تھے کہ ہیر کا موڈ بحال ہونے لگا

"جب کوئی بات بگڑ جائے، جب کوئی مشکل پڑ جائے، تم دینا ساتھ میرا وہ ہم نوا۔۔۔۔ نہ کوئی ہے نہ کوئی تھا زندگی میں تمھارے سوا۔۔۔۔ تم دینا ساتھ میرا او ہمنواں۔۔۔

گانے کے دوران جب مدہم سروں میں میوزک بج رہا تھا تب عباس اپنی کرسی سے اٹھ کر سنگر کی طرف جانے لگا ہیر کنفیوز ہوکر عباس کو دیکھنے لگی

"ہو چاندنی جب تک رات دیتا ہے ہر کوئی ساتھ۔۔۔ مگر تم اندھیروں میں نہ چھوڑنا میرا ساتھ۔۔۔ جب کوئی بات بگڑ جاۓ جب کوئی مشکل پڑ جاۓ تم دینا ساتھ میرا او ہمنوا۔۔۔

عباس مائیک پکڑے ہیر کو دیکھتا ہوا اُس کے لیے باقی کے بول خود گانے لگا جبکہ ہیر حیرت سے منہ کھولے عباس کو دیکھنے لگی

وہ اِس وقت اپنے ہاتھ کی انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی دیکھ کر ایک ماہ پہلے والی اُس رات کو یاد کرنے لگی جب عباس نے نہ صرف سب کے سامنے اُس کے لیے گانا گایا تھا بلکہ واپس گھر آنے کے بعد ہیر کو یہی انگوٹھی پہناتے ہوۓ اِس بات کا اقرار بھی کیا کہ وہ اُس کو اچھی لگتی ہے

اچھی لگنے کے باوجود اُس کے شوہر نے اس کے ساتھ دھوکا کیا، اُس کو کس طرح خوف میں مبتلا رکھا کاش وہ اُس کو اچھی نہیں لگتی تو پھر شاید اُس کا شوہر اُس کے ساتھ وہ سب نہ کرتا۔۔۔ ہیر بیڈ روم میں موجود سوچنے لگی 

صبح کا وقت تھا، عباس 2 گھنٹے پہلے ہوٹل جانے کے لئے تیار ہوکر ہیر پیلس سے نکل چکا تھا۔۔۔۔ رات نہ جانے وہ کون سا پہر تھا جب عباس سونے کی غرض سے بیڈروم میں آیا تھا۔۔۔ عباس کے بیڈ پر لیٹنے سے ہیر کی آنکھ کھلی تھی مگر وہ عباس کو لیمپ کی روشنی میں دیکھ کر دوسری سمت اپنا رخ کرتی سوچکی تھی۔۔۔ صبح سے ہی ہیر کو اپنا موبائل کہیں نظر نہیں آرہا تھا مطلب عباس نہیں چاہتا تھا وہ اب اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ کرے۔۔۔ ہیر غصے میں اپنے بیڈ روم میں لگے اُس خفیہ کیمرہ کو دیکھنے لگی جس سے اُس پر نظر رکھی جاتی تھی ہیر کمرے سے باہر نکلنے والی تھی تبھی فرغب بی کمرے کے اندر چلی آئیں

"یوں شوہر سے ضد لگانا کوئی اچھی بات نہیں ہے، شیر عباس کو معلوم ہوگا آپ نے ناشتہ نہیں کیا تو وہ کل کی طرح آپ سے خفا ہوں گے"

ناشتے کی ٹرے جوں کی توں دیکھ کر فرغب بی ہیر سے بولیں

"کیا اچھی بات ہے کیا نہیں۔۔۔ کم سے کم یہ باتیں آپ کے اور عباس کے منہ سے زیب نہیں دیتیں۔۔۔ آپ بھی عباس کے ساتھ اُن کے ہر برے عمل میں برابر شامل رہی ہوگیں۔۔۔ خوف نہیں ہے آپ دونوں کو اللہ کا۔۔ ترس نہیں آرہا آپ کو مجھے اِس حالت میں دیکھ کر۔۔۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے فرغب بی آپ نے مجھ پر جب ترس نہیں کھایا اب تو کھالیں، پلیز مجھے اِس قید سے آزاد کردیں ورنہ میں یہاں سسک سسک کر مرجاونگی"

ہیر بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور فرغب بی سے کہنے لگی۔۔۔۔ فرغب بی ہیر کی بات اَن سنی کرکے بنا کچھ بولے کمرے سے باہر جانے لگیں تو ہیر کو نہ جانے کیوں شدید غصہ آیا

"فرغب بی"

ہیر زور سی چیختی ہوئی فرغب بی کے پاس آئی اِس سے پہلے فرغب بی کمرے سے باہر نکلتیں ہیر نے اُن کو بیڈ کی جانب دھکا دیا اور خود تیزی سے کمرے سے نکل کر باہر سے کمرہ لاک کردیا

"ہیر دروازہ کھولیں۔۔۔۔ شیر عباس بہت غصہ ہوگیں"

فرغب بی دروازہ بجاتی ہوئی ہیر سے بولیں مگر موقع دیکھتے ہی ہیر راہداری عبور کر کے ہال میں آئی۔۔۔ ملازموں نے اُس کے کمرے سے نکل آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔۔۔ ہیر خاموشی سے اپنے گرد لپٹی ہوئی چادر کو درست کرتی ہال سے باہر نکل گئی، ہیر پیلس کا احاطہ پار کرکے اُس کے قدموں میں تیزی آگئی وہ کیسے بھی یہاں سے جلد سے جلد نکلنا چاہتی تھی اُس کو نہیں خبر تھی عباس اِس وقت اُس کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ کر پکڑ لے گا یا وہ یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوسکے گی

***""""***

احتجاجاً رو رو کر اب اُس کی آنکھیں خشک ہوچکی تھی کل رات اُس کو کیڈنیپ کیا گیا، کل رات سے وہ اپنے گھر سے لاپتہ تھی۔۔۔ کل کی رات اپنی سیاہی اُس کے چہرے پر مل کر گزر چکی تھی اور اب دن کا آغاز ہوچکا تھا لیکن ابھی تک اُس کو اغوا کرنے والا شخص اُس کے سامنے نہیں آیا تھا۔۔۔ کسی اجنبی آدمی کو کار ڈرائیو کرتا دیکھ کر وہ بری طرح خوف ذدہ ہوچکی تھی، کل رات سے وہ اس کمرے میں قید تھی جہاں نہ تو کوئی کھڑکی تھی نہ ہی کوئی روشندان کمرے میں ایک چھوٹا سا بیڈ اور کرسی ٹیبل موجود تھی تب اچانک اس کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک عورت ٹرے لےکر اندر داخل ہوئی

"کون ہو تم، مجھے کس وجہ سے یہاں لایا گیا ہے۔۔۔ جواب کیوں نہیں دے رہی ہو؟؟ مجھے بتاؤ پلیز مجھے یہاں کیوں قید کیا گیا ہے۔۔۔ کون ہے وہ جس کے کہنے پر مجھے اغوا کیا گیا ہے پلیز کچھ تو بولو"

آرزو اُس عورت سے پوچھتی رہ گئی مگر وہ عورت کچھ نہیں بولی کھانے کی ٹرے رکھ کر وہاں سے چلی گئی۔۔۔ آرزو کو ایک مرتبہ پھر رونا آنے لگا۔۔۔ اُسے ہاشم کا، اپنے گھر والوں کا، اپنے سسرال والوں کا خیال آنے لگا نہ جانے اب تک وہ سب لوگ کیا کیا سوچ بیٹھے ہونگے۔۔۔ یونہی ایک گھنٹہ گزر گیا اب وہ عورت ایک مرتبہ دوبارہ کمرے میں آئی اب کی بار آرزو اپنے کانوں میں پہنے ہوئے ڈائمنڈ کے چھوٹے چھوٹے ائیرینگز اور ہاتھوں کی انگلیوں کی رینگز اتارنے لگی

"یہ تم رکھ لو، دیکھو یہ لوگ تمہیں جتنے پیسے دیں گے، یہ ان سے کئی زیادہ قیمتی ہیں مگر پلیز مجھے یہاں سے جانے دو"

آرزو اس عورت کے ہاتھ میں اپنی اتاری ہوئی جیولری رکھ کر بولی وہ عورت اب بھی کچھ نہیں بولی ٹرے میں موجود کھانا جوں کا توں ویسے ہی دیکھ کر وہ عورت ٹرے واپس لے جانے لگی

"سنو پلیز مجھے یہاں سے باہر نکال دو"

آرزو اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی دوبارہ بولی مگر وہ عورت ایسے ری ایکٹ کررہی تھی جیسے گونگی اور بہری ہو۔۔۔ اس عورت کو کمرے سے جاتا دیکھ کر آرزو کو غصہ آنے لگا

"جس نے مجھے اغواء کیا ہے اُس بزدل اور کمزور انسان سے بولو یہاں میرے سامنے آکر بات کریں مجھ سے" آرزو اب کی بار چیخ کر بولی مگر وہ عورت کمرے سے جاچکی تھی آرزو وہی چھوٹے سے بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی تب اسے محسوس ہوا ایک سے زیادہ فرد کمرے سے باہر موجود ہیں، جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھلا وہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی

"کک۔۔۔ کون ہو تم"

اِس آدمی کو آرزو بالکل بھی نہیں پہچانتی تھی جو ہاتھ میں گن پکڑا ہوا اُس کی طرف بڑھ رہا تھا آرذو ڈر کے مارے بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔ وہ آدمی ہاتھ میں پکڑی گن سے آرزو کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا آرزو اس کے ہاتھ میں گن دیکھ کر خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔ وہی عورت دوبارہ کمرے میں چلی آئی، اور آرزو کی آنکھوں پر کالے رنگ کی پٹی باندھنے لگی

"یہ کیا کررہے ہو تم لوگ"

کرسی سے جب اُس کے دونوں ہاتھ باندھے گئے تب آرزو گھبراتی ہوئی بولی پھر آرزو کو محسوس ہوا جیسے وہ دونوں کمرے سے باہر جاچکے ہیں۔۔۔ اب کمرے میں اُس کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا تب آرزو کے کان میں ایک مرتبہ پھر دروازہ کھلنے کی آواز آئی

"کون ہے، کون ہے یہاں پر"

کوئی اُس کی طرف قدم بڑھاتا ہوا آرہا تھا جوتوں کی آواز سے آرزو نے اندازہ لگایا تبھی وہ گبھراتی ہوئی آنے والے شخص سے پوچھنے لگی

"مجھے پلیز واپس جانے دو میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا"

آرزو دوبارہ بولی اسے محسوس ہوا جیسے وہ اُس کے سامنے بیٹھا ہو

"نن۔۔۔ نہیں پلیز"

آرزو کو اپنے کانوں کو چھوتی اُس کی انگلیاں محسوس ہوئی وہ بری طرح خوفزدہ ہوگئی مگر اسے محسوس ہوا کہ وہ جو بھی کوئی تھا اُس کے آئیر رینگز اسے دوبارہ پہنا رہا تھا شاید وہ عورت اُس کے ائیرنگ اِس آدمی کو دے چکی تھی

"تب۔۔۔ ریز۔۔۔

ٹوٹا ہوا نام جیسے ہی آرزو کے منہ سے ادا ہوا انگلی میں انگوٹھی ڈالتے اُس آدمی کے ہاتھوں کی حرکت چند پل کے لیے رک گئی

"مم۔۔۔ میں جانتی ہوں تم تبریز ہو۔۔۔ اِس طرح تم مجھے کبھی حاصل نہیں کرسکتے میں ہاشم کی بیوی کو کسی دوسرے کی عزت، تمہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ایک شادی شدہ لڑکی کا خیال اپنے دل میں لاتے ہوئے، میں تمہیں بتاچکی ہوں کہ میں تم سے محبت نہیں کرتی اور تمہاری اِس حرکت نے میرے دل میں تمہاری عزت بھی ختم کردی ہے میں ہاشم کی بیوی ہوں اُن کے ساتھ نہ تو منافقت کرسکتی ہوں اور نہ ہی اُن سے بےوفائی کرنے کا سوچ سکتی ہوں۔۔۔تمہاری اِس حرکت نے مجھے کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا، معلوم نہیں اب میں کبھی اپنے گھر والوں کو اور ہاشم کو دیکھ پاؤں گی یا نہیں یا پھر سب لوگ ہاشم سمیت میرا اعتبار بھی کریں گے یا نہیں، لیکن میں تم سے شدید نفرت کرتی ہو۔۔۔ سنا تم نے میں تم سے شدید نفرت کرتی ہوں۔۔۔ تم کبھی بھی میری نفرت کو دوبارہ محبت میں نہیں بدل پاؤ گے کیونکہ ہاشم کی محبت نے میرے دل میں اپنا ڈیرہ جمالیا ہے، لاکھ کوشش کے باوجود تم اُس محبت کو میرے دل سے نہیں نکال سکتے"

بےبسی کے مارے چیخ چیخ کر بولتے ہوئے آرزو کا گلا دکھنے لگا اس کے لفظ تب منہ میں ہی رہ گئے جب اسے اپنے دائیں ہاتھ پر نمی گرتی محسوس ہوئی۔۔۔ مگر وہ اس وقت نہیں رو رہی تھی کیا اس کے سامنے بیٹھا شخص رو رہا تھا۔۔۔ شاید آرذو بالکل چپ ہوگئی چند سیکنڈ بعد آرذو کو احساس ہو جیسے وہ کمرے میں اکیلی ہے وہاں پر کوئی دوسرا موجود نہیں

***""""***

"وہ کیسے یہاں سے جاسکتی ہے فرغب بی آپ نے روکا کیوں نہیں اُسے"

شدید غصے کے عالم میں عباس فرغب بی سے ایک مرتبہ دوبارہ پوچھنے لگا بہت ضروری کام کی وجہ سے نہ تو وہ کیمرے کی مدد سے ہیر پر نظر رکھ سکا تھا نہ ہی کل سارا دن ہیر پیلس آسکا دوسرے دن یعنی آج جب اُس کی واپسی ہیر پیلس ہوئی تب فرغب بی نے اُس کو ہیر کے فرار ہونے کی خبر سنائی جس کو سننے کے بعد عباس کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا تھا

"میں آپ کو ساری صورت حال بتاچکی ہوں، ہال میں کام کرتے کسی ملازم کو معلوم نہیں تھا کہ ہیر کو قید کر کے رکھا گیا ہے بس اسی بات کا انہوں نے فائدہ اٹھایا۔۔۔ وہ کس طرح مجھے آپ کے کمرے میں بند کر کے یہاں سے فرار ہو گئیں آپ کیمرے کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں"

فرغب بی کی بات سن کر عباس کو ہیر پر مزید غصہ آنے لگا

"اُس کی ماں اور بہن اپنا گھر تبدیل کرچکی ہیں ہیر کے پاس نہ تو اُن کا کوئی ایڈریس ہے نہ ہی اُس بیوقوف لڑکی کے پاس اپنا موبائل ہے۔۔۔ جو وہ ان سے رابطہ کرسکے اب کیسے وہ اپنے گھر والوں تک پہنچ سکے گی۔۔۔ ایک تو میں پہلے ہی پریشان تھا اور اب یہ مسئلہ بھی کھڑا ہوگیا میرے لیے"

غصے نے بولتے ہوۓ عباس نے ہونٹ بھینچے۔۔۔۔ اِس وقت عباس کا غُصے سے برا حال تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے کمرے کی چیزیں تہس نہس کرچکا تھا

"پھر اب کیا ہوگا شیر عباس ہیر کو ہم کیسے تلاش کریں گے"

فرغب بی عباس کے غُصے میں دیکھ کر پوچھنے لگیں فرغب بی کو اچھی طرح علم تھا عباس پہلے ہی پریشان تھا اور ہیر کے اس طرح فرار ہونے سے وہ مزید پریشان ہوچکا تھا

"ظاہری بات ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو نہیں بیٹھ سکتا، آپ پیکنگ کریں رات تک ہمہیں کراچی کے لیے نکلنا ہے" 

عباس فرغب بی سے بولتا ہوا اپنے جیب سے موبائل نکالنے لگا جس میں ایس پی ابرار کا نمبر فیڈ تھا جن کی پوسٹنگ آج کل کراچی میں ہوچکی تھی

***"""***

ہاشم اِس وقت شکستہ قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہوا گلنار اور ایوب خان کے ساتھ ماہ نور بھی لیونگ روم میں موجود اُس کی آمد کی منتظر تھی۔۔۔ ہاشم کے چہرے پر چھائی مایوسی صاف بتارہی تھی کہ آرزو کا ابھی تک اُس کو کچھ معلوم نہیں ہوسکا تھا۔۔۔ وہ لیونگ روم میں آکر سب لوگوں کے درمیان صوفے پر برجمان ہوگیا

"ابھی تک آرزو کا پتہ نہیں چل سکا بیٹا، شہناس سے معلوم کرو آرزو کی دوستوں کے بارے میں یا پھر کوئی ان لوگوں کے ایسے رشتے دار جہاں آرزو کی موجودگی ممکن ہوسکتی ہے"

گلنار ہاشم کا اترا ہوا پریشان چہرہ دیکھ کر بولی

"آپ کو کیا لگ رہا ہے اب تک ایسی ہی بیٹھا تھا سب جگہ تلاش کیا ہے مگر اُس کا کچھ اتا پتہ نہیں چل رہا۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا آخر وہ گئی کہاں"

ہاشم پریشانی کے عالم میں بولا تو گلنار مزید پریشان ہونے لگی

"معلوم نہیں بچی کی حال میں ہوگی۔۔۔ میرے خیال میں ہمہیں پولیس کی مدد لینی چاہئے"

ایوب خان کے بولنے پر گلنار اور ماہ نور ایوب خان کو دیکھنے لگیں 

"میں بھی یہی سوچ رہا ہوں جہاں جہاں آرذو کو تلاش کرسکتا تھا میں نے کیا لیکن اب اِس معاملے میں پولیس کو آنولو کرنا ہی پڑے گا"

ہاشم نے ایوب خان کی بات کی تائید کی تو ماہ نو نے بیچ میں مداخلت کرنی چاہی، جو پولیس کا ذکر سن کر تھوڑا گھبرا گئی تھی۔۔۔ مگر اس سے پہلے گلنار ہاشم کی بات کو رد کرتی ہوئی بولی

"اگر پولیس میں معاملہ جائے گا تو خاندان بھر میں بدنامی اور جگ ہنسائی ہوگی"

گلنار کے بولنے پر ہاشم سیدھا ہوکر بیٹھا

"تو پھر آپ کیا چاہ رہی ہیں بدنامی اور جگ ہنسائی کے خوف سے چپ کرکے بیٹھ جاؤ، کسی نے میری عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے چھوڑوں گا نہیں میں اُسے بالکل نہیں"

ہاشم اب کی بار غصے میں بولا تو ماہ نور نے بھی لب کشائی کرنا ضروری سمجھا

"آپ سب لوگ آرزو کے لئے اتنا پریشان ہورہے ہیں یہ بھی تو ہوسکتا ہے وہ اپنی مرضی سے یہاں سے چلی گئی ہو"

ماہ نور کی بات پر تمام افراد نے اُس کی جانب دیکھا جبکہ ہاشم کے تاثرات اُس کی بات پر بالکل سرد ہوگئے وہ صوفے سے اٹھ کر ماہ نور کے پاس آیا

"مطلب کیا ہے تمہاری اِس بات کا"

ہاشم ماہ نور کے پاس آتا ہوا اس سے سنجیدہ لہجے میں پوچھنے لگا تو ماہ نور بھی اٹھ کر ہاشم کے سامنے کھڑی ہوگئی

"مطلب تم آرزو کی ماں سے پوچھو وہ حقیقت تمہیں زیادہ بہتر سمجھا سکتی ہے تم سے شادی سے پہلے آرذو کا رجحان کسی دوسرے لڑکے کی طرف۔۔۔

ماہ نور کے جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہاشم نے تنبیہ کرنے والے انداز میں انگلی اٹھائی

"آرزو کے لئے اگر ایک بھی غلط لفظ تمہارے منہ سے نکلا تو میں تمہارا لحاظ نہیں کروں گا"

ہاشم کا تنبہی کرنے والا انداز ایسا تھا کہ گلنار اور ایوب خان بھی خاموش ہوگئے ماہ نور بھی چپ کرگئی۔۔۔۔ ہاشم غضیلی نگاہ ماہ نور پر ڈال کر کمرے سے جانے لگا تبھی ماہ نور دوبارہ بولی

"کچھ غلط تو نہیں بول رہی ہوں میں تمہاری بیوی کے کردار کے بارے میں آرذو سے تمہاری شادی سے پہلے، آرذو کا افیئر تمہارے ساتھ بھی رہا ہے، آرزو وہی لڑکی تھی ناں جس کے ساتھ تم اپنے دوست کے فلیٹ میں راتیں گزرتے آۓ ہو، تو معلوم کرلو جاکر آرزو کی ماں کے تم سے پہلے وہ کسی دوسرے آدمی کے ساتھ اس طرح فلیٹوں میں راتیں گزارتی آرہی ہے"

ماہ نور کے بولنے پر شدید غم و غصے کے عالم میں ہاشم ماہ نور کی جانب بڑھا۔۔۔ اگر ایوب خان ہاشم کو بازو سے پکڑ کر نہیں روکتے تو وہ ماہ نور کا حشر سچ میں بگاڑ ڈالتا

جبکہ ماہ نور نے ایسی بات کی تھی جس سے گلنار اور ایوب خان بالکل شاکڈ ہوچکیں تھے۔۔۔ ہاشم کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا

***"""***

تیزی سے رات میں ڈھلتا دن اب اتنی بھی روشنی نہیں رکھتا تھا اندھیرا بڑھنے پر ہیر کو پریشانی شروع ہوچکی تھی۔۔۔ لمبی مسافت طے کرکے گلگت سے کراچی آنا بالکل آسان نہیں تھا جیسے تیسے وہ کراچی تو پہنچ چکی تھی مگر نہ تو اُسے شہناس اور امامہ کے پتہ معلوم تھا نہ ہی آرذو کے سسرال کا ایڈریس۔۔۔ خوشبو (دوست) کا گھر اُس کو پتہ تھا لیکن خوشبو کا شوہر مظہر شیر عباس کا دوست تھا، عباس باآسانی ہیر کا وہاں سے پتہ لگا لیتا۔۔۔ ہیر پیلس سے بھاگتے ہوئے یہی بات اُس کے ذہن میں اپنے پنجھے گاڑھے بیٹھی تھی کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن اِس وقت کی صورت حال سے وہ بری طرح پریشان ہوچکی تھی تبھی اپنے نام کی آواز پر وہ چونکی

"ہیر ہیں ناں آپ"

ہیر نے دیکھا وہ جو کوئی بھی تھا گاڑی سے اتر کر غور سے اُس کو دیکھ رہا تھا ہیر کے پاس آتا ہوا اس سے پوچھنے لگا

"سوری میں نے آپ کو بالکل نہیں پہچانا"

ہیر اس اجنبی مرد کو دیکھتی ہوئی بولی لیکن وہ شخص اُس کا نام جانتا تھا تو لازمی اس کی فیملی کا بھی علم رکھتا ہوگا اس بات سے ہیر تھوڑی بہت ڈھارس ملی تھی

"میں آپ کا بہنوئی ہوں شاویز، امامہ کے موبائل میں آپ کی تصویر دیکھ رکھی ہے لیکن آپ تو گلگت میں ہوتی ہیں ناں"

شاویز تھوڑا حیرت زدہ سا ہیر کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔ وہیں بہنوئی لفظ پر ہیر بھی حیران ہوئی۔ شاویز مطلب یہ تو امامہ کے باس کا نام تھا جن کے گھر میں صدیقی کے انتقال کے بعد سے شہناس اور امامہ رہائش پذیر  تھیں اتنا تو وہ جانتی تھی لیکن یہ ہسبنڈ والی کہانی کب کیسے ہوئی وہ لاعلم تھی

"جی میں آج ہی کراچی پہنچی ہوں ایڈریس مجھ سے کھو گیا اور میرے پاس موبائل بھی موجود نہیں ہے پلیز آپ مجھے آپی اور امی کے پاس لے جائیں"

امید کی راہ دکھتے ہی ہیر دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتی جلدی سے شاویز سے بولی

"شیر عباس نے آپ کو اکیلے آنے دیا حیرت ہے وہ اتنی لاپروا طبعیت کا مالک لگتا تو نہیں"

شاویز کی بات پر ہیر کو کرنٹ سا لگا 

"آپ میرے ہسبینڈ کو میرا مطلب ہے عباس کو جانتے ہیں آپ"

شاویز کے جملے سے صاف محسوس ہورہا تھا وہ عباس کو جانتا تھا یہ سوچ کر ہیر کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی

"آہ۔۔۔ نہیں، امامہ نے ہی ذکر کیا تھا تو معلوم ہوا آپ کہ شوہر کا نام عباس ہے۔۔۔ آئیے گھر چلتے ہیں آنٹی اور امامہ آپ کو دیکھ کر کافی خوش ہوں گیں"

ہیر کے چہرے پر عجیب سے گھبراہٹ طاری ہوتا دیکھ کر شاویز بھی بات بدل گیا۔۔۔ وہ فلحال ہیر کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا جو بنا سامان کے اتنی دور سے سفر کرکے کراچی آئی تھی اور سڑکوں پر بھٹک رہی تھی

ہیر شہناس اور امامہ کا نام سن کر ایک مرتبہ پھر تسلی کرتی گاڑی میں شاویز کے ساتھ بیٹھ گئی

***"""***

"تم نے مجھے کال کیوں کی ہے ایڈیٹ، تمہاری وجہ سے ہاشم کو مجھ پر شک ہوسکتا ہے ویسے ہی آج وہ غُصّے میں پاگل ہورہا ہے اگر اسے ذرا بھی بھنک پڑگئی کہ آرزو کی کڈنیپنگ میں تمہارے ساتھ میرا بھی ہاتھ ہے تو وہ مجھے زمین میں زندہ گاڑھ دے گا"

ماہ نور اپنے کمرے میں آہستہ آواز اور دبے غُصّے میں تبریز سے بولی۔۔۔ تبریز آرزو کے متعلق جانکاری کروانے کے بعد ہی اُس نے تبریز سے کانٹیکٹ کرکے، اُس کے ساتھ مل کر سارا پلان بنایا تھا۔۔۔۔ یہ سب اُس نے ہاشم کی محبت میں یہ پھر اُس کو حاصل کرنے کے لئے ہرگز نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ ہاشم کی زندگی سے نکلنے سے پہلے آرزو کو بھی ہاشم کی زندگی سے نکالنا چاہتی تھی

"وہ اب مجھ سے محبت نہیں کرتی ہے میں نے فیصلہ کرلیا ہے میں اُس کو ہاشم کے پاس واپس بھیج رہا ہوں"

تبریز ہارے ہوئے لہجے میں بولا تو اُس کی بات سن کر ماہ نور کا دل چاہا وہ تبریز کا چہرہ طمانچے مار کر لال کردے

"تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ہے اگر وہ ہاشم کے پاس اُس کے گھر میں واپس آگئی تو ہاشم کو ہمارے بارے میں سب بتادے گی۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے اُس کے بعد ہاشم ہمہیں چھوڑ دے گا وہ جان سے مار ڈالے گا تمہیں بھی میرے ساتھ"

ماہ نور دانت پیس کر غصے میں بولی۔۔۔ نہ جانے ایسے گدھے جیسے عاشق کے ساتھ اُس نے ڈیل ہی کیوں کی تھی جو اُسے پہلے ہی کافی کنفیوز لگ رہا تھا کہ کڈنیپنگ جیسا اسٹیپ لینا درست ہے کہ نہیں

"تم بے فکر رہو تمہارا نام کہیں نہیں آئے گا کسی کو شک نہیں گزرے گا تمہاری اِس کام میں انولومنٹ شامل ہے"

تبریز ایک بار پھر بولا تو ماہ نور نے غصے میں اُس کی بات کاٹ دی 

"اگر وہ اب تم سے محبت نہیں کرتی تو اُسے ہاشم کے پاس دوبارہ بھیجنے سے بہتر ہے تم آرزو کا مرڈر کرکے اسے کہیں پھینک دو"

ماہ نور تبریز سے موبائل پر بولتی ہوئی پلٹی تو ہاشم کو اپنی پشت پر کھڑا دیکھ کر اس کی زبان گنگ رہ گئی، وہ سناٹے میں آگئی۔۔۔ ہاشم ماہ نور کے ہاتھ سے اُس کا موبائل لےکر اپنے کان پر لگا چکا تھا

"میں اُس کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، وہ بہت زیادہ رو رہی تھی اپنے شوہر کے لیے میں اُس کو مزید روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا"

تبریز کی آواز سن کر کال ڈسکنیکٹ کرنے کے بعد ہاشم سرد اور پتھریلے تاثرات کے ساتھ ہاتھ میں خاکی رنگ کا لفافہ پکڑے غضبناک تیور لیے ماہ نور کو دیکھ رہا تھا

"ہاشم وہ۔۔۔ میں نے پتہ لگالیا ہے کہ آرزو کہاں ہے میں نے کہا تھا ناں وہ اپنے ایکس کے ساتھ۔۔۔

اس سے پہلے ماہ نور کا ادھورہ جملہ مکمل ہوتا ہاشم کا مارا ہوا زناٹے دار تھپڑ ماہ نور کا گال سن کر گیا

"میں اپنے مکمل ہوش و حواس میں ہاشم خان تمہیں اپنے رشتے سے آزاد کرتا ہوں۔۔۔ یہ رہے  سائن شدہ طلاق کے پیپرز"

ہاشم ہاتھ میں پکڑا ہوا لفافہ ماہ نور کے منہ پر مار کر غُصّے میں کمرے سے جانے لگا

آرزو کے غائب ہوتے ہی اس کا دماغ سب سے پہلے تبریز کی جانب گیا تھا۔۔۔ تبریز کے متعلق معلومات کروانے پر ہاشم کو یہی پتہ چلا تھا کہ وہ زمانت کے بعد ملک چھوڑ کر جاچکا تھا۔۔۔ ہاشم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اس کڈنیپنگ میں تبریز کے ساتھ ماہ نور کی انولومینٹ ہوسکتی ہے۔۔۔ اپنی گاڑی میں بیٹھتا ہوا وہ ایس پی شیخ اسامہ کو کال ملانے لگا

***"""***

آج دوسرا دن بھی گزرنے والا تھا مگر وہ اس بند کمرے میں قید جوں کی توں بیڈ پر لیٹی ہوئی، ہر گزرنے والا گھنٹہ گن رہی تھی جو اُس پر پہلے گزرے ہوئے گھنٹے سے زیادہ بھاری لگتا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے وہ عورت کھانے سے بھری پر واپس لےکر اور آرزو پر خاموش نظر ڈال کر کمرے سے جاچکی تھی تبھی اچانک کمرے کا دروازہ کھلا، آنے والی شخصیت نے آرزو کو اٹھ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا

"تم آج میری آنکھوں پر پٹی باندھنا یا پھر اپنا چہرہ چھپانا بھول گئے ہو"

آرزو تبریر کو دیکھتی ہوئی بولی تو تبریز شکستہ قدموں کے ساتھ بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھا آرزو تھوڑا دور ہوکر بیٹھ گئی اور نفرت بھری نگاہ سے تبریز کا چہرہ دیکھنے لگی

"میرے دل میں بسی تمہاری محبت نے مجھے اتنا مجبور کردیا کہ میں تمہیں خود سے قریب رکھنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔۔۔ تمہیں اغواء کرکے یہاں لانے کے بعد تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں، اِس لیے اپنا چہرہ چھپانے کی خاطر تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا لیکن تم نے مجھے پہچان لیا کیونکہ میرے سوا یہ گھٹیا کام اور کام انجام دے سکتا ہے لیکن میں نے جو بھی کچھ کیا تمہاری محبت میں کیا، تمہیں پانے کی چاہ میں کیا، کل تک میں تمہاری زندگی میں ہیرو کی حیثیت رکھتا تھا لیکن آج ولن بن کر مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا آرذو میں ہمیشہ تمہاری نظروں میں ہیرو بنا رہنا چاہتا ہوں بتاؤ آرذو میں ایسا کیا کروں کہ تمہاری زندگی میں پہلے جیسا مقام حاصل کرلو، کیسے تمھارے دل میں اپنی محبت دوبارہ پیدا کرو ایسا کیا کرو کہ تمہارا دل دوبارہ مجھے چاہنے لگے۔۔۔ کل جب تم نے مجھ سے کہا کہ تم مجھ سے نفرت کرتی ہوں تب سے میں خود کو دنیا کا بےبس انسان محسوس کرتا ہوں آرزو صرف ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ بول دو کہ تمہیں مجھ سے نفرت نہیں محبت ہے، تمہاری نفرت کے سہارے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے"

تبریز آرذو کے سامنے بیٹھا بےبسی سے رونے لگا لیکن آرذو کو اُس پر ترس نہیں شدید غصہ آنے لگا

"میرا ہنستا بستا گھر اجاڑنے میں تم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور تم چاہتے ہو میں تم سے محبت کرو۔۔۔ محبت کرنے کا دعوی کرتے ہو مجھ سے تو میری خوشی کا احترام کرتے ہوئے دے دیتے میری خوشی کی خاطر اپنی محبت کی قربانی، جینے دیتے سکون سے مجھے اپنے شوہر کے ساتھ لیکن تمہاری محبت مجھے خوشحال اور آباد دیکھ ہی نہیں سکتی ہے اب تم مر کر بھی دوبارہ زندہ ہوجاؤ میں تب بھی تم سے محبت نہیں کرسکتی"

آرذو غصہ کرتی تبریز سے بولی تو تبریز اپنا سر اُس کے قدموں میں رکھ کر رونے لگا

"میں مانتا ہوں میری محبت خود غرض ہے مگر میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں آرزو میرا یقین کرو"

تبریز اس کے قدموں میں سر جھکائے بول ہی رہا تب کسی نے دھکا مار کر کمرے کا دروازہ کھولا

"ہینڈز اپ کوئی چالاکی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے پولیس نے اِس بلڈنگ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، لڑکی کو ہمارے حوالے کر دو"

تین پولیس اہلکار کے ساتھ ہاشم بھی اس کمرے میں موجود تھا جبکہ بیڈ کے دوسری طرف حیرت زدہ آرزو اُس کے پاس ہی تبریز کھڑا تھا

"آرذو"

ہاشم کے پکارنے پر آرزو نے ہاشم کی طرف قدم بڑھانے چاہے، وہی تبریز نے اپنے پاس چھپی ہوئی پستول نکال لی جسے دیکھ کر آرذو وہی ٹھہر گئی

***"""***

"بلڈی باسٹرڈ اگر میری بیوی کو تم نے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے شوٹ کردوں گا"

تبریز کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر ہاشم غصّے میں تبریز سے بولا۔۔۔ پولیس کی پستول کا رخ تبریز کے اوپر تھا 

"میں اِسے کسی قسم کا نقصان پہنچانا تو دور کی بات کبھی اِس کے ساتھ برا کرنے کا سوچ بھی نہیں کرسکتا۔۔۔ خالی محبت کا دعوی نہیں کیا میں نے، محبت کی ہے اِس سے"

تبریز نے ہاشم سے بولتے ہوئے آرذو کی جانب الوداعی نظروں سے دیکھا

"اور آج اپنی محبت سچ ثابت کرنے جارہا ہوں میری محبت تمہاری آنکھوں میں آنسو لانے کی وجہ بنی اِس کے لئے مجھے معاف کردینا" 

تبریز نے آرذو سے بولتے ہوئے اپنی کنپٹی پر پستول رکھا تو خوف سے آرذو کی آنکھیں پھیل گئیں، اِس سے پہلے ہاشم کے ساتھ پولیس اہلکار تبریز کی جانب بڑھتے ایک دم گولی کی آواز فضا میں گونجی ساتھ ہی تبریز کا وجود بھی بےجان ہوکر فرش پر گر پڑا۔۔۔

"آرزو"

ہاشم آرزو کو پکارتا ہوا تیزی سے اُس کی جانب بڑھا اِس سے پہلے بےہوشی کے باعث آرزو کا وجود زمین بوس ہوتا ہاشم اُس کو اپنے بازؤوں میں تھام چکا تھا

***"""***

"میری بچی، دیکھو ذرا کیا حشر کردیا اُس ظالم نے میری پھول جیسی بچی کا"

شہناس نے ایک مرتبہ پھر اپنی گود میں سر رکھی ہیر کو دیکھ کر عباس کو ظالم کا لقب دیا۔۔۔۔ ہیر پیلس میں ہوئے عجیب و غریب واقعات کے ساتھ ہیر صدیقی کی موت والا حادثہ بھی شہناس اور امامہ کو بتاچکی تھی اور خود یہاں کس مشکل سی پہنچی تھی وہ سب بھی

"مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کوئی انسان اِس قدر ظالم ہوسکتا ہے۔۔۔ بات کرنے سے تو عباس بھائی بالکل ایسے نہیں لگتے تھے، انہوں نے تمہیں قید کر کے رکھا بالکل یقین نہیں آرہا"

امامہ اپنی گود میں بیٹھی وانیہ کو اپنا موبائل تھماتی ہوتی ہوئی تبصرہ کرنے لگی تو شاویز وہی کمرے میں چلا آیا جسے دیکھ کر ہیر شہناس کی گود سے اُٹھ کر بیٹھ گئی

"میں نے ڈسٹرب تو نہیں کیا آپ لوگوں کو"

شاویز کمرے میں آتا ہوا شہناس سے پوچھنے لگا 

"ارے نہیں بیٹا یہ تو آپ ہی کا گھر ہے آپ داماد نہیں میرے بیٹے کی طرح ہیں۔۔۔ کاش شیر عباس بھی آپ کے اور ہاشم کے جیسا ہی ہوتا"

شہناس ایک مرتبہ پھر ٹھنڈی آہ بھرتی ہوئی بولی

"میرے خیال میں آنٹی عباس کو ایک مرتبہ یہاں بلاکر اس سے بات کرنا چاہیے سامنے بٹھا کر اُس سے پوچھنا تو چاہیے کہ آخر کیا وجہ تھی جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایسا رویہ رکھا"

شاویز کی بات پر امامہ نے تائید کرنی چاہیے مگر اُس سے پہلے ہی ہیر بولی

"مجھے اب اِن سے کوئی بھی بات نہیں کرنی ہے نہ ہی دوبارہ اُن کے پاس جانا چاہتی ہوں میں" 

ہیر کی بات سن کر امامہ ابو اٹھی

"ایسے تو معاملات حل نہیں ہوتے ہیر مزید الجھ جاتے ہیں"

امامہ نے ہیر کو سمجھانا چاہا اسے شاویز کی بات بالکل ٹھیک لگی تھی

"ہیر ٹھیک ہی بول رہی ہے، بات کرنے کا کیا فائدہ جب اُس شخص سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا، تمہارے ابو تک کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر اس سنگدل انسان نے انہیں بچانے کی کوشش نہیں کی ایسے ظالم انسان سے تعلق جوڑے رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے"

شہناس صدیقی کے ذکر سے اپنی نم آنکھیں ڈوپٹے سے پوچھتی ہوئی بولی تو امامہ شاویز کو دیکھ کر خاموش ہوگئی، جبکہ وہی بیٹھا شاویز اپنے موبائل میں موجود اپنے چھوٹے بھائی کے دوست شیر عباس کا نمبر دیکھنے لگا

***"""***

"گلنار چلو کمرے سے بچی تھوڑی دیر آرام کرے گی تو شام تک بہتر محسوس کرے گی"

ایوب خان گلنار سے بول کر اٹھتے ہوۓ اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔ گلنار خاموش نظر آرزو پر ڈال کر خود بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی، ہاشم جوکہ ابھی تک ضبط کئے ہوئے بیٹھا تھا آرزو کو دیکھ کر اُسے غصہ آنے لگا وہ اٹھ کر آرزو کے پاس آیا اس کو دونوں بازوں سے سختی سے پکڑ کر جھنجوڑتا ہوا پوچھنے لگا

"یوں پتھر کا مجسمہ بن کر میرے گھر والوں کے سامنے کیا ثابت کرنے پر تلی ہو تم۔۔۔ ایسے ماتمی شکل بناکر کیا ظاہر کرنا چاہ رہی ہو دا جی اور ماں جی پر کہ دو دن گھر سے دور کسی کی قید میں رہ کر کیا کچھ برداشت کیا ہے تم نے یا پھر یوں خاموشی اختیار کرکے مجھ پر کیا ظاہر کرنا چاہتی ہو تم کہ تمہارا عاشق اپنی جان لینے کے بعد دوبارہ تمہارے دل میں اپنی جگہ بنا گیا ہے۔۔۔ بولو آرذو مجھے جواب دو۔۔۔ کب تم اِس سوگ کے عالم سے باہر نکلو گی، میں کب تک اپنے گھر والوں کو تمہاری طرف سے وضاحت دے کر یہ سب فیس کرتا رہوں گا۔۔۔ بتاؤ مجھے"

ہاشم غصّے کے عالم میں آرزو کو دونوں بازوؤں سے بری طرح جھنجھوڑ کا ہوا پوچھنے لگا

کل رات ہاشم اسے بےہوشی کی حالت میں گھر لانے سے پہلے اسپتال لے گیا تھا اُس کے بعد واپس اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا جبکہ آرزو کل رات ہوش میں آنے کے بعد سے ہی نہ تو کچھ بول رہی تھی، نہ ہی کسی بات کا جواب دے رہی تھی۔۔۔ بس یوں ہی خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ وہ اِس وقت ہاشم کے غُصہ کرنے پر ہاشم کو دیکھتی ہوئی بولی

"ایک آدمی اپنی محبت کے ساتھ میرے پاکیزگی کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جان سے چلا گیا، آپ اور آپ کے گھر والے میرے کردار کو لے کر ابھی بھی شک میں مبتلا ہیں کہ دو دن میں نے قید میں گزاریں۔۔۔ آیا میں اب آپ کے قابل ہو کہ نہیں"

آرذو تکلیف سے بولی تو ہاشم کو اُس پر مزید غصہ آنے لگا

"بکواس بند کرو اپنی آرزو، میں تم سے پاک دامنی کی گواہی نہیں مانگ رہا جو تم آگے سے مجھے یہ سب باتیں سنا رہی ہو مگر میں اپنے گھر والوں کو تمہاری طرف سے مزید وضاحتیں نہیں دے سکتا اِس لئے بہتر یہی ہے کہ تم چند دنوں کے لیے اپنی ماں اور بہنوں کے پاس چلی جاؤ"

ہاشم آرذو سے بولتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر سچ میں الماری کھول کر بیگ میں آرزو کے کپڑے ڈالنے لگا کیوکہ جس طرح کل رات واپس گھر آنے کے بعد سے آرزو کا رویہ تھا، اُس کے بالکل خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے ایوب خان اور گلنار آرزو کو جس انداز میں دیکھ رہے تھے لازمی اُن دونوں کے دلوں میں آرزو  کو لےکر کئی سوالات اٹھتے 

ویسے بھی ماہ نور یہاں سے جانے سے پہلے جو کچھ گلفشانی آرزو کے کردار کے بارے میں کرکے گئی تھی ہاشم نے سچے جھوٹے جواز بناکر بےحد مشکل سے ایوب خان اور گلنار کو مطمئن کیا تھا اور آرزو کے اغوا ہونے کے بارے میں ابھی تک شہناس اور امامہ کو خبر نہیں ہوئی تھی، یہ اچھا ہی تھا کہ آرزو وہاں جاکر سکون سے رہ لیتی اور مزید سوالات کے جوابات سے بچ جاتی

***""""***

"آئی ایم سوری تمام تر کوششوں کے باوجود ہم اُس کو نہیں بچا پائے ایک ایسا انسان جو ذہنی اور جسمانی طور  پر نارمل نہ ہو اس کی اتنی ہی لائف ہوسکتی ہے۔۔۔ کیونکہ یہ اسپیشل کیس کم اسپشنل زیادہ تھا آپ سمجھتے ہونگے یہ کیس ابنارملٹی سے بھی بالکل ہٹ کر تھا۔۔۔ زیادہ سہولیات مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اور آپ کے کہنے کے مطابق باہر سے بھی ہم نے کسی ڈاکٹر کی بھی ہیلپ نہیں لی"

ڈاکٹر عباس کو بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ عباس اسپتال کے کوریڈور میں تھکے ہوئے انداز میں کرسی پر بیٹھ گیا تبھی ایبک اور فرغب بی اسپتال پہنچ گئے

"کیا ہوا شیر عباس ڈاکٹر کیا کہہ رہی ہیں"

عباس کے شکستہ انداز پر فرغب بی عباس کے برابر میں کرسی پر بیٹھتی ہوئیں اُس سے پوچھنے لگی تو عباس ضبط سے سرخ ہوئی آنکھوں سے بنا کچھ بولے اُن کو دیکھنے لگا

"آپ کوئی جواب کیوں نہیں دے رہے، کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹرز"

عباس کی خاموشی پر فرغب بی ایک مرتبہ پھر اُس سے پوچھنے لگیں جبکہ ایبک خود بھی عباس کے بولنے کا منتظر تھا

"ایبک ڈاکٹر کی اجازت سے ڈیڈ باڈی کو اسپتال کے پچھلے راستے سے ایمبولینس میں رکھوا دو" عباس ایبک سے بولتا ہوا اپنے دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر چہرے کو جھکا چکا تھا جبکہ فرغب بی خاموشی سے عباس کو دیکھتی رہ گئی 

"دنیا میں ایک ہی رشتہ تھا آپ کے پاس آج اُس کا قصّہ بھی تمام ہوا"

فرغب بی دکھ سے بولیں تو عباس جھکا ہوا سر اٹھاکر فرغب بی کو دیکھتا ہوا بولا

"آپ ہیر کو کیوں بھول رہی ہیں بےشک وہ اِس وقت میرے پاس نہیں مگر میری بیوی ہے میں اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا"

عباس فرغب بی کو اپنا دوسرا رشتہ یاد دلاتا ہوا بولا

"اگر اُس رشتے میں پائیداری ہوتی تو وہ آپ کے پاس سے جاتی ہی نہیں۔۔۔ نہ ہی آپ کو انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت پڑتی"

فرغب بی عباس کو دیکھتی ہوئی بولیں تو عباس سے ایک پل کے لئے کچھ نہیں بولا گیا

"یہ بات آپ نے بالکل ٹھیک بولی ہے اگر میرے پاس ہیر نہیں رہی پھر میں سچ میں اِس دنیا میں تنہا رہ جاؤں گا ایک مرتبہ ہیر کو بچپن میں کھو چکا ہوں، میں اب دوبارہ ہیر کو کھونا نہیں چاہتا فرغب بی"

عباس فرغب بی سے بات کررہا تھا اس کے موبائل پر مظہر کے بڑے بھائی شاویز کی کال آنے لگی۔۔۔ جن کا اپنی فیملی اور مظہر سے کسی بات کو لےکر اختلاف تھا لیکن عباس سے شاویز کی اچھی علیک سلیک تھی

***"""***

شہناس کمرے میں آئی تو اپنی تینوں بیٹیوں کو اکھٹے بیٹھے دیکھنے لگی جو ایک ساتھ بیٹھی ہوئی کافی دیر سے باتیں کررہی تھی۔۔۔ تینوں بیٹیوں کو ایک ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر شہناس کے دل میں اطمینان اترا اور اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔۔۔ پرسوں جب ہاشم آرذو کو یہاں چھوڑ کر گیا تھا تب ہاشم کا رویہ اور آرزو کی خاموشی بتارہی تھی کہ لازمی اُن دونوں کے بیج کوئی جھگڑا یا کشیدگی ہوئی ہوگی۔۔۔ مگر آرزو یہاں ہیر کو پا کر اپنی خاموشی توڑ کر چند گھنٹوں بعد ہی نارمل ہوچکی تھی

"شاویز بھائی کی بیٹی بہت پیاری ہے آپی"

آرزو امامہ کے پاس صوفے پر بیٹھی وانیہ کو دیکھ کر بولی

"تمہارے شاویز بھائی سے زیادہ اب یہ میری بیٹی ہے، وانیہ کو اُس کے بابا نظر آئے نہ آئے مگر وانیہ کو اُس کی مما ہر وقت نظر آنی چاہیے ایک منٹ کے لئے مجھے یہ اپنے سے دور نہیں ہونے دیتی، اور اِس کے لئے بھی بالکل ایسی ہی محبت میں اپنے اندر محسوس کرتی ہوں"

امامہ وانیہ کو اپنی گود میں بٹھاکر پیار کرتی ہوئی آرذو کو بتانے لگی تو آرزو کے ساتھ ہیر بھی مسکرا دی۔۔۔ ہیر اور آرذو دونوں ہی امامہ کو شادی شدہ خوشحال زندگی گزارتا دیکھ کر خوش تھیں کیونکہ اُن دونوں کا بہنوئی شاویز ایک بہت اچھا اور نیک انسان تھا

" ویسے آرذو گھر میں بچے ہو جائیں تو کافی رونق ہوجاتی ہے" امامہ شرارت بھرے لہجے میں آرذو کو دیکھ کر بولی 

"بات تو ٹھیک ہے مگر آپ یہ مجھے ہی کیوں دیکھ کر بول رہی ہیں" 

آرزو جھینپتی ہوئی امامہ سے پوچھنے لگی تو امامہ مسکرا کر بولی

"کیونکہ مجھے لگتا ہے تمہیں اپنے سسرال میں رونق لانے کا جلد سے جلد انتظام کرنا چاہیے"

امامہ کی بات پر آرذو سے شرم سے کچھ بولا ہی نہیں گیا جبکہ ہیر ہلکی سی اسمائل دے کر خاموش ہوگئی

"سنو مجھے تم سے ایسا ہی کیوٹ سا بےبی چاہیے" 

ہیر کے کان میں عباس کی سرگوشی نما آواز گونجی یہ تب کی بات تھی جب وہ دونوں ٹی اسٹال پر بیٹھے ہوئے تھے وہاں موجود ایک کیوٹ سے بچہ کو دیکھ کر عباس نے ہیر کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔ عباس کی بات کو اِس وقت سوچتے ہوئے ہیر کا دل اُداس ہونے لگا

"اپنے سسرال میں رونق لانے کا یہ تب انتظام کرے گی جب اس کی ہاشم سے لڑائی ختم ہوگی"

اب کی بار شہناس بھی باتوں میں حصہ لیتی ہوئی بولی تو آرزو ایک دم سنبھل گی 

"آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے امی میری ہاشم سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی ہے، یہ بات میں نے آپ کو کل بھی بولی تھی"

آرذو اور ایک مرتبہ پھر شنہاس کو مطمئن کرتی ہوئی بولی اب کی بار امامہ ہیر دونوں ہی خاموش ہوگئیں شہناس دوبارہ بولی

"اگر لڑائی نہیں ہوئی ہے تو یہ اچھی بات ہے اور اگر لڑائی ہوئی ہے تو اُس لڑائی کو ختم کرکے کل تک اپنے سسرال واپس چلی جاؤ۔۔۔ اپنی دونوں بہنوں سے مل لیں ماں کا چہرہ دیکھ لیا، ہمارے ساتھ دو دن کا وقت گزار لیا اتنا ہی اچھا لگتا ہے شادی شدہ بیٹیوں کا شادی کے بعد میکے آکر رہنا"

شہناس اب کی بار بےمروتی سے بولیں تو آرزو خاموش ہوگئیں وہ خود سے تو ہاشم کو بالکل بھی یہاں نہیں بھلانے والی تھی، جو اُس کو خود اپنی مرضی سے یہاں چھوڑ کر گیا تھا اور دو دن سے ایک مرتبہ بھی اُس نے فون کرکے آرذو سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا تھا

"اب اس چھوٹی والے کو بھی کوئی معقول مشورہ دیں آپ یا پھر اِس کے لئے اصول الگ ہے آپ کے"

امامہ اب کی بار ہیر کی طرف اشارہ کرتی ہوئی شنہاس بولی ہیر اپنی طرف اشارہ پاکر خاموش ہی رہی

"اِس کا مسئلہ الگ ہے اُس ظالم انسان کے پاس میں اپنی بیٹی کو دوبارہ ہرگز نہیں بھیجوں گی، کیونکہ مجھے اُس انسان سے آگے بھی کوئی اچھی امید نہیں ہے بلکہ شاویز سے کل ہی بات کرو گی کہ یہی آس پاس کے علاقے میں کوئی چھوٹا موٹا سا دو تین کمروں کا رینٹ پر فلیٹ یا مکان مناسب قیمت پر دیکھ لیں، میں ہیر کو لےکر وہی شفٹ ہو جاؤں گی۔۔۔ یوں داماد کے گھر پر پڑے رہنا بھی اچھا نہیں لگ رہا مجھے" شہناس اپنا فیصلہ سناتی ہوئی کمرے سے چلی گئی تو ہیر مدد طلب نظروں سے امامہ کو دیکھنے لگی

"دوسروں سے مدد طلب کرنے کی بجائے انسان کو چاہیے وہ خود اپنے لئے کوئی بہتر اور معقول فیصلہ لے لے"

شہناس کے جانے کے بعد آرزو ہیر کو دیکھتی ہوئی بولی جو روہانسی چہرا لئے امامہ کو دیکھ رہی تھی

"آرذو بالکل ٹھیک بول رہی ہے ہیر ایک مرتبہ تمہیں عباس بھائی کے آمنے سامنے بات کرنی چاہیے، دیکھو امی تو اس وقت جذباتی ہوکر سوچ رہی ہیں کم سے کم تم خود اپنے لئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو"

امامہ ہیر کو آج پھر سمجھاتی ہوئی بولی

"انہوں نے بھی تو ٹھیک نہیں کیا ناں آپی میرے ساتھ"

ہیر افسردہ لہجے میں امامہ سے عباس کا شکوہ کرتی ہوئی بولی۔۔۔ ویسے بھی وہ عباس کو چھوڑ کر ہیر پیلس سے باہر نکال کر غلطی کرچکی تھی عباس اب اس کو کبھی بھی معاف کرنے والا نہیں تھا

"تو پھر ٹھیک ہے امی کا فیصلہ خوشی خوشی قبول کرلو۔۔۔ آج وہ تمہیں اپنے ساتھ الگ گھر لے کر شفٹ ہوجائیں گیں، تمہارے اِسی طرح خاموش رہنے پر وہ کل کو تمہارے شوہر سے تمہاری علیحدگی کروا دیں گیں پھر تم ہمیشہ کے لیے اپنے شوہر سے رشتہ ختم کرکے آمی اپنی ساری زندگی یوں ہی گزارتی رہنا"

آرزو ہیر کی افسردہ سی شکل دیکھتی ہوئی اُس سے بولی، علیدگی کے نام پر ہیر کے دل پر گھونسا سا لگا مگر وہ سہہ گئی

"تو ٹھیک ہے پھر اَمی کے پاس بھی تو کوئی نہ کوئی ہونا چاہیے میں رہ لوں گی اَمی کے ساتھ"

ہیر عباس کو یاد کرتی دل پر بڑا سا پتھر رکھ کر بولی

"تمہیں زیادہ ہی شوق چڑھا ہے اپنے مستقبل کو اندھیرے کرنے کا۔۔۔ کان کھول کر سن لو میری بات اَمی یہاں میرے پاس رہیں گی کہیں نہیں جائیں گی وہ، کیونکہ مجھے پورا یقین ہے شاویز اَمی کو یہاں سے کہیں بھی نہیں جانے دیں گے۔۔۔ تمہیں اپنے لیے جو بھی فیصلہ لینا ہے تو سوچ سمجھ کرلینا ہے میری مانو تو ایک مرتبہ عباس بھائی سے رابطہ کرو اُن کو یہاں بلاؤ اور ان سے روبرو بات کرو" امامہ ایک بار پھر ہیرے کو سمجھاتی ہوئی وانیہ کو گود میں لیے اپنے کمرے میں جانے لگی

رات میں سونے سے پہلے ہیر ٹوتھ برش کرنے واشروم آئی تو عباس کو سوچتے ہوئے وہ بےخیالی میں برش کررہی تھیں تب اچانک آئینے میں اپنی پشت پر اُس کی عباس پر نظر پڑی۔۔۔ وہ حیرت سے آنکھیں کھول کر عباس کو آئینے سے دیکھنے کے بعد جیسے ہی پیچھے پلٹی تو وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا

"یہ مجھے کیا ہوگیا ہے مجھے شاید اُن کے بارے میں سوچ کر ایسا محسوس ہوا ہوگا کہ وہ یہی ہیں ایسے کیسے ممکن ہوسکتا ہے بھلا"

ہیر سوچتی ہوئی واپس کمرے میں آئی اور آرزو کے برابر میں بیڈ ہر سونے کے لئے لیٹ گئی

***""""***

رات کے وقت نیند کے باوجود وہ اپنی پنڈلی پر ہاتھ کے لمس محسوس کرتی بولی

"آرذو دور ہو کے لیٹا سونے دو مجھے"

نیند میں ڈوبی ہوئی ہیر کی آواز پر آرزو کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی تھی کیونکہ آرزو اُس کے برابر میں بستر پر موجود ہی نہیں تھی اگر یہ بات ہیر جان جاتی تو اس پر نیند کی بجاۓ خوف کا غلبہ طاری ہوجاتا چند سیکنڈ بعد ہیر کو وہی ہاتھ کا لمس اپنے پیٹ پر رینگتا ہوا محسوس ہوا

"آرذو۔۔۔۔ نہیں۔۔ یہ کون ہے۔۔۔ کون ہو تم"

ہیر نے نیند میں بولتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں تو عباس کو اپنے قریب دیکھ کر خوف سے اُس کی آنکھیں پھیل گئی

"آ۔۔۔پ یہاں کیسے آسکتے ہیں"

ہیر نے خوف سے بولتے ہوۓ اٹھنا چاہا مگر عباس نے ہیر کو شانوں سے دبوچ کر واپس لٹا دیا اور اُس کے اوپر جھکتا ہوا بولا

"تمہیں کیا لگ رہا تھا میں تمہارے پیچھے تمہارے شہر نہیں آسکتا، تمہیں ڈھونڈ نہیں سکتا۔۔۔ کیسے سوچ لیا تم نے کہ تم میری قید سے نکل کر نیا ٹھکانہ تلاش کرکے اپنے گھر والوں کے ساتھ سکون سے زندگی گزارو گی، وہ بھی میرے بغیر۔۔۔۔ اور میں تم تک پہنچ نہیں پاؤ گا"

عباس اپنا چہرہ ہیر کہ چہرے کے نزدیک لا کر اپنے سخت ہاتھوں سے ہی ان کی گردن دبوچتا ہوا وہ ہیر سے بولا، اس کی آنکھوں میں سنجیدگی کے ساتھ غضب دیکھ کر ہیر خوف کے مارے کچھ نہ بول پائی

"منع کیا تھا میں نے ہیر پیلس سے باہر قدم نکلنے کا سوچنا بھی نہیں ورنہ جان لے لوں گا تمہاری، لیکن پھر بھی تم نے جرت کی۔۔۔ اور مجھ سے بھاگ کر یہاں آ گئیں"

عباس کے تاثرات دیکھ کر اِس وقت خوف کے مارے ہیر کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگی

"آپ مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے"

مشکل سے ہی ہیر کے گلے سے آواز نکل پائی تھی اِس وقت ہیر نے شانوں سے عباس کی شرٹ کو دبوچ رکھا تھا۔۔۔ ہیر مکمل طور پر عباس کی دسترس میں خوفزدہ نظروں سے اپنے اوپر کسی آسیب کی طرح قابض اپنے شوہر کو دیکھ کر بولی

"بالکل صحیح پہچانا میری جان، میں کسی دوسرے کی جان تو آسانی سے لے سکتا ہوں مگر تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔۔ میرے راز کو جاننے کے باوجود میں تمہاری جان نہیں لے سکتا تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا اپنوں کو چھوڑ کر یہاں سے دور، واپس میری دنیا میں"

عباس کی بات پر ہیر خوف سے نفی میں سر ہلانے لگے وہ واپس اس کے ساتھ وہاں جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔

ہیر کا اشارہ سمجھ کر عباس کے چہرے کے تاثرات اور بھہ زیادہ پتھریلے ہوگئے آنکھوں میں غصّے کے ساتھ اُس کے ہاتھ کا دباؤ ہیر کی گردن پر مزید بڑھتا چلا گیا۔ِ۔۔۔ 

ہیر ہربڑاتی ہوئی گہری نیند سے جاگی اور اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے ایک دم لیمپ اور ک دیا۔۔۔۔ آرزو اُس کے برابر میں سو رہی تھی اِس وقت رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔۔۔ اُس نے خواب میں عباس کو دیکھا تھا پھر چہرے پر آیا پسینہ صاف کر کے دوبارہ بیڈ پر لیٹ گئی

"اگر کبھی میرا عباس سے سامنا ہوگیا تو وہ اسی طرح کا عمل کریں گے جیسے میں نے خواب میں دیکھا"

ہیر بیڈ پر لیٹی ہوئی سوچنے لگی

***"""""***

تین دن بعد اپنے موبائل پر ہاشم کے نمبر سے آتی کال دیکھ کر آرذو کا دل خوشی سے دھڑک اٹھا

"آخرکار یاد آئی ہی گئی آپ کو میری" 

کال ریسیو کرنے کے ساتھ ہی آرذو نے بےساختہ شکوہ کیا۔۔۔ آج صبح سے ہی بار بار اسے ہاشم کا خیال آئے جارہا تھا اس کی کال دیکھر آرزو کو ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی

"ہاں یاد کرنے کے ساتھ سوچا تمہیں بھی اپنی یاد دلادو کہ ایک عدد شوہر ہے تمہارا، تم تو اپنی بہنوں اور امی کے بیچ میں مشکل ہی ہے مجھے یاد کرلو"

ہاشم بھلا کہاں چوکنے والا تھا آرذو کے طنز کا جواب طنزیہ لہجے میں دیتا ہوا بولا جس پر آرزو کچھ پل کے لیے خاموش ہوگئی

"ایسی بات نہیں ہے میں آج ہی آپ کو سوچ رہی تھی"

ہاشم کو بتاتی ہوئی آرذو آئستہ آواز میں بولی

"اگر تم سچ میں مجھے سوچ رہی ہعتی تو میرے کال کرنے کا انتظار نہیں کرتی بلکہ خود مجھے کال کرلیتی۔۔۔ تم نے یہ سوچ رکھا تھا کہ جب بھی مجھے میرا شوہر کال کرے گا میں اُسے یہی جملہ ٹکاؤ گی کہ میں آج آپ کو ہی سوچ رہی تھی"

ہاشم ایک مرتبہ پھر طنز کرتا بولا تو آرذو ہاشم کی بات پر اپنے کان سے موبائل ہٹاکر موبائل کو دیکھتی رہ گئی

"کیا آپ صبح شمع نے آپ کی مرضی کا ناشتہ نہیں بنایا جو اتنا غصہ آرہا ہے"

آرزو ابھی بھی دھیمے لہجے میں ہاشم سے پوچھنے لگی

"جب بیوی اپنے شوہر سے بےپرواہ ہوجائے تو پھر شوہر غصہ ہی کرتا ہے، شمع میری بیوی نہیں جو میں ناشتہ ڈھنگ سے نہ ملنے پر اُس پر غصہ کرو"

ہاشم ابھی بھی بگڑے موڈ میں آرزو سے بولا

"اوہو تو مطلب یہ ہوا کہ آج آپ کو ڈھنگ کا ناشتہ نہیں ملا اِسی وجہ سے آپ کو میری یاد آگئی"

آرذو اب کی بار طنزیہ انداز میں جتاتی ہوئی ہاشم سے پوچھنے لگی 

"صرف ناشتہ ہی نہیں میرے اور بھی بہت سے بگڑے کام ہیں جو ایک بیوی کو انجام دینے ہوتے ہیں" 

اب کی بار ہاشم بھی سنجیدہ انداز میں اسے جتاتا ہوا بولا

"مثلا اور کون سے کام ہیں جن کے لیے آپ کو خاص میری ضرورت در پیش آرہی ہے"

آرزو مسکراتی ہوئی ہاشم سے پوچھنے لگی 

"جب تم یہاں تشریف لاؤ گی تو ایک ایک کر کے سارے کام گنوادوں گا۔۔۔ اپنی بات کرو اور واپس آنے کا بتاؤ کب واپسی کا ارادہ ہے"

ہاشم اب کی بار بھی سنجیدہ لہجے میں آرزو سے اُس کے واپس آنے کا پروگرام پوچھنے لگا سچ تو یہ تھا آرزو اُس کو یاد آرہی تھی مگر خود اپنے منہ سے یہ بات بول کر ہاشم اُسے خوشی سے مبتلا کرنے کی بجاۓ ایٹیٹیوڈ دکھاتا ہوا آرذو سے اُس کی واپس آنے کا پوچھنے لگا

"اگر آپ بھول گئے ہیں تو میں آپ کو یاد دلادو کے مجھے یہاں آپ ہی نے بھیجا تھا"

آرذو اسکے ایٹیٹیوڈ کو خاطر میں نہ لاتی ہوئی ہاشم کو یاد دلانے لگی 

"میں نے بھیجا تھا تو اب بھی واپس آنے کا میں ہی پوچھ رہا ہوں بلکہ کل تیار رہنا شام ڈرائیور لینے آجائے گا تمہیں" ہاشم آرزو پر حق جتاتا ہوا بولا جس کے جواب میں آرزو ایک دم بولی

"ڈرائیور کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کل آپ ہی آئیے گا"

اب کی بار آرزو بھی پورے حق سے بولی

"مجھے اور بھی کام ہیں فارغ نہیں ہوں میں"

ہاشم آرذو کی بات پر نخرے دکھاتا ہوا بولا مگر اُس کا پورا ارادہ تھا وہ آرزو کو خود جاکر اپنے ساتھ لے آئے گا 

"ٹھیک ہے جب آپ فری ہوجائیں تب لینے آجائیے گا اور تب تک آپ شمع کے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ انجوائے کریں"

آرزو اس کے ایٹیٹیوڈ کو خاطر میں نہ لاتی ہوئی موبائل کی کال کاٹ چکی تھی 

"آرزو۔۔۔۔ ہیلو۔۔ آرزو"

ہاشم بولتا ہوا صوفے پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور موبائل کی اسکرین دیکھنے لگا

"کل شام کو ریڈی رہنا"

ہاشم میسج ٹائپ کرکے آرزو کو سینڈ کرنے لگا کہ گلنار اُس کے کمرے میں آگئی جسے دیکھ کر ہاشم اپنا موبائل ٹیبل پر رکھ چکا تھا

"صدمہ کچھ کم ہوا اُس کا یا ابھی تک غم لیے بیٹھی ہے، واپس یہاں کب آنے کا ارادہ ہے تمہاری بیوی کا"

ہاشم نے محسوس کیا گلنار کے لہجے میں آرذو کے لیے پہلی والی محبت اور چاشنی نہیں تھی لازمی یہ ماہ نور کی باتوں کا اثر تھا جو وہ یہاں جانے سے پہلے کر کے گئی تھی

"ماں جی جو کچھ آرزو کا ماضی تھا وہ وقت اب گزر چکا ہے۔۔۔ اور یقین جانیے شادی کے شروع دنوں میں میں آرذو کو اِس کے ماضی کے حوالے سے باتیں سناکر اُس کا کافی دل دکھا چکا ہوں۔۔۔ اگر اب آپ وہی میرا والا رویہ آرذو کے ساتھ رکھے گیں تو وہ چاہ کر بھی اپنے ماضی کو یاد کرتی رہے گی، جس سے حاصل آپ کو یا مجھ کو کچھ بھی نہیں ہوگا، مانا کہ وہ پہلے کسی دوسرے کو پسند کرتی تھی لیکن اب وہ میری بیوی ہے میری عزت ہے۔۔۔ یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اب اُس کے دل میں میری محبت ہے۔ِ۔۔ میں آپ سے چاہوں گا کہ آپ بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے ساری باتوں کو دل سے نکال کر آرزو کے ساتھ پہلے جیسا رویہ اپنالیں۔۔۔۔ یقین کریں اسی میں ہماری ہمارے گھر کی خوشی ہے"

ہاشم گلنار کو سمجھاتا بولا 

"تمہارا اور آرزو کا کب سے معاملہ چل رہا ہے تم نے تو قسم کھائی تھی کہ تم اور آرزو ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تک نہیں تھے"

گلنار  اپنے ماتھے پر بل لئے ہاشم سے پوچھنے لگی

"میں ابھی بھی اپنی بات پر قائم ہوں شادی سے پہلے میں سچ میں آرزو کو نہیں جانتا تھا نہ ہی وہ مجھے جانتی تھی یہ غلط فہمی ماہ نور کو تب ہوئی جب اس نے عثمان کے فلیٹ پر آرزو کو دیکھا وہ سمجھی میرا اور آرزو کا آفیئر ہے۔۔۔۔ اور وہی غلط فہمی وہ یہاں جانے سے پہلے آپ کے دل میں دا جی کے دل میں ڈال کر چلی گئی"

ہاشم کے بتانے پر ایک بار پھر گلنار درست لب و لہجہ اختیار کرتی ہوئی ہاشم سے آرذو کے متعلق پوچھنے لگی

"کب واپس آ رہی ہے آرزو"

گلنار کے پوچھنے پر ہاشم اس کو دیکھتا ہوا بالکل سنجیدہ لب و لہجے اختیار کرتا ہوا بولا

"بول رہی تھی جب ماں جی خود مجھے لینے آئے گیں تب ہی واپس آؤں گی" ہاشم کے بولنے پر گلنار آنکھیں دکھاتی ہوئی اُس کو بولی

"ماں جی کوئی نہیں بیٹھی ہوئی، شرافت سے کل ہی جاکر اس کو واپس لے کر آؤں۔۔۔۔ اباجی بھی آج پوچھ رہے تھے کہ کب واپس آنا ہے آرزو کو"

گلنار ہاشم سے بولتی ہوئی اٹھ کر ہاشم کے کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ ہاشم گلنار کے رویے سے اندازہ لگا چکا تھا وہ تھوڑا بہت گلنار کا آرزو کی طرف سے دل صاف کرچکا ہے باقی کی کوشش یہاں آکر خود آرزو کو کرنی تھی۔۔۔۔ ہاشم خود بھی اپنے کمرے سے نکل کر ایوب خان کے پاس چلا گیا

***"""""***

آرزو دوسرے دن شام کے وقت تیار ہوکر ہاشم کی آمد کے انتظار کررہی تھی تب اسے ایک 55 سالہ خاتون کے ساتھ ایک نوجوان ہال میں آتا دکھائی دیا وہ دونوں ہی آرزو کے لئے بالکل اجنبی تھے

"معاف کیجئے میں نے آپ کو پہچانا نہیں آپ لازمی شاویز بھائی سے ملنے آئیں ہوگے میں ان کو اور آپی کو بلا کر لاتی ہوں آپ تشریف رکھیے"

آرزو سلام کرنے کے بعد فرغب بی اور عباس کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔۔ یقیناً وہ شاویز کی فیملی سے امامہ کے سسرال والے ہوگے

"میں شاویز بھائی کو اچھی طرح جانتا ہوں لیکن میں ملنے ہیر سے آیا ہوں بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ میں یہاں ہیر کو اپنے ساتھ واپس لے جانے کے لئے آیا ہوں۔۔۔ شیر عباس نام ہے میرا، ہیر کا ہسبنڈ ہوں میں"

عباس آرزو کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ یہ لڑکی ہیر کی بہن ہے جس کی تصویر ریشماں نے اس کو بھیجی تھی۔۔۔۔ عباس کا مکمل تعارف کرواتے ہیں آرزو غور سے اور حیرت سے عباس کو دیکھنے لگے اِس سے پہلے وہ کچھ بولتی شاویز ہال میں چلا آیا

"ارے شیر عباس کیسے ہو تم"

شاویز خوش دلی سے عباس کی طرف بڑھتا ہوا اُس سے گرم جوشی سے ملنے لگا

"میں ٹھیک ہوں شاویز بھائی اور آپ کا بےحد شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنا ایڈریس دے کر مجھے میری بیوی کے متعلق آگاہ کردیا ورنہ یہاں مجھے کسی دوسرے سے ایسی توقع ہرگز نہیں تھی"

عباس شاویز سے بول تو یہ منظر دیکھ کر ہال میں آتی شہناس کے ساتھ امامہ اور ہیر بھی حیرت زدہ ہوگئی۔۔۔ ہیر وہاں عباس کو دیکھ کر شاکڈ میں آچکی تھی اِس سے بھی بڑھ کر حیرت کی بات اُن سب کے لئے یہ تھی کہ عباس اور شاویز پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔۔۔ ہیر بےیقینی سے عباس کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ عباس بھی اسی کی جانب دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں ہیر کے لئے ڈھیر ساری شکایت تھی اس سے پہلے شہناس کوئی بات کا آغاز کرتی وہاں ہاشم کی آمد پر ماحول میں چھائی اجنبیت نے دم توڑا

"ہاشم ان سے ملو یہ شیر عباس ہے ہیر کا ہسبنڈ میرے خیال میں تمہاری اِس سے آج پہلی ماتبہ ملاقات ہوئی ہے" 

شاویز اور ہاشم کی اچھی سلام دعا ہوچکی تھی شاویز عباس کا تعارف عباس سے کراتا ہوا بولا تو ہاشم عباس سے ملنے لگا

"شاویز آپ کیسے جانتے ہیں شیر عباس کو"

کافی دیر سے خاموش بیٹھی شہناس اپنے سب سے بڑے داماد شاویز سے پوچھنے لگی اسے عباس کا ہاشم سے تعارف کروانا پسند نہیں آیا تھا جبکہ عباس ہاشم سے ملنے کے بعد ایک مرتبہ پھر خاموش سر جھکائے بیٹھی ہیر کو دیکھنے لگا جو اُس کی طرف نظریں اٹھاکر دیکھنے سے مکمل گریزہ تھی

"شیر عباس میرے چھوٹے بھائی مظہر کا بہت اچھا دوست ہے اور مجھے اپنے بھائی مظہر کی طرح عزیز بھی ہے"

شاویز کی بات سن کر شہناس بالکل خاموش ہوچکی تھی۔۔۔ ہاشم آرذو کو دیکھنے لگا جو صوفے پر بالکل الگ خاموش بیٹھی ہوئی تھی ماحول میں چھائی سنجیدگی وہ یہاں آنے کے ساتھ ہی محسوس کرچکا تھا اِس لئے خود بھی خاموش رہا

"میں یہاں ہیر کو لینے آیا ہوں" 

عباس کے اچانک بولنے پر ماحول میں دوبارہ خاموشی چھاچکی تھی ہیر اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر عباس کو دیکھنے لگی جو کسی دوسرے کی جانب دیکھنے کی بجائے شکوہ بھری نگاہوں سے اُسی کو دیکھ رہا تھا

"وہ اب تمہارے ساتھ واپس نہیں جاۓ گی۔۔۔ تمہاری حقیقت جاننے کے بعد میں کبھی نہیں چاہو گی کہ میری بیٹی تم سے کوئی رشتہ رکھے"

شہناس کی آواز نے ایک مرتبہ پھر خاموشی کو توڑا۔۔۔ سب کی نظروں کا زاویہ شہناس کی طرف تھا عباس بھی ماتھے پر شکن سجاۓ اور آنکھوں میں ناگواری لیے شہاس کو دیکھنے لگا

"اس کا فیصلہ کرنے والی آپ کون ہوتی ہیں اگر ہیر خود یہ بات سب کے سامنے مجھ سے بولے گی تو میں ابھی اور اِسی وقت یہاں سے چلا جاؤں گا"

عباس کے بولنے پر عباس سمیت سب کی نظریں ہیر پر ٹہر گئیں وہ گھبرا کر باری باری امامہ اور آرزو کو دیکھنے لگی جو آنکھوں سے صاف اُس کو عباس کے حق میں فیصلہ دینے کو بول رہی تھی

"امی جو بھی بول رہی ہیں بالکل ٹھیک بول رہی ہے مجھے آپ سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا"

ہیر دونوں بہنوں کی نظر کو نظر انداز کرتی اور عباس سے نظریں چراتی ہوئی بولی تو امامہ سمیت آرذو کو بھی اُس پر غصہ آیا جبکہ عباس خاموش نظر سے ہیر کو دیکھنے لگا جیسے وہ ہیر کی بولی ہوئی بات پر یقین کررہا ہو۔۔۔ اس معاملے میں فرغب بی کے ساتھ ہاشم اور شاویز بالکل خاموش بیٹھے تھے

"چلیں فرغب بی اب ہمارے یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔ ڈائیورس کے پیپرز میں جلد بھجوا دوں گا" عباس غصے بھری نگاہ ہیر کے چہرے پر ڈالتا ہوا صوفے سے اٹھ کر فرغب بی کا انتظار کیے بغیر وہاں سے باہر نکل گیا جبکہ فرغب بی شہناس کو دیکھنے لگیں

"شہناس صاحبہ کیا آپ کو سچ میں شیر عباس کی حقیقت معلوم ہے، جانتی ہیں آپ شیر عباس اصل میں کون ہے۔۔۔ شیر عباس احمد عالم کا بیٹا ہے وہ احمد عالم جس کی بیٹی ہیر عالم کا مجرم آپ کا شوہر شعیب صدیقی تھا۔۔۔ یاد آیا کچھ آپ کو.... ہیر عالم وہ لڑکی جس سے پیسے کی لالچ میں آپ کے شوہر نے چوری چپھے کورٹ میرج کرلی تھی۔۔۔۔ جس کے نتیجے میں احمد عالم نے غصے میں اپنی بیٹی کو اپنی دولت سے عاق کردیا جب شعیب صدیقی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تو تب اس نے غصّے میں ہیر کا سودا غیر مردوں سے کیا۔۔۔۔ ہیر عالم کو محبت کی شادی کرنے کی یہ سزا دی کہ اسے ہر رات نئے مرد کے ساتھ گزارنے پر مجبور کیا جاتا نہیں تو اسے آپ کا شوہر جانوروں کی طرح مارتا پیٹتا کئی دنوں تک کھانا نہیں دیتا۔۔۔ اسی طرح آہستہ آہستہ ہیر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی، نیم پاگل بنادیا آپ کے شوہر نے اس معصوم کو۔۔۔ جس کے بعد ہیر ایک ابنارمل بچے کو پیدا کرکے ہمیشہ کے لئے اِس دنیا سے چلی گئی"

فرغب بی بولتی ہوئی صوفے سے اٹھ کر شہناس کے پاس آئی اِس وقت فرغب بی کی باتوں پر شہناس کا چہرہ خوف سے سفید پڑنے لگا 

"شعیب صدیقی آپ کیسے اس لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں آپ نے تو ہمیشہ مجھ سے محبت کا دعوی کیا ہے۔۔۔ اگر آپ نے ایسا قدم اٹھایا تو میں اپنی جان لے لوں گی"

"بیوقوفی کی باتیں مت کرو شہناس وہ لڑکی نہیں سونے کی چڑیا ہے، یوں سمجھ لو کہ وہ لڑکی ہمارے ہاتھ آیا سنہری موقع ہے تم خود چاہتی ہو ناں ہمارے حالات بدل جائے تو یہ موقع ہاتھ سے جانے دینا بیوقوفی ہے۔۔۔ ایک مرتبہ شادی کے بعد احمد عالم کی ساری دولت میرے نام ہو جائے پھر کون احمد عالم اور کون ہیر عالم ہم دونوں ساری زندگی سکون سے بسر کریں گے میرا یقین کرو"

فرغب بی کی آواز ماضی سے شہناس کو واپس ہال میں کھینچ لائی اب فرغب بی شہناس کی بیٹی ہیر سے مخاطب تھی۔۔۔

"آپ جاننا چاہتی تھی ناں کہ ہیر پیلس میں موجود وہ قبر کس کی ہے اس قبر میں احمد عالم کی بیٹی اور شیر عباس کی سگی بہن ہیر عالم دفن ہے۔۔۔۔ آج ساری سچائی بتاتے ہوۓ صرف اِس لیے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کیونکہ میں شیر عباس کو تنہا زندگی گزارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی ان کے پاس آپ کے سوا اب کوئی دوسرا رشتہ نہیں بچا، ہیر عالم کی ابنارمل اولاد بھی اِس دنیا سے جاچکی ہے جس کو بیسمینٹ میں قید کر کے رکھا گیا تھا۔۔۔۔ شیر عباس اب بالکل تنہا ہیں۔۔۔ اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے تصویر کا دوسرا رخ بھی ضرور دیکھیے گا تب آپ کو شیر عباس کا اپنے ساتھ کیے جانے والا سلوک زیادہ تکلیف دہ نہیں لگے گا وہ تکلیف جو تکلیف شیر عباس اور اس کی بہن اٹھا چکی ہے"

فرغب بی ہیر سے بولتی ہوئی خود بھی چلی گئیں وہ شاکڈ کے عالم میں کھڑی تھی اِس وقت ساری گراہیں کھلنے کے باوجود ہیر کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا

"امی یہ خاتون کیا بول کر چلی گئیں ہیں۔۔۔ خدارا بول دیجئے کہ انہوں نے جو بھی کچھ ابو کے بارے میں بولا ہے وہ سب کچھ جھوٹ ہے، ابو شیر عباس کی بہن یا کسی دوسری عورت کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے تھے"

سب سے پہلے امامہ ہوش میں آتی شہناس سے سوال کرنے لگی جس کے جواب میں شہناس چپ کر کے آنسو بہانے لگی

"آرزو"

آرزو کے ایک دم چکرا کر گرنے سے ہاشم اس کی جانب تیزی سے بڑھا

***"""***

کل رات ہوئی طوفانی بارش کی وجہ سے وہ معمول کی طرح زیادہ آگے جاگنگ کے لیے نہیں جاسکا تھا۔۔۔واپسی پر ہیر پیلس کا رخ کرتے ہوئے وہ ہیر پیلس کے پچھلے حصے میں چلایا

"ایبک"

قبر کا کتبہ بارش کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا تھا اس لیے عباس نے دور کھڑے ایبک کو پکارا اور اشارے سے اسے وہاں آنے کے لیے کہا

"سر میں صبح سویرے ہی کتبہ دیکھ چکا تھا اور دوسرا کتبہ بنوانے کا آرڈر بھی دے دیا ہے" عباس کا اشارہ پاتے ہی ایبک شیر عباس کے پاس آتا ہوا اسے بتانے لگا

"ٹھیک ہے ماریہ سے یہاں کی صفائی کا بول دینا اور اس دوسرے کام کا کیا بنا جو میں نے تمہیں بولا تھا"

عباس ایبک سے خاص مطلب کی بات پوچھنے لگا پچھلے 7 سالوں سے وہ صدیقی کی تلاش میں تھا مگر جب وہ صدیقی تک رسائی حاصل کرتا تو اسے مایوسی کا سامنا ہوتا کیونکہ صدیقی اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوکر دوسرا گھر شفٹ کرلیتا۔۔۔ احمد عالم اور اپنی بہن ہیر عالم سے کیا ہوا وعدہ وہ جب تک پورا نہ کرلیتا اسے سکون نہیں آنا تھا جیسے صدیقی نے محبت کے جھوٹے جال میں پھنسا کر اس کی بہن سے شادی کی تھی اور جس طرح اُس کی بہن کی زندگی برباد کی تھی عباس جب تک صدیقی سے اپنی بہن کا انتقام نہ لے لیتا چین سے ہرگز نہیں بیٹھتا

"اس کام کے لیے آپ بےفکر ہوجائیں اب کی بار انشاءاللہ مکمل اور پکی رپورٹ لےکر آؤں گا آپ کے لیے"

ایبک عباس سے بول رہا تب اچانک ماریہ کی زور دار چیخ ان دونوں کو سنائی دی جسے سن کر عباس اور ایبک دونوں ہی تیزی سے ہیر پیلس اس کے اندر بھاگے

"وہ۔۔۔۔ وہ وہاں کوئی ہے کوئی حیوان۔۔۔۔ مم مجھے یہاں کام نہیں کرنا میں کام چھوڑ کر جارہی ہوں"

ماریہ کو بیسمینٹ سے نکلتا ہوا دیکھ کر اور ماریہ کی بات سن کر عباس اور ایبک ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے 

"کس کے حکم سے تم اس جگہ پر آئی ہو"

ماریہ کے کمرے سے باہر کی جانب راہداری میں بڑھتے قدم وہی تھمے کیونکہ ایبک پھرتی سے کمرے کا دروازہ بند کرچکا تھا شیر عباس قدم اٹھاتا ہوا ماریہ کے پاس آکر لہجے میں سختی سماۓ ماریہ سے پوچھنے لگا 

"مم۔۔۔ مجھے معاف کردیں عباس صاحب، مجھے یہاں سے جانے دیں میں وعدہ کرتی ہوں میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاؤں گی"

ماریہ عباس کے چہرے پر غضب ناک تیور دیکھ کر اس سے بولی آج اسے مکمل یقین ہوچکا تھا کہ یہ جگہ نہ صرف آسیب زدہ ہے بلکہ یہ روحؤں کے ساتھ ایک درندے کا بھی بسیرا ہے

"ایبک اِس کے ماں باپ کو یہاں بلاؤ اب یہ اور اس کے گھر والے غذر میں نہیں رہ سکتے غذر سے ہجرت کرنے کی صورت ہی ان لوگوں کو اُن کی بیٹی واپس ملے گی کیونکہ ماریہ بی بی ہیر پیلس کی قیمتی چیزیں چراتی ہوئی پکڑی گئی ہے اگر اس کے گھر والے بدنامی اور پولیس سے بچنا چاہتے ہیں تو آج رات ہی اس کے گھر والوں کو غذر سے ہجرت کرنا پڑے گی اور ماریہ کی جگہ اُس کسٹن لڑکے مائیکل کو کام پر لگادو"

عباس ماریہ کی بجائے ایبک کو حکم دیتا ہوا بولا

"ٹھیک ہے عباس سر میں شام میں ماریہ بی بی کے گھر والوں کو آپ کا پیغام بھجوا دیتا ہوں جب تک ماریہ بی بی کا کیا کرنا ہے"

ایبک عباس سے پوچھنے لگا جبکہ ماریہ اس نئی آفتاد پر رونے لگی

"اس کو بیسمینٹ میں بند کردو" 

عباس ایک نظر روتی ہوئی ماریہ پر ڈال کر ایبک سے کہتا ہوا بیسمینٹ کی طرف جانے لگا جبکہ ایبک ماریہ کو ہیر پیلس میں موجود دوسرے تہہ خانے میں لے جانے لگا جس میں ایک سرنگ اسی بیسمینٹ میں نکلتی تھی جس میں اِس وقت عباس گیا تھا

***""""***

ماریہ کو بیسمنٹ میں بند کروانے کے بعد ذرا سی غفلت سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ ماریہ باہر نکلنے کے سبب سرنگ کے رستے اُس بیسمینٹ کے دوسرے حصّے میں چلی گئی جہاں ماریہ کی موت اُس کا انتظار کررہی تھی۔۔۔ ماریہ کی چیخ کی آواز اور مدد کی پکار سن کر مائیکل بھی بیسمنٹ میں اُس کے پیچھے جاکر اپنی جان گنوا بیٹھا تھا، جس کی وجہ سے عباس کو افسوس تو ہوا تھا مگر اِس معاملے میں وہ خاموشی اختیار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتا تھا البتہ اُس راہداری کی طرف نوکروں کے جانے پر مزید سخت پابندی لگادی گئی۔۔ ان دنوں یہ ہوا کہ عباس کو صدیقی کا پتہ چل گیا یعنی جس جگہ پر وہ آج کل مقیم تھا، عباس صدیقی کے گھر جانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر مظہر کی ضد پر عباس کو پہلے کراچی پہنچ کر اُس کی شادی اٹینڈ کرنا تھی مظہر کی بارات سے ایک دن پہلے جب ہیر اچانک اُس کی گاڑی کے سامنے آئی تو عباس کا دل پہلی نظر میں ہی ہیر سے محبت کر بیٹھا، یہ جانے بغیر کے وہ کون تھی آج سے پہلے نہ کبھی عباس نے کسی لڑکی کے بارے میں اِس طرح سوچا نہ کبھی کسی لڑکی کو اِس طرح دیکھا جس طرح وہ ہیر کو مظہر کی برات والے دن دیکھ رہا تھا لیکن یہ لڑکی اُس کی منزل نہیں تھی۔۔۔۔ اُس کا مقصد کچھ اور تھا جس کا سوچتے ہوئے عباس کا دل بےچین ہونے لگا۔۔۔۔ اپنی اجاڑ حالت بہن سے کیا ہوا وعدہ یاد کر کے عباس نے ہیر کی بنائی ہوئی پینٹنگ کو دیکھ کر مطبوطی سے اپنے دل پر پہرے بٹھاتے ہوئے اُس پینٹنگ کو اسٹور روم میں رکھوا دیا اور اپنے دل سے اُس لڑکی کو نکالنے کا فیصلہ کیا جو کہ اُس کے لیے خاص تکلیف دے عمل تھا

صدیقی کے گھر اُس کی بیٹی کا رشتہ بھیجنے سے عباس نے اپنے پلان کا آغاز کیا تھا اسے صدیقی کی بیٹی آرزو کو اپنی بیوی بنانے سے زیادہ دلچسپی صدیقی سے انتقام لینے میں تھی لیکن اپنے مایوں والے دن وہ امامہ کو وہاں دیکھ کر اچھا خاصا کنفیوز ہوگیا۔۔۔ اگر یہ لڑکی آرزو کی بہن تھی تو اُس دن مظہر کی برات میں آئی لڑکی کا تعلق بھی تو اُس لڑکی سے نکلتا تھا اِس سے پہلے عباس اپنی الجھن کو دور کرتا ہیر پیلس سے آنے والی فرغب بی کی کال نے عباس کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا۔۔۔ جس کی وجہ سے عباس کو اُسی وقت غذر کے لیے روانہ ہونا پڑا

باندھی گئی زنجیروں کو کھلا دیکھ کر وہ بیسمینٹ سے باہر نکل کر ہیر پیلس کے احاطے کو پار کرتا جنگل کا رخ کرچکا تھا۔ عباس کے ہیر پیلس پہنچنے سے پہلے ایبک اسے جنگل سے واپس ہیر پیلس لے تو آیا تھا مگر جنگل میں موجود ایک سے زائد بھیڑیے اس پر حملہ کرکے اسے اچھا خاصہ زخمی کرچکے تھے ایک وجہ یہ بھی تھی اس کی زخمی حالت دیکھ کر عباس دوبارہ کراچی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اوپر سے موسم کی صورت حال دیکھ کر عباس کا ارادہ مزید بدل گیا۔۔۔ لیکن جب مومنہ سے اس کو یہ خبر سننے کو ملی آرزو کل رات گھر سے بھاگ چکی ہے اور ہیر نامی "وہی" لڑکی آرزو کی بہن اور صدیقی کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے تب نہ جانے کیوں اس نے فوراً ہی ہیر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ اسے نہیں معلوم تھا شادی کے بعد وہ ہیر کے ساتھ اپنا کیسا رویہ رکھتا مگر اپنے کیے گئے اس فیصلے سے اُس کے اندر موجود چند دنوں سے بڑھتی ہوئی بےچینی ختم ہوچکی تھی

ٹیلی فونک نکاح کے فوراً بعد عباس نے اپنے پاس ہیر کو بلا تو لیا تھا مگر اس کے بعد عباس خود کنفیوز تھا کہ ہیر سے پہلی ملاقات اُس کی کیسی ہونی چاہیے۔۔۔۔ اُس رات ہوٹل میں موجود عباس اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ کی اسکرین پر غور سے ہیر کو دیکھ رہا تھا جس وقت وہ لان کی سائیڈ پر باہر کھڑی تھی۔۔۔ ہیر پیلس کی سیفٹی اور چوروں، ڈاکوؤں اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لیے بےشمار کیمرے اُس نے کافی پہلے سے ہی ہیر پیلس میں جگہ جگہ پر فٹ کروائے ہوئے تھے۔۔۔۔ برگد کے درخت کے پیچھے ایک موٹے سے بلے سے ہیر کو ڈرتا ہوا دیکھ کر عباس کے دماغ میں ایک گوندا سا لپکا۔۔۔۔ وہ ہیر کے پاس جانے کے لیے ہیر سے شوہر کے روپ میں پہلی ملاقات کے لیے اپنے دل اور ذہن دونوں کو آمادہ کرنے لگا مگر ہیر سے یہ نزدیکی ملاقات عباس نے شوہر کے روپ میں نہیں کی تھی بلکہ آنکھوں میں لگے لینس، کالے قمیض شلوار میں اپنی باتوں سے عباس نے ہیر پر اپنا تاثر کچھ اور ہی چھوڑا تھا 

جس کے نتیجے میں وہ ہیر کو کافی دنوں تک بیمار اور صدمے کے زیر اثر خوفزدہ دیکھ کر شرمندہ بھی ہوا تھا مگر بیسمنٹ میں اُس زخمی وجود اور ہیر پیلس کے پچھلے حصے میں بنی اپنی بہن کی قبر کو دیکھ کر اُس کی شرمندگی ہوا ہو جاتی۔۔۔ جس دن ہیر نے بیسمینٹ سے گانے کی آواز سن کر وہاں جانے کی کوشش کی تھی تب عباس پہلی مرتبہ ہیر کو لےکر سچ میں پریشان ہوا۔۔۔ اُس کے بعد ہیر دوسرے کمرے میں اپنی پینٹنگ اور وہ کتبہ جو غلط سن پیدائش درج ہونے کی وجہ سے قبر پر نہیں لگایا گیا تھا، ہیر اُن چیزوں کو دیکھ کر کافی زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی وہ واپس کراچی اپنے ماں باپ کے پاس جانا چاہتی تھی جس کے لیے عباس تیار نہیں تھا اِس وجہ سے ہیر اُس سے ناراض ہوچکی تھی

رات کے پہر ہیر سے ناراضگی ختم کرتے باتوں کے دوران عباس نے اس پر اپنی فیلینگز واضح کیں، وہ اپنے اور ہیر کے رشتے میں موجود اجنبیت کی دیوار کو ہٹاکر اس رشتے کو مزید خوبصورت بنانا چاہتا تھا کیونکہ ہیر کے نزدیک تو وہ ہیر کی مرضی کو اہمیت دیتے ہوئے ابھی تک اُس کے قریب نہیں آیا تھا نہ ہی اُس نے اپنا حق طلب کیا تھا۔۔۔ اگر اُس رات ایبک عباس کے پاس یہ بری خبر نہ سنانے آتا کہ ہوٹل میں آگ لگ چکی ہے تو عباس مکمل طور پر ہیر کو اس کی نظر میں اپنا چکا ہوتا۔۔۔۔ ہوٹل پہنچتے ہی صورت حال قابو میں آچکی تھی آگ صرف کچن والے پورشن میں لگی تھی جسے بروقت زیادہ نقصان ہونے سے پہلے بجھا دیا گیا تھا۔۔۔ عباس ایبک کو کال کرکے وہاں بلا چکا تھا تاکہ باقی کی صورت حال ایبک سنبھال لے اور وہ خود ہیر پیلس جانے کا ارادہ رکھتا تھا

تب واپسی کے سفر میں اُسے بیچ راستے میں ایک بوڑھا آدمی نہر کے پاس دکھائی دیا جو اپنی جوان بیٹی کی لاش کو پانی سے نکال رہا تھا۔۔۔ شادی کا جھانسا دے کر ایک لڑکا اس بوڑھے آدمی کی بیٹی کی عزت روند کر اُسے موت کے منہ میں دھکیل چکا تھا۔۔۔ روتے ہوئے بوڑھے آدمی کی زبانی اِس قصّے کو سن کر عباس پر بےحسی غالب آنے لگی۔۔۔۔ اپنی بہن کی تکلیفیں چیخ و پکار اور اُس کی موت کو یاد کر کے وہ سب کچھ بھول گیا یہ بھی بھول گیا کہ وہ دوبارہ ہیر کو وہی تکلیف دینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔۔ ایک مرتبہ پھر ہیر کو اُسی کیفیت میں دیکھ کر عباس کا دل پشیمان ہونے لگا دوبارہ اپنے ساتھ ہوئے اُس واقعے سے ہیر بری طرح خوفزدہ ہوچکی تھی تھوڑا اثر اُس واقعہ سے اُس کی نفسیات پر بھی پڑا۔۔۔۔ وہ ہیر پیلس سے متعلق لوگوں کی کہانیاں سن کر محسوس کرنے لگی کہ اُس کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے والا کوئی عام مخلوق نہیں۔۔۔ عباس نے خود تاثر بھی ایسا ہی دیا تھا مگر ہیر کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر وہ نادم ہونے لگا اِس لئے ہیر کو سائکیٹرس کے پاس لے گیا

اپنی پشیمانی کا اعتراف جب عباس نے فرغب بی کے سامنے کیا تب فرغب بی نے عباس کو پچھتاوں سے نکال کر اسے احمد عالم اور ہیر عالم کا وعدہ یاد کروایا۔۔۔ ہیر سے محبت کرنے والی بات پر عباس ہمیشہ فرغب بی کے سامنے نفی کرتا آیا تھا۔۔۔۔ اِس کے بعد عباس نے ہیر میں الگ بدلاؤ دیکھا وہ ڈرنے کی بجائے اپنی نارمل حالت میں آکر اُس  پراسراریت کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی جس کے متعلق ہیر نے عباس سے کئی سوالات بھی کیے لیکن عباس ہیر کو فوری طور پر کچھ بتانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اِس لئے ہیر کے سوال کو نظرانداز کرنے لگا مگر جس رات عباس کو محسوس ہوا ہیر اُس کے پیچھے کمرے سے نکل کر بیسمینٹ تک پہنچ چکی ہے تب سزا کے طور پر عباس آسیب کے روپ میں سفید کمرے میں ہیر کے سامنے آیا جس پر عباس کو یہ احساس ہوگیا ہیر اُس سے محبت کی خاطر اپنے شوہر کی جان بچانے کے لیے مجبوری میں اپنا آپ کسی دوسرے کے آگے پیش کرنے کو تیار تھی، ایک ایسی ہستی کے سامنے جس سے وہ بری طرح خوفزدہ تھی تب عباس نے نہ صرف دل سے عہد کیا بلکہ فرغب بی کے آگے اعتراف بھی کیا وہ ہیر سے محبت کرتا ہے، اسے مزید تکلیف میں یا اپنی بہن کی طرح پاگل ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ وہ اپنی بہن کا بدلہ صدیقی کی بیٹی سے لےکر اپنی محبت کو اپنے ہی ہاتھ سے نہیں مار سکتا تھا 

صدیقی کی ہیر پیلس میں آمد عباس کو پسند نہیں آئی تھی لیکن ہیر کو خوش دیکھ کر وہ زیادہ کچھ بولا نہیں مگر اُس رات جب عباس ہوٹل سے ہیر پیلس کافی لیٹ پہنچا اور جب اُس نے صدیقی کو ہیر پیلس سے باہر بھاگتا ہوا دیکھا اور اس کی باتوں پر غور کیا تو عباس پورے معاملے کی نوعیت تک پہنچ چکا تھا یقیناً صدیقی بیسمینٹ میں موجود اُس رات کو جان چکا تھا جس سے صدیقی خود منسلک تھا۔ عباس صدیقی کے پیچھے غذر کے جنگل میں نکل گیا۔۔۔ جب صدیقی نے گہری کھائی میں گرنے کے خوف سے عباس کو بچانے کے لئے بولا تو عباس نے صدیقی کو بچانے کی بجائے اس سے اپنا اصل تعارف کروایا تاکہ صدیقی کو موت سے پہلے معلوم ہو جائے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کس شخص سے کروا چکا ہے صدیقی کی موت کا عباس کو کوئی افسوس نہیں ہوا تھا بلکہ اس کی سوچ سے زیادہ آسان موت صدیقی کو نصیب ہوچکی تھی۔۔۔ اس رات وہ کئی سالوں بعد چین کی نیند سویا تھا لیکن آگے کیا مشکلات آنے والی تھی اس بات کا اندازہ عباس کو نہیں ہوا سب سے پہلے تو ہیر کا یوں صدیقی کے اچانک غائب ہوجانے پر پریشان ہوجانا اس کو اچھا خاصا چڑا گیا تھا۔۔۔ لیکن صدیقی کی موت کب تک چھپ سکتی تھی، عباس نے علاقے کے ایس ایچ او سے رابطہ کرکے صدیقی موت کو حادثاتی رنگ دیتے ہوئے ہیر اور اس کے گھر والوں کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ سب کچھ پہلے جیسا آسان ہوجاتا اگر فرحانہ کا شوہر عباس کو وہ ویڈیو نہ بھیجتا عباس چاہتا تو فرحانہ کے شوہر کو ایس ایچ او کے حوالے کردیتا جو اسے ڈرا دھمکا کر اُس کا منہ بھی بند کردیتا مگر اس نے فرحانہ کے شوہر کو اچھی رقم دے کر اُس کا منہ بند رکھنے اور اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنے کا حکم دیا، جس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکا کیونکہ فرحانہ ہیر کو وہ ویڈیو دکھا چکی تھی جس کی وجہ سے ہیر عباس سے نہ صرف بدگمان ہوئی تھی بلکہ اسی دن ہیر پر یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ پورے ہیر پیلس میں خفیہ کیمرے لگے ہوئے تھے اتفاق سے اُس وقت عباس اپنے ہوٹل کے روم میں بیٹھا ہیر کو کیمرے میں دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ ہیر کا دماغ اُن خفیہ کیمروں سے اُس آسیب کی طرف بھی لازمی جائے گا جو تین مرتبہ اُس کے روپ میں ہیر کے سامنے آچکا ہے جس آسیب کو اُس شوہر ہمیشہ جھٹلاتا رہا ہے

مگر جب عباس نے ہیر کو کیمرے میں سے بیسمینٹ میں جاتا دیکھا تب اُس نے ہیر کو روکنے کے غرض سے کال ملائی مگر ہیر نے عباس کی کال دیکھتے ہوئے بھی جان بوجھ کر نظر انداز کی تب عباس کو ہوٹل سے ہیر پیلس آنا پڑا۔۔۔۔ ہیر پیلس آکر ہیر کی آنکھوں میں اپنے لیے بھی یقینی دیکھ کر عباس کو فرحانہ پر شدید غصہ آیا جبھی غصے میں اُس میں ایبک سے فرحانہ کو بیسمینٹ میں (جس میں ماریہ کو قید کر رکھا تھا) بند کرنے کو کہا اور فرحانہ کے شوہر کو وہاں بلوالیا۔۔۔۔ دوسری طرف ہیر عباس سے بری طرح بدگمان ہوچکی تھی وہ نہ صرف عباس کو اپنے باپ کا قاتل سمجھ رہی تھی بلکہ بیسمینٹ میں موجود ذات کی وجہ سے ہونے والے تمام حادثات کا قصور بھی وہ عباس کو ٹہرا رہی تھی، عباس چاہ کر بھی ہیر کو تمام حقیقت سے آگاہ نہیں کرسکا عباس نہیں بتا پایا کہ اس نے ہیر کے ساتھ وہ سب کیوں کیا نہ ہی یہ بتا پایا کہ بیسمینٹ میں موجود ہیر جسے حیوان کہہ رہی ہے وہ حیوان نہیں بلکہ اسی کے باپ کی کرنی کا پھل تھا اس وقت ہیر اپنے آپے میں نہیں تھی اس لیے عباس نے اسے تمام تر حقیقت سے لاعلم رکھا۔۔۔۔ نامعلوم ہیر سب جاننے کے بعد اب اس پر یقین کرتی ہے یا اپنے باپ کو ہی مظلوم ٹھہراتی 

کافی دنوں سے پڑنے والے دوروں کی وجہ سے اُس کی حالت کافی خراب تھی ایسے ہی دوسرے دن عباس اسے بیسمینٹ سے نکال کر ایبک کے ساتھ اسپتال لے گیا تب ہیر پیلس واپسی پر فرغب بی نے عباس کو یہ بری خبر سنائی کہ ہیر ہیر پیلس سے فرار ہوچکی ہے۔۔۔ اپنی الجھنوں میں کراچی آنے کے باوجود وہ ہیر کو صحیح طور پر تلاش نہیں کرسکا کیونکہ اُس کی بہن کی نشانی بھی دنیا سے اور اُس سے ہمیشہ کیلئے ناطہ توڑ کر جاچکی تھی جب عباس کو ہیر کا معلوم ہوا تب وہ فرغب بی کے ساتھ ہیر کو شاویز کے گھر لینے گیا شاویز اس کے دوست مظہر کا بڑا بھائی تھا لیکن عباس کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ ہیر اس کے ساتھ واپس نہیں جانا چاہتی تھی جبھی وہ غصے میں وہاں سے واپس چلا گیا اب ہیر پیلس آنے کے بعد ہیر کے بناء اُسے کچھ بھی اچھا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔ عباس اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا گہری سوچ میں گم ساری باتیں سوچ رہا تھا تبھی اس کے موبائل پر شاویز کی کال آنے لگی جو عباس نے کافی غصّے میں ریسیو کی تھی

"تو تم میرے منع کرنے کے باوجود ہیر کو یہی چھوڑ کر واپس چلے گئے" 

عباس کے کال اٹھاتے ہی شاویز نے اُس سے شکوہ کیا

"آپ کے مجھے روکنے یا میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا وہ میرے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہے۔۔۔ اُسے بول دیں میں جلد ہی ڈائیورس پیپر اُس کو بھجوا دوں گا"

عباس غصہ میں بولتا ہوا کال کاٹ چکا تھا

***"""""***

"اتنا بڑا سچ اتنے سالوں تک آپ نے ہم تینوں سے چھپائے رکھا مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ ابو کسی عورت کے ساتھ اتنا بھیانک سلوک کرسکتے ہیں اور سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ نے ابو کا ساتھ نہیں چھوڑا" 

اِس وقت کمرے میں سر جھکائے بیٹھی شہناس کے علاوہ ہیر بھی موجود تھی جو بالکل خاموش بیٹھی تھی تب امامہ شہناس سے پوچھنے لگی 

"کیسے چھوڑ دیتی تمہارے ابو کا ساتھ جب یہ کڑوی سچائی مکمل طور پر میرے سامنے آئی کہ انہوں نے اُس لڑکی کو بیوی بناکر کر اتنا ظلم کیا ہے تب تم چھ سال کی تھی اور آرزو میری گود میں کس کے در پر لےکر جاتی تم دونوں کو۔۔۔۔ ویسے بھی بعد میں تمہارے ابو کافی نادم رہتے انہوں نے اللہ سے اپنے گناہ کی معافی بھی مانگی"

شہناس امامہ سے بولتی ہوئی خاموش ہوئی تو امامہ افسوس بھری نظر شہناس پر ڈال کر خاموش بیٹھی ہیر کو دیکھنے لگی

"ہیر میرے خیال میں تمہیں عباس بھائی سے بات کرنا چاہیے"

امامہ ایک مرتبہ پھر ہیر سے بولی اب کی بار اس موضوع پر شہناس نے کوئی بات نہیں کی جبکہ ہیر حیرت سے امامہ کو دیکھنے لگی

"بات کرنے لائق میرے پاس کچھ بچا ہی نہیں ہے آپی، وہ خفا ہیں مجھ سے اور بہت غصے میں یہاں سے گئے تھے۔۔۔ اصل حقیقت جاننے کے بعد تو میری خود کی ہمت نہیں ہورہی کہ میں اُن کا سامنا کرسکو"

ہیر امامہ کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔ اصل سے سچائی سامنے آنے کے بعد وہ دل سے شرمندہ تھی اُسے سچ میں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ عباس کا سامنا بھی کیسے کرے گی

"تمہیں مظبوط ہوکر عباس بھائی کا سامنا کرنا پڑے گا ہیر اپنا گھر بچانے کے لیے، امی سے ہی سبق لے لو اپنا گھر بچانے کے لیے انہوں نے اتنے سال تک کیسے انسان کے ساتھ گزارا کیا"

امامہ تلخ ہوئی تھی شہناس آنکھوں میں آنسو بھر کر جبکہ ہیر بے بسی سے امامہ کو دیکھنے لگی امامہ ایک مرتبہ پھر ہیر سے بولی

"ساری حقیقت ساری سچائی عباس بھائی کے سامنے پہلے سے ہی موجود تھی اس کے باوجود عباس بھائی یہاں آۓ تھے صرف تمہارے لئے۔۔۔ تمہیں واپس اپنے ساتھ لے جانے کے لیے۔۔۔۔ لیکن اب تمہیں خود سے ان کے پاس جانا چاہیے ہیر"

 امامہ کی بات سن کر ہیر امامہ کو دیکھنے لگی اس کی بہن سچ بول رہی تھی، اسے سچ میں اپنے شوہر کے پاس خود سے جانا چاہیے تھا۔۔۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور ملازمہ امامہ کے پاس آتی اُس کو کچھ بولنے لگی

"ہاشم بھائی کے ساتھ ان کے داجی اور گلنار آنٹی بھی آئی ہیں" 

ملازمہ کا بھیجا ہوا پیغام امامہ شہناس کو دینے لگی تو شہناس گلنار کے پاس جانے کے لیے کرسی سے اٹھی

کل جہاں صدیقی کی حقیقت سب کے سامنے آئی تھی اور سب کا دل اِس حقیقت کو جاننے کے بعد خراب ہوا تھا وہی کل آرزو کے اچانک بےہوش ہونے پر یہ خوشی کی خبر بھی معلوم ہوئی تھی کہ وہ ماں بننے کے عمل سے گزر رہی تھی ہاشم کی کل آرذو سے بےحد سرسری ملاقات ہوسکی تھی جس کے بعد وہ اکیلے ہی گھر چلا آیا تھا لیکن جب یہ خوشخبری ایوب خان اور گلنار کو معلوم ہوئی تو وہ دونوں بھی آج ہاشم کے ساتھ آرزو کو لینے کے لئے آچکے تھے

***""""***

آرزو کو بالکل نہیں معلوم تھا اسے کل صدیقی کے بارے میں جاننے کے بعد افسردہ ہونا چاہیے تھا یا پھر یوں اچانک ملنے والی خوشخبری پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔۔۔ وہ اس ٹائم شام کے وقت بھی بوجھل طبعیت کے ساتھ بیڈ پر آنکھیں بند کرکے لیٹی ہوئی تھی تب اچانک بیڈروم کا دروازہ کھلا

"لائٹ مت کھولنا کمرے میں اندھیرا رہنے دو" آرزو نے آنکھیں کھولنے کی زحمت نہیں کی تھی وہ آنکھیں بند کیے یونہی بیڈ پر لیٹی ہوئی کمرے میں داخل ہونے والی ہستی سے بولی مگر جیسے ہی آرزو کو محسوس ہوا اس کے منع کرنے کے باوجود کمرے مکمل طور پر روشن  کردیا گیا ہے تب وہ چڑتی ہوئی بولی

"بولا بھی تھا کہ کمرے میں اندھیرا۔۔۔۔

باقی کے الفاظ ہاشم کو دیکھ کر آرذو کے منہ میں ہی رہ گئے ہاشم کمرے کا دروازہ بند کر کے چلتا ہوا آرزو کے پاس آیا تو آرزو کو اٹھ کر بیٹھنا پڑا

"یوں اندھیرے میں رہنا کوئی اچھی علامت کی نشانی تو نہیں ہے"

ہاشم آرذو کے قریب بیٹھ کر اس کو دیکھتا ہوا بولا

"اندھیرے میں رہنا الگ بات ہے اندھیرے میں رکھا جانا الگ بات ہے ہم تینوں بہنوں کو اِس کے متعلق پہلے کچھ بھی علم نہیں تھا"

معلوم نہیں ہاشم نے کس سینس میں یہ بات کی تھی یا اس کا کیا مطلب تھا آرزو نہیں جانتی تھی تبھی وہ ہاشم کو جواب دیتی ہوئی بولی

"میری بات کو تم غلط معنوں میں لے رہی ہو آرذو میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔۔۔ نہ ہی میں تم سے کل سے ریلیٹڈ کسی ٹاپک پر کوئی بات کرنا چاہتا ہوں"

ہاشم آرزو کو دیکھتا ہوا اُسے بولنے لگا

"آپ آج بات نہیں کرنا چاہتے مگر ایسا تو نہیں ہے کہ کبھی بھی بات نہیں کریں گے ایسی باتوں کو کون بھولتا ہے یا پھر نظر انداز کردیتا ہے"

آرزو بولتی ہوئی تلخ ہونے لگی اس کا شوہر بھی تو ایک مرد ہی تھا کل جو حقیقت اس کے سامنے کھُلی تھی بھلا ایسا کہاں ممکن تھا کہ کل کو وہ اس کے باپ کا طعنہ اُس کو نہیں دیتا۔۔۔ مردوں کے کئی سارے روپ ہوتے ہیں یا آرزو نے کل ہی جانا تھا کل تک وہ صدیقی کی کو کیا سمجھتی رہی تھی آج اپنے باپ کی حقیقت جان کر اُس کے اندر کتنی تلخی بھر آئی تھی

"بہت ہی کوئی گیا گزرا انسان سمجھ لیا تم نے اپنے شوہر کو مرے ہوئے انسان کے متعلق میں کیو کچھ غلط بولوں گا۔۔۔۔ ویسے بھی دنیا میں ہر انسان کا عمل اُس انسان کو اور اُس کے اللہ کا معاملہ ہوتا ہے۔۔۔ کوئی دوسرا کچھ بھی بولنے والا کون ہوتا ہے تم بھی اپنے ابو کے لیے اپنے دل میں غلط خیال مت لاؤ"

ہاشم نرمی سے آرزو کو سمجھاتا ہوا بولا تو آرذو اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی ہاشم نے تھوڑی دیر اس کو رونے دیا تاکہ اُس کے دل کا غبار نکل جائے پھر وہ آرزو کے آنسو صاف کرتا ہوا اسے بولا

"دنیا کا کوئی بھی انسان چاہے دنیا کے لئے وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو مگر اپنی اولاد کے لیے نہ تو برا سوچ سکتا ہے نہ ہی اس کے ساتھ برا کرسکتا ہے جبھی مرنے کے بعد بھی اولاد کو والدین کی بخشش کا ذریعہ بنایا گیا ہے تم اپنے ابو کی بخشش کے لئے دعا کرو اس سے تمہیں بھی سکون ملے گا اور اُن کی روح کو بھی"

ہاشم آرزو کا ہاتھ تھام کر نرم لہجے میں اس سے بولا تو آرزو ہاشم کو دیکھنے لگی

"آپ بہت اچھے انسان ہیں ہاشم"

آرذو ہاشم کو دیکھتی ہوئی ہاشم سے بولی تو ہاشم مسکرا دیا

"میں تو اچھا ہوں لیکن تم سے زیادہ اچھی ہو کیونکہ تم نے اچھی والی خبر جو سنائی ہے"

ہاشم کے بولنے پر آرزو اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر بلش کرتی سر جھکا گئی تو اُس کے انداز پر ہاشم نے آرزو کو اپنے حصار میں لے لیا

"میں بہت زیادہ خوش ہوں اور اپنی خوشی تمہارے ساتھ سیلیبریٹ کرنا چاہتا ہوں اس لیے تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں بلکہ میں ہی نہیں داجی اور ماں جی بھی یہ خوشی کی خبر سن کر تم سے ملنے کے لیے آئے ہیں ہاشم آرذو کو بازوؤں میں بھر کر اسے بتانے لگا تو آرزو ہاشم کی بات سن کر ایک دم اس کے بازوؤں سے نکل کر اٹھ کھڑی ہوئی

"داجی اور ماں جی یہاں آئے ہیں میرے لئے اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں حد کرتے ہیں آپ بھی ہاشم"

آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی ڈوپٹہ درست کرکے دونوں پاؤں سلیپر میں ڈالنے لگی جب ہاشم اسے یہاں چھوڑ کر گیا تھا تب تھوڑا سا کچھاؤ گلنار اور ایوب خان کے رویے میں آرزو محسوس کرچکی تھی مگر آج وہ دونوں ساری باتوں کو نظر انداز کرکے اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تھے آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی ان دونوں سے ملنے کے لئے کمرے سے باہر جانے لگی

"حد تو تم کردیتی ہو، میں یہاں تمہارے ساتھ اپنی خوشی سیلیبریٹ۔۔۔۔

ہاشم خود بھی اٹھتا ہوا آرزو سے بولا تو آرزو اس کی بات کاٹتی ہوئی بولی

"ہم دونوں اپنی اس خوشی کو ایک ساتھ مل کر اپنے گھر پر جاکر سیلیبریٹ کریں گے ابھی مجھے دا جی اور ماں جی کے پاس جانے دیں"

آرذو بولتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی ہاشم بھی مسکراتا ہوا اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گیا

***""""***

سُروں میں چہکار بھرتے پرندے اپنے پروں کو کھولے آسمان پر اونچی اڑان بھرتے نظر آرہے تھے۔۔۔ سرسبز و شاداب غذر کا گھنا جنگل بےشک اِس وقت سنسان تھا مگر ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ چمکتی سنہری دھوپ نے ہیر پیلس پر پوری طرح اپنے پر پھلاۓ ہوئی تھی۔ اِس کے باوجود بھی غذر کا خوشگوار موسم اُس کی بوجھل طبیعت پر اچھا اثر ڈالنے میں ناکام رہا تھا، وہ آج بھی ہوٹل جانے کی بجائے اپنے کمرے میں بند تھا جب سے وہ کراچی سے واپس لوٹا تھا اس نے اپنے آپ کو کمرے میں قید کرلیا تھا ہوٹل کے سارے معاملات ایبک جبکہ ہیر پیلس کو فرغب بی سنبھالیں ہوئی تھیں

تنہا تو وہ پہلے بھی اپنی زندگی گزار رہا تھا لیکن اب ہیر کے چلے جانے سے عباس کو لگ رہا تھا کہ یہ تنہائی اُس کو آہستہ آہستہ کسی دیمک کی طرح چاٹ جاۓ گی۔۔۔۔ کمرے سے باہر آتی فرغب بی کی آہستہ آواز پتہ دے رہی تھی کہ وہ ملازموں سے صفائی کروانے میں مگن تھیں مگر اُن کی آواز میں چھلکتی خوشی کے احساس نے عباس کو چوکنے پر مجبور کیا کیونکہ فرغب بی ایک حد تک ملازموں کو خود سے بےتکلف ہونے کی اجازت دیتں تھیں، اتنا خوش ہو کر نہ جانے وہ آج کس سے باتیں کررہی تھیں عباس نے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا سر جھٹکا اور لیپ ٹاپ آن کرکے بیٹھ گیا 

نہ جانے کس سوچ کے تحت اُس نے کیمرے کی مدد سے ہال کا جائزہ لیا تو زور دار جھٹکا کھا کر رہ گیا فرغب بی کسی اور سے نہیں بلکہ ہیر سے باتیں کررہی تھیں۔۔۔ ہیر یہاں موجود تھی، وہ اُس کے پاس آچکی تھی عباس لیپ ٹاپ بند کرکے برق رفتاری سے اپنے کمرے سے باہر نکلا

"لان میں ساری گھاس کس قدر بڑی ہوچکی ہے اگر کاٹنے کو نہ بولا جاۓ تو خود سے دھیان ہی نہیں رکھتے ہو تم لوگ"

عباس راہداری سے نکل کر ہال میں آیا تو اسے فرغب بی کی آواز سنائی دی وہ رشید (مالی) کی خبر لینے میں مصروف تھیں

"ہیر کہاں پر چلی گئی فرغب بی"

عباس ان کے پاس آتا بےقرار لہجے میں پورے ہال کا جائزہ لینے کے ساتھ فرغب بی سے پوچھنے لگا تو فرغب بی حیرت سے عباس کو دیکھنے لگیں

"کیا آپ کو نہیں معلوم وہ تو کراچی میں اپنی امی اور بہنوں کے پاس موجود ہیں"

فرغب بی تعجب کرتی عباس سے بولیں تو عباس حیرت ذدہ سا فرغب بی کو دیکھتا ہوا بولا

"یہ آپ کیسے بول سکتی ہیں میں نے خود اسے ابھی یہاں دیکھا وہ تھوڑی دیر پہلے ہی تو آپ سے باتیں کر رہی تھی میرے یہاں آنے سے پہلے"

عباس سنجیدہ لہجے میں فرغب بی سے بولا تو فرغب بی تعجب سے بنا کوئی جواب دیئے عباس کو دیکھنے لگیں جیسے وہ اُس کو اس کے منہ پر جھٹلانا نہیں چاہتی ہو

"ایسے مت دیکھیں مجھے میں نے کوئی خواب نہیں دیکھا میں جانتا ہوں ہیر واپس آچکی ہے بولیں ناں فرغب بی  آپ ہیر سے ہی باتیں کررہی تھی ناں تھوڑی دیر پہلے"

عباس فرغب بی کو خاموش دیکھ کر ایک مرتبہ پھر ان سے بولا مگر اچانک عباس کو محسوس ہوا جیسے اس کے پیچھے سے کوئی راہداری کی طرف مڑا ہو۔۔۔ عباس کے پلٹ کر دیکھنے پر فرغب بی کھانسنے لگیں عباس دوبارہ فرغب بی کی جانب متوجہ ہوا

"وہ واپس ہیر پیلس آنے کے لیے تیار ہی کب تھیں آپ کو یاد نہیں انہوں نے واپس ہمارے ساتھ چلنے کے لئے سب کے سامنے انکار کردیا تھا"

فرغب بی نے جیسے عباس کو یاد دلانا چاہا تو عباس کچھ نہیں بولا خاموشی سے واپس اپنے کمرے میں جانے لگا

"ناشتہ بھجوا دو آپ کے لیے"

فرغب بی کی آواز پر عباس نے مڑ کر انہیں دیکھا

"نہیں رہنے دیں ابھی"

وہ فرغب بی سے بولتا ہوا راہداری کی طرف آیا تو سفید آنچل اسے اپنے کمرے کے دروازے کی جانب نظر آیا۔۔۔ عباس اپنے کمرے میں چلا آیا

جہاں ہیر پہلے سے اُس کی منتظر تھی وہ عباس کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔ عباس ہیر کو دیکھ کر نہ تو چونکا نہ ہی اُس نے حیرت یا خوشی کا اظہار کیا بلکہ وہ اسے مخاطب کیے بغیر خاموشی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر صوفے پر بیٹھنے لگا۔۔۔۔ ہیر عباس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی عباس تب بھی اسے نظر انداز کرتا اپنا لیپ ٹاپ کھول چکا تھا

"ناراض ہیں آپ مجھ سے"

ہیر نے عباس کا رویہ محسوس کرکے بات کا آغاز کیا مگر عباس ہیر کو جواب دینے کی بجائے ایسا بنا رہا جیسے کمرے میں اِس وقت وہ اکیلا موجود ہو

"میں جانتی ہوں مجھے یہاں سے ایسے نہیں جانا چاہیے تھا"

ہیر اپنی غلطی کو تسلیم کرتی ہوئی ایک مرتبہ پھر بولی ابھی بھی عباس خاموشی سے اس کی جانب دیکھے بغیر اپنے کام میں مصروف رہا

"ایسا نہیں ہے کہ آپ کے وہاں آنے پر میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھی بس امی کی بات رکھنے کے لیے اُس وقت ایسے ہی بول دیا مگر بعد میں کس قدر پچھتائی یہ میرا دل ہی جانتا ہے"

عباس کے لاتعلق بنے رہنے پر ہیر خود کی صفائی میں دوبارہ بولی تب بھی عباس نے اس کی بات کا کوئی اثر نہیں لیا تو ہیر نے ایک دم عباس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس کے بعد عباس کے ہاتھ کی حرکتوں وہی تھم گئی وہ ہیر کو حیرت سے دیکھنے لگا

"تم سچ میں میرے پاس پاس واپس آچکی ہوں"

اپنے ہاتھ کے اوپر رکھا ہیر کا ہاتھ دیکھ کر عباس بےیقین سا اسے پوچھنے لگا جیسے اس کے پاس بیٹھی ہیر اس کا وہم ہو

"تو اتنی دیر سے آپ کو کیا لگ رہا تھا میرا بھوت آپ سے باتیں کررہا ہے"

ہیر عباس کی حیرت پر حیرت کرتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی تو عباس نے اپنے ہاتھ میں ہیر کا ہاتھ تھام لیا جیسے وہ اسے چھو کر اس بات کا یقین کر رہا ہو کہ یہ کوئی وہم نہیں بلکہ سچ میں ہیر اس کے پاس موجود تھی

"ہاں تم سچ میں میرے پاس ہی موجود ہو"

عباس نے بولتے ہوئے جیسے خود کو ایک مرتبہ پھر یقین دلایا

"عباس کیا ہوگیا ہے آپ کو"

ہیر حیرت سے عباس سے بولتی ہوئی پوچھنے لگی

"نہیں تم کل رات بھی تو میرے پاس میرے کمرے میں آکر مجھ سے یونہی باتیں کررہی تھی اور پرسوں تم پرپل کلر کے کپڑوں میں موجود میرے قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی"

عباس ہیر کو دیکھتا ہوا اسے بتانے لگا تو ہیر کو حیرت ہوئی کیونکہ پرپل کلر کا ڈریس سچ میں اس نے پرسوں پہنا ہوا تھا ہیر نے آگے بڑھ کر عباس کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا

"وہ سب آپ کا وہم تھا لیکن اس وقت میں آپ کے پاس حقیقت میں موجود ہوں"

عباس اُس کی کمی کس قدر محسوس کررہا تھا ہیر کو افسوس ہونے لگا کہ وہ اس کے ساتھ ہی واپس ہیر پیلس کیوں نہیں آگئی تھی

"دوبارہ کبھی مجھے اکیلے اس طرح چھوڑ کر مت جانا ہیر"

عباس کے دھیمے لہجے میں بولنے پر ہیر کو اپنی خوش بختی پر ناز ہونے لگا

"پرامس کرتی ہوں اب کبھی بھی آپ سے دور نہیں جاؤں گی"

عباس کی شرٹ سے اٹھتی پرفیوم کی مہک محسوس کرکے ہیر اپنی آنکھیں بند کرتی عباس سے بولی

"عباس میں سخت نادم ہوں ابو کی وجہ سے۔۔۔ انہوں نے جو کچھ بھی آپ کی بہن۔۔۔۔

ہیر عباس کے حصار میں موجود پشیمان لہجے میں صدیقی کی طرف سے معافی مانگتی ہوئی بول رہی تھی تب کچھ یاد آنے پر اچانک عباس اس کی بات کاٹتا ہوا بولا 

"ابھی تھوڑی دیر پہلے فرغب بی نے تمہاری یہاں موجودگی سے انکار کیا تھا مطلب تم دونوں مل کر مجھے بنارہی تھی"

ہیر عباس کے حصار سے نکلتی ہوئی عباس کا چہرہ دیکھنے لگی وہ ہیر سے شکوہ کرتا مصنوعی انداز میں اُس کو آنکھیں دکھا رہا تھا جس پر ہیر مسکرا دی

"جتنا آپ نے مجھے بنایا اس کے مقابلے میں یہ ایک چھوٹا سا بدلا تھا"

ہیر کے بولنے پر عباس خاموشی سے ہیر کو دیکھنے لگا۔۔۔ ہیر کے اسمائل دینے پر وہ بھی مسکرا دیا اور ہیر کو دوبارہ اپنی پناہوں میں محفوظ کرلیا

"کیا آپ اپنی ساری زندگی اُس لڑکی کے ساتھ گزار سکتے ہیں جس کے باپ کی وجہ سے آپ کی بہن کی زندگی برباد ہوئی"

ہیر نے دوبارہ وہی ٹاپک شروع کردیا جس کو تھوڑی دیر پہلے عباس نے جان بوجھ کر اگنور کیا تھا

"میں اپنی ساری زندگی اُس لڑکی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں جسے میرے دل نے پہلی نظر میں پسند کرلیا تھا۔۔۔ تمہیں یاد ہے میں شادی تم سے نہیں آرزو سے کرنے والا تھا مگر اوپر والے نے میری قسمت میں اُس لڑکی کا ساتھ لکھ دیا  جس کو میرا دل پسند کرتا تھا۔۔۔ پھر میں کیسے اپنے اور تمہارے رشتے کو بدلے کی بھینٹ چڑھا سکتا ہوں جب اللہ نے خود تمہیں بنا مانگے مجھے سونپ دیا"

عباس نرم لہجے میں ہیر سے بولنے لگا عباس کے سینے پر سر رکھ کر ہیر اُس کی باتیں سننے لگی عباس کے منہ سے محبت کا اعترارف سن کر اس نے اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔۔۔ آج نہ صرف غذر کا موسم خوشگوار تھا بلکہ اُن دونوں کے دلوں پر بھی خوشگواریت کا احساس چھانے لگا 

***اختتام***

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes.She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Dayar E Wehshat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dayar E Wehshat   written by Zeenia Sharjeel .Dayar E Wehshat   by Zeenia Sharjeel is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages