Tum Faqat Mere By Suhaira Awais Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday 20 June 2024

Tum Faqat Mere By Suhaira Awais Romantic Complete Novel

Tum Faqat Mere By Suhaira Awais Romantic Complete Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tum Faqat Mere By Suhaira Awais Complete Romantic Novel 


Novel Name: Tum Faqat Mere 

Writer Name:  Suhaira

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔



"عدیل۔۔!! چھوڑو!!

چھوڑو مجھے!!" اس نے بمشکل اپنی ٹوٹتی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے، ہلکی آواز میں کہا، جس کا سامنے والے نے کوئی اثر نہ لیا۔

وہ ہنوز اپنی آنکھوں میں وحشت اور انداز میں عجیب پاگل پن لیے،اپنے دونوں ہاتھوں سے  اس کے گلے پر دباؤ ڈالے ہوئے تھا۔

"Shut up!! You bitch!!

You've killed my wife!!"

"مممم۔۔میں نے۔۔کچھ نہیں کیا۔۔!! میں بھلا کیوں ماروں گی اپنی بہن کو۔۔!! چھوڑو میرا گلا۔۔!! میرا سانس بند ہورہا ہے!!" عنقا نے تڑپ کر التجا کی، 

اذیت کی شدت سے اس کی آنکھیں مسلسل چھلک رہی تھیں،وہ بری طرح کھانستے ہوئے بمشکل سانس لے پا رہی تھی،

پر سامنے والا اس کی حالت پر کسی قسم کا کوئی ترس کھانے کے موڈ میں نہیں تھا، اس وقت اس پر جنون سوار تھا اور وہ سفاکیت سے اس معصوم کو تکلیف پہنچا رہا تھا۔۔!!

ایسی تکلیف جس میں اُس معصوم کی زندگی ختم ہونے کا خدشہ تھا۔۔!!

وہ تڑپ رہی تھی۔۔!! اس سے رحم طلب کر رہی تھی۔۔!!

لیکن وہ اُس کی نہیں سن رہا تھا۔۔!!

بلکہ اپنی سنا رہا تھا۔۔!! 

اپنی بھڑاس نکال رہا تھا۔۔!!

"ایسے کیسے چھوڑ دوں تمہیں۔۔؟؟ تم نے میری بیوی کو مارا ہے۔۔!! اور جیسے تم نے اُسے مارا ویسے تم بھی مرو گی۔۔!!" وہ اپنی پوری طاقت سے چلایا۔

عنقا بے ہوش ہونے کو تھی کہ اس نے اپنے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا کیا، جھٹکے سے بیڈ پر پٹخا اور خود لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکلا۔

××××××××××

"اففف۔۔!! غانیہ۔۔!! وہ ابھی تک نہیں آیا۔۔!!" 

عنقا، یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کے باہر کھڑی، عادل کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔۔!!

"میڈم۔۔!! تھوڑا حوصلہ رکھو۔۔!! شہزادے صاحب ہمیشہ کی طرح لیٹ ہی پہنچے گے۔۔!!" غانیہ نے اس کی حالت کا مزہ لیتے ہوئے کہا۔

"تمہارے منہ میں خاک۔۔!! گندی لڑکی۔۔!!" عنقا نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا۔

"اوئے۔۔!! زبان سنبھال کر۔۔!! یہ میرے منہ میں خاک ڈالنے کی بجائے۔۔ اپنے شہزادے کے کان کھینچو۔۔!!" غانیہ نے انگلی دکھاتے ہوئے، مصنوعی سے انداز میں وارن کیا۔

عنقا کو عادل کے لیے "شہزادے" کا لقب پسند آیا تھا اس لیے وہ دھیمے سے مسکرائی۔

" پتہ نہیں کیا کرتا رہتا ہے یہ۔۔!! اس کے چکر میں، مجھے بھی، تمہارے ساتھ ساتھ انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔۔!!" غانیہ نے اپنے ہتھیلی کی پشت ماتھے پر رکھ کر دہائی دینے والا انداز اپنائے، اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔

اور عنقا ، غانیہ عرف "ایکٹنگ کی دکان" کی اس حرکت پر ایک بار پھر مسکرائی۔۔!! 

اس بار اس کی مسکراہٹ خاصی جاندار تھی کیونکہ اس نے سامنے سے اس دشمنِ جاں کو جو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

××××××××

مسلسل تین لیکچرز لینے کے بعد وہ اچھی خاصی بور ہوچکی تھی،

"کچھ کھانے چلیں۔۔" اس نے اپنے فیورٹ ، فرینچ فرائز کا چٹخارہ    تصور    میں لاتے ہوئے، ہونٹوں پر زبان پھیر کر پوچھا۔

"ایک تو عنقا۔۔۔ تم بھوکی بہت ہو۔۔!!! گھر سے کچھ کھا پی کر نہیں آتی؟؟ یہاں آتے ہی تمہیں کچھ نہ کچھ کھانے کی سوجھتی ہے۔۔" 

غانیہ نے چڑ کر کہا، کیوں کہ وہ عادل کے ساتھ، کچھ دیر پہلے ہوئے لیکچر کے لاسٹ پوائنٹ کے متعلق ڈسکشن شروع کرنے لگی تھی کہ عنقا صاحبہ نے فوراً سے پہلے ہی مداخلت کردی۔

اب حال کچھ یوں تھا کہ بھاڑ میں گیا لیکچر، بھاڑ میں گئی ڈسکشن، اب تو شہزادے صاحب نے ہر حال میں عنقا صاحبہ کا کہا ماننا تھا۔۔۔ سو۔۔ غانیہ ڈسکشن کو ملتوی کرتے، عادل اور عنقا کے ساتھ چل دی۔

××××××××

"کافی دن ہوگئے تم نے گھر چکر ہی نہیں لگایا۔۔ آج یونی کے بعد چلو گی میرے ساتھ۔۔؟؟" عادل نے چاکلیٹ ملک شیک کا سِپ لیتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔۔ دن تو کافی ہوگئے ہیں۔۔!! ان فیکٹ میں خود بھی یہی سوچ رہی تھی۔۔!! آپی بھی کب سے چکر لگانے کو بول رہی ہیں۔۔!!" عنقا نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔

"چلو۔۔ پھر فائنل کرو۔۔!! تم آج ساتھ چل رہی ہو ناں؟؟" عادل نے چہکتے ہوئے پوچھا۔

"ارے نہیں۔۔!! آج چھوڑو۔۔!! میں کل چلوں گی۔۔!! وہ امی، ابو سے نہیں پوچھا ناں۔۔!! کل میں گھر پرمیشن لے کر آؤں گی، اوکے۔۔۔؟؟" عنقا نے اس کو فوراً منع کیا۔

عادل کا منہ لٹک کر رہ گیا۔۔ اس نے اتنے پیار سے پوچھا تھا۔۔ 

غانیہ ان دونوں کے درمیان بیٹھی، سینڈوچ کھاتے ہوئے،خاموشی ان کی ڈائلاگ بازی انجوائے کر رہی تھی۔

"ارے۔۔ نہیں ناں۔۔!! تم آج ہی چلو۔۔!! بھئی۔۔ میرا موڈ۔۔ تمہیں آج لے جانے کا ہے اور تم کل پر ٹال رہی ہو۔۔!! اور۔۔ جہاں تک انکل آنٹی کی بات ہے تو ان کو تم فون پر انفارم کردو۔۔ آئی ہوپ۔۔ وہ منع نہیں کریں گے۔۔!!"

عادل نے ضد کرتے ہوئے کہا۔

عنقا ، بھلا کتنی دیر تک اس کی ضد کے سامنے ٹِک سکتی تھی۔۔!!

سو وہ مان گئی۔۔ جس پر عادل کافی خوش ہوا۔۔

عنقا کی توجہ اب عادل سے ہٹ کر غانیہ کی طرف مبذول ہوئی۔۔ 

"پتہ چل گیا۔۔؟؟ میں بھی یہاں بیٹھی ہوں۔۔!!" غانیہ نے مصنوعی طنز سے کہا۔

جس پر عنقا مسکرائی۔

جب عادل کے اس کے آس پاس ہوتا تو وہ ایسے ہی بات، بے بات مسکراتی رہتی۔۔ اور اس کی اِسی مسکراہٹ پر تو وہ جان دیتا تھا۔

×××××××

مصطفیٰ لغاری شہر کے معروف اور نامور بزنس مین تھے۔ عدیل مصطفیٰ اور عادل مصطفیٰ ، مصطفیٰ لغاری اور فوزیہ مصطفیٰ کے بیٹے تھے۔ 

عدیل ایک اچھا خاصہ میچور، سیدھا اور تھوڑا اکڑو سا بندہ تھا جس نے اپنی پڑھائی مکمل ہوتے ہی اپنے والد کا بزنس سنبھالا  اپنی قابلیت کے بل بوتے پر،اِسے خوب ترقی بھی بخشی۔ اور جب اس کے والدین نے ، اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ایک خوبصورت، نازک اور پیاری سی لڑکی سے شادی کا بولا تو کوئی رولا ڈالے بغیر، بہت آرام سے شادی بھی کر لی۔

لیکن پتہ نہیں اسے کیا سوجھی تھی کہ اس نے شادی سے پہلے ایک شرط رکھی۔۔ کہ وہ شادی کے بعد ہی اپنی دلہن کا دیدار کرے گا، وہ صرف زبانی کلامی ہی، اریرے کی خوبصورتی، اس کے حلیے اور اس کے حسن سے واقف تھا۔۔۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں وہ اس کو دیکھے، اس کو سنے اور اس کو جانے بغیر ہی بے تحاشہ چاہنے لگا تھا۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں۔۔؟؟ مگر اس کا دل۔۔ اریزے سلیمان کا نام سنتے ہی یا پھر اس کا تصور کرتے ہی۔۔ اپنی جگہ سے باہر اچھلنے کو ہو جاتا۔

اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب۔۔!! اس کے سب جذبات، اس کی ساری محبتیں جب اریزے کے نام ہوئیں۔۔!! کب وہ اس کے دل کی ملکہ بنی۔۔!!

کبھی تو اس کا دل چاہتا کہ وہ ایک بار، اس کی ایک جھلک دیکھ لے۔۔ مگر نہیں۔۔!! اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نکاح کے بعد ہی اپنی نظروں کی پیاس بجھائے گا۔۔!! 

باہر سے بے حس، جذبات سے عاری اور مغرور دِکھنے والا انسان، ایک معمولی سی لڑکی کو اپنا آپ تک سونپ چکا تھا۔۔ اور یہ سب بالکل غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔۔!!

پھر کرتے کراتے وہ دن بھی آیا کہ جب اریزے ، عدیل کی دلہن بن کر اس کے سامنے موجود تھی۔۔ وہ اس کے تصور سے بڑھ کر  حسین تھی۔۔ وہ تو وہ اریزے تھی ہی نہیں جس سے اس نے محبت کی تھی۔۔ عدیل نے سوچا کہ یہ لڑکی تو بالکل اس لائق نہیں کہ اس سے محبت کی جائے۔۔ یا صرف محبت کی جائے۔۔!! وہ اریزے عدیل مصطفیٰ تھی۔۔!!

 وہ عدیل کی محبت نہیں بلکہ اس کے عشق کی حقدار تھی۔۔!!

 اور عدیل کو اس سے سچ میں عشق ہوا تھا۔۔

 وہ سر تا پا۔۔ خود کو اریزے کے عشق میں ڈبو چکا تھا۔

در حقیقت تو وہ بھی بالکل عام سی ہی لڑکی تھی۔۔ جیسے عموماً لڑکیاں ہوتی ہیں۔۔ مگر عدیل کے لیے وہ کہیں سے بھی عام نہ تھی۔۔۔ اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں وہ اس کے لیے ، یک دم اتنی خاص بنی۔۔!!

عدیل کے ہر ہر اظہار سے، اریزے کے لیے دیوانگی اور جنون جھلکتا تھا۔

اس کا ہر ہر انداز، اس کی والہانہ محبت کا گواہ تھا۔

اور یہ عدیل کی محبت تھی کہ جس نے اریزے کو بھی دِنوں میں اس کا دیوانہ بنادیا تھا۔

××××××××

عدیل کا چھوٹا بھائی، عادل یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا، وہاں عنقا سلیمان اس کی سب اچھی اور بہت خاص دوست تھی۔۔ ایسی دوست۔۔ جسے وہ مستقبل میں اپنی ہم سفر بنانے کی خواہش رکھتا تھا۔

عدیل کی شادی کے دوران، جب  عادل کو پتہ چلا کہ عنقا، اریزے کی بہن ہے۔۔ تو اسے بے حد خوشی ہوئی۔۔ 

اس نے جلدی مچا کر۔۔ اپنے مام، ڈیڈ کو کنونس کیا اور   وقت ضائع کیے بغیر اس سے منگنی کر کے، اپنی امانت بنالیا جسے وہ بہت جلد اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔ مگر فی الحال۔۔ شدید خواہش کے باوجود بھی، اپنی پڑھائی، اپنے کرئیر کی وجہ سے، وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا۔۔!! 

××××××

ان سب میں سے ہر ایک، اس وقت اپنی اپنی زندگی کا بہترین وقت گزار رہا تھا۔۔!!

خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور زندگی۔۔!!!

وہ اس وقت یہ بات فراموش کیے ہوئے تھے کہ خوشیاں عارضی ہوتی ہیں۔۔!! ان کا قیام بے حد قلیل ہوتا ہے۔۔!!

پر ان کے "فراموش" کرنے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!! 

ان کے "بُھلا" دینے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!!

🖤🖤🖤🖤🖤🖤

پر ان کے "فراموش" کرنے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!!

ان کے "بُھلا" دینے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!!

×××××


عادل کے بے حد اصرار پر وہ یونیورسٹی سے واپسی پر اس کے ساتھ ہی گئی تھی۔ اریزے کو اسے وہاں دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، بلکہ وہ تو اس کی اچانک آمد سے بہت سرپرائز بھی ہوئی، اریزے کو اس وقت عنقا کا آنا بہت اچھا لگا تھا۔


×××××


کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اریزے، عنقا کو ڈائنگ ہال میں لے کر گئی۔۔ اس نے منع بھی کیا تھا کہ اسے لنچ نہیں کرنا۔۔ پر اریزے کہاں سننے والی تھی۔۔!!

بھلا وہ کیسے اپنی لاڈلی بہن کی خاطر تواضع نہ کرتی۔۔۔!!


وہ دونوں کھانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی جاری رکھے ہوئے تھیں۔۔ فوزیہ بیگم بھی ان کی گفتگو میں ، خوش دلی سے اپنا حصہ ملا رہی تھیں اور عادل بیٹھا اُن کے منہ دیکھ کر جل رہا تھا۔

اب عنقا کو وہ اپنے لیے لایا تھا اور میڈم نے اُسے کوئی لفٹ ہی نہیں کروائی۔۔ اس لیے وہ وہاں بیٹھے بیٹھے خوب سڑ رہا تھا۔


آج ان لوگوں نے عنقا کی وجہ سے پہلے لنچ کیا تھا ورنہ وہ عدیل اور مصطفیٰ صاحب کے آنے کے بعد ہی کرتے تھے۔


اریزے جانتی تھی کہ اس کے سرتاج کس قدر حساس ہیں۔۔!! اگر عدیل کو پتہ چل جاتا کہ اریزے نے اس کے بغیر ہی کھانا کھایا ہے تو وہ اس سے خواہ مخواہ ہی ناراض ہوتا۔ اس لیے وہ ، ان سب کے ساتھ بیٹھی۔۔ بس برائے نام ہی کھا رہی تھی۔۔ اس کا سارا دھیان تو بس باتوں کی طرف تھا۔۔!!


اپنے جان لٹانے والے ، محبوب شوہر کی خاطر۔۔ وہ اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔۔!! آخر اس کا فرض تھا کہ وہ اس جنونی کی ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی کا خیال رکھے۔


×××××

عنقا کو عدیل بہت عجیب لگتا تھا۔۔ عدیل اور اریزے کی شادی کو ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا اور اریزے کی زبانی ، عدیل ایک انتہائی کیئرنگ بندہ تھا مگر پھر بھی۔۔ عنقا کو اس کی بات پر تسلی نہیں ہوتی تھی۔


وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ بظاہر، اس قدر اکھڑ، بے مروت اور سخت مزاج نظر آنے والا آدمی کیسے۔۔ ویسا ہو سکتا ہے۔۔ جیسا کہ اریزے بتاتی ہے۔۔۔!!


اس انسان تو آج تک عنقا کو مخاطب کر کے کبھی سلام بھی نہیں کیا تھا۔۔!! وہ تو کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔۔!!

پھر وہ کیسے اس کی بہن کو اتنا چاہ سکتا تھا۔۔!!


حقیقت میں تو باقی سب کے ساتھ اس کا جیسا بھی رویہ ہو۔۔ لیکن اریزے کے لیے، وہ اپنی شخصیت سے ہٹ کے، ایک بالکل ہی مختلف انسان تھا۔۔!!


وہ اکثر ایسی باتیں سوچتی۔۔!! اور پھر خود ہی اپنی ساری سوچوں پر فضول ہونے کا ٹھپا لگا کر ، اپنی جان چھڑاتی۔

آخر کو یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا۔۔!! وہ دونوں آپس میں جس حال میں بھی رہیں۔۔!! اس سے عنقا کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے تھا۔۔!! اور ویسے بھی جب اریزے کی طرف سے کوئی شکایت نہیں تھی تو وہ خواہ مخواہ کیوں ٹینشن لیتی۔۔!!


یہ مسئلہ صرف عنقا کے ساتھ نہیں۔۔!! بلکہ ہمارے آس پاس بھی ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔۔ جن کو اللّٰه جانے۔۔ اپنا سکھ راس نہیں آتا۔۔ اس لیے فضول میں دوسروں کے متعلق سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرتے رہتے ہیں۔۔!!


بندے کو چاہیے کہ وہ آرام، سکون سے رہے۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھے۔۔!! لیکن نہیں ہماری تو ساری انٹرٹینمنٹ ہی دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑا کر ہوتی ہے۔۔۔!!

اب کیا کریں۔۔!! عادت سے مجبور جو ٹھہرے۔۔!!


اسی طرح عنقا خود کو لاکھ کوشش کرنے کے باوجود بھی خود کو اس کے متعلق سوچنے سے باز نہیں رکھ پاتی تھی۔۔ مگر وہ اپنی بہن کی محبت میں، اُس کی فکر کرتی تھی۔۔۔ اُس کی ٹینشن لیتی تھی۔۔!! کیوں کہ اُسے اس کی بہن بہت عزیز تھی۔۔ کیوں کہ وہ ہر حال میں اسے خوش دیکھنا چاہتی تھی۔۔ بس عدیل کی پرسنیلٹی، کبھی کبھی تھوڑا شک میں ڈال دیتی۔۔!!


××××××


عدیل اور اریزے کی شادی کو دس ماہ گزر چکے تھے، خیر سے اب وہ پریگننٹ بھی تھی۔۔ اس کا آٹھواں منتھ چل رہا تھا ، ڈاکٹر نے بہت زیادہ احتیاط کی تلقین کی تھی۔


سارا گھرانہ بےحد مسرور تھا، مصطفیٰ صاحب، فوزیہ بیگم ، عادل۔۔ اریزے کے گھر والے، سبھی بےبی کے دنیا میں آنے کے شدت سے منتظر تھے۔ سبھی لوگ اریزے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔


عدیل نے تو ویسے ہی اس کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ ڈاکٹر نے مزید تاکید کردی۔۔

اب تو وہ اسے بیڈ سے نیچے، قدم تک نہیں رکھنے دیتا تھا۔


اسے خود نہیں سمجھ آتا تھا کہ وہ کیسے اس کے لیے اتنا سب کر گزرتا تھا۔۔ کیوں وہ اس کے دل کے اتنے قریب ہوچکی تھی۔۔!!


وہ کبھی کبھی سوچتا کہ بالفرض، خدا نخواستہ اگر اریزے، کسی بھی وجہ کے تحت اسے چھوڑ کر چلی گئی تو کیا وہ اس کے بغیر سکون سے رہ پائے گا۔۔!! کیا وہ اس سے دوری سہہ سکے گا۔۔!!

اور پھر وہ اپنے ہی خیالات پر لعنت بھیجتا۔۔!! کہ نجانے کیا اول فول سوچتا رہتا ہے۔۔!! بھلا وہ کیوں اسے چھوڑ کر جائے گی۔۔!!


××××××××


عنقا، آج پھر ، عادل کے کہنے پر، یونیورسٹی سے اس کے گھر آئی تھی۔۔!! فوزیہ بیگم نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کا پرتپاک ویلکم کیا۔۔ جس پر وہ دل سے خوش ہوئی تھی۔ لیکن اس وہ ذرا جلدی میں تھیں، کیوں کہ انہیں کسی کام کے سلسلے میں اپنی ایک فرینڈ کے ہاں جانا تھا۔۔ اور جانا بہت ضروری تھا اس لئے انہوں نے اِسے کمپنی دینے سے معذرت کی اور وہاں سے چلی گئیں۔

×××××


عنقا ، اریزے سے ملنے اس کے روم میں جانے والی تھی کہ اتنے میں وہ خود ہی احتیاط سے سیڑھیاں اترتے نیچے آئی اور عنقا سے ملی۔

اب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی بیٹھی کافی بور جو ہوچکی تھی۔۔!!


وہ دونوں بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں، اتنے میں عادل ، اپنی پیاری منگیتر کی مہمان نوازی کی غرض سے، لوازمات سے بھری ٹرالی گھسیٹتے ہوئے لایا۔


ان دونوں نے بھی انعام کے طور پر عادل کو اپنی گپ شپ میں شامل ہونے کی اجازت دی۔ وہ گپ شپ کم اور عادل کی شامت زیادہ تھی۔۔ کیوں کہ دونوں بہنیں مِل کر، بڑے مزے سے موصوف کا ریکارڈ لگارہی تھیں۔


عنقا کا تو ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔ اور عادل بیٹھا اس کی ہنسی ہر تپ رہا تھا تھا۔۔ "تم ذرا دیکھنا۔۔!! میں، ایک ایک چیز کا بدلا لوں گا تم سے۔۔" اس نے جل کر تڑی دی۔

جس پر عنقا کے مزید قہقہے لگائے۔


وہ کچھ دیر تک، اپنی درگت بنواتے رہنے کے بعد وہاں سے جا چکا تھا۔

××××

آج تو باتیں کرتے کرتے اچھا خاصہ وقت گزرا تھا۔۔ اور ان دونوں کو پتہ بھی نہیں چلا۔


اریزے نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔!! عدیل کے آنے کا وقت تھا۔

"آؤ عنقا۔۔ ہم لوگ میرے روم میں چلتے ہیں۔۔!! وہ عدیل آنے والے ہیں۔۔ اور انہوں نے مجھے سختی سے منع کیا تھا کہ بالکل بھی نیچے نہ آؤں۔۔ اب اگر یہاں دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے۔۔" اریزے نے مسکرا کر کہا۔


عدیل کو لے کر عنقا کے جو بھی خدشات تھے وہ سب ختم ہوچکے تھے۔ وہ اریزے کو مطمئن دیکھ کر اب خود بھی مطمئن تھی، وہ عدیل کی پرسنیلٹی کو اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔


وہ اِسے عجیب بھی نہیں لگتا تھا۔۔ بلکہ اب تو وہ اس کی شخصیت سے بہت متاثر تھی۔ اس کا ریزرو سا رویہ، اپنے جذبات اپنی بیوی تک محدود رکھنے کی عادت، فضول گوئی سے اجتناب اور مزاج کی سنجیدگی اور رعب، اسے بھانے لگا تھا۔ اس کی نظر میں مردوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔ اب تو اسے وہ مرد عجیب لگتے تھے جو اپنی کزنز، سالیوں اور دوسری لڑکیوں سے کُھل کر مزاق کرتے تھے۔


وہ تقریباً اس کا آئیڈیل بن چکا تھا، وہ عادل کو بھی اپنے بھائی جیسا بننے کا بولتی تھی۔

××××××


عنقا، احتیاط سے، اریزے کا ہاتھ پکڑ کر، اسے لے کر جارہی تھی، وہ دونوں آخری سیڑھی پر تھیں کہ عنقا کو زور دار چھینک آئی، چھینک روکنے کی غرض سے، غیر ارادی ردِعمل کے تحت، اس نے اپنا ہاتھ اریزے کے ہاتھ سے چھڑایا، یہ سب اتنا اچانک تھا کہ اریزے کا توازن بگڑا۔۔!!

وہ تقریباً، عنقا کے سہارے ہی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ توازن بگڑنے پر خود کو سنھبال نہ پائی۔۔!!

وہ تقریباً، عنقا کے سہارے ہی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ توازن بگڑنے پر خود کو سنھبال نہ پائی۔۔!!

اور لڑھکتی ہوئی نیچے کو گِری، عنقا نے اپنی طرف سے، اسے بروقت تھامنے کی پوری کوشش کی تھی پر اس کی کوشش رائیگاں گئی۔


اس نے بے یقینی سے فرش پر پڑے، اریزے کے وجود کو دیکھا اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ، اُس تک پہنچی، وہ جس قدر بے یقین تھی، عدیل اس سے کہیں زیادہ ، شاکڈ تھا، اور اسی شاک کی کیفیت میں میں وہ عنقا سے پہلے اریزے تک پہنچا،

وہ حال ہی میں گزرے ان چند لمحوں کو ان کی تمام تر ہولناکیوں سمیت ، اپنی آنکھوں سے بخوبی ملاحظہ کر چکا تھا۔


ایک تکلیف تھی، جو اسے ، خود میں سرایت کرتی محسوس ہوئی، اس کی آنکھوں کے سامنے، اریزے بری طرح تکلیف سے مچل رہی تھی، اس کے درد کی شدت کا اندازہ اس کی چیخوں اور اس کے کراہنے کے کی آواز سے ، اچھی طرح لگایا جا سکتا تھا۔


عدیل نے مزید وقت ضائع کیے بغیر اسے اٹھایا اور باہر کی طرف نکلا، عادل بھی اریزے کی چیخوں کی آوازیں سنتا وہاں آیا تھا، صرف ایک سیکنڈ میں وہ سارا معاملہ سمجھ چکا تھا، وہ بھی تقریباً بھاگتا ہوا کار پورچ کی طرف بڑھا اور عدیل کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کار ان لاک کر کے، اسٹارٹ کر چکا تھا۔


عنقا کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، اریزے ابھی تک بری طرح تڑپ رہی تھی، درد کے مارے اسے اپنا سانس اکھڑتا محسوس ہوا، عدیل اس وقت خود کو بے حد ، بے بس محسوس کر رہا تھا، اسے بے تحاشہ افسوس تھا کہ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوا اور وہ کچھ نہیں کر پایا، وہ اسے بچا نہیں پایا۔


اس وقت اس کا دھیان، ذرا بھی عنقا کی طرف نہیں گیا۔۔ عنقا پر دھیان دینا تو دور کی بات۔۔ اسے تو اس وقت کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔۔ سوائے اریزے کے۔۔!!

××××××


اریزے کو فوراً ایمرجنسی میں لے جایا گیا، عنقا نے خود کو سنبھالتے ہوئے اپنے گھر انفارم کیا، عادل نے بھی فوراً اپنے مام،ڈیڈ کو کال کر کرکے سب کچھ بتایا، اب وہ عنقا کو تسلی دے رہا تھا، اور اریزے کے سارے کام، عدیل خود ہی ، بھاگ بھاگ کر رہا تھا۔


عادل نے اس کی ہیلپ کی کوشش کی پر اس نے یہ کہہ کر منع کیا کہ "وہ میری اریزے ہے، میں اس کے کام کر سکتا ہوں۔۔!!" عادل جانتا تھا، وہ اریزے کے معاملے میں کتنا جذباتی ہے۔۔ اس لیے اس نے بحث نہیں کی۔


اب عدیل اکیلا ہی، اندر باہر ہورہا تھا، نرسیں کبھی دواؤں کے لیے دوڑا رہی تھیں تو کبھی انجیکشنز لانے کیلئے، کبھی ڈاکٹرز اسے بلا رہے تھے تو کبھی وہ خود ہی آپریشن تھیٹر کے باہر بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔


اریزے اس وقت آپریشن تھیٹر میں تھی، اس کی حالت بہت پیچیدہ تھی، ڈاکٹرز پہلے ہی بتا چکے تھے کہ وہ اس وقت بےبی کو نہیں بچا سکتے۔


آنسو لڑیوں کی صورت میں عدیل کی آنکھوں سے جاری تھے۔ وہ شاید اپنی زندگی میں پہلی بار رویا تھا۔ وہ اریزے کے آنے سے زندگی میں پہلی بار، خوش بھی تو اتنا زیادہ ہوا تھا۔۔ پر شاید یہ خوشی اسے راس نہیں آئی۔۔ یا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی اپنی مدت پوری کر چکی تھی۔


عنقا کے والدین سلیمان صاحب اور فہمیدہ بیگم بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ ان کے آتے ہی عنقا بے قرار ہوتی، اپنی امی سے لپٹی تھی۔۔ آنسو، اُس کے بھی شدت سے بہہ رہے تھے۔


سلیمان صاحب بھی بے حد پریشان تھے ، انہوں نے عدیل کو تسلی تھی۔۔ پر وہ کہاں مطمئن ہونے والا تھا۔


عدیل کو دیکھ دیکھ کر، عنقا مزید دُکھی ہوئی، اب تو وہ جانتی تھی ناں۔۔ وہ عدیل کی اریزے سے والہانہ محبت پر یقین کر چکی تھی ناں۔۔ اب تو اسے اچھے سے عدیل کے جذبات کا اندازہ تھا۔۔ اس لیے اسے، عدیل کے لیے بھی تکلیف محسوس ہوئی۔۔ اس کے چہرے پر تواتر سے بہتے آنسو، عنقا کے بھی گال بھگو رہے تھے۔۔


مصطفیٰ صاحب اور ان کی بیگم کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔۔ وہ دونوں بھی بری طرح شاکڈ تھے۔


تصور تو کسی نے بھی نہیں کیا تھا کہ ایسا کچھ ہوگا۔۔!! پر جو ہونا ہونا ہے۔۔ اسے کون ٹال سکتا ہے۔

×××××××


ایک اضطراب تھا۔۔ ایک بے چینی تھی ، جس سے اس وقت وہ سارے گزر رہے تھے۔۔ عدیل کی بھی یہی حالت تھی۔۔ اور ان سب سے کہیں بڑھ کر تھی۔۔!! اور عدیل کی یہ حالت۔۔ عنقا کے لیے دیکھنا محال ہوگیا تھا۔۔!!


ایک تو اس کا اپنا احساسِ جرم۔۔۔ جو اسے یہ ماننے پر مجبور کر رہا تھا کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔۔ پھر جو کچھ ہوا تھا۔۔ اُس کی تکلیف علیحدہ تھی۔۔ اور اوپر سے عدیل کی تڑپ۔۔ شاید ان سب لوگوں میں سب سے زیادہ۔۔ عنقا، اذیت میں تھی۔


ہر کوئی ، مسلسل، اریزے کی عافیت کے لیے دعاگو تھا۔۔ عدیل کا تو رواں رواں "دعا" بنا ہوا تھا۔


زندگی میں پہلی دفع، اس نے اتنی شدت سے دعا کی تھی۔ پر کچھ دعائیں ہوتی ہیں ناں۔۔ جن کے مقدر میں قبولیت نہیں لکھی ہوتی۔۔ کچھ دعائیں ہوتی ہیں ناں جو ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔ بس اُس کی دعا بھی انہی دعاؤں میں سے ایک تھی۔

لیکن ہماری یہ ادھوری اور قبولیت سے خالی دعائیں، بروزِ قیامت، ہمارے لیے ڈھیر سارے، اجر و ثواب کا ذریعہ بنتی ہیں، اس لیے ہمیں اپنے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔


عدیل نے بھی دل چھوٹا نہیں کیا تھا۔۔ بس وہ بار بار انکار کیے جارہا تھا۔۔ اسے ڈاکٹر کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔!! اور وہ چند لمحوں تک، ڈر اور خوف سے اریزے کی لاش کے قریب بھی نہیں کیا۔


اریزے کی موت ایک سچ تھا جسے وہ جھٹلانا چاہ رہا۔۔ پر نہیں جھٹلا سکا۔۔ باقی سب کے ساتھ ساتھ اسے بھی یقین کرنا پڑا۔۔اور جب اسے یقین آیا تو اس نے ،اپنی زور دار دھاڑ سے، ایک لمحے کے لیے، سب کو ہی لرزا دیا تھا۔


اس کے بعد وہ خوب رویا۔۔۔!! جتنی شدت سے رو سکتا تھا رویا۔۔!! وہ تڑپا تھا۔۔ وہ بری طرح مچلا تھا۔۔!!

×××××


کچھ دن تک تو وہ اپنا آپ بھلائے۔۔ اریزے کے غم میں گُھلتا رہا۔۔ اور پھر اچانک وہ منظر۔۔ وہ اریزے کا گرنا اسے یاد آیا۔۔ اُسے یاد آیا کہ وہ عنقا کی وجہ سے گری تھی۔

اسے احساس ہوا کہ اس کی اریزے کی موت کی ذمہ دار عنقا ہے اور پھر، اس کے وجود میں، انتقام کی آگ، سلگنے لگی۔۔!!


"میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔!! ظالم عورت۔۔!! تم نے مجھ سے، میری اریزے کو چھینا ہے۔۔!!"

اس نے غصے سے آگ بگولا ہوتے ہوئے ،اپنے تصور میں عنقا کو مخاطب کیا۔۔۔ اور ایک بار پھر تڑپ کر رو دیا۔


×××××


اب وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، بے چینی سے، بس یہی سوچتا تھا کہ آخر کیسے وہ اپنا انتقام لے۔۔!! کیسے اپنے اندر جلتے الاؤ کو تسکین پہنچائے۔۔!!


اس کا خیال تھا کہ وہ عنقا سے انتقام لے کر ہی پُر سکون ہو پائے گا۔۔!! اسے گمان تھا کہ اُسے، اس کا سکون عنقا میں ملے گا ۔۔!!


یہ تو وقت نے بتانا تھا کہ، وہ اپنی سوچ ،اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں۔۔!! درست ہے یا نہیں۔۔!! اگر سچا ہے ،درست ہے تو کس طرح۔۔؟؟ اگر غلط ہے تو کس طرح۔۔؟؟

××××××


عدیل نے، اس کے لیے بہت سی سزائیں سوچیں پر اُسے، عنقا کے لیے کوئی معقول سزا نہیں مل کے دی۔

وہ ابھی بھی۔۔ مسلسل۔۔ غضب ناک سے تیور لیے اسی کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، اسے ایک طریقہ سُوجھا، اس ایک مکروہ سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔


ساتھ ہی، اس کے تاثرات تلخ ہوئے، اس کے انداز میں ایک عجیب کڑواہٹ ابھری۔ ذہن شیطان کی شاگردی میں پناہ لینے لگا اور پھر اس نے وہ کرنے کی ٹھانی جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اس نے وہ کرنے کا سوچا جو اسے سوچنا بھی نہیں چاہیئے تھا۔۔!!


"تیار رہو۔۔ لڑکی۔۔!! تم نے مجھ سے میری محبت چھینی ہے ناں۔۔!! میں بھی تمہارا کارنامہ تم پر لوٹاؤں گا۔۔!! میں بھی وہی کروں گا جو تم نے کیا۔۔!!"

وہ شدت کا غضب لیے، اپنے خیالوں میں ہی ، اُسے ، اُس کی زندگی تباہ کرنے کا عندیہ دے گیا۔


××××


اس کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔۔ وہ اپنے فیصلے پر ملنے والے متوقع ری ایکشنز کے متعلق سوچ رہا تھا، نتائج کا اندازہ لگا رہا تھا اور اُن نتائج کی بنیاد پر، اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے مختلف طریقوں پر بھی غور کر رہا تھا۔


بہت سوچ بچار کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا، فوراً اپنے کمرے سے باہر نکلا اورچِلّا چِلّا کر، اپنے مام دینے لگا۔


رات کے ایک بجے کا وقت تھا، اس کے مام ڈیڈ سمیت عادل بھی ہڑبڑاتا ہوئے اپنے روم سے باہر نکلا۔

"کیا ہوا بیٹا۔۔؟؟" اس کی مام نے پریشانی سے پوچھا۔

"مجھے آپ دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔!!" لہجہ سرد تھا،


"ایسی کونسی ضروری بات ہے جو تم نے ایک دم اُدھم ہی مچا دیا۔۔!!" مصطفیٰ صاحب کو اس کا چیخنا بہت برا لگا تھا۔


عدیل نے اپنے ڈیڈ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا، اس نے سرد مہری سے، عادل پر نظریں گاڑھے، پھر سے اپنا جملہ دہرایا،"مجھے آپ دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔!!" اس بار وہ، "آپ دونوں" پر زور دیتے ہوئے بولا۔


اس کا عجیب سا رویہ ، عادل کی سمجھ سے باہر تھا۔

اس نے سوچا کہ ہوگی کوئی پرائیویٹ بات۔۔!! اس لیے سر جھٹکتے ، وہ وہاں سے چلا گیا۔


"بولو۔۔ کیا مسئلہ ہے۔۔!!" مصطفیٰ صاحب کو اس کے رویے پر غصہ آ رہا تھا۔


"میرے خیال سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔" وہ مسلسل، سسپینس بڑھاتا جا رہا تھا۔

اس کا سرد، سپاٹ اور کاٹ دار لہجہ ، فوزیہ بیگم کو تشویش میں مبتلا کر رہا تھا۔


عدیل اپنی بات کہتا ،۔ لاونج کی جانب بڑھا۔ فوزیہ بیگم کو تو ہول اٹھ رہے تھے کہ اتنی رات گئے، اس کو ایسی کیا ضروری بات یاد آ گئی۔۔!!


مصطفیٰ صاحب اور فوزیہ صاحب بھی اس کے پیچھے چل دیے۔

××××


وہ لاونج کے صوفے پر آ کر بیٹھا۔ اس کے تاثرات تلخ سے تلخ تر ہوتے جا رہے تھے۔ اس نے اس وقت اپنا ایک اور گنہگار بھی ڈھونڈ لیا تھا، جس کی وجہ سے ، اسے اپنے فیصلے پر تھوڑی سی جو شرمندگی تھی، وہ بھی کہیں غائب ہوگئی۔۔!! اسے کچھ دیر پہلے، تھوڑا سا گلٹ محسوس ہوا تھا کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے۔۔ سراسر غلط ہے۔۔!!


لیکن اب ، اپنا نیا گناہگار تلاشنے کے بعد ، وہ خود کو حق پر ہونے کی تسلی دے چکا تھا۔


اس کے مام ڈیڈ ، اس کے کچھ بولنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔۔ جبکہ وہ اپنے ہی انتقامی خیالات میں، گِھرا، مسلسل جھلس رہا تھا۔


"بیٹا کچھ بولو بھی۔۔" فوزیہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔


"مجھے عنقا سے شادی کرنی ہے۔۔!!" اس کا لفظ لفظ، وحشت سے بھرپور تھا۔


اس کے مام ڈیڈ بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ فوزیہ بیگم شاکڈ تھیں، ان کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس نے آخر کہا کیا ہے۔۔!! یا شاید وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھیں۔


مصطفیٰ صاحب کو تو اس کی عقل پر شک ہوا۔۔!!

وہ دونوں حیران و پریشاں، آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہے تھے۔


عدیل کو ان کے رد عمل، ان کے حیرت زدہ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے۔۔ وہ ان کی حالت سے بے نیاز، نظریں زمین پر گاڑھے ، ان کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔


"دماغ تو صحیح ہے تمہارا۔۔!!" مصطفیٰ صاحب، جیسے ہوش میں آئے تھے۔


"جی ڈیڈ۔۔ میں بالکل نارمل ہوں۔۔!!"عدیل نے، ان کا غصہ، خاطر میں لائے بغیر، سختی سے جواب دیا۔


"دیکھیں۔۔ اگر آپ لوگوں نے انکار کیا، یا میری بات نہ مانی تو میرے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔۔ اور سن لیں۔۔!! پھر انجام کی ساری ذمہ داری، آپ لوگوں پر ہو گی۔۔!!" اس نے تلخی سے دھمکی دی۔


فوزیہ بیگم کو تو اس سے، اس کے ارادوں سے خوف محسوس ہوا۔ "بیٹا۔۔ تم جانتے ہو۔۔ وہ تمہارے بھائی کے ساتھ منسوب ہے۔۔ پھر بھی۔۔؟؟" انہوں نے تکلیف بھرے لہجے میں پوچھا۔۔

انہوں نے اس کی، ایسی تربیت تو نہیں کی تھی کہ وہ ایسی گری ہوئی حرکت کے متعلق سوچا۔۔


"مجھے کچھ نہیں سننا۔۔!! آپ لوگ بتائیں کہ آپ میری ہیلپ کریں گے یا نہیں۔۔؟؟"

"نہیں" جواب ، مصطفیٰ صاحب کی طرف سے آیا تھا۔


جسے سنتے ہی، عدیل نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے، آٹھ انچ کا، تیز دھار والا چاقو نکالا، اور لمحے کی دیر کئے بغیر، اپنی کلائی پر رکھ کر، بے رحمی سے اپنی نبض کو چیر ڈالا۔


خون کی دھاریں، ابل ابل کر باہر نکلیں، اور اس کے کپڑوں سمیت سارا فرش اس کے خون سے رنگین ہوا ۔


اس کے مام ڈیڈ، چند لمحوں کے لیے تو شدید سکتے میں آئے۔۔ وہ آنکھیں پھاڑے، اپنی تکلیف کو برداشت کرتا، ان کے حیران چہروں کو تک رہا تھا۔


وہ دونوں بیک وقت اس کی طرف بڑھے، فوزیہ بیگم کے انداز میں تڑپ، اور مصطفیٰ صاحب کے انداز میں شدید غضب تھا۔


انہیں، اپنے بیٹے سے ایسی بیوقوفی کی امید نہیں تھی۔


"کوئی ضرورت نہیں ہے میرے قریب آنے کی،" وہ بری طرح چلایا تھا، درد اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ مگر وہ پھر بھی ڈھیٹ بنا، سہہ رہا تھا۔


کوئی ضرورت نہیں ہے میرے قریب آنے کی،" وہ بری طرح چلایا تھا، درد اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ مگر وہ پھر بھی ڈھیٹ بنا، سہہ رہا تھا۔


"تم جو مرضی ڈرامے کرلو میں تمہیں، ایسی گندی حرکت کرنے کی بالکل اجازت نہیں دوں گا۔۔" مصطفیٰ صاحب اس کے باپ تھے، انہوں نے دگنی ہٹ دھرمی سے کہا۔


"کچھ تو خیال کریں بچے کی حالت کا، کیسے باپ ہیں آپ۔۔!!" فوزیہ بیگم تڑپ کر بولیں،


"کیا خیال کروں میں اس کا ، آپ نے اس کی حرکت نہیں دیکھی۔۔؟؟" مصطفیٰ صاحب بھڑکے۔


اب ، خون ، نسبتاً، ذرا آہستگی سے بہہ رہا تھا، عدیل کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں وہ تقریباً بے ہوش ہونے کو تھا۔


"حد ہے مصطفیٰ۔۔!! میرا بچہ یہاں مرنے کو ہورہا ہے، اور آپ کو اپنے غصے کی پڑی ہے۔۔!! عادل۔۔!! عادل!!" وہ زور سے چلائیں۔


عادل بھاگتا ہوا وہاں آیا، اس سے پہلے وہ اپنے کمرے میں تھا، اس نے عدیل کی کہی گئی باتیں نہیں سنی تھی اس لیے، فی الوقت وہ لاعلم تھا۔

اور عدیل کی حالت دیکھ کر ،اسے زبردست جھٹکا لگا۔


اُس میں مزید مزاحمت کرنے کی سکت نہیں تھی، وہ بے ہوش چکا تھا، اس لیے، فوزیہ بیگم نے سب سے پہلے ، اپنے دوپٹہ اس کے بازو سے باندھ کر خون کا بہاؤ روکنے کی کوشش کی، فرسٹ ایڈ باکس تو ان کے گھر تھا نہیں کیوں کہ کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی، اور نہ ہی احتیاطاً رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی،

اس لیے اس وقت دوپٹے سے کام چلایا۔


عادل اور مصطفیٰ صاحب نے بڑی مشکل سے، اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔

××××××


فوزیہ بیگم ، بہت بے چینی سے ہاسپٹل کی راہداری میں، یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھیں۔


عدیل ابھی تک بے ہوش تھا، خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی حالت بہت خراب تھی، عادل اس کے لیے خون کا انتظام کرنے کے لیے دوڑیں لگا رہا تھا، عدیل کا بلڈ گروپ ، سب گھر والوں سے مختلف تھا اس لیے وہ بھی اسے بلڈ ڈونیٹ نہیں کر سکے۔


وہ ابھی تک نہیں عدیل کی اس حالت کے پسِ منظر کے متعلق بے خبر تھا، اس لیے، پورے خلوص سے، اس کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔


مصطفیٰ صاحب، وہیں کاریڈور میں بچھے، بینچ پر بیٹھے، پریشانی سے سوچنے پر مجبور تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔


ایک طرف ضمیر تھا تو ایک طرف، جان سے عزیز بیٹا۔۔ وہ شدید کشمکش میں تھے اور بالآخر ، کچھ دیر اسی شش و پنج میں مبتلا رہنے کے بعد انہوں نے حتمی فیصلہ کیا۔


×××××


اللّٰه اللّٰه کر کے عدیل کی حالت سنبھلی، اسے ہوش آ چکا تھا، اس وقت صبح کے چار بچ رہے تھے، فجر ہونے کو تھی، اس کے ہوش میں آتے ہی فوزیہ بیگم نے اسے دیکھنے سے پہلے ہی پرئیر ہال میں جا کر شکرانے کے نفل ادا کیے۔


×××


"شکر الحمدللّٰه بھائی۔۔!! آپ کو ہوش تو آیا، ورنہ آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔۔!! ویسے اب تک میں نے کسی سے پوچھا نہیں۔۔!! کیسے ہوا یہ سب۔۔؟؟" عادل نے اپنے پیارے سے لہجے میں پوچھا۔


عدیل نے اس کی تقریر سن کر دوسری طرف منہ پھیرا۔


"کیا ہوا بھائی۔۔؟؟ آپ ناراض ہیں مجھ سے؟؟" اس نے پریشانی سے پوچھا۔


عدیل، ہنوز خاموش رہا، اس کے ماتھے پر غصہ ابھرتا دکھائی دیا۔

"قاتل کہیں کا۔۔!! یہ بھی میری اریزے کا قاتل ہے۔۔!! یہ اگر اس دن اپنی منگیتر کو وہاں نہ لاتا تو، وہ اس سے ملنے کے لیے نیچے نہ آتی، نہ ہی واپس جاتے ہوئے گرتی۔۔ نہ ہی مجھ سے اتنا دور جاتی۔۔!!" وہ سختی سے لب بھینچے، یہ فضول اور بے تکی باتیں سوچتا گیا۔"


عادل، اس کے رویے سے ابھی تک پریشان تھا۔

××××××


نفل ادا کرنے کے بعد ، فوزیہ بیگم، عدیل کے پاس آئیں، اور اس کے قریب، اسی کے بیڈ پر بیٹھیں۔

انہیں دیکھ کر ، عدیل، اپنا رخ دوسری طرف پھیر گیا۔


"کیسا ہے میرا بیٹا اب۔۔؟؟" انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔


"یہ آپ اپنی جھوٹی کئیر ، اپنے پاس رکھیں۔۔!!" اس نے بدتمیزی سے کہا۔

اس وقت، اس پر ، بے تحاشہ جہالت سوار تھی، جس کا اظہار وہ بار بار،۔ اپنی حرکتوں کے ذریعے کر رہا تھا۔


فوزیہ بیگم کو ، اس کے رویے پر تکلیف ہوئی پر انہوں نے درگزر کرتے ہوئے پیار سے کہا،

"بیٹا۔۔ اب تم ایسے بات کرو گے اپنی مام سے۔۔"


"مام۔۔!! مام۔۔!! پلیز کچھ کریں ناں۔۔!!" وہ ایک دم بدلا تھا۔۔ آنسو، اس کی آنکھوں سے جاری ہوئے۔


فوزیہ بیگم اس کے یک دم بدلنے پر حیران ہوئیں۔


"مام۔۔!! مجھے وہ چاہئیے۔۔!! آپ لا کر دیں مجھے۔۔!! مجھے عنقا چاہیے۔۔!!" وہ کسی عجیب احساس کے تحت بولا، وہ مزید شدت سے رویا۔۔ بری طرح بلک رہا تھا۔۔


فوزیہ بیگم کو اس کے رویے سے لگا کہ شاید اسے، عنقا میں اریزے نظر آتی ہوگی۔۔!! شاید وہ اس لیے اس کے لیے تڑپ رہا ہے۔


جبکہ اس کے آنسو تو اریزے کے لیے تھے۔۔ اور وہ اپنے انتقام کی حسرت میں رویا تھا، وہ تو عنقا کو تڑپانے، اسے ستانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔


فوزیہ بیگم کو بھی ،اس کی حالت دیکھ کر رونا آ رہا تھا۔


"مام۔۔!! مجھے عنقا کو سے شادی کرنی ہے۔۔!! مجھے وہ چاہتے۔۔!!" وہ ایک بار پھر بلک کر، تڑپ کر بولا۔


اس کے الفاظ، عادل کی سماعتوں پر کسی ، تلوار کی طرح حملہ آور ہوئے۔


وہ اپنے اور اپنی مام کے لیے چائے کے کپ کے کر کمرے میں داخل ہوا تھا کہ عدیل کے لفظوں نے اس کے قدم وہیں روک دیے۔


اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ آگے قدم بڑھاتا۔۔۔ وہ سکتے میں تھا۔۔ اسے یقین نہ آیا کہ جو کچھ اس نے سنا وہ سب سچ میں کہا گیا ہے۔۔ وہ بے یقین تھا کہ اس کا بھائی ایسا کیسے سوچ سکتا ہے۔۔!!

😳🤐🤐🤐

وہ بے یقین تھا کہ اس کا بھائی ایسا کیسے سوچ سکتا ہے۔۔!!


وہ کچھ کہے سنے بنا، الٹے قدموں وہاں سے لوٹ گیا، اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کچھ دیر مزید وہاں رک پاتا، اور باہر جا کر تو جیسے اس کا دل ڈوب ہی گیا۔


اسے اپنے بدن سے روح نکلتی محسوس ہوئی،


مصطفیٰ صاحب، سلیمان صاحب، ان کی بیگم ،عنقا،

مولوی صاحب اس اور دو مزید لوگوں کے ہمراہ، عدیل کے کمرے کی طرف آ رہے تھے۔


عنقا، اس مجمعے میں، سب سے پیچھے، اپنی امی کے ساتھ ، گردن جھکائے ، بہت سے آنسو بہاتی، مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی آ رہی تھی۔

اس کی نظریں زمین پر ، اس توجہ سے مرکوز تھیں کہ اسے ارد گرد کی خبر تک نہ ہوئی ، اسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ عادل کی ایک سائیڈ سے ہو کر گزری تھی۔


پر عادل۔۔!! وہ بے خبر نہیں تھا۔۔!! اسے سب نظر آ رہا تھا۔۔!! اور ہر نظر آنے والی چیز نے اسے اندر تک دُکھایا تھا، ہر سنائی دینے والے لفظ نے اس کا مان توڑا تھا، اسے یقین نہ آیا کہ سب کے سب کیسے عدیل کے غلط فیصلے میں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔۔!!


چلو سب نے کیا سو کیا۔۔!! لیکن عنقا۔۔ وہ کیسے ان سب کا ساتھ دے سکتی تھی، وہ تو عادل کو اچھے سے جانتی تھی ناں، اسے بھی اس پر ترس نہیں آیا۔


وہ تو جانتی تھی کہ عادل کتنی شدت سے اسے چاہتا ہے، بھلا وہ، اس کے ساتھ، کیسے اتنا بڑا ظلم کر سکتی تھی۔۔!! عادل شدت سے مچلا تھا، اور اسی شدت سے، وہ اپنے ہاتھ میں موجود دونوں کپ، قریب بچھے ، بینچ پر رکھ کر ،اس مجمعے کے پیچھے لپکا تھا۔

--------

کمرے میں اتنے سارے نفوس کو داخل ہوتا دیکھ کر ، عدیل یک دم ٹھِٹکا تھا، اسے تو یقین نہ آیا کہ اس کی مراد اتنی جلدی پوری ہوگئی تھی۔


پھر اس کی نظر گھومتی ہوئی اپنے ڈیڈ تک آئی، کیا کچھ نہ تھا ان کے چہرے پر، غصہ ، دُکھ ، بے بسی اور سب سے بڑھ کر اپنا ضمیر مارنے کی تکلیف، بیٹے کی خاطر خود غرض بن کر، کسی کی بیٹی کی خوابوں کا جنازہ نکالنے کا درد۔۔!!


ہر جو بھی تھا۔۔ وہ عدیل کو متاثر نہ کر پایا۔۔!! وہ تو بس اپنی جیت کی خوشی میں خوش تھا۔۔!!

وہ عنقا کو مسلسل روتا پا کر بے حد مسرور ہوا۔۔!!


"آہ۔۔!! چلو اچھا ہے۔۔ ابھی سے آنسو بہانا شروع کر دیے۔۔!! آگے کے لیے تھوڑی پریکٹس بھی ہوجائے گی۔۔۔!! اور میرے دل کو تو ویسے ہی بہت سکون ملنا ہے۔۔!!" اس نے سفاکیت سے سوچا۔

××××


"مولوی صاحب نکاح شروع کرائیں۔۔!!" مصطفیٰ صاحب کی سرد سی آواز نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔


"کس کا نکاح۔۔!!" عادل نے تڑپ کر دبی دبی سی آواز میں احتجاجی لہجے میں کہا۔


"میرا نکاح۔۔!!" عدیل نے ڈھٹائی سے ، تلخ لہجے میں جواب دیا۔


عنقا نے عدیل کا جواب سن کر، اسی تڑپ سے، عادل کی طرف دیکھا۔۔ اور پھر نظریں نیچی کرلیں۔۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اس وقت اسے دیکھ پاتی۔


کیوں کہ اس کا مسئلہ تھا کہ وہ اسے صرف دیکھتی نہیں تھی ۔۔۔ بلکہ وہ اسے محسوس کرتی تھی۔۔ اور اس وقت جو اس نے، عادل کے چہرے پر اپنی نظر ڈال کر محسوس کیا تھا، وہ اپنے اُس احساس کی تاب نہ لا پائی۔۔ اس میں سکت نہیں تھی کہ وہ مزید ، اُس کی طرف دیکھ پاتی۔


وہاں بیٹھا کسی دوسرے بندے نے عادل کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔۔ شاید وہ بھی اس حالت میں نہیں تھے کہ اس سے آنکھیں ملا پاتے۔


سب کا یہ انجان رویہ ، سب کا اسے نظر انداز کرنا۔۔ سب کا یہ سلوک۔۔ اس کے ناقابل برداشت تھا۔


اسے محسوس ہوا کہ اس وقت یہاں اس کی بات، اس کا وجود کس قدر بے معنی ہے۔۔ اسے محسوس ہوا کہ یہاں احتجاج کرنا بالکل بے فائدہ ہے۔۔!!



مصطفیٰ صاحب کے دوبارہ اشارے پر نکاح شروع ہو چکا تھا۔


ایک پھانس سی اس کے دل میں چبھی تھی۔


وہ بھلا کہتا تو کیا کہتا۔۔؟؟ کرتا تو کرتا؟؟ وہ کِسے روکتا۔۔!! یہاں تو کوئی بھی، اسے اہمیت دینے کو تیار نہ تھا۔۔ یہاں تو سب ایک طرف تھے۔۔ یہاں کون اسے سمجھتا۔۔!! کون اسے سنتا۔۔!!


وہ اپنے ڈوبتے دل اور تکلیف سے نکلتی بے ہنگم سانسوں کو ہموار کرتا، وہاں سے اٹھا اور باہر کو چل دیا، اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ان دونوں کا ایجاب و قبول سن پاتا۔

×××××

عجب تیزی تھی اس کی رفتار میں۔۔!!


وہ انتہا درجے کی تیزی سے قدم اٹھاتا ہاسپٹل سے نکلا۔۔اور مسلسل چلتا گیا۔۔ آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر رہی تھیں، جنہیں وہ بار بار ہتھیلی کی پشت سے مسل کر صاف کرتا۔


×××××


جس وقت عادل، عدیل کے بلڈ ارینج کرنے میں مصروف تھا اس وقت ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اُس کی حالت بہت خراب ہے، اگلے آدھے گھنٹے تک خون نہ ملا تو اس کا بچنا بہت مشکل ہو جائے گا۔


اس کی بگڑتی حالت نے مصطفیٰ صاحب کو اس کے حق میں فیصلہ کرنے پر مجبور کیا تھا، اس لیے وہ فیصلہ کرتے ہی وہاں سے غائب ہوئے، سلیمان صاحب کے گھر گئے۔


اُن کے،اتنی رات گئے آنے پر تو ویسے ہی سلیمان صاحب کو اچھنبھا ہوا تھا اوپر سے ان کی ساری بات سن کر وہ مزید پریشان ہوئے۔


مصطفیٰ صاحب نے ہاتھ جوڑ کر اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگا جسے وہ رد کر دیتے مگر مصطفیٰ صاحب کی بے بسی دیکھتے اور اپنی سالوں پرانی تکلیف کو یاد کرتے انہوں نے ہاں کردی۔

انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا تو وہ بھی تھوڑے ترد کے بعد ، بالآخر مان گئیں۔


انہوں نے بھی کئی سال پہلے اپنا بیٹا کھویا تھا، خیر ان کا بیٹا تو بلڈ کینسر کی وجہ سے فوت ہوا تھا مگر مرا تو تھا ناں۔۔ تکلیف انہیں بھی وہی ہوئی تھی جس کا خدشہ لیے، مصطفیٰ ان کے ہاں ، آئے تھے۔


بہت سے دوسرے والدین کی طرح جو اپنی بچیوں کو دنیا جہان کی آزادی دیتے ہیں لیکن شریک حیات چننے کا حق ہڑپتے ہیں، انہوں نے بھی ، عنقا سے یہ حق ہڑپنے کی ٹھانی، اس کو جگا کر سب کچھ بتایا، بس فرق یہ تھا کہ انہوں نے اپنا فیصلہ غصے اور غضب کے زور پر نہیں بلکہ ایموشنل بلیک میلنگ کے ذریعے، اس پر تھوپا ۔ اور نجانے کیا کچھ کہہ کر۔۔ کیا کچھ کر کے اسے منایا۔


اگلی بھی پتہ نہیں کیسی حالت میں تھی، کیا محسوس کر رہی تھی کہہ اس سے انکار ہو ہی نہیں پایا۔۔ کوئی اندرونی طاقت تھی جس نے اس سے ہاں کروائی تھی۔


پر جو بھی تھا۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی رضامندی درحقیقت اُسی کی رضامندی تھی۔۔ فی الوقت، وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اس کے خواب ٹوٹے تھے۔۔ جو وہ ایک عرصے سے سجاتی آئی تھی، اور بہر حال یہ مرحلہ اذیت کا تو تھا ہی، باقیوں کی طرح اس کی حالت بھی انتہائی دردناک تھی۔

😳🤐🤐🤐

اور بہر حال یہ مرحلہ اذیت کا تو تھا ہی، باقیوں کی طرح اس کی حالت بھی انتہائی دردناک تھی۔

×××××


عنقا اور عدیل کا نکاح ہو چکا تھا اس کے بعد عنقا واپس اپنے گھر چلی گئی۔


عدیل ہاسپٹل سے ڈسجارج ہونے کے بعد پہلی فرست میں ہی اپنے مام ڈیڈ کے ساتھ عنقا کے گھر گیا، جس خاموشی اور سادگی سے نکاح ہوا ،اس سے کہیں زیادہ سناٹے میں اس کی رخصتی بھی کی گئی، کیوں کہ اریزے کا دُکھ ابھی تازہ تھا۔ ان کے گھر کی فضا ابھی تک سوگوار تھی۔


عادل کا تو جیسے گھر سے اور گھر والوں نے ناطہ ہی ٹوٹ چکا تھا۔۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر تیار ہوتا ، یونی جاتا اور واپس آنے کے بعد بھی آوارہ گردیوں میں مصروف رہتا، حتیٰ کہ وہ عنقا کی رخصتی میں بھی شریک نہ ہوا۔


عدیل کو اس کی حالت بہت مزہ دے رہی تھی، کیوں کہ اس کی انتقامی سوچ ابھی تک برقرار تھی۔


مام، ڈیڈ نے بھی عادل سے اس سلسلے میں کوئی گفتگو نہ کی، وہ بھلا کہتے تو کیا کہتے۔۔؟؟ کس منہ سے اس کا سامنا کرتے۔۔!! ایک بیٹے کی خاطر دوسرے کا دل اجاڑ چکے تھے، اب ان میں حوصلہ نہ تھا کہ وہ اس کا سامنا کر پاتے۔۔ سو انہوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔ وہ کوشش میں تھے کہ اپنے اندر ہمت جمع کر پائیں، اور اپنے چھوٹے لاڈلے کو منا سکیں۔۔!!


×××××××


عدیل اسے اپنے گھر لا چکا تھا، وہ اس کے کمرے میں سُکڑی سمٹی،بیڈ کی ایک طرف کو ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی۔


دل بری طرح دُکھ رہا تھا، اسے اس وقت اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی تھی اور دل چاہ رہا تھا کہ عدیل کو تو کچا چپا جائے۔


وہ جو تھوڑی بہت اریزے کی وجہ سے اس کی عزت کرتی تھی، اب وہ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔



اس لیے تو اس نے سوچا تھا کہ وہ اسے کبھی وہ عزت نہیں دے گی جس کا وہ حقدار ہوگا ، وہ اسے اریزے کی طرح "آپ" بھی نہیں کہے گی۔۔!!


اپنی طرف سے، عدیل سے بدلے لینے کی بے ضرر سی تدبیریں، اس کے ذہن میں آتی جا رہی تھیں۔


ابھی وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی کہ عدیل وہاں آیا۔


وہ انداز میں وحشت، آنکھوں میں قہر لیے اس کی طرف بڑھا، عنقا بری طرح سہمی تھی۔ عدیل نے اپنی سخت انگلیوں کو اس کے چہرے کی طرف بڑھایا، اور اس کا منہ سختی سے اپنی انگلیوں کی گرفت میں لے کر اسے کھڑا کیا، اس نے بچاؤ کے لیے اپنے ہاتھ سے اُس کا ہاتھ ہٹانا چاہا لیکن بے سود۔۔!!


عدیل نے اسے دیوار کی طرف دھکیلا، عنقا کی کمر بری طرح دیوار سے لگی تھی اور سر لگتے لگتے بچا تھا، وہ کچھ بول بھی نہیں پارہی تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے اور عدیل کی انگلیاں بھگونے لگے۔


عدیل سفاکیت سے گویا ہوا۔۔

"میری بیوی کو مارا ہے ناں تم نے۔۔!!! ڈائن ہو تم ڈائن۔۔!! تم نے مجھ سے میری اریزے چھینی ہے۔۔!! جیسے تم نے اس کو مارا، میں بھی تمہیں ماروں گا۔۔"

اس وقت، وہ بالکل پاگل لگ رہا تھا،


وہ تو وہ عدیل تھا ہی نہیں جس کی میچورٹی، سمجھداری اور حقیقت پسند طبیعت کو سب سراہتے تھے۔

وہ نجانے کیا بن گیا تھا کہ ایک حقیقت نہیں سہہ پایا، ایک سچ برداشت نہیں کر پایا۔


منہ پر گرفت گہری ہونے کے باعث وہ کچھ بول بھی نہیں پا رہی تھی۔۔ اور بس مسلسل ، اسل ہاتھ ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی جو بار بار ناکام ہی رہی۔


اس کے چہرے پر گہرے ہوتے، تکلیف کے آثار، عدیل کو سکون پہنچا رہے تھے، جو کہ محض وقتی سکون تھا۔


عدیل کا پاگل پن بڑھتا جا رہا تھا، وہ اپنے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹا کر گردن تک لے کر گیا اور شدت سے دبوچا، عنقا کے روکنے پر، مزاحمت کرنے پر ، مزید سخت ردعمل دیا اور جب عنقا تقریباً بے ہوش ہونے کو تھی اس وقت، وہ اسے بیڈ پر پٹخ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔


وہ بری طرح سسک رہی تھی، اس نے پہلی مرتبہ اتنا وحشیانہ سلوک سہا تھا۔


کچھ دیر وہ، یونہی بیڈ پر پڑی رہی اور پھر ہمت کر کے اٹھی، واشروم گئی، ہاتھ منہ دھوئے اور اپنا حلیہ درست کیا۔


وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آنسو نہیں روک پا رہی تھی، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ، اس کے دل میں عدیل کے لیے نفرت مزید بڑھتی جا رہی تھی۔


"جاہل انسان، بدتمیز، پاگل، شرم نہیں آتی۔۔!! واقعی جاہل ہے یہ جاہل۔۔!!" اس نے روتے ہوئے سوچا۔


"توبہ۔۔ اللّٰه جی۔۔!! ابھی اگر وہ تھوڑی دیر اور تک مجھے نہ چھوڑتا تو میں مر ہی جاتی۔۔!!" اس نے اپنے گلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جھرجھری لی۔


"اوہ۔۔ خدایا۔۔!! اب میں کیا کروں، دو دن اس جاہل، جنونی کے ساتھ رہی تو یہ تو مجھے مار ہی ڈالے گا۔۔!! نہیں نہیں۔۔!! یہ مجھے ایسے نہیں مار سکتا۔۔۔!! مجھے اس کو روکنا ہوگا۔۔!! ہاں روکنا ہی ہوگا۔۔۔!! کسی بھی طرح۔۔!! ورنہ یہ تو مجھے سچ مچ ہی مار دے گا۔۔!!" اس نے دبی دبی سی سسکیاں لیتے ہوئے سوچا۔۔


اور اگلے لمحے اپنی بے بسی کا خیال کرتے۔۔۔ اس کی سسکیاں پھر سے بلند ہوئیں۔

نجانے کتنی دیر وہ یونہی سسکتی رہی اور کوئی پوچھنے تک نہ آیا۔


××××××

،اُس کی روتے روتے کب آنکھ لگی، اسے پتہ ہی نہ چلا ۔۔ وہ جب اٹھی تو رات کا وقت تھا، اس نے یہاں وہاں دیکھا تو کوئی نہ تھا اور کمرے کا سکوت بھی برقرار تھا۔۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ وحشی ابھی تک دوبارہ کمرے میں نہیں آیا تھا۔


اسے اس وقت کچھ بھوک محسوس ہوئی، کچن کا تو اسے پتہ ہی تھا۔۔اور وہ جانتی تھی کہ اس وقت ملازمہ وہاں موجود نہیں ہوگی، اس لیے وہ خود ہی کچھ کھانے پینے کے لیے اٹھی۔

اُسے رہ رہ کر، عدیل پر غصہ آ رہا تھا۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ حقیقت سے بھاگنے والا کوئی بھگوڑا نکلے گا۔۔!!

خیر، وہ اُس پر ڈھیر ساری لعنتیں بھیجتی، کچن کی طرف گئی۔۔ اب وہ بےچاری کر بھی کیا سکتی تھی سوائے لعنتیں بھیجنے کے۔

×××


اس نے فریج سے اپنے لیے کھانا لیا اور گرم کرنے لگی کہ وہاں عادل آ دھمکا، وہ شاید پانی پینے کی غرض سے وہاں آیا تھا۔۔ کتنا بدلا بدلا سا لگ رہا تھا وہ۔۔!! عنقا کو وہ بالکل اجڑا ہوا، ناراض اور بکھرا سا لگا۔


عادل کو اسے وہاں دیکھ کر ایک دم غصہ سا آیا، وہ غصے میں ہی اس کے قریب گیا۔۔ "تم نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے۔۔!! تم تو مجھ سے محبت کرتی تھیں ناں۔۔تو پھر مجھ پر، اتنا بڑا ظلم کیوں کیا۔۔؟؟ جواب دو ۔۔!!" وہ اپنا غصہ دباتا، الفاظ چباتا، تلخی سے گویا ہوا۔۔

اس نے ، عنقا کے بازو کو سختی سے دوبوچ کر پوچھا تھا۔


عادل کی تکلیف، اس کا کاٹ دار لہجہ، اس کے الفاظ۔۔!! سب کے سب ، عنقا کے دل پر برسے تھے، "عادل۔۔!!" اس نے ہلکی سی آواز میں سسک کر کہا۔


اور اگلے لمحے وہاں ایک اور شخص کا اضافہ ہوا۔۔ عدیل ان کی باتوں کا ہلکا ہلکا سا شور سنتا ہوا وہاں آیا تھا۔

ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر وہ اندر تک جلا تھا۔

ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر وہ اندر تک جلا تھا۔


عادل نے ایک کٹیلی نگاہ عدیل پر ڈالی، تنفر سے عنقا کے بازو کو جھٹکا دے کر دور کیا اور ایک ناگوار نظر، ان دونوں پر باری باری ڈالتا ، وہاں سے چلا گیا۔


"کیا کر رہی تھیں اس کے ساتھ۔۔؟؟" عدیل غضب ناک ہوا، اور لفظوں کو چباتے ہوئے غصے سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔


"ک کچھ نہیں۔۔وہ میں۔۔ میں تو اپنے لیے کھانا لینے آئی تھی۔۔" عنقا ڈرتے ہوئے بولی۔


وہ بے چاری تو مفت میں ہی پھنسی تھی۔


"اچھا۔۔!! تم شاید مجھے اندھا سمجھتی ہو۔۔!! ویسے تمہاری اوقات ہی یہی ہے کہ ایک مرد کے نکاح میں ہوتے ہوئے دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات نبھاتی پھرو۔۔!!" عدیل، طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے ہوئے زہریلے لہجے میں بولا۔


اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی، کھلے عام، اس کے کردار پر چوٹ کی تھی، یہ سن کر عنقا کو شدت کا غصہ آیا، اس کا سارا ڈر اور خوف کہیں غائب ہوا اور نجانے اس میں کہاں سے اتنی ہمت آئی کہ اس نے، ایک زور دار تھپڑ عدیل کے منہ پر دے مارا۔


"It's enough Adeel"

وہ غصے سے چلائی۔۔ اور اسے حیرت زدہ چھوڑ کر ، تیز تیز قدم بڑھاتی، اپنے کمرے کی طرف گئی۔


وہ بے یقینی سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اس کے جاتے ہی ، اِس کا سکتہ ٹوٹا، وہ اپنے حواس میں واپس لوٹا تھا اور لوٹتے ہی ، وہ غصے میں دندناتا ہوا، عنقا کے پیچھے گیا۔

×××


وہ اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑا زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا، "دروازہ کھولو۔۔!! عنقا۔۔!! میں کہتا ہوں۔۔ کھولو دروازہ۔۔!!" وہ گلا پھاڑ کر بلند آواز میں دھاڑ رہا تھا۔


اس کی مام کو اسکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن وہ شاید اس کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔ اگر وہ مداخلت کر بھی لیتیں تو وہ جانتی تھیں کہ اس وقت عدیل جس حالت میں ہے۔۔ وہ مزید کوئی بگاڑ پیدا کرلے گا۔۔سو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے۔۔ اس کو اس کے حال پر چھوڑ کر ، اپنے مشاغل میں مصروف رہیں، یہی حال مصطفیٰ صاحب کا بھی تھا۔


عدیل کے، پانچ منٹ تک مسلسل دروازہ بجانے کے باوجود بھی، عنقا اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔۔ نہ ہی اس نے، اٹھ کر دروازہ کھولا، بلکہ وہ تب سے اب تک ، کمرے کے ایک کونے میں دُبک کر بیٹھی تھی۔۔ اور مسلسل رو رہی تھی۔

اس کی حالت عجیب تھی ، وہ ڈر بھی رہی تھی اور نہیں بھی۔۔ وہ اس سے بھاگنا بھی نہیں چاہتی تھی اور اس میں سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔

×××××


"عنقا۔۔!! میں آخری بار کہہ رہا ہوں۔۔ دروازہ کھولو۔۔!!" وہ بری طرح بپھرا تھا۔۔ اور اب ،اچھا خاصا زچ ہو چکا تھا۔


"اگر نہیں کھولا تو۔۔؟؟" نہ چاہتے ہوئے بھی ، اس کی آواز میں، ہلکی سی کپکپاہٹ در آئی تھی۔


"نہیں کھولا تو میں دروازہ توڑ کر اندر آجاؤں گا اور پھر تم اپنا حشر دیکھنا۔۔!! زندہ نہیں بچو گی میرے ہاتھوں۔۔!!" اس نے دھمکی دی۔


"نہیں۔۔ پھر میں نہیں کھولتی۔۔ دروازہ توڑو اور آجاؤ۔۔!!" وہ دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہوئی اور سکون سے مکالمے بازی کرنے لگی۔۔


"عنقا۔۔!!!" وہ غصے سے دھاڑا۔۔ اب بس ، اس کی برداشت ختم ہوتی جارہی تھی۔


"کیا ہے۔۔!!" اس نے ڈھیٹوں کی طرح، سکون سے ، الٹا سوال کیا، جس پر عدیل کو مزید تپ چڑھی۔


"دروازہ کھولو۔۔!!"اس نے چِڑھ کر کہا۔


"اچھا۔۔ اگر کھول دیا تو کیا گارنٹی ہے کہ تم مجھے کچھ نہیں کہو گے۔۔!!" اس نے متوقع خدشہ سامنے رکھتے ہوئے، شرط رکھنے والے انداز میں کہا۔



"تمہاری تو۔۔۔!! دروازہ کھولو۔۔!!" اس نے دروازے پر زور سے لات مارتے ہوئے کہا۔


"اچھا بابا۔۔!! کھولتی ہوں۔۔ لیکن پہلے وعدہ کرو۔۔ مجھے کچھ کہو نہیں کہو گے۔۔!!" اس نے باقاعدہ شرط رکھی۔

عدیل کو اس پر بے تحاشا غصہ آ رہا تھا، اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسی حرکتیں کرے گی۔۔!!

اور دیکھو تو۔۔ میڈم۔۔ شرطیں ایسے رکھ رہی ہے جیسے وہ اس کی لاڈلی بیوی ہو۔۔ اور وہ ابھی ہاں میں ہاں ملاتا ااس کی بات مان جائے گا۔


اس کا تھپڑ والا غصہ ،راستہ بھٹک کر کہیں اور ہی چلا گیا، اب تو بس اسے ایک ہی ٹینشن تھی۔۔ اور وہ بھی دروازہ کُھلوانے کی۔۔!!


وہ سارا دن ، اِدھر اُدھر آوارہ گردیاں کرتا رہا تھا، اور اسے جب شدت سے آرام کی طلب محسوس ہوئی تو وہ گھر لوٹا، گھر آنے کے بعد ایک کے بعد ایک ڈرامے نے، اس کی بچی کُچی انرجی بھی ہڑپ لی تھی۔



"نہیں کھا رہا میں تمہیں۔۔!! اب کھولو دروازہ۔۔!!" وہ سُلگ کر بولا۔


"نہیں ایسے نہیں۔۔ پہلے وعدہ کرو۔۔" عنقا کی ڈھٹائی عروج پر تھی،

اس نے اپنا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر رکھا تھا کہ اس کے وعدہ کرتے ہی وہ سچ مچ میں کھول دے گی، لیکن پھر پتہ نہیں اسے کیا سوجھی اس نے پورے دس سیکنڈ تک ہینڈل کو گھورا، اور مزید ڈائیلاگ بازی کا ارادہ ترک کرتے، تھوڑا ڈرتے ڈرتے ہینڈل گھمایا۔


وہاں عدیل، دروازہ توڑنے کی غرض سے تھوڑا پیچھے سرکنے کے بعد تیزی سے آگے کو لپکا تھا۔۔

اسی لمحے عنقا بھی دروازہ کھول چکی تھی، نتیجتاً، عدیل کا توازن بگڑنے سے، دھڑام سے ، سامنے کھڑی عنقا سمیت زمین بوس ہوا۔


"ہائے میری کمر۔۔!!" عنقا چیخ کر بولی۔



عدیل فوراً سے پہلے اٹھا، اور عنقا زمین پر لیٹی لیٹی کراہ رہی تھی۔


"جنگلی آدمی۔۔!! کمرے میں ایسے داخل ہوتے ہیں کیا؟" عنقا غرائی۔


"دروازہ کھولنا تھا تو بتا نہیں سکتی تھیں۔۔!!" عدیل ناک چڑھا کر تھوڑا برہمی سے کہا۔


عنقا نے ، اس کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور "سی" کی آواز نکالتی کراہتی ہوئی اٹھی۔


عدیل، اس کے دیکھنے کے انداز پر تپا تھا اور اس سے بڑھ کر کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا۔


"اب کیا ہے۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔؟؟" عنقا اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف ، ہلکا سا موڑ کر ، اپنی کمر سہلاتے ہوئے، غصے سے بولی۔


"تم ۔۔ کچھ زیادہ ہی فرینک ہو رہی ہو۔۔!!" عدیل لفظوں کو چباتے ہوئے ، غضب ناک ہو کر بولا اور اس کے قریب آیا۔


"بس اب بہت ہوگیا، اپنی اوقات میں رہنا سیکھو!! اور اپنے یہ کڑے تیور ذرا قابو میں رکھا کرو۔۔!! سمجھیں۔۔!!" عدیل نے اپنا ہاتھ، اس کے سر تک لے جا کر، اس کے بالوں کو سختی سے اپنی مٹھی میں جکڑ کر کہا۔


"آہ۔۔!! جنگلی کہیں کے میرے بال چھوڑو۔۔!!" عنقا ، اس کے احکام پر کان دھرے بغیر، زور چلائی۔


عدیل کو اس کی ہٹ دھرمی پر رج کے غصہ آیا اور پھر اس کا مارا ہوا تھپڑ بھی یاد آ گیا۔

اس لیے، اس نے اس کے بال چھوڑ کر ، چہرے پر زور دار طمانچہ مارا اور عنقا کے مارے گئے تھپڑ کا بدلہ لیتے ہوئے سختی سے خبردار کیا۔۔


"اب مجھے اس نام سے پکارا تو واقعی جنگلی بن کر دکھاؤں گا، اور یہ جو تم تھوڑی بہت سلامت نظر آ رہی ہو ناں، یہ بھی نہیں آؤ گی۔۔!! اور دوسری بات۔۔ میں کوئی تمہارا عاشق یا بوائے فرینڈ نہیں جو یہ "تم،تم" کہہ کر بدتمیزی سے مخاطب کرتی ہو۔۔ آئیندہ اپنے لیے، تمہارے منہ سے، یہ طرزِ تخاطب دوبارہ نہ سنوں۔۔!! تم بھی مجھے اریزے کی طرح۔۔"آپ" کہہ کر مخاطب کیا کرو۔۔!! میری باتیں اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو۔۔۔!!"

وہ، اسے اپنی قہر آلود نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔


عدیل کی حرکات اور اس کے الفاظ نے ایک بار پھر عنقا کو رُلایا،


"تم جنگلی ہو۔۔ اور میں تمہیں جنگلی ہی کہوں گی۔۔!! چاہے۔۔ جو مرضی کرلو۔۔ اور تم بھی یہ بات اپنے ذہن میں رکھ لو کہ میں اریزے نہیں ہوں۔۔ میں تمہیں "تم" ہی کہوں گی۔۔ اریزے تم سے محبت کرتی تھی اور تمہاری عزت بھی۔۔!! جبکہ میں تم سے نفرت کرتی ہوں۔۔ اور عزت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔!!" عنقا ڈھیٹ بنی رہی۔


عدیل نے اُس کی ہٹ دھرمی پر برہمی سے گھورا اور غصے سے "میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ" کہتا اپنی واڈروب تک گیا، اور رات کے پہننے کے کپڑے نکالنے لگا،


"اور تم میری طرف سے بڑی والی بھاڑ میں جاؤ۔۔" عنقا بھی، اسی کا لہجہ، اسے واپس لوٹاتی، پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔


××××


عنقا، کمرے سے باہر نکل کر دوبارہ کچن کی طرف گئی، اتنی لڑائیوں کے بعد اس کی بھوک مزید بڑھ چکی تھی۔


کچن تک جاتے ہوئے، اس کی نظر، لاؤنج میں بیٹھے عادل پر پڑی تھی جسے وہ بڑی شان سے نظر انداز کر گئی، " تم نے بھی سارا الزام مجھ پر ڈال دیا۔۔ہو تو تم بھی اپنے بھائی جیسے۔۔!!" اس نے دُکھ سے سوچا اور پھر، اس کے متعلق مزید کچھ بھی سوچنے سے خود کو باز رکھتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔


اس کا دل، عادل سے بھی کھٹا ہو چکا تھا۔


ظلم صرف اس کے ساتھ تو نہیں ہوا تھا۔۔ عنقا بھی تو مفت کی سزا بھگت رہی تھی۔۔ پھر وہ کیسے سارا الزام اس پر دھر سکتا تھا۔۔ کیسے اس سے شکوہ کر سکتا تھا کہ اُس نے گھٹیا حرکت کی۔۔!!

وہ تو مجبور تھی، اپنے ماں باپ کے آگے، وہ مجبور تھی۔۔عدیل کی زندگی کے آگے۔۔!! اگر وہ نہ مانتی تو عدیل پھر سے خودکشی کی کوشش کر سکتا تھا۔۔ اور ایسے میں، اُسے اپنا آپ ، عدیل کا قاتل لگتا۔۔ وہ کیسے اس گلٹ کے ساتھ زندہ رہتی کہ ایک اور شخص اس کی وجہ سے مرا ہے۔۔!! اریزے والا دکھ کم تھا جو وہ ایک اور تکلیف بھی ، اپنے حصے میں لے لیتی۔۔!!


××××


عنقا، کھانا وانا کھا کر ، برتن سمیٹ کر واپس گئی تو عدیل نے دروازہ اندر سے لاک کر رکھا تھا۔

عنقا نے ، شدت سے تلملائی تھی۔

" اللّٰه کرے۔۔ تمہیں ساری رات نیند نہ آئے، اللّٰه تم سچ مُچ میں بھاڑ میں جاؤ۔۔!!" وہ، اس کو، اونچی آواز میں کوستی ہوئی وہاں سے چلی گئی اور جا کر گیسٹ روم میں سوئی۔


عدیل نہ اس کی بددعائیں ، ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے کی کوشش کی، پر نکال نہ سکا۔


اسے۔۔ عجیب سی بے چینی کا احساس ستانے لگا تھا۔۔ جسے وہ کوئی نام نہ دے پایا، رات کے دو بج چکے تھے اور وہ کروٹوں پر کروٹیں بدلے جا رہا تھا۔ نیند تو جیسے آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔


قرآن میں اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے: "جو لوگ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تہمت لگا کر تکلیف پہنچاتے ہیں، تو یقیناً وہ لوگ بڑے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔"

(سورۃ الاحزاب:58)


عدیل نے بھی تو مفت میں عنقا پر تہمت لگائی تھی کہ اس نے، اریزے کو مارا ہے۔۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔۔ اور یہ بات وہ خود بھی اچھے سے جانتا تھا۔۔لیکن پھر بھی، اس نے ایسا کیا۔۔ پھر بھی یہ سارا ڈرامہ رچایا۔۔ پھر بھی وہ اس کو اذیت پہنچا رہا تھا۔۔ اور بہت گناہوں کا بہت سارا بوجھ، اپنی روح پر لاد رہا تھا۔


اپنی من مانی کرکے۔۔ اس کی انا کو قرار آیا تھا۔۔ مگر یہ کیا۔۔ انا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کے چکر میں، اس نے جو، اپنے ضمیر کو بے ہوشی کی نیند سلایا تھا۔۔وہ ضمیر اب جاگنے لگا تھا۔


رات کی تاریکی میں۔۔۔ اس کے ذہن پر چھائے اندھیرے، ختم ہونے لگے تھے۔۔ ابھی تو ایک دن بھی نہیں گزرا تھا عنقا پر ظلم کیے۔۔ اور ابھی سے وہ بے چین ہوگیا تھا۔۔ ابھی سے ، اس کی عقل پر پڑا پردہ، اترنے لگا تھا۔

خیر ابھی تو اس کے اندر کی یہ تبدیلیاں رونما ہونے کے اولین مراحل میں تھیں۔۔ ابھی رونما ہوئی نہیں تھیں۔۔ سو۔۔ ذرا سا وقت تو لگنا تھا۔۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے میں۔۔ذرا سا وقت تو لگنا تھا سنبھلنے میں۔۔!!


وہ کچھ دیر مزید، اس نا سمجھ میں آنے والی بے چینی کا شکار رہا اور پھر اللّٰه اللّٰه کرکے، تین بجے کے بعد، نیند اس پر مہربان ہوئی اور اس کی بے چینی میں کمی واقع ہوئی۔

وہ کچھ دیر مزید، اس نا سمجھ میں آنے والی بے چینی کا شکار رہا اور پھر اللّٰه اللّٰه کرکے، تین بجے کے بعد، نیند اس پر مہربان ہوئی اور اس کی بے چینی میں کمی واقع ہوئی۔


وہ دو گھنٹے ہی سویا تھا کہ پھر اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا اور وہ جاگ گیا۔ اسے بلا وجہ ہی ہلکے ہلکے پسینے آنے لگے، اس کا حلق بھی قدرے خشک ہوا تھا، سو وہ اٹھا اور کمرے کا لاک کھول کر پانی پینے کے لیے کچن تک گیا، پھر اسے یاد آیا کہ اس نے تو رات کو عنقا کو کمرے میں آنے ہی نہیں دیا تھا۔


اس نے پانی پینے کے بعد اِدھر اُدھر نظریں دوڑا کر دیکھا تو وہ کہیں نہیں تھی، سامنے عادل کا کمرہ تھا،اس سے پہلے وہ اس پر کسی قسم کا شک کرتا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی، اسے عنقا کا مارا گیا تھپڑ یاد آیا تھا، وہ حیران تھا کہ یہ یاد آنے پر وہ مسکرایا کیسے۔۔!!


بہرکیف، اس کے قدم گھر کے گیسٹ روم کی طرف مائل ہوئے، اسے یقین تھا کہ وہ وہیں ہو گی، وہ گیسٹ روم تک گیا تو وہاں کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا اور وہ اندر شہزادیوں کی سی بے فکری لیے، بڑے مزے سے گہری نیند میں غرق تھی۔


عدیل کو اس کی پرسکون نیند پر بڑا رشک آیا، اس کا دل کیا کہ اسے جگا کر اس کی نیند کا بیڑہ غرق کردے، اس کا سکون تہس نہس کر دے لیکن اگلے لمحے ، اس نے اپنی یہ جارحانہ سوچ جھٹک کر ، اس معصوم پر مہربانی کی اور خود ، بیڈ کی بائیں جانب پڑے صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا،اس نے اپنی پلکیں، ذرا سی جھکا لی تھیں اور پھر نجانے کیوں۔۔!! وہ وہاں بیٹھا، بے مقصد ہی ، اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے عنقا کا معصوم اور طمانیت سے بھر پور چہرہ دیکھتا گیا۔


اس کے بعد چند منٹوں میں ، ایسی بے آرام سی حالت میں بیٹھا ہونے کے باوجود بھی وہ سو چکا تھا، کچھ دیر بعد، فجر کی اذان کی آواز سے اس کی دوبارہ آنکھ کھلی، وہ نماز پڑھنے کے خیال سے وہاں سے اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا۔


نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد وہ خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا، اریزے کے جانے کے بعد یہ اس کی پہلی نماز تھی اور اس کے آنے سے پہلے بھی وہ بہت بے قاعدگی سے ، کبھی کبھی ہی پڑھا کرتا تھا۔


اریزے جتنی بھی ماڈرن سہی لیکن نماز کی پابند ضرور تھی اور اپنی موجودگی میں عدیل کو بھی پابند بنا چکی تھی۔

یقیناً ، وہ عدیل کی زندگی میں ایک حسین اضافہ تھی۔

×××××××


عنقا کی صبح جس وقت آنکھ کھلی، تب تک عادل اپنی یونیورسٹی اور عدیل اپنے آفس جا چکا تھا، مصطفیٰ صاحب کو آج اپنا منتھلی چیک اپ کرانے ڈاکٹر کے ہاں جانا تھا ، اس لیے وہ آج آفس نہیں گئے اور فوزیہ بیگم کی بھی آج کوئی خاص مصروفیت نہ تھی اس لیے وہ بھی آج گھر پر ہی موجود تھیں۔


عنقا کو حیرت تھی کہ اس جنونی پلس جنگلی آدمی نے، دوبارا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں کی، وہ اٹھتے ہی اپنے کمرے میں واپس آئی، اس نے واڈروب کھول کر، عدیل کے کپڑوں کے ساتھ، ہینگرز میں لٹکے، نفاست سے استری کیے گئے، اریزے کے نئے نکور کپڑوں میں سے رائل بلو اور وائٹ کلر کے کامبینیش والا، ایک ڈریس نکالا اور فریش ہونے کے لیے چلی گئی۔

×××××


وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی، اریزے کا سوٹ، اس پر کافی جب رہا تھا، اسے اس لمحے شدت سے اریزے کی یاد آئی، اسے رونا بھی آیا کہ کیسے وہ کچھ دن پہلے تک، ہر اس چیز کی مالکن تھی جس کا حق، آج ، قسمت نے بڑے وثوق سے، عنقا کے سپرد کیا تھا، اور اسے نہ چاہتے ہوئے بھی، اپنی بہن کی چھوڑی گئی ہر چیز پر ، زبردستی، اپنا قبضہ لینا پڑا۔۔۔ وہ حقیقتاً، اندر تک دکھی تھی۔


بہر کیف، اس نے بہت کوشش کر کے، بڑی مشکل سے، اپنے تواتر سے بہتے آنسوؤں کو، مزید بہنے سے روکا اور پھر سے منہ دھو کر آئی، اس کے بعد اس نے اپنے الجھے ہوئے خراب حال بالوں کو سنوار کر، سلیقے سے ، پونی ٹیل میں سیٹ کیا اور میک اپ کے نام پر، سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر ترتیب سے رکھی گئی لپ اسٹکس میں سے، لائٹ پنکِش، کیرٹ کلر کی لپ اسٹک لے کر لگائی۔


×××××


اب، تقریباً، صبح کے دس بجے کا وقت تھا، اس وقت ملازمہ بھی گھر پر تھی ، اس لیے عنقا نے اسے اپنے ناشتے کا کہا اور خود ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی انتظار کرنے لگی۔


اتنے میں مسٹر اینڈ مسز مصطفیٰ بھی وہاں تشریف لے آئے، شاید ان دونوں نے بھی ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تھا۔ ان دونوں کے آنے پر عنقا نے بڑے احترام اور عزت سے، لہجے کو بالکل نارمل رکھتے ہوئے، سلام ہی کیا تھا کہ ملازمہ بھی آن بھی پہنچی، اس نے ناشتہ سرو کیا اور چلی گئی، عنقا بھی اپنے سلام کا جواب پا کر ، کھانے میں مشغول ہوگئی، جبکہ وہ دونوں، پیچھے متعجب تھے کہ یہ اتنی نارمل کیسے ہے۔۔!!


ایک ان کا بیٹا تھا کہ بات بات پھر طوفان کھڑا کر دیتا تھا اور یہ تھی کہ جس پر گزرے واقعات کی تکلیفوں کی کوئی چھاپ تک نظر نہ آئی، ان دونوں کے عدیل کے ہر سلوک کی مکمل سُن گن تھی، اب تو اپنے آپ میں ہی حد درجہ شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔


جبکہ عنقا نے اپنے کسی عمل سے، ان کو شرمندہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، کیوں کہ ہر دفعہ کسی کی زیادتیوں کا بدلہ جوابی کارروائی سے نہیں لیا جاتا ، کبھی کبھار ، اپنے حوصلے اور ظرف کی طاقت سے بھی اگلے کو شکست دی جا سکتی ہے، اور وہ، اس وقت غیر دانستہ طور پر ، ان کو اسی طرح شکست دے چکی تھی۔


اس کے علاؤہ، اس کا قسمت اور اس کے ہر کھیل پر بھرپور اعتقاد تھا، اس لیے وہ اپنے ساتھ ہوئے سانحے، اپنے ساتھ ہوئی ٹریجڈی پر، اللّٰه سے، جو تھوڑا سا شکوہ کرنے کا اردہ رکھتی تھی، اس نے وہ بھی ترک کر دیا۔


وہ بہت صبر کے ساتھ، اللّٰه سے گلے کرنے کی تمام نیتیں بھی بدل چکی تھی، اس نے اپنی قسمت سے سمجھوتا کر لیا تھا، اس نے ہر چیز کو قبول کر لیا تھا۔۔ شاید اپنے رشتے کو بھی۔۔!! شاید عدیل کو بھی۔۔!!


××××


ناشتے کے بعد ، اس نے عدیل کے کمرے سے اپنے لیے کچھ چیزیں اکھٹی کیں اور گھر کے لاکڈ کمروں میں سے ایک کمرہ کھلوا کر اسے اپنے لیے سیٹ کروایا۔


اب اس کی روزانہ کی روٹین یہ تھی کہ وہ عدیل کی موجودگی میں خود کو کمرے میں بند کر لیتی اور اس کے جانے بعد کچھ دیر گھر کے لان میں واک کرتی یا پھر اپنی امی سے فون پر باتیں کر لیتی تھی۔۔ اس کا ظرف تھا کہ اس نے اپنے والدین سے بھی کوئی گلہ نہیں کیا تھا۔


عنقا کو ایک بات پر شدید تعجب تھا کہ عدیل نے اُس کے ، اس اقدام پر کیوں کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کر رہا۔۔؟؟ باقی گھر والے تو اس کے لیے، تھے ہی گونگے بہرے۔۔!! اور پتہ نہیں کیسے۔۔!! عادل میں سے بھی اس کا سارا انٹرسٹ خود بخود ختم ہوچکا تھا۔۔!!


تقریباً دو ہفتے گزرنے کو تھے اور عدیل کی طرف سے خاموشی برقرار تھی، نہ عنقا کی روٹین تبدیل ہوئی، نہ عدیل کا سکوت ٹوٹا۔۔!! اس کے پہلے دن والی حرکات دیکھ کر تو عنقا کو ایسا لگا تو نہیں تھا کہ وہ اسے ، اس طرح سکون سے جینے دے گا۔۔۔ اس لیے ، اس کا بے ضرر برتاؤ، عنقا کو شدید حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔۔!!


عدیل کو خود بھی اپنا یہ رویہ، بالکل سمجھ نہ آیا۔۔!! وہ تو خود بھی اس کو ، مستقل اذیتیں دینے کے ارادے سے بیاہ کر لایا تھا۔۔!! پھر وہ کیوں اسے، اس کے حال پر چھوڑ کر سکون سے جینے دے رہا تھا۔۔ وہ کیوں اسے کوئی تکلیف نہیں دے پا رہا تھا۔۔!!


شاید وہ سمجھ چکا تھا۔۔ کہ اریزے کی موت میں عنقا کا کوئی ہاتھ نہیں۔۔ شاید اس نے یقین کر لیا تھا۔۔ کہ اس کی موت حادثاتی تھی۔۔ جس میں کسی اور کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔۔!!


اور اب تو اسے اپنی حرکت پر بھی کچھ کچھ افسوس ہونے لگا تھا۔۔ عادل کی شکل دیکھ کر اسے احساس ہوتا تھا۔۔ کہ اس نے، اس کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔۔!!

اور اب تو اسے اپنی حرکت پر بھی کچھ کچھ افسوس ہونے لگا تھا۔۔ عادل کی شکل دیکھ کر اسے احساس ہوتا تھا۔۔ کہ اس نے، اس کے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔۔!!


لیکن اس افسوس کی شدت اتنی تیز نہ تھی کہ وہ مکمل طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتا یا پھر معافی مانگ کر سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ ابھی تو وہ پچھتاوے کے ان مراحل میں تھا جہاں صحیح اور غلط ، اُس پر واضح ہونے لگے تھے۔


××××


دو ہفتے اطمینان سے ضائع کرنے کے بعد عنقا کو یونیورسٹی کی یاد آئی۔۔اس لیے اس نے ، کل صبح سے، یونیورسٹی جانے کا ارادہ کیا، اس مقصد کے لیے اسے اپنی کتابیں اور دوسری ضروری چیزیں درکار تھیں ، جو اس کی امی کے گھر پر تھیں۔


شام کا وقت تھا۔۔ اس وقت سب گھر پر ہی تھے۔۔ لیکن اسے پریشانی ہورہی تھی کہ وہ کس کو امی کے گھر لے جانے کا بولے۔۔!! اس نے سوچا کہ عادل کو کہہ دے۔۔!! لیکن پھر اس نے، اس گھر میں ، اپنی بدلی ہوئی حیثیت کا خیال کرتے ہوئے، اپنی سوچ کو جھٹکا۔۔!!


اب اس نے سوچا کہ کیوں نہ عدیل کے سر یہ ذمہ داری ڈالی جائے۔۔!! لیکن مسئلہ یہ تھا کہ آخر وہ اس کو کیسے جا کر کہے۔۔!! ایک تو وہ ویسے ہی عنقا کو بہت برا لگتا تھا۔۔!! بھلے اس نے، اسے ایکسیپٹ کر لیا تھا ، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ وہ اس کو پسند ہی کرنے لگ جائے۔۔!! بلکہ وہ تو اس سے نفرت کرتی تھی۔۔!! شدید نفرت۔۔!! اب قبول کرنا اور پسند کرنا تو دو مختلف چیزیں ہیں ناں۔۔!!


بھلے ہی اس کا دل ، عادل سے اچاٹ ہو چکا تھا۔۔!! اور وہ اب اس کے متعلق کچھ خاص محسوس نہیں کر پاتی تھی۔۔ لیکن جو کچھ عدیل نے اس کے ساتھ کیا تھا۔۔ وہ اپنی جگہ قابلِ مذمت تھا۔۔ جس قدر گری ہوئی حرکت ، اس نے انجام دی تھی۔۔ اس کے صلے میں وہ اس سے نفرت ہی کر سکتی تھی۔۔!!


کافی سوچنے کے بعد ، اسے واحد حل یہی نظر آیا کہ وہ عدیل کو جا کر بولے۔۔!!


اسے معلوم تھا کہ وہ اس وقت اپنے روم میں ہی موجود ہوگا۔۔ اس لیے اِدھر اُدھر جانے کی بجائے، وہ ڈائریکٹ، اس کے کمرے میں گئی، وہاں داخل ہونے سے پہلے اس نے ناک کرنا ضروری سمجھا۔۔!!


وہ اپنا لیپ ٹاپ، گود میں رکھے۔۔ شاید آفس کا کوئی کام کرنے میں مصروف تھا، ڈارک براؤن کلر کی کاٹن کی شلوار قمیض، اس پر خاصی جچ رہی تھی، لیپ ٹاپ کے کی پیڈ پر تیزی سے حرکت کرتی انگلیاں، عنقا کی آمد پر رکی تھیں۔


وہ منہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔ یقیناً وہ حیران تھا۔۔ اور عنقا کا ایسے اچانک ، اس کے سامنے آنا۔۔ اسے تعجب میں مبتلا کر گیا۔۔ کیوں اس کی آمد بالکل غیر متوقع تھی۔


"مجھے امی کے گھر جانا ہے۔۔!!" عنقا نے کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے تحکم بھرے لہجے میں کہا۔


عدیل کو ، اس کا لہجہ بہت برا لگا تھا۔۔ وہ آرام سے کہتی تو شاید وہ اٹھ بھی جاتا۔۔ لیکن ، بے وجہ ۔۔ اتنا سخت لہجہ ۔۔!! عدیل نہیں برداشت کر پاتا تھا۔


"میں بزی ہوں۔۔ خود چلی جاؤ۔۔۔یا کسی اور کو لے جاؤ" اس نے عنقا کی طرف دیکھے بغیر، لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظر جماتے ہوئے جواب دیا۔


اس کے لب و لہجے میں ، طرزِ تکلم میں، بدلاؤ سا تھا۔وہ پہلے کی طرح جارحانہ اور بدتمیزی سے معمور نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو پورا کا پورا بدلا ہوا سا لگ رہا تھا۔۔ جیسے کسی گہرے روگ کی زد میں ہو۔


اس کے لہجے میں بھی ٹھہراؤ سا تھا۔۔ عنقا کو جواب دیتے وقت ناگواری کا اظہار اپنی جگہ۔۔ لیکن لہجے کا ٹھہراؤ بھی اپنی جگہ قائم تھا۔


اور شکل صورت تو صدیوں کے بیمار جیسی لگ رہی تھی۔۔ وہ اریزے کے لیے، اندر ہی اندر گُھلنے لگا تھا۔۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے کچھ عرصے میں وہ بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔


"مسٹر۔۔!! مجھے کسی اور کے ساتھ نہیں۔۔ تمہارے ساتھ جانا ہے۔۔!!" عنقا کی سابقہ ٹون اب بھی برقرار تھی۔


"اور میں مصروف ہوں۔۔!!"


"اچھا۔۔!! اگر میں آج گئی تو دوبارا نہیں آؤں گی۔۔!!"


"مت آؤ۔۔ مجھے کیا۔۔، ویسے بھی میں نے سوچا تھا کہ تم سے کہوں، واپس چلی جاؤ۔۔!! اچھا ہے خود جا رہی ہو۔۔!!" انداز ہنوز لاپرواہ اور مصروف تھا۔۔


عنقا اس کے کہنے پر تلملا کر رہ گئی، اس نے ، اس ہے کمرے سے جاتے ہی سامان پیک کیا اور اوبر منگوا کر گھر کو روانہ ہوئی۔


اسے رہ رہ کر عدیل پر غصہ آ رہا تھا۔۔ "اتنا بےزار تھا۔۔ تو لایا کیوں۔۔؟؟ چھوڑنا ہی تھا ، کوئی ذمہ داری نہیں اٹھانی تھی تو پھر کیوں شادی کی۔۔!!"

اس نے بگڑ کر سوچا۔۔ اور پھر اگلے لمحے اپنی استفساری سوچوں کا جواب بھی دیا۔۔


"اففف۔۔!! میں بھی کیسے جذباتی ہو کر سوچ رہی ہوں۔۔ انتقام لینے کے لیے شادی کی تھی اس نے۔۔!! کوئی لو میرج تھوڑی ہے۔۔ جو میری بات مانے گا یا ذمہ داری اٹھائے گا۔۔!!"


"اگر انتقام کے لیے شادی کی تھی۔۔ تو کم سے کم وہ ہی لے لیتا۔۔!! ایسے جانے کا کیوں کہہ رہا ہے۔۔!!" اس نے ایک نئے پہلو پر غور کیا۔۔ عنقا کو۔۔ اس کی بات کچھ ہضم نہیں ہوئی تھی۔۔


"اوہ ہو۔۔ اچھا ہے کہ وہ کچھ نہیں کہہ رہا۔۔۔ میں بھی پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی ہوں۔۔ میری طرف سے تو وہ بھاڑ میں جائے۔۔ کیا پتہ عقل آ گئی ہو گی اس کو۔۔!! جنگلی کہیں گا۔۔!!" اس نے سوچا۔۔

"نہیں نہیں۔۔ اب تو اس نے کوئی جنگلیوں والی حرکت نہیں کی۔۔!!" اس نے اپنے خیال کہ تصیح کی۔


××××


وہ اپنے گھر پہنچ چکی تھی اور بہت خوش تھی۔۔ اس کی امی بھی اس کے آنے پر بہت خوش ہوئیں۔ اور اس کے مستقل واپس آنے کا سن کر ، ان کو عجیب فکر لاحق ہوئی۔


وہ اپنے گھر پہنچ چکی تھی اور بہت خوش تھی۔۔ اس کی امی بھی اس کے آنے پر بہت خوش ہوئیں۔ اور اس کے مستقل واپس آنے کا سن کر ، ان کو عجیب فکر لاحق ہوئی۔


بے شک جیسے بھی حالات میں، اس کی شادی ہوئی ہو۔۔ اور جس کسی سے بھی ہوئی ہو۔۔ لیکن ایسے مستقل طور پر گھر آ کر بیٹھنا، واقعی پریشان کن تھا۔ لیکن جو بھی ہو۔۔ وہ اب اپنی بیٹی کو کسی چیز کے فورس نہیں کرنا چاہتی تھیں ، سلیمان صاحب کا بھی یہی کہنا تھا کہ جب تک وہ چاہے، یہاں رہ سکتی ہے۔

۔ل


×××××

صبح اس کے ابو اسے یونیورسٹی چھوڑ کر آئے اور باقی واپسی کے لیے ، یہ اپنے وین والے کو کال کر کے بتا چکی تھی۔ یونیورسٹی میں سب پہلے جیسا تھا، وہاں کے ہنگامے، چہل پہل، رونق ، کچھ نہیں بدلا تھا سوائے اس کے، عادل کے اور غانیہ کے بھی۔


اس سارے عرصے میں اس کا غانیہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اب وہ یونیورسٹی آئی تو غانیہ سے ملاقات ہوئی۔ اسے حیرت تھی کہ غانیہ نے ، گزرے دنوں کی بابت، اس سے کوئی سوال نہ کیا۔ بلکہ وہ تو الٹا۔۔ اسے خود سے ذرا کھینچی کھینچی نظر آئی، اس کے علاؤہ اُسے ایک اور چیز بھی دیکھنے کو ملی کہ غانیہ اور عادل کی آپس میں کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہو چکی تھی، بالکل ویسی جیسے پہلے اس کی اور عادل کی تھی۔


یہ دیکھ کر، اس کے دل میں پھانس سی چُبھی، آدھا ادھورا سا آنسو بھی آنکھ سے بہہ نکلا۔۔ لیکن پھر ، اس نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے خود کو پرسکون کیا اور سوچا۔۔ "کچھ غلط نہیں کر رہا وہ، پچھلی باتیں بھلا کر زندگی میں آگے بڑھنے کا حق اسے بھی ہے۔۔"


اس نے ہر چیز، بہت کشادہ دلی سے قبول کی۔ اور پھر اپنے جھمیلوں میں مصروف ہو گئی، دن رات ، اپنی رفتار سے گزر رہے تھے، وہ دن بہ دن عجیب سی ہوتی جارہی تھی۔۔ خود کو کافی اکیلا اکیلا سا محسوس کرنے لگی تھی، طبیعت میں بھی عجیب چڑچڑا پن در آیا تھا۔


دن بھر پڑھنے لکھنے کے علاؤہ، اس کی کوئی دوسری مصروفیت بھی نہیں تھی۔ اس لیے جس وقت وہ فارغ ہوتی، خوب بور ہوتی تھی۔اس کی امی بھی اب چاہتی تھیں کہ وہ واپس چلی جائے، انہوں نے ایک دو دفع اس سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن یہ اس موضوع پر بات کرنے سے اتنا چڑ جاتی کہ اس کی امی کی پھر دوبارہ کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔


وہاں اُن موصوف کا بھی حال کچھ ایسا تھا، عدیل بھی عجیب چڑچڑا اور بدمزاج ہوگیا تھا، خیر یہ سب تو وہ پہلے بھی تھا لیکن اب اسکی بد مزاجی کی شدت پہلے سے بڑھ کر تھی، عموماً وہ خاموش اور اکیلا رہتا تھا، کسی سے بات بھی نہیں کرتا تھا، لیکن جب کوئی اس سے بات کرنے آتا تو وہ فضول میں ہی کڑوے کسیلے، الٹے سیدھے جواب دیتا، اور اس انداز میں دیتا کہ اگلا سلگ کر رہ جائے۔


اور ساتھ ہی وہ کافی کمزور اور بیمار بیمار سا لگنے لگا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے پیرینٹس کو خاصی تشویش ہوئی، وہ جو اس کے معاملات سے لاتعلق ہوئے بیٹھے تھے، انہیں بھی اپنی اس کوتاہی کا احساس ہوا۔


وہ جس کنڈیشن میں تھا، اسے توجہ کی سخت ضرورت تھی، پہلے ہی سب کچھ عدیل کی مرضی پر چھوڑ کر وہ لوگ کافی غلط فیصلے کر چکے تھے، ان کا گھر تھا کہ مردہ خانہ جیسا لگنے لگا تھا ، ہر جگہ سکوت، سرد پن اور خاموشی تھی، کوئی کسی سے بات نہیں کرتا تھا ، عادل تو گھر ہی بہت کم آتا تھا، اب اس کے مام ڈیڈ نے، ہمت کر کے، ان دونوں سے کئی بار بات کرنے کی بھی کوشش کی، وہ ان دونوں کو اپنی توجہ دینے کی کوشش کرتے، لیکن پھر بھی، وہی حال تھا۔ وہی خاموشی قائم تھی۔


فوزیہ بیگم کو ، اتنے دنوں سے عنقا کا گھر سے غائب رہنا بھی کھلنے لگا تھا۔ سو وہ عدیل کے پاس گئیں، وہ حسب توقع اپنے روم میں تھا۔ "مام آپ۔۔!! مجھے بلا لیا ہوتا۔۔" اس نے اپنی عادت سے بڑھ کر تمیز سے بات کی۔


"نہیں بیٹا۔۔ کام مجھے تھا تو اس لیے میرا آنا بنتا تھا۔۔" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔


"کام؟ مجھ سے۔۔؟؟" اس نے تعجب سے پوچھا۔۔ کیوں کہ عام طور پر ، اس کی مام کو اس سے کوئی کام نہیں پڑتا تھا۔


"ہاں۔۔ تم سے کام ہے۔۔!! وہ میں کہنے آئی تھی کہ عنقا کو واپس لے آؤ، کافی دن ہو چکے ہیں اسے گئے ہوئے، تمہارے ڈیڈ بھی اسے یاد کر رہے تھے۔۔'' ان کے لہجے میں مان بھرا تحکم تھا۔


"مام۔۔!! آپ کو اس کی یاد کیسے آگئی۔۔؟؟" اس نے بھی مسکرا کر، ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔


"مجھے نہیں پتہ کہ کیسے آئی ہے۔۔!! میں بس کہنے آئی ہوں کہ اس کو لے آؤ اور لانے کے بعد اس کے ساتھ کوئی بدتمیزی نہیں کرنا۔۔!!" انہوں نے منت کی۔


"میں نہیں لا رہا ۔۔ اپنی مرضی سے گئی تھی وہ، جب آنا ہوگا آجائے گی۔۔" اس نے دو ٹوک جواب دیا۔


"بیٹا ایسے نہیں کرتے۔۔ تم نے گھر دیکھا ہے۔۔ کیسا خالی خالی سا ہو گیا ، اتنا عرصہ ہوگیا ہے۔۔ گھر کی رونق ہی ختم ہو کر رہ گئی، بس اب بہت ہوگیا، ختم کرو یہ سب۔۔ انسانوں کی طرح رہو۔۔" انہوں نے تھوڑی تلخی سے کہا۔


"بس مام۔۔ میں اسے واپس نہیں لا سکتا۔۔" اس کا لہجہ بھی اٹل تھا۔

"بس مام۔۔ میں اسے واپس نہیں لا سکتا۔۔" اس کا لہجہ بھی اٹل تھا۔


"تو پھر اس کو طلاق دے دو۔۔!! کوئی فیصلہ لو۔۔!! یوں فضول میں اس بچی کی زندگی کی خراب مت کرو۔۔!! تم نے بہت پاگل پن دکھایا ہے اب تک، اور میں نے برداشت کیا۔۔!! پر اب نہیں بیٹا۔۔!!" اس مام سنجیدگی سے بولیں۔


" لیکن۔۔ مام۔۔!! وہ۔۔" ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ اس کی مام نے بات کاٹی۔


"It's over now!! I can't listen your nonsense excuses anymore!! Please!! My son!! Be serious"

(بہت ہوگیا!! اب میں مزید تمہارے فضول بہانے نہیں سنوں گی۔۔!! خدارا۔۔!! سنجیدہ ہو جاؤ۔۔!!میرے بچے۔۔!!)

انہوں نے دو ٹوک کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔


عدیل نے زندگی میں پہلی دفع ، اپنی مام کو اتنا سنجیدہ دیکھا تھا۔۔!! اور وہ کیا کہہ گئی تھیں۔۔ "اس کو طلاق دے دو۔۔" "کیا میں یہ کر سکتا ہوں۔۔؟؟" اس نے خود سے سوال کیا۔۔ پر کوئی جواب نہ پا سکا۔


××××


واقعی سب کچھ بہت بگڑ چکا تھا، اتنا کہ اس کا ٹھیک ہونا اب بے حد مشکل تھا۔ اب تو عدیل نے بھی یہ بگاڑ محسوس کرنے لگا تھا۔۔ اب تو وہ بھی چاہتا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے۔


وہ عادل کو دیکھتا ، تو اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آتا کہ آخر وہ کیسے اتنا خودغرض بن گیا۔۔ اس نے ایک آدھی مرتبہ سوچا کہ عنقا کو طلاق دے ہی دے، اور عادل سے بھی معافی مانگ لے، ان دونوں کو پھر سے ایک کردے لیکن طلاق والی سوچ پر تو جیسے وہ مچل کر رہ جاتا، دماغ تھا کہ خاموشی اختیار کرلیتا، اور دل۔۔ اس کی کوئی آواز اب تک اس کے شعور تک نہیں پہنچی تھی۔


اس کے علاؤہ عادل سے معافی مانگنا۔۔ اس کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔ آخر کیا منہ لے کر جاتا۔۔ اور اریزے۔۔ وہ بھی تو اب تک اس کے دل و دماغ پر قابض تھی۔ اب تک اس کی جدائی، اسے اندر سے گھائل کرتی تھی، تڑپاتی تھی، درد دیتی تھی، وہ بے حد مشکل اور پریشانی سے گزر رہا تھا۔۔ وہ اذیت کا شکار تھا، اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا تھا، اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔۔ وہ ہزاروں مشکلات کے بھنور میں پھنسا، زندگی سے دور ہوتا جا رہا تھا۔۔ وہ دن بہ دن گَھٹتا جا رہا تھا، اس کی حالت ایسی تھی کہ اسے دیکھ کر ، اس کی مام کو خوف آتا۔۔ وہ اپنی ہر مشکل ، ہر الجھن میں بالکل اکیلا تھا۔


اس وقت اسے ضرورت تھی کسی ایسے شخص کی، جو اسے سمجھے، جو اسے ، اس کی ہر مصیبت سے رہائی دلا سکے، کوئی ایسا جو اریزے کی کمی پوری کرے اور یقیناً عنقا کے علاؤہ ایسا کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور یہ بات اس بے خبر انسان کو معلوم نہ تھی۔


××××


عنقا کو گھر آئے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔۔ اب تو اس کے پیرینٹس نے بھی اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔۔ وہ اسے واپس بھیجنا چاہتے تھے۔۔ ظاہر ہے۔۔ وہ بھی کب تک، اسے ایسے گھر میں بٹھا سکتے تھے۔۔!!


لیکن عنقا سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔ وہ تو عدیل کا نام سنتے ہی تپ جاتی تھی۔


×××××


عدیل نے بہت سوچ بچار کرنے کے بعد عادل سے، بالآخر معافی مانگنے کی ٹھانی۔ اس نے دو دفع اس سے بات کرنے کی کوشش کی پر وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا۔۔ عدیل کو خود میں کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ اپنے کمرے میں بیٹھا۔۔ ہاتھوں میں سر گیا، رو رہا تھا۔


اس کا احساس جرم اسے رلا رہا تھا۔۔ وہ خود کو بہت بے قرار محسوس کر رہا تھا۔۔ اسے ہر حال میں اپنے چھوٹے بھائی سے معذرت کرنی تھی۔ پر کیسے۔۔؟؟ وہ تو اسے سننے کو تیار ہی نہ تھا۔ وہ تو اس سے کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ بھی تو حق پر تھا۔۔ بھلا ایسے کیسے عدیل کو سنتا۔۔ اس کی بات کو اہمیت دیتا۔۔ اس نے جو ظلم کیا تھا۔۔ جو گھٹیا پن دکھایا تھا۔۔ اس کے بعد تو اس سے کوئی تعلق جوڑے رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔ پھر وہ کیسے اس کی سن لیتا۔۔!!


×××××


عدیل۔۔ سے اب اپنا اضطراب سنھبالا نہیں جا رہا تھا۔۔ وہ انا اور خود پرستی کا مارا شخص، بالآخر اپنی انا قربان کرنے پر آمادہ ہوا۔۔ اس نے سوچا کہ آج چاہے جو بھی ہو۔۔ وہ اس سے بات کر کے ہی دم لے گا، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر کے سکون کا سانس لے گا۔

×××


وہ اپنی سوچ کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ عادل کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔ کچھ دیر پہلے اس نے، اسے وہیں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔ اس لیے وہ ڈائریکٹ وہیں گیا۔


توقع کے مطابق عادل وہاں موجود تھا۔۔ وہ ٹاول سے اپنے گیلے ہاتھ منھ خشک کرتا ہوا ، واشروم سے باہر نکل رہا تھا۔۔کہ اس کی نظر عدیل پر پڑی۔۔

"آپ یہاں۔۔؟؟ " وہ بے حد حیرت زدہ ہوتا ، تھوڑی ناگواری سے بولا۔


"ہاں۔۔ وہ مجھے کچھ کہنا تھا۔۔!!" اس نے شرمندہ ہو کر کہا۔


"آپ ایسا کیوں لگا کہ میں آپ کی بات سنوں گا؟؟"اس نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا۔


"مت سنو۔۔!! لیکن میں کہہ کر رہوں گا۔۔!" اس نے اٹل لہجے میں کہا۔


"جب میں سنوں گا ہی نہیں تو آپ کہیں گے کیسے۔۔؟؟" اس نے تمسخر اڑایا۔


اور ساتھ ہی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ سے دھکیل کر ، اسے بدتمیزی کمرے سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔

اور ساتھ ہی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ سے دھکیل کر ، اسے بدتمیزی کمرے سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔


"نکلیں میرے کمرے سے۔۔" وہ بدلحاظ ہوا۔

"عادل۔۔ آپ جیسے گھٹیا اور گندے آدمی کی کوئی بات نہیں سننا پسند نہیں کرتا" اس نے "کمینے" اور "گندے" پر خاصا زور دیتے ہوئے، لہجے میں طنز کی آمیزش کی، اور حقارت سے بولا۔


عدیل کو اس کا ایسا انداز بہت برا لگا، اسے اندازہ ہوا کہ وہ بالکل بھی آرام اور تحمل سے، اسکی بات نہیں سننے والا۔۔اس نے عادل کے لہجے میں موجود حقارت اور طنز کو محسوس کرتے ہوئے، سلگ کر اس پر حملہ کیا۔


عدیل نے لپک کر اس کا گریبان پکڑا۔۔ اور اسے اپنے قابو میں کیا۔


عدیل کے لیے یہ حملہ انتہائی اچانک اور غیر متوقع تھا۔۔ "کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔!!" وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتا ہوا غرایا۔


عدیل نے اس کے گریبان پر اپنی گرفت سخت رکھی۔۔ اور سختی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے بولا۔

" سکون سے بات سنو میری۔۔!! میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔۔!! میں بہت بہت شرمندہ ہوں۔۔ اپنی ہر حرکت پر نادم ہوں۔۔ تم ہو کہ آگے سے فضول باتیں کر رہے ہو۔۔!!"


"واٹ۔۔ نانسینس۔۔!! یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔!! ایسے کون معافی مانگتا ہے۔۔؟؟" عادل نے غصے سے کہا۔


"میں مانگتا ہوں۔۔ اور مانگ رہا ہوں۔۔!! اللّٰه کا واسطہ دیتا ہوں تجھے یار!! معاف کر دے اپنے بھائی کو۔۔!!" وہ اس کا گریبان چھوڑتے ہوئے بے تکلف ہوا، اور اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ، ملتجی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔


اس کا یکدم ایسے بدلنا۔۔ عادل کوحیران کر گیا۔۔ لیکن اس نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے، عدیل کی طرف سے چہرہ پھیرا۔۔ "شاید آپ کو آپ کے جرم کا اندازہ نہیں۔۔!! شاید آپ جانتے نہیں کہ آپ کے اس جرم کی کوئی معافی نہیں۔۔"


"ہر جرم کی معافی ہوتی ہے۔۔!! اور مجھے معافی چاہئے۔۔ ہر حال میں۔۔ چاہئے۔۔ ورنہ میرا احساس جرم میری جان لے لے گا۔۔ میرا دم گھونٹ دے گا۔۔!!" اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگی تھیں۔۔ اور لہجہ تھا کہ بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔


عادل نے ایک خفا سی نظر عدیل پر ڈالی۔۔ اور ماتھے پر تیوریاں چڑھاتا، سختی سے بولا۔۔ "بھائی پلیز۔۔!! مجھے آپ کی مزید کوئی بات نہیں سننی۔۔ اور معافی کی مجھ سے کوئی توقع مت رکھیں۔۔ آپ نے بہت دل دکھایا ہے میرا۔۔ بلکہ صرف آپ نے نہیں ہر کسی نے دکھایا ہے۔۔"


عدیل۔۔ اس کے شکوے پر کٹ کر رہ گیا، اسے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو۔۔ وہ گرتا ہوا اس کے قدموں میں بیٹھا۔۔ آنکھیں تھیں کہ اپنا ضبط کھو چکی تھیں۔۔ آنسو امڈ امڈ کر باہر آنے لگے۔


"میں یہاں تمہارے پیروں میں بیٹھا رہوں گا۔۔ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرتے۔۔اور سنو اگر تم عنقا سے شادی کرنا چاہو تو میں اسے تمہارے لیے طلاق دے دوں گا۔۔ " وہ ٹوٹتی ہوئی آواز لیے ، بے بس ہوتا ہوا بولا۔


عادل نے بدک کر پیچھے ہونا چاہا، پر عدیل سر جھکائے، اس کے پیروں کو تھامے، اسے عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا۔


جو بھی تھا ، عدیل اس سے بڑا تھا۔۔ اور وہ زندگی میں ہمیشہ اس کی دل سے عزت کرتا آیا تھا۔۔ اب اسے کیسے۔۔ اپنے قدموں میں گرا ہوا دیکھتا۔۔سو اس نے آگے بڑھ کر ، اپنے بھائی کو کندھوں سے تھامتے ہوئے، اٹھایا۔۔ اور لمحے کی بھی دیر کئے بغیر اسے سینے سے لگایا۔۔ وہ اسے معاف نہیں کرنا چاہتا تھا پر عدیل کی معافی کی اس حد تک طلب دیکھتے ہوئے اس نے اپنا فیصلہ بدلا۔


اسے لگا کہ وہ واقعی شرمندہ ہے، اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لوگ اپنی غلطیاں مان کر، کھلے دل سے اعتراف کر کے معافیاں طلب کریں۔ اگر وہ اپنی انا قربان کر کے، سچے دل سے معافی کا طلبگار تھا تو عادل کو بھی اسے معاف کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔ کیوں کہ جو کچھ ہو چکا تھا وہ بدلنے والا تو تھا نہیں۔


مگر پھر بھی، دل میں دبی شکایتوں نے عادل کو گلہ کرنے پر مجبور کیا۔۔ وہ شدت سے عدیل کے گلے سے لگا، روٹھا روٹھا بول رہا تھا۔۔

"بھائی آپ سچ میں بہت برے ہیں۔۔!! میں معاف کرتا ہوں آپ کو۔۔ لیکن میں بہت بہت ناراض ہوں۔۔!! آپ کو پتہ ہے ہر روز کتنی تکلیف سے گزرتا تھا میں۔۔!! اور آپ ہیں کہ آپ کو اب جا کر خیال آیا ہے۔۔!!" وہ کہتے ساتھ ہی اس سے الگ ہوا۔


"آئم سوری ناں۔۔ پتہ تو ہے۔۔ تمہارا بھائی ان معاملوں میں کتنا نکما ہے۔۔!! اینڈ تھینکس ٹو یو آ لوٹ۔۔(اور تمہارا بہت بہت شکریہ) اگر تم آج مجھے معاف نہ کرتے ناں۔۔ تو اذیت کے مارے میں نے پھر سے خودکشی کر لینی تھیں۔۔" اس نے نم آنکھیں لیے۔۔ ہلکی سا مسکرا کر کہا۔


"شٹ اپ برو۔۔!! زندگی ختم کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔۔" اس نے تیز لہجے میں سمجھا کر کہا۔


"اچھا۔۔چھوڑو یہ سب۔۔" عدیل نے ٹاپک بدلا اور نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔

"مجھے بتاؤ۔۔ کیا تم اسے اب بھی اپنانا چاہتے ہو۔۔؟؟ آئی مین۔۔ اگر چاہو تو میں اسے۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ عادل نے اس کی بات کاٹی۔

"مجھے بتاؤ۔۔ کیا تم اسے اب بھی اپنانا چاہتے ہو۔۔؟؟ آئی مین۔۔ اگر چاہو تو میں اسے۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ عادل نے اس کی بات کاٹی۔


"بھائی۔۔!!میں نے محسوس کیا ہے، اب وہ مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔۔ اور نہ ہی میرا اس سے کوئی لینا دینا ہے، پلیز آپ کبھی تو اپنی عقل استعمال کیا کریں ۔۔ وہ لڑکی ہے ، جیتی جاگتی انسان، کوئی بے جان کھلونا نہیں کہ ہم جب چاہیں، اپنے مطالبات کے مطابق اس کا استعمال کریں۔۔!!" عادل کو واقعی عدیل کی اس پیشکش پر تاؤ آیا تھا۔


عدیل۔۔ بھی کب چاہتا تھا کہ وہ اسے چھوڑ دے، لیکن برا ہو اس کی کم فہمی کا، جو وہ اپنے دل کی بات سمجھنے سے ہی قاصر تھا۔۔اور عادل کی ناراضگی دور کرنے کے لیے وہ اتنی بڑی آفر کر بیٹھا۔


ابھی اگر عادل اگر اس کی پیشکش قبول کر لیتا تو۔۔ عدیل کا بہت نقصان ہوجانا تھا۔۔ شکر تھا کہ اس نے، دل کھول کر عدیل کو جھاڑا تھا۔۔ ورنہ اس نے اپنی بےوقوفیوں کے مظاہرے دکھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔


عدیل، عادل کے جواب پر متذبذب ہوتا ، وہاں سے چلا گیا۔

×××××


عدیل تو عدیل، عادل بھی اس سارے واقعے کے بعد خود کو کافی ہلکا محسوس کر رہا تھا، اس کے دل پر بھی تو بوجھ تھا کہ کسی کو اس کا خیال نہیں۔۔ وہ بھی تو دکھی تھا کہ کسی کو اس کی ناراضگی کی پروا نہیں۔۔!! اب ایسی معافی تلافی کے بعد، اسے بھی کافی اچھا محسوس ہورہا تھا۔


××××


عنقا کے ایگزامز شروع ہونے والے تھے، اور عنقا تو چاہتے ہوئے بھی اپنی پڑھائی میں دھیان نہیں لگا پا رہی تھی۔۔اسے ہر چیز سے بیزاری اور اکتاہٹ محسوس ہوتی۔


ابھی بھی۔۔ وہ۔۔ کتابوں میں گھسی بیٹھی تھی۔۔ دماغ تھا کہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا، اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آیا کہ آخر وہ کیوں دھیان نہیں لگا پا رہی۔۔ اتنے میں اس کی امی کافی کا مگ لیے اس کے روم میں آئیں، اسی نے تھوڑی دیر پہلے اپنی امی کو کافی کا بولا تھا۔


"کیسی تیاری ہو رہی ہے۔۔؟؟" انہوں نے پیار سے پوچھا۔

ان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ عنقا کی آنکھیں فوراً موٹے موٹے آنسوؤں سے بھر گئیں، "امی۔۔ کچھ بھی نہیں سمجھ آ رہا۔۔ کچھ تیار نہیں ہورہا۔۔" وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔


اس کی امی تو اس کے اچانک ، ایسے رد عمل پر پریشان ہی ہو گئیں۔۔ "بیٹا۔۔ کیا ہوا۔۔؟؟ اس میں ایسے رونے والی کیا بات ہے۔۔؟؟ ابھی تیار نہیں ہو رہا تو تھوڑی دیر بعد کوشش کر لینا۔۔" انہوں نے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔


"نئی۔۔ امی۔۔ مجھے پتہ ہے۔۔ مجھے ایک لفظ بھی تیار نہیں ہوگا۔۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔۔ دل پر عجیب بوجھ محسوس ہوتا ہے ۔۔ کوئی کام نہیں ہوتا۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔ ہر وقت سوگوار سی کیفیت طاری رہتی ہے۔۔" وہ امی سے لپٹتے ہوئے، رو رو کر اپنا حال بتا رہی تھی۔


اس کی امی کو اس کی یہ حالت خوب اچھی طرح سمجھ میں آ رہی تھی۔۔ اور اس کی کیفیت کے بارے میں سنتے ہی ، انہوں نے دھیما سا مسکرا کر، اس کی پیشانی کو چوما۔


"اچھا۔۔ چلو ۔۔ میں کچھ کرتی ہوں۔۔" وہ آہستگی سے اس کو خود سے علیحدہ کرتے ہوئے بولیں۔


××××


"سلیمان صاحب۔۔ اب بہت ہو گیا۔۔ ہمیں عنقا کے سلسلے میں اس کے سسرال والوں سے بات کرنی چاہیے۔۔" عنقا کی امی نے شام کی چائے کے دوران بات شروع کی۔


"ہاں۔۔ میں بھی سوچ رہا تھا۔۔ لیکن ہم لوگ لڑکی والے ہیں۔۔ کیا ہمارا بات کرنا ٹھیک رہے گا۔۔ اور عنقا بھی تو۔۔ جانے کو راضی نہیں۔۔ پھر کیسے بات کریں گے۔۔!!" انہوں نے پریشانی سے اپنی ایک انگلی ماتھے پر رگڑتے ہوئے کہا۔


"مجھے نہیں پتہ سلیمان صاحب۔۔!! اگر میری بچی کچھ دن اور یہاں رہی ناں۔۔ تو نفسیاتی مریضہ بن جائے گی۔۔میں نہیں چاہتی اسے کچھ ہو۔۔!! بس آپ ان لوگوں سے بات کریں کہ وہ آ کر لے جائیں اسے۔۔" وہ جذباتی ہوئیں۔


"اچھا۔۔ چلیں میں دیکھتا ہوں۔۔!!" وہ سہولت سے جواب دیتے ہوئے بولے۔


"دیکھیں نہیں۔۔ کچھ کریں۔۔ پتہ ہے سارا سارا دن۔۔ وہ اپنے شوہر کو سوچ سوچ کر کڑھتی رہتی ہے۔۔ زبان سے بے شک وہ کچھ نہ کہے پر۔۔ میں ماں ہوں اس کی۔۔ سب سمجھتی ہوں کہ اس کے دل میں کیا کچھ چل رہا ہے۔۔" انہوں نے جلدی مچاتے ہوئے کہا۔


ان کی جلدبازی دیکھتے ہوئے، سلیمان صاحب نے مصطفیٰ صاحب کو کال ملائی، پہلی بیل پر کال ریسیو کی گئی۔ انہوں نے رسمی علیک سلیک کے بعد فون کرنے کا مقصد بیان کیا۔


مصطفیٰ صاحب تو خود بھی یہی چاہتے تھے کہ عنقا ، ان کے گھر واپس آ جائے۔ انہوں نے مزید بات کرنے کے لیے، فون اپنی بیگم کو تھمایا، فون کی دوسری طرف بھی۔۔اب عنقا کی امی موجود تھیں۔ انہوں نے آپس میں گفتگو کی اور عنقا کو گھر واپس لانے کا سارا پلین ترتیب دیا۔


××××


اگلے روز، عنقا کی امی اس کے پاس آئیں، ویک اینڈ تھا تو یونیورسٹی بند تھی۔۔ اس لیے وہ گھر پر ہی تھی۔ "بیٹا۔۔!! جلدی۔۔ سے اپنی ساری چیزیں پیک کرو۔۔ ہمیں فوراً نکلنا ہے۔۔" انہوں نے جلدی جلدی کہا۔


"کیوں کیا ہوا۔۔؟؟" وہ ان کے اچانک ایسے رویے میں دیے گئے حکم پر ہڑبڑا کر رہ گئی۔


"وہ تمہارے ساس سسر کی کال آئی ہے۔۔ وہ تمہیں لینے آ رہے ہیں۔۔!!" انہوں نے بتایا۔


"آتے رہیں۔۔ میں نے ان کے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا ۔۔" اس نے ان کی بات سن کر سکون سے جواب دیا۔


"پاگل مت بنو۔۔!! اللّٰه اللّٰه کر کے تو وہ تمہیں لینے آ رہے ہیں۔۔ آگے سے ایسی باتیں کر رہی ہو۔۔!!" اس کی امی نے اسے ڈانٹا۔


"میں نے ان کے پیر نہیں پکڑے کہ مجھے لینے آئیں۔۔ اس لیے میں نے نہیں جانا ان کے ساتھ۔۔'' اس نے ضد سے کام لیا۔


وہ ابھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی جاری رکھے ہوئے تھی کہ اس کے ابو کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی رعب دار آواز اور سخت لہجے میں اسے اپنی چیزیں پیک کرنے کا حکم دیا۔ ان کے آگے، تو یہ "چوں" بھی نہیں کر پائی۔


وہ چاہتے تو کب کا اسے واپس بھیج دیتے۔۔ لیکن اب تک انہوں نے اس کے معاملے میں نرمی اختیار کی ہوئی تھی۔۔ مگر اب وہ اسے مزید ڈھیل نہیں دے سکتے تھے۔ آخر کو وہ اس کے باپ تھے۔۔ اور اس کے مستقبل کی پروا بھی کرتے تھے۔


××××


وہ واپس جانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔۔ لیکن اس میں بڑوں کے حکم اور فیصلے کے آگے بولنے کی زیادہ ہمت بھی نہیں تھی۔ اس نے اپنی طرف سے کمزور کمزور سا انکار کیا ، مزاحمت کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ کڑھتی ہوئی اپنے ساس سسر کے ساتھ روانہ ہوئی۔


عدیل نے تو اپنی طرف سے لاتعلقی کے سارے ریکارڈ توڑ رکھے تھے۔۔اسے اپنی کافی بےعزتی محسوس ہوئی کہ وہ خود ہی زبردستی واپس آ گئی۔۔


خیر اب کیا ہو سکتا تھا۔۔ اب تو وہ واپس آ چکی تھی۔

×××


عدیل کی مام ، بڑے پیار اور اہتمام سے اسے عدیل کے کمرے میں چھوڑ کر آئیں۔

عدیل کی مام ، بڑے پیار اور اہتمام سے اسے عدیل کے کمرے میں چھوڑ کر آئیں۔


شکر تھا کہ عدیل اپنے روم میں نہیں تھا۔۔ ورنہ وہ بے چاری، اسے کیسے فیس کرتی۔۔!!


فوزیہ بیگم کے جانے کے بعد اس نے احتیاط سے کمرے کے باہر جھانکا، اور پھر واپس اندر آ کر اپنی ساری چیزیں اٹھائیں۔۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ عدیل کے آنے سے پہلے ہی اپنے دوسرے والے کمرے میں چلی جائے گی۔۔ اور اس کو ، اس کے آنے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔


اسی لیے وہ تیزی سے اپنی چیزیں اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھی تھی لیکن سامنے سے آتے عدیل کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئی، اس وقت اسے اپنی اچھی خاصی بے عزتی محسوس ہوئی، "اف۔۔!! کیا سوچ رہا ہوگا یہ۔۔!! کتنی بے شرم ہوں میں۔۔ بن بلائے ہی اٹھ کر آ گئی۔۔!!" وہ زمین میں گڑھنے والی ہورہی تھی اور اوپر سے عدیل کا اپنی حیران نظروں سے اسے گھورنا۔۔ اسے مزید کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔


دوسری طرف، عدیل کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت یہاں ہوگی۔۔!! اسے ، عنقا کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ لیکن اس عقل کے آدھے انسان نے اپنی خوشگواری کا تاثر کہیں اندر چھپاتے ہوئے صرف حیرت کا مظاہرہ کیا۔


"تم۔۔یہاں۔۔؟؟" اس نے پوچھا۔


اس کے پوچھنے پر عنقا کو مزید انسلٹ فیل ہوئی۔


"ہمم۔۔!! انکل آنٹی زبردستی لائے ہیں۔۔" اس نے بات بنائی۔


"اچھا اچھا۔۔!! یہ بات ہے۔۔!! میں سمجھا شوہر کی یاد ستا رہی تھی ، اس لیے بن بلائے بھاگی بھاگی چلی آئیں،" عدیل نے زور دار قہقہہ لگا کر اسے چڑاتے ہوئے کہا۔ وہ اس کی شکل دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ وہ اس وقت کیسا فیل کر رہی ہے، اس لیے، اس نے جان بوجھ کر ستانے کے لیے ایسی بات کی۔


"غلط فہمیاں۔۔!! تو دیکھو اپنی۔۔!! مجھے کیا پڑی ہے کسی جنگلی کو یاد کرنے کی، اور تم ناں۔۔ میرے راستے سے ہٹو۔۔ مجھے اپنے روم میں جانا ہے۔۔!!" وہ تیز لہجے میں بولی۔


اپنے لیے جنگلی کا لفظ سن کر ، عدیل کو تاؤ آیا، "اے لڑکی۔۔!! ذرا زبان سنبھال کے بات کیا کرو۔۔!! سخت چڑھ ہے مجھے اس لفظ سے۔۔ اب تم نے دوبارہ کہا ناں تو کچھ بہت برا کر دوں گا تمہارے ساتھ۔۔ اور ہزار بار بولا ہے کہ ذرا ادب لحاظ سے بات کرنا سیکھو۔۔ یہ مجھے "تم" مت کہا کرو۔۔!!" عدیل نے بالکل سیریس ہو کر وارننگ دی۔


"مسٹر جنگلی۔۔!! تم مجھے زہر لگتے ہو۔۔ انفیکٹ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔ اس لیے مجبوری ہے۔۔ ادب نہیں کر سکتی تمہارا۔۔" عنقا نے بھی سلگتے لہجے میں جواب دے کر اپنا بدلہ پورا کیا۔۔ وہ بھی تو کیسے واپس آنے والی بات پر اسے ایمبیریس (embarrass) کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔


وہ اس کی ہٹ دھرمی پر کڑے تیوروں سے گھورنے لگا۔


"یہ مجھے گھورنا بند کرو۔۔ اور راستہ دو۔۔ مجھے اپنے روم میں جانا ہے۔۔" عنقا نے بدتمیزی سے کہا۔


"تم ایسے نہیں سدھرا گی۔۔!! تمہارا علاج کرنا پڑے گا۔۔!!" وہ قہر برساتی نظروں سے گھورتا ہوا اس کے قریب آیا۔ اس کے وحشت ناک تیور دیکھ کر۔۔ عنقا کی تو ساری داداگری جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔۔ اسے، عدیل کے ایکسپریشنز ڈرنے پر مجبور کر رہے تھے۔


اسے دھڑکا سا لگا کہ اللّٰه جانے ، یہ آدمی کیا غضب ڈھانے والا ہے۔۔!! وہ ابھی تک اس کا ، گلا دبانے والا اٹیک (attack) نہیں بھولی تھی۔۔!! اس کی ڈر اور توقعات کے خلاف جاتے ہوئے۔۔ عدیل نے کوئی وحشیانہ حرکت نہیں کی ، بلکہ اس کے ہاتھ سے اس کا سامان لیا۔۔ اس میں سے کتابیں علیحدہ کر کے، اپنی کتابوں کے ریک پر، اس کی بکس کے جگہ بنا کر ان کو وہاں رکھا۔ جو تھوڑے بہت کپڑے اور دوسری چیزیں تھیں ، ان کو بذات خود، واڈروب میں رکھا۔


وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اس کے سخت ایکسپریشنز کے آگے، وہ کچھ بولنے کی ہمت نہ کرپائی۔


وہ سب چیزوں کو ان کی جگہ پر رکھ کر اس کی طرف پلٹا۔۔!!


"کہیں نہیں جاؤ گی تم۔۔!! یہ ہی تمہارا روم ہے۔۔ اور یہاں سے کہیں جانے کی سوچی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔!!" اس نے ، اپنی شہادت کی انگلی لہراتے ہوئے، سختی سے وارن کیا۔


عنقا کا تو حلق خشک ہونے لگا تھا۔۔ "وہ۔۔ وہ۔۔ میں نے پڑھنا ہوتا ہے۔۔!! ایگزامز ہونے والے ہیں میرے۔۔!! میں یہاں کیسے پڑھوں گی۔۔!!" وہ منمائی۔


"پڑھ لینا یہیں پر۔۔ میں نے پڑھنے سے تو منع نہیں کیا۔۔بس یہاں سے باہر نہیں جاؤ گی۔۔!!" اس نے حکم دیا۔


"نہیں نہیں۔۔ ایسے نہیں کرو۔۔ اس طرح۔۔ تمہاری موجودگی میں تو بالکل مجھ سے کچھ نہیں پڑھا جائے گا۔۔!! پلیز جانے دو۔۔!! دیکھو میں تمہیں آئیندہ جنگلی بھی نہیں کہوں گی۔۔!! اور بدتمیزی کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔۔!! سچی۔۔!! پلیز جانے دو۔۔!!" وہ باقاعدہ منتیں کرنے پر اتر آئی تھی۔۔ واقعی۔۔ وہ اس کے ہوتے ہوئے کیسے پڑھ سکتی تھی۔۔ اگر وہ سامنے ہوتا تو اس کا سارا دھیان اپنی طرف کھینچے رکھتا۔


لاشعوری طور پر اسے یہ اندیشہ تھا۔۔ جس کے پیش نظر وہ الگ روم۔۔ میں جانے کی اتنی منتیں کر رہی تھی۔


عدیل، اس کی حالت سے اچھا خاصا لطف اندوز ہوا۔


"نہیں مسز۔۔!! آپ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گی۔۔!! اور میں آپ کو اب آخری دفع کہہ رہا ہوں کہ مجھے "تم" نہیں کہنا۔۔!!" عدیل نے جلانے والی مسکراہٹ اچھالتے ہوئے کہا۔


اور عنقا واقعی جل کر رہ گئی تھی۔


"عدیل۔۔ پلیز۔۔ جانے دیں ناں مجھے۔۔ دیکھیں ۔۔!! یہاں ایک لفظ بھی نہیں پڑھا جائے گا مجھ سے۔۔ آپ میری پرابلم کو سمجھیں ناں۔۔!!" اس نے مصلحت کا کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے، عدیل کے حکم کی تعمیل کی کہ شاید اس کو عنقا پر ترس آئے اور وہ اسے جانے دے دے۔


اس وقت ایسے منتیں کرتے ہوئے۔۔ وہ اسے بہت معصوم لگی۔۔ ساتھ ہی اس بے چاری کی حالت پر ، اسے مزہ بھی خوب سارا آیا۔۔!! جو بھی تھا۔۔!! بے شک وہ اس کی بات مان چکی تھی لیکن یہ اس کی بات نہیں ماننے والا تھا۔۔ اس نے سوچ لیا تھا۔۔ کہ اس کو اچھی طرح تنگ کرے گا۔۔!!


ابھی اس نے آگے سے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ وہاں عادل آ دھمکا۔۔ عنقا کو وہاں دیکھ کر وہ سرپرائز ہوا تھا لیکن اب اس کا ، اس سے کیا لینا دینا سو وہ اپنی مام کا پیغام عدیل تک پہنچا کر واپس چلا گیا۔


مام نے عدیل کو بلوایا تھا۔ وہ ان کے پاس گیا۔۔ اس نے بلانے کا مقصد پوچھا تو مام نے اتنا لمبا لیکچر دیا۔۔کہ عنقا کے ساتھ اب کسی قسم کی کوئی بدتمیزی نہ کرے، اسے پیار سے ڈیل کرے ، اس کا خیال رکھے اور وغیرہ وغیرہ۔۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے عدیل سے اپنی ساری نصیحتوں پر عمل کرنے کا وعدہ بھی لیا۔ اور وہ بھی مزے سے پرامس کر کے آ گیا۔


اب اس کا بھی دل کرتا تھا کہ وہ نارمل لوگوں کی طرح سکون سے رہے۔۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے سے جڑے رشتوں کو مان دے، ان کی خواہشات کا احترام کرے، خاص طور پر اپنے مام ،ڈیڈ کا کہا مانے۔۔ نہ کہ اپنی من مانیاں کرتے ہوئے ان کے لیے پریشانیاں پیدا کرے۔۔!! اس لیے۔۔ اس نے اپنی مام سے پرامس کیا۔

××××


عدیل کے جاتے ہی عنقا پریشانی سے، وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی، "کاش کہ میں یہاں نہ آتی۔۔!!" اس نے افسوس سے سوچا۔۔!!


وہ ابھی کسی طرح واپس جانے کی کو سکیم سوچنے لگی تھی کہ اس کی امی کی کال آئی۔۔ انہوں نے سلام دعا کے بعد ، فوراً ہی اسے اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ اور اس کے بابا ، تقریباً ڈیڑھ ہفتے کے لیے اس کے ماموں کے ہاں جا رہے ہیں۔۔ اس لیے وہ گھر واپس آنے کے متعلق سوچنے کی بھی کوشش نہ کرے۔


وہ بھی اس کی ماں تھیں، اس کی رگ رگ سے واقف تھیں۔۔ اس لیے انہوں نے پہلے ہی سے اس کی واپسی کے سارے دروازے بند کیے۔

وہ بھی اس کی ماں تھیں، اس کی رگ رگ سے واقف تھیں۔۔ اس لیے انہوں نے پہلے ہی سے اس کی واپسی کے سارے دروازے بند کیے۔


وہ تو بس دل مسوس کر رہ گئی۔ اتنے میں عدیل ، مسکراتا ہوا واپس آتا دکھائی دیا۔ اس وقت، عنقا کو اپنی مسکراہٹ سمیت، وہ، خود بھی بہت برا لگ رہا تھا۔


"بس مجھے نہیں پتہ۔۔ میں نے اپنا پڑھنا ہے۔۔ میں دوسرے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔ اب مجھے روکنے کی کوشش مت کیجئے گا۔۔!!" اس نے معصوموں والی شکل بناتے ہوئے اپنی بات منوانے کی اپنی سی کوشش کی، عدیل کو خوشی ہوئی تھی کہ اب کی بار، پھر سے اس نے تمیز سے بات کی تھی۔


"نہیں مسز۔۔!! میں نے کہا ہے ناں کہ آپ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گی۔۔!! اس لیے آپ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا حکم سکون سے مان لیں، ورنہ مام نے مجھ سے پرامس لیا ہے کہ میں آپ کو پیار سے ڈیل کروں۔۔ اب اگر سچ مچ پیار سے ڈیل کر لیا ناں۔۔تو آپ کو لگ پتا جائے گا۔۔!!" عدیل نے اسی کے لہجے میں، تپا دینے والی، معنی خیز مسکراہٹ لیے ، اس کے بہت قریب آ کر، اسے وارن کیا اور پھر اس کے گال تھپتھپاتا ہوا ، فریش ہونے کی غرض سے واشروم کی طرف بڑھ گیا۔


وہ پیچھے، گنگ سی بیٹھی، اس کے الفاظ اور بہکے ہوئے لہجے پر غور کر رہی تھی۔۔ "توبہ توبہ۔۔!! کتنے گندے ہیں یہ۔۔!!" اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر کر سوچا اور پھر جلدی جلدی ، اپنی کتابیں وغیرہ لے کر، پڑھنے کے لیے صوفے پر ، اچھی سی سیٹنگ کی۔

××××


عدیل باہر آیا، تو عنقا کو بڑی توجہ سے اس کی بکس میں مگن پایا۔۔ وہ ڈر کے مارے، عدیل کی طرف دیکھنے سے بھی پرہیز کر رہی تھی۔۔ اس نے اپنے، ایک چھوٹے جملے سے، عنقا کا پورا دماغ سیٹ کر دیا تھا۔

××××


عنقا کو لگا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے تو ، اس کو اپنے کام کی ککھ سمجھ نہیں آنے والی۔۔ اور پہلے جو تھوڑا بہت وہ پڑھ پا رہی تھی۔۔ اب اس سے بھی جانے والی ہے۔۔ لیکن سب، اس کی توقع کے برعکس ہوا۔


حیرت انگیز طور پر، جس سوال کو لے کر وہ دو دن سے پریشان تھی۔۔ وہ اسے صرف پندرہ منٹ میں تیار ہوا۔


وہ تیار کرنے کے لیے اگلا سوال دیکھ رہی تھی کہ اس نے غیر اردای طور پر ہی اپنی نظروں سے ، سامنے بیٹھے عدیل کی طرف ، دیکھا۔۔ وہ بھی لیپ ٹاپ سامنے رکھے۔۔ اپنے آفس ورک میں مصروف تھا۔۔ اور ہمیشہ کی طرح بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا۔۔ لیکن اس کی ڈیشنگ پرسنیلٹی سے عنقا کا کیا لینا دینا، اس نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔۔ وہ تو شکر کر رہی تھی کہ اس نے دوبارہ، اس کو تنگ نہیں کیا ۔۔!!


"آہاں۔۔دلربا نظاروں سے، بہت لطف اندوز ہو رہے ہیں کچھ لوگ۔۔!!" عدیل نے ، اس کی طرف دیکھے بغیر، خود کو مصروف، ظاہر کرتے ہوئے، سنجیدگی سے کہا۔ وہ عنقا کی نگاہوں کی تپش خود پر محسوس کر چکا تھا۔


عدیل کے اچانک بولنے پر عنقا بری طرح سٹپٹائی۔۔۔ اور پھر کوئی جواب دے بغیر ہی کتابوں میں سر دے کر بیٹھ گئی، اب تو اس نے توبہ کی کہ وہ بالکل بھی ادھر اُدھر نہیں دیکھے گی۔۔!! اسے اچھی خاصی خفت محسوس ہوئی تھی۔


عدیل نے اس کی طرف دیکھا ، اس کی حرکات ملاحظہ کیں۔۔ ایک دھیمی سی مسکراہٹ نے ، اس کے لبوں کا احاطہ کیا۔


"تم تو تم تھیں۔۔پر تمہاری بہن۔۔!! ہر چیز میں تم سے چار ہاتھ آگے ہے۔۔!! اس کی معصومیت ، خوبصورتی، انداز۔۔ الغرض ہر چیز۔۔!! بس محبت کی کمی ہے۔۔!! یہ مجھ سے ویسی محبت نہیں کرتی جیسی تم کرتی تھیں۔۔!!" وہ مسکراتے ہوئے ہی، اپنی نظریں عنقا پر گاڑھے، اپنے تصور میں اریزے سے مخاطب ہوا۔


یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ اریزے کو سوچ کر مسکرایا تھا اور وہ بھی عنقا کی وجہ سے۔۔!! اس لڑکی کی وجہ سے ، جسے وہ کبھی اپنی جان، اپنی اریزے کا قاتل مانتا تھا۔۔!! جسے اس نے بے وجہ ہی اتنی تکلیف دی تھی۔۔!! جسے وہ مارنے کے در پر تھا۔۔!! جسے وہ اپنے انتقام کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔۔!!


××××


رات کے دو بج چکے تھے۔۔ وہ ابھی تک تو اپنی پڑھائی میں مگن تھی۔۔ لیکن اب یوں بیٹھے بیٹھے ، اسکی کمر اکڑنے لگی تھی۔۔ اسے نیند بھی ، بہت زیادہ آ رہی تھی۔۔ اس سے اپنی کتابیں بند کیں۔۔ ایک بڑی سی جمائی لی اور کھڑی ہوئی۔


"ہائے اللّٰه۔۔!! اب سوؤں کہاں۔۔!!" اس نے پریشانی سے سوچا۔


صوفہ بھی اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ ، وہاں لمبی ہو کر لیٹ پاتی۔۔!! اور عدیل کے ساتھ سونے کا تو وہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اس لیے کچھ دیر سوچنے کے بعد۔۔ وہ دبے قدموں سے دروازے کی طرف بڑھی۔۔ دروازے تک پہنچ کر، اس نے آہستگی سے ، دروازے کا ہینڈل گمھایا۔۔ تاکہ وہ یہاں سے باہر نکل کر۔۔ اپنے دوسرے والے روم میں جا سکے۔۔


پر برا ہو اس کی قسمت کا کہ عدیل اب تک ، سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا ، در حقیقت تو وہ جاگا ہوا تھا۔۔ اور اس کے دروازہ کھولتے ہی وہ بھی۔۔ اپنی پوری آنکھیں کھولے۔۔ بڑے خونخوار سے تیور لیے عنقا کی طرف دیکھ رہا تھا۔


عنقا کی تو ڈر کے مارے جان نکلنے کو ہو رہی تھی۔۔ اسے عدیل کی وارننگ یاد آئی تھی۔۔ اور وہ اب تک ، اس کا پہلے دن والا رویہ بھی یاد تھا۔۔ "ایک تو اس بندے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔۔ نجانے کب کیا کردے۔۔ کب کیسا ہوجائے۔۔" اس نے ڈرتے ہوئے سوچا۔


در حقیقت، وہ ابھی تک۔۔ اس کے بدلے ہوئے رویے سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔۔ نہ ہی اسنے کوئی خوش فہمی پالی تھی۔


"کہاں جا رہی ہو۔۔؟؟" عدیل نے سختی سے پوچھا۔ اسے تھوڑا تھوڑا غصہ سا آ رہا تھا کہ وہ اس کی بار بار کی کہی گئی بات آخر کیوں نہیں مان رہی۔۔!!


اسے یہ ہرگز پسند نہیں تھا کہ کوئی اس کے حکم کو اگنور کرے۔۔!! خاص طور پر ایسا شخص۔۔ جس پر وہ اپنے دل کے ، بہت ہی خاص جذبے لٹانے کے لیے تیار ہو۔۔!! جسے وہ اپنانے کو ، اور اپنا ماننے کو تیار ہو۔۔۔!!

اریزے نے بھی، کبھی بھی۔۔ اس کے کسی عام سے حکم کو بھی نہیں ٹالا تھا۔۔ کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔!! عادتیں ہی بگاڑ ڈالیں تھیں اس کی۔۔!!

اریزے نے بھی، کبھی بھی۔۔ اس کے کسی عام سے حکم کو بھی نہیں ٹالا تھا۔۔ کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔!! عادتیں ہی بگاڑ ڈالیں تھیں اس کی۔۔!!


"وہ۔۔وہ۔۔ میں پانی پینے جارہی تھی۔۔!!" عنقا نے عدیل کے تیوروں سے ڈرتے ہوئے جھوٹ گھڑا۔


"میرے خیال سے، یہ۔سائیڈ ٹیبل پر پڑا جگ ، پانی سے ہی بھرا ہے۔۔!!" وہ اس کا جھوٹ پکڑتے ہوئے بولا۔۔ اور اب وہ باقاعدہ اٹھ بیٹھا تھا۔


"نن۔۔ نہیں یہ تو گرم ہے ناں۔۔ مجھے ٹھنڈا پانی چاہیے تھا۔۔!!" وہ گھبرا کر بولی۔۔ اور اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ آخر ایسے گھبرا کیوں رہی ہے۔


ایسے تو وہ ، عدیل اس وقت بھی گھبراتی تھی۔۔ جس وقت اس کا جنون، انتقام اور وحشت، انتہا پر تھی۔۔ پھر اب کیوں وہ اتنا گڑبڑا رہی تھی۔۔!! کیوں ایسے گھبرا رہی تھی۔۔!! کیا تھا۔۔ جو اسے عدیل کے سامنے ، ثابت قدمی سے ،ڈٹنے نہیں دے رہا تھا۔۔!! کیا تھا جو اسے، گھبرانے پر مجبور کر رہا تھا۔۔!! شاید عدیل کے، عنقا کے متعلق بدلے ہوئے خیالات اور محسوسات کی آنچ تھی۔۔ جس کی وہ تاب نہیں لا پائی۔۔ شاید اسی لیے وہ ڈگمگا رہی تھی۔۔ نروس ہو رہی تھی۔۔!!


"اچھا۔۔ چلو۔۔ جاؤ پی کر واپس آؤ۔۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔۔ اور اگر واپس نہ آئیں تو اپنا انجام دیکھنا۔۔!!" عدیل نے دھمکایا۔


عنقا نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔۔ اس کا حلق سچ مچ میں خشک ہوگیا تھا۔۔ اور اب اسے ،سچ میں، ٹھنڈے یخ پانی کی شدت سے طلب ہوئی۔


وہ پانی پی کر واپس آئی تو ۔۔ عدیل اپنے بستر کے بالکل کنارے کے قریب ہی۔۔ ایک طرف کو ہو کر لیٹا تھا۔۔ اس نے عنقا کے لیے اچھی خاصی جگہ بنائی تھی۔۔ عنقا بھی خاموشی سے۔۔ سکڑ کر ایک طرف کو لیٹ گئی۔۔ عدیل نے اس سے مزید کوئی بات نہیں کی۔۔ تاکہ وہ پرسکون ہو کر سو سکے۔۔ کیوں کہ پہلے ہی وہ دیر تک پڑھنے کی وجہ سے ، کافی دیر تک جاگی تھی۔۔ اب وہ چاہتا تھا کہ وہ بالکل مطمئن ہو کر آرام کرے۔


جبکہ دوسری طرف۔۔ عدیل کے اتنا پاس ہوتے ہوئے وہ کیسے مطمئن ہو سکتی تھی۔۔!!

یہ تو صرف عنقا جانتی تھی کہ اس وقت کیسے اس کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔۔!!

اس کا تیزی سے دھڑکتا دل، ماتھے پر نمودار ہوتی پسینے کی بوندیں اور بے ترتیب ہوتی سانسیں، اس کی نیند میں بہت سا خلل پیدا کر رہی تھیں۔۔!!

وہ چاہ کر بھی نہیں سو پارہی تھی۔۔!!

بہت کوشش کے بعد، نجانے کیا کیا دعائیں اور ورد پڑھ پڑھ کر اس پر کچھ غنودگی طاری ہوئی۔۔ وہ غنودگی کی حالت میں بھی بار بار ، اللّٰه سے ، اپنے ساتھ لیٹی بلا یعنی عدیل کے شر سے پناہ مانگ رہی تھی۔۔!! اور یوں کرتے کراتے ، بالآخر، اس نے اپنا آپ، نیند کے حوالے کیا۔۔اور ہر طرح کی پریشانی بھلائے مزے سے سوگئی۔


×××


صبح ، عدیل نے اس کو ، اس کی غضب کی گہری نیند سے جگانے کی کوشش کی۔۔ کیوں کہ وقت تھوڑا تھا۔۔ اگر وہ فوراً نہ اٹھتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنی یونیورسٹی سے لیٹ ہوجاتی۔۔ عدیل اسے مسلسل آوازیں دے رہا تھا۔۔ مگر وہ تھی کہ منہ کھولے تیز تیز سانس لیتی رہی۔


جب آنکھیں کھلنے کے کوئی آثار نہ نظر آئے تو عدیل نے بہت سوچ سمجھ کر، اپنا نرم سا تکیہ اٹھایا، اور زور سے عنقا کو دے مارا۔۔ وہ بےچاری چونک کر اٹھی۔۔ابھی بھی، اس پر نیند کا کافی غلبہ تھا۔۔ اس لیے اس معصوم عورت کو عدیل کی کارروائی کی سنگینی کا احساس نہ ہوا۔۔ ویسے وہ بھی سچ مچ کا جنگلی تھا۔۔!! اب بندہ ہلا جلا کر بھی تو جگا سکتا ہے ناں۔۔!! لیکن نہیں جی۔۔!! خود کو جنگلی بھی تو ثابت کرنا ہوتا ہے۔۔!!


"مسسز!! اٹھو۔۔!! جاگ جاؤ۔۔!! ورنہ یونی سے لیٹ ہو جاؤ گی۔۔!!" اب کی بار عدیل نے، انسانوں کی طرح ، آرام سے اس کا گال تھپتھپا کر جگانے کی کوشش کی۔


اس کا لمس محسوس ہونے پر عنقا کی ساری حسیں بیدار ہوئیں۔ اس کی نیند ، اچھے سے اکھڑی تھی۔۔!! وہ سٹپٹا کر اٹھی تھی۔۔!! اور کچھ کہے سنے بغیر، سامنے نصب وال کلاک پر وقت دیکھتے ہوئے، واڈروب سے اپنے کپڑے نکالے اور فریش ہونے چلی گئی۔


جلدی جلدی ناشتہ کرنے کے بعد وہ اپنی بکس اور بیگ اٹھا کر جانے لگی تھی کہ اسے یاد آیا۔۔ وین والے کو تو اس نے انفارم ہی نہیں کیا ، نہ ہی ایڈریس بتایا۔۔ اب وہ کیسے یونیورسٹی جائے۔۔ کس سے کہے۔۔!! ابھی وہ اس پریشانی میں تھی کہ عدیل نے اسے خود ہی ڈراپ کرنے کی آفر دی، پریشانی کے باوجود بھی وہ اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن پھر اس کے ، اتنے استحقاق اور پیار سے کہنے کے بعد وہ منع نہیں کر پائی اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔


اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا اچھا برتاؤ کیوں کر رہا ہے۔۔!! آخر وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔۔!! خیر فی الحال اسے، اس الجھن میں اپنا دماغ نہیں دکھانا تھا، اس لیے ، اس نے اس معاملے پر سوچ بچار بعد کے لیے رکھ کر، اپنا دھیان ایگزامز اور ان کی فضول ٹینشن لینے میں لگایا۔

×××


ہر بدلتے دن، گزرتے لمحے اور ڈھلتی ساعت کے ساعت کے ساتھ، عدیل کی عنقا کے لیے پرواہ بڑھتی جا رہی تھی۔ اب تو عنقا کو بھی اس کی عادت سی ہونے لگی تھی اور عدیل کا تو جیسے اس کے بغیر رہنا ہی ناممکن سا ہو گیا تھا۔۔ اسے تو جیسے اس کی اریزے واپس مل گئی تھی۔۔!! اور وہ یہی تو چاہتا تھا کہ وہ اسے واپس مل جائے، لیکن پھر بھی اس نے بہت بار اپنے محسوسات کو جھٹلانے کی کوشش کی ، اس نے بہت بار یہ سوچنا چاہا کہ عنقا ہر گز اریزے نہیں ہو سکتی۔۔!! لیکن دل۔۔ وہ تو اسے عنقا کے وجود میں تلاش چکا تھا۔۔ وہ تو اس کی جھلک، عنقا میں دیکھ چکا تھا۔۔اور وہ اب مکمل، اسی کا ہو چکا تھا۔

×××


اب معمول یہ تھا کہ عدیل عرف "جنگلی" نے ، بہت فراخدلی اور بہت خوشی سے عنقا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود، اس کی ، یونیورسٹی کی پک اینڈ ڈراپ سروسز اپنے ذمے لی تھیں، یعنی وہ اسے روز صبح جگانے کے بعد، زبردستی اپنی پسند کا ناشتہ کرواتا، اب بھلے عنقا کو اس کی پسند، اچھی لگے یا نہ لگے، لیکن اس معاملے میں، اس پر دھونس جمانا ، وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔۔ بے شک وہ کافی حد تک بدل چکا تھا اور اپنی طرف سے عنقا کو ، بہت خوش رکھنے کی کوشش کرتا لیکن ایسی چھوٹی چھوٹی سی ضدیں، شرارتیں اور زبردستیاں کرنے کا حق رکھتا تھا، خیر ناشتے کے بعد وہ خود اسے ڈراپ کرکے آتا اور واپسی پر بھی خود ہی لے کر آتا، گھر آنے کے بعد بھی وہ زیادہ تر اسی کے آس پاس رہتا۔


وہ حتی الامکان، اس کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔۔ اور ایسی کوششیں خود بہ خود ہی، اس سے سرزد ہوتی تھیں۔۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ کیوں اس میں اس قدر انوالو (involve) ہوا۔۔ اور وہ انوالو ہونا بھی کب چاہتا تھا۔۔ یہ بس انجانے میں ہی۔۔ اس کا دل دل عنقا کی طرف کھینچتا چلا گیا۔۔ وہ انجانے میں ہی اسے اریزے کی طرح چاہنے لگا تھا۔۔ اور اب اس کی بس ایک خواہش تھی۔۔ کہ وہ بھی اسے اریزے کی طرح پیار کرنے لگے۔۔ وہ بھی اس کی غلطیاں معاف کر کے، اسے دل و جان سے، محبت اور مان سے قبول کرے۔۔ اور اسے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گی۔۔!!

اور اسے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گی۔۔!!

××××

عنقا کا آخری پیپر تھا۔۔ وہ بہت توجہ سے اس کی تیاری میں مشغول تھی، یہ سبجیکٹ اس کو ہمیشہ ہی سب سے مشکل لگتا تھا، اس لیے، اس کی تیاری میں ، اس کا اچھا خاصہ وقت صرف ہوا۔

×××


تقریباً صبح کے ساڑھے چار بجے کا وقت تھا۔۔ اور وہ ابھی تک تیاری میں مگن تھی۔ عدیل کی آنکھ کھلی تو اس نے عنقا کو کتاب میں گھسا ہوا پایا۔


"تم ابھی تک پڑھ رہی ہو؟؟؟" وہ حیران ہوتا ہوا بولا،

"جی۔۔!! میرا پیپر ہے کل۔۔!! میرا خیال ہے کہ اس میں اتنی حیرانی والی کوئی بات نہیں۔۔!!" عنقا نے عدیل کے فکر زدہ لہجے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیزار ہوتے ہوئے تڑخ کر جواب دیا۔


ایک تو وہ پڑھ پڑھ کر بے تحاشا تھک چکی تھی اوپر سے نیند سے بوجھل ہونے کی وجہ سے عجیب چڑچڑا پن اس پر طاری تھا،تبھی اس نے اتنا بدلحاظ ہو کر جواب دیا۔


عدیل نے اس کے بدلحاظ سے جواب کا بالکل برا نہیں منایا، بلکہ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ میں میں کافی کے دو مگ اٹھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا، اس وقت، واقعی عنقا کو شدت سے اس کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اب اسے اپنے گندے رویے پر افسوس ہوا اور کچھ شرمندگی بھی محسوس ہوئی، لیکن وہ ہر گز ،، عدیل کے سامنے اپنی شرمندگی کا اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔اس لیے اس نے خود کو بالکل سنجیدہ ظاہر کرتے ہوئے، بڑی ڈھٹائی سے، عدیل کے ہاتھوں سے کافی کا مگ لیا اور جلدی جلدی کافی غَٹَکنے لگی۔۔ حد تو یہ تھی کہ اس نے عدیل کا شکریہ ادا کرنے کی بھی زحمت نہیں

کی، خیر وہ بے چارہ بھی اس کی اکڑ کو برداشت کرتا ہوا، بڑے سکون نے کافی پی رہا تھا۔


کافی ختم کرنے کے بعد، وہ عنقا کے پاس سے اس کی ساری کتابیں سمیٹنے لگا، "یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟؟؟" عنقا نے ماتھے پر بل چڑھا کر ، ناسمجھی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا۔ "تمہاری بکس سمیٹ رہا ہوں۔۔دکھائی نہیں دے رہا؟؟" اس نے نارمل لہجے میں جواب دیا۔

"پر کیوں۔۔؟؟ آپ کو پتہ نہیں کہ میں نے پڑھنا ہے اپنا۔۔!!" اس نے احتجاج کیا۔

"توبہ کرو لڑکی، اور کتنا پڑھو گی؟؟ وقت دیکھا ہے تم نے؟؟ چار بج چکے ہیں۔۔!! اگر اب تھوڑی دیر بھی اور کتابوں میں گھسی ناں۔۔ تو سارے پیپر میں سوتی رہو گی۔۔!! اس لیے شرافت کے دائرے میں رہتے ہوئے بیڈ پر پہنچو اور سوجاؤ۔۔!!" عدیل نے رعب جما کر کہا۔


عنقا کو بھی اس کی بات کچھ حد تک ٹھیک لگی تھی۔۔ اس لیے وہ بھی گندا سا منہ بناتے ہوئے اٹھی اور سونے کے لیے بیڈ پر چلی گئی، اب یہ جتانا بھی تو ضروری تھا ناں کہ عدیل نے جبراً ، اس کو پڑھنے سے روکا ہے۔۔ ورنہ تو اس کا خود بھی سونے کا ، خوب دل تھا۔۔ یعنی اس وقت ، اس کے تھکن اور نیند سے بے حال وجود کو اطمینان سے سونے کی اشد ضرورت تھی۔


کافی پینے کے بعد ، اس کی تھکاوٹ زدہ وجود کو ، کچھ حد تک تسکین پہنچی تھی۔۔ مگر پھر بھی وہ سونا چاہتی تھی۔


××××


صبح، وہ معمول سے لیٹ اٹھی اور اب جلدی جلدی تیاری کرنے میں مصروف تھی۔ تیار ہونے کے بعد وہ عدیل کے ہمراہ یونیورسٹی پہنچی۔ شکر تھا کہ وہ یونیورسٹی سے لیٹ نہیں ہوئی تھی، اب یہاں اسے ساری ٹینشن اس کے پیپر کی تھی کہ اللّٰه جانے اچھا ہوگا بھی یا نہیں، اس کی شکل ایسی تھی کہ کوئی بھی دیکھ کر سمجھ سکتا تھا کہ وہ اس وقت بڑی ٹینشن میں ہے، اسے پریشان دیکھتے ہوئے غانیہ اس کے پاس آئی، "خیر تو ہے۔۔!! اتنی پریشان لگ رہی ہو۔۔؟؟" غانیہ نے بالکل نارمل ہو کر پوچھا، اس کے لہجے سے لگتا ہی نہیں تھا کہ ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی کدورت ، کوئی رنجش پیدا ہوئی تھی۔


"آپ کون۔۔؟؟" عنقا نے جل کر طنز کیا اور اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی، بےشک وہ جتاتی نہیں تھی لیکن غانیہ کے سابقہ، کھینچے کھینچے رویے نے ، اسے کچھ تکلیف تو پہنچائی تھی۔

شکر تھا کہ اس کا سامنا ، عادل سے نہیں ہوتا تھا، ورنہ ممکن تھا کہ وہ، اپنی زندگی کے سب سے بڑے حادثے کے افسوس سے باہر نہ نکل پاتی۔۔۔!! ممکن تھا کہ وہ عدیل کے ساتھ ایڈجسٹ نہ ہو پاتی۔۔!!

×××


غانیہ سمجھ سکتی تھی کہ عنقا نے ایسے ری ایکٹ کیوں کیا۔!! اسے بھی اپنے دل میں، فضول سا کینہ پالنے پر خاصی شرمندگی اور افسوس تھا، کہ آخر اس نے کیسے عنقا کا سابقہ منگیتر ہڑپ کر ، اسی سے کنارا کر لیا، لیکن وہ بھی کیا کرتی۔۔!!! پیشکش تو عادل کی طرف سے ہوئی تھی ناں، اور اس سے دوستی کے بعد، اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ عنقا کا سامنا کرتی، اسی لیے ، اس نے، اپنی پیاری سی دوست سے دوری اختیار کی۔ پر اب وہ سب سدھارنا چاہتی تھی، اسی میں سب کی بھلائی تھی۔

××××


عنقا، اپنا پیپر دے کر، بڑی خوش خوش باہر نکلی، وہ امید سے زیادہ اچھا پرفارم کر کے آئی تھی، اس لیے بے حد مطمئن بھی تھی، غانیہ بھی پیپر دے کر آئی تو عنقا کو ڈھونڈ کر اسی کے پاس آ کر بیٹھی۔۔ "لگ رہا ہے۔۔ پیپر کچھ زیادہ اچھا ہو گیا۔۔؟؟" اس نے چہکتے ہوئے پوچھا۔

"تم سے مطلب؟؟" عنقا بگڑ کر بولی۔

"یار ایسے تو بات نہیں کرو۔۔!!" غانیہ نے منت کی۔


"شکر کرو۔۔ بات کر رہی ہوں۔۔!! ورنہ تم نے تو مجھے اس لائق بھی نہیں سمجھا۔۔!! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر جو برا ہوا۔۔ میرے ساتھ ہوا۔۔ تمہیں تو چاہیے تھا تم لوگ میری مدد کرتے، مجھے سپورٹ کرتے یا کم سے کم میرا دکھ بانٹتے۔۔!! لیکن نہیں۔۔!! تم لوگوں نے تو الٹا مجھے ہی اکیلا کر دیا۔۔!!"عنقا نے بالآخر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں، بظاہر وہ نظر انداز کرتی تھی اور اسے لگتا تھا کہ وہ ان بالکل کوئی اثر نہیں لیتی۔۔لیکن ، اسے ہر ایک کی زیادتی، ہر ایک کی بد سلوکی، اندر ہی اندر، بہت چبھتی تھی، تکلیف پہنچاتی تھی۔۔!!

اسے اس وقت عادل کے وہ تلخ لہجے میں کہے گئے، اذیت ناک الفاظ بھی یاد آئے، جو اس نے ، عنقا کو الزام دیتے ہوئے کہے تھے۔۔۔!!

( "تم نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے۔۔!! تم تو مجھ سے محبت کرتی تھیں ناں۔۔تو پھر مجھ پر، اتنا بڑا ظلم کیوں کیا۔۔؟؟ جواب دو ۔۔!!")

اسے ایک ایک لفظ یاد آیا ، اور یاد آتے ہی آنسو ، اس کی آنکھوں سے ابل بڑے، یہ نہیں تھا کہ عادل میں اس کی کوئی دلچسپی باقی تھی، بس رویوں کا دکھ تھا، جسے وہ کہہ کر ، اظہار کر کے ختم کرنا چاہتی تھی۔


غانیہ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی، بے شک وہ اس کی سوچ نہیں پڑھ سکتی تھی لیکن اس کی شکایتیں سن چکی تھی ناں،اس کے درد کا اندازہ تو لگا چکی تھی ناں، اور اس کے اس طرح بے اختیار رونے پر وہ بھی تو بے چین ہوئی تھی، اس لیے تو اس نے لپک کر اسے گلے لگایا۔


"آئم سوری۔۔ عنقا۔۔!! پلیز معاف کردو۔۔!! مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ بہت بڑی غلطی۔۔!! میں سچ میں بہت شرمندہ ہوں۔۔!!" غانیہ نے ندامت سے چور لہجے میں سسک کر کہا۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بھی جاری تھے۔

اس کے ایسا کہنے پر عنقا کو مزید رونا آیا۔۔"گندی چڑیل۔۔!!" وہ اس کے گلے لگی، روٹھے ہوئے سے لہجے میں بولی۔۔ کہنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اس کے دل میں غانیہ کے لیے اب کوئ میل نہیں۔ اس کے جواب پر غانیہ مسکرا اٹھی۔


"اوہوووو۔۔!! بڑی ہگز دی جارہی ہیں ایک دوسرے کو۔۔!!" ذرا فاصلے پر کھڑے، اسٹوڈنٹس میں سے کسی ایک نے نعرہ لگایا، وہ دونوں ہڑبڑا کر علیحدہ ہوئیں، باقی اسٹوڈنٹس دانت نکالنے لگے۔۔!! "ہاں۔۔ تو تم کیوں جل رہے ہو۔۔!!" غانیہ نے بھی اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے، ہانک لگا کر حساب برابر کیا۔

××××

معمول کی طرح، عدیل آج بھی اسے لینے آیا تھا۔۔ پیپرز ختم ہونے کی تو، اس کو ، عنقا سے زیادہ خوشی تھی، کیوں کہ اب وہ سکون سے اس کو تنگ کر سکتا تھا۔


عنقا بھی، اپنی پڑھائی کی طرف سے مکمل آزاد ہو چکی تھی اس لیے خاصہ ریلیکس، فیل کر رہی تھی اور ایگزامز کی ٹینشن بھی بالکل ختم ہو چکی تھی سو اب اس دماغ بالکل خالی تھا، اس میں ، کوئی نئی تکلیف، کوئی نئی ٹینشن یا کوئی نیا شوشہ چھوڑنے کے لیے کافی جگہ بن گئی تھی۔


یہ انسانوں کا دماغ بھی کب زیادہ دیر تک خالی رہتا ہے۔۔!!

سو اس لیے ، اس کا دماغ بھی، اس کا چین برباد کرنے کے لیے، ایک زبردست سا ، خرافاتی خیال، اس کے شعور میں منتقل کر چکا تھا۔


اور وہ بھی کار میں، عدیل کے قریب ہی ، فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔۔!! نیا پھڈا ڈالنے کے لیے، بالکل تیار تھی۔


اور وہ بھی کار میں، عدیل کے قریب ہی ، فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔۔!! نیا پھڈا ڈالنے کے لیے، بالکل تیار تھی۔


"عدیل۔۔!!" اس نے سخت لہجے میں پکارا۔

"جی۔۔!!" چاہت سے مخمور لہجے میں جواب آیا۔

"مجھے امی کے ہاں جانا ہے۔۔!!" وہ کرختگی سے بولی۔

"چلی جانا۔۔!! لیکن تم اتنے عجیب طریقے سے کیوں بول رہی ہو۔۔؟؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔


"میری مرضی۔۔!! میں جس کسی سے۔۔ جیسے بھی بات کروں۔۔!! اور میں نے آپ سے ، امی کے گھر جانے والی بات، کوئی اجازت لینے کے لیے نہیں بولی، میں یہ کہہ رہی ہوں کہ مجھے ابھی امی کے گھر چھوڑ کر آئیں۔۔!!" وہ عجیب پاگلوں طرح ہائپر ہوئی۔


"ریلیکس عنقا۔۔!! کچھ ہوا ہے کیا۔۔؟؟ تم اس طرح کیوں بات کر رہی ہو؟؟" عدیل پریشان ہوا تھا۔۔

گاڑی چلاتے ہوئے، اس کی نظریں تو سامنے روڈ پر مرکوز تھیں لیکن دھیان عنقا کی طرف تھا۔


"کچھ نہیں ہوا۔۔!!! میں نے کوئی انوکھی بات تو نہیں کی۔۔ جو آپ اتنا حیران و پریشان ہو رہے ہیں۔۔!!" لہجے میں درشتی برقرار تھی۔


"میں کب کہہ رہا ہوں کہ کوئی انوکھی بات کر دی تم نے۔۔!! میں تو بس یہ پوچھ رہا ہوں کہ آخر ہوا کیا ہے جو تم اچانک اتنے عجیب لہجے میں بات کر رہی ہو۔۔!! مطلب صبح تک تو سب ٹھیک تھا۔۔ اب کیا ہوا ہے تمہیں۔۔!!" عدیل نے بھی اس بار ذرا کھردرا لہجہ اپنایا، ساتھ ہی ، اس کی پیشانی پر بل بھی نمودار ہوئے، حالانکہ وہ ابھی بھی اس کے لیے فکر مند اور پریشان تھا لیکن عنقا کا طرزِ کلام، اسے غیظ دلا رہا تھا، تبھی وہ تھوڑی سختی سے بولا تھا۔


سخت لہجوں کی، اسے عادت نہیں تھی ناں۔۔!! عنقا کا یہ بدلا ہوا،بے تکا، ترش انداز بھی اسے پسند نہیں آیا تھا اور وہ پریشان بھی تو ہوا تھا کہ کہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگیا اس کے ساتھ۔۔!!


"میں ابھی بھی بالکل ٹھیک ہوں۔۔!! بس مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔۔!! مجھے امی کے گھر جانا ہے۔۔!! مجھے آپ زہر لگتے ہیں، اور مجھے ذرا سا بھی انٹرسٹ نہیں ہے آپ میں۔۔ بس آپ ابھی کے ابھی ، مجھے امی کے گھر چھوڑ کر آئیں۔۔!!" وہ ضد کرتے ہوئے مچل کر بولی۔۔۔ اور وہ حتیٰ الامکان عدیل کی تحقیر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اور تو اور۔۔ وہ اب رونے بھی لگی تھی۔۔ نجانے اسے کیا ہوا تھا۔۔!!


اس کے الفاظ ، کس حد تک سچ تھے یا کس حد تک جھوٹ تھے۔۔ یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔


عدیل کو اس کی لفاظی سن کر، ذرا تاؤ آیا تھا۔۔ مگر پھر ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر سب سمجھ گیا، وہ جان گیا تھا۔۔ کہ وہ کس احساس کے تحت یہ سب کہہ رہی ہے۔۔!!


وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیوں ایسے مچل رہی ہے۔۔!! اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کے اندر چل کیا رہا ہے۔۔!! اس لیے ذرا سا سوچنے کے بعد اس نے روتی ہوئی، عنقا کو مخاطب کر کے کہا، "اچھا ٹھیک ہے۔۔ رونا بند کرو۔۔۔!! میں ٹرن لیتا ہوں۔۔!! چھوڑ کر آتا ہوں تمہیں تمہاری امی کے گھر۔۔۔!!" وہ سپاٹ و سرد لہجے میں بولا اور موڑ لینے لگا۔


اپنی امی کے گھر والے راستے پر ، گاڑی کو مڑتا دیکھ کر ، عنقا کو تسلی ہوئی تھی۔۔ اسے کچھ حیرت بھی ہوئی۔۔ کیوں کہ عدیل عموماً، ایک دم ایسے کسی کی بات تو نہیں مانتا ہوتا۔۔ خیر وہ اس کے کہنے پر رونا بند کر چکی تھی۔۔ لیکن ہلچل تھی۔۔ جو اس کے اندر پیدا ہونے لگی تھی۔۔ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر بھی سکون محسوس نہیں کر پائی، وہ اتنی جلدی اپنی بات منوا کر بھی۔۔ خوش نہ ہو سکی۔۔!!


وہ ابھی اپنی الجھی الجھی سی کیفیت میں ہی مبتلا تھی کہ ٹرن لینے کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا، "مجھے ایک بات بتاؤ۔۔!! یہ جب تم اتنے دنوں سے میرے ساتھ، چپ چاپ، سکون سے رہ رہی تھیں تو اس وقت تمہیں احساس نہیں ہوا کہ تمہیں اپنی امی کے گھر جانا چاہیے۔۔!! مجھ سے خدمتیں کراتے ہوئے اور روز کی پک اینڈ ڈراپ سروس لیتے ہوئے، تمہیں فیل نہیں ہوا کہ میں تمہیں زہر لگتا ہوں۔۔!!" اس نے جی بھر کر طنز کیا۔


عنقا اس کی بات سن کر خوب کچی ہوئی تھی پر ڈھیٹ بنتے ہوئے، اس نے بھی عدیل کے طنز کا بھرپور دفاع کیا، "دیکھیں، میں نے اس وقت بھی آپ کے پیر نہیں پکڑے تھے کہ مجھے اپنے ساتھ رہنے دیں، نہ میں نے خدمات لینے کی کوئی خواہش ظاہر کی تھی۔۔ اور آپ خود بتائیں کہ میں ایگزامز کے دوران کوئی ایسا ایشو کیسے کھڑا کرتی ، جس سے میری پڑھائی ڈسٹرب ہونے کا خدشہ رہتا۔۔۔!! اب میں بالکل فری ہوں ناں۔۔ اس لیے سکون سے اپنے لیے اسٹینڈ لوں گی۔۔!!" اس نے پہلے تو عدیل کے طنز کا حساب برابر کیا اور پھر ذرا اترا کر اپنا پلین بتایا۔


اس کی باتیں سن کر عدیل کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑی۔۔ اس کے ذہن میں ایک زبردست سا آئیڈیا کوندا، اب وہ بڑے مزے سے عنقا کو پاگل بنانے والا تھا۔۔ عنقا نے اپنی طرف سے تو ، امی کے گھر جانے والا کوئی بہت ہی ہنگامہ خیز شوشہ چھوڑا تھا۔۔ لیکن بے چاری۔۔ اسے کیا پتہ تھا کہ اس نے عدیل سے پنگا لیا ہے۔۔ عدیل جیسا شاطر تو اگلے کو اسی کی چال میں پھنسانے کا ہنر رکھا کرتا ہے۔۔ ہائے معصوم۔۔!! اب اس کی چالبازی کا شکار ہونے لگی تھی۔


"ایک بات بتاؤ۔۔!! تم سچ میں اسی لیے جانا چاہ رہی ہو۔۔ کہ میں تمہیں واقعی بہت برا لگتا ہوں۔۔!!" عدیل نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے، بڑے انہماک سے پوچھا۔


"ظاہر ہے۔۔!! اور کیا وجہ ہو گی بھلا۔۔!!" عنقا نے سر جھٹکتے ہوئے جواب دیا۔۔ جیسے وہ عدیل کی کم فہمی کا مذاق اڑا رہی ہو۔۔ کہ لو بھئی۔۔ اتنے بڑے آدمی کو، اس سے دوری اختیار کرنے کا مقصد ہی نہیں سمجھ آیا۔


"مجھے تو کچھ اور وجہ لگتی ہے۔۔!!" اس مشکوک لہجے میں کہا۔


"سیریسلی۔۔!! پھر تو آپ وہ وجہ بھی بتادیں۔۔!! جو آپ کو لگ رہی ہے۔۔!!" وہ مضحکہ خیز لہجے میں بولی۔

پتہ نہیں ، آج اسے ہو کیا رہا تھا۔۔ وہ اس کا مذاق اڑانے سے باز ہی نہیں آ رہی تھی۔۔!!


"دیکھ لو۔۔۔!! اگر وجہ بتادی ناں۔۔ تو تمہارے چھکے چھوٹ جائیں گے۔۔!!" عدیل نے اس کا تجسس بڑھایا۔


وہ واقعی متجسس بھی ہوئی تھی۔۔


"حیرت کی بات ہے۔۔!! ویسے اب آپ یہ باتوں کو یہاں وہاں مت گھمائیں۔۔ سیدھا ٹاپک پر آئیں ۔۔ سمجھے۔۔!!" وہ دھونس جماتے ہوئے کہنے لگی۔


"اے۔۔۔ مسز۔۔!! ذرا ٹون سیٹ کرو اپنی۔۔!! یو نو، مجھے پسند نہیں ہے ایسا لہجہ۔۔!!" عدیل نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے۔۔ الٹا وارن کیا۔


"اووو۔۔ مسڑ۔۔!! آپ بھی بات گول مول نہ کریں۔۔ بلکہ سیدھا سیدھا جواب دیں۔۔!!" اس نے دھونس جمانے والی ٹون برقرار رکھی۔۔وہ بھی کہاں ماننے والی تھی۔


"اچھا۔۔۔!!! تو سنو۔۔مسسز۔۔!! تمہیں میں بالکل زہر نہیں لگتا۔۔ ان فیکٹ اب تو میں تمہیں بہت اچھا لگنے لگا ہوں۔۔!! اب یہ مت پوچھنا کہ مجھے کیسے پتہ چلا۔۔!! میں یہ محسوس کر سکتا ہوں۔۔!! یو نو۔۔!!" اس نے مزے لیتے ہوئے کہا۔


جیسے جیسے وہ یہ لفظ ، اپنی زبان سے ادا کر رہا تھا، ویسے ویسے عنقا کے دل کی حالت تبدیل ہو رہی تھی۔۔ اس نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی زبان کھولی۔۔،،

"خوش فہمیاں ہیں آپ کی۔۔!!" کہنے کو اس نے ، عدیل کے اندازے کی نفی کی تھی۔۔ پر اتنا سا جملہ کہتے ہوئے وہ لرزی تھی۔۔ اٹکی تھی۔۔ کپکپائی تھی۔


اس کے اتنے سے جملے کی ادائیگی۔۔ نے عدیل پر بہت کچھ واضح کر دیا تھا۔۔ وہ اپنے اندازے میں سو فی صد درست تھا۔۔!! اور اس کا اندازہ، عنقا کو ابھی ہوا تھا۔۔ اسے، اپنے آپ میں ہی ایک شور سا اٹھتا محسوس ہوا۔۔ وہ شور جن آوازوں پر مشتمل تھا۔۔ جو کچھ عنقا ہر آشکار کر رہا تھا۔۔ یہ تو اس نے اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں سوچا تھا۔۔ بھلا وہ کیسے اس جنگلی کو اپنا دل سونپ سکتی تھی۔۔!!


اسے خود پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ پھر اس نے ، ایک کمزور سا دفاع کیا۔۔ اس نے اپنے سبھی جذبوں کو وہم کا نام دے کر خود کو تسلی دی۔۔ اور آگے سے کچھ نہیں بولی۔


"خوش فہمی نہیں، یقین ہے۔۔!! اگر چاہو تو ثابت کر سکتا ہوں۔۔!!!" اس نے چیلنج کیا۔


"کریں ثابت۔۔!!" وہ بھی آگے سے جوش میں آ کر جلدی جلدی بول گئی۔۔اور اب پچھتائی۔۔!! کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اب عدیل ضرور ایسا کچھ بولے گا۔۔!! جس سے وہ اپنی بات سچ میں ثابت کرے گا۔۔!!


"دیکھو۔۔ سمپل سی بات ہے۔۔!! تمہیں مجھ سے محبت ہوگئی ہے ناں۔۔!! اس لیے تم مجھ سے بھاگنا چاہ رہی ہو۔۔!! کیوں کہ تم مجھ سے صرف نفرت کرنا چاہتی تھیں۔۔ اب غلطی سے میں تمہیں پسند آ گیا ہوں۔۔!! اور تم اس بات کا اقرار کرنے سے ڈرتی ہو۔۔!! اس لیے تم نے مجھ سے دور جانے کا فیصلہ کیا ہے۔۔!! اگر ایسا نہ ہوتا تو تم۔۔ یوں اچانک کیوں۔۔دور بھاگنے کی کوشش کرتیں۔۔!! اگر ایسا نہ ہوتا تو تم۔۔ پہلے کہ طرح ہی کامپرومائز کرتے ہوئے، سکون سے میرے ساتھ رہتیں۔۔!!تم بتاؤ۔۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں ناں۔۔۔؟؟؟" عدیل نے بڑا خوش ہوتے ہوئے، عنقا کو جلا جلا، نان سٹاپ ، اپنے خالص خیالات پلس اندازے بتائے، اور آخر میں تصدیق بھی چاہی۔


عنقا ،بھلا کیسے ، اس کی ہر بات ، ہر اندازے کی تصدیق کر دیتی۔۔!!!

عنقا ،بھلا کیسے ، اس کی ہر بات ، ہر اندازے کی تصدیق کر دیتی۔۔!!!


"آہاں۔۔!! آپ بالکل غلط کہہ رہے ہیں۔۔مجھے پہلے کی طرح آج بھی آپ میں کوئی انٹرسٹ نہیں اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کی باتوں میں پھنس کر آپ کے ساتھ واپس جانے پر راضی ہو جاؤں گی تو یہ آپ کی بھول ہے۔۔میں بالکل آپ کے جھانسے میں نہیں آؤں گی۔۔۔ ابھی اس لیے آپ اپنے الفاظ مجھ پر ضائع مت کریں اور مجھے خاموشی سے گھر لے کر چلیں میں نے آپ کے ساتھ نہیں رہنا سو نہیں رہنا۔۔" وہ بڑی دلیری سے اپنے اپنے دل کی حالت پر قابو پاتی، صفائی سے جھوٹ پہ جھوٹ بولتی گئی۔


عدیل کو ، عنقا سے اس ڈھٹائی کہ توقع نہیں تھی، "کافی سمارٹ ہو۔۔!! اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بےوقوف بنانا، تھوڑا مشکل ہے۔!" اس نے دل ہی دل میں عنقا کے متعلق سوچا، اور اس کے بعد مکمل طور پر خاموش رہا۔ اس کی خاموشی سے ماحول میں ایک عجیب کھچاؤ پیدا ہوگیا تھا۔۔!! جیسے اگر اس خاموشی میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا تو کوئی قیامت کھڑی ہو جائے گی۔۔!!

××××


وہ لوگ، عنقا کی امی کے گھر تک پہنچ چکے تھے۔

ان دونوں کی طویل خاموشی کا عجیب اثر اب تک، خود بخود ہی زائل ہوچکا تھا، عدیل نے سکون سے ان کے گیٹ کے آگے اپنی کار روکی۔۔ اور سرد اپنی نظروں میں یک دم، ایک سرد تاثر بھرتا ہوا عنقا کی طرف دیکھنے لگا۔


اس نے کار لاک کی ہوئی تھی اس لیے عنقا باہر نہیں نکل پائی۔

"اسے ان لاک کریں۔۔ مجھے باہر نکلنا ہے۔۔۔!!" عنقا نے عدیل کو کچا چبا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔


"کرتا ہوں۔۔!! پہلے میری بات سن لو۔۔!!"وہ ذرا ٹھہر کر ، دبدبے سے بولا۔


"فرمائیں۔۔!!" عنقا نے بیزاری سے جواب دیا۔۔ اور اس کی یہ بیزاری، سطحی تھی۔۔ کیوں کہ اندر سے تو وہ اچھی خاصی لرزی تھی۔۔ عدیل کا بدلتا لہجہ اسے کچھ خوفزدہ سا کر گیا تھا۔


"عنقا۔۔!!! میں جانتا ہوں کہ میرا تمہاری زندگی میں آنا کسی برے حادثے سے کم نہیں تھا۔۔ اس کے بعد تمہارے ساتھ، میرا جو برتاؤ رہا، وہ بھی بلاشبہ قابل مذمت تھا اور ہے۔۔!! لیکن یقین کرو۔۔ میں اس سب کے لیے گے حد شرمندہ ہوں۔۔!! لیکن میں اپنی غلطی کا اعتراف اور شرمندگی کا اظہار کرنے کے بعد یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے معاف کردو۔۔!! کیوں کہ میں معافی مانگنا ہی نہیں چاہتا۔۔!! اس لیے میں نے اب تک معافی نہیں مانگی اور نہ ہی مانگوں گا کیونکہ میں اپنی غلطیوں کا ازالہ معافی مانگ کر نہیں بلکہ اپنے عمل سے ، اپنے رویے سے کرنا چاہتا ہوں۔۔!! یقین کرو۔۔!! اس سب کے لیے مجھے خود پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے۔۔!! میں آج بھی عادتوں کا بے حد برا ہوں۔۔!! لیکن میں تمہارے لیے خود کو اچھا بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔!! میں نے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی کہ تمہیں احترام اور اعزاز کے ساتھ اپناؤں۔۔!! لیکن تم ہو کہ میرا ساتھ دینے پر ہی راضی نہیں ہوتیں۔۔!! مجھے چھوڑنا چاہتی ہو۔۔!! دو بھاگنا چاہتی ہو۔۔!! میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے، اپنی خطاؤں کے ازالے کے لیے جو کر سکتا تھا۔۔ میں نے کیا۔۔!! میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر پاؤں گا۔۔!! تم نے جانا ہے تو شوق سے جاؤ۔۔!! می۔ تمہیں بالکل نہیں روکوں گا۔۔ لیکن پھر مجھ سے کسی بھلائی امید مت رکھنا۔۔۔!!" وہ بہت رعب دار سی آواز میں، مسلسل عنقا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتا گیا۔


عنقا بھی ششدر ہو کر ، اسے سنتی گئی۔۔ اور اس کے خاموش ہونے پر تو جیسے۔۔ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔۔۔!!

"یو نو۔۔!!! یو آر این ایڈیٹ۔۔!! اتنی لمبی بات کی۔۔ اور وہ بھی بالکل فضول۔۔!! معافی مانگنے سے کیا ہوتا ہے۔۔ ہاں۔۔!! اگر مانگ لیں گے تو کیا ناک کٹ جائے گی آپ کی۔۔!! اور یہ آپ۔۔۔!! باتیں۔۔!! کس قسم کی کر رہے ہیں۔۔!! مطلب۔۔ کوئی ایسے بولتا ہے۔۔ کہ میں نہیں روکوں گا۔۔ جانا ہے تو شوق سے جاؤ۔۔!! اوررر یہ بتائیں کہ کیا کوشش کی ہے آپ نے۔۔؟؟ ہاں۔۔؟؟؟ تھوڑا سا بی ہیویر درست کیا تھا بس۔۔ اور تھوڑا سا خیال رکھا تھا۔۔!! اگر آپ سچ میں مجھے اور ہمارے ریلیشن کو لے کر سیریس ہیں تو ہمارے درمیان موجود تلخیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔۔!! یہ کیا عجیب باتیں کر رہیں ہیں۔۔!!

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔ جو میں نے آپ سے دور بھاگنے کا فیصلہ لیا۔۔!! مجھے بالکل کوئی شوق نہیں ہے کہ میں کسی ایسے بندے کے لیے اپنی فیلنگز برباد کروں۔۔ جو خود تو جنگلی ہے ہے۔۔ لیکن اس کی عقل اس سے زیادہ جنگلی۔۔!! آئی مین اگر آپ میں انسانوں والی عقل پائی جاتی ناں۔۔ تو کوئی عقل کی بات کرتے۔۔!!! اب آپ شرافت سے لاک کھولیں کھولیں۔۔!! تاکہ میں باہر نکلوں۔۔ اور آپ سے دور بھاگوں۔۔!! ہننہہ پاگل کہیں کے۔۔۔!!!" عدیل کی باتوں پر تپی ہی تو تھی وہ۔۔۔ تبھی۔۔ اتنا بے دھڑک ہو کر اس نے اپنے اندر کی ساری بھڑک باہر نکالی۔


عدیل کے لیے۔۔ عنقا کا زبردست قسم کا جوابی حملہ بالکل غیر متوقع تھا۔۔ تبھی وہ حیرانی سے اس کا منہ تک رہا تھا۔

عدیل کے لیے۔۔ عنقا کا زبردست قسم کا جوابی حملہ بالکل غیر متوقع تھا۔۔ تبھی وہ حیرانی سے اس کا منہ تک رہا تھا۔


عنقا کے تحکم بھرے لہجے کا کمال تھا۔۔ کہ فوراً۔۔ بے اختیار ہی اس نے کار ان لاک کی، عنقا فوراً ہی کار سے باہر نکلی اور اس کا دروازہ زور سے مارتے ہوۓ آگے بڑھی۔

"ایڈیٹ۔۔۔!!!" اس نے جل کر منہ ہی منہ میں کہا۔


اسے رہ رہ کر عدیل پر غصہ آ رہا تھا۔۔!! اگر وہ اسے سچ میں روکنا چاہتا تھا تو کوئی عزت اور تمیز والے طریقے منا سکتا تھا ناں۔۔ عنقا بھی تھوڑے تردد کے بعد مان جاتی۔۔ لیکن وہ بھلا ایسا کیسے کر سکتا تھا۔۔!! اگر ایسا ہو جاتا تو پھر وہ اپنے آپ کو ایڈیٹ کیسے ثابت کرتا۔۔!!


اس کے جاتے نکلتے ہی۔۔!! عدیل نے بھی کار اسٹارٹ کی۔۔!! اور تھوڑا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر، وہاں سے رفو چکر ہوا۔۔!! اسے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔ کہ عنقا آخر کیسے۔۔ اس قدر حاضر جواب ہو سکتی ہے۔۔!! وہ سارے راستے اس کی باتیں سوچتا رہا۔۔!! بلکہ وہ اس کی باتوں کے پیچھے چھپے مطلب بھی ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔!!

×××


عدیل کے وہاں سے جانے کے بعد، عنقا نے گھر کی بیل کے بٹن پر انگلی رکھی۔۔!! دروازہ کھولنے کے لیے اس کی امی آئی تھیں۔۔!! اسے وہاں دیکھ کر۔۔ انہیں خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔۔ انہوں نے دروازے پر ہی بہت گرمجوشی سے اسے گلے لگایا۔۔ اور اس کے بعد "آؤ بیٹا ۔۔ اندر آؤ" کہتے ہوئے، محبت سے اندر آنے کا بولا۔


اس کے اندر آنے کے بعد انہوں نے عدیل کو بھی اندر بلانے کے لیے، جھانک کر باہر دیکھا تو وہاں وہ موجود نہیں تھا۔۔!! ظاہر ہے۔۔!! وہ وہاں کیسے موجود ہو سکتا تھا۔۔وہ تو پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔۔!!

اسے باہر نہ پا کر۔۔ وہ واپس مڑیں۔۔اندر آئیں اور عنقا پر اپنی مشکوک نظروں کا گھیرا تنگ کیا۔۔!!


"عدیل کہاں ہے۔۔!!" انہوں نے پوچھا۔


"وہ مجھے چھوڑنے آئے تھے۔۔ چھوڑ کر واپس چلے گئے۔۔!!" اس نے لاپروائی سے جواب دیا۔


"یہ کیا بات ہوئی۔۔!! بیٹا کم سے کم اندر تو بلا لیتیں۔۔!!" انہوں نے ، ملامتی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔


"امی۔۔ وہ جلدی میں تھے۔۔ اس لیے نہیں رکے۔۔!! اور آپ۔۔آپ کیسی ماں ہیں۔۔!! بیٹی اتنے دنوں بعد گھر آئی ہے۔۔ اسے پوچھنے کی بجائے۔۔!! اپنے اس گندے سے داماد کے متعلق سوال جواب کیے جارہی ہیں۔۔!! ایسے بھی کوئی کرتا ہے۔۔!!" وہ ناراض ہوتے ہوئے بولی۔


"گندا سا داماد۔۔۔!!!" انہوں نے تعجب سے عنقا کی طرف دیکھا۔


"مطلب لڑائی ہوئی ہے تم دونوں کی۔۔۔۔!! بتاؤ۔۔!! کیا کیا ہے تم نے۔۔!!" انہوں نے بھرپور تفتیشی انداز اپناتے ہوئے سوال کیا۔


"توبہ ہے امی۔۔!! یوں نہیں کہ بچی یونیورسٹی سے تھکی ہاری، اپنا پیپر دے کر آئی ہے۔۔!! اوپر سے،اتنے دنوں بعد میکے کا چکر لگایا ہے۔۔!! اس کی کوئی آؤ بھگت کر لوں۔۔!! نہیں بس۔۔ آپ کو تو اپنے داماد کی پڑی ہے۔۔!! آپ کو میری کوئی پروا نہیں۔۔!! آپ اور ابو تو چاہتے ہی نہیں۔۔ کہ میں سکون سے رہوں۔۔ اس لیے۔۔ بار بار۔۔ اپنے گندے سے داماد کے پاس بھیج دیتے ہیں۔۔!! اب پلیز۔۔ جب تک میں خود یہاں سے نہیں جاتی تب تک۔۔۔ مجھے بھیجنے کی بالکل کوئی کوشش مت کیجئے گا۔۔!! اور۔ میری پیاری امی۔۔ پلیز کچھ کھانے کو دے دیں۔۔۔!! تب تک میں فریش ہو کر آتی ہوں۔۔!! اوکے۔۔!!" وہ آخری بات بہت لاڈ سے کہتی وہاں سے چلی گئی۔۔


وہ فریش ہو کر آئی تو اسے ٹرے میں موجود گرما گرم کھانا، اس کے بیڈ پر پڑا ملا، وہ ندیدوں کی طرح، جلدی جلدی بیڈ پر آکر ، آلتی پالتی مار کر بیٹھی، اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے للچائی ہوئی نظروں سے، اپنے پسندیدہ آلو گوشت کے شوربے اور تڑکے والے چاولوں کو دیکھا اور بھوکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑی۔ اس کی امی پانی لینے گئی تھیں۔۔ وہ پانی لے کر آئیں تو عنقا کو کھانے پر ٹوٹتا دیکھ کر انہیں شدید تاؤ آیا،


"بیٹا کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔؟؟؟یہ پاگلوں کی طرح، جنگلیوں کی طرح کیوں کھا رہی ہو۔۔۔؟؟؟" اس کی امی نے غصے سے سوال کیا۔


امی۔۔۔ وہ مجھے بہت بھوک۔۔" وہ کہتے کہتے رکی تھی، اس نے اپنا منہ اتنا بھر رکھا تھا کہ چاول اس کے منہ سے باہر نکل رہے تھے، "اف۔۔۔!! مسٹر جنگلی نے مجھے بھی جنگلی بنادیا۔۔!!" اس نے رک کر سوچا۔۔


"کیا بھوک۔۔۔!!" اسکی امی نے اس کے ادھورے جملے کی بابت، ذرا غصے میں پوچھا۔

"وہ۔۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی۔۔" اس نے نوالہ نگل کر ذرا خفت سے جواب دیا،


"بیٹا بھوک لگنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان، انسانوں کی طرح نہ کھائے، تمہیں کم سے کم کھانے کے آداب کا خیال رکھنا چاہیے، ورنہ جس ندیدے پن سے تم کھانا ٹھونس رہی ہو۔۔ ایسے تو جانور بھی نہیں کرتے۔۔"انہوں نے ، عنقا کی بڑے اچھے طریقے سے عزت افزائی کی۔


"جی۔۔جی بالکل!! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔!! غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔!! آئم سوری۔۔!!" عنقا نے اپنی عزت افزائی کو محسوس کرتے ہوئے اور مزید عزت افزائی سے بچنے کے لیے، اپنی حرکت پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور پھر انسانوں کی طرح، یعنی ذرا مہذب انداز میں نوالے لینے لگی۔

"جی۔۔جی بالکل!! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔!! غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔!! آئم سوری۔۔!!" عنقا نے اپنی عزت افزائی کو محسوس کرتے ہوئے اور مزید عزت افزائی سے بچنے کے لیے، اپنی حرکت پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور پھر انسانوں کی طرح، یعنی ذرا مہذب انداز میں نوالے لینے لگی۔


اس کی امی پانی رکھنے کے بعد اس کے پاس سے گئی نہیں تھیں۔۔بلکہ وہ اس کے ساتھ، اس کے بالکل سامنے بیٹھ چکی تھیں۔ ان کی چھٹی حس کہہ بتا رہی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے، وہ پر یقین تھیں کہ اس بار عنقا ہی کو حج چاند چڑھا کر آئی ہے، اس لیے تو وہ مسلسل۔۔ عنقا کو اپنی مشکوک نظروں سے دیکھے جارہی تھیں۔


اس وجہ سے عنقا سے ،ڈھنگ سے کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا تھا۔


ان کا، مسلسل شک بھری نظروں سے دیکھنا ، عنقا کو عجیب لگا، اسے لگ رہا تھا کہ وہ جیسے کچھ پوچھنا چاہتی ہیں۔۔۔ اور ہو نہ ہو۔۔!! ان کا سوال یا ان کے سوالات، اس کے عدیل کے بغیر ، اچانک ایسے گھر آنے کے متعلق ہوں گے۔


اسے اپنی امی کا سٹائل کچھ سہی نہیں لگا۔۔ اسے لگا کہ جیسے ابھی اس کی امی اسے پھینٹی لگائیں گی۔۔!! اب وہ اس بےچاری کو دیکھ ہی ایسے رہی تھیں۔۔جیسے وہ کوئی ڈاکہ ڈال کر آئی ہو ۔۔۔!!


"امی۔۔۔!!! آپ۔۔ آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں۔۔" اس نے اپنی امی کی تفتیشی نظروں سے تنگ آ کر، تھوڑا ڈرتے ڈرتے پوچھا۔


اماں حضور بھی اس کے اسی سوال کہ انتظار میں تھیں، سو انہوں نے بھی اس کے سوال کے جواب میں ، اپنے سوالات کی لسٹ، عنقا کی سماعت کی نظر کی۔۔


"بیٹا۔۔!! دیکھو تم اس طرح اکیلی اٹھ کر آئی ہو۔۔ تو مجھے لگ رہا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہوئی ہے، تمہارے اور عدیل کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا ہے۔۔!! اس لیے، مجھے بالکل سچ سچ بتاؤ کہ تم ادھر کیوں آئی ہو۔۔؟؟ بلکہ یہ بتاؤ کہ کیا گل کھلا کر آئی ہوں۔۔!! کیوں کہ مجھے تمہاری حرکتیں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اس بار ، رولا عدیل نہیں بلکہ تم نے ڈالا ہے۔۔!! یعنی سب کیا کرایا تمہارا ہے۔۔!! اس لیے اب جھوٹ سے پرہیز کرتے ہوئے، مجھے بالکل سچ سچ بتاؤ کہ کیا بات ہوئی ہے۔۔؟؟" انہوں نے ایک کے بعد ایک تیر پھینکا۔۔ جو یقیناً نشانے پر تھا۔۔ انہوں نے ، پورے یقین سے عنقا کو مجرم سمجھتے ہوئے، تفتیش کی، اس کے کارناموں کے متعلق سوال کیے۔


اب بھلا وہ کیا بتاتی کہ عدیل کو کیا کچھ کہہ کر آئی ہے۔۔!!


اس لیے ان کے سوالات کے جواب دینے کی بجائے وہ انہی کو سکھانے لگی،


اووووفو۔۔!! امی یہ بات ہے۔۔؟؟ آپ یہ سب پوچھنے کے لئے، اتنی دیر سے ، مجھے اتنی اسٹرینج نظروں سے گھور رہی تھیں۔۔۔!! سچ بتاؤں۔۔ آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔۔ ویسے امی جی۔۔ تھوڑے آداب ، میرے خیال سے آج کل کی ماؤں کو بھی سیکھنے چاہیے، مطلب جب ان کی بیٹیاں اپنے میکے آتی ہیں اور دیکھنے میں بالکل مطمئن لگ رہی ہوں تو ان کو بھی چاہیے کہ وہ انہیں، میکے کی فضاء میں، کچھ دیر، کھل کر سانس لینے دیں، اوررر خصوصاً، جس وہ وہ کھانا کھا رہی ہوں تو ان سے ایسے الٹے سیدھے سوال نہ کریں۔۔ مطلب یہ انویسٹیگیشن تو تھوڑی دیر بعد بھی ہو سکتی ہے ناں۔۔۔!!!" اس نے بڑی مہارت سے اپنی امی کی ساری تفتیش، ایک طرف رکھ کر، دادیوں کی طرح، بڑے ناصحانہ انداز میں، ہاتھ ہلا ہلا کر، کچھ آداب بتانے اور سکھلانے کی کوشش کی۔۔!!

ویسے یہ آداب بھی اسی کے ایجاد کردہ تھے۔۔!!


اس کی امی کو ، اس کی زبان درازی پر شدید تاؤ آیا، اور اس کے بات گھمانے پر ان کو یقین ہو چلا تھا کہ ان کے سب اندازے سو فی صد درست ہیں۔۔ یہ ضرور کوئی بےوقوفی کر کے آئی ہے۔۔۔!!


لیکن ابھی تو وہ اس ڈھیٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھیں۔۔ اس لیے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس پر برسیں۔۔۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔!!! تم ابھی یہ اپنا کھانا ٹھونس لو۔۔!! اس کے بعد ، میں تمہاری خبر لوں گی۔۔!! کوئی تمیز ہی نہیں ہے۔۔!! نہ اپنے شادی شدہ ہونے کا لحاظ ہے۔۔!! نہ ماں کا خیال ہے۔۔!! ماؤں کو سو پریشانیاں ہوتی ہیں۔۔!! اپنی بیٹیوں کو لے کر ہزار وسوسے ان کے دل میں آتے ہیں۔۔!! لیکن تمہیں کیا پرواہ۔۔!! تم اپنا کھانا ٹھونسو۔۔!! اور ذرا اچھے سے کھانا۔۔ کیوں کہ اس کے بعد میں نے تمہارا تفصلی حساب کتاب بھی کرنا ہے۔۔!!"

وہ عنقا کو وارننگ دیتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔


"افف۔۔!! امی بھی ناں۔۔!! ابھی مجھے گھنٹہ نہیں ہوا آئے ہوئے۔۔!! اور ان کو پریشانیاں لگ گئیں۔۔!! ہائے اللّٰه جی۔۔!! کتنا سویٹ بنایا ہے آپ نے امی کو۔۔!! مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔۔ امی کو میرا اتنا خیال ہے۔۔!! لیکن پھر بھی۔۔ میری بھی تو کوئی پرسنل لائف ہے۔۔۔!! ہر بات تو امی سے شئیر نہیں کی جا سکتی ناں۔۔!!"

اس نے پیار سے سوچا۔


‌"اور۔۔ وہ کیا کہہ رہی تھیں امی کہ میرا حساب کریں گی۔۔!! ارے حساب کتاب تو تب ہوگا ناں۔۔ جب میں ان کے ہاتھ لگوں گی۔۔!!" اس نے سر کو بڑے شریر انداز میں ہلاتے اور شیطانی مسکراہٹ، اپنے چہرے پر بکھیرتے ہوئے ، خود سے کہا اور پھر کھانے کی طرف اپنا دھیان لگایا۔

اس نے سر کو بڑے شریر انداز میں ہلاتے اور شیطانی مسکراہٹ، اپنے چہرے پر بکھیرتے ہوئے ، خود سے کہا اور پھر کھانے کی طرف اپنا دھیان لگایا۔

××××


کھانے کے بعد، اس نے تمیز سے برتن اٹھائے اور کچن میں جا کر سنک میں رکھے، اس کے بعد، وہ کچھ دیر تک پر سوچ انداز میں کھڑی ، کسی غیر مرئی نکتے کو گھورنے لگی، کچھ دیر اسی پوز میں کھڑے رہنے کے بعد اس نے کچن کی کیبنٹ کھولی، ایک بوتل نکالی، اس میں پانی بھرا اور مزے سے کچن سے باہر نکلی، اس نے منصوبہ بنایا تھا کہ وہ شام تک اپنے کمرے میں بند رہ کر سکون سے سوئے گی، پانی بھی وہ احتیاطاً ساتھ لے کر جارہی تھی کہ اسے اٹھنا نہ پڑے، اور پھر وہ اپنی امی کے سوالوں سے بھی تو بچنا چاہتی تھی۔


ویسے وہ اگر اپنی امی سے شام تک کی مہلت مانگ لیتی، تو اس کی امی نے دے ہی دینی تھی، انہوں نے، اسے کھا تھوڑی جانا تھا، فہمیدہ بیگم اتنی مہلت تو اسے دے ہی سکتی تھیں۔


مگر عنقا۔۔!! وہ اپنے بےکار دماغ کو لے کر کہاں جاتی۔۔!! اس محترمہ کا تو سچ میں دماغ ہی الٹا ہوا تھا، تبھی وہ اپنے آپ سے ہی، فضول میں، ایسے چَول منصوبے بنا رہی تھی اور

اپنی امی سے بچنے کے لیے ایسی الٹی ترکیبیں سوچ رہی تھی۔

××××


اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے تک ، پہنچ پاتی۔۔ اس کی امی نے اسے روک لیا، جو خیر سے اسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔


وہ ان کو اگنور کرتے ہوئے مزے سے آگے آگے چلنے لگی، وہ اس وقت بالکل بھی اپنی اماں حضور کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ پر ایسا ممکن نہیں تھا کہ معاملہ اس کی چاہت، اس کی مرضی کے مطابق طے پائے، سو اسے مجبوراً، اپنی امی کے روکنے پر ، ان کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔


"کھانا کھا لیا تم نے۔۔؟؟"فہمیدہ بیگم نے دانت پیستے ہوئے پوچھا، وہ اس کی، کچھ دیر پہلے کی گستاخانہ گفتگو پلس بدتمیزی ، بھولی نہیں تھی۔


"ج۔۔ج۔۔جی۔۔کھا لیا۔۔!!" اس نے ہکلا کر جواب دیا۔


"اب مجھے بتاؤ کہنٹم ادھر کیوں آئی ہو۔۔؟؟ دیکھو اگر کوئی گڑبڑ والی بات نہیں تھی یا تم صرف نارمل طریقے سے یہاں چند دن یہاں رہنے کے لیے آئی ہوتیں تو اب تک کہہ چکی ہوتیں۔۔!! لیکن معاملہ ، نارمل ہے ہی نہیں، یہ جو تم نے اپنا منہ ابھی تک بند رکھا ہوا ہے ناں۔۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ تم ہی اپنی بےوقوفی کے کوئی مظاہر دکھا کر آئی ہو۔۔!! اب سچ سچ پھوٹو۔۔کہ کیا بات ہوئی ہے۔۔؟؟" فہمیدہ بیگم کا اشتعال اور پریشانی دیکھنے لائق تھی۔


وہ اپنے دو بچے کھو چکی تھیں، وہ ان کی خوشیاں دیکھنے سے محروم رہی تھیں۔۔ اب وہ چاہتی تھیں کہ عنقا صحیح سلامت رہے، اور اپنے سسرال میں خوش رہے، تاکہ انہیں بھی اس کی طرف سے تسلی ہو۔۔!! تاکہ یہ بھی سکون سے رہ سکیں۔


عنقا ان کی یہ پریشانی محسوس تو کر سکتی تھی پر اسے سمجھنا اس کے بس کا کام نہ تھا، اسے تو بس اپنی فکر تھی، وہ اپنے کرتوت ، اپنی امی کو نہیں بتانا چاہتی تھی، لیکن بتائے بغیر بھی کب تک گزارا ہو سکتا تھا، سو اس نے سوچا کہ کیوں نہ بتا ہی دیا جائے۔۔!! کم سے کم اس کی ایک ٹینشن تو ختم ہوگی۔۔!! اور شاید اس کی امی کو بھی ذرا سکون ملے گا۔۔!! اس لیے اس نے گلا کھنکارا اور شروع ہوئی،


"امی۔۔ وہ میں عدیل کو کہہ کر آئی ہوں کہ وہ مجھے زہر لگتے ہیں اور مجھے ان کے ساتھ نہیں رہنا، بس اتنی سی بات ہے۔۔ آپ نے خواہ مخواہ ، دنیا ہلا کر رکھی ہوئی ہے۔۔پلیزآپ۔۔ اب مزید ٹینشن نہیں لینی آپ نے۔۔ اوکے۔۔ اور دیکھیں ، میں نے آپ کو سچی بات بنتا دی۔۔ اب آپ نے میری جو مرمت کرنی ہے ناں۔۔ وہ بعد میں کیجیے گا۔۔کیوں کے ابھی میں جا رہی ہوں سونے۔۔اور مجھے کل صبح تک کوئی بھی بالکل ڈسٹرب نہ کرے ، صبح تک کے لیے اللّٰه حافظ۔۔،بائے بائے، ٹا ٹا،۔۔" وہ جلدی جلدی ایک سانس میں ساری بات کہتی وہاں سے بھاگ گئی، اور کمرے میں جا کر، اپنی وہی پانی کی بوتل تکیے کے ایک طرف ٹکا کر خود بھی وہاں دراز ہوئی۔


دوسری طرف، اس کی امی اس کی باتیں سن کر خوب جلیں، افسردہ ہوئیں، کیوں کہ اس کے علاؤہ، وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔


ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ عنقا کے کرتوت اس کے بابا کو بتادیں مگر پھر ان کے پریشان ہونے کا خیال کرتے ہوئے انہوں نے، یہ بات سلیمان صاحب کے علم میں لانے کا ارادہ ترک کیا، اور خود ان کے لیے کھانا گرم کرنے چلی گئیں، کیوں ان کے گھر آنے کا وقت تھا اور فہمیدہ بیگم کی عادت تھی کہ ان کے آنے سے پہلے وہ ہر چیز تیار رکھتی تھیں،،، کاش عنقا بھی عدیل کی ایسے ہی فکر کرتی۔۔!! اس کی امی کے دل میں ارمان سا جاگا۔

××××

کاش عنقا بھی عدیل کی ایسے ہی فکر کرتی۔۔!! اس کی امی کے دل میں ارمان سا جاگا۔

××××


عدیل ، عنقا کے بغیر گھر پہنچا تو اس کی مام نے اس کے بارے میں پوچھا، وہ فی الحال کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھا، اور بحث سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ کچھ وقت کے لیے، حقیقت کو چھپا لیا جائے، اس لیے اس نے یہ جھوٹ بول کر جان چھڑائی کہ وہ ایک دو دن کے لیے اپنی امی کے ہاں رہنے گئی ہے، فوزیہ بیگم کو اس کا اچانک جانا عجیب لگا تھا پر وہ عدیل کی بات کا اعتبار کرتے ہوئے خاموش رہیں،انہوں نے عدیل کو کھانے کا بولا تو اس نے منع کردیا، اس کا دل ہی نہیں کر رہا تھا کچھ کھانے کا۔


اس کا موڈ بہت خراب تھا، وہ سست روی سے چلتا اپنے روم تک گیا، فریش ہوا، کپڑے چینج کیے اور آرام کی غرض سے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے، اسے لگا تھا کہ وہ اپنے جرم کا ازالہ کر چکا ہے، پر نہیں وہ غلط تھا ، ابھی تک وہ کچھ نہیں کر پایا تھا، نہ ابھی تک کچھ ٹھیک ہوا تھا اور نہ ہی بدلا تھا، عنقا اتنے عرصے اس کے ساتھ رہنے کے باوجود اسے یہ مقام نہیں دے سکی کہ وہ اس سے اپنی محبت کا اظہار کر پاتی۔۔ یہ تو طے تھا کہ وہ بھی اسے چاہنے لگی ہے پر اس کا اظہار نہ کرنا اس بات کی دلیل تھا کہ اس نے عدیل کو معاف نہیں کیا کیا ۔۔ یا اسے دل سے قبول نہیں کیا۔۔ وہ یوں ہی لیٹا لیٹا، افسوس سے سوچتا گیا۔

پر یہ محض اس کی سوچ تھی۔۔ ورنہ عنقا تو کب کا ، اپنا دل،اپنے تمام تر حسین جذبوں کے ساتھ اسے سونپ چکی تھی۔۔ بس اسے ابھی اس بات کا صحیح طرح احساس نہیں ہوا تھا۔

×××

عدیل مسلسل اپنی سوچوں میں گم تھا۔

"میں نے بھی تو ابھی تک اس سے معافی نہیں مانگی۔۔!! لیکن اسے پتہ تو ہے کہ میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں، تو وہ ایسا نہ کرتی۔۔" اس نے اپنے تخیل میں ہی ایک شکوہ سا کیا۔ اور کچھ پھر دیر تک خالی الذہن رہا۔ جیسے اس کا ذہن کہیں رک سا گیا ہو یا سوچیں جمود کا شکار ہوگئی ہوں۔۔!!


کچھ دیر اسی کیفیت میں رہتے رہتے ، اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا،


"ایسے تو مجھے بھی پتہ ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔ پھر مجھے، اس کے منہ سے لفظِ اظہار سننے کا تجسس کیوں ہے۔۔؟؟" اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔


"کیوں کہ اظہار لازم ہے۔۔!! جب تک کسی خالص جذبے کو لفظوں کے سانچوں میں ڈھال کر تقویت نہیں بخشی جاتی تب تک اگلا شخص، جس کے لیے وہ احساسات ہمارے قلب و وجود میں پنپتے ہیں وہ شبہات اور وسوں کا شکار رہتا ہے، ایک بے یقینی کی سی کیفیت اسے مضطرب کیے رکھتی ہے، اس لیے اظہار لازم ہے۔۔!!"

اس کا شعور، اس کے سوال کی ضد میں ایک مؤثر سی دلیل پیش کر چکا تھا، ایک تسلی بخش جواب، اس کی فہم کے پردوں پر ڈال چکا تھا۔


"اگر یہ بات ہے تو مجھے بھی معافی مانگنی پڑے گی۔۔!!"


"چلو۔۔ دیکھتا ہوں۔۔!! سوچوں گا اس بارے میں، میرا خیال ہے ابھی تو مجھے سکون سے آرام کرنا چاہیے۔۔!!"

جب کافی دیر وہ ایسی باتیں سوچ سوچ کر اکتاہٹ کا شکار ہوا تو اس نے اپنے سارے خیالات جھٹک کر، سونے کی ٹھانی۔


وہاں اس کی بیوی نیند کے مزے لے رہی تھی یہاں یہ مزے سے سونے کے لیے تیار لیٹا تھا۔

××××


عدیل کچھ دیر ہی سو سکا تھا، اٹھنے کے بعد بھی وہ رات تک کمرے سے نہ نکلا بلکہ مسلسل اپنا لیپ ٹاپ لیے، آفس کے کام میں بزی رہا، آج عجیب سی بے زاری،

اس کی طبیعت پر طاری تھی، اس لیے اس کا باہر نکلنے کو دل ہی نہ کیا، وہ صبح تک باہر نہ نکلتا مگر اس کی مام اسے ڈنر کا بلاوا دینے آئیں تو مجبوراً اسے جانا پڑا۔


ڈائنگ ٹیبل پر مصطفیٰ صاحب اور عادل پہلے ہی سے موجود تھے، دونوں نے اپنی دھیمی مسکراہٹوں سے اس کا خیر مقدم کیا، وہ عادل کے ساتھ ہی اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تھا، ایک طرف وہ دونوں تھے اور دوسری طرف ان کے مام ڈیڈ، کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا جارہا تھا، کھانے کے ساتھ ساتھ گپ شپ کا سلسلہ بھی جاری تھا، لیکن عدیل اس گپ شپ میں کوئی خاص حصہ نہیں لے رہا تھا، وہ وہاں بیٹھا، صرف ہوں ہاں سے ہی کام چلا رہا تھا۔


باتیں کرتے کرتے عادل نے اپنی شادی کا ذکر چھیڑا ۔۔ "مام۔۔!! اب تو میرے ایگزامز بھی ہوگئے، آپ لوگوں کا، میری دلہن لانے کا کوئی ارادہ ہے۔۔؟؟" اس نے مزے لیتے ہوئے پوچھا۔


"استغفر اللّٰه، بیگم اپنے صاحب زادے کی بے صبریاں ملاحظہ کریں۔۔!!" مصطفیٰ صاحب نے مسکراتے ہوئے عادل کو دیکھ کر کہا، ان کی بات پر سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی تھی، اس سے پہلے مام کچھ بولتیں ، عادل خود ہی بول پڑا۔۔ "نہیں ڈیڈ آپ بتائیں۔۔ اس گھر میں ، میں اکیلا کنوارا اچھا لگوں گا، آپ نے بھی مام سے شادی کر رکھی ہے، بھائی نے بھی ایک حسینہ قابو میں کی ہوئی ہے۔۔ اب آپ میرے لیے بھی تو کچھ سوچیں۔۔!!" وہ ہنستے ہنستے مذاق میں بولتا گیا۔


عدیل کو ، اس کے منہ سے عنقا کا تذکرہ سننا بالکل اچھا نہیں لگا، حالانکہ عادل کا بالکل یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ ایسی بات کہہ کر کوئی بدمزگی پیدا کرتا یا عدیل کا دل جلاتا۔۔ صرف یہی بات سوچتے ہوئے عدیل نے اپنے اندر پیدا ہونے والے غصے کو دبایا، اور کسی بھی قسم کے سخت ردعمل سے باز رہا۔


"بیٹا۔۔!! آج ہی تو تمہارے ایگزامز ختم ہوئے ہیں۔۔ تھوڑا صبر کرو۔۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔" مام نے جواب دیا۔


"میں تو صبر کر لوں گا۔۔ پر کیا ہے ناں۔۔ کہ لڑکیوں کا معاملہ ذرا نازک ہوتا ہے۔۔ ادھر ان کے پیپرز ختم اور ادھر ان کی شادی۔۔ اس سے پہلے غانیہ کہیں اور منسوب کردی جائے۔۔ آپ لوگ میرا پروپوزل لے کر جائیں۔۔ بس بات ختم ۔۔!! " عادل نے سنجیدگی سے اپنا موقف پیش کیا۔


"اچھا ٹھیک ہے کچھ کرتے ہیں۔۔!! عنقا اپنی امی کے ہاں سے واپس آجائے تو ، وہاں جائیں گے تمہارا رشتہ لے کر۔۔!!" فوزیہ بیگم نے بھی سنجیدگی سے اس کی بات کا حل پیش کیا۔


"مام۔۔ آپ ایسا کریں کہ،فی الحال آپ اور ڈیڈ چلے جائیں۔۔ اس کا کچھ نہیں پتہ کہ وہ کب آئے گی۔۔" عدیل نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔


"کیوں۔۔؟؟ تم نے تو کہا تھا کہ وہ ایک دو دن کے لیے گئی ہے۔۔ پھر ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔۔؟؟" مام نے ناسمجھی سے پوچھا۔


"اگر میں کچھ کہہ رہا ہوں۔۔ تو ضرور کچھ سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔۔ آپ لوگ پلیز سمجھیں۔۔!!"


"لیکن بیٹا۔۔ وہ گھر کی بڑی بہو ہے، وہ نہیں جائے گی تو میرے خیال سے برا لگے گا۔۔!! جب وہ آئے گی تو ہم آرام سے چلے جائیں گے۔۔۔" اس کی مام نے جواز پیش کیا۔


"مام۔۔!! دیکھیں ضد نہیں کریں ۔۔ میں آپ لوگوں سے کہہ رہا ہوں۔۔ کہ آپ لوگ خود چکے جائیں۔۔ اس کا انتظار نہ کریں۔۔!!" وہ آرام سے کہتا ، ٹیبل پر سے نیپکن اٹھاتا، اپنے ہاتھ صاف کرنے لگا۔۔اور ہاتھ صاف کرنے کے بعد کوئی بات کہے سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔


"اس کو کیا ہوا؟؟" مصطفیٰ صاحب نے پوچھا۔

"پتہ نہیں۔۔" فوزیہ بیگم کی۔۔ پریشان نظریں وہیں ٹکی تھیں۔۔ جہاں سے وہ ابھی اٹھ کر گیا تھا۔


"مام۔۔ آپ پریشان ہو رہی ہیں۔۔؟؟" عادل نے مام کا چہرہ دیکھ کر کہا،

"کب سدھریں گے یہ دونوں۔۔!! ضرور کوئی جھگڑا کیا ہوگا انہوں نے۔۔!!" وہ پریشانی سے بولیں۔



"اللّٰه ہدایت دے ان دونوں کو۔۔" مصطفیٰ صاحب بھی یہ کہتے ہوئے چیئر پیچھے کو کھسکا کر اپنی جگہ سے اٹھے، وہ بھی کھانا کھا چکے تھے، اس لیے اٹھ کر چلے گئے۔


اب ٹیبل پر فوزیہ بیگم اورعادل موجود تھے، عادل کچھ دیر ان کے پریشان چہرے کو تکتا گیا اور پھر ایک زبردست سا خیال ذہن میں لاتے ہی چہک اٹھا، اس نے فوراً ہی اپنی مام سے تبادلہ خیال کیا، اس کا آئیڈیا سنتے ہی، اس کی مام کی ٹینشن کہیں غائب ہو کر رہ گئی۔


××××


اگلے ہی دن عادل سمیت مصطفیٰ صاحب اور فوزیہ بیگم ، عادل کا رشتہ لے کر غانیہ کے گھر پہنچے، غانیہ نے پہلے ہی اپنے والدین کو راضی کیا ہوا تھا ، اس لیے عادل اور کی فیملی سے ملنے کے بعد ، انہوں نے فوراً ہی پروپوزل قبول کرلیا۔

رشتہ طے ہوجانے کے بعد دونوں بچوں کے والدین نے باہمی مشاورت کرتے ہوئے یہ طے کیا کہ منگنی کی بجائے ان دونوں کا نکاح کر دیا جائے، شادی پھر بعد میں ہوجائے گی، اس مقصد کے لیے انہوں نے دس دن بعد کی تاریخ، نکاح کے لیے منتخب کی، مصطفیٰ صاحب نے سوچا کہ اس دن عنقا اور عدیل کا ولیمہ بھی ہوجائے گا اور غانیہ اور عادل کا نکاح بھی ۔۔ ان کے اس منصوبے پر بھی غانیہ کے والدین کو کوئی اعتراض نہ تھا، وہ بےچارے سادے لوگ تھے اور ان کو اپنے داماد میں شرافت اور خوش اخلاقی کے علاؤہ اور کسی خوبی کی خواہش نہیں تھی، سب سے بڑھ ان کی بیٹی خوش تھی اور عادل میں وہ ان اوصاف کی موجودگی محسوس کر چکے تھے، اس لیے انہیں باقی کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

××××


سب کچھ عادل کے بتائے منصوبے کے تحت ہو رہا تھا، مصطفیٰ صاحب نے عنقا کے والدین سے بھی ولیمے کی بات فون پر ڈسکس کرلی تھی اور عنقا سے یہ بات چھپانے کی بھی ریکوئسٹ کی تھی۔


جب کہ عادل نے عدیل سے ان دونوں کے جھگڑے والی پوری بات اگلوا کر اسے بھی پلین میں شامل کیا۔۔۔اور وہ بھی خوشی خوشی مان گیا۔۔ بھلا عنقا کی واپسی سے بڑھ کر اسے کیا چاہیے تھا۔۔


×××


وہ عدیل کو الٹی الٹی باتیں سنا کر، بڑی بہادر بن کر گھر تو آ گئی تھی، پر اس کا یہاں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا، یہاں اسے اریزے بھی بار بار یاد آتی تھی، اور وہ بالکل ہی اداس ہو کر رہ جاتی، پتہ نہیں کیا تھا مگر عدیل کے ساتھ رہتے ہوئے وہ اریزے کو یاد کرنے پر کبھی بھی اداس نہیں ہوئی۔


اسے اپنی جلد بازی پر رہ رہ کر افسوس ہورہا تھا۔ بار بار ایک ہی سوچ اس کی جان عذاب میں ڈالے ہوئی تھی کہ اسے عدیل کو موقع دینا چاہیے، وہ اگر خود کو بدلنے کی کوشش میں لگا ہے تو اس کو بھی عدیل کا ساتھ دینا چاہیے۔ بےشک وہ جن حالات سے گزری وہ آج بھی اپنی پوری حقیقت اور تلخی کے ساتھ اسے اچھے سے یاد ہیں اور ابھی تک وہ ان کو بھولنے میں ناکام رہی ہے لیکن دل کا فیصلہ ، دل کی مرضی کے مطابق مان لینا چاہیے۔


"غلطیاں تو انسانوں سے ہوتی ہیں ناں۔۔ اب اگر کوئی سچ میں شرمندہ ہو اور معافی کا طلب گار ہو تو اسے معاف کر دینا چاہیے، خصوصاََ جب معاف کردینے پر دل کواطمینان حاصل ہو۔" اس نے بے بسی سے سوچا۔


وہ بے بس ہی تو تھی، اپنے جذبوں کے آگے ، اپنے دل کے آگے۔


"تو ٹھیک ہے پھر۔۔ اگر وہ مجھ سے معافی مانگ لیتے ہیں تو میں بھی کوئی ضد کیے بغیر ان کے ساتھ رہ لوں گی۔۔ بے شک ہلکی سی، تھوڑی سی معافی مانگ لیں۔۔ ورنہ میں اکیلی ہی اچھی ہوں۔۔کیوں کہ، آگے بندہ معافی کا طلبگار ہو گا تو میں معاف کروں گی ناں۔۔اب اتنا تو حق بنتا ہے میرا۔۔ورنہ انہوں نے جو کیا۔۔ وہ معافی کے لائق تھا نہیں۔۔ ایوں اتنی درگزر سے کام لینے کا ظرف نہیں ہے مجھ میں کہ میں ان کے اعتراف کیے بغیر، معافی مانگے بغیر ہی معاف کردوں۔۔!!" اس نے ہار مانتے ہوئے سوچا۔۔ اور اب بے صبری سے اس کے معافی طلب کرنے کا انتظار کرنے لگی ، جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ضرور اس سے معافی مانگے گا۔


××××


کرتے کراتے دس دن گزرے، غانیہ کے نکاح اور عنقا کے ولیمے کا دن آن پہنچا۔ اس دن غانیہ نے صبح صبح ہی کسی ایمرجنسی کا بہانہ کرکے اسے، اپنے گھر آنے کو کہا۔ عنقا آرام سے جانے کو تیار ہوجاتی۔۔۔ پر غانیہ اس کے لاکھ پوچھنے پر بھی ، یہ بتانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی کہ آخر ایمرجنسی ہے کیا، اور اس کی آواز سے عنقا کو بالکل یہ نہیں لگا کہ کوئی پریشانی یا خطرے کی بات ہے ، اس لیے وہ بضد تھی کہ اسے وجہ بتائی جائے، پر وہ وجہ بتانے کے لیے تھوڑی تھی ۔۔!! اس لیے عنقا کے مسلسل ہٹ دھرمی دکھانے پر غانیہ کو تپ چڑھی۔۔ وہ مان ہی نہیں رہی تھی اس کی بات۔۔!! غانیہ کو لگا کہ اس چڑیل سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اس نے کھٹاک سے فون بند کیا اور عنقا کی امی کو صورتحال سے آگاہ کیا۔


اس کی امی نے کچھ دیر بعد اسے کیب منگوا کر دی اور یہ کہہ کر زبردستی وہاں بھیجا کہ بیٹا جاؤ، اسے کوئی ضروری کام ہے تم سے، ایسے نہیں کرتے۔۔ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہہ کر ، اسے گھر سے نکالا۔


وہ بھی دل جلاتی غانیہ کے گھر پہنچی۔۔!!


"اف۔۔ گندی لڑکی ، اتنی دیر لگادی آنے میں۔۔ اب جلدی چلو۔۔ ہمیں پارلر جانا ہے،"


اس کے آتے ہی غانیہ سلام دعا کیے بغیر ہی اس پر چڑھ دوڑی۔۔


"کونسا پارلر۔۔؟؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔


"بہن۔۔ بیوٹی پارلر۔۔!! اور کونسا پارلر ہوگا بھلا۔۔!!"اس نے اس کا بازو پکڑا اور جلدی جلدی باہر کی طرف بڑھی۔۔ وہاں غانیہ کا کوئی کزن ، کار میں بیٹھا ان دونوں کا انتظار کر رہا تھا، ان کے آتے ہی وہ دونوں کار میں بیٹھیں۔


"لیکن ہم پارلر جا کیوں رہے ہیں۔۔؟؟؟" اس کی الجھن ابھی بھی برقرار تھی۔ اور اسے شدید غصہ آ رہا تھا، کیوں کہ غانیہ کی بچی سسپینس ختم کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔


"میرا نکاح اور تمہارا ولیمہ ہے ناں آج۔۔!! اس لیے تیار ہونے جا رہے ہیں۔۔!!" غانیہ نے اس کے گال پر چٹکی کاٹتے ہوئے، مسکرا کر بھانڈا پھوڑا۔


"کیا۔۔؟؟ ہوش میں تو ہو۔۔!! یہ تم کہہ کیا رہی ہو آخر۔۔؟؟" وہ بری طرح شاکڈ تھی۔


"بالکل ہوش میں ہوں۔۔ اور جو بول رہی ہوں صحیح بول رہی ہوں۔۔ زیادہ شاک میں آنے کی ضرورت نہیں ہے اچھا۔۔۔۔اس لیے، اب پلیز چپ رہنا ۔۔۔ کیوں کہ تم دلہن ہو ناں۔۔ اور دلہنیں زیادہ بولتی نہیں۔۔ اس لیے خود بھی خاموش رہو۔۔اور مجھے بھی رہنے دو۔۔" اس نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔


اس کی بات پر عنقا کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔۔ وہ غصے سے تن فن کرتی اپنا رخ پھیر گئی،اب وہ جل جل کر کار سے باہر کے مناظر دیکھنے میں مصروف تھی۔


غانیہ کے کزن نے فرنٹ مرر میں اس کے ایکسپریشنز دیکھ لیے تھے اور اوپر سے ان کی بحث بھی سن چکا تھا۔۔ اس لیے اسے ہنسی آ رہی تھی ہر شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے خود کو کنڑول کیا اور توجہ صرف ڈرائیونگ پر مرکوز رکھی۔


غانیہ کو بھی عنقا کو دیکھ دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی۔


"دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور شکل مظلوموں والی بنا رکھی ہے۔۔!!" غانیہ اس کی حالت پر جملہ کسے بغیر رہ نہیں سکی۔


"دفع ہو جاؤ تم۔۔!! شرم نہیں آتی۔۔ اتنی بڑی بات عین وقت پر بتاتے ہوئے۔۔!! بندہ اپنے آپ کو ذرا دماغی طور پر تیار کر لیتا ہے ، اگر خوشی ہو رہی ہو تو سیلیبریٹ کر لیتا ہے۔۔!!" وہ غصے سے بولی۔


شاک لگنے کی باری غانیہ کی تھی۔

"مطلب تمہیں صرف اس بات کا غم ہے کہ تمہیں پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔!! میں تو سمجھی تھی کہ اپنے اچانک ولیمے پر منہ پھلا کر بیٹھی ہو۔۔ کہ تم سے بغیر پوچھے جو آرگنائز کر لیا۔۔!!"


"جب شادی بغیر پوچھے کی ہے تو ولیمے کی کیا اوقات۔۔!! ویسے مجھے ولیمے سے کوئی ایشو نہیں۔۔!!" عنقا کا موڈ ، خود بخود ہی بحال ہوگیا تھا۔۔ کیوں واقعی اس کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے تھے۔


××××


وہ لوگ پارلر پہنچ چکی تھیں۔۔ غانیہ کے کزن نے ان کا سامان ڈگی سے باہر نکال کر انہیں تھمایا، اور ان کے پارلر میں اینٹر ہونے کے بعد خود وہاں سے چلا گیا۔


×××


غانیہ، اپنے گولڈن گوٹے سے مزین سفید دوپٹے اور ٹخنوں کو چھوتی فراک میں بےحد پیاری لگ رہی تھی، نکاح کی مناسبت سے اس نے اپنا لباس بھی سادہ منتخب کیا تھا اور میک اپ بھی بالکل سادہ سا کروایا تھا ، جبکہ عنقا کی بکنگ تو عدیل نے خود کرائی تھی، اس لیے بیوٹیشن نے عدیل کی انسٹرکشنز کے مطابق ، فل ہیوی برائیڈل میک اپ کر کے، اسے کسی اور ہی سیارے کی مخلوق بنا دیا تھا۔۔ مطلب وہ اپنی سکن اور براؤن کنٹراسٹ والی ہیوی برائیڈل میکسی پہنے اور کمال کا میک اپ کیے لاجواب لگ رہی تھی۔

××××


عدیل اور اس کی مام ان دونوں کو پارلر سے پک کرنے آئے تھے، عدیل ،فل بلیک پینٹ کوٹ میں غضب ڈھا رہا تھا، اسے دیکھتے ہی ، ایک پل تو عنقا کی نظریں بھی اس پر ٹھہری تھیں۔۔ پر اس نے خود کو قابو کرتے ہوئے، فوری طور پر اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔


اب وہ ایک ہاتھ سے اپنی میکسی سنبھالتی اور ایک ہاتھ عدیل کے ہاتھ میں تھماتی، بڑی نزاکت سے قدم اٹھاتی کار تک آئی۔۔ جبکہ غانیہ کو ، فوزیہ بیگم آرام آرام سے لا رہی تھیں، عدیل نے عنقا کے لیے فرنٹ سیٹ کا ڈور کھولا تھا۔۔ وہ بھی خاموشی سے وہاں بیٹھ گئی۔


اس کے بعد اس نے مام اور غانیہ کے لیے دروازہ کھولا اور ان کے بیٹھنے کے بعد خود آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار اسٹارٹ کی، اس سے ڈرائیونگ پر بالکل کانسنٹریٹ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔ نظریں۔۔ بار بار بھٹک کر، عنقا کے وجود پر ٹھہرتی تھیں۔۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو فوکسڈد رکھا۔۔ عنقا اور غانیہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں، غانیہ تھی کہ خوش خوش سی ، شرم کے مارے خاموش تھی، جبکہ عنقا کہ چپ رہنے کا مقصد کچھ اور تھا، وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی، جیسے عدیل پر اپنی ناراضگی جتانے کی کوشش کر رہی ہو، ان دونوں کے رویوں سے بے نیاز۔۔۔فوزیہ بیگم کا اپنی دونوں بہوؤں کی تیاری کی تعریفیں کرتے منہ نہیں تھکا ، وہ سارے راستے ان دونوں کی بلائیں لیتی ہال تک پہنچیں۔۔!!

مام پہلے کی طرح ، غانیہ کو ساتھ لیے ہال کے برائیڈل روم کی جانب بڑھیں جہاں اس کا اور عادل کا نکاح ہونا تھا۔ اور عنقا بھی پیچھے ویسے ہی عدیل کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی، چہرے کے تاثرات میں ذرہ بھر بھی بدلاؤ نہیں آیا تھا، وہ ابھی بھی تنے ہوئے تھے۔ وہ عدیل کی طرف سے کوئی معافی تلافی والے الفاظ کی امید لگائے بیٹھی تھی اور وہ گونگا بنا، کچھ کہہ ہی نہیں رہا تھا، "ویسے بہت ڈھیٹ ہیں آپ ۔۔۔ ابھی تک مجھ سے اپالوجائز نہیں کیا آپ نے۔۔!!" وہ ناراض سی ، لفظ چباتے ہوئے ، دھیمی آواز میں بولی۔

"تم نے بھی تو کنفیس نہیں کیا کہ میں تمہیں زہر نہیں بلکہ تمہاری محبت لگتا ہوں۔۔!!" اس نے مسکراتے ہوئے سرگوشی کی۔

"پہلے آپ اپالوجائز کریں۔۔!!" اس نے شرط رکھی۔

"مطلب پھر کنفیس کرلو گی۔۔؟؟" اس نے شرارت سے پوچھا۔ پتہ نہیں آج اس کی ساری سنجیدگی کہاں چلی گئی تھی!

"آپ پہلے کنفیس میرا مطلب ہے اپالوجائز کریں۔۔!!"

"اوکے۔۔!! تو سنو۔۔!! مائے ڈئیر لولی وائف۔۔!! ۔۔یار۔۔ نہیں بولا جا رہا ۔۔!!" اس کا انداز ستانے والا تھا۔

"عدیل۔۔!!" اس نے کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں کہا، وہ دونوں یہ گفتگو چلتے چلتے ہی کر رہے تھے۔


برائیڈل روم آ چکا تھا، وہاں غانیہ کے پیرنٹس، عنقا کے پیرنٹس، مصطفیٰ صاحب اور باقی سب بھی پہلے سے ہی موجود تھے، ادھر ایک صوفے پر اسے بھی غانیہ کے ساتھ بٹھایا گیا، جبکہ عدیل ، عادل کے ساتھ دوسرے صوفے پر بیٹھا تھا،عادل بھی آف وائٹ کلر کے کرتا شلوار اور اوپر گولڈن کلر کی انتہائی نفیس سی ویسٹ کوٹ پہنے، نہایت ہی پیارا لگ رہا تھا، اس کے اور غانیہ کے نکاح اور عنقا ،عدیل کے ولیمے کی تقریب بہت شاندار گزری۔


تقریب سے واپسی پر ، غانیہ کی فیملی اور باقی مہمانوں کے چلے جانے کے بعد، عادل، فوزیہ بیگم اور مصطفیٰ صاحب ایک گاڑی میں گھر کو روانہ ہوئے جبکہ عنقا اور عدیل دوسری گاڑی میں۔


عدیل خاموشی سے کار ڈرائیو کر رہا تھا۔۔ اور عنقا اس کی ادھوری بات مکمل کرنے کے انتظار میں تھی۔


"آپ کچھ کہہ رہے تھے۔۔!!" اس نے خود ہی بات شروع کی۔

"کب۔۔؟؟" وہ انجان بنتے ہوئے بولا۔

"جب ہم ہال میں اینٹر ہو رہے تھے۔۔!!" اس نے منہ بنا کر کہا۔ وہ اس کے انجان بننے کی ایکٹنگ پر شدید تپی تھی۔


"اچھا۔۔ ہاں۔۔ یاد آیا۔۔!! وہ میں کہہ رہا تھا۔۔ یارر۔۔ پلیز۔۔ اپنے جنگلی کو معاف کردو۔۔ اور خوشی خوشی اس کی جنگلن بن کر اس کے ساتھ رہو۔۔ اب یہ مت پوچھنا کہ جنگلن کیا ہوتا ہے۔۔!! کیوں کہ جنگلی کی بیوی جنگلن ہی ہوگی ناں۔۔!!" وہ معصومیت سے بولا۔


عنقا منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔۔ وہ غصہ کرنے لگی تھی۔۔ پر اپنے لیے جنگلن کا لفظ سن کر اس کا بے اختیار قہقہہ چھوٹا۔۔ عدیل نے بے شک اپنے معافی نامے کو ذرا مذاق میں اس کے سامنے پیش کیا تھا۔۔ پر وہ اس کا صدق جانتی تھی۔۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ جتنا کہہ رہا ہے۔۔ واقعتاً وہ اس سے کہیں زیادہ گلٹی محسوس کرتا ہے اور اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہے کہ اپنے جرم کا ازالہ کر سکے۔۔ اس لیے اس نے اسے معاف کردیا تھا۔۔ وہ تو شاید بہت پہلے ہی معاف کر چکی تھی۔۔ یہ تو بس دل کی تسلی کی خاطر، اسے عدیل کے منہ سے یہ لفظ سننے کی چھوٹی سی خواہش تھی۔


"چلو۔۔ اب تم بھی بولو۔۔ تم نے کہا تھا کنفیس کرو گی۔۔!!" وہ اسے مسلسل ہنستا ہوا دیکھ کر بولا۔


"اچھا۔۔جی۔۔ چلیں کر دیتی ہوں کنفیس۔۔!! وہ ناں اصل میں جنگلی کے اندازے درست تھے۔۔!! آپ مجھے زہر نہیں بلکہ وہ لگتے ہیں۔۔!! اب اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، مجھے شرم آتی ہے۔۔!!" عنقا کی پھر سے ہنسی چھوٹی تھی۔

"چلو۔۔ تمہارے لیے اتنا بہت ہے۔۔!! آئی نو ، یو لو می۔۔!!" عدیل نے مسکرا کر کہا۔اور یہاں سے ان دونوں کی زندگیوں کے مسکراہٹوں بھرے باب کا آغاز ہوا۔ جہاں انہوں نے ایک دوسرے کی خطائیں فراموش کرکے ایک دوسرے کو اپنی محبتوں کا مان بخشنا تھا۔

جہاں انہوں نے ہمیشہ آسودہ رہنا تھا۔


ختم شد

🎈🎈🎈🎈🎈

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Tum Faqat Mere Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tum Faqat Mere written by Suhaira Awais. Tum Faqat Mere  by Suhaira Awais is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages